• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 10

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 10

‏a10.1
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے
)فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۲۷ء برموقع جلسہ سالانہ(
ان فی خلق السموت والارض و اختلاف الیل والنھار لایت لا ولی الالباب- الذین یذکرون اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السموت والارض ربنا ما خلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النار- ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ وما للظلمین من انصار- ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان ان امنوا بربکم فامنا ربنا فاغفرلنا ذنوبنا وکفرعنا سیاتنا وتوفنا مع الابرار- ربنا و اتنا ماوعدتنا علی رسلک ولاتخزنا یوم القیمہ انک لاتخلف المعیاد- فاستجاب لھم ربھم انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثی بعضکم من بعض فالذین ھاجروا واخرجوا من دیار ھم و اوذوا فی سبیلی وقتلوا وقتلوا لاکفرن عنھم سیاتھم ولا دخلنھم جنت تجری من تحتھا الانھر- ثوابا من عنداللہ واللہ عندہ حسن الثواب- ۱~}~
میں نے جو چند آیات ابھی تلاوت کی ہیں- ان میں میرے اس مضمون کی طرف اشارہ ہے جو آج میں بیان کرنا چاہتا ہوں-
یہ مضمون جماعت سے ایسا تعلق رکھتا ہے کہ اسے زندگی اور موت کا سوال کہا جا سکتا ہے- اور جس طرح میں اس مضمون کو اپنی جماعت کے لوگوں کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں اگر وہ اسی طرح ذہن نشین کر لیں تو تبلیغ میں انشاء اللہ بہت بڑی آسانی ہو سکتی ہے-
میں نے بڑا غور کیا ہے اور آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ دنیا میں سچائی ٹکڑے ٹکڑے کر کے پیش کرنے سے وہ اثر نہیں پیدا کر سکتی جو مجموعی طور پر پیش کرنے سے ہو سکتا ہے- دیکھو اگر کسی خوبصورت سے خوبصورت انسان کا ناک کاٹ کر لے جائیں اور پوچھیں یہ ناک کیسا خوبصورت ہے؟ تو کوئی اس کی خوبصورتی کا اعتراف نہ کرے گا- اسی طرح اگر کسی خوبصورت انسان کا کان کاٹ کر لے جائیں اور جا کر پوچھیں- یہ کیسا خوبصورت ہے تو اس کی خوبصورتی کا کوئی اثر نہ ہوگا- ہاں سارے اعضاء مل کر متحدہ شکل میں دل پر اثر کرتے ہیں- اسی طرح حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ کے متعلق بھی ہم کو مجموعی رنگ میں غور کرنا چاہئے- اور پھر دیکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے سچے ثابت ہوتے ہیں یا نہیں-
آج ہی ایک دوست نے جو غیر احمدی ہیں مجھے لکھا کہ ہم لوگ یہاں آتے تو اس لئے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کے متعلق سنیں- مگر اس کے متعلق جلسہ میں مضمون کم رکھے جاتے ہیں- ان کا یہ مطالبہ درست ہے- مگر ان کو اور دوسرے احباب کو یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ یہ جلسہ جماعت کی تربیت کے لئے بھی ہوتا ہے- اس وجہ سے دونوں قسم کے مضامین ضروری ہوتے ہیں- مگر اتفاقی بات ہے کہ اس دفعہ میرے مضمون کا بھی یہی ہیڈنگ ہے کہ حضرت مسیحموعودؑ نے کیا کام کیا؟
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اس وقت تک اس مسئلہ کے متعلق بہت بیپروائی سے کام لیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کاموں پر تفصیلی طور سے نظر نہیں ڈالی گئی- میں نے بار ہا لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ بتائو تو مرزا صاحب کے آنے کی ضرورت کیا تھی؟ اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ایک تفصیلی نظر ڈالیں تو وہ تمام باتیں موجود نظر آتی ہیں جن کے لئے آپ کا آنا ضروری تھا اور اس سوال کا جواب ایسا اہم اور اتنا وزنی ہے کہ اگر اسے بتفصیل بیان کیا جائے تو کوئی حق پسند اس کا انکار نہیں کر سکتا- یہ سوال ایسا اہم ہے کہ اس کے سمجھے بغیر کوئی سمجھدار شخص سلسلہ کی طرف مائل نہیں ہو سکتا- کیونکہ جب تک کسی کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام کی اہمیت کا نقش نہ جم جائے وہ آپ کی طرف توجہ کیونکر کر سکتا ہے؟
اس میں شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنیوالی تازہ صداقتیں اور نشانات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ خود اپنی ذات میں صداقت کا ثبوت ہوتے ہیں مگر جب تک ان کو بھی ایسے رنگ میں پیش نہ کیا جائے کہ دنیا ان کا فائدہ سمجھ سکے تو وہ نشانات بھی اثر نہیں کرتے- پس اس سوال کا جواب دینا نہایت ضروری ہے-
یہ سوال جب کیا جاتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے کیا کام کیا؟ تو بسا اوقات سوال کرنے والے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی ٹھوس چیز اس کے ہاتھ میں دے دیں وہ ایسی شہادت چاہتا ہے جیسی کہ صرف مادیات میں مل سکتی ہے روحانیات میں نہیں- یا لوگ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ وقت سے پہلے نتیجہ نکال لیں وقت ابھی آتا نہیں مگر وہ پوچھتے ہیں کیا نتیجہ نکلا؟ ایسے لوگوں کی وہی مثال ہوتی ہے کہ ایک شخص کہے- چونکہ میرے ہاں اولاد نہیں ہے اس لئے میں اولاد کے لئے دوسری شادی کرتا ہوں- اور جس دن وہ دوسری شادی کرے اس کے دوسرے دن صبح ہی اس کے دوست اس کے ہاں پہنچ جائیں- اور السلام علیکم کے بعد پوچھیں اولاد ہوئی ہے یا نہیں؟ وہ کہے ابھی تو نہیں ہوئی- تو وہ کہیں پھر شادی کیوں کی تھی؟ شادی کا جلد سے جلد نتیجہ نو ماہ کے بعد نکل سکتا ہے اور اگر اس عرصہ کو کم سے کم بھی کر دیا جائے تو بھی سات مہینہ میں نتیجہ نکل سکتا ہے- اتنا انتظار کرنا ضروری ہوتا ہے- پس کسی کام کے لئے جو وقت مقرر ہے اس سے پہلے نتائج کا مطالبہ کرنا غلطی ہے- دراصل اس قسم کا سوال کرنے والوں کو عام طور پر دو غلطیاں لگتی ہیں- ایک تو یہ کہ جو سوال کرتے ہیں وہ ٹھوس مادی جواب چاہتے ہیں- مثلاً کہتے ہیں- یہ بتائو مسلمانوں کی حکومت کہاں کہاں قائم ہوئی؟ یا یہ کہ کتنے کافروں کو مارا ہے- کتنی غیر مسلم سلطنتوں کو شکست دی ہے- غرض وہ یا تو چاندی سونے کے یا مردوں کے ڈھیر دیکھنا چاہتے ہیں- دوسری غلطی یہ لگتی ہے کہ بے موقع نتائج تلاش کرتے ہیں- حالانہ کسی نبی کے متعلق اس قسم کا سوال ایسا باریک ہوتا ہے کہ اگر وہ اسے پہلے انبیاء پر چسپاں کریں تو انہیں معلوم ہو کہ اس سے باریک سوال اور کوئی نہیں ہو سکتا- جو انبیاء شریعت نہیں لائے ان کے متعلق تو خصوصاً یہ نہایت باریک سوال ہے- مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت اگر کوئی یہ سوال کرتاکہ آپ نے کیا کیا؟ تو اس وقت پیش کیا جا سکتا تھا کہ آپ پر اتنی سورتیں اتری ہیں- اول تو یہ جواب بھی ایسے لوگوں کیلئے تسلی بخش نہیں ہو سکتا- کیونکہ ایک ہی وقت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل شریعت نہ اتری تھی- چند احکام اترے تھے اور جب تک مکمل شریعت نہ اتری تھی اس وقت تک اسلام کے متعلق بھی یہی کہا جا سکتا تھا- جس طرح آج سکھوں اور بہائیوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ تمہارے پاس تو مکمل شریعت نہیں ہے اس وقت جب کہ اسلام میں ورثہ کے متعلق مکمل احکام نہ اترے تھے اگر کوئی سوال کرتاکہ اسلام میں ورثہ کے متعلق کیا احکام ہیں؟ تو کوئی جواب نہ دیا جا سکتا تھا- پس شریعت بھی درحقیقت تکمیل کے بعد ہی پیش کی جا سکتی ہے- اور نبی کی زندگی میں صرف اس قدر کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ایسے مسئلے بیان کئے ہیں جو دوسری کتابوں میں نہیں ہیں- مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تعلیم کامل ہو گئی ہے کیونکہ اس وقت تک وہ کامل نہیں ہوئی ہوتی- غرض شرعی نبی کے متعلق بھی یہ مشکل پیش آتی ہے مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ احکام جو اس پر نازل ہوئے ہوں پیش کئے جا سکتے ہیں- لیکن جو شرعی نبی نہیں ان کے لئے کیا پیش کیا جا سکتا ہے؟ وہ لوگ جو یہ سوال کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا کام کیا کہ آپ کا ماننا ضروری قرار دیا جائے- ان سے ہم کہتے ہیں کہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی تو مامور اور مرسل نہیں ہیں- آپ سے پہلے ہزاروں مامور گذر چکے ہیں جن کا ذکر قرآن میں اور دوسری کتابوں میں موجود ہے- دو درجن کے قریب انبیاء کا ذکر تو قرآن میں بھی آیا ہے- جن میں سے دو تین کو چھوڑ کر باقی ایسے ہی ہیں- جن پر کوئی شریعت نہ اتری- ہم کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کے متعلق سوال جانے دو- یہ بتائو حضرت مسیح ناصریؑ کے زمانہ میں جب انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی اور رسول ہو کر آیا ہوں اس وقت اگر لوگ ان سے یہ سوال کرتے کہ آپ نے کیا کام کیا ہے؟ تو وہ کیا جواب دیتے؟ یا ان کے حواریوں سے پوچھتے کہ حضرت مسیحؑ کا کام بتائو تو وہ کیا بتاتے؟ زیادہ سے زیادہ وہ یہ کہتے کہ حضرت مسیحؑ نے مردوں کو زندہ کیا- مگر میں کہتا ہوں یہ تو کام نہیں نشان اور معجزہ ہے اور ایسے نشان تو ہم حضرت مرزاصاحب کے بھی پیش کرتے ہیں- اگر نبی کے کام سے مراد یہ ہے کہ اس نے دنیا کے فائدہ اور دنیا کی ترقی کیلئے کیا کیا` عقائد اور اعمال کے لحاظ سے` سیاست اور تمدن کے لحاظ سے کونسا فائدہ پہنچایا تو حضرت مسیح ناصریؑ اس کا کیا جواب دیتے- پھر ان کے بعد حواری اس کے جواب میں کیا کہتے؟ ان کے جواب کو تو جانے دو` آج جب کہ حضرت مسیحؑ کو گزرے انیس سوسال ہو گئے ہیں آج جا کر عیسائیوں سے پوچھو کہ حضرت مسیحؑ نے کیا کام کیا؟ تو ان کا بڑے سے بڑا جواب یہی ہوگا یسوع مسیح نے دنیا میں محبت کی تعلیم قائم کی اور کہا-:
’’جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے‘‘- ۲~}~
یا یہ کہ خدا کی بادشاہت قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا- مگر سوال یہ ہے کہ کیا حضرت مسیحؑ کے زمانہ میں ان کے ماننے والوں کو بادشاہت مل گئی تھی؟ ان کو تو صرف وعدہ ہی دیا گیا تھا- اور اگر وعدہ سے تسلی ہو سکتی ہے تو ہم بھی ان لوگوں کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق سوال کرتے ہیں کہتے ہیں- آپ نے فرمایا ہے- خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم ہو جائے گی بلکہ اس سے بھی زیادہ کا وعدہ کیا ہے اور وہ یہ کہ ساری دنیا میں جماعت احمدیہ اس طرح پھیل جائے گی کہ باقی لوگ اتنے ہی تھوڑے رہ جائیں گے جتنے اس وقت خانہ بدوش لوگ ہیں- پس اگر وعدہ تسلی کا موجب ہو سکتا ہے تو اسے ہم بھی پیش کر سکتے ہیں- اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے وقت پر پورا ہو جائے گا- دیکھو اگر حضرت مسیح ناصریؑ کی وفات کے بعد ان کے حواریوں سے لوگ پوچھتے` کہاں ہے وہ بادشاہت جس کا وعدہ دیا گیا ہے؟ اور وہ نہ دکھا سکتے تو کیا حضرت مسیحؑ جھوٹے ثابت ہو جاتے؟ یا پھر حواریوں سے نہیں ان کے بعد آنے والوں سے لوگ پوچھتے- دکھائو وہ بادشاہت جس کا مسیحؑ نے وعدہ کیا ہے اور وہ نہ دکھا سکتے تو کیا حضرت مسیحؑ جھوٹے قرار پا جاتے- حضرت مسیحؑ کی امت میں تین سو سال کے بعد حکومت آئی- اگر مادی کامیابی کے لئے دعویٰ بھی دلیل ہو سکتا ہے- تو ہمارا بھی دعویٰ ہے کہ ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے گی- اور اسے دنیوی لحاظ سے بھی شان و شوکت حاصل ہوگی- لیکن اگر کہو کہ یہ دعویٰ ابھی پورا نہیں ہوا- اس لئے دلیل نہیں ہو سکتا تو ہم کہتے ہیں حضرت مسیح ناصریؑ کے وقت میں بھی بادشاہت قائم ہونے کا دعویٰ پورا نہیں ہوا تھا- پھر کیا وہ جھوٹے تھے؟ حواریوں کے وقت میں پورا نہیں ہوا تھا کیا اس وقت حضرت مسیحؑ جھوٹے تھے؟ حتیٰ کہ تین سو سال تک پورا نہ ہوا کیا اس وقت تک حضرت مسیح سچے نہ تھے؟ اگر باوجود اس کے سچے تھے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام کو کیوں سچا نہیں قرار دیا جاتا؟ جب کہ یہاں بھی ابھی حواریوں کا زمانہ ہی گذر رہا ہے-
پس حضرت مسیح ناصری کے متعلق ایسا ٹھوس جواب جیسا کہ آج کل لوگ حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق چاہتے ہیں- نہ ان کے وقت میں مل سکا- نہ حواریوں کے وقت- اور نہ تین سو سال کے عرصہ تک- لیکن اب یہی سوال دنیا کے سامنے پیش کرو- اور پھر دیکھو کیا جواب ملتا ہے- اگر آج سے ۱۹ سو سال پہلے حضرت مسیح کا یہ فقرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا کہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے تو یہ لوگ کہتے )نعوذ باللہ(یہ کس پاگل اور مجنون کا کلام ہے- مگر آج دنیا کے جتنے بڑے بڑے فلاسفر ہیں ان کے پاس جائو اور جا کر سوال کرو کہ حضرت مسیحؑ نے دنیا میں آکر کیا کام کیا تھا؟ تو وہ اس سوال کرنے والے کو پاگل قرار دیں گے اور کہیں گے- وہ مسیح جس نے ایک ہی فقرہ کہہ کر کہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کی زندگی کو بدل دیا اس کے متعلق یہ پوچھنا کہ اس نے کیا کام کیا پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے؟ اس فقرہ کا آج بھی عیسائیوں پر اتنا اثر ہے کہ باوجود بڑے بڑے ظلم کرنے کے ایک نقطہ رحم کا ان میں باقی رہتا ہے اور کم از کم اتنا تو ہے کہ جب کوئی ظلم کرتے ہیں تو بھی اعلان یہی کرتے ہیں کہ فلاں قوم کی بہتری اور بھلائی کے لئے ہم یہ کام کر رہے ہیں- خواہ وہ کسی کی کھال ہی ادھیڑ رہے ہوں- مگر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ہم تمہارے فائدہ کے لئے ہی کر رہے ہیں- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رحم کا احساس ان میں ایسا گھر کر گیا ہے کہ ظلم کرتے وقت بھی اس کا اظہار کرتے ہیں-
غرض آج سب لوگ مانتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ کے ذریعہ ان کے ماننے والوں میں ایک بہت بڑا تغیر پیدا ہوا-
اسی طرح اگر یہ سوال بدھ کے متعلق کیا جاتا کہ انہوں نے کیا کیا؟ اور ان کے زمانہ کے لوگ یہ جواب دیتے کہ بدھ نے کہا ہے کہ اپنی ساری خواہشات کو مٹا ڈالو- تو سب لوگ اس بات کو سن کر ہنس دیتے- اور کہہ اٹھتے یہ بھی کوئی کام ہے اور کوئی عقلمند کس طرح یہ تعلیم دے سکتا ہے؟ مگر اس تعلیم نے ایک عرصہ کے بعد ایسا تغیر پیدا کیا کہ ہندوئوں کی عیاشیاں مٹا ڈالیں اور ان کو تباہی سے بچا لیا- جب حضرت بدھ پیدا ہوئے- اس وقت دام مارگیوں کا بڑا زور تھا- جن کا مذہب یہ ہے کہ ماں بہن سے زنا کرنا بڑا ثواب کا کام ہے یہ لوگ اب بھی موجود ہیں اور ان میں سے بعض ان افعال کے مرتکب ہوتے ہیں اور اسے عیب نہیں سمجھتے- ان میں سے بعض تارک الدنیا لوگ غلاظت بھی کھاتے ہیں ان کو ماتنگی یعنی ماں کوانگ بنانے والے بھی کہا جاتا ہے- اس وقت جب کہ ان لوگوں کا بڑا زور تھا- حضرت بدھ نے خواہشات کو مٹانے کی تعلیم دی- اس وقت تو اس تعلیم کی کوئی ایسی قدر نہ کی گئی- مگر کچھ عرصہ کے بعد اس تعلیم نے لوگوں کی حالت بدل دی- اور اب صرف چند لاکھ ہی ایسے لوگ ہندوستان میں پائے جاتے ہیں- حالانکہ حضرت بدھ کے وقت ہندوستان میں ان کو غلبہ حاصل تھا-
اسی طرح اگر یہ سوال حضرت کرشن پر ان کے زمانہ میں کیا جاتا کہ انہوں نے آکر کیا کیا- یا حضرت رامچندر کے متعلق کہا جاتا کہ انہوں نے کیا کیا- تو کیا جواب دیتے؟ یا حضرت اسمٰعیلؑ` حضرت اسحٰقؑ` حضرت زکریاؑ کے زمانہ کے متعلق کیا جائے تو مسلمان کیا جواب دیں- یا حضرت یوسفؑ کے متعلق پوچھا جائے کہ انہوں نے اپنے زمانہ میں کیا کیا؟ تو کیا بتائیں- کیا یہ کہ انہوں نے بادشاہ کے خزانوں کی دیانتداری سے حفاظت کی- مگر یہ کیا کام ہے- اس قسم کے دیانتدار تو کئیوڈ ۳~}~ یافاکس ۴~}~ نام کے انگریز بھی مل جائیں گے- اسی طرح یرمیاہ نبی کے متعلق اگر کوئی یہی سوال کرے تو کیا جواب دیا جائے گا- کیا یہ کہ وہ اپنے زمانہ میں روتے پیٹتے رہے کہ لوگ بیدار کیوں نہیں ہوتے- بعض انبیاء کے متعلق تو اس قسم کے جواب مل جائیں گے مگر بعض کے متعلق ایسے بھی نہ ملیں گے- مگر کون کہہ سکتا ہے کہ ان کی تعلیموں نے دنیا میں تغیر نہیں پیدا کیا اور بڑے بڑے عظیمالشان نتائج نہیں نکلے- بات یہ ہے کہ نبی کی زندگی میں ان تغیرات کا جو آئندہ ہونے والے ہوتے ہیں صرف بیج نظر آنا ہے جس میں سے بعد میں عظیم الشان درخت پیدا ہو جاتا ہے- درخت ان کی زندگیوں میں نہیں دکھایا جا سکتا- جو کچھ دکھایا جا سکتا ہے وہ بیج ہوتا ہے اسے دکھا کر کہا جا سکتا ہے کہ اس سے درخت بن جائے گا-
غرض تمام انبیاء کی زندگیوں پر غور کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انبیاء نہایت باریک روحانی اثر دنیا میں چھوڑتے ہیں جو مادی طور پر نہیں دیکھا جا سکتا- ہاں عقلی طور پر سمجھا جا سکتا ہے- کہ نبی نے ایسی چیز چھوڑی ہے جو عظیم الشان نتیجہ پیدا کر سکتی ہے-
دراصل انبیاء کی مثال اس بارش کی سی ہوتی ہے جو ایک عرصہ تک رکی رہنے کے بعد برستی ہے- بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ پائوں پھوٹنے لگ جاتے ہیں` درخت سوکھنے شروع ہو جاتے ہیں- لیکن جب بارش ہوتی ہے تو خود بخود ہاتھوں میں نرمی آ جاتی ہے- سبزہ پیدا ہو جاتا ہے اور کئی قسم کی کیفیات ظاہر ہونے لگ جاتی ہیں-
پس یہ سوال کہ فلاں نبی نے ابتدائی زمانہ میں کیا کیا- نہایت باریک ہوتا ہے اور مومن کا کام ہے کہ نہایت احتیاط سے اس پر غورکرے- اگر کوئی شخص ایک نبی کو اس لئے چھوڑتا ہے کہ اس کی ابتدائی زندگی میں اسے کوئی مادی کام نظر نہیں آتا اور بہت بڑی کامیابی اور تغیر دکھائی نہیں دیتا تو اسے سب نبیوں کو چھوڑنا پڑے گا- کیونکہ اگر اس کا یہ معیار درست ہے تو پچھلے انبیاء کو بھی اس پر پرکھنا چاہئے اور ان کو بھی چھوڑ دینا چاہئے- مگر مسلمان چونکہ انبیاء کی صداقت کے قائل ہیں اس لئے انہیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انبیاء کے متعلق غور کرتے وقت نہایت باریک امور کو دیکھنا چاہئے-
اس تمہید کے بعد بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح ناصریؑ کے متعلق قرآن اور حدیث میں جو کچھ کام بتایا گیا ہے وہ کوئی مسلمان لے لے اور جو انجیل میں بتایا گیا ہے وہ عیسائی لے لے- میں دعویٰ کرتا ہوں کہ جو کام ان کا بتایا جائے گا اس ایک ایک کام کے مقابلہ میں سو سو کام اس شان اور عظمت کا میں حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیش کر دوں گا- اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت مسیحؑ مردے زندہ کرتے تھے تو میں کہوں گا قرآن سے بتائو کہ وہ کیسے مردے زندہ کرتے تھے- پھر جیسے ثابت ہوں ویسے ایک کے مقابلہ میں سو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زندہ کئے ہوئے بتا دوں گا- مگر میں پہلے بتا چکا ہوں کہ مردے زندہ کرنا کام نہیں- اسے اگر ہم ظاہری معنوں میں لیں تو وہ معجزہ کہلائے گا- اسی طرح بیماروں کو اچھا کرنا بھی کام نہیں ہے اور یہ تو طبیب بھی کرتے ہیں- ہاں معجزات کے نتائج کام کہلا سکتے ہیں- مثلاً یہ کہ ان معجزوں کے ذریعہ انہوں نے لوگوں میں پاکیزگی پیدا کی- مگر جو کوئی اس قسم کے یہ نشان بھی ثابت کرے- میں اس ایک کے مقابلہ میں سو سو انشائاللہ پیش کر دوں گا- ان کے علاوہ قرآن اور حدیث سے مسلمان یا انجیل سے عیسائی جو کام ثابت کریں ان کے مقابلہ میں سو سو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دکھادوںگا-
اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام بیان کرنا شروع کرتا ہوں- لیکن یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ نبی کے جو روحانی کام ہوتے ہیں اور حقیقی کام وہی ہوتے ہیں اور وہی اہم ہوتے ہیں ان کے متعلق میں کچھ نہیں بیان کروں گا- کیونکہ میں اگر روحانی کام پیش کروں تو ایک غیراحمدی کہہ سکتا ہے کہ یہ آپ کا دعویٰ ہے اسے کس طرح مان لیا جائے- مثلاً نبی کا اصلی اور حقیقی کام یہ ہے کہ انسانوں کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر دے- اب اگر میں یہ کہوں کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنے ماننے والوں کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر دیا تو ایک غیر احمدی کہے گا یہ آپ کا دعویٰ ہے- اسے حضرت مرزا صاحب کو نہ ماننے والا کس طرح تسلیم کر سکتا ہے- اس وجہ سے میں ایسی باتوں کو چھوڑتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دوسرے موٹے موٹے کام بیان کرتا ہوں جو دوسروں کیلئے بھی قابل تسلیم ہوں-
۱- پہلا کام
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ہے کہ جس میں تمام نبی شریک ہیں کہ نبی خدا تعالیٰ کا ثبوت اس کی کامل صفات سے دیا کرتا ہے خدا تعالیٰ دنیا سے مخفی ہوتا ہے اور انبیاء اس کا ثبوت اس کی کامل ژصفات سے دیتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جس زمانہ میں مبعوث ہوئے اس وقت بھی خدا تعالیٰ دنیا کی نظروں سے مخفی ہو چکا تھا- اور ایسا مخفی ہو چکا تھا کہ حقیقی تعلق لوگوں کا اس سے بالکل نہ رہا تھا- خالق اور مالک کی حقیقت کا کوئی ثبوت نہ تھا بلکہ یہ صرف کتابوں میں لکھا رہ گیا تھا کہ خدا ہر ایک چیز کا خالق اور مالک ہے- جب مسلمانوں سے پوچھا جاتا کہ خدا کے خالق ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ تو وہ کہتے قرآن میں لکھا ہے` یا کہتے کیا تم نہیں مانتے کہ خدا خالق ہے- اور اگر وہ خالق نہیں تو پھر اور کون ہے؟ ایسے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے ذکر کو جو حقیقت میں مٹ گیا تھا اس کی کامل صفات کے ذریعہ قائم کیا اور نشانات کے ذریعہ اس کی صفات کو ثابت کیا- میں نے ابھی بتایا تھا کہ نشان اپنی ذات میں کام نہیں ہوتا` ہاں نشان کا نتیجہ کام ہوتا ہے- اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات پیش نہیں کر رہا بلکہ یہ بتا رہا ہوں کہ حضرت مرزاصاحب نے نشان دکھا کر خدا تعالیٰ کو کامل صفات کے ساتھ دنیا پر ظاہر کیا- مثلاً حضرت صاحب کا ایک الہام ہے جو ابتدائی زمانہ کا ہے کہ-:
’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا‘‘- ۵~}~
یہ الہام حضرت مرزا صاحب نے اس وقت شائع کیا جب کہ آپ کو یہاں کے لوگ بھی نہ جانتے تھے- میرے زمانہ میں ہمارے ایک رشتہ دار نے جو قریب کے گائوں کے رہنے والے ہیں بیعت کی اور بتایا کہ میں یہاں آیا کرتا تھا- آپ کے گھر بھی آیا کرتا تھا لیکن حضرت مرزاصاحب کو نہ جانتا تھا- حضرت مرزا صاحب کے والد کو جانتا تھا- تو حضرت صاحب ایسے گمنام انسان تھے کہ رشتہ دار بھی آپ کو نہ جانتے تھے- قادیان کے لوگ آپ کے واقف نہ تھے- ایسے زمانہ میں آپ کو خدا تعالیٰ نے فرمایا-:
’’دنیا میں ایک نذیر آیا- پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا- لیکن خدا اسے قبول کرے گا- اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا‘‘-۶~}~
دیکھو اس میں کیسی عظیم الشان خبر دی گئی ہے- کیا کوئی انسان کسی انسانی تدبیر سے ایسی خبر دے سکتا ہے- یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماموریت سے پہلے ہوا- جس میں ایک تو یہ پیشگوئی تھی کہ آپ زندہ رہیں گے اور ماموریت کا دعویٰ کریں گے- دوسری پیشگوئی یہ تھی کہ جب آپ دعویٰ کریں گے تو دنیا آپ کو رد کر دے گی- تیسری پیشگوئی یہ تھی کہ دنیا کوئی معمولی مخالفت نہ کرے گی بلکہ آپ پر ہر قسم کے حملے کئے جائیں گے- چوتھی پیشگوئی یہ تھی کہ خدا کی طرف سے وہ حملے رد کئے جائیں گے اور دنیا پر عذاب نازل ہوں گے- پانچویں پیشگوئی یہ تھی کہ آپ کی صداقت آخر ظاہر ہو جائے گی-
یہ کوئی معمولی باتیں نہیں جو قبل از وقت اور اس وقت جب کہ ظاہری حالات بالکل خلاف تھے` بتلائی گئی تھیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحت شروع سے ہی اتنی کمزور تھی کہ بعض دفعہ بیماری کے حملوں کے وقت ارد گرد بیٹھنے والوں نے سمجھا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں- مگر باوجود اس کے آپ کہتے ہیں وہ زمانہ آنے والا ہے جب ماموریت کا دعویٰ کیا جائے گا- دوسرے یہ کہ لوگ مخالفت کریں گے- یہ بات بھی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی- گوجرانوالہ کے ضلع کا ایک شخص جس نے ماموریت کا دعویٰ کیا اس کے کئی خط میرے پاس آتے رہے کہ آپ اگر مجھے سچا نہیں سمجھتے تو میرے خلاف کیوں نہیں لکھتے- اور ’’الفضل‘‘ کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ بھی کچھ نہیں لکھتا- موافق نہیں تو خلاف ہی لکھے- میں نے دل میں سوچا کہ مخالفت بھی خدا ہی کی طرف سے کرائی جاتی ہے کیونکہ یہ بھی اشاعت کا ذریعہ ہوتی ہے- ایسا ہی چکڑالویوں کے رسالہ پر کئی دفعہ اس کے ایڈیٹر کی طرف سے لکھا ہوا ملا کہ میرا جواب کیوں نہیں دیا جاتا-
غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد پانچ سات مدعی کھڑے ہوئے مثلاً ظہیرالدین` عبداللطیف` مولوی محمد یار` عبداللہ تیماپوری` نبی بخش- یہ تو اشتہاری نبی ہیں ان کے علاوہ چھوٹے موٹے اور بھی ہیں مگر ان کی مخالفت بھی نہیں ہوئی اور ان کو یہ بات بھی میسر نہ آئی- ان مدعیوں نے کھڑے ہو کر دکھا دیا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ مرزا صاحب کی لوگوں نے مخالفت کی اس لئے وہ سچے نہیں وہ غلطی پر ہیں- جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کو تو مخالفت بھی نصیب نہیں ہوتی-
پھر مخالفتیں زبانی حد تک بھی محدود رہتی ہیں- مگر حضرت مرزا صاحب کے متعلق خداتعالیٰ نے تیسری پیشگوئی یہ فرمائی کہ معمولی مخالفت نہ ہوگی- بلکہ ایسی ہوگی جس کو رد کرنے کیلئے خداتعالیٰ زور آور حملے کرے گا- یعنی ایک تو سخت حملے ہوں گے دوسرے کئی اقسام کے ہوں گے اور کئی جماعتوں کی طرف سے ہونگے- اس سے معلوم ہوا کہ دشمن بھی سخت حملے کریں گے اور کئی اقسام کے حملے کریں گے- جن کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کو بھی اس قسم کا جواب دینا پڑے گا- چنانچہ مخالفین نے آپ پر قسم قسم کے حملے کئے اور یہ حملے اس حد تک پہنچ گئے کہ ایک طرف گورنمنٹ آپ کو گرفتار کرنے کیلئے تلی بیٹھی تھی دوسری طرف پیر گدی` نشین اور مولوی آپ کی مخالفت پر آمادہ اور آپ کی جان کے درپے تھے- عام مسلمانوں نے بھی کوئی کمی نہ کی اور آپ کے خلاف منصوبوں پر منصوبے کئے- ہندوئوں` سکھوں اور عیسائیوں اور باقی سب قوموں نے بھی ناخنوں تک زور لگایا کہ آپ کو تباہ کر دیں` آپ کو قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں` آپ پر اتہام لگائے گئے` آپ کی عزت و آبرو` آپ کی دیانت اور امانت` آپ کے تقویٰ و طہارت پر حملے کئے گئے مگر سب ناکام رہے اور آپ کی عزت بڑھتی گئی- چوتھی پیشگوئی یہ تھی کہ ان حملوں کے مقابلہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے حملے ہونگے چنانچہ ایسا ہی ہوا- جس نے جس رنگ میں آپ پر حملہ کیا تھا اسی رنگ میں وہ پکڑا گیا- پانچویں پیشگوئی جو آخری بات تھی کہ خدا تعالیٰ آپ کی صداقت ظاہر کر دے گا- اس کے ثبوت میں یہ جلسہ موجود ہے اس وقت تمام دنیا میں آپ کے ماننے والے موجود ہیں- امریکہ میں موجود ہیں- یورپ میں موجود ہیں- افریقہ میں موجود ہیں- ایشیاء کے ہر علاقہ میں موجود ہیں- کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ دنیا کے چالیس کروڑ مسلمان کہلانے والوں کے ہاتھوں اتنے امریکہ کے باشندے مسلمان نہیں ہوئے جتنے احمدیوں کی قلیل ترین جماعت کی کوششوں سے ہوئے ہیں- اس وقت ایک ایسے امریکن مسلمان کے مقابلہ میں سو احمدی امریکن ہیں- اسی طرح ہالینڈ میں جہاں دوسرے مسلمانوں کا بنایا ہوا ایک بھی مسلمان نہیں` احمدی مسلمان موجود ہیں- اور کئی ایسے ممالک ہیں جہاں احمدی باشندوں کی تعداد اس ملک کے مسلمانوں سے زیادہ ہے یہ کتنا بڑا نشان ہے- اور زور آور حملوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت ظاہر ہونے کا کتنا بڑا ثبوت ہے-
ہندوستان میں ہی دیکھ لو- دوسروں کے مقابلہ میں جماعت احمدیہ کی کیسی کمزور حالت ہے مگر کتنی ترقی کر رہی ہے- کسی نے کہا ہے سوامی دیانند اور حسن بن صباح کے ماننے والوں نے بھی ترقی کی تھی- انہوں نے ترقی کی ہوگی مگر سوال یہ ہے کہ کیا کمزوری کی حالت میں انہوں نے دعویٰ بھی کیا تھا کہ ایسی ترقی ہوگی اور اس ترقی کے دعویٰ کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے شائع بھی کیا تھا- اتفاقی طور پر ترقی ہو جانا اور بات ہے اور دعویٰ کے بعد ترقی ہونا اور بات ہے- لارڈریڈنگ۷~}~ جو وائسرائے ہند رہ چکے ہیں` پہلے مزدور تھے جو ترقی کرتے کرتے اس حد تک پہنچ گئے- مگر یہ اتفاقی باتیں ہوتی ہیں- صداقت کی علامت وہ ترقی ہوتی ہے جس کا پہلے سے دعویٰ کیا جائے اور پھر وہ دعویٰ پورا ہو جائے-
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور الہام ہے اور یہ یہ کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے-:
’’میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچائوں گا‘‘- ۸~}~
اب دیکھ لو کہ دنیا میں کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں اصل باشندوں میں سے دوسرے فرقوں کے مسلمان نہیں مگر احمدی ہیں- اس سے بڑھ کر دنیا کے کناروں تک آپ کی تبلیغ کے پہنچنے کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے-
اسی طرح آپ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میری مخالفت مٹتی جائے گی اور قبولیت پھیلتی جائے گی- جب آپ نے اپنا دعویٰ دنیا کے سامنے پیش کیا تو خطرناک طور پر آپ کی مخالفت ہوئی مگر اس وقت آپ نے فرمایا- ~}~
وہ گھڑی آتی ہے جب عیسیٰ پکاریں گے مجھے
اب تو تھوڑے رہ گئے دجال کہلانے کے دن
اس وقت سوائے دجال کے آپ کا کوئی نام نہ رکھا جاتا تھا- لیکن آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کا کام اتنا تو نمایاں ہو چکا ہے کہ جو لوگ ابھی آپ کی جماعت میں داخل نہیں ہوئے ان کا بھی بہت بڑا حصہ کہتا ہے کہ آپ کو دجال نہیں کہنا چاہئے آپ نے بھی اچھا کام کیا ہے-
اسی طرح قادیان کی ترقی بھی بہت بڑا نشان ہے آخری جلسہ میں جو حضرت مسیحموعودعلیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہوا` اس میں سات سو آدمی کھانا کھانے والے تھے- اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیر کے لئے نکلے تو اس لئے واپس چلے گئے کہ لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے گرد اڑتی ہے- اب دیکھو اگر سات ہزار بھی جلسہ پر آئیں تو شور پڑ جائے کہ کیا ہو گیا ہے کیوں اتنے تھوڑے لوگ آئے ہیں- ہر سال آنے والوں میں زیادتی ہوتی ہے- پچھلے سال کی ستائیں تاریخ کی حاضری کی نسبت اس سال کی حاضری میں نو سو کی زیادتی ہے- گویا جتنے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں آخری جلسہ پر آئے تھے اس سے بہت زیادہ آدمیوں کی زیادتی ہر سال کے جلسہ کی حاضری میں ہو جاتی ہے-
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہزاروں پیشگوئیاں ہیں جو کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں-
میں جلسہ کے موقع پر ہی ایک کتاب دیکھ رہا تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ ’’سراج منیر‘‘ ایک کتاب ہم شائع کریں گے مگر اس کی اشاعت میں تعویق ہوگئی ہے کیونکہ اس کے لئے سو روپیہ کی ضرورت ہے- گویا وہ کتاب جو ایک سو روپیہ کیلئے اس وقت رکی رہی- مگر اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بلکہ آپ کے خلیفہ نے کہا تو دو لاکھ بیاسی ہزار کے وعدے ہو گئے*-
غرض خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے اس طرح اپنی صفات کے ثبوت دیئے ہیں جس طرح کہ وہ پہلے نبیوں کے ذریعہ سے دیتا چلا آیا ہے- میں نے اپنی کتاب ’’احمدیت‘‘ میں کسی قدر تفصیل سے اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی صفات کا ظہور ہوا ہے- مگر اس کتاب میں بھی پوری تفصیل سے نہیں لکھ سکا- اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو کسی وقت خدا تعالیٰ کی ساری صفات کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ظاہر ہوئیں` ایک کتاب لکھوں گا اور بتائوں گا کہ آپ کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی تمام صفات ثابت ہوئی ہیں اور یہی نبی کا کام ہوتا ہے-
حضرت مسیح موعودؑ کا دوسرا کام
نبی کا ایک کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کام کرنے والی جماعت پیدا کر جاتا ہے- ہماری جماعت کی کمزوری مالیلحاظ سے اور تعداد کے لحاظ سے دیکھو اور پھر اس کے مقابلہ میں اس کے کاموں کی وسعت کو دیکھو- کوئی شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ جو کام جماعت احمدیہ کر رہی ہے وہ کوئی اور قوم نہیں کر رہی- غیر احمدی اخباروں میں چھپتا رہتا ہے کہ کام کرنے والی ایک ہی جماعت ہے اور وہ جماعت احمدیہ ہے- روس` فرانس` ہالینڈ` آسٹریلیا` امریکہ` انگلینڈ وغیرہ ممالک میں
۔
* حضور کا یہ اشارہ ریزروفنڈ کے متعلق تھا جس کی تحریک پر احباب نے جو وعدے لکھائے ان کی مجموعی رقم دو لاکھ بیاسی ہزار ہو گئی تھی-
ہماری طرف سے اسلام کی تبلیغ ہوئی- اور اب تو لوگ ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمارے میں آکر تبلیغ کرو چنانچہ ایران سے مطالبہ آیا ہے کہ بہائیوں کے مقابلہ کیلئے احمدیوں کو آنا چاہئے- بعض لوگ آریوں کا کام مقابلہ میں پیش کرتے ہیں مگر ان لوگوں کے مالوں اور ہمارے مالوں کو دیکھو- پھر ان کے کاموں کی وسعت اور ہمارے کاموں کی وسعت کو دیکھو- ہندوئوں میں سے بعض ایسے مالدار ہیں کہ وہ اکیلے اتنا روپیہ دے سکتے ہیں جتنا ہماری ساری جماعت مل کر سارے سال میں نہیں دے سکتی- اور ایک دو نہیں بلکہ خاصی تعداد میں ایسے لوگ ان میں موجود ہیں- مگر باوجود اس کے ساری ہندو قوم نے مل کر علاقہ ملکانا میں حملہ کیا- مگر جب ہمارے مبلغ پہنچے تو سب بھاگ گئے اس وقت دہلی میں ہندو مسلمانوں کی ایک کانفرس ہوئی جس میں یہ سوال پیش ہوا کہ آئو صلح کر لیں- اس کانفرنس کو منعقد کرنے والے حکیم اجمل خان صاحب` ڈاکٹر انصاری` مولوی محمد علی صاحب اور مولوی ابوالکلام صاحب آزاد تھے اور ہندوئوں کی طرف سے شردھانند صاحب وغیرہ- جیسا کہ علماء کا ہمارے متعلق طریق عمل رہا ہے انہوں نے کہا کہ احمدیوں کو بلانے کی کیا ضرورت ہے اور وہ خود صلح کی شرائط طے کرنے لگے- لیکن شردھانندجی نے کہا کہ احمدی بھی اس علاقہ میں کام کر رہے ہیں` ان کو بلانا چاہئے- اس پر میرے نام حکیم اجمل خان صاحب` ڈاکٹر انصاری اور مولوی ابوالکلام صاحب کا تار آیا کہ اپنے قائم مقام بھیجئے- میں نے یہاں کے آدمیوں کو بھیجا- اور انہیں بتا دیا کہ ملکانوں کے متعلق سوال اٹھے گا اور کہا جائے گا کہ ہندو مسلمان اپنی اپنی جگہ بیٹھ جائیں مگر ہندوئوں نے بیس ہزار ملکانوں کو مرتد کر لیا ہے اس لئے جب یہ سوال پیش ہو تو آپ کہیں کہ ہمیں ۲۰ ہزار مرتدوں کو کلمہ پڑھا لینے دیجئے` تب اس شرط پر صلح ہوگی اور ہم وہاں سے واپس آ جائیں گے- ورنہ جب تک ایک ملکانا بھی مرتد رہے گا ہم وہاں سے نہیں ہٹیں گے- چنانچہ جب ہمارے آدمی کانفرنس میں پہنچے تو یہی سوال پیش ہوا- اور انہوں نے یہی بات کہی جو میں نے بتائی تھی- اس پر مولویوں نے کہا احمدیوں کی ہستی ہی کیا ہے ان کو چھوڑ دیجئے اور ہم سے صلح کیجئے- شردھانندجی نے اس وقت ان سب کے سامنے کہا آپ کے اگر پچاس آدمی بھی وہاں ہوں تو ہمیں ان کی پرواہ نہیں- لیکن جب تک ایک بھی احمدی وہاں ہوگا صلح نہیں ہو سکتی- احمدیوں کو پہلے اس علاقہ سے نکالو اور پھر صلح کے لئے آگے بڑھو-
غرض جماعت احمدیہ کے کام کی اہمیت کا ان لوگوں کو بھی اقرار ہے جو جماعت میں داخل نہیں ہیں- بلکہ جو اسلام کے دشمن ہیں وہ بھی اقرار کرتے ہیں- ابھی کلکتہ میں ڈاکٹر زویمر کے لیکچر ہوئے- یہ ڈاکٹر صاحب عیسائیوں میں سے سب سے زیادہ اسلام کے متعلق واقفیت رکھنے کے مدعی ہیں- مصر میں ایک رسالہ ’’مسلم ورلڈ‘‘ نکالتے ہیں- پچھلی دفعہ جب آئے تو قادیان بھی آئے تھے اور یہاں سے جا کر انہوں نے بعض دوسرے شہروں میں اشتہار دیا تھا کہ وہ ڈاکٹرزویمر جو قادیان سے بھی ہو آیا ہے ان کا لیکچر ہوگا- کچھ عرصہ ہوا وہ کلکتہ گئے اور وہاں انہوں نے لیکچر دیا- مولوی عبدالقادر صاحب ایم اے پروفیسر جو میری ایک بیوی کے بھائی ہیں` انہوں نے کچھ سوال کرنے چاہے- اس پر دریافت کیا گیا کہ کیا آپ احمدی ہیں؟ انہوں نے کہا- ہاں- اس پر کہہ دیا گیا ہم احمدیوں سے مباحثہ نہیں کرتے- مصر میں انہی صاحب کی کوشش سے کئی آدمی مسیحی بنا لئے گئے ہیں- اتفاقاً ایک شخص عبدالرحمن صاحب مصری کو جو ان دنوں مصر میں تھے مل گیا- انہوں نے اسے احمدی نقطہ نگاہ سے دلائل سمجھائے- وہ پادری زویمر کے پاس گیا اور جا کر گفتگو کی- اور کہا حضرت مسیح زندہ نہیں بلکہ قرآن کریم کے رو سے فوت ہو گئے- اس پادری نے کہا کہ کسی احمدی سے تو تم نہیں ملے؟ اس مصری نے کہا- ہاں ملا ہوں- یہ جواب سن کر وہ گھبرا گئے اور آئندہ بات کرنے سے صاف انکار کر دیا- غرض خدا کے فضل سے ہماری جماعت کو مذہبی دنیا میں ایسی اہمیت حاصل ہو رہی ہے کہ دنیا حیران ہے اور یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ہے- اور آپ کے اس کام کا کوئی انکار نہیں کر سکتا-
یہ باتیں جو میں نے بیان کی ہیں یہ بھی چونکہ ایمانیات سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے میں اور نیچے اترتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علمی کام بیان کرتا ہوں-
حضرت مسیح موعودؑ کا تیسرا کام
تیسرا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق لوگوں کے خیالات میں جو فساد پڑ گیا تھا` اس کی آپ نے اصلاح کی ہے- مذہب میں سب سے بڑی ہستی خدا تعالیٰ کی ہستی ہے- مگر اس کی ذات کے متعلق مسلمانوں میں اور دوسرے مذہبوں میں اتنا اندھیر مچا ہوا تھا اور ایسی خلاف عقل باتیں بیان کی جاتی تھیں کہ ان کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کو توجہ ہی نہیں ہو سکتی تھی- اس خرابی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دور کیا-
خدا تعالیٰ کے متعلق یہ غلط خیالات پھیلے ہوئے تھے- )۱(شرک جلی اور خفی میں لوگ مبتلا تھے )۲(بعض لوگ اللہ تعالیٰ کی نسبت یہ یقین رکھتے تھے کہ اگر خدا ہے تو وہ علت العلل ہے- وہ اس کی قوت ارادی کے منکر تھے اور سمجھتے تھے کہ جس طرح مشین چلتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ سے دنیا کے کام ظاہر ہو رہے ہیں- ہزاروں علتوں میں سے وہ ایک علت ہے گو آخری اور سب سے بڑی- مگر بہرحال ایک اضطرار کے رنگ میں اس کے سب افعال صادر ہوتے ہیں- مسلمان کہلانے والوں میں سے بھی فلسفہ کے دلدادے اس خیال سے متاثر ہو چکے تھے )۳(بعض لوگ خیال کر رہے تھے کہ دنیا آپ ہی آپ بنی ہے اور قدیم ہے- خدا تعالیٰ کا جوڑنے جاڑنے سے زیادہ دنیا سے کوئی تعلق نہیں- بعض مسلمان بھی اس غلطی میں مبتلا تھے )۴(بعض لوگ خدا تعالیٰ کے رحم کا انکار کرنے لگ گئے تھے اور یہ کہتے تھے کہ خدا میں رحم کی صفت نہیں پائی جاتی- کیونکہ وہ عدل کے خلاف ہے )۵(بعض لوگ خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایسا ناقص اندازہ کرنے لگ گئے تھے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کو چند ہزار سال میں محدود کر دیا تھا اور خیال کرتے تھے کہ بس خدا تعالیٰ کی صفات انہی چند ہزار سال میں ظاہر ہوئی ہیں اور اگر اس دور کو لمبا بھی کرتے تھے تو اتنا کہ گو اس دنیا کی عمر لاکھوں سال کی مانتے تھے مگر خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور اسی دور کے ساتھ محدود کرتیتھے-
)۶(بعض لوگ خدا کی قدرت کو غلط طریق سے ثابت کرتے ہوئے یہ کہتے کہ خدا جھوٹ بھی بول سکتا ہے` چوری بھی کر سکتا ہے- اگر نہیں کر سکتا تو معلوم ہوا کہ اس میں قدرت نہیںہے-
)۷(بعض لوگ خدا تعالیٰ کو قانون قضائو قدر جاری کرنے کے بعد بالکل بیکار سمجھتے اور اس وجہ سے کہتے تھے کہ دعا کرنا فضول ہے- جب خدا کا قانون جاری ہو گیا کہ فلاں بات اس طرح ہو تو دعا کرنا بے فائدہ ہے- دعا سے اس قانون میں روکاوٹ نہیں پیدا ہو سکتی-
)۸( خدا تعالیٰ کی صفات کے اجراء کا مسئلہ بالکل لاینحل سمجھا جانے لگا تھا لوگ خداتعالیٰ کی سب صفات کے ایک ہی وقت میں جاری ہونے کا علم نہ رکھتے تھے اور سمجھ ہی نہ سکتے تھے کہ خداتعالیٰ جو شدید العقاب ہے وہ اس صفت کو رکھتے ہوئے ایک ہی وقت میں وھاب کس طرح ہو سکتا ہے وہ حیران تھے کہ کیا ایک انسان کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ بڑا سخی ہے اور بڑا بخیل بھی ہے- اگر نہیں تو خدا کے لئے کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں قھار بھی ہے اور رحیم بھی- چونکہ قرآن میں خدا تعالیٰ کی ایسی صفات آئی ہیں جو بظاہر آپس میں مخالفت رکھتی ہیں اس لئے وہ لوگ حیران تھے-
)۹(بعض لوگ اس خیال میں پڑے ہوئے تھے کہ ہر چیز خدا ہی خدا ہے اور بعض اس وہم میں پڑے ہوئے تھے کہ ایک تخت ہے` خدا تعالیٰ اس پر بیٹھا ہوا حکم کرتا ہے-
)۱۰(خدا تعالیٰ کی طرف توجہ ہی نہیں رہی تھی- حتی کہ جب کوئی مکان یا گھر ویران ہو جاتا تو کہتے کہ اب تو اس میں اللہ ہی اللہ ہے- یا کسی کے پاس کچھ نہ رہتا تو کہا جاتا کہ اب تو اس کے پاس اللہ ہی اللہ ہے جس کا یہ مطلب تھا کہ خدا تعالیٰ بھی ایک خلو ہی کا نام ہے- خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے ملنے کی تڑپ بالکل مٹ گئی تھی- جنوں اور بھوتوں کی ملاقات` عمل حب اور عمل بغض کی خواہش تو لوگوں میں تھی- لیکن اگر نہ تھی تو خدا تعالیٰ کی ملاقات کی خواہش نہ تھی-
ان اختلافات کے طوفان کے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ظاہر ہوئے اور آپ نے ان سب غلطیوں سے مذہب کو پاک کر دیا- سب سے پہلے میں شرک کو لیتا ہوں- آپ نے شرک کو پورے طور پر رد کیا اور توحید کو اپنے پورے جلال کے ساتھ ظاہر کیا- آپ سے پہلے مسلمان علماء تین قسم کا شرک مانتے تھے- )۱(بتوں` فرشتوں اور معین چیزوں کی عبادت کرنا- مگر باوجود اس کے عوام تو الگ رہے علماء تک قبروں پر سجدے کرتے تھے لکھنئو میں ایک بڑے مولوی کو میں نے قبر پر سجدہ کرتے بچشم خود دیکھا ہے-
)۲(علماء تسلیم کرتے تھے کہ کسی میں خدائی صفات تسلیم کرنا بھی شرک ہے مگر یہ صرف منہ سے کہتے تھے بڑے سے بڑے توحید پرست وہابی بھی حضرت مسیحؑ کو ایسی صفات دیتے تھے جو خدا سے ہی تعلق رکھتی ہیں- مثلاً یہ کہتے کہ وہ آسمان پر کئی سو سال سے بیٹھے ہیں- نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں نہ ان پر کوئی تغیر آتا ہے- اور یہ بھی مانتے ہیں کہ بعض انسانوں نے مردے زندہ کئے تھے اور مسیح نے تو علاوہ مردے زندہ کرنے کے پرندے بھی پیدا کئے تھے-
)۳( بڑے بڑے عالم اور دین کے ماہر یہ مانا کرتے تھے کہ چیزوں پر اتکال کرنا یعنی یہ سمجھنا کہ کوئی چیز اپنی ذات میں فائدہ پہنچا سکتی ہے یہ بھی شرک ہے- مثلاً اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فلاں دوائی بخار اتار دے گی تو وہ شرک کرتا ہے- اصل میں یوں سمجھنا چاہئے کہ فلاں دوائی خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے اثر سے فائدہ دے گی- کیونکہ جب تک ہر چیز میں خدا کا ہی جلوہ نظر نہ آئے اس وقت تک اس سے فائدہ کی امید رکھنا شرک ہے-
یہ شرک کی بہت عمدہ تعریف ہے- مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سے بھی اوپر تعریف بیان کی ہے جس کی نظیر پچھلے تیرہ سو سال میں نہیں ملتی- آپ نے توحید کے متعلق مختلف کتابوں میں مضامین لکھے ہیں- ان کا خلاصہ یہ ہے کہ جو باتیں لوگوں نے بیان کی ہیں ان کے اوپر اور ان سے بالا ایک اور درجہ کامل توحید کا ہے- آخری درجہ پچھلے علماء نے توحید کا یہ بیان کیا تھا کہ ہر چیز میں خدا کا ہاتھ کام کرتا ہوا نظر آئے- گو یہ صحیح ہے مگر ہے تو آخر اپنا خیال ہی- کیونکہ جو شخص اپنے ذہن میں یہ خیال جماتا ہے کہ سب کچھ تعالیٰ کی طرف سے ہو رہا ہے وہ اس توحید کو خود پیدا کر رہا ہے اور اپنی پیدا کی ہوئی توحید کامل توحید نہیں کہلا سکتی- توحید وہی کامل ہوگی کہ جو خداتعالیٰ کی طرف جلوہ گر ہو- اور جس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ خود ماسویٰ کو مٹا ڈالے اور یہی توحید اصلی توحید ہے اور اسی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور قرآن کریم نے اور تمام انبیاء نے پیش کیا ہے یعنی بندہ اللہ تعالیٰ کے اس قدر قریب ہو جائے کہ اسے اس امر کی ضرورت نہ رہے کہ وہ سوچے کہ خدا تعالیٰ ایک ہے بلکہ خدا تعالیٰ اپنے ایک ہونے کو خود اس کے لئے ظاہر کر دے- اور ہر چیز میں خدا تعالیٰ اس کے لئے اپنا ہاتھ دکھائے- اور ہر چیز اس کے لئے بطور شفاف شیشہ کے ہو جائے کہ جس طرح وہ اپنے آپ کو بیچ میں سے غائب کر دیتا ہے اور اس کے پرے ہر چیز نظر آنے لگتی ہے- اسی طرح تمام دنیا کی اشیاء ایسے انسان کے لئے بہ منزلہ آئینہ ہو جائیں- اور وہ اپنے خیال سے ان میں اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات کو خاص طور پر ظاہر کر کے ہر چیز میں سے اسے نظر آنے لگے-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں- خالی عقیدہ رکھنا کہ ہر چیز میں خدا کا ہاتھ ہے یہ اعلیٰ توحید نہیں- بلکہ کمال توحید یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہر چیز میں سے اپنا ہاتھ دکھائے- جب ایسا ہو تب خدا تعالیٰ واقعہ میں ہر چیز میں نظر آتا ہے` محض ہمارا خیال نہیں ہوتا-
یہ ایسی توحید ہے جو عقیدہ سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ انسان کے تمام اعمال پر حاوی ہے ایک مسلمان کی اخلاقی` تمدنی` سیاسی` معاشرتی غرضیکہ ہر قسم کی زندگی پر حاوی ہے- جب انسان کھانا کھائے تو خدااس کھانے میں اپنا جلوہ دکھا رہا ہو اور کھانے کی تمام ضرورتوں اور اس کی حدود کو اس پر ظاہر کر رہا ہو اور اپنا جلال دکھا رہا ہو` جب پانی پئے تو بھی اسی طرح ہو` جب دوستوں سے ملے تب بھی ایسا ہی ہو- غرض ہر ایک کام جو وہ کرے خدا تعالیٰ اس کے ساتھ ہو اور اس میں اپنی قدرت اس کے لئے ظاہر کر رہا ہو-
یہ کامل توحید کا درجہ ہے جب کسی کو یہ حاصل ہو جائے تو اس کے بعد کسی قسم کا شبہ باقی نہیں رہتا- اور اسی توحید پر ایمان لانا مدار نجات ہے- اور اسی کی طرف قرآن کریم کی اس آیت میں اشارہ ہے کہالذین یذکرون اللہ قیاما و قعودا وعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلقالسموت والارض ربنا ماخلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذابالنار-
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور پہلوئوں پر بھی اور زمین اور آسمانوں کی پیدائش کے متعلق فکر کرتے ہیں` خدا ان کے سامنے آ جاتا ہے- اور وہ بے اختیار ہو کر پکار اٹھتے ہیں کہربنا ماخلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذابالنار اے ہمارے رب! یہ چیزیں جو تو نے بنائی تھیں لغو نہ تھیں- ان کے ذریعہ ہم تجھ تک آ گئے ہیں- تو پاک ہے اب ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے- یعنی ایسا نہ ہو کہ ہم اس مقام سے ہٹ جائیں اور ہجر کی آگ ہمیں بھسم کر دے-
اب پیشتر اس کے کہ میں ان دوسری غلط فہمیوں کے ازالہ کا ذکر کروں جو خدا تعالیٰ کے متعلق لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں` میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان سب غلطیوں کے دور کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اصل پیش کیا ہے جو ان سب غلطیوں کا ازالہ کر دیتا ہے اور وہ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰلیس کمثلہ شیء ۹~}~ہے- پس اس کے متعلق کوئی بات ہم مخلوق پر قیاس کرکے نہیں کہہ سکتے- اس کے متعلق ہم جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ خود اسی کی صفات پر مبنی ہونا چاہئے ورنہ ہم غلطی میں مبتلا ہو جائیں گے- ہمیں دیکھنا چاہئے کہ جو عقیدہ ہم خدا تعالیٰ کی نسبت رکھتے ہیں وہ اس کی دوسری صفات کے جنہیں ہم تسلیم کرتے ہیں مطابق ہے یا نہیں- اگر نہیں تو یقیناً ہم غلطی پر ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کی صفات متضاد نہیں ہو سکتیں-
اس اصل کے بتانے سے آپ نے ایک طرف تو ان غلطیوں کا ازالہ کر دیا جو مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں اور دوسری طرف غیر مذاہب کی غلطیوں کی بھی حقیقت کھول دی ہے-
میں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق لوگوں میں کئی قسم کی غلطیاں پڑی ہوئی تھیں جن میں سے توحید کے متعلق جو اصلاح حضرت مسیح موعودؑ نے کی ہے اسے میں اوپر بیان کر آیا ہوں- جو دوسری غلطیاں ہیں ان سب کی اصلاح حضرت مسیح موعودؑ نے اوپر کے بیان کئے ہوئے اصل کے ماتحت کی ہے-
چنانچہ دوسری غلطی اللہ تعالیٰ کے متعلق مختلف مذاہب کے پیرئوں میں یہ پیدا ہو رہی تھی کہ وہ اسے علت العلل قرار دیتے تھے- یعنی اس کی قوت ارادی کے منکر تھے- اس غلطی کا ازالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہتعالیٰ کی صفت حکیم اور قدیر سے کیا ہے- تمام مذاہب خدا تعالیٰ کے حکیم اور قدیر ہونے کے قائل ہیں- اور یہ ظاہر ہے کہ اگر وہ حکیم اور قدیر ہے تو علتالعلل نہیں ہو سکتا بلکہ بالارادہ خالق ہے- کسی مشین کو کوئی عقلمند کبھی حکیم نہ کہے گا- پس اگر خدا حکیم ہے تو علت العلل نہیں ہو سکتا- کوئی درزی یہ نہیں کہے گا کہ میری سنگر کی مشین بڑی لائق ہے یا بڑی حکیم ہے- حکمت والا اس چیز کو کہا جاتا ہے جو ارادہ کے ماتحت کام کرتی ہے- پھر خدا تعالیٰ قادر ہے- اور عربی میں قادر کے معنی اندازہ کرنے والے کے ہیں- یعنی جو ہر اک کام کا اندازہ کرتا ہو اور دیکھتا ہو کہ کس چیز کے مناسب حال کیا طاقتیں یا کیا سامان ہیں- مثلاً یہ فیصلہ کرے کہ گرمی کے لئے کیا قوانین ہوں اور سردی کے لئے کیا- کس کس حیوان کی کس کس قدر عمر ہو- اور یہ اندازہ کوئی بلاارادہ ہستی نہیں کر سکتی- پس خداتعالیٰ کی قدیر اور حکیم صفات اس کے ارادہ کو ثابت کر رہی ہیں اور اسے قدیر اور حکیم مانتے ہوئے علتالعلل نہیں کہا جا سکتا-
)۳(تیسری قسم کے وہ لوگ تھے جو یہ کہتے تھے کہ دنیا آپ ہی آپ بنی ہے خدا کا اس میں کوئی دخل نہیں- یعنی خدا روح اور مادہ کا خالق نہیں ہے- اس کا جواب آپ نے خدا کی صفتمالکیت اور رحیمیت سے دیا اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی دو بڑی صفات مالکیت اور رحیمیت ہیں- اب اگر خدا نے دنیا کو پیدا نہیں کیا تو پھر اس پر تصرف جمانے کا بھی اسے کوئی حق نہیں ہے- یہ حق اسے کہاں سے حاصل ہو گیا؟ پس جب تک خدا تعالیٰ کو دنیا کا خالق نہ مانو گے دنیا کا مالک بھی نہیں مان سکتے-
دوسری صفت خدا تعالیٰ کی رحیمیت ہے- رحیم کے معنی ہیں وہ ہستی جو انسان کے کام کا بہتر سے بہتر بدلہ دے- اب سوال یہ ہے کہ اگر خدا کسی چیز کا خالق نہیں تو وہ بدلے اس کے پاس کہاں سے آئیں گے- جو لوگوں کو اپنی اس صفت کے ماتحت دے گا- ہمارے ملک میں ایک مثل مشہور ہے کہ ’’حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ-‘‘ کہتے ہیں کسی شخص نے اپنے دادا کی فاتحہ دلانی تھی- وہ کچھ خرچ کرنا نہیں چاہتا تھا اور مولوی بغیر امید کے فاتحہ پڑھنے کو تیار نہ تھے- آخر اس نے یہ تدبیر کی کہ مولویوں کو لے کر ایک حلوائی کی دکان پر پہنچا اور ان سے کہا- فاتحہ پڑھو- انہوں نے سمجھا کہ اس کے بعد مٹھائی تقسیم ہو گی- مگر جب وہ فاتحہ پڑھ چکے- تو وہ خاموشی سے وہاں سے چل دیا- یہی حالت ان لوگوں کے نزدیک خدا کی ہے- اگر خدا کسی چیز کا خالق ہی نہیں ہے تو بدلے کہاں سے آئیں گے؟ اور وہ کہاں سے دے گا خواہ آریہ محدود ہی بدلہ مانیں لیکن بدلہ مانتے تو ہیں اور بدلہ خدا تعالیٰ نہیں دے سکتا ہے جب کہ وہ خالق ہی نہ ہو- جو خود کنگال ہو اس نے بدلہ کیا دینا ہے-
)۴(چوتھی قسم کے لوگ وہ تھے جو خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے ہی منکر تھے ان لوگوں کو حضرت مسیح موعودؑ نے خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت اور مالکیت سے جواب دیا- مثلاً مسیحیوں کے مذہب کی بنیاد ہی اس امر پر ہے کہ چونکہ خدا عادل ہے اس لئے وہ کسی کا گناہ معاف نہیں کر سکتا- پس اسے دنیا کے گناہ معاف کرنے کے لئے ایک کفارہ کی ضرورت پیش آئی تا اس کا رحم بھی قائم رہے اور عدل بھی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا بے شک خدا عادل ہے- مگر عدل اس کی صفت نہیں- عدل صفت اس کی ہوتی ہے جو مالک نہ ہو- مالک کی صفت رحم ہوتی ہے- ہاں جب مالک کا رحم کام کے برابر ظاہر ہو تو اسے بھی عدل کہہ سکتے ہیں- پس چونکہ خدا تعالیٰ مالک اور رحمن بھی ہے اس لئے اس کا دوسری چیزوں پر قیاس نہیں کیا جا سکتا- دیکھو خدا تعالیٰ نے انسان کو کان` ناک` آنکھیں بغیر اس کے کسی عمل کے دی ہیں- کیا کوئی اعتراض کر سکتا ہے کہ یہ اس کے عدل کے خلاف ہے- پس اگر خدا بغیر انسان کے کسی استحقاق کے یہ چیزیں اسے دے سکتا ہے تو پھر وہ انسان کے گناہ کیوں معاف نہیں کر سکتا- اسی طرح وہ مالک ہے اور بہ حیثیت مالک ہونے کے معاف کرنے سے اس کے عدل پر حرف نہیں آتا- ایک جج بے شک عام حالات میں مجرم کا جرم معاف نہیں کر سکتا- کیونکہ اسے فیصلہ کا حق پبلک کی طرف سے ملتا ہے اور دوسروں کے حق معاف کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہوتا- لیکن خدا تعالیٰ اگر معاف کرے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اسے فیصلہ کا حق دوسروں کی طرف سے نہیں ملا بلکہ اسے یہ حق ملکیت اور خالقیت کی وجہ سے اپنی ذات میں حاصل ہے- پس اس کا عفو عدل کے خلاف نہیں-
)۵(پانچویں قسم کے وہ لوگ تھے جو خدا کی صفت خالقیت کو ایک زمانہ تک محدود کرتے تھے- ان کو آپ نے خدا تعالیٰ کی صفت قیوم سے جواب دیا- فرمایا خدا تعالیٰ کی صفات چاہتی ہیں کہ ان میں تعطل نہ ہو بلکہ وہ ہمیشہ جاری رہیں- قیوم کے معنی ہیں قائم رکھنے والا- اور یہ صفت تمام صفات پر حاوی ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات پر خاص زور دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات میں تعطل نہیں ہو سکتا- آپ نے جو اصل پیش کیا اور جو تھیوری بیان کی ہے وہ باقی دنیا سے مختلف ہے- بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے فلاں وقت سے دنیا کو پیدا کیا- گویا اس سے قبل خدا بے کار تھا- اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ دنیا ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے گویا وہ خدا تعالیٰ کی طرح ازلی ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا یہ دونوں باتیں غلط ہیں- یہ ماننا بھی کہ کسی وقت خدا کی صفات میں تعطل تھا خدا تعالیٰ کی صفت قیوم کے خلاف ہے- اسی طرح یہ کہنا بھی کہ جب سے خدا تعالیٰ ہے تبھی سے دنیا چلی آ رہی ہے` خدا کی صفات کے خلاف ہے- شائد بعض لوگ کہیں کہ دونوں باتیں کس طرح غلط ہو سکتی ہیں دونوں میں سے ایک نہ ایک تو صحیح ہونی چاہئے- لیکن یہ ان کا خیال مادیات پر قیاس کرنے کے سبب سے ہوگا- اصل میں بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو عقل انسانی سے بالا ہوتی ہیں- اور عقل ان کی کنہ کو نہیں پہنچ سکتی- دنیا کا پیدا ہونا چونکہ انسانوں` جمادات بلکہ ذرات کی پیدائش سے بھی پہلے کا واقعہ ہے اس لئے انسانی عقل اس کو نہیں سمجھ سکتی- جو دو عقیدے لوگوں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں ان پر غور کر کے دیکھ لو کہ دونوں بالبداہت غلط نظر آتے ہیں- اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ جب سے خدا ہے اسی وقت سے دنیا کا سلسلہ ہے تو پھر اسے دنیا کو بھی خدا تعالیٰ کی طرح ازلی ماننا پڑے گا اور اگر کوئی یہ کہے کہ پیدائش کا سلسلہ کروڑوں یا اربوں سالوں میں محدود ہے تو پھر اسے یہ بھی ماننا پڑے گا- کہ خدا تعالیٰ ازل سے نکما تھا صرف چند کروڑ یا چند ارب سال سے وہ خالق بنا- اور یہ دونوں باتیں غلط ہیں- پس صحیح یہی ہے کہ اس امر کی پوری حقیقت کو انسان پوری طرح سمجھ ہی نہیں سکتا- اور سچائی ان دونوں دعوئوں کے درمیان درمیان میں ہے یہ مسئلہ بھی اسی طرح محیر العقول ہے جس طرح کہ زمانہ اور جگہ کا مسئلہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کو محدود یا غیر محدود ماننا دونوں ہی عقل کے خلاف نظر آتے ہیں- حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے اس بحث کا یوں فیصلہ فرمایا ہے کہ نہ خدا تعالیٰ کی صفت خالقیت کبھی معطل ہوئی اور نہ دنیا خدا کے ساتھ چلی آ رہی ہے اور صداقت ان دونوں امور کے درمیان ہے- اور اس کی تشریح آپ نے یہ فرمائی ہے کہ مخلوق کو قدامت نوعی حاصل ہے گو قدامت ذاتی کسی شے کو حاصل نہیں- کوئی ذرہ` کوئی روح` کوئی چیز ماسوی اللہ ایسی نہیں کہ جسے قدامت ذاتی حاصل ہو- لیکن یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ سے اپنی صفت خلق کو ظاہر کرتا چلا آیا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدامت نوعی کا بھی وہ مفہوم نہیں لیا جو دوسرے لوگ لیتے ہیں جو یہ ہے کہ جب سے خدا ہے تب سے مخلوق ہے- یہ ایک بیہودہ عقیدہ ہے اور حضرتمسیح موعودعلیہ السلام اس کے قائل نہیں-
یہ کہنا کہ جب سے خدا ہے تب سے مخلوق ہے اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں- جو دونوں باطل ہیں- ایک تو یہ کہ خدا بھی ایک عرصہ سے ہے اور مخلوق بھی- کیونکہ جب کا لفظ وقت کی طرف خواہ وہ کتنا ہی لمبا ہو اشارہ کرتا ہے اور ایسا عقیدہ بالکل باطل ہے- دوسرے معنی اس جملہ کے یہ بنتے ہیں کہ مخلوق انہی معنوں میں ازلی ہے کہ جن معنوں میں خدا تعالیٰ ہے- اور یہ معنے بھی اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں اور عقل کے بھی- خالق اور مخلوق ایک ہی معنوں میں ازلی نہیں ہو سکتے- ضروری ہے کہ خالق کو تقدم حاصل ہو اور مخلوق کو تاخر- یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہالصلوۃوالسلام نے یہ کبھی نہیں لکھا کہ مخلوق بھی ازلی ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ مخلوق کو قدامت نوعی حاصل ہے اور قدامت اور ازلیت میں فرق ہے- غرض حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے نزدیک مخلوق کو قدامت نوعی تو حاصل ہے مگر ازلیت نہیں- خالق مخلوق پر بہرحال مقدم ہے اور دوروحدت دور خلق سے پہلے ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خالق اور مخلوق کے اس تعلق کو سمجھنا کہ خالق کو ازلیت بھی اور دور وحدت کو تقدیم بھی حاصل ہوا اور مخلوق کو قدامت نوعی بھی حاصل ہو` انسانی عقل کے لئے مشکل ہے لیکن صفاتالہیہ پر غور کرنے سے یہی ایک عقیدہ ہے جو شان الہی کے مطابق نظر آتا ہے- اس کے علاوہ دوسرے عقائد یا تو شرک پیدا کرتے ہیں یا خدا تعالیٰ کی صفات پر ناقابل قبول حد بندیاں لگاتے ہیں- اور اس میں کیا شبہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق وہی عقیدہ درست ہو سکتا ہے جو اس کی دوسری صفات کے مطابق ہو- جو ان کے خلاف ہے وہ عقیدہ قابل قبول نہیں- پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ لیس کمثلہ شیء ہے- اس کے افعال کی کنہ کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کرنا جس طرح کہ انسان کے افعال کو سمجھا جاتا ہے عقل سے بعید ہے- پس جب کہ خلق عالم کا مسئلہ ایسے امور سے تعلق رکھتا ہے جن کو انسانی عقل پورے طور پر سمجھ نہیں سکتی تو بہترین طریق اور صحیح طریق یہی ہوگا کہ اسے مادی قواعد سے حل کرنے کی بجائے صفاتالہیہ سے حل کیا جائے تا کہ غلطی کے امکان سے حفاظت حاصل ہو جائے اور یہی طریق حضرت مسیحموعود علیہ السلام نے اختیار کیاہے-
میں سمجھتا ہوں کہ وقت کا غلط مفہوم جو اس وقت تک دنیا میں قائم ہے وہ بھی اس مسئلہ کے سمجھنے میں روک ہے اور کچھ بھی تعجب نہیں کہ آئنسٹائن ۱۰~}~کی تھیوری )فلسفہ نسبت( ترقی پاتے پاتے اس مسئلہ کو زیادہ قابل فہم بنا دے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو یہ تحریر فرماتے ہیں کہ دوروحدت مقدم ہے اور یہ اوپر کے بیان کے مخالف نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ آئندہ کیلئے بھی دوروحدت کی خبر دیتے ہیں- مگر باوجود اس کے آپ ارواح کے لئے غیر مجذوذ انعام تسلیم فرماتے ہیں- اور آریوں کے اس عقیدہ کو رد فرماتے ہیں کہ اربوں سال کے بعد ارواح پھر مکتی خانہ سے نکال دی جائیں گی- پس معلوم ہوا کہ آپ کے نزدیک آئندہ کسی اور وحدت کا آنا اور اس کے ساتھ ارواح کا فنا سے محفوظ رہنا دوروحدت کے خلاف نہیں- اصل بات یہ ہے کہ دوروحدت کا اصل مفہوم لوگوں نے نہیں سمجھا- مرنے کے بعد کی حالت دوروحدت ہی ہے کیونکہ اس وقت اپنا عمل نہیں ہوتا بلکہ انسان خدا کے تصرف کے ماتحت چلتا ہے- اس کا اپنا کوئی ارادہ نہیں ہوتا- مرنے کے بعد انسان مشین کی طرح ہوتا ہے- دارالعمل )یعنی بالارادہ عمل( اس دنیا میں ختم ہو جاتا ہے اور یہی حالت مخلوق کی نسبت سے دوروحدت کے منافی ہے-
)۶( حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کی بعثت سے پہلے اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق ایک اور بحث بھی پیدا ہو رہی تھی اور وہ یہ کہ اس کی قدرت کے مفہوم کو غلط سمجھا جا رہا تھا- بعض لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ خدا قادر ہے اس لئے وہ جھوٹ بھی بول سکتا ہے یا فنا بھی ہو سکتا ہے- بعض کہتے کہ نہیں اس کی صفات اسی قدر ہیں جو اس نے بیان کی ہیں اور وہ جھوٹ نہیں بول سکتا- حضرتمسیح موعود علیہ السلام نے اس جھگڑا کا بھی فیصلہ کر دیا- اور فرمایا کہ خداتعالیٰ کے قدیر ہونے کی صفت کو اس کی دوسری صفات کے مقابلہ پر رکھو اور پھر اس کے متعلق غور کرو- جہاں یہ نظر آتا ہے کہ خدا قدیر ہے وہاں یہ بھی تو ہے کہ خدا کامل ہے اور فنا کمال کے خلاف ہے- دیکھو اگر کوئی کہے کہ میں بڑا پہلوان ہوں` بڑا طاقتور ہوں تو کیا اسے یہ کہا جائے گا کہ تمہاری طاقت ہم تب تسلیم کریں گے جب تم زہر کھا کر مر جائو- یہ اس کی طاقت کی علامت نہیں بلکہ الٹ ہے- پس خداتعالیٰ کے کامل ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اس میں نقائص اور کمزوریاں بھی ہوں- دراصل ان لوگوں نے قدرت کے معنے نہیں سمجھے- کیا اگر کوئی کہے کہ میں بہت طاقتور ہوں تو اسے کہا جائے گا کہ اگر طاقتور ہو تو نجاست کھا لو- یہ طاقت کی علامت نہیں بلکہ یہ کمزوری ہے اور کمزوری خداتعالیٰ میں پیدا نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ کامل ہستی ہے-
)۷( ایک ساتواں گروہ تھا- جس کا یہ عقیدہ تھا کہ خدا قضا ئو قدر جاری کرنے کے بعد خالی ہاتھ ہو بیٹھا ہے- اس لئے کسی کی دعا نہیں سن سکتا- ان کے متعلق حضرت مسیحموعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا- بے شک خدا تعالیٰ نے قضا و قدر جاری کی ہے مگر ان میں سے ایک قضاء یہ بھی ہے کہ جب بندے دعائیں مانگیں تو ان کی دعا سنوں گا- یہ کتنا چھوٹا لیکن کیسا تسلیبخش جواب ہے- فرماتے ہیں بے شک خدا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بندہ بدپرہیزی کرے تو بیمار ہو مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ اگر وہ گڑ گڑا کر دعا مانگے تو اچھا بھی کر دیا جائے- پس باوجود قضا و قدر جاری ہونے کے خدا کا عمل تصرف بھی جاری ہے-
اس جواب کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عملی طور پر بھی دعا کی قبولیت کے ثبوت پیش فرمائے-
)۸( خدا تعالیٰ کی صفات کے اجرا کے متعلق بھی اختلاف پیدا ہو گیا تھا- آپ نے اسے بھی دور کیا اور بتایا کہ خدا تعالیٰ کی ہر ایک صفت کا ایک دائرہ ہے ایک ہی وقت میں وہ رحیم ہے اور اسی وقت میں شدید العقاببھی ہے ایک شخص جسے پھانسی کی سزا ملی وہ چونکہ مجرم ہے اس لئے اسے خدا تعالیٰ کی صفت شدید العقاب کے ماتحت سزا ملی- مگر جہاں اس کی جان نکل رہی تھی وہاں ایسی تائیدیں جو موت سے تعلق نہیں رکھتیں وہ بھی اس کے لئے جاری تھیں انسانوں کی یہ حالت نہیں ہو سکتی کہ ایک ہی وقت میں ان کی ساری صفات ظاہر ہوں یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان رحم بھی کر رہا ہو اور اسی وقت ویسے ہی زور سے عذاب کا اظہار بھی کر رہا ہو- مگر خدا تعالیٰ چونکہ کامل ہے اس لئے ایک ہی وقت اس کی ساری صفات یکساں زور سے ظاہر ہو سکتی ہیں- اگر ایسا نہ ہو تو دنیا تباہ ہو جائے- اگر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہو رہا ہو اور ساتھ رحم نہ ہو تو دنیا تباہ ہو جائے- اسی طرح اگر خدا تعالیٰ کا صرف رحم جاری ہو اور غضب بند ہو جائے تو مجرم چھوٹ جائیں اور اس طرح بھی تباہی برپا ہو جائے- پس خدا تعالیٰ کی ساری صفات ایک ہی وقت
‏a10.2
میں اپنے دائرہ کے اندر کام کر رہی ہوتی ہیں-
)۹( نواں غلط عقیدہ خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق یہ پھیل رہا تھا کہ کچھ لوگ خیال کر رہے تھے کہ سب کچھ خدا ہی خدا ہے- آپ کے بتائے ہوئے اصل سے اس عقیدہ کا بھی رد ہو گیا- کیونکہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت مالکیت بھی ہے اور جب تک اور مخلوق نہ ہو` خدا مالک نہیں ہو سکتا- اس عقیدہ کے خلاف کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو یہ کہتے تھے کہ خدا عرش پر بیٹھا ہوا ہے ان کا رد بھی اس اصل سے ہو گیا- کیونکہ خدا تعالیٰ کی دوسری صفات بتا رہی ہیں کہ خداتعالیٰ محدود نہیں- عرش کے متعلق آپ نے فرمایا کہ عرش کرسی وغیرہ کے الفاظ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مادی اشیاء ہیں- اور عرش کوئی سونے یا چاندی سے بنا ہوا تخت نہیں ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے- بلکہ اس کے معنی خدا تعالیٰ کی حکومت کی صفات ہیں اور ان کے ظہور کے متعلق کہا جاتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ تخت پر بیٹھا ہے-
)۱۰(ان سب باتوں کے علاوہ ایک اہم کام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خداتعالیٰ کی ذات کے متعلق کیا یہ تھا کہ آپ نے لوگوں کی توجہ خداتعالیٰ کی طرف پھیری- اور ان میں خدا تعالیٰ کی سچی محبت پیدا کر دی- لاکھوں انسانوں کو آپ نے خدا تعالیٰ کا مقرب بنا دیا اور وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک آپ کو نہیں مانا ان کی بھی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف اس رنگ میں ہو رہی ہے جو آپ کے دعویٰ سے پہلے نہ تھی-
خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق اور بھی بہت سی غلط فہمیاں تھیں جو آپ نے تفصیلا یا اجمالاً دور کیں مگر مثال کے طور پر مذکورہ بالا امور کو بیان کیا گیا ہے-
حضرت مسیح موعودؑ کا چوتھا کام
چوتھا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ آپ نے کلام الہی کی حقیقت کو ظاہر کیا ہے اور اس کے متعلق جو مختلف خیالات لوگوں میں پھیلے ہوئے تھے ان کی اصلاح کی ہے-
اول الہام
الہام کے متعلق اور خطرناک خیالات لوگوں میں پھیلے ہوئے تھے- لوگ سمجھتے تھے- )الف(الہام یا آسمانی ہوتا ہے یا شیطانی- )ب(پھر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ الہام صرف نبیوں کو ہو سکتا ہے- )ج(بعض لوگ سمجھتے تھے کہ الہام لفظوں میں نہیں ہو سکتا- دل کی روشنی سے حاصل کردہ علوم کا نام ہی الہام ہے- )د(بعض لوگ اس وسوسہ کا شکار ہو رہے تھے کہ الہام اور خواب کیفیت دماغی کا نتیجہ ہوتے ہیں- )ھ(بعض لوگ اس خیال میں مبتلا تھے کہ لفظی الہام کا عقیدہ رکھنا انسان کی ذہنی ترقی کے مانع ہے- )و(عام طور پر لوگ اس غلطی میں مبتلا تھے کہ اب الہام کا سلسلہ بند ہو چکا ہے- یہ اور اس قسم کے اور وساوس الہام کے متعلق لوگوں میں پائے جاتے تھے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب کی اصلاح کی ہے-
یہ جو خیال تھا کہ الہام صرف آسمانی یا شیطانی ہوتا ہے اس سے کئی خطرناک نتائج پیدا ہو رہے تھے- بعض مدعیوں کو جب لوگ راستباز سمجھتے تو ان کی وحی کو بھی آسمانی سمجھ لیتے- بعض خوابیں جب لوگوں کی پوری نہ ہوتیں تو وہ الہام اور خواب کی حقیقت سے ہی منکر ہو جاتے وغیرہ وغیرہ- آپ نے اس مسئلہ کو حل کر کے دنیا کو بہت سے ابتلائوں سے بچا لیا- آپ کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ الہام کی دو بڑی قسمیں ہیں-
)۱( سچے الہام )۲(جھوٹے الہام
جو سچے الہام ہوتے ہیں- یعنی جن میں ایک صحیح واقعہ یا صداقت کی خبر دی ہوئی ہوتی ہے- آگے ان کی بھی کئی قسمیں ہیں- )الف(آسمانی الہام )ب(شیطانی الہام )ج(نفسانیالہام- میں نے سچے الہام میں ان دونوں قسموں کو بھی شامل کیا ہے اور اس کی یہ وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے کلام سے ثابت ہوتا ہے اور قرآن کریم اور تجربہ اس کا شاہد ہے کہ کبھی شیطانی اور نفسانی الہام بھی سچا ہوتا ہے اور جب کوئی ایسا الہام سچا ہو جائے تو گو ہم اقرار کریں گے کہ وہ پورا ہو گیا مگر اسے آسمانی الہام پھر بھی نہیں کہیں گے-
ان الہامات کی بھی جو آسمانی ہوتے ہیں آپ نے کئی قسمیں بتائی ہیں-
)۱(انبیاء کی وحی جو یقینی وحی کہلاتی ہے-
)۲(دوسری اولیاء کی مصفی وحی یہ وحی بھی غلط نہیں ہوتی لیکن یقینی نہیں کہلاتی کیونکہ وہ اپنے اندر ایسے نشانات نہیں رکھتی جو دنیا پر حجت ہوں اور جس کا انکار گناہ ہو- وہ بیشک مصفی ہوتی ہے مگر اپنے ساتھ ایسے زبردست ثبوت نہیں رکھتی کہ لوگوں کے لئے اسے حجت قرار دیا جائے-
)۳(تیسری سالکوں کی وحی جسے اصطفائی وحی کہہ سکتے ہیں یعنی وہ ان کو بزرگی دینے کیلئے ہوتی ہے- مگر اس قدر صاف نہیں ہوتی جس قدر کہ اولیاء اللہ کی-
)۴(سالکوں اور مومنوں کی ابتلائی وحی- یہ وحی مومنوں کے تجربہ` آزمائش اور امتحان لینے اور ان کی ہمت ظاہر کرنے کیلئے ہوتی ہے-
)۵(پانچویں جبیزی وحی- یہ وحی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام سے معلوم ہوتی ہے- میں اس الہام کے الفاظ کے مطابق اس کا نام جبیزی وحی رکھتا ہوں- اس کی تفصیل یہ ہے کہ جس طرح کامل مومن کا مقصد خدا تعالیٰ کے قرب کا حصول ہوتا ہے وہ اس قرب کے حصول کے ذریعہ کی تعیین نہیں کرتا- بعض ناقص لوگ اس جدوجہد میں ایک نفسانیخواہش کو بھی ساتھ رکھتے ہیں کہ یہ قرب اس طرح حاصل ہو کہ ہمیں الہام ہو جائے اور الہام کی خواہش بھی قرب کے لئے نہیں بلکہ بڑائی اور درجہ کے حصول کے لئے ہوتی ہے- ایسی صورت میں ان لوگوں کی بڑھی ہوئی خواہش کو دیکھ کر کبھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے انہیں بھی الہام کر دیتا ہے- جس طرح کھانا کھاتے وقت کوئی کتا آ جاتا ہے تو اس کے آگے بھی آدمی روٹی کا ٹکڑا یا بوٹی پھینک دیتا ہے- اس قسم کا الہام درحقیقت ایک سخت آزمائش ہوتا ہے جو بسا اوقات ٹھوکر کا موجب ہوتا ہے- جبیز چونکہ سوکھے ٹکڑے کو کہتے ہیں اس لئے اسی مناسبت سے اس وحی کا نام جبیزی وحی رکھا گیا ہے-
)۶(چھٹی قسم وحی کی وہ ہے جو ایسے غیر مومن کو ہوتی ہے جو اپنی فطرت میں سعادت رکھتا ہو- اس کا نام میں نے ارشادی وحی رکھا ہے یعنی ہدایت کی طرف راہنمائی کرنے والی-
)۷(ساتویں قسم وحی کی طفیلی وحی ہے- کہ کفار اور بدکاروں کو ارشاد کے طور پر نہیں بلکہ ان پر حجت تمام کرنے کیلئے ہوتی ہے- اس کا نام میں نے طفیلی وحی رکھا ہے کیونکہ یہ اس لئے ہوتی ہے کہ انبیاء کی صداقت کے لئے ایک ثبوت ہو-
یہ سب آسمانی وحی کی قسمیں ہیں-
)ب(شیطانی الہام- جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں بعض شیطانی الہام بھی سچے ہوتے ہیں- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-الا من خطف الخطفہ فاتبعہ شھاب ثاقب ۱۱~}~یعنی آسمانی امور جب دنیا میں ظاہر ہونے لگتے ہیں تو شیطان بھی ان میں سے کچھ اچک کر اپنے ساتھیوں کو پہنچا دیتا ہے- اور گو اس کے بطلان کا سامان اللہ تعالیٰ پیدا کر دیتا ہے لیکن ارواح خبیثہ سے تعلق رکھنے والوں کی بعض بعض باتیں بھی کبھی سچی نکل آتی ہیں- حضرت مسیحموعودؑ فرماتے ہیں کہ ایسی خوابیں یا نظارے اگر اتفاقاً کبھی سچے بھی نکل آئیں تو ان میں ہیبت اور شوکت نہیں ہوتی اور نامکمل سے اور مبہم سے ہوتے ہیں-
)ج(نفسانی الہام- یعنی ایسے الہام یا خواب جو دماغی کیفیات کے نتیجے میں نظر آئیں- یہ الہام یا خواب بھی کبھی سچے ہوتے ہیں- جس طرح انسانی دماغ جاگتے ہوئے کوئی بات قیاس کر کے آئندہ کے متعلق نکال لیتا ہے اور وہ سچی ہو جاتی ہے- اسی طرح کبھی سوتے ہوئے بھی ایسے اندازہ لگا کر پیش کر دیتا ہے اور وہ کبھی سچے ہو جاتے ہیں- اور ان کے سچے ہو جانے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں- ایسی خوابیں کئی قسم کی ہوتی ہیں- )۱(امور طبعیہ سے تعلق رکھنے والی- مثلاً بیماریوں کے متعلق- بیماریاں یکدم نہیں پیدا ہوتیں- بلکہ ان کے ظاہر ہونے سے کئی گھنٹے یا کئی دن یا کئی ہفتے پہلے جسم میں تغیرات شروع ہو جاتے ہیں- ایسے تغیرات کو بعض دفعہ انسانی دماغ محسوس کر کے انسان کی آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے اور وہ بات پوری بھی ہو جاتی ہے کیونکہ وہ ایک طبعی اندازہ ہوتا ہے- بیماریوں کے ایسے تغیرات مختلف عرصوں میں واقع ہوتے ہیں- مثلاً ہلکے کتے کا زہر بارہ دن سے دو ماہ تک کہتے ہیں تکمیل تک پہنچتا ہے- پس ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کو ہلکے کتے نے کاٹا ہو- اور زہر کے اپنے اثر کو مکمل کرنے کے دوران میں اس کا دماغ اس کی کیفیت کو محسوس کر کے ایک نظارہ کی شکل میں اسے دکھا دے- پس یہ خواب یا الہام سچا ہوگا- مگر نفس انسانی کا ایک فعل ہوگا نہ کہ آسمانی-
)۲(دوسری قسم اس قسم کی وحی کی عقلی وحی ہوتی ہے- جیسے کوئی شخص کسی امر کو سوچتے سوچتے سو جائے اور اس کا دماغ اس وقت بھی اس کے متعلق غور کرتا رہے )دماغ کا ایک حصہ انسان کی نیند کے وقت بھی کام کرتا رہتا ہے( اور جب وہ کسی نتیجہ پر پہنچے تو ایک نظارہ خواب کی حالت میں نظر آ جائے جس میں وہ نتائج جو دماغ کے حصہ متاثرہ نے غور کرنے کے بعد نکالے تھے دکھا دیئے گئے ہوں- بسا اوقات یہ نتائج دوسرے عقلی نتائج کی طرح صحیح ہوں گے- لیکن باوجود ان کے صحیح ہونے کے اس خواب کو آسمانی خواب نہیں کہیں گے بلکہ نفسانی خواب کہیں گے- کیونکہ اس کا منبع انسانی دماغ ہے نہ کہ خدا تعالیٰ کا کوئی خاص امر-
اوپر کی دونوں قسمیں ایک رنگ میں آسمانی بھی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ قوانین کے ماتحت انسان کی ہدایت اور اس کی راہنمائی کا موجب ہوتی ہیں مگر تقدیر عام کے ماتحت- ان کا ظہور کسی خاص حکم کے ذریعہ سے نہیں ہوتا- مگر ایک قسم نفسانی خواہشات کی اور بھی ہے جو خالص نفسانی ہوتی ہے مگر پھر بھی کبھی سچی ہو جاتی ہے اور وہ پراگندہ خواب ہے-
)۳(یہ قسم دماغ کی پراگندگی کے نتیجہ میں آتی ہے- مگر چونکہ مختلف اندازے لگانے والے کا کوئی اندازہ صحیح بھی ہو جاتا ہے- اسی طرح پراگندہ خیالات میں سے کبھی کوئی اتفاقاً صحیح بھی ہو جاتا ہے مگر اس کی صحت نہ خدا کے حکم سے تعلق رکھتی ہے نہ کسی طبعی قانون سے بلکہ اتفاق پر مبنی ہوتی ہے-
اب میں جھوٹے الہام کے متعلق بیان کرتا ہوں اس کی بھی کئی قسمیں ہیں-
)۱(شیطانی الہام- شیطان چونکہ قیاس سے کام لیتا ہے اس لئے اس کا قیاس اکثر اوقات غلط نکلتا ہے- پھر وہ جھوٹ بھی بولتا ہے-
)۲(دوسری قسم نفسانی خواب- اس کی آگے پھر کئی قسمیں ہیں-
)الف( وہ خواب جو دماغ کی خرابی کا نتیجہ ہو )ب(وہ خواب جو خواہش اور آرزو کے نتیجے میں پیدا ہو جائے- جیسے ہمارے ملک میں کہتے ہیں کہ بلی کو چھیچھڑوں کی خوابیں- اس خواب میں اور جبیزی خواب میں بظاہر مناسبت ہے مگر ایک فرق بھی ہے- اور وہ یہ کہ جبیزی خواب تو وہ ہے جو خدا تعالیٰ بندہ کی خواہش کو پوری کرنے کے لئے نازل کرتا ہے مگر اس خواب کو خدا تعالیٰ نازل نہیں کرتا بلکہ انسان کی خواہش سے متاثر ہو کر نفس خود پیدا کر لیتا ہے-
)۲(دوسری غلطی لوگوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ الہام یا وحی صرف نبی کو ہو سکتا ہے یہ خیال نہایت غلط اور امت میں پست خیالی پیدا کرنے کا موجب اور قرب الہی کے حقیقی دروازوں کو بند کرنے والا تھا- اس کے نتیجہ میں صرف انسانی تدابیر پر خوش ہو جاتے تھے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جو ایک ہی ذریعہ اس کی خوشنودی کا پتہ لگانے کا ہے بھلا بیٹھے تھے- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خیال کی بھی اصلاح کی اور فرمایا کہ الہام ہر شخص کو ہو سکتا ہے- ہاں الہام کے بھی درجے ہوتے ہیں- نبی کو نبیوں والا الہام ہوتا ہے` مومن کو مومنوں والا اور کافر کو کافروں والا- اس حقیقت کو کھول کر آپ نے یہ فتنہ دور فرما دیا کہ غیر مومن کو جب کبھی کوئی سچا الہام ہو جائے تو بعض دفعہ وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ بھی خدا کا مقرب ہے- آپ نے فرمایا- ایسے لوگوں کو سچا الہام ہو جاتا ہے مگر نبیوں اور نیک لوگوں کے الہام اور کفار کے الہام میں یہ فرق ہے کہ نبیوں اور اولیاء کے الہام اپنے ساتھ قدرت رکھتے ہیں- اور یہ بات کفار کے الہاموں کو حاصل نہیں ہوتی-
تیسری غلطی یہ لگی ہوئی تھی کہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ الہام لفظوں میں نہیں ہوتا بلکہ دل کی روشنی کا نام ہی الہام ہے- آپ نے ان لوگوں کے خیال کی بھی اصلاح فرمائی- نیچریوں` بہائیوں اور اکثر عیسائیوں کا یہی خیال ہے- مسلمان تعلیم یافتہ بھی کثرت سے اسی وہم میں مبتلا ہیں- آپ نے ایسے لوگوں کے سامنے اول اپنا مشاہدہ پیش کیا- اور فرمایا- میں الہام کے الفاظ سنتا ہوں اس لئے میں اس خیال کی تردید کرتا ہوں کہ الہام الفاظ میں نہیں ہوتا- دوسرا جواب آپ نے یہ دیا کہ الہام اور خواب انسانی فطرت میں داخل ہے- ہر انسان میں یہ خواہش ہے کہ خدا سے ملے- اور اس فطرت کی خواہش کا جواب بھی ضرور ہونا چاہئے- خالی دل کا خیال اس جوش محبت کا جواب نہیں ہو سکتا جو انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی ملاقات کے متعلق رکھا گیا ہے- اس کا جواب صرف الہام اور خواب ہی ہو سکتے ہیں- اسی طرح آپ نے فرمایا کہ خواب اور الہام صرف نبیوں سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ دنیا کے اکثر افراد اس سے کم و بیش حصہ پاتے ہیں- حتی کہ جو بدکار سے بدکار وجود ہیں اور جن کا پیشہ ہی بدکاری ہوتا ہے وہ بھی اس سے کبھی حصہ پا لیتے ہیں- پس اس چیز کا انکار کس طرح ہو سکتا ہے جس پر اکثر انسان شاہد ہیں اور جو چیز تھوڑی یا بہت دنیا کے اکثر افراد کو مل جاتی ہے اس کی نسبت کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ باقی دنیا کو تو اس میں حصہ ملتا ہے مگر نبیوں کو ہی اس سے حصہ نہیں مل سکتا- حالانکہ اس چیز کی پیدائش کی غرض ہی نبوت کی تکمیل ہے جب لاکھوں کافر بھی گواہی دیتے ہیں کہ ان کو الہام ہوتے ہیں یا خوابیں آتی ہیں تو الہام یا خواب کا ہونا ناممکن نہ ہوا- اور جب ناممکن نہ ہوا تو نبیوں کے متعلق یہ کہنا کہ ان کو الہام نہیں ہوتا بلکہ دل کے خیالات کا نام وہ الہام رکھ لیتے تھے حد درجہ کی نادانی ہے-
پھر آپ نے فرمایا کہ الہام ایسی زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جو ملہم نہیں جانتا- اگر الہام محض خیال ہی ہوتا تو اسی زبان میں ہوتا جسے ملہم جانتا ہے` اس زبان میں نہ ہوتا جسے وہ نہیں جانتا- لیکن ملہموں کو بعض اوقات ان زبانوں میں بھی الہام ہوتے ہیں جنہیں وہ نہیں جانتے- پس معلوم ہوا کہ الہام الفاظ میں ہی ہوتا ہے نہ کہ خیالات کا نام الہام ہے-
لفظی الہام پر عام طور پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ کیا خدا کی بھی زبان ہے اور ہونٹ ہیں کہ وہ الفاظ میں کلام کرتا ہے؟ اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کو بولنے کے لئے زبان کی حاجت نہیں ہے- کیونکہ وہلیس کمثلہ شیئہے- جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے دنیا بغیر ہاتھوں کے پیدا کی ہے` انکے لئے اس بات کا ماننا کیا مشکل ہے کہ وہ بغیر زبان کے بولنے کی بھی قدرت رکھتا ہے-
ایک جواب آپ نے یہ بھی دیا کہ بغیر الہام کے جو پرشوکت الفاظ میں ہو` اس بات کا یقین نہیں آ سکتا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو کوئی حکم دیا گیا ہے- جب باہر سے آئے تب ہی پتہ لگ سکتا ہے کہ کسی اور طاقت نے یہ الفاظ بھیجے ہیں-
)۴(چوتھی غلطی بعض لوگوں کو الہام کے متعلق یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ الہام کیفیت دماغی کا نتیجہ ہوتا ہے- اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا- بیشک ایسا بھی ہوتا ہے مگر یہ کہنا کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے اور کبھی باہر سے الہام نہیں ہوتا- غلط ہے- کیونکہ نبیوں اور مومنوں کے بعض الہام ایسے علوم پر مشتمل ہوتے ہیں جنہیں انسانی دماغ دریافت نہیں کر سکتا- مثلاً ان میں آئندہ زمانہ کے متعلق بڑی بڑی خبریں ہوتی ہیں- دوسرا جواب اس کا آپ نے یہ دیا کہ اگر کیفیت دماغی سے یہ مراد ہے کہ الہام بگڑے ہوئے دماغ کا نتیجہ ہوتا ہے- تو پھر کیا وجہ ہے کہ الہام پانے والے لوگ بہترین دماغ رکھتے ہیں ان کے دماغوں کا بہترین ہونا اس امر کا ثبوت ہے کہ الہام بگڑے ہوئے دماغ کا نتیجہ نہیں ہوتا-
مجھے تعجب ہے کہ جو لوگ الہام کو دماغی بگاڑ کا نتیجہ سمجھتے ہیں وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ انسانی دماغ بڑھاپے میں کمزور ہو جاتا ہے- لیکن نبیوں پر بڑھاپے کا کبھی کوئی اثر نہیں ہوا- بلکہ ان کے الہامات میں زیادہ شوکت پیدا ہوتی جاتی ہے-
)۵( پانچواں شبہ الہام کے متعلق یہ کیا جاتا ہے کہ الہام کا وجود انسان کی ذہنی اور عقلیترقی کے مخالف ہے- کیونکہ جب الہام سے ایک امر دریافت ہو گیا تو پھر لوگوں کو سوچنے اور غور کرنے کی کیا ضرورت ہے اور کیا موقع ہے؟
اس غلطی کو آپ نے لوگوں کی توجہ اس امر کی طرف پھیر کر دور کیا کہ الہام ذہنی ترقی کے مخالف نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ نے اسے ذہنی ترقی کی خاطر پیدا کیا ہے- کارخانہ عالم کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روحانی اور جسمانی دو سلسلے اس دنیا میں متوازی اور مشابہ چل رہے ہیں- جسمانی سلسلہ میں انسانی ہدایت اور راہنمائی کے لئے عقل کے ساتھ تجربہ کو لگایا گیا ہے تا کہ عقل کی کمزوری کو پورا کر دے اور انسان غلطی کے احتمال سے بچ جائے- روحانیسلسلہ میں اس کی جگہ الہام کو عقل کے ساتھ لگایا گیا ہے تا کہ عقل غلطی کر کے انسان کو تباہی کے گڑھے میں نہ گرا دے- خالی عقل جب جسمانی امور میں کافی نہیں ہو سکتی اور تجربہ کی مدد کی محتاج ہے تو پھر روحانی دنیا میں خالی عقل پر بھروسہ کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے اور کس طرح قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جسمانی سلسلہ کے لئے جو ادنیٰ تھا عقل کی خامیوں کو دور کرنے کیلئے تجربہ کو پیدا کیا اور روحانی سلسلہ میں جو اعلیٰ ہے عقل کی مدد کے لئے کوئی وجود نہ پیدا کیا؟
اگر کوئی کہے کہ جسمانی سلسلہ کی طرح روحانی سلسلہ میں بھی عقل کی امداد کے لئے تجربہ کو ہی کیوں نہ مقرر کیا گیا- تو اس کا جواب یہ ہے کہ تجربہ کئی ٹھوکروں کے بعد اصل نتیجہ پر پہنچاتا ہے- دنیا کی زندگی چونکہ عارضی ہے اس لئے اس میں تجربہ کرتے ہوئے ٹھوکریں کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے- لیکن اگر آئندہ کی زندگی کے متعلق جو ہمیشہ کی زندگی ہے ٹھوکریں کھانے کے لئے انسان کو چھوڑ دیا جاتا تو لاکھوں آدمی جو تجربہ سے پہلے پہلے مر جاتے حق سے محروم رہ جاتے اور سخت نقصان اٹھاتے اور اس دائمی زندگی کی ترقیات کو حاصل نہ کر سکتے- جس کے لئے وہ پیدا کئے گئے ہیں- علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تجربہ شروع کرنے کیلئے بھی پہلے ایک بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے- روحانی امور چونکہ غیر محسوس ہیں اور مخفی ہیں- اس لئے ان کے متعلق تجربہ مادی امور کی نسبت زیادہ مشکلات رکھتا ہے- چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب کہ مادہ کے متعلق سائنس نے انتہا درجہ کی ترقی کی ہے- دماغ کے ان افعال کے متعلق جو عقل اور ارادہ سے تعلق رکھتے ہیں- حالانکہ وہ روح کے برابر لطیف نہیں بہت ہی کم تحقیق ہوئی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ دنیا کی پیدائش پر اس قدر عرصہ گذر جانے کے باوجود اب تک تحقیق شروع ہی نہیں ہوئی-
)۶(چھٹا وسوسہ جس میں لوگ مبتلا تھے- یہ تھا کہ الہام کا سلسلہ اب بالکل بند ہو چکا ہے- یہ عقیدہ مسلمانوں کا ہی نہ تھا بلکہ دوسرے مذاہب کا بھی یہی عقیدہ تھا- یہودی` مسیحی` ہندو سب پہلے زمانہ میں الہام کے قائل ہیں لیکن اب اس کے دروازہ کو بند بتاتے ہیں- حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس خطرناک عقیدہ کی غلطی کو بھی دنیا پر ظاہر کیا اور بتایا کہ الہام تو خداتعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لئے ایک انعام ہے اور بندہ اور خدا تعالیٰ میں محبت کا نہ ٹوٹنے والا تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے اور یقین اور وثوق تک پہنچانے کا ذریعہ ہے اس کا سلسلہ بند کر کے مذہب اور روحانیت کا باقی کیا رہ جاتا ہے- مسلمانوں کو آپ نے توجہ دلائی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اس لئے مبعوث ہوئے تھے کہ دنیا پر خدا تعالیٰ کی رحمت کی بارش اور بھی شان سے نازل ہو- پس آپ کے آنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا یہ انعام بند نہیں ہوا- بلکہ اس میں اور بھی زیادہ ترقی ہو گئی-
دوسرا جواب آپ نے یہ دیا کہ الہام صرف شریعت نہیں ہوتا بلکہ اس کی اور بھی اغراض ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ بندوں کو خدا تعالیٰ پر یقین کامل کرائے- دیکھو جس سے خدا تعالیٰ باتیں کرے` اس کے مقابلہ میں وہ شخص جو صرف یہ کہے کہ خدا ہے ایمانی لحاظ سے کیا حقیقت رکھ سکتا ہے- پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گو شریعت کو مکمل کر گئے ہیں- مگر مسلمانوں کو یقین اور اطمینان قلب کے مرتبہ تک پہنچانے کیلئے پھر بھی الہام کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے-
تیسرا جواب آپ نے یہ دیا کہ خدا تعالیٰ الہام کے ذریعہ معارف پر آگاہ کرتا ہے وہ روحانی علوم جو سینکڑوں سالوں کی محنت اور کوشش سے بھی معلوم نہ ہو سکیں` خدا تعالیٰ الہام کے ذریعہ ایک سیکنڈ میں بتا دیتا ہے- پس اس تعلیم کے سہل تر رستہ کو امت محمدیہﷺ~ کے لئے کس طرح بند کیا جا سکتا ہے- آپ نے اپنے وجود سے ثابت کیا کہ الہام جس قدر جلد اور جس قدر مکمل طور پر معارف روحانیہ کو کھولتا ہے اس کی مثال انسانی جدوجہد میں نہیں پائی جاتی- چنانچہ جو باتیں علماء تیرہ سو سال کے قریب عرصہ میں بحثوں سے حاصل نہ کر سکے` آپ نے چند سال میں الہام کی مدد سے حل کر کے رکھ دیں- اور ان کی مدد سے احمدی علماء دنیا بھر کے مذاہب پر اسلام کو غالب کر رہے ہیں-
چوتھا جواب آپ نے یہ دیا کہ الہام کی ایک غرض اظہار محبت بھی ہے جب تک خداتعالیٰ اپنے خاص بندوں پر الہام نہ نازل کرے` اس وقت تک کس طرح ان کی تڑپ دور ہو سکتی ہے-
غرض آپ نے ثابت کر دیا کہ الہام کا سلسلہ جاری ہے- کیونکہ اگر الہام کو بند مانیں تو خدا تعالیٰ کی کئی صفات میں تعطل ماننا پڑے گا- اس جگہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ خدا کی صفات میں عارضی تعطل تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی مانا ہے- چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میں خدا تعالیٰ اپنی ایک صفت کو بند کر دیتا ہے تاکہ دوسری صفت جاری ہو- اگر اس طرح ہو سکتا ہے تو یہ ماننے میں کیا حرج ہے کہ الہام کو خدا نے قیامت تک بند کر دیا؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تعطل تب مانا ہے جب دو صفات آپس میں ٹکرائیں- اور جو صفات نہ ٹکرائیں ان کے متعلق تعطل نہیں مانا- چونکہ الہام کے جاری ہونے میں کسی صفت سے ٹکرائو نہیں اس لئے اس کے متعلق تعطل ماننا ناواجب ہے-
اگر کوئی کہے کہ الہام کا سلسلہ جاری مانا جائے تو بھی تعطل ہوتا ہے کیونکہ ایک مجدد آتا ہے- پھر اس کے ایک سو سال بعد دوسرا آتا ہے اس طرح کچھ عرصہ کیلئے الہام میں تعطل تم بھی مانتے ہو- اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک اس قسم کا کوئی تعطل واقع نہیں ہوتا- کیونکہ آپ نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ الہام صرف نبی یا مجدد کو ہوتا ہے بلکہ آپ نے یہ فرمایا ہے کہ الہام مومنوں کو بھی ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ کافروں اور بدکاروں کو بھی- پس چونکہ زمین گول ہے اور ہر وقت دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں لوگ سو رہے ہوتے ہیں- پس بالکل قرین قیاس ہے کہ ہر سیکنڈ میں سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں کو الہام ہو رہا ہوتا ہے اور ایک سیکنڈ بھی نزول الہام میں تعطل نہیں ہوتا- میں ذاتی طور پر اس شخص کو انعام دینے کو تیار ہوں جو یہ ثابت کر دے کہ کوئی ایک دن بھی ایسا گذرا ہو جس میں کسی کو خواب نہ آئی ہو یا الہام نہ ہوا ہو- اگر یہ ثابت ہو جائے تب بے شک تعطل کو تسلیم کیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں-
آپ نے آیات قرآنیہ سے بھی ثابت کیا ہے کہ الہام کے جاری رہنے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو جھوٹا نہیں کیا کرتا-
اگر کوئی کہے خواب تو ہر ایک انسان دیکھ سکتا ہے اس کی بحث نہیں بحث الہام کے متعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل سوال یہ ہے کہ اب بھی لوگوں کی ہدایت کیلئے خدا تعالیٰ کوئی سامان پیدا کرتا ہے یا نہیں- اگر کرتا ہے تو یہ کہنا بیہودہ بات ہے کہ وہ آنکھوں کے ذریعہ سے لکھے ہوئے لفظوں یا تصویری زبان میں تو اپنے منشاء کو ظاہر کر سکتا ہے مگر کانوں کے ذریعہ سے آواز پیدا کر کے جسے الہام کہتے ہیں اپنے منشاء کو ظاہر نہیں کرتا- جب کہ اپنے آقا کی مرضی کو معلوم کرنا ایک فطری تقاضا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ اسے پورا نہ کرے اور الہام کا دروازہ بند کرنا ایک سخت ظلم ہے جو خدا تعالیٰ سے بعید ہے-
قرآن کریم کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ
کلام الہی میں سے خاص طور پر قرآن کریم کے متعلق بہت سی غلطیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو بھی دور کیا ہے مثلاً )۱(ایک غلطی بعض مسلمانوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ قرآن کریم کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اس میں تبدیلی ہو گئی ہے اور بعض حصے اس کے چھپنے سے رہ گئے ہیں- اس خیال کی بھی آپ نے تردید فرمائی اور بتایا کہ قرآن کریم مکمل کتاب ہے- انسان کی جتنی ضرورتیں مذہب سے تعلق رکھنے والی ہیں وہ سب اس میں بیان کر دی گئی ہیں اگر اس کے بعض پارے یا حصے غائب ہو گئے ہوتے تو اس کی تعلیم میں ضرور کوئی کمی ہونی چاہئے تھی- اور ترتیب مضمون خراب ہو جانی چاہئے تھی- مگر نہ اس کی تعلیم میں کوئی نقص ہے اور نہ ترتیب میں خرابی- جس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کا کوئی حصہ غائب نہیں ہوا-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں- قرآن نے دعویٰ کیا اور چیلنج دیا ہے کہ اس میں ساری اخلاقی اور روحانی ضروریات موجود ہیں- لیکن اگر اس کا کوئی حصہ غائب ہوا ہوتا تو ضرور تھا کہ بعض ضروری اخلاقی یا روحانی امور کے متعلق اس میں کوئی ارشاد نہ ملتا- لیکن ایسا نہیں ہے- اس میں ہر ضرورت روحانی کا علاج موجود ہے- اور اگر یہ سمجھا جائے کہ قرآن کریم کے ایک حصہ کے غائب ہو جانے کے باوجود اس کے مطالب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی- تو پھر تو جن لوگوں نے اس میں کمی کی ہے وہ حق بجانب تھے کہ انہوں نے ایسے لغو حصہ کو نکال دیا جس کی موجودگی نعوذ باللہ من ذلکقرآن کریم کے حسن میں کمی کر رہی تھی- اگر وہ موجود رہتا تو لوگ اعتراض کرتے کہ اس حصہ کا کیا فائدہ ہے اور اسے قرآن کریم میں کیوں رکھا گیا ہے- مجھے اس عقیدہ پر ایک واقعہ یاد آگیا- میں چھوٹا سا تھا کہ ایک دن آدھی رات کے وقت کچھ شور ہوا- اور لوگ جاگ پڑے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک آدمی کو بھیجا کہ جا کر دیکھو کیا بات ہے- وہ ہنستا ہوا واپس آیا اور بتایا کہ ایک دائی بچہ جنا کر واپس آرہی تھی کہ نانک فقیر اسے مل گیا- اور اس نے اس کو مارنا شروع کر دیا- اس نے چیخنا چلانا شروع کیا اور لوگ جمع ہو گئے- جب انہوں نے نانک سے پوچھا کہ تو اسے کیوں مار رہا ہے؟ تو اس نے کہا کہ یہ میرے سرین کاٹ کر لے آئی ہے اس لئے اسے مار رہا ہوں- لوگوں نے اسے کہا کہ تیرے سرین تو سلامت ہیں انہیں تو کسی نے نہیں کاٹا- تو حیران ہو کر کہنے لگا- اچھا- اور دائی کو چھوڑ کر چلا گیا- یہی حال ان لوگوں کا ہے جو قرآن کریم میں تغیر کے قائل ہیں- وہ غور نہیں کرتے کہ قرآن کریم آج بھی ایک مکمل کتاب ہے اگر اس کا کوئی حصہ غائب ہو گیا ہوتا تو اس کے کمال میں نقص آ جاتا-
غرض قرآن کریم کے مکمل ہونے کا ثبوت خود قرآن کریم ہے- اگر حضرت عثمانؓ یا اور کوئی صحابی اس کی ایک آیت بھی نکال دیتے تو اس میں کمی واقع ہو جاتی- لیکن تعجب ہے کہ باوجود اس بیان کے کہ اس سے دس پارے کم کر دیئے گئے اس میں کوئی نقص نظر نہیں آتا- اس صورت میں تو بڑے بڑے اہم مسائل ایسے ہونے چاہئیں تھے جن کے متعلق قرآن کریم میں کچھ ذکر نہ ہوتا- مگر قرآن کریم میں دین اور روحانیت سے تعلق رکھنے والی سب باتیں موجود ہیں-
)۲(دوسرا خیال مسلمانوں میں یہ پیدا ہو گیا تھا کہ قرآن کا ایک حصہ منسوخ ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا جواب نہایت لطیف پیرایہ میں دیا- اور وہ اس طرح کہ جن آیات کو لوگ منسوخ قرار دیتے تھے- ان میں سے ایسے ایسے معارف بیان فرمائے جن کو سن کر دشمن بھی حیران ہو گئے اور آپ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ایک آیت بھی قرآن کریم کی ایسی نہیں جس کی ضرورت ثابت نہ کی جا سکے- اور اب وہی غیر احمدی جو بعض آیات کو منسوخ کہتے تھے دشمنان اسلام کے سامنے انہیں آیات کو پیش کر کے اسلام کی برتری ثابت کرتے ہیں- مثلاًلکم دینکم ولی دین ۱۲~}~کی آیت جسے منسوخ کہا جاتا تھا- اب اسی کو مخالفین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے-
)۳( تیسری غلطی قرآن کریم کے متعلق لوگوں کو یہ لگ رہی تھی کہ اکثر حصہ مسلمانوں کا یہ خیال کرتا تھا کہ اس کے معارف کا سلسلہ پچھلے زمانہ میں ختم ہو گیا ہے اس وہم کا ازالہ بھی آپ نے کیا- اور اس کے خلاف بڑے زور سے آواز اٹھائی اور ثابت کیا کہ نہ صرف یہ کہ پچھلے زمانہ میں اس کے معارف ختم نہیں ہوئے- بلکہ آج بھی ختم نہیں ہوئے- اور آئندہ بھی ختم نہ ہونگے- آپ فرماتے ہیں-
’’جس طرح صحیفہ فطرت کے عجائب و غرائب خواص کسی پہلے زمانہ تک ختم نہیں ہو چکے بلکہ جدید در جدید پیدا ہوتے جاتے ہیں- یہی حال ان صحف مطہرہ کا ہے تا خدائیتعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو‘‘- ۱۳~}~
چنانچہ بہت سی پیشگوئیاں جو اس زمانہ کے متعلق تھیں اور جنہیں پہلے زمانہ کے لوگ نہیں سمجھتے تھے آپ نے قرآن کریم سے نکال کر سمجھائیں- مثلاًاذا العشار عطلت 17] p[۱۴~}~کی پیشگوئی تھی- اس کے معنے پہلے لوگ یہی کرتے تھے کہ قیامت کے دن لوگ اونٹوں پر سوار نہ ہوں گے- مگر قیامت کو اونٹنی کیا کوئی چیز بھی کام نہ آئے گی- بات یہ ہے کہ چونکہ یہ کلام پیشگوئی پر مشتمل تھا- اور اس زمانہ کے لوگوں کے سامنے وہ حالات نہ تھے جو اس کے صحیح معنے کرنے میں ممد ہوتے اس لئے انہوں نے اسے قیامت پر چسپاں کر دیا- اصل میں یہ آخری زمانہ کے متعلق خبر تھی کہ اس وقت ایسی سواریاں نکل آئیں گی کہ اونٹ بے کار ہو جائیں گے- وہ مولوی جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام کی ہر ایک بات کی مخالفت کرتے ہیں ان کو بھی اگر موٹر کے مقابلہ میں اونٹ کی سواری ملے تو کبھی اس پر سوار نہ ہوں- اسی طرح مثلاًو اذا الوحوش حشرت ۱۵~}~کی پیشگوئی ہے یعنی وحوش جمع کر دیئے جائیں گے یعنی چڑیا گھر بنائے جائیں گے- چنانچہ اس زمانہ میں یہ پیشگوئی پوری ہو گئی- اسی طرح اس کا یہ بھی مطلب تھا کہ پہلے زمانہ میں قوموں کو ایک دوسرے سے وحشت تھی- آپس میں تنفر تھا- اب ایسا وقت آیا کہ ایک دوسرے سے تار اور ریل اور جہازوں کے ذریعہ ملنے لگ گئے ہیں-
اسی طرح یہ پیشگوئی تھی کہ واذا البحار سجرت ۱۶~}~کہ دریا خشک ہو جائیں گے اس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ قیامت کے دن زلزلے آئیں گے اس وجہ سے دریا سوکھ جائیں گے حالانکہ قیامت کے دن تو دنیا نے ہی تباہ ہو جانا تھا دریائوں کے سوکھنے کا کیا ذکر تھا- حضرتمسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا مطلب بتایا کہ دریائوں کے سوکھنے سے مراد یہ تھی کہ ان میں سے نہریں نکالی جائیں گی-
اسی طرح یہ پیشگوئی تھی کہواذا النفوس زوجت ]71 [p۱۷~}~مختلف لوگوں کو آپس میں ملا دیا جائے گا- اس کے یہ معنی کئے جاتے تھے کہ قیامت کے دن سب لوگوں کو جمع کر دیا جائے گا- مرد و عورت اکٹھے ہو جائیں گے- حالانکہ قیامت کے دن تو اس زمین نے تباہ ہو جانا تھا- اس میں لوگوں کے اکٹھے ہونے کی کیا صورت ہو سکتی تھی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی تشریح یہ فرمائی کہ ایسے سامان اور ذرائع نکلنے کی اس آیت میں پیشگوئی کی گئی تھی جن کے ذریعہ سے یہاں بیٹھا ہوا شخص دور دراز کے لوگوں سے باتیں کر سکے گا- اب دیکھ لو- ایسا ہی ہو رہا ہے یا نہیں-
اسی طرح آپ نے قرآن کریم کی مختلف آیات سے ثابت کیا کہ ان میں صحیح علوم طبعیہ کا ذکر موجود ہے- مثلاًوالشمس وضحھا والقمر اذا تلھا ۱۸~}~کی آیت میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ چاند اپنی ذات میں روشن نہیں بلکہ سورج سے روشنی لیتا ہے-
غرض آپ نے بیسیوں آیات سے بتایا کہ قرآن کریم میں مختلف علوم کی طرف اشارہ ہے جنہیں ایک ہی زمانہ کے لوگ نہیں سمجھ سکتے- بلکہ اپنے اپنے وقت پر ان کی پوری سمجھ آ سکتی ہے-
اسی طرح زمانہ جوں جوں ترقی کرتا جائے گا قرآن کریم میں سے نئے علوم نکلتے چلے جائیں گے- چنانچہ آج آپ کے بتائے ہوئے ان اصول کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم کا ایسا علم دیا ہے کہ کوئی اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتا-
دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کتنا بڑا تغیر کر دیا- آپ سے پہلے مولوی یہی کہا کرتے تھے کہ فلاں بات فلاں تفسیر میں لکھی ہے اور اگر کوئی نئی بات پیش کرتا تو کہتے بتائو یہ کس تفسیر میں لکھی ہے- مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ جو خدا ان تفسیروں کے مصنفوں کو قرآن سکھا سکتا ہے` وہ ہمیں کیوں نہیں سکھا سکتا- اور اس طرح ایک کنویں کے مینڈک کی حیثیت سے نکال کر آپ نے ہمیں سمندر کا تیراک بنا دیا-
)۴(چوتھی غلطی لوگوں کو یہ لگ رہی تھی کہ قرآن کریم کے مضامین میں کوئی خاص ترتیب نہیں ہے وہ یہ نہ مانتے تھے کہ آیت کے ساتھ آیت اور لفظ کے ساتھ لفظ کا جوڑ ہے- بلکہ وہ بسا اوقات تقدیم و تاخیر کے نام سے قرآن کریم کی ترتیب کو بدل دیتے تھے- حضرت مسیحموعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے اس خطرناک نقص کا بھی ازالہ کیا اور بتایا کہ تقدیم و تاخیر بیشک جائز ہوتی ہے- مگر کوئی یہ بتائے کہ کیا صحیح ترتیب سے وہ افضل ہو سکتی ہے- اگر ترتیب تقدیموتاخیر سے اعلیٰ ہوتی ہے تو قرآن کی طرف ادنیٰ بات کیوں منسوب کرتے ہو؟
آپ نے آریوں کے مقابلہ میں دعویٰ کیا ہے کہ قرآن کریم میں نہ صرف معنوی بلکہ ظاہری ترتیب کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے حتی کہ ناموں کو بھی زمانہ کے لحاظ سے ترتیب وار بیان کیا گیا ہے- سوائے اس کے کہ مضمون کی ترتیب کی وجہ سے انہیں آگے پیچھے کرنا پڑا ہو- اور اس میں کیا شک ہے کہ معنوی ترتیب زبانی ترتیب پر مقدم ہوتی ہے-
)۵( پانچویں غلطی مسلمانوں میں بھی اور غیر مسلموں میں بھی مطالب قرآن کریم کے متعلق یہ پیدا ہو گئی تھی کہ قرآن کریم میں تکرار مضامین ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ ثابت کیا کہ قرآن کریم میں ہر گز تکرار مضامین نہیں ہے- بلکہ ہر لفظ جو آتا ہے وہ نیا مضمون اور نئی خوبی لے کر آتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی آیتوں کو پھول سے تشبیہ دی ہے- اب دیکھو کہ پھول میں بظاہر ہر نیا دائرہ پتیوں کا تکرار معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت ہر دائرہ پھول کے حسن کی زنجیر کو کامل کر رہا ہوتا ہے کیا پھول کی پتیوں کے ایک دائرہ کو اگر توڑ دیا جائے تو پھول کامل پھول رہے گا؟ نہیں- یہی بات قرآن کریم میں ہے- جس طرح پھول میں ہر پتی نئی خوبصورتی پیدا کرتی ہے- اور خداتعالیٰ پتوں کی ایک زنجیر کے بعد دوسری بناتا ہے اور تب ہی ختم کرتا ہے- جب حسن پورا ہو جاتا ہے- اسی طرح قرآن میں ہر دفعہ کا مضمون ایک نئے مطلب اور نئی غرض کے لئے آتا ہے- اور سارا قرآنکریم مل کر ایک کامل وجود بنتا ہے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں- یہ خیال کرنا کہ قرآن کریم کی آیتیں ایک دوسری سے الگ الگ ہیں یہ غلط ہے قرآن کریم کی آیتوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے جسم کے ذرات- اور سورتوں کی مثال ایسی ہے جیسے جسم کے اجزاء مثلاً انسان کے ۳۲ دانت ہوتے ہیں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ دانتوں کو ۳۲ دفعہ دہرایا گیا ہے- اس لئے ۳۱ دانت توڑ ڈالنے چاہئیں- اور صرف ایک رہنے دینا چاہئے- یا انسان کے دو کان ہیں- کیا کوئی ایک کان اس لئے کاٹ دے گا کہ دوسرا کان کیوں بنایا گیا ہے یا کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ انسان کی بارہ پسلیاں نہیں ہونی چاہئیں` گیارہ توڑ دینی چاہئیں- اگر کسی کی ایک پسلی بھی توڑ دے گا تو وہ ضرب شدید کا دعویٰ کر دے گا- اسی طرح انسان کے جسم پر لاکھوں بال ہیں- کیا کوئی سارے بال منڈوا کر ایک رکھ لے گا کہ تکرار نہ ہو- ذرا جسم سے تکرار دور کر دو اور پھر دیکھو کیا باقی رہ جاتا ہے؟
عرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کے مطالب بیان کر کے تکرار کا اعتراض کرنے والوں کو ایسا جواب دیا ہے کہ گویا ان کے دانت توڑ دیئے ہیں-
)۶(چھٹی غلطی قرآن کریم کے متعلق مسلمانوں کو یہ لگ رہی تھی کہ قرآن کریم میں عبرت کے لئے پرانے قصے بیان کئے گئے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس شبہ کا بھی ازالہ کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم میں عبرت کے لئے قصے نہیں بیان کئے گئے گو قﷺقرآنیہ سے عبرت بھی حاصل ہوتی ہے- لیکن اصل میں وہ امت محمدیہﷺ~ کے لئے پیشگوئیاں ہیں- اور جو کچھ ان واقعات میں بیان کیا گیا ہے` وہ بعینہ آئندہ ہونے والا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم مسلسل قصہ نہیں بیان کرتا بلکہ منتخب ٹکڑہ کا ذکر کرتا ہے-
یہ امر ایسا بدیہی ہے کہ قرآن کریم کے قﷺ کی جزئیات تک پوری ہوتی رہی ہیں- اور آئندہ پوری ہوں گی حتی کہ نملہ کا ایک واقعہ قرآن کریم میں آتا ہے اس کے متعلق تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون الرشید کے وقت ایسا ہی واقعہ پیش آیا- اس وقت بھی نملہ قوم کی حکمران ایک عورت تھی جیسے کہ حضرت سلیمانؑ کے وقت میں تھی- اس نے ہارون الرشید کے آگے ایک سونے کی تھیلی پیش کی- اور کہا کہ ہمیں اس بات کا فخر ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے وقت میں بھی ایک عورت نے ہی تحائف پیش کئے تھے- اب میں بھی عورت ہوں جو یہ پیش کر رہی ہوں اور اس طرح آپ کو سلیمانؑ سے مشابہت حاصل ہو گئی ہے- ہارون الرشید نے بھی اس پر فخر کیا کہ اسے حضرت سیلمانؑ سے تشبیہ دی گئی-
)۷( ساتواں شبہ یہ پیدا ہو گیا تھا کہ قرآن کریم میں تاریخ کے خلاف باتیں ہیں- یہ شبہ مسلمانوں میں بھی پیدا ہو گیا تھا- اور غیر مسلموں میں بھی سرسید احمد جیسے لائق شخص نے بھی اس اعتراض سے گھبرا کر یہ جواب پیش کیا کہ قرآن کریم میں خطابیات سے کام لیا گیا ہے- یعنی ایسے واقعات کو یا عقائد کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے جو گو صحیح نہیں مگر مخاطب ان کی صحت کا قائل ہے اس لئے اس کے سمجھانے کے لئے انہیں صحیح فرض کر کے پیش کر دیا گیا ہے-
لیکن یہ جواب درحقیقت حالات کو اور بھی خطرناک کر دیتا ہے- کیونکہ سوال ہو سکتا ہے کہ کس ذریعہ سے ہمیں معلوم ہو کہ قرآن کریم میں کونسی بات خطابی طور پر پیش کی گئی ہے اور کونسی سچائی کے طور پر- اس دلیل کے ماتحت تو کوئی شخص سارے قرآن کو ہی خطابیات کی قسم کا قرار دیدے تو اس کی بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا- اور دنیا کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا- خطابیدلیل کے لئے ضروری ہے کہ خود مصنف ہی بتائے کہ وہ خطابی ہے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مذکورہ بالا اعتراض کے جواب میں خطابیات کے اصول کو اختیار نہیں کیا بلکہ اسے رد کیا ہے- اور یہ اصل پیش کیا ہے کہ قرآن خدا تعالیٰ کا کلام ہے- اس عالم الغیب کی طرف سے جو کچھ بیان ہوا ہے وہ یقیناً درست ہے- اور اس کے مقابلہ میں دوسری تاریخوں کا جو اپنی کمزوری پر آپ شاہد ہیں پیش کرنا بالکل خلافعقل ہے- ہاں یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم جو کچھ بیان کرتا ہے اس کے معنی خود قرآنکریم کے اصول کے مطابق کئے جائیں- اسے ایک قصوں کی کتاب نہ بنایا جائے اور اس کی پر حکمت تعلیم کو سطحی بیانات کا مجموعہ نہ سمجھ لیا جائے-
)۸( آٹھویں غلطی جس میں لوگ مبتلا ہو رہے تھے یہ تھی کہ قرآن کریم بعض ایسے چھوٹے چھوٹے امور کو بیان کر دیتا ہے جن کا بیان کرنا علم و عرفان اور ارتقائے ذہن انسانی کے لئے مفید نہیں ہو سکتا-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے بھی غلط ثابت کیا اور بتایا کہ قرآن کریم میں کوئی فضول امر بیان نہیں ہوا- بلکہ جس قدر مطالب یا واقعات بیان کئے گئے ہیں نہایت اہم ہیں- میں مثال کے طور پر حضرت سیلمانؑ کے ایک واقعہ کو لیتا ہوں- قرآن کریم میں آتا ہے کہ انہوں نے ایک محل ایسا تیار کرایا جس کا فرش شیشے کا تھا اور اس کے نیچے پانی بہتا تھا- ملکہسبا جب ان کے پاس آئی تو انہوں نے اسے اس میں داخل ہونے کو کہا لیکن ملکہ نے سمجھا کہ اس میں پانی ہے اور وہ ڈری- مگر حضرت سلیمانؑ نے بتایا کہ ڈرو نہیں یہ پانی نہیں بلکہ شیشہ کے نیچے پانی ہے- قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں-
قیل لھا ادخلی الصرح فلما راتہ حسبتہ لجہ وکشفت عن ساقیھا قال انہ صرح ممرد من قواریر- قالت رب انی ظلمت نفسی واسلمت مع سلیمن للہ رب العلمین- ۱۹~}~
یعنی سبا کی ملکہ کو حضرت سلیمان کی طرف سے کہا گیا کہ اس محل میں داخل ہو جا- جب وہ داخل ہوئی تو اسے معلوم ہوا کہ فرش کی بجائے گہرا پانی ہے اس پر اس نے اپنی پنڈلیوں کو ننگا کر لیا یا یہ کہ وہ گھبرا گئی- تب حضرت سلیمان نے اسے کہا کہ تمہیں غلطی لگی ہے یہ پانی نہیں- پانی نیچے ہے اور اوپر شیشہ کا فرش ہے- تب اس نے کہا- اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا- اور اب میں سلیمان کے ساتھ سب جہانوں کے رب اللہ پر ایمان لاتی ہوں-
مفسرین ان آیات کے عجیب و غریب معنی کرتے ہیں- بعض کہتے ہیں حضرت سلیمانؑ اس سے شادی کرنا چاہتے تھے- مگر جنوں نے انہیں خبر دی تھی کہ اس کی پنڈلیوں پر بال ہیں- حضرت سلیمانؑ نے اس کی پنڈلیاں دیکھنے کیلئے اس طرح کا محل بنوایا- مگر جب اس نے پاجامہ اٹھایا تو معلوم ہوا اس کی پنڈلیوں پر بال نہیں ہیں-
بعض کہتے ہیں پنڈلیوں کے بال دیکھنے کیلئے حضرت سلیمانؑ نے اس قدر انتظام کیا کرنا تھا- اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے اس ملکہ کا تخت منگایا تھا- اس پر انہوں نے خیال کیا کہ میری ہتک ہوئی ہے کہ میں نے اس سے تخت مانگا- اس ہتک کو دور کرنے کیلئے آپ نے ایسا قلعہ بنوایا تا کہ وہ اپنی وقعت قائم کر سکیں-
مگر کیا کوئی سمجھدار کہہ سکتا ہے کہ یہ باتیں ایسی اہم ہیں کہ خدا کے کلام اور خصوصاً آخری شریعت کے کامل کلام میں ان باتوں کا ذکر کیا جائے جن کا نہ دین سے تعلق ہے نہ عرفان سے- اور کیا یہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نبی ایسے امور میں جن کو یہاں بیان کیا گیا ہے مشغول ہو سکتیہیں-؟
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کی تشریح فرمائی ہے کہ اس نے حقیقت کو ظاہر کر دیا ہے اور صاف طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ قرآن کریم میں جو کچھ بیان ہوا ہے ایمان و عرفان کی ترقی کیلئے ہے- آپ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ سبا ایک مشرکہ عورت تھی اور سورج پرست تھی- حضرت سلیمانؑ اسے سبق دینا چاہتے تھے اور شرک چھڑانا چاہتے تھے- پس آپ نے لفظوں میں دلیل دینے کے ساتھ ساتھ یہ طریق بھی پسند کیا کہ عملاً اس کے عقیدہ کی غلطی اس پر ظاہر کریں- اور اس کی ملاقات کے لئے ایک ایسے قلعہ کو تجویز کیا جس میں شیشہ کا فرش تھا اور نیچے پانی بہتا تھا- جب ملکہ اس فرش پر سے چلنے لگی تو اسے پانی کی ایک جھلک نظر آئی- جسے دیکھ کر اس نے اپنا لباس اونچا کر لیا- یا یہ کہ وہ گھبرا گئی )کشف ساق کے دونوں ہی معنی ہیں( اس پر حضرت سلیمانؑ نے اسے تسلی دی اور کہا کہ جسے تم پانی سمجھتی ہو یہ تو اصل میں شیشہ کا فرش ہے جس کے نیچے پانی ہے- چونکہ پہلے دلائل سے شرک کی غلطی اس پر ثابت کر چکے تھے اس نے فوراً سمجھ لیا کہ انہوں نے ایک عملی مثال دے کر مجھ پر شرک کی حقیقت کھول دی ہے اور وہ اس طرح کہ جس طرح پانی کی جھلک شیشہ میں سے تجھے نظر آئی ہے اور تو نے اسے پانی سمجھ لیا ہے ایسا ہی خدا تعالیٰ کا نور اجرام فلکی میں سے جھلکا ہے اور لوگ انہیں خدا ہی سمجھ لیتے ہیں- حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کے نور سے نور حاصل کر رہے ہوتے ہیں چنانچہ اس دلیل سے وہ فوراً متاثر ہوئی اور بے تحاشا کہہ اٹھی کہاسملت مع سلیمن للہ رب العلمینمیں اس خدا پر ایمان لاتی ہوں جو سب جہانوں کا رب ہے- یعنی سورج وغیرہ بھی اسی سے فیض حاصل کر رہے ہیں اور اصل فیض رسان وہی ایکہے-
اب دیکھو یہ کیسا اہم اور فلسفیانہ مضمون ہے اور اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے- مگر پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ بالوں والی پنڈلیاں دیکھنے کے لئے محل بنایا گیا تھا- کیا جن عورتوں کی پنڈلیوں پر بال ہوں ان کی شادی نہیں ہوتی؟ اور نبی ایسے حالات میں مبتلا ہو سکتا ہے؟ غرض حضرتمسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے مضامین کی اہمیت کو قائم کیا اور اس کی طرف جو بے حقیقت امور منسوب کئے جاتے تھے ان سے اسے پاک قرار دیا-
)۹(نویں غلطی یہ لگ رہی تھی کہ بعض لوگ سمجھتے تھے کہ قرآن کریم کے بہت سے دعوے بے دلیل ہیں` انہیں دلائل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا- مسلمان کہتے قرآن چونکہ اللہ کا کلام ہے اس لئے اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اسے ہم مانتے ہیں- اور دوسرے لوگ کہتے- یہ بیہودہ باتیں ہیں انہیں ہم کس طرح مان سکتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ قرآن کریم کا ہر ایک دعویٰ دلائل قاطع اپنے ساتھ رکھتا ہے- اور قرآن اپنے ہر دعویٰ کی دلیل خود دیتا ہے- اور فرمایا یہی بات قرآن کریم کو دوسری الہامی کتب سے ممتاز کرتی ہے- تم کہتے ہو قرآن کی باتیں بے دلیل ہیں- مگر قرآن میں یہی خصوصیت نہیں کہ اس کی باتیں دلائل سے ثابت ہو سکتی ہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی باتوں کے دلائل خود دیتا ہے- وہ کتاب کامل ہی کیا ہوگی جو ہمارے دلائل کی محتاج ہو- بات خدا بیان کرے اور دلائل ہم ڈھونڈیں- یہ تو ایسی ہی مثال ہوئی جیسے راجوں مہاراجوں کے درباروں میں ہوتا ہے کہ جب راجہ صاحب کوئی بات کرتے ہیں تو ان کے مصاحب ہاں جی ہاں جی کہہ کر اس کی تائید و تصدیق کرنے لگ جاتے ہیں- پس حضرت مسیح موعودؑ نے دعویٰ کیا کہ قرآن کریم کا کوئی دعویٰ ایسا نہیں جن کی دلیل بلکہ دلائل خود اس نے نہ دیئے ہوں- اور اس مضمون کو آپ نے اس وسعت سے بیان کیا کہ دشمنوں پر اس کی وجہ سے ایک موت آ گئی-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا امرتسر میں عیسائیوں سے جو مباحثہ ہوا اور جنگمقدس کے نام سے شائع ہوا` اس میں آپ نے عیسائیوں کے سامنے یہی بات پیش کی کہ فریقین جو دعویٰ کریں اس کا ثبوت اپنی الہامی کتاب سے دیں- اور پھر اس کے دلائل بھی الہامی کتاب سے ہی پیش کریں- عیسائی دلائل کیا پیش کرتے وہ یہ دعویٰ بھی انجیل سے نہ نکال سکے کہ مسیحؑ خدا کا بیٹا ہے-
حضرت خلیفہ المسیح الاول فرماتے- ایک دفعہ میں گاڑی میں بیٹھا کہیں جا رہا تھا کہ ایک عیسائی نے مجھ سے کہا- میں نے مرزا صاحب کا امرتسر والا مباحثہ دیکھا مگر مجھے تو کوئی فائدہ نہ ہوا- آپ کے پاس ان کی صداقت کی کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا- یہی مباحثہ حضرت مرزاصاحب کی صداقت کی اور آپ کی سچائی کی دلیل ہے- عیسائی نے کہا وہ کس طرح؟ آپ نے فرمایا اس طرح کہ حضرت مرزا صاحب نے عیسائیوں کو کہا تھا- کہ اپنا دعویٰ اور اس کے دلائل اپنی الہامی کتاب سے پیش کرو- مگر عیسائی اس کا کوئی جواب نہ دے سکے- اگر میں ہوتا تو اٹھ کر چلا آتا- مگر میرا مرزا پندرہ دن تک عیسائیوں کی بیوقوفی کی باتیں سنتا رہا اور ان کو سمجھاتا رہا یہ حضرت مرزا صاحب کا ہی حوصلہ تھا-
)۱۰(دسویں غلطی بعض لوگوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ قرآن کریم علوم یقینیہ کو رد کرتا اور ان کے خلاف باتیں بیان کرتا ہے- اس غلطی کو بھی آپ نے دور فرمایا اور بتایا کہ قرآنکریم ہی تو ایک کتاب ہے- جو نیچر یا خدا کے فعل کو زور کے ساتھ پیش کرتی ہے اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے- اور ظاہری سلسلہ یعنی نیچر کو باطنی سلسلہ یعنی کلام الہی کے مماثل قرار دیتی ہے- پس یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن کریم علوم طبعیہ کے خلاف باتیں کرتا ہے خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کا فعل ایک دوسرے کے کبھی خلاف نہیں ہو سکتے- جو امور قرآن کریم میں خلافقانون قدرت قرار دیئے جاتے ہیں- آپ نے ان کے متعلق فرمایا- وہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہیں- یا تو یہ کہ جس بات کو لوگوں نے قانون قدرت سمجھ لیا ہے وہ قانون قدرت نہیں- یا پھر قرآن کریم کے جو معنی سمجھے گئے ہیں وہ درست نہیں- چنانچہ آپ نے اس کے متعلق کئی مثالیں بیان فرمائیں کہ کس طرح قرآن کریم کے معنی غلط سمجھے گئے- چنانچہ آپ نے یہی مثال دی ہے کہوالسماء ذات الرجع والارض ذات الصدع ۲۰~}~کے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ آسمان چکر کھاتا ہے اور زمین پھٹتی ہے- اور اس پر طبعی لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ آسمان کوئی مادی شے ہی نہیں پھر وہ چکر کیونکر لگاتا ہے اور اگر مادی وجود ہو بھی تو بھی زمین چکر کھاتی ہے نہ کہ آسمان-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں- سماء کے معنی بادل کے بھی ہیں اور رجع کے معنی بار بار آنے کے- پس اس آیت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آسمان چکر کھاتا ہے بلکہ یہ ہیں کہ ہم شہادت کے طور پر بادلوں کو پیش کرتے ہیں- جو باربار خشک زمین کو سیراب کرنے کے لئے آتے ہیں- پھر زمین کو پیش کرتے ہیں جو بارش ہونے پر پھٹتی ہے یعنی اس سے کھیتی نکلتی ہے- شہادت کے طور پر ان چیزوں کو پیش کر کے بتایا گیا ہے کہ جس طرح خداتعالیٰ نے بادلوں کا سلسلہ پیدا کیا ہے کہ وہ بار بار آتے ہیں اور زمین کی شادابی کا موجب ہوتے ہیں اور ان کے بغیر سرسبزی اور شادابی ناممکن ہے` اسی طرح روحانی سلسلہ کا حال ہے کہ جب تک اللہتعالیٰ اپنے فضل کے بادل نہیں بھیجتا اور اپنے کلام کا پانی نہیں برساتا زمین کی پھوٹنے کی قابلیت ظاہر نہیں ہوتی- لیکن جب آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے تب جا کر انسانی ذہن بھی اپنی قابلیت کو ظاہر کرتا ہے اور آسمانی کلام کی مدد سے باریک در باریک مطالبروحانیہ کو پیدا کرنے لگتا ہے- چنانچہ ان آیات کا سیاق بھی انہیں معنوں پر دلالت کرتا ہے- کیونکہ آگے فرمایا ہے کہانہ لقول فصل وماھو بالھزل-۲۱~}~یعنی پہلی بات سے یہ امر ثابت ہے کہ قرآن کریم کوئی لغو بات نہیں` بلکہ حقیقت کو ثابت کرنے والا کلام ہے- کیونکہ اس زمانہ میں بھی زمین خشک ہو رہی تھی اور دینی علوم سے لوگ بے بہرہ تھے- پس ضرورت تھی کہ خدا کی رحمت کا بادل کلام الٰہی کی صورت میں برستا اور لوگوں کی روحانی خشکی کو دور کرتا-
اسی طرح آپ نے بتایا کہ دیکھو قرآن کریم کے زمانہ کے لوگوں کا خیال تھا کہ آسمان ایک ٹھوس چیز ہے اور ستارے اس میں جڑے ہوئے ہیں مگر یہ تحقیق واقعہ کے خلاف تھی- قرآن کریم نے اس زمانہ میں ہی اس کو رد کیا ہے- اور فرمایا ہے کہ کل فی فلک یسبحون- ۲۲~}~سیارے ایک آسمان میں جو ٹھوس نہیں ہے بلکہ ایک لطیف مادہ ہے جسے سیال سے نسبت دی جا سکتی ہے اور سیارے اس میں اس طرح گردش کرتے ہیں- جیسے کہ تیراک پانی میں تیرتا ہے- موجودہ تحقیق میں ایتھر کا بیان بالکل اس بیان کے مشابہ ہے-
اس طرح آپ نے فرمایا کہ خلق منھا زوجھا ۲۳~}~کے یہ معنے کئے جاتے ہیں کہ آدم کی پسلی سے خدا تعالیٰ نے حوا کو پیدا کیا اور اس پر اعتراض کیا جاتا ہے- حالانکہ یہ معنی ہی غلط ہیں- قرآن کریم میں یہ نہیں کہا گیا کہ حوا آدم کی پسلی سے پیدا ہوئی بلکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ حوا آدم ہی کی جنس سے پیدا کی گئی- یعنی جن طاقتوں اور جذبات کو لے کر مرد پیدا ہوا` انہی طاقتوں اور جذبات کو لے کر عورت پیدا ہوئی- کیونکہ اگر مرد اور عورت کے جذبات ایک نہ ہوتے تو ان میں حقیقی انس پیدا نہیں ہو سکتا تھا- بلکہ اگر مرد میں شہوت رکھی جاتی اور عورت میں نہ ہوتی تو کبھی ان میں اتحاد پیدا نہ ہوتا- اور ایک دوسرے سے سر پھٹول ہوتا رہتا- پس جیسے جذبات مرد میں رکھے گئے ہیں` ایسے ہی عورت میں بھی رکھے گئے ہیں تا کہ وہ آپس میں محبت سے رہ سکیں-
اب دیکھو یہ مسئلہ مرد و عورت میں کیسا صلح اور محبت کرنے والا ہے جب کوئی مرد عورت سے بلاوجہ ناراض ہو تو اسے کہیں گے- جیسے تمہارے جذبات ہیں` ایسے ہی عورت کے بھی ہیں- جس طرح تم نہیں چاہتے کہ تمہارے جذبات کو ٹھیس لگے` اسی طرح وہ بھی چاہتی ہے کہ اس کے جذبات کو پامال نہ کیا جائے پس تمہیں اس کا بھی خیال رکھنا چاہئے-
اسی طرح آپ نے فرمایا بعض لوگ کہتے ہیں کہ الذی خلق السموت والارض وما بینھما فی ستہ ایام ثم استوی علی العرش الرحمن فاسئل بہخبیرا ۲۴~}~سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان و زمین چھ دن میں پیدا کئے گئے- اور پھر خدا عرش پر قائم ہو گیا- مگر یہ غلط ہے- کیونکہ زمین و آسمان لاکھوں سال میں پیدا ہوئے ہیں- یہ جیالوجی سے ثابت ہے لیکن حق یہ ہے کہ لوگ خود آیت قرآنیہ کو نہیں سمجھتے- ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ زمین و آسمان کتنے سالوں میں بنے مگر یہ جانتے ہیں کہ چھ دنوں میں نہیں بنے- کیونکہ یوم تو سورج سے بنتے ہیں- مگر جب سورج ہی نہ تھا تو یہ دن کہاں سے آگئے؟ یوم کے معنے ایک اندازہ وقت کے ہیں- قرآن کریم میں یوم ایک ہزار سال کا بھی اور پچاس ہزار سال کا بھی آیا ہے- پس اس آیت میں چھ لمبے زمانوں میں زمین و آسمان کی پیدائش مراد ہے-
)۱۱(گیارہویں لوگ قرآن کریم کی تفسیر کرنے میں غلطی کیا کرتے تھے- آپ نے ایسے اصول پر تفسیر قرآن کریم کی بنا رکھی کہ غلطی کا امکان بہت ہی کم ہو گیا ہے- ان اصول کے ذریعہ سے ہی خدا تعالیٰ نے آپ کے اتباع پر قرآن کریم کے ایسے معارف کھولے ہیں جو اور لوگوں پر نہیں کھلے- چنانچہ میں نے بھی کئی مرتبہ اعلان کیا ہے کہ قرآن کریم کا کوئی مقام کسی بچہ سے کھلوایا جائے یا قرعہ ڈال لیا جائے پھر اس جگہ کے معارف میں بھی لکھوں گا` دوسری کسی جماعت کا نمائندہ بھی لکھے- پھر معلوم ہو جائے گا کہ خدا تعالیٰ کس کے ذریعہ قرآن کریم کے معارف ظاہر کراتا ہے مگر کسی نے یہ بات منظور نہ کی-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو اصول تفسیر بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں-:
)۱(آپ نے بتایا کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا راز ہے اور راز ان پر کھولے جاتے ہیں جو خاص تعلق رکھتے ہیں- اس لئے قرآن کریم سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے- مگر یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم کی تفسیریں جن لوگوں نے لکھی ہیں وہ نہ صوفی تھے نہ ولی بلکہ عام مولوی تھے جو عربی جاننے والے تھے- ہاں انہوں نے بعض آیتوں کی تفسیریں لکھی ہیں اور نہایت لطیف تفسیریں لکھی ہیں- جیسا کہ حضرت محی الدین صاحب ابنعربی کی کتب میں آیات قرآنیہ کی تفسیر آتی ہے تو ایسی لطیف ہوتی ہے کہ دل اس کی صداقت کا قائل ہو جاتا ہے- غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ قرآن کریم سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ تعلق باللہ حاصل ہو-
)۲(دوسرا اصل آپ نے یہ بتایا کہ قرآن کریم کا ہر ایک لفظ ترتیب سے رکھا گیا ہے- اس نکتہ سے قرآن کریم کی تفسیر آسان بھی ہو گئی ہے اور اس کے لطیف معارف بھی کھلتے ہیں- پس چاہئے کہ جب کوئی قرآن کریم پر غور کرے تو اس بات کو مدنظر رکھے کہ خدا تعالیٰ نے ایک لفظ کو پہلے کیوں رکھا ہے اور دوسرے کو بعد میں کیوں- جب وہ اس پر غور کرے گا تو اسے حکمت سمجھ میں آجائے گی-
)۳(قرآن کریم کا کوئی لفظ بے مقصد نہیں ہوتا- اور کوئی لفظ زائد نہیں ہوتا- ہر لفظ کسی خاص مفہوم اور مطلب کے ادا کرنے کے لئے آتا ہے- پس کسی لفظ کو یونہی نہ چھوڑو-
)۴(جس طرح قرآن کریم کا کوئی لفظ بے معنی نہیں ہوتا- اسی طرح وہ جس سیاقوسباق میں آتا ہے وہیں اس کا آنا ضروری ہوتا ہے پس معنے کرتے وقت پہلے اور پچھلے مضمون کے ساتھ تعلق سمجھنے کی ضرور کوشش کرنی چاہئے- اگر سیاق و سباق کا لحاظ نہ رکھا جائے تو معنے کرنے میں غلطی ہوتی ہے-
)۵(قرآن کریم اپنے ہر دعویٰ کی دلیل خود بیان کرتا ہے اس کے متعلق مفصل پہلے بیان کر آیا ہوں- آپ نے فرمایا جہاں قرآن کریم میں کوئی دعویٰ ہو وہاں اس کی دلیل بھی تلاش کرو ضرور مل جائے گی-
)۶(قرآن اپنی تفسیر آپ کرتا ہے- جہاں کہیں کوئی بات نامکمل نظر آئے اس کے متعلق دوسرا ٹکڑا دوسری جگہ تلاش کرو جو ضرور مل جائے گا اور اس طرح وہ بات مکمل ہو جائے گی-
)۷(قرآن کریم میں تکرار نہیں- اس کے متعلق میں تفصیلا پہلے بیان کر آیا ہوں-
)۸(قرآن کریم میں محض قصے نہیں ہیں- بلکہ ہر گذشتہ واقعہ پیشگوئی کے طور پر بیان ہوا ہے- یہ بھی پہلے بیان کر چکا ہوں-
)۹(قرآن کریم کا کوئی حصہ منسوخ نہیں ہے- پہلے لوگوں کو جو آیت سمجھ نہ آتی تھی اس کے متعلق کہہ دیتے کہ وہ منسوخ ہے اور اس طرح انہوں نے قرآن کریم کا بہت بڑا حصہ منسوخ قرار دے دیا- ان کی مثال ایسی ہی تھی- جیسے کہتے ہیں کسی شخص کو خیال تھا کہ وہ بڑا بہادر ہے- اس زمانہ میں بہادر لوگ اپنا کوئی نشان قرار دے کر اپنے جسم پر گدواتے تھے- اس نے اپنا نشان شیر قرار دیا اور اسے بازو پر گدوانا چاہا- وہ گودنے والے کے پاس گیا اور اسے کہا کہ میرے بازو پر شیر کا نشان گود دو- جب وہ ¶گودنے لگا اور سوئی چبھوئی تو اسے درد ہوئی اور اس نے پوچھا کیا چیز گودنے لگے ہو- گودنے والے نے کہا- شیر کا کان بنانے لگا ہوں- اس نے کہا اگر کان نہ ہو تو کیا اس کے بغیر شیر شیر نہیں رہتا؟ گودنے والے نے کہا کہ نہیں- پھر بھی شیر ہی رہتا ہے- اس نے کہا اچھا تب کان کو چھوڑ دو- اسے بھی پہلے بہانہ سے چھڑا دیا- اسی طرح جو حصہ وہ گودنے لگتا وہی چھڑا دیتا- آخر گودنے والے نے کہا کہ اب تم گھر جائو- ایک ایک کر کے سب حصے ہی ختم ہو گئے ہیں- یہی حال قرآن کریم میں ناسخ و منسوخ ماننے والوں کا تھا- گیارہ سو آیات انہوں نے منسوخ قرار دے دیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ قرآن کریم کا ایک لفظ بھی منسوخ نہیں ہے- اور جن آیات کو منسوخ کہا جاتا تھا- ان کے نہایت لطیف معانی اور مطالب بیان فرمائے-
)۱۰(ایک گر آپ نے قرآن کریم کے متعلق یہ بیان فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کی سنت آپس میں مخالف نہیں ہو سکتے- آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی سائنس مخالف نہیں ہوتی- کیونکہ سائنس بعض اوقات خود غلط بات پیش کرتی ہے اور اس کی غلطی ثابت ہو جاتی ہے- بلکہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی سنت اس کے کلام کے خلاف نہیں ہوتی- ہاں یہ ممکن ہے کہ جس طرح کلام الہی کے سمجھنے میں لوگ غلطی کر جاتے ہیں اسی طرح فعل الہی کے سمجھنے میں بھی غلطی کر جائیں-
)۱۱(آپ نے یہ بھی بتایا کہ عربی زبان کے الفاظ مترادف نہیں ہوتے- بلکہ اس کے حروف بھی اپنے اندر مطالب رکھتے ہیں- پس ہمیشہ معانی پر غور کرتے ہوئے اس فرق کو ملحوظ رکھنا چاہئے جو اس قسم کے دوسرے الفاظ میں پائے جاتے ہیں تاکہ وہ زائد بات ذہن سے غائب نہ ہو جائے جو ایک خاص لفظ کے چننے میں اللہ تعالیٰ نے مدنظر رکھی تھی-
)۱۲(قرآن کریم کی سورتیں بمنزلہ اعضاء انسانی کے ہیں- جو ایک دوسرے سے مل کر اور ایک دوسرے کے مقابل پر اپنے کمال ظاہر کرتی ہیں آپ نے فرمایا- کسی بات کو سمجھنا ہو تو سارے قرآن پر نظر ڈالنی چاہئے- ایک ایک حصہ کو الگ الگ نہیں لینا چاہئے-
)۱۳(تیرھویں غلطی لوگوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ سمجھتے تھے قرآن کریم احادیث کے تابع ہے حتی کہ یہاں تک کہتے تھے کہ احادیث قرآن کی آیات کو منسوخ کر سکتی ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس غلطی کو اس طرح دور کیا کہ آپ نے فرمایا- قرآن کریم حاکم ہے اور احادیث اس کے تابع ہیں- ہم صرف وہی حدیث مانیں گے جو قرآن کریم کے مطابق ہو گی` ورنہ رد کر دیں گے- اسی طرح وہ حدیث جو قانون قدرت کے مطابق ہو وہ قابلتسلیم ہوگی- کیونکہ خداتعالیٰ کا کلام اور اس کا فعل مخالف نہیں ہو سکتے-
)۱۴(چودھواں نقص لوگوں میں یہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ قرآن ایک مجمل کتاب ہے جس میں موٹی موٹی باتیں بیان کی گئی ہیں- اخلاقی` تمدنی` معاشرتی باتوں کی تفصیل اس میں نہیں ہے- حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق یہ دعویٰ کیا کہ قرآن کریم ایک مکمل کتاب ہے جس نے روحانیات` معادیات` تمدنیات` سیاسیات اور اخلاقیات کے متعلق جتنے امور روحانی ترقی کے لئے ضروری ہیں` وہ سارے کے سارے بیان کر دیئے ہیں- اور فرمایا میں یہ سب باتیں نکال کر دکھانے کے لئے تیار ہوں-
)۱۵(پندرھویں غلطی یہ لوگوں کو لگی ہوئی تھی کہ قرآن کریم کی بعض تعلیمیں وقتی اور عرب کی حالت اور اس زمانہ کے مطابق تھیں- اب ان میں تبدیلی کی جا سکتی ہے- چنانچہ سید امیر علی جیسے لوگوں نے لکھ دیا کہ فرشتوں کا اعتقاد اور کثرت ازدواج کی اجازت ایسی ہی باتیں ہیں- دراصل یہ لوگ عیسائیوں کے اعتراضوں سے ڈرتے تھے اور اس ڈر کی وجہ سے لکھ دیا کہ یہ باتیں عربوں کے لئے تھیں ہمارے لئے نہیں ہیں- اب ان کو چھوڑا جا سکتا ہے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا- یہ بات غلط ہے- قرآن کریم کے سارے احکام صحیح اور کوئی حکم وقتی نہیں سوا اس کے جس کے متعلق قرآن کریم نے خود بتا دیا ہو کہ یہ فلاں وقت اور فلاں موقع کے لئے حکم ہے-
آپ نے بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری شریعت لانے والے تھے اس لئے سب تعلیمیں قرآن کریم میں موجود ہیں اور ہر زمانہ کے لئے ہیں- ہاں ان تعلیموں پر عمل کرنے کے اوقات خود اس نے بتا دیئے ہیں- اور قرآن کریم کی کوئی ایسی تعلیم نہیں ہے جس پر عمل ہمیشہ کے لئے بند ہو یا ایسی کوئی تعلیم نہیں ہے جس پر کوئی عمل نہ کر سکے اور تفصیلا آپ نے ان اعتراضوں
‏a10.3
کو دور کیا جو ملائکہ اور کثرت ازدواج اور ایسے ہی دوسرے مسائل پر پڑتے تھے-
)۱۶(سولہویں غلطی لوگوں کو یہ لگ رہی تھی- کہ وہ قرآن کریم کو ایک متبرک کتاب قرار دیتے تھے اور روزمرہ کام آنے والی کتاب نہیں سمجھتے تھے- جس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ اس کی تلاوت اور اس کے مطالب پر غور کرنے کی طرف سے وہ بالکل بے پرواہ ہو گئے تھے- خوبصورت جز دانوں میں لپیٹ کر قرآن کریم کو رکھ دینا یا خالی لفظ پڑھ لینے کافی سمجھتے تھے کہیں قرآن کریم کا درس نہ ہوتا تھا- حتی کہ اس کا ترجمہ تک نہیں پڑھایا جاتا تھا- ترجمہ کے لئے سارا دارومدار تفسیروں پر تھا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی اس زمانہ میں وہ شخص ہوئے ہیں جنہوں نے قرآن کو قرآن کر کے پیش کیا اور توجہ دلائی کہ قرآن کا ترجمہ پڑھنا چاہئے- آپ سے پہلے قرآن کا کام صرف یہ سمجھا جاتا تھا کہ جھوٹی قسمیں کھانے کے لئے استعمال کیا جائے- یا مردوں پر پڑھا جائے- یا اچھا خوبصورت غلاف چڑھا کر طاق میں رکھدیا جائے-
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ شاعروں نے خدا تعالیٰ کی حمد اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت میں تو بے شمار نظمیں لکھی ہیں- مگر قرآن کریم کی تعریف میں کسی نے بھی کوئی نظم نہیں لکھی- پہلے انسان حضرت مرزا صاحب ہی تھے جنہوں نے قرآن کی تعریف میں نظم لکھی اور فرمایا ~}~
جمال وحسن قرآن نور جان ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت پڑھنی ہوتی ہے تو وہ انہیں مل جاتی ہے- خدا تعالیٰ کی حمد کے شعر پڑھنے ہوتے ہیں تو وہ انہیں مل جاتے ہیں مگر قرآن کریم کی تعریف میں انہیں نظم نہیں ملتی اور دشمن سے دشمن بھی حضرت مسیح موعودؑ کے اشعار پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں- اور یہ کہتے ہوئے کہ مرزا صاحب خود تو برے تھے مگر یہ شعر انہوں نے بہت اچھے کہے ہیں- آپ کے کلام کو پڑھنے لگ جاتے ہیں اور اس طرح ثابت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صحیح معنوں میں قرآنکریم کو ثریا سے لائے ہیں-
ملائکہ کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ
پانچواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا ہے کہ ملائکہ کے متعلق جو غلط فہمیاں تھیں انہیں آپ نے دور کیا ہے-
)۱(بعض لوگ کہتے تھے کہ قوائے انسانی کا نام ملائکہ رکھا گیا ہے- ورنہ خدا تعالیٰ کو ملائکہ کی کیا ضرورت ہے- آپ نے اس شبہ کا بہ زور رد کیا اور بتایا کہ ملائکہ کا وجود وہمی نہیں ہے بلکہ وہ کارخانہ عالم میں ایک مفید اور کار آمد وجود ہیں آپ نے فرمایا کہ-:
)الف(ملائکہ کی ضرورت اللہ تعالیٰ کو نہیں ہے مگر ان کا وجود انسانوں کے لئے ضروری ہے جس طرح خدا تعالیٰ بغیر کھانے کے انسان کا پیٹ بھر سکتا ہے لیکن اس نے کھانا بنایا- بغیر سانس کے زندہ رکھ سکتا تھا- مگر اس نے ہوا بنائی- بغیر پانی کے سیر کر سکتا تھا مگر اس نے پانی ¶بنایا- بغیر روشنی کے دکھا سکتا تھا مگر اس نے روشنی بنائی- بغیر ہوا کے سنا سکتا تھا مگر آواز کہ پہنچانے کے لئے اس نے ہوا بنائی- اور اس کے اس کام پر کوئی اعتراض نہیں- اسی طرح اس نے اگر اپنا کلام پہنچانے کے لئے ملائکہ کا وجود بنایا تو حاجت اور ضرورت کا سوال کیوں پیدا ہو گیا؟ باقی ذرائع کے پیدا کرنے سے اگر خدا تعالیٰ کی احتیاج نہیں بلکہ بندہ کی احتیاج ثابت ہوتی ہے تو ملائکہ کے پیدا کرنے سے خداتعالیٰ کی احتیاج کیونکر ثابت ہوئی؟ ان کی پیدائش بھی مخلوق کی ضرورت کے لئے ہے نہ کہ خدا تعالیٰ کی احتیاج کی وجہ سے-
)ب(دوسرا جواب آپ نے یہ دیا کہ انسان کی عملی اور ذہنی ترقی کے لئے ملائکہ کا وجود ضروری ہے- علمی ترقی اس طرح ہوتی ہے کہ جو باتیں مخفی در مخفی رکھی گئی ہیں ان کو انسان دریافت کرتے جاتے ہیں اور ترقی کرتے جاتے ہیں- پس ضروری تھا کہ کارخانہ عالم اس طرح چلایا جاتا کہ نتائج یکدم نہ نکلتے بلکہ مخفی در مخفی اسباب کا نتیجہ ہوتے` تا کہ انسان ان کو دریافت کر کے علوم میں ترقی کرتا جاتا اور دنیا اس کے لئے ایک طے شدہ سفر نہ ہوتی بلکہ ہمیشہ اس کے لئے کام موجود رہتا- اس سلسلہ کی آخری کڑی ملائک ہیں- جن کا کام یہ ہے کہ وہ ان قوانین کو صحیح طور پر چلائیں جن کو خدا تعالیٰ نے سنت اللہ کے نام سے دنیا میں جاری کیا ہے- ان کے وجود کے بغیر بے جان مادہ کا سلسلہ عمل اس خوبی سے چل ہی نہیں سکتا تھا جس طرح کہ وہ ان کی موجودگی میں چل رہا ہے-
)۲(دوسری غلطی ملائکہ کے متعلق یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ بھی انسانوں کی طرح چل پھر کر اپنے فرائض ادا کرتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق بتایا کہ وہ تصرف کے ذریعہ سے کام کرتے ہیں نہ کہ خود ہر جگہ جاکر اگر انہیں ہر جگہ جاکر کام کرنا پڑتا تو عزرائیل کے لئے اس قدر آدمیوں کی جان یکدم نکالنی مشکل ہوتی- ہاں جب انہیں کسی مقام پر ظاہر ہونے کا حکم ہوتا ہے تو وہ اس جگہ متمثل ہو جاتے ہیں بغیر اس کے کہ اپنی جگہ سے ہلیں-
)۳(تیسری غلطی ملائکہ کے متعلق یہ لگ رہی تھی کہ گویا وہ بھی گناہ کر سکتے ہیں- چنانچہ آدم کے واقعہ کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ملائکہ نے خدا تعالیٰ پر اعتراض کیا کہ اسے کیوں پیدا کیا گیا ہے- اسی طرح خیال کیا جاتا تھا کہ بعض ملائکہ دنیا میں آئے اور ایک کنچنی پر عاشق ہو گئے- آخر اللہتعالیٰ نے انہیں سزا دی اور وہ چاہ بابل میں اب تک قید ہیں- حضرت مسیحموعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے ان اتہامات سے ملائکہ کو پاک کیا اور بتایا کہ ملائکہ تو قانون قدرت کی پہلی زنجیر ہیں- ان میں خیروشر کے اختیار کرنے کی قدرت ہی حاصل نہیں- انہیں تو جو کچھ خدا تعالیٰ کہتا ہے کرتے ہیں- نہ اس کے خلاف ایک بالشت ادھر ہو سکتے ہیں نہ ادھر-
)۴(چوتھی غلطی یہ لگ رہی تھی- کہ ملائکہ کو ایک فضول سا وجود سمجھا جاتا تھا- جیسے کہ بڑے بڑے بادشاہ اپنے گرد ایک حلقہ آدمیوں کا رکھتے ہیں گویا خدا تعالیٰ نے بھی اسی طرح انہیں رکھا ہوا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ ایسا نہیں بلکہ سب کارخانہ عالم انہی پر چل رہا ہے پھر ان کا کام انسانوں کے دلوں میں نیک تحریکات کرنا بھی ہے اور انسان ان سے تعلقات پیدا کر کے روحانی علوم میں ترقی کر سکتا ہے-
انبیاء کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ
چھٹا کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کیا کہ انبیاء کے متعلق جو غلطیاں پھیلی ہوئی تھیں ان کو دور کیا-
)۱(پہلی غلط فہمی انبیاء کے متعلق یہ تھی کہ مسلمانوں میں سے سنی سوائے اولیاء اللہ اور صوفیاء کے گروہ اور ان کے متعلقین کے عصمت انبیاء کے مخالف تھے بعض تو امکانات کی حد تک ہی رہتے لیکن بہت سے عملاً انبیاء کی طرف گناہ منسوب کرتے اور اس میں عیب محسوس نہ کرتے تھے- حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق کہتے تھے کہ انہوں نے تین جھوٹ بولے تھے- حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق کہتے کہ انہوں نے چوری کی تھی- حضرت الیاس علیہ السلام کے متعلق کہتے کہ وہ خدا سے ناراض ہو گئے تھے- دائود علیہ السلام کی نسبت کہتے کہ وہ کسی غیر کی بیوی پر عاشق ہو گئے تھے اور اس کے حصول کے لئے انہوں نے خاوند کو جنگ پر بھجوا کر مروا دیا- یہ مرض یہاں تک ترقی کر گیا کہ سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بھی محفوظ نہ رہی تھی-
)الف( حضرت مسیح موعودؑ نے بتایا کہ یہ خیالات بالکل غلط ہیں اور جو باتیں بیان کی جاتی ہیں بالکل جھوٹ ہیں- آپ نے ان باتوں کا غلط ہونا دو طرح ثابت کیا- ایک اس طرح کہ فرمایا یہ قانون قدرت ہے کہ معرفت کامل گناہ سوز ہوتی ہے- مثلاً جسے یقین کامل ہو کہ فلاں چیز زہر ہے` وہ کبھی اسے نہیں کھائے گا- پس جب یہ مانتے ہو کہ نبی کو معرفت کامل حاصل ہوتی ہے تو پھر یہ کہنا کہ نبی گناہ کا مرتکب ہو سکتا ہے` یہ دونوں باتیں متضاد ہیں- پس یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ نبی سے کوئی گناہ سرزدہو-
)ب(یہ کہ نبی کے بھیجنے کی ضرورت ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ ہو` ورنہ نبی کے آنے کی ضرورت ہی کیا ہے- کیا خدا تعالیٰ لکھی لکھائی کتاب نہیں بھیج سکتا تھا- پس نبی آتا ہی اس لئے ہے کہ خدا کے کلام پر عمل کر کے لوگوں کو دکھائے اور ان کے لئے کامل نمونہ بنے پس اگر نبی بھی گناہ کر سکتا ہے تو پھر وہ نمونہ کیا ہوگا- نبی کی تو غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ جو لفظوں میں خداتعالیٰ کی طرف سے حکم ہو وہ اپنے عمل سے لوگوں کو سکھائے-
)۲( دوسری غلطی جس میں لوگ مبتلا تھے یہ تھی کہ وہ خیال کرتے تھے کہ نبی سے اجتہادی غلطی نہیں ہو سکتی- عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو لوگ کہتے تھے کہ نبی گناہگار ہو سکتا ہے اور دوسری طرف یہ کہتے کہ نبی سے اجتہادی غلطی نہیں ہو سکتی- حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے اس مسئلہ کو علمی مسئلہ بنا دیا اور بتایا کہ-:
)الف(نبی سے اجتہادی غلطی نہ صرف ممکن ہے بلکہ ضروری ہے تا کہ معلوم ہو کہ نبی پر جو کلام نازل ہوا وہ اس کا نہیں بلکہ اور ہستی نے نازل کیا ہے- کیونکہ اپنی ذات کے سمجھنے میں کسی کو غلطی نہیں لگتی- کوئی یہ نہیں کہتا کہ فلاں بات جب میں نے کہی تھی تو اس کا میں نے اور مطلب سمجھا تھا اور اب اور سمجھتا ہوں- اس غلطی کا لگنا ثبوت ہوتا ہے اس امر کا کہ وہ بات اس کی بنائی ہوئی نہیں- پس آپ نے فرمایا کہ نبی سے اجتہادی غلطی سرزد ہونا ضروری ہے تا کہ اس کی سچائی کا ایک ثبوت بنے-
)ب(دوسرے نہ صرف نبی کو اجتہادی غلطی لگتی ہے بلکہ خدا تعالیٰ نبی سے اجتہادی غلطی بعض دفعہ خود کراتا ہے- تا کہ اول نبی کا اصطفاء کرے یعنی اس کا درجہ اور بلند کرے- اس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خواب ہے جب ان کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ بیٹے کو قتل کر دیں- کیونکہ اگر یہ مطلب ہوتا تو جب وہ قتل کرنے لگے تھے انہیں منع نہ کیا جاتا- لیکن حضرت ابراہیمؑ کو خواب ایسے رنگ میں دکھائی گئی کہ ابراہیمؑ کا ایمان لوگوں پر ظاہر ہو جائے- اور جب وہ اس کے ظاہری معنوں کی طرف مائل ہوئے تو اس کی حقیقت ان پر کھولی گئی حتی کہ وہ عملاً بیٹے کو قتل کرنے لگے تب بتایا گیا کہ ہمارا یہ مطلب نہ تھا اور یہ خدا تعالیٰ نے اسی لئے کیا تا دنیا کو بتا دے کہ خدا کے لئے ابراہیمؑ اپنا اکلوتا اور بڑھاپے کا بیٹا بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہے-
دوسری قسم کی اجتہادی غلطیاں ابتلائی ہوتی ہیں- یعنی بعض لوگوں کا امتحان لینے کیلئے- جیسے صلح حدیبیہ کے وقت ہوا کہ آپﷺ~ کو خواب میں طواف کا نظارہ دکھایا گیا- مگر اس سے مراد یہ تھی کہ آئندہ سال طواف ہوگا- آپﷺ~ نے سمجھا کہ ابھی عمرہ کر آئیں- اور ایک جماعت کثیر کو لے کر آپﷺ~ چل پڑے مگر اللہ تعالیٰ نے حقیقت کا پھر بھی اظہار نہ کیا- جب روک پیدا ہوئی تو کئی صحابہ کو حیرت ہوئی اور کمزور طبائع کے لوگ تو تمسخر کرنے لگے اور اس طرح مومنومنافق کے ایمان کی آزمائش ہوگئی-
یاد رکھنا چاہئے کہ الہام کے سمجھنے میں تب ہی اجتہادی غلطی لگ سکتی ہے جب الہام کے الفاظ تعبیر طلب ہوں یا جو نظارہ دکھایا جائے وہ تعبیر رکھتا ہو- اگر الہام دماغیاختراع ہوتا تو پھر دماغ سے ایسے الفاظ نکلتے جو واضح ہوتے نہ کہ تعبیر طلب نظارے یا الفاظ- تعبیر طلب نظارے تو ارادے کے ساتھ نہیں بنائے جا سکتے مثلاً دماغ کو اس سے کیا نسبت ہے کہ وہ قحط کو دبلی گائیوں کی شکل میں دکھائے پس اجتہادی غلطی کا سرزد ہونا الہام کے دماغی اختراع ہونے کے منافی ہے اور اس تشریح کی وجہ سے یورپ کی ان نئی تحقیقاتوں پر جو الہام کے متعلق ہو رہی ہیں` پانی پھر جاتا ہے- کیونکہ اجتہادی غلطی کی موجودگی میں جو باریک تعبیر کا دروازہ کھلا رکھتی ہے الہام کو انسانی دماغ کا اختراع کسی صورت میں قرار نہیں دیا جا سکتا- کیونکہ دماغی اختراع اگر فتور دماغ کا نتیجہ ہو گا تو پراگندہ ہوگا اور کبھی پورا نہ ہوگا- اگر ذہنیقابلیت کا نتیجہ ہو تو صاف الفاظ میں ہوگا` تعبیر طلب نہ ہوگا-
)۳(تیسری غلطی لوگوں کو شفاعت انبیاء کے متعلق لگی ہوئی تھی اور اس کی دو شقیں تھیں-
)الف(یہ کہ بعض لوگ خیال کرتے تھے کہ جو مرضی آئے کرو` شفاعت کے ذریعہ سب کچھ بخشا جائے گا- چنانچہ ایک شاعر کا قول ہے-
مستحق شفاعت گناہگاراں اند
یعنی شفاعت کے مستحق گناہگار ہی ہیں-
)ب( بعض لوگ اس کے الٹ یہ خیال کرتے تھے کہ شفاعت شرک ہے- اور صفاتباری تعالیٰ کے خلاف ہے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان دونوں غلطیوں کو دور کیا آپ نے مسئلہشفاعت کی یہ تشریح کی کہ شفاعت خاص حالتوں میں ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہوتی ہے- پس شفاعت پر توکل کرنا درست نہیں ہے- شفاعت اسی وقت ہو سکتی ہے جب کہ باوجود پوری کوشش کرنے کے پھر بھی انسان میں کچھ خامی رہ گئی ہو اور جب تک انسان شفیع کے ہمرنگ نہ ہو جائے شفاعت نہیں ہو سکتی- کیونکہ شفیع کے معنی ہیں جوڑا- اور جب تک کوئی رسول کا جوڑا نہ بن جائے شفاعت سے بخشا نہیں جا سکتا- پھر وہ جو کہتے ہیں شفاعت شرک ہے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا کہ اگر شفاعت حکومت کے ذریعہ کرائی جاتی- یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ سے حکما کہتے کہ فلاں کو بخش دے تو یہ شرک ہوتا- مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے شفاعت ہمارے اذن سے ہوگی یعنی ہم حکم دے کر رسول سے یہ کام کرائیں گے جب ہم کہیں گے کہ شفاعت کرو` تب نبی شفاعت کرے گا اور یہ امر شرک ہر گز نہیں ہو سکتا- اس میں نہ خدا تعالیٰ کی ہمسری ہے اور نہ اس کی کسی صفت پر پردہ پڑتا ہے-
آپ نے ثابت کیا کہ نہ صرف شفاعت جائز ہے بلکہ دنیا کی روحانی ترقی کیلئے ضروری ہے اور اس کے بغیر دنیا کی نجات ناممکن ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے کہ ورثہ سے کمالات ملتے ہیں اگر کوئی کہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کا باپ نماز نہیں پڑھتا- مگر بیٹا پکا نمازی ہوتا ہے` پھر اس بیٹے کو یہ بات ورثہ میں کس طرح ملی؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ باپ میں نماز پڑھنے کی قابلیت تھی تبھی بیٹے میں آئی ورنہ کبھی نہ آتی- بھینس میں یہ قابلیت نہیں ہوتی- اس لئے کسی بھینس کا بچہ ایسا نہیں ہوتا جو نماز پڑھ سکے- پس حق یہی ہے کہ کمالات ورثہ میں ملتے ہیں اور جب جسمانی کمالات ورثہ میں ملتے ہیں تو روحانی کمالات بھی ان اشخاص کو جو آدم کے مقام پر نہیں ہوتے بغیر ورثہ کے نہیں مل سکتے- پس انسانوں کے لئے جو اپنی ذات میں کمال حاصل نہیں کر سکتے` نبی بھیجے جاتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ ایسے انسان پیدا کرتا ہے جن پر آسمان سے روحانیت کے فیوض ڈالے جاتے ہیں- اور ان کو خدا تعالیٰ آدم قرار دیتا ہے پھر ان کی روحانیاولاد بن کر دوسرے لوگوں کو روحانی فیوض ملتے ہیں- اور اس طرح وہ نجات حاصل کرتے ہیں- پس شفاعت تو قانون قدرت سے کامل مطابقت رکھنے والا مسئلہ ہے نہ کہ اس کے خلاف-
)۴(انبیاء کے متعلق جن غلطیوں میں مسلمان مبتلا تھے ان میں سے چوتھے نمبر پر وہ غلطیاں ہیں- جو خصوصیت سے حضرت مسیح ناصری کے متعلق پیدا ہو رہی تھیں- مسیح کی ذات ایک نہیں متعدد غلطیوں کی آماجگاہ بنا دی گئی تھی- اور پھر تعجب یہ کہ ان کے متعلق مختلف اقوام غلط خیالات میں پڑی ہوئی تھیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب غلطیوں کو دور کیا-
سب سے پہلی غلطی حضرت مسیحؑ ناصری کی پیدائش کے متعلق تھی- مسلمان بھی اور دوسرے لوگ بھی اس غلطی میں مبتلا تھے کہ حضرت مسیحؑ کی پیدائش انسانی پیدائش سے بالا قسم کی پیدائش تھی- اور ان کا روح اللہ اور کلمہ اللہ سے پیدا ہونا اپنی مثال آپ ہی تھا- اس خیال سے بڑا شرک پیدا ہو گیا تھا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق فرمایا کہ سب انبیاء میں روح اللہ تھی اور سب کلمہ اللہ تھے- حضرت مسیحؑ پر چونکہ اعتراض کیا جاتا تھا اور انہیں نعوذباللہ ولد الزنا کہا جاتا تھا اس لئے ان کی بریت کے لئے ان کے متعلق یہ الفاظ استعمال کئے گئے ورنہ سارے نبی روح اللہ اور کلمہ اللہ تھے- قرآن کریم میں حضرتسلیمان کے کفر کا انکار کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایاماکفرسلیمن ۲۵~}~اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا تھا باقی سب انبیاء نے کیا تھا- ان کے کفر کے انکار کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان پر کفر کا الزام لگایا گیا تھا- اس لئے ان کے متعلق الزام کو رد کیا گیا- دوسرے انبیاء کے متعلق چونکہ اس قسم کا الزام نہیں لگا تھا اس لئے ان کے متعلق کفر کی نفی کرنے کی ضرورت نہ تھی-
یہی حال حضرت مسیح علیہ السلام کا تھا- جن کے متعلق یہود کا الزام تو الگ رہا` بڑے بڑے عیسائی بھی کہتے ہیں کہ وہ )نعوذباللہ(ولد الزنا تھے- مگر اس میں ان کا کیا قصور تھا- چنانچہ ٹالسٹائے جو ایک بہت مشہور عیسائی ہوا ہے- اس نے مفتی محمد صاحب کو لکھا کہ اور تو مرزاصاحب کی باتیں معقول ہیں لیکن مسیح کو بن باپ قرار دینا میری سمجھ میں نہیں آتا- اگر اس کی وجہ مسیح کو پیدائش کے داغ سے بچانا ہے تو اس کی کوئی ضرورت نہیں- کیونکہ اس قسم کی پیدائش میں خداوند کا کیا قصور تھا- غرض یہود چونکہ آپ کی پیدائش پر الزام لگاتے تھے کہ وہ شیطانی تھی اور خود مسیحیوں میں سے بعض نے آئندہ ایسا کرنا تھا` اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کی برائت کے لئے فرمایا کہ ان کی پیدائش روح اللہ سے تھی` کسی گناہ کا نتیجہ نہ تھی- اور کسی ایسے فعل کا نتیجہ نہ تھی جو خدا کی شریعت کے خلاف ہو بلکہ کلمہ اللہ کے مطابق تھی- پس روحاللہ اور کلمہ اللہ کے الفاظ سے مسیح کی پیدائش کا ذکر کرنا تعظیماً نہیں بلکہ اس کی برائت کیلئے ہے-
آپ نے یہ بھی بتایا کہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم مسیح کی پیدائش کو قانون قدرت سے بالا سمجھیں- ایسی پیدائش اور انسانوں میں بھی ہو سکتی ہے اور حیوانوں میں تو یقیناً ہوتی ہے- باقی رہا یہ سوال کہ کیوں خدا تعالیٰ نے انہیں بلا باپ پیدا کیا؟ باپ سے ہی کیوں نہ پیدا کیا- تو اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق بنیاسرائیل میں سے متواتر انبیاء آ رہے تھے- جب ان کی شرارت حد سے بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے مسیح کی پیدائش کے ذریعہ سے انہیں آخری بار تنبیہہ کی اور بتایا کہ اب تک ہم معاف کر کے تمہارے اندر سے نبی بھیجتے رہے ہیں- مگر اب ہم ایک انسان کو بھیجتے ہیں جو ماں کی طرف سے بنی اسرائیل ہے اور باپ کی طرف سے نہیں- اگر آئندہ بھی باز نہ آئو گے- تو ایسا ہی آئے گا جو ماں باپ دونوں کی طرف سے غیر اسرائیلی ہوگا- چنانچہ جب بنی اسرائیل نے اس تنبیہہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا اور شرارت میں بڑھتے گئے تو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا جو کلی طور پر بنیاسرائیل سے جداتھے-
پس حضرت مسیحؑ کی بے باپ پیدائش بطور رحمت کے نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے لئے بطور انذار تھی- چنانچہ اس کا انجام یہی ہوا-
دوسری غلطی مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق یہ لگی ہوئی تھی کہ مسلمان خیال کرتے تھے کہ صرف حضرت مسیح اور ان کی ماں مسشیطان سے پاک تھیں- اور کوئی انسان ایسا نہیں ہوا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق بتایا کہ کل انبیاء بلکہ مومن بھی مسشیطان سے پاک ہوتے ہیں- چنانچہ مومنوں کو حکم ہے کہ جب وہ بیوی کے پاس جائیں تو یہ دعا پڑھا کریں-اللھم جنبنا الشیطان وجنب الشیطان ما رزقتنا- ۲۶~}~ایاللہ! مجھے بھی شیطان سے بچا اور میری اولاد کو بھی بچا- اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جو بچہ پیدا ہوگا اسے شیطان مس نہ کرے گا- یہ گر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسشیطان سے اولاد کو محفوظ رکھنے کا بتایا ہے- پس جب امت محمدیہﷺ~ کے افراد بھی مسشیطان سے پاک ہو سکتے ہیں تو انبیاء اور خصوصاً سید ولد آدم کیوں محفوظ نہ ہوں گے- آپ نے بتایا کہ حدیثوں میں جو یہ آیا ہے کہ حضرت مسیح اور ان کی والدہ مس شیطان سے پاک تھیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ حضرتمسیح پر ولد الزنا ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تردید فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ وہ مسشیطان سے پاک تھے یعنی ان کی پیدائش شیطانی نہ تھی- پس حدیث میں جو ان کے پاک ہونے کا ذکر آتا ہے اس سے مراد مسیح اور ابن مریم کی طرح کے لوگ ہیں نہ کہ صرف حضرت مسیح اور حضرت مریم- چنانچہ ان دونوں ناموں کو سورۃ تحریم میں بطور مثال بیان بھی کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی یہ اصطلاح ہے کہ وہ مومنوں کے ایک گروہ کا نام مسیح اور دوسرے کا مریم رکھتا ہے-
)۳( تیسری غلطی حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات کے متعلق لگی ہوئی تھی- مثلاً لوگ کہتے تھے- حضرت مسیح نے مردے زندہ کئے` وہ پرندے پیدا کرتے تھے- حضرت مسیحموعود علیہ السلام نے ان غلطیوں کو بھی دور فرمایا اور بتایا کہ خدا تعالیٰ اپنی صفات کسی کو نہیں دیتا- قرآن کریم میں صاف الفاظ میں بیان ہے کہ مردے زندہ کرنا اور پیدا کرنا صرف اسی کا کام ہے- اور مردے زندہ کرنے کے متعلق تو وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ اس دنیا میں وہ مردے زندہ کرتا ہی نہیں- پس یہ خیال کرنا کہ حضرت مسیح ناصری نے فی الواقع مردے زندہ کئے یا جانور پیدا کئے شرک ہے- اور ہرگز درست نہیں ہاں انہوں نے روحانی طور پر ایسی باتیں کیں یا علم الترب کے ذریعہ سے بعض نشانات دکھائے یا یہ کہ ایسے لوگ ان کی دعا سے اچھے ہوئے جو قریبالمرگ تھے-
)۴(چوتھی غلطی لوگوں کو حضرت مسیحؑ کی تعلیم کے متعلق یہ لگی ہوئی تھی کہ سمجھا جاتا تھا کہ ان کی تعلیم سب سے اعلیٰ اور بہت مکمل ہے حضرت مسیح نے جو یہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑے مارے تو تو دوسرا بھی پھیر دے` یہ کمال حلم کی تعلیم ہے اور اس سے بڑھ کر اخلاقیتعلیم ہو ہی نہیں سکتی- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تعلیم ایک وقت اور ایک قوم کے لئے تو اچھی ہو سکتی تھی- لیکن ہر وقت اور ہر قوم کیلئے یہ تعلیم ہرگز اچھی نہیں- اس لئے سب سے کامل تعلیم نہیں کہلا سکتی- اس تعلیم کی اصل وجہ یہ تھی کہ یہود میں بہت سختی پیدا ہو گئی تھی اور وہ بڑے ظلم کیا کرتے تھے- اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کے ذریعہ سے ان کو انتہائی درجہ کی نرمی کی تعلیم دی تا کہ ان کی خشونت کم ہو` ورنہ اس تعلیم پر ہر موقع پر ہر گز عمل نہیں ہو سکتا-
اس موقع پر مجھے مصر کا ایک واقعہ یاد آ گیا ہے- کہتے ہیں ایک پادری صاحب وعظ کیا کرتے تھے- دیکھو مسیح نے کیسی اعلیٰ تعلیم دی ہے- وہ کہتے ہیں اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دو- ایک دن مجمع میں سے ایک مصری نے نکل کر پادری صاحب کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کر دیا- پادری صاحب اس پر بہت غصے ہوئے اور اسے مارنے کے لئے آگے بڑھے- اس مصری مسلمان نے کہا کہ مسیح کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے تو تمہیں دوسرا گال بھی میری طرف پھیرنا چاہئے تھا تا کہ میں اس پر بھی طمانچہ ماروں- پادری صاحب نے جواب دیا کہ نہیں اس وقت تو میں مسیح کی تعلیم پر نہیں بلکہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرونگا` ورنہ تم لوگ بہت دلیر ہو جائو گے- پس جیسا کہ عقل بتاتی ہے اور جیسا کہ مسیحی لوگوں کا طریق عمل بتایا ہے اس تعلیم پر ہمیشہ عمل نہیں ہو سکتا-
غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ثابت کیا کہ حضرت مسیح کی تعلیم نامکمل ہے اور اس پر ہر وقت اور ہر زمانہ میں عمل نہیں کیا جا سکتا اس کے مقابلہ میں آپ نے بتایا کہ قرآن کی تعلیم کامل ہے اور ہر زمانہ اور ہر وقت کیلئے ہے-
)۵(پانچویں غلطی حضرت مسیح علیہ السلام کے واقعہ صلیب کے متعلق تھی- جس میں مسلمان اور یہود اور عیسائی سب مبتلا تھے- مسلمان کہتے تھے یہود نے حضرتمسیح کی بجائے کسی اور کو صلیب پر لٹکا دیا تھا- اور انہیں خدا نے آسمان پر اٹھا لیا تھا- یہود اور عیسائی کہتے تھے کہ حضرت مسیح کو ہی صلیب پر لٹکا کر مار دیا گیا تھا- مسلمانوں کے خیال کو تو حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے اس طرح رد کیا کہ فرمایا-:
حضرت مسیح کی بجائے کسی اور کو صلیب پر لٹکانا صریح ظلم تھا- اور اگر اس شخص کی مرضی سے لٹکایا گیا تھا تو اس کا ثبوت تاریخ میں ہونا چاہئے- پھر اگر مسیح کو خدا نے آسمان پر اٹھا لینا تھا- تو کسی اور غریب کو صلیب پر چڑھانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ پس یہ غلط ہے کہ مسیح کی جگہ کسی اور کو صلیب پر لٹکایا گیا- اور یہ بھی کہ انہیں آسمان پر اٹھا لیا گیا- دوسری طرف آپ نے یہود اور مسیحیوں کی بھی تردید کی کہ مسیح صلیب پر مر گیا تھا اور ثابت کیا کہ حضرت مسیح کو صلیب سے زندہ اتار لیا گیا تھا اور اس طرح خدا نے ان کو *** موت سے بچا لیا-
اب دیکھو انیس سو سال کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اس واقعہ کی اصل حقیقت کا پتہ لگانا کتنا بڑا کام ہے- خصوصاً جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح کے صلیب پر سے زندہ اترنے کے ثبوت آپ نے خود انجیل سے ہی دیئے ہیں- مثلاً یہ کہ حضرت مسیح سے ایک دفعہ علماء وقت نے نشان طلب کیا تھا- تو اس نے انہیں جواب میں کہا-
’’اس زمانہ کے برے اور زناکار لوگ نشان طلب کرتے ہیں- مگر یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا- کیونکہ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا- ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا‘‘- ۲۷~}~
تورات سے ثابت ہے کہ حضرت یونسؑ تین دن تک مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے تھے اور پھر زندہ ہی نکلے تھے- پس ضروری تھا کہ حضرت مسیح ناصری بھی صلیب کے واقعہ کے موقع پر زندہ ہی قبر میں داخل کئے جاتے اور زندہ ہی نکلتے پس یہ خیال کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر مر گئے تھے انجیل کے صریح خلاف ہے اور خود مسیح کی تکذیب اس سے لازم آتی ہے-
عیسائیت کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعودؑ کا یہ اتنا بڑا حربہ ہے کہ آپ کے کام کی عظمت ثابت کرنے کیلئے اکیلا ہی کافی ہے مگر آپ نے اس پر بھی بس نہیں کی- بلکہ آپ نے تاریخ سے ثابت کر دیا ہے کہ حضرت مسیح ناصری واقعہ صلیب کے بعد کشمیر آئے اور وہاں آ کر فوت ہوئے گویا ان کی سب زندگی کو پردہ اخفاء سے نکال کر ظاہر کر دیا-
)۶(چھٹی غلطی حضرت مسیح کی زندگی اور دوبارہ آنے کے متعلق تھی اس غلطی کو بھی آپ نے ظاہر کیا اور بتایا کہ اس میں خدا تعالیٰ کی ہتک ہے کہ وہ اپنے کام کے لئے ایک پرانا آدمی سنبھال کر رکھ چھوڑے اور نیا آدمی نہ بنا سکے کیا جو صبح کی باسی روٹی رکھ کر شام کو کھائے اسے امیر کہا جائے گا؟ یہ باسی روٹی رکھنے والے کی امارت نہیں بلکہ غربت کا ثبوت ہوگا- وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں- کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کو زندہ رکھا ہوا ہے تا کہ ان کے ذریعہ امتمحمدیہﷺ~ کی اصلاح کرے- ان کے کہنے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ )نعوذ باللہ( اللہ تعالیٰ سے حضرت عیسیٰ جیسا انسان اتفاقاً بن گیا تھا جسے اس نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے کہ جب دنیا میں فتنہ ہوگا تو اسے نازل کرے گا- مگر یہ غلط ہے جس طرح امیروں کا یہ کام ہوتا ہے کہ جو روٹی بچ رہے اسے غریبوں میں بانٹ دیتے ہیں اور دوسرے وقت نیا کھانا تیار کرتے ہیں- اسی طرح اللہتعالیٰ بھی ہر زمانہ کے مطابق نئے بندے پیدا کرتا ہے- پھر اگر اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو سنبھال کر زندہ رکھنا ہوتا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے انسان کو زندہ رکھتا مگر آپﷺ~ تو فوت ہو گئے- کیا دنیا میں کوئی انسان ایسا ہے جو عمدہ دوا کو تو پھینک دے اور ادنیٰ دوا کو سنبھال کر رکھ چھوڑے اور پھر خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر حضرت عیسیٰ کو کیوں زندہ رکھا-
آپ نے یہ بھی بتایا کہ حضرت عیسیٰ کو زندہ رکھنے اور امت محمدیہﷺ~ کی اصلاح کے لئے بھیجنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو سب سے بڑے معلم تھے اور آپﷺ~ کا کام اعلیٰ درجہ کے شاگرد پیدا کرنا تھا- مگر کہا یہ جاتا ہے کہ اس زمانہ میں جب کہ امتمحمدیہ میں فتنہ پیدا ہوگا` اس وقت محمد2] [stf صلی اللہ علیہ وسلم تو کوئی ایسا شاگرد نہ پیدا کر سکیں گے جو اس فتنہ کو دور کر سکے مگر حضرت عیسیٰؑ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں سے تھے` اس کام کے لئے لائے جائیں گے- نیز اس عقیدہ میں امت محمدیہ کی بھی ہتک ہے- کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب سے نازک موقع پر خطرناک طور پر ناقابل ثابت ہوگی- حتیکہ دجال تو اس میں پیدا ہوں گے مگر مسیح دوسری امت سے آئے گا-
آپ نے یہ بھی بتایا کہ حضرت مسیح جن کی عزت کے لئے یہ عقیدہ بنایا گیا ہے اس میں ان کی بھی درحقیقت ہتک ہے کیونکہ وہ مستقل نبی تھے- اگر وہ دوبارہ آئیں گے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ اس نبوت سے علیحدہ کر دیئے جائیں گے اور انہیں امتی بننا پڑے گا-
معجزات کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ
ساتواں کام حضرت مسیح موعودعلیہالصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ معجزات کے متعلق جو غلطفہمیاں تھیں` ان کی اصلاح کی- دنیا معجزات کے متعلق دو گروہوں میں تقسیم تھی- بعض لوگ معجزات کے کلی طور پر منکر تھے- اور بعض ہر رطب و یابس قصہ کو صحیح تسلیم کر رہے تھے جو لوگ معجزات کے منکر تھے- انہیں آپ نے علاوہ دلائل کے اپنے معجزات کو پیش کر کے ساکت کیا اور دعویٰ کیا کہ ~}~
کرامت گرچہ بے نام و نشان است
بیا بنگر زغلمان محمد
جو لوگ ہر رطب و یابس حکایت کو معجزہ قرار دے رہے تھے انہیں آپ نے بتایا کہ معجزہ تو ایک غیر معمولی کیفیت کا نام ہے اور غیر معمولی امور کے تسلیم کرنے کیلئے غیر معمولی ثبوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے- پس انہی معجزات کو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ )۱(جن کا ذکر الہامی کتاب میں ہو- یا یہ کہ ان کی تائید میں زبردست تاریخی ثبوت ہو )۲(دوسرے جو سنت اللہ کے خلاف نہ ہو خواہ بظاہر اچنبھا نظر آئے- مثلاً خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ کوئی مردہ اس دنیا میں زندہ نہیں ہو سکتا- اگر کوئی کہے کہ فلاں نبی یا ولی نے مردہ زندہ کیا ہے تو چونکہ یہ قرآن کے خلاف ہوگا` ہم اسے ہر گز تسلیم نہیں کریں گے- کیونکہ معجزہ دکھانے والی ہستی نے خود فرما دیا ہے کہ وہ مردہ زندہ نہیں کرے گی-
یہ عجیب بات ہے کہ مسلمان نہ صرف حضرت عیسیٰ کو بلکہ اور لوگوں کو بھی مردے زندہ کرنے والے قرار دیتے ہیں- ہندو ان سے بھی بڑھ گئے ہیں- مسلمانوں میں تو ایسی روایات ہیں کہ کوئی بزرگ تھے جن کے سامنے پکا ہوا مرغ لایا گیا- انہوں نے مزے سے اس کا گوشت کھایا اور پھر اس کی ہڈیاں جمع کر کے ہاتھ میں پکڑ کر دبائیں اور وہ کڑ کڑ کرتا ہوا مرغ بن گیا- مگر ہندو ان سے بھی عجیب و غریب باتیں بیان کرتے- مثلاً کہتے ہیں کہ ان کے کوئی رشی تھے جو کہیں جا رہے تھے کہ انہوں نے ایک خوبصورت عورت دیکھ کر اسے پھسلانا چاہا` مگر وہ راغب نہ ہوئی کیونکہ بدبخت تھی- اس وقت اس رشی کو یونہی انزال ہو گیا اور انہوں نے دھوتی اتار کر پھینک دی- تھوڑی دیر کے بعد اس دھوتی سے بچہ پیدا ہو گیا کیونکہ رشی کا نطفہ ضائع نہیں جا سکتا تھا- اسی طرح نیل کنٹھ کے متعلق جو ایک چھوٹا سا پرندہ ہے کہتے ہیں اس نے ایک دریا کا سارا پانی پی لیا- ایک برات جا رہی تھی اسے کھا گیا اور ابھی اس کا پیٹ نہیں بھرا تھا-
اب مسلمان ایسے معجزات کہاں سے لائیں گے اس لئے اسی میں ان کی بہتری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معجزوں کے متعلق جو شرط قرار دی ہے اسے مان لیں- ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے معجزات لوگوں سے منوائیں اور دوسروں کے معجزات سے انکار کریں-
)۳(تیسری شرط آپ نے یہ بتائی کہ معجزہ میں ایک رنگ کا اخفاء ضروری ہے اگر اخفاء نہ رہے تو معجزہ کی اصل غرض جو ایمان کا پیدا کرنا ہے ضائع ہو جاتی ہے- مثلاً اگر عزرائیل آئے اور کہے کہ فلاں نبی کو مان لو ورنہ ابھی جان نکالتا ہوں تو فوراً تمام لوگ مان لیں گے اور ایسے ایمان کا کوئی فائدہ نہ ہوگا- پس معجزہ کیلئے اخفاء ضروری ہے- کیونکہ معجزہ ایمان کیلئے ہوتا ہے اگر اس میں اخفاء نہ رہے تو اس پر ایمان لانا کیا فائدہ دے سکتا ہے- ہاں اس قدر مخفی بھی نہ ہونا چاہئے کہ دلیل کے درجہ سے ہی ساقط ہو جائے` ورنہ پھر لوگوں کے لئے حجت نہ رہے گا-
)۴(چوتھی شرط یہ ہے کہ معجزہ میں کوئی فائدہ مدنظر ہو کیونکہ معجزہ لغو نہیں ہوتا اور تماشہ کی طرح نہیں دکھایا جاتا بلکہ اس کی کوئی نہ کوئی غایت اور غرض ہوتی ہے- پس جو معجزہ کسی مقصد اور فائدہ پر مشتمل ہو اسی کو تسلیم کیا جا سکتا ہے ورنہ اسے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا-
شریعت کی عظمت کا قیام
آٹھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ شریعت کی عظمت قائم کی- شریعت کی عظمت غیر مسلموں میں بھی اور مسلمانوں میں بھی بالکل مٹی ہوئی تھی- آپ کے ذریعہ سے وہ پھر قائم ہوئی-
)۱(سب سے بڑا وسوسہ شریعت کے متعلق یہ پیدا ہوگیا تھا کہ لوگ شریعت کو چٹی سمجھتے تھے- عیسائی کہتے تھے یسوع مسیح انسانوں کو شریعت سے بچانے کے لئے آیا تھا- گویا شریعت چٹی تھی جس سے وہ بچانے آئے تھے- حالانکہ شریعت تو راہنمائی کے لئے تھی اور کوئی شخص راہنمائی کو چٹی نہیں کہتا- کیا اگر کوئی کسی کو سیدھا راستہ بتائے تو وہ یہ کہا کرتا ہے کہ ہائے اس نے مجھ پر چٹی ڈال دی- مسلمان بھی شریعت کو چٹی سمجھتے تھے کیونکہ انہوں نے اس قسم کی کوششیں کی ہیں کہ شریعت کے فلاں حکم سے بچنے کیلئے کیا حیلہ ہے اور فلاں کیلئے کیا- حتی کہ بعض لوگوں نے کتابالحیل لکھ دی ہے- اگر وہ شریعت کو *** نہ سمجھتے تو اس سے بچنے کے لئے حیلے کیوں تلاش کرتے- وہابی کسی قدر اس سے بچے ہوئے تھے مگر دوسرے مسلمانوں نے عجیب عجیب حیلے تراشے ہوئے تھے- مثلاً ایک مشہور فقہ کی کتاب میں لکھا ہے کہ قربانی کرنا عید کی نماز کے بعد سنت ہے لیکن اگر کسی کو نماز سے پہلے قربانی کرنے کی ضرورت ہو تو وہ یوں کرے کہ شہر کے پاس کے کسی گائوں میں جا کر بکرا ذبح کر دے- کیونکہ عید شہر میں ہو سکتی ہے اور اس جگہ کے لئے عید کے بعد قربانی کی شرط ہے` اور وہاں سے گوشت شہر میں لے آئے-
غرض پچھلے زمانہ میں مولویوں کا کام ہی یہ رہ گیا تھا کہ لوگوں کو حیلے بتائیں- اور لوگ بھی ان سے حیلے ہی دریافت کرتے رہتے تھے- مشہور ہے کہ کچھ لڑکوں نے مردہ گدھے کا گوشت کھا لیا- اس پر مولوی صاحب نے کہا- یہ بہت بڑا گناہ ہوا ہے- لڑکوں کے والدین کو چاہئے کہ ایک شہتیر کھڑا کر کے اسے روٹیوں سے ڈھانپیں اور وہ روٹیاں خیرات کر دی جائیں- کسی نے کہہ دیا- مولوی صاحب آپ کا لڑکا بھی ان میں شامل تھا- اس پر کہنے لگے کہ ذرا ٹھہر جائو- میں پھر غور کر لوں- آخر کہنے لگے کہ یوں بھی ہو سکتا ہے- شہتیر کو زمین پر لمبا ڈال کر اس پر ایک ایک روٹی رکھ دی جائے اور اس طرح اسے ڈھانپ دیا جائے-
)۲( دوسرا وسوسہ یہ پیدا ہو رہا تھا کہ بعض لوگ کہتے تھے کہ شریعت تو اصل مقصد نہیں ہے اصل مقصد تو انسان کا خدا تعالیٰ تک پہنچنا ہے پس جب خدا تعالیٰ تک پہنچ گئے تو پھر شریعت پر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے-
یہ ایک خطرناک مرض تھا جو لوگوں میں پیدا ہو گیا تھا- صوفی کہلانے والے شریعت کے احکام پر عمل کرنا چھوڑ رہے تھے اور جب مسلمان ان سے پوچھتے کہ شریعت کے احکام پر کیوں عمل نہیں کرتے تو کہتے ہم خدا تعالیٰ تک پہنچ گئے ہیں- اب ہمیں شریعت کے احکام پر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے- اسی عقیدہ کا ایک آدمی ایک دفعہ میرے پاس بھی آیا تھا- میں جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر بیٹھا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ یہ فرمائیں کہ کوئی شخص کشتی میں بیٹھ کر دوسرے کنارے تک پہنچ جائے تو پھر کیا اسے کشتی میں ہی بیٹھ رہنا چاہئے یا کشتی سے اتر جانا چاہئے- اس کا مطلب یہ تھا کہ جب خدا مل جائے تو پھر شریعت پر چلنے کی کیا ضرورت ہے- جونہی اس نے یہ بات کہی` میں اس کا مطلب سمجھ گیا- میں نے کہا-:
اگر دریا کا کنارہ ہو تو بے شک کشتی کو چھوڑ کر اتر جائے- لیکن اگر کنارہ ہی نظر نہ آئے تو پھر کہاں اترے- ایسی صورت میں اگر اتر گیا تو غرق ہی ہوگا- یہ سنکر وہ بہت شرمندہ ہوا اور کوئی جواب نہ دے سکا- میرا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب کوئی محدود شے تو نہیں کہ کہہ دیا جائے قرب حاصل ہو گیا ہے` اب شریعت کی کیا ضرورت ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس شبہ کا بھی خوب اچھی طرح ازالہ کیا اور بتایا کہ بے شک انسان کا اصل مقصد خدا تعالیٰ تک پہنچنا ہے شریعت پر عمل کرتے رہنا نہیں` مگر خدا تک پہنچنے کے اتنے مدارج ہیں جو ابدالاباد تک ختم نہیں ہو سکتے- اگر کوئی کہے کہ میں خدا تک پہنچ گیا` آگے کوئی درجہ نہیں ہے تو اس کے نزدیک گویا خدا تعالیٰ محدود ہوگا اور یہ عقیدہ کسی کا بھی نہیں ہے- پس جب خدا تعالیٰ کے قرب کے مدارج ختم نہیں ہو سکتے تو ان مدارج کو جس ذریعہ )شریعت( سے حاصل کیا جاتا ہے اسے بھی چھوڑا نہیں جا سکتا-
)۳(تیسرا شبہ یہ پیدا ہو رہا تھا کہ بعض لوگ اس غلطی میں مبتلا ہو گئے تھے کہ رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اعمال جزو شریعت ہیں- اس وجہ سے اگر کوئی مولوی کسی کا پاجامہ ٹخنے سے نیچے دیکھتا تو جھٹ کہہ دیتا کہ یہ کافر ہے- کھانے کے بعد کسی کو ہاتھ دھوتے دیکھا تو کہہ دیا کافر ہے کیونکہ یہ رسول کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف کرتا ہے- حالانکہ بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سالن میں مسالے نہ پڑتے تھے- زیتون کے تیل سے روٹی کھا لیتے تھے- اور یہ تیل بالوں کو بھی ملا جاتا تھا- اس لئے کھانے کے بعد منہ پر مل لیتے- اب سالن میں ہلدی اور کئی قسم کے مسالے پڑتے ہیں مگر اب بھی کئی مولوی منہ پر ہاتھ ملنے کو سنت قرار دینے والے` مسالے سے بھرے ہوئے ہاتھ منہ پر مل لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ سنت ہے- ہم کہتے ہیں اگر تم زیتون کے تیل سے کھانا کھائو تو بیشک ہاتھ کھانے کے بعد منہ پر مل لو- اور اس کے لئے ہم بھی تیار ہیں- مگر تم سالن میں جب تک مسالہ ہلدی اور مرچ نہ ہو` کھاتے ہی نہیں` پھر ان مسالوں کو کون منہ پر ملے- ایک دفعہ میں نے ایک مولوی صاحب کی دعوت کی- کھانے کے بعد جب ہاتھ دھونے کیلئے چلمچی آئی تو انہوں نے بڑی حقارت سے اسے پرے ہٹا کر کہا یہ سنت کے خلاف ہے میں ہاتھ نہیں دھوئوں گا- اور سالن سے بھرے ہوئے ہاتھ منہ پر مل لئے- درحقیقت یہ سنت کے خلاف نہیں- حدیث میں صاف آتا ہے کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کھانے سے پہلے بھی ہاتھ دھوئے اور بعد میں بھی-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس غلطی کا ازالہ یوں فرمایا ہے کہ رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کئی قسم کے ہیں- ایک وہ اعمال ہیں جو آپ ہمیشہ کرتے اور جن کے کرنے کا آپ نے دوسروں کو بھی حکم دیا اور فرمایا اس طرح کیا کرو- ان کا کرنا واجب ہے )۲(وہ اعمال جو عام طور پر آپﷺ~ کرتے اور دوسروں کو کرنے کی نصیحت بھی کرتے` یہ سنن ہیں- )۳(وہ اعمال جو آپکرتے اور دوسروں کو فرماتے کہ کر لیا کرو تو اچھے ہیں یہ مستحب ہیں )۴(وہ اعمال جنہیں آپ مختلف طور پر ادا کرتے ان کا سب طریقوں سے کرنا جائز ہے )۵(ایک وہ اعمال ہیں جو کھانے پینے کے متعلق تھے ان میں نہ آپ دوسروں کو کرنے کے لئے کہتے اور نہ کوئی ہدایت دیتے- آپ ان میں عرب کے رواج پر عمل کرتے- ان احکام میں ہر ملک کا انسان اپنے ملک کے رواج پر عمل کر سکتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گوہ لائی گئی جو آپ نے نہ کھائی- اس پر پوچھا گیا کہ اس کا کھانا حرام ہے؟ آپ نے فرمایا- نہیں حرام نہیں- مگر ہمارے ہاں لوگ اسے کھاتے نہیں- اسلئے میں بھی اسے نہیں کھاتا- ۲۸~}~
اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ جن امور میں شریعت ساکت ہو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ثابت نہ ہو- انہیں حتی الوسع ملک کے دستور اور رواج کے مطابق کر لینا چاہئے تا کہ خواہ مخواہ لوگوں میں نفرت نہ پیدا ہو- ایسے امور سنت نہیں کہلاتے- جوں جوں ملک کے حالات کے ماتحت لوگ ان میں تبدیلی کرتے جائیں` اس پر عمل کرنا چاہئے-
)۴(چوتھی غلطی یہ لگ رہی تھی- کہ بعض لوگوں کے نزدیک شریعت صرف کلام الہی تک محدود تھی- نبی کا شریعت سے کوئی تعلق نہ سمجھا جاتا تھا جیسا کہ چکڑالوی کہتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق بتایا کہ شریعت کے دو حصے ہیں- )۱(ایک اصولی حصہ ہے جس پر دینی` اخلاقی` تمدنی` سیاسی کاموں کا مدار ہے- )۲(دوسرا حصہ جزئیتشریحات اور علمی تفصیلات کا ہے- یہ خدا تعالیٰ نبیوں کے ذریعہ کراتا ہے تا کہ نبیوں سے بھی مخلوق کو تعلق پیدا ہو- اور وہ لوگوں کے لئے اسوہ بنیں- پس شریعت میں نبی کی تشریحات بھی شامل ہیں-
عبادات کے متعلق اصلاح
)۹(نواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عبادات کی اصلاح کا کیا ہے اس کے متعلق لوگوں کو )۱(اول تو یہ وسوسہ پیدا ہو گیا تھا کہ عبادت صرف دل سے تعلق رکھتی ہے جسم کو اس سے تعلق نہیں- چنانچہ قریباً بیس سال ہوئے ہیں کہ علی گڑھ میں ایک شخص نے لیکچر دیا- جس میں بیان کیا کہ اب چونکہ زمانہ ترقی کر گیا ہے اس لئے پہلے زمانہ کا طریق عبادت اس وقت قابل عمل نہیں ہے- اب صرف اتنا کافی ہے کہ اگر کوئی نماز پڑھنا چاہے تو بیٹھے بیٹھے ذرا میز پر سر جھکا کر خدا کو یاد کرلے- روزہ اس طرح رکھا جا سکتا ہے کہ پیٹ بھر کے نہ کھائے- چند بسکٹ ایک آدھ چائے کی پیالی پی لے تو کوئی حرج نہیں ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ عبادات کا تعلق روح سے ہے اور روح کا تعلق جسم سے ہے- اگر جسم کو عبادت میں نہ لگائیں گے تو قلبی خشوع نہ پیدا ہوگا- پس جسمانی عبادت کو فضول سمجھنا نہایت غلط طریق اور مہلک راہ ہے اور اصول عبادت کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ایسا خیال پیدا ہوتا ہے-
)۲(دوسری غلطی لوگوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ نماز میں دعا کرنا بھول گئے تھے- سنیوں میں تو نماز میں دعا کرنا گویا کفر سمجھا جاتا تھا- ان کا خیال تھا کہ نماز پڑھ چکنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنی چاہئے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے جب اس بات کا ذکر آتا تو آپ ہنستے اور فرماتے- ان لوگوں کی تو ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی بادشاہ کے دربار میں جائے مگر وہاں چپ چاپ کھڑا رہ کر واپس آ جائے- اور جب دربار سے باہر آ جائے تو کہے حضور مجھے یہ کچھ دلایا جائے وہ کچھ دلایا جائے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ دعا نماز میں کرنی چاہئے اور اپنی زبان میں بھی کرنی چاہئے تا کہ جوش پیدا ہو-
)۳( بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ ظاہری عبادت کافی ہے- ہاتھ میں تسبیح پکڑ لی اور بیٹھ گئے- ان لوگوں کی حالت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ میں نے ایک کتاب دیکھی ہے جس میں لکھا تھا- اگر کوئی فلاں دعا پڑھ لے تو سارے صلحاء کی نیکیاں اسے مل جائیں گی- اور سب گناہگاروں کے برابر گناہ اگر اس نے کئے ہوں تو وہ بخشے جائیں گے- جن لوگوں کا یہ خیال ہو انہیں روزانہ نمازیں پڑھنے کی کیا ضرورت محسوس ہو سکتی ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا-: یہ جسم تو گھوڑا ہے اور روح اس پر سوار ہے- تم نے گھوڑے کو پکڑ لیا اور سوار کو چھوڑ دیا- ظاہری عبادتیں تو روحانی پاکیزگی کا ذریعہ ہیں اس لئے قلبی پاکیزگی پیدا کرو جو اصل مقصود ہے-
فقہ کی اصلاح
دسواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ فقہ کی اصلاح کی جس میں سخت خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں اور اس قدر اختلاف ہو رہا تھا کہ حد نہ رہی تھی آپ نے اس کے متعلق زریں اصول باندھا اور فرمایا شریعت کی بنیاد مندرجہذیل چیزوں پر ہے-
)۱( قرآن کریم )۲( سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم )۳( احادیث جو قرآن کریم اور سنت اور عقل کے خلاف نہ ہوں )۴( تفقہ فی الدین )۵( اختلاف طبائع و حالات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ایک عظیم الشان کارنامہ ہے کہ آپ نے سنت اور حدیث کو الگ الگ کیا- آپ نے فرمایا- سنت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عمل ہے جس پر آپﷺ~ قائم ہوئے اور دوسروں کو اس کی ترغیب دی- اور حدیث وہ قول ہے جو آپﷺ~ نے بیان کیا-
اب دیکھو ان پانچ اصول سے آپ نے کیسی اصلاح کر دی ہے- سب سے اول درجہ پر آپ نے قرآن کریم کو رکھا کہ وہ خدا کا کلام ہے مفصل ہے مکمل ہے اس میں نہ کوئی تبدیلی ہو گی نہ ہوئی ہے` نہ کوئی تبدیلی کر سکتا ہے کیونکہ اس کی حفاظت کا وعدہ ہے- ایسے کلام سے بڑھ کر کونسی بات معتبر ہو سکتی ہے- اس کے بعد سنت ہے کہ صرف قول سے اس کا تعلق نہیں بلکہ عمل سے ہے اور عمل بھی وہ جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود کیا کرتے تھے اور متواتر کرتے تھے- ہزاروں لوگ اسے دیکھتے تھے اور اس کی نقل کرتے تھے- یہ نہیں کہ ایک یا دو یا تین کی گواہی ہو کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کہتے سنا بلکہ ہزاروں آدمیوں کا عمل کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں کرتے دیکھ کر آپ کی اتباع میں ایسا کام شروع کیا- اس سنت میں غلطی کا احتمال بہت ہی کم رہ جاتا ہے- اور یہ حدیث سے جو چند افراد کی شہادت ہوتی ہے بہت افضل ہے- اس کے بعد آپ نے حدیث کو رکھا- لیکن ان کے متعلق یہ شرط لگائی کہ صرف راویوں کی پرکھ ان کی صداقت کی علامت نہیں بلکہ ان کا قرآنکریم` سنت اور قانون قدرت کے مطابق ہونا ضروری ہے- حدیث کے بعد تفقہ فیالدین کا مرتبہ رکھا کہ عقل کو استعمال کر کے جو مسائل میں ترقی ہوتی ہے اس کے لئے بھی رستہ کھلا رہے- پھر پانچویں بنیاد فقہ کی آپ نے مختلف حالات اور مزاجوں کو مقرر کیا اور اسے شریعت اسلامیہ کا ضروری جزو قرار دیا- اس اصل سے بہت سے مختلف فیہ مسائل حل ہو گئے- مثلاً آمین کہنے پر جھگڑے ہوتے تھے- آپ نے فرمایا- جس کا دل اونچی آمین کہنے کو چاہے وہ اونچی کہے جس کا دل اونچی کہنا نہ چاہے نہ کہے- جب یہ دونوں باتیں ثابت ہیں تو ان پر جھگڑا فضول ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مزاج کے لوگوں کو مدنظر رکھ کر دونوں طرح عمل کیا ہے پس ہر اک شخص اپنے مزاج کے مطابق عمل کر سکتا ہے- دوسرے کے فعل سے سروکار نہیں رکھنا چاہئے- اسی طرح فرمایا کہ جس کا دل چاہے سینہ کے اوپر ہاتھ باندھے جس کا دل چاہے ناف کے نیچے باندھے- انگلی اٹھائے یا نہ اٹھانے کے متعلق رفعیدینکرنے یا نہ کرنے کے متعلق بھی یہی فرمایا کہ دونوں طرح جائز ہے- اسی طرح بہت سے جھگڑوں کو جو کسی شرعی اختلاف کی وجہ سے نہ تھے بلکہ دو جائز باتوں پر جھگڑنے کے سبب سے تھے اور شریعت کی اس حکمت کو نہ سمجھنے کے سبب سے تھے کہ اس میں مختلف طبائع کا لحاظ رکھ کر مختلف صورتوں کو بھی جائز رکھا جاتا ہے` آپ نیمٹادیا-
عورتوں کے حقوق کا قیام
گیارھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ عورتوں کے وہ حقوق قائم کئے جو آپ کی آمد سے پہلے بالکل تلف کئے جاتے تھے مثلاً )۱(ورثہ نہیں ملتا تھا )۲(پردہ میں سختی کی جاتی تھی- چلنے پھرنے تک سے روکا جاتا تھا- )۳(علم سے محروم رکھا جاتا تھا- )۴(سلوک اور مراعات سے محروم رکھا جاتا تھا )۵(نکاح کے متعلق اختیار نہیں دیا جاتا تھا- )۶(خلع اور طلاق میں سختی کی جاتی تھی- )۷(حقوقانسانیت کا لحاظ نہیں رکھا جاتا تھا- آپ نے ان سب کی اصلاح کی-
)۱(ورثہ سے محروم رکھنے کو آپ نے سختی سے روکا اور عورتوں کے اس حق کی تائید کی- چنانچہ ہمارے گھر میں کہ جہاں پشتوں سے عورتوں کا حق نہ دیا گیا تھا- ہماری بہنوں کو زمینداری کے پورے حقوق ملے اور وہ ہمارے ساتھ آپ کی جائیداد کی وارث ہوئیں-
)۲(پردہ میں جو ظاہری سختی کی جاتی تھی` اسے دور کیا- آپ )حضرت اماں جان( کو ساتھ لے کر سیر کو جایا کرتے- ایک دفعہ آپ ایک سٹیشن پر )حضرت اماں جان( کو ساتھ لے کر ٹہل رہے تھے- مولوی عبدالکریم صاحب کو یہ بہت ناگوار گذرا- کیونکہ اس زمانہ میں بڑی شرم کی بات اور عیب سمجھا جاتا تھا کہ عورت ساتھ ہو- وہ حضرت خلیفہ اول کے پاس آئے اور کہا- حضرت صاحب بیوی صاحبہ کو ساتھ لے کر ٹہل رہے ہیں- لوگ کیا کہیں گے- آپ جا کر حضرت صاحب سے کہیں کہ بیوی صاحبہ کو بٹھا دیں- حضرت خلیفہ اول نے کہا- آپ خود جاکر کہیں میں تو نہیں کہہ سکتا- آخر آپ گئے اور پھر سر نیچے ڈالے ہوئے آئے- حضرت خلیفہ اول نے پوچھا حضرت صاحب نے کیا جواب دیا- کہنے لگے- جب میں نے کہا لوگ اس طرح ٹہلنے پر اعتراض کریں گے- تو آپ ٹھہر گئے اور فرمایا لوگ کیا اعتراض کریں گے کیا یہ کہیں گے کہ مرزا صاحب اپنی بیوی کو ساتھ لے کر ٹہل رہے تھے؟
غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عورتوں کی صحت کی درستی کے لئے ان کے چلنے پھرنے کی آزادی دی اور آج گو تعلیم یافتہ طبقہ اس تغیر کو نہیں سمجھ سکتا- لیکن جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کام کو شروع کیا تھا اس وقت یہ بات حیرت انگیز تھی- آپ نے بتایا کہ پردہ کی غرض بعض کمزوریوں سے بچانا ہے اور اس کے علاوہ عورتوں کو مردوں سے آزادانہ میل جول رکھنے سے روکا گیا ہے نہ کہ عورتوں کو قید میں ڈالے رکھنے کا حکم دیا ہے-
)۳(تیسرے عورتوں کو علم سے محروم رکھا جاتا تھا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عورتوں کو علم پڑھانے پر خصوصیت سے زور دیا- چنانچہ آپ نے ایک دوست کو خط میں لکھا کہ عورتوں کو عربی فارسی کے علاوہ کچھ انگریزی کی بھی تعلیم دینی چاہئے اور مختلف علوم سے بھی کچھ آگاہی ان کے لئے ضروری ہے-
)۴(چوتھے عورتوں کے متعلق سلوک اور مراعات الہامی طور پر آپ نے قائم کیں اور بتایا سلوک اور مراعات میں عورتیں مردوں کے مساوی ہیں- حتی کہ ایک دفعہ مولوی عبدالکریم صاحب اپنی بیوی سے اونچی آواز میں بولے تو آپ کو الہام ہوا جس کا مفہوم یہ تھا کہ-:
مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو کہہ دو کہ یہ طریق اچھا نہیں- ۲۹~}~
)۵(پانچویں عورتوں کو نکاح کے متعلق اختیارات حاصل نہ تھے آپ نے اس حق کو قائم کیا اور عورت کی رضا مندی نکاح کے لئے ضروری قرار دی- بلکہ عورت اور مرد کو نکاح سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھنے کے ارشاد کو پھر جاری کیا اور بعض مرد و عورت کو آپ نے خود حکم دے کر ایک دوسرے کو دکھلا دیا-
)۶(چھٹے طلاق کا رواج اس قدر وسیع تھا کہ جس کی کوئی حد نہ تھی- آپ نے اسے روکا اور جس حد تک ممکن ہو تعلق نکاح کو قائم رکھنے کا ارشاد فرمایا- اس کے مقابلہ میں خلع کا دائرہ اس قدر تنگ کیا گیا تھا کہ عورت گھٹ گھٹ کر مر جاتی` اس کا کوئی پرسان حال نہ ہوتا- آپ نے اس دروازہ کو کھولا اور عورت کے حقوق جو شریعت نے اسے دیئے ہیں پھر قائم کئے- اور بتایا کہ طلاق کے مقابل میں عورت کو خلع کا حق ہے- اور صرف اس قدر فرق ہے کہ عورت کے لئے شرط ہے کہ وہ قاضی کی معرفت علیحدگی حاصل کرے- ورنہ عورت کی تکلیف اور احساسات کا شریعت نے اس قدر پاس کیا ہے جس قدر مرد کے احساسات کا-
)۷(ساتویں عورت کے اہلی اور تمدنی حقوق کو بلند کیا- آپ کی بعثت سے پہلے عورت کے کوئی حقوق ہی نہیں تسلیم کئے جاتے تھے- مگر آپ نے عورتوں کے حقوق پر خاص زور دے کر اسے اس غلامی سے آزاد کیا- جس میں وہ باوجود اسلام کی تعلیم کے مبتلا کر دی گئی تھی-
اصلاح اعمال انسانی
بارھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انسانی اعمال کی اصلاح کے متعلق کیا جس پر نجات کا مدار ہے- تمام دنیا اعمال انسانی کی اصلاح تو ایک اہم امر سمجھتی تھی لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کام کس طرح ہو سکتا ہے- مسلمان بھی اس مسئلہ کے متعلق خاموش تھے- بلکہ دوسروں سے کچھ گری ہوئی حالت میں تھے- آپ نے قرآنکریم سے ایسے گر بتائے کہ اس مسئلہ کو بالکل حل کر دیا اور راستہ کھول دیا جس کا مقابلہ اور کوئی مذہب نہیں کر سکتا-
مسیحیت نے ورثہ کے گناہ کی تھیوری پیش کر کے کہا تھا کہ چونکہ انسان کو گناہ ورثہ میں ملے ہیں` اس لئے کوئی انسان ان سے بچ نہیں سکتا- گویا اس کے نزدیک اصلاح نفس ناممکن تھی اور اس ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے اس نے کفارہ ایجاد کیا تھا-
ہندو مذہب کا عقیدہ تھا کہ اصلاح نفس حساب صاف کرنے سے ہو سکتی ہے- جب حساب صاف ہو جائے گا تب نجات ہو گی- پرمیشور انسان کی نیکیوں اور بدیوں کا حساب رکھتا ہے اور ان کا مقابلہ کرتا رہتا ہے- اگر بدیاں زیادہ ہوں تو مرنے کے بعد کسی اور جون میں ڈال کر دنیا میں بھیج دیتا ہے- اس طرح ہندو مذہب نے اصلاح نفس کو ناممکن بنا کر انسان کو تناسخ کے چکر میں ڈال دیا تھا-
یہود اصلاح نفس کے سرے سے ہی منکر تھے- کیونکہ ان کے نزدیک نبی بھی گناہگار ہو سکتا تھا اور ہوتا ہے- وہ مزے لے لے کر نبیوں کے گناہ گناتے تھے اور اس میں کوئی نقص نہ سمجھتے تھے- ان کے نزدیک نجات کی صورت صرف یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا پیارا قرار دے کر اس سے نجات کو وابستہ کر دے- گویا وہ نجات کو ایک تقدیری عمل سمجھتے تھے اور اپنی نجات پر اس لئے مطمئن تھے کہ وہ ابراہیم کی اولاد اور موسیٰ کی امت ہیں` نہ اس لئے کہ وہ خداتعالیٰ کی خوشنودی کو اصلاح نفس کے ذریعہ سے حاصل کر چکے ہیں-
مسلمانوں نے بھی ملائکہ اور انبیاء تک کو گناہ میں ملوث کر کے یہود کی نقل میں اس مقصد کو فوت کر دیا تھا- اور یہ بات گھڑ لی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب مسلمانوں کی شفاعت کریں گے- اور سب بخشے جائیں گے اس سے بھی زیادہ غضب یہ ہو رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور بہت سے پیر ایسے بنا رکھے تھے اور وہ پیر ان سے کہتے تھے کہ کچھ کرنے دھرنے کی ضرورت نہیں- ہم تمہیں خود سیدھے جنت میں پہنچا دیں گے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب خیالات کی غلطی کو ثابت کیا اور نجات کے گر قرآن کریم سے پیش کئے اور ایک کامل اور مکمل اصل اصلاح نفس کے لئے جس پر نجات کا مدار ہے پیش کیا- آپ نے تسلیم کیا کہ ورثہ میں انسان کو عیب اور گناہ کا میلان ملتا ہے جس طرح نیکی کا میلان ملتا ہے- آپ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ نفسانی پاکیزگی کے لئے پچھلے حساب کی صفائی بھی نہایت ضروری ہے لیکن آپ نے انبیاء کے متعلق گناہ کی نسبت کو سختی سے رد کیا اور اس مسئلہ کو بھی رد کیا کہ انسان باوجود دیدہ و دانستہ شریعت کی مخالفت کرنے کے شفاعت سے حصہ لے سکتا ہے- یہ دونوں مسئلے یہود سے مسلمانوں نے لئے تھے اور اسلامیتعلیم کے مخالف تھے- آپ نے اس خیال کو بھی کہ خدا تعالیٰ نے کسی کو بدکار بنایا اور کسی کو نیک رد کیا- اور پہلی دو باتوں کو آپ نے اس اصلاح کے ساتھ تسلیم کیا )۱(اس میں کوئی شک نہیں کہ ورثہ سے بھی اچھے اور برے اثر ملتے ہیں- )۲(اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کھانیپینے اور آب و ہوا سے بھی بعض بعض خاص عادات پیدا ہو جاتی ہیں- جیسا کہ مختلف ملکوں کی عادات سے ظاہر ہے- کشمیر کے لوگ بزدل ہوتے ہیں اور پٹھان خونخوار ہوتے ہیں- بنگالی بزدل ہوتے ہیں اور ان کی نسبت پنچابی بہادر ہوتے ہیں- اگر انسان اپنے متعلق پورا پورا اختیار رکھتا تو ہمیشہ یہی کیوں ہوتا کہ بنگالی مارتا نہیں- کشمیری دلیری اور جرات کا کام نہیں کرتا اور پٹھان مرنے مارنے پر تیار رہتا ہے- اس طرح کے قومی عیوب بتاتے ہیں کہ کھانے پینے اور آب و ہوا کا بھی عادات میں دخل ہوتا ہے- پس ان خاص افعال کی نسبت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں کے سب لوگ اپنی مرضی سے خاص عیب یا خاص خوبیاں اختیار کر لیتے ہیں- )۳(اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تربیت اور عقیدہ کا بھی انسان پر خاص اثر پڑتا رہتا ہے جیسے ہندو گائے کے ذبح کرنے پر جوش میں آ جاتا ہے وہ جانتا ہے کہ دوسرے کو مارنے پر پھانسی دیا جائونگا- مگر جب گائے کو ذبح ہوتے دیکھتا ہے تو قتل پر آمادہ ہو جاتا ہے` یہ عقیدہ کا اثر ہے- )۴(اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جس وقت انسان کوئی کام کرنے لگتا ہے اس وقت کے حالات کا بھی اس پر خاص اثر پڑتا ہے- ایک استاد روز لڑکوں سے سبق سنتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے مگر ایک دن اس کی بیوی سے لڑائی ہو جائے اور وہ گھر سے غصہ میں بھرا ہوا نکلے تو سبق سننے کے وقت ذراسی غلطی کرنے پر سزا دے دے گا- پس ظاہر ہے کہ موجودہ حالات کا بھی انسان کے اعمال پر اثر پڑتا ہے-
غرض بہت سے امور ہیں جو انسان کے اعمال پر اثر ڈالتے ہیں- پس حضرت مسیحموعودعلیہ السلام نے بتایا کہ صرف ورثہ ہی ایک چیز نہیں کہ جو انسان پر تاثیر کرتا ہے- اس کے علاوہ اور اشیاء بھی ہیں اور جب یہ ثابت ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر ورثہ کا گناہ کفارہ سے دور ہو سکتا ہے تو باقی گناہ کس طرح سے دور ہوں گے؟
پھر آپ نے بتایا کہ اصل میں سب اقوام کو یہ دھوکا لگ گیا ہے کہ انسان کی فطرت گناہگار ہے- کسی کو ورثہ کے گناہ کی تھیوری سے کسی کو پرانے کرم کی وجہ سے کسی کو خلقالانسانضعیفا۳۰~}~کی آیت سے کسی کو تقدیر ازلی کے خیال سے یہ وسوسہ پیدا ہو گیا ہے- حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ باوجود ورثہ تربیت وغیرہ کے اثرات کے انسانی فطرت نیکی پر پیدا کی گئی ہے- فطرت میں عیب سے انقباض اور نیکی کی رغبت رکھی گئی ہے- باقی سب رنگ ہوتے جو اوپر چڑھ جاتے ہیں- ثبوت اس کا یہ ہے کہ بدکار لوگ بھی نیکیاں زیادہ کرتے ہیں- ایک آدمی جسے جھوٹا کہا جاتا ہے- اگر وہ کئی جھوٹ دن میں بولے گا تو ان سے کہیں زیادہ وہ سچ بولے گا-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ سب بدیوں کی جڑھ یہ ہے کہ انسان کے دل میں پاگیزگی کی امید کو نکال دیا گیا ہے- اور اسے خود اس کی نظروں میں گرا دیا گیا ہے- انسان کو ازلی شقی کہہ کہہ کر ایسا ہی بنا دیا گیا ہے- کسی لڑکے کو یونہی جھوٹا کہنے لگ جائو` کچھ عرصہ کے بعد وہ سچ مچ جھوٹ بولنے لگ جائے گا- آپ نے بتایا کہ انسان کو حقیقتا نیک بنایا گیا ہے بدی صرف زنگ ہے- جس دھات سے وہ بنا ہے وہ نیکی ہے- اسے اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہئے تا کہ اس میں دلیری پیدا ہو اور مایوسی دور ہو- اسے اس کے پاک مبدا کی طرف توجہ دلائو- اس طرح وہ خود بخود نیکی کی طرف مائل ہوتا چلا جائے گا-
)۲(دوسری دلیل دوسرے مذاہب کی تھیوریوں کے رد میں آپ نے یہ پیش کی کہ گناہ اس فعل کو کہتے ہیں جو دیدہ و دانستہ ہو- جو دیدہ و دانستہ نہ ہو- بلکہ جبر سے ہو وہ اس حد تک کہ جبر ہو گناہ نہیں ہوتا- مثلاً بچہ کا ہاتھ پکڑ کر ماں کے منہ پر تھپڑ مارا جائے تو کیا ماں بچہ کو مارے گی؟ پس فرمایا کہ ورثہ کے گناہ سے اگر انسان بچ نہیں سکتا تو وہ گناہ نہیں- عادت کے گناہ سے اگر انسان بچ نہیں سکتا تو وہ گناہ نہیں- تعلیم و تربیت کا اگر اس پر ایسا اثر ہے کہ طبعی طور پر اس کا گناہ سے بچنا ناممکن ہے تو وہ گناہ نہیں اگر طبعی کمزوریاں ایسی ہیں کہ خواہ وہ کچھ کرے ان سے نکل نہیں سکتا تو وہ گناہ نہیں- پس اگر اس حد تک روک ہے کہ انسان اسے دور نہ کر سکے تو گناہ نہیں- اور اگر ایسا نہیں تو معلوم ہوا کہ انسان ان سے بچ سکتا ہے- اور اگر اس سے بچ سکتا ہے تو پھر طبی ذرائع کو چھوڑ کر نئے طریقے جیسے کفارہ یا تناسخ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں- اور جس حد تک انسان مجبور ہے` اسی حد تک انسان کو معذور اور اس کی وجہ سے بے گناہ تسلیم کرنا ہو گا اور اس حد تک اس کو سزا سے آزاد سمجھنا پڑے گا- پس پھر بھی کسی کفارہ یا تناسخ کی ضرورت نہ ہو گی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کہہ کر کہ گناہ وہ ہے جو جانبوجھ کر اور اپنے اختیار سے کیا جائے- گناہ کی تھیوری ہی بدل دی ہے اور اس وجہ سے قرآنکریم نے جزائے اعمال کے متعلق مندرجہ ذیل اصول کو مدنظر رکھا ہے-
)۱(اول اس نے وزن پر خاص زور دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ انسانیاعمال کے متعلق یہ لحاظ رکھے گا کہ ان میں کہاں تک جبر یا اختیار کا دخل ہے )۲(دوسرے اس نے اللہ تعالیٰ کے ملک یوم الدین ۳۱~}~ہونے پر زور دیا ہے- یعنی اس نے حقیقی جزا سزا کو کسی اور کے سپرد نہیں کیا- اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں ہے- اگر جزا و سزا اوروں کے سپرد ہوتی تو وہ انسانی اعمال کے پیچھے جو جبر کا حصہ ہے اس کا خیال نہ رکھ سکتے اور ان اعمال کے بدلہ میں انسان کو گنہگار قرار دے دیتے جن کے کرنے میں وہ گنہگار نہیں یا پورا گناہ گار نہیں- اور ان اعمال کے بدلہ میں اسے نیک قرار دے دیتے جن کے کرنے سے وہ نیک نہیں ہوتا یا پورا نیک نہیں ہوتا-
لطیفہ-: یاد رکھنا چاہئے کہ ملک یوم الدین اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ انسانی اعمال کے پیچھے اس قدر علتیں اور روکیں ہیں کہ ان کو سمجھے بغیر جزا سزا ظلم بن جاتے ہیں- اللہ تعالیٰ نے یومالدین کے متعلق اپنے لئے مالکیت کا لفظ پسند فرمایا ہے- کیونکہ مالکیت حقیقیتصرف کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی- ملکیت ہو سکتی ہے- ملک منتخب ہو سکتا ہے مگر مالک نہیں- اور اللہ تعالیٰ نے اس جگہ مالکم یوم الدین بھی نہیں فرمایا- بلکہ مالک یومالدین فرما کر اس امر پر زور دیا ہے کہ اس جگہ تمہاری مالکیت پر اس قدر زور دینا مقصود نہیں جس قدر کہ اس دن کی مالکیت پر زور دینا مقصود ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ اس وقت کا وہ مالک ہو گا-
‏a10.4
اور کہ اس وقت کا وہ مالک ہے- کوئی چیز اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہے گی-
ایک اور آیت بھی اس مضمون کی تائید کرنے والی ہے اور وہ یہ ہے ولو یواخذاللہ الناس بماکسبوا ماترک علی ظھر ھا من دابہ۳۲~}~ یعنی اگر خداتعالیٰ انسان کو اس کے اعمال پر سزا دینے لگے تو کوئی جانور بھی زمین پر نہ چھوڑے- یعنی انسان سے بہت سے فعل ایسے صادر ہوتے رہتے ہیں جو خلاف شریعت ہوتے ہیں یا جن میں نفسانیت وغیرہ کا غلبہ ہوتا ہے- مگر خدا تعالیٰ ہر عمل کی سزا نہیں دیتا بلکہ صرف ان اعمال کی سزا دیتا ہے جن میں انسان کا اختیار ہوتا ہے-
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس آیت میں ماترک علی ظھرھا من دابہ فرمایا ہے- یعنی اگر انسان کے تمام اعمال پر سزا دیتا تو دنیا پر کوئی جانور بھی نہ چھوڑتا- اس پر طبعا سوال ہوتا ہے کہ جزا انسانوں کے اعمال کی دیتا تو جانور کیوں تباہ ہو جاتے؟ انسانوں کے مقدروں پر دواب کو کیوں سزا ملتی - مفسرین اس سوال کا جواب یہ دیتے ہیں- کہ چونکہ جانور انسان کے فائدہ کیلئے پیدا کئے گئے ہیں- اس لئے جب انسان تباہ کر دیئے جاتے تو جانور بھی تباہ کر دیئے جاتے- یہ جواب بھی گو صحیح ہو مگر میرے نزدیک اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے- کہ انسان کے اعمال کا کچھ حصہ اسی طرح جبری ہوتا ہے جس طرح حیوانوں گائے بھینسوں کا ہوتا ہے- پس اگر انسان کے سارے اعمال کی سزا دی جائے تو لازماً گائے بیلوں وغیرھما کو بھی سزا دینی ہوتی اور سب حیوانات کو تباہ کر دیا جاتا- مگر ہم ایسا نہیں کرتے- اور جانوروں کو ان کے اعمال کا اس وجہ سے کہ وہ اختیاری نہیں ہوتے سزا نہیں دیتے- اسی طرح ہم انسان کے سب اعمال کی بھی سزا نہیں دیتے` صرف ان اعمال کی سزا دیتے ہیں جو اختیاری ہوتے ہیں-
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ جس حد تک انسان پر جبر ہوتا ہے اس کا کیا علاج ہے؟ یا وہ بیعلاج ہے؟ اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دیا ہے کہ اس کا بھی علاج ہے اور وہ یہ کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے خوف اور محبت کے جذبات بہ شدت پیدا کئے ہیں- ان کے ذریعہ سے وہ اپنی مجبوریوں پر بھی غالب آ جاتا ہے- مثلاً بھیڑیئے میں کاٹنے کا مادہ ہے` مگر محبت اسے مجبور کرتی ہے کہ اپنے بچے کو نہ کاٹے- گویا محبت اس کے کاٹنے کے جذبہ پر غالب آ جاتی ہے- یا جہاں آگ جل رہی ہو وہاں چیتا حملہ نہیں کرتا کیونکہ اسے اپنی جان کا خوف ہوتا ہے- چیتے کا طبعی تقاضا ہے کہ حملہ کرے مگر خوف اس کے اس تقاضا پر غالب آ جاتا ہے- اسی طرح اگر انسان کی محبت اور خوف کے جذبات کو ابھار دیا جائے تو وہ ان بدتاثیرات پر جو اس کے اعمال پر تصرف کر رہی ہوتی ہیں` غالب آ جاتا ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اپنے فضل سے سامان پیدا کئے ہیں- اور وہ وقتا فوقتا دنیا میں اپنے مامور بھیجتا رہتا ہے اور ان کے ذریعہ سے اپنی قدرت اور اپنے جلال اور اپنے فضل اور اپنی رحمت کی شان دکھاتا رہتا ہے- تا کہ لوگوں میں کامل محبت اور کامل خوف پیدا کیا جائے- اس طرح جو لوگ محبت کا جذبہ زیادہ رکھتے ہیں وہ ان نشانات اور تجلیات سے محبت میں ترقی کر کے برے اثرات پر غالب آ جاتے ہیں اور پاک ہو جاتے ہیں- اور جو لوگ خوف کے جذبہ سے زیادہ موافقت رکھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی قہری تجلیات سے متاثر ہو کر خوف کی وجہ سے برے اثرات پر غالب آ جاتے ہیں اور اس ذریعہ سے بیرونی اثرات جو ایک رنگ کا جبر کر رہے تھے` ان سے انسان محفوظ کر دیا جاتا ہے اور اصلاح نفس میں اسے مدد مل جاتی ہے-
نیکی اور بدی کی تعریف
اس جگہ طبعا یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ نیکی بدی کیا چیز ہیں- اور اصلاح نفس کس چیز کا نام ہے؟ اس سوال کا جواب مختلف لوگوں نے مختلف طرح دیا ہے )۱(بعض نے کہا ہے کہ جو چیز بری معلوم ہو وہ بری ہے اور جو اچھی معلوم ہو وہ اچھی ہے- یہ جواب چونکہ انسان کے خیال سے تعلق رکھتا ہے- اس کے ماتحت ہمیں کہنا پڑے گا کہ ایک ہندو جو بت پرستی کو اچھا سمجھتا ہے` اگر وہ بت پرستی کرے تو اس کا یہ فعل اچھا سمجھا جائے گا- لیکن اگر یہی فعل ایک مسلمان کرے تو برا سمجھا جائے گا- )۲(بعض نے کہا ہے کہ جو بات بحیثیت مجموعی اس شخص کے لئے یا دنیا کے لئے اچھی ہو وہ اچھی ہے اور جو اس لحاظ سے بری ہو` وہ بری ہے-
پہلی رائے پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ اگر کوئی قتل کو اچھا سمجھ کر کسی کو قتل کرے تو کیا اس کایہ فعل نیکی ہوگا؟ یا کوئی شخص زنا کرتا ہے اور اسے جائز سمجھتا ہے تو کیا یہ اس کے لئے نیکی ہو جائے گا؟ دوسری رائے پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو چیز بحیثیت مجموعی اچھی ہو یا بری ہو` وہ نیکی یا بدی ہوگی- اس حیثیت مجموعی کے معلوم کرنے کا ذریعہ کیا ہوگا؟ انسان تو اپنے گردوپیش کی حالت کو بھی پوری طرح نہیں سمجھتا- وہ بحیثیت مجموعی کا پتہ کس طرح لگائے گا؟ اور جس چیز کا علم ہی انسان کو نہیں ہو سکتا اس سے وہ فائدہ کس طرح اٹھا سکتا ہے؟
)۳(تیسری رائے یہ ہے کہ جس بات سے فطرت انسانی انقباض کرے` وہ برائی ہے اور جس بات کی طرف رغبت کرے وہ نیکی ہے- ساری قومیں جھوٹ سے نفرت کرتی ہیں یہ برائی ہے- اور ساری قومیں صدقہ اور خیرات سے رغبت رکھتی ہیں یہ نیکی ہے- مگر اس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ انسانی رغبت یا نفرت کا تو عادات سے بھی تعلق ہوتا ہے- ایک ہندو گائے کے ذبح کرنے سے سخت نفرت کے جذبات سے بھر جاتا ہے اور مسلمان اس فعل کی طرف رغبت رکھتا ہے- پس اس اصل کے ماتحت نیکی اور بدی کا فیصلہ کس طرح ہو سکتا ہے؟
)۴(چوتھا خیال یہ ہے کہ جس امر سے شریعت روکے وہ بدی ہے اور جس کی اجازت دے وہ نیکی ہے- اس خیال پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ اگر یہ بات درست ہے تو معلوم ہوا کہ شریعت بدی سے روکتی نہیں بلکہ بدی پیدا کرتی ہے- کیونکہ اگر بدی کا الگ وجود کوئی نہیں شریعت کے روکنے کی وجہ سے وہ بدی بنی ہے تو گویا شریعت اس لئے نہیں آتی کہ بدی سے روکے بلکہ چونکہ اس نے بعض افعال سے روکا ہے اس لئے وہ بدی بن گئے- پس گویا بدی کا دروازہ شریعت نے کھولا ہے- مسیحی مذہب کا یہی نقطہ نگاہ ہے اور اسی وجہ سے اس نے شریعت کو *** قرار دیا ہے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ نیکی اور بدی کے متعلق لکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ان سب باتوں کو تسلیم کیا ہے اور سب کو رد بھی کیا ہے- گویا ان سب خیالات میں صداقت کا ایک ایک حصہ بیان ہوا ہے- آپ کی تعلیم پر غور کر کے ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ یہ خیال بھی درست ہے کہ نیکی اور بدی کا بہت کچھ تعلق نیت کے ساتھ بھی ہے- مگر صرف نیت پر ہی نیکی اور بدی کا انحصار نہیں ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک شخص جو کسی اچھے فعل کو خلاف شریعت سمجھتا ہے مگر کر لیتا ہے تو خواہ وہ فعل اچھا ہو پھر بھی گناہگار ہوگا- کیونکہ اس نے اسے گناہ سمجھ کر کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی مخالفت پر آمادہ ہو گیا ہے- اسی طرح مثلاً ایک برے کام کو انسان اچھا سمجھ لیتا ہے- تو بعض اوقات وہ بدی کا مرتکب نہیں قرار دیا جاتا- مثلاً غلطی سے اپنے ایک دوست کو ایسا کھانا کھلا دے جو اس کے لئے مضر ہو تو گو یہ فعل برا ہو مگر اس کی طرف بدی نہیں بلکہ نیکی ہی منسوب ہوگی کہ اس نے دوسرے کے فائدہ کو ہی مدنظر رکھ کر وہ فعل کیا تھا-
دوسری تعریف بھی ایک حد تک درست ہے کیونکہ نیکیاں یا بدیاں اپنے اس نتیجہ کے مطابق نیکیاں یا بدیاں بنتی ہیں جو بہ حیثیت مجموعی پیدا ہوتا ہے مگر یہ تعریف ہمیں فائدہ نہیں دے سکتی- کیونکہ علاوہ اس کے کہ اس دنیا کے فوائد یا نقصانات کو بھی انسان پوری طرح نہیں سمجھ سکتا- بعض کاموں کے نتائج یا بعض حصے نتائج کے اگلی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا اندازہ کرنا انسان کیلئے ناممکن ہے- پس اس تعریف کی مدد سے ہم خود کسی کام کو نیک اور کسی کام کو بد نہیں قرار دے سکتے-
تیسری تعریف کہ جس سے انسانی فطرت انقباض کرے وہ برائی ہے اور جس کی طرف رغبت کرے وہ نیکی ہے- یہ بھی صحیح ہے لیکن فطرت انسانی دوسرے اثرات یعنی عادات وغیرہ کے ماتحت کبھی خراب بھی ہو جاتی ہے- پس دقت یہ ہے کہ فطرت کا صحیح میلان کس طرح معلوم ہو اور جب تک صحیح میلان فطرت کا معلوم نہ ہو سکے- اس تعریف سے بھی ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا-
چوتھی تعریف کہ جس سے شریعت روکے وہ برائی ہے اور جس کا حکم دے وہ نیکی ہے یہ بھی ناممکن ہے کیونکہ اگر شریعت نے حکم یا نہی کو کسی حکمت پر مبنی کرنا ہے تو اس حکم یا نہی کو اسی حکمت کی طرف منسوب کرنا چاہئے- اور یوں کہنا چاہئے کہ فلاں سبب جس میں پایا جائے وہ بدی ہے- اور فلاں سبب پایا جائے تو وہ نیکی ہے- اور اگر شریعت نے بلا کسی حکمت کے بعض امور کا حکم دینا ہے اور بعض سے روکنا ہے تو شریعت کا یہ فعل لغو اور عبث ہو جاتا ہے-
پس یہ سب تعریفیں نامکمل ہیں اور صداقت ان کے ملانے سے پیدا ہوتی ہے- چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نیکی بدی کی یہ تعریف کی ہے کہ حسن ازلی اور حسناکمل یعنی خدا تعالیٰ کی صفات کی موافقت پیدا کرنا نیکی ہے- اور اس کی مخالفت یعنی خدا تعالیٰ کی صفات کے خلاف کوئی کام کرنا برائی ہے- اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ یہودیت` مسیحیت اور اسلام کا اتفاق ہے- خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی شکل پر پیدا کیا ہے یعنی ظلی طور پر اپنی صفات کی چادر اسے پہنائی ہے اور اپنی صفات کا مظہر بننے کی اسے طاقت دی ہے اور اس غرض سے اسے پیدا کیا ہے- گویا انسان تصویر ہے خدا کی اور خدا تعالیٰ اصل ہے- اب یہ امر ظاہر ہے تصویر ¶کا حسن یہی ہوتا ہے کہ وہ اصل کے مطابق ہو- اور اس کا عیب یہ ہے کہ اصل کے خلاف ہو- پس انسان جو عمل ایسا کرتا ہے جو اسے خدا کی صفات کے موافق بناتا ہے وہ نیکی ہے اور جو عمل ایسا کرتا ہے جو اسے خدا تعالیٰ کی صفات سے دور لے جاتا ہے وہ بدی ہے- کیونکہ اس طرح گویا وہ تصویر کو بگاڑ رہا ہوتا ہے- جس کے بنانے کے لئے وہ بنایا گیا ہے- اس مناسبت کی وجہ سے جو انسان اور خدا میں ہے اصل منبع اور مبدا خدا ہے- پس جب انسان درحقیقت ایک تصویر ہے تو لازماً اصل کی مطابقت حسن ہے اور اس کی مخالفت عیب یا دوسرے لفظوں میں مطابقت نیکی ہے اور مخالفت بدی- اب چونکہ انسان کو مخفی طاقتوں کے ساتھ جو محدود دائرہ میں خدا تعالیٰ کی صفات سے مشابہ ہیں پیدا کیا گیا ہے- اس لئے فطرتاً اسے خدا تعالیٰ کی صفات کے مطابق اعمال سے مناسبت اور مخالف اعمال سے نفرت ہونی چاہئے- پس فطری انقباض اور رغبت نیکی بدی کا پتہ دینے والے ہونگے- اسی طرح اصل کے خلاف چلنے سے نقصان پہنچتا ہے اور مطابق چلنے سے حسن پیدا ہوتا ہے اس لئے لازماً نیکی کا نتیجہ نیک اور لازماً بدیوں کے نتائج بد نکلتے ہیں- تیسرا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ بالارادہ ہستی ہے اور انسان کا کمال بھی یہی ہے کہ بالارادہ کام کرے- پس گناہ اور نیکی ایک حد تک ارادہ سے بھی وابستہ ہو جائیں گے-
لیکن باوجود ان تینوں باتوں کو تسلیم کر لینے کے اس امر کے تسلیم کرنے میں بھی کوئی عذر نہیں ہو سکتا کہ انسان بیرونی اثرات اور عادات کی وجہ سے اپنی عقل اور فطرت کے صحیحاستعمال سے بسا اوقات معذور ہو جاتا ہے پس ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تحریریہدایات بھی ملیں کہ اس اس عمل سے حسن ازلی کے مطابقت پیدا ہوگی اور اس اس طرح اس کی مخالفت ہوگی اور اسی کا نام شریعت ہے- پس اس لحاظ سے شریعت کے مطابق کام کرنے کا نام نیکی ہوا- اور اس کے خلاف کام کرنے کا نام بدی- پس صحیح تعریف نیکی اور بدی کی وہی ہے جو اوپر کی چاروں باتوں کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے- اور جس کی طرف حضرت مسیحموعود علیہ السلام کی تعلیم اشارہ کرتی ہے-
اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے سامان
تیرھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے سامان پیدا کئے جو یہ ہیں-:
)۱( تبلیغ اسلام- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس کام کو جو مدتوں سے بند ہو چکا تھا- جاری کیا آپ کی بعثت سے پہلے مسلمان تبلیغ اسلام کے کام سے بالکل غافل ہو چکے تھے- اپنے اردگرد کے لوگوں میں کبھی کوئی مسلمان تبلیغ کر لیتا تو کر لیتا لیکن تبلیغ کو باقاعدہ کام کے طور پر کرنا مسلمانوں کے ذہن میں ہی نہ تھا- اور مسیحی ممالک میں تبلیغ کو تو بالکل ناممکن خیال کیا جاتا تھا- آپ نے ۱۸۷۰ء کے قریب سے اس کام کی طرف توجہ کی اور سب سے پہلے خطوط کے ذریعہ سے اور پھر ایک اشتہار کے ذریعہ سے یورپ کے لوگوں کو اسلام کے مقابلہ کی دعوت دی اور بتایا کہ اسلام اپنے محاسن میں تمام مذاہب سے بڑھ کر ہے` اگر کسی مذہب میں ہمت ہے تو اس کا مقابلہ کرے- مسٹر الیگزنڈروب مشہور امریکن مسلم مشنری آپ ہی کی تحریرات سے مسلمان ہوئے اور ہندوستان آپ ہی کی ملاقات کو آئے تھے کہ دوسرے مسلمانوں نے انہیں ورغلا دیا کہ مرزا صاحب کے ملنے سے باقی مسلمان ناراض ہو جائیں گے اور آپ کے کام میں مدد نہ دیں گے امریکہ واپس جا کر انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا- اور مرتے دم تک اپنے اس فعل پر مختلف خطوط کے ذریعہ ندامت کا اظہار کرتے رہے- اور آج دنیا کے مختلف ملکوں میں اسلام کی تبلیغ کیلئے آپ کی جماعت کی طرف سے مشن کام کر رہے ہیں- اور تعجب ہے کہ آج ساٹھ سال کے بعد صرف آپ ہی کی جماعت اس کام کو کر رہی ہے-
)۲(دوسرے آپ نے جہاد کی صحیح تعلیم دی- لوگوں کو یہ دھوکا لگا ہوا ہے کہ آپ نے جہاد سے روکا ہے- حالانکہ آپ نے جہاد سے کبھی بھی نہیں روکا بلکہ اس پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں نے حقیقت جہاد کو بھلا دیا ہے اور وہ صرف تلوار چلانے کا نام جہاد سمجھتے رہے ہیں- جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو گیا تو وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور کفر دنیا میں موجود رہا- گو دنیا میں اسلام کی حکومت ہو گئی` مگر دلوں میں کفر باقی رہا اور ان ملکوں کی طرف بھی توجہ نہ کی گئی جن کو اسلامی حکومتوں سے جنگ کا موقع نہ پیش آیا- اور اس وجہ سے وہاں کفار کی حکومت رہی- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کفر اپنی جگہ پر پھر طاقت پکڑتا گیا اور بعض قوموں کی سیاسی برتری کے ساتھ ہی اسلام کو نقصان پہنچنے لگا- اگر مسلمان جہاد کی یہ تعریف جانتے جو حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے کی ہے کہ جہاد ہر اس فعل کا نام ہے جسے انسان نیکی اور تقویٰ کے قیام کیلئے کرتا ہے اور وہ جس طرح تلوار سے ہوتا ہے اسی طرح اصلاح نفس سے بھی ہوتا ہے اور اسی طرح تبلیغ سے بھی ہوتا ہے اور مال سے بھی ہوتا ہے اور ہر ایک قسم کے جہاد کا الگ الگ موقع ہے تو آج کا روز بد نہ دیکھنا پڑتا- اگر اس تعریف کو سمجھتے تو اسلام کے ظاہری غلبہ کے موقع پر جہاد کے حکم کو ختم نہ سمجھتے- بلکہ انہیں خیال رہتا کہ صرف ایک قسم کا جہاد ختم ہوا- دوسری اقسام کے جہاد ابھی باقی ہیں اور تبلیغ کا جہاد شروع کرنے کا زیادہ موقع ہے- اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ نہ صرف اسلام اسلامی ممالک میں پھیل جاتا بلکہ یورپ بھی آج مسلمان ہوتا اور اس کی ترقی کے ساتھ اسلام کو زوال نہ آتا- غرض حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے جہاد کے مواقع بتائے ہیں- آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ تلوار کا جہاد منع ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں شریعت کے مطابق کس جہاد کا موقع ہے اور خود بڑے زور سے اس جہاد کو شروع کر دیا ہے اور تمام دنیا میں تبلیغ جاری کر دی ہے- اب بھی اگر مسلمان اس جہاد کو شروع کر دیں تو کامیاب ہو جائیں گے- اگر مسلمان سمجھیں تو آپ کا یہ فعل ایک زبردست خدمت اسلامی ہے اور اس کے ذریعہ سے آپ نے نہ صرف آئندہ کے لئے مسلمانوں کو بیدار کر دیا ہے اور ان کے لئے ترقی کا راستہ کھول دیا ہے بلکہ مسلمانوں کو ایک بہت بڑے گناہ سے بھی بچا لیا ہے کیونکہ گو مسلمان یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا ہے لیکن اسے فرض سمجھ کر بھی اس پر عمل نہیں کرتے تھے- اور اس طرح اس احساس گناہ کی وجہ سے گناہگار بن رہے تھے- اب آپ کی تشریح کو جوں جوں مسلمان تسلیم کرتے جائیں گے ان کے دلوں پر سے احساس گناہ کا زنگ اترتا جائے گا- اور وہ محسوس کریں گے کہ وہ خدا اور اس کے رسول سے غداری نہیں کر رہے تھے- صرف نقص یہ تھا کہ صحیح جہاد کا انہیں علم نہ تھا-
)۳(تیسرا کام اسلام کی ترقی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کیا ہے کہ آپ نے جدید علم کلام پیدا کیا ہے- آپ کی بعثت سے پہلے مذاہب کی جنگ گوریلا وار سے مشابہ تھی- ہر اک شخص اٹھ کر کسی ایک بات کو لیکر اعتراض شروع کر دیتا اور اپنے خصم کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرنے لگتا تھا- آپ نے اس نقص کو دور کیا اور اعلان کیا کہ مذاہب کی شان کے خلاف ہے کہ اس قسم کے ہتھیاروں سے کام لیں- نہ کسی کا نقص نکالنے سے مذہب کی سچائی ثابت ہو سکتی ہے- اور نہ صرف ایک مسئلہ پر بحث کر کے کسی مذہب کی حقیقت ظاہر ہو سکتی ہے- مذاہب کی پرکھ مندرجہ ذیل اصول پر ہونی چاہئے-
)الف(مشاہدہ پر- یعنی ہر مذہب جس غرض کے لئے کھڑا ہے اس کا ثبوت دے- یعنی یہ ثابت کرے کہ اس پر چل کر وہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے- جس مقصد کو پورا کرنا اس مذہب کا کام ہے- مثلاً اگر خدا کا قرب اس مذہب کی غرض ہے اور ہر مذہب کی یہی غرض ہوتی ہے تو اسے چاہئے کہ ثابت کرے کہ اس مذہب پر چلنے والوں کو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے- کیونکہ اگر وہ یہ ثابت نہیں کر سکتا- تو اس کے قیام کی غرض ہی مفقود ہو جاتی ہے اور وہ ایک جسم بے روح ہو جاتا ہے- چند اخلاقی یا تمدنی تعلیمیں یا فلسفیانہ اصول کسی مذہب کو سچا ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں کیونکہ ان باتوں کو تو انسان دوسرے مذاہب سے چرا کر یا خود غوروفکر کر کے بلا اس کے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے اسے الہام ہو پیش کر سکتا ہے- مذہب کا اصل ثبوت تو صرف یہی ہو سکتا ہے کہ جس مقصد کے لئے مذہب کی ضرورت ہوتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب` وہ انسان کو حاصل ہو جائے- اور اسی دنیا میں حاصل ہو جائے کیونکہ اگر کوئی مذہب یہ کہے کہ وہ مرنے کے بعد نجات دلائے گا تو اس دعویٰ پر یقین نہیں کیا جا سکتا اور اس کی صداقت کو پرکھا نہیں جا سکتا- اور علاوہازیں اس دعویٰ میں سب مذاہب شریک ہیں- کوئی مذہب نہیں جو کہتا ہو کہ میرے ذریعہ سے نجات نہیں مل سکتی- گو نجات کے مفہوم میں ان کو اختلاف ہو- پس بعد مرنے کے نجات دلانے کا دعویٰ نہ قابل قبول ہے اور نہ مذہب کی غرض کو پورا کرتا ہے- جو چیز قابل قبول ہو سکتی ہے وہ یہی ہے کہ مذہب مشاہدہ کے ذریعہ ثابت کر دے کہ اس نے انسانوں کی ایک جماعت کو جو اس پر چلتی تھی` خدا سے ملا دیا- اور اس کا قرب حاصل کرا دیا یہ دلیل ایسی زبردست ہے کہ کوئی شخص اس کی صداقت کا انکار نہیں کر سکتا- اور پھر ساتھ ہی یہ بھی بات ہے کہ اس دلیل کے ساتھ تمام فضولمذہبی بحثوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے- اور نیز سوائے اسلام کے کوئی مذہب میدان میں باقی نہیں رہتا- کیونکہ یہ دعویٰ صرف اسلام کا ہے کہ وہ آج بھی اسی طرح فیوض ظاہر کرتا ہے جس طرح کہ پہلے زمانوں میں فیوض ظاہر ہوتے تھے اور لوگوں کو خدا سے ملا دیتا ہے- اور خدا تعالیٰ کے قرب کے آثار کا مشاہدہ کرا دیتا ہے- چنانچہ آپ کے اس اعلان کا یہ نتیجہ ہوا کہ غیر مذاہب کے پیروئوں کو آپ کا اور آپ کی جماعت کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا اور وہ ہر میدان میں شکست کھا کر بھاگنے لگے-
)ب(دوسرا اصل مذہبی مباحثات کے متعلق آپ نے یہ پیش کیا کہ دعویٰ اور دلیل دونوں الہامی کتاب میں موجود ہیں- آپ نے مذہبی دنیا کی توجہ اس طرف پھیری کہ اس زمانہ میں یہ ایک عجیب رواج ہو رہا ہے کہ ہر شخص اپنے خیالات کو اپنے مذہب کی طرف منسوب کر کے اس پر بحث کرنے لگ جاتا ہے- اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ اس کی فتح اس کے مذہب کی فتح ہوتی ہے اور نہ اس کی شکست اس کے مذہب کی شکست ہوتی ہے اور اس طرح لوگ فضول وقت مذہبی بحثوں میں ضائع کرتے رہتے ہیں` فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا- پس چاہئے کہ مذہبی بحثوں کے وقت اس امر کا التزام رکھا جائے کہ جس دعویٰ کو پیش کیا جائے اس کے متعلق پہلے یہ ثابت کیا جائے کہ وہ اس مذہب کی آسمانی کتاب میں موجود ہے اور پھر دلیل بھی اسی کتاب میں سے دی جائے کیونکہ خدا کا کلام بے دلیل نہیں ہو سکتا- ہاں مزید وضاحت کے لئے تائیدی دلائل دیئے جا سکتے ہیں- آپ کے اس اصل نے مذہبی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا- اور وہ کندہناتراش ۳۳~}~واعظ جو یونہی اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تھے اور وہ علوم جدیدہ کے فریفتہ جو اپنی قوم کو اپنا ہم خیال بنانے کے لئے جدید علوم کو اپنا مذہبی مسئلہ بنا کر پیش کرنے کے عادی تھے دونوں سخت گھبرا گئے- آریہ جو روح و مادہ کے انادی ہونے کے متعلق خاص فخر کیا کرتا تھا اس سوال پر آکر بالکل ساکت ہو گیا- کیونکہ وید میں دلیل تو الگ رہی اس مسئلہ کا بھی کہیں ذکر نہیں- آج تک آریہ سماج کے علماء مشغول ہیں مگر وید کی کوئی شرتی نہیں نکال سکے جس سے ان کا یہ مطلب حل ہو- یہی حال دوسرے مذاہب کا ہوا- وہ اس اصل پر اپنے مذاہب کو سچا ثابت نہ کر سکے- لیکن اسلام کا ہر ایک دعویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآنکریم سے نکال کر دکھا دیا اور ہر دعویٰ کے دلائل بھی اسی میں سے نکال کر بتا دیئے- اس حربہ کو آج تک احمدی جماعت کے مبلغ کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں اور ہر میدان سے کامیاب آتے ہیں-
)ج(تیسرا اصل آپ نے یہ پیش کیا کہ ہر مذہب جو عالمگیر ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے اس کے لئے صرف یہ ضروری نہیں کہ وہ یہ ثابت کر دے کہ اس کے اندر اچھی تعلیم ہے بلکہ عالمگیر مذہب کیلئے ضروری ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اس کی تعلیم ہر فطرت کو تسلی دینے والی اور ضرورت حقہ کو پورا کرنے والی ہے- اگر خالی اچھی تعلیم کسی مذہب کی صداقت کا ثبوت سمجھی جائے تو بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص کہہ دے کہ میں ایک جدید مذہب لایا ہوں اور میری تعلیم یہ ہے کہ جھوٹ نہ بولو` ظلم نہ کرو` غداری نہ کرو- اب یہ تعلیم تو یقیناً اچھی ہے لیکن ہر ضرورت کو پورا کرنے والی نہیں- اور اس وجہ سے باوجود اچھی ہونے کے مذہب کی صداقت کا ثبوت نہیں ہو سکتی- مذاہب موجودہ میں سے مسیحیت کی مثال لی جا سکتی ہے مسیحیوں کے نزدیک مسیح کا سب سے بڑا کارنامہ اس کی وہ تعلیم ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ اگر تیرے ایک گال پر کوئی تھپڑے مارے تو دوسرا بھی اس کے آگے پھیر دے- اب بظاہر یہ تعلیم بڑی خوبصورت نظر آتی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو فطرت صحیحہ کے مخالف ہے- کیونکہ فطرت نیکی کا قیام چاہتی ہے اور اس تعلیم سے بدی بڑھتی ہے- اسی طرح ہر ضرورت کو بھی یہ نہیں پورا کرتی- کیونکہ انسان کو دشمن کا مقابلہ کرنے کی بھی ضرورت پیش آتی ہے اور اس ضرورت کا اس میں علاج نہیں- اس اصل کے ماتحت بھی دشمنان اسلام کو ایک بہت بڑی شکست نصیب ہوئی اور اسلام کو بہت سے میدانوں میں غلبہ حاصل ہوا-
)۴(چوتھا کام اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کیلئے آپ نے یہ کیا کہ سکھ جو ہندوستان کی پرجوش اور کام کرنے والی قوم ہے- اسے اسلام کے قریب کر دیا- آپ نے تاریخ سے اور سکھوں کی مذہبی کتب سے ثابت کر کے دکھا دیا کہ باوا نانک علیہ الرحمتہ سکھ مذہب کے بانی درحقیقت مسلمان تھے- اور قرآن کریم پر ایمان رکھتے تھے- اور نمازیں پڑھتے تھے اور حج کو بھی گئے تھے اور مسلمان پیروں سے عموماً اور باوا فرید علیہ الرحمتہ سے خصوصاً بہت عقیدت اور محبت رکھتے تھے- یہ تحقیق ایسی زبردست اور یقینی ہے کہ مذہبی طور پر اس نے سکھوں کے دلوں میں بہت ہیجان پیدا کر دیا ہے اور اگر مسلمان اس تحقیق کی عظمت کو سمجھ کر آپ کا ہاتھ بٹاتے تو لاکھوں سکھ اس وقت تک مسلمان ہو جاتے- مگر افسوس کہ مسلمانوں نے الٹی مخالفت کی اور اس کے عظیم الشان اثرات کے راستہ میں روکیں ڈالیں- مگر پھر بھی تسلی سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک طبقہ کے اندر اس تحقیق کا گہرا اثر نمایاں ہے- اور جلد یا بدیر یہ تحریک عظیم الشان نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوگی-
)۵(پانچواں کام آپ نے اسلام کی ترقی کے لئے یہ کیا کہ عربی کو امالالسنہ ثابت کیا- اور اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کو عربی زبان سیکھنی چاہئے- مسلمانوں نے ابھی تک اس بات کی عظمت کو سمجھا نہیں- بلکہ ابھی تک وہ اس کے برخلاف عربی کو مٹانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں- مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تجویز میں مسلمانوں کے اتحادکامل کے لئے بنیاد رکھی گئی ہے- امید ہے کہ کچھ عرصہ تک خود بخود وہ اس کی طرف متوجہ ہوں گے اور اس کی مذہبی اہمیت کے ساتھ اس کی سیاسی اور تمدنی عظمت کو بھی محسوس کریںگے-
)۶(چھٹا کام اسلام کی ترقی کے لئے آپ نے یہ کیا ہے کہ ایک عظیم الشان ذخیرہ اسلام کے تائیدی دلائل کا جمع کر دیا ہے- اور آپ کی کتب کی مدد سے اب ہر مذہب اور ہر ملت کے لوگوں کا اور علوم جدیدہ کے غلط استعمال سے جو مفاسد پیدا ہوتے ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر طرح کی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں-
)۷(ساتواں کام آپ نے یہ کیا ہے کہ امید جو مسلمان کے دلوں سے بالکل مفقود ہوگئی تھی اسے پھر پیدا کر دیا ہے- آپ کے ظہور سے پہلے مسلمان بالکل نا امید ہو چکے تھے- اور سمجھے بیٹھے تھے کہ اسلام دب گیا آپ نے آکر بہزور اعلان کیا کہ اسلام کو میرے ذریعہ ترقی ہوگی- اور اسلام پہلے دلائل کے ذریعہ سے دنیا پر غالب ہوگا- اور آخر تبلیغ کے ذریعہ سے طاقتور قومیں اس میں شامل ہو کر اس کی سیاسی طاقت کو بڑھا دیں گی- اس طرح آپ نے ٹوٹے ہوئے دلوں کو باندھا- جھکی ہوئی کمر کو سہارا دیا- بیٹھے ہوئے حوصلوں کو کھڑا کیا- اور مردہ امنگوں کو زندہ کیا- اور اس میں کیا شک ہے کہ جب امید اور زبردست امید پیدا ہو جائے تو سب کچھ کرا لیتی ہے- امید ہی سے قربانی و ایثار پیدا ہوتے ہیں- اور چونکہ مسلمانوں میں امید نہ تھی` قربانی بھی نہ رہی تھی- احمدیوں میں امید ہے` اس لئے قربانی بھی ہے- پھر قربانی بھی مرنے مارنے کی قربانی نہیں بلکہ سامان بقا کو پورا کرنے والی قربانی- جس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ہر ذرہ کو اس طرح ملایا جائے کہ اس سے ترقی کے سامان پیدا ہوں-
امن عامہ کا قیام
چودھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ آپ نے امن عامہ کو قائم کیا ہے اس غرض کیلئے آپ نے چند تدبیریں کی ہیں جن پر عمل کرنے سے دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے اور ہوگا-
)۱(دنیا میں سب سے بڑی وجہ فساد کی یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے بزرگوں کو برابھلا کہتے ہیں اور دوسرے مذاہب کی خوبیوں سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں- حالانکہ عقل سلیم اسے تسلیم نہیں کر سکتی کہ خدا تعالیٰ جو رب العالمین ہے وہ کسی ایک قوم کو ہدایت کیلئے چن لے گا اور باقی سب کو چھوڑ دے گا- مگر عقل سلیم خواہ کچھ کہے دنیا میں یہ خیال پھیلا ہوا تھا اور اس کی وجہ سے سخت فسادات پیدا ہو رہے تھے- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس صداقت کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور بڑے زور سے دعویٰ کیا کہ ہر قوم میں نبی گذرے ہیں- اور اس طرح ایک عظیم الشان وجہ فساد کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ سے پہلے بھی بعض بزرگوں نے بعض قوموں کے بزرگوں کو یا بعض قوموں نے بعض غیر قومی بزرگوں کو خدا رسیدہ تسلیم کیا ہوا تھا جیسے مثلاً ایک دہلوی بزرگ نے فرمایا کہ کرشن نبی تھے- اسی طرح توریت میں ایوب علیہ السلام کو نبی کر کے پیش کیا گیا ہے- حالانکہ وہ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے- مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلہ کو اور رنگ میں پیش کیا ہے- آپ کے دعویٰ سے پہلے مختلف اقوام کے ہدایت کے متعلق مختلف خیالات تھے- )۱(بعض کا خیال تھا کہ باقی سب لوگ جہنمی ہیں صرف ان کی قوم نجات یافتہ ہے- یہود اور زردشتی اس خیال کے تھے )۲(بعض کا خیال تھا کہ ان کے بانی کی آمد سے پہلے تو دنیا کی ہدایت کا دروازہ بند تھا مگر اس کے آنے کے بعد کھلا ہے- مسیحی لوگ اس خیال کے پابند ہیں- ان کے نزدیک ہدایت عام حضرت مسیح ناصری کے ذریعہ سے ہوئی ہے-
)۳(بعض کا خیال تھا کہ ہدایت قومی تو ان کی قوم سے ہی مخصوص ہے لیکن خاص خاص افراد دوسری اقوام کے بھی نجات حاصل کر سکتے ہیں اگر وہ خاص زور لگائیں- سناتن دھرمی لوگوں کا یہی عقیدہ ہے- وہ اصل اور سچا مذہب تو اپنا تسلیم کرتے ہیں- مگر ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی اور مذہب کا خدا تعالیٰ کی محبت کو دل میں پیدا کر کے مجاہدہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر بھی رحم کرتا ہے گویا اسے ایک ایسا راستہ مل جاتا ہے جو گو سیدھا تو منزل مقصود تک نہیں پہنچتا لیکن چکر کھا کر پہنچ جاتا ہے-
مسلمانوں کے خیالات بھی باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے اس مسئلہ کو حل کر دیا تھا` غیرمعین تھے- وہ یہ خیال کرتے تھے کہ بنی اسرائیل کے نبیوں کے ذریعہ دنیا کی ہدایت ہوتی رہی ہے- حالانکہ بنی اسرائیل کے نبی صرف اپنی قوم کی طرف تھے- نیز وہ ایک طرف تو یہ تسلیم کرتے تھے کہ ہر قوم میں نبی آئے ہیں- دوسری طرف بنی اسرائیل کے سوا باقی اقوام کو غیر کتابی سمجھتے تھے اور ان کے نبیوں کو جھوٹا قرار دیتے تھے-
اس قسم کے خیالات کا نتیجہ یہ تھا کہ مختلف اقوام میں صلح ناممکن ہو رہی تھی- اور ضد میں آکر سب لوگ کہنے لگ گئے تھے کہ صرف ہم ہی نجات پائیں گے` ہمارے سوا اور کوئی نہیں نجات پا سکتا` ہمارا ہی مذہب اصل مذہب ہے- گویا ہر قوم خدا تعالیٰ کی اکلوتی بیٹی بننا اور اسی حیثیت میں رہنا چاہتی تھی- اور دوسری قوموں سے اگر کسی رعایت کے لئے تیار تھی تو صرف اس قدر کہ تم بھی ہمارے مذہب میں داخل ہو کر کچھ حصہ خدا کے فضل کا پا سکتے ہو- اور دوسری اقوام کی قدیم قومی روایات اور احساسات کو مٹا کر ایک نئی راہ پر لانا چاہتی تھی- یعنی یہ امید رکھتی تھی کہ وہ اپنے بزرگوں کو جھوٹا اور فریبی قرار دیتے ہوئے اور اپنی ساری پرانی تاریخ کا ورق پھاڑتے ہوئے ان میں آکر مل جائے اور نئے سرے سے ایک پنیری کی طرح جو نئی زمین میں لگائی جاتی ہے بڑھنا شروع کرے- چونکہ یہ ایک ایسی بات تھی جس کے کرنے کے لئے انسان بہت ہی کم تیار ہو سکتا ہے- خصوصاً ایسا انسان جس کے آباء شاندار کام کر چکے ہوں اور علوم کے حامل رہ چکے ہوں اس لئے قومی جنگ جاری تھی اور صلح کی کوئی صورت نہ نکلتی تھی-
بعض لوگ دوسروں کے بزرگوں کو بھی تسلیم کر لیتے تھے لیکن ایک مصلح یا معلم کی صورت میں نہیں بلکہ ایک بزرگ یا پہلوان کی صورت میں جس نے اپنے زور سے ترقی کی- اور وہ اسی کی ذات تک محدود رہی آگے اس کے ذریعہ سے دنیا پر ہدایت قائم نہیں ہوئی- اور اس کا نور دنیا میں پھیلا نہیں- لوگوں نے اس کی دعائوں سے یا اس کے معجزات و کرامات سے فائدہ اٹھایا لیکن وہ کوئی تعلیم اور اصلاحی سکیم لے کر نہیں آیا جیسے کہ ایوبؑ اور کرشنؑ کی نسبت یہود اور بعض مسلمانوں کا خیال تھا-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر اس نقطہ نگاہ ہی کو بالکل بدل دیا- آپ نے بعض کی شخصیت کو دیکھ کر بزرگ تسلیم نہیں کیا- اور حضرت مظہر جان جاناں کی طرح یہ نہیں کہا کہ کرشن جھوٹا نہیں معلوم ہوتا وہ ضرور خدا کا بزرگ ہوگا- یا جیسے سناتنی کہتے ہیں کہ محمد) صلی اللہ علیہ وسلم ( ایک بزرگ تھے مگر ہمارا ہی مذہب سچا ہے- بلکہ آپ نے اس مسئلہ پر اصولی طور پر نگاہ ڈالی- )۱(آپ نے سورج اور اس کی شعاعوں پانیوں اور ان کے اثرات` ہوا اور اس کی تاثیرات کو دیکھا اور کہا جس خدا نے سب انسانوں کو ان چیزوں میں مشترک کیا ہے وہ ہدایت میں فرق نہیں کر سکتا- اور اصولاً سب قوموں میں انبیاء کا ہونا لازمی قرار دیا- پس آپ نے مثلاً حضرت کرشن کو اس لئے نبی تسلیم نہ کیا کہ وہ ایک بزرگ ہستی تھے جنہوں نے ایک تاریکی میں پڑے ہوئے ملک میں سے استثنائی طور پر انفرادی جدوجہد کے ساتھ خدا کا قرب حاصل کر لیا` بلکہ اس لئے کہ آپ نے خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کر کے یہ نتیجہ نکالا کہ ایسا خدا ممکن نہ تھا کہ ہندو قوم کو بھلا دے اور اس کی ہدایت کا کوئی سامان نہ کرے-
)۲(دوسرے آپ نے انسان کی فطرت اور اس کی قوتوں کو دیکھا اور بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ جوہر ضائع ہونے والا نہیں` خدا نے اسے ضرور قبول کیا ہوگا- اور اس کو روشن کرنے کے اسباب پیدا کئے ہوں گے-
غرض آپ کا نقطہ نگاہ بالکل جداگانہ تھا اور آپ کا فیصلہ چند شاندار ہستیوں سے مرعوب ہونے کا نتیجہ نہ تھا بلکہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور انسانی قابلیت اور پاکیزگی کی بنا پر تھا-
اب صلح کا رستہ کھل گیا- کوئی ہندو یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر میں اسلام قبول کروں تو مجھے اپنے بزرگوں کو برا سمجھنا پڑے گا- کیونکہ اسلام ان کو بھی بزرگ قرار دیتا ہے- اور اسلام قبول کرنے میں وہ انہی کی تقلید کرے گا- یہی حال زردشتیوں کنفیوشس کے تابعین اور یہودیوں اور مسیحیوں کا ہوگا- پس ہر مذہب کا انسان اپنے آبائی فخر کو سلامت رکھتے ہوئے اسلام میں داخل ہو سکتا ہے اور اگر داخل نہ ہو تو صلح میں ضرور شامل ہو سکتاہے-
اس اصل کے ذریعہ سے آپ نے بندہ کی خدا تعالیٰ سے بھی صلح کرا دی- کیونکہ پہلے مختلف اقوام کے لوگوں کے دل اس حیرت میں تھے کہ یہ کس طرح ہوا کہ خدا تعالیٰ میرا خدا نہیں ہے اور اس نے مجھے چھوڑ دیا- اور اللہ تعالیٰ کی نسبت ان جذبات محبت کو پیدا نہیں کر سکتے تھے- جو ان کے دل میں پیدا ہونے چاہئیں تھے- مگر حضرت مسیح موعودؑ نے اس زنگ کو بھی دور کرا دیا- اور جہاں اپنی تعلیم کے ذریعہ سے بنی نوع انسان کے درمیان صلح کا راستہ کھولا` وہاں خدا اور بندہ کے درمیان صلح کا بھی راستہ کھولا-
)۲(دوسرا ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے امن عامہ کے قیام کے لئے یہ اختیار کیا کہ آپ نے تجویز پیش کی کہ ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں- دوسرے مذاہب پر اعتراض نہ کریں کیونکہ دوسرے مذاہب کے عیب بیان کرنے سے اپنے مذہب کی سچائی ثابت نہیں ہوتی بلکہ دوسرے مذہب کے لوگوں میں بغض و کینہ پیدا ہوتا ہے-
)۳(تیسرا اصل امن عامہ کے قیام کے لئے آپ نے یہ تجویز کیا کہ ملک کی ترقی فساد اور بغاوت کے ذریعہ سے نہ چاہی جائے` بلکہ امن اور صلح کے ساتھ گورنمنٹ سے تعاون کر کے اس کے لئے کوشش کی جائے- اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت جب کہ عدم تعاون کا زور ہے لوگ اس اصل کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے- لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ تعاون سے جس سہولت سے حقوق مل سکتے ہیں عدم تعاون سے نہیں مل سکتے- مگر تعاون سے مراد خوشامد نہیں- خوشامد اور شے ہے اور تعاون اور شے ہے- جسے ہر شخص جو غور و فکر کا مادہ رکھتا ہو آسانی سے سمجھ سکتا ہے- خوشامد اور عہدوں کی لالچ ملک کو تباہ کرتی ہے اور غلامی کو دائمی بناتی ہے مگر تعاون آزادی کی طرف لے جاتا ہے-
معاد کے متعلق خیالات کی اصلاح
پندرھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا ہے کہ جزا اور سزا اور باقی امورمعاد کے متعلق ایک ایسی صحیح تحقیق پیش کی ہے کہ جس سے بڑھ کر اور عقل کو تسلی دینے والی تحقیق ذہن میں نہیں آ سکتی- آپ سے پہلے تمام مذاہب میں جزا و سزا اور معاد کے متعلق عجیب قسم کے خیالات پھیلے تھے- جن کی وجہ سے دنیا اس عقیدہ سے ہی متنفر ہو رہی تھی اور معاد کو وہم قرار دے رہی تھی- مختلف مذاہب کے لوگ یہ عقیدہ رکھتے تھے-
)۱(بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ نجات عدماحساس کا نام ہے- جیسے بدھوں کا خیال تھا-
)۲(بعض کا خیال تھا کہ نجات خدا میں فنا ہو جانے کا نام ہے- سناتنی ہندو اسی عقیدہ کے ہیں-
)۳(بعض کا خیال تھا کہ نجات مادہ سے روح کے تعلق کے کامل طور پر آزاد ہو جانے کا نام ہے- جینیوں کا یہی خیال تھا-
)۴(بعض کا خیال تھا- نجات عارضی اور وقتی ہے- جیسے آریہ-
)۵(بعض کا خیال تھا کہ جزا و سزا صرف روحانی ہیں- جیسے سپرچولسٹ-
)۶(بعض کا خیال تھا کہ جزا و سزا خالص جسمانی ہیں جیسے یہود اور مسلمان-
)۷(بعض کا خیال تھا کہ دوزخ جسمانی اور جنت روحانی ہے جیسے مسیحی-
)۸(بعض کا خیال تھا- دوزخ کی سزائیں جنت کی نعماء کی طرح ہمیشہ کے لئے ہیں-
مگر یہ سب امر نہایت ہی قابل اعتراض اور شک و شبہ پیدا کرنے والے تھے- اگر عدماحساس نجات ہے تو خدا نے انسان کو پیدا ہی کیوں کیا؟ پیدا تو اس چیز کیلئے کیا جاتا ہے جو آئندہ حاصل ہونے والی ہو- عدم احساس تو پیدائش سے پہلے موجود تھا- پھر پیدا کرنے کی کیا غرض تھی؟ اسی طرح نجات اگر خدا میں فنا ہو جانے کا نام ہے تو یہ انعام کیا ہوا- فناء خواہ الگ ہو خواہ خدا میں ایک کامل الاحساس ہستی کے لئے انعام نہیں کہلا سکتی- اگر مادہ سے نجات کا نام نجات ہے تو ارواح پہلے ہی مادہ میں کیوں ڈالی گئیں- اس نئے دور کے اجراء کی غرض کیا تھی- اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ جزا و سزا صرف روحانی ہیں- کیونکہ انسان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ باہر کے اثرات کو جذب کرنا چاہتا ہے اور انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ باہر سے بھی لذت حاصل کرے اور اندر سے بھی- اسی طرح وہ جو کہتے ہیں کہ جزا و سزا صرف جسمانی ہیں وہ بھی غلط کہتے ہیں- کیا یہ ہو سکتا ہے کہ انسان کو ابدی زندگی اس لئے دی جائے گی کہ وہ کھائے اور پیئے اور ایک بے مقصد زندگی بسرکرے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب خیالات کی تردید کی ہے اور مندرجہذیل حقیقت پیش کی ہے- آپ فرماتے ہیں کہ-:
انسان کا مقصد نجات نہیں بلکہ فلاح ہے- نجات کے معنی تو بچ جانے کے ہیں اور بچ جانا عدم پر دلالت کرتا ہے- اور عدم مقصد نہیں ہو سکتا- پس انسان کا مقصد فلاح ہے اور فلاح کچھ کھونے کا نام نہیں بلکہ کچھ حاصل کرنے کا نام ہے- اور جب حاصل کرنے کا نام فلاح ہے تو ضروری ہے کہ اگلے جہان میں احساس اور زیادہ تیز ہوں تا کہ زیادہ حاصل کر سکیں- یہی وجہ ہے کہ مرنے کے بعد کی زندگی کے متعلق قرآن کریم میں آیا ہے-
ویحمل عرش ربک فوقھم یومئذ ثمانیہ ۳۴~}~کہ اس دنیا میں تو چار بنیادی صفات کا ظہور انسان کے لئے ہوتا ہے- اگلے جہان میں عرش آٹھ بنیادی صفات کا ظہور ہوگا- یعنی اس دنیا کی نسبت اگلے جہان کی تجلیات بہت بڑھ کر ہوں گی-
پھر آپ نے ثابت کیا کہ نجات یا فلاح دائمی ہیں اور بتایا کہ عمل کا بدلہ کام کرنے والے کی نیت اور جزا دینے والے کی طاقت پر ہوتا ہے- ان دونوں باتوں کو مدنظر رکھ کر اور انسان کی فطرت پر نظر کرتے ہوئے جو فنا سے بھاگتی اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا چاہتی ہے` فلاح کی ہمیشگی ثابت ہے-
اسی طرح آپ نے یہ بھی بتایا کہ جزا و سزا نہ صرف روحانی ہیں اور نہ صرف جسمانی- اور نہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک جسمانی ہو اور دوسری روحانی- کیونکہ اعمال نیک و بد کا مرکز ایک ہی ہوتا ہے- اس جزا و سزا کا طریق بھی ایک ہی ہونا چاہئے- ہاں چونکہ کامل احساس اندرونی و بیرونی جذبات کے ملنے سے ہوتا ہے اس لئے جزا و سزا اندرونی اور بیرونی دونوں قسم کی حسوں پر مشتمل ہونگی اور چونکہ وہ عالم زیادہ تیز احساسات کی جگہ ہوگا` اس لئے وہاں کی جزا و سزا کے مطابق اور ضروریات کے لحاظ سے ایک نیا جسم انسان کو ملے گا- وہاں بے شک یہ جسم نہ ہوگا- مگر ہوگا ضرور- یعنی نیا جسم دیا جائے گا- جو یہاں کے لحاظ سے روحانی ہوگا- یہاں کی عبادتیں وہاں مختلف اشیاء کی شکل میں نظر آئیں گی- ان کی ظاہری شکل تو ہوگی مگر باوجود اس کے وہ اس دنیا کے مادہ سے نہ بنی ہوئی ہوں گی- گویا وہاں پھل اور دودھ اور شہد اور مکانات تو ہوں گے مگر اس دنیا کی قسم کے نہیں بلکہ ایک لطیف مادہ کے جنہیں لطافت کے سبب سے اس دنیا کے مقابلہ میں روحانی جسم والا کہا جا سکتا ہے-
لیکن سزا و جزا کے متعلق آپ نے ایک فرق بیان فرمایا اور وہ یہ کہ دوزخ کی سزا تو ابدی نہیں ہوگی- کیونکہ انسانی فطرت نیک ہے` اس لئے ضروری ہے کہ اسے نیکی کی طرف لے جایا جائے- دوسرے انسان خدا کے قرب کے حصول کے لئے پیدا کیا گیا ہے- اگر وہ دوزخ میں پڑا رہے تو قرب کہاں حاصل کر سکتا ہے- پھر خدا تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے- اگر دوزخ کی سزا ہمیشہ کے لئے ہو تو رحمت کس طرح وسیع ہوگی- اس صورت میں تو اس کا غضب بھی ویسا ہی وسیع ہوا- جیسے کہ اس کی رحمت- پھر اگر ہمیشہ کے لئے دوزخ ہو تو انسان جو نیکیاں دنیا میں کرتا ہے` ان کا بدلہ ضائع ہو جائے گا حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے` کسی کی نیکی ضائع نہیں کی جائے گی- پس عذاب دائمی نہیں ہوگا` فلاح دائمی ہوگی-
غرض آپ نے دوزخ کے عذاب کے محدود ہونے کو علمی طور پر کھول کر گویا کائناتعالم کی حقیقت کو کھول دیا ہے- ایک طرف انسانی فطرت کی کمزوری کو دیکھ کر جب ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ بچہ پیدا ہوتا ہے تو تربیت کرنے والوں کی تربیت کا اس پر اثر پڑتا ہے- کھانے پینے کا اس پر اثر پڑتا ہے- اردگرد کے حالات کا اثر پڑتا ہے- اور کاموں میں پھنسے ہونے کی وجہ سے عبادت کے لئے قلیل وقت ملتا ہے- دوسری طرف باوجود ان مجبوریوں کے عام طور پر انسان کی قرب الہی کے لئے جدوجہد کو دیکھ کر جس میں ہر مذہب و ملت کے لوگ مشغول ہیں تیسری طرف یہ دیکھ کر کہ بنی نوع انسان تک خدا کے کلام کے پہنچانے میں ہزاروں قسم کی دقتیں ہیں اور بہت ہی کم لوگوں کو ایک وقت میں حقیقی طور پر کلام پہنچتا ہے- چوتھے رحمت الہی کی وسعت کو دیکھ کر` پانچویں انسانی طاقتوں کی حد بندیوں کو دیکھ کر ہر ایک صحیح فطرت جزا و سزا کی نسبت مختلف مذاہب کی پیش کردہ تعلیم سے رکتی تھی- مگر آپ نے ایسی تعلیم پیش کر دی کہ ان سب اعتراضات کا ازالہ ہو گیا- اور اب ہمیں نظر آتا ہے- کہ انسانی زندگی ترقیات لامحدود کی ایک کڑی ہے- اور اس میں غیر محدود ترقیات کی گنجائش ہے- اس کی روکیں عارضی ہیں ورنہ بحیثیت مجموعی وہ آگے کی طرف جا رہی ہے اور جائے گی- خود دوزخ بھی ایک عالم ترقی ہے- اور آلائشوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی جگہ ہے- گویا وہ ایک حمام ہے- جن کو آلائشیں لگی ہوں گی انہیں خدا کہے گا- اس حمام میں پہلے نہائو اور پھر میرے پاس آئو-
اب آخر میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی کہے کہ یہ سب باتیں تو قرآن کریم میں موجود تھیں- مرزا صاحب نے کیا کیا؟ ان باتوں کے اظہار سے ان کا کام کس طرح ثابت ہوگیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسی طرح اگر کوئی غیر مسلم یہ کہے کہ ساری باتیں تو خدا نے بتائیں- محمد ) صلی اللہ علیہ وسلم ( نے کیا کام کیا- تو کیا یہی نہیں کہو گے کہ بے شک جو کچھ آپ نے دنیا کو بتایا` وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ملا- مگر سوال یہ ہے کہ اور کسی کو کیوں نہ ملا؟ آخر کوئی نیکی اور تقویٰ اور قربانی کا درجہ آپ کو ایسا حاصل تھا جو دوسروں کو حاصل نہ تھا- تب ہی تو خدا تعالیٰ نے آپ پر یہ علوم کھولے پس وہ کام آپ ہی کا کام کہلائے گا- یہی جواب ہم دیں گے کہ بیشک یہ سب کچھ قرآن کریم میں موجود تھا- مگر باوجود اس کے لوگوں کو نظر نہ آتا تھا- اور خداتعالیٰ نے ان علوم کو کسی پر نہ کھولا مگر آپ پر ان علوم کو کھول دیا- اور ایسے وقت میں کھولا جب کہ دنیا قرآن کریم کی طرف سے رو گردان ہو رہی تھی- پس گو یہ علوم قرآن کریم میں موجود تھے مگر دنیا کی نظر سے چونکہ پوشیدہ تھے- اور خدا تعالیٰ نے ان کے کھولنے کے لئے آپ کو چنا` اس لئے وہ آپ ہی کا کام کہلائیں گے-
میں نے آپ کے کاموں کی تعداد پندرہ بتائی ہے- لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ کا کام یہیں تک ختم ہو گیا ہے- آپ کا کام اس سے بہت وسیع ہے اور جو کچھ کہا گیا ہے یہ اصولی ہے- اور اس میں بھی انتخاب سے کام لیا گیا ہے- اگر آپ کے سب کاموں کو تفصیل سے لکھا جائے تو ہزاروں کی تعداد سے بھی بڑھ جائیں گے- اور میرے خیال میں اگر کوئی شخص انہیں کتاب کی صورت میں جمع کر دے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ منشاء پورا ہو سکتا ہے جو آپ نے براہین احمدیہ میں ظاہر فرمایا ہے اور وہ یہ کہ اس کتاب میں اسلام کی تینسو خوبیاں بیان کی جائیں گی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ وعدہ اپنی مختلف کتابوں کے ذریعہ پورا کر دیا- آپ نے اپنی کتابوں میں تین سو سے بھی زائد خوبیاں بیان فرما دی ہیں- اور میں یہ ثابت کرنے کیلئے تیار ہوں- واخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین-
‏]gap [tag
۱~}~
ال عمران : ۱۹۱ تا ۱۹۶
۲~}~
متی باب ۵ آیت ۳۹- برٹش فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
۳~}~
وڈ JohnWood )۱۸۱۱ء-۱۸۷۱ء( ایسٹ انڈیا کمپنی کی بحریات کا رکن- برنز (Burns) کا اسسٹنٹ` افغانستان کے سفر میں وادی کابل کے متعلق رپورٹ تیار کی اور دریائے جیحوں کا سرچشمہ دریافت کیا- سندھ میں وفات پائی- )اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۷۹۵ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور(
۴~}~
فاکس James Charles Fox )۱۷۴۹ء-۱۸۰۶ء( انگریز سیاستدان` مدبر` اور فصیحالبیان مقرر جسے ہندوستان کے لوگوں سے بہت ہمدردی تھی- چنانچہ اس نے ۱۷۷۳ء میں پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا جسے Bill India Fox کہتے ہیں اس بل کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کی حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی سے چھین کر سات ارکان کی ایک کمیٹی کے سپرد کی جائے-
انقلابی جنگ میں اس نے برطانوی پارلیمنٹ میں امریکی نوآبادیات کی حمایت کی- یہ بڑا ہی ملنسار اور ہمدرد آدمی تھا- ۱۸۰۶ء میں اسے خارجہ امور کا سیکرٹری بنایا گیا- )پاپولر تاریخ انگلستان صفحہ۲۳۹` ۲۴۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۴۰ء + اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۰۵۴ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء(
۵~}~
تذکرہ صفحہ۱۰۴ ایڈیشن چہارم ۱۹۷۷ء براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ۵۵۷ حاشیہ در حاشیہ نمبر۴
۶~}~
تذکرہ صفحہ۱۰۴- ایڈیشن چہارم
۷~}~
لارڈ ریڈنگ )۱۸۶۰ء-۱۹۳۵ء( انگریز سیاستدان و وکیل- ۱۹۱۰ء میں اٹارنی جنرل مقرر ہوا- ۱۹۱۳ء سے ۱۹۲۱ء تک انگلستان کا لارڈ چیف جسٹس اور ۱۹۲۱ء سے ۱۹۲۶ء تک ہندوستان کا وائسرائے رہا- لارڈ ریڈنگ سخت گیر وائسرائے ثابت ہوا- اگرچہ اس نے وقتی طور پر سیاسی شورش کو دبا دیا مگر اس سے حکومت کو کوئی مستقل اطمینان نصیب نہ ہوا- )اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۶۹۴ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء(
۸~}~
تذکرہ صفحہ۳۱۲- ایڈیشن چہارم
۹~}~
الشوری: ۱۲
۱۰~}~
آئنسٹائن Einstein )۱۸۷۹ء-۱۹۵۵ء( نظری طبیعیات کا ماہر- جرمن نژاد- بعد میں امریکی شہریت اختیار کی- جرمنی میں تعلیم مکمل کر کے سوئٹزرلینڈ میں ۱۹۰۲ء سے ۱۹۰۹ء تک پیٹنٹ دوائوں کی آزمائش گاہ میں کام کیا- ۱۹۰۵ء میں اس نے قدریوں (EnergyQuenta) کے مماثل` نور کے قدریوں یا ضیائیوں (Photons) کا مفروضہ وضع کیا اور ان کی بناء پر ضیاء کیمیائی اثر کی توجیہہ کی- اس نے نوعی حرارت کا قدریاتی نظریہ بھی پیش کیا- ۱۹۰۵ء میں ہی اس نے نظریہ اضافیت پیش کیا- اس نظریے کی بناء پر جوہری توانائی دریافت ہوئی- ۱۹۱۱ء میں اس نے تجاذب اور جمود کی معاونت ثابت کی- ۱۹۱۳ء میں برلن میں پروفیسر مقرر ہوا- ۱۹۲۱ء میں اس نے نظری طبیعیات بالخصوص ضیاء کیمیائی اثر کی تحقیق کی بناء پر نوبل انعام حاصل کیا- ۱۹۳۹ء میں صدر روزویلٹ کو بغرض غور ایٹم بم بنانے کی تجویز بھی اسی نے پیش کی- موسیقی کا بھی دلدادہ تھا- )اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۳۸ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء(
۱۱~}~
الصفت: ۱۱ ۱۲~}~ الکفرون: ۷
‏2] fts[۱۳~}~
ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ۱۵۸ روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۲۵۸
۱۴~}~
التکویر: ۵ ۱۵~}~ التکویر: ۶ ۱۶~}~ التکویر: ۷
۱۷~}~
التکویر: ۸ ۱۸~}~ الشمس: ۲`۳ ۱۹~}~ النمل: ۴۵
۲۰~}~
‏hn2] gat[ الطارق: ۱۲`۱۳ ۲۱~}~ الطارق: ۱۴`۱۵ ۲۲~}~ یس: ۴۱
۲۳~}~
النساء: ۲ ۲۴~}~ الفرقان: ۶۰ ۲۵~}~ البقرہ: ۱۰۳
۲۶~}~
بخاری کتاب الوضوء باب التسمیہ علی کل حال و عند الوقاع
۲۷~}~
متی باب ۱۲ آیت ۳۹`۴۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۴۳ء
۲۸~}~
بخاری کتاب الذبائح والصید باب الضب
۲۹~}~
تذکرہ صفحہ ۳۹۶- ایڈیشن چہارم
۳۰~}~
النساء: ۲۹ ۳۱~}~ الفاتحہ: ۴ ۳۲~}~ فاطر: ۴۶
۳۳~}~
کندہ ناتراش: احمق- نالائق
‏۳۴2]~}~ ftr[
الحاقہ: ۱۸
‏ a10.5
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن)۱(
فضائل القرآن
)نمبر۱(

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ- ھوالناصر
فضائل القرآن
)نمبر۱(
قرآن کریم کی سابقہ الہامی کتب پر فضیلت
اور
مستشرقین یورپ کے اعتراضات کا رد
)فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۲۸ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان(
تشہد` تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کے متعلق کوئی حد بندی کرنا یا کوئی حد بندی چاہنا انسانی طاقت سے بالا اور ادب کے منافی ہے- لیکن آج جس وقت نماز جمعہ کے قریب بادل گھر آئے اور تیز بارش برسنے لگی تو باوجود ضعف اور خرابی صحت کے میری طبیعت یہی چاہتی تھی کہ کمازکم جلسہ سب دوستوں کے ساتھ مل کر دعا پر ختم ہو- اللہ تعالیٰ کی طاقتیں تو بہت وسیع ہیں لیکن بندہ گھبرا جاتا ہے- جب بارش تھمنے میں نہ آئی تو میں نے ایک تحریر لکھی اور دوستوں سے کہا کہ اس کی نقلیں کروا کر ابھی کمروں میں پہنچا دی جائیں- اس کا مضمون یہ تھا کہ بارش کی وجہ سے چونکہ ہم سب لوگ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے اس لئے سوا پانچ بجے میں دعا کروں گا سب دوست اپنی اپنی جگہ اس دعا میں شامل ہو جائیں- لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی نقلیں ہو ہی رہی تھیں کہ بارش تھم گئی اور میں نے کہلا بھیجا کہ خدا تعالیٰ نے دوسری صورت پیدا کر دی ہے اب نقلیں کروانے کی ضرورت نہیں-
قرآنی مطالب پر غور کرنے کیلئے بعض اصولی باتیں
‏]text1 [tagمجھے افسوس ہے کہ آج میں اس مضمون کو پوری طرح بیان کرنے کے قابل نہیں جو اس جلسے کے لئے میں نے تجویز کیا تھا- اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مضمون کم ازکم وقت لے اور اسے خلاصتہ بھی بیان کیا جائے تب بھی پانچ چھ گھنٹے میں بیان ہو سکتا ہے- اور اتنی لمبی تقریر موسم کے خراب ہونے اور پھر طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے اس وقت نہیں ہو سکتی- میں نے اس مضمون کو جلسہ سالانہ کے لئے اس وجہ سے چنا تھا کہ یہ مضمون قرآن کریم کے متعلق ہے اور میراارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو تو آئندہ جو قرآن کریم کا ترجمہ ہماری طرف سے شائع ہو اس کا اسے دیباچہ بنا دیا جائے- کچھ حصہ ان مضامین کا جلسہ کے موقع پر بیان کر دوں اور باقی حصہ میں خود لکھ لوں- لیکن چونکہ اس وقت یہ مضمون تفصیلی طور پر بیان نہیں ہوسکتا اس لئے آج میں اختصار کے ساتھ صرف اتنا ہی بیان کر دیتا ہوں کہ قرآن کریم پرغور کرنے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے کن کن مطالب پرغور کرنا چاہئے اور یہ کہ عیسائی اور دوسرے غیر مسلم اسلام اور قرآن کریم کے خلاف کتنی کوششیں کر رہے ہیں اور مسلمان اس طرف سے کتنے غافل اور لاپرواہ ہیں- میرے نزدیک قرآن کریم پر مجموعی نظر ڈالنے کے لئے مندرجہ ذیل امور پر غور کرنا ضروری ہے-
ضرورت قرآن
اول کیا اس وقت جبکہ قرآن کریم نازل ہوا دنیا کو کسی الہامی کتاب کی ضرورت تھی یا نہیں؟ کیونکہ جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ کوئی چیز باموقع نازل ہوئی ہے اس وقت تک خدا تعالٰے کی طرف وہ منسوب نہیں کی جاسکتی- بہت لوگ کہتے ہیں کہ جب قرآن کریم نازل ہوا تو اس وقت لوگوں کی حالت خراب تھی- مگر لوگوں کی حالت خراب ہونے کی وجہ سے ضروری نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی کتاب بھی نازل ہو- دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اس وقت تشریف لائے جب لوگوں کی عملی حالت بالکل خراب ہو چکی تھی لیکن کیا آپ کوئی کتاب لائے- پس یہ کہنا کہ لوگوں کی عادات خراب ہوگئی تھیں فسق وفجور پیدا ہوگیا تھا یہ اس بات کے لئے کافی نہیں کہ اس زمانہ میں قرآنکریم کی بھی ضرورت تھی- یا یہ کہ عربوں میں بد رسوم پیدا ہوگئی تھیں- بیٹیوں کو مار ڈالتے تھے- سوتیلی مائوں سے شادی کر لیتے تھے- اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوگا کہ عربوں کے لئے ایک کتاب کی ضرورت تھی - یہ ثابت نہیں ہوگا کہ ساری دنیا کے لئے ضرورت تھی- جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت بنی اسرائیل کی حالت سخت خراب تھی- مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ علیھما السلام ساری دنیا کے لئے آئے تھے- ہمیں جو چیز ثابت کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں تمام مذہبی کتب میں ایسا بگاڑ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ اپنی ذات میں دنیا کو تسلی دینے کے لئے نا کافی تھیں- پس قرآن کریم کے نازل ہونے کی ضرورت کو ثابت کرنے کے لئے پہلی کتب میں بگاڑ ثابت کرنا ضروری ہے-
قرآن کریم کی وحی کس طرح نازل ہوئی
)۲(دوسرے اس بات پر روشنی ڈالنا ضروری ہے کہ قرآن کریم کی وحی کس طرح نازل ہوئی؟ کیونکہ کسی وحی کے نزول کے طریق سے بھی بہت کچھ اس کی صداقت کا پتہ لگ سکتا ہے- مثلاًاس بات پر بحث کرتے ہوئے یہ سوال سامنے آجائیگا کہ جس انسان پر یہ وحی نازل ہوئی کیا اس کے نازل ہونے کے وقت کی کیفیت سے یہ تو ظاہر نہیں ہوتا کہ اس کا نعوذباللہ دماغ خراب تھا- بیسیوں لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں ہمیں یہ یہ الہام ہوا- وہ اپنی طرف سے جھوٹ نہیں بول رہے ہوتے- مگر ان کا دماغ خراب ہوتا ہے- ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے آکر کہا کہ مجھے بھی الہام ہوتا ہے- آپ اس کی بات سن کر خاموش رہے اس نے پھر کہا- جب میں سجدہ کرتا ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے کہتا ہے- عرش پر سجدہ کر اور کہتا ہے- تو محمد ہے- تو عیسیٰ ہے- تو موسیٰ ہے- آپ نے فرمایا- کیا جب تمہیں محمد کہا جاتا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا جمال اور جلال بھی دیا جاتا ہے یا قرآن کریم کے علوم بھی تم پر کھولے جاتے ہیں؟ اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا پھر خدا تعالیٰ تمہیں عرش پر نہیں لے جاتا ہے- بلکہ شیطان بہکاتا ہے اگر خدا تمہیں عرش پر لے جاتا اور محمد قرار دیتا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم والی طاقتیں بھی تمہیں آپ کی غلامی میں عطا فرماتا- تو قرآن کریم کی وحی کے نزول پر بحث کرتے ہوئے یہ سوال بھی سامنے آجائیگا کہ جس شخص پر یہ کلام اتراوہ ایسا تو نہ تھا کہ مجنوں ہو یا اس کے دماغ میں کوئی اور نقص ہو-
جمع قرآن پر بحث
)۳(تیسرا سوال قرآن کریم پر نظر ڈالتے وقت یہ سامنے آئے گا کہ قرآن کریم کس طرح ¶جمع ہوا؟ یہ سوال قدرتی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ جو کتاب دنیا کے سامنے رکھی گئی کیا اسی صورت میں سامنے آئی ہے جو اس کے نازل کرنیوالے کامنشا تھا؟ اگر اسی صورت میں سامنے آئی ہے تب تو معلوم ہوا کہ اس پر غور کرنے سے وہ صحیح منشاء معلوم ہوجائیگا- جو پیش کرنے والے کا تھا- لیکن اگر اس میں کوئی خرابی اور نقص پیدا ہو گیا ہے تو پھر اس کتاب کے پیش کرنے والے کا جو منشا تھا وہ خبط ہو گیا- اس وجہ سے اس کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی- یورپ کے لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی بڑی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم صحیح طور پر جمع نہیں ہوا- وہ کہتے ہیں قرآن کریم کی عبارت کی کوئی ترتیب نہیں یونہی مختلف باتوں کو اکٹھا کر دیا گیا ہے-
حفاظت قرآن کریم کا مسئلہ
)۴(چوتھی چیز یہ ثابت کرنی ہو گی کہ قرآن اب تک محفوظ بھی ہے- اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ قرآن صحیح طور پر پیش کرنے والے کے منشاء کے مطابق جمع ہوا ہے- مگر یہ کہا جائے کہ اس میں کچھ زائد حصہ بھی شامل ہو گیا ہے یا اس میں سے کچھ حصہ حذف ہو گیا ہے تو پھر سوال ہو گا کہ کتاب اب اصل شکل میں نہیں رہی- اس وجہ سے وہ فائدہ نہیں دے سکتی جس کے لئے آئی تھی اور دنیا کے لئے کامل ہدایت نامہ نہیں ہو سکتی-
اس کے لئے بھی عیسائی مورخین نے بڑا زور لگایا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم محفوظ نہیں ہے-
قرآن کریم کا پہلی کتب سے تعلق
)۵(پانچواں سوال جس پر غور کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا پہلی کتب سے کیا تعلق ہے- آیا قرآن کریم پہلی کتب کا مصدق ہے یا نہیں اگر ہے تو کس طرح؟ ان کو موجودہ صورت میں درست تسلیم کرتا ہے یا یہ کہتا ہے کہ پہلے صحیح اتری تھیں مگر اب بگڑ گئی ہیں- یورپ کے لوگوں نے اس بات کے لئے بڑی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم نے پہلی کتب کو ان کی موجودہ صورت میں صحیح تسلیم کیا ہے- اس سے ان کی غرض یہ ہے کہ جب قرآن کریم نے ان کتب کی موجودہ شکل کو درست مانا ہے تو پھر قرآن کریم کا ان سے جو اختلاف ہوگا وہ غلط ہوگا- سرولیم میور نے اس پر ایک کتاب بھی لکھی ہے- اس میں اس نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک پہلی کتابیں صحیح ہیں-
قرآن کریم کی پہلی کتب سے تصدیق
)۶(چھٹا سوال یہ ہو گا کہ اتنی عظیم الشان کتاب جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ساری دنیا کے لئے ہے اس کی تصدیق پہلی کتب سے ہوتی ہے یا نہیں اور کیا قرآن کریم کا ذکر پہلی کتب میں موجود ہے؟ تا لوگ معلوم کر لیں کہ پہلی کتب میں اس کی جو خبر دی گئی تھی یہ اسی کے مطابق آیا ہے-
قرآن کریم میں پہلی کتب سے زائد خوبیاں
)۷(ساتواں سوال اس کے ساتھ ہی یہ پیدا ہو جائے گا کہ قرآن کریم پہلی کتابوں سے کون سی زائد چیز لایا ہے- یا تو وہ یہ کہے کہ پہلی سب کتابیں جھوٹی ہیں اس لئے مجھے نازل کیا گیا ہے- لیکن اگر وہ یہ کہتا ہے کہ وہ بھی سچی ہیں تو پھر یہ دکھانا چاہئے کہ قرآن کریم زائد خوبیاں کیا پیش کرتا ہے- ورنہ اس کے نازل ہونے کی ضرورت ثابت نہ ہوگی- پس یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہو گا کہ قرآن دوسری کتب کے مقابلہ میں افضل ہے-
ترتیب قرآن
)۸(ایک سوال یہ بھی ہو گا کہ آیا قرآن کریم میں کوئی ترتیب مدنظر ہے؟ یعنی اس میں کوئی معنوی ترتیب ہے؟ یورپ والے کہتے ہیں کہ اس میں کوئی ترتیب نہیں- بالکل بے ربط کلام ہے- اور عجیب بات یہ ہے کہ مسلمان علماء نے بھی اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ قرآن میں نعوذ باللہ کوئی ترتیب نہیں- لیکن کسی کتاب کا بیترتیب ثابت ہونا اس پر بہت بھاری حملہ ہے اور اگر اس میں ترتیب ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ترتیب اس طرح نہیں جس طرح نازل ہوئی تھی- پہلی اتری ہوئی آیتیں پیچھے اور پچھلی پہلے کر دیگئیہیں-سورۃ علق پہلے نازل ہوئی مگر بعد میں رکھی گئی اور سورۃ فاتحہ بعد میں نازل ہوئی اور اسے پہلے رکھا گیا- اسی طرح اور آیتوں کو بھی آگے پیچھے کیا گیا ہے- مکہ میں بعض آیتیں اتریں جنہیں مدنی سورتوں میں درج کیا گیا ہے- اور بعض مدینہ میں اتریں انہیں مکی سورتوں میں لکھا گیا ہے- اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعہ میں قرآن کریم کی ترتیب مدنظر تھی تو پھر کیوں اسی طرح جمع نہ کیا گیا جس طرح نازل ہوا تھا- اور اگر وہ ترتیب صحیح ہے جس میں اب قرآن موجود ہے تو پھر کیوں اسی ترتیب سے نازل نہ ہوا؟
یہ ایک اہم سوال ہے جو اہل یورپ نے اٹھایا ہے- اسے خدا تعالیٰ کے فضل سے اصولی طور پر میں نے اس طرح حل کیا ہے کہ ہر سمجھدار کی سمجھ میں آجائے گا-
ناسخ ومنسوخ کی بحث ]0 [rtf
)۹(ایک سوال قرآن کریم کے متعلق ناسخ ومنسوخ کا آجاتا ہے- یہ خود مسلمانوں کا پیدا کردہ ہے- کیونکہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآنکریم کی بعض آیتیں منسوخ ہیں- انہیں بعض دوسری آیتوں یا حدیثوں نے منسوخ کر دیا ہے- وہ پڑھی تو جائیں گی مگر ان پر عمل نہیں کیا جائیگا-
یورپ والوں نے اس کے متعلق کہا ہے کہ ناسخ منسوخ کا ڈھکوسلا اس لئے بنایا گیا ہے کہ قرآن کریم میں صریح تضاد پایا جاتا ہے- جب اسے دور کرنے کی مسلمانوں کو کوئی صورت نظر نہ آئی تو انہوں نے متضاد آتیوں میں سے ایک آیت کو ناسخ اور دوسری کو منسوخ قرار دے دیا-
نزول قرآن کا مقصد اور اس کا پورا ہونا
)۱۰(پھر ایک یہ بھی سوال ہے کہ آیا قرآنکریم اس مقصد کو پورا کرتا ہے جس کے لئے کوئی مذہب نازل ہوتا ہے- ہر ایک الہامی کتاب اسی وقت مفید ہو سکتی ہے جب اس مقصد کو پورا کرے جسے الہامی کتاب کو پورا کرنا چاہیے- اور لوگ جن الہامی کتب کو مانتے ہیں ان کی کوئی نہ کوئی ضرورت بھی ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کتاب آنے کی یہ یہ ضرورت تھی اب سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کریم اس ضرورت کو پورا کرتا ہے جس کے لئے وہ نازل ہوا ہے؟ اگر کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کی کتاب ہے ورنہ نہیں-
فطرت انسانی کے مطابق تعلیم
)۱۱(پھر قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ہر طبقہ اور ہر درجہ کی فطرت کے لوگوں کے لئے ہے- اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرآن کریم کی تعلیم فی الواقع ایسی ہے کہ اس سے ایک ان پڑھ بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اگر ایک عالم پڑھے تو وہ بھی مستفیض ہو سکتا ہے- اگر اس کی تعلیم ایسی ہے تو یہ کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے کہلا سکتی ہے- ورنہ نہیں-
فہم قرآن کے اصول
)۱۲(ایک اور سوال ہمارے سامنے یہ آتا ہے کہ قرآن کریم کے فہم کے اصول کیا ہیں؟ ہر کتاب کو سمجھنے اور اس سے مستفیض ہونے کے لئے کوئی نہ کوئی کلید ہوتی ہے- قرآن کریم کے سمجھنے کے لئے کن اصول کی ضرورت ہے؟ گویا قرآن کریم کو اصول تفسیر بھی بیان کرنے چاہئیں تاکہ ان سے کام لے کر ہر انسان اپنی سمجھ اور اپنے علم کے مطابق فہم قرآن حاصل کر سکے-
قرآن کریم کو پہلی کتب کا مصدق کن معنوں میں کہا گیا ہے؟
‏]text1 )[tag۱۳(ایک سوال یہ بھی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں قرآن اس لئے پہلی کتب کا مصدق ہے کہ ان کتابوں کی نقل کرتا ہے- اس نقل کے الزام سے بچنے کے لئے کہا گیا ہے کہ قرآن ان کا مصدق ہے- ہم کہتے ہیں بے شک قرآنان کی تصدیق کرتا ہے- مگر ان کے خلاف بھی تو کہتا ہے- اب ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ثابت کریں کہ قرآن دوسری کتابوں سے کیا نقل کرتا ہے اور کیا چھوڑتا ہے؟ اور جو بات نقل کرتا ہے- اسے پہلی کتاب سے زائد بیان کرتا ہے یا نقل کرتے ہوئے پہلی کتابوں سے اختلاف کرتا ہے- ایسی صورت میں کیا وجہ ہے کہ ہم قرآن کی بات کو صحیح مانیں-
پرانے واقعات کے بیان کرنے کی غرض
)۱۴(پھر قرآن میں پرانے واقعات بیان کئے گئے ہیں- ان کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کو کیوں بیان کیا گیا ہے- کیا قرآن قصے کہانیوں کی کتاب ہے؟ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ہی کفار کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان ھذا الا اساطیر الاولین ۱~}~قرآن تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں-
قسموں کی حقیقت
)۱۵(یہ سوال بھی شبہات پیدا کرتا ہے کہ قرآن کریم میں قسمیں کیوں کھائی گئی ہیں؟ قسموں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کلام بنایا اور وہ یہ بات بھول گئے کہ اسے خدا کا کلام قرار دے رہے ہیں- اس لئے قسمیں کھانے لگے- اس قسم کے شبہات دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بتایا جائے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں بھی قسمیں ہوتی ہیں اور ان کی کیا وجہ ہوتی ہے؟
معجزات پر بحث
)۱۶(اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں بار بار اس بات پر زور دینا کہ کوئی نشان دکھانا رسول کے اختیار میں نہیں- جب خدا چاہتا ہے نشان دکھاتا ہے- دراصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پردہ پوشی کے لئے ہے- اس کے متعلق یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ سارے کا سارا قرآن نشانات کا مجموعہ ہے-
خدا تعالیٰ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں
)۱۷(اسی طرح قرآن کریم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ سائنس اور علوم طبعیہ کے خلاف باتیں پیش کرتا ہے- چونکہ خدا تعالیٰ کا قول اس کے فعل کے خلاف نہیں ہو سکتا اس لئے یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام اس کے کسی فعل کے خلاف نہیں ہے- اس میں ایسی سچائیاں ہیں جو پہلے لوگوں کو معلوم نہ تھیں- اور انہیں علوم طبعیہ کے خلاف قرار دیا جاتا تھا مگر اب انہیں درست قرار دیا جاتا ہے-
قرآن کریم کے روحانی کمالات
)۱۸(یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ قرآن کریم میں کیا کمالات ہیں اور قرآن کریم بنی نوع انسان کو کس اعلیٰ روحانی مقام پر پہنچانے کے لئے آیا ہے-
آخری شرعی کلام
)۱۹(یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ قرآن خدا تعالیٰ کا آخری شرعی کلام ہے- لوگ کہتے ہیں جب تم یہ مانتے ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ کلام نازل ہوتا رہا ہے تو اب شرعی کلام کا آنا کیوں بند ہو گیا- اس کے لئے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ اب کسی اور شرعی کلام کی ضرورت نہیں-
عربی زبان اختیار کرنے کی وجہ
)۲۰(پھر اس امر پر بحث کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآنکریم کے لئے عربی زبان کیوں اختیار کی گئی کیوں فارسی` سنسکرت یا کوئی اور زبان اختیار نہ کی گئی؟
پہلی تعلیموں کے نقائص کا اصولی رد اور صحیح اصول کا بیان
)۲۱(پھر جب قرآنکریم ساری دنیا کے لئے آیا ہے اور تمام پہلی مذہبی تعلیموں کا قائم مقام ہے تو یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہو گا کہ ان تعلیموں میں جو نقائص تھے ان کو اصولی طور پر قرآن کریم نے دور کر دیا ہے اور ان کی جگہ صحیح اصول قائم کئے ہیں-
قرآن کریم کی سچائی کے ثبوت
)۲۲(پھر قرآن کریم کی سچائی کے ثبوت بھی پیش کرنے ہونگے کہ اس کے خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے کے یہ یہ ثبوت ہیں-
قرآن کریم کے اثرات
)۲۳(قرآن کریم کے اثرات پر بھی بحث کرنی ہو گی-
متشابہات کا حل
)۲۴(آیات متشابہات کو حل کرنا بھی ضروری ہے- قرآن کریم یہ تو کہتا ہے کہ اس میں کچھ آیات متشابہات ہیں مگر یہ نہیں بتاتا کہ کون کون سی ہیں- جب تک ان آیات کا پتہ نہ ہو سارے قرآن کو متشابہات کہنا پڑے گا- مجھے اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں بھی ایسا علم عطا فرمایا ہے کہ معمولی سے معمولی علم رکھنے والے کے لئے بھی متشابہات کا پتہ لگانا مشکل نہیں رہ جاتا اور نیز یہ کہ آیات متشابہات قرآن کریم کی صداقت کا ایک زبردست ثبوت ہیں-
حروف مقطعات کا حل
)۲۵(حروف مقطعات پر بحث کرنی بھی ضروری ہے کہ ان کی کیا ضرورت اور غرض ہے؟
سات قرائتوں سے کیا مراد ہے
)۲۶(یہ جو کہا جاتا ہے کہ قرآنکریم کی سات قرائتیں ہیں ان سے کیا مراد ہے؟ یہ بحث بھی ضروری ہے-
خلق قرآن کا مسئلہ
)۲۷(کلام الہی کو خدا تعالیٰ کے علم سے کیا نسبت ہے- پہلے زمانہ میں اس پر بہت بڑی بحث ہوئی ہے- اور بڑے بڑے علماء کو خلق قرآن کے مسئلہ پر ماریں پڑی ہیں- حضرت امام احمد بن حنبل~رح~ کو عباسی خلیفہ نے مار مار کر اتنا چور کر دیا کہ وہ فوت ہو گئے- غرض خلق قرآن کے مسئلہ پر بھی بحث ضروری ہے یعنی خدا کے کلام کو خدا سے کیا نسبتہے-
قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے
)۲۸(پھر ایک بحث یہ بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے- کسی کتاب کی پیشگوئیاں بتا دینا کہ وہ پوری ہو رہی ہیں اس کی زندگی کا ثبوت نہیں- تورات اور انجیل کی بعض پیشگوئیاں بھی اب تک پوری ہو رہی ہیں- لیکن ان کتب سے وہ مقصد پورا نہیں ہو رہا جو ان کے نازل ہونے کے وقت مدنظر تھا- مگر قرآن کریم آج بھی وہ مقصد پورا کر رہا ہے جسے لیکر وہ نازل ہوا تھا-
قرآن کریم کن کن علوم کا ذکر کرتا ہے
)۲۹(پھر یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کن کن علوم کا ذکر کرتا ہے- یعنی سوال یہ ہے کہ مذہب کو کہاں تک دوسری بحثوں سے تعلق ہے- اخلاق` سیاست` تمدن وغیرہ مذہب میں شامل ہیں یا نہیں-
قرآن ذوالمعارف ہے
)۳۰(یہ بحث بھی ضروری ہے کہ قرآن ذوالمعارف ہے اور یہ اس کی خوبی ہے نقص نہیں کہ ایک آیت کے کئی کئی معنے ہوتے ہیں-
قرآن کامل کتاب ہے
)۳۱(اس بات پر بحث کرنی بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کامل کتاب ہے اور اب کسی اور آسمانی کتاب کی ضرورت نہیں- مگر اس کے باوجود سنت اور حدیث کی ضرورت ہے اور اس سے قرآن کریم کے کمال میں نقص پیدا نہیں ہوتا-
قرآن کریم کی فصاحت
‏]text1 )[tag۳۲(قرآن کریم جو فصیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے- اس کا کیا مطلب ہے اور یہ کہ وہ کس طرح بے مثل ہے اور کیوں کوئی اس کی مثل نہیں لا سکتا-
قرآن کریم کا دوسری الہامی کتب سے مقابلہ
)۳۳(قرآن اور دوسری کتابوں کی تعلیم کا مقابلہ بھی ضروری ہے-
ایک بے نظیر روحانی` جسمانی` تمدنی اور سیاسی قانون
)۳۴(اجمالی طور پر اس امر پر بحث کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم بے نظیر روحانی` جسمانی` تمدنی اور سیاسی قانون ہے-
قرآن کریم کے استعارات
)۳۵(قرآن کریم میں استعارات کیوں آئے ہیں- ان کی کیا ضرورت ہے- یہ سوال بھی قابل حل ہے-
تراجم قرآن کی ضرورت
)۳۶(یہ بھی کہ قرآن کو ترجمہ کے ساتھ شائع کرنا کیوں ضروری ہے؟
حفاظت قرآن کے ذرائع
)۳۷(قرآن کریم کی حفاظت کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اس پر بحث کرنا ضروری ہے کہ اس دعویٰ کے لئے کیا ذرائع اختیار کئے گئے ہیں-
قرآن کریم کو شعر کیوں کہا گیا ہے
)۳۸(قرآن کریم کو جو اس زمانہ کے لوگوں نے کہا کہ یہ ایک شاعر کا کلام ہے اور قرآن کریم نے اس کی تردید کی ہے۲~}~ اس کا کیا مطلب ہے- یعنی قرآن میں شعر کا کیا مفہوم ہے- اور جب خدا تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق کہتا ہے کہ یہ کسی شاعر کا کلام نہیں تو اس کا کیا مطلب ہے-
قرآن کریم آہستہ آہستہ کیوں نازل ہوا
)۳۹(یہ بحث بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم ٹکڑے ٹکڑے کر کے کیوں نازل ہوا- کیوں نہ ایک ہی دفعہ نازل ہو گیا-
قرآن کریم کا کوئی ترجمہ اس کے سارے مضامین پر حاوی نہیں ہو سکتا
)۴۰(یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کا کوئی ترجمہ اس کے سارے مضامین پر حاوی نہیں ہو سکتا-
قرآن کریم کے تمام الفاظ الہامی ہیں
)۴۱(یہ بحث بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کے وہی الفاظ ہیں جو خدا تعالیٰ نے نازل کئے یا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو خیال آیا- اسے آپ نے اپنے لفظوں میں لکھوا دیا؟
یورپ اس دوسری صورت کو ثابت کرنے کے لئے بڑا زور لگاتا ہے- وجہ یہ کہ انجیل کے نسخوں میں چونکہ اختلاف ہے- اس لئے وہ کہتے ہیں کہ الفاظ الہامی نہیں بلکہ مطلب الہامی ہے- اگر الفاظ میں اختلاف ہے تو کوئی حرج نہیں- کہتے ہیں کسی گیڈر کی دم کٹ گئی تھی- اس نے سب گیڈروں کو جمع کر کے تحریک کی کہ ہر ایک کو اپنی دم کٹوا دینی چاہئے- اس نے دم کے کئی ایک نقصان بتائے- کئی گیڈر اس کے لئے تیار ہو گئے- لیکن ایک بوڑھے گیڈر نے کہا کہ پہلے دم کٹانے کی تحریک کرنے والا اٹھ کر دکھائے کہ اس کی اپنی دم ہے یا نہیں- اگر اس کی دم پہلے ہی کٹی ہوئی ہے تو معلوم ہوا کہ وہ سب کو اپنے جیسا بنانا چاہتا ہے- یہی حال یورپ والوں کا ہے- ان کی انجیلوں میں چونکہ اختلاف پایا جاتا ہے-اس لئے وہ قرآن کے متعلق بھی یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس کے الفاظ الہامی نہیں-
قرآن کریم ہر قسم کے شیطانی کلام سے منزہ ہے
)۴۲(یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ قرآن کریم میں کوئی شیطانی کلام بھی شامل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کا سامان مسلمانوں نے ہی بہم پہنچایا ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ]2 [rtf کی زبان پر نعوذ باللہ بعض شیطانی فقرے جاری ہو گئے تھے جن کے متعلق جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں- یوروپین لوگ کہتے ہیں مخالفین کو خوش کرنے کے لئے آپﷺ~ نے کچھ کلمات کہے تھے لیکن بعد میں ان پر پچھتائے اور کہہ دیا کہ منسوخ ہو گئے ہیں- اس اعتراض کو بھی غلط ثابت کرنا ضروری ہے-
قرآن کریم کے مخاطب کون تھے؟
)۴۳(ایک یہ بھی سوال ہے کہ قرآن کریم کے مخاطب کون لوگ تھے- صرف اہل عرب یا ساری دنیا کے لوگ؟ اور پھر یہ بھی کہ شروع میں صرف اہل عرب مخاطب تھے اور بعد میں اور لوگ- یا سب کے سب شروع سے ہی مخاطب تھے؟
قرآن کریم کا ترجمہ لفظی ہونا چاہئے یا بامحاورہ
)۴۴(پھر یہ بھی ایک سوال ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ لفظی ہو یا بامحاورہ؟ عام طور پر لوگ لفظی ترجمہ پسند کرتے ہیں- مگر اس طرح عربی کی سمجھ آتی ہے- مطلب سمجھ میں نہیں آتا- وجہ یہ کہ لفظ کے نیچے لفظ ہوتا ہے- اس سے یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اوپر کے عربی لفظ کا ترجمہ یہ ہے- لیکن سارے فقرے کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا- کیونکہ دونوں زبانوں کے الفاظ کے استعمال میں فرق ہے- لفظی ترجمہ کرنا ایسی ہی بات ہے جیسے اردو میں کہتے ہیں- فلاں کی آنکھ بیٹھ گئی- اس کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والا اگر یہ ترجمہ کرے کہ ‘‘HISEYEHADSAT’’ اور عربی میں یہ کرے کہ جلست عینہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ لفظی ترجمہ اصل مفہوم کو ظاہر نہیں کرے گا- کیونکہ آنکھ بیٹھنے کا جو مفہوم اردو میں ہے وہ دوسری زبانوں کے لفظی ترجمہ میں نہیں پایا جاتا- ترجمہ کی غرض چونکہ مطلب سمجھانا ہے اس لئے ایسا ہونا چاہئے کہ مطلب سمجھ میں آجائے` چاہے محاورہ بدلنا ہی پڑے-
یہ سوالات ہیں جن پر مقدمہ قرآن میں بحث کی ضرورت ہے- ارادہ ہے کہ اگر اللہتعالیٰ چاہے تو ان امور پر بحث کروں-
قرآن کریم پر مستشرقین یورپ کا حملہ
اب میں جماعت کو یہ بتاتا ہوں کہ قرآن کریم کی خدمت ایک نہایت اہم خدمت ہے- یورپین اقوام کا اسلام کے خلاف جس بات پر سب سے زیادہ زور ہے وہ یہی ہے کہ قرآن کریم کی اہمیت کو گرایا جائے- چنانچہ نولڈکے جو جرمنی کا ایک مشہور مصنف اور اسلام کا بہت بڑا دشمن ہے اور یورپ میں عربی زبان کا بہت بڑا ماہر سمجھا جاتا ہے اس نے انسائیکلوپیڈیا بریٹینکا میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں غلطیاں اور نقائص ثابت کرنے کے لئے یورپین مصنفوں نے بڑا زور لگایا ہے مگر وہ اپنی کوشش میں ناکام رہے ہیں- ۳~}~گویا خود تسلیم کرتا ہے کہ یوروپین مصنفوں نے قرآن کریم کے خلاف بڑا زور لگایا ہے- مگر سب سے بڑھ کر قرآن کریم کے خلاف خطرناک کوشش ایک کتاب ہے جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے اور جس کا نام ہے- ’’تین پرانے قرآنوں کے صفحات‘‘ ایک عورت نے جو ڈاکٹر آف فلاسفی ہے یہ کتاب لکھی ہے اور اس نے بیان کیا ہے کہ وہ مصر میں گئی- جہاں اس نے ایک کتاب خریدی جو عیسائی کتابوں کی نقل تھی- جب اس کے صفحات پر بعض دوائیں لگائی گئیں تو نیچے سے اور حروف نمودار ہو گئے- ڈاکٹر منگانا نے اس کے متعلق بتایا کہ یہ ایک پرانا قرآن ہے- جس کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس میں اور موجودہ قرآن میں فرق ہے- وہ کہتے ہیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن بگڑ چکا ہے-
وہ اس کا ثبوت اس طرح پیش کرتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ نے جب قرآن نقل کیا تو باقی قرآنوں کو جلا دیا- چونکہ ان میں جو کچھ لکھا تھا اسے کوئی نقل نہ کر سکتا تھا- اس لئے اس وقت عیسائیوں نے بظاہر اپنے مذہب کی ایک کتاب لکھی لیکن دراصل خفیہ طور پر اس میں وہ قرآن نقل کیا جسے جلانے کا حکم دے دیا گیا تھا- اب بعض قسم کی دوائیاں لگانے سے پوشیدہ لکھا ہوا قرآن ظاہر ہو گیا ہے-
یہ ایک نہایت خطرناک چال ہے جو چلی گئی- اس کتاب کا پرانا کاغذ دکھایا جاتا ہے- اس پر پرانی تحریریں دکھائی جاتی ہیں اور ان سے مختلف قسم کے شبہات پیدا کئے جاتے ہیں-
عیسائیوں کی مزورانہ چالیں
اس کے متعلق میں نے مفصل تحقیقات کی ہے جو آج پیش کرنا چاہتا تھا مگر اب نہ وقت ہے اور نہ موقع کیونکہ بادل گھرے ہوئے ہیں- البتہ اس کے متعلق ایک لطیفہ سنا دیتا ہوں- وہ صفحات جو اس کتاب میں پرانے قرآن کے قرار دیکر شائع کئے ہیں- وہ اپنی غلطی آپ ظاہر کر رہے ہیں- مثلاً قرآن میں آتا ہے-فامنوباللہ ورسولہ النبی الامی الذی یومن باللہ وکلمتہ واتبعوہ لعلکم تھتدون۴~}~لیکن جو عیسائیوں کا لکھا ہوا قرآن ہے- اس میں آتا ہیفامنو باللہ ورسولہ النبی الامی الذی یومن باللہ وکلمتہ واتبعہ- کہ وہ اللہ پر ایمان لاتا ہے اور اس کے کلمہ پر اور کلمہ سے مراد حضرت عیسیٰ لیتے ہیں- مطلب یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسیٰ کے پیرو تھے-
اس قسم کی چالیں اس میں چلی گئی ہیں- مگر باوجود اس قسم کی کوششوں کے یہی باتیں ان کو جھوٹا ثابت کر رہی ہیں- اول اس طرح کہ عیسائیوں کی طرف سے جو قرآن پیش کیا جاتا ہے اس کی وہی ترتیب ہے جو موجودہ قرآن کی ہے- اس لئے ان کا یہ کہنا انہی کے پیش کردہ قرآن سے غلط ہو گیا کہ حضرت عثمان~رضی۱~ کے وقت قرآن کریم کی ترتیب بدل گئی تھی-
پھر اس قرآن میں بعض ایسے الفاظ لکھے ہیں جو عربی کے ہیں ہی نہیں- مثلاً ایک جگہ علم کو ایلم لکھا ہے- اسی طرح ایک جگہ ایسی غلطی کی ہے جس سے اس چور کا مشہور قصہ یاد آجاتا ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ نیا نیا چور بنا تھا- چوری کرنے کے بعد جب پولیس تحقیقات کے لئے آئی تو وہ خود بھی وہاں چلا گیا- اور تحقیقات میں مدد دینے لگ گیا- کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے چور ادھر سے آیا- یہاں سے اترا اور پھر ادھر گیا- پولیس والوں نے تاڑ لیا کہ اس کا چوری میں ضرور دخل ہے- اس لئے اس سے ساری باتیں پوچھنے لگے اور جدھر وہ لے گیا اس کے ساتھ چل پڑے- آخر ایک دروازہ کے پاس جا کر کہنے لگا- معلوم ہوتا ہے چور اس دروازہ سے نکلا اور اسے یہاں سے ٹھوکر لگی- اس پر گٹھڑی اندر اور میں باہر- اس موقع پر بے اختیار اس کے منہ سے میں نکل گیا- پولیس نے فوراً اسے پکڑ لیا- یہی حال یہاں ہوا- قرآن کریم میں ایک آیت ہے وانزل جنودا لم تروھا ۵~}~اللہ تعالیٰ نے ایسے لشکر اتارے جن کو تم دیکھ نہیں رہے تھے- یہاں ھا کی ضمیر جنود کے طرف جاتی ہے- مگر عیسائیوں کے پیش کردہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ یہاں جندا ہے مگر آگے ھا ہی رکھا ہے اور ضمیر کو نہیں بدلا- غرض اس قسم کی بہت سی شہادتیں ہیں جن سے اس کے اندر سے ہی غلطیاں معلوم ہو جاتی ہیں` معلوم ہوتا ہے کسی نے مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے اسے لکھا اور اس میں غلطیاں کرتا گیا- چنانچہ واذا استسقی کوک کے ساتھ لکھا ہے-
اسی طرح ھم السفھاء کو ھمسفھا لکھ دیا- اسی طرح اور کئی الفاظ غلط لکھے ہیں- مثلاً انماالنسی کو انما ال ناسی لکھا ہے- حالانکہ ناسی ان معنوں میں آتا ہی نہیں- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جاہل عیسائی قرآن کی نقل کرنے بیٹھا جسے عربی نہ آتی تھی اور اس قسم کی غلطیاں کرتا گیا-
اب میں قرآن کریم کے متعلق یوروپین مستشرقین کے بعض متفرق اعتراضات کا ذکر کرتا ہوں-
قرآن کریم کا نزول چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں
یورپ کے مستشرق کہتے ہیں کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم ٹکڑے ٹکڑے نازل ہوا- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدا کا کلام نہیں- خدا کو کیا ضرورت تھی کہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کرتا اسے تو اگلا پچھلا سب حال معلوم ہوتا ہے- چونکہ بندہ کو ہی اگلے حالات کا علم نہیں ہوتا اس لئے وہ اگلی باتوں کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حالات پیش آتے جاتے تھے ان کے متعلق قرآن میں ذکر کر دیتے- پس یہ انکا کلام ہے` خدا کا کلام نہیں-
قرآن کریم نے خود اس سوال کو لیا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- وقال الذین کفروا لولا نزل علیہ القران جملہ واحدہ ۶~}~ یعنی کفار کہتے ہیں کہ قرآن اس رسول پر ایک ہی دفعہ کیوں نازل نہیں کیا گیا- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو سوال عیسائیوں کو اب سوجھا ہے یہی سوال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کفار نے بھی کیا تھا کہ ایک ہی دفعہ قرآن کیوں نہ اترا- اس کا جواب خدا تعالیٰ نے یہ دیا کہ کذلک اسی طرح اترنا چاہئے تھا جس طرح اتارا گیا ہے- لنثبت بہ فوادک ۷~}~ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ ہم تیرے دل کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں- گویا قرآن کا ٹکڑے ٹکڑے نازل ہونا خدا تعالیٰ کی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے اس کی شان بلند کا اظہار ہوتا ہے- اب سوال یہ ہے کہ آہستہ آہستہ قرآن کے نازل ہونے سے دل کی مضبوطی کس طرح ہوتی ہے اس کے متعلق میں چند باتیں بتا دیتا ہوں-
)۱(اگر ایک ہی دفعہ قرآن نازل ہو جانے پر اس سے استدلال کرتے رہتے تو دل کو ایسی تقویت حاصل نہیں ہو سکتی تھی جیسی کسی امر کے متعلق فوراً کلام الہی کے اترنے سے ہو سکتی ہے- دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو لطف اس میں آتا ہوگا کہ آپ کوئی کام کرتے اور اس کے متعلق وحی ہو جاتی اور خدا تعالیٰ اپنی مرضی اور منشاء کا اظہار کر دیتا- وہ لطف ہمیں اجتہاد سے کہاں حاصل ہو سکتا ہے- اسی طرح جب کوئی واقعہ پیش آتا` آپ پر اس کے متعلق کلام الہی نازل ہو جاتا اور اس طرح معلوم ہو جاتا کہ اس کلام کا یہ مفہوم ہے- اگر آپ اجتہاد کر کے آیات کو کسی بات پر چسپاں کرتے تو وہ لطف نہ آتا جو اس صورت میں آتا تھا-
)۲(قرآن کریم لنثبت بہ فوادک کا مصداق اس طرح ہے کہ جو کتاب ساری دنیا کے لئے آئی ہو اسے محفوظ رکھنا بھی ضروری تھا- اگر قرآن ایک ہی دفعہ سارے کا سارا اترتا تو اسے وہی شخص حفظ کر سکتا تھا جو اس کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کر دیتا- لیکن آہستہ آہستہ اترنے سے بہت لوگ اس کو یاد کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور اپنے دوسرے کاروبار کے ساتھ قرآن کریم بھی حفظ کرتے گئے- اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس بات پر مضبوطی سے قائم ہو گیا کہ یہ کتاب ضائع نہیں ہوگی بلکہ محفوظ رہے گی- یہی وجہ تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بہت کثرت سے ایسے لوگ تھے جنہیں قرآن کریم حفظ تھا مگر اب اس نسبت کے لحاظ سے بہت کم ہوتے ہیں- اس لئے کہ تھوڑا تھوڑا نازل ہونے کی وجہ سے بہت لوگ ساتھ کے ساتھ یاد کرتے جاتے تھے-
)۳( تیسری حکمت تھوڑا تھوڑا نازل ہونے میں یہ ہے کہ ایک دفعہ سارا قرآن نازل ہونے کی وجہ سے لوگوں کے قلوب میں راسخ نہ ہو سکتا تھا- اب ایک ہندو جب مسلمان ہوتا ہے تو اسے اسلامی احکام پر عمل کرنے والا مسلمان نظر آتے ہیں- اس لئے وہ گھبراتا نہیں اور ان احکام پر عمل کرنا بوجھ نہیں سمجھتا- لیکن اگر کسی کو ہم ایک کتاب لکھ کر دے دیں کہ اس پر عمل کرو اور کوئی نمونہ موجود نہ ہو تو لوگ سو سال میں بھی اس پر عمل کرنا نہ سیکھ سکیں- پس قرآن کریم کی تعلیم کو راسخ کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسے آہستہ آہستہ نازل کیا جاتا- ایک حکم پر عمل کرنا جب لوگ سیکھ جاتے تو دوسرا نازل ہوتا- پھر تیسرا- اور اس طرح سارے احکام پر عمل کرایا جاتا-
)۴( اگر ایک ہی وقت قرآن نازل ہوتا تو ترتیب وہی رکھنی پڑتی جو اب ہے- لیکن یہ ترتیب اس وقت رکھی جانی خطرناک ہوتی- جس طرح اب ہمارے لئے وہ ترتیب خطرناک ہے جس کے مطابق قرآن نازل ہوا تھا- اگر نماز اور روزوں وغیرہ کے احکام شروع میں ہوتے اور نبوت ثابت نہ ہو چکی ہوتی` تو وہ سمجھ میں ہی نہ آ سکتے تھے- پس پہلے نبوت کو ثابت کرنے کی ضرورت تھی اور یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچانی چاہئے تھی کہ یہ سچا نبی ہے- اس کے بعد عمل کی دعوت کا موقع تھا جس کے لئے احکام سکھائے جاتے- مگر اب یہ ضروری نہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کو ماننے والی ایک جماعت موجود ہے- اب جو شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے وہ محمد رسول اللہ2] fts[ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور اسلام کی خوبیوں سے واقف ہو کر آتا ہے- پس اس کے لئے قرآن کی اسی ترتیب کی ضرورت ہے جو اب ہے- لیکن قرآن کے ایک ہی دفعہ اکٹھا نازل ہونے سے یہ نقص پیش آتا-
)۵( اگر ایک ہی دفعہ سارا قرآن نازل ہوتا تو ایک حصہ میں دوسرے حصہ کی طرف اشارہ نہیں ہو سکتا تھا- مثلاً قرآن کریم میں یہ پیشگوئی تھی کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کے نرغے سے نکال کر صحیح و سلامت لے جائیں گے- اگر ایک ہی دفعہ سارا قرآن نازل ہو جاتا تو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ لے جایا گیا اس وقت یہ نہ کہا جا سکتا کہ دیکھو اسے ہم دشمنوں کے نرغہ سے بچا کر لے آئیں ہیں- یہ اسی صورت میں کہا جا سکتا تھا کہ پہلے ایک حصہ نازل ہوتا جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح و سلامت لے جانے کی پیشگوئی ہوتی- پھر جب یہ پیشگوئی پوری ہو جاتی اس وقت وہ حصہ اترتا جس میں اس کے پورا ہونے کے متعلق اشارہ ہوتا-
)۶(میرے نزدیک ایک اور اہم بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے متعلق یہ اعتراض کیا جانا تھا کہ کسی اور نے بنا کر دیا ہے- چنانچہ قرآن کریم میں اس اعتراض کا ذکر بھی آتا ہے- اللہتعالیٰ فرماتا ہے-وقال الذین کفروا ان ھذا الا افلک افترنہ واعانہ علیہ قوم اخرون ۸~}~یعنی کافر کہتے ہیں کہ یہ تو صرف ایک جھوٹ ہے جو اس نے بنا لیا ہے- اور اس کے بنانے پر ایک اور قوم نے اس کی مدد کی ہے- اگر قرآن اکٹھا ملتا تو مخالف یہ کہہ سکتے تھے کہ کسی نے بنا کر یہ کتاب دے دی ہے- اب کچھ حصہ مکہ میں نازل ہوا کچھ مدینہ میں- مکہ والے اگر کہیں کہ کوئی بنا کر دیتا ہے تو مدینہ میں کون بنا کر دیتا تھا- پھر قرآن مجلس میں بھی نازل ہوتا` اس وقت کون سکھاتا تھا- پھر قرآن سفر میں بھی نازل ہوتا- ایسا کون شخص تھا جو ہر لڑائی میں شامل ہوا` کوئی بھی نہیں- غرض قرآن سفر اور حضر میں رات اور دن میں` مکہ اور مدینہ میں` مجلس اور علیحدگی میں نازل ہوا اور اس طرح اعتراض کرنے والوں کا جواب ہو گیا کہ قرآن کوئی اور انسان بنا کر آپ کو نہیں دیتا تھا- ورنہ اگر اکٹھی کتاب نازل ہوتی تو کہا جاتا کہ کوئی شخص کتاب بنا کر دے گیا- جسے سنا دیا جاتا ہے مگر اب جب کہ موقع اور محل کے مطابق آیات اترتی رہیں تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہر موقع پر کوئی بنا کر دے دیتا ہے- پس قرآن کا ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اترنا ثبوت ہے لنثبت بہ فوادککا-
جمع قرآن پر اعتراضات
ایک اعتراض جمع قرآن کے متعلق کیا جاتا ہے- وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن اپنی اصلی صورت میں محفوظ نہیں وہ اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں یہ بات پیش کرتے ہیں کہ-:
)۱( محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کو جس قدر کام ہوتے تھے اور جس طرح وہ لڑائیوں اور شورشوں میں گھرے ہوئے تھے ایسی حالت میں انہیں قرآن صحیح طور پر کہاں یاد رہ سکتا تھا-
)۲( کہا جاتا ہے کہ عربوں کا حافظہ بہت اچھا تھا- مگر یہ غلط ہے- صحیح بات یہ ہے کہ ان کا حافظہ اچھا نہیں ہوتا تھا جو اس سے ظاہر ہے کہ ان کی ان نظموں میں اختلاف ہے جو پہلے شاعروں کی ہیں- کوئی کسی طرح بیان کرتا ہے اور کوئی کسی طرح- اس سے معلوم ہوا کہ عربوں کے حافظے اچھے نہ تھے ورنہ اختلاف کیوں ہوتا-
)۳( قرآن رسول کے زمانہ میں پورا نہیں لکھا گیا- اگر پورا لکھا جاتا تو حافظوں کے مارے جانے پر قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ کیوں ظاہر کیا جاتا-
)۴( قرآن میں آتا ہے-
الذین جعلوا القران عضین ۹~}~یعنی وہ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر لیا- کہتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے پیدا ہو گئے تھے-
)۵( رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خود پڑھے لکھے نہ تھے اس لئے انہوں نے قرآن لکھنے کے لئے کاتب رکھے ہوئے تھے اور وہ جو چاہتے لکھ دیتے-
)۶( لکھا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں قرآن کے پڑھنے میں بڑا اختلاف ہو گیا تھا- اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں قرآن کے متعلق اختلاف موجود تھا-
)۷( حضرت عثمانؓ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وقت کے قرآن کی جتنی کاپیاں تھیں وہ جلوا دی تھیں- اس سے پتہ لگتا ہے کہ ان میں اختلاف تھا اس قرآن سے جو عثمانؓ نے لکھوایا- اگر اختلاف نہیں تھا تو ان کو کیوں جلوایا گیا-
)۸( قرآن کریم کی اصلیت پر صرف زید گواہ ہے- مگر اس کا تو فرض تھا کہ قرآن لکھے- اس پر بھروسہ کس طرح کیا جا سکتا ہے-
)۹( اگر حضرت ابوبکرؓ کے وقت کے قرآن کی کاپی درست تھی تو پھر حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں دوبارہ لکھوانے کی کیا ضرورت تھی- یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ کی کاپیوں کو غلط سمجھا گیا-
)۱۰( حضرت عثمانؓ پر الزام لگایا گیا ہے کہ جب وہ خلیفہ ہوئے تو بہت سے قرآن تھے- لیکن جب وہ فوت ہوئے تو پیچھے صرف ایک قرآن چھوڑا- اس سے معلوم ہوا کہ اختلاف والے قرآنوں کو جلا دیا گیا تھا-
مخالفین کے اعتراضات کے جوابات
اب میں ان اعتراضوں کا جواب دیتا ہوں-
پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنے کاموں اور شورشوں میں قرآن کریم یاد کس طرح رہ سکتا تھا- یہ ایسا سوال ہے کہ اس کا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ایک واقعہ کو کس طرح جھٹلایا جا سکتا ہے- جب واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم آپ کو یاد رہا اور شب و روز نمازوں میں سنایا جاتا رہا تو اس کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے- مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے سامنے پروفیسر مارگولیتھ نے یہ اعتراض کیا کہ اتنا بڑا قرآن کس طرح یاد رہ گیا- میں نے کہا- محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تو قرآن اترا تھا اور آپﷺ~ کے سپرد ساری دنیا کی اصلاح کا کام کیا گیا تھا؟ آپﷺ~ اسے کیوں یاد نہ رکھتے- میرے ایک لڑکے نے گیارہ سال کی عمر میں قرآن یاد کر لیا ہے- اور لاکھوں انسان موجود ہیں جنہیں سارے کا سارا قرآن یاد ہے- جب اتنے لوگ اسے یاد کر سکتے ہیں تو کیا وہی نہیں کر سکتا تھا جس پر قرآن نازل ہوا تھا-
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ عرب کے لوگوں کا حافظہ اچھا نہ تھا` کیونکہ وہ پرانی نظموں میں اختلاف کرتے ہیں- اس کے متعلق اول تو میں کہتا ہوں کہ یہ شتر مرغ والی مثال ہے- ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ عربوں کو پرانے قصیدے یاد ہوتے تھے جن میں اختلاف ہوتا تھا- اور دوسری طرف مارگولیتھ کہتا ہے کہ پرانے زمانہ میں قصیدے تھے ہی نہیں یوں ہی بنا کر پہلے لوگوں کی طرف منسوب کر دیئے گئے ہیں- گویا جس پہلو سے اسلام پر اعتراض کرنا چاہا- وہی سامنے رکھ لیا- اصل بات یہ ہے کہ عربوں کے ایسے حافظے ہوتے تھے کہ مشہور ہے ایک بادشاہ نے اعلان کیا کہ جس شاعر کو ایک لاکھ شعر یاد نہ ہوں وہ میرے پاس نہ آئے- اس پر ایک شاعر آیا اور اس نے آ کر کہا- میں بادشاہ سے ملنے کے لئے آیا ہوں- اسے بتایا گیا کہ بادشاہ سے ملنے کے لئے ایک لاکھ شعر یاد ہونے ضروری ہیں- اس نے کہا- بادشاہ سے جا کر کہہ دو- وہ ایک لاکھ شعر اسلامی زمانہ کا سننا چاہتا ہے یا زمانہ جاہلیت کا- عورتوں کے سننا چاہتا ہے یا مردوں کے- میں سب کے اشعار سنانے کیلئے تیار ہوں- یہ سن کر بادشاہ فوراً باہر آ گیا- اور آکر کہا- کیا آپ فلاں شاعر ہیں- اس نے کہا- ہاں میں وہی ہوں- بادشاہ نے کہا- اسی لئے میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ آپ میرے پاس آتے نہ تھے- میں نے خیال کیا کہ شاید اس اعلان پر جوش کی وجہ سے آپ آ جائیں- پس یہ کہنا غلط ہے کہ عربوں کے حافظے اچھے نہ تھے- رہی یہ بات کے شعروں میں اختلاف ہے- اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ وہ لوگ جو شعر یاد رکھتے تھے وہ انہیں الہامی کتاب کے شعر سمجھ کر نہیں یاد کرتے تھے بلکہ ان کا مطلب اخذ کر لیتے تھے- مگر قرآن کو تو خدا کا کلام سمجھ کر یاد کرتے تھے- اس وجہ سے اس کا ایک لفظ بھی آگے پیچھے نہ کرتے تھے- پھر شعر جو وہ یاد کرتے تھے وہ استادوں سے پڑھ کر یاد نہ کرتے تھے بلکہ جس سے سنتے یاد کر لیتے- اور ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ صحیح الفاظ ہی یاد کرائے- لیکن اسلامی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن لکھنے کے متعلق اور قرآن یاد کرنے کے متعلق خاص قواعد مقرر تھے اور قرآن یاد کرانے کے لئے چار آدمی مقرر تھے- اور اس میں اتنی احتیاط کی جاتی تھی کہ ایک دفعہ نماز میں حضرتعلیؓ نے پڑھنے والے کو لقمہ دے دیا- تو انہیں منع کیا گیا اور کہا گیا کہ آپ اس کام کے لئے مقرر نہیں- غرض قرآن کریم کے بارہ میں اتنی احتیاط کی گئی تھی کہ چار آدمی اس کام کے لئے مقرر تھے حالانکہ قرآن جاننے والے ہزاروں تھے- اس کے مقابلہ میں شاعروں کی طرف سے کونسے لوگ مقرر تھے- جو شعر یاد کراتے تھے- امراء القیس نے کسے مقرر کیا تھا کہ اس کے اشعار لوگوں کو یاد کرایا کرے- مگر قرآن یاد کرانے کے متعلق تو استاد در استاد بات چلی آ رہی ہے-
سوم- ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پورا قرآن نہ لکھا گیا تھا- اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درست نہیں ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یقیناً سارا قرآن لکھا گیا- جیسا کہ حضرت عثمانؓ کی روایت ہے کہ جب کوئی حصہ نازل ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے والوں کو بلاتے اور فرماتے اسے فلاں جگہ داخل کرو- جب یہ تاریخی ثبوت موجود ہے تو پھر یہ کہنا کہ قرآن رسول کریم]2 [stf صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت پورا نہ لکھا گیا تھا بے وقوفی ہے- رہا یہ سوال کہ پھر حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں کیوں لکھا گیا اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن اس طرح ایک جلد میں نہ تھا جس طرح اب ہے- حضرت عمرؓ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ قرآن محفوظ نہیں- اس لئے انہوں نے اس بارے میں حضرت ابوبکرؓ سے جو الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ انی اری ان تامر جمع القرانمیں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کرنے کا حکم دیں- یہ نہیں کہا کہ آپ اس کی کتابت کرالیں- پھر حضرت ابوبکرؓ نے زیدؓ کو بلا کر کہا کہ قرآن جمع کرو- چنانچہ فرمایا اجمعہ اسے ایک جگہ جمع کر دو- یہ نہیں کہا کہ اسے لکھ لو- غرض الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ اس وقت قرآن کے اوراق کو ایک جلد میں اکٹھا کرنے کا سوال تھا- لکھنے کا سوال نہ تھا-
چہارم- یہ اعتراض تھا کہ قرآن کریم میں بعض لوگوں کے متعلقالذین جعلوا القران عضین آیا ہے- سو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے تھے- بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں پر ویسا ہی عذاب نازل کرے گا- جیسا ان لوگوں پر کیا جو قرآن کے بعض حصوں پر عمل کرتے ہیں اور بعض پر نہیں کرتے- اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں کافروں اور منافقوں کا ذکر ہے- اور اگر یہی معنے کئے جائیں کہ قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے تھے تو یہ بھی ہمارے لئے مفید ہے- کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن اس وقت جمع تھا- اس لئے دشمن اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے تھے- مسلمانوں کے پاس قرآن محفوظ تھا مگر منافق اس کے ٹکڑے ٹکڑے رکھتے تھے-
پنجم- یہ جو کہا جاتا ہے کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھ تھے- اس لئے کاتب جو چاہتے لکھ دیتے- اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے ہی اس کا انتظام کر لیا تھا- اور وہ یہ کہ جب وحی نازل ہوتی تو کاتب کو کہتے لکھ لو اور چار آدمیوں کو کہتے یاد کر لو- اس طرح لکھنے والے کی غلطی یاد کرنے والے درست کرا سکتے تھے- اور یاد کرنے والوں کی غلطی لکھنے والا بتا سکتا تھا- فرض کرو لکھنے والے نے لفظ غلط لکھ لیا مگر یاد کرنے والے اس غلطی کے ساتھ کیونکر متفق ہو سکتے تھے` اس طرح فوراً غلطی پکڑی جا سکتی تھی-
ششم- یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے وقت قرآن کے پڑھنے میں بہت اختلاف ہو گیا تھا- اس کا جواب یہ ہے کہ کسی صحیح روایت سے یہ پتہ نہیں لگتا کہ حضرت عثمانؓ کے وقت قرآن کے متعلق اختلاف ہو گیا تھا- بلکہ صاف لکھا ہے کہ قرائت میں اختلاف تھا- اور حدیثوں سے ثابت ہے کہ سات قرائتوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھا- چونکہ بعض قوموں کے لئے بعض الفاظ کا ادا کرنا مشکل تھا- اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی بتلایا جاتا کہ ان الفاظ کو اس طرح بھی پڑھ سکتے ہیں- اس بارہ میں روایات میں آتا ہے کہ حضرتعلیؓ نے بیان کیا کہ حضرت عثمانؓ نے انہیں بلا کر کہا کہ مختلف قبائل کے لوگ کہتے ہیں کہ ہماری قرائت صحیح ہے اور اس پر جھگڑا پیدا ہو رہا ہے- اس لئے اس کا فیصلہ ہونا چاہئے- حضرت علیؓ نے کہا آپ ہی فیصلہ کر دیں- انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ مسلمان ہو کر اب سب ایک ہو گئے ہیں اس لئے ایک ہی قرائت ہونی چاہئے اور وہ قریش والی قرائت ہے-
ہفتم- اگر قرائتوں میں اختلاف نہ تھا تو حضرت ابوبکرؓ کے وقت کے قرآن جلائے کیوں گئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی صریح طور پر غلط ہے- وہاں تو یہ لکھا ہے کہ حضرت حفصہؓ کے پاس حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانہ کا قرآن تھا- وہ ان سے منگوایا گیا اور کہا گیا کہ نقل کرنے کے بعد واپس کر دیں- چنانچہ واپس کر دیا گیا- اور جلائے مختلف قرائتوں والے قرآن گئے تھے تا کہ قرائتوں کا اختلاف نہ رہے-
ہشتم- یہ جو کہا گیا ہے کہ قرآن کی اصلیت پر صرف زیدؓ کی گواہی ہے` یہ بھی غلط ہے- حضرت ابوبکرؓ نے زیدؓ کے ساتھ حضرت عمررضی اللہ عنہ کو رکھا اور مسجد کے دروازہ پر بٹھا دیا- اور حکم دیا کہ کوئی تحریر ان کے پاس ایسی نہ لائی جائے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھائی ہوئی نہ ہو اور جس کے ساتھ دو گواہ نہ ہوں جو یہ کہیں کہ ہمارے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لکھوائی تھی-
نہم- ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر اختلاف نہیں تھا تو حضرت عثمانؓ کے وقت دوبارہ تحقیق کی ضرورت کیوں پیش آئی- اس کا جواب یہ ہے کہ قرائتوں کی تحقیق کرائی گئی تھی عبارتوں اور سورتوں کی تحقیق نہیں کروائی گئی-
دہم- اس طرح یہ جو کہا گیا ہے کہ اگر اختلاف نہ تھا تو ایک کے سوا باقی کاپیاں کیوں جلائی گئیں- اس کا بھی وہی جواب ہے کہ مختلف قرائتوں والی کاپیاں جلائی گئی تھیں- پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے خلیفہ ہونے کے وقت بہت قرآن تھے مگر ان کے بعد ایک رہ گیا- اس کا یہی مطلب ہے کہ انہوں نے مختلف قرائتوں کو اڑا دیا اور پھر جن قوموں کی قراتوں کو مٹایا گیا انہوں نے یہ اعتراض کیا-
پس نتیجہ یہ نکلا کہ موجودہ قرآن وہی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا- اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے-
محکمات اور متشابہات
اب میں متشابہات کے متعلق مختصر طور پر کچھ بیان کر دیتا ہوں- اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآن میں محکمات بھی ہیں اور متشابہات بھی` پھر قرآن کا کیا اعتبار رہا-
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کے متشابہات پر غور ہی نہیں کیا گیا- سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-ھوالذی انزل علیک الکتب منہ ایت محکمت ھن امالکتب و اخر متشبھت ۱۰~}~کہ وہ خدا ہی ہے جس نے اس قرآن کو اپنے رسول پر اتارا- اس میں کچھ تو محکمات ہیں جو ام الکتاب ہیں اور کچھ متشابہات ہیں-
اس کے متعلق لوگ کہتے ہیں- ہمیں کیا معلوم کہ کونسی آیت محکم ہے اور کونسی متشابہ- اس کے مقابلہ میں سورۃ ہود میں آتا ہے-کتب احکمت ایتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر ۱۱~}~کہ یہ کتاب وہ ہے جس کی ساری آیات محکمات ہیں- اس سے بظاہر اوپر کی بات غلط ہو گئی کہ قرآن کی بعض آیات متشابہ ہیں اور بعض محکم- تیسری جگہ آتا ہے-اللہ نزل احسن الحدیث کتبا متشابھا مثانی ]71 [p۱۲~}~یعنی خدا ہی ہے جس نے بہتر سے بہتر بات یعنی وہ کتاب نازل فرمائی ہے جو متشابہ ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی ساری آیتیں ہی متشابہ ہیں- حالانکہ پہلے ساری آیات کو محکم قرار دیا گیا تھا-
اس سے صاف معلوم ہو گیا کہ محکم اور متشابہ کا مطلب اور تھا جو سمجھا نہیں گیا- اور عجیب بات یہ ہے کہ متشابہ کے معنی یہ لئے جاتے ہیں کہ جس سے شکوک پیدا ہوں- حالانکہ قرآن متشابہ کی یہ تفسیر کرتا ہے-مثانی تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربھم ثم تلین جلودھم و قلوبھم الی ذکر اللہ ۱۳~}~کہ اس کے مضامین نہایت اعلیٰ ہیں اور جو لوگ اس کتاب کو سمجھ کر پڑھتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں- ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں- پھر ان کے جسم کا روآں روآں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف جھک جاتے ہیں- یعنی ان کے قلوب میں خدا تعالیٰ کی محبت کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں- اب بتائو- کیا کسی شکی بات سے اس طرح ہو سکتا ہے- صاف معلوم ہوتا ہے کہ متشابہ کا اور مطلب ہے اور وہ یہ کہ متشابہ کے معنی ہیں جو دوسری سے ملتی ہو- یعنی متشابہ وہ تعلیم ہے جو پہلی تعلیموں سے ملتی جلتی ہو- مثلاً روزہ رکھنا ہے- یہ حکم اپنی ذات میں متشابہ ہے کیونکہ یہ تعلیم پہلے بھی پائی جاتی تھی- جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- کتب علیکم الصیام کماکتب علی الذین من قبلکم ۱۴~}~پس مجرد روزہ رکھنے کا حکم متشابہ ہے- اسی طرح قربانیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہیولکل امہ جعلنا منسکا ۱۵~}~یعنی ہر قوم کے لئے ہم نے قربانی کا ایک طریق مقرر کیا ہے- پس قربانی کا حکم بھی متشابہ ہے- دراصل قرآن نے اس میں ان لوگوں کو جواب دیا ہے جنہوں نے یہ کہا تھا کہ قرآن نے دوسری کتابوں سے چوری کر کے سب کچھ پیش کر دیا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے-ھوالذی انزل علیک الکتب منہ ایت محکمت ھنام الکتب واخرمتشبھات کہ یہ کتاب ایسی ہے جس میں کچھ تعلیمیں تو جدید ہیں اور کچھ تعلیمیں ایسی ہیں جو لازماً پچھلی تعلیموں سے ملنی چاہئیں- مثلاً پہلے نبیوں نے کہا سچ بولا کرو- کیا قرآن یہ کہتا ہے کہ سچ نہ بولا کرو- جھوٹ بولا کرو؟ غرض فرمایا قرآن میں بعض تعلیمیں ایسی ہیں جو پہلی تعلیموں سے ملتی ہیں- مگر آگے فرماتا ہے-فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنہ وابتغاء تاویلہ ۱۶~}~بیوقوف لوگ جدید تعلیموں پر نظر نہیں ڈالتے اور پہلی تعلیموں سے ملتی جلتی تعلیموں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ قرآن نے یہ نقل کی ہے- وہ محض فتنہ پیدا کرنے کی غرض سے اور اس کتاب کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کے لئے ایسا کرتے ہیںومایعلم تاویلہ الا اللہ ۱۷~}~حالانکہ ان کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور وہی سمجھ سکتا ہے کہ کتنی تعلیم دوبارہ نازل کرنی ضروری ہے- انسان کے ہاتھ میں اس نے یہ کام نہیں رکھا- کیونکہ گو وہ تعلیم پہلے نازل ہو چکی ہوتی ہے مگر پھر بھی اس کی وہ مقدار جو آئندہ کے لئے ضروری ہوتی ہے- اس کا فیصلہ خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے- کوئی اور نہیں کر سکتا- اور یا پھر خدا تعالیٰ کے علم دینے کے بعد وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی کتب کا حقیقی علم رکھنے والے ہیں سمجھ سکتے ہیں کہ کس حد تک اس تعلیم کو قائم رکھا جانا ضروری تھا اور کسی امر کو کیوں بدلا گیا؟
اس کی اور تشریحات صحیحہ بھی ہو سکتی ہیں- مگر ان میں محکم اور متشابہ کو معین نہیں کیا جا سکتا- ایک ہی آیت ایک وقت میں محکم اور ایک وقت میں متشابہ ہو جاتی ہے- یعنی جو آیت کسی کی سمجھ میں آ گئی وہ محکم ہو گئی اور جو نہ آئی متشابہ ہو گئی مگر پھر اختلاف ہو سکتا ہے- ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ایک معنی کے لحاظ سے کسی آیت کو محکم قرار دے دے اور دوسرا اسے درست نہ سمجھتے ہوئے اسے متشابہ کہہ دے مگر ان معنوں میں محکم آیات بالکل ظاہر ہو جاتی ہیں- یعنی وہ تعلیمات قرآنیہ جو پہلی کتب سے زائد ہیں وہ سب محکم ہیں اور دوسری متشابہ-
سارے قرآن کو محکم اور سارے قرآن کو متشابہ کیوں کہا گیا ہے
باقی رہا یہ سوال کہ پھر ایک جگہ سارے قرآن کو محکم اور دوسری جگہ سارے قرآن کو متشابہ کیوں کہا گیا ہے- تو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں قرآن کریم کی اصطلاح میں محکم تعلیم وہی ہے جس میں قرآن کریم نے تجدید کی ہے- اور جس امر میں وہ پہلی کتب سے ملتا ہے وہ متشابہ ہے- لیکن ایک لحاظ سے سارا ہی قرآن محکم ہے- کیونکہ اصولاً کسی تعلیم کو دیکھتے ہوئے اس کے کسی ایک ٹکڑے کو نہیں بلکہ مجموعہ کو دیکھتے ہیں- اور احکام کی مختلف اجناس کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو اسلامی تعلیم بالکل جدا ہے- کسی حصہ تعلیم میں بھی اس نے اصلاح کو ترک نہیں کیا- اور وہ پہلی کتب کے بالکل مشابہ نہیں ہے` اس لئے وہ سب محکم ہے- لیکن اسی طرح چونکہ سب اصول شریعت کا پہلی کتب میں پہلے لوگوں کے درجہ کے مطابق نازل ہونا بھی ضروری تھا تا کہ پہلے زمانہ کے لوگ بھی اپنے اپنے دائرہ میں تکمیل حاصل کریں اس لئے ہر قسم کے احکام جو قرآن کریم میں ہیں کسی نہ کسی صورت میں پہلی کتب میں بھی موجود ہیں اس لحاظ سے قرآن کریم سب کا سب متشابہ ہے- نماز بھی پہلے مذاہب میں ہے- روزہ بھی ہے- حج بھی ہے` زکٰوۃ بھی ہے اور اس تشابہ کو دیکھ کر بعض لوگ دھوکے میں پڑ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ قرآن کریم کے نزول کا پھر کیا فائدہ ہوا- عیسائیوں میں سے ’’ینابیع الاسلام‘‘ وغیرہ کتابوں کے مصنف اسی گروہ میں شامل ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی دوسری کتب سے مشابہت ثابت کر کے قرآن کو جھوٹا قرار دیا ہے- حالانکہ قرآن کریم نے پہلے سے اس اعتراض کا ذکر کر کے اس کا نہایت واضح جواب دے دیا ہے- حق یہ ہے کہ قرآن کریم نے یہ ایک زبردست حقیقت بتائی ہے کہ ہر ایک آسمانی صحیفہ کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر کچھ محکم ہو اور کچھ متشابہ- متشابہ اس لئے کہ جو صحیفہ پہلی تعلیمات سے بکلی جدا ہو جاتا ہے وہ خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتا- کیونکہ اس کے یہ معنی ہونگے کہ اس سے پہلے کوئی شخص خدا کا برگزیدہ ہوا ہی نہیں- اور خدا تعالیٰ نے کسی کو ہدایت دی ہی نہیں` اور یہ باطل ہوگا- اور محکم اس لئے کہ اگر وہ کوئی جدید خوبی دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتا تو اس کی آمد کی ضرورت کیا ہے` پہلی تعلیم تو موجود ہی تھی- اور کون ہے جو اس اصل کی خوبی کا انکار کر سکے یا اس کی سچائی کو رد کر سکے-
مفسرین نے محکم اور متشابہ کی تاویل میں بہت کچھ زور لگایا ہے- مگر اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے انہوں نے بہت کچھ دھوکا کھایا ہے-
اب چونکہ سردی بڑھ رہی ہے اور بادل بھی گھرے ہوئے ہیں اس لئے میں اسی پر اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کو قرآن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین
)اس تقریر کے بعد حضور نے تمام مجمع کے ساتھ مل کر دعا کی اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور اس امر پر سجدہ شکر ادا کیا کہ اس نے حضور کو کمزوری صحت کے باوجود جلسہ میں شامل ہو کر تقریر کرنے اور پھر سب کے ساتھ مل کر دعا کرنے کی توفیق بخشی- فالحمدللہ علی ذلک(
۱~}~
الانعام: ۲۶
۲~}~ الحاقہ : ۴۲

۳~}~
‏ 15th VOL BRITANNICA ENCYCLOPAEDIA THE
1911ء PUBLISHED 905 ۔P
۴~}~
الاعراف: ۱۵۹
۵~}~ التوبہ : ۲۶
۶`۷~}~ الفرقان: ۳۳
۸~}~
الفرقان:۵
۹~}~ الحجر : ۹۲
۱۰~}~ ال عمران: ۸
‏]1a [tag ۱۱~}~
ھود: ۲
۱۲`۱۳~}~ الرمز: ۲۴
۱۴~}~ البقرہ: ۱۸۴
۱۵~}~
الحج: ۳۵
۱۶`۱۷~}~ ال عمران: ۸
~}~ :
‏a10.6
انوار العلوم جلد ۱۱
فضائل القرآن )۲(
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
فضائل القرآن
)نمبر۲(
قرآن کریم کی کتب سابقہ پر افضلیت کے عقلی اور نقلی شواہد
‏]txte )[tagفرمودہ ۲۹ دسمبر ۱۹۲۹ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان(
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ نور کی ان آیات کی تلاوت فرمائی-
اللہ نور السموت والارض مثل نورہ کمشکوہ فیھا مصباح المصباح فی زجاجہ الزجاجہ کانھا کوکب دری- یوقد من شجرہ مبارکہ زیتونہ لا شرقیہ ولا غربیہ یکاد زیتھا یضیء ولولم تمسسہ نار نور علی نور یھدی اللہ لنورہ من یشاء ویضرب اللہ الامثال للناس واللہ بکل شیء علیم- فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکرفیھا اسمہ یسبح لہ فیھا بالغدو والاصال- رجال لا تلھیھم تجارہ ولابیع عن ذکراللہ واقام الصلوہ وایتاء الزکوہ یخافون یوما تتقلب فیہ القلوب والابصار- لیجزیھم اللہ احسن ما عملوا ویزیدھم من فضلہ واللہ یرزق من یشاء بغیر حساب۱~}~ اس کے بعد فرمایا-:
اسلام کا مغز اور اس کی جان
یہ مضمون جس کے متعلق میں اس وقت کچھ بیان کرنے لگا ہوں نہایت ہی اہمیت رکھتا ہے- اور درحقیت یہ اسلام کا مغز اور اس کی جان ہے- اور دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اسے پورے غور اور توجہ کے ساتھ سنیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں- یہ مضمون فضائل قرآن کریم کے متعلق ہے- یعنی قرآنکریم میں وہ کونسی خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے دوسرے مذاہب کی کتابوں پر اسے فضیلت دی جا سکتی ہے- اس میں کیا شبہ ہے کہ قرآن کریم پر ہمارے مذہب کا دارومدار ہے- اگر خدانخواستہ قرآن کریم میں ہی کوئی نقص ثابت ہو جائے یا اس میں غیر معمولی خوبیاں ثابت نہ ہوں تو اسلام کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا- پس یہ ایک نہایت ہی نازک مسئلہ ہے جس پر حملہ کرنے سے اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے-
میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم سے باہر نہیں سمجھتا- آپ بھی قرآن کا جزو ہیں- جیسا کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے-وانہ لتنزیل رب العلمین- نزل بہ الروح الامین- علی قلبک لتکون من المنذرین-۲~}~ یعنی یہ قرآن یقیناً رب العالمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے- یہ قرآن روح الامین لے کر تیرے دل پر نازل ہوا ہے تا کہ تو انذار کرنے والوں کی مقدس جماعت میں شامل ہو جائے- پس ایک قرآن لفظوں میں نازل ہوا ہے اور ایک قرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مطہر پر نازل ہوا ہے- اس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی حملہ درحقیقت قرآن کریم پر ہی حملہ ہوگا-
تمام ادیان اور کتب الہامیہ پر قرآن کریم کی فضیلت
ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم ساری دنیا کے لئے اور سارے زمانوں کیلئے ہے- اب اگر قرآن کریم ساری دنیا اور سارے زمانوں کیلئے ہے تو ہماری اس کے متعلق ذمہ داری بھی بہت بڑھ جاتی ہے- بہ نسبت اس کے کہ قرآن کریم صرف عرب کیلئے ہوتا اور صرف ایک زمانہ کے مفاسد دور کرنے کے لئے آتا- عربوں کے پاس کوئی شریعت نہ تھی کوئی مذہبی کتاب نہ تھی- وہ خیالی باتوں پر یا قومی رسم و رواج پر عمل کرتے تھے- ان کے متعلق ہمارے لئے صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ عرب چونکہ بتوں کی پوجا کرتے تھے اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا تھے قرآن کریم نے انہیں ان برائیوں سے روک دیا اس وجہ سے اس کی ضرورت تھی- پس اگر عرب ہی کے لئے قرآن ہوتا تو قرآن کی فضیلت اور برتری ثابت کرنے میں کوئی دقت نہ تھی- مگر ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم ساری دنیا کیلئے آیا ہے اور یہودی` مسیحی` ہندو` پارسی وغیرہ سب اس کے مخاطب ہیں اور تمام دوسری کتابیں جن کو الہامی درجہ دیا جاتا ہے یا وہ کتابیں جن کا پتہ آثار قدیمہ سے لگا ہے ان سب سے افضل ہے- اس وجہ سے ہمارے لئے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے یہ پہلی تمام کتابوں پر مقدم اور ان سے افضل ہے- قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو تورات میں نہیں- قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو پرانے صحیفوں میں نہیں- قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو اناجیل میں نہیں- قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو ویدوں میں نہیں- اور قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو زرتشت وغیرہ کی کتابوں میں بھی نہیں-
قرآن کریم یک روحانی خزانہ ہے
پھر قرآن کریم کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے ہمیں یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ قرآن کریم میں وہ روحانی خزانہ ہے جس کے بغیر دنیا میں ہم گذارہ نہیں کر سکتے- صرف دوسری الہامی کتب کے مقابلہ میں زیادتی ثابت کر دینا کافی نہیں ہے بلکہ یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم نے جو چیز پیش کی ہے اس سے ایسی نئی سہولتیں بہم پہنچی ہیں جو پہلے حاصل نہ تھیں- جب دو چیزیں صفات کے لحاظ سے برابر ہوں تو ایک کی ظاہری خوبی بھی دوسری پر فضیلت تسلیم کی جا سکتی ہے- جیسے دو آم ایک ہی طرح میٹھے ہوں مگر ان میں سے ایک بڑا اور دوسرا چھوٹا ہو تو بڑے کو چھوٹے پر بڑائی کی فضیلت حاصل ہوگی- لیکن قرآن کریم کے متعلق ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ یہ ساری دنیا کیلئے اور تمام زمانوں کے لئے ہے- اب اس کے بعد کوئی شرعی کتاب نہیں آ سکتی- اس لئے ہمیں ساری قوموں` سارے مذاہب اور سارے علوم کے مقابلہ میں قرآن کریم کی فضیلت ثابت کرنی ہوگی- جو کتاب یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ سب سے آخری الہامی کتاب ہے` جیسے قرآن کہتا ہے` اس کی ذمہ داری پہلی تمام کتب سے بالا خوبیاں پیش کرنے کی ہے- پہلی کتابوں کو منسوخ کرنے کا دعویٰ کرنے والی کتاب کا فرض صرف یہ ہے کہ وہ اتنا ثابت کر دے کہ پہلی کتابوں سے زیادہ اس میں خوبیاں پائی جاتی ہیں- لیکن وہ کتاب جو یہ کہے کہ میرے بعد کوئی شرعی کتاب نہیں آ سکتی اور میں اب ہمیشہ کے لئے مکمل کتاب ہوں اس کے لئے یہی کافی نہیں کہ وہ پہلی کتابوں سے بڑھ کر خوبیاں پیش کرے بلکہ یہ ثابت کرنا بھی اس کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ روحانیت کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں آ سکتی جو اس میں نہ ہو- پس وہ کتاب جو صرف یہ نہ کہے کہ میں پہلی کتب کو منسوخ کرتی ہوں بلکہ یہ بھی کہے کہ آئندہ کے لئے بھی سب الہامی کتابوں کا دروازہ بند کرتی ہوں` اس کے لئے ضروری ہے کہ اس بات کے قطعی ثبوت پیش کرے کہ آئندہ بھی کوئی ایسی کتاب نازل نہیں ہو سکتی-
پس قرآن کریم کی افضلیت ثابت کرنے کیلئے یہ معیار نہایت ضروری ہے- ہاں علاوہ اس اصولی بحث کے تفصیلی بحث بھی کی جا سکتی ہے کہ فلاں فلاں خوبی قرآن کریم میں ہے جو اور کسی کتاب میں نہیں ہے مگر اصولی طور پر بحث کرنا بھی ضروری ہوگا-
جب ہم قرآن کریم میں خوبیوں کی کثرت ثابت کر دیں مثلاً یہ کہیں کہ فلاں فلاں خوبیاں وید` بائیبل اور ژند وستا میں بھی پائی جاتی ہیں اور قرآن میں بھی ہیں مگر یہ چار یا دس بیس خوبیاں ایسی ہیں جو صرف قرآن میں پائی جاتی ہیں تو اس سے بھی قرآن کریم کی فضیلت ثابت ہوگی- مگر اس سے قرآن کریم کا اکمل ہونا ثابت نہ ہوگا اور یہ بات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچے گی کہ آئندہ کوئی اور شرعی کتاب نہیں آ سکتی- اس طرح قرآن کریم صرف موجودہ کتب کے مقابلہ میں افضل ثابت ہو سکتا-
تمام وجوہ کمال میں افضل کتاب
غرض سب کے آخر اور سب سے افضل ہونے کا دعویٰ کرنے والی کتاب کیلئے نہ صرف یہ ضروری ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اس کے اندر وہ کچھ ہے جو دوسری کتب میں نہیں ہے بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ یہ بھی ثابت کرے کہ جو کچھ اس میں ہے وہ دوسری کتب میں ہو ہی نہیں سکتا- جب تک وہ یہ ثابت نہ کرے اس وقت تک صرف اچھی باتیں بتانے سے اس کی افضلیت ثابت نہیں ہو سکتی- ہاں افضلیت چونکہ صرف اعلیٰ خوبیوں کے لحاظ سے نہیں ہوتی بلکہ وسیع خوبیوں کے لحاظ سے بھی ہوتی ہے- اس لئے خوبیوں کی وسعت اس غرض کے اثبات کیلئے پیش کی جا سکتی ہے کہ گو بعض خوبیاں کسی اور کتاب میں بھی پائی جاتی ہوں مگر خوبیوں کی وسعت کے لحاظ سے فلاں کتاب افضل ہے- ہاں کامل افضل کتاب وہ کہلائے گی جوتمام وجوہ کمال میں افضل ثابت ہو- اور میرا قرآن کریم کے متعلق یہی دعویٰ ہے-
جواہرات کی کان
ممکن ہے کوئی کہے کہ کیا پہلے لوگوں کو قرآن کریم کے ان فضائل کا علم نہ تھا؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ علم تھا مگر روحانی علوم خدا تعالیٰ کے فضل سے روزانہ ترقی کرتے ہیں- اور جب ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہمارے پاس قرآن کریم جواہرات کی ایک کان ہے جس میں سے نئے سے نئے جواہر نکلتے رہتے ہیں تو پھر کیوں ہم انہی جواہرات پر اکتفاء کریں جو پہلے لوگ حاصل کر چکے ہیں- اور کیوں قرآنی کان میں سے ہم نئے ہیرے اور جواہرات نہ نکالیں- پس میں قرآن کریم کے خزانہ میں گیا کیونکہ پہلے میں وہاں سے کئی بار لعل و جواہر نکال چکا تھا` اور پھر اپنے دامن کو بھر کر لایا- جب میں اس خزانہ میں قرآن کریم کی خوبیاں معلوم کرنے کیلئے گیا تو مجھے ایک عجیب بات سوجھی- اور وہ یہ کہ بجائے اس کے کہ اس خرانہ میں میں اندھا دھند ہاتھ ماروں اور جو چیز میرے ہاتھ میں آئے اسے اٹھا لوں حالانکہ ممکن ہے اس سے بہتر چیز وہاں موجود ہو اور میں اسے نہ اٹھا سکوں اس لئے کیوں نہ میں اصولی طور پر غور کروں کہ مجھے کیا لینا چاہئے- تب مجھے خیال آیا کہ کسی کتاب کی فضیلت اور اکملیت ثابت کرنے کیلئے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اس کے مضامین پر غور کریں اور اس طرح اس کی کوئی خوبی معلوم کریں بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ کسی چیز کو دوسری چیز پر فضیلت کیوں حاصل ہوتی ہے-
پھر یہ دیکھنا چاہئے کہ جو فضیلت کے معیار ہیں اور جن کی وجہ سے کسی کو فضیلت دی جاتی ہے وہ کس قدر قرآن میں پائے جاتے ہیں-
‏]bus [tag قرآنی فضیلت کے چھبیس وجوہ
جب میں نے اس رنگ میں غور کیا تو قرآن کریم کا سمندر میری آنکھوں کے سامنے آ گیا اور مجھے معلوم ہوا کہ ہر فضیلت کی وجہ جو دنیا میں پائی جاتی ہے اور جس کی بناء پر ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دی جاتی ہے وہ بدرجہ اتم قرآن کریم میں پائی جاتی ہے اور فضیلت دینے والی خوبیوں کے سارے رنگ قرآنکریم میں موجود ہیں- میں نے اس وقت سرسری نگاہ سے دیکھا تو قرآن کریم کی فضیلت کی چھبیس وجوہات میرے ذہن میں آئیں- بالکل ممکن ہے کہ یہ وجوہات اس سے بہت بڑھ کر ہوں اور میں پھر غور کروں یا کوئی اور غور کرے تو اور وجوہات بھی نکل آئیں- مگر جتنی وجوہات اس وقت میرے ذہن میں آئیں ان میں میں نے قرآن کریم کو تمام کتب سے افضل پایا-
منبع کی افضلیت
)۱( پہلی وجہ کسی چیز کے افضل ہونے کی اس کے منبع کی افضلیت ہوتی ہے- جیسے گورنمنٹ کی ملازمت میں باپ نے جو گورنمنٹ کی خدمات کی ہوتی ہیں ان کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور ایک دوسرے شخص کو جو تعلیم اور قابلیت کے لحاظ سے بالکل مساوی ہوتا ہے اس پر ایسے شخص کو ترجیح دے دی جاتی ہے جس کے باپ دادا نے گورنمنٹ کی خدمات کی ہوتی ہیں- یہ منبع کے لحاظ سے فضیلت ہوتی ہے- اسی طرح ایک شخص جو امیر باپ کے گھر پیدا ہوتا ہے وہ امارت اپنے ساتھ لاتا ہے اور اسے یہ خوبی منبع کے لحاظ سے حاصل ہوتی ہے- میں نے قرآنکریم کو اس فضیلت کے لحاظ سے بھی دوسری کتب سے افضل پایا-
ذاتی قابلیت کے لحاظ سے فضیلت
دوسری وجہ فضیلت میرے ذہن میں یہ آئی کہ اندرونی اور ذاتی قابلیت اور طاقت کی وجہ سے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت حاصل ہوتی ہے- جیسے دوائیں اپنے اندر طاقت رکھتی ہیں- اس وجہ کے لحاظ سے بھی میں نے قرآن کریم کو سب سے بڑھ کر پایا-
نتائج کے لحاظ سے فضیلت
تیسری وجہ فضیلت نتائج کے لحاظ سے ہوتی ہے- اس وجہ سے بھی ایک چیز کو ہم دوسری پر فضیلت دے دیتے ہیں- بعض چیزیں اپنی ذات میں اچھی ہوتی ہیں مگر دوسری چیزوں سے مل کر ان کا اچھا نتیجہ پیدا نہیں ہو سکتا- جیسے ڈاکٹر جرمز(GERMS) کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ٹیکہ سے مر جاتے ہیں- گویا انسان کے جسم میں جرمز اور ٹیکہ کا مادہ ملنے سے الٹا اثر ہوتا ہے- تو کبھی ایک چیز کو نتائج کے لحاظ سے فضیلت حاصل ہوتی ہے اور جو چیز اس میں بڑھ جاتی ہے اس کی برتری تسلیم کر لی جاتی ہے- اسی طرح بعض تعلیمیں یوں بڑی اچھی اور مفید نظر آتی ہیں لیکن ان کے نتائج ایسے اعلیٰ پیدا نہیں ہوتے- میں نے اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کو دوسری کتب سے افضل پایا-
شدت فائدہ کے لحاظ سے فضیلت
چوتھی وجہ فضیلت شدت فائدہ کے لحاظ سے ہوتی ہے- فائدے تو سب چیزوں میں ہوتے ہیں مگر ایک میں زیادہ ہوتے ہیں اور دوسروں میں کم- قرآن کریم میں شدت فوائد کے لحاظ سے بھی فضیلت پائی جاتی ہے-
کثرت فوائد کے لحاظ سے فضیلت
پانچویں کثرت فوائد کے لحاظ سے بھی ہم ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دیتے ہیں- ایک دوائی ایک بیماری میں بڑا فائدہ دیتی ہے- مگر ایک اور دوائی ہوتی ہے جو اتنا فائدہ اس بیماری میں نہیں دیتی` مگر پچاس اور بیماریوں میں مفید ہوتی ہے- اسے پہلی دوائی پر کثرت فوائد کے لحاظ سے فضیلت حاصل ہوگی- قرآن کریم کو میں نے اس لحاظ سے بھی دوسری کتب سے افضل پایا-
وسعت نفع کے لحاظ سے فضیلت
‏]1ttex [tagچھٹے- کبھی وسعت نفع کے لحاظ سے بھی فضیلت دی جاتی ہے- مثلاً ایک دوائی کے متعلق یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کتنی بیماریوں میں نفع دیتی ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتنی طبائع پر اثر ڈالتی ہے اور کتنے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں- قرآن کریم اس لحاظ سے بھی مجھے افضل نظر آیا-
معیاد نفع کے لحاظ سے فضیلت
ساتویں- نفع کے وقت کے لحاظ سے بھی کہ کتنے عرصہ تک کوئی چیز نفع پہنچاتی ہے ہم بعض دفعہ ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دے دیتے ہیں- جب ایک قسم کے دو کپڑے سامنے ہوں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک کپڑا کتنی مدت تک چلتا ہے اور دوسرا کتنی مدت تک- ایک اگر ایک سال چلنے والا ہو اور دوسرا چھ ماہ تو ایک سال چلنے والے کو دوسرے پر فضیلت دے دی جائے گی- قرآن کریم کی اس لحاظ سے بھی مجھے فضیلت نظر آئی-
نفع اٹھانے والوں کے مقام کے لحاظ سے فضیلت
آٹھویں- پھر فضیلت کی ایک وجہ ان لوگوں کی عظمت کے لحاظ سے بھی ہوتی ہے جن کو وہ نفع پہنچاتی ہے- یعنی دیکھا جاتا ہے کہ کس پایہ کے لوگ اس سے نفع اٹھاتے ہیں- جن چیزوں کے متعلق یہ معلوم ہو کہ بڑے پایہ کے انسانوں کو نفع پہنچاتی ہیں ان کو دوسری چیزوں پر مقدم کر لیا جاتا ہے- میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے-
نفع اٹھانے والوں کی اقسام کے لحاظ سے فضیلت
نویں- یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتنی اقسام کی چیزوں کو کوئی چیز نفع پہنچاتی ہے کیونکہ علاوہ افراد کے اقسام بھی ایک درجہ رکھتی ہیں- ایک چیز ایسی ہے جو ایک کروڑ انسانوں کو نفع پہنچاتی ہے اور ایک اور ہے کہ وہ بھی ایک کروڑ انسانوں کو ہی نفع پہنچاتی ہے لیکن ان میں فرق یہ ہو کہ ایک صرف ایک قسم کے لوگوں کو نفع پہنچائے- مثلاً عیسائیوں یا ہندوئوں کو مگر دوسری ایک کروڑ انسانوں کو ہی نفع پہنچائے- لیکن عیسائیوں` ہندوئوں` یہودیوں اور مسلمانوں سب کو نفع پہنچائے تو اسے افضل قرار دیا جائے گا- غرض وسعت اقسام افراد کے لحاظ سے بھی ایک چیز افضل قرار دی جاتی ہے اس میں بھی مجھے قرآن کریم کی دوسری کتب پر فضیلت نظر آئی-
کھوٹ سے مبرا ہونے کے لحاظ سے فضیلت
دسویں- اس لحاظ سے بھی کسی چیز کی فضیلت کو دیکھا جاتا ہے کہ اس میں کوئی کھوٹ تو نہیں ملا ہوا- جس چیز میں کھوٹ نہ ہو اسے دوسری چیزوں پر فضیلت دی جاتی ہے- اس میں بھی قرآن کریم تمام کتب الٰہیہ سے افضل پایا گیا-
یقینی فوائد کے لحاظ سے فضیلت
گیارھویں- بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کھوٹ سے تو پاک ہوتی ہیں مگر ان کے نفع کے متعلق اطمینان نہیں ہوتا- یہ احتمال ہوتا ہے کہ ان کے استعمال میں کوئی غلطی نہ ہو جائے جس کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑے- لیکن جس کے استعمال کے متعلق غلطی کا کوئی احتمال نہ ہو اور اس کے فوائد کے متعلق کسی قسم کا شک و شبہ نہ ہو اسے اختیار کر لیا جاتا اور اس کی فضیلت تسلیم کر لی جاتی ہے- اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کو فضیلت حاصل ہے-
ظاہری حسن کے لحاظ سے فضیلت
بارھویں- ظاہری حسن کی وجہ سے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دے دی جاتی ہے- قرآن کریم اپنے ظاہری حسن کے لحاظ سے بھی دوسری کتب سے افضل پایا گیا-
ضروری امور کو نقصان نہ پہنچانے کے لحاظ سے فضیلت
تیرھویں- ایک چیز کو دوسری پر اس لئے بھی فضیلت دے دی جاتی ہے کہ اس کا استعمال دوسری ضروری اشیاء کو نقصان نہیں پہنچائے گا- مثلاً ایک شخص دو بیماریوں میں مبتلا ہو- اس کی ایک بیماری کے لئے ایک ایسی دوا ہو جو بہت فائدہ دیتی ہو لیکن دوسری بیماری کو بڑھا دیتی ہو- تو اس کی نسبت وہ دوائی استعمال کی جائے گی جو نفع کم دیتی ہو لیکن دوسری بیماری کو نقصان نہ پہنچاتی ہو- اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کی فضیلت ثابت ہوتیہے-
فوائد کے سہل الحصول ہونے کے لحاظ سے فضیلت
چودھویں- اس لئے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دی جاتی ہے کہ اس کے فوائد سہل الحصول ہوتے ہیں- یعنی آسانی سے اس کے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں- قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے-
ضروریات پوری کرنے میں یکتا ہونے کے لحاظ سے فضیلت
پندرھویں- اس لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دی جاتی ہے کہ وہ ایسی ضرورت کو پورا کرتی ہے جسے اور کوئی چیز پورا نہیں کر سکتی- یہ فضیلت بھی قرآن کریم کو دوسری کتب کے مقابلہ میں حاصل ہے- کیونکہ وہ ایسی ضرورتیں پوری کرتا ہے جنہیں اور کوئی کتاب پوری نہیں کر سکتی-
اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لحاظ سے فضیلت
سولہویں- اس لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری چیزوں پر مقدم کیا جاتا ہے کہ جس ضرورت کو وہ پورا کرتی ہے وہ ایسی ضرورت ہوتی ہے کہ اسے ہم کسی صورت میں بھی ترک نہیں کر سکتے- کئی ضرورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے نقصان تو ہوتا ہے مگر پھر بھی انہیں چھوڑا نہیں جا سکتا- لیکن بعض ضرورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں ہم چھوڑیں` تو گئے- قرآن کریم ایسی ضرورتوں کو بھی پورا کرتا ہے اس لئے وہ دوسری کتب سے افضل ہے-
حفاظت میں آسانی ہونے کے لحاظ سے فضیلت
سترھویں- اس امر کے لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت حاصل ہوتی ہے کہ اس کی حفاظت میں کس قدر کوشش کرنی پڑتی ہے- ایک ایسی چیز جسے ہم آسانی اور سہولت سے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اسے ہم ایسی چیز پر مقدم کر لیتے ہیں جس کی حفاظت مشکل ہوتی ہے میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے-
نفع کے لحاظ سے فضیلت
اٹھارھویں- کسی چیز کی فضیلت معلوم کرنے کے لئے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس کا استعمال کس قدر ذمہ واریاں ڈالتا ہے اور اس کے مقابلہ میں نفع کس قدر ہے- میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے کیونکہ اس کے لینے میں خرچ کم ہوتا ہے اور نفع زیادہ-
ہر قسم کے نقصان سے مبرا ہونے کے لحاظ سے فضیلت
انیسویں- اس لئے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دے دی جاتی ہے کہ اس کے استعمال سے نقصان تو نہیں ہوتا- جب نقصان نہیں ہوتا تو اسے استعمال کر لیا جاتا ہے- مثلاً دو دوائیاں ہیں جن میں سے ایک تھوڑے نفع والی ہے مگر کوئی نقصان اس سے پہنچنے کا خدشہ نہیں ہے تو اسے ہم استعمال کر لیتے ہیں اور زیادہ نفع دینے والی جس کے استعمال سے نقصان کا بھی خطرہ ہو اسے استعمال نہیں کرتے- اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کی فضیلت کا ثبوت ملتا ہے-
دعوت عام کے لحاظ سے فضلیت
بیسویں- کسی چیز کو فضیلت اس وجہ سے بھی دی جاتی ہے کہ وہ اپنی چیز ہوتی ہے- جب میں نے قرآن کریم کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ صرف قرآن ہی اپنا تھا- باقی سب کتب میں مجھے غیریت نظر آئی- قرآن کریم کو میں نے ایک ہندو کی نظر سے بھی دیکھا اور ایک عیسائی کی نظر سے بھی- ایک پارسی کی نظر سے بھی اور ایک بدھ کی نظر سے بھی- پھر کبھی میں سید بن کر اس کے پاس گیا کبھی مغل بن کر` کبھی شیخ بن کر کبھی راجپوت بن کر` کبھی عالم کے رنگ میں اور کبھی جاہل کے رنگ میں- مگر ہر دفعہ اس نے یہی کہا کہ آئو تم میرے ہو اور میں تمہارا ہوں- لیکن دوسری کتب کے پاس جس حالت میں بھی میں گیا- انہوں نے مجھے دھتکارا اور اپنے پاس تک پھٹکنے نہ دیا-
علاج الامراض کے لحاظ سے فضیلت
اکیسویں- کسی چیز کو اس لحاظ سے بھی ہم فضیلت دیا کرتے ہیں کہ وہ ان بیماریوں کا علاج ہو جو ہم میں پائی جاتی ہیں- میں نے جب دیکھا تو قرآن کریم میں مجھے یہ بھی فضیلت نظر آئی-
زائد فوائد کے لحاظ سے فضیلت
بائیسویں- ایک چیز کو دوسری پر ہم اس لئے بھی مقدم کیا کرتے ہیں کہ اس سے ہمیں زائد فوائد حاصل ہوتے ہیں- میں نے دیکھا کہ اس لحاظ سے بھی قرآن کریم دوسری کتب سے افضل ہے-
مطمح نظر کی وسعت کے لحاظ سے فضیلت
تیئسیویں- مذہب کی افضلیت کی ایک علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ ترقیات کی امید پیدا کرکے انسان کا مطمح نظر وسیع کرے- اپنے پیروئوں کی ہمت بڑھائے- ان میں مایوسی اور ناامیدی نہ آنے دے اور ان کی امنگوں کو قائم رکھے- میں نے دیکھا کہ اسلام اعلیٰ سے اعلیٰ ترقیات اور تعلق باللہ کا دروازہ ہمارے لئے کھولتا ہے اور اس طرح ہماری امید کو نہ صرف قائم رکھتا ہے بلکہ اسے وسیع کر کے ہماری ہمت کو بڑھاتا ہے- اور اس میں کیا شک ہے کہ انسانی ترقی اس کے مستقبل کے خواب میں ہی پوشیدہ ہوتی ہے- پس اس لحاظ سے بھی مجھے قرآن کریم ہی افضل نظر آیا-
دوسری کتب سے مستغنی کرنے کے لحاظ سے افضلیت
چوبیسویں- اس لحاظ سے بھی کسی چیز کو دوسری چیزوں سے افضل قرار دیا جاتا ہے کہ وہ کس حد تک دوسری اشیاء کی ضرورت سے مستغنی کر دیتی ہے- ایسی چیز کی لوگ زیادہ قدر کرتے ہیں کیونکہ انہیں دوسری چیزوں کی فکر نہیں کرنی پڑتی- میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے-
صحیح علوم کی طرف راہنمائی کرنے کے لحاظ سے فضیلت
پچیسویں- کسی چیز کی افضلیت کا ایک یہ بھی باعث ہوتا ہے کہ وہ صحیح علوم کی طرف لوگوں کی راہنمائی کرتی اور انہیں لغو امور میں حصہ لینے سے بچاتی ہے- کتاب الہی چونکہ معلم ہوتی ہے اس لئے اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی توجہ صحیح طرف لگائے- انہیں لغویات سے روکے اور صحیح علوم کی طرف ان کی راہنمائی کرے- میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے-
اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لحاظ فضیلت
چھبیسویں- اس امر کے لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت حاصل ہوتی ہے کہ وہ کس حد تک اس ضرورت کو پورا کرتی ہے جس کے لئے اسے حاصل کیا گیا تھا- اگر ایک چیز اپنی ضرورت کو پورا نہیں کرتی تو لازماً اس دوسری چیز کو ترجیح دی جائے گی جو اس ضرورت کو پورا کر سکتی ہو- میں نے دیکھا کہ اس پہلو کے لحاظ سے بھی قرآن کریم کو دوسری کتب پر فضیلت حاصل ہے-
غرض غور کرتے وقت مجھے فضیلت کی یہ چھبیس وجوہات نظر آئیں- گو جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں ممکن ہے کہ اور بھی کئی باتیں غور کرنے سے نکل آئیں- بہرحال جب میں نے ان پر قرآنکریم کو پرکھا تو اسے ہر بات میں دوسری کتب سے افضل پایا-
قرآن کریم کا دعویٰ اور افضلیت
مگر پیشتر اس کے کہ ان امور پر تفصیلی بحث کی جائے سب سے پہلا سوال جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا قرآن کریم نے خود بھی دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا ہے یا نہیں کہ وہ تمام کتب الہیہ سے افضل ہے- اگر قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہو تو پھر تو اس کی افضیلت اور برتری کے وجوہ پر بھی بحث کی جا سکتی ہے- لیکن اگر اس کا یہ دعویٰ ہی نہ ہو تو اس کی افضلیت کے وجوہ پیش کرنا مدعی سست اور گواہ چست والی بات بن جاتی ہے- اس نقطہ نگاہ سے جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے اپنی افضلیت کا بڑے واضح الفاظ میں دعویٰ کیا ہے- اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے-
اللہ نزل احسن الحدیث کتبا متشابھا مثانی تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربھم ۳~}~یعنی اللہ تعالیٰ نے نہایت زور` طاقت اور قوت کے ساتھ اس کتاب کو اتارا ہے جو احسن الحدیثہے- یعنی ساری الہامی کتابوں سے افضل ہے- یہ کس طرح کہا گیا کہ ساری الہامی کتابوں سے افضل ہے- اول اس لئے کہ جب قرآن خدا تعالیٰ کی کتاب ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ دوسرے انسانوں کی کتابوں سے افضل ہے- اعتراض کے موقع پر تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاں کتاب الہامی نہیں بلکہ انسانی دست برد کی آماجگاہ بن چکی ہے لیکن اصولی طور پر ان کو انسانی کتب قرار دے کر قرآن کو ان کے مقابلہ میں لانا بے وقوفی ہے- یہ ایسی ہی بات ہوگی جیسے ایک پہلوان کہے کہ دیکھو میں فلاں بچہ سے طاقت ور ہوں- ہاں اگر بچہ پہلوان کو آ کر کہے کہ میں تمہیں گرا دوں گا آئو تم میرا مقابلہ کر لو تو پہلوان اسے بیشک کہہ سکتا ہے کہ جا چلا جا ورنہ تو میرے ایک ہی تھپڑ سے مر جائے گا-
اس آیت میں حدیث کا لفظ جو استعمال کیا گیا ہے یہ پہلی الہامی کتابوں کے متعلق ہے- اور قرآن کریم کے دوسرے مقامات میں انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ ایک مقام پر فرماتا ہے-فذرنی ومن یکذب بھذا الحدیث۴~}~ یعنی تو مجھے اور اس کو جو اس کتاب کو جھٹلاتا ہے چھوڑ دے- اسی طرح فرماتا ہیوما یاتیھم من ذکر من الرحمن محدث الا کانوا عنہ معرضین ۵~}~یعنی رحمن خدا کی طرف سے کبھی کوئی نیا ذکر نہیں آتا کہ جس سے لوگ اعراض نہ کرتے ہوں- چونکہ انبیاء کا کلام ضرور کسی نئی شے کو لے کر آتا ہے- یعنی وہ حسب ضرورت آتا ہے خواہ شریعت لائے خواہ فہم لائے` خواہ ایمان کی تجدید کے سامان لائے` اس لئے اسے حدیث کہتے ہیں اور قرآن کریم احسن الحدیث ہے یعنی جنس حدیث میں یا دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ کلام الہی میں سب سے افضل ہے- غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہیاللہ نزل احسن الحدیث کتبا- یہ کتاب جو نازل کی گئی ہے ان تمام کتابوں سے جو اس سے پہلے نازل ہوئیں بڑھی ہوئی ہے- پس قرآن کریم سے ہمیں اس کی افضلیت کا دعویٰ ملتا ہے-
پھر قرآن کریم کی افضلیت کا دعویٰ اس آیت میں بھی موجود ہے کہ ماننسخ من ایہ اوننسھا نات بخیر منھا او مثلھا الم تعلم ان اللہ علی کل شیء قدیر ۶~}~فرماتا ہے- ہم کوئی کلام الہی منسوخ نہیں کرتے یا فراموش نہیں کراتے جب تک کہ اس سے بہتر یا اس جیسا کلام نہ لائیں- یعنی جسے منسوخ کرتے ہیں اس سے بہتر لاتے ہیں اور جو بھول چکا ہوتا ہے مگر عمل کے قابل ہوتا ہے اسے ویسا ہی لے آتے ہیں-الم تعلم ان اللہ علی کل شیء قدیر اے مخاطب! تجھے یہ کیوں عجیب بات معلوم ہوتی ہے- خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے کر سکتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے-
تورات میں ایک نئی شریعت نازل ہونیکی پیشگوئی
جب قرآن کریم پہلی الہامی کتب کا ناسخ ہے تو ضروری تھا کہ وہ کچھ تعلیم تو ان تعلیموں سے بہتر لائے اور کچھ وہ لائے جو مٹ گئی ہو- جب میں نے اس پہلو سے غور کیا تو قرآن کریم کے اس دعویٰ کی تصدیق دوسری کتابوں سے بھی معلوم ہوئی- چنانچہ بائیبل میں آتا ہے-
’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کرونگا اور اپنا کلام اس کے مونہہ میں ڈالوں گا- اور جو کچھ میں اسے فرمائونگا وہ سب ان سے کہے گا‘‘- ۷~}~
اس میں یہ خبر دی گئی تھی کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جب موسیٰ علیہ السلام جیسا نبی مبعوث ہوگا- حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ صاحب شریعت نبی تھے اس لئے ان جیسے نبی کے آنے کے لازماً یہ معنی تھے کہ وہ بھی صاحب شریعت ہوگا- پھر جب وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے گا تو معلوم ہوا کہ جو کتاب وہ لائے گا اس میں بعض باتیں زائد بھی ہونگی جو بائیبل میں موجود نہ ہونگی` ورنہ نئی شریعت کے آنے کی کیا ضرورت تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت منسوخ کرنے میں کیا حکمت تھی- لیکن جب وہ منسوخ کی گئی تو ضروری تھا کہ آنیوالی شریعت اس سے افضل ہو- پس قرآن کریم کی افضلیت بائیبل کے اس حوالہ سے بھی ثابت ہے کیونکہ شریعتجدیدہ ناسخہ عقلاً شریعت منسوخہ سے حقیقی طور پر یا نسبتی طور پر افضل ہونی چاہئے-
حضرت موسیٰ ؑ کی پیشگوئی کے مصداق ہونیکا دعویٰ
ممکن ہے کوئی کہے کہ قرآن کریم کب کہتا ہے کہ میں وہی کتاب ہوں جس کا وعدہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا تھا- سو اس کا جواب بھی قرآن کریم میں موجود ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے انا ارسلنا الیکم رسولا شاھدا علیکم کما ارسلنا الی فرعون رسولا ۸~}~یعنی اے لوگو! ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہیشاھدا علیکم جو تم پر شاہد اور گواہ ہے کما ارسلنا الی فرعون رسولا اور وہ اسی قسم کا رسول ہے جس قسم کا رسول موسیٰؑ تھا جسے فرعون کی طرف بھیجا گیا- اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق استثنا باب ۱۸ آیت ۱۸ کے مصداق ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے- اس کے علاوہ ایک اور طرح بھی اس بات کا ثبوت ملتا ہے- اور وہ یہ کہ استثنا باب ۱۸ کی آیت ۱۸ حضرت مسیحؑ پر چسپاں نہیں ہوتی بلکہ وہ خود بھی کہتے ہیں کہ میں اس کا مصداق نہیں- انجیل میں آتا ہے` حضرت مسیحؑ کہتے ہیں-
’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا- اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا‘‘- ۹~}~
پس انجیل سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں جس آنے والے کی پیشگوئی ہے وہ حضرت مسیحؑ پر چسپاں نہیں ہوتی بلکہ اس کا مصداق کوئی اور ہے- پھر حضرت مسیحؑ صرف بنی اسرائیل کے لئے آئے تھے- مگر وہ جس کی نسبت حضرت موسیٰؑ نے پیشگوئی کی وہ ساری دنیا کے لئے ہے- اور یہ دعویٰ قرآن ہی پیش کرتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہیالیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ۱۰~}~یعنی اے لوگو! آج میں نے دین کے کامل کرنے کی کڑی کو پورا کر دیا- وہ کڑی جو آدمؑ سے لے کر اب تک نامکمل چلی آتی تھی آج قرآن کے ذریعہ پوری کر دی گئی ہے اور میں نے اپنے احسان کو تم پر کامل کر دیا ہے- گویا مختلف چکروں میں سے انسانوں کو گذارتے ہوئے میں انہیں اس مقام پر لے آیا کہ بندہ خدا کا مظہر بن گیا اور میں نے تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کر لیا-
اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم اپنے بعد کسی اور شریعت اور نئی کتاب کی امید نہیں دلاتا بلکہ صرف یہ کہتا ہے کہ نیا فہم اور نیا علم حاصل کرو جو قرآن کریم کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے-
قرآن کریم کے اس دعویٰ کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ فضیلت کے وہ تمام وجوہ جن کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں اور فضیلت کے ہر اصل کے لحاظ سے قرآنکریم تمام دوسری کتب الہامیہ سے افضل اور برتر ہے-
منبع کے لحاظ سے قرآن کریم کی افضیلت کا ثبوت
پہلی بات جو میں نے بطور فضیلت بیان کی ہے وہ منبع کے لحاظ سے کسی چیز کی افضلیت ہے- یعنی کسی چیز کے منبع اور مخرج کا اعلیٰ ہونا بھی اس کے لئے وجہ فضیلت ہوتا ہے- جیسے ایک بادشاہ کے کلام کو دوسرے لوگوں کے کلام پر مقدم کیا جاتا ہے- اگر دو آدمی کلام کر رہے ہوں جن میں سے ایک بادشاہ ہو تو سننے والے لازماً بادشاہ کی بات کی طرف زیادہ متوجہ ہونگے اور بغیر یہ فیصلہ کرنے کے کہ ان میں سے کس کا کلام افضل ہے پہلے ہی یہ سمجھ لیا جائے گا کہ بادشاہ کا کلام دوسرے سے اہم ہوگا- اسی طرح ایک بڑے ادیب کے کلام کو دوسروں کے کلام پر ترجیح دی جاتی ہے- مختلف شعراء اگر ایک جگہ بیٹھے ہوں اور وہاں مثلاً غالب بھی آ جائیں تو بغیر اس کے کہ ان کے اشعار سنے جائیں یہی کہا جائے گا کہ ان کے اشعار افضل ہونگے- اسی طرح ایک ڈاکٹر کسی بیمار کے متعلق رائے دیتا ہے اور بعض دفعہ وہ غلطی بھی کر جاتا ہے بلکہ بعض اوقات عورتوں کے بتائے ہوئے نسخے زیادہ فائدہ دے دیتے ہیں مگر کوئی عقلمند یہ نہیں کہتا کہ ایک ڈاکٹر کی بات رد کر دی جائے اور ایک عورت کی بات مان لی جائے- لازماً ڈاکٹر کی بات کی طرف ہی توجہ کی جائیگی- ہاں جسے کسی دوائی سے فائدہ نہ ہوتا ہو وہ کسی عورت کی بتائی ہوئی دوائی بھی استعمال کرے گا- کیونکہ مرتا کیا نہ کرتا کے مطابق وہ یہ کہے گا کہ چلو اس کی دوائی بھی آزمالو-
غرض اتھارٹی اپنی ذات میں بھی فضیلت رکھتی ہے- اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اتھارٹی کے لحاظ سے غالب گمان ہوتا ہے کہ اس کی بات ٹھیک ہوگی- اسی کی طرف پہلے کیوں نہ توجہ کریں- بہرحال جس چیز کی فضیلت مقام اور منبع کے لحاظ سے ثابت ہو جائے اس کی طرف دوسروں کی نسبت زیادہ توجہ کی جاتی ہے اور اسے فضیلت دے دی جاتی ہے- لیکن اگر منبع ایسا ہو کہ جس سے غلطی کا امکان ہی نہ ہو تو پھر تو سبحان اللہ!
اب قرآن کریم کو ہم اس اصل کے ماتحت دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے جو سب خوبیوں کا جامع ہے اور جب ہم یہ دعویٰ پڑھتے ہیں تو ہمارا دل کہتا ہے کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے تو پھر یقیناً انسانوں کے کلاموں سے افضل ہوگا- اور ان کلاموں کو ہم اس کے مقابلہ میں قطعی طور پر ٹھکرا دیں گے-
میں پہلے یہ دعویٰ بیان کر آیا ہوں کہ قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اور وہ دعویٰ یہ ہے کہ اللہ نزل احسن الحدیث کتبا متشابھا مثانی اب اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو قرآن کریم کو تمام انسانی کلاموں پر منبع کے لحاظ سے فضیلت حاصل ہو گئی-
قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے کے تین دلائل
لیکن ظاہر ہے کہ صرف دعویٰ کافی نہیں ہو سکتا- دعویٰ کے لئے دلیل بھی چاہئے جس سے ثابت ہو کہ فی الواقعہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے- اس کے لئے قرآن کریم یہ دلیل دیتا ہے کہ افمن کان علی بینہ من ربہ ویتلوہ شاھد منہ ومن قبلہ کتب موسی اماما ورحمہ اولئک یومنون بہ ومن یکفربہ من الاحزاب فالنار موعدہ فلاتک فی مریہ منہ انہ الحق من ربک ولکن اکثر الناس لایومنون ۱۱~}~اس آیت میں قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے کی تین دلیلیں دی گئی ہیں- پہلی دلیل یہ بیان کی کہ افمن کان علی بینہ من ربہ کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایکبینہ یعنی روشن دلیل پر قائم ہو وہ جھوٹا ہو سکتا ہے یا وہ تباہ ہو سکتا ہے- یہاںمن میں رسول کریم2] ft[s صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا ذکر ہے- جیسا کہ آگے آتا ہیاولئک یومنون بہ- پس فرمایا کیا یہ لوگ تمہارے خیال کے مطابق تباہ و برباد ہو جائیں یا نقصان اٹھائیں گے یہ تو ایسی کتاب کو ماننے والے ہیں جوبینہ ہے یعنی اس میں الہامی دلائل ہیں جو مدلول علیہ کے دعویٰ کی صحت کو بیان کرتے ہیں-
آیت اور بینہ میں فرق
آیت اور بینہ میں یہ فرق ہے کہ آیت وہ ہوتی ہے جس سے ہم خود نتیجہ نکالیں- اوربینہ وہ ہوتی ہے جو اپنی دلیل آپ پیش کرے- جیسے ایک درخت کو ہم دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اسے کسی صانع نے بنایا ہے یہ آیت ہے- لیکن ایک نبی آتا ہے اور آکر کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے آیا ہوں یہ بینہ ہے- تو آیت عام لفظ ہے اور بینہ خاص- اس سے مراد وہ دلیل ہوتی ہے جو اپنے لئے آپ شاہد ہوتی ہے-
قرآن کریم کے بینہ ہونے کا ثبوت 0] [rtf
اب سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کس طرحبینہ ہے؟ یہ بھی تو دعویٰ ہی ہے کہ قرآنبینہ ہے- اس کے لئے میں کہیں دور نہیں جاتا- قرآن کریم کیبینہ ہونے کا ثبوت اس پہلی وحی میں ہی موجود ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی- باقی کتابیں دوسروں کی دلیلوں کی محتاج ہوتی ہیں مگر قرآن اپنے دعویٰ کی آپ دلیل دیتا ہے- اور قرآن کے بینہ ہونے کی دلیل ان تین آیتوں میں موجود ہے جو پہلے پہل نازل ہوئیں- قرآن کریم کا یہ کمال دکھانے کیلئے میں نے سب سے پہلی وحی قرآنی کو ہی لیا ہے- سب سے پہلی وحی غار حرا میں نازل ہوئی تھی جب جبرائیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر آیا اور اس نے کہا-اقرا یعنی پڑھ- اس کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاما انا بقاری ۱۲~}~میں پڑھنا نہیں جانتا- مطلب یہ تھا کہ یہ بوجھ مجھ پر نہ ڈالا جائے- کیونکہ اس وقت آپﷺ~ کے سامنے کوئی کتاب تو نہیں رکھی گئی تھی جسے آپﷺ~ نے پڑھنا تھا- بلکہ جو کچھ جبرائیل بتاتا وہ آپ کو زبانی کہنا تھا- اور یہ آپﷺ~ کہہ سکتے تھے مگر آپﷺ~ نے انکسار کا اظہار کیا- لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کیلئے آپﷺ~ ہی کو چنا تھا- اس لئے بار بار کہا کہ پڑھو- آخر تیسری بار کہنے پر آپﷺ~ نے پڑھا اور جو کچھ پڑھا وہ یہ تھا-
اقرا باسم ربک- الذی خلق- خلق الانسان من علق اقرا وربک الاکرم- الذی علم بالقلم- علم الانسان مالم یعلم ۱۳~}~
کیا ہی مختصر سی عبارت اور کتنے تھوڑے الفاظ ہیں مگر ان میں وہ حقائق اور معارف بیان کئے گئے ہیں جو اور کتابوں میں ہر گز نہیں پائے جاتے- دوسری کتابوں کو دیکھو تو وید یوں شروع ہوتے ہیں- ’’اگنی میئرھے پروہتم-‘‘ آگ ہماری آقا ہے- بائیبل کو دیکھو تو اس میں زمین و آسمان کی پیدائش کا یوں ذکر ہے-
’’ابتداء میں خدا نے آسمان کو اور زمین کو پیدا کیا- اور زمین ویران اور سنسان تھی اور گہرائو کے اوپر اندھیرا تھا- اور خدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی‘‘- ۱۴~}~
انجیل کی ابتداء اس طرح ہے-:
’’ابتداء میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا- یہی ابتداء میں خدا کے ساتھ تھا‘‘- ۱۵~}~
لیکن قرآن کریم اس دلیل کے ساتھ اپنی بات شروع کرتا ہے کہ اقرا باسم ربک الذی خلق- اے محمد! ) صلی اللہ علیہ وسلم ( تم ان لوگوں کے معلم بن جائو اور پڑھو اس خدا کے نام کے ساتھ جس نے دنیا کو پیدا کیا-خلق الانسان من علق- اس نے انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا-اقرا و ربک الاکرم ہاں اے محمد! پڑھ کہ تیرے پڑھتے پڑھتے خدا کی عزت دنیا میں قائم ہو جائیگی-
قرآن کریم کی ایک عظیم الشان پیشگوئی
یہ پہلی پیشگوئی ہے جو قرآن کریم کیبینہ ہونے کے ثبوت میں پیش کی گئی ہے- فرمایا قرآن کیبینہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ یہ کتاب خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کی شان دنیا میں قائم کر دے گی-
حضرت مسیح علیہ السلام پر مخالفین نے اعتراض کیا تھا کہ اسے شیطان سکھاتا ہے اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کیا شیطان اپنے خلاف آپ سکھاتا ہے-
’’اگر شیطان شیطان کو نکالے تو وہ اپنا ہی مخالف ہوا- پھر اس کی بادشاہت کیونکر قائم رہے گی‘‘- ۱۶~}~
اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ کتاب جو خدا تعالیٰ کی گم شدہ عظمت قائم کرنے کیلئے آئے اسے شیطان کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا- اول تو کوئی کتاب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو یہ کہہ ہی کس طرح سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی عزت اور عظمت اس کے ذریعہ قائم ہو جائیگی- کئی لوگ کتابیں لکھتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی کتاب دنیا کا نقشہ بدل دے گی لیکن پھر اسی کتاب پر دوسروں سے ریویو کرانے کے لئے منتیں کرتے پھرتے ہیں- ایک دوست نے بتایا کہ ایک شخص نے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے وہ شکوہ کرتا پھرتا ہے کہ ’’الفضل‘‘ اس کی کتابوں کے خلاف کیوں نہیں لکھتا- ایک اور مدعی نبوت نے مجھے لکھا کہ میں آپ کے پاس اپنی کتاب بھیجتا ہوں خواہ آپ اس کے خلاف ہی لکھیں لیکن لکھیں ضرور- تو بیسیوں کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن کا کوئی نتیجہ نہیں پیدا ہوتا- پھر کیا یہ معمولی بات ہے کہ ایک ایسے علاقہ میں جہاں بت پرستی کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا- وہاں کہا گیا کہ اسے ایسی حالت میں پڑھ کہ تیرے رب کی عزت اس کے ذریعہ دنیا میں قائم ہوتی جائے گی- اس کلام کے ذریعہ تیرا رب اکرم کے طور پر ظاہر ہوگا-
اس وقت نہ صرف عرب میں بلکہ سارے جہان میں شرک پھیلا ہوا تھا اور حالت یہ تھی کہ آخری مذہب جو عیسائیت تھا- اس کے ماننے والے عیسائی خود لکھتے ہیں کہ اسلام اس لئے اتنی جلدی اور اس وسعت کے ساتھ پھیل گیا کہ عیسائیت میں شرک داخل ہو چکا تھا- ہندوئوں کی کتابوں کو دیکھو تو یہی معلوم ہوگا کہ اس وقت ہندوئوں میں بکثرت شرک پایا جاتا تھا- زرتشتی بھی مانتے ہیں کہ اس زمانہ میں ہر طرف شرک ہی شرک تھا- غرضیکہ تمام مذاہب والے فخر کے ساتھ کہتے تھے کہ اسلام کے پھیلنے کی یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہر مذہب میں شرک پھیل چکا تھا- ہم کہتے ہیں یہ درست ہے اور قرآن کریم نے ایسے ہی وقت میں یہ پیشگوئی کی تھی کہ شرک مٹ جائے گا اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم ہو جائیگی-
اس وقت جب کہ قرآن نے توحید پیش کی مکہ والوں کی جو حالت تھی اس کا ذکر قرآن کریم اس طرح کرتا ہے کہ انہوں نے کہا اجعل الالھہ الھا واحدا ان ھذا لشیی عجاب۱۷~}~ یہ عجیب بات ہے کہ اس نے سارے معبودوں کو کوٹ کاٹ کر ایک بنا دیا ہے ان لوگوں کو یہ خیال ہی نہیں آتا تھا کہ وہ الہ ہیں ہی نہیں- وہ سمجھتے تھے کہ سب معبودوں کو اس نے اکٹھا کر کے ایک بنا دیا ہے- سورۃص میں ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی- مگر معاً ان کی حالت بدلنے لگی- اور اس کے بعد ان میں اس قدر تغیر پیدا ہو گیا کہ انہوں نے اسلامی توحید کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیئے اور یہ کہنے لگے کہمانعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی ۱۸~}~یعنی یہ یونہی کہتا ہے کہ ہم مشرک ہیں ہم تو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے بتوں کو مانتے ہیں- گویا وہ معذرت کرتے ہیں کہ ہم کب کہتے ہیں کہ بت خدا ہیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ان کے ذریعہ خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے-
یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو ان میں پیدا ہوا اور کس طرح خدا تعالیٰ کا اکرم ہونا ظاہر ہو گیا- غرض فرماتا ہے-اقرا وربک الاکرم تو اس کتاب کو پڑھ کیونکہ اس کے پڑھنے کے ساتھ ہی توحید پھیلنے لگ جائے گی- لوگ خدا تعالیٰ کو ماننے لگ جائیں گے اور اس کا جلال دنیا میں قائم ہو جائے گا- چنانچہ ایسا ہی ہوا- مگر یہ تو اس وقت کا حال تھا جب قرآن کریم نازل ہوا- اب دیکھ لو کہ کس طرح شرک کے خیالات دنیا سے مٹ رہے ہیں- ہندوستان میں ۳۳ کروڑ بت پوجے جاتے تھے مگر ان ہندوئوں میں سے ہی آریہ اٹھے جو کہتے ہیں کہ ہم ہی اصل توحید کے ماننے والے ہیں- اسی طرح مسیحیوں کو دیکھو تو وہ کہتے ہیں اصل توحید ہم میں ہی ہے میں نے عیسائیوں کی ایسی کتابیں پڑھی ہیں جن میں وہ لکھتے ہیں کہ کہ اسلام نے ہم پر یہ غلط اعتراض کیا ہے کہ ہم شرک میں مبتلا ہیں حالانکہ اب بھی ان میں ایسے لوگ ہیں جو حضرت مریمؑ اور حضرت مسیحؑ کی پرستش کرتے ہیں-
غرض کتنا بڑا تغیر رونما ہو گیا کہ جہاں جہاں قرآن پڑھا گیا وہاں توحید قائم ہوتی چلی گئی- اور دنیا یہ اقرار کرنے لگ گئی کہ خدا ہی اکرم ہے- یہ کتنی عظیم الشان پیشگوئی ہے جو قرآن کریم کے متعلق کی گئی- پھر پہلے دن پہلی وحی میں اور پہلے وقت میں کی گئی-
‏sub] gat[ قلم کے ذریعہ ہر قسم کے علوم کا اظہار
ایک اور پیشگوئی اس وحی میں قرآن کے متعلق یہ کی کہ الذی علم بالقلم یعنی اس کتاب کے ذریعہ نہ صرف یہ ثابت ہوگا کہ تیرا رب سب سے بالا ہے اور باقی ساری ہستیاں اس کے تابع ہیں بلکہ ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوگا کہالذی علم بالقلم تیرے رب نے قلم کے ساتھ علم سکھایا ہے- یعنی آئندہ تحریر کا عام رواج ہو جائے گا- وہ مکہ جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت صرف سات آدمی پڑھے لکھے تھے- جہاں کے بڑے بڑے لوگ لکھنا پڑھنا ہتک سمجھتے تھے- شعراء اپنے شعر صرف زبانی یاد کراتے تھے- اور اگر انہیں کہا جائے کہ اشعار لکھوا دیئے جائیں تو اسے اپنی ہتک سمجھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے کہ لوگ ان کے اشعار زبانی یاد رکھتے ہیں- جب قرآن نازل ہوا تو ان میں ایک عظیم الشان تغیر آ گیا- یہاں تک کہ صحابہؓ میں کوئی ان پڑھ نہ ملتا تھا- سو میں سے سو ہی پڑھے لکھے تھے- تو فرمایاالذی علم بالقلم اس کتاب کے ذریعہ دوسرا عظیم الشان تغیر یہ ہوگا کہ لوگوں کی توجہ علوم کی طرف پھیر دی جائے گی چنانچہ آپﷺ~ کی بعثت کے معاً بعد لکھنے کا رواج ترقی پذیر ہوا- صحابہؓ نے لکھنا پڑھنا شروع کیا- مدینہ میں آپﷺ~ نے سب بچوں کو تعلیم دلوائی یہاں تک کہ عرب کا بچہ بچہ پڑھ لکھ گیا بلکہ اسلام کے ذریعہ سے یونانی کتب بھی محفوظ ہو گئیں- غرض قلم کا استعمال اس کثرت سے ہوا کہ اس کی مثال پہلے زمانہ میں نہیں ملتی-
یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ اس بات کا تعلق قرآن کریم کی فضیلت سے کیا ہے؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کو کامل اور افضل ثابت کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے مخاطب عالم ہوں جاہل نہ ہوں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کریم کے نازل ہونے کے بعد علم کا زمانہ آ جائے گا- لوگ مختلف علوم کے ماہر ہونگے- مگر باوجود اس کے یہ کتاب دنیا میں قائم رہے گی اور پڑھی جائے گی- اور کوئی اس پر غالب نہیں آ سکے گا- غرض اس پیشگوئی کے بعد کیا عرب اور کیا دوسرے ممالک ان میں علم کا اتنا رواج ہوا کہ اس کی مثال پہلے کسی زمانہ میں نہیں مل سکتی-
نئے نئے علوم کی ترویج
تیسری پیشگوئی یہ کی کہعلم الانسان مالم یعلم خدا کا نام لے کر اس کتاب کو پڑھ جو انسان کو وہ وہ باتیں سکھانے والا ہے جنہیں اس سے پہلے وہ ہر گز نہیں جانتا تھا- گو یہ عام بات ہے کہ جہاں تحریر کی کثرت ہوگی وہاں علوم کا رواج ہوگا- اور لوگ نئی نئی باتیں بیان کریں گے- مگر لغو تحریریں بھی ہو سکتی ہیں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- اب میں انسانوں کو وہ باتیں سکھائونگا جو خواہ دینی ہوں یا دنیوی دنیا اس سے پہلے نہیں جانتی تھی-
چنانچہ قرآن کریم نے ایسے علوم بتائے جو نہ تورات میں موجود ہیں نہ انجیل میں اور نہ کسی اور کتاب میں- پھر دوسرے علوم بھی اس کے ذریعہ سے کھلنے شروع ہوئے- عرب میں شعروں کے قواعد` علم معانی` بیان اور صرف ونحو وغیرہ کے اصول وقواعد کوئی نہ تھے- یہ علوم صرف مسلمانوں نے رائج کئے- عرب کے جاہل لوگوں کی ساری کائنات لوٹ مار تھی- مگر قرآن کریم نازل ہونے کے بعد جن علوم سے وہ ہزاروں سال سے ناآشنا چلے آرہے تھے ان سے وہ آشنا ہوئے اور وہ ساری دنیا کے علوم کے حامل بن گئے- یونانی علوم کی کتابوں کے انہوں نے ترجمعے کئے اور پھر ان کے ترجمعے یورپ میں گئے- سپین میں جب مسلمان پہنچے تو انہوں نے ان کتابوں کے ترجمے کئے اور پھر ان ترجموں سے یورپ نے فائدہ اٹھایا- غرض علم الانسان مالم یعلم کے بعد ایسا تغیر شروع ہوا کہ وہ باتیں جو دنیا کو پہلے معلوم نہ تھیں ساری دنیا میں پھیل گئیں- اور مسلمانوں نے ایسے علوم ایجاد کئے جو پہلے نہ تھے- مثلاً علم الاخلاق` علم النفس` سائنس کے متعلق علوم` علم قضا ان سب علوم کے متعلق نئے اصول تجویز کئے- اسی طرح مسلمانوں نے علمروایت نکالا` علم کلام ایجاد کیا` علم قضا اور حکومت کے قوانین مرتب کئے- پہلے رومن لاء جاری تھا مگر خود یوروپین مدبروں نے تسلیم کیا ہے کہ اسلامی لاء اس سے بہتر ہے- حفظان صحت` علمتصوف اور الجبرا کے علوم بھی مسلمانوں کے ذریعہ نکلے- غرض ایک طرف تو قرآن نے ایسی روحانی باتیں بیان کیں جو دنیا پہلے نہ جانتی تھی اور دوسری طرف ایسے دنیوی علوم ظاہر ہوئے جن کے مقابلہ میں پہلے علوم ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں ٹھہر سکتے- یہ تین پیشگوئیاں قرآن کریم کے الہی کتاب ہونے کے ثبوت کے لئے کافی ہیں-
قرآن کریم کی افضلیت کی ایک اور شہادت
مگر ان پیشگوئیوں کے علاوہ قرآن کریم اپنی افضلیت کے لئے ایک چوتھی شہادت بھی پیش کرتا ہے- فرماتا ہے لا یمسہ الا المطھرون ۱۹~}~ اس کتاب کے معارف اور حقائق صرف انہی لوگوں پر کھل سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے مقرب اور اس کی طرف سے پاک کئے گئے ہوں- دیکھو قرآن اسی زبان میں آیا جسے لوگ جانتے تھے- اس کے الفاظ وہی تھے جو لوگ استعمال کرتے تھے- اور عربی جاننے والے لوگ دنیا میں موجود ہیں مگر ان پر قرآن کے معارف نہیں کھلتے- معارف انہی پر کھلتے ہیں جو اس کے خدا کا کلام ہونے پر ایمان لاتے اور اپنے اندر پاکیزگی اور طہارت پیدا کرتے ہیں- کیا کوئی انسان اپنی تصنیف کردہ کتاب کے متعلق یہ شرط عائد کر سکتا ہے کہ میں نے جو کتاب تصنیف کی ہے اس کے مطالب وہی سمجھے گا جو خدا تعالیٰ کا مقرب ہو گا- کوئی انسان اپنی تصنیف کے متعلق اس قسم کی شرط نہیں پیش کر سکتا- پس جو کتاب معروف زبان میں ہو مگر اس کے مطالب کا انکشاف دماغی قابلیتوں اور علوم ظاہری کی بحائے تعلق باللہ کے ساتھ وابستہ ہو- اس کے متعلق ماننا پڑے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے ورنہ اس کے علوم کا ظہور خالی علم و فکر پر کیوں نہ ہوتا- یہ ایک عجیب بات ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ جس قدر الہامی کتب پائی جاتی ہیں ان کے مطالب ان زبانوں کے جاننے والوں پر ظاہر ہو جاتے ہیں- لیکن قرآنکریم کے متعلق یہ شرط ہے کہ خواہ ظاہری طور پر کوئی بڑا عالم نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق رکھتا ہو تو اس پر اس کے معارف کھل جائیں گے- چنانچہ جہاں تورات انجیل وید اور ژنداوستا کے علوم ظاہری عالموں کے ہاتھوں میں ہیں وہاں قرآن کریم کے علوم صرف روحانی علماء اور اولیاء کے ہاتھ سے ہی کھلتے چلے آئے ہیں- جیسے سید عبدالقادر صاحب جیلانی~رح`~ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی~رح`~ مولانا روم~رح`~ امام غزالی~رح`~ سید احمد صاحب سرہندی~رح`~ شہاب الدین صاحب سہروردی~رح`~ شاہولی اللہ صاحب~رح~ یہی لوگ قرآن کریم کے علوم کو سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے کے قابل ہوئے ہیں- بے شک ظاہری علوم رکھنے والے بعض علماء نے بھی قرآن کریم کی تفسیریں لکھی ہیں- لیکن انہوں نے بڑی بڑی ٹھوکریں بھی کھائی ہیں جو لوگوں کے لئے گمراہی کا موجب ہوئی ہیں لیکن صوفیاء جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے ان کا بڑی عمدگی سے رد کیا ہے-
روحانی علماء کے ذریعہ قرآن کریم کے مشکل مقامات کا حل
‏text1] gat[مثلاً قرآن کریم میں حضرت یونسؑ کے متعلق آتا ہے- وذالنون اذ ذھب مغاضبا فظن ان لن نقدر علیہ۲۰~}~ یعنی یونس کو بھی یاد کرو جب وہ غضب کی حالت میں چلا گیا اور اسے یہ یقین تھا کہ ہم اسے تنگی میں نہیں ڈالیں گے- اس آیت میں لن نقدر علیہ کے جو الفاظ آتے ہیں ان کے متعلق بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت یونسؑ نے یہ خیال کیا کہ خدا اسے گرفتار نہیں کر سکتا- مگر حضرت محی الدین ابن عربی~رح~ اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں کہ ]1nsk [tag لن نقدر علیہ کے معنی ہیں لن نضیق علیہ- ۲۱~}~ یعنی حضرت یونس علیہ السلام کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں تنگی میں نہیں ڈالے گا- بلکہ ہر مشکل اور مصیبت میں ان کا ساتھدیگا-
غرض عصمت انبیاء کے متعلق ظاہری علماء نے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں- لیکن صوفیاء اس سے محفوظ رہے ہیں بلکہ انہوں نے عصمت انبیاء ثابت کرنے کے لئے بڑی لطیف بحثیں کیہیں-
پیدائش عالم کے متعلق ابن عربی~رح~ کا ایک کشف
اسی طرح دنیا کی پیدائش کے متعلق حضرت محی الدین صاحب ابن عربی~رح~ لکھتے ہیں کہ مجھے کشفی طور پر معلوم ہوا کہ دنیا کئی لاکھ سال میں مکمل ہوئی ہے اور مکمل ہونے کے سترہ ہزار سال کے بعد انسان کی پیدائش ہوئی ہے- آج لوگ کہتے ہیں کہ علم جیالوجی سے یہ امر ثابت ہوا ہے- حالانکہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی~رح~ نے پہلے سے یہ بات اپنی کتاب میں لکھی ہوئی ہے- وہ اپنی کتاب فتوحات مکیہ جلد اول کے ساتویں باب میں انسان کے متعلق لکھتے ہیں کہ ھو اخر جنس موجود من العالم الکبیر واخر صنف من المولدات-۲۲~}~ یعنی انسان عالم کبیر کی آخری جنس اور مولدات ثلثہ )جمادات` نباتات اور حیوانات( میں سے آخری قسم ہے- اور مولدات ثلثہ کی پیدائش کا زمانہ وہ اکہتر ہزار سال بتاتے ہیں-
اسی طرح بعض صوفیاء نے قرآن کریم سے استدلال کر کے لکھا کہ زمین گول ہے- چنانچہ کولمبس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اسے امریکہ کی طرف جانے کا خیال محض اس وجہ سے پیدا ہوا کہ اس نے ہسپانیہ کے مسلمانوں سے سنا تھا کہ زمین گول ہے- غرض صوفیاء نے تو زمین کے متعلق لکھا کہ وہ گول ہے مگر ظاہری علوم رکھنے والے اسے نہ سمجھ سکے- اسی طرح اجرائے نبوت کے متعلق صوفیاء اور اولیاء نے تو لکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں نبی آسکتے ہیں- جیسے محیالدین صاحب ابن عربی~رح~ آنے والے مسیح کو امتی بھی اور نبی بھی قرار دیتے ہیں لیکن علماء نے اس کا انکار کیا-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چلینج
اب اسی زمانہ میں دیکھ لو کہ ظاہری علوم رکھنے والوں کی سمجھ میں قرآن کریم کی کوئی بات نہ آئی- انہوں نے معذرت کے نیچے پناہ لینی چاہی اور لکھ دیا کہ قرآن میں خطابیات ہیں یعنی قرآن نے کئی باتیں ایسی لکھی ہیں جنہیں دوسرے لوگ مانتے تھے- ان کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن خود بھی انہیں درست قرار دیتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے رد کیا اور اس طرح قرآن کریم کی صداقت ثابت کی- اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ اعلان کیا کہ کوئی ایسی بات بتائو جو روحانیت سے تعلق رکھتی ہو مگر قرآن میں نہ ہو- یا قرآن کریم کی بتائی ہوئی باتوں پر جو اعتراض پڑے وہ پیش کرو- آپ نے قرآن کریم سے ایسی ایسی معرفت کی باتیں نکالیں کہ انہیں پڑھنے والے سر دھنتے ہیں اور ان لوگوں کی غفلت اور نادانی پر افسوس کرتے ہیں جنہوں نے قرآن کریم کے نہ سمجھنے کی وجہ سے اسے محل اعتراض ٹھہرایا- اب آپ کی جماعت پر بھی خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ جیسے قرآن کریم کے معارف آپ کی جماعت کے لوگ بیان کر سکتے ہیں وہ باقی دنیا کے لوگوں سے پوشیدہ ہیں-
قرآن کریم دعویٰ کے ساتھ دلیل بھی پیش کرتا ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جن قرآنی علوم اور معارف کا انکشاف ہوا ان میں سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم جو دعویٰ کرتا ہے اس کی دلیل بھی خود ہی دیتا ہے وہ اپنی امداد کے لئے انسانوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا- ورنہ وہ کتاب کس کام کی جو دعویٰ ہی دعویٰ کرتی جائے اور کوئی دلیل نہ دے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ وہی کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو سکتی ہے جو دوسروں کی امداد کی محتاج نہ ہو- یہ نہ ہو کہ دعویٰ تو خود کرے اور دلیل دوسروں پر چھوڑ دے جو زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ دعویٰ تو ہر ایک کر سکتا ہے لیکن دلیل دینا اور اس دعویٰ کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے-
اخلاق کے متعلق قرآن کریم کی بے نظیر تعلیم
دوسری بات حضرت مسیح موعود علیہالصلٰوۃ والسلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم نے اخلاق کے متعلق جو تعلیم پیش کی ہے اس کی نظیر دنیا کا کوئی مذہب پیش نہیں کر سکتا- چنانچہ آپ نے قرآنی علوم کی روشنی میں اخلاق کے ایسے اصول بیان کئے کہ اس وقت کے ترقییافتہ علم النفس کے ماہرین بھی ان کے خلاف لب کشائی کی جرات نہیں کر سکتے- بلکہ اب تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کئی باتیں جن کی پہلے یہ لوگ مخالفت کیا کرتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمانے کے بعد ان کی تائید کرنے لگ گئے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اخلاق کی تعلیم قرآن کریم سے نکالی اور ان سوالات پر روشنی ڈالی کہ اعلیٰ اخلاق کس طرح پیدا ہوتے ہیں- ان کے حصول میں کون کون سی روکیں ہیں- ان کے پیدا کرنے کے کیا ذرائع ہیں- یہ سب باتیں قرآن کریم سے آپ نے پیش کیں اور دنیا پر اسلام کی فضلیت ثابت کی-
حقیقت نبوت کا اثبات
تیسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے قرآن کریم سے حقیقت نبوت ثابت کی- پہلی ساری کتابیں اس بارے میں خاموش ہیں- چنانچہ میں نے اس کے متعلق بڑے بڑے پادریوں کو چٹھیاں لکھیں کہ بائیبل کی رو سے نبوت کی کیا تعریف ہے؟ اس پر بعض کی طرف سے یہ جواب آیا کہ ہماری اس کے متعلق کوئی تحقیق نہیں- حالانکہ وہ مسئلہ جس پر مذہب کی بنیاد ہے اس کی حقیقت تو معلوم ہونی چاہئے- مگر بڑے بڑے پادریوں نے کہا ہمیں معلوم نہیں اور ایک نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ میں نبوت کی تعریف لکھتا ہوں مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ صحیح ہے یا غلط- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے حقیقت نبوت قرآن کریم سے ثابت کی اور بتایا کہ ان شرائط کے ماتحت جن پر وحی نازل ہو انہیں ہم نبی کہہ سکتے ہیں ورنہ نہیں- جن پادریوں نے نبوت کے متعلق کچھ لکھا انہوں نے یہی لکھا کہ نبی وہ ہوتا ہے جو پیشگوئیاں کرے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ بائیبل میں ایسے لوگوں کا بھی ذکر ہے جو پیشگوئیاں کرتے تھے- مگر نبی نہ تھے- وہ ان میں اور سچے نبیوں میں یہ فرق نہ بتا سکے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں اس فرق پر بھی روشنی ڈالی ہے-
قرآن کریم میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب
چوتھی بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب ہے اور اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا- حالانکہ اس سے خود مسلمان کہلانے والے بھی انکار کر رہے تھے- اور کہتے تھے کہ قرآن کی آیات ایک دوسری سے کوئی جوڑ نہیں رکھتیں-
قرآنی قﷺ میں آئندہ زمانہ کے لئے پیشگوئیاں
پانچویں بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم میں کوئی قصہ نہیں- یہ ایسا عظیم الشان امر ہے کہ پرانی تفسیروں کا اس نے تختہ الٹ دیا- وہاں بات بات پر قصہ شروع ہو جاتا ہے اور اس میں ایسی ایسی مضحکہ خیز باتیں بیان کی جاتی ہیں جنہیں عقل انسانی تسلیم ہی نہیں کر سکتی- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جس قدر واقعات کا قرآن کریم میں ذکر ہے وہ ساری پیشگوئیاں ہیں- کوئی قصہ نہیں- یہ آئندہ زمانہ میں رونما ہونے والے واقعات تھے جو پورے ہوئے-
قرب قیامت والی پیشگوئیوں کا صحیح مفہوم
چھٹے آپ نے قرآن کریم سے قرب قیامت والی پیشگوئیوں کا صحیح مفہوم واضح کیا اور جو لغو باتیں پھیلی ہوئی تھیں ان کو رد کیا-
تمام مذاہب باطلہ کا رد
ساتویں بات جو نہایت عظیم الشان ہے اور جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ پیش کی کہ جتنے مذاہب نئے یا پرانے ہیں ان سب کا رد قرآن کریم میں موجود ہے- یہ کتنی آسان بات ہے جس سے قرآنکریم کی فضیلت ظاہر ہو جاتی ہے- برہمو سماج والے کہہ سکتے تھے- بتائو ہمارے مذہب کا قرآن میں کہاں رد ہے- پراٹسٹنٹ فرقہ کے لوگ کہہ سکتے تھے بتائو قرآن ہمارے خلاف کیا دلیل دیتا ہے- غرض ہر مذہب والے اس قسم کا مطالبہ کر سکتے تھے مگر کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ چیلنج منظور نہ کیا- اب بھی یہ چیلنج موجود ہے- کوئی معقول آدمی اپنے مذہب کے متعلق مطالبہ کرے ہم اسی وقت قرآن کریم سے اس کے مذہب کا رد نکال کر دکھا دیں گے-
اپنی ذات میں کامل کتاب
آٹھویں بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کسی اور کتاب کا محتاج نہیں بلکہ اپنی ذات میں کامل ہے- اور تمام ضروری علوم اس میں موجود ہیں- یہ صرف جھوٹے مذاہب کا رد ہی نہیں کرتا بلکہ ہر ضروری چیز بھی پیش کرتا ہے- یہ دعویٰ بھی ایسا ہے جس کا لوگ تجربہ کر سکتے تھے کیونکہ بعض نئے اخلاق اور نئی قابلیتوں کا علم ہوا تھا- ان کے متعلق وہ پوچھ سکتے تھے کہ بتائو قرآن میں کہاں ہیں- مگر کوئی شخص مقابل میں نہ اٹھا-
اعلیٰ درجہ کی روحانی ترقیات عطا کرنے والی کتاب
نویں بات آپ نے یہ پیش کی کہ قرآن میں انسان کی اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی ترقیات کے گر موجود ہیں- اور اس کے لئے خدا تعالیٰ کے قرب کے دروازے کھولے گئے ہیں- اور ہر قسم کی تدابیر بتائی گئی ہیں جن سے وہ ترقیات حاصل کر سکتا ہے-
‏sub] ga[tبعث بعدالموت کی حقیقت
دسویں آپ نے بعث بعدالموت کی حقیقت ثابت کی- دوزخ کا کیا نقشہ ہوگا- کون لوگ اس میں جائیں گے- کیا کیا تکالیف ہونگی- اسی طرح یہ کہ جنت میں کون لوگ ہونگے- اس کی لذات کیسی ہونگی- جنت دائم ہو گی یا نہیں- غرض ساری باتیں بیان کر دیں اس وقت میں ان انکشافات کی مثالیں پیش نہیں کر سکتا- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں پڑھی جا سکتی ہیں- بالخصوص ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ اور میری کتاب ’’احمدیت‘‘ میں ان کا ذکر ہے-
مطہر کی تعریف
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ لا یمسہ الا المطھرون میں مطھر کا لفظ استعمال ہوا ہے نہ کہ طاھر کا لفظ- اس کی وجہ یہ کہ طاھر وہ شخص ہوتا ہے جو زہد و ورع سے ایک پاکیزگی حاصل کر لیتا ہے- اور مطھر وہ ہوتا ہے جو کسی اندرونی نسبت سے اللہ تعالیٰ کی طرف کھینچا جاتا ہے- اور مطھر کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے قول یا فعل سے ہی ہوتا ہے نہ کہ اس کے کسی عمل یا لوگوں کے کہنے سے- چنانچہ دیکھ لو- وہ لوگ جنہوں نے قرآنکریم کی صحیح تفاسیر لکھیں- وہ وہی لوگ تھے جو خدا تعالیٰ کے الہام اور اس کے قرب سے مشرف تھے اور خدا تعالیٰ کی نصرت ان کے شامل حال تھی-
‏a10.7
انوار العلوم جلد ۱۱
فضائل القرآن )۲(
ایک سوال کا جواب
یہاں ایک سوال ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ دلائل سے تو یہ ثابت ہو گیا کہ قرآن کریم دوسری انسانی کتابوں سے منبع کے لحاظ سے فضیلت رکھتا ہے مگر یہ کیونکر ثابت ہوا کہ دوسری الہامی کتابوں سے بھی افضل ہے- اس کا جواب یہ ہے کہ الہامی کتب سے بھی قرآن کریم افضل ہے اس لئے کہ گو وہ کتب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھیں لیکن بعض صفات کا ظہور ان کے زمانہ میں نہ ہوا تھا- مثلاً ایک زمانہ میں اگر خیانت زیادہ پھیلی ہوئی تھی تو اس زمانہ کے نبی پر اس بدی کو دور کرنے کی صفت ظاہر ہوئی- اگر لوگوں میں خشونت اور سختی زیادہ پائی جاتی تھی تو اس زمانہ کے نبی پر رحم اور محبت اور نرمی اور شفقت کی صفت کا ظہور ہوا- لیکن کوئی پہلی کتاب ایسی نہیں جو رب العلمین کی صفت کی مظہر ہو- کوئی کتاب دو صفات کی یا چار صفات کی یا پانچ صفات کی مظہر تھی مگر کوئی کتاب رب العلمین کی صفت کی مظہر نہ تھی- اسی طرح کوئی کتاب قرآن کریم کی طرح اکملیت کی مظہر نہ تھی- کوئی کتاب خدا تعالیٰ کی صفت قیوم کی مظہر نہ تھی کیونکہ قرآن کریم سے پہلی ہر ایک کتاب منسوخ ہونے والی تھی لیکن قرآن کریم چونکہ ہمیشہ رہنے والی کتاب تھی اس لئے یہ تینوں صفات قرآن کریم میں ظاہر ہوئیں- جو صفات پہلی کتب میں ظاہر ہو چکی ہیں وہ بھی سب کی سب تمام کتب میں ظاہر نہ ہوئی تھیں بلکہ بعض ایک میں اور بعض دوسری میں بیان کی گئی تھیں- لیکن قرآن کریم میں وہ بھی سب جمع ہیں- پس قرآن کریم منبع کے لحاظ سے بھی افضل ہے-
اس مضمون کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے- الحمد للہ فاطر السموت والارض جاعل الملئکہ رسلا اولی اجنحہ مثنی وثلث وربع- یزید فی الخلق مایشاء- ان اللہ علی کلی شئی قدیر-۲۳~}~ یعنی آسمان اور زمین کے کمالات ظاہر کرنے والے خدا کا شکر اور اس کی حمد ہے- وہ اپنے ملائکہ کو اظہار کمالات کے لئے نازل کرتا رہتا ہے اور ان کے کئی پر ہوتے ہیں- یعنی وہ کئی رنگ کی پناہیں اپنے ساتھ لاتے ہیں- جناح عربیزبان میں پناہ اور حمایت کو بھی کہتے ہیں- اور فرشتے جو نازل کئے جاتے ہیں وہ دو دو تین تین چار چار پروں والے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے اپنی پیدائش میں اضافہ کر دیتا ہے- یعنی جیسا موقع ہوتا ہے اتنے ہی پر زیادہ کر دیتا ہے-
یہاں بتایا کہ سب تعریفیں اللہ کی ہیں جو زمین اور آسمانوں کو پیدا کرنے والا ہے- اس میں یہ اشارہ ہے کہ قرآن کریم کے نزول میں آسمان و زمین کے کمالات کے ظہور کے سامان رکھے گئے ہیں اور اسی کے لحاظ سے ملائکہ نازل ہوتے ہیں- پس قرآن کریم کا نزول ان تمام صفات پر مشتمل ہے جن سے یہ دنیا وابستہ ہے اورفاطر السموت والارض کی صفت کا ظہور اس کے ذریعہ سے ہوا ہے- حقیقت یہ ہے کہ جب تک ایک مرکز پر ساری دنیا جمع نہ ہو خدا تعالیٰ کی ہر لحاظ سے تعریف نہیں کی جا سکتی- الحمد للہ تبھی کہا جا سکتا ہے جب ساری دنیا کے لحاظ سے رب العالمین کی صفت کا اظہار ہو- اسی لئے فرمایا کہ اب جو تعلیم آئی ہے یہ
یذید فی الخلق مایشاء کے مطابق آئی ہے- پہلے صرف دو دو تین تین چار چار کمالات ظاہر کرنے کے لئے آئی تھی پس قرآنکریم کے نزول میں زمین و آسمان کے کمالات کے ظہور کے سامان رکھے گئے ہیں-
صفات الہیہ اور ان کی مظہریت
یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کتاب میں کسی صفت کا ذکر ہونا یہ اور امر اور ہے اس صفت کا مظہر ہونا اور امر ہے- یوں تو رب العلمین کی صفت اور کتب میں بھی ہے مگر وہ اس صفت کا مظہر ہونے کی مدعی نہیں ہیں- قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ واضح الفاظ میں فرماتا ہے وانہ لتنزیل رب العلمین۲۴~}~ یہ کتاب رب العلمین کی صفت کے ماتحت نازل ہوئی ہے- چونکہ یہ سارے جہان کو مخاطب کرتی ہے اس لئے ساری کی ساری صفات اس میں ظاہر کی گئی ہیں- پس قرآن کریم خدا تعالیٰ کی تمام صفات کا مظہر ہے-
ظاہری حسن میں برتری
ایک اور وجہ فضیلت )جسے میں نے بارھویں نمبر پر بیان کیا تھا( کسی چیز کا ظاہری حسن میں دوسری اشیاء پر فائق ہونا ہوتا ہے- کیونکہ ایک ہی قسم کی چیزوں میں سے انسان طبعی طور پر ظاہری حسن میں فائق چیز کو منتخب کرتا ہے- بلکہ سب سے پہلے یہی چیز انسان کی دلکشی کا موجب بنتی ہے- میں نے جب اس لحاظ سے دیکھا تو قرآنکریم کو ظاہری طور پر بھی خوبصورت پایا- بلکہ ایسا خوبصورت پایا کہ گو یورپ نے اس خوبصورتی کو مٹانے کے لئے اپنا سارا زور صرف کر دیا مگر پھر بھی وہ ناکام رہا- اس خوبصورتی کو مٹانے کے لئے یورپ نے چار طریق اختیار کئے ہیں-
عیسائیوں کے چار اعتراضات
اول- یہ کہا گیا کہ قرآن کریم کا سٹائل )نعوذ باللہ( نہایت بھدا ہے-
دوم- یہ کہا گیا کہ اس میں بہت سے غیر عربی الفاظ داخل ہیں-
سوئم- یہ کہ اس میں فضول تکرار ہے یونہی ایک بات کو دہراتا چلا جاتا ہے-
چہارم- یہ کہ اس کے مضامین میں کوئی ترتیب نہیں- کہیں احکام شروع ہیں تو ساتھ ہی وعظ کیا جاتا ہے- پھر لڑائیوں کا ذکر آ جاتا ہے تو ساتھ ہی منافقوں کو ڈانٹا جاتا ہے-
لیکن یہ اعتراض جیسا کہ میں ابھی بتائوں گا درست نہیں بلکہ قرآن کریم کا ظاہری حسن بھی اسے کل دنیا کی کتب پر افضل قرار دیتا ہے اور یہ فضیلت دس خوبیوں سے ثابت ہے-
قرآنی زبان کی فصاحت
اول زبان کی فصاحت- قرآن کی یہ خوبی اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ دشمن سے دشمن نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے اور عربوں نے تو اس کے آ گے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور بڑے بڑے ادیب اس کے کمال کے آگے عاجز آ گئے ہیں- میں اس کے متعلق دوستوں کو ایک واقعہ سناتا ہوں-
لبید عرب کا ایک مشہور شاعر تھا جو سات بڑے مشہور شاعروں میں سے ایک تھا- پہلے وہ اسلام کا مخالف تھا مگر بعد میں ایمان لے آیا- اسلام لانے کے بعد وہ ہر وقت قرآن کریم پڑھتا رہتا- اور اس نے شعر کہنے ترک کر دیئے- حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ اپنے زمانہ خلافت میں کوفہ کے گورنر مغیرہ بن شعبہ کو چٹھی لکھی کہ اپنے علاقہ کے مشہور شاعروں سے اچھے اچھے اشعار لکھوا کر مجھے بھیجو- مغیرہ نے اس کام کے لئے دو شاعر اغلب اور لبید پسند کئے اور انہیں کہا گیا خلیفہ وقت کا حکم آیا ہے کہ کچھ شعر لکھ کر بھیجو- اس پر اغلب نے تو قصیدہ لکھا لیکن لبید نے کہا- جب سے میں اسلام لایا ہوں میں نے شعر کہنے چھوڑ دیئے ہیں- جب انہیں مجبور کیا گیا تو وہ سورۃ بقرہ کی چند آتیں لکھ کر لے آئے اور کہا کہ ان کے سوا مجھے کچھ نہیں آتا- مغیرہ نے لبید کو سزا دی اور اغلب کی حضرت عمرؓ کے پاس سفارش کی- لیکن حضرت عمرؓ کو لبید کی بات کی اتنی لذت آئی کہ انہوں نے کہا لبید نے جو کچھ کہا ہے اس سے اس کے ایمان کا ثبوت ملتا ہے کہ اتنا قادر الکلام ہونے کے باوجود شرماتا ہے کہ قرآن کے سوا کچھ اور اپنی زبان سے نکالے-][ مسیحیوں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ کیا لبید نے پہلے کبھی قرآن نہ سنا تھا جبکہ وہ اسلام کا مخالف تھا- وہ دراصل لالچ کے لئے اس طرح کہتا تھا- لیکن اس دلیل سے عیسائیت پر بھی اعتراض وارد ہوتا ہے کیونکہ بعض دفعہ ایک انسان کئی بار انجیل پڑھتا اور عیسائیوں کے وعظ سنتا ہے مگر عیسائیت کو نہیں مانتا- لیکن پھر ایک وقت مان لیتا ہے تو کیا وہ لالچ سے ایمان لاتا ہے؟ یہ ایک طبعی بات ہے کہ انسان بعض اوقات ایک بات کا انکار کر دیتا ہے لیکن جب اس پر صداقت کھلتی ہے تو اسے مان لیتا ہے- ایسا ہر مذہب میں ہوتا ہے- کئی لوگ ہندو ہو جاتے ہیں- اب کیا انہیں کہا جاتا ہے کہ اتنے سال تو تم ہندو مذہب کا ذکر سنتے رہے اور ہندو نہ ہوئے؟ اب جو ہندو ہوئے ہو تو کسی لالچ کی وجہ سے ہوئے ہو؟ دراصل یہ بہت بودی دلیل ہے اور سوائے اس کے جو خود لالچی ہو اور کوئی پیش نہیں کر سکتا-
یوں تو دنیا میں بڑی اچھی اچھی کتابیں لکھی جاتی ہیں اور ان کی قبولیت بھی ہوتی ہے- مگر دیکھنا یہ چاہئے کہ کیا کوئی ایسی کتاب لکھی گئی ہے جس کے لکھنے والے نے پہلے ہی یہ اعلان کر دیا ہو کہ یہ سب سے افضل اور اعلیٰ ہو گی اور اس کی قبولیت لوگوں میں پھیل جائیگی- یورپین لوگ کہتے ہیں شیکسپئیر جیسا کلام کوئی نہیں لکھ سکتا- گو خدا کی قدرت ہے جب سے قرآن پر یورپین اعتراض کرنے لگے ہیں ایسی سوسائٹیاں بھی بن گئی ہیں جو شیکسپئیر کی تحریروں پر اعتراض کرتی ہیں- لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ وہ اچھا لکھنے والا تھا تو دیکھنا یہ چاہئے کہ کیا لکھتے وقت اس نے کہا تھا کہ اس کا کلام تمام کلاموں سے افضل رہے گا- اس نے یقیناً ایسا نہیں کہا- مگر قرآن نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس کتاب کا مقابلہ کرنے سے دنیا عاجز رہے گی- میں نے بینٹ کی ایک کتاب پڑھی ہے- جس میں اس نے لکھا ہے کہ جب میں نے یہ کتاب لکھی تو سمجھا کہ بہت مقبول ہو گی مگر چھاپنے والوں نے اس کی اشاعت میں لیت ولعل کیا اور پبلک نے بھی قدر نہ کی- پس کوئی لکھنے والا نہیں جانتا کہ اس کی کتاب مقبول ہو گی یا نہیں- مگر قرآن نے پہلے سے کہہ دیا تھا کہ یہ کتاب تمام کتب سے افضل ہے اور ہمیشہ افضل رہے گی-
پھر عرب وہ ملک تھا جس کا تمام کمال زبان دانی پر تھا- اس ملک میں قرآن آیا اور ان لوگوں کی زبان میں آیا- اور پھر اس نے ایسا تغیر پیدا کر دیا کہ عربوں کا طرز کلام ہی بدل ڈالا- اور انہوں نے قرآن کی طرز اختیار کر لی- ان کی طرز تحریر بدل گئی- پرانا سٹائل جاتا رہا اور قرآن کریم کے سٹائل پر ہی سب چلنے لگے-
بعض لوگ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو ماننے والوں نے ایسا کرنا ہی تھا- میں کہتا ہوں بائیبل` انجیل اور ویدوں کے ماننے والوں نے کیوں ایسا نہ کیا- وہ بھی تو ان کتابوں کو خدا کی طرف سے مانتے تھے-
قرآن کریم میں غیر زبانوں کے الفاظ
یہ اعتراض کہ قرآن میں غیر زبانوں کے الفاظ آ گئے ہیں یہ بھی درست نہیں- کوئی زبان خواہ وہ نئی ہو یا پرانی غیر زبانوں کے الفاظ سے پاک نہیں ہو سکتی- اعتراض تب ہوتا جب عربی زبان میں وہ الفاظ جاری نہ ہوتے اور عرب کہتے کہ ہم ان الفاظ کو سمجھ نہیں سکتے- جب عرب قرآن کے الفاظ کو سمجھ جاتے تھے اور مکہ والے سمجھ لیتے تھے عرب میں وہ الفاظ جاری تھے اور وہ الفاظ عربی زبان کا ایک حصہ ہو چکے تھے تو خواہ وہ غیر زبان کے ہی ہوں کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا- بلکہ میں تو کہتا ہوں اگر قرآن نے ہی وہ الفاظ عربی میں داخل کئے ہوں تب بھی یہ قرآن کی بہت بڑی طاقت کی علامت ہے کہ وہ الفاظ عربوں میں رائج ہو گئے- کیونکہ جو قادر الکلام نہ ہو اس کی بات چل نہیں سکتی- اسی لئے کہتے ہیں کہ اگر کوئی قادر الکلام اپنے کلام میں غلطی بھی کرے تو اسے ایجاد کہیں گے غلطی نہیں کہیں گے- کیونکہ وہ زبان پر عبور رکھتا ہے- پس اگر قرآن میں نئے الفاظ آئے اور وہ عربی زبان کا جزو بن گئے تو یہ قرآن کا اور زیادہ معجزہ ہے- مگر یہ درست نہیں کہ غیر زبانوں کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں- دراصل یہ دھوکا اس وجہ سے لگا ہے کہ عربی اور عبرانی زبان کے بعض الفاظ آپس میں ملتے جلتے ہیں- بلکہ بعض محاورات بھی آپس میں مل گئے ہیں- اس سے یہ غلط طور پر سمجھ لیا گیا کہ قرآن میں غیر زبانوں کے الفاظ آ گئے ہیں- مثلاً فرقان ایک لفظ ہے- اس کے تمام مشتقات عربی میں موجود ہیں- اس کے متعلق یہ کہنا کہ قرآن نے یہ لفظ باہر سے لیا ہے غلط ہے- اسی طرح رحمن کے متعلق اعتراض کرتے ہیں حالانکہ یہ بھی عربی لفظ ہے-
لفظ رحمن کی حقیقت
اصل بات یہ ہے کہ محققین یورپ کو یہ دھوکا قرآن کریم کی اس آیت سے لگا ہے کہ واذ قیل لھم اسجدوا اللرحمن قالوا وما الرحمن- ۲۵~}~ یعنی جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدائے رحمن کے سامنے سجدہ میں گر جائو تو وہ کہتے ہیں ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہوتا ہے- معترضین کہتے ہیں- یہ آیت اس بات کی سند ہے کہ غیر زبان کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں- کیونکہ عرب کے لوگ کہتے ہیں ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہوتا ہے- اگر یہ غیر زبان کا لفظ نہ ہوتا تو وہ کیوں ایسا کہتے حالانکہ معترضین اس آیت کے معنے ہی نہیں سمجھے- کفار کا اعتراض لفظ رحمن پر نہیں تھا بلکہ اس اصطلاح پر تھا جو قرآن نے رحمن کے لفظ کے ذریعہ پیش کی تھی- قرآن نے یہ نئی اصطلاح پیش کی تھی جو عربوں میں رائج نہ تھی- جیسے صلوہ عربی لفظ ہے مگر اصطلاحی صلٰوۃ قرآن نے پیش کی ہے- اس کے متعلق بھی کفار کہہ سکتے تھے کہ ہم نہیں جانتے صلٰوۃ کیا ہوتی ہے-
پس ان لوگوں کا اعتراض در حقیقت اسلامی اصطلاح پر تھا- اور انہوں نے یہ کہا کہ اس کا جو مطلب قرآن پیش کرتا ہے وہ ہم نہیں جانتے اور اصطلاح جدید علم جدید کے لئے ضروری ہوتی ہے- یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک طرف تو قرآن میں آتا ہے کہ وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ ۲۶~}~ یعنی ہم نے ہر ایک رسول کو اسکی قوم کی زبان میں ہی وحی دیکر بھیجا ہے- اور دوسری طرف سورۃ ہود میں آتا ہے- مخالفین نے حضرت شعیبؑ سے کہا- یشعیب مانفقہ کثیرا مما تقول۲۷~}~ اے شعیب! ہماری سمجھ میں تیری اکثر باتیں نہیں آتیں- اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت شعیب علیہ السلام کسی ایسی زبان میں باتیں کرتے تھے جسے وہ لوگ سمجھ نہ سکتے تھے بلکہ یہ ہے کہ جو دینی باتیں وہ بیان کرتے تھے اور جو جو مسائل وہ پیش کرتے تھے انہیں وہ لوگ نہیں سمجھتے تھے-
اہل عرب میں رحمن کا استعمال
وہ الفاظ جو قرآن نے استعمال کئے ہیں وہ ان لوگوں میں پہلے سے موجود تھے- چنانچہ رحمن کا لفظ بھی ان میں استعمال ہوتا تھا- قرآن کریم میں آتا ہے- وقالوا لوشاء الرحمن ما عبدنھم ۲۸~}~ یعنی وہ کہتے ہیں کہ اگر رحمنکا یہی منشاء ہوتا کہ ہم شرک نہ کریں تو ہم شرک نہ کرتے- غرض رحمن کا لفظ وہ بولا کرتے تھے مگر قرآن کریم نے رحمن اس ہستی کو قرار دیا ہے جو بغیر محنت کے انعام دیتی ہے- اور یہ بات وہ لوگ نہیں مانتے تھے کیونکہ اس کے ماننے سے ان کا شرک باطل ہو جاتا تھا- غرض وما الرحمن کے یہ معنی نہیں کہ عرب کے لوگ رحمن کا لفظ نہیں جانتے تھے بلکہ یہ ہیں کہ وہ اس اصطلاح کے قائل نہ تھے جو قرآن نے پیش کی- بہر حال قرآنکریم کی فصاحت اس کے حسن کا ایک روشن ثبوت ہے- اور پھر قرآن کریم کی یہ فصاحت ایسی بڑھی ہوئی ہے کہ آج تک علم ادب پر اس کا اثر ہے اور زبان عربی کی ترقی کو اس نے ایک خاص لائن پر چلا دیا ہے- حتیٰ کہ عرب مسیحی مصنف بھی قرآن کی تعریف کرتے تھے اور ان کے مدارس میں قرآن کریم کے ٹکڑے بطور ادب کے رکھے جاتے تھے- ایک جاہل ملک میں ایک کتاب کا لوگوں کو والہ وشیدا بنا دینا اور انہیں جاہل سے عالم کر دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے-
قرآن کی اعلیٰ درجہ کی ترتیب 0] f[rt
قرآن کریم کی دوسری ظاہری خوبی اس کی اعلیٰ درجہ کی ترتیب ہے- ترتیب کا اعلیٰ ہونا بذات خود روحانیت سے تعلق نہیں رکھتا کیونکہ مجرد ترتیب انسانی کلام میں بھی پائی جاتی ہے- لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ترتیب ایک ظاہری خوبی ہے جو کسی کلام کو خوبصورت بنا دیتی ہے- اور اس خوبی کے لحاظ سے بھی قرآن کریم تمام دوسری کتب سے افضل ہے- بظاہر وہ ایک بے ترتیب کلام نظر آتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک اعلیٰ درجہ کی ترتیب موجود ہے بلکہ جہاں سب سے بڑھ کر بے ترتیبی نظر آتی ہے وہاں سب سے زیادہ ترتیب ہوتی ہے- اور یہی اس کی بہت بڑی خوبی ہے- دنیا میں کوئی انسان ایسی کتاب نہیں لکھ سکتا جو بظاہر تو بے ترتیب ہو مگر غور کرنے سے اس میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہو- پس اس حسن میں بھی قرآن کریم نہ صرف دوسری کتب کے مشابہ ہے بلکہ ان سے افضل ہے- اس وجہ سے کہ معروف ترتیب کی اتباع کرنا ایک عام بات ہے- ہر عقلمند ایسا کر سکتا ہے لیکن قرآن کریم کی ترتیب میں بعض ایسی خصوصیات ہیں جو دوسری کتب میں نہیں اور وہ خصوصیات یہ ہیں-
ترتیب قرآن کی چند خصوصیات
اول- اس کی ترتیب بظاہر مخفی ہے مگر غور اور تامل سے ایک نہایت لطیف ترتیب معلوم ہوتی ہے اور کسی انسانی کتاب میں اس قسم کی ترتیب کی مثال نہیں ملتی کہ بظاہر ترتیب نہ ہو لیکن غور کرنے پر ایک مسلسل ترتیب نظر آئے جو نہایت لطیف اور فلسفیانہ ہو-
اس وقت میں قرآن کریم کی ترتیب کے متعلق مثالیں دینے سے معذور ہوں- کیونکہ جس مقام کی بھی میں ترتیب بیان کروں گا کہا جا سکتا ہے کہ یہ مقام خاص طور پر چن لیا گیا ہے- میں نے بعض دوستوں سے کہا تھا کہ وہ کوئی مثال ایسی چن دیں جس کی ترتیب عام لوگوں کو معلوم نہ ہو اور جو بے جوڑ فقرے نظر آتے ہوں مگر افسوس ہے کہ ان کا مطالعہ وسیع نہ تھا اس لئے وہ کوئی مثال پیش نہ کر سکے اور میں خود سردرد کی وجہ سے ایسا مقام نہ نکال سکا ورنہ بتاتا کہ قرآن کریم میں کیسی اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہے-
دوم- قرآن کریم بغیر اس کے کہ ترتیب کی طرف اشارہ کرے علم النفس کے ماتحت اپنے مطالب کو بیان کرتا ہے اور جو سوال یا جو ضرورت کسی موقع پر پیش آتی ہے اس کا اگلی عبارتوں میں جواب دیتا ہے- گویا اس کی ہر اگلی آیت میں پچھلی آیات کے مطابق جو سوال پیدا ہوتے ہیں ان کا جواب دیا جاتا ہے- اور یہ باریک ترتیب اور کسی کتاب میں نہیں ہے- بائیبل کے متعلق لوتھر لکھتا ہے-:
‏ deeds and miracles of account their in order keep not do Gospels "The about dispute is there When ۔moment small of is This ۔jesus of۔drop matter the let possible is comparison no and Writ Holy۲۹~}~
‏says, man" of "son book his in Ludwidg ofEmile out arise snoitccontradi all "Almost "۔reports the of nature disorderly the ۳۰~}~
‏other an one contradict Knowledge, of sources main four Gosples,the scantyThe the by contradicted points some upon are and respects many in۳۱"~}~۔authoriteis non-Christians
‏serial in confusion is there Moreover ۳۲which~}~ confusion a arrangement, ۔centuries out through- deplored been has
یعنی بائیبل میں ترتیب واقعات کا لحاظ نہیں رکھا گیا- پس اس کے بیانات کے بارہ میں جب کوئی جھگڑا پیدا ہو اور سلجھائو کی کوئی صورت دکھائی نہ دے تو اسے چھوڑ دینا چاہئے-
ایمل لڈوگ Ludwidg) (Emilنے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ بیان کرتا ہے کہ موجودہ انجیل ہمیں بالکل بے ترتیب نظر آتی ہے- وہ اپنی کتاب ’’ابن آدم‘‘ میں اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ انجیل میں ہمیں جو بھی تضاد نظر آتا ہے وہ واقعات کے بے ترتیبی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے- اناجیل جو ہمارے علم کے چار بڑے چشمے ہیں کئی امور میں ایک دوسرے کے مخالف بیانات کی حامل ہیں اور غیر عیسائی محققین نے بھی انہیں متضاد قرار دیا ہے` اس کے علاوہ ان کی ترتیب میں اس قدر الجھنیں ہیں کہ صدیوں سے خود مسیحی اس پر افسوس کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں-
اسی طرح ویدوں کو پڑھا جائے تو وہاں بھی ترتیب کا کچھ پتہ نہیں لگتا اور یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ ایک واقعہ کا دوسرے واقعہ سے کیا جوڑ ہے-
مختصر آیات میں حقائق و معارف کی کثرت
تیسری خوبی جو قرآن کریم کے ظاہری حسن کو نمایاں کرتی ہے وہ اس کے مضامین کا باوجود اختصار کے مفصل ہونا ہے- چنانچہ ایک ایک آیت کئی کئی مطالب بیان کرتی چلی جاتی ہے- اور پھر اس میں علم کلام` علم تاریخ` علم اوامر اور علم نواہی سب ایک ہی وقت میں کام کر رہے ہوتے ہیں اور آئندہ کے لئے پیشگوئیاں بھی ہوتی ہیں- اس خوبی کی وجہ سے ایک طرف تو قرآن کریم نہایت مختصر ہے اور دوسری طرف جو اس میں عظیم الشان مطالب بیان ہیں وہ بائیبل اور دوسری الہامی کتب میں مل ہی نہیں سکتے- اس کی ایک مثال میں نے ابھی دی ہے کہ ایک چھوٹی سی آیت میں تین عظیم الشان پیشگوئیاں بیان کی گئی ہیں لیکن اس کے علاوہ قرآن کریم کا کوئی مقام لے لو یہ بات واضح ہو جائے گی- میں اس کے مزید ثبوت کیلئے پھر پہلی آیت کو ہی لے لیتا ہوں-
اقرا باسم ربک الذی خلق کی لطیف تفسیر
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-اقرا باسم ربک الذی خلق- خلق الانسان من علق- اقرا و ربک الاکرم- الذی علم بالقلم- علم الانسان مالم یعلم- ان چند آیات میں پہلے تاریخ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ فرمایااقرا باسم ربک الذی خلق- پڑھ اس کلام کو- مگر جب پڑھنے لگو تو یہ کہہ لینا کہ میں اللہ کا نام لے کر اسے پڑھتا ہوں- اس میں استثنا باب ۱۸ کی آیت ۱۸`۱۹ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ہے جو یہ ہے کہ
’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا- اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرمائوں گا- وہ سب ان سے کہے گا- اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لونگا‘‘- ۳۳~}~
پسباسم ربک میں موسیٰؑ کی اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ کے مثیل ہونے موسیٰؑ کا دعویٰ پیش کیا گیا ہے اور نبوت کے تسلسل کا ذکر کیا گیا ہے- پھر اقرا میں تبلیغ کے واجب ہونے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے- کئی کلام ایسے ہوتے ہیں جو خود پڑھنے والے کے لئے ہوتے ہیں` دوسروں کو سنانے کیلئے نہیں ہوتے- مگر اس کلام کے متعلق فرمایا یہ ساری دنیا کے لئے ہے` جا اور اسے سنا- اس میں تبلیغ اسلام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے-
تیسری بات ربک الذی خلق ]text [tagمیں یہ بتائی کہ اس کلام کے پیش کرنے میں تمہیں بہت سی مشکلات پیش آئیں گی مگر تو اس رب کا نام لے کر پڑھ جس نے انسان کو پیدا کیا ہے- اس میں یہ اشارہ کیا کہ یہ کلام صرف بنی اسرائیل کیلئے یا اہل ہنود کیلئے نہیں یہ الانسان کیلئے ہے اور جب ایک قوم کو مخاطب کرنے والوں کو دکھ اور تکالیف اٹھانی پڑیں تو تم جو ساری دنیا کو مخاطب کر رہے ہو تمہیں کس قدر مشکلات پیش آئیں گی- مگر کسی بات سے ڈرنا نہیں یہ کلام تیرے رب کی طرف سے آیا ہے اور باوجود اس کے کہ ساری دنیا اس کی مخاطب ہے اور اس وجہ سے ساری دنیا تیری مخالف ہوگی تیرا رب تیرے ساتھ ہوگا- مگر یہ بھی یاد رکھنا کہ تیری آہستہ آہستہ ترقی ہوگی کیونکہ رب آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ ترقی دینے والے کو کہتے ہیں-
چوتھی بات یہ بیان کی کہ خلق الانسان من علق- اس میں ایک تو اس طرف توجہ دلائی کہ اے انسان! دیکھ تیری پیدائش کتنی ادنیٰ ہے پھر تو خیال بھی کس طرح کر سکتا ہے کہ اپنی کامیابی کے ذرائع خود معلوم کر لے گا- دوسرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرف توجہ دلا دی کہ انسان کو علق سے پیدا کیا گیا ہے یعنی اس میں قدرتی طور پر تعلق باللہ کا مادہ رکھا گیا ہے- اور یہ بات تمہاری معاون ہوگی- پس تمہیں گھبرانا نہیں چاہئے اور مایوسی کو کبھی اپنے قریب بھی نہیں آنے دینا چاہئے-
غرض ایک چھوٹی سی آیت میں تاریخ` علم کلام` تبلیغ` انسان کی پیدائش اور انسان کی مخفی طاقتوں کا ذکر کر دیا- اور ابھی یہ باتیں ختم نہیں ہوئیں اور بھی کئی علوم کا اس میں ذکر ہے-
قرآن کریم کی مقفی عبارت
چہارم قرآن کریم کی عبارت مقفی ہوتی ہے- قافیہ بندی کے ساتھ اگر مضمون خراب ہو جائے تو وہ مقفی عبارت بری معلوم ہوتی ہے- لیکن قرآن کریم کی عبارت باوجود مقفی ہونے کے ایسی ہے جس سے صرف مضمون کی عظمت ہی قائم نہیں ہوتی بلکہ نئے نئے معارف بھی ظاہر ہوتے ہیں- اس کی مثال کے طور پر سورۃ جمعہ کو لے لیتا ہوں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-
یسبح للہ ما فی السموت وما فی الارض الملک القدوس العزیز الحکیم- ھوالذی بعث فی الامین رسولا منھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمہ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین- واخرین منھم لما یلحقوابھم وھو العزیز الحکیم- ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم-۳۴~}~
دیکھو کس طرح ان آیات میں توازن کو قائم رکھا گیا ہے- یہ ہے تو نثر مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اشعار ہیں- مگر باوجود اس کے کوئی لفظ زائد نہیں- شاعر تو مضمون کے لحاظ سے الفاظ کو آگے پیچھے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں مگر یہاں ایسا نہیں کیا گیا-
یہ آیتیں اس زمانہ کے متعلق ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ شعر ہیں- وزن قائم رکھنے کے لئے ان میں توازن کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور مقفی عبارت ہے مگر ترتیب خراب نہیں ہوئی- نہ کوئی زائد چیز آئی ہے` ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر ہے-
سورۃ جمعہ کی ابتدائی آیات کی تفسیر
خدا تعالیٰ فرماتا ہے یسبح للہ ما فی السموت وما فی الارض ہر ایک چیز خواہ وہ آسمانوں میں ہے خواہ زمین میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے- یعنی ہر چیز ثابت کرتی ہے کہ خدا بے عیب ہے- الملک القدوس العزیز الحکیم- وہ ملک ہے` قدوس ہے` عزیز ہے` حکیم ہے- یہاں قافیہ کے لحاظ سے حکیم پیچھے آیا ہے- اگر ملک پیچھے آتا تو وزن قائم نہ رہتا- آگے اسی ترتیب سے مضمون چلتا ہے- پہلی صفت خدا تعالیٰ کی یہ بیان کی تھی کہ وہ الملک یعنی بادشاہ ہے- اور بادشاہ کا یہ کام ہوتا ہے کہ رعایا کی بہتری اور بہبودی کے احکام جاری کرے- اس لئے فرمایا ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم- جب خدا تعالیٰ ساری دنیا کا بادشاہ ہے تو اس نے اپنی رعایا کو احکام پہنچانے کیلئے امیین میں ایک رسول بھیجا اور اپنا نائب مقرر کیا مگر یہ نائب باہر سے مقرر نہیں کیا بلکہ تم میں سے ہی بھیجا-
دوسری صفت یہ بیان کی تھی کہ وہ القدوس ہے اس کے متعلق فرمایا یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہر ایک چیز پاکیزہ ہو اس لئے اس نے رسول کو اپنی آیات دے کر بھیجا تا کہ وہ آیات لوگوں کو سنائے اور ان میں دماغی اور روحانی پاکیزگی پیدا کرے- پہلے اللہ تعالیٰ کی آیات سکھا کر انسانی دماغ کو پاک کرے اور پھر یزکیھم ان کے اعمال کو پاک کرے-
تیسری صفت یہ بیان کی تھی کہ العزیز وہ غالب ہے- اس کے لئے فرمایا- و یعلمھم الکتب- ان کو کتاب سکھائے- یہ سیدھی بات ہے کہ کوئی بات وہی سکھا سکتا ہے جس کے شاگرد ہوں- چونکہ عزیز کے معنی غالب کے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلہ میں یہ رکھا کہ اس رسول کو ہم ایک جماعت دیں گے جسے یہ سکھائیگا اور اسے دنیا پر غلبہ بخشے گا- کیونکہ میں اسے اپنی صفت عزیر کے ماتحت بھیج رہا ہوں-
چوتھی صفت الحکیم بیان کی تھی- اس کے متعلق فرمایا والحکمہ کہ وہ حکمت سکھائے گا- وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین اور گو اس سے پہلے وہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے مگر پھر بھی یہ رسول اس کتاب کو منوا لے گا-
اس کے بعد فرمایا و اخرین منھم لما یلحقوابھم- یہ رسول کچھ اور لوگوں کو بھی سکھائے گا جو ابھی ان سے نہیں ملے- وھوالعزیز الحکیم اور وہ غالب اور حکمت والا ہے- ممکن ہے کوئی کہے کہ قرآن کی عبارت تو مقفی بتائی جاتی ہے لیکن یہ ترتیب کیسی ہے کہ انہیں الفاظ کو پھر دہرا دیا گیا ہے جو پہلے آچکے ہیں اور بغیر ضرورت کے صرف قافیہ بندی کے لئے لائے گئے ہیں- لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ یہی الفاظ آنے چاہئیں تھے- اس کی وجہ ہے کہ جب کہا گیا واخرین منھم لما یلحقوابھم کہ یہ رسول ایک اور جماعت کو بھی سکھائے گا جو ان لوگوں سے نہیں ملی تو گویا بتایا کہ ان لوگوں میں اور اس جماعت میں ایک وقفہ ہوگا- اور دوسرے لوگ کچھ مدت کے بعد آئیں گے- اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک عرصہ گذرنے کے بعد مسلمانوں میں سے قرآن مٹ جائیگا اور پھر بعد میں آنے والوں کو سکھایا جائے گا- ورنہ اگر وقفہ نہیں پڑنا تھا تو یہ بات بیان کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی- پیچھے آنے والے آخر پہلوں سے ہی سیکھا کرتے ہیں- اس کے ذکر کی یہی وجہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا تھا جس میں قرآن دانی مٹ جانی تھی- اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کو قرآن سکھایا جانے والا تھا-
اب یہ صاف بات ہے کہ درمیانی وقفہ کسی نقص کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے- اور اس نقص کے ازالہ سے ہی اس امر کو دوبارہ قائم کیا جا سکتا ہے- پس دوبارہ عزیز و حکیم کہہ کر بتایا کہ یہ وقفہ دشمنان اسلام کے غلبہ ظاہری اور ان کی علمی اور فلسفی اور سائنس کی ترقی کی وجہ سے ہوگا- اور مسلمان ان سے متاثر ہو کر قرآن کو چھوڑ دیں گے- مگر پھر خدا تعالیٰ ان کو غلبہ عطا فرمائے گا- کیونکہ وہ عزیز ہے- چونکہ دوسروں کو حکومت ملنی تھی اور اس سے مسلمانوں پر رعب چھا جانا تھا اور ایسے علوم نکل آنے تھے جن کی وجہ سے اسلام پر حملہ کیا جاتا اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس وقت بھی اپنی صفات عزیز اور حکیم کا اظہار کریں گے اور مسلمانوں کو دوسروں کے مقابلہ میں غلبہ دیں گے- اور ان علوم کا بھی رد کریں گے جو قرآن کے مقابلہ پر آئیں گے- کیونکہ اصل غلبہ اللہ تعالیٰ کو ہے اور علوم اس کے بھیجے ہوئے ہیں- پس وہ باوجود ان فتن کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں قائم کر دے گا-
غرض ان الفاظ کا تکرار صرف مقفی عبارت کیلئے نہیں بلکہ عین اس ترتیب کے ماتحت ہے جس کی یہاں ضرورت تھی-
قرآنی آیات کا لطیف توازن
)۵( پھر قرآن کریم کی ایک ظاہری خوبی اس کے الفاظ کا لطیف توازن ہے کہ بظاہر نثر ہے مگر نظم کے مشابہ ہے اور یہ امر اس کی عبارت کو ایسا خوبصورت بنا دیتا ہے کہ کوئی اور کتاب اب تک اس کی نقل نہیں کر سکی خواہ وہ ناقص نقل ہی کیوں نہ ہو- یہ بھی قرآن کریم کی ایک بہت بڑی خوبی ہے- چونکہ قرآن کریم حفظ کیا جانا تھا اس لئے ضروری تھا کہ یا تو اشعار میں ہوتا یا اشعار سے ملتا جلتا ہوتا- قرآن کریم کو خدا تعالیٰ نے ایسے انداز میں رکھا کہ جس قدر جلدی یہ حفظ ہو سکتا ہے اور کوئی کتاب نہیں ہو سکتی- اس کی وجہ توازن الفاظ ہی ہے اور پڑھتے وقت ایک قسم کی ربودگی انسان پر طاری ہو جاتی ہے-
قرآن کریم میں ذکر الہی کی کثرت
)۶( چھٹی خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر کی اس میں اتنی کثرت ہے کہ جب انسان قرآن کھولتا ہے تو اسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ سارے کا سارا قرآن ہی خدا تعالیٰ کے ذکر سے پر ہے- چنانچہ مکہ کے کئی مخالف جو سخت دشمن ہوا کرتے تھے جب کبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھ جاتے تو کہتے وہاں تو اللہ تعالیٰ کا ہی ذکر ہوتا رہتا ہے- غرض قرآن کریم نے اس طرح عظمت الہی کو بار بار بیان کیا ہے کہ انسان اس امر کو محسوس کئے بغیر نہیں رہتا- اور ہر خدا تعالیٰ سے محبت رکھنے والا دل اس کثرت سے ذکر الہی کو دیکھ کر باغ باغ ہو جاتا ہے- ایک فرانسیسی مصنف لکھتا ہے- محمد کے متعلق خواہ کچھ کہو لیکن اس کے کلام میں خدا ہی خدا کا ذکر ہے- وہ جو بات پیش کرتا ہے اس میں خدا کا ذکر ضرور لاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کا عاشق ہے- یہ مخالفین کی قرآن کریم کے متعلق گواہی ہے کہ وہ ذکر الہی سے بھرا ہوا ہے- اور ذکر الہی ہی مذہب کی جان ہے- لیکن دوسری کتب اس سے عاری ہیں اور ادھر ادھر کی باتوں میں وقت کو ضائع کرتی ہیں بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں بندوں کے قصے کہانیاں زیادہ ہیں اور اللہ کا ذکر کم ہے-
سخت کلامی سے مبرا کتاب
ساتویں خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ وہ سخت کلامی سے مبرا ہے اور یہ بھی حسن کلام کی ایک قسم ہے- کوئی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ اس میں گالیاں ہیں- پھر نہ صرف قرآن سخت کلامی سے مبرا ہے بلکہ نہایت لطیف اور دلنشین پیرایہ میں یہ نصیحت کرتا ہے کہnsk1] ga[t ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم ۳۵~}~یعنی تم ان معبودان باطلہ کو گالیاں مت دو جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سوا پرستش کرتے ہیں- اور اگر تم ان کو گالیاں دو گے تو وہ اللہ کو گالیاں دیں گے بغیر یہ سمجھنے کے کہ اللہ تو سب کا ہے-
پھر فرماتا ہیکذلک زینا لکل امہ عملھم ۲۶~}~اسی طرح ہم نے ہر ایک قوم کے لئے اس کے عمل خوبصورت کر کے دکھائے ہیں- یعنی یہ نہ سمجھا جائے کہ چونکہ ان لوگوں کے معبود جھوٹے ہیں اس لئے انہیں برا بھلا کہنے میں کیا حرج ہے- یہ لوگ اب شرک کے عادی ہو چکے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنے اس برے کام کو بھی اچھا سمجھنے لگ گئے ہیں اس لئے اگر تم انہیں گالیاں دو گے تو فتنہ پیدا ہوگا اور یہ لوگ خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جائیں گے-
کیا ہی لطیف نکتہ قیام امن کے متعلق بیان کیا کہ کسی کے بزرگوں اور قابل تعظیم چیزوں کو برا بھلا نہ کہا جائے کیونکہ اس سے آپس کے بہت سے جھگڑے اور فساد رک سکتے اور بہت اچھے تعلقات پیدا ہو سکتے ہیں-
‏0] f[st فحش کلامی اور ہر قسم کی بد اخلاقی سے منزہ کتاب
آٹھویں ظاہری خوبی قرآن کریم میں یہ ہے کہ وہ فحش کلامی اور ہر قسم کی بداخلاقی کی تعلیم سے منزہ ہے- یعنی اس میں کوئی ایسی بات نہیں جسے پڑھ کر طبیعت منغض ہو جائے یا شرمائے یا بد اخلاقی معلوم ہو- قرآن کریم ایک شریعت کی کتاب ہے- اور بوجہ شریعت ہونے کے اسے ایسے مضامین پر بھی بحث کرنی پڑتی ہے جو نہایت نازک ہوتے ہیں مگر وہ اس طرح ان کو بیان کر جاتا ہے کہ جن کو پڑھ کر جو واقف ہے وہ تو سمجھ جائے اور جس کی عمر ابھی سمجھنے کی نہیں اسے خاموش گذار دیا جائے- مثلاً اس میں مرد اور عورت کے تعلقات کا ذکر ہے- طہارت اور پاکیزگی کے متعلق احکام بیان ہیں- مگر ان احکام کو ایسی عمدگی سے بیان کیا گیا ہے کہ بات بھی کہہ دی گئی ہے اور عریاں الفاظ بھی استعمال نہیں کئے گئے- لیکن اس کے مقابلہ میں دوسری کتابوں میں ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جن کو پڑھتے ہوئے شرم آ جاتی ہے- جیسا کہ پیدائش باب ۱۹ آیت ۳۱ تا ۳۸ میں حضرت لوط علیہ السلام کے متعلق ایک گندے واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے- چونکہ یہاں عورتیں بھی بیٹھی ہیں اس لئے میں اس حوالہ کو نہیں پڑھتا- احباب بائیبل سے اس حوالہ کو خود پڑھ لیں- انجیل میں فحش تو نہیں مگر ایک بات اس میں بھی ایسی ہے جو بچوں کے اخلاق پر برا اثر ڈالتی ہے- اور وہ یہ کہ متی باب ۱۲ میں لکھا ہے-
’’جب وہ )مسیح( بھیڑ سے یہ کہہ ہی رہا تھا کہ تو دیکھو اس کی ماں اور بھائی باہر کھڑے تھے اور اس سے باتیں کرنی چاہتے تھے- کسی نے اس سے کہا- دیکھ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں اور تجھ سے باتیں کرنی چاہتے ہیں- اس نے خبر دینے والے کو جواب میں کہا- کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی- اور اپنے شاگردوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا- دیکھو میری ماں اور میرے بھائی یہ ہیں کیونکہ جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلے وہی میرا بھائی اور بہن اور ماں ہے‘‘- ۳۷~}~
حضرت مریمؑ حضرت مسیحؑ پر ایمان لانے والی تھیں مخالف نہ تھیں مگر باوجود اس کے انجیل کے بیان کے مطابق آپ نے ان کی پروا نہ کی- لیکن قرآن کہتا ہے- ماں باپ خواہ مخالف ہوں` ان کی عزت و توقیر کرنا تمہارا فرض ہے-
پھر رگوید جلد اول کتاب ۴ دعا ۱۸ میں اندر دیوتا کی پیدائش کا ذکر ان الفاظ میں ہے-
‏hFort ۔passage the is hard forth: I go way this Not undone yet is that Much ۔issue I will obliquely side the from۳۸~}~ ۔accomplish I must
یعنی اندر نے اپنی پیدائش کے وقت کہا- میں ماں کی پسلیوں میں سے نکل کر جائوں گا-
اسی طرح اتھروید جلد اول کتاب ۳ دعا ۲۵ میں عمل حب بتایا گیا ہے- اور کہا گیا ہے کہ اے عورت تو چوری چھپے اپنے ماں باپ کے گھر سے نکل کر بھاگ چل-
اتھروید جلد اول کتاب ۵ دعا ۲۵ صفحہ۲۲۹-۲۳۰ میں لڑکا پیدا ہونے کے متعلق ¶نہایت فحش دعا درج ہے- پھر مرد عورت کے تعلقات کا ایسا گندہ نقشہ کھینچا گیا ہے کہ کوئی ماں باپ اپنے لڑکے لڑکیوں کو پڑھنے کے لئے ایسی کتاب نہیں دے سکتے- لیکن قرآن کریم شروع سے لے کر آخر تک ایسی پاک زبان میں ہے کہ بڑے سے بڑا دشمن بھی اس پر اعتراض نہیں کر سکتا-
ظاہر سے باطن کی طرف لے جانے والا کلام
نویں خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ وہ ظاہر سے باطن کی طرف لے جاتا ہے- کہیں چلتے پانیوں سے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہیں برستے بادلوں کا ذکر کر کے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے- کہیں چمکتی بجلی میں خدا تعالیٰ کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہیں دفن ہونے والے مردوں کا ذکر کر کے خداتعالیٰ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہیں پیدا ہونے والے بچوں کا حوالہ دیکر قدرت خدا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے- کہیں نجاستوں اور گندوں کا ذکر کر کے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت بتائی گئی ہے- کہیں پاکیزگی کی ترغیب اور تحریص دلانے کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے- غرض قرآن پڑھ کر انسانی فطرت بول اٹھتی ہے کہ یہ جو کچھ کہہ رہا ہے انسانی قلب کا نقشہ کھینچ رہا ہے- لیکن دوسری کتب میں اس طرح قانون نیچر کی طرف توجہ نہیں دلائی گئی-
جذبات انسانی سے اپیل
دسویں خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ وہ انسان کے اعلیٰ جذبات سے اپیل کرتا ہے- انسانی پیدائش کی خوبیاں بتاتا ہے- انسانی طاقتوں اور قوتوں کا ذکر کرتا ہے اور تحریک کرتا ہے کہ ان سے کام لو اور ترقی کرو- اس کے ساتھ ہی یہ بتاتا ہے کہ ان باتوں سے بچو ورنہ ترقی سے محروم رہ جائو گے- یہ ایسی باتیں ہیں جن سے ہر سلیم الفطرت انسان متاثر ہوتا ہے-
غرض ظاہری حسن میں بھی قرآن کریم ایک افضل کتاب ہے اور اس کی عبارت کو پڑھ کر انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا- ہاں جو لوگ قصوں کے شیدا ہیں ان پر اس کی عبارت بیشک گراں گذرتی ہے-
قرآن کریم میں تکرار پائے جانے کا اعتراض
قرآن کریم کی ظاہری خوبیوں کے متعلق جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کے میں جواب دے چکا ہوں- اب ایک اعتراض باقی رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ قرآن ایک ایک فقرہ کو بار بار دہراتا ہے- اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ دہرانے کا اعتراض قرآن کریم پر عیسائیوں اور ہندوئوں کی طرف سے کیا جاتا ہے لیکن خود ان کی الہامی کتابیں اس کی زد میں آتی ہیں- بائیبل میں کئی باتیں بار بار دہرائی گئی ہیں- چاروں اناجیل میں تکرار موجود ہے- وہی بات جو متی کہتا ہے مرقس` لوقا اور یوحنا بھی اسی کو دہراتے ہیں- اسی طرح ہندوئوں کی کتابوں میں تکرار پایا جاتا ہے- مثلاً اتھروید جلد اول کتاب ۲ دعا ۲۷ اور رگ وید جلد اول کتاب اول دعا ۹۶ میں تکرار موجود ہے- اگر تکرار قابل اعتراض بات ہے تو ان پر بھی کیوں اعتراض نہیں کیا جاتا-
قرن کریم پر یہ اعتراض محض نا سمجھی اور نادانی کی وجہ سے کیا جاتا ہے- میں اسے واضح کرنے کیلئے ایک آیت لے کر اس کا مطلب بیان کر دیتا ہوں-
کہا جاتا ہے کہ سورۃ الرحمن میں فبای الاء ربکما تکذبن ۳۹~}~کا بار بار تکرار ہے اور ایسے موقع پر بھی اسے لایا گیا ہے جہاں اس کا کوئی جوڑ نہیں معلوم ہوتا- بلکہ الٹ پڑتا ہے- جیسے کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجال والاکرام ۶۰~}~کے ساتھ فبای الاء ربکما تکذبن آتا ہے- پادری اکبر مسیح نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ کل من علیھا فان کے یہ معنی ہیں کہ دنیا کا ہر آدمی فنا ہونے والا ہے اور یبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام کے یہ معنی ہیں کہ صرف خدا ہی باقی رہنے والا ہے جو جلال اور اکرام والا ہے- مگر آگے آتا ہے فبای الاء ربکما تکذبن تم خدا کی کون کونسی نعمت کا انکار کرو گے- اب اس موقع پر کس نعمت کا ذکر تھا؟ کہ یہ کہا گیا- کیا مرنا اور فنا ہونا بھی ایک نعمت ہے؟
موت کا فلسفہ
اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ فنا بھی انسان کیلئے ایک انعام ہے- جہاں دیگر مذاہب نے فنا کو سزا قرار دیا ہے وہاں قرآن نے اسے انعام ٹھہرایا ہے- چنانچہ دوسری جگہ آتا ہے- تبرک الذی بیدہ الملک وھو علی کل شیء قدیر- ن الذی خلق الموت والحیوہ لیبلو کم ایکم احسن عملا وھو العزیز الغفور ۴۱~}~یعنی سب برکتوں والا خدا ہی ہے جس کے ہاتھ میں بادشاہت ہے اور یہ ہر بات پر قادر ہے- وہ برکتوں والا خدا ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا- یہ اس لئے کہ انسانوں کے اعمال کا امتحان لے اور ان کے نیک نتائج پیدا کرے وہ غالب ہے اور غفور ہے-
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ لیبلو کم ایکم احسن عملا- پس موت ضروری تھی کیونکہ موت کے بغیر انسانی اعمال کے نتائج پیدا نہیں ہو سکتے تھے- اس لئے کہ زندگی میں ایک انسان جو اچھے عمل کرتا ہے اگر اسے ان کا بدلہ اسی دنیا میں مل جائے اور جو بدیاں کرتا ہے ان کی اسے یہاں ہی سزا دے دی جائے تو پھر کوئی نبیوں کا انکار کیوں کرے- بلکہ فوری جزا سزا کو دیکھ کر سب مان لیں- لیکن انعام مشقت اور محنت کے بعد ملا کرتا ہے- اگر حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ اسی دنیا میں موجود ہوں اور خدا تعالیٰ نے مرنے کے بعد جو درجات انہیں دیئے ہیں وہ اسی دنیا میں مل گئے ہوں تو پھر ان کا کون منکر رہ سکتا ہے- یا فرعون اور ابوجہل اگر کفر کی وجہ سے اسی دنیا میں آگ میں جل رہے ہوتے تو کون انکار کرتا- اس طرح تو ایمان لانے والوں کو کوئی محنت اور کوشش ہی نہ کرنی پڑتی- لیکن انعام محنت اور کوشش کے بعد ہی ملا کرتا ہے- پس ضروری تھا کہ انعام دینے کے لئے ایک اور دنیا ہو اور وہ ان آنکھوں کے سامنے نہ ہو جس کی وجہ سے لوگ ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے- پس فرمایا خلق الموت والحیوہ لیبلوکم ایکم احسن عملا-حیات کی غرض یہ ہے کہ انسان اس زندگی میں کام کرے اور موت کی غرض یہ ہے کہ اس زندگی میں جو کام کرے موت کے بعد ان کے انعام پائے- وھو العزیز الغفور اور خدا غالب اور بخشنے والا ہے وہ انعام بھی دے سکتا ہے اور کمزوریوں کو معاف بھی کر سکتا ہے-
اس آیت میں چونکہ پہلے موت کو رکھا ہے- اس لحاظ سے عزیز کو پہلے رکھا- اور حیات میں چونکہ کمزوریاں بھی سر زد ہو جاتی ہیں اس کے لئے غفور کی صفت کو رکھا کہ انسان سے غلطیاں ہونگی جنہیں خدا معاف کر دے گا-
پس یہ تکرار نہیں بلکہ بہت بڑی حکمت کے ماتحت اسے رکھا گیا ہے-
افضلیت کی تیسری وجہ
)۳( افضلیت کی تیسری وجہ ایک الہامی کتاب کے لئے یہ ہے کہ وہ ان ضرورتوں کو پورا کرے جن کے لئے اسے اختیار کیا جاتا ہے- مثلاً اگر ایک چیز پیاس بجھانے کیلئے پی جاتی ہے تو اس کا کام ہے کہ پیاس بجھائے- لیکن چونکہ کتاب مذہب کے متعلق ایک معلم کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے ان ضرورتوں کے دو حصے ہو جائیںگے-
اول- ان ضرورتوں کی تشریح کرے جن کو پورا کرنے کا وہ مدعی ہے- کیونکہ ضرورت کا احساس بھی وہی کرتا ہے-
دوم- ان ضرورتوں کو پورا کرنے کا سامان کرے-
مذہب کی پانچ ضرورتیں
سو یاد رکھنا چاہئے کہ مذہب کی قرآن کریم سے پانچ ضرورتیں ثابت ہوتی ہیں-
اول-: وجود باری تعالیٰ کا ثبوت اور اس کی صفات کا علم-
دوم-: انسان کی روحانی طاقتوں کا بیان اور ان کا ثبوت-
سوم-: ان امور کا بیان جو روحانی طاقتوں کی تکمیل اور امداد کیلئے ضروری ہیں-
چہارم-: انسانی زندگی کے مال کا بیان اور اس کا ثبوت-
پنجم-: مذکورہ بالا امور میں نہ صرف علمی طور پر روشنی بخشنا بلکہ عملاً بھی خدا تعالیٰ سے وصال کرانا اور روحانی طاقتوں کو مکمل کرانا اور حیات اخروی کے فوائد سے بہرہ ور کرانا-
یہ ضرورتیں جو اسلام نے بیان کی ہیں باقی مذاہب بھی اس امر میں اس سے متفق ہیں گو اس مقصد کے پورا کرنے میں قرآن کریم منفرد ہے- کوئی مذہبی کتاب اس بارہ میں اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی- تورات کو شروع سے آخر تک پڑھ جائو` انجیل کو پڑھ جائو` وید کو پڑھ جائو بس یہ معلوم ہوگا کہ فرض کر لیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب دنیا مانتی ہے اور اس کی ذات میں کسی شک کی گنجائش نہیں مگر اس کا ثبوت وہ کوئی نہیں دیتیں- اسی طرح اس کی صفات کے متعلق اس قدر قلیل روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسانی نفس اس سے قطعاً تسلی نہیں پا سکتا- پس ضرورت تھی کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا علم دیا جائے اور پھر اس کے دلائل دیئے جائیں- زیادہ سے زیادہ دوسری کتب نے کوئی ثبوت دیا ہے تو معجزات سے دیا ہے- بیشک اس سے اللہ تعالیٰ کا وجود تو ثابت ہو جاتا ہے مگر اس کی ہر صفت ثابت نہیں ہوتی- اگر کوئی کتاب خدا تعالیٰ کو غفور کہتی ہے تو ضروری ہے کہ وہ خدا کے غفور ہونے کا ثبوت بھی پیش کرے- اگر رحیم قرار دیتی ہے تو اس بات کا ثبوت دے کہ وہ رحیم ہے- غرض باقی مذاہب نے اس اصل الاصول کو جس پر مذہب کی بنیاد ہے بالکل مہمل چھوڑ دیا ہے اس کے مقابل پر قرآن کریم کو دیکھو- وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کے وجود کو پیش کرتا ہے بلکہ اس کے ثبوت بھی دیتا ہے- اور نہ صرف اس کا ثبوت دیتا ہے بلکہ اس کی سب صفات کا ثبوت دیتا ہے- اور اس طرح وہ ایک نیا اصل پیش کرتا ہے- جو یہ ہے کہ جس قدر صفات الٰہیہ بندہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہیں ان کا الگ ثبوت ضروری ہے ورنہ خدا تعالیٰ کا وجود تو ثابت ہوگا مگر اس کی صفات کا ثبوت نہ ہوگا-
‏sub] gat[ بندوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی صفات الٰہیہ کا ثبوت
میں اس وقت اس کی ایک مثال دے دیتا ہوں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ذلکم اللہ ربکم لا الہ الا ھو خالق کل شیء فاعبدوہ وھو علی کل شیء وکیل- لا تدرکہ الا بصار و ھویدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر- ۴۲~}~یعنی یہ ہے تمہارا اللہ جو تمہارا رب بھی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں- وہی ہر ایک چیز کا خالق ہے اسی کی تم عبادت کرو- وہ ہر چیز پر نگران ہے- اور یہ یاد رکھو کہ تمہاری یہ مادی آنکھیں اس تک نہیں پہنچ سکتیں نہ تمہاری عقلیں پہنچ سکتی ہیں- یعنی تمہاری آنکھیں اور عقلیں اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتیں- ہاں اللہ تعالیٰ خود ایسے سامان بہم پہنچا دیتا ہے کہ جن کے نتیجہ میں وہ بندہ کے پاس آ جاتا ہے یعنی اپنی صفات کے ظہور کے ذریعہ- کیونکہ وہ نہایت لطیف اور خبیر ہے- غرض ان صفات کو اللہ تعالیٰ کے وجود کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے- اور لا تدرکہ الابصار کے ثبوت میں بتایا ہے کہ وہ لطیف اور خبیر ہے- وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اگر خدا ہے تو ان آنکھوں سے دکھا دو` وہ غلط کہتے ہیں- اس لئے کہ جو لطیف چیز ہوتی ہے وہ نظر نہیں آیا کرتی- لطیف کی تو تعریف ہی یہی ہے کہ نظر نہ آئے- ورنہ جو چیز نظر آ جائے وہ لطیف نہیں کہلا سکتی- پھر خدا تعالیٰ ان آنکھوں سے کس طرح نظر آ سکتا ہے- دیکھنا یہ چاہئے کہ خدا ہے یا نہیں- سو اس کا ثبوت اس کی صفت خبیر سے مل جاتا ہے- وہ بندہ کی نگہداشت کرتا ہے- اس کی روحانی اور جسمانی ساری ضرورتیں پوری کرتا ہے- کسی کے خبردار ہونے کا آخر کیا ثبوت ہوا کرتا ہے- یہی کہ جس قسم کی ضروریات اسے پیش آئیں ان کا انتظام کرے- مثلاً ایک شخص کسی کے ہاں مہمان جاتا ہے- اس کے لئے اگر مکان اور مکان میں بستر وغیرہ موجود ہوتا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بستر خود بخود آ گیا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ میزبان بہت خبردار ہے جس نے پہلے سے ہی بستر کا انتظام کر دیا- اسی طرح مہمان کے آگے کھانا چنا جائے لیکن میزبان خود اس وقت نظر نہ آئے تو کیا یہ کہا جائیگا کہ کھانا خود بخود آ گیا ہے- اگر مہمان کی ضروریات پوری ہوتی جاتی ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان ضروریات کو پورا کرنے والا ایک وجود موجود ہے خواہ وہ نظر آئے یا نہ آئے- پس جسمانی اور روحانی ضرورتیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے پوری ہوتی ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ خدا تعالیٰ ہے- اور جب وہ ان ضروریات کے پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آتا تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ لطیف ہے-
خدا تعالیٰ کی بعض صفات جوڑے کی حیثیت رکھتی ہیں
یہاں یہ نہایت عجیب نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی بعض صفات جوڑے کی حیثیت رکھتی ہیں- جس طرح مرد وعورت کے ملنے سے بچہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح ان دو صفات کے ملنے سے نتیجہ پیدا ہوتا ہے- مثلاً خبردار رہنا اور ادنیٰ سے ادنیٰ تغیر کو بھی غائب نہ ہونے دینا یہ لطیف ہستی کے بغیر نہیں ہو سکتا- یعنی ایسی ہستی جو موجودات کے ہر ذرہ سے ایک کامل اتصال رکھتی ہو- اور ایسے اتصال کے لئے لطیف ہونا شرط ہے- پس خبیر کی صفت لطیف کیلئے بمنزلہ جوڑے کے ہے- اور اس کے ذریعہ سے اس کا بھی ظہور ہوتا ہے- یا ان دونوں کا آپس میں روح اور جسم کا تعلق ہے کہ ایک نہ ہو تو دوسری صفت بھی ثابت نہیں ہوتی اور دوسری نہ ہو تو پہلی ثابت نہیں ہوتی- اگر خبیر کی صفت وھو یدرک الابصار ]text1 [tag سے ثابت نہ ہوتی تو لا تدرکہ الابصار بھی ثابت نہ ہوتا بلکہ عدم ثابت ہوتا- اس کے مقابلہ میں اگر لا تدرکہ الابصار ثابت نہ ہوتا یعنی اس کا لطیف ہونا تو خبیر کی صفت بھی نہیں رہ سکتی تھی- کیونکہ جو وجود کامل اتصال نہیں رکھتا وہ خبیر بھی نہیں ہو سکتا- غرض لطیف ہستی وہ ہوتی ہے جو باریک در باریک اور ہر ذرہ میں موجود ہو- اور جو ایسی لطیف ہو وہ نظر کبھی نہیں آ سکتی` ضرور ہے کہ وہ مخفی ہو-
پھر لطیف ہونا خبیر ہونے کا بھی ثبوت ہے- کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ایک ہستی ہے جو لطیف ہونے کی وجہ سے ہر ذرہ سے تعلق رکھتی ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ خبیر ہے- غرض خدا تعالیٰ کی صفت لطیف اس کے خبیر ہونے پر شاہد ہے- اور خبیر
ہونے کی صفت اس کے لطیف ہونے کی شہادت دے رہی ہے-
خدا تعالیٰ کی صفت رب العلمین کا مادی ثبوت
ایک اور صفت خدا تعالیٰ کا رب العالمین ہونا ہے- اس کے روحانی اور جسمانی دو ثبوت پیش کئے گئے ہیں- جسمانی ثبوت تو یہ دیا کہ فرمایا- اللہ الذی جعل لکم الارض قرارا و السماء بناء وصورکم فاحسن صورکم و رزقکم من الطیبت ذلکم اللہ ربکم فتبرک اللہ رب العلمین- ۴۳~}~
یعنی زمین اور آسمان اور انسان اور اس کی طاقتیں )یعنی ترقی کی قابلیتیں جن سے وہ زمین و آسمان پر حکومت کرتا ہے اور جو رب العلمین پر جو ترقیات کا سرچشمہ ہے شاہد ہیں(- اور اغذیہ وغیرہ جو ان طاقتوں کو قائم رکھتی ہیں- یہ سب اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کے رب العلمین ہونے پر دلالت کرتی ہے-
اس سال جب میں کشمیر گیا تو وہاں ایک ایم- اے مجھے ملنے کیلئے آئے- اور کہنے لگے میں خدا کو تو نہیں مانتا لیکن اگر کوئی خدا ہے تو اس نے ہمیں دنیا میں پیدا کر کے خواہ مخواہ مصیبت میں ڈال دیا- ہم نے کب اس سے کہا تھا کہ ہمیں پیدا کر کے دنیا میں بھیج دو؟ میں نے کہا- اگر دنیا کی زندگی مصیبت ہے اور آپ اس مصیبت سے نکلتا چاہتے ہیں تو یہ کونسی مشکل بات ہے- زہر کھالو اور مر جائو- کہنے لگے یہ بھی تو نہیں ہو سکتا مرنے کو دل نہیں چاہتا- میں نے کہا- اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ آپ دنیا کی زندگی کو اچھا سمجھتے ہیں اور صرف منہ سے اس کی برائی بیان کرتے ہیں-
غرض اللہ تعالیٰ نے زمین کو انسانوں کے لئے قرار کی جگہ بنایا ہے- ہندو ¶کہتے ہیں- دنیا مصیبت کی جگہ ہے مگر جب بیمار ہوں تو ڈاکٹروں کو سب سے زیادہ فیس وہی دیتے ہیں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے منہ سے جتنا چاہو کہو کہ دنیا مصیبت کی جگہ ہے لیکن یہاں سے تم ہلنا نہیں چاہتے- کیونکہ خدا نے تمہارے لئے اس زمین کو قرار گاہ قرار دیا ہے-
پھر والسماء بناء آسمان بھی تمہاری حفاظت کا موجب ہے- جو چیزیں زمین کے ذریعہ پوری نہ ہو سکتی تھیں ان کو ہم تمہارے لئے آسمان سے نازل کرتے ہیں- کیونکہ آسمان بناء کا موجب ہے- وصورکم پھر اس خدا نے تمہیں شکل دی- فاحسن صورکم- اور بڑی اعلیٰ درجہ کی اور مکمل قابلیتوں والی شکل بنائی- ورزقکم من الطیبت اور تمہارے لئے نہایت اعلیٰ درجہ کی چیزیں پیدا کی ہیں- اگر چیزیں خراب ہوتیں تو تمہاری قابلیتیں بھی اعلیٰ درجہ کی نہ ہوتیں- مگر ان قابلیتوں کو خرابی سے بچانے کے لئے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے رزق طیب پیدا کیا- فتبرک اللہ رب العلمین- پس اے لوگو! یہ رب العلمین ہے- اگر وہ ]nsk [tag رب العلمین نہ ہوتا اور سورج کوئی اور پیدا کرتا اور زمین کوئی اور پیدا کرتا تو سورج اور زمین کا آپس میں کوئی تعلق نہ ہوتا- مگر اب دیکھو سورج زمین کی حفاظت کر رہا ہے اور زمین سورج کی- یہ سب باتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ ایک ہی خدا ہے جس نے یہ سب کچھ پیدا کیا اور وہی رب العلمین ہے-
صورکم میں یہ بھی بتایا ہے کہ بندہ ایسا بنایا گیا ہے کہ باقی سب مخلوق پر حکومت کرتا ہے- یہ جسمانی ثبوت ہے خدا تعالیٰ کے رب العلمین ہونے کا-
خدا تعالیٰ کے رب العلمین ہونے کا روحانی ثبوت
روحانی ثبوت سورۃ شعراء میں اس طرح دیا کہ بہت سے نبیوں کا ذکر کرتے ہوئے جو مختلف اقوام کی طرف آئے تھے فرمایا وانہ لتنزیل رب العلمین- نزل بہ الروح الامین- علی قلبک لتکون من المنذرین- بلسان عربی مبین- وانہ لفی زبرالاولین۴۴~}~ یعنی یہ قرآن رب العلمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے اور اس کا روحانی ثبوت یہ ہے کہ یہ کلام سب دنیا کو مخاطب کر کے نازل ہوا ہے- جب کہ پہلے کلام صرف مختص القوم اور مختص الزمان تھے اور جب کہ وہ کلام صرف اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے ثبوت تھے- یہ کلام ربوبیت عالمین کا ثبوت ہے-
غرض یہ قرآن کسی ایک قوم کی طرف نہیں آیا کیونکہ اسے خدا تعالیٰ رب العلمین کی صفت کے ماتحت نازل کیا گیا ہے اور تمام دنیا اس کی مخاطب ہے- پھر اس کلام کو روح الامین لے کر نازل ہوا ہے- یعنی پہلے نبیوں کے کلام میں خرابیاں آ گئی تھیں کیونکہ بندوں نے ان کی حفاظت نہ کی- پس خدا تعالیٰ نے اس روح کے ذریعہ سے جو امین ہے- محفوظ طور پر وہ پہلے کلام آپ پر نازل کئے ہیں- اور چونکہ کلام کے پہنچانے کے لئے اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے تا کہ پہنچانے میں کوئی نقص نہ رہ جائے اس لئے یہ کلام تیرے دل پر نازل کیا گیا ہے-
غرض بائیبل اور وید وغیرہ کتابیں سب خراب ہو چکی تھیں- مگر خدا تعالیٰ کے پاس اصلی تعلیم محفوظ تھی- چنانچہ اس نے روح الامین کے ذریعہ اس کلام کو تیرے دل پر نازل کیا تا کہ لوگوں کا جرات کے ساتھ مقابلہ کر سکے یہ کلام عربی زبان میں ہے جو تمام مضامین کو کھول کر بیان کرنے والی ہے- اور اس کے رب العالمین کی طرف سے ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ یہ کلام پہلی کتب میں بھی موجود ہے- اس رنگ میں بھی کہ ان کے اصول اس میں پائے جاتے ہیں اور اس رنگ میں بھی کہ ان سب کو اکٹھا کر کے اس میں بیان کر دیا گیا ہے- گویا اس میں تمام غیر مسلم اقوام کی ذہنیت کا خیال رکھا گیا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ رب العلمین کی طرف سے ہے- اگر یہ رب العلمین کی طرف سے نہ ہوتا تو یہ ساری دنیا کی فکر کیوں کرتا-
پہلی کتب میں قرآن کریم کی موجودگی کے معنی
مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ قرآن کریم کی ساری تعلیم وہی ہے جو پہلی کتابوں میں تھی- بلکہ یہ ہیں کہ پہلی کتابوں کی صحیح تعلیم قرآن کریم میں موجود ہے اور اس سے زائد بھی ہے- پھر پہلی کتب میں اس کلام کی موجودگی سے یہ بھی مراد ہے کہ ان میں ایک کتاب کی پیشگوئی پائی جاتی ہے- اسی طرح تمام صفات الٰہیہ کا قرآن کریم میں مبسوط بیان ہے- مگر اور کتابوں میں اس طرح ذکر نہیں ہے- انجیل میں صرف پانچ سات صفات کا ذکر آتا ہے- تورات میں نسبتاً زیادہ صفات کا ذکر ہے مگر قرآن نے جتنی صفات پیش کی ہیں اتنی تورات نے بھی پیش نہیں کیں- پھر پہلی کتابیں ان صفات کو بطور دلیل پیش نہیں کرتیں بلکہ صرف دعائوں میں ان کا ذکر آ جاتا ہے- حالانکہ ضروری ہے کہ صفات الٰہیہ کا نہ صرف بالاستیعاب ذکر ہو بلکہ ان کے الگ الگ کام اور ان کے ثبوت بھی دیئے جائیں مگر یہ کام صرف قرآن کریم نے کیا ہے-
صفات الٰہیہ کی تشریح بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونی چاہئے
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صرف صفات کے نام بھی کافی نہیں جب تک ان کے صحیح معنی بھی بیان نہ کئے جائیں- کیونکہ خالی نام صرف شدت محبت کے اظہار کے لئے بھی جمع کئے جا سکتے ہیں جب کہ ان ناموں کے لئے والا ان کی حقیقت سے کچھ بھی واقف نہ ہو- جیسے پیار کے وقت انسان بہت سے نام لے لیتا ہے لیکن ان کی حقیقت کا اسے علم نہیں ہوتا- پس صرف کسی صفت کا ذکر کر دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ ایک صفت کا ذکر ہو اور پھر اس کی تشریح اور توضیح بھی خدا تعالیٰ ہی کے الفاظ میں ہو- جیسے گورنمنٹ ایک قانون بناتی ہے تو ساتھ ہی بعض الفاظ کی تشریح بھی کر دیتی ہے کہ فلاں لفظ کے یہ معنی ہیں تا کہ اس میں اختلاف نہ شروع ہو جائے- اسی طرح خدائی کلام کا یہ بھی کام ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات بیان کرے اور خود ہی ان کی تشریح کرے- چنانچہ دیکھ لو رحمن کا لفظ عربوں میں موجود تھا- اور وہ اسے استعمال کرتے تھے- قرآن کریم میں بھی آتا ہے وقالوا لوشاء الرحمن ماعبدنھم یعنی وہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر رحمن خدا چاہتا تو ہم اس کے سوا دوسرے معبودوں کی پرستش نہ کرتے- خود مسیلمہ کذاب بھی رحمن یمامہ کہلاتا تھا- لیکن جب رحمن
کے معنوں کو قرآن کریم نے بیان کیا تو وہ حیران رہ گئے- اور چونکہ ان معنوں کے رو سے ان کے مذہب پر زد پڑتی تھی صاف کہہ اٹھے کہ ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہوتا ہے- چنانچہ فرماتا ہے- و اذا قیل لھم اسجدوا للرحمن قالوا وما الرحمن انسجد لما تامرنا و زادھم نفورا جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رحمن کی عبادت کرو- تو وہ کہتے ہیں رحمن کون ہے- کیا ہم اس کے آگے سجدہ کریں جس کے آگے سجدہ کرنے کا تو حکم دیتا ہے- اور یہ بات ان کو نفرت میں اور بڑھا دیتی ہے- اس کی وجہ کیا تھی- یہی کہ وہ رحمن کے اور معنی کرتے تھے- چنانچہ آگے اللہ تعالیٰ نے اس کے معنی بھی کر دیئے اور بتا دیا کہ ان معنوں میں ہم رحمن کا لفظ استعمال کرتے ہیں- اور ان معنوں سے رد کرتے ہیں- فرماتا ہے-
تبرک الذی جعل فی السماء بروجا وجعل فیھا سرجا و قمرا منیرا وھو الذی جعل الیل والنھار خلیفہ لمن اراد ان یذکر اواراد شکور ۶۱~}~
یعنی رحمن تو وہ ہے جس نے آسمانوں میں بروج بنائے اور ان میں چمکتا ہوا سورج اور نور دینے والا چاند بنایا- اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا- مگر ان کے لئے جو نصیحت حاصل کرنا چاہیں یا شکر گذار بندے بننا چاہیں- یہاں رحمن کی تشریح کر دی- اور مطلب بیان کر دیا کہ رحمن سے مراد خدا تعالیٰ کی وہ صفت ہے جو انسان کے عمل سے بھی پہلے اس کے لئے کام شروع کر دیتی ہے- چنانچہ بتایا- دیکھو ہم نے چاند اور سورج کو انسان کے پیدا ہونے سے پہلے بنایا- اور پھر اس کی ضرورت بھی بیان کر دی- اور وہ یہ کہ انسان کو عمل کرنے کے لئے اسباب کی ضرورت ہے- اگر اسباب نہ ہوں تو وہ عمل کس طرح کر سکے- مثلاً بڑھئی ہو لیکن لکڑی نہ ہو تو وہ کیا کر سکتا ہے- پس ضروری تھا کہ انسان پر اس کے اعمال شروع کرنے سے قبل انعام ہوتا- اور انعام کے طور پر اس کے لئے اسباب مہیا کئے جاتے تا کہ وہ عمل کر سکتا- پس یہ کہنا غلط ہے کہ دنیا کی ہر چیز انسان کے عمل کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے- کیونکہ عمل ہو ہی نہیں سکتا جب تک پہلے کچھ انعام نہ ہو- پھر یہ وجہ بتائی کہ رحمانیت کی ضرورت انسان کے شکور بننے کے لئے ہے- شکور کے لئے عمل کی شرط ہے- اور عمل بغیر رحمانیت کے نہیں ہو سکتا- اگر اس کی یہ صفت نہ ہوتی اور وہ بلامزد انعام نہ کرتا تو انسان اپنے پیدا کرنے والے کا شکر بھی ادا نہ کر سکتا اور ایک بلا عمل ہستی رہ جاتا-
شکور کے لفظ میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے کے لئے قلب میں شکریہ کے احساسات کا پیدا ہونا ضروری ہے- اور یہ احساسات بغیر رحمانیت کی صفت کے پیدا نہیں ہو سکتے-
اسی طرح اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ رحمانیت کے بغیر وہ اعلیٰ محرک عمل جو بے نفسی کا موجب ہوتا ہے پیدا نہ ہو سکتا- کیونکہ سب کچھ نتیجہ عمل میں ملتا تو ہر عمل لالچ کی وجہ سے ہوتا- مگر چونکہ احسان موجود ہے اور خدا تعالیٰ نے ہر انسان پر اس کے عمل کرنے کے قابل بننے سے پہلے نعمتیں نازل کی ہیں- اس لئے اعلیٰ انسان اپنے اعمال کو طلب صلہ کی بجائے شکر ماضی کے ماتحت لے آتا ہے- اور وہ خدا تعالیٰ کی شکر گذاری کرتا اور اس کے احکام بجا لاتا ہے- نہ اس لئے کہ اب اسے کچھ ملے بلکہ اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کے پہلے احسانات کا شکر ادا کرے- اس طرح مومن کے دل میں لالچ اور طمع کو نکال دیا اور محض خدا تعالیٰ کی شکر گذاری کا جذبہ اس میں پیدا کیا-
غرض تکمیل صفات اور دلائل صرف قرآن کریم نے دیئے ہیں- باقی کتب صرف دعا میں بطور ایک ٹونے کے خدا تعالیٰ کے اسماء کو استعمال کرتی ہیں اور وہ ذرہ بھر بھی متشابہ صفات کے فرق اور ان کے دلائل پر روشنی نہیں ڈالتیں-
انسان کی روحانی طاقتوں کا بیان
دوسرا امر جس کا بیان ایک الہامی کتاب کے لئے ضروری ہے انسان کی روحانی طاقتوں کا بیان ہے- اس مضمون پر بھی قرآن کریم نے بلکہ صرف قرآن کریم نے ہی روشنی ڈالی ہے دوسری کتابوں میں یہ بات نہیں ملتی- یا تو اس لئے کہ جس وقت وہ نازل ہوئیں اس وقت اس قدر روحانی ارتقاء نہ تھا- یا پھر ان کے بگاڑ کے زمانہ میں جو بھی تعلیم ان میں تھی وہ ضائع ہو گئی- مگر قرآن کریم کو دیکھو اس میں ایک اعلیٰ طریق سے ان باتوں کو بیان کیا گیا ہے-
‏a10.8
انوار العلوم جلد ۱۱
فضائل القرآن )۲(
ویسئلونک عن الروح کی لطیف تفسیر
خدا تعالیٰ فرماتا ہے-: ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا- ولئن شئنا لنذھبن بالذی اوحینا الیک ثم لا تجد لک بہ علینا وکیلا- الا رحمہ من ربک ان فضلہ کان علیک کبیرا- قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القران لا یاتون بمثلہ ولوکان بعضھم لبعض ظھیرا- ولقد صرفنا للناس فی ھذا القران من کل مثل فابی اکثر الناس الا کفورا-۴۸~}~
ان آیات سے پہلے قرآن کریم کا ذکر کیا گیا ہے- اس کے بعد فرماتا ہے- ویسئلونک عن الروح کچھ لوگ تجھ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ کیوں نہ یہ تسلیم کیا جائے کہ روح اپنے اندر یہ ذاتی قابلیت رکھتی ہے کہ اس سے اعلیٰ درجہ کا کلام نکلنے لگ جاتا ہے- یہاں سوال نقل نہیں کیا گیا- اس لئے اس موقع کے لحاظ سے جتنے سوال کے پہلو نکل سکتے ہوں وہ سب جائز ہونگے- ایک سوال یہ ہو سکتا ہے کہ روح کو کس طرح پیدا کیا گیا ہے دوسرا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ روح میں کیا کیا طاقتیں رکھی گئی ہیں- تیسرا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ روح کا انجام کیا ہو گا؟ خداتعالیٰ فرماتا ہے- قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا- روح مادیات سے بالا ہے اس لئے یہ تمہارے تصرف میں نہیں آسکتی- اس کی پیدائش اس کا قیام اور اس کاانجام سب اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہے کیونکہ وہ خود روح کو پیدا کرنے والا ہے- اس میں ان لوگوں کا رد کیا گیا ہے جو کہتے ہیں کہ روح آپ ہی کمال حاصل کر سکتی ہے- فرمایا جب تک خدا کا کلام روح کو حاصل نہ ہو وہ کوئی کمال ظاہر نہیں کر سکتی- پھر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ روح فنا کیوں نہیں ہوتی؟ ان کے متعلق فرمایا کہ زندہ رکھنے والا جو موجود ہے تو فنا کیوں ہو- جیسے آگ جلانے والا جب تک آگ میں لکڑیاں ڈالتا جائے گا وہ نہیں بجھے گی- غرض نہ یہ سوال درست ہے کہ روح ہمیشہ کس طرح رہے گی اور نہ یہ کہ اگر زندہ رہے گی تو حادث نہیں ہے کیونکہ اس کی زندگی خدائی اذن سے ہے نہ کہ اپنی ذاتی قابلیت کی وجہ سے- بہر حال روح کی پیدائش بھی امر یعنی کن کہنے سے ہے اور اس کی ترقی بھی امر یعنی کلام الٰہی سے ہے اور اس کا ابدی قیام بھی امر یعنی قضاء الٰہی سے وابستہ ہے-
پھر فرمایا کہ انسانی روح کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ آپ ہی کمال حاصل کر سکتی ہے اور آپ ہی تعلیم بیان کر سکتی ہے مگر یہ غلط ہے وما اوتیتم من العلم الا قلیلا روح کے متعلق جو انسانی معلومات ہیں وہ نہایت ناقص اور ناتمام ہیں جس طرح اور غیر مادی اشیاء مثلاً ذات باری یا ملائکہ کے متعلق اس کے معلومات ناقص ہیں- اس کے لئے خدا تعالیٰ کا الہام ضروری ہے جس کے امر سے یہ سب کچھ ہے- اسی طرح اس کی مخفی طاقتوں کا ابھارنا بھی امر پر ہی منحصر ہے- تم خود اپنے طور پر اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتے-
یہ سوال اس زمانہ میں بڑے زور سے پیدا ہو رہا ہے کہ انسان یا تو خود روحانیت میں کمال پیدا کر کے روحانی تعلیم بنا سکتا ہے یا پھر دوسری روحوں سے تعلق پیدا کر کے ان کی امداد سے ایسی تعلیم ایجاد کر سکتا ہے- اس وہم میں اس زمانہ کے بڑے بڑے لوگ مبتلا نظر آتے ہیں کہ روحیں انسان کو روحانیت کا اعلیٰ رستہ بتا دیتی ہیں- ان کا خیال ہے کہ انسانی روح میں جو کمی رہ جاتی ہے وہ مردوں کی روحیں پوری کر دیتی ہیں- اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تمہارا خیال ہے کہ تم خود روحانی طاقتوں کو ترقی دیکر اعلیٰ درجہ کی روحانی تعلیم بنا سکتے ہو- اسی طرح تمہارا خیال ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ ہی آپ یہ کتاب بنا لی ہے اس پر خدا کی طرف سے الہام نازل نہیں ہوا- اس کی اپنی روحانی طاقت اس قدر ترقی کر گئی تھی کہ اس سے خود بخود ایسی باتیں صادر ہونے لگ گئیں- مگر یہ درست نہیں کیونکہ انسانی طاقتیں اتنی نہیں ہیں کہ ایسا کلام بنا سکیں- انسانی عقل کا اپنے آپ روحانی رستہ تجویز کرنا تو الگ رہا ولئن شئنا لنذ ھبن بالذی اوحینا الیک ثم لا تجد لک بہ علینا وکیلا- اگر یہ قرآن جو نازل شدہ ہے اسی کو ہم تمہاری نظر سے اوجھل کر دیں تب بھی تم اپنی روحانی قوتوں کو نشوونما دے کر ایسی کتاب نہیں بنا سکتے- یعنی اگر ہم یہ بنی بنائی تعلیم ہی دنیا سے غائب کر دیں تو پھر بھی انسان اس جیسی تعلیم نہیں بنا سکتے-
کہا جا سکتا تھا کہ یہ قرآن کا محض ایک دعویٰ ہے کہ اگر قرآن کریم کی تعلیم غائب ہو جائے تو انسان اس جیسی تعلیم نہیں لا سکتے- اس کا ثبوت کیا ہے؟ یہ ثبوت بھی اللہ تعالیٰ نے پیش کر دیا ہے- چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جبکہ قرآن دنیا سے اٹھ جائے گا- اس کی تحریر تو رہ جائے گی مگر تعلیم پر عمل کرنے والے نہ ہوں گے- چنانچہ جب ایسا زمانہ آیا تو نہایت ہی لغو باتیں اسلام اور قرآن کی طرف منسوب ہونے لگ گئیں- اور اس کی بے نظیر اخلاقی اور روحانی تعلیم پر پردہ پڑ گیا-
اس کے بعد فرماتا ہے الا رحمہ من ربک سوائے اس کے کہ تیرے رب کی خاصرحمت اسے دنیا میں پھر واپس لے آئے اور کوئی صورت اس کی واپسی کی نہیں ہو گی- چنانچہ آخری زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی رحمت کا ہاتھ لوگوں کی طرف لمبا کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ذریعہ دوبارہ قرآن کریم کا دنیا میں نزول ہوا- اب دیکھ لو- وہی قرآن ہے جو پہلے تھا مگر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ کیسے کیسے معارف اور حقائق نکل رہے ہیں اور کس طرح قرآن ساری دنیا پر غالب آ رہا ہے- درحقیقت اس آیت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ کی خبر دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ قرآن اس وقت دنیا سے اٹھ جائے گا- مگر پھر خدا تعالیٰ کے ایک فرستادہ کے ذریعہ اسے زمین پر قائم کر دیا جائے گا-
سپر چولزم اور ہپناٹزم والوں کو چیلنج
پھر فرماتا ہے قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القران لا یاتون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا- تو ان لوگوں سے کہدے کہ اگر جنوانس بھی مل جائیں تب بھی وہ اس قرآن کی مثل یعنی روحانی ترقیات کا راستہ بتانے والی تعلیم لانے سے قاصر رہیں گے- یہاں جن سے مراد وہ جن نہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ لوگوں کے سروں پر چڑھ جاتے ہیں- ایسے جنوں کے متعلق یہ کہنا کہ ان کو بھی اپنے ساتھ ملا لو بیہودہ بات ہے- یہ تو ایسا ہی ہوگا جیسے کہا جائے کہ تم خواہ فلاں درخت سے مدد لے لو یا فلاں بھیڑ سے امداد حاصل کر لو تو بھی فلاں شاعر جیسے شعر نہیں کہہ سکتے- جس طرح یہ بات لغو ہے اسی طرح ایسے جنوں کے متعلق یہ کہنا کہ ان سے مدد لے لو لغو بات ہے پس یہاں جن سے مراد کوئی اور وجود نہیں ہیں- بلکہ وہ وجود مخفیہ ہیں جن کا نام سپرچولزم والے ارواح اور ہپنوٹزم والے قوائے روحانیہ رکھتے ہیں- چونکہ یہ نظروں سے پوشیدہ ہوتے ہیں اس لئے ان کو جن کہا گیا ہے-
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کسی عقلمند کا دعویٰ نہیں تھا کہ جنات سے مل کر وہ اعلیٰ روحانی تعلیم بنا سکتا ہے- پس جس چیز کا دعویٰ ہی نہیں تھا اور جس اجتماع کا امکان ہی نہیں تھا اس کا چیلنج عقل کے خلاف ہے- پس اس جگہ جن سے مراد وہ روحانی افعال ہیں جو )سبجیکٹو مائنڈ( (SUBJECTIVEMIND)سے ظاہر ہوتے ہیں یا وہ اتحاد ہے جو بقول بعض ارواح غیر مرئی سے انسانوں کا ہو جاتا ہے اور ان سے وہ بعض روحانی علوم دریافت کر لیتے ہیں-
خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم ان سے بھی مدد لے لو وہ بھی تمہاری مدد کریں تب بھی تم اس قرآن کی مثل نہیں لا سکتے- پس یہاں جن سے مراد وہ ارواح ہیں جن کی مدد سے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ نئے روحانی علوم معلوم کر سکتے ہیں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان سے بھی مدد لے لو اور قرآن کی مثل بنا دو- پھر تمہیں معلوم ہو جائیگا کہ بغیر کلام الہی کے کام چل سکتا ہے یا نہیں- چنانچہ دیکھو لو یہ کس قدر زبردست معجزہ قرآن کریم کا ہے کہ وہی زمانہ جس کے متعلق احادیث نبویہﷺ~ سے ثابت ہے کہ قرآن کریم کے اٹھنے کا ہے- اور جس زمانہ میں رحمہ ربی سے دوبارہ قرآن آنے کا ذکر ہے- اس زمانہ میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہیں جو ارواح سے مل کر حقائق روحانیہ کے دریافت کرنے کے مدعی ہیں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں اگر ارواح کے اندر یہ قابلیت ہے کہ وہ آپ ہی آپ اپنی ترقی کے ذریعہ علوم کو معلوم کر لیں تو وہ قرآن کی مانند کوئی تعلیم پیش کر کے دکھائیں-
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مثل میں کن کن امور کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے- سو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ولقد صرفنا للناس فی ھذا القران من کل مثل فابی اکثر الناس الاکفورا- ہم نے قرآن میں دو خوبیاں رکھی ہیں- ان کی مثال روحوں سے تعلق رکھنے والے اور خود روحانیات میں ترقی کرنے کا دعویٰ کرنے والے پیش کریں- ایک تو یہ کہ ہر ضروری امر جس کی روح کو ضرورت ہے قرآن کے اندر بیان کر دیا گیا ہے- دوسرے ہر ضروری امر کی ہر ضروری شق بیان کر دی گئی ہے- یعنی مختلف متفاوت فطرتوں کا اس میں پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے اور ہر حکم ایسے رنگ میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ سب کے لئے کارآمد ہو- یہاں فلسفیوں اور سپرچولزم والوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ تم ایسی کتاب بنا کر دکھائو جس میں وہ ساری باتیں آ جائیں جن کی تکمیل روحانیت کے لئے ضرورت ہے اور پھر اس کتاب میں ایسی تعلیم ہو جس میں ساری فطرتوں کا لحاظ رکھا گیا ہو- ایسی باتوں کی وہ کوئی مثال نہیں لا سکتے- یہ لوگ بہت مدت سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر ابھی تک تو کچھ نہیں کر سکے اور نہ آئندہ کر سکیں گے- اول تو وہ قرآن جیسی جامع تعلیم ہی نہیں پیش کر سکتے اور اگر فرض کر لیا جائے کہ پیش کریں گے تو یا تو وہ قرآن کے مطابق ہوگی اور یا پھر قرآن کے خلاف- اگر قرآن کے مطابق ہوگی تو اس کی ضرورت نہیں کیونکہ قرآن موجود ہے- اور اگر قرآن کے خلاف ہوگی تو اس کا رد قرآن میں موجود ہوگا- گویا کوئی کتاب ایسی نہیں ہو سکتی جو قرآن کا مقابلہ کر سکے- کیا دنیا میں کوئی کتاب ایسی ہے جو روحانی امور کے متعلق ایسا عظیم الشان دعویٰ پیش کر سکتی ہو؟
فطرت انسانی کی روحانی طاقتوں کا اظہار کلام الہی کے بغیر نہیں ہو سکتا
اب ایک اورسوال ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ اگر روح کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے تو وہ قرآن کریم کی تعلیم کو کس طرح سمجھ سکتی ہے- یہ بات ایک اور آیت سے حل ہو جاتی ہے جس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روحانی طاقتوں کو فطرت انسانی سے بھی وابستہ قرار دیا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ روح میں بھی کلام الہی موجود ہوتا ہے مگر مخفی طور پر- اور وہ اپنے ظہور کیلئے بیرونی کلام الہی کا محتاج ہوتا ہے- پس تھوڑا علم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ فطرت انسانی کو روحانی طاقتوں سے لگائو نہیں- لگائو ہے مگر ان طاقتوں کا ظہور سوائے کلام الہی کے نہیں ہو سکتا- چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- انہ لقران کریم- فی کتاب مکنون ۴۹~}~یعنی قرآن کریم میں جو تعلیمات ہیں وہ فطرت انسانی میں جو مظہرروح ہے موجود ہیں- کیونکہ انسان اسی شئے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو اس کے اندر بھی موجود ہو- غیر جنس اسے نفع نہیں دے سکتی- جیسے اگر کان نہ ہوں تو سننا ناممکن ہے اور آنکھیں نہ ہوں تو دیکھنا ناممکن ہے- یا اس کی مثال پانی کی سی ہے کہ جب اوپر سے پانی برستا ہے تو چشمے بھی جاری ہو جاتے ہیں اور اگر آسمان سے پانی نہ برسے تو چشمے بھی خشک ہو جاتے ہیں- اسی طرح جب خدا تعالیٰ کی وحی کا پانی نازل ہوتا ہے تو روح انسانی سے بھی روحانی پانی ابلنے لگتا ہے- کیونکہ الہی کلام اور انسانیفطرت یک دوسرے کیلئے بطور جوڑے کے ہیں- ایک لفظوں میں کتاب الہی ہوتی ہے اور دوسریفطرت میں مرکوز ہوتی ہے- اور وہی کتاب الہامی ہو سکتی ہے- جو انسانی فطرت کے مطابق ہو پس انسانی فطرت میں بھی کلام الہی ہوتا ہے- مگر اسے ابھارنے کیلئے الہام کی ضرورت ہوتی ہے خداتعالیٰ نے ایک طرف تو اپنے کلام کا ایک حصہ انسان کے دماغ میں رکھ دیا اور دوسرا حصہ اس نے اپنے نبی کو دے کر بھیج دیا- جب یہ دونوں حصے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں تو اسے خداکی طرف سے سمجھ لیا جاتا ہے-
سفر ولایت کے ایام کا ایک واقعہ
اس موقع پر میں ایک لطیفہ سناتا ہوں- جب میں ولایت سے واپس آیا تو جس جہاز پر ہم سوار ہوئے اس کا چیفانجینئر ایک دن جہاز کی مشینری دکھانے کیلئے مجھے لے گیا- اور دکھانے کے بعد کہنے لگا کہ آپ اپنے سیکرٹریوں کو واپس بھیج دیں- میں آپ کے ساتھ ایک خاص بات کرنا چاہتا ہوں- میں نے کہا بہت اچھا- میں نے ساتھیوں کو بھیج دیا- جب وہ چلے گئے تو کہنے لگا- آپ کے پاس مختلف ممالک کے خطوط آتے ہونگے- اگر آپ مجھے ان خطوط کے ٹکٹ بھجوا دیا کریں تو میں بہت ممنون ہونگا- میں نے کہا اچھا اگر کوئی غیر معمولی ٹکٹ ملا تو بھیج دیا کروں گا- کہنے لگا میں بھی آپ کی خدمت کروں گا- آپ مجھ پر اعتبار کریں اور مجھ سے کام لیں- پھر کہنے لگا- آپ جس غرض کیلئے ولایت گئے تھے وہ مجھے معلوم ہے اور وہ یہی ہے کہ آپ نے حکومت کے خلاف وہاں مشنری رکھے ہوئے ہیں انہیں آپ مخفی ہدایات دینے گئے تھے- اب آپ جو مخفی تحریریں بھیجنا چاہیں وہ میں لے جایا کروں گا- آپ اس طرح کریں کہ کارڈ کا ایک ٹکڑا آپ اپنے مشنریوں کو دیں اور دوسرے میرے ذریعہ بھیجیں- جب دونوں ٹکڑے ایک دوسرے کے ساتھ فٹ (FIT) ہو جایا کریں گے تو آپ کے مشنری سمجھ لیں گے کہ آپ نے جو ہدایات ان کو بھیجی ہیں وہ اصلی ہیں- اس طرح وہ آپ کی ہدایت پہچان لیا کریں گے- اس کا یہ قیاس تو غلط تھا اور میں نے اس کی تردید بھی کی اور کہا کہ ہم اپنی حکومت کے وفادار ہیں- مگر جس طرح اس نے کہا تھا کہ ایک ٹکڑا آپ اپنے مشنری کو دے دیں اور دوسرا ٹکڑا مجھے بھجوا دیں جب وہ دونوں ٹکڑے مل جائیں گے تو مشنری سمجھ لے گا کہ آپ نے جو ہدایات بھیجی ہیں وہ اصلی ہیں- یہی حالت انسان کی روحانیت کے متعلق ہوتی ہے- ایک ٹکڑا کلام الہی کا انسان کے دماغ میں ہوتا ہے اور دوسرا ٹکڑا نبی کے پاس ہوتا ہے جب وہ دونوں فٹ ہو جاتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر فٹ نہ ہوں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ایسا کلام پیش کرنے والا دھوکا باز ہے-
کتاب مبین اور کتاب مکنون کا اتحاد
غرض روحانی ترقیات کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہی تعلیم نازل ہو جو روحانی قابلیتوں کے مشابہ ہو- پس اس طرح ایک رنگ میں کلام الہی انسانی دماغ میں بھی موجود ہوتا ہے- لیکن وہ مخفی ہوتا ہے اور اس کا ابھارنا ایک کتاب واضح کے ساتھ تعلق رکھتا ہے- چنانچہ قرآن کریم کا نام اسی جہت سے کتاب مبین آیا ہے- چنانچہ فرماتا ہے- قدجاء کم من اللہ نور و کتب مبین ۵۰~}~اے لوگو! تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور واضح کتاب آ چکی ہے اس سے فائدہ اٹھائو-
پس روحانی قابلیتیں بمنزلہ زمین کے پانی کے ہیں جو آسمانی پانی کے قرب کے ساتھ اونچا ہوتا ہے- اور جس طرح بارش نہ ہونے پر کنوئوں کے پانی سوکھنے لگتے ہیں اسی طرح الہام کے نازل نہ ہونے پر فطرت کا سرچشمہ خشک ہونے لگتا ہے- پس باوجود اس کے کہ فطرت میں کلام مخفی طور پر موجود ہے وہ آسمانی کی پانی عدم موجودگی میں گدلا اور خراب ہو جاتا ہے اور اس پر بھروسہ کرنا کافی نہیں ہو سکتا- ہاں جب آسمانی پانی نازل ہو تو دونوں ایک دوسرے پر گواہ ہوتے ہیں- آسمانی پانی فطرت کے پانی کی صفائی کی گواہی دیتا ہے اور فطرت کا پانی آسمانی پانی کی صفائی پر گواہی دیتا ہے- گویا وہ ایک چیز کے دو ٹکڑے ہیں کہ دونوں مل کر ایک وجود پورا ہوتا ہے- اور اللہ تعالیٰ نے ایک ٹکڑا انسان کے دماغ میں اس لئے رکھا ہے کہ جب آسمانی پانی نازل ہو تو فطرت صحیحہ اس کے لئے بطور شاہد ہو- پس کتاب مبین اور کتاب مکنون کا اتحاد کتاب مبین اور کتاب مکنون دونوں کی سچائی پر شاہد ہوتا ہے- اور دھوکے بازوں کے دھوکا سے بچاتا ہے اور ان میں آپس میں ایسا ربط ہے کہ جب ایک قریب ہو تو دوسری خود بخود قریب ہونے لگتی ہے- الہام ہو تو فطرت ابھرنے لگتی ہے جیسا کہ سورۃ انعام میں بطور کلام الہی کی تمثیل کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وھوالذی انزل منالسماء ماء فاخرجنا بہ نبات کل شیء ۵۱~}~یعنی الہی کلام کی مثال پانی کی طرح ہے- جس طرح پانی نازل ہونے سے سبزیاں اگنے لگتی ہیں اسی طرح کلام الہی کے نازل ہونے سے ہر قسم کی قابلیتوں میں ابھار شروع ہو جاتا ہے اور وہ اپنے اپنے جوہر کو ظاہر کرنے لگتی ہیں- اسی طرح فطرت کے ابھرنے سے بھی کلام الٰہیہ کھچ آتا ہے- جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-
اللہ نور السموت والارض مثل نورہ کمشکوہ فیھا مصباح المصباح فی زجاجہ الزجاجہ کانھا کوکب دری یوقد من شجرہ مبارکہ زیتونہ لاشرقیہ ولا غربیہ یکاد زیتھا یضیء ولولم تمسسہ نار نور علی نور یھدی اللہ لنورہ من یشاء و یضرب اللہ الامثال للناس واللہ بکل شیء علیم-
اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے مثل نورہ کمشکوہ فیھا مصباح المصباح فی زجاجہ الزجاجہ کانھا کوکب دری اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں لیمپ ہو اور لیمپ چمکدار گلوب میں ہو جو ستارہ کی طرح چمکے- جس کی وجہ سے اس کی روشنی کا فوکس فائدہ اٹھانے والوں پر پڑ رہا ہو- یوقد من شجرہ مبرکہ زیتونہ اور اس میں اعلیٰ درجہ کا مصفیٰ تیل زیتون کے مبارک شجر کا ہو- لاشریقہ ولاغربیہ اور وہ شجر ایسا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی- یکاد زیتھا یضیء ولولم تمسسہ نار- ایسا تیل اپنی اعلیٰ درجہ کی صفائی کی وجہ سے قریب ہو کہ بغیر آگ کے آپ ہی آپ روشن ہو جائے- نور علی نور اس لئے کہ جب اس تیل یعنی فطرت صحیحہ میں ایسی جلا پیدا ہو جائے تو اللہتعالیٰ کا نور جو اس فطرتی نور کو روشن کر دینے کی وجہ سے نار سے مشابہ بھی ہے نازل ہو جاتا ہے اور آسمانی نور زمینی نور سے آکر مل جاتاہے-
اب دیکھو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کس طرح کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ فطرت کا نور جب کامل جلا پا جائے اور ایسا مصفیٰ ہو جائے کہ گویا خود ہی جل اٹھنے والا ہو تو اس وقت وہ آسمانی نور کو جذب کر لیتا ہے یعنی مورد الہام ہو جاتا ہے- پس یہ کہنا کہ کامل اور مصفیٰ دماغ آپ ہی تعلیم کو معلوم کرے گا درست نہیں- اگر وہ کامل ہے تو الہام خود بخود اس پر نازل ہوگا- اور اگر وہ ناقص ہے تو پھر تعلیم بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا-
غرض اس آیت میں روحانی طاقتوں اور ان کے ارتقاء کے مسئلہ پر سیر کن بحث کی گئی ہے- جس پر عقل اور مشاہدہ دونوں شاہد ہیں- اور یہ بحث دنیا کی اور کسی کتاب میں نہیں مل سکتی-
آگے بتایا کہ یہ نور کہاں ہے؟ فرماتا ہے- فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھااسمہ یسبح لہ فیھا بالغدو والاصال2] f[st۵۲~}~ یہ نور ایسے گھروں میں ہے جن کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ انہیں اونچا کیا جائے گا اور حکومت دی جائے گی- گویا نور سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے متعلق یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ انہیں دنیا کا بادشاہ بنا دیا جائے گا-
پس بے شک انسانی فطرت میں بھی نور ہے اور وہ خدا کے نور کے مشابہ ہے مگر قاعدہ یہ ہے کہ جب ایک فطرت جلا پا جائے یعنی اس قدر مکمل ہو جائے کہ الہام پانے کی طاقت اس میں پیدا ہو جائے تو آسمان سے الہام اس پر نازل ہوتا ہے گویا انسانی فطرت صحیحہ الہام کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی- جب فطرت کامل ہو جائے تو ضرور ہے کہ الہام نازل ہو- لیکن اگر الہام نازل نہیں ہوتا تو فطرت کامل نہیں ہوگی- پس بغیر الہام الہی کے کام نہیں کیا جا سکتا-
روحانی طاقتوں کی تکمیل کیلئے کامل تعلیم
)۳( تیسری چیز جس کا بیان کرنا ایک مذہب کیلئے نہایت ضروری ہے- وہ ان امور کا بیان کرنا ہے جو روحانی طاقتوں کی تکمیل اور ان کی امداد کیلئے ضروری ہیں- یہ مضمون ایسا وسیع ہے کہ اس میں شریعت کے تمام احکام آ سکتے ہیں- اور مذہب کے تمام اصول اور جزئیات پر بھی اس میں بحث ہو سکتی ہے- کیونکہ ان کی غرض یہی ہوتی ہے کہ روحانی طاقتوں کا ارتقاء ہو- لیکن چونکہ اس لیکچر کے یہ مناسب حال نہیں اس لئے میں اختصاراً اس کے متعلق صرف ایک ریویو کر دیتا ہوں کہ اسلام چونکہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ )۱(روح انسانی جسمانی تغیرات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور اس وجہ سے وہ جسمانی تغیرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی- جیسے فرمایا یایھا الرسل کلوا من الطیبت واعملوا صالحا ۵۳text1]~}~ g[ta
اے رسولو! پاک چیزوں میں سے کھائو اور مناسب حال اعمال بجا لائو- یعنی طیبات کے کھانے سے نیک اعمال کی توفیق عطا ہوتی ہے- اس لئے وہ قرار دیتا ہے کہ مذہب کو ایک حد تک انسان کی غذائوں اور اس کے کانوں اور اس کی آنکھوں اور اس کی قوت حاسہ پر بھی حد بندی کرنی چاہئے تا کہ معدہ اور حواس کے ذریعہ سے دماغ اور دل پر بد اثرات نہ پہنچیں اور اس کی روح مردہ نہ ہو اور اس نے اس کے متعلق دو اصول مقرر کئے ہیں-
اول ضروری اور اصولی امور اس نے خود بتا دیئے ہیں اور ہر مسئلہ کے متعلق تفصیلی احکام دیئے ہیں مگر باوجود اس کے )۲(اس نے تسلیم کیا ہے کہ بعض امور میں انسان کی بدلنے والی ضرورتیں یا مختلف ممالک کے لوگوں کیلئے بدلتے رہنے والے قوانین کی بھی ضرورت ہوگی- کیونکہ زمانہ کے تغیرات کے لحاظ سے ایسی ضرورتیں پیش آ سکتی ہیں جن کے متعلق اپنے طور پر قوانین بنانے پڑیں- چنانچہ اس کے لئے وہ یہ قاعدہ مقرر فرماتا ہے کہ یایھا الذین امنوا لاتسلوا عن اشیاء ان تبد لکم تسو کم- وان تسئلوا عنھا حین ینزل القران تبدلکم عفا اللہ عنھا واللہ غفور حلیم-۵۴text]~}~ [tagفرمایا- اے مومنو! تم آپ ہی آپ یہ سوال نہ کیا کرو کہ ہم فلاں کام کس طرح کریں اور فلاں کس طرح- کیونکہ بعض باتیں اللہ تعالیٰ نے جان بوجھ کر اس حکمت کے ماتحت چھوڑ دی ہیں کہ اگر انہیں بیان کر دیا جائے تو وہ تمہارے لئے دائمی طور پر مقرر ہو جائیں گی حالانکہ وہ جانتا ہے کہ آئندہ ان میں تبدیلی کی ضرورت پیش آتی رہے گی- پس دوسرا اصل قرآن کریم نے یہ بتایا کہ کامل تعلیم کے بعد بھی بعض ہدایتوں میں وقتی طور پر تغیر کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے- ان کو قرآن نے انسانی عقل پر چھوڑ دیا ہے- اور فیصلہ کرنے کا یہ طریق بتا دیا ہے کہ امرھم شوری بینھم ۵۵~}~یعنی مومنوں کا یہ طریق ہے کہ وہ قومی معاملات کو باہمی مشورہ سے طے کیا کرتے ہیں- پس اسلام میں یہ نہیں کہ ہر فرد اپنی اپنی رائے پر چلے بلکہ مشورہ کرنے کے بعد جو بات طے ہو اس پر چلنا چاہئے- مگر باوجود ان باتوں کے چونکہ انسان پھر بھی غلطی کر سکتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کیلئے بعض غیبی سامان بھی مہیا کئے ہیں- اور وہ یہ ہیں کہ اس نے ملائکہ کو پیدا کیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ انسان کو نیکی کے رستہ پر چلاتے رہیں- چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے- لہ معقبت من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر اللہ ۵۶~}~یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے آگے بھی اور اس کے پیچھے بھی ملائکہ کی ایک جماعت ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی حفاظت کر رہی ہے- غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کیلئے شریعت نازل کی اور اسے تفصیلی ہدایات دیں- مگر پھر بھی انسان چونکہ غلطی کر سکتا ہے اس لئے اس کی حفاظت پر ملائکہ لگا دیئے گئے ملائکہ کے ایسے اعمال کے متعلق باقی کتب خاموش ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ باقی کتب نے ملائکہ کے متعلق تفصیلی بحث کی ہی نہیں- بلکہ ایسے رنگ میں بحث کی ہے کہ ایک طبقہ ان کو خدا کی بیٹیاں کہنے لگ گیا- دنیا اس امر پر ہنستی ہے مگر تجربہ کار لوگ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان احسانوں میں سے ایک احسان ملائکہ کا وجود ہے مگر یہ موقع اس پر تفصیلی بحث کرنے کا نہیں ہے-
روحانی نتائج کا اظہار
)۳(تیسرا اصل یہ بتایا کہ چونکہ انسان اگر ایک ہی رنگ میں کام کرتا چلا جائے اور اس کے نتائج نہ دیکھے تو اس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے- اس لئے نتائج کے اظہار کا بھی کوئی طریق ہونا چاہئے- سکولوں میں طلباء کا امتحان لینے کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ نتائج دیکھ کر ان کی ہمت بڑھے اور وہ تعلیم میں ترقی کریں- اسی رنگ میں خدا تعالیٰ نے روحانی نتائج کے اظہار کے لئے بھی ایک طریقہ بیان فرما دیا- چناچہ فرمایا ادعونی استجبلکم ۵۷~}~تممجھے ساتھ کے ساتھ بلائو میں تمہاری پکار سنوں گا-
غیر مذاہب کا بے اصولا پن
اب یہ تینوں باتیں اسلام کے سوا دوسرے مذاہب میں بھی ملیں گی تو سہی مگر بے اصولے طور پر- مثلاً )۱(وہ مذاہب جو احکام دیتے ہیں ان کی حکمت نہیں بتاتے- )۲(احکام تو دیتے ہیں مگر ایسے کہ جو انسانی حریت کو کچلنے والے ہیں- )۳(دوسری کتابیں بعض احکام تو بیان کرتی ہیں لیکن بے جوڑ- یعنی وہ نہ تو یہ بتاتی ہیں کہ جو احکام وہ بیان کرتی ہیں انہیں کیوں بیان کرتی ہیں اور نہ یہ بتاتی ہیں کہ جن کو نہیں بیان کرتیں انہیں کیوں چھوڑتی ہیں- دانستہ چھوڑا گیا ہے یا نادانستہ- جیسے وید ہیں کہ بڑے بڑے اہم امور کے متعلق کچھ بیان نہیں- حتیٰ کہ قصاص اور عفو اور محرمات تک کے متعلق بھی کوئی حکم نہیں- انجیل نے تو غضب کیا ہے کہ ایک طرف تو وہ شریعت کو *** قرار دیتی ہے اور دوسری طرف احکام بھی دیتی ہے- حالانکہ اگر یہ درست ہے کہ شریعت *** ہے تو چاہئے تھا کہ انجیل میں کوئی بھی حکم نہ ہوتا- مگر حکم ہیں- جیسا کہ متی باب۵ آیت ۳۲ میں آتا ہے-:
پھر میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرامکاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے- وہ اس سے زنا کراتا ہے- اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتاہے- ۵۸~}~
اگر شریعت *** ہے تو معلوم نہیں اس *** سے لوگوں کو کیوں حصہ دیا گیا ہے- اور اگر کہو کہ شریعت *** نہیں بلکہ رحمت ہے تو باقی ضروری باتیں کیوں چھوڑ دی گئیں- وہ بھی بتا دی جاتیں- غرض ان مذاہب نے ایک بے جوڑ سی بات کر دی ہے- کہیں کوئی بات چھوڑ دی اور یہ نہ بتایا کہ جن احکام پر خاموشی اختیار کی ہے ان پر خاموشی کیوں اختیار کی ہے اور کہیں بیان کر دی اور اس کی حکمت نہ بتائی- مگر قرآن اصولی بات کہتا ہے- جو حکم دیتا ہے اس کی حکمت بتاتا ہے- اور جن احکام کو اس نے چھوڑا ہے ان کی وجہ بھی بیان کر دی ہے مگر دوسری کتابوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی- ویدوں میں بہن بھائی کی شادی کی کہیں ممانعت نہیں ہے- لیکن ویدوں کے ماننے والے اسے ناجائز قرار دیتے ہیں-
قرآنی تعلیم کے مکمل ہونے کا ایک واضح ثبوت
میں ان روحانی ہدایت ناموں کی پرکھ کے متعلق ایک موٹا نسخہ بتاتا ہوں- ہر ایک کتاب جو قرآن کریم کے سوا ہے اس میں جو مسائل بیان ہوئے ہیں ان کے علاوہ ضرور ایسے مسائل نکلیں گے کہ جن پر عمل کرنے کو اخلاقی برائی سمجھا جائے گا- لیکن ان کی ممانعت اس کتاب میں نہیں ملے گی- اس کے مقابلہ میں قرآن کریم میں ایک بھی امر ایسا نہیں جس پر عمل اخلاقی برائی سمجھا جائے اور اس سے اسلام نے نہ روکا ہو- یا اس کے متعلق خاص طریق عمل کا ارشاد نہ کیا ہو- یہ مختصر گر اس کی تعلیم کے مکمل ہونے کا ایک اہم ثبوت ہے-
عالم معاد کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم
)۴(چوتھا امر جس کے متعلق ہدایت دینا مذہب کا اہم فرض ہے وہ معاد کے متعلق ہے یعنی وہ بتائے کہ مرنے کے بعد انسان کی کیا حالت ہوگی؟ اسلام اس بارہ میں بھی مفصل بحث کرتا ہے- جسے اس موقع پر تفصیلاً تو بیان نہیں کیا جا سکتا- لیکن دو آیتیں اس کی تائید میں پیش کرتا ہوں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- افحسبتم انما خلقنکم عبثا وانکم الینا لا ترجعون- ۵۹~}~یعنی کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ تمہاری پیدائش عبث اور فضول ہے اور تم لوٹ کر ہماری طرف نہیں آئو گے- یہ آیت زمین اور آسمان کی پیدائش اور احیاء اور اماتت اور اللہ تعالیٰ کی مالکیت کے ذکر کے بعد آئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ انسان میں ہم نے کتنی طاقتیں رکھی ہیں- کس طرح زمین اور آسمانوں کو اس کے لئے مسخر کیا- اس کے لئے چاند اور سورج پیدا کئے- ان کے اثرات رکھے- پھر انسان کے اندر قابلیتیں ودیعت کیں- کیا یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا ہے کہ انسان دنیا میں کھائے پیئے اور مر کر ختم ہو جائے` یہ کبھی نہیں ہو سکتا- انسان کے لئے بہرحال ایک اور زندگی ہونی چاہئے جس میں وہ اپنے اعمال کا جوابدہ ہو اور جو اس کی پیدائش کی غرض کو تکمیل تک پہنچانے والی ہو-
پھر سورۃ قیامت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- لا اقسم بیوم القیمہ- ولا اقسم بالنفس اللوامہ ایحسب الانسان الن نجمع عظامہ- ۶۰~}~یعنی میں مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندہ ہونے کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں- اس پر کہا جا سکتا ہے کہ جس چیز کی دلیل دینی تھی اسی کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے- مگر ذرا آگے پڑھیں تو بات واضح ہو جاتی ہے- اور معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں قیامت سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے- کیونکہ نبی کی بعثت بھی ایک قیامت ہوتی ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ اسی سورۃ میں فرماتا ہے- یسئل ایان یوم القیمہ- فاذا برق البصر- وخسف القمر- وجمع الشمس والقمر- یقول الانسان یومئذ این المفر- ۶۱~}~یعنی لوگ پوچھتے ہیں کہ قیامت کا دن کب ہوگا ان سے کہہ دو کہ یہ وہ زمانہ ہوگا جب نظر پتھرا جائیگی- یعنی نئے نئے علوم نکلیں گے اور انسان حیران رہ جائیں گے وجمع الشمس و القمر اور چاند اور سورج کو گرہن لگے گا- اس وقت انسان کہے گا کہ اب میں بھاگ کر کہاں جا سکتا ہوں- یہاں قیامت سے مراد مسیح موعود کا زمانہ ہے اور اسے قیامت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے- اور بتایا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب مسلمانوں کی تباہی اور بربادی انتہا کو پہنچ چکی ہوگی اس وقت خدا تعالیٰ پھر ان کو دوبارہ زندہ کرے گا- یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے متعلق ہے کہ مسلمان تباہ و برباد ہونے کے بعد پھر ترقی کریں گے اور اس بات کا پورا ہونا بتا دے گا کہ قرآن ایسے منبع سے نکلا ہے جہاں سے کوئی بات غلط نہیں نکلتی- جب یہ بات پوری ہو جائے گی تو لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ مرنے کے بعد کے متعلق بھی قرآن جو کچھ کہتا ہے وہ بھی ضرور پورا ہوگا-
دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ انسان کے اندر جو نفس لوامہ رکھا گیا ہے وہ بھی قیامت کا ثبوت ہے- انسان جب کوئی گناہ کی بات کرتا ہے تو اس پر اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے- ایک چھوٹا بچہ بھی جب جھوٹ بول رہا ہوتا ہے تو سمٹتا اور سکڑتا جاتا ہے کیونکہ نفس لوامہ جو اس کے اندر موجود ہے وہ اسے شرم دلا رہا ہوتا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہی نفس لوامہ جس کے نتیجہ میں انسان محسوس کرتا ہے کہ اخلاق کیا ہیں اور بد اخلاقی کیا ہے- گناہ کیا ہے اور ثواب کیا ہے- اس بات کا ثبوت ہے کہ قیامت کا بھی ایک دن مقرر ہے ورنہ اس کے اندر ندامت کا یہ احساس کیوں پیدا ہوتا- اسی طرح قرآن کریم عذاب اور انعام کی تمام تفصیلات بتاتا ہے اور ان کی حکمتیں بتاتا ہے اور سزا اور اس کی غرض اور انعام اور اس کا مقصد اور طریق سزا اور طریق انعام غرض ہر ایک پہلو پر مفصل روشنی ڈالتا ہے جس کی مثال دوسری کتب میں بالکل نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو ناقص طور پر- پس ضرورت مذہب کے بیان کرنے میں بھی اسلام دوسرے مذاہب سے افضل ہے-
خداتعالیٰ سے اتصال پیدا کرنے اور روحانی طاقتوں کو تکمیل تک پہنچانے والا مذہب
)۵(اب میں پانچویں بات بیان کرتا ہوں کہ جو ضرورتیں کوئی مذہب پیش کرے اس کا فرض ہے کہ وہ انہیں پورا بھی کرے- میں سمجھتا ہوں کہ اس میں سوائے قرآن کریم کے اور کوئی کتاب پوری نہیں اترتی- صرف قرآن کریم ہی ہے جو اس امر کا مدعی ہے کہ جب تک کوئی مذہب خدا تعالیٰ سے اتصال پیدا نہیں کراتا اور روحانی طاقتوں کو مکمل نہیں کراتا اور اخروی بھلائی کی ضمانت اسے نہیں دیتا اس کی خالی تعلیم اسے نفع نہیں پہنچا سکتی- چنانچہ وہ اس دنیا سے آواز دیتا ہے کہ من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرہ اعمی واضل سبیلا ۶۲~}~یعنی یہ یاد رکھو کہ نماز` روزہ` حج اور زکٰوۃ وغیرہ کی غرض یہ ہے کہ انسان خدا کو پا لے کیونکہ مذہب کا مدعا یہ ہے کہ انسان خدا کو دیکھ لے- اور اگر اس دنیا میں خدا کسی کو نظر نہیں آتا تو اگلی دنیا میں بھی نظر نہیں آئے گا- خدا کو دیکھنے کی اس دنیا میں بھی ضرورت ہے- اگر ایک انسان سب عبادات بجا لاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے نظر نہیں آتا تو صاف معلوم ہوا کہ عبادت کا جو اصل مقصد ہے وہ پورا نہیں ہوا- اور جو شخص اس دنیا میں خدا کو دیکھنے سے اندھا رہا وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا اور اسے وہاں بھی خدا نظر نہیں آئے گا- اضل سبیلا کے معنی یہ ہیں کہ اگلے جہان میں اس کی نابینائی اور بھی بھیانک ہوگی کیونکہ وہاں توبہ کا کوئی موقع نہ ہوگا-
آخرت سے آواز
پھر وہ آخرت سے آواز دیتا ہے کہ یوم تری المومنین والمومنت یسعی نورھم بین ایدیھم وبایمانھم بشرئکمالیوم جنت تجری من تحتھا الانھار خلدین فیھا ذلک ھوالفوز العظیم- یوم یقول المنفقون والمنفقت للذین امنوا انظر ونا نقتبس من نور کم قیلارجعوا ورائکم فالتمسوا نورا فضرب بینھم بسور لہ باب باطنہ فیہ الرحمہ وظاھرہ من قبلہ العذاب- ۶۳~}~یعنی اس روز تو مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھے گا کہ ان کا نور ان کے سامنے بھی اور ان کے دائیں طرف بھی بھاگتا جائے گا- اس میں بتایا کہ اگلے جہان کی ترقیات بہت جلدی جلدی ہونگی نور تیز تبھی ہوگا جب کہ ساتھ چلنے والے بھی تیز ہونگے- وہ نور بین ایدیھم وبایما نھم رہے گا یعنی ان کے دائیں بائیں بھی نور ہوگا اور آگے بھی- گویا اس میں ترقیات کی رفتار کی تیزی اور اس تیزی میں مومنوں کے ہم قدم رہنے کی طرف اشارہ ہے- بشرئکم الیوم خداتعالیٰ کے فرشتے انہیں کہیں گے کہ آج تمہارے لئے بشارت ہے- جنت تجری من تحتھاالانھار خلدین فیھا ان جنات اور قسم قسم کے باغوں کی جن میں نہریں بہہ رہی ہیں- یوم یقول المنفقون والمنفقت للذین امنوا انظر ونا نقتبس من نور کم قیلارجعوا ورائکم فالتمسوا نورا اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ تم تو دوڑے جا رہے ہو ذرا ہمارا بھی انتظار کرو- ہم بھی تم سے نور لے لیں- اس وقت ان سے کہا جائے گا تمہیں یہاں سے نور نہیں مل سکتا- اگر طاقت ہے تو تم پیچھے کی طرف لوٹ جائو- اور وہیں جائو جہاں سے تم آئے ہو اور وہاں جا کر نور کی تلاش کرو- اس میں بتایا کہ وہ نور جو اگلے جہان میں کام آئے گا اسی دنیا میں ملتا ہے- وہاں جانے کے بعد نہیں ملے گا- اس سے پتہ لگتا ہے کہ انسان اسی دنیا میں نیکیاں کرے تب اگلے جہان میں کامیاب ہو سکتا ہے- مگر دیکھو رحمت الہی بھی کس قدر وسیع ہے- کہا جا سکتا تھا کہ جب دنیا میں کسی کو نور نہیں ملا تو کیا پھر اسے کبھی نور نہ مل سکے گا اور وہ ہمیشہ کے لئے محروم ہو جائے گا اور اگر اسے نور مل سکتا ہے جس کی طرف فالتمسوا نورا میں ایک مخفی اشارہ ہے تو کیسے- اس کے متعلق فرمایا- فضرب بینھم بسور لہ باب باطنہ فیہ الرحمہ و ظاھرہ من قبلہ العذاب- منافقوں اور مومنوں کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی- اور اس میں ایک دروازہ رکھا جائے گا- یہ تو صاف بات ہے کہ جنت والے تو جنت سے باہر نہیں جائیں گے اس لئے یقیناً یہ دروازہ اسی لئے رکھا جائے گا کہ باہر والے اندر آ جائیں- پس بتایا کہ گو نور اسی دنیا میں حاصل ہو سکتا ہے لیکن جو اس سے محروم رہیں گے انہیں بعض حالتوں میں سے گذارنے کے بعد معاف کر دیا جائے گا- اور وہ اس دروازہ میں سے گذر کر جنت میں داخل ہو جائیں گے- باطنہ فیہ الرحمہ و ظاھرہ من قبلہ العذاب میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ جنتی حواس اور قوتوں سے ہی دوزخ پیدا ہوتی ہے- یعنی حواس حقیقی تو نیک ہی ہیں لیکن ان کے غلط استعمال سے دوزخ پیدا ہوتی ہے- غرض اس دعویٰ میں بھی قرآن کریم کے ساتھ اور کوئی کتاب شریک نہیں ہے-
ایفائے وعدہ کا ثبوت 0] ftr[
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اوپر جو کچھ بیان ہوا یہ تو دعویٰ ہے- کیا ایفائے وعدہ بھی ہوگا سو اس کے متعلق فرمایا- ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا او کذب بالحق لما جائہ الیس فی جھنم مثوی للکفرین- والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا و ان اللہ لمع المحسنین- ~}~یعنی اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ کر افتراء کرے- یا اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہو سکتا ہے جو اس سچائی کا انکار کر دے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے پاس آئے- کیا ایسے کافروں کی جگہ جہنم نہیں ہونی چاہئے؟ ہاں وہ جو ہماری تعلیم قرآن کے مطابق ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہیں ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے اور اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ محسنوں کا ساتھ دیتا ہے- اس آیت میں بتایا کہ ایسے لوگ جتنا ہماری طرف چل کر آ سکیں گے اتنا اگر چلیں گے- تو جب ان کے پیر چلنے سے رہ جائیں گے ہم خود جا کر انہیں لے آئیں گے- کیونکہ ہمارا یہ طریق ہے کہ کچھ بندہ آتا ہے اور کچھ ہم اس کی طرف جاتے ہیں-
‏text] ga[t یہاں ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا الخمیں یہ بتایا کہ قرآن خدا پر افتراء نہیں- اگر یہ جھوٹ ہوتا تو اس کے بنانے والا عذاب میں مبتلا کیا جاتا- پھر والذین جاھدوافینا لنھدینھم سبلنا میں یہ بتایا کہ جھوٹ کوئی اس وقت بولتا ہے جب سچائی سے اپنا مقصد حاصل نہ کر سکے- لیکن جب ہم نے کلام نازل ہونے کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور ہم نے کہہ دیا ہے کہ محسن بن جائو تو اللہ تعالیٰ تک پہنچ جائو گے تو کیوں سچی کوشش کرکے سچا کلام حاصل نہ کیا جائے- جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے-
رضائے الہی حاصل کرنے والا کامیاب گروہ
اس آیت کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں تو صرف یہ بتایا گیا ہے کہ ہم ایسا کریں گے- سوال یہ ہے کہ کیا خدا تعالیٰ نے ایسا کیا بھی ہے یا نہیں؟ سو اگرچہ اس سوال کا جواب اسی آیت میں آ جاتا ہے- کیونکہ خدا تعالیٰ سے اتصال اس کا ہوگا جو مناسب روحانی تکمیل حاصل کر چکا ہو اور وہ جنت بھی پائے گا- لیکن علیحدہ علیحدہ بھی ان باتوں کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق رکھنے والے آخر قرآن پر چل کر اپنی مراد کو پہنچ گئے اور انہوں نے جنت پا لی- چنانچہ فرماتا ہے- من المومنین رجال صدقوا ماعاھدوا اللہ علیہ فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر وما بدلوا تبدیلا- لیجزی اللہ الصدقین بصدقھم ویعذب المنفقین ان شاء اویتوب علیھم ان اللہ کان غفورا رحیما-۶۵~}~فرمایا- ان مومنوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے جو عہد کیا تھا اسے انہوں نے پورا کر دیا- فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر وما بدلوا تبدیلا- ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اپنے عہد کو پورا کر دیا اور وہ خدا سے مل گئے- نحب کے معنی نذر اور ما اوجب علی نفسہ کے بھی ہوتے ہیں- پس اس سے مراد ماخلقت الجن والانس الالیعبدون۶۶~}~ کے عہد کو پورا کرنے کے ہیں- لیکن فرماتاہے- بعض ایسے بھی ہیں جو ابھی اس خلش میں لگے ہوئے ہیں کہ خدا سے مل جائیں- انہوں نے اپنی طرف سے جدوجہد کرنے میں کوئی کمی نہیں کی- سو خدا ایسے صادقوں کو بھی ان کے صدق کا ضرور بدلا دے گا-
اس آیت سے ثابت ہے کہ قرآن نے یہ امر تسلیم کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو قرآن پر چل کر خدا کو مل گئے-
ملائکہ سے مومنوں کا تعلق
پھر ملائکہ چونکہ اخلاق فاضلہ کی محرک ہستیاں ہیں- اس لئے مزید ثبوت کے لئے فرمایا کہ ان کی روحانی درستی کی علامتیں بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں اور روحانی تکمیل کے موکل ان سے ملنے لگتے ہیں- چنانچہ فرماتا ہے-
‏]ksn [tag ان الذین قالو ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملئکہ الاتخافوا ولا تخزنوا وابشروا بالجنہ التی کنتم توعدون- نحن اولیاو کم فی الحیوہ الدنیا و فی الاخرہ ولکم فیھا ماتشتھی انفسکم ولکم فیھا ماتدعون نزلامن غفور رحیم-۶۷~}~
یعنی وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر استقامت سے قائم رہتے ہیں یعنی اپنے اعمال سے اس کا ثبوت دیتے ہیں- ہم ان پر فرشتے نازل کرتے ہیں جو انہیں کہتے ہیں ڈرو نہیں اور نہ کسی پچھلی غلطی کا غم کرو- تمہیں جنت کی بشارت ہو- تم خدا سے جا ملو گے اور وہاں تمہیں وہ چیز مل جائیگی جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے- ہم اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تمہارے مددگار ہوں گے اور تم اس دنیا میں اور اگلے جہان میں جو کچھ چاہو گے اور جو کچھ مانگو گے وہ تمہیں مل جائے گا- اس میں بتایا کہ تمہاری قلبی اصلاح بھی ہو جائیگی اور عملی بھی- جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہؓ کے متعلق فرمایا کہ اعملوا ماشئتم ۶۸~}~ تم جو چاہو کرو- یعنی اب تم بدی کر ہی نہیں سکتے- اسی طرح یہاں بھی یہی مراد ہے کہ ولکم فیھا ماتشتھی انفسکم تمہارے نفس ایسے پاکیزہ ہوگئے ہیں کہ اب جو کچھ تم چاہو گے پاک چیز ہی چاہو گے- یعنی تمہارے دل میں نیک تحریکیں ہی ہونگی بری نہیں ہونگی- اور ہمیشہ پاک چیزیں ہی مانگو گے بری نہیں مانگوگے-
اب سوال ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ پچھلے زمانہ پر ہی ختم ہو گیا یا آگے بھی اس کا سلسلہ جاری رہے گا- سو اس کا جواب بھی قرآن کریم میں موجود ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم و یعلمھم الکتب والحکمہ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین- واخرین منھم لما یلحقوابھم وھوالعزیز الحکیم- یعنی وہی خدا ہے جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف اسی میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا جو ان کو خدا کے احکام سنتا اور ان کو پاک کرتا اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گو وہ اس سے پہلے بڑی بھاری گمراہی میں مبتلا تھے- اسی طرح ان لوگوں کے سوا اللہ تعالیٰ ایک دوسری قوم میں بھی اس رسول کو بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے- یہ آیت بتاتی ہے کہ جو کچھ اس رسول کے زمانہ میں ہوا وہی اس زمانہ میں بھی ہوگا اور یہ سلسلہ جاری رہے گا بند نہ ہوگا-
فائدہ کی شدت کے لحاظ سے قرآن کریم کی فضیلت
)۴(فضیلت کی ایک اور وجہ فائدہ کی شدت کے لحاظ سے ہوتی ہے- یعنی گو فائدہ تو اور چیزوں میں بھی ہوتا ہے مگر جس چیز کا فائدہ اپنی شدت میں بہت بڑھا ہوا ہوتا ہے اسے دوسروں پر فضیلت دی جاتی ہے- قرآن کریم کے متعلق جب ہم یہ بات دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کو اس بارے میں بھی فضیلت حاصل ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم- ۶۹~}~یعنی اے مسلمانوں تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگتے رہو کہ اے اللہ! ہمیں سیدھا رستہ دکھا اور اس رستہ پر چلا جس پر چل کر پہلے لوگوں نے تیرے انعامات حاصل کئے- گویا جس قدر انعامات تو نے پہلے لوگوں پر کئے ہیں وہ سب کے سب ہم پر بھی کر- اور پہلے لوگوں کے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے- والذین امنوا باللہ و رسلہ اولئک ھم الصدیقون- والشھداء عند ربھم ۷۰~}~یعنی وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہداء کا درجہ پانے والے ہیں- اس آیت میں بتایا کہ تمام امتوں میں شہداء اور صدیقوں کا دروازہ کھلا تھا- مگر جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا وہاں فرمایا- ومن یطع اللہ والرسول فاولئک معالذین انعم اللہ علیھم من النبین و الصدیقین والشھداء والصلحین وحسن اولئک رفیقا- ۷۱~}~یعنی وہ لوگ جو اللہ اور اس رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہونگے جن پر خدا تعالیٰ کے انعامات نازل ہوئے یعنی نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین میں- گویا پہلے نبیوں کی اطاعت سے تو صرف صدیق اور شہداء بنتے تھے مگر اس نبی کی اطاعت سے نبوت کا درجہ بھی حاصل ہو سکتا ہے- حضرت دائودؑ اور حضرت عیسیٰؑ نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع سے نبوت ملی ہے- لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات پر زور دیا اور بار بار اس کا اعلان کیا کہ مجھے محض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں درجہ نبوت حاصل ہوا ہے-
انبیاء اور صدیقین وغیرہ کی معیت کا مفہوم
بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ یہاں معالذین آیا ہے جس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ اور اس رسول کی اطاعت سے کوئی نبی بن سکتا ہے بلکہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اسے انبیاء کی معیت حاصل ہوگی- اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اگر نبی بننے کی نفی کی جائیگی تو اس کے ساتھ ہی صدیق` شہید اور صالح بننے کی نفی بھی کرنی پڑے گی- اور یہ ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ امتمحمدیہﷺ~ میں اب کوئی صدیق` شہید اور صالح بھی نہیں بن سکتا- لیکن اگر صالحیت` شہادت اور صدیقیت کا مقام حاصل ہو سکتا ہے تو پھر نبوت کا انعام بھی حاصل ہو سکتا ہے- لیکن اس پر یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن کریم کا کوئی لفظ حکمت کے بغیر نہیں ہے تو پھر یہاں مع کا لفظ لانے کی کیا ضرورت تھی- جیسا کہ دوسری جگہ مع الذین نہیں رکھا بلکہ صرف یہ فرمایا کہ وہ صدیق اور شہید ہونگے- اسی طرح یہاں بھی کہا جا سکتا تھا- اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مع رکھ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اس رسول کی اطاعت کرنے والے صرف صدیق ہی نہیں ہونگے بلکہ سب امتوں کے صدیقوں کی خوبیاں ان میں آ جائینگی- صرف شہید ہی نہیں ہونگے بلکہ پہلے سب شہیدوں کی صفات کے جامع ہونگے- صرف صالح ہی نہیں ہونگے بلکہ پہلے صالحین کی سب خوبیاں اپنے اندر رکھتے ہوں گے اسی طرح جو نبی آئے گا وہ پہلے سب نبیوں کی خوبیوں اور کمالات کا بھی جامع ہوگا- پس مع نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے نتیجہ کو بڑھا دیا ہے گھٹایا نہیں- اور بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے جو مرتبہ حاصل ہوتا ہے وہ پہلے لوگوں کے مراتب سے بہت اعلیٰ اور ارفع ہے-
ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک کلام
)۵(ایک اور وجہ فضیلت یہ ہوتی ہے کہ جو چیز پیش کی جائے اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ ہو- قرآن کریم کی فضیلت اس لحاظ سے بھی ثابت ہوتی ہے- قرآن کریم میں ایک آیت ہے جس کے متعلق لوگ بحث کرتے رہتے ہیں کہ اس کی کیا ضرورت ہے- آج میں یہ بتاتا ہوں کہ وہ اپنے مطالب کے لحاظ سے کیسی ضروری اور اہم ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- ذلک الکتب لاریب فیہ- ۷۲~}~صرف یہی ایک کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں باقی سب میں ملاوٹ ہے- تورات کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کا ایک ایک لفظ خدا کا ہے بلکہ اس میں ایک جگہ تو یہاں تک لکھا ہے کہ
’’خداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مر گیا- اور اس نے اسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا- پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا‘‘- ۷۳~}~
اسی طرح انجیل کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا لیکن قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام ہے بندے کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے- پس موٹی اور واضح ضرورت اس آیت کی یہی ہے کہ اس میں دنیا کو یہ بتایا گیا ہے کہ باقی کتابوں میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں لیکن صرف یہی ایک کتاب ہے جس میں کوئی ملاوٹ نہیں-
ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ تو قرآن کا دعویٰ ہی دعویٰ ہے جو اس وقت کیا گیا ہے جب قرآن نازل ہوا- اس امر کا کیا ثبوت ہے کہ بعد میں بھی اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہو سکی- سو اس کے متعلق فرماتا ہے-انا نحن نزلنا الذکر وانالہ لحفظون ۷۴~}~ہم نے ہی اس قرآن کو اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے- گویا آئندہ کے متعلق بھی ہم اس بات کا ذمہ لیتے ہیں کہ کوئی شخص اس میں تغیر و تبدل نہیں کر سکے گا- چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اب تک اس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف اسی شکل میں محفوظ ہے جس شکل میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا-
ربوبیت عالمین کا بلند تصور
)۶( فضیلت کی چھٹی وجہ یہ ہوا کرتی ہے کہ کوئی چیز اپنی ہو- کیونکہ اپنی چیز ہمیشہ دوسروں کی چیزوں سے پیاری لگتی اور افضل نظر آتی ہے- قرآن کریم کو جب ہم اس نکتہ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو وہ بھی اپنی چیز نظر آتا ہے- مثلاً قرآن کریم نے رب العلمین کا خیال لوگوں میں پیدا کیا اور اس طرح قومی خدائوں کا تصور باطل کیا- بائیبل پڑھ کر دیکھو تو اس میں اس طرح ذکر آتا ہے کہ بنی اسرائیل کا خدا- تیری قوم کا خدا- فلاں قوم کا خدا- ویدوں کو پڑھ کر دیکھو تو برہمنوں کا خدا الگ معلوم ہوتا ہے اور دوسروں کا الگ- مگر قرآن کی ابتداء ہیnsk1] ga[t الحمدللہ رب العلمین سے ہوتی ہے- اس طرح دنیا کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ساری دنیا کے رب کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے اور سب کو اپنی طرف بلاتی ہے- غرض اسلام نے سب لوگوں کو جو علیحدہ علیحدہ تھے ماں کی طرح اکٹھا کیا اور کہہ دیا کہ ایک خدا کے پاس آ جائو- پہلے لوگوں میں شرک پیدا ہونے کی یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ الگ الگ خدا سمجھتے تھے- ہندو کہتے تھے کہ ہمارا خدا ایسا ہے یہود کہتے تھے ہمارا خدا ایسا ہے پارسی کہتے تھے کہ ہمارا خدا ایسا ہے- پھر بعض لوگوں نے کہا کہ چلو سب کے خدائوں کو پوجو تا کہ سب سے فائدہ حاصل ہو- اس طرح شرک پیدا ہو گیا- مگر اسلام نے بتایا کہ مومن اور کافر سب کا خدا ایک ہی ہے- اور اسلام کسی خاص قوم کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے ہے- چنانچہ فرماتا ہے- یوقد من شجرہ مبرکہ زیتونہ لا شرقیہ ولا غربیہ یعنی اسلام کا چراغ ایک ایسے برکت والے تیل سے جلایا جا رہا ہے جو نہ مشرقی ہے نہ مغربی- ہر قوم اور ہر زمانہ کیلئے ہے- سب کیلئے اس میں ترقیات کے دروازے کھلے ہیں- اس طرح اسلام نے قومیت کے امتیاز کو مٹا دیا اور بڑائی کا معیار یہ رکھا کہnsk1] gat[ ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ۷۵~}~اسلام میں بڑائی کا معیار صرف تقویٰ ہے- خواہ کوئی کیسی ہی ادنیٰ قوم کا فرد ہو اگر وہ متقی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز ہے- پس اسلام نے ذات پات کو مٹا دیا اور مختلف مذاہب کے نتیجہ میں جو تفرقے پیدا ہوتے تھے` ان کو دور کر دیا-
دوستوں کو چاہئے کہ قرآن کریم کو اپنا دستور العمل بنائیں
میں نے فضیلت قرآن کی ۲۶ وجوہات میں سے اس وقت صرف چھ کا ذکر کیا ہے اور ان کی بھی ایک ایک مثال دی ہے- خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو باقیوں کے متعلق پھر بحث کرونگا- فی الحال اسی پر بس کرتا ہوں- اور دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسی افضل اور بے نظیر کتاب پر عمل کرنے اور اس کے احکام کو حرز جان بنانے کی کوشش کرو- اس وقت میں قرآن کریم کے جن مطالب کو واضح کر سکا ہوں ان کے مقابلہ میں اور کوئی کتاب ایسے مطالب پیش نہیں کر سکتی- دوستوں کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی اس کتاب کی طرف خاص طور پر توجہ کریں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں- اگر کسی انسان کے پاس بہتر سے بہتر چیز ہو لیکن وہ استعمال نہ کرے تو اسے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے- کنواں موجود ہو لیکن ہم پانی نہ پیئیں تو کس طرح پیاس بجھ سکتی ہے- پس یہ اعلیٰ درجہ کی کتاب جو تمہارے پاس موجود ہے یہ اسی صورت میں مفید ہو سکتی ہے جب کہ تم اس سے فائدہ اٹھائو-
پس اپنے اندر تغیر پیدا کرو اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو- اور ہر معاملہ میں قرآن کریم کی اقتداء کرو تا کہ قرآنی حسن دنیا پر نمایاں ہو- اور انہیں بھی اس پاک کتاب کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو کیونکہ اس کے بغیر اور کہیں نور اور ہدایت نہیں-
‏]pga [tag۱~}~ النور: ۳۶ تا ۳۹
۲~}~ الشعراء: ۱۹۳ تا ۱۹۵
۳~}~ الزمر: ۲۴
۴~}~ القلم: ۴۵
۵~}~ الشعراء: ۶
۶~}~ البقرہ: ۱۰۷
۷~}~ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ برٹش اینڈفارن بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء
۸~}~المزمل: ۱۶
۹~}~ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲`۱۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہورمطبوعہ ۱۹۰۶ء
۱۰~}~المائدہ: ۱۱۴~}~ھود: ۱۲۱۸~}~ بخاری باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم
۱۳~}~ العلق: ۲ تا ۶
۱۴~~} پیدائش باب ۱ آیت ۱`۲ برٹش اینڈفارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء
۱۵~}~ یوحنا باب ۱ آیت ۱`۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء
۱۶~}~ متی باب ۱۲ آیت برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء
۱۷~}~ ص: ۶
۱۸~}~ الزمر:۴
۱۹~}~ الواقعہ:۸۰
۲۰~}~ الانبیاء:۸۸
۲۱~}~ تفسیر ابن عربی جلد۲ صفحہ۸۸ مطبوعہ بار دوم بیروت ۱۹۷۸ء
۲۲~}~ فتوحات مکیہ )مولفہ حضرت محی الدین ابن عربی( جلد۱ صفحہ۱۲۱ مطبوعہ مصر
۲۳~}~ فاطر: ۲
۲۴~}~ الشعراء: ۱۹۳
۲۵~}~ الفرقان: ۶۱
۲۶~}~ ابراہیم: ۵
۲۷~}~ھود: ۲۸۹۲~}~ الزخرف: ۲۱
۲۹~}~ لوتھر کا بیان
۳۰~}~
۳۱~}~
۳۲~}~
۳۳~}~ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸`۱۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء
۳۴~}~ الجمعہ: ۲ تا ۵
۳۵~}~ الانعام: ۱۰۹
۳۶~}~الانعام: ۱۰۹
۳۷~}~ متی باب ۱۲ آیت ۴۶ تا ۵۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء
‏۳۸~}~ of Hymms The Hymm W, Book 1۔Vol Rigveda the۔Benares,1920 416۔P xviii Hymm
۳۹~}~ الرحمن: ۱۴
۴۰~}~ الرحمن: ۲۷` ۲۸
۴۱~}~ الملک: ۲` ۳
‏۴۲~}~]kns [tag الانعام: ۱۰۳` ۱۰۴
۴۳~}~ المومن: ۴۴۶۵~}~ الشعراء: ۱۹۳ تا ۱۹۷
۴۵~}~ الزخوف:۴۶۲۱~}~ الفرقان: ۶۴
۴۷~}~ الفرقان:۶۲` ۶۳
۴۸~}~ بنی اسرائیل: ۸۶ تا ۴۹۹۰~}~ الواقعہ: ۷۸` ۷۹
۵۰~}~ المائدہ: ۵۱۱۶~}~ الانعام: ۱۰۰
۵۲~}~ النور: ۵۳۳۷~}~ المومنون:۵۲
۵۴~}~ المائدہ: ۱۰۲
۵۵~}~ الشوری: ۵۶۲۹~}~ الرعد: ۱۲
۵۷~}~ المومن: ۵۸۶۱~}~ متی باب ۵ آیت ۳۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء )مفہوماً(
۵۹~}~ المومنون: ۶۰۱۱۶~}~ القیمہ: ۱ تا ۴
۶۱~}~ القیمہ: ۷ تا ۶۲۱۱~}~ بنی اسرائیل: ۷۳
۶۳~}~ الحدید: ۱۳ تا ۶۴۱۴~}~ العنکبوت: ۶۹` ۷۰
۶۵~}~ الاحزاب: ۲۴`۶۶۲۵~}~]2 [rtf الذریت: ۵۷
۶۷~}~ حم السجدہ: ۳۱ تا ۳۳
۶۸~}~ مسند احمد بن جنبل جلد۲ صفحہ ۱۰۹ مطبوعہ مصر ۱۳۱۳ھ
۶۹~}~ الفاتحہ: ۶`۷۰۷~}~ الحدید: ۲۰
۷۱~}~ النساء: ۷۲۷۰~}~ البقرہ: ۲
۷۳~}~ استثناء باب ۳۴ آیت ۵`۶ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء
۷۴~}~ الحجر: ۷۵۱۰~}~ الحجرات: ۱۴
‏a10.9
انوار العلوم جلد ۱۱
فضائل القرآن )۳(
بسم اللہ الرحمن الرحمن نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
فضائل القرآن
)نمبر۳(
ہر خوبی اور ہر وصف میں یکتا کتاب
‏20] [pصدقہ و خیرات اور مرد و عورت کے تعلقات کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم
)فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۳۰ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان(
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ عبس کی حسب ذیل آیات کی تلاوتفرمائی-
عبس و تولی- ان جائہ الا عمی- وما یدریک لعلہ یزکی- او یذکر فتنفعہ الذکری- اما من استغنی- فانت لہ تصدی- وما علیک الا یزکی- وامامن جائک یسعی- وھو یخشی- فانت عنہ تلھی- کلا انھا تذکرہ- فمن شاء ذکرہ- فی صحف مکرمہ مرفوعہ- مطھرہ- بایدیسفرہ-کرامبررہ- ۱~}~
اس کے بعد فرمایا-:
مجھے کھانسی تو پہلے ہی سے تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جلسہ کے پچھلے دو دن کام کی توفیق عطا فرما دی- اس وقت بھی آواز اونچی نہیں نکلتی لیکن امید ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جب حلق میں گرمی پیدا ہو گئی تو آواز بلند ہو جائیگی اور سب احباب تک پہنچنی شروع ہو جائیگی- دوست گھبرائیں نہیں بلکہ اطمینان سے بیٹھے رہیں-
ایک دوست کے چند سوالات کے جوابات ][پیشتر اس کے کہ میں آج کا مضمون شروع کروں میں ایک دوست کے چند سوالات کے جواب دینا چاہتا ہوں جو میری کل کی تقریر کے متعلق ہیں- یا یوں کہنا چاہئے کہ اس تقریر سے پیدا ہوئے ہیں- سوال تو ایسے ہیں کہ بجائے خود لمبی تقریر چاہتے ہیں- لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ جس مضمون کو میں اس موقع پر بیان کرنے کا ارادہ کر کے آیا ہوں اسے نظر انداز کر دوں اور ان سوالات کا اور ان کے علاوہ دوسرے سوالوں کا تفصیلی جواب دینا شروع کر دوں- اگر میں ایسا کروں تو میری مثال اس ہر دلعزیز کی سی ہو جائیگی جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ دریا کے کنارے بیٹھا رہتا تھا اور جو لوگ اسے دریا سے پار اتارنے کے لئے کہتے انہیں پار لے جاتا- ایک دفعہ وہ ایک شخص کو اٹھا کر لے جا رہا تھا اور ابھی دریا کے نصف میں ہی پہنچا تھا کہ ایک اور شخص نے اسے آواز دی کہ مجھے بہت ضروری کام ہے مجھے جلدی لے جائو- اس نے پہلے شخص کو اسی جگہ دریا میں کھڑا کیا اور دوسرے کو لینے کے لئے واپس آ گیا- جب اسے لے کر گیا تو ایک تیسرے نے کہا کہ مجھے بہت جلدی جانا ہے مجھے لے چلو- اس پر دوسرے کو بھی پانی میں کھڑا کر کے واپس آ گیا اور تیسرے کو لے کر چلا- ان میں سے تیرنا کوئی بھی نہ جانتا تھا- اچانک پانی کا ایک ریلا آیا تو پہلے نے کہا- میاں ہر دلعزیز مجھے بچانا- یہ سن کر اس نے جس شخص کو اٹھایا ہوا تھا اسے پانی میں کھڑا کر کے پہلے کو بچانے کیلئے لپکا- اس تک ابھی پہنچا نہ تھا کہ تینوں ڈوب گئے-
پس یہ طریق اختیار کرنا کہ مقررہ لیکچر سے ہٹ کر ہر قسم کے سوالات کا جواب دینا شروع کر دیا جائے اپنے کام کو نقصان پہنچانا ہے- گو ممکن ہے اس طرح ہر دلعزیزی تو حاصل ہو جائے لیکن فائدہ کسی کو نہیں پہنچے گا- پس میں اس وقت سوالات کا مفصل جواب نہیں دے سکتا- البتہ مختصر طور پر چند باتیں بیان کر دیتا ہوں-
مسلمان محکوم ہو سکتا ہے یا نہیں؟
سائل کا ایک سوال یہ ہے کہ مسلم کو کسی کا محکوم نہیں ہونا چاہئے- اگر احمدی حقیقی مسلمان ہیں تو معلوم ہوا کہ دنیا میں کوئی مسلمان بھی آزاد نہیں- یہ صورت حالات کیوں ہے؟
اس سوال کے پہلے حصہ کا جواب تو یہ ہے کہ مسلم کے سوا کوئی محکوم ہوتا ہی نہیں- مسلم کے معنی ہی فرمانبردار کے ہیں- پس مسلم محکوم ہوتا ہے مگر اصول کا- مسلم محکوم ہوتا ہے مگر راستی کا- مسلم محکوم ہوتا ہے مگر حق کا- پس جب ہم کسی مسلم کی محکومی کو دیکھیں گے تو یہ معلوم کریں گے کہ اس کی محکومی اسلام کے مطابق ہے یا خلاف- اگر اس کی محکومی خلاف اسلام ہو تو ہم کہیں گے ایسا نہیں ہونا چاہئے- لیکن اگر اسلام کے مطابق ہو تو ہم کہیں گے کہ سچا مومن یہی ہے- پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی غیر مسلم حکومت کے ماتحت رہنا اسلام کے اصول کے خلاف ہے تو ماننا پڑے گا کہ انگریزوں کے ماتحت احمدیوں کا رہنا بھی خلاف شریعت ہے- لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ غیرمسلم حکومت کے ماتحت رہنا اسلام کے خلاف نہیں تو ماننا پڑے گا کہ احمدیوں کا انگریزی حکومت کے ماتحت رہنا بھی خلاف شریعت نہیں بلکہ ماتحت رہنا اسلام کے عین مطابق ہے-
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اس مذہب کا ہی نام نہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے بلکہ ہر نبی جو مذہب بھی لایا وہ اسلام ہی تھا- چنانچہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق آتا ہے- اذ قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العلمین ۲~}~یعنی جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا اسلم مسلمان ہو جائو- تو انہوں نے کہا اسلمت لرب العلمین میں تو رب العلمین کے لئے پہلے ہی اسلام لا چکا ہوں- غرض پہلے تمام انبیاء جو دین لائے وہ بھی اسلام ہی تھا- ان ہی انبیاء میں سے ایک نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے ماتحت اس کی حکومت میں رہے- حالانکہ فرعون کا نام اب گالی کے طور پر استعمال ہوتا ہے- پھر ان ہی انبیاء میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے جو رومی حکومت کے ماتحت رہے جو مشرک تھی- پس جب ان انبیائؑ کے اسلام کو غیر مسلموں کے ماتحت رہنے سے کوئی نقصان نہ پہنچتا تھا تو ہم جن کے ماتحت رہتے ہیں وہ تو اہل کتاب ہیں جو ان لوگوں سے اقرب ہیں- رومی کسی شریعت کے پابند نہ تھے اور نہ فرعون کے پاس کوئی شریعت تھی- اب اگر ان کی اور ہماری محکومیت میں کوئی فرق ہے تو یہ کہ ہم کم محکوم ہیں اور وہ زیادہ محکوم تھے- اگر اس محکومیت سے ان کے اسلام میں فرق نہ آیا تو پھر ہمارے اسلام میں بھی فرق نہیں آ سکتا- اسلام میں کہیں یہ حکم نہیں کہ کسی مسلمان کو کسی غیرمسلم حکومت کے ماتحت نہیں رہنا چاہئے- خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۱۳ سال تک مکہ میں مشرکوں کے قوانین کے ماتحترہے-
باقی رہا یہ کہنا کہ احمدی اگر حقیقی مسلمان ہیں تو گویا ایک مسلمان بھی دنیا میں آزاد نہیں ہے- میں اس کا بھی قائل نہیں ہوں- میرا یہ عقیدہ ہے کہ مومن کسی کا غلام نہیں ہوتا- بھلا اس شخص کو کون غلام کہہ سکتا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ دنیا کی ساری حکومتیں اور بادشاہتیں بھی اسلام کے خلاف کچھ منوائیں گی تو میں نہیں مانوں گا` وہ غلام کس طرح کہلا سکتا ہے- اور جو شخص یہ کہے کہ میں بڑی سے بڑی طاقت کی اسلام کے خلاف بات مان لوں گا وہ احمدی نہیں- پس کوئی احمدی غلام نہیں بلکہ ہر احمدی آزاد ہے-
عیسائیوں کو کیوں حکومت ملی؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کی حکومتیں چھن گئیں- لیکن عیسائی بھی حضرت مسیح ؑ کی کتاب کے خلاف عمل کرتے ہیں پھر ان کو کیوں حکومتیں ملی ہوئیہیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سزا اسی کو دی جاتی ہے جو خزانہ کا محافظ ہو کر غفلت اور سستی کرتا ہے- عیسائی روحانی خزانہ کے محافظ نہ تھے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد عیسائی اس خزانہ کی محافظت سے برخاست کر دیئے گئے- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کی وجہ سے یہ محافظت مسلمانوں کے سپرد ہو چکی تھی- اب وہ غفلت کریں تو ان کو سزا دی جائیگی عیسائیوں کو نہیں-
مسیح موعود کی بعثت سے مسلمانوں کو کیا طاقت حاصل ہوئی؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے برے افعال کے نتیجہ میں مسلمانوں سے حکومت اور شوکت چھن گئی تو مسیح موعود نے آکر مسلمانوں کو کیا شوکت دی- ان کے دعویٰ پر چالیس سال کے قریب گذر چکے ہیں مگر انہوں نے کوئی حکومت نہ دلائی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ حکومت اس لئے نہ ملی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام` حضرت یوسف علیہ السلام` حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور کئی اور انبیاء کے زمانہ میں بھی حکومت نہیں ملی تھی- حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد تین سو سال تک ان کے ماننے والوں میں حکومت نہیں آئی- اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شرعی نبی ہوتے ہیں اور ایک غیر شرعی- شرعی نبی نے چونکہ شریعت کے احکام پر جو اسے دیئے جاتے ہیں عمل کرانا ہوتا ہے اس لئے اس کی زندگی میں ہی خدا تعالیٰ حکومت دے دیتا ہے- اور غیر شرعی نبی نے چونکہ کسی ایسے حکم پر عمل نہیں کرانا ہوتا جس سے پہلے عمل نہ ہو چکا ہو اس لئے اس کے زمانہ میں خدا تعالیٰ قلوب کی فتح رکھتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے یہی فتح عطا کی ہے-
علیؓ اور خالدؓ کے مثیل
چوتھا سوال یہ کیا گیا ہے کہ چالیس پچاس سال کے عرصہ میں احمدیت کیوں ایک بھی علیؓ یا خالدؓ پیدا نہ کر سکی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ احمدیہ جماعت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جماعت کی مثیل ہے- اور یہ وہی کام کرنے آئی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت نے کیا- اس لئے اس میں خالدؓ اورعلیؓ کی مثال تلاش نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ شرعی نبی کے ماننے والے تھے- شریعت کے مغز کو جاری کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے- اور اس کے لئے نفس کی قربانی کی ضرورت تھی جس میں جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو گئی ہے- پس ہم سے اگر کوئی مطالبہ ہو سکتا ہے تو یہ کہ چالیس سال میں کتنے پطرس پیدا کئے؟ اس کے جواب میں ہم یقیناً کہہ سکتے ہیں کہ پطرس کیا ان سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں پیدا ہوئے- پطرس تو جب پکڑا گیا اس نے صاف کہہ دیا کہ میں مسیح کو جانتا بھی نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک ماننے والا جب پکڑا گیا تو اس نے پتھروں کی بوچھاڑ کے نیچے جان دے دی لیکن ایمان ہاتھ سے نہ دیا- پھر ہم تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں سے ایسے لوگ پیش کر سکتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیحؑ کی طرح قربانیاں کیں- جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے صداقت نہ چھوڑی اور صلیب پر چڑھنا گوارا کر لیا- اسی طرح ہماری جماعت کے پانچ آدمیوں نے کابل میں صداقت کیلئے اپنی جان قربان کر دی- پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت میں حضرت مسیح علیہالسلام کے حواریوں جیسے افراد پیدا نہیں کئے بلکہ ایسے افراد پیدا کئے جنہوں نے حضرت مسیح علیہالسلام جیسی قربانی کے نظارے دکھائے-
احمدیت کا پیغام ابھی تک ساری دنیا میں نہیں پہنچا
پانچواں سوال یہ کیا گیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے بعد خلیفہ اول کا زمانہ بھی گذر گیا- اب خلیفہ دوم کا زمانہ ہے مگر ابھی تک ساری دنیا میں مرزا صاحب کا نام نہیں پہنچا لیکن گاندھی جی کا پہنچ گیا ہے-
اس کا جواب یہ ہے کہ نام پھیلنے میں حقیقی عظمت نہیں ہوتی- مشہور ہے کہ کسی شخص نے چاہ زمزم میں پیشاب کر دیا- لوگوں نے اسے پکڑ کر خوب مارا- اس نے کہا خواہ کچھ کرو میری جو غرض تھی وہ پوری ہو گئی ہے- اس سے جب پوچھا گیا کہ تمہاری کیا غرض تھی؟ تو اس نے کہا- مجھے شہرت کی خواہش تھی- یہاں چونکہ ساری دنیا کے لوگ آئے ہوئے تھے اس لئے جب میری اس حرکت کا علم سب کو ہوگا تو خواہ مجھے گالیاں دیں لیکن جہاں جہاں بھی جائیں گے اس بات کا ذکر کریں گے اور اس طرح ساری دنیا میں میری شہرت ہو جائے گی- غرض نام اس طرح بھی پھیل جاتا ہے لیکن حقیقی نام وہ ہوتا ہے جو دنیا کی مخالفت کے باوجود پیدا کیا جائے- گاندھی جی نے کھڑے ہو کر کیا کہا؟ وہی جو ہر ہندوستانی کہتا تھا- قدرتی طور پر ہر ہندوستانی یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کا ملک آزاد ہو- یہی گاندھی جی نے کہا- لیکن حضرت مرزا صاحب وہ منوانا چاہتے تھے جسے دنیا چھوڑ چکی تھی اور جس کا نام بھی لینا نہیں چاہتی تھی- گاندھی جی کی مثال تو اس تیراک کی سی ہے جو ادھر ہی تیرتا جائے جدھر دریا کا بہائو ہو- لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال اس تیراک کی سی ہے جو دریا کے بہائو کے مخالف تیر رہا ہو- اس وجہ سے آپ کا ایک میل تیرنا بھی بہائو کی طرف پچاس میل تیرنے والے سے بڑھ کر ہے- دنیا الہام کی منکر ہو چکی تھی- حضرت مرزا صاحبؑ اسے یہ مسئلہ منوانا چاہتے تھے- دنیا مذہب کو چھوڑ چکی تھی- آپ مذہب کی پابندی کرانے کے لئے آئے- پھر آپ کا اور گاندھی جی کا کیا مقابلہ- ابھی دیکھ لو- میرے مضامین چونکہ عام لوگوں کی خواہشات کے خلاف ہوتے ہیں اس لئے دوسرے اخبارات میں نہیں چھپتے- لیکن ابھی میں انگریزوں کے خلاف وہی روش اختیار کر لوں جو دوسرے لوگوں نے اختیار کر رکھی ہے تو تمام اخبارات میں شور مچ جائے کہ خلیفہ صاحب نے یہ بات کہی ہے جو بڑے عقلمند اور محب وطن ہیں- لیکن چونکہ ان کے منشاء کے مطابق اور ان کی خواہشات کے ماتحت ہمارے مضامین نہیں ہوتے اس لئے خواہ ان میں کیسی ہی پختہ اور مدلل باتیں ہوں انہیں شائع نہیں کرتے- سوال کرنے والے دوست نے شاید اس پوربی عورت کا قصہ نہیں سنا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب اس کا خاوند مر گیا تو وہ یہ کہہ کر رونے لگی کہ اس کا اتنا قرضہ فلاں فلاں کے ذمہ ہے وہ کون وصول کرے گا- اس کے رشتہ کے مردوں میں سے ایک نے اکڑ کر کہا اری ہم ری ہم- اسی طرح وہ وصولیاں گناتی گئی اور وہ کہتا چلا گیا- اری ہم ری ہم- لیکن جب اس نے کہا کہ اس نے فلاں کا اتنا قرض دینا ہے وہ کون دے گا- تو کہنے لگا- ’’ارے میں ہی بولتا جائوں یا کوئی اور بھی بولے گا‘‘- اسی طرح گاندھی جی تو وصولیوں کی بات کہہ رہے ہیں- اور سارا ہندوستان ان کی آواز پر کہتا جاتا ہے- ’’ہم ری ہم‘‘ لیکن حضرت مرزا صاحب نے جو کچھ کہا اس پر اپنے پاس سے دینا پڑتا ہے- اس لئے اس آواز پر لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ’’ارے ہم ہی بولیں یا کوئی اور بھی بولے گا‘‘- کہا گیا ہے کہ گاندھی جی کے کارنامے دنیا کو ان کی طرف متوجہ کر رہے ہیں اور حکومت ان کے نام سے کانپ رہی ہے- لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت گاندھی جی سے نہیں بلکہ ہندوستان سے کانپ رہی ہے- وہ یہ دیکھ رہی ہے کہ ۳۳ کروڑ کی آبادی پر چند لاکھ افراد کی حکومت کس قدر مشکل ہے- انگریز اس بات سے ڈر رہا ہے نہ کہ گاندھی جی سے-
شفارشات
سوالات کے جواب دینے کے بعد اب ایک تو میں سفارش بچوں کے متعلق کرتا ہوں- جامعہ احمدیہ اور ہائی سکول کے طلباء نے اپنے اپنے رسالوں کے سالنامے نکالے ہیں- چونکہ ملک میں رسالوں کے سالنامے نکالنے کا مرض پیدا ہو چکا ہے اس لئے بچے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے- انہوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ان کے پرچوں کی خریداری کے متعلق سفارش کروں- جب یہ رسالے جاری کرنے لگے تھے تو میں نے انہیں کہا تھا کہ اگر سکول اور جامعہ ان کو چلائے تو شوق سے نکالو لیکن اگر کہو کہ جماعت میں ان کے متعلق تحریک کی جائے تو یہ خواہش نہ کرنا- لیکن اب چونکہ یہ پٹھان والی بات ہو گئی ہے کہ اس کا بچہ اپنے استاد پر تلوار سے وار کرنے لگا- تو اس نے کہا کہ اس کا پہلا وار ہے کر لینے دو- اس لئے گو اس سے ہماری ہی جیبوں پر اثر پڑتا ہے لیکن چونکہ یہ ہمارے بچوں کا پہلا وار ہے اس لئے میں یہ سفارش کرتا ہوں کہ ان کے رسالے خریدے جائیں- ایک تو اس لئے کہ یہ لڑکے پہلے وار کی وجہ سے اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے وار کی قدر کی جائے- دوسرے انہوں نے ایک رنگ میں احسان بھی جتایا ہے- وہ کہتے ہیں- ہم جلسہ کے کاموں میں لگے رہے اور رسالے نہ بیچ سکے- اب تو گویا ایک وجہ بھی ان کے ہاتھ آگئی ہے- دوست ان کے رسالے خرید کر ان کی حوصلہ افزائی کریں-
اب میں ان باتوں میں سے دو چار اختصار کے ساتھ بیان کرتا ہوں جو کل بیان کی تھی-
احمدی تاجروں کے ساتھ ہر رنگ میں تعاون کی ضرورت
میں نے بیان کیا تھا کہ مومن کے لئے دینی اور دنیوی طور پر ہر قسم کی آگ سے بچنا نہایت ضروری ہے- لیکن چونکہ وقت کم تھا میں نے اس آگ سے بچنے کے صرف اصول بیان کر دیئے تھے تفصیل چھوڑ دی تھی- اب میں ان میں سے ایک بات کی طرف جماعت کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں- دنیا میں بہت سے کام جو انفرادی طور پر نہیں ہو سکتے باہمی تعاون سے ہو سکتے ہیں- ہم نے دنیا میں جو عظیم الشان کام کرنے ہیں ان کے متعلق جب تک ہم ہر رنگ میں جماعت کی نگرانی نہ کریں وہ صحیح طور پر سرانجام نہیں دیئے جا سکتے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قیدیوں کا جو جنگ بدر میں گرفتار ہو کر آئے تھے یہ فدیہ مقرر فرمایا تھا کہ مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم دیں- وہ لوگ کوئی دینی تعلیم نہ دے سکتے تھے بلکہ صرف مروجہ علوم ہی سکھا سکتے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بھی انتظام فرمایا- اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم بھی ضروری سمجھی- ہمیں بھی دین کے ساتھ جماعت کی دنیوی ترقی کا بھی خیال رکھنا چاہئے- ہاں دین کو دنیا پر مقدم کرنا چاہئے اور جہاں دنیا دین میں روک ثابت ہو وہاں اسے ترک کر دینا چاہئے-
دنیوی ترقی کے لئے بہترین چیز تعاون ہے- یورپ کے لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا اور ترقی حاصل کر لی- لیکن مسلمان آپس میں لڑتے جھگڑے رہے- جب سارا یورپ اکٹھا ہو کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوا تو مسلمان اس وقت بھی آپس میں لڑ رہے تھے- اس وقت عیسائیوں سے باطنی حکومت نے یہ سازش کی کہ ہم سلطان صلاح الدین کو قتل کر دیتے ہیں تم باہر سے مسلمانوں پر حملہ کر دو- اس کا جو نتیجہ ہوا وہ ظاہر ہے- پس تعاون سے جو نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں وہ کسی اور طرح حاصل نہیں ہو سکتے- اسی طریق سے ہماری جماعت بھی ترقی کر سکتی ہے اور اس کے لئے بہترین صورت تاجروں کے ساتھ تعاون کرنا ہے- بیشک زمیندار بھی مالدار ہو سکتے ہیں لیکن بڑے بڑے مالدار مل کر بھی غیر ملکوں پر قبضہ نہیں کر سکتے- اس کے مقابلہ میں تجارت سے غیر ممالک کی دولت پر بھی قبضہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ تجارت دور دور تک پھیل سکتی ہے اس لئے تاجروں کی امداد نہایت ضروری چیز ہے- اس کے لئے سردست میری یہ تجویز ہے کہ کوئی ایک چیز لے لی جائے اور اس کے متعلق یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ ہم نے وہ چیز صرف احمدی تاجروں سے ہی خریدنی ہے کسی اور سے نہیں- اس طرح ایک سال میں اس چیز کی تجارت میں ترقی ہو سکتی ہے اور دوسرے تاجروں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے- مثلاً سیالکوٹ کا سپورٹس کا کام ہے- یہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ باہر انگلستان` آسٹریا اور جرمنی وغیرہ میں بھی جاتا ہے- اور یہ ایسی انڈسٹری ہے جس سے دوسرے ملکوں کا روپیہ کھینچا جا سکتا ہے- سیالکوٹ میں چار پانچ احمدیوں کی فرمیں ہیں- اس لئے اس سال کے لئے ہم یہ کام اختیار کر سکتے ہیں کہ تمام وہ احمدی جو صاحبرسوخ ہوں` سکولوں میں ہیڈ ماسٹر یا ماسٹر ہوں` کھیلوں کی کلبوں سے تعلق رکھتے ہوں` کھیلوں کے سامان کی تجارت کرتے ہوں یا ایسے لوگوں سے راہ و رسم رکھتے ہوں- وہ یہ مدنظر رکھیں کہ جتنا کھیلوں کا سامان منگوایا جائے وہ سیالکوٹ کی احمدی فرموں سے منگوایا جائے- میں ان فرموں کے مالکوں سے بھی کہوں گا کہ وہ سارے مل کر ایک مال فروخت کرنے والی کمیٹی بنا لیں- جس کے صرف وہی حصہ دار ہوں جو یہ کاربار کرتے ہیں تا کہ سب کو حصہ رسدی منافع مل سکے- اس وقت میں صرف یہ تحریک کرتا ہوں- جب تاجر ایسی کمیٹی قائم کر لیں گے` اس وقت اخبار میں میں اعلان کر دونگا کہ اس کمپنی کے مال کو فروخت کرنے کی کوشش کی جائے- اس طرح ایک دو سال میں پتہ لگ جائے گا کہ کس قدر فائدہ ہو سکتا ہے اور اگر ان لوگوں نے کوئی ترقی کی تو وہ ہماری جماعت ہی کی ترقی ہوگی-
تعاون باہمی کے اصول پر ایک کمپنی قائم کرنے کی تجویز
اسی طرح ایک کمپنی تعاون کرنیوالی قائم کرنی چاہئے جس میں تاجر` زمیندار اور دوسرے لوگ بھی شامل ہوں- میں نے اس کے لئے کچھ قواعد تجویز کئے تھے جنہیں قانونی لحاظ سے چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے پسند کیا تھا- اب ان کو شائع کر دیا جائے گا- یہ اس قسم کی کمپنی ہوگی کہ اس میں شامل ہونے والے ہر ایک ممبر کے لئے ایک رقم مقرر کر دی جائے گی جو ماہوار داخل کراتا رہے- اس طرح جو روپیہ جمع ہو گا اس سے رہن باقبضہ جائیداد خریدی جائے گی- اعلیٰ پیمانہ پر تجارت کرنا چونکہ احمدی نہیں جانتے اس لئے اس میں روپیہ نہیں لگایا جائے گا بلکہ رہن با قبضہ جائیداد خرید لی جائے گی- جیسا کہ انجمن کے کارکنان کے پراویڈنٹ فنڈ کے متعلق کیا جاتا ہے- اس طرح جو نفع حاصل ہوگا اس کا نصف یا ثلث اس ممبر کے وارثوں کو دیا جائے گا- جو فوت ہو جائے اور اس کی جمع کردہ رقم بھی اس کے وارثوں کا حق ہوگی- میں فی الحال اس سکیم کا مختصر الفاظ میں اعلان کر دینا چاہتاہوں- پھر مشورہ کر کے مفصل سکیم اخبار میں شائع کر دی جائے گی- دوست اس کے لئے تیاری کر رکھیں-
اب میں وہ مضمون شروع کرتا ہوں جسے میں نے اس سال کے منتخب کیا ہے-
فضائل القرآن کے مضمون کی اہمیت
‏]1txet [tagمیں نے پچھلے سال کے سالانہ جلسہ پر فضائل قرآن کریم کے متعلق ایک مضمون بیان کیا تھا- یہ مضمون جس قدر اہمیت رکھتا ہے اس کا اندازہ احباب اس سے لگا سکتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد ہی اس امر پر ہے کہ قرآن کریم دنیا کی ساری مذہبی اور الہامی کتابوں سے افضل ہے اگر ایسا نہ ہو تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض ہی کچھ نہیں ہو سکتی- آپﷺ~ کی بعثت سے پہلے بھی دنیا میں مذاہب موجود تھے اگر آپﷺ~ ان سے کوئی افضل چیز نہیں لائے تو پھر آپﷺ~ کے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی! لیکن اگر قرآن کریم کے افضلیت ثابت ہو جائے تو پھر دوسرے مذاہب کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی- ان کی وہی مثال ہو جاتی ہے کہ ’’آب آمد تیمم برخاست‘‘- اگر یہ ثابت ہو جائے کہ قرآن آب کی حیثیت رکھتا ہے تو واضح ہو جائے گا کہ پہلی کتابیں متروک ہو چکی ہیں اور اب صرف قرآن ہی قابل عمل کتاب ہے-
میں نے بتایا تھا کہ اگر ایک ایک چیز کو لے کر ہم فضیلت ثابت کریں تو شبہ رہ سکتا ہے کہ فلاں چیز جس کا ذکر نہیں کیا گیا اس کے لحاظ سے نہ معلوم وہ افضل ہے یا نہیں لیکن اگر اصولی طور پر ہم افضلیت ثابت کر دیں تو ماننا پڑے گا کہ قرآن کریم کلی طور پر تمام کتب الہیہ سے افضل ہے-
میں نے گذشتہ سال کے لیکچر میں قرآن کریم کی افضلیت کے متعلق چھبیس وجوہ بیان کی تھیں- مگر ان چھبیس میں سے صرف چھ کی رو سے ہی میں نے قرآن کریم کی افضلیت ثابت کی تھی- اور باقی بیس میرے ذمہ قرض رہ گئی تھیں- بلکہ ان چھ میں سے بھی آخری دو وقت کی قلت کی وجہ سے نہایت اختصار کے ساتھ بیان ہوئی تھیں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ آج ان دو کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان کر دوں-
حضرت مسیح موعودؑ کے ایک ارادہ کو پورا کرنے کی کوشش
یہ مضمون دراصل اس عہد کا ایفاء ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں قرآن کریم کی افضلیت کے متعلق تین سو دلائل پیش کرنے کے بارہ میں فرمایا تھا- ۳~}~اگرچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ کی چوتھی جلد کے آخر میں ہی لکھ دیا تھا کہ-:
’’ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی- پھر بعد اس کے قدرت الٰہیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی- یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سیانی انا ربک کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی- سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتمم ظاہراً و باطناً حضرت رب العلمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے- اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس نے جلد چہارم تک انوار حقیت اسلام کے ظاہر کئے ہیں یہ بھی اتمام حجت کے لئے کافی ہیں‘‘- ۴~}~
پھر بعد میں آپ نے یہ بھی تحریر فرما دیا کہ-:
’’میں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ اثبات حقیت اسلام کے لئے تین سو دلیل براہین احمدیہ میں لکھوں لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ دو قسم کے دلائل )یعنی سچے مذہب کا اپنے عقائد اور تعلیم میں کامل ہونا اور اس کی زندہ برکات اور معجزات( ہزار ہا نشانوں کے قائم مقام ہیں- پس خدا نے میرے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا اور مذکورہ بالا دلائل کے لکھنے ¶کے لئے مجھے شرح صدر عنایت کیا‘‘-۵~}~
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی افضلیت کے وہ دلائل جن کا براہین احمدیہ میں وعدہ کیا تھا اپنی دوسری کتابوں میں بیان فرما دیئے- مگر ہر ایک نظر ان تک نہیں پہنچ سکتی اس لئے میں نے انہیں ایک ترتیب سے بیان کرنا ضروری سمجھا-
پچاس وجوہ فضیلت
لیکن جب میں اس قرضہ کی ادائیگی کا سامان کرنے کیلئے بیٹھا تو میں نے دیکھا کہ قرضہ اور بڑھ گیا ہے- کیونکہ میں نوٹ کرنے لگا تو ۲۶ کی بجائے ۵۰ فضیلت کی وجوہات مجھے معلوم ہوئیں اور اس طرح ۲۰ کی بجائے ۴۴ میرے ذمہ نکلیں- اس پر مجھے خیال آیا کہ جب گذشتہ سال لمبا وقت صرف کر کے بمشکل چھ وجوہات پیش کی جا سکی تھیں تو اس سال ۴۴ کس طرح بیان کی جا سکیں گی- اس کے ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ بعض لوگوں کی طبیعت چونکہ وہمی ہوتی ہے اس لئے وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اصولی طور پر فضیلت کے گر بیان کر کے جو قرآن کریم کی فضیلت ثابت کی گئی ہے اور تفصیل بیان نہیں کی گئی تو اس میں ضرور کوئی بات ہوگی- اور یہ قرآن کریم کی افضلیت کو پوری طرح ثابت نہیں کر سکتے ہونگے- اس وجہ سے مجھے خیال آیا کہ جو تفصیل بیان نہیں ہو سکی تھی اس کو بھی لے لوں- اس طرح میرا کام اور بھی وسیع ہو گیا جسے اس سال تو میں یقینی طور پر ختم نہیں کر سکتا- اور اگلے سال کے متعلق میں نہیں جانتا کہ خداتعالیٰ میرے دل میں کیا ڈالے- اس لئے جتنا ہو سکے گا اتنا بیان کر دوں گا-
قرآن کریم اپنی ہر بات میں افضل ہے
میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم کو جو افضلیت حاصل ہے وہ انہی باتوں میں نہیں جو اس میں دوسری الہامی کتابوں سے زائد ہیں بلکہ جو باتیں پہلی کتابوں میں موجود ہیں ان کے لحاظ سے بھی قرآن کریم ان سے افضل ہے- میں غور کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر پہلی کتابوں میں کپڑے بدلنے کا کوئی طریق بتایا گیا ہے تو قرآن کریم نے اس سے بہتر اور عمدہ طریق پیش کیا ہے- اگر ان میں کھانا کھانے کے متعلق حکم دیا گیا ہے تو اس کا بھی قرآن کریم نے ان سے اچھا طریق پیش کیا ہے- گویا کوئی معمولی سے معمولی بات بھی قرآن کریم نے ایسی نہیں بتائی جس میں اس کے برابر کوئی اور کتاب ہو- اور خواہ کوئی موٹی سے موٹی بات لے لی جائے اس میں بھی قرآن کریم دوسری کتابوں سے افضل ثابت ہوگا- بلکہ بغیر سوچنے اور غور کرنے کے جو پہلی بات سامنے آئے اگر اسی کو لے لیا جائے تو میں اس کے متعلق بھی بتا دوں گا کہ کس طرح معمولی سے معمولی بات کے متعلق بھی پہلی کتابوں میں تعلیم موجود ہونے کے باوجود قرآن کریم نے ان سے اعلیٰ تعلیم پیش کی ہے- پس ان لوگوں کا شبہ دور کرنے کیلئے جنہیں یہ خیال ہو کہ شاید تفصیل کی رو سے قرآن کریم کی فضیلت ثابت نہ ہو سکتی ہو میں دو مثالیں لے لیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ قرآن کریم نے کس طرح انہیں نئے اور علمی رنگ میں پیش کیا ہے-
صدقہ و خیرات کے بارہ میں اسلامی تعلیم کی جامعیت
پہلی مثال میں میں صدقہوخیرات کی تعلیم کو پیش کرتا ہوں- یہ کوئی روحانی مسئلہ نہیں بلکہ ایک فطری امر ہے- ایک دوسرے سے ہمدردی کا جذبہ حیوانوں تک میں موجود ہے- ایک حیوان دوسرے حیوانوں سے ہمدردی کرتا ہے- ایک پرندہ دوسرے پرندہ سے ہمدردی کرتا ہے- اگر ایک کوا مارو تو بیس کوے کائیں کائیں کر کے جمع ہو جاتے ہیں- وہ ایک کوے کے مرنے پر غم بھی کریں گے- اور اگر کسی نے مرا ہوا کوا اٹھایا ہوا ہو تو اس پر حملہ بھی کریں گے تا کہ اسے چھڑا لیں- غرض ہمدردی اور ایک دوسرے سے احسان کا مادہ حیوان اور پرندوں میں بھی پایا جاتا ہے- ان کے پاس روپیہ پیسہ نہیں ہوتا بلکہ چونچ اور زبان ہوتی ہے اس لئے وہ اسی سے اس جذبہ کا اظہار کرتے ہیں- انسانوں کے پاس مال و دولت اور دوسری اشیاء ہوتی ہیں وہ ان کے ذریعہ دوسروں کی امداد کرتے ہیں- بہرحال صدقہ اور خیرات کا مسئلہ اتنا موٹا اور اتنا عام ہے کہ کسی مذہب میں اس کے متعلق نامکمل اور ناقص تعلیم نہیں ہونی چاہئے- بلکہ ہر مذہب میں مکمل تعلیم ہونی چاہئے تھی- کیونکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر آدمؑ سے لیکر اس وقت تک لوگ عمل کرتے چلے آ رہے ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگر اس کے متعلق اسلامی تعلیم افضل ثابت ہو تو باقی مسائل کی تفصیلات میں اس کی تعلیم افضل ثابت نہیں ہو سکتی-
صدقہ کے متعلق انجیل کی تعلیم
صدقہ کے متعلق جب ہم مختلف مذاہب کی تعلیم کو دیکھتے ہیں تو عجیب و غریب باتیں نظر آتی ہیں- انجیل میں آتاہے-:
’’یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا- میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولت مند کا آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے- اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہوا-‘‘۶~}~
گویا انجیل کی رو سے جب تک کوئی شخص اپنا سب کا سب مال خدا تعالیٰ کی راہ میں نہ دے دے اس وقت تک اس کا دیا ہوا مال خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہو سکتا- اسی طرح آتاہے-
’’اگر تو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے دے تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا‘‘-۷~}~
پھر صدقہ کے متعلق حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں-
’’جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے تا کہ تیری خیرات پوشیدہ رہے- اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلا دیگا‘‘-۸~}~
ان حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل نے صدقہ و خیرات کے متعلق یہ بتایا ہے کہ اول جو کچھ تمہارے پاس ہو سارے کا سارا دے دو- دوم جب خیرات دو تو ایسی پوشیدگی سے دو کہ تمہارے اپنے ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو- یعنی قریب ترین رشتہ داروں یا ماتحتوں یا افسروں کو بھی پتہ نہ لگے-
یہ دونوں تعلیمیں بظاہر بڑی خوبصورت نظر آتی ہیں کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سارے کا سارا خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دو- گو یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اگر ہر ایک کے پاس جو کچھ ہو وہ دے دے گا تو پھر لے گا کون- یہ تو ویسی ہی بات ہوگی جیسے ملانوں نے ایک رسم اسقاط بنائی ہوئی ہے- چند آدمی حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان میں سے ایک شخص ہاتھ میں قرآن لے کر دوسرے کو دیتا ہوا کہتا ہے- یہ میں نے تجھے بخشا اور وہ لے کر اگلے کو یہی الفاظ کہتا ہے- اس طرح پھرتا پھراتا وہ قرآن پھر پہلے ہی کے پاس آ جاتا ہے- پس انجیل کی اس تعلیم کی اگر تفصیل میں جائیں اور یہ فرض کر لیں کہ ساری دنیا اس پر عمل کرنے لگ جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ زید کا مال زید ہی کے پاس لوٹ کر آ جائے گا- پس یہ تعلیم عمل کے قابل ہی نہیں ہے- عمل کے قابل تعلیم وہی ہو سکتی ہے جس پر ہر حالت میں عمل کیا جا سکے-
اسی طرح یہ جو حکم ہے کہ-:
’’جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے‘‘- ۹~}~
یہ حکم بھی بظاہر بہت اچھا معلوم ہوتا ہے مگر عملی طور پر اس سے بھی فائدہ کی بجائے نقصان کا زیادہ احتمال ہے- مثلاً ایک باپ اور بیٹا کہیں جا رہے ہیں- انہیں ایک ایسا محتاج مل گیا جو بھوک کے مارے بیتاب ہو رہا ہے- اسے دیکھ کر باپ اسے کچھ دینا چاہتا ہے لیکن بیٹے کے ساتھ ہونے کی وجہ سے دے نہیں سکتا- کیونکہ انجیل کی تعلیم یہ ہے کہ جو تیرا داہنا ہاتھ خیرات کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے- اب وہ کیا کرے- وہ بیٹے کو علیحدہ کرنے کیلئے ادھر ادھر بھیجتا ہے تا کہ اس کی عدم موجودگی میں محتاج کو کچھ دے سکے مگر بیٹا سمجھتا ہے یہ اپنا بخل چھپانے کیلئے مجھے علیحدہ کرنا چاہتا ہے- اور وہ اس سے الگ نہیں ہوتا اور محتاج انسان بغیر امداد کے رہ جاتا ہے- علاوہ ازیں اس کا ایک یہ بھی نتیجہ ہوگا کہ نیکی مفقود ہو جائے گی- لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر نقل کرتے ہیں اور خاص طور پر بیٹا اپنے باپ سے بہت کچھ سیکھتا ہے- ایسی حالت میں کئی بیٹے ایسے ہونگے جو کہیں گے کہ ہمارا باپ بڑا سنگ دل اور بے رحم ہے- اور بہت سے بیٹے باپ کی اس حرکت کو دیکھ کر خود بخیل ہو جائیں گے- کئی ایسے ہونگے جو کہیں گے کہ ہمارے باپ نے اچھا کیا ہم بھی کسی کو کچھ نہیں دیں گے- خواہ کوئی ہمارے سامنے بھوکا مر جائے- غرض یہ ایسی تعلیم ہے کہ اگر اس کی تشریح کی جائے تو دنیا کیلئے سخت خطرناک اور نقصان رساں ثابت ہو سکتی ہے-
صدقہ کے متعلق تورات کی تعلیم
اب تورات کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تورات نے یہ تو نہیں کہا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سارے کا سارا دے دو بلکہ صدقہ کے متعلق یہ تعلیم دی ہے کہ مصیبت زدہ کو دیکھ کر اس کی تکلیف کو دور کرنا چاہئے- گویا تورات صدقہ کی علت غائی یہ بتاتی ہے کہ مصیبت زدوں کی امداد کی جائے- پھر تورات صدقہ کی دو قسمیں قرار دیتی ہے ایک واجبی اور دوسرا نفلی- یہ انجیل سے یقیناً اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے اور دونوں قسم کے صدقے ضروری ہیں- بیشک رحم کے ماتحت صدقہ دینا بھی ضروری ہے لیکن اگر رحم کے ماتحت ہی صدقہ دیا جائے تو اس کا برا نتیجہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ کبر اور نخوت پیدا ہو جاتی ہے- جب انسان یہ سمجھے کہ میں بڑا اور فلاں چھوٹا ہے اور میں چھوٹے کی امداد کرتا ہوں تو اس طرح کبر پیدا ہوتا ہے کیونکہ انسان خیال کرتا ہے کہ فلاں میرا محتاج ہے- حالانکہ دنیا کا ہر انسان دوسرے کا محتاج ہے- دنیوی لحاظ سے سب سے بڑی ہستی بادشاہ کی سمجھی جاتی ہے- لیکن بادشاہ بھی ماتحتوں کے ذریعہ ہی بادشاہ بنتے ہیں اور وہ ماتحتوں کے محتاج ہوتے ہیں- اور یہ خیال کہ میں بڑا ہوں اور مجھے کسی کی احتیاج نہیں دوسرے لوگ میرے محتاج ہیں اس کی روحانی زندگی کو کچل دینے اور اللہ تعالیٰ سے دور کر دینے والا خیال ہے- اس کی بجائے ہمارے اندر یہ خیال پیدا ہونا چاہئے کہ ہم نے اگر کسی کی مدد کی تو اس کی مدد نہیں کی بلکہ اپنی مدد کی ہے- اور یہ خیال اسی طرح پیدا ہو سکتا ہے کہ جسے کچھ دیا جائے اس کے متعلق سمجھا جائے کہ یہ اس کا حق تھا- یا جو کچھ دیا گیا ہے اپنے فائدہ کیلئے دیا گیا ہے- دیکھو ماں اپنے بچہ کو دودھ پلاتی ہے تو اس پر رحم کر کے نہیں پلاتی بلکہ فطرتی جذبہ کے ماتحت پلاتی ہے- ہاں اگر کسی دوسرے بچہ کو پلاتی ہے تو رحم سے پلاتی ہے- کئی ایسی مائیں ہونگی جنہیں اگر یہ کہا جائے کہ تم نے اپنے بچہ کو چھ ماہ تک دودھ پلا لیا- یہ اس پر کافی رحم ہو گیا اب دودھ پلانا چھوڑ دو تو وہ لڑنے لگ جائیں گی- کیونکہ ماں بچہ کو فطری محبت سے دودھ پلاتی ہے` رحم کے طور پر نہیں پلاتی-
صدقہ کے متعلق ویدوں کی تعلیم
اب ہم ویدوں کو لیتے ہیں- وہ لوگ جنہوں نے وید نہیں پڑھے وہ تو سمجھتے ہونگے کہ اتنی بڑی بڑی ضخیم جلدیں ہیں نہ معلوم ان میں کیا کیا احکام ہونگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں احکام بہت کم ہیں- تا ہم صدقہ و خیرات کی تعلیم کا ضرور ذکر ہے- وید کہتے ہیں- جب برہمن کوئی گائے مانگے تو اسے دے دینی چاہئے- جو نہ دے وہ گنہگار ہو گا اور جو دینے سے روکے وہ بھی گنہگار ہوگا- گویا )۱(ایک طرف تو مانگنا سکھایا )۲(اور پھر ایک خاص قوم کو صدقہ دلایا- )۳(اور پھر کسی میں طاقت ہو یا نہ ہو اسے برہمن کو گائے دینے پر مجبور کیا خواہ اس کے بال بچے بھوکے مر جائیں- یہ وید میں صدقہ کی تعلیم ہے- چونکہ ہندوئوں میں برہمنوں کا زور تھا اس لئے سارا صدقہ یہی قرار دیا کہ برہمن کو دیا جائے- چاہے کوئی کتنا غریب آدمی ہو اس کی بیوی کا دودھ سوکھ گیا ہو اور اس کے بچے کی پرورش اسی گائے کے دودھ پر ہو رہی ہو جو اس کے گھر میں ہو پھر بھی اسے حکم ہے کہ جب برہمن گائے مانگے تو فوراً دے دے- اگر نہ دے گا تو سخت گنہگار ہوگا اور اس کا سب کچھ تباہ ہو جائے گا- ۱۰~}~
ان ساری تعلیموں کو دیکھو- ان میں صدقہ جیسی عام اور موٹی تعلیم میں بھی مکمل طور پر راہنمائی نہیں کی گئی- اور جو لوگ کسی مذہب پر نہیں چلتے ان کے لئے ان کی اپنی مرضی راہنما ہوتی ہے- کسی کو جی چاہا تو دے دیا نہ چاہا تو نہ دیا- گویا انسان کے اپنے تجربہ سے صدقہ و خیرات کے متعلق تو کوئی قانون نہیں بنایا- بعض مذہبوں نے قانون بنایا مگر ناقص بنایا ہے- ہم یہ نہیں کہتے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت مسیح علیہ السلام یا ہندوستان کے رشیوں نے ایسی نامکمل اور ناقص تعلیم دی تھی بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ان مذاہب کی موجودہ تعلیم ناقص ہے- اگر ان مذاہب کے بانیوں نے یہی تعلیم دی تو یہ ناقص ہے- اور اگر ان مذاہب کے پیروئوں نے بنائی تو ان کی مذہبی اور الہامی کتابیں ناقص ہیں-
اخلاقی معلمین کا قول کہ نیکی کو نیکی کی خاطر کرنا چاہئے
صدقہ و خیرات کے متعلق جن لوگوں نے خود تعلیم بنائی ہے اور جو اخلاقی معلمین کہلاتے ہیں انہوں نے یہ اصل بتایا ہے کہ نیکی کو نیکی کی خاطر کرنا چاہئے- سوائے اس کے اور کوئی بات صدقہ کے متعلق انہیں نہیں ملی- ہم ان کی اس بات کو پیش نظر رکھیں گے اور پھر دیکھیں گے کہ اسلام نے اس سے بہتر تعلیم دی ہے یا نہیں- فی الحال ہم اس کے متعلق اتنا مان لیتے ہیں کہ یہ اچھی بات ہے- مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعلیم ہر جگہ چل سکتی ہے اور ہر انسان اس پر عمل کر سکتا ہے- اب اگر یہ کہیں کہ صدقہ تبھی دو جب صدقے کی خاطر دے سکو تو جو لوگ اس طرح نہیں دے سکتے وہ نہیں دیں گے- اور اس وجہ سے غریب صدقہ نہ ملنے پر بھوکے مریں گے- کیونکہ جو اس طرح صدقہ نہیں دے سکتے وہ نہیں دیں گے وہ کہیں گے جب ہم صدقہ صدقہ کی خاطر نہیں دے سکتے تو پھر اپنا مال کیوں ضائع کریں- اور جب وہ اس وجہ سے نہیں دیں گے تو غریب لوگ نقصان اٹھائیں گے-
صدقہ کے مختلف پہلوئوں پر اسلام کی روشنی
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اسلام نے کس طرح صدقہ و خیرات کو ایک علمی مضمون بنا دیا ہے-
صدقہ کی مقدار
پہلی چیز صدقہ کی مقدار ہے کہ کس قدر دینا چاہئے- انجیل نے اس کے متعلق کہا ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سب کا سب دے دو- وید کہتا ہے برہمن جو کچھ مانگے وہ اسے بلا چون و چرا دے دو- مگر اسلام نے اس کی حد مقرر کر دی ہے- اسلام کہتا ہے- لا تجعل یدک مغلولہ الی عنقک ولاتبسطھا کل البسط فتقعد ملوما محسورا- ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر انہ کان بعبادہ خبیرا بصیرا- ۱۱~}~یعنی اے انسان ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ نہ تو اپنے ہاتھ کو تو بالکل باندھ کر رکھ کہ کچھ دے ہی نہیں- )مغلولہ ہاتھ پیچھے کی طرف کھینچ کر گلے سے لگا لینے کو کہتے ہیں( اور نہ مٹھی کو اس طرح کھول کر رکھ دے کہ جس کی مرضی ہو لے جائے- گویا نہ تو ایسا ہو جیسا کہ انجیل میں کہا گیا ہے کہ سب کچھ دے دو اور نہ اس پر عمل ہو جو یورپ کے فلاسفروں کی تعلیم ہے کہ صدقہ دینے سے لوگوں میں سستی پیدا ہوتی ہے اس لئے صدقہ دینا ہی نہیں چاہئے- گویا پادری تو کہتا ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سب کچھ دے دو گو آپ کچھ بھی نہیں دیتا- اور فلاسفر کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں دینا چاہئے- بہرحال یہ دونوں قسم کی تعلیمیں موجود ہیں- قرآن ان دونوں کو دیکھتا ہے اور پھر کہتاہے لا تجعل یدک مغلولہ الی عنقک ولاتبسطھا کل البسطنہ تو ہاتھ کو سمیٹ کر گلے سے باندھ رکھو- یہ کہتے ہوئے کہ صدقہ دینے سے لوگوں کی عادتیں خراب ہوتی ہیں- ان میں سستی پیدا ہوتی ہے` وہ محنت و مشقت کرنے سے جی چراتے ہیں اور نہ سب کچھ دیدو- اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کے دو نتائج ہوں گے- فتقعد ملوما محسورا- قرآن کریم کا یہ کمال ہے کہ جو بات کہتا ہے ساتھ اس کے دلیل بھی دیتا ہے- فرمایا- اگر تو صدقہ نہ دے گا اور کہے گا کہ فلاسفر کہتے ہیں صدقہ نہیں دینا چاہئے یہ لوگوں کے لئے نقصان رساں ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا فتقعد ملوما محسورا تیرا دل اور تیرے بڑے چھوٹے سب تجھے ملامت کریں گے اور کہیں گے کہ تو نے برا کیا- بھوکے کو کچھ نہ دیا محتاج کی مدد نہ کی- حاجتمند کی امداد نہ کی-
اس کے بعد دوسری بات یہ بتائی کہ پھر یہ بھی نہیں ہونا چاہئے کہ سب کچھ دے دو حالانکہ انجیل نے کہا تھا کہ سب کچھ دے دینا چاہئے- اس سے اختلاف کیوں کیا- اس کی دلیل یہ دی ہے فتقعد ملوما محسورا- حسرالشیء کے معنی ہوتے ہیں کشفہ ۱۲~}~اس نے کھول دیا- اور حسرا الغصن ]txte [tagکے معنی ہیں قشرہ- ۱۳~}~ٹہنی کے اوپر کا چھلکا اتار دیا- گویا درخت کی چھال اتار دینے کو حسر کہتے ہیں- اسی طرح حسر البعیر کے معنی ہیں ساقہ حتی اعیاہ۱۴~}~ اونٹ کو ایسا چلایا کہ وہ تھک کر چلنے کے قابل نہ رہا- جس طرح درخت کی اوپر کی موٹی چھال اتار دینے سے درخت سوکھ جاتا ہے اسی طرح جانور کو اتنا چلایا جائے کہ اس میں چلنے کی طاقت نہ رہے تو وہ بھی نہیں چلے گا- پس فرمایا خواہ تم کتنا ہی دو دنیا میں محتاج پھر بھی رہیں گے- اگر آج تم سارے کا سارا دے کر تھکے ہوئے اونٹ کی طرح بن جائو گے یا چھال اترے ہوئے درخت کی طرح ہو جائو گے تو کل کیا کرو گے- جس طرح روزانہ کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی اعمال کا حال ہے- پس جو شخص روزانہ نیکی اور تقویٰ میں حصہ لینا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے پاس بھی مال رکھے تا کہ بڑھے اور وہ پھر اس میں سے محتاجوں کو دے- پھر بڑھے اور پھر دے- یورپ میں ایسے ایسے تاجر موجود ہیں جو ایک کروڑ روپیہ تجارت میں لگا کر کئی کروڑ نفع کماتے ہیں- اور پھر بڑی بڑی رقمیں خیرات میں دیتے ہیں- اگر وہ اپنا سارے کا سارا مال ایک ہی دفعہ دے دیتے ہیں اور سرمایہ تک بھی پاس نہ رکھتے تو پھر نفع کس طرح کماتے اور کس طرح بار بار بڑی بڑی رقمیں خیراتی کاموں میں دیتے- پس فرمایا کہ اتنا بھی نہ دو کہ آئندہ سرمایہ پاس نہ رہے اور دوبارہ سر سبز ہونے کے سامان نہ رہیں- یہ ایسی ہی بات ہے جیسے انگریزوں میں مثل مشہور ہے کہ کسی نے سونے کا انڈا حاصل کرنے کیلئے مرغی مار ڈالی تھی- کہا جاتا ہے کہ کسی کی مرغی روزانہ ایک سونے کا انڈہ دیتی تھی- اس نے خیال کیا کہ اگر میں اسے زیادہ کھلائوں تو ہر روز دو انڈے دے دیا کرے گی- اس طرح زیادہ کھلانے کی وجہ سے وہ مرغی مر گئی-
پس اگر انسان اس تعلیم پر عمل کرے کہ اپنا سب کچھ ایک ہی دفعہ دے دے تو وہ آئندہ کے لئے محروم ہو جائے گا اور اپنی قابلیتوں سے کام نہ لے سکے گا-
پھر حسر کے معنی ننگے ہو جانے کے بھی ہیں- ۱۵~}~اس لئے محسورا کے معنی یہ بھی ہوئے کہ وہ ننگا ہو جائے گا- اور جو ننگا ہو وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو جاتا ہے اور گھر میں بند ہو کر بیٹھ رہنے پر مجبور ہوتا ہے- پس فرمایا- اگر تم اپنا سارا مال دے دو گے تو پھر تمہیں گھر میں بے کار ہو کر بیٹھنا پڑے گا- اور تم کسی کام کے قابل نہ رہو گے-
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب دنیا میں لوگ ہمیں محتاج نظر آتے ہیں تو پھر کیا کریں- کس طرح کچھ حصہ دے کر باقی مال اپنے پاس رکھ لیں؟ اس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر انہ کان بعبادہ خبیرا بصیرا جب کسی کے پاس دولت آتی ہے تو ہمارے مقررہ قانون کے ماتحت آتی ہے- ہم اسی کو دولت دیتے ہیں جس میں دولت کمانے کی قابلیت ہوتی ہے- اگر ایسی قابلیت رکھنے والوں کو ناقابل کر دیا جائے تو دنیا میں تباہی آ جائے-
جو لوگ بڑھتے اور ترقی کرتے ہیں ان میں بڑھنے کی خاص قابلیت ہوتی ہے- اگر ان سے سارے کا سارا مال لے کر غریبوں اور محتاجوں میں بانٹ دیا جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ کمانے کی قابلیت رکھنے والے بھی روپیہ نہ کما سکیں گے اور ملک تباہ ہو جائے گا- پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم جسے دولت دیتے ہیں اسی قانون کے ماتحت دیتے ہیں کہ اس میں ترقی کرنے کی قابلیت ہوتی ہے- اور اسی لئے دیتے ہیں کہ وہ ترقی کرے- چونکہ ایسے لوگوں کا سارے کا سارا مال دے دینا قوم کی تباہی کا موجب ہو سکتا ہے اس لئے ہم اس کی اجازت نہیں دیتے- وہ لوگ قابلیت رکھتے ہیں انڈسٹری کی- وہ قابلیت رکھتے ہیں تجارت کی- وہ قابلیت رکھتے ہیں صنعت و حرفت کی- اگر ان کا سارے کا سارا مال فقیروں میں بانٹ دیا جائے تو پھر وہ ترقی نہ کر سکیں گے- غرباء اور مساکین کے پاس تو جو کچھ جائے گا وہ اسے کھا جائیں گے- لیکن ایک تاجر کے پاس مال رہتا ہے تو وہ اس سے اور کماتا ہے- اور نفع میں سے اپنے اوپر بھی خرچ کرتا ہے اور غریبوں کو بھی دیتا ہے- رہی یہ بات کہ پھر بھی ایسے لوگ رہ جاتے ہیں جن کو دیکھ کر رحم آتا ہے تو اس کے متعلق فرمایا انہ کان بعبادہ خبیرا بصیرا ہم اپنے بندوں کی حالت کو خوب جانتے ہیں اسی لئے ہم نے ایسا انتظام کیا ہے- تم ہم سے زیادہ بندوں پر رحم نہیں کر سکتے- ہم اپنے بندوں کی حالت تم سے زیادہ جانتے ہیں اور ان کی حالت کے مطابق ہم نے قانون بنا دیئے ہیں-
اسی طرح ہاتھ گردن سے باندھنے کا محاورہ بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ اگر بالکل کچھ نہ دیا جائے تو بھی قوم تباہ ہو جاتی ہے- یعنی اس طرح بھی قوت عملیہ ماری جاتی ہے کیونکہ ایسے محتاج بھی ہو سکتے ہیں جو کام کرنے کی قابلیت بھی رکھتے ہوں ان کو ضرور دینا چاہئے- پھر جب تک غرباء کو اٹھایا نہ جائے امراء بھی کمزور ہو جاتے ہیں- گویا غرباء کے نہ ابھارنے کی وجہ سے امراء بھی گر جاتے ہیں- اور امراء کو مار دینے سے غرباء لاوارث ہو جاتے ہیں- پس امراء کا رہنا بھی ضروری ہے گو ان پر غرباء کی مدد کرنا بھی فرض ہے- اب دیکھو اسلام نے کس طرح خرچ کی مقدار بھی بتا دی اور اس کی دلیل بھی دے دی-
‏sub] [tag اسراف اور بخل سے بچنے کی نصیحت
دوسری جگہ فرماتا ہے والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولمیقتروا وکان بین ذلک قواما۱۶~}~اس میں بتایا کہ ہمارے بندوں کی درمیانی حالت ہوتی ہے- جنہیں ہم مال و دولت دیں ان کا فرض ہے کہ وہ نہ تو اپنی ذات پر ساری کی ساری دولت خرچ کر دیں اور نہ ساری دولت لوگوں کو دے دیں بلکہ ان کی درمیانی حالت ہو- وہ کچھ لوگوں پر خرچ کریں اور کچھ اپنے اوپر-
اس میں اسلام نے کچھ اپنے اوپر خرچ کرنے کی اجازت دی ہے بلکہ بعض دفعہ اپنی ذات پر خرچ نہ کرنا خدا تعالیٰ کے نزدیک گناہ ہوتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بعض لوگ اعتراض کیا کرتے تھے کہ آپ بادام روغن` مشک اور عنبر وغیرہ استعمال کرتے ہیں- آپ ان کے جواب میں سید عبدالقادر جیلانی~رح~ کے متعلق بیان فرمایا کرتے تھے کہ وہ ایک ایک ہزار دینار کے کپڑے پہنتے- گویا ۱۶ ہزار روپیہ کا ان کا صرف ایک سوٹ ہوتا تھا- اس کے متعلق کسی نے ان سے پوچھا- تو انہوں نے فرمایا- میری تو یہ حالت ہے کہ میں کبھی کھانا نہیں کھاتا جب تک خدا تعالٰی مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو کھانا کھا- اور میں کوئی کپڑا نہیں پہنتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے یہ نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو فلاں کپڑا پہن- ۱۷~}~حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دماغی کام کرتے تھے اور دماغی کام کرنے والے کے لئے جتنی مقویات کی ضرورت ہوتی ہے اتنی کسی اور کیلئے نہیں ہو سکتی- ایسا انسان اگر اپنے اوپر خرچ نہ کرے گا تو وہ گنہگار ہو گا- ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لئے گئے- رمضان کا مہینہ تھا- کچھ لوگوں نے روزے رکھے ہوئے تھے اور کچھ نے نہ رکھے تھے جنہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا وہ تو منزل پر پہنچ کر لیٹ گئے لیکن جو روزہ سے نہ تھے وہ خیمے لگانے اور دوسرے کام کرنے لگ گئے یہ دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- آج روزہ نہ رکھنے والے روزہ رکھنے والوں سے بڑھ گئے- ۱۸~}~ پس اسلام کہتا ہے- جہاں کھانا مفید ہے اور اس سے خدمت دین میں مدد ملتی ہے وہاں اگر کوئی عمدہ کھانا نہ کھائے گا تو گناہگار ہوگا- دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ]2 [rtf جب رات کو سوتے تو مختلف محلوں کے لوگوں نے باریاں تقسیم کی ہوئی تھیں- وہ باری باری رات کو آپ کے مکان کا پہرہ دیتے- اس کے لئے اجازت دینا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تھا- اور صحابہ ؓ کا یہ فرض تھا کہ رات کو آپﷺ~ کی حفاظت کا انتظام کرتے- کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ ہونا اسلام کو نقصان پہنچانے والا تھا اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بادشاہت جتلاتے تھے اور اپنے لئے پہرہ مقرر کرتے تھے- پہرہ آپﷺ~ کے لئے ضروری تھا اور اس کا مقرر نہ کرنا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل گرفتہوتا-
صدقہ و خیرات کی تقسیم کے متعلق ہدایات
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وات ذاالقربی حقہ والمسکین و ابنالسبیل ولا تبذر تبذیرا- ان المبذرین کانوا اخوان الشیطن وکانالشیطن لربہ کفورا-۱۹~}~ اس میں مندرجہ ذیل باتیں بیان کی گئی ہیں-
اول- انسان مال و دولت بالکل ہی نہ لٹا دے بلکہ اپنے اہل و عیال کے لئے بھی رکھ لے- گویا ساری کی ساری خیرات نہ کرے بلکہ اس میں سے کچھ خیرات کرے-
دوم- اس طرح خیرات نہ کرے کہ اس سے کسی کو فائدہ نہ پہنچے- تبذر تبذیرا کے معنی ہیں- بکھیر دینا- اگر دس بھوکے آئیں اور ایک روٹی دینے کے لئے ہو تو سب کو اس کا ایک ایک ٹکڑا دینے سے کسی کے بھی کام نہ آئے گی- وہی روٹی اگر ایک کو دیدو اور دوسروں سے کہہ دو کہ یہی ایک روٹی تھی تو یہ بہتر ہوگا- یا مثلاً بہت سے آدمی بیمار پڑے ہوں اور صرف پانچ گرین کونین ہو تو سب کو تھوڑی تھوڑی دینے سے کسی کو بھی فائدہ نہ ہوگا لیکن اگر ایک کو دے دی جائے تو اس کے لئے مفید ثابت ہو سکے گی- تو فرمایا اول تو یہ حکم ہے کہ سارا مال تقسیم نہ کر دو اور دوسرے یہ کہ اس طرح تقسیم کرو کہ جسے دو وہ اس سے فائدہ اٹھا سکے- جو ایسا نہ کرے اس کے متعلق فرمایا- ان المبذرین کانوا اخوان الشیطن- وکان الشیطن لربہ کفورا ایسا انسان شیطان کا بھائی ہے اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے- اس طرح مال تقسیم کرنے سے کسی کو فائدہ نہ ہوگا- اور ناشکری پیدا کرے گا-
اخوان الشیطین کہنے میں حکمت
یہاں اللہ تعالیٰ نے شیطان نہیں کہا بلکہ شیطان کا بھائی کہا ہے- جس کی وجہ یہ ہے کہ دینے والے نے تو اپنی طرف سے اچھی بات ہی سمجھی تھی کہ ایک کی بجائے بہتوں کو دے دیا- لیکن حقیقتاً اس کا یہ فعل اچھا نہ تھا- اس لئے اس کا یہ فعل حقیقی ناشکری تو نہیں لیکن اس کے مشابہ ضرور ہے- پھر تھوڑی چیز کو بہتوں میں اس طرح بانٹ دینے کو کہ کسی کے بھی کام نہ آئے اللہ تعالیٰ نے ناشکری قرار دینے کی یہ وجہ بتائی کہ ہم نے جو نعمت دی تھی وہ کسی غرض کے لئے ہی دی تھی مگر تم نے اس کو بے فائدہ طور پر بانٹ دیا اور اس طرح اس غرض کو باطل کر دیا- وہ غرض یہی ہے کہ مال قابلیت رکھنے والوں کے پاس آتا ہے اور قابلیت رکھنے والوں کو کام کرنے کے قابل بنائے رکھنا قوم کے لئے ضروری ہوتا ہے- اگر ایک اعلیٰ درجہ کا کاریگر ہو اور وہ اپنے اوزار دوسروں میں بانٹ دے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کا اپنا کام بھی نہ چلے گا- اور دوسروں کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا لیکن اگر وہ اپنے اوزار اپنے پاس رکھ کر ان سے کام کرے اور پھر جو کچھ کمائے اس میں سے دوسروں کی مدد کرے تو یہ بہت مفید بات ہوگی-
صدقہ دینے کا صحیح طریق
پھر اسلام نے صدقہ دینے کا طریق بتایا ہے- جو یہ ہے کہ الذین ینفقون اموالھم باللیل والنھار سرا و علانیہ ۲۰~}~یعنی مومن وہ ہیں جو اپنے اموال رات اور دن اور پوشیدہ اور ظاہر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں- اس آیت میں یہ احکام بیان کئے گئے کہ اول پوشیدہ صدقہ دو- دوم علانیہ صدقہ دو-
یہاں مال کے طریق تقسیم میں انجیل کی تعلیم کا مقابلہ ہو گیا- انجیل میں تو یہ کہا گیا ہے کہ-:
’’جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے تا کہ تیری خیرات پوشیدہ رہے‘‘-
لیکن قرآن کہتا ہے کہ کبھی اس طرح صدقہ دو کہ دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں کو پتہ نہ لگے اور کبھی اس طرح دو کہ سب کو پتہ لگے- اور اس کی وجہ بتائی کہ کیوں ہم یہ کہتے ہیں کہ ظاہر طور پر بھی صدقہ دو- اور پوشیدہ طور پر بھی- فرمایا ان تبدوا الصدقت فنعماھی وان تخفوھا وتوتوھا الفقراء فھو خیر لکم ویکفر عنکم من سیئاتکم واللہ بما تعملون خبیر ۲۱~}~یعنی اگر تم صدقہ دکھا کر دو تو یہ بڑی اچھی بات ہے- لیکن وان تخفوھا وتوتوھاالفقراء فھو خیر لکم اگر تم چھپا کر دو تو یہ تمہارے اپنے لئے بہتر ہے- گویا دوسرے طریق صدقہ میں پہلے طریق کی بھی وجہ بتا دی- کیونکہ جب یہ بتایا کہ پوشیدہ طور پر صدقہ دو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا تو یہ بھی فرما دیا کہ اگر ظاہری طور پر صدقہ دو گے تو یہ دوسروں کیلئے بہتر ہوگا- کیونکہ جب لوگ کسی کو صدقہ دیتے دیکھیں گے تو کہیں گے یہ بڑا اچھا کام ہے اور پھر وہ خود بھی اس کی نقل کرنے لگ جائیں گے- دیکھو جو لوگ یورپ کے دلدادہ ہیں وہ سر سے پیر تک وہی لباس پہنچتے ہیں جو یورپین لوگوں کا ہے- ایک زمانہ میں جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی تو ہندو بھی مسلمانوں کی طرح جبے پہنے پھرتے تھے- اب بھی جن علاقوں میں مسلمانوں کی کثرت ہے وہاں کے ہندوئوں کا لباس مسلمانوں جیسا ہی ہوتا ہے- جیسا کہ سرحد میں یا سندھ میں ہے- ایک دفعہ ایک سندھی تاجر ہمارا ہم سفر تھا- اس نے بالکل مسلمانوں جیسا لباس پہنا ہوا تھا- میں اسے مسلمان ہی سمجھتا رہا- جب کھانا کھانے لگے تو ہمارے نانا جان بھی ساتھ تھے- انہوں نے اس تاجر کو کہا کہ آئیے آپ بھی کھانا کھائیں- مگر اس نے نہ کھایا- جب وہ اترنے لگا تو اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو مسلمانوں کے ساتھ کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے مگر دوسرے لوگ برا مناتے ہیں- تب پتہ لگا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ ہندو تھا- تو دوسروں کو دیکھ کر انسان ان کی باتیں اختیار کر لیتاہے-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کلکم راع وکلم مسئول عن رعیتہ 2] f[st۲۲~}~تم میں سے ہر ایک کی مثال گڈریا کی سی ہے- ہر ایک کے ساتھ کچھ نہ کچھ بھیڑیں لگی ہوئی ہیں جو اس کی نقل کرتی ہیں- پس اگر کوئی ظاہرہ طور پر صدقہ دے گا تو اس کے بیٹے` بھائی یا دوسرے رشتہ دار` مرید` ملازم` دوست اور آشنا بھی اس کی نقل میں صدقہ دیں گے-
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آئندہ نسل کو اس سے فائدہ پہنچے گا- بچوں کو صدقہ دینے کی عادت پڑے گی- جب وہ اپنے بڑوں کو دیکھیں گے کہ وہ صدقہ دیتے ہیں تو سمجھیں گے کہ یہ اچھی بات ہے اور خود بھی صدقہ دینے لگ جائیں گے اس طرح آہستہ آہستہ ان کی تربیت ہوتی جائے گی-
تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ بعض دفعہ لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ فلاں شخص امداد کا محتاج ہے- ہو سکتا ہے کہ مجھے اپنے محلہ یا اپنے قصبہ یا اپنے شہر کے کسی آدمی کے متعلق پتہ ہو کہ وہ محتاج ہے لیکن دوسروں کو پتہ نہ ہو- ایسی صورت میں اگر میں ایک دوست کو کچھ دوں کہ فلاں کو دے دینا تو بغیر یہ اعلان کرنے کے کہ فلاں کی مدد کرو اسے خود بھی دینے کا خیال آ جائے گا- یہ ظاہری طور پر صدقہ دینے کے فوائد ہیں-
اسی طرح اگر مخفی طور پر خیرات دی جائے تو وہ دینے والے کے اپنے نفس کیلئے اچھی ہے اس سے اس میں ریاء پیدا نہیں ہوگا جو ظاہر طور پر دینے سے پیدا ہو سکتا ہے- لیکن جو شخص مخفی خیرات اس لئے دیتا ہے کہ اس کے دل میں ریاء پیدا نہ ہو وہ جب ظاہر طور پر دے گا تب بھی ریاء کا جذبہ اس میں پیدا نہ ہوگا کیونکہ وہ اپنے نفس کو ریاء سے بچانے کیلئے پوشیدہ طور پر دے کر مشق کرتا رہتا ہے- ریاء کا جذبہ اسی میں پیدا ہو سکتا ہے جو صرف ظاہرہ خیرات دیتا ہے-
پھر لکم کہہ کر یہ بھی بتا دیا کہ پوشیدہ دینے میں تمہارے لئے بھی نفع ہے اور فقراء کے لئے بھی یعنی جنہیں دیتے ہو ان کے لئے بھی کیونکہ اس طرح ان کی عزت نفس محفوظ رہتی ہے اور وہ شرمندہ نہیں ہوتے- غرض مخفی طور پر صدقہ دینا` دینے والے کیلئے بھی نفع بخش ہے کیونکہ اس میں ریاء پیدا نہیں ہوتا اور لینے والے کے لئے بھی کہ اس کی خفت نہیں ہوتی-
صدقہ کی مختلف اقسام
صدقہ کے متعلق تیسرا پہلو یہ ہے کہ اسلام نے اس کی اقسام مقرر کی ہیں- صدقہ کی ایک قسم تو لازمی ہے جس کے متعلق فرمایا- واقیموا الصلوہ واتواالزکوہ ۲۳~}~تم نماز باشرائط جماعت کے ساتھ ادا کرو اور زکٰوۃ دو- آگے اس لازمی صدقہ کی دو قسمیں بتائیں- اول لازمی وقتی جیسے جہاد ہے- جب جہاد کا موقع پیش آ جائے اس وقت قوم کا فرض ہوتا ہے کہ اپنے اموال پیش کر دے- دوم لازمی مقررہ جیسے فرمایا خذمن اموالھم صدقہ ۲۴~}~یہ زکٰوۃ ہے- لیکن ایک صدقہ وقتی غیر مقررہ ہے- اس میں شریعت یہ نہیں کہتی کہ کتنا دو بلکہ یہ کہتی ہے کہ اس وقت ضرور دو- مقررہ میں تو حد مقرر کر دی گئی ہے کہ چالیسواں حصہ یا جانوروں میں سے اتنا حصہ دیا جائے مگر جہاد کے لئے کہا جاتا ہے کہ دو جتنا دے سکتے ہو- چنانچہ ایک جہاد کے موقع کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں- مجھے خیال آیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمیشہ مجھ سے بڑھ جاتے ہیں- آج میں ان سے بڑھوں گا- یہ خیال کر کے میں گھر گیا اور اپنے مال میں سے آدھا مال نکال کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے لے آیا- وہ زمانہ اسلام کے لئے انتہائی مصیبت کا دور تھا- لیکن حضرت ابوبکر رضیاللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا- ابوبکرؓ! گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا- اللہ اور اس کا رسولﷺ-~ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں- یہ سن کر مجھے سخت شرمندگی ہوئی اور میں نے سمجھا کہ آج میں نے سارا زور لگا کر ابوبکرؓ سے بڑھنا چاہا تھا مگر آج بھی مجھ سے ابوبکرؓ بڑھ گئے- ۲۵~}~ ممکن ہے کوئی کہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے تھے تو پھر گھر والوں کے لئے انہوں نے کیا چھوڑا؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے مراد گھر کا سارا اندوختہ تھا- وہ تاجر تھے اور جو مال تجارت میں لگا ہوا تھا وہ نہیں لائے تھے اور نہ مکان بیچ کر آ گئے تھے-
جہاد کے موقع پر مال دینے کا ذکر سورۃ بقرہ رکوع ۲۴ میں ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکہ ۲۶~}~تم جنگی کاموں میں اپنا روپیہ صرف کرو- اگر نہیں کرو گے تو دشمن جیت جائے گا اور تم تباہ ہو جائو گے-
پھر ایک صدقہ اختیاری ہوتا ہے- اس کے متعلق بقرہ رکوع ۲۶ میں آتا ہے- ما انفقتم من خیر فللوالدین والاقربین والیتمی والمسکین وابن السبیل ۲۷~}~جب کوئی دینے کا موقع ہو اور اس وقت تم خدا کے لئے خرچ کرنا چاہو تو کر سکتے ہو- اپنے والدین کیلئے اپنے قریبی رشتہ داروں کے لئے` یتامی اور مساکین اور مسافروں کیلئے- یہ صدقہ اختیاری رکھا- ایک اور جگہ اختیاری اور لازمی صدقہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے- فی اموالھم حق معلوم- للسائل والمحروم2]- [stf۲۸~}~معلوم کے لفظ میں بتا دیا کہ یہ مقررہ صدقہ ہے- کیونکہ معلوم کے معنی ہیں مقرر کر دیا گیا- یعنی رقم مقرر کر دی کہ اتنا دینا ضروری ہے- یا یہ کہ خرچ کا وقت مقرر ہوتا ہے کہ اب کچھ نہ کچھ دینا تم پر فرض ہے- پس فرمایا فی اموالھم حق معلوم- ان کے مال میں ایک مقرر حق ہوتا ہے- للسائل والمحروم-سوال کرنے والے اور محروم کا- گویا بتایا کہ اتنا دینا تمہارے لئے ضروری ہے اور غیر مقررہ کے لئے فرمایا-
و فی اموالھم حق للسائل والحمروم ۲۹~}~یہاں معلوم کا لفظ نہیں رکھا گیا بعض لوگ کہتے ہیں قرآن میں قافیہ بندی کی گئی ہے- حالانکہ اگر صرف قافیہ بندی ہوتی تو محروم کے ساتھ معلوم قافیہ تھا جو سورۃ معارج میں آیا- مگر سورۃ ذاریات میں معلوم کا لفظ اڑا دیا- کیونکہ یہاں دوسری قسم کے صدقہ کا ذکر تھا- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں قافیہ کا خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ مضمون کا خیال رکھا جاتا ہے-
‏a10.10
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن
صدقہ ایک قسم کے قرض کی ادائیگی ہے
صدقہ کے متعلق چوتھا پہلو اسلام نے یہ پیش کیا ہے کہ صدقہ کی حقیقت بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ صدقہ ایک قسم کے قرضہ کی ادائیگی ہے- بعض لوگ کہتے ہیں صدقہ ملنے کی وجہ سے لوگ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ان میں سستی اور کاہلی پیدا ہو جاتی ہے- مگر اسلام کہتا ہے و فی اموالھم حق معلوم- للسائل والمحروم- فی اموالھم حق للسائل والمحروممحتاج اور مساکین کا حق ہے کہ تم انہیں اپنے مال میں سے دو- اگر تم کسی محتاج کو دیتے ہو تو اس پر احسان نہیں کرتے بلکہ اس کا حق ادا کرتے ہو- دوسری جگہ اس حق کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ وسخرلکم ما فی السموت وما فی الارض جمیعا منہ۳۰~}~ یعنی زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اے بنی نوع انسان اسے ہم نے بغیر تمہاری محنت اور بغیر کسی قسم کی اجرت کے تمہاری خدمت میں لگا دیا ہے- اب اگر زمین اور آسمانوں کی چیزیں صرف زید یا بکر کی خدمت میں لگی ہوئی ہوں تو ان کا وہ مالک ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ چیزیں غریب اور امیر سب کی خدمت کر رہی ہیں تو معلوم ہوا کہ سب چیزیں سب کے لئے پیدا کی گئی ہیں صرف زید یا بکر کیلئے نہیں پیدا کی گئیں- اگر سورج صرف بادشاہ کے لئے پیدا کیا جاتا تو چاہئے تھا کہ اسی کو نظر آتا اور اسی کو فائدہ پہنچاتا مگر سورج بادشاہ کو بھی اسی طرح روشنی اور گرمی پہنچاتا ہے جس طرح ایک فقیر کو- یہی حال دوسری چیزوں کا ہے- اس سے معلوم ہوا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے بنی نوع انسان کی مشترکہ جائیداد ہے اور سب دولت اسی کے ذریعہ کمائی جاتی ہے- سخر لکم کے ماتحت ہی انسان دنیا میں مال و دولت حاصل کرتا ہے- پس ساری کی ساری کمائی پبلک پراپرٹی سے ہی ہو رہی ہے جو خدا تعالیٰ نے ساری دنیا کیلئے پیدا کی ہے- بے شک جو محنت و مشقت کر کے اس سے کماتا ہے اس کا زیادہ حق ہے مگر پراپرٹی میں حصہ رکھنے والے کا بھی توحق ہوتا ہے- جو محنت کرتا ہے اس کا زیادہ حق ہوتا ہے- لیکن جس چیز میں محنت کرتا ہے وہ چونکہ مشترک ہے اس لئے اس کے لینے میں وہ بھی شریک ہے جس کی اس میں شراکت ہے- یہ حق صدقہ اور زکٰوۃ کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے-
اب دیکھو یہ نکتہ بیان کر کے کس طرح امراء اور دولت مندوں کا تکبر توڑا گیا ہے- جب غرباء کا بھی امراء کے مال و دولت میں حق ہے تو اگر کوئی امیر ان کو دیتا ہے تو ان کا حق ادا کرتا ہے نہ کہ ان پر احسان کرتا ہے- ادھر غرباء اور محتاجوں کو شرمندگی سے یہ کہہ کر بچا لیا کہ مالداروں کے مال میں تمہارا بھی حق ہے- ہم نے ان کو ساری رقم دے کر ان کا فرض مقرر کر دیا ہے کہ ہمارے محتاج بندوں کو بھی دیں ساری کی ساری کمائی خود ہی نہ کھا جائیں-
صدقہ کے محرکات
پانچواں پہلو صدقات کے متعلق اسلام نے یہ بیان کیا کہ صدقہ کے محرکات کیا ہونے چاہئیں؟ محرکات کے ذریعہ ایک اعلیٰ درجہ کی چیز بھی بری ہو جاتی ہے- مثلاً ہمارے ہاں کوئی مہمان آئے اور ہم اس کی خاطر اس لئے کریں کہ اس سے ہمیں فلاں فائدہ حاصل ہو جائے گا تو خواہ ہم کتنی خاطر کریں اس میں اپنی ذاتی غرض پنہاں ہو گی- لیکن اگر ہم مہمان کی تواضع اس لئے کریں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے تو یہ اعلیٰ درجہ کی نیکی ہو گی- پس برے محرکات کے ذریعہ ایک چیز ادنیٰ ہو جاتی ہے اور اگر اچھے محرکات ہوں تو اعلیٰ ہو جاتی ہے- یہود میں صدقہ کی غرض رحم بتائی گئی ہے- یہ ایک لحاظ سے تو اچھی ہے مگر اس میں نقص بھی ہے- اسلام نے محرکات کے متعلق بھی بحث کی ہے- اور بتایا ہے کہ مثل الذین ینفقون اموالھمابتغاء مرضات اللہ وتثبیتا من انفسھم ۳۱~}~یہاں صدقہ کی دو اغراض بتائی گئی ہیں- ایک یہ کہ ابتغاء مرضات اللہ محض یہ غرض ہو کہ اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل ہو دوسری یہ کہ تثبیتا من انفسھمکبھی یہ غرض ہو کہ اپنی قوم مضبوط ہو جائے- پس اسلام کے نزدیک صدقہ کی دو ہی اغراض ہیں- ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے اور دوسری یہ کہ غرباء کی مدد اپنی مدد ہوتی ہے- جس قوم کے افراد گرے ہوئے ہونگے وہ قوم بھی کمزور ہو جائیگی- کیونکہ گرے ہوئے افراد اس کے لئے بوجھ ہونگے اور قوم ترقی نہ کر سکے گی- اسی لئے یورپین قومیں بھی جنہیں خدا سے کوئی تعلق نہیں محض اس لئے صدقہ و خیرات کرتی ہیں کہ قوم کے غرباء کی ترقی سے قوم بڑھتی اور ترقی کرتی ہے- پس صدقہ کی ایک غرض اسلام نے یہ بتائی کہ تثبیتا من انفسھماس کے ذریعہ قوم مضبوط ہو جاتی ہے-
اسی طرح نیک لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-واتی المال علی حبہ یعنی نیک وہ ہوتا ہے جوعلی حبہمال دیتا رہے- کتنے مختصر الفاظ ہیں- لیکن ان میں نہایت وسیع مطالب بیان کئے گئے ہیں-علی حبہ کے معنے یہ ہیں کہ اول اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے- چنانچہ پہلے اللہ تعالیٰ کا ذکر موجود ہے- گویا وہ مال دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت کی خاطر- انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے اس لئے وہ اس کی مخلوق سے بھی محبت کرتے ہیں- ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ چونکہ ہم خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اس لئے ہم بھی ان سے محبت کریں-
۲- حبہکی ضمیر اس شخص کی طرف بھی جاتی ہے جسے مال دیا جاتا ہے- اس لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جسے مال دیتے ہیں اسے ذلیل سمجھ کر نہیں دیتے بلکہ اپنا بھائی سمجھ کر دیتے ہیں- وہ مال دیتے تو دوسرے کو ہی ہیں لیکن اسے ذلیل سمجھ کر نہیں بلکہ اس کا حق سمجھ کر دیتے ہیں- اسے اپنا بھائی اور اپنا پیارا سمجھ کر دیتے ہیں-
۳- حبہ کی ضمیر مال دینے کی طرف بھی جاتی ہے- اس لحاظ سے یہ معنے ہوئے کہ وہ مال دینے کی محبت کی وجہ سے دیتے ہیں- کیونکہ انہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں مال دینا انتہائی مرغوب ہوتا ہے- وہ چٹی سمجھ کر نہیں دیتے بلکہ اس لئے دیتے ہیں کہ انہیں مال دینے سے ایک روحانی سرور اور ذوق حاصل ہوتا ہے- اسی حبہ کے متعلق دوسری جگہ ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربی۳۲~}~ کہہ کر بتایا کہ ان کی محبت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم ماں باپ ہیں اور غریب اور محتاج لوگ ہمارے بچے ہیں- جیسے ماں اپنے بچہ کو محبت سے دودھ پلاتی ہے نہ کہ کسی طمع سے اسی طرح یہ لوگ محتاجوں کو اپنا مال دیتے ہیں- دودھ کیا ہوتا ہے ماں کا خون ہوتا ہے- مگر پھر بھی جن عورتوں کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا وہ کڑھتی رہتی ہیں- جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہیں کوئی ایسا بچہ نہیں ملتا جسے وہ اپنا خون پلائیں- تو فرمایا- وہ لوگ مال دیتے دیتے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں- یہ نہیں سمجھتے کہ مال دے کر ہم کسی پر احسان کر رہے ہیں بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا احسان ہے جو ہم سے مال لیتے ہیں- جیسے بچہ جب روٹھ جائے تو ماں اسے مناتی اور کہتی ہے ’’میں صدقے جاواں- میں واری جاواں‘‘ حالانکہ وہ بچہ کو کھانے کے لئے دیتی ہے نہ کہ اس سے کچھ لیتی ہے- تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے- تمہارا وہ درجہ ہونا چاہئے کہ تم دے کر یہ سمجھو کہ لینے والوں نے ہم پر احسان کیا ہے نہ کہ تم نے ان پر کرئی احسان کیا ہے-
صدقات کی غرض و غایت
چھٹے اسلام نے صدقہ دینے کی غرض بیان کی ہے- ایک غرض تو اسی آیت میں آئی ہے جو میں نے ابھی پڑھی ہے یعنیاتیالمال علی حبہ جو شخص مال دے اس کی محبت کی وجہ سے دے- دشمنی سے نہ دے کسی کی عادات بگاڑنے کے لئے نہ دے بلکہ اس لئے دے کہ اچھے کاموں میں لگے- جسے دیا جائے اسے فائدہ ہو- ایسی حالت نہ ہو جائے کہ مال لینے کی وجہ سے اسے نقصان پہنچے-
صدقات سے معذوری کے اصول
ساتویں اسلام نے صدقہ نہ دینے کے مواقع بھی بیان کئے ہیں- یعنی بتایا ہے کہ فلاں مواقع پر صدقہ نہ دو- یا تم صدقہ نہ دینے میں معذور ہو- جیسے فرمایا- واما تعرضن عنھم ابتغاء رحمہ من ربک ترجوھا فقل لھم قولا میسورا ۳۳~}~اس آیت میں تین مواقع بتائے کہ ان میں صدقہ نہ دینے میں حرج نہیں- اول جب کہ تمہارے پاس کچھ نہ ہو- ابتغاء رحمہ من ربک text1] gat[جب تم خود تکلیف میں ہونے کی وجہ سے اپنے رب کی رحمت کے محتاج ہو- دوم- جب تمہارا دل تو چاہتا ہو کہ صدقہ دو اور دینے کے لئے مال بھی تمہارے پاس موجود ہو- لیکن عقل کہتی ہو کہ اگر مال دونگا تو خدا کا غضب نازل ہوگا اور اگر نہ دونگا تو خدا کی رحمت کا نزول ہوگا-اما تعرضن عنھم ابتغاء رحمہ من ربک ترجوھا-بخل سے نہیں بلکہ یہ خیال ہو کہ نہ دونگا تو خدا کا فضل نازل ہوگا ایسی صورت میں صدقہ نہ دینا اچھا ہے- مثلاً کوئی شخص عیاشی میں روپیہ برباد کر دیتا ہو تو اسے نہ دینا ہی رضائے الٰہی کا موجب ہو گا- یا ایک شخص آئے اور آکر کہے کہ مجھے اسلام کے خلاف ایک کتاب لکھنے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے اس میں چندہ دیجئے تو اس سے اعراض کرنے والا یقیناً اللہ تعالیٰ کے فضل کی جستجو میں انکار کرے گا- اب ایک اور مثال دیتا ہوں اس بات کی کہ انسان کا دل تو چاہتا ہے کہ دے مگر ابتغاء رحمہ من ربکنہیں دیتا- ایک بچہ ہے جو ہماری تربیت کے نیچے ہے وہ کسی چیز کی خواہش کرتا ہے- وہ خواہش ہم پوری بھی کر سکتے ہیں وہ بری بھی نہیں ہوتی مگر ہم سمجھتے ہیں اس کی تربیت کے لحاظ سے یہ برا اثر ڈالے گی- اس لئے اسے پورا نہیں کرتے- تیسری صورت یہ ہے کہ کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے مانگے مثلاً کسی کو مارنے کے لئے ریوالور خریدنا چاہے تب بھی نہیں دیں گے-
صدقات سے انکار کرنے کا طریق
آٹھویں- اسلام نے یہ بتایا ہے کہ صدقہ نہ دینے سے انکار کرنے کا کیا طریق ہونا چاہئے- یعنی بتایا کہ انکا کرو تو کس طرح کرو- فرمایا-اما السائل فلا تنھر۳۴~}~ جب انکار کرو تو سائل کو ڈانٹ کر نہ کرو- تم انکار کر سکتے ہو مگر سائل پر سختی نہیں ہونی چاہئے-
پھر فرمایا-قل لھم قولا میسوراایسی بات کرو جس سے مانگنے والے کو ذلت محسوس نہ ہو- لوگ کہتے ہیں سائل کو نرمی سے جواب دینا چاہئے- یہ اما السائل فلا تنھر میں آچکا ہیقولا میسوراکے یہ معنے ہیں کہ اس طرح جواب نہ دو کہ اسے ذلت اور شرمندگی محسوس ہو-
صدقات میں کیا چیز دی جائے
نویں- اسلام نے یہ بتایا کہ کیا چیز صدقہ میں دی جائے- یہ بھی ایک اہم سوال ہے- بعض لوگ کہتے ہیں کہ کسی غریب کو اچھا کپڑا دینے کا کیا فائدہ- اس کی بجائے اگر دس غریبوں کو کھدر کے کپڑے بنوا دیئے جائیں تو زیادہ اچھا ہو گا- یا مثلاً ایک شخص کو پلائو کھانے کی بجائے دس کو آٹا دے دیا جائے تو یہ بہتر ہے- لیکن یہ ان کی غلطی ہے- اسلام فطرت کی گہرائیوں کو دیکھتا ہے- اسلام جانتا ہے کہ غرباء روزانہ امراء کو اچھا کھانا کھاتے اور اچھے کپڑے پہنتے دیکھتے ہیں اور خود بھی چاہتے ہیں کہ ویسے ہی کپڑے پہنیں اور ویسے ہی کھانے کھائیں- اس لئے ایسی بھی صورت ہونی چاہئے کہ ان کو اس امر کے مواقع حاصل ہو سکیں- اسلام لوگوں کو خشک فلسفی نہیں بناتا بلکہ لوگوں کے دلوں کے خیالات پڑھنے کا حکم دیتا ہے- ہمارے ملک میں ایک قصہ مشہور ہے جسے ہم بھی بچپن میں بہت خوشی سے سنا کرتے تھے- قصہ یہ تھا کہ کوئی لکڑ ہارا تھا جو بادشاہ کے باورچی خانہ کے لئے لکڑیاں لایا کرتا تھا- ایک دن جب وہ لکڑیاں لے کر آیا تو کھانے کو بگھار لگایا جا رہا تھا- اس کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ برداشت نہ کر سکا اور باورچی سے کہنے لگا کہ کیا اس کھانے میں سے مجھے کچھ دے سکتے ہو- اس نے کہا- یہ بڑا قیمتی کھانا ہے- تمہیں کس طرح دیا جا سکتا ہے- کہتے تھے اشرفیوں کا بگھار لگاتے تھے- یہ معلوم نہیں کس طرح لگاتے تھے- لکڑ ہارے نے پوچھا- یہ کتنا قیمتی ہے- اسے بتایا گیا کہ تمہاری چھ ماہ کی لکڑیوں کی قیمت کے مساوی ہے- اس پر وہ لکڑیاں ڈالنے لگا- پہلے روزانہ ایک بوجھ لایا کرتا تھا- پھر دو لانے لگا- ایک بوجھ کھانے کی قیمت میں دیتا- اور ایک بوجھ کی قیمت سے گزارہ چلاتا- آخر چھ ماہ کے بعد اسے وہ کھانا دیا گیا- جب وہ اسے لے کر گھر گیا- تو کسی فقیر نے اس کے دروازہ پر جا کر کھانا مانگا- لکڑ ہارے کی بیوی نے کہا- یہی کھانا اسے دیدو- کیونکہ ہم تو چھ ماہ لکڑیاں ڈال کر یہ پھر بھی لے سکتے ہیں لیکن یہ اس طرح بھی نہیں لے سکتا- لکڑ ہارے نے وہ کھانا فقیر کو دے دیا-
اسی طرح ہمایوں کو جس سقہ نے دریا میں ڈوبتے ہوئے بچایا تھا- اسے جب کہا گیا کہ جو کچھ چاہو مانگو تو اس نے چار پہر کے لئے بادشاہت مانگی- یہ تھی ایک سقہ کے دل کو خواہش تو خدا تعالیٰ دلوں کو پڑھتا ہے- فلسفی کو ان باتوں کی کیا خبر ہو سکتی ہے پس دلوں کے احساسات کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلام نے یہ حکم دیا کہ ومما رزقنھم ینفقون۳۵~}~کہ جو کچھ خدا نے دیا ہو اس میں سے خرچ کرو- روپیہ ہی صدقہ میں نہیں دینا چاہئے کبھی اچھا کپڑا بھی دو- اچھا کھانا بھی دو بلکہ جو کچھ تمہیں دیا جائے اس میں سے بانٹتے رہو-
اس سے بھی واضح الفاظ میں دوسری جگہ فرمایا- کلوا من ثمرہ اذا اثمر و اتوا حقہ یوم حصادہ ولا تسرفوا-۳۶~}~اے باغوں والے مسلمانو! جب تمہارے باغ پھل لاتے ہیں تو تم اپنے عزیزوں سمیت بیٹھ کر ان کے پھل کھاتے ہو- کبھی تمہیں یہ بھی خیال آیا کہ باغ کی دیوار کے ساتھ گذرنے والے غریب کا بھی پتہ لیں کہ اس کے دل میں کیا گذرتا ہے- کلوا من ثمرہ اذا اثمرہجب پھل پکیں تو خوب کھائو مگر ایک بات ضرور مدنظر رکھو- اور وہ یہ کہ و اتوا حقہ یوم حصادہ جب پھل پک جائیں تو غریبوں کو بھی دو تاکہ وہ بھی دنیا کی نعمتوں سے حصہ پائیں- یہ نہیں فرمایا کہ پھل بیچ کر کچھ روپے غریبوں کو دے دو کہ ان سے دال روٹی کھا لیں- مگر اس کے ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ ولا تسرفوا
ہاں اسراف نہ کرو یہ نہ ہو کہ روز غریبوں کو سنگترے وغیرہ تو کھلاتے رہو- مگر ان کے کپڑوں اور کھانے پینے کا خیال نہ رکھو ہر ایک امر کی ایک حد ہونیچاہئے-
پھر بتایا کہ جو کچھ دو حلال مال سے دو- فرمایا- یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم۳۷~}~اے ایمان دارو! جو کچھ تم نے کمایا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو- کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کے دل میں غریبوں کی مدد کے لئے جوش اٹھتا ہے تو ڈاکے مارنا شروع کر دیتے ہیں- وہ لوگ جو اخلاقی علوم سے واقف نہیں ہوتے` وہ کہتے ہیں فلاں ڈاکو بڑا اچھا آدمی ہے کیونکہ وہ غریبوں کی خوب مدد کرتا ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- یہ غریبوں پر رحم کرنے کا طریق نہیں بلکہ اصل طریق یہ ہے کہ انفقوا من طیبت ماکسبتمغریبوں کی ہمدردی کے یہ معنے نہیں کہ ڈاکے ڈال کر اور دوسروں کا مال چھین کر ان کو دے دو بلکہ تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اس قدر مال جس قدر قرآن کریم نے جائز رکھا ہے دیدو اور باقی کام خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو- کسی کی خاطر ناجائز فعل کرنا درست نہیں- لوگوں کا مال لوٹ کر غرباء کو دینا تو ’’حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ‘‘ کا مصداق بننا ہے- اگر تم یہ کہو کہ ہمارے پاس تھوڑا مال ہے مگر غریب بہت ہیں تو اس کی ذمہ داری تم پر نہیں- تم جتنا دے سکتے ہو دے دو باقی خدا تعالیٰ کے سپرد کرو-
ایک تاریخی لطیفہ ہے- لکھا ہے کہ صلیبی جنگوں کے موقع پر ایک شخص جو فوج میں ملازم تھا بادشاہ کے پاس آیا اور آکر کہنے لگا- میری غیرت یہ برداشت نہیں کرتی کہ میں بیت المال سے تنخواہ لوں- میں آئندہ تنخواہ نہیں لونگا- اسے کہا گیا کہ پھر تم کس طرح گذارہ کرو گے- اس نے کہا- میری ایک لونڈی ہے جو جادو ٹونے کرنا جانتی ہے- میں اس کی کمائی سے گذارہ کر لوں گا- گویا اس نے اسلام سے ناواقفیت کی وجہ سے حرام مال کو تو جائز قرار دے لیا اور جائز کو اپنے لئے حرام سمجھلیا-
غرباء اور امراء دونوں کو صدقہ دینا چاہئے
دسویں بات اسلام نے یہ بتاتی ہے کہ صدقہ دے کون- کیا امراء کو ہی صدقہ دینا چاہئے غرباء کو نہیں دینا چاہئے؟ اسلام کہتا ہے کہ صدقہ غرباء کو بھی دینا چاہئے- کیونکہ صدقہ دینے کی صرف یہی غرض نہیں کہ حاجت مند کی امداد ہو بلکہ یہ ایک درس گاہ ہے جس میں اخلاقی تربیت کی جاتی ہے اگر غریبوں کو صدقہ دینے سے محروم رکھا جائے تو وہ اس درس گاہ میں تعلیم پانے سے محروم رہ جائیں گے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- الذین ینفقون فی السراء والضراء۳۸~}~مومن وہ ہیں جو اس وقت بھی خرچ کرتے ہیں جب ان کے پاس مال ہوتا ہے- اور اس وقت بھی خرچ کرتے ہیں جب آپ تنگی میں مبتلا ہوں- اس سے معلوم ہوا کہ اسلام نے غریب امیر سب کے لئے صدقہ مقرر کیا ہے تاکہ انہیں صدقہ دینے کے فوائد حاصل ہو جائیں- صدقہ دینے کے کئی فوائد ہیں جن میں سے دو تین میں بیان کر دیتا ہوں-
اول ایسا انسان محسوس کرتا ہے کہ مجھ سے بھی زیادہ غریب اور محتاج لوگ دنیا میں موجود ہیں- ایک ایسا شخص جسے خود ایک وقت کا فاقہ ہو اسے اگر کوئی چیز ملے اور وہ کہے- میں کسے صدقہ دوں؟ تو خدا تعالیٰ اسے کہتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں کئی کئی وقت کا فاقہ ہو جاتا ہے- اس لئے تم ایسے شخص کو صدقہ دے سکتے ہو جو کئی وقت کا بھوکا ہو-
دوم اسلام نہیں چاہتا کہ کسی ثواب سے کوئی بھی محروم رہے- اس لئے صدقہ اس نے صرف امراء پر ہی نہیں بلکہ غرباء پر بھی رکھا ہے تاکہ وہ بھی اس ثواب سے محروم نہ رہیں- اور پھر وہ شخص تو ثواب کا اور زیادہ مستحق ہوتا ہے جو تنگی کی حالت میں دوسرے کی مدد کرتا ہے-
سوم خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ غریب کے دل پر زنگ لگے- جو خود لیتا رہے لیکن دے نہیں- اس کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے- اسی لئے اسلام نے کہا کہ وہ بھی دے تا کہ وہ یہ سمجھے کہ میں ہی دوسروں سے امداد حاصل نہیں کر رہا بلکہ میں بھی دوسروں کی مدد کرتا ہوں- اس کے لئے اسلام نے ایک خاص موقع بھی رکھ دیا ہے- یعنی رمضان کے بعد صدقہ الفطر رکھا ہے جس سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا- حتیٰ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ غریب اسی سے دے دے جو امیر اس کے گھر بھیجے لیکن صدقہ ضرور دے-
صدقہ کے متسحقین
گیارھویں بات اسلام نے یہ بتائی ہے کہ صدقہ کسے دیا جائے- میں نے بتایا ہے- وید میں کہا گیا ہے کہ برہمن کو صدقہ دیا جائے کسی اور کو نہ دیا جائے- بعض مذاہب میں قومی اور خاندانی لحاظ سے صدقہ دینے کا حکم ہے- مگر اسلام کہتا ہے یہ نہیں ہونا چاہئے- بعض مذاہب نے صدقہ غیر کے لئے رکھا ہے اپنے لوگوں کے لئے نہیں- مسلمانوں میں بھی یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ قریبی رشتہ داروں کو صدقہ نہیں دینا چاہئے حالانکہ اسلام میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے- بلکہ قرآن کریم میں آتا ہے-قل ما انفقتم من خیر فللوالدین و الا قربین والیتمی و المسکین و ابن السبیل یعنی جو مال تم خدا کی راہ میں تقسیم کرو اگر تمہارے ماں باپ محتاج ہوں اور تمہارے ہدایا سے بھی ان کی تنگی دور نہ ہو سکے تو انہیں صدقہ میں سے بھی دے سکتے ہو- پھر اقربین کو دو- یتامی کو دو مساکین کو دو- مسافروں کو دو- پھر فرماتا ہے-انما الصدقت للفقراء والمسکین والعملین علیھا و المولفہ قلوبھم و فی الرقاب والغارمین و فی سبیل اللہ و ابن السبیل فریضہ من اللہ واللہ علیم حکیم ۳۹~}~یعنی صدقات غریبوں کے لئے` مسکینوں کے لئے اور جو ان صدقات کو جمع کرنے والے ہوں ان کے لئے ہیں- اسی طرح جو اسلام نہیں لائے ان کیلئے یعنی ان کے کھانے پینے کیلئے` ان کی رہائش کے لئے ان کی تعلیم و تربیت کے لئے- پھر قیدیوں کے چھڑانے کے لئے- قرض داروں کے لئے جو جہاد کے لئے جائیں ان کے لئے اور مسافروں کے لئے ہیں- یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے-
اسی طرح فرمایا- لاینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلو کم فی الدین ولم یخرجوکم من دیار کم ان تبروھم وتقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین ۴۰~}~یعنی اللہ تمہیں روکتا نہیں کہ تم صدقہ دو ان کو جو تم سے لڑتے نہیں- جنہوں نے تمہیں تمہارے گھروں اور وطنوں سے نہیں نکالا- تم ان سے نیکی اور انصاف کرو- اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے-
اسی طرح فرماتا ہے-فی اموالھم حق للسائل والمحروممسلمانوں کے مالوں میں حق ہے سوالی کا بھی یعنی جو بول سکتا ہے اور محروم کا بھی یعنی حیوانوں کا جو بول نہیں سکتے-
پھر فرماتا ہے- ولا یاتل اولو الفضل منکم والسعہ ان یوتوا اولی القربی والمسکین والمھجرین فی سبیل اللہ ولیعفوا ولیصفحوا الا تحبون انیغفر اللہ لکم واللہ غفور رحیم- ۴۱~}~یعنی اے مومنو! کوئی تم میں سے یہ قسم نہ کھائے کہ میں قریبیوں کو اور مساکین کو اور مہاجرین فی سبیل اللہ کو صدقہ نہ دوں گا چاہئے کہ تم درگذر سے کام لو- کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تمہارے متعلق درگذر سے کام لے- پس کسی سے ناراض ہو کر اسے صدقہ سے محروم نہیں کرنا چاہئے-
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اول اسلام نے صدقہ مستحقین کو دینے کا ارشاد فرمایا ہے- کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں کیا- نہ اس میں کوئی زائد ثواب رکھا ہے-
دوم اپنے بیگانے میں فرق نہیں کیا- اپنوں کے لئے بھی جائز رکھا ہے اور دوسروں کے لئے بھی- اس طرح ایسے لوگوں کے خیالات کی تردید کی ہے جو ¶)الف(اپنوں کی خود بھی مدد نہیں کرتے اور صدقہ بھی نہیں دیتے کہ اپنوں کو کس طرح دیں- )ب(جو غریب اپنوں کو مدد اور صدقہ ایک ہی وقت میں نہیں دے سکتے انہیں نیکی سے محروم نہیں کیا گیا بلکہ اپنوں کی مدد کو ہی صدقہ شمار کر لیاہے-
سوم صدقہ صرف غرباء کے لئے ہی نہیں رکھا گیا بلکہ ان سے جو مشابہ لوگ ہوں ان کے لئے بھی رکھا ہے )الف(مثلاً ایک لکھ پتی ہو مگر رستہ میں اس کا مال ضائع ہو گیا ہو تو اسے بھی صدقہ دے سکتے ہیں- اسے قرض اس لئے نہیں دے سکتے کہ کیا پتہ ہے کہ وہ کوئی لٹیرا ہو اور دغا باز ہے یا ٹھگ ہے- لیکن صدقہ دے سکتے ہیں کیونکہ اگر ٹھگ اور دغا باز ہوگا تو اس کا وبال اس پر پڑے گا- )ب(مساکین- مسکین سے مراد غریب نہیں- کیونکہ اگر اس کے یہی معنے ہوتے تو پھر للفقرائکیوں فرمایا- دراصل مسکین سے مراد ایسا شخص ہے جو سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کام نہ کر سکے- مثلاً ایک شخص ایک فن جانتا ہے مگر وہ فن ایسا ہے کہ دس ہزار روپے سے کام چل سکتا ہے- ایسا شخص فقیر تو نہیں کہلا سکتا- وہ بہر حال کھاتا پیتا ہوگا مگر اپنی لیاقت اور قابلیت سے کام نہ لینے کی وجہ سے ترقی نہیں کر سکتا- اگر اسے دس ہزار روپیہ دے دیا جائے تو کام چلا سکتا ہے- ایسے شخص کو صدقہ کی مد سے حکومت روپیہ دے سکتی ہے خواہ بطور قرض ہو خواہ بطور امداد- )ج(ایک ایسا شخص ہو جو ہو تو مالدار مگر مقروض ہو- مثلاً اس کی پچاس ہزار کی تجارت ہو اور دس ہزار اس پر قرض ہو- اور قرض والے اپنا روپیہ مانگتے ہوں- تو اگر وہ سرمایہ میں سے ان کا قرض ادا کر دے تو اس کی پچاس ہزار کی تجارت تباہ ہو جاتی ہے ایسے شخص کی بھی صدقہ سے مدد کی جا سکتی ہے- یا مثلاً زمیندار ہے اور وہ مقروض ہے- اگر قرض ادا کرے تو اس کی زمین بک جاتی ہے اور اس کے گذارہ کی کوئی صورت نہیں رہتی اسے بھی صدقہ میں سے مدد دی جا سکتی ہے-
چہارم- صدقہ میں صدقہ کے عاملوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے- کیونکہ جب اسلام نے یہ حکم دیا کہ فلاں فلاں کو صدقہ دینا ضروری ہے تو یہ سوال ہو سکتا تھا کہ پھر صدقہ جمع کون کرے پس ضروری تھا کہ اس کے لئے کارکن ہوں اور ان کی تنخواہیں مقرر کی جائیں بے شک اسے صدقہ نہیں قرار دیا جائے گا مگر صدقہ میں سے ہی ان کی تنخواہیں ادا کی جا سکیں گی- یہ ایک سوال ہے` جس کی طرف اور کسی مذہب نے توجہ نہیں کی- یعنی یہ نہیں بتایا کہ صدقہ میں عاملوں کابھی حق ہے-
پنجم- یہ بتایا کہ سائل کو بھی محروم نہیں رکھنا چاہئے- بعض لوگ کہتے ہیں کہ سائلوں کو نہیں دینا چاہئے کیونکہ اس طرح ان کی عادت خراب ہو جاتی ہے لیکن اسلام کہتا ہے کہ انہیں دینا چاہیے- کیونکہ بعض دفعہ صرف ظاہر کو دیکھ کر یہ پتہ نہیں لگتا کہ فلاں محتاج ہے` یا نہیں- اس وجہ سے اسلام نے یہ رکھا کہ کوئی شخص سوال کرے اور اس کو پورا کرنے کی مقدرت ہو تو اسے دے دینا چاہئے-
ششم- اپنوں پرائیوں سب کو صدقہ دیا جائے سوائے ان کے جو اس وقت جنگ میں مشغول ہوں تاکہ وہ نقصان نہ پہنچائیں-
ہفتم- انسانوں کے سوا جانوروں کو بھی جو محروم ہیں جن کر کوئی مالیت نہیں سمجھی جاتی- صدقہ سے محروم نہ رکھا جائے کہ خدا تعالیٰ نے ان کا حصہ انسان کے ساتھ شامل کر دیا ہے- گویا بوڑھے اور ناکارہ جانوروں کو چارہ اور دانہ ڈالنا بھی صدقات میں شامل ہے اور ثواب کا موجب ہوگا- گئوشالہ کو مدد دینا بھی صدقہ ہے مگر اونٹ شالے اور بھینس شالے بھی ہونے چاہئیں-
صدقات کی تقسیم کے اصول
بارھویں بات اسلام نے یہ بیان کی کہ حکومت جو صدقات وصول کرے انہیں کن اصول پر تقسیم کرے- اس کے لئے اسلام نے قواعد مقرر کئے ہیں- فرمایا تطھر ھم و تزکیھم بھا ۴۲~}~ یعنی دو اصل تمہارے مدنظر ہونے چائیں-
اول- تطھرھم-قوم کی کمزوری دور کرنے کے لئے اور مصیبت زدوں کی مصیبت دور کرنے کے لئے-
دوم- یزکیھم بھا-قوم کو بلند کرنے کے لئے-زکیکے معنے اٹھانے اور ترقی دینے کے بھی ہوتے ہیں-
صدقہ دینے اور لینے والوں کے تعلقات پر بحث
تیرھویں بات یہ بیان کی کہ صدقہ دینے والے اور جنہیں دیا گیا ہو ان کے تعلقات کیا ہوں؟ )۱(شریعت نے ایسے مال کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے- ایک وہ حصہ جو حکومت کے ہاتھ سے جاتا ہے- اس کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے ہاتھ سے گیا ہے- یا میرا روپیہ فلاں کو دیا گیا ہے کیونکہ وہ سب کا جمع شدہ مال ہوتا ہے جس میں سے حکومت خود مستحق کو دیتی ہے اس طرح دینے والے کا واسطہ ہی اڑا دیا گیا ہے اور احسان جتانے کی کوئی صورت ہی باقی نہیں رہنے دی-
)۲(حق للسائل والمحرومکہہ کر احسان جتانے کی روح کو بھی کچل دیا اور بتایا کہ جن کو صدقہ دیا جاتا ہے ان کا بھی دینے والے کے مال میں حق ہے-
)۳(لیکن چونکہ ہر ایک اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا اس لئے ظاہری احکام بھی دے دیئے- چنانچہ فرمایا-یایھا الذین امنو لا تبطلوا صد قتکم بالمن و الاذی۴۳~}~ایمومنو! صدقات کو احسان جتا کر یا دوسروں سے خدمت لے کر ضائع نہ کرو-
)۴(پھر ایک اور پہلو اختیار کیا جس سے احسان کا کچھ بھی باقی نہ رکھا- فرمایا-یمحقاللہ الربوا ویربی الصدقت ۴۴~}~اللہ تعالیٰ سود کر مٹائے گا اور صدقات دینے والوں کے مال کو بڑھائے گا- اس میں بتایا کہ صدقہ دینے والوں کو ہم خود بدلہ دیں گے-
صدقات پر زور لیکن سوال کی ممانعت
چودھویں بات یہ بیان کی کہ جہاں صدقات دینے پر اسلام نے زور دیا وہاں چونکہ یہ خیال ہو سکتا تھا کہ مانگنا اچھی بات ہے اس لئے اس کی بھی تشریح کر دی- چنانچہ مومن کی شان بتائی کہ یحسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف تعرفھم بسیمھم لایسئلون الناس الحافا ۴۵~}~یعنی جو شخص اس تعلیم سے واقف نہیں کہ اسلام سوال کو پسند نہیں کرتا وہ ایسے لوگوں کو سوال سے بچنے کی وجہ سے غنی خیال کرتا ہے- لیکن جو اس سے واقف ہے- وہ لوگوں کی شکلوں سے تاڑ لیتا ہے اور ان کی مدد کر دیتا ہے-
اس میں بتایا کہ کامل مومن کو سوال نہیں کرنا چاہئے مگر منع بھی نہیں کیا- یعنی مانگنا قطعی حرام نہیں کیونکہ بعض دفعہ انسان اس کے لئے مجبور ہو جاتا ہے- چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا- اور اس نے عرض کیا مجھے کچھ دیں- آپﷺ~ نے دیا- اس نے پھر مانگا- آپﷺ~ نے پھر دیا- اس نے پھر مانگا آپﷺ~ نے پھر دیا- پھر آپﷺ~ نے فرمایا- میں تمہیں ایک بات بتائوں؟ اور وہ یہ کہ مانگنا اچھا نہیں ہوتا- اس نے اقرار کیا کہ آج کے بعد میں کسی سے نہیں مانگوں گا- ایک صحابی ؓ کہتے ہیں ایک جنگ کے دوران اس کا کوڑا گر گیا- دوسرا شخص اٹھا کر دینے لگا تو اس نے کہا تم نہ دو- میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد کیا ہوا ہے کہ میں کسی سے کچھ نہیں لوں گا- اس پر وہ خود اترا اور کوڑا اٹھایا- تو جہاں اسلام نے صدقات پر اتنا زور دیا ہے کہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیوں نہ لیں- وہاں یہ بھی بتا دیا کہ مانگنا نہیں چاہئے- یہ بات دینے والے پر رکھو کہ وہ تلاش کر کے دے-
یہ صدقات کے متعلق اسلام کی بیان کردہ وہ چودہ باتیں ہیں کہ خواہ باقی مذاہب کی ساری الہامی کتابیں اکٹھی کر لو تمام فلسفیوں کی کتابیں بھی دیکھ لو ان کی بحث ان میں نہ ہو گی- اور میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسلام کی معمولی سی بات بھی اس رنگ میں نہ انسانی کتابوں میں پائی جائیگی اور نہ الہامی کتابوں میں جس رنگ میں قرآن نے بیان کی ہے-
عورت اور مرد کے تعلقات پر بحث
اب میں مثال کے طور پر ایک اور بات کو لے لیتا ہوں اور وہ عورت اور مرد کا تعلق ہے یہ ایک ایسا فطری تعلق ہے جو جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے- اور کسی گہرے تدبر سے اس کے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی- ایک شیر دوسرے تمام جانداروں کو پھاڑے گا لیکن وہ بھی شیرنی کے ساتھ رہنے کی ضرورت محسوس کرے گا- گدھا بے وقوف جانور سمجھا جاتا ہے لیکن وہ بھی گدھی سے تعلق ضروری سمجھتا ہے- غرض یہ تعلق ایسا ہے کہ دنیا کے ہر جاندار کا ذہن ادھر جاتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے- پس اس کی تعلیم بہت مکمل ہونی چاہئے- کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے یہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور اب تک محسوس کی جارہی ہے- مگر ساری مذہبی کتابیں اس کی تکمیل سے محروم ہیں صرف قرآن کریم نے ہی اسے مکمل کیا ہے- حالانکہ بظاہر اس تعلق کے متعلق کسی کتاب کا نئی بات بتانا ناممکن سا نظر آتا ہے-
عورت مرد کے تعلقات کا مضمون ایک وسیع مضمون ہے- میں اس وقت کثرت ازدواج` حقوق نسواں ایک دوسرے کے معاملہ میں مرد و عورت کی ذمہ داریاں` مہر اور طلاق وغیرہ کے مسائل نہیں لوں گا کہ یہ مسائل زیادہ لمبے اور باریک ہیں- میں صرف اس چھوٹی سے چھوٹی بات کو لوں گا جس کی وجہ سے مرد و عورت آپس میں ایک جگہ رہنے لگ جاتے ہیں- اور بتائوں گا کہ اس تعلق کو بھی اسلام نے کس قدر مکمل طور پر بیان کیا ہے- اور اسے کتنا لطیف اور خوبصورت مضمون بنا دیا ہے-
دوسرے مذاہب کی مقدس کتب کو جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ابتدائی مسئلہ کے متعلق بھی خاموش ہیں- مثلاً انجیل کو لیں تو اس میں عورت اور مرد کے تعلق کے متعلق لکھا ہے-:
’’شاگردوں نے اس سے کہا کہ اگر مرد کا بیوی کے ساتھ ایسا ہی حال ہے تو بیاہ کرنا ہی اچھا نہیں- اس نے ان سے کہا کہ سب اس بات کو قبول نہیں کر سکتے مگر وہی جنہیں یہ قدرت دی گئی ہے- کیونکہ بعض خوجے ایسے ہیں جو ماں کے پیٹ ہی سے ایسے پیدا ہوئے اور بعض خوجے ایسے ہیں جنہیں آدمیوں نے خوجہ بنایا- اور بعض خوجے ایسے ہیں جنہوں نے آسمان کی بادشاہت کے لئے اپنے آپ کو خوجہ بنایا- جو قبول کر سکتا ہے وہ قبول کرے‘‘-۴۶~}~
گویا حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ مرد عورت کا تعلق ادنیٰ درجہ کے لوگوں کا کام ہے اگر کوئی اعلیٰ درجہ کا انسان بننا چاہے اور آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا چاہے تو اسے چاہئے کہ خوجہ بن جائے- مطلب یہ کہ اصل نیکی شادی نہ کرنے میں ہے- ہاں جو برداشت نہ کر سکے وہ شادی کر لے اسی طرح ۱- کرنتھیوں باب ۷ میں لکھا ہے-:
’’مرد کے لئے اچھا ہے کہ عورت کو نہ چھوئے لیکن حرام کاریوں کے اندیشے سے ہر مرد اپنی بیوی اور ہر عورت اپنا شوہر رکھے‘‘- 2] fts[۴۷~}~
’’میں بے بیاہوں اور بیوہ عورتوں کے حق میں یہ کہتا ہوں کہ ان کے لئے ایسا ہی رہنا اچھا ہے جیسا میں ہوں لیکن اگر ضبط نہ کر سکیں تو بیاہ کر لیں‘‘-۴۸~}~ گویا عورت مرد اگر بن بیاہے رہیں تو پسندیدہ بات ہے-
یہود میں یوں تو نہیں لکھا لیکن مرد اور عورت کے تعلقات کے متعلق کوئی صاف حکم بھی نہیں- تورات میں صرف یہ لکھا ہے کہ-:
’’خداوند نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا- اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی- اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا- اور خداوند خدا اس پسلی سے جو اس نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر آدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا کہ اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے- اس سبب سے وہ ناری کہلائے گی- کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی- اس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی جورو سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے‘‘-۴۹~}~
ان الفاظ میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ عورت چونکہ مرد کی پسلی سے پیدا ہوئی ہے- اس وجہ سے وہ اس سے مل کر ایک بدن ہو جائے گا- اور مرد کو طبعاً عورت کی طرف رغبت رہے گی- یہ کہ ان کا مل کر رہنا اچھا ہو گا یا نہیں اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا صرف فطری تعلق کو لیا گیا ہے-
ہندو مذہب نے شادی کی ضرورت پر کچھ نہیں لکھا- صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ شادی ان کے دیوتا بھی کرتے تھے پھر بندے کیوں نہ کریں گے- مگر ساتھ ہی بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ نجات کا اصل ذریعہ یہ ہے کہ انسان سب دنیا سے الگ ہو کر عبادت کرے- منوجی نے جن کی تعلیم ہندو مانتے ہیں یہ بھی بتایا ہے کہ پچیس سال تک کنوارا رہنا چاہئے پھر پچیس سال تک شادی شدہ رہے- لیکن وید اس بارہ میں بالکل خاموش ہیں جو ہندوئوں کی اصل مقدس کتاب ہے- شادی کی ضرورت- اس کی حقیقت اور اس کے نظام وغیرہ کے متعلق منو وغیرہ بھی خاموش ہیں- بدھمذہب نے شادی نہ کرنے کو افضل قرار دیا ہے کیونکہ پاکیزہ اور اعلیٰ خادمان مذہب کے لئے شادی کو منع کیا ہے- خواہ عورت ہو خواہ مرد- یہی جین مذہب کی تعلیم ہے-
اب اسلام کو دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ اس تعلق کو اس نے کس طرح نہایت اعلیٰ مسئلہ بنا دیا ہے اور اسے دین کا جزو اور روحانی ترقی کا ذریعہ قرار دیا ہے-
اسلام شادی کو ضروری قرار دیتا ہے
اس بارہ میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرد اور عورت کا تعلق ہونا چاہئے- اور کیا انہیں اکٹھے زندگی بسر کرنی چاہئے؟ قرآن کریم اس کے متعلق کہتا ہے کہ شادی ضروری ہے- نہ صرف یہ کہ ضروری ہے بلکہ جو بیوہ ہوں ان کی بھی شادی کر دینی چاہئے- اور شادی کرنے کی دلیل یہ دیتا ہے کہ یایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدہ و خلق منھا زوجھا ۵۰~}~یعنی اے انسانو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو- جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی قسم کا جوڑا بنایا-
اس آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- انسانیت ایک جوہر ہے- یہ کہنا کہ انسانیت مرد ہے یا یہ کہنا کہ انسانیت عورت ہے غلط ہے- انسانیت ایک علیحدہ چیز ہے- وہ نفسواحدہ ہے اس کے دو ٹکڑے کئے گئے ہیں- آدھے کا نام مرد ہے اور آدھے کا نام عورت- جب یہ دونوں ایک ہی چیز کے دو ٹکڑے ہیں تو جب تک یہ دونوں نہ ملیں گے اس وقت تک وہ چیز مکمل نہیں ہو گی- وہ تبھی کامل ہو گی جب اس کے دونوں ٹکڑے جوڑ دیئے جائیں گے-
یہ اسلام نے عورت اور مرد کے تعلق کا اصل الاصول بتایا ہے کہ مرد اور عورت علیحدہ علیحدہ انسانیت کے جوہر کے دو ٹکڑے ہیں- اگر انسانیت کو مکمل کرنا چاہتے ہو تو ان دونوں ٹکڑوں کو ملانا پڑے گا ورنہ انسانیت مکمل نہ ہو گی- اور جب انسانیت مکمل نہ ہو گی تو انسان کمال حاصل نہ کر سکے گا-
حوا کی پیدائش آدم علیہ السلام کی پسلی سے نہیں ہوئی
اس آیت پر لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ معلوم ہوا حوا آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا ہوئی تھی جیسا کہ بائیبل میں ہے- لیکن یہ درست نہیں- کیونکہ اول تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے-ومن کل شیی خلقنا زوجین لعلکم تذکرون ۵۱~}~یعنی ہم نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے- تو کیا انسان کا جوڑا بنانا نعوذباللہ اسے یاد نہ رہا تھا کہ آدم کی پسلی سے حوا کو نکالا گیا؟ قرآن تو کہتا ہے کہ خواہ خیالات ہوں` عقلیات ہوں` احساسات ہوں` ارادے ہوں ان کے بھی جوڑے ہوتے ہیں- کوئی ارادہ` کوئی احساس` کوئی جذبہ مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو مقابل کے ارادے اور دو مقابل کے احساسات اور دو مقابل کے جذبات نہ ملیں- اسی طرح کوئی جسم مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو جسم نہ ملیں- کوئی حیوان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو حیوان نہ ملیں- کوئی انسان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو انسان نہ ملیں- پس جب اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے بنائے گئے ہیں تو کون تسلیم کرے گا کہ پہلے آدم کو بنایا گیا اور پھر اسے اداس دیکھ کر اس کی پسلی سے حوا کو بنایا- قرآن تو کہتا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے ہیں- اس لئے جب خدا نے پہلا ذرہ بنایا تو اس کا بھی جوڑا بنایا- پھر خود انسان کے متعلق آتا ہے وخلقنکم ازوجا ۵۲~}~ہم نے تم سب لوگوں کو جوڑا جوڑا بنایا ہے- پھر آدم کس طرح اکیلا پیدا ہوا- اس کا جوڑا کہاں تھا؟ دوسرے یہی الفاظ کہ خلقکم من نفس واحدہ و خلق منھا زوجھا تمہیں نفس واحدہ سے پیدا کیا گیا اور اس میں سے تمہارا جوڑا بنایا سارے انسانوں کے متعلق بھی آئے ہیں لیکن ان کے یہ معنے نہیں کئے جاتے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے-واللہ جعل لکم من انفسکم ازواجا-۵۳~}~ کہ اے بنی نوع انسان! اللہ نے تمہارے نفسوں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں- اب کیا ہر ایک بیوی اپنے خاوند کی پسلی سے پیدا ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو پہلی آیت کے بھی یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ انسان کا جوڑا اس میں سے پیدا کیا گیا- اسی طرح سورۃ شوریٰ رکوع ۲ میں آتا ہیجعل لکم من انفسکم ازوجا و من الانعام ازواجا۵۴~}~ تمہارے نفسوں سے تمہارا جوڑا اور چوپایوں میں سے ان کا جوڑا بنایا گیا- اگر حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حوا پیدا کی گئی تھی تو چاہئے تھا کہ پہلے گھوڑا پیدا ہوتا اور پھر اس کی پسلی سے گھوڑی بنائی جاتی- اسی طرح جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا تو فرشتہ آتا اور اس کی پسلی کی ایک ہڈی نکال کر اس سے لڑکی بنا دیتا- مگر کیا کسی نے کبھی ایسا دیکھا ہے؟ تیسرے خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ھو الذی خلقکم من نفس واحدہ وجعل منھا زوجھا لیسکن الیھا۵۵~}~ وہ خدا ہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا وجعل منھا زوجھا اور اس سے اس کا جوڑا بھی بنایا ہیلیسکن الیھا تاکہ وہ اس سے تعلق پیدا کر کے تسکین حاصل کرے-
وہ لوگ جو کہا کرتے ہیں کہ انسان کا جوڑا پسلی سے بنایا گیا ہے وہ بھی صرف یہی کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حوا کو بنایا گیا- یہ کوئی نہیں کہتا کہ حوا کی پسلی سے آدم علیہ السلام کو بنایا گیا- لیکن اس آیت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی پسلی سے عورت نہیں بنی بلکہ عورت کی پسلی سے مرد بنا ہے کیونکہ اس میں زوجھا کی ضمیر نفس واحدہ کی طرف جاتی ہے جو مونث ہے- اسی طرح منھامیں بھی ضمیر مونث استعمال کی گئی ہے- اس کے بعد یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نفس واحدہ سے اس کا زوج بنایا اور زوج کے لئیلیسکنمیں مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے- جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زوج نر تھا جو ایک مادہ سے پیدا ہوا- پس ان معنوں کے لحاظ سے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ عورت مرد کی پسلی سے نہیں بلکہ مرد عورت کی پسلی سے پیدا ہوا ہے جسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا-
ان آیات کا اصل مطلب یہ ہے کہ عورت مرد کا اور مرد عورت کا ٹکڑا ہے اور دونوں مل کر ایک کامل وجود بنتے ہیں- الگ الگ رہیں تو مکمل مرد نہیں ہو سکتے- مکمل اسی وقت ہوتے ہیں جب دونوں مل جائیں- اب دیکھو! یہ کتنی بڑی اخلاقی تعلیم ہے جو اسلام نے دی- اس لحاظ سے جو مرد شادی نہیں کرتا وہ مکمل مرد نہیں ہو سکتا- اسی طرح جو عورت شادی نہیں کرتی وہ بھی مکمل عورت نہیں ہو سکتی- پھر جو مرد اپنی عورت سے حسن سلوک نہیں کرتا اور اسے تنگ کرتا ہے وہ بھی اس تعلیم کے ماتحت اپنا حصہ آپ کاٹتا ہے- اسی طرح جو عورت مرد کے ساتھ عمدگی سے گذارہ نہیں کرتی وہ بھی اپنے آپ کو نامکمل بناتی ہے اور اس طرح انسانیت کا جزو نامکمل رہ جاتا ہے-
پس جب انسانیت مرد کا نام نہیں اور نہ انسانیت عورت کا نام ہے بلکہ مرد و عورت دونوں کے مجموعے کا نام انسانیت ہے تو ماننا پڑے گا کہ انسانیت کو مکمل کرنے کے لئے مرد و عورت کا ملنا ضروری ہے- اور جو مذہب ان کو علیحدہ علیحدہ رکھتا ہے وہ انسانیت کی جڑ کاٹتا ہے- اگر مذہب کی غرض دنیا میں انسان کو مکمل بنانا ہے تو یقیناً مذہب اس عمل کی مخالفت نہیں کرے گا بلکہ اسے اپنے مقصد کے حصول کے لئے استعمال کرے گا- اور جو مذہبی کتاب بھی اس طبعی فعل کر برا قرار دے کر اس سے روکتی ہے یا اس سے بچنے کو ترجیح دیتی ہے وہ یقیناً انسانی تکمیل کے راستہ میں روک ڈال کر اپنی افضلیت کے حق کو باطل کرتی ہے-
اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ جب مرد اور عورت ایک ہی چیز کے دو ٹکڑے ہیں تو کیوں ان کو علیحدہ علیحدہ وجود بنایا؟ کیوں ایسا نہ کیا کہ ایک ہی وجود رہنے دیتا تا کہ مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی خواہش ہی نہ ہوتی- اس کا جواب اسلام یہ دیتا ہے کہ ومن ایتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودہ ورحمہ- ۵۶~}~اس کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لئے جوڑے بنائے تا کہ تمہیں آپس میں ملنے سے سکون حاصل ہو- گویا انسان میں ایک اضطراب تھا- اس اضطراب کو دور کرنے کے لئے اس کے دو ٹکڑے کر دیئے گئے- اور ان کو آپس میں ملنا سکون کا موجب قرار دیا گیا- اب ہم غور کرتے ہیں کہ وہ کون سا اضطراب ہے جس کا نمونہ عورت و مرد کے تعلقات ہو سکتے ہیں- سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وہی الست بربکم قالوا بلی ۵۷~}~والا اضطراب ہے جو انسانی فطرت میں رکھا گیا ہے- اور جس کے لئے تجسس کی خواہش اس کے اندر ودیعت کی گئی ہے جو اسے رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ کی طرف لے جاتی ہے- جو چیز اپنی ذات میں مکمل ہو اس میں تجسس نہیں ہوتا لیکن جب تجسس کا مادہ ہو تو بسا اوقات لوگ کسی چھوٹی چیز کا تجسس کرتے ہیں تو انہیں بڑی چیز مل جاتی ہے- خدا تعالیٰ بھی فرماتاہے کہ ہم نے انسان کے قلب میں تجسس کی خواہش پیدا کر دی ہے- جب وہ اس سے کام لیتا ہے تو خدا تعالیٰ کی ذات اس کے سامنے جلوہ گر ہو جاتی ہے اور وہ اسے پا لیتا ہے- جب مرد عورت کی تلاش کر رہا ہوتا ہے اور اس کے لئے اپنے قلب میں اضطراب پاتا ہے تو خدا کہتا ہے کہ کیا میں اس قابل نہیں ہوں کہ تم میری تلاش کرو- تب اس کی زبان سے بلیکی آواز نکلتی ہے اور وہ کہہ اٹھتا ہے کہ آپ ہی تو اصل مقصود ہیں- اسی طرح جب عورت مرد کی تلاش کر رہی ہوتی ہے اسے خدا کہتا ہے کہ کیا میں تلاش کرنے کے قابل نہیں ہوں- تب وہ پکار اٹھتی ہے کہ بلییقیناً آپ ہی اصل مقصود ہیں- اس طرح مرد اور عورت ایک دوسرے کے متعلق تلاش اور تجسس کا جذبہ رکھنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کر لیتے اور اسے پالیتے ہیں-
‏]bsu [tag خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کا مادہ فطرت انسانی میں مخفی کیوں رکھا
اب سوال ہو سکتا ہے- کہ خدا تعالیٰ نے ظاہراً کیوں نہ مرد و عورت میں اپنی محبت پیدا کر دی اور اس طرح مخفی کیوں رکھا اس کا جواب یہ ہے کہ ظاہراً محبت ہوتی تو حصول اتصال موجب ترقیات نہ ہوتا اور نہ اس کا ثواب ملتا- ثواب کے لئے اخفاء کا پہلو ضروری ہوتا ہے- پس خدا تعالیٰ نے مرد کے پیچھے عورت کیلئے اور عورت کے پیچھے مرد کیلئے اپنی محبت کو چھپا دیا تا کہ جو لوگ کوشش کر کے اسے حاصل کریں وہ ثواب کے مستحق ہوں- مرد میں عورت کی اور عورت میں مرد کی جو خواہش پیدا کی وہ مبہم خواہش ہے اصل خواہش خدا ہی کی ہے- اس لئے اس نے انسان میں یہ مادہ رکھا کہ وہ خواہش کرے کہ میں مکمل بنوں- اور وہ یہ سمجھے کہ مجھے تکمیل کیلئے کسی اور چیز کی ضرورت ہے- لیکن اگر انسان میں صرف اضطراب اور تجسس کی خواہش ہی رکھی جاتی تو اضطراب مایوسی بھی پیدا کر دیتا ہے- اس لئے ضروری تھا کہ جہاں انسان کے قلب میں مکمل ہونے کے متعلق اضطراب ہو وہاں اس اضطراب کے نکلنے کا کوئی رستہ بھی ہو- جیسے انجن سے زائد سٹیم نکلنے کا رستہ ہوتا ہے- پس خدا تعالیٰ نے انسان میں اضطراب پیدا کیا اور ساتھ ہی عورت کیلئے مرد اور مرد کیلئے عورت کو سیفٹی والو بنایا اور اس طرح وہ محبت جو خدا تعالیٰ کیلئے پیدا کرنی تھی اس کے زوائد کو استعمال کرنے کا موقع دے دیا گیا- اگر اس کے لئے کوئی سیفٹی والو نہ ہوتا تو یہ محبت بہتوں کو جنون میں مبتلا کر دیتی- دنیا میں کوئی عقلمند کسی چیز کو ضائع ہونے نہیں دیتا پھر کس طرح ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ کسی چیز کو ضائع ہونے دے- پس اس نے اس کا علاج یہ کیا کہ انسانیت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اسے دو شکلوں میں ظاہر کیا- جس سے اس جوش کا زائد اور بے ضرورت حصہ دوسری طرف نکل جاتا ہے اور اس طرح انسان خواہ مرد ہو یا عورت سکون محسوس کرتا ہے- اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے کہ حبب الی من الدنیا النساء والطیب وجعل قرہ عین فی الصلوہ-۵۸~}~ایک روایت میں من الدنیا کی بجائے من دنیا کم کے الفاظ بھی آتے ہیں- یعنی دنیا میں سے تین چیزیں مجھے بہت ہی پسند ہیں- النساء ]1ttex [tagعورتیں الطیب خوشبو وجعل قرہ عینی فی الصلوہ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک تو نماز میں رکھی گئی ہے- یہ حدیث بتاتی ہے کہ مرد و عورت کے جنسی تعلقات بھی تسکین اور ٹھنڈک کا موجب ہوتے ہیں- اور خوشبو سے بھی قلب کو سکون محسوس ہوتا ہے اور نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری اور عاجزانہ دعائیں جو لذت پیدا کرتی ہیں- وہ بھی انسان کیلئے سکون کا موجب ہوتی ہیں-
مرد و عورت ایک دوسرے کیلئے سکون کا موجب ہیں
یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ یہاں تو صرف یہ ذکر ہے کہ مرد کیلئے عورت سکون کا باعث ہے یہ ذکر نہیں کہ عورت کیلئے بھی مرد سکون کا باعث ہے- یہ مفہوم جو مرد و عورت کے تعلقات کا بتایا گیا ہے تب درست ہوتا جب دونوں ایک دوسرے کیلئے سکون کا موجب ہوں- اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ھن لباس لکم وانتم لباس لھن ۵۹~}~یعنی عورتیں تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو- پس موجب سکون اور آرام ہونے میں دونوں برابر ہیں- عورت مرد کے لئے سکون کا باعث ہے اور مرد عورت کیلئے-
مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کا لباس کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی حفاظت کرنی چاہئے- اگر کوئی نہا دھو کر نکلے لیکن میلے کچیلے کپڑے پہن لے تو کیا وہ صاف کہلائے گا- کوئی شخص خواہ کس قدر صاف ستھرا ہو لیکن اس کا لباس گندہ ہو تو وہ گندا ہی کہلاتا ہے- پس ھن لباس لکم و انتم لباس لھن میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا نیکی بدی میں شریک قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کا محافظ ہونا چاہئے- اس طرح بھی لتسکنوا الیھا کا مفہوم پورا ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے لئے بطور رفیق سفر کے کام کرتے ہیں-
روحانی طاقتوں کی جسمانی طاقتوں سے وابستی
حقیقت یہ ہے کہ بہت لوگوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ روحانی طاقتیں جسمانی طاقتوں سے اس دنیا میں وابستہ ہیں- اور روح اسی جسم کے ذریعہ سے کام کرتی ہے- یہ بات عام لوگوں کی نظروں سے غائب ہے- نادان سائنس والے جسم کی حرکات دیکھ کر کہتے ہیں کہ روح کوئی چیز نہیں- اور روحانیات سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کرنے والے علماء جو قرآن نہیں جانتے وہ کہتے ہیں کہ روح جسم سے علیحدہ چیز ہوتی ہے- حالانکہ روح اور جسم ایک دوسرے سے بالکل پیوست ہیں- جہاں اللہ تعالیٰ نے روح کو علوم اور عرفان کے خزانے دیئے ہیں وہاں ان خزانوں کے دریافت کی تڑپ اور ان کے استعمال کو جسم کی کوششوں کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے- جب جسم ان کے تلاش اور تجسس کرتا ہے تو وہ نکلتے آتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ کوئی پاگل خدا رسیدہ نہیں ہو سکتا ورنہ اگر روح جسم سے الگ ہوتی اور اس کا جسم سے کوئی تعلق نہ ہوتا تو چاہئے تھا کہ پاگل کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا- کیونکہ پاگل کا دماغ خراب ہوتا ہے اور دماغ جسم سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ روح سے- مگر ایسا نہیں ہوتا- یہی وجہ ہے کہ پاگلوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرفوع القلم قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو دوبارہ عمل کا موقع دے گا- اگر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا صرف روح کا کام تھا جسم کا اس میں کوئی دخل نہ تھا تو وہ بلی تو کہہ ہی چکی تھی- مگر حقیقت یہ ہے کہ جسم روح سے بالکل پیوستہ ہے- جسم میں خدا تعالیٰ نے ایسی طاقتیں رکھی ہیں جو روحانیت کو بڑھانے والی ہیں-
رجولیت یا نسائیت سے متعلق قوتوں کا روح سے تعلق
انہیں قوتوں میں سے جو انسان کو ابدیت کے حصول کیلئے دی گئی ہیں ایک اس کی ان غدودوں کا فعل ہے جو رجولیت یا نسائیت سے متعلق ہیں- یہ غدود جسم کے ہی حصے نہیں بلکہ روح سے بھی ان کا تعلق ہے ورنہ مرد کو خوجہ بننے سے روکا نہ جاتا- پھر یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ انبیاء کے بھی بیوی بچے ہوتے ہیں کیونکہ یہ اعضاء روحانیت کے لئے ضروری ہیں- بلکہ ان سے روحانیت مکمل ہوتی ہے- رجولیت یا نسائیت کی اصل غرض درحقیقت بقا کی حس پیدا کرنے کی خواہش ہے- اس خواہش کے ماتحت رجولیت یا نسائیت کے غدود بقا کی دوسری صورت کا کام دیتے ہیں- یعنی نسل کشی- گویا نسل انسانی کے پیدا کرنے کا ذریعہ ان غدودوں کے نشوونما کا ایک ظہور ہے- اور وہی طاقت جو روح کی بقا کا ذریعہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بقا کا ذریعہ بھی بنا دیا اور یہ بقائے اولاد کے ذریعہ ہوتا ہے- روح کی ترقی سے بقاء ابدی حاصل ہوتا ہے اور اولاد کے ذریعہ جسمانی بقاء ہوتا ہے- اس لئے بقاء پیدا کرنے والی زائد طاقت کو اس کے لئے استعمال کر لیا گیا-
اگر کوئی کہے کہ پھر حیوانات میں اس طاقت کے رکھنے کا کیا فائدہ ہے تو اس کے لئے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی پیداش مختلف دوروں کے بعد ہوئی ہے- پہلے چھوٹا جانور بنا- پھر بڑا- پھر اس سے بڑا اور آخر میں انسان پیدا کیا گیا- چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے- مالکم لا ترجون للہ وقارا- ۶۰~}~تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم خدا کے لئے وقار پسند نہیں کرتے اور تم کہتے ہو کہ خدا جلدی کر دے- وقد خلقکم اطوارا ۶۱~}~تم اپنی پہلی پیدائش کو دیکھو کہ کتنے عرصے میں ہوئی ہے- غرض انسان مختلف دوروں کے بعد بنا ہے- اور انہی دوروں میں سے حیوانات بھی ہیں- پس تمام حیوانات درحقیقت انسانی مرتبہ تک پہنچنے کی سیڑھیاں ہیں ورنہ وہ اپنی ذات میں خود مقصود نہیں- اور جو چیز سیڑھیوں پر لے جائی جائے گی وہ راستہ میں بھی گرے گی اس لئے وہ چیزیں جو انسان کی ترقی کیلئے بننی تھیں وہ حیوانوں میں بھی پائی گئیں مگر یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قوت شہوانی جس قدر انسان میں ترقی یافتہ ہے اس قدر حیوانات میں نہیں ہے- اور پھر یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قوت شہوانی کا دماغی قابلیتوں سے ایک بہت ہی گہرا تعلق ہے- اور بہت سے اعصابی نقصوں اور دماغی نقصوں کا علاج شہوانی غدودوں کے رس ہیں-
غرض حق یہ ہے کہ شہوانی طاقتوں کے پیدا کرنے والے آلات کا اصل کام اخلاق کی درستی ہے لیکن چونکہ اصل کام کے بعد کچھ بقائے ضرور رہ جاتے ہیں جو بطور زائد سٹیم کے ہوتے ہیں- اگر انہیں نہ نکالا جائے تو انجن کے ٹوٹنے کا ڈر ہوتا ہے- اللہ تعالیٰ نے اس سے دوسرا کام بقائے نسل کا لے لیا- اور بجائے نسل انسانی کے چلانے کے کسی اور ذریعہ کے اس ذریعہ کو اختیار کیا- یہ ایک حقیقت ہے جسے دنیا ابھی تک پوری طرح نہیں سمجھی مگر آہستہ آہستہ سمجھ رہی ہے- اور طبی دنیا مان رہی ہے کہ قوت شہوانی کا دماغی قابلیتوں سے بہت گہرا تعلق ہے اور ان غدودوں سے کام لئے جاتے ہیں- چنانچہ یورپ کا ایک ماہر مانتا ہے کہ ان غدودوں میں نقائص کی وجہ سے ہی مایوسی اور کئی دوسرے جسمانی نقائص پیدا ہو جاتے ہیں- ایک امریکن مصنف نے سات جلدوں میں ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لکھتا ہے کہ آپ پر کئی شادیاں کرنے کا اعتراض فضول ہے- کیونکہ آپ خدا تعالیٰ کے عشق اور اس کے ذکر میں محو رہتے تھے اور ایسے آدمی کی قوت رجولیت ساتھ ہی نشوونما پا جاتی ہے- گو اس شخص نے صحیح الفاظ میں حقیقت کو بیان نہیں کیا لیکن حق یہی ہے کہ بقائے دوام کی خواہش کا ذریعہ غدود شہوانیہ ہیں- اور بقائے نسل ان کا ایک ضمنی اور ماتحت فعل ہے- پس ضروری تھا کہ اس اضطراب کو کم کرنے کیلئے جو خدا تعالیٰ نے غدود شہوانیہ کے ذریعہ سے انسان کے اندر پیدا کیا تھا اور اس طرح اپنی طرف بلایا تھا ایک ایسی صورت کی جاتی کہ اضطراب اپنے اصل رستہ سے ہٹ جانے کا موجب نہ ہوتا- اور طاقت کے بقیہ حصہ کو استعمال بھی کر لیا جاتا جس کے لئے مرد و عورت کے تعلقات کو رکھا گیا ہے- اور مرد کو عورت کے لئے اور عورت کو مرد کیلئے موجب سکون بنا دیا-
حضرت خلیفہ اول کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے- آپ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے بیماری کی حالت میں روزہ رکھ لیا تو اس سے شہوانی طاقت کو بہت ضعف پہنچ گیا- بیسیوں لوگوں کو میرے علاج سے فائدہ ہوتا تھا مگر مجھے کچھ فائدہ نہ ہوا- آخر میں نے سوچا کہ خدا تعالیٰ کا ذکر شروع کرنا چاہئے- چنانچہ میں نے کثرت سے تسبیح و تمحید کی تو شفا ہو گئی- پس یہ بہت باریک تعلقات ہیں جنہیں ہر ایک انسان نہیں سمجھ سکتا-
روحانیت میں بھی رجولیت اور نسائیت کی صفات
یہ سلسلہ کہ ہر ایک چیز کو اللہ تعالیٰ نے جوڑوں میں پیدا کیا ہے تا کہ غفلت میں کمال غلط اطمینان کا باعث ہو کر باعث تباہی نہ ہو اور تا کہ ہر ایک چیز اپنی ذات میں کامل نہ ہو اور اس کامل وجود کی طرف اس کی توجہ رہے جس سے کمال حاصل ہوتا ہے یہ ظاہری حالات کے علاوہ روحانیات میں بھی چلتا ہے- اور اس سے بھی اس ظاہری سلسلہ کی حقیقت کھل جاتی ہے- چنانچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر کافر پر ابتداء رجولیت ایمان کی حالت غالب ہوتی ہے- اور ہر مومن پر رجولیت کفر کی حالت غالب ہوتی ہے- مثلاً جب کوئی شخص جاہل ہوگا تو جہالت کی وجہ سے اس کے دل میں تڑپ پیدا ہوگی اور وہ علم حاصل کرے گا- لیکن جب کوئی علم حاصل کر لے گا تو اسے اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ علم حاصل کر لیا- ہر جگہ یہی بات چلتی ہے- قرآن کریم میں مومن کی مثال فرعون کی بیوی سے دی گئی ہے- کیونکہ ابتداء میں مومن پر کفر غلبہ کرنا چاہتا ہے لیکن آخر کفر مغلوب ہو جاتا ہے- اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ہر انسان کا ایک گھر جنت میں ہوتا ہے اور ایک دوزخ میں- اس کا یہ مطلب نہیں کہ واقعہ میں ہر انسان کا ایک گھر جنت میں اور ایک دوزخ میں ہوتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں دونوں قسم کی طاقتیں ہوتی ہیں- کفر کی طرف کفر والی طاقت کھینچتی ہے اور ایمان کی طرف ایمان والی طاقت- اور انسان ایک یا دوسری کی طرف پھر جاتا ہے- درحقیقت قرآنی اصطلاح میں رجولیت چیکنگ پاور کا نام ہے اور نسائیت فیضان کا- لیکن بعد میں ایک یا دوسرے کی طرف انسان پھر جاتا ہے- البتہ بعض استثنائی صورتیں بھی ہوتی ہیں- اور ایسے انسان مریمی صفت ہوتے ہیں- یعنی شروع سے ہی ان کی رجولیت اور نسائیت ایک رنگ میں رنگین ہوتی ہے اور وہ تقدس کے مقام پر ہوتے ہیں- یعنی بعض لوگوں میں فطرتاً ایسا مادہ ہوتا ہے کہ تاثیر کا مادہ بھی ان کے اندر ہوتا ہے اور تاثر کا مادہ بھی- جب ان کی رجولیت اور نسائیت کامل ہو جاتی ہیں تو ان سے ایک بچہ پیدا ہوتا ہے جو قدوسیت یا مسیحیت کا رنگ رکھتا ہے لیکن باقی لوگ کسبی طور پر یہ بات حاصل کرتے ہیں- جس انسان کے اندر ہی یہ دونوں مادے ہوں اس کو نیا مرتبہ ملتا اور اس کی ایک نئی ولادت ہوتی ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے سورۃ تحریم سے جب یہ استدلال کیا کہ بعض انسان مریمی صفت ہوتے ہیں- تو اس پر نادانوں نے اعتراض کیا کہ مرزا صاحب کبھی عورت بنتے ہیں- کبھی حاملہ ہوتے ہیں اور کبھی بچہ جنتے ہیں- حالانکہ تمام صوفیاء یہ لکھتے چلے آئے ہیں- چنانچہ حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی~رح~ اپنی کتاب ’’عوارف المعارف‘‘ میں حضرت مسیحؑ سے یہ روایت کرتے ہیں کہ لن یلج ملکوت السماء من لم یولد مرتین ۶۳~}~یعنی کوئی انسان خدائی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا- جب تک دو دفعہ پیدا نہ ہو- ایک وہ پیدائش جو خدا کے ہاتھوں سے ہوئی- اور دوسری مریم والی پیدائش- پھر اپنی طرف سے کہتے ہیں- و صرف الیقین علی الکمال یحصل فی ھذہ الولادہ وبھذہ الولادہ یستحق میراث الانبیاء ومن لم یصلہ میراث الانبیاء ماولد وان کان علی کمال من الفطنہ والذکاء لان الفطنہ والذکاء نتیجہ العقل و العقل اذا کان یا بسا من نور الشرع لایدخل الملکوت ولایزال مترددا فی الملک ۱۴۹~}~یعنی یقین کے کمالات کے درجہ تک پہنچنا ایسی ولادت کے بعد ہوتا ہے جو دوسری ولادت ہوتی ہے- اس کے بعد انبیاء کا ورثہ ملتا ہے- پھر کہتے ہیں جسے یہ میراث نہ ملے نہ انبیاء والے علوم ملیں وہ سمجھے کہ اس کی دوسری ولادت نہیں ہوئی- اگرچہ عقلی طور پر اسے بڑے بڑے لطیفے سوجھیں اور اگرچہ اس میں بڑی ذکاء ہو- یہ عقل کا نتیجہ ہوگا- روحانیت کا نتیجہ نہیں ہوگا اور عقل جب تک خدا کی طرف سے نور نہ آئے روحانیت میں داخل نہیں ہوتی بلکہ نیچر میں ہی رہتی ہے-
پس روحانیات میں بھی یہ جوڑے ہوتے ہیں- اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ما من مولود یولد الا والشیطن یمسہ حین یولد فیستھل صارخا من مس الشیطن ایاہ الا مریم وابنھا-۶۴~}~ یعنی ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اسے شیطان چھوتا ہے جس سے وہ روتا ہے سوائے مسیح اور اس کی ماں مریم کے-
اس سے مراد صرف مریم اور عیسیٰ نہیں بلکہ ہر وہ آدمی جو مریمی صفات والا ہوتا ہے مراد ہے ورنہ کہنا پڑے گا کہ نعوذ باللہ شیطان نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی چھوا تھا- اس حدیث میں دراصل رسول کریم2] ft[s صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ دو کامل پیدائشیں ہوتی ہیں- ایک مریمی پیدائش اور دوسری مسیح والی پیدائش- جو انسان مریمی صفت لے کر پیدا ہوتا ہے وہ مسیح بنتا ہے اور جو مسیحیت کی صفت لے کر پیدا ہوتا ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنتا ہے- مسیحیت کی صفت پر پیدا ہونے والے جلالی نبی تھے اور مریمیت کی صفت رکھنے والے جمالی نبی- ایک میں عکس کی صفت کامل تھی اور دوسرے میں انعکاس کی- ایک وہ ہیں جن کی اصل صفت نسوانی ہے اور رجولیت بعد میں کامل ہوتی ہے یعنی ماتحت اور جمالی نبی اور ایک وہ ہیں جو مسیحیت کے وجود سے پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کی نسوانیت مکمل ہوتی ہے- یہ جلالی نبی یا شرعی نبی ہیں-
غرض روحانی سلسلہ میں بھی جوڑے پائے جاتے ہیں اور کبھی بھی کوئی انسان کامل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی رجولیت اور نسائیت کی صفات آپس میں ملیں نہیں اور دونوں صفات مکمل نہ ہوں- جنہیں ہم دوسرے الفاظ میں اخلاق کا تاثیری یا تاثری پہلو کہہ سکتے ہیں- جب یہ دونوں پہلو پیدا ہوں تب جا کر وہ نئی روح پیدا ہوتی ہے جو ایک نئی پیدائش کہلاتی ہے اور تاثیر اور تاثر کے ملنے سے ہی روحانیت کو سکون حاصل ہوتا ہے اور انسان اپنے قلب میں اطمینان پاتا ہے یہاں تک کہ اسے ایک نئی پیدائش حاصل ہو جاتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کا مقرب بن جاتا ہے-
یہ روحانی علم النفس کا ایک وسیع مسئلہ ہے کہ انسان کے جتنے اخلاق ہیں ان میں سے بعض رجولیت کی قوت سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض نسائیت کی قوت سے- جب یہ دونوں آپس میں ملتے ہیں تب اعلیٰ اخلاق پیدا ہوتے ہیں- مگر یہ مضمون چونکہ اس وقت میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا اس لئے میں نے اس کی طرف صرف اشارہ کر دیا ہے-
مرد و عورت میں مودت کا مادہ
دوسری بات خدا تعالیٰ نے یہ بتائی کہ وجعل بینکم مودہ اس ذریعہ سے تم میں مودت پیدا کی گئی ہے- مودت محبت کو کہتے ہیں- لیکن اگر اس کے استعمال اور اس کے معنوں پر ہم غور کریں تو محبت اور مودت میں ایک فرق پایا جاتا ہے- اور وہ یہ کہ مودت اس محبت کو کہتے ہیں جو دوسرے کو اپنے اندر جذب کر لینے کی طاقت رکھتی ہے- لیکن محبت میں یہ شرط نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ nsk1] g[ta مودت کا لفظ بندوں کی آپس کی محبت کے متعلق استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کو اور عورت مرد کو جیت لینا چاہتی ہے- ان میں سے جو دوسرے کو جیت لیتا ہے وہ مرد ہوتا ہے اور جسے جیت لیا جاتا ہے وہ عورت ہوتی ہے- مگر اللہ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ نہیں رکھا گیا- کیونکہ بندہ کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو جذب کر سکے- چنانچہ قرآن کریم میں یہ نہیں آیا کہ بندہ خدا کے لئے ودودہے مگر خدا تعالیٰ کیلئے آیا ہے کہ وہ ودود
ہے- وہ بندہ کو جذب کر لیتا ہے مگر مرد و عورت کیلئے مودہ کا لفظ استعال فرمایا ہے- چونکہ انسانوں کو کامل کرنا مقصود تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے ایسے احساسات مرد اور عورت میں رکھے کہ مرد چاہتا ہے عورت کو جذب کرے اور عورت چاہتی ہے مرد کو جذب کرے- لیکن خدا تعالیٰ کو بندہ جذب نہیں کر سکتا- اس لئے بندوں کیلئے یحبھم و یحبونہ ۶۵~}~ یا اشد حباللہ ۶۶~}~ آتا ہے یودون اللہ نہیں آتا-
مرد و عورت میں اللہ تعالیٰ نے مودت کا تعلق رکھ کر بتایا کہ ہم نے اس طرح ایک نفس کے دو ٹکڑے بنا کر ایک دوسرے کی طرف کشش پیدا کر دی ہے- اور ہر ٹکڑا دوسرے کو اپنی طرف کھینچتا ہے- اس طرح طبعا تکمیل انسانیت کی صورت پیدا ہوتی رہتی ہے ورنہ اگر اللہ تعالیٰ یہ مودت پیدا نہ کرتا تو شادی بیاہ کے جھمیلوں سے ڈر کر کئی لوگ شادیاں بھی نہ کرتے اور کہتے کہ کیوں خرچ اٹھائیں- اور ذمہ واریوں کے نیچے اپنے آپ کو لائیں- لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے مرد اور عورت میں مودہ پیدا کر دی ہے اس لئے شادی بیاہ کے جھمیلے برداشت کر لیتے ہیں-
…………
‏a.10.11
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن
مرد و عورت کے ذریعہ ایک مدرسہ رحم کا اجراء
تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ اس ذریعہ سے رحمہ پیدا کی گئی ہے- کیونکہ نفس جس چیز کے متعلق یہ محسوس کرے کہ یہ میری ہے اس سے رحم کا سلوک کرتا ہے- مرد جب عورت کے متعلق سمجھتا ہے کہ یہ میرا ہی ٹکڑا ہے تو پھر اس ٹکڑے کی حفاظت بھی کرتا ہے- ممکن ہے کوئی کہے کہ بعض مردوں عورتوں میں ناچاقی اور لڑائی جھگڑا بھی تو ہوتا ہے- اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت اسی جگہ ہوتی ہے جہاں اصل ٹکڑے آپس میں نہیں ملتے- جہاں اصل ٹکڑے ملتے ہیں وہاں نہایت امن اور چین سے زندگی بسر ہوتی ہے اور کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا- کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ایک مرد و عورت کی آپس میں ناچاقی رہتی ہے- اور آخر طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے- لیکن اس مرد کی کسی اور عورت سے اور اس عورت کی کسی اور مرد سے شادی ہو جاتی ہے تو وہ بڑی محبت اور پیار سے زندگی بسر کرنے لگتے ہیں- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورت مرد کا ٹکڑا تو ہے لیکن جب صحیح ٹکڑا ملتا ہے تب امن اور آرام حاصل ہوتا ہے- پس مرد عورت کو اپنا ٹکڑا سمجھ کر اس پر رحم کرتا ہے- اور اس طرح اسے رحم کرنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہر جگہ اس عادت کو استعمال کرتا ہے- وہ لوگ جو ڈاکے ڈالتے اور لوگوں کو قتل کرتے ہیں وہ بھی اگر بیوی بچوں میں رہیں تو رحمدل ہو جاتے ہیں- لیکن علیحدہ رہنے کی وجہ سے ان میں بے رحمی کا مادہ بڑھ جاتا ہے- اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ مجرموں کو جیلوں میں رکھنے کی وجہ سے جرم بڑھ جاتے ہیں کیونکہ وہ علیحدہ رہتے ہیں اور اس طرح سنگ دل ہو جاتے ہیں- گویا مرد عورت کے تعلق کے ذریعہ انسان کو رحم کا ایک مدرسہ مل جاتا ہے جس میں تربیت پا کر وہ ترقی کرتا ہے اور خدا کے رحم کو کھینچ لیتا ہے- غرض اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ عورت و مرد کا تعلق ایک پر حکمت تعلق ہے- اس کو توڑنا انسانیت کو ناقص اور سلوک کو ادھورا کر دیتا ہے- اور اسے قائم کرنے سے خدا تعالیٰ کی طرف رغبت میں سہولت پیدا ہوتی ہے نہ کہ روک-
عورت کو کھیتی قرار دینے میں حکمت
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرد و عورت کس اصل پر تعلق رکھیں؟ یورپ کے بعض فلاسفر ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ تربیت اخلاق کیلئے شادی تو ضروری ہے لیکن تعلقات شہوانی مضر ہیں- یہ تعلقات نہیں رکھنے چاہئیں- اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی جواب دیا ہے- فرمایا ہے- نساء کم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم وقدموا لا نفسکم ۱۵۳~}~تمہاری بیویاں تمہارے لئے بطور کھیتی کے ہیں- تم جس طرح چاہو ان میں آئو- اس پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب یہ کہا گیا ہے کہ ہم جس طرح چاہیں کریں تو اچھا ہم تو چاہتے ہیں کہ عورتوں سے تعلق نہ رکھیں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وقد موا لانفسکم اس طرح آئو کہ آگے نسل چلے اور یاد گار قائم رہے- پس تم اس تعلق کو برا نہ سمجھنا- اس آیت میں مندرجہ ذیل امور بیان کئے گئے ہیں-
۱-نر و مادہ کے تعلق کی اجازت دی ہے لیکن ایک لطیف اشارہ سے- یعنی عورت کو کھیتی کہہ کر بتایا کہ انسانی عمل محدود ہے- اسے غیر محدود بنانے کیلئے کیا کرنا چاہئے- یہی کہ نسل چلائی جائے- پس جس طرح زمین ہو تو اسے کاشتکار نہیں چھوڑتا- تم کیوں اس ذریعہ کو چھوڑتے ہو جس سے تم پھل حاصل کر سکتے ہو- اگر ایسا نہیں کرو گے تو تمہارا بیج ضائع ہو گا-
۲-دوسری بات یہ بتائی کہ عورتوں سے اس قدر تعلق رکھو کہ نہ ان کی طاقت ضائع ہو اور نہ تمہاری- اگر کھیتی میں بیج زیادہ ڈال دیا جائے- تو بیج خراب ہو جاتا ہے اور اگر کھیتی سے پے در پے کام لیا جائے تو کھیتی خراب ہو جاتی ہے- پس اس میں بتایا کہ یہ کام حد بندی کے اندر ہونا چاہئے- جس طرح عقلمند کسان سوچ سمجھ کر کھیتی سے کام لیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کس حد تک اس میں بیج ڈالنا چاہئے- اور کس حد تک کھیت سے فضل لینی چاہئے- اسی طرح تمہیں کرنا چاہئے-
اس آیت سے یہ بھی نکل آیا کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہر حالت میں اولاد پیدا کرنا ہی ضروری ہے- کسی صورت میں بھی برتھ کنٹرول جائز نہیں وہ غلط کہتے ہیں- کھیتی میں سے اگر ایک فصل کاٹ کر معاً دوسری بو دی جائے تو دوسری فصل اچھی نہیں ہوگی- اور تیسری اس سے زیادہ خراب ہوگی- اسلام نے اولاد پیدا کرنے سے روکا نہیں بلکہ اس کا حکم دیا ہے- لیکن ساتھ ہی بتایا ہے کہ کھیتی کے متعلق خدا کے جس قانون کی پابندی کرتے ہو اسی کو اولاد پیدا کرنے میں مدنظر رکھو جس طرح ہوشیار زمیندار اس قدر زمین سے کام نہیں لیتا کہ وہ خراب اور بے طاقت ہو جائے یا اپنی ہی طاقت ضائع ہو جائے- اور کھیت کاٹنے کی بھی توفیق نہ رہے یا کھیت خراب پیدا ہونے لگے- اسی طرح تمہیں بھی اپنی عورتوں کا خیال رکھنا چاہئے- اگر بچہ کی پرورش اچھی طرح نہ ہوتی ہو اور عورت کی صحت خطرہ میں پڑتی ہو تو اس وقت اولاد پیدا کرنے کے فعل کو روک دو-
تیسری بات یہ بتائی کہ عورتوں سے اچھا سلوک کرو- تو اولاد پر اچھا اثر ہوگا- اور اگر ظالمانہ سلوک کرو گے تو اولاد بھی تم سے بے وفائی کرے گی- پس ضروری ہے کہ تم عورتوں سے ایسا سلوک کرو کہ اولاد اچھی ہو- اگر بدسلوکی سے کھیت خراب ہوا تو دانہ بھی خراب ہوگا- یعنی عورتوں سے بدسلوکی اولاد کو بداخلاق بنا دے گی- کیونکہ بچہ ماں سے اخلاق سیکھتا ہے-
چوتھی بات یہ بتائی کہ عورت سے تمہارا صرف ایسا تعلق ہو جس سے اولاد ہوتی ہو- بعض نادان اس سے خلاف وضع فطری فعل کی اجازت سمجھنے لگ جاتے ہیں- حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے- اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ وہ عمل کرو جس سے کھیتی پیدا ہو- قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے- اس میں خدا تعالیٰ ایک بات کو اسی حد تک ننگا کرتا ہے جس حد تک اخلاق کیلئے اس کا عریاں کرنا ضروری ہوتا ہے باقی حصہ کو اشارہ سے بتا جاتا ہے- پس انی شئتم میں تو اللہ تعالیٰ نے ڈرایا ہے کہ یہ تمہاری کھیتی ہے اب جس طرح چاہو سلوک کرو- لیکن یہ نصیحت یاد رکھو کہ اپنے لئے بھلائی کا سامان ہی پیدا کرنا ورنہ اس کا خمیازہ بھگتو گے- یہ ایک طریق کلام ہے جو دنیا میں بھی رائج ہے- مثلاً ایک شخص کو ہم رہنے کیلئے مکان دیں- اور کہیں کہ اس مکان کو جس طرح چاہو رکھو- تو اس کا مطلب اس شخص کو ہوشیار کرنا ہوگا کہ اگر احتیاط نہ کرو گے تو خراب ہو جائے گا- اور تمہیں نقصان پہنچے گا- اس طرح جب لوگ اپنی لڑکیاں بیاہتے ہیں تو لڑکے والوں سے کہتے ہیں کہ اب ہم نے اسے تمہارے ہاتھ میں دے دیا ہے- جیسا چاہو اس سے سلوک کرو- اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اسے جوتیاں مارا کرو- بلکہ یہ ہوتا ہے کہ یہ تمہاری چیز ہے- اسے سنبھال کر رکھنا- پس انی شئتم کا مطلب یہ ہے کہ عورت تمہاری چیز ہے اگر اس سے خراب سلوک کرو گے تو اس کا نتیجہ تمہارے لئے برا ہوگا- اور اگر اچھا سلوک کرو گے تو اچھا ہوگا- دراصل اس آیت سے غلط نتیجہ نکالنے والے انی کو پنجابی کا >اناہ< سمجھ لیتے ہیں اور یہ معنی کرتے ہیں کہ >انھے واہ< کرو-
تکمیل روحانیت کا زوجیت سے تعلق
پھر قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ جنت میں بھی بیویاں ہونگی- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کا تعلق اسلام میں روحانیت کی تکمیل کیلئے ضروری ہے- ورنہ اس جگہ بیویوں کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی- وہاں تو اولاد پیدا نہیں ہونی- اس سے صاف معلوم ہوا کہ رجولیت اور نسائیت کی اصل غرض تکمیل انسانی ہے- اولاد ایک ضمنی فائدہ رکھا گیا ہے-
غرض قرآن کریم کاکوئی حکم لے لو- خواہ وہ کس قدر ہی ابتدائی امر کے متعلق ہو اس میں بھی اسلام کی تعلیم افضل ہی نظر آئے گی- نرو مادہ کے تعلقات کا مسئلہ کتنا ابتدائی مسئلہ تھا لیکن قرآن کریم نے اسے کتنا علمی بنا دیا- باقی کتب میں اس کا ذکر بھی نہ ہوگا- پس ہمارا یہی دعویٰ نہیں کہ قرآن میں ایسی باتیں ہیں جو اور کسی مذہبی کتاب میں نہیں- بلکہ یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی ایسی بات نہیں جو دوسرے مذاہب کی الہامی کتابوں سے افضل نہ ہو- خواہ وہ کھانے پینے کے متعلق ہو- خواہ لین دین کے متعلق ہو- خواہ اور معاملات کے متعلق ہو- اس کے لئے ہم چیلنج دے سکتے ہیں کہ کوئی عیسائی یا ہندو یا کسی اور مذہب کا پیرو کھڑا ہو اور کسی مسئلہ کا نام لے کر کہے کہ اسے قرآن سے افضل ثابت کرو- تو یقیناً ہم اسے افضل ثابت کر دیں گے- انشاء اللہ تعالیٰ-
پس قرآن کریم بعض باتوں میں ہی افضل نہیں بلکہ ہر بات میں افضل ہے- حتیٰ کہ قرآن زبان کے لحاظ سے بھی افضل ہے- لیکن بوجہ اس کے کہ تفصیلات سے صرف جزئیات کا علم حاصل ہوتا ہے میں اب اصول کی طرف آتا ہوں-
میں نے پچھلے سال سالانہ جلسہ پر قرآن کریم کی فضیلت کے چھ اصول بتائے تھے- اور ثابت کیا تھا کہ ان میں سے ہر امر میں قرآن کریم دوسری کتب سے افضل ہے- وہ چھ اصول یہ تھے- اول- جس کا منبع افضل ہو- دوم- ظاہری حسن- سوم- وہ اس غرض کو پورا کرے جس کے لئے اس کی ضرورت سمجھی گئی ہو- چہارم- اس کا فائدہ دوسروں سے زائد ہو- پنجم- جس میں ملاوٹ نہ ہو- ششم- وہ چیز اپنی ہو-
اب میں چند اور فضیلت کے اصول بیان کرتا ہوں کہ قرآن کریم پر وجہ فضیلت کے لحاظ سے دوسری تمام الہامی اور غیر الہامی تعلیمات سے افضل ہے-
قرآنی فضیلت کی ساتویں وجہ
ساتویں وجہ فضیلت کی یہ ہوا کرتی ہے کہ کوئی چیز اپنی جنس کی چیزوں کی نسبت ٹوٹ پھوٹ سے زیادہ محفوظ ہو- جب ہم کپڑا خریدتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ کونسا کپڑا زیادہ چلے گا- جو جلد پھٹ جانے والا ہو وہ نہیں لیتے- بلکہ جو زیادہ دیر چلنے والا ہو وہ لیتے ہیں- یہی حال اور چیزوں کا ہوتا ہے- زیادہ چلنے والی چیز خریدی جاتی ہے اور کم چلنے والی چیز چھوڑ دی جاتی ہے- تعلیمات کے متعلق بھی یہ سوال لازماً ہوتا ہے- اگر دو تعلیمیں برابر ہوں- لیکن ایک بگڑنے سے محفوظ ہو تو اسے یقیناً تقدم حاصل ہوگا- اس اصل کے ماتحت ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ یہ ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ ہے یا دوسری کتابیں- الہامی کتابوں میں ٹوٹ پھوٹ نہ ہونے کے کیا معنی ہوتے ہیں یہی کہ الہامی تعلیم بگڑنے سے محفوظ ہو- اس میں نہ ملاوٹ ہو اور نہ ہو سکتی ہو- پہلے بتایا گیا تھا کہ دوسری کتابوں میں ملاوٹ ہے لیکن قرآن کریم میں نہیں ہے- گو جو کچھ بیان ہوا تھا وہ بھی اختصار سے ہوا تھا اور دلائل بھی ساتھ بیان ہونے سے رہ گئے تھے- مگر اب میں یہ بتاتا ہوں کہ قرآن ایسا محفوظ ہے کہ اس میں ملاوٹ ہو ہی نہیں سکتی- ملاوٹ نہ ہو اور نہ ہو سکتی ہو میں بڑا فرق ہے- قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جس میں ملاوٹ ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ
)۱( قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون یعنی ہم نے ہی اس ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ رہیں گے- اب یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جس چیز کی ہر وقت ایک قادر ہستی حفاظت کر رہی ہو وہ ٹوٹ نہیں سکتی- پھر جس چیز کی حفاظت کا ذمہ غیر محدود طاقت والا لے اس میں کوئی ملاوٹ بھی نہیں ہو سکتی- لیکن یہ صرف دعویٰ ہے- میں ابھی اسے دلیل کے طور پر پیش نہیں کر رہا- اس دعویٰ میں بھی قرآن دوسری کتب سے افضل ہے- کیونکہ کسی اور کتاب کا یہ دعویٰ بھی نہیں ہے کہ خدا اس کا محافظ ہے- نہ انجیل کا نہ تورات کا- نہ وید کا اور نہ کسی اور کتاب کا- قرآن کریم نے اس دعویٰ کے ساتھ وجہ بھی بتائی ہے- اور وہ یہ کہ ()یہ کامل ذکر ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے انا نحن نزلنا الذکر وانالہ لحافظون ہم نے اس کامل ذکر کو اتارا ہے اور کامل ذکر میں خرابی پیدا ہونے سے چونکہ دنیا تباہ ہوتی ہے اس لئے ہم خود اس کے محافظ ہیں- نئی چیز تب بنائی جاتی ہے جب پہلی سے اعلیٰ بنائی جائے- لیکن قرآن چونکہ کامل ہے اس لئے اس کو توڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہو سکتی-
دوسری وجہ یہ بیان کی کہ ہم نے خود قرآن کو کمال عطا کیا ہے- اور جب ہم نے خود اس کو کمال دیا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم اپنے دیئے ہوئے کمال کو ضائع ہونے دیں-
‏]bsu [tag حفاظت قرآن کے ذرائع
پھر وہ ذریعہ جو اس کے محفوظ رکھنے کا ہے وہ بھی بتایا- سورۃ حجر میں جب فرمایا کہ تلک ایت الکتب و قران مبین ۱۵۴~}~یہ کامل کتاب کی آیات ہیں ایسی کتاب کی جو مبین ہے یعنی تمام حقائق کو ظاہر کرنے والی ہے- تو چونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن کے متعلق یہ فرمایا تھا یہ کامل کتاب ہے اور اس سے یہ مفہوم نکلتا تھا کہ یہ محفوظ رہے گی اس لئے کفار نے اعتراض کیا کہ لو ماتاتینا بالملائکہ ان کنت من الصادقین ۱۵۵~}~اگر یہ کتاب محفوظ رکھی جائے گی تو پھر اس کے محفوظ رکھنے کے ذرائع کیوں نہیں بتائے گئے- چاہئے تھا کہ فرشتے اس کے ساتھ اترتے- یہ ان کے نقطہ نگاہ سے معقول اعتراض تھا- اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کا جواب دیا اور فرمایا ماننزل الملئکہ الا بالحق وما کانوا اذا منظرین ۱۵۶~}~فرشتے تو پیغام بر ہوتے ہیں یا عذاب کی خبریں لاتے ہیں یا بشارت کی- فرشتوں کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا کے کلام کی حفاظت کر سکیں- فرشتوں کو تو کامل علم نہیں ہوتا- وہ زیادہ سے زیادہ الفاظ کی حفاظت کر سکتے ہیں- مطالب کی حفاظت نہیں کر سکتے- حفاظت تو سوائے ہماری ذات کے اور کوئی کر ہی نہیں سکتا- سو ہم بتاتے ہیں کہ انا نحن نزلنا الذکر وانالہ لحافظون ہم اس کی حفاظت کا فیصلہ کر چکے ہیں- ہم ہی اس کے ذمہ دار ہیں- اب تم اور آئندہ کفار زور لگا کر دیکھ لو- تم کچھ نہیں کر سکتے- اور آئندہ بھی کوئی کچھ نہیں کر سکے گا-
پھر فرمایا ولقد ارسلنا من قبلک فی شیع الاولین وما تا تیھم من رسول الا کانوا بہ یستھزون کذالک نسلکہ فی قلوب المجرمین لا یومنون بہ وقد خلت سنہ الاولین ۱۵۷~}~یعنی ہنسی اور انکار تو پہلے انبیاء کا بھی ہوتا چلا آیا ہے- لیکن پہلے انبیاء تو اس کتاب کے متعلق جو ان پر نازل ہوتی تھی یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ ہمیشہ محفوظ رہے گی- پھر لوگ ان سے کیوں ہنسی کرتے رہے- ان لوگوں کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ خواہ مخواہ اعتراض کریں- ورنہ جو کچھ یہ کہتے ہیں قطعاً معقول بات نہیں ہے- یہ تو صرف جرم کا نتیجہ ہے جو ہر زمانہ میں ظاہر ہوتا رہتا ہے-
اب رہا اس کے محفوظ ہونے کا ثبوت- سو اس کے متعلق فرماتا ہے- ولو فتحنا علیھم بابا من السماء فظلوا فیہ یعرجون لقالوا انما سکرت ابصارنا بل نحن قوم مسحورون ولقد جعلنا فی السماء بروجا و زینھا للنظرین و حفظنھا من کل شیطن رجیم الا من استرق السمع فاتبعہ شھاب مبین ۱۵۷~}~فرمایا- یہ بے وقوف لوگ اپنی ناواقفی سے کہتے ہیں کہ قرآن بھی لفظوں میں لکھی ہوئی کتاب ہے- جب ایسی ہی اور کتابیں بگڑ گئیں تو یہ کیوں نہیں بگڑ سکتی- انہیں آسمانی سامان نظر نہیں آتے- اگر ہم آسمانی دروازوں میں سے ایک بھی ان کے لئے کھولتے اور یہ آسمان پر چڑھ جاتے- یعنی ان سامانوں سے آگاہ ہوتے جو اس کتاب کی حفاظت کے لئے کئے گئے ہیں تو یہ ایسی بے ہودہ بات نہ کرتے- ایک راہ بھی اگر انہیں نظر آتی تو حیران رہ جاتے اور کہتے کہ ہماری آنکھیں تو پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں اور ہم کچھ دیکھ نہیں سکتے جو کچھ نظر آ رہا ہے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا- پس معلوم ہوا کہ ہم نابینا ہو گئے ہیں اور یہ خواب ہے یا ہم پر اس شخص نے کوئی جادو کر دیا ہے کہ اس کلام کی پشت پر اس قدر سامان ہے-
اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک سامان کا ذکر بھی کرتا ہے- چنانچہ فرماتا ہے- ان سامانوں میں سے ایک یہ سامان ہے کہ ولقد جعلنا فی السماء بروجا و زینھا للنظرین- ہم نے اس کلام کے آسمان میں روشن ستارے بنائے ہیں- یا یہ کہ ہم نے آسمان میں کچھ ستارے مقدر کر چھوڑے ہیں جو اس کے محافظ ہیں- اور ہم نے اس کے آسمان کو ستاروں سے خوبصورت بنایا ہے- یعنی کثرت سے ستارے ہیں نہ کہ کوئی کوئی- وحفظنھا من کل شیطن رجیم اور ہم نے اس آسمان کو ہر شیطان رجیم سے جو اسے بگاڑنا چاہتا ہے ان ستاروں کے ذریعہ سے محفوظ کر دیاہے- پس اب اس کلام کو کوئی شریر چھو نہیں سکتا- الا من استرق السمع فاتبعہ شھاب مبین- ہاں دور سے اس کی باتیں سن کر مطلب بگاڑنے کی کوشش کر سکتا ہے- جیسے عیسائی کرتے ہیں- مگر جو دور سے سن کر باتیں بنانے والے ہونگے وہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے- ان کے لئے بھی ہم ایسا شہاب مقرر کر دیں گے جو ان کی حقیقت کو ظاہر کر دے گا- یعنی ہم نے ایسے آدمی رکھے ہیں کہ جب کوئی قرآن کی کسی آیت کاغلط مفہوم بیان کرے گا تو وہ ایک شہاب بن کر اسے تباہ کر دیں گے-
یہ وہ ذریعہ ہے جو قرآن کی حفاظت کیلئے اختیار کیا گیا ہے- زینھا میں بتایا ہے کہ ہم نے روشنی کا جو سامان بنایا ہے وہ ایک آدھ نہیں بلکہ کثرت سے ہے اور مبین میں یہ حقیقت ظاہر کر دی کہ شہاب سے مراد ٹوٹنے والے تارے نہیں- بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہی شہاب ہوگا جو قرآن کے مطالب کھول کر بیان کر دے گا-
اس آیت میں بتایا کہ اس آسمان کو کوئی شیطان چھو نہیں سکتا- دوسری جگہ اس کی تشریح ان الفاظ میں موجود ہے کہ nsk] gat[لا یمسہ الا المطھرون یعنی اس کو وہی لوگ چھو سکتے جو مطہر اور خادم دین ہوں- دوسرے لوگ جو گندے ارادوں سے اور بگاڑنے کی نیت سے اس کو چھونا چاہیں نہیں چھو سکتے- پس یہ قرآن ہی کے متعلق ہے- کہ شیطان اسے چھو نہیں سکتا- ورنہ آسمان کو اگر شیطان نہیں چھو سکتا- تو کیا مومن چھو سکتا ہے؟ مگر اس آسمان کو صرف شیطان نہیں چھو سکتا اور مومن چھو سکتا ہے- پس یہ قرآن ہی ہے جسے مومن چھو سکتا ہے-
ایک اور جگہ بھی اس کی تشریح آئی ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن سن کر جب کچھ جنات واپس گئے- تو انہوں نے اپنی قوم سے کہا-انا لمسنا السماء فوجدنھا ملئت حرسا شدیدا وشھبا وانا کنا نقعد منھا مقاعد للسمع فمن یستمع الان یجدلہ شھابا رصدا۱۵۹~}~یعنی پہلے تو آسمان کو ہم چھو لیا کرتے تھے- لیکن اب جو گئے تو دیکھا کہ اس کی حفاظت کے لئے بڑے بڑے پہرہ دار بیٹھے ہیں- اور آسمان کو ہم نے شھب سے بھرا ہوا پایا پھر پہلے تو ہم آسمان میں بیٹھ بیٹھ کر باتیں سنا کرتے تھے- لیکن اب کوئی سننے کے لئے جاتا ہے تو اسے پتھر پڑتے ہیں-
اس سے بات بالکل واضع ہو جاتی ہے- یہ آسمان جو ہمیں نظر آتا ہے یہ تو جو ہے- اور ایسی چیز نہیں جس میں کوئی بیٹھ سکے- اور اگر فرض کو لو کہ کوئی بیٹھ سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تو شیطان آسمان پر بیٹھا کرتے تھے- مگر پھر نہ بیٹھے حالانکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ارواح کافرہ بھی آسمان پر نہیں جا سکتیں- پھر ہم کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جب شیطان اوپر بیٹھتا تھا تو اب کیوں نہیں بیٹھتا؟ کیا اللہ تعالیٰ کو پہلے غیب کی حفاظت کی ضرورت نہ تھی- پھر وہ کون تھے جو خدا تعالیٰ کا غیب سن کر زمین پر آجایا کرتے تھے- حالانکہ قرآن صاف طور پر ان معنوں کو رد کرتا ہے- قرآن کہتا ہے کہ نہ آسمان پر کوئی جا سکتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کو غیب معلوم ہو سکتا ہے- پھر ان معنوں کے لحاظ سے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کو بھی علم غیب نہیں تھا کیونکہ ایسی ہستیاں آسمان پر جا کر بیٹھتی تھیں جو غیب کی باتیں سن لیتی تھیں مگر خدا تعالیٰ کو ان کے بیٹھنے کا پتہ نہیں لگتا تھا- اب اس نے پتہ لگانے کے لئے پہردار مقرر کر دیئے ہیں-
دراصل ان آیات کے یہ معنے ہیں کہ آسمان روحانیت سے آنے والی پہلی کتابیں ایسی تھیں کہ جنہیں مخالف چھو سکتے یعنی انہیں بگاڑ دیتے تھے- اور ان میں تبدیلیاں کر لیا کرتے تھے لیکن اب جو کتاب آئی ہے وہ ایسی ہے کہ اسے کوئی چھو نہیں سکتا- یعنی اسے کوئی بگاڑ نہیں سکتا- اور اس کی حفاظت کا خاص سامان کیا گیا ہے- اور پہلے تو ہم لوگ یعنی ہم میں سے بعض لوگ کلام کو سن کر جس طرح چاہتے تھے توڑ مروڑ کر بات سنا دیا کرتے تھے لیکن اب یہ دروازہ بھی بند ہو گیا ہے اور جو کتاب آئی ہے وہ ایسی ہے کہ کوئی بگاڑے والا اسے چھو نہیں سکتا- بلکہ اگر کوئی بگاڑنے کی کوشش کرے گا تو فوراً اس پر ایک شعلہ مارتا ہوا ستارہ آ گرے گا- گویا لمستو بالکل بند ہے لیکن سمعہو سکتا ہے- مگر اس میں بھی یہ انتظام ہے کہ جو جھوٹ ملا کر بات کرے اور بدنیتی سے سنے اس کی فوراً تردید ہو جاتی ہے-
غرض قرآن کریم کی ایسی کامل حفاظت کر دی گئی ہے کہ اسے لفظاً بھی کوئی شخص بگاڑ نہیں سکتا- اور مفہوم بگاڑنے والوں کے متعلق بھی خدا تعالیٰ نے ایسے سامان رکھے ہیں کہ ان سے اس بگاڑ کی اصلاح ہوتی رہے گی-
شاید کوئی خیال کرے کہ اس جگہ تو آسمان کا لفظ ہے- پس آسمان کو چھونا ہی مراد ہو سکتا ہے نہ کہ کسی اور چیز کو- سو یاد رکھنا چاہئے کہ )۱(وہ آسمان جس سے کلام نازل ہوتا ہے یہ مادی آسمان نہیں ہو سکتا- ورنہ اللہ تعالیٰ کو مادی ماننا پڑے گا- پھر یہ آسمان تو مادہ لطیف ہے کوئی ٹھوس چیز تو نہیں جس کو چھونے اور بیٹھنے کا کچھ مطلب ہو- پس آسمان جس سے کلام اترا ہے اس کے معنے کچھ اور ہی کرنے پڑیں گے- )۲(عربی زبان کے محاورہ کے رو سے سبب اور مقام کے لفظ کو استعارۃ سبب اور مقام سے نکلی ہوئی چیز کے لئے بھی استعمال کر لیتے ہیں- چنانچہ یہی سماء کا لفظ بارش کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے- بارش چونکہ اوپر سے نازل ہوتی ہے اس لئے اسے بھی سماء کہہ دیتے ہیں- چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہیوارسلنا السما علیھم مدرارا۱۶۰~}~ہم نے ان پر بادلوں کو موسلادھار بارش برساتے ہوئے بھیجا- اسی طرح سبزی ترکاری کو بھی سماء کہتے ہیں کیونکہ وہ پانی سے پیدا ہوتی ہے- کہتے ہیں-ما زلنا نطاء السماء حتی اتیناکمہم سماء یعنی سبزی کو کچلتے ہوئے تمہارے گھر تک آئے- پس اس جگہ سماسے مراد آسمانی کتاب ہے- ورنہ یہ کہنا بے جا ہوگا کہ ہم پہلے وہاں بیٹھ کر سنا کرتے تھے اب ایسا نہیں کر سکتے- پہلے کیوں سنتے تھے اور اب کیوں نہیں سنتے- ہمیں کوئی ایسا سماء نکالنا پڑے گا جسے پہلے چھو لیا کرتے تھے اور اب نہیں چھو سکتے- سو اس کے متعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سماء آسمانی کتابوں کا ہے کہ پہلے لوگ ان کو بگاڑ لیتے تھے - چنانچہ سورۃ بینہ میں آتا ہے-لم یکن الذین کفروامن اھل الکتاب و المشرکین منفکین حتی تاتیھم البینہ رسول من اللہ یتلوا صحفا مطھرہ فیھا کتب قیمتہ ۱۶۱~}~فرمایا یہ اہل کتاب اور مشرکین اپنی جہالت کو کبھی چھوڑ نہ سکتے تھے جب تک کہ ان کے پاس ایک بینہ نہ آ جاتی- بینہ کیا ہے وہ خدا کا رسول ہے جو ان پر کئی پاکیزہ صحیفوں والی کتاب پڑھتا ہے- کئی ایسی تعلیمیں تھیں جو بگڑ گئی تھیں- قرآن کریم میں ان کو اصل حالت میں پیش کیا گیا ہے- پس چونکہ اب اس میں کتب قیمہ جمع ہو گئی ہیں- اس لئے اب یہ کتاب نہیں بگڑ سکتی-
قرآن کے متعلق فیھا کتب قیمہ کہہ کر بتایا کہ پہلی تعلیموں میں دو قسم کی خرابیاں تھیں- ایک وہ خرابی جس کی اصلاح کی ضرورت بوجہ نسخ نہ رہی تھی اسے چھوڑ دیا- دوسری وہ خرابی جو ایسی تعلیم میں تھی جو قائم رہنی چاہیے تھی سو اسے دور کر کے اخذ کر لیا- غرض اگر تو کوئی ایسی تعلیم بگڑ گئی تھی جس کی دنیا کو اب ضرورت نہ تھی تو اسے چھوڑ دیا گیا ہے- اور اگر اس تعلیم میں خرابی پیدا ہو گئی تھی جو قائم رہنی چاہئے تھی تو اس خرابی کو دور کر کے صحیح تعلیم کو اخذ کر لیا گیا ہے-
‏sub] ga[t سماء روحانی حیی و قیوم کی صفات پر بنیاد
اس کے مقابلہ میں نیا آسمان جو قرآن کے ذریعہ بنا- اس کی بنیاد حیی و قیوم کی صفات پر رکھی گئی ہے- مختلف انبیاء کے کلام مختلف صفات الہیہ کے ماتحت نازل ہوتے رہے ہیں- چانچہ قرآن کریم میں آتا ہے- کل یوم ھو فی شان یعنی ہر زمانہ نبوت میں اللہ تعالیٰ کا کلام نئی صفات کے ماتحت نازل ہوتا ہے- اس جگہ یوم سے مراد نبوت کا زمانہ ہے- جیسا کہ دوسری جگہ فرماتا ہے- یدبر الامر من السماء الی الارض ثم یعرج الیہ فی یوم کان مقدارہ الف سنہ مما تعدون ۱۶۲~}~یعنی اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین تک اپنے حکم کو اپنی تدبیر کے مطابق قائم کرے گا اور پھر وہ اس کی طرف ایک ایسے وقت میں چڑھنا شروع کرے گا جس کی مقدار ایسے ہزار سال کی ہے جس کے مطابق تم دنیا میں گنتی کرتے ہو- پس یوم سے مراد زمانہ نبوت ہے- اور سماء سے قرآن کریم مراد ہے کیونکہ قرآن کریم کا نام صحف مرفوعہ بھی آیا ہے اور سما بھی بلندی کا نام ہے- پس اس روحانی آسمان کو بھی سما کہہ سکتے ہیں- اور اس کے لئے صفت حیی و قیوم کو استعمال کیا گیا ہے-
یہ ثبوت کہ قرآن کریم حیی و قیوم کی صفات کی بنیاد پر ہے قرآن سے بھی اور حدیث سے بھی ملتا ہے- حدیث میں آتا ہے- کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قرآن کریم کی کون سی آیت سب سے بڑی ہے تو آپ نے فرمایا- آیت الکرسی-۱۶۳~}~ اور آیت الکرسی کی بنیاد حیی و قیوم پر ہے- یہ روایت ابی بن کعب ؓ` ابن مسعود ؓ` ابوذر غفاری ؓ` ابوہریرہ ؓ اور چار پانچ صحابہ ؓ سے مروی ہے- اور اکثر کتب حدیث میں ہے-
اعظم ایہ سے مراد اور حقیقت یہی ہے کہ یہ آیت منبع ہے قرآن کا- ورنہ سب آیات ہی اعظم ہیں- اور منبع اسی آیت کو کہہ سکتے ہیں- جو بطورnsk] [tagام کے ہو- یعنی اس میں وہ بات ہے جو قرآن کریم کو دوسری کتب سے بطور اصول کے ممتاز کرتی ہے- چنانچہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آیت الکرسی میرے سوا اور کسی نبی کو نہیں ملی- ۱۶۴~}~یوں تو قرآن کریم کی کوئی آیت بھی کسی اور نبی کو نہیں دی گئی- مگر آیت الکرسی کے نہ دیئے جانے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے اندر جو صفات ہیں ان کے ماتحت کسی اور نبی پر کلام نازل نہیں ہوا- اور وہ صفات حیی و قیوم کی ہی ہیں- چنانچہ سورۃ آل عمران میں خدا تعالیٰ کی ان ہر دو صفات کو بیان کر کے قرآن کے نازل ہونے کا ذکر ہے- حیی کے معنے ہوتے ہیں زندہ اور زندہ رکھنے والا- اور قیوم کے معنے ہیں قائم اور قائم رکھنے والا- پس فرمایا یہ کتاب اس خدا کی طرف سے اتری ہے جو زندہ اور زندہ رکھنے والا ہے- یعنی یہ کلام ہمیشہ زندہ اور زندگی بخش رہے گا- اور پھر یہ کتاب اس خدا کی طرف سے اتری ہے جو قائم اور قائم رکھنے والا ہے- پس اس کتاب کو بھی وہ ہمیشہ قائم رکھے گا- آیت الکرسی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی صبح کو آیت الکرسی پڑھے تو شام تک اور شام کو پڑھے تو صبح تک شیطان سے اس کی حفاظت کی جاتی ہے- ۱۶۵~}~ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن ان صفات کے ساتھ خاص تعلق رکھتا ہے-
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ صرف یہی کلام ہے جس کے متعلق فرمایا کہ لا یمسہ الا المطھرون
پس وہی کلام جس کے زندہ رکھنے اور محفوظ رکھنے کا وعدہ تھا- اور جس سے پہلے کسی کلام کے متعلق یہ وعدہ نہ تھا حالانکہ وہ آسمانی کلام تھے اور جس سے پہلے کلاموں کو لوگ چھوتے تھے اور جس کے چھونے سے لوگوں کو روکا گیا تھا- صاف ظاہر ہے کہ اسی کلام کی طرفانا لمسنا والی آیت میں اشارہ ہے- نیز یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اگر حفاظت سے مراد قرآن کریم کی حفاظت نہ تھی تو کفار کے سوال میں شھب کے نزول کے ذکر کے کیا معنے ہیں؟ کفار تو قرآن کے متعلق سوال کرتے تھے- پھر یہ کیا جواب ہوا کہ آسمان پر شیطان نہیں جا سکتا اور اگر جاتا ہے تو اس پر شہاب گرتا ہے-
کتب سابقہ میں تحریف
اب عملاً دیکھ لو پہلی آسمانی کتب کس طرح خراب کر دی گئیں- تورات میں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی خود حضرت موسیٰؑ کی موت کا ذکر ہے- اسی طرح انجیل میں حضرت مسیحؑ کی موت کا ذکر ہے- ژند اوستا کے متعلق خود پارسیوں کا بیان ہے کہ مسلمانوں نے اسے بگاڑ دیا- میں کہتا ہوں یہ تو پیچھے دیکھا جائے گا- کہ مسلمانوں نے پارسیوں کی آسمانی کتاب میں کیا تصرف کیا لیکن ان کے بیان سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ ان کی کتاب بگڑ چکی ہے- ویدوں کی بناوٹ ہی بتاتی ہے کہ وہ بگڑ چکے ہیں- وید میں دوسروں کی عورتوں کو اغوا کرنے اور چوری کرنے کے متعلق دعائیں سکھائی گئی ہیں- اور ایسے منتر موجود ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ اس طرح چوری کرنی چاہئے کہ چور گھر والوں کو نظر نہ آئے- جس کتاب میں چوری اور ادھالے کی دعائیں ہوں وہ کیونکہ لمس شیطانی سے محفوظ سمجھی جا سکتی ہے- اس قسم کی باتوں سے تو صاف ظاہر ہے کہ شیطان نے ان کتابوں کو چھوا- لیکن اس کے مقابلہ میں قرآن نہ صرف دعویٰ طہارت کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ لا یمسہ الا المطھرون- کوئی اسے بگاڑ ہی نہیں سکتا- اور اگر کوئی اسے خراب کرنا چاہے گا تو اس پر شھب گریں گے- یہ کوئی معمولی بات نہیں دوسری کتب کو لوگ آئے دن بگاڑتے رہتے ہیں- حال ہی میں بائیبل کے متعلق خود عیسائیوں کی طرف سے اعلان ہوا کہ
>بائیبل سوسائٹی نے کمال دور اندیشی سے نئے ترجمہ کی تھوڑی سی جلدیں اس غرض سے شائع کی ہیں کہ اس ترجمہ پر جو اعتراضات موصول ہوں ان کو پیش نظر رکھ کر مناسب تبدیلیاں کر لی جائیں<- ۱۶۶~}~
اسی طرح انجیل کا ایک حصہ ہی اڑا دیا گیا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یسوع مسیح کے بیماروں کو اچھا کرنے پر جب یہ اعتراض کیا کہ انجیل میں لکھا ہے کہ ایک تالاب تھا جس میں نہانے سے بیمار اچھے ہو جاتے ہیں- تو اب عیسائیوں نے اسے نکال دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کسی اور کتاب کا حصہ تھا جو غلطی سے انجیل میں درج ہوگیا- مگر ہم کہتے ہیں- اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ شیطان نے انجیل کو مس کیا- مگر قرآن کو تو کوئی چھو ہی نہیں سکا- آخر وجہ کیا ہے کہ دوسری کتابوں کے ماننے والے قرآن کو بگاڑنے کی کوشش نہیں کرتے- اس سے انہیں ڈر کیوں آتا ہے- روسی حکومت نے ایک دفعہ چاہا تھا کہ قرآن سے جہاد کی آیتیں نکال دے- لیکن ملک میں اتنا شور پڑا- کہ حکومت کو مجبور ہو کر اپنے ناپاک ارادہ سے باز رہنا پڑا- یہ بھی شھب ہی تھے جو اس پر گرے- انجیل کے متعلق کیوں ایسا نہیں ہوتا- پھر روسی حکومت جو قرآن سے جنگ کی آیات نکالنا چاہتی تھی وہ خود جنگ کی لپیٹ میں آ گئی-
حفاظت قرآن اور یوروپین مستشرقین
دوسرا ذریعہ جس کی وجہ سے قرآن میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا- اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کے لئے حرس مقرر ہیں- یعنی اس کے نگران ہیں- اس وجہ سے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی- اس مضمون کو دوسری جگہ زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- کلا انھا تذکرہ فمن شاء ذکرہ فی صحف مکرمہ مرفوعہ مطھرہ بایدی سفرہ کرام بررہ یعنی یہ قرآن ایسے صحیفوں میں ہے جو عزت والے بڑی بلند شان رکھنے والے اور پاک ہیں- اور یہ صحیفے دور دور سفر کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو بڑے معزز اور اعلیٰ درجہ کے نیکو کار ہیں-
یہ آیت ایسی عجیب ہے کہ اسے پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا عیسائی لٹریچر کو مدنظر رکھ کر اتاری گئی ہے- میں نے موجودہ عیسائی لٹریچر سے ایسے الفاظ نکالے ہیں جو اس آیت کی تشریح معلوم ہوتے ہیں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- اس کلام کے ہمیشہ محفوظ رکھنے کا سامان ہم نے کیا ہے- اور وہ یہ کہ )۱(یہ کتاب ہمیشہ مکرم رہے گی- اس کا ادب ہم لوگوں کے دلوں میں ڈال دیں گے اور لوگ ادب اور تعظیم کی وجہ سے اس کو خراب نہیں کریں گے- اس ادب کو سرولیم میور یوں تسلیم کرتا ہے-
‏each with closely correspond would sources two The alive, yet was Prophet the while even Coran, the for theother; containing awe superstitious a with regarded bewas would variations any that so God; of words andvery himself, Mahomet to reference direct a by copiesreconciled or existed, they where originals the to death his Prophet'safter the of memory the to and same, the from۔sesneunama and friends confidential
‏doubt of incase references such of instances with meet Omar,We by made Mahomet to doubt of incase references such۱۶۷~}~۔Kab Ibn obey and Masud, Ibn Abdallah
یعنی قرآن کا لوگوں پر اتنا رعب تھا کہ اس کے متعلق وہ خود اپنی عقل سے کوئی فیصلہ نہ کرتے تھے بلکہ رسول سے پوچھتے تھے یا پھر حفاظ اور قرآن کی نقلوں سے مقابلہ کرتے تھے- خود بخود کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے-
دوسری بات اس آیت میں یہ بیان کی گئی ہے کہnsk] [tag مرفوعہ یعنی باطنی طور پر بھی اس میں کوئی خرابی نہیں آ سکتی کیونکہ اس کے مطالب کو بلند بنایا گیا ہے- اور اس میں علوم ایسے رنگ میں رکھے گئے ہیں- کہ انہیں خدا کا کلام یقین نہ کرنے والے سمجھ ہی نہیں سکتے- اور بگاڑتا کوئی اسی وقت ہے جب مطلب سمجھ سکے اور جانتا ہو کہ اس میں یہ تغیر کر دوں گا تو یہ بات بن جائیگی- غرض فرمایا- قرآن کے مطالب ایسے رنگ میں رکھے گئے ہیں کہ جو لوگ سمجھتے ہیں وہ بگاڑتے نہیں- اور جو دشمن ہیں وہ کہتے ہیں اس میں رکھا ہی کیا ہے- یہ بے معنی الفاظ کا مجموعہ ہے- اس وجہ سے وہ بگاڑنے کی کوشش ہی نہیں کرتے- سرولیم میور اس بارے میں لکھتا ہے-
‏Coran the of arrangement the and contents The that fragments the All ۔authenticity its for forcibly joinedspeak been simplicity, artless with have, obtained be designingcould a of marks no bears patchwork The ۔together۱۶۸~}~۔hand moulding or genius
اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ کسی نے اسے بگاڑا نہیں- تمام ٹکڑے اس سادگی سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے گئے ہیں کہ پتہ لگتا ہے کہ وہ گودڑی جس کے ساتھ چیتھڑے جوڑے گئے ہیں کسی عقلمند نے انہیں نہیں جوڑا- اب اس قسم کے مرفوع کلام میں کسی کو جرات ہی کب ہو سکتی ہے کہ کچھ داخل کرے- جو سمجھتے ہیں وہ بررہ ہیں اور جو نہیں سمجھتے وہ اسے ایک بے معنی کلام سمجھتے ہیں اور اس میں تبدیلی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے-
تیسری بات یہ بتائی کہ یہ کتاب ہر نقص سے پاک بنائی گئی ہے- اور ایسی اعلیٰ چیز میں جو دخل دے وہ فوراً پکڑا جاتا ہے- اس کی مثال کشمیر میں جا کر دیکھو- سلطنت مغلیہ کی جو عمارتیں بنی ہوئی ہیں ان میں جہاں جہاں بعد میں دخل دیا گیا ہے- اس کا فوراً پتہ لگ جاتا ہے- اسی طرح تاج محل کی حالت ہے- معمولی عمارت میں اگر کوئی پیوند لگا دے تو وہ چھپ سکتا ہے- لیکن اگر تاج محل میں جا کر لگائے تو فوراً پکڑا جاتا ہے- پس جو لوگ قرآن کریم کی خوبیوں سے ناواقف ہیں وہ تو اس میں کمی بیشی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے اور جو واقف ہوتے ہیں وہ اس کی خوبصورتی میں دخل نہیں دے سکتے- کیونکہ اگر دخل دیں تو فوراً ظاہر ہو جائے- اس وجہ سے انہیں قرآن کو بگاڑنے کی جرات ہی نہیں ہوتی-
قرآن کریم کی حفاظت کے ظاہری سامان
پھر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کے ظاہری سامان بھی رکھے ہیں- جس طرح اس کی اندرونی حفاظت کے تین ذرائع بتائے تھے اسی طرح بیرونی حفاظت کے بھی تین ذرائع بیان کئے- اول فرمایا بایدی سفرہ- سفرہ کے ایک معنی لکھنے والے کے ہوتے ہیں- اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہونگے کہ یہ کتاب ایسی قوم کے ہاتھ میں دی گئی ہے کہ جوں جوں یہ نازل ہوتی گئی لکھی جاتی رہی- اور جو بات لکھ لی جائے وہ محفوظ ہو جاتی ہے-
پھر فرمایا- یہ کتاب ایسے لکھنے والوں کے سپرد کی گئی ہے جو کرام بررہ ہیں- یعنی معزز لوگ ہیں اور نیک اور پاک ہیں- پس مطلب یہ ہوا کہ ہمیشہ مخلص لکھنے والے اسے ملتے رہیں گے جو روپیہ یا لالچ کے سبب سے نہیں لکھیں گے- بلکہ بڑے پایہ کے لوگ ہوں گے جو ہر ایک قسم کی عزت رکھتے ہونگے اور اپنے ہم عصروں میں خاص مقام رکھتے ہونگے- وہ لوگ محض نیکی کی خاطر قرآن لکھا کریں گے- اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ جن کی کوئی غرض بگاڑنے سے وابستہ نہ ہو اور ہوں وہ نیک وہ کبھی بگاڑ نہیں سکتے- پس اس وجہ سے قرآن کریم کے اس قدر صحیح نسخے دنیا میں پھیل جائیں گے کہ اس میں بگاڑ ہی ناممکن ہوجائے گا-
اب دیکھو یہ کتنی زبردست بات ہے- اور کس طرح خدا تعالیٰ نے اس کو پورا کیا ہے- بڑے بڑے زبردست بادشاہ جو مذہبی علماء نہیں تھے کہ تعلیم قرآنی کے بگاڑنے میں ان کا فائدہ ہو- اور پھر مختلف ممالک کے قرآن کریم کے لکھنے کے بوجہ ثواب عادی تھے- ہندوستان کے بادشاہوں میں سے اورنگ زیب مشہور ہے جس نے کئی نسخے قرآن کریم کے لکھے- اسی طرح صلیبی جنگوں کے متعلق ایک کتاب حال ہی میں چھپی ہے- اس میں اسامہ بن منفذ اپنے والد سلطان شہزاد کے متعلق جو شام کی ایک حکومت کے بادشاہ تھے لکھتا ہے کہ وہ یا تو فرنگیوں سے لڑتے یا شکار کھیلتے اور یا پھر قرآن لکھا کرتے تھے- چنانچہ مرتے وقت ان کے لکھے ہوئے ۴۳ قرآن موجود تھے-
دوسرے معنی سفرہ کے سفر کرنے والے کے ہیں- ان معنوں کی رو سے یہ مطلب ہوا کہ نہ صرف قرآن کریم بکثرت لکھا جائے گا- بلکہ فوراً دنیا کے چاروں گوشوں میں پھیل جائے گا اور اس وجہ سے بگڑنے سے محفوظ ہو جائے گا- اگر کوئی مصر میں بگاڑنا چاہے گا تو عرب` شام` ہندوستان وغیرہ ممالک میں جو قرآن موجود ہوگا- وہ بگاڑ کو رد کر دے گا- غرض فرمایا یہ کتاب سفر کرنے والے بزرگوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے تا کہ وہ اسے سارے ملکوں میں لے جائیں- چنانچہ ہم دیکھتے ہیں قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی تمام عرب` افریقہ اور ابی سینا میں پہنچ گیا تھا- پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چند سال بعد کے عرصہ میں فلسطین` شام` عراق` فارس اور افغانستان` چین` اناطولیہ` مصر` ہندوستان اور یونان وغیرہ ممالک میں پھیل گیا- پس ان بے غرض لکھنے والوں اور پھر اس طرح مختلف ممالک میں پھیل جانے کی وجہ سے اس میں کسی تبدیلی کا ہونا ناممکن ہو گیا- اور پھر اس میں شک کرنا بھی ناممکن ہو گیا- کیونکہ سب ملکوں کے نسخے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں- اور اب تو پریس کے نکل آنے کی وجہ سے اس کی اشاعت کی کوئی حد ہی نہیں رہی-
پھر شروع اسلام میں مسلمانوں میں جو اختلاف ہوا- وہ بھی قرآن کریم کی حفاظت کا موید ہو گیا- سفرہ کے معنی اونٹ کی ناک میں نکیل ڈالنے والوں کے بھی ہیں- اس لحاظ سے اس کے یہ معنی بھی لئے جا سکتے ہیں کہ مختلف حملہ کرنے والی فوجوں کے افسروں یا جماعتوں کے لیڈروں کے ہاتھ میں یہ قرآن ہوگا- جو سب کے سب نیک ہونگے- اور اس طرح مختلف مخالف جماعتوں کے ہاتھوں میں قرآن کریم کا بغیر اختلاف کے ہونا اسے بالکل محفوظ کر دے گا- اور کوئی جماعت اسے بگاڑ نہیں سکے گی- کیونکہ دوسری جماعت فوراً اس پر گرفت کر سکے گی-
یہ دلیل ایسی زبردست ہے کہ دشمن سے دشمن بھی اس کی طاقت کا قائل ہوا ہے- مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ خود قرآن نے ایک مکی سورۃ میں ان سب دلائل کو جمع کر دیا تھا- سرولیم میور لکھتا ہے-
‏when party, his or Ali, either that conceivable it Is mutilated a tolerated have would power, at arrived wethus Yet ￿claims his destroy to expressly raisedCoran---mutilated and opponents, their as Coran same the used they that find۱۶۹~}~ ۔it against objection an of shadow no
یعنی ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ قرآن میں کوئی تغیر کیا گیا ہے- مسلمانوں میں جب لڑائیاں ہوئی تو وہ ایک ہی قرآن رکھتے تھے- اور کسی نے کسی فریق کے قرآن کے خلاف کوئی اعتراض نہیں کیا- اسی طرح لکھتا ہے-
‏multiplied Ali revision, Othman's to objecting from for So have to supposed ۔MSS other Among ۔edition the of copies at preserved been have to said is one Ali, by written borebeen which century, fourteenth the as late as Ali Mashed۱۷۰~}~۔signature his
>یعنی دوسرے کئی مصنفوں نے بھی قرآن کریم کے جلد سے جلد پھیل جانے اور مختلف لڑنے والے گروہوں کے پاس ہونے کو اس میں تبدیلی ہونے کے لئے ناممکن کر بتایا ہے<-
مگر قرآن کریم کو دیکھو اس نے پہلے ہی اس تفصیل سے اس حقیقت کو ظاہر کر دیا تھا کہ وہ خود ایک زبردست نشان ہے- قرآن نے بتا دیا تھا کہ یہ بکثرت لکھا جائے گا- دور دراز ملکوں میں پھیل جائے گا- مسلمانوں میں جنگیں ہونگی اس لئے اسے کوئی بگاڑ نہ سکے گا- اور یہ ایسی پختہ دلیلیں ہیں کہ عیسائیوں نے بھی انہیں تسلیم کر لیا حالانکہ یہ باتیں اس وقت بیان ہوئیں جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ میں تھے اور جب قرآن کے بگڑنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا-
سفرہ کے ایک معنی جھاڑو دینے اور پردہ اٹھا دینے کے بھی ہوتے ہیں- اس لحاظ سے آیت کے یہ معنی ہونگے کہ اس کتاب کو ایسے لوگوں کے سپرد کیا گیا ہے جو اس خس و خاشاک کو جو تعلیم قرآن پر پڑ کر اسے مسخ کر دینے کا موجب ہو سکتا تھا دور کرتے رہیں گے- اور پھر اس کی تعلیم کو اس کی اصلی حالت پر لاتے رہیں گے اور جو اس کے پوشیدہ مطالب کو ظاہر کرتے رہیں گے- اور اس کے بلند مطالب کو لوگوں کے سامنے لا کر اس کی قبولیت اور تاثیر کو تازہ کرتے رہا کریں گے جو اس فن کے لوگوں میں کرام ہوں گے- یعنی ماہرین فن ہونگے اور بررہ ہونگے یعنی امور خیر میں وسیع دسترس رکھنے والے ہونگے- اور اس طرح وہ نہ صرف خود خدمت کریں گے بلکہ اور بہت سے خادم بنا کر چھوڑ جائیں گے- لطیفہ یہ ہے کہ اس آیت میں تین ہی صفات کتاب کی اور تین ہی کتاب کے حاملوں کی بیان ہوئی ہیں- لیکن کرم کے سوا جو دونوں میں متحد ہے باقی دونوں صفات میں فرق ہے- کتاب کیلئے مرفوعہ اور مطھرہ ]text [tag فرمایا ہے- اور انسانوں کیلئے سفرہ بررہ- لیکن اگر ہم غور کریں تو درحقیقت اس اختلاف میں بھی اتحاد ہے- سفرہ کا جوڑہ مرفوعہ سے ہے- کیونکہ اونچی چیز اوجھل ہوتی ہے- اور سفر کے معنی خفا کو دور کرنے کے ہوتے ہیں- چنانچہ جب سفرہ الریح الفیح عن وجہ السماء کہیں تو اس کے معنی ہوتے ہیں کشفتہ یعنی ہوا نے گرد و غبار کو اڑا کر مطلع صاف کر دیا- اس طرح مطھرہ کے مقابلہ میں بررہ فرمایا ہے- کیونکہ مطھرہ کے معنی ہیں جس میں طہارت کے سب سامان ہوں اور بررہ کے معنی بھی یہی ہیں کہ جن میں سب اصول خیر ہوں- پس کتاب کی تینوں صفات کے مقابلہ میں ویسی ہی تین صفات والے انسانوں کا ذکر کیا جو اس کی حفاظت کریں گے-
اللہ اللہ!! کیسا زبردست دعویٰ ہے اور کس طرح اس دعویٰ کو زبردست طاقتوں سے پورا کیا گیا ہے- سب سے پہلا قدم غلطی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اٹھنے لگا تھا- جب کہ آپﷺ~ کی وفات میں شبہ پیدا ہو گیا- اور گویا آپﷺ~ کو خدائی کا مقام ملنے لگا تھا- مگر خدا تعالیٰ نے سورۃ نور کی آیت استخلاف کے ماتحت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کھڑا کر کے یہ اختلاف دور کر دیا- انہوں نے قرآن کریم ہی کی یہ آیت پیش کی کہ وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل ۱۷۱~}~اور اس طرح پیش کی کہ اس اختلاف کے بانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے نہ رہ سکے اور گر گئے- مگر غور کر کے دیکھو کہ مسیح کے بعد کیا ہوا- ابھی وہ زندہ ہی تھے کہ صلیب کے واقعہ کے بعد بگاڑ شروع ہو گیا- اور حضرت موسیٰؑ کی بھی زندگی میں ہی خدا تعالیٰ سے لوگ شرک کرنے لگے وہاں حضرت ہارونؑ جیسے اور مسیحؑ کے وقت پطرس جیسے لوگ کچھ نہ کر سکے اور حواریوں کی موجودگی میں گمراہی شروع ہو گئی گو حواری خدا تعالیٰ کے فضل سے محفوظ تھے- جیسا کہ قرآن کریم میں ان کی تعریف آتی ہے اور شرک بھی بہت بعد جا کر پھیلا ہے- لیکن خرابی شروع ہو گئی تھی- جو اباحت کے رنگ میں تھی-
اس کے بعد جس جس زمانہ میں تغیر ہوا اس کی اصلاح ہو گئی- اور ہمیشہ امت محمدیہﷺ~ میں ایسے انسان پیدا کئے جاتے رہے جو قرآن کریم کے ذریعہ ہر قسم کے اختلافات کو دور کرتے رہے- اس کے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کی حالت بدلتی چلی گئی- اور اصلاح کرنے والے کوئی پیدا نہ ہوئے- اس آخری زمانہ میں ہی دیکھ لو- کہ کس طرح اسلام کو پھر خدا تعالیٰ اپنی اصل حالت پر لے آیا ہے- اور قرآن کریم کس طرح اپنے اصلی مفہوم پر قائم ہو گیا ہے- موجودہ زمانہ میں جتنی خرابیاں قرآن کریم کی غلط تفسیریں کرنے کی وجہ سے پیدا ہو چکی تھیں- انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر دور کر دیا- اور قرآن کریم کو اسی طرح اجلا کر کے دنیا کے سامنے رکھ دیا جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا-
حفاظت قرآن کا دائمی وعدہ
پس قرآن کریم کی دائمی حفاظت کا جو وعدہ خدا تعالیٰ نے کیا وہ پورا ہوا- اور کوئی شخص آج تک نہ ظاہری طور پر قرآن کو بگاڑ سکا اور نہ باطنی طور پر- اور جب آج تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ وعدہ پورا ہوتا رہا ہے تو آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا- خدا تعالیٰ نے خود بتا دیا ہے کہ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے- اور تم پر اپنے احسان کو پورا کر دیا ہے- پس جب مکمل دین آ گیا- اور نعمت کامل ہو گئی- تو اب اور کسی دین کی ضرورت ہی نہ رہی- اب جو بھی مامور آئے گا اسی کی تائید میں آئے گا- اور اس وجہ سے قرآن قیامت تک بگڑ نہیں سکے گا- اگر قرآن کو کوئی بدل سکتا ہے تو خدا ہی بدل سکتا ہے- لیکن خدا نے اپنے متعلق بتا دیا کہ قرآن کو بالکل مکمل کر دیا گیا ہے- اور انسانوں کے بدل نہ سکنے کی متعلق ہر قسم کی حفاظت کے سامان کر دیئے گئے ہیں- پس اب قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا-
دوستوں کو ایک نصیحت
آخر میں حضور نے فرمایا- میں دوستوں کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں- اور وہ یہ ہے کہ جب سے ریل جاری ہوئی ہے- ایک نقص پیدا ہو گیا ہے اور وہ یہ کہ ادھر جلسہ کے آخری دن لیکچر ختم ہوا ادھر سب لوگ واپس جانے شروع ہو جاتے ہیں- جنہیں مجبوری ہو- رخصت ختم ہو چکی ہو- وہ تو جا سکتے ہیں- لیکن جو ٹھہر سکتے ہوں- انہیں ضرور ٹھہرنا چاہئے- کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں- جنہیں سارے سال میں جلسہ کے موقعہ پر ہی آنے کا اتفاق ہوتا ہے- انہیں چاہئے کہ جلسہ کے ختم ہونے کے بعد بھی ٹھیرا کریں- یہاں کی مسجدوں میں دعائیں کریں- یہاں کے لوگوں سے ملاقات کریں- یہاں کا کاروبار دیکھیں- بہشتی مقبرہ میں جو لوگ دفن ہیں ان کے لئے دعائیں کریں-
اب میں دعا کرتا ہوں کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ جلسہ کامیاب کیا ہے اسی طرح وہ آئندہ بھی ہمیں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے-
‏a.10.12
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
فضائل القرآن
نمبر۴
تمام کتب الہامیہ میں سے صرف قرآن کریم کو ہی کلام اللہ ہونے کا شرف حاصل ہے
قرآن کریم کی کتب سابقہ پر فضیلت کی آٹھویں دلیل
)فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۳۱ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان دارالامان(
تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
جس مضمون کے متعلق میں نے اپنے خیالات کے اظہار کرنے کا کل اعلان کیا تھا- وہ وہی مضمون ہے جس کے متعلق پچھلے تین سال سے میں تقریر کر رہا ہوں- اور جو فضائل القرآن کا مضمون ہے- یعنی قرآن کریم کو وہ کون سی فضیلتیں حاصل ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف انسانی بلکہ آسمانی کتابوں پر بھی وہ فوقیت رکھتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی مضمون براہین احمدیہ میں شروع کیاتھا- اور فرمایا تھا کہ تین سو دلائل اس کے متعلق پیش کروں گا- میں نے اس کے متعلق غور کیا ہے اور اس غور کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ واقعہ میں وہ تین سو دلائل بیان کئے جا سکتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بتائے ہوئے علوم اور آپ کے لائے ہوئے نور سے مستفیض ہو کر براہین احمدیہ کی اپنے فہم اور اپنے درجہ کے مطابق تشریح کی جا سکتی ہے-
تفسیر القرآن کا دیباچہ
براہین احمدیہ میرے نزدیک تفسیر القرآن کا دیباچہ ہے- تفسیر القرآن لکھتے وقت پہلے جن مضامین پر سیر کن بحث کرنی چاہئے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں شروع کیا تھا دل چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس کی ظاہری تکمیل بھی ہو جائے- باطنی تکمیل تو اللہ تعالیٰ نے کر دی تین سو دلائل چھوڑ کئی لاکھ آسمانی دلائل آپ نے پیش کر دیئے- لیکن جب آسمانی دلائل پیش ہو چکے تو ان ظاہری دلائل کو بھی پیش کر دینا سلسلہ کی بہت بڑی خدمت ہو گی- جی چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کو توفیق دے تو وہ براہین احمدیہ کا ظاہری مقصد بھی پورا کر دے-
میں نے پہلے کچھ تمہیدی ریماکس اس مضمون کے متعلق ۱۹۲۸ء میں بیان کئے تھے اور ۲۹-۳۰ء کی تقریروں میں چھ دلیلیں قرآن کریم کی افضلیت کے متعلق بیان کی تھیں اور ۱۹۳۰ء کے جلسہ کے موقع پر ساتویں دلیل بیان کرنے سے پہلے ہی لمبا وقت ہو گیا تھا- اور ادھر مجھے ضعف ہونے لگ گیا تھا- اس وجہ سے اس تقریر کو جلد ختم کر دینا پڑا اس ساتویں دلیل کا ایک حصہ ابھی باقی تھا- اب میں اسے بیان کروں گا اور اس کے بعد آٹھویں دلیل شروع کروں گا-
ساتویں دلیل کا بقیہ حصہ
میں اس مضمون پر پچھلے سال بیان کر رہا تھا کہ قرآن کریم نہ صرف اس لحاظ سے محفوظ ہے کہ کوئی انسانی ملاوٹ اس میں نہیں ہوئی بلکہ کوئی انسانی ملاوٹ اس میں ہو بھی نہیں سکتی- گویا قرآن کریم کو یہی فضیلت حاصل نہیں کہ باقی آسمانی کتابوں میں انسانی تصرف ہو چکا ہے مگر اس میں نہیں ہوا- بلکہ اس کی یہ بھی فضیلت ہے کہ دوسری کتابوں میں انسانی تصرف ممکن ہے مگر قرآن میں ممکن بھی نہیں- میں نے اس کے دو ثبوت پچھلے سال بیان کئے تھے اب میں تیسرا ثبوت اس امر کا کہ قرآن کریم میں تبدیلی نہیں ہو سکتی بیان کرتا ہوں- اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کلام اللہ ہے اور کلام اللہ میں علقلا انسانی تبدیلی ناممکن ہے- شاید اکثر لوگ حیران ہوں کہ کلام اللہ تو باقی کتابیں بھی ہیں- پھر قرآن کو یہ خصوصیت کس طرح حاصل ہوئی- حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو کتاب نازل ہوئی وہ بھی کلام اللہ تھی- اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام` حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر انبیاء پر بھی خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوا- جب وہ بھی کلام اللہ ہے تو کیا وجہ ہے کہ ان میں نہ صرف تبدیلی ہو سکتی ہے بلکہ ہوئی اور قرآن میں نہ ہوئی بلکہ نہیں ہو سکتی ایک ہی چیز میں یہ فرق کیوں ہے؟
میں ابھی بتائوں گا کہ یہ حیرت در حقیقت درست نہیں اور قرآن کریم کی افضلیت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے کہ یہ کلام اللہ ہے- اس وجہ سے قرآن نہ صرف غیر الہامی کتب سے افضل ہے یا الہامی کتب کی شکل سے ممتاز ہے- بلکہ یہ اس کی ایسی فضیلت ہے کہ اس میں کبھی بھی کوئی کتاب اس کی شریک نہیں ہوئی-
پہلی الہامی کتب کلام اللہ نہیں تھیں
یہ ایک غلط خیال ہے کہ پہلی الہامی کتب بھی کلام اللہ تھیں- میرا یہ مطلب نہیں کہ موجودہ توریت کلام اللہ نہیں- بلکہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو کتاب دی گئی تھی- وہ بھی کلام اللہ نہ تھی- اسی طرح میرا یہ مطلب نہیں کہ موجودہ انجیل کلام اللہ نہیں- یہ تو حضرت مسیح علیہ السلام پر نازل ہی نہیں ہوئی مجھے یقین ہے کہ اگر حضرت مسیح پر جو انجیل نازل ہوئی وہ موجودہ ہوتی تو بھی ہم یہی کہتے کہ وہ کلام اللہ نہیں- وہ کتاب اللہ تھی وہ ما انزل علی المسیح تھی مگر کلام اللہ نہ تھی- اسی طرح اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحف آج موجود ہوتے اور اگر حضرت نوح علیہ السلام کے صحف آج موجود ہوتے اور اگر ایک لفظ بھی ان میں کسی انسان کا داخل نہ ہوتا تب بھی وہ کلام اللہ نہ ہوتے- ہاں کتاب اللہ ہوتے- قرآن کریم میں کلام اللہ کا لفظ تین جگہ استعمال ہوا ہے- اور تینوں جگہ قرآن کے متعلق ہی استعمال ہوا ہے- اور قرآن ہی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ کلام اللہہے-
اول سورۃ توبہ رکوع اول میں آتا ہے- وان احد من المشرکین استجارک فاجرہ حتی یسمع کلام اللہ ثم ابلغہ مامنہ ذلک بانھم قوم لایعلمون ۱۷۲~}~خدا تعالیٰ فرماتا ہے- اے رسول! اگر مشرکوں میں سے کوئی شخص تجھ سے پناہ مانگے تو تو اسے پناہ دے- حتی یسمع کلام اللہ یہاں تک کہ تیری صحبت میں رہ کر وہ کلام اللہ سن لے- ثم ابلغہ مامنہ پھر اسے امن کی جگہ پہنچا دو- ذلک بانھم قوم لایعلمون- یہ اس لئے حکم دیا گیا ہے کہ وہ قوم دین کا علم نہیں رکھتی اور جب تک علم دین حاصل نہ کرے گی کس طرح دین سیکھ سکے گی- گو کفار کے ساتھ لڑائی ہے- وہ تم سے جنگ کر رہے ہیں- اور جنگ کی حالت میں غیر کو مارنے کا تمہیں حق حاصل ہے لیکن چونکہ تم مذہبی پیشوا ہو- اس لئے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ حکومتوں کے دستور کے خلاف اگر کوئی غیر قوم کا فرد تمہارے پاس آئے اور کلام اللہ سننا چاہے- تو اسے سنائو- اگر وہ نہ مانے اور واپس جانا چاہے تو اسے واپس پہنچا دو اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے-
دوسری جگہ آتا ہے- افتطمعون ان یومنوا لکم وقدکان فریق منھم یسمعون کلام اللہ ثم یحر فونہ من بعدما عقلوہ وھم یعلمون ۱۷۳~}~فرمایا- اے مسلمانو! کیا تم اس بات کی امید رکھتے ہو کہ وہ تمہاری باتیں مان لیں گے- بعض صحابہ ؓ سمجھتے تھے کہ یہود ہماری باتیں مان لیں گے- ان کے ساتھ مسلمانوں کی دوستیاں تھیں- تعلقات تھے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- کیا تمہاری ایسی دوستی ہے کہ وہ تمہاری بات مان لیں گے حالانکہ ان میں سے ایک جماعت آتی ہے- قرآن سنتی ہے- پھر یحر فونہ من بعد ما عقلوہ وھم یعلمون اس کا مفہوم سمجھنے کے بعد اور بات بنا لیتی ہے- جو جھوٹ ہوتی ہے- حالانکہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں- جب قرآن کے متعلق ان کا یہ حال ہے- تو تمہاری باتیں کہاں مان سکتے ہیں-
بعض نے یہاں کلام اللہ سے تورات مراد لی ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کون سے ایسے یہودی علماء تھے کہ جن کی تحریف کوئی اثر رکھتی تھی- معمولی درجہ کے لوگ تھے- اگر کوئی سردار تھا تو محلہ کے سردار سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا تھا- اس لئے مدینہ کے یہود کو خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ اگر وہ تورات کو بدل کر پیش کریں گے تو لوگ مان ¶لیں گے- وہ یہی کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آتے- قرآن کریم سنتے- اور پھر بالکل جھوٹی باتیں جا کر بیان کرتے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور قادیان کے متعلق لوگ غلط بیانیاں کرتے تھے- فیروزپور کے علاقہ کے ایک شخص نے دوسروں سے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ قادیان گیا- تو مجھے مہمان خانہ میں ٹھیرایا گیا- ہمارے پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ مرزا صاحب نے حلوہ بھیجا ہے- اور کہا ہے کہ سب مہمانوں کو کھلا دو- باقی سب مہمانوں نے تو کھا لیا لیکن میں نے موقع پا کر پھینک دیا- کچھ دیر بعد مرزا صاحب مجھے ساتھ لے کر فٹن میں سیر کو نکلے- )اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ قادیان آیا ہی نہیں تھا( رستہ میں مجھ سے باتیں کرتے رہے- اور کہا میں ہی خدا ہوں- یہ سن کر میں نے لاحول پڑھا-اس پر ان کا رنگ فق ہو گیا- اور مولوی نور الدین صاحب کی طرف دیکھ کر کہنے لگے- کیا اسے حلوہ نہیں کھلایا تھا؟ مولوی صاحب کا بھی رنگ اڑ گیا- اور انہوں نے کہا میں نے تو حلوہ بھیج دیا تھا- نہ معلوم کیا بات ہوئی- پھر میں وہاں سے بھاگ آیا- جس مجلس میں اس نے یہ بات سنائی- اسی میں ایک معزز غیر احمدی بیٹھے تھے- انہوں نے کہا- یہ شخص بڑا ہی جھوٹا ہے- میں خود قادیان سے ہو آیا ہوں- اور یہ وہاں گیا ہی نہیں- وہاں تو یکہ چلنا بھی مشکل ہے- فٹن اس کا باپ وہاں لے گیاتھا؟
اسی طرح وہ لوگ کرتے- کلام سنتے اور پھر کچھ کا کچھ جا کر دوسروں سے بیان کرتے- اس بات کا ثبوت کہ یہ انہی کے متعلق ہے یہ ہے کہ اگلی آیت میں آتا ہے- و اذا لقوا الذین امنوا قالوا امنا واذا خلا بعضھم الی بعض قالوا اتحدثونھم بما فتح اللہ علیکم لیحاجو کم بہ عند ربکم افلا تعقلون ۱۷۴text]~}~ [tagوہ مسلمانوں کے پاس آکر کہتے ہیں ہم تو ایمان لے آئے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریف کرنے والے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لوگ تھے جو قرآن سن کر دوسروں کے سامنے جھوٹ بولتے اور کہتے کہ اس نے یوں کہا ہے- ووں کہا ہے- پھر اس جگہ فرماتا ہے- یسمعون کلام اللہ کلام اللہ سنتے ہیں- مگر یہودی کوئی کتاب نہیں سنتے تھے بلکہ پڑھتے تھے- اور اس میں فقرے داخل کرنے والا سن کر نہیں بلکہ پڑھ کر داخل کر سکتا ہے- اگر بائیبل مراد ہوتی تو یقرون text] [tagآتا- کیونکہ بائیبل تو وہ لوگ پڑھا کرتے تھے- پس یہاں تورات کا نہیں بلکہ قرآن کا ذکر ہے- اور مراد یہ ہے کہ مسلمانوں سے سن کر اور سمجھ کر ایسے رنگ میں بیان کرتے ہیں کہ لوگ مخالفت میں بڑھیں-
تیسری آیت سورۃ فتح رکوع۲ کی ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- سیقول المخلفون اذا انطلقتم الی مغانم لتاخذوھا ذرونا نتبعکم یریدون ان یبدلوا کلام اللہ ۱۷۵~}~فرمایا- وہ لوگ جن کو پیچھے چھوڑا گیا ہے- جب تم جنگ کو جاتے ہو- اور وہ سمجھتے ہیں کہ فتوحات حاصل ہونگی اور غنیمتیں ملیں گی- تو کہتے ہیں- ہمیں بھی ساتھ لے چلو وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح خدا کے کلام کو بدل دیں- اگر تم ان کو ساتھ لے جائو گے تو وہ کہیں گے دیکھو انہوں نے خدا کے کلام کو بدل دیا ہے- جس میں کہا گیا تھا کہ یہ نہیں جائیں گے- اور اگر نہ لے جائو گے تو کہیں گے- یہ حریص ہیں- سب کچھ خود ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں-
غرض قرآن میں کلام اللہ کا لفظ تین جگہ آیا ہے- اور تینوں جگہ قرآن کریم کے متعلق ہی استعمال ہوا ہے- کسی اور کتاب کے متعلق نہیں- اس لئے عقلاً یہی کہا جائے گا کہ قرآن ہی کلام اللہ ہے- اور ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم بلا دلیل یہ خیال کریں کہ قرآن کریم کے سوا کوئی اور آسمانی کتاب بھی کلام اللہ کے نام کی مستحق ہے- حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کا نام کلام اللہ نہیں رکھا گیا- پھر اس کو ہم کلام اللہ کیسے کہہ سکتے ہیں- خصوصاً جب کہ میں آئندہ ثابت کروں گا کہ تاریخا بھی ان میں سے کوئی کتاب کلام اللہ نہیں-
قرآن کریم میں انبیاء کو کلمہ کہا گیا ہے- الہامات کو کلمات کہا گیا ہے- بلکہ کلمات اللہ بھی کہا گیا ہے- یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلام اللہ موسی تکلیما ۱۷۶~}~موسیٰؑ سے خدا نے خوب اچھی طرح کلام کیا- لیکن باوجود اس کے حضرت موسیٰؑ کی کتاب جس کا بہت سی جگہ قرآن کریم میں ذکر آیا ہے- اسے کلام اللہ نہیں کہا گیا- جیسا کہ فرمایا- نبذ فریق من الذین اوتوا الکتب کتب اللہ وراء ظھورھم کانھم لایعلمون۱۷۷~}~ یعنی وہ لوگ جن کو کتاب اللہ دی گئی تھی انہوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے ڈال دیا گویا کہ انہیں علم ہی نہیں- پس صاف معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اللہ اور کلام اللہ میں فرق ہے- کتاب اللہ ہر اس کتاب کو جس میں خدا کی باتیں ہوں کہا جا سکتا ہے- لیکن کلام اللہ ہر ایک کو نہیں کہا جا سکتا- دوسری الہامی کتابوں کو کتاب اللہ کہا گیا ہے- اور کتاب اللہ کا لفظ قرآن کے متعلق بھی موجود ہے مگر دوسرا لفظ کلام اللہ صرف قرآن کیلئے استعمال کیا گیا ہے- کسی اور کے لئے نہیں- یہ فرق ہے اور یہ بغیر حکمت کے نہیں-
وحی الہی کی مختلف اقسام
اس فرق کو سمجھنے کیلئے یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء کی وحی کئی قسم کی ہوتی ہے- )۱(ایک وہ وحی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں کانوں میں پڑتی ہے- اور زبان پر جاری ہوتی ہے- مثلاً خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا- الحمدللہ رب العلمین۱۷۸-~}~ یہ الفاظ کان میں آواز کے طور پر پڑے- اور زبان سے جاری ہوئے- اس آیت کا ا` ل` ح` م` د اور ان کے اعراب سب خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے ہیں- یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے ایک مضمون رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ڈال دیا- بلکہ ہر حرف اور ہر لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے- یہ وحی سب انبیاء پر نازل ہوئی-
)۱( دوسری وحی رئویا اور کشوف ہیں- یہ الفاظ میں نہیں بلکہ نظاروں میں ہوتی ہے- مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب احد کی جنگ میں تشریف لے جانے لگے- تو آپﷺ~ نے دیکھا کہ آپﷺ~ کی تلوار کی دھار ٹوٹ گئی ہے- اور دیکھا کہ ایک گائے ذبح کی جا رہی ہے- آپﷺ~ نے فرمایا- تلوار کی شکستگی سے مراد فتح ہے جو مشتبہ ہوگی- اور گائے کے ذبح ہونے سے مراد یہ ہے کہ کچھ احباب شہید ہونگے- یہ وحی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی مگر فرق یہ ہے کہ پہلی وحی الفاظ میں تھی- اور یہ نظارہ میں ہے- اور نظارہ بیان کرتے وقت اپنے الفاظ بیان کرنے پڑتے ہیں- بالکل ممکن ہے کہ اس بیان میں کچھ اونچ نیچ ہو جائے-
)۳(تیسری وحی خفی ہوتی ہے جو الفاظ میں نازل نہیں ہوتی- نہ نظارہ دکھایا جاتا ہے بلکہ تفہیم اور انکشاف کے ذریعہ سے ہوتی ہے- دل میں ایک خیال پیدا ہوتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی دل میں ڈالا جاتا ہے کہ یہ تمہارا خیال نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ڈالا گیا ہے اور الفاظ اس کو خود بنانے پڑتے ہیں- یہ سب سے ادنیٰ درجہ کی وحی ہے- اس سے بڑھ کر رئویا اور کشف کی وحی ہوتی ہے- مگر اس میں تاویل کی ضرورت ہوتی ہے اور تاویل میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے- لیکن پہلی وحی جو الفاظ میں ہوتی ہے اس میں غلطی کا کوئی احتمال نہیں ہوتا- یہ سب سے اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے-
اب اگر ایک نبی اپنی تمام وحی کو ایک کتاب میں جمع کر دے جس میں وحی کلام بھی ہو- اور وحی کشف و رئویا بھی ہو اور وحی خفی بھی نبی کے اپنے الفاظ میں ہو تو اسے ہم کتاب اللہ تو کہہ سکتے ہیں- لیکن ہم اسے کلام اللہ نہیں کہہ سکتے- کیونکہ وہ سب کی سب کلام الل¶ہ نہیں بلکہ اس میں ایک حد تک کلام بشر بھی ہے گو مضمون سب کا سب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے- اور اس وجہ سے وہ کتاب کتاب اللہ ہے-
اب اس فرق کو مدنظر رکھ کر دیکھ لو- دنیا کی کوئی کتاب خواہ کسی قوم کی ہو اور کس قدر ہی شد و مد کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی جاتی ہو کلام اللہ نہیں ہو سکتی- کیونکہ ایک بھی ایسی کتاب نہیں نہ موجودہ صورت میں اور نہ اس صورت میں جس طرح کسی نبی نے دی تھی کہ اس کے تمام کے تمام الفاظ خدا تعالیٰ کے ہوں- اس میں بعض الفاظ خدا تعالیٰ کے ہونگے بعض نظارے ہونگے اور بعض مفہوم بیان کئے گئے ہونگے- اگر آج ہم تورات سے ان زوائد کو نکال دیں جو یہودیوں نے اپنی طرف سے ملا دیئے ہیں- مثلاً اس میں لکھا ہے کہ-
>سو خداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مر گیا- اور اس نے اسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا<- ۱۷۹~}~ تب بھی تورات کلام اللہ نہ ہوگی- کیونکہ اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ-
>اس وقت خداوند کا فرشتہ ایک بوٹے میں آگ کے شعلے میں اس پر ظاہر ہوا- اس نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک بوٹا آگ میں روشن ہے- اور وہ جل نہیں جاتا<- ۱۸۰~}~
یہی حال حضرت عیسیٰؑ اور باقی انبیائؑ کی کتابوں کا ہے- پس اگر ان کتب میں سے ہم ان زوائد کو نکال بھی دیں جو بعد میں لوگوں نے داخل کر دیئے ہیں تو بھی حضرت موسیٰؑ کی کتاب اس وقت جب کہ حضرت موسیٰؑ نے اسے ترتیب دیا- اور حضرت عیسیٰؑ کی کتاب اس وقت جب کہ حضرت عیسیٰؑ نے اسے بیان کیا- اور وید جب کہ وہ نازل ہوئے کلام اللہ نہ تھے- اگر دوسروں کی باتیں ان میں نہ تھیں تو رسولوں کی اپنی باتیں تو ضرور تھیں- غرض اپنی سلامتی کے زمانہ میں بھی وہ کلام اللہ نہیں تھیں-
یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ کیا فضیلت ہے- اگر حضرت موسیٰؑ چاہتے تو وہ بھی کلام اللہ کو الگ جمع کر سکتے تھے- اگر تورات سے حضرت موسیٰؑ کا کلام اور انجیل سے حضرت عیسیٰؑ کا کلام نکال لیا جائے تو کیا یہ کتابیں قرآن کریم کے برابر ہو جائیں گی؟ میں کہوں گا نہیں- کیونکہ اگر حضرت موسیٰؑ ایسا کر سکتے تو کیوں نہ کر دیتے- اگر حضرت موسیٰؑ کیلئے ممکن ہوتا کہ الفاظ والی وحی کو الگ کر کے کتاب بنا دیتے تو کیوں نہ کر دیتے؟ اسی طرح اگر حضرت عیسیٰؑ کے لئے ممکن ہوتا تو وہ بھی کیوں نہ کر دیتے- یہ فضیلت صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی حاصل ہے کہ ساری کی ساری شریعت آپﷺ~ کو وحی کے الفاظ میں عطا ہوئی- باقی سب انبیاء کی کتب میں کچھ کلام الہی تھا- کچھ نظارے تھے اور کچھ مفہوم جسے انہوں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا- اگر وہ نظاروں اور مفہوم کے حصہ کو علیحدہ کر دیتے تو ان کی کتابیں نامکمل ہو جاتیں کیونکہ ان کا سارا دین کلام اللہ میں محصور نہیں- کچھ رئویا اور کشوف ہیں اور کچھ وحی خفی کے ذریعہ سے تھا- اگر وہ کلام اللہ کو الگ کرتے- تو ان کا دین ناقص رہ جاتا- برخلاف اس کے قرآن کریم میں سب دین آ گیا ہے- اور کلام اللہ میں ہی سب دین محصور ہے- پس قرآن کے سوا اور کسی نبی کی کتاب کا نام کلام اللہ ہو ہی نہیں سکتا- یہ نام صرف قرآن کریم کا ہی ہے-
اصل بات یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو اکمل دین اور قرآن کو آخری کلام بنانا تھا اس لئے ضروری تھا کہ اسے ایسا محفوظ بناتا کہ کوئی مطلب فوت نہ ہو- اور اس کی ایک ہی صورت تھی اور وہ یہ کہ عالم الغیب خدا کے الفاظ میں سب کچھ بیان ہو- رئویا اور کشوف میں جھگڑے اور اختلاف پڑ جاتے ہیں- اس لئے شریعت اسلامیہ کو خدا تعالیٰ نے اپنے الفاظ میں اتار کر اس کا نام کلام اللہ رکھا اور کہہ دیا کہ اس کے سب الفاظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں- یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے سوا اور کوئی ایسی کتاب نہیں جس کے الفاظ سے نئے نئے مضامین نکلتے چلے آئیں- صرف قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جس کے مطالب کبھی ختم نہیں ہوتے- رات دن قرآن کریم کو پڑھو- قرآن کے حقائق کبھی ختم نہ ہونگے- اس کی حکمتیں نکلتی چلی آتی ہیں اور ہر لفظ پر حکمت معلوم ہوتا ہے- پرانے زمانہ کی کہانیوں میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک تھیلی ہوتی تھی جس میں سے ہر قسم کے کھانے نکلتے آتے تھے- مگر یہ تو وہمی اور خیالی بات تھی- قرآن کریم واقع میں ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا- اس کی جگہ دوسری کتب میں یہ بات نہیں- مثلاً مسیحی وغیرہ خود اقرار کرتے ہیں کہ اصل عبارتوں میں غلطیاں ہو گئی ہیں- میرا یہ مطلب نہیں کہ پہلے انبیاء پر کلام اللہ نازل نہیں ہوتا تھا- بلکہ یہ ہے کہ ان کا سب دین اور سب کتاب کلام اللہ میں محصور نہ ہوتے تھے-
پہلی کتب میں بگاڑ پیدا ہونے کی وجہ
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی کتب کے بگڑنے کا موجب بھی یہی ہوا کہ وہ کلام اللہ نہ تھیں- چونکہ ان میں خود انبیاء کی تشریحات اور رئویا اور کشوف اور تفہیمات ان کے الفاظ میں ہوتے تھے اس لئے لوگوں کے دلوں میں حفاظت کا اس قدر گہرا خیال نہیں ہو سکتا تھا- جب حضرت موسیٰؑ کے صحابیوں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰؑ پر وحی ہوئی جو انہوں نے لکھوا دی اور ساتھ ہی اپنا رئویا اور کشف بھی لکھا دیا- ساتھ ہی یہ بھی لکھوا دیا کہ مجھے یہ خیال آیا جو الہامی خیال ہے تو ایسی باتوں سے ان کو جرات ہوئی کہ جو بات توریت سے انہیں سوجھتی اسے بھی اس میں داخل کر دیتے- اور وہ خیال کرتے کہ اگر ہم نے اپنی تفہیم بطور یادداشت لکھ دی تو کیا حرج ہوا اور چونکہ ہر شخص اپنی تفہیم کو صحیح سمجھتا ہے- اس لئے وہ اسے خدائی امر ہی سمجھتے تھے- اس طرح وہ کتب بگڑ گئیں- حالانکہ اگر وہ سمجھتے تو نبی کی تفہیم الہامی ہونے کی وجہ سے کتاب کا حصہ تھی- مگر ان کی نہیں- بلکہ اگر کسی دوسرے کی الہامی تفہیم بھی ہو تب بھی وہ پہلے نبی کی تفہیم کی طرح اس کتاب کا حصہ نہیں کہلا سکتی- اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے دیکھا کہ جب وہ آپﷺ~ کے پاس آتے تو آپﷺ~ فرماتے- آج خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی ہوئی ہے- صحابہؓ کہتے لکھ لیں- آپﷺ~ فرماتے لکھ لیا جائے- پھر فرماتے یہ کشف ہوا ہے یہ رئویا تھی- آپﷺ~ اس کا مفہوم بیان فرماتے اور کہتے یہ وحی میں نہ لکھا جائے- جب صحابہؓ دیکھتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی وحی میں کچھ نہیں بڑھا سکتے تو وہ سمجھتے کہ ہم کس طرح اس میں کچھ داخل کر سکتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے تو الگ رہا خدا تعالیٰ کی دوسری وحی جو رئویا اور کشف کی شکل میں ہوتی یا جس کے ذریعہ کوئی مفہوم دل میں ڈالا جاتا وہ بھی اس میں شامل نہ کرتے تو ہم کس طرح اس وحی میں کچھ شامل کر سکتے ہیں- لیکن پہلے انبیاء چونکہ اپنی تشریحات` رئویا` کشوف اور تفہیمات اپنے الفاظ میں درج کرتے تھے اس لئے ان کے پیرئوں کو اپنی تفہیمات درج کر دینے کی بھی جرات ہو گئی-
محققین بائیبل کا بھی یہی خیال ہے کہ صحف قدیمہ میں جو اضافہ ہوا- وہ اس طرح ہوا کہ جو بات کسی کو سوجھی وہ اس نے اس میں لکھ دی- لیکن قرآن کریم چونکہ خالص کلام اللہ ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوسرے الہامات یا کشوف یا رئویا یا تفہیم اس میں داخل ہی نہ کرتے تھے- جس کا اثر صحابہؓ پر گہرا پڑا- اور وہ محسوس کرتے تھے- کہ اس کتاب میں کوئی اور بات نہیں ہونی چاہئے- حتیٰ کہ طرز تحریر اور وقف تک کو انہوں نے محفوظ رکھا- اور اس طرح بوجہ کلام اللہ ہونے کے قرآن کریم ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گیا-
یہ امر کہ قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے کا اثر اس کے تبدیل نہ ہونے پر خاص طور پر پڑا ہے مخالفوں تک نے تسلیم کیا ہے- چنانچہ سرولیم میور لکھتا ہے-
‏the of feelings the in existed guarantee similar A deeply more was principle no soul whose in large, at supposedpeople the for reverence awful an than rooted۱۸۱~}~ ۔God of word
یعنی قرآن کریم کے محفوظ رہنے کی یہ بھی گارنٹی ہے کہ ہر مسلمان کے دل میں یہ بات نقش تھی کہ قرآن کا ہر شوشہ اور ہر لفظ خدا کی طرف سے ہے-
دوسرا فائدہ کلام اللہ کے اس طرح جمع کرنے کا یہ ہوا کہ اس میں تاریخ اور تفہیم آ ہی نہیں سکتی- مثلاً قرآن میں یہ نہیں لکھا- کہ میں فلاں جگہ گیا اور وہاں یہ الہام ہوا- بلکہ اس کی عبارت اس طرح چلتی ہے کہ ہر لفظ بتاتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے- اس لئے بندہ اس میں کوئی اور کلام داخل ہی نہیں کر سکتا- اور اگر کرے تو بالکل بے جوڑ معلوم ہوگا- لیکن پہلی کتب میں چونکہ تفہیم بھی درج تھی اس لئے کسی کا تفہیم کو درج کرنا غلطی کو ظاہر نہیں ہونے دیتا تھا-
کلام اللہ کے نام میں منفرد کتاب صرف قرآن کریم ہے ][غرض قرآن کریم کلام اللہ کے نام میں منفرد ہے- جس طرح کعبہ بیت اللہ کے نام میں دوسرے بیوت سے منفرد ہے- خدا تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو بیت اللہ قرار دیا ہے اور قرآن کو کلام اللہ قرار دیا ہے- کعبہ کو بھی یہ نام اس لئے دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے بنوایا تھا- اگر دوسرے مقامات کو بھی خدا تعالیٰ بنواتا تو وہ منسوخ نہ ہوتے- چونکہ دوسرے گھروں نے منسوخ ہونا تھا اس لئے انہیں یہ نام نہ دیا گیا- اسی طرح قرآن کریم نے بھی چونکہ ہمیشہ قائم رہنا تھا- اسے بھی کلام اللہ کی صورت میں نازل کیا گیا اور اسے یہ نام دیا گیا تا کوئی اپنا کلام اس میں داخل نہ کر سکے-
اگر کوئی کہے کہ آپ تو کہتے ہیں قرآن میں ساری شریعت موجود ہے مگر یہ درست نہیں کیونکہ قرآن میں جو باتیں آئی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر عمل کر کے دکھا دیا- اور احادیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تفہیمات ہیں جو قرآن سے ہی حاصل ہوئیں کوئی زائد شئے نہیں- خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی۱۸۲~}~ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین کی کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہتے بلکہ جو کچھ بتاتے ہیں- وحی الہی سے بتاتے ہیں- پس حدیث میں جو کچھ ہے وہ قرآن ہی کی تشریح اور تفہیم ہے-
قرآن کریم کی افضلیت کی آٹھویں دلیل
اب میں قرآن کریم کی فضیلت کی آٹھویں دلیل بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ ہر کلام جو نازل ہوتا ہے- اس کی عظمت اور افضلیت اس لانے والے کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہے جس کے ذریعے وہ آتا ہے- کیونکہ پیغامبر پیغام کی حیثیت سے بھیجے جاتے ہیں- مثلاً ایک بادشاہ جس نے اپنے کمرہ کی صفائی کرانی ہے- وہ چوبدار سے کہے گا کہ صفائی کرنے والے کو بلائو- لیکن اگر اسے یہ کہنا ہوگا کہ فلاں بادشاہ کو ملاقات کیلئے بلائو- تو چوبدار سے نہیں کہے گا- بلکہ وزیر سے کہے گا اور وہ یہ پیغام پہنچائے گا کہ بادشاہ کی خواہش ہے کہ آپ سے ملاقات کریں-
غرض پیغام کی افضلیت پیغامبر کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے- سفراء جو بادشاہوں کے خطوط لے کر جاتے ہیں ان کے متعلق بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ بلند پایہ رکھنے والے ہوں-
اسی طرح اعلیٰ درجہ کے کلام کو سمجھانے کیلئے اعلیٰ درجہ کے علم کی ضرورت ہوتی ہے- اگر کوئی کتاب علمی لحاظ سے بہت بلند مرتبہ رکھتی ہو تو اس کو پڑھانے والے کے لئے بھی اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہوگی- ایم- اے کے طلباء کو پڑھانے والا معمولی قابلیت کا آدمی نہیں ہو سکتا- اگر کسی جگہ کوئی پرائمری پاس پڑھانے کیلئے بھیجا جائے تو سمجھا جائے گا کہ ابتدائی قاعدہ پڑھایا جائے گا- اگر انٹرنس پاس بھیجا جاتا ہے تو سمجھا جائے گا کہ چوتھی پانچویں جماعت کو پڑھائے گا- اگر گریجوایٹ بھیجا جاتا ہے تو نویں دسویں کو پڑھائے گا- اور اگر مشہور ڈگری یافتہ بھیجا جائے تو سمجھا جائے گا کہ بڑی جماعتوں کیلئے ہے- اسی طرح الہامی کتاب لانے والے کی شخصیت سے بھی کتاب کی افضیلت یا عدم افضلیت کا پتہ لگ جاتا ہے- لیکن اگر خود کتاب ہی اس کی افضلیت ثابت کر دے تو یہ اور بھی اعلیٰ بات سمجھی جائے گی کہ اس نے اس شق میں بھی خود ہی ثبوت دے دیا اور کسی اور ثبوت کی محتاج نہ ہوئی- غرض چونکہ اس انسان کے چلن کا جس پر کتاب نازل ہوئی ہو کتاب کی اشاعت پر خاص اثر پڑتا ہے اس لئے وہی کتاب کامل ہو سکتی ہے جو اس کے کریکٹر کو نمایاں طور پر پیش کرے تا کہ لوگ اس منبع کی نسبت شبہ میں نہ رہیں- پس یہ ثابت کرنے کیلئے کہ قرآن کا منبع مشتبہ نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی زبان پر جاری ہوا ہے یہ ضروری ہے کہ قرآن ثابت کرے کہ اس کے لانے والا ایک مقدس اور بے عیب انسان تھا کیونکہ جب تک یہ ثابت نہ ہو باوجود کتاب کے کامل و افضل ہونے کے انسان کے دل میں ایک شبہ رہتا ہے کہ نہ معلوم اس کا لانے والا کیسا انسان تھا اور دوسرا شبہ یہ رہتا ہے کہ نہ معلوم اس کتاب نے اس کے پہلے مخاطب پر کیا اثر کیا- اگر اس پر اچھا اثر نہیں کیا تو ہم پر کیا اثر کرے گی- اور اگر اس نے اپنے پہلے مخاطب کو فائدہ نہیں پہنچایا تو ہمیں کیا پہنچا سکے گی- پس کتاب کی افضلیت پر بحث کرتے ہوئے ہمیں کتاب لانے والے کے اخلاق پر اور لانے والے کی افضلیت پر بحث کرتے ہوئے اس کے پیش کردہ خیالات پر ضرور بحث کرنی ہوگی-
قرآن کریم کو یہ فضیلت بھی دوسری کتب پر حاصل ہے یعنی اس کا لانے والا انسان دوسرے انسانوں سے خواہ وہ کوئی ہوں افضل ہے- اور مزید افضلیت یہ ہے کہ قرآن کریم اس دلیل کے محفوظ رکھنے میں کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہے اس دلیل کو بھی خود اس نے ہی محفوظ کر دیا ہے- یہاں تک کہ میور جیسا متعصب انسان بھی لکھتا ہے کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کے حالات کا بہترین منبع قرآن ہے- اس موقع پر وہ حضرت عائشہؓ کا یہ قول نقل کرتا ہے کہ کان خلقہ القرآن ۱۸۳~}~یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق قرآن کو دیکھ لو- آپﷺ~ کے تمام اخلاق قرآنی معیار کے مطابق تھے- پس قرآن کریم یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے کم از کم ایک شخص اپنے معیار کے مطابق پیدا کر لیا ہے اس لئے ہم اس کی تعلیم کے متعلق یہ شبہ نہیں کر سکتے کہ )۱(وہ قابل عمل نہیں )۲(یا یہ کہ اس نے اپنے لانے والے کی اصلاح نہیں کی تو دوسروں کی کیا کرے گا؟ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کیا اور اعلیٰ درجہ کے انسان بن گئے- پس کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ قرآن نے لانے والے کو کیا فائدہ پہنچایا کہ ہمیں پہنچائے گا-
میں نے جو یہ بتایا ہے کہ الہامی کتاب کی افضلیت کی یہ بھی دلیل ہے کہ اس کے لانیوالا دوسروں سے افضل ہو یہ بھی قرآن خود ہی بیان کرتا ہے- اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کی پہلی زندگی بھی پاک اور کامل ہونی چاہئے اور دعویٰ کے بعد کی زندگی بھی مطابق وحی ہونی چاہئے- پہلی زندگی کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے- واذا جاء تھم ایہ قالوا لن نو من حتی نوتی مثل ما اوتی رسل اللہ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ سیصیب الذین اجراموا صغار عنداللہ و عذاب شدید بما کانوا یمکرون فمن یرد اللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ للاسلام ومن یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقا حرجا کانما یصعد فی السماء کذلک یجعل اللہ الرجس علی الذین لایومنون۱۸۴~}~
فرمایا- ان لوگوں کے سامنے محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کوئی نشان پیش کرتا ہے تو کہتے ہیں ہم کبھی نہیں مانیں گے جب تک ہمیں وہی کچھ نہ ملے جو اللہ کے رسولوں کو ملا- یعنی وحی اور الہام- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ہر ایک پر وحی رسالت نازل کی جائے- اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کسے رسول بنانا چاہئے- وہ اس کے احوال اس کے افکار اور اس کے عادات دیکھتا ہے- جو سب سے اعلیٰ ہو اسے رسالت کا منصب دیتا ہے- تم جو یہ کہتے ہو کہ تمہیں بھی وہی کچھ ملنا چاہئے جو رسولوں کو ملتا ہے- کیا تم اپنی حالت کو نہیں دیکھتے- تم تو گندے ہو- اور گندوں کو ذلت ہی ملا کرتی ہے- رسالت تو بہت بڑی عزت ہے- یہ پاک اور اعلیٰ پایہ کے انسان کو ملتی ہے تم کو تو تمہارے مکروں کی وجہ سے عذاب ملے گا- اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کیلئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کر دیتا ہے- وہ نیک کام کرتے وقت یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا پہاڑ پر چڑھ رہا ہے- جو لوگ ایمان نہیں لاتے اللہ تعالیٰ اسی طرح ان سے سلوک کرتا ہے-
اس میں بتایا کہ )۱(رسول بناتے وقت اللہ تعالیٰ اس آدمی کو دیکھتا ہے کہ وہ کیسا ہے- پس مجرموں کو رسالت نہیں مل سکتی- انہیں تو ذلت ملے گی- رسالت تو بڑی بھاری عزت ہے- )۲(جو رسول بنتا ہے وہ پہلے بھی اللہ کا فرمانبردار ہوتا ہے- الہی احکام کی فرمانبرداری اس کی طبیعت میں داخل ہوتی ہے- اور نیک تحریکوں کو قبول کرنے میں وہ پیش پیش ہوتا ہے-
یہ گویا قرآن نے گر بتایا کہ انبیاء کی پہلی زندگی اعلیٰ ہونی چاہئے- بیشک ایک ایسا شخص ولی ہو سکتا ہے- جو ایک زمانہ تک عیوب میں مبتلا رہا ہو- اور بعد میں اس نے توبہ کر لی ہو- لیکن نبوت کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہی خاص طور پر اعلیٰ درجہ کی طہارت اسے حاصل ہو- )۲(اور نبوت کی زندگی کے متعلق فرمایا فالذین عند ربک یسبحون لہ باللیل والنھار وھم لایسئمون ۱۸۵~}~جن لوگوں کو خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے- وہ رات دن اپنے اعمال سے دنیا کو بتاتے ہیں کہ خدا پاک ہے- یعنی انہیں جس قدر قرب عطا ہو- اسی قدر وہ فرمانبردار ہوتے ہیں- اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح اپنے ہر عمل سے ظاہر کرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ خدا نے یونہی نہیں چنا- گویا وہ اپنے اعمال سے خدا تعالیٰ کی پاکیزگی ظاہر کرتے ہیں- اور اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ خدا نے غلط انتخاب نہیں کیا-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے کی پاکیزہ زندگی
اب سوال یہ ہے کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے متعلق بھی اس عام قاعدہ کے پورا ہونے کا کہیں ذکر ہے؟ سو اس امر کے متعلق کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعویٰ سے پہلی زندگی بالکل پاک اور بے عیب تھی- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- قل لوشاء اللہ ماتلوتہ علیکم ولا ادرکم بہ فقد لبثت فیکم عمرا من قلبہ افلا تعقلون ۱۸۶~}~فرمایا- اے محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( ان سے کہہ دے کہ اگر اللہ چاہتا تو میں یہ کتاب پڑھ کر تمہیں نہ سناتا- یعنی اگر اللہ چاہتا تو کتاب ہی نہ بھیجتا اور نہ تمہیں اس تعلیم سے آگاہ کرتا- تمہیں علم ہے کہ میری زندگی کیسی پاکیزہ گذری ہے- معمولی عمر نہیں بلکہ چالیس سال کا لمبا عرصہ- تم اسے جانتے ہو اور اس پر کوئی عیب نہیں لگا سکتے- پھر کس طرح خیال کر سکتے ہو کہ اب میں نے جھوٹ بنا لیا- یہ پہلی زندگی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہے اور کفار کے مقابلہ میں اعلان ہے جس کا وہ انکار نہیں کر سکتے تھے-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں خدا تعالیٰ کا قرب
نبوت کی زندگی کے متعلق ہم قرآن کریم میں لکھا ہوا دیکھتے ہیں کہ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ ۱۸۷~}~یہ رسول اس بات کا اعلیٰ نمونہ ہے کہ قرآن نے اس کی زندگی پر کیا اثر کیا- اور یہ کسی ایک قوم یا ایک ملک کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کیلئے نمونہ ہے- جس کی انہیں پیروی کرنی چاہئے- ممکن ہے کوئی کہے کہ باقی انبیاء بھی ایسے ہی ہونگے- اس لئے قرآن کی ایک اور آیت میں پیش کرتا ¶ہوں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفر لکم ذنوبکم واللہ غفور رحیم- ۱۸۸~}~یعنی اے محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( تو ان سے کہہ دے )یہ الفاظ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی شان بلند کا اظہار کرتے ہیں- خدا تعالیٰ اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے کہلواتا ہے تا کہ دنیا کیلئے ایک چیلنج ہو- گویا اللہ تعالیٰ نے دنیا کو ایک چیلنج دیا- اور کہا- ان سے کہو( اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو- اور تمہارے دل میں تڑپ ہے کہ اس کے محبوب بن جائو تو آئو میں تمہیں ایسا گر بتائوں کہ تم عاشق ہو کر معشوق بن جائو اور وہ یہ ہے کہ فاتبعونی جس طرح میں کام کرتا ہوں تم بھی کرو- یہاں اطیعونی نہیں فرمایا بلکہ فاتبعونی فرمایا ہے- یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بننا چاہتے ہو تو جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمل کر رہے ہیں ویسے ہی تم بھی کرو- یہ نہیں فرمایا کہ محمد رسول اللہ2] ft[s صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم دیں اس کی تعمیل کرو اس جگہ اتباع کا لفظ ہے جس کے معنی >قفی اثرہ< کے ہوتے ہیں یعنی اس کے نقش قدم پر چلا- اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے اطاعت کا لفظ تو آتا ہے مگر اتباع کا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ شرائع سے بالا ہے- لیکن رسول کیلئے اتباع اور اطاعت دونوں الفاظ آتے ہیں- یعنی وہ حکم بھی دیتا ہے اور ان پر خود بھی عمل کرتا ہے- پس فاتبعونی کے یہ معنی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اطاعت الہی سے محبوب الہی بن گیا ہوں- اگر تم بھی میرے جیسے کام کرو گے تو تم بھی محبوب الہی بن جائو گے- گویا خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کا دوسرا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال رکھا ہے-
مخالفین اسلام کے اعتراضات کا رد
اس کے بعد میں ان بعض اعتراضات کو لیتا ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کئے گئے ہیں اور بتاتا ہوں کہ کس طرح قرآن کریم نے ان کو رد کر کے آپﷺ~ کے بے عیب اور کامل ہونے کو ثابت کیا ہے- کیونکہ قرآن نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم 2] ft[r کی پاکیزگی ثابت کرنے کا فرض خود اپنے ذمہ لیا ہے- کسی بندہ پر نہیں چھوڑا- پہلا اعتراض جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ہو سکتا تھا وہ یہ ہے کہ آپﷺ~ کے دعویٰ کی موجبات و محرکات کیا تھے؟ یا یہ کہ قرآن پیش کرنے کا اصل باعث کیا تھا؟ کوئی کہتا آپﷺ~ نعوذ باللہ پاگل ہیں- کوئی کہتا اسے جھوٹی خوابیں آتی ہیں- کوئی کہتا ساحر ہیں- کوئی کہتا جھوٹ بولتے ہیں- کوئی کہتا کاہن ہیں- غرض مختلف قسم کے خیالات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوئے- یہی خیالات آج تک چلتے چلے آتے ہیں- جب بھی کوئی مصنف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لکھتا ہے تو یہی کہتا ہے آپﷺ~ جھوٹے تھے اور کوئی کہتا ہے کہ نعوذ باللہ آپ مجنون تھے-
پہلا اعتراض
میں سب سے پہلے جنون کے اعتراض کو لیتا ہوں- چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اتنی پاکیزہ تھی کہ منکر اس کے متعلق کوئی حرف گیری نہیں کر سکتے تھے اس لئے جب آپﷺ~ کا کلام سنتے تو یہ نہ کہہ سکتے کہ آپﷺ~ جھوٹے ہیں بلکہ یہ کہتے کہ پاگل ہے- چونکہ مشرکانہ خیالات ان لوگوں کے دلوں میں گڑے ہوئے تھے ادھر وہ سمجھتے تھے کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( جھوٹ نہیں بول سکتے اس لئے ان دونوں باتوں کے تصادم سے یہ خیال پیدا ہو جاتا کہ اس کی عقل ماری گئی ہے- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وقالوا یا ایھا الذی نزل علیہ الذکر انک لمجنون ۱۸۹~}~جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پیش کیا تو لوگوں نے حیران ہو کر کہ اب کس طرح انکار کریں یہ کہہ دیا کہ اے وہ شخص جو کہتا ہے کہ مجھ پر خدا کا کلام اترا ہے تیرا دماغ پھر گیا ہے اور تو پاگل ہو گیا ہے اس کا جواب قرآن کریم میں اس طرح دیا گیا ہے کہ ن والقلم ومایسطرون ماانت بنعمہ ربک بمجنون وان لک لاجرا غیر ممنون وانک لعلی خلق عظیم فستبصر ویبصرون بایکم المفتون ۱۹۰~}~لوگ تجھے پاگل کہتے ہیں مگر ہم دوات اور قلم کو تیری سچائی کے لئے شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں- پاگل آخر کسے کہتے ہیں- اسے جس کی عقل عام انسانوں کی عقل کی سطح سے نیچے ہوتی ہے- ورنہ پاگلوں میں بھی کچھ نہ کچھ عقل تو ہوتی ہے- وہ کھانا کھاتے اور کپڑا پہنتے اور پانی پیتے ہیں- پاگل انہیں اس لئے کہتے ہیں کہ ادنیٰ معیار عقل جو قرار دیا جاتا ہے- اس سے ان کی عقل کم ہو جاتی ہے- خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پاگل کہنے والوں کے متعلق فرماتا ہے- تم اسے پاگل کہتے ہو- مگر سب سے زیادہ عقلمند لکھنے پڑھنے والے عالم سمجھے جاتے ہیں اور مصنفین کو بڑا دانا تسلیم کیا جاتا ہے- ہم کہتے ہیں ان عقلمندوں کی باتیں مقابلہ کیلئے لائو- دنیا کی تمام کتابیں جو اب تک لکھی جا چکی ہیں انہیں اکٹھا کر کے لائو- یہ نہیں فرمایا کہ جو اپنی طرف سے لوگوں نے لکھی ہیں بلکہ فرمایا جو لکھی گئی ہیں- گویا مذہبی اور آسمانی کتابیں بھی لے آئو- یا اعلیٰ درجہ کے علوم کی کتابیں جو لائبریریوں میں محفوظ رکھی جاتی ہیں وہ نکال کر لائو- اگر یہ سب کی سب کتابیں اس کے مقابلہ میں ہیچ ثابت ہوں تو انہیں ماننا چاہئے- کہ ما انت بنعمہ ربک بمجنون- اللہ تعالیٰ کے فضل سے تو مجنون نہیں ہے-
دیکھو! یہ کتنا بڑا دعویٰ ہے اور کتنی زبردست دلیل ہے- یہ اس زمانہ کے لوگوں کو دلیل دی- اور بعد میں آنے والوں کو یہ دلیل دی کہ وان لک لاجرا غیر ممنون- آئندہ بھی جو لوگ تجھے پاگل کہیں گے ہم انہیں کہیں گے محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( اب تو تمہارے سامنے نہیں مگر اس کے کارناموں کے نتائج تمہارے سامنے ہیں- پاگل جو کام کرتا ہے اس کی کوئی جزا نہیں ہوتی- کیا جب کوئی پاگل بادشاہ بن جاتا ہے تو اسے کوئی ٹیکس ادا کیا کرتا ہے- یا ڈاکٹر بن جاتا ہے تو کوئی اس سے علاج کراتا ہے- یا کوئی نبی بنتا ہے تو کوئی اس کا مرید بنتا ہے؟ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا کہ ہم اس کے کاموں کا وہ اجر دیں گے جو کبھی کاٹا نہیں جائے گا- کوئی زمانہ ایسا نہیں آئے گا جب اس کے اعمال کا اجر نہ مل رہا ہوگا- جب بھی کوئی پاگل ہونے کا اعتراض کرے- اس کے سامنے یہ بات رکھ دی جائے کہ پاگل کے کام کا تو نتیجہ اس وقت بھی نہیں نکلتا جب وہ کر رہا ہوتا ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دیکھو کہ کئی سو سال گذر جانے کے بعد بھی نتائج نکل رہے ہیں-
پھر فرمایا- ہم ایک اور بات بتاتے ہیں- وانک لعلی خلق عظیم پاگل کو پاگل کہو تو وہ تھپڑ مارے گا- لیکن عقلمند برداشت کر لے گا- اگر یہ لوگ تجھے پاگل سمجھتے تو تیری مجلس میں آکر تجھے پاگل نہ کہتے بلکہ تجھ سے دور بھاگتے- یہ جو تیرے سامنے تجھے پاگل کہتے ہیں یہی ثبوت ہے اس بات کا کہ تو پاگل نہیں ہے اور آئندہ آنے والوں کے لئے یہ ثبوت ہے کہ یہ پاگل کہنے والوں کے متعلق تو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ان کے برا بھلا کہنے پر چپ رہو- کیا ایسا بھی کوئی پاگل ہوتا ہے جو صرف آپ ہی پاگل کہنے والوں کے مقابلہ میں اپنے جوش کو نہ دبائے بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی یہ ہدایت کر جائے کہ مخالفوں کو برا بھلا نہ کہنا- فستبصر و یبصرون پس عنقریب تو بھی دیکھ لے گا اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ nsk] [tag بایکم المفتون تم دونوں میں سے کون گمراہ ہے- اس دلیل میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ پاگل کو کبھی خدائی مدد نہیں ملتی- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی مدد سے کامیاب ہو رہے ہیں پھر ان کو پاگل کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے-
دوسرا اعتراض
دوسرا اعتراض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس حالت میں کیا گیا جب مخالفین نے دیکھا کہ پاگل کہنے پر عقلمند لوگ خود ہمیں پاگل کہیں گے- جب وہ یہ دیکھیں گے کہ جسے پاگل کہتے ہیں اس نے تو نہ کسی کو مارا ہے نہ پیٹا- بلکہ نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق دکھائے ہیں- پس انہوں نے سوچا کہ کوئی اور بات بنائو- اس پر انہوں نے کہا- اسے پریشان خوابیں آتی ہیں اور ان کی وجہ سے دعویٰ کر بیٹھا ہے- چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ان کے اس اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے- بل قالوا اضغاث احلام۱۹۱~}~ کہتے ہیں اس کا کلام اضغاث احلام ہے کچھ مشتبہ سی خوابیں ہیں جو اسے آتی ہیں- یعنی آدمی تو اچھا ہے- اس کی بعض باتیں پوری بھی ہو جاتی ہیں لیکن بعض بری باتیں بھی اسے دکھائی دیتی ہیں- جنون اور اضغاث احلام میں یہ فرق ہے کہ جنون میں بیداری میں دماغی نقص پیدا ہو جاتا ہے- لیکن اضغاث میں نیند میں دماغی نقص پیدا ہو جاتا ہے- چونکہ مخالفین دیکھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات میں کوئی نقص نہیں اس لئے کہتے کہ جنون سے مراد ظاہری جنون نہیں بلکہ خواب میں اسے ایسی باتیں نظر آتی ہیں- اس کا جواب قرآن کریم یہ دیتا ہے کہ لقد انزلنا الیکم کتبا فیہ ذکرکم افلا تعقلون ۱۹۲~}~جن لوگوں کو اضغاث احلام ہوتی ہیں کیا ان کی خوابوں میں قومی ترقی کا بھی سامان ہوتا ہے؟ پراگندہ خواب تو پراگندہ نتائج ہی پیدا کر سکتی ہے- مگر اس پر تو وہ کتاب نازل کی گئی ہے جو تمہارے لئے عزت اور شرف کا موجب ہے- کیا دماغ کی خرابی سے ایسی ہی تعلیم حاصل ہوتی ہے؟ تم اپنے آپ کو عقلمند کہتے ہو- کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھ سکتے؟
تیسرا اعتراض
پھر بعض اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ھذا ساحر ۱۹۳~}~کہ یہ جادو گر ہے- سحر کے معنی عربی زبان میں جھوٹ کے بھی ہوتے ہیں- مگر مخالفین نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ بھی جھوٹا کہا ہے- اس لئے اگر اس کے معنی جھوٹ کے ہوں تو اس کا جواب علیحدہ ہوگا- دوسرے معنی سحر کے یہ ہوتے ہیں کہ باطن میں کچھ اور ہو اور ظاہری شکل میں کچھ اور دکھائی دے- اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے- وان یروا ایہ یعرضوا ویقولوا سحر مستمر ۱۹۴~}~اگر یہ لوگ محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کا کوئی نشان دیکھتے ہیں تو اعراض کر لیتے ہیں- اور کہتے ہیں ہم ان باتوں کو خوب سمجھتے ہیں- یہ بڑا پرانا جادو ہے- آگے فرماتا ہے حکمہ بالغہ فما تغن النذر۱۹۵~}~ قرآن میں تو حکمت بالغہ ہے- قرآن میں ایسے مضامین ہیں جو دلوں میں تبدیلی پیدا کرنے والے ہیں- سحر کے معنی تو یہ ہیں کہ ظاہر کو مسخ کر دیا جائے اور باطن آزاد رہے- مگر قرآن کا اثر تو یہ ہے کہ ظاہر کی بجائے دلوں کو بدلتا ہے- اس لئے اسے سحر نہیں کہہ سکتے-
یہ حکمت بالغہ ہے- یعنی حکمت کی ایسی باتیں ہیں جو دور تک اثر کرنے والی ہیں- یہ اندرونی جذبات اور افکار پر اثر ڈالتی ہیں- مگر ان لوگوں کو یہ انذار فائدہ نہیں دیتا-
چوتھا اعتراض
پھر بعض نے کہا کہ یہ ساحر تو معلوم نہیں ہوتا ہاں مسحور ضرور ہے- یعنی خود تو بڑا اچھا ہے- لیکن کسی نے اس پر سحر کر دیا ہے اس لئے یہ ایسی باتیں کہتا پھرتا ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وقال الظلمون ان تتبعون الا رجلا مسحورا ۱۹۶~}~یعنی ظالم لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ایک مسحور کی اتباع کر رہے ہیں- کسی نے اس پر جادو کر دیا ہے جس کی وجہ سے اس کی عقل ماری گئی ہے-
اس آیت سے پہلے ملائکہ کے نزول کے متعلق معترضین کا مطالبہ ہے- جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور خزانے عطا کرتے ہیں )ملائکہ سے الہام اور خزانے سے معارف قرآن مراد تھے( تو مخالفین نے کہا- کہ دیکھو اسے جو ملائکہ نظر آتے ہیں- اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ مسحور ہے- فرشتے ہمیں نہیں نظر آتے- خزانے ہمیں نہیں دکھائی دیتے- مگر یہ کہتا ہے کہ مجھ پر فرشتے نازل ہوتے ہیں- اور خزانے مل رہے ہیں` کہاں ملے ہیں؟ یہ سحر کا اثر ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے- اسی طرح اور بہت سے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-
وقال الذین لایرجون لقاء نالولا انزل علینا الملئکہ او نری ربنا لقد استکبروا فی انفسھم وعتو عتوا کبیرا یوم یرون الملئکہ لا بشری یومئذ للمجرمین ویقولون حجرا محجورا وقدمنا الی ماعملوا من عمل فجعلنہ ھباء منثورا اصحب الجنہ یومئذ خیر مستقرا واحسن مقیلا ویوم تشقق السماء بالغمام ونزل الملئکہ تنزیلا الملک یومئذ ن الحق للرحمن وکان یوما علی الکافرین عسیرا۱۹۷~}~ یعنی یہ نادان کہتے ہیں کہ یہ مسحور ہے اور ثبوت یہ پیش کرتے ہیں کہ ہمیں کیوں فرشتے نظر نہیں آتے- ہمیں کیوں خزانے دکھائی نہیں دیتے- لولا انزل علینا الملئکہ ہم پر وہ فرشتے کیوں نہیں اترتے جن کے متعلق یہ کہتا ہے کہ مجھ پر اترتے ہیں- او انری ربنا یا یہ کہتا ہے کہ میں اپنے رب کو دیکھتا ہوں- ہمیں وہ کیوں نظر نہیں آتا- یہ جاہل خیال کرتے ہیں کہ ہمیں چونکہ یہ چیزیں نظر نہیں آتیں اس لئے جو ان کے دیکھنے کا دعویٰ کرتا ہے تو مسحور ہے- مگر یہ اپنے نفسوں کو نہیں دیکھتے- کیا ایسے گندوں کو خدا نظر آ سکتا ہے- انہوں نے بڑی سرکشی سے کام لیا ہے- یوم یرون الملئکہ لابشری یومئذ للمجرمین- ان کو بھی فرشتے نظر آئیں گے مگر اور طرح- جب انہیں فرشتے نظر آئیں گے تو یہ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اور کہیں گے کہ کاش یہ ہمیں دکھائی نہ دیتے- اس دن مجرموں کے لئے خوشخبری نہیں ہوگی- بلکہ یہ گھبرا کر کہیں گے کہ ہم سے پرے ہی رہو- اسی طرح ہم بھی ان کو نظر تو آئیں گے مگر انعام دینے کیلئے نہیں بلکہ قدمنا الی ماعملوا من عمل فجعلنہ ھباء منثورا- ہم ان کو تباہ کرنے کیلئے ان کے اعمال کی طرف متوجہ ہونگے اور ان کی حکومت کو باریک ذروں کی طرح اڑا کر رکھ دیں گے- اور وہ جن کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ایک مسحور کے پیچھے چل رہے ہیں- ان کے لئے وہ بڑی خوشی کا دن ہوگا- اصحب الجنہ یومئذ خیر مستقر واحسن مقیلا- ان کو نہایت اعلیٰ جگہ اور آرم دہ ٹھکانا ملے گا- اس کی آگے تفصیل بیان کی ہے- کہ یوم تشقق السماء بالغمام ونزل الملئکہ تنزیلااس دن آسمان سے بارش برسے گی- اور بہت سے فرشتے اتارے جائیں گے- جیسے بدر کے موقع پر ہوا- الملک یومئذ ن الحق للرحمن- اس دن مکہ کی حکومت تباہ کر دی جائے گی- اور حکومت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دے دی جائے گی- وکان یوما علی الکفرین عسیرا]text [tagاور مکہ کی فتح کا دن کافروں پر بڑا سخت ہوگا-
باقی رہے خزانے سو ان کے متعلق فرمایا- وقال الرسول یرب ان قومی اتخذوا ھذا القران مھجورا ۱۹۸~}~ہمارا یہ رسول قیامت کے دن اپنے خدا سے کہے گا کہ اے میرے رب! انہوں نے اگر حکومت نہ دیکھی تھی تو اس کے متعلق اعتراض کر لیتے- خزانے نہ دیکھے تھے تو اعتراض کر لیتے- فرشتے نہ دیکھے تھے تو اعتراض کر لیتے مگر یہ قرآن کو دیکھ کر کس طرح انکار کر سکتے تھے- مگر افسوس کہ اتنے بڑے قیمتی خرانہ کا بھی انہوں نے انکار کر دیا- حالانکہ یہ تو ان کو دکھائی دینے والی چیز تھی-
سورہ بنی اسرائیل میں بھی یہ ذکر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسحور کہا جاتا تھا- چنانچہ فرماتا ہے- اذ یقول الظلمون ان تتبعون الا رجلا مسحورا- ۱۹۹~}~یعنی ظالم لوگ کہتے ہیں کہ تم ایک مسحور کی پیروی کر رہے ہو- پھر اس جگہ اور سورہ فرقان میں بھی اس کے معاً بعد یہ آیت آتی ہے- انظر کیف ضربوا لک الا مثال فضلوا فلا یستطیعون سبیلا ۲۰۰~}~
یعنی دیکھ یہ کیسی باتیں تیرے لئے بیان کرتے ہیں- حالانہ یہ سارا زور تیرے پیش کردہ کلام کے رد میں لگا رہے ہیں- اور ناکامی اور نامرادی کی وجہ سے ان کی جانیں نکلی جا رہی ہیں مگر پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ اس پر کسی جادو کا اثر ہے- اگر یہ بات ہے تو پھر اس کمزور کے مقابلہ سے یہ لوگ کیوں عاجز آ رہے ہیں- مسحور تو دوسروں کا تابع ہوتا ہے اور یہ لوگوں کو اپنے تابع کر رہا ہے- اور دوسرے تمام لوگ اس کے مقابل پر عاجز ہیں-
مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس اعتراض میں مسلمان بھی کافروں کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں- اورانہوں نے لکھا ہے کہ یہودیوں نے نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک دفعہ جادو کر دیا تھا- اور اس کے اثرات بڑے لمبے عرصہ تک آپﷺ~ پر رہے- اور اس میں وہ امام بخاری کو بھی گھسیٹ لائے ہیں- حالانکہ قرآن کریم میں وہ صاف طور پر پڑھتے ہیں واللہ یعصمک من الناس- خدا تعالیٰ تجھے لوگوں کے حملہ سے محفوظ رکھے گا- اگر لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کر سکتے تھے تو پھر یعصمک من الناس کس طرح درست ہوا؟ ہم تو دیکھتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو الگ رہے- آپﷺ~ کے غلاموں پر بھی کوئی سحر نہیں کر سکتا- ایک شخص نے ایک احمدی دوست سے بیان کیا کہ میں مسمریزم میں بڑا ماہر ہوں- ایک دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ مرزا صاحب کے پاس جا کر ان پر مسمریزم کروں- اور لوگوں کے سامنے ان سے عجیب و غریب حرکات کرائوں- یہ خیال کر کے میں ان کی مجلس میں گیا- اور ان پر توجہ ڈالنے لگا- مگر وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ بڑے اطمینان کے ساتھ باتیں کرتے رہے اور ان پر کچھ اثر نہ ہوا- پھر میں نے اور زور لگایا- مگر پھر بھی کوئی اثر نہ ہوا- آخر میں نے سارا زور لگایا اور کوشش کی کہ آپ پر اثر ڈالوں مگر اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ایک شیر مجھ پر حملہ کرنے لگا ہے- یہ دیکھ کر میں وہاں سے بھاگا- اور واپس چلا آیا- لاہور جا کر اس نے حضرت مسیح موعودؑ کو خط لکھا کہ میں نے سمجھ لیا ہے کہ آپ بہت بڑے ولی اللہ ہیں- کسی نے اسے کہا- کہ تم نے ولی اللہ کس طرح سمجھ لیا- ہو سکتا ہے وہ مسمریزم میں تم سے زیادہ ماہر ہوں- اس نے کہا- مسمرائیزر کے لئے ضروری ہے کہ وہ خاموش ہو کر دوسرے پر توجہ ڈالے- مگر وہ اس وقت دوسروں سے باتیں کرتے رہے تھے اس لئے وہ مسمرائیزر نہیں ہو سکتے-
پانچواں اعتراض
ایک اعتراض یہ کیا گیا- کہ آپﷺ~ کاہن ہیں- کاہن وہ لوگ ہوتے ہیں جو مختلف علامات سے آئندہ کی خبریں بتاتے ہیں- چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے- ولا بقول کاھن قلیلا ماتذکرون۲۰۱~}~لوگ تجھے کاہن کہتے ہیں- حالانکہ تیرا کلام ایسا نہیں- مگر یہ لوگ بالکل نصیحت حاصل نہیں کرتے-
یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم میں جہاں دو جگہ مسحور کا ذکر آیا ہے وہاں دونوں جگہ یہ آیت بھی ساتھ آئی ہے کہ انظر کیف ضربوا لک الامثال فضلوا فلا یستطیعون سبیلااسی طرح کاہن کا لفظ بھی دو جگہ آیا ہے اور دونوں جگہ ذکر کا لفظ ساتھ ہے- جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کاہن اور مذکر دونوں اضداد میں سے ہیں- چنانچہ سورہ طور رکوع۲ میں آتا ہے- فذکر فما انت بنعمت ربک بکاھن ولا مجنون ۲۰۲~}~ان لوگوں کو نصیحت کر کیونکہ تو اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہے نہ مجنون- یعنی کاہن مذکر نہیں ہو سکتا- اور مذکر کاہن نہیں ہو سکتا- اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کاہن درحقیقت ارڑپوپو کی قسم کے لوگوں کو کہتے ہیں جو بعض علامتوں وغیرہ سے اخبار غیبیہ بتاتے ہیں- چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب کی اخبار بتاتے تھے- بعض نادان آپﷺ~ کو کاہن کہہ دیتے تھے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کی اخبار تو محض اخبار ہوتی ہیں- پھر یہ کاہن کیونکر ہوا- کاہنوں کی خبریں تو ایسی ہی ہوتی ہیں جیسے مولوی برہان الدین جہلمی کو ایک نے بتائی تھی- مولوی صاحب نے ایک دفعہ پردہ میں بیٹھ کر ایک ارڑپوپو کو اپنا ہاتھ دکھایا- اس نے آپ کو عورت سمجھ کر خاوند کے متعلق باتیں بتانی شروع کر دیں- جب وہ بہت کچھ بیان کر چکا تو مولوی صاحب نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اپنی داڑھی اس کے سامنے کر دی- یہ دیکھ کر وہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا- اور پھر کبھی اس محلہ میں نہیں آیا-
غرض کاہنوں کی خبریں محض خبریں ہی ہوتی ہیں کہ فلاں کے ہاں بیٹا ہوگا- فلاں مر جائے گا ان میں خدا تعالیٰ کی قدرت کااظہار نہیں ہوتا- مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خبریں بتاتے ہیں ان کو کاہنوں والی خبریں نہیں کہا جا سکتا- یہ تو ایمان کو تازہ کرنے والی اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کے جلال کو ظاہر کرنے والی ہیں- رسول کہتا ہے میں خدا کی طرف سے آیا ہوں جو میرا مقابلہ کرے گا وہ ناکام رہے گا- اور جو مجھے مان لے گا جیت جائے گا- مگر کوئی کاہن یہ نہیں کہہ سکتا- پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ولا بقول کاھن قلیلا ما تذکرون یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کاہن کا قول ہے- ان کی عقل ایسی ماری گئی ہے- کہ اتنی پیشگوئیاں سنتے ہیں جن میں خدا تعالیٰ کی قدرت اور جبروت کا اظہار ہے- مگر پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے-
دوسرا رد اس کا یہ فرمایا- فلا اقسم بما تبصرون ومالا تبصرون انہ لقول رسول کریم وما ھو بقول شاعر قلیلا ما تومنون ولا بقول کاھن قلیلا ماتذکرون تنزیل من رب العلمین ولو تقول علینا بعض الا قاویل لاخذنا منہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین فما منکم من احد عنہ حجزین ۲۰۳~}~یعنی ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اس کو بھی جسے تم دیکھتے ہو اور اس کو بھی جسے تم نہیں دیکھتے- یعنی اس کے ظاہری اور باطنی دونوں حالات اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ قرآن ایک عزت والے رسول کا کلام ہے- ظاہری حالات کے لحاظ سے ایک بات میں کاہن اور شاعر دونوں مشترک ہوتے ہیں- شاعر بھی بڑے بڑے جذبات کا اظہار کرتا ہے- اور سب کچھ بیان کرنے کے بعد ہاتھ پھیلا دیتا ہے- اسی طرح کاہن بھی خبریں بتا کر مانگتا پھرتا ہے- مگر فرمایا یہ رسول تو ایسا ہے جو اپنے پاس سے خرچ کرتا ہے- کاہن تو دوسروں سے مانگتا ہے- یہاں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قرآن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام قرار دیا گیا ہے- یہاں رسول کہہ کر اس شبہ کو رد کر دیا ہے- اور بتایا ہے کہ یہ آپ کا کلام نہیں کیونکہ رسول وہی ہوتا ہے جو دوسرے کا پیغام لائے اگر محمد )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم( اپنی طرف سے بیان کرتا تو آپﷺ~ کا کلام سمجھا جاتا ہے- مگر یہ تو رسول ہے-
تیسری دلیل یہ دی کہ کاہن تو اپنے اخبار کو اپنے علم کی طرف منسوب کرتا ہے- اور کہتا ہے کہ میں نے جفر` رمل` تیروں اور ہندوسوں وغیرہ سے یہ یہ باتیں معلوم کی ہیں- وہ خدا تعالیٰ کی طرف اپنی خبروں کو منسوب نہیں کرتا- مگر یہ رسول کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے کلام پا کر سناتا ہوں اور یہ اپنے کلام کو تنزیل من رب العلمین کہتا ہے-
یہاں یہ بھی بتا دیا کہ کاہن ایسی باتیں بیان کرنے کی وجہ سے اس لئے سزا نہیں پاتا کہ وہ خدا پر تقول نہیں کرتا بلکہ اپنی طرف سے بیان کرتا ہے- مگر رسول کہتا ہے کہ خدا کی طرف سے میں بیان کرتا ہوں- اگر رسول جھوٹا ہو تو فوراً تباہ کر دیا جاتا ہے- پس یہ کاہن نہیں ہے بلکہ خدا کا سچا رسول ہے- اور اس پر جو کلام نازل ہوا ہے- یہ رب العالمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے- اگر کہو کہ یہ اس طرح اپنی کہانت کو چھپاتا ہے تو یاد رکھو کہ جان بوجھ کر ایسا کرنے والا کبھی سزا سے نہیں بچ سکتا- اگر یہ شخص ہماری طرف جھوٹا الہام منسوب کر دیتا- خواہ ایک ہی ہوتا تو ہم یقیناً اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی رگ جان کاٹ دیتے اور اس صورت میں تم میں سے کوئی بھی نہ ہوتا جو اسے خدا کے عذاب سے بچا سکتا-
چھٹا اعتراض
ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ آپﷺ~ شاعر ہیں- چنانچہ سورۃ انبیاء رکوع اول میں آتا ہے بل ھو شاعر کہ یہ فصیح باتیں بیان کر کے لوگوں پر اثر ڈال لیتا ہے- اس کا جواب سورۃ یٰسین رکوع ۵ میں یہ دیا کہ وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ- ان ھو الا ذکر و قران مبین لینذر من کان حیا و یحق القول علی الکافرین۲۰۴~}~ یعنی ہم نے اسے شعر نہیں سکھایا- اور یہ تو اس کی شان کے مطابق بھی نہیں ہے- یہ تو ذکر اور قران مبین ہے- کھول کھول کر باتیں سنانے والا ہے- یہ اس لئے نازل کیا گیا ہے تا کہ اسے جس میں روحانی زندگی ہے ڈرائے اور کافروں پر حجت تمام ہو جائے-
اس میں الل¶ہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اول قرآن شعر نہیں- ان لوگوں کی عقلیں ماری گئی ہیں کہ نثر کو شعر کہتے ہیں- دوم- اگر کہیں کہ مجازی معنوں میں شعر کہتے ہیں کیونکہ شعر کے معنے ایسی چیز کے ہوتے ہیں جو اندر سے باہر آئے اور شعر کو اس لئے شعر کہا جاتا ہے کہ وہ جذبات کو ابھارتا ہے تو اس کا جواب یہ دیا کہ وما ینبغی لہ یہ تو اس کی شان کے ہی مطابق نہیں کہ اس قسم کی باتیں کرے- اس کی ساری زندگی دیکھ لو- شاعر کی غرض اپنے آپ کو مشہور کرنا ہوتی ہے- مگر یہ تو کہتا ہے مثلکم ]ttex [tagمیں تمہارے جیسا ہی انسان ہوں- پھر شاعر ان لوگوں کی مدح کرتا ہے جن سے اس نے کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے- مگر یہ تو کہتا ہے کہ میں تم سے کچھ نہیں لیتا- نہ کچھ مانگتا ہوں- پس شاعری اور اس کا لایا ہوا کلام آپس میں کوئی مناسبت نہیں رکھتے- سوم- پھر اس میں ذکر ہے حالانکہ شعر ذکر نہیں ہوتا- یعنی شاعر اندرونی جذبات کو ابھارتا ہے- شہوت اور حسن پرستی کا ذکر کرتا ہے- مگر یہ ایسی باتوں کی مذمت کرتا ہے- چہارم- پھر یہ ایسا کلام ہے جو فطرت کے اعلیٰ محاسن کو بیدار کر کے جن کی فطرت صحیح ہوتی ہے- انہیں بدیوں سے بچاتا ہے- اور جو مردہ ہوتے ہیں ان پر حجت تمام کرتا ہے- حالانکہ شاعر جذبات بہیمیہ کو ابھارتا ہے- پس اسے مجازی طور پر بھی شعر نہیں کہہسکتے-
ساتواں اعتراض
ساتواں اعتراض یہ کیا گیا کہ یہ معلم ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- انی لھم الذکری و قدجاء ھم رسول مبین ثم تولوا عنہ و قالو معلم مجنون۲۰۵~}~ فرمایا ان نامعقولوں کو کہاں سے نصیحت حاصل ہوگئی- حالانکہ ان کے پاس اعلیٰ درجہ کے معارف بیان کرنے والا رسول آیا- مگر یہ کہاں اس سے منہ پھیر کر چلے گئے- اور کہہ دیا کہ اسے کوئی اور سکھا جاتا ہے اور مجنون ہے- مطلب یہ کہ یہ ایسا نادان ہے کہ لوگ اس کو اس کے باپ دادا کے دین کے خلاف باتیں بتا جاتے ہیں اور یہ آگے ان کو بیان کر دیتا ہے-
بعض لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے تھے اور اب تک کرتے ہیں کہ قرآن نہ آپﷺ~ پر نازل ہوا- نہ آپﷺ~ نے بنایا بلکہ کوئی اور شخص ان کو سکھا دیتا تھا- مکہ والے کہتے تھے کہ مکہ کا ہو کر محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کس طرح اپنی قوم کے بتوں کی مذمت کر سکتا ہے- اور ان کے مقابلہ میں دوسری قوم کے نبیوں کی تعریف کر سکتا ہے اسے کوئی اور اس قسم کی باتیں سکھا جاتا ہے- جب وہ حضرت موسیٰؑ کی تعریف قرآن میں سنتے تو کہتے کہ کوئی یہودی سکھا گیا ہے اور جب حضرت عیٰسیؑ کی تعریف سنتے تو کہتے کوئی عیسائی بتا گیا ہے- اس میں ان کو اس بات سے بھی تائید مل جاتی کہ قرآن کریم میں پہلے انبیاء کے واقعات بھی بیان ہوئے ہیں- اس جگہ مجنوں حقیقی معنوں میں نہیں آیا- بلکہ غصہ کا کلام ہے کیونکہ معلم اور مجنوں یکجا نہیں ہو سکتے- مطلب یہ کہ پاگل ہے- اتنا نہیں سمجھتا کہ لوگ اسے اپنے مذہب اور قوم کے خلاف باتیں سکھاتے ہیں-
‏a.10.13
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن
قرآن کریم میں دو جگہ بھی یہ ذکر آیا ہے- سورہ نحل رکوع ۱۴ میں ہے- قل نزلہ روح القدس من ربک بالحق لیثبت الذین امنوا وھدی وبشری للمسلمین ولقد نعلم انھم یقولون انما یعلمہ بشر لسان الذی یلحدون الیہ اعجمی و ھذا لسان عربی مبین ۲۰۶~}~فرمایا- اے محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( تو مخالفوں سے کہدے کہ قرآن کو روح القدس نے اتارا ہے تیرے رب کی طرف سے ساری سچائیاں اس میں موجود ہیں- اور اس لئے اتارا ہے کہ مومنوں کے دل مضبوط ہوں اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہو- اور ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ کہتے ہیں کسی اور نے قرآن سکھایا ہے مگر جس کی طرف وہ یہ بات منسوب کرتے ہیں وہ عجمی ہے )عجمی وہ ہوتا ہے جو عرب نہ ہو- یا عرب تو ہو مگر اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح عربی میں بیان نہ کر سکے( اور یہ جو کلام ہے یہ تو زبان عربی میں ہے اور وہ بھی معمولی نہیں بلکہ خوب کھول کھول کر بیان کرنے والی-
دوسری جگہ فرماتا ہے- وقال الذین کفروا ان ھذا الا افک افترانہ واعانہ علیہ قوم اخرون فقد جاوا ظلما و زورا و قالوا اساطیر الاولین اکتتبھا فھی تملی علیہ بکرہ واصیلا قل انزلہ الذی یعلم السر فی السموت والارض انہ کان غفورا رحیما ۲۰۷~}~یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن خدا کا کلام نہیں ہے بلکہ صرف ایک جھوٹ ہے- جو اس نے بنا لیا ہے اور اس بنانے میں کچھ اور بھی لوگ اس کی مدد کرتے ہیں- یہ بات کہنے میں انہوں نے بڑا ظلم کیا ہے- اور بڑا افترا باندھا ہے و قالوا اساطیر الاولین اکتتبھا اور وہ کہتے ہیں کہ اس میں پرانے قصے ہیں جو لکھوا لیتا ہے- یعنی دو جماعتیں ہیں ایک مضمون بناتی ہے اور ایک لکھ لکھ کر دیتی ہے- فھی تملی علیہ بکرہ واصیلا پھر اس کی مجلس میں اسے خوب پڑھتے ہیں- تا کہ یاد ہو جائے قل انزلہ الذی یعلم السر فی السموت والارض کہدے- اسے خدا نے اتارا ہے جو آسمانوں اور زمین کے رازوں کو جاننے والا ہے- انہ کان غفورا رحیما وہ بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے-
اس اعتراض میں آج کل عیسائی بھی شامل ہو گئے ہیں- اور بڑے بڑے مصنف مزے لے لے کر اسے بیان کرتے ہیں- وہ کہتے ہیں- محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کو کیا پتہ تھا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں میں کیا لکھا ہے- وہ عیسائی اور یہودی ہی تھے جو باتیں بنا کر ان کو دیتے تھے- چونکہ اب بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے اور اسے بہت اہمیت دی جاتی ہے اس لئے میں کسی قدر تفصیل سے اس کا جواب بیان کرتا ہوں-
مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ اسے بشر سکھاتا ہے- اس بشر سے مراد جبر رومی غلام تھا- جو عامر بن حضرمی کا غلام تھا- اس نے تورات اور انجیل پڑھی ہوئی تھی- جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگ تکلیف دینے لگے تو آپﷺ~ اس کے پاس جاکر بیٹھا کرتے تھے- اس پر لوگوں نے یہ اعتراض کیا- دوسری روایتوں میں آتا ہے کہ فرا اور زجاج کہتے ہیں کہ حویطب ابن عبدالعزیٰ کا ایک غلام عائش یا یعیش نامی پہلی کتب پڑھا کرتا تھا- بعد میں پختہ مسلمان ہو گیا- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتا تھا- اس کی نسبت لوگ یہ الزام لگاتے تھے- مقاتل اور ابن جبیر کا قول ہے کہ ابوفکیہ پر لوگ شبہ کرتے تھے ان کا نام یسار تھا- مذہباً یہودی تھے اور مکہ کی ایک عورت کے غلام تھے- بیہقی اور آدم بن ابی ایاس نے عبداللہ بن مسلم الحضرمی سے روایت لکھی ہے کہ ہمارے دو غلام یسار اور جبر نامی تھے دونوں نصرانی تھے اور عین التجر کے رہنے والے تھے- دنوں لوہار تھے- اور تلواریں بنایا کرتے تھے اور کام کرتے ہوئے انجیل پڑھا کرتے تھے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گذرتے تو ان کے پاس ٹھہر جاتے- ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ان میں سے ایک غلام سے لوگوں نے پوچھا- کہ انک تعلم محمدا فقال لا ھو یعلمنی- کیا تم محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کو سکھاتے ہو؟ اس نے کہا- میں نہیں سکھاتا بلکہ وہ مجھے سکھاتا ہے- ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعجمی رومی غلام مکہ میں تھا- اس کا نام ملبام تھا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اسلام سکھایا کرتے تھے اس پر قریش کہنے لگے کہ یہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کو سکھاتا ہے- )روح المعانی(
مسیحی مورخ لکھتے ہیں کہ غالباً آپﷺ~ نے بحیرہ راھب سے سیکھا تھا- چونکہ مسیحی تاریخوں میں بحیرہ کا کہیں پتہ نہیں ملتا- اس وجہ سے ابتداء تو وہ اس کے وجود سے ہی منکر تھے لیکن اب مسعودی کی ایک روایت کی وجہ سے اس کو تسلیم کرنے لگے ہیں- اور اس اعتراض کے رنگ میں اس سے فائدہ اٹھانے لگے ہیں- وہ روایت یہ ہے کہ بحیرہ کو مسیحی لوگ سرگیس کہا کرتے تھے اور Sergius نامی ایک پادری کا پتہ مسیحی کتب میں مل جاتا ہے- پس اب وہ کہتے ہیں کہ اس شخص سے سیکھ کر رسول کریم )صلی اللہ علیہ وسلم( نے نعوذ باللہ قرآن بنا لیا- سیل اس خیال کو رد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بحیرہ کا مکہ جانا ثابت نہیں- اور یہ خیال کہ آپﷺ~ نے جوانی میں دعویٰ سے بہت پہلے بحیرہ سے قرآن سیکھا ہو عقل کے خلاف ہے- ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اس سے مسیحیت کا کچھ علم سیکھا ہو-
وہیری ان روایتوں سے خوش ہو کر کہتا ہے کہ خواہ ناموں میں اختلاف ہی ہو لیکن یہ روایت اتنی کثرت سے آتی ہے کہ اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے- کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کے پاس بعض مسیحی اور یہودی آتے تھے- اور یہ کہ انہوں نے ان کی گفتگو سے خاص طور پر فائدہ اٹھایا اور جواب کی کمزوری بتاتی ہے کہ کچھ دال میں کالا کالا ضرور ہے` ورنہ یہ کیا جواب ہوا کہ اس کی زبان اعجمی ہے- ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں بنا دیتا ہو- اور محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( اسے عربی میں ڈھال لیتے ہوں )وہ اپنے اس خیال کی تصدیق میں آرنلڈ کو بھی پیش کرتا ہے( اس کے بعد وہ لکھتا ہے-:
‏reiterate to hesitate not do we that this of because is <It deliberate of charge old the۲۰۸~}~]tqi-eng >[tag۔imposture
یعنی >ہم یہ پرانا الزام دہراتے ہوئے اپنے دل میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( نے جان بوجھ کر جھوٹ بنایا<-
اوپر کے مضمون سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کفار مکہ اس اعتراض کو خاص اہمیت دیتے تھے- اور ان کے وارث مسیحیوں نے اس اہمیت کو اب تک قائم رکھا ہے- میں پہلے مسیحیوں کے اعتراضات کو لیتا ہوں- اور اس شخص کو جواب میں پیش کرتا ہوں جسے عیسائی خدا کا بیٹا کہتے ہیں- حضرت مسیح پر یہ اعتراض ہوا تھا- کہ ان کے ساتھ شیطان کا تعلق ہے اور دیوئوں کو اس کی مدد سے نکالتے ہیں- چنانچہ لکھا ہے-:
>پھر وہ ایک گونگی بد روح کو نکال رہا تھا- اور جب وہ بدروح اتر گئی تو ایسا ہوا کہ گونگا بولا اور لوگوں نے تعجب کیا- لیکن ان میں سے بعض نے کہا- یہ تو بدروحوں کے سردار بعل زبول کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہے بعض اور لوگ آزمائش کے لئے اس سے ایک آسمانی نشان طلب کرنے لگے مگر اس نے ان کے خیالوں کو جان کر ان سے کہا کہ جس کسی بادشاہت میں پھوٹ پڑے وہ ویران ہو جاتی ہے اور جس گھر میں پھوٹ پڑے وہ برباد ہو جاتا ہے- اور اگر شیطان بھی اپنا مخالف ہو جائے تو اس کی بادشاہت کس طرح قائم رہے گی- کیونکہ تم میری بابت کہتے ہو کہ یہ بدروحوں کو بعل زبول کی مدد سے نکالتا ہے<-۲۰۹~}~
یہاں حضرت مسیح نے ایک قانون پیش کیا ہے- جب ان کے متعلق کہا گیا کہ وہ شیطان کو شیطان کی مدد سے نکالتے ہیں تو انہوں نے کہا- شیطان شیطان کو کیوں نکالے گا؟ اس قانون کے ماتحت غور کر لو کہ کیا قرآن کسی یہودی یا عیسائی کا بنایا ہوا نظر آتا ہے- اگر کسی عیسائی کا بنایا ہوا ہوتا تو عیسائیت کے رد سے کس طرح بھرا ہوا ہوتا؟ اور اگر کسی یہودی نے بنایا ہوتا تو اس میں یہودیت کا کس طرح رد ہوتا؟ عیسائیت کا کوئی فرقہ بتا دو اس کا رد قرآن سے دکھا دیا جائیگا- اسی طرح کوئی یہودی فرقہ پیش کرو- اس کا رد قرآن میں موجود ہے- کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ کوئی عیسائی اور یہودی اپنے مذہب کی آپ تردید کرے گا- قرآن پورے طور پر عیسائیت کو رد کرتا ہے- ہم دور نہیں جاتے پہلی سورۃ میں ہی قرآن نے عیسائیت کی جڑیں اکھیڑ کر رکھ دی ہیں- پہلی سورت جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی یہ ہے-:
اقرا باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا وربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم کلا ان الانسان لیطغی ان راہ استغنی ان الی ربک الرجعی ارئیت الذی ینھی وعبدا اذا صلی ارئیت ان کان علی الھدی او امر بالتقوی ارئیت ان کذب وتولی الم یعلم بان اللہ یری کلا لئن لم ینتہ لنسفعا بالناصیہ ناصیہ کاذبہ خاطئہ فلیدع نادیہ سندع الزبانیہ کلا لا تطعہ و اسجد و اقترب ۲۱۰~}~
یہ سورۃ جو سب سے پہلی سورت ہے- اسی میں عیسائیت کے تمام مسائل کو رد کر دیا گیا ہے- پہلا حملہ عیسائیت پر یہ ہے کہ فرمایا- خلق الانسان من علق- عیسائیت کی بنیاد اس عقیدہ پر ہے کہ انسان کی فطرت میں گناہ ہے- عیسائیت کہتی ہے- انسان فطرتاً گناہگار ہے اور عمل سے نیک نہیں بن سکتا- اس لئے مسیح کو جو پاک اور بے عیب تھا صلیب پر چڑھا دیا گیا- اسی طرح وہ انسانوں کے گناہ اپنے اوپر اٹھا کر قربان ہو گیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خلق الانسان من علق- انسان کی فطرت میں خدا کی محبت رکھی گئی ہے اور اس کی بناوٹ میں ہی خدا سے تعلق رکھا گیا ہے- اس طرح عیسائیت کا پہلا عقیدہ باطل کر دیا گیا اور بتا دیا گیا کہ کفارہ کوئی چیز نہیں ہے اس کی بنیاد اس امر پر ہے کہ انسان گناہ گار ہے- لیکن اسلام شروع ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ انسان نیک ہے اور اس کی فطرت میں خدا سے محبت رکھی گئی ہے نہ کہ گناہ-
دوسرا جواب یہ دیا- کہ اقرا و ربک الاکرم خدا جو تیرا رب ہے اس کی یہ شان ہے کہ دوسری چیزوں میں جو صفات پائی جاتی ہیں ان سب سے اعلیٰ صفات اس میں جلوہ گر ہیں- عیسائیت کہتی ہے کہ خدا میں رحم کی صفت نہیں- وہ گناہگار کو نہیں بخش سکتا- مگر اسلام کہتا ہے- جب انسان اپنے قصور وار کو بخش سکتا ہے اور انسان میں عفو کی صفت ہے تو خدا کیوں نہیں بخش سکتا- اور اس میں کیوں یہ صفت نہیں- اس میں تو بدرجہ اتم یہ صفت ہے- کیونکہ وہ اکرم ہے- یعنی تمام صفات حسنہ میں سب سے بڑھ کر ہے-
تیسرا رد یہ کیا کہ فرمایا علم الانسان مالم یعلم- عیسائیت کی تیسری بنیاد یہ ہے کہ شریعت *** ہے- لیکن قرآن نے بتایا کہ شریعت میں وہ باتیں ہیں جو انسان عقل سے دریافت نہیں کر سکتا- انسان اپنی کوشش سے شرعی احکام نہیں بنا سکتے اس لئے شریعت آتی ہے-
چوتھی زد عیسائیت پر یہ کی کہ فرمایا کلا ان الانسان لیطغی ان راہ استغنی انسان بڑا ہی سرکش ہے جو یہ کہتا ہے کہ مجھے خدا کی شریعت کی ضرورت نہیں- میں خود اپنی راہ نمائی کے سامان مہیا کر لونگا- یہ کہنے والے بہت نامعقول لوگ ہیں-
پانچواں رد یہ کیا کہ فرمایا- کلا لا تطعہ واسجد و اقترب- ایسے لوگوں کی باتیں کبھی نہ سننا اور اللہ کی خوب عبادت اور فرمانبرداری کرنا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ کسی راہب کی بات نہ سننا جو شریعت کو *** قرار دیتا ہے بلکہ خدا کی فرمانبرداری میں لگا رہ- گویا نجات اور قرب الہی کا ذریعہ بجائے کسی کفارہ پر ایمان لانے کے سجدہ یعنی فرمانبرداری یا بالفاظ دیگر اسلام کو قرار دیاہے-
پس قرآن کی تو پہلی سورۃ نے ہی مسیحیت کو رد کیا ہے اور بادلیل رد کیا ہے- اسی طرح سورۃ فاتحہ میں عیسائیت اور یہودیت کو رد کیا گیا ہے- پھر کیا کوئی شخص مان سکتا ہے کہ عیسائی اور یہودی اپنے مذہب کے خلاف خود دلائل بتایا کرتے تھے- دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں- یا تو عیسائی راہب اپنے مذہب کو ماننے والا ہوگا- یا نہ ماننے والا- اگر ماننے والا تھا تو اسے چاہئے تھا کہ اپنے مذہب کی تائید کرتا- نہ کہ اس کے خلاف باتیں بتاتا- اور اگر نہ ماننے والا تھا اور سمجھتا تھا کہ جو باتیں اس کے ذہن میں آئی ہیں وہ اعلیٰ درجہ کی ہیں تو اس نے ان کو خود اپنی طرف منسوب کر کے کیوں نہ پیش کیا- اسے چاہئے تھا کہ اپنے نام پر کتاب لکھتا نہ کہ لکھ کر دوسرے کو دے دیتا-
اب میں ان آیتوں اور ان میں مذکور جوابات کو لیتا ہوں- سورہ نحل کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کا اعتراض یہ تھا کہ اسے کوئی اور آدمی سکھاتا ہے- اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ وہ شخص تو عجمی ہے اور قرآن کی زبان عربی ہے- وھیری کہتا ہے کہ یہ جواب بالکل بودا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ہے- مضمون وہ عجمی بنا کر دیتا تھا- آگے عربی میں وہ خود ڈھال لیتے تھے- لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کے دوسرے جواب بھی ایسے ہی بودے ہوتے ہیں- اگر قرآن کی دوسری باتیں ارفع اور اعلیٰ ہیں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ یہ جواب بھی ضرور اعلیٰ ہوگا- اور جو مطلب ہم سمجھتے ہیں وہ غلط ہوگا- دوسرے اگر یہ جواب بے جوڑ تھا تو کیوں مکہ والوں نے اسے رد نہ کر دیا اور کیوں وہیری والا جواب انہوں نے نہ دیا ان کا تو اپنا اعتراض تھا اور وہ اپنے اعتراض کا مطلب وہیری وغیرہ سے بہتر سمجھتے تھے- وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ تو بے معنی جواب ہے- مگر کسی ضعیف سے ضعیف روایت میں بھی یہ نہیں آتا کہ مکہ والوں نے کہا ہو- یہ جواب بے جوڑ ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا جو اعتراض تھا اس کا جواب انہیں صحیح اور مسکت مل گیا تھا- اسی لئے وہ خاموش ہو گئے-
اب رہا یہ امر کہ اچھا پھر سوال و جواب کا مطلب کیا تھا- تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل میں کفار کا سوال ایک نہ تھا بلکہ دو تھے اور ان سوالوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی قرآنی جواب کو بے جوڑ قرار دے دیا گیا ہے- ان میں سے ایک کا ذکر سورہ نحل میں ہے اور دوسرے کا سورہ فرقان میں- سورہ نحل کا وہ سوال نہیں جو سورہ فرقان کا ہے- اور سورہ فرقان میں وہ نہیں جو سورہ نحل میں ہے- چنانچہ سورہ نحل میں یہ اعتراض نقل ہے کہ ایک عجمی شخص آپﷺ~ کو سکھاتا ہے- قرآن کریم نے اس کا نام نہیں لیا- مگر یہ کہا کہ لسان الذی یلحدون الیہ اعجمی کہ وہ جس کی طرف قرآن کو منسوب کرتے ہیں وہ عجمی ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مخالف کسی خاص شخص کا نام لیتے تھے- پھر یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ شخص معروف تھا اور مسلمان بھی اس شخص کا نام جانتے تھے-
سورہ فرقان کی آیت اس سے مختلف ہے- اس میں بتایا گیا ہے کہ کفار کسی خاص آدمی کا نام لئے بغیر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک جماعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھاتی ہے- اور رات دن آپ کے پاس رہتی ہے اور آپ بعض دوسرے لوگوں سے اس جماعت کے بتائے ہوئے واقعات کو لکھوا لیتے ہیں-
یہ فرق نمایاں ہے- ایک میں ایک خاص شخص کا ذکر ہے اور دوسری میں غیر معین جماعت کا ذکر ہے- ایک میں صرف سیکھنے کا ذکر ہے اور دوسری میں بعض لوگوں سے لکھوانے کا بھی ذکر ہے- ایک میں محض تعلیم کا ذکر ہے اور دوسری میں پہلوں کے واقعات اور خیالات کے نقل کرنے کا ذکر ہے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ دونوں جگہ جواب الگ الگ دیا گیا ہے- یہ فرق اتنے نمایاں ہیں کہ ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے-
اصل بات یہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا- تو شروع میں ہی بعض غلام آپﷺ~ پر ایمان لے آئے تھے- وہ پہلے بت پرست یا عیسائی یا یہودی تھے- انہیں جب صبح و شام فرصت ملتی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر پہنچ جاتے اور دوسرے صحابہؓ کے ساتھ دین سیکھتے- اور نمازیں پڑھتے- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے واقع سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک مکان پر یہ اجتماع ہوتا تھا- حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابھی ایمان نہ لائے تھے کہ ایک دن اپنے گھر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنے کے ارادہ سے نکلے- کسی نے پوچھا کہ کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا محمدﷺ~ جو صابی ہو گیا ہے اس کی خبر لینے جا رہا ہوں- اس نے کہا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو- انہوں نے کہا- کیا ہوگیا ہے؟ اس نے بتایا کہ تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہو گئے ہیں- یہ سن کر وہ اپنی بہن کے گھر گئے- اور جا کر دستک دی- اس وقت ایک صحابیؓ ان کو قرآن پڑھا رہے تھے- جب انہیں معلوم ہوا کہ عمرؓ ہیں تو صحابیؓ کو چھپا دیا گیا اور بہن اور بہنوئی سامنے ہوئے- انہوں نے پوچھا کہ کس طرح آئے ہو- عمرؓ نے کہا- بتائو تم کیا کر رہے تھے- میں نے سنا ہے تم بھی صابی ہو گئے ہو- انہوں نے کہا- یہ غلط ہے- ہم تو صابی نہیں ہوئے- عمرؓ نے کہا میں نے تو خود تمہاری آواز سنی ہے- تم کچھ پڑھ رہے تھے- اور بہنوئی پر حملہ کر دیا- یہ دیکھ کر بہن آگے آگئی- اور ضرب اس کے سر پر پڑی جس سے اس کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا- اس پر انہوں نے بڑے جوش سے کہا- ہم مسلمان ہو گئے ہیں- اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہیں- تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر لو- جب حضرت عمرؓنے یہ حالت دیکھی تو چونکہ وہ ایک بہادر انسان تھے- اور ان کا وار ایک عورت پر پڑا جو ان کی بہن تھی- اس سے انہیں سخت شرمندگی محسوس ہوئی- اور انہوں نے کہا کہ تم جو کچھ پڑھ رہے تھے وہ مجھے بھی دکھائو- اس نے کہا- تم مشرک اور ناپاک ہو- پہلے جا کر نہائو- پھر بتائیں گے- چنانچہ وہ نہائے اور رہا سہا غصہ بھی دور ہو گیا- اس کے بعد قرآن کی جو آیات پڑھ رہے تھے وہ انہیں سنائی گئیں- حضرت عمرؓ کا دل ان کو سن کر پگھل گیا- اور وہ بے اختیار کہہ اٹھے اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ-اس وقت وہ صحابی جن کو انہوں نے چھپایا ہوا تھا- وہ بھی باہر آگئے حضرت عمرؓ نے کہا- بتائو تمہارا سردار کہاں ہے- میں اسکے پاس جانا چاہتا ہوں- انہیں بتایا گیا- کہ فلاں گھر میں مسلمان جمع ہوتے ہیں- حضرت عمرؓ وہاں گئے- وہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض صحابہؓ موجود تھے اور دروازہ بند تھا- جب حضرت عمرؓ نے دستک دی- تو صحابہؓ نے پوچھا کون ہے؟ حضرت عمرؓ نے اپنا نام بتایا تو صحابہؓ نے ڈرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا- عمرؓ آیا ہے- دروازہ کے سوراخ سے انہوں نے دیکھا کہ تلوار ان کے گلے میں لٹکی ہوئی ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- دروازہ کھول دو- جب عمرؓ اندر داخل ہوئے تو رسول کریم]2 [stf صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کرتہ پکڑ کر کہا- عمرؓ کس نیت سے آئے ہو- انہوں نے کہا- اسلام قبول کرنے کیلئے- آپﷺ~ نے فرمایا- اللہ اکبر- یہ سن کر باقی صحابہؓ نے بھی زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا-۲۲۱~}~ اس واقع سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ صحابہؓ کو دین سکھانے کے لئے الگ مکان میں بلا لیتے- چونکہ آپﷺ~ دروازہ بند کر کے بیٹھتے تھے تا کہ کفار شرارت نہ کریں- اس لئے کفار کے نزدیک اس قسم کا اجتماع بالکل عجیب بات تھی- وہ خیال کرتے تھے کہ وہاں قرآن بنایا جاتا ہے- اور چونکہ انبیاء سابق کے بعض واقعات کی طرف قرآن کریم میں اشارہ تھا وہ یہ خیال کرتے کہ مسیحی اور یہودی غلام یہ باتیں ان لوگوں کو بتاتے ہیں- اور دوسرے صحابہؓ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھوا لیتے ہیں- اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتا ہے کہ وقال الذین کفروا ان ھذا الا افک ن افترئہ واعانہ علیہ قوم اخرون فقد جاء واظلما و زورا یعنی منکر لوگ کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ بنا لیا گیا ہے- اور کچھ لوگ اس میں مدد دیتے ہیں- مگر ان کا یہ اعتراض بالبداہت ظلم اور جھوٹ پر مبنی ہے- کیونکہ کیا مسیحی غلام ایسا کر سکتے ہیں کہ خود اپنے دین پر ہنسی کرائیں- آخر انہیں اس کی کیا ضرورت ہے اور کیا فائدہ ہے کہ وہ اسی بات پر رات دن ماریں کھائیں اور گرم ریت پر گھیسٹے جائیں اور ایک بے فائدہ فریب میں شامل ہوں- پس ایسے مخلص لوگوں پر یہ اعتراض کر کے ان لوگوں نے ظلم اور جھوٹ سے کام لیا ہے- یہ ناممکن ہے کہ ایسے لوگ ایسا جھوٹ بنا سکیں-
دوسرا جواب یہ دیا ہے کہ جن کو تم پرانے قصے سمجھتے ہو وہ قصے نہیں بلکہ آئندہ کے متعلق خبریں اور پیشگوئیاں ہیں- چنانچہ فرماتا ہے- قل انزلہ الذی یعلم السر فی السموت والارض۲۱۲~}~ تو کہہ دے کہ یہ خدا کا کام ہے جو آسمانوں اور زمین کے رازوں سے واقف ہے- کوئی انسان ایسا کلام نہیں بنا سکتا- یہ تو غیب کی باتیں ہیں اور غیب خدا ہی جانتا ہے-
اب ان جوابوں کو دیکھو کہ کس قدر صحیح اور مضبوط ہیں- اور وھیری کا خیال کس قدر بے معنی ہے- اگر یہاں بھی وہی اعتراض سورہ نحل والا ہوتا تو اس کا وہی جواب کیوں نہ دیا جاتا جو وہاں دیا گیا ہے- آخر کیا وجہ تھی کہ اگر یہی سوال سورہ نحل میں تھا تو اس کا جواب بقول وہیری کے بیہودہ دیا جاتا- ایک شخص جو صحیح جواب جانتا ہے اور وہ جواب دے بھی چکا ہے اسے وہ جواب چھوڑ کر اور جواب دینے کی کیا ضرورت تھی- پس یہ جواب لغو نہیں بلکہ معترضین کی اپنی سمجھ ناقص ہے- اصل بات یہ ہے کہ سورہ نحل میں یہ سوال ہی نہیں کہ کوئی اسے مضمون بنا دیتا ہے- بلکہ یہ ذکر ہے کہ نادان لوگ ایک ایسے شخص کی نسبت یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ محمد رسول اللہ کو سکھاتا ہے جو خود عجمی تھا- یعنی اپنا مفہوم اچھی طرح بیان نہیں کر سکتا تھا- صرف تھوڑی سی عربی جانتا تھا- )عجمی کے یہ بھی معنی ہیں کہ جو اپنا مفہوم اچھی طرح ادا نہ کر سکے چنانچہ لغت میں یہ معنی بھی لکھے ہیں(- اس کاجواب اللہ تعالیٰ یہ دیتا ہے کہ دوسرے کا قول انسان دو طرح نقل ہے- ایک تو اس طرح کہ اس کا مطلب سمجھ کر اپنے الفاظ میں ادا کر دے- اور دوسرا طریق یہ ہے کہ اس کے الفاظ رٹ کر ادا کر دے- جیسے طوطا میاں مٹھو کہتا ہے- نقل انہی دو طریق سے ہو سکتی ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- تم جانتے ہو کہ جس شخص کی طرف تم یہ بات منسوب کرتے ہو- وہ اپنا مطلب عربی زبان میں پوری طرح اد نہیں کر سکتا- پس جب وہ مطلب ہی بیان نہیں کر سکتا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مضامین کس طرح سمجھاتا ہے کہ وہ عربی میں اس کو بیان کر دیتے ہیں- یہ جواب ہے آدھے حصے کا- دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ اس کے قول کو نقل کیا جاتا- مگر یہ کس طرح ہو سکتا تھا- وہ تو عبرانی میں کہتا تھا اور اس کی بات اگر دہرائی جاتی تو عبرانی میں ہوتی- مگر قرآن تو عبرانی یا یونانی میں نہیں جس میں توارت یا انجیل لکھی ہوئی ہیں بلکہ عربی میں ہے- پس جب نہ وہ شخص اپنا مطلب عربی میں ادا کر سکتا ہے نہ قرآن کسی دوسری زبان کی نقل کر سکتا ہے تو اس کی طرف یہ کتاب کس طرح منسوب کی جا سکتی ہے-
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس وقت تک تورات اور انجیل کا کوئی ترجمہ عربی زبان میں نہیں ہوا تھا- چنانچہ تاریخوں سے ثابت ہے کہ بعض صحابہؓ کو عبرانی اس لئے پڑھوائی گئی کہ وہ تورات و انجیل پڑھ سکیں- دوسرا ثبوت اس کا یہ ہے کہ مفسرین دنیا بھر کے علوم کا ذکر تفسیروں میں کرتے ہیں- مگر جب بائیبل کا حوالہ دیتے ہیں تو بالعموم غلط دیتے ہیں- جس کی وجہ یہی تھی کہ عربی میں بائیبل نہ تھی- وہ سن سنا کر لکھتے اس لئے غلط ہوتا-
تیسرا ثبوت یہ ہے کہ بخاری میں ورقہ بن نوفل کے متعلق لکھا ہے کہ کان یکتب الکتاب العبرانی۲۱۳~}~ وہ عبرانی میں تورات لکھا کرتے تھے- گویا اس وقت توریت اور انجیل عربی میں نہ تھی- پس یقیناً وہ غلام عبرانی یا یونانی میں انجیل پڑھتا تھا- اور عربی میں اس کا مفہوم بیان نہ کر سکتا تھا- اس طرح اس اعتراض کو رد کر دیا گیا-
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ جبیر نے کہا تھا کہ بل ھو یعلمنی جبیر آخر کار مسلمان ہو گیا تھا- عبداللہ بن ابی سرح نے مرتد ہونے پر اس کا راز کفار کو بتا دیا تھا- اور وہ اسے سخت تکالیف دیتے تھے- آخر فتح مکہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روپیہ دے کر اسے آزاد کروا دیا- اس سے جب پوچھا گیا تو اس نے کہا- میں نہیں سکھاتا بلکہ وہ مجھے سکھاتے تھے-
آٹھواں اعتراض
آٹھواں اعتراض یہ تھا کہ اس کے ساتھ شیطان کا تعلق ہے- اور اس کی طرف سے اسے کلام حاصل ہوتا ہے- اور گو کفار کا کوئی قول اس اعتراض کے متعلق نقل نہیں کیا گیا- مگر اس اعتراض کے اشارے ضرور پائے جاتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وما تنزلت بہ الشیطن ۲۱۴~}~شیطان اس کلام کو لیکر نہیں اترے- اسی طرح فرماتا ہے- وما ھو بقول شیطن رجیم ۲۱۵~}~یہ شیطان رجیم کا قول نہیں ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کا یہ بھی اعتراض تھا کہ اس پر شیطان اترتا ہے- افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس اعتراض کو اور پکا کر دیا ہے- اور کفار کے ہاتھ میں ایک ہتھیار دے دیا ہے- وہ اس طرح کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کفار مکہ کے سردار جمع ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ آپﷺ~ کے پاس ادنی درجہ کے لوگ آتے ہیں اور بڑے لوگ آپﷺ~ کی باتیں نہیں سنتے- اگر آپﷺ~ دین میں کچھ نرمی کر دیں تو ہم لوگ آپﷺ~ کے پاس آ کر بیٹھا کریں- اس طرح دوسرے لوگ بھی آپﷺ~ کے پاس آنے لگیں گے- اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آیا کہ اگر ایسا کر دیا جائے تو پھر بڑے بڑے لوگ مان لیں گے- )مجھے کیا ہی لطف آیا اس شخص کے اس فقرہ سے جس کا نام نولڈکے ہے- وہ لکھتا ہے- >معلوم ہوتا ہے- یہ روایت بنانے والے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کو اپنے جیسا ہی بیوقوف سمجھتے تھے<- غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ دین میں نرمی کرنے کا خیال آیا- اتنے میں آپﷺ~ نماز پڑھنے لگے اور سورہ نجم پڑھنی شروع کی- اس وقت شیطان نے افرئیتم اللت والعزی ومنوہ الثالثہ الاخری۲۱۶~}~کے بعد یہ کلمات آپﷺ~ کی زبان پر جاری کر دیئے کہ وتلک الغرانیق العلی- وان شفاعتھن لترتجی کیا تم نے لات اور عزیٰ اور منات کی حقیقت نہیں دیکھی- یہ بہت خوبصورت دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت کی بڑی امید ہے- چونکہ سورہ نجم کے آخر میں سجدہ آتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا- تو سب کفار نے بھی آپﷺ~ کے ساتھ سجدہ کر دیا- کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا کہ آپﷺ~ نے دین میں نرمی کر دی ہے- اور بتوں کو مان لیا ہے-
اس روایت کو اتنے طریقوں سے بیان کیا گیا ہے کہ ابن حجر جیسے آدمی کہتے ہیں کہ اس کی تاویل کی ضرورت ہے- گو تاریخی طور پر یہ روایت بالکل غلط ہے- اور میں ثابت کر سکتا ہوں کہ یہ محض جھوٹ ہے مگر اس وقت میں کسی تاویل میں نہیں پڑتا- میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن اس کے متعلق کیا کہتا ہے- اور کیا واقع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہوا؟
اس موقعہ پر میں ایک مسلمان بزرگ کا قول بھی بیان کرتا ہوں جو مجھے بے انتہا پسند ہے میں تو جب بھی یہ قول پڑھتا ہوں ان کیلئے دعا کرتاہوں- یہ بزرگ قاضی عیاض ہیں- وہ فرماتے ہیں- شیطان نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تو کوئی تصرف نہیں کیا البتہ بعض محدثین کے قلم سے شیطان نے یہ روایت لکھوا دی ہے- گویا اگر شیطان کا تسلط کسی پر کرانا ہی ہے تو کیوں نہ محدثین پر کرایا جائے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو درمیان میں کیوں لایا جائے-
بعض نادان کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم پڑھتے ہوئے یہ آیتیں بھی پڑھ دیں- اس پر جبریل نازل ہوا اور اس نے کہا- آپﷺ~ نے یہ کیا کیا- میں تو یہ آیتیں نہیں لایا تھا یہ تو شیطان نے جاری کی ہیں- یہ معلوم کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت فکر ہوا- خدا تعالیٰ نے اس فکر کو یہ کہہ کر دور کر دیا کہ وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطن فی امنیتہ فینسخ اللہ مایلقی الشیطن ثم یحکم اللہ ایتہ واللہ علیم حکیم ۲۱۷~}~فرمایا- تم سے پہلے بھی کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں بھیجا گیا کہ جب اس کے دل میں کوئی خواہش پیدا ہوئی ہو تو شیطان نے اس میں دخل نہ دے دیا ہو- پھر اللہ تعالیٰ شیطان کی بات کو مٹا دیتا ہے- اور جو اس کی اپنی طرف سے ہوتی ہے اسے قائم رکھتا ہے-
کہتے ہیں جب یہ آیت اللہ تعالیٰ نے نازل کی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی ہو گئی- تسلی کس طرح ہوئی اسی طرح جس طرح اس بڑھیا عورت کی ہو گئی تھی جس سے کسی نے پوچھا کیا تم یہ چاہتی ہو کہ تمارا کبڑا پن دور ہو جائے یا یہ کہ دوسری عورتیں بھی تمہاری طرح کبڑی ہو جائیں- اس نے کہا- مجھ پر تو دوسری عورتوں نے جس قدر ہنسی کرنی تھی کر لی ہے- اب باقی عورتیں بھی کبڑی ہو جائیں تا کہ میں بھی ان پر ہنسوں-
اس روایت کو درست قرار دینے والوں کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کس طرح تسلی ہوئی- اس طرح کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو کہہ دیا کہ تم پر ہی شیطان کا قبضہ نہیں ہوا سب نبیوں پر ہوتا چلا آیا ہے- یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم 2] [rtf کا فکر دور ہو گیا- کتنی نامعقول بات ہے- ان لوگوں نے کبھی اتنا بھی نہ سوچا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- واللہ علیم حکیم اللہ تعالیٰ جاننے والا اور حکمت والا ہے- کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ شیطان کا ہر نبی اور رسول پر قبضہ پا لینا بڑی حکمت کی بات ہے- اور پھر علیم کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے-
میں بیان کر رہا تھا کہ ایک بزرگ کے قول سے مجھے بڑا مزہ آتا ہے- ان کا نام قاضی عیاض ہے- وہ اس قسم کی روایتیں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان سے یہ تو پتہ لگ گیا کہ شیطان کا تصرف ہوا- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں بلکہ ان روایتوں کو نقل کرنے والوں کی قلموں پر ہوا ہے- یہ بہت ہی لطیف بات ہے-
قرآن کریم نے اس کا جو جواب دیا ہے- وہ اسی جگہ موجود ہے جہاں کہتے ہیں کہ شیطان نے آیتیں نازل کیں- یعنی تلک الغرانیق العلی- وان شفا عتھن لترتجی کے بعد کہتے ہیں کہ یہ آیت اتری- لکم الذکر ولہ الانثی تلک اذا قسمہ ضیزی ان ھی الا اسماء سمیتموھا انتم واباو کم ما انزل اللہ بھا من سلطان۲۱۸~}~ ]text [tagفرمایا- کیا تم اپنے لئے تو بیٹے قرار دیتے ہو- اور خدا کے لئے- لات` منات اور عزیٰ بیٹیاں- یہ کس قدر بھونڈی تقسیم ہے جو تم نے کی- یہ نام تم نے اپنے طور پر رکھ لئے ہیں- خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوئے- خدا نے تو ان بتوں کے لئے اتارا ہی کچھ نہیں-
کیا ان آیات کے بعد کوئی شخص ان فقروں کو درمیان میں شامل سمجھ سکتا ہے- پس یہ آیات ہی بتا رہی ہیں کہ ان میں وہ فقرے داخل نہیں ہو سکتے- آخر کفار عربی تو جانتے تھے-
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل آیتیں بھی اس حصہ کو رد کر رہی ہیں- فرمایا وما تنزلت بہ الشیطین وما ینبغی لھم