• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 16

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 16



نظامِ َنو


از
سیدناحضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِـیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

نظامِ َنوکی تعمیر
(فرمودہ ۲۷؍ دسمبر۱۹۴۲ء بر موقع جلسہ سالانہ)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
زنانہ جلسہ گاہ کے متعلق ہدایت
مجھے ابھی اِس اعلان کے کرتے ہوئے (جو ایک گُمشدہ لڑکے کے متعلق تھا) یہ خیال پیدا ہؤا کہ گو اِس
دفعہ ڈبل مائکرو فون لگا دیا گیا ہے مگر پھر بھی بچوں کے متعلق اعلان کرتے ہوئے یہ شُبہ رہتا ہے کہ اعلان کی آواز زنانہ جلسہ گاہ میں پہنچی ہے یا نہیں۔ میں اِس بارہ میںایک ترکیب بتا دیتا ہوں جس سے یہ مشکل حل ہو سکتی ہے۔ منتظمین کو چاہئے کہ آئندہ عورتوں کے جلسہ گاہ میں ایک ہلکا سا جھنڈا لگا دیا کریں تا کہ جب اِس قسم کا کوئی اعلان کیا جائے اور یہ معلوم کرنا ہو کہ اس کی آواز انہیں پہنچی ہے یا نہیں تو وہ سوال کرنے پر اپنے جھنڈے کو اونچا کر دیں اِس طرح ہمیں علم ہو جائے گا کہ آواز اُن تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ لائوڈ سپیکر میںکوئی نقص واقع ہو جاتا ہے اور آواز عورتوں تک نہیںپہنچتی اِس بارہ میں بھی منتظمین کو اُن سے بار بار پوچھتے رہنا چاہئے کہ آلہ خراب تو نہیں ہو گیا؟ اور اگر بعض دفعہ منتظمین نہ پوچھ سکیں تو ایسی صورت میں بھی وہ اپنے جھنڈے کے ذریعہ اطلاع دے سکتی ہیں۔
ایک افسوس ناک واقعہ
اس کے بعد میں ایک افسوس ناک واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کی کَل ہی مجھے اطلاع ملی اور جس واقعہ کا ذکر دو دِنوں
سے مختلف گروہوں میںہو رہا تھا وہ واقعہ یہ ہے کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ دارالبرکات کے ناظم صاحب نے کسی مہمان کو مارا ہے۔ رات کو مجھے اس واقعہ کی اطلاع ملی اور میں نے اُسی وقت میاں بشیر احمد صاحب کو اِس غرض کے لئے مقرر کیا کہ وہ اِس امر کی تحقیق کر کے مجھے رپورٹ کریں۔ ابھی جلسہ گاہ کو آتے وقت مجھے ان کی رپورٹ ملی ہے۔ عام طور پر یہ واقعہ اسی رنگ میںمشہور ہو رہا تھا بلکہ مجھے وثوق کے ساتھ یہ بتایا گیا تھا کہ وہ مہمان کرتو ضلع شیخوپورہ کے ہیں مگر رپورٹ سے معلوم ہؤا کہ یہ بات بالکل غلط ہے وہ جسے مارا گیا ہے قادیان کا ہی ایک لڑکا ہے۔ ابھی میں اِس واقعہ کی تفصیل بھی بیان نہیں کر سکتا کیونکہ اس لڑکے کا بیان ابھی تک نہیں لیا گیا بہرحال قادیان کاایک لڑکا تھا جو کسی مہمان کے لئے کھانا لینے آیا یا اپنے گھر والوں کے لئے کھانا لینے آیا کیونکہ بعض کمزور لوگ جلسہ سالانہ کے دنوں میں اس رنگ میں کچھ فائدہ اُٹھا لیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اُس نے دوسرے لوگوں کی صفوں کو ِچیر کر اپنے آپ کو آگے کرنا چاہا جب بعض نے اُسے روکا اور صبر کی تلقین کی کہ اپنی باری پر کھانا مل جائے گا تو اُس نے گالیاں دیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ گندی گالیاں تھیں۔ اِس پر ناظم صاحب نے اسے چند تھپڑ لگا دئیے تو وہ کہتے ہیں مجھے بحیثیت ناظم ہونے کے اور بحیثیت خدام الاحمدیہ کا زعیم ہونے کے اُس کو تھپڑ مارنے کا حق تھا اور میرے لئے ضروری تھا کہ اُس کے اخلاقی جُرم کی اسے سزا دیتا ان کے نزدیک اِس وجہ سے یہ امر نظر انداز کرنے کے قابل ہے۔ اس امر کے متعلق تو بعد میں غور کیا جائے گا کہ خدام الاحمدیہ کے قواعد اِس قسم کی فوری سزا کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں لیکن اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ ناظم اِس بات کا ذمہ دار ہوتا ہے کہ وہ باہر کے لوگوں کے سامنے قادیان کے لوگوں کا اچھا نمونہ پیش کرے اگر واقعہ میں اس لڑکے نے کوئی فحش گالی دی تھی تو ناظم کی حیثیت سے اُن کا قادیان کے کسی لڑکے کو معمولی سزا دینا جُرم نہیں ہو سکتا پس وہ بات جو لوگوں میں پھیل گئی تھی بالکل غلط ہے۔ بہرحال اصل واقعہ کی تحقیقات تو بعد میں ہو گی اور جو مناسب کارروائی ہو گی کی جائے گی میںاِس وقت اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایسے معاملات میں باہر کے دوستوں کو بھی احتیاط کرنی چاہئے اورا نہیں معلوم ہونا چاہئے کہ قادیان میں ہمارا نظام خداتعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ پختہ ہے۔ یہاںخدام الاحمدیہ جہاں تک حکومت ان کو اجازت دیتی ہے نوجوانوں کی آزادی پر تصرّف کرتے ہیں، جُرم سرزد ہونے پر انہیں سزائیںد یتے ہیں، انہیں معمولی سزا بھی دے لیتے ہیں، پہرے پر مقرر کرتے ہیں، بوجھ اُٹھواتے ہیں اور اسی طرح کی کئی اور اصلاحی تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ باہر سے آنے والوں کو یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے اورجب قادیان کے کسی لڑکے کو کسی جُرم پر افسر کی طر ف سے سزا دی جاتی ہے تو وہ خیال کر لیتے ہیں کہ شاید یہ سلوک کسی مہمان سے کیا جا رہا ہے۔ جب بیرونی جماعتوں میں بھی خدام الاحمدیہ منظم ہو جائیں گے تو باہر بھی ہر حلقہ کے قائد خدام کو اخلاقی جُرم سرزد ہونے پر سزا دے لیںگے اور اُس وقت انہیں قادیان میں اِس قسم کی سزائوں کا ملنا کوئی عجیب بات نظر نہیں آئے گی۔ اِس وقت انہیں واقعہ میں یہ باتیںعجیب معلوم ہوتی ہیں شروع شروع میں تو لوگ زیادہ شور مچاتے تھے مگر میںدیکھتا ہوں اب خداتعالیٰ کے فضل سے وہ سمجھ گئے ہیںچنانچہ بچے اگر غلطی کریں تو بچوں کا نظام خود ہی اس غلطی کی اصلاح کر دیتا ہے اور ان کے ماں باپ شکایت نہیں کرتے۔
کتاب ’’مرکز احمدیت‘‘
میں تقریر شروع کرنے سے پہلے بعض کتب کے متعلق بھی اعلان کرنا چاہتا ہوں۔ ایک کتاب ’’مرکزاحمدیت‘‘
شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے لکھی ہے میں ابھی اسے پڑھ نہیں سکا۔صِرف ایک سرسری نظر میں نے اس کے مضامین پر ڈالی ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اِس میں بہت سی مفید معلومات قادیان اور سلسلہ کے متعلق جمع کر دی گئی ہیں قیمت بھی میں نے اس کی نہیں دیکھی مگر اِس تنگی کے زمانہ میں انہوں نے اچھے موٹے کاغذ پر خوشخط کتاب چھپوائی ہے جو دوست باہر کی دنیا کو قادیان اور سلسلہ کے حالات سے روشناس کرانا چاہیں اور ان کی یہ بھی خواہش ہوکہ لمبے مضامین نہ ہوں بلکہ ایک مختصر کتاب میں جماعت کے کام اور مرکز کی خصوصیات کا ذکر ہو، تاکہ اسے خرید کر لوگوں کو اس کے مطالعہ کی تحریک کی جائے تو ایسے دوستوں کے لئے یہ کتاب بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
تحریک جدید کی شائع کردہ کتب
سلسلہ کی کتب جو تحریک جدید کی طرف سے شائع کی گئی ہیں(سوائے تفسیر کبیر کے کہ وہ ختم ہو چکی
ہے گو بعض لوگ اپنی طرف سے فروخت کر رہے ہیں) وہ بھی جن دوستوں کو توفیق ہو خریدنی چاہئیں کیونکہ اس رنگ میں بھی وہ سلسلہ اور اسلام کی مدد کر سکتے ہیں۔ تفسیرِ کبیر ِجلد سوم کو میں نے مستثنیٰ کیا ہے کیونکہ اب وہ تحریک کے پاس نہیں۔
تفسیر کبیر کی کم یابی
ہاں مجھے معلوم ہؤا ہے کہ وہی تفسیر کبیر جس کی پانچ اور چھ روپے قیمت رکھنے پر دوست جھگڑا کِیا کرتے تھے اب دس دس، چودہ چودہ،
پندرہ پندرہ روپے میں بِک رہی ہے بلکہ بعض لوگ جن کے پاس اِس کتاب کے اب صرف دو چار نسخے باقی رہ گئے ہیں کہتے ہیں کہ اب ہم آئندہ یہ کتاب پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ بلکہ سَوسَو روپیہ پر فروخت کریںگے اور لینے والے اِس قیمت پر بھی لے لیںگے۔ ابھی میرے پاس بعض دوست آئے تھے انہوں نے تفسیر کبیر کا ذکر کیا میں نے کہا میرے پاس تو نہیں لیکن فلاں شخص کے پاس ہے اور میں نے سنا ہے کہ وہ دس روپے میں ایک جِلد دیتا ہے کہنے لگے دس روپوں کاکیا ہے ہم دے دیںگے۔ اگر دوست وقت پر کتاب خرید لیتے تو اِس پریشانی سے بچ جاتے مگر اب روپے خرچ کرنے کے باوجود سب کو یہ کتاب نہیں مل سکتی پس آئندہ جِلد کے بارہ میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔
خدام الاحمدیہ کی طرف سے شائع کردہ لٹریچر
خدا م الاحمدیہ نے بھی اِس دفعہ کچھ لڑیچر خدام کے لئے چھپوایا ہے اور گو
وہ خدام کے لئے ہے لیکن بڑی عمر کے لوگوں کے بھی کا م آ سکتا ہے دوستوں کو چاہئے کہ اس لٹریچر کو بھی پڑھیں اور اس سے فائدہ اُٹھائیں۔
رسالہ ’’فرقان‘‘
رسالہ ’’فرقان‘‘ پیغامیوں کے لئے جاری کیا گیا ہے اور اِس وقت تک اِس کے جتنے پرچے شائع ہوئے ہیں سوائے ایک کے جو اپنے معیار سے
کم تھا اچھے اور مفید مضامین پر مشتمل رہے ہیں اِس کی خریداری کی طرف بھی مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں مگر صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اِس رنگ میںکہ رسالہ پڑھا او رپھر کسی پیغامی کو دے دیا میری تجویز یہ ہے کہ دو تین سال تک مسلسل پیغامیوں کے مقابلہ میں یہ رسالہ شائع ہوتا رہے۔ اِس کی قیمت پہلے ایک روپیہ تھی مگر اب ڈیڑھ روپیہ کر دی گئی ہے اوریہ قیمت بھی بہت کم ہے آ جکل گرانی کا زمانہ ہے جس میں اتنی قلیل قیمت پرکوئی رسالہ نہیں چل سکتا مگر چونکہ اِس کا سب کام آنریری ہوتا ہے ایڈیٹر اور منیجر وغیرہ آنریری طور پر کام کر رہے ہیں اس لئے جس قدر آمد ہوتی ہے وہ رسالہ پر ہی خرچ کر دی جاتی ہے اگر صاحبِ توفیق دوست اس بارہ میں رسالہ کی مدد کریں تو یقینا یہ امر ثواب کا موجب ہے اِس ذریعہ سے اگر غیر مبائع دوستوں کا کچھ طبقہ جس میں بعض وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں سلسلہ کی خدمت کی ہے واپس آ جائے اور پھر بیعت میںشامل ہو جائے تو یہ امر ہمارے لئے بہت بڑی خوشی کا موجب ہو گا۔
تقریر سننے کے متعلق ہدایت
آج جو مضمون میں شروع کرنے لگا ہوںاِس کے متعلق میرا ارادہ تو یہی ہے کہ جلدی ختم کر دوں مگر میری آواز
کسی قد ربیٹھی ہوئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ رات کو مجھے شدید زکام ہو کر نزلہ سینہ پرگِرتا رہا اور آواز بیٹھ گئی اس لئے ممکن ہے میری آواز دوستوں تک صحیح طور پر نہ پہنچ سکے گزشتہ تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ تقریر شروع ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے آواز صاف ہونی شروع ہو جاتی ہے اور تمام دوستوں کو پوری طرح پہنچ جاتی ہے لیکن پھر بھی چونکہ مجھے رات سے یہ تکلیف ہے اس لئے گو اللہ تعالیٰ سے میں یہی امید کرتا ہوں کہ اس کے فضل سے میں اپنے فرض کو پوری طرح ادا کر سکوں گا تا ہم اگر دوستوں کو آواز نہ پہنچے تو ممکن ہے اِس میںآلہ نشرالصوت کا قصور نہ ہو بلکہ میری آواز کا ہی قصور ہو اِس لئے دوستوں کو چاہئے جب انہیں آواز نہ پہنچے تو مجھے بتادیں میں کوشش کروں گا کہ آواز اپنی پوری طاقت سے دوستوں تک پہنچاتا رہوں۔
(الفضل ۲۰؍ جنوری ۱۹۴۳ء)
اس کے بعد حضور نے اصل مضمون ’’نظامِ َنو‘‘ پر تقریر فرمائی۔ فرمایا:-
مضمون کی اہمیت
میراآج کا مضمون وہ ہے جس کے متعلق میںایک گزشتہ خطبہ جمعہ میں(جو الفضل ۱۰؍دسمبر۱۹۴۲ء میں شائع ہو چکا ہے)وعدہ کرچکا
ہوں۔ میںنے کہاتھا کہ میں تحریک جدید کا ایک نیا اوراہم پہلو جماعت کے سامنے اگلے جمعہ کو رکھوںگا مگر جب اگلا جمعہ آیا تومیرا ارادہ بدل گیا اور میں نے اس مضمون کی اہمیت پر غور کرتے ہوئے یہی مناسب سمجھا کہ اسے بجائے کسی خطبہ میں بیان کرنے کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جبکہ تمام دوست جمع ہوں گے بیان کردوں۔ چنانچہ میںنے اُس وقت اِس مضمون کا بیان کرنا ملتوی کردیااور اپنے اگلے خطبہ میں(جو الفضل ۱۶؍دسمبر۱۹۴۲ء میں شائع ہو چکا ہے) اعلان کردیا کہ مَیں سرِدست اس مضمون کو ملتوی کرتا ہوں اور اس کی بجائے بعض اور امور کی طرف جماعت کو توجّہ دلادیتا ہوں۔ بعد میں میری رائے اِس طرف سے بھی بدلی اورمیں نے چاہا کہ اس مضمون کو ابھی اور ملتوی کردوں اور اِس کی بجائے ’’سیرِروحانی‘‘ کے کچھ اور حصّے بیان کردوں مگر منشائے الٰہی چونکہ یہی تھا کہ اس مضمون کا جس قدر جلد ہوسکے دُنیا میں اعلان کردیا جائے اس لئے ایسا اِتفاق ہوگیا کہ میں متواتر بیمار ہوتا چلا گیا اور سیرِ روحانی والے مضمون کے واسطے حوالے نکالنے کے لئے جو وقت چاہئے تھا وہ مجھے نہ ملا۔ آخر میںنے سمجھا کہ ۲۰؍تاریخ سے اس غرض کے لئے وقت نکالنا شروع کردوں گا مگر ان دنوں بہت سا تفسیر کا کام کرنا پڑا۔ یہ امر میں بتاچکا ہوں کہ آجکل میں تفسیر لکھایا کرتاہوں۔ پس ان دنوں ایک دفعہ مَیں تفسیر لکھاتا اور دوسری دفعہ صاف شُدہ مضمون کودیکھتا اور اس طرح کافی وقت اس پر خرچ ہوجاتا۔ پھرآجکل ڈاک بھی میں نے خود ہی پڑھنی شروع کردی ہے اور یہ کام بھی بہت زیادہ ہوتاہے(ضمنی طور پر میںیہ بتا دینا چاہتاہوں کہ پہلے ڈاک میں خود نہیں پڑھاکرتا تھا بلکہ تفسیر کے کام کی وجہ سے دفتر والے خطوط کا خلا صہ میرے سامنے پیش کردیاکرتے تھے مگر پچھلے چار پانچ ماہ سے میں خود تمام ڈاک پڑھتا ہوں جن کے جواب ضروری ہوں اُن کے جواب خطوط کے حاشیہ میں نوٹ کردیاکرتاہوں اورجن خطوط کے جوابات دفتروالوں کو پہلے سے بتائے جا چکے ہیں اُن خطوط کے وہ خود ہی جواب دے دیا کرتے ہیں۔ بہر حال اَب ڈاک کا کام بھی جاری ہے اوریہ کام بھی بہت بڑا ہوتاہے) اِس وجہ سے مجھے جلسہ سالانہ کی تقریر کے لئے نوٹ لکھنے اور حوالہ جات نکالنے کی باِلکل فُرصت نہ ملی۔ جب۲۰؍تاریخ آئی تومیں نے اپنے دل میں کہاکہ اب کَل صبح سے کام شروع کروں گا۔ کچھ ڈاک بھی باقی تھی، ادھر تحریک جدید والوں نے مجھے کہلا بھیجا کہ دوستوں کے وعدے نہیں پہنچے ڈاک بھجوائی جائے تاکہ ان کے وعدے نوٹ کر لئے جائیں چنانچہ میں وہ ڈاک دیکھنے لگ گیا۔ اِسی دوران میں یکدم مجھے ایسی سردی لگی کہ شدّتِ سردی کی وجہ سے مجھے کپکپی شروع ہوگئی اوردانت بجنے لگ گئے۔ اُس وقت مجھے پیشاب کی حاجت محسوس ہوتی تھی اور میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ لوٹا رکھ دومگر میری طبیعت اُس وقت ایسی خراب ہوگئی کہ میں کوئی منٹ بھر یہ الفاظ تک اپنی زبان سے نہ نکال سکا۔ اس کے بعد بستر میں مَیں لیٹ گیا اور لحاف کے اندر ربڑکی دو گرم بوتلیں رکھیں مگر کسی طرح سردی کم ہونے میں نہ آئی۔ جب صبح ہوئی اور میں نے تھرمامیٹر لگا کر دیکھا تو درجہء حرارت ساڑھے ننانوے تھا۔ دن بھر آرام رہا مگر جب عصر کا وقت آیا تو مجھے اپنی طبیعت خراب معلوم ہوئی اُس وقت میں نے پھر تھرمامیٹر لگاکر دیکھا تومعلوم ہؤا کہ تبخیر سی ہے اور100 یا 100.5تک حرارت ہے۔ رات کو درجہء حرارت 103تک بڑھ گیا۔ اس وجہ سے میں اُن نوٹوں کو تیارنہ کرسکا جن کا تیار کرنا سیر روحانی والے مضمون کے لئے ضروری تھا۔ آخرمَیں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت یہی معلوم ہوتی ہے کہ میں اِس مضمون کو جو تحریک جدید کے متعلق ہے ابھی بیان کردوں چنانچہ میں اس مضمون کے نوٹ لکھنے کے بعد اِسی نتیجہ پر پہنچا کہ وقت آگیا تھا کہ دُنیا کے سامنے اِس عظیم الشان پیغام کو ظاہر کردیاجاتا۔
تحریک جدید کی اہمیّت اجتماعی لحاظ سے
وہ مضمون جسے میں بیان کرنا چاہتا تھا وہ یہ تھا کہ تحریک جدید کی خصوصیات
ضمنی طور پر اورمنفردانہ طور پر اَب تک لوگوں کے سامنے بارہا لائی گئی ہیں مگر تحریک جدید کی اہمیت اجتماعی طورپر جماعت کے سامنے نہیں رکھی گئی۔ یا یوں کہہ لو کہ اِس کی حقیقت کو میں خود بھی آہستہ آہستہ سمجھا۔ جب میں نے اِس کے متعلق پہلا خطبہ پڑھا تواُس میں تحریک جدید کے متعلق جس قدر باتیں میں نے بیان کیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطورِ القاء میرے دل میں ڈالی گئی تھیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ میرے دل میں ڈالتا چلا گیا میں ان باتوں کوبیان کرتاچلا گیا۔ پس حق یہ ہے کہ تحریک جدید کی کئی اغراض کو پہلے خودمَیں بھی نہیں سمجھا اوراس کے کئی فوائد او رحکمتیںمیری نظر سے اوجھل رہیں۔ اِسی وجہ سے تحریک جدید کی اجتماعی لحاظ سے اہمیت اب تک جماعت کے سامنے نہیں رکھی گئی یا ممکن ہے خداتعالیٰ کا منشاء یہ ہو کہ جب اس مضمون کی ضرورت ہو تب اِس پرسے پردہ ہٹایا جائے۔ بہر حال اس تحریک کا ایک عالمگیر اثر بھی ہے اور ضروری ہے کہ اِس کو تفصیل سے بیان کیاجائے کیونکہ اب تک اس مضمون کوبیان نہیںکیاگیا۔
خلاصۂ مضمون
میںجس مضمون کو اَب بیان کرنے لگا ہوں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تحریک جدید جس کا اِجر ا میری طرف سے ہؤا یا صحیح لفظوں میں یوں کہہ لو کہ
تحریک جدید جس کا اجرا منشائے الٰہی کے ماتحت ہؤا اس میںاللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشّان اسلامی مقصد کو پورا کرنے اورانسانیت کی جڑوں کو مضبوط کرنے کا بیج رکھاگیا ہے۔ اب مَیں دوستوں کو توجّہ دلاتاہوں کہ اِس فقرہ کے بعد جو مضمون آئے گا وہ بظاہر اس سے بے تعلق ہوگا اور بظاہر یہ جملہ کہہ کر میں تحریک جدید کی طرف آتا ہؤا نظر نہیںآئوں گا لیکن میں دوستوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ صبر سے کام لیں گے اور توجّہ سے تمام مضمون کو سُنیں گے تو تحریک جدید کا جو ذکر میں نے کیا ہے اِس پر اُنہیں یہ تمام مضمون چسپاں ہوتا دکھائی دے گا۔
تحریک جدید کا ماحول
دُنیامیں جس قدر اشیاء نظر آتی ہیں وہ سب اپنے اپنے ماحول میں اچھی لگتی ہیں۔ماحول سے اگر کسی چیز کو نکال لیا جائے تواُس
کا سارا حُسن اوراُس کی ساری خوبصورتی ضائع ہوجاتی ہے پس جب تک میںاِس تحریک کا ماحول نہ بیان کرلوں اُس وقت تک اصل حقیقت سے دوست آگاہ نہیںہوسکتے۔ اِس ماحول کا بیان کرنا خصوصاً اِس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ ہماری جماعت میں سے اکثر زمیندار ہیں اور وہ عموماً عِلمی باتوں سے ناواقف ہوتے ہیں اِس لئے ضروری ہے کہ میں پہلے دنیا کی وہ حالت بیان کروں جس نے ہمیں اِس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور کیا اور بتائوں کہ دُنیا میں اِس وقت کیاکیا تغیرات ہورہے ہیں۔ان تغیرات کا مستقبل پر کیا اثر پڑنے والا ہے اور ہماری جماعت اور دوسری مسلمان جماعتوں پر اُن کا کیا اثر ہے اور یہ کہ اگروہ اثرات بُرے ہیں تو ہمیں اُن سے کس طرح بچنا چاہئے اور اگر اچھے ہیں تو کس حد تک ان کو قبول کرنا مناسب ہے۔
موجودہ زمانہ کے اُمر اء اور غرباء کے
آپس کے امتیازات اور ان کا نتیجہ
سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دُنیا میں ادنیٰ واعلیٰ، محروم و بانصیب اور حاجتمند اور غنی میں جو امتیاز نظر آ رہا ہے اس کی وجہ سے دو تغیرپیدا ہورہے ہیں۔ ایک تغیر تو یہ پیدا
ہو رہا ہے کہ یہ امتیاز زیادہ نمایاں ہوتا جا رہا ہے اور دوسرا تغیر یہ پیدا ہو رہا ہے کہ اس تغیر کا احساس دُنیا میں بڑھتا جا رہا ہے۔ پہلے بھی امیر ہوتے تھے مگر پہلے امیروں اور آجکل کے امیروں میں بہت بڑا فرق ہے۔ پہلے زمانہ کے جو امراء ہوتے تھے اور جن کی اولاد کا اب بھی کچھ بقیّہ پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے اُن کی یہ حالت تھی کہ ان کے پاس کثرت سے روپیہ اور غلّہ اور دوسری جِنسیں آتی تھیں اوروہ بھی کثرت کے ساتھ ان اشیاء کو لوگوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔ پنجاب کے ایک رئیس ایک د فعہ لاہورمیں بیمار ہوئے میں بھی اتفاق سے کسی کام کے لئے لاہور جا نکلا وہاں مجھے معلوم ہؤا کہ ایک ایک وقت میں بعض دفعہ ان کے علاقہ سے تین تین چارچارسَو آدمی اُن کی تیما ر داری کے لئے آتے ہیں اور آنے والوں میں سے کسی کے پاس دُنبہ ہوتاہے، کسی کے پاس چاول ہوتے ہیں، کسی کے پاس گُڑ ہوتا ہے، کسی کے پاس کوئی چیز ہوتی ہے محض اِس لئے کہ سردار صاحب بیمار ہیں خالی ہاتھ کس طرح جائیں۔ انہوں نے بھی دس پندرہ باورچی رکھے ہوتے تھے جب جانور وغیرہ آتے تو وہ ان کو ذبح کروادیتے اور دیگیں پکوا کر لوگوں کو ِکھلا دیتے۔ اس طرح ان کی بیماری کی وجہ سے اچھا خاصا مجمع دوتین مہینے تک لگا رہا اور برابر وہ ان سینکڑوںلوگوں کو کھا نا ِکھلاتے رہے۔
گزشتہ زمانہ کے مقابلہ میں
موجودہ زمانہ کے اُمراء اور
اُن کے ملازمین کی حالت
پس بے شک پہلے زمانہ میں بھی مالدار ہوتے تھے مگر اُن کا مال اِس رنگ میں تقسیم ہوتا تھا کہ لوگوں کو بُرا نہیںلگتا تھا۔ پھر اُس زمانہ میں نوکر کا مفہوم بالکل اور تھا مگر آج کچھ اور ہے۔ اُس زمانہ میں نوکر خاندان کا جُزو سمجھے جاتے
تھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض قسم کے امتیازات اُس وقت بھی پائے جاتے تھے مثلاً نوکر سے شادی کرنایااُسے لڑکی دینا پسند نہیں کیا جاتا تھامگر پھر بھی وہ اِس رنگ میں پاس رہتے تھے کہ مثلاً مالک بھی فرش پر بیٹھا ہؤا ہے اور اُس کا نوکر بھی ساتھ ہی بیٹھا ہؤا ہے یا مالکہ بیٹھی ہے تو اُس کے ساتھ اُس کی لونڈی بھی بیٹھی ہے مگر اب یہ ہوتاہے کہ مالک تو کرسی پر بیٹھا ہؤا ہوتاہے اور نوکر ہاتھ باندھے سامنے کھڑا ہوتا ہے وہ چاہے تھک جائے اُس کی مجال نہیں ہوتی کہ آقا کے سامنے بیٹھ جائے۔ اِسی طرح سواریوں کو لے لو پہلے ان میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہو تا تھا۔ یہ توہوجاتاتھا کہ ایک کا گھوڑا زیادہ قیمت کا ہو گیا اور دوسرے کا کم قیمت کا مگر آجکل تھرڈ کے مقابلہ میں فسٹ اور سیکنڈ کلاس کا جو فرق ہے وہ بہت زیادہ نمایا ں ہے۔ اسی طرح مکانوں کی ساخت میں اتنا فرق پیدا ہوگیا ہے کہ غرباء کے مکانوں اور اُمراء کے مکانوں میں زمین وآسمان کا فرق نظر آتاہے۔ فرنیچرکی اتنی قسمیں نکل آئی ہیں کہ کوئی غریب ان کو خرید ہی نہیں سکتا۔ جب تک اُمراء قالین بچھاتے رہے غرباء اس کے مقابلہ میں کوئی سستا سا قالین یا کپڑا ہی بچھا لیتے مگر اب فرنیچر کی اتنی قسمیں ہوگئی ہیں کہ ادنیٰ سے ادنیٰ فرنیچر بھی غریب آدمی خرید نہیں سکتا۔ پہلے تو امیرلوگوں نے اگر قالین بنائے تو کشمیریوں نے گبّھا ۱ ؎ بنالیا۔ مگر اب کَوچ اور ُکرسیوں اور میزوں وغیر ہ میں اُمراء کی نقل کرنا غرباء کی طاقتِ برداشت سے بالکل باہر ہے۔ غرض بڑوں اور چھوٹو ں میں یہ امتیاز اِس قدر ترقی کرگیا ہے کہ اب یہ امتیاز آنکھوں میں ُچبھنے لگ گیا ہے۔
غربت وامارت کے متعلق پُرانے نظریہ
کے مقابلہ پر نیا نقطہء نگاہ اور اس کا نتیجہ
پھر ایک یہ بھی فرق ہے کہ اب احساسات بھی تیز ہوگئے ہیں۔ پہلے زمانہ میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ سب دولت اللہ میاں کی ہے۔ اگرکوئی ُبھوکا ہے تو اس
لئے کہ اللہ تعالی نے اسے ُبھوکا رکھا اور اگرکسی کو روٹی ملتی ہے تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو روٹی دیتا ہے۔ مگر اب تعلیم اور فلسفہ کے عام ہوجانے کی وجہ سے یہ خیال کیا جاتاہے کہ اگر غریب ُبھوکے ہیں تو اس لئے نہیں کہ اللہ نے انہیں ُبھوکا رکھا ہؤا ہے بلکہ اس لئے کہ اُمراء نے ان کی دولت ُلوٹ لی ہے اور اگر امیر آرام میں ہیں تو اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو آرام میں رکھا ہؤا ہے بلکہ اس لئے کہ انہوں نے غریبوں کو لُوٹ لیاہے۔ پس آج نقطہء نگاہ بدل گیاہے اور اس نقطہء نگاہ کے بدلنے کی وجہ سے طبائع میں احساس اور اس کے نتیجہ میں اشتعال بہت بڑھ گیا ہے۔ پہلا شخص صبر سے کام لیتا تھا اور اگر اللہ تعالیٰ سے اُسے محبت ہوتی تھی تو جب اُسے فاقہ آتا تب بھی سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتا اور جب پلائو کھاتا تب بھی سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتا کیونکہ وہ سمجھتا تھا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی شخص بے ایمان ہوتا تب بھی خیال کرتا تھا کہ میں خدا تک تو نہیں پہنچ سکتا خاموش ہی رہوں مگر اب وہ ساراالزام جو پہلے خداکو دیا جاتاتھا بندوں کو دیا جاتا ہے اور کہا جاتاہے کہ امیر اور طاقتور لوگ یہ چاہتے ہیں کہ غریبوں کو ماریں پیٹیں اور اُن کا گلا گھونٹیں۔ پس نقطہء نگاہ کے بدلنے سے احساس بہت زیادہ تیز ہوگئے ہیں۔
مشینری کی ایجاد سے امارت
و غربت کے امتیاز میں زیادتی
یوں تو یہ امتیاز ہمیشہ سے چلا آتا ہے اور شایداگر اس کا سلسلہ چلایا جائے تو حضرت آدم علیہ السلام کے قریب زمانہ تک پہنچ جائے مگر بظاہر یہ خیال کیاجاتا تھا کہ ۔ُجوں ُجوںتمدّن ترقی کرے گایہ امتیاز مٹتا چلاجائے
گا چنانچہ اوّل اوّل جب مشینیں نکلی تھیں تو لو گوں نے بڑی بڑی بغاوتیں کی تھیں۔ اُمراء کہتے تھے اِس طرح غرباء کی حالت سُدھر جائے گی اور زیادہ لوگوں کو کام ملنے لگ جائے گا اور غرباء کہتے تھے ایک مشین دس مزدوروں کاکام کرے گی تو مزدور بیکار ہوجائیں گے۔ اب واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ خواہ زیادہ لوگوں کو کام ملا ہویا نہ ملا ہومگر مشینری کی ایجاد نے غریب اور امیر میں امتیاز کو بہت بڑھادیا ہے۔
غرباء کی حالت کو سُدھارنے کی
کوششیں اور اُن میں ناکامی کی وجہ
اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض اصلاحیں بھی ہوئیں کوئی نیک دل فلسفی اُٹھا اور اُس نے غرباء کی بہتری کے لئے کوئی تدبیر پیدا کردی، کوئی نیک بادشاہ اُٹھا، یاکوئی نیک دل تاجر کھڑا ہؤا
اور اُس نے حکومت کے کسی شعبہ میںیا کارخانوں میں اصلاح کردی مگر دُنیا کی اصلاح جس پر تمام لوگوں کے امن کا دارومدار تھا بہ حیثیتِ مجموعی نہ ہوئی اور عوام کی تکلیفیںبدستور قائم رہیں۔
چنانچہ اب بھی اکثر یہ نظارہ نظر آتاہے کہ ایک شخص کے سامنے سے کیکوں کے ٹکڑے اُٹھا کر کتّوں کے آگے ڈالے جاتے ہیں اور دوسرے شخص کے بچے سُوکھی روٹی کے لئے بِلکتے ہوئے سوجاتے ہیں۔ یہ مبالغہ نہیں ہر روز دُنیا میں کئی ہزار بلکہ کئی لاکھ ماں باپ ایسے ہیں جو اپنے ّبچوں کو ُبھوکا سُلاتے ہیں اُمراء اگر چاہیں بھی تو پھر بھی وہ اُن کی مدد نہیںکرسکتے۔ آخر ایک امیر کو کیا پتہ کہ ہمالیہ پہاڑ کے دامن میں فلاں جھونپڑی کے اندر ایک غریب عورت کا بچّہ بھوک سے تڑپ تڑپ کر مررہا ہے۔ دِلّی یالاہور کے اُمراء کوکیا عِلم کہ دُنیا کے دُور اُفتادہ علاقوں میں غرباء پرکیا گذررہی ہے اور وہ کیسے کیسے مشکلات سے دوچار ہورہے ہیں۔ اوّل تو اُن کے دلوں میں غرباء کی مدد کی خواہش ہی پیدا نہیں ہوتی اور اگر خواہش پیدا ہو تو اُن کے پاس ایسے سامان نہیں ہیں جن سے کام لے کر وہ تمام دُنیا کے غرباء کی تکالیف کو دُور کرسکیں۔ انہیں کیا پتہ کہ غرباء کہا ں کہاں ہیں اور ان کی کیا کیا ضرورتیں ہیں۔
اُمراء کے مقابلہ پر غرباء
کی ناقابلِ برداشت حالت
امیر لوگ بیمار ہوتے ہیں تو بعض دفعہ ڈاکٹر انہیں پچّاس پچّاس روپیہ کی پیٹنٹ دوائیں بتا کر چَلا جاتا ہے مگر اُن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ بازار سے چھ سات شیشیاں منگاکر اُن میں سے کسی ایک کو کھولتے ہیں اور ذراسا چکھ
کر کہتے ہیں یہ دوائیں ٹھیک نہیں کوئی اور ڈاکٹر بلائو۔ چنانچہ ایک اَور ڈاکٹر آتااور وہ بھی تیس چالیس روپیہ کی کوئی اَور پیٹنٹ دوائیں لکھ کر چلا جاتا ہے۔ غرض معمولی معمولی زکاموں اور نزلوں پر وہ دودو، چار چار سَو روپیہ کی دوائیں خرچ کردیتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں ایک غریب عورت کے بچّے کو نمونیا ہو جاتا ہے اور طبیب اسے مَکو کا عرق یالسوڑیوں کا جوشاندہ بتاتا ہے اور وہ لسوڑیوں کا جوشاندہ تیار کرنے کے لئے سارے محلہ میں دھیلامانگنے کے لئے پھرتی ہے اور کوئی شخص اسے دھیلا تک نہیں دیتا۔ آخر ماںکی مامتا توایک غریب عورت کے دل میں بھی ویسی ہی ہوتی ہے جیسے امیر عورت کے دل میں مگر وہاں یہ حالت ہوتی ہے کہ بچّہ اگر چھینک بھی لے تو ڈاکٹرپر ڈاکٹر آنا شروع ہوجاتاہے، دوائیاں شروع ہوجاتی ہیں، کھلائیوں کو ڈانٹا جاتا ہے کہ تم نے بچّے کو ہَوا لگادی مگرایک ویسی ہی ماں دَرْ دَرْدھکّے کھاتی ہے اور اسے ایک دھیلا تک میسّر نہیں آتااور اُس کا بچّہ تڑپ تڑپ کر مرجاتاہے۔ تم اپنے اِردگرد کے گھروں پر نگاہ دَوڑائو، تم اپنے محلّوں میں پوچھو تمہیں ایسی سینکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں مل جائیں گی۔ یہ غربت بعض دفعہ اِس حد تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے کہ بالکل ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔
غرباء کی درد ناک حالت
اور اِس کا بھیانک منظر
میرے پاس ایک دفعہ ایک غریب عورت آئی اور اس نے اپنا مدّعا بیان کرنے سے قبل بڑی لمبی تمہید بیان کی اور بڑی لجاجت کی اورباربار کہا کہ میں آپکے پاس بڑی آس اور امید لے کر آئی ہوں۔ مَیں اُسے جتنا کہوں کہ مائی کام بیان
کرو ہوسکاتو مَیںکردوں گا اُتنی ہی وہ لجاجت اور خوشامدکرتی چلی جاتی تھی۔ میں نے سمجھا کہ شاید اس کی کسی لڑکی یا لڑکے کی شادی ہوگی اور اس کے لئے اُسے تیس چالیس روپوئوں کی ضرورت ہوگی مگر جب مَیں نے بہت ہی اصرار کیا اور کہا کہ آخر بتائو توسہی تمہیں ضرورت کیا ہے؟ تووہ کہنے لگی مجھے فلاں ضرورت کے لئے آٹھ آنے چاہیئں۔ مَیں آج تک اِس کا اثر نہیں ُبھولا کہ کس قدر اُس نے لمبی تمہید بیان کی تھی، کس قدر لجاجت اور خوشامد کی تھی اور پھرسوال کتنا حقیر تھا کہ مجھے آٹھ آنے دے دئیے جائیں۔یہ بات بتاتی ہے کہ اس کے نزدیک دوباتوں میں سے ایک بات بالکل یقینی تھی۔ یاتووہ یہ سمجھتی تھی کہ کوئی شخص جس کی جیب میں پیسے ہوں وہ کسی غریب کے لئے آٹھ آنے دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہو سکتا اور یا پھر کنگال ہونے کی وجہ سے وہ سمجھتی تھی کہ دُنیا میں ایسا خوش قسمت انسان کوئی شاذونادر ہی مِل سکتا ہے جس کے پاس آٹھ آنے کے پیسے ہوں۔ اِن دونوں میں سے کوئی سانظریہ لے لو کیسا خطرناک اور بھیانک ہے۔ اگراُس کے دل میں یہ احساس تھا اور یہی احساس اَور غرباء کے دل میں بھی ہو کہ ہمیں خواہ کیسی شدید ضرورتیں پیش آئیں کوئی شخص ہمارے لئے آٹھ آنے تک خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا تواُن کے دلوں میں اُمراء کا جتنا بھی کینہ اور بُغض پیدا ہو کم ہے۔ اور اگر غرباء کی حالت اِس قدرگِر چکی ہوکہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو اچھا کھانا کھاتے اور اچھے کپڑے پہنتے ہوئے پھر یہ خیال کریں کہ اب کسی کے پاس آٹھ آنے بھی نہیں ہیں اور اگرکسی کے پاس آٹھ آنے ہیں تووہ بہت بڑا خوش قسمت انسان ہے تویہ دُنیا کے تنزِّل کے متعلق کیساخطر ناک نظریہ ہے۔
غریبوں کی بہبودی کیلئے مختلف تحریکات کا آغاز
ڈیما کریسی
یہ حالت بہت دیر سے چلی آرہی ہے اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے لوگوں نے اس کی اصلاح کی کوشش بھی کی ہے مگر اب تک کوئی تغیر پیدا نہیں ہؤا۔
اٹھارھویں صدی کے آخر سے اس کے متعلق عِلمی طور پر زیادہ چرچا شروع ہوگیا اور اس احساسِ بیداری نے جو شکل پہلے اختیار کی دُنیا نے اس کانام ڈیما کریسی (DEMOCRACY) رکھا۔ یعنی فیصلہ کیا کہ یہ غربت افراد نہیں مٹاسکتے بلکہ حکومت ہی مٹاسکتی ہے۔ جیسے میں نے ابھی کہا ہے کہ لاہور یادہلی میں بیٹھے ہوئے ایک فرد کوکیا علم ہو سکتا ہے کہ ہمالیہ پہاڑ کے دامن میں کسی غریب عورت کا بچّہ بھُوک سے مَر رہا ہے، یا شہروں میں رہنے والوں کوکیا علم ہوسکتا ہے کہ گائوں میں غرباء پرکیامشکلات آرہی ہیں لیکن حکومت اِن تمام باتوں کا بآسانی علم رکھ سکتی ہے۔ پس انہوں نے فیصلہ کیاکہ یہ کام حکومت کو اپنے ذمّہ لینا چاہئے لیکن حکومت میں بادشاہ اور وزراء کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بھی دخل ہونا ضروری ہے تاکہ سب کی آوازمرکز میںپہنچ سکے اورمرکز کو ان کے ذریعہ تمام حالات کا علم حاصل ہوتا رہے اس کے مطابق پہلے چھوٹے چھوٹے تغیرات کئے گئے۔ مثلاً کہا گیا کہ بادشاہ کو گھر بیٹھے کیا پتہ ہوسکتا ہے کہ شاہ پور کے زمینداروں کی کیا ضروریات ہیں ہاں شاہ پورکے زمیندار اپنی ضرورتوں کو خوب جانتے ہیں۔ یا بادشاہ کو گھر بیٹھے جھنگ کے لوگوں کی مشکلات کا علم نہیںہوسکتا مگر جھنگ کے لوگ خوب جانتے ہیں کہ انہیں کیاکیا مشکلات درپیش ہیں پس حکومت کے مرکز تک لوگوں کی آوازپہنچانے کاکوئی انتظام ہونا چاہئے۔
ڈیما کریسی کے ماتحت پہلا تغیر
پس پہلا تغیر ڈیماکریسی کے ماتحت اِس رنگ میں ہؤا کہ جمہور نے مطالبہ کیاکہ حکومت میں ہمارا بھی حق
ہے تاکہ ہم اپنے اپنے علاقوں کی ضروریات بتاسکیں اور ان کے متعلق حکومت کو مفید مشورہ دے سکیں۔ کچھ عرصہ تک یہ طریق رائج رہا اوراِس میںکوئی شُبہ نہیںکہ اس طریقِ عمل سے فائدہ ہؤا۔ آخر بادشاہ سب کے حالات معلوم نہیں کرسکتا تھا اِس طریق کے مطابق لوگوں کے نمائندے آتے، حالات بتاتے ، حکومت کو مشورہ دیتے اور مطمئن ہوکر واپس چلے جاتے۔
ڈیما کریسی کے ذریعہ حقوق کا تحفظ اور اس
کیلئے تاجروں اور پیشہ وروں کی جدّوجہد
ابتدا میں یہ نمائندے زیادہ تر زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اِس لئے وہ زمینداروں کے حقوق کے متعلق ہی باتیں کیا کرتے تھے۔
بڑے بڑے زمیندار آتے اور بڑے بڑے لوگوں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اپنی قوم کو زیادہ فائدہ پہنچاتے۔ اِس پر ایک نئی تحریک شروع ہوئی جو تاجروں اور پیشہ وروں کی تھی اور اِس تحریک کے بانیوں نے اپنا کام تاجروں اور حرفہ والوں کے حقوق کی نگہداشت قرار دیا۔ چنانچہ اِس تحریک کے نتیجہ میںجو لبرل ازم (LIBERALISM)کہلاتیہے تاجروں اورپیشہ وروں کو بھی زمینداروں کی طرح حُریّت حاصل ہوگئی اور حکومت میں ایسے تغیرات پیدا کئے گئے جن کے نتیجہ میں تاجروں کی تکالیف دُور ہوگئیں اور پیشہ وروں کو ملک میں اور زیادہ آسانیاں حاصل ہوگئیں۔
سوشلزم
یہ صورتِ حالات کچھ دیر تک قائم رہنے کے بعد ایک اور طبقہ کی نگاہیں اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لئے اُٹھیں اور اُس نے بھی اِس غرض کے لئے
جدّوجہد شروع کردی۔ یہ طبقہ مزدوروں اور ملازم پیشہ لوگوں کا تھا جو کارخانوں اور دفتروں میںکا م کرتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ زمینداروں کوبھی ان کے حق مل گئے، صنّاعوں کو بھی ان کے حق مل گئے اور تاجروں کو بھی انکے حق مِل گئے تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمارے دُکھ کو تم محسوس نہیںکرتے اِس لئے اب ہم بھی اپنے نمائندے حکومت میں بھیجیں گے چنانچہ کسِی جگہ باقاعدہ اِنتخاب کے ذریعہ اورکسی جگہ لڑ جھگڑ کر مزدوروں کے نمائندے بھی کھڑے ہونے شروع ہوگئے۔ آجکل سوشلزم کا بڑا زور ہے اور یہ دراصل اسی تحریک کانام ہے جس میں مزدوروں کو مالداروں کے مقابلہ میں زیادہ حقوق دلائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ عام پبلک کے حقوق کی حفاظت کے لئے گورنمنٹ کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے اور سمجھتے ہیں کہ اِس طرح مزدوروں کی حق رسی ہوجائے گی۔
اِنٹرنیشنل سوشلزم
پھر اِس سے بھی ترقی کرکے لوگوں نے کہا کہ بے شک یہ سب تحریکیں فائدہ مند ہیںمگر آخر ان کا اثر بعض خاص ممالک تک محدود ہے اور یہ کوئی
کامل خوشی کی بات نہیں ہوسکتی۔ اگر انگلستان کے لوگوں کی ہم نے اِصلاح کرلی مگر فرانس کے لوگ پھر بھی ُبھوکے مرتے رہے تو ہمارے لئے کیا خوشی ہوسکتی ہے اِس لئے مختلف ملکوں کے غرباء اور مزدوروں کو باہمی تعاون کا اقرار کرنا چاہئے۔ بظاہر تویہ کہا جاتا تھا کہ ہم اِصلاح کے دائرہ کو وسیع کرتے ہیں مگر اصل بات یہ تھی کہ جب اِس تحریک کے نتیجہ میں ایک ملک کے اُمراء کو نقصان پہنچا تو دوسرے ملک کے اُمراء اِس وجہ سے کہ یہ تحریک ہمارے ملک میں نہ آجائے روپیہ سے اِس تحریک کے مخالفوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اس کے مقابل پر مزدوروں نے بھی فیصلہ کیا کہ مختلف ملکوں کے غرباء کو آپس میں تعاون کا اقرار کرنا چاہئے جب تک ایسا نہیں ہوگا کامیابی مشکل ہے۔ اس طرح سوشلزم کے بعد انٹر نیشنل سوشلزم کا آغاز ہؤا۔ یعنی مزدور اپنی اپنی جگہ کی ہی خبر نہ رکھیں بلکہ دوسری جگہوں کی بھی خبر رکھیں۔
غرباء کی حالت سُدھارنے کے
متعلق کارل مارکس کے تین نظریے
اس کے بعد ایک شخص کارل مارکس ۲؎ پیدا ہؤا۔ یہ جرمن یہودی النسل تھا مگر مذہباً عیسائی تھا اس نے اس مسئلہ پر غور کیا اورغور کرنے کے بعد اس نتیجہ پرپہنچا کہ یہ جو سوشلِزم کہہ
رہی ہے کہ آہستہ آہستہ اصلاح کی جائے اور امیروںپر دبائوڈال کران سے مزدوروں اور غرباء کے حق حاصل کئے جائیں اِس طرح تو پچّاس سَو بلکہ ہزار سال میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اصل خرابی یہ ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت ہے وہ اپنی اصلاح نہیں کرتے پس اس کی اصلاح کا آسان طریق یہ ہے کہ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی جائے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے یہ کیا طریق ہے کہ اگر حکومت کسی جگہ نہر نہیں نکالتی تو نہر کے لئے اس سے سَو سال تک جنگ جاری رکھی جائے حکومت اپنے ہاتھ میں لے لو اور نہر نکال لو۔ یا یہ کیا کہ فلاں کارخانہ میں چونکہ اصلاح نہیں اس لئے حکومت پر اس کے متعلق زور دیاجائے اور برسوں اس پر ضائع کئے جائیں سیدھی بات یہ ہے کہ حکومت ہاتھ میں لو اور تمام مفاسد کا علاج کرلو۔پس مارکس نے یہ اصول رکھا کہ سیاسیات میں پڑے بغیر ہم تمدّنی اصلاح نہیںکرسکتے۔ جب تک سیاست ہاتھ میں نہ آجائے اور جب تک حکومت کے اختیارات قبضہ میں نہ آجائیں اس وقت تک کوئی سیاسی یا تمدّنی اصلاح نہیںہوسکتی۔
مارکسزم اور اس کا پہلا اُصول
پس مارکسزم جو انٹر نیشنل سوشلزم کی ایک شاخ ہے جبر کے ساتھ اپنے مقاصد حاصل کرنے کی مؤیّد ہے اور
اقتصادی تغیرات سے آزادی حاصل کرنے کی بجائے سیاسی تغیرات سے آزادی حاصل کرنے کی حامی ہے۔ پھر اسی نظریہ کے ساتھ مارکسزم یہ بات بھی پیش کرتی ہے کہ سوشلزم والے اِس لئے کامیاب نہیں ہوسکے کہ انہوں نے امیروں سے مِل کر کام کرنا شروع کردیا حالانکہ امیروں کا قبضہ اتنا پُرانا ہوچکا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے غرباء کو کوئی حق حاصل ہی نہیںہوسکتا۔
مارکس کے نزدیک ڈیما کریسی کا اصول بالکل غلط ہے اور امیروں او رغریبوں کا میل جول بھی غلط ہے۔اس کے نزدیک امیروں کو ایسا ہی سمجھنا چاہئے کہ گویا وہ انسان نہیں اورجو اختیار غرباء کو ملیں وہ انہیں اپنے قبضہ میں لے لیں۔
مارکسزم کا دوسرا اُصول
دوسرا نظریہ اس نے یہ پیش کیا کہ ہمیں اِس غرض کے لئے جبر کرنا چاہئے۔ جتھا بنائو،حملہ کرواور حکومت پر قبضہ کرلو۔ یہی کارل مارکس
کا نظریہ تھا جس سے بالشوزم پیدا ہؤا۔
مارکسز م کا تیسرااُصول
مارکس نے ایک یہ رائے بھی دی کہ مالدار زمیندار اور صنّاع اتنی طاقت پکڑ چکے ہیں اور مزدور اتنے بے بس ہوچکے ہیں کہ موجودہ
حکومت کے توڑنے پر بھی وہ زیادہ دیر تک اپنے حقوق کی حفاظت نہیںکرسکتے۔ لطیفہ مشہور ہے کہ کسی کا کوئی سائیس ۳؎ تھا جسے آٹھ دس روپے ماہوار ملا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کسی شخص نے اسے سمجھایا کہ آجکل ہر شخص کو چالیس پچّاس روپے ملتے ہیں اور تُو آٹھ دس روپوئوں پر گذارہ کررہا ہے اپنے آقا سے کہتا کیوں نہیں کہ میری تنخواہ زیادہ کرو۔ وہ کہنے لگا میںکِس طرح کہوں؟ اُس نے کہا تُو کوئی غلام ہے اگر وہ تیری تنخواہ بڑھائے تو بہتر نہیں تو کسی اَور جگہ ملازمت کرلینا۔ آخر بہت کچھ سمجھانے پر وہ تیار ہو گیا اور اس نے دل میں عہد کرلیا کہ آج جب آقا آیا تو اُسے صاف صاف کہہ دوں کہ یا تو میری تنخواہ بڑھائی جائے ورنہ میں نوکری چھوڑتا ہوں۔ اُس کا آقا اُس وقت سواری پر کہیں باہر گیا ہؤا تھاجب واپس آیا تو سائیس اُس کے سامنے جا کھڑا ہؤا اور کہنے لگا صاحب! ایک بات سُن لیجئے۔ اُس نے کہا کیا ہے؟کہنے لگا سب کو تنخواہیں زیادہ ملتی ہیں اور میری تنخواہ بہت کم ہے پس یا تومیری تنخواہ بڑھائیں ورنہ۔ جب اُس نے کہا ’’یا تومیری تنخواہ بڑھائیں ورنہ‘‘۔تو اُسکے آقانے کوڑااُٹھا کراُسے مارا اور کہا۔ ورنہ کیا؟ کہنے لگا۔ورنہ آٹھ پر ہی صبر کریں گے اَورکیا کریں گے۔گویا یکدم اُس کو ساری باتیں ُبھول گئیں۔یعنی یا تو وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ ’’ورنہ میں نوکری چھوڑدوں گا‘‘۔اور یا ایک کوڑا پڑتے ہی یہ کہنے لگا ورنہ پھر آٹھ پر ہی صبر کریں گے اَور کیا کریں گے۔
لمبے عرصہ کی غلامی کا نتیجہ
تو ایک لمبے عرصہ کی غلامی کے بعد انسان کی فطرت بالکل بدل جاتی ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے چُوہڑوں اور چماروں
کو کتنا ہی اُٹھانے کی کوشش کرو اور کتنی ہی دیر اُن سے باتیں کرتے رہو آخر میں وہ ُیوں مُسکراکر کہ جیسے ہمارا دماغ پِھر گیا ہے کہیں گے کہ ربّ نے جس طرح بنایا ہے اس میں اب کیا تغیر ہو سکتاہے۔ گویا اُن کے نزدیک جس قدر مصلح اور ریفارمر ہیں سب کے دماغ خراب ہیں۔ یہی کارل مارکس نے کہا کہ ان لوگوں کی حالت بدلنے والی نہیں۔اگر عوام کو اختیار دے دیئے گئے تو وہ پھر ڈرکر ہتھیار رکھ دیں گے اِس لئے شروع میں مزدوروں کے زبردست ہمدردوں میں سے کسی کو ڈکٹیٹر شِپ دینا ضروری ہے۔ وہ جب عوام کو منظّم کرلے، مزدوروں کے اندر بیداری پیدا کردے، اُن کے مختلف طبقات کے امتیازات کو مٹادے اور اگلی نسل میں ایسی طاقت پیدا کردے کہ وہ امیروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرسکیں تواُس وقت حکومت کُلّی طور پر جمہور کے سپرد کردینی چاہئے مگر اس سے پہلے نہیں ورنہ حکومت جاتی رہے گی۔
غرباء کی بہبودی کے لئے لینن
اور اُس کے ساتھیوں کی کوشش
مارکس تو خیر مرگیا۔ اس کے بعد جب مظالم انتہاء کو پہنچے توایک پارٹی ایسی کھڑی ہو گئی جس نے مارکس کی تعلیم کے مطابق لوگوں کو منظّم کرنا شروع کر دیا۔ انہی مختلف لوگوں میںسے جو
مارکس کی تعلیم کے مطابق منظّم ہوئے ایک لینن ۴؎ہے جو روس کا پہلا عامی ڈکٹیٹر تھا۔ لینن اور اُس کے ساتھیوں نے مارکس کے خیالات کو زیادہ معیّن جامہ پہنایا۔ کچھ عرصہ تک تو یہ سب مِل کر کام کرتے رہے اور غریبوں کو اُبھا رتے رہے کہ تم ننگے پھرتے ہو، ُبھوکے رہتے ہو مگر اِسی ملک کے امیر ہیں جو عیش وآرام میں اپنی زندگی کے دِن بسرکررہے ہیں۔ کبھی کہتے یہ کہاں کاانصاف ہے کہ ایک ہی کارخانہ میں ایک مزدور صُبح سے شام تک کام کرتا ہے اور شام کو اسے اتنی قلیل مزدوری ملتی ہے کہ جس سے بمشکل وہ اپنا اور اپنے بیوی بچّوں کا پیٹ بھرتاہے مگر دوسری طرف اسی کارخانہ کے مالک کے بچّے قیمتی سے قیمتی کوٹ پہنے پِھرتے ہیںاور اعلیٰ سے اعلیٰ کھانے کھاتے ہیں۔ اِس طرح انہوں نے تمام ملک میںجوش پیدا کردیا اور اُمراء کے خلاف کئی پارٹیاں بن گئیں۔
بالشویک ومنشویک پارٹیوں کا آغاز
جب اُن کا اقتدار بڑھ گیا اور انہوں نے سمجھا کہ اب ہم ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ جلد ہی
ہم کو حکومت مل جائے گی تو انہوں نے ایک میٹنگ کی اور اس کی غرض یہ قرار دی کہ ہم اپنے لئے ایک معیّن راستہ قائم کرلیں کہ ہم نے حکومت ملنے پر کس طرح کام کرنا ہے۔ اس میٹنگ کے دوران میں آپس میں اختلاف پیدا ہو گیا اور مارٹوو جو لینن کی طرح پارٹی میں مقتدر تھا اس کا لینن سے اختلاف ہو گیا۔ چنانچہ دو پارٹیاں بن گئیں جن میں سے ایک بالشویک کہلائی اور دوسری منشویک۔ بالشویک نام اس لئے رکھا گیا کہ بالشویک کے معنے کثرت کے ہیں چونکہ لینن کے ساتھ آدمیوں کی کثرت تھی اس لئے اس کی پارٹی بالشویک کہلائی اور منشویک کے معنے کم کے ہیں چونکہ اس کے مخالف کم تھے اس لئے مارٹوو کی پارٹی منشویک کہلائی۔
نظامِ حکومت کے متعلق لینن اور مارٹوو کے نظریوں میں اختلاف
پہلا اختلاف
لینن زیادہ تر مارکس کا متبع تھا اس نے یہ اصول مقرر کیا ہؤا تھا کہ ہمیں ہر دوسری پارٹی سے علیحدہ رہنا چاہئے اس کے بغیر ہم اپنے مقاصد کو صحیح طور
پر نہیں پا سکیں گے لیکن مارٹوو کا یہ خیال تھا کہ طاقت حاصل کرنے سے پہلے ہمیں دوسرے مقتدر عناصر سے جو کہ فعّال ہیں تعاون رکھنا چاہئے غرض لینن کی تھیوری یہ تھی کہ ہم دوسروں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ہم جو کچھ لائیں گے اپنے زور سے لائیں گے کسی کے زیر احسان ہو کر نہیں لائیں گے دوسرے الفاظ میں لینن کی پالیسی یہ تھی کہ ہم دوسروں سے نہیں ملیں گے ہمارے پاس سچائی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہم بالآخر جیت جائیں گے۔
دوسرا اختلاف
پھر لینن کا یہ خیال تھا کہ شروع میں ڈکٹیٹر شپ کے بغیر گذارہ نہیں چل سکتا لیکن مارٹو و کایہ خیال تھا کہ شروع سے ہی جمہوری حکومت قائم ہونی
چاہئے۔ مارٹوو سمجھتا تھا کہ اگر لیڈر بناتو لینن ہی بنے گا میں نے نہیں بننا اس لئے وہ شروع سے ہی جمہوری حکومت قائم کرنا چاہتا تھا۔
مارٹوو کا خیال کہ سزائے موت بالکل ہٹادی جائے
پھر مارٹوو نئی گورنمنٹ میں سوشلسٹ اصول کے ماتحت
چاہتا تھا کہ سزائے موت کو بالکل ہٹا دیا جائے لیکن لینن نے اس بات پر زور دیا کہ میں مانتا ہوں کہ پھانسی کی سزا نہیں ہونی چاہئے لیکن اس وقت اگر یہ بات قانون میں
داخل کر دی گئی تو زار کو پھانسی پر لٹکایا نہیں جا سکے گااور لینن کا خیال تھا کہ زار اگر معطّل ہو کر بھی زندہ رہے تو حکومت نہیں چل سکتی اس لئے لینن نے کہا کہ خواہ صرف زار کی جان لینے کے لئے موت کی سزا کی ضرورت ہو تب بھی یہ قائم رہنی چاہئے۔ گویا زار کی دشمنی اُس کے دل میں اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ اُس نے کہا اگر خالی زار کو پھانسی کے تختہ پر لٹکانے کے لئے اِس قانون کی ضرورت ہو تب بھی یہ قانون ضرور قائم رہنا چاہئے۔ ان اختلافات کا نتیجہ یہ ہؤا کہ لینن کو زیادہ ووٹ ملے اور اس کے ساتھیوں کو پارٹی کی راہنمائی کا حق دیا گیا اور اپنی کثرت کی وجہ سے وہ بالشویک کہلائے اور ان کے مخالف اپنی قلت کی وجہ سے منشویک کہلائے۔ زار کے ہٹنے پر پہلے منشویک حکومت پر قابض ہوئے کیونکہ ملک کی دوسری پارٹیاں ان کی حکومت کو اپنے لئے زیادہ آرام دِہ سمجھتی تھیں پھر بالشویک نے ان کو دبا کر اپنی حکومت قائم کرلی۔
بالشوزم کے چھ اقتصادی اصول اور اُن کے نتائج
اب مَیں بتاتا ہوں کہ بالشویک کے اقتصادی اصول کیا ہیں؟ یاد رکھنا چاہئے کہ ان اقتصادی اصول کو وضع کرنے کا سب سے بڑا محرّک یہی تھا کہ کسی طرح غریب اور امیر کا فرق جاتا رہے۔ جس طرح بیمار ہونے پر ایک امیر کو دوا ملتی ہے اسی طرح غریب کو دوا ملے، جس طرح امیر کو کپڑا ّمیسر آتا ہے اسی طرح غریب کو پہننے کے لئے کپڑا ّمیسر آئے، جس طرح امیر پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہے اسی طرح ہر غریب پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور کوئی شخص بھوکا نہ رہے۔ اسی طرح ظلم کم ہوں اور اقتصادی لحاظ سے غرباء کو جو دِقّتیں پیش آتی رہتی ہیں ان سب کا سدِّباب ہو اِس غرض کے لئے بالشوزم نے جو اقتصادی اصول مقرر کئے وہ مارکس کے اصول کے مطابق یوں ہیں:-
پہلا اصول
اول جتنی کسی کی طاقت ہو اُس سے اُتنا ہی وصول کیا جائے۔ فرض کرو ایک شخص کے پاس دس ایکڑ زمین ہے اور دوسرے کے پاس سَو ایکڑ زمین
ہے تو وہ یہ نہیں کریں گے کہ دس ایکڑ والے سے چند روپے لے لیں اور سَو ایکڑ والے سے بھی چند روپے لے لیں بلکہ وہ دیکھیں گے کہ دس ایکڑ والے کی ضروریات کس قدر ہیں اور سَو ایکڑ والے کی ضروریات کس قدر اور پھر جس قدر زائد روپیہ ہو گا اُس پر حکومت قبضہ کر لے گی مثلاً وہ دیکھیں گے کہ د س ایکڑ والا اپنی بیوی کو بھی ِکھلاتا ہے، بچوں کو بھی ِکھلاتا ہے، آپ بھی کھاتا ہے، بیلوں کو بھی ِکھلاتا ہے اور پھر اتنا روپیہ اس کے پاس بچ رہتا ہے تو حکومت کہے گی کہ یہ روپیہ تمہارا نہیں بلکہ ہمارا ہے اِسی طرح سَو یا ہزار ایکڑ والے کی ضروریات دیکھی جائیں گی اور جس قدر زائد روپیہ ہو گا حکومت اسے اپنے قبضہ میں لے لے گی کیونکہ وہ کہتے ہیں ہمارا اصول یہی ہے کہ جتنا کسی کے پاس زائد ہو اُس سے لے لو۔
دوسرا اصول
دوسرا اصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ جتنی کسی کو ضرورت ہو اُس کو دیا جائے گویا پہلے اصول کے مطابق سَو یا ہزار ایکڑ والے سے اُس کی زائد
آمد وصول کر لی اور اِس اصول کے مطابق جتنی کسی کو ضرورت ہوئی اُتنا اُسے دے دیا۔ فرض کرو سَو ایکڑ والے سے حکومت نے پانچ ہزار روپیہ وصول کیا تھا مگر اس کے گھر کے افراد دو تین ہیں تو اسے زیادہ روپیہ نہیں دیا جائے گا بلکہ افراد کی نسبت سے دیا جائے گا کیونکہ روپیہ لیا اس اصول کے ماتحت گیا تھا کہ جتنا کسی کے پاس ہولے لو اور دیا اِس اصول کے ماتحت جائے کہ جتنی کسی کو ضرورت ہو اُتنا اُس کو دیا جائے۔ اُسے کہا جائے گا کہ تیرے پاس چونکہ زیادہ تھا اِس لئے ہم نے زیادہ لیااور تجھے چونکہ ضرورت کم ہے اِس لئے ہم تجھے کم روپیہ دیتے ہیں۔
تیسرا اصول
تیسرا اصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ انسانی ضرورت سے زائد پیداوار پر حکومت کا حق ہے جو ملک کی عام بہتری پر خرچ ہونی چاہئے۔ فرض کرو
دو زمیندار ہیں اور دونوں کے پاس دس دس ایکڑ زمین ہے ان میں سے ایک نے زیادہ محنت سے کام کیا اور اُس کی پیداوار تیس من فی ایکڑکے حساب سے ہو گئی مگر دوسرے کی پیداوار صرف تین من فی ایکڑہوئی گویا ایک کی پیداور ۳۰۰ من ہو گئی اور دوسرے کی صرف ۳۰ من۔ اب فرض کرو جس کی ۳۰۰ من پیداوار ہوئی ہے اُسے صرف چالیس من پیداوار کی ضرورت ہے تو حکومت اسے کہے گی چونکہ تمہاری پیداوار زیادہ ہوئی ہے اِس لئے تم چالیس من رکھ لو اور ۲۶۰ من ہمارے قبضہ میںدے دو اسی طرح دوسرا شخص جس کی صرف ۳۰ من پیداوار ہوئی ہے اُسے اگر اپنے لئے صرف دس من غلہ کافی ہو گا تو حکومت کہے گی دس من غلہ رکھ لو اور بیس من ہمیں دے دو پس تیسرا اصول ان کا یہ ہے کہ جو پیداوار ضرورت سے زیادہ ہو جائے چاہے محنت سے ہو اور چاہے اتفاقیہ طور پر وہ لے لی جائے کیونکہ وہ حکومت کا حق ہے۔
چوتھا اصول
چوتھا اصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ حکومت انسانوںپر نہیں بلکہ چیزوں پر ہونی چاہئے وہ کہتے ہیں خالی یہ قانون کافی نہیں کہ زائدپیداوار لے لی
جائے گی کیونکہ اِس طرح حکومت صرف انسانوں پر رہتی ہے حالانکہ حکومت اشیاء پر ہونی چاہئے۔ مثلاً کسی علاقہ میں گنّا اچھا ہوتاہے تو وہ کہتے ہیں حکومت کا حق ہونا چاہئے کہ وہ لوگوں کو حکم دے کہ اس علاقہ میں صرف گنّا بوئیں یاکسِی علاقہ میں گندم بہت اچھی ہوتی ہو تو حکومت کو اختیار ہونا چاہئے کہ وہ اُس علاقہ میں صرف گندم بونے کا حکم دے اور کوئی شخص گندم کے سِوا اَور کوئی چیز اس زمین میں نہ بوسکے۔ یا اگر حکومت حکم دینا چاہے کہ فلاں علاقہ میںکپاس بوئی جائے، فلاں علاقہ میں جوار بوئی جائے تو سب لوگ اس کی تعمیل پر مجبور ہوں اور کوئی شخص خلاف ورزی نہ کرسکے۔ پس چوتھے اصول کے مطابق انہوں نے فیصلہ کیا کہ پیداوار کی تقسیم ہم کریں گے اور ہم فیصلہ کریںگے کہ فلاں فلاں علاقہ میں فلا ں فلاں چیز بوئی جائے اور لوگوں کا فرض ہوگا کہ وہی چیز بوئیں۔
پانچواں اُصول
پانچواں اُصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ خالص دماغی قابلیّتیں بغیر ہاتھ کے کام کے کوئی قیمت نہیں رکھتیں۔ وہ کہتے ہیں یہ کہنا کہ فلاں شخص کوئی عِلمیبات
سوچ رہا ہے بالکل لغو ہے اصل چیز ہاتھ سے کام کرنا ہے دماغی کام کرنے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ ہاتھ سے کام کریں اور اگر وہ ہاتھ سے کام نہ کریں تو بیشک بھُوکے مریں ہم اُن کی مدد نہیں کریں گے۔
چھٹا اُصول
چھٹااُصول انہوںنے یہ مقرر کیا کہ ہمیشہ اپنے اصول کے لئے حملہ کا پہلو اختیار کرنا چاہئے دفاع کا نہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ بچائو کیا جائے بلکہ
اپنے اصول کے لئے دوسروں پر حملہ کرناچاہئے۔
پہلے اصول کا نتیجہ یعنی تمام
مالداروں کی جائدادوں پر قبضہ
پہلے اصول کے نتیجہ میں بالشوزم نے تمام مالداروں کی جائدادوں پر قبضہ کرلیا کیونکہ انہوں نے فیصلہ کردیا کہ جو کچھ مِلتا ہے لے لو، زمینیں لے لو، جائدادیں لے لو، اموال
لے لو اور اِس طرح جتنا کِسی کے پاس ہو جبراً اپنے قبضہ میں کرلو۔
دوسرے اصول کا نتیجہ یعنی ہاتھ سے کام کرنے
والے کو ضرورت کے مطابق سامان مہیا کرنا
دوسرے اصول کے مطابق بالشوزم نے ہر ہاتھ سے کام کرنے والے کو اُس کی ضرورت کے مطابق سامان مہیّا
کرنے کاذمّہ لیا۔ مثلاً ایک گھر کے پانچ افراد ہیں وہ فوراً فیصلہ کردیں گے کہ اِن پانچ افراد کو اِتنا کپڑا دے دیاجائے، اتنا غلّہ دے دیا جائے، اِتنا ایندھن دے دیاجائے، اِسی طرح ڈاکٹر مقرر کردیئے جائیں گے جو بیماری پر اُن کا مُفت علاج کریں گے۔ گویا اِس طریق کے مطابق ہر شخص کو پہننے کے لئے کپڑا ، کھانے کے لئے غلّہ اور علاج کے لئے دَوا مِل جائے گی۔ حکومت کاکام ہوگا کہ وہ لسٹیں بنائے اور افراد کی جس قدر ضرورتیں ہوں پوری کردے۔ اور واقع میں اگر غورکیا جائے تو بالشوزم نے اِس مشکل کو دور کر دیا ہے اور اگراِس طریق سے کام لیا جائے توکوئی شخص بھُوکا یا ننگا نظر نہیں آسکتا سوائے اِس کے کہ کوئی مذہبی آدمی ہو جیسے پادری وغیرہ کیونکہ ان کے نزدیک ہاتھ سے کام کے بغیر خالص دماغی قابلیتیںکسی کام کی نہیں ہوتیں۔ پس وہ پادریوں اور اِسی قسم کے اَور مذہبی آدمیوں یا علماء اور فلاسفروں وغیرہ کو نکمّا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں انہیں اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرنا چاہئے ورنہ ان کے بھُوکا رہنے کی حکومت پر ذمّہ داری نہیں ہوگی۔
تیسرے اُصول کا نتیجہ یعنی حکومت کے مقرر کردہ
معیار سے زائد اشیاء پر قبضہ کر لینے کا فیصلہ
تیسرے اصول کے مطابق انہوں نے زمینداروں اور تاجروں وغیرہ سے ہر وہ چیز جو حکومت کے مقرر کردہ معیار
سے زائدہولے لینے کا فیصلہ کیا۔ یعنی اگر کوئی شخص اپنی زمین سے پچّاس من غلّہ پیدا کرتا ہے اور اس کی ضروریات کے لئے بیس من غلّہ کافی ہے تو تیس من غلّہ حکومت لے جائے گی اور کہے گی کہ یہ چیز چونکہ تمہاری ضرورت سے زائد ہے اِس لئے اس پر حکومت کا حق ہے۔ یا ایک شخص کے پاس بہت بڑی زمین ہے اور اُس کا گذارہ تھوڑی سی زمین پر بھی ہوسکتا ہے تو جتنی زمین پر اُس کا گذارہ ہو سکتا ہے وہ اُس کے پاس رہنے دی جائے گی اور باقی زمین پر حکومت قبضہ کر لے گی۔
چوتھے اصول کا نتیجہ یعنی عملی آزادی کافُقدان
چوتھے اصول کے مطابق زمیندار ، تاجر اور صنعت پیشہ لوگوں کی عملی
آزادی کو اُس نے چھین لیا اور حکومت کے منشاء کے مطابق زراعت کرنا، تجارت کرنا اور صنعت وحرفت اختیار کرنا لازمی قرار دیا۔ مثلاً کہہ دیا کہ فلاں سَومیل کا جو علاقہ ہے اس میں صرف گندم بوئی جائے، فلاں علاقہ میں صرف گنّا بویاجائے اور فلاں علاقہ میں صرف کپاس بوئی جائے۔ ہمارے ملک میں تو زمیندار عام طور پر دو مرلہ میں جواربو لیتے ہیں، دو مرلہ میں کپاس بولیتے ہیں اور دو مرلہ میں گنّا بولیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چھوٹے بچّے ہیں گنّے ُچوسیں گے اور اگر چھوٹے زمیندار ایسا نہیںکرتے تو جس کے پاس دس بارہ گھمائوں زمین ہو وہ تو ضرور ایسا کرتا ہے مگر بالشویک حکومت والوں نے علاقوں کے علاقوں کے متعلق یہ فیصلہ کردیا ہے کہ یہاں گندم نہیںبونی بلکہ گنّابونا ہے۔ کئی ضلعے ایسے ہیں جہاں صرف گندم بوئی جاتی ہے، کئی ضلعے ایسے ہیں جہاں صرف گنّا بویا جاتاہے اور کئی ضلعے ایسے ہیں جہاں صرف کپاس بوئی جاتی ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں یہ علاقے اسی فصل کے لئے موزوں ہیں اِس لئے ہم حکم دیتے ہیں کہ اسکے علاوہ اَور کوئی فصل اس موسم کی وہاں نہ بوئی جائے۔ اگر کوئی کہے کہ پھر مَیں کھائوں گا کہاں سے؟ تو وہ کہہ دیتے ہیں روٹی کپڑا ہم دیں گے تمہیں اس کا کیا فکر ہے تمہیں فصل وہی بونی پڑے گی جس کا ہم تمہیں حکم دیتے ہیں۔ اِس طرح زمیندار کی حیثیت وہاں ایک مزدور کی سی ہو گئی ہے۔
پانچویں اُصول کا نتیجہ یعنی مذہبی نظام میں دخل
پانچویں اُصول کے مطابق انہوں نے مذہبی نظام میں دخل
دیا اور پادریوں وغیرہ کو بغیر ہاتھ کی مزدوری کے روزی کا مستحق قرارنہ دیا۔ انہوں نے کہاکہ جب پادری کوئی ہاتھ کاکام نہیں کرتے تو یہ نکمّے ہوئے اور نکمّے لوگوں کو روزی نہیں دی جا سکتی پس وہ انہیں مجبور کرکے یا تو اَور کاموں پر لگاتے ہیں اور یا پادری وغیرہ تھوڑا ساوقت عبادات میں گذار لیتے ہیں اور باقی وقت کِسی کام میں بسر کردیتے ہیں۔
دہریّت پیدا کرنے کی تدبیر
اِسی مذہبی دشمنی کے سلسلہ میں انہوں نے ایک اَور نئی تجویز نکالی اور مذہب کے متعلق انہوں نے یہ
فیصلہ کیا کہ مذہب اِنفرادی آزادی کا نتیجہ ہونا چاہئے۔ ماں باپ اور بزرگوں کو بچپن میں مذہبی تعلیم دینے کا کوئی حق نہیں تعلیم کُلّی طور پر حکومت کے ہاتھ میں ہونی چاہئے۔ وہ کہتے ہیں دیکھو! بچّوں پر یہ کیسا ظلم کیاجاتا ہے کہ بچپن میں ہی ان کے دِلوں پر مذہب کا اثر ڈالا جاتا ہے نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جو مسلمان ہوتے ہیں اُن کے بچّے مسلمان بن جاتے ہیں،جو ہندو ہوتے ہیں ان کے بچّے ہندو بن جاتے ہیں اور جو پارسی ہوتے ہیں اُن کے بچّے پارسی بن جاتے ہیں ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہئے بلکہ بچّوں کو ہر قسم کے مذہبی اثرات سے آزادرکھنا چاہئے۔ جب بچّہ جوان ہوجائے تو وہ جو چاہے مذہب اختیار کرلے جوانی سے پہلے ہی زبردستی اس کے دل پر اپنے مذہب کا اثر ڈالنا صریح ظلم ہے چنانچہ اِس اصل کا نتیجہ مذہب کے حق میں زہر نکلا۔ وہ چھوٹے چھوٹے بچّوں کو اُن کے ماں باپ سے جُدا کرلیتے ہیں اور اپنے سکولوں میں تعلیم دلاتے ہیں جہاں مذہب کانام تک بچّہ کے کانوں میں نہیںپڑتا۔ جب وہ اٹھارہ بیس سال کی عمر کو پہنچ جاتاہے اور پکّا دہریہ بن جاتا ہے تو کہتے ہیںاب یہ جوان ہوگیا ہے اور اب اس کے سمجھنے کا زمانہ آگیا ہے اب یہ جو چاہے مذہب اختیار کرلے حالانکہ اُس وقت اُس نے کیا سمجھنا ہے اُس وقت تو دہریت اُس کی رَگ رَگ میں سرایت کر چکی ہوتی ہے۔ غرض وہ کہتے ہیں ہم بچّوں پر ظلم نہیں کرتے بلکہ ان کی تختی صاف رکھتے ہیں تاکہ بعد میں اس پر جو نقش چاہیں ثبت کرلیںحالانکہ اِس رنگ میں دل کی تختی صاف رکھنے کے معنے سوائے دہریّت کے اَور کچھ نہیں۔ جب وہ اٹھارہ بیس سال تک اپنے مطلب کی باتیں ان کے کانوں میں ڈالتے رہتے ہیں تو جوان ہونے پر اُن کا یہ کہنا کہ ہم نے ا ن کے دل کی تختی بالکل صاف رکھی تھی صریح ُجھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اِس طرح دل کی تختی صاف نہیںرکھتے بلکہ انہیں دہریّت کے گڑھے میں گِرا دیتے ہیں پس اِس اصل نے آئندہ نسلوں کو بالکل دہریہ بنادیا ہے۔
چھٹے اُصول کا نتیجہ یعنی غیر ممالک
میں اپنے خیالات کا پروپیگنڈا
چھٹے اصول کے مطابق انہوں نے اپنے ملک سے باہر دوسرے ممالک میں جا کر اپنے خیالات پھیلانے اور ریشہ دوانیاں کرنی شروع کردیں۔ چونکہ انہوں نے فیصلہ کیا تھا
کہ ہمیشہ اپنے اصول کے لئے حملہ کا پہلو اختیار کرنا چاہئے دفاع کا نہیں اِس لئے انہوںنے اپنے ایجنٹ جرمنی اور جاپان اور اٹلی وغیرہ میں بھجوانے شروع کردیئے اور بیرونی ممالک میں ان کا نام کمیونسٹ پڑا۔ پنجاب میں بھی کمیونسٹ پائے جاتے ہیں، ہندوستان کے باقی صوبہ جات مثلاً بہار وغیرہ میں بھی ہیں۔ اس طرح مارکس(بنی اسرائیلی النسل اَلْمانوی المَوْلدْ) کے اصول کی حکومت روس پر ہوگئی اور یہ تحریک اِس رنگ میںجاری ہوگئی کہ اس کے نتیجہ میں ہر شخص کو روٹی کپڑا ملے گا، غربت دُور ہوگی اور امراء اور غرباء میں مساوات قائم ہوجائے گی چونکہ اِس تحریک کا اثر آہستہ آہستہ ساری دنیا پر پڑنے لگا اِس لئے اِس تحریک کا ایک اَور نتیجہ بھی برآمد ہؤا۔
یورپ میں بالشوزم کا ردِّعمل تین تحریکات کی صورت
میں یعنی فیسزم، ناٹسزم اور فیلنگس کا آغاز
وہ یہ کہ جب بالشوزم کے ایجنٹ سارے ملکوں میںپھیل گئے اور وہ دوسرے ممالک کو بھی اِس تحریک کے زیر اثر
لانے لگے تویورپ کے بعض دوسرے ممالک جیسے جرمنی اور اٹلی جو اس بات کی خوابیں دیکھ رہے تھے کہ موجودہ طاقتور حکومتوں کے زوال پر دُنیا کی سیاست اور اقتصادپر قابض ہوں گے انہوں نے اس میںاپنے خواب کی تخریب دیکھی۔ یہ ممالک سوچ رہے تھے کہ فرانس، انگلستان اور امریکہ بہت دیر تک دُنیا پر حکومت کر چکے ہیں اور اب ایک لمبے عرصہ کی حکومت کے بعد اِن میں تعیُّش پیدا ہوچکاہے اور یہ حکومتیں کمزور ہورہی ہیں اب دُنیا پر حکومت کرنا ہمارا حق ہے۔ پس جرمن، اٹلی اور سپین والے جو یہ خوابیں دیکھ رہے تھے کہ انگلستان، فرانس اور امریکہ کی حکومتیں اب بوڑھی ہوچکی ہیں اُن کی جگہ اب ہمیں موقع ملنا چاہئے تا کہ ہم بھی حکومت کا مزااُٹھائیں وہاں جب یہ تحریک پہنچی توان کے دلوں میں سخت گھبراہٹ اور تشویش پیدا ہوئی۔ اُن کی حالت ایسی ہی تھی جیسے چیلیں اور گِدھیں جب کسی بَیل کو دَم توڑتا ہؤا دیکھتی ہیں تو بڑے مزے سے اِس انتظار میں بیٹھ رہتی ہیں کہ کب یہ بَیل مرے کہ ہم اسے نوچ نوچ کر کھاجائیں اسی طرح جرمن اور اٹلی والے دیکھ رہے تھے کہ کب انگلستان، فرانس اور امریکہ کا زور ُٹوٹے کہ ہم اُن کی حکومتوں پر قابض ہوجائیں اور جس طرح ایک لمبے عرصہ تک انہوں نے دُنیا کی دولت سے فائدہ اُٹھایا ہے اِسی طرح ہم بھی اُٹھائیں۔ ان لوگوں کو اِس تحریک سے سخت تشویش پیدا ہوئی کہ ہم تو کہتے ہیں کہ ہمیں آئندہ حکومت ملے اور یہ تحریک سب حکومتوں کو تباہ کرنا چاہتی ہے نتیجہ یہ ہؤا کہ اِس تحریک کا ردِّ عمل ان ممالک میںپیدا ہؤا۔ چنانچہ اٹلی میں مسولینی کے ذریعہ فیسزم پیدا ہؤا، جرمنی میں اِس کا توڑ ہٹلر نے ناٹسزم کے ذریعہ نکالا اور سپین میںفرینکو اور فیلنگس تحریک نے سر اُٹھایا۔
بالشوزم کے مقابلہ میںنئی تحریکات کا مقصد
اِن تینوں تحریکات کا مقصد ایک ہی تھا اور وہ تھا بالشوزم کا مقابلہ کرنا۔ انہوں
نے سمجھا کہ اگر یہ خیالات لوگوں میں پھیل گئے تو ہماری ترقی بالکل رُک جائے گی۔ چونکہ عوام الناس پر بالشویک تحریک کا اثر لازمی تھااِس لئے غرباء اِس تحریک کے حامی تھے کیونکہ وہ کہتے تھے اس ذریعہ سے ہمیں کپڑے ملیں گے، کھانا ملے گا، دواملے گی اور ہماری تمام ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔ دُور کے ڈھول ہمیشہ سہانے ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی کئی لوگ بالشویک تحریک کے حامی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اِس حکومت میں سرکار کے آدمی ہر شخص کے پاس آتے اور اُسے سِلا سِلایا پاجامہ اور سِلی سِلائی قمیص دے دیتے ہیں، اِسی طرح کھانے کے لئے جس قدر غلّہ ضروری ہو وہ دے دیتے ہیں یا اَورجن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے حکومت فوراً مہیّا کردیتی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اگر یہ تحریک جاری ہوجائے تو دُنیا کاتما م موجودہ نظام توڑ کربے شک ہر شخص کوروٹی کپڑا ملے گا لیکن جو بچے گاوہ سرکارلے جائے گی مگرعام لوگ اِن باتوں کو نہیں دیکھتے وہ صرف اتنا دیکھتے ہیں کہ اِس تحریک کے نتیجہ میں ہمیں روٹی کپڑا ملے گا اور کوئی شخص ننگا یا ُبھوکا نہیں رہے گا۔
اٹلی اور جرمنی کی طرف سے بالشوزم کے خلاف اور ناٹسزم
اور فیسزم کی حمایت میں پروپیگنڈا کے مختلف ذرائع
غرض جرمنی اور اٹلی میں بھی عوام النّاس پر اس تحریک کا اثر ہونے لگا اور لوگ
یہ کہنے لگ گئے کہ ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ اس سے ہر شخص کو آرام حاصل ہوجائے گا اور دُکھ دردجاتارہے گا۔
جرمنی اوراٹلی کی طرف سے بالشوزم
کے خلاف پروپیگنڈا کا پہلا ذریعہ
آخر ہٹلر اور مسولینی نے اِس کا توڑ نکالا اور لوگوں سے کہا کہ تم فکر نہ کرو ناٹسزم اور فیسزم بھی امیروں کے مالوں پر قبضہ کرے گی اور ملک کی تمام تجارتوں اور صنعت وحرفت پر قبضہ کرکے
غریبوں کو اُن کا حق دلوائے گی۔ پس آئندہ براہِ راست مزدور اور سرمایہ دار کا تعلق نہیں ہوگابلکہ حکومت کے توسّط سے ہوگا اور اِس طرح انہیں وہ تکلیف نہیں ہوگی جو تاجروں سے پہنچتی ہے یا کارخانہ داروں سے پہنچتی ہے کیونکہ ہماری حکومتیں تجارتوں اور صنعت وحرفت پر خود قبضہ رکھیں گی اور اس طرح غریبوں کا حق انہیں دلوائیںگی۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کو مالدار بنانے کے لئے بڑے بڑے کارخانوں کی ضرورت ہے، بڑی بڑی تجارتوں کی ضرورت ہے تاکہ مالداروں سے مال لے کر تمہاری بہتری پر خرچ کیا جاسکے اس غرض کے لئے ضروری ہے کہ بیرونی ممالک سے تجارت جاری رکھی جائے اور اِس طرح اُن کے مال کو لُوٹ کر اپنے ملک کے غرباء کی ترقّی کے لئے خرچ کیاجائے مثلاً انہوں نے لوگوں سے کہا کہ تم چین کو نہیں لُوٹ سکتے۔ تم امریکہ، انگلستان یا فرانس کو نہیں لُوٹ سکتے، لُوٹنے کا طریق یہی ہے کہ ہمارے پاس بڑے بڑے جہاز ہوں، بڑے بڑے کارخانے ہوں، بڑی بڑی تجارتیں ہوں اور ہمارے تاجر باہر جائیں اور ان ممالک کے اموال لُوٹ کر لے آئیں۔ پس انہوں نے اپنے ملک کے لوگوں کو سبق دیاکہ تم اِن بڑے بڑے تاجروں کو مال کمانے دو پھر ان سے مال چھین کر ہم تمہیں دے دیں گے۔ اگر ایسا نہ ہؤا تو وہی مثال ہوجائے گی جیسے کہتے ہیں کہ کسی شخص کے پاس ایک مُرغی تھی جو روزانہ ایک سونے کا انڈہ دیا کرتی تھی اُسکے دِل میں حرص پیداہوئی کہ اگر میںاسے زیادہ ِکھلائوںگا تو یہ دو انڈے روزانہ دیا کرے گی چنانچہ ایک دن اُس نے اسے خوب ِکھلایا مگر نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مر گئی اورآئندہ سونے کا انڈہ ملنا بند ہوگیا۔ یہی بات جرمنی او راٹلی کی حکومتوں نے اپنی رعایا کے کانوں میں ڈالی کہ اگر اُمراء کو ایک دفعہ لُوٹ لیا اور پھر انہیں کمانے کاموقع نہ دیا تو وہ غریب ہوجائیں گے او راُن کی لُوٹ میں تم ایک دفعہ ہی حصّہ لے سکو گے لیکن اگرتم ایک دفعہ لُوٹ لو اور پھر انہیں کمانے کی اجازت دے دو اور جب کچھ عرصہ کما چُکیں تو پھر لُوٹ لو تو اِس طرح باربار اُن کے مال تمہارے قبضہ میں آتے چلے جائیں گے۔ پس انہوں نے کہا کہ اِن بڑے بڑے تاجروں کو مال کمانے دو جب یہ مال کما کرلائیں گے تووہ تمہیں دے دیئے جائیں گے۔
بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کادوسرا ذریعہ
دوسرے انہوں نے اپنے ملک کے لوگوں کو یہ بتایا کہ بالشوزم
امپیریلزم کی مخالف ہے اور چاہتی ہے کہ غیر مُلکیوںکی حکومت نہ ہو مگر حالت یہ ہے کہ انگریزوں نے ایک مدّت تک ملکوں پر حکومت کرکے دُنیا کے اموال ُخوب جمع کرلئے ہیں یہی حال امریکہ اور فرانس کا ہے کہ وہ دُنیا کی سیاست اور اقتصادپر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں مگر جب ہماری باری آئی ہے تو اب یہ دلیلیں دی جاتی ہیں کہ اس کا یہ نقصان ہے وہ نقصان ہے ہم ان دلیلوں کو نہیں مانتے۔ ہم بھی انکی طرح غیرمُلکوں پر قبضہ کریں گے اور ان کے اموال لاکر اپنے ملک کے غرباء میں تقسیم کریں گے۔ غریبوں کو یہ بات طبعاً بہت اچھی لگی اور انہوں نے بھی آخر اِس تحریک کی تائید کرنی شروع کردی۔
بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا تیسرا ذریعہ
پھرانہوں نے اپنے ملک کے لوگوں کو بتایا کہ بالشویک تحریک
خود بخود زور نہیں پکڑ رہی بلکہ دراصل امریکہ، فرانس اور انگلستان والے اِس کی مدد کر رہے ہیں تاکہ جرمنی اور اٹلی والے ان کی دولت میں حصہ دار نہ بن سکیں۔ اس سے ملک میں بالشوزم کے خلاف اَور بھی جوش پیدا ہوگیا۔
بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا چوتھا ذریعہ
پھر انہوںنے اپنے ملک کے لوگوں کو ایک اور بات بتائی اور
کہا دیکھو! اگر آج ہم اپنے ملک کے امیروں کو لُوٹ لیں گے تب بھی ہمارا اِقتصادی معیار زیادہ بلند نہیں ہوگا کیونکہ ہمارا ملک پہلے ہی غریب ہے اور اس کے پاس دولت بہت کم ہے اور تھوڑی دولت کی تقسیم ملک کے افراد کو آسُودہ حال نہیں بناسکتی۔ فرض کرو ۱۰۰ غرباء ہوں اور پچّاس روپے ہوں توہر غریب کو آٹھ آٹھ آنے ملیں گے مگر آٹھ آنے سے اس کی مالی حالت سُدھر نہیں سکتی پس انہوں نے غرباء سے کہا کہ ہمارے ملک پہلے سے غریب ہیںاگر ان میں بالشویک تحریک آبھی جائے تب بھی سارے ملک کا اقتصادی معیار اتنا بلند نہیں ہوگا جتنا کہ بغیر بالشوزم کے انگلستان، فرانس اورامریکہ میں ہے پس بالشوزم ان ممالک کے لئے زہرِ قاتل ثابت ہوگی ہاں اگر فیسزم اور ناٹسزم کی جارحانہ پالیسی کو تسلیم کر لیا جائے تو ایک طرف تو ان کا طاقت پکڑنے والا نظام امریکہ، انگلستان اور فرانس کو شکست دے کر ان کی دولت کو کھینچ لائے گا اور دوسری طرف دوسرے ممالک پر قبضہ کرکے اُن کی دولت سے ان ممالک کو مالا مال کیا جاسکے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ دولت کی فراوانی کے بعد نیشنل سوشلسٹ حکومت کے نظام کے ماتحت غرباء کی حالت اس سے کہیں بہتر ہوگی جتنی کہ بالشویک رواج کے ماتحت ہوسکتی ہے کیونکہ تھوڑی دولت کی تقسیم آخر ملک کے ہر فرد کو آسُودہ نہیں بنا سکتی مگر زیادہ دولت کی تقسیم نیشنلسٹ انتظام کے ماتحت ملک کے تمام افراد کو زیادہ سُکھیا بنادے گی۔
اٹلی اور جرمنی ؔ میں ناٹسزم اور فیسزم کی قبولیّت
یہ سارے نظر یّے ایسے تھے کہ باوجود اِس کے کہ
اٹلی، جرمنی اور سپین میں بالشوزم کے ایجنٹ موجود تھے، لوگوں نے ناٹسزم اور فیسزم کی طرف توجّہ کرنی شروع کردی کیونکہ انہوں نے کہا ہمارا پیٹ فیسزم اور ناٹسزم سے زیادہ بھرتاہے بالشوزم سے زیادہ نہیں بھرتا۔ پس انہوں نے اپنے ملک کے لیڈروں کو طاقت دینے کا تہیّہ کرلیا تاکہ وہ انگلستان، فرانس اور امریکہ کوشکست دے کر اِن ملکوں کی دولت کو کھینچ لائیں اورجرمنی، اٹلی اور سپین میں تقسیم کردیں۔
بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا پانچواں ذریعہ یعنی
بیرونی اقتدار کے ماتحت مذاہب کو مٹانے کی کوشش
یہ جو نیشنل سوشلزم والے لوگ تھے انہوں نے ایک اور بات بھی پھیلائی اوروہ یہ کہ جس طرح
بالشویک تحریک کے ذریعہ امریکہ، انگلستان اور فرانس والے ہمیں نقصان پہنچارہے ہیں اسی طرح یہ مالدار اقوام اپنے بیرونی مذہبی اثر سے ملک میں تفرقہ پیدا کئے رکھتی ہیں اس لئے کوئی ایسا مذہب ملک میں مقتدر نہیں ہونا چاہئے جو بیرونی اقتدار کے اثر کے نیچے ہو۔ چنانچہ اِسی بناء پر ہٹلر نے رومن کیتھولک اوریہودی مذہب کو مٹانا شروع کیا بلکہ اِس ڈرسے کہ آئندہ اسرائیلی نسل کے لوگ بالشوزم کا اثر نہ پھیلائیں کیونکہ روس میں اسرائیلیوں کو اقتدار حاصل ہے اس نے عیسائی اسرائیلیوں کوبھی تباہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ہٹلر یہودیوں کا اِسی لئے مخالف ہے کہ اس کا اصل یہ ہے کہ ایسے تمام مذاہب جن کے مرکز جرمنی سے باہر ہیں انہیں ملک میں طاقت پکڑنے نہیں دینا چاہئے یہی بناء اس کی رومن کیتھولک سے مخالفت کی ہے۔ باقی لوگوں کاچونکہ باہر کوئی مذہبی مرکز نہیں اس لئے وہ سمجھتا ہے ان کی نگاہ جرمنی سے باہر کسی اَور طرف نہیں اُٹھے گی۔ گویا اُن کا جومذہب ہوگا اس میںوہ مُنفرد ہوںگے خواہ اس میں کس قدر وحشیانہ احکام کیوں نہ پائے جاتے ہوں۔
بیرونی اِقتدار کے ماتحت مذاہب
کو مٹانے کی کوششوں کا نتیجہ
اس اثر کے ماتحت جرمنی میں ایسی مذہبی تحریکیں شروع ہوگئی ہیں جو پُرانے اصنام پرستی کے عقائد کی طرف لوگوں کولے جاتی ہیں چنانچہ ایک تحریک جس میں جنرل لوڈن ڈروف ۵؎
اور اُن کی بیوی نے بہت سرگرمی دکھائی، یہ ہے کہ پُرانے زمانہ میں جرمن کُتّے کی ُپوجا کیاکرتے تھے اب پھر جرمنوں کو اسی طرف توجّہ کرنی چاہئے۔ یہ ہٹلر کی اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ ایسا طریق اختیار کروکہ کوئی قوم اپنے بیرونی مذہبی اثر سے ملک میں تفرقہ پیدا نہ کرسکے اور چاہئے کہ کوئی ایسا مذہب ملک میں نہ ہو جس کا مرکز جرمن سے باہر ہو اسی بناء پرجرمنی نے رومن کیتھولک اور یہودی مذہب کو مٹانا شروع کیاہے۔ اٹلی والوں نے ایسا نہیں کیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ روم ہی رومن کیتھولک مذہب کا مرکز تھااور اس وجہ سے فاشسٹ پارٹی نے اس مذہب کی اتنی مخالفت نہیں کی مگر اس کے اقتدارکو کم کرنے کی ضرورکوشش کی تاکہ ملک کی مذہبی جماعت سیاسی جماعت کے کام میں رخنہ پیدا نہ کرے۔ بعد میں ہٹلر کے اثر کے ماتحت اسرائیلیوں کی مخالفت بھی انہوں نے شروع کردی کیونکہ انہیں بتایا گیا کہ ایک طرف یہ قوم بالشویک اثر کو پھیلاتی ہے اور دوسری طرف برسرِ اقتدار حکومتوں میں خاص نفوذرکھنے کی وجہ سے اُن کے اثر کو مضبوط رکھتی ہے۔ سپین نے بالشویک اور موجود ہ برسرِ اقتدار اقوام کی مخالفت توکرنی شروع کی لیکن یہودیوں کی ابھی اتنی مخالفت شروع نہیں کی جتنی جرمنی اور اٹلی میں ہوتی ہے۔
بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا چھٹا ذریعہ یعنی
آرین نسل کے لئے استحقاقِ حکومت کے خیال کی اشاعت
پھر ایک او ر نظریہ ہٹلر اور مسولینی نے پبلک کوجوش دلانے اور اُن کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے یہ پھیلایا
کہ دُنیا میں ارتقاء کے مسئلہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ دُنیا میں سب سے بہتر چیز ہی آگے بڑھتی ہے اور اس کے بڑھنے سے ہی دُنیا کا ہر اگلا قدم ترقی کی طرف جاتا ہے۔ اسی نظریہ کے ماتحت اس نے کہا کہ چونکہ آرین نسل سب قوموں سے زیادہ قابل ہے اِس لئے جرمن نسل کو خصوصاً اور باقی آرین نسلوں کو عموماً آگے لانا چاہئے۔ اِس موقع پر مَیں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہٹلر اِس بات میں پنڈت دیا نند کا شاگرد ہے کیونکہ سب سے پہلے پنڈت دیانند صاحب نے ہی یہ خیال پھیلایا کہ آرین نسل سب نسلوں سے اعلیٰ ہے بہرحال جرمن چونکہ آرین نسل میں سے ہیں او رآرین نسل ہٹلر کے اصول کے مطابق سب سے اچھی ہے اِس لئے ہٹلر نے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیداکیا کہ جو اعلیٰ نسل ہو اُسے ہی حکومت ملنی چاہئے۔ وہ کہتا ہے دیکھو! لوگ اچھا گھوڑا پیدا کرتے ہیں، اچھی گائے پیداکرتے ہیں او رچاہتے ہیںکہ ناقص گھوڑوں اور ناقص گائیوں کی بجائے اعلیٰ عمدہ نسل کے گھوڑے او رگائیں رکھیں پھر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ حکومت میں اِس امر کو مدِّ نظر نہیں رکھا جاتا اور اِس بات کو نظر انداز کیاجاتا ہے کہ دُنیا میں زیادہ قابل لوگ ہی حکومت کے اہل ہوتے ہیں۔ چونکہ اِس وقت ہماری نسل سب سے اعلیٰ ہے اِس لئے ہمارا حق ہے کہ ہم دوسروں کو غلام بنا کر رکھیں جیسے انسان گدھے کو غلام بنا کر رکھتاہے۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ وہ گدھے کے تابع ہوکر چلے جس طرح گدھے کو اپنے ماتحت رکھنا ظلم نہیں کہلا سکتا اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ ہم لوگوں کو اپنے ماتحت کریں اور اُن پر حکومت کریں۔ یہ نظریہ بھی لوگوں کو بڑا پسند آیا اور اِس طرح ہٹلر اورمسولینی کے ساتھ اُن کا تمام ملک ہوگیا۔خلاصہ یہ کہ غربت کے دُکھ درد کو دُور کرنے کے لئے اِس وقت تین تحریکیں دُنیا میں زور پر ہیں۔
سوشلزم کے ذریعہ انگلستان،فرانس
اور امریکہ کے مزدوروں کو فائدہ
اوّل برسرِ اقتدار ممالک کی سوشلزم جو آہستہ آہستہ اپنے ملکوں میں غرباء کو زیادہ حقوق دلانے اورحکومت کو ملک کی دولت پر زیادہ تصرّف دلانے کی تائید میں ہے یہ تحریک انگلستان، فرانس
او رامریکہ میں جاری ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ آہستہ آہستہ مزدور پیشہ لوگوں کو حکومت میں زیادہ تصرّف دلایاجائے، غرباء کو زیادہ حقوق دلائے جائیں اور ملک کی تجارت کو اتنا بڑھایا جائے کہ غرباء کی غربت دُور ہوجائے۔ اِن ممالک میں چونکہ یہ تحریک ایک عرصہ سے جاری ہے اِس لئے اس کا ان ممالک کے غرباء کو اِس حد تک فائدہ ضرور ہؤا ہے کہ ہمارے ملک کا امیر اور انگلستان کا غریب دونوں برابر ہوتے ہیں۔ یہاں کسی کی تنخواہ تین سَوروپے ہو جائے تو وہ اپنے آپ کورئیس سمجھنے لگتا ہے۔ ہمارے ملک میںبڑا ُعہدہ ڈپٹی کاہے یا جج کا ہے اور سب جج اور ڈپٹی کو اڑھائی سَوروپے تنخواہ ملا کرتی ہے مگر یہ انگلستان میں ایک مزدور کی تنخواہ ہے۔ امریکہ میںتو اس سے بھی زیادہ تنخواہیں ہیںوہاں بعض جگہ معمولی مزدور کی ماہوارتنخواہ ڈیڑھ ڈیڑھ سَو دو دو سَو ڈالر ہوتی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ پانچ سَویا سات سَوروپیہ ماہوار مگر وہ کہلاتا مزدور ہے۔ غرض انہوں نے ایک تو معیارِ زندگی کو بڑھالیا ہے دوسرے انہوں نے یہ اصول مقرر کیا ہؤا ہے کہ ملک کی تجارت اور اقتصادی حالت کو زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے اِس طرح ملک کی دولت بڑھے گی اور جب ملک کی دولت بڑھے گی تو غرباء کو بھی ترقی حاصل ہوگی۔یہ انگلستان، فرانس اور امریکہ کی تحریکِ سوشلزم کے نتائج ہیں لیکن اس تحریک کی ہمدردی زیادہ تر اپنے ملک کے غرباء کے ساتھ ہے۔ وہ یہ تو چاہتے ہیں کہ دوسرے ممالک کی بھی کچھ اَشک شوئی کریں مگر یہ نہیں چاہتے کہ دوسرے ممالک میں جو اُن کی اقوام کو نفوذ اور اقتدار حاصل ہے وہ مِٹ جائے۔ ہندوستان کا سوال آجائے تو وہ ضرور اَشک شوئی کرنے کی کوشش کریں گے مگر جب بھی وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کو کچھ دے دیا جائے اُس وقت وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے اقتدار میں کوئی فرق آئے۔ گویا ان کا ہندوستانیوں سے ایسا ہی سلوک ہوتا ہے جیسے ایک پالتو جانور کو اچھی غذا دی جاتی ہے۔ پالتو جانور کو اچھی غذادینے والا اچھی غذا تو دیتا ہے مگر اپنی غذا کو نقصان نہیں پہنچنے دیتا اسی طرح یہ لوگ ہندوستان کو جب بھی کوئی حق دینا چاہتے ہیں ساتھ ہی یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کی امپیریلزم کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ آج ہمارا مزدور چارسَو روپیہ ماہوار لیتا ہے اگرکَل وہ دوسَو روپیہ تک پہنچ گیا تو ہماری حالت بھی وہی ہوجائے گی جو ہندوستان اور افغانستان کے غرباء کی ہے۔ اِس تحریک کے دوعظیم الشّان نقصانات ہیں۔
سوشلزم تحریک کے دو عظیم الشان نقصانات یعنی غیر ملکوں
سے ہمدردی کا فُقدان اور مذہب سے بے توجہّی
اوّل اِس تحریک کو ساری دنیا سے ہمدردی نہیں بلکہ اپنے اپنے ملک سے ہمدردی ہے۔
گویا یہ تحریک مخفی امپیریلزم کی شریکِ حال ہے اور انٹرنیشنلزم کا ساتھ صرف اس لئے دیتی ہے کہ دوسری اقوام آگے نہ بڑھیں۔ دوسرا نقص اِس تحریک میں یہ ہے کہ اس میں صرف دُنیوی پہلو کو مدِّ نظر رکھا گیا ہے مذہبی پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ گویا اگر پہلے نقص کو یہ تحریک دُور بھی کر دے اور اِس نظام کے اصول میں ساری دنیا سے ہمدردی کرنا شامل کرلیا جائے تب بھی مذہب کا خانہ خالی ہے حالانکہ جسمانی ضرورتوں سے مذہبی اور دینی ضرورتیں زیادہ اہم ہؤا کرتی ہیں۔ یہ لوگ مذہب کے دشمن نہیں مگر انہیں مذہب سے ہمدردی بھی نہیں اور جب ہمدردی نہیں تو انہوں نے مذہب کے لئے خرچ کیا کرنا ہے؟
دوسری تحریک اِس مرض کا علاج کرنے کے لئے وہ جاری کی گئی ہے جو روس میں پائی جاتی ہے اور جس کا نقطۂ مرکزی یہ ہے کہ انفرادی جدّوجہد کو بالکل مٹا دیا جائے اور جس قدر دولت ہو وہ حکومت کے ہاتھ میں آجائے جو لوگ ہاتھ سے کام کرنے والے ہوں ان کے لئے تو مناسب گذارے مقرر کر دئیے جائیں مگر خالص علمی اور مذہبی کام کرنے والوں کو عضوِ بیکار قرار دے کر حکومت کی مدد سے محروم کردیا جائے اور عام گذارہ سے زیادہ بچی ہوئی تمام دولت حکومت کے ہاتھ میںہو اور کام اور مقام کا فیصلہ بھی حکومت کرے او رماں باپ کو مذہب کی تعلیم دینے کا اختیار نہ دیا جائے اور اس تحریک کوساری دنیا میں پھیلا یا جائے یہاں تک کہ دنیا کی سب اقوام اس تحریک میںشامل ہو جائیں۔ گو یہ لوگ اقتدارِ عوام کے حامی ہیں مگر شروع میں ایک لمبے عرصے تک یہ اقتدار عوام کو سونپنے کے لئے تیار نہیں۔یہ تحریک روس میں بالشوزم اور کمیونزم (COMMUNISM)اور دوسرے ممالک میںکمیونزم کہلاتی ہے۔ اِس تحریک کے اصولی نقائص یہ ہیں:-
کمیونزم کے سات اصولی نقائص۔ پہلا نقص
یعنی انفرادی جدّوجہد کے رستہ کی بندش
اوّل۔ انفرادی جدّوجہد کا راستہ بالکل بندکردیاگیاہے یہ اس تحریک میںایک خطرناک نقص ہے جو گواِس وقت محسوس نہیں کیاجاتا مگر بعد میں کسی
وقت ضرور محسوس کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں یہ مادہ رکھا ہے کہ جس کام سے اُس کا ذاتی فائدہ ہو یا جس کام کے نتیجہ میں اُس کے ذریعہ سے دوسروں کا فائدہ ہو اس میں تو وہ دلچسپی لیتا ہے مگر جس کام کا فائدہ اُسے یا دوسروں کوکسی دوسرے کے ہا تھ سے پہنچے اُس میں وہ زیادہ دلچسپی نہیں لیتا۔ جب تم کسی کے دماغ سے اِس رنگ میں کام لو گے کہ خواہ اس کام کا نتیجہ اُسے نظر آئے یانہ آئے وہ کرتا چلاجائے تویہ لازمی بات ہے کہ وہ اس کام میں دلچسپی نہیں لے گا کیونکہ دلچسپی نتیجہ نظرآنے سے ہوتی ہے۔ اب توجو شخص تعلیم حاصل کرتاہے وہ سمجھتاہے اگر میں ایم۔اے ہوگیا یا یونیورسٹی امتحان میں فرسٹ (FIRST) نکل آیا تو مجھے کوئی اعلیٰ ملازمت مِل جائے گی یا کوئی خیال کرتاہے کہ مَیں فوج میں لیفٹیننٹ ہوجائوں گا، کوئی خیال کرتاہے مَیں ای۔ اے۔ سی ہوجائوں گا، کوئی خیال کرتاہے مَیں بڑاتاجر ہوجائوں گا اوراِس طرح خودبھی روپیہ کمائوں گااور اپنے ماں باپ اور بیوی بچّوں کی بھی خدمت کروںگا۔ اِس وجہ سے وہ اپنی تعلیم میں بڑی دلچسپی لیتاہے لیکن فرض کرو یہ محرّک جاتا رہے اور حکومت فیصلہ کردے کہ جس قدر طالبِ علم پڑھ رہے ہیں سب کو پندرہ پندرہ روپے ملیں گے جو پرائمری پاس ہو اُسے بھی پندرہ روپے ملیں گے، جو پرائمری فیل ہو اُسے بھی پندرہ روپے ملیں گے، جو ایم۔اے پاس ہو اُسے بھی پندرہ روپے ملیں گے اور جو انٹرنس پاس ہو اُسے بھی پندرہ روپے ملیں گے تو اِس کا لازمی نتیجہ یہ پیدا ہوگا کہ دماغ کی کاوش، محنت اور جوش سب ختم ہوجائے گا اور ایک عام انسان کہے گا مجھے محنت کی کیا ضرورت ہے۔ میرا دوست روز سینما دیکھتا ہے مَیں بھی کیوں سینمانہ دیکھاکروں اور کیوں ایم۔ اے بننے کی کوشِش کروں۔ ایف۔اے تک ہی تعلیم حاصل کرکے کیوں نہ ختم کردوں۔ جب مجھے آخر میں پندرہ روپے ہی ملنے ہیں تو زیادہ تعلیم حاصل کرنے اور زیادہ جدّوجہد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بہت تھوڑی تعداد ایسے لوگوں کی نکلے گی جنہیں علم سے ذاتی شغف ہو اور جنہیں اگر مارپیٹ کر بھی تعلیم سے ہٹانا چاہیںتووہ نہ ہٹیں۔ زیادہ تر ایسے لوگ ہی نکلیں گے جو ان حالات میں تعلیم سے دلچسپی لینا ترک کر دیں گے اسی طرح ہر فن کے لوگ اپنے اپنے فن میں دلچسپی لینا ترک کردیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آہستہ آہستہ انسانی دماغ گِرنا شروع ہوجائے گا اور وہ خواص جو نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں مٹ جائیں گے۔
یہ مت سمجھو کہ باپ کے خواص بیٹے میں منتقل نہیںہو سکتے کیونکہ تجربہ بتاتا ہے کہ جو لوگ اچھے حساب دان ہوں اُن کی اولاد میں عام طور پر اچھے حساب دان پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو شخص جس فن کاماہر ہووہ فن بِالعموم ورثہ کے طور پر اُس کی اولاد میں منتقل ہوجاتاہے۔ اِسی وجہ سے بعض خاندان اور بعض اقوام خاص خاص علوم اور خاص خاص فنون میںماہر سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً اٹلی میں اچھے مصوّر اور اچھا باجا بجانے والے پائے جاتے ہیں، کشمیری کھانا پکانے کا فن اور خوشخطی کا فن خوب جانتے ہیں، یہی حال بعض اَور قوموں کا ہے۔ یہ چیز نسلی طور پر بھی ترقی کرتی ہے۔ چنانچہ جو شخص بہادر ہو اُس کا بیٹا بِالعموم بہادر ہی ہوتاہے پنچابی میں اِسے تُخْمِ تأثیر کہتے ہیں۔ اور سائنس سے بھی ثابت ہوتاہے کہ انسان کے اخلاق کے ذرّات خواہ وہ اچھے ہوں یا بُرے، نسل میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ جس قسم کے اخلاق کسی انسان میں پائے جاتے ہیں اُسی قسم کے ذرّے اُس کی نسل میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ شجاعت، صداقت، عفّت، علم سے شغف یا اسی قِسم کے اَور اَخلاق نسلوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ ایسے ذرّات کبھی دوسری پُشت میں، کبھی چوتھی پُشت میں اور کبھی آٹھویں یا دسویں پُشت میں ظاہر ہوجاتے ہیں حالانکہ وہ ذرّات اُس کے کسی پڑدادا بلکہ نکڑ دادا میں پائے جاتے تھے۔ پنچابیوں نے اسی سے تُخْمِ تأثیر کا اصل نکالاہے۔
اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ صحبت کا اثر بھی بہت بڑا ہوتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ نسلاًبعد نسلٍ بعض اخلاق وصفات منتقل ہوتی چلی جاتی ہیں مگر یہ چیز قدرتی طور پر اُن قوموں میں بہت کم ہوجائے گی جن پر بالشویک تحریک کا اثر ہو کیونکہ ترقی کے لئے وسعتِ خیال کے مادہ کا ہونا اور کسی محرّک کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور اس تحریک میں اس محرّک کو بہت کمزور کردیاگیاہے۔
کمیونزم کا دوسرا نقص یعنی جبرو اِکراہ اور اس کا نتیجہ
دوسرانقص اِس تحریک میں یہ ہے کہ جبر کا دروازہ کھول
کر فساد کوجاری کردیاگیا ہے۔ اگراس تحریک کے بانی یہ کرتے کہ آہستگی سے اُمراء کو عادی بناکر اُن سے دولت لے لیتے تواس میںکوئی حرج نہ تھا مگر انہوں نے یکدم اُن کی دولت کو لُوٹ لیا اور وہ جو ہر وقت نوکروں کے جمگھٹے میں رہتے تھے انہیںاس سے محروم کردیا۔ گویا دوسرے لفظوں میں ان کے ساتھ یہ سلوک کیاکہ انہیں محلّات سے اُٹھا کرچوہڑوں کے مکانوں میں بھیج دیا۔ اس قسم کے تغیرات کا لازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ فساد شروع ہو جاتاہے کیونکہ ہر تغیر سے پہلے اُس کے مناسبِ حال ماحول پیدا کرنابھی ضروری ہوتاہے اچھا باغبان جب کسی درخت کو اُکھیڑ تا ہے تو مناسب ماحول میں اُکھیڑتا اورمناسب ماحول میں ہی دوسری جگہ لگاتاہے اگر اِس کا خیال نہ رکھا جائے تو وہ درخت کبھی پھل نہیں لا سکتا۔ اِس تحریک میں چونکہ اِس اصل کو مدِّ نظر نہیں رکھا گیا اس لئے نتیجہ یہ ہؤا کہ پُرانے اُمراء بھاگ بھاگ کردوسرے ملکوں میں چلے گئے اوروہاں کے رہنے والوں کو روس کے خلاف اُکسانے لگ گئے۔ کبھی امریکہ کو کبھی انگلستان کو اورکبھی فرانس کو تاکہ وہ اِن ملکوں کو اُکساکرروس کے خلاف کھڑا کردیں اور اس طرح اگر وہ خود تباہ ہوئے ہیں تو روس بھی تباہ ہوجائے۔
کمیونزم کا تیسرا نقص یعنی مذہب کی مخالفت اور اِس کا نتیجہ
تیسرے انہوں نے مذہب کی مخالفت
کرکے سب مذہبی دُنیا کواپنا مخالف بنالیا ہے۔ یہ لازمی بات ہے کہ جو لوگ مذہب سے محبت رکھنے والے ہونگے وہ اس تحریک کے کبھی حامی اور مؤیّد نہیں ہوں گے۔
کمیونزم کا چوتھا نقص یعنی مُلک میں ڈکٹیٹری کی ترویج
چوتھے انہوںنے ڈکٹیٹری کے لئے رستہ کھولا ہے۔
بے شک یہ لوگ اصولاً اقتدارِ عوام کے حامی ہیںمگر جیسا کہ مَیں ابھی بتاچکا ہوں وہ شروع میں ہی یہ اقتدار عوام النّاس کو سونپنے کے لئے تیار نہیں بلکہ کہتے ہیں ابتداء میں ڈکٹیٹر شپ ضروری چیز ہے مگر اس کی کوئی حد مقرر نہیں۔ لینن کے بعد سٹالن ڈکٹیٹر بن گیا، سٹالن۶؎ کے بعد مولوٹوف ۷؎ بن جائے گا پھر کسی اَور ٹوف کی باری آجائے گی۔ اِس طرح یہ تحریک عملی رنگ میں ڈکٹیٹر ی کے لئے راستہ کھولنے والی ہے۔
کمیونزم کا پانچواں نقص یعنی علم کے راستہ میں رُکاوٹ
پانچواں اِس تحریک کا ایک لازمی نتیجہ علم کے
راستہ میں رُکاوٹ کا پیدا ہونا ہے۔ اِس رنگ میں بھی کہ جب ہر شخص کو پندرہ پندرہ یابیس بیس روپے ملیں تو عِلمی ترقی کی تڑپ اُس کے دل میں نہیں رہ سکتی اوروہ سمجھ لیتا ہے کہ خواہ مَیں تھوڑا عِلم حاصل کروں یا بہت جب مجھے معاوضہ میرے گذارہ کے مطابق مِل جائے گا تو مَیں زیادہ علم کیوں حاصل کروں۔ اور اِس رنگ میں بھی کہ دماغی اور علمی ترقی کے لئے دوسرے ملکوں میںجانا اوران کے حالات کا دیکھنا ضروری ہوتاہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ وہی قومیں دُنیا میں ترقی کیا کرتی ہیں جن کے افراد کثرت سے غیر ملکوں میںجاتے اور وہاں سے مفید معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اگر چند مخصوص آدمی غیر ممالک کی سیر کے لئے جائیں تو وہ کبھی بھی وہ معلومات حاصل نہیں کرسکتے جو مختلف ممالک اور مختلف اقوام کے لوگ غیر ممالک میں جا کر حاصل کر سکتے ہیںکیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے دماغ میں مختلف قسم کی قابلیّتیں رکھی ہیں۔ کسی بات میں چینی دماغ اچھا کام کرتا ہے، کسی بات میں جاپانی دماغ اچھا کام کرتاہے، کسی بات میں ایرانی دماغ اچھا کام کرتاہے، کسی بات میں فرانسیسی دماغ اچھا کام کرتا ہے اور کسی بات میں ہندوستانی دماغ اچھاکام کرتا ہے۔ ڈھاکہ کی ململ بڑی مشہور تھی جو یہاں کے جولاہے تیار کیا کرتے تھے۔ انگریزوں نے بڑی بڑی مشینیںنکالیں اور اچھے سے اچھے کپڑے تیار کئے مگر ڈھاکہ کی ململ وہ اب تک نہیں بنا سکے۔ اِسی طرح مصری لوگ ممی بنانے میں بڑے مشہور تھے۔ اب بظاہر انگریز اور فرانسیسی علم میں بہت بڑھے ہوئے ہیں مگر سارا زور لگانے کے باوجود وہ اب تک ویسا مصالحہ تیار نہیںکر سکے جو مصری تیار کیا کرتے تھے۔ مَیں نے خود ممی کی ہوئی لاشیں دیکھی ہیں ایسی تازہ معلوم ہوتی ہیں گویا ابھی انہوں نے دَم توڑا ہے حالانکہ انہیں فوت ہوئے کئی کئی ہزار سال گزر چکے ہیں یہاں تک کہ اُن کے جسم کی چکنائی تک صاف نظر آتی ہے اِس کے مقابلہ میں اب جو لاشوں کی حفاظت کے لئے مصالحہ لگایا جاتا ہے وہ تھوڑے عرصہ میں ہی خراب ہوجاتاہے۔ اب دیکھو یہ مصریوں کے دماغ کی ایک ایجاد تھی جس کا اب تک لوگ پتہ نہیں لگاسکے۔ اِسی طرح دہلی میں ایک حمام تھا جس کے متعلق کہا جاتاہے کہ اُس کے نیچے ایک دِیا جلا کرتاتھا او ر اُس دِیے کی وجہ سے وہ حمام ہمیشہ گرم رہتا۔ کہتے ہیں جب دہلی میں انگریزوں کا تصرّف بڑھا تو انہوں نے کہا ہم اسے توڑ کر دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ حمام کس طرح ایک دِیے سے گرم ہوتا ہے چنانچہ انہوں نے اُسے توڑ دیا مگر پھر دوبارہ اُن سے ویسا نہیں بن سکا۔ تو مختلف دماغ مختلف کاموں سے شغف رکھتے ہیں جب وہ آپس میں ملتے ہیں توایک کے دماغ کو دوسرے سے روشنی ملتی ہے اور اِس طرح ذہنی اور علمی ترقی ہوتی رہتی ہے۔ جب ہم کسی زمیندار کے پاس بیٹھتے اور اس سے باتیں کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کیا کیا خصوصیات ہیں، بڑھئی کے پاس بیٹھتے ہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ اس بڑھئی کی کیا کیا خصوصیات ہیں اور اُن سے مِل کر اور باتیں کرکے ہمیں کئی نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں اور ہماری رُوح میں بھی زندگی پیدا ہوتی ہے۔ اِسی طرح جب ہم کشمیر یا یُو۔ پی میں چلے جاتے ہیں تو ہمیں نیا علم حاصل ہوتاہے اِسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ۸؎ یعنی اگر تمہیں توفیق ملے توتم دُنیا کی سَیر کیا کرو تاکہ تمہاری معلومات میںاضافہ ہو اور تمہاری دماغی اور علمی ترقی ہو۔ جب کوئی شخص عرب جائے گاتو ایک طرف وہ سمندر کی سَیر کا لُطف اُٹھائے گا، دوسری طرف وہ اِس سفر میں ایران اور عراق اور دوسرے کئی ملکوں کو دیکھ لے گا اور اِس طرح بہت سی مفید معلومات حاصل کرلے گا لیکن اگر سارے ملک کے لوگوں کو ایک جیسے پیسے ملیں، ایک جیسا نمک اور ایک جیسا مرچ مصالحہ ملے تو وہ غیر ملکوں کی سَیر کے لئے کس طرح جاسکتے ہیں۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ کوئی مالدار ہوتاتھا اور کوئی غریب۔ مالدارسَیر کے لئے غیر ممالک میںچلے جاتے تھے لیکن اِس تحریک کے بعد جب سب کو ایک معیار پر کھڑا کردیاجائے گا اور ان کی مالی حالت ایسی ہوگی کہ سب کو صرف گذارہ کے مطابق اخراجات ملیں گے تووہ غیر ملکوں کی سیاحت کِس طرح کریں گے او ر جب سیاحت نہیں کریں گے تو علمی ترقی کا یہ دروازہ اُن پر بند ہوجائے گا حالانکہ ترقی کے لئے ضروری ہے کہ کچھ جماعتیں ایسی ہوں جو اپنا فارغ وقت اس کام میں صرف کریں کہ غیر ملکوںمیںجائیں،سَیریں کریں اور وہاں کے اچھے خیالات اپنے ملک میں پھیلائیں۔
وہ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کے کارندے ایسے سفر کرسکتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ حکومت کے افراد جو سیاست میں اچھے ہوں وہ سیاحت میں بھی اچھے ہوں۔ اگر عام لوگ غیر ملکوں کی سَیر کے لئے جائیں تووکیل اپنے دماغ کی مناسبت کے لحاظ سے کوئی َجنس لے آئے گا، ڈاکٹر اپنے دماغ کی مناسبت کے لحاظ سے کوئی َجنس لے آئیگا، انجینئر اپنے دماغ کی مناسبت کے لحاظ سے کوئی َجنس لے آئے گا،مصوّر اپنے دماغ کی مناسبت سے کوئی َجنس لے آئے گا، شاعراپنے دماغ کی مناسبت سے کوئی َجنس لے آئے گا، اِسی طرح کوئی مذہبی لیڈر جائے گا تووہ اپنے دماغ کی مناسبت سے کوئی َجنس لے آئے گالیکن قونصل خانہ کے سیاسی دماغ کیا لائیں گے؟ وہ تو اپنے ماحول میں محدود ہوں گے اور اِس وجہ سے اُن کی نظر بھی نہایت محدود ہوگی وہ تو اگر لائیں گے تو چند چیزیں ہی لائیں گے او راِس طرح ان کی وجہ سے ملک کو وہ فائدہ نہیں پہنچ سکتا جو عام لوگوں کی سیاحت سے پہنچ سکتا ہے۔ اگروہ کہیںکہ حکومت خود اپنے خرچ پر عام لوگوں کو اِس غرض کے لئے بھیج سکتی ہے تو سوال یہ ہے کہ اِس طرح پھر تفرقہ پیدا ہوجائے گا او رعدمِ مساوات کا وہ اصول قائم ہوجائے گا جس کو توڑنے کے لئے یہ تحریک جاری کی گئی تھی او ر یہ سوال پیداہوگا کہ کیا زید کا دل امریکہ جانے کو چاہتاہے اور بکر کا دِل نہیں چاہتا۔ انصاف تو پھر بھی رہ جائے گا اور اِس طرح جو کچھ کیاجائیگا اِس تحریک کی اصل رُوح کے خلاف کیا جائے گا۔
کمیونزم کاچھٹا نقص یعنی قومی افتراق
چھٹے اِس تحریک کے نتیجہ میں قوم کے کئی ٹکڑے ہوجائیں گے اور امیروں کا قتل
شروع ہوجائے گا۔
کمیونزم کاساتواں نقص
ساتویں بالشویک اصول میںایک اَور بڑی غلطی یہ ہے کہ اِس کا زوال نہایت خطرناک ہوگا۔دوسری تحریکات میںتو یہ
ہوتا ہے کہ ایک بادشاہ مرتاہے تو اُس کی جگہ دوسرا بادشاہ تختِ حکومت پر بیٹھ جاتاہے، ایک پارلیمنٹ ٹوٹتی ہے تودوسری پارلیمنٹ بن جاتی ہے لیکن بالشویک تحریک میں اگر کبھی کمزوری آئی تو یہ یکدم تباہ ہوگی اور اِس کی جگہ زار ہی آئے گا کوئی دوسری حکومت نہیں آئے گی کیونکہ اس میں نیابت کی کوئی صورت نہیں جیسے دوسری تحریکات میں ہوتی ہے۔ وجہ یہ کہ قابلیت کو مٹا دیا گیا ہے اور جب قابلیت کو مٹا کر دماغ کو نیچا کردیاجائے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ جب تنزّل ہوگا تو اُس وقت کوئی ایسا دماغ والا نہیں ہوگا جو اِس تنزّل کو دُور کرسکے۔پس جب یہ تحریک گِرے گی کُلّی طور پر گِرے گی جیسا کہ فرانس میں ہؤا کہ جب فرانس کے باغیوں میں تنزّل پید اہؤا تواُن کی جگہ نپولین جیسے کا ُمل الْاِقتدار آدمی نے لی خود جمہور میں سے جمہوریّت کا کوئی دِلدادہ یہ جگہ نہ لے سکا۔
نیشنلسٹ سوشلزم اور اس کے نقائص
تیسری تحریک نیشنلسٹ سوشلزم کی ہے۔ اس تحریک کا مقصد یہ ہے کہ غرباء کو کچھ حقوق تو
ضرور دئیے جائیں لیکن فردی جوہر کوبھی کُچلا نہ جائے اور چونکہ اس تحریک کے حامی فردی جوہر کو اپنی اقوام سے مخصوص سمجھتے ہیں اِس لئے ان کی پالیسی یہ ہے کہ جرمن اور رومی اور ہسپانوی غریبوں کو تو اُبھارا جائے لیکن باقی اقوام کو دباکر اُن کی دولت سے جرمن، رومی اور ہسپانوی باشندوں کو مالا مال کیاجائے۔ اب اِس آخر ی تحریک میں جاپان بھی آکر شامل ہوگیا ہے۔ اِس تحریک کے اصولی نقائص یہ ہیں۔
پہلا نقص
اوّل یہ تحریک چند اقوام کی بہتری کے حق میں ہے ساری دُنیا کی بہتری کے حق میں نہیں ہے۔
دوسرا نقص
دوم اس تحریک میں بھی رُوحانی سُکھ یعنی مذہب کے لئے کوئی راستہ نہیں رکھا گیا بلکہ یہ بھی مذہب پر کئی قِسم کی پابندیاں عائد کرتی ہے حالانکہ وہ مذہب ہی
کیا ہے جس پر انسانوں کی طرف سے پابندیاں عائد کی جاسکیں۔ مذہب تو خدا کی طرف سے نازل کیا جاتاہے اور وہی اس کی حدود مقرر کرتاہے۔
تیسرا نقص
تیسرے اِس تحریک میں انفرادیّت کو اِتنا اُبھارا گیا ہے کہ ملک کی اجتماعی آواز کو اس کے مقابلہ میں بالکل دبادیا گیاہے حالانکہ ہزاروں دفعہ ایسا ہوسکتا
ہے کہ ایک آدمی کا دماغ خواہ کتنا ہی اعلیٰ ہو جوبات اس کے دماغ میں آئے اس سے دوسروں کی رائے خواہ اُن کے دماغ اعلیٰ نہ ہوں بہترہو اِسی لئے ہماری شریعت نے یہ قرار دیا ہے کہ مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہوجو اہم امور میں مسلمانوں سے مشورہ لے اور جہاں تک ہو سکے اُن کے مشورہ کو قبول کرے ہاں اگرکوئی اختلاف ایسا اہم ہو جس میں وہ یہ سمجھتا ہو کہ اگر مَیں نے اِس وقت عام لوگوں کی رائے کی تقلید کی تو ملک اور قوم کو نقصان پہنچے گاتو اُس وقت وہ ان کے مشورہ کے خلاف بھی فیصلہ کرسکتاہے۔ بہر حال اسلام کے طریق کے مطابق دونوں اُمورکو بیک وقت ملحوظ رکھ لیا جاتاہے۔ ایک طرف عوام کی رائے لی جاتی ہے اور دوسری طرف جو دماغ اعلیٰ ہو اُسے اختیار دیاجاتاہے کہ وہ موازنہ کرلے اور جو مشورہ قوم اور ملک کے لئے مُہلک ہو اُسے قبول نہ کرے باقی مشوروں کو قبول کرلے۔ مگر نیشنلسٹ سوشلزم کی تحریک میں انفرادیت پرحد سے زیادہ زور دیا گیا ہے حالانکہ کبھی ایسا ہوتاہے کہ سارا گائوں غلطی پر ہوتاہے اور ایک بڈھا زمیندار صحیح بات کہتا ہے اور کبھی بڈھا غلطی پر ہوتاہے اور نوجوان صحیح بات کہہ رہے ہوتے ہیں۔بہر حال یہ سب اِفراط اور تفریط کی طرف نکل گئے ہیں۔
موجودہ جنگ اور اِس کا نتیجہ
موجودہ جنگ اِسی باہمی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ روس والے چاہتے ہیں کہ ہمارا نظریہ قائم ہوجائے اور وہ حالات جو
روس میں پیدا ہیں وہی باقی تمام ممالک میں پیدا ہوجائیں اور انگلستان، فرانس او رامریکہ والے سوشلسٹ کہتے ہیں کہ جو دَولتیں ہم کھینچ چکے ہیں وہ ہمارے ہاتھ میں ہی رہیں جرمن، روم،جاپان اور ہسپانیہ والوں کے ہاتھ میں نہ چلی جائیں۔ پہلی لڑائی سوشلزم اور نیشنل سوشلزم کے درمیان ہوئی۔ سوشلزم والوں نے اِس لئے جنگ کی کہ ان کے موجودہ اقتدار میں فرق نہ آئے اور نیشنل سوشلزم والوں نے اِس لئے حملہ کیا کہ صاحبِ اقتدار لوگوں کی دولت کھینچ کر اپنے ملک میں لے آئیں۔ تیسری تحریک بالشوزم کی تھی۔ جرمن والوں نے ہوشیاری کرکے اِس موقع پر روس سے سمجھوتہ کرلیا اور اُسے یہ دھوکا دیا کہ اگر برسرِ اقتدار طاقتوں کو زوال آیا تو بالشویک بھی اس لُوٹ میں حصّہ دار ہوں گے۔ بالشویکس اِس دھوکا میں آگئے اور انہوں نے نیشنلسٹ سوشلزم والوں سے سمجھوتہ کرلیا لیکن جب فرانس کا زور ُٹوٹ گیا اور اِدھر مشرقی ممالک کوشکستیں ہونی شروع ہوئیں تو ہٹلر نے کچھ ضروریاتِ جنگ کی وجہ سے اور کچھ اِس خیال سے کہ انگلستان پر فوری حملہ توکیا نہیں جاسکتا اگر سپاہی بیٹھے رہے تو گھبرا جائیں گے اور کچھ اِس خیال سے کہ اب مقابلہ کرنے والا توکوئی ہے نہیں، لگے ہاتھوں بالشوزم کا بھی خاتمہ کردیں اُس نے روس پر حملہ کردیا نتیجہ یہ ہؤا کہ بالشوزم برسرِ اقتدار(اتحادی) حکومتوں سے مِل گئی اور اب دوتحریکیں ایک طرف ہیں اور ایک تحریک ایک طرف۔ اگر نیشنلسٹ سوشلزم والے جیتے تو جرمن، اٹلی، ہسپانیہ اور جاپان کے غرباء کو تو ضرور فائد ہ پہنچے گا مگر باقی اقوام کے غرباء کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوجائے گی۔ گویا چارمُلکوں سے غُربت مٹے گی اور سینکڑوں ملکوں میں پہلے سے بھی زیادہ قائم ہوجائے گی۔ اور اگر دوسرا فریق جیتاتو دُنیا کا کچھ حصّہ سوشلزم کے اثر کے ماتحت نسبتی سیاسی آزادی حاصل کرلے گا، کچھ حقوق ہندوستان کو بھی مِل جائیں گے لیکن جہاں تک تجارتی اور اقتصادی آزادی کا سوال ہے اس کے لئے ان ممالک کو لمبی جدّوجہد کرنی پڑے گی کیونکہ اس آزادی میں روک نہ صرف قدامت پسند اور لِبْرل جماعتیںہوں گی بلکہ معاشرتی معیار کے گِر جانے کے ڈرسے سوشلسٹ جماعتوں سے بھی دوسرے ممالک کا مقابلہ ہوتارہے گا مگرجہاں تک نسبت کا سوال ہے ان لوگوں کے جیتنے سے دوسرے ممالک کی حالت یقینااس سے زیادہ اچھی ہوگی جو نیشنل سوشلسٹ کے غلبہ کی صورت میں ہوسکتی ہے۔
موجودہ جنگ میں انگریزوں کی فتح سے ہندوستان کافائدہ
اِس بارہ میں میری جو کچھ رائے ہے اور
جسے میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کرچکاہوں وہ یہ ہے کہ اگر جرمنی جیتاتوہمارے ملک کی حالت پہلے سے بہت زیادہ خراب ہوجائے گی اور اگر انگریز جیتیں توہمارے ملک کی حالت پہلے سے یقینا اچھی ہوجائے گی۔ عام طور پر ہمارے ملک میں خیال کیاجاتاہے کہ جب غلام ہی بننا ہے تو خواہ اِن کے غلام بنے یا اُن کے اِس میں فرق ہی کیا ہے مگر یہ بات درست نہیں۔ اوراس کی تائید میں ایک بہت بڑی دلیل جس کو مَیں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں یہ ہے کہ یہ (اتحادی) طاقتیں بہت مدّت تک اقتصادی اقتدار حاصل کرنے کی وجہ سے اب اس قوّتِ اقدام کو کھو بیٹھی ہیں جو لازماً نئی بڑھنے والی قوموں میں پائی جاسکتی ہے۔ پس نئی اُبھرنے والی اقوام کا سلوک دوسرے ممالک کے لوگوں سے ُبھوکے جاٹ والا ہوگا اور برسرِ اقتدار حکومتوں کا ایک بوڑھے تاجر جیسا۔ جو تاجر بہت سا روپیہ کمالیتا ہے کنجوس تووہ بھی ہوتا ہے اوروہ بھی اپنے مال میں اَور زیادتی کا طالب رہتاہے لیکن وہ اس پر بھی خوش ہوتاہے کہ موجودہ حالت ہی قائم رہے اور کبھی کبھی اُس کے دل میں یہ خیال بھی آجاتاہے کہ اَب مَیں نے بہت کمالیا ہے اب مَیں اپنے کام سے پنشن لے لُوں۔ پس یہ جو برسرِ اقتدار حکومتیں ہیں ان میں اب اتنا جوش نہیں جتنا نئی حکومتوں میں جوش ہوسکتا ہے چنانچہ دیکھ لو کہا ں انگلستان ہے اور کہاں انگریز لوگ چین کے کناروں تک حکومت کررہے ہیں۔ اِسی طرح امریکہ کا اقتصادی اقتدار تمام دُنیا پر چھایا ہؤا ہے اور اب ان کا پیٹ اِتنا بھرا ہؤا ہے کہ چلنا پِھرنا بھی ان کے لئے مشکل ہورہاہے اور جو شخص اِس قدر سیر ہو وہ ظلم نہیں کرتا یا کم کرتاہے۔ اِس کی مثال تم ایسی ہی سمجھ لو کہ جس شخص کا پیٹ بھراہؤا ہو اُس کے سامنے اگرتم پلائو بھی رکھو تووہ دوچار ُلقمے لے کر بس کر دے گا لیکن اگروہی پلائوکی تھالی کسی ُبھوکے کے سامنے رکھو تو وہ نہ صرف یہ پلائو ہی کھاجائے گا بلکہ ممکن ہے کہ تمہارا کھانا بھی کھاجائے۔ جرمن اور رومی اور ہسپانوی اِس وقت ُبھوکے ہیں اس لئے اگران کا اقتدار آیا تووہ کچھ مدّت تک خوب بڑھ بڑھ کر ہاتھ ماریں گے اور مال ودَولت کو ُلوٹتے چلے جائیں گے جیسے ہندوستان جب انگریزوں کے قبضہ میں آیا تو انہوں نے بھی ہندوستان کی اقتصادی حالت پر خوب قبضہ جمایا تھا۔ یہی خواہش جرمن اور رومی لوگوںکی ہوگی وہ بھی کہیں گے کہ اب ہم نے اِن کانوں پر قبضہ کیا ہے اب ہم بھی یہاں کے تیل اور سونے اور دوسری چیزوں سے فائد ہ اُٹھائیں اور سَو ڈیڑھ سَو سال تک وہ ایسا کرتے چلے جائیں گے مگر انگریزوں کی مثال بُوڑھے تاجر کی سی ہے جو بڈھا ہوجاتاہے، مال بڑھانے کی خواہش تو بے شک اس کی طبیعت میں موجود ہوتی ہے مگر کبھی کبھی اسے یہ بھی خیال آجاتاہے کہ دولت بہت کمالی ہے اب پنشن لے لینی چاہئے۔ اسی طرح اِن قوموں کے دلوں میں بھی کبھی زیادہ طلبی کا خیال آ جاتاہے مگر کبھی یہ خیال بھی آجاتاہے کہ ہم نے بہت کمالیا اب قناعت کرنی چاہئے۔ اسی طرح اگرانہیں کبھی ظلم کا خیال پیدا ہوتاہے تو کبھی رحم کا خیال بھی آجاتاہے اور جن لوگوں کی دماغی حالت اِس قسم کی ہو اُن سے یقینا زیادہ آرام حاصل ہوتاہے کیونکہ وہ حکومت کرکے تھک چکے ہوتے ہیں۔
دوسرے یہ اقوام مذہب میں دخل اندازی کو پسند نہیںکرتیں اور سوائے کسی اشدّ سیاسی یا اقتصادی ضرورت کے مذہب کے بارہ میں مخفی دبائو کو بھی پسند نہیں کرتیں۔ اور اگر کوئی خدا ہے اور اُس کی طرف سے رسول دنیا میں آتے رہے ہیں اور اگر اُن کی تعلیمات پر عمل ہماری اُخروی زندگی کو سنوارنے کے لئے ضروری ہے تو پھر باوجود اِس کے کہ ان اقوام کا طریقِ عمل بھی پورا ُمنصفانہ نہیں بلکہ ایک حد تک خود غرضانہ ہے، ہر مذہب کا دِلدادہ شخص ان اقوام کی فتح کو نیشنلسٹ سوشلزم والوں کی فتح پر بہت زیادہ ترجیح دے گا۔
انگریزوں کی فتح کے نتیجہ میں بالشوزم کی فتح اور اس کا نتیجہ
لیکن یہ بھی یاد رہے کہ موجودہ حالات میں
اِن اقوام کی فتح کے ساتھ بالشوزم کی فتح بھی ضروری ہے اور بالشوزم مذہب کی نیشنلسٹ سوشلزم والوں سے بھی زیادہ دشمنی ہے۔ پس یقینا ان کی فتح سے گودُنیا کو نیشنلسٹ سوشلزم کے خطرہ سے نجات ہوگی مگر ایک نئی رسّہ کشی مذہب اور لاَمذہبیت میں شروع ہوجائے گی۔
غرباء کی حالت سُدھارنے کیلئے مختلف مذاہب کی تدابیر
مَیں نے اِس وقت تک دُنیوی تحریکات کا
ذکر کیا ہے اَب مَیں اُن تدبیروں کا ذکر کرتاہوں جو مختلف مذاہب کے پیرو دُنیا کے ایک نئے نظام کی تکمیل کے لئے پیش کررہے ہیں۔ ان مذاہب میں سے سب سے بڑے مذہب یہ ہیں۔ ہندو، مسیحی،یہودی، اور اسلام۔ اِس وقت اگر اِن تمام مذاہب کے پَیروئوں کا جائزہ لیاجائے توہر مذہب کا پیرو یہ دعویٰ کرتاسُنائی دے گا کہ وہی مذہب سب سے اعلیٰ ہے جس کا وہ پیرو ہے اور اسی کی تعلیم دُنیا کے دُکھ اور درد کو دُور کرسکتی ہے۔ ہندو کہتے ہیں ہم ایک دن میں اوم کا جھنڈا (نَعُوْذُبِاللّٰہِ) مکّہ معظّمہ پر گاڑیں گے، یہودی کہتے ہیں یہودیّت کی تعلیم ہی سب سے اعلیٰ ہے، عیسائی کہتے ہیں ہمارے یسوع مسیح نے جو کچھ کہا وہی قابلِ عمل ہے، اس کے مقابلہ میں مسلمانوں میں بھی جوش ہے اوروہ یہ دعویٰ کرتے اور بجا طورپر کرتے ہیں کہ اسلام ہی تمام دُکھوں اور دردوں کا کامیاب علاج پیش کرتاہے۔ بہرحال بڑے مذاہب یہی ہیں۔ ہندو، مسیحی، یہودی اور اسلام ۔ مَیں اِس وقت نمازروزہ کی طرف نہیں جارہا بلکہ مَیں یہ مضمون بیان کررہاہوں کہ دُنیا فاقے سے مَر رہی ہے۔ دُنیا نے اسکے علاج کے لئے بعض تحریکات جاری کی ہیں اِن دُنیوی تحریکات کے مقابلہ میں مذاہب اِسکے متعلق کیا نظریہ پیش کرتے ہیں اوروہ کونسا نیا نظام ہے جو یہ مذاہب دُنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اِس غرض کے لئے مَیں سب سے پہلے یہودیّت کو لے لیتاہوں۔
یہودیّت میں نئے نظام کی شکل اور اِس کا نتیجہ
یہودیّت دُنیا کے لئے جو نظام پیش کرتی ہے وہ محض قومی ہے
اُس میں کوئی بات عالمگیر نہیں۔ مثلاً یہودیّت کہتی ہے کہ یعقوبؑ کی اولاد ہی خدا کو پیاری ہے باقی سب اس کی غلامی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ اگر اِس مذہب کی کسی وقت دُنیا پر حکومت ہوجائے تو یقینا اِس تعلیم کے ماتحت ظلم بڑھے گا گھٹے گانہیں۔ یا مثلاً یہودیّت کہتی ہے ۔ُتو اپنے بھائی سے سُود نہ لے اور اسے چھوڑ کر جس سے چاہے سُود لے لے۹؎۔ اب اگر سُود لینا بُرا ہے تو وجہ کیا ہے کہ ایک یہودی سے نہ لیا جائے اور غیر یہودی سے لے لیا جائے۔ اس کی وجہ بجز اِس کے اَور کچھ نہیں کہ یہودیّت ایک قومی مذہب ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اَوروں سے بے شک لے لو مگر اپنوں سے نہ لو۔ پس اس مذہب کو اگر دُنیا پر غلبہ حاصل ہوجائے تو اس کاکام یہ ہوگا کہ وہ اَور سب سے ٹیکس وصول کرے گی اور یہودیوں میں اس کو تقسیم کردے گی۔ اِسی طرح یہودیت صدقہ وخیرات کا تو حکم دیتی ہے مگر کہتی ہے صدقہ و خیرات صرف اپنے ہی ہم قوموں کے لئے ہو۔ اب اگر کوئی یہودی بادشاہ ہوتو اِس تعلیم کے ماتحت جتنے ٹیکس ہوں گے سب یہودیوں کو ملیں گے۔ اِسی طرح یہودیّت یہ نہیں کہتی کہ ُتو کسی کو غلام نہ بنا بلکہ وہ کہتی ہے اپنے بھائی کوہمیشہ کے لئے غلام نہ بنائو گو یااوّل تو اپنے بھائی کو غلام بنائو ہی نہیں اور اگر بنائو تو ہمیشہ کے لئے نہ بنائو۔ اِس کے متعلق یہودی مذہب میںیہ حکم ہے کہ ہر غلام ساتویں سال آزاد کردیاجائے۱۰؎۔ اگر کوئی شخص ساتویں سال کے معاًبعد کوئی غلام خریدے تو اس تعلیم کے ماتحت وہ چھ سال کے بعد آزاد ہوجائے گا۔ اگرایک سال گزر چکا ہوتو وہ پانچ سال کے بعد آزاد ہوجائے گا،دوسال گزر چکے ہوں تو چار سال کے بعد آزاد ہوجائے گا، تین سال گزر چکے ہوں تو تین سال کے بعد اور اگر چار سال گزر چکے ہوں تو دوسال کے بعد آزاد ہوجائے گااور اگر کوئی چھٹے سال کسی غلام کو خریدے تووہ اگلے سال خودبخود آزاد ہوجائے گا۱۱؎۔ گویا زیادہ سے زیادہ سات سال تک ایک یہودی کو غلام بنایا جاسکتاہے اِس سے زیادہ عرصہ کسی کو غلام بناکر نہیںرکھا جاسکتا۔باقی دُنیا کے لوگ خواہ ساری عمر غلام رہیں اس کی یہودیّت کوئی پرواہ نہیں کرتی۔ پھر یہودیّت کی تعلیم میں ایک اَور بات یہ پائی جاتی ہے کہ وہ غیر قوموں کے ساتھ بہت سخت سلوک کرنے کا حکم دیتی ہے۔ چنانچہ توریت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ :-
’’جب تُو کسِی شہر کے پاس اس سے لڑنے کے لئے آپہنچے توپہلے اس سے صلح کا پیغام کرتب یُوں ہوگا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور اور دروازہ تیرے لئے کھول دے تو ساری خلق جو اُس شہر میں پائی جاوے تیری خراج گزار ہوگی اور تیری خدمت کرے گی۔ اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے جنگ کرے تو ُتو اُس کا محاصرہ کر۔ اور جب خداوند تیرا خدا اُسے تیرے قبضہ میں کر دیوے ُتو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو اور جو کچھ اُس شہر میں ہو اُس کا سارا لوٹ اپنے لئے لے۔ اور تُو اپنے دشمنوں کی اس ُلوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے کھائیو۔ اسی طرح سے تُو ان سب شہروں سے جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہروں میں سے نہیں ہیں، کیجیؤ۱۲؎۔‘‘
یہ تو غیر ملکوں کے متعلق حکم ہے کنعان کی سر زمین جو موعود سر زمین تھی اس کے متعلق یہ حکم نہیں بلکہ وہاں کے متعلق یہ حکم ہے کہ:-
’’اُن قوموں کے شہروں میں جنہیں خداوند تیرا خدا تیری میراث کر دیتا ہے۔ کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیتا نہ چھوڑیو بلکہ تُو اُن کو حرام کیجیؤ۔‘‘
یہ نظام ہے جو یہودیت پیش کرتی ہے۔ اگر یہودیت برسراقتدار آجائے تو ہر مرد مارا جائے گا، ہر عورت اور بچے کو غلام بنایا جائے گا اور کنعان میں بسنے والے عیسائی مرد اور عورتیں اور بچے تو کیا وہاں کے گھوڑے اور گدھے اور کُتیّ اور بِلیاں اور سانپ اور چھپکلی سب مارے جائیں گے کیونکہ حکم یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو سانس لیتی ہو اُس کو جان سے مار دیا جائے۔ اس نظام کے ماتحت یہودیوں کو تھوڑا بہت آرام میسّر ہو تو ہو اور قومیں تو بالکل تباہ ہو جائیں گی۔
عیسائیت کا دنیا کے لئے پیغام
عیسائیت کا پیغام دنیا کے لئے صرف یہی ہے کہ شریعت ایک *** ہے۱۳؎ جب شریعت *** ہے تو پھر
اس کا جو بھی پیغام ہے وہ *** ہے، عیسائیت صرف محبت کی تعلیم دیتی ہے جس پر خود عمل نہیں کرتی۔ اگر اس کی محبت کی تعلیم پر کوئی عمل کرنے والا ہوتا تو آج یورپ میں لڑائیاں کیوں ہوتیں۔ شریعت کو *** قرار دے کر دنیا کے لئے کوئی معیّن پروگرام پیش کرنا مسیحیت کے لئے ناممکن ہے کیونکہ جو بھی پروگرام ہوگا وہ *** ہوگا اور اس پر عمل لوگوں کی مشکلات کو بڑھائے گا کم نہیں کرے گا۔ پھر یہ عجیب بات ہے کہ اس کے نزدیک خدا کی شریعت خواہ وہ کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو *** ہے لیکن بندوں کی تعزیرات خواہ کتنی بڑی ہوں رحمت ہیں۔ اس کانتیجہ یہ پیدا ہؤاہے کہ دنیا میں جو مسیحی قوم بھی غالب ہو اُس کے مقاصد کو مسیحی مقاصد کہا جاتا ہے۔ جو فلسفہ غالب آجائے وہ مسیحی فلسفہ ہوتا ہے اور جو تمدن غالب آجائے وہ مسیحی تمدن ہوتا ہے۔ اگر جرمن غالب ہؤا تو وہ کہہ دیں گے کہ کرسچن سوشلزم غالب آگیا۔ اگر انگلستان غالب ہؤا تو کہہ دیں گے کہ کرسچن سوشلزم غالب ہؤا، اگر یونائیٹڈسٹیٹس امریکہ والے جیتے تو کہہ دیں گے کہ کرسچن سوشلزم غالب ہؤا، گویا وہ ہمیشہ کے لئے غالب کے یار بن گئے ہیں اور جو چیز بھی دنیا میں ترقی کرتی ہے اسے کرسچن سویلزیشن (CIVILISATION) کا غلبہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ طلاق نہ دینا مسیحیت کا خاصہ تھا اور اب یہ حالت ہے کہ طلاق دینا مسیحیوں کا خاصہ ہے۔ گویا ان کا مذہب کیا ہے موم کی ناک ہے جس طرح چاہو موڑ لو اِس نے ۔ُٹوٹنا تو ہے ہی نہیں۔ پس مسیحیت بطور مذہب کے دنیا کے سامنے نہ کوئی پروگرام رکھ سکی نہ رکھ سکتی ہے اور نہ رکھ سکے گی۔
ہندو مذہب کے نظریہ کے ماتحت نئے نظام کا قیام ناممکن ہے
ہندو مت نے دنیا کے سامنے تناسخ اور
ورنوں کی تعلیم پیش کرکے اپنے لئے اور دوسری اقوام کے لئے امن کا راستہ بالکل بند کر دیا ہے کیونکہ تناسخ کے ماتحت یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ایسا نیا نظام قائم ہو جس میں غریب اور امیر کا فرق جاتا رہے۔ جب تناسخ کو ماننے والے تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اگر ایک شخص کو غریب پیدا کیا ہے تو یہ اس کے پچھلے جنم کے اعمال کی سزا ہے تو اس عقیدہ کے ہوتے ہوئے امیر اور غریب کے امتیاز کو کس طرح مٹایا جا سکتا ہے۔ اس عقیدہ کے ماتحت تو اگر خدا نے کسی کو زار بنایا ہے تو پچھلے جنم کے اعمال کا انعام دینے کے لئے اور اگر کسی کو غریب بنایا ہے تو اسے اس کے اعمال کی سزا دینے کے لئے اب کوئی نہیں جو اس کو بدل سکے۔ پس تناسخ کے ہوتے ہوئے ہندومت دنیا کی ترقی کے لئے کوئی نیا پروگرام پیش نہیں کر سکتا کیونکہ نیا پروگرام وہی ہو سکتا ہے جو موجودہ حالت کو بدل کر ایک نئی حالت پیدا کر دے اور جب دنیا کی موجودہ حالت پُرانے جنم کے اعمال کا اٹل نتیجہ ہے تو دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے گا کہ یہی حالت دنیا کے لئے مقدر ہے اورجب یہی حالت دنیا کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہے تو کس کی طاقت ہے کہ اس حالت کو بدل سکے۔
دوسرے اس مذہب میں ورنوں کا اصول ہے جس کے ماتحت برہمن کے کام شودر نہیںکر سکتا اور شودر کے کام ویش نہیں کر سکتا۔ اسی طرح ویش کے کام کشتری نہیں کر سکتا گویا ہر ایک کا الگ الگ دائرہ عمل ہے اور ایک شخص دوسرے کے دائرہ عمل میں دخل نہیں دے سکتا۔ یہ اصول بھی ایسا ہے جس کے ماتحت امیر اور غریب کا امتیاز کبھی مٹ نہیں سکتا کیونکہ نیا نظام جو اِس امتیاز کو دور کر ے وہ وہی ہو سکتا ہے جس میں ایک غریب اور کنگال کا بھی خیال رکھا جائے۔ اگرکوئی چوہڑہ یا ساہنسی ہو تو اس کے حقوق کو بھی محفوظ کیا جائے اور ہر شخص کے لئے گورنمنٹ کھانے اور کپڑے کا انتظام کرے۔ اسی طرح غرباء کے لئے مال کا انتظام کرے تاکہ وہ اپنی اور ضروریات پوری کر سکیں۔ مگر منو کہتے ہیں کہ:-
’’اگر شودر دھن جمع کرے تو راجہ کا فرض ہے کہ وہ اس سے چِھین لے کیونکہ شودر مالدار ہو کر برہمنوں کو دکھ دیتا ہے۔‘‘ ۱۴؎
اس قانون کے ماتحت اگر برہمن یا ویش کے پاس دس لاکھ روپیہ ہو اور شودر کو خیال آئے کہ پانچ روپیہ ماہوار مَیں بھی جمع کرلوں اگلے سال بچی کی شادی ہے اُس وقت یہ روپیہ کام آئے گا تو راجہ کا فرض ہے کہ وہ اس سے تمام روپیہ چھین لے کیونکہ وہ شودر ہے اور شودر کا حق نہیں کہ اس کے پاس روپیہ جمع ہو۔ اب بتائو اِس اصول کے ماتحت نیا نظام کس طرح قائم ہو سکتا ہے۔ اور اگر یہ نظام قائم ہو تو اِس کے ماتحت غرباء کی حالت کس طرح سُدھر سکتی ہے۔
اِسی طرح لکھا ہے کہ:-
’’اگر برہمن نے ایک نیچ سے قرض لیا لیکن وہ ادا نہیں کر سکتا تو شودر کا فرض ہے کہ وہ برہمن سے کوئی روپیہ نہ لے لیکن اگر شودر نے برہمن کا روپیہ دینا ہو اور شودر غریب ہو تو اونچی ذات والوں کی مزدوری کر کے برہمن کے قرض کو ادا کرے۔‘‘ ۱۵؎
گویا اگر برہمن قرض لینے والا ہو اورجس سے قرض لیا گیا ہو وہ نیچ قوم سے تعلق رکھتا ہو تو اگر وہ قرض ادا نہیں کر سکتا تو نیچ قوم والے کا فرض ہے کہ برہمن سے اپنے روپیہ کا تقاضا نہ کرے۔ ایسی صورت میں وہ یہ نہیں کر سکتا کہ عدالت میں برہمن کے خلاف دعویٰ دائر کر دے اور اس سے اپنا روپیہ وصول کرے بلکہ اس صورت میں معاملہ کو ختم سمجھنا چاہئے اور شودر کو روپیہ کی وصولی کا خیال اپنے دل سے نکال دینا چاہئے۔ لیکن اگر شودر کسی برہمن سے قرض لے بیٹھتا ہے اورپھر ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتا تو منو کے احکام کے مطابق اس کا فرض ہے کہ وہ اونچی ذات والوں کی نوکری کرے اور اس طرح قرض کو ادا کرے۔
پھر یہیں تک بس نہیں بلکہ اس تعلیم کا اثر اورآگے چلتا ہے چنانچہ لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کی کئی بیویاں ہوں تو ایسی حالت میں :-
’’ایک کی اولاد جو برہمنی سے ہے وہ اس کی جائداد کے تین حصہ لے اورجو کشترانی سے ہے اُس کی اولاد دو حصے لے اور جو ویشیا ہے اس کی اولاد ڈیڑھ حصہ لے اور شودرانی کی اولاد ایک حصہ لے۔‘‘۱۶؎
اس تعلیم کے ماتحت مرنے والے کی جائدا د میں سے برہمنی کی اولاد کو تین حصے، کھترانی کی اولاد کو دو حصے، ویش کی اولاد کو ڈیڑھ حصہ اور شودرانی کی اولاد کو ایک حصہ ملے گا۔ اب بتائو اس نظام کے ماتحت وہ ادنیٰ حالت سے اونچے کس طرح ہو سکتے ہیں۔
پھر لکھا ہے کہ:-
’’برہمن شودر سے دولت لے لے۔ اس میں کوئی وچار نہ کرے کیونکہ وہ دولت جو اس نے جمع کی ہے وہ اس کی نہیں بلکہ برہمن کی ہے۔‘‘۱۷؎
اس تعلیم کے ماتحت برہمنوں کو اور زیادہ آسانی حاصل ہو گئی کیونکہ انہیں اس بات کی اجازت دے دی گئی ہے کہ شودروں کے پاس جب بھی تمہیں دولت نظر آئے فوراً لُوٹ لو اور کوئی وچار یعنی فکر نہ کرو کہ اس لُوٹ سے گناہ ہوگا کیونکہ شودر کا مال اس کا نہیں بلکہ تمہارا ہے جب بھی تم کسی شودر کے پاس مال و دولت دیکھو فوراً لُوٹ لو اور اپنے قبضہ میں کر لو۔ یہ وہ تعلیم ہے جو ہندو مذہب پیش کرتا ہے اور چونکہ ہندو مذہب میں سوائے برہمنوں، کھتریوں اور ویشوں کے سب کو شُودر سمجھا جاتا ہے اس لئے جس قدر سید ، مغل اور پٹھان وغیرہ ہیں سب ہندوئوں کے نزدیک شودر ہیں اور ان سب کے متعلق برہمنوں کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ ان کی دولت کو لُوٹ لیں۔ اگر کوئی شخص روپیہ کمائے اور برہمن اس سے وہ روپیہ لُوٹ لے تو اس کا کوئی حق نہیں کہ عدالت میں دعویٰ دائر کرے اور اگر وہ عدالت میں دعویٰ دائر کرے گا تو منو کی اس تعلیم کے ماتحت اسے کہا جائے گا کہ تُو جھوٹا ہے تیرا تووہ مال تھا ہی نہیں وہ تو برہمن کا مال تھا۔ گویا اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص کہیں سے گذر رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ لوگ ایک شخص کو چارپائی پر اُٹھاکر اسے دفن کرنے کے لئے لے جارہے ہیں اور چارپائی پر جو شخص ہے وہ شور مچا رہا ہے کہ خدا کے واسطے مجھے بچائو، خدا کے واسطے مجھے بچائو۔ لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر وہ بھی ٹھہر گیا اور کہنے لگا بات کیا ہے؟ انہوں نے کہا جج صاحب نے حکم دیا ہے کہ اس شخص کو دفن کر دیا جائے کیونکہ یہ مر چکا ہے۔ وہ کہنے لگا یہ تو زندہ ہے اور شور مچا رہا ہے کہ مجھے بچایا جائے۔ وہ کہنے لگے خواہ کچھ ہو جج صاحب کا یہی حکم ہے کہ یہ شخص مر چکا ہے اور اسے دفن کر دینا چاہئے ۔ سیاح نے کہا یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ جنازہ اُٹھانے والوں نے جواب دیا کہ آپ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے جو کچھ جج صاحب نے کہا وہی ٹھیک ہے یہ شخص یونہی جھوٹ بول رہا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں مرا نہیں ۔ آخر وہ سیاح جج صاحب کے پاس گیا اور اُسے جاکر کہا کہ میں نے آج ایک نظارہ دیکھا ہے اور میں اس پر حیرا ن ہوں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک زندہ شخص کو آپ نے مرا ہؤا کس طرح قرار دے دیا؟ جج نے جواب دیا تم تو بیوقوف ہو تمہیں حالات کا علم نہیں اگر علم سے کام لیتے تو اسے مرا ہؤا ہی سمجھتے۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک سال ہؤا میرے پاس ایک عورت آئی اور اس نے کہا کہ میرا خاوند باہر گیا ہؤا تھا اب میں نے سنا ہے کہ وہ مرگیا ہے مجھے اجازت دیجئے کہ میں کسی اور شخص سے شادی کر لوں۔ میں نے کہا کہ گواہیاں لائو۔ وہ دو معتبر گواہ میرے پاس لائی جنہوں نے قسم کھا کر کہا کہ انہوں نے فلاں سرائے میں اس کے خاوند کو مرتے ہوئے دیکھا تھا اور انہوں نے خود ہی اسے دفن کیا تھا۔ چنانچہ اُس عورت کو شادی کی اجازت دے دی گئی۔ اب کچھ عرصہ کے بعد یہ شخص آیا اور کہا کہ میں اس عورت کا خاوند ہوں اور زندہ ہوں وہ عورت مجھے دلوائی جائے۔ میں نے اسے بہتیرا سمجھایا کہ ُتو اس عورت کا خاوند نہیں ہو سکتا وہ تو مر چکا ہے اور دو گواہیاں ہمارے پاس موجود ہیں مگر وہ یہی کہتا چلا گیا کہ نہیں میں تو زندہ ہوں۔ آخر میں نے کہا میں اسے مان نہیں سکتا دو معتبر گواہ موجود ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ اس عورت کا خاوند ان کے سامنے مرا اور چونکہ ان گواہوں کے بیانات کے رو سے خاوند کا مرنا یقینی ہے اس لئے میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کر سکتا کہ اگر تیرا یہ دعویٰ سچاہے کہ تو اس عورت کا خاوند ہے تو سرکاری خرچ پر تجھے دفن کرادوں۔ چنانچہ اسی غرض کے لئے میں نے اپنے آدمیوں کو بھجوایا ہے تاکہ وہ اسے دفن کر دیں۔ یہی حال ہندومت کا ہے کسی شخص کے پاس روپیہ جمع ہو برہمن اُس سے لُوٹ لے اور و ہ بیچارہ عدالت میں دعویٰ دائر کرے تو مجسٹریٹ کہے گا یہ بالکل جھوٹ بولتا ہے اس کے پاس روپیہ تھا کہاں وہ تو فلاں ادھیائے اور فلاں شلوک کے ماتحت برہمن کا روپیہ تھا جو اس نے لے لیا۔
مگر یاد رکھو کہ میں یہ نہیں کہتا کہ جب ان مذاہب کی بنیاد پڑی تھی تو اُس وقت وہی تعلیم ان کے نبیوں نے دی تھی جو آج پیش کی جاتی ہے بلکہ کچھ تعلیم تو ایسی ہے جو وقتی اور قومی ہونے کی وجہ سے اُس زمانہ میں ٹھیک تھی اور اب غلط ہے اور کچھ تعلیم ایسی ہے جو ان نبیوں نے دی ہی نہیں وہ یونہی ان کے ذمہ لگا دی گئی ہے۔ بہرحال ایسی تعلیم سے موجودہ زمانہ میں کوئی امن اور چین نصیب نہیں ہوسکتا۔
دوسرے مذاہب کے مقابل پر اسلام کی بے نظیر تعلیم
اور اسلامی نقطۂ نگاہ کے مطابق نئے نظام کا نقشہ
اب مَیں اسلام کو لیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ اسلام اس مصیبت کا کیا علاج تجویز کرتا ہے؟ اسلام دنیا کی اس مصیبت
اور دُکھ کا علاج جسے مَیں نے تمہید میں بیان کیا ہے یوں فرماتا ہے۔
دنیا سے غلامی کی بیخ کنی
اول غلامی جو ہزاروں سال سے چلی آرہی تھی اسے اسلام نے دور کیا اور غلامی کو کُلِّیۃً مٹا کر رکھ دیا۔ میرے نزدیک
دنیا کے تمام مذاہب میں سے اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے دنیا کے پردہ پر سے غلامی کو مٹایا ورنہ پہلے مذاہب میں غلامی کا رواج تھا اور اسے کسی مذہب نے منسوخ قرار نہیں دیا۔ یہودی اور ہندومذہب کے اصول کے ماتحت تو غلامی ایک مذہبی انسٹی ٹیوشن ہے اور اسے منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔ عیسائیت یہودیت کی شاخ ہے اس میں بھی غلامی رہی اور اگر عیسائیوں میں غلامی مٹی تو اس کے مٹانے کا موجب عیسائیت نہیں بلکہ فلسفۂ اخلاق کی ترقی تھی۔ تاریخ کلیسیا سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ غلامی کے مٹانے کے لئے عیسائی ممالک میں کئی بار کوششیں ہوئیں مگر اس کے سب سے بڑے مخالف پادری ہی تھے اسی طرح ہندومذہب نے ورنوں کے ذریعہ غلامیت کو اتنا وسیع کر دیا کہ اس کے مقابلہ میں محدود غلامی بھی مات ہو گئی۔ بھلا زر خرید غلام کو ورن کے غلام سے کیا نسبت ؟مگر اسلام نے اس غلامی کو سرے سے مٹا دیا۔
اسلام میں جنگی قیدی بنانے کے متعلق پابندیاں
ہاں ایک چیز اسلام میں موجود ہے جسے لوگ غلامی قرار دیتے ہیں
اور وہ چیز جنگی قیدیوں کا پکڑنا ہے مگر کیا دنیا میں کہیں بھی ایسا دستور ہے کہ جب دو قوموں میں لڑائی ہو اور دن کے دَوران میں ایک دوسرے کے قیدی پکڑے جائیں اور شام کو ان سب قیدیوں کو رہا کر دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ اب اپنے اپنے گھروں کو چلے جائو کل پھر ہم سے لڑائی کرنے کے لئے آجانا۔ ہم تو دیکھتے ہیں کہ لوگ کبڈی کھیلتے ہیں تو اُس وقت بھی جن کھلاڑیوں کو پکڑتے ہیں چھوڑتے نہیں بلکہ پکڑ کر بٹھا لیتے ہیں پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ جنگ ہو اور جنگ کے بعد سب قیدیوں کو رہا کر دیا جائے۔ اگر کبڈی تک نہیں کھیلی جا سکتی بغیر اس کے کہ جب کوئی شکست کھا جائے تو اسے پکڑ کر بٹھا دیا جائے تو جنگیں اس کے بغیر کس طرح ختم کی جاسکتی ہیں۔ پس اسلام میں کوئی غلام نہیں مگر جنگی قیدی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے مَاکَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۱۸؎
یعنی کسی نبی کے لئے جائز نہیں کہ وہ یونہی لوگوں کو غلام بناتا جائے۔ ان الفاظ کے ذریعہ نہ صرف خداتعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ کسی انسان کو غلام بنانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جائز نہیں بلکہ یہودیت، عیسائیت اور ہندومت کی وجہ سے جو اعتراضات ان کے نبیوں پر عائد ہوتے تھے خداتعالیٰ نے ان تمام اعتراضات کا بھی ازالہ کر دیا کیونکہ فرمایا مَاکَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی یعنی کسی نبی کے لئے بھی یہ جائز نہیں تھا کہ وہ یونہی لوگوں کو غلام بناتا پھرتا۔ پس نہ کرشنؑ نے ایسا کیا نہ رام چندرؑ نے ایسا کیا ، نہ موسٰیؑ اور عیسٰیؑ نے ایسا کیا، جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ ان کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں۔ ہاں فرماتا ہے کہ ایک چیز ہے جو جائز ہے وہ یہ کہ حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْض۔ اِثْخَان فِی الْاَرْض ہو تو اُس وقت قیدی بنانے جائز ہوتے ہیں یعنی جنگ ہو اور ایسی شدید ہو کہ اس میں خون کی ندیاں بہہ جائیں، قوم قوم پر اور ملک ملک پر حملہ آور ہو اور شدید خونریزی ہو ایسی حالت میں بے شک قیدی بنانے جائز ہیں مگر معمولی لڑائیوں میں بھی قیدی بنانے جائز نہیں جو مثلاً خاندانوں یا افراد میں ہوتی ہیں۔ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا اے ہر وہ شخص جو چاہتا ہے کہ بغیر لڑائی کے لوگوں کو قیدی بنائے یا ان کوغلام بنائے۔ دوسرے الفاظ میں ُتو یہ چاہتا ہے کہ تجھے دنیا مل جائے۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تم دنیا کے طلبگار سمجھے جائو گے خداتعالیٰ کے طلبگار نہیں رہو گے وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ حالانکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم آخرت کے طلبگار بنو۔ وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔ اس کے تمام احکام بڑی بڑی حکمتوں پر مشتمل ہؤا کرتے ہیں۔ اگر غلام بناتے رہو گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ خود بھی غلام بن کر رہ جائو گے چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ جن قوموں میں غلاموں کی کثرت ہوئی وہی قومیں آخر غلام کہلائیں۔ بنوعباس کے عہد میں غلاموں کی کثرت تھی نتیجہ یہ ہؤا کہ تمام بادشاہ لونڈی زادے ہؤا کرتے تھے اور چونکہ غلام میں غلامی کے خیالات ہی ہوتے ہیں اس لئے گو وہ لفظاً آزاد تھے مگر معنًا غلام ہی تھے۔
اِثْخان کے معنے عربی میں ایسی جنگ کے ہوتے ہیں جس میں خطرناک خونریزی ہو۔ گویا معمولی جنگ میں غلام بنانا جائز نہیں بلکہ غلام ایسی حالت میں ہی بنائے جاسکتے ہیں کہ جب شدید جنگ ہو۔ معمولی لڑائیاں تو انگریزوں اور پٹھانوں کے درمیان سرحد پر ہوتی ہی رہتی ہیں مگر ان جنگوں میں قیدی نہیں بنائے جاتے۔ پرزنر آف وار(Prisoner of War) اُسی وقت جائز ہوتے ہیں جب باقاعدہ ڈیکلیئرڈ وار (Declared War)ہو معمولی شبخونوں میں ایسے قیدی بنانے جائز نہیں ہوتے۔ اگر کوئی قوم اپنے لوگوں کو غلام بنانا نہیں چاہے گی تو وہ حملہ ہی کیوں کرے گی۔ اور اگر حملہ کرے اور لڑائی اِثْخَان فِی الْاَرْض کی صورت اختیار کر لے تو پھر قیدی بنانا کسی صورت میں بھی قابلِ اعتراص نہیں سمجھا جاسکتا۔
اسلام کی تعلیم کہ کوئی جنگ جائز نہیں مگر دفاعی
پھر جنگ کے متعلق اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ کوئی جنگ جائز
نہیں مگر دفاعی۔ یعنی یہ جائز نہیں کہ خود ہی دوسروں پرحملہ کر دیا جائے اور لوگوں کو غلام بنا لیا جائے۔ چنانچہ فرماتا ہے اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ۔لا نِالَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّا اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ وَ لَوْ لَا دَفعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔ اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ و لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۱۹؎
فرماتا ہے جنگ کی اجازت صرف انہی کو دی گئی ہے جن پر پہلے دوسروں نے حملہ کیا اور اس وجہ سے دی گئی ہے کہ اُن پر ظلم کیا گیا ہے وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْر اور اس لئے دی گئی ہے کہ مسلمانوں پر ایسا حملہ ہؤا ہے کہ اب خدا چاہتا ہے اس کی تقدیر دنیا میں جاری ہو اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دے اور مظلوم کی مدد کرے۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ ظالم طاقتور ہو اور مظلوم کمزور ہو، ایسی صورت میں اگر کمزور آدمی لڑے گا تو بجائے غالب آنے کے وہ تباہ ہی ہوگا۔ قصہ مشہور ہے کہ کوئی پہلوان ایک جگہ سے گذر رہا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے ایک دُبلا پتلا شخص جا رہا تھا۔ پہلوان نے اپنے سر کو مُنڈوا کر اُس پر چِکنائی لگائی ہوئی تھی۔ اُس کمزور آدمی نے جب پہلوان کو اس حالت میں دیکھا تو اُس کی طبیعت میں مذاق کے لئے ایسا جوش پیدا ہؤا کہ وہ برداشت نہ کر سکا اور اس نے اُنگلی سے اُس کے سر پر ایک ٹھینگا مارا۔ پہلوان کو یہ دیکھ کر سخت غصہ آیا اور وہ اسے زمین پر گرا کر ٹُھڈّے مارنے لگا۔ وہ مار کھاتا جاتا اور کہتا جاتا تھا کہ جتنا جی چاہے مار لو مگر جو مزامجھے ٹھینگا مارنے میں آیا ہے وہ تم کو ساری عمر مار کر بھی نہیں آئے گا۔ اب دیکھو وہ چونکہ کمزور تھا اس لئے اْس نے اسی بات کو بڑے فخر کا موجب سمجھا کہ اْس نے ایک طاقتور کے جسم کو چُھو لیا۔ پس ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ظالم ہو مگر طاقتور ہو اور مظلوم اس پر غلبہ نہ پاسکتا ہو مگر فرماتا ہے ہم نے جو اجازت دی ہے وہ اس لئے دی ہے کہ ان پر حملہ کیا گیا اور اس لئے اجازت دی ہے کہ ان پر ظلم کیا گیا اور اس لئے اجازت دی ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور ہمارا فرض ہے کہ ان کمزوروں کو طاقتور وں پر غالب کر دیں۔ پس ہم نے انہیں خالی لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ ہمارا ان کے ساتھ وعدہ ہے کہ ہم تمہارے ساتھ رہیں گے جب تک تم ظالم کو مغلوب نہیں کر لیتے۔
پھر فرماتا ہے الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ وہ گھروں سے نکالے گئے بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی قصور کیا ہو۔ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ان کا گناہ صرف یہ تھا کہ انہوں نے اسلام کو سچا مان لیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ وَ لَوْ لَا دَفعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا فرماتا ہے آئندہ زمانہ میں ایسے ایسے لوگ پیدا ہونے والے ہیں جو محبت اور انسانیت کے نام پر اپیلیں کریں گے اور کہیں گے کہ لڑائی بہرحال بُری چیز ہے اور وہ کسی صورت میں نہیں ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ایسے لوگوں سے کہو کہ اگر اللہ کا یہ قانون نہ ہوتا کہ بعض کے مظالم بعض کے ذریعہ مٹا دیئے جائیں تو عبادت خانے اور علماء کے رہنے کی جگہیں اور بُدھوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہیں اور مسجدیں سب برباد ہو جاتیں اور ان میں اللہ کا نام لیا جانابند ہو جاتا کیونکہ تمہارے جنگ نہ کرنے سے ان لوگوں کے ارادے کس طرح بدل سکتے ہیں جو حکومت کا دائرہ وسیع کرکے مذہب پر بھی حکومت کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو اپنے منشاء کے مطابق مذہب رکھنے یا نہ رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ لوگ جنگ کی قطعی ممانعت کے اعلان کوسن کر دلیر ہو جائیں گے اور نہ صرف دُنیوی امور میں دست اندازی شروع کر دیں گے بلکہ لوگوں کے دین کو مٹا دیں گے اور عبادت کی جگہوں کو گِرا دیں گے وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌo فرماتا ہے جو بھی اس لئے اُٹھے گا کہ خدا کے دین کو آزاد کرے خدا اس کی مدد کرے گا اور وہ قوی اور عزیز ہے۔ جس قوم کے ساتھ اُس کی مدد ہو وہ کبھی مغلوب نہیں ہؤا کرتی۔ پھر فرماتا ہے ایسے لوگ جو مذہبی آزادی کے قیام کے لئے اپنی جانوں اور مالوں کو قربان کرتے ہیں وہ ایسے لوگ ہیں کہ اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ اگر وہ دنیا پر قابض ہو جائیں تو طاقتور ہو کر دوسروں کو لُوٹیں گے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے، غریبوں کو مال دیں گے، خود بُرے کاموں سے بچیں گے ،نیکی کا حکم دیںگے اوربُرے کاموں سے روکیں گے۔
اب بتائو کیا اِس قسم کی لڑائی مسلمانوں کے اختیار میں ہے کہ جب ان کا جی چاہے لڑائی شروع کر دیں اور کفار کو قیدی بنانا شروع کر دیں۔ اس قسم کے جنگی قیدی تو دشمن ہی بنوا سکتا ہے اور جب اس سے بچنا اس کے اختیار میں ہے تو پھر اگر وہ ایسی جنگ کرتا ہے تو یا تو وہ پاگل ہے اور یا پھر قید رہنے کے قابل کیونکہ اسے اختیار تھا کہ وہ حملہ نہ کرتا، وہ دوسروں پر ظلم نہ کرتا، وہ دین کے لئے جنگ نہ کرتا اور اپنے آپ کو غلامی سے بچا لیتا۔
اسلامی تعلیم کے مطابق جنگی قیدیوں کی رہائی
لیکن فرض کرو ایسا حملہ ہو جائے اور بعض لوگ قیدی بن جائیں تو پھر
جو لوگ قیدی بن کر آئیں ان کے لئے صاف اور واضح الفاظ میں یہ حکم موجود ہے کہ فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتّٰی اِذٓا اَثْخَنْتُمُوْھُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَاِمَّامَنًّا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآئً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَھَا ۲۰؎
یعنی اگر ایسا حملہ ہو جائے اور تمہیں لڑائی کرنی پڑے تو خدا تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم اُن میں سے کچھ قیدی پکڑ لو مگر پھر ان سے کیا سلوک کرو اس بارہ میں ہمارے دو قانون ہیں اور تمہیں ان دونوں میں سے کسی ایک قانون کو ضرور ماننا پڑے گا اور وہ قانون یہ ہیں کہ اوّل فَاِمَّامَنًّام بَعْدَ یا تو احسان کرکے چھوڑ دو اور کہو کہ جائو ہم نے تمہیں بخش دیا وَ اِمَّا فِدَآئً اوریا جنگ کا خرچ بحصۂ رسدی قیدیوں سے لیکر انہیں رہا کر دو۔ گویا دو صورتوں میں سے ایک صورت تمہیں ضرور اختیار کرنی پڑے گی۔ یا تو تمہیں احسان کرکے انہیں آزاد کرنا پڑے گا اور یا پھر بحصۂ رسدی ہر قیدی سے جنگ کا تاوان وصول کرکے انہیں آزاد کرنا پڑے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ان میں سے کوئی صورت بھی اختیار نہ کی جائے۔ ہاں اگر کوئی شخص بطور احسان انہیں رہا کرنا نہیں چاہتا تو اُس وقت تک کہ وہ تاوانِ جنگ ادا کریں اُن سے خدمت لے سکتا ہے۔ آجکل کی یورپین قوموں کو ہی دیکھ لو فرانس کے قیدی جو ہٹلر کے قبضہ میں ہیں ان سے وہ تاوانِ جنگ الگ وصول کرے گا اور خدمت الگ لے رہا ہے۔ چنانچہ ہر جگہ کہیں جنگی قیدیوں سے سڑکیں بنواتے ہیں، کہیں مٹی کُھدواتے ہیں اور کہیں اور کام لیتے ہیں۔ بے شک وہ ان سے اُن کے ُعہدوں کے مطابق کام لیتے ہیں مگر یہ نہیں کرتے کہ انہیں فارغ رہنے دیں۔ پس جنگی قیدیوں سے اب بھی مختلف کام لئے جاتے ہیں اور یہی اسلام کا حکم ہے فرق صرف اتنا ہے کہ ان کے ہاں تاوانِ جنگ کومقدم رکھا جاتا ہے اور اسلام یہ کہتا ہے کہ ہمارا پہلا حکم یہ ہے کہ تم انہیں احسان کرکے چھوڑ دو ہاں اگر احسان نہیں کر سکتے تو پھر دوسرا حکم یہ ہے کہ ان سے تاوانِ جنگ لے کر انہیں رہا کر دو۔
اسلامی تعلیم کے مطابق جنگی قیدی سے آئندہ جنگوں
میں شامل نہ ہونے کا معاہدہ لے کر اُسے رہا کر دینا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ بھی ثابت ہے کہ احسان کرکے چھوڑتے وقت یہ معاہدہ لیا جا سکتا ہے
کہ وہ پھر مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے نہیں نکلیں گے کیونکہ ہو سکتاہے ایک شخص ایک دفعہ رہا ہو تو دوسری دفعہ پھر مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل ہو جائے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس قسم کی شرط کر لینے کی اجازت دی ہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کا ایک واقعہ ایسا ہے جو بتاتا ہے کہ اس قسم کے خطرات قیدیوں کو رہا کرتے وقت ہو سکتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دفعہ ایک قیدی ابوعزہ نامی کو رہا کیا یہ شخص جنگِ بدر میں پکڑا گیا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس سے یہ عہد لے کر چھوڑ دیا کہ وہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہیں ہوگا مگر وہ جنگِ احد میں مسلمانوں کے خلاف پھر لڑنے کے لئے نکلا اور آخر حمراء الاسد کی جنگ میں گرفتار ہو کر مارا گیا۔ پس جنگی قیدیوں کے لئے اسلام دو ہی صورتیں تجویز فرماتا ہے (1) احسان کرکے چھوڑ دیا جائے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو (2) تاوانِ جنگ بحصہ رسدی وصول کرکے انہیں چھوڑ دیا جائے۔
جنگی قیدی سے خدمت لینا
ہاں جب تک وہ فدیہ ادا نہ کرے اس سے خدمت لینی جائز ہے کیونکہ قیدی بنانے کی غرض یہی ہوتی ہے کہ دشمن
کی طاقت کو کمزور کیا جائے اگر قیدیوں کو اکٹھا کرکے انہیں ِکھلانا پلانا شروع کر دیا جائے اور کوئی ایسا کام نہ لیا جائے جس سے دشمن کے مقابلہ میں فائدہ اُٹھایا جا سکے تو اس طرح دشمن کی طاقت بڑھ جائے گی کم نہیں ہوگی لیکن اس میں بھی اسلام اور موجودہ حکومتوں کے طریق ِعمل میں بہت بڑا فرق ہے۔
جنگی قیدیوں سے کام لیتے وقت اُن کی طاقت کا خیال رکھنے
اور اُن کی خوراک وپوشاک کے متعلق اسلامی ہدایات
آجکل جنگی قیدیوں میں سے بڑے بڑے افسروں کو توکچھ نہیں کہا جاتا لیکن
عام قیدیوں سے سختی سے کام لیا جاتا ہے مگر اسلام کہتا ہے (1) تم کسی قیدی سے اس کی طاقت سے زیادہ کام نہ لو(2)دوسرے جو کچھ خود کھائو وہی اُس کو ِکھلائو اور جو کچھ خود پہنو وہی اُس کو پہنائو۔ اب ذرا یورپین حکومتیں بتائیں تو سہی کہ کیا وہ بھی ایسا ہی کرتی ہیں؟ کیا انگریز، جرمن اور جاپانی قیدیوں کو وہی کچھ کھلاتے ہیں جو خود کھاتے ہیں یا جرمن انگریز قیدیوں کو وہی کچھ کھانے کے لئے دیتے ہیں جو خود کھایا کرتے ہیں وہ ایسا ہر گز نہیں کرتے۔ مگر اسلام کہتا ہے جو کھانا خود کھائو وہی ان کو ِکھلائو اور جو کپڑا خود پہنو وہی اُن کو پہنائو۔ اس بارہ میں صحابہؓ اس قدر تعہّدسے کام لیا کرتے تھے کہ ایک دفعہ صحابہؓ ایک سفر پر جا رہے تھے اور ان کے ساتھ بعض غلام بھی تھے وہ غلام خود روایت کرتے ہیں کہ راستہ میں جب کھجوریں ختم ہونے کو آئیں تو صحابہؓ نے فیصلہ کیا کہ وہ خود تو گٹھلیوں پر گزارہ کریں گے اور ہمیں کھجوریں ِکھلائیں گے۔ چنانچہ وہ ایسا ہی کرتے رہے اورگٹھلیاں بھی انہیں کافی نہ ملتی تھیں جن سے پیٹ بھر سکتا۔ تو یہ حکم جو اسلام نے دیا ہے کہ جو کچھ خود کھائو وہی اپنے قیدیوں کو کھلائو اس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی صرف صحابہ کرامؓ ہی ہیں جنہوں نے یہ نمونہ دکھایا۔
اسلامی تعلیم میں جنگی قیدیوں پر سختی
کرنے اور اُن کو مارنے پیٹنے کی ممانعت
پھر فرماتا ہے انہیں مارو پیٹو نہیں اور اگر کوئی شخص انہیں غلطی سے مار بیٹھے تو وہ غلام جسے مارا گیا ہو اُسی وقت آزاد ہو جائے گا۔ حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے اور آپؐ نے دیکھا کہ ایک صحابیؓ کسی غلام کو مار رہے ہیں یہ صحابیؓ خود بیان کرتے ہیں کہ میں اسی حالت میں تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ آواز سنی کہ تم کیا کرتے ہویہ جاہلیت کا فعل ہے۔ آج کل تو لوگ اپنے نوکروں کو بھی مار لیتے ہیں اور اسے کوئی معیوب بات نہیں سمجھتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک غلام کے مارے جانے پر اس صحابیؓ کو ڈانٹا اور فرمایا تم کیا کرتے ہو جس قدر تمہیں اس غلام پرمَقْدرت حاصل ہے اس سے کہیں زیادہ خدا تعالیٰ کو تم پرمَقْدرت حاصل ہے۔ وہ صحابیؓ کہتے ہیں میں یہ آواز سن کر کانپ گیا اور میں نے کہا یَارَسُولَ اللّٰہِ! میں اسے آزاد کرتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو جہنم میں جاتے۔ ۲۱؎
اسی طرح ایک اور صحابیؓ کہتے ہیں ہم سات بھائی تھے اور ہمارے پاس صرف ایک لونڈی تھی ایک دفعہ ہم میں سے سب سے چھوٹے بھائی نے کسی قصور پر اُسے تھپڑ مار دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپؐ نے فرمایا اسے تھپڑ مارنے کا جُرمانہ صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اسے آزاد کر دو۔ چنانچہ انہوں نے اسے آزاد کر دیا۔ گویا کوئی سخت مار پیٹ نہیں ایک تھپڑ بھی کسی غلام یا لونڈی کو مارنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ناپسند تھا اور آپؐ اس کا کفارہ صرف ایک ہی چیز بتاتے تھے کہ اسے آزاد کر دیا جائے۔ آج کل تو مار مار کر جسم پر نشان ڈال دیتے ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ سونٹا نہیں اگر تم تھپڑ بھی مار بیٹھتے ہو تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تم غلام رکھنے کے قابل نہیں اور تم نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تم اس بات کے اہل نہیں کہ تمہارے ماتحت کسی کو رکھا جا سکے تم اسے فوراً آزاد کر دو۔۲۲؎
شادی کے قابل جنگی قیدیوں کی شادی
کر دینے کے متعلق اسلامی ہدایت
پھر فرماتا ہے اگر وہ شادی کے قابل ہوں اور جوان ہوں تو تم ان کی شادی کر دو کیونکہ نہ معلوم وہ کب آزاد ہوں۔ چنانچہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم
میںحکم دیتے ہوئے فرماتا ہے وَاَنْکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِن عِبَادِکُمْ وَ اِمَآئِکُمْ ۲۳؎
تمہاری لونڈیوں اور غلاموں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں ان کے متعلق ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم ان کی شادی کر دیا کرو۔
اب بتائو کیا آجکل کا انٹرنیشنل قانون اس سے زیادہ حُسنِ سلوک سکھاتا ہے۔ آجکل تو ان کی پہلی بیویوں کو بھی ان کے پاس آنے نہیں دیتے کُجا یہ کہ خود ان کی شادی کر دیں۔ مگر اسلام کہتا ہے جو کچھ خود کھائو وہی ان کو کھلائو، جو کچھ خود پہنو وہی ان کو پہنائو، ان میں سے جو شادی کے قابل ہوں ان کی شادی کر دو، ان پر کبھی سختی نہ کرو اور اگر تم کسی وقت انہیں مار بیٹھو تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ تم انہیں فوراً آزاد کر دو۔ پھر کیا آج قیدیوں کو کوئی بھی حکومت یہ اقرار لے کر کہ وہ آئندہ ان کے خلاف جنگ میں شامل نہ ہوں گے چھوڑنے کو تیار ہے؟ یا کیا بغیر تاوانِ جنگ کے کوئی کسی جنگ کرنے والی حکومت کو چھوڑتا ہے؟
اسلام میں فدیہ یعنی تاوانِ جنگ
کے ذریعہ جنگی قیدیوں کی رہائی
مگر اسلام نے تاوانِ جنگ کو بھی اتنا نرم کر دیا ہے کہ فرمایا یا تو احسان کرکے چھوڑ دو اور احسان کو مقدم رکھا اور اس کی برداشت نہ ہو تو تاوانِ جنگ لے کر چھوڑ دو اور فدیہ تاوانِ جنگ کے سِوا اور کچھ
نہیں ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ پہلے جنگ انفرادی ہوتی تھی اس لئے افراد سے تاوانِ جنگ وصول کیا جاتا تھا مگر اب قومی جنگ ہوتی ہے ا س لئے اب طریق یہ ہوگا کہ قوم تاوانِ جنگ ادا کرے۔ پہلے چونکہ باقاعدہ فوجیں نہ ہؤا کرتی تھیں اور قوم کے افراد پر جنگی اخراجات کی ذمہ داری فرداً فرداً پڑتی تھی اس لئے اُس وقت قیدی رکھنے کا بہترین طریق یہی تھا کہ اُن کو افراد میں تقسیم کر دیا جاتا تھا تاکہ وہ ان سے اپنے اپنے اخراجاتِ جنگ وصول کر لیں۔ مگر جب حکومت کی باقاعدہ فوج ہو اور افراد پر جنگی اخراجات کا بار فرداً فرداً نہ پڑتا ہو تو اُس وقت جنگی قیدی تقسیم نہ ہوں گے بلکہ حکومت کی تحویل میں رہیں گے اور جب دوسری قوم تاوانِ جنگ ادا کر دے گی تو پھر ان سے کوئی خدمت نہیں لی جائے گی اور انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ اب بتائو جب قیدی کو فدیہ دے کر رہا ہونے کا اختیار ہے تو وہ کیوں فدیہ ادا کرکے اپنے آپ کو رہا نہیں کرا لیتا۔ اگر وہ خود فدیہ دینے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کے رشتہ دار فدیہ دے سکتے ہیں۔ اگر وہ بھی فدیہ نہیں دے سکتے توحکومت فدیہ دے کر اسے رہا کرا سکتی ہے۔ بہرحال کوئی صورت ایسی نہیں جس میں اس کی رہائی کا دروازہ ُکھلا نہ رکھا گیا ہو۔
فدیہ نہ دے سکنے والے کی رہائی کی صورت
ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ ہو سکتا ہے ایک شخص غریب ہو اور وہ خود فدیہ ادا
کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، گورنمنٹ ظالم ہو اور اسے رہاکرانے کا کوئی احساس نہ ہو، رشتہ دار لاپرواہ یا بدمعاش ہوں اور وہ چاہتے ہوں کہ وہ قید ہی رہے تاکہ وہ اس کی جائداد پر قبضہ کر لیں، دوسری طرف مالک کی یہ حالت ہو کہ وہ بغیر فدیہ کے آزاد کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو کیونکہ بالکل ممکن ہے جو رقم اس نے جنگ میں خرچ کی تھی اس نے اس کی مالی حالت کو خراب کر دیا ہو تو ایسی صورت میں وہ اپنی رہائی کے لئے کیا صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اس سوال کا جواب بھی قرآن کریم نے دیا ہے۔ فرماتا ہے۔ وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوْ ھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا وَّاٰتُوْھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیَٓ اٰتٰکُمْ ۲۴؎
یعنی وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے تمہارا غلام بنایا ہے اور تمہیں ان پر قبضہ اور تصرف حاصل ہے اگر وہ تم سے کہیں کہ صاحب ہمیں ُچھڑانے والا کوئی نہیں اور نہ ہمارے پاس دولت ہے کہ ہم فدیہ دے کر رہا ہو سکیں ہم غریب اور نادار ہیں ہم آپ سے یہ شرط کر لیتے ہیں کہ آپ کی رقم دو سال یا تین سال یا چار سال میں ادا کر دیںگے اور اس قدر ماہوار قسط آپ کو ادا کیا کریں گے آپ ہمیں آزاد کر دیں تو فَکَاتِبُوْ ھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا ۔ تم اس بات پر مجبور ہو کہ ان کو آزاد کر دو اور ان کے فدیہ کی رقم کی قِسطیں مقرر کر لو بشرطیکہ تمہیں معلوم ہو کہ وہ روپیہ کمانے کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ تمہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کوجو کچھ دیا ہے اس میں سے ان کی مدد کرو۔ یعنی انہیں کچھ سرمایہ بھی دے دو تاکہ اس ذریعہ سے وہ روپیہ کما کر اپنا فدیہ ادا کر سکیں۔ گویا جس وقت قِسطیں مقرر ہو جائیں اُسی وقت سے وہ اپنے اعمال میں ویسا ہی آزاد ہوگا جیسے کوئی دوسرا آزاد شخص اور وہ اپنے مال کا مالک سمجھا جائے گا۔
اگر ان تمام صورتوں کے باوجود کوئی شخص پھر بھی غلام رہتا ہے اور آزاد ہونے کی کوشش نہیں کرتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ خود غلام رہنا چاہتا ہے اور اسے غلامی میں مزا آتا ہے۔ غرض اسلامی تعلیم کے ماتحت غلام دُنیوی جنگوں میں نہیں بنائے جاتے بلکہ صرف انہی جنگوں میں بنائے جاتے ہیں جو مذہبی ہوں مگر ان غلاموں کے متعلق بھی حکم دیا کہ اول تو احسان کرکے انہیں چھوڑ دو۔ اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو فدیہ لے کر رہا کر دو۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ خود فدیہ دے اس کے رشتہ دار بھی دے سکتے ہیں، حکومت بھی دے سکتی ہے اور اگر گورنمنٹ لاپرواہ ہو، رشتہ دار ظالم ہوں اور وہ غریب ہو تو وہ کہہ سکتاہے کہ آئو میرے ساتھ طے کر لو کہ مجھ پر کیا تاوانِ جنگ عائد ہوتا ہے اور مجھے اس تاوان کی ادائیگی کے لئے اتنی مُہلت دے دو میں اس عرصہ میں اس قدر ماہوار روپیہ ادا کرکے تاوانِ جنگ دے دوں گا۔ اس معاہدہ کے معاً بعد وہ آزاد ہو جائے گا اور مالک کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ وہ مکاتبت میں کسی قسم کی روک پیدا کرے۔مکاتبت کا روکنا صرف اسی صورت میں جائز ہے جبکہ اس میں خیر نہ ہو یعنی جنگ کا خطرہ ہو یا یہ کہ وہ پاگل یا کم عقل ہو اور خود کما نہ سکتا ہو اور خطرہ ہو کہ وہ بجائے فائدے کے نقصان اُٹھائے گا۔ مکاتبت کی صورت میں اسلام اسے سرمایہ مہیا کرنے کا بھی حکم دیتا ہے خواہ وہ سرمایہ مالک دے یا حکومت۔
قیدیوں کی رہائی کے متعلق اسلام کی انتہائی کوشش
پھر ممکن ہے کوئی شخص کہہ دے اگر پاگل یاکم عقل والے کی
مکاتبت کوروکنا جائز ہے تو پھر لوگ اچھے بھلے سمجھدار لوگوں کو بے عقل قرار دے کر اپنا غلام بنائے رکھیں گے آزاد تو وہ پھر بھی نہ ہؤا۔اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی صورت میں وہ گورنمنٹ کے پاس درخواست کر سکتا ہے کہ میں صاحبِ عقل ہوں، کما سکتا ہوں مگر میرا مالک مجھے جان بوجھ کر غلام بنائے ہوئے ہے ایسی صورت میں قاضی فیصلہ کرکے اسے آزادی کا حق دے دیگا۔ غرض کوئی صورت ایسی نہیں جس میں غلاموں کی آزادی کومدنظر نہ رکھا گیا ہو۔ اول مالک کو کہا کہ وہ احسان کرکے چھوڑ دے۔ دوم اگر مالک ایسا نہ کر سکے تو غلام کو اختیار دیا کہ وہ تاوانِ جنگ ادا کرکے آزادی حاصل کر لے اوراگر فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتاہو تو مکاتبت کر لے اور کہہ دے کہ میں اتنی قسطوں میں روپیہ دے دوں گا مجھے دو یا تین سال کی مہلت دے دو۔ ایسا معاہدہ کرتے ہی وہ عملاً آزاد سمجھا جائے گا اور اگر ان ساری شرطوں کے باوجود کوئی شخص یہ کہے کہ میں آزاد ہونا نہیں چاہتا تو ماننا پڑے گا کہ اسے اپنی غلامی آزادی سے اچھی معلوم ہوتی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ صحابہ کرامؓ کے پاس جو غلام تھے انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے احکام کے ماتحت وہ اس عمدگی اور آرام کے ساتھ رکھتے تھے کہ انہیں اپنی آزادی سے صحابہؓ کی غلامی بہتر معلوم ہوتی تھی۔
صحابہ کرام ؓ کا غلاموں سے حُسنِ سلوک
صحابہؓ جو کچھ کھاتے وہی انہیں ِکھلاتے جو کچھ پہنتے وہی ان کو پہناتے،انہیں بدنی
سزا نہ دیتے، ان سے کوئی ایسا کام نہ لیتے جو وہ کر نہ سکتے، ان سے کوئی ایسا کام نہ لیتے جس کے کرنے سے وہ خود کراہت کرتے اور اگر لیتے تو کام میں ان کے ساتھ شریک ہوتے اور اگر وہ آزادی کا مطالبہ کرتے تو انہیں فوراً آزادی دے دیتے بشرطیکہ وہ اپنا فدیہ اداکر دیں۔ ان حالات کو دیکھ کر غلاموں کا جی ہی نہیں چاہتا تھا کہ وہ آزاد ہوں۔ وہ جانتے تھے کہ یہاں ہمیں اچھا کھاناکھانے کوملتا ہے بلکہ آقا پہلے ہمیں ِکھلاتا ہے پھر خود کھاتا ہے گھر گئے تومعمولی روٹی ہی ملے گی اس لئے وہ آزادی کا مطالبہ ہی نہیں کرتے تھے۔ پس گووہ غلام تھے مگر درحقیقت ان کے دل فتح ہو چکے تھے اور ایسے ہی تھے جیسے حضرت خدیجہؓ کے غلام زید بن حارثہ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کو آزادی پر ترجیح دی۔
غلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کے ُحسنِ سلو ک کا نمونہ اور اس کا نتیجہ
جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی ہوئی تو انہوں نے اپنی تمام دولت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دے دی اور زیدؓ کو بھی جو
ان کے غلام تھے آپ کے سپرد کر دیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو آزاد کر دیا۔ حضرت زیدؓ دراصل غلام نہیں تھے بلکہ ایک آزاد خاندان کے لڑکے تھے کسی لُوٹ مار میں وہ قید ہو گئے اور ہوتے ہوتے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس پہنچے۔ ان کے باپ اور چچا دونوں ان کو تلاش کرتے کرتے مکہ میں آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا کہ زیدؓ کو ہمارے ساتھ بھیجا جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت زیدؓ کو آزاد کر چکے تھے آپؐ نے فرمایا میری طرف سے کوئی روک نہیں اگر یہ جانا چاہتا ہے تو بے شک چلا جائے۔ انہوں نے زیدؓ سے کہا کہ بیٹا! گھر چل تیری ماں روتی ہے اور اسے تیری جُدائی کا سخت صدمہ ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بھی تجھے آزادکر دیا ہے اور اجازت دے دی ہے کہ ُتو ہمارے ساتھ واپس چلا جا۔ زیدؓ نے کہا انہوں نے بے شک مجھے آزاد کر دیا ہے مگر میں دل سے ان کا غلام ہی ہوں اور اس غلامی سے الگ ہونا نہیں چاہتا۔ باپ نے بہت منّت سماجت کی اور کہا کہ دیکھ اپنی بوڑھی ماں کا خیال کر چچا نے بھی بہت کوشش کی اور کہا کہ ماں باپ سے بڑھ کر اور کون حُسنِ سلوک کر سکتا ہے ہمارے ساتھ چل ہم تجھے بڑی محبت سے رکھیں گے مگر حضرت زیدؓ نے کہا میں آپ کے ساتھ نہیں جاسکتا کیونکہ میرے ساتھ جو کچھ یہ سلوک کرتے ہیں اس سے بہتر سلوک دنیا کی کوئی ماں اور دنیا کا کوئی باپ نہیں کر سکتا۔
اب بتائو کیا اس غلامی پر اعتراض ہو سکتاہے ؟یا انسان کا دل تشکّر و امتنان کے جذبات سے لبریز ہو جاتا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور وہ حیران ہو جاتاہے کہ کیا دنیا میں دو انسانوں کے درمیان ایسے شریفانہ تعلقات بھی ہو سکتے ہیں۔
ابتدائے اسلام میں بعض لوگوں کے غلام رہنے کی وجہ
پس اگر ابتدائے اسلام میں بعض غلام غلام ہی رہے
تو اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ مسلمان غلاموں سے ایسا حُسنِ سلوک کرتے تھے کہ وہ غلام خود چاہتے تھے ہم پر یہ حکومت کرتے چلے جائیں اور ہم ان کی غلامی میں ہی رہیں کیونکہ ان کی غلامی آزادی سے بدرجہا بہتر ہے مگر یورپ کے پادری دُور بیٹھے اعتراضات کرتے چلے جاتے ہیں کہ اسلام نے غلامی کو دور نہیں کیا۔ بڑے بڑے جلسوں میں لیکچر ار اپنے وقت سے پانچ منٹ بھی زیادہ تقریر کریں تو لوگ شور مچانے لگ جاتے ہیں مگر یہ دل کی غلامی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے کا نتیجہ ہی ہے کہ یہاں ہمارے جلسہ میں خواہ سردی لگے، بھوک لگے، ہاتھ پائوں شَل ہو جائیں پھر بھی لوگ بیٹھے رہتے ہیں اور یہی چاہتے ہیں کہ تقریر جاری رہے۔ یہ غلامی آیا اِس قابل ہے کہ اس پر اعتراض کیا جائے یا یہ غلامی ایمانوں کو بڑھانے والی ہوتی ہے۔ یہ غلامی بندوں کی نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ کی ہوتی ہے۔
غرض کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اب تو دنیا آگے نکل گئی ہے اس نے غلامی کو مٹا دیا ہے کیونکہ اسلام نے شروع سے ہی غلامی کو کُلّی طور پر مٹا دیا ہے۔ ہاں جنگی قیدی بنانے کی اس نے اجازت دی ہے مگر ان کے بارہ میں بھی وہ قواعد بنائے کہ اب تک بھی دنیا ان سے پیچھے ہے۔ اس وقت نہ اتحادی ان قواعد پر عمل کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں نہ محوری ۲۵؎ ان قواعد پر عمل کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں۔
لوگوں پر ظلم روا رکھنے کے متعلق بعض فلسفیانہ نظریے
خلاصہ یہ کہ اسلام نے غلامی کو یکسر مٹا دیا ہے۔ اب
رہا وہ دُکھ جو باطنی غلامی سے پیدا ہوتا ہے یعنی غربت یا ماتحتی کی وجہ سے، اس کا علاج بھی اسلام نے کیا ہے مگر اس علاج کو سمجھنے سے پہلے یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کے امتیازی فرق بعض فلسفی نظریوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ نظریے یہ ہیں۔
پہلا نظریہ
اول بعض کہتے ہیں کہ دنیا میں جس کا زور چلتا ہو وہی لے جاتا ہے اس لئے ہمیں بھی اسی پر عمل کرنا چاہئے۔ انگریزوں کا زور چلا تو انہوں نے کئی ملکوں پر
قبضہ کر لیا، اسی طرح جب اٹلی نے ایبے سینیاپر حملہ کیا تو مسولینی نے ایک تقریر کی جس میں کہا کہ ہم نے یہ حملہ محض ایبے سینیا والوں کی خدمت کرنے کے لئے کیا ہے اور اس اقدام سے ہماری وہی غرض ہے جو انگریزوں کی ہندوستان میں تھی۔ وہ کہتے ہیں ہندوستان پر ہم اس لئے حکومت کر رہے ہیں کہ وہاں کے جاہلوں کو پڑھائیں اور اسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کر دیں۔ پھر کیا ہم میں انسانیت نہیں پائی جاتی کہ ہم دوسروں کی خدمت نہ کریں اور ان کے ملک پر قبضہ کرکے ان کی جہالت کو دور نہ کریں۔ پس یہ بھی ایک دلیل ہے جو بعض لوگوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے۔
دوسرا نظریہ
دوسرے بعض کہتے ہیں کہ جو فائق ہو اسے فائق ہی رہنا چاہئے یعنی مالی طور پر جس کا غلبہ ہو اور جو اپنے زورِ بازو سے کماتا ہو اس میں دخل نہیں دینا چاہئے۔
تیسرا نظریہ
اسی طرح ایک اور نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ نسلی فوقیت بھی ایک حقیقی فوقیت ہے اس کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ عقیدہ ویسا ہی ہے
جو ہندو مذہب میں پایا جاتا ہے کہ شودر شودر ہی رہے گا ویش ویش ہی رہے گا کھتری کھتری ہی رہے گا اور برہمن برہمن ہی رہے گا۔ بقول ان کے یہ امتیاز جو نسلی طور پر لوگوں میں پایا جاتا ہے مٹ نہیں سکتا۔
چوتھا نظریہ
ایک اور قانون یہ بیان کیا جاتا ہے کہ دنیا میں صرف جمہور کو حکومت کرنے کا حق ہے اس لئے اقلیتوں پر جو چاہو ظلم کرو۔ اس نظریہ کے ماتحت یہ لوگ
اقلیت کو تباہ کر دیتے ہیں اور تھوڑے آدمیوں کی آواز کو سنتے ہی نہیں۔
پانچواں نظریہ
اسی طرح ان کا ایک یہ بھی قانون ہے کہ جو گِری پڑی چیز ملے لے لو۔ ہم بچپن میں جب آپس میں کھیلا کرتے اور ہمیں کوئی گِری پڑی چیز مل جاتی
تو ہم یہ کہتے ہوئے اُسے اُٹھا لیتے کہ ’’لبھی چیز خدا دی نہ دھیلے دی نہ پادی‘‘ اور سمجھتے کہ یہ کوئی ایسا منتر ہے جس کو پڑھ کر گِری پڑی چیز کو اُٹھا لینا بالکل جائز ہو جاتا ہے مگر وہ چیز جو بچوں کو کھیلتے ہوئے مل جاتی ہے کوئی قابلِ ذکر نہیں ہوتی۔ کبھی انہیں مکئی یاچنے کا دانہ زمین پر پڑا ہؤا مل جاتا ہے، کبھی بٹن یا ایسی ہی کوئی چیز مل جاتی ہے اور وہ اُسے اُٹھا لیتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی ایک دفعہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ !گری پڑی چیز کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا مثلاً؟ اُس نے کہا مثلاً جنگل میں مجھے کوئی بکری مل جائے تو آیا میں اسے لے لوں یا نہ لوں؟ آپؐ نے فرمایا جنگل میں اگر تجھے کوئی بکری مل جائے تو ُتو اِدھر اُدھر آواز دے کہ یہ کس کی بکری ہے اور اگر آواز دینے کے باوجود تجھے اس کا مالک نہ ملے تو تو اُسے لے لے اور کھا جا کیونکہ اگر ُتو نہیں کھائے گا تو تیرا بھائی بھیڑیا اُسے کھا جائے گا۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اگر جنگل میں اُونٹ مل جائے تو پھر کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا تیرا اونٹ سے کیا تعلق ہے؟ اونٹ کا کھانا درختوں پر اور اُس کاپانی اُس کے پیٹ میں ہے ُتو اِس اونٹ کا کیالگتا ہے ُتو اُسے پھرنے دے۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!اگر کہیں گِری پڑی کوئی تھیلی مجھے مل جائے تو پھر کیا حکم ہے؟ آپؐنے فرمایا تھیلی ملے تو اُسے اُٹھا لو اور لوگوں میں اس کے متعلق متواتر اعلان کرتے رہو جب اُس کا مالک مل جائے تو اُسے دیدو۔ پس ہر گِری پڑی چیز کے لئے الگ الگ قانون ہے۔ بکری اور مرغی چونکہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں جانور کھا جاتے ہیں اس لئے اگر ان کا مالک نہ ملے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ انہیں پانے والا اپنے استعمال میں لے آئے۔ لیکن جو باقی چیزیں ہیں ان میں سے جو حفاظت سے رہ سکتی ہیں ان کے متعلق حکم دیا کہ انہیں ہاتھ مت لگائو اور جو حفاظت سے نہیں رہ سکتیں ان کے متعلق حکم دیا کہ انہیں اُٹھا تو لو مگر متواتر لوگوں میں اعلان کرتے رہو اور پھر ان کے اصل مالک تک انہیں پہنچا دو۔ تو اسلام نے گِری پڑی چیزوں کے متعلق نہایت پُر حکمت احکام دیئے ہیں مگر اب یورپین اقوام کا اصول یہ ہے کہ جو لاَوارث ، کمزور قوم ہو اس پر قبضہ کر لو۔ اس کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمیں گِرا پڑا مال مل گیا ہے۔ آسٹریلیا کتنا بڑا ملک ہے ا س کے متعلق یورپین لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہمیں لَاوارث مال مل گیا ہے، ہندوستان کی حکومت کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ہمیں َلاوارث مل گیا ہے، شمالی امریکہ کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ہمیں َلاوارث مل گیا ہے، جنوبی امریکہ کے متعلق کہتے ہیں یہ ہمیں َلاوارث مل گیا ہے۔ غرض پانچواں نظریہ یورپین اقوام کا یہ ہے کہ نیا دریافت کردہ ملک جو بھی دریافت کر لے یا کمزور حکومت جہاں بھی ہو وہ پہلے پہنچنے والے کی ہے۔ ان اصول کے علاوہ جن کی وجہ سے دنیا میں ظلم ہو رہا ہے کچھ عملی خامیاں بھی اس ظلم کی ذمہ دار ہیں۔
لوگوں پر ظلمرَوا رکھنے والی عملی خامیاں
پہلی عملی خامی تو یہ ہے کہ معذور و مجبور کا ذمہ دار کسی محکمہ کو قرار نہیں دیا جاتا رہا گو اَب اس
کی بعض ممالک میں تدریجاً اصلاح ہو رہی ہے اور بعض محکمے ایسے بنے ہیں جن کے ذریعہ اس کوتاہی کا ازالہ کیا جاتا ہے مگر اب بھی انہوں نے جو نئی سکیم بنائی ہے وہ اسلامی تعلیم کو نہیں پہنچتی۔
دوسرے ایسے راستے ُکھلے رکھے گئے تھے جن سے بعض افراد کے ہاتھ میں تمام دولت آجائے۔
تیسرے ایسے راستے ُکھلے تھے کہ جن کے ہاتھ میں دولت آجائے وہ پھر نکلے نہیں۔
چوتھے بے مصرف فنون پر روپیہ خرچ کیا جاتا اور اس کا نام آرٹ رکھا جاتا ہے ان میں سے بعض کسی جگہ اور بعض کسی جگہ رائج ہیں اور بعض سب جگہ رائج ہیں۔
اسلام نے ان سب خرابیوں کے دروازے بند کرکے ترقی کے نئے رستے کھولے ہیں۔ چنانچہ اسلام نے ان سب امورکا ان طریقوں پر علاج کیا ہے:-
باطنی غلامی یعنی ماتحتی کی وجہ سے پیدا
ہونے والے دُکھ کا علاج اسلام میں
اول اسلام نے یہ اعلان کیا ہے کہ جو کچھ خداتعالیٰ نے پیدا کیا ہے وہ ساری دنیا کے لئے ہے۔ کسی ایک کے لئے پیدا نہیں کیا۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ماں باپ بعض دفعہ مٹھائی
کی تھالی اپنے کسی بچے کو پکڑاتے ہیں تو وہ اکیلا ہی اسے کھا جانا چاہتا ہے اس پر اس کے ماں باپ اسے کہتے ہیں کہ یہ حصہ صرف تمہارا نہیں بلکہ تمہارے سب بھائیوں کا اس میں حق ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھُوَالَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ۲۶؎ اس دنیا میں جوکچھ ہے وہ سب بنی نوع انسان کی مجموعی مِلک ہے جیسے ماں اپنے کسی بچہ کو مٹھائی کی تھالی دے کر کہتی ہے کہ یہ تم سب بھائیوں کا حصہ ہے۔
اس اصل کے ماتحت اسلام نے امپیریلزم، نیشنل سوشلزم اور موجودہ انٹرنیشنل سوشلزم سب کو ردّ کر دیا ہے کیونکہ یہ فلسفے طاقتور اور عالِم اور منظم قوموں کو دوسری اقوام پر تصرّف کا حق دیتے ہیں۔ آج کل بھی یہی بحث ہو رہی ہے کہ اگر یہ بات مان لی گئی کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے تو کل افریقہ والے اپنی آزادی کا مطالبہ کریں گے حالانکہ وہ ننگے پِھرتے تھے اور ہم نے انہیں تہذیب سکھائی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ ننگے پِھرتے تھے تو تم ان کا ننگ نہ دیکھتے اور اپنے گھرو ں میں بیٹھ رہتے۔ تم کہتے ہو وہ درختوں کے پتے کھایا کرتے تھے مگر ہم نے انہیں یہ آدمیت سکھائی اب کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم ان پر حکومت کریں۔ ہم کہتے ہیں اگر وہ درختوں کے پتے یا پھل ہی کھایا کرتے تھے تو تمہارا کیا حق تھا کہ تم ان کے ملک پر قبضہ کرتے انہیں کیک ِکھلاتے۔ پس ھُوَالَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ دنیا میں جو کچھ ہے اس میں ساری دنیا کا حصہ ہے یہ نہیں جیسے آج کل سائوتھ افریقہ میں قانون بنا دیا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی غیر شخص داخل نہ ہو، اسی طرح امریکہ والوں نے قانون بنا دیا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی اورشخص داخل نہ ہو حالانکہ سائوتھ افریقہ کا فائدہ ساری دنیا کو حاصل ہونا چاہئے اسی طرح امریکہ کا فائدہ ساری دنیا کو حاصل ہونا چاہئے یہ نہیں کہ صرف سائوتھ افریقہ اور امریکہ والے ہی ان سے فائدہ اُٹھائیں باقی دنیا محروم رہ جائے۔
کانوں کی دریافت کے متعلق اسلام کا حکم
اسی طرح اسلام نے ان مالدار لوگوں کے ظلم کو بھی ردّ کر دیا ہے جو طبعی وسائل
سے کام لے کر دولت جمع کرتے ہیں اور ان میں باقی دنیا کا حصہ قرار دیا ہے اگر وہ طبعی وسائل سے کام نہ لیں تو کبھی اس قدر مالدار نہیں ہو سکتے مگر اب وہ دولت کے زور سے کانوں پر قبضہ کر لیتے ہیں اور اس طرح دوسروں کے حقوق کو تلف کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ اسلام نے اس کا علاج یہ تجویز کیا ہے کہ کانوں میں سے پانچواں حصہ گورنمنٹ کا مقرر کیا ہے اورپھر جومال کانوں کے مالک جمع کریں اور اس پر سال گزر جائے اس پر زکوٰۃ الگ ہے۔ گویا اس طرح حکومت کانوں میں حصہ دار ہوجاتی ہے اور غرباء کیلئے ایک کافی رقم جمع ہو جاتی ہے جس سے ان کے حقوق ادا کئے جا سکتے ہیں اور وہ نقص پیدا نہیں ہوتا جو کانوں کی دریافت کی وجہ سے نظامِ تمدن میں واقع ہوتا ہے۔
دوسروں کے اموال کو اُن کی خبر گیری کرنے کے
بہانہ سے اپنے قبضہ میں کر لینے کا علاج اسلام میں
دوسرا علاج اسلام نے یہ کیا کہ دنیا میں یہ اعلان کر دیا کہ
لَاتَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ
وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ۲۷؎ فرماتا ہے تم دوسروں کے اموال اس بہانہ سے نہ لو کہ ہم ان کی خبر گیری کریں گے لَاتَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ جوکچھ ہم نے لوگوں کومال دیا ہے اس کی طرف آنکھیں اُٹھا اُٹھا کر نہ دیکھو وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ اور یہ نہ کہو کہ ہمیں ان کی حالت کو دیکھ کر بڑا غم ہوتاہے فرماتا ہے یہ غم تم اپنے لئے ہی رہنے دو۔ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ تمہاری اپنی رعایا موجود ہے تم اس کی تمدنی ترقی کے لئے جتنی کوششیں چاہو کرو تمہیں اس سے کوئی منع نہیں کرتا۔ ہاں اگر تم یہ کہو کہ ہمیں دوسروں کا غم بے چین کئے ہوئے ہے اور ان کی ترقی کے لئے ہم ان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس سے متفق نہیں۔ تم اپنے گھر بیٹھو اور انہیں اپنے گھر میں رہنے دو۔ آجکل تمام کالونیزیشن کی بنیاد اسی غلط دعویٰ پر ہے کہ ہم ان کی بھلائی کے لئے ان کے ملک پر قبضہ کئے ہوئے ہیں اور یہی بہانہ ہر ملک پر قبضہ جماتے وقت کیاجاتا ہے مگر اس دعویٰ کی حقیقت تھوڑے عرصہ کے بعد ہی ُکھل جاتی ہے جب اس ملک کی تمام دولت اپنے قبضہ میں لے لی جاتی ہے اور وہاں کے لوگوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ ایسٹ افریقہ میں چلے جائو وہاں یورپین گورنمنٹ ہے مگر حالت یہ ہے کہ وہاں انگریز تو بڑے بڑے مالدار ہیں مگر خود وہاں کے باشندے غربت کی حالت میں ہیں اور ان کے خادم بن کر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ پس فرماتا ہے کہ اپنے آدمیوں کی بھلائی کی فکر کرو دوسروں کو ان کے حال پر چھوڑ دو وہ غریب جس طرح ہوگا اپنی خبر گیری کر لیں گے۔ اگر کہا جائے کہ کیا ان کی مدد نہ کی جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ دوسروں کی خدمت مت کرو وہ جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ لالچ اور ذاتی فائدہ کیلئے خبر گیری مت کرو۔ اب خدمت تو ایک مدرّس بھی کرتا ہے مگر اس کی خدمت اتنی ہی ہوتی ہے کہ علم پڑھاتا ہے اور تنخواہ وصول کر لیتا ہے مگر یہ لوگ تو جب کسی ملک میں جاتے ہیں تو وہاں کی زمینیں اپنے آدمیوں میں بانٹ دیتے ہیں اور ہزاروں لوگ خانماں بربادہو جاتے ہیں۔ پس فرماتا ہے یہ طریق درست نہیں۔
اول تو دوسروں کے ملک میں سیاسی طور پر نہ جائو اور اگر جائو تو خادموں کی حیثیت سے جائو۔ پس دوسروں کے فائدہ کے لئے بغیر ملک پر قبضہ کرنے کے مدد دینا منع نہیں ۔ منع یہی ہے کہ انسان خادم کی حیثیت سے نہ جائے بلکہ ملک پر قبضہ کرنے کے لئے جائے۔ اب دیکھو بالشویک نے بھی کچھ کمی نہیں کی وہ فِن لینڈ پر چڑھ دَوڑے اور اس پر قبضہ کر لیا اور شور یہ مچا رہے تھے کہ ہم وہاں امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ پس اسلام کہتا ہے یہ طریق درست نہیں تمہیں اس سے اجتناب کرنا چاہئے حقیقت یہ ہے کہ تمام کالونیز کا سوال صرف اورصرف اس طرح حل ہو سکتا ہے جو اسلام نے بتایا ہے ورنہ موجودہ طریقے سب غلط اور نادرست ہیں۔
اسلامی لیگ آف نیشنز اور اس کے چار بنیادی اصول
تیسرا اصل اسلام یہ بتاتا ہے کہ جب تک دنیا ایک
محور پر نہیں آجاتی امن کے قیام کے لئے سب کو ان کی حدود کے اندر رکھو۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ ساری دنیا کو اکٹھا کرکے ایک محور پر لایا جائے مگر جب تک ایسا نہیں ہو جاتا اُس وقت تک جھگڑوں کو دور کرنے کے لئے وہ یہ ہدایت دیتا ہے۔ وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا فَاِنْم بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِنْ فَا ئَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنََ ۲۸؎
یعنی اگر دو حکومتیں آپس میں لڑ پڑیں تو تم ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو اور اگر وہ صلح اور پیار سے آپس کے جھگڑے کو نہ نپٹائیں اور ایک حکومت دوسرے پر چڑھائی کر دے تو پھر ساری حکومتیں مل کر چڑھائی کرنے والے کا مقابلہ کریں۔ جب وہ اپنی ہار مان لے اور کہے بہت اچھا میں لڑائی بند کرتی ہوں تو پھر دوبارہ ان کے درمیان صلح کرائو اور تفصیلات طے کرو۔ مگر یاد رکھو جب شرائط ِصلح طے کرنے لگو تو اس غصہ کی وجہ سے کہ اس نے کیوں جنگ کی۔ عدل و انصاف کو ترک نہ کرو اور ایسا نہ کرو کہ پھر اپنا حصہ بھی مانگنے لگو بلکہ جو جھگڑا تھا اُسی تک اپنے آپ کو محدود رکھو۔
دیکھو یہ کیسی زبردست پیشگوئی ہے جب یہ آیت نازل ہوئی اُس وقت کوئی مسلمان گروہ ایسے نہ تھے جن میں لڑائی کا خطرہ ہوتا۔ پس درحقیقت یہ آئندہ کے متعلق ایک پیشگوئی تھی۔ بغی اور قَاتِلُوْا کے الفاظ بھی بتا رہے ہیں کہ اس کا تعلق حکومت سے ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر دو حکومتیں آپس میں جھگڑ پڑیں تو تمہیں یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ ان حکومتوں کو مجبور کرو کہ وہ قوموں کی پنچایت سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کرائیں۔ اگر وہ منظور کر لیں تو بہتر اور اگر منظور نہ کریں اور ایک قوم دوسری قوم پر حملہ کر دے تو باقی سب کا فرض ہے کہ اس کے مقابلہ میں یکجا ہو جائیں اور اس پرحملہ کرکے اسے مغلوب کریں اور آخر میں جب مغلوب ہو کر وہ صلح پر آمادہ ہو جائے تو انصاف اور دیانت کے ساتھ شرائط طے کرو۔ انتقام کے جوش میںاس قوم کے حصے بخرے کرنے اور ذاتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو۔ اس آیت میں جو اصول بتائے گئے ہیں وہ یہ ہیں۔
(1 )۔ اگر حکومتوں میں اختلاف ہو تو دوسری حکومتیں زور دے کر انہیں تبادلۂ خیالات کرکے فیصلہ کرنے پر مجبور کریں۔
(2) ۔ اگر ان میں سے کوئی فریق نہ مانے اور جنگ کرے تو سب مل کر لڑنے والے سے جنگ کریں۔
(3)۔ جب حملہ آور مغلوب ہو جائے اور باہمی سمجھوتہ کے فیصلہ پر راضی ہو جائے تو پھر سب ساتھ مل کر صلح کا فیصلہ کرائیں (آیت میں پہلی صلح۔ صلح سے کام کرنے اور آپس میں مصالحت سے رہنے کے معنوں میںہے اور دوسری صلح شرائط صُلح سے طے کرانے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ دوبارہ شرائط کے کوئی معنے نہیں۔ عدل کا اضافہ بھی اس پر دال ہے)۔
(4)۔ لیکن جنگ کی وجہ سے غصہ سے کام نہ لیں جس کا حق ہو اُسے دیں۔ بعض دفعہ حق والا بھی غصہ سے لڑ پڑتا ہے مگر حق بہرحال اُسی کا ہوتا ہے۔
(5)۔وَاَقْسِطُوْا کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ مغلوب یا غالب فریق سے دوسری دخل دینے والی اقوام کوئی فائدہ نہ اُٹھائیں۔
یہ لیگ آف نیشنز اسلام نے اُس وقت پیش کی جب اِس قسم کا کسی کو خیال تک نہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے اِس نکتہ کو مجھ پر کھولا جو ایک ایسا عظیم الشان کام ہے جو صرف نبیوں یا خلفاء کا ہی ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ اِس قسم کا اہم انکشاف سوائے انبیاء اور خلفاء کے کسی نے آج تک کُتبِ سماویہ میں سے کیا ہو جس کا تعلق سب دنیا سے ہو اور صدیوں کے لئے ہو۔ یورپ کی لیگ اس کی مخالفت سے فیل ہوئی اور میں نے اپنے لیکچر ’’احمدیت‘‘ میں پہلے سے اس کا اشارہ کر دیا تھا کہ اگر لیگ آف نیشنز بنائو تو اِن قرآنی اصول پربنائو مگر چونکہ لیگ کے قیام میں ان شرائط کو مدنظر نہ رکھا گیا اس لئے وہ ناکام ہو گئی۔
موجودہ لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی وجوہات
۱۹۲۴ ء میں جب مَیں ولایت گیا تو اُس وقت نئی نئی لیگ آف نیشنز
بنی تھی اور روس وغیرہ درخواستیں دے رہے تھے کہ ہمیں بھی اس لیگ کا ممبر بنایاجائے۔ میں نے اُسی وقت لکھ دیا تھا کہ یہ لیگ ناکام رہے گی اور جن امور کا مَیں نے اِس وقت ذکر کیا ہے ان تمام امور کوتفصیلاً اپنے لیکچر میں بیان کر دیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک ان پانچوں اصولوں کو ملحوظ نہیں رکھا جائے گا لیگ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ وہی لیگ کامیاب ہو سکتی ہے جو قرآن شریف کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق قائم ہو نہ وہ لیگ جو اپنی ہستی کے قیام کے لئے لوگوں کی مدد کی محتاج ہے اور آپ آگے آگے بھاگی پِھرتی ہے چنانچہ مَیں نے لکھا تھا:-
’’ ان پانچوں نقائص کو دور کر دیا جائے تو قرآن کریم کی بتائی ہوئی لیگ آف نیشنز بنتی ہے اور اصل میںایسی ہی لیگ کوئی فائدہ بھی دے سکتی ہے نہ وہ لیگ جو اپنی ہستی کے قیام کے لئے لوگوں کی مہربانی کی نگاہوں کی جستجو میں بیٹھی رہے‘‘۲۹؎
اسی طرح مَیں نے لکھا تھا:-
’’جب تک کہ لوگ اسلام کی تعلیم کے مطابق یہ نہیں سمجھیں گے کہ ہم سب ایک ہی جنس سے ہیں اور یہ کہ ترقی تنزّل سب قوموں سے لگا ہؤا ہے کوئی قوم شروع سے ایک ہی حالت پر نہیں چلی آئی اور نہ آئند ہ چلے گی کبھی فساد دُور نہ ہو گا۔ لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ قوموں کو زیر وزبر کرنے والے آتش فشاں مادے دنیا سے ختم نہیں ہو گئے نیچر جس طرح پہلے کام کرتی چلی آئی ہے اب بھی کر رہی ہے پس جو قوم دوسری قوم سے حقارت کا معاملہ کرتی ہے وہ ظلم کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر لاتی ہے‘‘۳۰؎
اُس وقت لوگ لیگ آف نیشنز کے قیام پر اتنے خوش تھے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں مگر میں نے زور دیا کہ جب تک تم یہ شرط نہ رکھو گے کہ جو حکومت غلطی کرے گی اُس سے سب حکومتیں مل کر لڑیں گی اُس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکے گا مگر اس وقت یہی کہا گیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا یہ تو صلح کی بجائے لڑائی کی بنیاد رکھنا ہے اور نہ صرف اس کی بلکہ ان سب اصول کی جو اسلام نے پیش کئے ہیں تمام موجودہ تحریکات جو نئے نظام کی مدعی ہیںمخالف رہی ہیں مگر اب بائیس سال د ّھکے کھا کر اسی طرف رجوع ہؤا ہے جس کی خبر اسلام نے پہلے سے دے دی تھی او رمضامین لکھے جا رہے ہیں کہ نئی لیگ کے قیام کے وقت یہ شرط رکھی جائے گی کہ اگر کوئی حکومت تصفیہ کی طرف مائل نہ ہو تو اس سے جنگ کی جائے مگر اب بھی تم دیکھو گے کہ اگر وہ اسلامی نظام کی پوری پابندی نہ کریں گے تو ناکام ہی رہیں گے۔
غرباء کی تکالیف کو دُور کرنے کے لئے اسلام میں چار احکام
یہ اصول تو اہم قومی امن کے لئے ہیںاور بغیر ￿ بَینَ ا ￿لا َ قوامی صلح کے اندرونی صلح چنداں نفع بھی نہیں دیتی مگر چونکہ ￿ بَینَ ا ￿لا َ قوامی صلح کے ساتھ ہی اندرونی یعنی انفرادی اصلاح بھی ضروری ہے اس لئے اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اسلام نے اندرونی اصلاح کے لئے کیا ذرائع تجویز کئے ہیں۔
پہلا حکم یعنی ورثہ کی تقسیم
اس غرض کے لئے اسلام نے چار نظریے قائم کئے ہیں اور ان چاروں کی غرض یہ ہے کہ غرباء کی تکلیف دور ہو جائے
اگر غور کیا جائے تو تمدن میںخرابی واقع ہونے کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ جائدادیں تقسیم نہیں ہوتیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ چند لوگوں کے قبضہ میں رہتی ہیں اور غرباء کو جائدادیں پیدا کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اسلام نے اِس نقص کو دُور کرنے کے لئے ورثہ کے تقسیم کئے جانے کا حکم دیا ہے چنانچہ اسلامی احکام کے مطابق ہر مرنے والے کی جائداد اس کے ورثاء میں تقسیم ہو جاتی ہے او رماں کو، باپ کو، بیٹوں کو، شوہر کو، بیوی کو غرض ہر ایک حقدار کو اس کا مقررہ حق مل جاتا ہے اور کسی شخص کو اختیار نہیں ہے کہ وہ اس تقسیم کو اپنی مرضی سے بدل دے بلکہ قرآن کریم یہ ہدایت دیتا ہے کہ اگر تم اس رنگ میںجائداد کو تقسیم نہیں کرو گے تو گنہگار ٹھہرو گے۔ اس کے مقابلہ میں جودوسرے مذاہب ہیں ان میںسے کسی میں تو صرف پہلے بیٹے کو وارث قرار دیا گیا ہے اور کسی میں کسی اورکو۔ َمنو میں لکھا ہے کہ صر ف بیٹوں کو ورثہ دیا جائے بیٹیوں کو نہ دیا جائے نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ایک شخص یا چند اشخاص کے ہاتھ میں تمام دولت جمع ہو جاتی تھی اور غرباء ترقی سے محروم رہتے تھے۔ اسلام کہتا ہے کہ جب تک تم اپنی دولت کو لوگوں میں پھیلائو گے نہیں اُس وقت تک قوم کو ترقی حاصل نہیں ہو سکے گی چنانچہ دیکھ لو اگر کسی شخص کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہو اور اُس کے دس بیٹے ہوں تو ہر ایک کو دس دس ہزار روپیہ مل جائے گا آگے اگر ان کے تین تین، چار چار بیٹے ہوں تو یہ دس ہزار کی رقم اڑھائی اڑھائی، تین تین ہزار روپیہ تک آجائے گی اور اس طرح سب کو دولت کے حصول کے لئے نئے سرے سے محنت کرنی پڑے گی یہ نہیں ہو گا کہ وہ محض اپنے باپ دادا کی جائداد کے سہارے بیٹھے رہیں اور نہ صرف خود نکمے ہو جائیں بلکہ اپنی دولت کو بند کر لیں۔ انگریزوں نے تو پنجاب کی َنو آبادیوں میں زمین کی تقسیم کے وقت یہ شرط لگا دی تھی کہ صرف بڑا بیٹا ان کا وارث ہو سکتا ہے مگر اب انہوں نے یہ شرط اُڑا دی ہے۔
دوسرا حکم یعنی روپیہ جمع کرنے کی ممانعت
دوسرے اسلام نے روپیہ جمع کرنے سے روکا ہے یعنی وہ یہ نہیں چاہتا کہ
روپیہ کو بند رکھا جائے بلکہ وہ مجبور کرتا ہے کہ لوگ یا تو روپیہ کو خرچ کریں یا اسے کسی کام پر لگائیں کیونکہ دونوں صورتوں میں روپیہ چکر کھانے لگے گا اور لوگوں کو فائدہ ہو گا لیکن اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس کے متعلق اسلام یہ وعید سناتا ہے کہ اسے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ملے گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو سونا اور چاندی وہ دنیا میںجمع کرے گا اسی کو آگ میں گرم کر کے قیامت کے دن اسے داغ دیا جائے گا۔ اس حکم میں حکمت یہی ہے کہ اگر لوگ سونا چاندی جمع کریںگے تو غریبوں کو کام نہیں ملے گا لیکن اگر وہ اس روپیہ کو کام پر لگادیں گے تو وہ لوگ جن سے لین دین ہو گا فائدہ اُٹھائیںگے۔ اسی طرح کچھ لوگ بطور ملازمت یامزدوری کے فائدہ اٹھا سکیں گے مثلاً وہ کوئی عمارت بنانی شروع کر دے تو گووہ عمارت اپنے لئے بنائے گا مگر روپیہ خرچ ہونے کی وجہ سے کئی لوگوں کی روزی کا سامان مہیا ہو جائے گا۔ یوں تو فضول عمارتوں پر روپیہ برباد کرنے سے اسلام منع کرتا ہے مگر بہرحال اگر وہ لغو طور پر عمارتیں نہ بنائے بلکہ اپنے ذاتی فائدہ کے لئے بنائے تو بھی لوہاروں اور مستریوں اور مزدوروں اور کئی اور لوگوں کو کام میسر آ جائے گا لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے بلکہ سونے چاندی کے زیور بنا کر گھر میں جمع کرنا شروع کرد ے تو اس سے دوسروں کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا پس اسلام روپیہ کو جمع کرنے سے منع کرتا ہے اسی طرح عورتوں کے لئے کثرت سے زیورات تیارکرنا بھی پسند نہیں کرتا یوں تھوڑا سا زیور انہیں بنوا کر دینا جائز ہے۔
تیسرا حکم یعنی سود کی ممانعت
تیسرے اسلام سود کی ممانعت کرتا ہے۔ سود بھی ایک ایسی چیز ہے جو روپیہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے اس کے ذریعہ
سے وہ تاجر جو پہلے سے اپنی ساکھ بٹھا چکے ہوتے ہیں اور جن کے پاس ایک وقت میںکوئی سرمایہ نہیں ہوتا جس قدر روپیہ کی ان کو ضرورت ہو آسانی سے بنکوں سے لے لیتے ہیں یا ایک شخص معمولی سرمایہ والا ہوتا ہے مگر اُس کا دماغ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے وہ کسی بنک کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ سے دوستی پیدا کر کے اُس سے لاکھ دو لاکھ روپیہ لے لیتا ہے او رتھوڑے عرصہ میں ہی دو لاکھ سے دس لاکھ بنالیتا ہے اور پھر چند سالوں کے اندر اندر وہ کروڑ پتی ہو جاتا ہے۔ اس سے بھی دنیا کو بہت بڑا نقصان پہنچتا ہے ہمارے ملک کے زمیندار خوب جانتے ہیں کہ ان کا کس قدر روپیہ بنیوں کے پاس جاتا ہے اگرسُود کے بغیر ان کے گزارہ کی کوئی صورت ہوجاتی تو ہر زمیندار خاندان کی مالی حالت آج سے بدرجہا بہتر ہوتی مگر سُود کی بدولت اگر ایک زمیندار دو ہزار روپیہ کسی بنیے سے قرض لیتا ہے تو چند سالوں میں وہ بعض دفعہ دس دس ہزار روپیہ سُود کا دے دیتا ہے مگر ابھی دو ہزار روپیہ جو اس نے قرض لیا تھا وہ بدستور موجود ہوتا ہے۔ پس سُود ایک بہت بڑی *** ہے جو بنی نوع انسان کے سروں پرمسلّط ہے یہ ایک جونک ہے جو غریبوں کا خون ُچوستی ہے اگر دنیا امن کا سانس لینا چاہتی ہے تو اس کا طریق یہی ہے کہ دنیا سے سُود کو مٹا دیا جائے اور اس طرح دولت کو محدود ہاتھوں میںجمع نہ ہونے دیا جائے۔
چوتھا حکم یعنی زکوٰۃ اور صدقات کا دینا
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بے شک اسلام ایک طرف تو روپیہ کسی کے ہاتھ میں نہیں
رہنے دیتا بلکہ اسے تقسیم کر دیتا ہے اور دوسری طرف روپیہ جمع کرنے سے منع کر رہا ہے مگر اس سے غربت کا علاج تو نہیں ہو جاتا۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے ایک چوتھا حکم غرباء کے حقوق کی ادائیگی کے لئے زکوٰۃ اور صدقہ کا دیا ہے یعنی جس قدر جائداد کسی انسان کے پاس سونے اورچاندی کے سکّوں یا اموالِ تجارت کی قِسم سے ہو اور اس پر ایک سال گزر چکا ہو تو ضروری ہے کہ حکومت اُس سے اڑھائی فیصدی سالانہ ٹیکس وصول کر کے خزانہ شاہی میں داخل کرے اور اُسے ملک کے غرباء پر خرچ کیاجائے۔ یہ ٹیکس جسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے صرف آمد پر نہیں بلکہ سرمایہ اور نفع سب کوملا کر اس پر لگایا جاتا ہے اور اس طرح اڑھائی فیصدی بعض دفعہ نفع کا پچاس فیصدی بن جاتا ہے اور بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ۔ اس حکم کے مطابق جس شخص کے گھر میں سَو روپیہ جمع ہو گا اسے سال گزرنے کے بعد اڑھائی روپیہ زکوٰۃ دینی پڑے گی جس پر لازماً اُسے فکر پیدا ہو گا کہ اگر یہ روپیہ اِسی طرح جمع رہا تو تھوڑے ہی عرصہ میں تمام روپیہ ٹیکس کی ادائیگی میں خرچ ہو جائے گا چنانچہ وہ فوراً روپیہ کو تجارت پر لگا دے گا تا کہ یہ کمی پوری ہو جائے اور جب وہ روپیہ کو تجارت پر لگائے گا تو روپیہ چکر کھانے لگے گا اور اس طرح علاوہ اس کے کہ اس کے روپیہ میں سے اڑھائی فیصدی غرباء کو ملے گا روپیہ کے بند رکھنے سے جونقصان ہو سکتاتھا وہ بھی ملک اور قوم کو نہیں پہنچے گا۔ آجکل خصوصیت سے لوگوں میں یہ مرض پیدا ہو رہا ہے کہ وہ سونا اور چاندی کو جمع کر کے رکھ رہے ہیں ۔ غرباء کو کئی قسم کی ضرورتیں ہوتی ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیںکہ سونا آج کل گراں ہے وہ اپنی ضرورتوں کو پور اکرنے کا یہی طریق سوچتے ہیں کہ زیور فروخت کر دیا جائے چنانچہ کوئی انگوٹھی فروخت کر دیتا ہے کوئی کان کی بالیاں فروخت کر دیتا ہے، کوئی گلوبند فروخت کر دیتا ہے، کوئی پازیب فروخت کر دیتا ہے، مگر جانتے ہو یہ سب سونااور چاندی کہاں جمع ہو رہا ہے یہ سب بَنیوںکے گھر میں جا رہا ہے۔ اور بعض لوگ تو اس ڈر کے مارے سونا چاندی جمع کر رہے ہیں کہ اگر جاپان آ گیا تو نوٹ ناکارہ ہو جائیں گے وہ یہ نہیں جانتے کہ جاپان آیا تو سب سے پہلے وہ سونے اور چاندی کو ہی ُلوٹے گا مگر وہ سمجھتے ہیں سونا تو ان کے گھروں میں ہی رہے گا اور جن کے پاس نوٹ ہوں گے ان کے پاس کچھ نہیں رہے گا۔ اسی وجہ سے سونا روز بروز مہنگا ہوتا چلا جا تا ہے۔ چالیس روپیہ سے اس نے بڑھنا شروع کیا تھا اور ستّر روپیہ تک پہنچ گیا ہے اور میں نے بَنیوں سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سونے کی قیمت سَو روپیہ تک لے جانی ہے۔ مگر اسلام کہتا ہے تم اوّل تو روپیہ جمع نہ کرو اور اگر جمع کرو تو اس پر اڑھائی فیصدی ہماراٹیکس دو۔ اس طرح اسلام جمع شُدہ روپیہ پھر قوم کے غرباء کی طرف واپس لاتا ہے تا کہ وہ اس سے فائدہ اُٹھا سکیں اور وہ مجبور کرتا ہے کہ لوگ اپنے روپیہ کو پھیلائیں اور پھیلاتے چلے جائیں۔ اگر اسلام کے احکام پر عمل ہونے لگے تو بخیل سے بخیل شخص کے روپیہ سے بھی دنیا فائدہ اُٹھانے لگ جائے اور غریبوں کو مزدوری وغیرہ مل جائے اور اڑھائی فیصدی روپیہ الگ آ جائے۔
اسلام میںشخصی ملکیّت کے حق کا تحفّظ
مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے باوجود مال کو سب کا حق قرار دینے کے شخصی ملکیت
کے حق کو ردّ نہیں کیا بلکہ اسے قائم رکھا ہے البتہ شخصی مالک بطور ایجنٹ کے رہے گا اور علاوہ اس کے اس طاقت کو جو اسے ملکیت کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اسلام نے مناسب تدبیروں سے کمزور کیا ہے جیسا کہ اوپر کے احکام سے ظاہر ہے۔
بالشویک نظام پر اسلامی نظام کو
ترجیح دئیے جانے کی وجوہات
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اس نظام پر بالشویک نظام کو ترجیح نہ دی جائے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نظام کی اصل غرض امن اور انصاف اور روحِ ترقی کا قائم رکھنا
ہوتی ہے مگر بالشویک نظام حالات میں ایسا فوری تغیر پیدا کرتا ہے جو ملک کے ایک طاقتور حصہ کو ناقابلِ برداشت نقصان پہنچا دیتا ہے اور وہ مقابلہ کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہنا کہ ہر ایک مالدار کامکان لے لو، اُس کی جائداد اُس سے چھین لو، اس کے مال کو ضبط کر لو یہ انسان کو ایسا صدمہ پہنچاتا ہے جو اس کے لئے ایک ناقابلِ برداشت بوجھ بن جاتا ہے۔ چنانچہ روس کی سب سے زیادہ مخالفت خود روسی کر رہے ہیں اور ہر ملک میں ایسے روسی موجود ہیں جو اس نظام کے شدید ترین مخالف ہیں۔ میں نے خود سفرِیورپ کے دَوران میں ایسے روسیوں کو دیکھا جو روسی حکومت کے جان کے دشمن ہیںاور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ آرام سے اپنے اپنے مکانوں میں بیٹھے تھے کہ یکدم حکومت کے نمائندے آئے اور انہوں نے ان کے بستروں اور پلنگوں اور سامانوں پر قبضہ کر لیا، انہیں مکانات سے نکال دیا، ان کا مال واسباب ضبط کر لیا اور انہیں ان کی جائداد سے بے دخل کر دیا۔ یہ مان لیا کہ انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اس میں دوسروں کے حقوق بھی شامل تھے مگر نسلاً بعد نسلٍ وہ یہ خیال رکھنے کے عادی ہو چکے تھے کہ یہ سب کچھ ہمارا ہے اس لئے طبعاً جب جبری طور پر ان کی جائدادوں اور اموال واسباب پر قبضہ کیا گیا تووہ انہیں شدید ناگوار ہؤا اِسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو ملکیتیں پُرانی ہو چکی ہیں ان کو ہم نہیں توڑیں گے یعنی اس قسم کا سلوک ان سے نہیں کریں گے کہ انہیں یہ محسوس ہو کہ ہم پر ظلم کیا جا رہا ہے۔
بالشوزم کا اس امر کو نظر انداز کر
دینا کہ دماغ بھی سرمایہ ہے
دوسرے بالشویک نظام اس امر کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ جس طرح مال سرمایہ ہے دماغ بھی سرمایہ ہے اور اس سرمایہ کو وہ کس طرح تقسیم کر سکتا ہے یہ نظام دماغی قابلیت کوبالکل برباد کر دیتا ہے کیونکہ
وہ دماغی قابلیت کی اتنی قیمت نہیں سمجھتا جتنی ہاتھ سے کام کرنے کی قیمت قرار دیتا ہے اور یہ ایک طبعی اصول ہے کہ ملک میں جس چیز کی قیمت نہ رہے گی وہ گِرنی شروع ہو جائے گی۔ جن لوگوں کے نزدیک روپیہ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ان کا روپیہ ضائع ہو جاتا ہے اور جن لوگوں کے نزدیک جائداد کی کوئی قیمت نہیںہوتی ان کی جائداد ضائع ہوجاتی ہے اسی طرح جن لوگوں کے نزدیک دماغ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اُن کا دماغ گِرنا شروع ہو جاتا ہے۔ پس بالشویک نظام میںیہ ایک بہت بڑا نقص ہے کہ وہ مال کو تو سرمایہ قرار دیتا ہے مگردماغ کو سرمایہ قرار نہیں دیتا کیونکہ وہ مال تقسیم کر سکتا ہے مگر اسے تقسیم نہیں کر سکتا اس طرح اس کے اصول کے مطابق دماغ بے قیمت رہ جاتا ہے اور اس کی وجہ سے ایک دن اس کی نشوونما میں بھی فرق آجائے گا مگر اسلام ہرقدم تدریجاً اُٹھاتا ہے وہ یکدم تغیر نہیں کرتا بلکہ محبت اور پیار سے ہر قسم کا سرمایہ لوگوں پر خرچ کرنے کاحُکم دیتا ہے اور اس طرح دماغ اور مال دونوں کو تقسیم کر ا دیتا ہے۔ نیچر کی گواہی بھی بالشویک اصول کے خلاف ہے کیونکہ نیچر دماغی طاقتیں بعض کو زیادہ دیتی ہے اور بعض کو کم مگر اس کے بعد انصاف کو اس طرح قائم رکھا جاتا ہے کہ جن کو دماغ ملا ہے انہیں مذہب حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے دماغ کو بھی بنی نوع انسان کی خدمت میں خرچ کریں چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے وَمِمَّارَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۳۱؎ یعنی مومن اور سچے متقی وہی ہیں کہ اللہ کی طرف سے جو کچھ بھی ان کو ملا ہے خواہ دماغ ہو،خواہ جسمانی طاقت ہو ،خواہ مال ہو، خواہ عقل ہواُسے دوسری مخلوقات کی خدمت میںخرچ کریں۔ اسی طرح مال کی نسبت اسلام کہتا ہے کہ وہ اسے تقسیم کرا دیتا ہے مگر بالشویک نظام کی طرح جبر اور ظلم سے نہیں بلکہ انہیں کے ہاتھوں سے جن کے پاس مال ہوتا ہے جس طرح دماغ سے انہی کے ہاتھوں فائدہ پہنچاتا ہے جن کے پاس دماغی قابلیّتیں ہوتی ہیں۔ اس طرح فائدہ بھی ہو جاتا ہے اور دشمنی کا بیج بھی قلوب میں بویا نہیںجاتا۔
بالشوزم کے تحت غیر منصفانہ سلوک
پھر مَیں کہتا ہوں کہ بالشوزم اب بھی ُ پورا انصاف نہیں کر سکی۔ اب بھی اس کے چھوٹوں اور بڑوں
میں فرق ہوتا ہے، اب بھی ان کے امیروں اور غریبوں میں فرق ہوتا ہے اور اب بھی ان کے کھانوں میںفرق ہوتا ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ سٹالن کی خوراک اور وہاں کے گائوں والوں کی خوراک بالکل ایک جیسی ہوتی ہے۔ اسی طرح شاہی دعوتوں میں بے انتہا خرچ کیا جاتا ہے ابھی گذشتہ دنوں مسٹر وینڈل ولکی وہاں گئے تھے تو ایک شاہی دعوت کی تفصیلات شائع ہوئی تھیں جس میں یہ ذکر تھا کہ ایک ڈنر میں ساٹھ کھانے تیار کئے گئے تھے اور وہ سٹالن اور دوسرے لوگوں نے جو اس دعوت میںشریک تھے کھائے۔ اگر وہاں واقعہ میں مساوات پائی جاتی ہے اور بڑوں اور چھوٹوں میںکوئی فرق نہیں تو بالشویک اصول کے مطابق ماسکو کا ہر شہری کہہ سکتا ہے کہ مجھے ساٹھ کھانے ملنے چاہئیں اور صرف ماسکو کا ہر شہری نہیں ملک کے سترہ کروڑ باشندے یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہمیں بھی یہ سب کچھ ملنا چاہئے مگر کیا ایسا ہو سکتا ہے اگر کہو کہ یہ ناممکن ہے تو یہی جواب دوسری تقسیم کا سمجھنا چاہئے۔ اگر امتیازات نے رہنا ہی ہے تو امتیازات کو دور کرنے کے لئے فسادات کیوں کئے جائیں کیوں نہ کسی اچھی طرز پر اس نقص کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
بالشوزم کا دماغی قابلیّتوں کو بیکار قرار دینا اور اس کا نتیجہ
پھر بالشوزم کے موجودہ نظام کا ایک اور نتیجہ یہ
پیدا ہوگا کہ چونکہ وہ دماغی قابلیتوں کو بغیر ہاتھ کے کام کے بیکار قرار دیتا ہے اس لئے گو اس کا اثر اِس وقت محسوس نہ ہو گا مگر کچھ ہی عرصہ کے بعد روسی مُوجد جب یہ دیکھیں گے کہ ان کی دماغی قابلیتوں کی کوئی قیمت نہیں سمجھی جاتی وہ سیر کے بہانے سے جرمنی یا امریکہ یا انگلستان یا اور ممالک میں چلے جائیں گے اور وہاں جا کر اپنی ایجادات کو رجسٹرڈ کرا دیں گے روس میں نہیں رہیں گے کیونکہ اس نظام کے ماتحت وہ روس میںان ایجادات سے نفع نہیں اُٹھا سکتے۔ پس نتیجہ یہ ہو گا کہ جس قدر اعلیٰ دماغ والے انسان ہوںگے ان کی دماغی قابلیتوں سے دوسرے ممالک تو فائدہ اُٹھائیں گے مگر روس کو فائدہ نہیں ہو گا او ر وہ سب آہستہ آہستہ دوسرے ممالک میں چلے جائیںگے۔ اس وقت بالشویک نظام کی مقبولیت ایسی ہی ہے جیسے انجیل کی یہ تعلیم ہے کہ اگرکوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنادوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو جب تک یہ تعلیم محض باتوں تک رہے اُس وقت تک کانوں کو بڑی بھلی معلوم ہوتی ہے لیکن جب عمل کا وقت آئے تو اُس وقت کوئی شخص اس پر عمل نہیں کر سکتا۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ قاہرہ کے ایک بازار میں ایک دفعہ ایک مسیحی پادری نے روزانہ لیکچر دینے شروع کر دئیے کہ مسیح کی تعلیم محبت سے لبریز ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ اگر تم ایک گال پر تھپڑ کھائو تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دو مگر باقی مذاہب میںیہ ظلم ہے اور وہ ظلم ہے۔ غرض اس طرح وہ تقریر کرتا کہ لوگوں کی آنکھوں میںآنسو آ جاتے ایک مسلمان روزانہ اس کے لیکچر کو سنتا اور دل ہی دل میں ا س بات پر کُڑھتا کہ کوئی مولوی اس پادری کو جواب نہیں دیتا آخر کچھ عرصہ کے بعد جب اس نے دیکھا کہ لوگوں پر بُرا اثر ہو رہا ہے تو ایک دن جب وہ پادری وعظ کر رہا تھا وہ ا س کے پاس گیا اور کہا کہ پادری صاحب! مَیں نے آپ سے ایک بات کہنی ہے اس نے بات سننے کے لئے اس کی طرف سر جُھکا دیا کہ کہو کیا کہتے ہو ۔ اُس نے بجائے کوئی بات کہنے کے ہاتھ اُٹھایا اور زور سے اُس کے مُنہ پر تھپڑ مارا ۔ پہلے تو پادری رُکا مگر پھر اُس نے سمجھا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ ایک اَور تھپڑ لگا دے اِس پر اُس نے بھی اُسے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اُٹھالیا ۔ وہ کہنے لگا صاحب !آپ یہ کیا کرتے ہیں آپ کی تعلیم تو یہ ہے کہ اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دینا چاہئے مَیں تو اِس انتظار میں تھا کہ آپ اپنا دوسرا گال بھی میری طرف پھیر دیں گے مگر آپ تو مقابلہ پراُتر آئے ہیں۔ وہ کہنے لگا آج مَیں انجیل پر نہیں بلکہ تمہارے نبی کی تعلیم پر ہی عمل کروں گا۔
بالشوزم کے نتیجہ میں ملک میں بغاوت پَیدا ہونے کا اندیشہ
تو بعض تعلیمیں کہنے کو بڑی اچھی
ہوتی ہیں مگر عملی رنگ میں وہ نہایت ہی ناقص ہوتی ہیں۔ اِسی طرح بالشوزم کے موجودہ نظام پر نہیں جانا چاہئے وہ اِس وقت زار کے ظلموں کو یاد رکھے ہوئے ہے جس دن یہ خیال ان کے دل سے بھُولا پھر یہ طبعی احساس کہ ہماری خدمات کا ہم کو صِلہ ملنا چاہئے ان کے دلوں میںپیدا ہو جائے گا نئی َپود بغاوت کر ے گی اور اس تعلیم کی ایسی شناعت ظاہر ہو گی کہ ساری دنیا حیران رہ جائے گی لیکن اسلامی طریق میں بغاوت کا کوئی امکان نہیں،سُستی ہو تو ہو کیونکہ یہ ایک طبعی بات ہے۔
ملک کے اَموال پر حکومت کو اقتدار حَاصل
ہونے کی ضرورت
اب مَیں اِس اہم سوال کی طرف آتا ہوں جو درحقیقت میرے مضمون کی بُنیاد ہے مگر اس سے پہلے ایک سوال ابھی باقی ہے جس کا حل کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ ہم اُوپر کی تمام نئی تحریکات سے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ تمام تحریکات باوجود اختلاف کے اِس امر میں متفق ہیں کہ حکومت کو ملک کے مال پر ایک بہت بڑا اِقتدار حاصل ہونا چاہئے۔ ُپرانے ٹیکس اِس سکیم کو پورا نہیں کر سکے جو اِن مختلف نظام والوں کے ذہن میں ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اب نئے ٹیکس لگائے جائیں، نئے نئے طریق ایجاد کئے جائیں جن سے اُمراء کی دولت اُن کے ہاتھ سے نکالی جاسکے اور غرباء میںتقسیم کی جا سکے پس وہ کہتے ہیں کہ اگر غریبوں کی ضرورتیں پوری کرنی ہیں تو ٹیکس بڑھانے پڑیں گے موجودہ ٹیکسوں سے یہ مشکل حل نہیں ہو سکتی اب سوال یہ ہے کہ اسلام نے اِس بارہ میں کیا رویہ اختیار کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ تم نے زکوٰۃ کی تعلیم نکالی ہے مگر کیا تمہارے نزدیک زکوٰۃ اِس غرض کو ۔ُپورا کر سکتی ہے کہ ہر غریب کو کپڑا ملے، ہر غریب کوکھانا ملے، ہر غریب کو مکان ملے اور ہر غریب کو دَوا ملے؟ میرا دیانتدارانہ جواب یہ ہے کہ نہیں ۔ یعنی میرا دیانتدارانہ جواب یہ ہے کہ اِس زمانہ کے لحاظ سے یقینا حکومت کے ہاتھ میں اس سے زیادہ روپیہ ہونا چاہئے جتنا روپیہ پہلے اس کے ہاتھ میں زکوٰۃ وغیرہ کی صورت میں ہؤا کرتا تھا۔ پہلے گورنمنٹ پر صرف یہ ذمہ داریاں تھیں کہ وہ ٹیکس وصول کر کے سڑکیں بنائے، ہسپتال بنائے، مدرسے بنائے، فوجیں رکھے اور اسی طرح رعایا کی بہبودی کے لئے اورتدابیر عمل میںلائے مگر اب یہ ایک نئی ذمہ داری بھی گورنمنٹ پر عائد ہوتی ہے کہ دُنیا نے اپنے طور پر غریبوں کو کھانا ِکھلا کر دیکھ لیا کہ وہ اسے نہیں ۔ِکھلا سکی، دُنیا نے اپنے طور پرغریبوں کو کپڑے پہنا کردیکھ لیا کہ وہ ان کی اس ضرورت کو پورا نہیں کر سکی، دُنیا نے اپنے طور پر ان کے لئے دو ا مہیّا کرنے کی کوشش کرلی مگر اس میںوہ کامیاب نہیں ہو سکی سو اَب یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ ان تمام ضروریات کو بھی گورنمنٹ پورا کرے۔، وہ ہر شخص کو پہننے کے لئے کپڑا، کھانے کے لئے غذا، رہنے کے لئے مکان او رعلاج کے لئے دوا مہیّا کرے اور اسلام بھی اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ یہ تمام کام حکومت کے ذمہ ہیں۔ پس جب یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ یہ کام حکومت کو کرنے چاہئیں اور جب اِسلام بھی اسے تسلیم کرتا ہے تو یہ درست ہے کہ یا تو اسلام ہمیں یہ بتائے کہ زکوٰۃ کا روپیہ یہ تمام ضرورتیں پوری کر سکتا ہے اور یا زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اَور علاج جو اِسلام نے اِس مصیبت کا کیا ہو پیش کیا جائے۔
غرباء کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے زکوٰۃ
کے علاوہ دوسرے چندوں کی ضرورت
یہ ایک اہم سوال ہے جو اِس موقع پر پیدا ہوتا ہے اور جس کی طرف توجہ کرنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے۔ اگر ہمارا یہ دعویٰ نہ ہوتا کہ اِسلام اِن
تمام ضروریات کو پورا کرنے کا ذمّہ دارحکومت کو قرار دیتا ہے تو یہ سوال ہی پیدا نہ ہوتا مگر جب ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے یہ تعلیم دی کہ غریب اور امیر میں حقیقی مساوات قائم کرنی چاہئے اور اِن دونوں کو اِس حد تک ایک دوسرے کے قریب کر دینا چاہئے کہ یہ محسوس نہ ہو کہ وہ کوئی اَور مخلوق ہے اور یہ کوئی اَور مخلوق ہے بلکہ جس طرح اُمراء اپنی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اسی طرح غرباء بھی اپنی ضرورتوں کو پورا کریں وہ علاج کے بغیر نہ رہیں، وہ بھُوکے نہ رہیں، وہ ننگے نہ رہیں، وہ جاہل نہ رہیں، وہ بغیر مکان کے نہ رہیں تو پھر ضروری ہو جاتا ہے کہ اس مشکل کا حل اسلامی تعلیم سے ہی کیا جائے۔ زکوٰۃ کا اِسلام نے حکم دیا تھا مگر مَیں تسلیم کر چکا ہوں کہ زکوٰۃ اِس مشکل کا پورا علاج نہیں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام اِس کمی کا کیا علاج تجویز کرتا ہے۔
سوشلزم کے نظریہ کی رو سے غرباء کی ضروریات کو ُپورا
کرنے کا پہلا ذریعہ اور اس کے غلط ہونے کا ثبوت
سوشلزم اِس کا ذریعہ یہ بتاتی ہے کہ مزدوروں کا حصّہ منافع میںمقرر کیا جائے یہ نہ ہو کہ انہیں
ماہوار تنخواہ دی جائے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ بلکہ منافع پر ان کا انحصار ہونا چاہئے یعنی جب منافع حاصل ہو تو فیصلہ کیا جائے کہ اِس دفعہ ہمیں اِتنی آمد ہوئی ہے اِس میںسے مالک کو اِتنا حصّہ دیا جائے اور مزدوروں کو اتنا حصّہ دیا جائے مگر ظاہر ہے کہ یہ طریق بے اصولا ہے اِس لئے کہ کسی تجارت میںنفع کم ہو گا اور کسی میںزیادہ۔ ہمیں دُنیا میں روزانہ یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ دو غلّہ کے تاجر ہوتے ہیں ایک تو سارا دن بیٹھامکھّیاں مارتا رہتا ہے اور دوسرا ہر روز اپنی تجوری بھر کر گھر میںلے آتا ہے، ایک شخص کپڑا بیچتا ہے تو روزانہ اس کے دو دوسَو تھان نکل جاتے ہیں اور دوسرا وہی کام کرتا ہے تو سارے دن میں اس کا ایک تھان بھی نہیں نکلتا۔ پس اِس فرق کی وجہ سے نتیجہ یہ ہو گا کہ کسی تاجر کے ملازموں کو ایک جیسی محنت پر زیادہ آمد ہو گی اور کسی کے ملازموں کو کم ہو گی یعنی ہوشیار مالک کے ملازموں کو زیادہ آمد ہو رہی ہو گی اور دوسرے کے ملازموں کو کم، پس یہ تقسیم عقل کے بالکل خلاف ہو گی۔ اِس کے یہ معنے ہوں گے کہ پہلے تو لیاقت پر آمد کا اِنحصار ہو تا تھا پھر صر ف جُوئے بازی اور اتفاق پرہو گا اور پھر لوگ اِس بات پرلڑیں گے کہ ہم فلاں مالک کے کارخانہ میںکام کریں گے فلاں کے کارخانہ میں کام نہیں کریں گے مگر اِس کافیصلہ کون کرے گا کہ کوئی مزدور کہاں کام کرے۔ اگر کہیں سوشلزم یہ انتظام کرے گی کہ سب کارخانوں کے ملازموں کے لئے ایک اعلیٰ شرح تنخواہ مقرر کردے گی تو پھر بھی زیادہ ہوشیار تاجر سوشلزم کے مجوّزہ منافع سے زیادہ ہی لے لے گا اور دوسرا تاجر نقصان میں رہے گااوراِس طرح سوشلزم پھر بھی اپنی سکیم میں ناکام رہے گی اور جن کی تجارت اچھی نہ چلتی ہو گی اُن کے ملازم نفع کی جگہ اصل سرمایہ تک کھا جائیں گے اصل بات یہ ہے کہ گزارہ کے دو ہی معقول طریق ہیں۔ (۱)۔ لیاقت اور (۲)۔ اَ ّقل ضرورت گزارہ کی۔ مگر یہ دونوں صورتیں اوپر کے بتائے ہوئے سوشلسٹ طریق میں نہیں پائی جاتیں۔
غرباء کی ضروریات کو پورا کرنے کا دوسرا ذریعہ
دوسری صورت سوشلزم یہ پیش کرتی ہے کہ تمام اہم صنعتیں
حکومت کے قبضہ میں ہوں۔ مثلاً ریل، کانیںاور بجلی وغیرہ۔ اسی طرح اہم تجارتوں کی مناپلی اور ان پر قبضہ و تصرف حکومت کے اختیار میں ہو۔ مگر اس پر بھی کئی اعتراض پڑتے ہیں مثلاً
(۱) یہ تدبیر عالمگیر نہیں ہو سکتی بلکہ ہر ملک میں الگ الگ ہو گی حالانکہ سوال یہ تھا کہ ساری دنیا کے بھُوکوں ، ساری دُنیا کے ننگوں، ساری دُنیا کے بیماروں، ساری دُنیا کے جاہلوں اور ساری دُنیا کے بے سروسامان لوگوں کا انتظام کیا جائے مگر اِس طرح ساری دُنیا کے حاجتمندوں کا علاج تو پھر بھی نہ ہوگا ہر حکومت صرف اپنے ملک کے غرباء کا ہی خیال رکھے گی پس یہ تدبیر عالمگیر نہیں ہے۔ دوسرے مثلاً اِس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ اِس میں بھی اِنفرادی جوہر کے اظہار کے مواقع میںکمی آ جاتی ہے اور اِس طرح جسم کا خیال تو کیا جاتا ہے مگر دماغ جو زیادہ قیمتی ہے اسے نقصان پہنچ جاتا ہے۔
غرباء کی ضرورتوں کے لئے چندے حاصل
کرنے کے متعلق ہٹلر اور گوئرنگ کی سکیم
نیشنلسٹ سوشلزم کی اِس بارہ میں مفصّل سکیم مجھے معلوم نہیں لیکن ہٹلر۳۲؎ اور گوئرنگ۳۳؎ کی اس سکیم کا مجھے علم ہے کہ سرمایہ دار جو زیادہ حصّہ قومی
خدمت میں لیں انہیں حکومت کی امداد کے زیادہ مواقع بہم پہنچائے جائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ حکومت کو زیادہ چند ے دیں گے اور قومی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیںگے ان کا خاص طور پر خیال رکھا جائے گااورا نہیں ٹھیکے وغیرہ دئیے جائیں گے لیکن یہ سکیم بھی مکمل نہیں کیونکہ اِس طرح بھی پورا سرمایہ جوکافی ہو جمع نہیں ہو سکتا اور نیز اس میںیہ پہلو مذکور نہیں کہ ملک کی ضرورت کی ذمہ داری حکومت پر کس حد تک ہو گی۔
بالشوزم کے نظریہ کی رُو سے غرباء
کی تکالیف دُور کرنے کی تدابیر
بالشوزم کی تدبیر یہ ہے کہ سب اہم تجارتیں اور صنعتیں حکومت کے ہاتھ میں ہوں اور زراعت پیشہ کی سب زائد آمد حکومت جبراً لے لے۔ سب دولتمندوں کی دولت جبراً
چھین لے۔ اس پر جو اعتراض پڑتے ہیں پہلے بتا آیا ہوں خلاصتہً یہ کہ اس سے اِنفرادیت بالکل تباہ ہو جاتی ہے اور اس قسم کی حکومت میںجب ضُعف آئے گا اس میں معمولی تبدیلی پیدا نہ ہو گی بلکہ پھر زارجیسی حکومت قائم ہو جائے گی۔ فرانس کا تجربہ گواہ ہے بوربون خاندان نے فرانس میں فوزویت (عوام کی حکومت جو جمہوریت سے مختلف ہے) پیدا کی اور فوزویت نے بونا پارٹ ۳۴؎ جیسا جبّار پیدا کیا۔ اِسی طرح زار نے بالشوزم پیدا کی اور اسے کامیاب بنایا اور بالشوزم تھوڑے ہی عرصہ میںکمزور ہو کر پھر ایک نیا جبار پیدا کردے گی۔اِسی طرح بالشوزم میںیہ نقص ہے کہ ملک کے ایک حصّہ کو خواہ مخواہ دشمن بنا لیا گیا ہے اور اس سے دشمنوں کا سا سلوک شروع کر دیا گیا ہے یعنی سب پرانے خاندانوں اور علمی خدمت کرنے والے لوگوں کو دشمن بنا لیا گیا ہے۔
اِسلام کی سکیم ان سب سے مختلف ہے اسلام نے اوّل تو ان تینوں تحریکوں کے خلاف یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ آرام کے وہ معنی نہیں جو تم کہتے ہو یعنی تم تو آرام کی زندگی کے یہ معنے لیتے ہو کہ سب کے لئے یکساں تعیّش کے سامان پیدا کئے جائیں، سب کے لئے سینما میں جانے کے راستے کھلے ہوں ، سب کے لئے کھیلیں اور تماشے دیکھنے ممکن ہوں مگر اسلام نے آرام کی زندگی کا مفہوم یہ لیا ہے کہ امیروں کو بھی ان تعیّش کے سامانوں میں نہ پڑنے دیاجائے اور اس طرح بنی نوع انسان کو مساوات کی طرف لایاجائے۔ اصل غرض تو آرام ہے مگر اسلام آرام کے ساتھ ہی اخلاق اور معیارِ شرافت کو بھی بلند کرنا چاہتا ہے۔ پھر آرام کے متعلق اسلام اور ان تحریکات کے نظریوں میںیہ بھی فرق ہے کہ انہوں نے تعیّش کے سامان بڑھا کر آرام حاصل کرنا چاہا ہے اور اسلام کہتا ہے کہ ہم تمہیں صرف ضروریاتِ زندگی دیں گے تعیّش کی چیزیں نہیں دیں گے گویا وہ تعیّش کے سامانوں کی بجائے سب کے لئے یکساں سادہ زندگی پیش کرتا ہے اسی لئے اسلام نے ناچ گانے اور شراب وغیرہ کو حرام قرار دیا ہے۔ انگلستان میںجب غرباء شور مچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں بڑی تکلیف ہے تو دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہم غریبوں کو شراب کے صرف دو گلاس پینے کوملتے ہیں اور امیر آدمی د س دس گلاس شراب پی جاتا ہے اور گورنمنٹ کہتی ہے کہ تمہارا مطالبہ بالکل بجا اور درست ہے ہم تمہیں بھی دس دس گلاس شراب مہیا کرکے دیں گے مگر اسلام کہتا ہے کہ ہم تمہاری اس شکایت کا اس رنگ میں ازالہ کریں گے کہ تمہارے دو گلاس بھی چھین لیں گے اور امیروں کے دس گلاس بھی چھین لیں گے کیونکہ یہ چیزیں جسم اور رُوح کے لئے مُضِرّہیں۔ اسی طرح وہاں اگر غرباء شور مچائیں تو کہتے ہیں کہ یہ امیر تو روز ناچتے ہیں مگر ہم غریبوں کے ناچنے کا کوئی سامان نہیں اور حکومت کہتی ہے بہت اچھا آئندہ گورنمنٹ خود تمہارے لئے ڈانس روم بنائے گی چنانچہ وہ امیروں سے کہتی ہے امیرو! لائو روپیہ کہ ہم تمہارے غریب بھائیوں کے لئے بھی ناچ گھر بنوا دیں مگر اسلام کہتا ہے ہرگز نہیں ڈانس روم بنانے سے انسانیت تباہ ہوتی ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ تمہاری انسانیت میںنقص واقع ہو اس لئے بجائے اس کے کہ ہم تمہارے لئے ڈانس روم بنائیں ہم تمہارے امیر بھائیوں کے ڈانس روم بھی گرا دیں گے تا کہ وہ بھی انسانیت کے حلقہ میں داخل ہوں اور تہذیب وشائستگی کے خلاف کسی حرکت کے مرتکب نہ ہوں۔
اسلام کا تعیّش کے سامانوں کو مٹا کر
امراء اور غرباء میں مساوات قائم کرنا
توجو چیزیں ضروریاتِ زندگی میں سے نہیں بلکہ تعیّش کے سامانوں میں سے ہیں اِسلام نے اُن کو مٹا کر غرباء اور امراء میں مساوات قائم کی ہے اور ظاہر ہے کہ یکساں تعیّش کے سامان
پیدا کرنے والی حکومتیں ہمسائیوں کو لُوٹنے سے بازنہیں رہ سکتیں لیکن یکساں سادگی پیدا کرنے والی حکومتیں دوسروں کو لوٹنے کی جگہ اپنے اُمراء کو سادہ زندگی کی طرف لانے کی کوشش کریں گی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ سادہ زندگی کو محدود کرنا آسان ہے لیکن تعیّش کو محدود کرنا بہت مشکل ہے۔ پس اسلامی تعلیم یقینا عقلی طور پر کامیابی کے زیاد ہ قریب ہے اور اس طرح اسلام تھوڑے سے روپیہ سے کام لے کر غرباء کی بے چینی دور کرنے میںکامیاب ہو جائے گا۔ غرض آجکل کی حکومتیں سمجھتی ہیں کہ آرام کے معنے یہ ہیں کہ تعیّش کے سامان غریبوں کو دینا اور اسلام کہتا ہے کہ آرام کے معنی یہ ہیں کہ ضرورت کے سامان غریبوں کو دینا اور تعیّش کے سامان امیروں غریبوں سب سے چھیننا، پس جتنے روپیہ سے عیسائیت دنیا کو آرام پہنچا سکے گی اس سے بہت کم روپیہ سے اسلام دنیا کو آرام پہنچا سکے گا۔ چنانچہ اسلام میں مَردوں کے لئے ریشم پہننا منع ہے، اسی طرح گھروں میںاستعمال کے لئے چاندی سونے کے برتن رکھنا ناجائز ہے، بڑی بڑی عمارتیں بِلاوجہ اور بِلاضرورت بنانا منع ہے اسی طرح عورتوں کے لئے زیادہ زیور بنانے اسلام نے منع کر دئیے ہیں، شراب سے روک دیا ہے ، جوئے کو حرام قرار دیا ہے تاکہ غریبوں کے دلوں میں ان چیزوں کے حصول کی کوئی خواہش ہی پیدا نہ ہو اور اس طرح جو روپیہ بچے وہ غریبوں کو دے دیا جائے۔
اسلام میں جبری ٹیکسوں کے علاوہ طَوعی
طور پر زائد مال وصول کرنے کی صورت
دوسری تجویز اسلام نے یہ کی ہے کہ بجائے انفرادی جدّوجہد کو مٹانے کے اسے قائم رکھ کر اور جبر کی جگہ تحریک و تحریص سے کام لے کر علاوہ جبری ٹیکسوں کے اُمراء
سے ان کے زائد مال لینے کی صورت پیدا کی ہے اور ظاہر ہے کہ انفرادیت کو مٹا دینا بھی مُضِرّ ہے کیونکہ ا س سے عائلیّت کے اعلیٰ جذبات اور علمی ترقی مٹ جاتی ہے اور جبری حصول بھی مُضِرّ ہے اگر کوئی ایسی سکیم ہو کہ انفرادیت بھی قائم رہے اور زائد مال تحریک وتحریص سے لے لیا جائے تو وہی سکیم دنیا میںامن کے قیام کا دَور لانے کا، سب کے لئے آرام پیدا کرنے کا اور باہمی اُلفت ومحبت بڑھانے کا ذریعہ ہو گی چنانچہ اسلام ایسا ہی کرتا ہے۔ غیراسلامی تحریکات میںتو یہ قانون ہے کہ ہر شخص کے پاس جس قدر زائد مال ہو وہ جبر وتشدّد سے لے لو مگر اسلام کہتا ہے کہ تم کسی پر جبر نہ کرو جو جبری ٹیکس ہیںوہ تو جبر سے وصول کرو مگر اُمراء سے ان کے زائد مال لینے کے لئے جبر سے ہرگز کام نہ لو بلکہ ترغیب وتحریص سے کام لو اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ اُمراء کے دِلوں میں غریبوں کی محبت پیدا ہو گی اور غریبوں کے دِلوں میں امیروں کی محبت پیدا ہو گی۔ اگر ایک شخص سے جبراً حکومت مال لے لے تو نہ اس کے دِل میں دوسروں کی محبت پیدا ہو گی اور نہ دوسروں کے دل میں اُس کی محبت پیدا ہو گی لیکن اگر کوئی اپنی مرضی سے اپنا مال لوگوں کی بھلائی کے لئے دے دے تو اس کے دل میں بھی دوسروں کی محبت پیدا ہو گی اور دوسروں کے دلوں میں بھی اس کی محبت پیدا ہو گی اس طرح انسانیت آپس میںزیادہ سے زیادہ مرتبط ہوتی چلی جائے گی۔
انفرادی جِدّوجُہد کو قائم رکھنے کافائدہ
پھر اِس کا ایک اَور فائدہ یہ ہے کہ جب اِنفرادی جدّوجہد قائم رہے گی تو ہر شخص پوری
محنت سے کام لے کر روپیہ کمانے کی کوشش کرے گا۔ڈاکٹر اپنے مطب کو چلائے گا، انجینئر اپنے فن میں کمال دکھلائے گا ، تاجر کارخانوں کو چلائیں گے اور اس طرح دماغ ترقی کرتا چلا جائے گا اور جب وہ اپنے پاس روپیہ جمع کرلیں گے تو پھر ترغیب وتحریص کے ذریعہ ان کا مال ان سے لے لیا جائے گا۔ گویا بیک وقت دونوں فائدے حاصل ہوجائیں گے دماغ کی بھی ترقی ہوجائے گی اور روپیہ بھی مل جائے گا۔ بالشویک تحریک میں یہ نقص ہے کہ اس کے نتیجہ میں دماغی قابلیّتیں بالکل مرُدہ ہو جاتی ہیں اور جو کچھ روپیہ حاصل ہوتا ہے اس کے دیتے وقت بھی امراء کے دلوں میں غرباء کی کوئی محبت پیدا نہیں ہوتی کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم پر جبر اور ظلم کر کے یہ روپیہ لیا جا رہا ہے لیکن اگر ڈاکٹر کوکہا جائے کہ جائو اور خوب کمائو، وکیل کو کہا جائے کہ مقدمات لڑو اور خُوب فیس وصول کرو ، انجینئر کو کہا جائے کہ جائو اور انجینئرنگ کے فن میںکمال پیدا کرکے ہزاروں روپیہ کمائو اور پھر جب وہ روپیہ کما چکیں تو انہیںاس بات کی تحریص دلائی جائے کہ وہ اپنا روپیہ اپنے غریب بھائیوں کی ضرورتوں پر بھی خرچ کریں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ خوشی سے ہزاروں روپیہ دینے کے لئے تیار ہو جائیں گے ان کی اُمنگیں بھی قائم رہیں گی اور انہیں ظلم کا احساس بھی نہ ہو گا بلکہ وہ دیتے وقت خوش ہوں گے کہ ان کا روپیہ ان کے غریب بھائیوں کے کام آنے لگا ہے پس ان کا زائد مال اگر ترغیب وتحریص سے لیا جائے تو عدل و انصاف بھی قائم ہو گا اور باہمی محبت بڑھانے کا بھی یہ ایک یقینی ذریعہ ہوجائے گا۔
جبری طور پر دوسروں کے اَموال
پر جبراً قبضہ کرنے کے نقصانات
اِس کے مقابلہ میں جس شخص سے جبراً حکومت مال لے لے تم سمجھ سکتے ہو اس کے دل میںغریبوں کی محبت کہاں پیدا ہو گی۔ حکومت کے کارندے تو اس سے جبراً مال وصول کر لیں گے مگر اس کے دماغ میں
غریبوں کی دشمنی گھر کر جائے گی اور وہ ہر وقت یہی کہے گا کہ خدا اس حکومت کا بیڑا غرق کرے جو ہم پر ظلم کر رہی ہے اور خدا ان غریبوں کا بھی بیڑا غرق کرے جن کی وجہ سے ہم پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف غریبوں کے دِلوں میں بھی کوئی محبت پیدا نہیں ہوگی وہ کہیں گے امیر واقعہ میں بڑے ظالم تھے اچھا ہؤا کہ حکومت نے ان کا مال واسباب لوٹ لیا لیکن اگر تحریص وترغیب کے نتیجہ میں غرباء کی محبت کا احساس کرتے ہوئے کوئی شخص چند پیسے بھی دے تو اس کے دل میںغریبوں کی محبت پیدا ہو گی اور غریب بھی کہیں گے کہ فلاں شخص بڑا نیک ہے اللہ اس کے مال میں برکت دے وہ ہم غریبوں کا خیال رکھتا ہے۔ تو چیز وہی ہو گی مگر ادھر امیروں کے دلوں میں غریبوں کی محبت پیدا ہو گی اور ادھر غریبوں کے دلوں میں امیروں کی محبت پیدا ہوگی اور دماغ کی نشوونما بھی ہوتی رہے گی چنانچہ اسلام نے یہی طریق اختیار کیا ہے۔
اسلام کا اُمراء سے جبری ٹیکسوں
کے علاوہ طَوعی ٹیکسوں کا مطالبہ
اس لئے اسلام نے زکوٰۃ اور عُشر وغیرہ جبری ٹیکس بھی لگا دئیے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا ہے کہ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ وَاَحْسِنُوْا
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ۳۵؎
یعنی تم مقررہ ٹیکس بھی دومگر اس کے علاوہ ہم تم سے بعض طَوعی ٹیکس بھی مانگتے ہیں اور تمہارا فرض ہے کہ تم اِن دونوں میں حصّہ لو۔
چنانچہ ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ ہمیشہ غرباء کی امداد کے لئے روپیہ دیتے رہو۔وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ اور اپنے نفسوں کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ یعنی اَے مالدارو! اگر تم اپنے زائد مال خوشی سے دے دو گے تو وہ تو زائد ہی ہیں تم کو کوئی حقیقی نقصان نہ پہنچے گا لیکن اگر ایسا نہ کرو گے تو ہلاک ہو جائو گے۔ یہ الفاظ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے رُوس کا پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر ایسا نہ کرو گے تو جو زارِ رُوس او ر رُوسی امراء یا فرانس کے امراء کا حال ہؤا وہی تمہارا ہو گاآخر عوام ایک دن تنگ آ کر لوٹ ما ر پر اتر آئیں گے اور شاہ پوری محاورہ کے مطابق دعا ئے خیر پڑھ دیں گے۔ حضرت خلیفہ اوّل اِس محاورہ کی تشریح یہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے علاقہ میں کچھ مدّت پہلے زمیندار بنیے سے قرض لیتے چلے جاتے تھے اور بَنْیا بھی دیتا چلا جاتا تھا کچھ عرصہ تک تو انہیں اس کا احساس نہیں ہوتا تھا مگر جب سب علاقہ اس بنیے کا مقروض ہو جاتا اور زمینداروں کی سب آمد اس کے قبضے میں چلی جاتی تو یہ دیکھ کر اس علاقہ کا کوئی بڑا زمیندار تمام چوہدریوں کو اکٹھا کرتا اور کہتا کہ بتائو اس بنیے کا قرض کتنا ہے وہ بتاتے کہ اِتنا اِتنا قرض ہے ۔ اس پر وہ دریافت کرتا کہ اچھا پھر اِس قرض کے اُترنے کا کوئی ذریعہ ہے یا نہیں وہ جواب دیتے کہ ہمیں توکوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔ اس پر وہ کہتا کہ اچھا تو پھر دعائے خیر پڑھ دو چنانچہ وہ سب دعائے خیر پڑھ دیتے اور اس کے بعد سب ہتھیار لے کربنیے کے مکان کی طرف چل پڑتے اور اُسے قتل کر دیتے اور اس کی بَہی اور کھاتے سب جَلا دیتے۔
جَبری ٹیکسوں کے علاوہ زائد اَموال خداتعالیٰ کی
راہ میں خرچ نہ کرنے کی وجہ سے قوموں کی ہلاکت
اللہ تعالیٰ اِس آیت میں ایسی ہی حالت کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ دیکھو ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اگر
تمہارے پاس زائد مال ہو تو اُسے خداتعالیٰ کے راستہ میں خرچ کر دیا کرو اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو یعنی بے شک کمائو تو خوشی سے مگر اس دولت کو اپنے گھر میں نہ جمع رکھا کرو ورنہ کسی دن لوگ تمہارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور تم ہلاک ہو جائو گے۔ پھر فرماتا ہے وَاَحْسِنُوْا بلکہ اس سے بڑھ کر نیکی کرو اور وہ اِس طرح کہ تم خود اپنی ضرورتوں کو کم کر کے اور مال بچا کر خداتعالیٰ کی راہ میں دے دیا کرو مگر یاد رکھو کہ یہ عمل تم لوگوں سے ڈر کر نہ کرو بلکہ خوشی سے کرو۔ اگر تم ڈرکر کرو گے تو غریبوں کی مدد تو ہو جائے گی مگر خدا خوش نہیں ہو گا لیکن اگر خوشی سے یہ قربانی کرو گے تو غریب بھی خوش ہوں گے، تم بھی ہلاکت سے بچ جائو گے اور اللہ بھی تم پر خوش ہو گا۔ پھر فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّالْمُحْسِنِیْنَ اگر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ پھر ہماری کمائی کا صِلہ ہم کوکیا ملا ؟تو اِس کا جواب یہ ہے کہ اِس کا صِلہ مال سے زیادہ ملے گا اور وہ تمہارے پیدا کرنے والے خدا کی محبت ہے۔ تمہاری دنیا کے ساتھ تمہاری آخرت بھی درست ہوجائے گی اور تم دونوں جہانوں میں آرام اور سُکھ سے زندگی بسر کرو گے۔ دیکھو اس تعلیم کے ساتھ باوجود انفرادیت اور عائلیّت جیسی ضروری چیزوں کی حفاظت کا وہ مقصد بھی پورا ہو جاتا ہے جسے بالشوزم ُپورا کرنا چاہتی ہے۔
ہر زمانہ میں غرباء کی ضروریات
پورا کرنے والی اسلامی تعلیم
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو ہوئی لفظی تعلیم تم کہتے تھے کہ اسلام غرباء کے کھانے کا بھی انتظام کرتا ہے، ان کے کپڑے کا بھی انتظام کرتا ہے، ان کے مکان کا بھی انتظام کرتا ہے
اور ان کے علاج اور تعلیم کا بھی انتظام کرتا ہے مگر تم نے یہ نہیں بتایا کہ اسلام اس میں کامیاب بھی ہؤا ہے یا نہیں؟ اگر کامیاب ہوچکا ہے تو ہمیں اس کا کوئی نمونہ دکھائو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تعلیم وہی کامیاب اور اعلیٰ ہوتی ہے جو ہر زمانہ کے مطابق سامان پیدا کرے یعنی وہ لچکدار ہو اور اپنے مقصد کو زمانہ کی ضرورت کے مطابق پورا کرے۔ جو تعلیم لچکدار نہیں ہو گی وہ کسی جگہ کام دیگی اور کسی جگہ کام نہیں دے گی۔ جیسے اگر کوئی لکڑی کا تختہ ہو تو وہ ہر جگہ کام نہیں آ سکے گا اگر جگہ چھوٹی ہو گی تو لازماً وہاں لکڑی کا تختہ کام نہیں دے سکے گا کیونکہ وہ اس میں سمائے گا نہیں لیکن اگر کسی کے پاس چادر ہو تو چھوٹی جگہ پر وہ سمیٹی جا سکے گی اور بڑی جگہ پر پھیلائی جا سکے گی۔ پس تعلیم وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق لچک پیدا ہو سکے۔ اس قسم کی لچک نہ ہو جو آ ج کل کے َنوتعلیم یافتہ مراد لیتے ہیں کہ انہوں نے اس لچک میں سارا قرآن ہی ختم کر دیا ہو۔
ابتدائے اسلام میںغرباء کی
ضرورتیں پوری کرنے کا طریقہ
اسلام کے ابتدائی دور میں اس کی ضرورت کے مطابق یہ تعلیم ُ ّکلی طور پرکامیاب رہی ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں نہ صرف سادگی پر عمل کرایا گیا بلکہ جب
حکومت کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوئی تو تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ علاوہ زکوٰۃ کے غرباء کی سب ضرورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چندوں سے پوری فرمایا کرتے تھے اور اس ضمن میںبعض دفعہ صحابہؓ بڑی بڑی قربانیاں کیا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک وقت اپنا سارامال دے دیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک وقت قریباً سارا مال دے دیا اور یہ زکوٰۃ نہ تھی ۔ پس جس قدر ضرورت تھی اس کے مطابق اس تعلیم نے کام دے دیا اور یہ طریق اس زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے بالکل کافی تھا۔
خلفائے اسلام کے زمانہ میںمنظم طور پر غرباء
کی ضروریات کو پورا کرنے کی جدوجہد
جب حکومت زیادہ پھیلی اور خلفاء کا زمانہ آیا تو اس وقت منظم رنگ میں غرباء کی ضروریات کو پورا کرنے کی جدوجہد کی جاتی تھی چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کے زمانہ میں ایسے رجسٹر بنائے گئے جن میں سب لوگوں کے نام ہوتے تھے اور ہر فرد کے لئے روٹی اور کپڑا مہیا کیا جاتا تھا اور فیصلہ کیا جاتا تھا کہ فی مرد اتنا غلہ ، اتنا گھی، اتنا کپڑا اور اتنی فلاں فلاں چیز دی جائے۔ اسی طرح ہر شخص کو چاہے وہ امیر ہو یا غریب اس کی ضروریاتِ زندگی مہیا ہو جاتی تھیں اور یہ طریق اس زمانہ کے لحاظ سے بالکل کافی تھا۔آج دنیا یہ خیال کرتی ہے کہ بالشوزم نے یہ اصول ایجاد کیا ہے کہ ہرفرد کو اس کی ضروریاتِ زندگی مہیاکی جانی چاہئیں حالانکہ یہ طریق اسلام کا پیش کردہ ہے اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اس پرمنظم رنگ میں عمل بھی کیا جا چکا ہے بلکہ یہاں تک تاریخوں میںآتا ہے کہ شروع میںحضرت عمرؓ نے جو فیصلہ کیا تھا اس میں ان چھوٹے بچوں کا جو شیرخوار ہوںخیال نہیں رکھا گیا تھا اور اسلامی بیت المال سے اُس وقت بچے کو مددملنی شروع ہوتی تھی جب ماں بچے کا دودھ ُچھڑا دیتی تھی۔ یہ دیکھ کر ایک عورت نے اپنے بچے کا دودھ ُچھڑا دیا تاکہ بیت المال سے اس کا بھی وظیفہ مل سکے۔ ایک رات حضرت عمرؓ گشت لگا رہے تھے کہ آپ نے ایک جھونپڑی میںسے ایک بچے کے رونے کی آواز سُنی حضرت عمرؓ اندر گئے اور پوچھا کہ یہ بچہ کیوں رو رہا ہے ۔ اس عورت نے کہا عمرؓ نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ جب تک بچہ دودھ پینا نہ چھوڑے اس کا وظیفہ نہیں لگ سکتا اس لئے میں نے اس بچے کا دودھ ُچھڑا دیا ہے تا کہ وظیفہ لگ جائے اور اسی وجہ سے یہ رو رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا واہ عمر معلوم نہیں ُتو نے کتنے عرب بچوں کا دودھ ُچھڑوا کر آئندہ نسل کو کمزور کر دیا ہے چنانچہ اس کے بعد انہوں نے حکم دے دیا کہ پیدائش سے ہی ہر بچے کو وظیفہ ملا کرے۔ پس اُس وقت یہ انتظام تھا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ انتظام اس وقت کی ضروریات اوراس زمانہ کے لحاظ سے کافی تھا۔ہاں یہ درست ہے کہ اس زمانہ میں غربت اور امارت میں وہ بُعد نہ تھا جو اَب ہے۔ اس وقت مقررہ ٹیکس اور حکومت اور افراد کو صاحبِ دولت لوگوں کی بروقت امداد ان اغراض کو پورا کر دیتی تھی۔تجارتی مقابلہ اس وقت اس قدر نہ تھا جو اَب ہے۔ مقابل کی حکومتیں اس طرح ہمسایہ ملکوں کی دولت کو باقاعدہ نہ لُوٹتی تھیں جیسا کہ اب لُوٹتی ہیں اس لئے ہم مانتے ہیں کہ وہ انتظام آج کارگر نہیں ہو سکتا لیکن اصولی لحاظ سے وہ تعلیم آج بھی کارگر ہے۔ اس وقت بغیر اس کے کہ کوئی نیا طریق ایجاد کیا جاتا اسی آمدن سے جو مقررہ ٹیکسوں یا طوعی چندوں سے حاصل ہوتی تھی گذارہ چلایا جا سکتا تھا پس اس وقت اسے کافی سمجھا گیا مگر وہ انتظام آج کافی نہیں ہو سکتا۔
آجکل کا زمانہ منظم زمانہ ہے اس وقت دنیا کی بے چینی کو دیکھ کر حکومتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کی بیشتر دولت ان کے ہاتھ میں ہو اور اگر مذکورہ بالا تحریکیں کامیاب ہوئیں یعنی ان میںسے کوئی ایک کامیاب ہوئی تو لازماً افراد کے ہاتھ میں روپیہ کم رہ جائے گا اور حکومتوں کے ہاتھ میںزیادہ چلا جائے گا۔ بالشوزم کامیاب ہو تب بھی اور شوشلزم کامیاب ہو تب بھی نتیجہ یہی ہو گا کہ افراد کے ہاتھ میں روپیہ کم رہ جائے گا اور ملک کی بیشتر دولت پر حکومت کا قبضہ ہو جائے گا لیکن علاوہ مذکورہ بالا نقائص کے جو اوپر بیان ہو چکے ہیںیہ نقصان بھی ہو گا کہ گو بعض ممالک زیادہ امن میںآ جائیں گے مگر بعض دوسرے ممالک زیادہ دُکھ میںپڑ جائیں گے۔
موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے پیشِ نظر غرباء کو
آرام بہم پہنچانے کے لئے ایک نئے نظام کی ضرورت
اس نظام کے مقابلہ میں اسلامی تعلیم کو معیّن صورت دینے کے لئے جو جامہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکے
زمانہ کے لوگوں کے لئے بنایا گیا تھا وہ آج یقینا کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ َاب حالات مختلف ہیں۔ اسی طرح بعد میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے ان احکام کوجو صورت دی تھی وہ آج کامیاب نہیں ہو سکتی پس ضرورت ہے کہ اس موجودہ دور میں اسلامی تعلیم کا نفاذ ایسی صورت میں کیا جائے کہ وہ نقائص بھی پیدا نہ ہوں جو اِن دُنیوی تحریکوں میں ہیں اور اس قدر روپیہ بھی اسلامی نظام کے ہاتھ میں آ جائے جو موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے مساوات کو قائم رکھنے اور سب لوگوں کی حاجات کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے۔ خلفاء نے اپنے زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے اسلام کے احکام کی تعبیر کی جیسے میں نے بتایا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میںباقاعدہ مردم شماری ہوتی تھی ہر شخص کا نام رجسٹروں میںدرج ہوتا تھا اور اسلامی بیت المال اس امرکا ذمہ دار ہوتا تھا کہ ہر شخص کی جائز ضروریات کو پورا کرے۔ پہلے جس قدر روپیہ آتا تھا وہ سپاہیوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا مگر حضرت عمرؓ نے کہا کہ ایک اسلامی خزانہ ہو اور دوسرے لوگوں کے بھی حقوق ہیں اس لئے اب تمام روپیہ سپاہیوں میں تقسیم نہیں کیا جائے گابلکہ اس کے ایک بہت بڑے حصہ کو محفوظ رکھا جائے گا چنانچہ اس روپیہ سے ملک کے غرباء کو گذارہ دیا جاتا تھا۔
غرض خلفاء نے اپنے اپنے زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے اسلام کے احکام کی تعبیر کی مگر موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کسی اور نظام کی ضرورت تھی اور اس نظام کے قیام کے لئے ضروری تھا کہ کوئی شخص خداتعالیٰ کی طرف سے آئے اور وہ ان تمام دکھوں اور دردوں کو مٹانے کے لئے ایسا نظام پیش کرے جو زمینی نہ ہو بلکہ آسمانی ہو اورایسا ڈھانچہ پیش کرے جو ان تمام ضرورتوں کو پورا کر دے جو غرباء کو لاحق ہیں اور دنیا کی بے چینی کو دور کر دے۔ اب ہر شخص جو تسلیم کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کسی موعود کی بعثت کی خبر دی ہے، ہر شخص جو تسلیم کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک مسیح او رمہدی کے آنے کی خوشخبری دی ہے لازماً اسے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس زمانہ میں جو فتنہ وفساد اور دُکھ نظر آرہا ہے اس کے دور کرنے کا کام بھی اسی مأمور کے سپرد ہونا چاہئے تا کہ وہ نقائص بھی پید ا نہ ہوں جو بالشوزم کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں۔ وہ نتائج بھی پیدا نہ ہوںجو سوشلزم کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ نقائص بھی پیدا نہ ہوں جو نیشنل سوشلزم کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں دنیا کو کھانا بھی مل جائے، دنیا کو کپڑا بھی مل جائے، دنیا کو مکان بھی مل جائے، دنیا کودوا بھی مل جائے اور دنیا کو تعلیم بھی میسر آ جائے پھر دماغ بھی کمزور نہ ہو، انفرادیت اور عائلیت کے اعلیٰ جذبات بھی تباہ نہ ہوں، ظلم بھی نہ ہو، لوگوں کو لُوٹا بھی نہ جائے، امن اور محبت بھی قائم رہے لیکن روپیہ بھی مل جائے۔
موجود زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق دنیا
سے دُکھ کو دُور کرنے کی خاتم الخلفاء کی سکیم
پس موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خاتم الخلفاء کا فرض تھا کہ وہ اسلامی اصول کے مطابق کوئی سکیم تیار کرتا اور دنیا سے اس مصیبت کا
خاتمہ کر دیتا۔ چنانچہ جیسا کہ میں آگے چل کر بتائوں گا اس نے خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کے سامان بہم پہنچادئیے ہیں۔
غرباء کی تکلیف دور کرنے کے لئے
اسلامی سکیم اور اس کے اہم اصول
میں اوپر بتا چکا ہوں کہ اسلامی سکیم کے اہم اصول یہ ہیں:-
اول :سب انسانوں کی ضرورتوںکو پورا کیا جائے۔
دوم: مگر اس کام کو پورا کرتے وقت انفرادیت اور عائلی زندگی کے لطیف جذبات کو تباہ نہ ہونے دیا جائے۔
تیسرے: یہ کام مالداروں سے طَوعی طور پرلیا جائے اور جبر سے کا م نہ لیا جائے۔
چوتھے: یہ نظام ملکی نہ ہو بلکہ ￿ بَینَ ا ￿لا َ قوامی ہو۔ آج کل جس قدر تحریکات جاری ہیں وہ سب کی سب ملکی ہیں مگر اسلام نے وہ تحریک پیش کی ہے جو ملکی نہیں بلکہ ￿ بَینَ ا ￿لا َ قوامی ہے۔
اسلامی تعلیم کی ساری خوبی ان چاروں اصول میںمرکوز ہے۔ اگر یہ چاروں اصول کسی تحریک میںپائے جاتے ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تحریک سب سے بہتر اور سب تحریکات سے زیادہ مکمل ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ۱۹۰۵ء
میں دنیا سے دُکھ کو دور کرنے والے نئے نظام کی بنیاد
اب میں بتاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان چاروں مقاصد کو اس زمانہ کے مأمور، نائبِ رسول اللہؐ نے
خدا تعالیٰ کے حکم سے کس طرح پورا کیا اور کس طرح اسلامی تعلیم کے عین مطابق دنیا کے ایک نئے نظام کی بنیاد رکھ دی۔ یہ بالشوزم، سوشلزم اور نیشنل سوشلزم کی تحریکیں سب جنگ کے بعد کی پیدائش ہیں۔ ہٹلر جنگ کے بعد کی پیدائش ہے، مسولینی۳۶؎ جنگ کے بعد کی پیدائش ہے اور سٹالن جنگ کے بعد کی پیدائش ہے۔ غرض یہ ساری تحریکیں جو دنیا میںایک نیا نظام قائم کرنے کی دعویدار ہیں۔ ۱۹۱۹ء اور ۱۹۲۱ کے گرد چکر لگا رہی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے مأمور نے نئے نظام کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں رکھ دی تھی اور وہ ’’الوصیت‘‘ کے ذریعہ رکھی تھی۔
قرآن مجید میں مختلف ضرورتوں کے وقت
طَوعی قربانیاں کرنے کی طرف اشارہ
قرآن کریم نے اصولی طورپر فرمایاتھا اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
مگر اس تعلیم میں خدا تعالیٰ نے طوعی قربانیوں کے کوئی معیّن اصول مقرر نہ فرمائے تھے صرف یہ کہا تھا کہ اے مسلمانو! تمہیں علاوہ جبری ٹیکسوں کے بعض اور ٹیکس بھی دینے پڑیںگے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ ٹیکس کتنے ہوں گے اور ان کی معیّن صورت کیا ہو گی۔ اگر کسی زمانہ میں اسلامی حکومت کو سَو میں سے ایک روپیہ کی ضرورت ہوتی تھی تو خلیفۂ وقت کہہ دیا کرتا تھا کہ اے بھائیو! اپنی مرضی سے سَو میں سے ایک روپیہ دے دو اور اگر کسی زمانہ میں اسلامی حکومت کو سو میںسے دوروپیہ کی ضرورت ہوتی تھی تو خلیفہ وقت کہہ دیا کرتا تھا کہ اے بھائیو! اپنی مرضی سے سومیں سے دوروپے دے دو اسی وجہ سے ہر زمانہ میںاس کی الگ الگ تعبیر کی گئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کی تعبیر اس طرح کی کہ وقتاً فوقتاًزائد چند ے مانگ لئے اور خلفاء نے اپنے زمانہ کے مطابق اس کی اس طرح تعبیر کی کہ جو اموال فوجوں میںتقسیم کرنے کے لئے آیا کرتے تھے ان کے ایک بڑے حصہ کو محفوظ کر لیا اور سپاہیوں سے کہا کہ تم اپنی خوشی سے اپنا حق چھوڑ دو اور حضرت مسیح موعود نے اپنے زمانہ کے مطابق تعبیر کرلی۔ اگر اسلامی حکومت نے ساری دنیا کو کھانا ِکھلانا ہے، ساری دنیا کو کپڑے پہنانا ہے، ساری دنیا کی رہائش کے لئے مکانات کا انتظام کرنا ہے، ساری دنیا کی بیماریوں کے لئے علاج کا انتظام کرنا ہے، ساری دنیا کی جہالت کو دور کرنے کے لئے تعلیم کا انتظام کرنا ہے تو یقینا حکومت کے ہاتھ میں اس سے بہت زیادہ روپیہ ہونا چاہئے جتنا پہلے زمانہ میں ہؤا کرتا تھا ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اعلان فرمایا کہ اس زمانہ میں خداتعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جو حقیقی جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ انتظام فرمایا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے اپنے مال کے کم سے کم دسویں حصہ کی اور زیادہ سے زیادہ تیسرے حصہ کی وصیت کر دیں اور آپ فرماتے ہیں ان وصایا سے جو آمد ہو گی ’’وہ ترقیٔ اسلام اور اشاعتِ علمِ قرآن وکُتبِ دینیہ اور اس سلسلہ کے واعظوں کے لئے ‘‘ خرچ ہو گی۔(شرط نمبر۲)
اسی طرح ہر ایک امر جو مصالح اشاعتِ اسلام میں داخل ہے جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے وہ تمام امور اِن اموال سے انجام پذیر ہوں گے۔(شرط نمبر۲)
یعنی اسلام کی تعلیم کو دنیا میںقائم اور راسخ کرنے کے لئے جس قدر امور ضروری ہیں اور جن کی تعبیر کرنا قبل از وقت ہے ہاں اپنے زمانہ میں کوئی اور شخص ان امور کو کھولے گا ان تمام امور کی سرانجام دہی کے لئے یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا۔
الوصیّت کے نئے نظام کا ذکر
یہ وہ تعلیم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دی۔ آپ صاف فرماتے ہیں کہ ہر ایک امرجو
مصالح اشاعتِ اسلام میں داخل ہے اور جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے اس پر یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا۔ اس کاصاف مطلب یہ تھا کہ ایسے امور بھی ہیں جن کو ابھی بیان نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جب دنیا چِلّا چِلّا کر کہے گی کہ ہمیں ایک نئے نظام کی ضرورت ہے تب چاروں طرف سے آوازیں اٹھنی شروع ہو جائیں گی کہ آئو ہم تمہارے سامنے ایک نیا نظام پیش کرتے ہیں۔ روس کہے گا آئو میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں ، ہندوستان کہے گا آئو میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں ، جرمنی اور اٹلی کہے گا آئو میں تم کو ایک نیا نظام دیتا ہوں ، امریکہ کہے گا آئو میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں، اس وقت میرا قائم مقام قادیان سے کہے گا کہ نیا نظام ’’الوصیت ‘‘میں موجود ہے اگر دنیا فلاح وبہبود کے رستہ پر چلنا چاہتی ہے تو اس کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ’’ الوصیت‘‘ کے پیش کردہ نظام کو دنیا میںجاری کیا جائے۔
وصیت کے اَموال میںتیامیٰ ، مساکین او رکافی
وجُوہِ معاش نہ رکھنے والے َنو مُسلموں کا حق
پھر آپ فرماتے ہیں ’’ان اموال میں سے اُن یتیموں اور مسکینوں کا بھی حق ہو گا جو کافی طور پر وجوہِ معاش نہیں رکھتے‘‘(شرط نمبر ۲)
پھر فرماتے ہیں ’’جائز ہو گا کہ انجمن باتّفاق رائے اس روپیہ کو تجارت کے ذریعہ سے ترقی دے‘‘۔(ضمیمہ شرط نمبر ۹) یعنی ا ن اموال کے ذریعہ تجارت کرنی بھی جائز ہو گی اور تمہیں اس بات کی اجازت ہو گی کہ لوگوں سے ا ن کے اموال کا دسواں یا آٹھواں یا پانچواں یا تیسرا حصہ لواور پھر تجارت کر کے اس مال کو بڑھالو۔
نئے نظام سے باہر رہنے والے کے لئے ایمان کا خطرہ
پھر فرماتے ہیں ہر مؤمن کے ایمان کی
آزمائش اس میں ہے کہ وہ اس نظام میں داخل ہو اور خداتعالیٰ کے خاص فضل حاصل کرے۔ صرف منافق ہی ا س نظام سے باہر رہے گا۔ گویا کسی پر جبر نہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا کہ اس میں تمہارے ایمانوں کی آزمائش ہے اگر تم جنت لینا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم یہ قربانی کرو،ہاں اگر جنت کی قدر وقیمت تمہارے دل میں نہیں تو اپنے مال اپنے پاس رکھو ہمیں تمہارے اموا ل کی ضرورت نہیں۔
بالشوزم اورالوصیۃ کے ذریعہ
لئے ہوئے اَموال میں ایک فرق
پھر دیکھو بالشوزم لوگوں سے ان کے اموال جبراً چھینتی ہے مگر آپ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مرتد ہو جائے تو اس کا مال اسے واپس کردو کیونکہ خدا کسی کے مال کامحتاج نہیں اور خدا کے نزدیک ایسا مال مکروہ اور ردّ
کرنے کے لائق ہے (ضمیمہ شرط نمبر ۱۲) یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے کہ دنیا جس نظامِ َنو کو پیش کرتی ہے اس میں وہ جبراً لوگوں سے ان کے اموال چھینتی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس نظامِ َنو کو پیش فرماتے ہیں اس میں طَوعی قربانیوں پر زور دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مرتد ہو جائے تو اس کا مال اسے واپس کر دو کیونکہ ایسا مال مردود ہے اور اس قابل نہیں کہ اسے اپنے پاس رکھا جائے۔
بالشوزم کے مقابل الوصیّۃ کے ذریعہ
نہایت پُرامن طریقہ سے مقصد کا حصول
ان اصول کو مدنظر رکھ کر دیکھو کہ کس طرح وہی مقصد جسے بالشوزم نے خون میں ہاتھ رنگ کر ادھورے طور پر پورا کرنے کی کوشش کی ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے محبت او رپیار سے اس مقصد کو زیادہ مکمل طور پر پورا کر دیا ہے۔ بالشوزم آخرکیا کہتی ہے ؟ یہی کہ امیروں سے ان کی جائدادیں چھین لو تا غریبوں پر خرچ کی جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہی جائدادیں اسلامی منشاء کے مطابق اور اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق محبت وپیار سے لے لیں اور فرمایا کہ تم سب اپنی اپنی جائدادوں کا کم سے کم دسواں حصہ دو جو تیامیٰ اور مساکین پر خرچ کیا جائے گا اور اشاعتِ اسلام کا کام اس سے لیا جائے گا۔اس وصیت کے قانون کے مطابق ہر وصیت کرنے والا احمدی اپنی جائداد کا ۱۰/۱ سے ۳/۱ حصہ اپنی مرضی سے اپنے اُخروی فائدہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اسلام اور بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے دیتا ہے۔
تمام دنیا کے احمدی ہو جانے کی
صورت میں عظیم الشان اِنقلاب
اگر ساری دنیا احمدی ہو جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ساری دنیا سے یہ مطالبہ ہو گا کہ خداتعالیٰ تمہارے ایمانوں کی آزمائش کرنا چاہتا ہے اگر تم سچے مؤمن ہو، اگر تم جنت کے
طلبگار ہو، اگر تم خداتعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنی جائدادوں کا ۱۰/۱ سے ۳/۱ حصہ اسلام اور مصالح اسلام کی اشاعت کے لئے دے دو اس طرح ساری دنیا کی جائدادیں قومی فنڈ میں آ جائیں گی اور بغیر کسی قسم کے جبر اور لڑائی کے اسلامی مرکز صرف ایک نسل میں تمام دنیا کی جائدادوں کے۱۰/۱ سے ۳/۱ حصہ کا مالک بن جائے گا اور اس قومی فنڈ سے تمام غرباء کی خبر گیری کی جا سکے گی۔
چند نسلوں میں ہی تمام احمدیوں کی
جائدادیں نظامِ احمدیت کے قبضہ میں
پھر یہ یاد رکھو کہ وصیت صرف پہلی نسل کے لئے نہیں ہے بلکہ دوسری نسل کے لئے بھی ہے اور اس سے بھی انہی قربانیوں کا مطالبہ ہے اور چونکہ وصیت سے دنیا کے سامنے
جنت پیش کی جا رہی ہے اگلی نسل اس کولینے سے کس طرح انکار کرے گی پس دوسری نسل پھر اپنی خوشی سے بقیہ جائداد کا ۱۰/۱ سے ۳/۱ حصہ قومی ضرورتوں کے لئے دے دے گی اور پھر تیسری اور پھر چوتھی نسل بھی ایسا ہی کرے گی اور اس طرح چند نسلوں میں ہی احمدیوں کی جائدادیں نظامِ احمدیت کے قبضہ میں آ جائیں گی۔ فرض کرو سب دنیا احمدی ہو جائے تو اس کا نتیجہ جانتے ہو کیا نکلے گا یہی کہ چند نسلوں میںاپنی خوشی سے ساری دنیا اپنی جائدادیں قومی کاموں کے لئے دے دے گی اور اس کی انفرادیت بھی تباہ نہ ہو گی، عائلی نظام بھی تباہ نہ ہو گا اور پھر لوگ اپنے لئے اور اپنی اولادوں کے لئے اور دولت پیدا کریں گے اور پھر اپنی خوشی سے اس کا۱۰/۱ سے ۳/۱ حصہ قومی ضرورتوں کے لئے دے دیں گے پھر یہ سارا مال چند نسلوں میںقومی فنڈ میں منتقل ہو جائے گا اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔ مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ اگر کسی شخص کے پاس سو روپے ہوں اور وہ پانچویں حصہ کی وصیت کرے تو بیس روپے قومی فنڈ میں آ جائیں گے اور اسّی روپے اس کے پاس رہیں گے جواس کے لڑکے کو ملیں گے۔ پھر مثلاً اس کا لڑکا اگر اسّی روپے کے ۵/۱ حصہ کی وصیت کر دے گا تو سولہ روپے اور قومی فنڈ میں آ جائیں گے۔ گویا ۳۶ فیصدی قومی فنڈ میں آ جائے گا اور ۶۴ فیصدی اس کے پاس رہ جائے گا۔ پھر مثلاً اس کا لڑکا اس ۶۴ فیصدی کے پانچویں حصہ کی وصیت کرے گا تو اندازاً بارہ روپے اور قومی فنڈ میں آ جائیں گے گویا اڑتالیس فیصدی کی مالک حکومت ہو جائے گی اور باون فیصدی اس خاندان کے پاس رہ جائے گا اس کے بعد اس کا لڑکا مثلاً باون روپوں کے پانچویں حصہ کی وصیت کر دے گا تو دس روپے ان کے ہاتھ سے اور نکل جائیں گے اس طرح قومی فنڈ میں اٹھاون فیصدی آ جائے گا اور اس خاندان کے پاس صر ف بیالیس فیصدی رہ جائے گا۔ غرض وہی مقصد جو بالشوزم کے ماتحت تلوار اور خونریزی سے حاصل کیا جاتا ہے اگر وصیت کا نظام وسیع طور پر جاری ہو جائے تو مقصد بھی حل ہو جائے فساد اور خونریزی بھی نظر نہ آئے، آپس میں محبت اور پیار بھی رہے، دنیا میں کوئی بھوکا اور ننگا بھی دکھائی نہ دے اور چند نسلوں میں انفرادیت کی روح کو تباہ کئے بغیر قومی فنڈ میںدنیا کی تمام جائدادیں منتقل ہو جائیں۔
وصیت کا نظام ملکی نہ ہو گابلکہ ￿ بَینَ ا ￿لا َ قوامی ہو گا
پھر یہ نظام ملکی نہ ہو گا بلکہ بوجہ مذہبی ہونے کے ￿ بَینَ ا ￿لا َ قوامی ہو گا۔
انگلستان کے سوشلسٹ وہی نظام پسند کرتے ہیں جس کا اثر انگلستان تک محدود ہو، روس کے بالشویک وہی نظام پسند کرتے ہیں جس کا اثر روس تک محدود ہو مگر احمدیت ایک مذہب ہے وہ اس نئے نظام کی طرف روس کو بھی بُلاتی ہے، وہ جرمنی کو بھی بُلاتی ہے، وہ انگلستان کو بھی بُلاتی ہے، وہ امریکہ کو بھی بُلاتی ہے، وہ ہالینڈ کو بھی بُلاتی ہے، وہ چین اور جاپان کو بھی بُلاتی ہے پس جو روپیہ احمدیت کے ذریعہ اکٹھا ہو گا وہ کسی ایک ملک پر خرچ نہیں کیا جائے گا بلکہ ساری دنیا کے غریبوں کے لئے خرچ کیا جائے گا، وہ ہندوستان کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ چین کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ جاپان کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ افریقہ کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ عرب کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ انگلستان ،امریکہ، اٹلی، جرمنی اور روس کے غرباء کے بھی کام آئے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیش
کردہ عالمگیر ا ّخوت بڑھانے والا نظام
غرض وہ نظام جو دنیوی ہیں وہ قومیت کے جذبہ کو بڑھاتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہ نظام پیش کیا ہے جو عالمگیر ا ّخوت کو بڑھانے والا ہے۔ پھر
روس میںتو روس کا باشندہ روس کے لئے جبراً اپنی جائداد دیتا ہے لیکن وصیت کے نظام کے ماتحت ہندوستان کا باشندہ اپنی مرضی سے سب دنیا کے لئے دیتا ہے، مصر کا باشندہ اپنی مرضی سے اپنی جائداد سب دنیا کے لئے دیتا ہے ، شام کا باشندہ اپنی مرضی سے اپنی جائداد ساری دنیا کے لئے دیتا ہے یہ کتنا نمایاں فرق ہے اسلامی نظامِ َنو اور دُنیوی نظامِ َنو میں؟
اسلامی نظامِ َنو کے ماتحت غرباء کے لئے جائدادیں
دینے والوں کے دلوں میں انتہائی بشاشت اور سرور
پھر روسی نظام چونکہ جبر سے کام لیتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے مالدار روس سے نکل کر
اس کے خلاف جدوجہد شروع کر دیتے ہیں اور ان کے دلوں میں غریبوں کو جائدادیں دے کر کوئی خوشی اور بشاشت پیدا نہیں ہوتی۔ ایک روسی سے جس وقت اس کی جائداد چھین لی جاتی ہے وہ ہنستا نہیں بلکہ روتا ہؤا اپنے گھر جاتا ہے اور اپنے رشتہ داروں سے کہتا ہے کم بخت حکومت نے میری جائداد مجھ سے چھین لی لیکن اس نظامِ َنو میں ایک زمیندار جس کے پاس دس ایکڑ زمین ہوتی ہے وہ ایک یا دو یا تین ایکڑ زمین دے کر روتا نہیں بلکہ دوسرے ہی دن اپنے بھائی کے پاس جاتا ہے اور اسے کہتا ہے اے بھائی! مجھے مبارکباد دو کہ میں نے وصیت کی توفیق پائی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جس کے دوسرے معنے یہ ہوتے ہیں کہ غریبوں کے لئے دو یا تین ایکڑ زمین مجھ سے چھین لی گئی ہے۔ مگر وہ روتا نہیں، وہ غم نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے بھائی جان! مجھے مبارکباد دو کہ میں نے وصیت کر دی اور کہتا ہے اللہ اب مجھے وہ دن بھی دکھائے کہ آپ بھی وصیت کر دیں اور میں آپ کو مبارکباد دینے کے قابل ہو جائوں۔ جس وقت بیوی کو وہ یہ خبر سناتا ہے بیوی یہ نہیں کہتی کہ خد ا تباہ کرے ان لوگوں کو جنہوں نے ہماری جائدادلُوٹ لی بلکہ اس کے ہونٹ کا نپنے لگ جاتے ہیں اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور وہ للچائی ہوئی نگاہوں سے ان نگاہوں سے جن سے وہ اپنے خاوند کے دل کو چھینا کرتی ہے اس کی طرف دیکھتی ہے اور کہتی ہے دیکھو جی! اللہ نے آپ کو یہ توفیق دی کہ آپ نے وصیت کر دی میرے پاس اپنی جائداد نہیں میں کس طرح وصیت کروں آپ اپنی جائداد میں سے کچھ مجھے دے دیں تو میں بھی اس نعمت میں شامل ہوجائوں اور وہ اپنے نسوانی دائو پیچ اور ان تیروں سے کام لے کر جو کہ خاوند بہت کم برداشت کر سکتے ہیں آخر اسے راضی کر ہی لیتی ہے اور وہ اسے اپنی جائداد میں سے کچھ حصہ دے دیتا ہے اس پر بیوی پھر اسی جائداد کی وصیت کرتی ہے اور کہتی ہے میں اس کے ۱۰/۱ یا۸/۱ یا۶/۱ حصہ کی وصیت کرتی ہوں گویا اس بچی ہوئی جائداد پر پھر ایمان ڈاکہ مارتا اور اس کا ایک اور حصہ قومی فنڈ میںمنتقل ہو جاتا ہے اتنے میں بچہ گھر میں آتا ہے اور جب وہ سنتا ہے کہ اس کے باپ اور اس کی ماں نے وصیت کر دی ہے تو وہ دلگیر ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنے باپ سے کہتا ہے ابا جی! اللہ آپ کو دیر تک ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ میرے پاس تو کچھ نہیں میں کس طرح اللہ سے یہ ارزاں سَودا کروں اگر مجھے کچھ دے دو تو میں بھی اللہ میاں سے اپنے لئے جنت کا سَودا کر لوں۔ اگر اس کے باپ کو اس سے زیادہ محبت ہوتی ہے تو وہ یہ خیال کر کے کہ آخر میری جائداد نے اسی کے پاس جانا ہے اسی وقت اپنی جائداد کا ایک حصہ اسے دے دیتا ہے اور وہ وصیت کر کے اپنے رب سے جنت کا سَودا کر لیتا ہے۔ اس طرح بقیہ جائداد کا پھر ایک اور حصہ قومی فنڈ میںآ جمع ہوتا ہے اور اگر اس کا باپ نسبتاً سخت ہوتا ہے اور وہ یہ نہیں مانتا کہ اپنی زندگی میں لڑکے کو جائداد دے دے تو نیک بخت لڑکا اس جائداد کا جو ابھی اسے نہیں ملی سَودا کر دیتا ہے اور وصیت کر دیتا ہے کہ گو ابھی میرے پاس کوئی جائداد نہیں مگر میں وصیت کرتا ہوں کہ اِس وقت جو میری آمدن ہے اس کا دسواں حصہ وصیت میںادا کرتا رہوں گا اور اگر آئندہ میری کوئی جائداد ہوئی تو اس کا دسواں حصہ بھی ادا کروں گا جس کے دوسرے لفظوں میںیہ معنے ہوتے ہیں کہ جب ابا جان فوت ہو جائیں گے اور ان کی جائداد میرے قبضہ میں آ جائے گی تو جو حصہ مجھے باپ کی وصیت کے بعد بچی ہوئی جائداد میں سے ملے گا اس کے دسویں حصہ کا ابھی سے وعدہ کرتا ہوں۔ اس طرح بقیہ جائداد کا پھر ۱۰/۱ قومی فنڈ میں آ جاتا ہے۔
پھر دیکھو دُنیوی نظام کے ماتحت تو جن لوگوں پر ٹیکس لگتا ہے وہ ناخوش ہوتے ہیں اور جن پر نہیں لگتا وہ خوش ہوتے ہیں۔ امیر ناراض ہوتے ہیں کہ ہم پر کیوں ٹیکس لگایا گیا اور غرباء خوش ہوتے ہیں کہ امراء کا مال ہمیں ملا لیکن وصیت کے قاعدہ کے ماتحت کیا ہوتا ہے؟ وصیت کو غورسے پڑھ کر دیکھ لو وصیت کی ابتداء جائداد پر رکھی گئی تھی مگر چونکہ مال جبراً نہیں چھینا جاتا بلکہ اس کے بدلہ میں جنت کی سی نعمت پیش کی جاتی ہے اس لئے وہ لوگ جن کے لئے مال لیا گیا تھا انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ امراء جن کی جائدادیں لی گئی ہیں خوب لوٹے گئے بلکہ وہ رنجیدہ ہوئے کہ اس نیک سَودے سے ہمیں کیوں محروم کیا گیا ہے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے درخواست کی کہ ہمارے لئے بھی راستہ نکالا جائے اور خداتعالیٰ کی اجازت سے آپ نے انہیں اپنی آمدنیوں کی وصیت کرنے کی اجازت دے دی۔ گویا وہ طریق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جاری کیا ہے اس کی ابتداء جائدادوں سے ہوئی مگر پھر ان لوگوں کے اصرار پر جن کی جائدادیں نہیں تھیں اللہ تعالیٰ کی اجازت سے آپ نے آمدنیوں کی وصیت کی بھی اجازت دے دی اور اس طرح جائداد او رآمد دونوں کے مقررہ حصے قومی فنڈ میں جمع ہونے شروع ہو گئے۔
نظامِ َنو کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں قادیان میںرکھی گئی
غرض نظامِ َنو کی بنیاد ۱۹۱۰ء میں روس میں نہیں رکھی گئی نہ وہ آئندہ
کسی سال میں موجودہ جنگ کے بعد یورپ میںرکھی جائے گی بلکہ دنیا کو آرام دینے والے ہر فرد بشر کی زندگی کو آسودہ بنانے والے اور ساتھ ہی دین کی حفاظت کرنے والے نظامِ َنو کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں قادیان میں رکھی جا چکی ہے اب دنیا کو کسی نظامِ َنو کی ضرورت نہیں ہے اب ۔نظامِ َنو کا شور مچانا ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں۔
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر
جو کام ہونا تھا وہ ہو چکا اب یورپ کے مدبرّ صرف لکیریں پیٹ رہے ہیں۔ اسلام اور احمدیت کا نظامِ َنو وہ ہے جس کی بنیاد جبر پر نہیں بلکہ محبت اور پیار پر ہے۔ اس میں انسانی حریّت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے، اس میں افراد کی دماغی ترقی کو بھی مدّنظر رکھا گیا ہے اور اس میں انفرادیّت اور عائلیّت جیسے لطیف جذبات کو بھی برقرار رکھا گیا ہے۔
وصیّتی اَموال کے خرچ کرنے کے مختلف مواقع
میں بتا چکا ہوں کہ وصیت کے متعلق یہ خیال کرنا غلط ہے کہ اس
کا روپیہ صرف تبلیغِ اسلام پر خرچ کیا جا سکتا ہے ’’الوصیۃ‘‘ کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اس روپیہ سے اور کئی مقاصد کو بھی پورا کیا جا ئے گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے ہر ایک امر جو مصالح اشاعتِ اسلام میںداخل ہے جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے وہ تمام امور اِن اموال سے انجام پذیر ہونگے یعنی آئندہ زمانہ میں اشاعتِ اسلام کی ایسی مصلحتیں ظاہر ہوں گی یعنی اسلام کو عملی جامہ پہنا کر اس کی خوبیوں کے اظہارکے مواقع ایسے نکلیں گے کہ ان پر وصیت کے روپیہ کو خرچ کرنا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہو گا۔ پھر ’’یتیموں اور مسکینوں‘‘ کے الفاظ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے استعمال فرمائے ہیں اور بتایا ہے کہ اس روپیہ پر محتاجوں کا حق ہے ۔ پس درحقیقت ان الفاظ میںاسی نظام کی طرف اشارہ ہے جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے کہ ہر فرد بشر کے لئے کھانا مہیا کیا جائے، ہر فرد بشر کے لئے کپڑا مہیاکیا جائے، ہر فرد بشر کے لئے مکان مہیا کیا جائے، ہر فرد بشر کے لئے تعلیم اور علاج کا سامان مہیا کیا جائے اور یہ کام ٹیکسوں سے نہیں ہو سکتا اسی طرح ہو سکتا ہے کہ جائدادیں لی جائیں اور اس ضرورت پر خرچ کی جائیں۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ ’’کیا پِدّی اور کیا پِدّی کا شوربا‘‘ تمہاری حیثیت ہی کیا ہے کہ تم ایسے دعوے کرو اور اس قسم کی موہوم امیدوں کو جامۂ عمل پہنا سکو مگر یہ شُبہ بھی درست نہیں اس لئے کہ جب ہم یہ بات پیش کرتے ہیں تو اس لئے پیش کرتے ہیں کہ ہم اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ ہماری جماعت کا دنیا کے تمام ممالک میںپھیل جانا مقدّر ہے۔ پس جبکہ ہم خداتعالیٰ کے الہامات اور اس کے وعدوں کے مطابق یہ یقین رکھتے ہیں کہ آج سے پچاس یا ساٹھ یاسو سال کے بعد بہرحال دنیا پر احمدیت کا غلبہ ہو جائے گا تو ہمیں اس بات پر بھی کامل یقین ہے کہ یہ نظام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمایا ہے ایک دن قائم ہو کر رہے گا۔ زمین وآسمان ٹل سکتے ہیں مگر خداتعالیٰ کی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں۔
یقینی طور پر وصیّت کے ذریعہ پیش کردہ نظام کا قیام
بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ نظام نہ معلوم کب
قائم ہو گا جماعت کی ترقی تو نہایت آہستہ آہستہ ہو رہی ہے۔ اِس کاجواب یہ ہے کہ کبھی ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمائی جاتی جو عمارت بے بنیاد ہو وہ بہت جلد گِرجاتی ہے یہ جلد بنائے جانے والے نظام جلد گِر جائیں گے نظام وہی قائم ہو گا جو ہر کس وناکس کی دلی خوشنودی کے ساتھ قائم کیا جائے گا۔ گھاس آج نکلتا اور کل سوکھ جاتا ہے لیکن پھل دار درخت دیر میں تیار ہوتا اور پھر صدیوں کھڑ ا رہتا ہے ۔ پس آئندہ جوں جوں ہماری جماعت بڑھتی چلی جائے گی وصیت کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے دنیا میں جس نظام کو قائم کیا ہے وہ بھی بڑھتا چلاجائے گا چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی اصول کو مدّنظر رکھتے ہوئے اپنی کتاب الوصیۃ میںتحریر فرمایا ہے کہ:-
’’یہ مت خیال کرو کہ یہ صرف دور از قیاس باتیں ہیں بلکہ یہ اس قادر کا ارادہ ہے جو زمین وآسمان کا بادشاہ ہے۔ مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیونکر ہوں گے اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہو گی جو ایمانداری کے جوش سے یہ مردا نہ کام دکھلائے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپرد ایسے مال کئے جائیں وہ کثرتِ مال کو دیکھ کر ٹھوکر نہ کھاویں اور دنیا سے پیار نہ کریں۔ سو مَیں دعا کرتا ہوں کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لئے کام کریں ہاں جائز ہو گا کہ جن کا کچھ گذارہ نہ ہو ان کو بطور مدد خرچ اس میںسے دیا جائے‘‘۳۷؎۔
وصیّت کے ذریعہ جمع ہونے والے
روپیہ کی حیرت انگیز ُبہتات
یعنی مجھے اس بات کا خیال نہیں کہ وصیت کے نتیجہ میں اتنے روپے کہاں سے آئیں گے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ کہیں لوگ کثرتِ مال کو دیکھ کر ٹھوکر نہ کھاجائیں۔ گویا تم تو یہ کہتے ہو
کہ ساری دنیا کے غریبوں کا انتظام کس طرح کرو گے اور وہ مال کہاں سے آئے گا جس سے ان کی ضروریات پوری کی جائیں گی مگر مجھے اس بات کا کوئی فکر نہیں کہ یہ مال کہاں سے آئے گا یہ مال آئے گا اور ضرورآئے گا مجھے تو فکر یہ ہے کہ کہیں کثرتِ مال کو دیکھ کر دنیا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی نہ رہ جائیں اور وہ لوگ جن کے سپرد یہ اموال ہوں وہ دنیا سے پیار نہ کرنے لگ جائیں اور لالچ کی وجہ سے ان مدّات میں روپیہ خرچ نہ کریں جن مدّات کے لئے یہ روپیہ اکٹھا کیا جائے گا۔تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ سوال خود ہی اٹھایا ہے اور پھر خود ہی اس کا جواب دیا ہے کہ لوگ یہ خیال نہ کریں کہ اتنے خزانے کہاں سے آئیں گے۔ آئیں گے اور ضرور آئیںگے مجھے اگر ڈر ہے تو یہ کہ کہیں کثرتِ مال کو دیکھ کر لوگ دنیا سے پیار نہ کرنے لگ جائیں کیونکہ روپیہ اکٹھا ہو گا اور اتنا اربوں ارب اور اربوں ارب اکٹھا ہو گا کہ اتنا مال نہ امریکہ نے کبھی دیکھا ہو گا نہ روس نے کبھی دیکھا ہو گا، نہ انگلستان نے کبھی دیکھا ہو گا نہ جرمنی، اٹلی اور جاپان نے کبھی دیکھا ہو گا بلکہ ساری حکومتوں نے مل کر بھی اتنا روپیہ کبھی جمع نہیں کیا ہو گا جتنا روپیہ اِس ذریعہ سے اکٹھا ہو گا، پس چونکہ اِس ذریعہ سے اِس قدر دولت اکٹھی ہو گی کہ اِس قدر دولت دُنیا کی آنکھ نے اِس سے پہلے کبھی نہیںدیکھی ہو گی اِس لئے مَیں ڈرتا ہوں کہ کہیں لوگوں کے دِلوں میں بدَدیانتی پیدا نہ ہو جائے ۔ پس تم اِس بات کا فکر نہ کرو کہ یہ نظام کِس طرح قائم ہو گا تم یہ فکر کرو کہ اس کو صحیح استعمال کرنے کا اپنے آپ کو اہل بنائو۔ دُنیا کی جائدادیں تمہارے ہاتھ میں ضرور آئیں گی مگر تم کو اپنے نفوس کی ایسی اِصلاح کرنی چاہئے کہ وہ جائدادیں تمہارے ہاتھ سے دنیا کے فائدہ کے لئے صحیح طور پر خرچ کی جائیں۔
خواجہ کمال الدین صاحب پر الوصیّۃ
میں بَیان کردہ نئے نظام کا اثر
مَیں اِس موقع پرایک دشمن کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جس دن حضرت مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃ والسلام نے وصیّت لکھی اور اُس کا مسودہ باہر بھیجا تو خواجہ کمال الدین صاحب
اس کو پڑھنے لگ گئے جب وہ پڑھتے پڑھتے اس مقام پر پہنچے تو وہ بے خود ہو گئے۔ ان کی نگاہ نے اس کے حُسن کو ایک حد تک سمجھا وہ پڑھتے جاتے اور اپنی رانوں پر ہاتھ مار مار کر کہتے جاتے کہ ’’واہ اوے مرزیا احمدیت دیاں جڑاں لگا دتیاں ہیں‘‘ یعنی واہ واہ مرزا تو نے احمدیت کی جڑوں کو مضبوط کر دیا ہے۔ خواجہ صاحب کی نظر نے بے شک اس کے حسن کو ایک حد تک سمجھا مگر پورا پھر بھی نہیں سمجھا درحقیقت اگر وصیّت کو غور سے پڑھا جائے تو یوں کہنا پڑتا ہے کہ واہ او مرزا تو نے اسلام کی جڑیں مضبوط کر دیں، واہ او مرزا تو نے انسانیت کی جڑیں ہمیشہ کے لئے مضبوط کر دیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَعَلٰی عَبْدِکَ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
نظامِ َنو کا ایک چھوٹا سا نقشہ تحریکِ جدید کی صورت میں
مگرجیسا کہ مَیں بتا آیاہوں یہ کام وقت
چاہتا ہے اور اس دن کا محتاج ہے جب سب دُنیا میں احمدیت کی کثرت ہو جائے ابھی موجودہ آمد مرکز کو بھی صحیح طور پر چلانے کے قابل نہیں اِس لئے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میںتحریکِ جدید کا القاء فرمایا تا کہ اس ذریعہ سے ابھی سے ایک مرکزی فنڈ قائم کیا جائے اور ایک مرکزی جائداد پیدا کی جائے جس کے ذریعہ تبلیغِ احمدیت کو وسیع کیا جائے۔ پس تحریک جدید کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کے سامنے عقیدت کی یہ نیاز پیش کرنے کے لئے ہے کہ وصیت کے ذریعہ تو جس نظام کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اس کے آنے میں ابھی دیر ہے اس لئے ہم تیرے حضور اس نظام کا ایک چھوٹا سا نقشہ تحریک جدید کے ذریعہ پیش کرتے ہیں تا کہ اس وقت تک کہ وصیت کا نظام مضبوط ہو اس ذریعہ سے جو مرکزی جائداد پیدا ہو اس سے تبلیغِ احمدیت کو وسیع کیا جائے اور تبلیغ سے وصیت کو وسیع کیا جائے۔
نظامِ َنو کے قریب تر لانے کا ذریعہ
پس جوں جوں تبلیغ ہو گی اور لوگ احمدی ہوں گے وصیت کا نظام وسیع سے وسیع تر ہوتاچلا جائے گا
اور کثرت سے اموال جمع ہونے شروع ہو جائیں گے۔ قاعدہ ہے کہ شروع میں ریل آہستہ آہستہ چلتی ہے مگر پھر بہت ہی تیز ہو جاتی ہے اسی طرح اگر خود دوڑنے لگو تو شروع کی رفتار او ربعد کی رفتا رمیں بڑا فرق ہوتا ہے۔ پس وصیت کے ذریعہ اس وقت جو اموال جمع ہو رہے ہیںان کی رفتار بے شک تیز نہیں مگر جب کثرت سے احمدیت پھیل گئی اور جوق در جوق لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے شرو ع ہو گئے اس وقت اموال خاص طور پرجمع ہونے شروع ہو جائیں گے اور قدرتی طور پر جائدادوں کاایک جتّھا دوسری جائدادوں کو کھینچنا شروع کر دے گا اور جوں جوں وصیت وسیع ہو گی نظامِ َنو کا دن اِنْشَائَ اللّٰہُ قریب سے قریب تر آجائے گا۔
تحریک جدید نظامِ َنو کے لئے بطور ارہاص کے ہے
غرض تحریک جدید گو وصیت کے بعد آئی ہے مگر اس کے
لئے پیشرو کی حیثیت میں ہے گویا وہ نظام اس کے مسیح کے لئے ایک ایلیاہ نبی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے ظہور مسیح موعود کے غلبہ والے ظہور کے لئے بطور ارہاص کے ہے ہر شخص جو تحریک جدید میں حصہ لیتا ہے وصیت کے نظام کو وسیع کرنے میں مدد دیتا ہے اور ہر شخص جو نظامِ وصیت کو وسیع کرتا ہے وہ نظامِ َنو کی تعمیر میں مدد دیتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے وصیت حاوی ہے اس تمام نظام پر جو اسلام نے قائم کیا ہے۔ بعض لوگ غلطی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ وصیت کا مال صرف لفظی اشا ِعت اسلام کے لئے ہے مگر یہ بات درست نہیں وصیت لفظی اشاعت اور عملی اشاعت دونوں کے لئے ہے جس طرح اس میں تبلیغ شامل ہے اسی طرح اس میں اس نئے نظام کی تکمیل بھی شامل ہے جس کے ماتحت ہر فرد بشر کی باعزت روزی کا سامان مہیا کیا جائے۔ جب وصیت کا نظام مکمل ہو گا تو صرف تبلیغ ہی اس سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے منشاء کے ماتحت ہر فرد بشر کی ضرورت کو اس سے پورا کیا جائے گا اور دُکھ اور تنگی کو دنیا سے مٹا دیا جائے گا اِنْشَائَ اللّٰہُ یتیم بھیک نہ مانگے گا، بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گی ، بے سامان پریشان نہ پھر ے گا کیونکہ وصیت بچوں کی ماں ہو گی، جوانوں کی باپ ہو گی، عورتوں کا سہاگ ہو گی، اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اس کے ذریعہ سے مدد کرے گا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہو گا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائے گا۔ نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب، نہ قوم قوم سے لڑے گی بلکہ اس کا احسان سب دنیا پر وسیع ہو گا۔
پس اے دوستو! دنیا کا نیا نظام نہ مسٹر چرچل ۳۸؎ بنا سکتے ہیں نہ مسٹر روز ویلٹ ۳۹؎بنا سکتے ہیں۔ یہ اٹلانٹک چارٹر کے دعوے سب ڈھکوسلے ہیں اور اس میں کئی نقائص ، کئی عیوب اور کئی خامیاں ہیں نئے نظام وہی لاتے ہیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے دنیا میں مبعوث کئے جاتے ہیں جن کے دلوں میں نہ امیر کی دشمنی ہوتی ہے نہ غریب کی بے جا محبت ہوتی ہے ،جو نہ مشرقی ہوتے ہیں نہ مغربی، وہ خداتعالیٰ کے پیغامبر ہوتے ہیں اور وہی تعلیم پیش کرتے ہیں جو امن قائم کرنے کا حقیقی ذریعہ ہوتی ہے پس آج وہی تعلیم امن قائم کرے گی جو حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ آئی ہے اور جس کی بنیاد الوصیۃ کے ذریعہ ۱۹۰۵ء میںرکھ دی گئی ہے۔
جماعت کے تمام دوستوں کو ایک نصیحت
پس تمام دوستوں کو اس کی اہمیت سمجھنی چاہئے اور ان دلائل کو اچھی طرح یاد رکھ
لینا چاہئے جو مَیں نے پیش کئے ہیں کیونکہ قریباً ہر جگہ ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو بالشوزم کے مدّاح ہوتے ہیں اسی لئے میں نے بالشوزم کی تحریک کی خوبیاں بھی بتا دی ہیںاور اس کی خامیاں بھی بتا دی ہیں اسی طرح دوسری تحریکات کی خوبیاں اور ان کی خامیاں بھی بتا دی ہیں پس ان پر غور کرو اور تعلیم یافتہ طبقہ سے ان کو ملحوظ رکھ کر گفتگو کرو۔ میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ دلائل ایسے ہیں جن کا کوئی جواب ان تحریکات کے مؤیّدین کے پاس نہیں دنیا میںاگر امن قائم ہو سکتا ہے تو اسی ذریعہ سے جس کو آج میں نے بیان کیا ہے۔ اسی طرح آج سے اٹھارہ سال پہلے ۱۹۲۴ء میں امنِ عامہ کے قیام کے متعلق خداتعالیٰ نے میرے ذریعہ سے کتاب ’’احمدیت‘‘۴۰؎ میں ایک ایسا عظیم الشان انکشاف کیا کہ میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ ایسا عظیم الشان اظہار گزشتہ تیر ہ سَوسال میںپہلے ّمفسرین میں سے کسی نے نہیں کیا اور یقینا وہ ایسی تعلیم ہے کہ گو اس قسم کا دعویٰ کرنا میری عادت کے خلاف ہے مگر میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اس قسم کا انکشاف سوائے نبیوں اور ان کے خلیفوں کے آج تک کبھی کسی نے نہیں کیا اگر کیا ہو تو لائو مجھے اس کی نظیر دکھائو۔
وصیّت کرنے والانظامِ َنو کی بنیاد رکھنے میں حِصّہ دار
پس اے دوستو ! جنہوں نے وصیّت کی ہوئی ہے سمجھ
لوکہ آپ لوگوں میں سے جس جس نے اپنی اپنی جگہ وصیّت کی ہے اس نے نظامِ َنو کی بنیاد رکھ دی ہے اُس نظامِ َنو کی جو اس کی اور اس کے خاندان کی حفاظت کا بنیادی پتھر ہے اور جس جس نے تحریکِ جدید میں حصّہ لیا ہے اور اگر وہ اپنی ناداری کی وجہ سے اس میں حصّہ نہیں لے سکا تو وہ اس تحریک کی کامیابی کے لئے مسلسل دعائیں کرتا ہے اس نے وصیّت کے نظام کو وسیع کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے ۔ پس اے دوستو! دُنیا کا نیا نظام دین کومٹا کر بنایا جا رہا ہے تم تحریک جدید اور وصیّت کے ذریعہ سے اس سے بہتر نظام دین کو قائم رکھتے ہوئے تیار کرو مگر جلدی کرو کہ دوڑ میں جو آگے نکل جائے وہی جیتتا ہے۔
جلد سے جلد وصیّتیں کرنے کی ضرورت
پس تم جلد سے جلد وصیّتیں کرو تا کہ جلد سے جلد نظامِ َنو کی تعمیر ہو اور وہ مبارک
دن آ جائے جب کہ چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا لہرانے لگے اس کے ساتھ ہی میں ان سب دوستوں کو مبارکباد دیتا ہوں جنہیں وصیّت کرنے کی توفیق حاصل ہوئی اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی جو ابھی تک اس نظام میںشامل نہیںہوئے توفیق دے کہ وہ بھی اس میں حصّہ لے کر دینی ودُنیوی برکات سے مالامال ہو سکیں اوردنیا اس نظام سے ایسے رنگ میں فائدہ اُٹھائے کہ آخر اسے یہ تسلیم کرنا پڑے کہ قادیان کی وہ بستی جسے کو ردِہ کہا جاتا تھا، جسے جہالت کی بستی کہا جاتا تھا اس میںسے وہ نور نکلا جس نے ساری دنیاکی تاریکیوں کو دور کر دیا جس نے ساری دنیا کی جہالت کو دُور کر دیا، جس نے ساری دنیا کے دُکھوں اور دَردوں کو دُور کر دیا اور جس نے ہر امیر اور غریب کو، ہر چھوٹے اور بڑے کو محبت اور پیار او راُلفتِ باہمی سے رہنے کی توفیق عطا فرما دی۔
(مطبوعہ مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
۱؎
گبّھا: ایک قسم کا روئی دار اور ملائم بچھونا
۲؎
کارل مارکس: جرمن مفکر اور کمیونزم کا بانی۔ ۱۸۱۸ء کو پیدا ہؤا۔ ۱۸۸۳ء کو وفات پائی۔ پ ٹریوز (TREVES) یہودی قانون دان کا بیٹا تھا۔ بون اور برلن میں تعلیم حاصل کی۔ ۱۸۴۴ء میں اس نے اینجلس کے ساتھ طویل اشتراک کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے ساتھ مل کر اس نے مارکسی فلسفہ کو ۱۸۴۴ء میں ایک مشترکہ کتاب بنام مقدس خاندان (The Holy Family) لکھ کر ترقی دی۔ پھر کمیونسٹ منشور مرتب کیا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ ۱۳۷۷ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور)
۳؎
سائیس: ملازم جو گھوڑے کی خدمت کے لئے رکھا جائے۔
۴؎
لینن ولیڈمر، الیچ:Lenin-Vladimir Ilyich (۲۲؍اپریل ۱۸۷۰ء تا۲۱؍ جنوری ۱۹۲۴ء) ۔ روسی سیاستدان۔ ۱۸۸۷ء میں ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کازان یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے داخلہ لیا لیکن جلد ہی طلباء کی انقلابی تحریک میں سرگرمی سے حصہ لینے کی بناء پر گرفتار کر لیا گیا۔ ۱۸۸۸ء میں رہائی ملی۔ ۱۸۹۷ء میںاسے جلاوطن کیا گیا۔ جلاوطنی کے دَوران ’’روس میں سرمایہ داری کی نشوونما‘‘ کتاب مکمل کی۔ ۱۹۱۴ء میں سوئٹزرلینڈ چلا گیا۔ ۱۹۱۷ء میں روس میں مطلق العنان حکومت کو شکست ہوئی اور ۷؍نومبر۱۹۱۷ء کو لینن کی صدارت میں روسی حکومت کے قیام کا اعلان ہؤا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲۔ صفحہ۱۳۶۲،۱۳۶۳ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور)
۵؎
لُوڈن ڈروف ایرش Ludendroff Erich (۱۸۶۵ء ۔ ۱۹۳۷ء)۔ جرمن جرنیل۔ پہلی عالَمی جنگ میں ِہنڈن برگ (Hindenburg) کے ماتحت کماندارِ اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے اُن فتوحات کا بڑی حد تک ذمہ دار تھا جو اس کے بالادست سے منسوب ہوئیں ۔ میونخ میں ہٹلر کے بلوہ بیئرہال (۱۹۲۳ء) میں اپنی دوسری بیوی کے اشتراک سے اس نے آریائی مَسلک کی بنیاد رکھی۔ (اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۳۳۴ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور)
۶؎
سٹالن :روسی کمیونسٹ آمر۔ اس کا اصل نام زوگشوبلی تھا۔ انقلابی تحریک میں شامل ہونے کے بعد اِس نے سٹالن (مردِآہن) کا لقب اختیار کیا۔ پادری بننے کے لئے تعلیم حاصل کی مگر مارکسی ہو گیااِس لئے درس گاہ سے خارج کیا گیا۔ ۱۹۴۵ء میں مالوٹوف کو معزول کر کے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی۔ روس پر ہٹلر کے حملہ کے بعد اس نے فوجی قیادت بھی سنبھال لی۔ (اردو جامع انسائیکلوپیڈیا، جلد۱ صفحہ ۷۳۹، مطبوعہ ۱۹۸۷ء لاہور)
۷؎
مولوٹوف میخانووچ: Molotov Mikhailovich (۱۸۹۰ء ۔۱۹۸۶ء) روسی سیاستدان۔ ۱۹۰۶ء میں بالشویک پارٹی میں شمولیت کی۔ ۱۹۳۰ء تا ۱۹۴۱ء روسی پارلیمنٹ کے رُکن رہے ۔۱۹۴۶ء تا ۱۹۴۹ء روسی وزیرخارجہ ، ۱۹۵۳ء تا۱۹۵۷ء روس کے وزیر اعظم رہے، ۱۹۵۶ء تا۱۹۵۷ء کچھ مدت کے لئے وزیرِ مملکت بھی رہے۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۶۴۶ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور)
۸؎
الانعام:۱۲
۹؎
استثناء باب ۲۳ آیت ۱۹ ،احبار باب ۲۵ آیت ۳۵ تا ۳۷۔
۱۰؎، ۱۱؎ استثناء باب ۱۵ آیت ۱۲
۱۲؎
استثناء باب ۲۰ آیت ۱۰ تا ۱۷ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی صفحہ۲۵۷ مطبوعہ، ۱۸۷۰ مرزاپور۔
۱۳؎
گلیتوںباب ۳ آیت ۱۰ تا۱۳
۱۴؎
۱۵؎
۱۶؎
۱۷؎
۱۸؎
الانفال:۶۸ ۱۹؎ الحج: ۴۰ تا۴۲ ۲۰؎ محمد:۵
۲۱؎
مسلم کتاب الایمان باب صحبۃ الممالیک
۲۳؎
النور:۳۳ ۲۴؎ النور: ۳۴
۲۵؎
محوری: دوسری ِجنگ عظیم میں نازی جرمنی اور فسطائی۔ اٹلی کے اتحاد کا نام (Axis Powers)
۲۶؎
البقرۃ:۳۰ ۲۷؎ الحجر:۸۹
۲۸؎
الحجرٰ ت:۱۰
۲۹؎
احمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحہ ۲۳۱ مطبوعہ ۱۹۷۷ء
۳۰؎
احمدیت یعنی حقیقی اسلام ۲۳۲،۲۳۳ مطبوعہ ۱۹۷۷ء
۳۱؎
البقرۃ:۴
۳۲؎
ہٹلر: Hitler Adolf (۱۸۸۹ء ۔۱۹۴۵ء)جرمنی کا آمر مطلق۔ نازی پارٹی کا بانی، پہلی عالمی جنگ کے بعد چند شورش پسندوں سے مل کر میونخ میں نازی مزدور پارٹی کی بنیاد رکھی۔ ۱۹۳۳ء میںاسے آمریت کے اختیارات سونپ دئیے گئے۔ ہٹلر جرمنی کے تمام شعبوں کا مختار بن گیا۔نازی پارٹی کے مخالفین کو ُکچل دیا گیا۔ اِس کی پالیسیاں بالآخر دوسری عالَمی جنگ پر منتج ہوئیں۔ ۱۹۴۱ء میںروس کے محاذ پر ہٹلر نے جنگ کی خود کمان کی۔
(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ۱۸۴۶ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور)
۳۳؎
گوئرنگ:Goering (۱۸۹۳ء ۔۱۹۴۶ء) جرمنی کا نازی لیڈر،پہلی عالَمی جنگ میں فضائی فوج کا ہیرو، شروع میں ہی نازیوں کے ساتھ مل گیا۔ ۱۹۳۳ء میں جرمنی کا وزیر محکمہ پرواز اور پروشیا (Prussia) کا وزیر اعظم۔ خفیہ پولیس کی بنیاد اِسی نے رکھی جس کا ۱۹۳۶ء تک سربراہ رہا۔ جرمنی کا معاشی نظام آمرانہ اختیارات سے چلایا۔ ہٹلر نے اسے اپنا جانشین نامزد کیا۔دوسری عالَمی جنگ میں ہمہ گیر فضائی جنگ کا ذمہ دار تھا۔ ۱۹۴۵ء میں امریکی فوج کے آگے ہتھیار ڈالے۔ جنگی جرائم میں سب سے بڑا ملزم ثابت ہونے پر سزائے موت پائی مگر پھانسی سے قبل خودکشی کر لی۔
(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد۲ صفحہ۱۲۹۴ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور)
۳۴؎
بونا پارٹ: نپولین اول کا خاندانی نام ۔نپولین کے خاندان کے متعدد معروف افراد کے ناموں کے ساتھ بوناپارٹ کا لفظ لکھا ہے گویا یہ نپولین کے خاندان کا ٹائٹل ہے ۔(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیاجلد ۱ صفحہ۲۷۲ مطبوعہ ۱۹۸۷ء لاہور)
۳۵؎
البقرۃ:۱۹۶
۳۶؎
مسولینی بینی ٹو: (Mussolni-Benito)(۱۸۸۳ء ۔۱۹۴۵ء) اطالوی آمر۔ یہ ایک لوہار کا بیٹا تھا۔ ابتدائی دنوں میںاُستاد اور صحافی کا کام کیا۔ سوشلسٹ کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ پہلی ِجنگ عظیم کے دَوران اطالیہ کی جنگ میں مداخلت کی۔وکالت کی پاداش میں۱۹۱۴ء میں سوشلسٹ تحریک سے نکال دیا گیا۔ ۱۹۱۹ء میں اپنی جماعت بنائی۔ اکتوبر ۱۹۲۲ء میں شاہِ اٹلی اور فوج نے اسے وزیر اعظم کے عُہدے پر نامزد کیا۔ ۱۹۲۵ء میں اس نے آمرانہ اختیارات سنبھال لئے۔ ۱۹۲۶ء میں تمام مخالف جماعتوں کو خلافِ قانون قرار دے دیا۔ ۱۹۳۵ء میں ایتھوپیا پر قبضہ کیا۔ ۱۹۳۹ء میں البانیہ پر قبضہ کیا۔ اس حکمت عملی کے باعث وہ نازیوں کے بڑا قریب ہو گیا۔ جون ۱۹۴۰ء میں ِجنگ عظیم دوم میں شامل ہوا۔ اتحادیوں نے سسلی پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا جس کے نتیجہ میں اِس کی ساکھ ختم ہو گئی۔ جولائی ۱۹۴۳ء میں فسطائیوں کی گرینڈ کونسل نے اِسے استعفیٰ پر مجبور کیا پھر گرفتار کر لیاگیا۔ ۱۵ ستمبر ۱۹۴۳ء کو جرمن ہوائی جہاز اسے رہا کر ا کر جرمنی لے گئے۔ لیکن پھر اس نے شمالی اٹلی میں جمہوریہ فسطائیہ کے نام سے متوازی حکومت بنالی۔ اپریل ۱۹۴۵ء میں اسے اپنی داشتہ کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ دونوں کو گولی مار دی گئی۔ اس کی لاش میلان لے جائی گئی جہاں اسے سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ۱۵۶۵ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور)
۳۷؎ الوصیت صفحہ ۲۱ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۱۹۔
۳۸؎


۳۹؎
مسٹر چرچل: Churchill،Sir Winston-Leonard-Spencer (۳۰ نومبر ۱۸۷۴ء ۔ ۲۴ جنوری ۱۹۶۵ء) برطانوی سیاستدان۔ سپاہی، مصنف۔ ہندوستان، سوڈان ،جنوبی افریقہ کے معرکوں میں شریک رہا۔ ۱۹۰۰ء میں پارلیمنٹ کا رُکن بنا۔ ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۵ء تک وزیر اعظم رہا ۔ ۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۵ء دوبارہ وزیراعظم رہا۔ متعدد کتابیں لکھیں ۔ ۱۹۵۳ء میں ادبی نوبل پرائز حاصل کیا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۱ صفحہ۵۱۴ مطبوعہ ۱۹۸۷ء لاہور)
روزویلٹ: Theodorer Roosevelt (۱۸۵۸ء۔۱۹۱۹ء) نیویارک کا گورنر ،۱۹۰۱ء
میں امریکہ کا نائب صدر ، ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۹ء تک صدر میکنلی کی موت پر امریکہ کا صدر بنا۔ تاریخ ،شکار، جنگلی جانوروں اور سیاسیات کے متعلق کتب لکھیں۔۱۹۰۶ء میں امن کا نوبلپرائز حاصل کیا۔(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۶۷۹ مطبوعہ ۱۹۸۷ء لاہور)
۴۰؎
’’احمدیت‘‘: اِس سے مراد حضرت مصلح موعود کی کتاب۔ ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ ہے۔ حضرت مصلح موعود نے یہ کتاب ویمبلے کانفرنس کے لئے تحریر فرمائی۔ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے حضرت مصلح موعودکی موجودگی میں اس کتاب کاخلاصہ کانفرنس میں پیش کیا۔





سیرِ روحانی (۳)





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیرِ روحانی (۳)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸ دسمبر۱۹۴۱ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان)

تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
(۱)۔پہلے تو میں عید کے متعلق دوستوں کو یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ جو دوست َکل ٹھہریںگے اور ٹھہر سکیں گے اُن کو معلوم ہو کہ َکل اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی نو (۹)بجے اِس جگہ عید کی نماز ہوگی۔ عید گاہ تو دوسری جگہ ہے مگر مجھے کہا گیا ہے کہ آج کی تقریر کے بعد لاؤڈ سپیکر کا انتظام وہاں فوراً کیا جانا مشکل ہے اور چونکہ دوست زیادہ ہونگے اور خطبہ کی آواز بغیر لاؤڈ سپیکر کے اُن تک نہیں پہنچ سکے گی اس لئے یہی تجویز کی گئی ہے کہ اِسی مقام پر نمازِ عید ادا ہو اور چونکہ یہ عید معاً جلسہ کے بعد آگئی ہے اور وہ دوست جو ملاقاتیں کرکے واپس جانا چاہتے ہیں اُن کی سہولت بھی مدنظر ہے اس لئے میں نے تجویز کی ہے کہ َکل عین نو بجے نماز عید شروع ہو جائے اور پھر مختصر سے خطبہ کے ساتھ عید کو ختم کر دیا جائے تاکہ جانے والے اصحاب جنہوں نے ابھی تک ملاقات نہیں کی مل لیں اور گاڑی پر پہنچنے والے گاڑی پر پہنچ سکیں۔
عام طور پر ہم عید میں آنے والوں کی ُسستی کو دیکھ کر مقررہ وقت سے گھنٹہ سَوا گھنٹہ بڑھا دیا کرتے ہیں تاکہ جو ُسست ہیں وہ بھی آجائیں مگر َکل غالباً مہمانوں کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا نہیں ہوگا اس لئے دوست نو بجے کے معنے نو بجے ہی سمجھیں۔
(۲)۔اِس کے بعد پیشتر اِس کے کہ میں اپنا مضمون شروع کروں َکل کے لیکچر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مجھے بعض دوستوں کے خطوط سے ایسا معلوم ہؤا ہے کہ میری َکل کی تقریر کی بعض باتوں سے کچھ غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے چنانچہ بعض دوستوں کی مجھے ِچٹھیاں آئی ہیں کہ ڈلہوزی کے واقعہ کے متعلق جو اعلان کیا گیا تھا اس سلسلہ میں ہم اپنا نام پیش کرتے ہیں۔ گویا میری َکل کی تقریر سے بعض دوستوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ کوئی کارروائی میرے مدنظر ہے حالانکہ میں نے وضاحت سے کہہ دیا تھا کہ یہ معاملہ ابھی میرے زیرِ تحقیق ہے اور بالکل ممکن ہے کہ تحقیق کے بعد ہمیں اپنی رائے کو بدلنا پڑے۔ گو ہمیں ُشبہات ہیں اور قوی ُشبہات ہیں مگر انسان صحیح حالات کے معلوم ہونے پر ہر وقت اپنی رائے کو بدل سکتا ہے پس ممکن ہے تحقیق کے بعد ہمیں اپنی رائے بدلنی پڑے۔ یا یہ معاملہ محبت اور پیار سے ُسلجھ جائے اور پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ماتحت افسروں کی رپورٹیں تو درست نہ ہوں مگرحکو ِمت پنجاب شریفانہ رویہ اختیار کرے۔ پھر کسی قوم کے خلاف رائے رکھنے کی محض اس لئے اجازت نہیں ہو سکتی کہ اس قوم کے بعض افراد مخالف ہیں۔ اگر بِالفرض حکو ِمت پنجاب ہمارے خلاف فیصلہ دے دے گی تو حکو ِمت ہند کے پاس جانے کا دروازہ ہمارے لئے ُکھلا ہے ۔ پس پیشتر اس کے کہ ہم کوئی بُری رائے قائم کریں ہمارا فرض ہوگا کہ ہم حکو ِمت ہند کو توجہ دلائیں اور اگر حکو ِمت ہند بھی انصاف کی طرف توجہ نہ کرے تو ہمارا فرض ہوگا کہ انگلستان کی حکومت کے سامنے ہم اِس معاملہ کو رکھیں۔ پس اگر میرے الفاظ سے کسی دوست کو یہ غلط فہمی ہوئی ہو کہ قریب ترین عرصہ میں مَیں اِس کے متعلق کوئی قدم اُٹھانے والا ہوں تو اُسے معلوم ہونا چاہئے کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور اگر میرے کسی لفظ سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہو تو وہ لفظ غلط طور پر میری زبان سے نکلا ہوگا۔ میں نے جیسا کہ خطبہ میں بھی بیان کیا تھا ہم پوری طرح حکومت کو اصلاح کا موقع دیںگے کیونکہ اسلام کا یہ طریق نہیں کہ بغیر کسی پر ُ ّحجت تمام کرنے کے الزام عائد کر دیا جائے۔ درمیانی غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی اصلاح کا انسان کو ہر وقت موقع ہوتا ہے اور بالکل ممکن ہے کہ اس وقت ہمیں حکومت کے بعض افسروں کی جو غلطیاں نظر آتی ہیں ان کی وہ اصلاح کر لیں اس لئے ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم ابھی سے ان کے متعلق کوئی بُری رائے قائم کر لیں اور فیصلہ کر لیں کہ وہ ہم سے انصاف نہیں کریں گے اگر ہم ایسا خیال کریں تو یہ ہماری بے انصافی ہوگی۔ پس دوستوں کو صبر کے ساتھ اُس وقت کا انتظار کرنا چاہئے۔ جب میں یہ اعلان کروںکہ ہم نے حکومت کے ہر حصہ کو اصلاح کا پورا موقع دے دیا ہے مگر پھر بھی اس نے اپنی اصلاح نہیں کی اس کے بعد ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ جو تجویز اِس ظلم کے ازالہ کے لئے میں کروں اس میں حصہ لینے کے کون کون دوست اہل ہیں۔ ممکن ہے وہ کوئی ایسی تجویز ہو جس میں سرکاری ملازمین حصہ نہ لے سکتے ہوں۔ اسی طرح اور کئی تجاویز ہو سکتی ہیں جو میرے ذہن میں تو ہیں مگر میں اُن کو ظاہر نہیں کرتا اور ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ پس ابھی دوستوں کو نام پیش کرنے کی ضرورت نہیںنام پیش کرنے کا وہی وقت ہوگا جب میں یہ کہوں گا کہ ہم نے گورنمنٹ پر ُ ّحجت پوری کر دی ہے۔ مگر ابھی تک تو پنجاب گورنمنٹ پر بھی ُ ّحجت پوری نہیں ہوئی ۔ُکجا یہ کہ حکو ِمت ہند یا حکو ِمت انگلستان پر ُ ّحجت ہوئی ہو اسی لئے میں نے کہا تھا کہ اصل کام وہ ہوتا ہے جو صبر اور شدائد کو برداشت کر نے کے بعد اپنے وقت پر کیا جائے۔ وہ کام حقیقی کام نہیں کہلا سکتا جو محض جوش کے ماتحت کیا جائے اور جس کے متعلق انسان خیال کرے کہ اگر مَیں نے اِس وقت یہ کام نہ کیا تو میرا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں دو سال صبر کروںگا تو میری غیرت نکل جائے گی وہ کبھی باغیرت مؤمن نہیں کہلا سکتا۔ باغیرت مؤمن وہی ہے جسے بیس سال بھی اگر صبر کرنا پڑے تو صبر کرتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو صحابہ کرامؓ نے تیرہ سال مکہ میں ُکفارکے مظالم پر صبر کیا اور ایک دو سال مدینہ میں بھی دشمنوں کے مقابلہ میں صبر سے کام لیتے رہے۔ گویا چودہ پندرہ سال مسلسل انہوں نے صبر کیا اور اُن کی غیرتیں دبی رہیں۔ پھر جب خدا نے اُن سے کہا کہ اب تمہاری غیرت کا امتحان لیا جائے گا تو وہ آگے آگئے لیکن اِس واقعہ پر تو ابھی تین چار مہینے ہی گزرے ہیں حالانکہ اسلام نے ہمیں چودہ پندرہ سال تک اپنی غیرت کو دبانے کا سبق سکھایا ہؤا ہے۔ پس دوست اُس وقت تک صبر کریں جب تک گورنمنٹ پر ُ ّحجت تمام نہ ہو جائے اور جب تک میں اس کے متعلق کوئی اعلان نہ کروں اور یہ اعلان نہ کروں کہ کس قسم کے لوگوں کو ُبلاتا ہوں۔ ممکن ہے میں بغیر کسی شرط کے ہی دوستوں کو بُلا لوں۔
(۳)۔ایک اور بات جس کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ َکل مَیں نے حکومت انگریزی کی امدادکے متعلق جماعت کو تحریک کی تھی۔ اسی طرح میں نے موجودہ جنگ میں انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعا کرنے کی تحریک کی تھی اور میں نے یہ بھی کہا تھا کہ حکومت مُلک میں امن کے قیام کے متعلق جو تجاویز عمل میں لائے اُن تجاویز پر عمل کرکے ہماری جماعت کو قیامِ امن کی کوششوں میں حکومت کا ساتھ دینا چاہئے مگر ایک بات مجھ سے نظر انداز ہو گئی اور وہ یہ کہ انگریزی حکومت کے علاوہ دو اَور حکومتیں بھی ہم سے ایک حد تک حُسنِ سلوک کرتی ہیں اور انہوں نے اپنے اپنے ملک میں ہمیں تبلیغ کی اجازت دی ہوئی ہے۔ انگریزوں کا بھی ہم سے یہی حُسنِ سلوک ہے ورنہ وہ اور ہمیں کیا دیتے ہیں۔ آج تک ہم نے انگریزوں سے کوئی مادی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ ہم ان کا یہی احسان سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں تبلیغ کی اجازت دی ہوئی ہے۔ پس ہمارا اقرارِ احسان اسلامی تبلیغ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ مگر اخبار ’’زمیندار‘‘ ٹائپ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارا اقرارِ احسان اُن کے اِقرارِ احسان کی طرح ہوتا ہے اور جب ہم کہتے ہیں کہ ہم انگریزوں کے ممنونِ احسان ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کوئی کرم بخشی کی ہوگی حالانکہ ہم اسلام کے تابع ہیں اور اسلامی تعلیم کے ماتحت سمجھتے ہیں کہ جب کوئی باپ یا اُستاد یا مُلک کا والی اپنے فرائض کو ادا کرتا ہے تو وہ دوسروں پر احسان کرتا ہے۔ پس جب ہم انگریزوں کو ُمحسن کہتے ہیں تو اِس کے معنے صرف اِتنے ہوتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں تبلیغ کی اجازت دی ہوئی ہے اس سے زیادہ ہماری کوئی مراد نہیں ہوتی اور نہ ہم نے ان سے کسی اور حُسنِ سلوک کی کبھی تمنّا کی ہے اور نہ انہوں نے ہی کبھی ہم پر کوئی اور احسان کیا ہے۔ بہرحال جیسا کہ میں نے بتایا ہے دو اَور حکومتیں بھی ہیں جن کا اِس رنگ میں ہم پر احسان ہے اِن میں سے ایک تو امریکہ کی حکومت ہے۔ وہاں ہزارہا احمدی پائے جاتے ہیں۔ گو وہاں بعض روکیں بھی ہیں اور حکومت امریکہ نے اپنے مُلک میں داخلہ پر بعض پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں مگر پھر بھی وہاں ہمارا ّمبلغ موجود ہے اور ہزارہا احمدی مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ دوسرا مُلک ہالینڈہے جہاں سماٹرا اور جاوا میں ہزاروں احمدی ہیں اور خداتعالیٰ کے فضل سے مشرقی ممالک میں ہندوستان کے بعد ہماری سب سے بڑی جماعت جاوا اور سماٹرا میں ہی ہے بیسیوں جماعتیں ہیں جو مختلف شہروں میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان ساری جماعتوں میں تبلیغ ہو رہی ہے مگر گورنمنٹ کی طرف سے ہماری تبلیغ کے راستہ میں کسی قسم کی رُکاوٹ نہیں ڈالی جاتی۔ پس جیسے کہ انگریزوں کا ہم پر احسان ہے کہ انہوں نے ہمیں تبلیغ میں آزادی دی ہوئی ہے اسی طرح یونائیٹڈسٹیٹس امریکہ اور حکو ِمت ہالینڈ کا بھی ہم پر احسان ہے اور یہ دونوں حکومتیں بھی آجکل جنگ میں شامل ہیں۔ ہم ہندوستان کے رہنے والے اِن کی کسی اور طرح تو مدد نہیں کر سکتے ہاں ہم دعا سے مدد ضرور کر سکتے ہیں۔ پس ہماری جماعت کے تمام دوستوں کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ان قوموں کو ظلموں اور جنگ کی تلخیوں سے محفوظ رکھے۔ پھر جس وقت میرا یہ خطبہ باہر پہنچے گا ہماری جماعت کے وہ دوست جو جاوا اور سماٹرا اور بورنیو میں رہتے ہیں اسی طرح جو دوست یونائیٹڈسٹیٹس امریکہ کے مختلف شہروں میں رہتے ہیں اُن کے کانوں تک بھی یہ آواز پہنچ جائے گی کہ جس حکومت نے انہیں تبلیغِ اسلام کی اجازت دے رکھی ہے اِس مصیبت کے وقت ان کا فرض ہے کہ اس حکومت کے ساتھ ہر طرح تعاون کریں۔ جنگ کے کاموں میں اسے مدد دیں اور اس کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتے رہیں تاکہ دنیا میںہمیشہ ایسے مرکز قائم رہیں جو صداقت کے پھیلنے میں روک نہ ہوں بلکہ اِس کی اشاعت میں زیادہ سے زیادہ مدد دینے والے ہوں۔
پس اِن ملکوں کے جو باشندے ہیں اُن کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ہر قسم کی قربانیاں کرکے اپنی اپنی حکومتوں کے ساتھ تعاون کریں اور ہندوستان کے رہنے والے احمدیوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اُن بھائیوں کا خیال کرکے جو جاوا اور سماٹرا اور بورنیو میں رہتے ہیں اور اپنے اُن بھائیوں کا خیال کرکے جو یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ اب اُن پر حملہ ہو رہا ہے اور جاوا اور سماٹرا اور امریکہ میں تو ہمارے ّمبلغ بھی موجود ہیں خاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو، انہیں مشکلات سے بچائے اور اسلام کی تبلیغ کا دروازہ ہمارے لئے ہمیشہ ُکھلا رہے۔ (الفضل ۳جنوری ۱۹۴۲ء)
اس کے بعد سیرِ روحانی کے مضمون کوجاری رکھتے ہوئے فرمایا:-
(۶) جسمانی مقبرے اور روحانی مقبرے
چھٹی بات جومَیں نے مذکورہ بالا سفر میںدیکھی تھی شاندار مقبرے تھے جوبادشاہوں کے بھی تھے اور وزیروں کے بھی تھے، امیروں کے بھی تھے ا ور فقیروں کے بھی تھے، اولیاء اللہ کے بھی تھے اور غیر اولیاء اللہ کے بھی تھے، حتّٰی کے ُ ّکتوں کے بھی مقبرے تھے مگر ان مقبروں میں کوئی پہلو فن کے لحاظ سے صحیح معلوم نہیںہوتا تھا۔یوں عمارتیں بڑی شاندار تھیںاور وقتی طور پر اُن کو دیکھ کر دل پر بڑا اثر ہوتا تھا چنانچہ آگرہ کا تاج محل بڑا پسندیدہ نظر آتا ہے، ہمایوں کا مقبرہ بڑا دل پسند ہے، اسی طرح منصور اور عماد الدولہ کے مقبرے وہیں ہیں اور جہانگیر کامقبرہ شاہدرہ لاہور میں، سب اچھے معلوم ہوتے ہیں مگر جب ان مقابر کو ہم مجموعی حیثیت سے دیکھتے ہیںتو ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں نے ان کی تعمیر میںفن کو مدّنظر نہیں رکھا۔
جسمانی مقابر میںتاریخی حقائق اور باہمی توازن کا فُقدان
چنانچہ دیکھ لو مقبرہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ
اُس شخص کی زندگی کا ایک نشان ہو جس کا وہ مقبرہ ہے اور اُس کی تاریخ کو وہ دنیا میں محفوظ رکھے، مگر ہمیںاِن بادشاہوں، وزیروں، امیروں اور فقیروں وغیرہ کی زندگی کانشان ان مقبروں میں کچھ بھی نظر نہیں آتا اور نہ ان مقبروں میںکوئی باہمی توازن دکھائی دیتا ہے۔مثلاً بعض ادنیٰ درجہ کے لوگ نہایت اعلیٰ مقبروں میں تھے اور بعض اعلیٰ درجے کے لوگ نہایت ادنیٰ مقبروں میںتھے۔ اسی طرح جو دُنیوی لوگ ہیں اور جو روحانی لحاظ سے ادنیٰ سمجھے جاتے ہیں ، مجھے نظرآیا کہ ان دُنیوی لوگوں کے مقبرے تو بڑے اعلیٰ ہیں مگر وہ روحانی لوگ جو سردار تھے بادشاہوں کے، اور سردار تھے وزیروں کے، ان کے مقبرے نہایت ادنیٰ ہیں۔ پھر مجھے حیرت ہوئی کہ نہ صرف ان کے مقبرے دوسروں کے مقابل میں نہایت ادنیٰ ہیں بلکہ جس صورت میںبھی ہیں وہ اس شخص کے مذہب اور عقیدہ کے خلاف ہیں جس کی غلامی اختیار کر کے انہوں نے دنیا میں عزّت حاصل کی۔ چنانچہ حضرت نظام الدین صاحب اولیاء اور بعض دوسرے بزرگوں کی قبروں پرفرش ہے اور بعض کے اِرد گِرد سنگِ مرمر کے کٹہرے ہیںاور یہ چیزیں ہماری شریعت میں جائز نہیں۔ پس مجھے حیرت ہوئی کہ اوّل تو ظاہری لحاظ سے مقبروں میں کوئی نسبت ہی قائم نہیں بعض ادنیٰ لوگوں کے اعلیٰ مقبرے ہیں اور بعض اعلیٰ کے ادنیٰ۔اور پھر روحانی لوگوں کے جومقبرے ہیں اوّل تو وہ جسمانی بادشاہوں کے مقابر سے ادنیٰ ہیں حالانکہ وہ ان بادشاہوں کے بھی سردار تھے پھر جو کچھ بھی ظاہر میں ہے وہ ان کے اپنے اصول اور دین کے خلاف ہے۔ گویا ان کے مقبرے ایک طرف اپنے غلاموں سے بھی ادنیٰ تھے اور دوسری طرف ان کے اپنے آقا کے حُکم کے خلاف تھے اور اس طرح ان میںکوئی بھی جوڑا ور مناسبت دکھائی نہیں دیتی تھی۔ پس مَیں نے اپنے دل میںکہا کہ کوئی انصاف کی تقسیم نہیں۔ ہمایوں جو مغلیہ خاندان کا ایک مشہور بادشاہ، ہندوستان کا فاتح اور اکبر کا باپ تھا اُس کے مقبرہ کا اگر شاہجہان کے مقبرہ سے مقابلہ کیا جائے تو ان دونوں میںکوئی بھی نسبت دکھائی نہیں دیتی۔ وہ شخص جس نے مغلیہ سلطنت کی بنیادوں کومضبوط کیا، جس نے ہندوستان کوفتح کیا اور جس کا بیٹا آگے اکبر جیسا ہؤا اُس کامقبرہ تو بہت ادنیٰ ہے مگر شاہجہان جو اُس کا پڑپوتا ہے اُ س کا مقبرہ بہت اعلیٰ ہے ۔پھر شاہجہان کے مقبرہ کے مقابلہ میں جہانگیر کے مقبرہ کی کوئی حیثیت نہیں اور اورنگ زیب جو ظاہری حکومت کے لحاظ سے بڑا تھا اُس کا مقبرہ ان دونوں کے مقابلہ میں کچھ نہیں۔ پھر ان کے مقابلہ میںخواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکیؔ اور خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کے مقبروں کی کوئی حیثیت نہ تھی اور ان دونوں کے مقابلہ میں خواجہ باقی باللہؒ ، خواجہ میر درد ؒ ، شاہ ولی اللہ ؒ او رمرزا مظہر جان جاناں ؒ کی قبروں کو کوئی نسبت نہ تھی بلکہ کسی نے ان کا مقبرہ بنانے کی کوشش بھی نہیں کی مگر جیسا کہ مَیں نے کہا ہے جو کچھ تھا اور جن بزرگوں کا مقبرہ بنا ہؤا تھا وہ بھی ہماری شریعت کے خلاف تھا۔
۔ ُ ّکتوں کے مقبرے
پس مجھے حیرت ہوئی کہ یہ نظارے دنیامیں نظر آتے ہیں کہ اوّل تو ظاہری لحاظ سے ادنیٰ واعلیٰ میںکوئی نسبت ہی نہیں اور اگر ہے تو وہ
دین اور دنیا کے سراسر خلاف ہے۔ پھر جب مَیں نے بعض جگہ کُتّوں کے مقبرے بھی دیکھے تو مَیںاور زیادہ حیران ہؤا کیونکہ کُتّوں کے مقبرے ہندوستان کے اکثر بزرگوں کے مقبر وں سے بھی بہت اعلیٰ تھے۔ مَیں نے سوچا کہ یہ مقبرے بیشک عبرت کا کام تو دیتے ہیں مگر انصاف اور حقیقت ان سے ظاہر نہیں ہوتی اور انسان ان شخصیتوں کا غلط اندازہ لگانے پر مجبور ہو تا ہے حالانکہ مقبرہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مرنے والے کے حقیقی مقام کی حفاظت کی جائے اور مقبرہ کے ذریعہ اس کے اعمال کے نشان کو قائم رکھا جائے، اِس سے زیادہ مقبرہ کی کوئی غرض نہیں ہوتی۔ مگر یہ غرض ان مقبروں سے ظاہر نہیںہوتی اور بجائے اِس کے کہ انصاف اور حقیقت ان سے ظاہر ہو وہ انسانی شخصیتوں کا غلط اندازہ پیش کرتے ہیں اور بجائے علم دینے کے دوسروں کو جہالت میںمبتلاء کرتے ہیں۔
مقبروں کی عمارات سے صرف چار امور کا عِلم
پس مَیں نے سمجھا کہ یہ مقبرے زیادہ سے زیادہ ان باتوں پر دلالت کر سکتے ہیں: -
اوّل: اِس وقت عمارت کا فن کیسا ہے یعنی مرنے والوں کو ان مقبروں کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا صر ف یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اُس وقت عمارتیں کیسی بنتی تھیں۔
دوم: مرنے والے یا اس کے رشتہ دار کے پاس کس قدر مال تھا۔یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بادشاہ اچھا تھا یا بُرا، عالِم تھا یا جاہل، البتہ یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کے یا ا س کے رشتہ داروں کے پاس کس قدر روپیہ تھا۔
سوم: مرنے والے یا اس کے پس ماندگان کا تعمیرِمقبرہ کے متعلق کیا عقیدہ یا رُجحان تھا یعنی ان مقبروں سے صرف اتنا معلوم ہو سکتا ہے کہ مرنیوالے یا اس کے پس ماندگان کا عقیدہ کیا تھا آیا اُن کے نزدیک اس قسم کامقبرہ بناناجائز تھا یا نہیں۔
چہارم: اِن مقبروں سے ہمیں یہ بھی پتہ لگ سکتا ہے کہ بعد میں آنے والے لوگوں کو ان کے لُوٹنے سے کس قدر دلچسپی تھی یا یوں کہو کہ ان کے لئے اس میں دلچسپی کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ اسے باقی رہنے دیا جائے ۔چنانچہ کئی مقبرے ُلوٹے ہوئے نظر آتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ سنگِ مرمر بعد میں لوگ ُلوٹ کر لے گئے اور بعض اب تک بڑے شاندار نظر آتے ہیں۔ پس چوتھی بات اِن مقبروں سے یہ معلوم ہو سکتی ہے کہ اس بادشاہ کے مرنے کے بعد کوئی تنزّل کا زمانہ آیا ہے یا نہیں۔غرض ان مقابر کو اگر دیکھا جائے تو یہی چار باتیں ان سے ظاہر ہوتی ہیں۔ پس مَیں نے افسوس کیا کہ مقبرہ کی اصل غرض تو یہ ہوتی ہے کہ مرنیوالے کی حقیقی عظمت کاپتہ چلے اور اس کانشان قائم رہے مگر ان مقبروں سے تو یہ معلوم نہیں ہوتا۔ ان سے تو شاہجہان، اکبر اور اورنگ زیب سے بڑا ، شمس الدین تغلق، شیر شاہ سوری سے بڑا، اور وزیر منصور اور عمادالدولہ تمام خلجی تغلقوں اور لودھیوں وغیرہ سے بڑے نظر آتے ہیں، اور پھر یہ سب کے سب روحانی بادشاہوں سے بڑے دکھائی دیتے ہیں۔
آثارِ قدیمہ سے مرتب کردہ مضحکہ خیز تاریخ
مَیں نے سوچا کہ اگر دنیا سے تاریخ مٹ جائے اور آثارِ قدیمہ سے تاریخ مرتب
کی جائے تو تاریخ لکھنے والے یوںلکھیںگے کہ ہندوستان کاسب سے بڑا بادشاہ شاہجہان تھا اس سے اُتر کر جہانگیر پھر اس سے اُتر کر اکبر بادشاہ تھا۔ اکبر بادشاہ سے اُتر کر عمادالدولہ ( جو محض ایک نواب تھا) پھر ہمایوں بادشاہ ہؤا ان کے بعد منصور بادشاہ ہوئے پھر شمس الدین بادشاہ بنے۔ اس کے بعد بعض کُتّے ہندوستان کے بادشاہ ہوئے، ان کے علاوہ ہندوستان کے اندربعض ادنیٰ درجہ کے اُمراء کا بھی پتہ لگتا ہے جیسے خواجہ قطب الدین صاحب اور خواجہ نظام الدین صاحب۔ پھر کچھ غلاموں اور امیر نوکروں کے بھی نشان ملتے ہیں جیسے خواجہ باقی بِاللہ صاحب، شاہ ولی اللہ صاحب، مرزا مظہر جان جاناںصاحب اور خواجہ میر درد صاحب۔ اگر کوئی شخص ایسی تاریخ لکھے اور ہندوستان کی اصل تاریخ دنیا سے مٹ جائے تو اس پر بڑے بڑے ریویو لکھے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ اس شخص نے تحقیق میں کمال کر دیا ہے اور اس میں کیا شُبہ ہے کہ مقبروں کے لحاظ سے وہ نہایت سچی تاریخ ہو گی مگر واقعات کے لحاظ سے وہ اوّل درجہ کی جھوٹی اور مُفتریات سے پُرکتاب ہو گی۔ وہ الف لیلہ کا قصہ تو کہلا سکتی ہے مگر کوئی عقلمند انسان اسے تاریخ کی کتاب نہیں کہہ سکتا، لیکن اگر مقبرے کسی کی شان اور کام کو بتانے کے لئے ہوتے ہیں اور اُن سے غرض یہ ہوتی ہے کہ مرنے والے کی حقیقی عظمت کا پتہ چلے اور اس کا نشان دنیا میںقائم رہے تو پھر ہندوستان میں سب سے زیادہ شاندار مقبرے حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی ؒ، حضرت خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکیؒ، حضرت خواجہ فریدالدین صاحب شکر گنج ؒ، حضرت شاہ محمد غوث صاحبؒ، حضرت سید علی ہجویری صاحب ؒ، حضرت خواجہ نظام الدین صاحب اولیاءؒ، حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ، حضرت خواجہ باقی بِاللہ صاحبؒ، حضرت مظہر جان جاناں صاحب، حضرت خواجہ میر درد صاحب ؒاور حضرت سید احمد صاحب بریلوی ؒکے ہوتے اور ان سے اُتر کر چھوٹے چھوٹے مقبرے ا کبر، ہمایوں، شاہجہان ، جہانگیر اور دوسرے غلاموں ، خلجیوں، تغلقوں، لودھیوں، مُغلوں اورسُوریوں کے ہوتے اور ُ ّکتوں کی ہڈیاں بجائے مقبروں میں ہونے کے مَیلے کے ڈھیروں پر پڑی ہوئی ہوتیں۔ ہم لکھنؤ تو نہیں گئے مگر مَیں نے سُنا ہے کہ لکھنؤ میں بٹیروں کے بھی مقبرے ہیں۔کسی نواب کابٹیرہ مر جاتا تو لوگ کہناشروع کر دیتے کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ اِس بٹیرے کاکیاکہنا ہے وہ تو ہر وقت ذکرِ الٰہی میںمشغول رہتا تھا اور نواب صاحب بھی کہتے کہ تم سچ کہتے ہو ولی اللہ جو تھا، آخر اُس کا مقبرہ بنا دیا جاتا ۔
اُن لوگوں کا تصوّر جن کی قبریں اُکھیڑ دی گئیں
یا جنہیں قبریں بھی نصیب نہیں ہوئیں!
پھر مَیںنے سوچا یہ تو مقبرہ والوںسے بے انصافی ہو رہی تھی وہ ہزاروں ہزار لوگ جن کے مقبرے بنے ہی نہیں اُن کا حال ہمیں کس طرح معلوم ہو سکتا ہے، آخر
اُن کا کوئی نشان بھی تو دنیا میں ہوناچاہئے مگر ہمیں دنیا میں ان کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ پھر جب مَیں نے دِلّی میںپُرانی آبادیوں کو کُھدتے ہوئے دیکھا اور قبرستانوں میں عمارتوں کو بنتے دیکھا تو مَیں نے خیا ل کیا کہ افسوس ان جگہوں کے مکینوں کے لئے مقبرے تو الگ رہے قبریں تک بھی نہیں رہیں۔ ان کی ہڈیاں نکال کر پھینک دی گئی ہیں اور ان کی قبریں کھو د کر وہاں سیمنٹ کی بلند اور عالیشان عمارتیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ پس مَیں نے کہا ایک تو وہ ہیں جن کے مقبرے بنے مگر غلط اصول کے مطابق۔ اور ایک یہ ہیں کہ ان کی صرف قبریں بنیں مگر لوگوں نے ان کی قبروں کا رہنا بھی پسند نہ کیا اور انہیںکھود کر ہڈیوں کو پرے پھینک دیا۔ پھر مَیں نے خیال کیاکہ گو ان کی قبریں آج اُکھیڑ دی گئی ہیں مگر چلو دو چار سَو سال تو انہیں قبروں میں سونے کاموقع مل گیا، لیکن وہ لاکھوں اور کروڑوں ہندو جو مذہبی تعلیم کے ماتحت جلا دئیے جاتے ہیں اُن کو تو یہ قبریں بھی نصیب نہ ہوئیں۔پھر مجھے پارسیوں کا خیال آیا کہ وہ لاش پر دہی لگا کر چِیلوں کے آگے رکھ دیتے ہیں اور وہ نوچ نوچ کر اُسے کھا جاتی ہیںیا کُتّوں کے آگے اُسے ڈال دیتے ہیں اور وہ کھا جاتے ہیں۔ مَیں نے اپنے دل میں کہا کہ افسوس! انہیں تو قبر بھی نصیب نہ ہوئی۔ پھر مجھے اُن لوگوں کا خیال آیا جو جل کر مر جاتے ہیں اور جن کی راکھ عمارت کی مٹی سے مل جاتی ہے۔ مجھے اُن لوگوں کا خیال آیا جو ڈوب کرمر جاتے ہیں اور جنہیں مچھلیاں کھا جاتی ہیں۔ چنانچہ کئی جہاز ڈوب جاتے ہیں اور وہ بڑے بڑے امیر آدمی جنہیں مخمل کے فرش پر بھی نیند نہیں آیا کرتی، مچھلیوں کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں ۔ پھر مجھے اُن لوگوںکا خیال آیا جو کھڈّوں میں گِر جاتے اور پرندے یا گیدڑ وغیرہ کھا جاتے ہیں۔
دنیا میں عجیب اندھیر
پھر میری توجہ ان لوگوںکی طرف پھری جن کو جنگلوں میںشیر اور بھیڑئیے کھا جاتے ہیں اور مَیں نے کہا کہ دنیا میں عجیب اندھیر ہے کہ:-
اوّل: مقبرے بے انصافی سے بنے۔
دوم: قبروں کی آرام گاہوں کو عمارتوں میں تبدیل کر دیا گیا۔
سوم: بعض کو خود اُن کی قوم نے جلا کر راکھ کر دیایا پرندوں کو ِکھلا دیا اور بعض کو حوادث نے خاک میں، پانی میں ، درندوں کے پیٹوں میںپہنچا دیا۔ پس مَیں نے کہا اگر مقبرے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کے ذریعہ مرنے والے کانشان قائم رکھاجائے تو یہ غرض سب کو حاصل ہونی چاہئے تھی نہ یہ کہ جس کے رشتہ دار امیر ہوتے وہ تو مقبرہ بنا لیتے او رباقی لوگوں کے مقبرے نہ بنتے۔ پھر جن کے مقبرے بنے تھے یا جوقبروں میںمدفون ہوئے تھے اُن کے مقبر ے اور اُن کی قبریں محفوظ رہنی چاہئے تھیں مگر نہ تو سب کے مقبرے بنے اور نہ سب کی قبریںمحفوظ رہیں۔ پس مَیں نے کہا یہ تجویز تو بڑی اچھی ہے او ر مقبرہ بنانے کا خیال جس شخص کے دل میں پہلی مرتبہ آیا اُسے واقعہ میں نہایت اچھا خیال سُو جھا مگر انسانی عقل دنیا کے مقبروں کو دیکھ کرتسلی نہیں پاتی اس لئے کیا کوئی ایسا مقبرہ بھی ہے جس سے وہ غرض پوری ہوتی ہو جو مقبرہ کاموجب بنی ہے اور جس میں کوئی بے انصافی نہ ہوتی ہو، بلکہ ہر ایک کا نشان اس کے حق کے مطابق قائم رکھا جاتا ہو۔
ایک اور مقبرہ
مَیں نے دیکھا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اور مقبرہ بھی ہے اور اس میں وہ تمام باتیںپائی جاتی ہیں جو مقبرہ میںہونی چاہئیں، چنانچہ
اس میں لکھاتھا خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ ۱؎
فرماتا ہے ہم نے انسان کو پیدا کیا فَقَدَّرَہٗ پھر ہم نے انسان کے اندر اس کی پیدائش کے وقت ہی جس حد تک اس کا نشوونما ممکن تھا اس کے مطابق تمام طاقتیں اور قوتیں پیدا کر دیں، اُسے دماغ دیا، دماغ کے اندر سیلز (CELLS) بنائے ا ور ہر سیل(CELL) کے اندر بات کومحفوظ رکھنے کی طاقت پیدا کی۔ اِسی طرح ہم نے اسے ذہانت دی اور اس ذہانت کے لئے اس کے دماغ کے کچھ حصے مخصوص کئے۔ کچھ فہم کے لئے مخصوص کئے، کچھ جرأت اور دلیری کے لئے مخصوص کئے، پھر ہاتھوں اورپیروں کو طاقت دی تا کہ وہ اپنا اپنا کام کر سکیں۔معدہ کو طاقت دی کہ وہ غذا ہضم کر کے تمام اعضاء کو قوت پہنچائے۔ ہڈیوں کو طاقت دی، قوٰی کو طاقت دی غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کے قوٰی کا اندازہ مقرر کیا اور ہر عضو کو اُس کے مناسبِ حال طاقت دی تا کہ وہ خاص اندازہ کے مطابق ترقی کر سکے۔ عام قاعدہ یہ ہے کہ جو چیز بنائی جائے وہ اسی معیّن حلقہ میں کام کرتی ہے جس معیّن حلقہ میں کام کرنے کے لئے اُسے بنایا جاتا ہے مگر فرمایا ہم نے انسان کو ایسا نہیں بنایاجیسے پتھروغیرہ ہیں کہ وہ اپنی شکل نہ بدل سکے بلکہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی قابلیت اس میں رکھی ہے ۔ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ جب ہم نے اس میں طاقتیں اور قوتیں رکھیں تو ہم نے محسوس کیا کہ اب ان طاقتوں اور قوتوں سے کام بھی لیا جانا چاہئے اور ایسا رستہ ہونا چاہئے جس پر چل کر انسان ان طاقتوں سے کام لے کر چل سکے۔آخر جب خدا نے ہر انسان میںسوچنے کی طاقت رکھی ہے تو لازماً ایسی باتیں ہونی چاہئیں جن پر انسان غور کرے اور اس طرح اپنی اس طاقت سے فائدہ اُٹھائے یا جب خدا نے ہر انسان کے اندر یہ طاقت پیدا کی ہے کہ وہ خدا کے قُرب میں بڑھ سکتا ہے تو کوئی ایسا رستہ بھی ہونا چاہئے جس پر چل کر اُسے قُرب حاصل ہو سکے۔ پھر جب خدا نے انسان کو اندازہ لگانے کی طاقت دے دی ہے تو اِس کے نتیجہ میں لازماً وہ بعض کو اچھا قرار دیگا اور بعض کو بُرا۔ چنانچہ دیکھ لو کچھ کھانے اچھے ہوتے ہیں کچھ بُرے ہوتے ہیں۔ پھرکام بھی کچھ اچھے ہوتے ہیںاور کچھ بُرے ہوتے ہیں ۔ پھر آپس کے مقابلوں میںسے بھی کچھ مقابلے مشکل ہوتے ہیں اور کچھ آسان ہوتے ہیںاور انسا ن اپنی ذہانت اور ان طاقتوں سے کام لے کر جو خدا نے ہر انسان کے اندر ودیعت کی ہوئی ہیں فیصلہ کرتا ہے کہ کونسی بات اچھی ہے اور کونسی بُری ۔
اسلام کی مطابقِ فطرت تعلیم
پس چونکہ ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے کئی قسم کی طاقتیں پیدا کی تھیں اس لئے کوئی راستہ بھی ہونا چاہئے تھا چنانچہ یہ راستہ
اللہ تعالیٰ نے خود ہی تجویز کر دیا مگر یہ راستہ مشکل نہیں بلکہ فرماتا ہے ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ خدا نے اس راستہ کو آسان بنایا ہے یعنی اسے (۱) الہام اور (۲) مطابقِ فطرت تعلیم دی ہے۔ ایسا راستہ نہیں بنایا کہ جس پر انسان چل ہی نہ سکے جیسے انجیل نے کہہ دیا کہ اگر کوئی شخص تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اس کی طر ف پھیر دے۔ اب یہ تعلیم بظاہربڑی خوش ُکن معلوم ہوتی ہے مگر کوئی شخص اِس پر عمل نہیںکر سکتا۔
مصر کاایک لطیفہ مشہور ہے وہاں چند سال ہوئے ایک عیسائی مبلغ نے تقریریں شروع کر دیں اور لوگوں پر ان کا اثر ہونا شروع ہو گیا۔ایک پُرانی طرز کا مسلمان وہا ں سے جب بھی گزرتا، دیکھتا کہ پادری وعظ کر رہا ہے اور مسلمان خاموشی سے سُن رہے ہیں اُس نے سمجھا کہ شاید کوئی مسلمان مولوی اس کی باتوں کا جواب دے گا مگر وہ اِس طرف متوجہ نہ ہوئے اور خود اُس کی علمی حالت ایسی نہیںتھی کہ وہ اُس کے اعتراضوں کا جواب دے سکتا اِس لئے وہ اندر ہی اندر ُکڑھتا رہتا۔ ایک روز خدا تعالیٰ نے اُس کے دل میںجوش پیداکردیا اور جب پادری وعظ کرنے لگا تو اُس نے زور سے اُس کے مُنہ پر تھپڑ دے مارا۔ پادری نے سمجھا کہ اگر مَیں نے اِس کا مقابلہ نہ کیا تو یہ اَور زیادہ دلیرہو جائے گا چنانچہ اُس نے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اُٹھایا۔ مصری کہنے لگا میںنے تو اپنے مذہب پر عمل کیا ہے تم اپنے مذہب پر عمل کر کے دکھادو۔تمہاری تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گال پر تھپڑ مارے تو اُس کی طرف تمہیں اپنا دوسرا گال بھی پھیر دینا چاہئے۔ مَیں تو اِس امید میں تھا کہ تم اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق اپنا دوسرا گال بھی میری طرف پھیر دو گے مگر تم تو مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے ہو، اگر تمہاری تعلیم قابلِ عمل ہی نہیں تو تم وعظ کیا کرتے ہو۔ پادری اُس وقت جوش کی حالت میں تھا اُس نے زور سے اُسے گھونسا مار کر کہا اِس وقت تو میںتمہارے قرآن پر ہی عمل کروں گا انجیل پر عمل کروں گا تو تم مجھے اور مارا کرو گے۔ تو ہماری شریعت میںکوئی بات ایسی نہیں جو ناممکن العمل ہو۔ وہ کہتا ہے کہ اگر تم سے کوئی شخص بدی کے ساتھ پیش آتا ہے تو تم عفو سے کام لو بشرطیکہ تم سمجھو کہ عفو سے اُس کی اصلاح ہو جائے گی، لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ عفو سے اُس کے اند رنیکی اور تقویٰ پیدا نہیں ہوگا بلکہ وہ اور زیادہ بدی پر دلیر ہو جائے گا تو تم اُس سے انتقام بھی لے سکتے ہو۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اسلامی شریعت کو ایسا بنایا ہے کہ ہر شخص ہر حالت میں اِس پر عمل کر سکتا ہے اور کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کے متعلق کہا جا سکے کہ ا نسان کے لئے اس پر عمل کرنا ناممکن ہے، لیکن دوسری شریعتوں کایہ حال نہیں۔ انجیل نے ہی تعلیم تو یہ دے دی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گال پرتھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیردو، لیکن عملی رنگ میں انگریز اس کے خلاف کرتے ہیں حالانکہ وہ عیسائی ہیں ، جرمن اِس کے خلاف کرتے ہیں حالانکہ و ہ عیسائی ہیں، فرانسیسی اِس کے خلاف کرتے ہیں حالانکہ وہ عیسائی ہیں، اور وہ سب آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور ان میںسے کوئی بھی اِس تعلیم پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ۔ پھر ہماری غرض چونکہ اِس تعلیم کے بھیجنے سے یہ تھی کہ انسان اِس پر عمل کریںاور ہمارے انعامات کے مستحق ٹھہریں اِس لئے جب کوئی شخص عمل ختم کر لیتا اور امتحان کا پرچہ ہمیں دے دیتا ہے اور امتحان کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو ہم اُسے قبر میں ڈال دیتے ہیں۔
ہر انسان کو خداتعالیٰ خود قبر میں ڈالتا ہے
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کو خداتعالیٰ خود قبر میں ڈالتا ہے
یہ مٹی کی قبر جس میں ہم انسان کو دفن کر کے آجاتے ہیں یہ اصل میںمادی جسم کا ایک نشان ہوتا ہے ورنہ اصل قبر وہی ہے جو خدا بناتا ہے۔ اِس مادی قبر میں مُردے کو دفن کرنے، گڑھا کھودنے، میّت کو غسل دینے اور کفن پہنانے کا تمام کام ہمارے ذمہ ہوتا ہے مگر اصلی قبر میںڈالنے کا کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہؤا ہے۔
اِس مقبرہ کے متعلق مجھے کم سے کم یہ معلوم ہؤا کہ اس میںسب انسانوں سے یکساںسلوک ہوتا ہے یعنی سب کا مقبرہ تیار کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ اکبر کا مقبرہ ہو اور ابوالفضل کا نہ ہو بلکہ اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کا اللہ تعالیٰ نے مقبرہ بنایا ہے۔ اکبر کا بھی اور اکبر کی دایہ کا بھی، اکبر کے بچہ کی کھلائی کابھی، اکبر کے درزی ، اکبر کے دھوبی اور اکبر کے ُچوہڑے کا بھی کیونکہ انہوںنے بھی کوئی نہ کوئی کام اپنے درجہ اور لیاقت کے مطابق کئے تھے اور اُن کی حفاظت بھی ضروری تھی۔ پس یہ قبرستان ایسا ہے جس میں کسی سے بے انصافی نہیں کی گئی بلکہ ہر ایک کامقبرہ موجود ہے ۔نیز مَیں نے دیکھا کہ جن کو لوگ جَلا دیتے ہیں اُن کے مقبرے بھی یہاںموجود تھے، جن کوشیرکھا جاتے ہیں اُن کے مقبرے بھی یہاںموجود تھے، جو سمندر میںڈوب جاتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے،جومکانوں میںجل جاتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے، جن کی قبروں کو لوگوں نے اُکھیڑکر پھینک دیا اُن کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے، وہ اس دنیا کی قبروں کو اُکھاڑ کر پھینک سکے مگر اِس مقبرہ کو تو چُھو بھی نہیں سکے۔ غرض کوئی انسان ایسا نہ تھا جس کا مقبرہ یہاں نہ ہو خواہ اُسے جلا دیا گیا ہو، مٹا دیا گیا ہو، مشینوں سے راکھ کر دیا گیا ہو، چِیلوں اور کُتّوں نے اُسے کھا لیا ہو، مچھلیوں کے پیٹ میںچلا گیاہو، شیروں اور بھیڑیوں نے اُسے ُلقمہ بنا لیا ہو، کھڈّوں میں ِگر کر مرا ہو اور گیدڑ اور دوسرے جنگلی جانور اُسے کھا گئے ہوں، ہر شخص کا مقبرہ یہاں موجود تھا، غرض چھوٹے بڑے، امیر غریب، عالِم جاہل سب کو مقبرہ حاصل تھا۔ مَیں نے جب اِس مقبرہ کو دیکھا تو کہا دنیا نے بہتیری کوشش کی کہ لوگوں کی قبروں کو مٹا ڈالے اور حوادثِ زمانہ نے بھی نشانوں کو محو کرنے میں کوئی کمی نہ کی مگر پھر بھی ایک نہ ایک مقام تو ایسا ہے جس میں تمام انسانوں کے مقبرے موجود ہیں۔
ثواب عذاب ظاہری قبر میں نہیں
بلکہ عالَمِ برزخ کی قبر میںملتا ہے
جیساکہ مَیں نے بتایا ہے اِس آیت میں قبر کا لفظ جوآتا ہے اِس سے مراد وہ مقام ہے جس میں مرنے کے بعدا رواح رکھی جاتی ہیں خواہ مؤمن کی رُوح ہو یا کافر کی، سب کی روحیں اس مقام
پر رکھی جاتی ہیں ا ور درحقیقت یہی قبر ہے جس میں ثواب یا عذاب ملتا ہے۔ وہ جو حدیثوں میں آتا ہے کہ مرنے کے بعد کافروں کو قبر کا عذاب دیا جاتا ہے اس سے مراد یہی قبر ہے ظاہری قبر مراد نہیں ۔کئی بیوقوفوں کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے بعض منافقین کی قبریں کھولیں یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا قبر میںاُن کے لئے دوزخ کی کھڑکی ُکھلی ہے یا نہیں؟ مگر جب انہوں نے قبرکو کھولا تو انہیں کوئی آثار دکھائی نہ دئیے۔ درحقیقت یہ ان کی غلطی تھی، اگر اسی قبر میںثواب وعذاب ہو تو وہ پارسی جو اپنے مُردے چِیلوں کو ِکھلا دیتے ہیں، وہ ہندو جو اپنے مُردوں کو جَلا دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ڈوب یا جل کر مر جاتے ہیں اُن کو تو قبر کاعذاب یا ثواب ملے ہی نہ۔ کیونکہ اُن کی تو قبریں ہی نہیں بنیں صرف مسلمان اسلام پر عمل کر کے گھاٹے میں رہے مگر یہ بات غلط ہے۔ اور حدیث میں تو ظاہری قبر مراد نہیں، ظاہری قبر میں تو بعض دفعہ یکے بعد دیگرے بیس بیس مُردوں کو دفن کرد یا جاتا ہے اور ہر شہر میںیہ نظارہ نظر آتا ہے ۔ایک قبر بنائی جاتی ہے مگر پندرہ بیس سال کے بعد اُس کا نشان مٹ جاتا ہے اور اُس جگہ اور قبر بن جاتی ہے۔لاہور کا قبرستان پانچ سَو سال سے چلا آ رہا ہے، اِس میں ایک ایک قبر میں پندرہ پندرہ بیس بیس آدمی دفن ہو چکے ہونگے۔ ایسی حالت میں ان میں سے کوئی تو شدید دوزخی ہو گا اور کوئی ادنیٰ قسم کا دوزخی ہو گا، کوئی اعلیٰ جنتی ہو گا اور کوئی ادنیٰ جنتی ہو گا۔ اگر دوزخ اور جنت کی کھڑکی اِسی قبر میں کُھلتی ہو تو بالکل ممکن ہے کہ پہلے ایک دوزخی اُس میں دفن ہو اور پھر کوئی جنتی اُس میںدفن ہو جائے۔ایسی صورت میںلازماً دوزخ کی آگ جنتی کو لگے گی اور جنت کی ہوا دوزخی کو پہنچے گی اور ثواب وعذاب بالکل مضحکہ خیز صورت اختیا رکر لیں گے ۔ پس یہ غلط ہے کہ وہ قبر جس میں ثواب یاعذاب ملتا ہے یہ ظاہری قبرہی ہے۔ وہ قبر وہ ہے جس میں خداتعالیٰ خود انسان کو ڈالتا ہے چنانچہ اس کامزید ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ وَاَنَّہٗ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَاَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْٓئٍ قَدِیْرٌوَّاَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ لَّا رَیْبَ فِیْھَا وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ ۲؎
فرماتا ہے ہم نے جو بات کہی ہے کہ اللہ ہی اصل چیز ہے اور وہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر بات پر قادر ہے اِس کا ثبوت یہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے جس میں کسی قسم کاشک وشبہ نہیں وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِِ۔ اور یہ کہ قیامت کے دن جو لوگ قبروں میں ہونگے اللہ تعالیٰ اُن کو زندہ کردیگا۔ اب اگر قبر سے مراد یہی ظاہری قبر ہو تو اِس کے معنے یہ ہونگے کہ قیامت کے دن صرف مسلمان زندہ کئے جائیں گے۔ہند و جو اپنے مُردے جلادیتے ہیں، پارسی جو اپنے مُردے چِیلوں کو ِکھلا دیتے ہیں او رعیسائی کہ وہ بھی اب زیادہ تر مرُدوں کو جلاتے ہیں زندہ نہیں کئے جائیں گے۔ عیسائی پہلے تو مُردوں کو دفن کیا کرتے تھے مگر اب بجلی سے جلا کر راکھ کردیتے ہیں۔ پس اگر یہی مفہوم ہو تو لازم آئے گا کہ قیامت کے دن مسلمانوں کے سِوا اور کوئی زندہ نہ ہو کیونکہ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ کی حالت اب دنیا کے اکثر حصہ میںنہیں پائی جاتی۔ اِس صورت میں مسلمان او ریہودی تو اپنے اعمال کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے مگر باقی سب چُھوٹ جائیں گے۔پس یہ معنے درست نہیں بلکہ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان قبروں میں سے جو اُس کی بنائی ہوئی ہیں سب مرُدوں کو زندہ کرے گا اور ان خدائی قبروں میں وہ بھی دفن ہوتے ہیں جو مادی قبروں میںدفن ہیں اور وہ بھی جو جلائے جاتے ہیںاور وہ بھی جن کو درندے یا کیڑے مکوڑے کھا جاتے ہیں۔ پس اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ ا س سے مراد وہی قبر ہے جس میں خدا رکھتا ہے، وہ قبر نہیں جس میں انسان رکھتا ہے۔ اور سب مُردوں کو خواہ وہ دریا میں ڈوب جائیں ،خواہ انہیں پرندے کھا جائیں، خواہ وہ جلائے جائیں قبر والا قرار دیا گیا ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قبر اصل میںوہ مقام ہے جس میںاللہ تعالیٰ ہر روح کو رکھتا ہے خواہ وہ مٹی کی قبر میں جائے، خواہ ڈوب کر مرے اور خواہ جلایا جائے۔
ایک اعتراض اور اُس کا جواب
ا ِس مقام پرکوئی شخص اعتراض کر سکتا ہے کہ تم بیشک مانتے ہو کہ قرآن خدا کا کلام ہے مگر ہم تواسے
درست نہیں سمجھتے ہمارے نزدیک قرآن کے مصنف نَعُوْذُبِاللّٰہِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور انہوں نے اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِکے الفاظ اس لئے استعمال کئے ہیں کہ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ بعض لوگ اپنے مُردوں کو جلا بھی دیتے ہیں وہ یہی سمجھتے تھے کہ سب لوگ مُردوں کو دفن کرتے ہیں اس لئے انہوں نے اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ کے الفاظ استعمال کر دئیے پس آیت کا یہ حصہ ان کی ناواقفی پر دلالت کرتا ہے۔ اِس سے یہ کس طرح ثابت ہو گیا کہ سمندر میںڈوبنے والا بھی کسی قبر میںجاتا ہے اور درندوں کے پیٹ میں جانے والا بھی کسی قبر میں جاتا ہے اور جسے راکھ بنا کر اُڑا دیا گیا ہو وہ بھی کسی قبر میں جاتا ہے اور پھر ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُٹھائے گا؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ کوجلانے والوں کا علم نہیں تھا تو آیا ڈوبنے والوں کا علم تھا یا نہیں ؟مکہ سے سمندر چالیس میل کے فاصلہ پر ہے اور کشتیاں اُس زمانہ میں بھی چلا کرتی تھیں اور ڈوبنے والے ڈوبتے تھے پس اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ کو اِس بات کا علم نہیں تھا کہ کچھ لوگ اپنے مُردے جلاتے ہیں تو کم از کم آپ کو یہ تو معلوم تھا کہ بعض لوگ ڈوب جاتے ہیں اور وہ قبر میں دفن نہیں ہو سکتے۔پھر اِس کو بھی جانے دو کیا مکہ میںکبھی کسی گھر میں آگ لگتی تھی یا نہیں اور کیا آپ نہیں جانتے تھے کہ بعض لوگ جل کر راکھ ہو جاتے ہیں؟ پھر کیا مکہ کے اِردگِرد جو کچھ فاصلہ پرجنگلات ہیں وہاں کے شیر اور بھیڑئیے مشہور نہیں تھے؟ اور کیا آپ کے زمانہ میں یہ جانور کبھی کسی آدمی کو پھاڑ کر کھاتے تھے یا نہیں؟ اورآپ کو علم تھا یا نہیں کہ قبر میںدفن ہونے کے علاوہ ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جنہیں شیر اور بھیڑئیے کھاجائیں؟ جو آگ میں جل کر مر جائیں اور جو سمندر میں ڈوب مریں ؟پھر اِس کو بھی جانے دو عرب کے ساحل کے ساتھ مجوسی لوگ تھے اور وہ اپنے مُردوں کو دفن نہیں کرتے تھے بلکہ چِیلوں یا کُتّوں کو ِکھلا دیا کرتے تھے۔ یہ لوگ بوجہ عرب کے قُرب کے آپؐ کو ملتے تھے بلکہ ان لوگوں میںسے بعض مسلمان بھی ہوئے آپؐ ان کے حالات کو خوب جانتے تھے اور یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ آپ کو اِس بات کا علم نہیں تھا کہ بعض قومیں اپنے مُردے جلا دیا کرتی ہیں۔ پھر کیا عجیب بات نہیں کہ جب یہ لوگ قرآن کریم کی جامع و مانع تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجوسیوں اور یہودیوں کی تعلیم سے واقف تھے، آپ نے ان کی اچھی باتیںاپنی کتاب میںدرج کر لیں حتیٰ کہ بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ آپؐ نے فلاںفلاں بات ویدوں سے لی ہے مگر دوسری طرف یہ کہہ دیتے ہیںکہ آپ کو یہ علم تک نہیں تھا کہ بعض لو گ مُردے دفن کرنے کی بجائے جلایا کرتے ہیں حالانکہ جو شخص مجوسیوں اور یہودیوں کی تعلیم سے واقف ہو سکتا ہے، جو بقول معترضین کے ژند اَوستا، توراۃ، انجیل اور ویدوں سے واقف ہو سکتا تھا کیا وہ اِس امر سے ناواقف ہو سکتا تھا کہ بعض لوگ مُردے دفن نہیں کرتے بلکہ جلا دیتے ہیں یا جانوروں کو ِکھلا دیتے ہیں۔
الٰہی مغفرت کا ایک ایمان افر وز واقعہ
پھر علاوہ ان دلائل کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے بھی معلوم ہوتا
ہے کہ آپ کو علم تھا کہ بعض لوگ جلائے جاتے ہیں اور گو اس میں صرف ایک شخص کاذکر آتا ہے مگر مسئلہ ایک کے ذکر سے بھی ثابت ہو جاتا ہے وہ حدیث یہ ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انَّ رَجُلًا حَضَرَہُ الْمَوْتُ فَلَمَّا یَئِسَ مِنَ الْحَیٰوۃِ اَوْصٰی اَھْلَہٗ اِذَا اَنَامِتُّ فَاجْمَعُوْا لِیْ حَطَبًا کَثِیْرًا وَاَوْقِدُوْا فِیْہِ نَارًا حَتّٰی اِذَا اَکَلَتْ لَحْمِیْ وَخَلَصَتْ اِلٰی عِظَامِیْ فَامْتَحَشَتْ فَخُذُوْھَا فَاطْحَنُوْھَا ثُمَّ انْظُرُوْا َیوْمًا رَاحًا فَاذْرُوْہُ فِی الْیَمِّ فَفَعَلُوْا فَجَمَعَہُ اللّٰہُ فَقَالَ لَہٗ لِمَ فَعَلْتَ ذٰلِکَ قَالَ مِنْ خَشْیَتِکَ فَغَفَرَاللّٰہُ لَہٗ۳؎ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جب اُس کی موت کا وقت قریب آیا تو اُس نے اپنے رشتہ داروں کو جمع کیا اور کہا کہ جب میں مر جائوں تو لکڑیاں جمع کر کے اُ ن کو آگ لگانا ا ور پھر اُس آگ میں مجھے ڈال دینایہاں تک کہ میرا سارا گوشت کھایا جائے اور ہڈیاں َگل جائیں پھر جو جلی ہوئی ہڈیاں باقی رہ جائیں اُن کو خوب پیسنا اور جب کسی دن تیز آندھی آئے تو میری اِن پِسی ہوئی ہڈیوں کو دریا میں بہادینا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اُس کو پھر زندہ کر دیااور اُس سے پوچھا کہ ُتونے ایسا کیوں کیا تھا؟ اُس نے جواب دیا کہ خدایا! میںسخت گنہگار تھا اور میںڈرتا تھا کہ اگر میری روح تیرے قابو آئی تو تُو مجھے ضرور سزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا جب تُو مجھ سے اِس قدر ڈرتا تھا تو جا مَیںنے تجھے معاف کر دیا۔
اب دیکھو اِس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس بات کا علم تھا کہ بعض لوگ جلائے جاتے ہیں، کم سے کم ایک شخص کے متعلق آپ کو یقینی طور پر معلوم تھا کہ اُسے دفن نہیں کیا گیا بلکہ آگ میںجلایاگیا مگر پھر بھی وہ خدا کے قابو چڑھ گیااور اُسے زندہ کر کے اُس نے اپنے سامنے کھڑا کر دیا۔پس درحقیقت وہ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ میں ہی شامل تھا اور گو وہ جَلا کر ہَوا میں اُڑادیا گیا مگر پھر بھی قرآنی اصطلاح میںاُسے قبر والا ہی قرار دیا گیا ہے۔
غرض اوّل تو قرآن کریم خدا کا کلام ہے جسے سب کچھ علم ہے، لیکن اگر نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکلام ہی سمجھ لیا جائے تب بھی آپ پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ بعض لوگ دفن نہیںہوتے بلکہ جلائے جاتے ہیں۔ پس باوجود لوگوں کے ڈوبنے، جلنے اور درندوں اور پرندوں کے پیٹ میں جانے کے پھر بھی قبر کے لفظ کا استعمال بتاتا ہے کہ قبر سے مراد و ہی مقام ہے جس میں سب اَرواح رکھی جاتی ہیں نہ کہ مادی قبر جو ہر ایک کو نصیب نہیں۔
غرض قرآن کریم نے وہ مقبرہ پیش کیا ہے کہ رشتہ دارمیت سے خواہ کچھ سلوک کریں وہ اُسے جلا دیں، وہ اُس کی ہڈیاں پِیس دیں، وہ اُسے چِیلوں اور ُ ّکتوں کے آگے ڈال دیں اور اُس سے کیسی ہی بے انصافی کریں اللہ تعالیٰ خود اُس کے لئے مقبرہ بناتا ہے اور اُسے زندگی بخش کر اپنے پاس جگہ دیتا ہے اور اِس میں کافر اور مؤمن کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ مرنے والے کے لواحقین اپنے مذہب کے غلط عقائد کے ماتحت اُسے ُ ّکتوں کے آگے ڈال دیتے ہیں، وہ اپنے مذہب کے غلط عقائد کے ماتحت اُسے چِیلوں اور گِدھوں کو ِکھلا دیتے ہیں،مگر خدا کا فر اور مؤمن سب کی اَرواح کو قبر میں جگہ دیتا ہے۔
ہر شخص کا روحانی مقبرہ اُس کے اعمال کے مطابق ہو گا
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر ایک کا
مقبرہ اُس کے اعمال کے مطابق ہو سکتا ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ ہر شخص کامقبرہ اس کے عمل کے مطابق ہو؟ دنیامیں بڑے بڑے فریبی اور دغاباز ہوتے ہیں جن کی عمریں فریب اور دغا میں ہی گزر جاتی ہیں مگر ظاہر میں وہ بڑے متقی اور پرہیز گار دکھائی دیتے ہیں اور ان کے دل میں تو کچھ ہوتا ہے مگر ظاہر کچھ کرتے ہیں۔
حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب سنایا کرتے تھے کہ ایک انگریز سرحد میں جا کر دس سال تک لوگوں کو نمازیں پڑھاتا رہااور کسی کو یہ احساس تک نہ ہؤا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ انگریز ہے۔ اسی طرح برٹنؔ ایک عیسائی تھا جو نام بدل کر حج کے لئے چلا گیا۔اب فرض کرو وہ شخص اُسی جگہ مر جاتا تو لوگ اُس کا مقبرہ بنادیتے اور اُ س پر لکھ دیتے کہ یہ فلاں حاجی صاحب تھے جو حج کرنے کے لئے آئے اور مکہ میں ہی فوت ہوگئے حالانکہ وہ منافق تھا۔اِسی طرح ہزاروں ایسے آدمی ہوتے ہیںجو دو سرے مذہب میںشامل ہو جاتے ہیں مگر درحقیقت وہ شامل نہیں ہوتے۔ قرآن کریم میں ہی منافقوں کا ذکر آتا ہے اور منافق وہی ہوتا ہے جو چُھپ کر رہے اوپر سے تو ظاہر کر ے مگر دل میں اس کے کچھ اور ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کا بیشک یہ کہہ کرردّ کیا ہے کہ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ۴؎۔ وہ مؤمن نہیں ہیں مگر ان کانام تو ظاہر نہیں کیا کہ پتہ لگ جاتا فلاں مؤمن نہیں بلکہ منافق ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِن منافقوں کا علم دیا گیا تھا اور بعض کے نام آپؐ نے ظاہر بھی فرمائے مگر کئی ایسے منافق تھے جن پر پردہ پڑا رہا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عام لوگوں کو نہیں بتایا کہ وہ منافق ہیں۔ حضرت حذیفہؓ ایک صحابی تھے انہیں اِس بات کا بڑا شوق تھا کہ وہ یہ معلوم کریںکہ ہم میں منافق کون کون ہیں؟ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑے رہتے تھے کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! مجھے ان کے نام بتا دیجئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُن کے اصرار کو دیکھ کر آخر بتا دئیے۔ رفتہ رفتہ لوگوں کو پتہ لگ گیا کہ حدیفہؓ کو منافقین کا علم ہے چنانچہ جس کے جنازہ پر حذیفہؓ نہیںجاتے تھے اُس کے جنازہ پر باقی صحابہ بھی نہیں جاتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ منافق ہی ہو گا تبھی حذیفہؓ اُس کے جنازہ میں شامل نہیں ہوئے۔
اب دیکھو وہ منافق تو تھے مگر خداتعالیٰ نے ان پر پردہ ڈال دیا اور لوگوں کے لئے یہ معلوم کرنامشکل ہو گیا کہ کون کون منافق ہیں۔ایسی حالت میں کسی منافق کا بھی مقبرہ بنا دیا جائے اور اس پر اس کی بڑی تعریف لکھ دی جائے تو دُنیوی لحاظ سے یہ بالکل صحیح ہو گامگر واقعات کے لحاظ سے اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں ہوگا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول جو منافقین کاسردار تھا اسے تو خداتعالیٰ نے ظاہر کر دیا مگر اِس امر سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ اور بھی کئی منافق تھے جو ظاہر نہیں ہوئے قرآن کریم اِس پر شاہد ہے۔ ایسی صورت میں یہ ممکن ہے کہ ہم لوگ صحابہ میںان کانام دیکھ کر ان کی تعریفیں کرتے ہوں مگر وہ خداتعالیٰ کی ناراضگی کے مورد ہوں۔آخر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں بتایاکہ کون کون منافق ہے تو ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ مخفی رہے ہوں۔ بڑے لوگوں میںسے نہیں بلکہ ادنیٰ درجہ کے صحابی جن میں سے بعض کے نام بھی اسلامی کارناموں میں نہیںآتے ممکن ہے کہ ان میںسے بعض منافق ہوں۔ اب بالکل ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کے مقابر پر کوئی شخص لکھدے کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ مقربانِ بارگاہِ صمدی ، مگر واقعہ یہ ہو کہ وہ راندئہ درگاہ ہوںنہ کہ خدا کے ّمقرب اور اس کی رضا حاصل کرنے والے۔ اِس جگہ کوئی شیعہ صاحب اگر یہ اعتراض کر دیں کہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ صحابہ میں بعض منافق تھے اور وہ پوشیدہ رہتے تھے پھر اگر ہم صحابہ کو منافق کہتے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں منافقوں کو منافق کہنے پر اعتراض نہیں بلکہ مؤمنوںمخلصوں، اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کو منافق کہنے پر اعتراض ہے قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کے کچھ ساتھی منافق تھے، لیکن وہ صحابہ کی بڑی جماعت کو مخلص اور رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ۵؎ کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ ابتدائی زمانہ اسلام میں ثُلَّۃٌ تھے یعنی ایک بڑی جماعت تھے اور عام مؤمن اور مخلص بھی بڑی جماعت تھے ہمیں صرف یہ اعتراض ہے کہ شیعہ صاحبان بڑی جماعت کو منافق اور صرف چند اصحاب کو مؤمن کہہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناکام اور نامراد قرارد یتے ہیں۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ۔ حالانکہ قرآن کریم آپ کی قوتِ قدسیہ کوکامیاب وبامراد فرماتا ہے اور تاریخ اور واقعات بھی اِس پر شاہد ہیں اور دشمن بھی اقراری ہیں۔ وَالْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ
کاموں کی اہمیت کاصحیح اندازہ لگانے میں مشکلات
دوسری مشکل ہمیںیہ پیش آتی ہے کہ علاوہ منافقت
کے، کاموں کی اہمیت کا بھی صحیح اندازہ دنیامیں نہیں لگایا جا سکتا۔بعض کام بہت چھوٹے دکھائی دیتے ہیں مگر بعد میں ان سے بڑے بڑے اہم نتائج پید اہوتے ہیں۔بعض فقرات چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں مگران کے اثرات بڑے وسیع ہوتے ہیں۔ اِس کے مقابلہ میںکئی باتیں وقتی طور پر بڑی دکھائی دیتی ہیں مگر نتائج کے اعتبار سے بالکل بے حقیقت ہوتی ہیں۔ پھر کئی کام ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا حالانکہ اُن سے بھی انسان کے اخلاق وعادات پرنہایت گہری روشنی پڑتی ہے پس مَیں نے سوچا کہ جب تک یہ مشکل حل نہیں ہو گی اُس وقت تک کام نہیں بنے گا۔بیشک قرآن سے ایک مقبرے کا تو پتہ لگ گیا مگر جب تک مقبرہ ہرشخص کے اعمال کے مطابق نہ ہو اُس وقت تک مقبرہ کی غرض پوری نہیں ہو سکتی۔
روحانی مقبرہ میں انسان کے ہر
چھوٹیبڑے عملکومحفوظ رکھا جاتا ہے
جب مَیں نے اِس کے متعلق قرآن کریم پر غور کیا تو مجھے دکھائی دیاکہ قرآن کریم نے اِس مشکل کاحل ِکیا ہؤا ہے اور وہ بتاتا ہے کہ اس مقبرہ کے متعلق ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ اس میںہر شخص کا
چھوٹا بڑا عمل لکھ کر رکھ دیا جاتا ہے اور اس طرح مقبرہ کی اصل غرض پوری ہو جاتی ہے چنانچہ فرماتا ہے وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّافِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُصَغِیْرَۃً وَّلَاکَبِیْرَۃً اِلَّآاَحْصٰھَا وَوَجَدُوْا مَاعَمِلُوْا حَاضِرًاط وَلَایَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا ۶؎
یہاں چونکہ دوزخیوں کا ذکر ہے اس لئے فرماتا ہے وَوُضِعَ اْلِکتٰبُ اور ان کے اعمال نامے ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے اورجب انہیں معلوم ہوگا کہ ان کے سارے اعمال اس میں آ گئے ہیں تو ُتومجرموں کو دیکھے گا کہ وہ کانپنے لگ جائیں گے اور کہیںگے اوہو! جواعمال ہم نے چُھپائے تھے وہ تو آج سب ظاہر ہو گئے اور کہیں گے ارے موت! ُتو کیسی میٹھی چیز ہے، ُتو کیسی اچھی چیز ہے، ُتو آ تاکہ ہم مرجائیں اور اِس ذلّت اور رُسوائی کو نہ دیکھیں مگر وہاں موت کہاں۔ پھر وہ کہیں گے یہ کیسی کتاب اور کیسا اعمال نامہ ہے کہ کوئی چھوٹا یا بڑا عمل نہیں چھوڑتی خواہ گھر میں کیا جائے خواہ باہر کیا جائے، خواہ بیوی بچوں کی موجودگی میں کیا جائے اور خواہ ان سے چُھپ کر کیا جائے، خواہ دوستوں میں کیاجائے خواہ دوستوں کی عدم موجودگی میں کیا جائے، پھر چاہے وہ عمل کسی غار میں کیا جائے اور چاہے میدان میں اور جو کچھ انہوںنے کیا ہو گا، سینما کی تصویروں کی طرح ان کے سامنے آ جائے گا اور ان کے ہر عمل کی فلم ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگ جائے گی۔ گویا ان کے خلاف ڈبل شہادت ہو گی ایک طرف تو ان کے اعمال کی فہرست ان کے سامنے پیش ہو گی اوردوسری طرف انہوں نے اپنے ہاتھوں اور پائوں سے جو ِکیا ہو گا اس عمل کی فلم بنا کر ان کے سامنے لائی جائے گی۔ اسی مفہوم کو ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں بیان فرمایا ہے کہ ان کے ہاتھ اور پائوں ان کے خلاف گواہی دیں گے یعنی انسان نے اپنے ہاتھوںاور پائوں وغیرہ سے جو جو اعمال کئے ہونگے ان کو ظاہر کرنے کے لئے اعمال کے ریکارڈ پر گراموفون کی سُوئی لگا دی جائے گی جس سے ان کے اپنے گزشتہ اعمال کی تمام تفصیل ان کے سامنے آ جائے گی وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا وہ یہ نہیں کر سکتا تھا کہ بغیر حُجّت کے انہیں سزا دے اسی لئے وہ ایک طرف تو فرشتوں کو بطور گواہ پیش کرے گا جو اعمالنامہ اس کے سامنے رکھ دیں گے اور دوسری طرف اس کے اعمال کی فلم اس کی آنکھوں کے سامنے لائی جائے گی۔ـ
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کے عمل چھوٹے ہوںیا بڑے، اس مقبرہ میںمحفوظ رکھے جاتے ہیں تا کہ مقبرہ کی جو اصل غرض ہے کہ انسان کی گزشتہ زندگی کا نشان قائم رہے وہ پورا ہو۔
ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیاجائے گا
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے مطابق سلوک بھی ہوتا
ہے یا نہیں؟ یہ تو معلوم ہو گیا کہ ہر شخص کے عمل محفوظ رکھے جاتے ہیںمگر کیا اس کے مطابق ہر شخص کامقبرہ بھی بنایا جاتا ہے یا نہیں؟اس کے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو قرآن کریم سے ہی ہمیں اِس کا یہ جواب ملتا ہے وَاِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّھُمْ رَبُّکَ اَعْمَالَھُمْ اِنَّہٗ بِمَا یَعـْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۷؎
کسی شخص کو بھی اُس کے اعمال کا اب تک پورا بدلہ نہیں ملا لیکن ایک دن ایسا آئے گا کہ ہر ایک شخص کو اُس کے اعمال کا اللہ تعالیٰ پورا پورا بدلہ دیگا کیونکہ وہ تمہارے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے۔
بعض دفعہ لوگ کسی معمولی ابتلاء پرہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے اور اِس طرح وہ اِس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ جو سزا ا نہیں ملنی تھی وہ مل گئی ہے اسی طرح مؤمنوں کو دنیا میں جو ترقی حاصل ہوتی ہے اُس کو دیکھ کر بھی خیال کیا جا سکتا ہے کہ شاید مؤمنوں کو جو انعامات ملنے تھے وہ مل گئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمَّا ہر گز نہیں، ابھی تک نہ مؤمنوں کو انعامات ملے ہیں نہ کافروں کو سزا ملی ہے۔ لَمَّا کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اب تک یہ فعل نہیں ہؤا۔ اِس آیت میں لَمَّا کا فعل حذف ہے جو یُوَفَّوْا اَعْمَالَھُمْ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ابھی تک انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ نہیں ملا مگر ایک دن ضرور تیرا رب انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ پس وہ تمام کام جو تم راتوں کو کرتے ہو، لوگوں سے چُھپ کر کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ لوگوں پر ظاہر نہ ہوں، اسی طرح وہ تمام کام جو تم لوگوں کے سامنے کرتے ہو، ان تمام اعمال کواگر توبہ قبول نہ ہوئی تو خدا تعالیٰ اُس دن ظاہر کر دے گا اور جس رنگ کے اعمال ہوںگے اُسی کے مطابق مقبرہ دیا جائے گا۔
اسی طرح سورۃ نبأ میں فرماتا ہے کہ جَزَآئً مِّنْ رَّبِّکَ عَطَآئً حِسَابًا ۸؎ قیامت کے دن جو بدلہ ملے گاوہ تیرے رب کی طرف سے حساب کے مطابق ہو گا یعنی جس طرح بنیا پیسہ لیتا ہے اور سَودا دے دیتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عطاء بھی اُس دن حسابی ہوگی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اعمال کے مطابق بدلہ ہو گا اور جو شخص جس درجہ کا ہو گا اسی درجہ میں رہے گا یہ نہیں کہ اوّل کو دوم اور دوم کو اوّل کر دیا جائے گا۔
عَطَائًحِسَاباً اور یُرْزَقُوْنَ فِیْھَا
بِغَیْرِ حِسَابٍمیں کوئی اختلاف نہیں
اس جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم میںاس بارہ میںدو قسم کی آیات آتی ہیں ایک قسم کی تو وہ آیات ہیں جو اوپر بیان ہوئی ہیںمگر ایک قسم کی وہ آیات ہیں جن میںیہ
مضمون بیان ہؤا ہے کہ مؤمنوں کو بغیرحساب رزق دیا جائے گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاُولٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ یُرْزَقُوْنَ فِیْھَا بِغَیْرِحِسَابٍ ۹؎
وہ لوگ جنت میں داخل کئے جائیںگے اور انہیں بغیر حساب کے رزق دیا جائے گا۔ اب پہلی آیت میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ وہاں عَطَآئً حِسَابًا پیسے پیسے کا حساب ہوگا مگر یہاں یہ فرمایا کہ انہیں بغیر حساب کے رزق دیا جائے گا۔اسی طرح دوزخیوں کے متعلق فرماتا ہے فَاِنَّ جَھَنَّمَ جَزَآؤُکُمْ جَزَآئً مَّوْفُوْرًا۱۰؎
کافروں کو مَوْفُوْر یعنی کثرت والاعذاب ملے گا۔ اب بظاہر یہ اختلاف نظر آتا ہے کیونکہ پہلی آیات میں مؤمنوں کے متعلق بتایا گیا تھا کہ انہیںحساب کے مطابق جزاء ملے گی اور دوسری آیات میںیہ بتایا کہ انہیں بغیر حساب کے رزق ملے گا۔ اسی طرح دوزخیوں کے متعلق پہلے تو یہ بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر ظلم نہیں کرے گابلکہ ان کے چھوٹے بڑے اعمال کو مدِّنظر رکھ کر سزا دے گا مگر اِس آیت میں یہ بتایا کہ انہیں کثرت سے سزا دی جائے گی جس کے معنے بظاہر یہ معلوم ہوتے ہیں کہ وہ عذاب ان کے حق سے زائد ہو گا، مگر درحقیقت ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ مَوْفُوْر کا منشاء صرف یہ ہے کہ عذاب جو بھی ہو وہ زیادہ ہی معلوم ہؤا کرتا ہے خواہ وہ استحقاق سے تھوڑا ہی کیوں نہ ملے پس جَزَآؤُکُمْ جَزَآئً مَوْفُوْرًا کے یہ معنے نہیں کہ تمہیں تمہارے حق سے زیادہ عذاب دیا جائے گا بلکہ اِس کے یہ معنے ہیں کہ تم جو بھی گناہ کرتے ہو اس کا بدلہ تمہاری برداشت سے باہر ہو گا پس زیادتی سے مراد عمل سے زیادہ سزا نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ گناہ تو انسان دلیری سے کرلیتا ہے مگرا س کی سزا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ پوری سزا کا تو کیا ذکر ہے آدھی سزا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔دوسرے مَوْفُوْر کے معنے پور ے کے بھی ہوتے ہیں اِس لحاظ سے اِس آیت پر کوئی اعتراض ہی نہیں ہوسکتا۔
یہ تو مَوْفُوْر کی تشریح ہے باقی رہا جنتیوں کا سوال سو وہ بھی پہلے اصل کے خلاف نہیں کیونکہ بغیر حساب کسی ایک شخص کے بارہ میں نہیں بلکہ تمام جنتیوں کے بارہ میں ہے پس اگر الف کو بغیر حساب کے ملے گا تو ب کو بھی بغیر حساب کے ملے گا اور ج کو بھی بغیر حساب کے ملے گا اور ظاہر ہے کہ جب سب کو بغیر حساب کے انعام ملے تو یہ کسی کے حق کوزائل نہیں کرتا بلکہ سب کا درجہ بڑھاتا ہے۔لیکن جب خداتعالیٰ نے کہا کہ انعام حساب سے ملے گا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ کسی کا درجہ کم نہ ہوگا بلکہ اسی حساب سے ہر ایک کو زیادہ ملے گا پس اس کے یہ معنے ہوئے کہ جنتیوں کو ان کے اعمال کے مقابلہ میںبغیر حساب زیادہ ملے گا اور ان کے محدود اعمال کو مدّنظر نہیں رکھا جائے گا، لیکن یہ بغیر حساب ایک حساب کے ماتحت بھی ہو گا اور اس امر کا لحاظ رکھا جائے گا کہ نمبر ۲ نمبر اوّل سے نہ بڑھ جائے اور جب ہرایک کو بغیر حساب یعنی استحقاق سے بہت زیادہ ملنا ہے تو ظاہر ہے کہ نمبر ۲ نمبر ایک سے بڑھ ہی نہیں سکتا کیونکہ اسے بھی بغیر حساب ملے گا۔
خلاصہ یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے بغیر حساب کہا تو اس کے معنی ہیں اپنے عمل کے مقابل پر۔ اور جب حساب سے کہا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اپنے سے اوپر والے نمبرکے مقابل پر۔ یعنی ہر ایک کے درجہ کو قائم رکھا جائے گا اور نمبر اوّل والا دوم نہیں ہو گا اور دوم اوّل نہیں ہو گا اور ایک کا درجہ دوسرا نہیں لے سکے گا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک شخص کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہو،دوسرے شخص کے پاس دو کروڑ روپیہ ہو اور تیسرے کے پاس تین کروڑ روپیہ ہو۔ اب اگر کوئی دوسرا شخص یہ فیصلہ کرے کہ سب کو ایک ایک کروڑ اور روپیہ دیدیا جائے تو لازماً سب کا مال بڑھ جائے گا اور جو درجہ ان کا قائم ہو چکا تھا اس میں بھی کوئی نقص واقعہ نہیں ہوگا درجہ اوّل والا پھر بھی درجہ اوّل میں ہی شمار ہو گا اور درجہ دوم اور سوم والے پھر بھی دوم اورسوم درجوں میں ہی شمار ہو ں گے۔ پس جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ مؤمنوں کو حسابی عطا ملے گی وہاں یہ مطلب ہے کہ جنتیوں کے درجے نہیں توڑے جائیں گے اور جہاںیہ فرمایا کہ بغیرحساب کے رزق دیا جائے گا تو وہاں یہ مفہوم ہے کہ عمل کی نسبت جزائیں بہت زیادہ ہونگی۔ پس ہر ایک کا مقام قائم رہے گا اور کسی کا بھی ریکارڈ خراب نہیں ہوگا۔ یہ نہیں ہو گا کہ مثلاً اگر اکبر کا مقبرہ پہلے درجہ پر ہے اور شاہجہان کامقبرہ دوسرے درجہ پر، تو شاہجہان کا مقبرہ اکبر سے بڑھ جائے بلکہ اللہ تعالیٰ اگر شاہجہان کو کبھی زیادہ انعام دے گا تو ساتھ ہی اکبر کو بھی اور دے گا اور فرمائے گا اس کے مقبرہ کواور اونچا کرو تاکہ تفاوتِ مراتب قائم رہے۔
غرض بغیر حساب کے الفاظ بتاتے ہیں کہ عمل کے مقابلہ میں جزاء زیادہ ہو گی اور عَطَآئً حِسَابًا کے الفاظ بتاتے ہیں کہ نمبر توڑ کرنچلے درجہ والے کو اوپر نہیں لے جایاجائے گا۔
مرنیوالوں کا صحیح مقام روحانی مقبرہ سے ہی ظاہر ہوتا ہے
خلاصہ یہ کہ اس انتظام میں ہر ایک کا مقبرہ
ہے اور ہر ایک کا مقبرہ اس کے درجہ کے مطابق ہے اور یہی انتظام مقبروں کی غرض کو پورا کرنے والا ہے ا س میں صرف نام یاشُہرتِ ظاہری کے مطابق مقبرہ نہیں بنتا بلکہ خالص عمل اور حقیقی درجہ کے مطابق مقبرہ بنتا ہے اور یہ مقبرے گویا مرنے والوں کے صحیح مقام کو ظاہر کرتے ہیں۔
دنیامیں بعض دفعہ ایک شخص بڑا نیک ہوتا ہے مگر اس کے گھر کھانے کے لئے سُوکھی روٹی بھی نہیں ہوتی اور دوسرا شخص خدا تعالیٰ کو گالیاں دیتا ہے مگر اس کے گھر میں پلائو زردہ پکتا ہے۔ ایک کی ڈیوڑھی پر دربان بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور کسی کو اندر ُگھسنے نہیں دیتے اوردوسرے کے پاس اپنا سرچھپانے کے لئے جھونپٹری بھی نہیں ہوتی حالانکہ وہ بہت نیک اور خدا رسیدہ ہوتا ہے۔ اگر عمارتیں نیکی اور تقویٰ کی بناء پر بنائی جائیں اور جو زیادہ نیک ہواُس کی عمارت زیادہ شاندار ہو، جو اُس سے کم نیک ہو اس کی عمارت اس سے کم شاندار ہو تو شہر میں داخل ہوتے ہی پتہ لگ جائے گا کہ یہاں کے لوگوں کے اعما ل کیسے ہیں۔ مگر دنیا میں ایسا نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے ایسے مقبرے بنائے ہیں کہ جن میں داخل ہوتے ہی ساری دنیا کی تاریخ ُکھل جائے گی اور ساری ہسٹری (HISTORY) آنکھوں کے سامنے آجائے گی کیونکہ وہ ہسٹری ان کے مکانوں اور ثوابوں اور عذابوں کی صورت میں لکھی ہو ئی ہو گی۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاک لوگوں
کے مقبروں کی حفاظت کا انتظام
پھر جو دنیا کے مقبرے ہیں ان میں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ مقابر پر کُتّے پاخانہ پھر جاتے ہیں اور کوئی انہیں روکنے والا نہیںہوتا۔ انگریزوں نے آثارِ قدیمہ کا ایک محکمہ بنا کر پُرانے آثار کو کسی قدر
محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے مگر پھر بھی وہ مقبروں کی پوری حفاظت نہیں کر سکے اور حال یہ ہوتا ہے کہ مقبرے پر تو پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ صَرف ہو چکا ہوتا ہے مگر وہاں جا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کُتّے آتے اور پاخانہ کر کے چلے جاتے ہیں۔ مگر وہ مقبرے جو اللہ تعالیٰ بناتا ہے ان کی یہ حالت نہیں ہوتی بلکہ وہاںہر شخص قابلِ عزت ہوتا ہے، اُس کے مقبرہ کی حفاظت کی جاتی ہے اور صرف گندے لوگوں کے مقبروں کی حالت ہی خراب ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُولٰٓئِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّکْرَمُوْنَ۱۱؎ جو نیک لوگ ہونگے انہیں جنت میںجگہ دی جائے گی اور ان کے اعزاز کو ہمیشہ قائم رکھا جائے گا، کوئی ان پر الزام نہیں لگاسکے گا، کوئی ان کی بے عزتی نہیں کر سکے گا اور کوئی ان کے درجہ کو گِرا نہیں سکے گا۔
ناپاک لوگ اس مقبرہ میں کوئی بہتر مقام حاصل نہیں کر سکیں گے
اِس کے مقابلہ میں جو کافر ہیں
ان کے متعلق فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَنْ تُغْنِیَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ وَلَآاَوْلَادُھُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَاُولٰٓئِکَ ھُمْ وَقُوْدُ النَّارِ۱۲؎ جو کافر ہیں ان کے اموال خدتعالیٰ کے مقابل پر ان کے کام نہ آئینگے نہ اولاد کام آئے گی اور وہ ضرور آگ کا ایندھن بنیں گے۔
دنیاکے مقبرے بنانے والے کون ہوتے ہیں؟ وہی ہوتے ہیں جن کے پاس مال ہوتا ہے۔ ایک انسان گندہ ہوتا ہے ،فریبی اور مکّار ہوتا ہے مگر اُس کے پاس دس لاکھ روپے ہوتے ہیں جب وہ مرتا ہے تو وہی دس لاکھ روپے اُس کی اولاد کے قبضہ میں چلے جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا باپ خبیث تھا اُس نے اپنی زندگی میں ہمیشہ جھوٹ اور فریب سے کام لیا اور کئی قسم کے ظلموں سے لوگوں کے مالو ں کو لُوٹا مگر محض اس وجہ سے کہ روپیہ ان کے پاس بافراط ہوتا ہے وہ اس کا شاندار مقبرہ بنا دیتے ہیں اور اس طرح لوگوں کے سامنے وہ بات پیش کرتے ہیں جو واقعات کے لحاظ سے بِالکل غلط ہوتی ہے۔ چنانچہ کئی بادشاہوں کے مقبرے بھی موجود ہیں۔ ان کے زمانہ کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یا اللہ! ان کا بیڑا غرق کر مگر جب مر گئے تو ان کے وارثوں نے اُن کے مقبرے بنا دئیے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارے نظام میں یہ خرابی نہیں۔ دنیا میںتو غیر مستحق لوگوں کی اولاد یا مالی وُسعت ان کے مقبروں کو شاندار بنائے رکھتی ہے اور اس طرح لوگوں کو دھوکا لگتا ہے مگر فرماتا ہے تم ہمارے مقبرہ میں ایسا نہ دیکھو گے اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَنْ تُغْنِیَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ جو لوگ کافر ہیں اگر وہ شاہجہان سے بھی زیادہ مال اپنے پاس رکھتے ہیں تو وہ ہمارے مقبرے میںاس روپیہ سے اپنے لئے کوئی بہتر جگہ حاصل نہیں کر سکتے۔ پھر فرماتا ہے کہ ممکن ہے کہ ان کا یہ خیال ہو کہ ہماری اولاد ہمارا مقبرہ بنا دیگی جیسے جہانگیر مر گیا تو اس کے عزیزوں نے اس کامقبرہ بنا دیا، مگر فرمایا یہ خیال بھی غلط ہے ان کی اولاد بھی ان کے کام نہیں آسکتی وَاُولٰٓئِکَ ھُمْ وَقُوْدُالنَّارِ ان کا مقبرہ تو آگ ہی ہے جس میں وہ ڈالے جائیں گے اور اپنے اعمال کی سزا پائیں گے۔
نوح ؑکا مقبرہ
پھر مَیں نے سوچا کہ کیا ان مقابر کا کوئی نشان اِس دنیا میں بھی ہے اور کیا اس کی کوئی علامت یہاں پائی جاتی ہے تا اسے دیکھ کر ہم ان غیر مرئی مقابر کا
اندازہ لگا سکیں۔یہ ساری باتیں تو اگلے جہان سے تعلق رکھتی ہیں اور بیشک ہم ان باتوں پرایمان رکھتے ہیں مگر لوگوں کو کس طرح دکھائیں کہ یہ باتیں سچی ہیں اس کی کوئی علامت یہاں بھی ہونی چاہئے جسے دیکھ کر اگلے جہان کے مقابر کا اندازہ لگایا جا سکے۔ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ دنیا میں بھی ان مقابر کے نشان قائم کئے گئے ہیں چنانچہ مَیں نے قرآن کو دیکھا تو مجھے اس میں ایک مقبرہ نوح کا نظر آیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰ خِرِیْنَ- سَـلَامٌ عَلٰی نُوْحٍٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ- اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۱۳؎
فرماتا ہے ہم نے نوح کا دنیا میں روحانی مقبرہ قائم کیا ہے وہ بڑا اچھا آدمی تھا اور اگلے جہان میں ہم نے اسے بڑی عزّت سے رکھا ہؤا ہے۔ اور چونکہ جنت کے مقبرے میںسلامتی ہی سلامتی ہوتی ہے اس لئے تم بھی جب نوح کا ذکر آئے تو کہا کرو نوح عَلَیْہِ السَّـلَامُ اور اس کے مقام کویا د رکھو وہ خدا کی سلامتی کے نیچے ہے اور جب بھی اُس کا نام لو اُس کے ساتھ ’’عَلَیْہِ السَّـلَامُ‘‘ کا اضافہ کر لیاکرو۔ فرماتا ہے اس مقبرہ کے ہم ذمہ دار ہیں اور ہم اعلان کئے دیتے ہیں کہ اس مقبرہ کو کوئی توڑ نہیں سکے گا۔ لوگوں کے مقبرے بنائے اور توڑے جاتے ہیں مگر نوح کا مقبرہ ہم نے ایسا بنایا ہے جسے کوئی شخص توڑ نہیں سکتا چنانچہ دیکھ لو آج اس مقبرہ کا محافظ خدا نے ہمیں مقرر فرمایا ہے یہود اِن کو ُبھول چکے ہیں، عیسائی ان کو ُبھول چکے ہیں، مگر آج بھی جب نوح کا ذکر آتا ہے تو سب مسلمان بے اختیار کہہ اُٹھتے ہیںعَلَیْہِ السَّـلَامُ۔
الیاس ؑ کا مقبرہ
اسی طرح حضرت الیاس ؑ کے متعلق فرماتا ہے وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ سَـلَامٌ عَلٰٓی اِلْیَاسِیْنَ- اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ۱۴؎
حضرت الیاس بھی ہمارے مقرب بندوں میںسے تھا اور ہم نے مناسب سمجھا کہ اگلے جہان میں اس کا بھی مقبرہ بنے اور اِس جہان میں بھی، تا کہ لوگوں کے لئے ایک نشان ہو اور ان کے دلوں میں بھی یہ تحریص پیدا ہو کہ ہم بھی ایسے ہی بنیں۔ پھر فرماتا ہے سَـلَامٌ عَلٰٓی اِلْیَاسِیْنَہم نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تینوں الیاسوں پر سلام ہؤا کرے چنانچہ آج بھی جب کوئی حضرت الیاس کا نام لیتا ہے تو کہتا ہے الیاسعَلَیْہِ السَّـلَامُ۔اس جگہ اِلْیَاسِیْنَ کے بارے میں لوگوں کو تردّد ہؤا ہے، لیکن یہ تردّد نہیں بلکہ ایک زبردست پیشگوئی ہے اور و ہ یہ کہ الیاسین کا ظہور دُنیا میں تین دفعہ مقدر تھا۔ پہلا خود الیاس کے وجود میں دوسرا یحییٰ کے ذریعہ سے اور تیسرا پھرایک دفعہ تا الیاس سے الیاسین بولا جا سکے۔ اِس لفظ نے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح کا دوبارہ نزول تمثیلی رنگ میںہو گا کیونکہ اگر پہلے ہی مسیح نے دوبارہ آنا ہوتا تو اس کا الیاس تو یحییٰ کے رنگ میںظاہر ہو چکاتھا پھر آسمان پرسے آنے والے کے لئے کسی راستہ صاف کرنے والے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ پس تیسری دفعہ الیاس کے آنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دوسرا مسیح پہلے مسیح سے علیحدہ وجود ہو گا اور اِسی دنیا سے پیدا ہو گا تبھی اس کے لئے ایک اَور الیاس پیداکیا جائے گا تا کہ اس کے راستہ کو صاف کر ے۔ اس تیسرے الیاس کا سلام گو ابھی دنیا میںقائم نہیں ہؤا مگر خداتعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ اس کا سلام بھی قائم ہو گا اور یہ سلام غیر نبی کے لئے جائز ہوتا ہے پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تیسرا الیاس جب نبی نہیں تو اس کے لئے سلام کا لفظ کس طرح استعما ل کیا جا سکتا ہے۔غیرنبی کے لئے بھی سلام کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت علی ؓ کے نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّـلَامُ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ پس غیر نبی کے نام کے ساتھ بھی عَلَیْہِ السَّـلَامُ کہا جا سکتا ہے اور تیسرے الیاس کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کایہی فیصلہ ہے کہ پہلے دو الیاسوں کی طرح اس کے متعلق بھی عَلَیْہِ السَّـلَامُ کہا جائے گا۔
مریم ؑ اور مسیحؑ کا مقبرہ
وَابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۱۵؎
پھر فرماتا ہے ہم نے ایک اور مقبرہ بھی بنایا ہے چنانچہ فرمایا وَالَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْھاَ مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنٰھَا
اُس عورت کو یاد کرو جس نے اپنے تمام قویٰ کو خدا کے لئے وقف کر دیا
ہم نے اس میں اپنی رُوح پھُونکی اور اُسے اور اس کے بیٹے کو ہمیشہ کے لئے یاد گار بنا دیا۔ یہ بھی ایک مقبرہ ہے جو خداتعالیٰ نے بنایا چنانچہ آج بھی حضرت عیسیٰعَلَیْہِ السَّـلَام ُ اور حضرت مریم صدیقہ عَلَیْہَاالسَّـلَامُ ہی کہا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ کا مقبرہ
اسی طرح حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّـلَامُ کے متعلق فرماتا ہے وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ وَاٰتَیْنٰـہُ اَجْرَہٗ
فِی الدُّنْیَا وَاِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ۱۶؎
ابراہیم بھی ہمار ے مخصوص لوگوںمیںسے تھا جس کے لئے ہم نے رُوحانی مقبرہ بنایا اور یہ مقبرہ دو طرح ظاہر ہؤا۔ ایک اس طرح کہ جب بھی ابراہیم ؑ کانام لیا جائے گا لوگ عَلَیْہِ السَّـلَامُ کہیں گے اور دوسرے اس طرح کہ آئندہ ہم نے نبوت کا اس کی اولاد کے لئے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے ان کے ذریعہ سے زندہ رہے گی خواہ وہ ذرّیتِ جسمانی ہو خواہ روحانی۔ اس طرح ہم نے اسے دنیا میں بھی اجر دیدیا اور آخرت میں بھی، کیونکہ وہ ہمارے صالح بندوں میں سے ہے چنانچہ ہمیشہ آپ پر درود بھیجا جاتا ہے اور جب بھی مسلمان کہتے ہیں اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّـلَامُ کا نام اور آپ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور یہی مقبرے کی غرض ہوتی ہے۔
مختلف انبیائے سابقین کے مقبرے
پھر فرماتا ہے وَتِلْکَ جُحَّتُنَآ اٰ تَیْنٰـھَآ اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآئُ
اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ- وَوَھَبْنَالَہٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ کُلًّا ھَدَیْنَاج وَنُوْحاً ھَدَیْناَ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَہٰرُوَنَط وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ- وَزَکَرِیَّا وَیَحْیٰی وَعِیْسٰی وَاِلْیَاسَ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۔ وَاِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَیُوْنُسَ وَلُوْطاً وَکُلاًّ فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ- وَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَاِخْوَانِھِمْ وَاجْتَبَیْنٰھُمْ وَھَدَیْنٰـھُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ- ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّاکَانُوْایَعْمَلُوْنَ - اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ فَاِنْ یَّکْفُرْبِھَآ ھٰٓؤُلَآئِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِھَا قَوْماً لَّیْسُوْا بِھَابِکٰفِرِیْنَ - اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدٰ ھُمُ اقْتَدِہْ قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِنْ ھُوَ اِلَّاذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ ۱۷؎
یہا ں خداتعالیٰ نے وہ سارے نام اکٹھے کر دئیے ہیں جن کی یاد کو اُس نے قائم کیا ہے فرماتا ہے یہ وہ حُجّتہے جو ہم نے ابراہیم کو اُس کی قوم کے مقابلہ میںعطا کی ۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیںیقینا تیرا رب حکمت والا اور جاننے والا ہے۔ اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب دئیے اور ان میں سے ہر ایک کو ہدایت دی اور اس سے قبل ہم نے نوح کو بھی ہدایت دی۔اسی طرح اس کی اولاد میں سے داود اور سلیمان اور ایوب اور یوسف او رموسیٰ اور ہارون سب کو ہدایت دی اور ہم محسنوں کو اسی طرح جزا ء دیا کرتے ہیں۔ اسی طرح زکریااور یحییٰ اور الیاس سب نیک لوگوں میںسے تھے۔اور اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط سب کو ہم نے دنیا پر فضیلت بخشی۔ اسی طرح ان کے آباء واجداد اور ان کی ذرّیت اور ان کے بھائیوں میںسے بھی ایسے لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے عزت بخشی اور جنہیں صراطِ مستقیم کی طرف ہم نے ہدایت دی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اگر یہ لوگ مشرک ہوتے تو ان کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے۔ یہ وہ لوگ ہیںجن کو ہم نے کتاب دی، حکمت دی اور نبوت دی۔ اگرمشرک لو گ آجکل اس تعلیم کے خلاف چلتے ہیںتو ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہم نے مسلمانوں کی قوم کو کھڑا کر دیا ہے جو ان کی یاد کو تازہ اور ان کے قیام کی حفاظت کرے گی یہ وہ لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! ُتو اِن کی ہدایت کے پیچھے چل کیونکہ ان کے ذکر کو تازہ رکھنا ضروری ہے۔ تو کہہ دے کہ مَیں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، یہ قرآن تو سب دنیا کے لئے نصیحت کا موجب ہے اگر تم اِس قرآن پر عمل کرو گے تو صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر ہی عمل نہیں کرو گے بلکہ اس طرح وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو موسیٰ ؑکو ملی، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو عیسٰی ؑ کو ملی ، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو نوح ؑ کو ملی، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو ابراہیم ؑ کو ملی، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو داود ؑ اور سلیمان ؑ اورایوب ؑ اور یوسف ؑ اور زکریاؑ اور یحییٰ ؑ اور الیاس ؑ اور اسماعیل ؑ اور الیسع ؑ اور دوسرے نبیوں کو ملی(عَلَیْہِمُ السَّـلَامُ کُلِّہِمْ) اور اگر مسلمان سارے قرآن پر عمل کرینگے تو اِس طرح ان کے مقبرے بھی قائم رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے ناموں کو بھی زندہ رکھے گا۔
سردارِ انبیاء حضرت محمد مصطفی صَلَّی اللہ علیہ وسلم کے تین مقبرے
اب سب سے آخر سردارِ انبیاء
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو یاد رکھنے کے قابل ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ کا مقبرہ کس طرح بنا۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْاعَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسِْلیْمًا۱۸؎
فرماتا ہے لوگوں کے دومقبرے ہوتے ہیںایک جنت میں اور ایک اس دنیا میں ، مگر ہمارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مقبرے ہیںایک جنت میں ، ایک عرش پر اور ایک اِس دنیا میں۔ چنانچہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ عرش پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد ہمیشہ تازہ رکھی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے فرشتوں کے نام ہمیشہ احکام جاری ہوتے رہتے ہیں کہ اِس پر ہماری رحمتیںنازل کرو، ہماری رحمتیں نازل کرو، اور دوسرا مقبرہ جنت میں، تیسرا مقبرہ دنیا کا ہے چنانچہ فرماتا ہے ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْاتَسْلِیْمًا۔ اے مؤمنو ! جب بھی تمہارے سامنے ہمارے رسول کا ذکر ہو تم کہو۔ صلّی اللہ علیہ وسلم۔ صلّی اللہ علیہ وسلم۔
انبیائے سابقین کے متّبعین اور رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے مقبرے
اب دیکھو یہ بھی ایک مقبرہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا پھر چونکہ انبیاء علیہم السلام کے اَتباع میں سے بھی بعض بڑے نیک اور بزرگ تھے اس لئے جہاں پہلے انبیاء کاذکر کیا وہاں
یہ بھی فرمایا وَمِنْ اٰبَآئِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَاِخْوَاِنھِمْ یعنی ان کے باپ دادا، ان کی ذرّیت اور ان کے بھائی بھی ان انعامات میں شریک ہونگے۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ساتھی تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے مقبرے بھی قائم کئے اور فرمایا وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْا مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّناَ اغْفِرْلَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِْینَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَاتَجْْعَلْ فِیْ قُلُوْبِناَ غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْارَبَّنَا اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیُمٌ ۱۹؎
فرمایا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ساتھی ہیں ان کو ہم نے یہ رُتبہ عطا فرمایا ہے کہ آئندہ کے لئے ہم نے یہ شرط قرار دیدی ہے کہ جو لوگ بعد میںآئیں ان میں سے کسی شخص کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ ایمان لانے کے بعد ہمیشہ یہ دعا نہ کرتا رہے کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش اور ان کے بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے گویا ایمان کی تکمیل کے لئے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ روزانہ اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ اپنے سے پہلے مسلمانوں کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرتا رہے۔
پھر غَفَر کے معنی خالی گناہ کی معافی کے ہی نہیں بلکہ اصلاحِ حالات کے بھی ہوتے ہیں۲۰؎ اس لحاظ سے اس کے یہ معنے بھی ہونگے کہ اے ہمارے رب! ہمارے حالات کو بہتر سے بہتر بناتا جا اور اسی طرح اُن لوگوں کے حالات کو جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اور تیرے مؤمن تھے۔ گویا نہ صرف خداتعالیٰ نے گزشتہ زمانہ کے مؤمنوں کی یاد تازہ کی بلکہ یہ بھی سامان کئے کہ مقبرہ کی مرمت ہوتی رہے اور اس میںزیادتی ہوتی رہے اور اسے ہمیشہ پہلے سے زیادہ شاندار بنانے کی کوشش کی جائے کیونکہ جب مرنے کے بعد بھی اصلاحِ حالات کا امکان پایا جاتا ہے اور پہلوں کے لئے پچھلے یہ دعا کرتے رہتے ہیں تو لازماً مرنے والے اپنے مقام میں بڑھتے جاتے ہیں اور پھر لازماً ان کے شایانِ شان ان کا روحانی مقبرہ بھی زیادہ شاندار ہو تا جاتا ہے۔
شیعوں کا صحابہؓ کو بُرا بھلا کہنا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے
پھر فرماتا ہے یہ بھی دعا کیاکرو کہ
ہمارے دل میںان کے متعلق کوئی ُبغض پیدا نہ ہو، اِس آیت سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ شیعوں کا یہ کیسا خطرناک عقیدہ ہے کہ وہ صحابہؓ سے عداوت رکھنے اور ان کو بُرا بھلا کہنے میں ہی اپنی نجات سمجھتے ہیں حالانکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تمہیں تب مؤمن سمجھوں گا جب تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے لئے دعائیںکرتے رہو گے اور اُن کا کینہ اور بُغض اپنے دلوں میں نہیں رکھو گے، مگر آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ اُن سے کینہ اور بُغض رکھنا ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
اب تھوڑے دنوں تک محرّم کا مہینہ آنیوالا ہے ان ایام میں کس طرح تبرّا کیا جاتا اور ابوبکرؓ،عمرؓ اور عثمانؓ کو گالیاں دی جاتی ہیں حالانکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ان کے متعلق دل میں کسی قسم کا بُغض نہ ہو اور نہ صر ف بُغض نہ ہو بلکہ انسان محبت اور اخلاص کے ساتھ ان کے لئے ہمیشہ دُعائیں مانگتا رہے۔
ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک شیعہ بادشاہ کے پاس ایک دفعہ ایک سُنّی بزرگ گئے اور اُس سے امداد کے طالب ہوئے۔ وہ آدمی نیک تھے مگر چونکہ اُن کا گزارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا اس لئے انہیںخیال آیا کہ مَیں بادشاہ کے پاس جائوں اور اس سے کچھ مانگ لائوں وہ گئے تو وہاں اور بھی بہت سے لوگ موجو دتھے جو اپنی حاجات کے لئے آئے ہوئے تھے مگر وہ سب شیعہ تھے اور یہ سُنّی۔ جب بادشاہ مال بانٹنے کے لئے کھڑا ہؤا تو وزیر نے بادشاہ کے کان میں کچھ کہا اور اُس نے اس سنّی بزرگ کے علاوہ باقی سب کو مال تقسیم کر دیا اور وہ ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے۔ یہ سنّی بزرگ وہیں کھڑے رہے۔آخر جب انہیں کھڑے کھڑے بہت دیر ہو گئی تو بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ اسے بھی کچھ دیکر رخصت کردو۔ وزیر نے کہا مَیں دے تو دُوں مگر یہ شخص شکل سے سُنّی معلوم ہوتا ہے بادشاہ نے کہا تمہیں کس طرح معلوم ہؤا؟ وہ کہنے لگا بس شکل سے مَیں نے پہچان لیا ہے۔ بادشاہ نے کہااچھا تو اس کا امتحان کر لو۔چنانچہ وزیر نے حضرت علی ؓ کی فضیلت بیان کرنی شروع کر دی، وہ سنّی بزرگ بھی شوق سے سنتے رہے اور کہنے لگے حضور! حضرت علی ؓ کی شان میںکیا شبہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور آپ کے داماد تھے خداتعالیٰ نے انہیں خلافت عطا فرمائی۔ آپ کی شان سے تو انکار ہو ہی نہیں سکتا۔ بادشاہ کہنے لگا اب تو ثابت ہو گیا کہ یہ شیعہ ہے۔ وزیر کہنے لگا ابھی نہیں مَیں بعض اور باتیں بھی دریافت کر لوں۔ چنانچہ اُس نے اور کئی باتیں کیں، مگر وہ بھی ان سب کی تصدیق کرتے چلے گئے۔ بادشاہ نے کہا بس اب تو تمہیں یقین آ گیا ہو گا کہ یہ سنّی نہیں بلکہ شیعہ ہے۔ وزیرکہنے لگا ابھی نہیں تبرّا دیکر دیکھیں۔ اگر یہ تبرّے میںشامل ہو گیا تو پتہ لگ جائے گا کہ شیعہ ہے اور اگر شامل نہ ہؤا تو معلوم ہو جائے گا کہ سُنّی ہے۔چنانچہ بادشاہ نے کہا برہرسہ ***۔ یعنی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ؓ پر *** ۔وزیر نے بھی کہا برہرسہ ***۔ وہ بزرگ سنّی بھی بول اُٹھے کہ برہرسہ ***۔ بادشاہ نے کہا اب تو یقینی طور پر ثابت ہو گیا کہ یہ شیعہ ہے۔ وزیر نے کہا حضور! میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ یہ شخص منافقت سے کام لے رہا ہے۔ وہ کہنے لگا اچھا تو پھر اس سے پوچھو کہ تم کون ہو؟وزیر نے پوچھا کہ کیا آپ شیعہ ہیں؟ وہ کہنے لگا نہیں مَیں تو سنّی ہوں۔ وزیر کہنے لگا کہ مجھے آپ کی اور باتیں تو سمجھ آگئی ہیں کہ جب میں حضرت علیؓ کی تعریف کرتا تھا تو آپ اس لئے اس تعریف میں شامل ہو جاتے تھے کہ حضرت علیؓ آپ کے نزدیک بھی واجب التعظیم ہیں مگر جب ہم نے یہ کہا کہ برہرسہ *** تو آپ نے بھی برہرسہ *** کہا، اس کی وجہ میری سمجھ میںنہیںآئی۔ وہ کہنے لگے جب آپ نے کہا تھا برہرسہ ***، توآپ کی مراد تو یہ تھی کہ ابوبکرؓ ، عمرؓاور عثمانؓ پر *** ہو مگر جب مَیں نے برہرسہ *** کہا تو میرا مطلب یہ تھا کہ وزیر پر بھی *** اور بادشاہ پر بھی اور مجھ پر بھی جو ایسے گندے لوگوں کے گھر میں آ گیا ہوں۔ غرض شیعوں کا یہ طریق کہ صحابہ کرام کو گالیاں دیتے ہیں اور اکابر صحابہ کو منافق کہتے ہیں ناپسندیدہ اورمذکورہ بالاآیتِ قرآنی کے خلاف ہے حضرت علیؓ کا درجہ بلند ماننے کے لئے اس کی کیا ضرورت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ ، عمرؓ اور عثمانؓ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ کو منافق کہا جائے اس کے بغیر بھی شیعیت قائم رہ سکتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم نہایت واضح طور پر فرماتا ہے کہ خداتعالیٰ کے جو پاک بندے گزرچکے ہیں تمہیں ان کے متعلق دُعائوں سے کام لینا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ خدایا! ہمارے دلوں میںان کے متعلق بُغض پیدا نہ ہو کیونکہ اگر بُغض پیدا ہؤا تو ایمان ضائع ہو جائے گا گویا ہمیشہ کے لئے خدا نے اُن کے لئے دعائوں کا سلسلہ جاری کر دیا اور اس طرح دنیا میں بھی ان کا مقبرہ بنا دیا۔
روحانی مقبرہ میں رشتہ داروں کو اکٹھا رکھنے کا انتظام
پھر مَیں نے سوچا کہ دُنیوی مقابر والوں نے
تو یہ انتظام کیا ہوتا ہے کہ ان کے رشتہ دار بھی ان کے ساتھ مقبروں میںدفن ہوں۔ کیا اس مقبرہ میں بھی کوئی ایساانتظام ہے؟ تو مَیں نے دیکھا کہ دُنیوی مقبروں میں بیشک بعض قریبیوں کودفن کیا گیا ہے جیسے شاہجہان کے ساتھ اُس کی بیوی دفن ہے مگر سب کے لئے گنجائش نہیں تھی جیسے یہ نہیں ہؤا کہ شاہجہان کے بیٹے بھی اُس کے ساتھ دفن کئے جاتے اور نہ باہمی بُغض و عداوت کی وجہ سے وہ اکٹھے دفن کئے جا سکتے ہیں۔ جیسے شاہجہان کو نورجہاں سے بُغض تھا اِس وجہ سے اُس نے جہانگیر کے پاس اُسے دفن نہ کیا بلکہ الگ دفن کیا۔ اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بڑے نے ادنیٰ مقبرہ بنایا ہے اور بعد کے کسی چھوٹے درجہ والے نے بڑا مقبرہ بنایا ہے اِس وجہ سے بھی بڑا اُس کے ساتھ دفن نہ کیا جا سکا جیسے شاہجہان کے مقبرہ میں بابرؔ، ہمایوںؔ ، اکبرؔ اور جہانگیرؔ کو لا کر دفن نہیں کیا گیا۔ یہ نہیں ہؤا کہ ان کی ہڈیاں کھود کر انہیں شاہجہان کے مقبرہ میں دفن کیا جاتا۔ پھر بعض حوادث نے ان کو الگ الگ رکھا جیسے اورنگ زیب حیدرآباد میںفوت ہؤا اور اورنگ آباد میں اس کا مقبرہ بنا۔ حیدرآباد چونکہ گرم علاقہ ہے اور وہاں سے لاش لانے میںدقّت تھی اِس لئے وہ شاہجہان کے ساتھ اسے دفن نہ کر سکے بلکہ اگر چاہتے تب بھی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی تھی۔ اور بعض دفعہ فاصلے کا سوال ایسا اہم ہوتا ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور باوجود خواہش کے ایک جگہ سب قریبی دفن نہیں ہو سکتے غرض کئی وجوہ ایسے ہو سکتے ہیں جن کی بناء پر سب کو اکٹھا دفن نہیں کیا جا سکتا۔ بعض دفعہ بُغض وعِناد، بعض دفعہ جگہ کی تنگی، بعض دفعہ فاصلہ کی زیادتی اور بعض دفعہ اچانک حادثات اِس قسم کے ارادوں میں حائل ہو جاتے ہیں۔ پس مَیں نے سوچا کہ کیا اِس مقبرہ میں بھی کوئی ایسا انتظام ہے کہ سب رشتہ دار اکٹھے رہیں؟ جب مَیں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ یہ مقبرہ بیشک ایسا ہے جس میں سب رشتہ داروں کے جمع کرنے کا انتظام ہے بشرطیکہ ان کی طبائع ملتی ہوں تا کہ جھگڑا فساد نہ ہو۔ چنانچہ مَیں نے دیکھا کہ اس مقبرہ کے متعلق حکم تھا جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَـائِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ- سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَاصَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبیَ الدَّارِ۲۱؎
فرمایا وہ جو اگلے جہان کامقبرہ ہے اُس میں ہر شخص اپنے اپنے درجہ کے مطابق خداتعالیٰ کا انعام پائے گا، مگر رشتہ داروں کے لحاظ سے ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ جس کے ایسے رشتہ دار ہونگے جن کے ساتھ وہ محبت سے رہ سکتا ہو اور جن کے عقائد اور خیالات سے وہ متفق ہو ایسے سب رشتہ داروں کو اکٹھا کر دیا جائے گا خواہ باپ ہوں ، بیٹے ہوں، بیویاں ہوں۔ اور فرشتے اُن پر چاروں طرف سے داخل ہوں گے اور کہیں گے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ۔
ملائکہ کو تمام رشتہ داروں کی ّعزت کرنے کا حُکم
امیروں کے گھروں میں اگر ان کے غریب رشتہ دار آ جائیں تووہ
اُن کے ساتھ نہایت حقارت سے پیش آتے ہیں اور وہ رشتہ دار بھی ان کے پاس رہنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لطیفہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہندو نے اپنے ایک بیٹے کو نہایت اعلیٰ تعلیم دلائی اور اپنی زمین اور جائداد وغیرہ فروخت کر کے اسے پڑھایا یہاں تک کہ وہ ڈپٹی بن گیا اس زمانہ میں ڈپٹی بڑا عہدہ تھا ۔ایک دن وہ امراء ورئوساء کے ساتھ اپنے مکان کے صحن میں بیٹھا تھا، کُرسیاں بچھی ہوئی تھیں کہ اتفاقاً اُ س کا باپ ملنے کے لئے آگیا۔ اُس نے ایک میلی کُچیلی دھوتی پہنی ہوئی تھی، وہ آیا اور بے تکلفی سے ایک کُرسی پر بیٹھ گیا۔اس کے گندے اور غلیظ کپڑے دیکھ کر جو ای، اے، سی اور دوسرے معززین بیٹھے ہوئے تھے انہیں بڑی تکلیف محسوس ہوئی مگر انہوں نے سمجھا کہ مالک مکان اسے خود ہی اُٹھا دے گا، ہمیں کہنے کی کیا ضرورت ہے۔لیکن مالک مکان نے کچھ نہ کہا آخر انہوں نے ڈپٹی صاحب سے پوچھا کہ ان کی کیا تعریف ہے؟ اس پر وہ لڑکا جسے اُس کے باپ نے فاقے برداشت کر کر کے تعلیم دلائی تھی بولا کہ یہ ہمارے ٹہلیے ہیں، یعنی ہمارے گھر کے نوکر ہیں۔ اس پر باپ کو سخت غصّہ آیا اور وہ کہنے لگا مَیں ان کا ٹہلیا تو نہیں ان کی والدہ کا ضرور ہوں۔ اس فقرہ سے سب لوگ سمجھ گئے کہ یہ شخص ڈپٹی صاحب کا والد ہے اور انہوں نے ان کو سخت ملامت کی کہ آپ بڑے نالائق ہیں کہ اس طرح اپنے باپ کی ہتک کرتے ہیں ۔ تو دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ غریب رشتہ دار جب اپنے کسی امیر رشتہ دار کے ہاں جاتے ہیں تو ان کی عزّت میں فرق آ جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم فرشتوں کو حکم دیں گے کہ دیکھو سَـلَامٌ عَلَیْکَ نہ کہنا بلکہ سَـلَامٌ عَلَیْکُمْ کہنا اور ان سب رشتہ داروں کی عزت کرنا جو اس کے پاس جمع کئے گئے ہوں گے پس سَـلَامٌ عَلَیْکُمْ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت کو بھی قائم کر دیا۔
جماعت کو نصیحت
یہ وہ مقبرے ہیں جو مَیں نے دیکھے اور خوش قسمت ہے وہ جو ان مقبروں میں اچھی جگہ پائے، مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ
ابھی تک ہماری جماعت کے بعض دوستوں نے بھی اِس حقیقت کو نہیں سمجھا۔ میں ایک دن بچوں کے قبرستان میں گیا تو وہاں میں نے دیکھا کہ قریباً ہر قبر پر بڑے بڑے کتبے لگے ہوئے تھے حالانکہ قبریں بالکل سادہ بنانی چاہئیں اور نمودونمائش پر اپنا روپیہ برباد نہیں کرنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود عَلَیْہِ السَّـلَامُ کی قبر کو دیکھو وہ کیسی سادہ ہے اسی طرح تمہیں بھی اپنے عزیزوں کی قبروںمیں سادگی مدّنظر رکھنی چاہئے اور بِلاضرورت اپنے روپیہ کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان کے اندر یہ طبعی خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کی قبروں کی حفاظت کرے، لیکن تمہارے مرنے کے بعد اِن قبروں کی حفاظت کا کون ذمہ دار ہو سکتا ہے؟ ممکن ہے کہ بعد میںآنے والے اِن قبروں کو اُکھیڑ کر ان میں اپنے مُردے دفن کر دیں اور تمہارے مُردوں کاکسی کونشان تک بھی نہ ملے۔ لیکن خداتعالیٰ کے ہاںجو مقبرہ بنتا ہے اُسے کوئی شخص اُکھیڑنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ پس اپنی قبریں اُسی جگہ بنائو جہاں خداتعالیٰ تمہاری قبروں کی حفاظت کا خود ذمّہ دار ہوگا اور اگر دنیا میں اپنی قبریں کسی اچھی جگہ بنانے کی خواہش رکھتے ہو تو پھر بہشتی مقبرہ میں بنائو۔ اور یاد رکھو کہ اگر وصیت کے بعد تم کسی مقام پر قتل کر دئیے جاتے ہو یا کسی چھت کے نیچے دب کرہلاک ہو جاتے ہو یا آگ میں گِر کر جل جاتے ہو یا دریا میں غرق ہو جاتے ہو یا شیر کا شکار بن جاتے اور اس طرح بہشتی مقبرہ میں تمہارا جسم دفن نہیں ہو سکتا تو مت سمجھو کہ تمہارا خداتمہیں ضائع کردے گا۔ جب کوئی شخص شیر کے پیٹ میں جا رہا ہو گا تو اُس شیر کے پیچھے جبریل ہاتھ پھیلائے کھڑا ہو گا کہ کب اس کی رُوح نکلتی ہے کہ میں اسے اپنی آغوش میں لے لُوں ۔ا سی طرح جب کوئی شخص آگ میں جل رہا ہو گا تو گو لوگوں کو یہی نظر آ رہا ہو گا کہ وہ جل کرفنا ہو گیا مگر خدا کے دربار میں وہ اُس کی محبت کی آگ میں جل رہا ہو گا اور خدا کے فرشتے اس کی عزّت کر رہے ہو نگے۔
پس دنیا کے مقبروں پر اپنا روپیہ ضائع مت کرو، بلکہ اپنی قبریں بہشتی مقبرہ میں بنائو۔ اور یا پھر اُس بہشتی مقبرہ میںبنائو جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں، جہاں نوح ؑ بھی ہیں، جہاں ابراہیم ؑ بھی ہیں، جہاںموسیٰ ؑ بھی ہیں، جہاںعیسیٰ ؑ بھی ہیں اور جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی ہیں۔ اسی طرح تمہارے آباء واجداد بھی وہیں ہیں۔پس کوشش کرو کہ وہاں تمہیں اچھے مقبرے نصیب ہوں اور تمہیں اُ س کے رسولوں کا قرب حاصل ہو۔
(۷)۔ مِینا بازار
ساتویں چیز جس کے نشان میں نے اس سفر میں دیکھے اور جن سے میں متأثر ہؤا وہ مینا بازار تھے۔ چنانچہ میں نے ان یادگاروں میں بازاروں کی جگہ بھی دیکھی جہاں شاہی نگرانی میں بازار لگتے تھے اور ہر قسم کی چیزیں وہاں فروخت ہوتی تھیں۔ یہ بازار شاہانہ کرّوفر کا ایک نمونہ ہوتے تھے اور بادشاہ خود اِ ن بازاروں میں آکر چیزیں خریدا کرتے تھے۔ آجکل بھی شاہی نگرانی میں بعض دفعہ بازار لگتے ہیں، چنانچہ لاہور میں کبھی کبھی نمائش ہوتی ہے جس میں تمام قسم کی دُکانیں ہوتی ہیں اور انسان کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ اُسے مل جاتی ہے۔ لنڈن میں بھی ایک دفعہ ویمبلےؔ کی نمائش ہوئی تھی۔ اِسی موقع پر ایک مذہبی کانفرنس بھی ہوئی جس میں مَیں نے مضمون پڑھا تھا۔ اُس وقت مَیں نے بھی اس بازار کو دیکھا تھا ، مگر جو دُھندلانقش میرے دماغ پررہ گیا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ میں اس سے کچھ زیادہ متأثر نہ ہؤا تھا۔ پُرانے زمانہ کے بادشاہ بھی اسی قسم کے بازار لگایا کرتے تھے اور وہاں قسم قسم کی چیزیں فروخت ہؤا کرتی تھیں۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ کیا ہی اچھے بازار ہوتے ہوں گے جہاں بادشاہ اور وزراء خود خریدار بن کر آتے ہوں گے اور اچھی سے اچھی چیزیں بِکتی ہوں گی۔
مینابازار میں فروخت ہونیوالی اشیاء
پھر مَیں نے اپنے ذہن میںسوچا کہ وہاں کیا کیا چیزیں فروخت ہوتی ہوں گی؟ اور اِس
سوال کا میرے دل نے مجھے یہ جواب دیا کہ :-
اول: وہاں نہایت اعلیٰ درجہ کے مؤدب اور سیکھے ہوئے غلام فروخت ہوتے ہونگے۔
دوم: وہاں ُعمدہ سے ُعمدہ سواریاں بِکتی ہوں گی۔
سوم: میں نے اپنے دل میںسوچا کہ وہاں پینے کی چیزیں بھی فروخت ہوتی ہوں گی۔ کوئی کہتا ہوگا برف والا پانی لے لو، کوئی کیوڑہ اور بیدِمشک کا شربت فروخت کرتا ہو گا، کوئی تازہ دُودھ فروخت کرتا ہوگا، کوئی شہد فروخت کرتا ہو گا، کوئی اُس وقت کے ملک کے رواج کے مطابق شراب فروخت کرتا ہو گا اور کوئی گرم چائے فروخت کرتا ہو گا۔
چہارم: پھر کھانے کے لئے ُعمدہ سے ُعمدہ چیزیں فروخت ہوتی ہوں گی، کہیں پرندوں کے کباب فروخت ہوتے ہوں گے، کہیں انگور، کیلے، انار اور رنگترے وغیرہ فروخت ہوتے ہوں گے۔
پنجم: کسی جگہ لباس کی دُکانیں ہوں گی اور اچھے سے اچھے لباس فروخت ہوتے ہونگے۔
ششم:کہیں زینت کے سامان آئینے، کنگھیاں، رِبن او رپائوڈر وغیرہ فروخت ہوتے ہوں گے۔
ہفتم: کسی دُکان پر خوشبوئیں اور عطر وغیرہ فروخت ہوتا ہو گا۔
ہشتم: بعض ایسی دُکانیں ہوںگی، جہاں سے طاقت کی دوائیں ملتی ہوں گی جن سے زندگی کی حفاظت ہو۔
نہم: کسی دُکان پرنہایت اعلیٰ اور نفیس برتن فروخت ہوتے ہوں گے۔
دھم: کسی دُکان پرجنگ کے سامان یعنی تلواریں اور طپنچے۲۲؎ وغیر ہ فروخت ہوتے ہونگے۔
یازدھم: کسی دُکان پر گھروں کا سامان قالین، تکیے اور تخت وغیرہ فروخت ہوتے ہونگے۔
ایک اَور روحانی بازار
میں نے سوچا کہ یہ بازار نہایت دلکش ہوتے ہوں گے اور دیکھنے کے قابل اور بہت اعلیٰ درجہ کی چیزیں یہاں آتی ہوں گی۔ مگر
جب میں اس قلعہ پر تھا تو مَیں نے سوچا کہ کیا اس سے اچھے بازار بھی کہیں ہو سکتے ہیں؟ تو مَیں نے دیکھا ایک اَور روحانی بازار کا ذکر قرآن کریم میں ہے جس میں نہ صرف یہ سب چیزیں بلکہ ان سے بھی اعلیٰ درجہ کی چیزیں ملتی ہیں۔ مگر مَیں نے اس بازار کا طریق ان بازاروں سے ذرا نرالا دیکھا یعنی اُن بازاروں میںتو یہ ہوتا ہے کہ الگ الگ دُکاندار ہوتے ہیں۔ کوئی شربت فروخت کر رہا ہوتا ہے، کوئی شہد لے کر بیٹھا ہوتا ہے، کسی کے پاس قالین اور تکیے وغیر ہ ہوتے ہیں، کسی دُکان پرلباس اور کسی پر پھل وغیرہ فروخت ہوتا ہے اور باہر سے گاہک آتا ہے جیب سے پیسے نکالتا ہے اور چیز خریدلیتا ہے۔ مگر اس بازار کا مَیں نے عجیب حساب دیکھا کہ بیچنے والے بہت سے تھے مگر گاہک ایک ہی تھا اور پھر جتنے بیچنے والے تھے وہ سب کے سب صرف دو چیزیں بیچتے تھے اور جو گاہک تھا وہ اِن دو چیزوں کے بدلہ میں انہیں بہت کچھ دے دیتا تھا ۔مَیں نے کہا یہ عجیب قسم کا مینا بازار ہے اَور بازاروں میں تو یہ ہوتا ہے کہ پچاس دُکانیں ہوں تو سَو خریدار ہوتا ہے مگر یہاں دُکانیں تو لاکھوں اور کروڑوں تھیں مگر خریدار ایک ہی تھا اور پھر ان دُکانوں کی خوبی یہ تھی کہ ان میں صرف دو ہی چیزیں بِکتی تھیں زیادہ نہیں اور وہاں تو خریدار پیسے دیتے تھے مگر یہ عجیب گاہک تھا کہ فروخت کرنیوالے کو ہر قسم کا سامان بدلہ میں دے دیتا تھا اور یہ بھی کہہ دیتا کہ اپنی ان دو چیزوں کو بھی اپنے پاس ہی رکھو، چنانچہ اِس بازار کا یہ نقشہ مَیں نے قرآن کریم میں دیکھا۔ـاِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّافِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ وَمَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ وَذٰلِکَ ھُوَالْفَوْزُالْعَظِیْمُ۲۳؎
فرماتا ہے مینابازار لگ گیا ، شاہی بازار آراستہ وپیراستہ ہو گیا تم سب آ جائو مگر خریدار ہو کر نہیں بلکہ اپنا سامان لے کر یہاں بیچنے کیلئے آجائو، بادشاہ خود خریداربن کرآیا ہے اور اُس نے تمہارے مال یعنی اموالِ مادی اور جانیں دونوں تم سے خریدلیں۔ وہ مال ادنیٰ تھا یا اعلیٰ ، قیمتی تھا یا حقیر، تھوڑا تھا یا بہت، سب ہی خرید لیا اور قیمت تمہاری نیتوںکے مطابق ڈالی اور سب کو اس مال کے بدلہ جنت قیمت میں ادا کی۔ گویا سارا مینا بازار اُن کوبخش دیا اور سب مال فروشوں کو حقیر مال کے بدلہ میں مالامال کر دیا۔ا تنی بڑی قیمت ہم اس لئے اد ا کرتے ہیں کہ یہ لوگ خداتعالیٰ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں یادشمن کو مارتے ہیں یا خود مارے جاتے ہیں۔ پس چونکہ وہ ہماری راہ میں اپنی تھوڑی پونجی سے ُبخل نہیں برتتے، ہم بڑے مالدار ہو کرکیوں ُبخلسے کام لیں۔ پھر ہم وعدہ وفا ہیں اور ان فروخت کنندوں سے یہ وعدہ ہمارا آج کا نہیں پُرانا ہے۔ یہ وعدہ ہم نے تورات میں بھی کیا تھا اور پھر انجیل میں بھی کیا تھا اور حال میں اُسی وعدے کو قرآن میں دُہرایا تھا اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ وعدہ وفا کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔ پس اے لوگو! آج جو سَودا تم نے کیا ہے اس کے نتائج پر خوش ہو جائو اور یقینا ایسا ہی سَودا بڑی کامیابی کہلا سکتا ہے گویا خریدار ایک ہے فروخت کرنے والے بہت سے ہیں مگر وہ سب دو ہی چیزیں فروخت کرتے ہیں اور اس کے بدلہ میں اُن کو وہ سب چیزیں ملتی ہیں جو مینا بازاروںمیں ہؤا کرتی تھیں ا ور اس طرح ایک ہی سَودے میں سب سَودے ہو جاتے ہیں۔
دُنیوی اور روحانی مینا بازار میں عظیم الشان فرق
پھر مَیں نے جب اس بازار کو دیکھا تو مَیں نے کہا ایک اَور
فرق بھی اِس مینا بازار اور دُنیوی مینا بازاروں میں ہے اور وہ یہ کہ مینا بازاروں کی اشیاء کو خریدنے کی طاقت تو کسی انسان میں ہوتی تھی اور کسی میں نہیں، مثلاً وہاں کہا جاتا تھا کہ یہ چیز دس ہزار روپیہ کی ہے اور خریدار کے دل میں اُس کو خریدنے کی خواہش بھی ہوتی تھی مگر وہ خرید نہیں سکتا تھا، کیونکہ اس کے پاس دس ہزار روپے نہیں ہوتے تھے۔
اسی طرح کسی کو کوئی اور چیز پسند آئی اور وہ قیمت دریافت کرتا تو اُسے بتایا جاتا کہ ایک سَو روپیہ ہے ، مگر وہ ایک سَو روپیہ دینے کی طاقت نہیں رکھتا تھا اور اس طرح اس کو خریدنے سے محروم رہتا تھا، کیونکہ وہاں قیمتیں مقرر ہوتی تھیں اور ان میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ نہیں کہ زید آیا تو اُسے کہدیا اس کی قیمت بیس ہزار روپیہ ہے اور بکر آیا تو کہہ دیا پانچ ہزارروپیہ ہے اور خالد آیا تو کہہ دیا ایک ہزار روپیہ ہے، عمر و آ گیا تو اُسے وہی چیز سَو روپیہ میں دے دی،بدردین آگیا تو وہی چیز اُسے آٹھ آنے میں دے دی ، شمس الدین پہنچا تو اُسے ایک پیسے میں دے دی اور علائوالدین آیا تو اُسے ایک کوڑی میں دے دی۔ یہ طریقہ دُنیوی مینا بازاروں میں نظر نہیں آتا، مگر اِس مینا بازار میں ہمیں یہی حساب نظر آتا ہے۔ ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے جنت چاہئے۔ اُس سے پوچھا جاتا ہے تیرے پاس کتنا مال ہے؟ وہ کہتا ہے ایک کروڑ روپیہ۔ اُسے کہا جاتا ہے اچھا لائو اپنی جان اور ایک کروڑ روپیہ اور لے لو جنت۔ پھر ایک اور شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے بھی جنت چاہئے۔ اُ س سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پاس کتنا روپیہ ہے؟ وہ کہتا ہے ایک لاکھ روپیہ۔ اُسے کہا جاتا ہے اچھا لائواپنی جان اور ایک لاکھ روپیہ اور لے لو جنت۔ اُسی وقت ایک تیسر ا شخص آجاتا ہے اور وہ کہتا ہے میرے پاس صرف سَو روپیہ ہے مگر میں بھی جنت لینا چاہتا ہوں اُسے کہا جاتا ہے اچھا تم بھی اپنی جان اور سَو روپیہ لائو اور جنت لے لو۔ پھر ایک اور شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس سَو روپیہ تو کیا ایک پیسہ بھی نہیں ہے صرف مُٹّھی َجو کے دانے ہیں مگر خواہش میری بھی یہی ہے کہ مجھے جنت ملے۔ اُسے کہا جاتا ہے کہ تمہارا سَودا منظور لائو جان اور مُٹّھی بھر دانے اور لے لو جنت ۔۲۴؎ بلکہ اس بازار میں ہمیں ایسے ایسے بھی دکھائی دیئے کہ چشمِ حیرت کُھلی کی کُھلی رہ گئی۔ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! مجھ سے ایسا ایسا گناہ ہو گیا ہے، آپؐ نے فرمایا تو پھر اس کا کفارہ ادا کرو اور اتنے روزے رکھو۔ اُس نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! مجھ میں تو روزے رکھنے کی طاقت نہیں۔ آپؐ نے فرمایا اچھا روزے رکھنے کی طاقت نہیں تو غلام آزاد کردو۔ وہ کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! میں نے تو کبھی غلام دیکھے بھی نہیں اُن کو آزاد کرنے کے کیا معنی؟آپؐ نے فرمایا اچھا تو اتنے غریبوں کو کھانا ِکھلا دو۔ کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! خود تو کبھی پیٹ بھر کر کھانا کھانا نصیب نہیں ہؤا ، غریبوں کو کہاں سے ِکھلائوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا کہ لائو دو ٹوکرے کھجوروں کے اور وہ اُسے دیکر فرمایا کہ جائو اور غریبوں کو ِکھلا دو۔ وہ کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! کیا سارے مدینہ میں مجھ سے بھی زیادہ کوئی غریب ہے؟ آپؐ ہنس پڑے اور فرمایا اچھا جائو اور تم ہی یہ کھجوریں کھالو،۲۵؎ میں نے کہا یہ عجیب نظارے ہیں جو اس مینا بازار میں نظر آتے ہیں کہ جنت یعنی مینا بازار کا سب سامان صرف اس طرح مل جاتا ہے کہ جو پاس ہے وہ دے دو۔ جس کے پاس کروڑروپیہ ہوتا ہے وہ کروڑ روپیہ دے کر سب چیزوں کا مالک ہو جاتا ہے اور جس کے پاس ایک پیسہ ہو تا ہے وہ ایک پیسہ دے کر سب چیزوں کا مالک ہو جاتا ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اُسے خریدار اپنے پاس سے کچھ رقم دے کر کہتا ہے لو اِس مال سے تم سَودا کر لو تم کوجنت مل جائے گی۔
روحانی مینا بازار میں گاہک کا تاجروں سے نرالا سلوک
پھر میں نے ایک اَور فرق دیکھا کہ عام مینا بازاروں
میںتو یہ ہوتا ہے کہ گاہک آئے، انہوں نے چیزیںخریدیں اور انہیں اُٹھا کر اپنے گھروں کو چلے گئے اور دُکاندار بھی شام کے وقت پیسے سمیٹ کر اپنے اپنے مکانوں کو روانہ ہو گئے۔مگر اِس مینا بازار میں گاہک چیزیں خریدنے کے بعد وہیں چیزیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے ا ور اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے جاتا گویا وہی یوسفؑ والا معاملہ ہے کہ غلّہ بھی دے دیا اور پیسے بھی بوریوں میں واپس کر دئیے۔ اسی طرح ایک طرف تو قرآنی گاہک جان اور مال لیتا ہے اور اُدھر چُپ کر کے ِکھسک جاتا ہے، دُکاندار سمجھتا ہے کہ شاید وہ ُبھول گیا ہے چنانچہ وہ کہتا ہے آپ اپنی چیزیں لے جائیں، مگر وہ کہہ کر چلاجاتاہے کہ ان چیزوں کو اپنے پاس ہی امانتًا رکھو اور مناسب طور پر اِس میںسے خرچ کرنے کی بھی تم کو اجازت ہے مجھے جب ضرورت ہوئی لے لوں گا۔ گویا قیمت لے کر وہ پھر قیمت واپس کر دیتا ہے اور کہتا ہے تم اسے اپنے پاس ہی رکھو، جس قدر موقع کے مناسب ہو گا میں تم سے لے لونگا چنانچہ میں نے دیکھا کہ مال اور جان مینا بازار کی سب چیزوں کے مقابل پر لے کر وہ جان اور مال دینے والوں سے کہتا ہے ۔ وَمِمَّارَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۲۶؎ وہ ساری جان اور سارا مال گو میرے حوالے کر دیتے ہیں، مگر میںساری جان اور سارا مال اُ ن سے عملاً نہیں لیتا بلکہ اُنہی کو دیکر کہتا ہوں کہ اِ س میں سے کچھ میرے لئے خرچ کرو اور باقی اپنے پاس رکھو اور اپنے کام میںلائو اور اِس سے نہ ڈرو کہ میں نے جو قیمت دی ہے اُ س میں کمی ہو گی وہ تم کوپوری ملے گی۔
جان اور مال کا مطالبہ
اب مَیں نے غور کیا کہ گو یہ نرالا اور عجیب سَودا ہے ، لیکن آخر اِس میں عجیب سَودے کا مطالبہ بھی تو کیا گیا ہے یعنی اپنے آپ
کو غلام بنا دینے کا ۔بیشک اس مینا بازار میں اعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں ملتی ہیں،مگر سوال یہ ہے کہ کیا غلام بننا کوئی آسان کام ہے اور کیا جان اور مال دوسرے کو دے دینا معمولی بات ہے؟ دنیا میں کون شخص ہے جو غلامی کو پسند کرتا ہو پس میں نے اپنے دل میں کہا کہ مجھے غور کر لینا چاہئے کہ کیا یہ سَودا مجھے مہنگا تو نہیں پڑے گا اور کیا اعلیٰ سے اعلیٰ چیزوں کے لالچ میں اپنا آپ دوسرے کے حوالے کر دینا موزوں ہے؟ پس مَیں نے کہا پہلے سوچ لو کہ غلام ہونا اچھا ہے یا یہ چیزیں اچھی ہیں۔
غلامی کیوں بُری سمجھی جاتی ہے ؟
جب میں نے اس غلامی پر غور کیا کہ یہ کس قسم کی غلامی ہے اور یہ کہ کیا اِس غلامی کو قبول کرنااس بازار
کے سامان کے مقابلہ میں ِگراں تو نہیں؟ تو میں نے سوچا کہ غلامی کیوں بُری ہوتی ہے اور پھر میرے دل نے ہی جواب دیا اس لئے کہ:-
اوّلؔ: اِس میں انسان کی آزادی چِھن جاتی ہے۔
دومؔ: انسان کا سب کچھ دوسرے کا ہو جاتا ہے۔
سومؔ: اِس میں انسان کی خواہشات ماری جاتی ہیں۔
چہارمؔ: اِس میں غلام اپنے عزیزوں سے جُدا ہو جاتا ہے۔بیوی بچوں سے نہیں مل سکتا بلکہ جہاں آقا کہے وہیں رہنا پڑتا ہے۔
مَیں نے کہا یہ چار بُرائیاں ہیں جن کی وجہ سے غلامی کو ناپسند کیا جاتا ہے۔ پس میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں آزاد ہو کر غلام کس طرح بن جائوں اور کس طرح اس دھوکا اورفریب میں آ جائوں۔
قیدوبند میںمبتلا انسان اپنی حماقت
سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے
میں اِنہی خیالات میں تھا کہ یکدم مَیں نے دیکھا کہ مَیں ( اور مَیں سے مراد اِس وقت انسان ہے نہ کہ میرا ذاتی وجود) جو اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا، درحقیقت قید وبند میں پڑا ہؤ ا تھا۔ مَیں نے دیکھا
کہ میری گردن میں طَوق تھا، میر ے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور میرے پائوں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں، مگر مَیں یونہی اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا، حالانکہ نہ ہتھکڑیاں مجھے کام کرنے دیتی تھیں، نہ پائوں کی بیڑیاں مجھے چلنے دیتی تھیں، نہ گردن کا طَوق مجھے گردن اونچی کرنے دیتا تھا۔ یہ طَوق اُن گناہوں ، غلطیوں اور بیوقوفیوں کا تھا جو مجھے گردن نہیں اُٹھانے دیتی تھیں اور یہ زنجیریں، اُن بدعادات کی تھیں جو مجھے آزادی سے کوئی کام نہیں کرنے دیتی تھیں۔ بس میں اسی طرح ہاتھ ہلانے پر مجبور تھا جس طرح میری زنجیریں مجھے ہلانے کی اجازت دیتی تھیں اور یہ بیڑیاں اُن غلط تعلیموں کی تھیں جو غلط مذاہب یا غلط قومی رواجوں نے میر ے پائوں میںڈال رکھی تھیں اور جو مجھے چلنے پھرنے سے روکتی تھیں۔ تب میں حیران ہؤا کہ انسان اپنے آپ کوکیوں آزاد کہتا ہے حالانکہ وہ بدترین غلامی میں جکڑا ہؤا ہے۔ نہ ہاتھوں کی ہتھکڑیاں اُسے کام کرنے دیتی ہیںنہ پائوں کی بیڑیاں اُسے ہلنے دیتی ہیںاور نہ گردن کا طَوق اُسے سر اُٹھانے دیتا ہے۔ یہ طَوق اُن گناہوں ، غلطیوں اور بیوقوفیوں کا ہوتا ہے جو اُس کی گردن میںہوتا ہے۔ مختلف گناہ، مختلف غلطیاں اور مختلف بیوقوفیاںوہ کر چکا ہوتا ہے اور اس کے نتائج اُس کے اِردگِرد گھوم رہے ہوتے ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ ان سے نجات حاصل کرے مگر انہوں نے اُس کو گردن سے پکڑا ہؤا ہوتا ہے اور اُسے کوئی بھاگنے کی جگہ نظر نہیں آتی۔ اِسی طرح جو زنجیریں ہوتی ہیں وہ بدعادات کی ہوتی ہیں۔ درحقیقت بدعادت اور بدعمل میںفرق ہے۔بدعمل ایک انفرادی شَے ہے کبھی ہؤا کبھی نہ ہؤا، مگر بدعادت ہمیشہ زنجیر کے طور پر چلتی ہے اور وہ انسان کو آزادی سے کوئی کام نہیںکرنے دیتی وہ چاہتا ہے کہ نماز پڑھے مگر اُسے عادت پڑی ہوئی ہے کہ کسی بُری مجلس میں بیٹھ کر شطرنج یا جؤا یا تاش کھیلنے لگ جاتا ہے تو اَب باوجود نماز کی خواہش کے وہ نماز پڑھنے نہیں جائے گا بلکہ شطرنج یاتاش کھیلنے چلا جائیگا۔ اِسی طرحبیڑیاں غلط تعلیموں کی ہوتی ہیں جو غلط مذاہب یا غلط قومی رواجوں کے ماتحت اس کے پائوں میں پڑ ی ہوئی ہوتی ہیں اور جس طرح درخت زمین نہیں چھوڑ سکتا اسی طرح وہ انسان اپنی قوم سے الگ نہیں ہو سکتا۔ تب مَیں حیران ہؤا کہ اوہو! انسان تو اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک خطرناک قیدی ہے۔ اس کے پائوں میں بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں، اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہیں اور اس کے گلے میں َطوق ہیں۔ پس یہ تو پہلے ہی غلام ہے اور غلام بھی ایسے ظالم مالک کا جو اُسے ہر وقت تباہی کی طرف لئے جاتا ہے۔ پس میں نے کہا جب انسان پہلے ہی غلام ہے اور غلام بھی ایسے مالک کا جو اُسے کچھ نہیں دیتا تو اِس دوسری غلامی کے اختیار کر لینے میں اس کا کیا حرج ہے اس کے ساتھ تو ایک جنت کا وعدہ بھی ہے۔
داروغہء جنت نے تمام بیڑیاںکاٹ دیں!
تب مَیں نے اُ س داروغہ کی طرف دیکھا جس کے سپر دمجھے کیا گیا تھا اور
مَیں نے یہ کہنا چاہا کہ اب تم مجھے اپنی بیڑیاںاور زنجیریں اور طَوق ڈال دو میں پہلے ہی غلام تھا اور اب بھی غلام بننے کو تیار ہوں، مگر مَیں نے یہ عجیب بات دیکھی کہ بجائے اس کے کہ اُس داروغہ کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں، بیڑیاں اور طَوق ہوں اُس کے ہاتھ میںایک بڑا سا کلہاڑا تھا اور جب میں نے کہا میں غلام بننے کو تیار ہوں، تو وہ داروغہ محبت سے میری طرف دیکھنے لگا اور بجائے اِس کے کہ میرے گلے اور ہاتھوں او رپائوں میں نئی ہتھکڑیاں، نئی بیڑیاں اور نئے طَوق ڈالتا اُس نے مجھے اپنے پاس بٹھا کر اُس کلہاڑے سے میری سب زنجیریں، سب بیڑیاں اور سب طَوق کاٹ دئیے اور مَیں نے پہلی مرتبہ آزادی کا سانس لیا مگر ساتھ ہی مَیں اِس امید میں رہا کہ پہلی زنجیریں ،بیڑیاں اور طَوق کاٹنے کے بعد اب یہ نئی زنجیریں ، نئی بیڑیاں اور نئے طَوق مجھے ڈالے گا مگر ایسا نہ ہونا تھا نہ ہؤا بلکہ آسمان سے ایک نہایت ہی پیاری آواز آئی جو یہ تھی کہ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًاعِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِوَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓـئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۲۷؎
وہ لوگ جو اِتّباع کرتے ہیں اس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ہمارا نبی ہے اور اُمّی ہے اور جس کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی موجود ہے وہ انہیں اچھی باتوں کی تعلیم دیتا ہے اور انہیں بُری باتوں سے روکتا ہے اور ساری حلال چیزوں کی انہیںاجازت دیتا ہے اور ان باتوں سے انہیں روکتا ہے جو مُضِرّ ہوتی ہیں اور انہوں نے غلاموں کی طرح اپنے سروں پر جو بوجھ لادے ہوئے تھے انہیں اُن کے اوپر سے دُور کر دیتا ہے، اسی طرح لوگوں کے گلوں میں جو طَوق پڑے ہوئے تھے انہیں ہمارا یہ رسول کاٹ کر الگ پھینک دیتا ہے۔ پس وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایما ن لاتے، آپ کی مدد کرتے اور اس نور کے پیچھے چلتے ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا ہے، اُن کے ہاتھوں اور پائوں میں کبھی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں نہیںرہ سکتیں اور نہ اُن کی گردنوں میں طَوق ہو سکتے ہیں بلکہ وہ ہمیشہ کے لئے آزاد ہو جاتے ہیں۔
مَیں نے کہا مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ میر ے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پائوں میں بیڑیاں اور گردن میں طَوق پڑے ہوئے ہیں، میں اپنے آپ کو آزاد سمجھتا تھا مگر جب مجھے اپنی حقیقت کا علم ہؤا تو میںاِس خیال کے ماتحت اس داروغہ کے سامنے گیا کہ جب میںپہلے غلام ہوں تو ایک نئی مگر پہلے سے اچھی غلامی برداشت کرنے میں کیا حرج ہے مگر یہاں جس کے حوالے کیا گیا اُس نے بجائے طَوق اور بیڑیاں پہنانے کے پہلے طَوق اوربیڑیوں کوبھی کاٹ دیا اور کہا کہ اب ان کے قریب بھی نہ جانا۔
داروغہء غلاماں کا مسرّت افزا پیغام
میں یہ نظارہ دیکھ کر سخت حیران ہؤا اور میںیہ سمجھا کہ آج انسان نے اس داروغہء غلاماں کے
ذریعے پہلی دفعہ آزادی کا سانس لیا ہے مگر میں نے سوچا بیڑیاں اور زنجیریں تو کٹ گئیں ، لیکن آخر انسان غلام تو ہؤا ۔ غلامی کی دوسری باتیں تو ہوں گی اور جو کچھ اس کا ہے وہ لازماً اس کے آقا کا ہو جائے گا۔ چنانچہ مَیں اب اِس انتظار میں رہا کہ مجھ سے کہا جائے گا کہ لائو اپنی سب چیزیں ہمارے حوالے کر دو، تم کون ہو جو یہ چیزیں اپنے پاس رکھو، مگر بجائے اِس کے کہ غلاموں کا داروغہ یہ کہتا کہ لائو اپنی سب چیزیں میرے حوالے کرو اُ س نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اب جو تم میر ے آقا کے غلام بنے ہو تو لو سُنو! اُس نے مجھے یہ پیغام دیا ہے کہ وَھُوَیَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ۲۸؎ اگر اچھی طرح غلامی کر وگے تو وہ تمہارا پوری طرح کفیل ہو گا اور تمہاری سب ضرورتوں کو پور ا کرے گا، میں نے کہا یہ اچھی غلامی ہے۔ دنیا میں غلام تو آقا کو کما کر دیا کرتے ہیں اور یہ آقا کہتا ہے کہ ہم تمہاری سب ضرورتوں کے کفیل ہوتے ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو دنیا میں غلاموں سے مختلف قسم کے کام لئے جاتے ہیں کوئی نجاری کاکام کرتا ہے، کوئی لوہارے کا کام کرتا ہے، کوئی مزدوری کا کام کرتا ہے، کوئی درزی کا کام کرتا ہے، اسی طرح اور کئی قسم کے کام اُن سے لئے جاتے ہیں اور وہ جو کچھ کماتے ہیں اپنے آقا کے سامنے لا کر رکھ دیتے ہیںمگر یہاں اُلٹی بات ہوتی ہے کہ جب کوئی غلام بنتا ہے تو اُسے یہ پیغام دے دیا جاتا ہے کہ چونکہ تم غلام ہو گئے ہو اِس لئے تمہاری سب ضرورتوں کے ہم کفیل ہو گئے ہیں۔
ایک بزرگ کا دلچسپ واقعہ
ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ روزی کمانے کے لئے کوئی کام نہیں کرتے تھے اور توکّل پر گزارہ کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ انہیں جو کچھ بھیج دیتا کھا لیتے۔ ایک دفعہ اُنہیں ایک اَور بزرگ نے سمجھایا کہ یہ آپ ٹھیک نہیں کرتے آپ کو کوئی کام بھی کرنا چاہئے اِس طرح لوگوں پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ وہ کہنے لگے بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور مہمان اگر اپنے کھانے کا خود فکر کرے تو اس میں میزبان کی ہتک ہوتی ہے، اس لئے مَیں کوئی کام نہیں کرتا وہ کہنے لگے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تین دن سے زیادہ مہمانی جائز نہیں۲۹؎ اور اگر تین دن کوئی شخص مہمان بنتا ہے تو وہ سوال کرتا ہے آپ کے تین دن ہو چکے ہیں اس لئے آپ اب کام کریں۔ انہوں نے کہا حضرت مجھے بالکل منظور ہے مگر میں جس کے گھر کا مہمان ہوں وہ کہتا ہے اِنَّ یَوْماً عِنْدَرَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّاتَعُدُّوْنَ۔۳۰؎ تیرے رب کا ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے پس تین ہزار سال تو مجھے کچھ نہ کہیں، جس دن تین ہزار سال گزر گئے میں اپنا انتظام کر لونگا ابھی تو میں خدا تعالیٰ کا مہمان ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے پاک بندوں کی الگ الگ کی مہمانیاں ہوتی ہیں اور جیسے انسان مختلف ہوتے ہیں اِسی طرح اس کا سلوک بھی مختلف قسم کا ہوتا ہے مگر بہرحال اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا غلام بن جائے تو پھر وہ اُس کی ضروریات کا آپ ّمتکفل ہو جاتا ہے۔
تمام خواہشات کے پورا ہونے کی خوشخبری
پھر میں نے سوچا کہ اچھا غلام بن کر ایک بات تو ضرور ہو گی کہ مجھے اپنی
خواہشات کو چھوڑنا پڑے گا اور خواہشات کی قربانی بھی بڑی بھاری ہوتی ہے۔ اِس پر مجھے اسی غلاموں کے داروغہ نے کہا، آقا کی طرف سے ایک اور پیغام بھی آیا ہے اور وہ یہ کہ یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰـدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ۳۱؎
اے میرے بندے!چونکہ اب تُوہمار ا غلام بن گیا ہے اس لئے جہاں آقا ہو گا وہیں غلام رہے گا ُتو جا اور ہماری جنت میں رہ ۔مگر اس جنت میں آ کر یہ خیال نہ کرنا کہ آقا کامال میں کس طرح استعمال کروں گا۔ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَامَاتَدَّعُوْنَ۳۲؎ تمہارے دلوں میں جو بھی خواہش پیداہو گی وہ وہاں پوری کر دی جائے گی یعنی اِدھر تمہارے دلوں میں خواہش پیدا ہو گی، اُدھر اس کے مطابق چیز تیار ہو گی اور جو مانگو گے ملے گا۔
اَعزّہ و اقرباء کی دائمی رفاقت
پھر مجھے خیال آیا کہ بہر حال غلامی کی یہ شرط تو باقی رہے گی کہ مجھے اب اپنے عزیزواقرباء چھوڑنے پڑیں گے۔
کیونکہ جب غلام ہؤا تو اُن کے ساتھ رہنے پرمیرا کیا اختیار۔ لیکن اس بارہ میں بھی داروغۂ غلامان نے مجھے حیران کر دیا اور کہا کہ دیکھو میاں! آقا نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ
یعنی بجائے اس کے رشتہ داروں کو الگ الگ رکھا جائے سب کو اکٹھا رکھاجائے گا ، اگر ان میں سے بعض ادنیٰ عمل والے ہوں گے تب بھی اُن کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اعلیٰ مقام والوں کے پاس لے جائے گا اور رشتہ داروں کو جُدا جُدا نہیں رکھے گا۔
روحانی مینابازار میں ملنے والی نعماء
تب مَیں نے کہا یہ تو بڑے مزے کی غلامی ہے کہ اِس غلامی کو قبول کر کے قید وبند سے نجات ہوئی،
ہمیشہ کے لئے آقا نے کفالت لے لی، خواہشات نہ صرف قربان نہ ہوئیں بلکہ ان میںوہ وُسعت پید ا ہوئی کہ پہلے اس کا خیال بھی نہیں ہو سکتا تھا، پھر رشتہ دار اور عزیز بھی ساتھ کے ساتھ رہے۔ تب مَیں نے شوق سے اس بات کو معلوم کرنا چاہا کہ یہ تو اجتماعی انعام ہؤا، وہ جو مینا بازار کی چیزوں کا مجھ سے وعدہ تھا اس کی تفصیلات بھی تو دیکھوں کہ کیا ہیں اور کس رنگ میں حاصل ہوں گی۔
بے عیب غلام
مَیں نے سوچا کہ اُن مینا بازاروں میں غلام فروخت ہوتے تھے اور مَیں گو ایک لحاظ سے آزاد ہوں مگر بہرحال غلام ہوںاِس لئے غلام تو مجھے نہیں مل سکتے۔
یہ کمی تو ضرور رہے گی، مگر مَیں نے دیکھا اس جگہ دربار سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ جو اِس آقا کے غلام ہو کر جنت میں داخل ہو جائیں گے وَیَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ اِذَارَاَیْتَھُمْ حَسِبْتَھُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْراً ۳۳؎
اُن کی خدمت پر نوجوان غلام مقرر ہوںگے جو ہمیشہ وہاں رہیں گے اور وہ موتیوں کی طرح بے عیب ہوں گے اور کثرت سے ہوںگے۔
میں نے کہا دیکھو یہ کیسا فرق ہے اِس مینا بازار اور دنیا کے مینا بازاروں میں ، دُنیوی مینا بازاروں میں جو غلام خریدے جاتے ہیں اُن کے متعلق پہلا سوال تویہی کیا جاتا ہے کہ قیمت کتنی ہے؟ اب بالکل ممکن ہے کہ ایک غلام کی قیمت زیادہ ہو اور انسان باوجود خواہش کے اسے خرید نہ سکے، پھر اگر خرید بھی لے تو ممکن تھاکہ وہ غلام چند دنوں کے بعد بھاگ جاتا، اگر نہ بھاگتا تو ہو سکتا تھا کہ مر جاتا، اگر وہ نہ مرتا تو خریدنے والا مر سکتا تھا۔غرض کوئی نہ کوئی نقص کا پہلو اس میں ضرور تھا، مگر مَیں نے کہا یہ عجیب قسم کے غلام ملیں گے جونہ بھاگیں گے نہ مریں گے بلکہ مُخَلَّدُوْنَ ہونگے یعنی ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔
پھر دُنیوی مینا بازاروں میںتو انسان شاید ایک غلام خرید کر رہ جاتا یا دو غلام خرید لیتا یا تین یا چار خرید لیتا ، مگر اِس مینا بازار میں تو بے انتہاء غلام ملیں گے چنانچہ فرماتا ہے اِذَارَاَیْتَھُمْ حَسِبْتَھُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا جس طرح سمندر سے سینکڑوں موتی نکلتے ہیں اسی طرح وہ غلام سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ہوںگے۔ پھر دُنیوی غلاموں میں سے تو بعض بدمعاش بھی نکل آتے ہیں، مگر ان کے متعلق فرمایا وہ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا کی طرح ہونگے، دیکھو کیا لطیف تشبیہہ بیان کی گئی ہے۔ دنیا میں موتی کو بے عیب سمجھا جاتا ہے اور کسی کی اعلیٰ درجہ کی خوبی بیان کرنے کے لئے موتی کی ہی مثال پیش کرتے ہیں۔ پس اس مثال کے لحاظ سے لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا کا مفہوم یہ ہؤا کہ اُن میں کسی قسم کا جھوٹ، فریب، دغا ، کینہ اور کپٹ نہیں ہوگا، مگر موتی میںایک عیب بھی ہے اور وہ یہ کہ اُسے چور چُرا کر لے جاتا ہے، اسی لئے اُسے چُھپا چُھپا کر رکھا جاتا ہے مگر فرمایا کہ وہ بیشک اپنی خوبیوں میں موتیوں کی طرح ہونگے مگر وہ اتنے بے عیب ہوں گے کہ تم بیشک انہیں کُھلے طور پرپھینک دو اُن پر کوئی خراب اثر نہیں ہوگا۔ دنیامیں غلام ایک دوسرے کا بداثر قبول کر لیتے ہیں اس لئے انہیں بُری صحبت سے بچانے کی ضرورت ہوتی ہے مگر فرمایا وہ بداثر کو قبول ہی نہیں کرینگے اس لئے ان کو چُھپانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو گی بلکہ تم نے ان کو بے پروائی سے بکھیرا ہؤا ہو گا اور تمہیں ان کے متعلق کسی قسم کا خوف اور تردّد نہیں ہو گا۔
اعلیٰ درجہ کی سواریاں
پھرمیں نے سوچا کہ اُ س مینا بازار میں بڑی ُعمدہ سواریاں ملتی تھیں کیا یہاںبھی کوئی سواری ملے گی؟ تو مَیں نے دیکھا کہ اس جگہ
بھی سواری کا انتظام تھا چنانچہ لکھا تھا اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ اْلمُفْلِحُوْنَ۳۴؎ وہ متقی لوگ جو غلام بن چکے ہیں اُن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی سواریاں آئیں گی جن پر سوار ہوکروہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں پہنچیں گے، مَیں نے کہا یہ سواری تو عجیب ہے مینا بازار سے تو ہگنے ، مُوتنے اور گھاس کھانے والا گھوڑا ملتا تھا مگر یہاں مجھیہدایت کی سواری ملے گی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے گی۔ مَیں نے سمجھا کہ اگر وہاں گھوڑا ملتا تو وہ لِید کرتا اور اس کی صفائی میرے ذمہ ہوتی ، وہ گھاس کھاتا اور اُس کا لانا میرے ذمہ ہوتا، پھر شایدکبھی مُنہ زوری کرتا، میں اُسے مشرق کو لے جانا چاہتا اور وہ مجھے مغرب کو لے جاتا اور شاید مجھے گِرا بھی دیتا، مگر یہ گھوڑا جو مجھے ملا ہے، یہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ ہگتا ہے نہ ُموتتا ہے، نہ مُنہ زوری کرتا ہے اور نہ اپنے سوار کو گِراتا ہے بلکہ سیدھا اللہ تعالیٰ کے پاس لے جاتا ہے۔
پھر اُس گھوڑے پر چڑھ کر کوئی خاص عزّت نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ ہر شخص جس کے پاس سَو پچاس روپے ہوں، گھوڑا خرید سکتا ہے، مگر یہ گھوڑا خلعت کا گھوڑا ہو گا جو زمین وآسمان کے بادشاہ کی طرف سے بطور اعزاز آئے گا۔ پس معمولی ٹٹّو پر چڑھنا اور بات ہے اور یہ کہنا کہ بادشاہ کی طرف سے جو گھوڑا آیا ہے اُس پر سوار ہو جائیے یہ اور بات ہے۔
ٹھنڈے شربت
(۳) تیسرے میں نے دیکھا کہ مینا بازار میں ٹھنڈے پانی ملتے تھے مَیں نے کہا دیکھیں ہمارے مینا بازار میں بھی ٹھنڈے پانی ملتے ہیں یا نہیں؟
تو میں نے دیکھا کہ ان دنیا کے مینا بازاروں میں جو ٹھنڈے پانی ملتے تھے وہ توبعض دفعہ پینے کے بعد آگ لگا دیتے تھے اور صرف عارضی تسکین دیتے تھے، چنانچہ ہر شخص کا تجربہ ہو گا کہ گرمی میں جتنی زیادہ برف استعمال کی جائے اُتنی ہی زیادہ پیاس لگتی ہے۔ مگر یہ پانی جو آسمانی مینا بازار میںملتے تھے ان کی یہ کیفیت تھی کہ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًا۳۵؎ ا س جنت کے مینا بازار میںمؤمنوں کو ایسے بھرے ہوئے پیالے ملیںگے جن کی ملونی اور جن کی خاصیت ٹھنڈی ہوگی، وہ کافوری طرز کے ہونگے اور ان کے پینے کے بعد گرمی نہیں لگے گی۔ یعنی نہ صرف جسمانی ٹھنڈک پیدا ہو گی بلکہ ان کے پینے سے دل کی گرمی بھی دُور ہو جائے گی اور گھبراہٹ جاتی رہے گی اور اطمینان اورسکون پیدا ہو جائے گا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کافوری پیالے اُ ن کواِس لئے ملیں گے کہ اُن کے دلوں پر خداتعالیٰ کا خوف طاری تھا اور وہ اُس کے جلال سے ڈرتے تھے اِس وجہ سے اُن کا خوف دُور کرنے اور اُن کے دلوں کو تسکین عطا کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اُن کو کافوری مزاج والے پیالے پلائے جاتے۔ چنانچہ فرماتا ہے فَوَقٰھُمُ اللّٰہُ شَرَّذٰلِکَ الْیَوْمِ وَلَقّٰھُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُوْرًا ۳۶؎
وہ لوگ خداتعالیٰ کی ناراضگی سے ڈرا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی ہیبت ان کے دلوں پر طاری تھی اس لئے خداتعالیٰ نے چاہا کہ اُن کی ہیبت دُور کرنے کے لئے ا ن کو کافوری پیالے پلائے۔
گرم چائے
پھر مَیں نے سوچا کہ اچھا ٹھنڈے شربت تو ہوئے مگر کبھی گرم چائے کی بھی ضرورت ہوتی ہے تا کہ سردی کے وقت اس سے جسم کو گرمی پہنچائی جائے۔
ایسے وقت میںتو سرد یا سرد مزاج پانی سخت تکلیف دیتا ہے۔ پس اگر یہ کافوری پیالے ہی ملے تو ایسے وقت وہ کفایت نہ کریں گے، ایسے وقت میںتو گرم چائے کی ضرورت ہوگی۔ جب مجھے یہ خیال آیا تو میں نے دیکھا کہ اس آسمانی مینابازار میں چائے کا بھی انتظام تھا۔ چنانچہ لکھا ہے وَیُسْقَوْنَ فِیْھَا کَأْسًا کَانَ مِزَاجُھَا زَنْجَبِیْلاً ۳۷؎
چونکہ انسان کو کبھی گرمی کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس لئے جنتیوں کو ایسے پیالے بھی ملیں گے جن کے اندر سونٹھ کی طرح گرم خاصیت ہو گی۔
تو دیکھو دونوں ضرورتوں کو خداتعالیٰ نے پورا کر دیا، گرمی دُور کرنے کے لئے مؤمنوں کو ایسے پیالے پلانے کا انتظام کر دیا جوکافوری مزاج والے ہوں گے اور سردی کے اثرات کو دُور کرنے کے لئے ایسے پیالے پلانے کا انتظام فرما دیا جو زنجبیلی مزاج والے ہوں گے۔ پھر اس کی وجہ بھی بتا دی کہ کافوری پیالوں کی کیوں ضرورت ہوگی اور زنجبیلی پیالوں کی کیوں؟ کافوری پیالوں کی تو اِس لئے ضرورت ہو گی کہ مؤمن خداتعالیٰ کا خوف اپنے دل میںرکھتے تھے اور اُن کے دل ودماغ میں گھبراہٹ رہتی تھی کہ نہ معلوم وہ اللہ تعالیٰ کی رضاء کے مقام کو حاصل کرتے ہیں یا نہیں، اس لئے اگلے جہاں میںانہیں تسکین کے لئے کافوری پیالے پلائے جائیں گے اور زنجبیلی پیالے اس لئے پلائے جائیں گے کہ انہوں نے دین کے لئے گرمی دکھائی تھی اور بے تاب ہو کر اللہ تعالیٰ کے راستہ پر چلتے رہے تھے، اس لئے جب اُن کو گرمی کی ضرورت ہو گی انہیں گرمی پیدا کرنے کے سامان دئیے جائیںگے اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں لوگوں کو نکمّا بنا کر نہیں بٹھادیا جائے گا بلکہ اُن کی ساری لذّت ہی کام میں ہوگی اور انہیں زنجبیلی پیالے پلائے جائیں گے تا کہ اُن میں کام کی اور زیادہ قوت پیدا ہو۔ پس یہ خیال غلط ہے جوبعض مسلمانوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ جنت میں کوئی کام نہیں ہو گا، اگر ایسا ہی ہوتو ایک ایک منٹ جنتیوں کے لئے مصیبت بن جائے۔ ـ
اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے اِنَّ ھٰذَ اکَانَ لَکُمْ جَزَآئً وَّکَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًا ۳۸؎ چونکہ تم نے دنیا میںبڑے بڑے نیک اعمال کئے تھے اس لئے تمہارے اُن کاموں کو قائم رکھنے اور تمہاری ہمتوں کو تیز کرنے کے لئے زنجبیلی پیالے پلائے جائیں گے تاکہ تم میں نیکی، تقویٰ اور قوتِ عمل اَور بھی بڑھے اور تاتم پہلے سے بھی زیادہ ذکرِ الٰہی کرو پس جنت نکمّوں کی جگہ نہیں بلکہ اس دنیا سے زیادہ کام کرنے کی جگہ ہے۔
شیریں چشمے
پھر میں نے ایک اَور فرق دیکھا کہ دُنیوی مینا بازاروں کا کام تو ختم ہو جاتا تھا گلاس پِیا اور ختم۔ بعض دفعہ کہا جاتا شربت کیوڑہ دو تو جواب ملتا کہ
شربت کیوڑہ ختم ہو چکا ہے، بعض دفعہ برف مانگی جاتی تو کہہ دیا جاتا کہ برف ختم ہو گئی ہے۔ اسی طرح بعض مذہبی آدمی زمزم کاپانی یا گنگا جل بوتلوں میں بھر کر لاتے ہیں وہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ آسمانی پانی نرالا تھا جو ختم ہی نہ ہوتا تھا بلکہ اُس کے چشمے پھوڑے گئے تھے چنانچہ فرماتا ہے یُطَافُ عَلَیْھِمْ بِکَأْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ۳۹؎ وہاں ان کو ایسے بھرے ہوئے پیالے پلائے جائیں گے جو اُن چشموں سے لائے جائیں گے جو بہتے پانی والے ہوں گے یعنی وہ پانی محدود نہیں ہوگا جاری رہے گا۔
دُودھ کی نہریں
پھرمَیں نے کہا کہ اُن مینا بازاروں میںدودھ بھی ِبکتا ہے کیا وہاں دُودھ بھی ملے گا کہ وہ ایک ضروری غذاء ہے ۔ تومَیں نے دیکھا کہ ان
بازاروں میںتو دُودھ بوتلوں اور پائونڈوںاور سیروں کے حساب سے ِبکتا ہے پھر بھی کبھی خراب نکلتا ہے یا خراب ہو جانے کا ڈر ہوتا ہے اور جلدی پینا پڑتا ہے۔مگر وہاں کے دُودھ کا یہ حال ہے کہ مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِیْھَآ اَنْھٰـرٌ مِّنْ مَّآئٍ غَیْرِ اٰسِنٍ وَاَنْھَارٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ ۴۰؎
مؤمنوں سے جن جنتوں کا وعدہ ہے اُن کی کیفیت یہ ہے کہ وہاں پانی کی نہریں ہوں گی جو کبھی سڑے گا نہیں اور دُودھ کی نہریں ہوں گی جس کامزہ کبھی بدلے گا نہیں بلکہ وہ ہمیشہ قائم رہنے والا ہو گا۔ دنیا میں آج تک کبھی کسی بھینس نے ایسا دُودھ نہیںدیا جو لَمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ کامصداق ہو مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے مینا بازار میں ایسا ہی دودھ ملے گا۔ پھریہاں تو کسی جگہ روپیہ کا آٹھ سیر دودھ ملتا ہے اور کسی جگہ دس سیر اور کسی جگہ روپے سیر مگر وہاں دُودھ کی نہر بہہ رہی ہو گی اور نہر بھی ایسی ہو گی کہ لَمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ اس کے دودھ کے متعلق یہ نہیں کہا جائے گا کہ اسے جلدی اُبال لو، ایسا نہ ہو خراب ہو جائے یا شام کا دودھ ہے جلدی سے ناشتہ میں ہی استعمال کر لیا جائے دوپہر تک خراب ہو جائے گا، وہاں کا دُودھ کبھی خراب نہیں ہو گا۔
اِس آیت سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ دُودھ کی بڑی کثرت ہو گی مگر سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ کیا اس دُودھ کے استعمال پرکوئی روک تو نہیں ہوگی؟ اِس کا ازالہ اللہ تعالیٰ نے ایک اَور مقام پر کیا ہے فرماتا ہے وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ۴۱؎
ُتو مؤمنوں کو بشارت دے کہ اُن کو ایسی جنتیں ملیں گی جن کی نہریں اُن باغوں کے متعلق ہونگی یعنی جن کے باغ اُن کی نہریں ۔ یہ نہیں ہو گا کہ جس طرح دنیا میں نہری پانی کے استعمال کی اور اُس کی مقدار کی گورنمنٹ سے اجازت لی جاتی ہے اِسی طرح وہاں بھی اجازت لینی پڑے بلکہ جب چاہو ان نہروں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہو، خواہ وہ دُودھ کی نہریں ہوں یا شہد کی نہریں ہوں یا پانی کی نہریں ہوں سب باغ والوں کے قبضہ میں ہوں گی۔
مصفّٰی شہد
پھر مَیں نے کہا کہ دنیا کے مینا بازاروں میں شہد بھی ملتا ہے آیا اُس مینا بازار میں بھی شہد ملتا ہے یا نہیں؟ جب میرے دل میں یہ خیال آیا تو معاً میں نے یہ لکھا ہؤا
دیکھا کہ اَنْھَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی۴۲؎ وہاں خالص شہد کی نہریں بھی بہتی ہونگی۔ دنیا میں عام طور پر اوّل تو خالص شہد ملتا ہی نہیں۔ لو گ مصری کا شربت بنا کر اور تھوڑا سا اس میں شہد ملاکر کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ خالص شہد ہے اور اگر خالص شہد کا کچھ حصہ ہو بھی تو موم ضرور ہوتا ہے اور اگر شہد کا شربت بناکر پِیا جائے تو زبان پر موم لگ جاتا ہے، لیکن اگر کسی جگہ سے خالص شہد مل بھی جائے تو وہ پونڈوں اور ڈ ّبوں کی شکل میں ملتا ہے مگر فرمایا ہمارے ہاں یہ نہیں ہوگا کہ پونڈوں کے وزن کے ڈ ّبے پڑے ہوئے ہوں اور ہم کہیں کہ یہ چنبے کا شہد ہے اور یہ آسٹریلیا کا شہدہے بلکہ شہد کی نہریں بہتی ہونگی اور تمہارا اختیار ہو گا کہ جتنا شہد چاہو لے لو۔
پُر لذّت شراب
پھر مَیں نے سوچا کہ دُنیوی مینا بازاروں میں شراب بھی بِکتی تھی اور گو شراب ایک بُری چیز ہے اور مسلمانوں کے لئے اس کا استعمال جائز نہیں،
مگر قرآن کریم یہ تومانتا ہے کہ اس میں کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں چنانچہ فرماتا ہے یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَناَفِعُ لِلنَّاسِ۳ ۴؎
لوگ تم سے شراب اور ُجوئے کے متعلق پوچھتے ہیں تم کہہ دو کہ اُن کے استعمال میں بڑا گناہ ہے مگر لوگوں کے لئے ان میں کچھ منافع بھی ہیں۔ پس میں نے کہا جب قرآن خود یہ مانتا ہے کہ شراب میں کچھ فائدے بھی ہیں تو بہرحال شراب کے نہ ہونے سے ہم ان منافع سے تو محروم ہو گئے جو شراب سے حاصل ہو سکتے تھے، بیشک دُنیوی مینا بازاروں میں جوشراب ملتی تھی ، اُس کے پینے سے انسان گناہوں میںملوّث ہو جاتا تھا، مگر بہرحال اُسے شراب کے فائدے بھی پہنچتے تھے، اس لئے شراب میں کچھ منافع بھی ہیں توکیا اس کی خرابیوں سے بچا کر مجھے اس کے منافع سے فائدہ نہیں پہنچایا جا سکتا؟ یہ خیال میرے دل میں آیا تو مَیں نے دیکھا کہ یہ چیز اس مینا بازار میں بھی موجود تھی چنانچہ میں نے ایک بورڈ دیکھا جس پر لکھا تھا وَاَنْھَارٌمِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۴۴؎ وہاں شراب کی نہریں بہتی ہوں گی جو پینے والوں کے لئے بڑی لذّت کا موجب ہوں گی۔
ایک اعلیٰ درجہ کی سربمہر شراب
میں نے کہا اوہو! دنیا میں شراب تو صرف مٹکوں میں ہوتی ہے مگر یہاں نہروںکی صورت میں ہوگی
اور اتنی کثرت سے ہوگی کہ اس کی کوئی حد بندی ہی نہیں ہوگی مگر ا س کے ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ مٹکوں کی شراب کو گورنمنٹ اعلیٰ نہیں سمجھتی اور وہ اس کی بجائے ولایتی شراب بوتلوں میںبند کر کے بھیجتی ہے جو اپنے اثر اور ذائقہ میںزیادہ بہتر سمجھی جاتی ہے، مَیں نے کہا کہ اس مینا بازار میں تو شراب میں فرق کیا جاتا ہے ، کیا اُس مینا بازار میں بھی ایسا فرق ہے؟ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ وہاں بھی دو قسم کی شراب ہو گی ایک وہ جو نہروں کی صورت میں ہوگی اور گویا مٹکوں والی شراب کی قائم مقام ہوگی اور دوسری شراب وہ ہوگی جو بوتلوں میںبند ہو گی چنانچہ فرماتا ہے یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ خِتٰـمُہٗ مِسْکٌ۴۵؎ اس نہروں والی شراب کے علاوہ ایک اَور شراب بھی وہاں ہو گی جو بوتلوں میںبند ہو گی جس پر مُہریں لگی ہوئی ہوں گی اور جوایسی اعلیٰ درجہ کی ہو گی کہ اُس کی تلچھٹ۴۶؎ بھی مُشک کی خوشبو اپنے اندر رکھتی ہو گی، اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی شراب میںفرق ہو گا، ایک تو عا م شراب ہو گی جیسے بیئر(BEAR) وغیرہ اور ایک اعلیٰ درجہ کی شراب ہو گی جو آقا کا خاص تحفہ ہوگی اور سر بمہر ہو گی اور اس کی دُرد۴۷؎ مُشک کی ہوگی۔
روحانی شراب کی ایک عجیب خصوصیّت
تب میں نے سوچا کہ دُنیوی شراب تو عقل پرپردہ ڈال دیتی ہے، صحت برباد
کر دیتی ہے، انسان کو خمار ہو جاتا ہے، وہ گند َبکنے لگ جاتا ہے اور اس کے خیالات ناپاک اور پریشان ہو جاتے ہیں۔ بیشک شراب میں کچھ فائدے بھی پائے جاتے ہیں لیکن انہی عیوب کی وجہ سے دنیا کی پچاس ساٹھ سالہ زندگی بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ شراب نہ پیو، پھر ہمیشہ کی زندگی میں اس کے استعمال کو جائز کیوں رکھا گیا؟ اورکیا ایسا تو نہیںہو گا کہ اس شراب کوپی کر مَیںاپنی عبودیت کو ُبھول جائوں؟ اِس پرمَیں نے دیکھا کہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے لَافِیْھَا غَوْلٌ وَّلَا ھُمْ عَنْھَا یُنْزَفُوْنَ ۴۸؎
غَوْلٌکے معنی عربی میں عقل اور بدن کی صحت کے چلے جانے اور خمار کے پیدا ہو جانے کے ہیں۔۴۹؎ پس لَافِیْھَا غَوْلٌکے معنے یہ ہوئے کہ اس سے عقل ضائع نہیں ہو گی، بدن کی صحت پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑے گا اور پینے کے بعد خمار نہیں ہو گا۔ یہ تین عیب ہیں جو دنیا میں شراب پینے سے پیدا ہوتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کے بنائے ہوئے مینا بازار کی جو شراب ملے گی اُس سے نہ عقل خراب ہو گی اور نہ صحت کو کوئی نقصان پہنچے گا۔ یہاں شراب پینے والوں کو رعشہ ہو جاتا ہے گنٹھیا کی شکایت ہو جاتی ہے اور جب نشہ اُتر تا ہے تو اُس وقت بھی اُنہیں خمار سا ہوتا ہے اور اُن کے سر میںدرد ہوتا ہے، لیکن اِس مینا بازار میں جو شراب ملے گی اُس میں اِن نقائص میں سے کوئی نقص نہیں ہوگا۔
اسی طرح نزف کے معنے ہوتے ہیں ذَھَبَ عَقْلُہٗ اَوْسُکِّرَ۵۰؎ یعنی عقل کا چلے جانا اور بہکی بہکی باتیں کرنا۔ یہ بات بھی ہر شرابی میں نظر آسکتی ہے۔ خود مجھے ایک شرابی کا واقعہ یاد ہے جو میرے ساتھ پیش آیا، اب تو مَیں حفاظت کے خیال سے سیکنڈ کلا س میں سفر کیا کرتا ہوں لیکن جس زمانہ کی یہ بات ہے اُس زمانہ میں مَیں تھرڈ کلاس میں سفر کیا کرتا تھا، مگر اتفاق ایسا ہؤا کہ اُس دن تھرڈ کلاس میں سخت بِھیڑ تھی مَیں نے سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ لے لیا مگر سیکنڈ کلاس کا کمرہ بھی ایسا بھرا ہؤا تھاکہ بظاہر اُس میں کسی اور کے لئے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی تھی۔ چھوٹا سا کمرہ تھا اور اٹھارہ بیس آدمی اس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بہرحال جب میں اُس کمرہ میں گُھساتو ایک صاحب جو اندر بیٹھے ہوئے تھے وہ مجھے دیکھتے ہی فوراً کھڑے ہوگئے اور لوگوں سے کہنے لگے تمہیںشرم نہیں آتی کہ خود بیٹھے ہو اور یہ کھڑے ہیں ان کے لئے بھی جگہ بنائو تا کہ یہ بیٹھیں۔ مَیں نے سمجھا کہ گومَیں انہیں نہیں جانتا مگر یہ میرے واقف ہوںگے۔ چنانچہ اُن کے زور دینے پر لوگ اِدھر اُدھر ہو گئے اور میرے بیٹھنے کے لئے جگہ نکل آئی۔ جب میں بیٹھ گیا تو وُہی صاحب کہنے لگے کہ آپ کیا کھائیں گے؟ مَیں نے کہا آپ کی بڑی مہربانی ہے مگر یہ کھانے کا وقت نہیں میں لاہور جا رہا ہوں وہاں میرے عزیز ہیں وہاں سے کھانا کھا لوںگا۔ کہنے لگے نہیں پِھر بھی کیا کھائیں گے؟ مَیں نے کہا عرض تو کر دیا کہ کچھ نہیں۔ اِس پر وہ اور زیادہ اصرار کرنے لگے اور کہنے لگے اچھافرمائیے کیا کھائیں گے؟ مَیںنے کہا بہت بہت شکریہ میں کچھ نہیں کھائوں گا۔ کہنے لگے اچھاتو پھر فرمائیے ناکہ آپ کیا کھائیں گے؟ مَیں اب گھبرایا کہ یہ کیا مصیبت آ گئی ہے۔ اس سے پہلے مَیں نے کسی شرابی کو نہیں دیکھا تھا اس لئے میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ اپنے ہوش میں نہیں۔ اتنے میں ایک سِکھ صاحب کمرہ میں داخل ہوئے اِس پر وہ پھر کھڑے ہوگئے اور لوگوں سے کہنے لگے ، تمہیں شرم نہیں آتی کمرہ میں ایک بھلا مانس آیا ہے اور تم اُس کے لئے جگہ نہیں نکالتے۔اور یہ بات کچھ ایسے رُعب سے کہی کہ لوگوں نے اُس کے لئے بھی جگہ نکال دی۔ جب وہ ِسکھ صاحب بیٹھ چکے تو دو منٹ کے بعد وہ اُن سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے سردار صاحب! کچھ کھائیںگے؟ مَیں نے اُس وقت سمجھا کہ یہ شخص پاگل ہے اتنے میں ایک اور شخص کمرہ میں داخل ہوگیا۔ اِس پر وہ انہی سردار صاحب کو جن کو چند منٹ پہلے بڑے اعزاز سے بٹھا چکا تھا کہنے لگا تمہیں شرم نہیں آتی کہ خود بیٹھے ہو اور اس کے لئے جگہ نہیں نکالتے۔ آخر مَیں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو اُس نے بتایا کہ انہوں نے شراب پی ہوئی ہے اس پر مَیں اگلے سٹیشن کے آتے ہی وہاںسے ِکھسک گیا اور میں نے شکر کیا کہ اُس نے مجھ کو جھاڑ ڈالنے کی کوشش نہیںکی۔
توشراب انسانی عقل پربالکل پردہ ڈال دیتی ہے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَاھُمْ عَنْھَا یُنْزَفُوْنَ نہ انہیں نشہ چڑھے گا اور نہ بیہودہ باتیں کریں گے۔
پاکیزہ مذاق
اسی طرح فرماتا ہے یَتَنَازَعُوْنَ فِیْھَا کَأْسًالَّالَغْوٌ فِیْھَاوَلَاتَأْثِیْمٌ ۵۱؎ مؤمن وہاں آپس میں بڑی صلح صفائی اور محبت پیارسے رہیںگے اور جس
ہنسی مذاق میں ایک بھائی دوسرے بھائی سے کوئی چیز ِچھین کر لے جاتا ہے اسی طرح وہ ایک دوسرے سے ِچھین ِچھین کر کھائیں گے۔ یہ نہیں کہ اُن کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیںہوگا جس کی وجہ سے انہیں ِچھیننا پڑے گا بلکہ اُن کے پاس ہر چیز کی کثرت ہوگی، یہاں تک کہ دُودھ اور شہد اور پانی کی نہریں چل رہی ہوں گی مگر پھر بھی وہ محبت اور پیارے کے اظہار کے لئے ایک دوسرے سے پیالے ِچھین ِچھین کر پئیں گے۔ مگر دنیا میں تو اِس ِچھیننے کے نتیجہ میں کئی دفعہ لڑائی ہو جاتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں ۔ ایک کہتا ہے تم بڑے خبیث ہو اور دوسرا کہتا ہے تم بڑے خبیث ہو مگر فرمایا لَالَغْوٌفِیْھَا وَلَا تَأْثِیْمٌ وہاں قلوب اتنے صاف ہوں گے کہ انسان کے دل میں اس سے کوئی رنجش پیدا نہیں ہوگی کہ اُس کے بھائی نے اس سے پیالہ ِچھین لیا ہے بلکہ اُن کی آپس کی محبت اور زیادہ ترقی کر ے گی اور وہ اَور زیادہ نیک اور پاک بن جائیں گے۔ اس سے معلوم ہؤا کہ نہ صرف وہ شراب پاک ہوگی بلکہ جتنا زیادہ اُس شراب کو پئیں گے اُتنا ہی اُن کا دل پاک ہو گا اس سے صاف ظاہر ہے کہ دُنیوی شراب کی بُرائیاں اُ س میں نہیں ہوں گی۔
تزکیۂ نفس پیدا کرنے والی شراب
مگر پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُس کی خوبیاں کیا ہیں جن کی وجہ سے وہ پلائی جائے گی۔ تو اس کا
جواب مَیں نے یہ پایا کہ وَ سَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَاباً طَھُوْرًا۵۲؎ طَھُوْر کے معنے پاک کے بھی اور پاک کرنے والے کے بھی ہوتے ہیں اور طَاھِر کے معنے ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں پاک ہو پس سَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَاباً طَھُوْرًا کے معنے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو ایسی شراب پلائے گا جو اُن کے دلوں کو بالکل پاک کر دے گی۔ معلوم ہؤا کہ وہ شراب صرف نام کے لحاظ سے شراب ہے ورنہ اصل میں کوئی ایسی چیز ہوگی جس سے دل پاک ہوں گے۔ پھر طَھُوْر کے لفظ سے جس کے معنے پاک کرنے والی شَے اور پاک شَے کے ہوتے ہیں اِس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ شراب چیزوں کو سڑاکر نہیں بنائی جائے گی بلکہ اللہ تعالیٰ کے کُنْ کہنے کے نتیجہ میں پیدا ہو گی۔
اِسی طرح ایک اور لطیف اشارہ اِس میں یہ کیا گیا ہے کہ شراب خود گندی ہوتی ہے اور جو چیز آپ گندی اور سڑی ہوئی ہووہ دوسروں کو بھی گند میں مبتلاء کرتی ہے مگر فرمایا وہ شراب نہ خود سڑی ہوئی ہو گی اور نہ دوسروں کو گند میں مبتلاء کر ے گی، گویا اس کے دونوں طرف پاکیزگی ہوگی۔ وہ نہ آپ گندی اور سڑی ہوئی ہو گی او رنہ دوسروں کو گندگی میں مبتلاء کر ے گی۔
’’تسِنیم واٹر‘‘
پھر فرماتا ہے وَمِزَاجُہٗ مِنْ تَسْنِیْمٍ۵۳؎ اس شراب میں ایک پانی ملا یا جائے گا جو شرف ، بلندی اور کثرت کا ہو گا جیسے انگریز شراب پیتے ہیں تو
اُس میں سوڈا واٹر ملا لیتے ہیں۔ اسی طرح فرمایا ہم اس شراب میں تسنیم واٹر ملائیں گے گویا وہاں بھی سوڈا واٹر ہو گا، مگر اُس کانام ہو گا تسنیم واٹر۔ اور تسنیم کے معنے بلندی،شرف اور کثرت کے ہیں، گویا اُس پانی کو پی کر یہ تینوں باتیں انسان کو حاصل ہو ں گی کیونکہ یہ معمولی پانی نہیںہو گا بلکہ بلندی، شرف اور کثرت کے چشمہ کا ہو گا جو جنت میں بہتا ہو گا اور عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا الْمُقَرَّبُوْنَ۵۴؎ یہ ایک ایسا چشمہ ہو گا جس سے مقرب لوگ پانی پئیں گے۔ گویا دو گروہوں کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے ایک گروہ تو وہ ہوگا جس کی شراب میں ذائقہ کے لئے تسنیم کا پانی ملایا جائے گا اور جب بھی وہ شراب پینا چاہیں گے انہیںاُس کے مطابق تسنیم کا پانی شراب میں ملانے کے لئے دے دیا جائے گا، مگر ایک اور گروہ مقربین کا ہو گاجنہیں معمولی مقدار میں تسنیم کا پانی نہیں دیا جائے گا بلکہ عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا الْمُقَرَّبُوْنَ کے مطابق انہیں اجازت ہوگی کہ وہ جب بھی چاہیں تسنیم کے چشمہ سے پانی لے لیں جو بلندی،شرف اور کثرت کا چشمہ ہو گا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جنت میں جس شراب وغیرہ کا ذکر آتا ہے اُس سے مراد رُوحانی چیزیں ہیں ورنہ دُنیا میں کیا کبھی شرف، بلندی اور کثرت کا پانی بھی ہؤا کرتا ہے یا کوئی ایسی شراب بھی ہؤا کرتی ہے جو سٹرے نہیں؟ اور پھر وہ شراب ہی کیاہے جس میں نشہ نہ ہو،بلکہ شراب میں جتنا زیادہ نشہ ہو اُتنی ہی وہ اعلیٰ سمجھی جاتی ہے اور اُسی قدر ہمارے شاعر اس کی تعریف کرتے ہیں۔ذوقؔ کہتا ہے
؎
یہ وہ نشہ نہیں جسے تُرشی اُتار دے
مگر جنت میں جو شراب دی جائے گی اُس میں نہ نشہ ہو گا نہ وہ سڑی ہوئی ہو گی اور نہ صحت اور عقل کو نقصان پہنچائے گی۔
اِسی طرح فرماتا ہے اس شراب میں ایک چشمہ کاپانی ملایاجائے گا جس کانام سَلْسَبِیْلا۵۵؎ ہو گا سَبِیْل کے معنے راستہ کے ہیں اور سَلْ٭ کے معنے اگر اس کو سَالَ یَسِیْلُ سے سمجھا جائے تو یہ ہوں گے کہ چل اپنے راستہ پر ۔ یا دَوڑ پڑ۔ یعنی دنیاوی شراب پی کر تو انسان لڑکھڑا جاتے ہیں مگر وہ شراب ایسی ہو گی کہ اُسے پی کر انسان دَوڑنے لگے گا اور اُس کو پیتے ہی کہا جائے گا کہ اب سب کمزوری رفع ہو گئی چل اپنے راستہ پر۔
یہ فرق بھی بتا رہا ہے کہ یہ شراب مادی نہیں، ورنہ دنیا کی شراب پی کر انسان کے پائوں لڑکھڑا جاتے ہیں اور وہ کبھی بھی دَوڑ نہیں سکتا۔
مادی شراب کے نشہ کی کیفیت
مجھے ایک لطیفہ یاد ہے ، قادیان میںجہاں آجکل صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں اور جہاں سے ایک گلی
ہمارے مکانوں کے نیچے سے گزرتی ہے، وہاں ایک دن مَیں اپنے مکان کے صحن میں ٹہلتا ہؤا مضمون لکھ رہا تھا کہ نیچے گلی سے مجھے دو آدمیوں کی آواز آئی۔ اُن میں سے ایک تو گھوڑے پر سوار تھا اور دوسرا پیدل تھا۔ جو پیدل تھا وہ دوسرے شخص سے کہہ رہا تھا کہ سُندر سنگھا!پکوڑے کھائیں گا؟ میں نے سمجھا کہ آپس میں باتیںہو رہی ہیں اور ایک شخص دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ تم پکوڑے کھائو گے؟ مگر تھوڑی دیر کے بعد مجھے پھر آواز آئی کہ سُندر سنگھا پکوڑے کھائیں گا؟ اور وہ شخص جو گھوڑے پر سوار تھا برابر آگے بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ وہ اُس موڑپر جا پہنچا جو مسجد مبارک کی طرف جاتا ہے مگر وہ برابر یہی کہتا چلا گیا کہ سُندر سنگھا! پکوڑے کھائیں گا؟ سُندر سنگھا!پکوڑے کھائیں گا؟ آخر گھوڑے کے قدموںکی آواز غائب ہو گئی اور آدھ گھنٹہ اس پر گزر گیا مگر مَیں نے دیکھا وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہیں گلی میں بیٹھا ہؤا یہ کہتا چلا جاتا تھا کہ سُندر سنگھا! پکوڑے کھائیں گا؟ سُندر سنگھا!ـ پکوڑے کھائیں گا؟ حالانکہ سُندر سنگھ اُس وقت گھر میں بیٹھا ہؤا پُھلکے کھا رہا ہو گا۔ دراصل وہ شراب کے نشہ میں تھا اور اس نشہ کی حالت میں یہی سمجھ رہا تھا کہ میں اُس کے ساتھ چل رہا ہوں مگر شراب کے نشہ کی وجہ سے اُس سے چلا نہیں جاتا تھا اور عقل پر ایسا پردہ پڑا ہؤا تھا کہ وہیں دیوار کے ساتھ بیٹھا ہؤا وہ سُندر سنگھ کو پکوڑوں کی دعوت دیتا چلا جاتا تھا۔
تو شراب کی کثرت کی وجہ سے ٹانگوں کی طاقت جاتی رہتی ہے، عقل زائل ہو جاتی ہے، قویٰ کو نقصان پہنچتا ہے اور انسان بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ شراب پلا کر ہم کہیںگے ۔ سَلْ سَبِـیْـلًا ۔ اب تمہاری سب کمزوری رفع ہو گئی ہے تم اپنے راستہ پر دَوڑ پڑو۔
دوسرے معنے اس کے سَأَلَ یَسْأَلُ کے بھی ہو سکتے ہیں، یعنی سوال کر، پوچھ، دریافت کر۔ اِس کا امر بھی سَلْ ہی بنتا ہے۔یعنی دنیا میں شراب پینے والا جب بہت سی شراب پی لیتا ہے تو اُس کی عقل ماری جاتی ہے ، مگر وہ شراب ایسی ہو گی کہ جب وہ پلائی جائے گی تو اُسے کہا جائے گا کہ اب تیری عقل تیز ہو گئی ہے ُتو روحانیت اور معرفت کی ہم سے نئی نئی باتیں پوچھ۔ گویا اُس شراب سے ایک طرف قوتِ عملیہ بڑ ھ جائے گی اور دوسری طرف قوتِ عقلیہ بڑھ جائے گی اور وہ خدا تعالیٰ سے کہے گا کہ خدایا! مجھے اَور روحانی علوم دئیے جائیں اور اس کے بدن میںایسی طاقت آجائے گی کہ جس طرح دریا اپنی روانی میں بہتا ہے اسی طرح وہ خداتعالیٰ کی راہ میں بہنے لگ جائے گا۔
پھل اور گوشت
(۴) چوتھی بات جو دُنیوی مینا بازاروں میں پائی جاتی ہے وہ کھانے کی چیزیں ہیں، مَیں نے اس جنت میں دیکھا تو اس میں بھی یہ سب سامان
موجو دتھے چنانچہ فرماتا ہے وَفَا کِھَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ- وَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَھُوْنَ ۵۶؎
کہ جنت میں کھانے کو پھل ملیں گے جوبھی وہ پسند کریں گے۔یہاں ہم بعض دفعہ بعض پھلوں کو پسند کرتے ہیں مگر ہمیں ملتے نہیں۔ ہمار ا جی چاہتا ہے ہمیں انگور کھانے کو ملیں مگر جب بازار سے دریافت کرتے ہیںتو کہا جاتا ہے تمہاری عقل ماری گئی ہے یہ بھی کوئی انگور کا موسم ہے۔ رنگترے کو جی چاہے تو دُکاندر کہہ دیگا، آجکل تو رنگترے کا موسم ہی نہیں ، کیلاؔ موجود ہے یہ لے لیں۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہاں یہ سوال نہیںہو گا کہ انگوروں کا موسم نہیں یا اناروں کا موسم نہیں یاکیلے کا موسم نہیں یا سردے کا موسم نہیں ، وہاںجو بھی پھل انسان چاہے گا اُسے فوراً مل جائے گا ۔ اِسی طرح جس پرندے کا گوشت وہ چاہیں گے اُس کا گوشت انہیںدیا جائے گا۔ پھر فرماتا ہے وَاَمْدَدْنٰـھُمْ بِفَا کِھَۃٍ وَّلَحْمٍ مِّمَّا یَشْتَھُوْنَ ۵۷؎
کہ انہیں کھانے کے لئے پھل ملیںگے اور گوشت بھی جس قسم کا وہ چاہیں گے۔ یہ شرط نہیں کہ انہیں پرندوں کا ہی گوشت ملے گا بلکہ اگر وہ مچھلی چاہیں گے تو مچھلی ملے گی ، دُنبے کا گوشت چاہیں گے تو دُنبے کا گوشت مل جائے گا۔
جنّتی پھلوں کی دلچسپ خصوصیات
اسی طرح فرماتا ہے ۔ وَدَانِیَۃً عَلَیْھِمْ ظِلاَ لُھَا وَذُلِّلَتْ قُطُوْ فُھَا تَذْلِیْلًا۵۸؎ کہ
جنت میں مؤمنوں کو جو پھل ملیں گے، اُن کی یہ ایک عجیب خصوصیت ہو گی کہ وہ پھل بہت ہی جُھکے ہوئے ہوں گے ا ور جب اُن کا جی چاہے گا انہیں ہاتھ سے توڑ لیںگے، یہاں پھل اُتارنے کے لئے لوگوں کو درختوں پر چڑھنا پڑتا ہے مگر فرمایا وہاں ایسا نہیں ہو گا وہاں پھل اِس قدر جُھکے ہوئے ہونگے کہ جس کا جی چاہے گا ہاتھ سے توڑ لے گا۔
اسی طرح فرماتا ہے۔ وَفَاکِھَۃٍ کَثِیْرَۃٍ لَّامَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ ۵۹؎ کہ انہیں وہاںکھانے کے لئے کثرت سے پھل ملیں گے اور وہ پھل ایسے ہوں گے، جو کبھی مقطوعہ نہیں ہوںگے یعنی کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ کہہ دیا جائے آج رنگترے نہیں ملیں گے، صرف شہتوت ملیں گے۔ وَلَامَمْنُوْعَۃٍ اور نہ وہ ممنوع ہوں گے۔یعنی یہ ایک عجیب خاصیت اُن میں ہوگی کہ کبھی ایسا نہیںہو گا کہ وہ انسان کو بیما ر کر دیں۔ دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کہہ دیتا ہے تمہارے لئے کیلا کھانا منع ہے یا تم صرف انار کاپانی پی سکتے ہو اَور کوئی پھل نہیں کھا سکتے، مگر جنت میںجو پھل ملیںگے انہیںکوئی بُرا کہنے والا نہیں ہو گاکیونکہ وہ بیماریاں پیداکرنے والے نہیںہوں گے بلکہ تندرستی اور صحت پیدا کرنے والے ہونگے پس وَلَا مَمْنُوْعَۃٍ کے یہ معنے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا کہ ان پھلوں کے کھانے سے بدہضمی ہو خواہ وہ کس قدر کھا لئے جائیں انسان کوکوئی تکلیف نہیںہوگی ۔ دنیا میںانسان ذرا بے احتیاطی کرے تو بیمار ہو جاتا ہے مگر وہاںایسا نہیں ہو گا۔لیکچر دیتے وقت میری عادت ہے کہ میںتھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد گرم چائے کا ایک گھونٹ لے لیتا ہوں چنانچہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد میرے آگے چائے کی پیالیاں رکھی جاتی ہیں اور اُن میںسے اکثر بغیر چکھے کے اُٹھالی جاتی ہیںکیونکہ میرے سامنے پڑی پڑی ٹھنڈی ہو جاتی ہیںاور بعض دفعہ میں ایک گھونٹ پی بھی لیتا ہوں، مگر اس تمام عرصہ میںتیس چالیس دفعہ پیالیاں میرے سامنے سے گزر جاتی ہیں اور جو ناواقف ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شاید میں ساری پیالیاں پی جاتا ہوں۔ ایک دفعہ ایک نئے دوست احمدی ہوئے جو بعد میں بہت مخلص ہو گئے، ڈپٹی آصف زمان صاحب اُن کا نام تھا۔ وہ پہلے سال جلسہ میںشریک ہوئے تو انہوں نے بعد میں مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب سے کہا کہ خان صاحب! یہ کیا غضب کرتے ہیں۔ خلیفۃ المسیح کو تو لیکچر میں ہوش ہی نہیں رہتی اور آپ لوگ تیس چالیس پیالیاں چائے کی اُن کے آگے رکھ دیتے ہیں اِتنی چائے انہیں سخت نقصان دے گی۔ تو دنیا میں جب کسی چیز کو بے احتیاطی سے استعمال کیا جائے تو اُس کی وجہ سے انسان کو تکلیف ہو جاتی ہے مگر فرمایا وہ پھل عجیب خاصیت اپنے اندر رکھتے ہوں گے کہ نہ تو کسی موسم میںختم ہوں گے اور نہ کوئی بداثر جسم پر پڑیگا بلکہ ہر حالت میںانسان اُن کو کھا سکے گا۔ دنیا کی غذائوں کو تو روکنا پڑتا ہے مگر روحانی چیزیں چونکہ ایسی نہیں ہوتیں اور اُن کی بڑی غرض یہی ہوتی ہے کہ انسان اپنے علم ا ور معرفت میں بڑھ جائے اس لئے جنت کی چیزیں انسان رات اور دن کھاتا چلاجائے گا اور اسے کسی وقفہ کی ضرورت محسوس نہیںہو گی۔ یہ خواص بتاتے ہیں کہ ان پھلوں سے مادی پھل نہیں بلکہ روحانی پھل مراد ہیں۔اسی وجہ سے احادیث میں آتا ہے کہ جنت کے رزق کا کوئی پاخانہ نہیں آئے گا اور آئے کس طرح جبکہ وہ رزق مادی ہو گا ہی نہیں بلکہ روحانی ہو گا۔
نعماء کے پہلو بہ پہلو مغفرت کا دَور
جب مَیںیہاں پہنچا تو مجھے خیال آیا کہ اُف! کھانے اورپینے کی جہاں اتنی چیزیں ہوںگی،
وہاں تو دن اور رات میںکھانے اور پینے میں ہی مشغول رہوں گا اور میرا آقا مجھ سے ناراض ہو گا کہ یہ کیسا غلام ہے جو رات دن کھاتا پیتا رہتا ہے۔ پس میرے دل میں خوف پیدا ہؤا کہ کہیں میں اِن کھانے پینے کی چیزوں کے ذریعہ اپنے آقا کی ناراضگی تومول نہیں لے لونگا اور کیا وہ مجھے یہ نہیں کہے گا کہ میں نے تم کو اس لئے غلام بنایاتھا کہ تم رات اور دن کھاتے پیتے رہو؟
جب میرے دل میںیہ ڈر پیدا ہؤا تو مَیں نے پھر قرآن کریم کی طرف نظر کی کہ میرے ساتھ کیامعاملہ ہونے والا ہے اور مَیں نے وہاں یہ لکھا ہؤا دیکھا کہ مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِیْھَا اَنْھَارٌ مِّنْ مَّآئٍ غَیْرِاٰسِنٍ وَاَنْھَارٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ وَاَنْھَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ وَاَنْھَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی وَلَھُمْ فِیْھَامِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ ۶۰؎
اس جنت کی حالت اور کیفیت جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ لوگ اپنے باغوں کو پانی دیتے ہیں تو وہ زمین کے پتوں کے ساتھ مل کر بد ُبودار ہوجاتا ہے اور اس کے اندر ایسی سڑاند پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگوں کے لئے وہاں سے گزرنا مشکل ہو جاتا ہے مگر وہاں ایسا پانی ہو گا جو بِالکل پاک اور صاف ہو گا جس میں مٹی اور ریت ملی ہوئی نہیں ہو گی اور جب کھیتوں کوپانی دیا جائے گا تب بھی بد ُبو پیدا نہیں ہوگی۔اور وہاں ایسے دودھ کی نہریں ہوں گی جس کا مزہ کبھی خراب نہیں ہو گا اور وہاں شراب کی بھی نہریں ہوں گی جو پینے والوں کے لئے لذت کا موجب ہوں گی اور وہاں خالص شہد کی بھی نہریں ہوں گی اور وہاں اُن کے لئے ہر قسم کے میوے ہوں گے جنہیں وہ خوب کھائے گا۔ اور جب دیکھے گا کہ اس نے خوب کھا لیا اور خوب پی لیا تو اُسے خیال آئے گا کہ میرا کام تو خدمت کرنا تھا، اب میرا آقا ضرور مجھ سے ناراض ہو گا اور کہے گا نالائق ُتو کھا ئو پیُو بن گیا۔چنانچہ وہ ڈر کے مارے کھڑا ہو جائے گا مگر جونہی وہ گھبرا کر کھڑا ہو گا وہ دیکھے گا کہ اُس کا آقا اُس کے سامنے کھڑا ہے اور اُسے کہہ رہا ہے کہ میرے اِس بندے کوبخش دو کہ اس نے میرا پانی پیا۔ میر ے اس بندے کو بخش دو کہ اس نے میرا شہد پیا۔ میرے اس بندے کو معاف کر و کہ اس نے میرے دودھ کو استعمال کیا اور میرے اس بندے کو معاف کر و کہ اس نے میرے پھلوں کو کھایا۔ گویا ہر کھانے اور ہرپینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش نازل ہو گی اور مؤمنوں کے درجات میں اور زیادہ ترقی ہو گی۔ تب میں نے ایک طرف تو یہ سمجھا کہ یہ روحانی غذائیں ہیں تبھی ان کے نتیجہ میں مغفرت حاصل ہونے کے کوئی معنے ہیں۔ دوسری طرف مَیں نے یہ بھی سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو خدا خود ِکھلاتا اور ِپلاتا ہے اور ان کا کھانا اور پینا بھی عبادت میںشامل ہوتا ہے جیسے حضرت مسیح ناصری کو بھی کھائو اور پِیُو کہا گیا۔
سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کے ایک ارشاد کی حقیقت!
اسی طرح اِس آیت سے میرے
لئے سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کا یہ واقعہ بھی حل ہو گیاکہ مَیں نہیں کھاتا جب تک خدا مجھے نہیںکہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم ُتو ضرور کھا اور مَیں نہیںپیتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم ُتو ضرور پی۔ا ور میں نہیں پہنتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم ُتو ضرور پہن۔ یہاںبھی فرماتا ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ ہر مؤمن سے کہے گا کہ کھائو مَیں تمہارے گناہ بخشوں گا،میری شراب پیو کہ مَیں تم سے ُحسنِ سلوک کروں گااور میرے پھل کھائو کہ میں تم پر اپنی رحمتیں نازل کروں گا۔یہ الفاظ کتنی محبت پر دلالت کرتے ہیں اور کس طرح ان الفاظ سے اُس شفقت کا اظہار ہوتا ہے جو مؤمن بندے کے ساتھ خداتعالیٰ کرے گا۔
اعلیٰ درجہ کے لباس
(۵) پھر مَیں نے سوچا کہ دُنیوی بازاروں میںتو لباس فروخت ہؤا کرتے ہیںآیا ہمارے مینا بازار میں بھی لباس ملتے ہیں یا نہیں ؟
مَیں نے غور کیا تو اِس بارہ میں بھی یہ تشریح موجود تھی وِلِبَاسُھُمْ فِیْھَا حَرِیْرٌ۔ وَھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَھُدُوْٓا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ ۶۱؎
یعنی اس کے اندر مؤمنوںکو ایسا لباس دیا جائے گا جو ریشمی ہوگا وَھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ۔ اور دنیا میں تو لوگ ریشمی لباس پہن کر متکبر ہو جاتے ہیںاور دوسرے سے کہتے ہیں کہ کیا ُتو میرا مقابلہ کر سکتا ہے؟ مگر وہاںایسا نہیں ہوگا۔ ہمارے ملک میں تو ایسی بُری عادت ہے کہ ذرا کسی کی تنخواہ زیادہ ہو جائے اور اُس کا غریب بھائی اور رشتہ دار اُس سے ملنے کیلئے آئے تو وہ گردن موڑ کر چلا جاتا ہے۔اب اُس کی گردن آپ ہی نہیں مُڑتی بلکہ اُسے جو تنخواہ مل رہی ہوتی ہے وہ اُس کی گردن کو موڑ دیتی ہے مگر فرماتا ہے وہ حریر جو جنت میں ملے گا عجیب قسم کا ہو گا کہ وَھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِاِدھر انسان وہ حریر پہنے گا اور اُدھر اس میں انکسار پیدا ہو جائے گا اور اس ریشم کے پہنتے ہی اُس میں محبت اور پیار اور خلوص کے جذبات پیدا ہو جائیں گے وَھُدُوْٓا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ اور دنیا میں تو لوگ ریشم پہن کر خوب اکڑ اکڑ کر مال روڈ پر چلتے ہیں، عورتیں اُن کو دیکھتی ہیںاور وہ عورتوں کی طرف دیکھتے ہیں اور اِس طرح بداخلاقی کے مرتکب ہوتے ہیں مگر وہ حریر اس قسم کا ہو گا کہ اسے پہن کر مؤمن اللہ تعالیٰ کی طرف دَوڑنے لگ جائیں گے اور اللہ میاں کے دربار میں جانے کی خواہش اُن کے دلوں میں زیادہ زور سے پیدا ہو جائے گی۔
پھرا س لباس کے علاوہ ایک اور لباس کا بھی پتہ چلتا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ ۶۲؎ تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہوتا ہے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا یہ تقویٰ کا لباس بھی اس مینا بازار میںملتا ہے یا نہیں؟ اس کے لئے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں قرآن کریم میںیہ لکھا ہؤا دکھائی دیتا ہے وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی وَّاٰتٰـھُمْ تَقْوٰھُم ۶۳؎
کہ جو لوگ ہدایت پاتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو ہدایت میںاور زیادہ بڑھاتا ہے یہاں تک کہ اُن کو تقویٰ عطا کر دیتا ہے ۔مطلب یہ کہ ہر ایک کو اُس کی ہدایت کے مطابق لباس ملے گا اور جس قدر کسی نے روحانیت میںترقی کی ہو گی اُسی قدر اُس کالباس زیادہ اعلیٰ ہو گا۔
زیب وزینت کے سامان
(۶) چھٹے میں نے دیکھا کہ مینا بازار میںزینت کے سامان یعنی آئینے اور کنگھیاں اور رِبن اور پائوڈر وغیرہ فروخت
ہوتے تھے۔ مَیں نے سوچا کہ یہ تو پُرانے زمانے کے مینابازاروں کی بات ہے، آجکل تو انار کلی اور ڈبی بازار میں پوڈروںاو رلپ سٹکوں اور رُوج وغیرہ کی وہ کثرت ہے کہ پُرانے مینا بازار اِن کے آگے ماند پڑ جاتے ہیںاور عورتوں کو ان کے بغیر چَین ہی نہیں آتا، گو آجکل کے مرد بھی کچھ کم نہیں اور وہ بھی اپنے بالوں میں مانگ نکال کر اور یوڈی کلون اور پوڈر وغیرہ ِچھڑک کر ضرور خوش ہوتے ہیں مگر عورتیںتو اپنی زینت کے لئے ضروری سمجھتی ہیں کہ منہ پر کریم ملیں، پھر اس پر پوڈر چِھڑکیں، پھر لپ سٹک لگائیں پھر رُوج اور عطر وغیرہ استعمال کریں یہاں تک کہ اپنے بچوں کے منہ پر بھی وہ کئی قسم کی کریمیں اور چِکنائیاں ملتی رہتی ہیں۔ چنانچہ بعض بچوں کو جب پیار کیا جاتا ہے تو ہاتھ پر ضرور کچھ سُرخی، کچھ چِکنائی اور کچھ پوڈر لگ جاتا ہے اور جلد جلد غسلخانہ جانا پڑتا ہے۔ پس میں نے کہا آئو میں دیکھو ں کہ آیا یہ چیزیں بھی وہاں ملتی ہیںیا نہیں؟ کیونکہ اگر یہ چیزیںوہاں نہ ہوئیں تو اوّل تو آجکل کے مرد بھی وہاں جانے سے انکار کر دیں گے ورنہ عورتیں تو ضرور اَڑ کر بیٹھ جائیں گی اور کہیں گی بتائو جنت میںسُرخی اور پوڈر ملے گا یا نہیں؟ اگر سرخی، پوڈر اور کریمیں وغیرہ ملتی ہوں تو ہم جانے کے لئے تیار ہیں ورنہ نہیں۔
زینت کے لئے سب سے پہلی چیز ذاتی خوبصورتی ہے مگر کئی عورتیں اِس کو نظر انداز کر دیتی ہیں اور وہ خیال کرتی ہیں کہ شاید پوڈر َمل کر وہ اچھی معلوم ہونے لگیں گی اور بیوقوفی سے زیادہ سے زیادہ پوڈر مَلنے کو وہ حُسن کی ضمانت سمجھتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب انہوں نے پوڈر مَلا ہؤا ہوتا ہے تو یوںمعلوم ہوتا ہے گویا انہوں نے آٹے کی بوری جھاڑی ہے۔ انگریزوں کا رنگ چونکہ سفید ہے اس لئے اُن کے چہروں پر پوڈر بدزیب معلوم نہیں ہوتا ، مگر ہمارے مُلک میں نقل چونکہ عقل کے بغیر کی جاتی ہے، اِس لئے اندھا دُھند انگریزوں کی اِ ّتباع میں پوڈر کے ڈبے صرف کر دئیے جاتے ہیں۔ اور کئی تو بے چارے اِس غلط فہمی میںمبتلا ہو کر کہ شاید اُن کا رنگ سفید ہو جائے ، صابن کی کئی کئی ٹِکیاں خرچ کر دیتے ہیں اور اپنا منہ خوب َمل َمل کر دھوتے ہیں مگر جو رنگ قدرتی طور پر سیاہ ہو وہ سفید کس طرح ہو جائے۔
سیاہ اور بدنما چہرہ کو خوبصورت بنانے کا نسخہ
ایک دفعہ ایک اینگلوانڈین اُستانی میرے پاس آئی وہ چاہتی تھی کہ
مَیں اُس کی ملازمت کے لئے کہیں سفارش کر دوں۔ مَیں نے کہا غور کروں گا۔ اِس طرح اُسے چند دن ہمارے ہاں ٹھہرنا پڑا۔وہ اپنے متعلق کہا کرتی تھی کہ میرا رنگ اتنا سفید نہیں جتنا ہونا چاہئے اور واقعہ یہ تھا کہ اُس کا رنگ صرف اتنا کالا نہیں تھا جتنا حبشیوں کا ہوتا ہے۔ میں اُن دنوں تبدیلئ آب وہوا کے لئے دریا پر جا رہا تھا اور اتفاقاً اُن دنوں میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب (مرحوم جو میرے سالے تھے) وہ بھی قادیان آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک انگریز عورت سے شادی کی ہوئی ہے، وہ بھی میرے ساتھ چل پڑے کیونکہ اُن کی ہمشیرہ اُمِّ طاہر مرحومہ اس سفر میں میرے ساتھ جا رہی تھیں۔ اُن کی بیوی نے اُس اُستانی کی بھی سفارش کی کہ میری ہم جولی ہو گی اِسے بھی ساتھ لے لو، چنانچہ اُسے بھی ساتھ لے لیا۔وہاں پہنچ کر ہم نے دو کشتیاں لیں۔ ایک میں مَیں، اُمِّ طاہر اور میری سالی تھی اور دوسری میں وہ اُستانی،میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب او رڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے۔ کشتیاں پاس پاس چل رہی تھیں۔ اتنے میں مجھے آوازیں آنی شروع ہوئیں وہ اُستانی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سے باتیں کر رہی تھی کہ فلاں وجہ سے میرا رنگ کالا ہو گیا ہے اور میں فلاں فلاں دوائی رنگ کو گوراکرنے کے لئے استعمال کر چکی ہوں آپ چونکہ تجربہ کار ہیں اِس لئے مجھے کوئی ایسی دوا بتائیں جس سے میرا رنگ سفید ہوجائے اور ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ فلاں دوائی استعمال کی ہے یا نہیں؟ اُ س نے جواب دیا کہ وہ بھی استعمال کر چکی ہوں غرض اِسی طرح اُن کی آپس میں باتیں ہو رہی تھیں۔ مجھے ان کی باتوں سے بڑا لُطف آ رہا تھا۔ وہ ڈاکٹر صاحب سے بار بار کہتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب یہ بیماری ایسی شدید ہے کہ باوجود کئی علاجوں کے آرام نہیں آتا حالانکہ یہ تو کوئی بیماری تھی ہی نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ رنگ تھا۔ سید حبیب اللہ شاہ صاحب بچپن میں میرے بہت دوست ہؤا کرتے تھے اور بعد میں بھی میر ے اُن سے گہرے تعلقات رہے۔ انہیں قرآن مجید پڑھنے کا بہت شوق تھا وہ اُس وقت بھی کشتی میں حسبِ عادت اونچی آواز میں قرآن کریم پڑھ رہے تھے۔ میں یہ تماشہ دیکھنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب اُس کا رنگ کس طرح سفید کرتے ہیں۔ آخر تھوڑی دیر کے بعد سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے قرآن کریم بند کیا اور درمیان میں بول پڑے اور اُسے کہنے لگے ڈاکٹر صاحب تم کو کوئی نسخہ نہیں بتا سکتے اِس دنیا میں تمہارا رنگ کالا ہی رہے گا البتہ ایک نسخہ میںتمہیں بتاتا ہوں قرآن کریم میںلکھا ہے کہ جو شخص نیک عمل کرے گا اُس کا قیامت کے دن مُنہ سفید ہو گا۔ پس اِس دنیا میںتو تمہارا رنگ سفید نہیں ہو سکتا ، تم قرآن پر عمل کرو تو قیامت کے دن تمہارا رنگ ضرور سفید ہو جائے گا۔زینت کے یہ سامان بھی جو مَیں بتانے لگا ہوں اِسی قسم کے ہیں جس قسم کی طرف سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے اشارہ کیا تھا۔
سفید رنگ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ ۶۴؎ دُنیا میںاگر کوئی کالا ہے تو گورا نہیں ہو سکتا، بدصورت ہے تو خوبصورت نہیں ہو سکتا، اندھا ہے تو سوجا کھا نہیں
ہو سکتا، نکٹا ہے تو ناک والا نہیں بن سکتا۔ کوئی شخص ہزار کوشش کرے، صابن کی ٹِکیوں سے اپنے مُنہ کو صبح وشام مل مل کر دھوئے اگر اُس کا رنگ سیاہ ہے تو وہ سفید نہیں ہو گا اور پیدائشی حالت کبھی بدل نہیں سکے گی۔کالجوں کے طلباء میں بھی یہ مرض بہت ہوتا ہے اور وہ کئی قسم کی کریمیں مَلتے رہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے اُ ن کی جو شکل بنا دی ہے وہ بدل نہیں سکتی۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اپنا رنگ سفید کرنے کے لئے کہیں پیئرز سوپ ملتے ہو، کہیں ونولیا سوپ خریدتے ہو۔ کہیں پام آئل(PALM OIL) سوپ استعمال کرتے ہو مگر پھر بھی تمہارا رنگ نہیں بدلتا۔ آئو ہم تمہیں بتاتے ہیں یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ ایک دن ایسا آنیوالا ہے جب مؤمنوں کے مُنہ سفید براق ہو جائیں گے۔ پھر دنیا میںتو سفید رنگ والے بھی کالے ہو جاتے ہیں چنانچہ ذرا بیمار ہوں تو اُن کے رنگ کالے ہو جاتے ہیں۔بعض لوگ بیماریوں میں اندھے اور کانے ہو جاتے ہیں مگر فرمایا وَاَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْ ھُھُمْ فَفِیْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۶۵؎
ہمارے مینا بازار میں جن لوگوں کے منُہ سفیدہوں گے وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ تلے رہیں گے اور کبھی اُن کا رنگ خراب نہیں ہو گا۔
بعض لوگ اس موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ قرآن کریم کے اس قسم کے الفاظ ظاہری معنوںمیں نہیںلینے چاہئیں، چنانچہ دیکھو قرآن کریم میںہی آتا ہے ۔ وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا۶۶؎ کہ جب کسی کو لڑکی پیداہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اُس کامنہ کالا ہو جاتا ہے۔ اب اِس کے یہ معنے تو نہیں کہ اُس کا منہ واقعہ میںکالا ہو جاتا ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اُس کے دل پر بوجھ پڑتا ہے اور اُسے سخت صدمہ اور غم پہنچتا ہے۔ اِسی طرح اُن کے نزدیک یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ کے یہ معنے ہیں کہ اُس دن جنتیوں کی نیکی اور تقویٰ اور عزّت کی وجہ سے اُن کے چہروںپر ُنور برستا معلوم ہو گا اور خداتعالیٰ کے انوار ان پر نازل ہونگے یہ معنے بھی درست ہیں اور اِن کا انکار نہیں ہو سکتا۔
کریمیں، پوڈر اور سُرخی
اب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں مرد وعورت اپنی زینت کے لئے کیا کیا چیزیں استعمال کرتے ہیں سو:-
اوّل:- وہ ایسی کریمیںمَلتے ہیں جن سے جسم نرم اور ڈھیلا ہو جائے، مسام ُکھل جائیں، مساموں سے زہر اور مَیل نکل جائے اور سفیدی پیدا ہو جائے۔
دوم:- وہ ایسی کریمیں ملتے ہیں جن سے وہ پھر چُست ہو جائیں، اُن کے مسام سُکڑ جائیں اور اُن کے چہروں پررونق پیدا ہو جائے۔ گویاپہلے تو وہ ایسی چیزیں ملتے ہیں جن سے اُن کے مسام ُکھل جائیں اور َمیل وغیرہ نکل جائے اور پھر ایسی چیزیں ملتے ہیں جن سے اضمحلال اور اعضاء کا اِسترخاء جاتا رہے۔ اسی طرح پوڈر لگاتے ہیںتا کہ سفیدی ظاہر ہو اور پھر سُرخیاں لگاتے ہیںتا کہ دوسروںکو جسم سے صحت کے آثار نظر آئیں۔
اب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو وہ فرماتا ہے ۔ وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍنَّاضِرَۃٌ ۶۷؎ یہاں تم پوڈر اور کریمیں وغیرہ لگاتے ہو اور تم نہیں جانتے کہ قیامت کے دن کچھ منہ ہوں گے جو نَاضِرَہ ہوں گے۔ نَاضِرَہ کے معنے عربی میں حُسن اور رونق کے ہیں۶۸؎ اور یہ دونوں الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں۔ حُسن کے معنے تناسبِ اعضاء کے ہوتے ہیں اور رونق کے معنے صحت کے اُن آثار کے ہوتے ہیں جوچہرے اور قویٰ سے ظاہرہوتے ہیں۔ا گر ایک شخص کاناک پچکا ہؤا ہو، مگر اُس کے کلّے اور ہونٹ سُرخ ہوںاور اُس کا رنگ سفید ہو تو اُس کے چہرے کی رنگت اُسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتی۔ اِسی طرح اگر کسی شخص کی آنکھیں خراب ہیںیا اتنی بڑی بڑی ہیں جیسے مٹکے ہوتے ہیں یاماتھا ایسا چھوٹا ہوتا ہے کہ سر کے بال بھووں سے ملے ہوئے ہیں۔یا کلّے اِتنے پچکے ہوئے ہیں کہ یوںمعلوم ہوتا ہو گویا کہ دو تختیاں جوڑ کر رکھدی گئی ہیں تو وہ ہر گز حسین نہیں کہلا سکتا۔ میں نے غور کر کے دیکھا ہے ، مختلف انسانی چہرے مختلف جانوروں سے مشابہت رکھتے ہیں اور اگر ایک پہلو سے انسانی چہروں کودیکھا جائے تو بعض انسانی چہرے گیدڑ سے مشابہہ معلوم ہوتے ہیں، بعض کُتّے کے مشابہہ معلوم ہوتے ہیں، بعض سؤر کے مشابہہ معلوم ہوتے ہیں۔بعض بلّی اور بعض چوہے کے مشابہہ معلوم ہوتے ہیں۔ کامل اور اچھا چہرہ وہ ہوتا ہے جس کی اِن جانوروں سے کم سے کم مشابہت پائی جاتی ہو اور اگر لوگ کوشش کریں تو وہ اِس نقص کو دُور کر سکتے ہیں مگر چونکہ میرایہ مضمون نہیں اِس لئے مَیں اِس نقص کو دورکرنے کے طریق نہیں بتا سکتاصرف اجمالاً ذکر کر دیا ہے کہ اکثر انسانی چہرے بعض جانوروں کے مشابہہ ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ تر یہی کوشش کرتے ہیں کہ کریمیں مَل لیں یا لپ سٹکیں استعمال کرلیں یا رُوج لگا لیں، مگر چہرہ کی بناوٹ کو درست کرنے کے جو صحیح طریق ہیں اُن کو اختیار کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِن کریموں اور غازوں اورلِپ سٹکوں سے کیا بنتا ہے؟ اصل چیز تو چہرے کی بناوٹ درست ہونا ہے اور ہمارے مینا بازار میں جانیوالے سب ایسے ہی ہوں گے کہ انہیں کسی فیس پوڈرکی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ اُن کے نقش ونگار درست کر کے انہیںوہاں لے جایا جائے گا۔ اگر کوئی شخص کانا ہو گا تو اُس کا کانا پن جاتا رہے گا، لنگڑا ہو گا تو اُس کا لنگڑا پن جاتا رہے گا،آنکھیں سانپ کی طرح باریک ہوں گی تو اُن کو موٹا کردیا جائے گا، کسی کے دانت باہر نکلے ہوئے ہونگے تو اُس کے سب دانت موتیوں کی لڑی کی طرح بنا دئیے جائیں گے۔آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کے مقرب ہوں اور پھر عیب دار ہوں ، یقینا اللہ تعالیٰ اُن کے تمام عیبوں کو دُور کر کے انہیںجنت میں داخل کر یگا۔ـ
ایک لطیفہ
حدیثوں میں ایک لطیفہ آتا ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ وعظ فرما رہے تھے کہ ایک بُڑھیا آئی اور کہنے لگی یَارَسُوْلَاللّٰہِ!یہ باتیں چھوڑیںاور مجھے
یہ بتائیں کہ میں جنت میںجائوںگی یا نہیں؟اب اُس کایہ سوال بے وقوفی کا تھامگر چونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے بھی بہت دِق کیاکرتی تھی اِس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس وقت مذاق سُوجھا اور آپؐ نے فرمایا، مائی! جہاں تک میرا علم ہے کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی۔ وہ یہ سُنتے ہی رونے ِپیٹنے لگ گئی کہ ہائے ہائے! میں دوزخ میں جائوںگی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مَیں نے کب کہا ہے کہ تم دوزخ میں جائو گی۔ اُس نے کہا کہ آپؐ نے ابھی تو فرمایا ہے کہ کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی۔ آپؐ نے فرمایا روئو نہیں وہاں سب کو جوان بنا کر جنت میں داخل کیا جائے گا، بوڑھے ہونے کی حالت میں جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ اگلے جہان کی زندگی جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے مگر میںچونکہ مینا بازار کے مقابلہ کی اشیاء کا ذکر کر رہا ہوں اِس لئے جسمانی حصہ پر زیادہ زور دینا پڑتا ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ وہ روحانی دنیا ہے۔مگر اِس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی روح بغیر جسم کے نہیںہوتی۔ جیسے خواب میںتمہیں بیٹا ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو یہ خبر بعض دفعہ بیٹے کی شکل میں نہیں بلکہ آم کی شکل میں ہوتی ہے حالانکہ مراد بیٹا ہوتا ہے اِسی طرح بظاہر جنت میںجو شراب ملے گی وہ شراب ہی ہوگی اور یہی نظر آئے گا کہ ایک پیالہ میںشراب پڑی ہوئی ہے، مگر اس کے پینے کے نتیجہ میں عقل تیز ہو گی اور بجائے بکواس کرنے کے انسان علم اور عرفان میںترقی کرے گا، بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ جو چیز دنیا میں تم درست نہیں کر سکے اُسے خدا درست کر دے گا نَاضِرَہ کے دوسرے معنے رونق کے ہیںیعنی رنگ نِکھرا ہؤا ہو،صحت اور تندرستی چہرہ سے ظاہر ہو۔ دنیامیں توکئی لوگ چہروں پرکریم ملے ہوئے ہوتے ہیں، مگر اندر سے بیماریوں نے انہیں کھوکھلا کیا ہؤا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نہ صرف ظاہری نقش ونگار درست کر دیں گے اور فیس پوڈر اور کریم کی ضرورت ہی نہیں رہے گی بلکہ پیدائشِ جدیدہ کے وقت ایسی رونق پیدا کر دیں گے جو اُن کے چہروں سے پُھوٹ پُھوٹ کر ظاہر ہو رہی ہوگی۔
چمکتے ہوئے چہرے
اسی طرح فرماتا ہے۔ وُجُوْ ہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ۔ ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ ۶۹؎ اُس دن جنت میںجانے والوں کے چہر ے چمک
رہے ہوں گے۔ دنیا میںلوگ سفید تو ہوتے ہیں مگر مختلف قسم کے۔ کہتے ہیں فلاںفلاں کا جسم سفید تو ہے مگر یوںمعلوم ہوتا ہے جیسے موم ہے اور ایک سفیدی ایسی ہوتی ہے جس میں موتی کی طرح چمک ہوتی ہے۔ فرماتا ہے جو سفیدی وہاں ہوگی وہ ایسی ہوگی کہ اُس کے اندر سے جَھلک پیداہو گی جیسے موتیوں کی جَھلک ہوتی ہے ۔ پھر فرماتا ہے ۔ ضَاحِکَۃٌ دنیا میں جو پوڈر ہوتے ہیں ان کے لگانے سے دل خوش نہیں ہوتا بلکہ میںنے بعض کتابوں میںپڑھا ہے کہ جب عورتیں پوڈر لگا لیتی ہیں تو پھر وہ زیادہ ہنستی بھی نہیں، تا ایسا نہ ہو کہ شِکن پڑ کر پوڈر گِر جائے، مگر فرمایا، ہمارا پوڈر ایسا ہو گا کہ بیشک جتنا چاہو ہنسو کوئی شِگاف پوڈر میں پیدا نہ ہو گا۔مَیں نے سُنا ہے کہ بعض عورتوں نے ایک چھوٹا سا شیشہ اور پوڈر وغیرہ اپنے پاس رکھا ہؤا ہوتا ہے اور جب کسی مجمع میں وہ محسوس کرتی ہیں کہ پوڈر کچھ اُتر گیا ہے تو علیحدہ جا کر وہ پھر پوڈر لگا لیتی ہیں ، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارا پوڈر عجیب ہے کہ جتنا چاہو ہنسو وہ اُتر ے گا نہیں اور پھر وہ پوڈر ایسا اعلیٰ ہے کہ جس کے چہرہ پر وہ لگا ہؤا ہو گا اُس کا چہرہ نہایت ہی پُر رونق ہو گا۔
شگفتہ پیکر
اسی طرح فرماتا ہے مُسْتَبْشِرَۃ ان کی بڑی خوشیاںہوںگی۔ یہاں پوڈر لگانے والی عورتیں جب پوڈرلگا تی ہیں تو اُن کے دلوں میں یہ بے اطمینانی ہوتی ہے کہ
کہیں اُن کا خاوند کسی اور کا پوڈر دیکھ کر ریجھ نہ جائے اور اِس طرح اُن کا گھر نہ اُجڑ جائے ، مگر فرمایا ہمارے ہاںاِس قسم کاکوئی خطرہ نہیں ہو گا اور ہرشخص اپنے رب کی نعمتوں پر خوش ہو گا۔
نرم ونازک اور ریشم کی طرح ملائم چہرے
اِسی طرح فرماتا ہے وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ ۷۰؎ دنیا میںکریمیں اس لئے
لگائی جاتی ہیں تا وہ جسم کو نرم کر دیں مگر فرمایا وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍنَّاعِمَۃٌ ہمارے ہاں اِس قسم کی کریموں کی ضرورت ہی نہیںہوگی کیونکہ جنتیوں کے چہروں کی بناوٹ ایسی ہوگی کہ اُن میں کوئی ُکھردراپن نہیںہوگا بلکہ وہ نرم اورملائم ہوں گے۔ نَاعِمَۃ کے معنے عربی زبان میں لَیِّنُ الْمَلْمَسِ ۷۱؎ کے ہیں، یعنی اُن کے جسم نرم ہوںگے یہ نہیںہو گا کہ سردی آئے تو اُن کے جسم میں ُکھردراپن پیدا ہو جائے اور اگر گرمی آئے توڈِھیلا پن پیدا ہو جائے ، بلکہ وہ ہمیشہ ہی نرم اور ملائم رہیں گے گویا نرم، سفید حسین، پُر رونق یعنی چمکدار اور خوش رنگ ہوں گے کریم ، پوڈر،لِپ سٹک اور رُوج کسی کی ضرورت نہیںہوگی۔یہ چیزیں آپ ہی آپ خداتعالیٰ کی طرف سے لگی ہوئی آئیں گی۔
اعلیٰ درجہ کے عطر اور خوشبوئیں
(۷) پھر میں نے سوچا کہ مینا بازار میں تو خوشبوئیں بھی ملتی تھیںآیا اِس مینا بازار میں بھی خوشبوئیںہوں
گی یا نہیں؟ جب میں نے اِس نقطہ نگاہ سے غور کیا تو قرآن میںیہ لکھا ہؤا دیکھا کہ فَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ۷۲؎
فرماتا ہے اگر یہ ہم سے سَودا کرنے والاہمارامقرب ہو گا، تو اُسے پہلی چیز ہماری طرف سے روح دی جائے گی،یہاںبھی خداتعالیٰ نے دُنیوی اور اُخروی نعماء میںایک عظیم الشان فرق کا اظہار کیا ہے۔ جس طرح یہاں صر ف کریمیں ملتی ہیں، پوڈر ملتے ہیں، لِپ سٹکیں ملتی ہیں، لیکن اگر کوئی چاہے کہ مجھے آنکھیں یاہونٹ یا دانت یا منہ مِل جائے تو نہیں مل سکتا۔ اسی طرح دنیا میں اسّی روپے تولہ کا عطرمِل جائے گا، لیکن اگر کسی شخص کے ناک میں خوشبو سُونگھنے کی ِ ّحس ہی نہ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نیا ناک نہیںدے سکتی۔اور ہم نے اپنی آنکھوں سے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو خوشبو اور بدبو میںاپنے ناک کی خرابی کی وجہ سے تمیز نہیں کر سکتے۔حضرت خلیفہ اوّل نے جب ہمیں طِبّ پڑھائی تو آپ نے فرمایاایک بیماری ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں ناک کی ِ ّحس ماری جاتی ہے اور انسان خوشبو اور بد ُبو میں کوئی فرق نہیں کر سکتا۔ چنانچہ یہاں ایک شخص تھا آپ نے فرمایاآنکھیں بند کر کے اگر اُس کے سامنے پاخانے کا ٹِھیکرا اور اعلیٰ درجے کاکیوڑے کا عطر رکھ دیا جائے تو وہ یہ نہیں بتا سکے گا کہ پاخانہ کونسا ہے اور عطر کونسا؟ ایک لڑکی میری ایک عزیز کے پاس نوکر تھی، ایک دن انہوں نے اُسے کہاکہ فلاں عطر اُٹھا کر لے آنا۔ وہ کہنے لگی بی بی! مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ یہ خوشبو وشبو کیا ہوتی ہے۔ جب اُسے عطر سُونگھایا گیا تو معلوم ہؤا کہ اُس کے ناک میں خوشبو سُونگھنے کی ّحِس ہی نہیں۔ تو جس طرح چہرہ پہلے ٹھیک ہو، پھر پوڈر سے خوبصورت معلوم ہوتاہے ، اسی طرح ناک ٹھیک ہو تب خوشبو کا لُطف آتا ہے اور اگر کسی کی ناک درست نہ ہو اور تم اُسے باغوں میںبھی لے جائو تو اُسے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دنیا میں مینا بازار والے عطر دے سکتے ہیں مگر ناک نہیں دے سکتے۔ لیکن ہم کیا دیتے ہیں فَرَوْحٌ ہم سب سے پہلے خوشبو سُونگھنے اور اُس کو محسوس کرنے کی طاقت ناک میںپیدا کرتے ہیں۔ رَوْحٌکے معنے ہیں وِجْدَانُ الرَّا ئِحَۃِ اور بھی معنے ہیں، لیکن ایک معنے یہ بھی ہیں پس فرمایا دنیا والے تو صرف عطر بیچتے ہیں مگر ہم پہلے لوگوں کو ایسا ناک دیتے ہیں جو عطروں اور خوشبوئوں کو محسوس کرے (رَوْحٌ) میرے اپنے ناک کی ّحِس غیر معمولی طور پر تیز ہے، یہاں تک کہ میں دُودھ سے پہچان جاتا ہوں کہ گائے یا بھینس نے کیا چارہ کھایا ہے۔ اسی لئے اگر میرے قریب ذرا بھی کوئی بدبو دار چیز ہو تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے اور جو لوگ میرے واقف کار ہیں وہ مسجد میں داخل ہوتے وقت کھڑکیاں وغیرہ کھول دیتے ہیں کیونکہ اگر بند ہوں تو میرا دم گُھٹنے لگتا ہے، مَیں ہمیشہ کثرت سے عطر لگایا کرتاہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی کثرت سے عطر لگایاکرتے تھے مگر حضرت خلیفہ اوّل کو اِس طرف کچھ زیادہ توجہ نہیں تھی۔ میںآپ سے بخاری پڑھا کرتا تھا، ایک دن میںآپ سے بخاری پڑھنے کے لئے جانے لگا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجھے فرمانے لگے کہاں چلے ہو؟ مَیںنے کہا مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے چلا ہوں۔ فرمانے لگے ، مولوی صاحب سے پوچھنا کیابخاری میںکوئی ایسی حدیث بھی آتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن غسل فرماتے اور نئے کپڑے بدلا کرتے تھے اور خوشبو استعمال فرماتے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ حضرت مولوی صاحب جمعہ کے دن بھی کام میںہی مشغول رہتے تھے یہاں تک کہ اذان ہو جاتی اور کئی دفعہ آپ وضو کر کے مسجد کی طر ف چل پڑتے۔ آپ تھے تو میر ے اُستاد مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بات کہی تھی اِس لئے مَیں نے اُسی طرح آپ سے جا کر کہہ دیا۔ آپ ہنس پڑے اور فرمایا ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی احتیاط کیا کرتے تھے، ہم تو اور کاموں میں ُبھول ہی جاتے ہیں۔
مَیں نے تاریخ الخلفاء میں پڑھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا، اگر میںخلیفہ نہ ہوتا تو عطر کی تجارت کیا کرتا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے ناک کی ِ ّحس بھی تیز تھی اور اس امر میںبھی میری اُن کے ساتھ مشابہت ہے۔ تو ناک کی ِ ّحس کا موجود ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی بھاری رحمت ہوتی ہے مگر دُنیا یہ ِ ّحس کہاں دے سکتی ہے، وہ اپنے مینا بازاروں میں عطر فروخت کر سکتی ہے مگر ناک نہیں دے سکتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم پہلے ناک دیںگے ا ور پھر عِطر (رَیْحَانٌ) دیں گے، ناک نہ ملا تو عطر کا کیا فائدہ ۔مثل مشہور ہے کہ’’ ناک نہ ہؤا تو نتھ کیا‘‘۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، ہم جنتیوں کے ناک کی ِ ّحس تیز کر دیںگے تا کہ وہ خوشبو کو محسوس کر سکیں۔ اور اس کے بعد ریحان دیں گے رَیْحَانٌ کے معنے ہیں کُلُّ نَبَاتٍ طَیِّبِ الرِّیْحِ۷۳؎ یعنی ہر خوشبودار چیز اُن کو ملے گی ۔ وَجَنَّتُ نَعِیْمٍ اور پھر ساتھ اُن کے نعمتوں والی جنت بھی ہوگی۔ یعنی یہ نہیں کہ خوشبو باہر سے آئے گی بلکہ جنت خوشبو سے بھر ی ہوئی ہوگی۔
جسمانی طاقت کی دوائیں
(۸) آٹھویں میں نے مینا بازار میں طاقت کی دوائیں دیکھیں۔ کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ معدہ کی طاقت
کے لئے ہے،کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ دل کی طاقت کے لئے ہے، کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ دماغ کی طاقت کے لئے ہے اور اس طرح تحریص دلائی جاتی تھی کہ ان دوائوں کو کھائو پیو اور مضبوط بن کر دنیا کی نعمتوں سے حظ اُٹھائو۔ پس میںنے کہا کہ آیا مجھے وہاں بھی طاقت کی دوائیں ملیں گی یا نہیں؟ اِس خیال کے آنے پرمجھے معلوم ہؤا کہ ایک رنگ میں اِس بات کا بھی انتظام ہو گا، چنانچہ فرماتا ہے وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتُھَا سَـلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَاخٰلِدِیْنَ ۷۴؎
فرمایا طاقت کی دوائیں بیشک ہوتی ہیں مگر ہم وہاںنہیں دیں گے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ طاقت کی دوائیں وہاںدی جاتی ہیں جہاں کمزوری اور بیماری ہو، مگر جہاں بیماری اور کمزوری ہی نہ ہووہاں طاقت کی دوائوں کی کیا ضرورت ہے ؟ دنیا میں چونکہ انسان کمزور اور بیمار ہو جاتا ہے اِس لئے اسے طاقت کی دوائوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے مگر وہاں ہم اسے بیمار ہی نہیں کریںگے اور ہمیشہ تندرست رکھیں گے، چنانچہ فرمایا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ تمہیں ہمیشہ کے لئے تندرستی دے دی جائے گی۔ طِبْتُمْ اور تمہاری اندرونی بیماریاں بھی ہر قسم کی دور کر دی جائیں گی گویا ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے تندرستی دیدی جائے گی اور یہی دو ذریعے ہیں جن سے بیماری آتی ہے۔ یا تو بیماری جَر مز(GERMS) کی تھیوری کے ماتحت آتی ہے کہ باہر سے مختلف امراض کے جراثیم آتے اور انسان کو مبتلائے مرض کر دیتے ہیں اور یا پھر افعال الاعضاء میںنقص واقع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔غرض بیماریاں دو ہی طرح پیدا ہوتی ہیں یا تو باہر سے طاعون یا ہیضہ یا ٹائیفائڈ کا کیڑا انسانی جسم میں داخل ہو تا اور اسے بیمار کر دیتا ہے یا افعال الاعضاء میں نقص پیدا ہو جاتا ہے۔مثلاً معدہ میںتیزابیت زیادہ ہو جائے یا ایسی ہی کوئی خرابی پیدا ہوجائے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہاں ہمارے فرشتے ان دونوں باتوں کا علاج کردیںگے چنانچہ وہ جنتیوں سے کہیں گے کہ سَـلَامٌ عَلَیْکُمْ آج سے طاعون کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا، ہیضہ کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا، ٹائیفائیڈ کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا، اسی طرح اور کسی مرض کا کوئی جَرم(GERM) تمہارے جسم میںداخل نہیں ہو گا۔ پھر ممکن تھا کہ باہر سے تو حفاظت ہو جاتی مگر افعال الاعضاء میںنقص واقع ہو جاتا اِس لئے فرمایا طِبْتُمْتمہارے اعضاء کو اندر سے بھی درست کر دیا گیا ہے۔ پھر خیال ہو سکتا تھا کہ شاید کچھ عرصہ کے بعد یہ حفاظت اُٹھالی جائے اِس لئے فرمایا خٰلِدِیْنَ فِیْھْاَ یہ حالت عارضی نہیں بلکہ ہمیشہ رہے گی اور کبھی زائل نہیںہو گی۔
نفیس برتن
(۹) نویں میں نے مینا بازاروں میں برتن دیکھے جو نہایت نفیس اور اعلیٰ قسم کے تھے مَیں نے سوچا کہ کیا اِس بازار میں بھی ا س قسم کے برتن ملتے ہیں؟ اس پر
میری نظر فوراً اِس آیت پر پڑی کہ وَیُطَافُ عَلَیْھِمْ بِاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ وَّاَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَxا ۷۵؎
کہ یہ جو ہمارے غلام بنیں گے اور مینا بازار میں ہم سے سَودا کریں گے وَیُطَافُ عَلَیْھِمْ بِاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ اُن کے پاس چاندی کے برتنوں میںخداتعالیٰ کے مقررکردہ خادم چیزیں لائیں گے وَاَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَxا اور ُکوب لائیں گے جو قواریر کی طرز پر ہونگے۔ قَوَارِیْرَxا کے معنے شیشہ کے برتن کے ہیں جس میںشراب ڈالی جائے۔ پس وہ برتن شیشے کی طرح ہوں گے مگر بنے ہوئے چاندی سے ہوں گے یعنی اُن کی رنگت میں وہ سفیدی بھی ہوگی جو چاندی میں ہوتی ہے اور ان میں وہ نزاکت بھی ہو گی جو شیشہ کے برتنوں میںہوتی ہے گویا ان برتنوں میںایک طرف تو اتنی صفائی ہو گی کہ جس طرح شیشہ کے برتن میںپڑی ہوئی چیز باہر سے نظر آ جاتی ہے اِسی طرح اُن کے اندر کی چیز باہر سے نظر آ جائے گی اور دوسری طرف ان میں اتنی سفیدی ہوگی کہ وہ چاندی کی طرح چمکتی ہوگی۔ درحقیقت مؤمن کا جنت میںایک دوسرے سے اسی قسم کا معاملہ ہو گا۔ وہ ایک دوسرے کے قلب کو اسی طرح پڑھ لیں گے جس طرح شیشہ کے برتن میںسے شربت نظر آ جاتا ہے۔ یہاں انسان اپنی عزیز ترین بیوی کے متعلق بھی نہیں جانتا کہ اُس کے دل میں کیا ہے مگر وہاں یہ حالت نہیںہو گی۔ اورایسی چیزیں جو بظاہر شفاف نہیںہوتیں جیسے چاندی ، وہ بھی وہاں شفاف ہوں گی۔
فِضَّۃٌ کے معنے عربی زبان میں بے عیب سفیدی کے ہوتے ہیں پس ان برتنوں کے چاندی سے بنائے جانے کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ ایک طرف تو جنتی بے عیب ہوں گے اور دوسری طرف ان میں کوئی اخفاء نہیں ہو گا۔ ہر شخص جانتا ہو گا کہ میرا دوست جو بات کہتا ہے درست کہتا ہے شُبہ کا سوال ہی پیدا نہیںہو گا۔
چار پائیاں اور گائو تکیے
(۱۰) پھر میں نے مینا بازار میںگھر کے اسباب فروخت ہوتے دیکھے تھے۔ پس میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں دیکھوں
آیا وہاں بھی گھر کا اسباب ملے گا یا نہیں؟ جب میں نے نظر دَوڑائی تو وہاں لکھا تھا عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ مُّتَّکِئِیْنَ عَلَیْھَا مُتَقٰبِلِیْنَ ۷۶؎
مَوْضُوْنَۃٍ کے معنے بُنی ہوئی چارپائی کے ہوتے ہیں ۔ پس عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ ایسی چارپائیوں پر ہوں گے جو بُنی ہوئی ہونگی۔ عربوں میںدوطرح کا رواج تھا۔ اکثر تو تخت پر سوتے تھے مگر بعض چارپائی بھی استعمال کر لیا کرتے تھے جب ہم حج کے لئے گئے تو مکہ مکرمہ میں ہم نے اچھا سا مکان لے لیا مگر اُس میں کوئی چارپائی نہیںتھی، بلکہ اُس میںسونے کے لئے جیسے شہ نشین ہوتے ہیں اِسی قسم کے تخت بنے ہوئے تھے، لوگ وہاں گدّے بچھا لیتے اور سو جاتے مگر ہمیں چونکہ اُن پر سونے کی عادت نہیںتھی اس لئے میں نے اپنے لئے ایک ہوٹل سے چارپائی منگوائی تب جا کر سویالیکن وہ لوگ کثرت سے تختوں پر سوتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ وہاں جنت میں بُنی ہوئی چارپائیاں ہوں گی(جو لچکدار ہوتی ہیں)مُتَّکِئِیْنَ عَلَیْھَا مُتَقٰبِلِیْنَ ۔ لیکن ایک عجیب بات یہ ہے کہ دنیا میں تو چارپائی سونے کے لئے ہوتی ہے مگر جنت میںسونے کا کہیں ذکر نہیں آتا۔ کہیں قرآن میںیہ نہیں لکھا کہ جنتی کبھی سوئیں گے بھی ۔درحقیقت سونا غفلت کی علامت ہے اور چونکہ جنت میں غفلت نہیں ہو گی اِس لئے وہاںسونے کی بھی ضرورت نہیںہوگی۔ اِس سے بھی اُن لوگوں کا ردّ ہوتا ہے جو جنت کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ عیاشی کا مقام کہتے ہیں۔ عیاشی کے لئے سونا ضروری ہوتا ہے غالب کہتا ہے ۔
؎
ایک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے
وہ دن کو بھی سونے والی حالت بنانا چاہتا ہے کُجا یہ کہ رات کو بھی سونا نصیب نہ ہو۔ اسی طرح عیاشی میںلوگ افیون کھا کھا کر غفلت پیدا کرتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے جنت میںکہیں بھی سونے کا ذکر نہیں کیا، ہمیشہ کام کی طرف ہی اشارہ کیا ہے اس لئے یہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ وہ وہاں چارپائیوں پر سو رہے ہوں گے بلکہ فرمایا عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ مُّتَّکِئِیْنَ عَلَیْھَا مُتَقٰبِلِیْنَ وہ اُس پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اور تکیہ لگانا راحت اور استراحت پر دلالت کرتا ہے غفلت پرنہیں۔ ہم کتابیں پڑھتے ہیں، اعلیٰ مضامین پر غور کرتے ہیںتو تکیہ لگائے ہوئے ہوتے ہیں مگر اُس وقت ہمارے اندر غفلت یا نیند نہیں ہوتی۔ مگر چونکہ تکیہ عموماً لوگ سوتے وقت لگاتے ہیں اور اِس سے شُبہ پڑ سکتا تھاکہ شاید وہ سونے کے لئے تکیہ لگائیں گے اس لئے ساتھ ہی فرما دیا مُتَقٰبِلِیْنَ وہ ایک دوسرے کی طر ف منہ کر کے بیٹھے ہوئے ہوں گے اور سوتے وقت کوئی ایک دوسرے کی طرف مُنہ کر کے نہیں بیٹھا کرتا۔ ایک دوسرے کی طرف منہ کرنے کے معنے یہی ہیں کہ انہیں آرام کرنے کے لئے چارپائیاں ملی ہوئی ہوں گی اور وہ تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے مگر سونے کے لئے نہیں، غفلت کے لئے نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے خداتعالیٰ کی معرفت کی باتیں کر رہے ہونگے اور اُس کا ذکر کر کے اپنے ایمان اور عرفان کو بڑھاتے رہیں گے۔
شاہانہ اعزاز واکرام
اسی طرح فرماتا ہے فِیْھَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَۃٌ وَّاَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ وَّنَمَارِقُ مَصْفُوَفَۃٌ وَّزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ ۷۷؎
پہلی آیت میں سُرُرٍ مَّوْضُوُنَۃٍ کا ذکر آتا تھا مگر یہاں فرمایا کہ سُرُرٌمَّرْفُوَعَۃٌ ہونگے۔ سَرِیْر کا لفظ جب عربی زبان میں بولا جائے اور اِس کی وضاحت نہ کی جائے تو اِس کے معنے تختِ بادشاہی کے ہوتے ہیں۔ چارپائی کے معنے تب ہوتے ہیںجب ساتھ کوئی ایسا لفظ ہو جو چارپائی کی طرف اشارہ کر رہا ہو۔ جیسے سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ کے الفاظ تھے ، لیکن اگر خالی سُرُرٌ کا لفظ آئے تو اس کے معنے تختِ شاہی کے ہوں گے اور جب کوئی اور معنی مراد ہوں تو سُرُرٌ کے ساتھ تشریح کے لئے ضرورکوئی لفظ ہو گا۔ یہاں چونکہ خالی سُرُرٌ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لئے اس سے مراد تختِ شاہی ہی ہے اور پھر تختِ شاہی کی طرف مزید اشارہ کرنے کے لئے مَرْفُوْعَۃٌکہہ دیا، کیونکہ تختِ شاہی اونچارکھا جاتا ہے، مطلب یہ کہ جنتی وہاں بادشاہوں کی طرح رہیں گے۔ دنیا میںتو وہ غلام بنا کر رکھے جاتے تھے مگر جب انہوں نے خدا کے لئے غلامی اختیار کرلی اور اُسے کہہ دیا کہ اے ہمارے رب! ہم تیرے غلام بن گئے ہیں تو خدا نے بھی کہہ دیا کہ اے میرے بندو! چونکہ تم میرے غلام بنے ہو اِس لئے میں تمہیں بادشاہ بنادوں گا۔
خداتعالیٰ کی سچی غلامی اختیار کرنے
والے دنیا میں بھی بادشاہ بنا دیئے گئے
دنیا میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ کسی نے سچے دل سے خداتعالیٰ کی غلامی اختیار کر لی تو خدا نے اُسے بادشاہ بنا دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق کسی کو خیال بھی نہیں آتا
تھا کہ وہ حکومت کر سکتے ہیںاور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اِسی خیال کے تھے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور انصار اور مہاجرین میں خلافت کے بارہ میں کچھ اختلاف ہو گیا اور اِس اختلاف کی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلا ع ہوئی تو وہ فوراً اِس مجلس میں گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ اس مجلس میں بولنے کا میرا حق ہے ابوبکرؓ خلافت کے متعلق کیا دلائل دے سکتے ہیں؟ مگر وہ کہتے ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جاتے ہی تقریر شروع کر دی اور ایسی تقریرکی کہ میں نے جس قدر دلیلیں سوچی ہوئی تھیں وہ سب اس میں آ گئیں مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر ختم نہ ہوئی اور وہ اَور زیادہ دلائل دیتے چلے گئے، یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ میں ابوبکرؓ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
ابوبکرؓ مکہ کے رئوساء کے مقابل پر کوئی خاص اعزاز نہیں رکھتے تھے اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ وہ ایک معزز خاندان میںسے تھے ، مگر معزز خاندان میں سے ہونا اور بات ہے اور ایسی وجاہت رکھنا کہ سارا عرب اُن کی حکومت کو برداشت کر لے بالکل اور بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلافت عطا فرمائی اور مکہ میں یہ خبر پہنچی کہ حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہو گئے ہیں تو ایک مجلس جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے باپ ابوقحافہ بھی بیٹھے ہوئے تھے وہاں بھی کسی نے جا کر یہ خبر سُنا دی ابو قحافہ یہ خبر سن کر کہنے لگے، کونسا ابوبکرؓ ؟ وہ کہنے لگا وہی ابوبکر جو تمہارا بیٹا ہے۔ کہنے لگے کہ کیا میرے بیٹے کو عرب نے اپنابادشاہ تسلیم کر لیا ہے؟ اُس نے کہا ہاں۔ ابوقحافہ آخر عمر میں اسلام لائے تھے اور ابھی ایمان میں زیادہ پختہ نہیں تھے مگر جب انہوں نے یہ بات سُنی تو بے اختیار کہہ اُٹھے لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ محمد رسول اللہ ضرور سچے ہیں جن کی غلامی اختیار کر کے ابوبکرؓ بادشاہ بن گیا اور عرب جیسی قوم نے اس کی بادشاہت کو قبول کرلیا۔
تو دُنیوی لحاظ سے کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ آپ بادشاہ بن جائیں گے مگر خدا نے آپ کو بادشاہ بنا کر دکھا دیا۔
شاہِ ایران کی ایک ذلیل پیشکش جسے
مسلمانوں نے پائے اِستحقار سے ُٹھکرادیا
ایران میں جب مسلمان گئے تو کسریٰ کے جرنیلوں نے اُس سے کہا کہ مسلمان اپنی طاقت وقوت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ وہ ایران پر بھی چھاجائیں، ان
کے متعلق کوئی انتظام کرنا چاہئے ۔کسرٰی نے کہا تم میرے پاس اُن کے ایک وفد کو لائو، میں اُن سے خود باتیں کروں گا ۔ جب مسلمان اُس کے دربار میں پہنچے تو کسرٰی اُن سے کہنے لگا کہ تم لوگ وحشی اور گوہیں کھا کھا کر زندگی بسر کرنے والے ہو۔ تمہیں یہ کیاخیال آیا کہ تم ہمارے ملک پر فوج لے کر حملہ آور ہوگئے ہو؟انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے جو کچھ کہا بالکل ٹھیک ہے، ہم ایسے ہی تھے بلکہ ا ِس سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل کیا اور اُس نے اپنا نبی بھیج کر ہمار ی کایاپلٹ دی، اب ہر قسم کی عزت خداتعالیٰ نے ہمیں بخش دی ہے۔ کسرٰی کو یہ جواب سن کر سخت طیش آیا مگر اُس نے کہا مَیں اب بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو ہم سے کچھ روپے لے لو اور چلے جائو۔ چنانچہ اُس نے تجویز کیا کہ فی افسر دو دو اشرفی اور فی سپاہی ایک ایک اشرفی دیدی جائے۔گویا وہ مسلمان جو فتح کرتے ہوئے عراق تک پہنچ چکے تھے اور جن کی فوجیں ایران میں داخل ہو چکی تھیں اُن کا اُس نے اپنی ذہنیت کے مطابق یہ نہایت ہی گندہ اندازہ لگایا کہ سپاہیوں کو پندرہ اور افسروں کو تیس تیس روپے دیکر خریدا جا سکتا ہے۔ مگر مسلمان اس ذلیل پیشکش کو کب قبول کر سکتے تھے انہوں نے نفرت اورحقارت کے ساتھ اُسے ُٹھکرا دیا۔تب کسریٰ کو غصّہ آ گیا اور اُس نے اپنے مصاحبوں کو اشارہ کیا کہ مٹی کا ایک بورا بھر کر لائو۔ تھوڑی دیر میں مٹی کابورا آ گیا، بادشاہ نے اپنے نوکروں سے کہا کہ مسلمانوں کا جو شخص نمائندہ ہے یہ بورا اُس کے سر پر رکھ دیا جائے۔نوکر نے ایسا ہی کیا ۔ جب بورا اُس صحابی ؓ کے سر پر رکھا گیا تو بادشاہ نے کہا چونکہ تم نے ہماری بات نہیںمانی تھی اِس لئے جائو اِس مٹی کے بورے کے سِوا اب تمہیں کچھ نہیں مل سکتا۔ اللہ تعالیٰ جن کو بڑا بناتا ہے اُن کی عقل بھی تیز کر دیتا ہے، وہ صحابی ؓ فوراً تاڑ گئے کہ یہ ایک مشرک قوم ہے اور مشرک قوم بہت وہمی ہوتی ہے۔ انہوں نے اِس بورے کو اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر رکھا اور اُسے ایڑ لگا کر یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل آئے کہ کسرٰی نے اپنا مُلک خود ہمارے حوالے کر دیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پرایسا فضل کیا تھا کہ اُن میںسے ہر شخص بادشاہ بن گیاتھا۔
ایک مسلمان غلام کا کُفّار سے معاہدہ
یہ بھی اُن کی بادشاہی کی علامت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میںایک دفعہ
مسلمانوں کی عیسائیوں سے جنگ ہو گئی۔رفتہ رفتہ عیسائی ایک قلعہ میں محصور ہو گئے اور مسلمانوں نے چاروں طرف سے اُسے گھیر لیا اور کئی دن تک اُس کا محاصرہ کئے رکھا۔ ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ قلعہ کا دروازہ ُکھلا ہے اور سب عیسائی اطمینان سے اِدھر اُدھر ِپھر رہے ہیں مسلمان آگے بڑھے تو انہوں نے کہا ہماری تو تم سے صلح ہو چکی ہے۔مسلمانوں نے کہا ہمیں تو اِس صلح کا کوئی علم نہیں ۔ انہوں نے کہا علم ہو یا نہ ہو، فلاں آدمی جو تمہارا حبشی غلام ہے اُس کے دستخط اِس صلح نامہ پر موجود ہیں۔کمانڈر انچیف کو بڑا غصہ آیا کہ ایک غلام کو پھُسلا کر دستخط کروالئے گئے ہیں اور اس کا نام صلح نامہ رکھ لیا گیا ہے۔غلام سے پوچھا گیا کہ کیا بات ہوئی تھی؟ اُس نے کہا، مَیں پانی لینے آیا تھا کہ یہ لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر تم لوگ یہ یہ شرطیں مان لو تو اِس میںکیا حرج ہے؟ میں نے کہا کوئی حرج نہیں۔ انہوں نے کہا تو پھر لگائو انگوٹھا (یا جو بھی اُس زمانہ میںدستخط کا طریق تھا) اور اِس طرح انہوں نے میری تصدیق کرالی آخر اسلامی کمانڈر انچیف نے کہا مَیں حضرت عمرؓ سے اِس بارہ میں دریافت کروں گا اور وہاں سے جو جواب آئے گا اُس کے مطابق عمل کیا جائے گا چنانچہ حضرت عمرؓ کو یہ تمام واقعہ لکھا گیا آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ گو معاہدے کے لحاظ سے یہ طریق بالکل غلط ہے مگر میں نہیں چاہتا کہ لوگ یہ کہیں کہ دنیا میںکوئی ایسا مسلمان بھی ہے جس کی بات ردّ کر دی جاتی ہے اسلئے اس دفعہ بات مان لو آئندہ کے لئے اعلان کر دو کہ صلح نامہ صرف جنرل یا اُس کے مقرر کر دہ نمائندہ کا مصدّقہ تسلیم ہو گا۔ اب گووہ ایک غلام تھا مگر اُس وقت اُس کی حیثیت ویسی ہی تسلیم کی گئی جیسے ایک بادشاہ کی ہوتی ہے۔
سامانِ جنگ
گیارہویں بات مَیں نے یہ دیکھی تھی کہ مینا بازار میں سامانِ جنگ ملتا ہے تلواریں ہوتی ہیں ، نیزے ہوتے ہیں، ڈھالیںہوتی ہیں اسی طرح کا
اور سامانِ جنگ ہوتا ہے پس میں نے کہا آؤ میںدیکھوں آیا یہ چیزیں بھی ہمارے مینا بازار میںملتی ہیںیا نہیں؟
روحانی ڈھال
جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ اِس مینا بازار میںڈھالیں بھی ملتی ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے لَھُمْ دَارُالسَّـلَامِ عِنْدَرَبِّھِمْ وَھُوَ وَلِیُّھُمْ
بِمَا کَانُوْایَعْمَلُوْنَ۷۸؎
جنت میں ایسا انتظام کر دیا جائے گا کہ کسی جنتی پرکوئی حملہ نہیں ہو سکے گا۔ جس طرح ڈھال تمام حملوں کو روک دیتی ہے اسی طرح جب کسی شخص کوجنت ملتی ہے تو اس پر کوئی شخص حملہ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح فرماتا ہے وَالْمَلٰٓئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ سَـلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَاصَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ
کہ ملائکہ اُن کے پاس ہر دروازہ سے آئیں گے اور کہیں گے اے مؤمنو! تم نے اپنے رب کے لئے بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھائیں اب تم کسی مصیبت میں نہیںڈالے جائو گے، کیونکہ خدا نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم پر کوئی خوف اور کوئی مصیبت نہیںآئے گی۔دیکھو! یہ انجام والا گھر کتنا اچھا اور کیسا آرام دِہ ہے۔
خدائی حفاظت کا ایک شاندار نمونہ
دنیا میں بھی اِس بات کی مثالیں ملتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاک بندے خداتعالیٰ کی حفاظت میںرہتے ہیں
اور دشمن اُن کو لاکھ نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے وہ ناکام ونامراد رہتا ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کسی جنگ سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لئے ایک درخت کے نیچے سو گئے۔ باقی لشکر بھی اِدھر اُدھر متفرق ہوگیا۔ ا تنے میں ایک شخص جس کے بعض رشتہ دار مسلمانوں کے ہاتھوں لڑائی میںمارے گئے تھے بلکہ اس کا ایک بھائی بھی مر چکا تھا اور اُس نے قسم کھائی تھی کہ میں محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو اِس کے بدلہ میں ضرور قتل کرونگاوہ وہاں آپہنچا۔درخت سے آپؐ کی تلوار لٹک رہی تھی اُس نے تلوار کو اُتار لیا اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جگا کر کہا بولو! اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ سب صحابہؓ اُس وقت اِدھر اُدھر ِبکھرے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس اُس وقت کوئی شخص نہیں تھا، مگرایسی حالت میں بھی آپؐ کے دل میں کوئی گھبراہٹ پیدا نہ ہوئی۔ بلکہ آپؐ کو یقین تھا کہ جس خدا نے میری حفاظت کا وعدہ کیا ہؤا ہے وہ آپ میری حفاظت کا سامان فرمائے گا چنانچہ جب اُس نے کہا کہ بولو! بتائو! اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُٹھنے کی کوشش نہیں کی اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کسی حرکت سے کوئی اضطراب ظاہر ہؤا۔ آپ نے لیٹے لیٹے نہایت اطمینان سے فرمایا اللہ میری حفاظت کریگا۔ یہ سُننا تھا کہ اُس کے ہاتھ شل ہو گئے اور تلوار اُس کے ہاتھ سے گر گئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فوراً تلوار اُٹھالی اور فرمایا بتائو! اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا آپؐ بڑے شریف آدمی ہیں آپ ہی مجھ پر رحم کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کم بخت! تم مجھ سے سُن کر ہی کہہ دیتے کہ اللہ حفاظت کریگا۔ تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا کون مقابلہ کر سکتا ہے۔
ایک رؤیا
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسّلام پرجب پادری مارٹن کلارک نے مقدمہ کیا تو مَیں نے گھبرا کر دعاکی۔ رات کو رؤیا میں دیکھا کہ میں سکول سےآرہا
ہوں اور اُس گلی میں سے جو مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکانات کے نیچے ہے اپنے مکان میں داخل ہونے کی کوشش کر تاہوں۔ وہاں مجھے بہت سی باوردی پولیس دکھائی دیتی ہے پہلے تو اُن میں سے کسی نے مجھے اندر داخل ہونے سے روکا، مگر پھر کسی نے کہا یہ گھر کا ہی آدمی ہے اسے اندر جانے دینا چاہئے۔ جب ڈیوڑھی میں داخل ہو کر اندر جانے لگا تو وہاں ایک تہہ خانہ ہؤا کرتا تھا جو ہمارے دادا صاحب مرحوم نے بنایا تھا۔ ڈیوڑھی کے ساتھ سیڑھیاں تھیں جو اس تہہ خانہ میں اُترتی تھیں۔بعد میں یہاں صرف ایندھن اور پیپے پڑے رہتے تھے۔ جب میںگھر میں داخل ہونے لگا تو میں نے دیکھا کہ پولیس والوں نے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کھڑا کیا ہؤا ہے اورآپ کے آگے بھی اور پیچھے بھی اوپلوں کا انبار لگا یا ہؤا ہے۔ صرف آپ کی گردن مجھے نظر آرہی ہے اور مَیں نے دیکھا کہ وہ سپاہی ان اوپلوں پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب مَیں نے انہیں آگ لگاتے دیکھا تو مَیں نے آگے بڑھ کر آگ ُبجھانے کی کوشش کی۔ اتنے میں دو چار سپاہیوں نے مجھے پکڑلیا۔ کسی نے کمر سے اور کسی نے قمیص سے اور مَیں سخت گھبرایا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ اوپلوں کو آگ لگا دیں۔ اِسی دَوران میںاچانک میری نظر اوپر اُٹھی اور میں نے دیکھا کہ دروازے کے اوپر نہایت موٹے اور خوبصورت حروف میں یہ لکھا ہؤا ہے کہ :-
’’جو خدا کے پیارے بندے ہوتے ہیں اُ ن کو کون جلا سکتا ہے‘‘
تو اگلے جہان میں ہی نہیں یہاں بھی مؤمنوں کے لئے سلامتی ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ایسے بیسیوں واقعات دیکھے کہ آپ کے پاس گو نہ تلوار تھی نہ کوئی اور سامانِ حفاظت مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کے سامان کر دئیے۔
امام جماعت احمدیہ کے قتل کی نیّت
سے آنیوالا ایک ہندوستانی عیسائی
ابھی ایک کیس میں ایک ہندوستانی عیسائی کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے۔ اُس کا جُرم یہ تھا کہ اُس نے غصہ میں آ کر اپنی بیوی کو قتل کر دیا۔ جب مقدمہ ہؤا تو مجسٹریٹ کے سامنے اُس نے
بیان دیتے ہوئے کہا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریریں سُن سُن کر میرے دل میں احمدیوں کے متعلق یہ خیال پیدا ہؤا کہ وہ ہر مذہب کے دشمن ہیں۔عیسائیت کے وہ دشمن ہیں ، ہندومذہب کے وہ دشمن ہیں، سکّھوں کے وہ دشمن ہیں، مسلمانوں کے وہ دشمن ہیں اور مَیں نے نیت کر لی کہ جماعت احمدیہ کے امام کو قتل کر دونگا۔ میں اِس غرض کے لئے قادیان گیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ وہ پھیروچیچی گئے ہوئے ہیں، چنانچہ میںوہاں چلا گیا۔پستول مَیں نے فلاں جگہ سے لے لیا تھا اور ارادہ تھا کہ وہاں پہنچ کر اُن پر حملہ کردوں گا، چنانچہ پھیروچیچی پہنچ کر میں اُن سے ملنے کے لئے گیا تو میری نظر ایک شخص پر پڑ گئی جو اُن کے ساتھ تھا اور وہ بندوق صاف کر رہا تھا(یہ دراصل یحییٰ خاںصاحب مرحوم تھے) اور مَیں نے سمجھا کہ اِس وقت حملہ کرنا ٹھیک نہیں ، کسی اور وقت حملہ کرونگا۔ پھر میںدوسری جگہ چلا گیا اور وہاں سے خیال آیا کہ گھر ہوآئوں۔ جب گھر پہنچا تو بیوی کے متعلق بعض باتیں سُن کر برداشت نہ کر سکا اور اُسے پستول سے ہلاک کردیا۔ پس یہ ایک اتفاقی حادثہ تھا جو ہو گیا ورنہ میرا ارادہ تو کسی اَور کو قتل کرنے کا تھا۔
اب دیکھو کس طرح اس شخص کو ایک ایک قدم پر خداتعالیٰ روکتا اور اس کی تدبیروں کو ناکام بناتا رہا ۔پہلے وہ قادیان آتا ہے مگر مَیںقادیان میںنہیںبلکہ پھیروچیچی ہوں، وہ پھیروچیچیپہنچتا ہے تو وہاں بھی مَیں اُسے نہیں ملتا اور اگر ملتا ہوں تو ایسی حالت میں کہ میرے ساتھ ایک اور شخص ہوتا ہے جس کے ہاتھ میںاتفاقاً بندوق ہے اور اُس کے دل میں خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ اِس وقت حملہ کرنا درست نہیں ۔ پھر وہ وہاںسے چلا جاتا ہے اور اِدھر اُدھر پھرکر گھر پہنچتا ہے اور بیوی کو مار کر پھانسی پر لٹک جاتا ہے۔
فتنہء احرار کے ایام میں ایک نوجوان پٹھان کا ارادۂ قتل سے قادیان آنا
اسی طرح احرار کے فتنہ کے ایام
میں ایک دفعہ ایک پٹھا ن لڑکا قادیان آیا اور میرا نام لے کر کہنے لگا میں نے اُن سے ملنا ہے۔ میاں عبدالاحدخاں صاحب افغان اُس سے باتیں کرنے لگے۔ باتیںکر تے کرتے یک دم اُس نے ایک خاص طرز پر اپنی ٹانگ ہِلائی اور پٹھان اس طرز پراُسی وقت اپنی ٹانگ ہِلاتے ہیں جب انہوں نے نیچے ُچھرا چھپایا ہؤا ہو۔ میاں عبدالاحدخاں بھی چونکہ پٹھان ہیں اور وہ پٹھانوں کی اِس عادت کو اچھی طرح جانتے تھے، اِس لئے جونہی اُس نے خاص طرز پر ٹانگ ہلائی انہوں نے یکدم ہاتھ ڈالا اور چُھری پکڑ لی۔ بعد میں اُس نے اقرار بھی کرلیا کہ میرا ارادہ یہی تھا کہ ملاقات کے بہانے اُن پر حملہ کر دونگا۔ اب ایک پٹھان کا قادیان آنا اور اُس کی باتوں کے وقت ایک احمدی پٹھان کا ہی موجود ہونا اور اُس کا پکڑا جانا محض اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ تھا ورنہ اگر کوئی غیر پٹھان ہوتا تو وہ سمجھ بھی نہ سکتا تھا کہ اُس نے ٹانگ کو اس طرح کیوں حرکت دی ہے۔
زہر آلود بالائی ِکھلانے کی کوشش
اسی طرح مَیںایک دفعہ جلسہ سالانہ میں سٹیج پر تقریر کر رہا تھا کہ کسی نے ایک پرچ میں بالائی رکھ کر دی
کہ یہ حضرت صاحب کو پہنچا دی جائے اور دوستوں نے دست بدست اُسے آگے پہنچانا شروع کردیا۔ رستہ میںکسی دوست کو خیال آیا کہ یہ کوئی زہریلی چیز نہ ہو ، چنانچہ اُس نے چکھنے کے لئے ذرا سی بالائی زبان کو لگائی تو اُس کی زبان کٹ گئی ، مگر چونکہ وہ دست بدست پیچھے سے چلی آ رہی تھی اس لئے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون شخص تھا جس نے زہر کھلانے کی کوشش کی۔ تو اِس قسم کے کئی واقعات ہوتے رہتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت کاپتہ چلتا ہے، مگر پھر بھی جب تک وہ چاہتا ہے حفاظت کا سامان رہتا ہے اور جب وہ چاہتا ہے اِن سامانوں کو ہٹا لیتا ہے بہرحال اِس جہان کی سلامتی محدود ہے، لیکن اگلے جہان کی سلامتی غیرمحدود اور ہمیشہ کے لئے ہے۔
مذہبی جنگوں میں مسلمانوں کی کامیابی کا وعدہ
پھر مَیں نے سوچا کہ اس دنیا میں تو جنگیں بھی ہوتی ہیں اور جنگوں
میںحفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ تلوار اور دوسرے ہتھیار سمجھے جاتے ہیں جو مینا بازار سے میسّر آ سکتے ہیں کیا اِس مینا بازار سے بھی ہمیںکوئی ایسی ہی چیز مل سکتی ہے یا نہیں؟ سو اِس کے متعلق میں نے دیکھا تو قرآن میںلکھا تھا اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ نِالَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْارَبُّنَا اللّٰہُ وَلَوْلَادَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًاط وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِ یٌّ عَزِیْزٌ ۷۹؎
فرماتا ہے یقینا اللہ تعالیٰ مؤمنوں کی طرف سے دفاع کرنے والا ہے یعنی ہم تلوار تمہارے ہاتھ میں نہیں دیں گے بلکہ اپنے ہاتھ میںرکھیں گے۔ اگر تمہارے ہاتھ میں تلوار دینگے تو وہ ایسی ہی ہو گی جیسے بچہ سے اس کی ماں کہتی ہے کہ فلاں چیز اُٹھا لا اور پھر خود ہی اُس چیز کو اُٹھا کر اُس کا صرف ہاتھ لگو ا دیتی ہے اور بچہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے چیز اُٹھائی ہے۔ پھر فرما تا ہے ، ہم تمہاری کیوں نہ مدد کریں گے جب کہ تم پر حملہ کرنے والے خائن اور کافر ہیں اور تم وہ ہو جو صداقتوں کا اقرار کرتے ہو۔ یا د رکھو! اِس دنیا میں خداتعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کو جن سے لوگ جنگ کرتے ہیں اجازت دی گئی ہے کہ وہ بھی حملہ آوروں کامقابلہ کریں کیونکہ اُن پر حد سے زیادہ ظلم کیا گیا ہے اور اُن پر ناواجب سختی کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کی مدد پریقینا قادر ہے۔ وہ لوگ جو اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر حق کے، جن کا صرف اتنا گناہ تھا کہ انہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اگر اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعہ دُور نہ کرے تو دنیا میںعبادت خانے ، راہبوں کے رہنے کی جگہیں، عیسائیوں کے گِرجے ، یہودیوں کی جگہیں اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں خداتعالیٰ کانام کثرت سے لیا جاتا ہے سب مٹا دی جائیں۔
فرماتا ہے ہم نے مذہب کی آزادی کے لئے لڑائی کی اجازت دی ہے مگر چونکہ سچے مخلص تھوڑے ہوتے ہیں اِس لئے اِس بات سے نہ گھبرانا کہ تم تھوڑے ہو، اللہ تعالیٰ خود اپنے مخلص بندوں کی تائید کے لئے تلوار لے کر کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ انہیں ہر میدان میں مظفر ومنصور کر تا ہے اور خدا بڑاہی قوی اور عزیز ہے ۔جس طرف خدا ہو جائے گا اُس کی قوت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا اور جس کی طرف خدا ہو جائے گا اُس پر کوئی دشمن غلبہ نہیں پاسکے گا۔
دشمنوں پرغالب کرنے والا ایک تیز تر اور کامیاب ہتھیار
یہ تو دفاعی جنگ ہے۔ مَیں نے سوچا
کہ اِس سامانِ جنگ سے تو میںدشمن کے فتنہ سے بچ سکتا ہوں۔ پس یہ ہتھیار ایک ڈھال کی طرح ہؤا اِ س میں مجھے دوسرے پر حملہ کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے پھر میں دنیا پر غالب کس طرح آئوں گا؟ کیا اِس مینا بازار میںکوئی ایسا ہتھیار بھی ہے جو ڈھال کی طرح نہ ہو بلکہ تلوارکی طرح ہو اور جس کی مدد سے مجھے غلبہ عطا ہو؟ تو میں نے دیکھا کہ ایسا ہتھیار بھی موجود ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلَقَدْ صَرَّفْنَاہُ بَیْنَھُمْ لِیَذَّکَّرُوْا فَاَبٰٓی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوْرًا- وَلَوْشِئْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ نَّذِیْرًا- فَـلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَ جَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا- وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَامِلْحٌ اُجَاجٌ وَجَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا ۸۰؎
ان آیات میںپہلے پانی کا ذکر ہے جوکلامِ الٰہی سے تشبیہہ دینے کے لئے کیا گیاہے اور فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اُتار تا ہے اور مراد یہ ہے کہ قرآن بھی اسی طرز کا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس طرح ہم پانی کو لوگوں میںپھیلادیتے ہیں تا کہ وہ ہمارے نشانوں کی قدر کریں، اسی طرح ہم نے قرآن کو اُن کے سامنے پیش کر دیا ہے، مگر اکثر لوگ ۔ُکفرانِ نعمت کرتے ہیں۔ وہ پانی کی نعمت تو قبول کر لیتے ہیں مگر کلامِ الٰہی کی نعمت جو اس سے بہت زیادہ بہتر ہے اُسے ردّ کر دیتے ہیں، گویا وہ اشرفیاں تو نہیں لیتے مگر کوڑیوں پرجان دیتے ہیں، اور یہ بالکل بچوں والی حالت ہے۔ میں ایک دفعہ بمبئی گیا وہاں ایک تازہ کیس عدالت میں چل رہا تھا ۔ جو اس طرح ہؤا کہ کسی جوہری کے ساٹھ ہیرے جو کئی ہزار روپیہ کی مالیت کے تھے کہیں گِر گئے، اس نے پولیس میں رپورٹ کر دی، پولیس نے تحقیق کرتے ہوئے ایک آدمی کو پکڑ لیا جس سے کچھ ہیرے بھی برآمد ہوگئے۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ اس نے یہ ہیرے کہاں سے لئے تھے؟ تو اُس نے بتایا کہ میں بازار میں سے گزر رہا تھا کہ چند لڑکے ان ہیروں سے گولیاںکھیل رہے تھے، میں نے انہیں دو چار روپے دے کر ہیرے لے لئے۔ بعد میں معلوم ہؤا کہ اس جوہری نے کسی موقع پر اپنی جیب سے رومال نکالا تو یہ ہیرے جو ایک پُڑیہ میںتھے اس کے ساتھ ہی نکل کر زمین پر گر گئے اور بچوں نے یہ سمجھا کہ وہ کھیلنے کی گولیاں ہیں، حالانکہ وہ پچاس ہزار روپے کا مال تھا۔یہی حال لوگوں کا ہے کہ اُس پانی کی قدر کریں گے جو سٹر جاتا اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ناکارہ ہو جاتا ہے مگر جو پانی ان کے اور اُن کی آئندہ نسلوں کے کام آنے والا ہے او رجو نہ صرف اِ س زندگی میں بلکہ اگلے جہان میں بھی کام آتا اور انسان کی کایاپلٹ دیتا ہے اُس کو ردّ کر دیتے ہیںاور کہتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں لیتے، تو فرماتا ہے اکثر لوگ ۔ُکفر ہی کرتے ہیں حالانکہ اگر ہم چاہتے تو ساری دنیا میں ہی نذیر بھیجتے ۔یعنی اگر ہم لوگوں پر جلدی حُجّتتمام کرنا چاہتے تو بجائے اِس کے کہ ایک رسول بھیجتے اور اُس کی تعلیم آہستہ آہستہ پھیلتی،ہربستی میںایک ایک نذیر بھیج دیتے، مگر ہم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اس لئے کہ اگر سب لوگ ایک دم کُفر کرتے تو دنیا کی تمام بستیوں پر یکدم عذاب آ جاتا اور سب لوگ ہلاک ہو جاتے مگر اب ایسا نہیںہوتا بلکہ اب پہلے عرب پر اتمامِ حُجّتہوتی ہے اور اس پر عذاب آتا ہے۔ پھر کچھ اور عرصہ گزرتا ہے تو ایران پر اتمامِ حُجّتکے بعد عذاب آجاتا ہے۔ اگر ہر بستی اور ہر گائوں میںاللہ تعالیٰ کے نبی مبعوث ہوتے ، تو ہر بستی اور ہر گائوں پر وہ عذاب نازل ہوتا جو اب براہ ِراست ایک حصۂ زمین کے مخالفوں پر نازل ہو تا ہے۔ پس ُتو اُن کافروں کی باتیں مت مان، بلکہ قرآن کریم کے ذریعہ سے سب دنیا کے ساتھ وہ جہاد کر جو سب سے بڑا جہاد ہے یعنی تبلیغ کا جہاد۔ جس کے پاس جانے سے بھی آجکل کے مسلمان کا دم گھٹتا ہے (وہ اس سے تو اس بہانہ سے بھاگتا ہے کہ اصل جہاد تلوار کا ہے اور تلوار کے جہاد سے اس لئے بھاگتا ہے کہ دشمن طاقتور ہے۔مولوی فتویٰ دیتا ہے کہ اے عام مسلمانو! بڑھو اور لڑو۔ اور عام مسلمان کہتے ہیں کہ اے علماء! آگے چلو کہ تم ہمارے لیڈر ہو اور پھر دونوں اپنے گھروں کی طر ف بھاگتے ہیں) پس دنیا کے مینا بازار میںتو لوہے کی تلواریںملا کرتی تھیں جنہیں کچھ عرصہ کے بعد زنگ لگ جاتا تھا اور جو ہمیشہ کیلئے لڑائی میںکام نہیں آ سکتی تھیں ،بلکہ بسا اوقات لڑتے لڑتے ُٹوٹ جاتی تھیں مگر خدا نے ہمیں وہ تلوار دی ہے جسے کبھی زنگ نہیں لگتا اور جو کسی لڑائی میں بھی نہیں ُٹوٹ سکتی۔ تیرہ سَو سال گزر گئے اور دنیا کی سخت سے سخت قوموں نے چاہا کہ وہ اِس تلوار کو توڑ دیں، اِس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور اِسے ہمیشہ کے لئے ناکارہ بنا دیں مگر دُنیا جانتی ہے کہ جو قوم اِس کو توڑنے کے لئے آگے بڑھی وہ خود ُٹوٹ گئی مگر یہ تلوار اُن سے نہ ُٹوٹ سکی۔
جہاد بِالقرآن سب سے بڑا جہاد ہے
یہ وہ قرآن ہے جو خدا نے ہم کو دیا ہے اور یہ وہ تلوار ہے جس سے ہم ساری دنیاکوفتح
کر سکتے ہیں فرماتا ہے جَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا تلوار کا جہاد اور دوسرے اورجہاد سب چھوٹے ہیں قرآن کا جہاد ہی ہے جو سب سے بڑا اور عظیم الشان جہاد ہے۔ یہ وہ تلوار ہے کہ جوشخص اِس پر پڑے گا اُس کا سر کاٹا جائے گا اور جس پر یہ پڑے گی وہ بھی مارا جائے گا یا مسلمانوں کی غلامی اختیار کرنے پر مجبور ہو گا۔ اگر تیرہ سَو سال میںبھی ساری دنیامیںاسلام نہیں پھیلا تو اِس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ تلوار ُکند تھی بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے اس تلوار سے کام لینا چھوڑ دیا۔ آج خدا نے پھر احمدیت کو یہ تلوار دیکر کھڑا کیا ہے اور پھر اپنے دین کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کرنے کا ارادہ کیا ہے مگر نادان اور احمق مسلمان احمدیت پر حملہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ احمدی جہاد کے قائل نہیں۔ اُن کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص غلیلے لے کر قلعہ پر حملہ کر رہا ہو، تو یہ دیکھ کر کہ غلیلوں سے قلعہ کب فتح ہوسکتا ہے کچھ اور لوگ توپ خانہ لے کر آ جائیں، مگر غلیلے چلانے والا بجائے اُن کا شکر گزار ہونے کے اُن پر اعتراض کرنا شروع کر دے کہ یہ لوگ غلیلے کیوں نہیں چلاتے؟ وہ نادان بھی اپنی نادانی اور حماقت کی وجہ سے قرآن کی طاقت کے قائل نہیں، ہوش سنبھالنے سے لیکر بُڈّھے ہونے تک وہ نحو اور صَرف پڑھتے رہتے ہیںاور یہی دو علم پڑھ پڑھ کر ان کے دماغ خالی ہو جاتے ہیں ۔ انہوں نے ساری عمر کبھی قرآن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا ہوتا اور نہ اِس کے مطالب اور معانی پر غور کیا ہوتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل پھر یہ تلوار ہمارے ہاتھوں میں دی ہے اور میرا دعویٰ ہے کہ دنیامیں کوئی سچا مسئلہ اور کوئی حقیقی خوبی ایسی نہیں ، نہ زمین میں نہ آسمان میں جو اِس کتاب میںموجود نہ ہو۔ اسی طرح کوئی ایسی بات نہیں جس سے دنیا کے دماغ تسلی پا سکتے ہوں مگر وہ بات قرآن کریم میںنہ پائی جاتی ہو۔ پھر فرماتا ہے وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَاعَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَامِلْحٌ اُجَاجٌ وہ خدا ہی ہے جس نے دو سمندر دُنیا میں ملا دئیے ہیں۔ مرج کے معنے ہوتے ہیں ملا دینے کے پس وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ خدا ہی ہے جس نے دو سمندر دنیا میںملاد ئیے ہیں ھٰذَاعَذْبٌ فُرَاتٌ ایک سمندر اپنی خاصیت کے لحاظ سے میٹھا ہے اور اس کا پانی انسان کے لئے تسکین بخش ہے۔ وَھٰذَامِلْحٌ اُجَاجٌ مگر دوسرا زخم ڈال دینے والا نمکین ہے اور آگ کی طرح گرم۔ وَجَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْ زَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا مگر باوجود اِس کے کہ دونوں سمندر ملا دئیے گئے ہیں اِس کے درمیان اور اُس کے درمیان ایک فاصلہ پایا جاتا ہے۔
دنیا میںقاعدہ ہے کہ جب میٹھی اور نمکین چیز ملائی جائے تو ایک تیسری چیز پیدا ہو جاتی ہے جو ان دونوں سے مختلف ہوتی ہے۔ جیسے بعض لوگ میٹھی چائے میں نمک ملا لیا کرتے ہیں، مَیں ایسی چائے کو ’’منافق چائے‘‘ کہا کرتا ہوں اور مجھے اس سے بڑی نفرت ہے۔ تھوڑے ہی دن ہوئے ایک شادی ہوئی جس میں لڑکی والوں نے دعا کے لئے مجھے بھی بُلایا، ایسے موقع پر جو چیز بھی سامنے آئے میزبان کی خواہش کے مطابق استعمال کرنی پڑتی ہے، اتفا ق ایسا ہؤا کہ انہوں نے جو چائے تیار کرائی اُس میں نمک بھی ملا دیا۔ میرے ساتھ ایک دوست بیٹھے ہوئے تھے وہ آہستہ سے میرے کان میں کہنے لگے ایسی چائے کوکیا کہتے ہیں؟ مَیں نے کہا کہتے تو منافق ہی ہیں مگر اِس وقت پئے ہی جائیں۔ وہ دوست کچھ دلیر سے واقعہ ہوئے ہیں،مَیں ڈرا کہ کہیں وہ میزبان کے سامنے ہی نہ کہہ بیٹھیں اور اُن کی دل شکنی نہ ہو،مگر خیر گزری کہ انہوں نے میزبان کے سامنے کچھ نہ کہا۔
تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ پانی منافق نہیں ہوں گے باوجود اس کے کہ وہ دونوں ملے ہوئے ہوں گے اور بظاہرجب د و چیزیں مل جائیں تو دونوں کا ذائقہ بد ل کر کچھ اور ہو جاتا ہے، مگر ہماری طرف سے یہ اعلان ہو رہا ہو گا کہ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا۔اے ملنے والو! تمہارے ملنے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ تم ایک دوسرے میںجذب ہو جائو بلکہ باوجود ملنے کے الگ الگ رہو۔ دیکھ لویہ وہی پیشگوئی ہے جس کا سورہ رحمٰن میںبھی ان الفاظ میںذکر ہے مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ۸۱؎ کہ خدا نے دو سمندر اُس زمانہ میں بنائے ہونگے، ایک میٹھے پانی کا ہو گا اور ایک کڑوے پانی کا، وہ دونوں آپس میں مل جائینگے مگر باوجود اس کے کہ وہ ملے ہوئے ہونگے ان میں ایسی برزخ حائل ہو گی کہ میٹھا پانی کڑوے میںجذب نہیں ہو گا اور کڑوا پانی میٹھے میںجذب نہیں ہو گا۔
مغر ّبیت کی کبھی نقل نہ کرو
یہ پیشگوئی درحقیقت مغربیت اور دجّالیت کے متعلق ہے، چنانچہ دیکھ لو قرآن کریم نے اپنے الفاظ میں ہی اس طرف
اشارہ کر دیا ہے فرماتا ہے ھٰذَامِلْحٌ اُجَاجٌ۔ اور اُجَاج سے یاجوج اور ماجوج دونوں قوموں کی طرف اشارہ ہے اس کے مقابلہ میں عَذْبٌ فُرَاتٌ رکھا ہے اور حِجْرًا مَّحْجُوْرًا میں بتا دیا کہ تمہیں اِن قوموں سے مل کر رہنا پڑے گا اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت تمہیں عیسائی حکومت کے ماتحت رکھا جائے گا۔ایسی حالت میں تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ تم میٹھے پانی کا سمندر ہو اور وہ کڑوے پانی کا سمندر ہیں، تم مغربیت کی نقل کبھی نہ کرو اور باوجود ان میں ملے ہونے کے ایسے امور کے متعلق صاف طور پر کہہ دیا کرو کہ تم اَور ہو اور ہم اَور ہیں گویا ایک برزخ تمہارے اور اُن کے درمیان ضرور قائم رہنی چاہئے یہی وہ برزخ ہے جس کو قائم کرنے کے لئے مَیںتحریک جدید کے ذریعہ جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مغربی اثرات کو قبول نہ کریں جو احمدی میٹھے پانی کا ہے وہ ضرور ان سے الگ رہے گا اور یہ ہو نہیں سکتا کہ کڑوا اور میٹھا پانی ایک دوسرے میں جذب ہو جائے۔اسی طرح جو غیر احمدی ہیں وہ خواہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہ مانتے ہوں، انہیں مغربیّت کی نقل نہیںکرنی چاہئے، کیونکہ یہ مسیح موعود کی تعلیم نہیں یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ اُن کے بھیجنے والے خدا کی تعلیم ہے۔مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو کھانے پینے، پہننے اور تمدن ومعاشرت کے دوسرے کئی امور میں مغربیت کی نقل کرتا اور اس نقل میں خوشی اور فخر محسوس کرتا ہے، ایسے لوگ درحقیقت مِلْحٌ اُجَاجٌ ہیں، عَذُبٌ فُرَاتٌ سے تعلق نہیں رکھتے۔ـ
جماعت احمدیہ کے قیام میںایک بہت بڑی حکمت
ایک دفعہ بعض غیر احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
سے سوا ل کیا کہ شادی بیاہ اور دوسرے معاملات میں آپ اپنی جماعت کے لوگوں کوکیوں اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہمارے ساتھ تعلقات قائم کریں؟ آپ نے فرمایا اگر ایک مٹکا دودھ کا بھر اہؤا ہو اور اُس میں کھٹی لسّی کے تین چار قطرے بھی ڈال دئیے جائیں تو سارا دُودھ خراب ہو جاتا ہے۔ تو لوگ اِس حکمت کو نہیں سمجھتے کہ قوم کی قوتِ عملیہ کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے دوسروں سے الگ رکھا جائے اور اُن کے بداثرات سے اُسے بچایا جائے۔آخر ہم نے دشمنانِ اسلام سے روحانی جنگ لڑنی ہے۔ اگر اُن سے مغلوب اور ان کی نقل کرنے والے غیر احمدیوں سے ہم مِل جُل گئے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم بھی یورپ کے ّنقال ہوجائیں گے اور ہم بھی جہادِ قرآنی سے غافل ہو جائیں گے۔ پس خود اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ کے لئے حکومتی اور سیاسی اور معاشرتی اتحاد کے آگے ہم کو دوسری جماعتوں سے نہیں ملنا چاہئے تاکہ ہم غافل ہو کر اپنا فرض جو تبلیغِ اسلام کا ہے ُبھول نہ جائیں جس طرح دوسرے مسلمان ُبھول گئے ہیں۔ خدا تعالیٰ اُن کو بھی ہدایت دے اور انہیں بھی یہ فرض ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ اسلام میں پہلے ہی سپاہیوں کی کمی ہے اگر تھوڑے بہت سپاہی جو اُسے میسّر آئیں وہ بھی سُست ہو جائیں تو انہوں نے اسلام کی طرف سے مقابلہ کیا کرنا ہے۔ پس حق یہی ہے کہ یہ میٹھا پانی کڑوے پانی سے الگ رہے گا اور ایک برزخ اِن دونوں کو جُدا جُدا رکھے گا، کاش! دوسرے مسلمانوں میںبھی یہ ِ ّحس پیدا ہو۔
طبعی اور علمی تقاضوں کے پورا کرنے کا سامان
جب مَیں نے یہ سب کچھ دیکھا تو خیال کیا کہ شاید مینا بازار میں
کوئی ایسی چیزیں بھی ہوتی ہوں گی جن کا مجھے اِس وقت علم نہیں، لیکن میرے نفس میں اُن کی طلب اور خواہش بعد میں کسی وقت پید ا ہو جائے۔ پس میں نے کہا مجھے یہ چیزیں تو مل گئیں، لیکن ممکن ہے آئندہ کسی چیز کے متعلق میرے دل میں کوئی خواہش پیدا ہو اور وہ ملے یا نہ ملے۔ جب میرے دل میں یہ خیال آیا تو معاً مجھے معلوم ہوا کہ جو غیر معلوم چیزیں ہوتی ہیں وہ عموماً دو قسم کی ہوتی ہیں۔
(۱) ایک وہ جو طبعی تقاضوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
(۲) دوسری وہ جو علمی تقاضوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
پہلی قسم کی چیزوں کی مثال میں ُبھوک کو پیش کیا جا سکتا ہے جو ایک طبعی تقاضا ہے۔ انسانی دماغ سوچے یا نہ سوچے وہ خود بخود ُبھوک اور پیاس محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح نفسانی خواہشات غور اور فکر سے پیدا نہیں ہوتیںبلکہ اگر غور اور فکر سے پیدا ہوں تو وہ جھوٹی خواہشات سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً اگر اچھے کھانے کو دیکھ کر کھانا کھانے کا خیال پیدا ہو تو یہ جھوٹی خواہش ہو گی، جائز اور صحیح خواہش وہی ہوتی ہے جو بغیر غور وفکر طبعی طور پر انسان کے اندر پیدا ہو۔ اسی طرح بعض چیزیں انکار سے تعلق رکھتی ہیں۔ انسان بعض دفعہ چاہتا ہے کہ اُسے کوئی علمی بات معلوم ہو یا اس کے کسی اعتراض کا ازالہ ہو۔ یہ ایک علمی تقاضا ہے جو پورا ہونا چاہئے ۔ گویا تقاضے دو قسم کے ہیں، ایک طبعی اور ایک عقلی۔ طبعی تقاضا تو یہی ہے کہ مثلاً بھوک کی خواہش پیدا ہو، اب روٹی کی خواہش انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے باہر سے نہیں آتی، لیکن نیویارک دیکھنے کی خواہش طبعی طور پر بھوک پیاس کی طرح اس کے اندر سے پیدا نہیں ہوتی، بلکہ جب وہ کسی کتاب میں نیویارک کے حالات پڑھتا یا کسی شخص سے وہاں کے حالات سنتا ہے تو اُس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں بھی نیویارک دیکھوں۔ تو نیویارک دیکھنے کی خواہش اور قسم کی ہے او ر روٹی کھانے کی خواہش اور قسم کی۔ نیویارک یا ایسا ہی دنیا کا کوئی اور شہر دیکھنے کی خواہش کبھی اندر سے پیدا نہیں ہوتی لیکن روٹی کھانے کی خواہش اندر سے پیدا ہوتی ہے تو ان دونوں تقاضوں میںفرق ہے۔ مَیں نے سوچا کہ اگر میرے طبعی تقاضے پور ے نہ ہوئے تب بھی میں کمزور ہو کرمر جائوں گا اور اگر میری علمی زیادتی نہ ہوئی اور مجھے اپنی ذہنی اور عقلی پیاس کو بجھانے کا موقع نہ ملا تو اِس صورت میں بھی میر ا دماغ کمزور ہو جائے گا۔ پس طبعی تقاضوں کا پورا ہونا بھی ضروری ہے تا کہ میرا جسم مکمل ہو اور عقلی تقاضوں کا پورا ہونا بھی ضروری ہے تا کہ میرا دماغ مکمل ہو۔
قرآنی بشارت
مَیں اِسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ معاً میرے کان میں آواز آئی وَفِیْھَا مَاتَشْتَھِیْہِ الْاَ نْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُ وَاَنْتُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۸۲؎
کہ جو جو چیزیںہم پہلے بتا چکے ہیں وہ بھی جنت میں ملیں گی اور اُ ن کے علاوہ جو طبعی تقاضے ہیں جیسے اشتہاء کہ وہ اندر سے پید ا ہوتی ہے اور آنکھوں کی یہ ِ ّحس کہ اس کے سامنے ایسی چیزیں آئیں جنہیں دیکھ کر وہ لذت اُٹھائے ہم ان تمام تقاضوں کو پورا کریں گے۔ گویا قرآن کریم نے اُن خواہشات کو تسلیم کیا ہے جو اندرونی ضرورتوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیںاور فرماتا ہے کہ ان خواہشات کو ہم ضرور پورا کریں گے۔ یہ خواہشات ہر شخص کے اندر پائی جاتی ہیں اور اگر ہم تجزیہ کریںتو بعض دفعہ ایک ایک چیز کی خواہش ہی نہیں ہوتی بلکہ اس چیز کے ایک ایک حصہ کی خواہش انسانی قلب میںپائی جاتی ہے۔
حاملہ عورتوں میں مٹی کھانے کی خواہش
عورتوں کے پیٹ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اُن کی ِ ّحس اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ بچے کو
جس غذاء کی ضرورت ہوتی ہے، ماں کے دل میں اُسی غذا کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ غذاء کے بعض اجزاء مٹی میں سے نکلتے ہیں جس کی وجہ سے ایامِ حمل میں عورتوں کو مٹی کھانے کی عادت ہو جاتی ہے۔ درحقیقت انسان کو خداتعالیٰ نے مٹی سے ہی ترقی دیکر بنایا ہے اِس لئے جب بچہ ماں کے پیٹ میںہوتا ہے تو ماں کے دل میں مٹی کھانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ ایسی مٹی ہو جس میں کچھ پانی ملا ہؤا ہو، یا چِکنی مٹی ہو اور سَو میں سے پچاس ایسی عورتیں ہوتی ہیں جو مٹی کھاتی ہیں۔ وہ یہ نہیں کہتیں کہ ہمیں ُبھوک لگتی ہے اِس لئے ہم مٹی کھاتی ہیں ، بلکہ وہ کہتی ہیں ہمارے دل میں مٹی کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح بعض دفعہ حاملہ عورتوں کو سیب کھانے کی شدید طور پر خواہش پیدا ہو تی ہے اور یہ خواہش اتنی سخت ہو تی ہے کہ بعض دفعہ اگر سیب نہیں ملتا تو عورتوں کا حمل ِگر جاتا ہے۔ اب دنیا کی کوئی طبّ ایسی نہیں جو یہ بتا سکے کہ سیب کے کون سے ایسے اجزاء ہیں جو نہ ملیں تو حمل ضائع ہو جاتا ہے یا مٹی میںکون سے ایسے اجزاء ہیںجن کا حاملہ عورتوں کو دِیا جانا ضروری ہوتا ہے مگر واقعہ یہی ہوتا ہے اور طبیب بھی مانتے ہیں کہ بعض دفعہ ان چیزوں کے نہ ملنے کی وجہ سے حمل ِگر جاتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ اُن کے اندر دُودھ پینے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ مجھے ایک عجیب مرض ہے، میں دُودھ پی لوں تو مجھے سردرد کا دَورہ ہو جاتا ہے مگر کسی کسی دن مجھے اتنا شدید شوق پیدا ہوتا ہے کہ میں برداشت نہیں کر سکتا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے سردرد ہو جائے گی پھر بھی دُودھ پی لیتا ہوں اور اس کے بعد دَورہ ہو جاتا ہے۔
تو کئی قسم کی باریک خواہشات انسان کے اندر پائی جاتی ہیں اور وہ ایسی شدید ہوتی ہیں کہ پوری نہ ہوں تو زندگی بے مزہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَفِیْھَا مَاتَشْتَھِیْہِ الْاَنْفُسُ دنیا میںتو بعض دفعہ انسان کا جی چاہتا ہے کہ اُسے سیب کھانے کو ملے مگر اُسے سیب نہیں ملتا۔ عورت چاہتی ہے کہ مٹی کھائے مگر دوسرے لوگ اُسے کھانے نہیں دیتے، مگر فرمایا وہاںجو بھی طبعی خواہش پیدا ہو گی اُس کو پورا کر دیا جائے گا۔
دماغی خواہشات کی تکمیل
پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کچھ دماغی خواہشیں بھی ہوتی ہیں اور انسان چاہتا ہے کہ ان خواہشوں کے پورا ہونے کا
بھی سامان ہو۔پس مَیں نے سوچا کہ اگر کبھی عقلی ضرورت محسوس ہو گی، گو اس کے ساتھ طبعی خواہش نہ ہوئی تو کیا یہ ضرورت بھی پوری ہو گی یا نہیں؟ اِس پر میں نے دیکھا تو اِس کا بھی انتظام تھا۔ چنانچہ لکھا تھا لَھُمْ فِیْھَا مَایَشَآئُ وْنَ۸۳؎ وہاں جنتی جو کچھ چاہیں گے انہیں مل جائے گا۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ ّمشیت دل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، مگر اشتہاء نفسانی خواہشات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ۔ پس وہاں انسان کی اشتہاء بھی پوری ہو گی اور انسان کی مشیّت بھی پوری ہو گی۔ گویا جن کے اندر طبعی خواہشات پیدا ہوں گی جو اُن کے روحانی جسموں کے مطابق ہوں گی ان کے لئے ان کی طبعی خواہشوں کے پورا کرنے کے سامان کئے جائیں گے اور جنہیں عقلی ضرورت محسوس ہو گی اُن کی اِس ضرورت کو بھی وہاں پورا کر دیا جائے گا۔
ہمارے خدا کا عجیب وغریب مینا بازار
میں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو کہا سُبْحَانَ اللّٰہِ وہ مینا بازار اور مارکیٹیں تو
ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی چیزیں یا تو میری طاقت سے باہر ہوتی ہیں اور اگر طاقت کے اندر ہوتی ہیں تو ضروری نہیںہوتا کہ میری اشتہاء یا میری مشیّت کو پورا کرنے والی ہوں۔ اور اگر میری اشتہاء یا میری مشیّت کو پورا کرنے والی ہوں تو ضروری نہیں ہوتا کہ میں اُن سے فائدہ اُٹھا سکوں۔ مثلاً اگر پینے کے لئے دُودھ مل جاتا ہے لیکن میںبیمار ہو جاتا ہوں تو اِس دودھ کا مجھے کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ اور اگر میں اُن سے فائدہ اُٹھا بھی لوں تو ایک دن یا وہ فنا ہو جائیں گی یا میں فنا ہو جائوں گا۔ مگر یہ عجیب مینا بازار ہے ہمارے خدا کا کہ اِس میں مجھ سے جان اور مال طلب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اِس کے بدلہ میں سارے مینا بازار کی چیزیں اور خود مینابازار کی عمارت تمہارے سپرد کی جاتی ہے۔ جب اس سے کہا جاتا ہے کہ لائو اپنا مال اور لائو اپنی جان کہ میں مینا بازار کی سب چیزیں اور خود مینا بازار کی عمارت تمہارے سپرد کردوں تو بندہ اِدھر اُدھر حیران ہو کر دیکھتا ہے کہ میرے پاس تو نہ مال ہے نہ جان میں کہاں سے یہ دونوں چیزیں لائوں۔ اتنے میں چُپ چاپ اللہ تعالیٰ خود ہی ایک جان اور کچھ مال اُس کے لئے مہیا کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ لو مَیں یہ تمہیں جان اور مال دے رہا ہوں تم یہ مال اور جان میرے پاس فروخت کر دو۔
غالب تھا تو شرابی مگراُس کا یہ شعر کروڑوں روپیہ سے بھی زیادہ قیمتی ہے کہ:-
؎
جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے ایسا ہی معاملہ کرتا ہے وہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ
خدا نے مؤمنوں سے اُن کی جانیں اور مال خرید لئے اور ان کے بدلہ میں انہیں جنت دے دی حالانکہ کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ جان اُس کی ہے یا کون ہے جو کہہ سکے کہ مال اُس کا ہے باوجود اِس کے کہ نہ مال اُس کے پاس ہوتا ہے نہ جان اُس کے پاس ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اس سے سَودا کرنے آتا ہے اور کہتا ہے مجھ سے جان لو اور پھر مجھے یہ جان واپس دے کر مجھ سے سَودا کر لو۔ مجھ سے مال لو اور پھر یہ مال مجھے واپس دے کر مجھ سے سودا کر لو۔ پس عجیب مینا بازار ہے کہ خود ہی ایک جان اور کچھ مال مہیا کیا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے لو اسے ہمارے پاس فروخت کر دو۔ اور جب میں اس جان اور مال کو اس کے ہاتھ فروخت کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ بے شک مجھے اپنا غلام بنا لو تویکدم وہ مجھے آزاد کر دیتا ہے اور میرے سارے َطوق ، ساری زنجیریں، ساری بیڑیاں اور ساری ہتھکڑیاں کاٹ ڈالتا ہے اور پھر مجھے مینا بازار کی چیزیں ہی نہیں دیتا بلکہ سارا مینا بازار میرے حوالے کر دیا جاتا ہے اور اس کی تمام چیزوں کا مجھے مالک بنا دیا جاتا ہے اور پھر انہی چیزوں کا ہی نہیں بلکہ ساتھ ہی یہ بھی انتظام کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی نئی طبعی خواہش پیدا ہو گی تو وہ بھی پوری کی جائے گی۔اور اگر کوئی نئی علمی خواہش پیدا ہو گی تو اُس کو پورا کرنے کے بھی ہم ذمہ دار ہوں گے۔ اور پھر مجھے کہا جاتا ہے کہ ان چیزوں کے متعلق تسلّی رکھنا، نہ یہ چیزیں ختم ہوں گی اور نہ تم ختم ہو گے گویا ان سب چیزوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے مجھ پر سے بھی اور ان چیزوں پر سے بھی فنا کا اثر مٹا دیا جائے گا۔
جب مَیں نے یہ نظارہ دیکھا اور روحانی طور پر مجھے ان الٰہی اسرار کا علم ہؤا تو مَیں اپنے اس ناقص علم پر جو مجھے آزادی اور غلامی کے متعلق تھا، سخت شرمندہ ہؤا۔ اور میں حیران ہوگیا کہ میں کس چیز کو آزادی سمجھتا تھا اور کس چیز کو غلامی قرار دیتا تھا۔ جس چیز کو مَیں آزادی سمجھتا تھا وہ ایک خطرناک غلامی تھی اور جس چیزکو میں غلامی سمجھتا تھا وہ حقیقی آزادی اور حُریّت تھی۔ میں شرمندہ ہؤا اپنے علم پر، میں حیران ہؤا اس عظیم الشان حقیقت پر اور فی الواقع اُس وقت سر سے لے کرپائوں تک میرا تمام جسم کانپ اُٹھا اور میری روح ننگی اور عُریاں ہو کر خدا کے سامنے کھڑی ہو گئی اور بے اختیار مَیں نے کہا کہ اے میر ے آقا! یہ غلامی جو ُتو پیش کر رہا ہے، اِس پر ہزاروں آزادیاں قربان ہیں۔ اے آقا! مجھے جلد سے جلد اپنا غلام بنالے، مجھے بھی اور میرے سب عزیزوں اور دوستوں کو بھی۔بلکہ اے خدا! ُتو ساری دنیا کو ہی اپناغلام بنا لے تا کہ ہم سب اِس غلامی کے ذریعہ حقیقی آزادی کا مزہ چکھیں اور حقیقی غلامی سے نجات پائیں۔ پس کان منتظر ہیں اُس دن کے جب یہ آواز ہمارے کان سنیں گے کہ یٰٓـاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ- ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً - فَادْ خُلِیْ فِیْ عِبَادیْ - وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ- اے اپنے رب کے تعلق پر مطمئن ہونے والی جان! آ آ اپنے رب کی طرف آ۔ ُتو اُس سے خوش ہے اور وہ تجھ سے خوش ہے۔ آ اور میرے بندوں میںداخل ہو جا اور آ میری جنت میں داخل ہو جا۔
اپنی جانیں اور اپنے اموال خداتعالیٰ کے حضور جلد تر پیش کرو !
یہ وہ عظیم الشان نعمت ہے جو تمہارا خدا تمہیں
دینے کے لئے تیار ہے۔ اب تمہارا فرض ہے کہ تم آگے بڑھو اور اس نعمت کو حاصل کرنے کی کوشش کرو۔وہ اِس زمانہ میں پھر تمہارے پاس ایک گاہک کی صورت میں آیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے ذریعہ اُس کی یہ آواز بلند ہوئی ہے کہ اپنی جانیں اور مال مجھے دو اور جنت مجھ سے لے لو۔ وہ تم سے سَودا کرنا چاہتا ہے مگر سَودا کرنے کے لئے اُس نے خود اپنے پاس سے تم کو جان اور مال دیا ہے۔ پس جان بھی اُسی کی ہے اور مال بھی اُسی کا۔ مگر وہ یہ فرض کر کے کہ یہ چیزیں اُس کی نہیں بلکہ تمہاری ہیں تمہارے پاس ایک گاہک کی صورت میں چل کر آیا ہے اور وہ تم سے تمہاری جانوں اور مالوں کامطالبہ کر رہا ہے۔ تمہاری خوش قسمتی ہوگی اگر تم اِس آواز کو سنتے ہی کھڑے ہو جائو اور کہو کہ اے ہمارے آقا! آپ ہم سے اپنی ہی چیز مانگ کر ہمیں کیوں شرمندہ کر رہے ہیں، ہم اپنی جانیں آپ کے قدموں پر نثار کر نے کے لئے تیار ہیں اور اپنے اموال آپ کی راہ میں لُٹانے کے لئے حاضر ہیں۔ جب تم اِس طرح اپنی جانوں اور اپنے اموال کی قربانی کرنے کے لئے کھڑے ہو جائو گے تو تم دیکھو گے کہ تمہاری جان بھی تمہارے پاس ہی رہتی ہے اور تمہارا مال بھی تم سے چِھینا نہیں جاتا۔ مگر اِس ارادۂ نیک اور عملی پیشکش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہار ا آقا تم سے ہمیشہ کے لئے خوش ہو جائے گا اور وہ تمہیں اُس ابدی جنت میں داخل کر ے گا جس کی نعمتیں لازوال ہیںاور جس کے مقابلہ میںدُنیوی مینا بازار اتنی بھی حقیقت نہیں رکھتے جتنی ایک سورج کے مقابلہ میں ایک ٹمٹماتی ہوئی شمع کی حقیقت ہوتی ہے۔ وہ اس اقرار کے نتیجہ میں ہی تمہاری غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر پرے پھینک دے گا، وہ تمہارے سلاسل اور آہنی َطوق تمہاری گردنوں سے دُور کر دے گا۔ تم پھر دنیا میں سربلند ہو گے، پھر اپنی گردن فخر سے اونچی کر سکو گے، پھر ایک عزت اور وقار کی زندگی بسر کر سکو گے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اتنا چھوٹا سا کام بھی اُس کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا، پس آئو ہم اُس کے حضور ُجھکیں اور اُسی سے یہ التجا کریں کہ اے ہمار ے آقا ! ُتو ہمیں اپنی محبت سے حصہ دے ، ُتواپنے عشق کی آگ ہمارے دلوں میںسُلگا ، ُتو اپنے نور کی چادر میں ہم کو لپیٹ لے اور ہر قسم کی شیطانی راہوں سے بچا کر ہمیں اپنے قُرب اور اپنی محبت کے راستوں پر چلا، کیونکہ حقیقی حُریّت وہی ہے جو تیری غلامی میںحاصل ہوتی ہے اور بدترین غلامی وہی ہے جو تُجھ سے دُوری کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ پس آئو اِس جُھوٹی حُریّت کے خیالات کو جو دنیا میں بدترین غلامی پیدا کرنے کاموجب ہیں اپنے دلوں سے دُور کرو اور جلد سے جلد اُس خدائی آواز پر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ بلند ہوئی ہے اپنی جانیں اور اپنے اموال اُس کے حضور پیش کر دو تا کہ تمہیں حقیقی آزادی میسّر ہو اور تمہاری وساطت سے پھر باقی دنیا کو بھی شیطان کی غلامی سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل ہو جائے۔
۱؎ عبس: ۲۰ تا ۲۲ ۲؎ الحج : ۷،۸
۳؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب ماذکر عن بنی اسراء یل
۴؎
البقرۃ : ۹
۵؎
التوبۃ : ۱۰۰
۶؎
الکھف : ۵۰
۷؎
ھود : ۱۱۲
۸؎
النباء : ۳۷
۹؎
المؤمن : ۴۱
۱۰؎
بنی اسراء یل : ۶۴
۱۱؎
المعارج:۳۶
۱۲؎
اٰل عمرٰن : ۱۱
۱۳؎
الصّٰفّٰت : ۷۹ تا ۸۱
۱۴؎
الصّٰفّٰت :۱۳۰تا۱۳۲
۱۵؎
الانبیاء : ۹۲
۱۶؎
العنکبوت: ۲۸
۱۷؎
الانعام : ۸۴ تا ۹۱
۱۸؎
الاحزاب : ۵۷
۱۹؎
الحشر : ۱۱


۲۰؎ اقرب الموارد الجزء الثانی صفحہ ۸۷۹ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۲۱؎ الرّعد : ۲۴ ،۲۵
۲۲؎ طپنچے: طپنچہ کی جمع۔ پستول۔ چھوٹی بندوق
۲۳؎ التوبۃ : ۱۱۱
۲۴؎ بخاری کتاب الزکٰوۃ باب اتَّقُوا النَّارَ وَ لَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ
۲۵؎ بخاری کتاب الصوم باب المجامع فی رمضان
۲۶؎
البقرۃ: ۴
۲۷؎
الاعراف: ۱۵۸
۲۸؎
الاعراف: ۱۹۷
۲۹؎ بخاری کتاب الادب باب اِکْرَام الضیف (الخ)
۳۰؎
الحج : ۴۸
۳۱؎
الفجر : ۲۸ تا ۳۱
۳۲؎
حٰمٓ السجدۃ : ۳۲
۳۳؎
الدھر : ۲۰
۳۴؎
البقرۃ : ۶
۳۵؎
الدھر : ۶
۳۶؎
الدھر : ۱۲
۳۷؎
الدھر : ۱۸
۳۸؎
الدھر : ۲۳
۳۹؎
الصّٰفّٰت : ۴۶
۴۰؎
محمّد : ۱۶
۴۱؎
البقرۃ : ۲۶
۴۲؎
محمّد : ۱۶
۴۳؎
البقرۃ : ۲۲۰
۴۴؎
محمّد : ۱۶
۴۵؎ المطفّفین : ۲۶ ، ۲۷
۴۶؎ َتلچھٹ : وہ چیز جو نیچے بیٹھ جائے۔
۴۷؎ دُرد : َتلچھٹ
۴۸؎ الصّٰفّٰت : ۴۸
۴۹؎ اقرب الموارد۔ الجزء الثانی صفحہ ۱۲۹۱۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۵۰؎ اقرب الموارد۔ الجزء الثانی صفحہ۸۹۳۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۵۱؎
الطّور : ۲۴
۵۲؎
الدّھر : ۲۲
۵۳؎
المطفّفین : ۲۸
۵۴؎
المطفّفین : ۲۹
۵۵؎
الدھر : ۱۹
۵۶؎
الواقعۃ : ۲۱، ۲۲
۵۷؎
الطّور : ۲۳
۵۸
الدھر : ۱۵
۵۹؎
الواقعۃ : ۳۳ ، ۳۴
۶۰؎
محمد : ۱۶
۶۱؎
الحج : ۲۴ ، ۲۵
۶۲؎
الاعراف : ۲۷
۶۳؎
محمد : ۱۸
۶۴؎
اٰل عمران : ۱۰۷
۶۵؎
اٰل عمران : ۱۰۸
۶۶؎
النّحل : ۵۹
۶۷؎
القیامۃ : ۲۳

۶۸؎ لسان العرب المجلد الرّابع صفحہ۱۷۸ مطبوعہ بیروت لبنان ۱۹۸۸ء
۶۹؎ عبس : ۳۹ ، ۴۰ ۷۰؎ الغاشیۃ : ۹
۷۱؎ اقرب الموارد۔ الجزء الثانی صفحہ۱۳۲۱۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۷۲؎ الواقعۃ : ۸۹ ، ۹۰
۷۳؎ لسان العرب المجلد الخامس صفحہ۳۵۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء
۷۴؎ الزمر : ۷۴ ۷۵؎ الدھر : ۱۶ ۷۶؎ الواقعۃ : ۱۶ ، ۱۷
۷۷؎ الغاشیۃ : ۱۴ تا ۱۷ ۷۸؎ الانعام : ۱۲۸ ۷۹؎ الحج : ۳۹ تا ۴۱
۸۰؎ الفرقان : ۵۱ تا ۵۴ ۸۱؎ الرحمٰن : ۲۰ ، ۲۱ ۸۲؎ الزخرف : ۷۲
۸۳؎ النّحل : ۳۲




جلسہ سالانہ۱۹۴۱ء کے کارکنوں سے خطاب





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

جلسہ سالانہ۱۹۴۱ء کے کارکنوں سے خطاب
( خطاب فرمودہ۴؍جنوری۱۹۴۲ء بمقام مدرسہ احمدیہ قادیان)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
مستورات کے جلسہ گاہ کے پہرہ کا انتظام اور زیادہ بہتر ہونا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ اس کام کے لئے مُعَمّراصحاب مقرر کئے جائیں مگر نہ ایسے جو چلنے ِپھرنے اور خبر گیری سے معذور ہوں۔
خوراک کی پرچیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ اس دفعہ یہ انتظام بہتر صورت میں کیا گیا ہے مگر ابھی اور زیادہ بہتر بنانا چاہئے۔ اندازہ یہ ہے کہ اس دفعہ کھانا کھانے والے مہمانوں کی تعداد ۲۳،۲۴ ہزار تھی اتنی ہی تعداد پرچیوں کے لحاظ سے بھی ہونی چاہئے تھی اور لنگر سے کھانا نہ کھانے والوں کی تعداد ملا کر ُکل تعداد ۳۰ ہزار کے قریب بنتی ہے۔ زنانہ جلسہ گاہ اِس دفعہ گزشتہ سال کی نسبت کچھ بڑھایا گیا تھا پھر بھی عورتیں بمشکل سما سکیں، مردانہ جلسہ گاہ بھی پُر تھا۔ خوراک کی پرچیوں کے متعلق احتیاط کرنے کے علاوہ مقامی جماعت نے اس بارے میں جو تعاون کیا ہے وہ بھی بہت مفید ثابت ہؤا ہے اور اس سے ظاہر ہے کہ مرکزی جماعت میں کتنا اخلاص ہے۔ جب اسے نصیحت کی گئی کہ جس قدر ممکن ہو سکے کھانے میں احتیاط کی جائے اور کم سے کم خرچ ہو تو اِس پر عمل کیا گیا اور۲اور۳ہزار کے درمیان مہمانوں کا کھانابچ گیا۔ امید ہے اگلے سال اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی ان اخراجات میں اور بھی کمی ہوگی۔ ہم یہ نہیں مان سکتے کہ اِس سال مہمانوں کے کم آنے کی وجہ سے خرچ کم ہؤا اور اگلے سال اس سے بھی کم آئیں گے اِس لئے اخراجات میں اور کمی ہو جائے گی۔ ہمیں خداتعالیٰ کے فضل سے یہی امید ہے کہ اگلے سال بھی پہلے سے زیادہ مہمان آئیں گے اور اس سال بھی باوجود کئی ایک مشکلات کے کم نہیں آئے۔ ہاں جس نسبت سے اِس دفعہ اخراجات کم ہوئے ہیں اگلے سال اِسی نسبت سے اور بھی کم ہوں گے۔ میں دوستوں کے اِس تعاون کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جو انہوں نے جلسہ کے اموال کی حفاظت میں کیا ہے اور انہیں عمدگی سے خرچ کرنے کی کوشش کی۔ میں اِجرائے پرچی کے محکمہ کے متعلق اظہارِ خوشنودی کرتا ہؤا دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ اس محکمہ میں کام کرنے والوں یا جو اَور کام کرنے والے آئیں اُن کو اِس سے بھی بہتر کام کرنے کی توفیق دے۔
سٹور کے متعلق میںایک بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کی طرف عزیز منصور احمد کے منہ سے نکلی ہوئی ایک بات کی وجہ سے توجہ ہوئی ہے اور وہ یہ کہ جلسہ کے بعدہر ایک نظامت کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ کس کس نظامت نے کتنے برتن لئے اور ان میں سے کتنے واپس کئے۔ اس طرح آئندہ اس مفید امرکے لئے راستہ ُکھل جائے گا کہ نظامتیں جلد سے جلد برتن واپس کریں گے اور ان کی حفاظت کا بہتر انتظام کیا جائے گا۔
اِس دفعہ مردوں اور عورتوں کے جلسہ گاہ کو دیکھ کر اول تو میرا خیال ہے کہ حاضرین کی تعداد میں گزشتہ سال کی نسبت کمی نہیں تھی اور اگر تھی تو بہت کم ( اِس موقع پر عرض کیا گیا کہ ریل کے ٹکٹوں کے لحاظ سے جو شمار کئے گئے اِس دفعہ کمی نہیں بلکہ کچھ زیادتی ہی تھی حضور نے فرمایا) یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ کئی وجوہ کے باوجود خداتعالیٰ نے آنے والوں کی تعداد میں کمی نہ ہونے دی۔ اِس دفعہ قحط، جنگ، رعائتی ٹکٹ نہ ہونے اور بیماریوں کی وجہ سے خیال تھا کہ شاید مہمان کم آئیں گے لیکن خداتعالیٰ کا یہ نمایاں احسان ہے کہ کمی نہیں ہوئی۔
دعا ہے کہ خدا جلسہ میں شریک ہونے والوں کی تعداد کو آئندہ اور بھی بڑھائے، جماعت کی قربانیوں اور خدمات میں بھی زیادتی کرے اور زیادہ اپنے قُرب میں جگہ دے تاکہ ہم وہ مقام حاصل کرلیں جس کے متعلق اس نے فرمایا ہے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے اور ہم اللہ تعالیٰ سے راضی ہو جائیں۔ (الفضل ۶جنوری۱۹۴۲ء)




خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب
(تقریر فرمودہ ۲۱جون ۱۹۴۲ء)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میری غرض اس جلسہ میں شامل ہونے سے یہ تھی کہ میں دیکھوں خدام الاحمدیہ کو کس طرح تنظیم کا کام سکھایا گیاہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ تنظیم کے کام کی طرف سے عہدہ داران خدام الاحمدیہ کو ُ ّکلی طور پر غفلت ہے۔ حالانکہ کوئی خدمت صحیح طورپر نہیں ہوسکتی اور کامیاب طورپر نہیں ہوسکتی جب تک لوگ تنظیم کے ماتحت کام کرنے کے عادی نہ ہوں۔ خدام الاحمدیہ کی غرض یہ ہے کہ علمی طورپر بھی جماعت کے تمام افراد کو سلسلہ اور اسلام کے مسائل سے واقف کریں اور عملی طورپر بھی جماعت کے ہر فرد کے اندر یہ احساس پیداکریں کہ وہ ضرورت کے موقع پر ِبلا دریغ اور ِبلا وقفہ خدمت کیلئے حاضرہوجائے۔
تنظیم کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ایک وقت کے اندر کئی آدمیوں سے اس رنگ میں کام لیاجائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اور اچھے سے اچھا کام کرسکیں ورنہ ہوسکتاہے کہ عدمِ تنظیم کی و جہ سے طاقت بٹ جائے اور بجائے فائدہ کے نقصان پہنچ جائے مثلاً فرض کرو کہ کسی گائوں میں اچانک دوتین جگہ آگ لگ جاتی ہے اب اگر تنظیم نہ ہو تو بالکل ممکن ہے جہاں تھوڑی آگ ہو وہاں توسَو آدمی پہنچ جائیں اور جہاں زیادہ آگ ہووہاں دوچار آدمی ہی پہنچیں۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ تھوڑی آگ جسے گھر والے بھی ُبجھا سکتے تھے وہاں زیادہ آدمی پہنچ جائیں گے اور جہاں زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہوگی وہاں کم آدمی پہنچیں گے اور آگ کو ُبجھا نہیں سکیں گے اس لئے آگ اِردگِرد پھیل کر کئی گھروں بلکہ ممکن ہے کہ سارے محلہ یا سارے گائوں کو ہی بھسم کرڈالے۔تو تنظیم کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جتنی طاقت استعمال کرنے کی ضرورت ہو اُتنی طاقت استعمال کی جائے یعنی نہ تو ضرورت سے زیادہ طاقت خرچ کی جائے اور نہ ضرورت سے کم۔ دوسری غرض تنظیم کی یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ امداد کی فوری ضرورت ہوتی ہے اوراس قسم کے موقع پر بغیر تنظیم کے آدمی جمع کرنے مشکل ہوتے ہیں جب کسی کویہ علم ہی نہ ہو کہ میں ِکس کے پاس جائوں اورکسے بلائوں اور پھر اُسے یہ بھی خیال ہوکہ میں اگرکسی کو کہوں تونہ معلوم وہ میری بات مانے یانہ مانے تو وہ کیسے لوگوں کو جمع کرسکتاہے، لیکن خدام الاحمدیہ کی تنظیم کے ماتحت ایک گروپ لیڈر فوراً اپنے گروپ کے دس آدمیوں کو بُلا سکے گا اور اُسے یقین ہوگاکہ وہ میری آواز پر اپنے تمام کام چھوڑ کر چلے آئیں گے۔ اورجس جگہ جانے کے لئے انہیں کہاجائے گا وہاں پہنچ جائیں گے۔ اِسی طرح اگرکسی کام کے لئے پچاس آدمیوں کی ضرورت ہوگی تو بجائے اس کے کہ پچاس آدمیوں کے پاس ایک شخص پہنچے صرف پانچ آدمیوں کو جو گروپ لیڈر ہوں گے کہہ دیاجائے گا کہ وہ اپنے اپنے گروپ لے کر فلاں مقام پرپہنچ جائیںاِس طرح جس کام کے لئے ان کی مدد کی ضرورت ہوگی وہ فوری طورپر سرانجام دیاجاسکے گا مگریہ فائدہ ہم تبھی حاصل کرسکتے ہیں جب اِس طرز پر کام کرنے کی لوگوں کو عادت ڈالی جائے مگرآج مجھے نہایت ہی افسوس کے ساتھ معلوم ہؤاہے کہ گروپوں کی تنظیم تک مکمل نہیں ہے اور گروپ کے ممبر بجائے ایک جگہ اکٹھے بیٹھنے کے ادھر اُدھر پھیل کر بیٹھے ہوئے تھے یہ بات تنظیم کے بالکل خلاف ہے اور اگر دشمن کسی مقام پر اچانک حملہ کردے توایسی تنظیم کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی۔ فرض کرو کہیں رات کو حملہ ہوجاتاہے یاکسی جگہ آگ لگ جاتی ہے اور گروپ لیڈر کو کہاجاتاہے کہ اپنے گروپ کو وہاں لے جائو تواگرتنظیم درست ہوتووہ فوراً انہیں ساتھ لے کر وہاں پہنچ جائے گا لیکن اگروہ منظم نہ ہو بلکہ کوئی کہیں اور کوئی کہیں تووہ اِسی تلاش میں رہے گا کہ میرا فلاں ممبرکہاں ہے اور فلاں کہاں؟ اور جتنی دیر میں وہ اپنے گروپ کو اکٹھا کریگا اتنی دیر میں ممکن ہے آگ اپنا کام کرجائے یا دشمن اپنے حملہ میں کامیاب ہوجائے۔ میں نے اِسی نقص کودیکھ کر کہ لوگ متفرق طورپر بیٹھے ہوئے ہیں اپنے اپنے گروپ میں نہیں، تین منٹ کا وقت دیا تھا کہ اِس عرصہ میں وہ اپنے گروپوں میں چلے جائیں حالانکہ یہ بہت زیادہ وقت تھا دراصل ایک منٹ کے اندر اندر ہر شخص کو اپنے گروپ میں چلے جانا چاہئے تھا مگر باوجود اِس کے کہ میں نے تین منٹ کا وقت دیا پھر بھی بعض لوگ اپنے گروپ میں نہیں گئے حالانکہ موجودہ زمانہ کے سامانوں کے لحاظ سے تین منٹ کے اندر اندر قادیان جیسا قصبہ آدھا یا پورا جلایاجاسکتاہے۔ پس اگر ایسی ہی تنظیم ہوتو جتنی دیر گروپ لیڈر اپنے گروپ کو اکٹھا کرتے رہے ہیں اتنی دیر میں سارا گائوں جل کر راکھ ہوسکتاہے اور جتنی دیرمیں آج گروپ اکٹھے ہوئے ہیں اِتنی دیر میں ہوشیار دشمن سارے آدمیوں کو قتل کرسکتا ہے۔ مثلاً لڑائی کا وقت ہو، دشمن حملہ کے لئے سرپر آپہنچا ہو توجتنی دیر میں آج وہ اکٹھے ہوئے ہیں اتنی دیر میں ہوشیار دشمن ساروں کو تہہِ تیغ کرسکتاہے پس ایسی تنظیم کاکیا فائدہ یہ تومحض وقت کو ضائع کرنے والی بات ہے آئندہ جب بھی کوئی جلسہ یا اجتماع ہولازماً یہ بات ہونی چاہئے کہ ہر ممبر اپنے اپنے گروپ میں بیٹھے اور گروپ لیڈر جو بات کہے اُس کی اطاعت کی جائے۔ پھرجو لوگ ڈیوٹیوں پرمقرر ہیں اُن کے متعلق بھی یہ معلوم ہؤاہے کہ وہ کسی تنظیم کے ماتحت ڈیوٹیوں پرمقرر نہیںکیے گئے اور یہ غلطی زعماء سے ہوئی ہے کہ انہوں نے بعض آدمیوں کو ڈیوٹیوں پرتومقرر کردیاہے مگر گروپ لیڈروں کونہیں بتایا اِس وجہ سے گروپ لیڈروں کو پتہ ہی نہیں کہ بعض ممبرڈیوٹیوں پر ہیں۔ وہ کہتے ہیں غیر حاضر ہیں اور زعیم کہہ دیتاہے کہ وہ غیر حاضر نہیں بلکہ ڈیوٹیوں پرمقرر ہیں حالانکہ تنظیم کے معانی یہ ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو گروپ لیڈر کی وساطت سے آدمی لئے جائیں۔ اگر کسی موقع پر زعیم کوکہاجائے کہ وہ اتنے آدمی فلاں جگہ بھجوادے توایسی حالت میں اگروہ کہتاہے کہ آدمیوں کیتعیین کرنا میرے لئے ضروری ہے تو وہ گروپ لیڈروں کو کہہ سکتاہے کہ فلاں فلاں آدمی کو بھجوادیاجائے اور اگروہ سمجھتاہے کہ گروپ لیڈر خود ہی ہوشیار ہیں اوروہ موزوں اشخاص کو فوراً بھجوادیں گے تووہ صرف اِتنا کہے کہ اِس قسم کے آدمیوں کو اتنی تعداد میں بھجوادیاجائے۔ مثلاً اگرپہرے کاکام ہوتووہ کہہ سکتاہے کہ ایسے آدمی بھیجے جائیں جو مضبوط ہوں یا فرض کرو پیغام رسانی کاکام ہے تو اِس کے لئے خاص مضبوط آدمی کی ضرورت نہیں ہوتی اِس کے لئے ایسے شخص کی ضرورت ہوگی جس کی زبان بنک کے تالے کی طرح ہو وہ مرجائے، ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے مگرکسی شخص کو راز بتانے کے لئے تیارنہ ہو پس وہ کہہ سکتاہے کہ چونکہ پیغام رسانی کاکام ہے اس لئے ایسا شخص بھیجو جواِس کام کا اہل ہو۔ اِس رنگ میں اگر کام کیا جائے تو اِس کانہ صرف یہ فائدہ ہوگاکہ تنظیم ترقی کریگی بلکہ گروپ لیڈر کو ہر شخص کے کریکٹر کے پڑھنے کا موقع ملتارہے گا۔ اورجب گروپ لیڈر کوکوئی کام بتایا جائے گا تووہ فوراً سمجھ جائے گا کہ کون آدمی کس کام کا اہل ہے اورجو آدمی جس کام سے مناسبت رکھے گا اُس کے سپرد وہ کام کردے گا اور جب ان میں سے کسی کی کوئی کمزوری ظاہر ہوگی تووہ نگرانی کرکے اُس کی کمزوری کودور کرسکے گا۔ مثلاً اگرکسی شخص کے متعلق یہ ثابت ہو کہ وہ راز کی حفاظت نہیں کرسکتا توآئندہ وہ اِس کی ایسی نگرانی کرے گا کہ اُسے بھی راز کو محفوظ رکھنے کی عادت پیدا ہوجائے گی یا جب کسی کا پہرہ مقرر کریگا تودیکھ لے گا کہ آیا وہ سُست تو نہیں یا پہرہ کی اہمیت سے تو غافل نہیں کہ اسے پہرہ پر مقرر کیاجائے اوروہ اپنے مقام کو چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے۔ مثلاً ہوسکتاہے کوئی آدمی ہو تو مضبوط مگروہ سُست ہویا اُسے اپنے مقام سے چلے جانے کی عادت ہو اورجب اُس سے پوچھا جائے تووہ کہدے کہ میں پانی پینے چلاگیاتھا یا پیشاب کرنے چلاگیاتھا حالانکہ پہرہ کے معانی یہ ہیں کہ اگرکسی کا پیشاب نکلتاہے تونکل جائے،پیاس لگتی ہے تو لگتی رہے مگروہ اپنے مقام سے ہِلے نہیں جب تک اُس کاکوئی قائمقام نہ آجائے بلکہ پیشاب، پاخانہ تو الگ رہااگرنماز کاوقت آجائے تب بھی پہرہ دار کو ہِلنے کی اجازت نہیں ہے۔ہم جو خدام الاحمدیہ کو ٹریننگ دے رہے ہیں یہ کسی دُنیوی بادشاہت کی حفاظت کے لئے تونہیں ہم تو خدام الاحمدیہ کو اس لئے ٹریننگ دے رہے ہیں کہ اگر اسلام اور احمدیت کوکبھی خطرہ ہو تو اس کی حفاظت کے لئے میدان میں نکل آئیں پس خدام الاحمدیہ کاکام دنیا کا نہیں بلکہ دین کاہے اوریہ بھی جہاد کا ایک چھوٹا ساشعبہ ہے آج چونکہ تلوار سے جہاد کا موقع نہیں اس لئے خدام الاحمدیہ کاکام اس جہاد کے قائم مقام ہے پس جس طرح جہاد کے موقع پرایک نماز کو دوسری نماز کے ساتھ اداکیاجاتاہے اسی طرح خدام الاحمدیہ کی ٹریننگ میں اگرکسی شخص کی کوئی نماز فوت ہوجاتی ہے اوروہ اُس وقت ڈیوٹی پرہے تواگر وہ اُس نماز کو دوسری نماز کے ساتھ ملاکرپڑھ لیتاہے تووہ ہرگز گنہگار نہیں کہلاسکتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جہاد کے موقع پرایسا ہی کیا کرتے تھے بلکہ ایک دفعہ توآپ نے چار نمازیں چھوڑ دی تھیں اور پھر ان سب کو ملا کرپڑھ لیا تھا ۱؎ حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمازکے اتنے پابند تھے کہ ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو کہہ سکے کہ اُسے نماز کی پابندی کارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر احساس ہے مگرباوجود اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز نہیں، دونمازیں نہیں، تین نمازیں نہیں چار نمازیں چھوڑدیں اوربعد میںان کو جمع کرکے پڑھ لیا۔ پس اگرڈیوٹی پرموجود ہوتے ہوئے کسی شخص کی کوئی نماز رہ جاتی ہے تو اِس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ اِس کے معنی یہ نہیں کہ وہ نماز نہیں پڑھے گا بلکہ صرف اتنے معنی ہیں کہ وہ اُس وقت نماز نہیں پڑھے گا بعد میںپڑھ لے گا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب جنگ سے فارغ ہوئے تو آپ نے چاروں نمازیں جمع کرلیں بلکہ بعض حالات میں آپ نے دوایسی نمازیں بھی جمع کی ہیں جو عام حالات میں جمع نہیں ہو سکتیں مثلاً عصر کی نماز مغرب کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بنوقریظہ پرحملہ کیا توآپ نے فرمایا اب ہم عصر کی نماز ان کے علاقہ میں جاکر پڑھیں گے۲؎ مطلب یہ تھا کہ لوگوںکوجلدی کرنی چاہئے اِس پربعض لوگ جو سامانِ جنگ جمع کررہے تھے اُنہیں وہاں پہنچنے میں دیر ہوگئی اورراستے میں ہی عصر کا وقت آگیا جب عصر کی نماز کا وقت تنگ ہونے لگا تو بعض نے کہا ہمیں یہیں نماز پڑھ لینی چاہئے اور بعض نے کہا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عصر کی نماز ان کے علاقہ میں پڑھی جائے گی توہم وہیں جاکرنماز پڑھیں گے چنانچہ بعض نے عصر کی نماز پڑھ لی اور بعض نے نہ پڑھی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کی شکایت کی گئی تو آپ نے فرمایا جنہوں نے راستہ میں نماز نہیں پڑھی انہوں نے اچھا کیا۳؎ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ جنہوں نے راستہ میں نماز پڑھ لی انہوں نے بُرا کام کیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ جن لوگوں نے یہاں آکر نماز پڑھی ہے وہ گنہگار نہیں ہیں حالانکہ عصر کی نماز مغرب کے وقت میں نہیں پڑھی جاتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ جب سورج زرد ہوجائے تواس وقت نماز نہیں پڑھنی چاہئے۴؎ مگر باوجود اس کے جہاد کے موقع پر آپ نے ان کو اجازت دی اور نہ صرف اجازت دی بلکہ ان کے فعل کی تحسین کی اوراُسے اچھا قرار دیا۔ توبعض کاموں کے وقت ایسے ہوتے ہیں جب عبادت کو پیچھے ڈال دیاجاتاہے اور جس کام میں انسان مشغول ہوتاہے اُسے عبادت میں ہی شامل سمجھا جاتاہے مثلاً پیچھے بعض خطرات کے موقع پرجب احرار کے اِس قسم کے منصوبے ُسننے میں آئے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہماری بیت مبارک کو جلادیں یا اِس میں بم پھینک دیں تووہاں پہرہ کا انتظام کیا۔ اب پہرہ دینے والا بیشک نماز میں شامل نہیں ہوتا لیکن وہ خدا کے حضور جماعت میںہی شامل ہوتاہے اور اگراُسے دُکھ ہوتاہے کہ نماز جارہی ہے مگرباوجود اِس دُکھ کے وہ پھر بھی اپنے فرض کو ادا کرتاہے تواُسے دُہرا ثواب حاصل ہوتاہے گویا اگرتو اُسے یہ دُکھ نہیں کہ کیوں ایسے حالات پیداہوگئے ہیں جن کی وجہ سے انسان بعض دفعہ نماز باجماعت ادانہیں کرسکتا تواسے ایک ثواب حاصل ہوتاہے مگر جن کے دلوں میں یہ درد بھی ہوتاہے کہ بدقسمتی سے ایسے حالات پیداہوگئے ہیں کہ اب ہم میں سے بعض کو نماز جماعت کے ساتھ نہیںپڑھنی ہوتی بلکہ انہیںپہرہ کیلئے کھڑا رہنا پڑتا ہے تواُنہیں دو ثواب ملیں گے ایک نماز باجماعت کا ثواب اورایک اس دُکھ اوردرد کا ثواب................
........میری غرض آج کام کے دیکھنے سے یہی تھی کہ میں معلوم کروں خدام الاحمدیہ کوکس رنگ میں ٹریننگ دی گئی ہے مگر کام دیکھنے کے بعد مَیں افسوس کے ساتھ اِس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس لحاظ سے خدام الاحمدیہ کاکام بالکل صفر ہے۔ درحقیقت تنظیم ایسی ہونی چاہئے کہ ہر شخص حُکم ملنے پر فوراًاُس کی تعمیل کے لئے کھڑاہوجائے۔ اِسی طرح جب بیٹھیں توسب کو قطاروں کی صورت میں بیٹھنا چاہئے اوررایک قطار میں دو دوآدمی ہونے چاہیئں۔ آج اس صورت میں لوگ نہیں بیٹھے مگر مَیں اُمید کرتاہوں کہ آئندہ اِس ہدایت کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ اِسی طرح مرکزی عہدے داروں کوباربار ماتحت مجالس میں جاکر ان کاکام دیکھنا چاہئے۔ مَیں سمجھتا ہوں چونکہ صدراورسیکرٹری باربار محلوں میں جاکر مجالس کے کام کو نہیں دیکھتے اس لئے یہ نقائص واقع ہوئے ہیں پھر بعض گروپ لیڈر ایسے ہیں جو چھوٹے ہونے کی وجہ سے دوسروں کوحکم نہیں دے سکتے اور وہ ان سے ڈرتے ہیں۔ بعض آدابِ مجلس کا خیال نہیں رکھتے چنانچہ میرے سامنے ایک گروپ لیڈر نے اپنے ممبروں سے کہا اچھا یارو کھڑے ہوجائو حالانکہ یہ ہمارے ملک میں شرفاء کی زبان نہیں سمجھی جاتی اگرصدر اور سیکرٹری متواتر ماتحت مجالس کے کاموں کو دیکھتے توبہت سی غلطیوں کی اصلاح ہوجاتی۔ دفتری کام سے کبھی تنظیم نہیںہوسکتی۔ تنظیم تبھی ہوتی ہے جب افسر شامل ہوں اوران کے سامنے کام کیاجائے یا انہیں پتہ لگے کہ کام میں کیاکیا نقائص ہیں اور وہ کس طرح دُور کیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح مثلاً خاموش رہنا ہے۔ لوگوں کو ایسی ٹریننگ دینی چاہئے کہ جب خاموش ہونے کاوقت ہوتواُس وقت بالکل نہ بولیں۔ مَیں نے دیکھا ہے تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اچھے پڑھے لکھے آدمی جمعہ کے دن خطبہ کے وقت جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح طور پر حکم ہے کہ کوئی شخص نہ بولے اور سب خاموشی سے خطبہ سُنیں۵ ؎ اُس وقت بھی بول پڑتے ہیں۔ مَیں نے اِسی جمعہ میںدیکھا کہ ایک گریجوایٹ جو قادیان میں۱۴،۱۵سال سے بستا ہے خطبہ کے دَوران میںایک دوسرے شخص سے زبان سے یا اشارہ سے باتیں کررہا تھا اور مَیں دُور سے دیکھ رہا تھااسی طرح جمعہ کے دن مَیں نے ایک ناظر کو دیکھا وہ باربار سَر اورہاتھ مار مار کر بعض اور لوگوں کو بُلا رہے تھے کہ آگے آجائو حالانکہ یہ بالکل ناجائز ہے اشارے سے صرف منع کرنے کی اجازت کاحدیثوں میں ذکر آتاہے۶؎ یہ کہیں نہیں آتا کہ اشارے سے دوسروں کو بُلایابھی جاسکتاہے۔ یعنی اگرکوئی شخص خطبہ کے وقت بول رہاہو تو اسے منع کرنے کے لئے بھی دوسرں کو بولنے کی اجازت نہیں اُس وقت صرف خطیب کاکام ہے کہ وہ بولے یا پھروہ شخص بولے جسے خطیب نے اجازت دی ہو دوسرے لوگ بول کر منع بھی نہیںکرسکتے۔ ہاں اتنی اجازت ہے کہ ہاتھ کے اشارہ سے دوسرے کو روک دیں مگر ہاتھ کے اشارے سے احکام دینے کی اجازت نہیں لیکن لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیاہے کہ جب اشارے سے منع کرنے کی اجازت ہے تواحکام دینے کے لئے بھی ہاتھ سے اشارہ کرنا جائز ہے حالانکہ اشارے کی نفی کا حکم ہے مثبت کا حکم اشارے سے بھی نہیں سوائے اس کے کہ خطیب خود کہے یاایسے حالات پیداہوجائیں جن میں احکام کا تعطّل ہوجاتاہے۔ مثلاً خطبہ کے دَوران میں اگر کوئی شخص بیہوش ہوجائے تو وہاں شریعت کا حکم فوراً معطّل ہوجائے گا۔ اُس وقت اگرکوئی شخص اس کی مدد کے لئے دوسروں کو آوازیں بھی دے گاتویہ جائز ہوگا کیونکہ شریعت نے بعض مواقع کے متعلق کہہ دیاہے کہ وہاں میرا حکم بندہے تم جومناسب سمجھو کرو۔ پس اُس وقت چاہے کوئی بولے یا شور مچائے سب جائز ہوگا۔ غرض خدام الاحمدیہ کے نظام کی بڑی غرض نوجوانوں کی صحیح رنگ میں تربیت کرنا اورانہیںاس بات کی عادت ڈالنا ہے کہ وہ اپنی تمام حرکات ایک ضبط کے ماتحت رکھیں۔ دُنیا میںکئی تاریخی مثالیں اِس قسم کی ملتی ہیں کہ بادشاہ یا جرنیل گھوڑے سے گِرگیا اوراُس کی اپنی فوج اُسے کچلتی ہوئی گزر گئی، اُس کی وجہ یہی تھی کہ اُن میں تنظیم نہیں تھی اورانہیں اس بات کی عادت نہیں ڈالی گئی تھی کہ جب کہاجائے چلو توسب چل پڑیں۔عدمِ تنظیم کی وجہ سے کوئی کہتارُکو،رُکو اور کوئی کہتا آگے چلو، آگے چلو۔ اوراُن میں سے کوئی بھی یہ نہ سوچتا کہ اپنا جرنیل گِرا پڑا ہے اُسے تو اُٹھا لیاجائے توگروپ لیڈر کا حکم ماننے کی ہر شخص کے اندر روح پیدا کرنی چاہئے۔یہ گروپ لیڈر کو چاہئے کہ وہ حکم دے، ’’دَوڑو‘‘! اور جب دَوڑ رہے ہوں تویکدم حکم دے’’ٹھہرو‘‘ اور کبھی دَوڑاتے دَوڑاتے کہہ دے ’’دائیں طرف مُڑو‘‘ کبھی کہہ دے ’’بائیں طرف مُڑو‘‘ اوروہ سب کے سب حکم ملتے ہی اس کی اطاعت کریں۔ وہ کھڑا ہونے کے لئے کہے تو سب یکدم کھڑے ہوجائیں اورایک قدم بھی آگے نہ بڑھائیں۔ دَوڑنے کو کہے تو سب دَوڑنے لگ جائیں۔ اگراِس رنگ میں نوجوانوں کو ٹریننگ دی جائے تواُن کو ایسی عادت پیدا ہوجائے گی کہ اگر دودن کا دُودھ پیتا بچہ بھی گِر جائے گا اور انہیں حکم ملے گا کہ ٹھہرجائو تو یکدم سب کے قدم رُک جائیں گے لیکن اگریہ عادت نہ ہوتو ہو سکتاہے کہ تمہارا اپنا گروپ لیڈر یا تمہارا زعیم یا تمہارا سیکرٹری یا خدام الاحمدیہ کا اِس سے بھی کوئی بڑا افسر گِرجائے اورتم اپنے پیروں سے اُسے کُچلتے ہوئے گزرجائو تواس بات کی عادت ڈالنی چاہئے مگریہ عادت بغیر تنظیم کے پیدا نہیں ہوسکتی۔ ہر گروپ لیڈر جہاں کہتاہے کھڑے ہوجائو، وہاں تمہارا فرض ہے کہ کھڑے ہوجائو۔ جب تمہیں دَوڑنے کے لئے کہے تو دَوڑ پڑو۔ اورجب دَوڑتے دَوڑتے ٹھہرنے کاحکم دے تو تم اُسی وقت ٹھہرجائوچلتے ہوئے دائیں یابائیں مُڑنے کوکہے تودائیں یا بائیں مُڑجائو۔ یہ فوجی پریڈ نہیں ہے کہ اس کے متعلق تمہیں یہ خدشہ ہو کہ گورنمنٹ نے اس سے روکا ہؤاہے گورنمنٹ نے صرف فوجی قواعد سے منع کیاہواہے۔ چلنے پھرنے سے نہیں روکا اوریوں اگردس آدمیوں کا اس طرح چلنا پھرنا منع ہوتو پانچ پانچ آدمی اِس رنگ میں مشق کرسکتے ہیں۔ اگر پبلک طور پر اِس قسم کی مشق کی ممانعت ہو تو گھروں میں یہ مشق کی جاسکتی ہے۔ بہر حال گورنمنٹ کاکوئی قانون ایسا نہیں ہوسکتاجو لوگوں کو باندھ کررکھ دے۔ اگرتم عقل سے کام لوتو گورنمنٹ کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتی جس کے ہوتے ہوئے اپنی تنظیم کو مکمل نہ کیاجاسکتا ہو اور میں چیلنج دیتاہوں کہ کوئی مجھے گورنمنٹ کا ایساقانون بتائے جس کے ہوتے ہوئے جماعت کی تنظیم نہ ہوسکتی ہو۔ مَیں خداتعالیٰ کے فضل سے اِس بات پر کامل یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ کے تمام قواعد کی فرمانبرداری کرتے ہوئے ہم جماعت کی تنظیم ہر رنگ میں کرسکتے ہیں صرف عقل سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب تو بعض جگہ یورپ میں بھی اس طریق کو استعمال کیاجارہاہے مگر مَیں نے سب سے پہلے اِس گُر کو کشمیر میں برتا تھا جب حکو ِمت کشمیر نے بڑی سختی سے ریاست میں تقریریں وغیرہ روک دیں تومیں اُس وقت اُس تنظیم۷؎ کا صدر تھامَیں نے اشتہار دیا کہ گھر کے تمام لوگ رات کو ایک جگہ اکٹھے ہوجایاکریں اور بیوی بچے سب مل کر دُعا کیاکریں یااللہ! فلاں فلاں ظالمانہ احکام کے متعلق ُتو حکومت کو توفیق دے کہ وہ اُن کو بدل دے اور تیرے بندے امن اور چین سے زندگی بسر کر سکیں۔ مَیں نے اِس دُعا میں اُن تمام احکام کو یکجاکر کے لکھ دیا جن کو ہم روکنا چاہتے تھے اورمَیں نے کشمیروالوں سے کہا کہ وہ روزانہ یہ دُعا کیا کریں۔ اس طرح حکومت نے تقریروں سے منع کیا ہؤا تھا تا لوگوں میںجوش پیدانہ ہو مگر جب وہ سب مل کر روزانہ یہ دُعا کرتے تھے تواِس رنگ میں اُن کی پریڈ ہوجاتی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ اگر، ّحکام ظالم ہوں تو تم دُعا کیاکرو کہ اللہ تعالیٰ اُن کی اصلاح کردے اِس میں حکمت یہی ہے کہ اس طرح غصہ نکلتا رہتاہے اور اگر کوئی حاکم واقعی ظالم ہوتاہے تو اللہ تعالیٰ اُس کی اصلاح کردیتا ہے یا اُس کے شر سے اپنے بندوں کو بچالیتا ہے اور اگر ظالم نہ ہو مگراُس کے متعلق غلط فہمی ہوئی ہو تو دعا کے ذریعہ اِس کا غصہ نکل جاتا اوراِس طرح اس کے دل کو ایک رنگ میں سکون حاصل ہوجاتاہے پس ہماری شریعت نے یہ بھی ایک علاج رکھاہے کہ جب تمہیں کسی پر زیادہ غصہ آئے تو تم سجدے میںگِرجائو اور خداتعالیٰ سے دُعائیں کرو۔ اِس طرح غصہ بھی نکل جائے گااور اصلاح بھی ہوجائے گی۔
تو اصل غرض خدام الاحمدیہ کے نظام کی یہی وجہ تھی مگراِس میں بہت کچھ ناکامی ہوئی ہے آئندہ کے لئے جو مَیں نے ہدایتیں دی ہیں ان پرعمل کرنا چاہئے اور فرمانبرداری اور اطاعت کا مادہ ہر شخص کے اندر پیداکرنا چاہئے.........س نظام کی پابندی کی عادت نوجوانوں میں پیدا کرو اور اس غرض کو باقی تمام اغراض پر مقدم رکھو۔ یہی وجہ ہے کہ متواتر ایک سال سے میں مرکز والوں کو لکھ رہا تھا کہ تم خدام الاحمدیہ کا کوئی اجتماع کرو جس میں مجھے بھی بلائو تامَیں دیکھ سکوں کہ انہیں کس رنگ میں منظم کیا گیاہے۔مگر مجھے یہاں آکر کئی قسم کی کوتاہیاں معلوم ہوئیں اگر صدراورسیکرٹری باربار دَورہ کرتے اورا پنے سامنے خدام کو کام کرواتے تواِس قسم کی غلطیوں کو وہ خود بھی محسوس کر لیتے اور ان کو دُور کرنے کی کوشش کرتے مگر انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ دفتری رنگ میں حکم بھیج کر عمدگی سے کام سرانجام دیاجاسکتاہے حالانکہ اِس طرح کبھی کامیابی نہیں ہوتی۔ مَیں نے اس معائنہ میں ایک اور بات بھی محسوس کی جو شریعت کے تمام اصول کے خلاف ہے۔ یوں تو جائز ہے اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا کیا ہے مگر استثنائی حالات میں، قاعدہ ُ ّکلیہ کے رنگ میں نہیں اوروہ یہ ہے کہ بِالعموم جو گروپ لیڈر ہیں وہ لڑکے ہیں اورجو ان کے ماتحت ہیںوہ زیادہ تر تعلیم یافتہ یا زیادہ علم والے یا زیادہ تقویٰ والے ہیں مَیں اس حکمت کو نہیں سمجھ سکا۔ ایک محلہ کے زعیم صاحب نے بتایاکہ گروپ لیڈر اُن کو بنایا گیا ہے جو نماز کے زیادہ پابند ہیں۔ یہ بات میرے لئے اِس لحاظ سے خوشی کاباعث ہے کہ ہماری آئندہ نسل نماز کی زیادہ پابند ہے مگر اس کے ساتھ ہی اگریہ درست ہوتو یہ بات میری آنکھیں کھولنے والی ہوگی کہ پُرانے آدمی نمازی نہیں ہیں۔ اگراِن کی یہ بات درست ہے کہ گروپ لیڈر ان ہی کو بنایا گیاہے جو نماز کے زیادہ پابند ہیں توماننا پڑے گا کہ جواِن گروپ لیڈروں کے ماتحت ہیں وہ نماز میں نسبتاً سُست ہیں اور یہ سخت افسوس کا مقام ہوگا۔ بہرحال شریعت نے اوّل تقویٰ والے کو فضیلت دی ہے پھر علم والے کواور پھر عمر والے کو اوریہی انہیں اپنے انتخابات میں مدّنظر رکھنا چاہئے۔ مگرگروپ لیڈر بِالعموم چھوٹی عمر کے ہیں اور بڑی عمر کے نوجوان اِن کے ماتحت ہیں چنانچہ آج بھی ستّر فیصد گروپ لیڈر ایسے ہی نظر آئے ہیںاورتیس فیصد کچھ بڑی عمر کے گروپ لیڈر تھے حالانکہ خدام الاحمدیہ میں ۔ُبڈھے توہوتے ہی نہیں سب نوجوان ہوتے ہیں۔پس یہ تو ہو نہیں سکتا کہ بڑی عمر والے بوجہ ۔ُضعف یاکمزوری کے گروپ لیڈر نہ بن سکتے ہوں کیونکہ وہ سب نوجوان ہیں۔ ہاںاگر کوئی بیمار ہوتوالگ بات ہے مگر مَیں نے دیکھا ہے بِالعموم گروپ لیڈر چھوٹی عمرکے ہیں اور یہ ایک نقص ہے جس کو دُور کرنا چاہئے۔ اگرتو یہ انتخاب کی غلطی کا نتیجہ ہے تواس کی اصلاح ہونی چاہئے اور اگر یہ طریقِ عمل بڑوں کی کسی غلطی کے نتیجہ میں اختیار کیاگیاہے تواُنہیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے آج تو سب ُگتھم ُگتھا بیٹھے ہوئے ہیں اور گروپ لیڈر اپنے اپنے گروپ کے ساتھ نظر نہیں آتے لیکن جیسا کہ مَیں نے کہاہے کہ آئندہ ایسا اجتماع ایک وسیع میدان میں ہوگا اور ہر گروپ الگ الگ دکھائی دے گا پس اگراُس وقت بھی گروپ لیڈر لڑکے ہی ہوئے تواُن کے لئے جوجماعت میں زیادہ علم والے یا زیادہ تقویٰ والے سمجھے جاتے ہیں کتنی شرم کی بات ہوگی۔ انہوں نے دنیا کوتواپنے ظاہر کی وجہ سے دھوکا دیامگر حقیقت یہ تھی کہ وہ جماعت میں اچھے کارکن نہیں تھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ قاعدہ ُ ّکلیہ ہونا چاہئے کہ ہمیشہ بڑی عمر کے نوجوان گروپ لیڈر بنیں۔ مَیں نے اپنے خطبہ میںہی مثال دی تھی کہ اسامہ بن زیدؓ کو جن کی عمر۱۶سال تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر کا سردار مقرر فرمادیا تھا جس میں حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عمرؓ بھی شامل تھے حالانکہ اسامہؓ نہ تقویٰ میںاُن سے زیادہ تھے اورنہ جنگی فنون میں اُن سے زیادہ ماہر تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس علاقہ میںیہ لشکر جارہاتھا اُس علاقہ میں حضرت اسامہؓ کے والد مارے گئے تھے۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کو دوباتیں بتانے کیلئے اسامہؓ کو اِس لشکر کا سردار مقرر فرمایا۔ اوّل یہ کہ ہمارے آدمی اگرمارے جائیں توہم اُن کے پسماندگان کی عزّت کرتے ہیں۔تم نے زیدؓ کو ماراتھا ہم نے اُس کے بیٹے اسامہؓ کو لشکر کاسردار بنا دیا۔ دوسرے یہ کہ ہم تمہاری ان تکالیف سے ڈرتے نہیں۔ تم نے زیدؓ کو مارا تھا اب اُسی کا لڑکااسامہؓ پھر تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے آرہاہے۔ پس اس انتخاب کے ذریعہ ایک طرف تو آپؐ نے یہ بتایا کہ ہمارے آدمی موت سے نہیںڈرتے باپ مراہے تو بیٹا اس کی جگہ آگیاہے اور دوسری طرف آپؐ نے یہ بتایا کہ خداتعالیٰ کی راہ میں مرنے والوں کی عزّت کرتے اوران کے پسماندگان کااحترام کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓاور حضرت عمرؓ تک اس لشکر میں شامل تھے حالانکہ اسامہؓ تقویٰ یا علم میں ان سے بڑھے ہوئے نہیںتھے تواستثناء بھی ہوسکتے ہیں مگر قاعدہ ُ ّکلیہ میں ہے کہ جس میں تقویٰ زیادہ ہو اُسے مقدم رکھا جائے۔ تقویٰ سے فیصلہ نہ ہوسکے تو پھر علم کو مقدم رکھاجائے گااورجسے زیادہ علم ہوگا اُسے ُعہدہ دیاجائے گامگر علم سے مراد کتابی علم نہیں بلکہ کام کرنے کی اہلیت اوراس کے لئے جس علم کی ضرورت ہو اس کی موجودگی مرادہے۔اگراس طرح بھی فیصلہ نہ ہوسکے تو جس کی عمر زیادہ ہواسے عہدہ دیاجانا چاہئے۔ چنانچہ نمازمیں شریعت نے یہی حکم دیاہے کہ جو شخص زیادہ متقی ہو یا زیادہ علم والاہو یا زیادہ عمر والا اسے امام بنانا چاہئے۔ یہی لیڈروں کے انتخاب کے متعلق اسلام کے اصول ہیں گو استثنائی حالات میں ان کے خلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگرکوئی شخص ایساہے جو ظاہری طورپرکسی فن میں ماہر ہے یا لوگوں میں بڑا مقبول ہے توخواہ وہ چھوٹی عمر والا ہی ہو اگراُس کو مقرر کردیا جائے تواِس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہوسکتی مگرقاعدہ ُ ّکلیہ یہی ہونا چاہئے کہ گروپ لیڈروں کے انتخابات میںاسلام کے بیان کردہ اصول کو مدّنظر رکھا جائے۔ میں اُمید کرتاہوں کہ آئندہ انتظام زیادہ بہتر رنگ میں کیاجائے گا اور بیرونی جماعتوں میں بھی اِنہی اُصول کو رائج کیاجائے گا۔مَیں نے یہ بھی دیکھاکہ بعض گروپوں میں زیادہ نوجوان شامل ہیںاورجو تعداد مقررہے اُس کو ملحوظ نہیںرکھا گیا۔اس طرح بعض جگہ مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص کہتاہے میں فلاں گروپ میں شامل ہوں اور گروپ لیڈر کہتاہے کہ یہ میرے گروپ میں نہیں اِس قسم کی غلطیاں بھی نہیں ہونی چاہئیں کیونکہ اس طرح انسان غلط فہمی میں رہتاہے اوراُس کا ذہن صحیح طور پر کام نہیں کرتا۔
پس خدام الاحمدیہ کی تنظیم مکمل ہونی چاہئے اس کے بعد اگلا قدم کام لینے کاہے اگرآئندہ کوئی موقع پیدا ہؤاتومَیں اس اگلے قدم کے متعلق مناسب ہدایات دُونگا اوربتائونگا کہ کام لینے کے مواقع کس طرح پیداہوسکتے ہیں اورجب کام لینے کے مواقع پیداہوجائیں توکس طرح کام لیا جاسکتا ہے کیونکہ صرف تنظیم فائدہ نہیںپہنچا سکتی جب تک کام لینے کے مواقع نہ پیدا کئے جائیں اور نوجوانوں سے صحیح رنگ میں کام لے کر ان کی قوتوں کو بیدار نہ کیاجائے۔
فیِ الحال میں اِسی پر اکتفا کرتاہوں اور دُعا کرکے واپس جاتا ہوں اگرجلسے کا کوئی اور ّحصہ ہوتو وہ اس کے بعد کیا جاسکتاہے۔
۱؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد ۲ صفحہ ۳۴۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲؎ بخاری کتاب المغازی باب رجع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسَلَّمَ من الاحزاب (الخ)
۳؎
۴؎ ترمذی ابواب الصلٰوۃ باب ما جاء فی مواقیت الصَّلٰوۃ ۔
۵؎ بخاری کتاب الجمعۃ باب الاِنْصاتُ یَومَ الجُمعۃ ۔
۶؎
۷؎ آل انڈیا کشمیر کمیٹی: ۲۵؍جولائی ۱۹۳۱ء کو نواب سر ذوالفقار علی خان آف مالیر کوٹلہ کی کوٹھی پر شملہ میں ایک اجلاس ہؤا۔ جس میں ہندوستان کے بہت سے مسلمان لیڈر اور حضرت مصلح موعود شامل ہوئے۔ اجلاس میں طے پایا کہ ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنائی جائے جو کشمیری مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔
علامہ اقبال، خواجہ حسن نظامی اور دوسرے مسلمان لیڈروں نے حضرت مصلح موعود کو اس کمیٹی کا صدر بنایا۔ (تلخیص از تاریخ احمدیت جلد ۵ جدید ایڈیشن صفحہ ۴۱۵ تا ۴۲۱)









ہمارا آئندہ رو یہ





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھُوَالنَّاصِرُ
ہمارا آئندہ رو یہ
(تحریر فرمودہ اگست۱۹۴۲ء)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
اپنے تازہ خطبہ کے بعد دُعائوں اور غور کے بعد مَیں اس نتیجہ پر ُپہنچا ہوں کہ کانگرس کی طرف سے جو مُلک میں تعطّل اور فساد پَیدا کرنے کی دھمکی دی گئی ہے اس بارہ میں ہمارے لئے دوراستے ُکھلے ہیں اور اِن میں سے کسِی ایک کا اختیا ر کرنا حکومت کے رویہ پر منحصر ہے۔ وہ دو راستے یہ ہیں۔
اوّل۔کانگرس کی فساد انگیز جدوجہد کا مقابلہ کرنا۔
دوم۔جماعتی طورپر اندرونی فساد کا مقابلہ کرنے میں حصہ نہ لینا اور صرف جنگ کے متعلق کوششوں میں حکومت کی مَدد پر اِکتفا کرنا۔ درحقیقت امرِ اوّل ہی ایک مکمل راستہ ہے لیکن اس بارہ میں ہمارا سابقہ تجربہ بتاتا ہے کہ:
اوّل حکومت پہلے کانگرس سے جنگ شروع کرتی ہے اور وفادار جماعتوں کو اپنی مدد کے لئے بُلاتی ہے۔ پھر جب اپنے ہمسائیوں اور بسا اوقات اپنے عزیزوں سے لڑائی شروع ہوجاتی ہے گاندھی جی روزہ رکھ لیتے ہیں یا ایسی ہی کوئی اور حرکت ہوجاتی ہے جو دل کی تبدیلی پر دلالت نہیںکرتی بلکہ صرف ایک دھمکی ہوتی ہے۔حکومت اس سے ڈر کر کانگرس سے صُلح کرلیتی ہے اور:
(الف) وہ تعاون کرنے والی جماعتیں جوایک غیر ُملکی حکومت کی خاطر اپنے عزیزوںاور دوستوں سے لڑنے پر آمادہ ہوجاتی ہیں نہایت شرمندہ ہوجاتی ہیںاور مہینوں اور سالوں اُن کو دوسرے لوگوں کی طرف سے طعنے ملتے ہیں۔
(ب)کانگرس کی منظّم جماعت ان کے خلاف ریشہ دوانی شروع کردیتی ہے اور وہی حکومت جس کی تائید کی وجہ سے وہ جماعتیں بدنام ہوتی ہیں ان وفادار جماعتوں کے خلاف کانگرسی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے کارروائیاں شروع کردیتی ہے۔ جماعت احمدیہ کو اِس کا تلخ تجربہ حاصل ہے۔ جماعت احمدیہ نے متواتر کانگرس کے خلاف جنگ میں حکومت کا ساتھ دیا۔ کانگرس کا وہ حصہ جو مُسلمانوںمیں کام کررہا ہے احراری جماعت ہے یہ جماعت پہلے جماعت احمدیہ سے اچھے تعلقات رکھتی تھی۔ ۱۹۲۷ء کی تحریک میں میرے اشتہارات پر انہوں نے لَبَّیْکَکہتے ہوئے مُسلمانوں کی اقتصادی تحریک کی درستی کے لئے کام کرنا شروع کیا۔ اسی سال میں چوہدری افضل حق صاحب نہایت تپاک سے مجھے شملہ میں ملتے رہے اور انہوں نے بعض سفارشیں کرنے کی بھی مجھ سے خواہش کی جس کے مطابق میں نے کام کر بھی دیا۔اس کے بعد پھر کانگرس سے ہمارا مقابلہ ہؤا۔ یہ جماعت کانگرس سے مل گئی اور ۱۹۳۴ء میں اِس نے ہمارا مقابلہ شروع کیا۔ گورنر سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک اس کی امداد کرتے رہے اور عدالتوں میں اور عدالتوں کے باہر جماعت احمدیہ کو باغی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہم مسٹر بٹلر سابق نائب وزیر ہند کے ممنون ہیں جنہوں نے حکو ِمت ہند کی معرفت پنجاب کی حکومت کواِس طرف توجّہ دلائی اور اُس وقت کی حکو ِمت پنجاب نے غلط بیانی کرکے اپنی جان ُچھڑوائی اور حکو ِمت برطانیہ کو جواب دیاکہ ہم جماعت احمدیہ کو وفادار سمجھتے ہیں حالانکہ حکو ِمت پنجاب حکو ِمت ہند کو جو رپورٹیں بھجواتی رہی تھی ان میں بِالوضاحت جماعت احمدیہ کی وفاداری پر شکوک کااظہار کرتی رہی تھی۔ گزشتہ سے گزشتہ سال کے جلسہ پر جب سِول اینڈملٹری گزٹ کے نامہ نگار نے ایک معاندانہ اور جھوٹا نوٹ میری تقریر کی نسبت شائع کیا جس میںیہ ظاہر کیاگیاتھا کہ گویا میں نے حکومت کو دھمکی دی ہے کہ ہم کانگرس کی طرح عدمِ تشدد کے قائل نہیں اور ہم حکومت کا ۔ ّ تشدد سے مقابلہ کریں گے جو ایک صریح ُجھوٹ تھا اور ہمارے عقائد کے خلاف تھا تو اِس پر اُس وقت کے گورنر صاحب نے حکو ِمت ہند کواِس جھوٹے نوٹ کی طرف توجہ دلائی اور جو تردید میری طرف سے ہوئی تھی اُسے اِس رنگ میں پیش کیا کہ گویا میں نے بعد میں جھوٹ بول کر اپنی تقریر کی تردید کی ہے اور یہ گورنر صاحب اپنی خط وکتابت میں اپنے آپ کو میرا Very sincere friendلکھا کرتے تھے۔ تازہ واقعہ ڈلہوزی کا واقعہ ہے اِس میں ہمیں باغی بتانے کی کوشش کی گئی تھی اور اس کوشش کے پیچھے بعض مخالفینِ حکومت کا ہاتھ تھا جنہوں نے بعض پولیس افسروں سے مل کر یہ شرارت ہم سے وفاداری کا بدلہ لینے کے لئے کی تھی ۔
ان تمام واقعات سے ظاہر ہے کہ حکومت کے ساتھ تعاون سب سے بڑا جُرم ہے۔ گورنمنٹ کے مخالف ان باتوں کو نہیں ُبھولتے وہ بعد میں بدلہ لینے کی ہر تدبیر اختیار کرتے ہیں اور حکومت کے بعض افسر اِن کی پیٹھ ٹھونکتے اور وفاداروں کو باغی بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان حالات کی موجودگی میں اگر کانگرس اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنائے اورایک عام شورش مُلک میں پیدا کردے تو چونکہ یہ اس کی آخری جنگ ہوگی وہ ان جماعتوں کے خلاف یقینانفرت کے جذبات سے بھرجائے گی جو اِس وقت اس کا مقابلہ کریں۔ حکومت کے استحکام کے لئے یہ قربانی کی جاسکتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگر حکومت خود ہی چند دنوں کے بعد گاندھی جی کے روزہ سے ڈر کر کانگرس کے آگے ہتھیار ڈال دے تواِن تعاون کرنے والی جماعتوں کے لئے ہندوستان میں کونسی جگہ رہ جائے گی؟ وہ ایک لمبے عرصہ کے لئے ذلیل ہوجائیں گی اور مُلک میں اپنا وقار کھو بیٹھیںگی۔ پس ان حالات میں مَیں نے یہ فیصلہ کیاہے کہ باوجود سابقہ تلخ تجربہ کے ہم حکومت کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیںاور اپنے تمام ذرائع اس کے سپرد کرنے کے لئے آمادہ ہیں بشرطیکہ وہ اِس امر کا واضح الفاظ میں اعلان کردے کہ وہ مسٹر گاندھی کے روزہ سے ڈر کر یاکسی اور ایسی ہی تدبیر سے خائف ہو کر اِس وقت مُلک میں فساد کرنے والوں کے آگے ہتھیار نہ ڈال دے گی اور ندامت کے اظہار یا اپنی غلطی کا اقرار لئے بغیر انہیں آزاد نہ کرے گی۔ اگروہ یہ اعلان کردے تو باوجود سابقہ تلخ تجربہ کے ہم اس کی جماعتی طورپر مدد کرنے کے لئے تیار ہونگے۔ اگر ایسا نہ ہو توپھر یہی صورت ہمارے لئے باقی رہ جائے گی کہ جہاں تک جنگ کا تعلق ہے ہم حکومت کی مدد کرتے رہیں گے لیکن اندرونی فسادات کے متعلق ہم غیر جانبدار کی حیثیت میں رہیں گے گورنمنٹ اور کانگرس آپس میں نپٹتے پھریں ہم جماعتی طور پر اِس جھگڑے میںکوئی ّحصہ نہ لیں گے۔ ہاں اگر منفردانہ طور پر جماعت احمدیہ کا کوئی آدمی گورنمنٹ کی مدد کرنا چاہے توہم اِس سے اُسے روکیں گے نہیں مگرکانگرس کی مدد کسی احمدی کو انفرادی طورپر بھی نہ کرنے دیں گے کیونکہ حکومت کا مقابلہ کرنا ہمارے مذہبی اصول کے خِلاف ہے۔
میرے مندرجہ بالا نتیجہ پر پہنچنے کے معنے یہ ہیں کہ ہمارا آئندہ طریق عَمل حکومت کے فیصلہ پر منحصر ہے اگر حکومت اس امر کا اعلان کردے گی کہ توبہ کا اعلان کئے بغیر وہ فتنہ پیدا کرنے والوں کو نہیں چھوڑے گی اور کانگرس سے ڈر کر اُس سے صُلح نہ کرے گی تو ہم ُپورے طَور پر اس کا ساتھ دیں گے لیکن اگروہ ایسا اعلان نہ کرے گی تو ہم اپنے قومی تعاون کو جنگی کوششوں تک محدود رکھیں گے۔
اب میں جماعت کو نصیحت کرتاہوں کہ چونکہ وقت تھوڑا ہے ہر جگہ کی جماعتوں کو اپنے آپ کو فوراً زیادہ سے زیادہ منظّم کرنا شروع کردینا چاہیئے تا اگر مُلک میں فساد ہو اور ہم حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کریں تو فوراً عملی کام شروع کیا جاسکے۔ اگراِس دفعہ ہندوستان میں فساد ہؤا تووہ پہلے فسادوں کی طرح نہ ہوگابلکہ غالباً بہت وسیع ہوگا اور باوجود کانگرس کے عدمِ تشددکے دعویٰ کے وہ خون ریزی اور قتل وغارت کا پیش خیمہ ثابت ہوگا سو اس کامقابلہ کرنے سے پہلے ہمارے دوستوں کو اپنی جانوں اور مالوں کی قربانیوں کا تہیّہ کرنا پڑے گا۔ وہ لوگ ہر گز اس کام کے لئے تیار نہ ہوں جو دوسرے دن مجھے خط لکھنے لگیں کہ کانگرسی ہمیں ُیوں ستاتے ہیں اور ُیوں دُکھ دیتے ہیں مرکز ہماری مدد کرے۔ ان ُبزدل سپاہیوں کی اس جنگ میں ضرورت نہ ہو گی جو لڑائی پر جاتے ہوئے پہرہ کا مطالبہ کریں اُن کا مقام احمدیت میں نہیں ہے ان کو اپنی جانیں بچانے کے لئے ارتداد اختیار کرلینا چاہیئے کہ احمدیت کی بھٹی انہیں قبو ل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ہمیں اگر اس جنگ میں شریک ہونا پڑا تو اِس کی امید بھی نہ رکھنی ہوگی کہ حکومت ہماری مددکرے گی یامرکز ہماری مدد کرے گا بہادر اِن اُمور کی طرف نگاہ نہیں رکھتے وہ صرف ایک بات جانتے ہیں قربانی اور پھر قربانی ۔ وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
(الفضل ۱۸؍اگست ۱۹۴۲ء)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خدام الاحمدیہ سے خطاب





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْـمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰـنِ الـرَّحِیْـمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

خدام الاحمدیہ سے خطاب
(فرمودہ ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۴۲ء بر موقع چوتھا سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
مجھے معلوم ہؤا ہے کہ گزشتہ سال بیرونی خدام کی حاضری دوسَوپچاس کے قریب تھی اور اِس سال بیرونی خدام کی حاضری۳۸۶ ہے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ قادیان کے اِردگِرد بہت سی نئی جماعتیں قائم ہورہی ہیں اوراِس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ خدام الاحمدیہ کی تنظیم کو روز بروز زیادہ مکمل ہوتے چلے جاناچاہئے میرے نزدیک یہ حاضری تسلّی بخش نہیں ۔کہا جاتا ہے کہ ملازم پیشہ لوگوں کواِس دفعہ رُخصتیں نہیں مل سکیں مگر جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں گزشتہ سال بھی ملازم پیشہ لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی اِس لئے یہ اثر درحقیقت زمینداروں کی کمی کی وجہ سے پڑا ہے۔ ابھی مجھے بتایا گیاہے کہ ملازمت پیشہ لوگ باوجود رُخصت نہ ملنے کے زیادہ تعداد میں شریک ہوئے ہیں اِس لئے حاضری میں کمی زمینداروں کی طرف سے ہی ہوئی ہے۔ میرے نزدیک اِس قسم کی ریلی میں یہ نہیں ہونا چاہئے کہ سارے خدام آئیں بلکہ ان کے نمائندے ہی اِس موقع پر آنے چاہئیں ہاں اگر کوئی شخص شوق سے آنا چاہے تو اُسے آنے کی اجازت ہونی چاہئے یہ پابندی نہیںہونی چاہئے کہ نمائندوں کے سِوا اور کوئی نہ آئے۔ پھر اُن نمائندوں کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ یہاں کی کارروائیوں کو نوٹ کریں او راپنی اپنی مجالس میں اِسی لائن پر خدام الاحمدیہ کا اجتماع کریں مگر جیسا کہ میں نے کہا ہے جو شخص اپنی مرضی اورخواہش سے آنا چاہے اُسے روکنا نہیںچاہئے بلکہ اُسے بھی شامل ہونے کی اجازت دینی چاہئے۔(سوائے مجلس کے کہ جس میں صرف نمائندے ہونے چاہئیں ورنہ رائے شماری غلط ہوجائے گی) پھر یہ امر مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ صدر کے انتخاب کے موقع پر ہر جماعت کا ووٹ اُس جماعت کے افراد کے لحاظ سے شمار ہونا چاہئے درحقیقت اصول یہی ہوتا ہے کہ چونکہ جماعت کے تمام افراد جمع نہیں ہوسکتے اِس لئے اُن کانمائندہ جب کسی رائے کا اظہا ر کرتا ہے تو وہ رائے تمام جماعت کی سمجھی جاتی ہے اِس وجہ سے اُس کا ووٹ ایک نہیں ہوگا بلکہ جس قدر اُس جماعت کے افراد ہوں اُسی قدر اُس کے ووٹ سمجھے جانے چاہئیں۔ مثلاً فرض کرو لاہور کی جماعت والے کسی ایک شخص کو بھیج دیتے ہیں اور لاہور کی جماعت کے ممبر ڈیڑھ سَو ہیں تو جب ووٹ لیاجائے گااِس ایک شخص کا ووٹ ڈیڑھ سَو ووٹ کاقائم مقام سمجھا جائے گا۔ ایسے موقع پر پہلے سے آئندہ سال کے لئے عہدہ داروں کے نام منگوا لینے چاہئیں اور اُن ناموں کی بیرونی جماعتوں کو اطلاع دے دینی چاہئے کہ فلاں فلاں نام صدارت کے لئے تجویز کئے گئے ہیں ان کے متعلق اپنی جماعت کی رائے دریافت کرکے اپنے نمائندہ کو اطلاع دے دی جائے مگر اِس بات کا نہایت سختی سے انتظام کرنا چاہئے کہ انتخاب کے موقع پر کسی قسم کا پراپیگنڈا نہ ہو یہ اسلامی ہدایت ہے اور جو شخص اِس ہدایت کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ مجرم ہے۔ ہر شخص کی جو ذاتی رائے ہو وہی اُسے پیش کرنی چاہئے۔ جو شخص دوسرے سے یہ کہتا ہے کہ میرے حق میں ووٹ دو یا کسی دوسرے کی رائے کو کسی دوسرے کے حق میں بدلنے کی کوشش کرتاہے وہ قوم کا مجرم ہے اور ایسے شخص کو سخت سزادینی چاہئے تا کہ آئندہ جماعت کے قلوب میں یہ امر راسخ ہوجائے کہ ہم نے ایسے انتخابات میں کبھی بھی دوسرے کی رائے کے پیچھے نہیں چلنا بلکہ جو ذاتی رائے ہو اُسی کو پیش کرنا ہے۔ ہاں جیسا کہ صحابہؓ کے طریق سے معلوم ہوتا ہے عین مجلس میں ایک دوسرے کو اپنے اپنے دلائل پیش کرنے کا حق حاصل ہے چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جب خلافت کے لئے انتخاب ہؤا تو اِس پہلی خلافت کے موقع پر انصار اور مہاجرین دونوں گروہوں نے اپنے اپنے دلائل دیئے۔ مہاجرین نے اِس بات کے دلائل دئیے کہ کیوں مہاجرین میں سے خلیفہ ہونا چاہئے اور انصار نے اس بات کے دلائل دئیے کہ کیوں کم سے کم انصار میں سے بھی ایک خلیفہ ہونا چاہئے۔ انصار کہتے تھے کہ ہم اِس بات کے مخالف نہیں کہ مہاجرین میں سے کوئی خلیفہ ہو ہم صرف یہ کہتے تھے کہ ہم میں سے بھی ایک خلیفہ ہو اور مہاجرین میں سے بھی ایک خلیفہ ہو۔۱؎ غرض مجلس میں دلائل دیئے جا سکتے ہیں مگر یہ جائز نہیں کہ الگ اور مخفی طور پر دوسروں کو تحریک کی جائے کہ فلاں کے حق میں رائے دی جائے اِس قسم کاپراپیگنڈا اسلام کے بِالکل خلاف ہے۔ ہاں جیسا کہ میں نے بتایا ہے مجلس میں آکر اپنے اپنے دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں مثلاً فرض کروصدر کے انتخاب کے موقع پر کوئی شخص یہ چاہتاہے کہ نئے آدمیوں کوکام کرنے کا موقع دیاجائے تو وہ یہ دلیل دے سکتا ہے کہ میں پُرانے صدر کے خلاف نہیں مگر اِس بات کو بھی نظر انداز نہیںکیا جاسکتا کہ نئے آدمیوں کوکام کرنے کا موقع ملنا چاہئے تاکہ انہیں بھی تجربہ حاصل ہو اور وہ بھی اس قسم کی ذمہ واری کاکام کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس کے مقابلہ میں جو شخص پُرانے صدر کا حامی ہو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ جب ایک شخص کو تجربہ حاصل ہو چکا ہے تواگر اسے ہٹا دیا جائے تو خدام الاحمدیہ کو اس کے تجربہ سے کیا فائدہ پہنچ سکتاہے۔ غرض اپنے اپنے رنگ میںدونوں فریق دلائل دے سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج کی بات نہیں بلکہ اس طرح علمی ترقی ہوتی ہے ہاں اُس وقت وقتی طورپر ایسا صدر ہونا چاہئے جو زبردست اور بارُعب ہو اور کسی کو مقررہ حدود سے باہر نہ نکلنے دے بلکہ جیسے پارلیمنٹ کے جلسوں میںایسے موقع پر صدر کو سپاہیوں کی ایک جمعیت دے دی جاتی ہے تاکہ اگرکوئی نافرمانی کرے تو پولیس کے ذریعہ اس کا تدارک کیاجائے اسی طرح انتخابات کے موقع پر جو وقتی طورپر صدر مقرر ہو اُس کے ساتھ بھی نوجوانوںکا ایک گروہ ہونا چاہئے تاکہ اگرکوئی شخص نافرمانی کرے تواُسے مجلس سے نکالا جا سکے یا اُسے مناسب سزا دی جائے۔ اِسی طرح دوسرے لوگ بھی صدر اُس وقت جو بھی حکم دے اُس کو دلیری سے اور بغیر کسی کے لحاظ کے پورا کرنے کے لئے کھڑے ہوجائیں اِس رنگ میں اگرکوئی کام کیاجائے اور باہر سے آنے والوں کی رائے اِن کی جماعت کی تعدادکو ملحوظ رکھ کر شمار کی جائے تواس طرح نہ صرف جماعتوں کو اُن کاایک حق دیاجاسکے گا بلکہ مرکز کو بھی آئندہ یہ خیال رہے گا کہ وہ ہر جماعت کی تعداد کو محفوظ رکھے۔ فرض کرو ایک شخص کہتا ہے ہماری جماعت کی تعداد دو سَو ہے ایسے موقع پر اگر مرکز کے پاس اس جماعت کی تعداد محفوظ ہوگی تووہ بتاسکے گا کہ یہ تعداد درست ہے یا نہیں یااس تعداد میں کتنی کمی بیشی ہے۔ پس اس کے نتیجہ میں ایک طرف تومرکز کو توجہ رہے گی کہ وہ تمام جماعتوں کوایک نظام کے ماتحت لانے کی کوشش کرے اور دوسری طرف جماعتوں کو یہ احساس پیداہوگا کہ ہماری جماعت کی تعداد زیادہ ہو اور ہم وقت سے پہلے پہلے اپنی تعداد کو درج رجسٹر کرالیں۔ پس ایک تو آئندہ سال سے اِس بات کا انتظام کرنا چاہئے دوسرے قادیان کے محلوں میں سے بھی ایسے موقع پر ان کے صرف نمائندے ہی آنے چاہئیں تاکہ جب انتخاب ہو تواُس وقت ہجوم نہ ہو۔ہر محلے والے اپنے اپنے آدمی بھیج دیں اوراُن کا فرض ہوکہ جب انتخاب کا وقت آئے تووہ اکثریت کی رائے کو پیش کردیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ کچھ لوگوں کی رائے ایک طرف ہو سکتی ہے اورکچھ لوگوں کی رائے دوسری طرف ہوسکتی ہے اور اس طرح ان لوگوں کوجن کی رائے عام انتخاب کے موقع پر نہ پیش کی جائے ِگلہ اور ِشکوہ پیدا ہو سکتاہے مگر بہر حال چونکہ عام طریق یہی ہے کہ اکثریت کی رائے کو پیش کیاجاتاہے اس لئے جماعت کی رائے وہی سمجھی جائے گی جو اکثریت کی رائے ہوگی۔ بے شک اکثریت کی رائے میں بھی نقص ہوسکتاہے مگر بہر حال اِس ناقص دنیا میںناقص قوانین میں سے جو زیادہ بہتر ہو اسی کو اختیار کیاجائے گا۔ پس قادیان سے بھی انتخاب کے موقع پر محدود آدمی شامل ہونے چاہئیں۔ مثلاً دارالرحمت والے ایک نمائندہ بھیج دیں‘ دارالانوار والے ایک نمائندہ بھیج دیں‘ اِسی طرح باقی محلوں والے ایک ایک نمائندہ بھیج دیں مگرعام ریلی کے سلسلہ میں قادیان والوں کو لازماًحاضر ہونا چاہئے اورجو باہر کی مجالس ہیں ان کے متعلق کوئی قانون مقرر کرلیاجائے مثلاً پچاس ممبروں پر وہ ایک نمائندہ بھیج دیں یا تیس ممبروں پر ایک نمائندہ بھیج دیں بلکہ ہوسکتا ہے آئندہ بڑھتے بڑھتے ہمیںفی ہزار ایک یا فی دس ہزار ایک نمائندہ لینا پڑے۔ مثلاً لاہور کسی وقت سارے کا سارا احمدی ہوجاتاہے اور لاہور کی آبادی پانچ لاکھ ہے تواس میں سے اگر تین لاکھ، پندرہ سے چالیس سال عمر والے سمجھ لئے جائیںاور نصف تعداد عورتوں کی نکال دی جائے تو ڈیڑھ لاکھ آدمی رہ جائیں گے اب اگر ہم سَوسَوپر ایک نمائندہ لیں تو ڈیڑھ ہزار نمائندے بن جائیں گے اور اگر دس دس ہزار پرایک نمائندہ لیںتو پندرہ نمائندے آئیں گے اسی طرح اگر کسی وقت لاہور میںخدام کی اتنی کثرت ہوجائے کہ ان کا کوئی ایک اجتماع نہ ہوسکے تووہ ایسے موقع پر محلہ وار نمائندے بھیج سکتے ہیں مگر بہر حال ان کے ووٹ اُسی قدر سمجھے جانے چاہئیں جس قدر ان کے حلقہ کی جماعت کی تعداد ہو۔ پس ایک تومیں یہ ہدایت دیتاہوں۔ دوسرے ریلی کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ اِس میں قادیان کے سب لوگوں کو حاضر ہونا چاہئے مگر باہر سے صرف نمائندے بُلائے جائیں ہاں اگر کوئی شخص اپنے شوق سے آنا چاہے تواُس کے لئے شامل ہونے کا دروازہ ُکھلا رکھناچاہئے۔
اب مَیں خدام الاحمدیہ کے کام کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں میں نے کَل خدام الاحمدیہ کوکام کرتے دیکھا ہے اور مجھ پر یہ اثر ہے کہ اِس دفعہ اصول کو مدنظر رکھ کر کام کیاگیا ہے چنانچہ جب مشاہدہ ومعائنہ کامقابلہ ہورہا تھا تومیں نے دریافت کیا کہ تم کس طرح اِس کے متعلق فیصلہ کرو گے؟ اِس پر انہوں نے بتایا کہ ہم نے خود مشاہدہ ومعائنہ کرکے اِس کے بعض پوائنٹ مقرر کئے ہوئے ہیں جن کو دیکھ کرہم اِس بارہ میں آسانی سے فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اِسی طرح آواز کی بلندی کے مقابلہ میںایک ترتیب سے نشان لگائے گئے تھے اور اس میںتمام پہلوئوں کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ آواز کی صفائی کا بھی لحاظ رکھا گیا تھا اور آواز کے دُورتک پہنچنے کا بھی لحاظ رکھا گیا تھا۔ گویا جو پہلو ضروری ہیں اُن کو انہوں نے ملحوظ رکھا تھا ایک کمی ہے جو دُور کی جانی چاہئے۔ آئندہ ہر بڑی جماعت کو ہرعملی مقابلہ میںاپنے نمائندے بھیجنے کے لئے مجبور کرنا چاہئے تاکہ تربیت کی طرف مجالس کو زیادہ توجہ ہو میرے نزدیک تمام مشقوں میں سے ایک نہایت ہی اہم مشق جس سے دشمن کے مقابلے میں فائدہ اُٹھایا جاسکتاہے اور جس کی طرف ہماری جماعت کے ہر فرد کو توجہ کرنی چاہئے حواسِ خمسہ کو ترقی دینے کی کوشش ہے یہ ایک نہایت ہی اہم اور ضروری چیز ہے میںنے افسوس سے یہ امرسُنا ہے کہ اِس دفعہ وقت کی کمی کی وجہ سے اِس قسم کے مقابلے کم رکھے گئے ہیں درحقیقت یہ توازن کی غلطی تھی ورنہ اِن مقابلوں کے لئے زیادہ وقت مقرر کرنا چاہئے تھا مثلاً ناک کی َ ّحس ہے یہ ایک اعلیٰ درجہ کی َ ّحس ہے اور اِس سے بڑے بڑے کام لئے جا سکتے ہیں ناک کی ۔ َ ّحس اگر تیز ہو تو اس سے صرف خوشبو اور بدبو کا ہی احساس ترقی نہیں کرتا بلکہ یہ بھی بتایا جاسکتا ہے۔ کہ کس کس قوم میں کس کس قسم کی ُبوپائی جاتی ہے۔ وحشی اقوام میں یہ َ ّحس اتنی تیز ہوتی ہے کہ سونگھ کر بتا دیتی ہیں کہ یہاں سے فلاں قوم کا آدمی گزراہے۔ مختلف قوموں میںخاص خاص قسم کی ُبو پائی جاتی ہے مثلاً مجھ پر یہ اثر ہے کہ میں جتنے انگریزوں سے مِلا ہوں مجھے اُن سے ایک قسم کی مچھلی کی ُبوآئی ہے۔ اب اگرمیرا یہ اثر صحیح ہو اور ہماری ناک کی َ ّحس تیز ہو تو خواہ ہماری آنکھیں بند ہوں ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی انگریز کھڑا ہے یا اگر ہمارے قریب سے کوئی انگریز گزرے گا ہم فوراً پہچان جائیں گے کہ کوئی انگریز گزر رہا ہے۔ اِسی طرح افغانستان کے باشندوں میں مَیںنے محسوس کیا ہے کہ اُن سے اُس کھال کی سی جس پر برسات گزری ہو ُبو محسوس ہوتی ہے۔ اب اگر میرا یہ خیال صحیح ہو یا پچاس فیصدی ہی درست ہو تو کسی علاقہ میں سے گزرتے ہوئے اگر وہاں پٹھان ہوں گے ہم فوراً اپنی ناک کی َ ّحس سے پہچان لیں گے کہ یہاں پٹھان رہتے ہیں۔ فرض کرو پٹھا ن ہمارے دوست ہیں اور جنگ کے موقع پر ہمیں ان کی امداد کی ضرورت ہے تو ہم اپنی اس ناک کی َ ّحس سے کام لے کر فوراً اپنے دوستوں کو شنا خت کرلیں گے اور اُن کی مدد حاصل کرلیں گے اِس قسم کی ُبو کا احساس خصوصاً بندکمروں میںزیادہ ہوتاہے کیونکہ وہاں ُبو زیادہ دیر تک رہتی ہے بعض دفعہ ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعدبھی کسی کمرہ میں آئو اورتمہاری ناک کی َ ّحس تیز ہو تو تمہیں فوراً پتہ لگ جائے گا کہ اِس کمرہ میںکِس قسم کے لوگ ٹھہرے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے میرے کمرہ میں عِطر پڑا ہؤا ہوتاہے اور بعض دفعہ میری بیویاں وہاں آکر عطر لگاتی ہیں تو بعض دفعہ گھنٹوں بعدجب میں اُس کمرہ میں آتاہوں تو فوراً پہچان لیتاہوں کہ کسی نے یہاں فلاں عطر لگایا ہے حالانکہ وہ عطر گھنٹوں پہلے لگایا گیاہوتا ہے۔ اِسی طرح ہندوستانیوں اور انگریزوں کے عطر کی خوشبو میں فرق ہوتاہے ہندوستانی عام طور پر دیسی عطر لگاتے ہیںمگر انگریز ہمیشہ الکوہل سینٹس لگاتے ہیں بعض ہندوستانی بھی اگرچہ اب سینٹس لگانے لگ گئے ہیں مگر انگریز کبھی دیسی عطرنہیں لگاتے اب اگر کہیں سے ہمیں دیسی چنبیلی کے عطر کی خوشبو آئے یا دیسی گلاب کے عطر کی خوشبو آئے توہم فوراً فیصلہ کرسکتے ہیں کہ یہاں سے کوئی ہندوستانی گزرا ہے اسی طرح اور بہت سی معلومات خوشبوکے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہیںاور بعض لوگ تواس َ ّحس کو ایسا تیز کر لیتے ہیں کہ حیرت آتی ہے۔ ولایت میںجو خوشبو کے کارخانے ہیں اُن کا دارومدار ہی ایسے لوگوں پر ہوتاہے چنانچہ بعض کارخانوں والے ہزاروں روپیہ ماہوار تنخواہ دے کر ایسے لوگوں کو ملازم رکھتے ہیں جو خوشبو سُونگھ کر بتادیتے ہیں کہ اِس میں فلاںفلاں چیزیں پڑی ہیںاور اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ کسی ایک کارخانے کی خوشبو مشہور ہوجاتی ہے اب دوسرے لوگ چاہتے ہیں کہ اس کی نقل کریںاور ویسی ہی خوشبو خودبھی تیار کریں اِس غرض کے لئے وہ ماہرین کو ملازم رکھتے ہیں۔ وہ لوگ ان خوشبوئوں کو سُونگھ کرجن کی نقل تیار کرنی ہو بتا دیتے ہیں کہ اِس میں فلاں فلاں چیزیں پڑی ہیں اس میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں مگر بہر حال انہیں خوشبو کی بنیادی اشیاء معلوم ہوجاتی ہیں اور آہستہ آہستہ وہ اسی بنیاد پر خود بھی ویسی ہی خوشبو تیارکرلیتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگوں کی مزے کی َ ّحس اتنی تیز ہوتی ہے کہ حیرت آتی ہے اور یہ َ ّحس بھی بہت حد تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ کئی لوگ ایسے موجود ہیں جو دوائیاں چکھ کر بتادیتے ہیں کہ اِس میںفلاں فلاں دوائیاں پڑی ہیں۔ قصہ مشہور ہے کہ ایک طبیب کی کسی دوائی کا بہت شُہرہ ہوگیا مگروہ اس دوائی کا نسخہ کسی کو نہیںبتاتا تھا اُسی زمانہ میں ایک اور مشہور طبیب تھا جس کی مزے کی َ ّحس بہت تیز تھی اور وہ چکھ کر بتا سکتا تھا کہ اس میں فلاں فلاں دوائیاں پڑی ہوئی ہیں مگر اُس طبیب کو وہ دوائی ملتی نہیںتھی۔ جو مریض طبیب کے پاس آتا اُسے وہ اپنے سامنے دوائی ِکھلادیتا تھا ساتھ دوائی نہیںدیتاتھا اِس خوف سے کہ کہیں یہ دوائی دوسرے طبیب کے پاس نہ پہنچ جائے اوروہ اِس کا نسخہ نہ معلوم کرلے۔ اس طبیب نے بڑی کوشش کی کہ کہیں سے دوائی مل جائے مگرنہ ملی آخر وہ مریض اور اندھا بن کر اُس طبیب کے پاس گیا اور اپنی شکل میںبھی تبدیلی کرلی سر پر ایک بڑا سا کپڑا لپیٹ لیااور اندھا اور مریض بن کر اُس کے پاس پہنچا اور اپنے مرض کی علامتیں وہی بتائیں جن پر وہ دوائی استعمال کی جاتی تھی نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ دھوکے میں آگیا اور اُس نے ایک گولی اُسے دے دی اُس نے وہیں گولی اپنے منہ میںڈال لی اور منہ میں ڈالتے ہی دوائوں کے نام ِگننے شروع کردیئے یہاں تک کہ وہ ننانوے نام ِگن کر گیا جب ننانوے نام ِگن چکا تواُس کا سانس ُٹوٹ گیا۔ طبیب کہنے لگا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہ انہیں سویں دواکا پتہ نہیں لگا اس نسخہ میںسَو دوائیں پڑتی تھیں ننانوے تم نے ِگن لیں سویں کا تمہیں پتہ نہیں لگ سکا اس لئے اب تم یہ نسخہ مکمل نہیںکرسکوگے۔ توایسے لوگ بھی ہیں جن کے چکھنے کی َ ّحس بہت تیز ہوتی ہے۔
ولایت میںشراب کے جو کارخانے ہیں اُن میںبعض دفعہ پانچ پانچ ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پر ایسے لوگ ملازم رکھے جاتے ہیںجو شراب کو چکھ کر یہ بتادیتے ہیں کہ یہ شراب فلاں سن کی شراب کے مطابق ہے اور فلاں شراب کا ذائقہ فلاں سن کی شراب سے ملتاہے ہمارے ملک کی شراب تو لسّی، دودھ اور شربت ہے اور ہمارے ملک نے اس میں کوئی خاص ترقی نہیں کی۔ چاہے سَوسال کے ُپرانے برتن میں ہی لسّی کیوں نہ ہو وہ اُسے پی جاتے ہیں اور انہیں ذائقہ میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتامگر ولایت میں پانچ پانچ ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پرایسے لوگ ملازم رکھے جاتے ہیں جو شرابوں کو چکھتے رہتے ہیںاور چکھ کر بتادیتے ہیں کہ اِس شراب کامزہ فلاں سن کی شراب سے ملتاہے اور اِس شراب کا مزہ فلاں سن کی شراب سے ملتاہے بلکہ پانچ پانچ ہزار روپیہ تنخواہ کا بھی میں نے کم حساب لگایا ہے میں نے پانچ پانچ ہزار پونڈ سالانہ انکی تنخواہ پڑھی ہے اور اِس لحاظ سے انہیں پانچ ہزار روپیہ سے زیادہ ماہوار ملتاہے۔ ان کاکام یہی ہوتاہے کہ سارا دن بیٹھے ہوئے شرابیں چکھتے رہتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس کا انگور فلاں سن کے انگور سے مشابہہ ہے اوریہ شراب فلاں سن کی شراب کے مطابق ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک شراب توپانچ روپے بوتل کے حساب سے فرورخت ہوتی ہے اورایک ویسی ہی شراب صرف ذائقہ کے تغیر کی وجہ سے دوسَوروپے بوتل کے حساب سے فروخت ہوتی ہے غرض چکھنے کی َ ّحس کو ترقی دے کر ایسے ایسے کام لئے جاتے ہیں کہ حیرت آتی ہے۔ اِسی طرح کانوں کی َ ّحس ہے اِس کو بڑھا کر بھی حیرت انگیز کام لئے جاسکتے ہیں امریکہ کے ریڈ اِنڈینزنے اِس میں اتنی ترقی کی ہے کہ وہ زمین پرکان لگاکر یہ بتادیتے ہیں کہ اتنے سوار مثلاً دوچار میل کے فاصلے پرسے آرہے ہیں۔ اس کاراز یہ ہے کہ گھوڑوں کے چلنے کی وجہ سے زمین میں حرکت پیدا ہوتی ہے وہ حرکت دوسرے کو معلوم بھی نہیں ہوتی مگرانہوں نے کانوں کی َ ّحس بڑھا کر اِتنی مشق کی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ فوراً زمین پرکان لگاکر اس حرکت کو معلوم کرلیتے ہیں اور میلوں میل سے سواروں کے آنے کی آواز سُن لیتے ہیں زیادہ سوار ہوں توپانچ پانچ میل سے آواز سُن لیتے ہیں ایک دوہوں تو نسبتاً کم فاصلہ سے اوراگر کوئی پیدل آرہا ہو توبھی پچاس سَوگزکے فاصلے سے ہی اُس کے آنے کی آہٹ معلوم کرلیتے ہیں۔
اس کے بعد میں یہ نصیحت کرنا چاہتاہوں کہ یہ باتیں توتمہاری کھیلوں سے تعلق رکھتی ہیں اوراِن کا فائدہ تمہارے جسم کو پہنچ سکتاہے لیکن تمہارا کام صرف اِن کھیلوں کی طرف متوجہ ہونا اور اپنے جسموں کو درست کرنا ہی نہیں بلکہ تمہارا حقیقی کام اخلاقی اور علمی رنگ میں ترقی کرناہے۔ مَیں نے اپنے خطبات میں باربار اس طرف توجہ دلائی ہے اور اِس وقت بھی مَیں ایک ٹریکٹ میں جو دفتر خدام الاحمدیہ نے شائع کیا ہے یہی پڑھ رہا تھاکہ خدام الاحمدیہ کو مذہبی، اخلاقی اور عملی رنگ میںکام کرنے کے لئے منظم کیا گیا ہے پس انہیں اپنے اس کام کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے انہیں چاہئے تھا کہ اِس موقع پر ان کاموں کے بھی مقابلے رکھتے جب خدام الاحمدیہ کا اصل کام یہ ہے توکوئی وجہ نہیں کہ تعلیمی اور اخلاقی اور مذہبی رنگ کے مقابلے ایسے اجتماع میں نہ رکھے جائیں میرے نزدیک آئندہ ایسے موقع پر بعض لیکچر ایسے رکھنے چاہئیں جن میں موٹے موٹے مسائل کے متعلق اسلام اور احمدیت کی تعلیم کوبیان کردیاجائے۔ اِسی طرح بعض امتحان مقرر کرنے چاہئیںاور دیکھنا چاہئے کہ خدام الاحمدیہ کو احمدیت اور اسلام سے تعلق رکھنے والے مسائل سے کس حد تک واقفیت ہے۔ جس طرح آئی۔ سی۔ ایس میں ایک جنرل نالج کا پرچہ ہوتا ہے اِسی طرح احمدیت کے متعلق ایک جنرل نالج کا پرچہ رکھنا چاہئے اور مختلف سوالات نوجوانوں سے دریافت کرنے چاہئیں مثلاً یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتنی عمر تھی؟ یا آپ کے کسی الہام کو پیش کرکے پوچھ لیا جائے کہ اِس کا کیا مفہوم ہے؟ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب کے متعلق دریافت کیاجائے کہ وہ کس موضوع پر ہے ؟یایہ دریافت کیاجائے کہ تمہارے نزدیک وفاتِ مسیح کی سب سے بڑی دلیل کیاہے؟ یا نبوت کی کیاتعریف ہے؟ یا ہم رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کِس قسم کی نبوت کوجائز سمجھتے ہیں اور کس قسم کی نبوت کو جائز نہیں سمجھتے؟ یہ اور اِسی قسم کے اور سوالات نوجوانوں سے دریافت کئے جائیں اور اِس طرح پتہ لگایاجائے کہ انہیں مذہبی مسائل سے کہاں تک واقفیت ہے۔ اِس طرح علمی مذاق بھی ترقی کرے گا اور جو لوگ ُسست ہونگے وہ بھی چُست ہوجائیں گے۔ اسی طرح اخلاق کے متعلق مختلف قسم کے سوالات دریافت کرنے چاہئیں۔ مثلاًیہ اگرتم کو کوئی شخص گالی دے تو تم کیاکروگے؟ یااگرتم کو کوئی شخص مارنے لگ جائے تو تم کس حد تک مار کھائو گے اور کس حد تک اس کا مقابلہ کروگے؟ اِسی طرح یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر تم دُشمن کا مقابلہ کرو تو کس حد تک اُس کا مقابلہ کرنا شریعت کے مطابق ہوگا اور کیسا مقابلہ کرنا شریعت کے خلاف ہوگا؟ یا اگر کوئی شخص گالی دے تو کس حد تک صبر کروگے اور کس حد تک خاموش رہنا بے غیرتی بن جائے گا؟ پھر یہ کہ اگر تم گالی کا جواب دو توکس حد تک شریعت تمہیں جواب دینے کی اجازت دیتی ہے اور کس حد تک نہیں دیتی؟ ہمارے ملک میںعام طور پر چوہڑوں اورچماروں کی گالیاں ماںبہن کی ہوتی ہیں۔اب فرض کرو تمہارا ذہن کسی کی گالیاں سُن کر یہ فیصلہ کرتاہے کہ چُپ رہنا بے غیرتی ہے مجھے اِن گالیوںکا جواب دینا چاہئے تو ایسے موقع پر بے شک شریعت یہ کہے گی کہ اگر تم جواب دینا چاہتے ہو تو دو مگرشریعت اِس بات کو جائز قرار نہیں دیگی کہ تم بھی اُس کے جواب میں ماں بہن کی گالیاںدینے لگ جائو۔ یہ تو تم دوسرے کو کہہ سکتے ہو کہ تم بڑے کمینے اور بد اخلاق ہو تم نے بہت بڑا ظلم کیا جو ایسی گندی گالیاں دیںمگر شریعت تمہیں اِس بات کی اجازت نہیں دیگی کہ جس طرح اُس نے ماں بہن کی گالیاںدیں ہیںاِسی طرح تم بھی ماں بہن کی گالیاں دینی شروع کردو۔ پس نوجوانوں سے دریافت کرنا چاہئے کہ جب کوئی شخص تمہیں گالیاں دے تو کس حد تک شریعت تمہیں اس کے جواب کی اجازت دیتی ہے اور کس حد تک نہیںدیتی؟ اِن سوالات کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس طرح جماعت کے نوجوانوںکے متعلق ہمیں یہ علم حاصل ہوتا رہے گا کہ وہ اسلامی مسائل کو کس حد تک سمجھتے ہیں اور خوداِن کے دلوںمیں یہ احساس پیدا ہوگا کہ انہیںہر کام کے کرتے وقت اسلامی شریعت پر عمل کرنا چاہئے اور اسے کسی حالت میں بھی نظر انداز نہیںکرنا چاہئے۔
پس یہ حصے بھی ریلی میںشامل ہونے چاہئیں اور میرے نزدیک اگران پر زور دیاجائے تو یہ حصے بھی ایسے ہی دلچسپ بن جائیں گے جیسے کھیلیںدلچسپ ہوتی ہیں۔ ایسا امتحان اگر توجہ کی جائے انسانی زندگی میں حرکت، دلچسپی اور سرور پیداکردیتاہے۔ امریکہ میںایک دفعہ حکومت نے ، ُجوئے کے خلاف قانون جاری کردیا۔ پولیس چلتی گاڑیوں میں ُگھس جاتی اور جب لوگوں کو ُجؤا کھیلتے دیکھتی تو انہیں فوراً گرفتار کر لیتی جب لوگوں نے دیکھا کہ اُن کی دلچسپی کا یہ سامان جاتا رہاہے توانہوں نے اپنی دلچسپی کے لئے ایک اور راہ نکال لی۔ چنانچہ ایک اخبار نے لکھا کہ آخر لوگوںنے اس قانون کا توڑ سوچ ہی لیا اور وہ اس طرح کہ جب انہوں نے دیکھا کہ پولیس ُجؤا وغیرہ نہیںکھیلنے دیتی توایک شخص نے ایک دن مصری کی ایک ڈلی نکال کر سامنے رکھ دی اور دوسرے کو کہا کہ وہ بھی مصری کی ایک ڈلی نکال کر رکھ دے او رپھر فیصلہ یہ کیا کہ جس کی ڈلی پر سب سے پہلے مکھی بیٹھے گی وہ جیت جائے گا اور اسے دوسرا شخص اتنے ڈالر انعام دے گا۔ غرض اس طرح انہوں نے کھیل کھیلنا شروع کردیا کسی کو احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ ُجؤاکھیلاجارہا ہے وہ یہی دیکھتا کہ مصری کی دوڈلیاں پڑی ہوئی ہیں مگر درحقیقت ان مصری کی ڈلیوں سے ہی ُجؤاکھیلا جارہا ہوتاتھا مگرکسی کو پتہ نہیں لگتا تھا وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اگر کبھی شور پیدا ہؤا توہم آرام سے مصری کی ڈلی اُٹھائیں گے اور منہ میں ڈال لیں گے ُجوئے کا کوئی نشان باقی نہیں رہے گا لیکن اِس معمولی سی بات نے ان میں غیر معمولی دلچسپی پیداکردی کیونکہ اب خالی مصری کی ڈلی کا سوال نہیںرہا تھا بلکہ اس کے ساتھ ُجوئے کو لگادیا گیا تھا او ر چانس اور عقل یہی دومقابلے انسانی زندگی کو دلچسپ بناتے ہیں۔ اب دیکھ لو وہی مکھی جو پہلے گزرتی تو کسی کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا اس مقابلے کے بعد کیسی دلچسپ چیز بن گئی اور کس طرح ہر شخص بے تابی اور اضطراب کے ساتھ مکھی کا انتظار کرتا ہوگا کبھی کہتاہوگا لو مکھی قریب آگئی لو اب تو بیٹھنے ہی لگی اور کبھی افسوس کے ساتھ کہتاہوگا مکھی آئی تو سہی مگرچلی گئی گویا یہ بھی ویسا ہی دلچسپ مقابلہ ہو گیا جیسے ُکشتیوں کا مقابلہ ہوتا ہے کیونکہ دلچسپی خون کے جوش سے پیدا ہوتی ہے اور جس مقابلہ میں انسانی خون کے اندر جوش پیدا ہوجائے اُسی مقابلہ میں انسان کو لذّت آنی شروع ہوجاتی ہے۔ پس بے شک یہ سوالات علمی مذاق کے ہیںمگر اس علمی مذاق کوبھی دلچسپ بنایا جاسکتاہے صرف عقل اور سمجھ سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ عقل اورسمجھ سے کام لیتے ہیںوہ ہر کام میں دلچسپی پیدا کرلیتے ہیںاور جو عقل سے کام نہیں لیتے انہیںبڑے بڑے دلچسپ کاموںمیں بھی کوئی لذّت محسوس نہیںہوتی۔ دنیا میںہم دیکھتے ہیں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر نماز کی ادائیگی بہت ہی گِراں گزرتی ہے اور وہ بڑی مشکل سے نماز اداکرتے ہیں لیکن دوسری طرف ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جنہیں نماز میں ایسی لذّت آتی ہے کہ اس سے بڑھ کر انہیں اور کسی کام میںلذّت نہیں آتی۔ وہ نماز کو ایسا ہی سمجھتے ہیں جیسے کوئی َتیر انداز نشانہ پر َتیر لگانے کی کوشش کررہا ہو جس طرح َتیرانداز کا جب کوئی ۔َتیر نشانہ پر جا لگتا ہے تووہ خوشی سے چِلّا اُٹھتا ہے کہ لو وہ َتیر نشانہ پر جا لگا۔اسی طرح نمازی اپنی ہر نماز پر خوش ہوتا اور فرطِ مسرت سے بے اختیار کہہ اُٹھتاہے میرا َتیر اپنے نشانہ پر جالگا اسی طرح سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمُ جو اُس کی زبان سے نکلتا ہے اِسے وہ صرف لفظوں کا مجموعہ نہیں سمجھتا بلکہ اس کے دل اور دماغ میں یہ خیال موجود ہوتاہے کہ یہ وہ خط ہے جومیں اپنے خدا کے پاس بھیج رہا ہوں پس ہر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمُ اُسے مزیدار لگتا ہے، ہر رکوع میںاسے مزہ آتاہے، ہر سجدہ میں اسے لذّت آتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے خدا کو بُلاوا بھیج رہا ہوں۔ اُس کا سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰیکہنا کیا ہوتا ہے؟ ایک خط ہوتا ہے ایک ِچٹھی ہوتی ہے جو وہ اپنے خدا کے پاس بھیجتا ہے اوراس سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اس کی مدد کے لئے آئے جیسے مچھلیاں پکڑنے والے دریا میں ُکنڈیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیںاور اگر ذرا بھی رسّی ِہلتی ہے تواُن کا دل دھڑکنے لگ جاتاہے کہ آگئی مچھلی۔ اسی طرح جب ایک مؤمن تسبیح کرتا ہے تو اُس کا دل دھڑکنے لگ جاتا ہے اوروہ خیال کرتاہے کہ اس کے نتیجہ میں میرا ربّ مجھ سے ملنے کے لئے آجائے گا۔ غرض انسان اگرچاہے تو اپنے ہرکام کو دلچسپ بنا سکتاہے اور درحقیقت یہ صرف خیا لات بدلنے کی بات ہوتی ہے۔ اگر ہم ضرورت اور اہمیت کو سمجھ لیں توہر چیز کو دلچسپ بنا سکتے ہیں پس ِعلمی اور اخلاقی مقابلے بھی دلچسپ بنائے جاسکتے ہیںاورمیں خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ وہ ایسے اجتماع کے موقع پر اِس قسم کے مقابلے ضرور رکھا کریں۔ اسی طرح ہر سال اِس قسم کے سوالات بھی کرنے چاہئیں کہ بتائو اِس سال قرآن کریم کی سورتیں کس کس نے حفظ کی ہیںاور کتنی حفظ کی ہیں؟ پھر جو شخص سب سے زیادہ قرآن کریم حفظ کرنے والا ثابت ہو اُسے انعام دیا جائے۔ اسی طرح احادیث کے متعلق سوال کیا جائے کہ اس سال کتنی احادیث حفظ کی گئی ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کے متعلق سوال کیاجائے کہ وہ کتنی پڑھی گئی ہیں؟ اس طرح نوجوانوں میںعلمی مذاق ترقی کرے گااور ہر سال ان کو یہ تحریک ہوتی چلی جائے گی کہ وہ مذہبی اور اخلاقی امور کی طرف توجہ کریں نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کا دین بھی ترقی کرے گا، تبلیغ بھی ترقی کرے گی اور اسلامی مسائل کی حقیقت بھی ان پر زیادہ واضح ہوجائے گی۔ اِسی طرح قرآن کریم کے ترجمہ کے متعلق ہر سال سوال کرنا چاہئے کہ خدام میں سے کتنے ہیں جنہیں سارے قرآن کریم کا ترجمہ آتاہے؟ فرض کرو اِس وقت مقامی اور بیرونی خدام آٹھ َنو سَو کے قریب ہیں توان سب سے دریافت کیاجاسکتاہے کہ اِن میں کتنے ہیں جنہیں سارے قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے بلکہ یہ سوال میں اِسی وقت کرلیتا ہوں تاکہ معلوم ہوکہ کتنے نوجوان سارے قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں (اس کے بعد حضور نے تمام خدام سے فرمایا کہ قادیان کے رہنے والوںمیں سے جو نوجوان سارے قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہوں وہ کھڑے ہوجائیں اِس پر ۱۵۲نوجوان کھڑے ہوئے۔ پھر حضور نے فرمایا بیرونی خدام میںسے جن کو سارے قرآن کریم کا ترجمہ آتاہو وہ کھڑے ہوجائیں اِس پر صرف ۳۲ نوجوان کھڑے ہوئے۔ سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا۔)
قادیان کے خدام میںسے ۱۵۲نوجوان ایسے ہیںجنہیںسارا قرآن شریف باترجمہ آتاہے اور بیرونی خدام میں سے صرف ۳۲۔ایسے ہیں جنہوں نے سارا قرآن شریف پڑھا ہؤا ہے دیکھو یہ ہمارے لئے کیسی آنکھیں کھولنے والی بات ہے اور کس طرح یہ افسوسناک حقیقت ہم پر روشن ہوئی ہے کہ ہم میں سے بہت سے تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی قرآن شریف اچھی طرح نہیں پڑھا۔ اب وہ نوجوان جنہوں نے پندرہ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا ہؤا ہے کھڑے ہوجائیں وہ لوگ بھی دوبارہ کھڑے ہونے چاہئیں جنہوں نے سارا قرآن شریف پڑھا ہؤا ہے کیونکہ وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے پندرہ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا ہؤاہے۔(اس پر قادیان کے خدام میں سے ۲۴۹ اور بیرونی خدام میں سے چالیس کھڑے ہوئے حضور نے فرمایا ۔)
قادیان کے خدام میں سے ۲۴۹ ایسے ہیں جنہیں پندرہ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ آتاہے گویا سارا قرآن کریم پڑھنے والوں کے مقابلہ میں قریباً ایک سَو سے زیادہ ہیں اور بیرونی جماعتوں میں سے چالیس ایسے ہیں جنہیں پندرہ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے گویا ساراقرآن شریف پڑھے ہوئے نوجوانوں کے مقابلہ میں صرف آٹھ زیادہ ہیں۔ میںقادیان کے ان ۹۷ اور بیرونی مجالس کے آٹھ نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ خود ہی غور کریں کس طرح دروازے کے قریب پہنچ کر وہ اندر داخل ہونے سے محروم بیٹھے ہیں جب پندرہ سیپاروں سے زیادہ وہ قرآن شریف پڑھ چکے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ باقی قرآن شریف پڑھنے کی طرف بھی وہ توجہ نہ کریں۔ اب میرے پاس وقت نہیں ورنہ میں دریافت کرتاکہ دس سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ کتنے نوجوانوں کو آتاہے؟ اور پھر دریافت کرتا کہ پانچ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ کن کن کو آتا ہے؟ تاکہ اگلی دفعہ اندازہ کیا جاتا کہ پانچ سے دس اور دس سے پندرہ اور پندرہ سے بیس اور بیس سے تیس پارے کس نے پڑھ لئے ہیں بہرحال ہمیںقرآن شریف کے ترجمہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت میںکوئی ایک شخص بھی ایسا نہ رہے جسے قرآن کریم نہ آتاہو۔اگر ہم کبڈی کے مقابلے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، اگرہم دَوڑ کے مقابلہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تویہ کتنے افسوس کی بات ہوگی اگر ہم قرآن شریف کی تعلیم اور اس کے مطالب کو سمجھنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بعض چیزوں میں رشک جائز ہوتا ہے۲؎ اور انہی جائز باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دینی معاملات میں، نیکی اور تقویٰ کے امور میں اور اعمال صالحہ کی بجا آوری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔۳؎ میں امید کرتا ہوں آئندہ سال نوجوان زیادہ سے زیادہ اس قسم کے مقابلوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے اور جماعتیں اس امر کو مدنظر رکھیں گی کہ اُن میں سارا قرآن شریف باترجمہ جاننے والے زیادہ سے زیادہ لوگ موجود ہوں۔ ہم لوگوں کی سہولت کے لئے یہ تجویز کرسکتے ہیں کہ قادیان کے جو محلے ہیں اُن میں بعض معلّم مقرر کردیئے جائیںجو دومہینے کے اندر اندر لوگوں کوقرآن شریف کا ترجمہ پڑھا دیں۔ میںسمجھتا ہوں اگر ترجمہ والا قرآن شریف سامنے رکھ لیا جائے تو تعلیم یافتہ انسان آسانی سے نصف پارہ کے ترجمہ کو روزانہ سمجھ سکتا ہے۔ ابتداء میںیہ خیال کرنا کہ قرآن شریف کا ایک ایک لفظ آجائے صحیح نہیں ہوتا اور جو لوگ اِس رنگ میں کوشش کرتے ہیں وہ ابتدائی پاروں میں ہی رہ جاتے ہیںکیونکہ وہ چاہتے ہیں ان پر ساری آیات پوری طرح حل ہوجائیں اور چونکہ ساری آیات اُن پر حل نہیں ہوتیں اس لئے وہ آگے نہیں پڑھ سکتے۔ میںنے بتایا ہے کہ میں اِس غرض کے لئے بعض علماء مقرر کر سکتا ہوںجو مختلف محلوں میں دوماہ کے اندراندر قرآن شریف کا ترجمہ لوگوں کو پڑھادیں۔ اسی طرح بیرونی جماعتیں اگر چاہیں تواُن کی تعلیم کے لئے بھی بعض آدمی بھجوائے جاسکتے ہیں بشرطیکہ ان کی رہائش اور کھانے کا وہ انتظام کردیں۔ مگراِس قسم کے معلّم زیادہ نہیںمل سکتے دوچار ہی مل سکتے ہیں ان کے متعلق ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ انہیں دو ماہ کی تنخواہ تحریک جدید سے دلادی جائے اِس عرصہ میںوہ بیرونی جماعتوں کو قرآن شریف کا ترجمہ پڑھادیں گے اور پھر ہر سال اس تحریک کو جاری رکھاجائے گا تا کہ ہماری جماعت کے تمام افراد قرآن کریم کے ترجمہ اور اس کے مفہوم سے آشنا ہوجائیں۔
اس کے بعد میں خدام الاحمدیہ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتاہوں کہ خدام کی عمر ہی ایسی ہے جس میں مؤمن شکل اور مؤمن دل کا سوال پیدا ہوتاہے۔ دنیا میںکئی قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں بعض تو ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل بھی مؤمن ہوتی ہے اور دل بھی مؤمن ہوتاہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل تومؤمنوں والی ہوتی ہے مگر دل کافرہوتا ہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل تو کافروں والی ہوتی ہے مگر دل مؤمن ہوتاہے اور بعضوں کی شکل بھی کافروں والی ہوتی ہے اور دل بھی کافروں والا ہوتا ہے۔ گویا مؤمن دل اور کافر شکل، مؤمن شکل اور کافر دل اور مؤمن دل اور مؤمن شکل اور کافر دل اور کافر شکل یہ چار قسم کے لوگ دنیا میںپائے جاتے ہیں۔ جس کا دل بھی مؤمن ہے اور شکل بھی مؤمن ہے وہ بڑا مبارک انسان ہے کیونکہ اس کا ظاہر بھی اچھا ہے اور اس کا باطن بھی اچھا ہے ایسا شخص جب خداتعالیٰ کی طرف جاتاہے تو اللہ تعالیٰ اسے پہچان لیتاہے اور کہتا ہے یہ میرا بندہ ہے اور جب وہ بندوں کی طرف منہ کرتاہے تو بندے بھی کہتے ہیںیہ شخص خداتعالیٰ کے دین کا سپاہی ہے۔ اورجس کی شکل مؤمنوںوالی ہے مگر دل کافر ہے وہ جب دنیا کی طرف منہ کرتاہے تو لوگ کہتے ہیں یہ بھی اسلام کی شوکت کو بڑھانے کا موجب ہے مگر جب خداتعالیٰ کی طرف جاتاہے تو فرشتے اُس پر *** کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اسلام کا غدّار ہے اور جس کی شکل کافروںوالی ہے مگر دل مؤمن ہے اُسے جب مؤمن بندے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں یہ اسلام کی شوکت کو کم کرنے کا موجب ہے مگر جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جاتاہے تو اللہ تعالیٰ کہتاہے اِس بندے کا میرے ساتھ تعلق ہے مگروہ اس بات پر افسوس کرتاہے کہ یہ شخص اتنی دُور سے میرے ملنے کے لئے آیا لیکن دروازے پر آکر بیٹھ گیاہے ایک دو قدم اور اُٹھائے تو مجھ تک پہنچ سکتاہے مگروہ دو قدم نہیںاُٹھاتااور دروازے پر آکر بیٹھ جاتاہے۔ اِس کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی شخص ۱۷ سَو گز چل کر تو اپنے محبوب کے ملنے کے لئے چلا جائے مگر جب ساٹھ گز باقی رہ جائیں تو وہیں بیٹھ جائے ایسا شخص قریب پہنچ کر بھی خداتعالیٰ کے دیدار سے محروم رہتا ہے اور خدا تعالیٰ اُس کی حالت پر افسوس کرتا ہے کہ وہ مجھ سے ملنے کے لئے تو آیا مگر چند قدم نہ اُٹھانے کی وجہ سے پیچھے بیٹھ رہنے پر مجبور ہوگیا۔ پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل بھی کافروں والی ہوتی ہے اور دل بھی کافروں والا ہوتا ہے ایسے لوگوں سے کسی کو بھی دھوکا نہیں لگتا کیونکہ ان کا بھی ظاہر اور باطن یکساں ہوتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں عیسائیت نے اگر دلوں کو کافر نہیں بنایا تو اس نے انسانی چہروں کو ضرور کافر بنادیاہے اور بہت سے نوجوان اس مرض میں مبتلاء ہیں کہ وہ مغربی تہذیب اور مغربی تمدن کے دِلدادہ ہورہے ہیں۔ وہ اپنے سروں کے بال اپنی داڑھیوں اور اپنے لباس میں مغرب کی نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ان کی شکل کافروں والی بن جاتی ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ۴؎ جو شخص اپنی ظاہری شکل کسی اورقوم کی طرح رکھتا ہے وہ ہم میں سے نہیں یعنی جب ہم کسی کو دیکھیں گے کہ اُس کی شکل ہندئووں سے ملتی ہے یا عیسائیوں سے ملتی ہے تو ہمیں اُس پر اعتبار نہیںآئے گا اور ہم سمجھیں گے کہ یہ بھی اُنہی سے مِلا ہؤا ہے اور جب ہمیں اُس پر اعتبار نہیں آئے گا تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی ذمّہ واری کاکام اُس کے سپرد نہیںکیاجائے گااور اِس طرح وہ نیکی کے بہت سے کاموں سے محروم ہوجائے گا۔ پس میں نوجوانوں سے کہتاہوں کہ وہ مؤمن دل اور مؤمن شکل بنائیں اور مغربیت کی تقلید کو چھوڑ دیں۔ میں نے پچھلے سال بھی بتایا تھا کہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم مغربی تہذیب کو تباہ کردو اور اس کی بجائے اسلام کی تعلیم، اسلام کے اخلاق، اسلام کی تہذیب اور اسلام کے تمدن کو قائم کرو۔بے شک تم اسلامی تمدن تبلیغ کے ذریعہ قائم کرو گے تلوار کے ذریعہ نہیں مگر تبلیغ کے لئے بھی تویہ بات ضروری ہے کہ ّمبلغ کی شکل مؤمنانہ ہو۔ پس مَیں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتاہوں کہ اُن کی ظاہری شکل اسلامی شعار کے مطابق ہونی چاہئے اور انہیں اپنی داڑھیوں میں، بالوں میں اور لباس میں سادگی اختیار کرنی چاہئے اسلام تمہیں صاف اور نظیف لباس پہننے سے نہیں روکتا بلکہ وہ خود حکم دیتا ہے کہ تم ظاہر صفائی کو ملحوظ رکھو اور گندگی کے قریب بھی نہ جائو مگر لباس میں تکلّف اختیار کرنا منع ہے۔ اسی طرح تھوڑی دیر کے بعد کوٹ کے کالر کو دیکھنا کہ اُس پر گَرد تونہیں پڑگئی یہ ایک لغوبات ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میںبعض لوگ اچھے اچھے کپڑے لاتے تھے اور آپ ان کپڑوں کو استعمال بھی کرتے تھے مگر کبھی لباس کی طرف ایسی توجہ نہیں فرماتے تھے کہ ہر وقت برش کروا رہے ہوں اور دل میںیہ خیال ہو کہ لباس پر کہیں گَرد نہ پڑ جائے برش کروانا منع نہیں مگر اس پر زیادہ زور دینا اور اپنے وقت کا بیشتر حصہ اس قسم کی باتوں پر َصرف کردینا پسندیدہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ میں نے خود کبھی کوٹ پر برش نہیں کروایا نہ میرے پاس اتنا وقت ہوتاہے اور نہ مجھے اِس بات کی کبھی پروا ہوئی ہے ممکن ہے میں نے چارکوٹ پھاڑے ہوں توان میں سے ایک کو کبھی ایک یا دودفعہ برش کیا ہو۔ بعض لوگ اعتراض بھی کرتے ہیں مگر میں یہی کہا کرتاہوں کہ میرے پاس ان باتوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے وقت نہیںآپ کو اگر بُرا لگتاہے تو بے شک لگے۔ اِسی طرح کو ٹ کے گریبان پر گردن کے قریب بعض دفعہ میل جم جاتی ہے مگر میرے نزدیک وہ میل اتنی اہم نہیں ہوتی جتنا میرا وقت قیمتی ہوتاہے ہاں اگر کوئی شخص اُس میل کو دور کردے یا کوٹ پر برش کرلیا کرے تو یہ منع نہیںہم جس چیز سے منع کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان ظاہر ی باتوں کی طرف اتنی توجہ کی جائے کہ یہ خیال کرلیا جائے اگر ایسا نہ ہؤا تو ہماری ہتک ہوجائے گی۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ دعوت کے موقع پر رونے لگ جاتے ہیں کہ ہمارے پاس فلاں قسم کا کوٹ نہیں، فلاں قسم کی پگڑی نہیں اس کے بغیر ہم دعوت میں کس طرح شامل ہوں۔ حالانکہ انسان کے پاس جس قسم کا لباس ہو اُسی قسم کے لباس میں اُسے دوسروں سے ملنے کے لئے چلے جانا چاہئے۔ اصل چیز توننگ ڈھانکنا ہے جب ننگ ڈھانکنے کے لئے لباس موجود ہے اور اس کے باوجود کوئی شخص کسی شخص کی ملاقات سے اِس لئے محروم ہوجاتاہے کہ کہتاہے میرے پاس فلاں قسم کا کوٹ نہیں یا فلا ں قسم کا ُکرتہ نہیں تو یہ دین نہیں بلکہ دنیا ہے۔ اسی طرح اگرکسی کے پاس ٹوپی ہو تو اس کے لئے منا سب یہی ہے کہ وہ ٹوپی اپنے سر پر رکھ لے لیکن اگر ٹوپی اُس کے پاس موجود نہیں تووہ ننگے سر ہی دوسرے کے ملنے کے لئے جاسکتاہے اگراس وقت وہ محض اس لئے کسی کو ملنے سے ہچکچاتا ہے کہ ٹوپی اس کے پاس موجود نہیں تو وہ بھی تکلّف سے کام لینے والا سمجھا جائے گا۔ مجھ سے ایک دفعہ احمدیہ ہوسٹل کے سپرنٹنڈنٹ صاحب نے دریافت کیا کہ بعض لڑکے ننگے سر اِدھر اُدھر چلے جاتے ہیں اور ٹوپی سر پر نہیں رکھتے اس بارہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا ٹوپی کے بغیر کہیں جانا اسلام کے خلاف نہیں لیکن یہ اسلامی تہذیب کے خلاف ضرور ہے انہیں چاہئے کہ وہ بِلاوجہ ایسا نہ کیا کریں۔ اگران کے پاس ٹوپی ہو تو سر پر ٹوپی رکھ لیا کریں ہاں اگر ٹوپی نہ ہو تو ننگے سر بھی جا سکتے ہیں بہرحال مغربی تہذیب سے متأثر ہوکر ہمیں کوئی حرکت نہیں کرنی چاہئے۔ مغربی تہذیب یہ سکھاتی ہے کہ ٹوپی کے اُتارنے میں عظمت ہے چنانچہ عیسائیوں میںجب بادشاہ کے سامنے لوگ جاتے ہیں تو ٹوپی سرسے اُتارلیتے ہیں اِسی طرح عورت کے سامنے جائیں گے تو ٹوپی اُتارلیں گے لیکن اسلامی تہذیب یہ ہے کہ ٹوپی پہننی چاہئے۔ یورپین تہذیب یہ کہتی ہے کہ عورت اپنے سر کو ننگا رکھے لیکن اسلامی تہذیب یہ سکھاتی ہے کہ عورت اپنے سر کو ڈھانک کر رکھے چنانچہ فقہاء نے اِس بات پر بحثیں کی ہیں اور انہوں نے لکھا ہے کہ نماز میں عورت کے سر کے بال ننگے ہوں تو اُس کی نماز نہیں ہوتی پس میں نے انہیں کہا کہ آپ لڑکوں کو یہ بتائیںکہ اسلامی شعار ٹوپی پہننے میں ہے ٹوپی اُتارنے میں نہیں۔ہاں اگر کسی کے پاس ٹوپی نہ ہو تو وہ ننگے سر بھی مسجد میں نماز کے لئے جا سکتاہے۔ جس طرح یہ مغربیت ہو گی کہ کسی کے پاس ٹوپی ہو اور وہ پھر بھی اُسے نہ پہننے اور ہر وقت بالوں کی مانگ نکالنے، تیل ملنے اور کنگھی کرنے میں ہی مصروف رہے اسی طرح اگر کسی کے پاس ٹوپی نہ ہو اور پھر بھی وہ مسجد میں نہ جائے یا کوئی اور کام کرنے سے ہچکچائے تو یہ بھی اسلام کے خلاف حرکت ہوگی۔ جس طرح یہ اسلام کے خلاف ہے کہ کوئی شخص خاص قسم کی دھاری دارقمیص پہننا ہی ضروری سمجھے اور اگر اس رنگ کی قمیص نہ ملے توکوئی اور قمیص پہننا اپنے لئے ہتک کا موجب سمجھے اسی طرح یہ بھی اسلام کے خلاف ہوگا کہ کسی کے پاس قمیص توہو مگر وہ ننگے بدن ِپھرنے لگ جائے۔ اسلام جسمانی حُسن کی زیادہ نمائش پسند نہیں کرتا کیونکہ اس طرح کئی قسم کی بدیاں پیداہوجاتی ہیں لیکن اسلام یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی ننگے بدن ِپھرنے لگ جائے کیونکہ ننگے بدن ِپھرنا بھی کئی قسم کی بدیاں پیدا کرنے کا موجب بن جاتا ہے۔ جس طرح اسلام یہ نہیں کہ خاص قسم کی پتلون ہو اُس میں کسی سلوٹ کا نشان نہ ہو اور اُس پر خاص قسم کا کوٹ ہو اسی طرح اسلام یہ بھی پسند نہیںکرتا کہ اگر تمہارے پاس پاجامہ نہ ہو تو تم یہ کہو کہ ہم تہہ بند باندھ کر کہیں نہیںجاسکتے۔اگر تمہارے پاس پاجامہ ہو اور تم پاجامہ کی بجائے لنگوٹی باندھ کرکہو کہ یہ سادگی ہے تو یہ بھی اسلام کے خلاف ہوگا اور اگرتم خاص قسم کی پتلون اور کوٹ پر زور دو تویہ بھی اسلام کے خلاف ہوگا کیونکہ پاجامہ کے ہوتے ہوئے لنگوٹی باندھنا بھی ّتکلف ہے اور خاص قسم کے کوٹ اور پتلون پر زور دینا بھی ّتکلف ہے جس طرح یہ ّتکلف ہے کہ انسان شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر گھنٹہ گھنٹہ دودو گھنٹے اپنی آرائش میں مشغول رہے اور اُسترے اور صابن سے اپنی داڑھی کے بالوں کو اس طرح صاف کرے جس طرح ماں کے پیٹ سے اس کے کلے نکلے تھے اسی طرح یہ بھی ّتکلف ہے کہ انسان ننگے بدن پر بھبوت۵؎ مل کر بیٹھ جائے وہ بھی ّتکلف کرنے والا ہے جو کوٹ اور پتلون پہن کر اور داڑھی ُمنڈا کر اور بالوں میںمانگ نکال کر اور نکٹائی پہن کر باہر نکلتا ہے اور وہ بھی ّتکلف سے کام لیتاہے جو باوجود مقدرت کے ننگے بدن لنگوٹی یا تہہ بند باندھ کر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ پھر جس طرح وہ ّتکلف کرتاہے جو کوٹ اور پتلون پہن کر اس طرح چلتاہے کہ یہ معلوم نہیںہوتا کوئی آدمی چل رہاہے بلکہ یوں معلوم ہوتاہے کوئی مشین چل رہی ہے میں نے ہائوس آف لارڈز کے جلسوں میں انگریز نوابوں کو اس طرح چلتے دیکھا ہے مجھے تو اُن کو دیکھ کر ایسا ہی معلوم ہوتاتھا جیسے کوئی آدمی بیہوش ہو او ر اس کے ساتھ ڈنڈے باندھ کر کوئی َکل لگا دی گئی ہو بالکل معلوم ہی نہیں ہوتا تھا آدمی چل رہے ہیں ایسی آہستگی سے اور سوچ سوچ کر قدم اُٹھاتے ہیں کہ ان کا چلنا بھی ّتکلف معلوم ہوتاہے۔ اس کے مقابلہ میں جو شخص بِلاوجہ دَوڑ پڑتا ہے وہ بھی ّتکلف سے کام لیتاہے اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دَوڑ کر نماز باجماعت میں شامل ہونے سے منع فرمایا ہے۶؎ کیونکہ یہ انسانی وقار کے خلاف ہے اوراس میں ّتکلف پایا جاتاہے۔ اسلام ہم کو یہ سکھاتا ہے کہ ہم کسی بات میں غلوّ نہ کریں اور ہر بات میں نیچر اور فطرت کو ملحوظ رکھیں ہاںجس حد تک نیچر ہماری ترقی میں روک بنتا ہو اُس حد تک اس کو اخیتار کرنا ضروری نہیں مثلاً جسم کو ننگا رکھنا ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص کہے کہ جب ہر بات میں نیچرکوملحوظ رکھنا ضروری ہے تو جسم کو کپڑوں سے کیوں ڈھانکاجاتاہے ننگے بدن کیوں نہیں ِپھراجاتا سویہ بھی درست نہیں کیونکہ اِس حد تک نیچر کے پیچھے چلنا انسانی ترقی میں روک پیدا کرتا ہے۔ یہ نیچر کا فیصلہ بڑی عمر والوں کے متعلق نہیں بلکہ بچوں کے متعلق ہے۔اِسی طرح ناخن بڑھا لینا یہ بھی نیچر کا تتبّع نہیں بلکہ اپنے آپ کو وحشی ثابت کرنا ہے گو آج کل مغربیت کے اثر کے ماتحت فیشن ایبل عورتوں نے بھی ناخن بڑھانے شروع کردئیے ہیں۔یورپین عورتیں تواس میں اس قدر غلوّ سے کام لیتی ہیں کہ وہ آدھ آدھ انچ تک اپنے ناخن بڑھا لیتی ہیں اور پھر سارا دن ان ناخنوں سے میل نکالنے، اُنہیں صاف کرنے اور ان پر رنگ اور روغن کرنے میں صرف کردیتی ہیں مگر وہ اتنا بڑا گڑھا ہوتاہے کہ آسانی سے تمام میل نہیں نکل سکتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ تو وہ میل نکالتی ہیں اور کچھ اس میل کو چھپانے کے لئے اُس پر روغن کرتی ہیں او ر چونکہ ناخنوں کی میل کی وجہ سے پھر بھی کچھ نہ کچھ بد ُبوآتی ہے اس لئے پھر یوڈی کلون کا استعمال کرتی ہیں گویا وہ اپنی عمر کا ایک معتد بہ حصہ صرف ناخنوں کی صفائی پر ہی خرچ کردیتی ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کو برباد کردیتی ہیں اس قسم کی باتوں میں دوسروں کی تقلید اختیار کرنامحض مغربیت ہے۔ اور جب ہم کہتے ہیں مغربیت کے اثر سے متأثر مت ہو تواس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ اپنے اوقات کو ظاہری جسم کی صفائی اور اس کے بنائو سنگھار کے لئے اِس قدر خرچ نہ کرو کہ اور کاموں میں حرج واقعہ ہونے لگ جائے اور تم دینی کاموں میں حصہ لینے سے محروم رہ جائو۔ مرد کا حُسن اس کے بنائو سنگھار میں نہیں بلکہ اس کی طاقت اور کام میں ہے چنانچہ وہ لوگ جو دنیا میں کام کرنے والے ہیں عورتیں اُن سے شادی کرنے کے لئے بیتاب رہتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں ان کے ساتھ شادی کرنے میں ان کی عزّت ہے وہ ایسے مردسے وابستہ ہونا کبھی پسند نہیں کرتیں جو محض ظاہری بنائو سنگھار کی طرف توجہ رکھتا ہو اور کام کوئی نہ کرتاہو۔ حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بسا اوقات پورے کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے مگر پھر انہی حدیثوں میں ہمیں یہ نظارہ بھی نظر آتاہے کہ مجلس لگی ہوئی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وعظ فرمارہے ہیں کہ اتنے میں ایک عورت آتی ہے اور کہتی ہے کہ یَا۔رَسُوْلَ اللّٰہِ میں اپنا نفس آپ کو دیتی ہوں۷؎ غور کرو یہ کتنی بڑی قُربانی ہے میرے نزدیک اپنی زبان سے ایسی بات کہنا ایک عورت کے لئے ذبح ہوجانے کے مترادف ہے وہ آتی ہے اور اپنا نفس رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے لئے پیش کردیتی ہے حالانکہ اُسی مجلس میں اُس کا باپ موجود ہوتاہے اور اُس کا بھائی موجود ہوتاہے اور اُس کے اَور رشتہ دار موجود ہوتے ہیںآخر اِس کی کیا وجہ تھی؟ یہی وجہ تھی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ سُنتیں، آپؐ کی تقریریں سُنتیں، آپؐ کی خدمت اسلام کو دیکھتیں، آپؐ کے اُس سلوک کو دیکھتیں جو آپؐ بنی نوع انسان سے کیا کرتے تھے توان کی محبت جنون کی حد تک پہنچ جاتی اور وہ ہر چیز کو ۔ُبھول کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آکر کہہ دیتیں یَا۔رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ہم آپؐ سے شادی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک سے کس طرح شادی کرسکتے تھے آپؐ ان سے فرماتے کہ تم مجھے اپنے متعلق اختیار دے دو اور جب وہ اختیار دے دیتیں تو آپ ان کا کسی اور مناسب شخص سے نکاح کردیتے اس قسم کا کوئی ایک واقعہ نہیں ہؤا بلکہ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں کہ مجلس لگی ہوئی ہوتی اور عورت آکر کہہ دیتی کہ یَا۔رَسُوْلَ اللّٰہِ ! میں آپؐ سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوں قرآن نے بھی ان کی اس محبت کو بُرا نہیں سمجھا بلکہ فرمایا ہم تمہارے اِس فعل کو بُرا نہیں سمجھتے مگرایسا صرف ہمارے رسولؐ کو کہنا جائز ہے اور کسی کو تم ایسا نہیں کہہ سکتیں اور گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر ایسی عورتوں میں سے کسی ایک سے بھی شادی نہیں کی تاکہ لوگ اِس سے کوئی غلط نتیجہ نہ نکال لیں مگر قرآن نے اُن عورتوں کو بُرانہیں کہا بلکہ اِسے اُن کے روحانی عشق کا مظاہرہ قرار دیاہے۔ اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جو سارا دن بنائو سنگھار کرتے رہتے ہیں اُن کو ایسی فدائی عورتیں کہا ں ملتی ہیں۔ پس درحقیقت مرد کا حُسن اُس کے کام میں ہے ظاہری بنائو سنگھار میں نہیں۔ مشہور ہے کہ عبدالرحیم خان خاناں جو ایک بہت بڑے جرنیل اور بڑے بہادر اور سخی گزرے ہیں انہیں ایک عورت نے لکھا کہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ عبدالرحیم خان خاناں نے لکھا کہ مجھے آپ اس بات میں معذور سمجھیں۔ وہ عورت کسی اچھے خاندان میں سے تھی اس نے پھر لکھا کہ میں تو مررہی ہوں اور چاہتی ہوں کہ آپ سے ضرور شادی کروں انہوں نے پوچھا کہ آخر مجھ سے شادی کرنے سے تمہاری غرض کیا ہے؟ وہ کہنے لگی میں نے آپ کے اخلاق، آپ کی شجاعت اور آپ کی سخاوت کو دیکھا ہے اور میرا جی چاہتا ہے کہ میری بھی ایسی ہی اولاد ہو۔ عبدالرحیم خان خاناں لطیفہ سنج تھے انہوں نے اُسے لکھا بیگم! یہ تو ضروری نہیں کہ اگرتم مجھ سے شادی کرو تو میری اولاد ضرور میرے جیسی ہی پیدا ہو ہاں چونکہ تم کومیرے جیسی اولاد کی خواہش ہے اسلئے میں آج سے آپ کا بیٹا ہوں اور آپ میری ماں ہیں جو خدمت مَیں اپنی ماں کی کیا کرتا ہوں آئندہ وہی خدمت میںآپ کی کیا کرونگا۔ تودیکھو یہ اخلاق کا ہی نتیجہ تھا وہ چونکہ اچھے اخلاق والا انسان تھا اس لئے اُس نے قلوب پر اثر ڈال لیا تو ظاہری بنائو سنگھار کی بجائے اچھے اخلاق دلوں پر اثر کیا کرتے ہیں اور اگر جسمانی لحاظ سے دیکھو تو پھر بھی جو لوگ مضبوط جسم رکھنے والے اور اچھے کام کرنے والے ہوں اُن ہی کی زیادہ محبت قلوب میںپیدا ہوتی ہے اور محبت بڑی پاکیزہ اور ہر قسم کی گندگی سے ّمنزہ ہوتی ہے مگرجو شخص اپنا وقت چھوٹی چھوٹی باتوں میںضائع کردیتاہے وہ نیکی کے بڑے بڑے کاموں سے محروم رہ جاتاہے۔ پس مَیں خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتاہوں کہ وہ اپنے کاموں کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کریں اور اپنے اعمال اسلام کی تعلیم کے مطابق بنائیں۔ چونکہ اب تین بجے کی گاڑی پر خدام نے واپس جانا ہے اسلئے میں اپنی تقریر ختم کرتاہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتاہوں کہ اگلے سال خدام الاحمدیہ کو وہ اس سے بھی اچھا اور بہتر کام کرنے کی توفیق عطاکرے اَللّٰہُمَّ اٰمِیْنَ۔
(الفضل ۸ نومبر ۱۹۴۲ء)
۱؎
بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْـلًا
۲؎
بخاری کتاب فضائل القرآن باب اغتباط صاحب الْقُرْآن
۳؎
وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ (البقرۃ:۱۴۷)
۴؎
ابو داؤد کتاب اللباس باب فی لُبْسِ الشُّھْرَۃِ
۵؎
بھبوت: وہ راکھ جو سادھو سنیاسی اپنے بدن پر ملتے ہیں۔
۶؎
بخاری کتاب الاذان باب لَایَسْعی اِلَی الصَّلٰوۃِ (الخ)
۷؎
بخاری کتاب النکاح باب تَزْویج الْمُعْسرِ








افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۲ء





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۲ء
(تقریر فرمودہ ۲۵ دسمبر۱۹۴۲ء بر موقع جلسہ سالانہ)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
مَیںاللہ تعالیٰ کا شکریہ ادانہیںکرسکتا اِس امر پر کہ اُس نے باوجود ہماری کوششوں کی کوتاہی اور ہماری تدابیر کی خامیوں کے جماعت احمدیہ کی روز افزوںترقی کا سلسلہ اِس سال بھی اپنے فضل وکرم سے جاری رکھا اور زندہ جماعتوں کی طرح آج جبکہ ہم پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے ماتحت اسلام کی خدمت کے لئے جمع ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ کی سنتِ قدیمہ کے مطابق ہماری جماعت کی تعداد اُس سے زیادہ ہے جتنی کہ پچھلے سال تھی۔ کئی نئی بستیاں اور نئے علاقے خداتعالیٰ نے احمدیت کے لئے فتح کئے ہیں اور جہاں پہلے احمدیت کا کوئی نام لیوا نہ تھا اب وہاں احمدیت پر ایمان رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل رہے گا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور جماعت کی روزافزوں ترقی ہوتی چلی جائے گی۔ ہماری کوششیں تو محض رسمی طور پر اپنی عقیدت کا اظہار ہوتی ہیں ورنہ نتائج تو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ظاہر ہورہے ہیں ہمیں صرف اِس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اُن وعدوں پر یقین کرلیں جو خداتعالیٰ نے احمدیت کے متعلق فرمائے ہیں۔ ان وعدوں پر یقین کرلینے سے ہمارے کام اور ہمارے عزم میں آپ ہی آپ ایک نمایاں فرق پیدا ہوتاچلاجائے گا۔ چین کا مصلح جسے ہم قرآن کریم کی اجمالی تعلیم کی روشنی میں نبی سمجھتے ہیں مجھے اُس کا ایک فقرہ بتغیّرِالفاظ احمدی جماعت کے لئے ایک مشعلِ راہ معلوم ہوتاہے کسی نے کنفیوشس سے پوچھا کہ آپ سب سے زیادہ اہم مقصد اپنے سامنے کیا رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا ناموں کی طرف توجہ دلانا۔ پوچھنے والے نے کہا اِس میں اہمیت کی کونسی بات ہے؟ انہوں نے کہا ساری اہمیت اِسی میں ہے اگر دنیا میں بادشاہ اپنے نام ’’بادشاہ‘‘ کو یاد ر ّکھیں اور رعایا اپنے نام ’’رعایا‘‘ کو یادرکھے، باپ اِس بات کو یادرکھے کہ وہ باپ کہلاتاہے اور بیٹا اِس بات کو یاد رکھے کہ اُس کا نام بیٹا ہے، اُستاد اِس بات کو یاد رکھے کہ میرا نام اُستاد ہے اور شاگرد اِس بات کو یاد رکھے کہ اُس کانام شاگردہے تو یقینا دنیا کی اصلاح ہوجائے گی۔ساری خرابی اِسی وجہ سے پیداہوئی ہے کہ بادشاہ اپنے آپ کو بادشاہ نہیں سمجھتا بلکہ ڈاکو خیال کرتاہے اور رعایا اپنے آپ کو رعایا نہیں سمجھتی بلکہ باغی خیال کرتی ہے، باپ اپنے آپ کو باپ نہیں سمجھتا بلکہ مستغنی سمجھتا ہے اور اولاد اپنے آپ کو اولاد نہیں سمجھتی بلکہ آزاد جماعت خیال کرتی ہے۔میرابھی یہ خیال ہے کہ ہماری جماعت کی ساری ترقی کی جڑ اِس بات سے تعلق رکھتی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو یاد رکھیں، ہمیں کسی نئے مقصد کو معلوم کرنے کی ضرورت نہیں، ہمیں کسی نئے مقصد کو دریافت کرنے کی ضرورت نہیں۔وہ سارے مقاصد جو ہمیں مدنظر رکھنے چاہئیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں بیان ہوچکے ہیں اور خداتعالیٰ نے کھول کھول کربیان کردیاہے کہ ہمارا کیا مقصد ہے۔ اب اگر ہم مثلاً کوئی جلسہ کریں جس میںتبلیغ کے مسئلہ پر غو رکریں اور اس غرض کے لئے کوئی ایک میدان تجویز کرلیں تویہ بالکل فضول بات ہوگی کیونکہ خداتعالیٰ نے اِس مقصد کو ہمارے سامنے پہلے ہی رکھا ہؤا ہے اور پہلے سے اُس نے کہہ دیا ہے کہ:- ’’ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا۔‘‘ ۱؎
پس مقصد ہمارے سامنے موجود ہے کوئی خاص علاقہ یا کوئی خاص مُلک تبلیغ کے لئے تجویز کرنے کا سوال نہیں خداتعالیٰ نے ہمارا یہ مقصد قرار دیا ہے کہ ہم دنیا کے کِناروں تک اسلام اور احمدیت کی تبلیغ پہنچائیں۔اسی طرح اور تمام مقاصد جو اِس وقت ہمارے سامنے ہیں وہ سارے کے سارے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں اُن اعلیٰ مقامات تک بیان کردیئے گئے ہیں جن تک کسی زمانہ میں جماعت احمدیہ پہنچے گی۔ مثلاً تبلیغ کا ایک پہلو تو یہ بیان فرمایا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا‘‘ اوردوسری طرف یہ بیان فرمایا کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘ ۲؎
گویا پہلے الہام میں تو تبلیغ کے علاقہ کی وُسعت کا ذکر کیا اور دوسرے الہام میں ارتفاعِ مدارج کا ذکر کردیا یعنی احمدیت کی تبلیغ گِردو پیش تک ہی محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ ساری دنیا میں ہونی چاہئے نیز صرف غرباء اور عوام میں ہی نہیں ہونی چاہئے بلکہ نڈرہوکر بادشاہوں کو تبلیغ کرنی چاہئے کیونکہ اگر انہیں تبلیغ نہیں ہوگی تووہ احمدی کس طرح ہوںگے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کپڑوں سے برکت کس طرح ڈھونڈیں گے تو یہ سارے مقاصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں بیان کردئیے گے ہیں۔ اگر ان مقاصد پر ہمیں یقین ہو تو ہمارے اندر ایسی گرمی اور ایسا جوش پیداہوجائے جو اُن ساری غفلتوں اور سُستیوں کو دُور کردے جو جماعت کے ایک حصہ میں پائی جاتی ہیں۔دنیا میں ہمیں یہ ایک عام قاعدہ دکھائی دیتا ہے کہ جتنا بڑا کام ہو اُتنی ہی انسان اُس کے لئے جدوجہد اور محنت کرتاہے اور اگر کوئی بڑا مقصد سامنے نہ ہو تو ُچست توکام کرتے رہتے ہیں ُسست نہیں کرتے۔ پس یہ یقینی بات ہے کہ اگر بڑا مقصد سامنے ہوگا تو اِس کے لحاظ سے ہر شخص کے اندر خواہ وہ کس قدر ُسست کیوں نہ ہو کچھ نہ کچھ گرمی پیدا ہوجائے گی۔ ایک ُسست الوجود بعض دفعہ گھنٹوں چارپائی پر لیٹا رہتا ہے سو کر اُٹھتاہے تو پاخانہ پیشاب کے لئے بھی لیت ولعل کرتارہتا ہے اُس کے عزیز اور رشتہ دار باربار کہتے ہیں اُٹھو دیر ہورہی ہے ہاتھ منہ دھو کر ناشتہ کرلو مگر وہ جلدی اُٹھنے کانام نہیں لیتا اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ لگا دیتا ہے لیکن جب ریل کے سٹیشن پر وہی ُسست انسان کھڑاہو تو اس وقت وہ ایسی ُسستی نہیں دکھاتا۔ بے شک یہ تو ہوجائے گا کہ ُچست آدمی سٹیشن پر پہلے پہنچ جائیں اور یہ بعد میں پہنچے مگر یہاں وہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی دیر نہیںلگائے گاکیونکہ وہ جانتاہے کہ یہاں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی دیر ُمہلک ہے منٹ دو منٹ کی ُسستی تووہ ضرور کرے گا مگرزیادہ نہیں کیونکہ اُس کے مقصد میں فرق پیدا ہوگیا ہے۔ تو اگر مقاصدِ عالیہ ہماری جماعت کے سامنے ہوں تو جو لوگ ُسست ہیں اُن میں بھی نسبتی طور پر ُچستی پیدا ہوجائے گی اور جو ُچست ہیں وہ پہلے سے بھی زیادہ ُچست ہوجائیں گے۔
پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم جب بھی کسی اجتماع میں شامل ہوں ہماری توجہ کا مرکز خصوصیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات ہوں اوروہ مقاصد ہوں جو خداتعالیٰ نے ہمارے لئے تجویز کئے ہیں۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کو ہماری جماعت اپنے سامنے رکھے توہم میں سے ہر شخص کے دل میں اندھا دُھند نہیں جیسے جاہلوں کا ایمان ہوتاہے بلکہعَلٰی وَجْہِ الْبَصِیْرَتْ یہ ایمان پیدا ہوجائے کہ یورپ میں اِس وقت جو جنگ ہورہی ہے وہ دنیاکے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرے گی بلکہ دنیا کا آئندہ فیصلہ اِس اجتماع پر ہوگا جو اِس میدان میں ہو رہا ہے۔ ہمارے نزدیک تووہ ایک کھیل کھیل رہے ہیں وہ جتنی تلواریں چلائیں، جتنی بندوقیں اورتوپیں چلائیں، جتنے طیارے بنائیں اور جس قدر بم پھینکیں سب ایک کھیل کی حیثیت رکھتے ہیں اور اِس کی مثال اِس سے زیادہ نہیں جیسے کوئی عظیم الشان عمارت یا بہت بڑا محل بننے والا ہو تو اُس کے ایک کونہ میں پاخانے کا کوئی حصہ بنایا جارہاہو اِس سے زیادہ موجودہ جنگ کی کوئی حقیقت نہیں ان کی سب کوششیں دھری کی دھری رہ جائیںگی اور یہ انقلابات اُس انقلاب کے مقابلہ میں رہیں گے ہی نہیں جو خداتعالیٰ کے مد نظر ہے۔ اگر یہ چیز ہماری جماعت کے دوستوں کے مدنظر رہے تو یقیناان میں ایسی َ ّحس پیدا ہوجائے کہ اِن کے ُسست بھی ۔ُچست ہوجائیں پس اِن مقاصد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ہمارے مقرروں کو چاہئے کہ وہ تقریریں کریں اور ان ہی مقاصد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے سامعین کو چاہئے کہ ان تقریروں کو ۔ُسنیں اور یہ بات ہر وقت ذہن میں رہے کہ ہمارے سامنے وہ مقاصد نہیں جو ہم نے تجویز کرنے ہیں بلکہ ہمارے سامنے وہ مقاصد ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں خداتعالیٰ نے پہلے سے بتائے ہوئے ہیں ان مقاصد میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں اور اگر کوئی شخص ان مقاصد کے حصول کے لئے جدوجہد نہیں کرے گاتو خدا اُسے ابتلائوں اور امتحانات کے ذریعہ مجبور کرے گا کہ وہ اِن مقاصد کے حصول کے لئے جدو جہد کرے۔ جب آقا اپنے کسی خادم کو چھت پر چڑھانا چاہتا ہو اور خادم کسی ایک سیڑھی پر جا کر بیٹھ رہے تو اُس کا آقا اُسے مارکر کہتاہے کہ اُٹھ اور اوپر چڑھ پھر اگروہ کسی اور سیڑھی پر بیٹھ جائے تو پھر اُس کا آقا اُسے مارتاہے اور کہتاہے اُٹھ اور اوپر چڑھ اِسی طرح خداتعالیٰ ہمیں چھت پر لے جانا چاہتاہے اگرکوئی شخص راستہ میں ہی بیٹھ رہے گا تو خداتعالیٰ اُسے ٹھوکر مار کر کہے گاکہ اُٹھ اور آگے چل۔ وہ چاہے اِس کا نام ابتلاء رکھے چاہے امتحان رکھے، چاہے مصیبت اور تکلیف رکھے بہر حال یہ ابتلاء آتے چلے جائیں گے جب تک کہ وہ اوپر نہ چڑھ جائے۔
اِس نصیحت کے بعد اب میں دوستوں سے کہتاہوں کہ ہماری خواہش اور نصیحتیں سب بے کار ہیں جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد اور اُس کی نصرت شاملِ حال نہ ہو پس آئو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہم چھوٹے چھوٹے ذہنی مقاصد کو ُبھول جائیں اور اُن عظیم الشان مقاصد کو اپنے سامنے رکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ہیں اور جن کا آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے دنیامیں اعلان ہوچکا ہے۔ مقرر تو وہ روزِ ازل سے ہی تھے ابھی آدم بھی پیدا نہیں ہؤا تھا کہ خدا تعالیٰ نے آسمان پر یہ فیصلہ کردیا تھا کہ ایک زمانہ میں جماعت احمدیہ پیدا ہوگی او راُس کے ذمہ یہ یہ کام ہوں گے مگر اِس کا اعلان آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے ہؤا پس آئو ہم دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اِن مقاصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور پھر اِن مقاصد کے مطابق عمل کرتے چلے جائیں۔ اِسی طرح دعائوں میں اُن دوستوں کو بھی مد نظر رکھیں جن کے دل جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لئے تڑپ رہے ہیں مگر وہ جنگ کی وجہ سے کسی دُور دراز مُلک میں ہیں اور اِس وجہ سے وہ جلسہ میں شریک نہیں ہوسکے یا جنگی قیدی ہیں یا بیمار اور کمزور اور بوڑھے ہیں یا اُن کی مالی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ جلسہ میں آسکتے۔ یا مالی حالت اچھی تھی مگر انہیں ُچھٹیاں نہیں ملیں۔ ان تمام لوگوں کے لئے جن کے دل میں تڑپ تھی، آرزو تھی اور خواہش تھی کہ وہ قادیان پہنچیں مگرمجبوریوں کی وجہ سے وہ اپنی خواہش کو پورا نہیں کرسکے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اِس صدمہ کے بدلہ میں اُنہیں بہتر سے بہتر انعام دے اور اپنی نعمتوں سے اُن کے گھروں کوبھردے تا کہ ان کے دلوں کو جو زخم پہنچا ہے اُس کے لئے تسکین کا سامان ہوجائے۔ پھر ان لوگوں کے لئے بھی دعا کریں جن کو یہاں آنے کی توفیق تو تھی مگر وہ نہیں آئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی ُسستی اور غفلت کو دور کرے اور اُنہیں توفیق عطا فرمائے کہ وہ آئندہ کسی نیکی کے کام سے پیچھے نہ رہیں۔ اِسی طرح اُن لوگوں کے لئے بھی دعا کریں جن کے دلوں میں یہاں آنے کی خواہش ہی نہیں وہ علم رکھتے ہوئے ہم سے ُبغض رکھتے اور ہماری عداوت اور دشمنی میں حد سے بڑھے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی آنکھیں کھول دے تاکہ وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہوجائیںاور اِس حقانیت کے پھیلانے میں حصہ لیں جس حقانیت کے پھیلانے کی خداتعالیٰ ہمیں توفیق دے رہا ہے اور ہمارے ہم دوش ہوکر وہ بھی شیطان کا مقابلہ کریں۔ پھر ان لوگوں کے لئے بھی دعاکریں جو قادیان میں رہنے والے ہیں اور جن پر مہمانوں کی خدمت کا بہت بڑا بوجھ ہے آجکل سردیوں اور بیماریوں کے دن ہیں مگر باوجود اِس کے بعض لوگ بیماری کی حالت میں بھی کام کررہے ہیں اور جس طرح باہر کے لوگ تکلیفیں اُٹھاتے ہیں اِسی طرح دیکھا گیا ہے کہ جلسہ سالانہ کے بعد قادیان کے رہنے والوں میں سے بہت سے بیمار ہوجاتے ہیں پس دوست اِن کے لئے بھی دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں پوری طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق دے اور ہر قسم کے بداثرات سے جو اِن بیماریوں او رسردیوں کے دنوں میں ان کی صحت پر پڑ سکتے ہیں محفوظ رکھے۔ اسی طرح دوست دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں ایسے تغیرات رونما فرمائے کہ جن کے نتیجہ میں اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا اظہار ہو اور پھر خدا اسلام کی بادشاہت کو اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ شان وشوکت کے ساتھ قائم کردے جس طرح وہ آج سے ساڑھے تیرہ سَوسال پہلے قائم تھی اور وہ علوم جو پہلے زمانہ کے مناسبِ حال نہ ہونے کی وجہ سے قرآن کریم میں مخفی کردئیے گئے تھے خداتعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ ہم اُن کو ظاہر کریں اور قرآنی علوم کا وہ حصہ جو اِس زمانہ کے لئے ہے اُسے پھیلانے اور علوم کے اس خزانے سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی طاقت دے۔تاکہ وہ حصے جن کو پہلے لوگ روشن اور اُجاگر نہیں کرسکے تھے احمدیت کے ذریعہ پھر اُجاگر اور روشن ہوجائیں اور دنیا اِس بات کو تسلیم کرے کہ اس مالک وخالق خدا کے سِوا اور کوئی خدانہیں جسے اسلام نے پیش کیاہے اور اس ذاتِ بابرکات کے سِوا جو عرب میں ظاہر ہوئے اور جس کانام محمد تھا صلی اللہ علیہ وسلم دنیاکی راہنمائی کرنے والا اور کوئی رسول نہیں اور اُس کے خادم اور غلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سِوا اُس کے پیغام کو پہنچانے والا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے لوگوں کو خدا سے ملانے والا اور کوئی نہیں۔ پس آئو ہم دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ یہ سب کام اپنے فضل سے کردے اور ہماری حقیر اور ذلیل کوششوں کو وہ معزز اور برکت والا بنادے۔ اللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ (الفضل ۱۵؍جنوری۱۹۴۳ء)
۱؎ تذکرہ صفحہ ۳۱۲۔ ایڈیشن چہارم
۲؎ تذکرہ صفحہ ۱۰ ۔ ایڈیشن چہارم






مستورات سے خطاب
(۱۹۴۲ء)




از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

مستورات سے خطاب
( تقریر فرمودہ ۲۶ دسمبر۱۹۴۲ء )
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میںنے ابھی موٹر پر آتے ہوئے دیکھا ہے کہ تمام سڑکیں اور بازار مردوں سے بھرے ہوئے ہیں اور جلسہ گاہ قریباً خالی پڑا ہؤا ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ اِس وقت تمہاری بھی یہی حالت ہے۔ قادیان کا جلسہ ایک مذہبی فریضہ ہے یہ دین سیکھنے کی جگہ ہے کھیل ُکود کی جگہ نہیں میلہ نہیں کہ جس کی روٹیاں تم کھانے آتی ہو۔ ۳۶۵ دنوں میںسے ۳۶۲دن تم اپنے کاموں کے لئے خرچ کر دیتی ہو صرف ۳دن کے لئے تم قادیان میں آتی ہو وہ بھی اِدھر اُدھر ِپھر کر خرچ کردیتی ہو اور سمجھتی ہو کہ تم نے خداتعالیٰ کا حق پورا کردیا درحقیقت میرے قلب کی حالت اِس وقت ایسی ہے کہ میرا دل اِس وقت کوئی تقریر کرنے کو نہیں چاہتا اور جو کچھ میں اِس وقت کہوں گا اپنے نفس پر جبر کرکے کہوں گا۔
دیکھو! منہ سے باتیں کرنا کسی کام نہیں آتا دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی خواہ وہ دینی ہو یا دُنیوی جب تک اُس کا عمل اُس کے قول کے مطابق نہ ہو صحابہؓ کام زیادہ کرتے تھے اور باتیں کم قرآن کریم میں آتا ہے کہ منافق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق زیادہ باتیں کیاکرتے تھے، منافق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آکر کہا کرتے کہ ہم خدا کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ ُ تو اللہ کا رسول ہے، مؤمن تو بغیر قسمیں کھائے کہتے تھے مؤمنوں کے متعلق کہیں ذکر نہیں آتاکہ انہوں نے قسمیں کھائی ہوں لیکن منافقوں کے متعلق قرآن کریم میں آتاہے کہ وہ قسمیں کھاکھاکر کہتے تھے کہ ُتو اللہ کا رسول ہے حالانکہ وہ جھوٹے ہوتے تھے۔ ۱؎
عورتوں کے لئے ایک بہت بڑے تغیر کی ضرورت ہے تمہاری حالت تو بالکل ُمردوں کی سی ہے نہ تمہارے دماغوں میں اتنی روشنی ہے کہ مفہوم کو عمدگی کے ساتھ سمجھ سکو، نہ تمہاری زبانوں میں اِتنی طاقت ہے کہ مَا فِیْ الضَّمِیْرکو ادا کرسکو۔کئی عورتیں آتی ہیںکہ جی ہم مصیبت زدہ ہیں ہماری بات سن لیجئے۔ وہ مجھے کئی ضروری کاموں سے روک لیتی ہیں۔ مرد ایسے دو سَو میں سے دس ہوتے ہیں مگرعورتیںسَو میں سے ّنوے ہوتی ہیں۔مَیں سَوکام چھوڑ کر اُس کی بات سنتا ہوں کہ احمدی جماعت میں سے ہے، مصیبت زدہ ہے۔ ہمدردی کروں لیکن وہ میرا وقت ضائع کردیتی ہے۔عورتیں بہت لمبی چوڑی باتیں شروع کردیتی ہیں۔ مثلاً میں فلاں کے گھر اُس کے جنوبی دروازہ سے اُس کے صحن میں داخل ہوئی، اُس کا صحن بس یہی کوئی تین چار چارپائیوں کا ہوگا صحن سے گزرکر مَیں برآمدہ میں داخل ہوئی پھر میں اندر گئی یہ طریقِ گفتگو بتاتاہے کہ کام ہے ہی نہیں۔ سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ تم اپنے لئے کام تجویز کرو۔ زمیندار عورتیں گھروں میںکام کرتی ہیںاُنہیں محنت کی عادت ہوتی ہے لیکن شہری عورتوں کو سِوائے باتوں کے اور کچھ آتا ہی نہیں۔ امراء کی عورتیںنوکروںکو گالیاںدیتی رہتی ہیںسارا دن جھک جھک کرنے میں گزر جاتا ہے وہ پانچ منٹ نوکر کو صرف اِس لئے جھاڑتی ہے کہ ُتونے پیالی کیوں صاف نہیں کی حالانکہ اگروہ خود کرے تو ایک منٹ میںپیالی صاف ہوسکتی ہے۔ بعض لوگ قطب مینار پر صرف دو منٹ کے لئے چڑھتے ہیں لیکن اُس پر اپنا نام لکھ جاتے ہیں کہ فلاں بن فلاں اِس جگہ فلاں دن آیا تھا وہ گوارا نہیں کرتے کہ صرف دو منٹ کے لئے بھی آکر یونہی واپس چلے جائیں بلکہ اپنی نشانی چھوڑ کر جاتے ہیں۔ مینارۃ المسیحؑ ایک مقدس جگہ ہے بعض نادان اِس پر چڑھ کر اپنا نام لکھ جاتے ہیں۔ تم خدا کی اِس دنیا میں پچاس ساٹھ سال رہ کر جاتی ہو لیکن اتنا بھی نشان چھوڑکرنہیں جاتی ہو کیا تم کہہ سکتی ہو کہ تمہاری ماں، تمہاری دادی، تمہاری نانی وغیرہ تمہارے لئے کوئی نشان چھوڑکر گئی ہیں؟ بائیبل میں آتا ہے کہ آدم تیرے گناہ کی یہ سزا ہے کہ تیری بیٹی تجھے نہیں بلکہ اپنے خاوند کو چاہے گی اور تیرابیٹا تجھے نہیں بلکہ اپنی بیوی کو چاہے گا۔ ایک شخص آتا ہے کہتاہے ابّاجان خط آیا ہے بچّہ بیمارہے میں جائوں؟ تو باپ اُس کے احساسات کو مدِّ نظر رکھ کر اجازت دیدیتا ہے کہ جائو حالانکہ اگر وہ احسان شناس ہوتا احساس رکھتا تو ماں کو نہ چھوڑتا، باپ کو نہ چھوڑتا بلکہ اپنے بیوی بچوںکو چھوڑ دیتا وہ کہتا کہ سارے مر جائیں میں اپنے ماں باپ کو نہ چھوڑوں گا۔ تودنیا میں جن چیزوں کو تم نشان سمجھتی ہو وہ نشان نہیں بلکہ نشان مٹانے والے ہیں ایک ہی چیز ہے جو باقی رہنے والی ہے اور وہ ہے اَلْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ۔وہ کام جو خداکے لئے کروگی باقی رہے گا۔ آج ابوہریرہؓ کی اولاد کہاں ہے، مکان کہاں ہیں؟ لیکن ہم جنہوں نے نہ اُن کی اولاد دیکھی، نہ مکان دیکھے، نہ جائداد دیکھی ہم جب اُن کا نام لیتے ہیں تو کہتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ۔ چند دن ہوئے ایک عرب آیا اُس نے کہا کہ میں بلال ؓ کی اولاد میں سے ہوں اُس نے معلوم نہیںسچ کہا یا جھوٹ مگر میرا دل اُس وقت چاہتا تھا کہ میں اس سے چمٹ جائوں کہ یہ اُس شخص کی اولاد میں سے ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اذان دی تھی۔ آج بلالؓ کی اولاد کہاں ہے، اسکے مکان کہاں ہیں، اس کی جائداد کہاں ہے؟ مگروہ جو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اذان دی تھی وہ اب تک باقی ہے اور باقی رہے گی۔ پس سب چیزیں فنا ہوجاتی ہیں لیکن انسان کا عمل فنا نہیں ہوتا اور تم اِس طرف توجّہ نہیں دیتی ہو۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر شخص کا پرندہ ہم نے اُس کی گردن پر باندھ رکھا ہے۲؎ اور وہ پرندہ کیاہے؟ اس کا عمل۔ اگروہ نیک ہوگا تواُس کا پرندہ بھی نیک ہوگا، اگر وہ بدہوگا تو وہ بھی بد۔پس عملی زندگی میں اصلاح کی کوشش کرو سینکڑوں ایسی ہوں گی جو دس سال سے آتی ہوں گی مگر انہوں نے ہر سال جلسہ پر آکر کیا فائدہ اُٹھایا؟ عمل دوقسم کے ہوتے ہیں۔ (۱) انفرادی اور (۲) اجتماعی۔ جب تک یہ دونوں قسم کے عمل مکمل نہ ہوں تمہاری زندگی سُدھر نہیں سکتی نہ اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے۔ انفرادی اعمال نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، چندے دینا اور سچ بولنا اِس میںکوئی ضرورت نہیں کہ بیس پچیس اور عورتیں ہوں جو تمہارے ساتھ مل کر یہ کام کریں یہ انفرادی اعمال ہیں جو ایک آدمی سے تعلق رکھتے ہیں کسی جتھے کی ضرورت نہیں۔ یہ کام ایسے ہیں کہ ان کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتیں کہ چونکہ ہمارے ساتھ اَور عورتیں شامل نہ تھیں اس لئے میں نے نماز نہیں پڑھی یا اس لئے روزہ نہیں رکھا کہ اور روزہ رکھنے والے نہ تھے۔ خداتعالیٰ قیامت کے دن اُس آدمی کو نہیں چھوڑے گا جو کہے گا کہ نماز اِس لئے نہیں پڑھی کہ جماعت نہ تھی یا روزہ اس لئے نہیں رکھا کہ اور جماعت نہ تھی، زکوٰۃ اِس لئے نہیں دی کہ جماعت نہ تھی قیامت کے دن تم ہر گز یہ نہیں کہہ سکتیں کہ چونکہ جماعت ساتھ نہ تھی اِس لئے ہم یہ کام نہ کرسکیں اِس لئے نماز چُھٹ گئی، حج چُھٹ گیا۔ یہ انفرادی کام ہیں اِن کو ایک آدمی اپنے طور پر کر سکتاہے خواہ اُس کے ساتھ اور کوئی لوگ ہوں یا نہ ہوں۔
دوسرے اعمال اجتماعی اعمال ہیں۔ وہ ایسے کام ہیں جو مِل کرکئے جاتے ہیں جب تک جماعت ساتھ نہ ہو وہ کام مکمل نہیں ہوسکتے مثلاً باجماعت نماز مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں گوپسندیدہ ہے لیکن مرداگر باجماعت نماز نہیں پڑھے گا تو باوجود اس کے کہ وہ نمازیں پڑھتا ہوگاوہ قیامت کے دن ُمجرم ہوگا۔ اگر تم باجماعت نماز نہیں پڑھوگی تواللہ تعالیٰ یہ نہیں کہے گاکہ تم ُمجرم ہو اگر تم نماز باجماعت پڑھوگی تو مردوں سے اچھی ہوگی وہ دوسروں سے تمہیںزیادہ ثواب دے گا لیکن مرد اگر باجماعت نماز نہ پڑھے گا تو باوجود اِس کے کہ وہ وقت خرچ کرے گا دعاکرے گا خداکے حضور اُسے کہا جائے گاتمہاری نماز ناقص رہ گئی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جہنّم میں جائے گا ہو سکتاہے کہ اُس کی دوسری نیکیاں اِس قدر ہوں کہ وہ اِس گناہ کو ڈھانپ لیں اللہ تعالیٰ کے ہاں تول ہوتاہے نیکیوں کا مقابلہ ہوتاہے بعض بدیاں ایسی ہیںکہ وہ اکیلی جہنّم میںلے جاتی ہیں مثلاً شرک، اللہ کاانکار، اس کے فرشتوں کا انکار، حشر نشر کاانکا ر، قیامت کا انکار، رسول پر ایمان نہ لانا، خداکی کتاب کا انکار یہ ایسی بدیاں ہیں جو اکیلی جہنّم میں لے جاتی ہیں یہ بڑے بڑے پہاڑ ہیں ان کے مقابلہ میں تمہاری نیکیاں چھٹانک چھٹانک کی رہ جاتی ہیں۔
ان کے علاوہ کچھ اور بدیاں ہیں جن کا نیکیوں سے مقابلہ کیاجائے گا، وزن کیاجائے گا، ُسستی سے نماز پڑھنا، ُچغلی، غیبت وغیر ہ، یہ ایسی بدیاں ہیں جن کا مقابلہ کیاجائے گا کسی نیکی کے زیادہ ہوجانے سے انسان ّجنت میںجاسکتاہے لیکن اگر رسول کا انکار کرے تو پھر جنت میں نہیں جا سکتا خداتعالیٰ رحیم ہے اگروہ چاہے تو سب گناہگاروں کو معاف کردے باقی قانون یہی ہے۔ تو ایک گناہ وہ ہیںجن کا پلڑا بھاری رہے گا دوسرے وہ جن کا نیکیوں سے مقابلہ کیاجائے گا اگر نیکیوں کی روح بڑھی ہوئی ہوتو خداتعالیٰ جنت میں لے جائے گا اگربدیوں کی روح بڑھی ہوئی ہو تو خداتعالیٰ جہنّم میں لے جائے گا۔باجماعت نماز مردوں کے لئے فرض ہے اگر مرد نہیں پڑھے گا تو اُس کا گناہ لکھاجائے گا اور اُس کا نمبر کٹ جائے گا لیکن اگرتم جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتیںتو گناہ نہیں ہوگا لیکن باجماعت نماز پڑھوگی تو ثواب ہوگا۔ اگرتم کہو کہ باجماعت نماز پڑھنے کو دل توبہت چاہتا ہے لیکن چونکہ ہمارے ہاں کوئی جماعت نہیں اِس لئے ہم باجماعت نماز نہیں پڑھ سکتیں تواِس کا جواب یہ ہے کہ جو کام جماعت کے ساتھ ہوتے ہیںاگرتم اُن کی نیت کرلوگی تو تمہیں اُتنا ہی ثواب ملے گا کیونکہ تمہارا دل تو چاہتا ہوگا تمہاری خطا تو نہ ہوگی سامانوں کی خطا ہوگی۔ خدا کہے گا کہ اِس کی نیت نیک تھی قصور مال میسر نہ ہونے کا ہے۔
خداتعالیٰ فرماتاہے کہ میرا بندہ کسی بندے کے ساتھ جیسا سلوک کرتاہے گویا وہ میرے ساتھ کرتا ہے، اگر اُس نے میرے بندوں کو روٹی کھلائی تو گویا اُس نے مجھے کھلائی، اگر اُس کے لئے مکان بنایا ہے تو خدا کہے گا اُس نے میرے لئے مکان بنایا ہے اِس لئے اس کا ا س سے بہتر مکان جنت میں بنائو۔۳؎ اسی طرح اولاد کی تربیت ہے یہ اجتماعی کام ہے۔ تمہیں بڑا شوق ہے کہ تمہارا بچّہ سچ بولے۔ تم رات دن اسے کہتی ہو کہ بچہ سچ بول بچہ سچ بول لیکن تم اکیلے اُسے کِس طرح سِکھا سکتی ہو تمہارا بچہ باہر کھیلنے جاتا ہے تو دوسرے کو کہتاہے کہ بھائی! ابّا کو نہ بتانا کہ میں سکول نہیں گیا۔ تم گھر میں کہتی ہو کہ بچّہ سچ بول تو اِس کشمکش کے بعد کبھی تو تمہاری تعلیم اثر کرتی ہے، کبھی بھائی کی۔ اگر اُس بھائی کی ماں اُسے کہنے والی ہوتی کہ تو سچ بولاکر تووہ فوراً تمہارے بچّہ کو کہہ دیتا کہ میں جھوٹ نہیں بول سکتا میری ماں نے منع کیا ہؤا ہے تو تربیتِ اولاد کبھی اجتماع کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ عورتوں کو چاہئے کہ وہ مل کر بیٹھیںاور سوچیں کہ ہمارے بچوں میں کیا کیا خرابیاں ہیں، عورتیں تدابیر کریں اور عہد کریں کہ وہ اِن کمزوریوں کو دور کریں گی اِس میںتعاون کی ضرورت ہے۔ اگر ساری عورتیں اپنے بچوں کو سچ بولنے کی ترغیب دیں گی تو کوئی بچّہ جھوٹ بولنے والا نہیں ہوگا۔ اگر پندرہ بچے کھیلنے والے ہوں گے اور ان میں سے ایک جھوٹ بولنے والا ہوگا تو پندرہ دوسرے کہیں گے کہ ہم نے جھوٹ نہیں بولنا ہماری اماں نے منع کیا ہؤا ہے توتمہارا بچّہ بھی سچ بولنے لگ جائے گاغرض یہ اجتماعی نیکیاں ہیں جو مل کرکرنے کے بغیر نہیں ہوسکتیں۔
اِسی طرح بہادری ہے اگر ہمارے بچے کمزور ہوں گے تو انہوں نے اپنی کیا اصلاح کرنی ہے اور جماعت کی کیا کرنی ہے، انہوں نے ملک کی کیا خدمت کرنی ہے اور قوم کی کیا کرنی ہے۔ بہادر آدمی کولوگ گیند کی طرح اُچھال اُچھال کر پھینکتے ہیں لیکن وہ اپنے کاموں سے باز نہیں آتا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے سناکہ مکہ میں ایک شخص نے دعوئ نبوت کیا ہے انہوں نے اپنے بھائی کو تحقیقات کے لئے بھیجا لیکن اُس نے واپس جاکر کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا پھر وہ خود مکہ گئے لوگوں سے دریافت کیا۔ ُکفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچنے دیا یہی کہا کہ ایک شخص ہے جو اپنی سحر بیانی سے بھائی کو بھائی سے، بیوی کو خاوند سے جُداکرتا چلا جاتاہے لیکن یہ ُچپ چاپ گلیوں میں چکر لگایا کرتے۔ حضرت علی ؓ نے انہیں ایک دن دیکھا، دوسرے دن دیکھا، تیسرے دن دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے آپ چکر لگایا کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا شاید تم بھی مجھے ٹھیک ٹھیک نہ بتلا سکو میں ایک کام کے لئے آیا ہوں حالانکہ حضرت علیؓ تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں میں سے تھے۔ حضرت علیؓ نے پوچھا اور اصرار کیا تو اُنہوں نے بتلادیا وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے وہ مسلمان ہوگئے۔ دشمنِ اسلام بڑے دھڑ ّلے سے خانہ کعبہ میں گالیاں دیاکرتے تھے وہ ایک دن گالیاں دے رہے تھے تو یہ وہاں گئے اِنہوں نے کہا تم گالیاں دے رہے ہو سنو! اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ ُ ّکفارنے پکڑ کر خوب پیٹا۔ پیٹنے کے بعد پھر پوچھا تو چونکہ دل بہادر تھا پھر کہا اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ تو یہ اُن کی ُجرأت اور بہادری تھی۔ اِتنے میں حضرت عباسؓ آپہنچے یہ اُس وقت مسلمان تھے اُن سے کسی نے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بڑے ہیں؟ حضرت عباس ؓ نے جواب دیا کہ درجے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہیں پیدا پہلے مَیں ہؤا تھا۔ تو جب یہ وہاں آئے تب حضرت ابوذرؓ کو اُن کے ہاتھوں سے ُچھڑایا۔۴؎ تو جب دل میں ایمان پیداہوجاتا ہے تو جو شخص بہادر ہوتاہے وہ ہر جگہ اُٹھ کھڑا ہوتاہے۔ دین کے لئے بہادری کی ضرورت ہے اور دُنیوی کاموں کے لئے بھی بہادری کی ضرورت ہے ُبزدلی ہر صورت میں ُبری ہے اور بہادری ہر لحاظ سے اچھی ہے۔ اگر جاپانی ُگھس آئیں توکیا تمہارا دل یہ چاہتاہے کہ تمہار ابیٹا کھیت میں ُگھس جائے اور وہ گھروں کو ُلوٹ لے جائیں؟ یا تمہارا دل یہ چاہتاہے کہ تمہارا بیٹا دروازے میں کھڑاہوکر بہادری سے مقابلہ کرے اور لوگ کہیں واہ بھئی نوجوان مر تو گیا لیکن اپنی عورتوں کی جان بچا لی یا تمہیں یہ اچھا لگتا ہے کہ اس وقت تمہارا بیٹا گھر میں ُگھس جائے اور دشمن عورتوں کی چوٹیاں پکڑ کر گھسیٹتے پھریں؟ تم کو تو وہی بچہ اچھالگے گا جو گھر کی حفاظت میں اپنی جان تک دیدے گا۔ ایک کاڈر دوسرے کو بھی ڈرا دیتاہے۔ ڈر ایسی چیز ہے جو ایک سے دوسرے کی طرف منتقل ہوجاتی ہے اگر تم نے اپنے بچے کے دل میں ڈر پیدا کیاہے تو وہ بہادری کس طرح دکھائے گا اور اگر تم صرف اُس کو بہادری کی تعلیم دیتی ہو اور وہ دوسرے بچوں کو ڈرتے دیکھتا ہو تو خود بھی ڈرنے لگتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ حنین میں گئے غزوئہ حنین میں نئے نئے مسلمان شامل تھے ذرا ِتیر پڑے تو وہ بھاگے جب وہ بھا گے تو سارا لشکرِ اسلام بھی بھاگ پڑا یہاں تک کہ صرف بارہ آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س رہ گئے۔ دوسری طرف چار ہزار آدمی ِتیر برسانے والے تھے۔ ؎ وہ اپنی ذات میں ڈرپوک نہیں تھے، ُبزدل نہیں تھے بلکہ ُبزدلوں کو دیکھ کر ُبزدل بن گئے تھے کوئی عورت اپنے بچے کا دل مضبوط نہیں کرسکتی جب تک کہ سارے گائوں کی عورتیں اپنے بچوں کے دل مضبوط نہ کریں۔
اِسی طرح تعلیم کو دیکھ لو امیر سے امیر آدمی بھی اکیلا سکول کو نہیں چلا سکتا لیکن مل کر غریب سے غریب آدمی بھی شاندار کالج تیار کرسکتے ہیں۔ یہاں سکول کا ۲۵،۲۶ہزار خرچ ہے یہ کوئی اکیلا امیر آدمی خرچ نہیں کررہا بلکہ تم میں سے ہی وہ مرد ہیں جن کی چار روپے آمد ہے اور وہ پیسہ پیسہ دے رہے ہیں۔ اکٹھے کاموں کے لئے ضرورت ہؤاکرتی ہے جماعت کی، اس کے لئے یہ قانون ہم نے بنایا ہے کہ جہاں کہیں بھی احمدی عورتیں ہیں وہاں لجنہ اماء اللہ بنالیں۔ لجنہ اماء اللہ کے معنے ہیں ’’اللہ کی نیک بندیوں کی انجمن۔‘‘ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ہر جگہ انجمنیں قائم نہیں ہوئیں۔ جہاں لجنہ قائم ہووہاں کی ہر عورت ممبر ہوگی اور ہر عورت یہ اقرار کرے کہ خدا کے دین کو پھیلانے کے لئے میں مر جائوں گی، سردے دوں گی لیکن پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ ہفتہ میں ایک یا دو دن وقف کردے بجائے اِس کے ہمسایہ کی غیبت کرو دین کی باتیں کرو۔ آپس میں نیک مشورے کرو۔
میں نے بارہا توجہ دلائی ہے کہ تم اپنے قومی کام کیسے کرسکتی ہو جب تمہارے پاس ہتھیار نہیں لجنہ اماء اللہ تمہارے لئے ہتھیار ہے اجتماعی کام تم کس طرح کرسکتی ہو جب تک تم مل کر کام نہیں کرتیں۔ کوشش تویہ کرنی چاہئے کہ پانچوں نمازوں میں سے ایک نماز باجماعت اداکرو۔ اگرتم باجماعت نماز پڑھو گی تو بہت ممکن ہے کہ تمہارا یہی ثواب تمہیں جنت میں لے جانے کا موجب ہوجائے۔ اسی طرح تم اقرار کرو کہ ہم اپنے بچوں کو کہیں گی کہ تم دلیر بنو، انہیں سچ بولنا سکھائیں گی، نماز سکھائیں گی یا اِسی طرح مثلاً یہ نیکیاں کہ اُن کے متعلق فیصلہ کرو۔ تعلیم کے لئے کوئی اُستاد رکھو کہ وہ دین سکھائے یہ سارے کام ایسے ہیں جو تم مل کر کر سکتی ہو۔ اسی طرح قرآنِ کریم کا ترجمہ ہے اکٹھی ہوئیں ایک رکوع باترجمہ سنا دیا عورتوں کے فائدے کیلئے اخبار مصباح جاری ہے چندہ اکٹھا کرکے منگوائو اور جلسوں میں پڑھ کر سُنا دیاکرو اِسی طرح چندہ اکٹھا کرکے کبھی بخاری ؔ منگوا لی یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوئی کتاب منگوالی تاتمہاری تبلیغ وسیع ہوجائے، تمہاری تعلیم وسیع ہوجائے اور اچھی اچھی باتیں دوسروں کوسنانے کا موقع مل جائے۔ اِسی طرح اخبار الفضل ؔ منگوا لیا تا قادیان کے حالات تمہیں معلوم ہوتے رہیں خداتعالیٰ نے تمہیں جماعت دی ہے جماعت سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے پس اگلے سال تک کوئی جماعت ایسی نہ رہ جائے جہاں لجنہ کاقیام نہ ہو۔ لجنہ کے لئے کام یہ ہے۔
اوّل:- تھوڑا تھوڑا ہرایک اپنی توفیق کے مطابق چندہ دے اور چندہ جمع کرکے مصباح منگوائیں۔
دوم:- کم از کم نماز باجماعت اداکریں۔ اس کے بعد دوچار آیتوں کا ترجمہ سنادیا۔
سوم:- لجنہ رجسٹر ڈ کرالو اور مرکز سے قواعد منگوالو۔
اِس سال خصوصیت کے ساتھ یہ عملی تجاویز پیش کرتاہوں۔
(الازھار لذوات الخمار صفحہ ۳۶۲ تا ۳۶۔ ایڈیشن دوم)

۱؎
اِذَا جَائَ کَ الْمُنٰـفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنٰـفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ (المنافقون:۲)
۲؎
وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰـہُ طٰٓئـِـرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ (بنی اسرائیل:۱۴)
۳؎
مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل عیادۃ المریض
۴؎
بخاری کتاب المناقب باب قِصَّۃ اسلام ابی ذَرٍّ الغفاری رضی اللّٰہ عنہ









بعض اہم اور ضروری امور
(۱۹۴۲ء)




از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

بعض اہم اور ضروری امور
(تقریر فرمودہ ۲۶ دسمبر۱۹۴۲ء )
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
جلسہ سالانہ کے موقع پر نمازوں
کے انتظام میں اصلاح کی جائے
سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتاہوں کہ آج نماز میں سہو ہوگیا تھا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ سہو کرادیاگیا تھا میں دورکعت پڑھنے کے بعد تشہد کے لئے بیٹھا کہ کسی نے کہا سُبْحَانَ اللّٰہِ جس کے معنے یہ تھے کہ یہ ّتشہد کا موقع
نہیں آپ بھول گئے ہیں اور کھڑا ہونے لگا کہ پھر آواز آئی سُبْحَانَ اللّٰہِ اس پر میں بیٹھا ہی رہا تھاکہ پھر کسی نے سُبْحَانَ اللّٰہِ کہا اِس پر میں کھڑا ہوگیامگر ابھی سورہ فاتحہ کی دوتین ہی آیات پڑھی تھیں کہ پھر سُبْحَانَ اللّٰہِ کی آواز آئی اِس پر میں نے سمجھ لیا کہ دراصل میں نہیں ُبھولا بلکہ خضر ہی ُبھولے ہوئے تھے۔ بہرحال غلطی شروع ہوچکی تھی اِس لئے بعد میں سجدہ سہو کیاگیا تھا اور مجھے خطرہ تھا کہ لوگوں نے پانچویں رکعت نہ شروع کردی ہو وہ دراصل سجدہ سہو تھا۔ ایک صاحب نے کہا ہے کہ یہاں تو روز ہی نماز خراب کی جاتی ہے یہ منتظمین کا نقص ہے اتنے سالوں سے یہ نقص چلا آتاہے اوروہ اِس کی اصلاح نہیں کراسکے اِس کے لئے کوئی پختہ انتظام ہونا چاہئے۔ منتظم ہمیشہ بڑے اصرار سے کہتے ہیں کہ اب کے ٹھیک انتظام کردیا گیا ہے مگر جب پھر غلطی ہوتی ہے تو اِس قسم کا جواب دے دیتے ہیں کہ ہم نے فلاں سے کہا تھا کہ انتظام کرے اور اُس نے فلاں سے کہہ دیاتھا اِن کی مثال بالکل ایسی ہے کہ کہتے ہیں کہ کسی امیر آدمی کے پا س کوئی فقیر آگیا او رسوال کیا اُس نے کہا اِس وقت جائو اس وقت پیسے نہیں ہیںمگر فقیر اصرار کرنے لگا کہ اس کے کام میں حرج واقع ہورہاتھا اس نے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ اس کے بڑے ملازم ہیں ایک نوکر سے کہا کہ جمال الدین! جائو کمال دین سے کہو وہ صدردین کو کہے کہ فخر دین کو حکم دے کہ اِس شخص کو باہر نکال دے۔ یہ سن کر فقیر بولا کہ جبرئیل! ُتو اسرافیل سے کہہ کہ وہ میکائیل کو کہے کہ عزرائیل کو حکم دے کہ اِس شخص کی جان نکال لے۔ تو اِسی قسم کا انتظام ہمارے منتظمین کرتے ہیں۔ انتظام یہ نہیں کہ کسی سے کہہ دیاجائے کہ فلاں شخص سے کہہ دو کہ کام کرے بلکہ انتظام کرنے کے معنے یہ ہیں کہ خود کیاجائے۔ اور پھر جب دریافت کیاجائے کہ کیا انتظام ہوگیا؟ تو کہتے ہیں کہ جی ہاں ُخوب اچھی طرح انتظام کردیا گیا ہے۔ گویا انتظام کرنے کا کریڈٹ وہ خود لینا چاہتے ہیں مگر جب خرابی ہو تو پھر کہیں گے کہ جی ہم نے تو فلاں سے کہہ دیا تھا کہ وہ فلاں کو اِس کام کے لئے تاکید کردے۔ مثلاً کسی سے کہا جائے کہ فلاں شخص کو ایک میل پرپہنچانا ہے اور جب پوچھا جائے کہ پہنچادیا؟ تو کہیں گے کہ جی ہاں پہنچادیا گویا وہ خود ایک میل پر گئے اور اُسے وہاں پہنچایا مگر جب غلطی معلوم ہو اور پھر پوچھا جائے تومعلوم ہوتاہے کہ خود توکہیں بھی نہیں گئے بلکہ کمرہ میں ہی بیٹھے بیٹھے کسی سے کہہ دیا تھا کہ اسے پہنچادیا جائے۔ تو یہ انتظام کا طریق نہیں۔ انتظام کرنے کے یہ معنے ہیں کہ خود کیاجائے۔ یادرکھنا چاہئے کہ نماز عبادت کاایک اہم رُکن ہے اِس کے متعلق ضرور ایسا انتظام ہوناچاہئے کہ اِس میں غلطی کا امکان نہ ہو جلسہ کے دنوں میںیہ انتظام افسر سٹیج کے سپرد ہونا چاہئے اور افسر جلسہ گاہ کے ماتحت ہونا چاہئے اور انہیں چاہئے کہ خود ایسے آدمی مقررکریں کہ جن کے سِواکوئی نہ بولے اب دیکھا گیا ہے کہ بچے یونہی بیچ میں بول پڑتے ہیں لوگوں سے کہا جائے کہ اپنے بچوں کو اچھی طرح سمجھا دیں کہ وہ یونہی بیچ میں نہ بولا کریں۔
جلسہ سالانہ کے موقع
پر احباب کی ملاقات
اِس کے بعد میںایک واقعہ کا بھی ذکر کرنا چاہتاہوں جو اگرچہ پرائیویٹ ہے مگر اس لئے بیان کرتاہوں کہ دوسروں کو بھی فائدہ ہوسکے۔ آج ملاقات کے بعد مجھے پرائیویٹ سیکرٹری نے بتایا کہ ایک عزیز مجھ سے ملنے کے لئے آئے تھے اور انہوں نے دروازہ میں
داخل ہوناچاہا مگر پہرہ دار نے روکا انہوں نے کہا کہ میں ملاقات کرنا چاہتا ہوں مگر پہرہ دار نے کہا کہ میں نہیں جانتا آپ کون ہیں۔ اُس عزیز نے کہا میں اِسی جماعت کے ساتھ تعلق رکھتاہوں جس کی ملاقات ہورہی ہے اِس پر پہرہ دار نے کہا کہ آپ وقت پرکیوں نہیں آئے بعد از وقت میں اجازت نہیں دے سکتا اس پر بھی اس عزیز نے ملاقات پر اصرار کیا پہرہ دار نے اجازت نہ دی تواُس نے اسے مُکّا مارا جس سے پہرہ دار کے جسم سے خون بہہ نکلا۔ اِس واقعہ میں دونوں کی غلطی ہے اُس نوجوان کے متعلق میں جانتا ہوں کہ وہ مخلص ہے اور اُس نے ایسے وقت میں اپنے اخلاص کو قائم رکھاجبکہ اُس کے بزرگ اس سے محروم ہوگئے تھے وہ ملاقات کرنا چاہتے تھے تواِس طرح اُن کو روکنا مناسب نہ تھا۔ چاہئے یہ تھا کہ پہرہ دار انہیں کہتے کہ تشریف لائیے آپ کا کس جماعت کے ساتھ تعلق ہے اور پھر اُس جماعت کے سیکرٹری صاحب کے پاس لے جاتے کہ یہ آپ کی جماعت کے فرد ہیں اور اس طرح ان کے لئے میرے ساتھ ملاقات کا انتظام کرتے۔ پہرہ والوں کو سوچنا چاہئے تھا کہ ان کے روکنے کے بعد میرے ساتھ ملاقات کا ان کے پاس کیا ذریعہ تھا۔ اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ یہ بادشاہت نہیں بلکہ خلافت ہے خلافت کو بادشاہت کا رنگ ہر گز نہیں دینا چاہئے۔ روکنے والے کو خود غور کرنا چاہئے تھا کہ اگروہ خود باہر کا رہنے والا ہوتا سال کے بعد یہاں آتا اور پھر اُسے خلیفہ کے ساتھ ملاقات سے روکا جاتاتو اُسے کتنا دُکھ ہوتا اور اِس دُکھ کا احساس کرتے ہوئے اسے اس طرح روکنا نہ چاہئے تھا۔ ملاقات کا موجودہ انتظام تو اس لئے ہے کہ جماعتیں اکٹھی ملیں تاواقفیت ہوسکے مگر بعض دفعہ ایک جماعت کے ساتھ دوسری جماعت کا کوئی دوست بھی آجاتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں اگر اسے آنے بھی دیا جاتاتوکیا اُس نے آتے ہی گولی چلادینی تھی؟ یہ انتظام تو صرف سہولت کے لئے ہے ورنہ لوگوں نے بہر حال ملنا ہے۔ پس جہاں تک ملاقات سے روکنے کا تعلق ہے روکنے والے کی غلطی ہے باقی رہا مُکّا مارنے کا معاملہ سو مارنے والا سپاہی ہے اور فوجی افسر ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ان کو مُکّا بازی آگئی مگر اتنا کہتاہوں یہ شرعاً ناجائز ہے۔ اگران پر ظلم ہؤاتو چاہئے تھا کہ وہ اسے برداشت کرتے تا ہم جسے مارا گیا ہے میں اسے کہتا ہوں کہ وہ معاف کردے کیونکہ اس نے اس جذبہ کے زیر اثر ماراہے کہ اسے خلیفہ سے ملنے سے روکا گیا۔ جب پہلے سال زنانہ جلسہ گاہ میں لائوڈ سپیکر لگایا گیا تو بعض لڑکیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ آنے والی عورتوں کو ُکھل کر بیٹھنے کو کہیںان میں میری لڑکی کی بھی ڈیوٹی تھی بعض زمیندار عورتیں آئیں تو میری لڑکی نے ان سے کہا کہ یہیںبیٹھ جائیں آگے جانے کی ضرورت نہیں لائوڈ سپیکر میں سے آواز پہنچتی رہے گی۔ اُن عورتوں نے اِس بات کو بہت بُرامنایا اور میری لڑکی کو نیچے گِراکر مارنے لگیں کہ تم ہمیں سننے سے روکتی ہو کیا یہاں اس بہونپو میں سے آواز آسکتی ہے۔ میری لڑکی نے میرے پاس آکر یہ بات بیان کی تو میں نے ہنس کر کہا کہ تمہیں بہت ثواب ہؤا کہ تم نے خدا کے لئے مارکھائی پس مَیںنے یہ واقعہ عَلَی الْاِعْلَان اس لئے بیان کردیا ہے کہ دوستوں پر واضح ہوجائے کہ دفتروالوں کایہ کام نہیں کہ ملاقات سے کسی کو روکیں۔ انہیں چاہئے کہ جماعت کے عہدیداروں سے پوچھیں کہ فلاں شخص آپ کی جماعت کاہے یا نہیں اور پھر اس کے لئے ملاقات کا موقع بہم پہنچائیں اور اگر کوئی کارکن کسی کو اُس وقت روکے جبکہ اُس کی جماعت مل رہی ہو تو اسے چاہئے کہ اصرار کرے کہ وہ ضرور ملے گا اور کہ اسے روکنے کا کسی کو حق نہیں۔
اخبار نور کا ایک مضمون اور اسکی حقیقت
اب میں ایک اور بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اخبار نور کا۳؍ستمبر کا ایک مضمون میرے سامنے
ہے یہ واقعہ جس کا اِس میں ذکر کیا گیا ہے اُن دنوں کا ہے جب مَیں قادیان سے باہر تھا جب یہ واقعہ ہؤا شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر ُ نور نے مجھے اس کے متعلق خط لکھا کہ ایسا ایسا واقعہ ہؤاہے میں واپس آنے والاتھا اُن دنوں بارشیں بہت ہوئی تھیں اور اخباروں میں بھی چھپا تھا کہ بارش کی وجہ سے راستے خراب ہوچکے ہیں اِس لئے دس بارہ روز تک نہ پہنچ سکا حتیّٰ کہ ڈاک بھی ۳،۴دن نہ مل سکی تھی۔ شیخ صاحب کا یہ خط بیس اکیس اگست کو مجھے ملا اور ۲۴کو ہم قادیان روانہ ہوگئے۔ اِس اخبار پر ۲؍ستمبر کی تاریخ ہے اوریہ امرتسر میں چھپتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ یہ اگست کے آخر میں چھپ چکا تھا گویا اِس کا مضمون وہ ۲۴،۲۵کو دے چکے ہوئے تھے او راِس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ یہ خط انہوں نے رسماً لکھ دیا اِس کا مقصد یہ نہ تھا کہ سلسلہ کی طرف سے تحقیقات کی جائے اگریہ نیت ہوتی تو اخبار میں اس مضمون کی اشاعت کی کوئی ضرورت نہ تھی اور اگر انہیں اِس بات کا خیال ہوتا کہ انہوں نے میری بیعت کی ہوئی ہے تو مجھے خط لکھنے کے بعد اگر دو ماہ تک بھی انتظار کرنا پڑتا توکرتے۔ میںنے اخبار ’’الفضل‘‘ میںاس مضمون کے بارہ میں یہ اعلان کرایا تھا کہ اِس کے متعلق بعد میں اعلان کرایا جائے گا اس پر شیخ محمد یوسف صاحب نے مجھے لکھا کہ جب اِس معاملہ کی تحقیقات کرائی جائے تو مجھے بھی موقع دیا جائے۔ میں نے اِس کا جواب یہ دیا کہ جب آپ نے اخبار میں مضمون چھاپا تھا تو کیا مجھے یا سلسلہ کے کارکنوں کو اپنا پہلو پیش کرنے کا موقع دیا تھا اگر آپ ایسا کرتے تو آپ کا بھی حق ہوتا کہ آپ کو موقع دیا جائے۔ آپ نے اخبار میں اپنی مظلومیت بیان کردی اور سلسلہ کا ظالم ہونا بیان کردیا آپ کو چاہئے تھا کہ مجھ سے پوچھ لیتے یا امور عامہ سے پوچھ لیتے کہ میں نے اس طرح َچٹھی لکھی تھی اِس کا کیا بنا ہے؟ یا اگر خود ہی مضمون شائع کرنا چاہتے تھے تو مجھے لکھ دیتے کہ اب آپ دخل نہ دیں میں خود ہی انتظام کرلونگا۔ یہ بھی تواِن کوسوچنا چاہئے تھا کہ جب انہوں نے ایک بات سن کر مجھے لکھ دی تو دوسرے کا بھی حق تھا کہ میں فیصلہ سے پہلے اِس کا بیان ُسنتا اور اِس کے لئے انہیں انتظار کرنا چاہئے تھا۔ اب میں بتاتا ہوں کہ اِس مضمون میں ایسی باتیں موجود ہیں جو خود اِس کی دوسری باتوں کی تردید کرتی ہیں مثلاً اس میں لوکل پریذیڈنٹ اور ناظر امور عامہ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے ظالمانہ طورپر پولیس کے سامنے اس معاملہ کو پیش کیا اور اصرار کیا کہ ان لڑکوں کوہتھکڑیاںلگائی جائیں ان کے الفاظ یہ ہیں:-
’’یہ معاملہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ جنرل پریذیڈنٹ کے ذریعہ اور ناظر صاحب امورعامہ کے ایماء پر پولیس کے حوالہ کیا گیا اور زور دیا گیا کہ فوراً ہی ایڈیٹر ُنور کے چاروں لڑکوں کے برخلاف پرچہ چاک کرکے ہتھکڑیاں لگائی جائیں۔دودُور اندیش شخصوں نے جس میںایک ہندو جنٹلمین اور ایک مسلمان صاحب تھے جن کا میں بیحد مشکورہوں نے کہا کہ لڑکوں کا والد یہاں نہیں ہے کوئی لڑکا بی۔اے میں پڑھ رہاہے، کوئی گریجوایٹ آپ ان کی زندگی کیوں خراب کرتے ہیں کم سے کم ان کے والد کا تو انتظار کر لیجئے مگر مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ نے کہا کہ انتظار کی کوئی ضرورت نہیں ہم دنیا میں مساوات قائم کرنا چاہتے ہیں کچھ پرواہ نہیں خواہ یہ ایڈیٹر ُنور کے لڑکے ہیں۔ مجھے بتلایا گیا ہے جب مولوی عبدالرحمن صاحب یہ کہہ رہے تھے تو مارے خوشی اور جوش کے ان کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔‘‘
اِس معاملہ میںسب بڑے اور اہم گواہ وہ ہندو جنٹلمین او روہ مسلمان صاحب ہوسکتے ہیں جن کا ذکر کیاگیا ہے اور میں نے دونوںسے دریافت کیا ہے اور دونوں کی گواہی لی ہے۔ ہندو جنٹلمین نے تو کہا ہے کہ مجھ سے کسی نے یہ بات نہیں کی کہ ہم چونکہ مساوات چاہتے ہیں اس لئے ان لڑکوں کو ضرور ہتھکڑیاں لگائی جائیں بلکہ لوکل پریذیڈنٹ نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ یہ شکایت پویس میں درج کرانے سے پہلے ناظر صاحب امور عامہ سے پوچھ لیاجائے اور انہوں نے میرے سامنے ناظر صاحب کو فون کیا اور ناظر صاحب امورعامہ نے جواب دیا کہ بہتر ہے کہ دونوں میں صلح کرادی جائے۔ یہ تو ہے ہندو جنٹلمین کی گواہی۔ مسلمان محسن نے یہ تحریری شہادت دی ہے کہ ناظر صاحب سے پوچھا گیا توانہوں نے کہا کہ اگر صلح ہوجائے تو بہت اچھا ہے۔ شیخ صاحب نے لکھا ہے کہ لوکل پریذیڈنٹ کا چہرہ مارے جوش کے ُسرخ ہورہا تھا میں نے اُس ہندوجنٹلمین سے اِس کے متعلق دریافت کیا توانہوں نے بتایا کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اس واقعہ کے متعلق مَیں نے ناظر صاحب امور عامہ کا بیان بھی لیا ہے انہوں نے بتایا کہ میرے پاس ایک شخص آیا اور شکایت کی کہ مجھے بعض نوجوانوں نے ماراہے مجھے اجازت دی جائے کہ میں پولیس میں جائوں اور میں نے اسے اجازت دے دی۔ یہ بات بالکل غلط ہے کہ میں نے کہا کہ ان لڑکوں کو ضرور پکڑوائو اور قید کرائو۔ (یہاں میں اس امر کی وضاحت بھی ضروری سمجھتاہوں کہ ہر کیس قابلِ دست اندازی پولیس نہیں ہوتا اور اس لئے یہ ُبزدلی ہے کہ یہ خیال کرکے کہ گورنمنٹ کے افسر کیا کہیں گے ہر ایسے معاملہ کو پولیس میں بھیج دیاجائے۔ میرے نزدیک اس کے لئے کوئی وجہ نہ تھی کہ ایسا معاملہ جس میں معمولی ضربات آئی تھیں پولیس کے حوالہ کردیا جاتا یہ الگ بات ہے کہ اِس معاملہ میںکسی نہ کسی وجہ سے پولیس بھی کوئی قدم نہ اُٹھا نا چاہتی تھی پھر بھی ناظر امورعامہ کو یادرکھنا چاہئے کہ جتنا حق قانون نے ہمیں دیاہے اُسے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ پہلے ہی حکومت نے بہت حد تک آزادیاں ہم سے چھین رکھی ہیںاورجوکچھ اُس نے حق ہمیں دیا ہے کوئی وجہ نہیں کہ اسے ہم خود چھوڑ دیں)۔ پھر شیخ صاحب نے لکھا ہے۔شیرا کے ۲۷سالہ لڑکے نے میرے لڑکے عزیز محمد ادریس پر بے تحاشا لاٹھیاں برسانی شروع کردیں ایک لاٹھی سرپر بھی پڑی اور باقی پیٹھ پر مگر میرے لڑکے نے بہت صبر سے کام لیا اور ہاتھ نہ اُٹھایا مگراِس کے بعد اُس ظالم شخص نے میرے چھوٹے لڑکے عزیز بشیر احمد جس کی عمر ۱۴،۱۵سال کی ہوگی کے سر پر زور سے لاٹھی ماری جس سے یہ چھوٹا بچہ چکر کھا کر اور بے ہوش ہوکر زمین پر گِرپڑا اگراُس پر ایک اور لاٹھی پڑجاتی تووہ یقیناچت تھا یہ نقشہ دیکھ کر بڑے بھائی سے برداشت نہ ہوسکا اور وہ اُس ظالم سے ُگتھم ُگتھا ہوگیا میرے دونوں لڑکے نہتے تھے اگر ان کی نیت فساد کی ہوتی توپھر وہ نہتے نہ ہوتے۔ جب ادریس اور شیر ے کا لڑکا ُگتھم ُگتھا ہورہے تھے توایک اور لڑکا مدد کے لئے آیا اُس لڑکے کو اتفاقِ حسنہ سے شیرا اوراس کے لڑکے نے میرا لڑکا ہی سمجھا۔ گویا ظلم دوسرے فریق کا تھا لیکن جس لڑکے کے متعلق اس میں لکھا ہے کہ وہ بچانے آیا میں نے اس واقعہ کے متعلق اُس کا بیان لیاہے۔ اُس نے کہا ہے کہ شیخ صاحب کے لڑکوں نے پہلے اُس شخص کومارا وہ مار کھا کر اندر ُگھسا۔ ان لڑکوں نے اس کا تعاقب کیا اندر سے عورتوں نے شور مچایا مضروب کا باپ آگیا اس نے ُچھڑایا اور دونوں کو نصیحت کی۔ پھر بے شک اس شخص نے بھی مارا مگر پہلے خواہ ُبزدلی کی وجہ سے اور خواہ نیکی کی وجہ سے اُس نے نہیں مارا بلکہ مارکھا کر بھاگا اور اندر داخل ہوگیا اتنے میں اُس کا باپ آگیا اور پھر اُس نے بے شک لاٹھیاں ماریں۔ شیخ صاحب نے لکھا ہے کہ میرے لڑکے پر بے تحاشالاٹھیاں برسائی گئیں اور وہ بے ہوش ہوکرگِر گیا مگراس تیسرے لڑکے کابیان ہے کہ ایساہرگز نہیں ہؤا۔ شیخ صاحب نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ لڑائی ہورہی تھی کہ ایک اور لڑکا آگیا مارنے والوں نے اسے بھی میرا ہی لڑکا سمجھا۔ شیخ صاحب کی تحریر سے ظاہر ہوتاہے کہ گویا وہ لڑکا اتفاقاً وہاں آگیا تھا مگر میں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں بازار میں بیٹھا تھاکہ شیخ صاحب کے لڑکے میرے پاس آئے اور چونکہ میںان کا دوست تھااس لئے مجھے ساتھ لے کر گئے۔ یہ تیسرا لڑکا بھی ملزم تھااِس لئے اُسے مدعی سے کوئی ہمدردی نہیں ہوسکتی۔ پھر اس نے بعض ایسی باتیں بھی بیان کی ہیں جو خود اسکے خلاف ہیں اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس کا بیان درست ہے اور اس کا یہ بیان ہے کہ پہلے مدعی کو ماراگیا وہ بھاگا، بھاگتے ہوئے دہلیز سے ٹھوکر کھا کر گِرا۔ یہ لڑکے اُس کے پیچھے اندرجا ُگھسے اور اُسے مارنے لگے عورتوں نے شورمچایا اُس کا باپ آگیااس نے ُچھڑایا اور پھر مدعی نے ان لڑکوں کو کچھ مارا مگر شیخ صاحب کے لڑکوں میں سے بے ہوش کوئی نہیںہؤا۔
شیخ صاحب نے خاں صاحب مولوی فرزند علی صاحب پر بھی الزام لگایا ہے کہ انہوں نے بھی اس معاملہ میں دلچسپی لی میں نے اس کی بھی تحقیقات کی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ لوگ جو مدعی ہیں وہ خانصاحب کے مزارع ہیں وہ ان کے پاس گئے اوراُن سے شکایت کی انہوں نے ان سے کہہ دیا کہ میں توبیمار ہوں تم امورعامہ میںجائوانہوں نے کہاکہ ہمیں رُقعہ لکھ دو چنانچہ خانصاحب نے رُقعہ لکھ دیا بس اِس سے زیادہ خانصاحب پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوتا۔ شیخ صاحب نے پھر لکھا ہے کہ نظارت اور لوکل پریذیڈنٹ کا فرض تھا کہ وہ پہلے لڑکوں سے پوچھتے پھر کوئی قدم اُٹھاتے۔ اِس کے متعلق میںکہتا ہوں کہ ان کا بھی فرض تھا کہ اخبار میںلکھنے سے پہلے متعلقہ افراد سے پوچھ لیتے کہ واقعہ کیاہے؟ اِس مضمون کو پڑھ کر بعض دوستوں نے مجھے لکھا ہے کہ اِس کا کوئی انتظام ہونا چاہئے مگر میں اتنا ہی کافی سمجھتاہوں کہ تقریر میں اصل حالات کا ذکر کردوں شیخ صاحب کی عادت ہے کہ وہ گھر کے جھگڑوں کو اخبار میںلے آتے ہیں حالانکہ انہیں باربار سمجھایا گیاہے کہ یہ عادت اچھی نہیںمیں متواتر بیس سال سے سمجھا رہاہوں کہ وہ اپنی اس عادت کی اصلاح کریں مگرانہوں نے ابھی نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے َنومسلم ہونے کی وجہ سے میں ان کا لحاظ بھی کرتاہوں بعض ایسی باتیں ہیں جن کی وجہ سے میر قاسم علی صاحب مرحوم(اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے) کا اخبار بندکردیا گیا تھا ان کی طرف سے ہونے کے باوجود میںنے کوئی نوٹس نہیں لیامگر ہر چیز کی حد ہوتی ہے ان کوبھی چاہئے کہ وہ اپنے اسلام کی قیمت نہ ڈالیںبلکہ اپنے اسلام کو مزید قربانی سے خوبصورت بنائیں۔ اب چونکہ انہوں نے مجھے مجبور کردیاہے اور دوسروں کے حقوق کا بھی سوال ہے میںنے مجبوراً اس کا ذکر کردیاورنہ یہ معمولی بات تھی بچوں کی لڑائی تھی۔ میں سمجھتاہوں جماعتی لحاظ سے یہ غلطی ہوئی کہ ان کے بچوں کو پولیس کے پاس جانے دیا گیایہ معاملہ گھر پر طے ہونا چاہئے تھا اور آئندہ ایساہی ہونا چاہئے مگرجو تکلیف انہیں بچوں کے پولیس میں جانے سے ہوئی اگروہ اس پر صبرکرتے اور معاملہ سلسلہ کے پاس ہی رہنے دیتے تو اچھا ہوتا اب جو انہوں نے مضمون لکھا توچونکہ ان کے دیکھے واقعات نہ تھے۔ اِس میں کئی غلطیاں کرگئے اور خلافِ واقعات ُسنے سنائے لکھ دئیے۔ میری اس تقریر کے بعد میں سمجھتاہوں کہ لوکل پریذیڈنٹ یا ناظر امور عامہ کی بھی تسلی ہوجانی چاہئے خصوصاً جب کہ ان کی بھی یہ غلطی ہے کہ انہوں نے ایک معمولی لڑائی کی رپورٹ پولیس میں کرنے کی اجازت دی اور ماں باپ کے لئے تشویش کی صورت پیدا کی اور ایک َنومسلم جو اپنے عزیزوں کو چھوڑ کرہم میں آیا تھا اُس کی دلداری کو مدنظر نہیں رکھا حالانکہ یہ ان کا فرض تھا۔
ایک اہم علمی مضمون
اِس کے بعد میںکل کے مضمون کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے بیان کرنے کی توفیق دی تووہ ایسا مضمون ہوگا کہ جو
دوستوں کو خصوصیت کے ساتھ توجہ سے سننا چاہئے جو لوگ اسے سمجھ سکیں گے وہ تسلیم کریں گے کہ یہ بہت ہی اہم مضمون ہے اور جو نہ بھی سمجھیں گے اُن کو مَیں یقین دلاتاہوں کہ یہ بہت اہم ہے اور جو کچھ سمجھیں گے اور کچھ نہ سمجھیں گے اُن کو مَیں بتانا چاہتاہوں کہ جو حصہ وہ آج نہ سمجھیں گے اُسے َکل سمجھ سکیں گے اور جسے وہ نہ سمجھیں گے ممکن ہے اگر نوٹ کرکے لے جائیں تو ان کا دوسرابھائی جو جلسہ پرنہیں آسکا شاید اسے سمجھ لے پس میں دوستوں کو توجہ دلاتاہوں کہ جو اِسے لکھ سکیں وہ ضرور لکھیں او راِسے باربار پڑھیں اِس کا کچھ حصہ تو تمہیدی ہوگا لیکن اصل مضمون کو جذب کرنا ہر احمدی کے لئے بہت ضروری ہے اور جولوگ جلسہ پر نہیں آسکے جوآئے ہیںان کے لئے انہیں بتانا ضروری ہے۔
خدّام الاحمدیہ کا انعامی جھنڈا
آج کی تقریر شروع کرنے سے قبل میں خدام الاحمدیہ کا انعامی جھنڈا جو دورانِ سال میں سب سے اچھا کام کرنے
والی مجلس کو دیاجاتا ہے مجلس دارالرحمت قادیان کے زعیم بابو غلام حسین صاحب کودیتا ہوں میں اس محلہ کی مجلس خدام الاحمدیہ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ وہ کام میں اول رہی ہے اور میں امید کرتاہوں کہ اِس مجلس کے ممبر اِس جھنڈے کے احترام کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کریں گے اور اپنی زندگیوں کو احمدیت کے مطابق بنا کر یہ ثابت کردیں گے کہ وہ واقعی اِس انعامی جھنڈے کے مستحق تھے اور انتخاب غلط نہ تھا۔
غلہ کے بارہ میں گورنمنٹ کی غلط پالیسی
گزشتہ سال کا قحط بیس سال کے بعد نیا اور تلخ تجربہ تھا پہلے اِس کے آثار فروری میں
شروعہوئے تھے لیکن مَیں نے گزشتہ جلسہ سالانہ پر دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ انہیں غلہ وغیر ہ کا انتظام کرنا چاہئے اور میں نے اعلان کردیاتھا کہ جو دوست غلہ خرید سکتے ہیں وہ فوراً خرید لیں بعض نے خرید ا مگر بعض نے ہنس کرٹال دیا اور دل میں سمجھ لیا کہ ہمارے پاس پیسے ہیںجب چاہیں گے لے لیں گے مگر جب آٹا وغیرہ ملنا بندہؤا تواُن کو معلوم ہؤا کہ وہ غلطی پر تھے۔ دراصل ایسے موقع پر زیادہ تکلیف پیسہ والوں کوہی ہوتی ہے غریب توفاقہ بھی کرسکتا ہے مگر امیر کے لئے ُبھوکا رہنا مشکل ہوتاہے۔ میں اُس وقت سندھ میں تھا مجھے وہاں گندم کے اُن دانوں کا نمونہ بھیجا گیا جو لوگوں کوکھانے کومل رہے تھے وہ بالکل سیاہ تھے اور اُن کی روٹیاں بالکل ایسی تھیں جیسے باجرہ کی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جب فصل نکلی تومیں نے پھر اعلان کیا کہ دوست غلہ جمع کرلیں اور بعض نے کیا بھی، نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت ہماری جماعت کے لوگوں کی حالت دوسروں کی نسبت بہت بہتر ہے۔ میں نے زمینداردوستوں کو بھی یہ تحریک کی تھی کہ غلہ زیادہ پیدا کریں اور اسے ّحتی الوسع جمع رکھیںاور بہت سے دوستوں نے ایساکیا نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ خود بھی فائدہ میں رہے اور ان کے ذریعہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے۔ قادیان میں بھی بہت سے لوگوں نے غلہ خرید لیا تھا مگر جنہوں نے نہ خریدا اور غفلت کی اُن کے لئے پھر غلہ مہیا کرنے کی کوشش کی گئی توسرگودھا کی جماعت نے مہیا کردیا گوقیمتاً ہی دیا مگر یہ بھی غنیمت ہے کہ مل گیا ان کے پاس ذخائر تھے اور کئی سَومن غلہ ہمیں مل گیا مگر میرے باربار توجہ دلانے کے باوجود بعض لوگوں نے احتیاط نہ کی قادیان میںبھی بعض لوگوں نے نہ کی اور انہیں تکلیف ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں اِس کی ایک وجہ پچھلے سال کا گورنمنٹ کا یہ اعلان تھا کہ لوگوں کو غلہ جمع نہ کرنا چاہئے کافی غلہ ہروقت مل سکے گا۔ہماری جماعت نے عام طور پرجمع کیا اور دوسرے لوگوں میں سے اُس طبقہ نے جو ہماری بات کی قدر کرتاہے اِس پر عمل کیا مگر گورنمنٹ نے اعلان کیا کہ غلہ جمع نہ کیا جائے ورنہ چھین لیاجائے گا۔ مجھ سے بعض لوگوں نے اِس بارہ میں دریافت کیا تو میں نے جواب دیا کہ کھانے کے لئے اپنے پاس رکھو۔ یہ گورنمنٹ کی سخت غلطی تھی جب گورنمنٹ نے یہ اعلان کیا تو گندم کا بھائو چار روپے چھ آنیتھا اُس وقت بھائو مقررنہ کیا گیااور وہ چڑھتے چڑھتے پانچ روپے پانچ آنیتک جا پہنچا۔ پھر گورنمنٹ نے کنٹرول قائم کردیا اِس کا لازمی نتیجہ یہ ہؤا کہ تاجر دلیر ہوگئے اورانہوں نے سمجھا کہ اگرہم غلہ کو روک لیں تواور زیادہ فائدہ اُٹھا سکیں گے پانچ روپے پانچ آنیبھائو مقررکرنے کے معنے یہ تھے کہ گورنمنٹ نے جو قانون پاس کیا تھا وہ اُس کی تعمیل نہیں کراسکی یہ گویا شکست کا اقرار تھا کہ ہم اپنے قانون کو نافذ نہیں کراسکے۔ میں نے یہ اعلان کردیا تھا کہ دوست گندم خریدلیں مگر گورنمنٹ نے اعلان کیا کہ اُس نے پندرہ لاکھ من غلہ خریداہے اور کہ غلہ َسستاہوجائے گا اِس وجہ سے کئی لوگوں نے نہ بھی خریدا اوراب وہ دیکھ رہے ہیں کہ انہیں کس قدر تکلیف اُٹھانی پڑرہی ہے۔ پچھلے سال توبورے والا آٹا ملتا تھا مگر اب کے وہ بھی نہیں مل رہا اور معلوم نہیں گورنمنٹ کی خریدی ہوئی پندرہ لاکھ من گندم کہاں ہے۔ اب گورنمنٹ چھاپے مار رہی ہے اگراس کے اپنے پاس پندرہ لاکھ من ہے تولوگوں کے مکانوں پر گندم کی تلاش کے چھاپے کیوں مارے جارہے ہیں۔بات صرف یہ ہے کہ اس نے جو گندم خریدی تھی وہ ملٹری کی ضرورت کے لئے تھی اس صورت میں چاہئے تھا کہ وہ لوگوں سے کہہ دیتی کہ اپنی ضرورت کے لئے گندم خرید لو۔اسلام نے غلہ کو مہنگاکرنے کے لئے روکنے سے منع کیا ہے مگر گھر کے لئے جمع کرنے سے نہیں روکا بلکہ یہ ضروری ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ متو ّکل کون ہو سکتا ہے مگر آپ بھی اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر کا غلہ مہیا کردیتے تھے۔ گورنمنٹ کو چاہئے تھا کہ لوگوں سے کہتی کہ اپنی ضرورت کے لئے غلہ جمع کرو اور تاجروں سے کہتی کہ فروخت کرو مگر اس نے جو پالیسی اختیار کی وہ غلط تھی اور ا س کے نتیجہ میں لوگوں کو سخت تکلیف پہنچی ہے مجھے بعض جگہ سے خطوط آئے ہیں کہ ہم پہلے چاول کھاتے تھے وہ ملنے بند ہوئے تو گیہوں کا آٹا شروع کیا اب آٹا بھی نہیں ملتا باجرہ کا آٹادوتین سیر روپیہ کا مل رہا ہے۔ ڈھاکہ سے آج ہی مجھے ایک خط ملا ہے کہ نہایت ادنیٰ قسم کا چاول بیس روپیہ َمن مل رہاہے حالانکہ پہلے موٹے چاول روپیہ کے دس بارہ سیر ملا کرتے تھے اور کشمیر میں تو ان کا بھائو اٹھارہ سیر فی روپیہ ہوتاتھا اب غریب لوگ کیا کھائیں۔
غرباء کے لئے غلہ کی تحریک
اور نظامِ سلسلہ کی خوبی
اِسی سلسلہ میںمیں نے تحریک کی تھی کہ غرباء کے لئے بھی دوست بطور امداد غلہ جمع کریں چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کے غرباء کو پندرہ سَو َمن گندم جو اِن کی پانچ ماہ کی خوراک ہے تقسیم کی گئی اور انہیں ہدایت کی گئی کہ وہ اسے آخری پانچ ماہ
کے لئے محفوظ رکھیں اور خداتعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ قحط بھی عین اِسی وقت شروع ہؤا۔ میں نے کہا تھا کہ جن لوگوں کو یہ گندم مہیا کی گئی ہے وہ اسے دسمبر میںکھانا شروع کریں اور قحط بھی دسمبر میںہی شروع ہؤا ہے یہ بھی نظام کی ایک ایسی خوبی ظاہر ہوئی ہے کہ ساری دنیا میںاس کی مثال نہیں مل سکتی کہ ہر غریب کے گھر میں پانچ ماہ کا غلہ جمع کردیا گیا۔میں نے یہ ہدایت کی تھی کہ دسمبر سے پہلے اس کا استعمال شروع نہ کیا جائے میرا ارادہ ہے کہ جنوری کے بعد ایسے لوگوں کے گھروں میں آدمی بھجوا کر یہ معلوم کرائونگا کہ انہوں نے وہ پہلے ہی تو نہیں کھا لیا اور جنہوں نے اِس ہدایت کی تعمیل میں بے احتیاطی کی ہوگی اُن کو اگر پھر دوبارہ خداتعالیٰ نے اِس کی توفیق دی توامداد دیتے وقت اُن لوگوں سے مؤخّر رکھا جائے گا جنہوں نے اِس ہدایت کی پابندی کی ہے یہ تو میں نہیں کہتا کہ صرف اُنہی کو دوبارہ امداددی جائے گی جنہوں نے غلہ کو مقرر ہ وقت سے پہلے نہیں چھیڑا لیکن دوبارہ امداد کے وقت ہدایت کی پابندی کرنے والوں کو مقدّم ضرور کیاجائے گا۔
موجودہ حالت یہ ہے کہ غلہ مُلک میں کافی موجود ہے مگر ملتا نہیں۔ مجھے ایک واقف کار نے بتایا کہ گورداسپور میں ہی کئی لاکھ من غلہ موجودہے مگرجب لوگ افسروںکے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ان لوگوں کا گلا گھونٹ دیں جن کے پاس غلہ ہے؟ مگر سوال یہ ہے کہ اگر افسروں نے گلا گھونٹنے سے ڈرنا تھا توپہلے ہی کیوں نہ اعلان کردیا کہ لوگ اپنی اپنی ضروریات کے مطابق غلہ جمع کرلیں اِس صورت میں تو حکومت کو چاہئے تھا کہ غلہ زمیندار کے پاس ہی رہنے دیتی۔ زمیندار کی مثال تو چھلنی کی ہے وہ زیادہ دیر تک غلہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا اگر اس کے پاس ہوتا تو وقت پر ضرور مل سکتا۔ مگر بنیے تو دفن کرلیتے ہیں کہ جب قحط ہوگا نکال لیں گے۔ اِس وقت اگر زمیندار کے پاس غلہ ہوتا تو وہ ضرور فروخت کردیتا مگراس کے قبضہ میں اِس وقت ہے نہیں۔ گورنمنٹ کی غلط پالیسی کی وجہ سے غلہ بَنیوں کے قبضہ میںجاچکا ہے اور وہ اب اسے نکالتے نہیںہیں گورنمنٹ نے ان لوگوں کے قبضہ سے تونکلوادیا جن سے لوگوں کومل سکتا تھا زمیندار تو غلہ فروخت کرنے پر مجبور بھی ہوتے ہیں انہوں نے سرکاری لگان اداکرنا ہوتا ہے اس کے لئے بھی غلہ ہی فروخت کرتے ہیں اور ضروریات کی دوسری چیزیں خرید نے کے لئے بھی مگر جب ان کے پاس سے نکل کر بنیوں کے پاس جا پہنچا تو پھر ملنا مشکل ہے گورنمنٹ کایہ اعلان عقل کے خلاف تھا۔ اس نے ۰؍۴؍۵فی من نرخ مقرر کردیا اور ساتھ کہہ دیا کہ اب ہم اِس سے زیادہ نہ بڑھائیںگے لیکن یہ خیال نہیںکیا کہ یہ تومنڈی کی قیمت تھی اور یہی قیمت مقرر کردینا تاجر کی حق تلفی تھی اس وجہ سے وہ مجبور ہوگئے کہ غلہ کو روک لیںیا چوری چوری گراں قیمت پر فروخت کریں اور اب یہ حالت ہے کہ گندم سات آٹھ روپے تک فی من فروخت ہو رہی ہے۔ اگرگورنمنٹ خود ہی کچھ نرخ بڑھادیتی تولوگ اسے بخوشی برداشت کرلیتے اوراِس تکلیف سے محفوظ رہ سکتے جو اِس وقت اُٹھانی پڑ رہی ہے اور ابھی خطرہ ہے کہ اِس سے بھی زیادہ خطرناک صورت نہ پیدا ہوجائے۔
زمینداروں کونصیحت
میں نے زمینداروں کو نصیحت کی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ غلہ کاشت کریں اب توجو بونا تھا بویا جاچکا اب میںیہ نصیحت کرتاہوں کہ وقت
آنے پر کٹائی وغیرہ احتیاط سے کریں اندازہ ہے کہ اِس سال دس پندرہ فی صدی غلہ زیادہ پیدا ہوسکے گا۔ پھر میںیہ بھی نصیحت کرتاہوں کہ سوائے ا ّشدمجبوری کے غلہ فروخت نہ کیا جائے اور اپنے پاس محفوظ رکھاجائے نفع کمانے کے لئے نہیں بلکہ تکلیف سے بچنے کے لئے سوائے اس کے کہ حکومت جبراً چھین لے لیکن جب تک وہ مجبور نہ کرے محض اعلانوں سے نہ ڈریں۔ بظاہر اگلا سال اِس سے بھی بہت سخت ہوگا اگر حکومت عقلمندی سے کام لے تو بیس لاکھ من کے قریب گندم فصل نکلنے پر خرید لے۔ اِس پر اگر ایک دوکروڑ روپیہ خرچ کرنا پڑے تو لوگوں کے فائدے کے پیش نظر معمولی بات ہے اگر روپیہ نہ ہو تو بنک سے ُسود پر قرض لے سکتی ہے( وہ اسلامی احکام کے تابع نہیں کہ ُسود کا ُعذر کرے) اور پھر خرید ُشدہ گندم پر منافع لگا کر پورا بھی کر سکتی ہے اس سے بنیوں کا زور ٹوٹ جائے گا مگر یہ سٹاک ملٹری ضروریات کے لئے نہ ہوبلکہ ملٹری کے لئے اس سے الگ خریدا جائے۔ اب تو خریف کا وقت گزرچکا ہے آئندہ خریف پر زیادہ سے زیادہ اشیاء خوردنی کی کاشت کرنی چاہئے۔ بعض زمیندار خیال کرتے ہیں کہ جوار اور باجرہ وغیرہ کی کاشت کی کیا ضرورت ہے مگراب توان لوگوں نے جن کے پاس جوار اور باجرہ وغیرہ تھا اتنا ہی نفع کمایا ہے جتنا گندم والوں نے۔ اگرمارکیٹ میں جوار اور باجرہ کافی مقدار میں ہو تو گندم اتنی گراں رہ ہی نہیںسکتی۔ پس میں زمینداروں کو نصیحت کرتاہوں کہ خریف کی فصل زیادہ بوئیں اور کھانے پینے کی اشیاء زیادہ کاشت کریں۔ ملازمت اور تجارت پیشہ احباب کومیں نصیحت کرتاہوں کہ وہ اپنے اخراجات میں کمی کریں اور کچھ نہ کچھ ضرور پس انداز کرتے رہیں اور جہاں تک ہو سکے اکٹھی گندم خریدلیں ورنہ بعد میں تکلیف اُٹھائیں گے۔ آج ہی ایک احمدی کا خط مجھے ملا کہ افسوس میں نے آپ کی نصیحت پر عمل نہ کیا اور اِس کے نتیجہ میں آج سخت تکلیف اُٹھا رہا ہوں۔ پہلے چاول کھانے کے عادی تھے اسے چھوڑ کر گندم استعمال کرنے لگے وہ نہ ملی تو جوار شروع کی، پھر باجرہ کیا، اب وہ بھی نہیں ملتا۔ پس ان باتوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور جب خداتعالیٰ نے عقل اور سمجھ دے رکھی ہے تو کیوں اپنے آپ کو اور اپنے بال بچوں کو تکلیف میں ڈالا جائے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ گزشتہ جنگ کے موقع پر بھی قحط پڑا تھا مگروہ جلد ہی دُور ہوگیا تھا مگر یہ خیال صحیح نہیںیہ جنگ اس سے بہت مختلف ہے اور میرا خیال ہے اب کے قحط بہت لمباہوگا۔
کپڑا حاصل کرنے میں
دقّت اور اس کا علاج
دوسری بڑی تکلیف آج کل کپڑے کی ہے میرے سامنے کچھ عرصہ ہؤا ایک عزیز نے یہ تکلیف بیان کی کہ کپڑا بہت گِراں ہوگیاہے۔ تو میںنے انہیں جواب دیا تھا کہ کھدر پہنیں کپڑے پر تاجر بہت زیادہ نفع لگاتے ہیں۔فرض کرو ایک من روئی کی قیمت پچاس روپیہ
ہو تو ایک من کپڑے کی قیمت قریباًپانسو روپیہ ہوتی ہے لیکن اگر زمیندار پھر گھروں میں چرخوں کو رواج دیں۔ سوت کاتیںاور جو لاہوں سے کپڑا بنواکر استعمال کریں توکوئی تکلیف نہ ہوگی۔ ململ، لٹھا او ردوسرے ایسے کپڑوں کا استعمال ترک کردیں۔ میں نے تو تجویز کی ہے کہ جب میری موجودہ قمیصیں پھٹ جائیں تو کھدّر کی بنوائونگا اور اپنے گھروں میں بھی کہا ہے کہ ایک ایک چرخہ منگوائو، رُوئی خریدو اور ُسوت کات کرکھدّر بنوائو۔شہر کے لوگ عام طور پر یہ نہیں کرسکتے مگر دیہات کے بڑی آسانی سے کرسکتے ہیں اوراِس طرح اپنا بہت سا روپیہ بچاسکتے ہیں۔ میں یہاں اس امر کی وضاحت کردینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ کانگرس کے اصول کی اِتّباع نہیں بلکہ اپنی تکلیف دور کرنے کی وجہ سے یہ تحریک کررہا ہوں۔
کھانڈ کی بجائے ُگڑ
شکر استعمال کریں
اسی طرح اب ُگڑ شکر نکلنے والا ہے دوستوں کو چاہئے کہ حتی الوسع وہ بھی جمع کرلیں اور کھانڈ مصری کی بجائے اسے استعمال کریں۔ آخر ہمارے باپ دادا پہلے انہی چیزوں کا ہی استعمال کیا کرتے تھے۔ پُرانے زمانہ میں توہمارے ملک میں ُگڑایک نعمت سمجھی جاتی تھی۔ کہتے ہیں کچھ لڑکے
آپس میں باتیں کررہے تھے کہ ملکہ انگلستان کیاکھاتی ہوگی کسی نے کہاپلائو کھاتی ہوگی کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ۔ ُبڈھا باپ یہ باتیں سن رہا تھا غصہ سے بولا کہ کیا تمہاری عقل ماری گئی ہے جو ایسی باتیں کرتے ہو ملکہ تو ُگڑکھاتی ہوگی ایک طرف بھی ُگڑرکھا رہتا ہوگا دوسری طرف بھی ُگڑ اُدھر گئی تو ُگڑکھالیا اور اِدھر آئی تو پھر ُگڑ کھا لیا۔ توہمارے ملک کا ُگڑاتنا شاندار ہوتاتھا مگر اب وہ بھی تنزل میںآچکا ہے۔ زمینداروں نے بھی کھانڈ اور مصری کا استعمال شروع کردیاہے مگر اب میں دوستوں کو نصیحت کرتاہوں کہ ان چیزوں کا خیال جانے دیں اور ُگڑشکر استعمال کریں بنگال سے اطلاع ملی ہے کہ وہاں چینی ایک روپیہ سیر ہوگئی ہے یہ کتنا ظلم ہے میں نے تواب نمکین چائے کا استعمال شروع کردیاہے جو لوگ دودھ استعمال کرتے ہیں وہ بھی اگر نمک ڈال کر پئیں تو دیکھیں گے کہ نمک سے بھی دودھ بہت لذیذ ہوجاتا ہے بے شک نمک بھی مہنگا ہوچکا ہے مگروہ تھوڑا سا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ چند سالوں ہی کی بات ہے اتنے عرصہ کے لئے کھانڈ اور مصری وغیرہ کا استعمال ترک کردو۔ زمینداروں کو چاہئے کہ لگان وغیرہ ادا کرنے کے لئے بھی ُگڑ شکر فروخت نہ کریں بلکہ میں کہوں گا جن کے پاس ہوں وہ زیور بیچ کرلگان ادا کریں اور ُگڑشکر جمع کریں یہ صرف سال دوسال کی بات ہے گزر جائے گی اس وقت پھر مصری اور کھانڈ وغیرہ استعمال کرلینا ِفی ال￿حال چھوڑدو۔
مٹی کے برتنوں کے استعمال کی ہدایت
آجکل برتنوں وغیرہ کی بہت تکلیف ہے برتن بہت مہنگے ہوچکے ہیں جو برتن پہلے ۴یا۵ آنہ میں قلعی
ہوجاتا تھا اب روپیہ ڈیڑھ روپیہ میں ہوتا ہے اس لئے چاہئے کہ لوگ مٹی کے برتنوں کااستعمال شروع کردیں۔ ہمارے باپ دادا قریباً سات ہزار سال تک مٹی کے برتن ہی استعمال کرتے رہے ہیں اور اگر ہم کریں تو کیا حرج ہوگا اور ہم کیوں مٹی کے برتنوں میںکھا پی نہیں سکتے۔ عورتیں بعض اوقات اعتراض کیا کرتی ہیں کہ فلاں کھانامٹی کے برتن میں نہیں پکتا مگر میں کہتا ہوں ایسا کھانا نہ پکائو۔ مٹی کے برتن بھی بہت اچھے اچھے بنتے ہیں ملتان کے علاقہ میں مٹی کی ہنڈیاں نہایت اعلیٰ تیار ہوتی ہیں چائے پینے کا چینی کا سیٹ اب ۱۲‘۱۳روپیہ میںملتاہے۔ اس کی بجائے بھی مٹی کا سیٹ استعمال کرنا چاہئے۔ میرے پاس ایک مٹی کا سیٹ ہے اس پر بہت خوبصورت روغن کیا ہؤا ہے اور پالم پور کے سفر میں مَیں وہی استعمال کرتا رہا ہوں تو دوستوں کو چاہئے کہ مٹی کے برتن استعمال کریں۔ ِچینی کے برتن تو بہت گِراں ہو چکے ہیں معمولی قسم کا سیٹ جو پہلے ڈیڑھ دو روپیہ میں آجاتا تھا اب ۱۲‘۱۳ روپیہ میں ملتا ہے۔ گویا َنو ُگنا قیمت بڑھ چکی ہے اور پھر یہ چینی کے برتن ُٹوٹ بڑی جلدی جاتے ہیں اوراِس طرح نقصان بہت ہوتاہے۔ مٹی کا برتن اگر ُٹوٹ بھی جائے تواتنا نقصان نہیںہوتا غالب نے کہا ہے کہ۔
اور بازار سے لے آئے اگر ُٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے میرا جام سفال اچھا ہے
غالب کا یہ نظریہ اس زمانہ میں خاص طور پر درست معلوم ہوتاہے مٹی کے برتن بہت اچھے ہیں پیسے کم خرچ آتے ہیں اور اگر ٹوٹ جائے تو آسانی سے اور لیاجاسکتا ہے۔
زمینیں اور مکانات ابھی نہ خریدیں
اِس کے علاوہ میں زمینداروں کو ایک اور نصیحت بھی کرنا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ آجکل انہیں پیسے ُخوب مل
رہے ہیں ہر چیز گِراں فروخت ہو رہی ہے اورابھی خداتعالیٰ نے چاہا تو ا ور بھی پیسے انہیں آئیں گے اور حالت کے بہتر ہونے پر انہیں مغرور نہ ہوناچاہئے۔ قرآن کریم نے اکڑاکڑ کر چلنے سے منع فرمایا اور فرمایا ہے کہ اِس طرح انسان نہ آسمان پر پہنچ سکتاہے اورنہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے۔۱؎ پہلے ان کی حالت بہت خراب تھی حتّٰی کہ زیور گروی کرکے لگان ادا کرنا پڑتا تھا مگر یہ دن اِن کی کمائی کے ہیں ایسے دن بیس پچیس سال کے بعد آتے ہیں ہمیشہ ایسے حالات نہیں رہتے اِس لئے انہیں چاہئے کہ روپیہ کو محفوظ رکھیں۔ بعض زمیندار زمینیں خریدنے پر زور دیتے ہیں مگر یہ زمین خریدنے کا وقت نہیں اِن حالات میں جو زمین خریدے گا وہ سخت نقصان اُٹھائے گا اِس وقت روپیہ کو محفوظ کرلینا چاہئے خواہ یہاں امانت کے طور پر جمع کرادیا جائے اور خواہ اپنے اپنے ہاں کسی محفوظ مقام میں جمع کرادیاجائے۔ جنگ کے بعد جب یورپ کے لوگ غلہ خرید چُکیںگے اُس وقت قیمتیں گِریں گی اور وہ وقت زمینیں وغیرہ خریدنے کا ہوگا یہ نہیں ہے۔ پچھلی جنگ میں زمینوں کی قیمتیں اتنی چڑھ گئی تھیں کہ ۲۵،۳۰ہزار روپیہ مربّع کی قیمت ہوگئی تھی مگر پھر ایسی گِری کہ گزشتہ سالوں میں چند سَوروپیہ سالانہ پر ایک مربّع ٹھیکہ پر کوئی نہیں لیتاتھا اور قیمت چھ سات ہزار ہوگئی تھی پس یہ وقت زمینیں اورمکانات وغیرہ خریدنے کانہیںاگرکسی کے پہلو میں کسی ایسے شخص کا مکان ہو جس سے ہمیشہ جھگڑا وغیرہ رہتاہو توایسا مکان وغیرہ لے لینے میں تو کوئی حرج نہیں مگر تجارت کے طور پر اِس وقت زمین یا مکان مناسب نہیں۔ اِسی طرح اِس وقت زیور وغیرہ بنانا بھی فضول ہے۔ سونا ستّر روپیہ تولہ سے بھی بڑھ چکاہے بلکہ اگر کسی کے پاس سونا ہو تو اِس وقت بیچ دینا چاہئے جنگ کے بعد پھرجب َسستا ہوگا تولے لیں۔ یہ سونا خریدنے کانہیںبلکہ فروخت کرنے کا وقت ہے اس طرح جہاں تک ممکن ہو شادی بیاہ ملتوی کردو اور اگر کرنا ہی پڑے تو لڑکے لڑکیوں سے کہا جائے کہ نقد روپیہ لے لو۔ میری ایک عزیزہ تھی میں نے اس سے وعد ہ کیا تھا کہ اس کی شادی پراسے تحفہ دوں گا اب اس کی شادی کا موقع آیا تومیں نے کہا کہ زیور وغیرہ بنوا کرمیں روپیہ ضائع نہیں کرنا چاہتا میں تمہارے خاندان کے کسی بزرگ کے سپرد روپیہ کردیتاہوں جنگ کے بعد جو زیور چاہو بنوالینا۔
ایک اور بات یاد رکھو آج تجارت میں خاص نفع ہے ہوشیار زمیندار یا غیر زمیندار گائوں میں دُکانیں نکال لیںآجکل تجارت میں گھاٹے کا احتمال بہت کم ہے آجکل نفع ہی نفع ہے، ہر چیز کی قیمت بڑھ رہی ہے گھٹتی نہیں آج ایک چیز پانچ روپیہ میں ملتی ہے توکل اس کی قیمت چھ روپیہ ہوجاتی ہے۔ اگرکوئی اپنی بیوقوفی سے نقصان اُٹھا لے تو اور بات ہے ورنہ آجکل تجارت میں خسارہ کا احتمال بہت ہی کم ہے یہ فائدہ اُٹھانے کا وقت ہے اس لئے جہاں تک ہوسکے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
جنگ کی صورتِ حالات
اب میں جنگ کی طرف آتاہوں بظاہر جنگ کے حالات میں کچھ تبدیلی ہوگئی ہے اور بعض لوگ خیال کرنے لگے ہیں کہ فتح ہونے
لگی ہے مگر جنگ میں ابھی ایسی تبدیلی کوئی نہیں ہوئی کہ ظاہری سامانوں پر نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکے کہ آخری فتح ضرور اتحادیوں کی ہی ہوگی۔ ابھی تاریک دن باقی ہیں اِس لئے مطمئن ہوکر بیٹھ جانا صحیح نہیں اگرلوگ اطمینان محسوس کرلیں توپھر کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور لوگ بھی اِس جنگ میں مدد دے رہے ہیںاور کوشش کررہے ہیں کہ انگریزوں کی فتح ہو اور ہماری جماعت بھی کوشش کررہی ہے۔ دوسرے لوگ تو ذاتی لالچ اور نفع کے لئے کوشش کرتے ہیں کسی کو یہ لالچ ہے کہ میرالڑکا یا فلاں عزیز تحصیلدار ہوجائے گا،تھانیدار ہوجائے گا یااسے کوئی بڑا ُعہدہ مل جائے گا، بڑے سے بڑا آدمی بھی ذاتی نفع کے خیال سے کوشش کررہا ہے مگر ہماری جماعت جو خدمت کرتی ہے وہ اپنے اصول کے لحاظ سے کرتی ہے کسی طمع او رلالچ کی وجہ سے نہیں۔ممکن ہے بعض او رتعلیم یافتہ افراد بھی اصول کے لحاظ سے کرتے ہوں مگر جماعتی لحاظ سے ہمارے سِوااور کوئی ایسانہیں کرتا۔ اورایسے لوگ جو اصول کے لئے کوشش کرتے ہوں اور سوچ سمجھ کرکرتے ہوں وہ اگرمطمئن ہوجائیں کہ اب فتح ہونے لگی ہے تو اُن میں ضرور ُسستی آجاتی ہے کیونکہ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اب کام ختم ہونے کو ہے۔ اس لئے ہمارے دوستوں کو خیال رکھنا چاہئے کہ ابھی اس جنگ کے تاریک پہلو موجود ہیں۔روس کے متعلق سمجھاجاتاہے کہ وہ جرمنوں کو اب شکست دے رہا اور بڑھتا جارہا ہے۔ بے شک وہ بڑھابھی ہے مگر واقف کارلوگ جانتے ہیں کہ اب تک وہ صرف اُنہی علاقوں میں بڑھ سکا ہے جن میں جرمنی کہتاہے کہ وہ بڑھ لے۔ لیکن جہاں جرمنی نے اب قبضہ رکھنا چاہاوہاں سے روس اُسے پیچھے نہیں ہٹاسکا او رکسی ایسی جگہ کونہیں لے سکا۔ اِس سے ثابت ہوتاہے کہ ابھی روس کا پہلو اتنا زبردست نہیں جتنا عام طور پر خیال کیاجانے لگاہے اور جرمنی کا پہلو ابھی اتنا کمزور نہیں ہؤا ۔ اور اب اگر اِس سال یعنی۱۹۴۳ء میں جرمنی کی طاقت نہ ُٹوٹی تو اگلاسال روس کے لئے سخت مشکلات کا ہوگا۔پچھلے سال روسی جہاں تک جرمنوں کو دھکیل کر لے گئے تھے اگر وہاں تک لے گئے تواس کے معنے یہ ہونگے کہ جرمنی کا زور ُٹوٹ گیا ورنہ نہیں۔ اوراگر روس کی طاقت ُٹوٹ گئی تو سب سے زیادہ خطرہ ہندوستان کے لئے ہوگا کیونکہ پھرہندوستان اوردشمن کے درمیان کوئی بھی روک نہ ہوگی۔ پھر یہ بھی سوچنا چاہئے کہ روس کی آبادی زیادہ ہے اورگوہندوستان کی آبادی اُس سے بہت زیادہ ہے مگر اِس میں کئی کروڑ لوگ ایسے ہیں جو غیر جنگی ہیں اس کے علاوہ یہاں کا ایک معتدل طبقہ ایساہے جو جاپان سے ہمدردی رکھتاہے یہ حصہ بھی جرمنی سے لڑنے والا نہیں اِن دونوں کو اگر علیٰحدہ کردیا جائے تو ہندوستان کی ایسی آبادی جوجرمنی سے مقابلہ کرنے میں انگریزوں کا ساتھ دے سکتی ہے ۸ ، ۹کروڑ رہ جاتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میںجرمنی کی آبادی آٹھ کروڑ ہے، اٹلی کی چار کروڑسے زیادہ ہے، رومانیہ کی تین کروڑ ،ہنگری کی تیس لاکھ اور پولینڈ کی چالیس لاکھ ہے اور یہ سب مل کر سترہ اٹھارہ کروڑ آبادی بن جاتی ہے اور اس طرح جرمنی کی طاقت آبادی کی تعداد کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہے۔ پھر جاپان کی طاقت اس سے علاوہ ہے۔ بے شک بعض حالات انگریزوں کی تائید میں ظاہر ہوئے ہیں مثلاًشمالی افریقہ میں انہیں فتح ہوئی ہے۔ یہ پہلی لڑائی ہے جس میں جرمن میدان سے بھاگے ہیں اور لیبیا کی لڑائی بالکل اُسی طرح ہوئی ہے جس طرح مجھے رؤیا میں دکھایا گیا تھا اور جرمنوں کے اِس طرح بھاگنے سے ان کی برتری کا رُعب بھی کم ہوگیا ہے اِدھر روس نے ثابت کردیا ہے کہ جرمنی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ پہلے جو جرمن سپاہی کو ّہَوا سمجھا جاتا تھا یہ رُعب اب مٹ چکا ہے جرمنی کا ایک اور رُعب سامان کا تھا۔ ہٹلر نے کئی بار کہا تھا کہ بعض مخفی ایجادیں ان کے پاس ہیں مگر یہ رُعب بھی جاتا رہا ہے اور ظاہر ہو گیا ہے کہ مخفی ایجادوں کا پروپیگنڈابالکل غلط تھا۔ اگرکوئی ایسی ایجاد ہوتی تو اِن خطرناک حالات میں ضرور باہر آجاتی یہ ظاہر ہوچکا ہے کہ جرمنوں کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کے مقابلہ کی کوئی چیز اتحادیوں کے پاس نہ ہو۔ اگراس نے کوئی ایجاد کی ہے توبرطانیہ نے بھی اس کے مقابلہ پر کوئی نہ کوئی ایجاد کرلی ہے۔ اور امریکہ نے بھی کر لی ہے کسی نے اچھی قسم کا کوئی ٹینک بنالیا،کسی نے اچھا طیارہ بنالیااو رکسی نے ڈسٹرائر تیار کرلیابہر حال اب یہ اطمینان ہوچکاہے کہ جرمنی کے پاس کوئی ایسی ایجاد نہیں کہ جس سے یکدم جنگ کا نقشہ بدل سکتاہو۔ پھر اِس کے علاوہ فرانس میں بھی جرمنی کی مخالفت کا جذبہ روزبروز زیادہ ہورہا ہے۔ اتحادیوں کو سامان تیار کرنے کاکافی موقع مل چکا ہے پہلے ان کے پاس اتنا سامان نہیں تھا جتنا اب بن چکا ہے اور روز بروز اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلے ہندوستانی فوج صرف ایک لاکھ ساٹھ ہزار تھی مگر اب دس لاکھ سے بھی بڑھ چکی ہے۔ایک اَور بات بھی قابل ذکر ہے پہلے یہ عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ اگر برما انگریزوں کے ہاتھ سے جاتارہا تو چینی ضرور جاپانیوں سے دب جائیں گے ان کے پاس سامان جنگ بالکل نہیں ہے اندر ہی اندر یہ خیال بہت پایا جاتا تھا مگر چینیوں نے بھی وہ موقع گزار لیا ہے اور اب ان کے لئے ویسا خطرہ نہیںرہا کہ وہ یکدم ہتھیار ڈال دیں گے چین برابر اپنے کام میں لگا ہؤاہے۔
جنگ میں اتحادیوں کی امداد کے طریق
اب میں یہ بتاتاہوں کہ جنگ میں مدد کس طرح کی جاسکتی ہے پہلی بات تویہ ہے کہ جہاں
تک ہوسکے بھرتی میں مدد دی جائے۔ پھر جو لوگ مالی امداد دے سکتے ہیں وہ مالی امداد دے دیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ غلط افواہوں کوروکنا چاہئے میں نے پچھلے سال بھی بتایا تھا کہ افواہوں کو پھیلنے سے روکنا بہت بڑی خدمت ہے دراصل دشمن کی فوج اور سامان اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا افواہیں پہنچاتی ہیں غلط افواہیں بہت پھیلتی رہتی ہیں۔ اب کلکتہ پر بمباری ہوتی ہے اور کچھ بم گِرے ہیں لیکن اس کے متعلق ہی کئی قسم کی افواہیں پھیل رہی ہیں کسی گائوں میںجائو توطرح طرح کی باتیں سننے میں آئیں گی او ر اس بمباری کی تفاصیل تک وہاں سنو گے اتنے مکانات اُڑ گئے، اتنے آدمی مارے گئے، یہ نقصان ہؤا، وہ نقصان ہؤا وغیرہ وغیرہ یہ ایسی باتیں ہیں جن سے کمزوری پیدا ہوتی ہے خصوصاً دیہات میں ایسی افواہیں بہت پھیلتی ہیں جنہیں روکنا بہت ضروری ہے زمیندار ناول تو نہیں پڑھتا مگروہ ناول بنانے میں ماہر ہوتاہے اورایسی باتیں اپنے دماغ سے ہی گھڑتا رہتاہے۔
خدام الاحمدیہ، انصار اللہ
اورلجنہ اماء اللہ کی تحریکات
اِس کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سلسلہ کی روحانی بقاء کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ، انصاراللہ اور لجنہ اماء اللہ کی تحریکات جاری کی ہوئی ہیں اوریہ تینوں نہایت ضروری ہیں عورتوںمیں ۔َکل جو تقریر مَیں نے کی اُس میں ان کو نصیحت کی ہے کہ وہ لجنا ت
کی ممبر بنانے میں مستعدی سے کام لیں اور آج آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ اِن تحریکات کو معمولی نہ سمجھیں اس زمانہ میں ایسے حالات پیداہوچکے ہیںکہ یہ بہت ضروری ہیں، پُرانے زمانہ میں اور بات تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کی ٹریننگ سے ہزاروں اُستاد پید اہوگئے تھے جو خود بخود وسروں کو دین سکھاتے تھے اور دوسرے شوق سے سیکھتے تھے مگراب حالات ایسے ہیں کہ جب تک دو دو،تین تین آدمیوں کی علیحدہ علیحدہ نگرانی کا انتظام نہ کیا جائے کام نہیں ہوسکتا۔ ہمیں اپنے اندر ایسی خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں کہ دوسرے ان کا اقرار کرنے پر مجبور ہوں اور پھر تعداد بھی بڑھانی چاہئے۔ اگرگلاب کا ایک ہی ُپھول ہو او روہ دوسرا پیدا نہ کرسکے تواس کی خوبصورتی سے دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ فتح تو آئندہ زمانہ میں ہونی ہے اور معلوم نہیں کب ہو لیکن ہمیں کم سے کم اتنا تو اطمینان ہوجانا چاہئے کہ ہم نے اپنے آپ کو ایسی خوبصورتی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کردیاہے کہ دنیا احمدیت کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ احمدیت کو دنیا میں پھیلادینا ہمارے اختیار کی بات نہیں لیکن ہم اپنی زندگیوں کا نقشہ ایسا خوبصورت بنا سکتے ہیںکہ دنیا کے لوگ بظاہر اِس کا اقرار کریں یا نہ کریں مگران کے دل احمدیت کی خوبی کے معترف ہوجائیں اور اس کے لئے جماعت کے سب طبقات کی تنظیم نہایت ضروری ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ احباب جماعت نے تاحال انصاراللہ کی تنظیم میں وہ کوشش نہیں کی جو کرنی چاہئے تھی اِس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اِس کا ابھی کوئی دفتر وغیرہ بھی نہیں مگر دفتر قائم کرنا کس کاکام تھا۔ بیشک اس کے لئے سرمایہ کی ضرورت تھی مگر سرمایہ مہیا کرنے سے انہیں کس نے روکا تھا۔ شاید وہ کہیں کہ خدام الاحمدیہ کو تحریک جدید سے مدد دی گئی ہے مگر ان کی مدد سے ہم نے کب انکار کیا؟ ان کو بھی چاہئے تھا کہ دفتر بناتے اور چندہ جمع کرتے۔ اب بھی انہیں چاہئے کہ دفتر بنائیں،کلرک وغیرہ رکھیں، خط وکتابت کریں، ساری جماعتوں میں تحریک کرکے انصاراللہ کی مجالس قائم کریں اور چالیس سال سے زیادہ عمر کے سب دوستوں کی تنظیم کریں۔
ملا قات کے وقت عہدیدار آگے بیٹھاکریں
میں ہمیشہ سے یہ کہتا رہاہوں کہ ملاقات کے وقت پریذیڈنٹ اور سیکرٹری آگے بیٹھا کریں
اور بتائیں کہ یہ فلاں صاحب ہیں او ریہ فلاں تامجھے جماعت کے لوگوں سے واقفیت ہو اور یہ بھی معلوم ہوسکے کہ سیکرٹری اور دوسرے عہدیدار ٹھیک طورپر کام کررہے ہیںیا نہیں۔ پہلے اس پر عمل ہوتا رہا ہے اور یہ بھی میں دیکھتا رہاہوں کہ عہدیداروں کاکام تسلی بخش رہاہے مگر اب کچھ عرصہ سے اِس میں نقص واقع ہونے لگا ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ نئی َپودکو کام کے لئے تیار نہیں کیا جاسکا۔ پریذیڈنٹ کا پوچھو توکہا جاتا ہے کہ وہ بیمار ہے، گھر پر ہے۔ سیکرٹری کہاںہے؟ وہ بھی نہیں آیا حالانکہ چاہئے تھا کہ اگر پریذیڈنٹ بیمار ہے اور اُسے علیحدہ بھی کرنا مناسب نہیں سمجھتے تو بیشک علیحدہ نہ کرو مگر ایک نائب بنا دو۔ سیکرٹری کو بے شک نہ ہٹائو مگرایک نائب سیکرٹری بنادوتااُس کی وفات تک دوسرا آدمی تیار ہوسکے اور پُرانوںکی جگہ لینے والے نئے آدمی تیار ہوتے رہیں ورنہ کام کو سخت نقصان پہنچے گا۔ پُرانے آدمیوں کے فوت ہوجانے پر اگر کوئی کام سنبھالنے والے نہ ہوں تو سخت نقصان کی بات ہے۔ ایک جماعت کے دوست مجھ سے ملنے آئے او رمصافحہ کرنے کے بعد چیخیں مار کر رونے لگے کہ ہمارے ہاں پہلے جماعت کے تیس چالیس افراد تھے مگراب صرف تین چار رہ گئے ہیں۔
ان تحریکوں سے میرا مقصد یہ بھی ہے کہ ہر جماعت میں ذمہ داری کو سنبھالنے والے تین تین، چار چار کارکن موجود رہیں۔ خدام الاحمدیہ کے سیکرٹری کو کام کی ٹریننگ علیحدہ ملتی رہے اور انصاراللہ کے سیکرٹری کو علیحدہ او رجہاں کہیں کوئی پُرانا کارکن فوت ہوجائے اُس کی جگہ لینے والا موجود ہو۔ رقابت بھی بعض اوقات بڑا کام کراتی ہے پچھلے دنوں یہاں خدام الاحمدیہ کا جلسہ ہؤا تو مجھے معلوم ہؤا کہ انصار نے کہا کہ ہمیں بھی اپنا جلسہ کرنا چاہئے بے شک اگروہ بھی کرنے لگیں تویہ بہت فائدہ کی بات ہے ہم نے جو مدد خدام کی کی ہے اِن کی بھی کرسکتے ہیں۔پھر وہ خود بھی چندہ لے سکتے ہیں۔ بہرحال انہیں بھی تنظیم کے ساتھ کام کرنا چاہئے میر امقصد یہ ہے کہ جماعت کے اطفال، خدام اور انصار سب کی تربیت کا انتظام ہوسکے۔ ۱۴ سال سے کم عمر کے بچے اطفال کی مجالس میں شامل ہوں۔ ۱۴ سالسے چالیس سال تک کے خدام میں اور اِس سے اوپر عمر کے انصار اللہ میں تاکہ سب کی صحیح تربیت ہوسکے۔
خدام الاحمدیہ کے متعلق بعض
سرکاری افسروںکی بیجا بدگمانی
میں اِس جگہ افسوس کے ساتھ اس امر کا بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں کہ بعض مقامی حُکّام خدام الاحمدیہ کے خلا ف بدگمانی پھیلارہے ہیں۔ یہ افسر ایسے ہی ہیں کہ جو بجائے بغاوت کو دبانے کے وفاداروںکو باغی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
خدام الا حمدیہ کی تحریک کوئی ُخفیہ تحریک نہیں۔ میں نے اسے عَلَی الْاِعْلَان قائم کیا اور جمعہ کے خطبوں میں اِس کی وضاحت کی اور اس کی اہمیت بیان کی، اِس کا آئین میں نے بنایا، اِس کا سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ تو صرف جماعت کے نوجوانوں کی اصلاح کے لئے ہے اِس کے متعلق ایسی ُجستجو کرنا محض روپیہ ضائع کرنے والی بات ہے۔ اگر حکومت کی طرف سے کوئی ایسا اِقدام کیا گیا تو اِسے یقیناندامت اُٹھانی پڑے گی جیسی پہلے اُٹھانی پڑی ہے۔ اس کے متعلق شبہ کرنے کی جو وجوہات میں نے ُسنی ہیں وہ بہت عجیب ہیںمثلاً یہ کہ اِس کے سالانہ جلسے کے موقع پر بعض نوجوانوں نے گتکا کھیلا اس لئے یہ مجلس بہت خطرناک ہے او ر اس معاملہ کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ میں نے سنا ہے مرکز سے بھی سی۔آئی۔ڈی کے افسر تحقیقات کے لئے آئے ہیں وہ اگر آتے ہیں تو شوق سے آئیں مگریہ بات یادرکھنی چاہئے کہ محرم وغیرہ کے جلوس پر اعلیٰ افسروں کی موجودگی میں گتکا وغیرہ کھیلا جاتا ہے اورجو چیز محرم کے موقع پر جائز ہے وہ خدام الاحمدیہ کے جلسہ کے موقع پر کیونکر ناجائز ہوگئی؟ اور اگر حکومت اسے منع کرے تو اِس کو ترک کیا جاسکتاہے۔یہ اس کے پروگرام کا کوئی حصہ نہیں لیکن میں حیران ہوںکہ وہ حکومت ہی کیا ہے جو یہ خیال کرتی ہے کہ اگر چند نوجوان گتکا سیکھ گئے تو اس کا قائم رہنا محال ہوگا جہاں اس زمانہ میں اینٹی ایر کرافٹ اور اینٹی ٹینک گنزبن چکی ہیں وہاں ایک گتکا جاننے والا کیا کرسکتاہے یہ بالکل بچوں والی بات ہے اور بالکل غلط طریق ہے۔ دوسری حکومتیں تو خود لوگوں کو بہادر بناتی ہیں مگرہماری حکومت گتکا سے ڈرتی ہے۔ اور لوگوں کاعام طریق یہ ہے کہ جس بات سے روکا جائے اس کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ پہلے لوگ کہتے تھے کہ تلوار رکھنے کی آزادی ہونی چاہئے مگرجب بیس سال کے جھگڑے کے بعد حکومت نے آزادی دے دی تو اب لوگ کہتے ہیں کہ چھوڑو تلوار پرپانچ روپے کون خرچ کرے تو جتنا روکو اُتنا ہی زیادہ جوش پیدا ہوتاہے۔ حکومت نے اسلحہ پر لائسنس کی پابندی لگا رکھی ہے مگرجو لوگ جرائم کرتے ہیں وہ لائسنس لیتے ہی کہاں ہیں وہ توبغیر لائسنس کے اسلحہ رکھتے ہیں۔اعدادوشمار جمع کرکے اِس امر کی تصدیق ہوسکتی ہے کہ مثلاً بندوق سے جو لوگ مارے گئے اُن میں سے اکثر انہی لوگوں نے مارے جن کے پاس بندوق کا کوئی لائسنس نہیں لائسنس رکھنے والے دوسروں کو کہاں مارتے ہیں۔ پس حکومت کی یہ پالیسی بالکل غلط ہے اِس سے تو بہتر ہے کہ وہ حکم دے دے کہ ُچوڑیاں پہن لو اور گھروں میں بیٹھو بلکہ چاہئے کہ لوگوں کی اُنگلیاں بھی کٹوادے کہ ان سے مُکّا مارا جا سکتا ہے بعض لوگوں کے دانتوں میں ایسا زہر ہوتاہے کہ کسی کو کاٹیں تومرجاتا ہے اِس لئے بتیس کے بتیس دانت بھی نکلوادینے چاہئیں۔یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ جس حکومت کے پاس توپیں، بندوقیں،ہوائی جہاز، ٹینک وغیرہ سب کچھ ہیں اُسے اِس بات پر اعتراض ہے کہ بعض نوجوان گتکا کیوں سیکھتے ہیں اسے تو چاہئے کہ خود ایسی باتوں کا انتظام کرے تالوگوں میں ُجرأت او ربہادری پیدا ہو اور جنگ میں زیادہ امداد مل سکے۔ ادھر یہ بھی شکایت کی جاتی ہے کہ فوج کے لئے رنگروٹ کم ملتے ہیں تم نے تومردوں کو عورتیں بنادیارنگروٹ کیسے ملیں۔ ہندوستان کی اتنی آبادی ہے کہ کئی کروڑ سپاہی یہاں سے مل سکتے ہیں مگر یہ تو اس صورت میں ہو کہ مرد ہوں حکومت نے تو مردوں کو عورتیں بنادیا ہے۔ خدانہ کرے کہ جاپانی کبھی اِس مُلک میں آسکیں لیکن اگرکبھی ایسا ہؤا تو وہ دیکھیں گے کہ بنگال سے پشاور تک کشمیر ی ہی کشمیری بھرے پڑے ہیں۔ ہندوستان کے اکثر لوگ ُبزدل ہوچکے ہیں۔ جرأت باقی نہیں، ہتھیار کے تونام سے ڈرتے ہیں اور اِس بارہ میں حکومت کی پالیسی ایسی خطرناک ہے کہ خود اپنے ساتھ دشمنی کرنے والی بات ہے۔ وہ ڈرتی ہے کہ لوگوں کے پاس ہتھیار ہونگے تو وہ فساد کریں گے مگریہ بات صحیح نہیں۔ اگرلوگوں کو بندوقیںدے دی جائیں تو ہرگز فساد نہ ہوگا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ گتکا چلانے سے حکومت کوکیا خطرہ ہوسکتاہے اگرلوگوں نے گتکا سیکھ لیا تو اِس سے ہٹلر کوکیا مدد مل جائے گی؟ کیا وہ گتکا سے ّمسلح ہوکر ہندوستان پر حملہ آور ہوگا کہ یہ لوگ اس سے مل جائیں گے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ گتکا سیکھ کر ایک شخص کی ُبزدلی میں کچھ کمی آجائے گی باقی رہا یہ امر کہ وہ اس سے کوئی تیس مارخان بن جائے گا یہ بالکل غلط بات ہے ۔ایک گتکا جاننے والابندوق والے کے سامنے کیا کرسکتا ہے۔ اگرحکومت ایسی باتوں سے ڈرتی ہے تو اسے چاہئے کہ حسینوں کو بھی اندھا کردے کیونکہ شاعر کہاکرتے ہیں کہ حسین نگاہ سے مار دیتے ہیں پس حکومت کی یہ پالیسی غلط ہے میں خاکساروں کا سخت مخالف ہوں مگر یہ حُکم کہ کوئی بیلچہ یا پھاوڑہ نہ رکھے اِس کابھی مَیں مخالف ہوں۔
خدام الاحمدیہ کی جنگ میں قا ِبل قدرامداد
ہماری جماعت کے انہی خدام نے جنگ کے لئے جو شاندار قربانی کی ہے وہ یہ ہے کہ اب
تک سات ہزار سے زیادہ رنگروٹ دیئے جا چکے ہیں۔اب تک ٹیکنیکل بھرتی میںشمالی ہند نے ایک لاکھ آدمی دیاہے جن میں سے ڈیڑھ ہزار ہم نے دیاہے گویا ۱۱۳فیصدی۔ پھر اب تک کنگ کمیشن والے ہندوستانیوں کی تعداد ۵،۶ہزار ہوگی اور اِن میںسے قریباً ایک سَو احمدی ہوں گے مگر اِس کے باوجود بعض افسروں کو خدام الاحمدیہ کی تحریک مشتبہہنظرآتی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ ایک افسر نے کہا ہے کہ یہ ہیں توبڑے وفادار لوگ مگرہیں بڑے مشکوک۔ یہ طریق اگر حکومت کی طرف سے جاری رہا تو نوجوانوں میں اِس سے سخت بددلی پیدا ہوگی۔ میںنے ہمیشہ حکومت کو ازراہِ خیر خواہی یہ مشورہ دیاہے کہ اسے ایسا انتظام کرنا چاہئے کہ سرکاری افسر باغیوں کو پکڑیں وفاداروں کو باغی نہ بنایا کریں۔
واقعہ ڈلہوزی کے متعلق حکومت کا اظہار افسوس
ڈلہوزی کے واقعہ کے متعلق حکومت نے اظہارِ افسوس کردیاہے اور لکھا ہے
کہ جن افسروں نے یہ غلطی کی انہیںسزادی جائے گی اس لئے اس معاملہ کو بھی اب ختم سمجھنا چاہئے۔
تفسیر القرآن انگریزی
انگریزی تفسیر القرآن چھپنے کے متعلق مجلس شوریٰ میں فیصلہ ہؤا تھا جو لوگ اس بات کے حق میں تھے کہ جنگ کے دَوران میں ہی تفسیر
چھپ جانی چاہئے وہ یہ کہتے تھے کہ اِس وقت جنگ کی وجہ سے لوگوں کے قلوب نرم ہیںاس لئے اِس موقع پر تفسیر چھپ جانے سے تبلیغ کا راستہ ُکھل جائے گا۔ لیکن اکثر دوستوںکی رائے یہ تھی کہ جنگ کے بعد چھپوائی جائے کیونکہ اچھی چھپ سکے گی اور خرچ بھی کم ہوگا مگر میں نے ان دوستوں کے حق میں فیصلہ کیا تھا جن کی تعداد تھوڑی تھی۔ یہ بھی اعلان کیا تھا کہ جو دوست خریدنا چاہیں وہ دس روپیہ فی ِجلد کے حساب سے بطور پیشگی جمع کرادیں باقی قیمت بعد میںلے لی جائے گی۔ آجکل کا غذ کا جونرخ ہے اس کے لحاظ سے قیمت چالیس سے پچاس روپیہ تک ہوگی مگرہم نے کاغذ پہلے خرید لیا تھا اور اس لئے اگر ضخامت ۲۵۰۰ صفحات ہو تو قیمت ۳۶سے۴۰تک ہوگی پنجاب کے سب سے بڑے مطبع کے ساتھ چھپائی کے لئے انتظام کیا جارہا ہے۔ دردصاحب نے بتایا کہ مطبع والوں کا جواب آگیا ہے مگر ابھی مجھے نہیں ملا مگر اس تأخیر کا ایک فائد ہ بھی ہوگیا اور وہ یہ کہ سارامواد بغیر ایڈیٹنگ کے یونہی پڑا تھا اب میں نے چھ آدمی اس کام پر لگائے ہیں اور بڑے زور سے کام ہورہاہے اور اب وہ سورۃ مائدہ میں ہیںمجلس شوریٰ تک ایک ِجلد کی طباعت ہوسکتی تھی مگر مشکل یہ ہے کہ پریس والے کہتے ہیں کہ عربی کا ٹائپ آجکل نہیں ملتا۔
اردو تفسیر القرآن
اردو تفسیر کے متعلق مجھے افسوس ہے کہ وہ شائع نہیں ہوسکی پانچ سَو صفحات سے زیادہ کا مضمون مَیں دے چکا ہوں اور اِس سال پچھلے سال کی نسبت زیادہ
کام ہؤا ہے۔ میری صحت بہت خراب رہی ہے ورنہ اِس سے بھی زیادہ کام ہوسکتاتھا۔ میری صحت کی خرابی میں د انتوںکا دخل ہے بعض اوقات دانت کا ٹکڑا آپ ہی آپ ُٹوٹ کر َگرجاتا ہے اور اس وجہ سے میں کھانا وغیرہ چبا کرنہیں کھا سکتا روٹی بہت کم کھا سکتا ہوںبسااوقات چھٹانک سے بھی کم وزن کا ُپھلکا ہوتاہے جو کھاتا ہوں مگراِس کے باوجود پیٹ میں خرابی رہتی ہے۔ خون کم پیدا ہوتا ہے اور پیچش بھی ہوجاتی ہے اور اِس وجہ سے ہاتھ کی اُنگلیاں بھی پوری طرح کام نہیں کرسکتیں۔ آخر سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ مضمون کا تب کولکھوادیاکروں اورخداتعالیٰ کے فضل سے اِس میں بڑی کامیابی ہوئی ہے اور بڑی جلدی کام ہونے لگاہے۔ جنہوںنے دیکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ اِس طرح لکھے ہوئے اور میرے ہاتھ کے لکھے ہوئے میں فرق نہیں۔ اس طرح بعض اوقات میں نے ساٹھ ساٹھ کالم مضمون لکھوادیاہے اور امید ہے کامیابی ہوگی مشکل یہ ہے کہ مضامین اِس طرح اُلجھتے ہیں کہ جیسے ایک خزانہ کے اندر دوسر ا خزانہ مخفی ہواور آٹھ رکوع میں ہی پانچ سَوصفحات ختم ہوگئے ہیںاور اتنا بھی مضامین کا گلا گھونٹ گھونٹ کر کیا گیا ہے۔ پہلے تجویز تھی کہ تین سورتیںپہلی جلد میں ختم ہوجائیں، پھر یہ خیال کیا کہ دوسورتیں پہلی جلد میں ختم کی جائیں،بعد میں خیال آیا کہ صرف سورہ بقرہ ہی پہلی جلد میںختم کی جائے مگر اب یہ بھی مشکل نظرآتا ہے میں بہت سی باتیں چھوڑتا بھی ہوںچونکہ ابتدائی مضمون ہے اس لئے یہ بھی خیال ہے کہ ممکن ہے تفصیل آگے فائدہ دے اس لئے ہر بات بیان کرنی پڑتی ہے اور اس لئے پانچ سَو صفحات میں صرف آٹھ رکوع ختم ہوئے ہیں۔ جیساکہ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں کاغذ کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے اوراِس وقت گیارہ بارہ ُگنا زیادہ ہوچکی ہے مجھے خداتعالیٰ نے سمجھ دے دی اورمیں نے انور صاحب کو کہا کہ کاغذ اکٹھا خرید لیں انہوں نے خرید لیا اوراس سے بہت فائد ہ رہے گا۔ کاغذ چونکہ سلسلہ کے روپیہ سے خریدا گیا ہے اس لئے سلسلہ کو بھی فائدہ ہوگا اور مجھے بھی ثواب ملے گا۔ اگلی جلد اگر جنگ کے دَوران میں چھپوائی گئی تو ممکن ہے اس کی قیمت پندرہ روپیہ تک ہو۔ میں نے تحریک جدیدوالوں کو ہدایت کی تھی کہ جتنے فرمے چھپ چکے ہیں ان کی چارپانچ جلدیں سی کر دفتر میں رکھ دیں۔تاکہ کوئی دوست پڑھنا چاہے تو پڑھ سکے اورجن کو زیادہ شوق ہے انہیں کچھ تسلی ہوجائے۔
تبلیغِ خاص کی تحریک
اس کے بعد میں تبلیغِ خاص کے متعلق کچھ کہنا چاہتاہوں اس میں جماعت نے بڑی قربانی کا نمونہ دکھایا ہے جب اس کا اعلان کیاگیا تھا اُس وقت
’’الفضل‘‘ کے خطبہ نمبر کی قیمت اڑھائی روپیہ سالانہ تھی مگر اب الفضل والے کہتے ہیں کہ ساڑھے سات روپیہ سالانہ قیمت ہوگی اور انہوں نے اِس کا حساب بھی پیش کردیاہے۔ اِس وقت مختلف جگہوں کے دوست بیٹھے ہیں اگروہ سمجھیں کہ اِس سے کم قیمت میں اخبار مہیاہونے کی کوئی صورت ہے تووہ بتادیں۔ میں نے سنا ہے بعض شہروں میںکاغذ کا سٹاک ہے اگر سستاکاغذ ملنے میںوہ کوئی مدد کرسکیں تو بتادیں بہرحال یہ پرچے جلدی جاری کرادئیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ میں نے ایک ٹریکٹ بھی لکھ لیا ہے۔ خط وکتابت کے لئے بھی دوستوں نے اپنے نام دئیے ہیں اورامید ہے جلدی کام شروع کیاجاسکے گا۔
تحریک جدید کا امانت فنڈ
اس کے بعد مَیں تحریک جدید کے امانت فنڈ کی طرف دوستوں کومتوجہ کرنا چاہتا ہوں پہلے اِس فنڈ میں جمع ُشدہ روپیہ کی واپسی
پرجو پابندیاں تھیں وہ دُور کردی گئی ہیں اور اب جس وقت کوئی دوست چاہے اپنا روپیہ واپس لے سکتاہے آج جمع کراکے اگر کوئی چاہے تو َکل بھی واپس لے سکتا ہے۔ اگر دوست اِس فنڈ میں امانتیں جمع کراتے رہیں تو بہت سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں جس طرح وہ اور بنکوں میں روپیہ جمع کراتے ہیں اِس میں بھی کراسکتے ہیںجب چاہیں روپیہ واپس بھی مل سکتا ہے اِس سے ان کو ثواب بھی حاصل ہوگا، اس سے جو فوائد سلسلہ کو پہنچ سکتے ہیں وہ مَیں پہلے کئی بار بیان کرچکا ہوں۔
تحریک جدید کا چندہ
تحریک جدید کے چندہ میں مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ اس وقت تک ایک لاکھ اٹھارہ ہزار روپیہ کے وعدے آچکے ہیں پچھلے سال جو
تحریک جدید کے لحاظ سے کامیاب ترین سال سمجھاجاتاہے ۳۱؍ جنوری تک اتنے وعدے آئے تھے گویا اِس سال بہت سے دوستوں نے پہلے وقت میں وعدے کئے ہیں اور بعض دوستوں نے اپنے وعدوں میں معقول زیادتی بھی کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ جس طرح گزشتہ سال اکثردوستوں نے بروقت ادائیگی کی ہے اس سال بھی کریں گے وعدہ کرنے والے دوستوں کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اپنے وعدوں کو جلد اداکردیں پنجاب کی جماعتوں کے وعدوںکے لئے ۳۱؍جنوری آخری تاریخ ہے اِس وقت تک ساڑھے تین سَو جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے ابھی وعدے نہیں بھجوائے اُن کو چاہئے کہ ۳۱؍جنوری تک وعدے بھجوادیں جیسا کہ مَیں کئی بار بتا چکا ہوں۔
تحریک جدید کے چندہ سے
تبلیغ کے لئے مستقل فنڈ
تحریک جدید کے چندہ سے تبلیغ کے لئے مستقل فنڈ مہیا کیاجارہا ہے اور اس سے سندھ میں قریباً ساڑھے تین سَومربع اراضی خریدی گئی ہے اِس رقبہ میں سے بعض کی ُجزوی قیمت اداہوچکی ہے اور ۸۵ مربع کی پوری قیمت ادا ہو چکی ہے اور امید ہے کہ
اِس سال اور بھی رقبہ آزاد ہو سکے گادوستوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ اگلے سال تک ساری کی ساری زمین آزاد ہو سکے یہ اگر ہوگیا توگویا ۱۸لاکھ روپیہ کا ریزرو فنڈ قائم ہوجائے گا بہت عرصہ ہؤا میں نے ۲۵لاکھ کے ریزرو فنڈ کی تحریک کی تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۸،۲۰لاکھ کا فنڈ قائم ہوجائے گا۔ جب میں نے تحریک کی تھی اُس وقت کئی لوگ خیال کرتے تھے کہ اِتنا بڑا فنڈ کس طرح قائم ہوسکے گا اور میرے ذہن میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اس طرح صورت پیدا کر دے گا اور ابھی میرے ذہن میں ایسی سکیم ہے کہ خداتعالیٰ چاہے تو چند سال میں ۲۵لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ کا فنڈ قائم ہوجائے گا۔ اور پھر اِس سے آگے میرے ذہن میں یہ ہے کہ اسے پچاس لاکھ کا بنانا ہے۔ یہ سکیم بڑی ہے ممکن ہے آج اِسے کوئی شیخ چلی کی سی بات سمجھے مگر پہلے بعض اس کو بھی تو ایسا ہی سمجھتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پانچ ہزاری فوج والے رؤیا کو پورا کرنے والے یہی لوگ ہیں جو تحریک جدید میں باقاعدہ اور قواعد کے مطابق حصہ لیتے ہیں۔ ہمارے سامنے بہت بڑاکام ہے اگر پانچ ہزار ّمبلغ بھی رکھے جائیں تو اِس کے لئے ایک کروڑ بیس لاکھ روپیہ سالانہ آمد کی ضرورت ہے اور اِتنی آمد پچیس کروڑ روپیہ کے ریزرو فنڈ سے حاصل کی جاسکتی ہے اور اس طرح جب ہم ۲۵لاکھ کا فنڈ قائم کرسکیں گے تو گویا ایک فیصدی کام پورا کرسکیں گے اسے بڑھانے کی ابھی اور سکیمیں بھی میرے ذہن میںہیں عیسائیوں نے ۱۹ سَوسال کے عرصہ کے بعد پانچ ہزار چند سَو ّمبلغ پیدا کئے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اتنے ّمبلغ مقرر کرنے میں کامیاب کردے تویہ گویا مسیحؑ محمدی کی مسیحؑ موسوی پر بہت بڑی فضیلت ہوگی۔ بہرحال ۲۵لاکھ ریزرو فنڈ کی سکیم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب پوری ہوتی نظرآتی ہے اس کے متعلق آئندہ جومیری تجاویز ہیںمیں انہیںفی الحال بیان کرنا پسند نہیںکرتا ہاں دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی اس کے متعلق سوچتے رہیں اوراگر کوئی تجاویز ان کے ذہن میں آئیں تو مجھے بتائیں میں خود بھی سوچتا ہوں اور وقت آنے پر اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تومیں بیان کردوں گا۔
نماز باجماعت ادا کرنے کی تاکید
اب میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاناچاہتا ہوں کہ قادیان میں ہم نے خدام الاحمدیہ کے ذریعہ
نمازوں کے متعلق جو نظام قائم کیا ہے اسے بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے دوسری جماعتوں کو بھی اپنے اپنے ہاں اسے رائج کرنا چاہئے یادرکھنا چاہئے کہ نماز پڑھنے اور باجماعت پڑھنے میں بڑافرق ہے اسلام اجتماعی مذہب ہے اور اس لئے اس نے باجماعت نماز پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن کریم میں نماز کا جہاں بھی حکم ہے باجماعت نماز کا حکم ہے ایک جگہ بھی صرف نماز پڑھنے کانہیں سوائے ایک جگہ کے کہ جہاں خبرکے طورپر نماز نہ پڑھنے کا ذکر آیا ہے ورنہ ہر جگہ اَقِیْمُوالصَّلٰوۃَ ہی آیا ہے اور اقا ِمت صلوٰۃ کے معنے باجماعت نمازکے ہیں۔اقامت کے معنی یہی ہیں کہ پوری شرائط کے ساتھ نماز پڑھو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو لوگ عشاء اور فجر کی نماز کے لئے مسجد میں نہیں آتے میں چاہتاہوں کہ اپنی جگہ کسی کو امام مقرر کروں اور ایسے لوگوں کے مکانوں کو مکینوں سمیت نذرِ آتش کردوں ۲؎ یہی دووقت زیادہ سردی اور نیند کے ہوتے ہیں اِس لئے جب ان نمازوں میں نہ آنے والوں کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا رحیم وکریم اور محبت کرنے والا شخص اِس قدر ناراضگی کا اظہار فرماتاہے تو ظاہر ہے کہ باقی نمازوں میں نہ آنے والے کس قدر ُمجرم ہیں نماز باجماعت سے محرومی ہلاکت ہے۔ یہ ایک مستقل مضمون ہے اور میں وقتاًفوقتاً اسے بیان کرتابھی رہتاہوں مگر افسوس ہے کہ باوجود باجماعت نماز کے مواقع کے بہم پہنچنے کے ابھی ہماری جماعت میں اس کا رواج اتنا نہیں جتنا ہونا چاہئے۔ پہلے تواس کی وجہ یہ تھی کہ دوست ایک دوسرے سے دُور دُور رہتے تھے اور دوسروں کے ساتھ وہ پڑھ نہ سکتے تھے اس لئے یہ عادت پڑگئی کہ گھر وں میں نماز پڑھ لی جائے اگرچہ اِس صورت میں بھی نماز باجماعت کی یہ ترکیب ہے کہ بیوی بچوں کو ساتھ لے کر جماعت کرالی جائے تو عادت نہ ہونے کی وجہ سے باجماعت نماز کی قیمت لوگوں کے دلوں میں نہیں رہی اس عادت کو ترک کرکے نماز باجماعت کی عادت ڈالنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے مواقع پر جب