انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 18
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تعارف کتب
یہ انوار العلوم کی اٹھارویں جلد ہے جو سیدنا حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی کی ۲۶؍فروری ۱۹۴۵ء تا ۲۰؍مئی ۱۹۴۷ء کی بتیس مختلف تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے۔
(۱) اسلام کا اقتصادی نظام
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ معرکۃ الآراء اور انقلاب انگیز تقریر مؤرخہ ۲۶؍ فروری ۱۹۴۵ء کو احمدیہ ہوسٹل واقع ۲۳ ڈیوس روڈ لاہور میں احمدیہ انٹرکالجیئیٹ ایسوسی ایشن کے زیرِ اہتمام مختلف مذاہب کے لوگوں کے اجتماع میں ارشاد فرمائی۔ یہ تقریر تقریباً اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ اس تقریر میں احمدی احباب کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں مُسلم اور غیر مُسلم معززین بھی شامل تھے جن کی اکثریت اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ طبقہ اور پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسرز اور طلباء سے تعلق رکھتی تھی۔ تقریر کے دوران پروفیسرز، وکلاء اور دیگر اہلِ علم دوست کثرت سے نوٹ لیتے رہے۔
اس تقریر کی صدارت مسٹر رامچندر مچندہ صاحب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور نے کی۔ تقریر کے خاتمہ پر صاحبِ صدر نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا:۔
’’میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی قیمتی تقریر سننے کا موقع ملا اور مجھے اِس بات سے خوشی ہے کہ تحریک احمدیت ترقی کر رہی ہے اور نمایاں ترقی کر رہی ہے۔ جو تقریر اِس وقت آپ لوگوں نے سُنی ہے اُس کے اندر نہایت قیمتی اور نئی نئی باتیں حضرت امام جماعت احمدیہ نے بیان فرمائی ہیں مجھے اس تقریر سے بہت فائدہ ہوا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگوں نے بھی اِن قیمتی معلومات سے فائدہ اُٹھایا ہوگا۔ مجھے اس بات سے بھی خوشی ہے کہ اس جلسہ میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مُسلم بھی شامل ہوئے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ مُسلمانوں اور غیر مُسلموں کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ جماعت کے بہت سے معزز دوستوں سے مجھے تبادلۂ خیالات کا موقع ملتا رہتا ہے۔ یہ جماعت اسلام کی وہ تفسیر کرتی ہے جو اس ملک کے لئے نہایت مفید ہے۔ پہلے تو میں سمجھتا تھا اور یہ میری غلطی تھی کہ اسلام اپنے قوانین میں صرف مسلمانوں کا ہی خیال رکھتا ہے غیر مسلموں کا کوئی لحاظ نہیں رکھتا مگر آج حضرت امام جماعت احمدیہ کی تقریر سے معلوم ہوا کہ اسلام تمام انسانوں میں مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور مجھے یہ سُن کر بہت خوشی ہے۔ میں غیر مُسلم دوستوں سے کہوں گا کہ اس قسم کے اسلام کی عزت و احترام کرنے میں آپ لوگوں کو کیا عذر ہے؟ آپ لوگوں نے جس سنجیدگی اور سکون سے اڑھائی گھنٹہ تک حضرت امام جماعت احمدیہ کی تقریر سُنی اگر کوئی یورپین اس بات کو دیکھتا تو حیران ہوتا کہ ہندوستان نے اتنی ترقی کر لی ہے۔ جہاں میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے سکون کے ساتھ تقریر کو سُنا وہاں میں اپنی طرف سے اور آپ سب لوگوں کی طرف سے حضرت امام جماعت احمدیہ کا باربار اور لاکھ لاکھ شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اُنہوں نے اپنی نہایت ہی قیمتی معلومات سے پُرتقریر سے ہمیں مستفید فرمایا‘‘۔
(تاریخ احمدیت جلد۱۰ صفحہ۴۹۵،۴۹۶)
سامعین پر اِس تقریر کے اثر کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس تقریر کو حاضرین نے ایسے شوق سے سنا کہ اتنے لمبے عرصہ تک لوگ اس طرح بیٹھے رہے کہ گویا اُن کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ ایک پروفیسر تو اِس تقریر کو سن کر رو پڑے اور بعض کمیونزم کے حامی طلباء نے اِس خیال کا اظہار کیا کہ وہ اسلامی شوشلزم کے قائل ہوگئے ہیں اور اب اسے صحیح اور درست تسلیم کرتے ہیں۔ یونیورسٹی اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے ایم۔ اے کے بعض طلباء نے حضور کی اس تقریر کے متعلق یہ خواہش ظاہر کی کہ اس کا انگریزی ترجمہ چھپوا کر یونیورسٹی اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسروں کے پاس بھیجا جانا چاہئے۔ نیر اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ جہاں مختلف سکیمیں ہندوستان کی آئندہ ترقی اور بہبودی کیلئے دوسرے لوگوں کی طرف سے پیش ہو رہی ہیں وہاں یہ اسلامی نظام جو حضور نے پیش فرمایا ہے مسلمانوں کے خیالات کی نمائندگی کرے گا الغرض جوں جوں اس تقریر کی شہرت ہوئی بعض لوگ جو یونیورسٹی سے تعلق رکھتے تھے اور چوٹی کے پروفیسر تھے اُنہوں نے اپنے ملنے والوں سے معذرتیں کیں اور اس امر پر افسوس کیا کہ وہ بوجہ بعض دوسری مصروفیتوں کے اس عظیم الشان لیکچر کے سننے سے محروم رہے۔
حضور نے اپنے فاضلانہ خطاب کے آغاز میں سب سے پہلے نہایت لطیف پیرایہ میں اسلام کی اقتصادی تعلیم کا ماحول بیان فرمایا اور پھر اموال سے متعلق اسلامی نظریہ کی وضاحت کی اور نہایت تفصیل سے بتایا کہ اسلام نے کس طرح صرف دولت کے غلط استعمال ہی کو نہیں روکا بلکہ اس کے ناجائز طور پر حصول کا بھی مؤثر سدباب فرمایا ہے۔
حضور نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں کمیونزم کی تحریک کا مذہبی، اقتصادی، سیاسی، نظریاتی اور عملی لحاظ سے تفصیلی جائزہ لیا اور آخر میں اُس کے متعلق بائبل کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کا اُردو متن سنانے کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اپنی پیشگوئی کا بھی ذکر فرمایا۔
الغرض حضرت مصلح موعود کے اِس لیکچر نے چوٹی کے علمی طبقوں میں ایک تہلکہ مچا دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُسے ہر سطح پر غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔
(۲) قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید
حضرت مصلح موعود کے ارشا دکی تعمیل میں مؤرخہ ۲۵؍ اگست تا ۲۵؍ ستمبر ۱۹۴۵ء ایک ماہ کی تعلیم القرآن کلاس قادیان میں منعقد ہوئی۔ اس تعلق میں حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۱۱؍ستمبر۱۹۴۵ء کو بیت اقصیٰ قادیان میں یہ تقریر ارشاد فرمائی جس میں قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے کی ضرورت نیز قرآن کریم کے سمجھنے کے متعلق نہایت اہم باتیں بیان فرمائیں اور جماعت کو پُرزور تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ہراحمدی کو قرآن کریم پڑھنا چاہئے اور جو پڑھنا نہیں جانتے اُن کو سنا کر قرآن کریم سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ ہمارا اوّلین فرض ہے۔ اگر ہم یہ ارادہ کر لیں کہ سَو فیصدی افراد کو قرآن شریف کا ترجمہ سمجھا دیں گے اور اگر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں تو ہماری فتح میں کوئی شک ہی نہیں اور ہماری روحانی حالت میں ایک عظیم الشان تغیر آ جائے گا‘‘۔
(۳) نیکیوں پر استقلال اور دوام کی عادت ڈالیں
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ بصیرت افروز تقریر مؤرخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ارشاد فرمائی جس میں نیکیوں پر دوام اور استقلال اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہی نیکی بابرکت اور نتیجہ خیز ہوتی ہے جس میں استقلال اور دوام کا رنگ پایا جاتا ہے۔ کچھ دن نیکی کر کے پھر اُسے چھوڑ دینا ایک ایسی کمزوری ہے جس سے انسان کی روحانی زندگی ہر وقت خطرہ میں رہتی ہے۔ نیز فرمایا کہ جو قوم اِس بات کی عادی ہو کہ اُسے بار بار بیدار کیا جائے اُسے اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہئے۔
(۴) آئندہ الیکشنوں کے متعلق جماعت احمدیہ کی پالیسی
حضرت مصلح موعود نے یہ مضمون ہندوستان میں آئندہ ہونے والے الیکشنوں سے چند روز پیشتر مؤرخہ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو تحریر فرمایا جس میں احباب جماعت کو آئندہ الیکشنوں کے متعلق جماعت احمدیہ کی پالیسی سے آگاہ فرمایا جس کے بنیادی نکات حسب ذیل ہیں۔
۱۔ پنجاب کے باہر ہر احمدی پوری طرح مُسلم لیگ کی کمیٹیوں اور اس کے امیدواروں کی مدد کرے۔ اپنے اور اپنے زیر اثر ووٹ اُن کو دے اور اپنے علاقہ کے لوگوں کو مُسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے کی تلقین کرے۔
۲۔ پنجاب سے کھڑے ہونے والے احمدی امیدوار مُسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں۔ اگر مُسلم لیگ سے ٹکٹ کے حصول میں کامیابی نہ ہوتو مُسلم لیگ کی پالیسی کے تابع ہی انڈیپنڈنٹ کھڑے ہوں۔
۳۔ پنجاب کے تمام احمدی ووٹ یا زیر اثر ووٹ محفوظ رکھے جائیں اور ان کے بارہ میں مرکز سے انفرادی مشورہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے۔ آپ ہی آپ فیصلہ نہ کیا جائے۔
(۵) مجلس خدام الاحمدیہ کا تفصیلی پروگرام
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ تقریر مؤرخہ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو مجلس خدام الاحمدیہ کے ساتویں سالانہ اجتماع پر ارشاد فرمائی۔
حضور نے اس تقریر میں سات کے ہندسہ کی اسلامی اصطلاح میں حیثیت و اہمیت نیز مطلب بیان کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ مجلس خدام الاحمدیہ کو اس پہلو سے اپنی کارکردگی اور مساعی کا جائزہ لینا چاہئے کہ اُس نے گذشتہ سات سالوں میں کیا کھویا اور کیا پایا ہے؟
نیز ہدایت فرمائی کہ جماعتوں کے مقامی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے قواعد وضع کئے جائیں اور قواعد وضع کرتے وقت ان کے نتائج کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک مقامی جماعتوں کے حالات و مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے قواعد نہ بنائے جائیں محض قواعد بنا لینے سے کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی لہٰذا جماعتوں کے حالات اور مسائل کا جائزہ لینے کیلئے پہلے انسپکٹران مقرر کئے جائیں پھر ان کے جائزہ کی روشنی میں لائحہ عمل تیار کیا جائے اور ساتھ ساتھ قواعد کا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہئے اس پہلو سے بنائے گئے قواعد و ضوابط مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
(۶)مسلمانوں نے اپنے غلبہ کے زمانہ میں اخلاق کا
اعلیٰ نمونہ دکھایا
حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو بعد نماز مغرب بمقام قادیان یہ تقریر ارشاد فرمائی جو پہلی دفعہ مؤرخہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۶۰ء کو روزنامہ الفضل میں شائع ہوئی اور اب انوارالعلوم کی جلد ھٰذا میں کتابی صورت میں شائع ہو رہی ہے۔ ان ارشادات میں حضور نے مختلف سماجی و معاشرتی کمزوریوں پر روشنی ڈالی نیز انگریز قوم کی بعض کمزوریوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی بعض خوبیوں کو بھی بیان فرمایا جن کی روشنی میں احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’اب ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ ایسے اخلاق پیدا کرے جو نہایت اعلیٰ درجہ کے ہوں اور جن سے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بن جائے‘‘۔
نیز فرمایا:۔
’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرے اور نہ صرف وہ خوبیاں حاصل کرے جو انگریزوں میں پائی جاتی ہیں بلکہ ان سے بھی بہتر خوبیاں اپنے اندر پیدا کرے تا کہ ہماری جماعت کا معیار بلند ہو اور لوگوں پر ہمارا رُعب قائم ہو‘‘۔
(۷) نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہوتی ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ پُرمعارف خطاب مؤرخہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۵ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمایا جس میں حضور نے اس ابدی اصول پر روشنی ڈالی کہ کفر ہمیشہ ایک ہی راستے پر چل رہا ہے اور اس سے پیار کرنے والے ہر نبی کے زمانہ میں وہی طریق اختیار کرتے ہیں جو پہلے انبیاء کے زمانہ میں اختیار کیا گیا۔ اسی طرح ہدایت کا بھی ایک بنا بنایا راستہ ہے جو ابتدا سے آج تک بغیر تغیر و تبدل کے چلا آ رہا ہے اور ہر آنے والا اِسی راستہ پر چلتا ہے لیکن لوگ اس بنے ہوئے راستہ کی طرف توجہ نہیں کرتے اور خود تراشیدہ قوانین کی پیروی کرتے ہیں۔
چنانچہ اس اصول سے آپ نے اس حقیقت کو ثابت کیا کہ تمام انبیاء کے حالات وواقعات ایک ہی طرح کے ہوتے ہیںلہٰذا اِسی معیار پر حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کو بخوبی پرکھا جا سکتا ہے۔
(۸) تحریک جدید کی اہمیت اور اس کے اغراض و مقاصد
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ تقریر مؤرخہ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۴۵ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمائی جس میں تحریک جدید کی اہمیت اور اس کے اغراض و مقاصد کو کھول کر بیان فرمایا اور لاکھوں مبلغین تیار کرنے کیلئے بڑھ چڑھ کر چندہ تحریک جدید میں حصہ لینے کی تحریک فرمائی۔ اس تعلق میں آپ نے فرمایا کہ:۔
’’حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں صحیح طور پر تبلیغِ اسلام کرنے کیلئے ہمیں لاکھوں مبلغوں اور کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے‘‘۔
اس کے علاوہ حضور نے اس تقریر میں ہر جگہ قرآن کریم کے درس جاری کرنے، تجارت کی طرف توجہ دینے اور زندگیاں وقف کرنے جیسی تحریکات پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے احباب جماعت کو ان کی طرف توجہ دینے کی تلقین فرمائی۔ اسی طرح مرکز سلسلہ میں بار بار آنے کی بھی تحریک فرمائی۔ آخر پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’دنیا میں وہی جماعت اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتی ہے جس کے افراد اپنے دلوں میں محبتِ الٰہی رکھتے ہوں‘‘۔
(۹) پارلیمنٹری مشن اور ہندوستانیوں کا فرض
مارچ ۱۹۴۶ء میں برطانیہ کی لیبر حکومت نے ہندوستان کے سیاسی تعطل کو دور کرنے کیلئے ایک سکیم دے کر لارڈ پنیتھک لارنس (وزیر ہند) سٹیفورڈ کرپس (لارڈ پریوی سیل) اور الیگزنڈر (وزیر بحر) پر مشتمل ایک وزارتی مشن ہندوستان بھیجا۔ یہ وفد ۲۵؍ مارچ ۱۹۴۶ء کو دہلی پہنچا اور آتے ہی مُسلم لیگ اور کانگرس کے زعماء سے بات چیت میں مصروف ہو گیا۔
پارلیمنٹری وفد کی ہندوستان میں آمد پر حضرت مصلح موعود نے ایک دینی اور روحانی پیشوا کی حیثیت سے برطانوی ارکان، مُسلم لیگ اور کانگرس سب کو اُن کی نازک ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور ہندوستان کی گتھی کو عدل و انصاف اور اخلاق کے تقاضوں کے مطابق سُلجھانے کا مخلصانہ مشورہ دیا۔ نیز مُسلم لیگ کے مؤقف کی زبردست حمایت کی اور کانگرس کے بے بنیاد پراپیگنڈا کی حقیقت واقعات کی روشنی میں واضح فرمائی اور اُسے مشورہ دیا کہ وہ تبدیلی مذہب کے متعلق اپنا زاویہ نگاہ بدل لے۔
(۱۰) ہر کام کی بنیاد حق الیقین پر ہونی چاہئے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ مضمون سورۃ الم نشرح کی تفسیر کرتے ہوئے درس میں بیان فرمایا تھا جسے افادۂ عام کے لئے مؤرخہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۴۶ء کو روزنامہ الفضل میں شائع کیا گیا اور اب اِسے کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔
(۱۱) فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے افتتاح کی تقریب
یہ مختصر خطاب حضرت مصلح موعود نے فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قادیان کے افتتاح کے موقع پر مؤرخہ ۱۹؍ اپریل ۱۹۴۶ء کو نمائندگانِ شورٰی کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جس میں حضور نے اس سلسلہ میں آئندہ ہونے والی توسیع نیز دیگر آلات وغیرہ کی خریداری کے سلسلہ میں پیش آمدہ ضروریات کے پیش نظر احباب جماعت کو مالی قربانیوں کیلئے تیار رہنے کی تلقین فرمائی نیز اِس انسٹیٹیوٹ کے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’تا کہ ہم اپنی جدوجہد کے ذریعہ سائنس کو مذہب کے قریب لانے کی کوشش کریں… کوئی سچی سائنس سچے مذہب سے ٹکرا نہیں سکتی اور یہ کام بندوں کا ہے کہ وہ سائنس کے مسائل کو مذہب کے مطابق ثابت کریں اور دنیا سے اِس ناواجب تفرقہ اور شقاق کو دور کر دیں جو مذہب اور سائنس میں پایا جاتا ہے‘‘۔
(۱۲) ہماری جماعت میں بکثرت حفاظ ہونے چاہئیں
حضرت مصلح موعود نے یہ تقریر مؤرخہ ۲۹؍ اپریل ۱۹۴۶ء کو بوقت بعد نماز مغرب بمقام قادیان دارالامان ارشاد فرمائی جس میں تحریک فرمائی کہ قرآن کریم کا چرچا اور اس کی برکات کو عام کرنے کیلئے ہماری جماعت میں بکثرت حفاظ ہونے چاہئیں۔ چنانچہ فرمایا کہ:۔
’’صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ چار پانچ حفاظ مقرر کرے جن کا کام یہ ہو کہ وہ مساجد میں نمازیں بھی پڑھایا کریں اور لوگوں کو قرآن کریم بھی پڑھائیں۔ اسی طرح پر جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے اُن کو ترجمہ پڑھا ویں۔ اگر صبح و شام وہ محلوں میں قرآن پڑھاتے رہیں تو قرآن کریم کی تعلیم بھی عام ہو جائے گی اور یہاں مجلس میں بھی جب کوئی ضرورت پیش آئے گی تو ان سے کام لیا جا سکے گا۔ بہرحال قرآن کریم کا چرچا عام کرنے کے لئے ہمیں حفاظ کی سخت ضرورت ہے۔ انجمن کو چاہئے کہ وہ انہیں اتنا کافی گزارہ دے کہ جس سے وہ شریفانہ طور پر گزارہ کر سکیں۔ پہلے دو چار آدمی رکھ لئے جائیں پھر رفتہ رفتہ اس تعداد کو بڑھایا جائے‘‘۔
(۱۳)کوئی احمدی ایسا نہیں ہونا چاہئے جسے
قرآن کریم باترجمہ نہ آتا ہو
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ روح پرور تقریر مؤرخہ ۹؍ مئی ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ارشاد فرمائی۔ اس مضمون میں حضور نے حفاظت قرآن نیز مختلف قراء ت پر روشنی ڈالی اور تلقین فرمائی ہے کہ کوئی احمدی ایسا نہیں ہونا چاہئے جسے قرآن کریم باترجمہ نہ آتا ہو۔ اس تعلق میں آپ نے فرمایا کہ:۔
’’جب تک لوگ قرآن کی تعلیمات کو نہیں اپنائیں گے، جب تک قرآن کریم کو اپنا رہبر نہیں مانیں گے یہ اُس وقت تک چَین کا سانس نہیں لے سکتے۔ یہی دنیا کا مداوا ہے۔ ہماری جماعت کو کوشش کرنی چاہئے کہ دنیا قرآن کریم کی خوبیوں سے واقف ہو اور قرآن کریم کی تعلیم لوگوں کے سامنے بار بار آتی رہے تا کہ دنیا اس مأمن کے سایہ تلے آکر امن حاصل کرے‘‘۔
(۱۴) سپین اور سسلی میں تبلیغ اسلام اور جماعت احمدیہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ۱۹۴۶ء میں جماعت احمدیہ کے دو مبلغین کے سپین میں پہنچنے کی اطلاع ملنے پر مؤرخہ ۳۰؍ جون ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں یہ ملفوظات ارشاد فرمائے جن میں سپین میں نفوذِ اسلام اور تبلیغ اسلام کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے دوبارہ وہاں اسلام کی کھوئی ہوئی شان و شوکت کو بحال کرنے اور واپس لانے کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی ذمہ داریوں کو واضح فرمایا اور اس سلسلہ میں احباب جماعت کو بڑھ چڑھ کر چندہ تحریک جدید میں حصہ لینے کی تحریک فرمائی۔ نیز آپ نے فرمایا کہ سپین میں اسلام کی کھوئی ہوئی شان و شوکت کو بحال کرنے کیلئے اخلاق، متواتر قربانی اور بلند عزائم کی ضرورت ہے۔ ان اوصاف کے بغیر ہماری تمام کوششیں لاحاصل ہیں۔
(۱۵) یورپ کا پہلا شہید شریف دوتسا
۱۹۴۶ء میں البانیہ کے ایک ممتاز احمدی شریف دوتسا صاحب اپنے خاندان سمیت کمیونسٹ حکومت کے ہاتھوں نہایت بے دردی سے شہید کر دیئے گئے۔ شریف دوتسا صاحب یورپ کے پہلے احمدی تھے جنہوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔
مکرم ملک محمد شریف صاحب مبلغ اٹلی نے حضرت مصلح موعود کو جب اس دردناک واقعہ کی اطلاع دی تو حضور نے اپنے قلم سے روزنامہ الفضل کے لئے یہ مضمون تحریر فرمایا جو مؤرخہ ۱۲؍جولائی ۱۹۴۶ء کو روزنامہ الفضل قادیان میں شائع ہوا۔ جس میں حضور نے اس دردناک اور ایمان افرورز واقعہ کی تفصیل درج فرمائی ہے۔ نیز اس واقعہ کی روشنی میں احباب جماعت کو تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تحریک بھی فرمائی ہے۔
(۱۶) اب عمل اور صرف عمل کرنے کا وقت ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ روح پرور اور ایمان افروز تربیتی خطاب خدام الاحمدیہ سے مؤرخہ ۲۹؍ ستمبر ۱۹۴۶ء کو بعد نماز ظہر بمقام پارک روڈ دہلی میں ارشاد فرمایا جس میں محض زبانی دعوؤں کی بجائے عملی نمونہ پیش کرنے کے متعلق نصائح فرمائی ہیں۔ اسی طرح حضور نے اس تقریر میں خدام کو اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرنے، تنظیم مضبوط بنانے، دین کیلئے قربانی کرنے اور بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ نیز ظاہری صفائی کے ساتھ ساتھ روحانی پاکیزگی اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’پس تم بے شک ظاہری صفائی کا بھی خیال رکھو لیکن اس سے زیادہ فکر تمہیں روحانی گند کو دور کرنے کیلئے ہونا چاہئے۔ اس روحانی گند کو دور کرنے کی کوشش کرو اور قربانی کے معیار کو بہت بلند کرو‘‘۔
(۱۷) فریضۂ تبلیغ اور احمدی خواتین
یہ تقریر حضرت مصلح موعود نے یکم اکتوبر ۱۹۴۶ء کو جلسہ لجنہ اماء اللہ دہلی میں ارشاد فرمائی۔ جس میں انہیں تبلیغ کرنے اور صحابیات کے نقشِ قدم پر چلنے کی پُرزور نصیحت کی اور صحابیات کے ایمان افروز واقعات اور مثالیں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’اگر تم چاہتی ہو کہ انہی انعامات کی وارث بنو جو صحابہ اور صحابیات پر ہوئے تو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرو۔ اب باتیں کرنے کے دن نہیں رہے… جب تک عورتیں مردوں کے ساتھ ہر کام میں اُن کے دوش بدوش نہیں چلتیں اُس وقت تک تبلیغ کامیاب نہیں ہو سکتی اور اُس وقت تک اسلام دنیا پر غالب نہیں ہوسکتا‘‘۔
(۱۸) دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا علاج پیش کرتا ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے عالمگیر امن کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ پُرمعارف تقریر مؤرخہ ۹؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو بوقت شام ساڑھے پانچ بجے بمقام کوٹھی ۸ پارک روڈ دہلی کے وسیع صحن میں ارشاد فرمائی۔ اس تقریر کو سننے کیلئے کئی سَو غیر احمدی اور غیر مسلم معززین تشریف لائے اور اُنہوں نے نہایت توجہ اور سکون کے ساتھ حضور کی تقریر کو سنا۔ یہ تقریر پہلی دفعہ مؤرخہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۶۱ء کو روزنامہ الفضل میں شائع ہوئی اور اب یہ انوارالعلوم کی اِس جلد میں کتابی صورت میں شائع ہو رہی ہے۔ اس تقریر کے بارہ میں اخبار ’’تیج‘‘ دہلی نے اپنی ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کی اشاعت میں حسبِ ذیل نوٹ شائع کیا۔
’’احمدیوں کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ امن اور شانتی کا مسئلہ اتنا ہی پُرانا ہے جتنا کہ خود انسان، کیونکہ انسانی فطرت کے ساتھ اس کا نہایت گہرا تعلق ہے۔ اگر اس کا قیام مطلوب ہے تو اس کے لئے جذبہ دشمنی و نفرت کو ختم کرنا پڑے گا۔ مسئلہ سیاسی نہیں ہے بلکہ اخلاقی ہے اور اگر ہم خدا کی خدائی سے باخبر ہوں اور روٹی کا پیار، لالچ وغیرہ کو چھوڑ دیں تو اس کے بعد ہم میں نفرت اور لالچ کے بجائے برادری اور محبت کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔ مذہبی دنیا کے اختلافات ختم ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ہم ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنا سیکھیں اور اپنے اندر قوتِ برداشت پیدا کریں۔ جس طرح مذہبی معاملات میں تحمل کی ضرورت ہے ٹھیک اِسی طرح دنیا داری کے معاملات میں بھی اس کا ہونا لازمی ہے۔ ہمیں قومیت و رنگ کے جھگڑوں کو ختم کر کے عالمگیر برادری کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے‘‘۔ (الفضل ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء)
(۱۹) ہمارے ذمہ تمام دنیا کو فتح کرنے کا کام ہے
یہ تقریر حضرت مصلح موعود نے دہلی سے قادیان کو واپسی سے ایک روز قبل ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو جماعت احمدیہ دہلی کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی جو حضور کی زندگی کا دہلی میں آخری خطاب ثابت ہوا۔ حضور نے اس موقعہ پر نہایت مفید اور قیمتی نصائح ارشاد فرمائیں آپ نے فرمایا کہ:۔
’’اِس وقت تمام دنیا میں اسلام پھیلانے اور لوگوں کے قلوب کو فتح کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ یہ خیال بھی کبھی دل میں نہیں لانا چاہئے کہ یہ ذمہ داری کسی اور کی ہے جب تم یہ اچھی طرح ذہن نشین کر لو گے تو دنیا بھر میں کوئی بھی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ تم جہاں جاؤ گے تمہارے رستہ سے رُکاوٹیں خود بخود دور ہوتی چلی جائیں گی…ہندوستان مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مولد ہے اس لئے بھی اور اس لئے بھی کہ دہلی ہندوستان کا صدر مقام ہے دہلی والوں پر خاص کر بہت زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں…اب تمہارے لئے موقع ہے کہ اس کام کو سنبھالو… خداتعالیٰ مجھ کو اور تم کو اِس فرض کے ادا کرنے کی توفیق بخشے‘‘۔
(۲۰) عمل کے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ روح پرور تقریر مجلس خدام الاحمدیہ کے آٹھویں سالانہ اجتماع پر مؤرخہ ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو قادیان میں ارشاد فرمائی۔ جس میں حضور نے خدام کو اپنی تمام صلاحیتیں اور طاقتیں صرف اور صرف کام کیلئے وقف کرنے کی تلقین فرمائی۔ نیز اس طرح خدام کو یہ باور کروایا کہ عمل کے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ نیر اپنے خیالات و افکار میں ایسی تبدیلی پیدا کرنے کی تلقین فرمائی کہ جس سے خدام اسلام کا مجسم نمونہ بن جائیں۔ اس سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ:۔
’’یہی اور یہی ذریعہ ہے اسلام کے دنیا پر غالب آنے کا۔ جب تک یہ نہ ہو اُس وقت تک ساری امیدیں مجنونانہ اور سارے خیالات پاگلانہ ہیں‘‘۔
(۲۱) دائیں کو بائیں پر فوقیت حاصل ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ تقریر مؤرخہ ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ارشاد فرمائی اس تقریر میں حضور نے اسلام کی اس خصوصیت پر روشنی ڈالی جس میں کھانے پینے، وضوکرنے، نہانے دھونے نیز دیگر بہت سارے امور میں دائیں کو بائیں پر ترجیح دی گئی ہے۔ اس تعلق میں حضور نے فرمایا کہ مومن کے دل میں شریعت اسلام کے تمام چھوٹے بڑے احکام کا احترام ہونا چاہئے اور ہر معاملہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت اور اُسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
(۲۲) زمین کی عمر
مؤرخہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب مسجد اقصیٰ قادیان میں ڈاکٹر میلا رام صاحب پی۔ایچ۔ ڈی پروفیسر طبیعات ایف سی کالج لاہور نے زمین کی عمر کے متعلق لیکچر دیا۔ اس جلسہ کی صدارت حضرت مصلح موعود نے فرمائی۔ حضور نے اپنے صدارتی خطاب میں مذہبی کتب کی روح سے دنیا کی عمر پر روشنی ڈالی اور سائنس اور مذہب کی روح سے زمین کی عمر کے درمیان پائے جانے والے اختلاف کی بڑی عمدگی سے تطبیق فرمائی۔ حضور نے مذہبی کتب میں دنیا کی بیان فرمودہ چھ ہزار سال عمر کا مطلب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ہم جو دنیا کی عمر چھ ہزار سال کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارا وہ آدم جس سے ہماری تہذیب و تمدن کی ابتداء ہوئی اس پر چھ ہزار سال گزرے ہیں۔ ورنہ ہمارا اس سے یہ مطلب نہیں کہ ہمارے اس آدم سے پہلے کوئی آدم نہیں تھا‘‘۔
(۲۳) خداتعالیٰ دنیا کی ہدایت کیلئے ہمیشہ
نبی مبعوث فرماتا ہے
مؤرخہ ۱۹؍ دسمبر ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب بمقام قادیان مجلس علم و عرفان میں ایک معزز سکھ حضور کی ملاقات کیلئے تشریف لائے اور مختلف امور پر باتیں کرتے رہے۔ اس موقع پر حضور نے انہیں نہایت لطیف پیرایہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی طرف بھی توجہ دلائی اور اسلام اور احمدیت کی دوسرے مذاہب پر فوقیت ثابت فرمائی۔ یہ مضمون حضور کے اس موقع پر بیان فرمودہ ملفوظات پر مبنی ہے۔ … روزنامہ الفضل میں افادۂ عام کیلئے مؤرخہ ۲۳؍ مارچ ۱۹۶۱ء کو پہلی دفعہ شائع کیا گیا اور اب انوارالعلوم کی جلد ھٰذا میں کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔
(۲۴)اسلام دنیا پر غالب آ کر رہے گا
حضرت مصلح موعود نے یہ روح پرور مختصر خطاب مؤرخہ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۴۶ء کو جلسہ سالانہ قادیان کا افتتاح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ آپ نے اپنے اس خطاب میں فرمایا کہ اسلام دنیا پر غالب آ کر رہے گا اور یہ دنیا اُس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ساری دنیا پر اپنی پوری شان کے ساتھ نہ لہرانے لگ جائے۔ اس حقیقت کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ہی آپ نے ہمارے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ہم پر جو فرض عائد ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں اور اپنی جانوں کو خدا کیلئے قربان کر دیں اور اپنے نفوس کو ہمیشہ اس کی اطاعت کے لئے تیار رکھیں تاکہ اس کا فضل اور اس کی رحمت اور اس کی برکت ہم پر نازل ہو اور ہم اس کے حقیر ہتھیار بن کر دنیا میں عظیم الشان نتیجہ پیدا کرنے کا موجب بن جائیں‘‘۔
(۲۵) متفرق امور (۲۷؍ دسمبر۱۹۴۶ء)
اس تقریر میں حضور نے درج ذیل امور پر روشنی ڈالی ہے۔
۱۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ نبوت کے تعلق میں مولوی محمد علی صاحب کے مطالبہ حلف پرتبصرہ فرماتے ہوئے متنازعہ فیہ امر کے سلسلہ میں ایک نئی تجویز پیش فرمائی۔
۲۔ قرآن کریم کے تیسویں پارہ کی تفسیر کے دوسرے حصہ کی اشاعت کا اعلان فرمایا اور احباب جماعت کو اسے خریدنے کی تحریک فرمائی۔
۳۔ قرآن کریم انگریزی کی تکمیل نیز دیباچہ تفسیر القرآن کی تصنیف کے متعلق احباب جماعت کو معلومات بہم پہنچائیں۔
۴۔ قرآن کریم کے سات مختلف زبانوں میں ہونے والے تراجم کی تکمیل کی خوشخبری جماعت کو سنائی۔
۵۔ تحریک جدید کی رجسٹریشن اور اس کے مزید شعبہ جات قائم کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔
۶۔ تحریک جدید کے تحت یورپ، امریکہ اور افریقہ کے مختلف ممالک میں جماعتی مساعی پر روشنی ڈالی۔
۷۔ دیہاتی مبلغین کی افادیت کے پیش نظر اس سکیم کو بڑھانے کا پروگرام بیان فرمایا۔
اس خطاب کے آخر پر حضور نے فرمایا:۔
’’پس اس قدر اہم امور کی انجام دہی غیر معمولی قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی بلندی کیلئے ہر ممکن قربانی کریں اور دنیا اور آخرت میں سرخروئی حاصل کریں‘‘۔
(۲۶) جماعت کو چار چیزوں کی طرف زور دینا چاہئے
حضرت مصلح موعود نے یہ روح پرور تربیتی امور پر مبنی خطاب مؤرخہ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۴۶ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے آخری روز ارشاد فرمایا جس میں نماز باجماعت، لجنہ اماء اللہ کا قیام، سچائی اور محنت کی عادت ڈالنے پر زور دیا اور فرمایا کہ:۔
’’اس امر کے لئے دعائیں کی جائیں کہ جو چار باتیں میں نے اِس وقت بیان کی ہیں ہماری جماعت کو اس پر قائم ہونے کی توفیق مل جائیـ۔یعنی نماز باجماعت کی پابندی سوائے کسی خاص مجبوری کے یہاں تک کہ اگر گھر میں بھی فرض نماز پڑھی جائے تو اپنے بیوی بچوں کو شامل کر کے جماعت کرالی جائے۔… دوسرے سچائی پر قیام ایسی سچائی کہ دشمن بھی اسے دیکھ کر حیران رہ جائے۔ تیسرے محنت کی عادت ایسی محنت کہ بہانہ سازی اور عُذر تراشی کی روح ہماری جماعت میں سے بالکل مٹ جائے اور جس کے سپرد کوئی کام کیا جائے وہ اس کام کو پوری تن دہی سے سر انجام دے یا اسی کام میں فنا ہو جائے۔ چوتھے عورتوں کی اصلاح ہر جگہ لجنہ اماء اللہ کا قیام اور عورتوں میں دینی تعلیم پھیلانے کی کوشش۔ یہ چارچیزیں ہیں جن کے متعلق میں نے اِس وقت تو جہ دلائی آپ لوگ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔
(۲۷) وحشی اور غیر متمدن اقوام میں بیداری کی
ایک زبردست لہر
حضرت فضل عمر نے یہ پُرمعارف تقریر مؤرخہ ۱۳؍ جنوری ۱۹۴۷ء کو قادیان میں ارشاد فرمائی جس میں قرآن کریم کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کے موجودہ زمانہ میں ظہور پر روشنی ڈالی ہے۔ اس آیت کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ:۔
مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق یہ خبر دی گئی تھی اس زمانہ میں تمام وحشی اقوام میں بیداری پیدا ہو جائے گی۔
’’پس یہ علامت صرف موجودہ زمانہ کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جس میں ادنیٰ اقوام بھی بیدار نظر آتی ہیں‘‘۔
نیز فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ نے کی پیشگوئی پورا کرنے کیلئے ہمارے دل میں تحریک پیدا کی کہ ہم اپنے مبلّغ افریقہ میں بھجوائیں چنانچہ نائیجریا، گولڈکوسٹ اور سیرالیون میں ہم اپنے مشن قائم کر چکے ہیں اور اب لائبیریا اور کچھ فرنچ علاقے ایسے ہیں جن میں مبلغ بھجوائے جائیں گے اِس طرح مغربی افریقہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی بیداری پیدا ہو رہی ہے کہ جس کی مثال پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی۔ ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا چرچ آف انگلینڈ نے ایک مشن اِس غرض کے لئے مقرر کیا تھا کہ وہ یہ تحقیق کر ے کہ کیا وجہ ہے افریقہ میں عیسائیت کی ترقی رُک گئی ہے۔ اس کمیشن نے جو رپورٹ پیش کی اس میں چالیس جگہ یہ ذکر کیا گیا ہے کہ عیسائیت کی ترقی کا رُکنا محض اس وجہ سے ہے کہ افریقہ میں احمدیہ مشن کثرت سے پھیل گئے ہیں اور اِن کا مقابلہ عیسائیت سے نہیں ہو سکتا۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے کی پیشگوئی کو پورا کرنے کا ہمیں بھی ایک ذریعہ بنالیا‘‘۔
(۲۸) ہندوستانی اُلجھنوں کا آسان ترین حل
حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ یکم مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب مجلس علم و عرفان میں اپنے اس تازہ الہام فَاِنْ کَانَ فِی الْاِسْلَامِ حَقٌّ فَاَظْھِرٖ کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستان کی تقسیم کے سلسلہ میں پیدا ہونے والی اُلجھنوں کا آسان ترین حل پیش فرمایا۔ آپ نے تقسیم کے سلسلہ میں یہ اصول بیان فرمایا کہ:۔
’’قاعدہ یہ ہونا چاہئے کہ جس ملک یا علاقہ کی آواز کا صحیح طور پر پتہ نہ لگ سکے وہاں کے ہر ضلع اور ہر تحصیل کے لوگوں سے پوچھ لیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور جہاں شُبہ والی بات ہو وہاں ریفرنڈم کر لیا جائے۔ میرے نزدیک ایسا ہونا چاہئے کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مسلمان اپنے حقوق مانگنے میں حق پر ہیں تو ان کو اُن کے حقوق دیئے جائیں اور اگر ہندوؤں کے مطالبات جائز ہیں تو ان کے مطالبات تسلیم کر لئے جائیں‘‘۔
(۲۹) نیکی کی تحریک پر فوراً عمل کرو
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مؤرخہ ۷؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب بمقام قادیان یہ تقریر ارشاد فرمائی جس میں آپ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جب بھی نیکی کی کوئی تحریک پیدا ہو تو فوراً اُس پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے اس لئے نیکی کے مواقع کو کبھی ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:۔
’’پس جب کسی انسان کے دل میں نیکی کرنے کا ارادہ پیدا ہو تو اُس کو ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے کیونکہ ممکن ہے وہ موقع گزر جائے اور پھر توفیق نہ مل سکے۔ پس مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب نیکی کا دَور تم پر آئے تو اُس سے فائدہ اُٹھاؤ۔ جب تم نیکی کے ایک دَور سے فائدہ اُٹھاؤ گے تو تمہارے لئے نیکی کا اگلا دَور بہت سہل ہو جائے گا‘‘۔
(۳۰)ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں
چاہے وہ ہمیں ماریں یا دُکھ پہنچائیں
دلّی کے ایک اخبار نے لکھا کہ احمدی پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں حالانکہ ان کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ جب پاکستان بن جائے گا تو مسلمان پھر ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو کابل میں ان کے ساتھ ہوا تھا اور اُس وقت احمدی کہیں گے کہ ہمیں ہندوستان میں شامل کر لو۔
حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۱۶؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں اِس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ :۔
’’ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں چاہے وہ ہمیں ماریں یا دُکھ پہنچائیں‘‘۔
نیز آپ نے فرمایا کہ:۔
’’ہمارا دشمن اگر ہمارے ساتھ ظلم اور بے انصافی بھی کرے تو ہم انصاف سے کام لیں گے‘‘۔
حضور کے اس خطاب کو صیغہ نشر و اشاعت نظارت دعوۃ و تبلیغ قادیان نے کتابی صورت میں شائع کیا تھا۔ جسے اب انوارالعلوم کی اس جلد میں شامل کیا جا رہا ہے۔
(۳۱) انصاف پر قائم ہو جاؤ
حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۱۷؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں یہ خطاب ارشاد فرمایا جس میں سورۃ مائدہ کی آیت نمبر۹ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’عدل سے بڑھ کر جو چیز ہے وہ احسان اور حُسنِ سلوک ہے گویا اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ دشمن کے مظالم اور اس کی جفا کاریوں کے مقابلہ میں تم نہ صرف عدل سے کام لو بلکہ اس سے احسان اور حُسنِ سلوک کا بھی معاملہ کرو۔ اگر تم صرف عدل سے کام لوگے تو گو یہ چیز اَقْرَبُ اِلَی التَّقْوٰی ہوگی مگر تقویٰ نہیں ہوگی۔ تقویٰ یہ ہے کہ تم دشمن سے احسان کا سلوک کرو اور اس کے مظالم کو بالکل بھول جاؤ‘‘۔
(۳۲) ایک آیت کی تفسیر
حضرت مصلح موعودنے مؤرخہ ۲۰؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ایک خصوصی لیکچر ارشاد فرمایا۔ حضور کا یہ پُر معارف لیکچر ۱۹۶۱ء میں پہلی مرتبہ روزنامہ الفضل ربوہ میں پانچ قسطوں میں شائع ہوا اور اب یہ لیکچر کتابی صورت میں انوار العلوم کی اِس جلد میں شائع ہو رہا ہے۔
اس لیکچر میں حضور نے سورۃ الانفال کی آیت۶ (… الخ) کی انتہائی پُر معارف اور بے نظیر تفسیر بیان فرمائی۔ نیز اِس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اُن کا حل بیان فرمایا۔ اسی طرح تعلق باللہ کی کمی کے باعث مفسرین سے تفسیر بیان کرتے ہوئے جو غلطیاں سرزد ہوئیں اُن کی اصلاح فرمائی۔ جس سے آپ کے متعلق پیشگوئی مصلح موعود کے ان الفاظ کہ:۔
’’کلام اللہ کا مرتبہ اُس سے ظاہر ہوگا اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘۔
کی کمال شان سے تصدیق ہوتی ہے۔
٭…٭…٭
اسلام کا اقتصادی نظام
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اسلام کا اقتصادی نظام
(تقریر فرمودہ ۲۶؍ فروری ۱۹۴۵ء بمقام احمدیہ ہوسٹل واقع ۳۲ ڈیوس روڈ لاہور)
تشہّد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
مضمون کی اہمیّت
میرا خطبہ آج اسلام کے اقتصادی نظام پر ہے۔ یہ مضمون اتنا وسیع ہے کہ اِس کو تھوڑے سے وقت میں بیان کرنا ایک نہایت ہی مشکل
کام ہے اور بعض دفعہ کسی چیز کو اُس کے اصل مقام سے جدا کر کے پیش کر دینا اُسے مبہم بنا دیتا اور اس کی اہمیت کو کمزور کر دیتا ہے مگر پھر بھی میں کوشش کروں گا کہ جہاںتک ہو سکے مختصر طور پر اور ایسی صورت میں کہ میرا مضمون سمجھ میں آ سکے مَیں اسلام کے اقتصادی نظام کو آپ لوگوں کے سامنے پیش کروں اور وہ ضروری ضروری امور جو اُس کے ماحول سے تعلق رکھتے ہیں اور اُس کے بنیادی اصول کے ساتھ وابستہ ہیں اُنہیں بھی بیان کروں۔ چونکہ اسلام کا اقتصادی نظام ایک ایسی شکل رکھتاہے جسے ایک رنگ میں اُس نظام سے مشابہت ہے جسے آجکل کمیونزم کہتے ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں میرا مضمون اُدھورا رہے گا اگر میں اِس تحریک کے متعلق بھی اسلامی نقطۂ نگاہ پیش نہ کروں اور وہ فرق بیان نہ کروں جو اسلامی اقتصادی تحریک اور کمیونزم کی اقتصادی تحریک میں ہیں۔
یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح شاخیں اپنے درخت کی جڑوں میں سے نکلتی ہیں اِسی طرح مختلف مسائل پہلے سے قائم شدہ بنیادی مسائل میں سے نکلتے ہیں اور اُن بنیادی مسائل کو سمجھے بغیر بعد میں پیدا ہونے والے مستخرج مسائل کی حقیقت کو لوگ آسانی کے ساتھ نہیں سمجھ سکتے اِس لئے اسلام کے اقتصادی نظام کو بیان کرنے سے پہلے مَیں ضروری سمجھتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ یہ بھی بیان کر دوں کہ اسلام کے کُلّی نظام کی بنیاد کس امر پر ہے۔
اسلام کے کُلّی نظام کی بنیاد
اسلام اپنے تمام سیاسی، اقتصادی اور تمدّنی اور دیگر ہر قسم کے نظاموںکی بنیاد اِس امر پر رکھتا ہے کہ
بادشاہت اور مالکیت خدا تعالیٰ کوہی حاصل ہے چنانچہ سورۃ زخرف رکوع سات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱؎
یعنی بہت برکت والاوہ خدا ہے جس کے قبضہ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اِسی طرح جو کچھ اِن کے درمیان ہے وہ بھی اُسی کے قبضہ و تصرف میں ہے اور اِن چیزوں کا اپنے مقصد اور مدّعا کو پورا کر کے جب فناء کا وقت آئے گا تو اس کا علم بھی اُسی کو ہے اور پھر آخر ہر چیز خدا کی طرف ہی جانے والی ہے۔ اِس آیت میں قرآن کریم نے یہ بات پیش کی ہے کہ درحقیقت آسمان اور زمین خدا تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہر چیز جو یہاں زندگی گزار رہی ہے اِس کا منتہٰی اور مرجع خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔
اگر کوئی شخص کسی امر کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے یا کوئی امانت اُس کے سپرد کی جاتی ہے تو وہ اِس ذمہ داری کی ادائیگی اور اِس امانت میں خیانت نہ کرنے کے متعلق امانت سپردکرنے والے کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے لیکن وہ شخص جو آزاد ہوتا ہے اپنے متعلق یہ سمجھتا ہے کہ مَیں جس طرح چاہوں کروں مَیں کسی کے سامنے جواب دِہ نہیں ہوں۔ پس قرآن کریم نے اِس آیت میں یہ بتایا ہے کہ دنیا جہان کی حکومتیں، بادشاہتیں اور اقتدار چونکہ خداتعالیٰ کے قبضہ میں ہیں اور اُس کی طرف سے بطور امانت انسانوں کے سپرد ہیں اِس لئے سب انسان بادشاہتوں اور ظاہری مِلکیتوں کے متعلق اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھ سکتے۔ وہ بظاہر بادشاہ یا بظاہر مالک ہیں لیکن حقیقت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے متولّی ہیں اِس لئے جب وہ خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گے اُنہیں اِن امانتوں کے صحیح مصرف کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دِہ ہونا ہوگا۔
حکومت و بادشاہت کے متعلق اسلام کا نقطۂ نگاہ
پھر قرآن کریم یہ امر بھی صراحتًا بیان فرماتا ہے کہ بادشاہت خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اِس پر کسی کا ذاتی حق نہیں ہوتا۔چنانچہ فرماتا ہے۔
۲؎
یعنی اے مخاطب تو کہہ دے کہ اے اللہ! تمام بادشاہتوں کے مالک خدا! تو جس کو چاہتا ہے بادشاہت دیتا ہے اور جس کے ہاتھ سے واپس لینا چاہے اُس کے ہاتھ سے واپس لے لیتا ہے۔ جس کوچاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کر دیتاہے۔ ساری خیر اور نیکی تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اِس آیت میں بھی بتایا گیا ہے کہ بادشاہت جب کسی شخص کے ہاتھ میں آتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور امانت آتی ہے۔ اِس کے یہ معنی نہیںکہ ہر صورت میں ہر بادشاہ اور مقتدر کو خداتعالیٰ کی طرف سے حکومت ملتی ہے خواہ وہ کیسا ہی جابر بادشاہ ہو یا کیسا ہی ظالم ہو یا کیسا ہی گندہ اور خراب ہو وہ ہر حالت میں خدا تعالیٰ کا نمائندہ ہے بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہت ملنے کے سامان خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا کئے جاتے ہیں۔ پس اگر کسی کو بادشاہت ملتی ہے تو وہ خداتعالیٰ کی طرف سے اُس کے پیدا کردہ اسباب سے کام لینے کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے اور جبکہ بادشاہت خداتعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے تو جسے بھی بادشاہت یا کوئی اقتدار حاصل ہو وہ زیادہ سے زیادہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وکیل اور متولّی قراردیا جاسکتا ہے حاکمِ مطلق یا مالکِ مطلق قرار نہیں دیا جاسکتا۔آخری طاقت اور آخری فیصلہ کرنے والی ہستی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ بہر حال جوبھی حاکم ہو، بادشاہ ہو،ڈکٹیٹر ہو یا پارلیمنٹ کی صورت میں بعض افراد کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہواگر وہ کوئی آئین دنیا میں نافذ کرتے ہیں تو وہ اُس آئین کے نفاذ میں خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دِہ ہیں۔ اگر وہ کوئی ایسی خرابی پیدا کریں گے جس سے خُدا تعالیٰ نے روکا ہوا ہے یا کوئی ایسی نیکی ترک کریں گے جس کے کرنے کا خداتعالیٰ نے حکم دیا ہوا ہے تو وہ خداتعالیٰ کے سامنے ایک مجرم کی حیثیت میں پیش ہوں گے۔ ویسے ہی جیسے ایک باغی غلام یا سرکش ملازم اپنے آقا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے اپنے ان افعال کی سزا پائیں گے خواہ وہ بادشاہ کہلاتے ہوں یا ڈکٹیٹر کہلاتے ہوں یا پارلیمنٹ کہلاتے ہوں۔ پس اِس آیت کا مطلب یہ نہیںہے کہ ہر شخص جو بادشاہ بنتا ہے خداتعالیٰ کی مرضی سے بنتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے دائرۂ عمل میں خدا تعالیٰ کی ملکیت پر قابض ہوتا ہے اِس لئے اُسے خدائی آئین کے مطابق حکومت کرنی چاہئے اور خداتعالیٰ کی نیابت میں اپنے اقتدار کو استعمال کرنا چاہئے ورنہ وہ گنہگار ہوگا۔ ہاں بعض حالات میں خداتعالیٰ کی طرف سے بھی بادشاہ مقرر کئے جاتے ہیں جو بہرحال نیک اور منصف ہوتے ہیںمگر اُن کی بادشاہتیں دینی ہوتی ہیں دُنیوی نہیں۔
حُکّام کیلئے اسلامی احکام
اِسی طرح حُکّام کے بارے میں فرماتا ہے کہ بعض حاکم ایسے ہوتے ہیں کہ
۳؎یعنی دنیا میں کئی حاکم اور بادشاہ ایسے ہوتے ہیں کہ جب اُنہیں بادشاہت مل جاتی ہے یعنی وہ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ طاقتوں سے کام لے کر حکومت پر قابض ہوجاتے ہیں تو بجائے اِس کے کہ رعایا اور مُلک کی خدمت کریں، بجائے اِس کے کہ امن قائم کریں، بجائے اِس کے کہ لوگوں کے دلوں میں سکینت اور اطمینان پیدا کریں وہ ایسی تدابیراختیار کرنی شروع کردیتے ہیں جن سے قومیں قوموں سے قبیلے قبیلوں سے اور ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب کے ماننے والوں سے لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہیں اور مُلک میں طوائف الملوکی کی حالت پیدا ہو جاتی ہے اِسی طرح وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن سے مُلک کی تمدّنی اور اقتصادی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور آئندہ نسلیں بیکار ہو جاتی ہیں۔ حَرْثکے لغوی معنی تو کھیتی کے ہیں مگر یہاں حَرْثکا لفظ استعارۃً وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جتنے ذرائع مُلک کی اقتصادی ترقی کے یا جتنے ذرائع مُلک کی مالی حالت کو ترقی دینے والے یا جتنے ذرائع مُلک کی تمدّنی حالت کو بہتر بنانے والے ہوتے ہیں اُن ذرائع کو اختیار کرنے کی بجائے وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے تمدّن تباہ ہو، اقتصاد بربادہو، مالی حالت میں ترقی نہ ہو اِس طرح وہ نسلوں کی ترقی پر تبر رکھ دیتے ہیں اور ایسے قوانین بناتے ہیںجس سے آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں اپنی طاقتوں کو کھوبیٹھتی ہیں اور ایسی تعلیمات جن کو سیکھ کر وہ ترقی کر سکتی ہیں اُن سے محروم رہ جاتی ہیں۔ پھر فرماتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ فسادکو پسند نہیں کرتا۔ اس لئے ایسے بادشاہ اور حکمران خداتعالیٰ کی نگاہ میں مغضوب ہیںاور وہ اُن کو سخت نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
اِس آیت سے یہ نتیجہ نکل آیا کہ اسلام کے نزدیک وہی بادشاہ صحیح معنوں میں بادشاہ کہلاسکتا ہے جو لوگوں کے لئے ہر قسم کا امن مہیّا کرے، اُن کی اقتصادی حالت کو درست کرے اور اُن کی جانوں کی حفاظت کرے۔ کیا بلحاظ صحت کا خیال رکھنے کے اورکیا بلحاظ اِس کے کہ وہ غیرضروری جنگیں نہ کرے اور اپنے مُلک کے افراد کو بلا وجہ مرنے نہ دے۔ گویا ہر قسم کے امن اور جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری اسلام کے نزدیک حکومت پر عائد ہوتی ہے اور وہ اِس امر کی پابند ہے کہ مُلک کی ترقی اور رعایا کی بہبودی کا ہمیشہ خیال رکھے۔
حُکّام کو افراد واقوام کے درمیان عد ل قائم کرنے کی تاکید
اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے
۴؎ یعنی اے لوگو! اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ جب تمہیں موقع ملے کہ تم بادشاہت کی امانتیں کسی کے سپرد کرو تو یاد رکھو تم یہ امانتیں ہمیشہ اُن لوگوں کے سپرد کیا کروجو تمہارے نزدیک بادشاہت اور حکومت کے اہل ہوں اور جن کے اندر یہ قابلیت پائی جاتی ہو کہ وہ حکومتی کاموں کو عمدگی سے سرانجام دے سکیںاور پھر اے وہ لوگو! جن کے سپرد مُلک کے لوگ بادشاہت کی امانت کریں (جہاں ہم نے مُلک کے لوگوں کو یہ حکم دیا ہے کہ تم حکومت کے لئے ایسے ہی لوگوں کا انتخاب کرو جو اِس امانت کے سنبھالنے کے اہل ہوںجو مُلک کے بہترین راہنما ہوں اور جو رعایا کے لئے ہر قسم کی ترقی کے سامان جمع کرنے کے قابل ہوں) وہاں تم لوگوں کو جن کا حکومت کے لئے انتخاب کیا گیاہے اور جن پر اعتماد کرکے مُلک کے لوگوں نے حکومت کی امانت اُن کے سپرد کی ہم یہ حکم دیتے ہیں کہ یعنی جب تم کوئی فیصلہ کرو تو عدل سے کام لو۔ یہ نہ ہو کہ کسی فرد کو بڑھا دواور کسی کو نیچے گرا دو، کسی قوم کو اونچا کردو اورکسی قوم کو نیچا کر دو،کسی قوم میں تعلیم پھیلادو اور کسی قوم کو جاہل رکھو، کسی کی اقتصادی ضروریات کو پورا کرو اور کسی کی اقتصادی ضروریات کونظر انداز کردو بلکہ جب تم لوگوں کے حقوق کا فیصلہ کرو تو ہمیشہ عدل وانصاف سے فیصلہ کرو۔رعایت یا بے جاطرف داری سے کام نہ لو۔ پھر فرماتا ہے ہمارا یہ حکم ایسا نہیں جیسے بادشاہ بعض دفعہ بغیر کسی خاص مقصد یا بغیر کسی خاص حکمت کے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمارا منشاء یوں ہے بس اِسی طرح کیا جائے۔ ہم اِن بادشاہوں کی طرح بغیر سوچے سمجھے یہ حکم نہیں دے رہے بلکہ ہم تمہارے خالق ومالک خدا ہیں اور ہم تمہیں جو کچھ حکم دے رہے ہیں اِسی میں تمہارا فائدہ اور تمہارا سُکھ ہے۔ اگر تم ایسے حاکم مقرر کرو گے جو اچھے ہوں گے،جو حکومت کے فرائض کو صحیح طور پر ادا کرنے والے ہوں گے، جو اِس امانت کی قدروقیمت کو سمجھتے ہونگے تو اِس میں تمہارااپنا فائدہ ہے اور اے حاکمو! اگر تم لوگوں کی جانوں کی حفاظت کرو گے، اگر تم ان کے اموال کی حفاظت کروگے، اگر تم اپنے فیصلوں میں ہمیشہ عدل کو ملحوظ رکھو گے، اگر تم افراد اور اقوام میں تفریق سے کام نہیں لوگے، اگر تم چھوٹوں اور بڑوں سب سے یکساں سلوک کرو گے، اگر تم مُلک کی مجموعی حالت کو درست رکھنے کی ہمیشہ کوشش کرو گے، اگر تم ان بادشاہوں کے نقش قدم پر نہیں چلو گے جو کسی کو بڑھادیتے ہیں اور کسی کو گرا دیتے ہیں اور کسی کو ناواجب سزا دے د یتے ہیں اور کسی کی ناواجب رعایت کردیتے ہیں تو تم صرف ہمارا حکم ہی پورا نہیں کرو گے بلکہ انجام کے لحاظ سے یہ امر خود تمہارے لئے بھی بہتر ہوگا۔ پھر فرماتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ لوگ دنیا کے ظالم بادشاہوں کی ایڑیوں کے نیچے کچلے گئے اور وہ تباہ وبرباد کئے گئے۔ بادشاہوں نے اُن پر ظلم کیا اور ان کے حقوق کو انتہائی بیدردی کے ساتھ پامال کر دیا۔ یہ حالات خدا نے دیکھے اور اُس کی غیرت نے برداشت نہ کیا کہ بنی نوع انسان ہمیشہ ظلموں کے نیچے دبتے چلے جائیں اور حُکّام اپنی من مانی کارروائیاں کرتے رہیں پس اُس نے چاہا کہ اِس بارہ میں خود ہدایات دے۔ چنانچہ جب ظلم اپنی انتہا تک پہنچ گیا اور لوگوں نے ہمارے حضور چلّا کر کہا کہ اے خدا! اِس قسم کے حاکم ہم پر مسلط ہو رہے ہیں جو ہمارے حقوق کو ادانہیں کرتے تو خدا نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اپنی شریعت میں یہ حکم نازل فرمادے کہ ہمیشہ حُکّام انتخاب سے مقرر کئے جائیں۔ اور ایسے حاکم چُنے جائیں جو انصاف اور عدل کا مادہ اپنے اندررکھتے ہوں اور حکومت کے اہل ہوں۔ اِسی طرح حُکّام کو خدا نے اپنی شریعت میں یہ حکم دے دیا کہ دیکھو! ہمیشہ عدل اور انصاف سے کام لو،مُلک کی اقتصادی حالت کو ترقی دینے کی کوشش کرو، رعایا کے جان ومال کی حفاظت کرو،اقوام اور افراد میںتفریق پیدا نہ کرو، ایسی تدابیر اختیار نہ کرو جو مُلک کی ترقی میں روک ڈالنے والی یا آئندہ نسلوں کو تباہ کرنے والی ہوں بلکہ ہمیشہ ایسے طریق اختیار کرو اورایسے قوانین بناؤ جو مُلک کی ترقی کا موجب ہوں۔
حکومت کے متعلق اِسلام کی چار اصولی ہدایات
یہ وہ ماحول ہے جس میں اسلام اقتصادی نظام پیش کرتا ہے اور بغیر کسی مناسب ماحول کے کوئی اچھے سے اچھا نظام بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اسلام دنیا میں پہلا
مذہب ہے جس نے
(۱) انتخابی حکومت کا اصول مقرر کیا ہے اور حکومت کی بنیاد اہلیت پر قائم کی۔
(۲) جس نے حکومت کو ملکیت نہیںبلکہ امانت قرار دیا ہے۔
(۳) جس نے لوگوں کی عزت، جان اور مال کی حفاظت کو حکومت کا مقصد قرار دیا ہے۔
(۴) جس نے حاکم کو افراد اور اقوام کے درمیان عدل کرنے کی تاکید فرمائی اور اُسے خداتعالیٰ کے سامنے جواب دہ قرار دیاہے۔
غرض اسلام کے نزدیک کوئی نسلی بادشاہ نہیں وہ صاف اور کھلے طور پرفرماتاہے کہ یعنی خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم حکومت کی امانت ہمیشہ اہل لوگوں کے سپرد کیا کرو۔ پس اسلام کسی نسلی بادشاہت کا قائل نہیں بلکہ اسلام کے نزدیک حکومت انتخابی اصل پر قائم ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ غورو فکر کے بعد اپنی قوم میں سے بہترین شخص کے سپرد حکومت کی امانت کیا کریں۔ جب تک مسلمان قرآن کریم کے احکام پر عمل کرتے رہے وہ اسی رنگ میں حُکّام کا انتخاب کرتے رہے اور آئندہ بھی جب مسلمانوں کو قرآن کریم کے اِن احکام پر عمل کرنے کی توفیق حاصل ہوگی اُن کے لئے پہلا حکم یہی ہوگا کہ تم خود کسی شخص کو حکومت کے لئے منتخب کرو۔اور پھر دوسرا حکم یہ ہو گا کہ تم کسی کو اس لئے نہ چنو کہ وہ اعلیٰ خاندان میں سے ہے، کسی کو اِس لئے نہ چنو کہ وہ جابر ہے، کسی کو اِس لئے نہ چنو کہ وہ مالدار ہے، کسی کو اِس لئے نہ چنو کہ اُس کے ساتھ جتھہ ہے بلکہ تم اس لئے چنو کہ وہ مُلک کی حکومت کے لئے بہترین شخص ثابت ہوگا۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے حُکّام کو یہ حکم دیدیا کہ جب تمہارا انتخاب عمل میں آجائے تو عدل وانصاف سے کام لو۔ یہی وہ روح تھی جس نے بادشاہت پیدا ہوجانے کے بعد بھی مسلمانوں کے خیالات کو جمہوریت اور انصاف کی طرف مائل رکھا۔
اسلامی تاریخ کا ایک شاندار منظر
گِبن جوایک مشہور عیسائی مؤرخ ہے اُس نے روم کے حالات کے متعلق ایک تاریخی کتاب
لکھی ہے وہ اس کتاب میں ملک شاہ A۴؎کے متعلق جو الپ ارسلان B۴؎ کا بیٹا تھا بیان کرتا ہے کہ وہ بالکل نوجوان تھا جب اُس کا والد فوت ہوا۔ اُس کے مرنے کے بعد ملک شاہ کے ایک چچا ایک چچیرے بھائی اور ایک سگے بھائی نے بالمقابل بادشاہت کا دعویٰ کردیا اور خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ نظام الدین طوسی جو ملک شاہ کے وزیر تھے وہ (بوجہ شیعہ ہونے کے) ملک شاہ کو امام موسیٰ رضاؓ کی قبر پر دعا کے لئے لے گئے دعا کے بعد ملک شاہ نے وزیر سے پوچھا۔ آپ نے کیا دعا کی؟ وزیر نے جواب دیا یہ کہ خداتعالیٰ آپ کوفتح بخشے۔ملک شاہ نے کہا اور مَیں نے خدا سے یہ دعا کی ہے کہ اے میرے ربّ!اگر میرا بھائی مسلمانوں پر حکومت کرنے کا مجھ سے زیادہ اہل ہے تو اے میرے ربّ! آج میری جان اور میرا تاج مجھ سے واپس لے لے۔
گِبن ایک عیسائی مؤرخ اور نہایت ہی متعصّب عیسائی مؤرخ ہے مگر اِس واقعہ کے ذکرکے سلسلہ میں بے اختیار لکھتا ہے۔ اِس تُرک(مسلمان) شہزادہ کے اس قول سے زیادہ پاکیزہ اور وسیع نظریہ تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنا مشکل ہے۔ مگریہ روح کہاں سے آئی اور کیوں مسلمانوں کے دلوں اور اُن کے دماغوں میں یہ بات مرکوز تھی کہ حکومت کسی کا ذاتی حق نہیں بلکہ ایک امانت ہے جو مُلک کے لوگ خود اپنے میں سے قابل ترین شخص کے سپرد کرتے ہیں اورپھر اُس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ انصاف سے کام لے اور حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھے۔ یہ پاکیزہ خیالات اور یہ اعلیٰ درجہ کا نمونہ مسلمانوں میں اِسی وجہ سے دکھائی دیتا ہے کہ قرآن کریم نے مسلمانوں کے دماغوں میں شروع سے ہی یہ بات ڈال دی تھی کہ بادشاہت ایک امانت ہے اور یہ امانت صرف حقدار کو بطور انتخاب دینی چاہئے نہ کہ ورثہ کے طور پر لوگ اُس پر قابض ہوں۔ یا اہلیت کے سِوا اورکسی وجہ سے اُنہیں اِس کام پر مقرر کیا جائے۔ نیز یہ کہ جوشخص اِس امانت پر مقرر ہو اُس کا فرض ہے کہ اِس امانت کے سب حقوق کو پوری طرح ادا کرے اور جو شخص اِس کے تمام حقوق اورفرائض کے ساتھ اُسے ادا نہیں کرے گا وہ خداتعالیٰ کے سامنے ایک مجرم کی طرح کھڑا ہوگا۔ پس مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے ہر وقت یہ آیت رہتی تھی کہ یعنی جو لوگ حکومت کے قابل ہوں، جو انتظامی امور کو سنبھالنے کی اہلیت اپنے اندر رکھتے ہوں اُن کو یہ امانت سپرد کیا کرو۔ اور پھر جب یہ امانت بعض لوگوں کے سپرد ہوجاتی تھی توشریعت کا یہ حکم ہر وقت اُن کی آنکھوں کے سامنے رہتا تھا کہ دیانت داری اور عدل کے ساتھ حکومت کرو۔ اگر تم نے عد ل کو نظر انداز کردیا، اگر تم نے دیانت داری کوملحوظ نہ رکھا، اگر تم نے اِس امانت میں کسی خیانت سے کام لیاتو خدا تم سے حساب لے گا اور وہ تمہیں اِس جرم کی سزادیگا۔
حصرت عمرؓ کا عدیم المثال خدمات کے باوجود وفات کے وقت غیرمعمولی کرب
یہی وہ چیزتھی جس کا اثر حضرت عمررضی اللہ عنہ کی طبیعت پر اِس قدرغالب اور نمایاں تھا کہ
اُسے دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حضرت عمرؓ جو اسلام میں خلیفہ ثانی گزرے ہیں اُنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے اِس قدر قربانیوں سے کام لیا ہے کہ وہ یورپین مصنّف جو دن رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کرتے رہتے ہیں، جو رسول کریم ﷺ کے متعلق اپنی کتابوں میں نہایت ڈھٹائی کے ساتھ یہ لکھتے ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ! آپ نے دیانت داری سے کام نہیں لیا وہ بھی ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ذکر پر یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جس محنت اور قربانی سے اِن لوگوں نے کام کیا ہے اِس قسم کی محنت اور قربانی کی مثال دنیا کے کسی حکمران میں نظر نہیں آتی۔خصوصاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کام کی تو وہ بے حد تعریف کرتے ہیںاور کہتے ہیں کہ یہ وہ شخص تھا جس نے رات اور دن انہماک کے ساتھ اسلام کے قوانین کی اشاعت اور مسلمانوں کی ترقی کے فرض کو سر انجام دیا۔ مگر عمرؓ کا اپنا کیا حال تھا۔ اُس کے سامنے باوجود ہزاروں کام کرنے کے، باوجود ہزاروں قربانیاں کرنے کے باوجود ہزاروں تکالیف برداشت کرنے کے یہ آیت رہتی تھی کہ اور یہ کہ یعنی جب تمہیں خدا کی طرف سے کسی کام پر مقر ر کیا جاوے اور تمہارے مُلک کے لوگ اور تمہارے اپنے بھائی حکومت کے لئے تمہارا انتخاب کریں تو تمہارا فرض ہے کہ تم عدل کے ساتھ کام کرواور اپنی تمام قوتوں کو بنی نوع انسان کی فلاح وبہبود کے لئے صرف کردو۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کا یہ واقعہ کیسا دردناک ہے کہ وفات کے قریب جبکہ آپ کو ظالم سمجھتے ہوئے ایک شخص نے نادانی اور جہالت سے خنجر سے آپ پروار کیااور آپ کو اپنی موت کا یقین ہوگیا تو آپ بستر پر نہایت کرب سے تڑپتے تھے اور بار بار کہتے تھے اَللّٰھُمَّ لَا عَلَیَّ وَلَالِیْ۔ اَللّٰھُمَّ لَا عَلَیَّ وَلَا لِیْ۵؎ اے خدا! تو نے مجھ کو اس حکومت پر قائم کیا تھا اور ایک امانت تو نے میرے سپرد کی تھی۔ مَیں نہیں جانتا کہ مَیں نے اس حکومت کا حق ادا کر دیا ہے یا نہیں۔ اب میری موت کا وقت قریب ہے اور مَیں دنیا کو چھوڑ کر تیرے پاس آنے والا ہوں۔ اے میرے ربّ!میں تجھ سے اپنے اعمال کے بدلہ میں کسی اچھے اَجر کا طالب نہیں، کسی انعام کا خواہشمند نہیں بلکہ اے میرے ربّ! میں صرف اِس بات کا طالب ہوں کہ تو مجھ پر رحم کر کے مجھے معاف فرمادے اور اگر اِس ذمہ داری کی ادائیگی میں مجھ سے کوئی قصورہوگیا ہو تو اُس سے درگزر فرمادے۔ عمرؓ وہ جلیل القدر انسان تھا جس کے عدل اور انصاف کی مثال دنیا کے پردہ پر بہت کم پائی جاتی ہے۔ مگر اس حکم کے ماتحت کہ جب وہ مرتا ہے تو ایسی بے چینی اور ایسے اضطراب کی حالت میں مرتا ہے کہ اُسے وہ تمام خدمات جو اُس نے مُلک کی بہتری کے لئے کیں، وہ تمام خدمات جو اُس نے لوگوں کی بہتری کے لئے کیں۔ وہ تمام خدمات جو اس نے اسلام کی ترقی کے لئے کیںبالکل حقیر نظر آتی ہیں۔ وہ تمام خدمات جو اُس کے مُلک کے تمام مسلمانوں کو اچھی نظر آتی تھیں، وہ تمام خدمات جو اُس کے مُلک کی غیراقوام کو بھی اچھی نظر آتی تھیں، وہ تمام خدمات جو صرف اُس کے مُلک کے اپنوں اور غیروں کو ہی نہیں بلکہ غیر ممالک کے لوگوں کو بھی اچھی نظر آتی تھیں، وہ تمام خدمات جو صرف اُس کے زمانہ میں ہی لوگوں کو اچھی نظر آتی تھیں بلکہ آج تیرہ سَو سال گزرنے کے بعدبھی وہ لوگ جو اُس کے آقا پر حملہ کرنے سے نہیں چوکتے جب عمرؓ کی خدمات کا ذکر آتا ہے تو کہتے ہیں۔ بے شک عمرؓ اپنے کارناموں میں ایک بے مثال شخص تھا۔ وہ تمام خدمات خود عمرؓ کی نگاہ میں بالکل حقیر ہو جاتی ہیں اور وہ تڑپتے ہوئے کہتا ہے اَللّٰھُمَّ لَا عَلَیَّ وَلَالِیْ اے میرے ربّ! ایک امانت میرے سپرد کی گئی تھی۔مَیں نہیں جانتا کہ میں نے اس کے حقوق کو ادا بھی کیاہے یا نہیں۔ اِس لئے میں تجھ سے اتنی ہی درخواست کرتا ہوں کہ تو میرے قصوروں کو معاف فرمادے اور مجھے سزا سے محفوظ رکھ۔
ہر چیز کیلئے اچھے ماحول کی ضرورت
یہ ماحول میں نے اِس لئے بیان کیا ہے کہ کوئی چیز اچھے ماحول کے بغیر کبھی
کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اچھی سے اچھی گٹھلی لو اور اُسے ایسی زمین میں دبا دو جو اُ س کے مناسبِ حال نہ ہو یا گٹھلی کو اُگانے کی قابلیت اپنے اندر نہ رکھتی ہو تو وہ کبھی اچھا درخت پیدا نہیں کر سکتی۔ لیکن اگر ماحول اچھا ہو تو معمولی اور ادنیٰ بیج بھی نشوونما حاصل کر لیتا ہے۔ پس یہ وہ ماحول ہے جو اسلام نے پیش کیااور ایسے ہی ماحول میں پبلک کے مفیدِ مطلب اقتصادی نظام چل سکتا ہے۔
دنیا میں تین قسم کے اقتصادی نظام
اِس ماحول کے بیان کرنے کے بعد اَب میں یہ بتاتا ہوں کہ دنیا میں تین قسم کے اقتصادی
نظام ہوتے ہیں۔ ایک نظام غیرآئینی ہوتا ہے یعنی ہم اُس کا نام اقتصادی نظام محض بات کو سمجھنے کے لئے رکھ دیتے ہیں ورنہ حقیت یہ ہے کہ بعض قومیں اور حکومتیں دنیا میں ایسی ہیں جنہوں نے کبھی بھی یہ فیصلہ نہیں کیا کہ انہوں نے اپنے اقتصادی نظام کو کس طرح چلانا ہے۔ جس طرح انسان بعض دفعہ رستہ میں چلتے ہوئے کسی چیز کو اُٹھالیتا ہے اِسی طرح ان لوگوں کے سامنے اگر اقتصادی ترقی کے لئے کوئی قومی ذریعہ آجائے تو وہ اسے اختیار کرلیتے ہیں، فردی ذریعہ آجائے تو اُسے اختیار کرلیتے ہیں۔کوئی معیّن اور مقررہ پالیسی ان کے سامنے نہیں ہوتی۔
دوسرا نظام قومی ہوتا ہے۔ یعنی بعض قومیں دنیا میںایسی ہیں جوصرف قومی اقتصادی نظام کو اختیار کرتی ہیں اور وہ مُلک کے نظام کو ایسے رنگ میں چلاتی ہیں جس سے بحیثیت مجموعی اُن کی قوم کو فائدہ ہو۔
تیسرا نظام انفرادی ہوتا ہے جس میں افراد کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اپنے طور پر مُلک کی اقتصادی حالت کو درست کرنے اور اُسے ترقی دینے کی کوشش کریں۔ مزدوروں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کریںاور سرمایہ داروں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کریں۔ اِسی طرح ملازموں کوحق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے افسروں سے تنخواہوں وغیرہ کے متعلق بحث کرکے فیصلہ کریں اور افسروں کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ملازموں کے متعلق قواعد وضع کریں۔ گویا اِس نظام میں انفرادیت پر زور دیا جاتا ہے۔
یہی تین قسم کے اقتصادی نظام اِس وقت دنیا میں پا ئے جا تے ہیں۔ایک بے قانون، دوسرا قومی اور تیسرا انفرادی۔ یعنی بعض میں کوئی بھی آئین نہیں بعض میں قومی کاروبار پربنیاد ہوتی ہے اوربعص میں انفرادی کاروبار پر۔اِسلام غیرآئینی نظام کو تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ وہ ایک آئینی نظام کو قائم کرتا اور اُس کے ماتحت چلنے کی لوگوں کو ہدایت دیتاہے۔ وہ ہر چیز کو حکمت اوردانائی کے ماتحت اختیار کرنے کا قائل ہے۔ وہ اِس بات کا قائل نہیں کہ نظام اور آئین کو نظرانداز کرکے جو راستہ بھی سامنے نظر آئے اُس پر چلنا شروع کردیا جائے۔ غیر آئینی نظام والوں کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے جنگل میں آپ ہی آپ جو بُوٹیاں اُگ آتی ہیں اُنہیں کھانا شروع کر دیا جائے۔ مگر اسلام کی مثال اُس شخص کی طرح ہے جوباقاعدہ ایک باغ لگاتا، اُس کی آبپاشی کرتا اور اُس کے پودوں کی نگرانی رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کونسی چیز مجھے اِس باغ میں رکھنی چاہئے اور کونسی چیز نہیں رکھنی چاہئے۔
اسلام کی اقتصادی تعلیم کا ماحول
مَیں نے اوپر جو ماحول اسلام کی تعلیم کا بیان کیا ہے وہ ماحول اسلام کی اقتصادی تعلیم کیلئے
بھی ضروری ہے کیونکہ اِس کے بغیر اسلام کی اقتصادی تعلیم دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتی چونکہ اِس ماحول کا اسلام کی اقتصادی تعلیم کے ساتھ ایک گہرا تعلق تھا اِس لئے ضروری تھا کہ میں اِسے بیان کرتا اور بتاتا کہ کس ماحول میں اسلام نے دنیا کے سامنے ایک مفید اور اعلیٰ درجہ کا اقتصادی نظام رکھا ہے۔ بہرحال جیسا کہ میں نے بتایا ہے اسلام غیر آئینی نظام کو تسلیم نہیں کرتا البتہ دوسرے دو نظاموں کے درمیان ایک راستہ پیش کرتا ہے مگر بنیادی اصول اسلام کے اقتصادیات کا، ان ہی پہلے حقائق پر قائم ہے جن کو اوپربیان کیا جاچکا ہے۔
اموال کے متعلق اِسلام کا اِقتصادی نظریہ
اسلام کا اقتصادی نظریہ اموال کے متعلق یہ ہے۔فرماتا ہے۔
۶؎ یعنی جس قدر چیزیں دنیا میںپائی جاتی ہیں وہ سب کی سب خداتعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں۔ اگر تمہیں دنیا میں پہاڑ نظر آتے ہیں،اگر تمہیں دنیا میں دریا نظرآتے ہیں، اگر تمہیں دنیا میں کانیں نظرآتی ہیں، اگر تمہیں دنیا میں ترقی کی اَور ہزاروں اشیاء نظر آتی ہیں توتمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اسلام کا نظریہ اِن اشیاء کے متعلق یہ ہے کہ یہ سب کی سب بنی نوع انسان میں مشترک ہیں اور سب بحیثیت مجموعی اِن کے مالک ہیں۔ کانوں سے بہت کچھ فائدہ اُٹھایا جاتا ہے، دریاؤں سے بہت کچھ فائدہ اُٹھایا جاتا ہے، پہاڑوں سے بہت کچھ فائدہ اُٹھایا جاتا ہے، مثلاً بجلیاں پیدا کی جاتی ہیں، سونا چاندی اور دوسری قیمتی دھاتیں حاصل کی جاتی ہیںیا دوائیں وغیرہ وہاں پائی جاتی ہیں جن سے انسان فائدہ اُٹھاتاہے علاج معالجہ کے رنگ میں بھی اور تجارت کے رنگ میں بھی یااِسی قسم کی اور ہزاروں چیزیں ہیں جوصنعت وحرفت میںکام آتی ہیں ان سب کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اے بنی نوع انسان! یہ سب کی سب چیزیں تمہارے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ یہ زید کی خاطر نہیں، یہ بکر کی خاطر نہیں، یہ نمرودکی خاطر نہیں، یہ ہٹلر کی خاطر نہیں، یہ سٹالن کی خاطر نہیں، یہ چرچل کی خاطر نہیں، یہ روز ویلٹ کی خاطر نہیں بلکہ ہر فردِ بشر جو دنیا میں پیدا ہوا ہے اُس کے لئے خدا نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں پس کوئی ہو، حاکم ہو محکوم ہو،بڑا ہوچھوٹا ہو،سیّد ہو چمار ہو، کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیزیں صرف میرے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے۔ اے بنی نوع انسان یہ چیزیں تم سب کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور ان میں سے ہر چیز کے تم سب کے سب بحیثیت انسان مالک ہو۔
مال کے متعلق اسلام کا فیصلہ
پھر اموال کے متعلق یہ قاعدہ بیان فرماتا ہے کہ ۷؎
اے لوگو ! جب تمہارے پاس غلام ہوںیعنی جنگی قیدی تمہارے قبضہ میں آئیں مگر حالت یہ ہو کہ نہ اُن کی گورنمنٹ اُنہیں رہا کرانے کا کوئی احساس رکھتی ہواور نہ اُن کے رشتہ دار اُن کی آزادی کیلئے کوئی کوشش کرتے ہوں اور دوسری طرف خود اُن کی مالی حالت ایسی نہ ہو کہ وہ خود فدیہ دے کر رہا ہو سکیں تو ایسی صورت میں ہم یہ حکم دیتے ہیں کہ اے جنگی قیدیوں کے نگرانو! اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تم کو دیا ہے اُس میں سے اِس غلام کی مدد کرو۔ یعنی اسے اپنے پاس سے کچھ سرمایہ دے دو کہ اِس ذریعہ سے وہ روپیہ کما کر اپنا فدیہ ادا کر سکے اور آزاد ہو جائے۔ گویا اگر وہ خود رہا ہونے کا اپنے پاس کوئی سامان نہیں رکھتا تو تم اپنے اموال میں سے کچھ مال اسے دے دو کیونکہ مال خدا کا ہے اور خدا کے مال میں سب لوگوں کا حق شامل ہے اِس لئے اگر آزادی کے سامان اِس کے پاس مفقود ہیں تو تم خود اسے خدا کے اموال میں سے کچھ مال دے دو۔ اِسی طرح اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان حاکموں اور بادشاہوں سے بھی کہا ہے کہ اے مسلمان حاکمواور بادشاہو !اللہ تعالیٰ کے اموال میں صرف تمہارا حق ہی نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے حقوق شامل ہیں اِس لئے اگر جنگی قیدی تمہارے قبضہ میں آتے ہیں اور اس کے بعد اُن کی قوم اُن سے غدّاری کرتی ہے، اُن کے رشتہ دار اُن سے غدّاری کرتے ہیں اور وہ اُنہیں چھڑانے کی کوئی کوشش نہیں کرتے یا فرض کرو کوئی جنگی قیدی مالدار ہے اور اُس کے رشتہ دار چاہتے ہیں کہ قید ہی رہے تاکہ اُس کی جائدا پر قابض ہو جائیں تو ایسی صورت میں ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں کہ اگر قوم نے اُن سے غداری کی ہے یا اُن کے رشتہ دار اُن سے غداری کررہے ہیں تو تم اُن سے غداری مت کرو بلکہ خود اپنے مال کا ایک حصہ اُن کی آزادی کے لئے خرچ کرو کیونکہ جو مال تمہارے قبضہ میں آیاہے وہ تمہارا مال نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہے اور جس طرح تم اللہ تعالیٰ کے بندے ہو اُسی طرح غلام بھی اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔ اِن حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ
اوّل اسلام کے نزدیک دنیا کی دولت سب انسانوں کی ہے۔
دوسرے اصل مالک دولت کااللہ تعالیٰ ہے اس لئے انسان کو اپنے مال کو خرچ کرنے کا کُلّی اختیار نہیں بلکہ مالک کے حکم کے مطابق اُسے اپنی آزادی کو محدود کرنا ہوگا۔
یہ اصل اموال کی ملکیت کے بارہ میں قرآن کریم کے نزدیک ہمیشہ سے انبیاء علیہم السَّلام بتاتے چلے آئے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں حضرت شعیب علیہ السَّلام کی نسبت آتا ہے کہ جب انہوں نے لوگوں سے کہا کہ دوسرے لوگوں کے حقوق غصب نہ کرواور ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو اور اموال کمانے یا اس کو خرچ کرنے کے وہ طریق اختیار نہ کرو جن سے فساد ہوتا ہے تو لوگوں نے اُن سے کہاکہ۸؎ یعنی اے شعیب! یہ کیا بات ہے کہ روپیہ ہمارا، مال ہمارا، جائدادیں ہماری ہم جس کو چاہیں دیںاور جس کو چاہیں نہ دیں۔ جہاں چاہیں خرچ کریں اور جہاں چاہیں خرچ نہ کریں تم اِن معاملات میںدخل دینے والے کون ہو۔ مال تمہارا نہیں کہ تم اس کی تقسیم یا خرچ کے ذمہ دار ہو۔ مال ہمارا ہے ہم اختیار رکھتے ہیں کہ جس طرح چاہیں خرچ کریں۔ کیا نمازیں پڑھ پڑھ کر تمہارا سر چکرا گیا ہے کہ ا ب ہمارے مالی معاملات میں بھی دخل دینے لگ گئے ہو کہ اِس طرح خرچ کرو گے تو ثواب ہوگا۔ اِس طرح خرچ کرو گے تو عذاب ہوگا۔ہمیں نصیحت کرنے اور سمجھانے کا یہ حق تمہیں کہاں سے حاصل ہوگیا ہے۔پھر وہ طنز کے طور پر کہتے ہیں کہ بڑا غریبوں کا ہمدرد آیا ہے تو تو بڑا حلیم اور بڑا بھلا مانس معلوم ہوتا ہے یعنی یہ تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ تم حلیم ہو اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تم رشید ہو مگر اب تم حلیم اور رشید بن کر ہم پر رُعب جمانا چاہتے ہو ہم تمہارے اِس دعویٰ کو تسلیم نہیں کرتے۔
ابتدائے آفرینش سے اموال کے متعلق ایک ہی نظریہ
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم نے اموال کے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے وہی پہلے انبیاء کی طرف سے پیش ہوتا چلا آیا ہے۔ وہ بنی نوع
انسان کو اموال کمانے اور خرچ کرنے میں آزاد نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ اموال سب خدا کے ہیں اور خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف اُن کو خرچ کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔
قومی ترقی کے لئے غرباء کو اُبھارنے کی ضرورت
اِن اصول کے بعد مَیں یہ بتاتا ہوں کہ اسلام نے اپنی ابتدا میں ہی غرباء کے اُبھارنے اوراُن کی مدد کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ چنانچہ وہ سورتیں جو بالکل ابتدائی زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں جب اِن کا مطالعہ کیا جائے توصاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اِن ابتدائی سورتوں میں سب سے زیادہ غرباء کو اُبھارنے ،اُن کی مدد کرنے اور اُن کو ترقی کی دَوڑ میں آگے لے جانے کا ذکر آتا ہے اور مومنوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اگر قومی ترقی چاہتے ہیں، اگر خداتعالیٰ کی رضا صاصل کرنا چاہتے ہیں تو اِس کا طریق یہی ہے کہ غرباء کی مدد کریں اور اُن کی تکالیف کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی دوسرے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوئے تھے۔ ابھی قرآن کریم نے نمازوں کی تفصیل بیان نہیں کی تھی، ابھی قرآن کریم نے تجارت کے اصول بیان نہیں کئے تھے، ابھی قرآن کریم نے قضاء کے احکام لوگوں کے سامنے بیان نہیں کئے تھے، ابھی لین دین کے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوئے تھے، ابھی میاں بیوی کے حقوق یاراعی اور رعایا کے حقوق یاآقااور ملازمین کے حقوق کی تفصیلات بیان نہیں ہوئی تھیں لیکن اِس ابتدائی زمانہ میں قرآن نے غرباء کو اُبھارنے اور اُن کی مدد کرنے کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی بلکہ اُن کے نہ اُبھارنے اور اُن کی مدد نہ کرنے کے نتیجہ میں قوم کی تباہی کی خبر دی اور بتایا کہ وہ قوم اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بن جاتی ہے جو غرباء کے حقوق کو نظر انداز کر دیتی ہے۔
اِسلام کی ابتدائی تعلیم میں غرباء کو اُبھارنے کی تلقین
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی سورۃ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ ۹؎والی سورۃ
ہے۔ اِس سے یہ مراد نہیں کہ ساری سورۃ ایک ہی دن میں نازل ہوگئی تھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے اِسی سورۃ کا ابتدائی ٹکڑا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا اور پھر رفتہ رفتہ ساری سورۃ نازل ہوگئی۔ اِس سورۃ کے نزول کے بعد قریب ترین عرصہ میں جو سورتیں نازل ہوئیں اُن میں سے چار سورتیں ایسی ہیں جن کو سرولیم میورجو یو۔پی کے لیفٹیننٹ گورنر رہ چکے ہیں اور یورپین مصنفین میں خاص عظمت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ سولیلو کی (SOLILOQUY)’’یعنی محادثہ بِالنفس کی سورتیں قرار دیتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس میں دعویٰ سے پہلے جو خیالات پیدا ہوا کرتے تھے اِن چار سورتوں میں انہی خیالات کاذکر آتا ہے۔ سرولیم میور کے نزدیک یہ چار سورتیں آخری پارہ کی سورۃ البلد۔ سورۃ الشمس۔سورۃاللیل اور سورۃ الضحیٰ ہیں۔ مفسّرین کے نزدیک تو یہ سورتیں سورۃ العلق کے بعد نازل ہوئی ہیں اور تاریخی طور پر بھی یہی بات درست ہے لیکن میورکا خیال ہے کہ یہ سورتیں والی سورۃ سے بھی پہلے کی ہیں۔ اُن کی بنائے استدلال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جب کہا اِقْرَاْ یعنی پڑھ ۔ تو بہرحال اِس سے پہلے کوئی چیز موجود ہونی چاہئے تھی جس کو پڑھنے کاحکم دیاجاتا۔ اسلامی تاریخ کے لحاظ سے بھی یہ نہایت ابتدائی سورتیں ہیں اور میور کے خیال کے لحاظ سے تو یہ اتنی ابتدائی سورتیں ہیں کہ رسول کریم ﷺکے دعویٰ سے بھی پہلے کی ہیں۔ اِن چار سورتوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اِن میں سے تین میں غرباء کی خبر گیری کو نجات اور ترقی قومی کیلئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ لوگوں کو غرباء کی خبر گیری اور اُن کی خدمات پر اُبھارا گیا ہے اور اُمراء کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ چنانچہ سورۃ البلد میں آتا ہے۔
۱۰؎ فرماتا ہے ہر مالدار دنیا میں کہتا ہے کہ مَیں بڑا مالدار آدمی ہوں میَں نے بڑا روپیہ دنیا میں خرچ کیا ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ مَیں خرچ کر چکا ہوں ۔ کے معنٰی ڈھیروں ڈھیر کے ہوتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا ڈھیر مَیں خرچ کرتا چلا گیا اور مَیں نے روپیہ کی کچھ پرواہ نہ کی اب بتاؤ مجھ سے زیادہ اور کون شخص اِس بات کا مستحق ہے کہ اُسے عزت دی جائے اور اُسے پبلک میںعظمت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اِس کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ کیا وہ نادان یہ خیال کرتا ہے کہ مجھے دیکھنے والا دنیا میںکوئی موجود نہیں! وہ دعوتیں کرتا ہے اور ایک ایک دن میں سینکڑوں اونٹ ذبح کردیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ مَیں نے مُلک پر بڑا احسان کیا۔ فرماتا ہے کیا دنیا اندھی ہے وہ یہ نہیں سمجھتی کہ یہ سَو اونٹ جو قربان کیا گیا ہے محض اِس لئے ہے کہ اُسے شہرت اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ غرباء کی ہمدردی اور اُن کی محبت کا جذبہ اُس کے دل میں کام نہیں کر رہا۔اگر واقعہ میں اس کے دل میں غریبوں کی تکالیف کا احساس ہوتا،وہ ان کی غربت اور تکالیف کو دور کرنے کا جذبہ اپنے اندر رکھتا تو سَو سَو اونٹ ایک دن میں ذبح کرنے کی بجائے وہ سَو دنوں میں ایک ایک اونٹ ذبح کرتا تاکہ غرباء ایک لمبے عرصے تک بھوک کی تکالیف سے بچے رہتے مگر اُس کے مدِّنظر تو یہ بات تھی ہی نہیں وہ تو یہی چاہتا تھا کہ پبلک میں میری شہرت ہو اور لوگ سمجھیں کہ میں بڑا امیر ہوں فرماتا ہے کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اُسے کوئی دیکھتا نہیں، اُس کے اعمال پر کوئی نظر نہیں رکھتا؟ یہ اُس کا خیال بالکل غلط ہے۔ دنیا اتنی اندھی اور بیوقوف نہیں ہے وہ جانتی ہے کہ اُس نے جو کچھ خرچ کیا بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے خرچ نہیں کیا بلکہ اپنے نفس کے لئے خرچ کیا ہے فرماتا ہے کیا ہم نے اُسے آنکھیں نہیں دی تھیں کیاوہ نہیں دیکھتا تھا کہ مُلک کا کیا حال ہے؟ غریب بھوکے مر رہے ہیں اور کوئی اُن کا پُرسانِ حال نہیں مگر یہ ایک ایک دن میں سَو سَو دو دو سَو اونٹ محض اپنی شہرت کیلئے ذبح کر دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں نے بڑا کام کیاہے۔ کیا اُس کی آنکھیں نہیں تھیں کہ وہ مُلک کا حال دیکھ لیتا۔ اور اگر اُسے آنکھوں سے اپنے مُلک کا حال نظر نہیں آتا تھا تو کیا اُس کے منہ میں زبان نہیں تھی اور کیا یہ لوگوں سے نہیں پوچھ سکتا تھا کہ روپیہ کا صحیح مصرف کیا ہے اور مجھے کہاں کہاں خرچ کرنا چاہئے؟ پھر کیا ہم نے اُس کی دینی اور دُنیوی ترقی کے لئے اُس کی فطرت میں مادہ نہیں رکھ دیا تھا؟ کیا ہم نے اُس کی فطرت میں یہ مادہ نہیں رکھا کہ یہ خدا تعالیٰ کو پانے اور اُس سے محبت پیدا کرنے کی تدابیر اختیار کرے؟ اور کیا ہم نے اُس کی فطرت میں یہ مادہ نہیں رکھا کہ یہ بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرے؟ اگر اِن تین طریقوں کو اس نے استعمال نہیں کیا اور اپنے روپیہ کو بغیر اصول کے خرچ کر دیا تو اس نے روپیہ کو خرچ نہیں کیا بلکہ اُسے تباہ کیا ہے پھر فرماتا ہے۔باوجود اِس کے کہ اُس کی آنکھیں موجود تھیں جن سے یہ غرباء کا حال دیکھ سکتا تھا۔ اُس کی زبان اور اُس کے ہونٹ سلامت تھے اور یہ لوگوں سے پوچھ سکتا تھا کہ مجھے تو روپیہ کے صحیح مصرف کا علم نہیں تم ہی بتاؤ کہ روپیہ کس طرح خرچ کروں؟ اور باوجود اِس کے کہ ہم نے اُس کی فطرت میں نیکی اور حسنِ سلوک کے مادے رکھ دیئے تھے، ہم نے خدا کی محبت اُس کی فطرت میں رکھ دی تھی اور ہم نے بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرنے کا مادہ بھی اُس کی فطرت میں رکھ دیا تھا مگر ان تمام باتوں کے باوجود وہ اس گھاٹی پر نہیں چڑھا اور چڑھائی پر چڑھنا اس کے لئے مشکل ہوگیا۔ جیسے موٹا آدمی پہاڑ کی چوٹی پرنہیں چڑھ سکتا اور راستہ میں ہی تھک کر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ بھی گھاٹی کو عبور نہ کر سکا اور نام و نمود پر ہی اپنے روپیہ کو برباد کرتا رہا۔
اِس قسم کے بیہودہ اور لغو کاموں پرروپیہ برباد کرنے کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ مثلاً بعض عیاش اُمراء کنچنیوں کے ناچ پر ہزاروں روپیہ برباد کر دیتے ہیں۔ بعض کو روپیہ صرف کرنے کا اور کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تو وہ مشاعرہ کی مجلس منعقد کر کے روپیہ ضائع کردیتے ہیں۔ اُن کے پڑوس میں ایک بیوہ عورت ساری رات اپنے بھوکے بچوں کو سینہ سے چمٹائے پڑی رہتی ہے وہ بھوک سے بلبلاتے اور چیختے چلاتے ہیں مگر اُسے اُن یتیم بچوں کو کچھ کھلانے کی توفیق نہیں ملتی اور ہزار ہزار روپیہ مشاعرہ پر برباد کردیتا ہے۔محض اِس لئے کہ لوگوں میں شہرت ہو کہ فلاں رئیس نے یہ مشاعرہ کروایا ہے۔ فرماتا ہے یہ روپیہ کا خرچ کرنا نہیں بلکہ اُسے ضائع اور برباد کرنا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں کچھ معلوم ہے کہ چوٹی پر چڑھنے کا کیا مطلب ہے یعنی ہم نے جو یہ کہا ہے کہ وہ چوٹی پر نہیں چڑھا تو تم نہیں سمجھ سکے ہو گے کہ اِس کا مطلب کیا ہے؟ آؤ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ہمارا کیا مطلب ہے۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ وہ غلام جو بنی نوع انسان کے قبضہ میں ہیں جو اپنے باپوں اور اپنی ماؤں اور اپنے بھائیوں اور اپنی بہنوں سے جدا ہیں کیا اس کے دل میں یہ کبھی خیال نہیں آیا کہ وہ ان کو آزاد کرے اور انہیں بھی آزادانہ زندگی کی فضا میں سانس لینے دے۔ یا بجائے اس کے سَو سَو دو دو سَو اونٹ ایک ایک دن میں ذبح کرتا اور اُمراء کو بُلا کر اُن کی ایک شاندار دعوت کردیتا۔ کیوں اس نے ایسا نہ کیا کہ وہ غرباء اور مساکین کو کھانا کھلاتا۔ قحط کے دنوں میں جب کہ غرباء کو غلّہ کی شدید تکلیف ہوتی ہے اور اُن میں سے اکثر فاقہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یا سردی کے دنوں میں جبکہ غلّہ میں کمی آجاتی ہے اُس کا فرض تھا کہ وہ غرباء کی خبر گیری کرتا، بھوکوں کو کھانا کھلاتا، ننگوں کو کپڑے دیتا اور اِس طرح اپنے مال کو جائز طور پرصحیح مقام پرخرچ کرتا مگر اُس نے ایسا تو نہ کیا اور ایک ایک دن میں سَو سَودو دوسَو اونٹ ذبح کر کے بڑے بڑے امراء کو کھانا کھلا دیا۔ محض اس لئے کہ اُس کی شہرت ہو اور لوگوں میںیہ بات مشہور ہو کہ وہ بڑا مالدار ہےیتیموں ہی کو کھانا کھلا دیتا بجائے اِس کے کہ دعوتوں پر یہ روپیہ برباد کرتا یا جوئے بازی اور مختلف کھیل تماشوں پر اپنی دولت کو ضائع کرتا۔ اگر اس کے دل میں غرباء کا سچا درد ہوتا، اگر اس کے دل میں یتامیٰ کی خبر گیری کا صحیح احساس ہوتا تو اُسے چاہئے تھا کہ اپنے روپیہ کو بجائے ضائع کرنے کے قرابت والے یتیم کو کھانا کھلاتا۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی قرابت والے یتیم کو وہ کھانا کھلاتا کیونکہ اپنے قرابت دار یتیم کو تو بہت سے بخیل بھی کھانا کھلادیا کرتے ہیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ یتیم دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ یتیم ہوتا ہے جس کا کوئی رشتہ دار موجود نہیں ہوتا اُسے دیکھ کر بعض دفعہ سنگدل سے سنگدل انسان کے دل میں رحم کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ اُسے کھانا کھلا دیتا ہے مگر ایک یتیم ایسا ہوتاہے جس کے بھائی موجود ہوتے ہیں، جس کی بہنیں موجود ہوتی ہیں، جس کے چچا اور دوسرے رشتہ دار موجود ہوتے ہیں لوگ ایسے یتیموں کی طرف کم توجہ کرتے ہیں اِس لئے فرماتا ہے اگر کوئی ایسا یتیم ہو جس کے اپنے رشتہ دار موجود ہوں تب بھی اُس کے دل میں اتنا درد ہونا چاہئے تھا کہ وہ اس یتیم کو دیکھ کر سمجھتا کہ یہ یتیم میرا ہے اُن کا نہیں۔ باوجود اِس کے کہ اس کے اپنے رشتہ دار موجود ہوتے اس کے دل میں یتیم کی اپنی محبت ہوتی کہ وہ سمجھتا کہ مَیں ہی اِس کا نگران اور پُرسانِ حال ہوں وہ اِس کے نگران نہیں ہیں۔ یا اُس نے کیوں ایسے مسکین کو کھانا نہ کھلایا جو تھا یعنی اپنی کمزوری اور ضعف کی وجہ سے پروٹسٹ اور احتجاج بھی نہیں کر سکتا تھا، کسی کے گھر پر دستک بھی نہیں دے سکتا تھا، بلکہ ایسا تھا جیسے مٹی پر گری پڑی کوئی چیز ہو۔ دنیا میں بعض ایسے مساکین ہوتے ہیں جو لوگوں کے دروازوں پر پہنچ کر اپنی غربت اور مسکنت کا حال بیان کرتے اوراُن سے امداد کے طالب ہوتے ہیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیںجو دروازوں پرپہنچ کر خوب شور مچاتے اور آخر گھر والوں سے کچھ نہ کچھ لے کر اگلے دروازہ پر جاتے ہیں اور بعض ایسے مسکین ہوتے ہیں جن کو اگر کچھ دیا نہ جائے تو وہ دروازے سے ہلتے ہی نہیں۔ ایسے مساکین کو خرگدا کہا جاتا ہے۔ پھر کئی ایسے مسکین بھی ہوتے ہیں جو باقاعدہ پروٹسٹ کرتے ہیں۔ مظاہرے کرتے ہیں اوروفدبنا بنا کر حکومت کے پاس پہنچتے ہیں یا امراء کے پاس جاتے ہیں اور اُن سے امداد کے طالب ہوتے ہیں۔ ایسے مساکین کو تو لوگ پھر بھی کچھ دے ہی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ہم تو تم سے اِس قدر ہمدردی اور محبت کی امید رکھتے تھے کہ وہ مسکین جو مٹی پر گرا پڑا ہے، جو جنگل میں اکیلا بے کس اور بے بس پڑا ہے جس میں مظاہرہ کرنے کی بھی ہمت نہیں، جس میں کسی کے دروازے تک پہنچنے کی بھی طاقت نہیں، نہ وہ ٹریڈیونین کا ممبر ہے نہ کسی اور ایسی مجلس کا جو اپنے حقوق کیلئے شور مچاتی ہے، وہ بیمار،کمزور اور نحیف الگ ایک گوشۂ تنہائی میں پڑا ہواہے، اُس کا دنیا میں کوئی سہارا نہیں، معاش کا اُس کے پاس کوئی ذریعہ نہیں، وہ بے بس اور بیکس نہایت کس مپرسی کی حالت میں پڑا ہوا ہے اور وہ اپنے اندر اتنی طاقت بھی نہیں رکھتا کہ کسی کے دروازہ پر چل کر جاسکے تمہارا فرض تھا کہ تم اُس سہارے کے محتاج کے پاس جاتے اور اُس خاکِ مذلّت پر پڑے ہوئے مسکین کی خبر گیری کرتے پھر یہ شخص اپنی ہمدردی اور اپنی محبت اور اپنے حُسِن سلوک میں اِس قدر ترقی کرتا کہ جب وہ یہ سب کچھ کر چکتا تو ہم اُس سے یہ اُمید رکھتے کہ وہ یہ نہ کہتا کہ مَیں نے فلاں غریب کی پرورش کی، میں نے فلاں مسکین کی خبر گیری کی، بلکہ وہ خدا کے حضور نہایت عجز اور انکسار کے ساتھ یہ عرض کرتا کہ اے میرے ربّ!میں نے تیرے حکم کو پورا کرنے کی کس قدر کوشش کی ہے۔ مگر مَیں نہیں کہہ سکتا کہ مَیںنے اِس حکم کو صحیح طور پر ادا بھی کیا ہے یا نہیں ـ۔ گویا بجائے احسان جتانے کے تم مومن بنتے اور سمجھتے کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے کسی پر احسان نہیں کیا۔ اپنے مہربان آقا کے حکم کو پورا کیا ہے اور وہ بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اس کے عائد کردہ فرض کو صحیح طور پر ادا بھی کیا ہے یا نہیں پھر اِس سے بھی ترقی کر کے تم مُلک کی مصیبتوں کے اپنے آپ کو ذمہ دار بناتے۔ یہی نہیں کہ خود تو عیش وآرام کی زندگی بسر کرتے اور غرباء تکالیف میں دن گزاردیتے۔جیسے آج کل کنٹرول کی وجہ سے امراء تو چیزیں لے جاتے ہیں مگر غرباء رہ جاتے ہیں۔ اور پھر یہی نہیں کہ تم قربانی کرکے غرباء کی مدد کرتے بلکہ اس سے بڑھ کر ہم تم سے یہ امید کرتے تھے کہ تم اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو بھی اِس راہ پر چلانے کی کوشش کرتے اور تمام کے تمام افرادِ مُلک مل کر مُلک کی بہتری کی کوشش کرتے اور ایک دوسرے کو سہارا دیتے۔ پھر فرماتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ ہم یہ چاہتے تھے کہ یعنی سب نیکیاں کر کے پھر بھی سمجھتے کہ ہم نے کچھ نہیں کیااور ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہتے کہ اَور زیادہ غریبوں اور کمزوروں پر رحم کرو اور اُن سے محبت کرو اور یہ نصیحت مرتے دم تک جاری رہتی۔
یہ اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ کی تعلیم ہے جب قرآن کریم کے نزول کا ابھی آغازہی ہوا تھا، جب تفصیلی احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابھی نازل نہیں ہوئے تھے اور جب مکّہ والے بھی ابھی اسلام سے پورے طور پر واقف نہیں ہوئے تھے۔سر میور کے نزدیک رسول کریم ﷺ کے یہ وہ ابتدائی خیالات ہیں جن سے متاثر ہوکر آپ نے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ نبوت کا دعویٰ کیا اور ہمارے نزدیک یہ وہ ابتدائی الہامات ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِقرَاُ کا حکم ہوا تھا کہ جاؤاور لوگوں کو اِن کا قائل بناؤ۔بہرحال اسلام کی بنیاد کے وقت کی یہ تعلیم صاف طور پر بتارہی ہے کہ اسلام نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ جہاں اسلام فرد کی آزادی اور اُس کی شخصی ترقی کے لئے جدوجہد کوجائز رکھتا ہے وہاں وہ اِس اَمر کی بھی اجازت نہیں دے سکتا کہ کچھ لوگ تو عیش وآرام کی زندگی بسر کریں اور کچھ لوگ تکلیف اور دُکھ کی زندگی بسر کریں۔
اسلام کا عدمِ مساوات کو روکنا
غلامی
یہ امر یادر رکھنا چاہئے کہ غیر طبعی اور غیر مساوی سلوک جو دنیا میںشروع زمانہ سے چلا آتا تھا اور جسے اسلام نے قطعاً روک دیااُس کی بڑی وجہ غلامی تھی۔آجکل کے لوگ
اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ دنیا کی اقتصادیات کا غلامی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ مگر درحقیقت غلامی اور اقتصادیات کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے غلامی کو بالکل روک دیا۔ اسلام سے پہلے بلکہ ظہورِ اسلام کے بعد بھی دنیا کے ایک بڑے حصے میں غلامی کا طریق رائج رہا ہے۔چنانچہ آپ رومن، یونانی، مصری اور ایرانی تاریخ کو پڑھ کر دیکھ لیں آپ کو اِن میں سے ہر مُلک کی ترقی کی بنیاد غلامی پر رکھی ہوئی نظر آئے گی۔ یہ غلام دوطرح بنائے جاتے تھے۔ ایک طریق تو یہ تھا کہ ہمسایہ قومیں جن سے جنگ ہوتی تھی ـاُن کے افراد کو جہاں اِکاّ دُکّا نظر آئے پکڑکر لے جاتے اور اُنہیں غلام بنا لیتے۔ چنانچہ رومی لوگ ایرانیوں کو پکڑکر لے جاتے اور ایرانیوں کو موقع ملتا تو وہ رومیوں کو پکڑکر لے جاتے اور سمجھتے کہ اِس طرح ہم نے دوسرے مُلک کو سیاسی لحاظ سے نقصان پہنچایا ہے۔دوسرا طریق یہ تھا کہ لوگ غیر مہذب ہمسایہ اقوام کی عورتیں، ان کے بچے پکڑ کر لے جاتے اور اُنہیں اپنی غلامی میں رکھتے۔ اوّل الذکر جب موقع ملے اور ثانی الذکر طریق بطور دستور اُن میں جاری تھا۔ بلکہ یہ طریق اٹھارویں صدی تک دینا میں رائج رہا ہے۔ چنانچہ مغربی افریقہ سے لاکھوں غلام یونائٹیڈسٹیٹس امریکہ میں لے جائے گئے جو اَب تک وہاں موجود ہیں اور گواب وہ آزاد ہو چکے ہیں مگر دو تین کروڑ باشندے اب بھی امریکہ میں ایسے موجود ہیں جو مغربی افریقہ سے بطور غلام وہاں پہنچائے گئے تھے۔ متمدن اقوام کی غرض اِس سے یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنے مُلک کی دولت کو بڑھائیں۔ چنانچہ ان غلاموں سے کئی قسم کے کام لئے جاتے تھے۔ کہیںاُن کو کارخانوں میں لگا دیا جاتا تھا، کہیں جہازوں کا کام اُن کے سپرد کردیا جاتا تھا اس طرح محنت ومشقت کے سب کام جو قومی ترقی کے لئے ضروری ہوتے تھے وہ اُن غلاموں سے لئے جاتے تھے۔ مثلاً سَستی چیزیں پیدا کرنا اور زیادہ نفع کمانا مقصود ہوتا تو اِن غلاموں کو زمینوں کی آب پاشی اور فصلوں کی کاشت اور نگرانی پر مقرر کردیا جاتا۔
اسلام میں جنگی قیدیوں کے علاوہ غلام بنانے کی ممانعت
غرض اِس طریق سے ایک طرف تو بنی نوع انسان کے ایک حصہ کو مساوات سے محروم کیا جاتا تھا۔ قرآن کریم نے اِن دونوں طریقوں کو قطعاً
روک دیا ہے چنانچہ فرماتا ہے۔۱۱؎ فرماتا ہے ہم نے کسی نبی کیلئے نہ پہلے یہ جائز رکھا ہے اور نہ تمہارے لئے جائز ہے کہ بغیر اِس کے کہ کسی حکومت سے باقاعدہ لڑائی ہو اُن کے افراد کو غلام بنا لیا جائے۔ اگر کسی حکومت سے جنگ ہو اور جنگ بھی سیاسی نہیں بلکہ مذہبی تو عین میدا نِ جنگ میں قیدی پکڑے جاسکتے ہیں اور اِس کی ہماری طرف سے اجازت ہے لیکن تمہیں یہ حق نہیں کہ بغیر کسی مذہبی جنگ کے دوسری قوم کے افراد کو قیدی بناؤ۔ یا میدانِ جنگ میں تو نہ پکڑو لیکن بعد میں اُن کو گرفتار کر کے قید ی بنا لو۔ قیدی بنانا صرف اِس صورت میں جائز ہے جب کسی قوم سے باقاعدہ جنگ ہو اور عین میدانِ جنگ میں دشمن قوم کے افراد کو بطور جنگی قیدی گرفتار کر لیاجائے۔ گویا وہ قوم جس کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں ہوا اُس کے افراد کو پکڑنا جائز نہیں ہے۔ اِس طرح وہ قوم جس سے جنگ ہو اُس کے افراد کو بھی میدانِ جنگ کے علاوہ کسی جگہ سے بعد میں پکڑنا جائز نہیں ہے۔ صرف لڑائی کے دوران میں لڑنے والے سپاہیوں کو یا اُن کوجو لڑنے والے سپاہیوں کی مدد کر رہے ہوں پکڑ لیا جائے توجائز ہوگا کیونکہ اگر اُن کو چھوڑ دیا جائے تو وہ بعد میں دوسرے لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں پھر فرماتا ہے اے مسلمانو! کیا تم دوسرے لوگوں کی طرح یہ چاہتے ہو کہ تم غیر اقوام کے افراد کو پکڑ کر اپنی طاقت اور قوت کو بڑھالو اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ تم دنیا کے پیچھے چلو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں اُن احکام پر چلائے جو انجام کے لحاظ سے تمہارے لئے بہتر ہوںاور اگلے جہان میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی کا مستحق بنانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور انجام کے خوشگوار ہونے کے لحاظ سے یہی حکم تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم سوائے جنگی قیدیوں کو جنہیں دورانِ جنگ میں گرفتار کیا گیا ہو اور کسی کو قیدی مت بناؤگویا جنگی قیدیوں کے سِوا اسلام میں کسی قسم کے قیدی بنانے جائز نہیں۔ اِس حکم پر شروع اسلام میں اِس سختی کے ساتھ عمل کیا جاتا تھا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں ایک دفعہ یمن کے لوگوں کا ایک وفد آپ کے پاس آیا اور اُس نے شکایت کی کہ اسلام سے پہلے ہم کو مسیحیوں نے بِلا کسی جنگ کے یونہی زو ر سے غلام بنا لیا تھا ورنہ ہم آزاد قبیلہ تھے ہمیں اِس غلامی سے آزاد کرایا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گویہ اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے مگر پھر بھی میں اِس کی تحقیقات کروں گا۔ اگر تمہاری بات درست ثابت ہوئی تو تمہیں فوراً آزاد کرادیاجائیگا۔ لیکن اِس کے برخلاف جیسا کہ بتایا جاچکا ہے یورپ اپنی تجارتوں اور زراعتوں کے فروغ کے لئے اُنیسویں صدی کے شروع تک غلامی کو جاری رکھتا چلا گیا۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام کی تاریخ سے ایک غیراسلامی غلامی کا بھی پتہ لگتا ہے مگر پھر بھی غلاموں کے ذریعہ سے مُلکی طور پرتجارتی یا صنعتی ترقی کرنے کاکہیں پتہ نہیں چلتا۔
اسلامی تعلیم کے مطابق جنگی قیدیوں کی رہائی
اب رہے جنگی قیدی۔ سو اُن کے بارے میں اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ ۱۲؎ یعنی جب لڑائی میں تمہارے پاس قیدی آئیں تو تمہارے دلوں میں یہ سوال پیدا
ہوگا کہ اَب ہمیں اِن کے متعلق کیا کرنا چاہئے سو یاد رکھو ہمارا حکم یہ ہے کہ یا تو احسان کر کے انہیں بلا کسی تاوان کے آزاد کر دو یا پھر تاوان لے کر انہیں رہا کر دو۔اِن دو صورتوں کے سِوا کوئی اور صورت تمہارے لئے جائز نہیں۔ بہر حال تمہارا فرض ہے کہ تم اِن دو میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرلو۔ یا تو یونہی احسان کر کے اُن کو رہا کردو اور سمجھ لو کہ تمہارے اِس فعل کے بدلہ میں خدا تعالیٰ تم سے خوش ہوگا اور اگر تم اقتصادی مشکلات کی وجہ سے احسان نہیں کر سکتے تو وہ تاوان جو عام طور پر حکومتیں وصول کیا کرتی ہیں وہ تاوان لے کر قیدیوں کو رہا کر دو۔ لیکن چونکہ ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ ایک شخص فدیہ دینے کی طاقت اپنے اندر نہ رکھتا ہواور حکومت یا اُس کے رشتہ دار بھی اُس کو چھڑانے کی کوئی کوشش نہ کریں اور اِس کے ساتھ ہی قیدی کے نگران کی بھی یہ حالت ہو کہ وہ بغیر فدیہ کے اُسے آزاد کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اس لئے اسلام نے اس کا یہ علاج بتایا کہ وہ غلام تاوانِ جنگ کی قسطیں مقرر کرکے آزاد ہو جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱۳؎ یعنی اگر کوئی ایسا قیدی ہو جسے تم احسان کر کے نہ چھوڑ سکو اور اُس کے رشتہ دار بھی اس کا فدیہ نہ دے سکیںتو اِس صورت میں ہماری یہ ہدایت ہے کہ اگر وہ آزاد ہونا چاہے تو وہ نگران سے کہہ دے کہ میں خود روپیہ کما کر قسط اور فدیہ ادا کرتا چلا جاؤں گاآپ مجھے آزاد کر دیں۔ اگر وہ قسط اور فدیہ ادا کرنے کا اقرار کرلے تو اسلامی تعلیم کے ماتحت وہ اُسی وقت آزاد ہو جائے گا۔ پھر فرمایا ہم تمہیں اس کے ساتھ یہ بھی نصیحت کرتے ہیں کہ اگر تمہیں توفیق ہو اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال دیا ہواہو تو چونکہ مال خدا کا ہے اور غلام بھی خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ ہے اس لئے تم اپنے مال میں سے ایک حصہ اُسے بطور سرمایہ دے دو تاکہ وہ اُس پر اپنے کاروبار کی بنیاد رکھ کر آسانی سے قسطیں ادا کر سکے۔ اب بتاؤ کیا کوئی بھی صورت ایسی رہ جاتی ہے جس میں کسی کو غلام بنایا جاسکتا ہو۔ اتنے وسیع احکام اور اتنی غیر معمولی رعایتوں کے بعد بھی اگر کوئی شخص غلامی سے آزاد ہونا پسند نہیں کرتا اور اپنی مرضی سے کسی مسلمان کے پاس رہتا ہے تو سوائے اِس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ خود اپنے گھر کے ظلموں سے بیزار ہے اور جانتا ہے کہ اگر میں آزاد ہو کر اپنے گھر گیا تو مجھے زیادہ تکلیف اُٹھانی پڑے گی اِس لئے میرے لئے یہی بہتر ہے کہ اِس زندگی کو ترجیح دوں ۔ ورنہ غور کر کے دیکھ لیا جائے کوئی ایک صورت بھی ایسی نہیں رہ جاتی جس میں کسی کو غلام بنایا جا سکتا ہو۔ پہلے تو یہ حکم دیا کہ تم احسان کر کے بغیر کسی تاوان کے ہی اُن کو رہا کر دو۔ پھر یہ کہا کہ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو تاوان وصول کر کے آزاد کردواور اگر کوئی شخص ایسا رہ جائے جو خودتاوان ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہواس کی حکومت بھی اُس کے معاملہ میں کوئی دلچسپی نہ لیتی ہو اور اُس کے رشتہ دار بھی لاپرواہ ہوں تو وہ تم کو نوٹس دے کر اپنی تاوان کی قسطیں مقرر کروا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں جہاں تک اُس کی کمائی کا تعلق ہے قسط چھوڑ کر سب اُسی کی ہوگی اور وہ عملاً پورے طور پر آزاد ہوگا۔
حضرت عمرؓ کی شہادت ایک غلام کے ہاتھ سے
حضرت عمررضی اللہ عنہ کو ایک ایسے غلام نے ہی مارا تھا جس نے مکاتبت کی ہوئی تھی۔ وہ غلام جس مسلمان کے پاس رہتا تھا اُن سے ایک دن اُس نے کہا کہ
میری اتنی حیثیت ہے آپ مجھ پر تاوان ڈال دیں مَیں ماہوار اقساط کے ذریعہ آہستہ آہستہ تمام تاوان ادا کردونگا۔ انہوں نے ایک معمولی سی قسط مقرر کر دی اور وہ ادا کرتا رہا۔ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اُس نے شکایت کی کہ میرے مالک نے مجھ پر بھاری قسط مقرر کر رکھی ہے آپ اُسے کم کرادیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُس کی آمدن کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جتنی آمد کے اندازہ پر قسط مقرر ہوئی تھی اُس سے کئی گُنا زیادہ آمد وہ پیدا کرتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر فرمایاکہ اس قدر آمد کے مقابلہ میں تمہاری قسط بہت معمولی ہے اِسے کم نہیں کیا جاسکتا۔ اِس فیصلہ سے اُسے سخت غصّہ آیا اور اُس نے سمجھا کہ میں چونکہ ایرانی ہوں اِس لئے میرے خلاف فیصلہ کیا گیاہے اور میرے مالک کا عرب ہونے کی وجہ سے لحاظ کیا گیاہے۔ چنانچہ اِس غصہ میں اُس نے دوسرے ہی دن خنجر سے آپ پر حملہ کر دیا اور آپ انہی زخموں کے نتیجہ میں شہید ہوگئے۔
غرض اسلام نے یہ حق مقرر کیا ہوا تھا کہ اگر کوئی غلام آزاد ہونا چاہے تو وہ قسط وار تاوان کو ادا کرنا شروع کر دے اور اگر سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی کام شروع کرنے کے قابل نہ ہو تو اس صورت میں کا حکم تھا یعنی مالک خود مدد کر کے یا حکومتِ مُسلمہ مدد کر کے اُسے آزادی کا معاہدہ کروا دے۔
جنگی قیدیوں سے حسنِ سلوک کی تعلیم
کام کے بارہ میں یہ ہدایت دی کہ جب تک وہ گھر میں رہے اُس سے وہی کام لو
جو وہ کر سکتا ہو۔ اگر کوئی مشکل کام ہو تو اُس کے ساتھ شامل ہو جاؤ اُسے گالی نہ دو۔ اگر وہ مزدوری کرتا ہے تو اُس کی مزدوری اُسے پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو۔ اگر کام کرنے والا آزاد ہے اور مالک اُسے مار بیٹھتا ہے تو وہ حق رکھتا ہے کہ عدالت میں جائے اور قصاص کا مطالبہ کر کے اسلامی قضاء سے اُسے سزا دِلوائے۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ تو میرا نوکر تھا اور مجھے اِس کو پیٹنے کا حق تھا۔اسلام اس قسم کے حق کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ نوکر کو اجازت دیتا ہے کہ اگر اُسے پیٹا جائے تو قضاء میں اپنے مالک کے خلاف دعویٰ دائرکرے اور اُسے سزا دِلوائے۔ اور اگر وہ آزاد نہیں بلکہ غلام ہے تو اگر وہ اُسے ایک تھپڑ بھی ماربیٹھے تو اسلامی حکومت کو حکم ہے کہ وہ اُسے فوراً آزاد کرادے اور نگران سے کہے کہ تم اِس قابل نہیں ہو کہ کسی قیدی کو اپنے پاس رکھ سکو۔ پھر حکم دیا کہ جو کچھ خود کھاؤ وہ اپنے غلاموں کو کھلاؤ، جو خود پہنو وہی اُن کو پہناؤ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے زمانہ میں کئی غلام اپنے گھروں کو واپس جانا پسند ہی نہیں کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر ہم گھر گئے تو ہمیں دال بھی نصیب نہیں ہوگی مگر یہاں تو ہمیں روزانہ اچھا کھانا کھانے کو ملتا ہے اور پھر مالک کی یہ حالت ہے کہ وہ پہلے ہمیں کھلاتا ہے اور بعد میں آپ کھاتا ہے۔ ایسے مزے ہمیں اپنے گھروں میں کہاں میسر آسکتے ہیں۔چنانچہ جب مسلمان بادشاہ بنے اور حکومت اُن کے ہاتھ میں آئی تو وہ غلاموں کو اپنے گھروں سے نکالتے بھی تھے تو وہ نہیں نکلتے تھے۔ وہ کہتے تھے فدیہ دو اور آزاد ہو جاؤ مگر وہ فدیہ نہ دیتے۔ وہ کہتے تھے اگر فدیہ نہیںدے سکتے تو ہم سے قسطیں مقرر کر لو اور آزاد ہو جاؤ مگر وہ قسطیں بھی مقرر نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر ہم آزاد ہو کر واپس چلے گئے تو پھر وہ مزے ہمیں حاصل نہیں ہوں گے جو اَب حاصل ہیں۔ ایسی صورت میں اگر کچھ لوگ غلام بھی رہے ہوں تو دنیا کو ایسی غلامی پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
غلامی اور اقتصادیات
یہ غلامی کا مضمون نہیںلیکن دنیا کی لمبی تاریخ میں غلامی اور مُلکوںکے اقتصادی نظام آپس میں ملے چلے آتے ہیں۔
روس میں سائبیریا کی آبادی غلاموں یا سیاسی قیدیوں ہی کی رہینِ منّت تھی۔ اِسی طرح امریکہ کی آبادی غلاموںیا سیاسی قیدیوں ہی کی رہینِ منّت تھی۔ وہ اپنے علاقوں کو کبھی خود آباد نہیں کرسکتے تھے۔ لاکھوں لاکھ غلام وہ مغربی افریقہ سے لائے اور وہ امریکہ کے بے آباد علاقوں کو آباد کر گئے۔ آج امریکہ اپنی دولت پر نازاں ہے، اپنی تجارت اور اپنی صنعت پر نازاں ہے مگر امریکہ کی یہ دولت اور امریکہ کی آبادی رہینِ منّت ہے اُن حبشی غلاموں کی جن کو وہ مغربی افریقہ سے پکڑ کر لائے۔ اِسی طرح یونان اور روما کی تاریخ بتاتی ہے کہ اُن کی آبادی بھی غلاموں کی خدمات کی رہینِ منّت ہے، مصر کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ اس کی آبادی غلاموں کی خدمات کی وجہ سے ہوئی۔ فرانس اور سپین کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ اُن کی ترقی اُن خدمات کی رہینِ منت تھی جو آج سے دو تین سَو سال پہلے اُن ممالک میں غلاموں نے سرانجام دیں اور جنہوں نے اُن کی اقتصادی حالت کو ترقی دے کر کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ پس غلامی اور اقتصادی مسائل چونکہ باہم لازم و ملزوم ہیں اِس لئے مَیں نے بتایا ہے کہ اسلام کا نظام کیسا کامل ہے کہ اُس نے شروع سے ہی غلامی پر تبر رکھ دیا اور کہہ دیا کہ اس کے ذریعہ جو ترقی ہوگی وہ کبھی شریفانہ اور باعزت ترقی نہیں کہلا سکتی۔
عام اقتصادی نظام
اقتصادی نظام کے متعلق دوقسم کے نظریئے
اَب مَیں عام اقتصادی نظام کو لیتا ہوں لیکن اس مضمون کو بیان
کرنے سے پہلے مَیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ مذاہب جو حیات مَابَعْدالْمَوْت کے قائل ہیں اقتصادینظام کے بارہ میں انفرادی آزادی کے قیام کے پابند ہیںـ۔ درحقیقت دنیا میں دو قسم کی قومیں پائی جاتی ہیں ۔ ایک وہ ہیں جو مذہبی ہیں اور دوسری وہ ہیں جو لامذہب ہیں۔ جو اقوام لامذہب ہیں وہ تو ہر قسم کے نظام کو جواُن کی عقل میں آجائے تسلیم کر سکتی ہیں لیکن وہ اقوام جو مذہب کو قبول کر تی ہیں وہ اصرار کریں گی کہ دنیا میں ایسا ہی نظام ہونا چاہئے جو مرنے کے بعد کی زندگی پر اثر انداز نہ ہوتا ہو۔ اس نقطہ نگاہ کے ماتحت وہ مذاہب جو حیات بَعْدُالْمَوْت کے قائل ہیں لازماً اقتصادی نظام کے بارہ میں انفرادی آزادی کے قیام کے پابند ہوں گے کیونکہ جو لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان کو زندہ کیا جائے گا وہ اِس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ جولوگ نیک اعمال بجالائیں گے انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ کا قرب ان کو حاصل ہوگا، خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی اُن کے شاملِ حال ہوگی، اُس کی قدوسیّت اور سبوحیت اُنہیں ڈھانپے ہوئے ہوگی، وہ مقربانِ الٰہی میں شامل ہوں گے، ہر قسم کے اعلیٰ روحانی علوم اُن کو حاصل ہوں گے اور دنیا کی سب کمزوریاں دُور ہو کر علم وعرفان کا کمال اُن کو حاصل ہوگا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی شخص کہہ دے یہ عقیدہ بالکل غلط ہے، جھوٹ ہے، وہم ہے اِس سے زیادہ اِس کی کوئی حقیقت نہیںلیکن بہرحال جو شخص یقین رکھتا ہے کہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی ہمیں ملنے والی ہے وہ لازماً اِس دنیا میں ایسے ہی اعمال بجالائے گا جو اُس کے نزدیک اگلے جہان کی زندگی میں اُس کے کام آنے والے ہوں۔ وہ کبھی اِس مادی دنیا کے فوائد پر اُخروی زندگی کے فوائد کو قربان نہیں کرسکتا کیونکہ اِس دنیا کے فوائد تو پچاس ساٹھ یا سَو سال تک حاصل ہو سکتے ہیں مگر اگلے جہان کی زندگی بعض اقوام کے نزدیک کروڑوں اوراربوں سال تک اوربعض کے نزدیک دائمی ہے۔ یعنی وہ زندگی کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ پس اگر یہ دونوں زندگیاں آپس میں تسلسل رکھتی ہیں، اگر یہ دنیا ہماری ایک منزل ہے آخری مقام نہیں ہے تو لازماً ہر شخص جو حیات بعدالموت کاقائل ہے وہ اُخروی زندگی کے لمبے سفر کے فوائد کو ترجیح دے گا اور اِس دنیا کے چھوٹے سفر کے فوائد کو اگر وہ اُس کی اُخروی ترقی کے راستہ میں حائل ہوں قربان کر دے گا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مذاہب جواگلی زندگی پر یقین رکھتے ہیں اُن کا یہ بھی اعتقاد ہے کہ دنیا میں جوطوعی نیک کام کئے جاتے ہیں انہی پر اگلی زندگی کے اچھے یا بُرے ہونے کا دارومدار ہے۔ چنانچہ جتنے لوگ اُخروی حیات کے قائل ہیں وہ سب کے سب اِس دنیا کو دارالمزرعہ سمجھتے ہیں۔ جس طرح ایک وقت کھیتی میں بیج بونے کا ہوتا ہے اور دوسرا وقت اُس بیج سے پیدا شدہ فصل کو کاٹنے کا ہوتا ہے اور عقلمند زمینداروہی چیز بوتاہے جس کو وقت پر کاٹنے کی وہ خواہش رکھتا ہے اِسی طرح جو شخص اس زندگی کو اگلے جہان کی زندگی کا ایک تسلسل سمجھتا ہے جو اِس دنیا کو عالَمِ مزرعہ قرار دیتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اِس جہان کے اعمال اگلی زندگی میں میرے کام آئیں گے وہ لازماً اِس جہان کی کھیتی میں وہی جنس بوئے گا جس کے متعلق وہ جانتا ہوگا کہ اگلے جہاںمیں وہ جنس میرے کام آئے گی۔اَب خواہ آپ لوگ ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو پاگل کہیں، دیوانہ کہیں، جاہل کہیں بہر حال جو شخص مانتا ہے کہ مرنے کے بعد پھر ایک نئی زندگی بنی نوع انسان کو حاصل ہوگی وہ لازماً اِس دنیا کی زندگی کو تابع کرے گا اگلے جہان کی زندگی کے۔ اور چونکہ اِس دنیا کے ایسے ہی کاموں پر اگلے جہان کی زندگی کا مدار ہے جو اپنی خوشی اور مرضی سے طوعی طور پر کئے جائیں اِس لئے لازماً وہ وہی اقتصادی نظام پسند کرے گا جس میں اقتصادی طور پر ایک وسیع دائرہ میں افراد کو آزادی دی گئی ہو کیونکہ اگر آزادی نہ دی گئی ہو تو جن کاموں کو وہ نیک سمجھتا ہے، جن کاموں کواختیار کرنا وہ اپنی اُخروی حیات کے لئے ضروری قرار دیتا ہے اُن میں اُس کا دائرۂ عمل وسیع نہیں ہوگا اور وہ سمجھے گا کہ دائرۂ عمل کے تنگ ہونے کی وجہ سے میں گھاٹے میں رہوں گا۔ گویا مَا بَعْدَالْمَوْت اعلیٰ زندگی کا دارومدار ہے اِس دنیا کے طوعی نیک کاموں پر، اور طوعی نیک کاموں کا مدار اقتصادی حُریّت پر ہے۔ اگر اقتصادی طور پر افراد کوایک وسیع دائرہ میں آزادی نہ دی جائے تو طوعی نیک کاموں کا سلسلہ اور اخلاقِ فاضلہ کی وُسعت بند اور محدود ہو جاتی ہے اور انسان اپنے آپ کو گھاٹے میں سمجھتا ہے۔پس جو مذہب مرنے کے بعد کی زندگی کا قائل ہے اور اِس دنیا کو عالَمِ مزرعہ سمجھتا ہے وہ پابند ہے اِس کا کہ سوائے اشد مجبوری کی حالتوں کے انفرادی آزادی کو اقتصادیات میں قائم رکھے۔
اسلام کا ’’اقتصادی نظام‘‘ میں انفرادی آزادی کو ملحوظ رکھنا
اس مسئلہ کو خوب ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اسلام سب سے زیادہ حیات بعدالموت کاقائل ہے اِس لئے اسلام مصر ہے اس بات
پر کہ اقتصادیات میں انفرادی آزادی کو زیادہ سے زیادہ قاـئم رکھا جائے کیونکہ وہ جتنا زیادہ آزاد ہوگا اُسی قدر زیادہ اپنی مرضی سے کام کر کے اگلے جہان کی زندگی کو سُدھار سکے گا۔ اگر زندگی کے ہر پہلو کو مختلف قسم کے جالوں میں جکڑ دیا گیا تو وہ کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کر سکے گا اور جب کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کر سکے گا تو اُسے اَگلے جہان میں کسی ثواب کی بھی امید نہیں ہو سکے گی کیونکہ ثواب ملتا ہے طَوعی نیک کاموں پر۔ اگر ایک شخص جبر کے ماتحت کوئی کام کرتا ہے تو گو وہ کام کیسا ہی اچھا ہو جب اگلے جہان میں اعمال کی جزاء کا وقت آئے گا تو اُسے کہا جائے گا کہ یہ کام تم نے نہیں کیا لینن نے کیا ہے، یہ کام تم نے نہیں کیاسٹالن نے کیا ہے، یہ کام تم نے نہیں کیا انگریزوں نے کیاہے۔ غرض جتنے کام انسان جبر کے ماتحت کرتا ہے اُس میں وہ کسی اجر کا مستحق نہیں ہوتا۔پس ایک سچے مسلمان کو جو اپنے مذہب کی بنیاد کو سمجھتا ہے حریت شخصی کے مٹا دینے کا قائل کرنا نا ممکن ہے۔ اُسی صورت میں وہ اِس امر کو تسلیم کرے گا جب وہ اپنے مذہب کی بنیاد کا ہی انکار کر دے گا۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ ایک شخص جو مسلمان کہلاتا ہو وہ اسلام کی تعلیم سے بدظن ہو جائے اور وہ اُس تعلیم کا قائل ہی نہ رہے جو اسلام نے اقتصادیا ت کے متعلق دی ہے مگر جو شخص اسلام کی تعلیم پر یقین رکھتا ہو جو اُس کے اقتصادی نظریات کو جزوایمان قرار دیتا ہو وہ کبھی بھی حریت شخصی کو اصولی طور پر مٹا دینے کا قائل نہیں ہو سکتا۔
اسلام کے اقتصادی نظام کی بنیاد دو اصولوں پر
اِن حالات میں یہ امر آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر اسلام کوئی منصفانہ اور عادلانہ اقتصادی نظام قائم کرے گا تو اُس کی بنیاد اِن دو اصولوں پر ہوگی۔
(۱) بنی نوع انسان میں منصفانہ تقسیم اموال اور مناسب ذرائع کسب کی تقسیم کا اصول طوعی فردی قربانی پر ہونا چاہئے تاکہ دنیا کی اقتصادی حالت بھی درست ہو اور اس کے ساتھ ہی انسان اپنی اُخروی زندگی کے لئے بھی سامان جمع کرلے۔ اِسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنی بیوی کے منہ میں ثواب اور خداتعالیٰ کی خوشنودی کی نیت سے لقمہ ڈالتا ہے وہ ایسا ہی کام کرتا ہے جیسا کہ صدقہ کرنے والا۔ ۱۴؎
اب دیکھو یہ فعل وہ ہے جس میں انسان کی اپنی خواہش کا دخل ہے۔ وہ اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے، وہ اپنی بیوی سے پیار کرتا ہے اور اُس سے محبت کرنے میں لذّت حاصل کرتاہے لیکن اگر وہ اپنی نیت کو بدل ڈالے اور بجائے اپنی محبت کے خدا تعالیٰ کے حکم اور اُس کی رضا اور خوشنودی کو محبت اور پیار کا موجب بنالے تو یہی چیز اُس کے لئے ثواب کا موجب بن جائے گی۔ روٹی اُس کے پیٹ میں اُسی طرح جائے گی جس طرح پہلے جاتی تھی، کپڑا اُس کی بیوی کے تن پر وہی مقصد پورا کرے گا جو مقصد وہ پہلے پورا کرتا تھا مگر اس صورت میں جب وہ خدا کے لئے اُس سے محبت کرے گا، جب وہ خدا کے لئے اُس سے پیار کرے گا نہ صرف وہ اپنی بیوی کو خوش کرے گا، نہ صرف وہ اپنے آپ کو خوش کرے گابلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی ثواب کا امیدوار ہوگا کیونکہ اُس نے یہ فعل خدا کی رضا کے لئے کیا ہوگا۔
(۲) دوسرا اصل اسلام کا یہ ہے کہ چونکہ اموال اللہ تعالیٰ کے ہیں اور اُس نے سب مخلوق کیلئے پیدا کئے ہیں اس لئے جو حصہ اوپرکی تدبیر سے پورا نہ کیا جاسکے اُس کیلئے قانونی طور پرتدارک کی صورت پیدا کی جائے۔ یعنی جو حصہ طوعی نظام سے پورا نہ ہو اور اَدھورا رہ جائے اُسے قانونی طور پر مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور الٰہی نظام کو خراب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
اِسلامی اقتصاد کا لُبِّ لباب
پس اسلامی اقتصاد نام ہے فردی آزادی اور حکومتی تداخل کے ایک مناسب اختلاط کا۔ یعنی اسلام دنیا
کے سامنے جو اقتصادی نظام پیش کرتا ہے اُس میں ایک حد تک حکومت کی دخل اندازی بھی رکھی گئی ہے اور ایک حد تک افراد کو بھی آزادی دی گئی ہے اِن دونوں کے مناسب اختلاط کا نام اسلامی اقتصاد ہے۔ فردی آزادی اِس لئے رکھی گئی ہے تا کہ افراد آخرت کا سرمایہ اپنے لئے جمع کر لیں اور اُن کے اندر تسابق اور مقابلہ کی روح ترقی کرے۔ اور حکومت کا تداخل اِس لئے رکھا گیا ہے کہ امرا کو یہ موقع نہ ملے کہ وہ اپنے غریب بھائیوں کو اقتصادی طور پر تباہ کر دیں۔ گویا جہاں تک بنی نوع انسان کو تباہی سے محفوظ رکھنے کا سوال ہے حکومت کی دخل اندازی ضروری سمجھی گئی ہے اور جہاں تک تسابق اور اُخروی زندگی کے لئے زاد جمع کرنے کا سوال ہے حُریت شخصی کو قائم رکھا گیا ہے اور فردی آزادی کو کچلنے کی بجائے اس کی پوری پوری حفاظت کی گئی ہے۔ پس اسلامی اقتصادیات میں فردی آزادی کی بھی پوری حفاظت کی گئی ہے تا کہ انسان طَوعی خدمات کے ذریعہ سے آئندہ کی زندگی کے لئے سامان بہم پہنچا سکے اور تسابق کی رُوح ترقی پا کر ذہنی ترقی کے میدان کو ہمیشہ کیلئے وسیع کرتی چلی جائے۔ اور حکومت کا دخل بھی قائم رکھا گیا ہے تا کہ فرد کی کمزوری کی وجہ سے اقتصادیات کی بنیاد ظلم، بے انصافی پر قائم نہ ہو جائے اور بنی نوع انسان کے کسی حصہ کے راستہ میں روک نہ بن جائے۔
اِس مضمون کے سمجھ لینے کے بعد یہ سمجھ لینا آسان ہے کہ اسلام خصوصاً اور دیگر مذاہب عموماً جو بعث بعد الموت کے قائل ہیں اِس مسئلہ پر خالص اقتصادی نقطۂ نگاہ سے نہیں بلکہ مذہبی، اخلاقی اور اقتصادی تین نقطہائے نگاہ سے نظر کریں گے اور ان تین اصولوں کی مشترک راہنمائی سے اس کا فیصلہ کریں گے۔ اُن سے خالص اقتصادی نقطۂ نگاہ سے نظر ڈالنے کی امید اُن کے مذہب میں تداخل کے برابر ہوگی جسے وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ شخص جو مذہب کو نہیں مانتا وہ تو بے شک صرف اقتصادی نقطۂ نگاہ سے اِس مضمون کو دیکھے گا لیکن وہ شخص جو مذہب کو مانتا ہے وہ صرف یہ نہیں دیکھے گا کہ کس قسم کا اقتصادی نقطۂ نگاہ اُس کے سامنے پیش کیا گیا ہے بلکہ وہ یہ بھی چاہے گا کہ اُس کے سامنے ایک ایسا طریق عمل آ جائے جو اقتصادی قانون کے لحاظ سے بھی درست ہو، اخلاقی قانون کے لحاظ سے بھی درست ہو اور مذہبی قانون کے لحاظ سے بھی درست ہو۔
اِس تمہید کے بعد اَب میں یہ بتاتا ہوں کہ اوپر کے دو اصولوں کے ماتحت اسلام نے ہر فرد کو تجارت اور صنعت و حرفت وغیرہ میں آزادی سے کام کرنے کی اجازت دی ہے مگر اس کی آزادی کو ایسی حد بندیوں میں رکھ دیا ہے جو اُس کی جائز بلند پروازی کو روکیں بھی نہیں اور اُس کی انفرادیت کو کچلیں بھی نہیں اور پھر ناجائز آزادی کے خطرات سے بھی اُسے محفوظ کر دیں۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ اقتصادی مقابلے جو دنیا میں ہوتے ہیں اُن میں مختلف قسم کی خرابیوں کے پیدا ہونے اور ظلم و بیداد کا دروازہ کھلنے کی وجہ چند خواہشاتِ نفسانی ہوتی ہیں جو نفسِ انسانی میں پیدا ہوتی ہیں۔ اُن میں سے بعض خواہشات ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ روپیہ سمیٹنا چاہتا ہے۔ دنیا کی حالت خواہ کتنی ہی خراب ہو، غریب لوگ فاقہ سے مَر رہے ہوں، بیوائیں روٹی کیلئے تڑپ رہی ہوں، یتیم کسمپرسی کی حالت میں پڑے ہوں وہ یہی چاہتا ہے کہ میرے پاس زیادہ سے زیادہ دولت جمع ہو جائے۔ اِس ظلم اور تعدی کے کئی محرکات ہوتے ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ کون سے محرکات ہیں جو اِس رُوح کے پسِ پردہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔
دولت کمانے کے محرکات
اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
۱۵؎ یاد رکھو! دنیا کی زندگی میں جو لوگ روپیہ کمانے کی کوشش کرتے ہیں اُن کی اِس کوشش اور جدوجہد کے کچھ محرکات ہوتے ہیں جن کی بناء پر وہ ایسی کوشش کرتے ہیں۔
(۱) پہلی وجہ تو ہے۔ اُن کے دلوں میں کھیل کود کی خواہش ہوتی ہے اور یہ کھیل کود کی خواہش اُن کے لئے روپیہ کمانے کا محرک بن جاتی ہے۔میں جوئے بازی، سٹہ بازی اور گھوڑ دَوڑوغیرہ سب شامل ہیں۔ انسان چاہتا ہے کہ میرے پاس روپیہ ہو اور مَیں جؤا کھیلوں، روپیہ ہو اور میں سٹہ بازی کروں، روپیہ ہو اور مَیں گھوڑ دَوڑ میں حصہ لیا کروں۔ یہ کھیل کود کی خواہش اُس کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح روپیہ جمع کر کے اپنی اس خواہش کو پورا کرے۔
(۲) دوسری وجہ کی بتاتا ہے۔ لوگ اگر روپیہ کماتے ہیں تو اس کی ایک وجہ بھی ہوتی ہے۔ یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے پاس اتنی دولت ہو کہ انہیں کوئی کام نہ کرنا پڑے سارا دن سُست اور بیکار بیٹھے رہیں یا تاش، گنجفہ ۱۶؎ اور شراب وغیرہ میں اپنا وقت گزار دیں۔ یہ چیز بھی ایسی ہے جو لوگوں کے لئے مال جمع کرنے کا محرک بن جاتی ہے۔
(۳) تیسری وجہ جلبِ زر کی خواہش کی بتائی گئی ہے۔ یعنی انسان چاہتا ہے میرے کپڑے عمدہ ہوں، لباس عمدہ ہو، سواریاں عمدہ ہوں اورعمدہ عمدہ کھانے مجھے حاصل ہوں۔
(۴) چوتھا محرک روپیہ کمانے کا بتایا گیا ہے۔ یعنی بعض لوگ اِس بات کے لئے بھی روپیہ جمع کرتے ہیں کہ لوگوں میں اُن کی عزت بڑھے، وہ بڑے مالدار مشہور ہوں اور لوگوں سے کہہ سکیں کہ تم جانتے نہیں ہم کتنے امیر ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے یہ مرض اتنا بڑھا ہوا ہے کہ ہمارے مُلک میں تو بعض لوگ غلامی کے اقرار میں بھی اپنی بڑائی سمجھتے ہیں۔ وہ باتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں آپ نہیں جانتے میں کون ہوں۔ میں انگریزی حکومت کا اتنا ٹیکس ادا کرنے والا ہوں۔ گویا بجائے اُن کے دل میں یہ احساس پیدا ہونے کے کہ مَیں دوسری قوم کا ماتحت ہوں اور اُس کو ٹیکس ادا کرتا ہوں وہ اُسے فخریہ طور پر پیش کرتے ہیں کہ مَیں اتنا ٹیکس گورنمنٹ کو ادا کرتا ہوں بلکہ مَیں نے تو اِس سے بھی زیادہ دیکھا ہے کہ بعض ہندوستانی اِس پر بھی فخر کرتے ہیں کہ ’’مَیںبڑے صاحب کا اَردلی ہوں‘‘۔ پس فرماتا ہے روپیہ کمانے کا ایک محرک یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں ہم دوسروں پر فخر کر سکیں، اُن پر رُعب ڈال سکیں اور اُنہیں کہہ سکیں کہ ہم اتنے مالدار ہیں۔ تمہارا فرض ہے کہ ہماری باتیں مانو۔
(۵) پانچواں محرک مال زیادہ کمانے کا ہوتا ہے۔ یعنی محض روپیہ جمع کرنے کی خواہش بھی بعض لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روپیہ سمیٹنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے پاس دوسروں سے زیادہ روپیہ جمع ہوتا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ہمسایہ کے پاس اگر دس لاکھ روپیہ ہے تو ہمارے پاس ایک کروڑ روپیہ ہو۔ یا اُس کے پاس اگر ایک کروڑ روپیہ ہو تو ہمارے خزانہ میں دو کروڑ روپیہ ہو۔ جہاں تک مَیں نے غور کیا ہے یہی امور دولت کمانے کے محرک ہوتے ہیں جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں۔
اسلام میں ناجائز اغراض کیلئے دولت کمانے کی ممانعت
ان محرکات کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے۔
ہم ان تمام امور کو اُس بادل کی طرح قرار دیتے ہیں جو آسمان پر چھا جاتا ہے اور زمیندار سمجھتا ہے کہ اب اِس بادل کے برسنے سے میری کھیتی ہری بھری ہو جائے گی۔ مگر جب وہ بادل برستا ہے تو ایسے رنگ میں برستا ہے کہ بجائے اِس کے کہ وہ کھیتی ہری بھری ہو، بجائے اِس کے کہ غلّہ زیادہ پیدا ہو، بجائے اِس کے کہ زمیندار کو نفع ہو وہ کھیتی سُوکھ جاتی ہے اُس کا دانہ سڑ جاتا ہے اور آخر ردّی ہو کر وہ کوڑا کرکٹ بن جاتی ہے۔ مثلاً زیادہ بارش ہو جاتی ہے اور کھیتی برباد ہو جاتی ہے یا ضرورت سے کم بارش برستی ہے اور اس صورت میں بھی کھیتی کو نقصان پہنچتا ہے۔ اور علاوہ اِس کے کہ اِن امور کا نتیجہ اِس دنیا میں خراب نکلتا ہے مرنے کے بعد بھی ایسے لوگوں کو عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے لیکن جو لوگ اِن محرکات کو دباتے ہیں اور اِن کا شکار نہیں ہوتے اُن کو اللہ تعالیٰ اپنی بخشش سے ڈھانپ لیتا ہے اور اپنی رضاء اور خوشنودی سے مسرور کرتا ہے۔ پھر فرماتا ہے۔ اور اِس دنیا کی زندگی تو بالکل دھوکے کی زندگی ہے۔ جب ہمارے پاس مغفرت اور رضوان بھی ہے اور ہمارے پاس عذاب بھی ہے تو اے انسان! تو دنیا کی لغو خواہشات کی وجہ سے ہماری مغفرت اور ہماری رضوان کو کیوں نظر انداز کر رہا ہے اور کیوں اعلیٰ درجہ کی چیزوں کو چھوڑ کر ذلیل اور ادنیٰ چیزوں کی طرف دَوڑ رہا ہے۔ اس آیت میں قرآن کریم نے اُن محرکات و موجبات کو ذلیل اور حقیر اور مضر بتایا ہے جو دنیا کمانے کی طرف انسان کو متوجہ کرتے ہیں اور فرماتا ہے کہ یہ سب امور جو ناجائز دنیا کمانے کا موجب ہوتے ہیں نتیجہ کے لحاظ سے ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کہ عمدہ کھیتی سُوکھ کر راکھ ہو جائے۔ یعنی جس طرح وہ کام نہیں آتی اِسی طرح ایسی دولت بھی انسان کو کوئی حقیقی نفع نہیں بخشتی اس لئے تم اِن اغراض کے ماتحت دولت مت کمائو کہ یہ خدا تعالیٰ کا غضب بھڑکانے کا موجب ہیں۔ جب اُس کے پاس فضل بھی ہے تو تم کیوں فضل کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور کیوں اِن حقیر اور ذلیل خواہشات کے پیچھے چلتے ہو۔
اَب ظاہر ہے کہ جو شخص اسلام پر عمل کرے وہ کبھی اوپر کے محرکات سے متاثر ہو کر دولت نہیں کما سکتا اور اگر اِس حکم پر عمل کرتے ہوئے وہ کچھ کمائے گا بھی تو وہ نیک کاموں میں خرچ ہو جائے گا۔ اور اس طرح غربت و امارت کی خلیج وسیع نہ ہوگی بلکہ پاٹی جائے گی کیونکہ اِن اغراض کے روک دینے کے بعد کوئی ایسا محرک باقی نہیں رہتا جس کی وجہ سے کوئی شخص اپنے نفس کیلئے اموال کما سکے کیونکہ مال کمانے کی تین ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔
(۱) اپنی ضرورت کے مطابق ۔
(۲) اپنی ضرورت سے زیادہ لیکن اس لئے کہ اُس سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچا سکے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکے۔
(۳) مال اوپر کے بُرے محرکات کی وجہ سے کمائے۔ یعنی کھیل تماشے کیلئے،عیاشی کیلئے، فخر اور عزت کے لئے، حرصِ مال کی وجہ سے۔
ظاہر ہے کہ آخر الذکر صورتوں میں ہی انسان ناجائز طور پر مال کمائے گا اور دوسرے انسانوں کے لئے نقصان کا موجب ہوگا۔ اوّل الذکر دونوں صورتوں میں یہ بات پیدا نہ ہوگی۔ جو شخص ضرورت کے مطابق کمائے گا وہ بھی دوسروں کے لئے نقصان کا موجب نہ ہوگا اور جو ضرورت سے زائد کمالے گا لیکن اُس مال کے کمانے کا محرک صرف خیر و نیکی میں مسابقت کی روح ہوگی اُس کا مال بھی دوسرے انسانوں کے فائدہ کے لئے خرچ ہوگا اور اس سے افرادِ مُلک یا قوم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔
اسلام میں دولت کے غلط استعمال کی ممانعت
اَب میں اس بارہ میں اسلامی احکام ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہوں کہ اسلام نے کس طرح دولت کے غلط خرچ کو روکا ہے۔
اوّل سچے مسلمان کی نسبت قرآن کریم فرماتا ہے ۱۷؎ یعنی مسلمان وہی ہیں جو لغو کاموں سے بچیں۔ یعنی ایسے کاموں سے جن کا کوئی عقلی فائدہ نظر نہ آتا ہو۔مثال کے طور پر شطرنج ہے، تاش ہے یااور اِسی قسم کی کئی کھیلیں ہیںجن سے وقت ضائع ہوتا ہے۔ اسلام ہر مومن کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ وہ اس قسم کے لغو کاموں سے بچے اور شطرنج یا تاش یا اس قسم کی دوسری کھیلوں میں حصہ لے کر اپنے وقت کو ضائع نہ کرے یا مثلاً مجالس میں بیٹھ کر گپیّں ہانکنا ہے یہ بھی لغو ہے ۔ یامثلاً بے کار زندگی بسر کرنا ہے یہ بھی لغو ہے۔ بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ سارا دن بے کار بیٹھے دوستوں کی مجلس میں گپیں ہانکتے رہتے ہیں اور اِس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ اپنے اوقات کا کس بے دردی کے ساتھ خون کر رہے ہیں۔ ایک شخص کا باپ مر جاتا ہے اور وہ اپنے پیچھے بہت بڑی جائداد چھوڑ جاتا ہے۔ اب لڑکے کا کام یہی رہ جاتا ہے کہ وہ سارا دن اپنے دوستوں کی مجلس میں بیٹھا رہتا ہے۔ ایک آتا ہے اور کہتا ہے نواب صاحب! آپ ایسے ہیں ـ یا لالہ صاحب! آپ ایسے ہیں۔ یا پنڈت صاحب! آپ ایسے ہیں یا شاہ صاحب آپ ایسے ہیں۔ پھر دوسرا تعریف شروع کر دیتا ہے۔ وہ خاموش ہوتا ہے تو تیسرا اُس کی تعریف شروع کر دیتا ہے۔ اِس طرح سارا دن یہی شغل جاری رہتا ہے کہ دوست آتے ہیں، گپیں ہانکتے ہیں اور اُس کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں یا اُسے بدراہ پر چلانے کے لئے عورتوں یا جوئے یا شراب یا اِسراف کے دوسرے طریقوں کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں۔ اِس پر وہ بھی اُن کی خوب خاطر تواضع کرتا ہے۔ اگر تھوڑی توفیق ہوئی تو پان الائچی سے تواضع کر دیتا ہے اور اگر زیادہ توفیق ہوئی تو صبح شام اُن کو کھانا اپنے دستر خوان پر کھلاتا ہے۔ مگر اس لئے نہیں کہ وہ غریب ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ بھوکے ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ ہمدردی کے قابل ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ اُس کے پاس آکر بیٹھ جاتے ہیں اور مجلس میں خوشی کے ساتھ دن گزر جاتا ہے۔ اسلام اس قسم کے کاموں کی قطعاً اجازت نہیںدیتا۔ وہ فرماتا ہے مسلمان ہمیشہ لغو کاموں سے بچتے اور احتراز کرتے ہیں وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے اور کوئی ایسا کام اُن کو نہیں کرنا چاہئے جن کا کوئی عقلی فائدہ نہ ہو اور جس سے زندگی بے کار ہو جاتی ہو۔وہ شخص جو اپنے ماں باپ کی کمائی کھاتا ہے اور خود کوئی کام نہیں کرتا آخر اُسے سوچنا چاہئے کہ اُس کے اِس فعل کا اُسے کیا فائدہ ہو سکتا ہے یا اس کی قوم کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے ۔ یہ چیز تو ایسی ہے جس کا اس کی ذات کو بھی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اُس کی قوم کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکتااور دنیا کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا یہ زندگی کو محض بے کاری اور عیاشی میں ضائع کرتا ہے اور اسلام اِس قسم کی بے کار زندگی کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر ایک شخص کو اپنے باپ کے مرنے کے بعد دس کروڑ روپیہ بھی جائدادمیں ملتا ہے تو قرآن کریم کا حکم یہی ہے کہ وہ اتنی بڑی جائداد کا مالک ہونے کے باوجود اپنے وقت کوضائع نہ کرے بلکہ اُسے قوم اور مذہب کے فائدہ کے لئے خرچ کرے۔ اگر اُسے اس قسم کی خدمات کی ضرورت نہیں جن کے نتیجہ میں اُسے روٹی میسر آئے تو وہ ایسی خدمات سر انجام دے سکتا ہے جو آنریری رنگ رکھتی ہوں۔ اِس طرح وہ بغیر معاوضہ لئے اپنے مُلک یا اپنی قوم یا اپنے مذہب کی خدمت کرکے اپنے وقت کو بھی ضائع ہونے سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور اپنے اوقات کا بھی صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو نافع الناس وجود بنا سکتا ہے۔ اِسی طرح اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ تم وہ کھیلیں مت کھیلو جو وقت کو ضائع کرنے والی اور زندگی کو بے کار کھونے والی ہوں۔ اِسی حکم کے ماتحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ مرد زیور نہ پہنیں، وہ ریشم استعمال نہ کریں۱۸؎ اِسی طرح سونے چاندی کے برتن استعمال کرنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ ۱۹؎ عورتوں کے لئے زیور حرام نہیں مگر اُن کے لئے بھی عام حالات میں رسول کریمﷺ نے زیورات کو ناپسند فرمایا ہے۔ گو اس وجہ سے کہ وہ مقامِ زینت ہیں زیورات کا استعمال اُن کے لئے پوری طرح منع نہیں کیا۔ مگر اسلام اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ زیورات پر اِس قدر روپیہ خرچ کیا جائے کہ مُلک کی اقتصادی حالت کو نقصان پہنچ جائے یا اُنہیں اِس قدر زیورات بنواکر دیئے جائیں کہ اُن میں تفاخر کی روح پیدا ہو جائے یا اِس کے نتیجہ میں لالچ اور حرص کامادہ اُن میں بڑھ جائے۔ اُن کے لئے زیورات کی اجازت ہے مگر ایک حد کے اندر۔ لیکن مردوں کے لئے زیورات کا استعمال قطعی طور پر حرام قرار دیا گیا ہے اسی طرح وہ برتن جو سونے چاندی کے ہوںاُن کا استعمال رسول کریمﷺنے ممنوع قرار دیا ہے۔
اِس ضمن میں وہ اشیاء بھی آجاتی ہیں جو عام طور پرمحض زینت یا تفاخر کے لئے امراء اپنے مکانوں میں رکھتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے مکان کی زینت کے لئے ایسی ایسی چیزیں خرید لیتے ہیںجن کا کوئی بھی فائد ہ نہیں ہوتا۔ مثلاً بعض لوگ چینی کے پُرانے برتن خریدکر اپنے مکانوں میں رکھ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایک بڑی قیمتی چیز خریدی ہے۔ یورپین لوگوں میں خصوصیت کیساتھ یہ نقص ہے کہ وہ پانچ پانچ دس دس ہزار روپیہ تک کے اِس قسم کے برتن خرید لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ وہ برتن ہیں جو آج سے اتنے ہزار سال پہلے کے ہیں۔ یا پُرانے قالین بڑی بڑی قیمت پر خرید کر اپنے مکانوں میں لٹکا لیتے ہیں ۔ حالانکہ ویسے ہی قالین پچاس ساٹھ روپیہ میں آسانی سے مل جاتے ہیں لیکن محض اِس لئے کہ وہ لوگوں کو یہ بتاسکیں کہ یہ قالین فلاں بادشاہ کا ہے یا فلاں زمانہ کا ہے وہ بہت کچھ روپیہ اُس کے خریدنے پر برباد کر دیتے ہیں۔اسلام کے نزدیک یہ سب لغو چیزیں ہیںاَور اِن میں کوئی حقیقی فائدہ نہیں صرف دولت کے اظہار کے لئے لوگ اِن چیزوں کو خریدتے اور اپنے روپیہ کو برباد کرتے ہیں۔رسول کریمﷺ نے اِن باتوں کو عملاً ناجائز قرار دے دیا ہے اور فرمایا ہے کہ مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ ان لغو کاموں میں اپنے وقت کوضائع کرے اور اس قسم کی بے کار چیزوں پر اپنے روپیہ کو برباد کرے آجکل کے لحاظ سے سینما اور تھیٹروغیرہ بھی اس حکم کے نیچے آجائیں گے۔ کیونکہ سینمااور تھیٹروں وغیرہ پر بھی مُلک کی دولت کا ایک بہت بڑا حصہ ضائع چلا جاتا ہے۔ مَیں نے ایک دفعہ حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ کروڑوں کروڑ روپیہ سینما پر ہرسال خرچ ہوتا ہے۔ لاہورہی میں کوئی پچیس کے قریب سینما سُناجاتا ہے اوراوسط آمد ہر سینما کی ہفتہ وار دو تین ہزار بتائی جاتی ہے اگر اڑھائی ہزار اوسط آمد شمار کی جائے تو ماہوار آمد دس ہزار ہوئی۔ اور سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار۔ بیس سینما بھی اگرشمار کئے جائیں تو صرف لاہور کاسالانہ سینما کا خرچ چوبیس لاکھ کا ہوا۔ اگر ہندوستان کے تمام شہروں اور قصبات کو سینما کے لحاظ سے لاہور کے برابر سمجھا جائے گویقینا اِس سے زیادہ نسبت ہوگی تو بھی ایک ہزار سینما سارے ہندوستان میں بن جاتا ہے اور بارہ کروڑ کے قریب سالانہ خرچ سینما کا ہوجاتا ہے اور اگر سینما کے لوازمات کو بھی شامل کیا جاوے کہ ایسے لوگ بالعموم شراب خوری اور ایک دوسرے کی عیاشانہ دعوتوںمیںبھی روپیہ خرچ کرتے ہیںتو پچیس تیس کروڑ روپیہ سے زائد خرچ سینما اور اس کے لوازمات پر اُٹھ جاتا ہے اور یہ رقم حکومتِ ہند کی آمد کا۴؍۱حصہ ہے۔ گویا صرف سینما پر اِس قدر خرچ اُٹھتا ہے کہ جو سارے مُلک پر سال میں ہونے والے خرچ کا ایک چوتھائی ہے۔ حالانکہ اِس کا کوئی بھی فائدہ نہ مُلک کو ہوتا ہے نہ قوم کو ہوتا ہے اور نہ خود سینما دیکھنے والوں کو ہوتا ہے۔
قرآن کریم اس قسم کے تمام راستوں کو بند کرتا ہے اور فرماتا ہے مومن وہی ہیں جو اس قسم کے لغو کاموں سے احتراز کریں اوراپنی کمائی کا ایک پیسہ بھی اِن پر ضائع نہ کریں۔ یورپ کی آزاد حکومتیں جو اپنی اقتصادی ترقی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتی رہتی ہیں اُن کی تو یہ حالت ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سینما اور تھیٹربناتی ہیں۔ جتنے سنیما گھرآج انگلستان میں ہیں جنگ کے بعد یقینا اِن میں زیادتی کی جائے گی اور کہا جائے گا کہ یہ سینما کم ہیں سینکڑوں اَور سینما گھر بنائے جائیں۔ تاکہ وہ لوگ جو سینماؤںکی کمی کی وجہ سے اس تعیش سے محروم ہیں وہ بھی اس میں حصہ لے سکیں اور اُن کی دولت اور اُن کا وقت بھی اِس پر صرف ہو۔ لیکن اسلام قطعی طور پر ان تمام چیزوں کو جو بنی نوع انسان کے لئے مفید نہیں بند کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اگر اسلام کے اِن احکام پرپوری طرح عمل کیاجائے تو امراء کی ظاہری حالت بھی ایک حد تک مساوات کی طرف لوٹ آئے کیونکہ ناجائز کمائی کا ایک بڑا محرک ناجائز اور بے فائدہ اخراجات ہی ہوتے ہیں۔
اِسلام میں اسراف کی ممانعت
دوسرے اسلام نے اسراف سے منع کیا ہے جس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ گوخرچ کا محل توجائز ہو
مگر خرچ ضرورت سے زیادہ ہو۔ مثلاً اونچی اونچی عمارات بنانا یا زینت اور تفاخر کے طور پر باغ اور چمن تیار کرانا۔ ایک باغ ایسے ہوتے ہیں جو پھلوں کے لئے تیار کئے جاتے ہیں ایسے باغ بنانا اسلام کے روسے منع نہیں ہیں لیکن بعض باغ اِس قسم کے ہوتے ہیں جن کی غرض محض نمائش یا عیاشی ہوتی ہے۔ جیسے پُرانے زمانہ میں بعض بادشاہ بڑے بڑے باغ تیار کرایا کرتے تھے جن سے اُن کی غرض محض یہ ہوا کرتی تھی کہ وہاں ناچ گانا ہو اور وہ اِس سے لطف اندوز ہوں۔ اِس طرح محض اپنے نفس کے اہتزاز ۲۰؎کے لئے وہ اتنا روپیہ خرچ کر دیتے تھے جو اسراف میں داخل ہو جاتا تھا۔ لیکن اِس قسم کے باغ بنانے جیسے میونسپل کمیٹیاں تیار کروایا کرتی ہیں اور جن سے اُن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ وہاں جائیں، سیر کریں اور صحت میں ترقی کریں اسلام کی رو سے منع نہیں ہیں۔ اسلام کے نزدیک اگر ایک میونسپل کمیٹی دس لاکھ روپیہ بھی اس قسم کے باغ تیار کرنے پر صرف کردے جس سے چار پانچ لاکھ آدمی فائدہ اُٹھا سکتے ہوںتو وہ بالکل جائز کام کرے گی۔ مثلاً لاہور کی آبادی ۹ لاکھ ہے اگر لاہور کی میونسپل کمیٹی متعدد پارک بنانے پرلاکھوں لاکھ روپیہ خرچ کردے توچونکہ نو لاکھ کی آبادی یا اس آبادی کی اکثریت اس سے فائدہ اُٹھائے گی اِس لئے روپیہ کا یہ مصرف بالکل جائز سمجھا جائے گا بلکہ اگر ایک لاکھ آدمی بھی اِس سے فائدہ اُٹھائیں گے تو یہ سمجھا جائے گاکہ میونسپل کمیٹی نے ایک آدمی کی صحت کے لئے چار یا پانچ روپے صرف کئے اور یہ بالکل جائز ہوگا۔ لیکن اگر ایک بادشاہ اپنے لئے یا اپنے بیوی بچوں کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کرکے ایک باغ تیار کراتا ہے اوراُس میں دوسروں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی تو اِس کے یہ معنی ہوں گے کہ اُس نے ایک ایک نفس پر لاکھ لاکھ یا دو دو لاکھ روپیہ خرچ کر دیا حالانکہ اگر وہی ایک لاکھ یا دو لاکھ یا تین لاکھ یا چار لاکھ روپیہ عام لوگوں کے لئے خرچ کیا جاتا تو لاکھوں لوگ اس سے فائدہ اُٹھاتے اور اُن کی صحت پہلے سے بہت زیادہ ترقی کرجاتی۔ پس اسلام جائز ضروریات پر روپیہ صرف کرنے سے نہیں روکتا بلکہ اِس امر سے روکتا ہے کہ روپیہ کو صحیح طور پراستعمال نہ کیا جائے اور بنی نوع انسان کے حقوق کو تلف کرکے ناجائز فائدہ اُٹھایا جاوے۔ اگر ایک دفتر بنانے کا سوال ہو اور ہزاروں لوگوں کے لئے کمروں کی ضرورت ہو تو خواہ بیس منزلہ مکان بنالیا جائے اور اُس میں سینکڑوں کمرے ہوں اسلام کی رو سے بالکل جائز ہو گا لیکن وہ لوگ جو بلاوجہ اپنی ضرورت سے زائدکمرے بنوالیتے ہیں محض اس لئے کہ لوگ اُن کو دیکھیں اور تعریف کریں قرآن کریم کے رو سے وہ ایک ناجائز فعل کا ارتکاب کرتے ہیں اور اسلام اُسے اِسراف قرار دیتا ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو پکڑے گا اور اُس سے جواب طلب کرے گا کہ اُس نے کیوں وہ روپیہ جو بنی نوع انسان کی خدمت یا اُن کی ترقی کے سامانوں پر صرف ہو سکتا تھا اِ س رنگ میں ضائع کیا اور مُلک اور قوم کی اقتصادی حالت کو نقصان پہنچایا۔دُور کیوں جائیں تاج محلؔ ہمارے گھر کی مثال ہے مجھے خود وہ بہت پسند ہے اور مَیں اُسے دیکھنے بھی جایا کرتا ہوں لیکن اسلامی اقتصاد کے لحاظ سے تاج محل کی تعمیر پر ناجائز طور پر روپیہ صرف کیا گیا ہے۔ تاج محل آخر کیا ہے؟ ایک بہت بڑی شاندار عمارت ہے جو محض ایک عورت کی قبر پر زینت کے لئے بنائی گئی اور اُس پر کروڑوں روپیہ صرف کیا گیا۔ اگر وہی روپیہ صدقہ وخیرات پر صرف کیا جاتا یا غرباء کے لئے کوئی ایسا ادارہ قائم کر دیا جاتا جس سے لاکھوں مساکین، لاکھوں یتیم، اور لاکھوں بے کس ایک مدت درازتک فائدہ اُٹھاتے چلے جاتے اور وہ اپنے کھانے اور اپنے پینے اور اپنے پہننے اور اپنے رہنے کے تمام سامانوں کو حاصل کر لیتے تویہ زیادہ بہتر ہوتا۔ بے شک جہاں تک عمارت کا سوال ہے، جہاں تک انجنیئرنگ کا سوال ہے تاج محل کی ہم تعریف کرتے ہیںاور اُسے دیکھنے کے لئے بھی جاتے ہیں لیکن جہاں تک حقیقت کا سوال ہے ہمیں تسلیم کرنا پڑے گاکہ اس قسم کی عمارتیں جو بعض افراد محض اپنے نام ونمود کے لئے یا نمائش کے لئے دنیا میں تیار کرتے ہیں اسلامی نقطہ نگاہ سے ناجائز ہیں۔ لیکن وہ عمارتیں جو قوم کے لئے یا پبلک کے مفاد کے لئے یا ایسی ہی اور ضروریات کے لئے تیار کی جاتی ہیںوہ خواہ کتنی ہی بلند ہوں جائز کہلائیں گی۔ غرض بِلا ضرورت اونچی عمارات بنانا، زینت اور تفاخر کے طور پر باغات تیار کروانا، کھانا زیادہ مقدار میں کھانا یا بہت سے کھانے کھانا، لباس وغیرہ پر غیرضروری رقوم خرچ کرنا، گھوڑے اور موٹریں ضرورت سے زیادہ رکھنا، فرنیچر وغیرہ ضرورت سے زیادہ بنوانا، عورتوں کا لیس اور فیتوں وغیرہ پر زیادہ رقوم خرچ کرنا اِن سب امور سے قرآن کریم اور احادیث میں منع کیا گیا ہے اور اس طرح مال کمانے کی ضرورتوں کو محدود کر دیا گیاہے۔
سیاسی اقتدار کیلئے روپیہ خرچ کرنا
اِسی طرح مال اور دولت کی وجہ سے کسی کو سیاسی اقتدار دینے سے بھی
اسلام نے منع فرمادیا ہے۔ مَیں اِس بارہ میں بیان کر چکا ہوں کہ قرآن کریم کا یہ صریح حکم ہے کہ ۲۱؎کہ تم حکومتیں انہیں لوگوں کے سپرد کیا کرو جو حکومت کے کام کے اہل ہوں محض کسی کے مال یا أُس کی دولت کی وجہ سے اُس کو سیاسی اقتدار دے دینا اسلامی تعلیم کے ماتحت جائزنہیں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مال اور دولت کی وجہ سے نہیں بلکہ اہلیت اور قابلیت کی بناء پر لوگوں کے سپرد حکومتی کام کیا کرو۔ پس جو لوگ مال و دولت اِس لئے جمع کرتے ہیںکہ اِس کی وجہ سے ہمیں حکومت میں حصہ مل جائے گا یا بڑے بڑے عہدے ہمیں حاصل ہو جائیں گے اسلام اُن کے اِس نفع کو بھی ناجائز قرار دیتا ہے اور اُمّتِ مُسلمہ کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ حکّام کے انتخاب کے وقت اہلیّت کو مدِنظر رکھا کریں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ دولت وثروت کی وجہ سے کسی کو سیاسی اقتدار سونپ دیا جائے۔
روپیہ جمع کرنے کی حرص
پھر بعض لوگ دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو بہت سا روپیہ اپنے پاس جمع کر لیتے ہیں۔اِسلام نے اپنے متبعین
کو روپیہ جمع کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ ۲۲؎ فرماتا ہے وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت اُس کو خرچ نہیں کرتے ہم اُن کو ایک درد ناک عذاب کی خبر دیتے ہیں۔ جب سونا اورچاندی جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اُنہیں گَلا کر اُن کے ہاتھوں اور اُن کے پہلوؤں اور اُن کی پیٹھوں پر داغ دیا جائے گااور کہا جائے گا کہ یہ وہ خزانے ہیں جو تم نے اپنے لئے اور اپنے خاندان کی ترقی کے لئے روک رکھے تھے اور خدا تعالیٰ کے بندوں کو تم نے اُن سے محروم کر دیا تھا۔ پس چونکہ لوگوں نے اس سونے اور چاندی سے فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ تم نے اُسے صرف اپنے لئے جمع کر رکھا تھا اس لئے آج ہم یہ سونا اور چاندی تمہاری طرف ہی واپس لوٹاتے ہیں۔ مگر اُس جہان میں چونکہ سونا اور چاندی کسی کام نہیں آسکتے اس لئے ہم اس رنگ میں یہ سونا اور چاندی تمہیں دیتے ہیں کہ ان کو پگھلا پگھلا کر تمہارے ہاتھوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں پر داغ دینگے تا کہ تمہیں معلوم ہو کہ سونے اور چاندی کو روک رکھنا اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے اُسے صرف نہ کرنا کتنا بڑا گناہ تھا۔ گویہ مثال جو میں نے دی ہے اِس میں روپیہ کے غلط خرچ کا ذکر نہیں بلکہ روپیہ جمع کرنے کا ذکر ہے لیکن درحقیقت یہ بھی غلط خرچ کے مشابہہ ہے کیونکہ غلط خرچ کا نقصان بھی یہی ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اُس سے فائدہ اُٹھانے سے محروم رہ جاتے ہیں اور روپیہ کو جمع کر رکھنے اور کام پر نہ لگانے سے بھی اس قسم کا نقصان ہوتا ہے۔ پس نتیجہ کے لحاظ سے یہ روپیہ کا جمع کرنا اور اُسے نامناسب مواقع پر خرچ کرنا ایک سا ہی ہے۔غرض جتنے محرکات دولت کے حد سے زیادہ کمانے یا اُس کو اپنے پاس جمع رکھنے کے دنیا میں پائے جاتے ہیں اسلام نے اُن سب کو ردّ کر دیا ہے۔ اور درحقیقت بعض محرکات وموجبات ہی دولت کے زیادہ کمانے یا اُسے لوگوں کے لئے خرچ نہ کرنے کے ہوا کرتے ہیں۔ جب ان تمام محرکات کو ناجائز قرار دے دیا جائے تو کوئی شخص اتنی دولت جمع نہیں کر سکتا جو بنی نوع انسان کی ترقی میںروک بن جائے۔مثلاً لوگ گھوڑ دَوڑ کے لئے اعلیٰ درجہ کے قیمتی گھوڑے رکھتے ہیںاور ان پر لاکھوں روپیہ خرچ کردیتے ہیں۔یا جوئے بازی پر ہزاروں روپیہ برباد کردیتے ہیں لیکن اس تعلیم کے ماتحت جو اسلام نے بیان کی ہے ایک مسلمان ریس(RACE)کے لئے گھوڑے نہیں رکھ سکتا- وہ سواری کے لئے تو گھوڑا رکھے گا مگریہ نہیں کر سکتا کہ ریس(RACE) میں حصہ لینے کے لئے لاکھوں روپیہ گھوڑوں کی خرید پر خرچ کرتا چلا جائے۔ جب اِس قسم کے تما م محرکات جاتے رہیں گے تو یہ لازمی بات ہے کہ روپیہ کے زیادہ کمانے کی خواہش اس کے دل میں باقی نہ رہے گی۔ روپیہ کی زیادہ خواہش اِسی لئے پیدا ہوتی ہے کہ انسان کہتا ہے فلاں کے پاس ایک لاکھ روپیہ جمع ہے میرے پاس بھی اتنا روپیہ جمع ہونا چاہئے۔ یا فلاں نے ریس کے لئے بڑے اچھے گھوڑے رکھے ہوئے ہیں مَیں بھی اعلیٰ درجہ کے گھوڑے خرید کر رکھوں۔یا محض مال کی محبت ہو اور انسان روپیہ کومحض روپیہ کے لئے جمع کرے مگر جب اِس قسم کی تمام خواہشات سے اسلام نے منع کر دیا تو وہ ناواجب حد تک روپیہ کمانے کی فکر ہی نہیں کرے گا۔
کمزور طبائع کا علاج
مگر اِس تعلیم کے باوجود پھر بھی کمزور طبائع ناجائز حد تک روپیہ کما سکتی تھیں اور صرف وعظ اِس غرض کو پورا
نہیں کر سکتا تھا۔ آخر مَیں نے جو کچھ بیان کیا ہے یہ صرف ایک وعظ ہے جس سے انسان فائدہ اُٹھاسکتا ہے لیکن دنیا میں ایسے کمزور طبع لوگ پائے جاتے ہیں جو وعظ سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ پس چونکہ دنیا میں ایک عنصر ایسے کمزورلوگوں کا بھی تھا جنہوں نے اِس وعظ سے پورا فائدہ نہیں اُٹھاناتھا اس لئے شریعت اسلامی نے بعض ایسے آئین تجویز کر دیئے ہیں جن پر عمل کرانا حکومت کے ذمہ ہے اور جن سے دولت ناجائز حد تک کمائی نہیں جاسکتی ـ۔ وہ آئین جو اسلام نے مقرر کئے ہیں یہ ہیں۔
اسلام میںناجائز طور پر روپیہ کے حصول کا سِدّباب
سُود کی مناعی
اوّل اسلام نے سُود پر روپیہ لینے اور دینے سے منع کر دیا ہے اور اس طرح تجارت کو محددو کر دیا۔ تعجب کی بات ہے کہ عام طور پر ہمارا تعلیم
یافتہ طبقہ ایک طرف تو کمیونزم کے اصول کا دِلدادہ ہے دوسری طرف سُود کی بھی تائید کرتا نظر آتا ہے حالانکہ دنیا کی اقتصادی تباہی کا سب سے بڑا موجب یہی سُود ہے۔ سُود کے ذریعہ ایک ہوشیاراور عقلمند تاجر کروڑوں روپیہ لے لیتا ہے اور پھر اس روپیہ کے ذریعہ دنیا کی تجارت پر قبضہ کر لیتا ہے۔ بڑے بڑے کارخانے قائم کرلیتا ہے اور ہزاروں ہزار لوگوں کو ہمیشہ کی غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اگر دنیا کے مالداروں کی فہرست بنائی جائے تو اکثر مالداروہی نکلیں گے جنہوں نے سُود کے ذریعہ ترقی کی ہوگی۔ پہلے وہ دوچار ہزار روپیہ کے سرمایہ سے کام شروع کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ وہ اتنی ساکھ پیدا کرلیتے ہیں کہ بڑے بڑے بنکوں سے لاکھوں روپیہ قرض یا اوور ڈرافٹ (OVER DRAFT)کے طور پر نکلوالیتے ہیں اور چند سالوں میں ہی لاکھوں سے کروڑوں روپیہ پیدا کرلیتے ہیں۔ یا ایک شخص معمولی سرمایہ اپنے پاس رکھتا ہے مگر اُس کا دماغ اچھا ہوتا ہے وہ کسی بنک کے سیکرٹری سے دوستی پیدا کر کے اُس سے ضرورت کے مطابق لاکھ دو لاکھ یا چار لاکھ روپیہ لے لیتا ہے اور چند سالوں میںہی اُس سے کئی گنا نفع کما کر وہ کروڑپتی بن جاتا ہے۔ غرض جس قدر بڑے بڑے ما لدار دنیامیں پائے جاتے ہیں اُن کے حالات پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اِن میں اپنی خالص کمائی سے بڑھنے والا شاید سَو میں سے کوئی ایک ہی ہو گا باقی ننانوے فیصدی ایسے ہی مالدار نظر آئیں گے جنہوں نے سُود پر بنکوں سے روپیہ لیا اور تھوڑے عرصہ میں ہی اپنے اعلیٰ دماغ کی وجہ سے کروڑ پتی بن گئے اور لوگوں پر اپنا رُعب قائم کر لیا۔ پس سُود دنیا کی اقتصادی تباہی کا ایک بہت بڑا ذریعہ اور غرباء کی ترقی کے راستہ میں ایک بہت بڑی روک ہے جس کو دُور کرنا بنی نوع انسان کا فرض ہے۔ اگر ان لوگوں کو سُود کے ذریعہ بنکوں میں سے آسانی کے ساتھ روپیہ نہ ملتا تو دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہوتی یا تو وہ دوسرے لوگوں کو اپنی تجارت میں شامل کرنے پر مجبور ہوتے اور یا پھر اپنی تجارت کو اس قدر بڑھانہ سکتے کہ بعد میں آنے والوں کے لئے روک بن جاتے اور ٹرسٹ وغیرہ قائم کر کے لوگوں کے لئے ترقی کا راستہ بالکل بند کر دیتے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ مال مُلک میں مناسب تناسب کے ساتھ تقسیم ہوتا اور خاص خاص لوگوں کے پاس حد سے زیادہ روپیہ جمع نہ ہوتا جو اقتصادی ترقی کے لئے سخت مُہلک اور ضرررساں چیزہے۔ مگر افسوس ہے کہ لوگ سُود کے اِن نقصانات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر اِس کے باوجود جس طرح مکڑی اپنے اِرد گرد جالا تنتی چلی جاتی ہے اِسی طرح وہ سُود کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں اور اس بات پر ذرا بھی غور نہیں کرتے کہ اُن کے اس طریق کا مُلک اور قوم کے لئے کیسا خطرناک نتیجہ نکلے گااور اس الزام سے کمیونزم کے حامی بھی بَری نہیںوہ بھی اِس جڑ کو جو سرمایہ داری کا درخت پیدا کرتی ہے نہ صرف یہ کہ کاٹتے نہیں بلکہ وہ اُسے بُرا بھی نہیں کہتے ۔ہزاروں لاکھوں کمیونسٹ دنیا میں ملیں گے جو سُود لیتے ہیں اور اس طرح بالواسطہ سرمایہ داری کی جڑیں مضبوط کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔
سُود کی وسیع تعریف
اسلام نے سُود کی ایسی تعریف کی ہے جس سے بعض ایسی چیزیں بھی جو عرفِ عام میں سُود نہیں سمجھی جاتیں سُود کے
دائرہ عمل میں آجاتی ہیں اور وہ بھی بنی نوع انسان کے لئے ناجائز ہو جاتی ہیں۔ اسلام نے سُود کی یہ تعریف کی ہے کہ وہ کام جس پر نفع یقینی ہو۔ اب اِس تعریف کے ماتحت جتنے ٹرسٹ ہیں وہ سب ناجائز سمجھے جائیں گے کیونکہ ٹرسٹ کی غرض یہی ہوتی ہے کہ مقابلہ بند ہوجائے اور جتنا نفع تاجر کمانا چاہیں اُتنا نفع اُن کو بغیر کسی روک کے حاصل ہو جائے۔ مثلاً ایک مُلک کے پندرہ بیس بڑے بڑے تاجر اکٹھے ہو کر اگر ایک مقررہ قیمت کا فیصلہ کر لیں اور ایک دوسرے کا تجارتی مقابلہ نہ کرنے کا فیصلہ کر لیں تو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک چیز جو دو روپے کو تجارتی اصول پر بِکنی چاہئے اُس کے متعلق وہ کہہ سکتے ہیں ہم اُسے پانچ روپے میں فروخت کریں گے اور چونکہ سب کا متفقہ فیصلہ یہی ہوگا۔ اِس لئے لوگ مجبور ہوں گے کہ پانچ روپے میں ہی وہ چیز خرید یں کیونکہ اِس سے کم قیمت میں اُن کو وہ چیز کسی اور جگہ سے مل ہی نہیں سکے گی۔ وہ ایک کے پاس جائیں گے تو وہ پانچ روپے قیمت بتائے گا، دوسرے کے پاس جائیں گے تو وہ بھی پانچ روپے ہی بتاتا ہے ،تیسرے کے پاس جائیں گے تو وہ بھی پانچ روپیہ ہی قیمت بتاتا ہے غرض جس کے پاس جائیں گے وہ پانچ روپیہ ہی قیمت بتائے گا اور آخر وہ مجبور ہو جائے گا کہ وہی قیمت اداکر کے چیز خریدے۔ چھوٹے تاجروں کو اوّل تو یہ جرأت ہی نہیں ہوتی کہ اُن کا مقابلہ کریں اور اگر اُن میں سے کوئی شخص وہی چیز سَستے داموں پر فروخت کرنے لگے مثلاً وہ اُس کی دو روپے قیمت رکھ دے تو وہ بڑے تاجرجنہوںنے آپس میں اتحاد کیا ہوا ہوتا ہے اُس کا سارا مال اُس گری ہوئی قیمت پر خرید لیتے اور اِس طرح اُس کا چند دن میں ہی دیوالہ نکال دیتے ہیں۔ پس یہ ٹرسٹ سسٹم ایک نہایت ہی خطرناک چیزہے اور دنیا کی اقتصادی حالت کو بالکل تباہ کر دیتا ہے۔
مجھے ایک دفعہ جماعت احمدیہ کی تجارتی سکیموں کے سِلسلہ میں تحریک ہوئی کہ میں لاکھ۲۳؎ کی تجارت کے متعلق معلومات حاصل کروں۔ لاکھ کی تجارت صرف چند لاکھ روپے کی تجارت ہے اور لاکھ صرف ہندوستان کے چند علاقوں میں تیار ہوتی ہے ریاست پٹیالہ میں بھی تیار کی جاتی ہے ۔ مجھے تحقیق پر معلوم ہوا کہ ایک یورپین فرم اِس کی تجارت پر قابض ہے۔ مَیں نے وجہ دریافت کی تو مجھے بتایا گیا کہ اور تاجروں کی حیثیت تو پندرہ سولہ لاکھ کی ہوتی ہے مگر اِس یورپین فرم کا سرمایہ تیس چالیس کروڑ روپیہ کا ہے۔ پھراُن کے پاس صرف یہی تجارت نہیں بلکہ گندم کی تجارت بھی اُن کے ہاتھ میں ہے، کپڑے کی تجارت بھی اُن کے ہاتھ میں ہے، جیوٹ ۲۴؎ کی تجارت بھی اُن کے ہاتھ میں ہے اِسی طرح اور کئی قسم کی تجارتیں اُن کے ہاتھ میں ہیں۔ اُن کے مقابلہ میں جب کوئی تاجر چند لاکھ روپیہ صرف کر کے لاکھ کی تجارت شروع کرتا ہے تو وہ یورپین فرم لاکھ کی قیمت اتنی کم کر دیتی ہے کہ جس نے نئی نئی تجارت شروع کی ہوتی ہے اُن کے مقابلہ میں ایک دن بھی نہیں ٹھہر سکتا اور نقصان اُٹھا کر کفِ افسوس ملتا ہوا گھر واپس آجاتا ہے۔ فرض کرو ایک شخص کا اس تجارت پر دس لاکھ روپیہ صرف ہوا۔ اُسے توقع تھی کہ مجھے نفع حاصل ہوگا۔ پس اُس نے یورپین فرم کے مقابلہ کے لئے قیمت گرا کر رکھی مگر اُس کو میدانِ مقابلہ میں دیکھتے ہی وہ یورپین فرم لاکھ کی قیمت اِس قدر گِرا دے گی کہ اُس تاجر کو رأس المال بچانا بھی مشکل ہو جائے گا اور آخر وہ مجبور ہو کر لاگت سے کم داموں پر اُسی یورپین فرم کو اپنا لاکھ کا سٹاک دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس یورپین فرم کو قیمت گرانے سے نقصان نہ ہوگا کیونکہ اپنے حریف کو شکست دے کر وہ پھر قیمت بڑھا دے گی۔ اِس رنگ میں وہ یورپین فرم لاکھ کی تجارت کو اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے اور کوئی اُس کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔غرض جس قدر ٹرسٹ ہیں وہ بنی نوع انسان کو تباہ کرنے والے ہیں اور چونکہ ٹرسٹ سسٹم میں نفع یقینی ہوتا ہے اس لئے اسلام کے مذکورہ بالا قاعدہ کے مطابق ٹرسٹ سسٹم اسلام کے روسے ناجائز قرار دیا جائے گا۔
یہی حال کارٹل سسٹم کا ہے۔ کارٹل سسٹم بھی ایک ایسی چیز ہے جو اسلامی نقطہ نگاہ سے بالکل ناجائز ہے۔ ٹرسٹ سسٹم میں جہاں ایک مُلک کے تاجر آپس میں سمجھوتہ کر کے تجارت کرتے ہیں وہاں کارٹل سسٹم میں مختلف ممالک کے تاجر آپس میں اتحاد پیدا کر لیتے ہیں اور وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں چیز فلاں قیمت پر فروخت کرنی ہے اِس سے کم میں نہیں۔ٹرسٹ سسٹم تو یہ ہے کہ ہندوستان کے تاجر آپس میں کسی امر کے متعلق سمجھوتہ کر لیں اور کارٹل سسٹم یہ ہے کہ مثلاً امریکہ اور انگلستان کے تاجر یا امریکہ، انگلستان اور جرمنی کے تاجر یا انگلستان اور ہندوستان کے تاجر آپس میں کسی تجارت کے متعلق سمجھوتہ کر لیں۔فرض کرو کیمیکلز (CHEMICALES)یعنی کیمیائی ساخت کی اشیاء کے متعلق سمجھوتہ کر لیں۔مثلاً اِس زمانہ میں امریکہ ،انگلستا ن اور جرمنی یہ تین ممالک ہی کیمیکلز بنانے والے ہیں اِن تینوں ممالک کے تاجر سمجھوتہ کر لیں کہ ہم ایک دوسرے کا مقابلہ نہیں کریں گے بلکہ ایک ہی قیمت پر اپنی دواؤں کو فروخت کریں گے تو اِس کے نتیجہ میں دنیا مجبور ہوگی کہ اُن سے اُسی قیمت پر دوائیں خریدے۔ اور جتنا نفع وہ مانگتے ہیں وہ اُن کو دے ۔ یہ کارٹل سسٹم اتنا خطرناک ہے کہ اِس سے حکومتیں بھی تنگ آگئی ہیںاور ابھی گزشتہ دنوں اِس جرم میں اس کی طرف سے کئی تاجروں پر مقدمات چل چکے ہیں اور انہیں سزائیں بھی دی گئی ہیں مگر چونکہ یقینی نفع کی تمام صورتوں کو اسلام نے ناجائز قرار دے دیا ہے تاکہ دنیا کی دولت پر کوئی ایک طبقہ قابض نہ ہو جائے بلکہ مال تمام لوگوں میں چکّر کھاتا رہے اور غرباء بھی اس سے اپنی اقتصادی حالت کو درست کرسکیں۔اسلامی حکومتوں میں یہ طریق چل نہیں سکتے۔
سامان کا روک رکھنا منع ہے
اِسی طرح اسلام نے ایک حکم یہ بھی دیا ہے کہ تم جو مال بھی تیار کرو یا دوسروں سے خریدو اُسے
روک کر نہ رکھ لیا کرو کہ جب مال مہنگا ہو گا اور قیمت زیادہ ہوگی اُس وقت ہم اِس مال کو فروخت کریں گے۔ اگر ایک تاجر مال کو قیمت بڑھنے کے خیال سے روک لیتا ہے اور اُسے لوگوںکے پاس فروخت نہیں کرتا تو اسلامی نقطہ نگاہ کے ماتحت وہ ایک ناجائزفعل کا ارتکاب کرتا ہے۔ اگر ایک تاجر کے پاس گندم ہے اور لوگ اپنی ضروریات کے لئے اُس سے گندم خریدنا چاہتے ہیںاور وہ اِس خیال سے کہ جب گندم مہنگی ہوگی اُس وقت میں اسے فروخت کروں گا اُس گندم کو روک لیتا ہے اور خریداروں کو دینے سے انکار کر دیتا ہے تو اسلام کی تعلیم کے رو سے دہ ایک گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ چیزوں پر کنٹرول اِس زمانہ میں ہی کیا گیا ہے حالانکہ کنٹرول اسلام میں ہمیشہ سے چلا آتا ہے۔ انگریزوں نے تو آج اِس کو اختیار کیا لیکن اسلام نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے یہ حکم دیا تھا کہ احتکار منع ہے اور احتکار کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ کسی چیز کو اس لئے روک لیا جائے کہ جب اس کی قیمت بڑھ جائیگی تب اُسے فروخت کیاجائے گا۔ اگر کسی شخص کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ وہ احتکار کر رہا ہے اور اسلامی حکومت قائم ہو تو وہ اُسے مجبور کرے گی کہ وہ اپنا مال فروخت کردے اور اگر وہ خود فروخت کرنے کے لئے تیار نہ ہو توگورنمنٹ اُس کے سٹور پر قبضہ کر کے مناسب قیمت پر اُسے فروخت کردے گی۔ بہرحال کوئی شخص اِس بات کا مجاز نہیں کہ وہ مال کو روک رکھے اِس خیال سے کہ جب مہنگا ہو گا تب میں اسے فروخت کروں گا۔(اِس میں کوئی شک نہیں کہ احتکار کے معنیٰ غلہ کو روکنے کے ہیں لیکن تفقّہ کے ماتحت جواسلام کا ایک جزوِ ضروری ہے اِس حکم کو عام کیا جائے گااور کسی شَے کو جو عوام کے کام آنے والی ہے اس لئے روک رکھنا کہ قیمت بڑھ جائے گی تو فروخت کریں اسلامی تعلیم کے رو سے ناجائز قرار دیا جائے گا۔)
اِسلام میں مال کی قیمت گرانے کی ممانعت
اِس کے علاوہ اسلام نے قیمت کو ناجائز حد تک گرانے سے بھی منع کیا ہے اور جیسا کہ مَیں نے اوپر بیان کیا ہے قیمت کا گرانابھی ناجائز مال کمانے کا ذریعہ ہوتا ہے
کیونکہ طاقتور تاجر اِس ذریعہ سے کمزور تاجروں کو تھوڑی قیمت پر مال فرخت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اور ان کا دیوالہ نکلوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ آپ بازار کا دَورہ کر رہے تھے کہ ایک باہر سے آئے ہوئے شخص کو دیکھاکہ وہ خشک انگور نہایت ارزاں قیمت پر فروخت کر رہا تھا جس قیمت پر مدینہ کے تاجر فروخت نہیں کرسکتے تھے۔ آپ نے اُسے حکم دیا کہ یا تو اپنا مال منڈی سے اُٹھا کر لے جائے یا پھر اُسی قیمت پر فروخت کرے جس مناسب قیمت پر مدینہ کے تاجر فروخت کررہے تھے۔ جب آپ سے اِس حُکم کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے جواب دیا کہ اگر اِس طرح فروخت کرنے کی اِسے اجازت دی گئی تو مدینہ کے تاجروں کو جو مناسب قیمت پر مال فروخت کررہے ہیںنقصان پہنچے گا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بعض صحابہؓ نے حضرت عمرؓ کے اس فعل کے خلاف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول پیش کیا کہ منڈی کے بھاؤ میں دخل نہیں دینا چاہئے۲۵؎ مگر اُن کا یہ اعتراض درست نہ تھا کیونکہ منڈی کے بھاؤ میں دخل دینے کے یہ معنیٰ ہیں کہ پیداوار اور مانگ(SUPPLY AND DEMAND) کے اصول میں دخل دیا جائے اور ایسا کرنا بے شک نقصان دہ ہے اور اس سے حکومت کو بچنا چاہئے۔ ورنہ عوام کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گااور تاجر تباہ ہو جائیں گے۔ ہم نے قریب زمانہ میں ہی اس کا تجربہ کیا ہے۔ جب حکومت نے جنگ کی وجہ سے گندم کی فروخت کی ایک ہی قیمت مقرر کردی تو اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اصلی تجارت بالکل رُک گئی کیونکہ کوئی عقلمندیہ امید نہیں کر سکتا کہ تاجر اسی قیمت پر خرید کر اُسی قیمت پر فروخت کرسکے گا۔نتیجہ یہ ہوا کہ گندم کی باقاعدہ تجارت بالکل بند ہوگئی اور مقررہ قیمت چھ روپے کی جگہ سولہ روپیہ فی من تک گندم کی قیمت پہنچ گئی۔ لوگ گورنمنٹ کو خوش کرنے کیلئے اپنے بیوی بچوں کو فاقوں سے نہیں مار سکتے تھے۔ وہ ہر قیمت پرگندم خریدتے تھے اور چونکہ گندم پر زندگی کا انحصار ہے وہ ان تاجروں کی رپورٹ کرنے کے لئے بھی تیار نہ تھے جو بلیک مارکیٹ ریٹس پر اُن کو گندم دیتے تھے۔ مَیں نے اِس کے خلاف کئی ماہ پہلے گورنمنٹ کو توجہ دلائی تھی کہ اُن کے اِس قانون کا خطرناک نتیجہ نکلے گا مگر حکومت نے اِس پر کان نہ دھرے اور آخر سخت ہنگامہ اور شور کے بعد معقول طریق اختیار کیا۔ پہلے قانون کی وجہ زمینداروں کی خدمت بتائی گئی تھی مگر نتیجہ اُلٹ نکلا۔ زمیندار لُٹ گئے اور تاجر کئی گُنے زیادہ قیمت حاصل کر گئے۔
غرض نا واجب طور پر منڈی کے بھاؤ میں دخل دینے اور پیداوار اور مانگ کے اصول کو نظر انداز کرنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے۔ ورنہ ناواجب بھاؤ میں خواہ وہ قیمت کی زیادتی کے متعلق ہو خواہ قیمت کی کمی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا۔چنانچہ احتکار سے روکنا جو احادیث سے ثابت ہے اس امر کا یقینی ثبوت ہے کیونکہ احتکار سے روکنے کی غرض یہی ہے کہ ناجائز طور پر بھاؤ کو بڑھایا نہ جائے اوریہ مناعی یقینا منڈی کے بھاؤ میں دخل دینا ہے مگر جائز دخل ہے۔ پس معلوم ہوا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منڈی کے بھاؤ میں دخل اندازی سے منع کیا تھا تو ناجائز دخل اندازی سے منع کیا تھا۔ اصولِ اقتصادیات کے ماتحت دخل اندازی سے منع نہیں فرمایا تھا اور حضرت عمرؓ کا فعل عین مطابق شریعت اور اسلام کے ایک زبر دست اصول کا ظاہر کرنے والا تھا۔
خلاصہ یہ کہ یہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ لوگ ناجائز طور پر دولت اپنے قبضہ میں لیا کرتے ہیں اِس لئے اسلام نے اِن تینوں چیزوں سے روک دیا ہے اور اس طرح ناجائز اور حد سے زیادہ دولت کے اجتماع کے راستہ کو بند کر دیاہے۔
حد سے زائد روپیہ جمع ہونے کے راستہ میں مزید روکیں
مگر چونکہ پھر بھی بعض لوگ ذہانت اور ہوشیاری کی وجہ سے ناجائز حد تک روپیہ کما سکتے تھے اور ہو سکتا تھا کہ اِن تمام ہدایات اور
قیود اور پابندیوں کے باوجود بعض لوگوں کے پاس حد سے زیادہ روپیہ جمع ہو جائے اور غرباء کو نقصان پہنچ جائے۔ اس لئے اسلام نے اس کا علاج مندرجہ ذیل ذرائع سے کیا۔
زکوٰۃ
اوّل زکوٰۃ کا حکم دیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس قدر جائداد کسی انسان کے پاس سونے چاندی کے سِکّوں یا اموالِ تجارت وغیرہ کی قسم میں سے ہو اور اُس پر
ایک سال گزر چکاہو حکومت اُس سے اندازاً اڑھائی فیصدی سالانہ ٹیکس لے لیاکرے گی جو مُلک کے غرباء اور مساکین کی بہبودی پر خرچ کیا جائے گا ۔ اگر کسی شخص کے پاس چالیس روپے جمع ہوں اور اُن چالیس روپوں پر ایک سال گزر جائے تو اس کے بعد لازماً اُسے اپنے جمع کردہ مال میںسے ایک روپیہ حکومت کو بطور زکوٰۃ ادا کرنا پڑے گا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ انکم ٹیکس نہیں جو آمد پر ادا کیا جاتا ہے بلکہ زکوٰۃ جمع کئے ہوئے مال پر کیپیٹل ٹیکس ہے جو غرباء کی بہبودی کے لئے لیا جاتا ہے اور زکوٰۃ ہر قسم کے مال پر واجب ہوتی ہے۔ خواہ سکّے ہوںیا جانور ہوں یا غلہ ہو یا زیور ہو یا کوئی دوسرا تجارتی مال ہو۔ صرف سونے چاندی کے وہ زیور جو عام طور پر عورتوں کے استعمال میں رہتے ہوں اور غرباء کو بھی کبھی کبھی عاریتہ دئیے جاتے ہوں اُن پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ زیورات خود تو عام طور پر استعمال کئے جاتے ہوں مگر غرباء کو عاریتہ نہ دیئے جاتے ہوں تو اِس صورت میں اُن کی زکوٰۃ ادا کرنا بھی فقہائے اسلام زیادہ مناسب قرار دیتے ہیں۔ اور جو زیور عام طور پر استعمال میں نہ آتے ہوں اُن پر زکوٰۃ ادا کرنا تو نہایت ضروری ہے اور اسلام میں اِس کا سختی سے حکم پایا جاتا ہے۔ یہ زکوٰۃ جب تک کسی کے پاس مال بقدرِ نصاب باقی ہو ہر سال ادا کرنی ضروری ہوتی ہے اور نہ صرف سرمایہ پر بلکہ سرمایہ اور نفع دونوں کے مجموعہ پر ادا کرنی ہوتی ہے۔ پس اگر کوئی شخص اوپر بیان کردہ تمام قیود اور پابندیوں کے باوجود کچھ روپیہ پس انداز کر لے تو اسلامی حکومت اس ذریعہ سے ہر سال اُس سے ٹیکس وصول کرتی چلی جائے گی کیونکہ اسلامی نقطہ نگاہ یہ ہے کہ امراء کی دولت میں غرباء کے حقوق اور اُن کی محنت بھی شامل ہے اس لئے ایک ایسا قاعدہ مقرر کر دیا گیاہے جس کے مطابق ہر سال زکوٰۃ کے ذریعہ سے غرباء کا حق امراء سے لے لیا جائے گا۔
خمس
دوسری وجہ جس سے بعض لوگوں کے ہاتھ میں حد سے زیادہ مال جمع ہو جاتا ہے کانوں کی دریافت ہے۔ اسلام نے اِس نقص کا علاج یہ کیا کہ اُس نے کانوں میں
حکومت کا خمس حق مقرر کر دیا ہے۔ یہ پانچواںحصہ تو اُس مال میں سے ہے جو کان سے نکالا جاتا ہے خواہ اُس پر سال چھوڑ ایک ماہ بھی نہ گزرا ہو۔ اس کے علاوہ کانوں کے مالک جواپنے حصہ کے نفع میں سے پس انداز کریں اور اس پر ایک سال گزر جائے اُس پر زکوٰۃ الگ لگے گی اور سال بہ سال لگتی چلی جائے گی۔ گویا اس طرح حکومت کانوںمیں بھی حصہ دار ہو جاتی ہے اور کانوں کے مالک جو روپیہ اپنے حصہ میں سے بچاتے ہیں اُن سے بھی ہر سال غرباء کی ترقی کے لئے ایک مقررہ ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ جب بھی کسی کے جمع کردہ مال پر ایک سال گزر جائے گا حکومت کے افراد اس کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ لاؤ جی غرباء کا حق ہمیں دے دو۔
طَوعی صدقہ
تیسرے اسلام نے طوعی صدقہ رکھا ہے۔ چنانچہ اسلام کا حکم ہے کہ ہر شخص کو صدقہ وخیرات کے طور پر یتیموں، غریبوں اور مسکینوں کی خبر گیری
اور اُن کی پرورش کے لئے کچھ نہ کچھ مال ہمیشہ خرچ کرتے رہنا چاہئے۔ یہ حکم بھی ایسا ہے کہ اس کی وجہ سے کسی شخص کے پاس حد سے زیادہ دولت جمع نہیں رہ سکتی۔
ورثہ کی تقسیم
اگر ان تمام طریقوں سے کام لینے کے باوجود پھر بھی کسی انسان کے پاس کچھ مال بچ جائے اور وہ اپنی جائداد بنالے تو اُس کے مرنے
کے معاً بعد شریعت اس کی تمام جائداد کو اُس کے خاندان میں تقسیم کرا دے گی۔ چنانچہ ورثہ کا حکم شریعت میں اِسی غرض کے ماتحت رکھا گیا ہے کہ کوئی شخص اپنی جائداد کسی ایک شخص کو نہ دے جائے بلکہ وہ اُس کے ورثاء میں تقسیم ہو جائے۔ شریعت نے اِس تقسیم میں اولاد کا بھی حق رکھا ہے، ماں باپ کا بھی حق رکھا ہے، بیوی کا بھی حق رکھا ہے، خاوند کا بھی حق رکھا ہے اور بعض حالتوں میں بھائیوں اور بہنوں کا بھی حق رکھا ہے۔ قرآن کریم نے صاف طور پر حکم دیا ہے کہ کسی شخص کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اِس تقسیم کو بدل سکے۔یا کسی ایک رشتہ دار کو اپنی تمام جائداد سپرد کر جائے ۔اُس کی جس قدر جائداد ہوگی شریعت جبراً اس کے تمام رشتہ داروں میں تقسیم کرا دے گی اور ہر ایک کو وہ حصہ دے گی جو قرآن کریم میں اُس کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ تعجب ہے کہ جہاں دنیا سُود کی تائید میں ہے حالانکہ دہ دنیا کی بے جوڑ مالی تقسیم کا بڑا موجب ہے وہاں اکثر لوگ جبری ورثہ کے بھی مخالف ہیں اور اس امر کی اجازت دیتے ہیں کہ ایک ہی لڑکے کو مرنے والا اپنا مال دے جائے حالانکہ اِس سسٹم سے دولت ایک خاندان میں غیر محدود وقت تک جمع ہوتی جاتی ہے لیکن اسلامی اصولِ وراثت کے مطابق جائداد خواہ کتنی بڑی ہو تھوڑے ہی عرصہ میں اولاد در اولاد میں تقسیم ہو کر مالدار سے مالدار خاندان عام لوگوں کی سطح پر آجاتا ہے اور اِس حکم کے نتیجہ میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہو سکتا جس کی بڑی سے بڑی جائداد یا بڑی سے بڑی دولت تین چار نسلوں سے آگے بڑھ سکے۔ وہ بمشکل تین چار نسلوں تک پہنچے گی اور پھر سب کی سب ختم ہو جائے گی اور آئندہ نسل کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوگی کہ وہ اپنے لئے اور جائداد پیدا کرے۔ یورپ اور امریکہ میں بڑے بڑے مالدار اور لارڈز اسی لئے ہیں کہ انگلستان میں یہ قانون ہے کہ جائداد کا مالک صرف بڑا بیٹا ہوتا ہے۔ اور امریکہ میں اجازت ہے کہ باپ اپنی جائداد چاہے تو صرف ایک بیٹے کو دے جائے باقی ماں باپ، بھائی بہنیں، خاوند بیوی سب محروم رہتے ہیںیا رکھے جاسکتے ہیں۔ پھر بعض دفعہ وہاں بڑے بڑے مالدار یہ وصیّت کر جاتے ہیں کہ ہماری دس لاکھ کی جائداد ہے اُس میں سے ایک لاکھ تو دوسرے رشتہ داروں کو دے دیا جائے اور نو لاکھ بڑے لڑے کو دے دیا جائے۔ اسلام کہتا ہے کہ یہ بالکل ناجائز ہے تمہارے خاندان کی عظمت سو سائٹی کے فائدہ کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ہمیں اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ تمہارا خاندان مُلک میں چوٹی کا خاندان ہمیشہ سمجھا جاتا ہے یا نہیں ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ مال تقسیم در تقسیم ہوتاچلا جائے تاکہ غرباء کو بڑے بڑے سرمایہ داروں کا مقابلہ نہ کرنا پڑے اور اُن کے لئے ترقی کا راستہ دنیا میں کھلا رہے۔
غرض ایک طرف اسلام نے جذبات پر قابو پایا اور اُن تمام محرکات کو مَسل دیا جن کے نتیجہ میں انسان یہ چاہتا ہے کہ اُس کے پاس زیادہ سے زیادہ دولت جمع ہو۔ دوسری طرف اُس نے بیہودہ اخراجات کو حُکماً روک دیا اور کہہ دیا کہ ہم ان اخراجات کی تمہیں اجازت نہیں دے سکتے۔ تیسری طرف روپیہ جمع کرنے کے تمام طریق جن میں یقینی نفع ہوا کرتا ہے اُس نے ناجائز قرار دے دیئے۔ چوتھی طرف زکوٰۃ اور طوعی صدقات وغیرہ کے احکام دے دیئے۔ اور اگر ان سب احکام کے باوجود پھر بھی کوئی شخص اپنی ذہانت اور ہوشیاری کی وجہ سے کچھ زائد روپیہ کما لیتا ہے اور خطرہ ہے کہ اُس کا خاندان غرباء کے راستہ میں روک بن کر کھڑا ہو جائے تو شریعت اُس کے مرنے کے ساتھ ہی اُس کی تمام جائداد اس کے ورثاء میں تقسیم کر دیتی ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہے اور اُس کے دس بیٹے ہیں تو اس کے مرنے کے بعد ہر ایک کو دس دس لاکھ روپیہ مل جائے گا اور اگر پھر ان میں سے ہر ایک کے دس دس لڑکے ہوں تو وہ دس لاکھ ایک ایک لاکھ میں تقسیم ہو جائے گا اور تیسری نسل میں وہ دس دس ہزار روپیہ تک آ جائے گا۔ گویا زیادہ سے زیادہ تین چار نسلوں میں بڑے سے بڑے تاجر کا بھی تمام روپیہ ختم ہو جائے گا اورایک بلاک غرباء کے راستہ میں کبھی کھڑا نہیں ہوگا۔ تقسیم ورثہ صرف وقف کی صورت میں روکی جا سکتی ہے مگر جس نے روپیہ کما کر غرباء اور رفاہِ عام کیلئے جائداد وقف کر دینی ہو وہ ناجائز طور پر روپیہ کمائے گا ہی کیوں۔
اِن احکام پر اگر عمل کیا جائے تو لازماً جو روپیہ بھی زائد آئے گا یا وہ حکومت کے پاس چلا جائے گا یا وہ لوگوں کے پاس چلا جائے گا اور یا پھر اولاد میں بٹ جائے گا بہرحال کوئی شخص بڑا امیر نہیں رہے گا۔ اگر کوئی خود امیر ہو تو کوئی خاندان ایسا نہیں رہے گا جو مستقل طور پر اپنی خاندانی وجاہت یا اپنے خاندانی رُعب کی وجہ سے مُلک کے غرباء کوغلامی کی زنجیروں میں جکڑ سکے۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اِن احکام پر پوری طرح عمل نہیں کیا۔ زکوٰۃ کا حکم موجود ہے مگر وہ زکوٰۃ نہیں دیتے، اِسراف کے تمام طریقوں کو ناجائز قرار دیا گیا ہے مگر وہ اسراف سے باز نہیں آتے، ورثہ کا حکم دیا گیا ہے مگر وہ ورثہ کے احکام پر عمل نہیں کرتے لیکن پھر بھی چونکہ کچھ نہ کچھ عمل ہوتا ہے اس لئے اسلامی ممالک میں امیروں اور غریبوں کا وہ فرق نہیں ہے جو دوسرے ممالک میں پایا جاتا ہے مگر ان تدابیر سے بھی پورا علاج نہیں ہوتا۔ ہو سکتا تھا کہ جو روپیہ حکومت کے پاس آئے وہ پھر امراء ہی کی طرف منتقل ہو جائے اور وہ دوبارہ اُسے اپنی طرف کھینچ لیں۔ قرآن کریم نے اِس کا بھی علاج بتایا ہے چنانچہ اُس نے اُس روپیہ پر جو حکومت کے پاس آئے کئی قسم کی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
حکومت کے روپیہ پر تصرف کہ وہ امراء کو طاقت دینے کیلئے خرچ نہ ہو
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۲۶؎ فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو اِردگرد کی فتوحات کے ذریعہ جو روپیہ دیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور اُس کے رسول کے لئے ہے اور قرابت والوں کے لئے ہے اور یتامی اور مساکین کیلئے ہے اور اُن مسافروں کے لئے ہے جو علوم پھیلانے اور اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے دنیا کے مختلف ممالک میں پھر رہے ہوتے ہیں اور ہم نے یہ احکام تمہیں اِس لئے دیئے ہیں تا کہ یہ روپیہ پھر امیروں کے پاس نہ چلا جائے اور اُن ہی کے حلقہ میں چکر نہ کھانے لگے۔ اِن آیات پر غور کرو اور دیکھو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے غرباء کے حقوق کی حفاظت کی ہے اور اسلامی اقتصاد کی بنیادوں کوانتہائی طور پر مضبوط کر دیا ہے۔ فرماتا ہے ہم نے یہ اسلامی اقتصادی نظام اس لئے قائم کیا ہے تا کہ اقتصادی حالت کو کوئی دھکّا نہ لگے۔ اگر ہم آزادی دے دیتے اور اپنی طرف سے حقوق مقرر نہ کرتے تو پھر یہ اموال امراء کی طرف منتقل ہو جاتے اور غرباء ویسے ہی خستہ حال رہتے جیسے پہلے تھے۔ پس ہم نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ وہ روپیہ جو حکومت کے قبضہ میں آئے پھر امیروں کے پاس ہی نہ چلا جائے۔ اِس حکم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حکومت کے اموال کو غرباء اور اُن لوگوں کیلئے جن کی ترقی کے راستہ میں روکیں حائل تھیں مخصوص کر دیا ہے۔
یہاں اللہ اور رسول کا جو حق مقرر کیا گیاہے درحقیقت اِس سے مراد بھی غرباء ہی ہیں۔ اللہ اور اُس کے رسول کانام صرف اِس لئے لیا گیاہے کہ کبھی حکومت کو اِس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ عبادت گاہیں بنائے، کبھی حکومت کو اِس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ مدرسے بنائے، کبھی حکومت کو اِس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ہسپتال بنائے۔ اگر خالی غرباء کے حقوق کا ہی ذکر ہوتا تو جب کبھی حکومت اِس روپیہ سے اِس قسم کے کام کرنے لگتی اُس وقت لوگ اس پر اعتراض کرتے کہ تم کو کیاحق ہے کہ اس روپیہ سے عبادت گاہیں بنائو یا شفاخانہ بنائو یا سڑکیں بنائو یا سکول بنائو یہ تو صرف غرباء کے کھانے، پینے، پہننے پر ہی خرچ ہونا چاہئے۔ پس اِس نقص کے ازالہ کے لئے اللہ اور اُس کے رسول کے الفاظ رکھ دیئے گئے ہیں۔ ورنہ یہ تو ظاہر ہے کہ اللہ کا حق بھی غرباء کو جائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ تو روپیہ لینے کیلئے نہیں آتا اور رسول کا حق بھی غرباء کو جائے گا کیونکہ رسول تو ایک فانی وجود ہوتا ہے۔ اُس کے نام سے مراد اُس کا قائم کردہ نظام ہی ہو سکتا ہے۔
پھر ذِی الْقُرْبٰی کا جو حق بیان کیا گیا ہے اُس سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار نہیں ہیں جیسا کہ بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ ذِی الْقُرْبٰی کے الفاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اُن کا بھی اِس روپیہ میں حق ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صاف فرما دیا ہے کہ سادات کیلئے صدقہ یا زکوٰۃ کا روپیہ لینا حرام ہے۔۲۷؎ درحقیقت اِس سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی رشتہ دار نہیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو خدا تعالیٰ کی عبادت اور اُس کے دین کی خدمت میں دن رات مشغول ہوں اور اِس طرح خدا اور اُس کے رسول کے عیال میں داخل ہو گئے ہوں۔ گویا ذِی الْقُرْبٰیکہہ کر بتایا کہ وہ لوگ جو دین کی خدمت پر لگے ہوئے ہوں اُن کو نکمّا وجود نہیں سمجھنا چاہئے وہ خدا تعالیٰ کا قُرب چاہنے والے اور دنیا کو خدا تعالیٰ کے قُرب میں بڑھانے والے ہیں اُن پر بھی یہ روپیہ خرچ کیا جا سکتا ہے۔ پس وہ لوگ جو قرآن پڑھانے والے ہوں یا حدیث پڑھانے والے ہوں یا دین کی اشاعت کا کام کرنے والے ہوں اِس آیت کے مطابق اُن پر بھی یہ روپیہ خرچ کیا جا سکتا ہے کیونکہ جب وہ دن رات دینی اور مذہبی کاموں میں مشغول رہیں گے تو یہ لازمی بات ہے کہ وہ اپنے لئے دنیاکما نہیں سکیں گے۔ ایسی صورت میں اگر حکومت کی طرف سے اُن پر روپیہ خرچ نہیں کیا جائے گا تو دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہوگی۔ یا تو اُن کے اخلاق بگڑ جائیں گے اور وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہونگے اور یا پھر اِس خدمت کو ہی ترک کر دیں گے اور دوسرے لوگوں کی طرح دنیا کمانے میں لگ جائیں گے حالانکہ خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ صاف طور پر حکم موجود ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی موجود رہنی چاہئے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کئے ہوئے ہو اور رات دن دین کی اشاعت کا کام سرانجام دے رہی ہو۔ پس ذِی الْقُرْبٰی سے مرادخدمت دین کا کام کرنے والے لوگ ہیں اور اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ جہاں اِس روپیہ میں غرباء کا حق ہے وہاں ان لوگوں کا بھی حق ہے اور حکومت کا فرض ہے کہ اُن پر روپیہ صرف کرے۔
پھر فرمایا کہ ہماری اِس نصیحت کو یاد رکھنا کہ یہ مال امراء کی طرف پھر منتقل نہ ہونے پائے۔ آخر میں کہہ کر امراء کو سمجھایا کہ دیکھو تم اِس روپیہ کو کسی طرح حاصل کرنے کی کوشش نہ کرنا کہ تمہارا فائدہ اِسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے ماتحت اپنی زندگی بسر کرو۔
اسلامی حکومت کا ہر شخص کیلئے روٹی کپڑے کاانتظام کرنا
اِسلامی حکومت نے اِن احکام پر اِس طرح عمل کیا کہ جب وہ اموال کی مالک ہوئی تو اُس نے ہر ایک شخص کی روٹی کپڑے کا انتظام کیا۔ چنانچہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب نظام مکمل ہوا تو اُس وقت اسلامی تعلیم کے ماتحت ہر فردوبشر کے لئے روٹی اور کپڑا مہیا کرنا حکومت کے ذمہ تھا اور وہ اپنے اِس فرض کو پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا کرتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِس غرض کیلئے مردم شماری کا طریق جاری کیا اور رجسٹرات کھولے جن میں تمام لوگوں کے ناموں کا اندراج ہوا کرتا تھا۔ یورپین مصنّفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پہلی مردم شماری حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کی اور اُنہوں نے ہی رجسٹرات کا طریق جاری کیا۔ اِس مردم شماری کی وجہ یہی تھی کہ ہر شخص کو روٹی کپڑا دیا جاتا تھا اور حکومت کیلئے ضروری تھا کہ وہ اِس بات کا علم رکھے کہ کتنے لوگ اِس مُلک میں پائے جاتے ہیں۔ آج یہ کہا جاتا ہے کہ سوویٹ رشیا نے غرباء کے کھانے اور اُن کے کپڑے کا انتظام کیا ہے۔ حالانکہ سب سے پہلے اِس قسم کا اقتصادی نظام اسلام نے جاری کیا ہے اور عملی رنگ میںحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہر گائوں، ہر قصبہ اور ہر شہر کے لوگوں کے نام رجسٹر میں درج کئے جاتے تھے، ہر شخص کی بیوی، اُس کے بچوں کے نام اور اُن کی تعداد درج کی جاتی تھی اور پھر ہر شخص کیلئے غذا کی بھی ایک حد مقرر کر دی گئی تھی تا کہ تھوڑا کھانے والے بھی گزارہ کر سکیں اور زیادہ کھانے والے بھی اپنی خواہش کے مطابق کھا سکیں۔
تاریخوں میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابتداء میں جو فیصلے فرمائے اُن میں دودھ پیتے بچوں کا خیال نہیں رکھا گیا تھا اور اُن کو اُس وقت غلّہ وغیرہ کی صورت میں مدد ملنی شروع ہوتی تھی جب مائیں اپنے بچوں کا دودھ چھڑا دیتی تھیں۔ ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لئے گشت لگا رہے تھے کہ ایک خیمہ میں سے کسی بچہ کے رونے کی آواز آئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں ٹھہر گئے۔ مگر بچہ تھا کہ روتا چلا جاتا تھا اور ماں اُسے تھپکیاں دے رہی تھی تا کہ وہ سو جائے۔ جب بہت دیر ہوگئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُس خیمہ کے اندر گئے اور عورت سے کہا کہ تم بچے کو دودھ کیوں نہیں پلاتی، یہ کتنی دیر سے رو رہا ہے؟ اُس عورت نے آپ کو پہچانا نہیں اُس نے سمجھا کہ کوئی عام شخص ہے چنانچہ اُس نے جواب میںکہا کہ تمہیں معلوم نہیں عمر نے فیصلہ کر دیا ہے کہ دودھ پینے والے بچہ کو غذا نہ ملے ہم غریب ہیں ہمارا گزارہ تنگی سے ہوتا ہے مَیں نے اِس بچے کا دودھ چھڑا دیا ہے تا کہ بیت المال سے اِس کا غلّہ بھی مل سکے۔ اب اگر یہ روتا ہے تو روئے عمرؓ کی جان کو جس نے ایسا قانون بنایا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُسی وقت واپس آئے اور راستہ میں نہایت غم سے کہتے جاتے تھے کہ عمر! عمر!! معلوم نہیں تو نے اِس قانون سے کتنے عرب بچوں کا دودھ چھڑوا کر آئندہ نسل کو کمزور کر دیا ہے اِن سب کا گناہ اَب تیرے ذمہ ہے۔ یہ کہتے ہوئے آپ سٹور میں آئے دروازہ کھولا اور ایک بوری آٹے کی اپنی پیٹھ پر اُٹھا لی۔ کسی شخص نے کہا کہ لائیے مَیں اِس بوری کو اُٹھا لیتاہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ نہیں! غلطی میری ہے اور اب ضروری ہے کہ اس کا خمیازہ بھی مَیں ہی بھگتوں۔ چنانچہ وہ بوری آٹے کی اُنہوں نے اِس عورت کو پہنچائی اور دوسرے ہی دن حُکم دیا کہ جس دن بچہ پیدا ہو اُسی دن سے اُس کیلئے غلّہ مقرر کیا جائے کیونکہ اُس کی ماں جو اُس کو دودھ پلاتی ہے زیادہ غذا کی محتاج ہے۔
قرآن مجید کا حکم کہ ہر فردوبشر کی ضرورت کو پوراکیا جائے
اَب دیکھو! یہ انتظام اسلام نے شروع دن سے ہی کیا ہے بلکہ قرآن کریم سے تو پتہ لگتا ہے کہ اِس انتظام کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کے زمانہ سے نہیں ہوئی بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہوئی ہے۔ چنانچہ پہلی وحی جو حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوئی اُس میں یہی حکم ہے کہ ہم تمہیں ایک جنت میں رکھتے ہیں۔ جس کے متعلق ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ ۔۲۸؎ یعنی اے آدم! ہم نے تمہارے جنت میں رکھے جانے کا فیصلہ کر دیا ہیـ تم اُس میں بھوکے نہیں رہوگے تم اُس میں ننگے نہیں رہوگے۔ تم اُس میں پیاسے نہیں رہوگے اور تم اُس میں رہنے کی وجہ سے دھوپ میں نہیں پھروگے۔ لوگ اِس آیت سے غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اِس سے مراد اُخروی جنت ہے اور آیت کا یہ مطلب ہے کہ جب انسان جنت میں جائے گا تو وہاں اس کا یہ حال ہوگا۔ حالانکہ قرآن کریم سے صاف ظاہر ہے کہ آدم اِسی دنیا میں پیدا ہوئے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۲۹؎ مَیں دنیا میں اپنا خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں اور دنیا میں جو شخص پیدا ہوتا ہے وہ بھوکا بھی ہو سکتا ہے، وہ پیاسا بھی ہو سکتا ہے، وہ ننگا بھی ہو سکتا ہے، وہ دھوپ میں بھی پھر سکتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ دنیا میں تو پیدا ہو اور بھوک اور پیاس اور لباس اور مکان کی ضرورت اُسے نہ ہو اور جب کہ یہ آیت اِسی دنیا کے متعلق ہے تو لازماً ہمیں اِس کے کوئی اَور معنی کرنے پڑیں گے اور وہ معنی یہی ہیں کہ ہم نے اپنا پہلا قانون جو دنیا میں نازل کیا اُس میں ہم نے آدم سے یہ کہہ دیا تھا کہ ہم ایک ایسا قانون تمہیں دیتے ہیں کہ تجھ کو اور تیری اُمت کو جنت میں داخل کر دے گا اور وہ قانون یہ ہے کہ ہر ایک کے کھانے پینے لباس اور مکان کا انتظام کیا جائے۔ آئندہ تم میں سے کوئی شخص بھوکا نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ سوسائٹی کا کام ہونا چاہئے کہ ہر ایک کے لئے غذا مہیا کرے۔ آئندہ تم میں سے کوئی شخص ننگا نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ سوسائٹی کا کام ہونا چاہئے کہ ہر ایک کیلئے کپڑا مہیا کرے۔ آئندہ تم میں سے کوئی شخص پیاسا نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ سوسائٹی کا کام ہونا چاہئے کہ وہ تالابوں اور کنووں وغیرہ کا انتظام کرے۔ آئندہ تم میں سے کوئی شخص بغیر مکان کے نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ سوسائٹی کا کام ہونا چاہئے کہ وہ ہر ایک کے لئے مکان مہیا کرے۔ یہ وہ پہلی وحی ہے جو دنیا میںنازل کی گئی اور یہ وہ پہلا تمدّن ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ دنیا میں قائم کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے دنیا پر اِس حقیقت کو ظاہر فرمایا کہ خدا سب کا خدا ہے وہ امیروں کا بھی خدا ہے، وہ غریبوں کا بھی خدا ہے۔ کمزوروں کا بھی خدا ہے اور طاقتوروں کا بھی خدا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ دنیا کا ایک طبقہ تو خوشحالی میں اپنی زندگی بسر کرے اور دوسرا روٹی اور کپڑے کیلئے ترستا رہے۔
یہی وہ نظام تھا جو اسلام نے اپنے زمانہ میں دوبارہ قائم کیا۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ نظام جلدی مٹ گیا مگر اِس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ دنیا میں جتنے بڑے کام ہیں اُن میں بھی یہی قانون پایا جاتا ہے کہ وہ کئی لہروں سے اپنی بلندی کو پہنچتے ہیں۔ ایک دفعہ دنیا میں وہ قائم ہو جاتے ہیں تو کچھ عرصہ کے بعد پُرانے رسم و رواج کی وجہ سے مٹ جاتے ہیں مگر دماغوں میں ان کی یاد قائم رہ جاتی ہے اور ایک اچھا بیج دنیا میں بویا جاتا ہے اور ہر شریف اور منصف مزاج انسان تسلیم کرتا ہے کہ وہ چیز اچھی تھی مجھے دوبارہ اس چیزکو دنیا میں واپس لانا چاہئے۔ پس گو یہ نظام ایک دفعہ مٹ گیا مگر اب اُسی نظام کو دوبارہ احمدیت دنیا میں قائم کرنا چاہتی ہے۔ وہ ایک طرف حد سے زیادہ دولت کے اجتماع کو روکے گی دوسری طرف غرباء کی ترقی کے سامان کرے گی اور تیسری طرف ہر شخص کے لئے کھانے پینے کپڑے اور مکان کا انتظام کرے گی۔
خلاصہ یہ کہ اسلام کا اقتصادی نظام مبنی ہے:-
(۱) دولت جمع کرنے کے خلاف وعظ پر۔
(۲) دولت حد سے زیادہ جمع کرنے کے محرکات کو روکنے پر۔
(۳) جمع شدہ دولت کو جلد سے جلد بانٹ دینے یاکم کر دینے پر۔
(۴) حکومت کے روپیہ کو غرباء اور کمزوروں پر خرچ کرنے اور اُن کی ضروریات کو مہیا کرنے پر۔ اور یہی نظام حقیقی اور مکمل ہے کیونکہ اس سے
(۱) اُخروی زندگی کیلئے سامان بہم پہنچانے کا موقع ملتا ہے۔
(۲) سادہ اور مفید زندگی کی عادت پڑتی ہے۔
(۳) جبر کا اس میں دخل نہیں ہے۔
(۴) انفرادی قابلیت کو کُچلا نہیں گیا۔
(۵) باوجود اِس کے غرباء اور کمزوروں کے آرام اور اُن کی ترقی کاسامان مہیا کیا گیا ہے۔
(۶) اور پھر اس سے دشمنیوں کی بنیاد بھی نہیں پڑتی۔
کمیونزم
اِس نظام کے مقابلہ میں چونکہ کمیونزم کا نظام کھڑا کیا گیا ہے اور اِس پر خاص طور پر زور دیا جاتا ہے اِس لئے میں اَب کچھ باتیں کمیونزم کے متعلق کہنا چاہتا ہوں۔
کمیونزم کا دعویٰ ہے کہ:
اوّل ہر ایک سے اُس کی قابلیت کے مطابق کام لیا جائے۔
دوم ہر ایک کو اُس کی ضرورت کے مطابق خرچ دیا جائے۔
سوم باقی روپیہ حکومت کے پاس رعایا کے وکیل (TRUSTEE)کی صورت میں جمع رہے۔
اُن کی بنیاد اس امر پر ہے کہ تمام انسانوں میں مساوات ہونی چاہئے کیونکہ اگر ہر شخص کام کرتا ہے تو ہر شخص مساوی بدلہ کا مستحق ہے اور کوئی شخص زائد دولت اپنے پاس رکھنے کا حقدار نہیں اوراگر کسی شخص کے پاس زائد دولت ہو تو وہ اُس سے لے لینی چاہئے۔ یہ اُس کا اقتصادی نظریہ ہے۔اِس نظریہ کا ایک سیاسی ماحول بھی ہے مگر چونکہ میرا مضمون سیاسی نہیں بلکہ اقتصادی ہے اِس لئے مَیں اُسے نہیں چھوتا۔
جہاں تک نتیجہ کا سوال ہے یہ بات بالکل درست ہے کہ دنیا میں ہر انسان کو روٹی ملنی چاہئے، ہر انسان کو کپڑا ملنا چاہئے، ہر انسان کو رہائش کیلئے مکان ملنا چاہئے، ہر انسان کے علاج کا سامان ہونا چاہئے، ہر انسان کی تعلیم کی صورت ہونی چاہئے۔یعنی بنی نوع انسان کی ابتدائی حقیقی ضرورتیں بہرحال پوری ہونی چاہئیں اور کوئی شخص بھوکا یا پیاسا یا ننگا نہیں رہنا چاہئے۔اِسی طرح کوئی شخص ایسا نہیں ہونا چاہئے جو بغیر مکان کے ہو، جس کی تعلیم کی کوئی صورت نہ ہو اور جس کے بیمار ہونے کی صورت میں اُس کے علاج کا کوئی سامان موجود نہ ہو۔ پس جہاں تک اِس نتیجہ کا سوال ہے اسلام کی تعلیم کو اس سے کُلّی طور پر اتفاق ہے۔ وہ سَو فیصدی اِس بات پر متفق ہے کہ پبلک کا اقتصادی نظام ایسا ہی ہونا چاہئے اور اسلام کے نزدیک بھی وہی حکومت صحیح معنوں میںحکومت کہلا سکتی ہے جو ہر ایک کیلئے روٹی مہیا کرے، ہر ایک کیلئے کپڑا مہیا کرے، ہر ایک کیلئے مکان مہیا کرے، ہر ایک کی تعلیم کا انتظام کرے اور ہر ایک کے علاج کاانتظام کرے۔ پس اس حد تک اسلام کمیونزم کے نظریہ سے بالکل متفق ہے گو یہ فرق ضرور ہوگا کہ اگرکوئی شخص اپنی قابلیت کا اظہار کرنا چاہے تو کمیونزم کے ماتحت وہ نہیں کر سکتا کیونکہ اِس میں انفرادی جدوجہد کا راستہ بالکل بند کر دیا گیا ہے۔
اِسلام اور کمیونزم میں ایک فرق
درحقیقت انفرادی آزادی ایک طرف انسانی قابلیت کی نشوونما کے لئے ضروری ہوتی ہے
اور دوسری طرف موت کے بعد کی اعلیٰ زندگی کا دارومدار اقتصادیات میں انفرادی آزادی کے قیام پر ہے مگرکمیونزم انفرادی جدوجہد کا راستہ بند کرتی اور حُریتِ شخصی کو مٹا دیتی ہے جو ایک بہت بڑانقص ہے۔ یہ اختلاف ہے جو اسلام اور کمیونزم میں پایا جاتا ہے۔ مگر بہرحال نتیجہ سے اُسے کوئی اختلاف نہیں۔
روس نے اِس نظریہ پر عمل کر کے جو اقتصادی پروگرام بنایا ہے اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اُس نے اِس میں خاص ترقی کی ہے اور وہاں کے عام لوگوں کی مالی حالت یا یوں کہو (گو کمیونسٹ اِس سے متفق نہ ہوں) کہ یورپین حصہ کی مالی حالت آگے سے اچھی ہے اور ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہاں غرباء کو روٹی ملی، کپڑا ملا، مکان ملا، علاج کیلئے دوائیں میسر آئیں اور تعلیم کیلئے مدرسے اُن کے لئے کھولے گئے۔ پس جہاں تک روس کی کمیونسٹ پارٹی کے اِس نتیجہ کا تعلق ہے اسلامی روحِ اقتصادیات اِس پر خوش ہی ہوگی لیکن جیسا کہ اوپر کے بیان سے ظاہر ہے ذرائع اور بعض نتائج سے اسلام موافق نہیں ہو سکتا۔
کمیونزم پر مذہبی لحاظ سے بعض اعتراضات
مَیں چونکہ اسلام کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ اِس لئے سب
سے پہلے مَیں کمیونسٹ اقتصادی نظام کے اُن حصوںکو لیتا ہوں جو مذہب پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
سب سے پہلا اعتراض جو کمیونسٹ نظام پر مجھے اور ہر موت کے بعد کی زندگی کے ماننے والے کو ہونا چاہئے یہ ہے کہ اس میں شخصی طوعی جدوجہد جو زندگی کے مختلف شعبوں میں ظاہر ہو کر انسان کو اُخروی زندگی میں مستحق ثواب بناتی ہے اُس کے لئے بہت ہی کم موقع باقی رکھا گیا ہے۔ بجائے اِس کے کہ اُس سے ضروری حصہ دولت کا لے کر باقی حصہ کے خرچ کو اُس پر چھوڑا جائے کہ وہ اُسے جس رنگ میں چاہے صرف کرے۔ اُس کی خوراک اور لباس کے سِوا اُس کے پاس کچھ چھوڑا ہی نہیں گیا کہ وہ اپنی اُخروی زندگی کے لئے بھی کوئی جدوجہد کرے۔ وہ روٹی کھا سکتا ہے، وہ کپڑاپہن سکتا ہے، وہ رہائش کے لئے مکان لے سکتا ہے، وہ اپنا علاج کرا سکتا ہے، وہ اپنی تعلیم سے بے فکر ہو سکتا ہے مگر اُخروی زندگی کے لئے اُس کے پاس ایک پیسہ بھی چھوڑا نہیں جاتا۔ گویا اُس کی چالیس پچاس سالہ زندگی کی تو فکر کی گئی ہے مگر اُس عقیدہ کے رو سے جو غیر متناہی زندگی آنے والی تھی اُس کو یونہی چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جسے کوئی شخص جو مذہب کی سچائی پر یقین رکھتا ہو اور اُس کے احکام پر عمل کرنا اپنی نجات کے لئے ضروری سمجھتا ہو ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ مثلاًاسلام اُن مذاہب میں سے ہے جو اپنے پیروؤں کو یہ حکم دیتا ہے کہ جائو اور دنیا میں تبلیغ کرو، جائو اور لوگوں کو اپنے اندر شامل کرو کیونکہ دنیا کی نجات اسلام سے وابستہ ہے۔ وہ شخص جو اسلام سے باہر رہے گا نجات سے محروم رہے گا اور اُخروی زندگی میں ایک مجرم کی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا۔ تم ایک مسلمان کو یہ عقیدہ رکھنے کی وجہ سے پاگل کہہ لو، بے وقوف کہہ لو، جاہل کہہ لوبہرحال جب تک وہ اسلام کی سچائی پر یقین رکھتا ہے، جب تک وہ بنی نوع انسان کی نجات صرف اسلام میں داخل ہونے پر ہی منحصر سمجھتا ہے اُس وقت تک وہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ مَیں اپنے ہر اُس بھائی کو جو اسلام میں داخل نہیں اسلام کاپیغام پہنچائوں، اُسے تبلیغ کروں اور اُس پر اسلام کے محاسن اِس عمدگی سے ظاہر کروں کہ وہ بھی اسلام میں داخل ہو جائے۔ـ آخر اگر یہ بنی نوع انسان کا خیر خواہ ہے، اگر یہ اُن کی بھلائی اورعاقبت کی بہتری کا خواہشمند ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ اُن کے سامنے اس پیغام کو پیش نہ کرے جو اُس کے عقیدہ کی رو سے انسان کی دائمی حیات کے لئے ضروری ہے۔ اگر یہ اپنے دوست کے متعلق پسند نہیں کرتا کہ وہ گڑھے میں جا گرے، اگر یہ اپنے دوست کے متعلق پسند نہیں کرتا کہ دشمن اُسے گولی کا شکار بنائے تو یہ کس طرح پسند کر سکتا ہے کہ اَبدالآباد کی زندگی میں وہ دوزخ میں ڈالا جائے اور خدا تعالیٰ کی جنت اور اُس کے قُرب اور اُس کی رضامندی سے محروم ہو جائے۔ چاہے تم کچھ کہہ لو ایک مذہب سے وابستہ انسان کی انتہائی آرزو یہی ہوگی کہ وہ اپنے بھائی کی اعتقادی اور عملی حالت کو درست کرے لیکن کمیونسٹ نظام میں اِس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اُس کی جدوجہد کو اوّل تو سیاسی طور پر روکا جائے گا چنانچہ ہمارا اپنا تجربہ اِس کی تصدیق کرتا ہے۔ مَیںنے ایک احمدی مبلّغ روس میں بھجوایا مگر بجائے اِس کے کہ اُسے تبلیغ کی اجازت دی جاتی اُسے قید کیا گیا۔ اُسے لوہے کے تختوں کے ساتھ نہایت سختی کے ساتھ باندھ کر اور کئی کئی دن بھوکا اور پیاسا رکھ کر مارا پیٹا گیا اور اُسے مجبور کیا گیا کہ وہ سؤر کا گوشت کھائے اور یہ مظالم برابر ایک لمبے عرصہ تک اُس پر ہوتے چلے گئے۔ (حضور نے اس موقع پر مولوی ظہورحسین صاحب مجاہد روس کو کھڑے ہونے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا) یہ وہ صاحب ہیں جنہیں مبلّغ بنا کر بھیجا گیا تھا۔ دو سال دو ماہ کم اِن کو تاشقند، عشق آباد اور ماسکو کے قید خانوں میں رکھا گیا اور لوہے کے تختوں کے ساتھ باندھ باندھ کر مارا گیا اور اِنہیں بار بار مجبور کیاگیا کہ سؤر کا گوشت کھائو یہاں تک کہ اِن متواتر مظالم کے نتیجہ میں اِن کی دماغی حالت خراب ہوگئی۔ اِس پر وہ اِنہیں ایران کی سرحد پر لا کر چھوڑ گئے۔ وہاں کے برطانوی سفیر نے گورنمنٹ آف اِنڈیا کو اطلاع دی اور گورنمنٹ آف انڈیا نے مجھے تار دیا کہ آپ کے ایک مبلّغ کو روسی حکومت ایران کی سرحد پر لا کر چھوڑ گئی ہے۔ چنانچہ مَیں نے گورنمنٹ کو لکھا کہ اِس مبلّغ کو آپ ہمارے پاس بھجوا دیں اور آپ کا جس قدر خرچ ہو وہ ہم سے وصول کریں۔ اِس پر گورنمنٹ نے اِن کو ہندوستان پہنچا دیا۔ پس یہ وہ ہمارے مبلّغ ہیں جنہیں دو ماہ کم دو سال شدید ترین عذابوں میں مبتلا رکھا گیا اور کسی ایک مرحلہ پر بھی اِن کو مذہبی تبلیغ کی اجازت روس میں نہ دی گئی۔
پس اوّل تو وہ سیاسی طور پر تبلیغ کی اجازت نہیں دیتے لیکن چونکہ یہ اقتصادی مضمون ہے اِس لئے اسے نظر انداز بھی کر دو تو سوال یہ ہے کہ ایک اقلیت اکثریت کے مذہب کو بدلنے کے لئے کس قدر قربانی کے بعد لٹریچر وغیرہ مہیا کر سکتی ہے۔ مثلاً ہماری جماعت ہی کو لے لو۔ ہم اقلیت ہیں مگر دنیا میں اسلام کو پھیلانا چاہتے ہیں۔ ہمارے آدمی اگر روس میں تبلیغ کرنے کیلئے جاتے ہیں تو ہر شخص یہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ۱۷ کروڑ رشین کو مسلمان بنانے کے لئے کتنے کثیر لٹریچر کی ضرورت ہے اور کتنا مال ہے جو اِس جدوجہد پر خرچ آ سکتا ہے۔ ہماری جماعت اِس جدوجہد کو اُسی صورت میں جاری رکھ سکتی ہے جب اِس کی کمائی اِس سے پوری نہ چھین لی جائے اور کھانے پینے اور پہننے کے علاوہ بھی اِس کے پاس روپیہ ہو تا وہ اس سے اِن اخراجات کو پورا کر سکے جن کو وہ اپنی اُخروی بھلائی کیلئے ضروری سمجھتی ہے۔ لیکن کمیونزم کا اقتصادی نظام تو کسی کے پاس زائد روپیہ رہنے ہی نہیں دیتا کیونکہ وہ اس جدوجہد کو کام ہی نہیں سمجھتا۔ اس کے نزدیک مادی کام کام ہیں لیکن مذہبی کام کام نہیں ہیں۔ وہ مشین چلانے کو کام سمجھتا ہے، وہ ہل چلانے کو کام سمجھتا ہے۔ وہ کارخانے میں کام کرنے کو کام سمجھتا ہے لیکن خدائے واحد کے نام کی بلندی اور اس کے دین کی اشاعت کے کام کو وہ کام نہیں سمجھتا کیونکہ وہ الہام کو نہیں مانتا۔ وہ شریعت کو نہیں مانتا۔ـ وہ مذہب کو نہیں مانتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ مذہبی لوگ پاگل ہیں اور اپنے وقت کو ضائع کر رہے ہیں۔ اس لئے اِن مبلّغوں کی خوراک یا لباس یا رہائش وغیرہ کی حکومت ذمہ دار نہیں ہوسکتی۔ حکومت اُن کی اسی صورت میں ذمہ دار ہو سکتی ہے جب وہ کام کریں جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ مادی کام کریں۔ مذہبی اور روحانی کاموں سے دست بردار ہو جائیں۔ پس کمیونزم کے ماتحت اسلام روس میں اپنی اس جدوجہد کو جاری ہی نہیں کر سکتا۔ جاری رکھنا اورمسلسل جاری رکھتے چلے جانا تو الگ رہا۔ ایک مسلمان کے نزدیک خواہ وہ بھوکا رہے۔ مگر اُخروی زندگی درست ہو جائے تو وہ کامیاب ہے اور اپنے بھائی کے متعلق اس کا یہ نظریہ ہے کہ اگر دنیا بھر کی دولت اس کے پاس ہو لیکن اُخروی زندگی اُس کو نہ ملے۔ ہدایت اُس کو میسر نہ آئے خدا تعالیٰ کی رضا اس کو حاصل نہ ہو تو وہ ناکام ہے۔
جس شخص کا یہ عقیدہ ہو اس کی خیر خواہی اُسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے گمراہ بھائی کی اُخروی زندگی کیلئے سامان مہیا کرے۔ مگر اُس سے اُس کا سارا مال لے لیا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ ہم وطن کی جان بچاتے ہیں اور اُس کی روح کو مرنے دیا جاتا ہے۔ جہاں تک روٹی اور کپڑا اور مکان مہیا کرنے کا سوال تھا۔ جہاں تک تعلیم مہیا کرنے کا سوال تھا۔ جہاں تک علاج مہیا کرنے کا سوال تھا ہم اسلامی تعلیم کے ماتحت اُن سے متفق تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ اس قدر ٹیکس ضرور لگنا چاہئے کہ دنیا میں ہر فرد کو یہ تمام ضروریات میسر آجائیں۔ مگر یہاں تو دوسرا نقطہ یہ بھی ہے کہ اپنی روٹی کپڑے سے زائد سب کچھ حکومت کو دے دو اور اپنے عقیدہ کی اشاعت میں کوئی حصہ نہ لو۔ گویا ہم نے تو اُن کی تائید کی اور اس لئے کہ ہمارا مذہب بھی یہی تعلیم دیتا ہے۔ مگر انہوں نے بجائے مذہب کا شکرگزار ہونے کے اور اُس کی اشاعت کی اجازت دینے کے یہ کہہ دیا کہ ہم خدا اور اس کے رسول کا نام پھیلانے کی تمہیں اپنے مُلک میں اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ بیکاری اور قوم پر بوجھ بن کر بیٹھ جانا ہے اگر کمیونسٹ یہ کہتے کہ ہم مذہب کے مخالف ہیں اور اُسے غیرضروری قرار دیتے ہیں تو گو پھر بھی ہمیں اختلاف ہوتا۔ مگر ہمیں افسوس نہ ہوتا۔ ہم سمجھتے کہ جو کچھ ان کا دل میں عقیدہ ہے اسی کو اپنی زبان سے ظاہر کر رہے ہیں۔ مگر ہمیں افسوس ہے تو یہ کہ کمیونسٹ یہ بات ظاہر نہیں کرتے۔ وہ کھلے بندوں یہ نہیں کہتے کہ ہم اپنے نظام کے ماتحت تمہارے مذہب کو اپنے مُلک میں پھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے بلکہ وہ گھر کے پچھلے دروازہ سے گھر میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر مذہب کے ماننے والے اُس وقت اُن کی اس چالاکی سے واقف ہوتے ہیں جب کہ وہ اپنی شخصیت کھو چکے ہوتے ہیں اور کمیونزم سے ان کی ہمدردی اور محبت اتنی بڑھ چکی ہوتی ہے کہ اُن کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے۔کمیونزم اگر کھلے بندوں کہے کہ ہم اُخروی زندگی کو کوئی وقعت نہیں دیتے ہم اُس کے پر چارک کے لئے کوئی سامان تمہارے پاس نہیں چھوڑنا چاہتے تو آنکھوں کھلے لوگ اُس میں داخل ہوں۔ مگر دوسرے ممالک میں اِس حصہ کو پوری طرح مخفی رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کمیونزم صرف ایک اقتصادی نظام ہے مذہب سے اِس کا کوئی ٹکراؤ نہیں۔ حالانکہ مذہب نام ہے تبلیغ کرنے کا، مذہب نام ہے ایک دوسرے کو خداتعالیٰ کے احکام پہنچانے کا خواہ یہ تقریر کے ذریعہ ہو یا تحریر کے ذریعہ ہو،لٹریچر کے ذریعہ ہو یاکتابوں کے ذریعہ ہو مگر کمیونزم تو کسی انسان کے پاس کوئی زائد روپیہ چھوڑتا ہی نہیں۔ پھر ایک مذہبی ٹریکٹ کس طرح چھپوائے اور کتابیں کس طرح مُلک کے گوشہ گوشہ میں پھیلائے۔ اِس پابندی کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مذہب کی اشاعت رُک جائے اورلامذہبیت کا دَور دَورہ ہو جائے۔
دین کے لئے زندگی وقف کرنے میں کمیونسٹ نظام کی روکیں
اب اس سوال کا دوسرا پہلو لے لو ہر مسلمان یہ کہتا ہے کہ مَیں روپیہ نہیں مانگتا لیکن میں اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف
کردیتا ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ میں سارے روس میں پھروں گا اور اپنے خیالات اُن لوگوں پر ظاہر کروں گا۔ میں گاؤں بہ گاؤں اور قصبہ بہ قصبہ اور شہر بہ شہر جاؤں گااور لوگوں کو اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کروں گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کمیونسٹ گورنمنٹ ایک مسلمان کو اپنی زندگی وقف کرنے اور اسلام کی اشاعت کے لئے اپنے مُلک میں پھرنے کی اجازت دے گی۔ یا جبراً اُسے اس کام سے روکے گی اور اُسے جیل کی تنگ و تاریک کوٹھٹریوں میں محبوس کر دے گی۔ یقینا اس کا ایک ہی جواب ہے کمیونسٹ گورنمنٹ اُسے جبراً اس کام سے روکے گی اُسے دین اور مذہب کا کام نہیں کرنے دے گی۔ اُسے قیدخانہ میں بند کردے گی اور اُسے کہے گی کہ یا تو کوئی اورکام کرو ورنہ یاد رکھو اس قسم کے کام کے ساتھ تمہیں روٹی اور کپڑا نہیں مل سکتا۔ گویا خدا کے لئے میرا اپنی زندگی کو وقف کر دینا ،میرا قرآ ن کی تعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دینا،میراحدیث کی تعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دینا جس کے بغیر میرے عقیدے کی رو سے میری اُخروی زندگی سدھر ہی نہیں سکتی کمیونزم کے نزدیک نکماپن ہے، یہ بے کاری اور وقت کا ضیاع ہے۔ کمیونسٹ حکومت اسلام کی اشاعت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والے کو کہے گی کہ اگر تم نے مذہب کی اشاعت کا کام کیا تو یاد رکھو یا تو تمہیں قید کر دیا جائے گا اور یا تمہاری روٹی اور کپڑا بند کر دیا جائے گا۔حالانکہ قرآن کریم اس قسم کے افراد کی جماعت کو قومی لحاظ سے نہایت ضروری قرار دیتا ہے اور مذہب کو ماننے والے اِس امر کے قائل ہیں کہ ایک حصّہ اُن کے افراد کا پوری طرح مذہبی نظام کے قیام کے لئے فارغ ہونا چاہئے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۳۰؎ یعنی اے مسلمانو! تم میں سے ایک جماعت پورے طور پر مذہبی نگرانی کے لئے دنیوی کاموں سے فارغ ہونی چاہئے اور اس جماعت کے افراد کا یہ کام ہونا چاہئے کہ وہ نیک باتوں کی طرف لوگوں کو بلائیں، عمدہ باتوں کی تعلیم دیں اور بُرے اخلاق سے لوگوں کو روکیں پس اسلامی تعلیم کے ماتحت ایک حصہ کلی طور پر اس غرض کے لئے وقف ہونا چاہئے۔ یہ صحیح بات ہے کہ اسلام زندگی وقف کرنے والوں کو کوئی خاص حقوق نہیں دیتا مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک خاص کام ان کے سپرد کرتا ہے۔ اسلام پادریّت(PRIESTHOOD) کا قائل نہیں مگر وہ مذہبی نظام کا ضرور قائل ہے۔عیسائیت تو جن لوگوں کے سپردتبلیغ کا کام کرتی ہے ان کو دوسروںسے بعض زائد حقوق بھی دے دیتی ہے مگر اسلام کہتا ہے کہ ہم ان لوگوں کو کوئی زائد حق نہیں دیں گے جو دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں گے لیکن یہ ضرو ر ہے کہ زندگی وقف کرنے والے کے سپرد خاص طور پر یہ کام ہو گا کہ وہ اسلام کو پھیلائے اور تبلیغی یا تربیتی نقطۂ نگاہ سے ہر وقت اسلام کی خدمت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑامقصد سمجھے۔ اِس قسم کے لوگوں کی نفی کر کے نظامِ اسلام کبھی باقی نہیں رہ سکتا۔ آخر ایک تفصیلی آئین بغیر اس کے ماہروں اور بغیر اس کے مبلّغوں کے کس طرح چل سکتا ہے۔ اسلام وہ مذہب ہے جو دنیا کے تمام مذاہب میں سے سب سے زیادہ مکمل ہے اور وہ ایک وسیع اور کامل آئین اپنے اندر رکھتا ہے۔ وہ عبادات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ اقتصادیات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ سیاسیات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ آقا اور ملازمین کے حقوق کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ معلّم اور متعلّم کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ میاں اور بیوی کے حقوق کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ تجارت اور لین دین کے معاملات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ ورثہ کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ بین الاقوامی جھگڑوں کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ قضاء کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے غرض ہزاروں قسم کی تعلیمیں اور ہزاروں قسم کے قانون ہیں جو اسلام میں پائے جاتے ہیں اور اُن میں سے ایک ایک امر مکمل تعلیم اور کامل معلّموں کو چاہتا ہے جو رات دن اِسی کام میں لگے رہیں۔ جب تک اس تفصیلی آئین کو سکھانے والے لوگ اِسلام میں موجود نہیں ہوں گے لوگ سیکھیں گے کیا؟اور کس سے؟ اور اسلام پر مسلمان عمل کس طرح کریں گے اور اسلام دنیا میں پھیلے گا کس طرح ؟ـ
تفسیر کا علم خود ایک مکمل علم ہے۔ جب تک مفسّر نہ ہو یہ علم زندہ نہیں رہ سکتا اور مفسّر بننے کے لئے سالہاسال تک تفاسیر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، لُغت کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، صرف ونحو کا مطالعہ کرنے کی ضرروت ہے، احادیث کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، پھر پُرانی تفاسیر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، دوسرے مذاہب کی کتب اور ان کی تاریخ خصوصاً تاریخ عرب اور تاریخ بنی اسرائیل اور بائیبل کے مطالعہ کی ضرورت ہے بغیر اِن باتوں کے جاننے کے کوئی شخص قرآن کریم کے مطالب کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا سوائے اِس کے کہ اللہ تعالیٰ براہِ راست کسی کو سمجھائے مگر ایسے آدمی دنیا میں کتنے ہوتے ہیں۔ صدیوں میں کوئی ایک آدھ ایسا پیدا ہوتا ہے باقی تو کسب سے جو تقویٰ کے ساتھ ہو یہ مرتبہ حاصل کر سکتے ہیں ۔ لیکن کمیونسٹ تو اس کام کو کام ہی نہیں سمجھتے وہ کسی کو قرآن کریم اور تفسیر اور عربی بارہ سال تک پڑھنے اور پھر دوسروں کو پڑھانے کا موقع کب دے سکتے ہیں۔ وہ تو ایسے شخص کو یا قید کر دیں گے یا اس کا کھانا پینا بند کر دیں گے کہ وہ نکما اور قوم پر بوجھ ہے۔ اِسی طرح حدیث کا علم بھی علاوہ درجنوں حدیث کی کتب کے ، درجنوں اُن کی تشریحات کی کتب کے اور اس کے ساتھ لغت اور صرف ونحو اور اَسماء الرجال کی کتب پر مشتمل ہے بغیر حدیث کے علم کے مسلمانوں کو اسلام کی تفصیلات کا علم ہی نہیں ہو سکتا۔ اور بغیر اس علم کے ماہرین کے جو اپنی عمر اس علم کے حصول میں خرچ کریں مسلمانوں میں اِس علم کی واقفیت پیدا ہی نہیں ہو سکتی مگر کمیونزم تو اس علم کے پڑھنے کو بھی لغو اور فضول اور بے کار قرار دیتی ہے۔ وہ اس علم کے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو اپنی عمر اس علم کے حصول میں قطعاً خرچ نہ کرنے دے گی۔ یا ایسے آدمی کو قید کرے گی یا اُسے فاقوں سے مارے گی کیونکہ وہ اُس کے نزدیک بیکار وجود ہے اور قوم پر بار۔ مگر مسلمان بغیر اس علم کے ماہر ین کے اپنے دین سے نہ واقف ہو سکتے ہیں نہ اس پر کار بند ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح علمِ فقہ ، علمِ قضاء، علمِ تاریخ اسلام، علمِ تصوف، علمِ معاشِ اسلامی، علمِ اقتصادِ اسلامی ایسے علوم ہیں کہ اُن کے جاننے والوں کے بغیر اسلامی جماعت کو جہاں تک اسلام کا تعلق ہے زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ مگر کمیونزم نہ اِن علوم کے پڑھانے والوں کو اپنے مُلک میں رہنے دے سکتی ہے اور نہ پڑھنے والوں کو ۔ کیونکہ وہ ان لوگوں کو بے کار قرار دے کر ان کے لئے گزارہ کی صورت پیدا نہیں کرتی اور عوام کے پاس سوویٹ اقتصادیات کے ماتحت اِس قدر روپیہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ان لوگوںکے گزارہ کی خود صورت پیدا کریں جیسا کہ ہندوستان ،چین، عرب وغیرہ ممالک میں مسلمان اسلامی علماء اور طلباء کے گزارہ کی صورت پیدا کر رہے ہیں۔ حق یہ ہے کہ اسلام اور دیگر مذاہب اور کمیونزم کے کام کی تشریح میں سخت اختلاف ہے ۔
اسلام اور کمیونزم کے کام کی تشریح میں اختلاف
ہمارے نزدیک جو شخص مشین چلا رہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے اور جو شخص مذہب پھیلارہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے اور جو مذہب کی تعلیم دے رہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے اور
جو مذہب کی تعلیم حاصل کر رہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے۔مگر اُن کے نزدیک جو شخص مشین چلاتا ہے۔ وہ تو کام کرنے والا ہے ـمگر جو شخص مذہب پڑھتا یا پڑھاتا یا پھیلاتا ہے وہ نکما اور بے کار ہے۔ اُن کے نزدیک لوگوں کو الفؔاور باؔسکھاناکام ہے مگر لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اگر لوگوں کو سکھایا جائے تو یہ کام نہیں بلکہ نکما پن ہے۔ پس گو لفظاً ہم اُن سے متفق ہیں اور ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ کام کرنے والا ہی روٹی کا مستحق ہو نا چاہئے مگر اس امر میں ہم ہر گز اُن سے متفق نہیں ہیں کہ جب تک ایک کمیونسٹ کسی کام کی تصدیق نہ کرے وہ کام ہی نہیں ہے۔ کمیونسٹ کے نزدیک اُخروی زندگی کے لئے کام کام نہیں بلکہ وقت کا ضیاع ہے۔ اُس کے نزدیک قرآن پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، حدیث پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، فقہ پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، اصول فقہ پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، تفسیر پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، تصوف پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، لوگوں کو اخلاق کا درس دینے والا وقت ضائع کر رہا ہے، ایک مسلمان کے نزدیک یہ اُس کی جان سے زیادہ قیمتی اشیاء ہیں اور اِن علوم کو زندہ رکھنے اور پھیلانے کے لئے ہزاروں انسانوں کی ضرورت ہے۔ صرف روس میں کہ جہاں مسلمان تین کروڑ ہیں کم سے کم پچاس ہزار علماء اور اتنے ہی طلباء چاہئیں جو آئندہ اُن کی جگہ لیں۔ مگرکمیونزم نظام کے نزدیک یہ تمام لوگ جو قرآن پڑھانے والے، حدیث پڑھانے والے، تفسیر پڑھانے والے، تصّوف پڑھانے والے ، فقہ پڑھانے والے، اصولِ فقہ پڑھانے والے یا اخلاق کا درس دنیا کودینے والے ہیںخون کو چوس لینے والے قوم کو تباہ کردینے والے کیڑے ہیں یہ نکمے اور نالائق وجود ہیں۔ یہ اپنی قوم پر بار ہیں اور یہ لوگ اس قابل ہیں کہ اِن کو جلد سے جلد دنیا سے مٹا دیا جائے۔
اب دیکھو ہمارے نظریہ اور اُن کے نظریہ میں کتنا بڑا فرق ہے اور مشرق و مغرب کے اس قدر بُعد کو کسِ طرح دُور کیا جاسکتا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض لوگ دھوکے باز بھی ہوتے ہیں اور وہ دین کی خدمت کا دعویٰ کر کے اپنے اعمال اس کے مطابق نہیں بناتے مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ شخص جو دین کی سچی خدمت کر رہا ہو، جو اسلام کی اشاعت کیلئے اپنی زندگی کو قربان کر رہا ہو ہم اُسے اپنا سردار سمجھتے ہیں، اُسے قومی زندگی کیلئے بمنزلہ رُوح سمجھتے ہیں اور ہم اُسے اپنا بڑے سے بڑا محسن سمجھتے ہیں مگر کمیونسٹ ایسے لوگوں کو ادنیٰ سے ادنیٰ اور ذلیل سے ذلیل تروجود قرار دیتے ہیں۔ وہ اُن کو نکما اور قوم کا غدّار سمجھتے ہیں اور اُن کے نزدیک یہ لوگ اس قابل ہیں کہ یا تو ان کو قید کر دیا جائے اور یا اپنے مُلک سے باہر نکال دیا جائے۔ـ
کمیونسٹ نظام میں انبیاء علیہم السلام کا درجہ
اِس تفصیل کے ماتحت کمیونزم نظام میں وہ شخص جس کے
پَیروں کی مَیل کے برابر بھی ہم دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ کو نہیں سمجھتے، جس کیلئے ہم میں سے ہر شخص اپنی جان کو قربان کرنا اپنی انتہائی خوش بختی اور سعادت سمجھتا ہے یعنی حضرت محمد مصطفیﷺ جو رات اور دن خدا کی باتیں سنا کر بنی نوع انسان کی روح کو روشن کیا کرتے تھے اِسی طرح مسیحؑ، موسیٰؑ، ابراہیمؑ، کرشنؑ، رام چندرؑ، بدھؑ، زرتشتؑ، گورونانکؒ، کنفیوشسؑ یہ سب کے سب نَعُوْذُ بِاللّٰہِ نکمے اور قوم پر بار تھے اور ایسے آدمیوں کو اُن کے قانون کے ماتحت یا تو فیکٹریوں میں کام کے لئے بھجوادینا چاہئے تاکہ اُن سے جوتے بنوائے جائیں یا اُن سے بوٹ اور گرگابیاں تیار کرائی جائیں یا اُن سے کپڑے سلائے جائیں یا اُن کو لوگوں کے بال کاٹنے پر مقرر کیا جائے اور اگر یہ لوگ اِس قسم کا کام کرنے کے لئے تیار نہ ہوںتو پھر اُن کا کھانا پینا بند کیا جانا چاہئے کیونکہ اُن کے نزدیک یہ لوگ نکمے اور قوم پر بار ہیں۔ کمیونسٹ نظام تصویر بنانے کو کام قرار دیتا ہے، وہ سیٹچو(STATUE) بنانے کو کام قرار دیتا ہے مگر وہ روح کی اصلاح کو کوئی کام قرار نہیں دیتا بلکہ اُسے نکما پن سمجھتا ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ روٹی ہی انسان کا پیٹ نہیں بھرا کرتی اور صرف غذا ہی اُس کے اطمینان کا موجب نہیں ہوتی بلکہ ہزاروں ہزار انسان دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں کہ اگر اُن کو عبادت سے روک دو تو وہ کبھی بھی چین نہیں پائیں گے خواہ اُن کی غذا اور لباس کا کس قدر خیال رکھا جائے۔
کمیونزم کا کام کے متعلق عجیب و غریب نظریہ
تعجب ہے کہ کمیونسٹ نظام چھ گھنٹہ فیکٹریوں میں کام کرکے سینما اور ناچ گھروں میں جانے والے اور شراب میں مست رہنے والے کو کام کرنے والاقرار دیتا ہے، وہ
فوٹوگرافی اور میوزک کو کام قرار دیتا ہے مگر وہ روح کی درستی اور اخلاق کی اصلاح کو کوئی کام قرار نہیں دیتا۔ پچھلے دنوں مارشل ماٹی نووسکائی ( MOTI NOOSKY) سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے لڑکے کس کام میں دلچسپی لیتے ہیں تو اُس نے ہنستے ہوئے کہا کہ
’’They are intrested in photography music and keeping rabbits.‘‘
گویا کمیونسٹ نظام میں ایک پندرہ سال کا بچہ جو فوٹوگرافی میں اپنے وقت کو گزار دیتا ہے، جو میوزک میں دن رات مشغول رہتا ہے، جو خرگوشوں کو پال پال کر اُن کے پیچھے بھاگتا پھرتا ہے وہ تو کام کرنے والا ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ اُسے روٹی دی جائے لیکن محمدرسولﷺ، مسیحؑ، موسیٰؑ ، کرشنؑ، بدھؑ، زرتشتؑ ، گورونانکؒ یہ اگر خدا کے نام کو دنیا میں پھیلاتے ہیں تو وہ جاہل کہتے ہیں کہ یہ ( نَغُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ) پیراسائٹس(PARASITES)ہیں۔ یہ سوسائٹی کو ہلاک کرنے والے جراثیم ہیں۔ یہ اِس قابل نہیں ہیں کہ اُن کو کام کرنے والا قرار دیا جائے حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوںنے دن کو بھی کام کیا اور رات کو بھی کام کیا۔ انہوں نے دن کو دن نہیں سمجھا اور راتوں کو رات نہیں سمجھا، تعیش کو انہوں نے اپنے اوپر حرام کر لیا اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بنی نوع انسان کی علمی اور اخلاقی اور روحانی اصلاح کے لئے کام کیامگر یہ لوگ اُن کے نزدیک نکمے اور قوم پر بار تھے۔ وہ سینما میں اپنے رات اور دن بسر کرنے والے تو کام کرنے والے ہیں اور یہ لوگ جو دن کو بنی نوع انسان کی اصلاح کا کام کرتے اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے یہ کوئی کام کرنے والے نہیں تھے۔ وہ لوگ جو مظلوموں کی مدد کیا کرتے تھے، جو اخلاق کو درست کیا کرتے تھے، جو ہر قسم کی تکالیف برداشت کر کے دنیا میں نیکی کو پھیلاتے اور بدی کو مٹاتے تھے وہ تو نکمے تھے اور یہ سینما میں جانے والے اور شرابیں پی پی کر ناچنے والے اور بانسریاں منہ کو لگا کر پیں پیں کرنے والے کام کرنے والے ہیں۔
سچے مسلمان کے لئے غیرت کا مقام
غرض جہاں تک واقعات کا سوال ہے کمیونسٹ نظام میں اِن لوگوں کی کوئی
جگہ نہیں۔مَیں دوسری دنیا کو نہیں جانتا مگر مَیں اپنے متعلق یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ نظام جس میں محمد رسول اللہﷺ کی جگہ نہیںخدا کی قسم! اُس میں میری بھی جگہ نہیں۔ ہم اُسی مُلک اور اُسی نظام کو اپنا نظام سمجھتے ہیں جس میں اِن لوگوں کو پہلے جگہ ملے اور بعد میں ہمیں جگہ ملے۔ وہ مُلک اگر محمد رسول اللہ ﷺکے لئے بند ہے تو یقینا ہر سچے مسلمان کے لئے بھی بندہے۔ وہ حقیقت پر پردہ ڈال کر مذاہب پر عقیدت رکھنے والوں کو اس نظا م کی طرف لاسکتے ہیں مگر حقیقت کو واضح کر کے کبھی نہیں لا سکتے۔ کمیونسٹ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم کسی مذہب کے خلاف نہیں ہیں مگر جیسا کہ مَیں نے اوپر بتایاہے یہ بات درست نہیں وہ لفظاً خلاف نہیں لیکن عملاً خلاف ہیں اور جبکہ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ وہ مذہب کی کوئی حیثیت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تو یہ کہنا کہ ہم مذہب کے خلاف نہیں ہیں جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے ۔
مذہبی تعلیم میں روک ڈالنے کے لئے مختلف ذرائع کا استعمال
اِس سلِسلہ میں ضمناً یہ بات بھی کہے جانے کے قابل ہے کہ روس میں مذہبی تعلیم میں روک ڈالی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ماں باپ کا یہ
ہرگز حق نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو مذہبی باتیں سکھائیں اور پیدا ہوتے ہی اُس کے کانوں میں ایسی باتیں ڈالنی شروع کر دیں جن کے نتیجہ میں وہ مذہب کی طرف مائل ہو جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بچے پر کتنا بڑاظلم ہے کہ اسے پیدا ہوتے ہی ایک مسلمان اسلام کی طرف مائل کرنا شروع کر دیتا ہے، ایک ہندو ہندو مذہب کی طرف مائل کرنا شروع کر دیتا ہے اور ایک عیسائی عیسائی مذہب کی طرف مائل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ انصاف کا طریق یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تو بلوغت تک اُسے مذہب کی کوئی بات سکھائی نہ جائے۔ دوسری طرف ہم بھی اُسے کوئی بات نہیں بتائیں گے۔ جب وہ بڑا ہوگا تو خود بخود فیصلہ کرلے گا کہ اُسے کونسا طریق اختیار کرنا چاہئے۔ اب بظاہر یہ ایک منصفانہ طریق نظر آتا ہے مگر حقیقتاً یہ بڑا بھاری ظلم اور تشدد ہے اِس لئے کہ اسلام یا عیسائیت یا ہندومت یہ سب مثبت مذاہب ہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فلاں فلاں چیز کا وجود ہے لیکن دہریہ یہ کہتے ہیں کہ اِس چیز کا وجود نہیں ہے۔ اب یہ سیدھی بات ہے کہ سکھانے کی تو مثبت والے کو ضرورت ہوتی ہے منفی والے کو کیا ضرورت ہے۔ پس یہ مساوات نہیں بلکہ دھوکے بازی اور فریب کاری ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو تم بھی کچھ نہ سکھاؤ اور ہم بھی کچھ نہیں سکھائیں گے تودوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم تو سکھائیں گے مگر تمہاری کوئی بات بچے کو سیکھنے نہیں دیں گے۔اب بتائو کیا کوئی بھی معقول آدمی اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ یہ منصفانہ طریق ہے یہ تو صریح یکطرفہ طریق ہے اور ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی کے باپ کے پاس جائے اور اُسے کہے کہ آپ بچے کو یہ نہ بتائیں کہ مَیں تمہارا باپ ہوں اور مَیں اُسے یہ نہیں کہوں گا کہ آپ اُس کے باپ نہیں ہیں اب بتائو اِس کے نتیجہ میں بچہ کیا سیکھے گا؟ یہی سمجھے گا کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے۔ یا ایک شخص مدرسہ میں جا کر اُستاد سے کہے کہ آپ بچے کو یہ نہ بتائیے کہ الف ہے اور مَیں اُسے یہ نہیں کہوں گا کہ یہ الف نہیں۔ آپ بچے کو یہ نہ بتائیے کہ یہ با ہے اور مَیں اُسے یہ نہیں کہوں گا کہ یہ با نہیں۔ بتائو اِس کے نتیجہ میں الف، با کا علم پیدا ہوگا یا جہالت پیدا ہوگی؟ یا ایک شخص کسی کے پاس جائے اور کہے کہ تم بچے کو یہ نہ بتائو کہ امریکہ ایک مُلک ہے اور مَیں اُسے یہ نہیں کہوں گا کہ امریکہ مُلک نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ آخر کیا ہوگا؟ یہی ہوگا کہ اُسے امریکہ کا علم نہیں ہوگا۔ غرض کوئی بھی معقول آدمی اِس سودے کو انصاف کا سَودا نہیں کہہ سکتا۔ اور اِس کی وجہ جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں یہ ہے کہ مذہب مثبت ہے اور دہریت اِگناسٹزم ہے یعنی نہ جاننے کا دعویٰ۔ تعلیم کی نفی کی صورت میں اگناسٹک کا مدّعا پورا ہوگیا اور نقصان صرف مثبت والے کو ہوا۔ پس یہ مساوات نہیں بلکہ دھوکے بازی ہے۔ اسلام وہ مذہب ہے جو دنیا کے سامنے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ۳۱؎ ہم انسان کو قرآن کریم کے ذریعہ وہ علوم سکھائیں گے جن کو وہ اس سے پہلے نہیں جانتا تھا۔ پس جب کہ اسلام دعویٰ ہی یہ کرتا ہے کہ ہم وہ علوم تمہیں بتائیں گے جو اس سے پہلے تم نہیں جانتے تھے۔ تو اگر تم کسی کو وہ علوم بتانے ہی نہیں دو گے تو تم ایک مسلمان کے برابر کس طرح ہوگئے۔ تم تو اُس بے علم کو اس حالت میں لے گئے جو اسلام سے پہلے زمانۂ جاہلیت کی حالت تھی اور مسلمان کو اس کے کام سے محروم کر دیا۔ اسی طرح بعض اور بھی سوالات ہیں جو اس جگہ پیدا ہوتے ہیں مگر چونکہ میں اِس وقت اُن سیاسی، علمی اور مذہبی سوالوں کو جو اقتصادیات سے جُدا ہیں نہیں چھو رہا اِس لئے میں اُن کا ذکر نہیں کرتا۔
مکمل مساوات ناممکن ہے
کمیونسٹ اقتصادیات کا جو اثر مذاہب پر پڑتا ہے اُس کی خرابیاں بتانے کے بعد اَب مَیں یہ بتاتا ہوںکہ یہ
نظام عقلاً بھی ناقص ہے۔ پوری مساوات کوئی شخص کر ہی نہیں سکتا۔ صرف روپیہ ہی تو انسان کی خوشی کا موجب نہیں ہوتا نہ صرف روٹی اُس کا پیٹ بھرتی ہے مگر پھر بھی سوال یہ ہے کہ کیا ہر شخص ایک سی روٹی کھاتا ہے؟ کیا ہر شخص ایک سا مزہ کھانے سے حاصل کر سکتا ہے؟ کیا ہر شخص کی نظر ایک سی ہے؟ کیا ہر شخص کی صحت ایک سی ہے اور کیا ان امور میں مساوات پیدا کی جا سکتی ہے؟ یہ چیزیں بھی تو انسان کا آرام بڑھانے کا موجب ہوتی ہیں۔ ذہنی قابلیتیں کس قدر تسلی کا موجب ہوتی ہیں مگر دنیا میں کیا کوئی گورنمنٹ اِن ذہنی قابلیتوں میں مساوات پیدا کر سکتی ہے؟ رشتہ داروں کی حیات انسان کے اطمینانِ قلب کا کس قدر موجب ہوتی ہے مگر کیا کوئی رشتہ داروں کی زندگی کا بیمہ لے سکتا ہے؟ کیا کوئی گورنمنٹ کہہ سکتی ہے کہ مَیں اس رنگ میں مساوات قائم کروں گی کہ آئندہ تیری بیوی بھی اتنے سال زندہ رہے گی اور فلاں شخص کی بیوی بھی اتنے سال زندہ رہے گی یا زید کے بھائی بھی اتنا عرصہ جیتے رہیں گے اور بکر کے بھائی بھی اتنا عرصہ زندہ رہیں گے؟ پھر اولاد کا وجود اور ان کی زندگی انسان کیلئے کس قدر تسلی کا موجب ہوتی ہے مگر کیا دنیا کی کوئی بھی گورنمنٹ ایسا کر سکتی ہے کہ سب کے ہاں ایک جتنی اولاد پیدا ہو، سب کی ایک جیسی قابلیت ہو اور سب کی ایک جتنی زندگی ہو؟ پھر رشتہ داروں کے دکھ سے انسان کو کیسا عذاب ہوتا ہے تم ہزار پلائو اور فرنیاں سامنے رکھ دو وہ ماں جس کا اکلوتا بچہ مرگیا ہے اُسے اِن کھانوں میں کوئی مزا نہیں آئیگا لیکن وہ ماں جس کے سینہ سے اس کا بچہ چمٹا ہوا ہو اُسے جو مزا باسی روٹی کھانے میں آتا ہے وہ اس بڑے سے بڑے مالدار کو بھی نہیں آتا جس کے سامنے بارہ یا چودہ ڈشوں میں مختلف قسم کے کھانے پک کر آتے ہیں۔ رشتہ داروں کے متعلق انسانی جذبات کی شدت کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابتداء میں جب بالشویک اور منشویک دو پارٹیاں بنیں تو مارٹوو (MARTOV, YULY 1873-1923)جولینن کی طرح اپنی پارٹی میں مقتدر تھا اس نے کہا کہ ہمیں اپنے قوانین میں یہ بھی لکھ لینا چاہئے کہ آئندہ ہماری حکومت میں پھانسی کی سزا کسی کو نہیں دی جائے گی کیونکہ انسانی جان لینا درست نہیں اور لوگ بھی اس سے متفق تھے اور وہ چاہتے تھے کہ پھانسی کی سزا کو اُڑا دیا جائے مگر لینن نے اُس سے اختلاف کیا اور کہا کہ گو اصولاً یہ بات درست ہے مگر اِس وقت اگر یہ بات قانون میں داخل کر دی گئی تو زار کو پھانسی پر لٹکایا نہیں جا سکے گا پس خواہ صرف زار کی جان لینے کیلئے اس قانون کو جاری رکھنا پڑے تب بھی یہ قانون ضرور قائم رہنا چاہئے ورنہ زار کو پھانسی پر لٹکایا نہیں جا سکے گا۔ لینن کی زار سے یہ انتہا درجہ کی دشمنی جس کی وجہ سے اُس نے پھانسی کی سزا کو منسوخ نہ ہونے دیا محض اس وجہ سے تھی کہ اُس کے بھائی کو زارسٹ حکومت نے کسی جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ لینن کے دل میں اپنے بھائی کی شدید محبت تھی اِس لئے اُس نے چاہا کہ پھانسی کا قانون قائم رہے تا کہ وہ اپنے بھائی کی موت کا بدلہ زار سے لے سکے اور اُسے پھانسی پر لٹکا کر اپنے دل کو ٹھنڈا کر سکے۔ غرض رشتہ داروں کا دکھ بھی اتنا سخت ہوتا ہے کہ روٹی کا دُکھ اُس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا۔ مگر کیا کوئی بھی گورنمنٹ اِس میں مساوات قائم کر سکتی ہے اور کیا کوئی شخص کسی گورنمنٹ سے اپنے رشتہ داروں کی زندگی کا بیمہ لے سکتا ہے؟ پس دل کا چین اور حقیقی راحت بغیر مذہب اور خدا تعالیٰ سے تعلق کے حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ امور اُسی کے اختیار میں ہیں۔ تم روٹی بیشک برابر کی دے دو، کپڑا بے شک یکساں دے دو لیکن انسان کو حقیقی چین اُس وقت تک حاصل نہیں ہوگا جب تک اُس کا خدا سے تعلق نہ ہو کیونکہ روٹی کپڑے کے علاوہ ہزاروں چیزیں ہیں جن میں کمی بیشی سے دل کا چین جاتا رہتا ہے اور اُن کا دینا محض اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔
کمیونزم کی حق ملکیت میں دخل اندازی
(۲) روس، زار کے زمانہ میں صنعتی مُلک نہ تھا بلکہ بڑے بڑے زمینداروں
کا مُلک تھا اس لئے کمیونزم کو براہ راست تعلق زمینوں سے تھا نہ کہ صنعت سے۔ کارل مارکس نے اگر سرمایہ داری پر کچھ لکھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جرمنی میں پَلا اور وہیں کی یونیورسٹی میں اُس نے تعلیم پائی۔ لینن وغیرہ نے جب اُس کے فلسفہ کو اپنایا تو اس کی تعلیم سرمایہ داری کو زمینداری طریق پر چسپاںکرنے کی کوشش کی اور یہ اصول مقرر کیا کہ:
(۱) زمین حکومت کی ہے۔
(۲) اس لئے مُلک کی سب زمینوں کو لے کر اُس آبادی میں جو خودزمیندارہ کام کرے زمین تقسیم کر دینی چاہئے۔
(۳) جس قدر زمین میں کوئی ہل چلا سکے اُسی قدر زمین اُس کے پاس رہنے دینی چاہئے اس سے زائد نہیں
(۴) چونکہ زمین حکومت کی ہے اِس لئے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا ضروری ہے۔ کاشتکار چونکہ حکومت کا نمائندہ ہے اُسے کاشت کے بارہ میں حکومت کی دخل اندازی کو تسلیم کرنا چاہئے۔
اسلام میں حق ملکیت
اسلام کی تعلیم جس کے اصول پہلے بتائے جا چکے ہیں اس بارہ میں یہ ہے کہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے حق ملکیت
کو جو جائز طور پر ہو تسلیم کیا ہے مگر اِس کے ساتھ یہ حکم دیا ہے کہ زمین کا مالک اپنی زمین کو اپنی اولاد میں ضرور تقسیم کرے (لڑکے کا ایک حصہ لڑکی کا نصف حصہ اور والدین کا ۳؍۱) اور کسی ایک بچے کے پاس نہ رہنے دے۔ اگر اولاد نہ ہو تب بھی وہ ماں باپ اور بہن بھائیوں میں تقسیم ہو۔ اگر وہ بھی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کی نمائندہ حکومت کے پاس وہ زمین لَوٹ جائے۔ ۳؍۱سے زائد کوئی شخص اپنی جائداد کو وصیت میں نہیں دے سکتا لیکن یہ ۳؍۱ حصہ وارثوں میں سے کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ کس قدر پُرحکمت یہ تعلیم ہے۔
(۱) بوجہ ملکیت کو تسلیم کرنے کے ہر شخص جس کے پاس زمین ہوگی اُسے بہتر طور پر کاشت کرے گا کیونکہ اس کے گزارہ کا مدار اس زمین پر ہوگا
(۲) اس کے بچے یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس زمین پر کاشت کریں گے اِس فن میں مہارت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے
(۳) اگر زمین نسبتی طور پر زیادہ بھی ہوگی تو تقسیم وارثت کے ذریعہ سے لازماً کم ہوتی چلی جائے گی
(۴) چونکہ اسلام زمین کو اللہ تعالیٰ کی ملکیت قرار دیتا ہے اس لئے ناجائز طور پر بہت سی زمین کسی کے پاس نہیں جا سکتی۔ ناجائز سے مراد یہ ہے کہ اسلام کے سوا دوسرے نظاموں میں مفتوحہ مُلکوں کی زمین بادشاہ کے ساتھیوں یا بارسوخ ہم قوموں میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔ اسی نظام کی وجہ سے نارمنڈی -B۳۱؎ کے بادشاہوں نے انگلستان، سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کے بعض علاقوں کی زمینیں چند امراء میں تقسیم کر دیں اور باقی سب لوگ بغیر زمین کے رہ گئے حتیّٰ کہ لوگوں کو مکان بنانے کیلئے بھی زمین نہ ملتی تھی۔ بلکہ پُرانے قانون کے ماتحت لوگ مکانوں تک کے لئے امراء سے زمین نہ خرید سکتے تھے اور آخر لمبے مقاطعہ کی صورت میں زمینوں کی خرید و فروخت کا طریق جاری ہوا لیکن پھر بھی بہت سے قصبات کی عمارتیں بڑے زمینداروں کے قبضہ میں ہیں جو لوگوں کو کرایہ پر دے کر اپنا تصرف لوگوں پر قائم رکھتے ہیں۔ فرانس میں بھی اور جرمنی اور آسٹریا میں بھی ایک حد تک ایسا ہی ہوا۔ اٹلی میں بھی ایک لمبے عرصہ تک یہی حال رہا اور نپولین کی جنگوں کے بعد کسی قدر اصلاح ہوئی۔ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی ترقی میں بھی بڑے زمینداروں کی ایک جماعت اِسی طرح پیدا ہوگئی کہ پُرانے باشندوں کی زمین کے جتنے وسیع رقبہ پر کوئی قبضہ کر سکا اس نے قبضہ کر لیا۔ آسٹریا میں بھی ایسا ہوا اور کینیا کالونی میں بھی اِسی طرح ہوا کہ بعض انگریزوں نے لاکھ لاکھ ایکڑ پر قبضہ کر لیا اور پُرانے باشندوں کو محروم کر دیا۔
مفتوحہ علاقہ کی زمین پر قبضہ کرنے کے متعلق اسلام کا بہترین نمونہ
اس کے مقابل پر اسلامی فتوحات میں عرب میں تو فاتحین کو افتادہ زمینوں میں سے کچھ حصہ دیا گیا کیونکہ عرب میں تو
زمین ہی کم ہے اس سے وہ ناجائز طور پر بڑے زمیندار نہیں ہو سکتے تھے لیکن یمن اور شام میں جو پُرانے زمیندار تھے اُن ہی کے پاس زمین رہنے دی گئی۔ عراق کا علاقہ چونکہ غیرآباد تھا اور ایرانی اسلام کی فتح پر اس علاقہ کو چھوڑ گئے تھے اور یہ علاقہ دو دریائوں کے درمیان ہے اس لئے وہاں بہت سی اُفتادہ زمین مسلمانوں کو ملی مگر باوجود اس کے کہ لشکرِ اسلام کے بعض جرنیلوں نے اس وقت کے عام دستور کے مطابق اس زمین کو جو افتادہ اور سرکاری تھی فاتحین میں بانٹنے کی کوشش کی۔ حضرت عمرؓ نے اِس بناء پر تقسیم کرنے سے انکار کیا کہ اس سے آئندہ نسلوں اور عامۃ الناس مسلمانوں کو نقصان ہوگا اور اُسے گورنمنٹ کی ملکیت ہی رہنے دیا گیا۔ اِسی طرح مصر میں بھی زمین وہاں کے سابق باشندوں کے پاس رہنے دی گئی۔ غرض اسلامی نظام کی جو تعبیر ابتدائے اسلام میں کی گئی اس میں یہ امر تسلیم کر لیا گیا کہ اُفتادہ زمین کو بجائے امراء میں بانٹ دینے اوربڑے بڑے زمینداروں کی جماعت تیار کرنے کے جیسا کہ یورپین نظام کے ماتحت ہوا ہے حکومت کے قبضہ میں رکھنا چاہئے تا کہ آئندہ نسل اور آبادی کی ترقی پر سب مُلک کی ضرورت کا انتظام ہو سکے جس کی وجہ سے اسلامی نظام کے ماتحت بڑی زمینداریوں کا قیام عمل میں نہیں آیا۔ گو بعد میں اسلام کی تعلیم پر پورا عمل نہیں ہوا پھر بھی اسلامی تعلیم کے اثر سے مسلمان بادشاہ پوری طرح آزاد نہیں ہوئے اور ہندوستان میں جب اسلامی حکومت آئی تو یہاں بھی یہی فیصلہ کیا گیا کہ مقبوضہ زمینیں پُرانے باشندوں کے قبضہ میں رہنی چاہئیں اور اُفتادہ زمین حکومت کے قبضہ میں۔ اور ہندوستان کی بڑی زمینداریاں سب کی سب انگریزی زمانہ کی پیداوار ہیں۔ جب انگریز آئے تو انہوں نے اپنے انتظام کی سہولت کے لئے پُرانے تحصیلداروں یا ریونیو افسروں کو اُن کے علاقوں کا مالک قرار دے کر بنگال اور یو۔پی میں بڑے زمینداروں کی جماعت قائم کر دی حالانکہ یہ لوگ اصل میں صرف تحصیلدار تھے۔ اس نئے انتظام کے ماتحت غریب زمینداروں کو ان کے حق سے محروم کر دیا گیا۔
غرض اسلامی نظام زمیندارہ کے متعلق بھی ویسا ہی مکمل ہے جیسا کہ دوسرے اقتصادی امور میں۔ اس میں بڑے زمینداروں کی جگہ نہیں یعنی حکومت مُلکی زمینوں سے بڑے زمیندار نہیں بنا سکتی۔ ہاں کوئی شخص زمین خرید کر اپنی زمین کچھ بڑھا لے تو یہ اور بات ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ زمین خرید کر بڑھانا معمولی کام نہیں کیونکہ جس روپیہ سے زمین خریدی جائے گی وہ اگر تاجر کا ہے تو وہ تجارت کے زیادہ فائدہ کو زمین کی خاطر نہیں چھوڑے گا اور اگر روپیہ زمیندار کا ہے تو بہرحال محدود ہوگا۔ زمیندار کی کمائی سے حاصل کردہ روپیہ سے خریدی ہوئی زمین کبھی بھی کسی زمیندار کو اتنا نہیں بڑھنے دے گی کہ وہ مُلک کی اقتصادی حالت کو خراب کر سکے۔ پھر تقسیم وراثت کے ذریعہ سے اُس کی زمین کو بھی ایک دو نسلوں میں کم کر دیا جائے گا۔
اسلام کی کمیونزم کے مقابل پر بڑی زمینداریوں کو مٹانے کی بہترین سکیم
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی قانون کے مطابق کسی شخص کو خواہ وہ بے اولاد ہی کیوں نہ ہو ۳؍۱ سے زائد کی وصیت
کرنی جائزنہیں۔ پس اگر کوئی شخص صاحبِ اولاد ہوگا تو اُس کی زمین تقسیم ہو کر کم ہوتی جائے گی اور اگر وہ اپنے خاندان کی وجاہت کے قیام کے لئے ۳؍۱اپنی اولاد میں سے کسی کو دینا چاہے گاتو اِس کی اسلام اُسے اجازت نہ دے گا کیونکہ وصیّت وارثوں کے حق میں اسلام جائز نہیں قرار دیتا غیر وارثوں کے حق میں جائز قرار دیتا ہے۔ اور اس طرح زمین کی تقسیم سے روک کر بڑی رمینداریوں کے قیام کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ اور اگر کوئی لاوارث ہو تو اسلام اُسے بھی ۳؍۱ حصّہ کی وصیّت کی اجازت دیتا ہے باقی زمین اُس کی گورنمنٹ کے پاس چلی جائے گی اور اس طرح پھر مُلک کے عوام کے کام آئے گی۔
اِس نظام میں بھی یہ خوبی ہے کہ بڑے زمیندار جو نسلوں تک دوسروں کے لئے روک بن کر کھڑے رہیںاِس کے ماتحت نہیں بن سکتے مگر اس کے ساتھ ہی شخصی آزادی میں بھی کوئی فرق نہیں آتا اور ذہنی ترقی، عائلی ہمدردی اور ایسے نیک کاموں میں حصہ لینے کا راستہ کھلا رہتا ہے جن کو انسان اپنی عاقبت کی درستی کے لئے ضروری سمجھے۔ اس کے بر خلاف کمیونزم نے جو تجاویز اپنے نظام کے لئے پسند کی ہیں وہ شخصی آزادی کو کچلنے والی، عائلی ہمدردی کو مٹانے والی اور دین کی خدمت سے محروم کرنے والی ہیں اور پھر اُن کے جاری کرنے میں وہ کُلّی طور پر ناکام بھی رہے ہیں۔
کمیونزم نے زمین کے متعلق یہ نظریہ قائم کیا تھا کہ زمین سب کی سب مُلک کی ہے اور اس لئے حکومت کی ہے۔ اس طرح سب زمینداروں کو اُنہوں نے مزدور بنا دیا حالانکہ تاجراپنی جائداد کا جو سامان کی صورت میں ہو ایک حد تک مالک سمجھا جاتا ہے۔ اپنے مقرر کردہ اصل کو عملی شکل دینے کے لئے کمیونزم نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ زمین حکومت کی ہے اِس لئے حکومت کو اختیار ہے کہ وہ جہاں جو چیز بونا مناسب سمجھے زمیندار کو اُسی کے بونے پر مجبور کرے اور چونکہ زمیندار اپنے تجربہ کی بناء پر خاص خاص اجناس کے بونے میں ماہر ہوتے ہیں اِس لئے یہ بھی اصل تسلیم کیا کہ زمینداروںکو اُن کی قابلیت کے مطابق جس علاقہ میں چاہے بھجوادے۔ جب اس نظام کو اُس کی تمام تفاصیل کے مطابق مُلک میں رائج کیا گیا تو زمینداروں نے محسوس کیا کہ:
(۱) ان کو محض مزدور کی حیثیت دے دی گئی ہے اور عام تاجر اور صنّاع سے بھی اُن کا درجہ گرا دیا گیا ہے۔
(۲) اُن کے عائلی نظام کو تہہ و بالا کر دیا گیا ہے کیونکہ اِس کے یہ معنی ہیں کہ وہ زمین کو عمدہ بنانے میں جو بھی محنت کریں اُن کی نسل اُن کی محنت سے فائدہ اُٹھانے سے روک دی جائے گی۔
(۳) اُن کو ہر وقت اپنے وطنوں سے بے وطن ہونے کا خطرہ ہوگا۔
(۴) وہ اپنی روزمرّہ کی ضروریات زمین سے پیدا نہ کر سکیں گے بلکہ وہی اشیاء بو سکیں گے جن کی حکومت انہیں اجازت دے اور اس طرح اُن کا وہ پُرانا نظام جس کے ماتحت وہ اپنے گاؤں اور قصبہ میں مکمل زندگی بسر کر رہے تھے تباہ ہو جائے گا۔
ان حالات کو دیکھ کر انہوں نے بغاوت کر دی اور سالہاسال تک روس میں زمینداروں کی بغاوت زور پر رہی اور اجناس کی پیداوار بہت کم ہوگئی۔ آخر موسیو سٹالن نے اس نظام کو منسوخ کر کے پُرانے نظام کو پھر قائم کیا۔ زمینداروں کو اُن کی زمینوں کا مالک قرار دیا گیا اور فصل بونے کے بارہ میں بہت حد تک اُن کو آزادی دے دی گئی۔ اس طرح بغاوت تو فروہوگئی لیکن خودبالشویک لیڈر کے فیصلہ کے مطابق کمیونسٹ نظام کی غلطی پر مہر لگ گئی۔ چنانچہ موسیوسٹالن کے دشمنوں نے اُن پر ایک یہ الزام بھی لگایا ہے کہ زمینوں کے متعلق لینن کے مقررکردہ نظام کو انہوں نے توڑ کر کمیونزم سے بغاوت کی ہے۔ اور موسیوسٹالن نے اِس کا جواب یہ دیا ہے کہ اصل نصب العین کمیونزم کا عوام کی حکومت ہے سواس نصب العین کے حصول کے لئے اگر دوسرے اصول بدل دیئے جائیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں مگر بہر حال اُن کے جواب سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی کہ کمیونزم ایک مستقل فلسفہ کی حیثیت میں کم سے کم زمینوں کے متعلق اقتصادی نظام قائم کرنے میں بالکل ناکام رہی ہے اور خود اس کے لیڈروں نے اسے تسلیم کر لیا ہے کہ اس کے اصول بطور ایک فلسفہ کے جاری نہیں کئے جاسکتے بلکہ حسبِ ضرورت اُن میںتبدیلی کرنی پڑتی ہے اور کمیونزم کے سِوا دوسرے اصولوں کی مدد سے مُلک اور قوم کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ اسلام کے کامیاب اقتصادی نظام کے مقابل پر یہ زبردست ناکامی اسلامی تعلیم کی برتری کا ایک بیّن ثبوت ہے اور اس بات کا ثبوت بھی کہ کمیونزم کوئی اصولی فلسفہ نہیں بلکہ محض ایک سیاسی تحریک ہے جس کی اصل غرض روس کو طاقتور بنانا ہے اور اُسے مذہب کے مقابل پر کھڑا کرنا سچائی اور دیانت کا منہ چڑانا ہے۔ چنانچہ اسٹیفن کنگ حال ممبر پارلیمنٹ انگلستان حال ہی میں روس میں دورہ کر کے آئے ہیںـ اُن کا ایک مضمون ’’SOVIET UNION‘‘ ماہ جون میں چھپا ہے۔ اِس میں وہ لکھتے ہیں کہ روس کے اِس وقت دو بڑے مقصد ہیں۔
(۱) روسں کو ازسرِ نو تعمیر کرنا۔
(۲) روس کو دنیا میں سب سے بڑا، سب سے اچھا، سب سے زیادہ مالدار قوم بنانا۔ (دیکھو SOVIET UNION NEWS. VOL-IV NO.6) پس کمیونزم محض ایک سیاسی تحریک ہے اور اس کی اصل غرض روس کو طاقتور بنانا ہے۔
کمیونزم تحریک کے نتیجہ میں علمی ترقی کی بندش
(۳) تیسرا نقص کمیونزم میں یہ ہے کہ اس نظام کی وجہ سے جوکمیونزم نے قائم کیا ہے گو روٹی کپڑا ملتا ہے مگر اس کا ایک بہت بڑا نقص یہ ہے کہ اس سے آئندہ علمی ترقی
بالکل رُک جائے گی اس لئے کہ روٹی اور کپڑے کے لئے جتنا روپیہ ایک شخص کو ملتا ہے وہ اتناناکافی ہوتا ہے کہ اس میں سفر کرنا اور دنیا میں پھر نا ایک کمیونسٹ کے لئے بالکل ناممکن ہے۔ جب تک روسیوں کو اقتصادیات میں حُریّتِ شخصی حاصل تھی وہ اپنے روپیہ کا ایک حصہ مختلف سفروں کے لئے رکھ لیتے تھے۔ وہ دنیا میں پھرتے تھے، مختلف مُلکوں اور قوموں میں گھومتے تھے، غیر اقوام سے مل کر اُن کے حالات کا جائزہ لیتے تھے اور پھراُن معلومات سے خود فائدہ اُٹھاتے تھے اور دوسروں کے فائدہ کے لئے اُن معلومات کو اپنے ملک میں شائع کر دیتے تھے اور ملک کے لوگ اُن کی معلومات سے فائدہ اُٹھاکر ترقی کی شاہراہ کی طرف پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ قدم بڑھانے لگتے تھے۔ یہی حقیقی مدرسہ مُلکوں کی علمی ترقی کے لئے قانونِ قدرت نے قائم کیا ہے اور اِس میں پڑھ کر قومیں ترقی کی طرف قدم اُٹھاتی چلی آئی ہیں۔ قرآن کریم نے بھی باربار مختلف مُلکوں کی سیر اور اُن کے حالات دیکھنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اس کے بغیر نکتہ نگاہ وسیع نہیں ہوتا اور مختلف ممالک کے علوم کا آپس میں تبادلہ نہیں ہوتا۔ مگر اب کمیونسٹ سسٹم کی وجہ سے اُن کا لوگوں سے ملنا، دنیا کے حالات معلوم کرنے کے لئے مختلف ممالک میں پھرنابالکل ناممکن ہوگیا ہے اور جہاں جہاں کمیونزم پھیلے گی یہی نتیجہ وہاں بھی پیدا ہوگا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ قوم میں ذہنی تنزّل واقعہ ہو جائے گا۔ کمیونسٹ گورنمنٹ کا کوئی نمائندہ تو دوسرے مُلکوں میں دیکھا جاسکتا ہے مگر کمیونسٹ خیالات کے کسی عام روسی کی شکل دیکھنا اب لوگوں کے لئے ایسا ہی ہوگیا ہے جیسے ہُما کی تلاش ہوتی ہے۔ مجھے وسیع ذرائع حاصل ہیں مگر اَب تک مجھے بھی کسی آزاد روسی کمیونسٹ کو دیکھنے کا موقع نہیں ملاہاں حکومت کے نمائندے مل جاتے ہیں۔ یہ نتیجہ ہے اِس بات کا کہ لوگوں کے پاس کوئی زائد روپیہ رہنے ہی نہیں دیا جاتا۔ روٹی اور کپڑے کی ضروریات کے علاوہ جو کچھ ہوتا ہے حکومت لے جاتی ہے اور لوگ بالکل خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ کہا جاتاہے جب حکومت اپنے نمائندے باہر بھجوادیتی ہے تو اُن کے ذریعہ سے غیر ملکی خیالات اور ایجادات مُلک میں آسکتی ہیں لیکن یہ درست نہیں کیونکہ
(۱) اوّل حکومت کا نمائندہ انہی باتوں کے اخذ کرنے پر مجبور ہے جن کے لئے حکومت اُسے بھجوائے۔
(۲) انسانی ذہنوں اور میلانوں میں بے انتہا فرق ہے۔ کسی شخص کا اپنے شوق سے جانا اور اپنے میلان کے مطابق ایک بات کو اخذ کرنا یہ بالکل مختلف ہے اس سے کہ حکومت خود چن کر کسی شخص کو بھجوائے۔ ایسا منتخب کردہ شخص ہر میلان والے گروہ کی ترقی کا سامان پیدا نہیں کر سکتا۔
(۳) خود مختلف ممالک کے لوگوں کا کثرت سے باہم ملنا انسانی دماغ کی ترقی اور صلح اور امن اور اتحاد کے پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے اِس نظام کی وجہ سے اس کا راستہ بالکل مسدود کر دیا گیا ہے۔
اس وقت جو آزاد روسی باہر ملتے ہیں وہ یا کمیونزم کے مخا لف ہیں جو اپنے مُلک کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں یا وہ کمیونسٹ ہیں جوحکومت کی طرف سے پروپیگنڈا کے لئے مقرر ہیں لیکن اپنے اثر کو وسیع کرنے کے لئے غیر مُلکوں میں جاکر جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ آزاد روسی ہیں اورحکومت سے ان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ جب زائد روپیہ عوام کے پاس ہوتا ہی نہیں تو وہ دُوردراز کا سفر کس طرح کر سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا کراچی سے لاہور آتے ہوئے مجھے ایک دوست نے بتایا کہ ائیر کنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ میں ایک روسی ہے جو اپنے آپ کو آزاد سیاح بتاتا ہے اور کمیونزم کی تائید میںبہت کچھ پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ مَیں نے اُس دوست سے کہا کہ اس سے کہو کہ تمہارا آزاد روسی ہونے کا دعویٰ سر اسر جھوٹا ہے۔ تمہارے نقطہ نگاہ سے میں ایک بڑا زمیندار ہوں مگر میں سیکنڈ میں سفر کر رہاہوں۔ تمہارے ہاں تو بڑے زمیندار ہوتے ہی نہیں تم ایک کسان ہو کر یا مزدور ہو کر کس طرح اتنے دُور دراز علاقہ کا سفر اس عیاشی کے ساتھ کر رہے ہو۔ اگر تمہارا مزدور اور کسان ائیر کنڈیشنڈ کمرہ میں ہزاروں میلوں کا سفر کر رہا ہے تو ہندوستان کے ان لوگوں کے خلاف تمہارا جوش کس امر پر مبنی ہے جو تم سے بہت کم آرام حاصل کر رہے ہیں اور جن کا حال درحقیقتتمہارے مزدوروں کا سا ہے۔ تم سے جو درحقیقت حکومت کے گماشتے ہو ان کو کوئی نسبت ہی نہیں کیونکہ تمہاری دولت اور ان کے گزارہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
کمیونزم نظام قائم رکھنے کے لئے سونٹے کی ضرورت
(۴) چوتھا نقص اس نظام میں یہ ہے کہ جب بھی اِس میں خرابی پیدا ہوئی اور اِس تحریک پر زوال آیا مُلک میں ڈکٹیٹر شپ قائم ہوگی اور نتائج پہلے
سے بھی خطر ناک ہو جائیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ اس نظام میں قابلیّت کو مٹا کر دماغ کو ضائع کر دیا گیا ہے اِس لئے جب بھی تنزّل ہوگا یہ تحریک کُلّی طور پر گر جائے گی اور خلا کو پُر کرنے کے لئے سوائے ڈکٹیٹر کے اور کوئی چیز میسر نہ آئے گی۔ جرمنی نے اگر ہٹلر کو قبول کیا تو کمیونسٹ میلانات کی وجہ سے، جو جرمنی میں شدت سے پیدا ہو رہے تھے۔ فرانس کا تجربہ بھی اِس پر گواہ ہے جب فرانس کے باغیوں میں تنزّل پیدا ہوا تو اس کے نتیجہ میں نپولین جیسا جبارپیدا ہوگیا۔ جمہور میں سے جمہوریت کا کوئی دِلدادہ اس جگہ کو نہ لے سکا۔ اسی طرح بے شک کمیونزم اپنی حکومت کو پرولی ٹیری ایٹ(PRPLETAROATE) کہہ لے یا اِس کا نام ٹوٹیلی ٹیرین (TOTALITARIAN) حکومت رکھ لے اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ نظام آخر چکّر کھا کر ایک ڈکٹیٹر کی شکل اختیار کر لے گا بلکہ اِس وقت بھی عملی رنگ میں یہی حالت ہے کیونکہ گو یہ لوگ اقتدارِ عوام کے حامی ہیں لیکن عملاً حکومت کا اقتدار عوام کے ہاتھ میں دینا پسند نہیں کرتے۔ چنانچہ روس میں ایک منٹ کے لئے بھی جمہوری حکومت قائم نہیں ہوئی بلکہ ڈکٹیٹر شپ ہی چلی جارہی ہے۔ لینن پہلا ڈکٹیٹر تھااب دوسراڈکٹیٹر سٹالن بنا ہوا ہے۔ سٹالن کے بعد شاید موسیومولوٹوف ڈکٹیٹر بن جائیں گے اور جب مولوٹوف مرے تو کسی اور ٹوف یا خوف کی باری آجائے گی۔ بہرحال اس قسم کے نظام کو سونٹے کی مدد کے سوا کبھی قابو میں نہیں رکھا جا سکتا اور روس کا تجربہ اس امر پر شاہد ہے۔
(۵) پانچواں نقص کمیونزم کے اقتصادی نظام میں یہ ہے کہ اِس میں سُود کی ممانعت کو بطور فلسفہ کے اختیار نہیں کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں انفرادی سُودی بنک نہیں ہیں۔ اِس وقت تک مجھے اس بارہ میں کوئی تحقیقی علم نہیں اس لئے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن انفرادی سُودی بنکوں کا نہ ہونا اورسُود کو اصولی طور پر بُرا سمجھنا دونوں بالکل متبائن باتیں ہیں۔ انفرادی سُودی بنک کا نہ ہونا سامان میسر نہ آنے کے سبب سے بھی ہو سکتا ہے۔ اوربنکنگ کے اصول سے عام پبلک کی ناواقفیت کے سبب سے بھی ہوسکتا ہے،مصلحتِ وقتی کے ماتحت بھی ہو سکتا ہے۔ جب سامان میسر آجائیں یا پبلک کا ترقی کرنے والا حصّہ بنکنگ سسٹم سے آگاہ ہوجائے یا وقتی مصلحت بدل جائے تو انفرادی بنک مُلک میں جاری ہو سکتے ہیں لیکن اگر کوئی قوم کسی بات کواصولی طور پر بُرا سمجھتی ہے تو خواہ حالات بدل جائیں، خواہ اِس بات کا باریک اور عملی علم حاصل ہوجائے، خواہ سامان کثرت سے مہیّا ہوں وہ قوم اِس بات کوکبھی اختیار نہیں کرے گی کیونکہ اُس کا اِس بات کوترک کرنا اصولی بناء پر تھا نہ وقتی مشکلات یا وقتی مصالح کی بناء پر۔
غرض روس میں اگر افراد سے لین دین کرنے والے بنک نہیں ہیں تو اِس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ کیپٹلزم کی جڑ کو جو سُودہے روس نے کاٹ دیا ہے۔مَیں نے کہا ہے کہ مجھے اس بارہ میں ذاتی علم نہیں لیکن ایک بات واضح ہے اور وہ یہ کہ کمیونزم کے لٹریچر میں سُود کی ممانعت کا کوئی ذکر نہیں۔ اور یہ بات مجھے اِس بات کا دعویٰ کرنے کا حق دیتی ہے کہ کمیونزم سُود کی اصولی طور پر مخالف نہیں۔ پھر میں دیکھتا ہوں کہ روسی گورنمنٹ دوسری حکومتوں سے جو سُود کے بغیر کوئی کام نہیں کرتیں روپیہ قرض لیتی ہے اس امر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کمیونزم سُود کی مخالف نہیں ہے بلکہ اِس کے حق میں ہے ۔ کیونکہ اگر وہ سُود کے حق میں نہ ہوتی تو سُود پر رقوم قرض کیوں لیتی۔ نیز موجودہ جنگ میں روس نے اپنے ملکی لوگوں سے بھی بہت روپیہ قرض لیا ہے۔ میں قیاس کرتا ہوں کہ یہ روپیہ بھی سُود پر ہی لیا گیا ہے۔
اگر میری یہ رائے درست ہے کہ کمیونزم سُود کے خلاف نہیں بلکہ اس کے حق میں ہے اور بہت سے واقعات میری رائے کی تائید کرتے ہیں تو یہ امر بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ روس میں سُودی کاروبار کی کمی محض ایک وقتی امر ہے اور سابق نظام میں ایک غیر معمولی تغیر کا نتیجہ ہے لیکن جب کمیونسٹ لوگ روس سے باہر جانے لگیں گے تو وہاں کاروبار کے لئے وہ سُود پر روپیہ لیں گے اور جب مُلک زیادہ ترقی کرے گا اور صنعت وحرفت اور زراعت ترقی کریں گے تو یورپ کی دوسری اقوام کی طرح کمیونسٹ بھی اِن کاموں کی ترقی کے لئے سُود کا کاروبا کریں گے۔اِسی طرح جنگوں کو کامیاب طور پر چلانے اور وسیع صنعتی ترقی کے لئے سٹیٹ بنک کی شاخیں مُلک میں کثرت سے کھولی جائیں گی اور آخر سُود اُسی طرح کمیونزم کو کیپٹلزم کی طرف لے جائے گا جس طرح دوسرے مغربی ممالک کو لے گیا ہے۔
(۶) چھٹا نقص کمیونسٹ اقتصادی نظام کا جس کی وجہ سے کیپٹلزم کچلا نہیں جا سکتا ایکسچینج (EXCHANGE) کے طریق کا جواز ہے۔ وہی تبادلۂ سکہ کا طریق جو بنکوں کی وجہ سے اور حکومتوں کے تداخل کی وجہ سے اِس زمانہ میں جاری ہوا ہے کمیونزم بھی اُسی کی تائید کرتا ہے اور اُسی کے مطابق عمل کرتاہے۔ موجودہ زمانہ میں ایکسچینج ریٹ ( یعنی دومُلکوں کے سکوںکی متبادل قیمتوں کی تعیین) دو مُلکوں کی تجارت کے طبعی توازن پر نہیں رہا بلکہ کمزور مُلکوں کے مقابل پر تو بنکوں کے ہاتھ میں اُس کی کنجی ہے۔ اور طاقتور مُلکوں کی شرح مبادلہ خود حکومتیں مقرر کرتی ہیں اور قیمت کی تعیین میں تجارتِ موجودہ کے علاوہ یہ غرض مدّنظر ہوتی ہے کہ کس مُلک سے کس قدر آئندہ تجارت کرنا اِس حکومت کے مقصود ہے۔ ہمیشہ شرح تبادلہ پر غریب مُلک شور مچاتے رہتے ہیں لیکن چونکہ اُن کے پاس جواب دینے کے لئے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ موجود نہیں ہوتی اس لئے خاموش ہوجاتے ہیں اور اس طرح زبردست مُلک کمزور مُلک کو تجارتی طور پر کمزور کر دیتا ہے حالانکہ تبادلہ شرح ایک بناوٹی اصول ہے وہ اصول جس پر دو مُلکوں کے تجارتی تعلقات کی بنیاد قائم ہونی چاہئے تبادلۂ اشیاء ہے یا تبادلۂ قیمت یعنی سونا چاندی۔ لیکن بجائے اشیاء کے تبادلہ یا سونے چاندی پر تجارت کی بنیاد رکھنے کے ایکسچینج ریٹ پر تجارت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جس کی وجہ سے غیرمتمدن ممالک بنکوں کے ہاتھوں پر پڑ گئے ہیں اور متمدن ممالک میں بنکوں میں تجارت سیاست کے تابع چلی گئی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایکسچینج کی وجہ سے تجارت میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے اور موجودہ زمانہ کی بڑھی ہوئی تجارت بغیر کسی آسان طریق تبادلہ کے سہولت سے جاری نہیں رکھی جاسکتی لیکن یہ ضرروری نہیں کہ شرح تبادلہ کو سیاسیات کے تابع رکھا جائے اور کمزور مُلکوں کے لُوٹنے کا ذریعہ بنایا جائے بلکہ اگر غور کیا جائے تو سابق بارٹرسسٹم کو جس میں اشیاء کا اشیاء کے مقابلہ میں تبادلہ ہوتا ہے نہ کہ ایکسچینج ریٹ کے اصول پر، ایسے طریق پر ڈھالا جاسکتا ہے کہ موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق وہ ہوجائے اور حکومتوں کادخل اِس سے ہٹا دیا جائے۔ بلکہ مختلف ممالک کے تاجروں اور حکومت کے نمائندوں کے مشورہ سے وقتاً فوقتاً مختلف ممالک کے لئے ایکسچینج کا ایک ایسا طریق مقرر کیا جائے جس کا بنیادی اصول تبادلۂ اشیاء ہو نہ کہ کاغذی روپیہ کی مصنوعی قیمت پر ۔
جرمنی نے گزشتہ جنگ کے بعد ایکسچینج (EXCHANGE) میں سیاسی دخل اندازی کر کے اپنے کاغذی روپیہ کو اس قدر سستا کر دیا کہ سب دنیا کی دولت اس طرف کھنچی چلی آئی اور جب کافی سرمایہ غیر مُلکوں سے تجارت کرنے کے لئے اُس کے پاس جمع ہو گیا تو اُس نے اپنے کاغذی سکہ کو منسوخ کر دیا اور اس طرح تمام دنیا کے ممالک میں بہت کم خرچ سے بہت بڑی رقوم غیر ملکی سکوں کی اپنی آئندہ تجارت کے لئے جمع کر لیں۔ اگر بارٹرسسٹم ( تبادلہ اشیاء) پر بین الاقوامی تجارت کی بنیاد ہوتی تو جرمنی اس طرح ہر گز نہ کر سکتا تھا۔ روس نے بھی جرمنی کی نقل میں ایکسچینج کو بہت گر ا دیا لیکن بوجہ جرمنی جیسا ہو شیار نہ ہونے کے اور بوجہ صنعتی تنظیم نہ ہونے کے اس نے فائدہ نہ اُٹھایا درحقیقت مصنوعی شرح تبادلہ ایک زبر دستوں کا ہتھیار ہے جس سے وہ کمزور قوموںکی تجارت کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور غیر طبعی طریقوں سے تجارت کے بہاؤ کو اپنی مرضی کے مطابق جدھر چاہتے ہیں لے جاتے ہیں۔
روس نے اِس نظام کو تسلیم کر لیا ہے اور اِس طرح ملکی کیپٹلزم کی بنیاد کو قائم رکھا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جو ں جوں روسی صنعت وحرفت مضبوط ہو گی کمیونزم زیادہ سے زیادہ اس ہتھیار سے کام لے گی اور کمزور ممالک کی تجارتوں کو اپنے مطلب اور اپنے فائدہ کے لئے استعمال کرے گی اور اس طرح گو مادی دولت کو جمع کر لے گی لیکن اصولی طور پر خود اپنے اصول کو توڑنے والی اور غریب اور کمزور ممالک پر ظلم کرنیوالی ثابت ہوگی۔
کمیونزم کا اقتصادیات میں جبر سے کام لینا
(۷) ساتویں اِس نظام کے اقتصادی حصہ کو چلانے کیلئے
جبر سے کام لیا جاتا ہے جو آخرمُلک کے لئے مضر ثابت ہوگا۔کمیونزم کہتی ہے کہ دولت مندوں کی دولت لوٹ لی جائے اور سوائے ابتدائی انسانی ضروریات کے خرچ کے انہیں اور کچھ نہ دیا جائے۔ یہ نظریہ اپنی ذات میں اچھا ہو یا بُرا سوال یہ ہے کہ کمیونزم جبر کو جائزسمجھتی ہے اور اس سے کام لیتی ہے اور بجائے اس کے کہ آہستہ آہستہ ترغیب اور تربیت سے لوگوں کی عادات درست کی جائیںاور اپنے سے کمزورں پر رحم کی عادت ڈالی جائے اور غرباء کی محبت اور اُن سے مساوات کا خیال اُن سے اونچے طبقہ کے لوگوں کے دلوں میں ڈالا جائے کمیونزم جبر کی طرف مائل ہوتی ہے اور اس کی تعلیم دیتی ہے اور اُس نے برسر اقتدار آتے ہی یکدم آسودہ حال لوگوں کی دولت کو چھین لیا اور اُن کی تمام جائدادوں کو اپنے قبضہ میں کر لیا۔ یہ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ جن کو شاہی محلّات میں سے نکال کر چوہڑوں کے گھروںمیں بٹھا دیا جائے اُن کے دلوں میں جتنا بھی اِس تحریک کے متعلق بغض پیدا ہوکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہیں اِس تحریک سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ وہ اِس سے انتہائی طور پر بغض رکھتے ہیں۔ اِس کے مقابلہ میں بے شک اسلام نے بھی اُمراء سے اُن کی دولت لی ہے مگر جبر سے نہیں بلکہ پہلے انہیں وعظ کیا، پھر دولت کے محرکات کو مٹایا، پھر اُن کی ضروریات کو محدود کیا، پھر انہیں زکوٰۃ اور صدقہ وغیرہ احکام کا قائل کیا اور بالآخر ان تدابیر کے باوجود جو دولت اُن کے ہاتھوں میں رہ گئی اُسے اُن کی اولادوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کرا دیا۔ اِس طرح دولت اسلام نے بھی لے لی اور کمیونزم نے بھی مگر کمیونزم نے جبر سے کام لے کر امراء سے اُن کی دولت لی اور اسلام نے محبت سے اُن کی دولت لی۔اِس جبرکا یہ نتیجہ ہے کہ غیر ممالک میں ایک بہت بڑا عنصر اُن اُمراء کا موجود ہے جو روس کے خلاف ہیں کیونکہ کمیونزم نے اُن کی دولت کو چھین لیا اور اُنہیں تخت شاہی سے اُٹھا کر خاکِ مذلّت پر گرا دیا۔
کمیونسٹ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ آجکل اس تحریک کے خلاف کسی مُلک میں جوش نہیں ہے اور وہ اِس پر بہت خوش ہیں حالانکہ اِس وقت کی خاموشی کی وجہ یہ ہے کہ غیر ممالک اِس وقت روس کی مدد کے مختاج ہیں۔ اِس وقت انگلستان کوئی بات روس کے خلاف سننے کے لئے تیار نہیں، اِس وقت امریکہ کوئی بات روس کے خلاف سننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ امریکہ اور انگلستان دونوں اِس وقت روس کی مدد کے محتاج ہیں اور لوگ اِس وجہ سے خاموش بیٹھے ہیں۔ جس دن لڑائی ختم ہوئی اور لوگوں کی آواز پرحکومت کی گرفت نہ رہی اُسی دن وہ لوگ جو آج مصلحت کے ماتحت خاموش بیٹھے ہیں روس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں گے اور اِس تحریک کو مٹانے کی کوشش کریں گے۔(چنانچہ اِس تقریر کے بعد جنگ جرمنی ختم ہو گئی اور مختلف ممالک میں روسی نظام کے خلاف آوازیں اُٹھنی شروع ہو گئی ہیں خصوصاً یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں)
کمیونزم کے ذریعہ عائلی محبت کی موت
(۸) آٹھواں نقص اِس نظام میں یہ ہے کہ اِس میں عائلی محبت کا سر کچل دیا گیا ہے جو آخر مضر ہوگا۔ کمیونزم میں ماں اور باپ اور بہنوں اور بھائیوں اور دوسرے تمام رشتہ داروں
کی محبت کو نظرانداز کر دیاگیا ہے اور بچوں کو کمیونزم کی تعلیم دینے اور مذہب سے بیگانہ کرنے کے لئے حکومت کے بچے قرار دے دیا گیا ہے۔ ہر بچہ بجائے اِس کے کہ ماں کی گود میں رہے، بجائے اِس کے کہ باپ کی آنکھوں کے سامنے پرورش پائے کُلّی طور پر گورنمنٹ کے اختیار میں چلا جاتا ہے یا کم سے کم قانونی طور پرایسا ہے۔ اس طرح ماں باپ کی محبت کا خانہ بالکل خالی کر دیا جاتا ہے۔ یہ نظام بھی ایسا ہے جو دیر تک نہیں چل سکتا۔ یا تو اِس نظام کو بدلنا پڑے گا یا رشیا کاانسان انسان نہ رہے گا کچھ اور بن کر رہ جائے گا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کمیونزم کامیاب ہوگیا حالانکہ اِس وقت کمیونزم کی کامیابی محض زار کے مظالم کی وجہ سے ہے۔ جب پچاس ساٹھ سال کا زمانہ گزر گیا، جب زار کے ظلموں کی یاد دلوں سے مٹ گئی، جب اُس کے نقوش دُھندلے پڑگئے اگراُس وقت بھی یہ نظام کامیاب رہا تب ہم سمجھیں گے کہ کمیونزم واقعہ میں ماں کی محبت اور باپ کے پیار اور بہن کی ہمدردی کو کچلنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ لیکن دنیا یاد رکھے یہ محبتیں کبھی کچلی نہیں جا سکتیں۔ ایک دن آئے گا کہ پھر یہ محبتیں اپنا رنگ لائیں گی پھر دنیا میں ماں کو ماں ہونے کا حق دیا جائے گا، پھر باپ کو باپ ہونے کا حق دیا جائے گا، پھر بہن کو بہن ہونے کا حق دیا جائے گا اورپھر یہ گم گشتہ محبتیں واپس آئیں گی۔ لیکن اِس وقت یہ حالت ہے کہ کمیونزم انسان کو انسان نہیں بلکہ ایک مشین سمجھتا ہے۔ نہ وہ بچہ کے متعلق ماںکے جذبات کی پرواہ کرتا ہے، نہ وہ باپ کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے، نہ وہ بہن کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے، نہ وہ اور رشتہ داروں کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے، وہ انسان کو انسان نہیں بلکہ ایک مشینری کی حیثیت دے رہا ہے مگر یہ مشینری زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ وقت آئے گا کہ انسان اس مشینری کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے گا اور اُس نظام کو اپنے لئے قائم کرے گا جس میں عائلی جذبات کو اپنی پوری شان کے ساتھ برقرار رکھا جائے گا۔
دماغی قابلیّت کی بے قدری
(۹) نواں نقص اِس نظام میں یہ ہے کہ اِس میں دماغ کی قدر نہیں اِس لئے مجبوراً اعلیٰ دماغ کے
لوگ روس میں سے باہر نکلیں گے اور اپنی دماغی ایجادات کی قیمت دنیا سے طلب کریں گے۔بالشوزم کے نزدیک ہاتھ کا کام اصل کام ہے وہ دماغی قابلیتوں کو ہاتھ کے کام کے بغیر بے کار محض قرار دیتا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہاتھ کا کام بھی کام ہے مگر اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دماغی کام بھی اپنی ذات میں بہت بڑی اہمیّت رکھتے ہیں اور پھر فطرتِ انسانی میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنی خدمات کا صلہ چاہتی ہے۔ جب کمیونسٹ گورنمنٹ دماغی قابلیتوں کی قدر نہیں کرے گی تو فطرت کا مقابلہ زیادہ دیرتک نہیں ہو سکے گا۔ یا تو کمیونسٹ نظام خود اپنے اندرتبدیلی کرنے پر مجبور ہوگا اور دوسرے نظاموں کی صف میں آکر کھڑا ہو جائے گا اور اپنے فلسفہ کو ترک کرنے پر مجبور ہوگا یا پھر اعلیٰ دماغ رکھنے والے لوگ باہر نکلیں گے اور غیر ممالک میں اپنی ایجادات کو رجسٹرڈ کرا کے اُن سے فائدہ اُٹھائیں گے مگر روس اُن کی دماغی قابلیتوں کے فوائد سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جائے گا۔ اِس وقت روسی گورنمنٹ سختی سے لوگوں کو باہر جانے سے روکے ہوئے ہے۔ مگر جب آپس میں میل جول شروع ہوا اور اِس جنگ کے نتیجہ میں ایک حد تک ایسا ضرور ہوگا تو روسی موجد باہر نکلیں گے اور غیر ممالک میں دوسرے موجدوں کی حالت کو دیکھ کر خود بھی کمپنیاں قائم کر کے اپنی ایجادات سے نفع اُٹھانا شروع کر دیں گے۔ جیسے جرمنی نے جب یہودیوں پر مظالم شروع کئے تو یہودی جرمن میں سے نکل کر امریکہ میں چلے گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی چیزیں اور وہی دوائیں جو پہلے جرمنی میں تیار ہوا کرتی تھیں اب امریکہ میں تیار ہونی شروع ہو گئی ہیں۔ بڑے بڑے کارخانے امریکہ میں اُن یہودیوں نے کھول رکھے ہیں اور اُن سے خود بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور امریکہ کو بھی فائدہ پہنچا رہے ہیں حالانکہ وہ کارخانے پہلے جرمنی میں تھے جب اُن کے حقوق کو دبایا گیا تو وہ انگلستان اور امریکہ میں چلے گئے۔ اِسی طرح روس میں جب بھی ڈھیل ہوئی اور لوگوں کو آمدورفت کی آزادی ملی وہاں کے موجد باہر نکلیں گے اور غیر ممالک میں بس کر اپنی دفاعی قابلیتوں سے فائدہ اُٹھانا شروع کر دیں گے یا پھر بیرونی ملکوں سے میل جول کے بند ہونے کی وجہ سے روسی دماغ میں کمزوری آنی شروع ہو جائے گی اور آخر وہ ایک کھڑے پانی کے تالاب کی طرح سٹر کر رہ جائے گا۔
روسی صنعت میں تنزّلکا خطرہ
(۱۰) دسواں نقص کمیونسٹ نظام میں یہ ہے کہ چونکہ اِس وقت کھانا اور کپڑا
وغیرہ حکومت کے سپرد ہے اور صنعت وحرفت بھی اُس کے سپرد ہے اور امپورٹ (IMPORT) اور ایکسپورٹ (EXPORT) بھی اس کے قبضہ میں ہیں اور جس مُلک میں وہ قائم ہوئی ہے وہ صنعت میں بہت پیچھے تھا اِس لئے فوراً حقیقی نتائج معلوم نہیں ہوسکتے مگر عقلاً یہ امر ظاہر ہے کہ جب تک صرف اس قدر صنعت وہاں ہے کہ مُلک کی ضرورت کو پورا کرے نقصان کا پتہ نہیں لگ سکتا۔ جس قیمت پر بھی چیز بنے بنتی جائے گی اور مُلک میں کھپتی جائے گی اُس کے مہنگا ہونے کا علم نہیں ہوگا ۔ جب تک وہاں کارخانے صرف روسیوں کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اُس وقت تک یہ پتہ نہیں لگ سکتا کہ کارخانے نفع پر چل رہے ہیں یا نقصان کی طرف جارہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جس قیمت پر بھی کوئی چیز تیار ہوتی ہے وہ مُلک میں کھپ جاتی ہے مگر ایک وقت آئے گا کہ صنعت مُلک کی ضرورت سے زیادہ بڑھنے لگے گی اگر اُس وقت صنعت کو روکا گیا تو اِس میں تنزّل شروع ہوجائے گا۔ اور اگر بڑھنے دیا گیا تو اس صورت میں یہ امر لازمی ہوگا کہ روسی صنعت کی اشیاء دوسرے مُلکوں کو بھجوائی جائیں تب یہ بھی ضروری ہوگا کہ روسی صنعت کی اشیاء کی وہی قیمت مقرر کی جائے جس پر وہ باہر کی منڈیوں میں فروخت ہو سکیں۔ اگر اس مجبوری کے ماتحت روسی پیداوار کو اس کی لاگت سے کم قیمت پر فروخت کیا گیا تو گویا روسی صنّاع غیر مُلکوں کا غلام بن جائے گا کہ رات دن محنت کرکے لاگت سے کم قیمت پر انہیں اشیاء مہیّا کرے گا لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو لازماً مُلک کی صنعت ایک حد تک ترقی کر کے رُک جائیگی۔ یا پھر روس کو امپیر یلزم کا طریق اختیار کرنا ہوگا یعنی دوسرے مُلکوں کو قبضہ میں لا کر اُن پر مصنوعات ٹھونسنی پڑیں گی اور اِس طرح خود اپنے ہاتھ سے روس اپنی آزادی کے دعوؤں کو دفن کردے گا۔ غرض اِس وقت مقابلہ نہ ہونے کی وجہ سے کم سے کم قیمت پر مال پیدا کرنے کی روح سخت کمزور ہے اور آئندہ اور بھی کمزور ہوتی جائے گی۔ اِس وقت اُس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک غریب عورت دن میں پانچ سیر دانے پیس لیتی ہے تو گھر والے خوش ہو جاتے ہیں کہ اس نے خوب کام کیا ہے اور وہی آٹا رات کو پکا کر کھا لیتے ہیں لیکن جب وہ باہر جاکر مزدوری کرتی ہے تب اُسے پتہ لگتا ہے کہ میں نے کتنا کام کیا ہے اور کتنا کام مجھے کرنا چاہئے تھا۔کیونکہ پانچ سیر دانوں کی پسائی کے مقابل پر باہر مزدوری اُسے بہت زیادہ ملتی ہے۔ اِسی طرح جب تک روسی اپنی تیار کردہ اشیاء اپنے گھر میں استعمال کرتے رہتے ہیں یہ صحیح طور پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ روس تجارتی طور پر بڑھ رہاہے یا گھٹ رہا ہے۔ اِس وقت بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ روس اقتصادی طور پر کامیاب ہو رہا ہے لیکن جب اس کی صنعت بڑھے گی اُس وقت اس کا بھانڈا پھوٹ جائے گا اور اقتصادی طور پر وہ بالکل گر جائے گا۔ لیکن اگرکامیاب ہوگیا تو اس کا ایک اور خطرناک نتیجہ نکلے گا جو ذیل کے ہیڈنگ کے نیچے بیان کیا گیاہے۔
کمیونزم کے نظام میں عالمگیر ہمدردی کا فقدان
(۱۱) گیارہواں نقص کمیونزم نظام میں یہ ہے کہ اس کی بنیاد صرف مُلکی ہمدردی پر ہے عالمگیر ہمدردی کا اصل اس میں نہیں ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ
اگر روسی کمیونزم نظام صنعتی ترقی میں کامیاب ہوگیا تو وہ مجبور ہوگا کہ ایک زبردست کیپٹلسٹنظام جو پہلے نظام سے بھی بڑا ہو اور دنیا کیلئے پہلے نظام سے بہت زیادہ خطرناک ہو قائم کرے۔ مَیں حیران ہوں کہ اتنے اہم سوال کی موجودگی میں ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ کمیونزم کی حمایت کس بناء پر کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ روس نے اجتماعی سرمایہ داری کو ایک عظیم الشان شکل میں پیش کیا ہے اور اِس سے دنیا کو آخر بہت نقصان پہنچے گا۔ روس میں اور دوسرے ممالک میں جو کمیونسٹ ہیں وہ اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ کمیونزم نے ہر شخص کی روٹی اور کپڑے کا انتظام کر دیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک روٹی اور کپڑے کا سوال ہے ہم بھی خوش ہیں کہ لوگوں کی اس ضرورت کو پورا کیا گیا لیکن اِس کے ساتھ ہی اُس عظیم الشان خطرہ کوکسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو ایک نئے کیپیٹلسسٹم (CAPITAL SYSTEM) کی صورت میں دنیا کے سامنے آنے والا ہے۔
روس کا دعویٰ ہے کہ اُس نے ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۷ء تک اپنے مُلک کی صنعتی پیداوارکو%۶۲۶ فیصدی بڑھا دیا ہے۔ یعنی پہلے اگر ایک ارب تھی تو اَب چھ ارب پچیس کروڑ ہے۔ پہلے اگر سَو موٹر روس میں بنتا تھا تو اب ۶۲۵ موٹر بنتا ہے یا پہلے اُس کے کارخانوں میں اگر ایک لاکھ تھان کپڑے کا تیار ہوا کرتا تھا تو اب چھ لاکھ پچیس ہزار تھان بنتا ہے۔ یہ ترقی واقعہ میں ایسی ہے جو قابل تعریف ہے۔ روسی کمیونزم کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۷ء تک دس بلین روبلز سے اس کا صنعتی سرمایہ پچہتر بلین روبلز تک بڑھ گیا ہے (روبل کی موجودہ قیمت بہت تھوڑی ہے) گویا اس عرصہ میں اُس نے ساڑھے سات گنا اپنا سرمایہ بڑھا لیا ہے اور سَوا چھ سَو گنا اُس نے اپنی صنعتی پیداوار کو بڑھا لیا ہے۔ اُس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ صرف ۱۹۳۷ء میں اُس نے اپنی ملکی آمد کا ۳؍۱ حصہ کارخانوں کی ترقی پر لگایا ہے یہ بھی بڑی شاندار ترقی ہے۔ مگر ایک بات پر غور کرنا چاہئے کیا روس بغیر دوسرے مُلکوں سے تجارتی لین دین کرنے کے ہمیشہ کیلئے ایک بند دروازہ کی پالیسی پر عمل کر کے اپنی اس ترقی کی رفتار کو جاری رکھ سکتا ہے؟ اِس وقت تو صورت یہ ہے کہ روس نہ بیرونی مُلکوں کو اپنی بنی ہوئی چیزیں بھیجتا ہے اور نہ الِاَّمَاشَائَ اللّٰہُ باہر سے کوئی چیزیں لیتا ہے۔ وہ اگر باہر سے کوئی چیز منگواتا ہے تو صرف اُتنی جس سے اُس کے کارخانوں کی ضروریات پوری ہوسکیں۔ گویا روس کی مثال اس وقت ایسی ہی ہے جیسے ہندوستان کا کسان اپنی زمین پر گزارہ کرتا ہے۔ اُس کے کچھ حصہ سے گڑ پیدا کر لیتا ہے، کچھ حصہ سے ماش پیدا کر لیتا ہے، کچھ حصہ سے چاول پیدا کر لیتا ہے، کچھ حصہ سے تل پیدا کر لیتا ہے، کچھ حصہ سے گندم پیدا کر لیتا ہے اور اِس طرح اپنی زندگی کے دن گزارتا رہتا ہے۔ مگر یہ صورتِ حالات تمدن کے ہر درجہ میں قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر یہ صورت تمدن کے ہر درجہ میں جاری رہ سکتی تو وہ جھگڑے جو آج دنیا کے تمام ممالک میں نظر آ رہے ہیں اور جن کی وجہ سے عالمگیر جنگوں تک نوبت آچکی ہے کیوں پیدا ہوتے۔ بہرحال یہ صورت متمدن ممالک میں قائم نہیں رہ سکتی۔
دنیا کیلئے اقتصادی طور پر ایک سخت دھکّا
دنیا کی ساری قومیں یہ تسلیم کرتی ہیں کہ کوئی مُلک اکیلا زندہ نہیں
رہ سکتا بلکہ وہ اِس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ دوسروں سے تعلقات پیدا کرے اور تجربہ اِس کی صداقت پر گواہ ہے۔ پس جب کہ روس ہمیشہ کیلئے ایک بند دروازہ کی پالیسی پر عمل کر کے ترقی نہیں کر سکتا تو کیا جب روسی کارخانوں کی پیداوار اُس کے مُلک کی ضرورت سے بڑھ جائے گی تو وہ اپنی صنعت کو دوسرے ممالک میں پھیلانے کی کوشش نہیں کرے گا؟ دُور کیوں جائیں اِن جنگ کے دنوں میں ہی روس مجبور ہوا ہے کہ امریکہ اور انگلستان سے نہایت کثرت کے ساتھ سامان منگوائے اور جس سُرعت اور تیزی کے ساتھ روس صنعت میں ترقی کر رہا ہے وہ اگر جاری رہی تو چند سالوں میں ہی روس کے صنعتی کارخانے اِس قدر سامان پیدا کریں گے کہ وہ اِس بات پر مجبور ہو جائے گا کہ غیرمُلکوں کے پاس اُسے فروخت کرے۔ ذرا سوچو کہ جب وہ دن آئے گا تو کیا اُس وقت روس کی وہی پالیسی نہیں ہوگی جو اَب بڑے بڑے تاجروں کی ہوتی ہے؟ اور کیا وہ اِس مال کو فروخت کرنے کیلئے وہی طریقے اختیار نہیں کرے گا جو امریکہ اور انگلستان کے بڑے بڑے تاجر اختیار کرتے ہیں؟ یعنی کیا وہ کسی نہ کسی طرح دوسرے ممالک کو مجبور نہ کرے گا کہ وہ اُس سے مال خریدیں تا کہ اُس کے اپنے مُلک کے مزدور بیکار نہ رہیں اور اُس کی صنعتی اور اقتصادی ترقی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ جیسے ہندوستان کی سیاسی آزادی کا سوال آئے تو انگلستان کے بڑے بڑے مدبر ہائوس آف کامنز میں دُھواں دھار تقریریں کرتے ہیں لیکن جب اقتصادی ترقی کا سوال آ جائے تو فوراً اُس کے اقتصادی اکابر کہنے لگتے ہیں کہ برطانوی مفاد کی حفاظت کرلی جائے۔ یہی حالت روس کی ہوگی لیکن جہاں انگلستان اور امریکہ کا مقابلہ دوسرے مُلکوں سے صرف تاجروں کے زور پر ہوگا وہاں روس کا مقابلہ دوسرے مُلکوں کے تاجروں کے ذریعہ سے نہ ہوگا بلکہ سارے روس کے اشتراکی نظام کا مقابلہ دوسرے مُلکوں کے انفرادی تجارسے ہوگا۔ اور جس دن روس میں یہ حالت پیدا ہوئی اُس وقت روس یہ نہیں کہے گا کہ چلو ہم اپنے کارخانے بند کر دیتے ہیں، ہم اپنے مزدوروں کو بیکار رہنے دیتے ہیں مگر ہم غیرمُلکوں میں اپنے مال کو فروخت نہیں کرتے بلکہ اُس وقت وہ اپنے ہمسایہ ممالک کو مختلف ذرائع سے مجبور کرے گا کہ وہ اس سے چیزیں خریدیں اور حق یہ ہے کہ وہ ان تمام ذرائع کو استعمال میں لائے گا جو بڑے بڑے سرمایہ دار تاجر اپنے استعمال میں لاتے ہیں اور چونکہ روس کی صنعت حکومت کے ہاتھ میں ہے اِس لئے حکومت کا سیاسی زور بھی اِس کے ساتھ کُلّی طور پر شامل ہوگا۔ روس اِس وقت بہت بڑی طاقت ہے۔ حکومت اُس کے ہاتھ میں ہے، رُعب اور دبدبہ اس کو حاصل ہے، ایسی حالت میں اس کا مقابلہ چھوٹے مُلک کب کر سکیں گے بلکہ انگلستان اور امریکہ کے تاجر بھی کب کر سکیں گے۔ اُس وقت روس کو صرف یہی خیال نہیں ہوگا کہ اِس طرح تجارتی نفوذ بڑھا کر اُسے روپیہ آئے گا بلکہ اُسے یہ بھی خیال ہوگا کہ اِس کے نتیجہ میں مُلک کا صنعتی معیار بلند ہوگا۔ مزدور بھوکا نہیں رہے گا، کارخانوں کو بند نہیں کرنا پڑے گا اور غیرممالک کی دولت کو اپنی طرف زیادہ سے زیادہ کھینچا جاسکے گا۔ پس اس کے ہمسایہ کمزور مُلک اِسی طرح اُس کے لئے دروازے کھولنے پر مجبور ہونگے جس طرح مغربی تجار کے لئے وہ اپنے دروازے کھولنے پر مجبور ہوتے ہیں بلکہ اِس سے کہیں اور زیادہ دنیا اقتصادی طور پر ایک سخت دھکّا کھائے گی۔
بعض لوگ اِس موقع پر یہ خیالات پیش کر دیا کرتے ہیں کہ ہم روسی حکومت میں شامل ہو جائیں گے اور اس طرح وہی فوائد حاصل کر لیں گے جو روسی باشندے کمیونزم کی وجہ سے حاصل کرتے ہیں۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو ہم کہتے ہیں دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو کمیونزم کی حمایت کی وجہ سے اپنے آپ کو روسی حکومت میں شامل کرنے کیلئے تیار ہیں۔ کمیونسٹ طبقہ میں اکثر لوگ ایسے ہیں جو یہ تو چاہتے ہیں کہ اُن کے مُلک میں بھی وہی قوانین جاری ہو جائیںجو کمیونسٹ حکومت نے اپنے مُلک میں جاری کئے ہوئے ہیں مگر وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ روسی حکومت کا اُنہیں جزو بنا دیا جائے۔ انگلستان کے کمیونسٹ اِس بات کے تو خواہشمند پائے جاتے ہیں کہ روسی حکومت کے قواعد انگلستان میں بھی جاری ہو جائیں مگر وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ انگلستان روس کا جزو بن جائے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ روس کے قواعد اپنے طور پر مُلک میں جاری کر کے اُس سے فوائد حاصل کریں۔ اِسی طرح امریکہ کے کمیونسٹ یہ تو خواہش رکھتے ہیں کہ امریکہ کے لوگوں کے متعلق بھی وہی قواعد نافذ کئے جائیں جو روس نے اپنی حکومت میں جاری کئے ہوئے ہیں مگر وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ امریکہ روس کا جزو بن جائے اور وہ اُس کی سیاسی حکومت میں شامل ہو جائے۔
مَیںہندوستان کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہاں کے کمیونسٹ کیا رائے رکھتے ہیں کیونکہ ہمارے ہندوستانی کمیونسٹ عام طور پر سوچنے کے عادی نہیں ہوتے اور زیادہ تر کم علم طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ نعرے لگانے کے عادی تو ہیں مگر ان نعروں کی حقیقت کو ان میں سے بہت کم طبقہ سمجھتا ہے باقی لوگ جذبات کی رَو میں بہہ کر عقل و فکر کو جواب دے دیتے ہیں۔ ممکن ہے ہندوستان کے نوے فیصدی کمیونسٹ یہی چاہتے ہوں کہ بیشک ہندوستان کو روس میں ملا دیا جائے انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن باقی دنیا کے کمیونسٹ ایسا نہیں کہتے اور ایسا نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات اُن کی تباہی اور بربادی کا موجب ہوگی۔
روسی مقبوضات میں عدم مساوات
پھر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ایشیائی مقبوضات اِس امر کے شاہد ہیں کہ یورپین لوگوں کی
حالت اور اُن کی حالت میں بہت بڑا فرق ہے۔ مَیں تمام خرچ برداشت کرنے کیلئے تیار ہوں کمیونسٹ پارٹی بیشک میرا آدمی اپنے ساتھ لے اور وہ اُسے بخارا اور ماسکو وغیرہ میں لے جائے اور پھر ثابت کرے کہ بخارا کے غرباء کو بھی وہی کچھ ملتا ہے جو ماسکو کے غرباء کو ملتا ہے یا بخارا کے لوگوں کے لباس اور مکان اور تعلیم وغیرہ کا اُسی طرح انتظام کیا جاتا ہے جس طرح ماسکو کے لوگوں کے لباس اور مکان اور تعلیم کا انتظام کیا جاتا ہے۔ یقینا حالات کا جائزہ لینے پر یہی معلوم ہوگا کہ ماسکو میں اور طریق رائج ہے اور بخارا وغیرہ میں اور طریق رائج ہے۔ یہی حال دوسرے روسی ایشیائی مقبوضات کا ہے۔ کسی اور ثبوت کی کیا ضرورت ہے ابھی دو ہفتے ہوئے روسی حکومت کی طرف سے ایشیائی مقبوضات کے متعلق یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ان علاقوں کے حالات کی درستی کے لئے بھی اب سکیمیں تیار کی جا رہی ہیں اور آئندہ ان کی ترقی کے متعلق بھی ایک خاص پروگرام بنایا جائے گا۔ یہ اعلان ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے جو اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ جیسا سلوک روس اپنے ملک کے باشندوں سے کرتا ہے ویسا ہی سلوک وہ ایشیائی مقبوضات کے باشندوں سے بھی کرتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یورپی روس اور ایشیائی روس میں ایک ساتھ اور ایک ہی قسم کی اقتصادی اصلاحات عمل میں لائی جاتیں اور دونوں مُلک ایک ہی وقت میں ایک سے معیارِ ترقی پرپہنچ جاتے مگر ایسانہیں ہوا۔ پس یہ خیال واقعات کے بالکل خلاف ہے۔ ان علاقوں میں ابھی غرباء موجود ہیں، ان علاقوں میں ابھی مفلوک الحال لوگ موجود ہیں مگر روسی ان کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرتے جو اپنے مُلک کے غرباء سے یا یورپین طبقہ سے کرتے ہیں اور ان دونوں کی حالت میں بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ کمیونزم کی بنیاد ہی مساوات پر ہے وہ ایسا نہیں کرے گی کہ اپنے مُلک کی طاقت بڑھانے کے لئے دوسروں کے حقوق پر چھاپہ مارنے لگے۔ مگر یہ بھی محض وہم ہے اور ’’عصمت بی بی از بے چارگی‘‘والی بات ہے۔ جب تک کمیونزم صنعتی پیداوار کی کمی کی وجہ سے بیرونی مُلکوں یا اُن کی دولت کی ضرورت نہیں سمجھتی اُس وقت تک اُس کا یہ حال ہے لیکن جب یہ مجبوری دُور ہوئی تو وہ دوسروں سے زیادہ غیر ممالک کو لوٹنے اور اُن کی اقتصادی حالت کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کرے گی۔ چنانچہ اِس کا ثبوت یہ ہے کہ جب تک سیاستاً روس کا اپنے مُلک میں اُلجھاؤ تھا جارجیا بھی آزاد تھا، فن لینڈ بھی آزاد تھا، لٹویا بھی آزاد تھا ،لیتھونیا بھی آزاد تھا، استھونیا بھی آزاد تھا اور روس یہ کہا کرتا تھا کہ ہمارے نظام کی یہ خوبی ہے کہ وہ دوسرے مُلکوں سے اُلجھاؤ نہیں کرتا۔ ہم تو حُریّتِ ضمیر کے قائل ہیں ہم نے ان تمام ممالک کو آزاد کر دیا ہے جو ہم سے آزاد ہونا چاہتے تھے ہم نے لٹویا، لیتھونیا ،استھونیا،فن لینڈ، پولینڈ، جارجیا وغیرہ ممالک کو آزاد کر دیا ہے، ترکوں کو آرمینیا کا وہ علاقہ جواُن سے متعلق ہے دے دیا ہے مگر جوں ہی روس کے اندرونی جھگڑے کم ہوئے جارجیا کو روس میں شامل کر لیا گیا۔ جب اور طاقت آئی تو فن لینڈ سے سرحدوں کی بحث شروع کر دی اور طاقت پکڑی تو لٹویا، لیتھونیا اور استھونیا کو اپنے اندر شامل کر لیا۔ رومانیہ کے بعض علاقوں کو ہتھیالیا پھر فن لینڈ کو مغلوب کر کے اُس کے کچھ علاقے لے لئے اور باقی مُلک کی آزادی کو محدود کر دیا۔ اب پولینڈ کا کچھ حصہ لیا جارہا ہے باقی کی آزادی محدود کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ روسی سرحدوں پر وہی حکومت رہ سکتی ہے جو روسی حکومت سے تعاون کرے اور اِس اصل کے ماتحت پولینڈ، زیکوسلواکیہ اور رومانیہ کے اندرونی معاملات میں دخل دیا جارہا ہے۔ ایران کے چشموں پر قبضہ کرنے کی سکیم تیار کی جارہی ہے، ترکی سے آرمینیاکے حصوں کی واپسی اور درّہ دانیال میں روسی نفاذ کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ کیا پُرانی امپیریل حکومتیںاِس کے سِوا کچھ اور کرتی تھیں؟بلکہ کیا وہ اس سے زیادہ آہستگی اور بظاہر نرم نظر آنے والے طریق استعمال نہیں کرتی تھیں؟ انگلستان کو درّہ دانیال کی ضرورت دیر سے محسوس ہو رہی ہے مگر اُس نے صدیوں میں ترکی پر اِس قدر زور نہیں ڈالا جس قدر زور روس چند سالوں میں ڈال رہا ہے۔ اِن امور کے ہوتے ہوئے یہ خیال کرنا کہ روس اپنی صنعتی ترقی کے بعد اس طرح اپنے ہمسایہ مُلکوں کو اقتصادی غلامی اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرے گا جس طرح کہ مغربی ڈیماکریسی کے تجاراپنی حکومتوں پر زور ڈال کر اُن کے ذریعہ سے دوسرے مُلکوں کو مجبور کرتے ہیں ایک وہم نہیں تو اور کیا ہے۔ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ جب روس کو طاقت حاصل ہوئی سیاسی مساوات اور حریّت کے وہ تمام دعوے جو روس کرتا تھا دھرے کے دھرے رہ گئے اور اب اس دعویٰ کا نشان تک مٹا جارہا ہے کہ روس کا دوسرے ممالک سے کوئی تعلق نہیں۔ روس صرف اپنے مُلک کے غرباء کی روٹی اور اُن کے کپڑے کا انتظام کرنا چاہتا ہے۔ جب سیاسی دنیا میں آکر کمیونزم کی رائے بدل گئی اور اُس نے خود اپنے بنائے ہوئے اصول کو اپنے مُلک کے فائدہ اور برتری کے لئے واضح طور پر پس پشت ڈال دیا۔ جارجیا، بخارا، فن لینڈ، لٹویا، لیتھونیا،استھونیا پر قبضہ کر لیا۔ فن لینڈ ، پولینڈ ، رومانیہ، زیکوسلواکیہ کو کم و بیش سیاسی اقتدار کے تلے لے آیا، ایران اورترکی کو زیراثر لانے کے لئے جوڑتوڑ کر رہا ہے، چین کے حصے بخرے کرنے کی تجویزیں ہو رہی ہیں آخر کس مساوات اور حُریّتِ ضمیر کے قانون کے ماتحت اُس کے لئے یہ جائز تھا کہ ان ممالک پر قبضہ کرتا۔ کیوں فن لینڈ اپنے مُلک کا ایک حصہ کاٹ کر روس کو دیتا۔ یا کیوں لٹویا اور لیتھونیا اور استھونیا کی آزادی کو سلب کر لیا جاتا۔ کیا اِن ممالک کا یہ فرض تھا کہ وہ وائٹ رشیا کی حفاظت کرتے اور اپنے آپ کو روس کے لئے قربان کر دیتے۔ یا جارجیا اور بخارا کے فرائض میں شامل تھا کہ وہ روسی حکومت میں اپنے آپ کو شامل کر دیتے۔ اگر حُریّتِ ضمیر اور مساوات اسے جائز قرار دیتے ہیںتو اِس کے اُلٹ کیوں نہ ہوا۔ کیوں روس کا کچھ حصہ کاٹ کر فن لینڈ کو نہ دے دیا گیا تا وہ مضبوط ہو کر اپنی حفاظت کر سکے، کیوں نہ کچھ حصّے کاٹ کر پولینڈ، رومانیا، ترکی اور ایران کو نہ دیے گئے تاوہ مضبوط ہو جاتے۔ اِن کمزور مُلکوں کو حفاظت کی زیادہ ضرورت ہے یا طاقتور روس کو؟ پس حفاظت کے اصول کے لحاظ سے اِن مُلکوں کو اَور علاقے ملنے چاہئیں تھے نہ کہ روس کو ۔ مگر بات یہ ہے کہ پہلے اگر روس خاموش تھا تو محض اِس لئے کہ اُس کے پاس طاقت نہیں تھی۔ جب اُس کے پاس طاقت آگئی تو یہ چھوٹی چھوٹی حکومتیں اُس کا شکار بن گئیں مگر دنیا کی آنکھوں میں خاک جھونکنے کے لئے کہا گیا کہ ہم اِن ممالک پر اس لئے قبضہ کرتے ہیں کہ روسی سرحدیں ان کے بغیر محفوظ نہیں ہیں۔ اگر یہ طریق درست ہے تو کل امریکہ والے بھی کہہ دیں گے کہ ہمارے لئے جاپانی جزیروں پر قبضہ کرنا ضروری ہے کیونکہ ہمارے مُلک کی حفاظت اس کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ کہتے ہیں’’زبردست کا ٹھینگا سر پر‘‘جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ کوئی نہ کوئی بہانہ پیدا کرہی لیا کرتا ہے۔ جب روس کے پاس طاقت آئی تو اس نے بھی ڈیفنس آف سائبیریا، ڈیفنس آف لینن گریڈ، ڈیفنس آف وائٹ رشیا اورڈیفنس آف یوکرین کے بہانہ سے کئی ممالک کی آزادی کو سلب کر لیا۔ جب سیاسیات میں روس کی یہ حالت ہے تو اقتصادیات میں یہ کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ روس دوسرے ممالک کے ساتھ مساوات کا سلوک کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ اگر کہو کہ نہیں ہم اقتصادیات کے متعلق نہیں سمجھ سکتے کہ روس ایسا کرے گا سیاسی صورت الگ ہے۔ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ دور کیوں جاتے ہو مساوات پر زور دینے والی کمیونزم کی یہ حالت ہے کہ وہ آج ایران کے تیل پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ آخر سوال یہ ہے کہ کیا ایران کیلئے اپنے چشموں سے فائدہ اُٹھانا جائزنہیں کہ ایک دوسرا مُلک اُس سے مطالبہ کرتا ہے کہ تیل کے چشموں سے اُسے فائدہ اُٹھانے دیا جائے۔جب ایران کو خود اپنے تیل کے چشموں کی ضرورت ہے، جب اُس کے اپنے آدمی بھوکے مر رہے ہیں تو روس نے اُس سے یہ کیوں مطالبہ کیا؟ اگر مساوات اور بنی نوع انسان کی ہمدردی مقصود تھی تو کیوں ایران کو بغیر سُود کے روپیہ نہ دے دیا کہ اپنے تیل کے چشموں کو کھودو اور اُن سے اپنے مُلک کی حالت کو درست کرو۔ کیا یہ اِس بات کی دلیل نہیں کہ طاقت حاصل ہونے کے نتیجہ میں روس اب یہ چاہتا ہے کہ ایران سے اُس کے تیل کے چشمے بھی چھین لے اور خود اُن پر قابض ہو جائے۔
بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ انگریزوں نے بھی تو ایران کے تیل کے چشموں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ میرا جواب یہ ہے کہ انہوں نے بھی اچھانہیں کیا مگر مَیں تو یہ کہہ رہاہوں کہ اگر انگریزوں نے اچھا نہیں کیا تو روس نے بھی اچھا نہیں کیا۔ تم اُس کو بھی گالیاں دو اور اِس کو بھی بُرا بھلا کہومگر یہ کیا کہ انگریز ایک کام کریں تو انہیں بُرا بھلا کہا جائے اور ویسا ہی کام روسی کریں تو انہیں کچھ نہ کہا جائے بلکہ اُن کی تعریف کی جائے۔ اگر انگریزوں نے ابادان کے چشموں پر قبضہ کیا ہوا ہے تو روس کا مطالبہ بھی تو اِس بات کا ثبوت ہے کہ اقتصادیات میں کمیونزم پُرانے امپیریلسٹک کی پالیسی والے مُلکوں سے کوئی جُداگانہ راہ نہیں رکھتا اور وہ بھی غیر مُلکوں سے مساوات کا سلوک کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔اگر وہ مساوات کے لئے تیار ہے تو کیا اگر ایرانی یہ مطالبہ کریں کہ ہمیں باکو کے چشموں سے فائدہ اُٹھانے دیا جائے تو روسی کہیں گے بہت اچھا آجاؤ اور باکو کے چشموں پر قبضہ کر لو؟ اگر مساوات کا سلوک کیا جاتا تو ایران سے کہا جاتا کہ تمہارا بھی حق ہے کہ مجھ سے مانگو اور میرا بھی حق ہے کہ میں تم سے مانگوں مگرروس اس طرف آتاہی نہیں اور ابھی تو یہ ابتداء ہے جب کمیونزم کی صنعت وحرفت بڑھے گی دوسرے مُلک اس طرح چلائیں گے کہ پہلے کبھی نہیں چلائے اور اس سے زیادہ ان کی صنعت کو کچلا جائے گا جس قدر کہ پہلے کبھی کچلا گیا۔ کیونکہ کمیونزم نے صرف فردی کیپٹلزم کو کچلا ہے اجتماعی کیپٹلزم کو نہیں بلکہ اجتماعی کیپٹلزم کو اِس قدر طاقت دے دی ہے کہ اِس سے پہلے اِسے کبھی نصیب نہیں ہوئی اور اجتماعی کیپٹلزم ہی سب سے زیادہ خطرناک شے ہے۔ امریکہ نے ٹرسٹ سسٹم اور کارٹل سسٹم کے خلاف قانون اِسی لئے پاس کیا ہے۔
ایک خطرناک کیپٹلزم کا اجراء اور اُس کے انسداد کی دو صورتیں
اقتصادی تجربہ اس بات کا شاہد ہے کہ انفرادی تاجر کبھی اتنے کامیاب نہیں ہوئے جس قدرکہ کمپنیاں۔ اور کمپنیاں
کبھی اتنی کامیاب نہیں ہوئیں جس قدر کہ ٹرسٹ۔ اور ٹرسٹ کبھی اتنے کامیاب نہیں ہوئے جس قدر کہ کارٹل۔ اور کارٹل کبھی اتنے کامیاب نہیں ہوئے جس قدرکہ وہ کمپنیاں کامیاب ہوں گی جن کے پیچھے سارے مُلک کی دولت اور سیاست ہوگی جیسا کہ روس میں کیا جارہا ہے۔ افراد کی کمپنیوں کا مقابلہ چھوٹے مُلک اور غیر منظم بڑے مُلک کر سکتے تھے مگراجتماعی حکومتی کیپٹلزم کا مقابلہ چھوٹے مُلک اور بڑے( لیکن کمزور) مُلک کسی صورت میں نہیں کر سکتے۔
اس سے پہلے بھی بڑے صنّاع مُلک چھوٹے مُلکوں پر اقتدار پیدا کر لیتے تھے لیکن انفرادی کیپٹلزم کی موجودگی میں ضروری نہ تھا کہ جو مُلک چھوٹاہواُس میں کیپٹلسٹ نہ ہوں۔ چونکہ مقابلہ افراد میں تھا اس لئے باوجود مُلک کے چھوٹا ہونے کے اس کے کچھ افراد بڑے اور منظم مُلک کا مقابلہ کرتے رہتے تھے کیونکہ وہ بھی کیپٹلسٹ ہوتے تھے۔ انگلستان نہایت منظم صنعتی مُلک ہے مگر باوجود اس کے ہالینڈ، بیلجیئم، سوئٹزرلینڈ جیسے مُلکوں کے بعض کیپٹلسٹ انگلستان کے کیپٹلسٹوں کا مقابلہ کر سکتے تھے کیونکہ مقابلہ انگلستان اور ہالینڈ یا انگلستان اور بیلیجئم اور انگلستان اور سوئٹزرلینڈ کا نہ تھا بلکہ مقابلہ انگلستان اور ہالینڈ کے اور انگلستان اور بیلجیئم اور انگلستان اور سوئٹزرلینڈ کے دو کیپٹلسٹوں کا تھا اور اُن کئے آگے نکلنے سے مُلک کا دوسرا طبقہ بھی فائدہ اُٹھالیتا ہے۔ یہ فرق ایسا ہی ہے جیسا کہ انگلستان اور بیلجیئم کی فوجیں سامنے آئیں تو بیلجیئم مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن انگلستان کا کوئی سپاہی بیلجیئم کے کسی سپاہی کے مقابلہ پر آجائے تو بیلجیئم کا سپاہی انگلستان کے سپاہی پر غالب آسکتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ فردی کیپٹلزم بھی ایک خطرناک شَے ہے مگر اس کے باوجود خود اس مُلک کے لوگوںاور اس کے حریف مُلکوں کے لوگوں کے لئے کچھ نہ کچھ راستہ بچاؤ کا کھلا رہتا ہے لیکن حکومتی کیپٹلزم کے سامنے چھوٹے اور غیر منظم مُلک بالکل نہیں ٹھہر سکتے اور ان کے بچنے کی کوئی ممکن صورت ہی باقی نہیں رہتی۔ اور یہ مقابلہ ایسا ہی عبث ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک مشین گن رکھنے والی فوج کے مقابل پر سونٹے لے کر نکلنے والی فوج عبث اور بے کار ہوتی ہے۔ کمیونزم نے مُلکی اجتماعی کیپٹلزم کا طریق جاری کر کے جس میں سارے مُلک کی دولت اور اس کی سیاسی برتری مجموعی طور پر دوسرے مُلکوں کے منفرد صنّاعـوں اور تاجروں کے مقابل پر کھڑی ہوتی ہے ایک ایسا طریق رائج کیا ہے جودنیا کے اقتصادی نظام کو بالکل تہہ وبالا کر دے گا۔ لوگ ٹرسٹوں اور کارٹلز کے خلاف شور مچارہے تھے اور ان کے ظلموں کے شاکی تھے مگر کمیونزم نظام کے ماتحت ترقی کرنے والی صنعت وحرفت تمام دوسرے مُلکوں کے لئے ایسی خطرناک ثابت ہوگی کہ اس کے مقابلہ پر ٹرسٹ تو کیا کارٹلزبھی ایسے معلوم ہوں گے جیسے ایک دیو کے مقابلہ پر ایک پانچ سالہ لڑکا۔ انگلستان کا ایک بڑا تاجر امریکہ کے ایک بڑے تاجر کا مقابلہ تو کر سکتا تھا اگر مقابلہ نہ ہوسکتاتھا تو انگلستان کے چند تاجر مل کرایک ٹرسٹ بنا لیتے تھے۔ اگر جرمنی کی سائنٹیفک مصنوعات کا مقابلہ امریکہ اور انگلستان کے صناعوں کے لئے مشکل ہوتا تو دونوں مُلکوں کے تاجر مل کر ایک کارٹل کے حصہ دار ہو جاتے تھے مگر کمیونزم کی صنعت کا مقابلہ کوئی زبردست سے زبردست کارٹل بھی کس طرح کر سکتا ہے کیونکہ کمیونزم کے ترقی یافتہ کارخانوں کی مدد پر ایک یا دو تاجر نہ ہوں گے بلکہ سب مُلک کی دولت ہوگی اور تاجروں کی دولت ہی نہ ہوگی روس کی ڈپلومیٹک فوج اور لڑنے والی فوج اور اس کا بحری بیڑا بھی ہو گا کیونکہ اس کے کارخانہ کی ناکامی کسی ایک فرد یا کمپنی کی ناکامی نہ ہوگی بلکہ خود روسی حکومت کی ناکامی ہوگی۔ کیونکہ کمیونزم کے نظامِ صنعت وحرفت کے کارخانے حکومت کے قبضہ اور انتظام میں ہوں گے۔ پس جس صنعت کو یہ مدد حاصل ہوگی اس کا مقابلہ غیر مُلکوں کے تاجر یا ٹرسٹ یا کئی مُلکوں کے اشتراک سے بنے ہوئے کارٹلز بھی کس طرح کر سکتے ہیں۔
پس رشین کمیونزم نے ایک نہایت خطرناک کیپٹلزم کا راستہ کھولا ہے جس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ اس کا مقابلہ اِن دوہی صورتوں سے ہو سکتا ہے۔
(۱) سب دنیا ایک ہی نظام میں پروئی جائے یعنی سب مُلک روسی حکومت کا جزوبن جائیں اور اس طرح آئندہ غیر مساوی مقابلہ کو بند کر دیں۔ مگر کیا کمیونزم میںکوئی ایسے اشتراک کی گنجائش ہے؟ یا کیا غیر مُلکوں کے لوگ مثلاً انگلستان، امریکہ، فرانس کے لوگ اِس امر کے لئے تیار ہیں کہ اس آئندہ آنے والے خطرہ سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو روسی حکومت میں شامل کر دیں؟ اور کیا اس کی کوئی معقول امید ہے کہ اگر وہ ایسا کر بھی دیں تو وہ روسیوں کے ساتھ ہر جہت سے مساوی حقوق حاصل کر لیں گے؟ اگر یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں جیسا کہ میرے نزدیک ہر عقلمند انسان انہیں ناممکن کہے گا تو پھر یہ علاج تو بے کار ہوا۔
(۲) دوسرا ممکن علاج اس خطرہ کا یہ ہو سکتا ہے کہ سب دنیا کے مُلک کمیونزم سسٹم کے مطابق الگ الگ نظام قائم کرلیں۔ مگر سب دنیا کمیونزم میں آجائے تو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ چند حکومتی ٹرسٹ ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گے اور وہ حالت موجودہ حالت سے بہت زیادہ خطرناک ہوجائے گی۔ اِس تبدیلی سے صرف یہ فرق پڑے گا کہ پہلے تو ہندوستان کے تاجرکا رشیا کے تاجر سے مقابلہ ہوا کرتا تھا مگر پھر ہندوستانی حکومت کے صنعتی ادارہ کا مقابلہ روسی حکومت کے صنعتی ادارہ سے ہوگا۔ گویا اب تو جنگ کبھی کبھار ہوتی ہے اُس وقت ایک مستقل جنگ دنیا میں جاری ہو جائے گی۔ ہر تجارتی قافلہ کا افسر درحقیقت ایک سفیر ہوگا اور ہر تجارتی مال اپنی حفاظت کے لئے اپنے مُلک کی فوج اور اُس کا بیڑا ساتھ رکھتا ہوگا۔ تجارتی نزاع تاجروں میں نہیں حکومتوں میں ہوں گے اور لین دین کے لئے کمپنیوں کے مینیجر نہیں بلکہ حکومتوں کے وزیر خط وکتابت کریں گے۔ اِس نظام میں کسی چھوٹے مُلک یا غیر منظم کو کوئی جگہ ہی نہیں مل سکتی۔ چھوٹے مُلک اور غیر منظم مُلک اِس نظام کے جاری ہونے پر اپنی حریّت پوری طرح کھو بیٹھیں گے اور صرف بڑے مُلکوں کی چراگاہیں بن کر رہ جائیں گے۔ اور جو مُلک منظم اور بڑے ہوں گے اُن میں پہلے کی طرح مقابلہ جاری رہے گا صرف فرق یہ ہوگاکہ پہلے تو زید اور بکر کا تجارتی مقابلہ ہوتا تھا آئندہ حکومت کا حکومت سے تجارتی مقابلہ ہوگا۔
اگریہ خیال کیا جائے کہ سب لوگ مل کر ایک باانصاف معاہدہ کرلیں گے تو یہ بھی درست نہیں۔ آج کا روس کل کا روس نہیں اور کل کا روس آج کا روس نہ ہوگا۔ جب اِس کی صنعت وحرفت ترقی کرے گی اور جب اس کی دولت بڑھے گی وہ دوسروں سے اپنی دولت بانٹنے کے لئے تیار نہیں ہوگا بلکہ وہ تو آج بھی تیار نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ ایران کے تیل پر کیوں قبضہ کرنا چاہتا۔
روس کا فعل اپنے قول کے خلاف
روس کا تھری بگز(THREE BIGS) میں شامل ہونا بھی اُس کے اپنے اصول سے ہٹنے
پر دلالت کرتا ہے۔ آخر ان تین بڑوں کے علاوہ جو دوسری حکومتیں ہیں وہ کیا چیزہیں۔ سمجھ لو کہ طاقتور آدمی کے مقابل پر کمزور اور غریب آدمی کی حیثیت رکھتی ہیں۔بیلجیئم کیا ہے؟ ایک کمزور اور غریب آدمی۔ ہالینڈ کیا ہے؟ ایک کمزور اور غریب آدمی۔ روس انگلستان اور امریکہ کیاہیں؟ مضبوط پہلوان اور کڑور پتی تاجر۔ اگر روس اپنے اصول میں سچائی پر قائم ہے تو اُسے اِن کمزور اور غریب ممالک کے ساتھ ایک ہی صف میں اپنے آپ کو کھڑا کرنا چاہئے تھا اور کہنا چاہئے تھا کہ ہمارا اصول یہ ہے کہ سب انسان برابر ہیں۔ ہم اپنے اور اِن کمزور حکومتوں میں کوئی فرق نہیں کرنا چاہتے ۔جیسے ہمیں اپنی جان پیاری ہے ویسے ہی ان کو پیاری ہے، جیسے ہمیں اپنے مُلک کا فائد ہ مدنظر ہے ویسے ہی ان کو مدنظر ہے۔ پس حکومتوں کی مشاورتی مجالس میں ہم میں اور کمزور حکومتوں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے کہ ہر ایک نے اپنے حقوق کی حفاظت کرنی ہے۔ مگر روس کی کمیونسٹ حکومت نے ایسا نہیں کیا اُس نے یہ مطالبہ کیا کہ تین بڑوں کے مشورہ سے سب اصول اور امورطے ہوں۔ اُس نے اپنی آواز کی اَور قیمت مقرر کی ہے اور بیلجیئم اور ہالینڈ کی اور۔ اور اگر بیلجئیم اور ہالینڈ کی آوازوں اور روس کی آواز میں فرق ہے، اگر کمزور قوم کو طاقتور قوم کے مقابل پر نہیں لایا جاسکتا، اگر ایک غریب قوم کے ساتھ مساوات کا سلوک نہیں کیا جاسکتا تو فرد کو فرد کے مقابل پر مساوات کیوں دی جائے۔ ایک عالم اور جاہل اور ذہین اور کند ذہن میں جو قدرتی فرق ہے اُسے کیوں مٹایا جائے۔ اور روس کا خود تھری بِگز (THREE BIGS)میں شامل ہونا اور اِس تین بڑوں یا پانچ بڑوں کے اصول پر زور دینا بتاتا ہے کہ کمیونزم کا مساوات کا اصول بالکل غلط اور دکھاوے کا ہے۔ اگر بڑی حکومت چھوٹی حکومت کے مقابل میں امتیازی سلوک کی مستحق ہے تو عالم جاہل کے مقابل پر اور فطرتی صنّاع اور تاجرایک کودن۳۲؎ صنّاع اور غیر تجربہ کار تاجر کے مقابل پر اپنے فن سے فائدہ اُٹھانے کا کیوں مستحق نہیں۔ ایک بڑی قوم کے مقابل پر ایک چھوٹی قوم کو نیچا کر دینا اِس سے زیادہ خطرناک ہے جتنا کہ ایک شخص کا اپنی قابلیت سے دوسرے سے کچھ آگے نکل جاناخصوصاً جب کہ طبعی مساوات کے قیام کے لئے اسلام کے مقرر کردہ پاکیزہ اصول موجود ہوں۔
اِس موقع پر مجھے ہندوستان کے ایک بڑے لیڈرکا ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک دفعہ ایک مقام پربعض مسائل کے متعلق غور کرنے کے لئے بہت سے لیڈر ہندوستان کے مختلف مقامات سے جمع ہوگئے مجھے بھی سرسکندر مرحوم اور سرفیروزخان نون نے تار دیکر بلوایا۔ یہ مجلس شملہ میں ہوئی تھی غالباً ۷۰ یا ۸۰ لیڈر تھے جومختلف مقامات سے شامل ہونے کے لئے آئے تھے۔ جب اتنے بڑے لیڈروں کو اُس لیڈر نے اکٹھے دیکھا تو انہیں بہت بُرا لگا کہ ہندوستان کے اتنے لیڈر ہیں اور انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ بڑے معاملات اتنے بڑے اجتماعوں میں طے نہیں ہو سکتے بہترہوگا کہ ہم چند لیڈروں کے لیڈر (We Leaders of Leaders) اس میں بیٹھ کر فیصلہ کر کے ان لوگوں کو سنا دیں یہی حال روس کا ہے۔ زید اور بکر کے متعلق تو کہا جاتا ہے کہ اُن میں مساوات ہونی چاہئے مگر جب حکومت کا سوال آتا ہے تو کہا جاتا ہے ہم تین بڑی حکومتیں مل کر جو فیصلہ کریں گی وہی تمام اقوام کو ماننا پڑے گا۔ ان کا حق نہیں کہ وہ ہمارے ساتھ شامل ہوں یاہماری کانفرنس میں شریک ہوں۔آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ سوائے اِس کے کہ روس کے پاس توپیں زیادہ ہیں اور دوسروں کے پاس توپیں کم ہیں، روس کے پاس ٹینک اور ہوائی جہاز اور فوجیں زیادہ ہیں لیکن بیلجیئم، فرانس اور ہالینڈکے پاس کم ہیں۔ اگر سامانِ حرب کی کثرت کی وجہ سے روس اِس بات کا حق رکھتا ہے کہ اُس کی آواز کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ وقعت دی جائے اور وہ دوسرے چھوٹے مُلکوںکے برابر ہونے کے لئے تیار نہیں ہے تو وہ کَل کواُن کو اپنے اقتصادی پروگرام میں شامل کس طرح کرے گا ۔جو مُلک اِس بات کے لئے تیار نہیں ہے کہ وہ دوسرے مُلکوں کی رائے کو کوئی وقعت دے یا ان کو مجلس صلح میں بٹھائے وہ اُن کو کھانا اور کپڑا دینے کے لئے کس طرح تیار ہوگا۔ یقینا جب روس کی انڈسٹری بڑھے گی تو وہ اپنی منڈیوں کے لئے منڈیٹس (MANDATES (چاہے گا برابر کے شریک نہیں۔
غرض سرمایہ داری مُردہ باد کا کوئی سوال نہیں یہ محض وہم ہے جو لوگوں کے اندر پایا جاتا ہے۔ اصل سلوگن یہ ہے کہ الف ؔ کی سرمایہ داری مُردہ باد اور مُلکِ روس کی سرمایہ داری زندہ باد۔ اور اِس کا انجام تم خود سوچ لو۔ الف ؔ اور بؔکی سرمایہ داری کا تولوگ مقابلہ کر سکتے تھے مگروہ روس کی حکومتی سرمایہ داری کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
روس میں غیر روسی کے داخلے کا امتناع
روس اپنی کمزوری کو خود بھی محسوس کرتا ہے اور اِسی وجہ سے وہ غیرممالک
کے تعلقات کو سختی سے روکے ہوئے ہے چنانچہ حال ہی میں اسٹیفن کنگ حال ممبر پارلیمنٹ انگلستان روس میں دورہ کر کے آئے ہیں۔ اُنہوں نے اِس دورہ کا مفصل ذکر ایک مضمون میں کیا ہے جو ’’SOVIET UNION‘‘ کے ماہ جون کے پرچہ میں شائع ہوا ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں ’’ روسی گورنمنٹ نہیں چاہتی کہ روس کی قوم آزادی سے اور بغیر کسی روک کے ہمارے خیالات سے یا کسی اور خیال سے جو روسی نہ ہو واقف ہوسکے‘‘ پھر کہتے ہیں۔ ’’کہ کوئی شخص روسی طرزِ زندگی کو براہِ راست نہیں سمجھ سکتا بجز روسی سرکاری ذرائع کے۔ اور یہ مشکل ابھی کتنے ہی سال تک رہے گی‘‘پھرابھی پچھلے دنوں روس کے ماہرین یہاں آئے تھے۔ امریکہ کے بعض ماہرین بھی اُن کے ساتھ تھے۔ وہ سب سے زیادہ ہندوستان کی حالت کو دیکھ کر حیران ہوئے کیونکہ اُن کے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ سفر کر سکیں لیکن ہندوستان کا ہر شخص جہاں جی چاہے آسانی کے ساتھ آجاسکتا ہے اس لئے جب انہوں نے اپنی حکومت کے خرچ پر ہندوستان کو دیکھا تو انہیں یہ مُلک اس طرح نظر آیا جیسے مر کر انسان اگلے جہان کو دیکھتا ہے۔ یہ نتیجہ تھا اُن کی ناواقفیت کا مگر آخر یہ کولڈ سٹوریج میں رکھنے کا معاملہ کب تک چلے گا۔ ایک دن یہ دیوار ٹوٹے گی اور دُنیا ایک زبردست تغیر دیکھے گی۔
روسی اقتصادیات کے متعلق بعض غور طلب باتیں
روس کی عملی مساوات میں بھی مجھے شبہ ہے۔ مگر وہاں کے پورے حالات چونکہ معلوم نہیں ہوتے اِس لئے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔لیکن مجھے قطعی طور پر معلوم
ہوا ہے کہ روسی سپاہی کالباس نہایت بوسیدہوتا ہے۔ یہ رپورٹیں مجھے اپنی جماعت کے بعض احمدی افسروں اور بعض احمدی سپاہیوںنے پہنچائی ہیں جنہیںفوج میں ایسے مقامات پر کام کرنے کاموقع ملا جہاں روسی افسر اور روسی سپاہی بھی اُن کیساتھ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ روسی سپاہی کا لباس خصوصاً ایشیائی سپاہی کا لباس نہایت ادنیٰ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں مارشل توموشنکو اور مارشل کونیف کی تصویروں کو دیکھا جائے تو انہوں نے نہایت قیمتی تمغے لگائے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کا لباس بھی بڑا خوبصورت ہوتا ہے۔ مارشل کاتمغہ ساٹھ ہزار کی قیمت کا ہوتا ہے ۔ اس تمغہ سے ہی اقتصادی مساوات کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
مساوات کے دعویٰ کی عملاً تغلیط
پھر کمیونزم میں جو مساوات پائی جاتی ہے اُس کا اِس سے بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ
موسیوسٹالن نے اِسی جنگ کے ایّام میں مسٹر چرچل کی ایک ملاقات کے موقع پراُن کے اعزاز میں ایک دعوت دی تو اُس موقع پر بڑی تعداد میں کھانے تیار کئے گئے جو موسیوسٹالن اور ان دوسرے لوگوں نے کھائے جو اس دعوت میں شریک تھے ۔ مسٹرچرچل جب انگلستان واپس گئے تو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس دعوت کاذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر کہا کہ کاش! مجھے اپنے کیپٹلسٹ مُلک میں وہ کھانے میّسر آتے جو پرولی ٹیری ایٹ (Protletariate) حکومت میں مجھے کھانے کو ملے۔ اگر وہاں واقعہ میں مساوات پائی جاتی ہے تو کیا ماسکو کے ہر شہری کو اِسی طرح ساٹھ ساٹھ کھانے ملا کرتے ہیں؟ اگرنہیں تو یہ امور صاف طور پر بتاتے ہیں کہ کامل مساوات کا سوال ابھی حل نہیں ہوااور نہ حل ہوگا۔ تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مجبوری تھی کیونکہ اِن جنگ کے دنوں میں انگلستان کی حکومتی دعوتیں بھی بہت سادہ ہوتی ہیں۔ اِس سے بہت سادہ دعوت بھی کافی ہو سکتی تھی مگر اصل میں تو روسی دبدبہ دکھانامدنظر تھا اور یہ جذبہ مساوات کی روح کو کچلنے کاموجب ہوا کرتا ہے۔ دوسرے اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ مساوات کے معنی روس میں بدل رہے ہیں اور ایک نیا طبقہ امراء کا وہاں پیدا ہو رہا ہے جس کی بنیاد کمیونسٹ پارٹی میں پیدا کئے ہوئے رسوخ پرہے۔ پس مساوات کی شکل بدلی ہے چیز اسی طرح قائم ہے جس طرح پہلے تھی۔
اِس تقریرکے مسودہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے ایک خبر روس کی اِس عدمِ مساوات کے بارہ میں ملی ہے جسے مَیں اِس جگہ نقل کر دینا چاہتا ہوں کیونکہ وہ میرے مضمون کے اِس حصہ پر روشنی ڈالتی ہے اور اِس کی تائید میں ہے۔ آسٹریلیا کے مشہور اخبار’’ سن‘‘ نے اپنے کنبرا کے نامہ نگار کی رپورٹ پر یہ خبر شائع کی ہے کہ آسٹریلین وزیر متعینہ روس نے اپنی رخصت کے ایام میں آسٹریلیا کی پارلیمنٹری سنسر پارٹی کی ایک مجلس میں مندرجہ ذیل واقعات بیان کئے۔
(۱) روس میں ایک نئی دولت مندوں کی جماعت پیدا ہو رہی ہے کیونکہ عام لوگوں کی نسبت کمیونسٹ پارٹی کے سربرآوردہ ممبروں اور ’’صنعتی ماہروں‘‘ سے بہت ہی زیادہ بہتر سلوک کیا جاتا ہے۔
(۲) ریسٹورینٹوں (RESTAURANT) میں پانچ قسم کی غذا تیار ہوتی ہے جس کے ٹکٹ کمیونسٹ پارٹی میں رسوخ اور کام کی نوعیت کے مطابق تقسیم ہوتے ہیں( یعنی اوّل درجہ کو اوّل درجہ کا کھانا۔ دوسرے درجہ والے کو دوسرے درجہ کا کھانااور اسی طرح آخر تک)
(۳) یہ کہ اِن امتیازی سلوکوں کے نتیجہ میں افراد کے درجوں کا فرق ویسا ہی نمایا ں ہے جیسا کہ زار روس کے زمانہ میں تھا۔
(۴) یہ کہ جہاں دوسرے مُلکوں میں بلیک مارکیٹ چور تاجر چلاتے ہیں روس میں خود حکومت کی طرف سے عَلَی الْاِعْلَان یہ مارکیٹ جاری ہے۔
(۵) اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑے عہدہ والے لوگ قریباً ہر چیز حاصل کرسکتے ہیں جب کہ عام کاریگر اپنی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہے۔
آسٹریلین وزیر نے اس خبر کے شائع ہونے پر اظہار افسوس کیا ہے اور لکھا ہے کہ ہماری حکومت اور روس کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر اِس خبر کا انکار نہیں کیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انکار سیاسی ہے حقیقی نہیں۔
یہ خبر وضاحت سے اس اندازہ کی تصدیق کرتی ہے جو مَیں نے اپنے لیکچر میں سوویٹ کے مستقبل کے متعلق لگایا تھا کہ آئندہ ایک نیا طبقہ امراء کا پیدا ہونا ضروری ہے کیونکہ لیاقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔یہ ظاہر ہے کہ چونکہ اسلامی حد بندیاں اِس ممتاز طبقہ کو حدود کے اندر رکھنے کے لئے کمیونزم میں موجود نہیں یہ طبقہ آخر کمیونسٹ حکومتوں کو پھر پُرانے اصول کی طرف لے جائے گا اور کمیونسٹ کی بغاوت کا صرف ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ روس کو اقوامِ عالم میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہو جائے گی اور امپیریلسٹک حکومتوں کی نفع اندوزی میں وہ بھی شریک ہو جائے گا اور ورلڈ پرالیٹریٹ یعنی دنیا کی حکومت عوام کا اصل ایک خواب کی شکل میں تبدیل ہو جائے گا ایسا خواب جو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا کیونکہ کمیونزم فلسفہ انسانی ہمدردی کے اصول پر نہیں بلکہ زار کی حکومت سے انتقام کے اصول پر مبنی ہے۔
روسی سپاہیوں کا تمدّنی معیار
اِس موقع پرضمناً مَیں روسی سپاہیوں کے تمدّنی معیار کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مجھے بتایا
گیا ہے کہ ایران میں سے بنزائن کی ایک گاڑی گزر رہی تھی کہ ایک ڈرم میں سوراخ ہوگیا اور اس میں سے بنزائن بہنے لگا۔ روسی سپاہیوں نے جب یہ دیکھا تو انہوں نے سمجھا کہ شایدرَمْ (RUM)یا بیئر( BEER ) ہے۔ چنانچہ انہوں نے بنزائن کو شراب سمجھ کر پینا شروع کر دیا۔ـ قریباً ایک ہزار روسی سپاہیوں نے یہ بنزائن استعمال کی اور اُن میں سے درجنوں اس زہر کی وجہ سے مر گئے اور سینکڑوں بیمار ہوگئے۔ قومی خدمت کا یہ ایک بہت بُرا نمونہ ہے۔ اتنے سپاہیوں کا اپنے قومی فرض کو بھول جانا اور بجائے قومی مال کی حفاظت کے اُسے اپنے استعمال میں لانے کی کوشش کرنا بتاتا ہے کہ عام سپاہی کی اقتصادی حالت اِس قدر اچھی نہیں کہ وہ حقیقی یا فرضی لالچوں سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ کم سے کم ایران میں رہنے والے روسی سپاہیوں کی حالت ایسی نہیں کہ یہ کہا جاسکے کہ روس نے اُن کی حالت کو بدل دیاہے۔
کمیونزم کے دعویٰ مساوات کے متعلق بعض حل طلب سوالات
انڈسٹری کے متعلق یہ حل طلب سوال ہے کہ کیا ہر انڈسٹری میں ایک ساکام ہے۔ کوئلہ کی کان میں اور قسم کا کام ہے اور دُکان
میں بیٹھنے کا اور کام ہے۔ پھریہ سوال پیدا ہوتاہے کہ درزی کو اَور سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے اور جو ہری کو اَور کی اِس کا کمیونزم میں کیا حل سوچا گیا ہے؟ کیا دُکانوں کا سرمایہ سب حکومت کا ہوتا ہے اور وہاں کی سب تجارت حکومت کے ہاتھ میں ہے پھریہ بھی سوال ہے کہ اچھے اور بُرے ڈاکٹر اور اچھے اور بُرے وکیل کی فیس ایک ہی ہے یا اس میں اختلاف ہے؟ اگراختلاف ہے تو کیوں؟ اگر نہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا سب لوگ اچھے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں؟ اگر جاتے ہیں تو بہرحال وہ سب کا علاج نہیں کر سکتا پھر وہ کیا کرتا ہے؟ یا سب لوگ اچھے وکیل کے پاس جاتے ہیں؟ اگر جاتے ہیں تو وہ سب کے مقدمات نہیں لڑسکتا۔ اگر سب مقدمات نہیں لیتا تو وہ اُن کا انتخاب کس طرح کرتا ہے؟ ایسے ہی بیسیوں سوالات ہیں جن پرغور کر کے مساوات کا حقیقی علم حاصل ہو سکتا ہے۔ ان سوالات کے بغیر حقیقی مساوات کا علم ناممکن ہے۔ مگر ان کے معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے اور جب تک اِن باتوں کا جواب مہیّا نہ کیا جائے کمیونزم کے حامی مساوات کا دعویٰ کرنے میں غلطی پر ہیں۔
صحیح اقتصادی نظام
ان تمام باتوں پرغور کرنے کے بعد میں سمجھتا ہوں ہر عقلمند انسان اِس نتیجہ پر ہی پہنچے گا کہ اصل اقتصادی نظام وہی ہے جو
مذہب کے لئے گنجائش رکھے کیونکہ تھوڑے عرصہ پراثر انداز ہونے والی اقتصادیات پرایک لمبے عرصہ پراثر انداز ہونے والی اقتصادیات کو قربان نہیں کیا جاسکتا۔ اور اقتصادیات وہی اچھی ہیں جن میں ہر فرد کی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان ہو مگر اس کے ساتھ ہی ایک حد تک فردی ترقی کا راستہ بھی کھلا ہوتاکہ نیک رقابت پیدا ہو اور بُری رقابت کچلی جائے۔
اصل بات یہ ہے کہ کمیونزم ایک ردِ عمل ہے لمبے ظلم کا۔ اِسی وجہ سے یہ ظلم کے علاقوں میں کامیاب ہے لیکن امریکہ اور انگلستان وغیرہ میں کامیاب نہیں۔ اِسی طرح نیشلسٹ اورسوشلسٹ علاقوں میں بھی کامیاب نہیں۔ کچھ عرصہ ہوا امریکہ کے ایک اخبار نے مزدوروں سے یہ سوال کیا کہ تم اپنے آپ کو کیپٹلسٹ سمجھتے ہو یا مڈل کلاس(MIDDLE CLASS) میں سے سمجھتے ہو یا غریب کلاس میں سے سمجھتے ہو؟ اِس سوال کے جواب میں اکثر جوابات میں یہ کہا گیا تھا کہ ہم اپنے آپ کو مڈل کلاس (MIDDLE CLASS)میں سے سمجھتے ہیں۔ جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ امریکہ کے مزدور کو یہ خیال بھی نہیں آتا کہ وہ غرباء میںسے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونزم امریکہ میں انگلستان سے بھی زیادہ ناکام رہا ہے کیونکہ وہاں دولت بہت زیادہ ہے اور دولت کی کثرت کی وجہ سے مزدوروں میں یہ احساس ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ غریب ہیں یا انہیں اپنے لئے کسی ایسے نظام کی ضرورت ہے جو اُن کی اِس تکلیف کو دور کر سکے جس کا روٹی یا کپڑے کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔
پس اصل علاج یہی ہے کہ (۱) اسلامی تعلیم کے ماتحت غرباء کو اُن کا حق دیا جائے اور (۲)اُمیدوں اور اُمنگوں کو بڑھا دیا جائے جیسے جرمنی اور اٹلی نے اپنے مُلک کے لوگوں کو روپیہ نہیں دیا لیکن اُس نے اُن کی اُمنگوں کو بڑھا دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے آپ کو غالب اور فاتح اقوام میں سے سمجھنے لگے۔ ترقی کے لئے اُمنگ کا پیدا ہونا نہایت ضروری ہوا کرتا ہے ۔ جس قوم کے دلوں میں سے اُمنگیں مٹ جائیں، اُس کی اُمیدیں مر جائیں، اُس کے جذبات سرد ہو جائیں اور غرباء کے حقوق کو بھی وہ نظر انداز کر دے اُس قوم کی تباہی یقینی ہوتی ہے۔
غرباء کی ضروریات کے متعلق امیروں کا فرض
پس ہمارے مُلک کے اُمراء کو چاہئے کہ وہ وقت پر اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اُن حقوق کو ادا کریں جو اُن پر غرباء کے متعلق عائد ہوتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ
کمیونزم کا پیدا ہونا ایک سزا ہے اُن لمبے مظالم کی جو اُمراء کی طرف سے غرباء پر ہوتے چلے آئے تھے لیکن اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرلیں اور توبہ سے اپنے گزشتہ گناہوں کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ اپنی مرضی سے غرباء کو اُن کے حقوق ادا نہیں کریں گے تو خدا اِس سزا کے ذریعہ اُن کے اموال اُن سے لے لیگا۔ لیکن اگر وہ توبہ کریں گے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائیں گے تو یہ مہیب آفت جو اُن کے سروں پر منڈلا رہی ہے اسی طرح چکر کھا کر گزر جائے گی جس طرح آندھی ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ کی طرف اپنا رُخ موڑ لیتی ہے۔ اَب یہ تمہارا اختیار ہے کہ چاہو تو اللہ تعالیٰ کے اُس محبت کے ہاتھ کو جو تمہاری طرف بڑھایا گیا ہے اَدب کے ساتھ تھامو اور اپنے اموال کو غرباء کی بہبودی کے لئے خرچ کرو اور اگر چاہو تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو برداشت کر لو اور دولت اپنے پاس رکھو جو کچھ دنوں بعد تم سے باغیوں اور فسادیوں کے ہاتھ چھنوادی جائے گی۔ آخر میں مَیں اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ کمیونزم کی ترقی اور روسی اقتصادیات پر غور کر تے وقت ہمیں ایک اور اہم بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے جو ایسے حالات میں کہی گئی ہے جبکہ روس کو دنیا میں کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔
روس کے متعلق اڑہائی ہزار سال پہلے کی ایک پیشگوئی
روس کیا ہے؟ ایک ایسا مُلک ہے جس نے صرف تین چار سَو سال سے اہمیت حاصل کی ہے اِس سے پہلے وہ ایک پراگندہ قوم تھی۔ صرف چند قبائل تھے
جو تھوڑے تھوڑے علاقہ پر قابض تھے مگر اپنے علاقہ میں بھی اُس کو کوئی خاص طاقت حاصل نہیںتھی۔ آج سے ایک ہزار سال پہلے وہ بہت ہی غیر معروف تھا اور اِس قدر بے آباد اور ویران تھا کہ کوئی شخص اُس کی بے آبادی کی وجہ سے اس کی طرف منہ بھی نہیں کرتا تھا۔ اور آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے تو اس سے کوئی شخص واقف بھی نہیں تھا۔ شاذونادر کے طور پر جغرافیہ والوں کو اِس کا علم ہو تو ہو ورنہ یہ اس قدر ویران تھا کہ کوئی شخص اس کی طرف منہ کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا تھا۔ اُس زمانہ میں جب کہ روس کو کوئی اہمیّت حاصل نہیں تھی حزقیل نبی نے آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے روس کے متعلق ایک عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جو آج تک بائبل میں موجو ہے اور حزقیل باب ۳۸ اور ۳۹ میں اِس کا تفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے چنانچہ لکھا ہے۔
’’اور خدا وند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد! جوج کی طرف جو ماجوج کی سر زمین کا ہے اور روش اور مسک اور توبل کا فرمانروا ہے متوجہ ہو اور اُس کے خلاف نبوت کر۔ اور کہہ خداوندخدا یوں فرماتا ہے کہ دیکھ اے جوج روش اور مسک اور توبل کے فرمانروا! میں تیرا مخالف ہوں اور مَیں تجھے پھرا دونگا اور تیرے جبڑوں میں آنکڑے ڈال کر تجھے اور تیرے تمام لشکر اور گھوڑوں اور سواروں کو جو سب کے سب مسلّح لشکر ہیں جو پھریاں اور سپریں لئے ہیں اور سب کے سب تیغ زن ہیں کھینچ نکالوں گا۔ اور اُن کے ساتھ فارس اور کُوش اور فوط جو سب کے سب سپربردار اور خودپوش ہیں، جمر اور اس کا تمام لشکر اور شمال کی دُور اطراف کے اہل تجرمہ اور اُن کا تمام لشکر یعنی بہت سے لوگ جو تیرے ساتھ ہیں تو تیار ہو اور اپنے لئے تیاری کر۔ تواور تیری تمام جماعت جو تیرے پاس فراہم ہوئی ہے اور تو اُن کا پیشوا ہو۔ اور بہت دنوں کے بعد تو یاد کیا جائے گا اور آخری برسوں میں اُس سر زمین پر جو تلوار کے غلبہ سے چھڑائی گئی ہے اور جس کے لوگ بہت سی قوموں کے درمیان سے فراہم کئے گئے ہیں اسرائیل کے پہاڑوں پر جو قدیم سے ویران تھے چڑھ آئے گا۔ لیکن وہ تما م اقوام سے آزاد ہے اور وہ سب کے سب امن و امان سے سکونت کریں گے۔ توچڑھائی کرے گا اور آندھی کی طرح آئے گا۔ تو بادل کی مانند زمین کو چھپائے گا۔ تو اور تیرا تمام لشکر اور بہت سے لوگ تیرے ساتھ ۔خداوندخدا یوں فرماتا ہے کہ اُس وقت یوں ہوگا کہ بہت سے مضمون تیرے دل میں آئیں گے اور تو ایک بڑا منصوبہ باندھے گا اور تو کہے گا کہ مَیں دیہات کی سر زمین پر حملہ کرونگا مَیں اُن پر حملہ کرونگا جو راحت وآرام سے بستے ہیں۔ جن کی نہ فصیل ہے نہ اَڑبنگے اور نہ پھاٹک ہیں تاکہ تو لوٹے اور مال کو چھین لے۔ اور اُن ویرانوں پر جو اَب آباد ہیں اور اُن لوگوں پر جو تمام قوموں میں سے فراہم ہوئے ہیں جو مویشی اور مال کے مالک ہیں اور زمین کی ناف پر بستے ہیں اپنا ہاتھ چلائے۔ سبا اور دوان اور ترسیس کے سوداگر اور اُن کے تمام جوان شیر ببر تجھ سے پوچھیں گے کیا توغارت کرنے آیا ہے؟ کیا تونے اپنا غول اس لئے جمع کیا ہے کہ مال چھین لے او رچاندی سونا لوٹے اور مویشی اور مال لے جائے اور بڑی غنیمت حاصل کرے۔
اِس لئے اے آدم زاد! نبوت کر اور جوج سے کہہ خداوند خدایوں فرماتا ہے کہ جب میری اُمت اسرائیل امن سے بسے گی کیا تجھے خبر نہ ہوگی؟ اور تو اپنی جگہ سے شمال کی دور اطراف سے آئے گا تو اور بہت سے لوگ تیرے ساتھ جو سب کے سب گھوڑوں پر سوار ہوں گے ایک بڑی فوج اور بھاری لشکر۔ تو میری اُمت اسرائیل کے مقابلہ کو نکلے گا اور زمین کو بادل کی طرح چھپا لے گا۔ یہ آخری دنوں میں ہوگا اور مَیں تجھے اپنی سر زمین پر چڑھا لاؤنگا تاکہ قومیں مجھے جانیں۔ جس وقت مَیں اے جوج! ان کی آنکھوں کے سامنے تجھ سے اپنی تقدِیس کراؤں۔ خداوندخدایوں فرماتا ہے کہ کیا تو وہی نہیں جس کی بابت مَیں نے قدیم زمانہ میں اپنے خدمت گذار اسرائیلی نبیوں کی معرفت جنہوں نے ان ایام میں سالہاسال تک نبوت کی فرمایا تھا کہ مَیں تجھے اُن پر چڑھا لاؤنگا اور یوں ہوگا کہ اُن ایام میں جب جوج اسرائیل کی مملکت پر چڑھائی کرے گا تو میرا قہر میرے چہرہ سے نمایاں ہوگا۔ خداوند خدا فرماتا ہے کیونکہ میں نے اپنی غیرت اور آتش قہر میں فرمایا کہ یقینا اُس روز اسرائیل کی سر زمین میں سخت زلزلہ آئے گا یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں اور آسمان کے پرندے اور میدان کے چرندے اورسب کیڑے مکوڑے جوزمین پر رینگتے پھرتے ہیں اور تمام انسان جو رؤے زمین پر ہیں میرے حضور تھر تھرائیں گے اور پہاڑ گر پڑیں گے اور کراڑے بیٹھ جائیں گے اور ہر ایک دیوار زمین پر گر پڑے گی اور مَیں اپنے سب پہاڑوں سے اُس پر تلوار طلب کروں گا۔ خدا وند خدا فرماتا ہے اور ہر ایک انسان کی تلوار اُس کے بھائی پر چلے گی اور مَیں وَبا بھیج کر اور خونریزی کرکے اُسے سزا دونگااور اُس پر اور اُس کے لشکروں پر اور اُن بہت سے لوگوں پر جو اس کے ساتھ ہیں شدّت کا مینہہ اور بڑے بڑے اولے اور آگ اور گندھک برساؤنگا او راپنی بزرگی اور اپنی تقدیس کراؤنگا اور بہت سی قوموں کی نظروں میں مشہور ہوں گا اور وہ جانیں گے کہ خدا وند مَیں ہوں۔
پس اے آدم زاد! توجوج کے خلاف نبوت کر اور کہہ خداوندخدایوں فرماتاہے دیکھ اے جوج ، روش، اور مسک اور توبل کے فرمانروا! مَیں تیرا مخالف ہوںاور مَیں تجھے پھرادونگااور تجھے لئے پھرونگا اور شمال کی دُور اطراف سے چڑھالاؤنگا اور تجھے اسرائیل کے پہاڑوں پر پہنچاؤںگا اور تیری کمان تیرے بائیں ہاتھ سے چُھڑا دوں گا اور تیرے تِیر تیرے داہنے ہاتھ سے گرا دونگا۔ تو اسرائیل کے پہاڑوں پر اپنے سب لشکر اور حمایتیوں سمیت گر جائے گا اور مَیں تجھے ہر قسم کے شکاری پرندوں اور میدان کے درندوں کو دوں گا کہ کھا جائیں۔تو کھلے میدان میں گرے گا کیونکہ مَیں ہی نے کہا خداوند خدا فرماتا ہے اور مَیں ماجوج پر اور اُن پر جو بحری ممالک میں امن و سکونت کرتے ہیں آگ بھیجونگا اور وہ جانیں گے کہ مَیں خدا وندہوں اور مَیں اپنے مقدس نام کو اپنی اُمت اسرائیل میں ظاہر کرونگا اور پھر اپنے مقدس نام کی بے حرمتی نہ ہونے دونگا اور قومیں جانیں گی کہ مَیں خداونداسرائیل کا قدوس ہوں۔ دیکھ! وہ پہنچااور وقوع میں آیا خداوندخدا فرماتا ہے یہ وہی دن ہے جس کی بابت میں نے فرمایا تھا۔ تب اسرائیل کے شہروں کے بسنے والے نکلیں گے اور آگ لگا کر ہتھیاروں کو جلائیں گے یعنی سپروں اور پھر یوں کو، کمانوں اور تیروں کو اور بھالوں اور برچھیوں کو اوروہ سات برس تک اُن کو جلاتے رہیںگے۔ یہاں تک کہ وہ نہ میدان سے لکڑی لائیں گے اور نہ جنگلوں سے کاٹیں گے۔ کیونکہ وہ ہتھیار ہی جلائیں گے اور وہ اپنے لوٹنے والوں کو لوٹیں گے اور اپنے غارت کرنے والوں کو غارت کریں گے۔
خداوندخدا فرماتا ہے۔اور اُسی دن یوں ہوگا کہ مَیں وہاں اسرائیل میں جوج کو ایک گورستان دوں گا یعنی راہگذروں کی وادی جو سمندر کے مشرق میں ہے اُس سے راہگذروں کی راہ بند ہوگی اور وہاں جوج کو اور اُس کی تمام جمعیت کو دفن کریں گے اور جمعیت جوج کی وادی اُس کا نام رکھیں گے اور سات مہینوں تک بنی اسرائیل اُن کو دفن کرتے رہیں گے تاکہ مُلک کو صاف کریں۔ ہاں اُس مُلک کے سب لوگ ان کو دفن کریں گے اور یہ اُن کے لئے ناموری کا سبب ہوگا جس روز میری تمجید ہوگی۔ خداوندخدا فرماتا ہے اور وہ چند آدمیوں کو چُن لیں گے جو اس کام میں ہمیشہ مشغول رہیں گے اور وہ زمین پر گزرتے ہوئے راہگذروں کی مدد سے اُن کو جو سطح زمین پر پڑے رہ گئے ہوں دفن کریں گے تاکہ اُسے صاف کریں پورے سات مہینوں کے بعد تلاش کریں گے اور جب وہ مُلک میں سے گزریں اور اُن میں سے کوئی کسی آدمی کی ہڈی دیکھے تو اُس کے پاس ایک نشان کھڑا کرے گا جب تک دفن کرنیوالے جمعیت جوج کی وادی میں اُسے دفن نہ کریں اور شہر بھی جمعیت کہلائے گا یوں وہ زمین کو پاک کریں گے۔
اور اے آدم زاد! خدا وند خدا فرماتا ہے ہر قسم کے پرندے اور میدان کے ہر ایک جانور سے کہہ جمع ہو کر آؤ میرے اس ذبیحہ پر جسے مَیں تمہارے لئے ذبح کرتا ہوں۔ ہاں اسرائیل کے پہاڑوں پے ایک بڑے ذبیحہ پر ہر طرف سے جمع ہو تاکہ تم گوشت کھاؤ اور خون پیئو تم بہادروں کا گوشت کھاؤ گے اور زمین کے امراء کا خون پیو گے ہاں مینڈھوں ،برّوں، بکروں اور بیلوں کا۔ وہ سب کے سب بسن کے فربہ ہیں اور تم میرے ذبیحہ کی جسے مَیں نے تمہارے لئے ذبح کیا یہاں تک چربی کھاؤ گے کہ سیر ہو جاؤ گے اور اتنا خون پیو گے کہ مست ہو جاؤ گے او رتم میرے دسترخوان پر گھوڑوں اور سواروں سے اور بہادروں اور تمام جنگی مردوں سے سیر ہوگے۔ خداوندخدا فرماتا ہے اور مَیں قوموں کے درمیان اپنی بزرگی ظاہر کروں گا اور تمام قومیں میری سزا کو جو مَیں نے دی اور میرے ہاتھ کو جو مَیں نے اُ ن پر رکھا دیکھیں گی‘‘۔۳۳؎
دیکھو! حزقیل نبی اُس زمانہ میں جب کوئی شخص روس کو نہ جانتا تھا اور جب کسی شخص کے وہم وگمان میںبھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ روس دنیا میں اس قدر ترقی کرے گا کہ اپنی حکومت اور شوکت کے ذریعہ سب پر چھا جائے گا روس کے متعلق پیشگوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:۔
’’ اے روس، ماسکو اور ٹوبالسک کے بادشاہ! خداوندخدایوں فرماتا ہے کہ مَیں دنیا کے آخری زمانہ میں تیری طاقت کو بڑھاؤں گا اور تیری شوکت میں غیر معمولی اضافہ کروں گا یہاں تک کہ تو اس گھمنڈ میں کہ تیری طاقت بہت بڑھ چکی ہے اور تیری عظمت میں اضافہ ہوگیا ہے غیر مُلکوں کو اپنے قبضہ میں لانے اور ان کے اموال اور اُن کے مواشی اور ان کی دولت لوٹنے کی کوشش کر ے گا یہاں تک کہ فارس اور ایران پر بھی تیرا قبضہ ہو جائے گا( جس کی بنیاد ڈالنے کے لئے روس اب ایران کے چشمے مانگ رہا ہے) اے روسـ، ماسکواور ٹوبالسک کے بادشاہ! اس لئے کہ تو غیر مُلکوں کی دولت کو لوٹ لے۔ اُن کا سونا اور چاندی اپنے قبضہ میں کر لے اور اُن کے مواشی اور ان کے اموال کو غصب کر لے اپنے مُلک میں سے نکلے گا (پیشگوئی کے اس حصہ سے ظاہر ہے کہ کمیونزم کا اقتصادی نظام پہلے نظاموں سے بھی زیادہ دوسرے مُلکوں کے لئے خطرناک ہوگا) اور غیر ممالک پر حملہ کرتے ہوئے بڑھتا چلاجائے گا۔ یہاں تک کہ تویروشلم پر حکومت کرنا چاہے گا جس کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں تب میرا غضب تجھ پر بھڑکے گا مَیں آگ اور گندھک کا مینہہ تجھ پر برساؤں گا اور مَیں تجھے بنسیاں مار مار کر تیرے منہ اور جبڑوں کو چیر دونگا اور تجھے اس طرح تباہ وبرباد کروں گا تیری لاشوں کے انبار جنگلوں میں لگ جائیں گے اور لوگ انہیں مہینوں تک زمین میں دفن کرتے رہیں گے‘‘۔
وہ لوگ جو پیشگوئیوں کو نہیں مانتے مَیں اُن سے کہتا ہوں کہ اگر دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے اور اگر وہ اپنے انبیاء کو غیب کی خبروں سے اطلاع نہیں دیا کرتا تو آج سے اڑہائی ہزار سال پہلے حزقیل نبی کو یہ کس نے بتادیا تھا کہ ایک زمانہ میںروس دنیا کی زبردست طاقت بن جائے گا اور وہ دنیا کا سونا اور چاندی لوٹنے کے لئے غیر ممالک پر حملہ کرے گا اور بادل کی طرح اُن پر چھا جائے گا مگر آخر خدا کا غضب اُس پر بھڑکے گا اور وہ آسمانی عذاب کا نشانہ بن کر تباہ وبرباد ہو جائے گا۔ اِس نکتہ پر غور کرنے کے بعد انسان سوائے اِس کے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتاکہ اِس قسم کی قبل ازوقت خبریں دینا خدا کا ہی کام ہے اور اگر دنیا کا ایک خدا ہے اور اُس خدا نے حزقیل نبی کو یہ خبر دی ہے جو آج تک بائبل میں لکھی ہوئی موجود ہے تو پھر اِس خبر کے جو آج سے اڑہائی ہزار سال پہلے دی گئی سوائے اِس کے اور کوئی معنیٰ نہیں ہیں کہ خدا اِس اقتصادی نظام کو دنیا میں رہنے دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔
روس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی
ایک نئی پیشگوئی بھی سُن لو۔ اِس زمانہ میں بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو زارِ روس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ
اُس پر ایک نہایت ہی شدید عذاب آنے والا ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا۔
زاربھی ہو گا تو ہو گا اُس گھڑی باحالِ زار ۳۴؎
یعنی وہ گھڑی آنے والی ہے جب کہ زار بھی باحالِ زار ہو جائے گا۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے عین مطابق بالشویک لوگوں نے زار اور اُس کے خاندان کی مستورات کو ایسے ایسے سخت عذاب دیئے اور اِس اِس رنگ میں اُن کی بے حرمتی کر کے اُن کو مارا کہ وہ واقعات آج بھی سن کر دشمن سے دشمن انسان کا دل بھی کانپ اُٹھتا ہے اور اُس کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے مگر اُس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک او ربھی خبر دی جو یہ ہے ۔
’’۲۲؍ جنوری ۱۹۰۳ء کو مَیں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ زارِ روس کا سونٹا میرے ہاتھ میں آگیا ہے وہ بڑا لمبا اورخوب صورت ہے۔ پھر مَیں نے غور سے دیکھا تو وہ بندوق ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتاکہ وہ بندوق ہے بلکہ اُس میں پوشیدہ نالیاں بھی ہیں گویا بظاہر سونٹا معلوم ہوتا ہے اور وہ بندوق بھی ہے‘‘ ۔۳۵؎
رؤیا میںکسی حکومت کا عصا دیئے جانے کے معنیٰ وہاں طاقت اور نفوذ کے حاصل ہونے کے ہوتے ہیں۔ پس جہاں حزقیل نبی کی خبر یہ بتارہی ہے کہ کمیونسٹ نظامِ اقتصاد کو اللہ تعالیٰ دنیا میں قائم رکھنا پسند نہیں کرتا اور یہ کہ اگر اس نظام کے متولّیوں نے اِس سے توبہ نہ کی اور وہ غیرقوموں میں دخل اندازی اور تصرف سے باز نہ آیا تو خداتعالیٰ کا عذاب اُس پر نازل ہوگا اور وہ اس کی ہیبت ناک سزا کا نشانہ بن کر دنیا کے لئے ایک عبرت کا سامان پیدا کر جائے گا وہاں بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ خبردی ہے کہ آخر روس کا نظام ہمارے ہاتھوں میں دیا جائے گا اور اُس کی اصلاح کا کام ہمارے سپرد ہوگا۔ یہ خدائی کلام ہیں جو ایسے وقت میں کہے گئے ہیں جبکہ ان کے پورا ہونے کے کوئی بھی اسباب دنیا میں نظر نہیں آتے تھے اور نہ اب نظر آتے ہیں۔ مَیں ان ہزاروں لوگوں کے سامنے جو آج اِس مقام پر جمع ہیں خدا تعالیٰ کے اِن کلاموں کو پیش کرتا ہوں۔ حزقی ایل نبی کا کلام وہ ہے جو حضرت مسیح سے چھ سَو سال پہلے یعنی آج سے دوہزار پانچ سَو سال پہلے نازل ہوا جبکہ روس کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اور کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ وہ اتنی طاقت حاصل کر لے گا کہ غیراقوام میں دخل اندازی شروع کردے گا اور اُن کے سونے اور چاندی کو جمع کرنے لگ جائے گا۔ پس غور کرو کہ کتنی عظیم الشان پیشگوئی ہے جو روس کے متعلق کی گئی۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئی موجود ہے جس میں آپ کو زارِ روس کی تباہی کی خبر دی گئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔ اب دوسری پیشگوئی یہ ہے کہ ایک دن روس کی حکومت بدل کر ایسے رنگ میں آجائے گی کہ اُس کا عصا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ جس طرح رسول کریمﷺ نے یہ دیکھا کہ آپ کو قیصر وکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں مگر وہ کنجیاں آپ کی بجائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئیں ۔ اسی طرح گوزارِ روس کے عصا کے متعلق یہ دکھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہ عصا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ میں دیا مگر انبیاء کے ذریعہ جو پیشگوئیاں کی جاتی ہیں وہ سب کی سب اُن کے ہاتھ پر پوری نہیں ہوتیں بلکہ اُن میں سے اکثر اُن کی جماعتوں کے ذریعہ پوری ہوتی ہیں اور اِس پیشگوئی کے متعلق بھی ایسا ہی ہوگا۔ یہ خیالی بات نہیں بلکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ روس کی خرابیوں کو درست کرنا اور اُس کے نظام کی اصلاح کرنا اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اور ایک دن روس کے لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہو کر اس کے بیان کردہ نظام کو اپنے ہاں جاری کریں گے۔ پس جلدیا بدیر کمیونزم کا نظر آنیوالا زبردست خطرہ دُور ہو جائے گا اور لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ دنیا کی خرابیوں کی اصلاح اور اُن کے دکھوں کا علاج صرف اسلامی تعلیم میں ہی پایا جاتا ہے۔
کمیونزم کی تباہی کے متعلق ایک رؤیا
چوبیس سال کی بات ہے مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا میدان ہے
جس میں مَیں کھڑا ہوں۔ اتنے میں مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عظیم الشان بَلا جوایک بہت بڑے اژدہا کی شکل میں ہے دُور سے چلی آرہی ہے۔ وہ اژدہا دس بیس گزلمبا ہے اور ایسا موٹا ہے جیسے کوئی بڑا درخت ہو۔ وہ اژدہا بڑھتا چلا آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ دنیا کے ایک کنارے سے چلاہے اور درمیان میں جس قدر چیزیں تھیں اُن سب کو کھاتا چلا آرہا ہے یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے وہ اژدہا اُس جگہ پر پہنچ گیا جہاں ہم ہیں اور مَیں نے دیکھا کہ باقی لوگوں کو کھاتے کھاتے وہ ایک احمدی کے پیچھے بھی دَوڑا۔ وہ احمدی آگے آگے ہے اور اژدہا پیچھے پیچھے۔ مَیں نے جب دیکھا کہ اژدہا ایک احمدی کو کھانے کے لئے دوڑ پڑا ہے تو مَیں ہاتھ میں سونٹا لے کر اُس کے پیچھے بھاگا لیکن خواب میں مَیں محسوس کرتا ہوں کہ مَیں اتنی تیزی سے دَوڑنہیں سکتا جتنی تیزی سے سانپ دَوڑتا ہے۔ چنانچہ مَیں اگر ایک قدم چلتا ہوں تو سانپ دس قدم کے فاصلہ پر پہنچ جاتا ہے۔ بہرحال مَیں دَوڑتا چلا گیا یہاں تک کہ مَیں نے دیکھا وہ احمدی ایک درخت کے قریب پہنچا او رتیزی سے اُس پر چڑھ گیا۔ اُس نے خیال کیا کہ اگر میں درخت پر چڑھ گیا تو مَیں اژدہا کے حملہ سے بچ جاؤنگا مگر ابھی وہ اس درخت کے نصف میں ہی تھا کہ اژدہا اُس کے پاس پہنچ گیا اور سر اُٹھا کر اُسے نِگل گیا۔ اس کے بعد وہ پھر واپس لَوٹا اور اِس غصہ میں کہ مَیں احمدی کو بچانے کے لئے کیوں اُس کے پیچھے دَوڑا تھا اُس نے مجھ پر حملہ کیا۔ مگر جب وہ مجھ پر حملہ کرتا ہے تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے قریب ہی ایک چارپائی پڑی ہوئی ہے مگر وہ بُنی ہوئی نہیںصرف پٹیاں وغیرہ ہیں۔ جس وقت اژدہا میرے پاس پہنچا مَیں کود کر اُس چارپائی کی پٹیوں پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا اور مَیں نے اپنا ایک پاؤں اُس کی ایک پٹی پر اور دوسرا پاؤں اُس کی دوسری پٹی پر رکھ لیا۔ جب اژدہا چارپائی کے قریب پہنچا تو کچھ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ اس کا مقابلہ کس طرح کرسکتے ہیں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیںکہ لَایَدَانِ لِاَ حَدٍ بِقِتَالِھِمْ۳۶؎ اُس وقت مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سانپ کا حملہ دراصل یاجوج اور ماجوج کا حملہ ہے کیونکہ یہ حدیث اُن کے بارہ میں ہے۔ مَیں اُس وقت یہ بھی خیال کرتا ہوں کہ یہ دجال بھی ہے۔ اتنے میں وہ اژدہا میری چارپائی کے قریب پہنچ گیا اور مَیں نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا دیئے اور اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگنی شروع کر دی۔ اِسی دَوران میںاُن احمدیوں سے جنہوں نے مجھے مقابلہ کرنے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ جب رسول کریم ﷺ فرماچکے ہیں کہ یا جوج اور ماجوج کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکے گی مَیں کہتا ہوں کہ رسول کریمﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ لَایَدَانِ لِاَ حَدٍ بِقِتَالِھِمْ کسی کے پاس کوئی ایسا ہاتھ نہیں ہوگا جس سے وہ اُن کا مقابلہ کر سکے مگر مَیں نے تو اپنے ہاتھ مقابلہ کے لئے اُس کی طرف نہیں بڑھائے بلکہ اپنے دونوں ہاتھ خدا کی طرف اُٹھا دیئے ہیں اور خدا کی طرف ہاتھ اُٹھا کر فتح پانے کے امکان کو رسول کریمﷺ نے ردّ نہیں فرمایا۔ غرض مَیں نے دعا کرنی شروع کر دی کہ اے خدا! مجھ میں تو طاقت نہیں کہ مَیں اِس فتنہ کا مقابلہ کر سکوں لیکن تجھ میں سب طاقت اور قدرت ہے مَیں تجھ سے التجاء کرتا ہوں کہ تو اِس فتنہ کو دور فرما دے۔ جب مَیںنے یہ دُعا کی تو مَیں نے دیکھا کہ آسمان سے اُس اژدہا کی حالت میں تغّیر پیدا ہونے لگا جیسے پہاڑی کیڑے پر نمک گرانے سے ہوتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اُس اژدہا کے جوش میںکمی آنی شروع ہوگئی اور آہستہ آہستہ اُس کی تیزی بالکل کم ہوگئی۔ چنانچہ پہلے تو وہ میری چارپائی کے نیچے گھسا۔ پھر اُس کے جوش میں کمی آنی شروع ہوگئی ۔ پھر وہ خاموشی سے لیٹ گیا اور پھر مَیں نے دیکھا کے وہ ایک ایسی چیزبن گیا ہے۔ جیسے جیلی ہوتی ہے اور بالآخر وہ اژدہا پانی ہو کر بہہ گیااور مَیں نے اپنے ساتھیوں سے کہا دیکھو! دعا کا کیسا اثر ہوا۔ بے شک میرے اندر طاقت نہیں تھی کہ مَیں اُس کا مقابلہ کر سکتا مگر میرے خدا میں تو طاقت تھی کہ وہ اس خطرہ کو دُور کر دیتا۔
ایک قابلِ ذکر امر
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں ہم ہر ایک کے خیر خواہ ہیں اور دشمن سے دشمن انسان کی بدخواہی کا خیال
بھی ہمارے دل کے کسی گوشہ میں نہیں آتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں اخلاق کی فتح ہو، روحانیت کی ترقی ہو، خدا اور اُس کے رسول کی حکومت قائم ہو۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں جو بھی نظام جاری ہو خواہ وہ اقتصادی ہو یا سیاسی، تمدّنی ہو یا معاشرتی بہرحال خدا اور اُس کے رسول کا خانہ خالی نہ رہے اور دنیا کو اُن کے احکام کی اتباع سے نہ روکا جائے۔ پس ہم روس یا کمیونزم کے دشمن نہیں بلکہ روس سے مجھے دلی ہمدردی ہے اور مَیں چاہتا ہوں کہ یہ قوم جو سینکڑوں سال ظلموں کا شکار رہی ہے ترقی کرے اور اس کے دن پھریں۔ ہاں مَیں یا اور کوئی حریت پسند یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ ایک غلط فلسفہ کو بعض قوموں کی ترقی اور دوسروں کے تنزّل کاموجب بنایا جائے۔ پس اسلام اور رسول کریمﷺ کی بیا ن فرمودہ ہدایات کو اگر دنیا کا کوئی نظام اپنا لے اور اپنا نظام اسلامی رنگ میں ڈھال لے تو اُس کی باتیں ہمارے سر آنکھوں پر۔ لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو مذہبی لوگ اِس بات کے پابند ہیں کہ وہ اُس نظام کو قبول نہ کریں کیونکہ بے شک روٹی کی تکلیف بھی بڑی تکلیف ہے مگر مذہب ایسی چیز ہے جسے انسان کسی حالت میں بھی قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔
مَیں نے اس مضمون کے بیان کرنے میں بہت کچھ اختصار کر دیا ہے اور کئی باتیں چھوڑدی ہیں لیکن پھر بھی مَیں نے لمبا وقت لے لیا ہے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ اسلامی اقتصادیات اور کمیونزم کے اثرات کے متعلق مَیں نے جن امور پر روشنی ڈالی ہے دوست اُن پر غور کریں گے اور محض سُنی سُنائی باتوں کے پیچھے نہیں چلیں گے کیونکہ ذہنی ارتقاء کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ جس بات کو بھی اختیار کیا جائے اُس کے تمام پہلوؤں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر لیا جائے تاکہ انسان جس راستہ کو بھی اختیار کرے سوچ سمجھ کر کرے اور جس نظام کو بھی قبول کرے کھلی آنکھوں کے ساتھ کرے۔ یہی وہ طریق ہے جس پر عمل کرنے سے سچائی ظاہر ہو سکتی ہے اور فتنہ وفساد کا سدِّباب ہو سکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی رحم فرمائے اور اپنی ہدایت کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور خداتعالیٰ آپ لوگوں کو بھی اُس راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جو آپ کے لئے بھی مفید ہو اور آپ کی اولادوں کے لئے بھی مفید ہو۔ آپ کے دین کے لئے بھی مفید ہو اور آپ کی دنیا کے لئے بھی مفید ہو۔ وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
(مطبوعہ فیض اللہ پرنٹنگ پریس قادیان ۱۹۴۵ء)
۱؎ الزخرف: ۸۶ ۲؎ آل عمران: ۲۷ ۳؎ البقرۃ: ۲۰۶
۴؎ النساء: ۵۹
A ۴؎ الپ ارسلان (۱۰۲۹۔۱۰۷۲ء): بانی سلطنت سلجوقیہ۔ نہایت دلیر اور نیک دل حکمران تھا۔ ۱۰۶۴ء میں بزنطینی سلطنت کے صوبہ آرمینیا پر قبضہ کیا ۱۰۷۱ء میں اس نے تھوڑی سی فوج کے ساتھ شاہ قسطنطنیہ کو شکست فاش دی اور قیدکر لیا۔ اتفاقاً ایک باغی کے ہاتھ سے مارا گیا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۱۱۹۔ مطبوعہ لاہور۱۹۸۷ء
B۴؎ مِلکِ شاہ سلجوتی MALIK SHAH (۱۰۵۵۔۱۰۹۲ء): ترکیہ کے آخری سلجوتی سلاطین میں سے ایک (۱۰۷۲۔۱۰۹۲ء) سائنس اور فنون لطیفہ کا بڑا دلدادہ تھا۔ اصفہان میں بہت سی مساجد تعمیر کرائیں۔ سن جلالی کی ابتداء اسی کے عہد میں ہوئی۔ سلطان الپ ارسلان کا بیٹا۔ سلطان کی ہلاکت پر ۱۷ سال کی عمر میں ایران کا بادشاہ بنا۔ بخارا، ثمرقند، شام و مصر فتح کر کے سلطنت مضبوط کی اور امیر کاشغر کو خراج ادا کرنے پر مجبور کیا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۶۱۰۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
۵؎ اسد الغابۃ جلد۴ صفحہ۷۵ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۶؎ البقرۃ: ۳۰ ۷؎ النور: ۳۴ ۸؎ ھود: ۸۸
۹؎ العلق: ۲ ۱۰؎ البلد: ۷ تا ۱۸ ۱۱؎ الانفال: ۶۸
۱۲؎ محمد: ۵ ۱۳؎ النور: ۳۴
۱۴؎ بخاری کتاب الایمان باب ماجاء ان الاعمال بالنیۃ
۱۵؎ الحدید: ۲۱
۱۶؎ گنجفہ: ایک کھیل کا نام
۱۷؎ المؤمنون: ۴
۱۸؎،۱۹؎ بخاری کتاب اللباس باب خواتیم الذھب
۲۰؎ اہتزاز: خوشی، مسرت
۲۱؎ النساء: ۵۹ ۲۲؎ التوبۃ: ۳۴،۳۵
۲۳؎ لاکھ: ایک قسم کاگوند
۲۴؎ جیوٹ (JUTE) :پٹ سن
۲۵؎
۲۶؎ الحشر: ۸
۲۷؎ بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اخذ الصدقۃ التمرعند صرام النخل (الخ)
۲۸؎ طٰہٰ: ۱۹۹،۱۲۰ ۲۹؎ البقرۃ: ۳۱ ۳۰؎ اٰل عمران: ۱۰۵
۳۱؎ العلق: ۶
-B۳۱؎ نارمنڈی (NORMANDY): فرانس کے قدیم صوبوںمیں سے ایک صوبہ۔ اس علاقے میں دسویں صدی عیسوی میں ملحد سکنڈے نیویائی لوگوں نے قبضہ کیا۔ انگریزوں اور فرانسیسوں کے مابین جنگوں میں متعدد بار ایک دوسرے نے اس پر قبضہ کیا۔ ۱۴۵۰ء میں چارلس ہفتم نے اس پرقبضہ کیا۔ ۱۹۴۴ء میں یہ پھر میدان جنگ بنا۔ برطانیہ اور امریکہ کے مشترکہ حملے سے نازی فوجوں کو پسپا ہونا پڑا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۶۹۴۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
۳۲؎ کودن: کندذہن
۳۳؎ حزقی ایل باب۳۸ آیت ۱ تا ۲۳۔ باب ۳۹ آیت ۱ تا ۲۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳
۳۴؎ تذکرہ صفحہ ۵۴۰۔ ایڈیشن چہارم
۳۵؎ تذکرہ صفحہ ۴۵۸۔ ایڈیشن چہارم (مفہوماً)
۳۶؎ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال
قرآن کریم پڑھنے پڑھانے
کے متعلق تاکید
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید
(تقریر فرمودہ ۱۱؍ ستمبر ۱۹۴۵ء بمقام بیت اقصیٰ قادیان)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں نے پہلے بھی کئی بار بلکہ کئی بار کا لفظ بھی شاید غلط ہوگا یوں کہنا چاہئے کہ اپنے پیشروؤں کے تسلسل میں متواتر اور بار بار جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ قرآن شریف کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرے لیکن ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے جیسے انسان کی پیدائش اور موت کا ایک وقت ہوتا ہے، جیسے درختوں کے پھل لانے کا ایک وقت ہوتا ہے، جیسے سبزیاں اور ترکاریاں بونے کا ایک وقت ہوتا ہے، جیسے اُن کے کاٹنے کا ایک وقت ہوتا ہے اِسی طرح بنی نوع انسان کے اعمال بھی خاص خاص ماحول میں پیدا ہوتے، پنپتے، بڑھتے اور مکمل ہوتے ہیں۔
ہمارے ایک پُرانے بزرگ اپنے واقعات میں سے ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ کوئی مالدار شخص بہت ہی عیاش تھا اور رات دن اپنے اموال گانے بجانے اور شراب وغیرہ کے شغل میں خرچ کیا کرتا تھا۔ کوئی بزرگ تھے اُنہوں نے اُسے کئی دفعہ سمجھایا لیکن بجائے اِس کے کہ اُن کی نصیحت اس کے دل پر اثر کرتی اور بجائے اِس کے کہ وہ ان کے وعظ سے نصیحت حاصل کرتا وہ اپنی بداعمالیوں میں اور زیادہ بڑھتا چلا گیا اور بجائے اِس کے کہ وہ اس بزرگ کی خیر خواہی اور اس کے اخلاص کی قدر کرتا اُس نے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں ان کو دُکھ دینا شروع کر دیا اور طرح طرح کی تکالیف دینی شروع کر دیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کر کے مکہ مکرمہ کی طرف تشریف لے گئے۔ ایک دفعہ حج کے ایام میں جب کہ لوگ ذوق و شوق سے طوافِ کعبہ کر رہے تھے اور وہ بزرگ بھی طواف کعبہ میں مشغول تھے (حج کرنے والوں نے تو وہاں کی حالت کو دیکھا ہے جنہوں نے نہیں دیکھا وہ اِس طرح اندازہ کر سکتے ہیں کہ جس طرح شمع کے گِرد پروانے چکر لگاتے ہیں اِسی طرح کعبہ کے گِرد ایک عجیب والہانہ رنگ میں دینِ اسلام کے شیدائی پھر رہے ہوتے ہیں۔ اُس وقت اُن کی وہ مضطربانہ حرکات انسانوں کی حرکات معلوم نہیں ہوتیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ شمع ہے اور اُس کے گِرد گھومنے والے پروانے ہیں اور حج کے ایام میں تو اس کے گِرد چلتے وقت راستہ ملنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ بلکہ جیسے میلوں وغیرہ کے دنوں میں ریلوے ٹکٹ گھر کے سامنے لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے اور قدم قدم پر ٹھوکریں لگتی ہیں اِسی طرح وہاں کی حالت ہوتی ہے) اُن کو اپنے سامنے کے آدمی سے ٹھوکر لگی اُنہوں نے آنکھیں اُٹھا کر دیکھا تو وہ مغرور امیر جس کی وجہ سے اُن کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا تھا طوافِ کعبہ کر رہا تھا اُن کو حیرت ہوئی اور اُنہوں نے اُس سے پوچھا کہ تم کہاں؟ اُس نے جواب میں کہا جہاں آپ مجھے دیکھ رہے ہیں وہیں ہوں۔ انہوں نے کہا آخر تمہاری ہدایت کا موجب کونسی چیز ہوئی؟ میں نے ہر طریقہ وعظ کا تمہاری ہدایت کے لئے اختیار کیا تھا اور ہر ذریعہ نصیحت دلانے کا میں نے استعمال کیا تھا لیکن تم پر ایک ذرہ بھر بھی اثر نہ ہوا اب خدا تعالیٰ نے وہ کونسی نئی بات پیدا کر دی ہے جو تمہارے لئے ہدایت کا موجب ہوئی۔ اُس نے کہا کچھ بھی نہیں آپ نے بیشک قرآن شریف بھی استعمال کیا، حدیث بھی استعمال کی، عقل بھی استعمال کی، غرض ہر ممکن طریقہ مجھے سمجھانے کے لئے استعمال کیا لیکن میرے نصیحت حاصل کرنے کا ابھی وقت نہ آیا تھا۔ مجھے قرآن شریف کی آیات بے معنی معلوم ہوتی تھیں، مجھے حدیث کا کلام بالکل فرسودہ کلام نظر آتا تھا، مجھے آپ کی عقل کی باتیں پاگل پن کی باتیں نظر آتی تھیں اور میں اپنی شرارتوں اور اپنی لغویات میں بڑھتا چلا جاتا تھا اور ان حالات میں کسی قسم کا بھی کوئی فرق نہ پڑتا تھا لیکن ایک دن میں اِسی طرح اپنی مجلسِ راگ و رنگ منانے کے لئے بیٹھا ہوا تھا اور تمام سامانِ تعیش کا موجود تھا اور میں لُطف اُٹھا رہا تھا کہ گلی میں سے نہ معلوم کون شخص گزرا۔ اتفاقاً اُس کی آواز اور میری توجہ ہم آہنگ ہوگئیں اور میرے کانوں میں ترنم سے ایک آواز آئی اور یہ الفاظ میرے کانوں میں پڑے ۱؎ کیا مومنوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل خدا کی یاد کی طرف مائل ہوں؟ اُس نے کہا یہ الفاظ جو نہ معلوم کون شخص کس طرز پر اور کس خیال میں پڑھتا چلا جاتا تھا میرے کانوں پر اِس طرح گرے جیسے بیان کیا جاتا ہے کہ قیامت کے دن اسرافیل کا صور پھونکا جائے گا۔ اِن الفاظ کا میرے کانوں میں پڑنا تھا کہ دنیا میری نگاہوں میں تاریک ہوگئی اور وہ چیزیں جن کو میں زندگی کا جزو سمجھتا تھا اب نہایت ہی بے ہنگم نظر آنے لگیں، میں اُسی وقت مجلس سے اُٹھا اور خدا تعالیٰ کے حضور توبہ کی اور اب آپ مجھے یہاں دیکھ رہے ہیں جہاں میں ہوں۔ تو جس شخص پر سارے قرآن شریف نے اثر نہ کیا جب وقت آیا تو ایک آیت نے اُس کی حالت کو بالکل بدل دیا۔ یہی وہ حکمت ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ ہدایت پانے سے محروم ہو جاتے ہیں اور بہت سے لوگ ہدایت دینے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اُس وقت جب کہ ایک شخص کے لئے ہدایت مقدر ہوتی ہے تھک کر اس کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے دس سال مغز ماری کی ہے مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل پر مُہر لگی ہوئی ہے ہم اِس کا کیا کریں؟ اگر اُنہیں علمِ غیب ہوتا تو وہ یہ جانتے کہ یہ دس سال مُہروں کے دس سال تھے مگر اس سے اگلا منٹ جس وقت وہ اس کو چھوڑ کر چلے آئے وہی وقت تھا کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے اس مُہر کو توڑنے کے لئے آ رہے تھے اور ہزار ہا انسان اسی لئے ہدایت سے محروم ہو جاتے ہیں کہ وہ ہدایت کی باتیں سنتے ہیں، پڑھتے ہیں، اُن کے دل میں سچائی کو تلاش کرنے کی جستجو اور خواہش ہوتی ہے مگر ایک وقت گزر جانے کے بعد جب خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کے سینوں کو سچائی سے پُر کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے اور اُن کی مُہروں کو توڑنے کا وقت آتا ہے تو وہ اپنے گھروں میں بیٹھ جاتے اور کہتے ہیں ہم نے بہت غور کر لیا ہے اور بہت کچھ سمجھنے کی کوشش کی ہے شاید دنیا میں ہدایت ہے ہی نہیں یا ہدایت ہمارے لئے مقدر ہی نہیں اس لئے سچے مذہب کی جستجو کی خواہش فضول ہے اور وہ عین اُس وقت اپنے پاؤں کولَوٹا دیتے ہیں جس وقت منزلِ مقصود اُن کے قریب آچکی ہوتی ہے۔
تو میں سمجھتا ہوں کہ شاید خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک وقت مقدر تھا کہ جب اِس تحریک کو ایسی شکل ملنی تھی جس کے ذریعے سے تمام باہر کی جماعتوں کے احمدی قرآن شریف سے واقفیت حاصل کر سکیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اِس تحریک میں نئی تبدیلیوں کا بھی اثر ہے جو قادیان کے مرکزی نظام میں مجھے پچھلے سال سے کرنی پڑیں۔ میں نے محسوس کیا کہ صدر انجمن احمدیہ کے افسر یہ خیال کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کبھی بھی اِس دنیا سے گزر نہیں جانااور اُن کا خیال ہے کہ قیامت کے بوریے وہی سمیٹیں گے اور اُن کے قائم مقاموں کی جماعت کو کوئی ضرورت نہیں۔ جب میں نے دیکھاکہ بڑھاپے کے آثار اُن میں پیدا ہو رہے ہیں، جب میں نے دیکھا کہ اُن کی قوتیں مضمحل ہو رہی ہیں اور جب میں نے دیکھا کہ وہ بات کو جلدی سے فوری طور پر سمجھنے کی قابلیتیں کھو رہے ہیں اور عنقریب ایسا خلا پیدا ہونے والا ہے جس کا پُر کرنا ہمارے اختیار سے باہر ہو جائے گا تو مَیں نے خود اپنے اختیار سے باہر کا نوجوان عنصر اُن میں شامل کر دیا اور واقفین میں سے بھی کچھ نوجوان فارغ کر کے نائب ناظر اور معاون ناظر کر کے اُن کے ساتھ لگانے شروع کر دیئے جس کی وجہ سے نظارتوں کے کاموں میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوگئی ہے۔ مثلاً اِس سال جو خطبہ جمعہ میں نے مولانا آزاد کے متعلق پڑھا تھا اُس کے متعلق میں نے دیکھا کہ وہ کام جو سابق نظارت میں شاید مہینوں تک بھی نہ ہوتا اور کچھ عرصہ کے بعد کہہ دیا جاتا اِس کاخیال تو آیا تھا مگر کچھ مشکلات پیش آگئیں، اِن نوجوانوں نے مل کر میری تقریر اُسی وقت صاف کروا لی اور اِس کا انگریزی ترجمہ بھی کر دیا اور اُسی رات چھپوا کر دوسرے دن صبح ہی تمام ہندوستان میں پھیلا دیا۔ اور ایک آدمی کے ذریعہ کچھ خطبات شملہ بھی بھیج دیئے۔ یہ تبدیلی اس نوجوان خون کی وجہ سے ہوئی ہے جس کا انجمن کی بوڑھی رگوں میں داخل کرنے کا مجھے خدا تعالیٰ نے موقع دیا۔
یہ تحریک بھی میں سمجھتا ہوں کہ اِس تبدیلی کی ممنونِ احسان ہے۔ نیا خون انسان کے لئے ایک ضروری چیز ہے۔ خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ انسان پہلے بوڑھا ہوتا ہے۔ پھر اپنی طاقتیں کھوتا ہے اور پھر عمرِ طبعی کو پہنچ کر مر جاتا ہے اور اگر وقتاً فوقتاً نیا عنصر اُس میں داخل کیا جائے تو وہ سلسلہ قائم رہتا ہے ورنہ نہیں۔ بہرحال مجھے خوشی ہے گو خوشی ابھی مکمل نہیں ہو سکتی کیونکہ لاکھوں کی جماعت میں سے صرف ۷۰،۸۰ آدمیوں کاقرآن شریف کا ترجمہ پڑھنے کے لئے آنا یہ ایک چھوٹا سا بیج تو کہلا سکتا ہے لیکن ایسا درخت نہیں کہلا سکتا جس کے سایہ کے نیچے لاکھوں انسان آرام کر سکیں۔ مگر بہرحال بیجوں سے ہی روئیدگیاں پیدا ہوتی ہیںاور روئیدگیوں سے ہی تنے بن جایا کرتے ہیں اور اِن تنوں سے ہی شاخیں نکلتی ہیں اور شاخیں ہی پتے پیدا کیا کرتی ہیں اور اس طرح وہ ایک بڑا درخت بن جاتا ہے جس کے سائے کے نیچے سینکڑوں بلکہ ہزاروں انسان آرام پاتے ہیں۔ اسی طرح یہ ۷۰،۸۰ یہ تو نہیں کہتا کہ نوجوان کیونکہ اِن میں سے بعض عمر کے لحاظ سے بوڑھے بھی ہیں لیکن یہ روحانی نوجوان جو اِس جگہ پڑھنے کے لئے جمع ہوئے ہیں اگر ہم ان کو بیج کے طور پر تصور کر لیں اور سمجھیں کہ یہ اپنے اپنے وطن جا کر حقیقی بیج ثابت ہونگے (بیج کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس کے اندر بڑھنے بڑھانے، پھلنے اور پھولنے کی طاقت پائی جاتی ہو) تو یہ لوگ سلسلہ کے لئے نہایت ہی مفید وجود ثابت ہو سکتے ہیں اور اسلام کی کھیتی کے لئے کھاد ثابت ہو سکتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے قرآن شریف ہی دین کی جان ہے اِس کو پڑھے پڑھائے بغیر کسی قسم کی ترقی کا خیال کر لینا ایک غلط خیال ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل عام طور پر عورتوں کے درس میں ایک چھوٹی سی مثال سنایا کرتے تھے۔ وہ ایک نہایت ہی لطیف بات ہے اگر ہم چاہیں تو اس سے بہت بڑا سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو! جب میں کہتا ہوں قرآن شریف پڑھو یا سنو تو تم یہ جواب دیا کرتی ہو کہ ہم پڑھی ہوئی نہیں حالانکہ اگر کسی عورت کا بچہ باہر گیا ہوا ہو اور اُس کے نام کا کارڈ باہر سے آئے تو جو پڑھی ہوئی ہوتی ہیں وہ تو اُس کو ایک دفعہ پڑھ کر سرہانے کے نیچے رکھ دیتی ہیں یا ٹرنک میں رکھ لیتی ہیں یا کسی طاق میں رکھ دیتی ہیں مگر جو اَن پڑھ ہوتی ہیں اُن کو ایک دفعہ خط پڑھوا کر سننے سے تسلی نہیں ہوتی بلکہ وہ کسی دوسرے کے پاس جاتی ہیں اور پھر اُس سے سنتی ہیں۔ مثلاً جب ایک اَن پڑھ عورت کے پاس خط آتا ہے تو پہلے وہ گاؤں کے مُلاّ کے پاس جاتی ہے اور کہتی ہے مُلاّ جی! ذرا کارڈ پڑھنا میرے بیٹے کی طرف سے آیا ہے۔ اُس سے سنتی ہے اور سمجھتی ہے کہ شاید کوئی لفظ مُلاّ جی کی نگاہ سے رہ گیاہویا شاید جلدی میں سارا مضمون نہ سنایا ہو، پھر وہ دَوڑی دَوڑی چوہدری جی کی بیٹھک میں جاتی ہے اور کہتی ہے چوہدری جی! ذرا یہ کارڈ تو سنا دینا میرے بیٹے کی طرف سے آیا ہے۔ اُس سے خط سنتی ہے مگر پھر بھی تسلی نہیں ہوتی اور وہ پٹواری جی کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے پٹواری جی! ذرا یہ خط تو سنا دینا میرے بیٹے کی طرف سے آیا ہے اُس سے سنتی ہے۔ پھر وہ مدرّس کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے منشی جی! ذرااِس خط کو تو سنا دینا پھر بھی تسلی نہیں ہوتی تو ڈاکخانے والے بابو کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے۔ ڈاکٹر بابو جی! ذرا اِس خط کو تو سنا دینا (گاؤں والے بیچارے ڈاکخانے کو کم علمی کی وجہ سے ڈاکٹر خانہ کہتے ہیں) وہ اُس کے پاس جاتی ہے اور کہتی ہے ڈاکٹر بابو جی! ذرا یہ خط تو سنا دینا اور اِس طرح جب تک اُسے سات آٹھ دفعہ سن نہیں لیتی اُسے تسلی نہیں ہوتی اور کارڈ کو اپنے قریب ہی رکھتی ہے۔ ایک دو ماہ کے بعد اگر کوئی باہر کا آدمی اس گاؤں میں آ جائے اور اُس کو اِس کا علم ہو جائے کہ وہ پڑھا ہوا ہے تو وہ اُس کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے ذرا یہ خط تو سنا دیں۔ غرض پڑھی لکھی عورتیں تو ایک دفعہ پڑھ کر چپ کر جاتی ہیں مگر اَن پڑھ عورتوں کو تم دیکھتی ہو کہ جب تک سات آٹھ دفعہ خط پڑھوا نہ لیں آرام نہیں لیتیں۔
پس خدا تعالیٰ تمہارا یہ عُذر ہرگز نہیں سنے گا کہ ہم پڑھی ہوئی نہیں ہیں خدا تعالیٰ پوچھے گا کہ تم نے اپنے بیٹے کا کارڈ اتنی دفعہ پڑھوا لیا تھا تو تم نے میرا کارڈ کیوں نہ پڑھوایا۔ اگر تمہیں مجھ سے اتنی بھی محبت ہوتی جتنی اپنے بیٹے سے تھی تو تم میرا خط بھی پڑھوا کر سنا کرتیں مگر تم نے میرا خط بند کر کے رکھ دیا اور کسی سے نہ سنا اور اپنے بیٹے کا کارڈ پڑھواتی پھریں۔ تو حقیقت یہ ہے کہ جس چیز پر انسان کی زندگی کا مدار ہے اور جس کے بغیر انسان انسان نہیں کہلا سکتا اس کے متعلق اس قسم کے عُذر تراشنا کہ ہم پڑھے ہوئے نہیں جاہل ہیں بالکل غلط بات ہے۔
دنیا میں ہر چیز پڑھی تو نہیں جاتی بہت سی چیزیں سننے سے آتی ہیں۔ کیا دنیا کے ہر شخص نے کابل دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے طہران دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے بغداد دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے قاہرہ دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے دمشق دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے قسطنطنیہ دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے ٹوکیو (TOKYO) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے برلن (BERLIN) دیکھاہے؟ کیا ہر شخص نے پیرس (PARIS) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے میڈرڈ (MEDRID) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے لندن (LONDON) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے پیٹس برگ (PETSBURG) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے ماسکو (MOSCOW) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے نیویارک (NEW YORK) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے ہانگ کانگ (HONG KONG) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے شنگھائی دیکھا ہے؟ ہم نے کتنی چیزیں دیکھی ہیں اور کتنی سُنی ہیں؟ اگر مقابلہ کیا جائے تو سننے کی چیزیں ہزار ہا گُنا زیادہ ہیں اور دیکھنے والی چیزیں ہزار ہا گُنا کم ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ دیکھی ہوئی چیزیں اکثر نظر انداز ہو جاتی ہیں اور سنی ہوئی چیزیں اکثر یاد رہتی ہیں۔ ہم روزانہ سیر کے لئے باہر جاتے ہیں اور میدانوں اور پہاڑوں اور جنگلوں میں سے گزرتے ہیں لیکن جب باہر سے آنے والے انسان سے پوچھو کہ تم نے سیر میں کیا کیا دیکھا؟ اُس نے کئی کروڑ چیزیں دیکھی ہوتی ہیں مگر جب پوچھیں تو زیادہ سے زیادہ یوں کہہ دے گا بڑا اچھا نظارہ تھا۔ جب پوچھیں بتاؤ تو سہی کیا نظارہ تھا؟ تو آگے سے یہ جواب دے دیتے ہیں کہ بڑا اچھا نظارہ تھا، دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ دراصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ یاد کچھ نہیں اور ہمارا یہ فقرہ کہنا کہ وہ نظارے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں اپنے اندر درحقیقت یہ مفہوم رکھتا ہے کہ خاص نگاہ سے کسی چیز کو دیکھا ہی نہیں ویسے نظارے اچھے لگے۔ لیکن اِس کے مقابل پر اگر یہ پوچھا جائے کہ راستہ میں کون کون ملا اور کس کس سے کیا کیا باتیں کیں؟ تو وہ اس سے بیسیوں گُنے زیادہ باتیں بتا دے گا۔ وہ یہ بتلائے گا کہ راستے میں فلاں چوہدری ملا اُس نے یہ کہا، فلاں ملا اُس نے یہ کہا اور فلاں آدمی جو مجھے ملا اُس نے یہ کہا تو جو سُنی ہوئی باتیں ہیں وہ قریباً ساری یاد ہونگی اور دیکھی ہوئی باتوں میں سے اکثر بھول گئی ہونگی۔
بات یہ ہے کہ حافظے سے تعلق رکھنے والی دیکھنے اور سننے کی الگ الگ حسیں ہیں اور تجربہ بتاتا ہے کہ سننے والی چیزیں زیادہ یاد رہتی ہیں اور دیکھنے والی چیزیں کم یاد رہتی ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جتنا بھی ہم کسی چیز کو زیادہ قریب کرتے ہیں اُتنا ہی وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہے۔ ہر وقت ماں کی گود میں رہنے والا بچہ ماں کو اتنا یاد نہیں ہوتا جتنا دُور کا رہنے والا۔ وہ اپنے ایک بچہ کو گود میں اُٹھائے ہوئے ہوتی ہے لیکن اُس کا دماغ اُس بچہ کی طرف نہیں ہوتا بلکہ اُس بچہ کی طرف ہوتا ہے جو دور ہوتا ہے۔ اِسی طرح وہ چیزیں جن میں سے انسان ہر وقت گزرتا ہے وہ اتنا اثر اُس کی طبیعت پر نہیں ڈالتیں جتنا وہ چیزیں جن میں سے انسان کبھی کبھی گزرتا ہے اثر ڈالتی ہیں۔ آنکھیں ہر وقت دیکھتی ہیں مگر کان ہر وقت نہیں سنتے، شوروغل تو ہر وقت ہوتا رہتا ہے مگر اُس کی طرف انسان کی توجہ نہیں ہوتی صرف ایک گونج سی ہوتی ہے جو کان سنتے ہیں مگر وہ چیز توجہ کھینچنے والی نہیں ہوتی۔ جس طرح میں تقریر کر رہا ہوں اور میری تقریر تمہاری توجہ کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے تو جو معیّن سننا ہے وہ کبھی کبھی ہوتا ہے۔ لیکن جب تک انسان جاگتا رہتا ہے آنکھیں کھلی رہتی ہیں اور کوئی نہ کوئی چیز ہر وقت آنکھ دیکھتی رہتی ہے جس کی وجہ سے آنکھ فوراً اثر اخذ نہیں کرتی۔ لیکن کان کبھی کبھی سنتے ہیں اس لئے کان اس کو اخذ کرنے کے لئے اور دماغ اس کو حاصل کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اِسے دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لو کہ آپ کا ایک بڑا گہرا دوست آپ کو ملنے کیلئے آتا ہے اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا ہے آپ وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ کہہ کر اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور آپ کو اس کا خیال نہیں رہتا۔ کچھ دیر کے بعد آپ کہتے ہیں اوہ! مجھے خیال نہیں رہا تھا آپ سے بات کرنے کا۔ لیکن ایک اجنبی آدمی آتا ہے تو آپ اُس سے اِس طرح نہیں کرتے جس طرح اپنے دوست کے ساتھ کیا تھا بلکہ آپ فوراً کھڑے ہو جاتے ہیں اور اُسے تپاک سے ملتے ہیں اور پوچھتے ہیں آپ کہاں سے آئے؟ کیسے آئے؟ اس طرح دس بیس باتیں کرتے ہیں اور پھر اُسے تپاک سے رُخصت کرتے ہیں تو نئے آنے والے کی قدر زیادہ ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہماری جماعت کے کئی افراد جو زیادہ سمجھدار نہیں ہوتے وہ اِس پر بگڑ جاتے ہیں کہ غیر کی خاطر کی اور ہماری نہیں کی وہ جانتے نہیں کہ یہ فطرتی اور طبعی امر ہے کہ انسان نئی چیز کی طرف نئی توجہ کرتا ہے اور اسے ایسا کرنا چاہئے۔
حضرت مسیح ناصری کی ایک مثال کیسی لطیف ہے۔ آپ نے فرمایا کوئی شخص تھا اُس نے اپنے اموال دو بیٹوں میں تقسیم کر دیئے اور کہا بیٹو! جاؤ کماؤ اور کھاؤ! اُن میں سے ایک نے کہا باپ سے مال ملا ہے مُفت کا ہے اِس لئے آؤ خوب گل چھرے اُڑائیں۔ اُس نے عیاشی شروع کر دی اور خوب مال اُڑایا۔ دوسرے نے کہا میرے باپ کا مال ہے اِس کی حفاظت کرنی چاہئے۔ اُس نے روپیہ کمانا اور جمع کرنا شروع کردیا۔ حسبِ ضرورت کچھ گزارے کے لئے خرچ کرتا رہا اور باقی رقم جمع کرتا گیا آخر بہت سار وپیہ لے کر گھر واپس آیا۔ باپ نے اُس کی بڑی تعریف کی اور عزت سے گھر میں بٹھایا اور اپنے دوسرے بیٹے کا انتظار کرتا رہا مگر دوسرا بیٹاسارا مال کھا چکا تھا وہ کونسا منہ لے کر باپ کے پاس جاتا، وہ باپ کے پاس جانے کا خیال چھوڑ کر دُور نکل گیا اور کسی شخص کے ہاں سؤر کا گلہ چرانے پر نوکر ہوگیا، روزانہ چھوٹے چھوٹے بچے جو چل نہ سکتے تھے اُن کو کمرپر لادتا اور باقی بچوں کی گردنوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے ریوڑ کو ہانک کر باہر لے جاتا اور لاتا تھا۔ اُس کا مالک بعض اوقات کسی وجہ سے اُسے گالیاںدیتا اور مارنے کے لئے بھی تیار ہو جاتا اور کہتا نالائق! تم نے یہ کام نہیں کیا وہ کام نہیں کیا، وہ اس سے بہت تنگ آگیا اور ایک دن غصے میں آکر اُس نے سؤر کے بچے کو زور سے زمین پر پٹخ دیا اور کہا میرے باپ کے گھر میں صرف بھائی ہی تو نہیں کئی نوکر بھی ہیں اگر نوکری ہی کرنی ہے تو کیوں نہ میں باپ کے پاس چلا جاؤں اور اُس کی نوکری کر لوں، وہ لَوٹ کر اپنے باپ کی طرف آیا۔ جب باپ کو پتہ لگا کہ میرا بیٹا واپس آرہا ہے تو اُس نے اپنے تمام دوستوں کو جمع کیا اور اُس کے استقبال کے واسطے گیا اور اپنے گھر میں لے آیا۔ اُس نے اِس خوشی میں کئی دنبے ذبح کئے اور لوگوں کو بُلا کر اُن کی دعوت کی۔ دوسرا بیٹا جو کما کے لایا تھا اُس کو بہت غصہ چڑھا اور اُس نے اپنے باپ سے کہا اے باپ !تیری بھی عجیب عقلہے میں نے تیرے مال کو حفاظت سے رکھا، کمایا، اُس کو بڑھایا اور پھر واپس لے کر تیرے گھر آیا لیکن تو نے میرے آنے پر ایک کمزور دُنبی بھی ذبح نہیں کی لیکن یہ جس نے تیرے مال کو ضائع کیا اور اس کو تلف کر دیااور عیاشی میں اپنی عمر گزاری یہ آیا تو تو نے اِس کا استقبال کیا اور کئی دُنبے ذبح کرڈالے۔ باپ نے کہا اے میرے بیٹے! تو میرے پاس تھا جو چیز پاس ہوتی ہے اُس کی انسان خوشی نہیں کیا کرتے لیکن جو چیز ـگم ہو جاتی ہے اور پھر ملتی ہے اُس کی خوشی کیا کرتے ہیں۔ یہ گم ہوا تھا مجھے واپس ملا اِس لئے میں نے خوشی کی ۔ ۲؎ پھر حضرت مسیحؑ نے فرمایا۔ ایسا ہی خدا کو اُس شخص کے واپس آنے سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جو گنہگار ہوتا ہے اور توبہ کرکے اُس کے حضور میں حاضر ہو جاتا ہے۔
اِس مثال میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو چیز ہر وقت پاس موجود رہتی ہے اس کی وجہ سے طبیعت میں کوئی خاص تغیر پیدا نہیں ہوتا اور اس کی طرف خاص طور پر توجہ نہیں ہوتی لیکن جو گم جائے یعنی آنکھوں سے اوجھل ہو جائے چونکہ اس کا گم ہو جانا ہر وقت دل میں ٹیس پیدا کرتا ہے اس لئے جب بھی وہ زخم مندمل ہو تو قدرتاً خوشی ہوتی ہے۔ تو جو چیزیں کبھی کبھی سامنے آئیں اُن کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ حِسیں جو کبھی کبھی کام کرتی ہیں وہ گہرا اثر چھوڑ جاتی ہیں بہ نسبت اُن حِسوں کے جو ہرقت کام کرتی ہیں۔
ایک اور موٹی مثال دیکھو! زندگی میں ہم کتنی چیزوں کو دیکھتے ہیں جن کا مادی زندگی سے تعلق ہوتا ہے، مادی زندگی کے لحاظ سے ہمارے جاگنے کی حالت حقیقی ہے اور رؤیا کی حالت غیرحقیقی ہے۔ اور اگلے جہان کے لحاظ سے رؤیا کی حالت حقیقی ہے اور مادی زندگی کی غیرحقیقی۔پس جہاں تک اِس جہاں کا تعلق ہے ہماری رؤیا کی حالت غیر حقیقی ہے اور جاگنے کی حالت حقیقی ہے اب اپنی عمر میں تم اندازہ لگا کر دیکھو کہ عام طور پر آدمی اپنی عمر میں چند رؤیا دیکھتا ہے اور اس کے مقابل پر اربوں ارب نظارے جاگنے کی حالت میں دیکھتا ہے لیکن ان میں سے اکثر بھول جاتے ہیں لیکن جو خواب کے نظارے ہوتے ہیں ان میں سے بعض پر بعض اوقات چالیس پچاس سال گزر جاتے ہیں لیکن وہ نہیں بھولتے۔ کوئی شخص خواب دیکھتا ہے وہ کہتا ہے میں نے ایک بڑا خوشنما درخت چالیس سال ہوئے دیکھا اور اس کے مقابل پر جاگتے ہوئے وہ روزانہ جو بڑے بڑے خوشنما درخت دیکھتا ہے وہ یاد نہیں رہتے کیونکہ مادی آنکھوں کے نظارے وہ روزانہ کرتا ہے اور خواب کی آنکھ سے کبھی کبھی نظارہ دیکھتا ہے یہی فرق دیکھنے اور سننے کی حِس کا ہے۔ انسان کی دیکھنے کی حِس ہر وقت کا م کرتی ہے اور سُننے کی حِس اِس سے کم کام کرتی ہے اس لئے سننے کی حِس کا قوتِ حافظہ پر زیادہ اثر پڑتا ہے بہ نسبت دیکھنے والی حِس کے۔ پھر بعض دفعہ دو دو، تین تین حِسیں مل کر ایک کیفیت کو محسوس کرتی ہیں وہ حافظہ پر اور بھی گہرا اثر ڈالتی ہیںاسی لئے اگر ایک حِس سے کوئی ثواب کا کام کیا جائے اور اس کے ساتھ دوسری ایک دو اور حِسوں کو بھی ملا لیا جائے تو زیادہ ثواب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مسلمان بزرگ باوجود اِس کے کہ اُن کو قرآن شریف حفظ ہوتا تھا وہ قرآن شریف کو کھول کر اُسے آنکھوں سے دیکھتے تھے، زبان سے پڑھتے تھے اور ساتھ ساتھ اُنگلی چلاتے جاتے تھے۔ کسی ایسے ہی بزرگ سے جب کسی نے پوچھا کہ یہ کیا حرکت ہے جب آپ کو قرآن شریف حفظ ہے تو پھر قرآن شریف دیکھ کر کیوں پڑھتے ہیں اور اگر قرآن شریف دیکھ کر پڑھتے ہی ہیں تو ساتھ ساتھ منہ سے کیوں دُہراتے جاتے ہیں اور پھر اِس کے ساتھ اُنگلی ہلاتے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے جواباً کہا کہ میاں! خداتعالیٰ کے سامنے ہر چیز کا جائزہ ہوگا اگر میں نے حافظہ کے ذریعہ پڑھا تو صرف دماغ عبادت گزار ہو گا جب خداتعالیٰ نے مجھے آنکھیں دی ہیں تو یہ عبادت گزار کیوں نہ ہوں اور زبان دی ہے تو وہ عبادت گزار کیوں نہ ہو اِس لئے قرآن شریف دیکھ کر پڑھتا ہوں اور زبان سے دُہراتا جاتا ہوں اور ساتھ ساتھ اُنگلی بھی رکھتا چلا جاتا ہوں تاکہ اُنگلی بھی عبادت گزار ہو جائے۔ تو جتنی حِسیں زیادہ کام کرتی چلی جاتی ہیں ثواب بھی بڑھتا چلا جاتا ہے اِسی طرح حافظے میں جتنی زیادہ حِسیں لگائیں گے اتنی ہی زیادہ بات یاد رہے گی۔ جس کام میں کان، آنکھ اور قوتِ لامسہ تینوں لگ جائیں وہ زیادہ دیر تک حافظہ میں قائم رہے گی تو جن چیزوں کو انسان کبھی کبھار استعمال کرتا ہے وہی حافظہ میں زیادہ قابلِ قدر سمجھی جاتی ہیں کیونکہ کبھی کبھار آنے والے انسان کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے۔
دماغ میں ایک بڑی لائبریری بنی ہوئی ہے جس طرح دنیا میں لائبریریاں ہیں۔ دنیا کی لائبریریاں چھوٹی ہیں لیکن دماغ میں اتنی بڑی لائبریری ہے کہ اربوں ارب کو ٹھڑیاں اِس میں ہیں ہر چیز جسے انسان دیکھتا ہے یا جسے انسان سنتا ہے اُسی وقت حافظہ کے نگران اُس چیز کو جسے وہ دیکھتا ہے یا سنتا ہے یا چھوتا ہے یا چکھتا ہے یا سونگھتا ہے فوراً ہر الگ الگ چیز کو الگ الگ کوٹھڑیوں میں رکھ دیتے ہیں۔ غرض ہر بات کے لئے ایک الگ کوٹھڑی موجود ہے فوراً اُسے وہاں رکھ دیا جاتا ہے اور ہر ادنیٰ حرکت جو ہم کرتے ہیں وہاں محفوظ ہوتی چلی جاتی ہے۔ پھر جب ہمیں کسی وقت کوئی خیال آتا ہے مثلاً ہم نے زید کو دیکھا اُس کو دیکھتے ہی دل میں خیال پید ا ہوتا ہے کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے یہ تو ہمارا پُرانا واقف ہے، ہمارے محلے کا رہنے والا ہے اور ہمیں فلاں جگہ ملا تھا۔پہلے اس کو ان باتوں کا بالکل خیال نہیں ہوتا لیکن جس طرح ایک افسر جب دفتر میں آتا ہے اور اس کے سامنے مسل پیش ہوتی ہے تو وہ کہتا ہے اس کے متعلق پہلے کاغذات پیش کرو اسی طرح جب زید سامنے آتا ہے تو جو دماغ کے لائبریرین ہیں اُن کو فوراً حکم دے دیا جاتا ہے کہ اس کی مسل مکمل کر کے پیش کرو۔ اِس پر وہ اس کی مسل مکمل کر تے ہیں وہ مختلف خانوں سے جوجو باتیں اس سے متعلق ہوتی ہیں انہیں اکٹھا کرتے ہیں اور اس کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور وہ اُسے ملتے ہی کہتا ہے آپ میرے رشتہ دارہیں مجھے فلاں جگہ ملے تھے، آپ کا گھر فلاں جگہ ہے، آپ ہماری بیوی کے فلاں رشتہ دارہیں، آپ کی والدہ ہماری خالہ لگتی ہیں وغیرہ وغیرہ حالانکہ زید کو دیکھنے سے پہلے یہ خیالات اُس کے ذہن میں نہ تھے مگر سامنے آتے ہی ساری کی ساری مسل مکمل ہو کر پیش ہو جاتی ہے۔ تو جتنے زیادہ حواس کسی چیز کے محسوس کرنے میں استعمال ہوتے ہیں اُتنی ہی زیادہ وہ حافظہ میں قائم رہتی ہے کیونکہ اُسے لائبریری کی کئی الماریوں میں رکھا جاتا ہے اور لائبریرین کا اسے نکالنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اگر ایک الماری اُس کے ذہن سے نکل گئی ہو تو دوسری الماری اُسے اس کے وجود کا پتہ دے دیتی ہے۔
غرض خداتعالیٰ نے حافظہ کے متعلق ایک بڑا لطیف اور وسیع قانون بنایا ہے اور اس قانون سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں سُنی ہوئی باتیں ہمیں زیادہ یاد رہتی ہیں بہ نسبت دیکھی ہوئی باتوں کے۔( جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ سُنی ہوئی بات اپنی اصلی شکل میں قائم رہتی ہے اور دیکھی ہوئی چیز بدلتی رہتی ہے جیسے انسانوں کی شکلیں، مکانات، سٹرکوں وغیرہ کی حالت) میری تقریر کو ہی لے لو اِس کا سننا زیادہ اہم ہے پڑھنے سے۔ کیونکہ زیادہ آدمی سننے والے ہیں اور پڑھنے والے تھوڑے ہیں، پڑھنے والے اگر بعد میں پڑھ لیں تو پڑھ سکتے ہیں لیکن اکثر حصہ تعلیم یافتہ نہیںہے اس لئے ہمیں پڑھے ہوؤں کی اتنی فکر نہیں جتنی اَن پڑھوں کی۔ ہمارے ملک میںچھ فیصدی آدمی پڑھے ہوئے ہیں اور ۹۴ فیصد آدمی اَن پڑھ ہیں ۔ ہمیں چھ فیصدی پڑھے ہوؤںکی اتنی فکر نہیں ہونی چاہئے جتنی۹۴فیصدی اَن پڑھوں کی۔ یہ سیدھی اور صاف بات ہے کہ اگر کسی قوم کے ۹۴فیصدی افرادخراب ہوں گے تو چھ فیصدی اس سے بچ نہیں سکتے۔ لکڑی تیرتی ہے اور پتھر ڈوبتا ہے لیکن اگر بڑی لکڑی پر ایک چھوٹے سے پتھر کو رکھ دیں تو وہ بھی تیرتا ہے اور اگر چھوٹی سی لکڑی پر ایک بڑی سِل رکھ دیں تو لکڑی بھی ساتھ ہی ڈوب جائے گی تو کثرت، قلّت کو اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ پس اگر چھ فیصدی آدمی قرآن شریف پڑھ لیں اور اُسے اچھی طرح جان لیں اور ۹۴ فیصدی آدمی قرآن شریف نہ جانتے ہوں تو روحانی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک سَو فیصدی آدمی قرآن شریف نہ پڑھ لیں، اُسے سمجھ نہ لیں، اُسے اچھی طرح جان نہ لیں ہم محفوظ نہیں ہو سکتے اس لئے ضروری ہے کہ باقی ۹۴ فیصدی کو بھی ہم پڑھائیں، ان کی سُستیوں کو دور کریں اور بار بار کہہ کر اُن کو مجبور کر دیں کہ وہ قرآن شریف کو سُنیں اور یاد کریں اور ان کی توجہ اِس طرف پھیر دیں کہ اُن کے لئے قرآن شریف کا سننا اور یاد کرنا ضروری ہے۔
اس کام کو پورا کرنے کے لئے میں نے اس تحریک کو شروع کیا ہے اور اِس دفعہ سَتر اَسّی آدمی آئے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ۷۰،۸۰ آدمی کافی ہیںہاں وہ ۷۰،۸۰ آدمی بنیاد کا کام تو دے سکتے ہیںمگر ہمارے لئے مکمل عمارت کا کام نہیں دے سکتے۔ لاکھو ں کی جماعت میں سے ۷۰،۸۰ آدمیوں کا تیار ہو جانا کوئی حیثیت نہیں رکھتااِس کی تو اتنی بھی حیثیت نہیں جتنی آٹے میں نمک کی۔ یہ تو اُسی وقت ہمارے کام آسکتے ہیں جب یہ اپنی جماعتوں میں جاکر جو کچھ اِنہوں نے پڑھا ہے اُسے اُن لوگوں کو پڑھائیں جو پڑھ سکتے ہیں اور باقیوں کو سننے اور یادکرنے پر مجبور کریں اور اتنا سنائیں کہ اُن کو یاد ہو جائے اور اِس طرح اُن کو یاد کرائیں کہ ہماری جماعت کے تمام افراد کو قرآن شریف کا علم حاصل ہو جائے۔آخر ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں رہتے ہوئے تیرہ یا پندرہ سال کے اندر اندر ایسی جماعت تیار ہو گئی جو ساری دنیا کی معلّم ثابت ہوئی لیکن ہم پر پچاس سال گزر گئے ہیں ابھی تک ہم میں وہ تغیر نہیں پیدا ہوا اور نہ ہم سے وہ تغیر پیدا ہوا ہے۔ اگرچہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کے لئے انہیں ایک سہولت حاصل تھی کہ جو باتیں اُن کے سامنے کی جاتی تھیں وہ اُن کی اپنی زبان میں ہوتی تھیں اس لئے ہر بات سُنتے ہوئے اسے ساتھ ساتھ سمجھتے بھی جاتے تھے ان کے لئے اتنا کافی تھا کہ اگر کوئی انسان ان کے کان میں صرف اتنا ہی کہہ دیتا کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ تو اُن کی زندگی کے لئے کافی تھا اسلئے کہ ان میں سے ہر ایک جانتا تھا کہ ال کے کیا معنی ہیں، وہ جانتا تھاکہ حمد کے کیا معنی ہیں، وہ جانتا تھا کہ دال کے اوپر جو پیش ہے اُس کے کیا معنی ہیں،وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اللّٰہِ جس کے آخر میں ہ ہے اور جس کی ہ کے نیچے زیر ہے اِس کے کیا معنی ہیں، وہ جانتا تھا الرَّحْمٰن میں ال کیا کہتا ہے اور رحمٰن کیا، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ الرَّحِیْمِ کا ال کیا کہتا ہے اور رحیم کیا کہتا ہے، اور الرَّحِیْمِ کے نیچے جو زیر ہے وہ کیا کہتی ہے، وہ یہ سب کچھ جانتا تھا اِس لئے اس کیلئے اَلْحَمْدُ کے الفاظ کا سننا ہی کافی ہو جاتا تھا مگر ہمارے ملک کے لوگ جو عربی زبان سے بکلّی ناواقف ہیں ان سے بِسْمِ اللّٰہِ کی ب سے لیکر وَالنَّاسِ کی س تک قرآن سُن جاؤ اگر انہوں نے ناظرہ پڑھا ہوا ہے یا قرآن حفظ کیا ہوا ہے تو وہ سب کچھ سنا دیں گے لیکن یہ نہ جانتے ہوں گے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ سمجھتے کچھ بھی نہیں بلکہ جو کچھ یاد ہے یا جو لفظ پڑھے ہوئے ہیں انہیں دُہراتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب والوں میں صرف سورہ فاتحہ جو تغیر پیدا کر سکتی تھی ہماری جماعت میں سارا قرآن وہ تغیر پیدا نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ اِس جماعت کے اکثر افراد قرآن کریم کے معنی نہیں جانتے۔اب اِس کا علاج دو ہی طرح ہو سکتا ہے کہ یا تو ہم ان کو قرآن تک لے جائیں یعنی اُن کو عربی پڑھا دیں تا وہ قرآن کو سمجھ سکیں اور اگر یہ نہیں تو قرآن کو اُن تک لے جائیں یعنی اِس کا ترجمہ اُن کو سنائیں۔ ان عربی دانوں کے بغیر ہم قومی تغیر پیدا نہیں کر سکتے اور نہ ہی کوئی روحانی عظیم الشان تغیر کر سکتے ہیں۔ ہمارے اندر جو کوتاہیاں، سُستیاں اور غفلتیں پائی جاتی ہیں اِن کی ایک ہی وجہ ہے کہ ابھی تک ہم پر قرآن شریف کے دروازے نہیں کُھلے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب اسلام باہر کے ممالک میں پھیلا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے تو اُن کے لئے یہی مشکل پیش آئی کہ وہ نمازیں کس طرح پڑھیں، قرآن کس طرح پڑھیں جبکہ اُن کو عربی ہی نہیں آتی۔ اِس حالت کو دیکھ کر حضرت امام ابو حنیفہؒ نے فتویٰ دے دیا کہ گو نماز کو اصل صورت میں پڑھنا زیادہ ثواب کا موجب ہے لیکن جو قرآن شریف نہیں پڑھ سکتے اور نماز بھی عربی میں نہیں پڑھ سکتے وہ قرآن کا ترجمہ پڑھ لیا کریں اور یہ بھی جائز ہے کہ نمازکا بھی اپنی زبان میں ترجمہ کرلیں اور اسے یاد کرلیں اور نماز دل میں پڑھا کریں۔غرض ایک تو وہ لوگ تھے کہ وہ جب اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پڑھتے تھے تو جانتے تھے کہ اِس کے کیا معنی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِکے کیا معنی ہیں لیکن ایک آجکل کے لوگ ہیں جو مسلمان تو ہیں لیکن قرآن شریف کو نہیں جانتے اسلام سے محض ناواقف ہیں۔ ان دونوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص وہ ہے جو ٹرنک کھولتا ہے اور اُس میں سے کپڑے نکال کر دیکھتا ہے کہ یہ پاجامہ ہے، یہ قمیض ہے، یہ کوٹ ہے، یہ پگڑی ہے اور ایک اور انسان ہے وہ ایک ٹرنک جس کو تالا لگا ہوا ہے اُس پر ہاتھ پھیرلیتا ہے کیا اِن دونوں میں کوئی نسبت ہو سکتی ہے؟ جس شخص کو قرآن شریف کے معنی نہیں آتے اُس کی مثال تو ویسی ہے جیسے ٹرنک پر ہاتھ پھیرنے والاانسان۔ اُس کو نہ کپڑے دیکھنے اور نہ استعمال کرنے کی توفیق ہوئی، نہ اُس نے ہاتھوں سے اُن کپڑوں کو ٹٹولا، نہ اُس کے جسم نے انہیں پہنا اور نہ ہی پہن سکتا ہے کیونکہ ٹرنک کو تالا لگا ہوا ہے۔ ایسے شخص کی مثال اُس شخص کی مثال کی طرح کس طرح ہو سکتی ہے جس کے پاس اس ٹرنک کی چابی ہے وہ چابی سے تالا کھولتا ہے، کپڑے پہنتا ہے اور اس سے اپنے جسم کو ڈھانکتا ہے اور اسے خوشنما بنا کر دوستوں کو دکھاتا ہے اِن دونوں میں تو کوئی نسبت ہی نہیں۔ تو جب تک قرآن شریف کو ہم کھول کر لوگوں کے سامنے نہیں لے آتے اورجب تک لوگوں کو اس سے اچھی طرح واقف نہیں کرادیتے اُس وقت تک یہ سمجھ لینا کہ ہم کوئی تغیر پیدا کر لیں گے غلط ہے۔ اور ہماری حالت اُس برہمن کی سی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ایک دن جبکہ بہت زیادہ سردی تھی نہانے کے لئے دریا پر گیا زیادہ سردی کی وجہ سے وہ راستہ میں ٹھٹھررہا تھا اور ڈر رہا تھاکہ اگر دریا میں نہایا تو بیمار ہو جاؤں گا لیکن چونکہ ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ برہمن کوضرور روزانہ دریا پر (دریا اگر پاس ہو) تو نہانا چاہئے اِس لئے باوجود سخت سردی کے وہ دریا کی طرف چل دیا۔ جب وہ دریا کی طرف جارہا تھا تو راستہ میں اسے کوئی دوسرا برہمن آتا ہوا نظر آیا اُس کو دیکھ کر اُس نے کہا کیا کریں آج تو نہایا نہیں جاتا بڑی سردی ہے تم نے کیا کیا؟ دوسرے برہمن نے جواب دیا کہ میں نے تو یہ کیا کہ ایک کنکر اُٹھا کر دریا میں پھینکا اور کہا ’’توراشنان سومور اشنان‘‘ یعنی تیرا نہانا میرا نہانا ہوگیا میں یہ کہہ کر واپس آگیا۔ اس پر وہ برہمن کہنے لگا ’’تور اشنان سوموراشنا ن‘‘ یہی بات ہے تو پھر تیرا نہانامیرا نہانا ہو گیا ۔یعنی کنکر کا نہانا اِس برہمن کا نہانا ہو گیا اور اُس برہمن کا نہانا اِس دوسرے برہمن کا نہانا ہوگیا۔یہی اِس وقت کے لوگوں کی حالت ہے جب کسی سے کوئی اس کے مذہب کے متعلق سوال کرے تو کہہ دیتے ہیں ہمارے مولوی صاحب خوب جانتے ہیں۔گویا ان کے دماغوں کو زنگ لگ چکا ہے اور وہ بے کار ہو چکے ہیں۔ قرآن شریف کا جاننا تو الگ رہا اِن کی حالت تو اُس شخص کی طرح ہے جو صرف ٹرنک پر ہاتھ پھیرلیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے سب کچھ دیکھ لیا اور پا لیا۔
میں جس وقت حج کے لئے گیا تو میاں عبدالوہاب صاحب ایک شخص سہارن پور کے رہنے والے تھے وہ بھی جج کے لئے گئے ہوئے تھے وہ چونکہ بہت ہی سیدھے سادھے آدمی تھے اِس لئے لوگ اُن سے مذاق کرتے تھے۔ اُن کے پاس تھوڑے سے روپے تھے جو اُن کے لڑکوں نے اُن کو دیئے تھے کچھ شرارتی لوگ تھے وہ چاہتے تھے کہ وہ روپیہ اُن سے لے لیں۔ میں مصر کے راستہ سے گیا تھا اور ہمارے نانا صاحب میرناصر نواب صاحب مرحوم جو جہاز سیدھا عرب جاتا ہے اُس میں گئے تھے اُنہوں نے جب دیکھا کہ لوگ ان سے مذاق کرتے ہیں اور ان سے روپیہ لوٹ لینا چاہتے ہیں تو انہوں نے ان کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔ وہ جہاز سے اُترے اور مجھ سے ملے تو میاں عبدالوہاب صاحب ان کے ساتھ تھے ۔مَیں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ بڑا سادہ آدمی ہے اور اس کی سادگی کی وجہ سے کچھ شرارتی لوگ اِس کو لُوٹنا چاہتے تھے اس لئے اس کو میں نے اپنے ساتھ لے لیا۔ میں نے دیکھا کہ واقعی وہ بڑا سادہ آدمی تھا قرآن شریف کا ان کو کچھ پتہ نہیں تھا، نماز انہیں آتی نہیں تھی میں حیران تھا کہ جب اِن کو دین کا کچھ علم ہی نہیں تو آخر وہ کس طرح یہاں آئے؟ میں نے اُن سے پوچھا آپ کا مذہب کیا ہے؟ یہ سوال کر کے میں منٹ بھر خاموش انتظار کرتا رہا جب اُنہوں نے کوئی جواب نہ دیا تو میں سمجھا کہ شایدسنا نہیں۔ پھر میں نے اِسی سوال کو اونچی آواز سے دُہرایا کہ میاں عبدالوہاب! تمہارا مذہب کیا ہے؟ وہ کہنے لگے جلدی نہ کرو سوچ کر جواب دیتا ہوں۔ مجھے یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ سوچنے کا کیا مطلب، حساب تھوڑا ہی ہے کہ ضربیں دے رہے ہیں۔ میں نے کہا میاں عبدالوہاب! میں نے مذہب پوچھا ہے سوچنے والی بات کیا ہے؟ وہ کہنے لگے یونہی نہ گھبرا دیا کرو ذرا سوچ تو لینے دو۔ پھر میں نے کہا اس کا تو ہر ایک کو پتہ ہوتا ہے کہ اس کا مذہب کیا ہے آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ کہنے لگے واپس جاؤں گا تو مُلاّ سے لکھوا کر بھیجوں گا۔ میں نے کہا مَیں مُلاّ کا مذہب نہیں پوچھ رہا آپ کا مذہب پوچھ رہا ہوں۔ پھر کہنے لگے ٹھہر جائیں ذرا سوچ تو لینے دیں آپ تو گھبرا دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد سوچ سوچ کر کہنے لگے میرا مذہب ہے علیہ۔ میرے ذہن میں نہ آیا کہ علیہ کا کیا مطلب ہے۔ میں نے کہا کہ علیہ تو آج تک کوئی مذہب نہیں سنا۔ پھر انہوں نے کہا تم تو گھبرا دیتے ہو سوچنے نہیں دیتے۔ خیر تھوڑی دیر تک علیہ علیہ کر کے کہنے لگے میرا مذہب ہے علیہ امام ۔ اُس وقت میرا ذہن اِس طرف گیا کہ علیہ امام سے مطلب امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ تب میں نے جان کر اُنہیں چڑانا شروع کیا کہ بتائیے آپ کا مذہب کیا ہے چپ کیوں ہیں؟ اِس پر وہ پھر کہنے لگے مَیں نے جو کہا ہے مُلاّ سے لکھوا دوں گا۔ مَیں نے پھر کہا کہ میں مُلاّ کا مذہب نہیں پوچھتا آپ کا پوچھتا ہوں۔ آخر بڑا سوچ سوچ کر انہوں نے کچھ اس قسم کا فقرہ کہا رحمۃ اللہ امام علیہ۔ اِس پر مَیں نے کہا میاں عبدالوہاب! آپ کے یہاں آنے کا کیا فائدہ تھا، آپ خواہ نخواہ اس بڑھاپے میں حج کے لئے چلے آئے آپ کو تو اسلام کا کچھ بھی پتہ نہیں۔ وہ بڑے غصہ میں آ کر بولے۔ میرے بیٹوں نے مجھے مجبور کیا کہ ابا! جا کر حج کر آؤ تب ہم خوش ہونگے مجھے کیا پتہ حج کیا ہوتا ہے۔جب مسلمانوں کی یہ حالت ہو تو کیا اِس پر یہ امید کی جاتی ہے کہ خدا اور اُس کے رسول کی حکومت دنیا میں قائم ہوگی۔ جس شخص کو یہ پتہ نہیں کہ خدا اور رسول کیا چیز ہے وہ خدا اور رسول کی کیا حکومت قائم کر سکتا ہے وہ تو جب بھی قائم کرے گا اپنے نفس کی حکومت قائم کرے گا تو قرآن شریف جانے بغیر اور اس کو سمجھے بغیر خدا کی حکومت قائم نہیں ہوسکتی۔
ہماری قربانیاں بے شک قابلِ قدر ہیں، ہمارے چندے بھی بے شک قابلِ قدر ہیں اور ہماری تبلیغ بھی قابلِ قدر ہے مگر ہم کس چیز کو قائم کرنا چاہتے ہیں؟ خدا اور اُس کے رسول کی حکومت کو؟ مگر خدا اور اس کے رسول کی حکومت بغیر قرآن شریف سمجھے قائم نہیں ہو سکتی۔ ہمیں کیا پتہ ہے کہ جس وقت اسلام کا جھنڈا گاڑا جائے گا اُس وقت کون زندہ ہوگا، ہمیں کیا پتہ ہے کہ اگر ہم زندہ بھی ہوں گے تو اسلام کا جھنڈا گاڑنے کی توفیق ہمیں ملے گی یا کسی اَور کو۔ کیونکہ ہر انسان ہر جگہ موجود نہیں ہوتا۔ پس کیا معلوم کہ جسے اسلام کا جھنڈا گاڑنے کی توفیق حاصل ہوگی وہ کون سا ہاتھ ہوگا۔ اگر اُن انسانوں کو جو ہمارے قائمقام ہونگے اگر اُن کے زمانہ میں جھنڈا گڑا یا اس جگہ پر جہاںجھنڈا گاڑا گیا جو ہمارا قائم مقام ہوا اگر اُس کو قرآن شریف کا پتہ نہیں ہوگا تو اُس نے کیا کرنا ہے۔
اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے کہتے ہیں کہ ایک پٹھان تھا اُس کو خواہش پیدا ہوگئی کہ کسی کو کلمہ پڑھا کر مسلمان بناؤں۔ اُسی گاؤں میں جس میں وہ رہتا تھا ایک بنیا تھا ایک دن اُسے اکیلا دیکھ کر اُسے جوش آ گیا اُس نے اُسے پکڑ لیا اور کہا کلمہ پڑھ، نہیں تو مارتا ہوں۔ اُس نے کہا میں کلمہ کس طرح پڑھوں؟ میں تو مسلمان نہیں ہوں۔ کہنے لگا خو مسلمان ہے یا نہیں آج تم کو کلمہ ضرور پڑھوانا ہے کیونکہ تم کو مسلمان کر کے میں نے جنت میں جانا ہے۔ لالہ نے بڑی منتیں کیں اور ٹالتا رہا کہ شاید اِس عرصہ میں کوئی دوسرا آدمی آ جائے اور میرا چھٹکارا ہو مگر اتفاق کی بات کہ اُس وقت کوئی دوسرا وہاں نہ پہنچا۔ بزدل آدمی کو جان زیادہ پیاری ہوتی ہے جب دیکھا کہ اتنی دیر سے کوئی نہیں آیا تو کہنے لگا اچھا تم کلمہ بتاتے جاؤ میں پڑھتا جاتا ہوں۔ پٹھان نے کہا خو تم آپ پڑھو۔ بنیینے کہا میں ہندو ہوں مجھے کلمے کا کیا پتہ۔ اس پر پٹھان بولا خو تمہارا قسمت بڑا خراب ہے کلمہ تو مجھ کو بھی نہیں آتا، نہیں تو آج تم مسلمان ہو جاتا اور ہم جنت میں چلا جاتا۔ یہی قرآن نہ جاننے والوں کی حالت ہے۔ اس حالت میں کیا چیز ہے جو ہم دنیا کے سامنے لے کر جانا چاہتے ہیں۔ اگر ہم بھی قرآن شریف جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی طرف پیغام ہے اس کو نہیں جانتے، اگر ہمیں اِس کا کچھ علم ہی نہیں اور اِس کی بجائے ہم اپنی باتیں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ غلط بات اور لغو خیال ہے۔
ہر احمدی کو قرآن کریم پڑھنا چاہئے اور جو پڑھنا نہیں جانتے اُن کو سنا کر قرآن کریم سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ ہمارا اوّلین فرض ہے۔ اگر ہم یہ ارادہ کر لیں کہ سَو فیصدی افراد کو قرآن شریف کا ترجمہ سمجھا دیں گے اور اگر ہم اِس میں کامیاب ہو جائیں تو پھر ہماری فتح میں کوئی شک ہی نہیں اور ہماری روحانی حالت میں ایک عظیم الشان تغیر آ جائے گا۔ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ دوسرے مسلمانوں میں بعض لوگ قرآن شریف جانتے ہیں مگر اُن کے حالات بھی خراب ہیں پھر ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ اِس کو جاننے کی کوشش کریں گے اُن کی یہ حالت نہ ہوگی؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اول تو لفظوں کا جاننا اور حکمت کا جاننا دو مختلف اَشیاء ہیں۔ دوسرے میں کہتا ہوں کہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ کیا یہ واقعہ ہے یا نہیں کہ جب ملک میں طاعون یا ہیضہ نہیں ہوتا تو اُس ملک کا کمزور سے کمزور انسان بھی طاعون اور ہیضہ سے محفوظ ہوتا ہے اور جب ملک میں طاعون اور ہیضہ ہوتا ہے تو پھر طاقتور سے طاقتور انسان بھی طاعون اور ہیضہ سے محفوظ نہیں ہوتا۔ اسی طرح جس قوم میں جاہل بکثرت موجود ہوتے ہیں وہاں عالموں کا ایمان بھی خطرہ میں ہوتا ہے اور جس قوم میں علم اچھی طرح پھیلا دیا جاتا ہے اور جہالت کو دور کر دیا جاتا ہے اُس میں عالموں کے ایمان کی مضبوطی کے ساتھ جاہلوں کا ایمان بھی مضبوط ہوجاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کچھ لوگ غیروں میں بھی قرآن شریف جاننے والے موجود ہیںلیکن اوّل تو اُن کا علم محض لفظی ہے دوسرے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اُن کے دائیں بائیں کون کھڑے ہیں؟ ان کے دائیں بائیں کثرت سے جاہل اور خدا سے دُور لوگ کھڑے ہیں جو اُن کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں پس وہ تو چند لفظی طور پر قرآن پڑھے ہوئے لوگ ہیں جو کہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ قوم کو، جبکہ ہماری جماعت میں بے شک حقیقی طور پر قرآن جاننے والے لوگ موجود ہیں لیکن اِن کی تعداد اس قدر کم ہے کہ وہ بھی اپنی جماعت کو پورا فائدہ نہیں پہنچا سکتے کیونکہ وہ نسبتی طور پر اتنے تھوڑے ہیں کہ ان کے نور پر جہالت کی ظلمت کے چھا جانے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ عوام احمدیوں تک بھی قرآن شریف پہنچائیں۔ ان تک قرآن شریف پہنچانا نہ صرف ان کے لئے ضروری ہے بلکہ اس میں اپنی بھی حفاظت ہے۔ احمق ہے وہ انسان جس کے گاؤں میں ہیضہ آجائے اور وہ کہے کہ میرے گاؤںمیں صرف ایک انسان کو ہیضہ ہوا ہے اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس گاؤں میں ایک آدمی کو ہیضہ ہوا ہے تو یقینا اس کا بیٹا بھی ہیضہ سے محفوظ نہیں لیکن اگر اس کے گاؤں کے پرلے کنارے پر ہیضہ کی ایک واردات ہوتی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میرے اپنے بیٹے کو ہیضہ ہوا ہے تو نہ صرف وہ بلکہ اُس کا گاؤں بھی ہیضے سے بچ جائے گا۔ اسی طرح اگر قوم کے تمام افراد روحانی عالم نہیں تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے گاؤں میں ہیضہ آگیا اور جب ہیضہ آگیا تو کوئی نوجوان بھی اس سے محفوظ نہیں۔ اگر اِس قوم میں سے کُلّی طور پر جہالت نکال دیں اور جہالت کا مرض دور کر دیں اور اگر اپنے تمام افراد کو کُلّی طور پر اسلامی علوم سے آشنا کر دیں تو پھر گویا ہم نے ہیضہ کو کُلّی طور پر اپنی قوم سے نکال دیا اور اس صورت میں صرف مضبوط انسان ہی نہیں بلکہ کمزور ایمان والے انسان کو بھی روحانی ہیضہ نہیں ہو سکتا۔ پس آپ لوگ بھی جو یہاں پڑھنے کے لئے آئے ہیں آپ کا یہ کام نہیں کہ یہاں سے پڑھ کر جائیں اور علم کو اپنے تک ہی محدود رکھیں بلکہ آپ کا کام یہ ہے کہ جو کچھ پڑھ کر جائیں لوگوں کو جا کر سنائیں۔ ہر شخص جو تم میں سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کر کے جائے گا وہ یہ ذمہ داری لے کر جائے گا کہ دوسروں کو بھی علم پڑھا ئے ۔اگر وہ واپس جا کر اپنے علاقے کے ہر فرد کو قرآن نہیں سکھائے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم کی حیثیت میں پیش ہو گا۔
جب تک یہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع پیدا نہیں ہوا تھا تم مجرم نہیں تھے مگر اب جبکہ وہ موقع پیدا ہوگیا ہے اگر تم نے سُستی سے کام لیا اور جو کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اِس کو پورا نہ کیا تو تم خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم کی صورت میں پیش ہو گے۔ شاید تم میں سے بعض یہ کہیں کہ پھر تو علمِ قرآن کا حاصل کرنا بجائے فائدہ کے وبالِ جان ہو گیا یہ تو ہم سے غلطی ہوئی کہ ہم یہاں آگئے۔ اگر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو تو یہ صرف ایک بے حقیقت وہم ہوگا۔
دیکھو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جہاد کا موقع آیا بہت سے لوگ اس میں شامل ہوئے اور کچھ نہ ہوئے۔ اب ظاہر ہے کہ جنگ میں نہ جانیوالا شخص اس بات کا مجرم نہیں تھا کہ اُس نے رسول کریم ﷺ کی جان کی حفاظت کیوں نہیں کی بلکہ وہ مجرم تھا اس بات کا کہ وہ جہاد میں کیوں نہیں گیا۔ لیکن ایسے لوگ جو جہاد میں تو شامل ہوئے لیکن اُنہوں نے رسول کریمﷺ کی جان کی حفاظت نہیں کی اور اُس وقت جبکہ رسول کریم ﷺؐ پر حملہ ہوا انہوں نے رسول کریم ﷺ کی جان کی حفاظت کی خاطر اپنی جان قربان نہیں کی وہ ضرور مجرم ہوئے اِس بات کے کہ اُنہوںنے اپنے فرائض کو صحیح طور پر انجام نہیں دیا۔ مجرم دونوں ہوئے لیکن دونوں کے جُرم کی نوعیت مختلف تھی۔ جو جہاد میں شامل نہ ہوئے ان کے جُرم کی نوعیت اور تھی اور بعض منافق جو صحابہؓ سے مل کر جہاد میں شامل تو ہو جاتے تھے مگر اُن کی غرض اسلام اور رسول کریمﷺ کی حفاظت نہ ہوتی تھی اُن کے جُرم کی نوعیت اَور تھی۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیوں مجرم ہوگئے۔ وہ تو میدانِ جنگ میں گئے تھے کیونکہ مجرم کی نوعیت مقامات کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے۔ ہر مقام سے جب انسان ترقی کرتا ہے تو اُس کے اس مقام کے بدلنے کے ساتھ ہی اس کی ذمہ داریوں کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے اور ان کے ادا نہ کرنے کی صورت میں اس کے جُرموں کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔ اِس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک انسان جب پہلی سیڑھی پر ہوتا ہے تو اُس کا پہلی سیڑھی سے گرنے کا امکان ہوتا ہے لیکن جب وہ پہلی سیڑھی سے دوسری سیڑھی پر چڑھ جائے تو اُس کے لئے دوسری سیڑھی سے گرنے کا امکان تو ہوتا ہے لیکن پہلی سیڑھی سے نیچے گرنے کا امکان نہیں ہوتا کیونکہ وہ پہلی سیڑھی پر نہیں ہے لیکن جب وہ تیسری سیڑھی پر چڑھ جائے تو دوسری سیڑھی سے گرنے کا امکان نہیں رہتا۔ ایک شخص ایک مقام پر کھڑا ہے اُس سے کچھ گناہ سر زد ہوتے ہیں۔ ایک اور شخص ہے جو اُس سے اوپر کے مقام پر کھڑا ہے اُس سے اَور قسم کی غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں لیکن وہ غلطیاں سر زد نہیں ہو سکتیں جو نچلے مقام والے انسان سے ہوئیں۔ اسی طرح ایک تیسرا شخص ہے جو دوسرے شخص سے زیادہ اونچے مقام پر ہے اُس سے غلطیاں تو سر زد ہو سکتی ہیں لیکن وہ نہیں جو اُس سے نچلے مقام والے انسان سے سرزد ہو سکتی ہیں۔جرائم تو سب سے ہی ہوں گے لیکن جرائم کی نوعیت ہر مقام پر بدل جائے گی۔ جو سب سے اوپر کے درجہ پر ہوگا اُس کے جرائم کی نوعیت اور ہوگی اور جو اُس سے نچلے درجہ پر ہوگا اُس کے جرائم کی نوعیت اور ہوگی اور جو سب سے نچلے درجہ پر ہوگا اُس کے جرائم کی نوعیت اور ہوگی۔ جو لوگ پڑھنے کے لئے نہیں آئے وہ مجرم ہیں اِس بات کے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو موقع دیا کہ وہ روحانی آنکھیں پیدا کر لیں لیکن اُنہوں نے پیدا نہ کیں اور اندھے رہے۔ اور تم میں سے جو آنکھیںپیدا کر لیں گے لیکن اِس کے ذریعہ اندھوں کو راستہ نہیں دکھلائیں گے تو وہ مجرم ہوں گے اِس بات کے کہ انہوں نے اندھوںکو پکڑ کر منزلِ مقصود تک کیوں نہ پہنچایا۔ پس یہ مت خیال کرو کہ کسی صورت میں بھی تم ذمہ داری سے بچ سکتے تھے تم ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے تھے صرف تمہاری ذمہ داری کی نوعیت بدل سکتی تھی۔ اگر تم قرآن کریم پڑھنے نہ آتے تو تم پر یہ الزام قائم ہوتا کہ ان کو روحانی آنکھیں حاصل کرنے کا موقع مل سکتا تھا مگر یہ اندھے رہے اوراب اگرقرآن کریم پڑھ کر دوسروں کو نہ سکھاؤگے تو یہ الزام ہو گاکہ اِن کو آنکھیں ملی تھیں پھر اِنہوں نے اندھوں کو کیوں راستہ نہ دکھلایا۔ تو آپ کا صرف یہ کام نہیں کہ جب قرآن شریف پڑھ کر جائیں تو اسے اپنے تک ہی محدود رکھیں بلکہ آپ کا یہ بھی کام ہے کہ اپنے وطن واپس جا کر اپنی جماعتوں کو قرآن شریف پڑھائیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ قرآن شریف پڑھائیں تو زیادہ منشاء میرا یہی ہوتا ہے کہ دوسروں کو قرآن شریف سنائیں کیونکہ ہمارے ملک کے اکثر لوگ پڑھے ہوئے نہیں۔
دوسرا فرض آپ کا یہ ہے کہ چونکہ آپ سارا قرآن شریف اِن دنوں میں نہیں پڑھ سکیں گے اور ساری صَرف ونحو بھی نہیں پڑھ سکیں گے بلکہ اِس کے موٹے موٹے مسائل بھی شاید اِس دفعہ ختم نہ کر سکیں گے اِس لئے آپ آج ہی سے دل میں پکا عہد کریں کہ اگلے سال آکر اپنی تعلیم مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ آدھی تعلیم حاصل کرنے سے آپ کی ذمہ داری ایک نئی شکل اختیار کر لیتی ہے ایک شخص جو کسی کے گھر میں کرائے پر رہتا ہے اگر وہ اُس مکان کو خراب کرتا ہے، اُس کو ضائع کرتا ہے تواُس کو محلے والے بھی اور مالک مکان بھی بُرا کہتے ہیں۔ لیکن ایک اور شخص جو ایک مکان کی دیواریں بنا کر چھوڑ دیتا ہے اور مکان کی تکمیل نہیں کرتا اس کی وفات کے بعد اس کے محلے والے ہی اُسے بُرا نہیں کہتے اُس کی اولاد بھی اُسے بُرا کہتی ہے کہ ہمارے باپ نے یونہی روپیہ ضائع کرا دیا۔ اگر وہ یہاں روپیہ نہ لگاتا تو کسی اور جگہ کام آجاتا۔ اور ہمسائے کہتے ہیں اِس کی اینٹیں گرتی ہیں، بے چارے راہ گیروں کے سروں پر لگتی ہیں ان کے سر پھٹ جاتے ہیں یا لوگوں کو ٹھوکریں لگتی ہیں اگر مکان بنانا تھا تو مکمل بناتا، نہیں تو نہ بناتا۔ اب آپ لوگ بھی سوچیں کہ آپ لوگ سارا قرآن شریف ختم کر کے نہیں جا سکتے اس لئے آپ بھی علمِ دین کے مکان کی دیواریں کھڑی کر کے جا رہے ہیں،نہ چھت پڑے گی، نہ دروازے لگیں گے، نہ پلستر ہوگا پس آپ کو یہ وعدہ کر لینا چاہئے اور فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اب ہم اپنی ساری توجہ اِس طرف لگا دیں گے اور اِس سارے علم کو حاصل کر کے چھوڑ یں گے اور آپ کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اگلے سال پھر اِنْشَائَ اللّٰہُ آئیں گے اور اپنے علم کی تکمیل کریں گے یہاں تک کہ سارا علم آجائے۔
دوسرے آپ میں سے جسے خدا تعالیٰ اگلے سال آنے کی پھر توفیق دے وہ دو تین اَور کو تحریک کر کے ضرور اپنے ساتھ لائے تا علم حاصل کر کے واپس اپنے وطنوں میں جا کر پڑھانے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے۔ ہماری جماعت اب اتنی ہے کہ ہزارہا بھی اس کے لئے کافی نہیں ہو سکتے۔ اب اسّی نوے کا تو سوال ہی نہیں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ہزارہا ایسے مبلغ پیدا کریں جنہوں نے قرآن شریف پڑھا ہوا ہو، تا وہ اپنے اپنے وطن واپس جا کر لوگوں کو قرآن شریف پڑھائیں۔ یہی چیز تھی جس کی وجہ سے مجھے خواہش تھی کہ میں آپ لوگوں میں آکرتقریر کروں اور آپ کو آپ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں۔
اب میں آپ لوگوں کو مختصر الفاظ میں کچھ ایسی باتیں بتاتا ہوں جو قرآن کریم کے سمجھنے کے متعلق ہیں۔ جب آپ قرآن شریف پڑھیں گے تو وہ باتیں جو اُستاد آپ کے کانوں میں ڈالیں گے اگر آپ اُن کو یاد رکھیں گے تو آپ کی حیثیت آنحضرت ﷺ کے مقولہ کے مطابق صرف ایسی ہوگی جیسے ایک زمین پر پانی پڑتا ہے اور وہ اُسے محفوظ رکھتی ہے دوسرے لوگ اس سے آکر پانی پیتے ہیں یا پانی لے جاتے ہیں یہ درمیانہ درجہ کے لوگ ہیں۔ رسول کریمﷺ فرماتے ہیں علم کے لحاظ سے تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو وہ جن کی مثال اُس زمین کی سی ہوتی ہے جو ڈھلوان ہوتی ہے اور سخت بھی جس پر پانی ٹھہرتا ہی نہیں۔ ایک زمین ایسی ہوتی ہے جو نشیب میں ہوتی ہے اُس پر پانی پڑتا ہے اور جمع ہو جاتا ہے لیکن پانی تہہ میں نہیں جاتا وہ زمین پانی نہیں پیتی لیکن چار پائے آتے اور پیتے ہیں۔ تیسری مثال ایسی زمین کی ہے جو عمدہ قسم کی ہوتی ہے جس میں روئیدگی اُگانے کی طاقت ہے اُس میں ڈھلوان نہیں کہ پانی بہہ جائے اور وہ کنکریلی نہیں کہ پانی جذب نہ کر سکے بلکہ جب آسمان سے بارش ہوتی ہے تو وہ اُس پانی کو جذب کر لیتی ہے، پیتی ہے پھر سبزہ اُگاتی ہے، پھل پھول اور اناج اُگاتی ہے دوسرے لوگ آتے ہیں اور اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، انسان اُس سے پھل کھاتا ہے اور اناج حاصل کرتا ہے، جانور اُس سے چارہ حاصل کرتے ہیں وہ زمین آپ بھی پانی پیتی ہے اور دوسروں کو بھی پلاتی ہے۔۳؎
یہی تین حالتیں انسان کی ہیں۔ ایک عالم ایسے ہوتے ہیں جو علم کو حاصل کرتے ہیں اور حاصل کر کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اُن کی مثال اُس زمین کی ہے جو پانی پیتی ہے اور روئیدگی اُگاتی ہے آپ بھی فائدہ حاصل کرتی ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔ ایک ایسے عالمِ ہوتے ہیں جو علم حاصل کرتے ہیں اور اُسے اُسی شکل میںمحفوظ رکھتے ہیں وہ عالمِ تو ہوتے ہیں لیکن بے عمل، خدا اور رسول کی باتیں تو لوگوں کو بتاتے ہیں لیکن خود اُن پر عمل نہیں کرتے۔ اُن کی مثال ایسی نشیب زمین کی ہے جو پانی جمع کر لیتی ہے اُسے خود تو پیتی نہیں لیکن دوسروں کو پلادیتی ہے۔ تیسری قسم کے عالموں کی مثال ڈھلوان زمین کی ہے وہ علم حاصل کرتے ہیں لیکن اس کو یاد نہیں رکھتے وہ نہ خود اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور نہ دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں جیسا کہ ڈھلوان کنکریلی زمین سے پانی بہہ جاتا ہے اسی طرح ان پر سے علم گزر جاتا ہے لیکن اس سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔پس اگر آپ لوگوں نے جو پڑھا ہے اُس کو بُھلا دیا تو رسول کریم ﷺ نے آپ لوگوں کی مثال یہ بتائی ہے کہ جیسے کنکریلی ڈھلوان زمین جس نے نہ آپ پانی پیا اور نہ دوسروں کو پلایا۔ اگر آپ نے قرآن شریف کی باتیں سُنیں اور لوگوں کو جا کر سمجھائیں لیکن خود اُن پرعمل نہ کیا تو آپ کی مثال اُس جوہڑ کی سی ہوگی جس میں پانی جمع ہو جاتا ہے لیکن وہ خود اس میں سے پانی نہیں پیتا ہاں لوگوں کو پلا دیتا ہے۔ لیکن اگر آپ نے قرآن شریف کی باتیں سُنیں اور اُن پر عمل کیا اور دوسروں کو بھی قرآن شریف پڑھایا اور سمجھایا تو آپ کی مثال ایسی اچھی زمین کی ہوگی جو خود پانی پیتی ہے اور دوسروں کو گھاس، چارہ، پھل اور پھول دیتی ہے اور بنی نوع انسان اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ یہی وہ زمین ہے جس کے لئے زمیندار خواہش کرتے ہیں اور جس کو حاصل کرنے کے لئے ہر ایک خواہش کرتا ہے۔ راجپوتانہ کے علاقہ میں ہزارہا میل کے میدان بیابان پڑے ہیںلیکن کوئی شخص ان کے لئے خوشی سے ایک پیسہ دینے کی بھی خواہش نہیں رکھتا لیکن لائل پور اور سرگودھا کے علاقوں میں پچیس پچیس ہزار روپے دے کر ایک مربع زمین خریدتے ہیں۔ نیلامی میں تو یہاں تک مول پڑتا ہے کہ ایک دوست نے مجھے بتایا کہ لوگوں نے ایک جگہ پانچ ایکڑ زمین کی ایک لاکھ کئی ہزار بولی دی، تو اچھی زمین ہی قیمتی ہوتی ہے۔ پس اگر آپ قیمتی وجود بننا چاہتے ہیں تو آپ اِس پڑھے ہوئے پر عمل کریں اور جو کچھ یہاں سے سبق حاصل کر کے جائیں اُس کو خود بھی استعمال کریں اور اس سے فائدہ اُٹھائیں اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔
میں ایک اور بات بیان کرتا ہوں جو رسول کریمﷺ کی حدیث کی تردید نہیں کرتی بلکہ تائید کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول کریمﷺ نے جو زمین کی مثال دی تھی اس سے ہمیں ایک اور سبق ملتا ہے اوروہ یہ ہے کہ ایک زمین ایسی ہوتی ہے جوپانی جذب کر تی ہے اور پانی ہی اُگلتی ہے۔ ایک زمین ایسی ہوتی ہے جو پانی جذب کرتی ہے لیکن پانی نہیں نکالتی بلکہ اس کی بجائے انگور،انار، آم،گندم، کپاس، گھاس، چارہ وغیرہ نکالتی ہے۔ اسی طرح اگر آپ لوگوں نے جو کچھ یہاں پڑھا وہی واپس جا کر پڑھایا تو آپ کی مثال ایسی زمین کی ہوگی جو پانی پیتی ہے اور پانی نکال دیتی ہے لیکن اگر آپ دوسری مثال کے مصداق بننا چاہتے ہیں تو آپ میں یہ قابلیت پیدا ہونی چاہئے کہ آپ کو اُستاد جو باتیں بتلائیںاُن میں تغیر و تبدل کر کے ایک نئی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اگر آپ کو صرف وہی نکتے یاد رہتے ہیں جو اُستاد نے بتائے ہیں تو آپ ہرگز اس مثال کے مصداق نہیں ہو سکتے۔ لیکن اگر ان باتوں نے آپ کے دل میں ہیجان پیدا کر دیا ہے اور آپ کے جذبات میں ہیجان پیدا کر دیا ہے اور آپ میں غور کرنے کی عادت پیدا ہوگئی ہے اور آپ کے اندر ایسا تقویٰ پیدا ہوگیا ہے جس سے آپ پرقرآن شریف کے معارف کھل جاتے ہیں تو آپ کی مثال اُس زمین کی سی ہوگی جو پانی پیتی ہے اور اس کے نتیجے میں پھل پھول نکالتی ہے۔ پس آپ لوگ اس زمین کی طرح نہ ہوں جو پانی کے بدلے پانی نکال دیتی ہے بلکہ اُس زمین کی طرح ہوں جو پانی پی کر اس کے نتیجہ میں گھاس چارہ اور پھل اور پھول پیش کرتی ہے۔ تو جب تک آپ میں یہ قابلیتیں پیدا نہ ہو جائیں کہ جو باتیں آپ مدرس سے سنتے ہیں ان کو بدل نہ ڈالیں اور چارے کی شکل میں، پھل پھول کی شکل میں اور غلّے کی شکل میں تبدیل کر کے پیش نہ کریں اُس وقت تک آپ پوری طرح اِس حدیث کے مصداق نہیں ہو سکتے۔ جو انسان بھی علم ایسی صورت میں حاصل کرتا ہے کہ اپنے اُستاد کی بتائی ہوئی باتوں کو اُسی شکل میں رہنے دیتا ہے وہ جہالت اور بے وقوفی کا مرتکب ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں لطیفہ مشہورہے کہ کسی بادشاہ نے اپنے بیٹے کو کسی عالمِ کے پاس بٹھایا جسے ہر قسم کے علوم، علمِ نجوم اور علمِ ہیئت وغیرہ آتے تھے اور اُسے کہا کہ اِس کو تمام علوم میں ماہر کردو۔ جب وہ علوم سیکھ چکا تو بادشاہ نے کہا میں اِس کا علمِ نجوم میں امتحان لیتا ہوں۔ اُس نے اپنی مٹھی میں انگوٹھی کا ایک نگینہ پکڑ لیا اور اپنے بیٹے سے پوچھا بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے؟ اُس نے حساب لگا کر کہا کہ آپ کے ہاتھ میں چکی کا پاٹ ہے۔ بادشاہ اُس کے اُستاد پر بڑا ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے میرے لڑکے کو کیا پڑھایا ہے؟ عالم نے کہا حضور میں نے جو پڑھایا ہے ٹھیک ہے میں نے اُسے ایسا طریقہ بتایا تھا جس سے پتہ لگ جائے کہ آپ کے ہاتھ میں کوئی پتھر کی چیز ہے سو اُس نے یہ بات معلوم کر لی مگر میں آپ کے لڑکے کے دماغ میں بیٹھ نہیں سکتا تھا کہ اِسے عقل بھی دیتا جاؤں، آپ کے بیٹے کے دماغ میں اتنی عقل ہی نہیں کہ وہ معلوم کر سکے کہ مٹھی میں چکی کے پاٹ کا پتھر نہیں آسکتا مٹھی میں تو نگینہ ہی آئے گا۔ پس یہ نہ ہو کہ آپ لوگ اِس قسم کی جہالت کے مرتکب ہوں اور جو علم یہاں سے لے کر جائیںاُسے اسی طرح لفظاً لفظاً دُہرانے لگ جائیں اور یہ نہ دیکھیں کہ دوسرا کس صورت میں اعتراض کر رہا ہے اور ہم جواب کیا دے رہے ہیں۔ وہ آپ کے مقابل پر ایک نیا اعتراض پیش کر رہا ہے لیکن آپ ہیں کہ اُستاد کی بات ہی دُہراتے چلے جاتے ہیں صرف میا ں مٹھو کہنا جانتے ہیں اور کچھ بھی نہیں جانتے۔
پس آپ میں یہ قابلیت پیدا ہونی چاہئے کہ آپ نے جو قرآن شریف کی باتیں سُنی ہیں ان کے لئے معنی استنباط کر کے دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ میرا خیال تھا کہ میں اس سلسلہ میں بعض ہدایات دوں لیکن اب وقت نہیں رہا دوسرے گلے کی خرابی کی وجہ سے بھی میں زیادہ بول نہیں سکتا لیکن میں نے اپنی بعض کتابوں میں قرآن شریف کی تفسیر کے اصول لکھے ہیںاُن کو پڑھیں اور اُن پر غور کریںاور اُن کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
ایک گُر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کبھی اور کبھی اور کبھی بھی اپنے دشمنوں کی بات کو مروڑنے کی عادت نہ ڈالو۔ جو دشمن کی بات کو مروڑتے ہیں وہ دشمن کی بات کو نہیں مروڑتے بلکہ وہ اپنی عقل کو مروڑتے ہیں۔ میں نے بہت لوگوں کو دیکھا ہے کہ دشمن کی باتوں کو مضحکہ خیز بنا کر پیش کرتے ہیں اور پھر اُن پر خود ہنستے ہیں اور دوسروں کو بھی ہنساتے ہیں بظاہر وہ اُس کا مذاق اُڑا رہے ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً وہ اُس کا مذاق نہیں اُڑارہے ہوتے بلکہ اپنے خود ساختہ خیالات کا مذاق اُڑا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا دماغ علم حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ وہ دشمن کے اعتراضوں کو مروڑتے ہیں اور اپنے مطلب کے مطابق پیش کرتے ہیں اور مصنوعی باتوں سے انسان کو پکڑنا چاہتے ہیں اور اِس پر بڑے خوش ہوتے ہیں۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق یہ لکھ لکھ کر بڑے خوش ہوتے تھے کہ مرزا غلام احمد تو مضمون نگار ہے اور حکیم نورالدین ایک طبیب ہے ہاں یہ مان لیتا ہوں کہ مولوی محمد احسن صاحب امر وہی کچھ علمیت رکھتے ہیں اور پھر اس پر بڑے خوش ہوتے تھے کہ میں نے بڑا تیر مارا ہے لیکن اب مرنے کے بعد اُن کو کون یاد کرتا ہے؟ مگر یہاں خداتعالیٰ ہر گھر ، ہر گاؤںاور ہر ملک سے لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لا رہا ہے اور ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غلاموں کے قدموں میں ڈال رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ سے پہلے آپ کے پاس ایک شخص بیمار ہو کر آیا اور حضرت مسیح موعود ؑ کے سلوک کو دیکھ کر یہیں رہ پڑا۔ وہ ایسا بے وقوف تھا کہ مٹی کا تیل کھانے میں ڈال کر کھا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ چکنائی ہی کھانی ہے کوئی دوسرا تیل نہ کھایا یہ کھا لیا۔ اُس وقت یہاں تار گھر نہیں ہوتا تھا تار دینے کے لئے آدمی بٹالے جاتے تھے یہ بھی تار دینے کے لئے بٹالے جاتا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی روزانہ اسٹیشن پر جاتے تھے اور لوگوں کو قادیان آنے سے روکتے تھے ممکن ہے شاذونادر بعض لوگوں کو ورغلا کر واپس بھیج دینے میں کامیاب ہو جاتے ہوں گے۔ وہ لوگوں سے کہتے تھے کہ میں یہاں کا رہنے والا ہوں مرزا صاحب کو خوب جانتا ہوں آپ وہاں نہ جائیں۔ ایک دن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو اسٹیشن پر کوئی بھی آدمی نہ ملا مذکورہ بالا شخص کو جس کا نام پیرا تھا اور جو تار دینے بٹالہ گیا تھا اُنہوں نے دیکھ لیا اور اُس کو تبلیغ کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ اُسے جا کر کہا تجھ پر کیا مار پڑی ہے کہ تو مرزا صاحب کے قابو آگیا ہے تو نے آخر وہاں کیا دیکھا ہے؟ اُس نے یہ واقعہ خود آکر قادیان سنایا اور بتایا کہ پہلے میں حیران ہوا کہ کیا کہوں مجھے آتا تو کچھ ہے نہیں اور حقیقتاًوہ تھا بھی جاہل اور احمدیت سے بالکل ناواقف چونکہ اُس کے رشتہ داروں نے اُسے چھوڑ دیا تھا اور بیماری میں اُس کا علاج نہیں کرایا تھا اِس لئے وہ اُن کو چھوڑ کر قادیان میں ہی رہ گیا تھا حضرت مسیح موعود نے اُس کا علاج کیا اِس لئے وہ حضرت مسیح موعود کے حُسنِ سلوک کو دیکھ کر یہیں رہ پڑا مگر باوجود جاہل ہونے کے اُس کی فطرت نے اُسے جواب سمجھادیا۔ چنانچہ اس کے اپنے بیان کے مطابق مولوی صاحب کو یہ جواب دیاکہ مولوی صاحب! میں تو اَن پڑھ ہوں اور مجھے کچھ نہیں آتا مگر ایک بات میں دیکھتا ہوں وہ یہ کہ مرزا صاحب اپنے گھر سے نہیں نکلتے، لوگ اطلاع کرواتے ہیں، بعض اوقات کسی مجبوری کی وجہ سے مرزا صاحب دیر تک باہر نہیں آتے اور کہلا بھیجتے ہیں کہ طبیعت اچھی نہیں اِس وقت نہیں آسکتے اور گو ملنے والے بڑے بڑے آدمی ہوتے ہیں لیکن چپ کر کے دروازے کے آگے بیٹھے رہتے ہیں اور اگر مصافحہ ہو جاتا ہے تو بڑے خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں بڑا کام ہو گیا۔ مگر مولوی صاحب! میں اکثر بٹالہ آتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسٹیشن پر آتے ہیں اور لوگوں کو ورغلاتے ہیں لیکن پھر بھی لوگ آپ کی نہیں مانتے اور مرزا صاحب کی طرف چلے جاتے ہیں اور پھر کہا کہ مولوی صاحب! آپ کی تو جوتیاں بھی اس کام میں گھس گئی ہونگی مگر سنتا کوئی نہیں آخر کچھ تو مرزا صاحب میں بات ہوگی جو ایسا ہو رہا ہے۔ تو یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جس پر نازل ہوتا ہے۔
بعض اوقات لوگ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتراض ہوتا دیکھ کر اُس کو اُلٹنے لگ جاتے ہیں یا بعض اوقات غصے میں آ جاتے ہیں یہ طریقہ صحیح نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جب بھی کوئی آدمی آ کر کوئی سوال کرتا تو آپ اُس کا صحیح جواب دیتے اور کوئی ایچ پیچ نہ کرتے خواہ دشمنوں کو اس سے ہنسی کا موقع مل جاتا۔ میرے پاس بھی ایک دفعہ دو مولوی دیوبند کے آئے۔ اُن کو پتہ تھا کہ میں کسی مدرسہ میں نہیں پڑھا ہوا۔ میں اُس وقت لاہور میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ان میں سے ایک آدمی نے آتے ہی سوال کیا آپ نے کیا پڑھا ہوا ہے؟ میں نے کہا مَیں نے آپ کی تعریف علم کے مطابق کچھ نہیں پڑھا۔ وہ کہنے لگے آخر کسی مدرسے میں کچھ تو پڑھا ہوگا۔ میں نے کہا میں نے کسی مدرسے میں کچھ نہیں پڑھا۔ تو وہ کہنے لگے آپ نے کسی عربی کے مدرسے میں علومِ اسلامی حاصل نہیں کئے؟ میں نے کہا نہیں بالکل نہیں۔ وہ کہنے لگے تو اِس کا یہ مطلب ہے کہ آپ علومِ اسلامی سے کورے ہیں میں نے مسکرا کر کہا بالکل نہیں۔ اُس وقت اُس کے ساتھ جو دوسرا مولوی آیا تھا وہ بھی پہلے تو اعتراض میں شریک تھا لیکن اُس نے جب میرے چہرے پر نظر ڈالی تو مجھے مسکراتا دیکھ کر چپ نہ رہ سکا اور اپنے ساتھی سے کہنے لگا۔ ان کا مطلب اِس سے کچھ اَور ہے۔ اُس کے ساتھی نے کہا اور کیا مطلب ہو سکتا ہے واضح بات ہے۔ اِس پر دوسرے مولوی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ آخر اسلام کے مبلّغ ہیں آپ کو اسلام کی کچھ تو واقفیت ہوگی۔ میں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جس مکتبہ سے علم حاصل کیا تھا اُسی سے میں نے کیا ہے اور وہی کتاب میں نے پڑھی ہے۔ میں دیوبند میں نہیں پڑھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مدرسہ میں پڑھا ہوں۔ بے شک میں آپ کے علم کے لحاظ سے بڑا جاہل ہوں جس طرح آپ جاہل ہیں میرے علم کے لحاظ سے۔ میرے اِس جواب سے اُن پر ایسی اوس پڑی کہ پھر نہیں بول سکے۔ تو جب کوئی آپ پر اعتراض کرے یا کوئی سوال پوچھے تو اس کا صحیح جواب دینا چاہئے اُس کو موڑنا توڑنا نہیں چاہئے۔
ہماری جماعت کے بعض دوست بعض اوقات دشمن کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ غلط طریقہ ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو علم میں نے سیکھا ہے اس کا معتدبہ حصہ مجھے اسی طرح آیا ہے کہ جب کبھی بھی کوئی دشمن قرآن شریف پر کوئی اعتراض کرتا ہے میں اس کے آگے اعتراض کو اور زیادہ مضبوط کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید وہ اس کو بیان نہ کر سکا ہو کیونکہ بعض اوقات کچھ باتیں بیان کرتے ہوئے نظر انداز ہو جایا کرتی ہیں اس لئے شاید کچھ حصہ نظر انداز ہو گیا ہو تو میں اعتراض کو مضبوط کر کے پھر اس پر غور کرتا ہوں اور جب خدا تعالیٰ مجھے اس کا جواب سمجھاتا ہے تو وہ مکمل جواب ہوتا ہے۔ اور جب میں کسی اعتراض کا جواب دیتا ہوں تو وہ اُس کی تسلی سے بھی زیادہ ہوتا ہے اور اُس میں اُس کے اعتراض سے بھی زیادہ مواد موجود ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم ہنسیں اور تمسخر میں اُس کے اعتراض کو اُڑانے کی کوشش کریں تو ظاہر ہے کہ ہمارا جواب دشمن کے اعتراض کے بعض پہلوؤں پر روشنی نہیں ڈالے گا اور یقینا خود کمزور ہوگا اور ساری حقیقت پر مشتمل نہیں ہوگا اِس وجہ سے اعتراض کرنے والے کے دل میں بھی شکوک باقی رہیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف پر جتنے اعتراضات میں نے اپنے ذہن میں کئے ہیں شاید اتنے اعتراضات سارے مخالفِ اسلام مصنفین نے بھی نہ کئے ہونگے۔ چونکہ میں نے قرآن شریف کے مضامین کو حل کرنے کیلئے بے دردی سے اعتراضات کئے اس لئے اس کی حقیقت بھی مجھ پر زیادہ کھلی اور جیسے ڈاکٹر جب پیٹ کی کسی بیماری کی وجہ سے اپنے بچہ کا آپریشن کرتا ہے اور اُس کا پیٹ پھاڑ دیتا ہے تو وہ اُس کا دشمن نہیں کہلاتا کیونکہ وہ خدمت کر رہا ہوتا ہے اور خارجی مواد کو نکال کر صحت کو درست کر دیتا ہے۔ اِسی طرح جب کبھی کوئی شخص قرآن شریف پر کوئی اعتراض اس لئے کرتا ہے کہ ہے تو یہ خدا تعالیٰ کی کتاب، غلطی اِس میں نہ نکلے گی میری عقل میں نکلے گی میں تو اِس کے پوشیدہ معارف سمجھنا چاہتا ہوں، میں اِس میں جتنا بھی گہرا جاؤں گا اُتنی ہی اچھی چیز ملے گی اور میں مایوس واپس نہیں آؤں گا تو وہ ضرور کامیاب ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ جب آپ قرآن شریف پر اعتراض کریں تو اللہ تعالیٰ پر توکّل ہو اور یہ خیال ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ساتھ ہی یہ دعا بھی مانگیں کہ یا اللہ! یہ اعتراض ہمارے لئے ٹھوکر کا موجب نہ ہو جائے۔ اِس کے ماتحت جب کبھی بھی میں نے غور کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے نئی باتیں سمجھائیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور علمِ غیب پر مشتمل ہے۔ پس اعتراض کے وقت آپ کو ڈرنا نہیں چاہئے کہ قرآن شریف پر اعتراض ہوگا تو کیا بنے گا۔ اگر آپ ڈریں گے تو یہ ایسی ہی جہالت ہوگی جیسی بچے بعض دفعہ کر بیٹھتے ہیں۔
مجھے بھی اپنے بچپن کی ایک جہالت یاد ہے۔ جب میں چھوٹا بچہ تھا تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میںبعض دشمن آتے اور آپ پر اعتراض کرتے تو چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہایت سادگی سے بات کرتے تھے بعض دفعہ مجھے یہ وہم ہوتا تھا شاید آپ اُس شخص کی چالاکی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے مگر جب دشمن مخالفت میں بڑھتا جاتا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی آسمانی طاقت نے آپ پر قبضہ کر لیا ہے اور آپ اِس شان سے جواب دیتے کہ مجلس پر سناٹا چھا جاتا تھا۔ ایسی ہی بے وقوفی ان لوگوں کی ہے جو اس وقت کہ جب کوئی شخص قرآن شریف پر اعتراض کرے تو کہتے ہیں چپ ہو جاؤ ورنہ تمہارا ایمان ضائع ہو جائے گا حالانکہ یہ فضول بات ہے۔ چاہئے تو یہ کہ قرآن شریف پر جو اعتراض ہوں ان کے جوابات ایسے دیئے جاویں کہ دشمن بھی ان کی صداقت کو مان جائے نہ یہ کہ اعتراض کرنے والے کو اعتراض کرنے سے منع کر دیا جائے اور شکوک کو اُس کے دل میں ہی رہنے دیا جائے۔
مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک بات خوب یاد ہے میں نے کئی دفعہ اپنے کانوں سے وہ بات آپ کے منہ سے سنی ہے۔ آپ فرمایا کرتے کہ اگر دنیا میں سارے ابوبکرؓ جیسے لوگ ہوتے تو اِتنے بڑے قرآن شریف کی ضرورت نہیں تھی۔ صرف بِسْمِ اللّٰہِ کی ’’ب‘‘کافی تھی۔ قرآن کریم کا اتنا پُر معارف کلام جو نازل ہوا ہے یہ ابوجہل کی وجہ سے ہے۔ اگر ابوجہل جیسے انسان نہ ہوتے تو اِتنے مفصّل قرآن شریف کی ضرورت نہ تھی۔ غرض قرآن کریم تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس پر جتنے اعتراضات ہوں گے اتنی ہی اس کلام کی خوبیاں ظاہر ہوں گی۔ پس یہ ڈر کہ اعتراض مضبوط ہوگا تو اس کا جواب کس طرح دیا جائے گا ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ کیا خدا کے کلام نے ہمارے ایمان کی حفاظت کرنی ہے یا ہم نے خدا کے کلام کی حفاظت کرنی ہے؟ وہ کلام جس کو اپنے بچاؤ کے لئے انسان کی ضرورت ہے وہ جھوٹا کلام ہے اور چھوڑ دینے کے لائق، ہمارے کام کا نہیں۔ ہمارے کام کا وہی قرآن شریف ہے جس کی حفاظت کیلئے کسی انسان کی ضرورت نہ ہو بلکہ اس کا محافظ خدا ہو اور اس پر جو اعتراض ہو وہ خود اُس کو دور کرے اور اپنی عظمت آپ ظاہر کرے ہمارا قرآن کریم ایسا ہی ہے۔ ہاں ہمیں یہ ضرور چاہئے کہ نہ اعتراض کو اس کی حقیقت سے چھوٹا کریں اور نہ ہی حقیقت سے باہر لے جا کر بڑا بنا دیں بلکہ ہمیں چاہئے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو موازنہ کی طاقت دی ہے اس سے کام لیں۔ اگر موازنہ میں غلطی کر وگے اور اعتراض کو اُس کی عقلی حدود سے بڑھا دو گے تو ضرور تمہارے دل پر زنگ لگ جائے گا اور اگر اعتراض کو بِلاوجہ کم کر دو گے تو تمہارے دماغ کو زنگ لگ جائے گا ۔اور اگر بے دلیل اعتراض بناؤ گے تو تمہاری روحانیت کو زنگ لگ جائے گا۔ درمیان میں جو پُل صراط کا راستہ ہے اُس پر چل کر ہی تم کامیابی کا منہ دیکھ سکتے ہو اور قرآنی علوم کو حاصل کر سکتے ہو۔ آپ کو چاہئے کہ اِس نکتہ کو یاد رکھیں اور اِس پر عمل کر کے قرآن کریم کی تفسیر سیکھیں اور اس کے علوم حاصل کریں اور اس علم کو بڑھائیں۔ اگر آپ وہی باتیں بیان کریں گے جو آپ نے اپنے استاد سے سنی ہیں تو آپ کی مثال اُس زمین کی سی ہوگی جو پانی پی کر پانی اُگل دیتی ہے۔ لیکن اگر آپ اُن باتوں کو جو آپ نے اپنے اُستاد سے سنی ہیں ضرورت کے مطابق ایک نئی شکل دینے میں کامیاب ہوں گے تو آپ کی مثال اُس زمین کی سی ہوگی جو پانی پیتی ہے اور اس کے بعد سبزیاں نکالتی ہے۔
پس میں اِس نصیحت کے ساتھ اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر بھی اور دوسرے لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں اُن پر بھی اپنے فضل نازل کرے قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور یہ بھی توفیق عطا فرمائے کہ آپ اِس کو سمجھ کر ہر نئے اعتراض کے وقت ایک نئے علم کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ نادان کہتے ہیں کہ کسی نئی بات کی کیا ضرورت ہے اگر اِس کی ضرورت تھی تو کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس کا علم نہیں تھا کیا وہ اسے بیان نہیں کر سکتے تھے؟ نادان نہیں جانتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خدا کے کلام کا پانی لے کر آئے اور جس طرح زمین پانی پیتی ہے اور سبزیاں بنا کر اُسے اُگل دیتی ہے اِسی طرح خدا تعالیٰ کے کلام کے مفہوم کو نیک انسان ہمیشہ وقت کی ضرورت کے مطابق ایک نئی شکل میں پیش کرتے رہیں گے ہاں اس تعلیم کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا۔ جس طرح پانی زمین میں جذب ہوتا ہے اور جذب ہو کر زمین میں سے سبزیاں نکالتا ہے اوراس سے پانی ہی کی عظمت ثابت ہوتی ہے اسی طرح قرآن کریم کے محل الفاظ کا انسانی دماغ میں داخل ہو کر اس میں نئے علوم کا پیدا ہونا قرآن کریم ہی کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ لوگوںکو پڑھنے اور پڑھانے کی توفیق عطا فرماوے اور جماعت کے دوسرے دوستوں کو بھی توفیق عطا فرماوے کہ وہ قرآن شریف کے علوم حاصل کریں۔ اور ہماری جماعت میں قرآن شریف کو اس طرح قائم کر دیں کہ اِس کی جڑوں کو کوئی اُکھیڑ نہ سکے اور ہمارے بعد ہماری اولادوں کو بھی توفیق عطا فرماوے کہ قرآنی علوم حاصل کریں اور دنیا میں پھیلائیں اور اِس سلسلہ کو اِس قدر وسیع کرتے چلے جائیں جس طرح پُرانے زمانے میں فقیہہ بیٹھتے تھے۔ جیسے حضرت امام مالکؒ کے تو پانچ پانچ ہزار آدمی درس میں موجود ہوتے تھے اِسی طرح ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ قرآن شریف پڑھنے اور پڑھانے والوں کے دلوں میں یہ جذبہ پیدا کر دے کہ معلّمین قرآن کا پڑھانا اور متعلّمین درسوں میں جانا ایک مصیبت اور چٹی نہ سمجھیں بلکہ پروانوں کی طرح وہاں جمع ہوں۔ اور اِسی طرح ہوتا چلا جائے یہاں تک کہ ہم اور ہماری اولادیں اور اُن کی اولادوں کی اولادیں ایک زمانہ دراز تک خدا تعالیٰ کی حکومت کے ماتحت اُس کے کلام کو سیکھتے اور سکھاتے ہوئے اِس طرح ہنستے ہوئے اور خوشی کے ساتھ اُچھلتے ہوئے چلتے چلے جائیں گویا ہماری زندگی کی لذت اِسی میں محصور ہے۔
(الفضل ۳ تا ۶ ؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء)
۱؎ الحد ید: ۱۷
۲؎ لوقا باب۱۵ آیت ۱۱ تا ۳۲
۳؎ بخاری کتاب العلم باب فضل من علم وعلم
نیکیوں پر استقلال اوردوام کی
عادت ڈالیں
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
نیکیوں پر استقلال اور دوام کی عادت ڈالیں
(تقریر فرمودہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
میں نے اپنے خطبات میں جماعت کو کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ کام وہی بابرکت اور نتیجہ خیز ہوتا ہے جس میں استقلال اور دوام کا رنگ پایا جائے۔ یوں تو ادنیٰ سے ادنیٰ اور ذلیل سے ذلیل انسان بھی کبھی نہ کبھی کوئی نیکی کر لیتا ہے لیکن اُس کا دو دن کے لئے نیکی پر کاربند ہونا اِس بات کی علامت نہیں سمجھی جا سکتی کہ وہ فی الحقیقت نیک انسان ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی شخص کچھ عرصہ باقاعدہ نمازیں ادا کرتا ہے، باقاعدہ چندہ دیتا ہے، دین کے لئے قربانی بھی کرتا ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد اِن سب باتوں کو چھوڑ دیتا ہے تو کوئی عقلمند انسان ایسا نہیں جو ایسے شخص کو کامل طور پر ایماندار یا متقی سمجھ سکے۔ ہمارے ملک کی مساجد میں سے کچھ مساجد ایسی بھی ہیں جو کنچنیوں کی بنوائی ہوئی ہیں یا بعض ایسے لوگوں کی بنوائی ہوئی ہیں جن کی ساری عمر ظلم و تعدّی اور دوسری بدعات میں گزری لیکن جب وہ مرنے کے قریب پہنچے تو کوئی مسجد یا کنواں یا مدرسہ یا لائبریری بنوا دی اور اِس کے بنوانے کے بعد اُنہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کام کر دیا ہے اور مسجد یا کنواں یا مدرسہ یا لائبریری بنوا کر اللہ تعالیٰ پر اتنا بڑا احسان کر دیا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کا کوئی حق نہیں کہ آخرت میں اُن سے اُن کے اعمال کے متعلق باز پُرس کرے۔ گویا اصل مالک وہ ہیں اور اللہ تعالیٰ اُن کا محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہود کی اسی حالت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ ایسے جاہل اور بے وقوف ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کہتے ہیں کہ اصل مالدار تو ہم ہیں اور اللہ تعالیٰ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ فقیر اور محتاج ہے جو اپنے دین کی اشاعت کیلئے ہم سے پیسے مانگتا ہے۱؎ یہ سب باتیںوہ تمسخر سے کہتے تھے حالانکہ جتنا لمبا سلسلہ انبیاء کا بنی اسرائیل میں گزرا ہے اور کسی قوم میں نہیں گزرا لیکن پھر بھی اُن کی ذہنیت میں تبدیلی پیدا نہ ہوئی۔ وہ کبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیتے تھے کہ ۲؎کہ اے موسیٰ! تو اور تیرا رب دونوں جاؤ اور لڑتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ اگر یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کا نام درمیان میں کیوں لاتے ہو۔ قربانیاں ہم کریں، آدمی ہمارے مارے جائیں اور فتح اللہ تعالیٰ کے نام لگے۔ یہ ذہنیت شیطان ہر زمانہ میں لوگوں کے اندر پیدا کرتا رہتا ہے اور اُن کے دلوں میں وساوس اور شبہات پیدا کر کے اُنہیں اللہ تعالیٰ کی راہ سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں ایک پردہ اور اِخفاء کا رنگ ہوتا ہے اِس لئے ظاہر بین نگاہوں کو انسانوں کے ہاتھ تو کام کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کے سامان اُن کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ آسمان پھٹے اور اُس میں سے دنیا والوں کو جبرائیل کا منہ نظر آنے لگے اور جبرائیل بآوازِ بلند یہ کہہ رہا ہو کہ اے لوگو! آدم اللہ تعالیٰ کا نبی ہے اور تمہاری طرف اُس کا پیغام لے کر آیا ہے اس کی تکذیب اور انکار نہ کرنا۔ اور ایسا بھی آج تک کبھی نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مثلاً خانہ کعبہ بنانے کا ارادہ کیا ہو اور شام کے وقت میکائل آسمان سے سر نکال کر دنیا والوں کو آواز دے کہ اپنے اپنے سر بچالو اور کمروں کے اندر بیٹھ جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ آسمان سے خانہ کعبہ کے بنانے کے لئے روپوں کی تھیلیوں کی بارش کرنے لگا ہے۔ نہ حضرت آدمؑ کے زمانے میں ایسا ہوا، نہ حضرت نوحؑ کے زمانہ میں ایسا ہوا، نہ حضرت کرشن ؑ اور رام چندرؑ کے زمانہ میں ایسا ہوا، نہ حضرت موسیٰ ؑ کے زمانہ میں ایسا ہوا، نہ حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانہ میں ایسا ہوا اور نہ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے دین کی اشاعت اور دین کے کاموں کو سرانجام دینے کے لئے آسمان سے روپوں کی بارش کی ہو یا آسمان سے مؤمنوں کے لئے بیجوں کی بارش کی ہو اور وہ خود بخود رات کو اُگ کر صبح تک بڑے بڑے درخت بن گئے ہوں۔ یا اللہ تعالیٰ کے کسی نبی کو اشتہار چھپوانے کی ضرورت پیش آئی ہو تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے چھپے ہوئے اشتہار اُس کی ضرورت کے مطابق پھینک دیئے ہوں۔ یا لڑائی کا موقع ہو اور گھوڑوں اور نیزوں کی ضرورت ہو تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے گھوڑوں اور نیزوں کی بارش کی ہو، نہ کبھی آج تک ایسا ہوا اور نہ آئندہ ایسا ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ذریعہ ہی یہ سارے سامان مہیا کیا کرتا ہے لیکن بنی اسرائیل کی ذہنیت یہ تھی کہ ہم خدا تعالیٰ کا کام کیوں کریں اللہ تعالیٰ خود کرے۔ چنانچہ باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مان لینے کے شروع سے لے کر آخر تک مختلف رنگوں میں وہ حُجّت بازی کرتے رہے۔ گو الفاظ تبدیل کر لیتے تھے کبھی کہہ دیتے تھے کہ جا تُو اور تیرا رَبّ جا کر لڑو فتح ہو جائے تو ہمیں آ کر بتا دینا ہم آ جائیں گے، کبھی کہہ دیتے کہ خدا تعالیٰ تمہیں روپے نہیں دیتا کہ ہم سے مانگتے ہو، کیا خدا تعالیٰ فقیر ہے کہ ہم اُس کے کاموں کو سرانجام دینے کے لئے اپنا مال خرچ کریں؟ اور یہ بات صرف بنی اسرائیل تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ آج مسلمان کہلوانے والوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں اپنے آپ کوشامل کرنے والوں کا بھی یہی حال ہے۔ اگر اسلام کی اشاعت کا سوال ہو تو کہتے ہیں کہ جس نے اسلام بھیجا ہے وہی اِس کو برتر اور غالب کرنے کے سامان پیدا کرے گا ہمارے ہاتھوں کچھ نہیں بنے گا۔ اگر اسلام کے لئے مال کی ضرورت ہو تو کہتے ہیں کہ ہمیں تو خود پیٹ بھر کر روٹی نصیب نہیں ہوتی ہم چندہ کہاں سے دیں، اگر غریبوں کی غربت دور کرنے کا سوال ہو تو کہتے ہیںکہ جس نے ان کو پیدا کیا ہے وہ خود غربت دُور کرنے کے سامان کرے ہم کیوں کریں۔ لیکن جب مرنے لگتے ہیں تو کوئی مسجد یا کنواں یا مہمان خانہ یا امام باڑہ بنوا دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اللہ تعالیٰ کی آنکھیں اب ہمیشہ کے لئے ہمارے سامنے نیچی رہیں گی اور وہ قیامت کے دن ہم سے محاسبہ نہیں کر سکے گا۔
حضرت خلیفہ اوّل کی ایک بہن غیر احمدی تھیں وہ آپ سے ملنے کے لئے ایک دفعہ قادیان آئیں، آپ نے اُن کو تبلیغ کی اور بعض باتیں سکھائیں کہ جا کر اپنے پیر صاحب سے پوچھنا۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ دوبارہ قادیان آئیں تو حضرت خلیفہ اوّل سے کہنے لگیں کہ ہمارے پیر صاحب کہتے ہیں کہ ہم جانیں اور ہمارا کام ہم قیامت کے دن تمہارے ذمہ دار ہوں گے اور تمہارا ہاتھ پکڑ کر تمہیں جنت میں چھوڑ آئیں گے۔ ہم قیامت کے دن تمہارے وکیل ہوں گے اور وکیل خود بحث کیا کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا بے شک وکیل ہی بحث کیا کرتا ہے لیکن اگر بحث میں وکیل سے کوئی بات پوچھی جائے اور وکیل کے پاس وجہ معقول ہو تو وہ جواب دے سکتا ہے لیکن اگر اُس کے پاس وجہ معقول نہ ہو تو وہ کیا جواب دے گا؟ یا اگر جواب دیتا ہے اور وہ غلط نکلتا ہے تو وکیل کا کیا نقصان ہوگا نقصان تو مؤکّل کا ہی ہوگا۔ یہ باتیں آپ کی بہن نے جا کر پیر صاحب کے سامنے بیان کیں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ تیرے ذہن کی باتیں نہیں بلکہ تجھے یہ باتیں نورالدین نے سکھائی ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ تم فکر نہ کرو جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تم سے پوچھے گا تو ہم کہیں گے کہ اس کے ذمہ دار ہم ہیں اِس کا حساب ہم سے لیا جائے ’’پھر تسیں دگڑ دگڑ کردے ہوئے جنت وچ چلے جاناں‘‘ یعنی پھر تم دَگڑ دَگڑ کرتے ہوئے جنت میں چلے جانا۔ انہوں نے کہا پیر صاحب! سوال تو آپ کا ہے کہ آپ جنت میں کیسے داخل ہونگے؟پیر صاحب نے جواب دیا ہمارا کیا ہے جب آپ لوگ جنت میں چلے جائیںگے تو اللہ تعالیٰ ہم سے کہے گا کہ ان کو تم نے جنت میں بھیج دیا ہے اب تم بولو۔ تو ہم کہیں گے کہ ہمارے ساتھ یہ کیا مذاق ہو رہا ہے کیا ہمارے نانا امام حسین کی قربانی کافی نہ تھی کہ آج ہمیں اعمال بجالانے کے لئے دِق کیا جاتا ہے؟ اِس پر ہمیں اللہ تعالیٰ بغیر حساب لئے جنت میںداخل کر دیگا۔
میں سمجھتا ہوں یہ خیالات لوگوںمیں اِسی لئے پیدا ہوتے ہیں کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ نجات ہمارے اپنے اعمال سے وابستہ ہے یہی وجہ ہے کہ اگر وہ کوئی نیکی کا کام کرتے بھی ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ایک احسان سمجھتے ہیں اور یہی ذہنیت ہے جو نیکیوں پر استقلال اور دوام کی عادت پیدا نہیں ہونے دیتی۔ لوگ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کر کے بھی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ پر بڑا احسان کر دیا ہے اور احسان خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، تھوڑا ہو یا زیادہ برابر ہوتا ہے۔ گویا وہ اللہ تعالیٰ کو رشوت دیتے ہیں۔ جس طرح کسی شخص کے پاس ٹکٹ نہ ہو اور وہ ریل گاڑی میںسفر کر رہا ہو اور ٹکٹ چیک کرنے والا آجائے تو وہ بجائے پورا کرایہ ادا کرنے کے کچھ رشوت دے کر ٹکٹ چیکر کو خاموش کر ادے۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے وہ اِس ایک نیکی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی آنکھیں نیچی کرنا چاہتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ اگر ہم ساری عمر بھی نیکیاں کرتے چلے جائیں تو بھی ہماری ذمہ داری ادا نہیں ہوتی۔ وہ لوگ جو کچھ دیر کام کرنے کے بعد کچھ عرصہ قربانی کرنے کے بعد تھک کر بیٹھ جاتے ہیں اور اُن کے اندر سُستی اور غفلت پیدا ہو جاتی ہے اور اِس اَمر کی ضرورت ہوتی ہے کہ اُن کوپھر بیدار کیا جائے اور اُن کو ذمہ داریوں کا اِحساس دلایا جائے ایسے لوگوں کو اپنے انجام کی فکر کرنی چاہئے۔ کیونکہ اگر ایک شخص ساری عمر بھی کھانا کھاتا ہے لیکن صرف دس دن کھانا نہ کھائے تو وہ یا تو مر جائے گا یا مرنے کے قریب پہنچ جائے گا۔ اگر ایک شخص ہزار سال میں نو سَو ننانوے سال اور تین سَو پچاس دن تک کھانا کھاتا رہے لیکن صرف دس پندرہ دن نہ کھائے تو اُس کا پچھلا کھایا ہوا آئندہ نہ کھانے والے دنوں میں کام نہیں آئے گا۔ یہی حال انسان کی روحانی زندگی کا ہے اگر اس کو روحانی غذا نہ ملے تو ایسے شخص کی زندگی خطرہ میں پڑ جاتی ہے اور وہ یا تو مر جاتا ہے یا مرنے کے قریب پہنچ جاتا ہے لیکن اگر وہ اپنی حالت کی طرف توجہ کرے اور توبہ و استغفار کرے تو اسے اللہ تعالیٰ موت کے گڑھے سے نکال لیتا ہے اور اگر توجہ نہ کرے اور اپنی اصلاح کے لئے نیکی کی طرف قدم نہ اُٹھائے تو اُس پر موت وارد ہو جاتی ہے۔ پس تھوڑا سا کام کر کے یہ سمجھ لینا کہ ہم نے اپنی آخرت کے لئے بہت کچھ کر لیا ہے یہ محض نفس کا دھوکا ہے۔ یہ ایسی ذہنیت ہے جو عملی حالت کو خراب کر رہی ہے اور اگر ہماری جماعت بھی اِس رَو میں بہہ جائے تو یہ قابلِ افسوس بات ہوگی۔ میں دیکھتا ہوں کہ نمازوں میں پھر سُستی پیدا ہو رہی ہے۔ آج اِس مسجد میں پہلے سے آدھی قطاریں نماز پڑھنے والوں کی ہیں میرے بیمار ہونے سے اللہ تعالیٰ تو بیمار نہیں ہوگیا۔ وہ تو دیکھتا ہے کہ کون مسجد میں آیا ہے اور کون نہیں آیا۔ دوست آج محلوں میں جا کر لوگوں سے پوچھیں کہ کیا میرے بیمار ہونے سے اللہ تعالیٰ بھی بیمار ہو گیا ہے کہ لوگ نماز پڑھنے کے لئے نہیں آتے۔ کیا اب اللہ تعالیٰ ان کو دیکھ نہیں رہا جیسے پہلے دیکھتا تھا کہ کون مسجد میں آیا ہے اور کون نہیں آیا۔ یا ان کو ضرورت نہیں رہی کہ وہ اس مسجد میں آ کر نماز ادا کریں۔ میرے نزدیک نہ آنے والے لوگوں کی حالت بالکل ویسی ہی ہے جیسے سکول کے بچوں کی ہوتی ہے۔ اگر استاد کی توجہ کسی دوسری طرف ہو جائے یا استاد کلاس میں نہ رہے تو بچے تختیاں رکھ کر آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے کام کو بھول جاتے ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں نے یہ بھی سمجھ لیا ہے کہ میں تو مسجد میں آتا نہیں اس لئے انہیں مسجد میں آنے کی کیا ضرورت ہے۔ بچے تو نادان ہوتے ہیں اس لئے وہ دوسری طرف مشغول ہو جاتے یا آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں لیکن مومن تو بہت عقلمند اور بیدار مغز ہوتا ہے اس کا مقصد ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے رہنا چاہئے۔ بیشک استاد کی غیر حاضری میں بچے جو کچھ کرتے ہیں اسے ان باتوں کا علم نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہے اُسے انسان کی ہر حالت کا علم ہوتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ کون کون مسجد میں آیا ہے اور کون کون نہیں آیا۔ لیکن اگر بفرضِ محال اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرلے کہ میں آج مسجد میں جھانکوں گا تو گو اللہ تعالیٰ تو قادرِ مطلق ہے اُس کے لئے تو یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی وقت نہ دیکھے لیکن اگر محال کے طور پر فرض بھی کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کو روک دے اور مسجد میں نہ دیکھے تو بھی نقصان اُسی شخص کا ہوا جو نماز کے لئے نہیں آیا کیونکہ وہ نماز کے ثواب سے محروم ہو گیا۔ اور میرے نزدیک تو مسجد میں نہ آنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی آنکھیں پھوڑ ڈالے یا اپنے کانوں کو بند کر دے یا اپنی زبان کاٹ ڈالے یا اپنے دانت توڑ دے یا اپنی ناک کاٹ لے۔ جو شخص اپنے ان اعضاء کو کاٹتا ہے وہی دُکھ اُٹھاتا ہے۔ اسی طرح نمازیں بھی انسان کے روحانی اعضاء ہیں۔ نمازوں میں سُستی کرنا اپنے روحانی اعضاء کو کاٹنے کے مترادف ہے اور اگر کسی ایسے شخص کو جو نہ آنکھیں رکھتا ہو، نہ کان رکھتا ہو، نہ ناک رکھتا ہو، نہ زبان رکھتا ہو، نہ ہاتھ رکھتا ہو جنت میں بھی داخل کر دیا جائے تو وہ اس سے کیا فائدہ اُٹھائے گا۔ جیسے کسی لُولے لنگڑے اور اندھے شخص کو شالامار باغ میں بٹھا دیا جائے تو وہ اُس سے کیا لطف حاصل کرسکے گا۔ اسی طرح جس شخص کے روحانی اعضا ء کام نہیں کرتے تو اُسے اگر جنت میں بھی داخل کر دیا جائے تو وہ جنت سے کیا لطف اُٹھائے گا۔ گو ایسے آدمی کا جس کے روحانی اعضاء کام نہ کرتے ہوں جنت میں جانا ناممکن ہے لیکن اگر فرض کر لیا جائے کہ کوئی شخص فرشتوں کو دھوکا دے کر جنت میں چلا بھی جائے تو وہ اندھا، لُنجا اور لنگڑا شخص جنت میں جا کر کیا کرے گا۔ اس کی آنکھیں نہیں کہ جنت کے نظاروں کو دیکھ سکے، اُس کے کان نہیں کہ جنت کی عمدہ آوازوں کو سن سکے، اُس کی زبان نہیں کہ جنت کے ثمرات کو چکھ سکے، اُس کے ہاتھ نہیں کہ کسی کو چھو کر اُس کی لطافت کو محسوس کر سکے جنت سے تو وہی لطف اُٹھا سکتا ہے جس کی نمازیں باقاعدہ ہوں، جس کے چندے باقاعدہ ہوں، اور وہ تقویٰ کی تمام راہوں پر گامزن ہو کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو انسان کے روحانی اعضاء ہیں۔ جس نے ان میں سُستی اختیار کی گویا اُس نے اپنے روحانی اعضاء کاٹ ڈالے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۳؎ کہ جو شخص اس دنیا میں روحانی طور پر اندھا ہے وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہوگا۔
قرآن مجید کا یہ طریق ہے کہ وہ بات کو نہایت اختصار سے بیان کرتا ہے اور یہ بلاغت کا قاعدہ ہے کہ بات ایک جزو کے متعلق کرتے ہیں مگر تمام اجزاء مراد ہوتے ہیں۔ اِس آیت کی تفسیر اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ ۴؎ یعنی ان کے سینوں میں ظاہری طور پر دل تو موجود ہیں لیکن وہ ان سے کام نہیں لیتے اور ان کی آنکھوں میں ظاہری طور پر ڈیلے تو موجود ہیں لیکن وہ اُن سے دیکھتے نہیں اور ان کے ظاہری طور پر کان تو ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں۔ یہ کافر کی علامت ہوتی ہے کہ وہ روحانی لحاظ سے بالکل اندھا، بہرہ اور گونگا ہوتا ہے۔ وہ ظاہری آنکھیں رکھنے کے باوجود نہیں دیکھتا کہ اللہ تعالیٰ کے کیا کیا نشانات ظاہر ہو رہے ہیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی نصرت کر رہا ہے، وہ ظاہری کان رکھنے کے باوجود نہیں سنتا۔ ہر طرف سے صداقت اور سچائی کی آوازیں بلند ہوتی ہیں، چاروں طرف لوگ سچائی کا بآوازِ بلند اقرار کرتے ہیں لیکن اُس کے کانوں میں آواز نہیں پہنچتی، اُس کے پاس دل ہوتا ہے لیکن وہ صرف ایک گوشت کی بوٹی ہوتی ہے۔ جو کام دل کا ہوتا ہے کہ وہ کسی بات کے متعلق فیصلہ کرے اور اُس پر مضبوطی سے قائم ہو جائے یہ بات اس میں نہیں ہوتی۔ پھر کافر گونگا ہوتا ہے یعنی حق کے مقابلہ میں کوئی بات اُس کے منہ سے نہیں نکلتی وہ حق کے مقابلہ میں حیران و ششدر ہو جاتا ہے۔ پس سے مراد صرف آنکھوں کا اندھا پن نہیں بلکہ دوسری آیات جو اسی مضمون کی ہیں وہ بھی اس کے ساتھ شامل ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس دنیا میں روحانی طور پر اندھا ہے وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہوگا، جو شخص اس جہان میں روحانی طور پر اَصَمّہے وہ شخص اگلے جہان میں بھی اَصَمّ ہوگا، جو شخص اس جہان میں روحانی طور پر اَبْکَمُ ہے وہ اگلے جہان میں بھی اَبْکَمُ ہوگا ۔نام ایک عضو کا لیااور مراد اِس سے تمام اعضاء ہیں۔ پس جس شخص کی نہ آنکھیں ہوں، نہ کان ہوں، نہ زبان ہو، نہ ناک ہو، نہ ہاتھ ہوں وہ جنت سے کیا فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے متعلق فرماتے ہیں جنت ایسی چیز ہے کہ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ۵؎ نہ آنکھوں نے اسے دیکھا نہ کانوں نے کبھی اس کی حقیقت کو سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا تصور آ سکتا ہے۔ یہی تینوں الفاظ ہیں جو قرآن مجید نے بیان فرمائے ہیں۔ لَھُمْ قُلُوْبٌ لاَّیَفْقَھُوْنَ بِھَاوَلَھُمْ اٰذَانٌ لاَّیَسْمَعُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لاَّیُبْصِرُوْنَ بِھَا۔ وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِھَا کے مقابل پر مَالَاعَیْنٌ رَأَتْ فرمایا اور وَلَھُمْ اٰذَانٌ لاَّیَسْمَعُوْنَ بِھَا کے مقابل پر وَلَااُذُنٌ سَمِعَتْ فرمایا۔ اور لَھُمْ قُلُوْبٌ لاَّیَفْقَھُوْنَ بِھَا کے بِالمقابل وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ فرمایا۔ یعنی وہ چیزیں ایسی ہیں کہ مؤمن ان چیزوں کو اِس جہان میں نہیں دیکھتا مگر اگلے جہان میں دیکھے گا۔ لیکن کافر اِس جہان میں بھی نہیں دیکھتا اور اگلے جہان میں بھی نہیں دیکھے گا۔ مؤمن کو ایسی آنکھیں دی جائیں گی جو جنت کی چیزوں کو دیکھیں گی، اُن سے لطف اندوز ہوں گی ۔اور اگلے جہان میں مؤمن کو ایسے کان ملیں گے جو جنت کی عمدہ آوازوں کو سُن کر لذت اُٹھائیں گے۔ اور مؤمن کو اگلے جہان میں ایسا دل ملے گا جو جنت کی نعماء سے لذت اندوز ہوگا۔ کافر کے پاس یہ تینوں چیزیں نہیں ہوں گی کیونکہ وہ روحانیت کے لحاظ سے اِس دنیا میں بھی اندھا تھا اور اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا۔ وہ روحانیت کے لحاظ سے اس جہان میں بھی بہرہ تھا اور وہاں بھی بہرہ ہی ہوگا۔ اس کا دل اس جہان میں بھی روحانیت کی باتوں سے ناآشنا تھا اور اگلے جہان میں بھی جنت کی لذات سے ناآشنا ہوگا۔ جو حالت اس کی اس جہان میں ہے وہی حالت اگلے جہان میں ہوگی۔ میرے خیال میں یہ حدیث اِسی آیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں کچھ ایسے حواس دیئے جائیں گے جو اِن حواس کے مشابہہ ہونگے جو اِس وقت ہم رکھتے ہیں تو وہ حواس بہت لطیف ہوں گے۔ اور جنت میں کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن کو دیکھ کر آنکھیں لذت اُٹھائیں گی، کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن سے کان لذت اُٹھائیں گے، کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن سے قلب محظوظ ہوگا، کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن سے زبان لذت پائے گی۔ مثلاً جنت میں ثمرات وغیرہ کھانے کو ملیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ جنتی لوگوں کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ کہیں گے ۶؎لیکن جس شخص کے حواس دنیا میں کام نہیں کرتے اور وہ روحانی نعمتوں سے محروم ہیں وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ پس جو شخص سوچ سمجھ کر اعمال بجا لاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ وہ کسی نیکی سے محروم نہ رہے اُسے ہر نماز کے ذریعہ ایک نئی طاقت دی جاتی ہے۔ اگر وہ حج کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر زکوٰۃ دیتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے۔ اگر وہ کسی کو تعلیم دیتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر وہ نیک بات کسی کو کہتا ہے تو اسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے،اگر وہ کسی کی تربیت کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر وہ اچھے کلمے کی کسی کو تلقین کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر وہ ظلم و تعدی کو دور کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے،اگر وہ کسی یتیم یا بیوہ کے بوجھ کاکفیل بنتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر وہ کسی مصیبت زدہ کی مدد کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، ہر نیکی جو انسان کرتا ہے اس کے ذریعہ وہ اپنی ایک نئی حِس اور نئی طاقت کو زندہ کرتا ہے جو جنت میں اس کے کام آنے والی ہے۔ جتنی نعمتیں جنت میں ہیں اگر انسان چاہے کہ ان سب سے لطف اُٹھائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مقابل پر زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرے۔ جس طرح انسان دنیا میں اچھے نظارے دیکھ کر لطف اُٹھاتا ہے۔ ناک سے خوشبو سونگھ کر یا کانوں سے اچھی آوازوں کو سُن کر لطف اندوز ہوتا ہے یا زبان سے چکھ کر لذت اُٹھاتا ہے۔ اور ہر ایک چیز کی سینکڑوں بلکہ ہزاروں قسمیں ہوتی ہیں۔ نظارے دنیا میں ہزاروں قسم کے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے اعلیٰ ہوتے ہیں۔ اسی طرح خوشبوئیں بھی ہزاروں قسم کی ہوتی ہیں اور چیزوں کے ذائقے بھی ہزاروں قسم کے ہیں۔ ہر ایک آدمی کا ذوق مختلف ہوتا ہے بعض آدمی تُرش چیز کو پسند کرتے ہیں لیکن بعض آدمی تُرش چیز کو سخت ناپسند کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے ذوق کے مطابق نہیں ہوتی اور جن کو تُرش چیز پسند ہے وہ بھی سارے کے سارے کسی ایک چیز کو پسند نہیں کرتے بلکہ مختلف طبائع مختلف چیزوں کو پسند کرتی ہیں کیونکہ تُرش چیزیں کوئی ایک دو قسم کی نہیں بلکہ ہزاروں قسم کی ہیں بعض مٹھاس کو پسند کرتے ہیں، آگے مٹھاس کی بھی ہزاروں قسمیں ہیں، بعض کو گڑ پسند ہوتا ہے، بعض آم کو پسند کرتے ہیں، بعض کو زردہ پسند ہوتا ہے، بعض کو فیرنی پسند ہوتی ہے۔یہ سب چیزیں میٹھی ہیں لیکن کسی کو کوئی میٹھی چیز پسندہوتی ہے اور کسی کو کوئی۔ اسی طرح جنت کی نعمتیں بھی لاکھوں کروڑوں قسم کی ہوں گی مگر ان کے مقابل پر انسان کو بھی کروڑوں کروڑ نیکیاں کرنی چاہئیں۔
قرآن مجید سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں مؤمنوں کے لئے افتراق اور جُدائی کو پسند نہیں فرمایا۔ پس وہاں اعلیٰ اور ادنیٰ کا امتیاز اس رنگ میں باقی نہیں رہے گا کہ وہ ایک دوسرے سے جُدا رہیں بلکہ ان کو ایک درجہ میں جمع کر دیا جائے گا۔ مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ اور دوسرے انبیاء بھی جنت کی لذات سے اسی طرح سَوفیصدی لطف اندوز ہو رہے ہوں گے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔
اصل بات یہ ہے کہ چونکہ جذباتی لحاظ سے انسان پر اس کے پیاروں کی جُدائی شاق گزرتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ادنیٰ اور اعلیٰ کے امتیاز کو مٹا کر ایک ہی مقام میں اُن کو جمع کر دے گا مگر اِس کے باوجود اُن میں مدارج کا امتیاز ہوگا ۔ایک ہی پلیٹ سے دو آدمی کھانا کھاتے ہیں تو ہر ایک ان میں سے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ ہر روز گھر میں کھانا پکتا ہے، میاں، بیوی، بچے اور دوسرے رشتہ دار اُسے کھاتے ہیں مگر کیا وہ سارے کے سارے ایک سا مزہ اُٹھاتے ہیں حالانکہ وہ سب کے سب ایک ہی کھانے میں شریک ہوتے ہیں پس مشارکت سے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ سب مزہ اُٹھانے میں بھی برابر ہوں۔ جنت میں مشارکت بھی ضروری ہے کیونکہ اگر سارے رشتہ داراِن نعمتوں میں شامل نہ ہوں تو جنت پورا انعام نہیں کہلا سکتی۔ باپ کہے گا میرا بیٹا میرے پاس نہیں ہے، بیوی کہے گی میرا خاوند میرے پاس نہیں ہے، خاوند کہے گا کہ میری بیوی میرے پاس نہیں ہے، بیٹا کہے گا میرے ماں باپ میرے پاس نہیں ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ سب کو جمع کر دے گا مگر باوجود ایک جگہ جمع ہونے کے ضروری نہیں کہ وہ سب جنت کی نعمتوں سے ایک جیسا لُطف اُٹھائیں۔ جیسا کہ ہمارے گھروں میں عام طور پر ایک ہی کھانا پکتاہے یہ کبھی نہیں ہوا کہ بیوی خاوند کیلئے تو پلاؤ پکائے، بچوں کیلئے قورما پکائے اور اپنے لئے دال پکائے، کوئی آدمی بھی گھر میں اس تفریق کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن باوجود اس کے کہ وہ سب ایک ہی کھانے میں شریک ہوتے ہیں اُن کے ذوق اور اُن کے مزے میں اختلاف ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بیمار ہے تو وہ اور مزہ اُٹھائے گا، اگر کسی کے دانت نہیں تو وہ اور مزہ اُٹھائے گا اور جس کے دانت بھی ہیں اور صحت بھی ٹھیک ہے وہ اس سے اور مزہ اُٹھائے گا حالانکہ کھانا ایک ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز اور رشتہ دار اور مقرب صحابہؓ وغیرہ کھانے میں آپ کے شریک ہوں گے تا کہ اُن کے دلوں کو ٹھیس نہ لگے لیکن ہر ایک ان میں الگ الگ مزہ لے رہا ہوگا اس لحاظ سے ان میں فرق بھی ہوگا اور درجات کا امتیاز بھی باقی ہوگا۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی بھی سَوفیصدی اُسی طرح جنت سے لُطف اُٹھائیں گے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لُطف اُٹھا رہے ہونگے تو جنت کے مدارج باطل ہو جاتے ہیں اور بڑے اور چھوٹے کا امتیاز باقی نہیں رہتا حالانکہ یہ امتیاز موجود ہوگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ دوسرے لوگ مزہ میں سَوفیصدی تب شامل ہوسکتے ہیں کہ ان کے اعمال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اعمال کے برابر ہوں لیکن ہم میں سے ہر ایک شخص جانتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اعمال کے لحاظ سے تمام انبیاء سے ارفع اور اعلیٰ ہیں۔ پھر باقی انبیاء آپ کے ساتھ جنت کی نعماء میں سَوفیصدی کس طرح شامل ہو سکتے ہیں۔
اِس نکتہ کو یاد رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اِس دنیا میں اپنے اعمال کے ذریعہ جیسا ذوق پیدا کریں گے اسی کے مطابق جنت کی نعمتوں سے لطف اُٹھائیں گے اور ہر نیکی جس کے کرنے میں کوتاہی سے کام لیں گے ہم اپنے ہاتھ سے اُس نعمت کا دروازہ اپنے اوپر بند کریں گے۔اِس نکتہ کو پہلے لوگوں میں سے بھی کسی نے بیان نہیں کیا۔ جہاں تک میں نے صوفیاء کی کتابیں پڑھی ہیں کسی نے اِس بات کے متعلق بحث نہیں کی اور نہ اِس موضوع پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ غرض جنتیوں کے اتصال اور اتحاد سے اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ جنتی لوگوں کو تسکینِ قلب حاصل ہو اور کوئی خلش ان کو تکلیف نہ دے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو بے شک تسکینِ قلب حاصل تھی لیکن بعد میں آنے والے دل میں ایک چبھن محسوس کرتے ہیںکہ کاش! ہم بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ ہوتے، ہم بھی آپ کا زمانہ دیکھتے، ہم بھی آپ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتے لیکن جنت میں اِس قسم کی کوئی خلش باقی نہیں رہے گی۔ پس جنت میں اِتحاد اور اِتصال بھی ہوگا اور وہ اِس طرح کہ اللہ تعالیٰ سب رشتہ داروں کو ایک جگہ جمع کر دے گا تا کہ جُدائی ان کو تکلیف نہ دے لیکن ان میں مدارج کا امتیاز بھی باقی رہے گا اور وہ اس طرح کہ ہر ایک ان میں سے اپنے اپنے ذوق اور اپنی اپنی حِس کے مطابق جنت کی نعمتوں سے لطف اُٹھائے گا۔
پس یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جس جس حِس کو انسان دنیا میں تقویت دے گا اُسی کے مطابق جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوگا اور انسان کی حِسیں اِس دنیا میں اِس طرح تیز ہو سکتی ہیں کہ انسان محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی کے لئے اعمال بجا لائے اور اعمال کے بجالانے میں اِستقلال اور دوام اختیار کرے۔ جب تک اعمال میں اِستقلال اور مداومت کا رنگ نہ ہو اُس وقت تک وہ انسان کی روحانی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ کچھ دن تک التزام سے نماز پڑھنا پھر چھوڑ دینا، کچھ دن اصلاح و ارشاد کے کام میں جوش دکھانا پھر خاموشی اختیار کر لینا، کچھ دن تک قربانی کرنا اور پھر تھک جانا یہ ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے انسان کی روحانی زندگی خطرہ میں ہوتی ہے اور وہ لوگ جو ایسا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جاذب نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل پورے طور پر اُنہیں لوگوں پر نازل ہوتے ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر اعمال بجا لاتے ہیں اور اِس بات کے محتاج نہیں ہوتے کہ نبی یا خلیفہ اُن کو بار بار توجہ دلائے۔ وہ اِس بات کا خیال نہیں کرتے کہ کسی بڑے آدمی نے تحریک کی ہے یا کسی چھوٹے آدمی نے، بلکہ وہ ہر نیک تحریک پر خواہ وہ نبی کی طرف سے ہو یا خلیفہ کی طرف سے ہو یا اُس کے کسی نائب کی طرف سے ہو لَبَّیْکَ کہنے کیلئے تیار رہتے ہیں یہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مورد بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ لوگ نبی یا خلیفہ کی خاطر کام کریں۔ موحّد قوم وہی ہوتی ہے کہ خواہ نبی یا خلیفہ زندہ رہے یا فوت ہو جائے اُس کے اخلاص میں اور اُس کے جوش میں کمی نہ آئے بلکہ وہ اُسی جوش اور اخلاص سے کام کرتی چلے جائے جس جوش اور اخلاص سے وہ پہلے کام کرتی تھی ۔اور یہ حقیقت ہے کہ جو قوم پورے طور پر موحّد ہو اُسے دنیا کی کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی۔ نہ حکومتیں اسے کوئی گزند پہنچا سکتی ہیں اور نہ بادشاہتیں اُس کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ہمیشہ شرک ہی قوموں کی تباہی اور ہلاکت کا موجب ہوتا ہے۔
پس دوستوں کو اِس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ آپ لوگوں کے اعمال میں کسی قسم کی ملونی نہ ہو اور ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں مداومت اختیار کریں اور کسی بات کے متعلق بھی آپ لوگوں کو بار بار توجہ دلانے کی ضرورت نہ ہو بلکہ ایک آواز ہی آپ کے لئے کافی ہوجو قوم اِس بات کی عادی ہو کہ اُسے بار بار بیدار کیا جائے اسے اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ انبیاء اور خلفاء تو اللہ تعالیٰ کی سواریاں ہوتے ہیں جو بوقتِ ضرورت بندوں کو عطا کی جاتی ہیں اور وہ بڑی حد تک جماعتوں کے بوجھوں کو اُٹھاتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ سہولت کے لئے اپنے بندوں کو یہ سواریاں دے دے تو یہ اُس کا احسان ہوتا ہے اور اگر یہ سواریاں نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کی جماعتوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ اِن بوجھوں کو خود اُٹھائیں۔ اگر کسی والد کو اپنا بچہ اُٹھا کر لے جانے کے لئے سواری نہ ملے تو وہ اُس کو پھینک نہیں دیتا بلکہ خود اُٹھا کر لے جاتا ہے۔ اور موت فوت کا سلسلہ تو انسانوں کے ساتھ جاری ہے اِس لئے نہ کسی انسان پر بھروسہ کرنا جائز ہے اور نہ بھروسہ کرنا چاہئے۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو مدینہ کے لوگوں کے لئے بہت بڑے ابتلاء کی صورت پیدا ہوگئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُس وقت مدینہ میں موجود نہ تھے۔ آپ جب مدینہ میں آئے تو آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا علم ہوا اور آپ کو لوگوں کی حالت کا بھی علم ہوا۔ آپ مسجد میں تشریف لائے اور لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مَحَمَّدًاﷺ فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْمَاتَ ۷؎ کہ جو شخص تم میں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا یعنی آپ کی خاطر نماز پڑھتا تھا یا آپ کی خاطر روزہ رکھتا تھا یا آپ کی خاطر زکوٰۃ دیتا تھا اُسے جان لینا چاہئے کہ اُس کا معبود فوت ہو گیا ہے اور اب اُسے ان اعمال کے بجا لانے کی ضرورت نہیں۔
وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَایَمُوْتُ۸؎ اور جو شخص تم میں سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دوسرے احکام پر عمل کرتا تھا اُسے اب بھی یہ اعمال کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور اس پر کبھی موت وارد نہیں ہو سکتی۔
پس جن لوگوں میں یہ کیفیت پیدا ہو جائے کہ خواہ کوئی زندہ رہے یا فوت ہو اُن کے اعمال میں کوئی کمی واقعہ نہ ہو یہی لوگ موحّد ہوتے ہیں اور جب توحید کی روح قوم میں سے مٹ جائے تو قوم بھی مٹ جاتی ہے۔ کیا ہم نے حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کا سپرد کردہ کام چھوڑ دیا تھا؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ ہم نے نہایت اخلاص سے جاری رکھا اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے اخلاص کو قبول فرمایا اور ہمیں پہلے کی نسبت بہت زیادہ ترقی عطا کی گئی۔ اگر آئندہ بھی جماعت اِس روح کو قائم رکھے کہ کسی کی موت کی وجہ سے ان میں سُستی پیدا نہ ہو بلکہ وہ اپنے کام کو پہلے کی نسبت زیادہ ہمت کے ساتھ کرتی چلی جائے تو اللہ تعالیٰ اسے بہت زیادہ ترقیات دے گا۔ پس یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ جس قوم میں توحید زندہ ہے وہ قوم زندہ رہے گی اور جس قوم میں سے توحید مٹ جائے گی وہ قوم بھی مٹ جائے گی۔
(الفضل ۲۹؍ جون ۱۹۶۰ء)
۱؎ (اٰل عمران:۱۸۲)
۲؎ المائدہ: ۲۵ ۳؎ بنی اسرائیل: ۷۳ ۴؎ الاعراف: ۱۸۰
۵؎ بخاری کتاب بدء الخلق باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ… (الخ)
۶؎ البقرۃ: ۲۶
۷،۸؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ۔ باب قول النبیﷺ لوکنت متخذا خلیلا…
آئندہ الیکشنوں کے متعلق
جماعت احمدیہ کی پالیسی
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
آئندہ الیکشنوں کے متعلق جماعتِ احمدیہ کی پالیسی
(رقم فرمودہ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء)
جیسا کہ احباب کو معلوم ہے تھوڑے ہی دنوں میںتمام ہندوستان میں پہلے تو ہندوستان کی دونوںکونسلوں کے لئے ممبروں کے انتخاب کی مہم شروع ہونے والی ہے اور اِس کے بعد صوبہ جاتی انتخابات شروع ہونے والے ہیں۔ میری اور جماعت احمدیہ کی پالیسی شروع سے یہ رہی ہے کہ مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں اور دوسری اقوام میں کوئی باعزت سمجھوتہ ہو جائے اور ملک میں محبت اور پیار اور تعاون کی روح کام کرنے لگے مگر افسوس کہ اِس وقت تک ہم اِس غرض میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
شملہ کانفرنس ایک نادر موقع تھا مگر اسے بھی کھو دیا گیا اور بعض لوگوں نے ذاتی رنجشوں اور اغراض کو مقدم کرتے ہوئے ایسے سوال پیدا کر دیئے کہ ملک کی آزادی کئی سال پیچھے جا پڑی اور چالیس کروڑ ہندوستانی آزادی کے دروازہ پر پہنچ کر پھر غلامی کے گڑھے کی طرف دھکیل دیئے گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
جہاں تک میں نے سوچا ہے اصل سوال ہندوؤں اور مسلمانوں کے اختلافات کا ہے۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ دوسری اقوام کے مفاد نظر انداز کئے جا سکتے ہیں بلکہ میرا یہ مطلب ہے کہ دوسری اقوام کے مفاد اِس جھگڑے کے طے ہو جانے پر نسبتاً سہولت سے طے ہو سکتے ہیں۔ سب سے مشکل سوال ہندو مُسلم سمجھوتے کا ہی ہے اور یہ سوال پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کے مسائل سے بہت پہلے کا ہے۔ اصل مسائل وہی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کا ذہن پاکستان کی طرف پھیرا ہے اور اکھنڈ ہندوستان کے خیالات کے محرک بھی وہی مسائل ہیں جو اِس سے پہلے مسلمانوں کے مطالبات کو ردّ کرانے کا موجب رہے ہیں۔ کسی شاعر نے جو کچھ اِس شعر میں کہا ہے کہ
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من اندازِ قدت را مے شناسم
وہی حال اِس وقت پاکستان اوراکھنڈ ہندوستان کے دعووں کاہے۔ پس اگر کسی طرح ہندو اور مسلمان قریب لائے جا سکیں تو پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کا آپس میں قریب لانا بھی مشکل نہ ہوگا ورنہ پاکستان یا اکھنڈ ہندوستان ہوں یا نہ ہوں، پاکھنڈ ہندوستان بننے میں تو کوئی شُبہ ہی نہیں۔ اِس ہندو مسلمان سمجھوتے کی ممکن صورت یہی ہو سکتی تھی کہ ایک جماعت مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندہ ہو اور ایک جماعت ہندوؤں کی نمائندہ ہو یا ہندوؤں کی اکثریت کی نمائندہ تو نہ ہو یا ایسا کہلانا پسند نہ کرتی ہو مگر اکثر ہندوؤں کی طرف سے سمجھوتہ کرنے کی قابلیت رکھتی ہو اور یہ دونوں جماعتیں مل کر آپس میں فیصلہ کر لیں۔ شملہ میں ایساموقع پیدا ہو گیا تھا مسلمانوں کی طرف سے مُسلم لیگ اور ہندوؤں کے جذبات کی نمائندگی کے لئے کانگرس ایک مجلس میں جمع ہوگئی تھیں مگر افسوس کہ یہ اجتماع مزید افتراق کا موجب بن گیا۔
کانگرس کا دعویٰ ہے کہ وہ سب اقوام کے حقوق کی محافظ ہے اور ہم اِس دعویٰ کو ردّ کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیںکرتے مگر باوجود اِس کے کانگرس اِس امر کا انکار نہیں کر سکتی کہ جو مسلمان یا سکھ یا عیسائی کانگرس میں شامل ہیں وہ مسلمانوں یا سکھوں یا عیسائیوں کی اکثریت کے نمائندے نہیں۔ پس کانگرس اگر یہ دعویٰ کرے کہ ہم جو سوچتے ہیں یا ہم جو سکیم بناتے ہیں اِس میں اُسی طرح سکھوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کا خیال رکھتے ہیں جس طرح ہندوؤں کا خیال رکھتے ہیں تو بحث ختم کرنے کے لئے ہم اِس دعویٰ کو بھی سچا تسلیم کر لینے کے لئے تیار ہیں لیکن کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کے مفاد کا دیانت داری سے خیال رکھنا یا ایسا کرنے کا دعویدار ہونا اُسے اُس کی نیابت کا حق نہیں دے دیتا۔ کیا کوئی وکیل کسی عدالت میں اس دعویٰ کے ساتھ پیش ہو سکتا ہے کہ میں مدعی یا مدعا علیہ کے مقرر کردہ وکیل سے زیادہ سمجھ اور دیانت داری سے اس کے حقوق کو پیش کر سکوں گا؟ کیا کوئی عدالت اس وکیل کے ایسے دعویٰ کو باوجود سچا سمجھنے کے قبول کر سکے گی؟ اور کیا اِس قسم کی اجازت کی موجودگی میں ڈیموکریسی، ڈیموکریسی کہلا سکتی ہے؟
ڈیموکریسی یا جمہوریت کے اصول کے لحاظ سے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کسی جماعت کی نمائندگی کرنے کا کون اہل ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس جماعت کی اکثریت کس کو اپنا نمائندہ قرار دیتی ہے۔ان حالات میں کانگرس کو ہندوؤں کے سِوا تمام دوسری اقوام کا نمائندہ اسی صورت میں قرار دیا جا سکتا ہے اگر ان اقوام کے اکثر افراد کانگرس میں شامل ہوں۔ جہاں تک ہمارا علم ہے کانگرس میں ہندو قوم کی اکثریت کے نمائندے تو ہیں لیکن مسلمانوں، سکھوں یا عیسائیوں کی اکثریت کے نمائندے نہیں اِس لئے خواہ کانگرس مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کے حقوق کی سکیم مسلمانوں، سکھوں یا عیسائیوں کے نمائندوں سے بہتر تجویز کر سکے وہ جمہوری اصول کے مطابق مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کی نمائندہ نہیں کہلا سکتی۔ لیکن باوجود غیرجانبدار اور ملکی تحریک ہونے کے ہندوؤں کی نمائندگی کر سکتی ہے کیونکہ ہندوؤں کی اکثریت اسے تسلیم کر چکی ہے۔ جب حالات یہ ہیں تو عقلاً اور جمہوری اصول کے مطابق قطع نظر اِس کے کہ کانگرس کی سکیم مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے متعلق بہتر ہے یا مُسلم لیگ کی سکیم، مُسلم لیگ کی سکیم ہی کو مسلمانوں کی پیش کردہ سکیم سمجھا جائے گا اور کانگرس کو یا تو میدان چھوڑ کر ہندو مُسلم سمجھوتے کیلئے ہندو مہاسبھا اور مُسلم لیگ کو باہمی سمجھوتے کی دعوت دینی ہوگی یا پھر خود ہندو اکثریت کی نیابت میں مُسلم لیگ سے سمجھوتہ کرنا ہوگا اِس کے سِوا اور کوئی معقول صورت نہیں ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ اگر کانگرس مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندہ نہیں ہے تو مُسلم لیگ کے نمائندہ ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ مُسلم لیگ کو نمائندہ قرار دینے کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ گاندھی جی ایک طرف اور وائسرائے ہند دوسری طرف اسے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت سمجھ کر اِس سے اسلامی حقوق کے بارہ میں گفت و شنید کرنے کے لئے تیار ہوگئے تھے۔ پس مُسلم لیگ نمائندہ ہے یا نہیں ہے مگر اِس میں کوئی شک نہیں کہ اب کانگرس اور گورنمنٹ اس کے سِوا کوئی دوسرا نظریہ اختیار نہیں کر سکتی۔ اگر مُسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ نہیں ہے تو کیا کانگرس اور حکومتِ ہند دونوں مسلمانوں کے حقوق کا ایک غیر نمائندہ جماعت کے ساتھ تصفیہ کر کے مسلمانوں کو تباہ کرنے کی فکر میں تھے؟ لیکن فرض کرو مُسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ نہیں تو پھر کون مسلمانوں کا نمائندہ ہے؟ کیا آزاد مسلمان کانفرنس؟ کیا احرار؟ کیا کوئی اَور جماعت جو صرف اسلامی نام کا لیبل اپنے اوپر چسپاں کئے ہوئے ہے؟ اگر اِن میں سے کوئی ایک یا سب کی سب مل کر مسلمانوں کی نمائندہ ہیں تو کیا کونسلوں میں اِن لوگوں کی کثرت ہے؟ مرکزی کونسلوں میں مُسلم لیگ کے مقابل پر ان کی کیا تعداد ہے؟ جہاں تک مجھے علم ہے صوبہ جاتی کونسلوں میں بھی اور مرکزی کونسلوں میں بھی غیر لیگی ممبروں کی تعداد لیگی ممبروں سے بہت کم ہے اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ مرکزی کونسلوں میں غیر لیگی ممبروں کی نسبت صوبہ جاتی نسبت سے بھی کم ہے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ صوبہ جاتی کونسلوں میں غیر لیگی ممبروں کی نسبتی زیادتی مقامی مناقشات اور رقابتوں کی وجہ سے ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ اِنہی ووٹروں نے صوبہ جات میں ایک پالیسی کے حق میں ووٹ دیئے اور مرکز کے لئے نمائندہ بھجواتے ہوئے دوسری پالیسی کے حق میں ووٹ دیئے۔ پھر مثلاً پنجاب ہے اِس میں یونینسٹ ممبر اصولاً اپنے آپ کو مُسلم لیگ کے حق میں قرار دیتے ہیں اور پاکستان کی عَلَی الْاِعْلَان تائید کرتے ہیں۔ پس ہر یونینسٹ ہندو مُسلم سمجھوتے کے سوال کے لحاظ سے درحقیقت مُسلم لیگی ہے۔ بلکہ وہ تو اِس امر کا مدعی ہے کہ مجھے ذاتی رنجشوں کی وجہ سے ایک طبقہ نے باہر کر دیا ہے ورنہ میں تو پہلے بھی مُسلم لیگی تھا اور اب بھی مُسلم لیگی ہوں۔ اِن حالات میں صوبہ جاتی غیر لیگی ممبروں کی تعداد مُسلم لیگی ممبروں کے مقابل پر اور بھی کم ہو جاتی ہے۔
غرض جس نقطۂ نگاہ سے بھی دیکھیں اِس وقت مسلمانانِ ہند کی اکثریت مُسلم لیگ کے حق میں ہے۔ کانگرس گورنمنٹ اور پبلک ووٹ سب کی شہادت اِس بارہ میں موجود ہے اور اِن حالات میں اگر ہندوستان میں صلح کی پائیدار بنیاد رکھی جاسکتی ہے تو مُسلم لیگ اور کانگرس کے سمجھوتے سے ہی رکھی جا سکتی ہے۔ مگر افسوس کہ باوجود اس کے شملہ کانفرنس کی ناکامی سے بددل ہو کر کانگرس نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ اب وہ مُسلم لیگ سے گفتگو نہیں کرے گی بلکہ براہِ راست مسلمانوں کی اکثریت سے خطاب کرے گی۔ عام حالات میں تو یہ کوئی معیوب بات نہیں۔ اگر کانگرس شروع سے ہی اس نظریہ پر کاربند ہوتی تو کم سے کم میں اسے بالکل حق بجانب سمجھتا لیکن اب جب کہ مسلمان ایک متحدہ محاذ قائم کر چکے ہیں کانگرس کا یہ فیصلہ اُن لوگوں کے لئے بھی تکلیف دِہ ثابت ہوا ہے جو اِس وقت تک کانگرس سے ہمدردی رکھتے تھے۔ مجھے کانگرس سے اختلاف ہے اور بہت سخت اختلاف ہے مگر میں اِس امر کا ہمیشہ قائل رہا ہوں کہ ہندو مُسلم اتحاد کی بنیاد ہندوؤں کی طرف سے کانگرس کے ذریعہ سے ہی پڑ سکے گی اور اس اتحاد کی آرزو میں شملہ کانفرنس کے ایام میں مجھے شکوہ مسلمان نمائندوں سے ہی پیدا ہوتا رہا ہے اور بار بار میرے دل میں یہ خیالات پیدا ہوتے تھے کہ چالیس کروڑ انسانوں کی آزادی کے لئے اگر مسلمان اپنے کچھ اور حق چھوڑ دیں تو کیا حرج ہے لیکن کانگرس کے اِس اعلان نے کہ اب وہ مُسلم لیگ سے بات نہیں کرے گی بلکہ مسلمان افراد سے خطاب کرے گی میرے جذبات کو بالکل بدل دیا اور میں نے محسوس کیا کہ جو لوگ دروازہ سے داخل ہونے میں ناکام رہے ہیں اب وہ سُرنگ لگا کر داخل ہونا چاہتے ہیں اور اِس کے معنی مُسلم لیگ کی تباہی نہیں بلکہ مُسلم کیریکٹر اور مُسلم قوم کی تباہی ہے۔ پس اُسی وقت سے میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ جب تک یہ صورتِ حالات نہ بدلے ہمیں مُسلم لیگ یا مُسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہئے۔ گو ہم دل سے پہلے بھی ایسے اکھنڈ ہندوستان ہی کے قائل تھے جس میں مسلمان کا پاکستان اور ہندو کا ہندوستان برضاء و رغبت شامل ہوں اور اب بھی ہمارا یہی عقیدہ ہے بلکہ ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ ساری دنیا کی ایک حکومت قائم ہو، تا باہمی فسادات دور ہوں اور انسانیت بھی اپنے جوہر دکھانے کے قابل ہو مگر ہم اِس کو آزاد قوموں کی آزاد رائے کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں جبر اور زور سے کمزور کو اپنے ساتھ ملانے سے یہ مقصد نہ دنیا کے بارہ میں پورا ہو سکتا ہے اور نہ ہندوستان اِس طرح اکھنڈ ہندوستان بن سکتا ہے۔
میں نے یہ اُمور اس لئے بیان کئے ہیں تا ہماری جماعت اور ہندوستان کی دوسری جماعتیں میری اِس رائے کو بخوبی سمجھ سکیں جو میں آئندہ انتخابات کے متعلق دینے والا ہوں۔ جو صورتِ حالات میں نے اوپر بیان کی ہے، اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اِس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آئندہ الیکشنوں میں ہر احمدی کو مُسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہئے تا انتخابات کے بعد مُسلم لیگ بِلاخوف تردید کانگرس سے یہ کہہ سکے کہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ ہے۔ اگر ہم اور دوسری مسلمان جماعتیں ایسا نہ کریں گی تو مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کمزور ہو جائے گی اور ہندوستان کے آئندہ نظام میں اِن کی آواز بے اثر ثابت ہوگی اور ایسا سیاسی اور اقتصادی دھکہ مسلمانوں کو لگے گا کہ اور چالیس پچاس سال تک اِن کا سنبھلنا مشکل ہو جائے گا اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی عقلمند آدمی اِس حالت کی ذمہ داری اپنے پر لینے کو تیار ہو۔ پس میں اِس اعلان کے ذریعہ سے پنجاب کے سِوا (جس کی نسبت میں آخر میں کچھ بیان کروں گا) تمام صوبہ جات کے احمدیوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر پورے زور اور قوت کے ساتھ آئندہ انتخابات میں مُسلم لیگ کی مدد کریں اِس طرح کہ:
۱۔ جس قدر احمدیوں کے ووٹ ہیں وہ اپنے حلقہ کے مُسلم لیگی امیدوار کو دیں۔
۲۔ میرا تجربہ ہے کہ احمدیوں کی نیکی اور تقویٰ اور سچائی کی وجہ سے بہت سے غیر احمدی بھی اِن کے کہنے پر ووٹ دیتے ہیں۔ پس میری خواہش یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ پنجاب کے باہر کے تمام احمدی اپنے ووٹ مُسلم لیگ کو دیں بلکہ جو لوگ اِن کے زیر اثر ہیں اُن کے ووٹ بھی مُسلم لیگ کے امیدواروں کو دلائیں۔
۳۔ ہماری جماعت چونکہ اعلیٰ درجہ کی منظم ہے اور قربانی اور ایثار کا مادہ ان میں پایا جاتا ہے اور جب وہ عزم سے کام کرتے ہیں تو حیرت انگیز طور پر لوگوں کے دلوں کو ہِلا دیتے ہیں۔ مَیں ہر احمدی سے یہ بھی خواہش کرتا ہوں کہ وہ اپنے حلقہ اثر سے باہر جا کر اپنے علاقہ کے ہر مسلمان کو آنے والے الیکشن میں مُسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے کی تلقین کرے اور اِس قدر زور لگائے کہ اُس کے حلقۂ اثر میں مُسلم لیگ امیدوار کی کامیابی یقینی ہو جائے۔
میں امید کرتا ہوں کہ احمدی جماعت کے تمام افراد کیا مرد اور کیا عورتیں، مرد مردوں تک پہنچ کر اور عورتیں عورتوں کے پاس جا کر اُن کے خیالات درست کرنے کی کوشش کریں گے اور اِس امر کو اِس قدر اہم سمجھیں گے کہ تمام جگہوں پر مُسلم لیگ کے کارکنوں کو یہ محسوس ہو جائے کہ گویا احمدی یہ سمجھ رہے ہیں کہ مُسلم لیگ کا امیدوار کھڑا نہیں ہوا بلکہ کوئی احمدی امیدوار کھڑا ہوا ہے اور اِس کام میں مقامی مُسلم لیگ کے ساتھ پوری طرح تعاون کریں گے اور جائز ہوگا کہ وہ اِس کے ممبر ہو جائیں اگر ان کے نزدیک اور مُسلم لیگ کے کارکنوں کے نزدیک ان کا شامل ہونا وہاں کے حالات کے لحاظ سے باہر رہنے سے زیادہ مفید ہو۔
جماعت کی تعداد اور اِس کے رسوخ کے لحاظ سے سندھ، صوبہ سرحد ، یوپی، بنگال اور بہار میں احمدیہ جماعتیں خوب اچھا کام کر سکتی ہیں اور مَیں امید کرتا ہوں کہ وہ اِس موقع پر بھی اپنے روایتی ایثار اور قربانی کا نمایاں ثبوت مہیا کریں گی۔
میں نے پنجاب کو مستثنیٰ رکھا ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس جگہ مُسلم لیگ کے بعض کارکن بِلاوجہ ہماری مخالفت کر رہے ہیں۔ مُسلم لیگ ایک سیاسی انجمن ہے اور اِسے اپنے دائرہ عمل کے لحاظ سے ہر مسلمان کہلانے والے کو مسلمان سمجھ کر اپنے ساتھ شریک کرنا چاہئے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہماری جماعت تو ہر جگہ مُسلم لیگ کا پروپیگنڈا کرتی رہی ہے مگر لاہور کے مُسلم لیگ کے ایک جلسہ میں جماعت احمدیہ کو خوب خوب گالیاں دی گئیں حالانکہ گالیاں دینا تو دشمن کے حق میں بھی روا نہیں کجا یہ کہ ایک ایسی جماعت کو گالیاں دی جائیں جو مُسلم لیگ کے بارہ میں بے تعلق بھی نہیں بلکہ اُس کے حق میں ہے۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ گالیاں دینے والے تو چند افراد ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جو جماعت چند افراد کا منہ بند نہیں کر سکتی وہ عام جوش کے وقت کسی اقلیت کی حفاظت کس طرح کر سکے گی۔
جماعت احمدیہ نے اپنا معاملہ مسٹر جناح صاحب کی خدمت میں پیش کیا تھا اُنہوں نے جواب دیا ہے کہ صوبہ جاتی سوال کو صوبہ کی کونسل ہی حل کر سکتی ہے۔ مگر جہاں تک میں نے معلوم کیا ہے، صوبہ جاتی کونسل ابھی اپنے آپ کو اس سوال کے حل کرنے کے قابل نہیں پاتی۔ دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ یونینسٹ پارٹی نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ مرکزی نمائندگی میں مُسلم لیگ کے نمائندوں کا مقابلہ نہیں کرے گی یہ ایک نیک اقدام ہے۔ اور کہتے ہیں کہ صبح کا بُھولا شام کو واپس آئے تو اُسے بُھولا نہیں سمجھنا چاہئے۔ اگر یونینسٹ پارٹی ایک اَور قدم اُٹھائے تو میں سمجھتا ہوں جہاں تک لیگ اور کانگرس کے سمجھوتے کا سوال ہے یونینسٹ پارٹی اُس کے راستہ میں حائل نہیں رہے گی اور مسلمانوں کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے لیڈروں کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسا ہی کریں۔ اِس کے بعد اگر وہ مقامی لیگ کے مقابل پر اپنے ممبر کھڑے کریں تو یہ مُسلم لیگ کے نظریہ اور اس کے مخالف نظریہ کی بحث نہ ہوگی بلکہ یہ صرف ایک ذاتی اور صوبہ جاتی سوال رہ جائے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ یونینسٹ لیڈر اِس طرف توجہ کر کے اپنے نام پر سے وہ دھبہ دھو دیں گے جو اِس وقت اُن کے نام کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور جو ایسا بدنما ہے کہ ہم لوگ جو مُسلم لیگ میں شامل نہ تھے اور ہمارے تعلقات یونینسٹ سے بہت اچھے تھے اس دھبہ کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھنے کی بھی ہمت نہیں پاتے۔ مگر یونینسٹ لیڈر جو کچھ فیصلہ کریں گے اس کا علم مجھے اس وقت نہیں اس لئے بادلِ ناخواستہ میں پنجاب کے متعلق یہ اعلان کرتا ہوں کہ پنجاب کے بارہ میں ہم کوئی اصولی مرکزی پالیسی سرِدست اختیار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ جہاں جہاں سے کوئی احمدی کھڑا ہونا چاہے میرا پہلا مشورہ اُسے یہ ہے کہ وہ مُسلم لیگ کا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ یہ ٹکٹ حاصل نہ کر سکے تو پھر اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ احمدی ووٹ یا اس کی قوم کا ووٹ زیادہ ہے اور اس کا جائز حق دینے سے انکار کیا جا رہا ہے تو پھر اسے اجازت ہے کہ وہ یہ اعلان کر کے ممبری کے لئے کھڑا ہو جائے کہ میں پالیسی کے لحاظ سے مُسلم لیگ سے متفق ہوں مگر چونکہ مُسلم لیگ میرے حلقہ کے ووٹوں کی اکثریت کو اُس کا حق نہیں دیتی اس لئے میں مجبوراً انڈیپنڈنٹ کھڑا ہو رہا ہوں۔ جب تک یونینسٹ پارٹی اپنی پالیسی کی ایسی وضاحت نہیں کرتی جس سے اُس کا مُسلم لیگ کی مرکزی پالیسی سے پورا تعاون اور تائید ثابت ہو اور جس کے بعد شملہ کانفرنس والے حالات کا اعادہ ناممکن ہو جائے میں سمجھتا ہوں کہ کسی احمدی کو یونینسٹ ٹکٹ پر کھڑا نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن اگر وہ ایسی وضاحت کر دے تو پھر جو شخص مُسلم لیگ کے آل انڈیا پروگرام کی تائید کرتے ہوئے پنجاب کے مقامی سوالوں میں یونینسٹ سے اتفاق رکھتا ہو اُس کے ٹکٹ پر اس کا کھڑا ہونا معیوب نہیں ہوگا۔ مگر پہلے میری اور مرکزی ادارہ کی تسلی اِس بارہ میں ہو جانی چاہئے۔ جہاں سے کوئی احمدی کھڑا نہیں ہو رہا وہاں کی جماعتوں کو بھی اپنے مخصوص حالات پیش کر کے امور عامہ سے اپنے حلقہ کے بارہ میں مشورہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرنا چاہئے۔ میری اوپر کی سب ہدایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ:
۱۔ پنجاب کے باہر ہر احمدی پوری طرح مُسلم لیگ کی کمیٹیوں اور اُس کے امیدواروں کی مدد کرے۔ اپنے اور اپنے زیرِ اثر ووٹ ان کو دے اور اپنے علاقہ کے لوگوں کو مُسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے کی تلقین کرے۔
۲۔ پنجاب سے جو احمدی کھڑے ہونا چاہیں اور جن کو علاقہ کی اکثریت ایسا کرنے کا مشورہ دے، وہ مُسلم لیگ سے ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر مُسلم لیگ ایسا نہ کرے اور ووٹر ان پر زور دیں تو وہ یہ اعلان کر کے کہ وہ مُسلم لیگ کی پالیسی ہی کے حق میں ہیں،انڈیپنڈنٹ کھڑے ہوں تو مرکز کو ان پر اعتراض نہ ہوگامگر جب تک یونینسٹ پارٹی کی پالیسی کے بارہ میں ہماری تسلی نہ ہو جائے وہ اُس کے ٹکٹ پر کھڑے نہ ہوں۔ ہاں اگر اِس پارٹی نے اپنی پالیسی ایسی بنا لی کہ مُسلم لیگ کے مرکزی پروگرام کو نقصان پہنچنے کا احتمال نہ رہے تو ہو سکتا ہے کہ امیدوار اور اُس کے حلقہ کے لوگوں کی خواہش کے احترام میں اُسے یونینسٹ پارٹی کی طرف سے کھڑا ہونے کی اجازت دے دی جائے مگر سرِدست ایسا کرنے کی میں کسی احمدی کو اجازت نہیں دیتا۔
۳۔ پنجاب کے تمام احمدی ووٹ یا زیرِ اثر ووٹ محفوظ رکھے جائیں اور ان کے بارہ میں مرکز سے انفرادی مشورہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے۔ آپ ہی آپ فیصلہ نہ کیا جائے کیونکہ صوبہ جاتی پالیٹکس نے ہمارے لئے اور کوئی راستہ کھلا نہیں چھوڑا۔
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء
(الفضل ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء)
مجلس خدام الاحمدیہ کا تفصیلی پروگرام
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مجلس خدام الاحمدیہ کا تفصیلی پروگرام
(تقریر فرمودہ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء برموقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ)
(اس مضمون کو لکھنے والے نے بہت خراب کر دیا ہے۔ اکثر جگہ دلیل کا ایک ٹکڑا نقل کیا ہے دوسرا چھوڑ دیا ہے بعض جگہ واقعات ہی بدل ڈالے ہیں۔ میں نے کاٹ کاٹ کر ترتیب درست کرنے کی تو کوشش کی ہے مگر پھر بھی افسوس ہے کہ مضمون کی اہمیت کو بہت نقصان پہنچ گیا ہے۔)
(مرزا محمود احمد)
تشہّد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا ۔
میں نے اِس دفعہ کے پروگرام میں دیکھا ہے کہ یہ مجلس خدام الاحمدیہ کا ساتواں سالانہ جلسہ ہے۔ سات کا عدد اسلامی اصطلاح میں تکمیل پر دلالت کرتا ہے ۔ پس ہر ایک خادمِ احمدیت کو اپنے دل میں غور کرنا چاہئے کہ آیااِن سات سالوں میں اُس کی یا اُس کے محلہ کی یا اُس کے شہر کی یا اُس کی قوم کی تکمیل ہوگئی ہے؟ سات سال کاعرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہجرت کے سات سال بعد یعنی آٹھویں سال تمام عرب پر غلبہ حاصل کر لیا تھا اور وہ مُلک جو ایک سرے سے دوسرے تک اسلام کی مخالفت میں کھول رہا تھا اور اس کا جوش دوزخ کی آگ کو مات کر رہاتھاعاشقوں اور فدائیوں کے طور پر آپ کے قدموں میں آگرا۔ اِس سات سال کے عرصہ میں صحابہؓ نے مُلک کی حالت کو بدل ڈالا، قلوب کی حالت کو بدل ڈالا اور اُن کے اندر زمین و آسمان کے فرق کی طرح امتیاز قائم کر دیا۔ پس خدام الاحمدیہ کو بھی سوچنا چاہئے کہ انہوں نے اس سات سال کے عرصہ میں مُلک کو چھوڑ کر، ضلع کو چھوڑ کر، شہر کو چھوڑ کر، محلہ کو چھوڑ کر، گھر کو چھوڑ کر صرف اپنے دل میں کیا فرق اور امتیاز پیدا کیا ہے۔ انسان دوسروں کے متعلق ہزاروں باتیں کہتا ہے اگر حق قبول کرنے کے متعلق کوئی بات ہو تو لوگ فوراً دوسروں کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ نادان لوگ ہیںسنتے نہیں، جاہل لوگ ہیں کسی بات پر غور نہیں کرتے، دنیا کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور دین کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ لیکن اگر یہی باتیں ان کے اپنے اندر پائی جائیں تو کیا یہی باتیں وہ اپنے متعلق کہنے کو تیار ہوتے ہیں؟ اپنے ہمسائے کے متعلق ہمیشہ کہتے رہیں گے کہ بڑا ضدی ہے نہیں مانتا دو تین سال سمجھاتے ہوگئے ہیں پھر بھی نہیں سمجھتا لیکن اگر ان کے اپنے متعلق یہی سوال ہو تو کیا وہ اپنے نفس کے متعلق بھی یہی کہیں گے کہ بڑا ضدی ہے نہیں مانتا، بہت سمجھایا ہے نہیں سمجھتا۔ ہمسائے کے متعلق یہ عُذر کر دیتے ہیں کہ سنتا ہی نہیں بڑا جاہل ہے مگر کیا اپنے نفس کے متعلق بھی یہی کہیں گے کہ سنتا ہی نہیں بڑا جاہل ہے۔ اپنے ہمسائے کے متعلق تو کہہ دیتے ہیں کہ سارا دن دنیا کے کاموں میں مشغول رہتا ہے دین کے کاموں کی طرف توجہ نہیں کرتا مگر کیا اپنے نفس کے متعلق بھی یہی کہیں گے کہ سارا دن کام میں لگا رہتا ہوں اس لئے دین کے کاموں کی طرف توجہ نہیں کر سکتا۔ غرض وہ کونسا جواب ہے جو اپنے ہمسائے کے لئے دیتے ہیں اور اپنے لئے بھی وہی جواب پسند کرتے ہوں۔ اگر کوئی شخص ان کی طرف سے یہی جواب دے تو لال لال آنکھیں نکال کر دیکھیں گے اور کہیں گے اس نے میری ہتک کر دی۔
پس یہ ایک اہم سوال ہے اور ہر خادم کو اس امر کے متعلق غور کرنا چاہئے کہ اس سات سال کے عرصہ میں اس نے کیا کیا۔ جہاں تک اہم باتوں کا سوال ہے ابھی تک خدام ان میں بہت پیچھے ہیں۔حاضری کو ہی دیکھ لو کتنی کم ہے، بیرونی جماعتوں کی طرف سے پچھلے سال چودہ نمائندے آئے تھے اور اِس سال اکتیس نمائندے آئے ہیں ہماری جماعتیں آٹھ سَوسے زیادہ ہیں اور جو جماعت آٹھ سَو سے زیادہ شاخیں رکھتی ہو اُس کے صرف اکتیس نمائندے آئیںتو یہ کوئی اچھا نمونہ نہیں بلکہ ایسا نمونہ ہے جسے دشمن کے سامنے پیش کرتے ہوئے ہمارے ماتھے پر پسینے کے قطرے آ جاتے ہیں۔ ہم دوسروں کو بُرا کہتے ہیں لیکن ہماری اپنی حالت بعض باتوں میں اُن سے زیادہ کمزور ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت کا نمونہ اکثر باتوں میں دوسری جماعتوں کی نسبت اچھا ہے لیکن بعض باتوں میں ہم ابھی تک اُن کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ مثلاً خاکساروں کی تعداد ہماری تعداد سے بہت کم ہے اور ہماری جماعت اُن کی نسبت بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے اور اُن سے بہت زیادہ مقامات پر پائی جاتی ہے۔ اگر خاکساروں کی طرف سے کسی جگہ پر جانے کا اعلان ہو جائے تو بسا اوقات دو دو، تین تین ہزار آدمی دو تین مہینے تک ایک ہی شہر میں پڑے رہتے ہیں۔ اُن کی کبھی یہ غرض ہوتی ہے کہ مسٹر محمد علی جناح پر اثر ڈالیں یا گاندھی جی پر اثر ڈالیں اور کبھی یہ غرض ہوتی ہے کہ لکھنو جا کر مدحِ صحابہؓ کے جھگڑے کا فیصلہ کرائیں اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو جاتے ہیں اور ہر شخص اپنے کھانے اور دوسرے اخراجات کا خود ذمہ دار ہوتا ہے مگر ہمارے خدام کی یہ حالت ہے کہ اپنے سالانہ اجتماع پرکُل اکتیس جماعتوں نے نمائندے بھیجے ہیں۔ بے شک ایک سَو اِکسٹھ خدام اور بھی اپنے طور پر شامل ہوئے ہیں لیکن اپنی خوشی سے شامل ہونا اور بات ہے اور اپنے فرض کو پورا کرنا اور بات ہے۔ اور یہ ایک سَو اِکسٹھ خدام جو آئے ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہوں گے جو قریب ترین جگہوں کے رہنے والے ہونگے یا ایسے ہونگے جنہوں نے قادیان آنا تھا اور انہوں نے اپنا پروگرام اس اجتماع کے ساتھ متعلق کر لیا۔ اُن کا آنا خدام الاحمدیہ کے جلسہ کے لئے نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ جس طرح عام طور پر لوگ قادیان آتے رہتے ہیں اسی طرح وہ بھی آئے۔ لیکن اگر وہ بِلااستثناء سارے کے سارے خدام الاحمدیہ کے جلسہ کے لئے ہی آئے ہوں تو بھی اس کے یہ معنی ہیں کہ تمام جماعت میں سے صرف ایک سَو اکسٹھ خادم ایسے ہیں جنہوں نے اپنے کاموں کا حرج کیا اور خوشی سے خدام الاحمدیہ کے جلسہ میں شامل ہوئے۔ اور اِس کے ساتھ یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ آٹھ سَو جماعتوں میں سے صرف اکتیس جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے اپنا فرض ادا کیا۔ مجھے کہا گیا ہے کہ ہم نے الفضل میں اعلان کیا تھا لیکن چونکہ الفضل ہر جگہ نہیں پہنچتا اِس لئے آٹھ سَو جماعتوں میں سے اکتیس نمائندے آئے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بات ماننے کے قابل نہیں کہ آٹھ سَو میں سے صرف اکتیس جگہ الفضل پہنچتا ہے اور باقی جگہوں میں نہیں پہنچتا۔ یہ تو مَیں مان سکتا ہوں کہ آٹھ سَو میں سے سَو یا دو سَو جگہیں ایسی ہو سکتی ہیں جہاں الفضل نہیں پہنچتا لیکن یہ کہ آٹھ سَو میں سے صرف اکتیس جگہ الفضل پہنچتا ہے یہ مَیں ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اگر فرض کر لیں کہ آٹھ سَو میں سے دو سَو جماعتیں ایسی ہیں جہاں الفضل نہیں پہنچتا اور چھ سَو جماعتیں ایسی ہیں جہاں الفضل پہنچتا ہے تو اگر چھ سَو جماعتوں میں سے چھ یا سات سَو نمائندے آ جاتے تو یہ خیال کیا جا سکتا تھا کہ باقی جماعتوں میں الفضل نہیں پہنچتا اس لئے اُن کے نمائندے نہیں آئے لیکن آٹھ سَو میں سے تیس چالیس نمائندوں کا آنا خوش کن بات نہیں اور الفضل کا نہ پہنچنا میرے نزدیک کافی جواب نہیں ہو سکتا۔ پس میرے نزدیک اس میں بہت حدتک دخل اور بہت حد تک ذمہ داری مرکزی ادارے کی ہے۔ مرکز کو چاہئے کہ انسپکٹر بھیج کر اپنی جماعتوں کی تنظیم کرے کیونکہ بغیر انسپکٹروں کے ان بیماریوں کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور نہ بیرونی جماعتیں پورے طور پر مرکز کی آواز کو سن سکتی ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ بہت سی غلطیاں اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ مرکز کی آواز صحیح طور پر لوگوں تک نہیں پہنچتی۔ صرف قواعد بنانے سے کچھ نہیں بنتا بلکہ ان قواعد کے نتائج کی طرف خیال رکھنا چاہئے کہ کیسے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان قواعد کو بدلنے کی ضرورت ہو تو ان کو بدل دیا جائے اور اگر ان میں اصلاح کی ضرورت ہو تو ان میں اصلاح کر دی جائے۔ دیکھو! ذی روح اور غیرذی روح چیزوں کے قواعد میں کتنا بڑا فرق ہے۔ غیر ذی روح چیزوں کے قواعد نہیں بدلتے اور ذی روح چیزوں کے قواعد ہر منٹ اور ہر سیکنڈ بدلتے چلے جاتے ہیں۔ پھرذِی روح چیزوں کے دو حصے ہیں۔ ایک انسان اور دوسرے حیوان۔ ان دونوں کے قواعد میں بھی بہت بڑا فرق ہے۔ مثلاً انسانی خوراک اور جانوروں کی خوراک میں کتنا فرق ہے۔ آدم کے زمانہ سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے سے گائے اور بیل گھاس کھاتے آتے ہیں اور ان کے لئے غذا کے بدلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بعض جانورایسے ہیں کہ وہ جب سے پیدا ہوئے ہیں ایک قسم کا کیڑا کھاتے ہیں۔ بعض جانور ایسے ہیں کہ وہ جب سے پیدا ہوئے گوشت کھاتے ہیں جیسے شیر اورچیتے وغیرہ۔ اور بعض گھاس اور بعض پتے کھاتے چلے آئے ہیں۔ مگر اس کے مقابل پر انسان کی یہ حالت ہے کہ اگر گھر میں ایک ہی قسم کا کھانا دو تین دن تک پکے تو لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ خاوند بیوی سے خفگی کا اظہار کرتا ہے، بیٹا ماں سے ناراضگی کا اظہار کرتا ہے کہ اتنے دن سے گھر میں ایک ہی کھانا پک رہا ہے اور کوئی چیز پکانے کے لئے نہیں رہی۔ پس کجا جانور کہ ان کی خوراک ساری عمر بدلتی ہی نہیں اور کجا انسان کہ اگر ایک ہی قسم کی غذا اسے دو دن کھانی پڑے تو گھر والوں کو صلواتیں سنانا شروع کر دیتا ہے۔ ـپس انسانوں اور جانوروں میں بہت بڑا فرق ہے۔ اس کے بعد اگر نباتات کو دیکھا جائے تو یہ فرق اور بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ نباتات کی جو غذائیں ہیں وہ بھی ابتداء سے آخر تک ایک ہی طرح چلتی چلی جاتی ہیں مگر ساتھ ہی وہ جگہ بھی ایک ہی رکھتی ہیں۔ جانوراپنی جگہ بدل لیتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں مگر درخت پہلو بھی نہیں بدلتے جس جگہ پیدا ہوتے ہیں اُسی جگہ مر جاتے ہیں۔ بیس، پچیس، پچاس، سَو یا ہزار سال جو بھی عمر ہو اس میں وہ کبھی اپنے مقام کو نہیں بدلتا۔ جہاں انسانوں اور حیوانوں میں غذا کے بدلنے کا فرق ہے وہاں نباتات اور حیوانات میں جگہ کے بدلنے کا فرق ہے۔ انسان اور حیوان دونوں جگہ بدل لیتے ہیں لیکن حیوان غذائیں نہیں بدلتے اور انسان اپنی غذائیں بدل لیتے ہیں۔ نباتات غذائیں بھی نہیں بدلتے اور جگہ بھی نہیں بدلتے۔ بعض درخت بیسیوں اور بعض سینکڑوں سال ایک ہی جگہ پیدا ہو کر رہ جاتے ہیں۔ پس انسان کو دوسری اشیاء سے بھی یہی امتیاز حاصل ہے کہ اس کے حالات دوسری مخلوقات کے مقابل پر جلد جلد بدلتے ہیں اور ہر انسان کا دوسرے انسان سے بھی فرق ہوتا ہے تو یقینا ہر زمانہ اور بعض دفعہ ہر جماعت الگ قسم کے قواعد کی محتاج ہوتی ہے مگر بعض نادان منتظم یہ خیال کر لیتے ہیں کہ ہر حالت میں ایک ہی علاج ہونا چاہئے۔ وہ قانون پاس کر دیتے ہیں اور اس قانون کو پاس کرنے کے بعد یہ خیال کر لیتے ہیں کہ اس قانون سے ہر شخص کا علاج ہو جائے گا اور یہ قانون ہر شخص کی حالت کے مطابق ہوگا حالانکہ یہ بات ناممکن ہے۔ ہر انسان کی حالت دوسرے انسان سے الگ ہوتی ہے، ہر جماعت کی حالت دوسری جماعت سے الگ ہوتی ہے اور ہر ایک جماعت کے مختلف لوگوں کی حالت ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوتی ہے۔ جب تک ان تمام حالات کا اندازہ نہ کیا جائے اور ان کے مطابق علاج نہ سوچا جائے وہ بے اثر اور بے فائدہ ثابت ہوگا خواہ وہ علاج کتنا ہی اعلیٰ درجہ کا اور بے نظیر کیوں نہ ہو۔
کام قواعد سے نہیں چلا کرتے بلکہ قواعد کے ساتھ ان کے نتائج کی طرف بھی نگاہ رکھنی چاہئے۔ یہ ایک ناتجربہ کاری کی حالت ہوتی ہے کہ انسان قانون بنا دے لیکن اس کے نتائج پر غور نہ کرے۔ میرے نزدیک جیوریز (JURY)کا صرف یہی فرض نہیں کہ وہ بیٹھیں اور قواعد بنا دیں بلکہ ان قواعد کے نتائج سے پورے طو رپر آگاہ ہونا بھی جیوریز کا فرض ہے اور انہیں علم ہونا چاہئے کہ انہیں ان قواعد کے بنانے سے کس حد تک اپنے مقصد میں کامیابی ہوئی ہے۔
ہر قاعدہ کو جاری کرنے کے بعد دو باتیں دیکھنی چاہئیں۔ اوّل یہ کہ آیا وہ قاعدہ پورے طور پر جاری ہوا ہے یا نہیں۔ دوسرے یہ کہ اس کے نتائج کیسے پیدا ہوئے ہیں۔ اگر کسی جگہ پر بھی اس کے نتائج پیدا نہیں ہوئے تو وہ قاعدہ غلط ہے اور اگر بعض جگہ پیدا ہوئے ہیں اور بعض جگہ پیدا نہیں ہوئے تو یا تو اُس قاعدہ پر وہاں عمل نہیں کیا گیا اور اگر وہاں اُس قاعدہ پر عمل کرنے کے باوجود اچھے نتائج پیدا نہیں ہوئے تو ماننا پڑے گا کہ وہ قاعدہ اُس مقام و گروہ کے لئے مفید نہ تھا اور اِس کا علاج کچھ اور تھا۔ اگر اس گروہ نے اس قاعدہ پر عمل نہیں کیا تو اس پر عمل کرانا چاہئے تھا اور اگر عمل کے بعد بھی اصلاح نہیں ہوئی تو کوئی اور ذریعہ اصلاح کا سوچنا چاہئے۔ اگر ایک ہی علاج تمام انسانوں کے لئے کافی ہوتا تو قرآن مجید میں ہر مسئلہ کے متعلق ایک ہی دلیل بیان ہوتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید ہر رکوع میں ایک نئی دلیل دیتا ہے بلکہ ہر آیت میں ایک نئی دلیل دیتا ہے۔ پس مختلف انسانوں کے علاج مختلف ہوتے ہیں، مختلف روحانی بیماریوں کے علاج مختلف ہوتے ہیں اور مختلف وقتوں کے علاج مختلف ہوتے ہیں۔ ایک وقت میں ہم ایک دلیل مؤثر دیکھتے ہیں لیکن دوسرے وقت میں وہ دلیل بے فائدہ اور بے اثر نظر آتی ہے۔ ایک دلیل ایک انسان کے لئے تو بہت مؤثر نظر آتی ہے مگر دوسرے کے لئے بے اثر نظر آتی ہے ۔ پس اگر ہم نے انسانوں سے معاملہ کرنا ہے تو ہمیں ان مشکلات کو بھی مد نظررکھنا ہو گا جو ان کے راستہ میں پیش آتی ہیں۔ جب تک ہم پوری کوشش کے ساتھ مختلف افرادکی بیماریوں اور ان بیماریوں کی نوعیتوں کی تشخیص نہیں کر لیتے اُس وقت تک نہ ہم بیماری کا پتہ لگا سکتے ہیں اور نہ اس کا صحیح علاج کر سکتے ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے مرضوں کا صحیح طور پر علاج بغیر انسپکٹروں کے نہیں ہو سکتا۔ پس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کو چاہئے کہ وہ اپنے انسپکٹروں کو مختلف علاقوں میں دَوروں کے لئے بھیجے جب وہ دَوروں سے واپس آئیں تو اُن سے صحیح حالات معلوم کئے جائیں۔ اور انسپکٹروں سے دریافت کیا جائے کہ سُستی دکھانے والی جماعتوں کی سُستی کی وجوہ کیا ہیں؟ اور پھر اس کا علاج کیا جائے۔مرکز میں بیٹھے رہنے سے ان حالات کا صحیح طور پر پتہ نہیں چل سکتا اور مرکز پر بیرونی جماعتوں کا قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
مرکز میں دفتر موجود ہے اور پھر یہاں ہر قسم کی واقفیت رکھنے والے آدمی پائے جاتے ہیں مگر کیا جوسامان قادیان کی مجالس کو حاصل ہیں وہی کیا باقی مجالس کو بھی حاصل ہیں؟ قادیان میں علم والے آدمیوں کی بہتات ہے اور اعلیٰ قابلیت رکھنے والوں کی بہتات ہے، نصیحت اور وعظ کرنے والوں کی بہتات ہے، جماعت کی کثرت کی وجہ سے ہر قابلیت کا آدمی مل سکتا ہے لیکن اِن حالات کو بیرونی جماعتوں پر چسپاں نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہر جگہ نہ اتنی قابلیتوں کے آدمی مل سکتے ہیں، نہ اتنے وعظ و نصیحت کرنے والے میسرآسکتے ہیں، نہ وہاں جماعت کی اتنی کثرت ہے کہ خدام الاحمدیہ کے نظام کو جماعتی طور پر دباؤ ڈال کر قائم کیا جا سکتا ہو بلکہ بعض مقامات میں ایک احمدی ہے، بعض میں دو، بعض میں تین، بعض میں چار، اِس سے کم وبیش احمدی ہیں اور بعض مقامات ایسے ہیں جہاں کوئی احمدی بھی تعلیم یافتہ نہیں، بعض جگہوں پر قابل آدمی مل سکتے ہیں، بعض جگہوں پر نہیں مل سکتے اور بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں قابل آدمی تو موجود ہیں لیکن ان کی قابلیت چھپی ہوئی ہے جب تک اُن کو اُبھارانہ جائے اُس وقت تک وہ قابلیتیں ہمارے کام نہیں آسکتیں ۔پس ضروری ہے کہ انسپکٹر مقرر کئے جائیں جو باہر کی جماعتوں کی پورے طور پر نگرانی کریں اور جو قانون مرکز میں جاری کئے جائیں ان کو رواج دینے کی کوشش کریں۔
اِس کے بعد میں خدام کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آئندہ سالوں میں ہاتھ سے کام کرنے کی روح کو دوبارہ زندہ کیا جائے اور خدام سے ایسے کام کرائے جائیں جن میں وہ ہتک محسوس کرتے ہوں اور وہ کام انفرادی طور پر کرائے جائیں۔ جس وقت قادیان کے تمام خدام جمع ہوں اوروہ سب ایک ہی کام کر رہے ہوں تو اُنہیں اُس وقت کسی کام میں ہتک محسوس نہیں ہوگی کیونکہ اُن کے دوسرے ساتھی بھی اُن کے ساتھ اُسی کام میں شریک ہوتے ہیں لیکن اگر ایک خادم اکیلاکوئی کام کر رہا ہو اور اُس کے ساتھی اُسے دیکھیں تو وہ ضرور ہتک محسوس کرے گا۔ میرا اِس سے یہ مطلب نہیں کہ اجتماعی طور پر کوئی کام نہ ہو بے شک اجتماعی طور پر بھی ہو لیکن انفرادی کام کے مواقع بھی کثرت سے پیدا کئے جائیں۔مثلاً کسی غریب کا آٹا اُٹھا کر اُس کے گھر پر پہنچا دیا جائے یا کسی غریب کا چارہ اُٹھا کر اُس کے گھر پہنچا دیا جائے یا کسی غریب کی روٹیاں پکوا دی جائیں۔جب خادم روٹیاں پکوانے جائے گا تو دل میں ڈر رہاہو گا کہ مجھے کوئی دیکھ نہ لے اور اگر کوئی دوست اُسے راستے میں مل جائے تو اُسے کہے گا میری اپنی نہیںفلاں غریب کی ہیں۔ اُس کا یہ اظہار کرنا اِس بات کی دلیل ہوگا کہ وہ اِس کام کو ہتک آمیز خیال کرتا ہے یہ پہلا قدم ہوگا۔ اِسی طرح بعض اور کام اس نوعیت کے سوچے جا سکتے ہیں۔ ایسے کام کرانے سے ہماری غرض یہ ہے کہ کسی خادم میں تکبر کا شائبہ باقی نہ رہے اور اس کا نفس مر جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہر ایک کام کرنے کو تیار ہوجائے۔
ایک اور بات جوبہت زیادہ تو جہ کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ خدام کی سختی کے ساتھ نگرانی کی جائے کہ وہ باجماعت نماز ادا کرتے ہیں یا نہیں۔ ابھی تک محلوں سے اطلاعات آتی رہتی ہیں کہ بعض خادم نمازوں میں سُست ہیں اور باوجود بار بار کہنے کے اپنی اصلاح نہیں کرتے۔ زعماء کو چاہئے کہ اُن کی طرف خاص توجہ کریں۔ خدام کے عہدیداران اُن کے پاس جائیں اور انہیں سمجھائیں۔ اگر اِس کے باوجود وہ توجہ نہ کریں تو محلہ کے پریذیڈنٹ اور دوسرے دوست انہیں سمجھائیں۔ اگر اِس کے بعد بھی وہ نمازوں میں سُستی کریں تو اُن کے نام میرے سامنے پیش کئے جائیں ۔ یہ ایک بہت ضروری حصہ ہے خدام الاحمدیہ کے پروگرام کا۔
خدام الاحمدیہ کے پروگرام میں یہ بات بھی شامل ہونی چاہئے کہ خدا م کی پڑھائی کا خاص خیال رکھا جائے اور اس بات کی نگرانی کی جائے کہ کون کون خادم سٹڈی (STUDY) کے وقت گلیوں میں پھرتا ہے، اِس بات کی نگرانی کے لئے کچھ خادم ہر روزمقرر کئے جاسکتے ہیں اُن کو جہاں کوئی خادم بازار میں پھرتا ہوا مل جائے اُسے پوچھیں کہ تمہارا سٹڈی کا وقت ہے اور تم بازار میں کیوںپھر رہے ہو؟ اگر اِس بات کی نگرانی کی جائے تو ایک تو طالب علموں میں آوارہ گردی کی عادت نہ رہے گی اور دوسرے وہ پڑھائی میں زیادہ دلچسپی لیں گیـ۔ہمارے طالب علموں کی پڑھائی کی موجودہ حالت بہت قابلِ افسوس ہے اور ہمارے سکول کے نتائج اِس وقت تمام سکولوں سے بدتر ہیں۔ میں نے نظارت تعلیم وتربیت کو یہ ہدایت کی کہ صرف اُن اُستادوں کو اِس سال ترقیاں دی جائیں جن کے نتائج اوسط سے پانچ فیصدی زیادہ ہوں۔ اِس پر ناظر صاحب تعلیم مجھے ملنے آئے اور کہا کہ آپ کے مقررہ کردہ قاعدہ کے مطابق تو سارے سکول میں سے صرف ایک استاد ایسا ہے جسے ترقی مل سکتی ہے۔ میں نے کہا کہ سارے پنجاب میں میٹرک کے نتیجہ کی اوسط ۷۶فیصدی ہے گورنمنٹ سکولوں کا نتیجہ ۹۹ فیصدی بلکہ بعض کا سَوفیصدی ہے لیکن آپ کہتے ہیں کہ اوسط پر پانچ فیصدی زائد کرنے سے صرف ایک استاد کو ترقی مل سکتی ہے اچھا آپ اِن اُستادوں کو ترقیاں دے دیں جن کا نتیجہ اوسط کے برابر ہو۔ تو وہ کہنے لگے کہ اِس قاعدہ کے ماتحت بھی صرف دو اُستاد آتے ہیں۔پھر میں نے کہا کہ اچھا اوسط سے پانچ فیصدی کم پر ترقی دے دیں تو وہ کہنے لگے اِس قاعدہ کے ماتحت بھی صرف چار اُستاد آتے ہیں۔ اور اِس پر مَیں نے انہیں کہا کہ کیا باقیوں کو جماعت کے لڑکے فیل کرنے کی خوشی میں ترقیاں دی جائیں؟ ہمارے استاد اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور لڑکوں کی نگرانی کی طرف کما حقہٗ توجہ نہیں کرتے۔ اس میں شک نہیں کہ بہت حد تک نتیجہ کی ذمہ داری لڑکوں پر بھی ہے لیکن جہاں تک نگرانی کا تعلق ہے میں اِس کی ذمہ داری اُستادوں پر ڈالتا ہوں کہ انہوں نے کیوں ان کی نگرانی نہیں کی۔ جہاں تک شوق پیداکرنے کا سوال ہے خدام الاحمدیہ کا فر ض ہے کہ وہ طلباء کے لئے ایسے طریق سوچیں جن کی وجہ سے خدام میں تعلیم کا شوق ترقی کرے۔ بہرحال نگرانی سب سے زیادہ ضروری چیز ہے۔ پڑھائی کے وقت سب خدام گھروں میں بیٹھ کر پڑھائی کریں اور جوطالب علم باہر پھرتا ہوا پکڑا جائے اُس سے باز پُرس کی جائے۔مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر خدام اس پر عمل کریںتو جن طالب علموں کو باہر پھرنے کی عادت ہو وہ خودبخود گھر میں سٹڈی کرنے پر مجبور ہونگے کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ باہر تو پھر نہیں سکتے چلو کوئی کتاب ہی اُٹھا کر پڑھ لیں۔ ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ ’’جاندے چور دی لنگوٹی ہی سہی‘‘۔یعنی جاتے چور کی لنگوٹی ہی سہی اگر چور چوری کر کے بھاگا جارہا ہو اور تم اُس سے اور کچھ نہیں چھین سکتے تو اُس کی لنگوٹی ہی چھین لوآخر کچھ نہ کچھ تو تمہارے ہاتھ آجائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں ایک فقیر تھا جو اکثر اُس کمرے کے سامنے جہاں پہلے محاسب کادفتر تھا بیٹھا کرتا تھا۔ جب اُسے کوئی آدمی احمدیہ چوک میں سے آتا ہوا نظر آتا تو کہتا ایک روپیہ دیدے، جب آنے والاکچھ قدم آگے آجاتا تو کہتا اٹھنی ہی سہی۔ جب وہ کچھ اور آگے آتا تو کہتا چونی ہی سہی، جب اُس کے مقابل پر آجاتا تو کہتا دو آنے ہی دے دے، جب اس کے پاس سے گزرکر دو قدم آگے چلا جاتا تو کہتا ایک آنہ ہی سہی، جب کچھ اور آگے چلا جاتاتو کہتا ایک پیسہ ہی دیدے، جب کچھ اور آگے چلا جاتا ہے تو کہتا دھیلا ہی سہی، جب جانے والا اُس موڑ کے قریب پہنچتا جہاں سے مسجد اقصیٰ کی طرف مُڑتے ہیں تو کہتا پکوڑا ہی دیدے، جب دیکھتا کہ آخری نکڑ پر پہنچ گیا ہے تو کہتا مرچ ہی دے دے۔ وہ روپیہ سے شروع کرتا اور مرچ پر ختم کرتا۔ اِسی طرح کام کرنے والوں کو بھی یہی سمجھنا چاہئے کہ کچھ نہ کچھ تو ہمارے ہاتھ آ جائے۔ اگر پہلی دفعہ سَو میں سے ایک کی طرف توجہ کرے گا تو اگلی دفعہ دو ہو جائیں گے اِس سے اگلی دفعہ چار ہو جائیں گے اور اس طرح آہستہ آہستہ بڑھتے چلے جائیںگے پس کام کرو اور پھر نتیجہ دیکھو۔ جب دُنیوی کام بے نتیجہ نہیں ہوتے تو کس طرح سمجھ لیا جائے کہ اخلاقی اور روحانی کام بغیر نتیجہ کے ہو سکتے ہیں لیکن جن کے من ّ*** ہیں وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو کام کرتے ہیں لیکن نتیجہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ نتیجہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کہنے سے اُن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے تو اپنی طرف سے پوری محنت کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ ہم سے دشمنی نکال رہا ہے۔ یہ کہنا کس قدر حماقت اور بیوقوفی کی بات ہے۔ گویا اپنی کمزوریوں اور خامیوں کواللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جو کام ہم کرتے ہیں اُس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ لیکن اچھے یا بُرے نتیجہ کا دارومدار ہمارے اپنے کام پر ہوتا ہے۔کسی شخص نے ۱۰؍۱ حصہ کسی کام کے لئے محنت کی تو قانون قدرت یہی ہے کہ اُس کا ۱۰؍۱ نتیجہ نکلے ۔اب اس کے ۱۰؍۱ حصہ نکلنے کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کی وجہ سے ۱۰؍۱ حصہ نتیجہ نکلا ورنہ اُس نے محنت تو زیادہ کی تھی۔ قانون قدرت کسی محنت کو ضائع نہیں کرتا لیکن شرارتی نفس یہ کہتا ہے کہ میں نے تو اپنافرض ادا کر دیا تھا لیکن اللہ میاں اپنا فرض ادا کرنا بھول گیا اِس سے بڑا کفر اور کیا ہو سکتا ہے۔ پس جہاں تک محنت اور کوشش کا سوال ہے نتائج ہمارے ہی اختیارمیں ہیں۔ اگر نتیجہ اچھا نہیں نکلتا تو سمجھ لو کہ ہمارے کام میں کوئی غلطی رہ گئی ہے۔ کوشش کرنی چاہئے کہ ہر کام کے نتائج کسی معیّن صورت میں ہمارے سامنے آسکیں۔ اگر ہمارے پاس ریکارڈ محفوظ ہو تو ہم اندازہ کر سکیں گے کہ پچھلے سال سے اس سال نمازوں میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی، تعلیم میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی، اخلاق میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی، کتنے خدام پچھلے سال باہر کی جماعتوں سے سالانہ اجتماع میں شمولیت کے لئے آئے اور کتنے اس سال آئے ہیں اِسی طرح باہر کی خدام الاحمدیہ کی جماعتیں بھی اپنے ہاں ان باتوں کا ریکارڈ رکھیں کہ پچھلے سال تعلیم کتنے فیصدی تھی اور اس سال کتنے فیصدی ہے،اخلاق میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی۔ اور یہ قانون بنا دیا جائے کہ ہر جماعت اجتماع کے موقع پر اپنی رپورٹ پڑھ کر سنائے تاکہ تمہیں معلوم ہو سکے کہ تمہارا قدم ترقی کی طرف جا رہا ہے یا تنزّل کی طرف۔ اِس میں شبہ نہیں کہ کبھی اندازہ میں غلطی بھی ہو سکتی ہے لیکن عام طورپر اندازہ صحیح ہوتا ہے اگر یہ طریقہ اختیار کیا جائے تو کچھ نہ کچھ قدم ضرور ترقی کی طرف اُٹھے گا۔ صحیح اندازہ لگانے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ دس فیصدی کام اس رپورٹ میں سے کم کر دیا جائے۔ مثلاً کسی جماعت کی ترقی بارہ یا پندرہ فیصدی ہے تو اس میں سے دس فیصدی کم کرنے کے بعد ہم کہیں گے کہ اس جماعت نے دس فیصدی ترقی کی ہے پھر تمام جماعتوں کا آپس میں مقابلہ کیا جائے کہ تبلیغی طور پر کونسی مجلس اوّل ہے، تعلیم میں کونسی مجلس اوّل ہے، اخلاق کی ترقی میں کونسی مجلس اوّل ہے، ہاتھوں سے کام کرنے میں کونسی مجلس اوّل ہے ،نمازوں کی باقاعدگی میں کونسی مجلس اوّل ہے۔ اس قسم کے مقابلوں سے ایک دوسرے سے بڑھنے کی رُوح ترقی کرے گی اور اگر کسی مجلس کا کام فرض کرو پچھلے سال بھی دس فیصدی تھا اور اس سال بھی دس فیصدی ہے تو اُس کے متعلق سوچنا چاہئے کہ کیا وجوہ ہیں جو اُس مجلس کی ترقی میں روک ہیں۔پس ایسے ذرائع سوچے جاسکتے ہیں جن سے معیّن نتیجہ نکالاجا سکتا ہے۔
سات سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حکم ہے کہ سات سال کے بچے کو نماز پڑھنے کے لئے کہنا چاہئے اور اگر دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھتا ہو تو اُسے مار پیٹ کر نماز پڑھانی چاہئے۱؎۔گویا پہلے سات سال ترغیب وتحریص کے ہیں اور اگلے سال میں سختی بھی کی جاسکتی ہے۔ پندرہ سال کی عمر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بعض لڑکوں کو جہاد میں شامل ہونے کی اجازت دی ہے۔ پس اگر آج ساری ذمہ داریاں تم پر نہیں ہیں توآج سے آٹھ سال کے بعد تمہیں تمام ذمہ داریاں اپنے اوپر لینی ہوں گی اور خداتعالیٰ کے نزدیک تم ایک ایسے مقام پر پہنچ جاؤ گے جس مقام پر پہنچ کر جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ پس جس دَور میں تم داخل ہو رہے ہو نہایت نازک دَور ہے اور جوذمہ داریاں تم پر پڑنے والی ہیں وہ بہت بڑی ہیں گو پہلے بھی تم ذمہ داریوں سے خالی نہیں لیکن آئندہ ذمہ داریاں ان سے بڑھ کر ہوں گی۔ میرے نزدیک پچھلے سات سال تم نے ضائع کر دیئے ہیں اگر آئندہ سات سال بھی آپ لوگوں نے ضائع کر دیئے تو آپ اللہ تعالیٰ کے نزدیک موردِالزام ہوں گے۔پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اورسمجھ سوچ سے کام لیتے ہوئے ہر کام کو پہلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ چلانے کی کوشش کرو۔ اندھادُھند قانون بنا دینا کوئی فائدہ نہیں دیتا جب تک کسی قانون کے متعلق یہ ثابت نہ ہو جائے کہ یہ واقعی مفید ہے اورہر جگہ جاری کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اندھا دُھند قانون بنانے والوں کی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ایک مثل سنایا کرتے تھے کہ ایک مُلّاتھا اور اُس کے ساتھ اُس کا کنبہ بھی تھا وہ دریا کے کنارے کشتی پر سوار ہونے کے لئے آئے ملاّح اُن کے لئے کشتی لینے گیا کشتی چونکہ کنارے کے پاس ہی تھی مُلّا نے دیکھا کہ ملاّح کے ٹخنوں تک پانی آتا ہے اور دریا کی چوڑائی اتنی ہے اس لحاظ سے زیادہ سے زیادہ پانی کمر تک آجائے گا حالانکہ دریا کے متعلق اس قسم کا اندازہ لگانا حد درجے کی حماقت ہے کیونکہ دریا میں اگر ایک جگہ ٹخنے تک پانی ہو تو اُس کے ساتھ ہی ایک فٹ کے فاصلہ پر بانس کے برابر ہو سکتا ہے مگر اُس مُلّا نے اربعہ سے نتیجہ نکالا کہ پانی کمر تک آئے گا۔یہ خیال کرتے ہوئے اُس نے کشتی کا خیال چھوڑ دیا اور سب بیوی بچوں کو لے کر دریا عبور کرنے لگا ۔ابھی تھوڑی دُور ہی گیا تھا کہ پانی بہت گہرا ہو گیا اور سب غوطے کھانے لگے خود تو وہ تیرنا جانتا تھا اس لئے اُس نے اپنی جان بچالی مگر بیوی بچے سب ڈوب گئے۔دوسرے کنارے پر پہنچ کر پھر اربعہ لگانے لگا کہ شاید پہلے میں نے اربعہ لگانے میں کوئی غلطی کی ہے لیکن دوبارہ وہی نتیجہ نکلا تو وہ کہنے لگا کہ ’’اربعہ نکلا جو ں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں‘‘۔ پس بعض حالات ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں اربعہ نہیں لگایا جاسکتا ہر ایک چیز کا اندازہ الگ الگ طریقہ پر کیا جاتا ہے اور ہر ایک بیماری کا علاج الگ الگ ہوتا ہے، خالی قانون بنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک حالات کو مدنظر نہ رکھا جائے۔
پس میں آئندہ نتیجہ دیکھوں گا میں نہیں سنوں گا کہ کون سیکرٹری تھا اور کس نے اُسے سیکرٹری بنایا مجھے تو کام سے غرض ہے کہ خدام نے نمازوں میں کتنی ترقی کی، سادہ زندگی میںکتنی ترقی کی اور سادہ زندگی کے کن کن اصول پرانہوں نے عمل کیا، تعلیم میں کتنی ترقی کی، کتنے لڑکوں نے انٹرنس، کتنے لڑکوں نے ایف ۔اے اور بی۔اے کے امتحان دیئے، کتنے لڑکے انٹرنس کے بعد کالجوں میں داخل ہوئے، کتنے لڑکوں نے مڈل اور پرائمری کے امتحان دیئے، کتنے لڑکوں نے تبلیغ میں حصہ لیا، ان کے ذریعہ کتنے آدمی احمدی ہوئے، کتنے خدام نے زندگی وقف کی۔
تھوڑے دن ہوئے میں نے تجارت کی تحریک کی ہے اور قادیان میں بیسیوں لڑکے ایسے ہیں جو بے کار ہیں اور ان کے ماں باپ گندم کے لئے منظوریاں لیتے پھرتے ہیں۔ عرضی میں لکھتے ہیں کہ بیس سال کا لڑکا ہے مگر بے کار ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جس لڑکے کے والدین کی یہ حالت ہے وہ بے کار کیوں بیٹھا ہے؟ محلہ کا پریذیڈنٹ سفارش کرتا ہے کہ یہ امداد کے بہت مستحق ہیں۔ میں کہتا ہوں ایسے لڑکے امداد کے مستحق نہیں بلکہ اِس بات کے مستحق ہیں کہ اُن کو بید لگائے جائیں۔ اسی طرح بعض لوگوں کے متعلق سفارش کی جاتی ہے کہ یہ فلاں کے گھر میں کام کرتے ہیں وہاں سے اُنہیں آٹھ روپے ملتے ہیں لیکن آٹھ روپے میں گزارہ نہیں ہوتا اِس لئے اُن کو گندم دی جائے۔ ایسے لوگوں کے متعلق بھی مجھے یہ خیال آتا ہے کہ اگر یہ لوگ کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے تو کیوں پھیری کا کام نہیں کر لیتے۔ پھیری والے ہر روز تین روپے کما لیتے ہیں۔ اگر کسی سے پوچھاجائے کہ آپ کا لڑکا کیوں بے کار ہے تو کہتے ہیں کہ فلاں قسم کا کام ملتا ہے لیکن اُس کی مرضی ہے کہ مجھے اس قسم کا کام ملے تو میں کروں اس لئے بے کارہے۔ (جلسہ کے دنوں میں ایک دوست ملے کہ میرے لڑکے کو چپڑاسی کروادیں میں نے کہا کہ گورنمنٹ ورکشاپ میں ملازم کرو ادیتا ہوں دو چار سال میں اسّی روپے کمانے لگے گا آپ چپڑاسی کیوں بنواتے ہیں؟ اِس پر انہوں نے فرمایا کہ لڑکے کی مرضی چپڑاسی ہونے کی ہی ہے۔) ایسے لڑکوں کی عقلوں کو درست کرنا چاہئے اور انہیں بتانا چاہئے کہ بے کاری ایک ایسی چیز ہے جو جماعتی لحاظ سے اور شخصی لحاظ سے دونوں طرح سخت مُضِرّ ہے۔ میرا خیال ہے کہ صرف قادیان میں سے دو تین سَو آدمی ایسے نکل آئیں گے جو ایسے وقت میں جب کہ ہر طرف روز گار مل رہے ہیں بے کار بیٹھے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ وہ جماعت پر باربن رہے ہیں، وہ اپنے رشتہ داروں پر باربن رہے ہیں، وہ اپنے گھروالوں پرباربنے ہوئے ہیںاگر وہ اپنے آپ کو وقف کریں تو تبلیغ کی تبلیغ اور کام کا کام۔ ہمارے ہاں مثل مشہور ہے’’ نالے حج نالے بیوپار‘‘ یہ تبلیغ کی تبلیغ ہو گی اور بیوپار کا بیوپار ہو گا۔
بلکہ ایک اور بات جس کی طرف میں خدام الاحمدیہ کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی صحتیں نہایت کمزور ہیں اور دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہیں۔ جب میں نوجوانوں کی صحتیں دیکھتا ہوں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہم لوگ جواپنے آپ کوکمزور صحت والے خیال کرتے ہیں اِن نوجوانوں سے اچھے ہیں۔آجکل کے نوجوانوں کے قد بہت چھوٹے ہیں یا بہت پتلے دُبلے یا بہت موٹے، موٹاپا بیماری کی ایک قسم ہوتی ہے، چہرے زرد ہیں اور چہروں پر جھریاں پڑی ہوتی ہیں گویا ان پر جوانی آنے سے پہلے ہی بڑھاپے کا زمانہ آجاتا ہے۔ کہتے ہیں کوئی بُڈھا بازار میں پاؤں پھسلنے کی وجہ سے گر پڑا تو بولا ہائے جوانی یعنی اب جوانی جوکہ تنومندی اور قوت کے دن تھے جاتے رہے اور میں محض بڑھاپے کی وجہ سے گر گیا ہوں۔ جب اُٹھاتو اُس نے دیکھا کہ اُس کے اِردگرد کوئی آدمی نہیں تو اِس پر بولا ’’پھٹے منہ جوانی ویلے توں کہیڑا بہادر سی‘‘یعنی تیرے منہ پر پھٹکار پڑے تو جوانی کے وقت کونسا بہادر تھا۔ ہمارے نوجوانوں کا بھی یہی حال ہے اِن پر جوانی آنے سے پہلے ہی بڑھاپے کا زمانہ آجاتا ہے۔ اگر نوجوانوں کی صحتوں کی یہی حالت رہی تو یہ خطرہ سے خالی نہیں۔ پس خدام الاحمدیہ کا یہ فرض ہے کہ نوجوانوں کی صحت کی طرف جلد توجہ کریں اور ان کے لئے ایسے کام تجویز کریں جو محنت کشی کے ہوں اور جن کے کرنے سے ان کی ورزش ہو اور جسم میں طاقت پیدا ہو۔ مثلاًہر جماعت میں جتنے پیشہ ور ہیں اُن سے کہا جائے کہ وہ خدام کو سائیکل کھولنا اور جوڑنا یا موٹر کی مرمت کا کام یا موٹر ڈرائیونگ سکھا دیں۔ یہ کام ایسے ہیںکہ ان میں انسان کی صحت بھی ترقی کرتی ہے اور انسان ان کو بطور ہابی(HOBBY) کے سیکھ سکتا ہے اور اگر اسے شوق ہو تو اس میں بہت حد تک ترقی بھی کر سکتا ہے۔ سکھ قوم کے مالدار ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ قوم لاری ڈرائیونگ اور لوہار کے کام میں سب سے آگے ہے اور پنجاب کی تمام لاریاں اور اکثر مستر ی خانے ان کے قبضہ میں ہیں جس جگہ جاؤ تمہیں لاری ڈرائیور سکھ ہی نظر آئے گا حالانکہ سکھ پنجاب میں کُل دس بارہ فیصدی ہیں لیکن سفر کے تمام ذرائع اِنہوں نے اپنے قبضہ میں لے رکھے ہیں۔ کسی سٹرک پر کھڑے ہو جاؤ، کسی ضلع یا تحصیل میں چلے جاؤ تم دیکھو گے کہ سائیکلوں پر گزرنے والوں میں دو تہائی سکھ ہوں گے او رایک تہائی ہندو یا مسلمان ہوں گے۔ اور اگر تم گاؤں میں چلے جاؤ تو تم دیکھو گے کہ ایک سکھ سائیکل پر سوار ہے اور اپنی بیوی کو پیچھے بٹھائے لئے جارہا ہے۔ موٹروں کی درستی کے جتنے کارخانے ہیں ان میں سے اکثر سکھوں کے ہیں۔ بندوق بنانے، کارتوس بنانے، لاریاں بنانے، سائیکل بنانے، مشینری بنانے کے جتنے کارخانے ہیں سب سکھوں کے ہیں کیونکہ جتنی سہولت ان کو ان چیزوں کے بنانے میں ہے دوسرے لوگوں کو نہیں۔ اوّل تو ہمارے مسلمانوںکے پاس موٹریں ہی نہیں اور اگر کسی کے پاس ہے بھی تو وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کے اندر کیا ہے۔ اگرکسی جگہ موٹر یا لاری خراب ہو جائے تو پھرسورن سنگھ کی منتیں کریں گے کہ اسے درست کردو۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنا روپیہ سکھوں کے پاس ہے اتنا قومی طور پر ہندوؤں کے پاس بھی نہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ قوم محنت کی بہت عادی ہے۔
لاہور میںایک سکھ نوجوان سے جو کہ بی۔اے پاس تھا اور بانسوں اور رسیوں کی دُکان کرتا تھا میں نے پوچھا کہ آپ ملازمت کیوں نہیں کر لیتے؟ وہ کہنے لگا کہ میرے دوسرے ساتھیوں میں سے جو ملازم ہیں کوئی چالیس روپے لیتا ہے اور کوئی پچاس روپے اور میں تین چار سَو روپے ماہوار کما لیتا ہوں مجھے نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے۔پس کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہماری جماعت اِن کاموں میں ترقی کرنے کی کوشش کرے تو وہ دوسری جماعتوں سے پیچھے رہ جائے۔ اگر ہماری جماعت میں سے پانچ چھ فیصدی لوگ مستری ہو جائیں تو پھر اُمید کی جاسکتی ہے کہ ہمارے لوگ مشینری میں کامیاب ہو سکیں گے کیونکہ اِن لوگوں کو آرگنائز کر کے آئندہ اِن کے لئے زیادہ اچھا پروگرام بنایا جاسکتا ہے اور کچھ اور لوگوں کو ان کے ساتھ لگا کر کام سکھایا جاسکتا ہے۔ اس وقت میرے نزدیک اگر مرکزی مجلس ایک موٹر خرید سکے تو یہ بہت مفید کام ہوگا اِس کے ذریعے خدام کو موٹر ڈرائیونگ کا کام سکھایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ موٹر کی عام مرمت کیا ہوتی ہے، جو خادم سیکھیں ان میں سے بعض مختلف جگہوں پر موٹر کی مرمت کی دُکان کھول لیں۔ یہ بہت مفید کام ہے اِس میں جسمانی صحت بھی ترقی کرے گی اور آمدنی کا ذریعہ بھی ہو گا۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کو گھوڑے کی سواری، سائیکل کی سواری سکھائی جائے۔ سائیکل کی سواری کے ساتھ یہ بات بھی ضروری ہوتی ہے کہ اُسے کھولنا اور مرمت کرنا آتا ہو کیونکہ بعض اوقات چھوٹی سی چیز کی خرابی کی وجہ سے انسان بہت بڑی تکلیف اُٹھاتا ہے۔ پس ہمارے خدام کو مشینری کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے آجکل مشینوں میں برکت دی ہے جو شخص مشینوں پر کام کرناجانتا ہو وہ کسی جگہ بھی چلا جائے اپنے لئے عمدہ گذارہ پیدا کر سکتا ہے۔ آجکل تمام قسم کے فوائدمشینوں سے وابستہ ہیں اور جتنا مشینوں سے آجکل کوئی قوم دُور ہوگی اُتنی ہی وہ ترقیات میں پیچھے رہ جائے گی۔اسی طرح اگر خدام لوہار، ترکھان، بھٹی اور دھونکنی کا کام سیکھیں تو ان کی ورزش کی ورزش بھی ہوتی رہے گی اور پیشے کا پیشہ بھی ہے۔ چونکہ خدام کے لئے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالناضروری ہے اگر خدام ایسے کام کریں تو وہ ایک طرف ہاتھ سے کام کرنے والے ہوں گے اور دوسری طرف اپنا گزارہ پیدا کرنے والے ہوں گے۔ اپنے ہاتھ سے کام کرنا یہ ہمارا طرۂ امتیاز ہونا چاہئے جیسے بعض قومیں اپنے اندر بعض خصوصیتیں پیدا کر لیتی ہیں۔ وہ قومیں جو سمندر کے کنارے پر رہتی ہیں وہ نیوی میں بڑی خوشی سے بھرتی ہوتی ہیں لیکن اگر انفنٹری میں بھرتی ہونے کے لئے اُنہیں کہا جائے تو اِس کے لئے ہرگز تیار نہیں ہونگے۔ اور اگر پنجاب کے لوگوں کو نیوی میں بھرتی ہونے کے لئے کہا جائے تو وہ اِس سے بھاگتے ہیں لیکن انفنٹری میں خوشی کے ساتھ بھرتی ہوتے ہیں اور یہ صرف عادت کی بات ہے۔ پس ہمارے خدام کو یہ ذہنیت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے کہ یہ مشینوں کا زمانہ ہے اور آئندہ زندگی میں وہ مشینوں پر کام کریں گے۔ اگر کارخانوں میں کام نہ کر سکو تو ابتداء میں لڑکوں میں ان کھیلوں کا ہی رواج ڈالو جن میں لوہے کے پُرزوںسے مشینیں بنانی سکھائی جاتی ہیں۔ مثلاً لوہے کے ٹکڑے ملا کر چھوٹے چھوٹے پُل بناتے ہیں، پنگھوڑے، ریلیں اور اِسی قسم کی بعض اور چیزیں تیار کی جاتی ہیں۔ ایسی کھیلوں سے یہ فائدہ بھی ہوگا کہ بچوں کے ذہن انجینئرنگ کی طرف مائل ہوں گے۔
یہ سائنس کی ترقی کا زمانہ ہے اِس لئے خدام الاحمدیہ کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد سائنس کے ابتدائی اصولوں سے واقف ہو جائے اور ابتدائی اصول اِس کثرت کے ساتھ جماعت کے سامنے دُہرائے جائیں کہ ہمارے نائی، دھوبی بھی یہ جانتے ہوں کہ پانی دو گیسوں آکسیجن اور ہائیڈروجن سے بنا ہوا ہے۔ یا روشنی آکسیجن لیتی ہے اور کاربن چھوڑتی ہے اگر اسے آکسیجن نہ ملے تو بجھ جاتی ہے۔ جب اِن ابتدائی باتوں سے اکثر لوگ واقف ہو جائیں گے تو بعد میں آنے والے اِن سے اُوپر کے درجہ پر ترقی پا جائیں گے۔
ایڈیسن جس نے ایک ہزار ایک ایجادیں کی ہیں وہ ایک کارخانے میں چپڑاسی تھا۔ کارخانے میں جو تجربات ہوتے وہ ان کو غور سے دیکھتا رہتا۔ اُس کی اس دلچسپی کو دیکھ کر ایک افسر نے اُسے ایسی جگہ مقرر کر دیا جہاں وہ کام بھی سیکھ سکتا تھا۔ پھر اُسے ایسی درسگاہ میں داخل کرا دیا گیا جہاں وہ ایک حد تک علمِ سائنس سے واقف ہو سکے۔ آخر وہ ایجادیں کرنے لگ گیا اور آج وہ دنیا کا سب سے بڑا موجد سمجھا جاتا ہے۔ بجلی، فونوگراف، ٹیلیفون اِسی طرح کی اور بہت سی چیزیں اِس نے ایجاد کیں اور بعض چیزوں میں ایسی شاندارترمیم کی کہ وہ ایک نئی چیز بن گئیں۔ـ پس جن لوگوں کے دماغ سائنس سے مانوس ہوں وہ دوسری کتابوں سے امداد لے کر ترقی کر جائیں گے۔ بعض لوگ بظاہر نکمّے اور بے عقل سمجھے جاتے ہیں لیکن جب اُن کا دماغ کسی طرف چلتا ہے تو حیران کُن نتائج پیدا کرتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جو بہت زیادہ عقلمند اور ہوشیار نظر آئے وہی سائنس میں ترقی کرے۔ اِس وقت قادیان میں سب سے زیادہ کامیاب کارخانہ میاں محمد احمد خان کا ہے۔ کچھ دن ہوئے مجھے ایک سائنس کا پروفیسر ملا تھا اُس نے مجھے حیرت کے ساتھ کہا کہ میک ورکس نے بہت ترقی کی ہے اور ان کی بعض چیزیں بہت قابلِ تعریف ہیں لیکن میاں محمد احمد خان جو اِس کارخانہ کے موجد ہیں اُن کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی ٹوپی رکھ کر بھول جاتے ہیں کہ کہاں رکھی ہے اور بعض دفعہ ٹوپی اُن کے سر پر ہوتی ہے اور وہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ ایسا ہی ہوا کہ اُن کی ٹوپی ان کے سر پر تھی اور وہ اپنے ماموں میاں بشیراحمد صاحب کی ٹوپی بغل میں دبا کر چل پڑے۔ میاں صاحب نے دیکھا کہ میری ٹوپی لئے جارہے ہیں تو بُلا کر کہا کہ اگر ٹوپی کی ضرورت ہے تو بے شک لے جاؤ ورنہ تمہاری ٹوپی تمہارے سر پر ہے۔ غرض ایک طرف تو اُن کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میری ٹوپی میرے سر پر ہے یا نہیں دوسری طرف سائنس میںاُن کا دماغ خوب چلتا ہے۔ تو بظاہر بعض لوگ ایسے نظر آتے ہیں کہ جن کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ تو کوئی کام بھی نہیں کر سکیں گے لیکن جب اُن کا دماغ کسی طرف چل پڑتا ہے تو وہ دنیا کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ پس میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ جہاں ہمارے دوست دینی علوم سے واقف ہوں وہاں کچھ نہ کچھ انہیں سائنس کے ابتدائی اصول سے ضرور واقفیت ہونی چاہئے کیونکہ ان کا جاننا بھی اس زمانہ کے لحاظ سے بہت ضروری ہے۔
آج میں نے اتنا وسیع پروگرام آپ لوگوں کو بتا دیا ہے کہ اگر آپ اس کے مطابق کام کریں تو دو تین سال میں جماعت کی کایا پلٹ جائے گی اور جماعت اپنے پہلے مقام سے بہت بلند مقام پر پہنچ جائے گی اور دشمن تسلیم کریں گے کہ اِس جماعت کا مقابلہ ناممکن ہے۔ دشمن جب بھی جماعت کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھے گا اُس کی نظریں خیرہ ہو جائیں گی۔
میری صحت تو اچھی نہیں تھی لیکن اِس کے باوجود میں طبیعت پر بوجھ ڈال کر آ گیا ہوں۔ رات سے اسہال ہو رہے ہیں اگر بیٹھوں تو کھڑا نہیں ہو سکتا اور اگر کھڑا ہوں تو بیٹھ نہیں سکتا۔ اب میں دعا کر کے جلسہ کو ختم کرتا ہوں۔
(الفضل ۱۸،۲۱ جنوری ۱۹۴۶ء)
۱؎ ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب متٰی یؤمر الغلام بالصلٰوۃ
مسلمانوں نے اپنے غلبہ کے زمانہ میں اخلاق کا اعلیٰ نمونہ دکھایا
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مسلمانوں نے اپنے غلبہ کے زمانہ میں اخلاق کا
اعلیٰ نمونہ دکھایا
(تقریر فرمودہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
تشہّد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ جب کوئی قوم غالب آتی ہے تو اعلیٰ اخلاق کو ترک کر دیتی ہے۔ مسلمانوں پر یورپین اعتراض کرتے ہیں مگر انہوں نے خود کیسا گندا نمونہ دکھایا ہے۔ مسلمانوں کے غلبہ کے زمانہ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ وہ کسی مُلک میں گئے ہوں اور اُس مُلک کے باشندوں کو خواہ وہ کتنی ہی ادنیٰ حالت میں ہوں فنا کر دیا ہو اور آپ اُن کے مُلک میں بس گئے ہوں۔
مسلمان سپین میں گئے اور وہاں سات سَو سال تک حکومت کی لیکن اِس سات سَو سال کے عرصہ میں اُنہوں نے سپین کے باشندوں کو تباہ نہیں کیا۔ مسلمان بربر۱؎ میں گئے جہاں کے باشندے بالکل وحشی تھے، تباہ حال تھے، ننگے پھرتے تھے لیکن مسلمانوں کے جانے کے بعد اُن کی حالت پہلے سے بہتر ہوگئی۔ مسلمانوں نے اُن کو تعلیم دی اور اُن کے اندر ایسا تغیر پیدا کر دیا کہ دنیا کے بڑے بڑے عالِم بربر میں پیدا ہوئے اور اب تک وہی قوم اس مُلک میں آباد ہے۔ مسلمان مصر میں گئے اور وہاں ایسی شاندار حکومت کی کہ مصر کی زبان ہی عربی ہوگئی لیکن باوجود اِس کے آج تک وہاں کی اصلی قومیں موجود ہیں۔ مسلمان شام میں گئے اور ایسی حکومت کی کہ شام کی زبان ہی عربی ہوگئی لیکن وہاں کی قومیں اب تک موجود ہیں حالانکہ یہاں کثرت سے عیسائی تھے اور اب ان کو آزاد حکومت مل گئی ہے ورنہ پہلے وہ مسلمانوں کے ماتحت تھے لیکن ان کو مجبور نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ اپنے مذہب کو بدلیں۔ مسلمان فلسطین میں گئے لیکن اُنہوں نے وہاں کے باشندوں کو تباہ نہ کیا بلکہ اب تک وہ قومیں موجود ہیں۔ دوسرے مذاہب کو اختیار کر لینے سے ہم کسی کو نہیں روک سکتے۔ وہ اگر مسلمان ہوئے تو اپنی مرضی سے۔ اسی طرح مسلمان افریقہ میں گئے لیکن کوئی علاقہ ایسا نہیں جس کی نسل فنا ہوگئی ہو۔ غرض جہاں جہاں مسلمان گئے وہاں کی اصلی قومیں اب تک موجود ہیں۔ ان کے پہلو بہ پہلو عرب کے باشندے بھی بستے ہیں لیکن وہ قلیل تعداد میں ہیں۔ اِسی طرح ماریشس ہے، جاوا ہے، سماٹرا ہے، مڈغاسکر ہے، فلپائن ہے۔ اِن علاقوں میں سے جس جگہ بھی مسلمان گئے وہاں کے لوگوں کو ہر رنگ میں فائدہ پہنچایا انہوں نے کسی قوم کو مٹایا نہیں اور کسی قوم کی جگہ دنیاوی طور پر نہ لی بلکہ جہاں جہاں بھی مسلمان گئے وہاں اُن علاقوں کی قومیں ان کے زمانہ میں آباد رہیں۔ کسی ایک جگہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ وہاں کی قوموں کو مٹا کر مسلمانوں نے اُن کے مُلک پر قبضہ کر لیا ہو۔ مگر ان ہی علاقوں میں جب یورپین اقوام گئیں تو انہوں نے وہاں کی ساری دولت اور جائدادیں اپنے قبضہ میں کر لیں اور وہاں کے اصلی باشندوں کو مٹا دیا۔ مثلاً نیروبی ہے وہاں عربوں کا اتنا دخل تھا کہ وہاں کی زبان بگڑی ہوئی عربی ہے لیکن باوجود اِس کے کہ نیروبی مسلمانوں کے ماتحت تھا وہاں کی جائدادیں وہاں کے اصلی باشندوں کے پاس رہیں اور اب تک وہ نسلیں چلی آتی ہیں لیکن جب وہاں انگریز گئے تو انہوں نے ان کی زمینوں اور جائدادوں پر قبضہ کر لیا اور کہا کہ حبشیوں کو چونکہ کبھی زمین پر قبضہ کرنے کا خیال نہیں آیا اِس لئے یہ اپنے مُلک میں زمینوں کے مالک نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ وہاں کی زمینیں کچھ انگریزوں میں بانٹ دی گئیں اور کچھ حکومت نے لے لیں۔ ایک ایک انگریز کو بیس بیس میل لمبا علاقہ دے دیا گیا جسے وہ بیس بیس نسلوں تک بھی آباد نہیں کر سکتے۔ لیکن عربوں نے کہا جس کی چیز ہے اُسے دے دو۔ انگریز آسٹریلیا میں گئے اور وہاں کے باشندوں کی ایسی حالت کی کہ اس قوم کے اصل باشندوں کو آج تلاش کرنا سخت مشکل ہے اور اگر ان کو تلاش کیا جائے تو چند ہزار سے زیادہ نہیں ملیں گے حالانکہ وہ ہندوستان سے ڈیوڑھا مُلک ہے۔ امریکہ ہندوستان سے دوگنا ہے اور وہ سارے کا سارا آباد ہے لیکن اب تلاش کرنے سے بھی وہاں کے اصلی باشندے جو کہ ریڈاِنڈینز(RED INDIANS) کہلاتے ہیں چند ہزار سے زیادہ نہیں مل سکتے۔ نہ ان کے پاس جائدادیں ہیں نہ زمینیں وہ مزدوری کرتے ہیں اور اس طرح غریبانہ طور پر اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ اسی طرح کینیڈا ہے کینیڈا کے اصلی باشندے کہاں گئے؟ جن جن جزائر میں یورپین گئے وہاں کے باشندے تباہ ہوگئے۔
آخر کوئی بتائے تو سہی کہ کیا قسّام ِازل نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ مسلمان جہاں جائیں گے وہاں کے اصلی باشندے تو زندہ رہیں گے اور ترقی کریں گے لیکن جہاں یورپین اقوام جائیں گی وہاں کے اصلی باشندے مر جائیں گے۔ کہتے ہیں وہاں کے لوگ خود بخود مر گئے مگر سوال یہ ہے کہ وہ کیوں مَر گئے؟ مسلمانوں کے پاس وٹامنز نہیں تھی لیکن یہ وٹامنز نکال کر بھی وہاں کے اصلی باشندوں کو مارتے جاتے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کا بہانہ ہے ورنہ کون شخص تسلیم کر سکتا ہے کہ مسلمانوں کے ماتحت ہزار سال میں تو وہ قومیں نہ مریں لیکن جہاں فرانسیسی یا انگریز گئے یا دوسری یورپین قومیں گئیں وہاں کے اصلی باشندے دو تین سَو سال کے اندر اندر مرگئے۔ بیشک افریقہ کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں بیماریاں پڑتی ہیں اور جن میں یورپین دس بارہ سال سے زیادہ نہیں رہ سکتے۔ ایسے علاقوں کو چھوڑ دو جہاں بیماریاں پڑتی ہیں اور جہاں سے وہ حبشیوں کو نکال نہیں سکتے۔ جیسے ویسٹ افریقہ ہے جہاں وبائیں بہت زیادہ پڑتی ہیں اِسی لئے اس کا نام WHITE MEN'S GRAVE ہے یعنی سفید آدمی کی قبر۔ جو انگریز بھی وہاں جاتا ہے آٹھ دس سال سے زیادہ وہاں نہیں رہ سکتا اور اگر رہے تو مر جاتا ہے اِس لئے وہاں کے پادریوں کو آٹھ دس سال کے بعد بدل دیا جاتا ہے۔ یہ ہمارے ہی مبلّغ ہیں جو پندرہ سولہ سال سے متواتر کام کر رہے ہیں اور پھر بھی واپس جانے کے خواہشمند ہیں۔ بہرحال انگریز وہاں آٹھ دس سال سے زیادہ نہیں رہ سکتے۔ اِس دوران میں بھی ایک دو سال کے بعد ان کو لمبی چھٹی مل جاتی ہے پھر بھی وہ مشکل سے اتنا عرصہ وہاں رہتے ہیں۔ اِن علاقوں کو تو یورپین لوگوں نے خود چھوڑ دیا ہے کیونکہ قبر میں رہنا کوئی پسند نہیں کرتا اور اس لئے وہاں کے اصلی باشندے وہاں موجود ہیں۔ مگر ان قبروں کو چھوڑ کر باقی سارے علاقے جو اچھے ہیں اور جہاں ان کا قبضہ ہے وہاں انہوں نے اصلی باشندوں کو بالکل بے دخل کر دیا ہے اور ان کی اکثر نسلیں فنا ہوگئی ہیں۔یہی حال نٹال کا ہے وہ سب حبشی بے دخل ہیں، ان کی جائدادوں پر انگریزوں کا قبضہ ہے اور وہ ان کی خدمت گزاری کرتے ہیں۔ بچپن میں جب ہم کھیلا کرتے تھے اور ہمیں کوئی گری پڑی چیز مل جاتی تو ہم اسے ہاتھ میں لے کر کہتے ’’لبھی چیز خدا دی نہ دھیلے دی نہ پا دی‘‘۔ بچپن کے لحاظ سے ہم سمجھتے تھے کہ یہ ایک ایسا منتر ہے کہ جس کے پڑھنے سے دوسرے کی چیز لے لینا جائز ہو جاتا ہے۔
یہی حال اُن لوگوں کا ہے ہم جو چیز اُٹھاتے تھے وہ تو چاک کا ٹکڑا یا کُلّی۲؎ یا اس طرح کی کوئی اور چیز ہوتی تھی جو حقیقت میں دھیلے بلکہ دمڑی کے برابر بھی نہ ہوتی تھی مگر یہ لوگ ملکوں کے مُلک اپنے قبضہ میں لے کر کہتے ہیں ’’لبھی چیز خدا دی‘‘ ہندوستان کا مُلک اُٹھایا اور کہہ دیا ’’لبھی چیز خدا دی‘‘ افریقہ جو ہندوستان سے بھی بڑا ہے اُٹھایا اور کہہ دیا ’’لبھی چیز خدا دی‘‘ کوئی مُلک ایسا نہیں جو ’’لبھی چیز خدا دی‘‘ میں شامل نہ ہو۔ میں ان کے اس جواب پر ہمیشہ حیران ہوتا ہوں کہ اتنے عقلمند ہونے کے باوجود شاید وہ سمجھتے ہیں کہ باقی دنیا پاگل ہے کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اسے سمجھ ہی نہیں سکتی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ لوگ ڈنڈے کے زور سے دبے ہوئے ہیں اور جانتے ہیں کہ اگر شور ڈالا تو جیل خانے میں جائیں گے ورنہ انہیں معلوم ہے کہ یہ تصرف بے جا ہے اور بہت بڑا ظلم ہے جس کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ اس بارہ میں وہ کتنا بڑا نشان ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت نے دکھایا۔ عیسائی کہا کرتے ہیں کہ تاریخ میں آتا ہے کہ اورنگ زیب نے یہ ظلم کیا یا تاریخ کے فلاں صفحہ پر آتا ہے کہ اس نے اس طرح ناانصافیاں کیں یا فلاں مسلمان بادشاہ کے متعلق آتا ہے کہ اس نے فردوسی کے ساتھ ساٹھ ہزار اشرفیوں کا وعدہ کر کے صرف ایک ہزار اشرفی دی۔ مگر پچھلی باتوں کو چھوڑ دو کہ ان کی صحت یا عدمِ صحت کا ہم کو علم نہیں وہ ذرا موجودہ زمانہ میں ہی اپنی حالت تو دیکھیں وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے اس طرح ظلم کئے لیکن وہ اپنے آپ کو تو دیکھیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ جو قومیں مسلمانوں کے قبضہ کرنے سے پہلے موجود اور مسلمانوں کے چلے جانے کے بعد موجود رہیں وہ انگریزوں کے زمانے میں مفقود ہو گئیں۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے موجودہ دنیا کی عمر تو چھ ہزار سال ہے لیکن انگریزوں کے نقطۂ نگاہ سے دنیا کی عمر بیس لاکھ سال ہے ہم انگریزوں کے نقطۂ نگاہ کو ہی بالفرض تسلیم کر لیں تب بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جو نسلیں بیس بیس لاکھ سال سے چلی آ رہی تھیں اور مسلمانوں کے زمانے میں بھی قائم رہیں وہ یورپین قوموں کے قبضہ میں آتے ہی تباہ ہوگئیں۔ یورپین آسٹریلیا میں گئے، افریقہ میں گئے جہاں بھی گئے وہاں کی اصلی قومیں غائب ہونی شروع ہوگئیں۔ صاف ظاہر ہے کہ جب وہاں کے اصلی باشندوں کی زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا، حکومت سے اُنہیں علیحدہ کر کے بے دخل کر دیا گیا اور اپنا غلام بنا لیا گیا تو انہیں زندگی کے ساتھ دلچسپی نہ رہی اور جب کسی انسان کو زندگی سے دلچسپی نہ رہے تو وہ زندہ رہنے کی خواہش ہی نہیں کرتا۔ سمجھتا ہے کہ جب کسی چیز میں میرا دخل ہی نہیں تو میں نے زندہ رہ کر کیا کرنا ہے اس طرح وہ قومیں جو بے دخل ہو جاتیں ہیں خود بخود فنا ہو جاتی ہیں۔ ایک عربی شاعر کے کچھ شعر ہیں جو مجھ کو یاد تو نہیں لیکن وہ شعر تاریخی ہیں اور اُس نے بہت دردناک پیرائے میں بیان کئے ہیں۔ جب گذشتہ جنگ ختم ہوئی اور اتحادی ملکوں میں فتح کی خوشیاں منائی گئیں تو اس نے کچھ شعر کہے جن کا مفہوم یہ ہے کہ اتحادیوں نے جنگ فتح کر لی ہے اور لوگ خوش خوش گھروں کو آ رہے ہیں وہ آئیں گے اور خوشیاں منائیں گے۔ پر اے میرے بھائی! تو اُن کی خوشی میں شامل نہ ہونا کیونکہ یورپین تو اپنے گھروں کو خوشیاں منانے آ رہے ہیں پر تیرا کونسا گھر ہے جہاں تو آکر خوشیاں منائے گا۔ ہاں تیرا گھر تھا لیکن وہاں پر تو غیروں نے قبضہ کر لیا ہے اب تیرے پاس کچھ نہیں۔ فلسطین تیرا گھر تھا لیکن اب نہیں کیونکہ فلسطین پر تو غیروں کا قبضہ ہے۔ وہ لوگ آئیں گے اور خوشیاں منائیں گے اِس لئے کہ اُن کے لئے دنیا میں رہنے کے لئے جگہ ہے لیکن تیرے پاس کونسی جگہ ہے۔ ان کے پاس تجارت ہے پر تیرے پاس کونسی تجارت ہے غرض تیرا تو کچھ بھی نہیں۔ پھر آخر میں کہتا ہے اے میرے بھائی! تیرے لئے دنیا میں کچھ نہیں۔ اب تیرا کام یہ ہے کہ بیلچہ پکڑ اور میرے ساتھ مل، پھر ہم دونوں ایک خندق کھودیں اور خندق کھود کر اپنے مقتولوں کو اُس میں دفن کر دیں یہ ہماری خوشی کا وقت نہیں۔ چونکہ شاعر کی غرض دنیا ہوتی ہے اس لئے وہ خندق کھود کر مُردوں کو دفن کر دیتا ہے۔ پھر کہتا ہے اے بھائی! اب ہم نے اپنے مُردوں کو تو دفن کر لیا ہے اب آ تا کہ ہم ایک اور خندق کھودیں اور اس میں ہم اپنے آپ کو اور اپنے زندوں کو دفن کر لیں کیونکہ ہمارے لئے دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ حالت ہے جو انگریزوں نے بنا دی ہے۔ جس طرف بھی دیکھو یہ قبضہ کئے بیٹھے ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ ہم تمہاری حفاظت کے لئے بیٹھے ہیں اپنے کسی فائدہ کے لئے نہیں۔ امریکہ کے پریذیڈنٹ جو صلح اور انصاف کے نعرے بلند کرتے ہیں، اُن کا ایک مضمون چھپا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہم کسی پر بے جا قبضہ پسند نہیں کرتے لیکن اِردگرد کے چھوٹے چھوٹے مُلک جن کا اپنے قبضہ میں رکھنا ہماری حفاظت کیلئے ضروری ہے ہم صرف اُن پر قبضہ رکھیں گے۔ یہ بات وہی ہے جو یورپین قومیں کہتی ہیں، یہی انگریز کہتے ہیں، یہی فرانسیسی کہتے ہیں اور یہی جرمن والے کہتے ہیں کہ اگر فلاں فلاں مُلک ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو ہماری حفاظت خطرہ میں پڑ جائے گی۔ اب انڈونیشیا کے باشندوں نے جو اپنی آزادی کا عَلم بلند کیا ہے تو فرانسیسیوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ اگر یہ مُلک ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو ہم کیا کریں گے اور انگریزی فوجیں ان کی مدد کر رہی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا دوسروں کو اپنی حفاظت کی ضرورت نہیں؟ آخر ان بیچاروں کا کیا قصور ہے کہ امریکہ والے ان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور ان سے کونسی ایسی خطا سرزد ہوگئی ہے جس کی بناء پر وہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتے۔ غرض یہ غاصب خود تو دوسرے ملکوں پر بے جا تصرف کرتے ہیں لیکن جب ان پر حملہ ہوتا ہے تو انصاف انصاف پکارنے لگ جاتے ہیں۔ اٹلی والوں نے جب ایبے سینیا (ABAY SENIA) پر حملہ کیا اور انگریزوں نے شور مچایا تو گو اٹلی والوں نے بھی اس کا جواب دیا مگر جرمنی نے اس کا جو جواب دیا وہ بہت خوب تھا۔ اُس نے کہا صرف تم ہی اتنے عرصہ سے دنیا کو مہذب بنانے کی کوشش کر رہے ہو اور ہمیں اس میں شامل نہیں کرتے۔ تم اس غرض کے لئے ہندوستان اور دوسرے ممالک پر قبضہ کئے بیٹھے ہو اب ہمیں بھی اس نیک کام میں حصہ لینے دو اور ہمیں بھی دنیا میں تھوڑی سی تہذیب پھیلانے دو۔ پس یہ کہہ دینا کہ ہم تمہارے فائدہ کے لئے آئے ہیں نہایت فضول بات ہے تمہیں ان سے کیا۔ ہر شخص اپنا فائدہ سمجھتا ہے اگر وہ نہیں سمجھتا تو وہ اپنی تباہی آپ مول لیتا ہے دوسرے کو اس سے کیا تعلق۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے ٹاٹا والے کسی رئیس کے روپیہ پر اِس لئے قبضہ کر لیں کہ وہ شرابی ہے اور اپنا مال صحیح طور پر استعمال نہیں کرتا بلکہ ضائع کرتا ہے اگر وہ ایسا کریں تو کیا کوئی شخص ان کی اس بات کو تسلیم کرلے گا؟ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ چونکہ وہ اپنی جائداد شراب نوشی میں اُڑا رہا ہے یا کنچنیوں کا ناچ کروا کر اور اس طرح دوسرے بیہودہ افعال پر اپنا مال ضائع کر رہا تھا اس لئے ٹاٹا والوں نے جو کچھ کیا اچھا کیا۔ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہو سکتا جو اس قسم کے فعل کو جائز قرار دے ہر شخص انہیں مجرم قرار دے گا اور کہے گا تمہیں اس سے کیا غرض کہ وہ اس کو شراب نوشی یا دوسرے لغو کاموں پر کیوں ضائع کرتا ہے، تم اس کے روپیہ پر قبضہ کرنے والے کون ہو۔ یہ حیلہ سازیاں ہیں جو یورپین قوموں کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں اور جن کو لوگ کمزور ہونے کی وجہ سے برداشت کر رہے ہیں۔ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی بھیڑیا کسی نہر کے کنارے اوپر کی طرف کھڑا ہو کر پانی پی رہا تھا اور نچلی طرف ایک بکری کا بچہ پانی پی رہا تھاـ بھیڑیئے کا دل للچایا اور اُس نے چاہا کہ کسی بہانے اُسے کھا جاؤں۔ اُس نے کہا کیوں بے نالائق۔ اب تیری یہ جرأت کہ ہمارا پانی گدلا کرتا ہے؟ اس نے کہا حضور اوپر کی طرف کھڑے پانی پی رہے ہیں اور میں نچلی طرف اس لئے آپ کا گدلا پانی تو میری طرف آ سکتا ہے میرا گدلا پانی آپ کی طرف نہیں جا سکتا۔ بھیڑیئے نے غصے سے اُس پر جھپٹ کر کہا۔ اچھا! اب آگے سے جواب دیتا ہے۔ یہی حالت غالب قوموں کی ہوتی ہے وہ اپنی مرضی چلاتی ہیں اور جو بات دل میں آئے خواہ وہ کتنی ہی احمقانہ ہو اُس پر عمل شروع کر دیتی ہیں۔
جب دنیا کے ایسے گندے حالات ہو جاتے ہیں اور لوگ ظلم میں انتہائی مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ کے نبی آتے ہیں۔ اُن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں انصاف قائم کریں لیکن سوال یہ ہے کہ جو تربیت نبی آ کر کرتے ہیں اور جو اخلاق نبی کے آنے سے کسی کو حاصل ہوتے ہیں وہ تربیت اور وہ اخلاق ہماری جماعت کو حاصل ہیں یا نہیں۔ مَیں نے اپنی جماعت میں بھی یہ نقص دیکھا ہے کہ جب کوئی کسی کی چیز لیتا ہے مثلاً کسی کا مکان کرائے پر لیتا ہے تو اُس کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اگر میرا زور چلے تو میں کرایہ نہ دوں اور صرف یہی نہیں بلکہ اُس مکان پر قبضہ کرکے وہیں بیٹھا رہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آئے ہوئے اتنا عرصہ ہو گیا لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری ترقی نہیں ہوئی۔ میرے نزدیک اِس کی وجہ یہی ہے کہ ابھی تک جماعت نے وہ اخلاق پیدا نہیں کئے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پس اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرو تا تمہیں ترقی ملے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ مظلوم کو بھیڑیئے کے منہ سے نکال کر طبیب کے سپرد کر دے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ مظلوم کو ایک بھیڑیئے کے منہ سے نکال کر دوسرے بھیڑیئے کے منہ میں دے دے۔ پس جب تک ہماری جماعت وہ اخلاق پیدا نہ کر لے جو انبیاء کی جماعتوں میں ہونے چاہئیں اُس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل نازل نہیں ہو سکتے۔ اگر اِن بُرے اخلاق کے باوجود ہم میں حکومت آ جائے تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ خداتعالیٰ (نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ)خود اِس ظلم میں شریک ہوگا اور یہ مظلوم کو بھیڑیئے کے منہ سے نکال کر طبیب کے سپرد کرنے والی بات نہیں ہوگی بلکہ ایک مظلوم کو ایک بھیڑیئے کے منہ سے نکال کر دوسرے بھیڑیئے کے منہ میں دینے والی بات ہو جائے گی۔ صرف فرق یہ ہوگا کہ انگریزوں کے ہاتھ سے نکل کر احمدیوں کے ہاتھ میں مال آ جائے گا ورنہ انگریز بھی ویسے اور احمدی بھی ویسے۔ لیکن اگر احمدیوں کے اخلاق ایسے ہوں گے کہ وہ لوگوں کے مالوں کی حفاظت کرنے والے اور اُن پر احسان کرنے والے ہوں گے تو وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں گے۔
مجھے ایک شخص مکان کے مقدمہ کے بارہ میں ملنے آیا میں نے اُسے سمجھانے کی غرض سے کہا دیکھو! تم فوج میں ملازم ہو۔ سال میں ۱۵،۲۰ دن کے لئے تم آئے ہو اتنا عرصہ تم مہمان خانہ میں یا اپنے کسی دوست کے ہاں ٹھہر سکتے ہو اِس وقت مکان نہیں ملتے۔ اگر تم نے ان کو اپنے پندرہ دن کے آرام کے لئے نکالا تو ان کو بڑی تکلیف ہوگی۔ صحابہؓ نے تو باہر سے آنے والوں کو اپنی جائدادیں دے دی تھیں بلکہ باہر سے آنے والوں کے ساتھ اس سے بڑھ کر یہ سلوک بھی کیا کہ ان میں سے بعض اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو اپنے بھائی کی خاطر طلاق دینے کے لئے تیار ہوگئے تھے تا کہ وہ اُس سے شادی کر لے لیکن ہماری یہ حالت ہے کہ ہم اپنے پندرہ یا زیادہ سے زیادہ بیس دن کے آرام کے لئے ان کو جنہوں نے مکان میں ساڑھے گیارہ مہینے رہنا ہے چاہتے ہیں کہ نکال دیں۔ میں نے اس کو اس طرح نصیحت کی اور دیکھا کہ میری نصیحت کا اس پر اثر تھا لیکن اس نے کہا حضور! میں تسلیم کرتا ہوں کہ انہیں اس طرح دِق کرنا میری غلطی ہے لیکن آپ ان سے دریافت کر لیں انہوں نے آٹھ نو ماہ سے تو کرایہ بھی ادا نہیں کیا جس کی وجہ سے میں ان کو نکالنے پر مجبور ہوں۔ میں نے کہا یہ بات تو معقول ہے اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ اس وقت میری عجیب حالت ہوگئی کہ دیکھو میں نے اس کے دل کو نرم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے ایک ایسی بات پیش کر دی ہے جس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ اگر دوسرے نے کرایہ دیا ہوا ہوتا تو میں نے میدان مار لیا تھا مگر چونکہ وہ آٹھ نو ماہ کا کرایہ بھی کھا جانا چاہتا تھا اور مکان پر قبضہ بھی جمائے رکھنا چاہتا تھا اِس لئے میری حالت اُس وقت ویسی ہی ہوگئی جیسے کہتے ہیں کہ پٹھان نے ایک ہندو کو پکڑ لیا اور کہا کلمہ پڑھو۔ کہنے لگا میں کس طرح پڑھوں میں تو ہندو ہوں۔ پٹھان کہنے لگا خو کلمہ پڑھو ہم ہندو وندو نہیں جانتاتم کو کلمہ پڑھانے سے ہم جنت میں چلا جائے گا۔ اصل بات یہ تھی کہ اُس نے سنا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی کو مسلمان بنا دے تو وہ سیدھا جنت میں چلا جاتا ہے اِس لئے اس نے کہا خواہ تو ہندو ہے یا کوئی اور آج تجھے کلمہ پڑھا کر چھوڑنا ہے۔ اُس نے تلوار نکال لی اور کہا کلمہ پڑھ نہیں تو ابھی مارتا ہوں۔ وہ بیچارہ منتیں کرکے وقت گزارتا رہا اور اِدھر اُدھر دیکھتا رہا کہ شاید کوئی آ جائے اور میں بچ جاؤں لیکن اُس کی بدقسمتی کہ کافی دیر تک کوئی نہ آیا۔ لالوں کو جان پیاری ہوتی ہے آخر تنگ آکر کہنے لگا اچھا کلمہ پڑھاؤ۔ پٹھان نے کہا خو تم خود پڑھو۔ اُس نے کہا میں ہندو ہوں مجھے کہاں آتا ہے۔ کہنے لگا خو تمہارا قسمت خراب ہے کلمہ تو ہم کو بھی نہیں آتا اگر کلمہ آتا تو آج تم کو مسلمان بنا کر ہم جنت میں چلا جاتا۔ اِسی طرح میں نے نصیحت کر کے اُس کے دل کو نرم کیا اور جب نرم کر لیا تو اُس نے ایسا جواب دیا کہ میرا کلمہ وہیں رہ گیا اب میں اُسے کیا جواب دیتا۔ اگر اس نے کرایہ ادا کیا ہوتا تو میں اسے کلمہ پڑھا لیتا لیکن اس کے جواب کے بعد میں کیا کر سکتا تھا۔ پس مومنوں کو دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں چست ہونا چاہئے۔
صحابہؓ میں نیکی کا اتنا غلبہ تھا کہ ایک صحابی کسی دوسرے صحابی کے پاس اپنا گھوڑا بیچنے آئے انہوں نے پوچھا کیا قیمت ہے؟ اُس نے کہا ایک ہزار درہم۔ اُس نے گھوڑے کو دیکھ کر کہا تم نے اِس کا کم مول لگایا ہے اِس کی قیمت تو دو ہزار درہم ہے ۔مالک نے کہا اس کی قیمت ایک ہزار درہم ہے میں صدقہ لینا نہیں چاہتا، میں ایک ہزار درہم ہی لوں گا۔ اُس نے کہا میں کسی کا مال کھانا نہیں چاہتا اِس کی قیمت دو ہزار درہم ہے اور میں دو ہزار درہم ہی دوں گا۔ ہوتے ہوتے یہ بات قاضی کے سامنے پیش ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ یہ گھوڑا دو ہزار کا ہے۔ پھر اُس نے وہ رقم لی۳؎۔ اب دیکھو لینے والا کم بتاتا ہے اور دینے والا زیادہ بتاتا ہے۔ لیکن لینے والا کہتا ہے یہ صدقہ ہے میں نہیں لینا چاہتا اور دینے والا کہتا ہے میں زیادہ دوں گا میں کسی کا مال نہیں کھانا چاہتا۔ یہی چیز تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو حکومت دی۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ جب مسلمان یروشلم کو (جس پر کہ ان کا قبضہ تھا) کسی وجہ سے چھوڑ کر واپس آنے لگے تو بجائے اس کے کہ اس وقت اہلِ شہر جو عیسائی تھے خوش ہوتے کہ مسلمان ہمارے مُلک سے نکل گئے ہیں اور اب ہماری اپنی حکومت ہوگی۔ وہ روتے ہوئے اُن کے ساتھ شہر سے باہر آئے وہ روتے تھے اور دعائیں کرتے تھے کہ خدا آپ لوگوں کو پھر ہمارے شہر میں واپس لائے۴؎۔ اِس نیکی کو پیدا کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دنیا میں تشریف لائے اور آپ نے ایک جماعت قائم کی اب ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ ایسے اخلاق پیدا کرے جو نہایت اعلیٰ درجہ کے ہوں اور جن سے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بن جائے۔
مَیں نے یورپین قوموں کی جہاں بُرائی بیان کی ہے وہاں اُن کی ایک خوبی بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں۔ ان میں یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ قانون کو قائم رکھتے ہیں جہاں وہ لوگوں کی جائدادوں پر قبضہ کر لیتے ہیں وہاں جو قانون بناتے ہیں اُس پر عمل بھی کرتے ہیں لیکن ہمارے مُلک کے لوگ خواہ کسی درجہ کے ہوں وہ اِس کی پرواہ نہیں کرتے۔ اِسی وجہ سے جب کسی انگریز کے پاس مقدمہ چلا جائے تو کہتے ہیں کہ انصاف ہو جائے اور جب مقدمہ کسی ہندوستانی کے پاس جائے تو کہتے ہیں کہ انصاف کی کوئی امید نہیںیہاں سفارش چل جائے گی۔ حتیّٰ کہ ججوں کے متعلق شبہ کرتے ہیں یہ شبہ چاہے غلط ہو یا درست آخر شبہ ہندوستانیوں کو اپنے بھائیوں کے متعلق کیوں پڑتا ہے، اور انگریز جو غیر قوم ہے اس کے متعلق کیوں نہیں ہوتا اسی لئے کہ اگرچہ یورپین لوگ ایک ایسی تلوار ہیں جو قوموں کی قوموں کو کاٹتی چلی جاتی ہیں لیکن جو خاص جوڈیشنل معاملات ہیں اُن میں وہ انصاف کو پوری طرح مدنظر رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے دوسروں پر ان کا اچھا اثر ہوتا ہے اور وہ اپنی ملکی حکومت کی بجائے غیر قوموں کی حکومت کو پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ جرمنی کے جنگی مجرموں پر جو مقدمات ہو رہے ہیں ان میں انگریز مجسٹریٹ ہیں اور وکیل بھی۔ انگریز ہیں لیکن انہیں وکالت کرتے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کو یہ یاد ہی نہیں کہ وہ اتنا لمبا عرصہ اُن سے برسرِپیکار رہے ہیں بلکہ وہ اس طرح جرح کرتے ہیں اور اس شدت کے ساتھ وکالت کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کے کوئی عزیز و اقارب ہیں جن کے لئے وہ اتنی بیتابی اور شدت سے جرح کر رہے ہیں۔ یہی انصاف کی روح ہے جس کی وجہ سے غیر قومیں ان کو پسند کرتی ہیں۔ پس جہاں ان میں ایک رنگ کا ظلم پایا جاتا ہے وہاں ایک رنگ کا انصاف بھی پایا جاتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اُن کی بُری عادت کو چھوڑ دیں اور اچھی عادت کو لے لیں اور ان اخلاق میں ان سے بھی بہتر نمونہ دکھائیں۔
پھر تجارت کو دیکھ لو انگلستان میں خصوصاً اور باقی یورپ میں عموماً یہ خوبی ہے کہ وہ جو چیزیں بناتے ہیں معیاری بناتے ہیں۔ یہاں سے بیٹھے بیٹھے ان سے دس لاکھ کا سَودا کر لو تو اس کے بعد بہت حد تک اطمینان ہوتا ہے کہ جیسی چیز مانگی ہے ویسی ہی مل جائے گی۔ لیکن یہاں پر اگر سامنے بھی سارا مال لیا جائے تو ڈر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دھوکا نہ ہو اور یہ واقعہ ہے کہ یہاں سر پر بیٹھے لوگ دھوکا کر لیتے ہیں۔ ہم ایک دفعہ کشمیر گئے اُس وقت میری عمر بیس سال کی تھی ہمارے ساتھ مولوی سید سرور شاہ صاحب بھی تھے۔ کشمیر میں عام طور پر گبھے بنائے جاتے ہیں جو پُرانے اور پھٹے ہوئے قالینوں سے تیار کئے جاتے ہیں لیکن جب گبھا بن جاتا ہے تو اُس پر مختلف رنگ دیئے جاتے ہیں اور پھر اُس پر ریشم کے دھاگے سے پھول بنا دیتے ہیں اور وہ اچھا خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔ میں نے بھی گبھا بنوایا۔ کمرے کے لحاظ سے بنانے والے کو مَیں نے سائز بتایا کہ اتنا لمبا اور اتنا چوڑا ہو۔ چند دنوں کے بعد اس سے دریافت کیا گیا کہ گبھا تیار ہو گیا ہے یا نہیں؟ اُس نے کہا تیار ہے۔ میں نے دیکھا تو وہ لمبائی اور چوڑائی میں ایک ایک فٹ چھوٹا تھا اور اس سے قیمت میں کئی روپے کا فرق پڑ جاتا تھا۔ پھر وہ کمرے کے لحاظ سے مناسب بھی نہیں تھا۔ میں نے اُسے کہا کہ میں تو اسے لینے کے لئے تیار نہیں یہ تو بہت چھوٹا ہے۔ میں نے تو تمہیں کہہ دیا تھا کہ آٹھ فٹ لمبائی اور پانچ فٹ چوڑائی یعنی چالیس مربع فٹ ہو لیکن تم نے تو سات فٹ لمبا اور چار فٹ چوڑا یعنی اٹھائیس مربع فٹ کا گبھا بنایا ہے اور ۱۲ مربع فٹ کا فرق ڈال دیا ہے جو بہت بڑا فرق ہے۔ ایک تو تم نے مجھے دھوکا دیا ہے دوسرے اتنا چھوٹا ہو جانے کی وجہ سے اب یہ میرے کام کا بھی نہیں رہاکیونکہ میں نے یہ اپنے ایک دوست کے کمرے کا سائز لے کر اُس کو بطور تحفہ پیش کرنے کے لئے بنوایا تھا لیکن اب یہ اس کمرے میں بھدا معلوم ہوگا اس لئے میں اسے پیش نہیں کر سکتا اور یہ اب میرے کام کا نہیں رہا۔ میری یہ بات سن کر اس نے بچوں کی طرح بڑی اونچی آواز سے رونا شروع کر دیا کہ مجھ پر رحم کرو میں مسلمان ہوں۔ وہ یہ فقرہ بار بار دُہرائے اور مجھے غصہ چڑھے کہ یہ کیوں کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اِس لئے مجھ پر رحم کرو کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا تھا کہ میں مسلمان ہوں اس لئے میں کیوں دھوکا نہ کروں یہ میرا ہی حق ہے کہ میں دھوکا کروں۔ اگرچہ اس کا مطلب یہ نہ تھا لیکن اس سے نکلتا یہی تھا۔ اصل میں اُس کا مطلب یہ تھا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے اور تم میرے مسلمان بھائی ہو اس لئے تم مجھے معاف کر دو۔ اُس کے شور کو سن کر لوگ اکٹھے ہوگئے اور کہنے لگے بے چارہ غریب ہے غلطی کر بیٹھا ہے آپ اسے معاف کر دیں اور رقم اسے دے دیں۔ میں نے کہا میں تو دینے کے لئے تیار ہوں لیکن یہ کیوں کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اس لئے مجھے چھوڑ دو گویا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے فریب اور دھوکا کرنا اس کا حق ہے سیدھی طرح کہے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے درگزر کر دیں آئندہ اس طرح نہیں کروں گا۔ یہ آجکل کے مسلمانوں کی حالت ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ فریب کرنا ہمارا حق ہے۔ اگر فریب کرنا ہمارا حق نہیں تو اور کس کا ہے۔ اسی طرح انگریز بند ڈبوں میں دودھ بیچتے ہیں اور اس میں کوئی ملونی نہیں ہوتی لیکن ہمارے ہاں جو دودھ بیچتے ہیں اس میں عام طور پر پانی ملا ہوا ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا واقعہ ہے کہ میر محمد اسحاق صاحب کو ایک دفعہ یہ خیال پیدا ہوا کہ کسی طرح ان دھوکے بازوں کو پکڑا جائے۔ اُنہوں نے ایک آلہ منگوایا جس سے کہ معلوم ہو جاتا ہے کہ دودھ میں ملونی ہے یا نہیں۔ اس آلے میں ایک مقام پر ایک نشان لگا ہوتا ہے جو دودھ کے وزن کے مطابق ہوتا ہے (ہر چیز کا ایک خاص وزن ہوتا ہے اور دودھ کا بھی ایک وزن ہوتا ہے) اگر اس نشان تک آلہ دودھ میں رہے تو دودھ ٹھیک سمجھا جاتا ہے اور اگر وہ آلہ اس نشان سے اونچا رہے تو سمجھا جاتا ہے کہ دودھ میں پانی ملایا گیا ہے۔ چونکہ پانی کا وزن کم ہوتا ہے اور دودھ کا زیادہ اس لئے جب پانی دودھ میں ملتا ہے تو دونوں کا وزن مل کر ایک نیا وزن بن جاتا ہے جو کہ دودھ کے وزن سے ہلکا ہوتا ہے اور آلہ اس نشان تک دودھ میں نہیں ڈوبتا جتنا خالص دودھ ہونے کی وجہ سے ڈوبنا چاہئے اس طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ دودھ میں پانی ملایا گیا ہے۔ وہ آلہ منگوا کر میر صاحب نے شہر میں پھرنا شروع کر دیا اور جس نے بھی دودھ بیچنے کے لئے آنا کہنا کہ دودھ دکھاؤ۔ اگر ٹھیک ہوتا تو اس کو کہہ دینا ٹھیک ہے جاؤ اور بیچو اور اگر آلہ نے دودھ کو ناقص بتانا تو ان کو دودھ بیچنے سے منع کر دینا۔ یہ ان کا مشغلہ ہو گیا تھا کہ سارا دن اِدھر اُدھر پھرنا اور جس کو دیکھنا بلانا اور آلہ لگانا ۔اُس وقت ہسپتال اس چوک میں جہاں پر کہ بُک ڈپو ہے ہوتا تھا اور غالباً ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب وہاں کام کرتے تھے۔ بہرحال جو بھی تھے انہوں نے ایک شخص کے متعلق کہا کہ آلہ کے ذریعہ ہم نے کئی دفعہ اِس کا دودھ دیکھا ہے اور یہ دودھ ٹھیک ہے۔ اس لئے دودھ اس سے لیا جائے ۔مگر اتفاق ایسا ہوا کہ ایک دفعہ وہی شخص برتن میں سے ایک گڑوی دودھ نکال کر کسی کو دینے لگا تو اس میں سے چھوٹی سی مچھلی کود کر باہر آپڑی۔ اصل میں وہ ہوشیار آدمی تھا اس نے جب دیکھا کہ یہ آلہ لگاتے ہیں تو اس نے ڈھاب کا پانی ڈالنا شروع کر دیا۔ ڈھاب کے پانی میں مٹی ملی ہوئی ہوتی ہے اور مٹی بھاری ہوتی ہے اس لئے پانی کا وزن زیادہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے آلہ اس مقررہ نشان تک پہنچ جاتا اور دھوکا بازی کا پتہ نہ لگتا۔ لوگ سمجھتے کہ بڑا دیانتدار ہے کیونکہ آلہ دودھ کے مقررہ نشان تک پہنچ جاتا ہے لیکن ایک دن مچھلی کود کر باہر آ پڑی تو پھر اُس کی چالاکی کا علم ہوا۔ جس قوم میں دھیلے دھیلے اور دمڑی دمڑی کے لئے اتنی دھوکا بازی کی جاتی ہو اور جو قوم دمڑی دمڑی پر اتنی حریص ہو اور جس قوم کے ایسے اخلاق ہوں وہ لوگوں پر کیا رُعب قائم رکھ سکتی ہے۔
اسی طرح ہماری جماعت میں اور بھی کئی ایسے اخلاق کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً جب میں ڈلہوزی میں تھا ہم ایک گجر سے دودھ لیا کرتے تھے، میرے ملازم نے ایک دن مجھے بتایا کہ وہ دودھ میں پانی ڈالتا ہے۔ میں نے اُسے ڈانٹ کر کہا کہ تم اس کے متعلق کیوں بدظنی کرتے ہو؟ مگر بعد میں لوگوں نے مجھے بتایا کہ اس کو دودھ میں پانی ڈالتے ہوئے دیکھا گیا ہے تب مجھے معلوم ہوا کہ بات ٹھیک تھی۔ ایک دن تو لطیفہ ہو گیا۔ ہمارے مہمان زیادہ ہوگئے اِس لئے ہم نے دودھ بجائے سات سیر لینے کے دس سیر لینا شروع کیا۔ دوسرے چوتھے دن چند دوست اُس کو پکڑ کر میرے پاس لائے اور کہا کہ ہم نے اِس کو دودھ میں پانی ڈالتے دیکھا ہے۔ میں نے تحقیقات کروائی تو گوالے نے کہا کہ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میری بھینس سات سیر دودھ دیتی ہے زیادہ نہیں دیتی اِس لئے میں کہاں سے دس سیر لاؤں لیکن یہ کہتے تھے کہ ہم نے ضرور دس سیر دودھ لینا ہے۔ آخر میں کیا کر سکتا تھا میں نے پانی ڈالنا شروع کر دیا تا کہ دس سیر پورا کیا جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سادہ آدمی تھا اُس نے یہ کام دھوکا دینے کیلئے نہیں کیا بلکہ اُس نے سمجھا کہ جب وہ خود دس سیر کہتے ہیں تو اِس کا مطلب صاف ہے کہ پانی ڈال کر دس سیر دودھ پورا کر لو اس لئے میں پانی ڈال کر دیتا ہوں۔ یہ بات تو الگ رہی ڈلہوزی میں تویہ ہوتا ہے کہ دودھ بیچنے والے کہتے ہیں کہ روپے کا تین سیر والا لینا ہے یا روپے کا پانچ سیر والا یا روپے کا سات سیر والا۔ اگر کوئی لالچ میں آ جائے اور سات سیر والا دودھ مانگے تو اس کے سامنے نلکے میں سے ڈیڑھ پاؤ دودھ میں قریباً اڑھائی پاؤ پانی ملا کر اُسے دے دیتے ہیں۔ غرض تجارتی معاملات میں ہندوستانیوں میں عام طور پر دیانت داری نہیں پائی جاتی لیکن یورپین قومیں ان باتوں میں نہایت دیانت دار ہوتی ہیں۔ ان کی چیز اگر خراب ہو جائے تو وہ اسے فوراً پھینک دیں گے لیکن ہمارے مُلک کے تاجر اُن کو پھینکتے نہیں بلکہ سستے داموں بیچنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ہر چیز کا ایک سٹینڈرڈ (STANDERD) ہونا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ اس معیار سے چیز نہ گرے اور اگر گرے تو اس کو بیچا نہ جائے۔ اگر اس کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو کوئی کارخانہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔
ہمارے قادیان میں ہی کئی کارخانے ہیں اور اچھے چل رہے ہیں۔ـ پچھلی دفعہ جب میں لاہور گیا تو بعض بڑے بڑے ماہروں نے تسلیم کیا کہ قادیان اتنی ترقی کر گیا ہے کہ ہندوستان کے کسی اور شہر میں اتنی ترقی نہیں ہوئی لیکن وہ اور دوسرے مال لینے والے سب یہی شکوہ کرتے تھے کہ کارخانوں کا ایک سٹینڈرڈ نہیں بلکہ کبھی اعلیٰ چیز تیار ہو جاتی ہے اور کبھی ادنیٰ۔ اس کے مقابلہ میں انگلستان کی لاکھوں فرمیں ہیں مگر ان کا سٹینڈرڈ قائم ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے چیکرز رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب کارخانے سے باہر مال جانے لگتا ہے تو وہ پہلے مال کو چیک کرتے ہیں اور جو چیز سٹینڈرڈ سے کم ہو اُسے ردّی قرار دے کر باہر نہیں جانے دیتے بلکہ ضائع کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں چیزوں کا سٹینڈرڈ نہ ہونے کی دو وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں چیکرز نہیں۔ دوسرے کارخانہ والے اپنے مال کو جان بوجھ کر چاہے وہ کتنا ہی ردّی ہو باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور ردّی چیز کو کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں اور چونکہ مال لینے والے بھی ہندوستانی ہوتے ہیں وہ بھی سستا مال دیکھ کر خرید لیتے ہیں۔ اگر ایک چیز کارخانہ سے ایک روپیہ پر نکلتی ہے اور بازار میں ڈیڑھ روپیہ کی بکتی ہے تو ردّی مال لینے والے دُکاندار بجائے اِس کے کہ آٹھ آنے کی چیز ایک روپے میں بیچیں وہ ڈیڑھ روپے میں بیچتے ہیں اور اس طرح دوسرے لوگوں کو بھی دھوکے میں رکھتے ہیں کہ یہ اصل سٹینڈرڈ والی چیز ہے اور جب معلوم ہوتا ہے کہ وہ چیز خراب ہے تو وہ دکاندار کے پاس شکوہ کرتے ہیں اور دُکاندار کہتا ہے میں کیا کروں میں نے تو فلاں فرم کو آرڈر دے کر منگوائی تھی اس طرح کارخانہ والوں کی بدنامی ہوتی ہے۔ انگریزوں میں یہ بڑی خوبی ہے کہ وہ ہر چیز کے معیار کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میر مہدی حسن صاحب بھی اِس طرز کے آدمی تھے۔ میر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں چھپوائی کے انچارج تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کسی کتاب کی کاپی چھپتی تو وہ بڑے غور سے پڑھتے۔ اگر فل سٹاپ بھی غلط جگہ لگا ہوتا تو اُس کاپی کو تلف کر دیتے اور نئی لکھواتے۔ اِس طرح کام کرنے والے دو چار دن تک جب تک کہ نئی کاپی تیار نہ ہوتی یونہی بیٹھے رہتے۔ پھر جب وہ تیار ہوتی تو پھر وہ دیکھتے اور اگر کوئی غلطی دیکھتے تو پھر اسے تلف کر دیتے اور اُس وقت تک کتاب چھپنے نہ دیتے جب تک کہ اُنہیں یقین نہ آتا کہ اب اس میں کوئی غلطی نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دریافت فرماتے کہ اتنی دیر کیوں لگائی۔ تو وہ کہتے حضور ابھی پروف میں بڑی غلطیاں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی صاف اور اچھی چیز چاہتے تھے اِس لئے آپ کبھی بھی اِس بات کا خیال نہ فرماتے کہ مزدور اور کام کرنے والے یونہی بیٹھے ہیں اور مفت کی تنخواہیں کھا رہے ہیں بلکہ آپ کی بھی یہ یہی خواہش ہوتی کہ لوگوں کے سامنے اچھی چیز پیش ہو۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ بھی عادت تھی کہ کتاب میں ذرا نقص ہوتا تو اس کو پھاڑ دینا اور فرمانا دوبارہ لکھو۔ کاتب نے پھر کتاب لکھنی اور اگر کہیں ذرا بھی نقص ہوتا تو اسے پھاڑ دینا اور جب تک اچھی کتابت نہ ہوتی اُس وقت تک مضمون چھپنے کے لئے نہ دینا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن سے کتابت کرواتے تھے وہ شروع میں تو احمدی نہیں تھے لیکن بعد میں احمدی ہوگئے اُن کا لڑکا بھی احمدی ہے۔ان میں یہ خوبی تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قدر پہنچانتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُن کی قدر پہچانتے تھے۔ باوجود غیر احمدی ہونے کے جب بھی حضرت صاحب کو کتابت کی ضرورت ہوتی انہوں نے قادیان آ جانا۔ اس زمانے میں تنخواہیں کم ہوتی تھیں پچیس روپے ماہوار اور روٹی کے لئے الاؤنس ملتا تھا۔ ان کی یہ عادت تھی کہ جب کام ختم ہونے کے قریب پہنچتا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آنا اور کہنا حضور! سلام عرض کرنے آیا ہوں مجھے اب گھر جانے کی اجازت دیں۔ آپ نے فرمانا کیوں اتنی جلدی کیا پڑی ہے۔ انہوں نے کہنا حضور! ضرور جانا ہے۔ آپ نے فرمانا ابھی تو کچھ کتابت باقی ہے کہنا حضور! روٹی پکانی پڑتی ہے۔ اِس پر سارا دن صرف ہو جاتا ہے، روٹی پکایا کروں یا کتابت کیا کروں، سارا دن روٹی پکانے میں لگ جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمانا آپ کی روٹی کا میں لنگر خانہ سے انتظام کروا دیتا ہوں۔ اس طرح اُن کو ۳۵ روپے تنخواہ مل جاتی اور روٹی مفت۔ کچھ دن کے بعد اُنہوں نے پھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنا حضور! سلام عرض کرنے آیا ہوں جانے کی اجازت چاہتا ہوں۔ حضرت صاحب نے پوچھنا کیوں کیا بات ہے؟ کہنا حضور! لنگر کی روٹی بھی کوئی روٹی ہے دال الگ پانی الگ اور نمک ہے ہی نہیں اور کسی وقت اتنی مرچیں ڈال دینی کہ آدمی کوسُوکھی روٹی کھانی پڑے یہ روٹی کھا کر کوئی انسان کام نہیں کر سکتا۔ آپ نے فرمانا اچھا بتاؤ کیا کروں؟ اُنہوں نے کہنا اس کے لئے کچھ رقم الگ دے دیا کریں اس مصیبت سے تو خود روٹی پکانے کی مصیبت اُٹھانا بہتر ہے میں خود روٹی پکا لیا کروں گا۔ حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے دس روپے اور بڑھا دینے اور کہنا لو اب آپ کو ۴۵ روپے ملا کریں گے۔ پھر اُنہوں نے دس دن کے بعد آ جانا اور کہنا حضور! سلام عرض کرنے آیا ہوں مجھے گھر جانے کی اجازت دیں۔ یہاں سارا دن روٹی پکاتا رہتا ہوں کام کیا کروں۔ آپ نے فرمانا پھر کیا کریں؟ کہنا حضور! لنگر خانے میں انتظام کروا دیں۔ آپ نے فرمانا اچھا تمہیں ۴۵ روپے ملتے رہیں گے اور کھانا بھی لنگر خانے میںلگوا دیتا ہوں۔ انہوں نے واپس آ کر پھر کام شروع کر دینا۔ کچھ دنوں کے بعد پھر آ جانا اور کہنا حضور! سلام عرض کرنے آیا ہوں جانے کی اجازت چاہتا ہوں۔ حضور نے پوچھنا کیا بات ہے؟ کہنا حضور! لنگر کی روٹی تو مجھ سے نہیں کھائی جاتی بھلا یہ بھی کوئی روٹی ہے آپ مجھے دس روپے روٹی کے لئے دے دیں میں خود انتظام کر لوں گا۔ حضرت صاحب نے دس روپے بڑھا کر ۵۵روپے کر دینے۔ چونکہ وہ حضرت صاحب کی طبیعت سے واقف تھے اُنہوں نے اپنے لڑکے کو سکھایا ہوا تھا کہ میں تیرے پیچھے پیچھے ڈنڈا لے کر بھاگوں گا اور تو شور مچاتے ہوئے حضرت صاحب کے کمرے میں گھس جانا اور اِس اِس طرح کہنا۔ چنانچہ باپ نے ڈنڈا لے کر اُس کے پیچھے بھاگنا اور اُس نے شور مچاتے اور چیختے چلاتے ہوئے حضرت صاحب کے کمرے میں گھس جانا اور کہنا حضور! مار دیا مار دیا۔ اتنے میں اس کے والد نے آ جانا اور کہنا باہر نکل تیری خبر لیتا ہوں۔ حضرت صاحب نے یہ حالت دیکھ کر پوچھنا کیا بات ہے کیوں چھوٹے بچے کو مارتے ہو؟ کہنا حضور! سات آٹھ دن ہوئے اس کو جوتی لے کر دی تھی وہ اس نے گم کر دی ہے۔ اس وقت میں خاموش رہا پھر لے کر دی وہ بھی گم کر دی۔ اب مجھ میں طاقت کہاں ہے کہ اِس کو اَور جوتی لے کر دوں میں اِسے سزا دوں گا۔ اگر آج سزا نہ دی تو کل پھر جوتی گم کر دے گا۔ حضرت صاحب نے فرمانا میاں! بتاؤ جوتی کتنے کی تھی؟ کہنا حضور! تین روپے کی۔ حضرت صاحب نے فرمانا اچھا یہ تین روپے لے لو اور اِس کو کچھ نہ کہو۔ اُنہوں نے تین روپے لے کر واپس آ جانا چار دن نہ گزرنے تو پھر لڑکے نے شور مچاتے ہوئے حضرت صاحب کے کمرے میں گھس جانا اور اُنہوں نے لاٹھی لے کر اُس کے پیچھے پیچھے آنا اور کہنا باہر نکل، اُس دن تو حضرت صاحب کے کہنے پر چھوڑ دیا تھا آج تو تجھے نہیں چھوڑنا۔ حضرت صاحب نے پوچھنا کیا بات ہے کیوں اِس بچے کو مارتے ہو؟ اُس نے کہنا حضور! اُس دن تو میں نے آپ کے کہنے پر چھوڑ دیا تھا آج اِسے نہیں چھوڑنا آج پھر یہ جوتی گم کر آیا ہے۔ حضرت صاحب نے فرمانا اسے نہ مارو جوتی کی قیمت مجھ سے لے لو۔ پھر انہوں نے جو رقم بتانی وصول کر کے لے جانی اور کہنا حضور! میں نے اِس دفعہ چھوڑنا تو نہیں تھا لیکن آپ کے فرمانے پر چھوڑ دیتا ہوں۔ غرض اِس طرح اُنہوں نے کرتے رہنا لیکن کتابت ایسی اچھی کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ اُن ہی سے اپنی کتابیں لکھوایا کرتے تھے اور یہ پسندنہیں کرتے تھے کہ کسی معمولی کاتب سے کتاب لکھوا کر خراب کی جائے کیونکہ اِس طرح کتاب کا معیار لوگوں کی نظروں میں کم ہو جاتا ہے۔ بہرحال ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرے اور نہ صرف وہ خوبیاں حاصل کرے جو انگریزوں میں پائی جاتی ہیں بلکہ اُن سے بھی بہتر خوبیاں اپنے اندر پیدا کرے تا کہ ہماری جماعت کا معیار بلند ہو اور لوگوں پر ہمارا رُعب قائم ہو۔
(الفضل ۲۹تا ۳۱؍ جولائی، ۲؍ اگست ۱۹۶۰ء)
۱؎ بربر: سوڈان کاا یک شہر
۲؎ کُلِّی: رقیق چیز
۳؎
۴؎ فتوح البلدان۔ بلاذری صفحہ۱۴۳،۱۴۴ مطبوعہ قاہرہ ۱۳۱۹ھ
نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو جاتی ہیں
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو جاتی ہیں
(تقریر فرمودہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۵ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام قادیان)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
انسانی زندگی ایک دَور بلکہ چند اَدوار کا نام ہے۔ ایک دَور چل کر ختم ہو جاتا ہے تو ایک اور دَور چل پڑتا ہے ۔ وہ ختم ہوتا ہے تو پھر ایک اور دَور ویسا ہی چل پڑتا ہے۔ جیسے رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات آتی ہے اِسی طرح ایک دَور کے بعد دوسرا چلتا چلا جاتا ہے اور الٰہی منشاء اِسی قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے دَور ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں۔ اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا اِن اَدوار کے لوگ ایک دوسرے کی نقلیں کر رہے ہیں۔ مؤمنوں کی باتیں ویسی ہی معلوم ہوتی ہیں جیسے پہلے مومنوں کی اور کافروں کی باتیں ویسی ہی معلوم ہوتی ہیں جیسی پہلے کافروں کی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حیرت کا اظہار فرماتا ہے کہ ۱؎ ان کافروں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ وہی باتیں کہتے ہیں جو پہلے نبیوں کو ان کے نہ ماننے والوں نے کہیں اور کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جو نئی ہو اور پہلے انبیاء کو ان کے مخالفوں نے نہ کہی ہو۔ عیسائی اور یہودی مصنّفین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمیں کیا علم ہے کہ پہلے انبیاء کے دشمنوں نے وہی اعتراض اپنے وقت کے نبیوں پر کئے تھے یا نہیں جو محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) پر کئے گئے اور ہمارے پاس کیا ثبوت ہے اِس بات کا جو محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہی کہ مجھے یہ الہام ہوا ہے کہ آدم کے دشمنوں نے بھی یہی اعتراض کئے تھے، نوحؑ کے دشمنوںنے بھی یہی اعتراض کئے تھے، ابراہیم ؑ کے دشمنوں نے بھی یہی اعتراض کئے تھے۔ یہ کہنا کہ یہ خبریں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کی گئی ہیں محض باتیں ہی باتیں ہیں اِن میں حقیقت کچھ بھی نہیں۔ بلکہ یہ قصے آدمؑ اور نوحؑ اور ابراہیم ؑ کے منہ سے کہلوا دیئے گئے ہیں۔ اگر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ نہ ملا ہوتا اور کوئی اِس بات کا ثبوت ہم سے مانگتا تو ہمیں مشکل پیش آتی لیکن اِس علم کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق بعینہٖ وہی باتیں کہی گئیں جو جہالت کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے کہی تھیں اور وہی اعتراض آپ پر کئے گئے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمنوں نے آپ پر کئے تھے۔ اِس سے ہم نے یقین کر لیا اور ہمارے لئے شک کی کوئی گنجائش نہ رہی کہ واقعی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمن وہی باتیں کہتے ہونگے جو حضرت آدمؑ ،حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ ،حضرت موسیٰ ؑاورحضرت عیسیٰ ؑکے دشمن کہتے تھے۔ کیونکہ آج ۱۳۰۰ سال کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمن آپ پر وہی اعتراض کرتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر آپ کے دشمنوں نے کئے اور ان میں اتنی مطابقت اور مشابہت ہوتی ہے کہ حیرت آتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمن جب آپ پر اعتراض کرتے تو آپ فرماتے یہی اعتراض آج سے ۱۳۰۰ سال پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر آپ کے مخالفین نے کئے تھے۔ جب وہ باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے قابلِ اعتراض نہ تھیں بلکہ آپ کی صداقت کی دلیل تھیں تو وہ میرے لئے کیوں قابلِ اعتراض بن گئی ہیں۔ پس جو جواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن کا دیا وہی جواب میں تمہیں دیتا ہوں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جواب میں یہ طریق اختیار فرماتے اور لوگوں پر اِس طریق سے حُجّت قائم کرتے تو مخالفین شور مچاتے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی برابری کرتا ہے حالانکہ یہ صاف بات ہے کہ جو اعتراض ابوجہل کرتا تھا جو شخص ان اعتراضوں کو دُہراتا ہے وہ مثیلِ ابوجہل ہے اور جس شخص پر وہ اعتراض کئے جاتے ہیں وہ مثیلِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے۔ پس ہر زمانہ میں مؤمنوں اور کافروں کی پہلے مؤمنوں اور کافروں سے مشابہت ہوتی چلی آئی ہے لیکن دنیا ہمیشہ اِس بات کو بھول جاتی ہے اور جب کبھی نیا دَور آتا ہے تو نئے سرے سے لوگوں کو یہ سبق دینا پڑتا ہے اور اِس اصول کو دنیا کے سامنے دُہرانا پڑتا ہے اور خدا کی طرف سے آنے والا لوگوں کے اِس اصول کو بھول جانے کی وجہ سے لوگوں سے گالیاں سنتا ہے اور ذلتیں برداشت کرتا ہے۔ اس کے اپنے اور بیگانے ،دوست اور دشمن سب مخالف ہو جاتے ہیں اور قریبی رشتہ دار سب سے بڑے دشمن بن جاتے ہیں۔
حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار پاس کے مکانوں میں نئے آنے والوں کو روکنے کے لئے بیٹھے رہتے تھے اور جب کوئی شخص مسلمانوں کے پاس آتا تو وہ رستہ میں اُسے روک لیتے اور سمجھاتے کہ یہ شخص ہمارے رشتہ داروں میں سے ہے، ہم اس کے قریبی رشتہ دار ہونے کے باوجود اِس کو نہیں مانتے کیونکہ ہم لوگ جانتے ہیں کہ سوائے جھوٹ کے اور کوئی بات نہیں۔ ہم آپ لوگوں سے اِس کو زیادہ جانتے ہیں، ہم سے زیادہ آپ کو واقفیت نہیں ہو سکتی، ہم اِس کے ہر ایک راز سے واقف ہیں بہتر ہے کہ آپ یہیں سے واپس چلے جائیں اِسی میں آپ کا فائدہ ہے۔ یہی حال ہم نے اُن کا دیکھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رشتہ دار تھے۔ اُن کی باتوں کو سن کر جو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف کیا کرتے اور ان کی حرکات کو دیکھ کر جو وہ باہر سے آنے والوں کو روکنے کے لئے کرتے انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے کہ ان کی باتوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے رشتہ داروں کی باتوں میں کس قدر مشابہت ہے۔
مرزا امام الدین سارا دن اپنے مکان کے سامنے بیٹھے رہتے۔ دن رات بھنگ گھٹا کرتی اور کچھ وظائف بھی ہوتے رہتے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھ کر انہوں نے پیری مریدی کا سلسلہ شروع کر لیا تھا۔ جب کوئی نیا احمدی باہر سے آتا یا کوئی ایسا آدمی جو احمدی تو نہ ہوتا لیکن تحقیق کے لئے قادیان آتا تو اُس کو بلا کر اپنے پاس بٹھا لیتے اور اُسے سمجھانا شروع کر دیتے۔ میاں! تم کہاں اِس کے دھوکے میں آگئے یہ تو محض فریب اور دھوکا ہے اگر حق ہوتا تو ہم لوگ جو کہ بہت قریبی رشتہ دار ہیں کیوں پیچھے رہتے۔ ہمارا اور مرزا صاحب کا خون ایک ہے تم خود سوچو بھلا خون بھی کبھی دشمن ہو سکتا ہے؟ اگر ہم لوگ انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ شخص صحیح راستے سے لوگوں کو پھیرنے والا ہے اور اس نے لوگوں سے پیسے بٹورنے کے لئے یہ دکان کھول رکھی ہے۔ اب حیرت آتی ہے کہ کونسا ابوجہل آیا جس نے مرزا امام الدین کو یہ باتیں سکھائیں کہ تم باہر سے آنے والوں کو اس طریق سے روکا کرو یہ نسخہ میرا آزمایا ہوا ہے۔ یا پھر یہ ماننا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہی باتیں مسمریزم کے ذریعہ مرزا امام الدین سے کہلوا لیں، دونوں میں سے ایک بات ضرور صحیح ہوگی۔
لدھیانہ کے ایک دوست نور محمد نامی نو مُسلمتھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بہت محبت و اخلاص رکھتے۔ اُنہوں نے مصلح موعود ہونے کادعویٰ بھی کیا تھا وہ کہا کرتے تھے کہ بیٹا جب باپ کے پاس جائے تو اسے کچھ نہ کچھ نذر ضرور پیش کرنی چاہئے۔ اُن کا مطلب یہ تھا کہ میں مصلح موعود ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا ہوں اور چونکہ وہ اپنے آپ کو خاص بیٹا سمجھتے تھے انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کم سے کم ایک لاکھ روپیہ تو انہیں ضرور پیش کرنا چاہئے۔ کہتے ہیں ابھی انہوں نے چالیس پچاس ہزار روپیہ ہی جمع کیا تھا کہ وہ فوت ہوگئے اور نہ معلوم روپیہ کون کھا گیا۔ انہوں نے بہت سے چوہڑے مسلمان کئے اور ان سے کہا کرتے تھے کہ کچھ روپیہ جمع کرو پھر تمہیں دادا پیر کے پاس ملاقات کے لئے لے چلوں گا۔ کچھ عرصہ کے بعد ان نو مسلموں نے کہا کہ پتہ نہیں کہ آپ کب جائیں گے آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم قادیان ہو آئیں۔ اِس پر اُنہوں نے اِن نو مُسلموں کو قادیان آنے کی اجازت دے دی۔ وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب سیر کے لئے نکلے تو وہ باہر کھڑے ہوئے تھے۔ غالباً وہ ۹ آدمی تھے اُن میں سے ہر ایک نے ایک ایک اشرفی پیش کی کیونکہ اُن کے پیر نے کہا تھا کہ تم دادا پیر کے پاس جا رہے ہو میں تمہیں اِس شرط پر جانے کی اجازت دیتا ہوں کہ تم دادا پیر کے سامنے سونا پیش کرو۔ چنانچہ انہوں نے ذکر کیا کہ ہمارے پیر نے ہمیں اِس شرط پر آنے کی اجازت دی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک آدمی آپ کی خدمت میں سونا پیش کرے۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ وہ سیر کو چلے گئے۔ جب سیر سے واپس آئے تو چونکہ اُن کو حُقّہ پینے کی عادت تھی اِس لئے وہ حقہ پینے کے لئے مرزا امام الدین کے پاس چلے گئے۔ وہ حقہ پینے کے لئے بیٹھے ہی تھے کہ مرزا امام الدین نے کہنا شروع کیا۔ انسان کو کام وہ کرنا چاہئے جس سے اُسے کوئی فائدہ ہو تم جو اِتنی دُور سے پیدل سفر کر کے آئے ہو (کیونکہ اُن کے پیر کا حکم تھا کہ تم چونکہ دادا پیر کے پاس جا رہے ہو اِس لئے پیدل جانا ہوگا) بتاؤ تمہیں یہاں آنے سے کیا فائدہ ہوا؟ ایمان انسان کو عقل بھی دے دیتا ہے بلکہ عقل کو تیز کر دیتا ہے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُن میں سے ایک نو مُسلم کہنے لگا کہ ہم پڑھے لکھے تو ہیں نہیں اور نہ ہی کوئی علمی جواب جانتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ آپ کو بھلے مانس مرید ملے نہیں اِس لئے آپ چوہڑوں کے پیر بن گئے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمیں کیا ملا؟ آپ مرزا صاحب کی مخالفت کر کے مرزا سے چوہڑے بن گئے اور ہم مرزا صاحب کو مان کر چوہڑوں سے مرزا ہوگئے۔ لوگ ہمیں مرزائی، مرزائی کہتے ہیں یہ کتنا بڑا فائدہ ہے جو ہمیں حاصل ہوا۔ اب دیکھو یہ کیسی مشابہت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے رشتہ داروں کی باتوں میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رشتہ داروں کی باتوں میں۔
مرزا علی شیر صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سالے اور مرزا فضل احمد صاحب کے خسر تھے۔ اُنہیں لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس جانے سے روکنے کا بڑا شوق تھا۔ رستہ میں ایک بڑی لمبی تسبیح لے کر بیٹھ جاتے تسبیح کے دانے پھیرتے رہتے اور منہ سے گالیاں دیتے چلے جاتے۔ بڑا لٹیرا ہے لوگوں کو لوٹنے کے لئے دُکان کھول رکھی ہے بہشتی مقبرہ کی سڑک پر دارالضعفاء کے پاس بیٹھے رہتے۔ اُس وقت یہ تمام زمین زیر کاشت ہوتی تھی، عمارت کوئی نہ تھی، بڑی لمبی سفید ڈاڑھی تھی سفید رنگ تھا،ـ تسبیح ہاتھ میں لئے بڑے شاندار آدمی معلوم ہوتے تھے اور مغلیہ خاندان کی پوری یادگار تھے، تسبیح لئے بیٹھے رہتے جو کوئی نیا آدمی آتا اُسے اپنے پاس بُلا کر بٹھا لیتے اور سمجھانا شروع کر دیتے کہ مرزا صاحب سے میری قریبی رشتہ داری ہے آخر مَیں نے کیوں نہ اسے مان لیا؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ مَیں اس کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں۔ مَیں جانتا ہوں کہ یہ ایک دکان ہے جو لوگوں کو لوٹنے کے لئے کھولی گئی ہے۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ باہر سے پانچ بھائی آئے غالباً وہ چک سکندر ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ اب تو لوگ جلسہ کے دَوران میں بھی باہر پھرتے رہتے ہیں لیکن اُن پہلے لوگوں میں اخلاص نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا اور قادیان میں دیکھنے کی کوئی خاص چیز نہ تھی، نہ منارۃ المسیح تھا، نہ دفاتر تھے، نہ مسجد مبارک کی ترقیاں ایمان پرور تھیں، نہ مسجد اقصیٰ کی وُسعت اِس قدر جاذب تھی، نہ محلوں میں یہ رونق تھی، نہ کالج تھا نہ سکول تھے۔ اُن دنوں لوگ اپنے اخلاص سے خود ہی قابلِ زیارت جگہ بنا لیا کرتے تھے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد صاحب کا باغ ہے اسے دیکھو اور یہ حضرت صاحب کے لنگر کا باورچی ہے اِس سے ملو اور اِس سے باتیں پوچھو اُن کا ایمان اِسی سے بڑھ جاتا تھا اُن دنوں ابھی بہشتی مقبرہ بھی نہ بنا تھا صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد کا لگایا ہوا باغ تھا۔ لوگ وہاں برکت حاصل کرنے کیلئے جاتے اور علی شیر صاحب رستہ میں بیٹھے ہوئے ہوتے۔ وہ پانچوں بھائی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا باغ دیکھنے کے لئے گئے تو اُن میں سے ایک جو زیادہ جوشیلا تھا وہ کوئی دو سَوگز آگے تھا اور باقی آہستہ آہستہ پیچھے آ رہے تھے۔ علی شیر نے اُسے دیکھ کر کہ یہ باہر سے آیا ہے اپنے پاس بُلا لیا اور پوچھا کہ مرزا کو ملنے آئے ہو؟ اُس نے کہا ہاں مرزا صاحب کو ہی ملنے آیا ہوں۔ علی شیر نے اُس سے کہا ذرا بیٹھ جاؤ اور پھر اُسے سمجھانا شروع کیا کہ میں مرزا کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہوں میں اِس کے حالات سے خوب واقف ہوں، اصل میں آمدنی کم تھی بھائی نے جائداد سے بھی محروم کر دیا اس لئے یہ دُکان کھول لی ہے۔ آپ لوگوں کے پاس کتابیں اور اشتہار پہنچ جاتے ہیں آپ سمجھتے ہیں کہ پتہ نہیں کتنا بڑا بزرگ ہوگا پتہ تو ہم کو ہے جو دن رات اس کے پاس رہتے ہیں۔ یہ باتیں میں نے آپ کی خیر خواہی کے لئے آپ کو بتائیں ہیں۔ چک سکندر سے آنے والے دوست نے بڑے جوش کے ساتھ مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ علی شیر صاحب سمجھے کہ شکار میرے ہاتھ آ گیا ہے۔ اُس دوست نے علی شیر صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا اور پکڑ کر بیٹھ گیا۔ گویا اِسے اُن سے بڑی عقیدت ہوگئی ہے۔ علی شیر صاحب دل میں سمجھے کہ ایک تو میرے قابو میں آ گیا ہے۔ اِس دوست نے اپنے باقی بھائیوں کو آواز دی کہ جلدی آؤ جلدی آؤ۔ اب تو مرزا علی شیر پھولے نہ سمائے کہ اِس کے کچھ اور ساتھی بھی ہیں وہ بھی میرا شکار ہو جائیں گے اور مَیں ان کو بھی اپنا گرویدہ بنا لوں گا۔ اس دوست کے باقی ساتھی دَوڑ کر آگئے تو اس نے کہا۔ مَیں نے تمہیں اس لئے جلدی بلایا ہے کہ ہم قرآن کریم اور حدیث میں شیطان کے متعلق پڑھا کرتے تھے مگر شکل نہیں دیکھی تھی آج اللہ تعالیٰ نے اُس کی شکل بھی دکھا دی ہے تم بھی غور سے دیکھ لو یہ شیطان بیٹھا ہے۔ مرزا علی شیر غصہ سے ہاتھ واپس کھینچتے لیکن وہ نہ چھوڑتا تھا اور اپنے بھائیوں سے کہتا جاتا تھا دیکھ لو اچھی طرح دیکھ لو شاید پھر دیکھنا نہ ملے یہ شیطان ہے۔ پھر اس نے اپنے بھائیوں کو سارا قصہ سنایا۔
اب دیکھو کس طرح ایک قوم دوسری قوم کے قدم بقدم چلتی ہے۔ ہم نے خود دیکھ لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمن تیرہ سَو سال کے بعد وہی اعتراض کرتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے گئے بلکہ وہی اعتراض کئے جاتے ہیں جو حضرت نوحؑ پر آپ کے دشمنوں نے کئے یا جو اعتراض حضرت ابراہیم ؑ پر آپ کے دشمنوں نے کئے، یا جو اعتراض حضرت موسیٰ ؑکے دشمنوں نے آپ پر کئے، یا جو اعتراض حضرت عیسیٰ ؑپر آپ کے دشمنوں نے کئے۔ پس حقیقت یہ ہے کہ سچ کا مقابلہ سوائے جھوٹ اور فریب کے کیا ہی نہیں جا سکتا۔ سچ ہر زمانہ میں سچ ہے اور جھوٹ ہر زمانہ میں جھوٹ ہے۔ سچ کے مقابلہ میں سوائے جھوٹ اور فریب کے آ ہی کیا سکتا ہے۔ اگر کوئی چیز دشمنوں کے پاس سوائے جھوٹ کے ہو تو نکلے۔
ہمارے ہاں مثل مشہور ہے کہ کسی میراثی کے گھر میں رات کے وقت چور آیا یہ سمجھ کر کہ آخر دس بیس پچاس روپے تو اُس کے ہاں ضرور ہونگے اور نہیں تو کوئی کپڑا ہی سہی۔ چور کونسا لاکھ پتی ہوتا ہے کہ ضرور لاکھوں والی جگہ ہی چوری کرے۔ اگر اُسے ایک روپیہ بھی مل جائے تو وہ اُسے ہی غنیمت سمجھتا ہے۔ وہ بھی یہی سمجھتا کہ آخر کوئی نہ کوئی ہدیہ ہی میراثی کو ججمانوں ۲؎کے ہاں سے ملا ہوگا وہی سہی۔ پُرانے زمانے میں یہ دستور تھا کہ جس کے پاس کوئی نقدی یا زیور ہوتا وہ اُسے کسی برتن میں ڈال کر زمین میں دفن کر دیتا تھا اور چوروں نے اُسے نکالنے کا یہ طریق نکالا تھا کہ وہ لاٹھی لے کر گھر کی زمین کو ٹھکور ٹھکور کر دیکھتے جہاں انہیں نرم نرم زمین معلوم ہوتی وہاں سے کھود کر نقدی یا زیور نکال لیتے تھے۔ یہی طریق اُس چور نے اختیار کیا اور لاٹھی لے کر گھر کی زمین کو ٹھکور ٹھکور کر دیکھنے لگا۔ اِسی اثناء میں میراثی کی آنکھ کھل گئی اور اُسے چور کی یہ حرکت دیکھ کر ہنسی آنے لگی کہ ہمیں تو کھانے کو نہیں ملتا اور یہ سوٹیاں مار مار کر خزانہ تلاش کر رہا ہے۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُس نے ہنس کر چور سے کہا۔ ’’ججمان! سانوں ایتھے دن نوں کچھ نہیں لبھدا۔ تہانوں راتیں کی لبھنا ہے‘‘۔ یعنی ہمیں یہاں دن کو کوئی چیز نہیں ملتی آپ کو رات کے وقت یہاں کیا ملے گا۔ یہی حالت مخالفین کی ہے سچ کے مقابلہ میں سوائے جھوٹ کے کوئی اورچیز ہو تو وہ پیش کریں اور سچ کے مقابلہ میں سچ کہاں سے لائیں۔
مقابلہ کے دو ہی طریق ہیں ایک تو یہ کہ خدا تعالیٰ کا بندہ جب کہتا ہے کہ میں نشان دکھاتا ہوں تو دشمن بھی کہیں کہ ہم بھی ویسا ہی نشان دکھاتے ہیں لیکن چونکہ وہ اس بات پر قادر نہیں ہوتے اس لئے نشان کے مقابل پر نشان دکھانے کے لئے سامنے نہیں آتے۔ ہاں دوسرا طریق یہ ہے کہ آئیں بائیں شائیں کرتے اور خوب شور و شغب پیدا کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم خوب مقابلہ کر رہے ہیں اور یہی طریق ہمیشہ انبیاء اور خدا تعالیٰ کے دوسرے خادموں کے دشمن اختیار کیا کرتے ہیں۔
جب سے میں نے مصلح موعود ہونے کا اعلان کیا ہے مولوی محمد علی صاحب نے ویسے ہی اعتراض کرنے شروع کر دیئے ہیں جیسے مولوی ثناء اللہ صاحب کیا کرتے تھے۔ میں خواب یا الہام سناتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے اعلام کی بناء پر اعلان کرتا ہوں لیکن مولوی محمد علی صاحب نہ تو مقابل پر کوئی خواب یا الہام پیش کرتے ہیں اور نہ ہی وہ پیش کر سکتے ہیں کیونکہ وہ سارا زور لگا کر تیس سالہ پُرانا ایک الہام پیش کر سکے ہیں مگر وہ بھی واقعات کے رو سے غلط نکلا ہے۔ پس جب الہام ہوا ہی نہیں تو وہ الہام پیش کیسے کریں۔ اب سوائے اعتراضوں کے ان کے پاس کوئی چیز نہیں اگر وہ اعتراض بھی نہ کریں تو مقابلہ کس طرح کریں۔ حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ کے دشمن اِس بات کا تو انکار نہیں کر سکتے تھے کہ الہام ہوتا ہی نہیں کیونکہ ان سے پہلے انبیاء کو الہام ہوتا تھا اور وہ اس بات کے قائل تھے اِس لئے ان انبیاء کا انکار کرنے والے اس بات کا انکار نہ کر سکتے تھے کہ الہام کوئی چیز نہیں۔ اپنی بات کو درست ثابت کرنے کیلئے اور ان انبیاء کا مقابلہ کرنے کیلئے یہ کہتے تھے کہ ان کے الہام خود ساختہ ہیں۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمنوں نے بھی یہی کہا کہ ان کے الہام خود ساختہ ہیں۔ اگر عیسائیوں اور یہودیوں کا یہ قول درست تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وحی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خود ساختہ تھی اللہ تعالیٰ کی غیرت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقابل پر الہام کر دیتا تا مفتریوں کی قلعی کھل جاتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ان کو الہام سے محروم رکھنا بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی حق پر تھے اور آپ کے دشمن یہودی اور عیسائی ناحق پر تھے۔ اسی طرح آج مولوی محمد علی صاحب یہ کہتے ہیں کہ میرے الہام جھوٹے ہیں لیکن کیوں اللہ تعالیٰ ان کو میرے مقابل پر سچے الہام نہیں کر دیتا، تا دنیا پر واضح ہو جائے کہ مولوی صاحب حق پر ہیں اور مَیں ناحق پر ہوں۔
حیرت کی بات ہے کہ ایک شخص دن رات اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو گمراہ کرے اور دن رات اُس کے بندوں کو فریب اور دغا بازی سے غلط راستہ کی طرف لے جائے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کو غیرت نہ آئے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو غیرت نہیں آتی تو اِس کی وجہ سوائے اِس کے یقینا اور کوئی نہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ جانتا ہے کہ مولوی صاحب اِس کے قرب سے بہت دُور ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اُن کو الہام نہیں کیا۔ پس سچائی کے مقابلے میں ابتداء سے انکار ہوتا رہا ہے یہ سلسلہ ابتداء سے چلتا آیا ہے اور چلتا چلا جائے گا۔
یہ ایک بالکل واضح بات ہے کہ نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے لیکن لوگ پھر بھی اس طریق کو بھول جاتے ہیں۔ وقت سے پہلے وہ ان باتوں کو اپنی مجالس میں دُہراتے اور ان کا اقرار کرتے ہیں لیکن عین موقع پر اِن کا صاف انکار کر دیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام جب فوت ہوئے تو حضرت خلیفہ اوّل کو اس قدر صدمہ ہوا کہ شدتِ غم کی وجہ سے آپ کے منہ سے بات تک نہیں نکلتی تھی اور ضعف اس قدر تھا کہ کبھی کمر پر ہاتھ رکھتے اور کبھی ماتھے پر ہاتھ رکھتے اسی حالت میں مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے حضرت خلیفہ اوّل کا ہاتھ پکڑ کر کہا اَنْتَ الصِّدِّیْقُ اور بعض اور فقرات بھی کہے جن کا مفہوم یہ تھا کہ خلافت اسلام کی سنت ہے لیکن بعد میں مولوی سید محمد احسن صاحب اِس بات پر قائم نہ رہے اور اُنہوں نے خلافت سے منہ پھیر لیا۔ مولوی محمد علی صاحب یا ان کے رفقاء نے ان کے بچوں کو آٹے کی مشین لگوا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ پس اِس بات پر لڑکے اور بیوی پیغامیوں کا ساتھ دیتے رہے اور مولوی صاحب کو بھی مجبور کرتے رہے کہ وہ لاہوریوں کا ساتھ دیں۔ جب وہ ابتلاء کے کچھ عرصہ بعد قادیان میں مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو صاف کہا کہ میں مجبور ہوں فالج نے قویٰ مار دیئے ہیں میں طہارت تک خود نہیں کر سکتا ان لوگوں کو وعدہ دے کر لاہوریوں نے بگاڑ رکھا ہے اور میں ان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوں۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ اگر یعقوب اور اُس کی والدہ کو سنبھال لیا جائے تو میں بھی رہ سکوں گا مگر چونکہ میں اِس قسم کی رشوت دینے کا عادی نہیں مَیں نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ مجھے اکثر ایسے لوگوں کی حالت پر حیرت آتی ہے کہ ذرا ان کو سلسلہ سے کوئی شکایت پیدا ہو تو اُنہیں خلافت کے مسئلہ میں بھی شک پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
گجرات کے دوستوں نے سنایا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے تو ایک اہل حدیث مولوی نے ہمیں کہا اب تم لوگ قابو آئے ہو کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر نبوت کے بعد خلافت ہے۳؎ اور تم میں خلافت نہیں ہوگی تم لوگ انگریزی دان ہو اس لئے خلافت کی طرف تم نہیں جاؤ گے۔ وہ دوست بتاتے ہیں کہ دوسرے دن تار موصول ہوئی کہ جماعت نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کی بیعت کر لی ہے اور ان کو اپنا خلیفہ بنا لیا ہے۔ جب احمدیوں نے اُس مولوی کو بتایا تو کہنے لگا نورالدین بڑا پڑھا لکھا آدمی تھا اِس لئے اُس نے جماعت میں خلافت قائم کر دی اگر اس کے بعد خلافت رہی تو پھر دیکھیں گے۔ جب حضرت خلیفہ اوّل فوت ہوئے تو کہنے لگا اُس وقت اور بات تھی اب کوئی خلیفہ بنے گا تو دیکھیں گے۔ دوست بتاتے ہیں کہ اگلے دن تار پہنچ گئی کہ جماعت نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔ اِس پر کہنے لگا یارو تم بڑے عجیب ہو، تمہارا کوئی پتہ نہیں لگتا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کفر ہمیشہ سے ایک ہی راستے پر چل رہا ہے اور اِس سے پیار کرنے والے ہر نبی کے زمانہ میں وہی طریق اختیار کرتے ہیں جو پہلے انبیاء کے زمانہ میں اختیار کیا گیا۔ اسی طرح ہدایت کا بھی ایک بنا بنایا راستہ ہے جو ابتداء سے آج تک بغیر تغیر و تبدل کے چلا آ رہا ہے اور ہر آنے والا اسی راستہ پر چلتا ہے لیکن لوگ اس بنے ہوئے رستہ کی طرف توجہ نہیں کرتے اور خود تراشیدہ قوانین کی پیروی کرتے ہیں۔ کوئی مُسلم لیگ بناتا ہے، کوئی زمیندارہ لیگ بناتا ہے، کوئی سیاسی انجمنیں بناتا ہے، کوئی اقتصادی انجمنیں بناتا ہے، کوئی مذہبی مجالس قائم کرتا ہے اور اسے دین کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے کافی سمجھتے ہیں حالانکہ دُنیوی ضرورتیں تو سمجھو کہ ان سے پوری ہو سکتی ہیں دینی ضرورتیں کب ان طریقوں سے پوری ہو سکتی ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ خداتعالیٰ کو تو اپنے دین کا فکر نہیں صرف اِن لوگوں کو فکر ہے۔ اگر مسلمان اللہ تعالیٰ کی جماعت ہیں تو اُسے اِن کا فکر ضرور ہوگا، اگر اسلام اللہ تعالیٰ کا دین ہے تو ممکن نہیں کہ وہ اِس کی نگرانی سے غافل ہو، اگر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری کتاب ہے جو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجی گئی تو ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اِس کی حفاظت کا کوئی سامان نہ کیا ہو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دادا کے زمانے میں یمن کا علاقہ حبشہ کے ماتحت تھا اور چونکہ حبشہ ایک عیسائی مُلک تھا اِس لئے یمن کا گورنر بھی عیسائی ہوا کرتا تھا۔ عبدالمطلب کے زمانہ میں یمن کے والی کا نام ابرہہ تھا۔ یہ شخص کعبہ سے سخت دشمنی رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ کسی طرح عرب کے لوگوں کو کعبہ سے پھیر دے۔ چنانچہ اس نے کعبہ کے مقابلہ پر یمن میں ایک معبد تیار کیا اور لوگوں میں تحریک کی کہ وہ بجائے کعبہ کے اس عبادت گاہ کے حج کے لئے آیا کریں۔ عرب کی فطرت بھلا کب اِس بات کو برداشت کر سکتی تھی۔ ایک عرب نے غصہ سے جوش میں آکر اس معبد میں پاخانہ پھر دیا۔ ابرہہ کو اِس بات کا علم ہوا تو اُس نے غصہ میں آ کر ارادہ کیا کہ مکہ پر فوج کشی کر کے کعبہ کو مسمار کر دے۔ چنانچہ وہ ایک بڑے لشکر کے ساتھ یمن سے نکلا اور مکہ کے قریب پہنچ کر شہر کے سامنے اپنی فوجیں ڈال دیں۔ جب قریش کو اِس کا علم ہوا تو وہ سخت خوف زدہ ہوئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہم اس کے مقابلے کی تاب نہیں رکھتے۔ چنانچہ اُنہوں نے عبدالمطلب کو ابرہہ کے پاس بطور وفد کے روانہ کیا۔ وہ ابرہہ کے پاس گئے ابرہہ ان کی باتوں اور ان کی نجابت سے بہت خوش ہوا اور ان سے بڑی عزت کے ساتھ پیش آیا اور اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھو مَیں اِن کو کیا انعام دوں؟ عبدالمطلب نے کہا کہ آپ کی فوج نے میرے دو سَو اونٹ پکڑ لئے ہیں وہ مجھے دِلوا دیئے جائیں۔ اُس نے اونٹ تو واپس دِلوا دیئے مگر منہ بنا کر کہا میں تمہارے کعبہ کو مسمار کرنے کے لئے آیا ہوں تم نے اِس کی فکر نہ کی اور جھوٹے منہ بھی تم نے مجھے یہ نہ کہا کہ کعبہ کو نہ گرایا جائے او رتمہیں اپنے دو سَو اونٹوں کی فکر لگ گئی۔ عبدالمطلب نے جواب میں کہا۔ مَیں تو صرف اونٹوں کا ربّ اور مالک ہوں مگر اس گھر کا بھی ایک مالک ہے وہ خود اِس کی حفاظت کرے گا۔ اگر مجھے اپنے اونٹوں کی فکر ہے تو کیا اُسے اپنے اِس گھر کی فکر نہیں۔۴؎ اسی طرح میں کہتا ہوں اگر واقعہ میں اسلام اللہ تعالیٰ کا دین ہے اور اگر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے تو اللہ تعالیٰ نے یقینا اِس کی حفاظت اور اِس کی بہتری کے لئے کوئی نہ کوئی سبیل پیدا کی ہوگی اور اُسے بندوں کے سہارے نہیں چھوڑا ہوگا۔ وہ بہتری کی سبیل اور حقیقی اسلام کا رستہ آج احمدیت ہے۔ لیکن اگر احمدیت بُری چیز ہے تو اللہ تعالیٰ کا فرض ہے کہ وہ اپنی غیرت دکھائے کیونکہ مخالفین کے نزدیک نَعُوْذُ بِاللّٰہِ احمدیت اُس کے دین میں رخنہ اندازی کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے۔ جیسے فرمایا ۵؎ مگر مولوی کہتے ہیں کہ قرآن کریم تو خدا نے بھیج دیا مگر اِس کی حفاظت ہمارے ذمہ ہے اور مسلمانوں کے لیڈر اِس غرض کے لئے لیگیں، انجمنیں اور ایسوسی ایشنیں بناتے ہیں۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ میں یہ طاقت نہیں کہ وہ قرآن کریم کی حفاظت کر سکے۔ دنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ جو چیز دنیا میں موجود ہے وہ اپنے وجود کا خود پتہ دیتی ہے اور جو چیزیں موجود ہیں ان میں سے جو چیز طاقتور ہوگی وہ دوسری چیزوں پر غالب آ جائے گی۔ جب وہ غالب آنے لگتی ہے تو دنیا بھی اس کا مقابلہ نہیں کرتی اور جو شخص کسی کام کا اہل یا کسی بوجھ کو اُٹھانے والا ہوتا ہے وہ خود بخود ہی میدانِ عمل میں آجاتا ہے۔ پہلے مسلمانوں کے لیڈر اور مسلمانوں کے نمائندہ سر میاں فضل حسین صاحب رہے اُس وقت مسٹر جناح کے خیالات کانگرسی تھے اور کانگرس کی تائید میں تھے اور مُسلم لیگ کا دائرہ اُس وقت اتنا وسیع نہ تھا جتنا اب ہے۔ کچھ عرصہ کانگرس میں کام کرنے کے بعد مسٹر جناح مُسلم لیگ میں آ گئے اور آہستہ آہستہ اپنی قابلیت منواتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ تمام مسلمان لیڈر اُن کے پیچھے لگ گئے اور وہ مُسلم لیگ کے صدر بن گئے۔ یہی حال انگریزی قوم کا ہے تمام قوم پچیس سال تک مسٹر چرچل کو دھتکارتی رہی کہ یہ لڑاکا ہے۔ فساد کرتا ہے لیکن جب جنگ شروع ہوئی تو کیا لیبر اور کیا یونینسٹ اور کیا کنزرویٹونیمسٹر چرچل کو اِس کام کیلئے منتخب کیا ۔تو جو شخص کسی کام کا اہل ہوتا ہے وہ آپ ہی آپ دوسروں پر چھا جاتا ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے بھی انسانوں کی حفاظت ضرورت نہ تھی بلکہ جس کے سپرد یہ کام تھا وہ خود ہی آگے آ جانا چاہئے تھا۔ جب کسی چیز کے اُگنے کا موسم آ جائے اور وہ وقت پر اُگ آئے تو ہم سمجھیں گے کہ اُس کابیج زمین میں موجود تھا لیکن اگر باوجود موسم کے آ جانے کے زمین سے کوئی چیز نہ اُگے ہم تو کہیں گے کہ اس میں کسی چیز کا بیج موجود نہ تھا اس لئے اس سے کوئی چیز نہیں اُگی اور اب اس میں بیج باہر سے ڈالا جائے گا۔ اسی طرح اگر مسلمانوں کی خستہ حالی کے وقت مسلمان خود مل کر اس کا علاج کر لیتے تو ہم سمجھ سکتے تھے کہ اب خدا کی طرف سے کسی کے آنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر اپنی تمام کوششوں کے باوجود مسلمانوں پر خستہ حالی اور اسلام پر ادبار کے بادل چھائے رہیں تو ماننا پڑے گا کہ اب اس کا علاج کرنے والا کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی آئے گا کیونکہ مسلمان خود اس قابل نہیں رہے کہ وہ اسلام کو دوبارہ باقی ادیان پر غالب کر دیں۔ کیا مسٹر جناح دنیا کے سارے مسلمانوں کے نگران ہو سکتے ہیں؟ اور کیا مسٹر جناح اسلامی دنیا کے تمام نقائص اور خرابیوں کو دور کر سکتے ہیں؟ کیا مسٹر جناح یا کوئی مسلمان نمائندہ آج پھر ایمان کو اُسی پہلی حالت میں قائم کر سکتا ہے جو حالت کہ قرونِ اُولیٰ کی تھی؟ ہر انسان جو سوچ اور عقل سے جواب دے گا وہ یہی جواب دے گا کہ مسٹر جناح ہندوستان کے سیاسی لیڈر ہیں دنیا بھر کے مذہبی لیڈر نہیں ہیں۔ یہ کام سوائے ایسے شخص کے نہیں ہو سکتا جو مَؤیَّد مِنَ اللّٰہِ ہو اور جسے اللہ تعالیٰ خود مقرر کرے اور وہ تمام مسلمانوں کا نگران ہو۔ مسلمانوں کے ہر مرض کا علاج کرنے والا اور مسلمانوں کی ہر تکلیف کا مداوا ہو، جو اسلام کو اَدیانِ باطلہ پر غالب کرنے والا ہو۔ آج ایسے ہی شخص کی ضرورت ہے۔ پس جس طرح ہر چیز اپنے موسم میں پیدا ہو جاتی ہے اِسی طرح نبوت اور خلافت بھی اپنے وقت پر پیدا ہو جاتی ہیں اور یہ بات اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے کہ ایک چیز کی اشد ضرورت محسوس کی جائے۔ اُس کا موسم آ جائے، لوگ اس کے لئے بے تاب ہوں لیکن اپنی طرف سے وہ چیز عطا نہ کرے۔ بلکہ حقیقت یہی ہے کہ جس طرح دوسری چیزیں اپنے اپنے موسم میں پیداہوتی ہیں اِسی طرح نبوت اور خلافت بھی اپنے اپنے وقت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کر دی جاتی ہیں تا اِن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے بندے اُس کی قرب کی راہوں پر چلیں اور اُن تمام باتوںسے بچیں جو کہ اُس سے دور لے جاتی ہیں۔اور خلافت قوم میں چلتی چلی جاتی ہے جب تک قوم درست رہتی ہے لیکن جب قوم کے افراد میں غداری اور دغا بازی کی رُوح پیدا ہو جاتی ہے تو خلافت بھی مٹ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن سے یہ نعمت چھین لیتا ہے۔ خدا تعالیٰ قوم کی حالت کو دیکھ کر خلیفہ مقرر کرتا ہے۔ اگر قوم کے حالات درست ہوں تو خلافت دے دیتا ہے اور اگر درست نہ ہوں تو یہ انعام واپس لے لیتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ شرعی مسئلہ ہے اور یہ ایک لحاظ سے ہے بھی لیکن اِسی حد تک کہ بندے اُس کو خلیفہ مقرر کریں۔ مگر خلافت کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک حصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اُس کو خلیفہ بناتا ہے اور ایک یہ ہے کہ بندے اُس کا انتخاب کرتے ہیں۔ جہاں تک بندوں کے انتخاب کا سوال ہے وہ ہو جائے گا لیکن جو حصہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر بندے خلیفہ چننے کے لئے اُن قوانین کی پابندی کریں گے جو خدا تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں تو وہ خلافت کامیاب ہوگی لیکن اگر نہیں کریں گے تو اگرچہ وہ خلیفہ تو بنا لیں گے لیکن کامیاب نہیں ہونگے۔ یا پھر اُس خلیفہ کی حیثیت عیسائیوں کے پوپ کی طرح ہو جائے گی جس سے قوم کوئی حقیقی فائدہ نہیں اُٹھا سکے گی۔ مگر باوجود اِس کے ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے۔
دنیا ان باتوں کو ہمیشہ بھول جاتی ہے حالانکہ یہ بات ہمیشہ اور بار بار ہوتی ہے۔ یہی چیزیں ہماری جماعت میں ہوتی ہیں اور آئندہ بھی ہونگی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے اور اُسی رنگ میں آئے جس رنگ میں حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ اور دوسرے انبیاء مبعوث ہوئے تھے اور آپ کے بعد بھی اُسی رنگ میں سلسلہ خلافت شروع ہوا۔ جس طرح پہلے انبیاء کے بعد خلافت کا سلسلہ قائم ہوا۔ اگرہم عقل کے ساتھ دیکھیں اور اِس کی حقیقت کو پہنچاننے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ ایک عظیم الشان سلسلہ ہے۔ بلکہ میں کہتا ہوں اگر دس ہزار نسلیں بھی اِس کے قیام کے لئے قربان کر دی جائیں تو کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ میں دوسروں کے متعلق تو نہیں جانتا مگر کم از کم اپنے متعلق جانتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی تاریخ پڑھنے کے بعد جب میں حضرت عثمانؓ پر پڑی ہوئی مصیبتوں پر نظر کرتا ہوں اور دوسری طرف اُس نور اور روحانیت کو دیکھتا ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آ کر ان میں پیدا کی تھی تو مَیں کہتا ہوں اگر دنیا میں میری دس ہزار نسلیں پیدا ہونے والی ہوتیں اور وہ ساری کی ساری ایک ساعت میں جمع کر کے قربان کر دی جاتیں تا وہ فتنہ ٹل سکتا تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ جوں دے کر ہاتھی خریدنے کے سَودے سے بھی زیادہ سَستا سَودا ہوتا۔درحقیقت ہمیں کسی چیز کی قیمت کا پتہ پیچھے لگتا ہے۔
اب میں یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ دین کی کوئی قیمت ہی نہیں رہی۔ دین کی قیمت تو الگ رہی ہم دنیاوی حیثیت دیکھتے ہیں تو وہ بھی نہیں رہی۔ کجا وہ وقت تھا کہ ایک مسلمان خواہ کسی جگہ پر چلا جاتا) چاہے وہ چوڑھا ہوتا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اُس کی طرف انگلی نہ اُٹھا سکتا۔ چین کا بادشاہ جس کی بادشاہت اس زمانہ کے لحاظ سے بہت بڑی بادشاہت تھی اُس کو بھی حوصلہ نہیں تھا کہ ایک چوڑھے مسلمان کی طرف اُنگلی اُٹھا سکے اس لئے کہ سارا عالم اسلامی اس کی پشت پر تھا۔ آخری زمانہ میں مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ خلافتِ بغداد بالکل تباہ ہوکر ریاستوں کی شکل اختیار کر چکی تھی لیکن نام باقی تھا۔ کہتے ہیں کہ ہاتھی مرا ہوا بھی بھاری ہوتا ہے۔ خلافت تو تھی گو چند گاؤں بھی ان کے قبضہ میں نہ رہے تھے صرف بغداد تھا باقی سب جگہ دوسری بادشاہتیں قائم ہوگئی تھیں۔ وہ بادشاہ مطلق العنان ہونے کے باوجود بھی خلافت کا احترام کرتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ ہم تو غائب بادشاہ ہیں، اصل بادشاہ خلیفہ ہے۔ یوں وہ اپنا قانون چلاتے تھے، اپنی فوجیں رکھتے تھے، خود ہی لڑائیاں لڑتے تھے، خود ہی فیصلہ کرتے تھے، خود ہی معاملات طے کرتے تھے اور خلیفہ کو پوچھتے تک بھی نہ تھے مگر اِس نام کی بھی برکت تھی۔ اُس زمانہ میں مسلمانوں کے ایک علاقہ میں سے جب کہ مسلمان کمزور ہوچکے تھے یورپین فوجیں گزریں اور اُنہوں نے کسی مسلمان عورت کو چھیڑا (اُس بیچاری کو کچھ پتہ نہ تھا کہ خلافت ٹوٹ چکی ہے اور تقسیم ہو کر مختلف حصوں میں بٹ چکی ہے وہ یہی سنتی آ رہی تھی کہ ابھی تک یہاں خلیفہ کی حکومت ہے) اُس نے اِسی خیال کے ماتحت خلیفہ کو پکار کر بآوازِ بلند یَالَلْخَلِیْفَۃکہا۔ یعنی اے خلیفہ! میں مدد کے لئے تمہیں آواز دیتی ہوں۔ اُس وقت وہاں سے ایک قافلہ گزر رہا تھا اُس نے یہ باتیں سنیں۔ وہ قافلہ بغداد کی طرف جا رہا تھا۔ پُرانے زمانہ میں رواج تھا کہ جب قافلہ شہر میں آتا تو قافلہ کی آمد کی خبر سن کر لوگ شہر کے باہر قافلہ کے استقبال کے لئے جاتے۔ تاجر لوگ بھی اُس وقت وہاں پہنچ جاتے اور آجکل کی بلیک مارکیٹ کی طرح وہیں مال خریدنے کی کوشش کرتے کیونکہ جو مال باہر سے آتا تھا وہ سفر کی مشکلات کی وجہ سے بہت کم آتا تھا اِس لئے ہر ایک تاجر یہی کوشش کرتا کہ وہیں جا کر سَودا کرے اور اُسے دوسروں سے پہلے حاصل کرے۔ جب وہ قافلہ آیا اور شہری اُس کے استقبال کے لئے شہر سے باہر گئے اور اُسے ملے تو اہلِ شہر نے اُن سے سفر کے حالات پوچھنے شروع کئے اور کہا کہ کوئی نئی بات سناؤ۔ اُنہوں نے کہا سفر ہر طرح آرام سے کٹ گیا مگر ہم نے راستہ میں ایک عجیب تمسخر سنا۔ ایک عورت خلیفہ کو آوازیں دے رہی تھی اور مدد کے لئے بُلا رہی تھی۔ اُس بے چاری کو کیا پتہ کہ اِس جگہ اب اُس کی حکومت ہی نہیں۔ یہ باتیں سننے والوں میں سے ایک درباری بھی تھا وہ دربار میں آیا اور بادشاہ سے اِس کا ذکر کیا اُس نے کہا آج ایک عجیب بات ہوئی ہے ایک قافلہ فلاں جگہ سے آیا اور اُس نے سنایا کہ ایک عورت خلیفہ کو پکارتی تھی۔ اگرچہ بادشاہت تو اُس وقت تباہ ہوچکی تھی اور خلافت مٹ چکی تھی مگر معلوم ہوتا ہے ابھی اسلامی ایمان کی کوئی چنگاری باقی تھی۔ خلیفہ میں کوئی طاقت نہ تھی وہ جانتا تھا کہ میں اکیلا ہوں لیکن جب اُس نے یہ بات سنی تو تخت سے اُتر آیا اور ننگے پاؤں چلا اور کہا کہ گو اب خلیفہ کا وہ اقتدار نہیں رہا مگر بہرحال اُس نے خلافت کو آواز دی ہے اب میرا فرض ہے کہ میں اُس کے پاس جاؤں اور اُس کی مدد کروں۔ یہ بات ایسی ہے کہ آج یہاں بیٹھے ہوئے ہمارا خون کھول جاتا ہے اُس زمانہ میں کیوں نہ کھولا ہوگا۔ جونہی یہ بات دوسرے بادشاہوں نے سنی اُنہوں نے خلیفہ کو یہ اطلاع بھیجی کہ ہم مدد دیں گے آپ اُس عورت کو آزاد کرائیں اور اُن سے اِس کا بدلہ لیں۔چنانچہ وہ گئے اور اُنہوں نے اُس عورت کو آزاد کرایا اور عیسائیوں سے اُس کا بدلہ لیا۔
لیکن آج بڑی بڑی مسلمان شخصیتوں کا سوال ہی نہیں رہا اب تو بڑی بڑی مسلمان حکومتیں بھی ریاستوں سے بالا نہیں۔ سب سے بڑی حکومت مسلمانوں کی اِس وقت ترکی کی حکومت ہے مگر اِس کی حالت یہ ہے کہ جب روس کوئی بات کرتا ہے تو وہ کھسیانہ ہو کر کبھی انگریزوں اور کبھی امریکہ کی طرف دیکھتا ہے اور دیکھ کر سوچتا ہے کہ آیا بھبکی دوں یا سسکی بھروں۔ اگر دیکھے کہ وہ ہماری طرف مہربانی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تو سسکیاں مار کر رونے لگ جاتا ہے اور اگر سمجھتا ہے کہ مدد کریں گے تو پھر ان کو بھبھکیاں دیتا ہے۔ ہر ایک کے اندر جذبات ہوتے ہیں لیکن یہ حالت دیکھ کر بھی کسی مسلمان کی غیرت جوش میں نہیں آتی۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اگر میں احمدی نہ ہوتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں پرورش نہ پاتا تو میرے کیا اخلاق ہوتے لیکن اگر میرے یہی جذبات ہوتے جو اِس وقت ہیں اور احمدیت والا ایمان میرے اندر نہ ہوتا تو اگر کوئی سَو فیصدی سے بھی زیادہ یقین دلانے کا کوئی ذریعہ ہو سکتا ہے تو مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یا میں پاگل ہو جاتا اور یا پھر اپنے ہاتھ سے اپنے بیوی بچوں کو مار کر اپنے آپ کو مار ڈالتا کیونکہ میرے نزدیک اس قسم کی زندگی کو ایک لمحہ کیلئے بھی برداشت کرنا کسی خبیث اور بے ایمان آدمی کے سوا کسی کا کام نہیں ہو سکتا۔ یہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ذات ہے جس نے ہمارے دل میں ایک نئی اُمنگ پیدا کر دی ہے۔ آج وہ کرن دُور ہے اور شعائیں فاصلہ پر نظر آتی ہیں مگر بہرحال کھڑکی کھلی نظر آتی ہے اور پتہ لگتا ہے کہ ہم کسی نہ کسی دن اُس مقام پر پہنچیں گے۔ جس طرح اسلام کے دشمنوں نے اسلام کو گھٹنوں کے بل گرانے کی کوشش کی اور ناک رگڑوانا چاہا ہم اِنْشَائَ اللّٰہَ اِن کو گھٹنوں کے بل گرائیں گے اور ناک رگڑوائیں گے۔ مگر ناک رگڑوانے سے مراد یہ نہیں کہ ہم ظاہری رنگ میں ایسا کریں گے بلکہ معنوی رنگ میں ہم ان سے ایسا سلوک کریں گے جو گھٹنے ٹیکنے اور ناک رگڑنے کا مترادف ہوگا۔ دیکھو! جب مکہ فتح ہوا تو اُس وقت ظاہری طور پر کسی نے ناک نہیں رگڑوائے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو یہی کہا کہ تم ہمارے بھائی ہو ہم تمہیں معاف کرتے ہیں۶؎ مگر معنوی طورپر ان کے ناک رگڑے گئے۔ جس شخص کے قتل کے کوئی درپے ہو اور اس کے ساتھ اتنی دشمنی کی گئی ہو کہ اس حالت میں کہ اُس کی لڑکی حاملہ ہونے کی صورت میں اکیلی سفر کر رہی ہو، اُس کے اونٹ کے شغدف کا بند کاٹ کر اُسے گرا دیا ہو اور اِس طرح اُس کا حمل ضائع کروا دیا ہو جب وہ اُس کے سامنے آئیں اور اُن سے پوچھا جائے کہ بتاؤ تم سے کیا سلوک کیا جائے؟ اور وہ کہیں ہم تم سے یوسفؑ والے سلوک کی امید رکھتے ہیں اور وہ کہہ دے تم سے یوسفؑ والا سلوک ہی کیا جائے گا اور تمہیں معاف کیا جائے گا۔ تو بتاؤ اِن مخالفین کی کیا حالت ہوگی۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ ایسے واقعہ سے دل پر ایسی چوٹ لگتی ہے کہ اِس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ بظاہر ان کی بے عزتی نہیں کی گئی اور بظاہر ان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی گئی، بظاہر ان سے ناک نہیں رگڑوائے گئے مگر معنوی طور پر ان کے ناک رگڑے گئے اور ان کے سرجھکائے گئے اور وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی مُردہ ہوگئے۔
میں نے کئی دفعہ ایک واقعہ سنایا ہے۔ بچپن کی بات ہے کہ ایک دفعہ میں نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک کشتی خریدی۔ اُس وقت وہ کشتی ہمیں۲۷ روپے میں مل گئی جو کہ اُس وقت کے لحاظ سے کافی سُستی تھی اب تو کشتی دو سَو روپے میں ملتی ہے۔ ہم قادیان کی ڈھاب میں اُس کشتی پر سیر کیا کرتے تھے۔ جیسے بچوں کا قاعدہ ہے دس پندرہ دن تک تو ہم باقاعدہ سیر کرتے رہے، پھر ہفتہ میں تین دن سیر کرتے، پھر ہفتہ میں دو دن اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ ہم پندرہویں دن سیر کیلئے جاتے۔ جب ہم وہاں نہ ہوتے تو باہر کے لڑکے آ کر اُس کشتی کو چلاتے۔ جب ہم کشتی کو آ کر دیکھتے تو پہلے سے کچھ نہ کچھ خستہ حالت میں ہوتی۔ میں اِس حالت سے بہت تنگ آیا اور میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ کسی طرح تم انہیں پکڑوا دو۔ ایک دن عصر کے وقت ایک لڑکا دَوڑا ہوا آیا اور کہا کہ میں ان لڑکوں کو پکڑوا دوں۔ اُس کشتی میں زیادہ سے زیادہ دس بارہ آدمی بیٹھ سکتے تھے لیکن جب میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ اٹھارہ اُنیس لڑکے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے اتنے آدمی کشتی میں بیٹھے ہوئے دیکھ کر غصہ سے کہا جلدی اِدھر کشتی لاؤ۔ وہ گاؤں کے لڑکے تھے اور گاؤں والوں میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ بڑے زمینداروں کا مقابلہ کر سکیں۔ اِس ڈر سے کہ کہیں پٹ نہ جائیں اُن میں سے کچھ نے چھلانگیں لگا دیں اور تیر کر دوسرے کنارے نکل گئے اور کچھ اتنے مغلوب ہوئے کہ وہیں بیٹھے رہے اور کشتی کو کنارے کی طرف لے آئے۔ میں غصہ سے سوٹی پکڑے ہوئے کھڑا تھا اور اِس خیال میں تھاکہ جب یہ باہر آئیں گے تو میں اُنہیں خوب ماروں گا۔ وہ جب قریب آئے اور میری یہ حالت دیکھی تو اُن میں سے سوائے ایک کے باقی سب نے پانی میں چھلانگیں لگا دیں اور مختلف جہات کو دَوڑ گئے۔ صرف ایک لڑکا کشتی میں رہ گیا جسے میں نے پکڑ لیا۔ میں سمجھتا تھا کہ اصل شرارتی یہی ہے اُس نے مدرسہ احمدیہ کے باورچی خانے کے پاس جہاں خانصاحب فرزند علی صاحب کا مکان ہے اور آجکل وہاں دفتر بیت المال ہے کشتی لا کر کھڑی کی۔ جب وہ کشتی سے اُترا تو میں نے کہا اِدھر آؤ۔ قریب آنے پر میرے دل میں معلوم نہیں کیا خیال آیا کہ میں نے سوٹی رکھ دی اور اُسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا۔ جس وقت میں نے ہاتھ اُٹھایا تو اُس نے بھی ہاتھ اُٹھایا۔ میں نے اُس کو مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا تھا لیکن اُس نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے ہاتھ اُٹھایا تھا۔ اُس کی اِس حرکت کی تاب نہ لاتے ہوئے اور زیادہ غصہ میں آ کر میں نے اپنا ہاتھ اور پیچھے کی طرف کھینچا تا کہ اُسے زور سے چانٹا رسید کروں لیکن جونہی میں نے ہاتھ پیچھے کیا اُس نے ہاتھ نیچے گرا دیا۔ اس وقت میری عمر ۱۷سال کے قریب تھی آج میں ۵۷ سال کا ہو گیا ہوں گویا اِس واقعہ کو چالیس سال گزر چکے ہیں لیکن جب بھی یہ واقعہ مجھے یاد آتا ہے تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور پسینہ چھٹ جاتا ہے۔ جب اُس نے ہاتھ گرایا تو میں اُس وقت اتنا شرمندہ ہوا کہ میں سمجھتا تھا کہ کسی طرح زمین پھٹ جائے تو میں اِس میں سما جاؤں۔ یہ میرے سامنے کھڑا ہے اور اُس نے ہاتھ پیچھے گرا لیا ہے گویا دوسرے الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ مجھے مار لو۔ اُس کی یہ نرمی میرے لئے اتنی تکلیف دہ تھی کہ میں اُس وقت اپنے آپ کو دنیا کا ذلیل ترین انسان خیال کرتا تھا۔ میں کہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور مجھے یہ ذلّت کی حالت نہ دیکھنی پڑے۔ اب دیکھو یہ کتنی چھوٹی سی چیز تھی۔ کشتی صرف ۲۷ روپے کی تھی اور وہ بھی چند آدمیوں کے چندہ سے خریدی ہوئی اور وہ بھی پُرانی۔ پھر وہ سیکنڈ ہینڈ کشتی تھرڈ ہینڈ بنی پھر فورتھ ہینڈ بنی اور پھر ففتھ ہینڈ بنی لیکن اس پر بھی میں جوش میں آ کر اُسے مارنے لگا مگر اُس نے اپنا ہاتھ نیچے کر لیا۔ اس کا نیچے ہاتھ گرانا کسی جذبۂ شرافت کے ماتحت نہیں تھا صرف اِس لئے تھا کہ وہ جانتا تھا کہ بڑے آدمی کے بیٹے ہیں اگر مارا تو اِن کے ساتھی مجھے ماریں گے۔ پھر یہ بھی نہیں تھا کہ مظلوم ہونے کے باوجود اُس نے مجھ پر رحم کیا ہو بلکہ ظالم وہ تھا اور کمزور وہ تھا مگر باوجود اِس کے کہ وہ ظالم تھا اور کمزور تھا اُس کا یہ فعل میرے لئے اتنا تکلیف دہ ہوا کہ آج تک اس واقعہ کو یاد کر کے میں شرمندہ ہو جاتا ہوں ۔پس کیا حال ہوا ہوگا اُن بڑے بڑے آدمیوں کا جو میدانوں میں نکل نکل کر کہتے تھے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کی اولاد کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے، جو کہا کرتے تھے کہ یہ نوجوان تیرے چند روزہ ساتھی ہیں یہ تیرا ساتھ چھوڑ دیں گے، جنہیں وہ بھاگ جانے والے کہتے تھے اور جن کے سامنے وہ میدان میں گھوڑے دَوڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ آؤ مقابل پر ،اور جنہیں وہ کمینہ آدمی سمجھتے تھے جب وہ اُن کے سامنے تلوار نہ اُٹھا سکے اور مغلوب ہوئے تو اُن کی کیا حالت ہوئی ہوگی۔ وہ اُس وقت کتنے ذلیل اور شرمندہ ہوئے ہوں گے اور کس طرح اُن کے ناک رگڑے گئے ہوں گے۔ جب اُن سے ہار کر اُنہوں نے خود اِستدعا کی کہ ہم سے یوسف ؑ کے بھائیوں کا سا سلوک کیا جائے۔ اور پھر اس وقت کیا حالت ہوئی ہوگی جب واقعہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جواب میں یہ فرمایا کہ ہاں ہاں تم سے یوسف ؑ کے بھائیوں کا سا سلوک کیا جائے گا۔ جاؤ اپنے گھروں میںآرام سے بیٹھو ہم تم سے کچھ نہ کہیں گے۔ ۶؎یہی حالت اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ایک دن اسلام کے دشمنوں پر آنے والی ہے۔
(الفضل ۱۷،۱۸؍ اپریل ۱۹۴۶ء)
۱؎ الذّٰریٰت: ۵۴
۲؎ ججمان: برہمنوں یا نائیوں کی آسامی جس کا وہ پشتوں سے کام کرتے آ رہے ہوں۔ مخدوم، آقا، مربی
۳؎ کنز العمال جلد۱۱ صفحہ۱۱۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۸ء
۴؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۴۴ حاشیہ مطبوعہ پاکستان ۱۹۷۷ء
۵؎ الحجر: ۱۰
۶؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۸۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض ومقاصد
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض ومقاصد
(تقریر فرمودہ۲۸؍دسمبر۱۹۴۵ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام قادیان)
تشہّد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا۔
میں نے اپنی جماعت کے دوستوں کو بارہا اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہمارا سب سے اہم فرض یہ ہے کہ ہم ساری دنیا میں اسلام اور احمدیت کی آواز پہنچانے کے لئے اپنے مبلّغین کا جال پھیلادیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کو یہ حقیقت بھی کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ کامیابی صرف فوج کو بھرتی کرلینے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس فوج کے پاس ہر قسم کا وہ سامان موجود ہو جس سے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہم اپنی جماعت میں سے کسی فرد کو یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اے بہادر! جا اور اپنی جان کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دے بلکہ اگر ہماری جماعت کی تعداد دس کروڑ ہو جائے تو ہم دس کروڑ سے بھی کہہ سکتے ہیں کہ جاؤ اور دین کی اشاعت کرو اور اس راستہ میں اگر تمہاری جان بھی چلی جائے تو اس کی کوئی پرواہ نہ کرومگر ہمارے شاباش کہنے سے وہ دس کروڑ آدمی ساری دنیا تک پہنچ نہیں سکتا۔ ساری دنیا تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ جب کوئی ریل میں سوار ہونے لگے تو کرایہ ادا کر کے ٹکٹ خریدے، کسی ہوٹل میں کھانا کھائے تو ہوٹل کا بل ادا کرے کسی شہر میں رہائش کے لئے مکان لے تو اُس مکان کا مناسب کرایہ مالک مکان کو پیش کرے۔ جب تک وہ ریل کا کرایہ ادا نہیں کرے گا،جہاز کا کرایہ ادا نہیں کرے گا،ہوٹل کا خرچ ادا نہیں کرے گا، مکانوں کا کرایہ ادا نہیں کرے گا اُس وقت تک وہ دنیا تک پہنچ ہی کس طرح سکتا ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہو گا کہ اگر وہ اشتہار شائع کرنا چاہے تو اُس کے پاس اِس قدر روپیہ موجود ہو جس سے وہ اشتہار لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچا سکے۔ اگر روپیہ اُس کے پاس نہیں ہو گا تو کاتب اُس کی کتابت کس طرح کرے گا ،پریس اس کو شائع کس طرح کرے گا اور لوگوں میں تقسیم کرنے کے لئے کون اُس کی مدد کرے گا۔ پھر جب کوئی تبلیغ کرنا چاہے گا اس کے لئے یہ بھی ضروری ہو گا کہ وہ کوئی ہال کرایہ پر لے جس میں تقاریر وغیرہ کے لئے لوگوں کو مدعو کر سکے۔ یہاں بھی اگر ہال کرایہ پرلیا جائے تو پچاس ساٹھ روپے خرچ ہو جاتے ہیں اور بیرونی ممالک میں تو کافی روپیہ کی ضروت ہوتی ہے۔ پھر اُس کے لئے بھی ضرروی ہو گا کہ وہ ایسے آدمی اپنے ساتھ رکھے جو اشتہارات تقسیم کرنے میں اس کی مدد کر سکیں۔ یا ایسے بارسوخ ہوں جو علمی طبقہ تک اس کی آواز پہنچا سکیں۔ ان تمام اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر وہ ایک لیکچر بھی دے گا تو خواہ اس میں سَو ڈیڑھ سَو آدمی آئیں اس کا پانچ سات سَو روپیہ خرچ ہو جائے گا۔ پھر اگر وہ ایک اشتہاربھی شائع کرنا چاہے گا تو اُسے کافی اخراجات کی ضروت ہوگی۔ مثلاً انگلستان کی آبادی چار کروڑ ہے اگر وہ چار کروڑ کی آبادی میں سولہ صفحہ کا ایک اشتہار شائع کر ے اور ایک صفحہ کے ایک ہزار اشتہار کی صرف ایک روپیہ قیمت سمجھی جائے تو سولہ صفحہ کے ایک ہزار اشتہار پر سولہ روپے، ایک لاکھ اشتہار پر سولہ سَو روپیہ، ایک کروڑ اشتہار پر ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ اور چار کروڑ پر چھ لاکھ چالیس ہزار روپیہ خرچ آئے گا ۔اگر چار کروڑ کی آبادی میں سے بچوں کو نکال دیا جائے اور اُن کی تعداد نصف سمجھ لی جائے تو دو کروڑ کی آبادی کے لئے سولہ صفحہ کا ایک اشتہار شائع کرنے پرتین لاکھ ۲۰ ہزار روپیہ خرچ آئے گا۔ اور اگر دو کروڑ کے صرف دسویں حصہ تک آواز پہنچائی جائے تب بھی ایک اشتہار کی چھپوائی اور اس کی تقسیم وغیرہ پر ۳۲ہزار روپیہ خرچ ہو گا۔ اگر ہم ان اخراجات کو مہیا نہ کریں تو نہ ہم اپنے مبلّغ ساری دنیا میں پھیلا سکتے ہیں اور نہ وہ اپنی تبلیغ کو وسیع کر سکتے ہیں۔
پس حقیقت یہ ہے کہ کامیابی کے لئے صرف فوج کی موجودگی کافی نہیںہوتی بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ فوج کے پاس وہ سامان ہو جو فتح و کامیابی کے حصول کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے مگر میںدیکھتا ہوں کہ جماعت میں باوجود اخلاص کے اور باوجود عقل اورسمجھ کے تحریک جدید کے متعلق جس کاکام بیرونی ممالک کے مبلّغین کے لئے اخراجات مہیا کرنا اور تبلیغ کے دائرہ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنا ہے کچھ بے تو جہی سی پائی جاتی ہے اور جس طرح بیمار کو ایک لمبے عرصہ تک چارپائی پر لیٹے رہنے کے بعد چلنے میں تکلیف محسوس ہوتی ہے اِسی طرح ہماری جماعت کے افراد میں بھی ایک لمبی قربانی کے بعد تھکان کے آثار نظر آ رہے ہیں حالانکہ دین کے کاموں میں کسی قسم کی سستی اور غفلت پیدا نہیں ہونی چاہئے۔ اِس میں کچھ میر ی بھی غلطی تھی کہ میں نے تحریک جدید کے متعلق ابتداء میں یہ خیال کر لیا کہ وہ دس سال میں ختم ہو جائے گی۔ میں سمجھتا تھا کہ شاید دس سال کے اندر اندر ایسا مضبوط ریزروفنڈ قائم ہو جائے گا جس کی آمد سے تبلیغی اخراجات آسانی سے پورے ہوتے رہیں گے مگر یہ قیاس غلط نکلا اور جماعت کو مزید قربانیوں کی تحریک کرنی پڑی۔تم اسے میری غلطی قرار دے دومگر بہرحال یہ ایک انسانی اندازہ تھا جو غلط نکلا۔ مگر کیا تم میری غلطی کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو نقصان پہنچادو گے یا میری غلطی کی وجہ سے دین میں کسی قسم کی کمزوری کا پیدا ہونا برداشت کرلو گے؟ تم کہہ سکتے ہو کہ ہمارے امام نے غلطی کی اس نے سمجھا کہ دس سال کے اندر تحریک جدید کی آمد سے ایسا ریزرو فنڈ قائم ہو جائے گا جو تبلیغی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوگا مگر اس کا خیال غلط نکلا لیکن دین کا کام تو بہر حال تم نے چلانا ہے۔ اگر تم دین کا کام نہیں کروگے تو آخر وہ کونسی جماعت ہے جو اِس وقت اسلام کی مدد کے لئے آگے آئے گی۔ تمہارے سامنے مسلمان موجود ہیں کیا ان میں سے کسی کو بھی یہ فکر ہے کہ اسلام کو تقویت حاصل ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام جودنیا سے مٹ چکا ہے وہ پھر پوری شان کے ساتھ قائم ہو، اگر غور کرو تو تمہیں محسوس ہوگا کہ صرف ہماری جماعت ہی اِس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں اسلام کا جھنڈا بلند کر رہی ہے۔ اب بتاؤ کہ کیا خدا کے دین اور اُس کی فوج میں شامل ہو کر تم بھی موسیٰ ؑ کے ساتھیوں کی طرح یہی کہوگے کہ ۱؎ تو اور تیرا ربّ آپ دونوںدشمن سے جاکر لڑتے رہوہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ہر وہ شخض جس کے اندر ایمان کا ایک ذرّہ بھی پایا جاتا ہو وہ کہے گا کہ اگر میری گرتے گرتے یہاں تک حالت پہنچنے والی ہو تو خدا اس دن سے پہلے مجھے موت دے دے تا کہ میری زبان سے موسیٰ ؑ کے ساتھیوں کی طرح یہ فقرہ نہ نکلے بلکہ میری زبان وہی کچھ کہے جو محمد رسول اللہ ﷺکے ساتھیوں نے کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ آگے بڑھئے ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۲؎ یہ ایمان ہے جو ہمارے اندر ہونا چاہئے اور یہی ایمان ہے جو قوموں کو زندہ رکھتا ہے۔ ہمیں دنیا کو بتا دینا چاہئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو بُری نگاہ سے دیکھنا آسان بات نہیں۔ جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا کوئی شخص آگے نہیں بڑھے گا اُس وقت تک وہ محمد رسول اللہ ﷺ کوبُرا بھلا نہیں کہہ سکے گا۔ یہ ایمان ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بناتا ہے اور یہی قربانی کی روح ہے جو مُردوں کو زندہ کر دیا کرتی ہے۔پس جماعت کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق اس کے اندر سستی اور غفلت کے جو آثار نظر آرہے ہیں ان کو دور کرے اور قربانیوں کے میدان میں اپنا قدم کبھی ڈھیلا نہ ہونے دے۔
مَیں تو سمجھتا ہوں کہ یہ ایک خدائی تدبیر تھی کہ اس نے مجھے غفلت میں رکھا اور اصل حقیقت اس وقت منکشف ہوئی جب تحریک جدید کی دس سالہ میعاد ختم ہونے کو آئی تم کچھ کہہ لو میرے ساتھ تو یہ بات بالکل ویسی ہی ہوئی جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی جنگ سے پہلے صحابہؓ سے فرمایا کہ باہرنکلو شاید دشمن کے تجارتی قافلہ سے مقابلہ ہو جائے یا شاید کفار کے لشکر سے ہی مقابلہ ہو جائے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ دراصل بدرکی جنگ میں نہ مسلمان لڑنے کی نیت سے نکلے تھے نہ کفار، کفار تو لشکر لے کر اِس لئے نکلے تھے کہ مسلمانوں کے رُعب کو مٹایا جائے اور مسلمان اِس لئے نکلے تھے کہ کفار کا علاقہ پر اثر نہ پڑے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کو اپنے ساتھ لے کر مدینہ سے باہر نکلے تو آپ کو الہام ہوا کہ دشمن کے لشکر سے ہی مقابلہ ہو گا مگر ابھی مسلمانوں کو آپ بتائیں نہیں۔ـچنانچہ جب وہ عین بدر کے موقع کے قریب پہنچ گئے تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ کفار کے لشکر سے مقابلہ ہو اَب بتاؤ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ صحابہؓ نے کہا یاَرَسُوْلَ اللہ! ارادہ کا کیا سوال ہے آپ حکم دیجئے ہم لڑنے کے لئے بالکل تیار ہیں۳؎۔ اب دیکھو نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے علم تھا کہ کفار سے مقابلہ ہونے والا ہے اور نہ صحابہؓ کو اِس بات کا علم تھا۔ جب عین بدرکے مقام پر جاپہنچے تب اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آپ نے صحابہؓ کو بتایا کہ خدا تعالیٰ انہیں مدینہ سے کس غرض کے لئے لایا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ کئی کمزور جو دوسرے موقع پر کمزوری دکھا جاتے عین موقع پر آکر بہادر بن گئے اور انہوں نے دین کیلئے اپنی جانیں قربان کردیں۔ اسی طرح تحریک جدید میں اللہ تعالیٰ نے ایک تدبیر کی میں پہلے یہی سمجھتا رہا کہ یہ بوجھ شاید دس سال تک ہی رہے گامگر آخر اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرما دیا کہ یہ قربانی جماعت کو ایک لمبے عرصہ تک کرنی پڑے گی۔ پس جماعت کا فرض ہے کہ وہ سستی اور غفلت کو دُور کرے اور اللہ تعالیٰ نے اسے قربانیوں کا جو موقع عطا فرمایا ہے اِس میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے۔ یہ کام ایسا ہے جو لاکھوں روپیہ کا تقاضا کرتا ہے اور جب ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا میں پھیلائیں گے اور اِسلام کے جلال اور اس کی شان کے اظہار کے لئے اپنی ہر چیز قربان کردیں گے تو ہمیں اِن تبلیغی سکیموں کے لئے جس قدر روپیہ کی ضرورت ہو گی اُس کو پورا کرنا بھی ہماری جماعت کا ہی فرض ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں صحیح طور پر تبلیغ اسلام کرنے کے لئے ہمیں لاکھوں مبلّغوں اور کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے۔
جب میں رات کو اپنے بستر پر لیٹتاہوں تو بسا اوقات سارے جہان میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے میں مختلف رنگوں میں اندازے لگاتا ہوں،کبھی کہتا ہوں ہمیں اتنے مبلّغ چاہئیں اور کبھی کہتا ہوں اتنے مبلّغوں سے کام نہیں بن سکتا اس سے بھی زیادہ مبلّغ چاہئیں یہاں تک کہ بعض دفعہ بیس بیس لاکھ تک مبلّغین کی تعداد پہنچا کر مَیں سو جایا کرتا ہوں۔ میرے اُس وقت کے خیالات کو اگر ریکارڈ کیا جائے تو شاید دنیا یہ خیال کرے کہ سب سے بڑا شیخ چلّی مَیں ہوں مگر مجھے اپنے ان خیالات اور اندازوں میں اتنامزہ آتا ہے کہ سارے دن کی کوفت دُور ہو جاتی ہے ۔مَیں کبھی سوچتا ہوں کہ پانچ ہزار مبلّغ کافی ہوں گے، پھر کہتا ہوں پانچ ہزار سے کیا بن سکتا ہے دس ہزارکی ضرورت ہے، پھر کہتا ہوں دس ہزار بھی کچھ چیز نہیں، جاوا میں اتنے مبلّغوں کی ضرورت ہے، سماٹرا میں اتنے مبلّغوں کی ضرورت ہے، چین اور جاپان میں اتنے مبلّغوں کی ضرورت ہے، پھر میں ہر مُلک کی آبادی کا حساب لگاتا ہوں، اُن کے اخراجات کا اندازہ لگاتا ہوں اور پھر کہتا ہوں یہ مبلّغ بھی تھوڑے ہیںاِس سے بھی زیادہ مبلّغوں کی ضروت ہے۔ یہاں تک کہ بیس بیس لاکھ تک مبلّغوں کی تعداد پہنچ جاتی ہے۔ اپنے اِن مزے کی گھڑیوں میں مَیں نے بیس بیس لاکھ مبلّغ تجویز کیا ہے۔ دنیا کے نزدیک میرے یہ خیالات ایک واہمہ سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں رکھتے مگر اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جو چیز ایک دفعہ پیدا ہو جائے وہ مرتی نہیں جب تک اپنے مقصد کو پورا نہ کرے۔ لوگ مجھے بے شک شیخ چلّی کہہ لیں مگر میں جانتا ہوں کہ میرے اِن خیالات کا خداتعالیٰ کی پیدا کردہ فضامیں ریکارڈ ہوتا چلا جارہا ہے اور وہ دن دُور نہیں جب اللہ تعالیٰ میرے اِن خیالات کو عملی رنگ میں پورا کرنا شروع کر دے گا۔آج نہیں تو آج سے ساٹھ یا سَو سال کے بعد اگر خدا تعالیٰ کا کوئی بندہ ایسا ہوا جو میرے اِن ریکارڈوں کو پڑھ سکا اور اُسے توفیق ہوئی تو وہ ایک لاکھ مبلّغ تیار کردے گا، پھر اللہ تعالیٰ کسی اَور بندے کو کھڑا کر دے گا جو مبلّغوں کو دو لاکھ تک پہنچا دے گا، پھر کوئی اور بندہ کھڑا ہو جائے گا جو میرے اس ریکارڈ کودیکھ کر مبلّغوں کو تین لاکھ تک پہنچا دے گا اس طرح قدم بقدم اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی لے آئے گا جب ساری دنیا میں ہمارے بیس لاکھ مبلّغ کام کررہے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے اس سے پہلے کسی چیز کے متعلق امید رکھنا بیوقوفی ہوتی ہے۔ میرے یہ خیال بھی اب ریکارڈ میں محفوظ ہو چکے ہیں اور زمانہ سے مٹ نہیں سکتے آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں میرے یہ خیالات عملی شکل اختیار کرنے والے ہیں اور اگر اِن خیالات کا اور کوئی فائدہ نہیں تو کم سے کم اتنا فائدہ تو سرِدست ہو ہی جاتا ہے کہ میرے دن بھر کی کوفت دور ہو جاتی اور آرام سے نیند آجاتی ہے اور اس میں جو مزہ مجھے حاصل ہوتا ہے اُس کا اندازہ کوئی اور شخص لگا ہی نہیں سکتا۔ یہ کام ہے جو ہمارے سامنے ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے کسی اور نے نہیں کرنا۔ اور پھر ہمارے لئے یہ کوئی سوال نہیں کہ ہم نے یہ کام کتنی قربانی سے کرنا ہے۔ بعض کام ایسے ہوتے ہیں جن کے کرتے وقت انسان یہ سوچ لیتا ہے کہ اِس پر وہ کس حد تک روپیہ خرچ کر سکتا ہے۔ اگر زیادہ روپیہ خرچ ہو تو وہ اس کام کے لئے تیار نہیں ہوتا مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ میں ایک ایسا گھوڑا خریدنا چاہتا ہوں کہ جس پر تین سَو روپیہ خرچ آتا ہو تو اِس کے صاف معنٰی یہ ہوں گے کہ اگر ساڑھے تین سَو روپیہ کوگھوڑا ملے گا تو میں نہیں لو ں گا۔ لیکن ہم تو یہ نہیں کہتے کہ اگر فلاں قربانی سے کام ہوا تو ہم کریں گے ورنہ نہیں کریں گے ہمارا یہ اقرار ہے کہ ہم اسلام کے لئے اپنی ہر چیز یہاں تک کہ اپنے مال، جان اور عزت کو بھی قربان کر دیں گے۔ کئی لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ کیا عزت اور آبرو کی قربانی بھی اسلام جائز قرار دیتا ہے؟ میں انہیں ہمیشہ یہ جواب دیا کرتا ہوں کہ ہاں اسلام کے لئے اگر عزت اور آبرو کو بھی قربان کرنا پڑے تو مؤمن کو یہ چیز قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ہزاروں اوقات انسانی زندگی میں ایسے آتے ہیں جب عزت اور آبرو خطرہ میں ہوتی ہے۔ دشمن ننگ و ناموس کو کچلنے کے لئے تیار ہوتا ہے مگر خدا اور اُس کے رسول کی طرف سے انسان پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں وہ اُسے مجبور کرتے ہیں کہ وہ عزت و آبرو کا قربان ہونا برداشت کرلے مگر اپنے فرائض میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہونے دے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب عرب میں ایک طرف جھوٹے مدعیانِ نبوت کا فتنہ اُٹھا اور دوسری طرف قبائلِ عرب میں ایسے باغی پیدا ہو گئے جنہوںنے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور شورش اس حد تک بڑھی کہ مدینہ پر حملہ کا خطرہ پیدا ہو گیا تو اُسوقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے ماتحت اُسامہ بن زیدؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر شام کی طرف عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے روانہ ہو رہا تھا۔حالات کی نزاکت دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور اُن سے کہا کہ اِس وقت باغیوں کی وجہ سے سخت خطرہ ہے اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں بہتر ہو گا کہ اسامہؓ کے لشکر کو روک لیا جائے اگر یہ لشکر بھی روانہ ہو گیا اور باغیوں نے مدینہ پر حملہ کر دیا تو ہماری عورتوں کی وہ بے حرمتی ہو گی کہ اَلْاَمَان۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا خدا کی قسم! اگر دشمن ہم پر غالب آ جائے اور مدینہ کی گلیوں میں کُتے ہماری عورتوں کی ٹانگیں گھسیٹتے پھر یں تب بھی میں اِس لشکر کو نہیں روکوں گا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ ہو نے کا ارشاد فرمایا ہے لشکر جائے گا اور ضرور جائے گا۔۴؎
اب دیکھو یہ اسلام کے لئے عزت اور آبرو کی قربانی تھی جسے پیش کرنے کے لئے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ فوراً تیارہوگئے۔ بیس پچیس ہزار کا لشکر مدینہ کی طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا اور صرف چند سَو آدمی مدینہ میں موجود تھے جو اُن کے مقابلہ کے لئے قطعاً کافی نہیں تھے۔ دس ہزار تجربہ کار سپاہیوں کا لشکر دشمن کو شکست دینے کیلئے موجود تھا مگر چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے شام کی طرف روانہ ہونے کا ارشاد فرما چکے تھے اس لئے حضرت ابو بکرؓ نے کہا کہ باوجود شدید خطرات کے یہ لشکر نہیں رُکے گااِسے ضرور بھیجا جائے گا خواہ مدینہ میں صرف بوڑھے، عورتیں اور بچے ہی رہ جائیں اور دشمن اس قدر غالب آجائے کہ عورتوں کی ٹانگیں مدینہ کی گلیوں میں کتے گھسیٹتے پھر یں۔ بھلا اس سے زیادہ عزت کی قربانی کیا ہوگی کہ شریف اور معزز عورتوں کی لاشیں مدینہ کی گلیوں میں روندی جائیں اور کتے اُن کی ٹانگیں گھسیٹتے پھریں۔
پس یقینا سچے ایمان کے ساتھ ہر انسان کو اپنی جان، اپنے مال، اپنی عزت، اپنی آبرواور اپنے احساسات غرض ہر چیز کی قربانی کے لئے پوری طرح تیار رہنا چاہئے۔ اگر ہم ان قربانیوں کے بغیر اپنی کامیابی کی امید رکھتے ہیں تو یہ امید بالکل غلط ہے۔ قربانیاں ہی ہیں جو قوموں کو کامیاب کرتی ہیں اور قربانیاں ہی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے جس دن ہماری جماعت قربانی کے انتہائی مقام پر پہنچ جائے گی اس دن وہ ایک پیارے بچے کی طرح خداتعالیٰ کی گود میں آجائے گی اورہماری ہر مصیبت اور تکلیف دیکھتے دیکھتے غائب ہو جائے گی۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ بچہ کو بعض دفعہ ماں اپنے ہاتھ میں چھری لے کر ڈراتی ہے اور کہتی ہے آؤ میں تمہیں ذبح کر دوں۔ جب بچہ اچھا کہہ کر چارپائی پر لیٹ جاتا ہے تو ماں اپنے گلے سے اُسے چمٹا لیتی اور اِتنے زور سے اسے چومتی ہے کہ اُس کے کَلّے سرخ ہو جاتے ہیں اِسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے محبت کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اُن کو قربانیوں کی بھڑکتی ہوئی آگ میں چھلانگ لگانے کا حکم دیتا ہے۔ جب مؤمن قربانی کے ارادہ سے اِس تنور میں اپنے آپ کو جھونک دیتے ہیں تو مَعاً اللہ تعالیٰ کی محبت جوش میں آتی ہے اور وہ اِس قدر پیار کرتا ہے کہ انہیں ہر مصیبت اور تکلیف بھول جاتی ہے۔ جب تک ہماری جماعت کے افراد اپنے دلوں میں قربانی کا اِسی قسم کا جذبہ پیدا نہیں کرتے اُس وقت تک وہ کسی قسم کی ترقی حاصل نہیں کر سکتے۔
پس میں جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں قربانی کے میدان میں اپنے قدم کو ڈھیلا نہیں بلکہ تیز تر کرتے چلے جانا چاہئے۔ اسی طرح صدر انجمن احمدیہ کے چندے بھی نہایت اہم ہیں جن کی ادائیگی میں جماعت کو پوری توجہ کے ساتھ حصہ لینا چاہئے۔ میںنے بتایا ہے کہ موجودہ حالت ایسی ہے کہ ہم اسلام کی جنگوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی روک نہیں سکتے ہمارا فرض ہے کہ ہم اِس جنگ کو جاری رکھیں اور اِس راہ میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ ہم میں سے ہر فرد کو یہ امر اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ دین کی ضرورتیں ہم سے ایک بڑی قربانی کا مطالبہ کر رہی ہیں اگرہم سستی اور غفلت سے کام لیں گے اور خدا تعالیٰ کے عائد کر دہ فرائض کو نظر انداز کر دیں گے تو ہم سے زیادہ مجرم اور کوئی نہیں ہوگا۔ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے اِس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اسلام جو اِس وقت مُردہ ہو رہا ہے اِسے اپنی کوششوں سے زندہ کریں اور اپنی تدابیر کو انتہائی کمال تک پہنچا دیں۔ میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کے رحم پر بھروسہ رکھتے ہوئے اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے بہت سی تدابیر اختیار کی ہیں اور کئی سکیمیں ہیں جن کا جماعت کے سامنے اعلان کر چکا ہوں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ان میں سے بھی بہتر تدابیر جماعت کی علمی، تجارتی، صنعتی اور اقتصادی ترقی کے لئے بتاسکے لیکن تمہیں اِس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اگر تم آسمان کی چوٹی پر بھی پہنچ جاؤتب بھی اسلام تمہیں یہی کہتا ہے کہ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِہٖ۵؎ تمہاری ڈھال تمہارا امام ہے اور تمہار ی تمام تر سلامتی محض اسی میں ہے کہ تم اُس کے پیچھے ہو کر جنگ کرو۔اگر تم اپنے امام کو ڈھال نہیں بناتے اور اپنی عقلی تدابیرکے ماتحت دشمن کا مقابلہ کرتے ہوتو تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کامیابی اسی شخص کے لئے مقدر ہے جو اسلام کی جنگ میری متابعت میں لڑے گا۔ پس ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کسی شخص کی ذاتی رائے تجارت کے معاملہ میں مجھ سے بہتر ہو یا صنعت و حرفت کے متعلق وہ زیادہ معلومات پیش کر سکتا ہو لیکن بہرحال جو اصولی سکیم میری طرف سے پیش ہو گی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسی میں برکت پیدا کی جائے گی اور وہی اس کے منشاء اور ارادہ کے ماتحت ہوگی۔ اگر تم اُس سکیم پر عمل کرو گے تو کامیاب ہو جاؤ گے اور اگر تم اُس سکیم کو نظر انداز کر کے اپنی ذاتی آراء کو مد نظر رکھو گے اور اپنے تجربہ اور ذاتی معلومات کو اپنا راہنما بناؤ گے تو تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکو گے۔ میں امید کرتا ہوں کہ جماعتیںاِن تمام باتوں کو پوری طرح ملحوظ رکھیںگی اور کوشش کریں گی کہ اُن کا قدم ترقی کی دَوڑ میں پہلے سے زیادہ تیز ہو۔
میں نے اپنی ایک نظم میں کہا ہے کہ
ہے ساعتِ سعدآئی اسلام کی جنگوں کی
آغاز تو مَیں کر دوں انجام خدا جانے
چنانچہ ایک خوشی تو اللہ تعالیٰ نے جلدنصیب کر دی کہ اس نے محض اپنے فضل سے وہ دن مجھے دکھا دیا جبکہ مبلّغین، اسلام واحمدیت کی اشاعت اور خداتعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کے اظہار کے لئے بیرونی ممالک میں جارہے ہیں۔ اب یہ خداتعالیٰ کی مرضی ہے کہ وہ اس کا انجام مجھے دکھائے یا نہ دکھائے، وہ بادشاہ ہے ہمارا اُس پر کوئی حق نہیں ہم اُس کے رحم اور فضل کے ہر آن طلب گار ہیں اور ہم اُس سے یہی کہتے ہیں کہ اے خدا! تیرے نام کی بلندی ہو اور تیرا جلال دنیا میں پوری طرح ظاہر ہو لیکن انجام خواہ میں دیکھوں یا نہ دیکھوں، ہمارے لڑنے والے سپاہی اپنے غنیم پر کبھی فتح حاصل نہیں کر سکتے جب تک ہم اُن کی مدد نہ کریں، جب تک ہم اُن کے لئے سامان مہیا نہ کریں اور جب تک ہم اُن کے قائم مقام تیار کرنے کی کوشش نہ کریں۔پس جماعت کا فرض ہے کہ وہ ہر قسم کی قربانیوں میں حصہ لے کر اس بوجھ کو اُٹھانے کی کوشش کرے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس پر عائد کیا گیا ہے اور اِس طرح نہ صرف تحریک جدید، وقف زندگی، وقف تجارت اور صنعت وحرفت وغیرہ تحریکات کو کامیاب کرے بلکہ صدر انجمن احمدیہ کے چندوں میں بھی کسی قسم کی کمی نہ آنے دے۔
تحریک جدید کے چندہ کے سلسلہ میں مَیں دوستوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہر احمدی جس نے دفتر اوّل میں حصہ لیا ہے اُسے کوشش کرنی چاہئے کہ کم از کم ایک آدمی دفتر دوم میں حصہ لینے والا کھڑا کرے۔ جس طرح آپ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ آپ کی جسمانی نسل جاری رہے اِسی طرح آپ لوگوںکو یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ آپ کی روحانی نسل جاری رہے۔ اور روحانی نسل کو بڑھانے کا ایک طریق یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو تحریک جدید کے دفتر اوّل میں حصہ لے چکا ہے وہ عہد کرے کہ نہ صرف آخر تک وہ خود پوری باقاعدگی کے ساتھ اس تحریک میں حصہ لیتا رہے گا بلکہ کم سے کم ایک آدمی ایسا ضرور تیار کرے گا جو دفتر دوم میں حصہ لے اور اگر وہ زیادہ آدمی تیار کر سکے تو یہ اور بھی اچھی بات ہے۔ دنیا میں لوگ صرف ایک بیٹے پر خوش نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ اُن کے پانچ پانچ، سات سات بیٹے ہوں جس طرح دنیامیں لوگ اپنے لئے پانچ پانچ، سات سات بیٹے پسند کرتے ہیں اِسی طرح ہر شخص کو یہ کوشش کر نی چاہئے کہ وہ تحریک جدید کے دفتر دوم میںحصہ لینے والے پانچ پانچ، سات سات نئے آدمی تیار کرے۔ پھر دوسرے دفتر میں حصہ لینے والا ہر شخص کوشش کرے کہ وہ تیسرے دفتر کے لئے پانچ پانچ، سات سات آدمی کھڑے کرے اور تیسرے دفتر میں حصہ لینے والا شخص کوشش کرے کہ وہ چوتھے دفتر کے لئے پانچ پانچ، سات سات آدمی تیار کرے تاکہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے اور اِس روپیہ سے تبلیغ کے نظام کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جا سکے۔ اگر دوست زیادہ آدمی تیار نہ کرسکیں تو کم از کم ہر شخص کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ دفتر دوم کے لئے ایک آدمی ضرور تیار کرے ورنہ روحانی لحاظ سے وہ بے نسل سمجھا جائے گا اور دین کی اشاعت کا کام جو اُس نے شروع کیا تھا وہ اُس کی ذات کے ساتھ ہی منقطع ہو جائے گا۔
پس جماعت کو دفتر دوم کی طرف بھی خصوصیت کے ساتھ توجہ کرنی چاہئے۔ تحریک جدید کے دَورِ اوّل میں حصہ لینے والوں میں سے ہر فرد کا دفتردوم کے لئے کم ازکم ایک آدمی تیار کرناایسا ہی ہے جیسے روحانی اولاد کی زیادتی میںحصہ لینا ۔اِس طرح قیامت تک یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چلتا جائے گا اور جماعت کے لئے دائمی ثواب اور خدا تعالیٰ کے قرب کا ایک دائمی رستہ کھلا رہے گا۔
اللہ تعالیٰ اگر انسان کو توفیق عطا فرمائے تو وہ ایک چھوٹے سے چھوٹے لفظ اور ایک چھوٹے سے چھوٹے اشارہ سے بھی وہ کچھ سمجھ لیتا ہے جو بڑی بڑی کتابوں اور تقریروں سے بھی اُسے حاصل نہیں ہوتا۔ یہی وہ مقام ہے جس میں انسان شیطانی حملہ سے کُلّی طور پر محفوظ ہو جاتا ہے اور روحانی میدان میں وہ کسی طرح شکست نہیں کھا سکتا۔ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ یہ بات بیان کی ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل بہت بڑے عالم تھے اور آپ ساری عمر ہی درس و تدریس میں مشغول رہے۔ اور پھر مجھے بھی آپ نے بڑی شفقت اور محبت کے ساتھ پڑھایا اور میری تعلیم کا خاص طور پر خیال رکھا لیکن اصل سبق جو انہوں نے مجھے دیا اور جس کو میں آج تک نہیں بھولا وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ پر توکّل کر کے انسان کو اسی سے علوم سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ اپنی ذات میں ایک ایسا نکتہ ہے کہ اس کے لئے میں اُن کا جتنا بھی ممنون ہوں کم ہے اور جتنا بھی اس نصیحت پر عمل کیا جائے تھوڑا ہے۔
مجھے یا د ہے حافظ روشن علی صاحب اور میں دونوں حضرت خلیفہ اوّل سے پڑھا کرتے تھے بعض اور دوست بھی ہمارے اس سبق میں شریک تھے۔ حافظ صاحب کی عادت تھی کہ وہ بات بات پر بال کی کھال اُدھیڑنے کی کوشش کرتے تھے۔ ابھی ہم نے بخاری کا سبق شروع ہی کیا تھا اور صرف دو چار سبق ہی ہوئے تھے کہ حضرت خلیفہ اوّل ان کے سوالوں سے تنگ آ گئے۔ وہ سبق کو چلنے ہی نہیں دیتے تھے پہلے ایک اعتراض کرتے اور جب حضرت خلیفہ اوّل اس کا جواب دیتے تو وہ اس جواب پر اعتراض کر دیتے۔ پھر جواب دیتے تو جواب الجواب پر اعتراض کر دیتے اور اِس طرح اُن کے سوالات کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ کہتے ہیں خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ میری عمر اُس وقت بیس اکیس سال کی تھی اور طبیعت بھی تیز تھی۔ حافظ صاحب کو سوالات کرتے دیکھا تو میں نے خیال کیا کہ میں کیوں پیچھے رہوں۔ چنانچہ چوتھے دن میں نے بھی سوالات شروع کر دیئے۔ ایک دن تو حضرت خلیفہ اوّل چپ رہے مگر دوسرے دن جب میں نے بعض سوالات کئے تو آپ نے فرمایا حافظ صاحب کے لئے سوالات کرنے جائز ہیں تمہارے لئے نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا۔ دیکھو! تم بڑی مدت سے مجھ سے ملنے والے ہو اور تم میری طبیعت سے اچھی طرح واقف ہو کیا تم کہہ سکتے ہو کہ میں بخیل ہوں یا کوئی علم میرے پاس ایسا ہے جسے میں چھپا کر رکھتا ہوں؟ میں نے کبھی کوئی بات دوسروں سے چھپا کر نہیں رکھی جو کچھ آتا ہے وہ بتا دیا کرتا ہوں۔ اب خواہ تم کتنے اعتراض کرو، میں نے تو بہرحال وہی کچھ کہنا ہے جو میں جانتا ہوں اس سے زیادہ میں کچھ بتا نہیں سکتا۔ اب کسی بات کے متعلق دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو جو بات میں نے بتائی ہے وہ معقول ہے تم اسے سمجھے نہیں اور یا پھر جو بات میں نے بتائی ہے وہ غلط ہے اور تمہارا اعتراض درست ہے۔ اگر تو جو کچھ میں نے بتایا ہے وہ غلط ہے تو یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ میں بددیانتی سے تم کو دھوکا دینے کے لئے کوئی بات نہیں کہتا میں جو کچھ کہتا ہوں اسے صحیح سمجھتے ہوئے ہی کہتا ہوں۔ ایسی صورت میں خواہ تم کتنے اعتراض کرو میں تو وہی کچھ کہتا چلا جاؤں گا جو میں نے ایک دفعہ کہا اور اگر میں نے جو کچھ کہا ہے وہ درست ہے تو اس پر اعتراض کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسی حالت میں اگر تم اعتراض کرو گے تو اس سے تمہاری طبیعت میں ضد پیدا ہوگی کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس لئے میری نصیحت یہ ہے کہ تم سوالات نہ کیا کرو بلکہ خود سوچنے اور غور کرنے کی عادت ڈالو۔ اگر کوئی بات تمہاری سمجھ میں آجائے تو اسے مان لیا کرو اور اگر سمجھ میں نہ آئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرو کہ وہ خود تمہیں سمجھائے اور اپنے پاس سے علم عطا فرمائے۔ اس نصیحت کے بعد مَیں نے پھر حضرت خلیفہ اوّل سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا۔ کچھ دن گزرے تو آپ نے حافظ صاحب کو بھی ڈانٹ دیا کہ وہ دورانِ سبق سوالات نہ کیا کریں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے روزانہ بخاری کا آدھ آدھ پارہ پڑھنا شروع کر دیا۔ بے شک اور علوم بھی ہم پڑھتے تھے لیکن بہرحال آدھ پارہ روزانہ تبھی ختم ہو سکتا ہے جب طالب علم اپنے منہ پر مُہر لگالے اور وہ فیصلہ کرلے کہ میں نے استاد سے کچھ نہیں پوچھنا۔ جو کچھ وہ بتائے گا اسے سنتا چلا جاؤں گا۔ پس علمِ حقیقی جوہر قسم کے شبہات و و ساوس کا ازالہ کر سکتا ہو اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے اور وہی قوم دنیا میں علم کو وسیع طور پر پھیلا سکتی ہے جس کا خدا تعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق ہو کہ خدا تعالیٰ اسے اپنے پاس سے علم سکھائے اور اس کی ہر مشکل کو دور کرے۔
میں بچہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ابھی زندہ تھے کہ میں نے ایک رؤیا دیکھا جو میں نے بارہا سنایا ہے مگر وہ رؤیا ایسا ہے کہ اگر میں اُسے لاکھوں دفعہ سناؤں تب بھی کم ہے اور اگر تم اسے لاکھوں دفعہ سنو تب بھی کم ہے، پھر اگر تم لاکھوں دفعہ سُن کر اس پر لاکھوں دفعہ غور کرو تب بھی اس کی اہمیت کے لحاظ سے یہ کم ہوگا۔ مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک جگہ کھڑا ہوں مشرق کی طرف میرا منہ ہے کہ یکدم مجھے آسمان سے ایسی آواز آئی جیسے پیتل کا کوئی کٹورا ہو اور اُسے انگلی سے ٹھکور دیں تو اُس میں سے ٹن کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ مجھے بھی ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے کٹورے کو انگلی ماری ہے اور اس میں سے ٹن کی آوازپیدا ہوئی ہے۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ آواز پھیلنی اور بلند ہونی شروع ہوئی جیسا کہ آوازیں ہمیشہ جو میں پھیلا کرتی ہیں۔ پہلے تو وہ آواز مجھے سمٹی ہوئی معلوم ہوئی مگر پھر دُور دُور تک پھیلنی شروع ہوگئی جب وہ آواز تمام جو میں پھیلنے لگی تو میں نے ایک عجیب بات یہ دیکھی کہ وہ آواز ساتھ ہی ساتھ ایک نظارہ کی شکل میں بدلتی چلی گئی۔ گویا وہ خالی آواز ہی نہ رہی بلکہ ساتھ ہی ایک نظارہ بھی پیدا ہو گیا۔ رفتہ رفتہ آواز بھی غائب ہوگئی اور صرف نظارہ رہ گیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ نظارہ سمٹ سمٹا کر تصویر کا ایک فریم بن گیا۔ اُس فریم کو میں حیران ہو کر دیکھنے لگا کہ عجیب تماشا ہے کہ پہلے آسمان سے ایک آواز پیدا ہوئی، پھر وہ آواز جو میں پھیلی، پھیل کر نظارہ بنی اور پھر اس نظارے نے تصویر کے ایک چوکھٹے کی صورت اختیار کر لی۔ اس فریم کی درمیانی جگہ خالی ہے گتے تو لگے ہوئے ہیں مگر تصویر کوئی نہیں۔ مَیں اس فریم کو حیرت سے دیکھنے لگا کہ یہ بات کیا ہے کہ اس فریم میں کوئی تصویر نہیں۔ مگر ابھی کچھ لمبا وقفہ نہیں گزرا تھا کہ میں نے دیکھا کہ اس فریم کے اندر ایک تصویر نمودار ہوگئی ہے۔ اِس پر مَیں زیادہ حیران ہوا اور مَیں نے غور کرنا شروع کیا کہ یہ کس کی تصویر ہے۔ ابھی میں اس پر غور ہی کر رہا تھاکہ تصویر ہلنی شروع ہوئی اور پھر تھوڑی دیر کے بعد یکدم اس میں سے ایک وجود کُود کر میرے سامنے آ گیا اور اُس نے مجھے کہا کہ میں خدا کا فرشتہ ہوں کیا مَیں تم کو سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں۔ مَیں نے کہا اگر تم مجھے سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھا دو تو اور کیا چاہئے۔ اُس نے کہا تو پھر سنو۔ چنانچہ مَیں بھی کھڑا ہوں اور وہ بھی۔ اُس نے تفسیر بیان کرنا شروع کر دی اور مَیں اسے سنتا رہا۔ جب وہ ۶؎پر پہنچا تو کہنے لگا آج تک جس قدر مفسرین نے تفسیریں لکھی ہیں اُن سب نے صرف اس آیت تک تفسیر لکھی ہے۔ آگے تفسیر نہیں لکھی۔ مجھے خواب میں فرشتہ کی اس بات پر حیرت محسوس ہوتی ہے مگر زیادہ حیرت نہیں۔ جاگتے ہوئے تو اگر کوئی شخص ایسی بات کہے تو دوسرا فوراً شور مچانے لگ جائے کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ مفسرین نے تو سارے قرآن کی تفسیریں لکھی ہیں مگر خواب میں مجھے فرشتہ کی اس بات پر حیرت نہیں ہوتی اور مَیں سمجھتا ہوں کہ ایسا ہی ہوگا۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ میں تمہیں آگے بھی تفسیر سکھاؤں؟ میں نے کہا ہاں سکھاؤ۔ چنانچہ اس نے۷؎ تک ساری تفسیر سکھا دی اور میری آنکھ کھل گئی۔ اُس وقت مجھے فرشتہ کی سکھائی ہوئی باتوں میں سے دو تین باتیں یاد تھیں لیکن چونکہ دو تین بجے کا وقت تھا مَیں بعد میں پھر سو گیا نتیجہ یہ ہوا کہ جب مَیں دوبارہ اُٹھا تو مجھے ان باتوں میں سے کوئی بات بھی یاد نہ رہی۔ صبح اُٹھ کر میںحضرت خلیفہ اوّل کے پاس پڑھنے کے لئے گیا، اُس وقت حضرت خلیفہ اوّل مجھے طب پڑھایا کرتے تھے، بخاری غالباً ابھی شروع نہیں کی تھی یا شاید شروع کی ہوئی ہو (مجھے اب صحیح طور پر یاد نہیں) میں نے آپ سے کہا کہ آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھائی گئی ہے۔ چنانچہ میں نے اس رؤیا کو بیان کرنا شروع کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ یہ رؤیا سنتے وقت حضرت خلیفہ اوّل کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگ گیا۔ جب رؤیا ختم ہوا تو آپ نے فرمایا اُن باتوں میں سے کچھ ہمیں بھی سناؤ جو فرشتہ نے تمہیں سکھائی ہیں۔ میں نے کہا دو تین باتیں مجھے یاد تھیں مگر چونکہ بعد میں مَیں سو گیا اس لئے وہ باتیں مجھے یاد نہیں رہیں۔ اِس پر حضرت خلیفہ اوّل ناراض ہو کر فرمانے لگے تم نے بڑی غفلت کی کہ فرشتہ کی سکھائی تفسیر کو بُھلا دیا۔ اگر تمہیں ساری رات بھی جاگنا پڑتا تو تمہیں چاہئے تھاکہ تم جاگتے اور اُن باتوں کو لکھ لیتے، سونے کے بعد تو خواب بدل جایا کرتا ہے۔ اُس وقت میرے دل میں بھی ندامت پیدا ہوئی اور مجھے احساس ہوا کہ اگر میں فرشتہ کی بتائی باتوں کو لکھ لیتا تو اچھا ہوتا کیونکہ پہلے کسی اور تاویل کی طرف میرا ذہن نہیں جاتا تھا مگر بعد میں مَیں نے دیکھاکہ اللہ تعالیٰ کا متواتر میرے ساتھ یہ سلوک ہے کہ جب میں سورہ فاتحہ پر غور کروں تو وہ ہمیشہ اس سورۃ کے نئے مطالب مجھ پر کھولتا ہے۔ ابھی گزشتہ سال اللہ تعالیٰ نے اسلام کی اقتصادی، سیاسی اور تمدنی ترقی کے متعلق سورہ فاتحہ سے ایک لمبا مضمون مجھے بتایا۔ وہ مضمون اپنی ذات میں اس قدر اہم اور عظیم الشان ہے کہ اگر اس کو پوری طرح سمجھ لیا جائے تو ان تمام مفاسد کو کامیاب طور پر ردّ کیا جاسکتا ہے جنہوں نے آج دنیا کو نئی قسم کی مشکلات میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ گویا سورہ فاتحہ صرف روحانی ترقی کے ذرائع ہی بیان نہیں کرتی بلکہ اس میں ہر قسم کے فلسفی، سیاسی اور اقتصادی جھگڑوں کے دور کرنے کے ذرائع بھی بیان کئے گئے ہیں اور ایسے طریق بتائے گئے ہیں جن پر چل کر دجال کی ظاہری شان و شوکت کو مٹایا جا سکتا ہے۔
بہرحال ایک لمبے عرصہ سے اللہ تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ سلوک چلا آ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ سورۃ فاتحہ کے نئے حقائق مجھ پر روشن فرماتا ہے یہاں تک کہ دنیا کا کوئی اہم مسئلہ نہیں جس کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے میں نے سورۃ فاتحہ پر غور کیا اور مجھے اس کا صحیح حل اس سورۃ سے نہ مل گیا ہو۔ جس وقت میں نے یہ رؤیا دیکھا میری عمر ۱۷ سال تھی اور اب میری عمر ستاون ۵۷ سال ہے گویا چالیس سال اس رؤیا پر گزر چکے ہیں۔ اس چالیس سالہ عرصہ میں کبھی ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ دشمن نے کوئی اعتراض کیا ہو اور اس کا جواب تفصیلی طور پر قرآن کریم سے معلوم نہ ہوا تواجمالی طور پر سورہ فاتحہ سے نہ مل گیا ہو اور میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایسا متواتر اور مسلسل سلوک ہے کہ اس کے خلاف کبھی ایک دفعہ بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے سورۃ فاتحہ پر غور کیا ہو تو اس کے بیسیوں نئے مضامین مجھ پر نہ کھولے گئے ہوں۔ بے شک کچھ مضامین ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمیشہ دُہرانے پڑتے ہیں مگر ان مضامین کے علاوہ جب بھی میں نے سورہ فاتحہ پر غور کیا ہے ہمیشہ کچھ نہ کچھ زائد مضامین بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے عطا کئے گئے ہیں۔
تفسیر کبیر کی پہلی جلد جب میں نے لکھنی شروع کی تو اُس وقت میں چاہتا تھا کہ سورہ فاتحہ کی تفسیر کو تیس چالیس صفحات میں ہی ختم کر دیا جائے کیونکہ میرا منشاء یہ تھا کہ چھوٹے چھوٹے تفسیری نوٹوں کے ساتھ جلد سے جلد سارا قرآن کریم شائع کر دیا جائے۔ پس چونکہ ارادہ یہ تھا کہ مختصر نوٹ ہوں اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ سورہ فاتحہ کی تفسیر کو تیس چالیس صفحات تک ہی محدود رکھا جائے اور چونکہ پُرانے مضامین ہی اس کثرت کے ساتھ ہیں کہ اگر ان کو لکھا جائے تو وہ تیس چالیس صفحات میں نہیں آ سکتے اس لئے میں نے سمجھا کہ اس تفسیر کے لئے کسی نئے مضمون کی ضرورت نہیں پُرانے مضامین ہی کافی ہیں مگر لکھتے لکھتے مجھے خیال آیا کہ اگر اللہ تعالیٰ اِس وقت بھی کوئی نیا نکتہ سمجھا دے تو یہ اس کا فضل اور احسان ہوگا۔ چنانچہ اِدھر میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی اور اُدھر فوری طور پر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے سورہ فاتحہ کے چند ایسے نئے نکات سمجھا دیئے جو پہلے کبھی ذہن میں نہیں آئے تھے اور جو نہایت اہم اور اصولی نکتے تھے جن کا سلسلہ اور اسلام کی ترقی کے ساتھ گہرا تعلق تھا چنانچہ میں نے ان نکات کو بھی تفسیر میں درج کر دیا۔ غرض میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ سلوک چلا آ رہا ہے کہ وہ غور کرنے پر سورہ فاتحہ کے نئے سے نئے مطالب مجھ پر روشن فرماتا ہے اور درحقیقت علم وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو بندہ آخر دوسرے کو کتنا سکھا سکتا ہے معمولی معمولی ضرورتیں بھی تو انسان پورے طور پر دوسرے کو نہیں بتا سکتا۔ پھر علمی اور اخلاقی اور روحانی ضرورتیں کوئی انسان دوسرے کو کس طرح بتا سکتا ہے اور کس طرح کوئی انسان دوسرے کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ میں آجکل بیمار ہوں میں نے دیکھا ہے بعض دن مجھ پر ایسے گزرتے ہیں کہ نہ میں پیشاب کے لئے جا سکتا ہوں نہ پاخانہ کے لئے، چارپائی پر ہی پاٹ رکھنا پڑتا ہے اور حالت ایسی ہوتی ہے کہ نہ دائیں کروٹ بدل سکتا ہوں نہ بائیں بالکل سیدھا لیٹا رہتا ہوں اور ۱۰،۱۰،۱۲،۱۲ بلکہ بعض دفعہ ۲۴،۲۴ گھنٹہ تک یہی حالت رہتی ہے۔ اگر اس دَوران میں افاقہ بھی ہو تو بہت معمولی ہوتا ہے ایسی حالت میں اگر بیوی بعض دفعہ تھوڑی دیر کے لئے بھی اپنے کسی کام کے لئے جانا چاہے اور وہ کہے کہ اگر کوئی ضرورت ہوتو مجھے بتا دیں تو میں نے دیکھا ہے دو چار منٹ کی ضرورتیں بھی پورے طور پر نہیں بتائی جا سکتیں۔ بعض دفعہ خیال آتا ہے کہ کوئی ضرورت نہیں مگر اس کے جاتے ہی کئی قسم کی ضرورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بعض دفعہ کہا جاتا ہے صرف دوائی پاس رکھ دو اور کسی چیز کی ضرورت نہیں مگر بعد میں خیال آتا ہے کہ ایک ضروری خط لکھنا تھا اس کے لئے قلم چاہئے مگر اُس وقت کوئی ایسا شخص قریب نہیں ہوتا جسے قلم پکڑانے کے لئے کہا جائے۔ جب چھوٹی چھوٹی ضرورتیں بھی انسان دوسرے کو پورے طور پر نہیں بتا سکتا تو دین کے معاملہ میں کون شخص ایسا ہو سکتا ہے جو اوّل سے آخر تک تمام باتیں دوسروں کو بتا سکے۔ اگر دوسروں کی بتائی ہوئی باتوں پر ہی انسان اپنا انحصار رکھے اور خدا تعالیٰ سے اس کا ذاتی تعلق نہ ہو تو عملی زندگی میں اس کی یہی حالت رہے گی کہ
دیکھ لو سرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھ لو۔ آپ نے قرآنی احکام کی کس قدر تشریح کی ہے اور کس کثرت کے ساتھ آپ نے اپنی اُمت کو روحانی مسائل سکھائے ہیں مگر باوجود ان تمام تشریحات کے ہر زمانہ میں نئے سوال پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کے لئے کوئی نیا مثیل محمدؐ پیدا ہوتا ہے اور وہ لوگوں کے پیدا کردہ شبہات و وساوس کا ازالہ کرتا ہے اور یہ سنت اللہ ایسی ہے جو ہر زمانہ میں جاری رہتی ہے۔ ہر زمانہ کی الگ الگ ضرورتیں ہوتی ہیں اور ہر زمانہ میں دشمنانِ اسلام کی طرف سے نئے نئے اعتراضات کئے جاتے ہیں اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں ان کے اعتراضات کے جوابات اور اسلام کے احیاء کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئے مثیل محمدؐ پیدا ہوں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم جس قدر باتیں بیان کرتے ہیں وہ قرآن کریم میں موجود ہوتی ہیں، احادیث سے ان کی تائید ہوتی ہے، آئمہ سلف کی شہادت ان کے حق میں موجود ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ ہم اپنے پاس سے وہ باتیں بتاتے ہیں ہم جو کچھ مال پیش کرتے ہیں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہی مال ہوتا ہے مگر بہرحال ہر زمانہ کے مفاسد کے لحاظ سے پرانی باتوں کو نئے الفاظ میں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ دشمن اپنے اعتراضات کی کمزوری سے واقف ہو کر شرمندہ ہو اور چونکہ اعتراضات ہمیشہ بدلتے چلے جاتے ہیں اور کوئی ایک شخص تمام باتیں پورے طور پر نہیں بتا سکتا اس لئے اصل چیز جس کی طرف ایک مؤمن کو ہمیشہ توجہ رکھنی چاہئے یہ ہے کہ اس کا اللہ تعالیٰ سے براہِ راست تعلق پیدا ہو جائے تا کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے پاس سے اسے علم سکھائے دوسرے انسانوں کی احتیاج جاتی رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی جماعت زندہ نہیں رہ سکتی اور کوئی جماعت کامیاب طور پر اپنے فرائض کو ایک لمبے عرصہ تک ادا نہیں کر سکتی جب تک اُس کے افراد میں یہ تڑپ نہ ہو کہ ہمارا خداتعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق ہو جائے کہ خدا کا پیار ہمیں حاصل ہو، ہم اس کے نام پر فدا ہونے والے ہوں اور وہ ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہو۔ جب تک یہ تعلق مضبوط سے مضبوط تر نہ ہوتا چلا جائے اور محبتِ الٰہی اپنے کمال کو نہ پہنچ جائے اُس وقت تک کوئی انسان تنزّل سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ نجات اسی کے لئے ہے جس نے اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کی اور پھر اس محبت کو اس حد تک بڑھایا کہ اس کے رگ و ریشہ میں اس کا اثر سرایت کر گیا۔
دوسری بات جس کی طرف مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ تمہیں اس بات پر کامل یقین اور ایمان رکھنا چاہئے کہ خواہ دنیا تمہاری کس قدر مخالفت کرے اور تمہاری کامیابی کے راستہ میں کس قدر روڑے اٹکائے تم نے بہرحال جیتنا ہے۔ اگر تم میں سے کسی شخص کے دل میں یہ وسوسہ ہے کہ اس نے نہیں جیتنا تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ بھی اسے احمدی نہیں سمجھتا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے احمدی نہیں سمجھتے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسے احمدی نہیں سمجھتے اور میں بھی اسے احمدی نہیں سمجھتا۔ جس شخص کے دل میں ایک لمحہ کے لئے بھی یہ وسوسہ پیدا ہو جائے کہ ہم دنیا کے مقابلہ میں ہار جائیں گے، دنیا جیت جائے گی اور ہم اپنے مقصد میں ناکام رہیں گے وہ ہرگز احمدی نہیں اور اس نے قطعاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد اور اس کی بعثت کی غرض کو نہیں سمجھا۔ جس شخص کے آنے کی اُمت محمدیہ کے تمام اولیاء خبر دیتے چلے آئے ہیں، جس شخص کے آنے کی گزشتہ انبیاء تک نے خبریں دی ہیں اور جس شخص کے آنے کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا آنا قرار دیا ہے اگر اُس نے بھی دنیا کے مقابلہ میں ہارجانا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہار گئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا ہار نہیں سکتے اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہار نہیں سکتے تو آپ کا مثیل کیسے ہار سکتا ہے۔ پس ہم نے یقینا جیتنا ہے مگر ہم کس طرح جیتیں گے؟ یہ ابھی عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ فتح اور غلبہ کے حصول کے لئے جس انتہائی اخلاص اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ بہ تمام و کمال ابھی ہمارے پاس نہیں یا اگر ہے تو جماعت کے افراد اس سے پوری طرح کام نہیں لیتے۔ ہماری جماعت میں بے شک قربانی کی بہت بڑی روح پائی جاتی ہے اور یہ قربانی اور ایثار کا مادہ اس حد تک ہماری جماعت میں پایا جاتا ہے کہ جب میں اپنی جماعت کی بعض قسم کی قربانیوں کو دیکھتا ہوں یا جب میں اپنی جماعت کے بعض افراد کی قربانیوں کودیکھتا ہوں تو مجھے حیرت آتی ہے کہ ایسے مواد کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے میں کیوں دیر ہو رہی ہے اور کیوں ہماری جماعت کو موجودہ حالت سے بہت بڑھ کر ترقی حاصل نہیں ہوتی۔ لیکن جب میں اپنی جماعت کے کمزور طبقہ پر اپنی نگاہ دَوڑاتا ہوں اور قومی کاموں میں اس کی کمزوری اور غفلت کا مشاہدہ کرتا ہوں تو مجھے حیرت آتی ہے کہ جماعت کو وہ ترقی ملی کیوں جو اِسے حاصل ہے۔ گویا میری حالت بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسے آئینہ خانہ میں جانے والے کی ہوتی ہے۔ جس طرح وہ حیران و پریشان سا ہو جاتا ہے اسی طرح میں بھی جب جماعت کے بعض لوگوں کی یا تمام جماعت کی بعض قسم کی قربانیوں کو دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اس ایثار اور قربانی کے باوجود ہماری جماعت نے کیوں موجودہ حالت سے بہت زیادہ ترقی نہیں کی اور کیوں الٰہی مدد اور اس کی نصرت کے نزول میں دیر ہو رہی ہے؟ لیکن جب میں بعض لوگوں کی کمیِ اخلاق اور ان سے ناقص اعمال کو دیکھتا ہوں اور دینی معاملات میں ان کی غفلت اور کوتاہی پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس قسم کے کمزور طبقہ کے ہوتے ہوئے ہماری جماعت کو جو ترقی ہوئی ہے وہ کیسے ہوئی ہے۔ بہرحال خواہ کمزور طبقہ کی کمزوری اور اس کی غفلت جماعت کیلئے کس قدر اندوہناک ہو یہ یقینی اور قطعی امر ہے کہ ہم نے دنیا پر غالب آنا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم نے کس ذریعہ سے اور کن طریقوں سے جیتنا ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ اسلام کی اس فتح اور غلبہ میں ہمارا اور ہمارے عزیزوں کا کس قدر حصہ ہوگا میں تمہارے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا کہ تم اپنے دلوں میں کیا خیالات رکھتے ہو لیکن میں اپنے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ میرے دل میں یقینا یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اسلام اور احمدیت کو جو فتح حاصل ہونے والی ہے اس میں میرا اور میری اولاد اور میرے پیاروں کا بھی حصہ ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت اخلاص کے اُس بلند مقام تک نہیں پہنچی جس کے بعد کوئی لغزش انسانی قدم کو متزلزل نہیں کر سکتی۔ اگر تم سارے کے سارے اپنے دل میں یہ سمجھتے ہو کہ ہماری جماعت کا ہر فرد مخلص ہے تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہ خیال درست نہیں۔ اگر تم اپنے دماغ کا تجزیہ کرو، اپنے اعمال پر نظر ڈالو اور سلسلہ کے لئے جو کچھ تم سے مطالبات کئے جارہے ہیں اُن پر غور کرتے ہوئے اپنی قربانیوں کو دیکھو تو تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ تم میں سے ہر فرد مخلص نہیں۔ کئی چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی پیدا ہو جاتی ہیں جن سے سلسلہ سے حقیقی اخلاص اور محبت رکھنے والا کبھی ٹھوکر نہیں کھاسکتا مگر جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان باتوں پہ ٹھوکر کھا جاتے ہیں اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جماعت کا ہر فرد مخلص ہے یا ہر فرد سلسلہ کے لئے قربانی کرنے کا انتہائی جذبہ اپنے دل میں رکھتا ہے لیکن بہر حال ایسے لوگ منہ سے تو میری طرف ہی اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں اور ان کی کمزوریاں جماعت کے دوسرے طبقہ پر اثر انداز ہوتی ہیں اس لئے ہم ان کی اصلاح سے غافل نہیں ہو سکتے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ رات کو جب مجھے اپنی جماعت کے اس کمزور طبقہ کا خیال آتا ہے تو میری نینداُڑ جاتی ہے اور میں گھنٹوں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ خدایا! میں کیا کروں اور کس طرح اس طبقہ کی اصلاح کروں؟ میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے میں ان کے دلوں کے گند کو دور کر سکوں۔ انسانی طاقت میں کسی کی اصلاح کے جس قدر ذرائع میں استعمال کرتا ہوں۔ میں تعلیمِ قرآن بھی دیتا ہوں، میں قربانی کی روح پیدا کرنے کے لئے تقریریں بھی کرتا ہوں اور شاید میں نے اتنی تقریریں کر لی ہیں کہ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو بڑے سے بڑے مصنّف کی کتابوں سے بھی بڑھ جائیں اور بیسیوں مجلدات اُن سے تیار ہوجائیں مگر باوجود ان تمام باتوں کے ابھی ایک طبقہ ایسا ہے جس کے دل میں دین کی اشاعت کے لئے وہ دُھن اور جنون نہیں جو صحابہ کے اندر پایا جاتا تھا۔
دیکھو کامیابی حاصل کرنے کا ایک گُر یہ ہوتا ہے کہ قوم کی اکثریت درست ہو جائے تو وہ اقلیت پر غالب آجایا کرتی ہے یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھُمُ اقٖتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ۸؎ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چل پڑو تم ہدایت پا جاؤ گے۔ اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی اکثریت کو ہدایت یافتہ قرار دیا ہے اور بِاَیِّھُمْ میں اسی طرف اشارہ ہے ورنہ مسلمانوں میں بعض منافق بھی تھے اور اس کا خود احادیث سے پتہ چلتا ہے مگر چونکہ کثرت ایسی تھی جس کی اصلاح ہو چکی تھی اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے فرمایا اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھُمُ اقٖتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے تمہیں نظر آجائے گا کہ وہ خدا کے ساتھ چل رہا ہے اس لئے ممکن ہی نہیں کہ تم گمراہ ہو جاؤ۔اصل بات یہ ہے کہ ہدایت خداتعالیٰ سے ملتی ہے اور وہی شخص دوسروں کے لئے ہدایت کا موجب بن سکتا ہے جس کا خدا تعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق ہو کہ اسکی کوئی حرکت اور اس کا کوئی فعل اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے احکام کے خلاف نہ ہو۔ پس چونکہ قطعی ہدایت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس لئے دوسروں کے لئے بھی ہدایت کا موجب وہی شخص ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ چل رہا ہو اور جس کی نگاہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف ہی اُٹھتی ہو۔ اورچونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ خدا تعالیٰ کے پیچھے چل رہے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ میرے صحابہؓ اللہ تعالیٰ سے کیسا مضبوط تعلق رکھتے ہیں اس لئے آپ نے فرمایا میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں ان کی اکثریت ہدایت پر قائم ہے اس لئے تم ان میں سے جس شخص کے پیچھے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پا جاؤ گے کیونکہ وہ خدا کے پیچھے چل رہا ہے یہ جماعت ہے جو جیتا کرتی ہے اور ایسی ہی جماعت کی ہمیں ضرورت ہے جب تک اِس قسم کی جماعت پیدا نہ ہو اُس وقت تک خواہ دس ہزار عالم روزانہ پانچ پانچ سات سات تقریریں کرتے رہیں دنیا میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہو سکتا لیکن جس دن یہ جماعت پیدا ہو جائے گی اس دن تم میں سے ہر شخص عالم ہو گا، تم میں سے ہر شخص عارف ہو گا اور تم میں سے ہر شخص کو خدا تعالیٰ اپنے پاس سے علم سکھائے گا۔ہم نے دیکھا ہے بعض دفعہ معمولی عورتوں کے منہ سے ایسی ایسی معرفت کی باتیںنکلتی ہیں کہ ان کو سُن کر دل خوشی سے اُچھلنے لگ جاتا ہے۔ میں نے خود بعض جاہل اور اَن پڑھ مردوں سے دین کے ایسے ایسے نکات سُنے ہیں کہ میں نے ان کا گھنٹوں اپنے دل میں مزہ اُٹھایا ہے کیونکہ ظاہری لحاظ سے جاہل اور اَن پڑھ ہونے کے باوجود اُن کا خدا سے تعلق تھا اور خدا نے ان کو اپنے پاس سے علم سکھایا۔
پس حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑی چیز تعلق باللہ ہے جب کوئی شخص سچے دل سے خدا کا ہو جائے اور وہ اپنی تمام خواہشات اور ارادوں کو اس کے لئے ترک کر دے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ضرور نئے علوم سکھائے جاتے ہیں اور وہ معرفت اور حکمت میں ترقی کرتے ہوئے کہیں کا کہیں جا پہنچتا ہے۔ موجودہ بیماری میں مجھے جماعت کے متعلق سب سے زیادہ احساس اس بات کا رہا ہے کہ ہماری جماعت کے افراد کا خدا تعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ خود اسے اپنے پاس سے علم سکھائے اور اس کی ہر ضرورت کو پوراکرے۔یہ بیماری عام طور پر لمبی چلتی اور بار بار دورہ کرتی ہے خصوصاً اس عمر میں جس مَیں سے میں گذر رہا ہوں۔ اگر کسی کو یہ مرض ہو جائے تو عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہ مرض دور نہیں ہوتا اِس بناء پر میرے لئے یہ مسئلہ اِس بیماری میں اور بھی اہم ہو گیا اور اس پر غورکرنا میرے لئے ضروری ہوگیا۔ مَیںہمیشہ ہی اس مسئلہ کو سوچتا رہا ہوں کہ آخر ایک دن ایسا آئے گا جب میرا کام ختم ہو جائے گا اس دن سے پہلے پہلے اگر میں اس اصلاح میں کامیاب ہو جاؤں جو جماعتی ترقی کے لئے ضروری ہے اور جس کے بعد جماعت کا قدم اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی تنزّل کی طرف نہیں جا سکتا تو یہ میرے لئے انتہائی خوشی کا مقام ہوگا۔ میں نے قدم بقدم خدا تعالیٰ سے دعائیں اور استمداد کرتے ہوئے مختلف راستے تجویز کئے اور رفتہ رفتہ میں نے ان راستوں کو جماعت کے سامنے پیش کیا مجھے خوشی ہے کہ جماعت نے میری اُن تجاویز پر ایک حد تک عمل کیا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسی برکت عطافرمائی کہ وہ اپنی تعداد اور اپنے وقار کے لحاظ سے کہیں سے کہیں جاپہنچی کجا تو یہ حالت تھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں جو آخری سالانہ جلسہ ہوا اُس میں شامل ہونے والوں کی کل تعداد سات سَو تھی اور حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی میں جو آخری سالانہ جلسہ ہوا اس میں شامل ہونے والوں کی کل تعداد تیرہ سَو تھی اور کُجا یہ حالت ہے کہ اب ہمارے جلسہ کی حاضری اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۳۴،۳۵ ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے گویا حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کے زمانہ میں آخری جلسہ سالانہ پر جس قدر آدمی آئے تھے اُن سے ۲۵ گنا زیادہ آدمی آج ہمارے سالانہ جلسہ میں موجود ہیں اور یہ تعداد ایسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال زیادتی ہوتی چلی جاتی ہے۔ میں نے بارہا کہاہے گو میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں تقریر کرنے کے بعد یہاں سے زندہ اُٹھوں گا یا نہیں مگر جو کچھ میں کہتا ہوں( اور میں وہی کچھ کہتا ہوں جو مجھے خدا تعالیٰ نے کہا)وہ یہ ہے کہ میرے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کے لئے غلبہ اور ترقی اور کامیابی ہی مقدر ہے اور کوئی اس الٰہی تقدیر کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا اس بات پر خواہ کوئی ناراض ہو،شور مچائے، گالیاں دے یا بُرا بھلا کہے اس سے خدائی فیصلہ میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا ۔ یہ تقدیرمبرم ہے جس کا خدا آسمان پر فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ میری زندگی کے آخری لمحات اور میرے جسم کے آخری سانس تک جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھاتا چلا جائے گا۔ جس طرح خدا کی بادشاہت کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا اس طرح خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے وعدہ کو بھی کوئی شخص بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ یہ زمین وآسمان کے خدا کا وعدہ ہے کہ بہرحال میری زندگی میں جماعت کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ میں نہیں جانتا کہ میرے بعد کیا ہوگا مگر بہر حال یہ خدائی فیصلہ ہے میری زندگی میں کوئی انسانی طاقت اس سلسلہ کی ترقی کو روک نہیں سکتی۔ خدا نے اس جماعت اور سلسلہ کی ترقی کو میری ذات سے وابستہ کر دیا ہے اور اُس نے اپنے نام اور اپنی طاقت اور اپنے جلال کے اظہار کے لئے مجھے چُن لیا ہے باوجود اس بات کے کہ میں ایک نہایت کمزور اور جاہل انسان ہوں خدا نے اپنے نام کی اشاعت اور اپنے جلال کے اظہار کو میرے نام کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے جس طرح لکڑی کے تختہ پر کوئی بادشاہ یا شہزادہ سوار ہو جائے تو جب لکڑی کا تختہ پانی میں تیرے گا لازماً بادشاہ بھی اُس کے ساتھ ہی اِدھر اُدھر ہو گا اُس وقت کوئی شخص حقارت کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ اٹھنی کا تختہ ہے اور میں اسے توڑ پھوڑ دوں کیونکہ اُس تختہ پر بادشاہ سوار ہوتا ہے اور اس لکڑی کو چھیڑنے کے معنٰی تخت شاہی کو چھیڑنے کے ہوتے ہیں اسی طرح وہ شخص جو مجھ کو چھیڑے گا وہ مجھ کو نہیں بلکہ عرشِ الٰہی کو چھیڑے گا کیونکہ خدا نے اپنے جلال کا اظہار میرے نام سے وابستہ کر دیا ہے۔ لیکن بہرحال میں نے ایک دن مرنا ہے دنیامیںکوئی شخص عارضی اور فانی کاموں کے متعلق بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ اس کی موت کے ساتھ ختم ہو جائیںپھر جو چیز بمنزلہ جان اور روح ہو اس کے متعلق کون شخص پسند کر سکتا ہے کہ وہ اُس کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو جائے۔ خدا تعالیٰ کے نام کی بلندی اور اس کے جلال کا اظہار ہر مؤمن کی جان اور اُس کی روح ہے پھر کوئی مؤمن یہ کس طرح برداشت کر سکتا ہے کہ میں مروں تو خدا تعالیٰ کا نام بھی دنیا سے مٹ جائے اِسی طرح میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا نام صرف میرے ساتھ وابستہ نہ ہو بلکہ خداتعالیٰ کا نام تمہارے ساتھ وابستہ ہو جائے کیونکہ انسان مر سکتا ہے مگر قوم نہیں مر سکتی۔ جب کوئی نام کسی قوم کے ساتھ وابستہ ہو جائے تو پھر وہ چلتا چلا جاتا ہے اور قوم کے بیٹے نسلاً بعد نسلٍ اُس مقدس امانت کے حامل بنتے چلے جاتے ہیں۔ درحقیقت فرد کے ساتھ کسی چیز کی وابستگی قومی لحاظ سے کوئی بڑا کمال نہیں ہوتا۔ قومی لحاظ سے بڑائی تبھی ہوتی ہے جب قوم سے اللہ تعالیٰ کا نام وابستہ ہو جائے اسی لئے مجھے ہمیشہ یہ تڑپ رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت تمہارے دلوں میں پیدا ہو جائے اور اس سے سچا اور مخلصانہ تعلق تم کو حاصل ہو اور مَیں اس غرض کے لئے ہمیشہ کئی قسم کی کوششیں کرتا رہا ہوں۔ میں نے ہزاروں راستے اور ہزاروں ذرائع تمہارے سامنے رکھے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ان ذرائع پر عمل کر کے سینکڑوں اور ہزاروں مخلص بھی پیدا ہوئے مگر پھر بھی ہماری جماعت میں حقیقی اخلاص کی ابھی کمی ہے جس کے لئے مَیں اللہ تعالیٰ سے متواتر دعائیں کرتا رہتا ہوں۔
اب اس موقع پر مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ یاد رکھو کہ میری موت یا حیات تو کوئی چیز ہی نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موت بڑی چیز تھی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ان سے بھی بڑی چیز تھی مگر اس حقیقت کے باوجود میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اگر جماعت حقیقی ایمان پر قائم ہو اور وہ خدا تعالیٰ سے سچا اور مضبوط تعلق رکھتی ہو تو کسی بڑے سے بڑے نبی کی وفات بھی اس کے قدم کو متزلزل نہیں کر سکتی بلکہ بعض برکات اور ترقیات ایسی ہوتی ہیں جو انبیاء کی وفات کے بعد قوم کو حاصل ہوتی ہیں بشرطیکہ قوم صحیح رنگ میں ایمان پر قائم ہو۔ پس اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرو اور اپنے نفوس میں ایسا تغیر رونما کرو کہ تمہارے دلوں میں یہ بات گڑ جائے کہ ہم نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ سے وابستہ کرناہے اور اس کی محبت اور پیار کو حاصل کرنا ہے۔ جب کسی کو خدا تعالیٰ کی محبت حاصل ہو جائے تو پھر نصیحت کی آواز خود انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے بیرونی نصیحتوں کی اُسے ضرورت نہیں رہتی۔
ہماری جماعت کو یہ امر بھی کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہ مقدر کر رکھا ہے کہ ہم اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب پر غالب کریں مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچانے کے لئے دنیا کے تمام ممالک میں اپنے مبلّغین پھیلانے کی کوشش کریں۔ میں ایک لمبے غورکے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگرہم صحیح طور پر تبلیغ کرنا چاہیں تو فی مرکز ہمیں کم از کم چھ مبلّغ رکھنے چاہئیں۔ یہ تعداد اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور ایک وسیع علاقہ میں چھ مبلّغین کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن پھر بھی اگر بیج کے طور پر ہم اپنی تبلیغ کو دنیا میں پھیلانا چاہیں تو اس سے کم میں ہمارا گزارہ نہیں ہو سکتا۔ یہ چھ مبلّغ جو ایک علاقہ کے لئے تجویز کئے گئے ہیں اس سے مراد کوئی چھوٹا علاقہ نہیں بلکہ سرِدست ہمارے مد نظر یہ ہے کہ اگر ہم یونائٹیڈسٹیٹس امریکہ جیسے وسیع مُلک میں اپنا مرکز قائم کریں تو وہاں بھی اپنے چھ مبلّغ رکھیں حالانکہ وہاں کی آبادی بارہ کروڑ ہے اور وہ ہندوستان سے دو گنامُلک ہے۔ اسی طرح ہم یہ چھ مبلّغ آسٹریلیا کے لئے تجویز کر رہے ہیں حالانکہ وہ ہندوستان سے تگنا علاقہ ہے لیکن بظاہر یہ تعداد خواہ کس قدر ناکافی ہو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم جو بھی مشن قائم کریں اُس کو کامیاب طور پر چلانے کے لئے ایک علاقہ میں ابتدائی طور پر چھ مبلّغ رکھیں۔ ان چھ مبلّغین میں سے ایک تو ایسا ہوگا جس کا کام یہ ہوگا کہ وہ مرکز میں بیٹھ کر رات دن کام کرے جو لوگ ملنے کے لئے آئیں ان سے تبادلۂ خیالات کر ے۔ انہیں سلسلہ کے حالات بتائے۔ مکان اور مسجد وغیرہ دکھائے اور ان کے شبہات کا ازالہ کرے گویا وہ مرکزی انچارج ہو گا۔
دوسرے مبلّغ کا یہ کام ہو گا کہ وہ علمی طبقہ سے اپنے تعلقات رکھے اور انہیں احمدیت کی خصوصیات وغیرہ سے آگاہ کرتا رہے۔ مثلاً جو لوگ عربی یا فارسی جاننے والے ہوں یااسلامی اصول سے دلچسپی رکھتے ہوں یا مثلاً پادری وغیرہ جو مذہبی آدمی سمجھے جاتے ہیں ایسے تمام لوگوں سے اس کے تعلقات ہوں۔ اسی طرح علمی اداروں میں اس کی آمدورفت ہواور وہ مُلک کے تعلیم یا فتہ طبقہ سے اچھے تعلقات رکھنے والا ہوتا کہ علمی حلقہ میں احمدیت کو مقبولیت حاصل ہو اور لوگوں کے دلوں میں جووساوس پائے جاتے ہیں اُن کا ازالہ ہو۔
تیسرا مبلّغ ایسا ہو گا جس کا کام یہ ہوگا کہ بڑے بڑے اور بااثر لوگوں سے اپنے تعلقات رکھے اور مُلک کے اندر جو ان کی پارٹیاں پائی جاتی ہوں ان کے خیالات کو درست رکھنے کی کوشش کرے۔ یہ کام اپنی ذات میں نہایت اہم اور جماعت کی ترقی کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھنے والا ہے۔ اس مبلّغ کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ بڑے بڑے لوگوں سے اپنے تعلقات رکھے تاکہ مُلک کے ہر طبقہ میں اس کے دوست موجود ہوں اور جب بھی کوئی بات احمدیت کے خلاف ہو یا گورنمنٹ کسی غلط فہمی کی بناء پر کوئی ناجائز قدم اُٹھانے لگے تو خود مُلک کے سربرآوردہ لوگ اس کے شبہات کا ازالہ کرنے کے لئے آگے بڑھیں اور وہ لوگوںکو بتا سکیں کہ احمدیت کیا چیز ہے اور وہ دنیا میں کیا تغیر پیدا کرنا چاہتی ہے۔
چوتھے آدمی کا یہ کام ہوگاکہ وہ مُلک بھر کی یونیورسٹیوں سے اپنے تعلقات بڑھائے۔ درحقیقت یونیورسٹیاں مُلک میں خیالات پھیلانے کا گڑھ ہوتی ہیں اور وہی مبلّغ کامیاب ہو سکتے ہیں جو اس نکتہ کو سمجھتے ہوئے یونیورسٹیوں سے اپنے تعلقات زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کریں۔ ہر طالب علم جو کسی سکول یا کالج میں تعلیم پاتا ہے اُسے چونکہ نئے نئے علوم پڑھائے جاتے ہیں اور نئی سے نئی باتیں اُس کے کانوں میں پڑتی ہیں اس لئے اُس کے قلب میں ترقی کا غیرمعمولی جذبہ ہوتا ہے اور وہ خیال کرتاہے کہ پہلوں نے کیا ترقی کی ہے مَیں ایسے ایسے علوم پھیلاؤں گا اور ایسی ایسی ایجادات کروں گا کہ دنیا محو حیرت ہو جائے گی۔ ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ دنیا میں ایسے گزرے ہیں جو مرے تو ایسی حالت میں کہ ایک کلرک سے زیادہ ان کی حیثیت نہیں تھی مگر طالب علمی کے زمانہ میں وہ سمجھتے تھے کہ ہم بادشاہ نہ بنے تو وزیر بننا تو کوئی بات ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ طلباء کے قلوب میں ایک غیر معمولی اُمنگ ہوتی ہے، ان کے خیالات میں بلندی ہوتی ہے اور نئی نئی باتیں سننے اور پھر اُن باتوںکے سیکھنے کا انہیں بے حد شوق ہوتا ہے۔ خود حضرت مسیح موعودؑ پر بھی ابتداء میں زیادہ تر طالب علم ایمان لائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ابتداء میں زیادہ تر وہی لوگ ایمان لائے جو نوجوان تھے۔ بڑی عمر والے حضرت ابوبکرؓ ہی تھے مگر حضرت ابو بکرؓ جب سَوا دو سال کی خلافت کے بعدفوت ہوئے تب وہ اُس تریسٹھ سال کی عمر تک پہنچے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی گویا وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں اڑھائی سال کے قریب چھوٹے تھے۔پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے اور انہوں نے ساڑھے دس سال خلافت کرنے کے بعد ۶۳سال کی عمر میں انتقال کیا۔حضرت ابو بکرؓ کے خلافت کے سَوا دو سال اور حضرت عمر کی خلافت کے ساڑھے دس سال جمع ہو جائیں تو یہ تیرہ سال کا عرصہ بنتا ہے اور چونکہ وہ نبوت کے چھٹے سال ایمان لائے تھے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیس سالہ عہدِ نبوت میں سے چھ سال نکال دئیے جائیں تو سترہ سال رہ جاتے ہیں۔ سترہ سال یہ اور تیرہ سال وہ گویا تیس سال انہوں نے اسلام کی خدمات سرانجام دیں اور چونکہ ان کی وفات تریسٹھ سال میں ہوئی ہے اس لئے معلوم ہوا کہ اسلام لانے کے وقت ان کی عمر ۳۳ سال تھی۔ اسی طرح حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ سترہ سترہ سال کے تھے جب ایمان لائے اور حضرت علی گیارہ سال کے تھے جب انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا نصیب ہوا گویا اسلام کی جڑ اور ستون سب ایسے لوگ ہی ثابت ہوئے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے وقت نوجوان تھے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ اُمنگوں کا زمانہ ہوتا ہے اور انسانی خیالات کی پرواز بہت بلند ہوتی ہے اگر نوجوانوں کو کسی سچائی کا پتہ لگ جائے تو پھر وہ کسی مصیبت اور تکلیف کی پرواہ نہیں کرتے وہ کہتے ہیں ہم مر جائیں گے مگر سچائی کو قبول کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔پس نوجوان طبقہ تک ہمارا اپنی آواز کو پہنچانا نہایت ضروری ہے جس کا طریق یہی ہے کہ ایک مبلّغ ایسا ہو جس کا یونیورسٹیوں سے تعلق ہواور وہ نوجوان طبقہ کو احمدیت کی طرف متوجہ کرتا رہے۔
پانچواں مبلّغ ایسا ہو گا جس کا تجارت سے تعلق ہو گا اور اُس کا فرض ہو گا کہ وہ سلسلہ کے تبلیغی اخراجات کو زیادہ سے زیادہ تجارت کی آمدسے پورا کرنے کی کوشش کرے۔ یہ کام اپنی ذات میں نہایت اہم ہے اور اس کو وسیع طور پر پھیلا کر نہ صرف سلسلہ کے اخراجات کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے بلکہ اس سلسلہ کے اخراجات کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے بلکہ سلسلہ کے لئے نئی آمد بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کام پر جو مبلّغ مقر ہو گا اس کا صرف یہی کام نہیں ہو گا کہ وہ اپنے علاقہ میں تجارت کرے بلکہ اس کایہ کام بھی ہوگا کہ وہ دوسرے ممالک سے تجارتی تعلقات قائم کرے۔ مثلاًانگلستان کا مبلّغ کوشش کرے کہ وہ ایران میں اشیاء بھجوائے یا عرب میں ان کی کھپت کا انتظام کرے اور ایران والا کوشش کرے کہ وہ انگلستان میں چیزیں پہنچائے اس طرح تجارت کو وسیع کرنا، ایک مُلک کے دوسرے مُلک سے تجارتی تعلقات قائم کرنا اور سلسلہ کے اخراجات کو زیادہ سے زیادہ پورا کرنے کی کوشش کرنا اس کا کام ہوگا ۔
چھٹا مبلّغ پراپیگنڈا کے لئے وقف ہو گا اور اس کا فرض ہو گا کہ وہ اخباروں سے تعلقات رکھے جو JOURNALISMکا امتحان پاس کرے،پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرے اور اپنے تعلقات اور دوستیوں کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کی کوشش کرے۔ ہم نے دیکھا ہے اَور تو اَور یورپ جیسے ممالک میں جہاں ایک ایک اخبار کی اشاعت دس دس لاکھ تک ہوتی ہے منہ دیکھے کا لحاظ ہوتا ہے اور چائے کی ایک پیالی اتنا کام کرجاتی ہے جتنا کام بیسیوں روپوں سے نہیں ہوسکتا۔ غرض ایک مبلّغ اشاعت کے لئے وقف ہونا چاہئے اور اُس کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ مصنّفین سے تعلقات رکھے۔ اخبارات اور رسالوں کے مالکوں اور ان کے ایڈیٹروں وغیرہ سے میل جول رکھے اور اس طرح احمدیت کا اثر ان پر قائم کرنے کی کوشش کرے۔ جب تک کسی مرکز میںاس قسم کے چھ مبلّغین نہ رکھے جائیں اور بیک وقت الگ دائرہ میں اپنا کام شروع نہ کریں اُس وقت تک صحیح معنوں میں اشاعتِ اسلام نہیں ہو سکتی۔ گو حقیقت یہ ہے کہ کسی مُلک میں چھ مبلّغین کا موجود ہونا بھی تبلیغی نقطئہ نگاہ سے کسی طرح کافی نہیں سمجھا جاسکتا۔لاہور جیسے شہر میں بھی اگر چھ مبلّغ رکھے جائیں تو وہ سب لوگوں کو پوری طرح تبلیغ نہیں کر سکتے۔ مگر ہم نے بعض علاقوں میں صرف ایک مبلّغ رکھا ہوا ہے اور جب وہ لوگ کسی اور مبلّغ کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہم نے تجھے ایک مبلّغ دیا ہوا ہے حالانکہ واقعہ یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی ہرگز صحیح طور پر تبلیغ نہیں کرسکتا مگر مرکز اس قسم کا جواب دینے پر مجبورہوتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک دفعہ حضرت ابوعبیدہؓ نے لکھا کہ عیسائیوں نے لشکر اسلام پر سخت حملہ کر دیا ہے ان کا کئی لاکھ لشکر ہے اور اسلامی لشکر صرف چند ہزار ہے دشمن کا کامیاب مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم آٹھ ہزار سپاہی ہمیں مدد کے لئے بھجوائے جائیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا تمہارا خط پہنچا جس میں تم نے آٹھ ہزار فوج اپنی مد د کے لئے مانگی ہے میں معدی کرب کو بھیجتا ہوں یہ تین ہزار کاقائم مقام ہے باقی پانچ ہزار سپاہی بھی عنقریب بھیج دئیے جائیںگے۔صحابہؓ کا ایمان بھی دیکھو جب حضرت عمرؓ کا یہ خط پہنچا تو انہوں نے افسوس نہیں کیا کہ عمرؓ نے ہمارے مطالبہ کا کیا جواب دیا ہے بلکہ جب معدی کرب آئے تو حضرت ابوعبیدہؓ نے لشکرِ اسلام سے کہا کہ معدی کرب جن کو حضرت عمرؓ نے تین ہزار کا قائم مقام قرار دیا ہے آرہے ہیںان کا استقبال کرنے چلو۔چنانچہ جب معدی کرب پہنچے تو لشکرِاسلام نے اس زور سے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے نعرے بلند کئے کہ دشمن نے سمجھا مسلمانوں کو کمک پہنچ گئی ہے اور وہ ڈر کر کئی مقامات سے خودبخود پیچھے ہٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے معدی کربوں کی فوج کے سپاہی بھی اب یکے بعد دیگرے اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے باہر جانے شروع ہوگئے ہیں جن کی کوششوں کے نتیجہ میں ہماری جماعت مختلف ممالک میں اب پہلے سے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کر رہی ہے اور اس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چنانچہ مختلف ممالک سے اس قسم کی کئی خوشخبریاں ہمیں مل رہی ہیں مثلاً انگلستان میں پہلے یہ حالت ہوا کرتی تھی کہ کسی ہسٹیریا کی ماری ہوئی عورت کو اگر عیسائیت میں اطمینان حاصل نہ ہوا تو وہ اسلام کی آغوش میں آگئی یا کسی عورت کا کوئی معشوق بھاگ گیا اور اُسے اپنی زندگی دوبھر معلوم ہونے لگی اور پھراس دوران میں اس نے ہمارے مبلّغ کو کہیں تقریر کرتے دیکھ لیا اور اُس نے سمجھا کہ شاید خدا کی پناہ میں مجھے اطمینان حاصل ہو جائے چنانچہ وہ آتی اور اسلام قبول کر لیتی۔ اسی طرح اگر کوئی مرد بھی اسلام قبول کرتا تو ایسا ہی ہوتا جو سوسائٹی کا مارا ہوا ہوتا سوائے تین چار کے جو اچھے طبقہ سے تعلق رکھتے تھے مگر اب نسبتاً زیادہ معقول اور باحیثیت لوگ احمدیت میں شامل ہو رہے ہیں۔
مَیں ہمیشہ اپنے اُن مبلّغوں کو جنہیں یورپ میں تبلیغ کے لئے بھیجا جاتا ہے کہا کرتا ہوں کہ تمہیں عورتوں کی بجائے مردوں کو زیادہ تبلیغ کرنی چاہئے کیونکہ یورپ میں عورتیں مردوں سے تین گناہیں اور اس وجہ سے اُن میں ہسٹیریاکا مرض زیادہ پایا جاتا ہے اگر عورتوں کی طرف توجہ کی جائے تو زیادہ تر ایسی عورتیں ہی اسلام کی طرف آتی ہیں جو ہسٹیریکل ہوتی ہیں اور ہمارامبلّغ اپنی غلطی سے یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ مجھے بہت بڑی کامیابی ہو رہی ہے حالانکہ ان کی توجہ محض ہسٹیریا کا نتیجہ ہوتی ہے۔
مَیں جب پہلی دفعہ یورپ گیا تو ایک عورت نے بڑے شوق سے ہماری مجالس میں آنا شروع کر دیا۔ وہ ہر دوسرے تیسرے روز آجاتی اور آدھ آدھ گھنٹہ تک باتیں کرتی رہتی۔ ہمارے دوست کہتے کہ یہ عورت اسلام سے بہت دلچسپی رکھتی ہے ضرور مسلمان ہو جائے گی مگر آخر مہینہ کے بعد وہ ایک دن برنارڈشاہ کی ایک کتاب میرے پاس لائی اور کہنے لگی میں نے بہت کوشش کی تھی کہ آپ کو برنارڈشاہ کا مرید بنا لوں مگر آ پ نہ بنے یہ اس کی کتاب ہے میں آپ کو مطالعہ کے لئے دینا چاہتی ہوں اسے آپ ضرور پڑھیں ۔مَیں نے اپنے دوستوں سے کہا لو تم تو کہتے تھے کہ یہ عورت مسلمان ہو جائے گی مگر یہ تو اُلٹا مجھے برنارڈشا کا مرید بنانا چاہتی ہے غرض پہلے زیادہ تر عورتیں ہی اسلام کی طرف توجہ کیا کرتی تھیں مگر اب جو نئے مبلّغ بھجوائے گئے ہیں ان کو میں نے خاص طور پر یہ ہدایات دی ہیں کہ وہ یونیورسٹیوں سے تعلقات رکھیں، مذہبی لوگوں سے واقفیت پیدا کریں، اخباروں اور رسالوں والوں سے میل جول رکھیں، مصنفوں سے تعلقات بڑھائیں اور تجارت کے ذریعہ سلسلہ کی آمد میں اضافہ کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اس کے بغیر ہم اپنی تبلیغ کو وسیع نہیں کر سکتے۔ پھر صرف انگلستان میں ہی نہیں بلکہ اور ممالک میں بھی احمدیت کی ترقی کے آثار خدا تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہو رہے ہیں بلکہ ایسے علاقوں میں بھی احمدیت پھیلنی شروع ہوگئی ہے جہاں پہلے باوجود کوشش کے ہمیں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ ملایا میں یا تویہ حالت تھی کہ مولوی غلام حسین صاحب ایاز کو ایک دفعہ لوگوں نے رات کو مار مار کر گلی میں پھینک دیا اور کُتے اُن کو چاٹتے رہے اور یا اب جو لوگ ملایا سے واپس آئے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ اچھے اچھے مالدار ہوٹلوں کے مالک معزز طبقہ کے ستّر اسّی کے قریب دوست احمدی ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ روز بروز ترقی کر رہا ہے، جاوا اورسماٹرا سے جو اطلاع آئی ہے اس میں بھی یہی لکھا ہے کہ آگے کی نسبت تبلیغ کے راستے زیادہ کھل رہے ہیں غرض یہ ایک اہم موقع ہے جس سے ہمیں فائدہ اُٹھانا چاہئے اب ہم ویسے ہی مقام پر کھڑے ہیں جیسے قصہ مشہور ہے کہ پُرانے زمانہ میں ایک دیوارِ قہقہہ ہوا کرتی تھی جو بھی اُس پر چڑھ کر دوسری طرف جھانکتا وہ قہقہہ لگاتے ہوئے اُسی طرف چلا جاتاواپس آنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ہم بھی اس وقت ایک دیوارِ قہقہہ کے نیچے کھڑے ہیں جو شخص جرأت کر کے اس دیوار کی دوسری طرف جھانکے گا اس کا دل دنیا سے ایسا سرد ہو جائے گا کہ پھرواپس لوٹنے کا نام نہیں لے گا اور کامیابی ہمارے قدم چوم لے گی۔
(الفضل ربوہ جلسہ سالانہ نمبر۱۹۶۰ء)
کچھ عرصہ ہوا میں نے جماعت کے دوستوں کو بعض تحریکات کی تھیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ ان پر عمل کئے بغیر جماعت کُلّی طور پر کبھی ترقی نہیں کر سکتی مگرافسوس ہے کہ جماعت نے ان کی طرف پوری توجہ نہیں کی اب میں پھر دوستوں کو ان تحریکات کی طرف توجہ لانا چاہتا ہوں۔ ان میں سے ایک تحریک تو یہ ہے کہ ہر جگہ قرآن کریم کے درس جاری کئے جائیں اور کوشش کی جائے کہ جماعت کا ہر فرد قرآن کریم کا ترجمہ جانتاہو۔ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں کا یہ کام ہے کہ وہ جماعت کی نگرانی رکھیں اور دیکھیں کہ ان میں سے کون کون لوگ قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے۔ پھر جو لوگ ایسے ہوں ان کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا جائے اور اس بارہ میں اس قدر تعہّد سے کام لیا جائے کہ جماعت کا کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے جو قرآن کریم کا ترجمہ نہ جانتا ہو اور جولوگ قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہوں ان کے متعلق کوشش کرنی چاہئے کہ انہیں دوسرے علوم سے واقفیت پیدا ہو۔
پھر میں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ چونکہ دنیوی تعلیم بھی نہایت اہم چیز ہے اس لئے جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے افراد کا جائزہ لے اور کوشش کرے کہ جماعت کاکوئی لڑکا ایسا نہ ہو جو کم از کم پرائمری پاس نہ ہو، پھر جو لڑکے پرائمری پاس ہوں اُن کے متعلق کوشش کرنی چاہئے کہ وہ مڈل تک تعلیم حاصل کریں، جن کی تعلیم مڈل تک ہے اُن کے متعلق کوشش کریں کہ وہ انٹرنس پاس کریں اور جو لڑکے انٹرنس پاس ہیں ان کے متعلق کوشش کریں کہ وہ کالج میں داخل ہوں اور ایف۔اے یا بی۔ اے پا س کریں۔غرض تعلیم کو ترقی دینا ہماری جماعت کا اہم ترین فرض ہے۔ اس طرح ایک طرف تو خود ان کے ایمان میں مضبوطی پیدا ہوگی اور دوسری طرف جماعت کی طاقت اور اس کی قوت میں بھی اضافہ ہو گا۔ پس میں جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ فوراً اس قسم کے نقشے پُر کر کے نظارت میں بھجوائیں کہ ہر جماعت میں پانچ سے بیس سال تک کی عمر کے کتنے لڑکے ہیں؟ ان میں سے کتنے پڑھتے ہیں اور کتنے نہیں پڑھتے۔ اور جو پڑھتے ہیں وہ کون کونسی جماعت میں پڑھتے ہیں، پھر جو نہیں پڑھتے ان کے والدین کو تحریک کی جائے کہ وہ انہیں تعلیم دِلوائیں اور کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ لڑکے سکولوں میں تعلیم حاصل کریں اور ہائی سکولوں میں پاس ہونے والے لڑکوں میں سے جن کے والدین صاحبِ استطاعت ہوں ان کو تحریک کی جائے کہ وہ انہیں یہاں کالج میں پڑھنے کے لئے بھیجیں تا کہ ہماری جماعت دُنیوی تعلیم کے لحاظ سے بھی دوسروں پر فوقیت رکھنے والی ہو۔
تیسری تحریک جو کچھ عرصہ سے میں جماعت کو کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کو اب تجارت کی طرف زیاہ توجہ کرنی چاہئے۔ میں نے بارہا بتایا ہے کہ تجارت ایسی چیز ہے کہ اس کے ذریعہ دنیا میں بہت بڑا اثرورسوخ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے دو نوجوان افریقہ گئے ایک کو ہم نے کہا کہ تمہیں خرچ کے لئے ہم ۲۵ روپے ماہوار دیں گے مگر دوسرے سے ہم نے کہا کہ تمہارے اخراجات برداشت کرنے کی ہمیں توفیق نہیں۔اس نے کہا توفیق کا کیا سوال ہے میں خود محنت مزدوری کر کے اپنے لئے روپیہ پیدا کروں گا سلسلہ پر کوئی بار ڈالنے کے لئے تیار نہیں۔ ہم نے کہا یہ تو بہت مبارک خیال ہے اگر ایسے نوجوان ہمیں میسر آجائیں تو اور کیا چاہئے چنانچہ وہ دونوں گئے اور انہوں نے پندرہ روپیہ چندہ ڈال کر تجارت شروع کی اب ایک تازہ خط سے معلوم ہوا ہے کہ وہی نوجوان جنہوں نے پندرہ روپے سے تجارت شروع کی تھی اب تک ایک ہزار روپیہ تبلیغی اخراجات کے لئے چندہ دے چکے ہیں اور اپنا گزارہ بھی اتنی مدت سے عمدگی کے ساتھ کرتے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی مشن کے ذمہ ان کا چالیس پونڈ کے قریب قرض بھی ہے جو انہوں نے اپنی تجارت کے نفع سے دیا۔ اُنہوں نے لکھا ہے کہ ہم اس سے بھی زیادہ روپیہ کما لیتے مگر چونکہ گورنمنٹ نے مال کی درآمدوبرآمد پر کئی قسم کی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں اس لئے ہم زیادہ روپیہ کما نہیں سکے ورنہ اس قسم کی سینکڑوں مثالیں موجودہیں کہ اس مُلک میں بعض نوجوان ہزار ہزار دو دو ہزارروپیہ کے ساتھ آئے اور اب وہ لاکھ لاکھ ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے مالک ہیں۔ یہاں سے ایک نوجوان امریکہ بھاگ گیا تھا وہ ذہین تو تھا مگر یہاں اسے دین سے کوئی اُنس نہیں تھا۔ غیر مُلک میں جاکر اسے دین سے بھی اُنس پیدا ہو گیا اور اس نے روپیہ بھی کمانا شروع کر دیا۔یہاں سے وہ جہاز میں چوری چھپے بیٹھ کر گیا تھا راستہ میں پکڑا گیا تو اسے جہاز میں کوئلہ ڈالنے پر مقرر کر دیا گیا اس طرح وہ امریکہ پہنچا۔ ایک پیسہ بھی اس کے پاس نہیں تھا مگر اب وہ سال میں دو تین ہزار روپیہ چندہ بھیج دیتا ہے۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے اس نے تحریک جدید کے امانت فنڈ میں تیس پینتیس ہزار روپیہ بھجوایا ہے اس کے علاوہ چھ سات ہزار روپیہ اس نے وصیت کا بھی بھیجا ہے حالانکہ یہاں سے وہ بغیر کسی پیسہ کے گیا تھا۔غرض نوجوان اگر ہمت سے کام لیں تو غیر ممالک میں جاکر وہ ہزاروں روپیہ بڑی آسانی سے کما سکتے ہیں مگر مَیں حیران ہوں کہ ہماری جماعت کے بعض نوجوانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اگر ان کے سپرد کوئی کام کیا جائے تو اُس کو محنت سے سر انجام دینے کی بجائے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں نے وقف زندگی کی تحریک کی اورمیں نے بڑی وضاحت سے جماعت کے نوجوانوں کو باربار سمجھایا کہ دیکھو! تمہیں بطور حق کے ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا، تمہیں اپنے پاس سے کھانا کھانا پڑے گا، تمہیں پیدل سفر کرنا پڑے گا، تمہیں فاقے کرنا پڑیں گے، تمہیں ماریں کھانی پڑیں گی، تمہیں ہر قسم کی تکالیف برداشت کرنی پڑیں گی اور تمہارا فرض ہوگا کہ ان تمام حالات میں ثابت قدم رہو اور استقلال سے خدمتِ دین میں مصروف رہو۔ یہ سبق میں اپنے خطبات میں دُہراتا اور بار بار دُہراتا ہوں پھر میں اس پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ نوجوانوں کو خود انٹرویو کے لئے اپنے سامنے بلاتا ہوںاور کہتا ہوں دیکھو! تم نے میرے خطبات تو پڑھ لئے ہوں گے اب پھر مجھ سے سن لو تمہیں کوئی پیسہ نہیں ملے گا کیا تمہیں منظور ہے؟ وہ کہتے ہیں منظور ہے۔ پھرکہتا ہوں تمہیں پیدل سفر کرنا پڑے گا کیا اس کے لئے تیار ہو؟ وہ کہتے ہیں پوری طرح تیار ہیں۔پھرکہتا ہوں تمہیں جنگلوں میں جانا پڑے گا کیا اس کے لئے تیار ہو؟ وہ کہتے ہیں ہم جنگلوں میں جانے کے لئے بھی تیار ہیں۔پھر کہتا ہوں تمہیں فاقے بھی آئیں گے کیا تم فاقہ کے لئے تیار ہو؟ وہ کہتے ہیں ہم فاقہ کے لئے بھی تیار ہیں۔ میں کہتا ہوں تمہیں لوگوں سے ماریں کھانی پڑیں گی کیا تم اس کے لئے بھی تیار ہو؟ وہ کہتے ہیں ہم ماریں کھانے کے لئے بھی تیار ہیں۔ غرض یہ سبق انہیں خوب یاد کرایا جاتا اور بار بار ان کے سامنے دُہرایا جاتا ہے ۔ اس کے بعد جب ہم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سبق ان کو خوب یاد ہو چکا ہوگا تو ہم کہتے ہیں جاؤ سندھ میں جو سلسلہ کی زمینیں ہیں اُن پر کام کرو،منشی کا کام تمہارے سپرد کیا جاتا ہے جاتے ہیں تو تیسرے دن مینیجر کی طرف سے تار آجاتا ہے کہ منشی صاحب بھاگ گئے ہیں کیونکہ وہ کہتے تھے میرا دل یہاں نہیں لگتا۔کوئی ایک مثال ہو تو اُسے برداشت کیا جائے، دومثالیں ہوں تو اُنہیں برداشت کیا جائے مگر ایسی کئی مثالیں ہیں کہ بعض نوجوانوں نے ہر قسم کی تکالیف برداشت کرنے کا عہد کرتے ہوئے اپنی زندگیاں وقف کیں مگر جب اُن کو سلسلہ کے کسی کام پر مقرر کیا گیا تو بھاگ گئے محض اس لئے کہ تکالیف ان سے برداشت نہیں ہو سکتیں۔ اس قسم کے مواد کو لے کر کوئی جرنیل کیا لڑسکتا ہے۔آدمی کو کم از کم یہ تو تسلی ہونی چاہئے کہ مَیں بھی جان دینے کے لئے تیار ہوں اور میرا ساتھی بھی خدا تعالیٰ کے دین کے لئے اپنی جان دینے کے لئے تیار بیٹھا ہے مگر یہاں یہ حالت ہے کہ بعض نوجوان اپنی زندگی وقف کرتے ہیں اور پھر ذرا سی محنت اور ذرا سی تکلیف پر کام چھوڑ کر بھا گ جاتے ہیں اور جب ان میں سے کسی کو سرزنش کی جاتی ہے تو جماعتیں اُس کو اپنے گلے سے لپٹا لیتی ہیں اور لکھتی ہیںکہ آپ کو اس کے متعلق کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ورنہ یہ آدمی بڑا مخلص ہے اور سلسلہ کے لئے بڑی قربانی کرنے والا ہے۔ حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ جب ایسا شخص واپس آتا تو بیوی اپنے دروازے بند کر لیتی اور کہتی کہ میں تمہاری شکل دیکھنے کے لئے تیار نہیں، بچے اُس سے منہ پھیر لیتے اور کہتے کہ تم دین سے غداری کا ارتکاب کر کے آئے ہو ہم تم سے ملنے کے لئے تیار نہیں،دوست اُس سے منہ موڑ لیتے کہ ہم تم سے دوستی رکھنے کے لئے تیار نہیں تم نے تو موت تک اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کی تھی اب تم خود واپس نہیں آسکتے تمہاری روح ہی آسکتی ہے مگر روح بھی یہاں نہیں آئے گی اللہ تعالیٰ کے حضور جائے گی اس لئے تمہارا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں مگر بعض جماعتیں ایسے لوگوں کو بڑے پیار سے اپنے گلے لگاتی اور سینہ سے چمٹانے لگ جاتی ہیں۔
ہم جب بچے تھے تو حضرت اماں جان ہمیں کہانی سنایا کرتیں تھیں کہ ایک جولاہا کہیں کھڑا تھا کہ بگولا اُٹھا اور وہ اس کی لپیٹ میں اُڑتے اُڑتے کسی شہر کے پاس آگرا۔اس شہر میں ایک نیم پاگل بادشاہ رہا کرتا تھا اور اُس کی ایک خوبصورت لڑکی تھی کئی شہزادوں نے رشتہ کی درخواست کی مگر اس نے سب درخواستوں کو ردّ کر دیا اور کہا کہ میں اپنی لڑکی کی شادی کسی فرشتہ سے کروں گا جو آسمان سے اُترے گا کسی اور کو رشتہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ جوں جوں دن گزرتے گئے لڑکی کی عمر بھی بڑی ہوتی گئی ایک دن وہ جولاہا بگولے کی لپیٹ میں جو اُس شہر کے قریب آکر ننگ دھڑنگ گرا تو لوگ دوڑتے ہوئے بادشاہ کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ حضور! آسمان سے فرشتہ آگیا ہے اب اپنی لڑکی کی شادی کر دیں۔ بادشاہ نے اپنی لڑکی کی جولاہے سے شادی کر دی وہ پہاڑی آدمی تھا نرم نرم گدیلوں اور اعلیٰ اعلیٰ کھانوں کو وہ کیا جانتا تھا اُسے تو سب سے بہتر یہی نظر آتا تھا کہ زمین پر ننگے بدن سوئے اور روکھی سوکھی روٹی کھا لے مگر جب بادشاہ کا داماد بنا تو اُس کی خاطر تواضع بڑھنے لگی نوکر کبھی اس کے لئے پلاؤ پکائیں،کبھی زردہ پکائیں، کبھی مرغا تیار کریں، پھر جب بستر پر لیٹے تو نیچے بھی گدے ہوتے اور اوپر بھی اور کئی خادم اسے دبانے لگ جاتے۔کچھ عرصہ کے بعد وہ اپنی ماں سے ملنے کے لئے آیا ماں نے اُسے دیکھا تو گلے سے چمٹا لیا اور رونے لگی کہ معلوم نہیں اتنے عرصہ میں اس پر کیا کیا مصیبتیں آئی ہوں گی۔ جولا ہا بھی چیخیں مار مار کر رونے لگ گیا اور کہنے لگا اماں! میں تو بڑی مصیبت میں مبتلا رہا ایک ایک دن گزارنا میرے لئے مشکل تھا کوئی ایک تکلیف ہو تو بیان کروں میرے تو پور پورمیں دکھ بھرا ہوا ہے۔اماں! کیا بتاؤں مجھے صبح شام لوگ کیڑے پکا کر کھلاتے (چاول جو اسے کھانے کے لئے دیئے جاتے تھے اُن کا نام اُس نے کیڑے رکھ دیا) پھر وہ نیچے بھی روئی رکھ دیتے اور اوپر بھی اور مجھے مارنے لگ جاتے یعنی دبانے کو اُس نے مارنا قرار دیا اس طرح ایک ایک کر کے اُس نے سارے انعامات گنانے شروع کئے۔ ماں نے یہ سنا تو چیخیں مار کر رونے لگ گئی اور کہنے لگی ’’ہے پُت تجھ پہ یہ یہ دُکھ‘‘ یعنی اتنی چھوٹی سی جان اور یہ یہ مصیبتیں۔ یہی حال بعض واقفین کا ہے کہ جماعتیں ان کو گلے لپٹاتی ہیں سینہ سے لگاتی ہیں اور کہتی ہیں ’’ہے پُت تجھ پہ یہ یہ دُکھ‘‘۔ بہرحال ہمیں واقف چاہئیں مگر بُزدل اور پاگل واقف نہیں بلکہ وہ ہر قسم کے شدائد کو خوشی کے ساتھ برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ میں جہاں واقفین میں سے اس حصہ کی مذمت کرتا ہوں وہاں میں دوسرے حصہ کی تعریف کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے نوجوانوں میں ایسے واقفین زندگی بھی ہیں جنہیں ہر قسم کے خطرات میں ہم نے ڈالا مگر اُنہوں نے ذرا بھی پرواہ نہیں کی، وہ پوری مضبوطی کے ساتھ ثابت قدم رہے اور انہوں نے دین کی خدمت کے لئے کسی قسم کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ چونکہ ہمیں اسلام کی تبلیغ وسیع کرنے کے لئے ابھی مبلّغین کے ایک لمبے سلسلہ کی ضرورت ہے اس لئے میں جماعت کے نوجوانوں کو پھر وقف زندگی کی تحریک کرتا ہوں اور ماں باپ کو اس کی اہمیت کی طرف توجہ لاتے ہوئے کہتا ہوں کہ جب تک ہر باپ یہ اقرار نہیں کرتا کہ میں اپنی اولاد اسلام کے لئے قربان کرنے کو تیار ہوں،جب تک ہر ماںیہ اقرار نہیں کرتی کہ وہ دین کے لئے اپنی اولاد کو قربان کرنا اپنے لئے سعادت کا موجب سمجھے گی اُس وقت تک ہم دین کی ترقی کے لئے کوئی مضبوط اور پائیدار بنیاد قائم نہیں کر سکتے۔ہم میں سے ہر مرد اور ہر عورت کا یہ ایمان ہونا چاہئے کہ اگر دین کے لئے اس کی اولاد قربان ہو جائے گی تو اُس کی موت انتہائی سُکھ کی موت ہو گی اور اگر سلسلہ کے لئے اس کی اولا ہر قسم کی قربانی سے کام نہیں لے گی تو اُس کی موت کی گھڑیاں انتہائی دُکھ اور تکلیف میں گزریں گی۔ یہ ایمان ہے جو ہمارے اندر پیدا ہونا چاہئے۔ جب تک ہم میں سے ہر مرد اور عورت میں فدائیت اور جان نثاری کا یہ جذبہ پیدا نہ ہو اُس وقت تک ہم ایک مضبوط اور ترقی کرنے والی قوم کی بنیاد نہیں رکھ سکتے۔
ایک اعلان میں نے یہ کیا تھا کہ جماعت کے نوجوان اپنے آپ کو اس رنگ میں سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کر یں کہ مرکزکی طرف سے انہیں جہاں بھی تجارت کرنے کے لئے کہا جائے گا وہاں وہ جائیں گے اور اپنے ذاتی کاروبار کے ساتھ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ بھی کرتے رہیں گے۔ تجارت ایک ایسی چیز ہے جس میں انسان بغیر کسی خاص سرمایہ کے بہت تھوڑی محنت کے ساتھ کامیاب ہو سکتا ہے۔ جو لوگ اس طرف توجہ کریں گے وہ نہ صرف اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے لئے روزی کا سامان پیدا کریں گے بلکہ دین کی خدمت کے لئے چندہ بھی دے سکیں گے اور سلسلہ کی اشاعت کوبھی وسیع کرنے کا موجب بنیں گے۔ ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے آپ کو تجارت کے لئے وقف کریں اگر انہیں کام سیکھنے کی ضرورت ہوئی تو ہم انہیں کام سکھائیں گے،انہیں تجارت کے لئے موزوں مقام بتائیں گے، انہیں کارخانوں سے مال دِلوا دیں گے اور اگر کوئی مشکل پیش آئے گی تو اُس کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ افریقہ میں ایسا ہی ہوا کہ بعض لوگ وہاں تجارت کے لئے گئے تو ہم نے اپنی ضمانت پر انہیں کارخانوں سے مال دلوادیا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے عرصہ میں ہی وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوگئے۔ اگر ہماری جماعت کے نوجوان اس طرف توجہ کریں تو ہم قلیل ترین عرصہ میں ہی سارے مُلک میں اپنے تاجر اور صناع پھیلا سکتے ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ جس جس علاقہ میں ہمارا تاجر اور صناع ہو گا ان علاقوں میںصرف ان کی تجارت اور صنعت ہی کامیاب نہیں ہوگی بلکہ جماعت بھی پھیلے گی۔
ایک اور امر جس کی طرف میںاس موقع پر جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ سائنس ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہے۔ اس انسٹیٹیوٹ کے ماتحت ہم مُلک کے مختلف حصوں میں بعض کارخانے کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لئے ہمیں روپیہ کی ضرورت ہو گی۔ جماعت کو چاہئے کہ وہ تیار رہے اورجب مرکز کی طرف سے تحریک ہو تو اس میں پورے جوش کے ساتھ حصہ لے۔ خصوصیت کے ساتھ میں کارخانہ داروں اور تاجروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے آپ کو منظم کرنے کی کوشش کریں اور سائنس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ماتحت جو کارخانے کھولے جائیں گے ان میں حصہ لیں تاکہ ہماری جماعت صنعت و حرفت کے میدان میں بھی ترقی کر سکے اور مزدوروں اور ادنیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ترقی کا سامان پیدا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ادنیٰ اور پس ماندہ اقوام کو اسلام میں داخل کرنا چاہیں تو ہمارے لئے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ یا تو ہمارے پاس بہت بڑی زمینیں اور جائدادیں ہوں اور یا پھر صنعت وحرفت کے لحاظ سے ہمارے پاس کافی طاقت ہو۔ مجھے ایک دفعہ کا نگڑہ کے ضلع سے ایک شخص جو اپنی قوم کا لیڈر تھا ملنے کے لئے آیا اور اس نے کہا ہمارے سات ہزار آدمی اسلام لانے کے لئے تیار ہیں۔ میں نے کہا یہ تو بڑی اچھی بات ہے لیکن آپ کو یہاں آنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ کہنے لگا کوئی بات نہیں ہم کاشتکاری کرتے ہیں اور روپیہ ہمارے پاس کافی ہے اپنے متعلق بتایا کہ میں ٹھیکیدار ہوں اور مجھے مالی رنگ میں کسی قسم کی احتیاج نہیں۔ میں نے کہا پھر بھی کوئی بات تو ہوگی جو اور لوگوں کو چھوڑ کر میرے پاس آئے ہیں۔ کہنے لگا صرف اتنی بات ہے کہ ہماری قوم جس جگہ بسی ہوئی ہے وہ زمین ایک ہندو ٹھاکر کی ہے جس دن ہم مسلمان ہوئے ہندو ٹھاکر نے ہمیں نوٹس دے دینا ہے کہ اپنا سامان اُٹھاؤ اور یہاں سے نکل جاؤ اگر آپ ہمارے لئے زمین کا انتظام کر دیں تو ہم مسلمان ہونے کے لئے بالکل تیار ہیں مکان وغیرہ ہم خود بنا لیں گے ہمیں اس کے لئے کسی مدد کی ضرورت نہیں ہو گی۔ میں نے کہا میں تو تم سے بھی زیادہ مجبور ہوں سات ہزار آدمیوں کو بسانے کے لئے میں کہاں سے زمین لاؤں۔ اُس نے کہا یوں تو علماء بھی کہتے ہیں کہ ہم کلمہ پڑھانے کے لئے تیار ہیں مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان سات ہزار آدمیوں کا پھر بنے گا کیا اور جب یہ نکال دئیے جائیں گے تو ان کو مکانوں کے لئے زمین کہاں سے ملے گی۔ اب دیکھو کس طرح سات ہزار آدمی مفت اسلام میں داخل ہو رہاتھا مگر ایک منٹ کے اندر اندر ہاتھ سے نکل گیا۔ اسی طرح اور بہت سے مقامات ہیں جہاں سات سات دس دس ہزار آدمی منٹوں میں اسلام میں داخل ہو سکتے ہیں وہ بیزار ہیں اپنے مذاہب سے اور بیزار ہیں اپنے مذاہب کے علمبرداروں سے، نہ ان کے مذہب میں نور ہے نہ ہدایت ہے نہ علم ہے نہ دین اور دنیوی ترقی کا کوئی سامان ہے اور نہ کوئی اور خوبی ہے۔اگر ان کی اصلاح اور ترقی کے لئے تجارت اور صنعت و حرفت کے میدان میں ہماری جماعت مضبوط ہو جائے اور مختلف مقامات پر کارخانے کھل جائیں تو ان کے کام کے لئے بھی بہت کچھ گنجائش نکل سکتی ہے۔ کانگرس نے دیہات سدھار کے نام سے جو سکیم جاری کی تھی اس کی غرض بھی در حقیقت ہندو مذہب کی مضبوطی تھی کیونکہ اس ذریعہ سے جب مزدور طبقہ کو کام مل جاتا ہے تو ہندو مذہب پر وہ اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجاتے ہیں۔ بہرحال اگر مختلف مقامات پر کارخانے جاری ہو جائیں اور جماعتیں ان میں حصہ لیں تو یہ تبلیغ اسلام کا ایک ایسا کامیاب ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ ہزاروں ہزار مزدوروں کے لئے کام کرنے کا موقع پیدا ہو جائے گا۔ اس کے بعد جب ہم ان کو اسلام کی دعوت دیں گے تو ان کے لئے اسلام قبول کرنا موجودہ حالات کی نسبت زیادہ آسان ہوگا۔ یہ وہ اہم اور ضروری تحریکات ہیں جو جماعت کو ہمیشہ اپنے مد نظر رکھنی چاہئیں یعنی تعلیم القرآن کو عام کرنا، دُنیوی تعلیم کے حصول میں ترقی کرنا، تحریک جدید کے چندہ میں حصہ لینا، دفتردوم کو مضبوط کرنا، وقف زندگی کی تحریک میں اپنے آپ کو پیش کرنا، وقفِ تجارت میں اپنا نام لکھوانا، صنعت وحرفت کی ترقی کیلئے جو کارخانے جاری کئے جانیوالے ہیں ان میں حصہ لینا۔اگر ان تمام تحریکات میں جماعت پورے جوش کے ساتھ حصہ لے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کا ایک ایسا مکمل دائرہ تیار ہو جاتا ہے کہ جس کے بعد جماعت بغیر کسی تکلیف کے اپنے کاموں کو جاری رکھ سکتی ہے اور وہ لٹریچر بھی جو تبلیغی ضرورتوں کے لئے تیار کیا جا چکا ہے یاآئندہ تیار ہوآسانی سے مختلف ممالک میں پھیلایا جا سکتا ہے۔
میرا یہ بھی ارادہ ہے کہ فضائل القرآن کے موضوع پر گزشتہ سالوں میں جلسہ سالانہ کے موقع پر جو تقاریرمیں کرتا رہا ہوں(یعنی ۱۹۲۸ء، ۱۹۲۹ء،۱۹۳۰ء،۱۹۳۱ء،۱۹۳۲ ء،اور ۱۹۳۶ء میں) ان کو بھی کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے۔ چونکہ انسانی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا میں دوستوں کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص یہ سوچ سمجھ کر میری لکھی ہوئی تفسیر کو پڑھے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ قرآن کریم کی تفسیر مکمل نہیں ہوئی۔اصل بات یہ ہے کہ میرا ترجمہ اور میری تفسیر ہمیشہ ترتیبِ آیات اور ترتیبِ سور کے ماتحت ہوتی ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جو شخص اس نکتہ کو مدنظر رکھے گا وہ فوراً یہ نتیجہ نکال لے گا کہ اس ترتیب کے ماتحت فلاں فلاں آیات کے کیا معنی ہیں۔ فرض کرو ایک نکتہ یہاں ہے اور ایک وہاں اور درمیان میں جگہ خالی ہے تو ہوشیار آدمی دونوں کو دیکھ کر خود بخود درمیانی خلاء کو پُر کرسکے گا اور وہ سمجھ جائے گا کہ جب یہ نکتہ فلاں بات کی طرف توجہ دلاتا ہے اور وہ نکتہ فلاں بات کی طرف تو درمیان میں جو کچھ ہو گا وہ بہرحال وہی ہو گا جو ان دونوں نکتوں کے مطابق ہو۔ اگر درمیانی مضمون کسی اور طرف چلا جائے تو دائیں بائیں کے مضامین بھی لازماً ادھورے رہ جائیں گے اور سلسلۂ مطالب کی کڑی ٹوٹ جائے گی۔ پس میں چونکہ ہمیشہ ترتیبِ آیات اور ترتیبِ سور کو ملحوظ رکھ کر تفسیر کیا کرتا ہوں اس لئے اگر کوئی شخص میری ترتیب کو سمجھ لے تو گو میں نے کسی آیت کی کہیں تفسیر کی ہوگی اور کسی آیت کی کہیں درمیانی آیات کا حل کرنا اُس کے لئے بالکل آسان ہو گا کیونکہ ترتیبِ مضمون اسے کسی اور طرف جانے ہی نہیں دے گی اور وہ اس بات پر مجبور ہوگا کہ باقی آیتوں کے وہی معنی کرے جواس ترتیب کے مطابق ہوں۔
ایک لطیفہ یاد آگیا جب میں سورہ کہف کی تفسیر لکھنے بیٹھا تو میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس آیت کے کیا معنی ہیں کہ۹؎اور اس کا پہلی آیات سے جوڑ کیا ہے؟ میں دو تین گھنٹے سوچتا رہامگر یہ آیت حل نہ ہوئی آخر میں گھبرا گیا اور میں نے کہا اچھا اگر اِس وقت مجھے اس آیت کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تو نہ سہی جب میں تفسیر لکھتے لکھتے یہاں پہنچوں گا تو دیکھا جائے گا جب میں سورئہ کہف کی تفسیر لکھتے لکھتے اس آیت سے پہلی آیت پر پہنچا تو اگلی آیت آپ ہی آپ حل ہوگئی اور میں نے سمجھ لیا کہ اس کے کیا معنی ہیں کیونکہ ان معنوں کے سوا کوئی اور معنی ترتیبِ آیات کے لحاظ سے بن ہی نہیں سکتے تھے۔ اُن دنوں مولوی شیر علی صاحب ولایت میں تھے لطیفہ یہ ہوا کہ جب مولوی شیر علی صاحب انگریزی ترجمۃ القرآن کے نوٹ میرے پاس لائے تو میرے دل میں خیال گزرا کہ چلو یہی دیکھ لو کہکے انہوں نے کیا معنی کئے ہیں۔ جب میں نے دیکھا تو وہی معنی لکھے تھے جو میں نے کئے تھے میں نے کہامولوی شیر علی صاحب نے تو کمال کر دیا کہ جو آیت میرے لئے معمہ بنی رہی تھی اسے اُنہوں نے لند ن میں ہی حل کر لیا۔ اس پر ملک غلام فرید صاحب کہنے لگے کہ یہ مولوی شیر علی صاحب کے معنی نہیں بلکہ آپ کے ہی معنی ہیں آپ نے اگست ۱۹۲۸ء میںجوقرآن کریم کا درس دیا تھا اس میں آپ نے اس آیت کے یہی معنی کئے تھے اور مولوی صاحب نے اسی درس کے نوٹوں سے یہ معنی لئے تھے۔ معلوم ہوتا ہے اُس وقت بھی چونکہ میں ترتیب کے ماتحت تفسیر کر رہا تھا اِس لئے یہ آیت خود بخود حل ہو گئی اور بعد میں مجھے یاد بھی نہ رہا کہ میں نے اس کے کیا معنی کئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب میں بغیر ترتیب کے اس پر غور کرنے بیٹھا تو مجھے اس کے کوئی معنی سمجھ میں نہ آئے لیکن ترتیب میں آکر حل ہو گئے۔
پس میری تفسیر کے متعلق یہ اصولی گُر یاد رکھنا چاہئے کہ میری تفسیر ہمیشہ ترتیبِ آیا ت کے ماتحت چلتی ہے اور جب کوئی تفسیر ترتیب کے ماتحت چل رہی ہو تو ایسی حالت میں اگر کسی کو دو الگ الگ نکتے مل جائیں گے تو خواہ درمیان میں فاصلہ ہو وہ آسانی سے درمیانی آیات کی تفسیر کو نکال سکتا ہے کیونکہ وہ سمجھ جائیگا کہ صحیح تفسیر ہی ہوگی جوان دونکتوں کے مطابق ہو۔ جس طرح پٹواری جب کسی زمین میں الگ الگ مقامات پر کیلے گاڑ دیتا ہے تو پھر اسے کوئی مشکل نہیں رہتی اور وہ آسانی سے پیمائش کر سکتا ہے رسّی کا ایک کونہ ایک کیلے سے باندھ دیتا ہے اور دوسرا کونہ دوسرے کیلے سے اور وہ جانتا ہے کہ اب رسّی اِدھر اُدھر ہو ہی نہیں سکتی اسی طرف جائے گی جس طرف کیلا ہو گا۔ اسی طرح میری تفسیر کے نوٹوں سے انسان سارے قرآن کریم کی تفسیر سمجھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ ہوشیار ہو اور قرآن کریم کو سمجھنے کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہو۔ بہرحال فضائل القرآن کا مضمون بھی نہایت اہم ہے اگر یہ مضمون مکمل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے براہین احمدیہ مکمل ہو جائے گی۔ لیکچر تو کئی سالوں سے تیار ہیں مگر ان میں سے چھپا ایک بھی نہیں اب ارادہ ہے کہ انہیں کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے۔
غرض جماعت کی دینی ،دنیوی ،علمی،تجارتی، صنعتی،اقتصادی، اور تربیتی ترقی کے لئے میں نے مختلف تحریکات کی ہوئی ہیں دوستوں کو ان سب تحریکوں میں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لینا چاہئے۔ پھر سب سے بڑھ کر جو چیز اہمیت رکھنے والی ہے وہ محبتِ الٰہی ہے پس جماعت کو علاوہ اور تحریکات میں حصہ لینے کے کوشش کرنی چاہئے کہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو تاکہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت کرے اور انہیں ہمیشہ اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے۔ پھر زمینداروں کی اصلاح اور ان کی بہبودی کے متعلق بھی میرے ذہن میں ایک سکیم ہے مگر زمیندار بڑی مشکل سے قابو آتے ہیں۔ کئی باتیں اُن کے فائدہ کی ہوتی ہیں مگر جب انہیں سمجھایا جاتا ہے تو ان باتوں کا انہیں قائل کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ان کی اصلاح کے لئے بھی کوئی قدم اُٹھایا جائے جس سے زمیندارہ کام میں ترقی ہو اور پیداوار پہلے سے زیادہ ہوسکے۔ میں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت کے یہ تمام طبقات پوری طرح مضبوط ہو جائیں، زمیندار بھی ترقی کی طرف اپنا قدم اُٹھانا شروع کر دیں، تاجر اور صناع بھی مختلف علاقوں میں تجارت اور صنعت شروع کر دیں، مزدوروں اور ادنیٰ اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے بھی مختلف کارخانوں میں کام کرنے کے مواقع پیدا ہو جائیں تو ہزاروں نہیں لاکھوں لاکھ ہندو اور عیسائی اسلام میں داخل ہونے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ آج دنیا میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو دل سے سمجھتے ہیں کہ اسلام سچا ہے مگر دُنیوی روکیں ان کو اسلام قبول کرنے کی طرف اپنا قدم بڑھانے نہیں دیتیں۔ اگر ہماری جماعت کے تاجر اور صناع اور زمیندار اور کارخانہ دار سب کے سب منظم ہو جائیں اور مزدوروں اور ادنیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ترقی کے لئے ہمارے پاس تجارت اور صنعت وحرفت کا ایک بہت بڑا میدان تیار ہو جائے تو ان لوگوں کے دلوں میں اسلام قبول کرنے کے متعلق جو ایک ظاہری ڈر پایا جاتا ہے وہ جاتا رہے گا اور وہ دلیری اور جرأت کے ساتھ اسلام میں داخل ہونا شروع کر دیں گے اُس وقت ہمیں وہی نظارہ نظر آنے لگے جو اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ ۱۰؎ پھر ہمیں یہ خبریں نہیں آئیں گی کہ آج دس آدمیوں نے بیعت کی ہے، آج بیس نے بیعت کی ہے، آج تیس اور چالیس نے بیعت کی ہے بلکہ ہمارے مبلّغ دنیا کے مختلف اطراف سے ہمیں تاروں پر تاریں بھجوائیں گے کہ آج دس ہزار نے بیعت کی ہے، آج پچاس ہزار نے بیعت کی ہے، آج ایک لاکھ نے بیعت کی ہے صرف اپنے ایثار اورقربانی کے معیار کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم اپنے معیار کو اونچا کر لیں گے تو ہماری ترقی ایک یقینی چیز ہے جس میں کسی قسم کی روک پیدا نہیں ہوسکتی ۔
مَیں آخر میں آپ لوگوں کو یہ نصیحت کرنا چاہتاہوں کہ آپ کو قادیان میں بار بار آنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ قادیان میں ہماری جماعت کے افراد کو کثرت کے ساتھ آنا چاہئے یہاں تک کہ آپ یہ بھی فرماتے کہ جو شخص قادیان میں بار بار نہیں آتا مجھے اُس کے ایمان کے متعلق ہمیشہ شبہ رہتا ہے۔ یہ آپ لوگوں کا ہی قصور ہے کہ صرف جلسہ پر آتے ہیں دوسرے اوقات میں آنے کی بہت کم کوشش کرتے ہیں۔ اب تو میں سوائے بیماری یا سفر کے ہمیشہ مجلس میں بیٹھتا ہوں اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دین کی باتیں دوستوں کو سکھاتا رہتا ہوں یہ بھی ایک نیاموقع ہے جس سے ہماری جماعت کے افراد کو فائدہ اُٹھانا چاہئے تاکہ آہستہ آہستہ وہ لوگ تیار ہو جائیں جو دین کی اشاعت کا کام پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنے کے اہل ہوں اور ان کے متعلق یہ امید کی جاسکتی ہو کہ وہ ہر قسم کی قربانی پیش کرکے دین کا جھنڈا ہمیشہ بلند رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح میری خواہش ہے کہ ہر مسجد بلکہ ہر محلہ میں درس جاری ہوں تا کہ لوگوں کے لئے زیادہ سے زیادہ دین سیکھنے کے مواقع پیدا ہو سکیں۔ پس بجائے اس کے کہ آپ سارازور انہی دنوں میں صرف کریں کوشش کرنی چاہئے کہ دوسرے مواقع پر بھی مرکز میں آتے رہیں۔ لوگوں میں مشہور ہے کہ پوربیا چوبیس گھنٹے میں صرف ایک وقت کھاتا ہے اور خوب کھاتا ہے آپ لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہیں کہ اور ایام میں تو یہاں آنے کی کوشش نہیں کرتے اور سال بھر میں ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر یہاں پہنچنے کے لئے پورا زور صرف کر دیتے ہیں۔ آپ لوگوں کو دوسرے مواقع پر بھی بار بار آنا چاہئے اور اس جگہ دین سیکھنے کے جو مواقع خدا تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں ان سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کا حافظ و ناصر ہو اور وہ ہمیشہ اپنے فضل اور رحم کی بارش آپ پر اور آپ کے تمام متعلقین اور رشتہ داروں پر برسائے تا کہ دین اور دنیا دونوں کی ترقیات کے سامان آپ کے لئے اور آپ کی آئندہ نسلوں کے لئے ہمیشہ جاری رہیں۔ آمِیْن یَا رَبَّ الْعٰلَمِیْن۔
(الفضل ربوہ ۲۸؍ اگست۱۹۵۹ء۔۲۲؍جنوری ۱۹۶۰ء۔۱۱ ؍جولائی ۱۹۶۲ء)
۱؎ المائدہ: ۲۵
۲،۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۲،۱۳۔ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۴؎ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ۵۱ مطبوعہ لاہور ۱۸۹۲ء
۵؎ بخاری کتاب الجہاد والسیر باب یقاتل من وراء الامام … الخ
۶،۷؎ الفاتحہ: ۵،۶،۷
۸؎ مشکٰوۃ کتاب المناقب باب مناقب الصحابۃ
۹؎ الکھف: ۲۴،۲۵
۱۰؎ النصر: ۳
پارلیمنٹری مشن اور ہندوستانیوں
کا فرض
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
پارلیمنٹری مشن اور ہندوستانیوں کا فرض
(رقم فرمودہ ۵؍ اپریل ۱۹۴۶ء)
پارلیمنٹری وفد ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے ہندوستان میں وارد ہو چکا ہے مجھ سے کئی احمدیوں نے پوچھا ہے کہ احمدیوں کو ان کے خیالات کے اظہار کا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟ میں نے اس کا جواب ان احمدیوں کو یہ دیا کہ:۔
اوّل تو ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے (گو مسیحیوں کی انجمن کو کمیشن نے اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی ہے)
دوسرے جہاں تک سیاسیات کا تعلق ہے جو حال دوسرے مسلمانوں کا ہوگا وہی ہمارا ہوگا۔
تیسرے ہم ایک چھوٹی اقلیت ہیں اور پارلیمنٹری وفد اِس وقت اُن سے بات کر رہا ہے جو ہندوستان کے مستقبل کو بنا یا بگاڑ سکتے ہیں۔ دُنیوی نقطۂ نگاہ سے ہم ان جماعتوں میں سے نہیں ہیں اس لئے باوجود اس امر کے کہ جنگی سرگرمیوں کے لحاظ سے اپنی نسبت آبادی کے مدنظر ہم تمام دوسری جماعتوں سے زیادہ قربانی کرنے والے تھے کمیشن کے نقطۂ نگاہ سے ہمیں کوئی اہمیت حاصل نہیں۔
چوتھے یہ کہ خواہ کمیشن کے سامنے ہمارے آدمی پیش ہوں یا نہ ہوں ہم اپنے خیالات تحریر کے ذریعہ سے ہر وقت پیش کر سکتے ہیں۔
سو جواب کے آخری حصہ کے مطابق میں چند باتیں پہلی قسط کے طور پر پارلیمنٹری وفد اور ہندوستان کے نمائندوں سے کہنا چاہتا ہوں۔ وفد کے ممبران کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا کا فساد سب سے زیادہ اِس امر سے ترقی کر رہا ہے کہ حکومتیں اخلاقی اصول کی پیروی سیاسیات میں ضروری نہیں سمجھتیں حالانکہ سیاست افراد کو تسلی دینے کے لئے برتی جاتی ہے اور افراد جو اخلاق کی بناء پر سوچنے اور غور کرنے کے عادی ہیں جب ایک فیصلہ ایسا دیکھتے ہیں کہ جس کی بنیاد عام جانے بوجھے ہوئے اخلاقی نظریات کے خلاف ہوتی ہے تو وہ اس سے تسلی نہیں پاتے اور ان کی دل کی خلش انہیں شورش اور فساد پر آمادہ کر دیتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی امیدوں اور اُمنگوں کے پورا نہ ہونے پر بھی شورش ہوتی ہے لیکن وہ شورش دیرپا نہیں ہوتی اور اس کا ازالہ کرنا ممکن ہوتا ہے لیکن اخلاقی اصول کے خلاف کیا گیا فیصلہ سینکڑوں اور ہزاروں سال تک فساد اور بے چینی کو لمبا کئے جاتا ہے۔ پس انہیں چاہئے کہ ہندوستان کی اُلجھنوں کا حل صرف سیاست کی مدد سے کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اخلاق کے اصول کے مطابق اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں تا اگر اس حل سے کوئی فساد پیدا ہو تو وہ دیر پا نہ ہو۔
دوسرے اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی وعدے حالات کے بدلنے سے بدل سکتے ہیں۔ مثلاً ایک گورنمنٹ سے کسی دوسری گورنمنٹ کا کوئی معاہدہ ہو لیکن بعد میں اس مُلک کی اکثریت اپنی گورنمنٹ کے خلاف ہو جائے تو معاہد حکومت یقینا پابند نہیں کہ اوّل الذکر حکومت کا ان حالات میں بھی ساتھ دے کیونکہ معاہدہ اس امر کی فرضیت پر مبنی تھا کہ وہ حکومت اپنے مُلک کی نمائندہ ہے جب وہ نمائندہ نہ رہے تو معاہد حکومت کا حق ہے کہ اپنے سابق معاہدہ کو تبدیل کر دے جیسا کہ پولینڈ کی حکومت کے بارہ میں انگلستان نے کیا۔ (اس امر کو مَیں نظر انداز کرتا ہوں کہ انگلستان نے پوری تحقیق اس امر کی کر لی تھی کہ نہیں، کہ پولینڈ کی اکثریت سابق حکومت کے ساتھ ہے یا خاص حالات پیدا کر کے اس سے خلاف رائے لے لی گئی ہے) لیکن اگر حالات وہی ہوں جیسے کہ پہلے تھے تو پھر یہ کہہ کر سابق وعدہ کو نظر انداز کر دینا کہ حالات بدلنے پر وعدے بھی بدل سکتے ہیں اخلاق کے خلاف ہوگا۔ حکومت انگریزی کو اپنے سابق وعدوں میں کسی تبدیلی سے پہلے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ وہ کون سے حالات تھے جن میں کوئی وعدہ انہوں نے کیا تھا اور اب کون سے نئے حالات پیدا ہوگئے ہیں جن کا طبعی نتیجہ وعدہ کی تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جب تک وہ ایسا نہ کریں ان کا یہ کہہ دینا کہ اب حالات بدل گئے ہیں صرف متعلقہ جماعت کے دلوں میں شکوک اور جائز شکوک پیدا کرنے کا موجب ہوگا۔ اخلاق کی طاقت یقینا انگلستان اور ہندوستان بلکہ تمام دنیا کی مجموعی طاقت سے بھی زیادہ ہے۔ پس اگر حقیقتاً حالات نہ بدلے ہوں تو گول مول الفاظ استعمال کرنے کی بجائے پارلیمنٹری وفد کو اعلان کرنا چاہئے کہ ہم سے پہلی حکومت بددیانتی سے ہندوستانیوں کو لڑوانے کے لئے بعض اقوام سے کچھ وعدے کر چکی ہے جو ہم برسرِ اقتدار ہونے کے بعد پورا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ لیکن یہ درست نہیں کہ وہ ایک ہی سانس میں پہلی حکومت کی دیانت کا بھی اظہار کرے اور اس کے وعدوں کو یہ کہہ کر توڑ بھی دے کہ بدلے ہوئے حالات میں وعدے بھی بدل جاتے ہیں (حالانکہ جن حالات میں وہ وعدے کئے گئے تھے وہ بالکل نہ بدلے ہوں) عوام الناس فقروں میں آ جاتے ہیں لیکن عقلمند لوگ صرف فقروں سے دھوکا نہیں کھاتے۔
تیسری بات میں مشن کے ممبروں سے یہ کہنی چاہتا ہوں کہ کوئی ایسی حالت پیدا کر دینا جس کے نتیجہ میں ایک اقلیت اپنے حقوق لینے سے محروم رہ جائے، خود انگلستان کو ہی مجرم بنائے گا۔ انگلستان یہ کہہ کر بچ نہیں سکتا کہ اس نے یہ نتیجہ پیدا نہیں کیا۔ نتائج کی ذمہ داری ذرائع پیدا کرنے والے پر ہی ہوا کرتی ہے۔
چوتھی بات کمیشن کے ممبروں سے میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ اگر وہ انصاف کو قائم رکھیں گے تو یقینا ہندو مسلم سمجھوتہ کرانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ میں اس امر کا قائل نہیں کہ انگلستان کا بنایا ہوا ہندوستان اصل ہندوستان ہے لیکن میں اس امر کا بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ہندوستان میں جس قدر اتحاد بھی باہمی سمجھوتہ سے ہو سکے وہ یقینا ہندوستان اور دوسری دنیا کے لئے مفید ہوگا۔ میں برٹش امپائر کے اصول کا دیرینہ مداح ہوں میرے نزدیک برطانوی امپائر کا اصول اِس وقت تک کی قائم کردہ انٹرنیشنل لیگ یا یو این اے سے بدرجہا بہتر ہے۔ اس کی اصلاح کی تو ضرورت ہے لیکن اس کا حصہ دار بننے کا نام غلامی رکھنا ایک جذباتی مظاہرہ تو کہلا سکتا ہے حقیقت نہیں کہلا سکتا۔ مگر بہرحال ہندوستان کے مختلف حصوں کا باہمی تعاون اور ہندوستان کا برطانوی امپائر سے تعاون باہمی سمجھوتے پر مبنی ہونا چاہئے۔
پانچویں ہر سیاسی اصل ضروری نہیں کہ ہر جگہ اپنی تمام شقوں کے ساتھ چسپاں ہو سکے۔ میرا تجربہ ہے کہ انگلستان کے اکثر مدبر اپنے مُلک کے تجربہ کو ہندوستان پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کے حالات یقینا انگلستان سے مختلف ہیں۔ یہاں آزادی کا بھی اور مفہوم ہے اور انصاف کا بھی اور مفہوم ہے۔ مجھے ایک صاحب نے بتایا کہ جب انہوں نے مسٹر گاندھی سے سوال کیا کہ کیا آزاد ہندوستان میں مذہب کی تبدیلی کی اجازت ہوگی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مذہب کی آزادی ضرور ہوگی مگر مذہب کی تبدیلی ایک سیاسی مسئلہ ہے اس بارہ میں حکومت مناسب رویہ اختیار کر سکتی ہے۔ میرے نزدیک یہ نظریہ آزادی کے صریح خلاف ہے۔ مَیں نے اِس امر کی تحقیق کے لئے جماعت احمدیہ کے مرکزی عہدہ داروں سے کہا کہ وہ کانگرس سے اس کا نقطۂ نگاہ دریافت کریں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ جماعت کے سیکرٹری نے اس بارہ میں جو چٹھی لکھی اس کا جواب کانگرس کے سیکرٹری نے نہیں دیا۔ پھر رجسٹری خط گیا اس کا بھی جواب نہیں دیا۔ اس پر تیسرا خط رجسٹری کر کے ارسال کیا گیا مگر اس کاجواب بھی نہ دیا گیا۔ تب تار دی گئی کہ اگر اب بھی جواب نہ دیا گیا تو معاملہ مسٹر گاندھی کے سامنے رکھا جائے گا۔ اس پر کانگرس کے سیکرٹری نے جواب دیا کہ مسٹر بوس کو افسوس ہے کہ اب تک جواب نہیں دیا گیا (اُس وقت مسٹر سبھاش چندر بوس کانگرس کے پریذیڈنٹ تھے) اب جواب بھجوایا جا رہا ہے۔ یہ جواب جب موصول ہوا تو اس میں یہ لکھا تھا کہ آپ کو کانگرس کے کراچی ریزولیوشن نمبر فلاں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ جب لکھا گیا کہ اسی ریزولیوشن کی تعبیر کے متعلق تو ہمارا سوال ہے تو اس کا یہ جواب دیا گیا کہ کانگرس ہی اپنے ریزولیوشن کی تعبیر کر سکتی ہے۔ جب اس پر کہا گیا کہ کانگرس سے تو اس کے عہدہ دار ہی پوچھ سکتے ہیں ہمارے پاس کونسا ذریعہ ہے تو اس پر جواب دیا گیا کہ ہم نہیں پوچھ سکتے آپ ہی دریافت کریں۔ اس واقعہ نے ثابت کر دیا کہ کانگرس کے نزدیک آزادی کا مفہوم یورپ کے زمانۂ وسطیٰ والا ہے جسے مسلمان کسی صورت میں تسلیم نہیں کر سکتے۔ چنانچہ عملاً اس کا یہ نمونہ موجود ہے کہ ہندو ریاستوں میں ایک ہندو اگر مسلمان ہو جائے تو اوّل بغیر مجسٹریٹ کی اجازت کے وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ دوم اسے اپنے ورثہ سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ کانگرس سے جو ہماری گفت و شنید ہوئی ہے اُس نے ریاستوں کے اس رویہ پر مُہرِ تصدیق لگا دی ہے۔ غرض صرف ڈیموکریسی (DEMOCRACY) کے لفظ پر نہیں جانا چاہئے۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ڈیموکریسی کا مفہوم کس قوم میں کیا ہے۔ اِس وقت روس مغربی حکومتوں کے خلاف بار بار یہ اعلان کر رہا ہے کہ مغربی ممالک کے ری ایکشنری (REACTIONARY) لوگ ہمارے خلاف یونان اور ایران اور چین کی تائید کے نام سے غلط فضاء پیدا کر رہے ہیں لیکن کیا صرف ری ایکشنری کے لفظ کے استعمال کی وجہ سے انگلستان اور امریکہ کے لوگ اپنی منصفانہ پالیسی چھوڑ دیں گے؟ اگر نہیں تو صرف ڈیموکریسی کے لفظ کے استعمال سے بھی ان کی تسلی نہیں ہو جانی چاہئے۔
مَیں مسلمانوں کے نمائندوں کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ہندوستان ہمارا بھی اُسی طرح ہے جس طرح ہندوؤں کا۔ ہمیں بعض زیادتی کرنے والوں کی وجہ سے اپنے مُلک کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اس مُلک کی عظمت کے قیام میں ہمارا بہت کچھ حصہ ہے۔ ہندوستان کی خدمت ہندوؤں نے تو انگریزی زمانہ میں انگریزوں کی مدد سے کی لیکن ہم نے اس مُلک کی ترقی کے لئے آٹھ سَو سال تک کوشش کی ہے۔ پشاور سے لے کر منی پور تک اور ہمالیہ سے لے کر مدراس تک اُن محبانِ وطن کی لاشیں ملتی ہیں جنہوں نے اس مُلک کی ترقی کے لئے اپنی عمریں خرچ کر دی تھیں۔ ہر علاقہ میں اسلامی آثار پائے جاتے ہیں کیا ہم ان سب کو خیر باد کہہ دیں گے؟ کیا ان کے باوجودہم ہندوستان کو ہندوؤں کا کہہ سکتے ہیں؟ یقینا ہندوستان ہندوؤں سے ہمارا زیادہ ہے۔قدیم آریہ ورت کے نشانوں سے بہت زیادہ اسلامی آثار اس مُلک میں ملتے ہیں۔ اس مُلک کے مالیہ کا نظام، اس مُلک کا پنچائتی نظام، اس مُلک کے ذرائع آمدو رفت سب ہی تو اسلامی حکومتوں کے آثار میں سے ہیں پھر ہم اسے غیر کیونکر کہہ سکتے ہیں۔ کیا سپین میں سے نکل جانے کی وجہ سے ہم اسے بُھول گئے ہیں؟ ہم یقینا اسے نہیں بُھولے ہم یقینا ایک دفعہ پھر سپین کو لیں گے۔ اسی طرح ہم ہندوستان کو نہیں چھوڑ سکتے یہ مُلک ہمارا ہندوؤں سے زیادہ ہے۔ ہماری سُستی اور غفلت سے عارضی طور پر یہ مُلک ہمارے ہاتھ سے گیا ہے ہماری تلواریں جس مقام پر جا کر کُندہو گئیں وہاں سے ہماری زبانوں کا حملہ شروع ہو گا اور اسلام کے خوبصورت اصول کو پیش کر کے ہم اپنے ہندو بھائیوں کو خود اپنا جزو بنا لیں گے مگر اس کے لئے ہمیں راستہ تو کھلا رکھنا چاہئے۔ ہمیں ہر گزوہ باتیں قبول نہیں کرنی چاہئیں جن میں اسلام اور مسلمانوں کی موت ہو مگر ہمیں وہ طریق بھی اختیار نہیں کرنا چاہئے جس سے ہندوستان میںاسلام کی حیات کا دروازہ بند ہو جائے۔ میرا یقین ہے کہ ہم ایک ایسا منصفانہ طریق اختیار کر سکتے ہیں صرف ہمیں اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہئے۔ اسلام نے انصاف اور اخلاق پر سیاسیات کی بنیاد رکھ کر سیاست کی سطح کو بہت اونچا کر دیا ہے کیا ہم اس سطح پر کھڑے ہو کر صلح اور محبت کی ایک دائمی بنیاد نہیں قائم کر سکتے؟ کیا ہم کچھ دیرکیلئے جذباتی نعروں کی دنیا سے الگ ہو کر حقیقت کی دنیا میں قدم نہیں رکھ سکتے تا ہماری دنیا بھی درست ہو جائے اور دوسروں کی دنیا بھی درست ہو جائے۔
میں مسلمانوں سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ یہ وقت اتحاد کا ہے جس طرح بھی ہو اپنے اختلافات کو مٹا کر مسلمانوں کی اکثریت کی تائید کریں اور اکثریت اپنے لیڈر کا ساتھ دے اُس وقت تک کہ یہ معلوم ہو کہ اب کوئی صورت سمجھوتہ کی باقی نہیں رہی اور اب آزادانہ رائے دینے کا وقت آگیا ہے۔ مگر اِس معاملہ میں جلدی نہ کی جائے تا کامیابی کے قریب پہنچ کر ناکامی کی صورت نہ پیدا ہو جائے۔
میں ہندوبھائیوں سے اور خصوصاً کانگر س والوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کانگرس کے لئے مسٹر گاندھی نے اور کچھ بھی نہ کیا ہو تو بھی انہوں نے اس پر یہ احسان ضرور کیا ہے کہ اسے اس اصل کی طرف ضرور توجہ دلائی ہے کہ ہمارے فیصلوں کی بنیاد اخلاق پر ہونی چاہئے تفصیل میں مجھے خواہ ان سے اختلاف ہومگر اصول میں مجھے ان سے اختلاف نہیں کیونکہ میرے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصل کو جاری کیا ہے۔ آپ لوگوں کو غور کرنا چاہئے کہ ایک طرف تو آپ لوگ عدمِ تشدد کے قائل ہیں دوسری طرف مسلمانوں کے مقابل پر اپنے مطالبات نہ پورا ہونے کی صورت میں بعض لیڈر دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ میں نے آج ہی ایک کانگرسی لیڈر کا اعلان پڑھا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں ۔
’’ کہ کوئی اسے اچھا سمجھے یا بُرا اس کے نتیجہ میں مُلک میں شدید فساد پیدا ہوگا‘‘
پھر لکھتے ہیں۔
’’مگر جو کوئی بھی مُلک کے موجودہ جذبات کو جانتا ہے اس بات کو معلوم کر سکتا ہے کہ کوئی طاقت اس( فساد) کو روک نہیں سکتی اور ممکن ہے کہ یہ( فساد) ایک ایسی شکل اختیار کر لے جسے ہم میں سے کوئی بھی روک نہ سکے‘‘۔
اس لیڈر نے اس کا بھی ذکر کیا ہے کہ مسٹر جناح نے بھی خون خرابہ کی دھمکی دی ہے یہ درست ہے مگر مسٹر جناح نے غلطی کی یا درست کام کیا وہ عدمِ تشدد کے قائل نہیں۔ ان پر یہ الزام نہیں لگ سکتا کہ وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں مگر کانگرس جو عدمِ تشدد کی قائل ہے اگر اس کا ایک لیڈر ایسی بات کرتا ہے تو وہ یقینا دو باتوں میں سے ایک کو ثابت کرتا ہے یا تو اس امرکو کہ کانگرس کی عدمِ تشدد کی پالیسی صرف اس لئے تھی کہ جب وہ جاری کی گئی کانگرس کمزور تھی اس لئے اس پالیسی کے اعلان کے ذریعہ دنیا پر یہ اثر ڈالنا مقصود تھاکہ ہم تو عدمِ تشدد کرنے والے ہیں ہماری گرفتاریاں کر کے برطانیہ ظلم کر رہا ہے یا ہندوستانی گورنمنٹ کی آنکھوں میں خاک ڈالنا مقصود تھا کہ ہم تو عدمِ تشدد کے بڑے حامی ہیں ہمیں اپنا کام کرنے دیں ہم آپ کی حکومت کے لئے مشکلات پیدا نہیں کرتے یا پھر اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ پبلک پر اثر کا دعویٰ کرنے میں کانگرس حقیقت کے خلاف جاتی ہے کیونکہ ہر قوم میں سے کچھ لوگ اپنے لیڈروں کے خلاف ضرور جا سکتے ہیں لیکن قوم کا اتنا حصہ لیڈروں کے خلاف نہیں جا سکتا جو مُلک کے حالات کو قابوسے باہر کر دے یہ اُسی وقت ہوتا ہے جبکہ لیڈر لیڈر ہی نہ ہو اور اپنے اثر اور قبضہ کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہو۔ کانگرس کے لیڈروں کو اس موقع پر بہت ہوشیاری سے کام کرنا چاہئے ورنہ انہیں یاد رہے کہ سیاسی حالات یکساں نہیں رہتے۔ اس قسم کے بیج کبھی نہایت تلخ پھل بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں کیونکہ خواہ وہ مانیں یا نہ مانیں اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک خداہے اور وہ تعداد میں زیادہ، مال میں زیادہ، حکومت میں طاقتور قوم کو تھوڑے اور کمزور لوگوں پر ظلم نہیں کرنے دے گا۔ اسلام ہر حالت میں زندہ رہے گا خواہ مسلمانوں کی غلطیوں کی وجہ سے عارضی طور پر تکلیف اُٹھالے۔
ایک اور بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں میں اس بات کے حق میں ہوں کہ ہو سکے تو باہمی سمجھوتے سے ہم لوگ اُسی طرح اکٹھے رہیں جس طرح کئی سَوسال سے اکٹھے چلے آتے ہیں لیکن فرض کرو مسلمان کُلّی طور پر باقی ہندوستان سے انقطاع کا فیصلہ کریں اور برطانیہ انہیں مجبور کر کے باقی ہندوستان سے ملا دے اور جیسا کہ مسٹر جناح نے کہا ہے مسلمان بزور اس فیصلہ کا مقابلہ کریں تو یقینا وہ قانوناً باغی نہیں کہلا سکتے کیونکہ یہ ایک نیا انتظام ہو گا اور نئی گورنمنٹ، سابق گورنمنٹ کو کوئی حق نہیں کہ وہ مسلمانوں کو جو اس مُلک کے اصل حاکم تھے دوسروں کے ماتحت ان کی مرضی کے خلاف کر دے۔ اس حکومتی ردّوبدل کے وقت ہر حصۂ مُلک کو نیا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے اور اپنے حق کو بزور لینے کا فیصلہ کرتے وقت وہ انٹرنیشنل قانون کے مطابق ہر گز باغی نہیں کہلا سکتے۔ مگر کیا ہندوؤں کو بھی قانون کا تحفظ حاصل ہے؟ وہ کب اس شکل میں مسلم صوبوں کے حاکم ہوئے تھے کہ انہیں دستورِ قدیمہ کو قائم رکھنے کا قانونی حق حاصل ہو۔ حکومتوں کے بدلنے پر’’سٹیٹس کو(STATUS QUO)‘‘ کا سوال ہی نہیں رہتا۔ پس مسلمان خدانخواستہ اگر ایسا کرنے پر مجبور ہوں تو قانونی لحاظ سے وہ جائز کام کریں گے۔ ہندو اگر جبراً ان کو اپنے ماتحت لانا چاہیں تو قانونی لحاظ سے وہ ظالم ہوں گے۔ اگر انگریز مسلمانوں کو ان کی مرضی کے خلاف بقیہ ہندوستان سے ملا دیں تو وہ بھی ظالم ہوں گے کیونکہ مسلمان بھیڑ بکریاں نہیں کہ انگریز جس طرح چاہیں ان سے سلوک کریںپس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس مشکل کو محبت سے سُلجھانے کی کوشش کی جائے زور اور خود ساختہ قانون سے نہیں۔ میں ہندوؤں کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا دل ان کے ساتھ ہے ان معنوں میں کہ میں چاہتا ہوں کہ ہندو مسلمانوں میں آزادانہ سمجھوتہ ہو جائے اور یہ سوتیلے بھائی اس مُلک میں سگے بن کر رہیں۔
میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ میں اس امر کے حق میں ہوں کہ جس طرح ہو ہندوستان کو متحد رکھنے کی کوشش کی جائے ہماری جُدائی اصلی جُدائی نہ ہو بلکہ جُدائی اتحاد کا پیش خیمہ ہو مگر میں اپنے ہندو بھائیوں سے یہ بھی ضرور کہوں گا کہ غلط دلائل کسی حقیقت کو ثابت نہیں کر سکتے بلکہ بہت دفعہ حقیقت کو اور بھی مشتبہہ کر دیتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی دلیل ہے کہ پنجاب سندھ وغیرہ صوبوں کے الگ ہو جانے سے ہندوستان کا ڈیفنس کمزور ہو جائے گا۔ کینیڈا کے الگ ہو جانے سے کیا یونائٹیڈ سٹیٹس کا ڈیفنس کمزور ہو گیا ہے؟ میکسیکو کی آزادی سے کیا یونائٹیڈ سٹیٹس کا ڈیفنس کمزور ہوگیاہے؟ ارجنٹائن کے الگ ہونے سے کیا برازیل کا ڈیفنس کمزور ہو گیا ہے؟ اگر مسلم صوبے الگ بھی ہو جائیں تو باقی ہندوستان کا کیا بگڑ سکتا ہے۔ اِس وقت بھی ہندوستان کی آبادی روس سے قریباً دُگنی، یونائٹیڈ سٹیٹس سے قریباً اَڑھائی گنی ،سابق جرمن سے قریباً چار گنی ہو گی اور مُلک کی وسعت بھی کافی ہو گی۔ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ مسلم صوبے الگ ہو کر ترقی نہیں کر سکیں گے دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے الگ ہو جانے سے ہندوستان اپنی عظمت کھو بیٹھے گا۔ اگر ہندوستان کی عظمت اسلامی صوبوں سے ہے تو ان کے الگ ہونے پر اسلامی صوبوں کو نقصان کیونکر پہنچے گا یہ تو وہی دلیل ہے جو روس اِس وقت پولینڈ،رومانیہ، بلغاریہ ،ٹرکی اور ایران کے بعض صوبوں پر قبضہ کرنے کی تائید میں دیتا ہے۔ روس اپنی تمام طاقت کے ساتھ تو جرمنی اور اٹلی کے حملہ سے جو تباہ شدہ مُلک ہیں نہیں بچ سکتا نہ افغانستان اور جنوبی ایران جیسے زبردست ملکوں کے حملوں سے بچ سکتا ہے اس کے بچنے کی صرف یہی صورت ہے کہ پولینڈ اور رومانیہ اور بلغاریہ اس کے زیر تصرف ہوجائیں یا ٹرکی کے بعض صوبے اور ایران کا شمالی حصہ اسے مل جائے کیا یہ دلیل ہے؟ کیا ایسی ہی دلیلوں سے ہندو مسلمانوں کے دلوں میں اعتبار پیدا کرسکتے ہیں؟ میں پھر کہتا ہوں کہ اس نازک موقع پر اخلاق پراپنے دعوؤںکی بنیاد رکھیں بھلا اِس قسم کے دعوؤں سے کہ مسلم لیگ مسلم رائے کی نمائندہ نہیں کیونکہ اس کے منتخب ممبر جو کونسلوں میں آئے اکثر بڑے زمیندار ہیں کیا بنتا ہے؟ کیا عوام الناس کو یہ اختیار نہیں کہ وہ بڑے زمیندار کو اپنا نمائندہ مقرر کریں؟ اس دلیل سے تو صرف یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پنڈت نہرو صاحب کے نزدیک جنہوں نے یہ امر پیش کیا ہے مسلمان اپنا نمائندہ چننے کے اہل نہیں۔اگر ان کا یہ خیال ہے تو دیانت داری کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ یوں کہیں کہ مسلمان چونکہ اپنے نمائندے چننے کے اہل نہیں اس لئے موجودہ ملکی فیصلہ میں ان سے رائے نہیں لینی چاہئے۔اگر وہ ایسا کہیں تو خواہ یہ بات غلط ہو یا درست مگر منطقی ضرور ہو گی مگر یہ کہنا کہ مسلمانوں نے چونکہ اپنا نمائندہ چند بڑے زمینداروں کو چنا ہے اس لئے وہ لوگ موجودہ سوال کو حل کرنے کے لئے مسلمانوں کے نمائندے نہیں کہلا سکتے ایک ایسی غیر منطقی بات ہے کہ پنڈت نہرو جیسے آدمی سے اس کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اگر ان کا یہ مطلب نہیں تو انہوں نے اس امر کا ذکراس موقع پر کیا کیوں تھا؟ درحقیقت ان کا یہ اعتراض ویسا ہی ہے جیسا کہ بعض مسلمان کہتے ہیں کہ مسٹر گاندھی عموماًمسٹر برلا کے مکان پر کیوں ٹھہرتے ہیں۔ یقینا مسٹر گاندھی کو مسٹر برلا کے مکان پر ٹھہرنے کا پورا حق ہے کیونکہ وہاں ان سے ملنے والوں کے لئے سہولتیں میسر ہیں ان کے وہاں ٹھہرنے سے ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ مالداروں کے قبضہ میں ہیں اسی طرح مسلم لیگ کے امیدوار اگر بڑے زمیندار ہوں اور مسلم پبلک اُن کو منتخب کرے تو اِس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ لوگ مسلمانوں کے نمائندے نہیں ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے لئے غلط قسم کا نمائندہ چنتا ہے تو وہ اپنے کئے کی سزا خود بُھگتے گا دوسرے کسی شخص کو اس کے نمائندہ کی نمائندگی میں شبہ کرنے کا حق نہیں یہ باتیں صرف لڑائی جھگڑے کو بڑھانے کا موجب ہوتی ہیں اور کوئی فائدہ ان سے حاصل نہیں ہوتا۔ پھر یہ بات ہے بھی تو غلط کہ مسلم لیگ کے اکثر نمائندے بڑے زمیندار ہیں پنجاب ہی کو لے لو اِس میں ۷۹ ممبر اِس وقت مسلم لیگ کے نمائندے ہیں اور چھ یونینسٹ پارٹی کے جن سے کانگرس نے سمجھوتہ کیا ہے۔ یونینسٹ پارٹی کے چھ ممبروں میں سے ملک سر خضرحیا ت، ملک سراللہ بخش اور نواب مظفر علی بڑے زمیندار ہیںگویا پچاس فیصدی ممبر بڑے زمیندار ہیں دوسرے تین کو میں ذاتی طور پر نہیں جانتا ممکن ہے ان میں سے بھی کوئی بڑا زمیندار ہو۔ اس کے مقابل پر مسلم لیگ کے ۷۹ممبروں میں سے صرف چار بڑے زمیندار ہیں یعنی نواب صاحب ممدوٹ،نواب لغاری، مسٹر ممتاز دولتانہ اور مسٹر احمد یار دولتانہ۔ دو اور ہیں جو میرے علم میں بڑے زمیندار نہیں مگر شاید انہیں بڑے زمینداروں میں شامل کیا جاسکتا ہو وہ سر فیروز خان اور میجر عاشق حسین ہیں اور ان کوبھی بڑے زمیندار وں میںشامل کر لیا جائے تو یونینسٹ پارٹی جو کانگرس کی حلیف ہے اس کے ممبرو ں میں سے پچاس فیصد بڑے زمینداروں کے مقابلہ پر لیگ کے ۷۹ میں سے ۶ بڑے زمیندار صرف ساڑھے سات فیصدی ہوتے ہیں اور کیا یہ نسبت اِس بات کا ثبوت کہلا سکتی ہے کہ کوئی پارٹی بڑے زمینداروں کی پارٹی ہے۔ بڑے زمینداروں کا طعنہ مدت سے کانگرس کی طرف سے مسلمانوں کو دیا جاتا ہے حالانکہ بڑا خواہ زمیندار ہو یا تاجر اگر وہ بُرے معنوں میں بڑا ہے تو ہر شکل میں بُرا ہے لیکن اگر وہ اپنے حلقہ کا نمائندہ ہے تو جب تک مُلک کا قانونِ انتخاب اُس کی دولت اس کے پاس رہنے دیتا ہے اور جب تک کہ اس کا حلقہ اس کاانتخاب کرتا ہے نمائندگی میں کسی دوسرے سے کم نہیں۔ پنجاب میں گورنمنٹ رپورٹ کے مطابق صرف تیرہ زمیندار ایسے ہیںجو آٹھ ہزار سے زیادہ ریونیو دیتے ہیں(یعنی جن کی آمد رائج الوقت مال گزاری کے اصول کے مطابق ۱۶ ہزار سالانہ سے زائد ہے اس سے کم آمد ہرگز کسی کو بڑا زمیندار نہیں بنا سکتی بلکہ یہ آمد بھی بڑی نہیں کہلا سکتی اتنی آمد معمولی معمولی دُکانداروں کی بھی ہوتی ہے گو وہ ٹیکس سے بچنے کے لئے ظاہر کریں یا نہ کریں۔ زمیندار کا صرف یہی قصور ہے کہ وہ اپنی حیثیت ظاہر کرنے پر مجبور ہے)ان میں غالباً کچھ غیر مسلم بھی ہوں گے اگر سب مسلمان ہی ہوں تو بھی یہ کوئی بڑی تعداد نہیں اور جب یہ دیکھا جائے کہ یہ لوگ جس قدر ریونیو ادا کرتے ہیں وہ پنجاب کے کُل ریونیو کے سویں حصہ سے بھی کم ہے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ پنجاب کی اکثر زمین چھوٹے زمینداروں کے پاس ہے بڑے زمینداروں کے پاس نہیں۔ بڑا زمیندارہ صرف یوپی اور بنگال میں ہے لیکن وہاں کے بڑے زمینداروں میں اکثریت ہندوؤں کی ہے جن میں سے اکثریت کانگرس کی تائید میں ہے۔ مگر اس کے بھی یہ معنی نہیں کہ ہندواکثریت کانگرس کے ساتھ نہیں اور زمینداروں کے ساتھ شامل ہوتے ہوئے بھی کانگرس کی نمائندگی پر کوئی حرف نہیں آتا۔
ایک نصیحت میں کانگر س کوخصوصاًاور عام ہندوؤں کو عموماً یہ کرنا چاہتا ہوں کہ تبلیغِ مذہب اور تبدیلی مذہب کے متعلق وہ اپنا رویہ بدل لیں۔ مذہب کے معاملہ میں دست اندازی کبھی نیک نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی وہ مذہب کو سیاست میں بدل کر کبھی چین نہیں پا سکتے۔ تبلیغِ مذہب اور مذہب بدلنے کی آزادی انہیں ہندوستان کے اساس میں شامل کرنی چاہئے اور اس طرح اس تنگ ظرفی کا خاتمہ کر دینا چاہئے جو ان کی سیاست پر ایک داغ ہے اور اس تنگی کو کوئی آزاد شخص بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ جب تک مُلک کی ذہنیت غلامانہ ہے ایسی باتیں چل جائیں گی لیکن جب حُریت کی ہوا لوگوں کو لگی ایسے غلط نظریوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑک اُٹھیں گے تبدیلی تو ہو کر رہے گی لیکن جو لوگ اِس تنگ ظرفی کے ذمہ دار ہونگے وہ ہمیشہ کے لئے اپنی اولادوں کی نظروں میں ذلیل ہو جائیں گے۔ وہ فطرت کے اس تقاضہ کو اس حقیقت سے سمجھ سکتے ہیں کہ بادشاہ اورنگ زیب کو سب سے زیادہ بدنام کرنے والا وہ غلط الزام ہے کہ اس نے مذہب میں دست اندازی کی۔ ان کا یہ خیال کہ ہم دوسرے کا مذہب بدلوانے پر زورنہیں دیتے ایک غلط خیال ہوگا کیونکہ بدھ، کرشن ،عیسیٰؑ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے لوگ بھی دوسرے کا مذہب نہیں بدلواتے تھے ان کو تبلیغ سے اور اپنے ہم مذہبوں کو مذہب تبدیل کرنے سے روکتے تھے اور تبلیغ کرنے والوں اور مذہب تبدیل کرنے والوں کو سزائیں دیتے تھے۔ اگر ایسا ہی ارادہ آپ لوگوں نے کیا تو اُسی *** کے آپ حصہ دار ہوں گے جس *** کا بوجھ ان پہلوں پر پڑچکا ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ وقت ایسا نہیں کہ غلط اور سُنی سنائی باتوں کو لے کر پبلک میں ہیجان پیدا کیا جائے یا پارلیمنٹری مشن پر اثر ڈالنے کی کوشش کی جائے کوئی خدا کومانے یا نہ مانے مگر فطرتِ صحیحہ کی مخالفت کبھی اچھا نتیجہ پیدا نہیں کرتی۔ یہ وقت سنجیدگی سے اس امر پر غور کرنے کا ہے کہ کس طرح ہمارا مُلک آزاد ہو سکتا ہے اور کس طرح ہر قوم خوش رہ سکتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہواتو ہم صرف قید خانہ بدلنے والے ہوں گے۔
میں نے اس مخلصانہ مشورہ میں صرف اشارات سے کام لیا ہے اگر مجھے مزید وضاحت کی ضرورت ہوئی تو ملامت کرنے والوں کی ملامت سے بے پرواہ ہو کر میں اِنْشَائَ اللّٰہُ اپنا مخلصانہ مشورہ مشن یا پبلک کے اس حصہ کے آگے پیش کروں گا جو سننے کے لئے کان اور سوچنے کے لئے دماغ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پارلیمنٹری وفد کو بھی اور ہندو مسلمان اور دوسری اقوام کے نمائندوں کو بھی صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق بخشے ۔آمین
خاکسار
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ
قادیان
۵۔۴۔۱۹۴۶ء
ہر کام کی بنیاد حق الیقین پر ہونی چاہئے
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ہر کام کی بنیاد حق الیقین پر ہونی چاہئے
سورۃ الم نشرح کی تفسیر کے وقت درس القرآن کے موقع پر فرمایا:۔
قرآن کریم نے یقین کے مختلف مدارج بیان کئے ہیں۔ یوں تو اس کے ہزاروں مدارج ہیں مگر موٹے موٹے تین مدارج ہیں۔ علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں جو خاص اصولی مضامین ہیں ان میں سے ایک یہ بھی مضمون ہے جو مراتب یقین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پہلے صوفیاء کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں پہلے صوفیاء کی کتابوں میں بھی بے شک اس کا ذکر ملتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مضمون میں جو جِدتیں پیدا کی ہیں وہ ان لوگوں کی تشریحات میں نہیں ہیں۔ بعض لوگ اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ یہ باتیں تو امام غزالی ؒکی کتابوں میں بھی پائی جاتی ہیں یا فلاں فلاں مضامین انہوں نے بھی بیان کئے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر اقبال نے کہہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس قسم کے مضامین صوفیاء کی کتابوں سے چرا لئے تھے حالانکہ اگر غور وفکر سے کام لیا جائے تو دونوں کے تقابل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ انہوں نے مضمون میں وہ باریکیاں پیدا نہیں کیں جو ایک ماہرِ فن پیدا کیا کرتا ہے اور نہ مضمون کی نوک پلک انہوں نے نکالی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس مضمون کو بھی لیا ہے ایک ماہرِ فن کے طور پر اس کی باریکیوں اور اس کے خدوخال پر پوری تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور کوئی پہلو بھی تشنۂ تحقیق رہنے نہیں دیا اور یہی ماہر کا کام ہوتا ہے کہ دوسروں سے نمایاں کام کر کے دکھا دیتا ہے۔ مثلاً تصویر کھینچنا بظاہر ایک عام بات ہے ہر شخص تصویرکھینچ سکتا ہے میں بھی اگر پنسل لے کر کوئی تصویر بنانا چاہوں تو اچھی یا بُری جیسی بھی بن سکے کچھ نہ کچھ شکل بنا دوں گا مگر میری بنائی ہوئی تصویر اور ایک ماہرِ فن کی بنائی ہوئی تصویر میں کیا فرق ہوگا یہی ہوگا کہ ماہرِ ف
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تعارف کتب
یہ انوار العلوم کی اٹھارویں جلد ہے جو سیدنا حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی کی ۲۶؍فروری ۱۹۴۵ء تا ۲۰؍مئی ۱۹۴۷ء کی بتیس مختلف تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے۔
(۱) اسلام کا اقتصادی نظام
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ معرکۃ الآراء اور انقلاب انگیز تقریر مؤرخہ ۲۶؍ فروری ۱۹۴۵ء کو احمدیہ ہوسٹل واقع ۲۳ ڈیوس روڈ لاہور میں احمدیہ انٹرکالجیئیٹ ایسوسی ایشن کے زیرِ اہتمام مختلف مذاہب کے لوگوں کے اجتماع میں ارشاد فرمائی۔ یہ تقریر تقریباً اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ اس تقریر میں احمدی احباب کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں مُسلم اور غیر مُسلم معززین بھی شامل تھے جن کی اکثریت اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ طبقہ اور پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسرز اور طلباء سے تعلق رکھتی تھی۔ تقریر کے دوران پروفیسرز، وکلاء اور دیگر اہلِ علم دوست کثرت سے نوٹ لیتے رہے۔
اس تقریر کی صدارت مسٹر رامچندر مچندہ صاحب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور نے کی۔ تقریر کے خاتمہ پر صاحبِ صدر نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا:۔
’’میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی قیمتی تقریر سننے کا موقع ملا اور مجھے اِس بات سے خوشی ہے کہ تحریک احمدیت ترقی کر رہی ہے اور نمایاں ترقی کر رہی ہے۔ جو تقریر اِس وقت آپ لوگوں نے سُنی ہے اُس کے اندر نہایت قیمتی اور نئی نئی باتیں حضرت امام جماعت احمدیہ نے بیان فرمائی ہیں مجھے اس تقریر سے بہت فائدہ ہوا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگوں نے بھی اِن قیمتی معلومات سے فائدہ اُٹھایا ہوگا۔ مجھے اس بات سے بھی خوشی ہے کہ اس جلسہ میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مُسلم بھی شامل ہوئے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ مُسلمانوں اور غیر مُسلموں کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ جماعت کے بہت سے معزز دوستوں سے مجھے تبادلۂ خیالات کا موقع ملتا رہتا ہے۔ یہ جماعت اسلام کی وہ تفسیر کرتی ہے جو اس ملک کے لئے نہایت مفید ہے۔ پہلے تو میں سمجھتا تھا اور یہ میری غلطی تھی کہ اسلام اپنے قوانین میں صرف مسلمانوں کا ہی خیال رکھتا ہے غیر مسلموں کا کوئی لحاظ نہیں رکھتا مگر آج حضرت امام جماعت احمدیہ کی تقریر سے معلوم ہوا کہ اسلام تمام انسانوں میں مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور مجھے یہ سُن کر بہت خوشی ہے۔ میں غیر مُسلم دوستوں سے کہوں گا کہ اس قسم کے اسلام کی عزت و احترام کرنے میں آپ لوگوں کو کیا عذر ہے؟ آپ لوگوں نے جس سنجیدگی اور سکون سے اڑھائی گھنٹہ تک حضرت امام جماعت احمدیہ کی تقریر سُنی اگر کوئی یورپین اس بات کو دیکھتا تو حیران ہوتا کہ ہندوستان نے اتنی ترقی کر لی ہے۔ جہاں میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے سکون کے ساتھ تقریر کو سُنا وہاں میں اپنی طرف سے اور آپ سب لوگوں کی طرف سے حضرت امام جماعت احمدیہ کا باربار اور لاکھ لاکھ شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اُنہوں نے اپنی نہایت ہی قیمتی معلومات سے پُرتقریر سے ہمیں مستفید فرمایا‘‘۔
(تاریخ احمدیت جلد۱۰ صفحہ۴۹۵،۴۹۶)
سامعین پر اِس تقریر کے اثر کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس تقریر کو حاضرین نے ایسے شوق سے سنا کہ اتنے لمبے عرصہ تک لوگ اس طرح بیٹھے رہے کہ گویا اُن کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ ایک پروفیسر تو اِس تقریر کو سن کر رو پڑے اور بعض کمیونزم کے حامی طلباء نے اِس خیال کا اظہار کیا کہ وہ اسلامی شوشلزم کے قائل ہوگئے ہیں اور اب اسے صحیح اور درست تسلیم کرتے ہیں۔ یونیورسٹی اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے ایم۔ اے کے بعض طلباء نے حضور کی اس تقریر کے متعلق یہ خواہش ظاہر کی کہ اس کا انگریزی ترجمہ چھپوا کر یونیورسٹی اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسروں کے پاس بھیجا جانا چاہئے۔ نیر اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ جہاں مختلف سکیمیں ہندوستان کی آئندہ ترقی اور بہبودی کیلئے دوسرے لوگوں کی طرف سے پیش ہو رہی ہیں وہاں یہ اسلامی نظام جو حضور نے پیش فرمایا ہے مسلمانوں کے خیالات کی نمائندگی کرے گا الغرض جوں جوں اس تقریر کی شہرت ہوئی بعض لوگ جو یونیورسٹی سے تعلق رکھتے تھے اور چوٹی کے پروفیسر تھے اُنہوں نے اپنے ملنے والوں سے معذرتیں کیں اور اس امر پر افسوس کیا کہ وہ بوجہ بعض دوسری مصروفیتوں کے اس عظیم الشان لیکچر کے سننے سے محروم رہے۔
حضور نے اپنے فاضلانہ خطاب کے آغاز میں سب سے پہلے نہایت لطیف پیرایہ میں اسلام کی اقتصادی تعلیم کا ماحول بیان فرمایا اور پھر اموال سے متعلق اسلامی نظریہ کی وضاحت کی اور نہایت تفصیل سے بتایا کہ اسلام نے کس طرح صرف دولت کے غلط استعمال ہی کو نہیں روکا بلکہ اس کے ناجائز طور پر حصول کا بھی مؤثر سدباب فرمایا ہے۔
حضور نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں کمیونزم کی تحریک کا مذہبی، اقتصادی، سیاسی، نظریاتی اور عملی لحاظ سے تفصیلی جائزہ لیا اور آخر میں اُس کے متعلق بائبل کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کا اُردو متن سنانے کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اپنی پیشگوئی کا بھی ذکر فرمایا۔
الغرض حضرت مصلح موعود کے اِس لیکچر نے چوٹی کے علمی طبقوں میں ایک تہلکہ مچا دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُسے ہر سطح پر غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔
(۲) قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید
حضرت مصلح موعود کے ارشا دکی تعمیل میں مؤرخہ ۲۵؍ اگست تا ۲۵؍ ستمبر ۱۹۴۵ء ایک ماہ کی تعلیم القرآن کلاس قادیان میں منعقد ہوئی۔ اس تعلق میں حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۱۱؍ستمبر۱۹۴۵ء کو بیت اقصیٰ قادیان میں یہ تقریر ارشاد فرمائی جس میں قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے کی ضرورت نیز قرآن کریم کے سمجھنے کے متعلق نہایت اہم باتیں بیان فرمائیں اور جماعت کو پُرزور تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ہراحمدی کو قرآن کریم پڑھنا چاہئے اور جو پڑھنا نہیں جانتے اُن کو سنا کر قرآن کریم سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ ہمارا اوّلین فرض ہے۔ اگر ہم یہ ارادہ کر لیں کہ سَو فیصدی افراد کو قرآن شریف کا ترجمہ سمجھا دیں گے اور اگر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں تو ہماری فتح میں کوئی شک ہی نہیں اور ہماری روحانی حالت میں ایک عظیم الشان تغیر آ جائے گا‘‘۔
(۳) نیکیوں پر استقلال اور دوام کی عادت ڈالیں
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ بصیرت افروز تقریر مؤرخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ارشاد فرمائی جس میں نیکیوں پر دوام اور استقلال اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہی نیکی بابرکت اور نتیجہ خیز ہوتی ہے جس میں استقلال اور دوام کا رنگ پایا جاتا ہے۔ کچھ دن نیکی کر کے پھر اُسے چھوڑ دینا ایک ایسی کمزوری ہے جس سے انسان کی روحانی زندگی ہر وقت خطرہ میں رہتی ہے۔ نیز فرمایا کہ جو قوم اِس بات کی عادی ہو کہ اُسے بار بار بیدار کیا جائے اُسے اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہئے۔
(۴) آئندہ الیکشنوں کے متعلق جماعت احمدیہ کی پالیسی
حضرت مصلح موعود نے یہ مضمون ہندوستان میں آئندہ ہونے والے الیکشنوں سے چند روز پیشتر مؤرخہ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو تحریر فرمایا جس میں احباب جماعت کو آئندہ الیکشنوں کے متعلق جماعت احمدیہ کی پالیسی سے آگاہ فرمایا جس کے بنیادی نکات حسب ذیل ہیں۔
۱۔ پنجاب کے باہر ہر احمدی پوری طرح مُسلم لیگ کی کمیٹیوں اور اس کے امیدواروں کی مدد کرے۔ اپنے اور اپنے زیر اثر ووٹ اُن کو دے اور اپنے علاقہ کے لوگوں کو مُسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے کی تلقین کرے۔
۲۔ پنجاب سے کھڑے ہونے والے احمدی امیدوار مُسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں۔ اگر مُسلم لیگ سے ٹکٹ کے حصول میں کامیابی نہ ہوتو مُسلم لیگ کی پالیسی کے تابع ہی انڈیپنڈنٹ کھڑے ہوں۔
۳۔ پنجاب کے تمام احمدی ووٹ یا زیر اثر ووٹ محفوظ رکھے جائیں اور ان کے بارہ میں مرکز سے انفرادی مشورہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے۔ آپ ہی آپ فیصلہ نہ کیا جائے۔
(۵) مجلس خدام الاحمدیہ کا تفصیلی پروگرام
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ تقریر مؤرخہ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو مجلس خدام الاحمدیہ کے ساتویں سالانہ اجتماع پر ارشاد فرمائی۔
حضور نے اس تقریر میں سات کے ہندسہ کی اسلامی اصطلاح میں حیثیت و اہمیت نیز مطلب بیان کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ مجلس خدام الاحمدیہ کو اس پہلو سے اپنی کارکردگی اور مساعی کا جائزہ لینا چاہئے کہ اُس نے گذشتہ سات سالوں میں کیا کھویا اور کیا پایا ہے؟
نیز ہدایت فرمائی کہ جماعتوں کے مقامی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے قواعد وضع کئے جائیں اور قواعد وضع کرتے وقت ان کے نتائج کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک مقامی جماعتوں کے حالات و مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے قواعد نہ بنائے جائیں محض قواعد بنا لینے سے کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی لہٰذا جماعتوں کے حالات اور مسائل کا جائزہ لینے کیلئے پہلے انسپکٹران مقرر کئے جائیں پھر ان کے جائزہ کی روشنی میں لائحہ عمل تیار کیا جائے اور ساتھ ساتھ قواعد کا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہئے اس پہلو سے بنائے گئے قواعد و ضوابط مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
(۶)مسلمانوں نے اپنے غلبہ کے زمانہ میں اخلاق کا
اعلیٰ نمونہ دکھایا
حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو بعد نماز مغرب بمقام قادیان یہ تقریر ارشاد فرمائی جو پہلی دفعہ مؤرخہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۶۰ء کو روزنامہ الفضل میں شائع ہوئی اور اب انوارالعلوم کی جلد ھٰذا میں کتابی صورت میں شائع ہو رہی ہے۔ ان ارشادات میں حضور نے مختلف سماجی و معاشرتی کمزوریوں پر روشنی ڈالی نیز انگریز قوم کی بعض کمزوریوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی بعض خوبیوں کو بھی بیان فرمایا جن کی روشنی میں احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’اب ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ ایسے اخلاق پیدا کرے جو نہایت اعلیٰ درجہ کے ہوں اور جن سے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بن جائے‘‘۔
نیز فرمایا:۔
’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرے اور نہ صرف وہ خوبیاں حاصل کرے جو انگریزوں میں پائی جاتی ہیں بلکہ ان سے بھی بہتر خوبیاں اپنے اندر پیدا کرے تا کہ ہماری جماعت کا معیار بلند ہو اور لوگوں پر ہمارا رُعب قائم ہو‘‘۔
(۷) نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہوتی ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ پُرمعارف خطاب مؤرخہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۵ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمایا جس میں حضور نے اس ابدی اصول پر روشنی ڈالی کہ کفر ہمیشہ ایک ہی راستے پر چل رہا ہے اور اس سے پیار کرنے والے ہر نبی کے زمانہ میں وہی طریق اختیار کرتے ہیں جو پہلے انبیاء کے زمانہ میں اختیار کیا گیا۔ اسی طرح ہدایت کا بھی ایک بنا بنایا راستہ ہے جو ابتدا سے آج تک بغیر تغیر و تبدل کے چلا آ رہا ہے اور ہر آنے والا اِسی راستہ پر چلتا ہے لیکن لوگ اس بنے ہوئے راستہ کی طرف توجہ نہیں کرتے اور خود تراشیدہ قوانین کی پیروی کرتے ہیں۔
چنانچہ اس اصول سے آپ نے اس حقیقت کو ثابت کیا کہ تمام انبیاء کے حالات وواقعات ایک ہی طرح کے ہوتے ہیںلہٰذا اِسی معیار پر حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کو بخوبی پرکھا جا سکتا ہے۔
(۸) تحریک جدید کی اہمیت اور اس کے اغراض و مقاصد
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ تقریر مؤرخہ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۴۵ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمائی جس میں تحریک جدید کی اہمیت اور اس کے اغراض و مقاصد کو کھول کر بیان فرمایا اور لاکھوں مبلغین تیار کرنے کیلئے بڑھ چڑھ کر چندہ تحریک جدید میں حصہ لینے کی تحریک فرمائی۔ اس تعلق میں آپ نے فرمایا کہ:۔
’’حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں صحیح طور پر تبلیغِ اسلام کرنے کیلئے ہمیں لاکھوں مبلغوں اور کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے‘‘۔
اس کے علاوہ حضور نے اس تقریر میں ہر جگہ قرآن کریم کے درس جاری کرنے، تجارت کی طرف توجہ دینے اور زندگیاں وقف کرنے جیسی تحریکات پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے احباب جماعت کو ان کی طرف توجہ دینے کی تلقین فرمائی۔ اسی طرح مرکز سلسلہ میں بار بار آنے کی بھی تحریک فرمائی۔ آخر پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’دنیا میں وہی جماعت اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتی ہے جس کے افراد اپنے دلوں میں محبتِ الٰہی رکھتے ہوں‘‘۔
(۹) پارلیمنٹری مشن اور ہندوستانیوں کا فرض
مارچ ۱۹۴۶ء میں برطانیہ کی لیبر حکومت نے ہندوستان کے سیاسی تعطل کو دور کرنے کیلئے ایک سکیم دے کر لارڈ پنیتھک لارنس (وزیر ہند) سٹیفورڈ کرپس (لارڈ پریوی سیل) اور الیگزنڈر (وزیر بحر) پر مشتمل ایک وزارتی مشن ہندوستان بھیجا۔ یہ وفد ۲۵؍ مارچ ۱۹۴۶ء کو دہلی پہنچا اور آتے ہی مُسلم لیگ اور کانگرس کے زعماء سے بات چیت میں مصروف ہو گیا۔
پارلیمنٹری وفد کی ہندوستان میں آمد پر حضرت مصلح موعود نے ایک دینی اور روحانی پیشوا کی حیثیت سے برطانوی ارکان، مُسلم لیگ اور کانگرس سب کو اُن کی نازک ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور ہندوستان کی گتھی کو عدل و انصاف اور اخلاق کے تقاضوں کے مطابق سُلجھانے کا مخلصانہ مشورہ دیا۔ نیز مُسلم لیگ کے مؤقف کی زبردست حمایت کی اور کانگرس کے بے بنیاد پراپیگنڈا کی حقیقت واقعات کی روشنی میں واضح فرمائی اور اُسے مشورہ دیا کہ وہ تبدیلی مذہب کے متعلق اپنا زاویہ نگاہ بدل لے۔
(۱۰) ہر کام کی بنیاد حق الیقین پر ہونی چاہئے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ مضمون سورۃ الم نشرح کی تفسیر کرتے ہوئے درس میں بیان فرمایا تھا جسے افادۂ عام کے لئے مؤرخہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۴۶ء کو روزنامہ الفضل میں شائع کیا گیا اور اب اِسے کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔
(۱۱) فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے افتتاح کی تقریب
یہ مختصر خطاب حضرت مصلح موعود نے فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قادیان کے افتتاح کے موقع پر مؤرخہ ۱۹؍ اپریل ۱۹۴۶ء کو نمائندگانِ شورٰی کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جس میں حضور نے اس سلسلہ میں آئندہ ہونے والی توسیع نیز دیگر آلات وغیرہ کی خریداری کے سلسلہ میں پیش آمدہ ضروریات کے پیش نظر احباب جماعت کو مالی قربانیوں کیلئے تیار رہنے کی تلقین فرمائی نیز اِس انسٹیٹیوٹ کے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’تا کہ ہم اپنی جدوجہد کے ذریعہ سائنس کو مذہب کے قریب لانے کی کوشش کریں… کوئی سچی سائنس سچے مذہب سے ٹکرا نہیں سکتی اور یہ کام بندوں کا ہے کہ وہ سائنس کے مسائل کو مذہب کے مطابق ثابت کریں اور دنیا سے اِس ناواجب تفرقہ اور شقاق کو دور کر دیں جو مذہب اور سائنس میں پایا جاتا ہے‘‘۔
(۱۲) ہماری جماعت میں بکثرت حفاظ ہونے چاہئیں
حضرت مصلح موعود نے یہ تقریر مؤرخہ ۲۹؍ اپریل ۱۹۴۶ء کو بوقت بعد نماز مغرب بمقام قادیان دارالامان ارشاد فرمائی جس میں تحریک فرمائی کہ قرآن کریم کا چرچا اور اس کی برکات کو عام کرنے کیلئے ہماری جماعت میں بکثرت حفاظ ہونے چاہئیں۔ چنانچہ فرمایا کہ:۔
’’صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ چار پانچ حفاظ مقرر کرے جن کا کام یہ ہو کہ وہ مساجد میں نمازیں بھی پڑھایا کریں اور لوگوں کو قرآن کریم بھی پڑھائیں۔ اسی طرح پر جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے اُن کو ترجمہ پڑھا ویں۔ اگر صبح و شام وہ محلوں میں قرآن پڑھاتے رہیں تو قرآن کریم کی تعلیم بھی عام ہو جائے گی اور یہاں مجلس میں بھی جب کوئی ضرورت پیش آئے گی تو ان سے کام لیا جا سکے گا۔ بہرحال قرآن کریم کا چرچا عام کرنے کے لئے ہمیں حفاظ کی سخت ضرورت ہے۔ انجمن کو چاہئے کہ وہ انہیں اتنا کافی گزارہ دے کہ جس سے وہ شریفانہ طور پر گزارہ کر سکیں۔ پہلے دو چار آدمی رکھ لئے جائیں پھر رفتہ رفتہ اس تعداد کو بڑھایا جائے‘‘۔
(۱۳)کوئی احمدی ایسا نہیں ہونا چاہئے جسے
قرآن کریم باترجمہ نہ آتا ہو
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ روح پرور تقریر مؤرخہ ۹؍ مئی ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ارشاد فرمائی۔ اس مضمون میں حضور نے حفاظت قرآن نیز مختلف قراء ت پر روشنی ڈالی اور تلقین فرمائی ہے کہ کوئی احمدی ایسا نہیں ہونا چاہئے جسے قرآن کریم باترجمہ نہ آتا ہو۔ اس تعلق میں آپ نے فرمایا کہ:۔
’’جب تک لوگ قرآن کی تعلیمات کو نہیں اپنائیں گے، جب تک قرآن کریم کو اپنا رہبر نہیں مانیں گے یہ اُس وقت تک چَین کا سانس نہیں لے سکتے۔ یہی دنیا کا مداوا ہے۔ ہماری جماعت کو کوشش کرنی چاہئے کہ دنیا قرآن کریم کی خوبیوں سے واقف ہو اور قرآن کریم کی تعلیم لوگوں کے سامنے بار بار آتی رہے تا کہ دنیا اس مأمن کے سایہ تلے آکر امن حاصل کرے‘‘۔
(۱۴) سپین اور سسلی میں تبلیغ اسلام اور جماعت احمدیہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ۱۹۴۶ء میں جماعت احمدیہ کے دو مبلغین کے سپین میں پہنچنے کی اطلاع ملنے پر مؤرخہ ۳۰؍ جون ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں یہ ملفوظات ارشاد فرمائے جن میں سپین میں نفوذِ اسلام اور تبلیغ اسلام کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے دوبارہ وہاں اسلام کی کھوئی ہوئی شان و شوکت کو بحال کرنے اور واپس لانے کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی ذمہ داریوں کو واضح فرمایا اور اس سلسلہ میں احباب جماعت کو بڑھ چڑھ کر چندہ تحریک جدید میں حصہ لینے کی تحریک فرمائی۔ نیز آپ نے فرمایا کہ سپین میں اسلام کی کھوئی ہوئی شان و شوکت کو بحال کرنے کیلئے اخلاق، متواتر قربانی اور بلند عزائم کی ضرورت ہے۔ ان اوصاف کے بغیر ہماری تمام کوششیں لاحاصل ہیں۔
(۱۵) یورپ کا پہلا شہید شریف دوتسا
۱۹۴۶ء میں البانیہ کے ایک ممتاز احمدی شریف دوتسا صاحب اپنے خاندان سمیت کمیونسٹ حکومت کے ہاتھوں نہایت بے دردی سے شہید کر دیئے گئے۔ شریف دوتسا صاحب یورپ کے پہلے احمدی تھے جنہوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔
مکرم ملک محمد شریف صاحب مبلغ اٹلی نے حضرت مصلح موعود کو جب اس دردناک واقعہ کی اطلاع دی تو حضور نے اپنے قلم سے روزنامہ الفضل کے لئے یہ مضمون تحریر فرمایا جو مؤرخہ ۱۲؍جولائی ۱۹۴۶ء کو روزنامہ الفضل قادیان میں شائع ہوا۔ جس میں حضور نے اس دردناک اور ایمان افرورز واقعہ کی تفصیل درج فرمائی ہے۔ نیز اس واقعہ کی روشنی میں احباب جماعت کو تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تحریک بھی فرمائی ہے۔
(۱۶) اب عمل اور صرف عمل کرنے کا وقت ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ روح پرور اور ایمان افروز تربیتی خطاب خدام الاحمدیہ سے مؤرخہ ۲۹؍ ستمبر ۱۹۴۶ء کو بعد نماز ظہر بمقام پارک روڈ دہلی میں ارشاد فرمایا جس میں محض زبانی دعوؤں کی بجائے عملی نمونہ پیش کرنے کے متعلق نصائح فرمائی ہیں۔ اسی طرح حضور نے اس تقریر میں خدام کو اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرنے، تنظیم مضبوط بنانے، دین کیلئے قربانی کرنے اور بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ نیز ظاہری صفائی کے ساتھ ساتھ روحانی پاکیزگی اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’پس تم بے شک ظاہری صفائی کا بھی خیال رکھو لیکن اس سے زیادہ فکر تمہیں روحانی گند کو دور کرنے کیلئے ہونا چاہئے۔ اس روحانی گند کو دور کرنے کی کوشش کرو اور قربانی کے معیار کو بہت بلند کرو‘‘۔
(۱۷) فریضۂ تبلیغ اور احمدی خواتین
یہ تقریر حضرت مصلح موعود نے یکم اکتوبر ۱۹۴۶ء کو جلسہ لجنہ اماء اللہ دہلی میں ارشاد فرمائی۔ جس میں انہیں تبلیغ کرنے اور صحابیات کے نقشِ قدم پر چلنے کی پُرزور نصیحت کی اور صحابیات کے ایمان افروز واقعات اور مثالیں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’اگر تم چاہتی ہو کہ انہی انعامات کی وارث بنو جو صحابہ اور صحابیات پر ہوئے تو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرو۔ اب باتیں کرنے کے دن نہیں رہے… جب تک عورتیں مردوں کے ساتھ ہر کام میں اُن کے دوش بدوش نہیں چلتیں اُس وقت تک تبلیغ کامیاب نہیں ہو سکتی اور اُس وقت تک اسلام دنیا پر غالب نہیں ہوسکتا‘‘۔
(۱۸) دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا علاج پیش کرتا ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے عالمگیر امن کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ پُرمعارف تقریر مؤرخہ ۹؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو بوقت شام ساڑھے پانچ بجے بمقام کوٹھی ۸ پارک روڈ دہلی کے وسیع صحن میں ارشاد فرمائی۔ اس تقریر کو سننے کیلئے کئی سَو غیر احمدی اور غیر مسلم معززین تشریف لائے اور اُنہوں نے نہایت توجہ اور سکون کے ساتھ حضور کی تقریر کو سنا۔ یہ تقریر پہلی دفعہ مؤرخہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۶۱ء کو روزنامہ الفضل میں شائع ہوئی اور اب یہ انوارالعلوم کی اِس جلد میں کتابی صورت میں شائع ہو رہی ہے۔ اس تقریر کے بارہ میں اخبار ’’تیج‘‘ دہلی نے اپنی ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کی اشاعت میں حسبِ ذیل نوٹ شائع کیا۔
’’احمدیوں کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ امن اور شانتی کا مسئلہ اتنا ہی پُرانا ہے جتنا کہ خود انسان، کیونکہ انسانی فطرت کے ساتھ اس کا نہایت گہرا تعلق ہے۔ اگر اس کا قیام مطلوب ہے تو اس کے لئے جذبہ دشمنی و نفرت کو ختم کرنا پڑے گا۔ مسئلہ سیاسی نہیں ہے بلکہ اخلاقی ہے اور اگر ہم خدا کی خدائی سے باخبر ہوں اور روٹی کا پیار، لالچ وغیرہ کو چھوڑ دیں تو اس کے بعد ہم میں نفرت اور لالچ کے بجائے برادری اور محبت کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔ مذہبی دنیا کے اختلافات ختم ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ہم ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنا سیکھیں اور اپنے اندر قوتِ برداشت پیدا کریں۔ جس طرح مذہبی معاملات میں تحمل کی ضرورت ہے ٹھیک اِسی طرح دنیا داری کے معاملات میں بھی اس کا ہونا لازمی ہے۔ ہمیں قومیت و رنگ کے جھگڑوں کو ختم کر کے عالمگیر برادری کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے‘‘۔ (الفضل ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء)
(۱۹) ہمارے ذمہ تمام دنیا کو فتح کرنے کا کام ہے
یہ تقریر حضرت مصلح موعود نے دہلی سے قادیان کو واپسی سے ایک روز قبل ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو جماعت احمدیہ دہلی کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی جو حضور کی زندگی کا دہلی میں آخری خطاب ثابت ہوا۔ حضور نے اس موقعہ پر نہایت مفید اور قیمتی نصائح ارشاد فرمائیں آپ نے فرمایا کہ:۔
’’اِس وقت تمام دنیا میں اسلام پھیلانے اور لوگوں کے قلوب کو فتح کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ یہ خیال بھی کبھی دل میں نہیں لانا چاہئے کہ یہ ذمہ داری کسی اور کی ہے جب تم یہ اچھی طرح ذہن نشین کر لو گے تو دنیا بھر میں کوئی بھی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ تم جہاں جاؤ گے تمہارے رستہ سے رُکاوٹیں خود بخود دور ہوتی چلی جائیں گی…ہندوستان مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مولد ہے اس لئے بھی اور اس لئے بھی کہ دہلی ہندوستان کا صدر مقام ہے دہلی والوں پر خاص کر بہت زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں…اب تمہارے لئے موقع ہے کہ اس کام کو سنبھالو… خداتعالیٰ مجھ کو اور تم کو اِس فرض کے ادا کرنے کی توفیق بخشے‘‘۔
(۲۰) عمل کے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ روح پرور تقریر مجلس خدام الاحمدیہ کے آٹھویں سالانہ اجتماع پر مؤرخہ ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو قادیان میں ارشاد فرمائی۔ جس میں حضور نے خدام کو اپنی تمام صلاحیتیں اور طاقتیں صرف اور صرف کام کیلئے وقف کرنے کی تلقین فرمائی۔ نیز اس طرح خدام کو یہ باور کروایا کہ عمل کے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ نیر اپنے خیالات و افکار میں ایسی تبدیلی پیدا کرنے کی تلقین فرمائی کہ جس سے خدام اسلام کا مجسم نمونہ بن جائیں۔ اس سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ:۔
’’یہی اور یہی ذریعہ ہے اسلام کے دنیا پر غالب آنے کا۔ جب تک یہ نہ ہو اُس وقت تک ساری امیدیں مجنونانہ اور سارے خیالات پاگلانہ ہیں‘‘۔
(۲۱) دائیں کو بائیں پر فوقیت حاصل ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ تقریر مؤرخہ ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ارشاد فرمائی اس تقریر میں حضور نے اسلام کی اس خصوصیت پر روشنی ڈالی جس میں کھانے پینے، وضوکرنے، نہانے دھونے نیز دیگر بہت سارے امور میں دائیں کو بائیں پر ترجیح دی گئی ہے۔ اس تعلق میں حضور نے فرمایا کہ مومن کے دل میں شریعت اسلام کے تمام چھوٹے بڑے احکام کا احترام ہونا چاہئے اور ہر معاملہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت اور اُسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
(۲۲) زمین کی عمر
مؤرخہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب مسجد اقصیٰ قادیان میں ڈاکٹر میلا رام صاحب پی۔ایچ۔ ڈی پروفیسر طبیعات ایف سی کالج لاہور نے زمین کی عمر کے متعلق لیکچر دیا۔ اس جلسہ کی صدارت حضرت مصلح موعود نے فرمائی۔ حضور نے اپنے صدارتی خطاب میں مذہبی کتب کی روح سے دنیا کی عمر پر روشنی ڈالی اور سائنس اور مذہب کی روح سے زمین کی عمر کے درمیان پائے جانے والے اختلاف کی بڑی عمدگی سے تطبیق فرمائی۔ حضور نے مذہبی کتب میں دنیا کی بیان فرمودہ چھ ہزار سال عمر کا مطلب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ہم جو دنیا کی عمر چھ ہزار سال کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارا وہ آدم جس سے ہماری تہذیب و تمدن کی ابتداء ہوئی اس پر چھ ہزار سال گزرے ہیں۔ ورنہ ہمارا اس سے یہ مطلب نہیں کہ ہمارے اس آدم سے پہلے کوئی آدم نہیں تھا‘‘۔
(۲۳) خداتعالیٰ دنیا کی ہدایت کیلئے ہمیشہ
نبی مبعوث فرماتا ہے
مؤرخہ ۱۹؍ دسمبر ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب بمقام قادیان مجلس علم و عرفان میں ایک معزز سکھ حضور کی ملاقات کیلئے تشریف لائے اور مختلف امور پر باتیں کرتے رہے۔ اس موقع پر حضور نے انہیں نہایت لطیف پیرایہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی طرف بھی توجہ دلائی اور اسلام اور احمدیت کی دوسرے مذاہب پر فوقیت ثابت فرمائی۔ یہ مضمون حضور کے اس موقع پر بیان فرمودہ ملفوظات پر مبنی ہے۔ … روزنامہ الفضل میں افادۂ عام کیلئے مؤرخہ ۲۳؍ مارچ ۱۹۶۱ء کو پہلی دفعہ شائع کیا گیا اور اب انوارالعلوم کی جلد ھٰذا میں کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔
(۲۴)اسلام دنیا پر غالب آ کر رہے گا
حضرت مصلح موعود نے یہ روح پرور مختصر خطاب مؤرخہ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۴۶ء کو جلسہ سالانہ قادیان کا افتتاح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ آپ نے اپنے اس خطاب میں فرمایا کہ اسلام دنیا پر غالب آ کر رہے گا اور یہ دنیا اُس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ساری دنیا پر اپنی پوری شان کے ساتھ نہ لہرانے لگ جائے۔ اس حقیقت کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ہی آپ نے ہمارے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ہم پر جو فرض عائد ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں اور اپنی جانوں کو خدا کیلئے قربان کر دیں اور اپنے نفوس کو ہمیشہ اس کی اطاعت کے لئے تیار رکھیں تاکہ اس کا فضل اور اس کی رحمت اور اس کی برکت ہم پر نازل ہو اور ہم اس کے حقیر ہتھیار بن کر دنیا میں عظیم الشان نتیجہ پیدا کرنے کا موجب بن جائیں‘‘۔
(۲۵) متفرق امور (۲۷؍ دسمبر۱۹۴۶ء)
اس تقریر میں حضور نے درج ذیل امور پر روشنی ڈالی ہے۔
۱۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ نبوت کے تعلق میں مولوی محمد علی صاحب کے مطالبہ حلف پرتبصرہ فرماتے ہوئے متنازعہ فیہ امر کے سلسلہ میں ایک نئی تجویز پیش فرمائی۔
۲۔ قرآن کریم کے تیسویں پارہ کی تفسیر کے دوسرے حصہ کی اشاعت کا اعلان فرمایا اور احباب جماعت کو اسے خریدنے کی تحریک فرمائی۔
۳۔ قرآن کریم انگریزی کی تکمیل نیز دیباچہ تفسیر القرآن کی تصنیف کے متعلق احباب جماعت کو معلومات بہم پہنچائیں۔
۴۔ قرآن کریم کے سات مختلف زبانوں میں ہونے والے تراجم کی تکمیل کی خوشخبری جماعت کو سنائی۔
۵۔ تحریک جدید کی رجسٹریشن اور اس کے مزید شعبہ جات قائم کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔
۶۔ تحریک جدید کے تحت یورپ، امریکہ اور افریقہ کے مختلف ممالک میں جماعتی مساعی پر روشنی ڈالی۔
۷۔ دیہاتی مبلغین کی افادیت کے پیش نظر اس سکیم کو بڑھانے کا پروگرام بیان فرمایا۔
اس خطاب کے آخر پر حضور نے فرمایا:۔
’’پس اس قدر اہم امور کی انجام دہی غیر معمولی قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی بلندی کیلئے ہر ممکن قربانی کریں اور دنیا اور آخرت میں سرخروئی حاصل کریں‘‘۔
(۲۶) جماعت کو چار چیزوں کی طرف زور دینا چاہئے
حضرت مصلح موعود نے یہ روح پرور تربیتی امور پر مبنی خطاب مؤرخہ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۴۶ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے آخری روز ارشاد فرمایا جس میں نماز باجماعت، لجنہ اماء اللہ کا قیام، سچائی اور محنت کی عادت ڈالنے پر زور دیا اور فرمایا کہ:۔
’’اس امر کے لئے دعائیں کی جائیں کہ جو چار باتیں میں نے اِس وقت بیان کی ہیں ہماری جماعت کو اس پر قائم ہونے کی توفیق مل جائیـ۔یعنی نماز باجماعت کی پابندی سوائے کسی خاص مجبوری کے یہاں تک کہ اگر گھر میں بھی فرض نماز پڑھی جائے تو اپنے بیوی بچوں کو شامل کر کے جماعت کرالی جائے۔… دوسرے سچائی پر قیام ایسی سچائی کہ دشمن بھی اسے دیکھ کر حیران رہ جائے۔ تیسرے محنت کی عادت ایسی محنت کہ بہانہ سازی اور عُذر تراشی کی روح ہماری جماعت میں سے بالکل مٹ جائے اور جس کے سپرد کوئی کام کیا جائے وہ اس کام کو پوری تن دہی سے سر انجام دے یا اسی کام میں فنا ہو جائے۔ چوتھے عورتوں کی اصلاح ہر جگہ لجنہ اماء اللہ کا قیام اور عورتوں میں دینی تعلیم پھیلانے کی کوشش۔ یہ چارچیزیں ہیں جن کے متعلق میں نے اِس وقت تو جہ دلائی آپ لوگ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔
(۲۷) وحشی اور غیر متمدن اقوام میں بیداری کی
ایک زبردست لہر
حضرت فضل عمر نے یہ پُرمعارف تقریر مؤرخہ ۱۳؍ جنوری ۱۹۴۷ء کو قادیان میں ارشاد فرمائی جس میں قرآن کریم کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کے موجودہ زمانہ میں ظہور پر روشنی ڈالی ہے۔ اس آیت کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ:۔
مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق یہ خبر دی گئی تھی اس زمانہ میں تمام وحشی اقوام میں بیداری پیدا ہو جائے گی۔
’’پس یہ علامت صرف موجودہ زمانہ کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جس میں ادنیٰ اقوام بھی بیدار نظر آتی ہیں‘‘۔
نیز فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ نے کی پیشگوئی پورا کرنے کیلئے ہمارے دل میں تحریک پیدا کی کہ ہم اپنے مبلّغ افریقہ میں بھجوائیں چنانچہ نائیجریا، گولڈکوسٹ اور سیرالیون میں ہم اپنے مشن قائم کر چکے ہیں اور اب لائبیریا اور کچھ فرنچ علاقے ایسے ہیں جن میں مبلغ بھجوائے جائیں گے اِس طرح مغربی افریقہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی بیداری پیدا ہو رہی ہے کہ جس کی مثال پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی۔ ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا چرچ آف انگلینڈ نے ایک مشن اِس غرض کے لئے مقرر کیا تھا کہ وہ یہ تحقیق کر ے کہ کیا وجہ ہے افریقہ میں عیسائیت کی ترقی رُک گئی ہے۔ اس کمیشن نے جو رپورٹ پیش کی اس میں چالیس جگہ یہ ذکر کیا گیا ہے کہ عیسائیت کی ترقی کا رُکنا محض اس وجہ سے ہے کہ افریقہ میں احمدیہ مشن کثرت سے پھیل گئے ہیں اور اِن کا مقابلہ عیسائیت سے نہیں ہو سکتا۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے کی پیشگوئی کو پورا کرنے کا ہمیں بھی ایک ذریعہ بنالیا‘‘۔
(۲۸) ہندوستانی اُلجھنوں کا آسان ترین حل
حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ یکم مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب مجلس علم و عرفان میں اپنے اس تازہ الہام فَاِنْ کَانَ فِی الْاِسْلَامِ حَقٌّ فَاَظْھِرٖ کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستان کی تقسیم کے سلسلہ میں پیدا ہونے والی اُلجھنوں کا آسان ترین حل پیش فرمایا۔ آپ نے تقسیم کے سلسلہ میں یہ اصول بیان فرمایا کہ:۔
’’قاعدہ یہ ہونا چاہئے کہ جس ملک یا علاقہ کی آواز کا صحیح طور پر پتہ نہ لگ سکے وہاں کے ہر ضلع اور ہر تحصیل کے لوگوں سے پوچھ لیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور جہاں شُبہ والی بات ہو وہاں ریفرنڈم کر لیا جائے۔ میرے نزدیک ایسا ہونا چاہئے کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مسلمان اپنے حقوق مانگنے میں حق پر ہیں تو ان کو اُن کے حقوق دیئے جائیں اور اگر ہندوؤں کے مطالبات جائز ہیں تو ان کے مطالبات تسلیم کر لئے جائیں‘‘۔
(۲۹) نیکی کی تحریک پر فوراً عمل کرو
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مؤرخہ ۷؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب بمقام قادیان یہ تقریر ارشاد فرمائی جس میں آپ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جب بھی نیکی کی کوئی تحریک پیدا ہو تو فوراً اُس پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے اس لئے نیکی کے مواقع کو کبھی ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:۔
’’پس جب کسی انسان کے دل میں نیکی کرنے کا ارادہ پیدا ہو تو اُس کو ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے کیونکہ ممکن ہے وہ موقع گزر جائے اور پھر توفیق نہ مل سکے۔ پس مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب نیکی کا دَور تم پر آئے تو اُس سے فائدہ اُٹھاؤ۔ جب تم نیکی کے ایک دَور سے فائدہ اُٹھاؤ گے تو تمہارے لئے نیکی کا اگلا دَور بہت سہل ہو جائے گا‘‘۔
(۳۰)ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں
چاہے وہ ہمیں ماریں یا دُکھ پہنچائیں
دلّی کے ایک اخبار نے لکھا کہ احمدی پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں حالانکہ ان کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ جب پاکستان بن جائے گا تو مسلمان پھر ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو کابل میں ان کے ساتھ ہوا تھا اور اُس وقت احمدی کہیں گے کہ ہمیں ہندوستان میں شامل کر لو۔
حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۱۶؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں اِس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ :۔
’’ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں چاہے وہ ہمیں ماریں یا دُکھ پہنچائیں‘‘۔
نیز آپ نے فرمایا کہ:۔
’’ہمارا دشمن اگر ہمارے ساتھ ظلم اور بے انصافی بھی کرے تو ہم انصاف سے کام لیں گے‘‘۔
حضور کے اس خطاب کو صیغہ نشر و اشاعت نظارت دعوۃ و تبلیغ قادیان نے کتابی صورت میں شائع کیا تھا۔ جسے اب انوارالعلوم کی اس جلد میں شامل کیا جا رہا ہے۔
(۳۱) انصاف پر قائم ہو جاؤ
حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۱۷؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں یہ خطاب ارشاد فرمایا جس میں سورۃ مائدہ کی آیت نمبر۹ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’عدل سے بڑھ کر جو چیز ہے وہ احسان اور حُسنِ سلوک ہے گویا اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ دشمن کے مظالم اور اس کی جفا کاریوں کے مقابلہ میں تم نہ صرف عدل سے کام لو بلکہ اس سے احسان اور حُسنِ سلوک کا بھی معاملہ کرو۔ اگر تم صرف عدل سے کام لوگے تو گو یہ چیز اَقْرَبُ اِلَی التَّقْوٰی ہوگی مگر تقویٰ نہیں ہوگی۔ تقویٰ یہ ہے کہ تم دشمن سے احسان کا سلوک کرو اور اس کے مظالم کو بالکل بھول جاؤ‘‘۔
(۳۲) ایک آیت کی تفسیر
حضرت مصلح موعودنے مؤرخہ ۲۰؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ایک خصوصی لیکچر ارشاد فرمایا۔ حضور کا یہ پُر معارف لیکچر ۱۹۶۱ء میں پہلی مرتبہ روزنامہ الفضل ربوہ میں پانچ قسطوں میں شائع ہوا اور اب یہ لیکچر کتابی صورت میں انوار العلوم کی اِس جلد میں شائع ہو رہا ہے۔
اس لیکچر میں حضور نے سورۃ الانفال کی آیت۶ (… الخ) کی انتہائی پُر معارف اور بے نظیر تفسیر بیان فرمائی۔ نیز اِس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اُن کا حل بیان فرمایا۔ اسی طرح تعلق باللہ کی کمی کے باعث مفسرین سے تفسیر بیان کرتے ہوئے جو غلطیاں سرزد ہوئیں اُن کی اصلاح فرمائی۔ جس سے آپ کے متعلق پیشگوئی مصلح موعود کے ان الفاظ کہ:۔
’’کلام اللہ کا مرتبہ اُس سے ظاہر ہوگا اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘۔
کی کمال شان سے تصدیق ہوتی ہے۔
٭…٭…٭
اسلام کا اقتصادی نظام
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اسلام کا اقتصادی نظام
(تقریر فرمودہ ۲۶؍ فروری ۱۹۴۵ء بمقام احمدیہ ہوسٹل واقع ۳۲ ڈیوس روڈ لاہور)
تشہّد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
مضمون کی اہمیّت
میرا خطبہ آج اسلام کے اقتصادی نظام پر ہے۔ یہ مضمون اتنا وسیع ہے کہ اِس کو تھوڑے سے وقت میں بیان کرنا ایک نہایت ہی مشکل
کام ہے اور بعض دفعہ کسی چیز کو اُس کے اصل مقام سے جدا کر کے پیش کر دینا اُسے مبہم بنا دیتا اور اس کی اہمیت کو کمزور کر دیتا ہے مگر پھر بھی میں کوشش کروں گا کہ جہاںتک ہو سکے مختصر طور پر اور ایسی صورت میں کہ میرا مضمون سمجھ میں آ سکے مَیں اسلام کے اقتصادی نظام کو آپ لوگوں کے سامنے پیش کروں اور وہ ضروری ضروری امور جو اُس کے ماحول سے تعلق رکھتے ہیں اور اُس کے بنیادی اصول کے ساتھ وابستہ ہیں اُنہیں بھی بیان کروں۔ چونکہ اسلام کا اقتصادی نظام ایک ایسی شکل رکھتاہے جسے ایک رنگ میں اُس نظام سے مشابہت ہے جسے آجکل کمیونزم کہتے ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں میرا مضمون اُدھورا رہے گا اگر میں اِس تحریک کے متعلق بھی اسلامی نقطۂ نگاہ پیش نہ کروں اور وہ فرق بیان نہ کروں جو اسلامی اقتصادی تحریک اور کمیونزم کی اقتصادی تحریک میں ہیں۔
یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح شاخیں اپنے درخت کی جڑوں میں سے نکلتی ہیں اِسی طرح مختلف مسائل پہلے سے قائم شدہ بنیادی مسائل میں سے نکلتے ہیں اور اُن بنیادی مسائل کو سمجھے بغیر بعد میں پیدا ہونے والے مستخرج مسائل کی حقیقت کو لوگ آسانی کے ساتھ نہیں سمجھ سکتے اِس لئے اسلام کے اقتصادی نظام کو بیان کرنے سے پہلے مَیں ضروری سمجھتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ یہ بھی بیان کر دوں کہ اسلام کے کُلّی نظام کی بنیاد کس امر پر ہے۔
اسلام کے کُلّی نظام کی بنیاد
اسلام اپنے تمام سیاسی، اقتصادی اور تمدّنی اور دیگر ہر قسم کے نظاموںکی بنیاد اِس امر پر رکھتا ہے کہ
بادشاہت اور مالکیت خدا تعالیٰ کوہی حاصل ہے چنانچہ سورۃ زخرف رکوع سات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱؎
یعنی بہت برکت والاوہ خدا ہے جس کے قبضہ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اِسی طرح جو کچھ اِن کے درمیان ہے وہ بھی اُسی کے قبضہ و تصرف میں ہے اور اِن چیزوں کا اپنے مقصد اور مدّعا کو پورا کر کے جب فناء کا وقت آئے گا تو اس کا علم بھی اُسی کو ہے اور پھر آخر ہر چیز خدا کی طرف ہی جانے والی ہے۔ اِس آیت میں قرآن کریم نے یہ بات پیش کی ہے کہ درحقیقت آسمان اور زمین خدا تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہر چیز جو یہاں زندگی گزار رہی ہے اِس کا منتہٰی اور مرجع خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔
اگر کوئی شخص کسی امر کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے یا کوئی امانت اُس کے سپرد کی جاتی ہے تو وہ اِس ذمہ داری کی ادائیگی اور اِس امانت میں خیانت نہ کرنے کے متعلق امانت سپردکرنے والے کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے لیکن وہ شخص جو آزاد ہوتا ہے اپنے متعلق یہ سمجھتا ہے کہ مَیں جس طرح چاہوں کروں مَیں کسی کے سامنے جواب دِہ نہیں ہوں۔ پس قرآن کریم نے اِس آیت میں یہ بتایا ہے کہ دنیا جہان کی حکومتیں، بادشاہتیں اور اقتدار چونکہ خداتعالیٰ کے قبضہ میں ہیں اور اُس کی طرف سے بطور امانت انسانوں کے سپرد ہیں اِس لئے سب انسان بادشاہتوں اور ظاہری مِلکیتوں کے متعلق اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھ سکتے۔ وہ بظاہر بادشاہ یا بظاہر مالک ہیں لیکن حقیقت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے متولّی ہیں اِس لئے جب وہ خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گے اُنہیں اِن امانتوں کے صحیح مصرف کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دِہ ہونا ہوگا۔
حکومت و بادشاہت کے متعلق اسلام کا نقطۂ نگاہ
پھر قرآن کریم یہ امر بھی صراحتًا بیان فرماتا ہے کہ بادشاہت خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اِس پر کسی کا ذاتی حق نہیں ہوتا۔چنانچہ فرماتا ہے۔
۲؎
یعنی اے مخاطب تو کہہ دے کہ اے اللہ! تمام بادشاہتوں کے مالک خدا! تو جس کو چاہتا ہے بادشاہت دیتا ہے اور جس کے ہاتھ سے واپس لینا چاہے اُس کے ہاتھ سے واپس لے لیتا ہے۔ جس کوچاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کر دیتاہے۔ ساری خیر اور نیکی تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اِس آیت میں بھی بتایا گیا ہے کہ بادشاہت جب کسی شخص کے ہاتھ میں آتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور امانت آتی ہے۔ اِس کے یہ معنی نہیںکہ ہر صورت میں ہر بادشاہ اور مقتدر کو خداتعالیٰ کی طرف سے حکومت ملتی ہے خواہ وہ کیسا ہی جابر بادشاہ ہو یا کیسا ہی ظالم ہو یا کیسا ہی گندہ اور خراب ہو وہ ہر حالت میں خدا تعالیٰ کا نمائندہ ہے بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہت ملنے کے سامان خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا کئے جاتے ہیں۔ پس اگر کسی کو بادشاہت ملتی ہے تو وہ خداتعالیٰ کی طرف سے اُس کے پیدا کردہ اسباب سے کام لینے کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے اور جبکہ بادشاہت خداتعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے تو جسے بھی بادشاہت یا کوئی اقتدار حاصل ہو وہ زیادہ سے زیادہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وکیل اور متولّی قراردیا جاسکتا ہے حاکمِ مطلق یا مالکِ مطلق قرار نہیں دیا جاسکتا۔آخری طاقت اور آخری فیصلہ کرنے والی ہستی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ بہر حال جوبھی حاکم ہو، بادشاہ ہو،ڈکٹیٹر ہو یا پارلیمنٹ کی صورت میں بعض افراد کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہواگر وہ کوئی آئین دنیا میں نافذ کرتے ہیں تو وہ اُس آئین کے نفاذ میں خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دِہ ہیں۔ اگر وہ کوئی ایسی خرابی پیدا کریں گے جس سے خُدا تعالیٰ نے روکا ہوا ہے یا کوئی ایسی نیکی ترک کریں گے جس کے کرنے کا خداتعالیٰ نے حکم دیا ہوا ہے تو وہ خداتعالیٰ کے سامنے ایک مجرم کی حیثیت میں پیش ہوں گے۔ ویسے ہی جیسے ایک باغی غلام یا سرکش ملازم اپنے آقا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے اپنے ان افعال کی سزا پائیں گے خواہ وہ بادشاہ کہلاتے ہوں یا ڈکٹیٹر کہلاتے ہوں یا پارلیمنٹ کہلاتے ہوں۔ پس اِس آیت کا مطلب یہ نہیںہے کہ ہر شخص جو بادشاہ بنتا ہے خداتعالیٰ کی مرضی سے بنتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے دائرۂ عمل میں خدا تعالیٰ کی ملکیت پر قابض ہوتا ہے اِس لئے اُسے خدائی آئین کے مطابق حکومت کرنی چاہئے اور خداتعالیٰ کی نیابت میں اپنے اقتدار کو استعمال کرنا چاہئے ورنہ وہ گنہگار ہوگا۔ ہاں بعض حالات میں خداتعالیٰ کی طرف سے بھی بادشاہ مقرر کئے جاتے ہیں جو بہرحال نیک اور منصف ہوتے ہیںمگر اُن کی بادشاہتیں دینی ہوتی ہیں دُنیوی نہیں۔
حُکّام کیلئے اسلامی احکام
اِسی طرح حُکّام کے بارے میں فرماتا ہے کہ بعض حاکم ایسے ہوتے ہیں کہ
۳؎یعنی دنیا میں کئی حاکم اور بادشاہ ایسے ہوتے ہیں کہ جب اُنہیں بادشاہت مل جاتی ہے یعنی وہ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ طاقتوں سے کام لے کر حکومت پر قابض ہوجاتے ہیں تو بجائے اِس کے کہ رعایا اور مُلک کی خدمت کریں، بجائے اِس کے کہ امن قائم کریں، بجائے اِس کے کہ لوگوں کے دلوں میں سکینت اور اطمینان پیدا کریں وہ ایسی تدابیراختیار کرنی شروع کردیتے ہیں جن سے قومیں قوموں سے قبیلے قبیلوں سے اور ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب کے ماننے والوں سے لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہیں اور مُلک میں طوائف الملوکی کی حالت پیدا ہو جاتی ہے اِسی طرح وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن سے مُلک کی تمدّنی اور اقتصادی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور آئندہ نسلیں بیکار ہو جاتی ہیں۔ حَرْثکے لغوی معنی تو کھیتی کے ہیں مگر یہاں حَرْثکا لفظ استعارۃً وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جتنے ذرائع مُلک کی اقتصادی ترقی کے یا جتنے ذرائع مُلک کی مالی حالت کو ترقی دینے والے یا جتنے ذرائع مُلک کی تمدّنی حالت کو بہتر بنانے والے ہوتے ہیں اُن ذرائع کو اختیار کرنے کی بجائے وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے تمدّن تباہ ہو، اقتصاد بربادہو، مالی حالت میں ترقی نہ ہو اِس طرح وہ نسلوں کی ترقی پر تبر رکھ دیتے ہیں اور ایسے قوانین بناتے ہیںجس سے آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں اپنی طاقتوں کو کھوبیٹھتی ہیں اور ایسی تعلیمات جن کو سیکھ کر وہ ترقی کر سکتی ہیں اُن سے محروم رہ جاتی ہیں۔ پھر فرماتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ فسادکو پسند نہیں کرتا۔ اس لئے ایسے بادشاہ اور حکمران خداتعالیٰ کی نگاہ میں مغضوب ہیںاور وہ اُن کو سخت نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
اِس آیت سے یہ نتیجہ نکل آیا کہ اسلام کے نزدیک وہی بادشاہ صحیح معنوں میں بادشاہ کہلاسکتا ہے جو لوگوں کے لئے ہر قسم کا امن مہیّا کرے، اُن کی اقتصادی حالت کو درست کرے اور اُن کی جانوں کی حفاظت کرے۔ کیا بلحاظ صحت کا خیال رکھنے کے اورکیا بلحاظ اِس کے کہ وہ غیرضروری جنگیں نہ کرے اور اپنے مُلک کے افراد کو بلا وجہ مرنے نہ دے۔ گویا ہر قسم کے امن اور جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری اسلام کے نزدیک حکومت پر عائد ہوتی ہے اور وہ اِس امر کی پابند ہے کہ مُلک کی ترقی اور رعایا کی بہبودی کا ہمیشہ خیال رکھے۔
حُکّام کو افراد واقوام کے درمیان عد ل قائم کرنے کی تاکید
اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے
۴؎ یعنی اے لوگو! اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ جب تمہیں موقع ملے کہ تم بادشاہت کی امانتیں کسی کے سپرد کرو تو یاد رکھو تم یہ امانتیں ہمیشہ اُن لوگوں کے سپرد کیا کروجو تمہارے نزدیک بادشاہت اور حکومت کے اہل ہوں اور جن کے اندر یہ قابلیت پائی جاتی ہو کہ وہ حکومتی کاموں کو عمدگی سے سرانجام دے سکیںاور پھر اے وہ لوگو! جن کے سپرد مُلک کے لوگ بادشاہت کی امانت کریں (جہاں ہم نے مُلک کے لوگوں کو یہ حکم دیا ہے کہ تم حکومت کے لئے ایسے ہی لوگوں کا انتخاب کرو جو اِس امانت کے سنبھالنے کے اہل ہوںجو مُلک کے بہترین راہنما ہوں اور جو رعایا کے لئے ہر قسم کی ترقی کے سامان جمع کرنے کے قابل ہوں) وہاں تم لوگوں کو جن کا حکومت کے لئے انتخاب کیا گیاہے اور جن پر اعتماد کرکے مُلک کے لوگوں نے حکومت کی امانت اُن کے سپرد کی ہم یہ حکم دیتے ہیں کہ یعنی جب تم کوئی فیصلہ کرو تو عدل سے کام لو۔ یہ نہ ہو کہ کسی فرد کو بڑھا دواور کسی کو نیچے گرا دو، کسی قوم کو اونچا کردو اورکسی قوم کو نیچا کر دو،کسی قوم میں تعلیم پھیلادو اور کسی قوم کو جاہل رکھو، کسی کی اقتصادی ضروریات کو پورا کرو اور کسی کی اقتصادی ضروریات کونظر انداز کردو بلکہ جب تم لوگوں کے حقوق کا فیصلہ کرو تو ہمیشہ عدل وانصاف سے فیصلہ کرو۔رعایت یا بے جاطرف داری سے کام نہ لو۔ پھر فرماتا ہے ہمارا یہ حکم ایسا نہیں جیسے بادشاہ بعض دفعہ بغیر کسی خاص مقصد یا بغیر کسی خاص حکمت کے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمارا منشاء یوں ہے بس اِسی طرح کیا جائے۔ ہم اِن بادشاہوں کی طرح بغیر سوچے سمجھے یہ حکم نہیں دے رہے بلکہ ہم تمہارے خالق ومالک خدا ہیں اور ہم تمہیں جو کچھ حکم دے رہے ہیں اِسی میں تمہارا فائدہ اور تمہارا سُکھ ہے۔ اگر تم ایسے حاکم مقرر کرو گے جو اچھے ہوں گے،جو حکومت کے فرائض کو صحیح طور پر ادا کرنے والے ہوں گے، جو اِس امانت کی قدروقیمت کو سمجھتے ہونگے تو اِس میں تمہارااپنا فائدہ ہے اور اے حاکمو! اگر تم لوگوں کی جانوں کی حفاظت کرو گے، اگر تم ان کے اموال کی حفاظت کروگے، اگر تم اپنے فیصلوں میں ہمیشہ عدل کو ملحوظ رکھو گے، اگر تم افراد اور اقوام میں تفریق سے کام نہیں لوگے، اگر تم چھوٹوں اور بڑوں سب سے یکساں سلوک کرو گے، اگر تم مُلک کی مجموعی حالت کو درست رکھنے کی ہمیشہ کوشش کرو گے، اگر تم ان بادشاہوں کے نقش قدم پر نہیں چلو گے جو کسی کو بڑھادیتے ہیں اور کسی کو گرا دیتے ہیں اور کسی کو ناواجب سزا دے د یتے ہیں اور کسی کی ناواجب رعایت کردیتے ہیں تو تم صرف ہمارا حکم ہی پورا نہیں کرو گے بلکہ انجام کے لحاظ سے یہ امر خود تمہارے لئے بھی بہتر ہوگا۔ پھر فرماتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ لوگ دنیا کے ظالم بادشاہوں کی ایڑیوں کے نیچے کچلے گئے اور وہ تباہ وبرباد کئے گئے۔ بادشاہوں نے اُن پر ظلم کیا اور ان کے حقوق کو انتہائی بیدردی کے ساتھ پامال کر دیا۔ یہ حالات خدا نے دیکھے اور اُس کی غیرت نے برداشت نہ کیا کہ بنی نوع انسان ہمیشہ ظلموں کے نیچے دبتے چلے جائیں اور حُکّام اپنی من مانی کارروائیاں کرتے رہیں پس اُس نے چاہا کہ اِس بارہ میں خود ہدایات دے۔ چنانچہ جب ظلم اپنی انتہا تک پہنچ گیا اور لوگوں نے ہمارے حضور چلّا کر کہا کہ اے خدا! اِس قسم کے حاکم ہم پر مسلط ہو رہے ہیں جو ہمارے حقوق کو ادانہیں کرتے تو خدا نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اپنی شریعت میں یہ حکم نازل فرمادے کہ ہمیشہ حُکّام انتخاب سے مقرر کئے جائیں۔ اور ایسے حاکم چُنے جائیں جو انصاف اور عدل کا مادہ اپنے اندررکھتے ہوں اور حکومت کے اہل ہوں۔ اِسی طرح حُکّام کو خدا نے اپنی شریعت میں یہ حکم دے دیا کہ دیکھو! ہمیشہ عدل اور انصاف سے کام لو،مُلک کی اقتصادی حالت کو ترقی دینے کی کوشش کرو، رعایا کے جان ومال کی حفاظت کرو،اقوام اور افراد میںتفریق پیدا نہ کرو، ایسی تدابیر اختیار نہ کرو جو مُلک کی ترقی میں روک ڈالنے والی یا آئندہ نسلوں کو تباہ کرنے والی ہوں بلکہ ہمیشہ ایسے طریق اختیار کرو اورایسے قوانین بناؤ جو مُلک کی ترقی کا موجب ہوں۔
حکومت کے متعلق اِسلام کی چار اصولی ہدایات
یہ وہ ماحول ہے جس میں اسلام اقتصادی نظام پیش کرتا ہے اور بغیر کسی مناسب ماحول کے کوئی اچھے سے اچھا نظام بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اسلام دنیا میں پہلا
مذہب ہے جس نے
(۱) انتخابی حکومت کا اصول مقرر کیا ہے اور حکومت کی بنیاد اہلیت پر قائم کی۔
(۲) جس نے حکومت کو ملکیت نہیںبلکہ امانت قرار دیا ہے۔
(۳) جس نے لوگوں کی عزت، جان اور مال کی حفاظت کو حکومت کا مقصد قرار دیا ہے۔
(۴) جس نے حاکم کو افراد اور اقوام کے درمیان عدل کرنے کی تاکید فرمائی اور اُسے خداتعالیٰ کے سامنے جواب دہ قرار دیاہے۔
غرض اسلام کے نزدیک کوئی نسلی بادشاہ نہیں وہ صاف اور کھلے طور پرفرماتاہے کہ یعنی خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم حکومت کی امانت ہمیشہ اہل لوگوں کے سپرد کیا کرو۔ پس اسلام کسی نسلی بادشاہت کا قائل نہیں بلکہ اسلام کے نزدیک حکومت انتخابی اصل پر قائم ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ غورو فکر کے بعد اپنی قوم میں سے بہترین شخص کے سپرد حکومت کی امانت کیا کریں۔ جب تک مسلمان قرآن کریم کے احکام پر عمل کرتے رہے وہ اسی رنگ میں حُکّام کا انتخاب کرتے رہے اور آئندہ بھی جب مسلمانوں کو قرآن کریم کے اِن احکام پر عمل کرنے کی توفیق حاصل ہوگی اُن کے لئے پہلا حکم یہی ہوگا کہ تم خود کسی شخص کو حکومت کے لئے منتخب کرو۔اور پھر دوسرا حکم یہ ہو گا کہ تم کسی کو اس لئے نہ چنو کہ وہ اعلیٰ خاندان میں سے ہے، کسی کو اِس لئے نہ چنو کہ وہ جابر ہے، کسی کو اِس لئے نہ چنو کہ وہ مالدار ہے، کسی کو اِس لئے نہ چنو کہ اُس کے ساتھ جتھہ ہے بلکہ تم اس لئے چنو کہ وہ مُلک کی حکومت کے لئے بہترین شخص ثابت ہوگا۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے حُکّام کو یہ حکم دیدیا کہ جب تمہارا انتخاب عمل میں آجائے تو عدل وانصاف سے کام لو۔ یہی وہ روح تھی جس نے بادشاہت پیدا ہوجانے کے بعد بھی مسلمانوں کے خیالات کو جمہوریت اور انصاف کی طرف مائل رکھا۔
اسلامی تاریخ کا ایک شاندار منظر
گِبن جوایک مشہور عیسائی مؤرخ ہے اُس نے روم کے حالات کے متعلق ایک تاریخی کتاب
لکھی ہے وہ اس کتاب میں ملک شاہ A۴؎کے متعلق جو الپ ارسلان B۴؎ کا بیٹا تھا بیان کرتا ہے کہ وہ بالکل نوجوان تھا جب اُس کا والد فوت ہوا۔ اُس کے مرنے کے بعد ملک شاہ کے ایک چچا ایک چچیرے بھائی اور ایک سگے بھائی نے بالمقابل بادشاہت کا دعویٰ کردیا اور خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ نظام الدین طوسی جو ملک شاہ کے وزیر تھے وہ (بوجہ شیعہ ہونے کے) ملک شاہ کو امام موسیٰ رضاؓ کی قبر پر دعا کے لئے لے گئے دعا کے بعد ملک شاہ نے وزیر سے پوچھا۔ آپ نے کیا دعا کی؟ وزیر نے جواب دیا یہ کہ خداتعالیٰ آپ کوفتح بخشے۔ملک شاہ نے کہا اور مَیں نے خدا سے یہ دعا کی ہے کہ اے میرے ربّ!اگر میرا بھائی مسلمانوں پر حکومت کرنے کا مجھ سے زیادہ اہل ہے تو اے میرے ربّ! آج میری جان اور میرا تاج مجھ سے واپس لے لے۔
گِبن ایک عیسائی مؤرخ اور نہایت ہی متعصّب عیسائی مؤرخ ہے مگر اِس واقعہ کے ذکرکے سلسلہ میں بے اختیار لکھتا ہے۔ اِس تُرک(مسلمان) شہزادہ کے اس قول سے زیادہ پاکیزہ اور وسیع نظریہ تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنا مشکل ہے۔ مگریہ روح کہاں سے آئی اور کیوں مسلمانوں کے دلوں اور اُن کے دماغوں میں یہ بات مرکوز تھی کہ حکومت کسی کا ذاتی حق نہیں بلکہ ایک امانت ہے جو مُلک کے لوگ خود اپنے میں سے قابل ترین شخص کے سپرد کرتے ہیں اورپھر اُس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ انصاف سے کام لے اور حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھے۔ یہ پاکیزہ خیالات اور یہ اعلیٰ درجہ کا نمونہ مسلمانوں میں اِسی وجہ سے دکھائی دیتا ہے کہ قرآن کریم نے مسلمانوں کے دماغوں میں شروع سے ہی یہ بات ڈال دی تھی کہ بادشاہت ایک امانت ہے اور یہ امانت صرف حقدار کو بطور انتخاب دینی چاہئے نہ کہ ورثہ کے طور پر لوگ اُس پر قابض ہوں۔ یا اہلیت کے سِوا اورکسی وجہ سے اُنہیں اِس کام پر مقرر کیا جائے۔ نیز یہ کہ جوشخص اِس امانت پر مقرر ہو اُس کا فرض ہے کہ اِس امانت کے سب حقوق کو پوری طرح ادا کرے اور جو شخص اِس کے تمام حقوق اورفرائض کے ساتھ اُسے ادا نہیں کرے گا وہ خداتعالیٰ کے سامنے ایک مجرم کی طرح کھڑا ہوگا۔ پس مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے ہر وقت یہ آیت رہتی تھی کہ یعنی جو لوگ حکومت کے قابل ہوں، جو انتظامی امور کو سنبھالنے کی اہلیت اپنے اندر رکھتے ہوں اُن کو یہ امانت سپرد کیا کرو۔ اور پھر جب یہ امانت بعض لوگوں کے سپرد ہوجاتی تھی توشریعت کا یہ حکم ہر وقت اُن کی آنکھوں کے سامنے رہتا تھا کہ دیانت داری اور عدل کے ساتھ حکومت کرو۔ اگر تم نے عد ل کو نظر انداز کردیا، اگر تم نے دیانت داری کوملحوظ نہ رکھا، اگر تم نے اِس امانت میں کسی خیانت سے کام لیاتو خدا تم سے حساب لے گا اور وہ تمہیں اِس جرم کی سزادیگا۔
حصرت عمرؓ کا عدیم المثال خدمات کے باوجود وفات کے وقت غیرمعمولی کرب
یہی وہ چیزتھی جس کا اثر حضرت عمررضی اللہ عنہ کی طبیعت پر اِس قدرغالب اور نمایاں تھا کہ
اُسے دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حضرت عمرؓ جو اسلام میں خلیفہ ثانی گزرے ہیں اُنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے اِس قدر قربانیوں سے کام لیا ہے کہ وہ یورپین مصنّف جو دن رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کرتے رہتے ہیں، جو رسول کریم ﷺ کے متعلق اپنی کتابوں میں نہایت ڈھٹائی کے ساتھ یہ لکھتے ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ! آپ نے دیانت داری سے کام نہیں لیا وہ بھی ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ذکر پر یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جس محنت اور قربانی سے اِن لوگوں نے کام کیا ہے اِس قسم کی محنت اور قربانی کی مثال دنیا کے کسی حکمران میں نظر نہیں آتی۔خصوصاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کام کی تو وہ بے حد تعریف کرتے ہیںاور کہتے ہیں کہ یہ وہ شخص تھا جس نے رات اور دن انہماک کے ساتھ اسلام کے قوانین کی اشاعت اور مسلمانوں کی ترقی کے فرض کو سر انجام دیا۔ مگر عمرؓ کا اپنا کیا حال تھا۔ اُس کے سامنے باوجود ہزاروں کام کرنے کے، باوجود ہزاروں قربانیاں کرنے کے باوجود ہزاروں تکالیف برداشت کرنے کے یہ آیت رہتی تھی کہ اور یہ کہ یعنی جب تمہیں خدا کی طرف سے کسی کام پر مقر ر کیا جاوے اور تمہارے مُلک کے لوگ اور تمہارے اپنے بھائی حکومت کے لئے تمہارا انتخاب کریں تو تمہارا فرض ہے کہ تم عدل کے ساتھ کام کرواور اپنی تمام قوتوں کو بنی نوع انسان کی فلاح وبہبود کے لئے صرف کردو۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کا یہ واقعہ کیسا دردناک ہے کہ وفات کے قریب جبکہ آپ کو ظالم سمجھتے ہوئے ایک شخص نے نادانی اور جہالت سے خنجر سے آپ پروار کیااور آپ کو اپنی موت کا یقین ہوگیا تو آپ بستر پر نہایت کرب سے تڑپتے تھے اور بار بار کہتے تھے اَللّٰھُمَّ لَا عَلَیَّ وَلَالِیْ۔ اَللّٰھُمَّ لَا عَلَیَّ وَلَا لِیْ۵؎ اے خدا! تو نے مجھ کو اس حکومت پر قائم کیا تھا اور ایک امانت تو نے میرے سپرد کی تھی۔ مَیں نہیں جانتا کہ مَیں نے اس حکومت کا حق ادا کر دیا ہے یا نہیں۔ اب میری موت کا وقت قریب ہے اور مَیں دنیا کو چھوڑ کر تیرے پاس آنے والا ہوں۔ اے میرے ربّ!میں تجھ سے اپنے اعمال کے بدلہ میں کسی اچھے اَجر کا طالب نہیں، کسی انعام کا خواہشمند نہیں بلکہ اے میرے ربّ! میں صرف اِس بات کا طالب ہوں کہ تو مجھ پر رحم کر کے مجھے معاف فرمادے اور اگر اِس ذمہ داری کی ادائیگی میں مجھ سے کوئی قصورہوگیا ہو تو اُس سے درگزر فرمادے۔ عمرؓ وہ جلیل القدر انسان تھا جس کے عدل اور انصاف کی مثال دنیا کے پردہ پر بہت کم پائی جاتی ہے۔ مگر اس حکم کے ماتحت کہ جب وہ مرتا ہے تو ایسی بے چینی اور ایسے اضطراب کی حالت میں مرتا ہے کہ اُسے وہ تمام خدمات جو اُس نے مُلک کی بہتری کے لئے کیں، وہ تمام خدمات جو اُس نے لوگوں کی بہتری کے لئے کیں۔ وہ تمام خدمات جو اس نے اسلام کی ترقی کے لئے کیںبالکل حقیر نظر آتی ہیں۔ وہ تمام خدمات جو اُس کے مُلک کے تمام مسلمانوں کو اچھی نظر آتی تھیں، وہ تمام خدمات جو اُس کے مُلک کی غیراقوام کو بھی اچھی نظر آتی تھیں، وہ تمام خدمات جو صرف اُس کے مُلک کے اپنوں اور غیروں کو ہی نہیں بلکہ غیر ممالک کے لوگوں کو بھی اچھی نظر آتی تھیں، وہ تمام خدمات جو صرف اُس کے زمانہ میں ہی لوگوں کو اچھی نظر آتی تھیں بلکہ آج تیرہ سَو سال گزرنے کے بعدبھی وہ لوگ جو اُس کے آقا پر حملہ کرنے سے نہیں چوکتے جب عمرؓ کی خدمات کا ذکر آتا ہے تو کہتے ہیں۔ بے شک عمرؓ اپنے کارناموں میں ایک بے مثال شخص تھا۔ وہ تمام خدمات خود عمرؓ کی نگاہ میں بالکل حقیر ہو جاتی ہیں اور وہ تڑپتے ہوئے کہتا ہے اَللّٰھُمَّ لَا عَلَیَّ وَلَالِیْ اے میرے ربّ! ایک امانت میرے سپرد کی گئی تھی۔مَیں نہیں جانتا کہ میں نے اس کے حقوق کو ادا بھی کیاہے یا نہیں۔ اِس لئے میں تجھ سے اتنی ہی درخواست کرتا ہوں کہ تو میرے قصوروں کو معاف فرمادے اور مجھے سزا سے محفوظ رکھ۔
ہر چیز کیلئے اچھے ماحول کی ضرورت
یہ ماحول میں نے اِس لئے بیان کیا ہے کہ کوئی چیز اچھے ماحول کے بغیر کبھی
کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اچھی سے اچھی گٹھلی لو اور اُسے ایسی زمین میں دبا دو جو اُ س کے مناسبِ حال نہ ہو یا گٹھلی کو اُگانے کی قابلیت اپنے اندر نہ رکھتی ہو تو وہ کبھی اچھا درخت پیدا نہیں کر سکتی۔ لیکن اگر ماحول اچھا ہو تو معمولی اور ادنیٰ بیج بھی نشوونما حاصل کر لیتا ہے۔ پس یہ وہ ماحول ہے جو اسلام نے پیش کیااور ایسے ہی ماحول میں پبلک کے مفیدِ مطلب اقتصادی نظام چل سکتا ہے۔
دنیا میں تین قسم کے اقتصادی نظام
اِس ماحول کے بیان کرنے کے بعد اَب میں یہ بتاتا ہوں کہ دنیا میں تین قسم کے اقتصادی
نظام ہوتے ہیں۔ ایک نظام غیرآئینی ہوتا ہے یعنی ہم اُس کا نام اقتصادی نظام محض بات کو سمجھنے کے لئے رکھ دیتے ہیں ورنہ حقیت یہ ہے کہ بعض قومیں اور حکومتیں دنیا میں ایسی ہیں جنہوں نے کبھی بھی یہ فیصلہ نہیں کیا کہ انہوں نے اپنے اقتصادی نظام کو کس طرح چلانا ہے۔ جس طرح انسان بعض دفعہ رستہ میں چلتے ہوئے کسی چیز کو اُٹھالیتا ہے اِسی طرح ان لوگوں کے سامنے اگر اقتصادی ترقی کے لئے کوئی قومی ذریعہ آجائے تو وہ اسے اختیار کرلیتے ہیں، فردی ذریعہ آجائے تو اُسے اختیار کرلیتے ہیں۔کوئی معیّن اور مقررہ پالیسی ان کے سامنے نہیں ہوتی۔
دوسرا نظام قومی ہوتا ہے۔ یعنی بعض قومیں دنیا میںایسی ہیں جوصرف قومی اقتصادی نظام کو اختیار کرتی ہیں اور وہ مُلک کے نظام کو ایسے رنگ میں چلاتی ہیں جس سے بحیثیت مجموعی اُن کی قوم کو فائدہ ہو۔
تیسرا نظام انفرادی ہوتا ہے جس میں افراد کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اپنے طور پر مُلک کی اقتصادی حالت کو درست کرنے اور اُسے ترقی دینے کی کوشش کریں۔ مزدوروں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کریںاور سرمایہ داروں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کریں۔ اِسی طرح ملازموں کوحق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے افسروں سے تنخواہوں وغیرہ کے متعلق بحث کرکے فیصلہ کریں اور افسروں کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ملازموں کے متعلق قواعد وضع کریں۔ گویا اِس نظام میں انفرادیت پر زور دیا جاتا ہے۔
یہی تین قسم کے اقتصادی نظام اِس وقت دنیا میں پا ئے جا تے ہیں۔ایک بے قانون، دوسرا قومی اور تیسرا انفرادی۔ یعنی بعض میں کوئی بھی آئین نہیں بعض میں قومی کاروبار پربنیاد ہوتی ہے اوربعص میں انفرادی کاروبار پر۔اِسلام غیرآئینی نظام کو تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ وہ ایک آئینی نظام کو قائم کرتا اور اُس کے ماتحت چلنے کی لوگوں کو ہدایت دیتاہے۔ وہ ہر چیز کو حکمت اوردانائی کے ماتحت اختیار کرنے کا قائل ہے۔ وہ اِس بات کا قائل نہیں کہ نظام اور آئین کو نظرانداز کرکے جو راستہ بھی سامنے نظر آئے اُس پر چلنا شروع کردیا جائے۔ غیر آئینی نظام والوں کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے جنگل میں آپ ہی آپ جو بُوٹیاں اُگ آتی ہیں اُنہیں کھانا شروع کر دیا جائے۔ مگر اسلام کی مثال اُس شخص کی طرح ہے جوباقاعدہ ایک باغ لگاتا، اُس کی آبپاشی کرتا اور اُس کے پودوں کی نگرانی رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کونسی چیز مجھے اِس باغ میں رکھنی چاہئے اور کونسی چیز نہیں رکھنی چاہئے۔
اسلام کی اقتصادی تعلیم کا ماحول
مَیں نے اوپر جو ماحول اسلام کی تعلیم کا بیان کیا ہے وہ ماحول اسلام کی اقتصادی تعلیم کیلئے
بھی ضروری ہے کیونکہ اِس کے بغیر اسلام کی اقتصادی تعلیم دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتی چونکہ اِس ماحول کا اسلام کی اقتصادی تعلیم کے ساتھ ایک گہرا تعلق تھا اِس لئے ضروری تھا کہ میں اِسے بیان کرتا اور بتاتا کہ کس ماحول میں اسلام نے دنیا کے سامنے ایک مفید اور اعلیٰ درجہ کا اقتصادی نظام رکھا ہے۔ بہرحال جیسا کہ میں نے بتایا ہے اسلام غیر آئینی نظام کو تسلیم نہیں کرتا البتہ دوسرے دو نظاموں کے درمیان ایک راستہ پیش کرتا ہے مگر بنیادی اصول اسلام کے اقتصادیات کا، ان ہی پہلے حقائق پر قائم ہے جن کو اوپربیان کیا جاچکا ہے۔
اموال کے متعلق اِسلام کا اِقتصادی نظریہ
اسلام کا اقتصادی نظریہ اموال کے متعلق یہ ہے۔فرماتا ہے۔
۶؎ یعنی جس قدر چیزیں دنیا میںپائی جاتی ہیں وہ سب کی سب خداتعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں۔ اگر تمہیں دنیا میں پہاڑ نظر آتے ہیں،اگر تمہیں دنیا میں دریا نظرآتے ہیں، اگر تمہیں دنیا میں کانیں نظرآتی ہیں، اگر تمہیں دنیا میں ترقی کی اَور ہزاروں اشیاء نظر آتی ہیں توتمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اسلام کا نظریہ اِن اشیاء کے متعلق یہ ہے کہ یہ سب کی سب بنی نوع انسان میں مشترک ہیں اور سب بحیثیت مجموعی اِن کے مالک ہیں۔ کانوں سے بہت کچھ فائدہ اُٹھایا جاتا ہے، دریاؤں سے بہت کچھ فائدہ اُٹھایا جاتا ہے، پہاڑوں سے بہت کچھ فائدہ اُٹھایا جاتا ہے، مثلاً بجلیاں پیدا کی جاتی ہیں، سونا چاندی اور دوسری قیمتی دھاتیں حاصل کی جاتی ہیںیا دوائیں وغیرہ وہاں پائی جاتی ہیں جن سے انسان فائدہ اُٹھاتاہے علاج معالجہ کے رنگ میں بھی اور تجارت کے رنگ میں بھی یااِسی قسم کی اور ہزاروں چیزیں ہیں جوصنعت وحرفت میںکام آتی ہیں ان سب کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اے بنی نوع انسان! یہ سب کی سب چیزیں تمہارے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ یہ زید کی خاطر نہیں، یہ بکر کی خاطر نہیں، یہ نمرودکی خاطر نہیں، یہ ہٹلر کی خاطر نہیں، یہ سٹالن کی خاطر نہیں، یہ چرچل کی خاطر نہیں، یہ روز ویلٹ کی خاطر نہیں بلکہ ہر فردِ بشر جو دنیا میں پیدا ہوا ہے اُس کے لئے خدا نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں پس کوئی ہو، حاکم ہو محکوم ہو،بڑا ہوچھوٹا ہو،سیّد ہو چمار ہو، کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیزیں صرف میرے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے۔ اے بنی نوع انسان یہ چیزیں تم سب کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور ان میں سے ہر چیز کے تم سب کے سب بحیثیت انسان مالک ہو۔
مال کے متعلق اسلام کا فیصلہ
پھر اموال کے متعلق یہ قاعدہ بیان فرماتا ہے کہ ۷؎
اے لوگو ! جب تمہارے پاس غلام ہوںیعنی جنگی قیدی تمہارے قبضہ میں آئیں مگر حالت یہ ہو کہ نہ اُن کی گورنمنٹ اُنہیں رہا کرانے کا کوئی احساس رکھتی ہواور نہ اُن کے رشتہ دار اُن کی آزادی کیلئے کوئی کوشش کرتے ہوں اور دوسری طرف خود اُن کی مالی حالت ایسی نہ ہو کہ وہ خود فدیہ دے کر رہا ہو سکیں تو ایسی صورت میں ہم یہ حکم دیتے ہیں کہ اے جنگی قیدیوں کے نگرانو! اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تم کو دیا ہے اُس میں سے اِس غلام کی مدد کرو۔ یعنی اسے اپنے پاس سے کچھ سرمایہ دے دو کہ اِس ذریعہ سے وہ روپیہ کما کر اپنا فدیہ ادا کر سکے اور آزاد ہو جائے۔ گویا اگر وہ خود رہا ہونے کا اپنے پاس کوئی سامان نہیں رکھتا تو تم اپنے اموال میں سے کچھ مال اسے دے دو کیونکہ مال خدا کا ہے اور خدا کے مال میں سب لوگوں کا حق شامل ہے اِس لئے اگر آزادی کے سامان اِس کے پاس مفقود ہیں تو تم خود اسے خدا کے اموال میں سے کچھ مال دے دو۔ اِسی طرح اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان حاکموں اور بادشاہوں سے بھی کہا ہے کہ اے مسلمان حاکمواور بادشاہو !اللہ تعالیٰ کے اموال میں صرف تمہارا حق ہی نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے حقوق شامل ہیں اِس لئے اگر جنگی قیدی تمہارے قبضہ میں آتے ہیں اور اس کے بعد اُن کی قوم اُن سے غدّاری کرتی ہے، اُن کے رشتہ دار اُن سے غدّاری کرتے ہیں اور وہ اُنہیں چھڑانے کی کوئی کوشش نہیں کرتے یا فرض کرو کوئی جنگی قیدی مالدار ہے اور اُس کے رشتہ دار چاہتے ہیں کہ قید ہی رہے تاکہ اُس کی جائدا پر قابض ہو جائیں تو ایسی صورت میں ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں کہ اگر قوم نے اُن سے غداری کی ہے یا اُن کے رشتہ دار اُن سے غداری کررہے ہیں تو تم اُن سے غداری مت کرو بلکہ خود اپنے مال کا ایک حصہ اُن کی آزادی کے لئے خرچ کرو کیونکہ جو مال تمہارے قبضہ میں آیاہے وہ تمہارا مال نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہے اور جس طرح تم اللہ تعالیٰ کے بندے ہو اُسی طرح غلام بھی اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔ اِن حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ
اوّل اسلام کے نزدیک دنیا کی دولت سب انسانوں کی ہے۔
دوسرے اصل مالک دولت کااللہ تعالیٰ ہے اس لئے انسان کو اپنے مال کو خرچ کرنے کا کُلّی اختیار نہیں بلکہ مالک کے حکم کے مطابق اُسے اپنی آزادی کو محدود کرنا ہوگا۔
یہ اصل اموال کی ملکیت کے بارہ میں قرآن کریم کے نزدیک ہمیشہ سے انبیاء علیہم السَّلام بتاتے چلے آئے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں حضرت شعیب علیہ السَّلام کی نسبت آتا ہے کہ جب انہوں نے لوگوں سے کہا کہ دوسرے لوگوں کے حقوق غصب نہ کرواور ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو اور اموال کمانے یا اس کو خرچ کرنے کے وہ طریق اختیار نہ کرو جن سے فساد ہوتا ہے تو لوگوں نے اُن سے کہاکہ۸؎ یعنی اے شعیب! یہ کیا بات ہے کہ روپیہ ہمارا، مال ہمارا، جائدادیں ہماری ہم جس کو چاہیں دیںاور جس کو چاہیں نہ دیں۔ جہاں چاہیں خرچ کریں اور جہاں چاہیں خرچ نہ کریں تم اِن معاملات میںدخل دینے والے کون ہو۔ مال تمہارا نہیں کہ تم اس کی تقسیم یا خرچ کے ذمہ دار ہو۔ مال ہمارا ہے ہم اختیار رکھتے ہیں کہ جس طرح چاہیں خرچ کریں۔ کیا نمازیں پڑھ پڑھ کر تمہارا سر چکرا گیا ہے کہ ا ب ہمارے مالی معاملات میں بھی دخل دینے لگ گئے ہو کہ اِس طرح خرچ کرو گے تو ثواب ہوگا۔ اِس طرح خرچ کرو گے تو عذاب ہوگا۔ہمیں نصیحت کرنے اور سمجھانے کا یہ حق تمہیں کہاں سے حاصل ہوگیا ہے۔پھر وہ طنز کے طور پر کہتے ہیں کہ بڑا غریبوں کا ہمدرد آیا ہے تو تو بڑا حلیم اور بڑا بھلا مانس معلوم ہوتا ہے یعنی یہ تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ تم حلیم ہو اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تم رشید ہو مگر اب تم حلیم اور رشید بن کر ہم پر رُعب جمانا چاہتے ہو ہم تمہارے اِس دعویٰ کو تسلیم نہیں کرتے۔
ابتدائے آفرینش سے اموال کے متعلق ایک ہی نظریہ
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم نے اموال کے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے وہی پہلے انبیاء کی طرف سے پیش ہوتا چلا آیا ہے۔ وہ بنی نوع
انسان کو اموال کمانے اور خرچ کرنے میں آزاد نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ اموال سب خدا کے ہیں اور خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف اُن کو خرچ کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔
قومی ترقی کے لئے غرباء کو اُبھارنے کی ضرورت
اِن اصول کے بعد مَیں یہ بتاتا ہوں کہ اسلام نے اپنی ابتدا میں ہی غرباء کے اُبھارنے اوراُن کی مدد کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ چنانچہ وہ سورتیں جو بالکل ابتدائی زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں جب اِن کا مطالعہ کیا جائے توصاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اِن ابتدائی سورتوں میں سب سے زیادہ غرباء کو اُبھارنے ،اُن کی مدد کرنے اور اُن کو ترقی کی دَوڑ میں آگے لے جانے کا ذکر آتا ہے اور مومنوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اگر قومی ترقی چاہتے ہیں، اگر خداتعالیٰ کی رضا صاصل کرنا چاہتے ہیں تو اِس کا طریق یہی ہے کہ غرباء کی مدد کریں اور اُن کی تکالیف کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی دوسرے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوئے تھے۔ ابھی قرآن کریم نے نمازوں کی تفصیل بیان نہیں کی تھی، ابھی قرآن کریم نے تجارت کے اصول بیان نہیں کئے تھے، ابھی قرآن کریم نے قضاء کے احکام لوگوں کے سامنے بیان نہیں کئے تھے، ابھی لین دین کے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوئے تھے، ابھی میاں بیوی کے حقوق یاراعی اور رعایا کے حقوق یاآقااور ملازمین کے حقوق کی تفصیلات بیان نہیں ہوئی تھیں لیکن اِس ابتدائی زمانہ میں قرآن نے غرباء کو اُبھارنے اور اُن کی مدد کرنے کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی بلکہ اُن کے نہ اُبھارنے اور اُن کی مدد نہ کرنے کے نتیجہ میں قوم کی تباہی کی خبر دی اور بتایا کہ وہ قوم اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بن جاتی ہے جو غرباء کے حقوق کو نظر انداز کر دیتی ہے۔
اِسلام کی ابتدائی تعلیم میں غرباء کو اُبھارنے کی تلقین
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی سورۃ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ ۹؎والی سورۃ
ہے۔ اِس سے یہ مراد نہیں کہ ساری سورۃ ایک ہی دن میں نازل ہوگئی تھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے اِسی سورۃ کا ابتدائی ٹکڑا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا اور پھر رفتہ رفتہ ساری سورۃ نازل ہوگئی۔ اِس سورۃ کے نزول کے بعد قریب ترین عرصہ میں جو سورتیں نازل ہوئیں اُن میں سے چار سورتیں ایسی ہیں جن کو سرولیم میورجو یو۔پی کے لیفٹیننٹ گورنر رہ چکے ہیں اور یورپین مصنفین میں خاص عظمت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ سولیلو کی (SOLILOQUY)’’یعنی محادثہ بِالنفس کی سورتیں قرار دیتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس میں دعویٰ سے پہلے جو خیالات پیدا ہوا کرتے تھے اِن چار سورتوں میں انہی خیالات کاذکر آتا ہے۔ سرولیم میور کے نزدیک یہ چار سورتیں آخری پارہ کی سورۃ البلد۔ سورۃ الشمس۔سورۃاللیل اور سورۃ الضحیٰ ہیں۔ مفسّرین کے نزدیک تو یہ سورتیں سورۃ العلق کے بعد نازل ہوئی ہیں اور تاریخی طور پر بھی یہی بات درست ہے لیکن میورکا خیال ہے کہ یہ سورتیں والی سورۃ سے بھی پہلے کی ہیں۔ اُن کی بنائے استدلال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جب کہا اِقْرَاْ یعنی پڑھ ۔ تو بہرحال اِس سے پہلے کوئی چیز موجود ہونی چاہئے تھی جس کو پڑھنے کاحکم دیاجاتا۔ اسلامی تاریخ کے لحاظ سے بھی یہ نہایت ابتدائی سورتیں ہیں اور میور کے خیال کے لحاظ سے تو یہ اتنی ابتدائی سورتیں ہیں کہ رسول کریم ﷺکے دعویٰ سے بھی پہلے کی ہیں۔ اِن چار سورتوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اِن میں سے تین میں غرباء کی خبر گیری کو نجات اور ترقی قومی کیلئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ لوگوں کو غرباء کی خبر گیری اور اُن کی خدمات پر اُبھارا گیا ہے اور اُمراء کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ چنانچہ سورۃ البلد میں آتا ہے۔
۱۰؎ فرماتا ہے ہر مالدار دنیا میں کہتا ہے کہ مَیں بڑا مالدار آدمی ہوں میَں نے بڑا روپیہ دنیا میں خرچ کیا ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ مَیں خرچ کر چکا ہوں ۔ کے معنٰی ڈھیروں ڈھیر کے ہوتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا ڈھیر مَیں خرچ کرتا چلا گیا اور مَیں نے روپیہ کی کچھ پرواہ نہ کی اب بتاؤ مجھ سے زیادہ اور کون شخص اِس بات کا مستحق ہے کہ اُسے عزت دی جائے اور اُسے پبلک میںعظمت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اِس کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ کیا وہ نادان یہ خیال کرتا ہے کہ مجھے دیکھنے والا دنیا میںکوئی موجود نہیں! وہ دعوتیں کرتا ہے اور ایک ایک دن میں سینکڑوں اونٹ ذبح کردیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ مَیں نے مُلک پر بڑا احسان کیا۔ فرماتا ہے کیا دنیا اندھی ہے وہ یہ نہیں سمجھتی کہ یہ سَو اونٹ جو قربان کیا گیا ہے محض اِس لئے ہے کہ اُسے شہرت اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ غرباء کی ہمدردی اور اُن کی محبت کا جذبہ اُس کے دل میں کام نہیں کر رہا۔اگر واقعہ میں اس کے دل میں غریبوں کی تکالیف کا احساس ہوتا،وہ ان کی غربت اور تکالیف کو دور کرنے کا جذبہ اپنے اندر رکھتا تو سَو سَو اونٹ ایک دن میں ذبح کرنے کی بجائے وہ سَو دنوں میں ایک ایک اونٹ ذبح کرتا تاکہ غرباء ایک لمبے عرصے تک بھوک کی تکالیف سے بچے رہتے مگر اُس کے مدِّنظر تو یہ بات تھی ہی نہیں وہ تو یہی چاہتا تھا کہ پبلک میں میری شہرت ہو اور لوگ سمجھیں کہ میں بڑا امیر ہوں فرماتا ہے کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اُسے کوئی دیکھتا نہیں، اُس کے اعمال پر کوئی نظر نہیں رکھتا؟ یہ اُس کا خیال بالکل غلط ہے۔ دنیا اتنی اندھی اور بیوقوف نہیں ہے وہ جانتی ہے کہ اُس نے جو کچھ خرچ کیا بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے خرچ نہیں کیا بلکہ اپنے نفس کے لئے خرچ کیا ہے فرماتا ہے کیا ہم نے اُسے آنکھیں نہیں دی تھیں کیاوہ نہیں دیکھتا تھا کہ مُلک کا کیا حال ہے؟ غریب بھوکے مر رہے ہیں اور کوئی اُن کا پُرسانِ حال نہیں مگر یہ ایک ایک دن میں سَو سَو دو دو سَو اونٹ محض اپنی شہرت کیلئے ذبح کر دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں نے بڑا کام کیاہے۔ کیا اُس کی آنکھیں نہیں تھیں کہ وہ مُلک کا حال دیکھ لیتا۔ اور اگر اُسے آنکھوں سے اپنے مُلک کا حال نظر نہیں آتا تھا تو کیا اُس کے منہ میں زبان نہیں تھی اور کیا یہ لوگوں سے نہیں پوچھ سکتا تھا کہ روپیہ کا صحیح مصرف کیا ہے اور مجھے کہاں کہاں خرچ کرنا چاہئے؟ پھر کیا ہم نے اُس کی دینی اور دُنیوی ترقی کے لئے اُس کی فطرت میں مادہ نہیں رکھ دیا تھا؟ کیا ہم نے اُس کی فطرت میں یہ مادہ نہیں رکھا کہ یہ خدا تعالیٰ کو پانے اور اُس سے محبت پیدا کرنے کی تدابیر اختیار کرے؟ اور کیا ہم نے اُس کی فطرت میں یہ مادہ نہیں رکھا کہ یہ بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرے؟ اگر اِن تین طریقوں کو اس نے استعمال نہیں کیا اور اپنے روپیہ کو بغیر اصول کے خرچ کر دیا تو اس نے روپیہ کو خرچ نہیں کیا بلکہ اُسے تباہ کیا ہے پھر فرماتا ہے۔باوجود اِس کے کہ اُس کی آنکھیں موجود تھیں جن سے یہ غرباء کا حال دیکھ سکتا تھا۔ اُس کی زبان اور اُس کے ہونٹ سلامت تھے اور یہ لوگوں سے پوچھ سکتا تھا کہ مجھے تو روپیہ کے صحیح مصرف کا علم نہیں تم ہی بتاؤ کہ روپیہ کس طرح خرچ کروں؟ اور باوجود اِس کے کہ ہم نے اُس کی فطرت میں نیکی اور حسنِ سلوک کے مادے رکھ دیئے تھے، ہم نے خدا کی محبت اُس کی فطرت میں رکھ دی تھی اور ہم نے بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرنے کا مادہ بھی اُس کی فطرت میں رکھ دیا تھا مگر ان تمام باتوں کے باوجود وہ اس گھاٹی پر نہیں چڑھا اور چڑھائی پر چڑھنا اس کے لئے مشکل ہوگیا۔ جیسے موٹا آدمی پہاڑ کی چوٹی پرنہیں چڑھ سکتا اور راستہ میں ہی تھک کر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ بھی گھاٹی کو عبور نہ کر سکا اور نام و نمود پر ہی اپنے روپیہ کو برباد کرتا رہا۔
اِس قسم کے بیہودہ اور لغو کاموں پرروپیہ برباد کرنے کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ مثلاً بعض عیاش اُمراء کنچنیوں کے ناچ پر ہزاروں روپیہ برباد کر دیتے ہیں۔ بعض کو روپیہ صرف کرنے کا اور کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تو وہ مشاعرہ کی مجلس منعقد کر کے روپیہ ضائع کردیتے ہیں۔ اُن کے پڑوس میں ایک بیوہ عورت ساری رات اپنے بھوکے بچوں کو سینہ سے چمٹائے پڑی رہتی ہے وہ بھوک سے بلبلاتے اور چیختے چلاتے ہیں مگر اُسے اُن یتیم بچوں کو کچھ کھلانے کی توفیق نہیں ملتی اور ہزار ہزار روپیہ مشاعرہ پر برباد کردیتا ہے۔محض اِس لئے کہ لوگوں میں شہرت ہو کہ فلاں رئیس نے یہ مشاعرہ کروایا ہے۔ فرماتا ہے یہ روپیہ کا خرچ کرنا نہیں بلکہ اُسے ضائع اور برباد کرنا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں کچھ معلوم ہے کہ چوٹی پر چڑھنے کا کیا مطلب ہے یعنی ہم نے جو یہ کہا ہے کہ وہ چوٹی پر نہیں چڑھا تو تم نہیں سمجھ سکے ہو گے کہ اِس کا مطلب کیا ہے؟ آؤ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ہمارا کیا مطلب ہے۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ وہ غلام جو بنی نوع انسان کے قبضہ میں ہیں جو اپنے باپوں اور اپنی ماؤں اور اپنے بھائیوں اور اپنی بہنوں سے جدا ہیں کیا اس کے دل میں یہ کبھی خیال نہیں آیا کہ وہ ان کو آزاد کرے اور انہیں بھی آزادانہ زندگی کی فضا میں سانس لینے دے۔ یا بجائے اس کے سَو سَو دو دو سَو اونٹ ایک ایک دن میں ذبح کرتا اور اُمراء کو بُلا کر اُن کی ایک شاندار دعوت کردیتا۔ کیوں اس نے ایسا نہ کیا کہ وہ غرباء اور مساکین کو کھانا کھلاتا۔ قحط کے دنوں میں جب کہ غرباء کو غلّہ کی شدید تکلیف ہوتی ہے اور اُن میں سے اکثر فاقہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یا سردی کے دنوں میں جبکہ غلّہ میں کمی آجاتی ہے اُس کا فرض تھا کہ وہ غرباء کی خبر گیری کرتا، بھوکوں کو کھانا کھلاتا، ننگوں کو کپڑے دیتا اور اِس طرح اپنے مال کو جائز طور پرصحیح مقام پرخرچ کرتا مگر اُس نے ایسا تو نہ کیا اور ایک ایک دن میں سَو سَودو دوسَو اونٹ ذبح کر کے بڑے بڑے امراء کو کھانا کھلا دیا۔ محض اس لئے کہ اُس کی شہرت ہو اور لوگوں میںیہ بات مشہور ہو کہ وہ بڑا مالدار ہےیتیموں ہی کو کھانا کھلا دیتا بجائے اِس کے کہ دعوتوں پر یہ روپیہ برباد کرتا یا جوئے بازی اور مختلف کھیل تماشوں پر اپنی دولت کو ضائع کرتا۔ اگر اس کے دل میں غرباء کا سچا درد ہوتا، اگر اس کے دل میں یتامیٰ کی خبر گیری کا صحیح احساس ہوتا تو اُسے چاہئے تھا کہ اپنے روپیہ کو بجائے ضائع کرنے کے قرابت والے یتیم کو کھانا کھلاتا۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی قرابت والے یتیم کو وہ کھانا کھلاتا کیونکہ اپنے قرابت دار یتیم کو تو بہت سے بخیل بھی کھانا کھلادیا کرتے ہیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ یتیم دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ یتیم ہوتا ہے جس کا کوئی رشتہ دار موجود نہیں ہوتا اُسے دیکھ کر بعض دفعہ سنگدل سے سنگدل انسان کے دل میں رحم کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ اُسے کھانا کھلا دیتا ہے مگر ایک یتیم ایسا ہوتاہے جس کے بھائی موجود ہوتے ہیں، جس کی بہنیں موجود ہوتی ہیں، جس کے چچا اور دوسرے رشتہ دار موجود ہوتے ہیں لوگ ایسے یتیموں کی طرف کم توجہ کرتے ہیں اِس لئے فرماتا ہے اگر کوئی ایسا یتیم ہو جس کے اپنے رشتہ دار موجود ہوں تب بھی اُس کے دل میں اتنا درد ہونا چاہئے تھا کہ وہ اس یتیم کو دیکھ کر سمجھتا کہ یہ یتیم میرا ہے اُن کا نہیں۔ باوجود اِس کے کہ اس کے اپنے رشتہ دار موجود ہوتے اس کے دل میں یتیم کی اپنی محبت ہوتی کہ وہ سمجھتا کہ مَیں ہی اِس کا نگران اور پُرسانِ حال ہوں وہ اِس کے نگران نہیں ہیں۔ یا اُس نے کیوں ایسے مسکین کو کھانا نہ کھلایا جو تھا یعنی اپنی کمزوری اور ضعف کی وجہ سے پروٹسٹ اور احتجاج بھی نہیں کر سکتا تھا، کسی کے گھر پر دستک بھی نہیں دے سکتا تھا، بلکہ ایسا تھا جیسے مٹی پر گری پڑی کوئی چیز ہو۔ دنیا میں بعض ایسے مساکین ہوتے ہیں جو لوگوں کے دروازوں پر پہنچ کر اپنی غربت اور مسکنت کا حال بیان کرتے اوراُن سے امداد کے طالب ہوتے ہیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیںجو دروازوں پرپہنچ کر خوب شور مچاتے اور آخر گھر والوں سے کچھ نہ کچھ لے کر اگلے دروازہ پر جاتے ہیں اور بعض ایسے مسکین ہوتے ہیں جن کو اگر کچھ دیا نہ جائے تو وہ دروازے سے ہلتے ہی نہیں۔ ایسے مساکین کو خرگدا کہا جاتا ہے۔ پھر کئی ایسے مسکین بھی ہوتے ہیں جو باقاعدہ پروٹسٹ کرتے ہیں۔ مظاہرے کرتے ہیں اوروفدبنا بنا کر حکومت کے پاس پہنچتے ہیں یا امراء کے پاس جاتے ہیں اور اُن سے امداد کے طالب ہوتے ہیں۔ ایسے مساکین کو تو لوگ پھر بھی کچھ دے ہی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ہم تو تم سے اِس قدر ہمدردی اور محبت کی امید رکھتے تھے کہ وہ مسکین جو مٹی پر گرا پڑا ہے، جو جنگل میں اکیلا بے کس اور بے بس پڑا ہے جس میں مظاہرہ کرنے کی بھی ہمت نہیں، جس میں کسی کے دروازے تک پہنچنے کی بھی طاقت نہیں، نہ وہ ٹریڈیونین کا ممبر ہے نہ کسی اور ایسی مجلس کا جو اپنے حقوق کیلئے شور مچاتی ہے، وہ بیمار،کمزور اور نحیف الگ ایک گوشۂ تنہائی میں پڑا ہواہے، اُس کا دنیا میں کوئی سہارا نہیں، معاش کا اُس کے پاس کوئی ذریعہ نہیں، وہ بے بس اور بیکس نہایت کس مپرسی کی حالت میں پڑا ہوا ہے اور وہ اپنے اندر اتنی طاقت بھی نہیں رکھتا کہ کسی کے دروازہ پر چل کر جاسکے تمہارا فرض تھا کہ تم اُس سہارے کے محتاج کے پاس جاتے اور اُس خاکِ مذلّت پر پڑے ہوئے مسکین کی خبر گیری کرتے پھر یہ شخص اپنی ہمدردی اور اپنی محبت اور اپنے حُسِن سلوک میں اِس قدر ترقی کرتا کہ جب وہ یہ سب کچھ کر چکتا تو ہم اُس سے یہ اُمید رکھتے کہ وہ یہ نہ کہتا کہ مَیں نے فلاں غریب کی پرورش کی، میں نے فلاں مسکین کی خبر گیری کی، بلکہ وہ خدا کے حضور نہایت عجز اور انکسار کے ساتھ یہ عرض کرتا کہ اے میرے ربّ!میں نے تیرے حکم کو پورا کرنے کی کس قدر کوشش کی ہے۔ مگر مَیں نہیں کہہ سکتا کہ مَیںنے اِس حکم کو صحیح طور پر ادا بھی کیا ہے یا نہیں ـ۔ گویا بجائے احسان جتانے کے تم مومن بنتے اور سمجھتے کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے کسی پر احسان نہیں کیا۔ اپنے مہربان آقا کے حکم کو پورا کیا ہے اور وہ بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اس کے عائد کردہ فرض کو صحیح طور پر ادا بھی کیا ہے یا نہیں پھر اِس سے بھی ترقی کر کے تم مُلک کی مصیبتوں کے اپنے آپ کو ذمہ دار بناتے۔ یہی نہیں کہ خود تو عیش وآرام کی زندگی بسر کرتے اور غرباء تکالیف میں دن گزاردیتے۔جیسے آج کل کنٹرول کی وجہ سے امراء تو چیزیں لے جاتے ہیں مگر غرباء رہ جاتے ہیں۔ اور پھر یہی نہیں کہ تم قربانی کرکے غرباء کی مدد کرتے بلکہ اس سے بڑھ کر ہم تم سے یہ امید کرتے تھے کہ تم اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو بھی اِس راہ پر چلانے کی کوشش کرتے اور تمام کے تمام افرادِ مُلک مل کر مُلک کی بہتری کی کوشش کرتے اور ایک دوسرے کو سہارا دیتے۔ پھر فرماتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ ہم یہ چاہتے تھے کہ یعنی سب نیکیاں کر کے پھر بھی سمجھتے کہ ہم نے کچھ نہیں کیااور ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہتے کہ اَور زیادہ غریبوں اور کمزوروں پر رحم کرو اور اُن سے محبت کرو اور یہ نصیحت مرتے دم تک جاری رہتی۔
یہ اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ کی تعلیم ہے جب قرآن کریم کے نزول کا ابھی آغازہی ہوا تھا، جب تفصیلی احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابھی نازل نہیں ہوئے تھے اور جب مکّہ والے بھی ابھی اسلام سے پورے طور پر واقف نہیں ہوئے تھے۔سر میور کے نزدیک رسول کریم ﷺ کے یہ وہ ابتدائی خیالات ہیں جن سے متاثر ہوکر آپ نے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ نبوت کا دعویٰ کیا اور ہمارے نزدیک یہ وہ ابتدائی الہامات ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِقرَاُ کا حکم ہوا تھا کہ جاؤاور لوگوں کو اِن کا قائل بناؤ۔بہرحال اسلام کی بنیاد کے وقت کی یہ تعلیم صاف طور پر بتارہی ہے کہ اسلام نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ جہاں اسلام فرد کی آزادی اور اُس کی شخصی ترقی کے لئے جدوجہد کوجائز رکھتا ہے وہاں وہ اِس اَمر کی بھی اجازت نہیں دے سکتا کہ کچھ لوگ تو عیش وآرام کی زندگی بسر کریں اور کچھ لوگ تکلیف اور دُکھ کی زندگی بسر کریں۔
اسلام کا عدمِ مساوات کو روکنا
غلامی
یہ امر یادر رکھنا چاہئے کہ غیر طبعی اور غیر مساوی سلوک جو دنیا میںشروع زمانہ سے چلا آتا تھا اور جسے اسلام نے قطعاً روک دیااُس کی بڑی وجہ غلامی تھی۔آجکل کے لوگ
اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ دنیا کی اقتصادیات کا غلامی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ مگر درحقیقت غلامی اور اقتصادیات کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے غلامی کو بالکل روک دیا۔ اسلام سے پہلے بلکہ ظہورِ اسلام کے بعد بھی دنیا کے ایک بڑے حصے میں غلامی کا طریق رائج رہا ہے۔چنانچہ آپ رومن، یونانی، مصری اور ایرانی تاریخ کو پڑھ کر دیکھ لیں آپ کو اِن میں سے ہر مُلک کی ترقی کی بنیاد غلامی پر رکھی ہوئی نظر آئے گی۔ یہ غلام دوطرح بنائے جاتے تھے۔ ایک طریق تو یہ تھا کہ ہمسایہ قومیں جن سے جنگ ہوتی تھی ـاُن کے افراد کو جہاں اِکاّ دُکّا نظر آئے پکڑکر لے جاتے اور اُنہیں غلام بنا لیتے۔ چنانچہ رومی لوگ ایرانیوں کو پکڑکر لے جاتے اور ایرانیوں کو موقع ملتا تو وہ رومیوں کو پکڑکر لے جاتے اور سمجھتے کہ اِس طرح ہم نے دوسرے مُلک کو سیاسی لحاظ سے نقصان پہنچایا ہے۔دوسرا طریق یہ تھا کہ لوگ غیر مہذب ہمسایہ اقوام کی عورتیں، ان کے بچے پکڑ کر لے جاتے اور اُنہیں اپنی غلامی میں رکھتے۔ اوّل الذکر جب موقع ملے اور ثانی الذکر طریق بطور دستور اُن میں جاری تھا۔ بلکہ یہ طریق اٹھارویں صدی تک دینا میں رائج رہا ہے۔ چنانچہ مغربی افریقہ سے لاکھوں غلام یونائٹیڈسٹیٹس امریکہ میں لے جائے گئے جو اَب تک وہاں موجود ہیں اور گواب وہ آزاد ہو چکے ہیں مگر دو تین کروڑ باشندے اب بھی امریکہ میں ایسے موجود ہیں جو مغربی افریقہ سے بطور غلام وہاں پہنچائے گئے تھے۔ متمدن اقوام کی غرض اِس سے یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنے مُلک کی دولت کو بڑھائیں۔ چنانچہ ان غلاموں سے کئی قسم کے کام لئے جاتے تھے۔ کہیںاُن کو کارخانوں میں لگا دیا جاتا تھا، کہیں جہازوں کا کام اُن کے سپرد کردیا جاتا تھا اس طرح محنت ومشقت کے سب کام جو قومی ترقی کے لئے ضروری ہوتے تھے وہ اُن غلاموں سے لئے جاتے تھے۔ مثلاً سَستی چیزیں پیدا کرنا اور زیادہ نفع کمانا مقصود ہوتا تو اِن غلاموں کو زمینوں کی آب پاشی اور فصلوں کی کاشت اور نگرانی پر مقرر کردیا جاتا۔
اسلام میں جنگی قیدیوں کے علاوہ غلام بنانے کی ممانعت
غرض اِس طریق سے ایک طرف تو بنی نوع انسان کے ایک حصہ کو مساوات سے محروم کیا جاتا تھا۔ قرآن کریم نے اِن دونوں طریقوں کو قطعاً
روک دیا ہے چنانچہ فرماتا ہے۔۱۱؎ فرماتا ہے ہم نے کسی نبی کیلئے نہ پہلے یہ جائز رکھا ہے اور نہ تمہارے لئے جائز ہے کہ بغیر اِس کے کہ کسی حکومت سے باقاعدہ لڑائی ہو اُن کے افراد کو غلام بنا لیا جائے۔ اگر کسی حکومت سے جنگ ہو اور جنگ بھی سیاسی نہیں بلکہ مذہبی تو عین میدا نِ جنگ میں قیدی پکڑے جاسکتے ہیں اور اِس کی ہماری طرف سے اجازت ہے لیکن تمہیں یہ حق نہیں کہ بغیر کسی مذہبی جنگ کے دوسری قوم کے افراد کو قیدی بناؤ۔ یا میدانِ جنگ میں تو نہ پکڑو لیکن بعد میں اُن کو گرفتار کر کے قید ی بنا لو۔ قیدی بنانا صرف اِس صورت میں جائز ہے جب کسی قوم سے باقاعدہ جنگ ہو اور عین میدانِ جنگ میں دشمن قوم کے افراد کو بطور جنگی قیدی گرفتار کر لیاجائے۔ گویا وہ قوم جس کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں ہوا اُس کے افراد کو پکڑنا جائز نہیں ہے۔ اِس طرح وہ قوم جس سے جنگ ہو اُس کے افراد کو بھی میدانِ جنگ کے علاوہ کسی جگہ سے بعد میں پکڑنا جائز نہیں ہے۔ صرف لڑائی کے دوران میں لڑنے والے سپاہیوں کو یا اُن کوجو لڑنے والے سپاہیوں کی مدد کر رہے ہوں پکڑ لیا جائے توجائز ہوگا کیونکہ اگر اُن کو چھوڑ دیا جائے تو وہ بعد میں دوسرے لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں پھر فرماتا ہے اے مسلمانو! کیا تم دوسرے لوگوں کی طرح یہ چاہتے ہو کہ تم غیر اقوام کے افراد کو پکڑ کر اپنی طاقت اور قوت کو بڑھالو اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ تم دنیا کے پیچھے چلو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں اُن احکام پر چلائے جو انجام کے لحاظ سے تمہارے لئے بہتر ہوںاور اگلے جہان میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی کا مستحق بنانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور انجام کے خوشگوار ہونے کے لحاظ سے یہی حکم تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم سوائے جنگی قیدیوں کو جنہیں دورانِ جنگ میں گرفتار کیا گیا ہو اور کسی کو قیدی مت بناؤگویا جنگی قیدیوں کے سِوا اسلام میں کسی قسم کے قیدی بنانے جائز نہیں۔ اِس حکم پر شروع اسلام میں اِس سختی کے ساتھ عمل کیا جاتا تھا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں ایک دفعہ یمن کے لوگوں کا ایک وفد آپ کے پاس آیا اور اُس نے شکایت کی کہ اسلام سے پہلے ہم کو مسیحیوں نے بِلا کسی جنگ کے یونہی زو ر سے غلام بنا لیا تھا ورنہ ہم آزاد قبیلہ تھے ہمیں اِس غلامی سے آزاد کرایا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گویہ اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے مگر پھر بھی میں اِس کی تحقیقات کروں گا۔ اگر تمہاری بات درست ثابت ہوئی تو تمہیں فوراً آزاد کرادیاجائیگا۔ لیکن اِس کے برخلاف جیسا کہ بتایا جاچکا ہے یورپ اپنی تجارتوں اور زراعتوں کے فروغ کے لئے اُنیسویں صدی کے شروع تک غلامی کو جاری رکھتا چلا گیا۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام کی تاریخ سے ایک غیراسلامی غلامی کا بھی پتہ لگتا ہے مگر پھر بھی غلاموں کے ذریعہ سے مُلکی طور پرتجارتی یا صنعتی ترقی کرنے کاکہیں پتہ نہیں چلتا۔
اسلامی تعلیم کے مطابق جنگی قیدیوں کی رہائی
اب رہے جنگی قیدی۔ سو اُن کے بارے میں اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ ۱۲؎ یعنی جب لڑائی میں تمہارے پاس قیدی آئیں تو تمہارے دلوں میں یہ سوال پیدا
ہوگا کہ اَب ہمیں اِن کے متعلق کیا کرنا چاہئے سو یاد رکھو ہمارا حکم یہ ہے کہ یا تو احسان کر کے انہیں بلا کسی تاوان کے آزاد کر دو یا پھر تاوان لے کر انہیں رہا کر دو۔اِن دو صورتوں کے سِوا کوئی اور صورت تمہارے لئے جائز نہیں۔ بہر حال تمہارا فرض ہے کہ تم اِن دو میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرلو۔ یا تو یونہی احسان کر کے اُن کو رہا کردو اور سمجھ لو کہ تمہارے اِس فعل کے بدلہ میں خدا تعالیٰ تم سے خوش ہوگا اور اگر تم اقتصادی مشکلات کی وجہ سے احسان نہیں کر سکتے تو وہ تاوان جو عام طور پر حکومتیں وصول کیا کرتی ہیں وہ تاوان لے کر قیدیوں کو رہا کر دو۔ لیکن چونکہ ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ ایک شخص فدیہ دینے کی طاقت اپنے اندر نہ رکھتا ہواور حکومت یا اُس کے رشتہ دار بھی اُس کو چھڑانے کی کوئی کوشش نہ کریں اور اِس کے ساتھ ہی قیدی کے نگران کی بھی یہ حالت ہو کہ وہ بغیر فدیہ کے اُسے آزاد کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اس لئے اسلام نے اس کا یہ علاج بتایا کہ وہ غلام تاوانِ جنگ کی قسطیں مقرر کرکے آزاد ہو جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱۳؎ یعنی اگر کوئی ایسا قیدی ہو جسے تم احسان کر کے نہ چھوڑ سکو اور اُس کے رشتہ دار بھی اس کا فدیہ نہ دے سکیںتو اِس صورت میں ہماری یہ ہدایت ہے کہ اگر وہ آزاد ہونا چاہے تو وہ نگران سے کہہ دے کہ میں خود روپیہ کما کر قسط اور فدیہ ادا کرتا چلا جاؤں گاآپ مجھے آزاد کر دیں۔ اگر وہ قسط اور فدیہ ادا کرنے کا اقرار کرلے تو اسلامی تعلیم کے ماتحت وہ اُسی وقت آزاد ہو جائے گا۔ پھر فرمایا ہم تمہیں اس کے ساتھ یہ بھی نصیحت کرتے ہیں کہ اگر تمہیں توفیق ہو اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال دیا ہواہو تو چونکہ مال خدا کا ہے اور غلام بھی خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ ہے اس لئے تم اپنے مال میں سے ایک حصہ اُسے بطور سرمایہ دے دو تاکہ وہ اُس پر اپنے کاروبار کی بنیاد رکھ کر آسانی سے قسطیں ادا کر سکے۔ اب بتاؤ کیا کوئی بھی صورت ایسی رہ جاتی ہے جس میں کسی کو غلام بنایا جاسکتا ہو۔ اتنے وسیع احکام اور اتنی غیر معمولی رعایتوں کے بعد بھی اگر کوئی شخص غلامی سے آزاد ہونا پسند نہیں کرتا اور اپنی مرضی سے کسی مسلمان کے پاس رہتا ہے تو سوائے اِس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ خود اپنے گھر کے ظلموں سے بیزار ہے اور جانتا ہے کہ اگر میں آزاد ہو کر اپنے گھر گیا تو مجھے زیادہ تکلیف اُٹھانی پڑے گی اِس لئے میرے لئے یہی بہتر ہے کہ اِس زندگی کو ترجیح دوں ۔ ورنہ غور کر کے دیکھ لیا جائے کوئی ایک صورت بھی ایسی نہیں رہ جاتی جس میں کسی کو غلام بنایا جا سکتا ہو۔ پہلے تو یہ حکم دیا کہ تم احسان کر کے بغیر کسی تاوان کے ہی اُن کو رہا کر دو۔ پھر یہ کہا کہ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو تاوان وصول کر کے آزاد کردواور اگر کوئی شخص ایسا رہ جائے جو خودتاوان ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہواس کی حکومت بھی اُس کے معاملہ میں کوئی دلچسپی نہ لیتی ہو اور اُس کے رشتہ دار بھی لاپرواہ ہوں تو وہ تم کو نوٹس دے کر اپنی تاوان کی قسطیں مقرر کروا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں جہاں تک اُس کی کمائی کا تعلق ہے قسط چھوڑ کر سب اُسی کی ہوگی اور وہ عملاً پورے طور پر آزاد ہوگا۔
حضرت عمرؓ کی شہادت ایک غلام کے ہاتھ سے
حضرت عمررضی اللہ عنہ کو ایک ایسے غلام نے ہی مارا تھا جس نے مکاتبت کی ہوئی تھی۔ وہ غلام جس مسلمان کے پاس رہتا تھا اُن سے ایک دن اُس نے کہا کہ
میری اتنی حیثیت ہے آپ مجھ پر تاوان ڈال دیں مَیں ماہوار اقساط کے ذریعہ آہستہ آہستہ تمام تاوان ادا کردونگا۔ انہوں نے ایک معمولی سی قسط مقرر کر دی اور وہ ادا کرتا رہا۔ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اُس نے شکایت کی کہ میرے مالک نے مجھ پر بھاری قسط مقرر کر رکھی ہے آپ اُسے کم کرادیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُس کی آمدن کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جتنی آمد کے اندازہ پر قسط مقرر ہوئی تھی اُس سے کئی گُنا زیادہ آمد وہ پیدا کرتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر فرمایاکہ اس قدر آمد کے مقابلہ میں تمہاری قسط بہت معمولی ہے اِسے کم نہیں کیا جاسکتا۔ اِس فیصلہ سے اُسے سخت غصّہ آیا اور اُس نے سمجھا کہ میں چونکہ ایرانی ہوں اِس لئے میرے خلاف فیصلہ کیا گیاہے اور میرے مالک کا عرب ہونے کی وجہ سے لحاظ کیا گیاہے۔ چنانچہ اِس غصہ میں اُس نے دوسرے ہی دن خنجر سے آپ پر حملہ کر دیا اور آپ انہی زخموں کے نتیجہ میں شہید ہوگئے۔
غرض اسلام نے یہ حق مقرر کیا ہوا تھا کہ اگر کوئی غلام آزاد ہونا چاہے تو وہ قسط وار تاوان کو ادا کرنا شروع کر دے اور اگر سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی کام شروع کرنے کے قابل نہ ہو تو اس صورت میں کا حکم تھا یعنی مالک خود مدد کر کے یا حکومتِ مُسلمہ مدد کر کے اُسے آزادی کا معاہدہ کروا دے۔
جنگی قیدیوں سے حسنِ سلوک کی تعلیم
کام کے بارہ میں یہ ہدایت دی کہ جب تک وہ گھر میں رہے اُس سے وہی کام لو
جو وہ کر سکتا ہو۔ اگر کوئی مشکل کام ہو تو اُس کے ساتھ شامل ہو جاؤ اُسے گالی نہ دو۔ اگر وہ مزدوری کرتا ہے تو اُس کی مزدوری اُسے پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو۔ اگر کام کرنے والا آزاد ہے اور مالک اُسے مار بیٹھتا ہے تو وہ حق رکھتا ہے کہ عدالت میں جائے اور قصاص کا مطالبہ کر کے اسلامی قضاء سے اُسے سزا دِلوائے۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ تو میرا نوکر تھا اور مجھے اِس کو پیٹنے کا حق تھا۔اسلام اس قسم کے حق کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ نوکر کو اجازت دیتا ہے کہ اگر اُسے پیٹا جائے تو قضاء میں اپنے مالک کے خلاف دعویٰ دائرکرے اور اُسے سزا دِلوائے۔ اور اگر وہ آزاد نہیں بلکہ غلام ہے تو اگر وہ اُسے ایک تھپڑ بھی ماربیٹھے تو اسلامی حکومت کو حکم ہے کہ وہ اُسے فوراً آزاد کرادے اور نگران سے کہے کہ تم اِس قابل نہیں ہو کہ کسی قیدی کو اپنے پاس رکھ سکو۔ پھر حکم دیا کہ جو کچھ خود کھاؤ وہ اپنے غلاموں کو کھلاؤ، جو خود پہنو وہی اُن کو پہناؤ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے زمانہ میں کئی غلام اپنے گھروں کو واپس جانا پسند ہی نہیں کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر ہم گھر گئے تو ہمیں دال بھی نصیب نہیں ہوگی مگر یہاں تو ہمیں روزانہ اچھا کھانا کھانے کو ملتا ہے اور پھر مالک کی یہ حالت ہے کہ وہ پہلے ہمیں کھلاتا ہے اور بعد میں آپ کھاتا ہے۔ ایسے مزے ہمیں اپنے گھروں میں کہاں میسر آسکتے ہیں۔چنانچہ جب مسلمان بادشاہ بنے اور حکومت اُن کے ہاتھ میں آئی تو وہ غلاموں کو اپنے گھروں سے نکالتے بھی تھے تو وہ نہیں نکلتے تھے۔ وہ کہتے تھے فدیہ دو اور آزاد ہو جاؤ مگر وہ فدیہ نہ دیتے۔ وہ کہتے تھے اگر فدیہ نہیںدے سکتے تو ہم سے قسطیں مقرر کر لو اور آزاد ہو جاؤ مگر وہ قسطیں بھی مقرر نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر ہم آزاد ہو کر واپس چلے گئے تو پھر وہ مزے ہمیں حاصل نہیں ہوں گے جو اَب حاصل ہیں۔ ایسی صورت میں اگر کچھ لوگ غلام بھی رہے ہوں تو دنیا کو ایسی غلامی پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
غلامی اور اقتصادیات
یہ غلامی کا مضمون نہیںلیکن دنیا کی لمبی تاریخ میں غلامی اور مُلکوںکے اقتصادی نظام آپس میں ملے چلے آتے ہیں۔
روس میں سائبیریا کی آبادی غلاموں یا سیاسی قیدیوں ہی کی رہینِ منّت تھی۔ اِسی طرح امریکہ کی آبادی غلاموںیا سیاسی قیدیوں ہی کی رہینِ منّت تھی۔ وہ اپنے علاقوں کو کبھی خود آباد نہیں کرسکتے تھے۔ لاکھوں لاکھ غلام وہ مغربی افریقہ سے لائے اور وہ امریکہ کے بے آباد علاقوں کو آباد کر گئے۔ آج امریکہ اپنی دولت پر نازاں ہے، اپنی تجارت اور اپنی صنعت پر نازاں ہے مگر امریکہ کی یہ دولت اور امریکہ کی آبادی رہینِ منّت ہے اُن حبشی غلاموں کی جن کو وہ مغربی افریقہ سے پکڑ کر لائے۔ اِسی طرح یونان اور روما کی تاریخ بتاتی ہے کہ اُن کی آبادی بھی غلاموں کی خدمات کی رہینِ منّت ہے، مصر کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ اس کی آبادی غلاموں کی خدمات کی وجہ سے ہوئی۔ فرانس اور سپین کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ اُن کی ترقی اُن خدمات کی رہینِ منت تھی جو آج سے دو تین سَو سال پہلے اُن ممالک میں غلاموں نے سرانجام دیں اور جنہوں نے اُن کی اقتصادی حالت کو ترقی دے کر کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ پس غلامی اور اقتصادی مسائل چونکہ باہم لازم و ملزوم ہیں اِس لئے مَیں نے بتایا ہے کہ اسلام کا نظام کیسا کامل ہے کہ اُس نے شروع سے ہی غلامی پر تبر رکھ دیا اور کہہ دیا کہ اس کے ذریعہ جو ترقی ہوگی وہ کبھی شریفانہ اور باعزت ترقی نہیں کہلا سکتی۔
عام اقتصادی نظام
اقتصادی نظام کے متعلق دوقسم کے نظریئے
اَب مَیں عام اقتصادی نظام کو لیتا ہوں لیکن اس مضمون کو بیان
کرنے سے پہلے مَیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ مذاہب جو حیات مَابَعْدالْمَوْت کے قائل ہیں اقتصادینظام کے بارہ میں انفرادی آزادی کے قیام کے پابند ہیںـ۔ درحقیقت دنیا میں دو قسم کی قومیں پائی جاتی ہیں ۔ ایک وہ ہیں جو مذہبی ہیں اور دوسری وہ ہیں جو لامذہب ہیں۔ جو اقوام لامذہب ہیں وہ تو ہر قسم کے نظام کو جواُن کی عقل میں آجائے تسلیم کر سکتی ہیں لیکن وہ اقوام جو مذہب کو قبول کر تی ہیں وہ اصرار کریں گی کہ دنیا میں ایسا ہی نظام ہونا چاہئے جو مرنے کے بعد کی زندگی پر اثر انداز نہ ہوتا ہو۔ اس نقطہ نگاہ کے ماتحت وہ مذاہب جو حیات بَعْدُالْمَوْت کے قائل ہیں لازماً اقتصادی نظام کے بارہ میں انفرادی آزادی کے قیام کے پابند ہوں گے کیونکہ جو لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان کو زندہ کیا جائے گا وہ اِس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ جولوگ نیک اعمال بجالائیں گے انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ کا قرب ان کو حاصل ہوگا، خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی اُن کے شاملِ حال ہوگی، اُس کی قدوسیّت اور سبوحیت اُنہیں ڈھانپے ہوئے ہوگی، وہ مقربانِ الٰہی میں شامل ہوں گے، ہر قسم کے اعلیٰ روحانی علوم اُن کو حاصل ہوں گے اور دنیا کی سب کمزوریاں دُور ہو کر علم وعرفان کا کمال اُن کو حاصل ہوگا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی شخص کہہ دے یہ عقیدہ بالکل غلط ہے، جھوٹ ہے، وہم ہے اِس سے زیادہ اِس کی کوئی حقیقت نہیںلیکن بہرحال جو شخص یقین رکھتا ہے کہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی ہمیں ملنے والی ہے وہ لازماً اِس دنیا میں ایسے ہی اعمال بجالائے گا جو اُس کے نزدیک اگلے جہان کی زندگی میں اُس کے کام آنے والے ہوں۔ وہ کبھی اِس مادی دنیا کے فوائد پر اُخروی زندگی کے فوائد کو قربان نہیں کرسکتا کیونکہ اِس دنیا کے فوائد تو پچاس ساٹھ یا سَو سال تک حاصل ہو سکتے ہیں مگر اگلے جہان کی زندگی بعض اقوام کے نزدیک کروڑوں اوراربوں سال تک اوربعض کے نزدیک دائمی ہے۔ یعنی وہ زندگی کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ پس اگر یہ دونوں زندگیاں آپس میں تسلسل رکھتی ہیں، اگر یہ دنیا ہماری ایک منزل ہے آخری مقام نہیں ہے تو لازماً ہر شخص جو حیات بعدالموت کاقائل ہے وہ اُخروی زندگی کے لمبے سفر کے فوائد کو ترجیح دے گا اور اِس دنیا کے چھوٹے سفر کے فوائد کو اگر وہ اُس کی اُخروی ترقی کے راستہ میں حائل ہوں قربان کر دے گا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مذاہب جواگلی زندگی پر یقین رکھتے ہیں اُن کا یہ بھی اعتقاد ہے کہ دنیا میں جوطوعی نیک کام کئے جاتے ہیں انہی پر اگلی زندگی کے اچھے یا بُرے ہونے کا دارومدار ہے۔ چنانچہ جتنے لوگ اُخروی حیات کے قائل ہیں وہ سب کے سب اِس دنیا کو دارالمزرعہ سمجھتے ہیں۔ جس طرح ایک وقت کھیتی میں بیج بونے کا ہوتا ہے اور دوسرا وقت اُس بیج سے پیدا شدہ فصل کو کاٹنے کا ہوتا ہے اور عقلمند زمینداروہی چیز بوتاہے جس کو وقت پر کاٹنے کی وہ خواہش رکھتا ہے اِسی طرح جو شخص اس زندگی کو اگلے جہان کی زندگی کا ایک تسلسل سمجھتا ہے جو اِس دنیا کو عالَمِ مزرعہ قرار دیتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اِس جہان کے اعمال اگلی زندگی میں میرے کام آئیں گے وہ لازماً اِس جہان کی کھیتی میں وہی جنس بوئے گا جس کے متعلق وہ جانتا ہوگا کہ اگلے جہاںمیں وہ جنس میرے کام آئے گی۔اَب خواہ آپ لوگ ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو پاگل کہیں، دیوانہ کہیں، جاہل کہیں بہر حال جو شخص مانتا ہے کہ مرنے کے بعد پھر ایک نئی زندگی بنی نوع انسان کو حاصل ہوگی وہ لازماً اِس دنیا کی زندگی کو تابع کرے گا اگلے جہان کی زندگی کے۔ اور چونکہ اِس دنیا کے ایسے ہی کاموں پر اگلے جہان کی زندگی کا مدار ہے جو اپنی خوشی اور مرضی سے طوعی طور پر کئے جائیں اِس لئے لازماً وہ وہی اقتصادی نظام پسند کرے گا جس میں اقتصادی طور پر ایک وسیع دائرہ میں افراد کو آزادی دی گئی ہو کیونکہ اگر آزادی نہ دی گئی ہو تو جن کاموں کو وہ نیک سمجھتا ہے، جن کاموں کواختیار کرنا وہ اپنی اُخروی حیات کے لئے ضروری قرار دیتا ہے اُن میں اُس کا دائرۂ عمل وسیع نہیں ہوگا اور وہ سمجھے گا کہ دائرۂ عمل کے تنگ ہونے کی وجہ سے میں گھاٹے میں رہوں گا۔ گویا مَا بَعْدَالْمَوْت اعلیٰ زندگی کا دارومدار ہے اِس دنیا کے طوعی نیک کاموں پر، اور طوعی نیک کاموں کا مدار اقتصادی حُریّت پر ہے۔ اگر اقتصادی طور پر افراد کوایک وسیع دائرہ میں آزادی نہ دی جائے تو طوعی نیک کاموں کا سلسلہ اور اخلاقِ فاضلہ کی وُسعت بند اور محدود ہو جاتی ہے اور انسان اپنے آپ کو گھاٹے میں سمجھتا ہے۔پس جو مذہب مرنے کے بعد کی زندگی کا قائل ہے اور اِس دنیا کو عالَمِ مزرعہ سمجھتا ہے وہ پابند ہے اِس کا کہ سوائے اشد مجبوری کی حالتوں کے انفرادی آزادی کو اقتصادیات میں قائم رکھے۔
اسلام کا ’’اقتصادی نظام‘‘ میں انفرادی آزادی کو ملحوظ رکھنا
اس مسئلہ کو خوب ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اسلام سب سے زیادہ حیات بعدالموت کاقائل ہے اِس لئے اسلام مصر ہے اس بات
پر کہ اقتصادیات میں انفرادی آزادی کو زیادہ سے زیادہ قاـئم رکھا جائے کیونکہ وہ جتنا زیادہ آزاد ہوگا اُسی قدر زیادہ اپنی مرضی سے کام کر کے اگلے جہان کی زندگی کو سُدھار سکے گا۔ اگر زندگی کے ہر پہلو کو مختلف قسم کے جالوں میں جکڑ دیا گیا تو وہ کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کر سکے گا اور جب کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کر سکے گا تو اُسے اَگلے جہان میں کسی ثواب کی بھی امید نہیں ہو سکے گی کیونکہ ثواب ملتا ہے طَوعی نیک کاموں پر۔ اگر ایک شخص جبر کے ماتحت کوئی کام کرتا ہے تو گو وہ کام کیسا ہی اچھا ہو جب اگلے جہان میں اعمال کی جزاء کا وقت آئے گا تو اُسے کہا جائے گا کہ یہ کام تم نے نہیں کیا لینن نے کیا ہے، یہ کام تم نے نہیں کیاسٹالن نے کیا ہے، یہ کام تم نے نہیں کیا انگریزوں نے کیاہے۔ غرض جتنے کام انسان جبر کے ماتحت کرتا ہے اُس میں وہ کسی اجر کا مستحق نہیں ہوتا۔پس ایک سچے مسلمان کو جو اپنے مذہب کی بنیاد کو سمجھتا ہے حریت شخصی کے مٹا دینے کا قائل کرنا نا ممکن ہے۔ اُسی صورت میں وہ اِس امر کو تسلیم کرے گا جب وہ اپنے مذہب کی بنیاد کا ہی انکار کر دے گا۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ ایک شخص جو مسلمان کہلاتا ہو وہ اسلام کی تعلیم سے بدظن ہو جائے اور وہ اُس تعلیم کا قائل ہی نہ رہے جو اسلام نے اقتصادیا ت کے متعلق دی ہے مگر جو شخص اسلام کی تعلیم پر یقین رکھتا ہو جو اُس کے اقتصادی نظریات کو جزوایمان قرار دیتا ہو وہ کبھی بھی حریت شخصی کو اصولی طور پر مٹا دینے کا قائل نہیں ہو سکتا۔
اسلام کے اقتصادی نظام کی بنیاد دو اصولوں پر
اِن حالات میں یہ امر آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر اسلام کوئی منصفانہ اور عادلانہ اقتصادی نظام قائم کرے گا تو اُس کی بنیاد اِن دو اصولوں پر ہوگی۔
(۱) بنی نوع انسان میں منصفانہ تقسیم اموال اور مناسب ذرائع کسب کی تقسیم کا اصول طوعی فردی قربانی پر ہونا چاہئے تاکہ دنیا کی اقتصادی حالت بھی درست ہو اور اس کے ساتھ ہی انسان اپنی اُخروی زندگی کے لئے بھی سامان جمع کرلے۔ اِسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنی بیوی کے منہ میں ثواب اور خداتعالیٰ کی خوشنودی کی نیت سے لقمہ ڈالتا ہے وہ ایسا ہی کام کرتا ہے جیسا کہ صدقہ کرنے والا۔ ۱۴؎
اب دیکھو یہ فعل وہ ہے جس میں انسان کی اپنی خواہش کا دخل ہے۔ وہ اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے، وہ اپنی بیوی سے پیار کرتا ہے اور اُس سے محبت کرنے میں لذّت حاصل کرتاہے لیکن اگر وہ اپنی نیت کو بدل ڈالے اور بجائے اپنی محبت کے خدا تعالیٰ کے حکم اور اُس کی رضا اور خوشنودی کو محبت اور پیار کا موجب بنالے تو یہی چیز اُس کے لئے ثواب کا موجب بن جائے گی۔ روٹی اُس کے پیٹ میں اُسی طرح جائے گی جس طرح پہلے جاتی تھی، کپڑا اُس کی بیوی کے تن پر وہی مقصد پورا کرے گا جو مقصد وہ پہلے پورا کرتا تھا مگر اس صورت میں جب وہ خدا کے لئے اُس سے محبت کرے گا، جب وہ خدا کے لئے اُس سے پیار کرے گا نہ صرف وہ اپنی بیوی کو خوش کرے گا، نہ صرف وہ اپنے آپ کو خوش کرے گابلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی ثواب کا امیدوار ہوگا کیونکہ اُس نے یہ فعل خدا کی رضا کے لئے کیا ہوگا۔
(۲) دوسرا اصل اسلام کا یہ ہے کہ چونکہ اموال اللہ تعالیٰ کے ہیں اور اُس نے سب مخلوق کیلئے پیدا کئے ہیں اس لئے جو حصہ اوپرکی تدبیر سے پورا نہ کیا جاسکے اُس کیلئے قانونی طور پرتدارک کی صورت پیدا کی جائے۔ یعنی جو حصہ طوعی نظام سے پورا نہ ہو اور اَدھورا رہ جائے اُسے قانونی طور پر مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور الٰہی نظام کو خراب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
اِسلامی اقتصاد کا لُبِّ لباب
پس اسلامی اقتصاد نام ہے فردی آزادی اور حکومتی تداخل کے ایک مناسب اختلاط کا۔ یعنی اسلام دنیا
کے سامنے جو اقتصادی نظام پیش کرتا ہے اُس میں ایک حد تک حکومت کی دخل اندازی بھی رکھی گئی ہے اور ایک حد تک افراد کو بھی آزادی دی گئی ہے اِن دونوں کے مناسب اختلاط کا نام اسلامی اقتصاد ہے۔ فردی آزادی اِس لئے رکھی گئی ہے تا کہ افراد آخرت کا سرمایہ اپنے لئے جمع کر لیں اور اُن کے اندر تسابق اور مقابلہ کی روح ترقی کرے۔ اور حکومت کا تداخل اِس لئے رکھا گیا ہے کہ امرا کو یہ موقع نہ ملے کہ وہ اپنے غریب بھائیوں کو اقتصادی طور پر تباہ کر دیں۔ گویا جہاں تک بنی نوع انسان کو تباہی سے محفوظ رکھنے کا سوال ہے حکومت کی دخل اندازی ضروری سمجھی گئی ہے اور جہاں تک تسابق اور اُخروی زندگی کے لئے زاد جمع کرنے کا سوال ہے حُریت شخصی کو قائم رکھا گیا ہے اور فردی آزادی کو کچلنے کی بجائے اس کی پوری پوری حفاظت کی گئی ہے۔ پس اسلامی اقتصادیات میں فردی آزادی کی بھی پوری حفاظت کی گئی ہے تا کہ انسان طَوعی خدمات کے ذریعہ سے آئندہ کی زندگی کے لئے سامان بہم پہنچا سکے اور تسابق کی رُوح ترقی پا کر ذہنی ترقی کے میدان کو ہمیشہ کیلئے وسیع کرتی چلی جائے۔ اور حکومت کا دخل بھی قائم رکھا گیا ہے تا کہ فرد کی کمزوری کی وجہ سے اقتصادیات کی بنیاد ظلم، بے انصافی پر قائم نہ ہو جائے اور بنی نوع انسان کے کسی حصہ کے راستہ میں روک نہ بن جائے۔
اِس مضمون کے سمجھ لینے کے بعد یہ سمجھ لینا آسان ہے کہ اسلام خصوصاً اور دیگر مذاہب عموماً جو بعث بعد الموت کے قائل ہیں اِس مسئلہ پر خالص اقتصادی نقطۂ نگاہ سے نہیں بلکہ مذہبی، اخلاقی اور اقتصادی تین نقطہائے نگاہ سے نظر کریں گے اور ان تین اصولوں کی مشترک راہنمائی سے اس کا فیصلہ کریں گے۔ اُن سے خالص اقتصادی نقطۂ نگاہ سے نظر ڈالنے کی امید اُن کے مذہب میں تداخل کے برابر ہوگی جسے وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ شخص جو مذہب کو نہیں مانتا وہ تو بے شک صرف اقتصادی نقطۂ نگاہ سے اِس مضمون کو دیکھے گا لیکن وہ شخص جو مذہب کو مانتا ہے وہ صرف یہ نہیں دیکھے گا کہ کس قسم کا اقتصادی نقطۂ نگاہ اُس کے سامنے پیش کیا گیا ہے بلکہ وہ یہ بھی چاہے گا کہ اُس کے سامنے ایک ایسا طریق عمل آ جائے جو اقتصادی قانون کے لحاظ سے بھی درست ہو، اخلاقی قانون کے لحاظ سے بھی درست ہو اور مذہبی قانون کے لحاظ سے بھی درست ہو۔
اِس تمہید کے بعد اَب میں یہ بتاتا ہوں کہ اوپر کے دو اصولوں کے ماتحت اسلام نے ہر فرد کو تجارت اور صنعت و حرفت وغیرہ میں آزادی سے کام کرنے کی اجازت دی ہے مگر اس کی آزادی کو ایسی حد بندیوں میں رکھ دیا ہے جو اُس کی جائز بلند پروازی کو روکیں بھی نہیں اور اُس کی انفرادیت کو کچلیں بھی نہیں اور پھر ناجائز آزادی کے خطرات سے بھی اُسے محفوظ کر دیں۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ اقتصادی مقابلے جو دنیا میں ہوتے ہیں اُن میں مختلف قسم کی خرابیوں کے پیدا ہونے اور ظلم و بیداد کا دروازہ کھلنے کی وجہ چند خواہشاتِ نفسانی ہوتی ہیں جو نفسِ انسانی میں پیدا ہوتی ہیں۔ اُن میں سے بعض خواہشات ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ روپیہ سمیٹنا چاہتا ہے۔ دنیا کی حالت خواہ کتنی ہی خراب ہو، غریب لوگ فاقہ سے مَر رہے ہوں، بیوائیں روٹی کیلئے تڑپ رہی ہوں، یتیم کسمپرسی کی حالت میں پڑے ہوں وہ یہی چاہتا ہے کہ میرے پاس زیادہ سے زیادہ دولت جمع ہو جائے۔ اِس ظلم اور تعدی کے کئی محرکات ہوتے ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ کون سے محرکات ہیں جو اِس رُوح کے پسِ پردہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔
دولت کمانے کے محرکات
اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
۱۵؎ یاد رکھو! دنیا کی زندگی میں جو لوگ روپیہ کمانے کی کوشش کرتے ہیں اُن کی اِس کوشش اور جدوجہد کے کچھ محرکات ہوتے ہیں جن کی بناء پر وہ ایسی کوشش کرتے ہیں۔
(۱) پہلی وجہ تو ہے۔ اُن کے دلوں میں کھیل کود کی خواہش ہوتی ہے اور یہ کھیل کود کی خواہش اُن کے لئے روپیہ کمانے کا محرک بن جاتی ہے۔میں جوئے بازی، سٹہ بازی اور گھوڑ دَوڑوغیرہ سب شامل ہیں۔ انسان چاہتا ہے کہ میرے پاس روپیہ ہو اور مَیں جؤا کھیلوں، روپیہ ہو اور میں سٹہ بازی کروں، روپیہ ہو اور مَیں گھوڑ دَوڑ میں حصہ لیا کروں۔ یہ کھیل کود کی خواہش اُس کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح روپیہ جمع کر کے اپنی اس خواہش کو پورا کرے۔
(۲) دوسری وجہ کی بتاتا ہے۔ لوگ اگر روپیہ کماتے ہیں تو اس کی ایک وجہ بھی ہوتی ہے۔ یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے پاس اتنی دولت ہو کہ انہیں کوئی کام نہ کرنا پڑے سارا دن سُست اور بیکار بیٹھے رہیں یا تاش، گنجفہ ۱۶؎ اور شراب وغیرہ میں اپنا وقت گزار دیں۔ یہ چیز بھی ایسی ہے جو لوگوں کے لئے مال جمع کرنے کا محرک بن جاتی ہے۔
(۳) تیسری وجہ جلبِ زر کی خواہش کی بتائی گئی ہے۔ یعنی انسان چاہتا ہے میرے کپڑے عمدہ ہوں، لباس عمدہ ہو، سواریاں عمدہ ہوں اورعمدہ عمدہ کھانے مجھے حاصل ہوں۔
(۴) چوتھا محرک روپیہ کمانے کا بتایا گیا ہے۔ یعنی بعض لوگ اِس بات کے لئے بھی روپیہ جمع کرتے ہیں کہ لوگوں میں اُن کی عزت بڑھے، وہ بڑے مالدار مشہور ہوں اور لوگوں سے کہہ سکیں کہ تم جانتے نہیں ہم کتنے امیر ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے یہ مرض اتنا بڑھا ہوا ہے کہ ہمارے مُلک میں تو بعض لوگ غلامی کے اقرار میں بھی اپنی بڑائی سمجھتے ہیں۔ وہ باتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں آپ نہیں جانتے میں کون ہوں۔ میں انگریزی حکومت کا اتنا ٹیکس ادا کرنے والا ہوں۔ گویا بجائے اُن کے دل میں یہ احساس پیدا ہونے کے کہ مَیں دوسری قوم کا ماتحت ہوں اور اُس کو ٹیکس ادا کرتا ہوں وہ اُسے فخریہ طور پر پیش کرتے ہیں کہ مَیں اتنا ٹیکس گورنمنٹ کو ادا کرتا ہوں بلکہ مَیں نے تو اِس سے بھی زیادہ دیکھا ہے کہ بعض ہندوستانی اِس پر بھی فخر کرتے ہیں کہ ’’مَیںبڑے صاحب کا اَردلی ہوں‘‘۔ پس فرماتا ہے روپیہ کمانے کا ایک محرک یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں ہم دوسروں پر فخر کر سکیں، اُن پر رُعب ڈال سکیں اور اُنہیں کہہ سکیں کہ ہم اتنے مالدار ہیں۔ تمہارا فرض ہے کہ ہماری باتیں مانو۔
(۵) پانچواں محرک مال زیادہ کمانے کا ہوتا ہے۔ یعنی محض روپیہ جمع کرنے کی خواہش بھی بعض لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روپیہ سمیٹنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے پاس دوسروں سے زیادہ روپیہ جمع ہوتا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ہمسایہ کے پاس اگر دس لاکھ روپیہ ہے تو ہمارے پاس ایک کروڑ روپیہ ہو۔ یا اُس کے پاس اگر ایک کروڑ روپیہ ہو تو ہمارے خزانہ میں دو کروڑ روپیہ ہو۔ جہاں تک مَیں نے غور کیا ہے یہی امور دولت کمانے کے محرک ہوتے ہیں جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں۔
اسلام میں ناجائز اغراض کیلئے دولت کمانے کی ممانعت
ان محرکات کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے۔
ہم ان تمام امور کو اُس بادل کی طرح قرار دیتے ہیں جو آسمان پر چھا جاتا ہے اور زمیندار سمجھتا ہے کہ اب اِس بادل کے برسنے سے میری کھیتی ہری بھری ہو جائے گی۔ مگر جب وہ بادل برستا ہے تو ایسے رنگ میں برستا ہے کہ بجائے اِس کے کہ وہ کھیتی ہری بھری ہو، بجائے اِس کے کہ غلّہ زیادہ پیدا ہو، بجائے اِس کے کہ زمیندار کو نفع ہو وہ کھیتی سُوکھ جاتی ہے اُس کا دانہ سڑ جاتا ہے اور آخر ردّی ہو کر وہ کوڑا کرکٹ بن جاتی ہے۔ مثلاً زیادہ بارش ہو جاتی ہے اور کھیتی برباد ہو جاتی ہے یا ضرورت سے کم بارش برستی ہے اور اس صورت میں بھی کھیتی کو نقصان پہنچتا ہے۔ اور علاوہ اِس کے کہ اِن امور کا نتیجہ اِس دنیا میں خراب نکلتا ہے مرنے کے بعد بھی ایسے لوگوں کو عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے لیکن جو لوگ اِن محرکات کو دباتے ہیں اور اِن کا شکار نہیں ہوتے اُن کو اللہ تعالیٰ اپنی بخشش سے ڈھانپ لیتا ہے اور اپنی رضاء اور خوشنودی سے مسرور کرتا ہے۔ پھر فرماتا ہے۔ اور اِس دنیا کی زندگی تو بالکل دھوکے کی زندگی ہے۔ جب ہمارے پاس مغفرت اور رضوان بھی ہے اور ہمارے پاس عذاب بھی ہے تو اے انسان! تو دنیا کی لغو خواہشات کی وجہ سے ہماری مغفرت اور ہماری رضوان کو کیوں نظر انداز کر رہا ہے اور کیوں اعلیٰ درجہ کی چیزوں کو چھوڑ کر ذلیل اور ادنیٰ چیزوں کی طرف دَوڑ رہا ہے۔ اس آیت میں قرآن کریم نے اُن محرکات و موجبات کو ذلیل اور حقیر اور مضر بتایا ہے جو دنیا کمانے کی طرف انسان کو متوجہ کرتے ہیں اور فرماتا ہے کہ یہ سب امور جو ناجائز دنیا کمانے کا موجب ہوتے ہیں نتیجہ کے لحاظ سے ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کہ عمدہ کھیتی سُوکھ کر راکھ ہو جائے۔ یعنی جس طرح وہ کام نہیں آتی اِسی طرح ایسی دولت بھی انسان کو کوئی حقیقی نفع نہیں بخشتی اس لئے تم اِن اغراض کے ماتحت دولت مت کمائو کہ یہ خدا تعالیٰ کا غضب بھڑکانے کا موجب ہیں۔ جب اُس کے پاس فضل بھی ہے تو تم کیوں فضل کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور کیوں اِن حقیر اور ذلیل خواہشات کے پیچھے چلتے ہو۔
اَب ظاہر ہے کہ جو شخص اسلام پر عمل کرے وہ کبھی اوپر کے محرکات سے متاثر ہو کر دولت نہیں کما سکتا اور اگر اِس حکم پر عمل کرتے ہوئے وہ کچھ کمائے گا بھی تو وہ نیک کاموں میں خرچ ہو جائے گا۔ اور اس طرح غربت و امارت کی خلیج وسیع نہ ہوگی بلکہ پاٹی جائے گی کیونکہ اِن اغراض کے روک دینے کے بعد کوئی ایسا محرک باقی نہیں رہتا جس کی وجہ سے کوئی شخص اپنے نفس کیلئے اموال کما سکے کیونکہ مال کمانے کی تین ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔
(۱) اپنی ضرورت کے مطابق ۔
(۲) اپنی ضرورت سے زیادہ لیکن اس لئے کہ اُس سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچا سکے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکے۔
(۳) مال اوپر کے بُرے محرکات کی وجہ سے کمائے۔ یعنی کھیل تماشے کیلئے،عیاشی کیلئے، فخر اور عزت کے لئے، حرصِ مال کی وجہ سے۔
ظاہر ہے کہ آخر الذکر صورتوں میں ہی انسان ناجائز طور پر مال کمائے گا اور دوسرے انسانوں کے لئے نقصان کا موجب ہوگا۔ اوّل الذکر دونوں صورتوں میں یہ بات پیدا نہ ہوگی۔ جو شخص ضرورت کے مطابق کمائے گا وہ بھی دوسروں کے لئے نقصان کا موجب نہ ہوگا اور جو ضرورت سے زائد کمالے گا لیکن اُس مال کے کمانے کا محرک صرف خیر و نیکی میں مسابقت کی روح ہوگی اُس کا مال بھی دوسرے انسانوں کے فائدہ کے لئے خرچ ہوگا اور اس سے افرادِ مُلک یا قوم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔
اسلام میں دولت کے غلط استعمال کی ممانعت
اَب میں اس بارہ میں اسلامی احکام ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہوں کہ اسلام نے کس طرح دولت کے غلط خرچ کو روکا ہے۔
اوّل سچے مسلمان کی نسبت قرآن کریم فرماتا ہے ۱۷؎ یعنی مسلمان وہی ہیں جو لغو کاموں سے بچیں۔ یعنی ایسے کاموں سے جن کا کوئی عقلی فائدہ نظر نہ آتا ہو۔مثال کے طور پر شطرنج ہے، تاش ہے یااور اِسی قسم کی کئی کھیلیں ہیںجن سے وقت ضائع ہوتا ہے۔ اسلام ہر مومن کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ وہ اس قسم کے لغو کاموں سے بچے اور شطرنج یا تاش یا اس قسم کی دوسری کھیلوں میں حصہ لے کر اپنے وقت کو ضائع نہ کرے یا مثلاً مجالس میں بیٹھ کر گپیّں ہانکنا ہے یہ بھی لغو ہے ۔ یامثلاً بے کار زندگی بسر کرنا ہے یہ بھی لغو ہے۔ بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ سارا دن بے کار بیٹھے دوستوں کی مجلس میں گپیں ہانکتے رہتے ہیں اور اِس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ اپنے اوقات کا کس بے دردی کے ساتھ خون کر رہے ہیں۔ ایک شخص کا باپ مر جاتا ہے اور وہ اپنے پیچھے بہت بڑی جائداد چھوڑ جاتا ہے۔ اب لڑکے کا کام یہی رہ جاتا ہے کہ وہ سارا دن اپنے دوستوں کی مجلس میں بیٹھا رہتا ہے۔ ایک آتا ہے اور کہتا ہے نواب صاحب! آپ ایسے ہیں ـ یا لالہ صاحب! آپ ایسے ہیں۔ یا پنڈت صاحب! آپ ایسے ہیں یا شاہ صاحب آپ ایسے ہیں۔ پھر دوسرا تعریف شروع کر دیتا ہے۔ وہ خاموش ہوتا ہے تو تیسرا اُس کی تعریف شروع کر دیتا ہے۔ اِس طرح سارا دن یہی شغل جاری رہتا ہے کہ دوست آتے ہیں، گپیں ہانکتے ہیں اور اُس کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں یا اُسے بدراہ پر چلانے کے لئے عورتوں یا جوئے یا شراب یا اِسراف کے دوسرے طریقوں کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں۔ اِس پر وہ بھی اُن کی خوب خاطر تواضع کرتا ہے۔ اگر تھوڑی توفیق ہوئی تو پان الائچی سے تواضع کر دیتا ہے اور اگر زیادہ توفیق ہوئی تو صبح شام اُن کو کھانا اپنے دستر خوان پر کھلاتا ہے۔ مگر اس لئے نہیں کہ وہ غریب ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ بھوکے ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ ہمدردی کے قابل ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ اُس کے پاس آکر بیٹھ جاتے ہیں اور مجلس میں خوشی کے ساتھ دن گزر جاتا ہے۔ اسلام اس قسم کے کاموں کی قطعاً اجازت نہیںدیتا۔ وہ فرماتا ہے مسلمان ہمیشہ لغو کاموں سے بچتے اور احتراز کرتے ہیں وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے اور کوئی ایسا کام اُن کو نہیں کرنا چاہئے جن کا کوئی عقلی فائدہ نہ ہو اور جس سے زندگی بے کار ہو جاتی ہو۔وہ شخص جو اپنے ماں باپ کی کمائی کھاتا ہے اور خود کوئی کام نہیں کرتا آخر اُسے سوچنا چاہئے کہ اُس کے اِس فعل کا اُسے کیا فائدہ ہو سکتا ہے یا اس کی قوم کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے ۔ یہ چیز تو ایسی ہے جس کا اس کی ذات کو بھی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اُس کی قوم کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکتااور دنیا کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا یہ زندگی کو محض بے کاری اور عیاشی میں ضائع کرتا ہے اور اسلام اِس قسم کی بے کار زندگی کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر ایک شخص کو اپنے باپ کے مرنے کے بعد دس کروڑ روپیہ بھی جائدادمیں ملتا ہے تو قرآن کریم کا حکم یہی ہے کہ وہ اتنی بڑی جائداد کا مالک ہونے کے باوجود اپنے وقت کوضائع نہ کرے بلکہ اُسے قوم اور مذہب کے فائدہ کے لئے خرچ کرے۔ اگر اُسے اس قسم کی خدمات کی ضرورت نہیں جن کے نتیجہ میں اُسے روٹی میسر آئے تو وہ ایسی خدمات سر انجام دے سکتا ہے جو آنریری رنگ رکھتی ہوں۔ اِس طرح وہ بغیر معاوضہ لئے اپنے مُلک یا اپنی قوم یا اپنے مذہب کی خدمت کرکے اپنے وقت کو بھی ضائع ہونے سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور اپنے اوقات کا بھی صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو نافع الناس وجود بنا سکتا ہے۔ اِسی طرح اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ تم وہ کھیلیں مت کھیلو جو وقت کو ضائع کرنے والی اور زندگی کو بے کار کھونے والی ہوں۔ اِسی حکم کے ماتحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ مرد زیور نہ پہنیں، وہ ریشم استعمال نہ کریں۱۸؎ اِسی طرح سونے چاندی کے برتن استعمال کرنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ ۱۹؎ عورتوں کے لئے زیور حرام نہیں مگر اُن کے لئے بھی عام حالات میں رسول کریمﷺ نے زیورات کو ناپسند فرمایا ہے۔ گو اس وجہ سے کہ وہ مقامِ زینت ہیں زیورات کا استعمال اُن کے لئے پوری طرح منع نہیں کیا۔ مگر اسلام اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ زیورات پر اِس قدر روپیہ خرچ کیا جائے کہ مُلک کی اقتصادی حالت کو نقصان پہنچ جائے یا اُنہیں اِس قدر زیورات بنواکر دیئے جائیں کہ اُن میں تفاخر کی روح پیدا ہو جائے یا اِس کے نتیجہ میں لالچ اور حرص کامادہ اُن میں بڑھ جائے۔ اُن کے لئے زیورات کی اجازت ہے مگر ایک حد کے اندر۔ لیکن مردوں کے لئے زیورات کا استعمال قطعی طور پر حرام قرار دیا گیا ہے اسی طرح وہ برتن جو سونے چاندی کے ہوںاُن کا استعمال رسول کریمﷺنے ممنوع قرار دیا ہے۔
اِس ضمن میں وہ اشیاء بھی آجاتی ہیں جو عام طور پرمحض زینت یا تفاخر کے لئے امراء اپنے مکانوں میں رکھتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے مکان کی زینت کے لئے ایسی ایسی چیزیں خرید لیتے ہیںجن کا کوئی بھی فائد ہ نہیں ہوتا۔ مثلاً بعض لوگ چینی کے پُرانے برتن خریدکر اپنے مکانوں میں رکھ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایک بڑی قیمتی چیز خریدی ہے۔ یورپین لوگوں میں خصوصیت کیساتھ یہ نقص ہے کہ وہ پانچ پانچ دس دس ہزار روپیہ تک کے اِس قسم کے برتن خرید لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ وہ برتن ہیں جو آج سے اتنے ہزار سال پہلے کے ہیں۔ یا پُرانے قالین بڑی بڑی قیمت پر خرید کر اپنے مکانوں میں لٹکا لیتے ہیں ۔ حالانکہ ویسے ہی قالین پچاس ساٹھ روپیہ میں آسانی سے مل جاتے ہیں لیکن محض اِس لئے کہ وہ لوگوں کو یہ بتاسکیں کہ یہ قالین فلاں بادشاہ کا ہے یا فلاں زمانہ کا ہے وہ بہت کچھ روپیہ اُس کے خریدنے پر برباد کر دیتے ہیں۔اسلام کے نزدیک یہ سب لغو چیزیں ہیںاَور اِن میں کوئی حقیقی فائدہ نہیں صرف دولت کے اظہار کے لئے لوگ اِن چیزوں کو خریدتے اور اپنے روپیہ کو برباد کرتے ہیں۔رسول کریمﷺ نے اِن باتوں کو عملاً ناجائز قرار دے دیا ہے اور فرمایا ہے کہ مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ ان لغو کاموں میں اپنے وقت کوضائع کرے اور اس قسم کی بے کار چیزوں پر اپنے روپیہ کو برباد کرے آجکل کے لحاظ سے سینما اور تھیٹروغیرہ بھی اس حکم کے نیچے آجائیں گے۔ کیونکہ سینمااور تھیٹروں وغیرہ پر بھی مُلک کی دولت کا ایک بہت بڑا حصہ ضائع چلا جاتا ہے۔ مَیں نے ایک دفعہ حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ کروڑوں کروڑ روپیہ سینما پر ہرسال خرچ ہوتا ہے۔ لاہورہی میں کوئی پچیس کے قریب سینما سُناجاتا ہے اوراوسط آمد ہر سینما کی ہفتہ وار دو تین ہزار بتائی جاتی ہے اگر اڑھائی ہزار اوسط آمد شمار کی جائے تو ماہوار آمد دس ہزار ہوئی۔ اور سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار۔ بیس سینما بھی اگرشمار کئے جائیں تو صرف لاہور کاسالانہ سینما کا خرچ چوبیس لاکھ کا ہوا۔ اگر ہندوستان کے تمام شہروں اور قصبات کو سینما کے لحاظ سے لاہور کے برابر سمجھا جائے گویقینا اِس سے زیادہ نسبت ہوگی تو بھی ایک ہزار سینما سارے ہندوستان میں بن جاتا ہے اور بارہ کروڑ کے قریب سالانہ خرچ سینما کا ہوجاتا ہے اور اگر سینما کے لوازمات کو بھی شامل کیا جاوے کہ ایسے لوگ بالعموم شراب خوری اور ایک دوسرے کی عیاشانہ دعوتوںمیںبھی روپیہ خرچ کرتے ہیںتو پچیس تیس کروڑ روپیہ سے زائد خرچ سینما اور اس کے لوازمات پر اُٹھ جاتا ہے اور یہ رقم حکومتِ ہند کی آمد کا۴؍۱حصہ ہے۔ گویا صرف سینما پر اِس قدر خرچ اُٹھتا ہے کہ جو سارے مُلک پر سال میں ہونے والے خرچ کا ایک چوتھائی ہے۔ حالانکہ اِس کا کوئی بھی فائدہ نہ مُلک کو ہوتا ہے نہ قوم کو ہوتا ہے اور نہ خود سینما دیکھنے والوں کو ہوتا ہے۔
قرآن کریم اس قسم کے تمام راستوں کو بند کرتا ہے اور فرماتا ہے مومن وہی ہیں جو اس قسم کے لغو کاموں سے احتراز کریں اوراپنی کمائی کا ایک پیسہ بھی اِن پر ضائع نہ کریں۔ یورپ کی آزاد حکومتیں جو اپنی اقتصادی ترقی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتی رہتی ہیں اُن کی تو یہ حالت ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سینما اور تھیٹربناتی ہیں۔ جتنے سنیما گھرآج انگلستان میں ہیں جنگ کے بعد یقینا اِن میں زیادتی کی جائے گی اور کہا جائے گا کہ یہ سینما کم ہیں سینکڑوں اَور سینما گھر بنائے جائیں۔ تاکہ وہ لوگ جو سینماؤںکی کمی کی وجہ سے اس تعیش سے محروم ہیں وہ بھی اس میں حصہ لے سکیں اور اُن کی دولت اور اُن کا وقت بھی اِس پر صرف ہو۔ لیکن اسلام قطعی طور پر ان تمام چیزوں کو جو بنی نوع انسان کے لئے مفید نہیں بند کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اگر اسلام کے اِن احکام پرپوری طرح عمل کیاجائے تو امراء کی ظاہری حالت بھی ایک حد تک مساوات کی طرف لوٹ آئے کیونکہ ناجائز کمائی کا ایک بڑا محرک ناجائز اور بے فائدہ اخراجات ہی ہوتے ہیں۔
اِسلام میں اسراف کی ممانعت
دوسرے اسلام نے اسراف سے منع کیا ہے جس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ گوخرچ کا محل توجائز ہو
مگر خرچ ضرورت سے زیادہ ہو۔ مثلاً اونچی اونچی عمارات بنانا یا زینت اور تفاخر کے طور پر باغ اور چمن تیار کرانا۔ ایک باغ ایسے ہوتے ہیں جو پھلوں کے لئے تیار کئے جاتے ہیں ایسے باغ بنانا اسلام کے روسے منع نہیں ہیں لیکن بعض باغ اِس قسم کے ہوتے ہیں جن کی غرض محض نمائش یا عیاشی ہوتی ہے۔ جیسے پُرانے زمانہ میں بعض بادشاہ بڑے بڑے باغ تیار کرایا کرتے تھے جن سے اُن کی غرض محض یہ ہوا کرتی تھی کہ وہاں ناچ گانا ہو اور وہ اِس سے لطف اندوز ہوں۔ اِس طرح محض اپنے نفس کے اہتزاز ۲۰؎کے لئے وہ اتنا روپیہ خرچ کر دیتے تھے جو اسراف میں داخل ہو جاتا تھا۔ لیکن اِس قسم کے باغ بنانے جیسے میونسپل کمیٹیاں تیار کروایا کرتی ہیں اور جن سے اُن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ وہاں جائیں، سیر کریں اور صحت میں ترقی کریں اسلام کی رو سے منع نہیں ہیں۔ اسلام کے نزدیک اگر ایک میونسپل کمیٹی دس لاکھ روپیہ بھی اس قسم کے باغ تیار کرنے پر صرف کردے جس سے چار پانچ لاکھ آدمی فائدہ اُٹھا سکتے ہوںتو وہ بالکل جائز کام کرے گی۔ مثلاً لاہور کی آبادی ۹ لاکھ ہے اگر لاہور کی میونسپل کمیٹی متعدد پارک بنانے پرلاکھوں لاکھ روپیہ خرچ کردے توچونکہ نو لاکھ کی آبادی یا اس آبادی کی اکثریت اس سے فائدہ اُٹھائے گی اِس لئے روپیہ کا یہ مصرف بالکل جائز سمجھا جائے گا بلکہ اگر ایک لاکھ آدمی بھی اِس سے فائدہ اُٹھائیں گے تو یہ سمجھا جائے گاکہ میونسپل کمیٹی نے ایک آدمی کی صحت کے لئے چار یا پانچ روپے صرف کئے اور یہ بالکل جائز ہوگا۔ لیکن اگر ایک بادشاہ اپنے لئے یا اپنے بیوی بچوں کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کرکے ایک باغ تیار کراتا ہے اوراُس میں دوسروں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی تو اِس کے یہ معنی ہوں گے کہ اُس نے ایک ایک نفس پر لاکھ لاکھ یا دو دو لاکھ روپیہ خرچ کر دیا حالانکہ اگر وہی ایک لاکھ یا دو لاکھ یا تین لاکھ یا چار لاکھ روپیہ عام لوگوں کے لئے خرچ کیا جاتا تو لاکھوں لوگ اس سے فائدہ اُٹھاتے اور اُن کی صحت پہلے سے بہت زیادہ ترقی کرجاتی۔ پس اسلام جائز ضروریات پر روپیہ صرف کرنے سے نہیں روکتا بلکہ اِس امر سے روکتا ہے کہ روپیہ کو صحیح طور پراستعمال نہ کیا جائے اور بنی نوع انسان کے حقوق کو تلف کرکے ناجائز فائدہ اُٹھایا جاوے۔ اگر ایک دفتر بنانے کا سوال ہو اور ہزاروں لوگوں کے لئے کمروں کی ضرورت ہو تو خواہ بیس منزلہ مکان بنالیا جائے اور اُس میں سینکڑوں کمرے ہوں اسلام کی رو سے بالکل جائز ہو گا لیکن وہ لوگ جو بلاوجہ اپنی ضرورت سے زائدکمرے بنوالیتے ہیں محض اس لئے کہ لوگ اُن کو دیکھیں اور تعریف کریں قرآن کریم کے رو سے وہ ایک ناجائز فعل کا ارتکاب کرتے ہیں اور اسلام اُسے اِسراف قرار دیتا ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو پکڑے گا اور اُس سے جواب طلب کرے گا کہ اُس نے کیوں وہ روپیہ جو بنی نوع انسان کی خدمت یا اُن کی ترقی کے سامانوں پر صرف ہو سکتا تھا اِ س رنگ میں ضائع کیا اور مُلک اور قوم کی اقتصادی حالت کو نقصان پہنچایا۔دُور کیوں جائیں تاج محلؔ ہمارے گھر کی مثال ہے مجھے خود وہ بہت پسند ہے اور مَیں اُسے دیکھنے بھی جایا کرتا ہوں لیکن اسلامی اقتصاد کے لحاظ سے تاج محل کی تعمیر پر ناجائز طور پر روپیہ صرف کیا گیا ہے۔ تاج محل آخر کیا ہے؟ ایک بہت بڑی شاندار عمارت ہے جو محض ایک عورت کی قبر پر زینت کے لئے بنائی گئی اور اُس پر کروڑوں روپیہ صرف کیا گیا۔ اگر وہی روپیہ صدقہ وخیرات پر صرف کیا جاتا یا غرباء کے لئے کوئی ایسا ادارہ قائم کر دیا جاتا جس سے لاکھوں مساکین، لاکھوں یتیم، اور لاکھوں بے کس ایک مدت درازتک فائدہ اُٹھاتے چلے جاتے اور وہ اپنے کھانے اور اپنے پینے اور اپنے پہننے اور اپنے رہنے کے تمام سامانوں کو حاصل کر لیتے تویہ زیادہ بہتر ہوتا۔ بے شک جہاں تک عمارت کا سوال ہے، جہاں تک انجنیئرنگ کا سوال ہے تاج محل کی ہم تعریف کرتے ہیںاور اُسے دیکھنے کے لئے بھی جاتے ہیں لیکن جہاں تک حقیقت کا سوال ہے ہمیں تسلیم کرنا پڑے گاکہ اس قسم کی عمارتیں جو بعض افراد محض اپنے نام ونمود کے لئے یا نمائش کے لئے دنیا میں تیار کرتے ہیں اسلامی نقطہ نگاہ سے ناجائز ہیں۔ لیکن وہ عمارتیں جو قوم کے لئے یا پبلک کے مفاد کے لئے یا ایسی ہی اور ضروریات کے لئے تیار کی جاتی ہیںوہ خواہ کتنی ہی بلند ہوں جائز کہلائیں گی۔ غرض بِلا ضرورت اونچی عمارات بنانا، زینت اور تفاخر کے طور پر باغات تیار کروانا، کھانا زیادہ مقدار میں کھانا یا بہت سے کھانے کھانا، لباس وغیرہ پر غیرضروری رقوم خرچ کرنا، گھوڑے اور موٹریں ضرورت سے زیادہ رکھنا، فرنیچر وغیرہ ضرورت سے زیادہ بنوانا، عورتوں کا لیس اور فیتوں وغیرہ پر زیادہ رقوم خرچ کرنا اِن سب امور سے قرآن کریم اور احادیث میں منع کیا گیا ہے اور اس طرح مال کمانے کی ضرورتوں کو محدود کر دیا گیاہے۔
سیاسی اقتدار کیلئے روپیہ خرچ کرنا
اِسی طرح مال اور دولت کی وجہ سے کسی کو سیاسی اقتدار دینے سے بھی
اسلام نے منع فرمادیا ہے۔ مَیں اِس بارہ میں بیان کر چکا ہوں کہ قرآن کریم کا یہ صریح حکم ہے کہ ۲۱؎کہ تم حکومتیں انہیں لوگوں کے سپرد کیا کرو جو حکومت کے کام کے اہل ہوں محض کسی کے مال یا أُس کی دولت کی وجہ سے اُس کو سیاسی اقتدار دے دینا اسلامی تعلیم کے ماتحت جائزنہیں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مال اور دولت کی وجہ سے نہیں بلکہ اہلیت اور قابلیت کی بناء پر لوگوں کے سپرد حکومتی کام کیا کرو۔ پس جو لوگ مال و دولت اِس لئے جمع کرتے ہیںکہ اِس کی وجہ سے ہمیں حکومت میں حصہ مل جائے گا یا بڑے بڑے عہدے ہمیں حاصل ہو جائیں گے اسلام اُن کے اِس نفع کو بھی ناجائز قرار دیتا ہے اور اُمّتِ مُسلمہ کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ حکّام کے انتخاب کے وقت اہلیّت کو مدِنظر رکھا کریں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ دولت وثروت کی وجہ سے کسی کو سیاسی اقتدار سونپ دیا جائے۔
روپیہ جمع کرنے کی حرص
پھر بعض لوگ دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو بہت سا روپیہ اپنے پاس جمع کر لیتے ہیں۔اِسلام نے اپنے متبعین
کو روپیہ جمع کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ ۲۲؎ فرماتا ہے وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت اُس کو خرچ نہیں کرتے ہم اُن کو ایک درد ناک عذاب کی خبر دیتے ہیں۔ جب سونا اورچاندی جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اُنہیں گَلا کر اُن کے ہاتھوں اور اُن کے پہلوؤں اور اُن کی پیٹھوں پر داغ دیا جائے گااور کہا جائے گا کہ یہ وہ خزانے ہیں جو تم نے اپنے لئے اور اپنے خاندان کی ترقی کے لئے روک رکھے تھے اور خدا تعالیٰ کے بندوں کو تم نے اُن سے محروم کر دیا تھا۔ پس چونکہ لوگوں نے اس سونے اور چاندی سے فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ تم نے اُسے صرف اپنے لئے جمع کر رکھا تھا اس لئے آج ہم یہ سونا اور چاندی تمہاری طرف ہی واپس لوٹاتے ہیں۔ مگر اُس جہان میں چونکہ سونا اور چاندی کسی کام نہیں آسکتے اس لئے ہم اس رنگ میں یہ سونا اور چاندی تمہیں دیتے ہیں کہ ان کو پگھلا پگھلا کر تمہارے ہاتھوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں پر داغ دینگے تا کہ تمہیں معلوم ہو کہ سونے اور چاندی کو روک رکھنا اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے اُسے صرف نہ کرنا کتنا بڑا گناہ تھا۔ گویہ مثال جو میں نے دی ہے اِس میں روپیہ کے غلط خرچ کا ذکر نہیں بلکہ روپیہ جمع کرنے کا ذکر ہے لیکن درحقیقت یہ بھی غلط خرچ کے مشابہہ ہے کیونکہ غلط خرچ کا نقصان بھی یہی ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اُس سے فائدہ اُٹھانے سے محروم رہ جاتے ہیں اور روپیہ کو جمع کر رکھنے اور کام پر نہ لگانے سے بھی اس قسم کا نقصان ہوتا ہے۔ پس نتیجہ کے لحاظ سے یہ روپیہ کا جمع کرنا اور اُسے نامناسب مواقع پر خرچ کرنا ایک سا ہی ہے۔غرض جتنے محرکات دولت کے حد سے زیادہ کمانے یا اُس کو اپنے پاس جمع رکھنے کے دنیا میں پائے جاتے ہیں اسلام نے اُن سب کو ردّ کر دیا ہے۔ اور درحقیقت بعض محرکات وموجبات ہی دولت کے زیادہ کمانے یا اُسے لوگوں کے لئے خرچ نہ کرنے کے ہوا کرتے ہیں۔ جب ان تمام محرکات کو ناجائز قرار دے دیا جائے تو کوئی شخص اتنی دولت جمع نہیں کر سکتا جو بنی نوع انسان کی ترقی میںروک بن جائے۔مثلاً لوگ گھوڑ دَوڑ کے لئے اعلیٰ درجہ کے قیمتی گھوڑے رکھتے ہیںاور ان پر لاکھوں روپیہ خرچ کردیتے ہیں۔یا جوئے بازی پر ہزاروں روپیہ برباد کردیتے ہیں لیکن اس تعلیم کے ماتحت جو اسلام نے بیان کی ہے ایک مسلمان ریس(RACE)کے لئے گھوڑے نہیں رکھ سکتا- وہ سواری کے لئے تو گھوڑا رکھے گا مگریہ نہیں کر سکتا کہ ریس(RACE) میں حصہ لینے کے لئے لاکھوں روپیہ گھوڑوں کی خرید پر خرچ کرتا چلا جائے۔ جب اِس قسم کے تما م محرکات جاتے رہیں گے تو یہ لازمی بات ہے کہ روپیہ کے زیادہ کمانے کی خواہش اس کے دل میں باقی نہ رہے گی۔ روپیہ کی زیادہ خواہش اِسی لئے پیدا ہوتی ہے کہ انسان کہتا ہے فلاں کے پاس ایک لاکھ روپیہ جمع ہے میرے پاس بھی اتنا روپیہ جمع ہونا چاہئے۔ یا فلاں نے ریس کے لئے بڑے اچھے گھوڑے رکھے ہوئے ہیں مَیں بھی اعلیٰ درجہ کے گھوڑے خرید کر رکھوں۔یا محض مال کی محبت ہو اور انسان روپیہ کومحض روپیہ کے لئے جمع کرے مگر جب اِس قسم کی تمام خواہشات سے اسلام نے منع کر دیا تو وہ ناواجب حد تک روپیہ کمانے کی فکر ہی نہیں کرے گا۔
کمزور طبائع کا علاج
مگر اِس تعلیم کے باوجود پھر بھی کمزور طبائع ناجائز حد تک روپیہ کما سکتی تھیں اور صرف وعظ اِس غرض کو پورا
نہیں کر سکتا تھا۔ آخر مَیں نے جو کچھ بیان کیا ہے یہ صرف ایک وعظ ہے جس سے انسان فائدہ اُٹھاسکتا ہے لیکن دنیا میں ایسے کمزور طبع لوگ پائے جاتے ہیں جو وعظ سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ پس چونکہ دنیا میں ایک عنصر ایسے کمزورلوگوں کا بھی تھا جنہوں نے اِس وعظ سے پورا فائدہ نہیں اُٹھاناتھا اس لئے شریعت اسلامی نے بعض ایسے آئین تجویز کر دیئے ہیں جن پر عمل کرانا حکومت کے ذمہ ہے اور جن سے دولت ناجائز حد تک کمائی نہیں جاسکتی ـ۔ وہ آئین جو اسلام نے مقرر کئے ہیں یہ ہیں۔
اسلام میںناجائز طور پر روپیہ کے حصول کا سِدّباب
سُود کی مناعی
اوّل اسلام نے سُود پر روپیہ لینے اور دینے سے منع کر دیا ہے اور اس طرح تجارت کو محددو کر دیا۔ تعجب کی بات ہے کہ عام طور پر ہمارا تعلیم
یافتہ طبقہ ایک طرف تو کمیونزم کے اصول کا دِلدادہ ہے دوسری طرف سُود کی بھی تائید کرتا نظر آتا ہے حالانکہ دنیا کی اقتصادی تباہی کا سب سے بڑا موجب یہی سُود ہے۔ سُود کے ذریعہ ایک ہوشیاراور عقلمند تاجر کروڑوں روپیہ لے لیتا ہے اور پھر اس روپیہ کے ذریعہ دنیا کی تجارت پر قبضہ کر لیتا ہے۔ بڑے بڑے کارخانے قائم کرلیتا ہے اور ہزاروں ہزار لوگوں کو ہمیشہ کی غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اگر دنیا کے مالداروں کی فہرست بنائی جائے تو اکثر مالداروہی نکلیں گے جنہوں نے سُود کے ذریعہ ترقی کی ہوگی۔ پہلے وہ دوچار ہزار روپیہ کے سرمایہ سے کام شروع کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ وہ اتنی ساکھ پیدا کرلیتے ہیں کہ بڑے بڑے بنکوں سے لاکھوں روپیہ قرض یا اوور ڈرافٹ (OVER DRAFT)کے طور پر نکلوالیتے ہیں اور چند سالوں میں ہی لاکھوں سے کروڑوں روپیہ پیدا کرلیتے ہیں۔ یا ایک شخص معمولی سرمایہ اپنے پاس رکھتا ہے مگر اُس کا دماغ اچھا ہوتا ہے وہ کسی بنک کے سیکرٹری سے دوستی پیدا کر کے اُس سے ضرورت کے مطابق لاکھ دو لاکھ یا چار لاکھ روپیہ لے لیتا ہے اور چند سالوں میںہی اُس سے کئی گنا نفع کما کر وہ کروڑپتی بن جاتا ہے۔ غرض جس قدر بڑے بڑے ما لدار دنیامیں پائے جاتے ہیں اُن کے حالات پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اِن میں اپنی خالص کمائی سے بڑھنے والا شاید سَو میں سے کوئی ایک ہی ہو گا باقی ننانوے فیصدی ایسے ہی مالدار نظر آئیں گے جنہوں نے سُود پر بنکوں سے روپیہ لیا اور تھوڑے عرصہ میں ہی اپنے اعلیٰ دماغ کی وجہ سے کروڑ پتی بن گئے اور لوگوں پر اپنا رُعب قائم کر لیا۔ پس سُود دنیا کی اقتصادی تباہی کا ایک بہت بڑا ذریعہ اور غرباء کی ترقی کے راستہ میں ایک بہت بڑی روک ہے جس کو دُور کرنا بنی نوع انسان کا فرض ہے۔ اگر ان لوگوں کو سُود کے ذریعہ بنکوں میں سے آسانی کے ساتھ روپیہ نہ ملتا تو دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہوتی یا تو وہ دوسرے لوگوں کو اپنی تجارت میں شامل کرنے پر مجبور ہوتے اور یا پھر اپنی تجارت کو اس قدر بڑھانہ سکتے کہ بعد میں آنے والوں کے لئے روک بن جاتے اور ٹرسٹ وغیرہ قائم کر کے لوگوں کے لئے ترقی کا راستہ بالکل بند کر دیتے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ مال مُلک میں مناسب تناسب کے ساتھ تقسیم ہوتا اور خاص خاص لوگوں کے پاس حد سے زیادہ روپیہ جمع نہ ہوتا جو اقتصادی ترقی کے لئے سخت مُہلک اور ضرررساں چیزہے۔ مگر افسوس ہے کہ لوگ سُود کے اِن نقصانات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر اِس کے باوجود جس طرح مکڑی اپنے اِرد گرد جالا تنتی چلی جاتی ہے اِسی طرح وہ سُود کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں اور اس بات پر ذرا بھی غور نہیں کرتے کہ اُن کے اس طریق کا مُلک اور قوم کے لئے کیسا خطرناک نتیجہ نکلے گااور اس الزام سے کمیونزم کے حامی بھی بَری نہیںوہ بھی اِس جڑ کو جو سرمایہ داری کا درخت پیدا کرتی ہے نہ صرف یہ کہ کاٹتے نہیں بلکہ وہ اُسے بُرا بھی نہیں کہتے ۔ہزاروں لاکھوں کمیونسٹ دنیا میں ملیں گے جو سُود لیتے ہیں اور اس طرح بالواسطہ سرمایہ داری کی جڑیں مضبوط کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔
سُود کی وسیع تعریف
اسلام نے سُود کی ایسی تعریف کی ہے جس سے بعض ایسی چیزیں بھی جو عرفِ عام میں سُود نہیں سمجھی جاتیں سُود کے
دائرہ عمل میں آجاتی ہیں اور وہ بھی بنی نوع انسان کے لئے ناجائز ہو جاتی ہیں۔ اسلام نے سُود کی یہ تعریف کی ہے کہ وہ کام جس پر نفع یقینی ہو۔ اب اِس تعریف کے ماتحت جتنے ٹرسٹ ہیں وہ سب ناجائز سمجھے جائیں گے کیونکہ ٹرسٹ کی غرض یہی ہوتی ہے کہ مقابلہ بند ہوجائے اور جتنا نفع تاجر کمانا چاہیں اُتنا نفع اُن کو بغیر کسی روک کے حاصل ہو جائے۔ مثلاً ایک مُلک کے پندرہ بیس بڑے بڑے تاجر اکٹھے ہو کر اگر ایک مقررہ قیمت کا فیصلہ کر لیں اور ایک دوسرے کا تجارتی مقابلہ نہ کرنے کا فیصلہ کر لیں تو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک چیز جو دو روپے کو تجارتی اصول پر بِکنی چاہئے اُس کے متعلق وہ کہہ سکتے ہیں ہم اُسے پانچ روپے میں فروخت کریں گے اور چونکہ سب کا متفقہ فیصلہ یہی ہوگا۔ اِس لئے لوگ مجبور ہوں گے کہ پانچ روپے میں ہی وہ چیز خرید یں کیونکہ اِس سے کم قیمت میں اُن کو وہ چیز کسی اور جگہ سے مل ہی نہیں سکے گی۔ وہ ایک کے پاس جائیں گے تو وہ پانچ روپے قیمت بتائے گا، دوسرے کے پاس جائیں گے تو وہ بھی پانچ روپے ہی بتاتا ہے ،تیسرے کے پاس جائیں گے تو وہ بھی پانچ روپیہ ہی قیمت بتاتا ہے غرض جس کے پاس جائیں گے وہ پانچ روپیہ ہی قیمت بتائے گا اور آخر وہ مجبور ہو جائے گا کہ وہی قیمت اداکر کے چیز خریدے۔ چھوٹے تاجروں کو اوّل تو یہ جرأت ہی نہیں ہوتی کہ اُن کا مقابلہ کریں اور اگر اُن میں سے کوئی شخص وہی چیز سَستے داموں پر فروخت کرنے لگے مثلاً وہ اُس کی دو روپے قیمت رکھ دے تو وہ بڑے تاجرجنہوںنے آپس میں اتحاد کیا ہوا ہوتا ہے اُس کا سارا مال اُس گری ہوئی قیمت پر خرید لیتے اور اِس طرح اُس کا چند دن میں ہی دیوالہ نکال دیتے ہیں۔ پس یہ ٹرسٹ سسٹم ایک نہایت ہی خطرناک چیزہے اور دنیا کی اقتصادی حالت کو بالکل تباہ کر دیتا ہے۔
مجھے ایک دفعہ جماعت احمدیہ کی تجارتی سکیموں کے سِلسلہ میں تحریک ہوئی کہ میں لاکھ۲۳؎ کی تجارت کے متعلق معلومات حاصل کروں۔ لاکھ کی تجارت صرف چند لاکھ روپے کی تجارت ہے اور لاکھ صرف ہندوستان کے چند علاقوں میں تیار ہوتی ہے ریاست پٹیالہ میں بھی تیار کی جاتی ہے ۔ مجھے تحقیق پر معلوم ہوا کہ ایک یورپین فرم اِس کی تجارت پر قابض ہے۔ مَیں نے وجہ دریافت کی تو مجھے بتایا گیا کہ اور تاجروں کی حیثیت تو پندرہ سولہ لاکھ کی ہوتی ہے مگر اِس یورپین فرم کا سرمایہ تیس چالیس کروڑ روپیہ کا ہے۔ پھراُن کے پاس صرف یہی تجارت نہیں بلکہ گندم کی تجارت بھی اُن کے ہاتھ میں ہے، کپڑے کی تجارت بھی اُن کے ہاتھ میں ہے، جیوٹ ۲۴؎ کی تجارت بھی اُن کے ہاتھ میں ہے اِسی طرح اور کئی قسم کی تجارتیں اُن کے ہاتھ میں ہیں۔ اُن کے مقابلہ میں جب کوئی تاجر چند لاکھ روپیہ صرف کر کے لاکھ کی تجارت شروع کرتا ہے تو وہ یورپین فرم لاکھ کی قیمت اتنی کم کر دیتی ہے کہ جس نے نئی نئی تجارت شروع کی ہوتی ہے اُن کے مقابلہ میں ایک دن بھی نہیں ٹھہر سکتا اور نقصان اُٹھا کر کفِ افسوس ملتا ہوا گھر واپس آجاتا ہے۔ فرض کرو ایک شخص کا اس تجارت پر دس لاکھ روپیہ صرف ہوا۔ اُسے توقع تھی کہ مجھے نفع حاصل ہوگا۔ پس اُس نے یورپین فرم کے مقابلہ کے لئے قیمت گرا کر رکھی مگر اُس کو میدانِ مقابلہ میں دیکھتے ہی وہ یورپین فرم لاکھ کی قیمت اِس قدر گِرا دے گی کہ اُس تاجر کو رأس المال بچانا بھی مشکل ہو جائے گا اور آخر وہ مجبور ہو کر لاگت سے کم داموں پر اُسی یورپین فرم کو اپنا لاکھ کا سٹاک دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس یورپین فرم کو قیمت گرانے سے نقصان نہ ہوگا کیونکہ اپنے حریف کو شکست دے کر وہ پھر قیمت بڑھا دے گی۔ اِس رنگ میں وہ یورپین فرم لاکھ کی تجارت کو اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے اور کوئی اُس کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔غرض جس قدر ٹرسٹ ہیں وہ بنی نوع انسان کو تباہ کرنے والے ہیں اور چونکہ ٹرسٹ سسٹم میں نفع یقینی ہوتا ہے اس لئے اسلام کے مذکورہ بالا قاعدہ کے مطابق ٹرسٹ سسٹم اسلام کے روسے ناجائز قرار دیا جائے گا۔
یہی حال کارٹل سسٹم کا ہے۔ کارٹل سسٹم بھی ایک ایسی چیز ہے جو اسلامی نقطہ نگاہ سے بالکل ناجائز ہے۔ ٹرسٹ سسٹم میں جہاں ایک مُلک کے تاجر آپس میں سمجھوتہ کر کے تجارت کرتے ہیں وہاں کارٹل سسٹم میں مختلف ممالک کے تاجر آپس میں اتحاد پیدا کر لیتے ہیں اور وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں چیز فلاں قیمت پر فروخت کرنی ہے اِس سے کم میں نہیں۔ٹرسٹ سسٹم تو یہ ہے کہ ہندوستان کے تاجر آپس میں کسی امر کے متعلق سمجھوتہ کر لیں اور کارٹل سسٹم یہ ہے کہ مثلاً امریکہ اور انگلستان کے تاجر یا امریکہ، انگلستان اور جرمنی کے تاجر یا انگلستان اور ہندوستان کے تاجر آپس میں کسی تجارت کے متعلق سمجھوتہ کر لیں۔فرض کرو کیمیکلز (CHEMICALES)یعنی کیمیائی ساخت کی اشیاء کے متعلق سمجھوتہ کر لیں۔مثلاً اِس زمانہ میں امریکہ ،انگلستا ن اور جرمنی یہ تین ممالک ہی کیمیکلز بنانے والے ہیں اِن تینوں ممالک کے تاجر سمجھوتہ کر لیں کہ ہم ایک دوسرے کا مقابلہ نہیں کریں گے بلکہ ایک ہی قیمت پر اپنی دواؤں کو فروخت کریں گے تو اِس کے نتیجہ میں دنیا مجبور ہوگی کہ اُن سے اُسی قیمت پر دوائیں خریدے۔ اور جتنا نفع وہ مانگتے ہیں وہ اُن کو دے ۔ یہ کارٹل سسٹم اتنا خطرناک ہے کہ اِس سے حکومتیں بھی تنگ آگئی ہیںاور ابھی گزشتہ دنوں اِس جرم میں اس کی طرف سے کئی تاجروں پر مقدمات چل چکے ہیں اور انہیں سزائیں بھی دی گئی ہیں مگر چونکہ یقینی نفع کی تمام صورتوں کو اسلام نے ناجائز قرار دے دیا ہے تاکہ دنیا کی دولت پر کوئی ایک طبقہ قابض نہ ہو جائے بلکہ مال تمام لوگوں میں چکّر کھاتا رہے اور غرباء بھی اس سے اپنی اقتصادی حالت کو درست کرسکیں۔اسلامی حکومتوں میں یہ طریق چل نہیں سکتے۔
سامان کا روک رکھنا منع ہے
اِسی طرح اسلام نے ایک حکم یہ بھی دیا ہے کہ تم جو مال بھی تیار کرو یا دوسروں سے خریدو اُسے
روک کر نہ رکھ لیا کرو کہ جب مال مہنگا ہو گا اور قیمت زیادہ ہوگی اُس وقت ہم اِس مال کو فروخت کریں گے۔ اگر ایک تاجر مال کو قیمت بڑھنے کے خیال سے روک لیتا ہے اور اُسے لوگوںکے پاس فروخت نہیں کرتا تو اسلامی نقطہ نگاہ کے ماتحت وہ ایک ناجائزفعل کا ارتکاب کرتا ہے۔ اگر ایک تاجر کے پاس گندم ہے اور لوگ اپنی ضروریات کے لئے اُس سے گندم خریدنا چاہتے ہیںاور وہ اِس خیال سے کہ جب گندم مہنگی ہوگی اُس وقت میں اسے فروخت کروں گا اُس گندم کو روک لیتا ہے اور خریداروں کو دینے سے انکار کر دیتا ہے تو اسلام کی تعلیم کے رو سے دہ ایک گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ چیزوں پر کنٹرول اِس زمانہ میں ہی کیا گیا ہے حالانکہ کنٹرول اسلام میں ہمیشہ سے چلا آتا ہے۔ انگریزوں نے تو آج اِس کو اختیار کیا لیکن اسلام نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے یہ حکم دیا تھا کہ احتکار منع ہے اور احتکار کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ کسی چیز کو اس لئے روک لیا جائے کہ جب اس کی قیمت بڑھ جائیگی تب اُسے فروخت کیاجائے گا۔ اگر کسی شخص کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ وہ احتکار کر رہا ہے اور اسلامی حکومت قائم ہو تو وہ اُسے مجبور کرے گی کہ وہ اپنا مال فروخت کردے اور اگر وہ خود فروخت کرنے کے لئے تیار نہ ہو توگورنمنٹ اُس کے سٹور پر قبضہ کر کے مناسب قیمت پر اُسے فروخت کردے گی۔ بہرحال کوئی شخص اِس بات کا مجاز نہیں کہ وہ مال کو روک رکھے اِس خیال سے کہ جب مہنگا ہو گا تب میں اسے فروخت کروں گا۔(اِس میں کوئی شک نہیں کہ احتکار کے معنیٰ غلہ کو روکنے کے ہیں لیکن تفقّہ کے ماتحت جواسلام کا ایک جزوِ ضروری ہے اِس حکم کو عام کیا جائے گااور کسی شَے کو جو عوام کے کام آنے والی ہے اس لئے روک رکھنا کہ قیمت بڑھ جائے گی تو فروخت کریں اسلامی تعلیم کے رو سے ناجائز قرار دیا جائے گا۔)
اِسلام میں مال کی قیمت گرانے کی ممانعت
اِس کے علاوہ اسلام نے قیمت کو ناجائز حد تک گرانے سے بھی منع کیا ہے اور جیسا کہ مَیں نے اوپر بیان کیا ہے قیمت کا گرانابھی ناجائز مال کمانے کا ذریعہ ہوتا ہے
کیونکہ طاقتور تاجر اِس ذریعہ سے کمزور تاجروں کو تھوڑی قیمت پر مال فرخت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اور ان کا دیوالہ نکلوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ آپ بازار کا دَورہ کر رہے تھے کہ ایک باہر سے آئے ہوئے شخص کو دیکھاکہ وہ خشک انگور نہایت ارزاں قیمت پر فروخت کر رہا تھا جس قیمت پر مدینہ کے تاجر فروخت نہیں کرسکتے تھے۔ آپ نے اُسے حکم دیا کہ یا تو اپنا مال منڈی سے اُٹھا کر لے جائے یا پھر اُسی قیمت پر فروخت کرے جس مناسب قیمت پر مدینہ کے تاجر فروخت کررہے تھے۔ جب آپ سے اِس حُکم کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے جواب دیا کہ اگر اِس طرح فروخت کرنے کی اِسے اجازت دی گئی تو مدینہ کے تاجروں کو جو مناسب قیمت پر مال فروخت کررہے ہیںنقصان پہنچے گا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بعض صحابہؓ نے حضرت عمرؓ کے اس فعل کے خلاف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول پیش کیا کہ منڈی کے بھاؤ میں دخل نہیں دینا چاہئے۲۵؎ مگر اُن کا یہ اعتراض درست نہ تھا کیونکہ منڈی کے بھاؤ میں دخل دینے کے یہ معنیٰ ہیں کہ پیداوار اور مانگ(SUPPLY AND DEMAND) کے اصول میں دخل دیا جائے اور ایسا کرنا بے شک نقصان دہ ہے اور اس سے حکومت کو بچنا چاہئے۔ ورنہ عوام کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گااور تاجر تباہ ہو جائیں گے۔ ہم نے قریب زمانہ میں ہی اس کا تجربہ کیا ہے۔ جب حکومت نے جنگ کی وجہ سے گندم کی فروخت کی ایک ہی قیمت مقرر کردی تو اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اصلی تجارت بالکل رُک گئی کیونکہ کوئی عقلمندیہ امید نہیں کر سکتا کہ تاجر اسی قیمت پر خرید کر اُسی قیمت پر فروخت کرسکے گا۔نتیجہ یہ ہوا کہ گندم کی باقاعدہ تجارت بالکل بند ہوگئی اور مقررہ قیمت چھ روپے کی جگہ سولہ روپیہ فی من تک گندم کی قیمت پہنچ گئی۔ لوگ گورنمنٹ کو خوش کرنے کیلئے اپنے بیوی بچوں کو فاقوں سے نہیں مار سکتے تھے۔ وہ ہر قیمت پرگندم خریدتے تھے اور چونکہ گندم پر زندگی کا انحصار ہے وہ ان تاجروں کی رپورٹ کرنے کے لئے بھی تیار نہ تھے جو بلیک مارکیٹ ریٹس پر اُن کو گندم دیتے تھے۔ مَیں نے اِس کے خلاف کئی ماہ پہلے گورنمنٹ کو توجہ دلائی تھی کہ اُن کے اِس قانون کا خطرناک نتیجہ نکلے گا مگر حکومت نے اِس پر کان نہ دھرے اور آخر سخت ہنگامہ اور شور کے بعد معقول طریق اختیار کیا۔ پہلے قانون کی وجہ زمینداروں کی خدمت بتائی گئی تھی مگر نتیجہ اُلٹ نکلا۔ زمیندار لُٹ گئے اور تاجر کئی گُنے زیادہ قیمت حاصل کر گئے۔
غرض نا واجب طور پر منڈی کے بھاؤ میں دخل دینے اور پیداوار اور مانگ کے اصول کو نظر انداز کرنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے۔ ورنہ ناواجب بھاؤ میں خواہ وہ قیمت کی زیادتی کے متعلق ہو خواہ قیمت کی کمی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا۔چنانچہ احتکار سے روکنا جو احادیث سے ثابت ہے اس امر کا یقینی ثبوت ہے کیونکہ احتکار سے روکنے کی غرض یہی ہے کہ ناجائز طور پر بھاؤ کو بڑھایا نہ جائے اوریہ مناعی یقینا منڈی کے بھاؤ میں دخل دینا ہے مگر جائز دخل ہے۔ پس معلوم ہوا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منڈی کے بھاؤ میں دخل اندازی سے منع کیا تھا تو ناجائز دخل اندازی سے منع کیا تھا۔ اصولِ اقتصادیات کے ماتحت دخل اندازی سے منع نہیں فرمایا تھا اور حضرت عمرؓ کا فعل عین مطابق شریعت اور اسلام کے ایک زبر دست اصول کا ظاہر کرنے والا تھا۔
خلاصہ یہ کہ یہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ لوگ ناجائز طور پر دولت اپنے قبضہ میں لیا کرتے ہیں اِس لئے اسلام نے اِن تینوں چیزوں سے روک دیا ہے اور اس طرح ناجائز اور حد سے زیادہ دولت کے اجتماع کے راستہ کو بند کر دیاہے۔
حد سے زائد روپیہ جمع ہونے کے راستہ میں مزید روکیں
مگر چونکہ پھر بھی بعض لوگ ذہانت اور ہوشیاری کی وجہ سے ناجائز حد تک روپیہ کما سکتے تھے اور ہو سکتا تھا کہ اِن تمام ہدایات اور
قیود اور پابندیوں کے باوجود بعض لوگوں کے پاس حد سے زیادہ روپیہ جمع ہو جائے اور غرباء کو نقصان پہنچ جائے۔ اس لئے اسلام نے اس کا علاج مندرجہ ذیل ذرائع سے کیا۔
زکوٰۃ
اوّل زکوٰۃ کا حکم دیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس قدر جائداد کسی انسان کے پاس سونے چاندی کے سِکّوں یا اموالِ تجارت وغیرہ کی قسم میں سے ہو اور اُس پر
ایک سال گزر چکاہو حکومت اُس سے اندازاً اڑھائی فیصدی سالانہ ٹیکس لے لیاکرے گی جو مُلک کے غرباء اور مساکین کی بہبودی پر خرچ کیا جائے گا ۔ اگر کسی شخص کے پاس چالیس روپے جمع ہوں اور اُن چالیس روپوں پر ایک سال گزر جائے تو اس کے بعد لازماً اُسے اپنے جمع کردہ مال میںسے ایک روپیہ حکومت کو بطور زکوٰۃ ادا کرنا پڑے گا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ انکم ٹیکس نہیں جو آمد پر ادا کیا جاتا ہے بلکہ زکوٰۃ جمع کئے ہوئے مال پر کیپیٹل ٹیکس ہے جو غرباء کی بہبودی کے لئے لیا جاتا ہے اور زکوٰۃ ہر قسم کے مال پر واجب ہوتی ہے۔ خواہ سکّے ہوںیا جانور ہوں یا غلہ ہو یا زیور ہو یا کوئی دوسرا تجارتی مال ہو۔ صرف سونے چاندی کے وہ زیور جو عام طور پر عورتوں کے استعمال میں رہتے ہوں اور غرباء کو بھی کبھی کبھی عاریتہ دئیے جاتے ہوں اُن پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ زیورات خود تو عام طور پر استعمال کئے جاتے ہوں مگر غرباء کو عاریتہ نہ دیئے جاتے ہوں تو اِس صورت میں اُن کی زکوٰۃ ادا کرنا بھی فقہائے اسلام زیادہ مناسب قرار دیتے ہیں۔ اور جو زیور عام طور پر استعمال میں نہ آتے ہوں اُن پر زکوٰۃ ادا کرنا تو نہایت ضروری ہے اور اسلام میں اِس کا سختی سے حکم پایا جاتا ہے۔ یہ زکوٰۃ جب تک کسی کے پاس مال بقدرِ نصاب باقی ہو ہر سال ادا کرنی ضروری ہوتی ہے اور نہ صرف سرمایہ پر بلکہ سرمایہ اور نفع دونوں کے مجموعہ پر ادا کرنی ہوتی ہے۔ پس اگر کوئی شخص اوپر بیان کردہ تمام قیود اور پابندیوں کے باوجود کچھ روپیہ پس انداز کر لے تو اسلامی حکومت اس ذریعہ سے ہر سال اُس سے ٹیکس وصول کرتی چلی جائے گی کیونکہ اسلامی نقطہ نگاہ یہ ہے کہ امراء کی دولت میں غرباء کے حقوق اور اُن کی محنت بھی شامل ہے اس لئے ایک ایسا قاعدہ مقرر کر دیا گیاہے جس کے مطابق ہر سال زکوٰۃ کے ذریعہ سے غرباء کا حق امراء سے لے لیا جائے گا۔
خمس
دوسری وجہ جس سے بعض لوگوں کے ہاتھ میں حد سے زیادہ مال جمع ہو جاتا ہے کانوں کی دریافت ہے۔ اسلام نے اِس نقص کا علاج یہ کیا کہ اُس نے کانوں میں
حکومت کا خمس حق مقرر کر دیا ہے۔ یہ پانچواںحصہ تو اُس مال میں سے ہے جو کان سے نکالا جاتا ہے خواہ اُس پر سال چھوڑ ایک ماہ بھی نہ گزرا ہو۔ اس کے علاوہ کانوں کے مالک جواپنے حصہ کے نفع میں سے پس انداز کریں اور اس پر ایک سال گزر جائے اُس پر زکوٰۃ الگ لگے گی اور سال بہ سال لگتی چلی جائے گی۔ گویا اس طرح حکومت کانوںمیں بھی حصہ دار ہو جاتی ہے اور کانوں کے مالک جو روپیہ اپنے حصہ میں سے بچاتے ہیں اُن سے بھی ہر سال غرباء کی ترقی کے لئے ایک مقررہ ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ جب بھی کسی کے جمع کردہ مال پر ایک سال گزر جائے گا حکومت کے افراد اس کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ لاؤ جی غرباء کا حق ہمیں دے دو۔
طَوعی صدقہ
تیسرے اسلام نے طوعی صدقہ رکھا ہے۔ چنانچہ اسلام کا حکم ہے کہ ہر شخص کو صدقہ وخیرات کے طور پر یتیموں، غریبوں اور مسکینوں کی خبر گیری
اور اُن کی پرورش کے لئے کچھ نہ کچھ مال ہمیشہ خرچ کرتے رہنا چاہئے۔ یہ حکم بھی ایسا ہے کہ اس کی وجہ سے کسی شخص کے پاس حد سے زیادہ دولت جمع نہیں رہ سکتی۔
ورثہ کی تقسیم
اگر ان تمام طریقوں سے کام لینے کے باوجود پھر بھی کسی انسان کے پاس کچھ مال بچ جائے اور وہ اپنی جائداد بنالے تو اُس کے مرنے
کے معاً بعد شریعت اس کی تمام جائداد کو اُس کے خاندان میں تقسیم کرا دے گی۔ چنانچہ ورثہ کا حکم شریعت میں اِسی غرض کے ماتحت رکھا گیا ہے کہ کوئی شخص اپنی جائداد کسی ایک شخص کو نہ دے جائے بلکہ وہ اُس کے ورثاء میں تقسیم ہو جائے۔ شریعت نے اِس تقسیم میں اولاد کا بھی حق رکھا ہے، ماں باپ کا بھی حق رکھا ہے، بیوی کا بھی حق رکھا ہے، خاوند کا بھی حق رکھا ہے اور بعض حالتوں میں بھائیوں اور بہنوں کا بھی حق رکھا ہے۔ قرآن کریم نے صاف طور پر حکم دیا ہے کہ کسی شخص کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اِس تقسیم کو بدل سکے۔یا کسی ایک رشتہ دار کو اپنی تمام جائداد سپرد کر جائے ۔اُس کی جس قدر جائداد ہوگی شریعت جبراً اس کے تمام رشتہ داروں میں تقسیم کرا دے گی اور ہر ایک کو وہ حصہ دے گی جو قرآن کریم میں اُس کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ تعجب ہے کہ جہاں دنیا سُود کی تائید میں ہے حالانکہ دہ دنیا کی بے جوڑ مالی تقسیم کا بڑا موجب ہے وہاں اکثر لوگ جبری ورثہ کے بھی مخالف ہیں اور اس امر کی اجازت دیتے ہیں کہ ایک ہی لڑکے کو مرنے والا اپنا مال دے جائے حالانکہ اِس سسٹم سے دولت ایک خاندان میں غیر محدود وقت تک جمع ہوتی جاتی ہے لیکن اسلامی اصولِ وراثت کے مطابق جائداد خواہ کتنی بڑی ہو تھوڑے ہی عرصہ میں اولاد در اولاد میں تقسیم ہو کر مالدار سے مالدار خاندان عام لوگوں کی سطح پر آجاتا ہے اور اِس حکم کے نتیجہ میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہو سکتا جس کی بڑی سے بڑی جائداد یا بڑی سے بڑی دولت تین چار نسلوں سے آگے بڑھ سکے۔ وہ بمشکل تین چار نسلوں تک پہنچے گی اور پھر سب کی سب ختم ہو جائے گی اور آئندہ نسل کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوگی کہ وہ اپنے لئے اور جائداد پیدا کرے۔ یورپ اور امریکہ میں بڑے بڑے مالدار اور لارڈز اسی لئے ہیں کہ انگلستان میں یہ قانون ہے کہ جائداد کا مالک صرف بڑا بیٹا ہوتا ہے۔ اور امریکہ میں اجازت ہے کہ باپ اپنی جائداد چاہے تو صرف ایک بیٹے کو دے جائے باقی ماں باپ، بھائی بہنیں، خاوند بیوی سب محروم رہتے ہیںیا رکھے جاسکتے ہیں۔ پھر بعض دفعہ وہاں بڑے بڑے مالدار یہ وصیّت کر جاتے ہیں کہ ہماری دس لاکھ کی جائداد ہے اُس میں سے ایک لاکھ تو دوسرے رشتہ داروں کو دے دیا جائے اور نو لاکھ بڑے لڑے کو دے دیا جائے۔ اسلام کہتا ہے کہ یہ بالکل ناجائز ہے تمہارے خاندان کی عظمت سو سائٹی کے فائدہ کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ہمیں اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ تمہارا خاندان مُلک میں چوٹی کا خاندان ہمیشہ سمجھا جاتا ہے یا نہیں ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ مال تقسیم در تقسیم ہوتاچلا جائے تاکہ غرباء کو بڑے بڑے سرمایہ داروں کا مقابلہ نہ کرنا پڑے اور اُن کے لئے ترقی کا راستہ دنیا میں کھلا رہے۔
غرض ایک طرف اسلام نے جذبات پر قابو پایا اور اُن تمام محرکات کو مَسل دیا جن کے نتیجہ میں انسان یہ چاہتا ہے کہ اُس کے پاس زیادہ سے زیادہ دولت جمع ہو۔ دوسری طرف اُس نے بیہودہ اخراجات کو حُکماً روک دیا اور کہہ دیا کہ ہم ان اخراجات کی تمہیں اجازت نہیں دے سکتے۔ تیسری طرف روپیہ جمع کرنے کے تمام طریق جن میں یقینی نفع ہوا کرتا ہے اُس نے ناجائز قرار دے دیئے۔ چوتھی طرف زکوٰۃ اور طوعی صدقات وغیرہ کے احکام دے دیئے۔ اور اگر ان سب احکام کے باوجود پھر بھی کوئی شخص اپنی ذہانت اور ہوشیاری کی وجہ سے کچھ زائد روپیہ کما لیتا ہے اور خطرہ ہے کہ اُس کا خاندان غرباء کے راستہ میں روک بن کر کھڑا ہو جائے تو شریعت اُس کے مرنے کے ساتھ ہی اُس کی تمام جائداد اس کے ورثاء میں تقسیم کر دیتی ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہے اور اُس کے دس بیٹے ہیں تو اس کے مرنے کے بعد ہر ایک کو دس دس لاکھ روپیہ مل جائے گا اور اگر پھر ان میں سے ہر ایک کے دس دس لڑکے ہوں تو وہ دس لاکھ ایک ایک لاکھ میں تقسیم ہو جائے گا اور تیسری نسل میں وہ دس دس ہزار روپیہ تک آ جائے گا۔ گویا زیادہ سے زیادہ تین چار نسلوں میں بڑے سے بڑے تاجر کا بھی تمام روپیہ ختم ہو جائے گا اورایک بلاک غرباء کے راستہ میں کبھی کھڑا نہیں ہوگا۔ تقسیم ورثہ صرف وقف کی صورت میں روکی جا سکتی ہے مگر جس نے روپیہ کما کر غرباء اور رفاہِ عام کیلئے جائداد وقف کر دینی ہو وہ ناجائز طور پر روپیہ کمائے گا ہی کیوں۔
اِن احکام پر اگر عمل کیا جائے تو لازماً جو روپیہ بھی زائد آئے گا یا وہ حکومت کے پاس چلا جائے گا یا وہ لوگوں کے پاس چلا جائے گا اور یا پھر اولاد میں بٹ جائے گا بہرحال کوئی شخص بڑا امیر نہیں رہے گا۔ اگر کوئی خود امیر ہو تو کوئی خاندان ایسا نہیں رہے گا جو مستقل طور پر اپنی خاندانی وجاہت یا اپنے خاندانی رُعب کی وجہ سے مُلک کے غرباء کوغلامی کی زنجیروں میں جکڑ سکے۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اِن احکام پر پوری طرح عمل نہیں کیا۔ زکوٰۃ کا حکم موجود ہے مگر وہ زکوٰۃ نہیں دیتے، اِسراف کے تمام طریقوں کو ناجائز قرار دیا گیا ہے مگر وہ اسراف سے باز نہیں آتے، ورثہ کا حکم دیا گیا ہے مگر وہ ورثہ کے احکام پر عمل نہیں کرتے لیکن پھر بھی چونکہ کچھ نہ کچھ عمل ہوتا ہے اس لئے اسلامی ممالک میں امیروں اور غریبوں کا وہ فرق نہیں ہے جو دوسرے ممالک میں پایا جاتا ہے مگر ان تدابیر سے بھی پورا علاج نہیں ہوتا۔ ہو سکتا تھا کہ جو روپیہ حکومت کے پاس آئے وہ پھر امراء ہی کی طرف منتقل ہو جائے اور وہ دوبارہ اُسے اپنی طرف کھینچ لیں۔ قرآن کریم نے اِس کا بھی علاج بتایا ہے چنانچہ اُس نے اُس روپیہ پر جو حکومت کے پاس آئے کئی قسم کی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
حکومت کے روپیہ پر تصرف کہ وہ امراء کو طاقت دینے کیلئے خرچ نہ ہو
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۲۶؎ فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو اِردگرد کی فتوحات کے ذریعہ جو روپیہ دیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور اُس کے رسول کے لئے ہے اور قرابت والوں کے لئے ہے اور یتامی اور مساکین کیلئے ہے اور اُن مسافروں کے لئے ہے جو علوم پھیلانے اور اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے دنیا کے مختلف ممالک میں پھر رہے ہوتے ہیں اور ہم نے یہ احکام تمہیں اِس لئے دیئے ہیں تا کہ یہ روپیہ پھر امیروں کے پاس نہ چلا جائے اور اُن ہی کے حلقہ میں چکر نہ کھانے لگے۔ اِن آیات پر غور کرو اور دیکھو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے غرباء کے حقوق کی حفاظت کی ہے اور اسلامی اقتصاد کی بنیادوں کوانتہائی طور پر مضبوط کر دیا ہے۔ فرماتا ہے ہم نے یہ اسلامی اقتصادی نظام اس لئے قائم کیا ہے تا کہ اقتصادی حالت کو کوئی دھکّا نہ لگے۔ اگر ہم آزادی دے دیتے اور اپنی طرف سے حقوق مقرر نہ کرتے تو پھر یہ اموال امراء کی طرف منتقل ہو جاتے اور غرباء ویسے ہی خستہ حال رہتے جیسے پہلے تھے۔ پس ہم نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ وہ روپیہ جو حکومت کے قبضہ میں آئے پھر امیروں کے پاس ہی نہ چلا جائے۔ اِس حکم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حکومت کے اموال کو غرباء اور اُن لوگوں کیلئے جن کی ترقی کے راستہ میں روکیں حائل تھیں مخصوص کر دیا ہے۔
یہاں اللہ اور رسول کا جو حق مقرر کیا گیاہے درحقیقت اِس سے مراد بھی غرباء ہی ہیں۔ اللہ اور اُس کے رسول کانام صرف اِس لئے لیا گیاہے کہ کبھی حکومت کو اِس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ عبادت گاہیں بنائے، کبھی حکومت کو اِس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ مدرسے بنائے، کبھی حکومت کو اِس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ہسپتال بنائے۔ اگر خالی غرباء کے حقوق کا ہی ذکر ہوتا تو جب کبھی حکومت اِس روپیہ سے اِس قسم کے کام کرنے لگتی اُس وقت لوگ اس پر اعتراض کرتے کہ تم کو کیاحق ہے کہ اس روپیہ سے عبادت گاہیں بنائو یا شفاخانہ بنائو یا سڑکیں بنائو یا سکول بنائو یہ تو صرف غرباء کے کھانے، پینے، پہننے پر ہی خرچ ہونا چاہئے۔ پس اِس نقص کے ازالہ کے لئے اللہ اور اُس کے رسول کے الفاظ رکھ دیئے گئے ہیں۔ ورنہ یہ تو ظاہر ہے کہ اللہ کا حق بھی غرباء کو جائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ تو روپیہ لینے کیلئے نہیں آتا اور رسول کا حق بھی غرباء کو جائے گا کیونکہ رسول تو ایک فانی وجود ہوتا ہے۔ اُس کے نام سے مراد اُس کا قائم کردہ نظام ہی ہو سکتا ہے۔
پھر ذِی الْقُرْبٰی کا جو حق بیان کیا گیا ہے اُس سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار نہیں ہیں جیسا کہ بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ ذِی الْقُرْبٰی کے الفاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اُن کا بھی اِس روپیہ میں حق ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صاف فرما دیا ہے کہ سادات کیلئے صدقہ یا زکوٰۃ کا روپیہ لینا حرام ہے۔۲۷؎ درحقیقت اِس سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی رشتہ دار نہیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو خدا تعالیٰ کی عبادت اور اُس کے دین کی خدمت میں دن رات مشغول ہوں اور اِس طرح خدا اور اُس کے رسول کے عیال میں داخل ہو گئے ہوں۔ گویا ذِی الْقُرْبٰیکہہ کر بتایا کہ وہ لوگ جو دین کی خدمت پر لگے ہوئے ہوں اُن کو نکمّا وجود نہیں سمجھنا چاہئے وہ خدا تعالیٰ کا قُرب چاہنے والے اور دنیا کو خدا تعالیٰ کے قُرب میں بڑھانے والے ہیں اُن پر بھی یہ روپیہ خرچ کیا جا سکتا ہے۔ پس وہ لوگ جو قرآن پڑھانے والے ہوں یا حدیث پڑھانے والے ہوں یا دین کی اشاعت کا کام کرنے والے ہوں اِس آیت کے مطابق اُن پر بھی یہ روپیہ خرچ کیا جا سکتا ہے کیونکہ جب وہ دن رات دینی اور مذہبی کاموں میں مشغول رہیں گے تو یہ لازمی بات ہے کہ وہ اپنے لئے دنیاکما نہیں سکیں گے۔ ایسی صورت میں اگر حکومت کی طرف سے اُن پر روپیہ خرچ نہیں کیا جائے گا تو دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہوگی۔ یا تو اُن کے اخلاق بگڑ جائیں گے اور وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہونگے اور یا پھر اِس خدمت کو ہی ترک کر دیں گے اور دوسرے لوگوں کی طرح دنیا کمانے میں لگ جائیں گے حالانکہ خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ صاف طور پر حکم موجود ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی موجود رہنی چاہئے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کئے ہوئے ہو اور رات دن دین کی اشاعت کا کام سرانجام دے رہی ہو۔ پس ذِی الْقُرْبٰی سے مرادخدمت دین کا کام کرنے والے لوگ ہیں اور اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ جہاں اِس روپیہ میں غرباء کا حق ہے وہاں ان لوگوں کا بھی حق ہے اور حکومت کا فرض ہے کہ اُن پر روپیہ صرف کرے۔
پھر فرمایا کہ ہماری اِس نصیحت کو یاد رکھنا کہ یہ مال امراء کی طرف پھر منتقل نہ ہونے پائے۔ آخر میں کہہ کر امراء کو سمجھایا کہ دیکھو تم اِس روپیہ کو کسی طرح حاصل کرنے کی کوشش نہ کرنا کہ تمہارا فائدہ اِسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے ماتحت اپنی زندگی بسر کرو۔
اسلامی حکومت کا ہر شخص کیلئے روٹی کپڑے کاانتظام کرنا
اِسلامی حکومت نے اِن احکام پر اِس طرح عمل کیا کہ جب وہ اموال کی مالک ہوئی تو اُس نے ہر ایک شخص کی روٹی کپڑے کا انتظام کیا۔ چنانچہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب نظام مکمل ہوا تو اُس وقت اسلامی تعلیم کے ماتحت ہر فردوبشر کے لئے روٹی اور کپڑا مہیا کرنا حکومت کے ذمہ تھا اور وہ اپنے اِس فرض کو پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا کرتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِس غرض کیلئے مردم شماری کا طریق جاری کیا اور رجسٹرات کھولے جن میں تمام لوگوں کے ناموں کا اندراج ہوا کرتا تھا۔ یورپین مصنّفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پہلی مردم شماری حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کی اور اُنہوں نے ہی رجسٹرات کا طریق جاری کیا۔ اِس مردم شماری کی وجہ یہی تھی کہ ہر شخص کو روٹی کپڑا دیا جاتا تھا اور حکومت کیلئے ضروری تھا کہ وہ اِس بات کا علم رکھے کہ کتنے لوگ اِس مُلک میں پائے جاتے ہیں۔ آج یہ کہا جاتا ہے کہ سوویٹ رشیا نے غرباء کے کھانے اور اُن کے کپڑے کا انتظام کیا ہے۔ حالانکہ سب سے پہلے اِس قسم کا اقتصادی نظام اسلام نے جاری کیا ہے اور عملی رنگ میںحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہر گائوں، ہر قصبہ اور ہر شہر کے لوگوں کے نام رجسٹر میں درج کئے جاتے تھے، ہر شخص کی بیوی، اُس کے بچوں کے نام اور اُن کی تعداد درج کی جاتی تھی اور پھر ہر شخص کیلئے غذا کی بھی ایک حد مقرر کر دی گئی تھی تا کہ تھوڑا کھانے والے بھی گزارہ کر سکیں اور زیادہ کھانے والے بھی اپنی خواہش کے مطابق کھا سکیں۔
تاریخوں میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابتداء میں جو فیصلے فرمائے اُن میں دودھ پیتے بچوں کا خیال نہیں رکھا گیا تھا اور اُن کو اُس وقت غلّہ وغیرہ کی صورت میں مدد ملنی شروع ہوتی تھی جب مائیں اپنے بچوں کا دودھ چھڑا دیتی تھیں۔ ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لئے گشت لگا رہے تھے کہ ایک خیمہ میں سے کسی بچہ کے رونے کی آواز آئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں ٹھہر گئے۔ مگر بچہ تھا کہ روتا چلا جاتا تھا اور ماں اُسے تھپکیاں دے رہی تھی تا کہ وہ سو جائے۔ جب بہت دیر ہوگئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُس خیمہ کے اندر گئے اور عورت سے کہا کہ تم بچے کو دودھ کیوں نہیں پلاتی، یہ کتنی دیر سے رو رہا ہے؟ اُس عورت نے آپ کو پہچانا نہیں اُس نے سمجھا کہ کوئی عام شخص ہے چنانچہ اُس نے جواب میںکہا کہ تمہیں معلوم نہیں عمر نے فیصلہ کر دیا ہے کہ دودھ پینے والے بچہ کو غذا نہ ملے ہم غریب ہیں ہمارا گزارہ تنگی سے ہوتا ہے مَیں نے اِس بچے کا دودھ چھڑا دیا ہے تا کہ بیت المال سے اِس کا غلّہ بھی مل سکے۔ اب اگر یہ روتا ہے تو روئے عمرؓ کی جان کو جس نے ایسا قانون بنایا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُسی وقت واپس آئے اور راستہ میں نہایت غم سے کہتے جاتے تھے کہ عمر! عمر!! معلوم نہیں تو نے اِس قانون سے کتنے عرب بچوں کا دودھ چھڑوا کر آئندہ نسل کو کمزور کر دیا ہے اِن سب کا گناہ اَب تیرے ذمہ ہے۔ یہ کہتے ہوئے آپ سٹور میں آئے دروازہ کھولا اور ایک بوری آٹے کی اپنی پیٹھ پر اُٹھا لی۔ کسی شخص نے کہا کہ لائیے مَیں اِس بوری کو اُٹھا لیتاہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ نہیں! غلطی میری ہے اور اب ضروری ہے کہ اس کا خمیازہ بھی مَیں ہی بھگتوں۔ چنانچہ وہ بوری آٹے کی اُنہوں نے اِس عورت کو پہنچائی اور دوسرے ہی دن حُکم دیا کہ جس دن بچہ پیدا ہو اُسی دن سے اُس کیلئے غلّہ مقرر کیا جائے کیونکہ اُس کی ماں جو اُس کو دودھ پلاتی ہے زیادہ غذا کی محتاج ہے۔
قرآن مجید کا حکم کہ ہر فردوبشر کی ضرورت کو پوراکیا جائے
اَب دیکھو! یہ انتظام اسلام نے شروع دن سے ہی کیا ہے بلکہ قرآن کریم سے تو پتہ لگتا ہے کہ اِس انتظام کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کے زمانہ سے نہیں ہوئی بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہوئی ہے۔ چنانچہ پہلی وحی جو حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوئی اُس میں یہی حکم ہے کہ ہم تمہیں ایک جنت میں رکھتے ہیں۔ جس کے متعلق ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ ۔۲۸؎ یعنی اے آدم! ہم نے تمہارے جنت میں رکھے جانے کا فیصلہ کر دیا ہیـ تم اُس میں بھوکے نہیں رہوگے تم اُس میں ننگے نہیں رہوگے۔ تم اُس میں پیاسے نہیں رہوگے اور تم اُس میں رہنے کی وجہ سے دھوپ میں نہیں پھروگے۔ لوگ اِس آیت سے غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اِس سے مراد اُخروی جنت ہے اور آیت کا یہ مطلب ہے کہ جب انسان جنت میں جائے گا تو وہاں اس کا یہ حال ہوگا۔ حالانکہ قرآن کریم سے صاف ظاہر ہے کہ آدم اِسی دنیا میں پیدا ہوئے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۲۹؎ مَیں دنیا میں اپنا خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں اور دنیا میں جو شخص پیدا ہوتا ہے وہ بھوکا بھی ہو سکتا ہے، وہ پیاسا بھی ہو سکتا ہے، وہ ننگا بھی ہو سکتا ہے، وہ دھوپ میں بھی پھر سکتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ دنیا میں تو پیدا ہو اور بھوک اور پیاس اور لباس اور مکان کی ضرورت اُسے نہ ہو اور جب کہ یہ آیت اِسی دنیا کے متعلق ہے تو لازماً ہمیں اِس کے کوئی اَور معنی کرنے پڑیں گے اور وہ معنی یہی ہیں کہ ہم نے اپنا پہلا قانون جو دنیا میں نازل کیا اُس میں ہم نے آدم سے یہ کہہ دیا تھا کہ ہم ایک ایسا قانون تمہیں دیتے ہیں کہ تجھ کو اور تیری اُمت کو جنت میں داخل کر دے گا اور وہ قانون یہ ہے کہ ہر ایک کے کھانے پینے لباس اور مکان کا انتظام کیا جائے۔ آئندہ تم میں سے کوئی شخص بھوکا نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ سوسائٹی کا کام ہونا چاہئے کہ ہر ایک کے لئے غذا مہیا کرے۔ آئندہ تم میں سے کوئی شخص ننگا نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ سوسائٹی کا کام ہونا چاہئے کہ ہر ایک کیلئے کپڑا مہیا کرے۔ آئندہ تم میں سے کوئی شخص پیاسا نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ سوسائٹی کا کام ہونا چاہئے کہ وہ تالابوں اور کنووں وغیرہ کا انتظام کرے۔ آئندہ تم میں سے کوئی شخص بغیر مکان کے نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ سوسائٹی کا کام ہونا چاہئے کہ وہ ہر ایک کے لئے مکان مہیا کرے۔ یہ وہ پہلی وحی ہے جو دنیا میںنازل کی گئی اور یہ وہ پہلا تمدّن ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ دنیا میں قائم کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے دنیا پر اِس حقیقت کو ظاہر فرمایا کہ خدا سب کا خدا ہے وہ امیروں کا بھی خدا ہے، وہ غریبوں کا بھی خدا ہے۔ کمزوروں کا بھی خدا ہے اور طاقتوروں کا بھی خدا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ دنیا کا ایک طبقہ تو خوشحالی میں اپنی زندگی بسر کرے اور دوسرا روٹی اور کپڑے کیلئے ترستا رہے۔
یہی وہ نظام تھا جو اسلام نے اپنے زمانہ میں دوبارہ قائم کیا۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ نظام جلدی مٹ گیا مگر اِس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ دنیا میں جتنے بڑے کام ہیں اُن میں بھی یہی قانون پایا جاتا ہے کہ وہ کئی لہروں سے اپنی بلندی کو پہنچتے ہیں۔ ایک دفعہ دنیا میں وہ قائم ہو جاتے ہیں تو کچھ عرصہ کے بعد پُرانے رسم و رواج کی وجہ سے مٹ جاتے ہیں مگر دماغوں میں ان کی یاد قائم رہ جاتی ہے اور ایک اچھا بیج دنیا میں بویا جاتا ہے اور ہر شریف اور منصف مزاج انسان تسلیم کرتا ہے کہ وہ چیز اچھی تھی مجھے دوبارہ اس چیزکو دنیا میں واپس لانا چاہئے۔ پس گو یہ نظام ایک دفعہ مٹ گیا مگر اب اُسی نظام کو دوبارہ احمدیت دنیا میں قائم کرنا چاہتی ہے۔ وہ ایک طرف حد سے زیادہ دولت کے اجتماع کو روکے گی دوسری طرف غرباء کی ترقی کے سامان کرے گی اور تیسری طرف ہر شخص کے لئے کھانے پینے کپڑے اور مکان کا انتظام کرے گی۔
خلاصہ یہ کہ اسلام کا اقتصادی نظام مبنی ہے:-
(۱) دولت جمع کرنے کے خلاف وعظ پر۔
(۲) دولت حد سے زیادہ جمع کرنے کے محرکات کو روکنے پر۔
(۳) جمع شدہ دولت کو جلد سے جلد بانٹ دینے یاکم کر دینے پر۔
(۴) حکومت کے روپیہ کو غرباء اور کمزوروں پر خرچ کرنے اور اُن کی ضروریات کو مہیا کرنے پر۔ اور یہی نظام حقیقی اور مکمل ہے کیونکہ اس سے
(۱) اُخروی زندگی کیلئے سامان بہم پہنچانے کا موقع ملتا ہے۔
(۲) سادہ اور مفید زندگی کی عادت پڑتی ہے۔
(۳) جبر کا اس میں دخل نہیں ہے۔
(۴) انفرادی قابلیت کو کُچلا نہیں گیا۔
(۵) باوجود اِس کے غرباء اور کمزوروں کے آرام اور اُن کی ترقی کاسامان مہیا کیا گیا ہے۔
(۶) اور پھر اس سے دشمنیوں کی بنیاد بھی نہیں پڑتی۔
کمیونزم
اِس نظام کے مقابلہ میں چونکہ کمیونزم کا نظام کھڑا کیا گیا ہے اور اِس پر خاص طور پر زور دیا جاتا ہے اِس لئے میں اَب کچھ باتیں کمیونزم کے متعلق کہنا چاہتا ہوں۔
کمیونزم کا دعویٰ ہے کہ:
اوّل ہر ایک سے اُس کی قابلیت کے مطابق کام لیا جائے۔
دوم ہر ایک کو اُس کی ضرورت کے مطابق خرچ دیا جائے۔
سوم باقی روپیہ حکومت کے پاس رعایا کے وکیل (TRUSTEE)کی صورت میں جمع رہے۔
اُن کی بنیاد اس امر پر ہے کہ تمام انسانوں میں مساوات ہونی چاہئے کیونکہ اگر ہر شخص کام کرتا ہے تو ہر شخص مساوی بدلہ کا مستحق ہے اور کوئی شخص زائد دولت اپنے پاس رکھنے کا حقدار نہیں اوراگر کسی شخص کے پاس زائد دولت ہو تو وہ اُس سے لے لینی چاہئے۔ یہ اُس کا اقتصادی نظریہ ہے۔اِس نظریہ کا ایک سیاسی ماحول بھی ہے مگر چونکہ میرا مضمون سیاسی نہیں بلکہ اقتصادی ہے اِس لئے مَیں اُسے نہیں چھوتا۔
جہاں تک نتیجہ کا سوال ہے یہ بات بالکل درست ہے کہ دنیا میں ہر انسان کو روٹی ملنی چاہئے، ہر انسان کو کپڑا ملنا چاہئے، ہر انسان کو رہائش کیلئے مکان ملنا چاہئے، ہر انسان کے علاج کا سامان ہونا چاہئے، ہر انسان کی تعلیم کی صورت ہونی چاہئے۔یعنی بنی نوع انسان کی ابتدائی حقیقی ضرورتیں بہرحال پوری ہونی چاہئیں اور کوئی شخص بھوکا یا پیاسا یا ننگا نہیں رہنا چاہئے۔اِسی طرح کوئی شخص ایسا نہیں ہونا چاہئے جو بغیر مکان کے ہو، جس کی تعلیم کی کوئی صورت نہ ہو اور جس کے بیمار ہونے کی صورت میں اُس کے علاج کا کوئی سامان موجود نہ ہو۔ پس جہاں تک اِس نتیجہ کا سوال ہے اسلام کی تعلیم کو اس سے کُلّی طور پر اتفاق ہے۔ وہ سَو فیصدی اِس بات پر متفق ہے کہ پبلک کا اقتصادی نظام ایسا ہی ہونا چاہئے اور اسلام کے نزدیک بھی وہی حکومت صحیح معنوں میںحکومت کہلا سکتی ہے جو ہر ایک کیلئے روٹی مہیا کرے، ہر ایک کیلئے کپڑا مہیا کرے، ہر ایک کیلئے مکان مہیا کرے، ہر ایک کی تعلیم کا انتظام کرے اور ہر ایک کے علاج کاانتظام کرے۔ پس اس حد تک اسلام کمیونزم کے نظریہ سے بالکل متفق ہے گو یہ فرق ضرور ہوگا کہ اگرکوئی شخص اپنی قابلیت کا اظہار کرنا چاہے تو کمیونزم کے ماتحت وہ نہیں کر سکتا کیونکہ اِس میں انفرادی جدوجہد کا راستہ بالکل بند کر دیا گیا ہے۔
اِسلام اور کمیونزم میں ایک فرق
درحقیقت انفرادی آزادی ایک طرف انسانی قابلیت کی نشوونما کے لئے ضروری ہوتی ہے
اور دوسری طرف موت کے بعد کی اعلیٰ زندگی کا دارومدار اقتصادیات میں انفرادی آزادی کے قیام پر ہے مگرکمیونزم انفرادی جدوجہد کا راستہ بند کرتی اور حُریتِ شخصی کو مٹا دیتی ہے جو ایک بہت بڑانقص ہے۔ یہ اختلاف ہے جو اسلام اور کمیونزم میں پایا جاتا ہے۔ مگر بہرحال نتیجہ سے اُسے کوئی اختلاف نہیں۔
روس نے اِس نظریہ پر عمل کر کے جو اقتصادی پروگرام بنایا ہے اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اُس نے اِس میں خاص ترقی کی ہے اور وہاں کے عام لوگوں کی مالی حالت یا یوں کہو (گو کمیونسٹ اِس سے متفق نہ ہوں) کہ یورپین حصہ کی مالی حالت آگے سے اچھی ہے اور ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہاں غرباء کو روٹی ملی، کپڑا ملا، مکان ملا، علاج کیلئے دوائیں میسر آئیں اور تعلیم کیلئے مدرسے اُن کے لئے کھولے گئے۔ پس جہاں تک روس کی کمیونسٹ پارٹی کے اِس نتیجہ کا تعلق ہے اسلامی روحِ اقتصادیات اِس پر خوش ہی ہوگی لیکن جیسا کہ اوپر کے بیان سے ظاہر ہے ذرائع اور بعض نتائج سے اسلام موافق نہیں ہو سکتا۔
کمیونزم پر مذہبی لحاظ سے بعض اعتراضات
مَیں چونکہ اسلام کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ اِس لئے سب
سے پہلے مَیں کمیونسٹ اقتصادی نظام کے اُن حصوںکو لیتا ہوں جو مذہب پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
سب سے پہلا اعتراض جو کمیونسٹ نظام پر مجھے اور ہر موت کے بعد کی زندگی کے ماننے والے کو ہونا چاہئے یہ ہے کہ اس میں شخصی طوعی جدوجہد جو زندگی کے مختلف شعبوں میں ظاہر ہو کر انسان کو اُخروی زندگی میں مستحق ثواب بناتی ہے اُس کے لئے بہت ہی کم موقع باقی رکھا گیا ہے۔ بجائے اِس کے کہ اُس سے ضروری حصہ دولت کا لے کر باقی حصہ کے خرچ کو اُس پر چھوڑا جائے کہ وہ اُسے جس رنگ میں چاہے صرف کرے۔ اُس کی خوراک اور لباس کے سِوا اُس کے پاس کچھ چھوڑا ہی نہیں گیا کہ وہ اپنی اُخروی زندگی کے لئے بھی کوئی جدوجہد کرے۔ وہ روٹی کھا سکتا ہے، وہ کپڑاپہن سکتا ہے، وہ رہائش کے لئے مکان لے سکتا ہے، وہ اپنا علاج کرا سکتا ہے، وہ اپنی تعلیم سے بے فکر ہو سکتا ہے مگر اُخروی زندگی کے لئے اُس کے پاس ایک پیسہ بھی چھوڑا نہیں جاتا۔ گویا اُس کی چالیس پچاس سالہ زندگی کی تو فکر کی گئی ہے مگر اُس عقیدہ کے رو سے جو غیر متناہی زندگی آنے والی تھی اُس کو یونہی چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جسے کوئی شخص جو مذہب کی سچائی پر یقین رکھتا ہو اور اُس کے احکام پر عمل کرنا اپنی نجات کے لئے ضروری سمجھتا ہو ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ مثلاًاسلام اُن مذاہب میں سے ہے جو اپنے پیروؤں کو یہ حکم دیتا ہے کہ جائو اور دنیا میں تبلیغ کرو، جائو اور لوگوں کو اپنے اندر شامل کرو کیونکہ دنیا کی نجات اسلام سے وابستہ ہے۔ وہ شخص جو اسلام سے باہر رہے گا نجات سے محروم رہے گا اور اُخروی زندگی میں ایک مجرم کی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا۔ تم ایک مسلمان کو یہ عقیدہ رکھنے کی وجہ سے پاگل کہہ لو، بے وقوف کہہ لو، جاہل کہہ لوبہرحال جب تک وہ اسلام کی سچائی پر یقین رکھتا ہے، جب تک وہ بنی نوع انسان کی نجات صرف اسلام میں داخل ہونے پر ہی منحصر سمجھتا ہے اُس وقت تک وہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ مَیں اپنے ہر اُس بھائی کو جو اسلام میں داخل نہیں اسلام کاپیغام پہنچائوں، اُسے تبلیغ کروں اور اُس پر اسلام کے محاسن اِس عمدگی سے ظاہر کروں کہ وہ بھی اسلام میں داخل ہو جائے۔ـ آخر اگر یہ بنی نوع انسان کا خیر خواہ ہے، اگر یہ اُن کی بھلائی اورعاقبت کی بہتری کا خواہشمند ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ اُن کے سامنے اس پیغام کو پیش نہ کرے جو اُس کے عقیدہ کی رو سے انسان کی دائمی حیات کے لئے ضروری ہے۔ اگر یہ اپنے دوست کے متعلق پسند نہیں کرتا کہ وہ گڑھے میں جا گرے، اگر یہ اپنے دوست کے متعلق پسند نہیں کرتا کہ دشمن اُسے گولی کا شکار بنائے تو یہ کس طرح پسند کر سکتا ہے کہ اَبدالآباد کی زندگی میں وہ دوزخ میں ڈالا جائے اور خدا تعالیٰ کی جنت اور اُس کے قُرب اور اُس کی رضامندی سے محروم ہو جائے۔ چاہے تم کچھ کہہ لو ایک مذہب سے وابستہ انسان کی انتہائی آرزو یہی ہوگی کہ وہ اپنے بھائی کی اعتقادی اور عملی حالت کو درست کرے لیکن کمیونسٹ نظام میں اِس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اُس کی جدوجہد کو اوّل تو سیاسی طور پر روکا جائے گا چنانچہ ہمارا اپنا تجربہ اِس کی تصدیق کرتا ہے۔ مَیںنے ایک احمدی مبلّغ روس میں بھجوایا مگر بجائے اِس کے کہ اُسے تبلیغ کی اجازت دی جاتی اُسے قید کیا گیا۔ اُسے لوہے کے تختوں کے ساتھ نہایت سختی کے ساتھ باندھ کر اور کئی کئی دن بھوکا اور پیاسا رکھ کر مارا پیٹا گیا اور اُسے مجبور کیا گیا کہ وہ سؤر کا گوشت کھائے اور یہ مظالم برابر ایک لمبے عرصہ تک اُس پر ہوتے چلے گئے۔ (حضور نے اس موقع پر مولوی ظہورحسین صاحب مجاہد روس کو کھڑے ہونے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا) یہ وہ صاحب ہیں جنہیں مبلّغ بنا کر بھیجا گیا تھا۔ دو سال دو ماہ کم اِن کو تاشقند، عشق آباد اور ماسکو کے قید خانوں میں رکھا گیا اور لوہے کے تختوں کے ساتھ باندھ باندھ کر مارا گیا اور اِنہیں بار بار مجبور کیاگیا کہ سؤر کا گوشت کھائو یہاں تک کہ اِن متواتر مظالم کے نتیجہ میں اِن کی دماغی حالت خراب ہوگئی۔ اِس پر وہ اِنہیں ایران کی سرحد پر لا کر چھوڑ گئے۔ وہاں کے برطانوی سفیر نے گورنمنٹ آف اِنڈیا کو اطلاع دی اور گورنمنٹ آف انڈیا نے مجھے تار دیا کہ آپ کے ایک مبلّغ کو روسی حکومت ایران کی سرحد پر لا کر چھوڑ گئی ہے۔ چنانچہ مَیں نے گورنمنٹ کو لکھا کہ اِس مبلّغ کو آپ ہمارے پاس بھجوا دیں اور آپ کا جس قدر خرچ ہو وہ ہم سے وصول کریں۔ اِس پر گورنمنٹ نے اِن کو ہندوستان پہنچا دیا۔ پس یہ وہ ہمارے مبلّغ ہیں جنہیں دو ماہ کم دو سال شدید ترین عذابوں میں مبتلا رکھا گیا اور کسی ایک مرحلہ پر بھی اِن کو مذہبی تبلیغ کی اجازت روس میں نہ دی گئی۔
پس اوّل تو وہ سیاسی طور پر تبلیغ کی اجازت نہیں دیتے لیکن چونکہ یہ اقتصادی مضمون ہے اِس لئے اسے نظر انداز بھی کر دو تو سوال یہ ہے کہ ایک اقلیت اکثریت کے مذہب کو بدلنے کے لئے کس قدر قربانی کے بعد لٹریچر وغیرہ مہیا کر سکتی ہے۔ مثلاً ہماری جماعت ہی کو لے لو۔ ہم اقلیت ہیں مگر دنیا میں اسلام کو پھیلانا چاہتے ہیں۔ ہمارے آدمی اگر روس میں تبلیغ کرنے کیلئے جاتے ہیں تو ہر شخص یہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ۱۷ کروڑ رشین کو مسلمان بنانے کے لئے کتنے کثیر لٹریچر کی ضرورت ہے اور کتنا مال ہے جو اِس جدوجہد پر خرچ آ سکتا ہے۔ ہماری جماعت اِس جدوجہد کو اُسی صورت میں جاری رکھ سکتی ہے جب اِس کی کمائی اِس سے پوری نہ چھین لی جائے اور کھانے پینے اور پہننے کے علاوہ بھی اِس کے پاس روپیہ ہو تا وہ اس سے اِن اخراجات کو پورا کر سکے جن کو وہ اپنی اُخروی بھلائی کیلئے ضروری سمجھتی ہے۔ لیکن کمیونزم کا اقتصادی نظام تو کسی کے پاس زائد روپیہ رہنے ہی نہیں دیتا کیونکہ وہ اس جدوجہد کو کام ہی نہیں سمجھتا۔ اس کے نزدیک مادی کام کام ہیں لیکن مذہبی کام کام نہیں ہیں۔ وہ مشین چلانے کو کام سمجھتا ہے، وہ ہل چلانے کو کام سمجھتا ہے۔ وہ کارخانے میں کام کرنے کو کام سمجھتا ہے لیکن خدائے واحد کے نام کی بلندی اور اس کے دین کی اشاعت کے کام کو وہ کام نہیں سمجھتا کیونکہ وہ الہام کو نہیں مانتا۔ وہ شریعت کو نہیں مانتا۔ـ وہ مذہب کو نہیں مانتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ مذہبی لوگ پاگل ہیں اور اپنے وقت کو ضائع کر رہے ہیں۔ اس لئے اِن مبلّغوں کی خوراک یا لباس یا رہائش وغیرہ کی حکومت ذمہ دار نہیں ہوسکتی۔ حکومت اُن کی اسی صورت میں ذمہ دار ہو سکتی ہے جب وہ کام کریں جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ مادی کام کریں۔ مذہبی اور روحانی کاموں سے دست بردار ہو جائیں۔ پس کمیونزم کے ماتحت اسلام روس میں اپنی اس جدوجہد کو جاری ہی نہیں کر سکتا۔ جاری رکھنا اورمسلسل جاری رکھتے چلے جانا تو الگ رہا۔ ایک مسلمان کے نزدیک خواہ وہ بھوکا رہے۔ مگر اُخروی زندگی درست ہو جائے تو وہ کامیاب ہے اور اپنے بھائی کے متعلق اس کا یہ نظریہ ہے کہ اگر دنیا بھر کی دولت اس کے پاس ہو لیکن اُخروی زندگی اُس کو نہ ملے۔ ہدایت اُس کو میسر نہ آئے خدا تعالیٰ کی رضا اس کو حاصل نہ ہو تو وہ ناکام ہے۔
جس شخص کا یہ عقیدہ ہو اس کی خیر خواہی اُسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے گمراہ بھائی کی اُخروی زندگی کیلئے سامان مہیا کرے۔ مگر اُس سے اُس کا سارا مال لے لیا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ ہم وطن کی جان بچاتے ہیں اور اُس کی روح کو مرنے دیا جاتا ہے۔ جہاں تک روٹی اور کپڑا اور مکان مہیا کرنے کا سوال تھا۔ جہاں تک تعلیم مہیا کرنے کا سوال تھا۔ جہاں تک علاج مہیا کرنے کا سوال تھا ہم اسلامی تعلیم کے ماتحت اُن سے متفق تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ اس قدر ٹیکس ضرور لگنا چاہئے کہ دنیا میں ہر فرد کو یہ تمام ضروریات میسر آجائیں۔ مگر یہاں تو دوسرا نقطہ یہ بھی ہے کہ اپنی روٹی کپڑے سے زائد سب کچھ حکومت کو دے دو اور اپنے عقیدہ کی اشاعت میں کوئی حصہ نہ لو۔ گویا ہم نے تو اُن کی تائید کی اور اس لئے کہ ہمارا مذہب بھی یہی تعلیم دیتا ہے۔ مگر انہوں نے بجائے مذہب کا شکرگزار ہونے کے اور اُس کی اشاعت کی اجازت دینے کے یہ کہہ دیا کہ ہم خدا اور اس کے رسول کا نام پھیلانے کی تمہیں اپنے مُلک میں اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ بیکاری اور قوم پر بوجھ بن کر بیٹھ جانا ہے اگر کمیونسٹ یہ کہتے کہ ہم مذہب کے مخالف ہیں اور اُسے غیرضروری قرار دیتے ہیں تو گو پھر بھی ہمیں اختلاف ہوتا۔ مگر ہمیں افسوس نہ ہوتا۔ ہم سمجھتے کہ جو کچھ ان کا دل میں عقیدہ ہے اسی کو اپنی زبان سے ظاہر کر رہے ہیں۔ مگر ہمیں افسوس ہے تو یہ کہ کمیونسٹ یہ بات ظاہر نہیں کرتے۔ وہ کھلے بندوں یہ نہیں کہتے کہ ہم اپنے نظام کے ماتحت تمہارے مذہب کو اپنے مُلک میں پھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے بلکہ وہ گھر کے پچھلے دروازہ سے گھر میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر مذہب کے ماننے والے اُس وقت اُن کی اس چالاکی سے واقف ہوتے ہیں جب کہ وہ اپنی شخصیت کھو چکے ہوتے ہیں اور کمیونزم سے ان کی ہمدردی اور محبت اتنی بڑھ چکی ہوتی ہے کہ اُن کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے۔کمیونزم اگر کھلے بندوں کہے کہ ہم اُخروی زندگی کو کوئی وقعت نہیں دیتے ہم اُس کے پر چارک کے لئے کوئی سامان تمہارے پاس نہیں چھوڑنا چاہتے تو آنکھوں کھلے لوگ اُس میں داخل ہوں۔ مگر دوسرے ممالک میں اِس حصہ کو پوری طرح مخفی رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کمیونزم صرف ایک اقتصادی نظام ہے مذہب سے اِس کا کوئی ٹکراؤ نہیں۔ حالانکہ مذہب نام ہے تبلیغ کرنے کا، مذہب نام ہے ایک دوسرے کو خداتعالیٰ کے احکام پہنچانے کا خواہ یہ تقریر کے ذریعہ ہو یا تحریر کے ذریعہ ہو،لٹریچر کے ذریعہ ہو یاکتابوں کے ذریعہ ہو مگر کمیونزم تو کسی انسان کے پاس کوئی زائد روپیہ چھوڑتا ہی نہیں۔ پھر ایک مذہبی ٹریکٹ کس طرح چھپوائے اور کتابیں کس طرح مُلک کے گوشہ گوشہ میں پھیلائے۔ اِس پابندی کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مذہب کی اشاعت رُک جائے اورلامذہبیت کا دَور دَورہ ہو جائے۔
دین کے لئے زندگی وقف کرنے میں کمیونسٹ نظام کی روکیں
اب اس سوال کا دوسرا پہلو لے لو ہر مسلمان یہ کہتا ہے کہ مَیں روپیہ نہیں مانگتا لیکن میں اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف
کردیتا ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ میں سارے روس میں پھروں گا اور اپنے خیالات اُن لوگوں پر ظاہر کروں گا۔ میں گاؤں بہ گاؤں اور قصبہ بہ قصبہ اور شہر بہ شہر جاؤں گااور لوگوں کو اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کروں گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کمیونسٹ گورنمنٹ ایک مسلمان کو اپنی زندگی وقف کرنے اور اسلام کی اشاعت کے لئے اپنے مُلک میں پھرنے کی اجازت دے گی۔ یا جبراً اُسے اس کام سے روکے گی اور اُسے جیل کی تنگ و تاریک کوٹھٹریوں میں محبوس کر دے گی۔ یقینا اس کا ایک ہی جواب ہے کمیونسٹ گورنمنٹ اُسے جبراً اس کام سے روکے گی اُسے دین اور مذہب کا کام نہیں کرنے دے گی۔ اُسے قیدخانہ میں بند کردے گی اور اُسے کہے گی کہ یا تو کوئی اورکام کرو ورنہ یاد رکھو اس قسم کے کام کے ساتھ تمہیں روٹی اور کپڑا نہیں مل سکتا۔ گویا خدا کے لئے میرا اپنی زندگی کو وقف کر دینا ،میرا قرآ ن کی تعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دینا،میراحدیث کی تعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دینا جس کے بغیر میرے عقیدے کی رو سے میری اُخروی زندگی سدھر ہی نہیں سکتی کمیونزم کے نزدیک نکماپن ہے، یہ بے کاری اور وقت کا ضیاع ہے۔ کمیونسٹ حکومت اسلام کی اشاعت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والے کو کہے گی کہ اگر تم نے مذہب کی اشاعت کا کام کیا تو یاد رکھو یا تو تمہیں قید کر دیا جائے گا اور یا تمہاری روٹی اور کپڑا بند کر دیا جائے گا۔حالانکہ قرآن کریم اس قسم کے افراد کی جماعت کو قومی لحاظ سے نہایت ضروری قرار دیتا ہے اور مذہب کو ماننے والے اِس امر کے قائل ہیں کہ ایک حصّہ اُن کے افراد کا پوری طرح مذہبی نظام کے قیام کے لئے فارغ ہونا چاہئے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۳۰؎ یعنی اے مسلمانو! تم میں سے ایک جماعت پورے طور پر مذہبی نگرانی کے لئے دنیوی کاموں سے فارغ ہونی چاہئے اور اس جماعت کے افراد کا یہ کام ہونا چاہئے کہ وہ نیک باتوں کی طرف لوگوں کو بلائیں، عمدہ باتوں کی تعلیم دیں اور بُرے اخلاق سے لوگوں کو روکیں پس اسلامی تعلیم کے ماتحت ایک حصہ کلی طور پر اس غرض کے لئے وقف ہونا چاہئے۔ یہ صحیح بات ہے کہ اسلام زندگی وقف کرنے والوں کو کوئی خاص حقوق نہیں دیتا مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک خاص کام ان کے سپرد کرتا ہے۔ اسلام پادریّت(PRIESTHOOD) کا قائل نہیں مگر وہ مذہبی نظام کا ضرور قائل ہے۔عیسائیت تو جن لوگوں کے سپردتبلیغ کا کام کرتی ہے ان کو دوسروںسے بعض زائد حقوق بھی دے دیتی ہے مگر اسلام کہتا ہے کہ ہم ان لوگوں کو کوئی زائد حق نہیں دیں گے جو دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں گے لیکن یہ ضرو ر ہے کہ زندگی وقف کرنے والے کے سپرد خاص طور پر یہ کام ہو گا کہ وہ اسلام کو پھیلائے اور تبلیغی یا تربیتی نقطۂ نگاہ سے ہر وقت اسلام کی خدمت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑامقصد سمجھے۔ اِس قسم کے لوگوں کی نفی کر کے نظامِ اسلام کبھی باقی نہیں رہ سکتا۔ آخر ایک تفصیلی آئین بغیر اس کے ماہروں اور بغیر اس کے مبلّغوں کے کس طرح چل سکتا ہے۔ اسلام وہ مذہب ہے جو دنیا کے تمام مذاہب میں سے سب سے زیادہ مکمل ہے اور وہ ایک وسیع اور کامل آئین اپنے اندر رکھتا ہے۔ وہ عبادات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ اقتصادیات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ سیاسیات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ آقا اور ملازمین کے حقوق کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ معلّم اور متعلّم کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ میاں اور بیوی کے حقوق کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ تجارت اور لین دین کے معاملات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ ورثہ کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ بین الاقوامی جھگڑوں کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ قضاء کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے غرض ہزاروں قسم کی تعلیمیں اور ہزاروں قسم کے قانون ہیں جو اسلام میں پائے جاتے ہیں اور اُن میں سے ایک ایک امر مکمل تعلیم اور کامل معلّموں کو چاہتا ہے جو رات دن اِسی کام میں لگے رہیں۔ جب تک اس تفصیلی آئین کو سکھانے والے لوگ اِسلام میں موجود نہیں ہوں گے لوگ سیکھیں گے کیا؟اور کس سے؟ اور اسلام پر مسلمان عمل کس طرح کریں گے اور اسلام دنیا میں پھیلے گا کس طرح ؟ـ
تفسیر کا علم خود ایک مکمل علم ہے۔ جب تک مفسّر نہ ہو یہ علم زندہ نہیں رہ سکتا اور مفسّر بننے کے لئے سالہاسال تک تفاسیر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، لُغت کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، صرف ونحو کا مطالعہ کرنے کی ضرروت ہے، احادیث کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، پھر پُرانی تفاسیر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، دوسرے مذاہب کی کتب اور ان کی تاریخ خصوصاً تاریخ عرب اور تاریخ بنی اسرائیل اور بائیبل کے مطالعہ کی ضرورت ہے بغیر اِن باتوں کے جاننے کے کوئی شخص قرآن کریم کے مطالب کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا سوائے اِس کے کہ اللہ تعالیٰ براہِ راست کسی کو سمجھائے مگر ایسے آدمی دنیا میں کتنے ہوتے ہیں۔ صدیوں میں کوئی ایک آدھ ایسا پیدا ہوتا ہے باقی تو کسب سے جو تقویٰ کے ساتھ ہو یہ مرتبہ حاصل کر سکتے ہیں ۔ لیکن کمیونسٹ تو اس کام کو کام ہی نہیں سمجھتے وہ کسی کو قرآن کریم اور تفسیر اور عربی بارہ سال تک پڑھنے اور پھر دوسروں کو پڑھانے کا موقع کب دے سکتے ہیں۔ وہ تو ایسے شخص کو یا قید کر دیں گے یا اس کا کھانا پینا بند کر دیں گے کہ وہ نکما اور قوم پر بوجھ ہے۔ اِسی طرح حدیث کا علم بھی علاوہ درجنوں حدیث کی کتب کے ، درجنوں اُن کی تشریحات کی کتب کے اور اس کے ساتھ لغت اور صرف ونحو اور اَسماء الرجال کی کتب پر مشتمل ہے بغیر حدیث کے علم کے مسلمانوں کو اسلام کی تفصیلات کا علم ہی نہیں ہو سکتا۔ اور بغیر اس علم کے ماہرین کے جو اپنی عمر اس علم کے حصول میں خرچ کریں مسلمانوں میں اِس علم کی واقفیت پیدا ہی نہیں ہو سکتی مگر کمیونزم تو اس علم کے پڑھنے کو بھی لغو اور فضول اور بے کار قرار دیتی ہے۔ وہ اس علم کے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو اپنی عمر اس علم کے حصول میں قطعاً خرچ نہ کرنے دے گی۔ یا ایسے آدمی کو قید کرے گی یا اُسے فاقوں سے مارے گی کیونکہ وہ اُس کے نزدیک بیکار وجود ہے اور قوم پر بار۔ مگر مسلمان بغیر اس علم کے ماہر ین کے اپنے دین سے نہ واقف ہو سکتے ہیں نہ اس پر کار بند ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح علمِ فقہ ، علمِ قضاء، علمِ تاریخ اسلام، علمِ تصوف، علمِ معاشِ اسلامی، علمِ اقتصادِ اسلامی ایسے علوم ہیں کہ اُن کے جاننے والوں کے بغیر اسلامی جماعت کو جہاں تک اسلام کا تعلق ہے زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ مگر کمیونزم نہ اِن علوم کے پڑھانے والوں کو اپنے مُلک میں رہنے دے سکتی ہے اور نہ پڑھنے والوں کو ۔ کیونکہ وہ ان لوگوں کو بے کار قرار دے کر ان کے لئے گزارہ کی صورت پیدا نہیں کرتی اور عوام کے پاس سوویٹ اقتصادیات کے ماتحت اِس قدر روپیہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ان لوگوںکے گزارہ کی خود صورت پیدا کریں جیسا کہ ہندوستان ،چین، عرب وغیرہ ممالک میں مسلمان اسلامی علماء اور طلباء کے گزارہ کی صورت پیدا کر رہے ہیں۔ حق یہ ہے کہ اسلام اور دیگر مذاہب اور کمیونزم کے کام کی تشریح میں سخت اختلاف ہے ۔
اسلام اور کمیونزم کے کام کی تشریح میں اختلاف
ہمارے نزدیک جو شخص مشین چلا رہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے اور جو شخص مذہب پھیلارہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے اور جو مذہب کی تعلیم دے رہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے اور
جو مذہب کی تعلیم حاصل کر رہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے۔مگر اُن کے نزدیک جو شخص مشین چلاتا ہے۔ وہ تو کام کرنے والا ہے ـمگر جو شخص مذہب پڑھتا یا پڑھاتا یا پھیلاتا ہے وہ نکما اور بے کار ہے۔ اُن کے نزدیک لوگوں کو الفؔاور باؔسکھاناکام ہے مگر لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اگر لوگوں کو سکھایا جائے تو یہ کام نہیں بلکہ نکما پن ہے۔ پس گو لفظاً ہم اُن سے متفق ہیں اور ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ کام کرنے والا ہی روٹی کا مستحق ہو نا چاہئے مگر اس امر میں ہم ہر گز اُن سے متفق نہیں ہیں کہ جب تک ایک کمیونسٹ کسی کام کی تصدیق نہ کرے وہ کام ہی نہیں ہے۔ کمیونسٹ کے نزدیک اُخروی زندگی کے لئے کام کام نہیں بلکہ وقت کا ضیاع ہے۔ اُس کے نزدیک قرآن پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، حدیث پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، فقہ پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، اصول فقہ پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، تفسیر پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، تصوف پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، لوگوں کو اخلاق کا درس دینے والا وقت ضائع کر رہا ہے، ایک مسلمان کے نزدیک یہ اُس کی جان سے زیادہ قیمتی اشیاء ہیں اور اِن علوم کو زندہ رکھنے اور پھیلانے کے لئے ہزاروں انسانوں کی ضرورت ہے۔ صرف روس میں کہ جہاں مسلمان تین کروڑ ہیں کم سے کم پچاس ہزار علماء اور اتنے ہی طلباء چاہئیں جو آئندہ اُن کی جگہ لیں۔ مگرکمیونزم نظام کے نزدیک یہ تمام لوگ جو قرآن پڑھانے والے، حدیث پڑھانے والے، تفسیر پڑھانے والے، تصّوف پڑھانے والے ، فقہ پڑھانے والے، اصولِ فقہ پڑھانے والے یا اخلاق کا درس دنیا کودینے والے ہیںخون کو چوس لینے والے قوم کو تباہ کردینے والے کیڑے ہیں یہ نکمے اور نالائق وجود ہیں۔ یہ اپنی قوم پر بار ہیں اور یہ لوگ اس قابل ہیں کہ اِن کو جلد سے جلد دنیا سے مٹا دیا جائے۔
اب دیکھو ہمارے نظریہ اور اُن کے نظریہ میں کتنا بڑا فرق ہے اور مشرق و مغرب کے اس قدر بُعد کو کسِ طرح دُور کیا جاسکتا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض لوگ دھوکے باز بھی ہوتے ہیں اور وہ دین کی خدمت کا دعویٰ کر کے اپنے اعمال اس کے مطابق نہیں بناتے مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ شخص جو دین کی سچی خدمت کر رہا ہو، جو اسلام کی اشاعت کیلئے اپنی زندگی کو قربان کر رہا ہو ہم اُسے اپنا سردار سمجھتے ہیں، اُسے قومی زندگی کیلئے بمنزلہ رُوح سمجھتے ہیں اور ہم اُسے اپنا بڑے سے بڑا محسن سمجھتے ہیں مگر کمیونسٹ ایسے لوگوں کو ادنیٰ سے ادنیٰ اور ذلیل سے ذلیل تروجود قرار دیتے ہیں۔ وہ اُن کو نکما اور قوم کا غدّار سمجھتے ہیں اور اُن کے نزدیک یہ لوگ اس قابل ہیں کہ یا تو ان کو قید کر دیا جائے اور یا اپنے مُلک سے باہر نکال دیا جائے۔ـ
کمیونسٹ نظام میں انبیاء علیہم السلام کا درجہ
اِس تفصیل کے ماتحت کمیونزم نظام میں وہ شخص جس کے
پَیروں کی مَیل کے برابر بھی ہم دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ کو نہیں سمجھتے، جس کیلئے ہم میں سے ہر شخص اپنی جان کو قربان کرنا اپنی انتہائی خوش بختی اور سعادت سمجھتا ہے یعنی حضرت محمد مصطفیﷺ جو رات اور دن خدا کی باتیں سنا کر بنی نوع انسان کی روح کو روشن کیا کرتے تھے اِسی طرح مسیحؑ، موسیٰؑ، ابراہیمؑ، کرشنؑ، رام چندرؑ، بدھؑ، زرتشتؑ، گورونانکؒ، کنفیوشسؑ یہ سب کے سب نَعُوْذُ بِاللّٰہِ نکمے اور قوم پر بار تھے اور ایسے آدمیوں کو اُن کے قانون کے ماتحت یا تو فیکٹریوں میں کام کے لئے بھجوادینا چاہئے تاکہ اُن سے جوتے بنوائے جائیں یا اُن سے بوٹ اور گرگابیاں تیار کرائی جائیں یا اُن سے کپڑے سلائے جائیں یا اُن کو لوگوں کے بال کاٹنے پر مقرر کیا جائے اور اگر یہ لوگ اِس قسم کا کام کرنے کے لئے تیار نہ ہوںتو پھر اُن کا کھانا پینا بند کیا جانا چاہئے کیونکہ اُن کے نزدیک یہ لوگ نکمے اور قوم پر بار ہیں۔ کمیونسٹ نظام تصویر بنانے کو کام قرار دیتا ہے، وہ سیٹچو(STATUE) بنانے کو کام قرار دیتا ہے مگر وہ روح کی اصلاح کو کوئی کام قرار نہیں دیتا بلکہ اُسے نکما پن سمجھتا ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ روٹی ہی انسان کا پیٹ نہیں بھرا کرتی اور صرف غذا ہی اُس کے اطمینان کا موجب نہیں ہوتی بلکہ ہزاروں ہزار انسان دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں کہ اگر اُن کو عبادت سے روک دو تو وہ کبھی بھی چین نہیں پائیں گے خواہ اُن کی غذا اور لباس کا کس قدر خیال رکھا جائے۔
کمیونزم کا کام کے متعلق عجیب و غریب نظریہ
تعجب ہے کہ کمیونسٹ نظام چھ گھنٹہ فیکٹریوں میں کام کرکے سینما اور ناچ گھروں میں جانے والے اور شراب میں مست رہنے والے کو کام کرنے والاقرار دیتا ہے، وہ
فوٹوگرافی اور میوزک کو کام قرار دیتا ہے مگر وہ روح کی درستی اور اخلاق کی اصلاح کو کوئی کام قرار نہیں دیتا۔ پچھلے دنوں مارشل ماٹی نووسکائی ( MOTI NOOSKY) سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے لڑکے کس کام میں دلچسپی لیتے ہیں تو اُس نے ہنستے ہوئے کہا کہ
’’They are intrested in photography music and keeping rabbits.‘‘
گویا کمیونسٹ نظام میں ایک پندرہ سال کا بچہ جو فوٹوگرافی میں اپنے وقت کو گزار دیتا ہے، جو میوزک میں دن رات مشغول رہتا ہے، جو خرگوشوں کو پال پال کر اُن کے پیچھے بھاگتا پھرتا ہے وہ تو کام کرنے والا ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ اُسے روٹی دی جائے لیکن محمدرسولﷺ، مسیحؑ، موسیٰؑ ، کرشنؑ، بدھؑ، زرتشتؑ ، گورونانکؒ یہ اگر خدا کے نام کو دنیا میں پھیلاتے ہیں تو وہ جاہل کہتے ہیں کہ یہ ( نَغُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ) پیراسائٹس(PARASITES)ہیں۔ یہ سوسائٹی کو ہلاک کرنے والے جراثیم ہیں۔ یہ اِس قابل نہیں ہیں کہ اُن کو کام کرنے والا قرار دیا جائے حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوںنے دن کو بھی کام کیا اور رات کو بھی کام کیا۔ انہوں نے دن کو دن نہیں سمجھا اور راتوں کو رات نہیں سمجھا، تعیش کو انہوں نے اپنے اوپر حرام کر لیا اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بنی نوع انسان کی علمی اور اخلاقی اور روحانی اصلاح کے لئے کام کیامگر یہ لوگ اُن کے نزدیک نکمے اور قوم پر بار تھے۔ وہ سینما میں اپنے رات اور دن بسر کرنے والے تو کام کرنے والے ہیں اور یہ لوگ جو دن کو بنی نوع انسان کی اصلاح کا کام کرتے اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے یہ کوئی کام کرنے والے نہیں تھے۔ وہ لوگ جو مظلوموں کی مدد کیا کرتے تھے، جو اخلاق کو درست کیا کرتے تھے، جو ہر قسم کی تکالیف برداشت کر کے دنیا میں نیکی کو پھیلاتے اور بدی کو مٹاتے تھے وہ تو نکمے تھے اور یہ سینما میں جانے والے اور شرابیں پی پی کر ناچنے والے اور بانسریاں منہ کو لگا کر پیں پیں کرنے والے کام کرنے والے ہیں۔
سچے مسلمان کے لئے غیرت کا مقام
غرض جہاں تک واقعات کا سوال ہے کمیونسٹ نظام میں اِن لوگوں کی کوئی
جگہ نہیں۔مَیں دوسری دنیا کو نہیں جانتا مگر مَیں اپنے متعلق یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ نظام جس میں محمد رسول اللہﷺ کی جگہ نہیںخدا کی قسم! اُس میں میری بھی جگہ نہیں۔ ہم اُسی مُلک اور اُسی نظام کو اپنا نظام سمجھتے ہیں جس میں اِن لوگوں کو پہلے جگہ ملے اور بعد میں ہمیں جگہ ملے۔ وہ مُلک اگر محمد رسول اللہ ﷺکے لئے بند ہے تو یقینا ہر سچے مسلمان کے لئے بھی بندہے۔ وہ حقیقت پر پردہ ڈال کر مذاہب پر عقیدت رکھنے والوں کو اس نظا م کی طرف لاسکتے ہیں مگر حقیقت کو واضح کر کے کبھی نہیں لا سکتے۔ کمیونسٹ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم کسی مذہب کے خلاف نہیں ہیں مگر جیسا کہ مَیں نے اوپر بتایاہے یہ بات درست نہیں وہ لفظاً خلاف نہیں لیکن عملاً خلاف ہیں اور جبکہ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ وہ مذہب کی کوئی حیثیت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تو یہ کہنا کہ ہم مذہب کے خلاف نہیں ہیں جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے ۔
مذہبی تعلیم میں روک ڈالنے کے لئے مختلف ذرائع کا استعمال
اِس سلِسلہ میں ضمناً یہ بات بھی کہے جانے کے قابل ہے کہ روس میں مذہبی تعلیم میں روک ڈالی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ماں باپ کا یہ
ہرگز حق نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو مذہبی باتیں سکھائیں اور پیدا ہوتے ہی اُس کے کانوں میں ایسی باتیں ڈالنی شروع کر دیں جن کے نتیجہ میں وہ مذہب کی طرف مائل ہو جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بچے پر کتنا بڑاظلم ہے کہ اسے پیدا ہوتے ہی ایک مسلمان اسلام کی طرف مائل کرنا شروع کر دیتا ہے، ایک ہندو ہندو مذہب کی طرف مائل کرنا شروع کر دیتا ہے اور ایک عیسائی عیسائی مذہب کی طرف مائل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ انصاف کا طریق یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تو بلوغت تک اُسے مذہب کی کوئی بات سکھائی نہ جائے۔ دوسری طرف ہم بھی اُسے کوئی بات نہیں بتائیں گے۔ جب وہ بڑا ہوگا تو خود بخود فیصلہ کرلے گا کہ اُسے کونسا طریق اختیار کرنا چاہئے۔ اب بظاہر یہ ایک منصفانہ طریق نظر آتا ہے مگر حقیقتاً یہ بڑا بھاری ظلم اور تشدد ہے اِس لئے کہ اسلام یا عیسائیت یا ہندومت یہ سب مثبت مذاہب ہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فلاں فلاں چیز کا وجود ہے لیکن دہریہ یہ کہتے ہیں کہ اِس چیز کا وجود نہیں ہے۔ اب یہ سیدھی بات ہے کہ سکھانے کی تو مثبت والے کو ضرورت ہوتی ہے منفی والے کو کیا ضرورت ہے۔ پس یہ مساوات نہیں بلکہ دھوکے بازی اور فریب کاری ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو تم بھی کچھ نہ سکھاؤ اور ہم بھی کچھ نہیں سکھائیں گے تودوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم تو سکھائیں گے مگر تمہاری کوئی بات بچے کو سیکھنے نہیں دیں گے۔اب بتائو کیا کوئی بھی معقول آدمی اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ یہ منصفانہ طریق ہے یہ تو صریح یکطرفہ طریق ہے اور ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی کے باپ کے پاس جائے اور اُسے کہے کہ آپ بچے کو یہ نہ بتائیں کہ مَیں تمہارا باپ ہوں اور مَیں اُسے یہ نہیں کہوں گا کہ آپ اُس کے باپ نہیں ہیں اب بتائو اِس کے نتیجہ میں بچہ کیا سیکھے گا؟ یہی سمجھے گا کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے۔ یا ایک شخص مدرسہ میں جا کر اُستاد سے کہے کہ آپ بچے کو یہ نہ بتائیے کہ الف ہے اور مَیں اُسے یہ نہیں کہوں گا کہ یہ الف نہیں۔ آپ بچے کو یہ نہ بتائیے کہ یہ با ہے اور مَیں اُسے یہ نہیں کہوں گا کہ یہ با نہیں۔ بتائو اِس کے نتیجہ میں الف، با کا علم پیدا ہوگا یا جہالت پیدا ہوگی؟ یا ایک شخص کسی کے پاس جائے اور کہے کہ تم بچے کو یہ نہ بتائو کہ امریکہ ایک مُلک ہے اور مَیں اُسے یہ نہیں کہوں گا کہ امریکہ مُلک نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ آخر کیا ہوگا؟ یہی ہوگا کہ اُسے امریکہ کا علم نہیں ہوگا۔ غرض کوئی بھی معقول آدمی اِس سودے کو انصاف کا سَودا نہیں کہہ سکتا۔ اور اِس کی وجہ جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں یہ ہے کہ مذہب مثبت ہے اور دہریت اِگناسٹزم ہے یعنی نہ جاننے کا دعویٰ۔ تعلیم کی نفی کی صورت میں اگناسٹک کا مدّعا پورا ہوگیا اور نقصان صرف مثبت والے کو ہوا۔ پس یہ مساوات نہیں بلکہ دھوکے بازی ہے۔ اسلام وہ مذہب ہے جو دنیا کے سامنے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ۳۱؎ ہم انسان کو قرآن کریم کے ذریعہ وہ علوم سکھائیں گے جن کو وہ اس سے پہلے نہیں جانتا تھا۔ پس جب کہ اسلام دعویٰ ہی یہ کرتا ہے کہ ہم وہ علوم تمہیں بتائیں گے جو اس سے پہلے تم نہیں جانتے تھے۔ تو اگر تم کسی کو وہ علوم بتانے ہی نہیں دو گے تو تم ایک مسلمان کے برابر کس طرح ہوگئے۔ تم تو اُس بے علم کو اس حالت میں لے گئے جو اسلام سے پہلے زمانۂ جاہلیت کی حالت تھی اور مسلمان کو اس کے کام سے محروم کر دیا۔ اسی طرح بعض اور بھی سوالات ہیں جو اس جگہ پیدا ہوتے ہیں مگر چونکہ میں اِس وقت اُن سیاسی، علمی اور مذہبی سوالوں کو جو اقتصادیات سے جُدا ہیں نہیں چھو رہا اِس لئے میں اُن کا ذکر نہیں کرتا۔
مکمل مساوات ناممکن ہے
کمیونسٹ اقتصادیات کا جو اثر مذاہب پر پڑتا ہے اُس کی خرابیاں بتانے کے بعد اَب مَیں یہ بتاتا ہوںکہ یہ
نظام عقلاً بھی ناقص ہے۔ پوری مساوات کوئی شخص کر ہی نہیں سکتا۔ صرف روپیہ ہی تو انسان کی خوشی کا موجب نہیں ہوتا نہ صرف روٹی اُس کا پیٹ بھرتی ہے مگر پھر بھی سوال یہ ہے کہ کیا ہر شخص ایک سی روٹی کھاتا ہے؟ کیا ہر شخص ایک سا مزہ کھانے سے حاصل کر سکتا ہے؟ کیا ہر شخص کی نظر ایک سی ہے؟ کیا ہر شخص کی صحت ایک سی ہے اور کیا ان امور میں مساوات پیدا کی جا سکتی ہے؟ یہ چیزیں بھی تو انسان کا آرام بڑھانے کا موجب ہوتی ہیں۔ ذہنی قابلیتیں کس قدر تسلی کا موجب ہوتی ہیں مگر دنیا میں کیا کوئی گورنمنٹ اِن ذہنی قابلیتوں میں مساوات پیدا کر سکتی ہے؟ رشتہ داروں کی حیات انسان کے اطمینانِ قلب کا کس قدر موجب ہوتی ہے مگر کیا کوئی رشتہ داروں کی زندگی کا بیمہ لے سکتا ہے؟ کیا کوئی گورنمنٹ کہہ سکتی ہے کہ مَیں اس رنگ میں مساوات قائم کروں گی کہ آئندہ تیری بیوی بھی اتنے سال زندہ رہے گی اور فلاں شخص کی بیوی بھی اتنے سال زندہ رہے گی یا زید کے بھائی بھی اتنا عرصہ جیتے رہیں گے اور بکر کے بھائی بھی اتنا عرصہ زندہ رہیں گے؟ پھر اولاد کا وجود اور ان کی زندگی انسان کیلئے کس قدر تسلی کا موجب ہوتی ہے مگر کیا دنیا کی کوئی بھی گورنمنٹ ایسا کر سکتی ہے کہ سب کے ہاں ایک جتنی اولاد پیدا ہو، سب کی ایک جیسی قابلیت ہو اور سب کی ایک جتنی زندگی ہو؟ پھر رشتہ داروں کے دکھ سے انسان کو کیسا عذاب ہوتا ہے تم ہزار پلائو اور فرنیاں سامنے رکھ دو وہ ماں جس کا اکلوتا بچہ مرگیا ہے اُسے اِن کھانوں میں کوئی مزا نہیں آئیگا لیکن وہ ماں جس کے سینہ سے اس کا بچہ چمٹا ہوا ہو اُسے جو مزا باسی روٹی کھانے میں آتا ہے وہ اس بڑے سے بڑے مالدار کو بھی نہیں آتا جس کے سامنے بارہ یا چودہ ڈشوں میں مختلف قسم کے کھانے پک کر آتے ہیں۔ رشتہ داروں کے متعلق انسانی جذبات کی شدت کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابتداء میں جب بالشویک اور منشویک دو پارٹیاں بنیں تو مارٹوو (MARTOV, YULY 1873-1923)جولینن کی طرح اپنی پارٹی میں مقتدر تھا اس نے کہا کہ ہمیں اپنے قوانین میں یہ بھی لکھ لینا چاہئے کہ آئندہ ہماری حکومت میں پھانسی کی سزا کسی کو نہیں دی جائے گی کیونکہ انسانی جان لینا درست نہیں اور لوگ بھی اس سے متفق تھے اور وہ چاہتے تھے کہ پھانسی کی سزا کو اُڑا دیا جائے مگر لینن نے اُس سے اختلاف کیا اور کہا کہ گو اصولاً یہ بات درست ہے مگر اِس وقت اگر یہ بات قانون میں داخل کر دی گئی تو زار کو پھانسی پر لٹکایا نہیں جا سکے گا پس خواہ صرف زار کی جان لینے کیلئے اس قانون کو جاری رکھنا پڑے تب بھی یہ قانون ضرور قائم رہنا چاہئے ورنہ زار کو پھانسی پر لٹکایا نہیں جا سکے گا۔ لینن کی زار سے یہ انتہا درجہ کی دشمنی جس کی وجہ سے اُس نے پھانسی کی سزا کو منسوخ نہ ہونے دیا محض اس وجہ سے تھی کہ اُس کے بھائی کو زارسٹ حکومت نے کسی جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ لینن کے دل میں اپنے بھائی کی شدید محبت تھی اِس لئے اُس نے چاہا کہ پھانسی کا قانون قائم رہے تا کہ وہ اپنے بھائی کی موت کا بدلہ زار سے لے سکے اور اُسے پھانسی پر لٹکا کر اپنے دل کو ٹھنڈا کر سکے۔ غرض رشتہ داروں کا دکھ بھی اتنا سخت ہوتا ہے کہ روٹی کا دُکھ اُس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا۔ مگر کیا کوئی بھی گورنمنٹ اِس میں مساوات قائم کر سکتی ہے اور کیا کوئی شخص کسی گورنمنٹ سے اپنے رشتہ داروں کی زندگی کا بیمہ لے سکتا ہے؟ پس دل کا چین اور حقیقی راحت بغیر مذہب اور خدا تعالیٰ سے تعلق کے حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ امور اُسی کے اختیار میں ہیں۔ تم روٹی بیشک برابر کی دے دو، کپڑا بے شک یکساں دے دو لیکن انسان کو حقیقی چین اُس وقت تک حاصل نہیں ہوگا جب تک اُس کا خدا سے تعلق نہ ہو کیونکہ روٹی کپڑے کے علاوہ ہزاروں چیزیں ہیں جن میں کمی بیشی سے دل کا چین جاتا رہتا ہے اور اُن کا دینا محض اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔
کمیونزم کی حق ملکیت میں دخل اندازی
(۲) روس، زار کے زمانہ میں صنعتی مُلک نہ تھا بلکہ بڑے بڑے زمینداروں
کا مُلک تھا اس لئے کمیونزم کو براہ راست تعلق زمینوں سے تھا نہ کہ صنعت سے۔ کارل مارکس نے اگر سرمایہ داری پر کچھ لکھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جرمنی میں پَلا اور وہیں کی یونیورسٹی میں اُس نے تعلیم پائی۔ لینن وغیرہ نے جب اُس کے فلسفہ کو اپنایا تو اس کی تعلیم سرمایہ داری کو زمینداری طریق پر چسپاںکرنے کی کوشش کی اور یہ اصول مقرر کیا کہ:
(۱) زمین حکومت کی ہے۔
(۲) اس لئے مُلک کی سب زمینوں کو لے کر اُس آبادی میں جو خودزمیندارہ کام کرے زمین تقسیم کر دینی چاہئے۔
(۳) جس قدر زمین میں کوئی ہل چلا سکے اُسی قدر زمین اُس کے پاس رہنے دینی چاہئے اس سے زائد نہیں
(۴) چونکہ زمین حکومت کی ہے اِس لئے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا ضروری ہے۔ کاشتکار چونکہ حکومت کا نمائندہ ہے اُسے کاشت کے بارہ میں حکومت کی دخل اندازی کو تسلیم کرنا چاہئے۔
اسلام میں حق ملکیت
اسلام کی تعلیم جس کے اصول پہلے بتائے جا چکے ہیں اس بارہ میں یہ ہے کہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے حق ملکیت
کو جو جائز طور پر ہو تسلیم کیا ہے مگر اِس کے ساتھ یہ حکم دیا ہے کہ زمین کا مالک اپنی زمین کو اپنی اولاد میں ضرور تقسیم کرے (لڑکے کا ایک حصہ لڑکی کا نصف حصہ اور والدین کا ۳؍۱) اور کسی ایک بچے کے پاس نہ رہنے دے۔ اگر اولاد نہ ہو تب بھی وہ ماں باپ اور بہن بھائیوں میں تقسیم ہو۔ اگر وہ بھی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کی نمائندہ حکومت کے پاس وہ زمین لَوٹ جائے۔ ۳؍۱سے زائد کوئی شخص اپنی جائداد کو وصیت میں نہیں دے سکتا لیکن یہ ۳؍۱ حصہ وارثوں میں سے کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ کس قدر پُرحکمت یہ تعلیم ہے۔
(۱) بوجہ ملکیت کو تسلیم کرنے کے ہر شخص جس کے پاس زمین ہوگی اُسے بہتر طور پر کاشت کرے گا کیونکہ اس کے گزارہ کا مدار اس زمین پر ہوگا
(۲) اس کے بچے یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس زمین پر کاشت کریں گے اِس فن میں مہارت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے
(۳) اگر زمین نسبتی طور پر زیادہ بھی ہوگی تو تقسیم وارثت کے ذریعہ سے لازماً کم ہوتی چلی جائے گی
(۴) چونکہ اسلام زمین کو اللہ تعالیٰ کی ملکیت قرار دیتا ہے اس لئے ناجائز طور پر بہت سی زمین کسی کے پاس نہیں جا سکتی۔ ناجائز سے مراد یہ ہے کہ اسلام کے سوا دوسرے نظاموں میں مفتوحہ مُلکوں کی زمین بادشاہ کے ساتھیوں یا بارسوخ ہم قوموں میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔ اسی نظام کی وجہ سے نارمنڈی -B۳۱؎ کے بادشاہوں نے انگلستان، سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کے بعض علاقوں کی زمینیں چند امراء میں تقسیم کر دیں اور باقی سب لوگ بغیر زمین کے رہ گئے حتیّٰ کہ لوگوں کو مکان بنانے کیلئے بھی زمین نہ ملتی تھی۔ بلکہ پُرانے قانون کے ماتحت لوگ مکانوں تک کے لئے امراء سے زمین نہ خرید سکتے تھے اور آخر لمبے مقاطعہ کی صورت میں زمینوں کی خرید و فروخت کا طریق جاری ہوا لیکن پھر بھی بہت سے قصبات کی عمارتیں بڑے زمینداروں کے قبضہ میں ہیں جو لوگوں کو کرایہ پر دے کر اپنا تصرف لوگوں پر قائم رکھتے ہیں۔ فرانس میں بھی اور جرمنی اور آسٹریا میں بھی ایک حد تک ایسا ہی ہوا۔ اٹلی میں بھی ایک لمبے عرصہ تک یہی حال رہا اور نپولین کی جنگوں کے بعد کسی قدر اصلاح ہوئی۔ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی ترقی میں بھی بڑے زمینداروں کی ایک جماعت اِسی طرح پیدا ہوگئی کہ پُرانے باشندوں کی زمین کے جتنے وسیع رقبہ پر کوئی قبضہ کر سکا اس نے قبضہ کر لیا۔ آسٹریا میں بھی ایسا ہوا اور کینیا کالونی میں بھی اِسی طرح ہوا کہ بعض انگریزوں نے لاکھ لاکھ ایکڑ پر قبضہ کر لیا اور پُرانے باشندوں کو محروم کر دیا۔
مفتوحہ علاقہ کی زمین پر قبضہ کرنے کے متعلق اسلام کا بہترین نمونہ
اس کے مقابل پر اسلامی فتوحات میں عرب میں تو فاتحین کو افتادہ زمینوں میں سے کچھ حصہ دیا گیا کیونکہ عرب میں تو
زمین ہی کم ہے اس سے وہ ناجائز طور پر بڑے زمیندار نہیں ہو سکتے تھے لیکن یمن اور شام میں جو پُرانے زمیندار تھے اُن ہی کے پاس زمین رہنے دی گئی۔ عراق کا علاقہ چونکہ غیرآباد تھا اور ایرانی اسلام کی فتح پر اس علاقہ کو چھوڑ گئے تھے اور یہ علاقہ دو دریائوں کے درمیان ہے اس لئے وہاں بہت سی اُفتادہ زمین مسلمانوں کو ملی مگر باوجود اس کے کہ لشکرِ اسلام کے بعض جرنیلوں نے اس وقت کے عام دستور کے مطابق اس زمین کو جو افتادہ اور سرکاری تھی فاتحین میں بانٹنے کی کوشش کی۔ حضرت عمرؓ نے اِس بناء پر تقسیم کرنے سے انکار کیا کہ اس سے آئندہ نسلوں اور عامۃ الناس مسلمانوں کو نقصان ہوگا اور اُسے گورنمنٹ کی ملکیت ہی رہنے دیا گیا۔ اِسی طرح مصر میں بھی زمین وہاں کے سابق باشندوں کے پاس رہنے دی گئی۔ غرض اسلامی نظام کی جو تعبیر ابتدائے اسلام میں کی گئی اس میں یہ امر تسلیم کر لیا گیا کہ اُفتادہ زمین کو بجائے امراء میں بانٹ دینے اوربڑے بڑے زمینداروں کی جماعت تیار کرنے کے جیسا کہ یورپین نظام کے ماتحت ہوا ہے حکومت کے قبضہ میں رکھنا چاہئے تا کہ آئندہ نسل اور آبادی کی ترقی پر سب مُلک کی ضرورت کا انتظام ہو سکے جس کی وجہ سے اسلامی نظام کے ماتحت بڑی زمینداریوں کا قیام عمل میں نہیں آیا۔ گو بعد میں اسلام کی تعلیم پر پورا عمل نہیں ہوا پھر بھی اسلامی تعلیم کے اثر سے مسلمان بادشاہ پوری طرح آزاد نہیں ہوئے اور ہندوستان میں جب اسلامی حکومت آئی تو یہاں بھی یہی فیصلہ کیا گیا کہ مقبوضہ زمینیں پُرانے باشندوں کے قبضہ میں رہنی چاہئیں اور اُفتادہ زمین حکومت کے قبضہ میں۔ اور ہندوستان کی بڑی زمینداریاں سب کی سب انگریزی زمانہ کی پیداوار ہیں۔ جب انگریز آئے تو انہوں نے اپنے انتظام کی سہولت کے لئے پُرانے تحصیلداروں یا ریونیو افسروں کو اُن کے علاقوں کا مالک قرار دے کر بنگال اور یو۔پی میں بڑے زمینداروں کی جماعت قائم کر دی حالانکہ یہ لوگ اصل میں صرف تحصیلدار تھے۔ اس نئے انتظام کے ماتحت غریب زمینداروں کو ان کے حق سے محروم کر دیا گیا۔
غرض اسلامی نظام زمیندارہ کے متعلق بھی ویسا ہی مکمل ہے جیسا کہ دوسرے اقتصادی امور میں۔ اس میں بڑے زمینداروں کی جگہ نہیں یعنی حکومت مُلکی زمینوں سے بڑے زمیندار نہیں بنا سکتی۔ ہاں کوئی شخص زمین خرید کر اپنی زمین کچھ بڑھا لے تو یہ اور بات ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ زمین خرید کر بڑھانا معمولی کام نہیں کیونکہ جس روپیہ سے زمین خریدی جائے گی وہ اگر تاجر کا ہے تو وہ تجارت کے زیادہ فائدہ کو زمین کی خاطر نہیں چھوڑے گا اور اگر روپیہ زمیندار کا ہے تو بہرحال محدود ہوگا۔ زمیندار کی کمائی سے حاصل کردہ روپیہ سے خریدی ہوئی زمین کبھی بھی کسی زمیندار کو اتنا نہیں بڑھنے دے گی کہ وہ مُلک کی اقتصادی حالت کو خراب کر سکے۔ پھر تقسیم وراثت کے ذریعہ سے اُس کی زمین کو بھی ایک دو نسلوں میں کم کر دیا جائے گا۔
اسلام کی کمیونزم کے مقابل پر بڑی زمینداریوں کو مٹانے کی بہترین سکیم
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی قانون کے مطابق کسی شخص کو خواہ وہ بے اولاد ہی کیوں نہ ہو ۳؍۱ سے زائد کی وصیت
کرنی جائزنہیں۔ پس اگر کوئی شخص صاحبِ اولاد ہوگا تو اُس کی زمین تقسیم ہو کر کم ہوتی جائے گی اور اگر وہ اپنے خاندان کی وجاہت کے قیام کے لئے ۳؍۱اپنی اولاد میں سے کسی کو دینا چاہے گاتو اِس کی اسلام اُسے اجازت نہ دے گا کیونکہ وصیّت وارثوں کے حق میں اسلام جائز نہیں قرار دیتا غیر وارثوں کے حق میں جائز قرار دیتا ہے۔ اور اس طرح زمین کی تقسیم سے روک کر بڑی رمینداریوں کے قیام کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ اور اگر کوئی لاوارث ہو تو اسلام اُسے بھی ۳؍۱ حصّہ کی وصیّت کی اجازت دیتا ہے باقی زمین اُس کی گورنمنٹ کے پاس چلی جائے گی اور اس طرح پھر مُلک کے عوام کے کام آئے گی۔
اِس نظام میں بھی یہ خوبی ہے کہ بڑے زمیندار جو نسلوں تک دوسروں کے لئے روک بن کر کھڑے رہیںاِس کے ماتحت نہیں بن سکتے مگر اس کے ساتھ ہی شخصی آزادی میں بھی کوئی فرق نہیں آتا اور ذہنی ترقی، عائلی ہمدردی اور ایسے نیک کاموں میں حصہ لینے کا راستہ کھلا رہتا ہے جن کو انسان اپنی عاقبت کی درستی کے لئے ضروری سمجھے۔ اس کے بر خلاف کمیونزم نے جو تجاویز اپنے نظام کے لئے پسند کی ہیں وہ شخصی آزادی کو کچلنے والی، عائلی ہمدردی کو مٹانے والی اور دین کی خدمت سے محروم کرنے والی ہیں اور پھر اُن کے جاری کرنے میں وہ کُلّی طور پر ناکام بھی رہے ہیں۔
کمیونزم نے زمین کے متعلق یہ نظریہ قائم کیا تھا کہ زمین سب کی سب مُلک کی ہے اور اس لئے حکومت کی ہے۔ اس طرح سب زمینداروں کو اُنہوں نے مزدور بنا دیا حالانکہ تاجراپنی جائداد کا جو سامان کی صورت میں ہو ایک حد تک مالک سمجھا جاتا ہے۔ اپنے مقرر کردہ اصل کو عملی شکل دینے کے لئے کمیونزم نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ زمین حکومت کی ہے اِس لئے حکومت کو اختیار ہے کہ وہ جہاں جو چیز بونا مناسب سمجھے زمیندار کو اُسی کے بونے پر مجبور کرے اور چونکہ زمیندار اپنے تجربہ کی بناء پر خاص خاص اجناس کے بونے میں ماہر ہوتے ہیں اِس لئے یہ بھی اصل تسلیم کیا کہ زمینداروںکو اُن کی قابلیت کے مطابق جس علاقہ میں چاہے بھجوادے۔ جب اس نظام کو اُس کی تمام تفاصیل کے مطابق مُلک میں رائج کیا گیا تو زمینداروں نے محسوس کیا کہ:
(۱) ان کو محض مزدور کی حیثیت دے دی گئی ہے اور عام تاجر اور صنّاع سے بھی اُن کا درجہ گرا دیا گیا ہے۔
(۲) اُن کے عائلی نظام کو تہہ و بالا کر دیا گیا ہے کیونکہ اِس کے یہ معنی ہیں کہ وہ زمین کو عمدہ بنانے میں جو بھی محنت کریں اُن کی نسل اُن کی محنت سے فائدہ اُٹھانے سے روک دی جائے گی۔
(۳) اُن کو ہر وقت اپنے وطنوں سے بے وطن ہونے کا خطرہ ہوگا۔
(۴) وہ اپنی روزمرّہ کی ضروریات زمین سے پیدا نہ کر سکیں گے بلکہ وہی اشیاء بو سکیں گے جن کی حکومت انہیں اجازت دے اور اس طرح اُن کا وہ پُرانا نظام جس کے ماتحت وہ اپنے گاؤں اور قصبہ میں مکمل زندگی بسر کر رہے تھے تباہ ہو جائے گا۔
ان حالات کو دیکھ کر انہوں نے بغاوت کر دی اور سالہاسال تک روس میں زمینداروں کی بغاوت زور پر رہی اور اجناس کی پیداوار بہت کم ہوگئی۔ آخر موسیو سٹالن نے اس نظام کو منسوخ کر کے پُرانے نظام کو پھر قائم کیا۔ زمینداروں کو اُن کی زمینوں کا مالک قرار دیا گیا اور فصل بونے کے بارہ میں بہت حد تک اُن کو آزادی دے دی گئی۔ اس طرح بغاوت تو فروہوگئی لیکن خودبالشویک لیڈر کے فیصلہ کے مطابق کمیونسٹ نظام کی غلطی پر مہر لگ گئی۔ چنانچہ موسیوسٹالن کے دشمنوں نے اُن پر ایک یہ الزام بھی لگایا ہے کہ زمینوں کے متعلق لینن کے مقررکردہ نظام کو انہوں نے توڑ کر کمیونزم سے بغاوت کی ہے۔ اور موسیوسٹالن نے اِس کا جواب یہ دیا ہے کہ اصل نصب العین کمیونزم کا عوام کی حکومت ہے سواس نصب العین کے حصول کے لئے اگر دوسرے اصول بدل دیئے جائیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں مگر بہر حال اُن کے جواب سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی کہ کمیونزم ایک مستقل فلسفہ کی حیثیت میں کم سے کم زمینوں کے متعلق اقتصادی نظام قائم کرنے میں بالکل ناکام رہی ہے اور خود اس کے لیڈروں نے اسے تسلیم کر لیا ہے کہ اس کے اصول بطور ایک فلسفہ کے جاری نہیں کئے جاسکتے بلکہ حسبِ ضرورت اُن میںتبدیلی کرنی پڑتی ہے اور کمیونزم کے سِوا دوسرے اصولوں کی مدد سے مُلک اور قوم کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ اسلام کے کامیاب اقتصادی نظام کے مقابل پر یہ زبردست ناکامی اسلامی تعلیم کی برتری کا ایک بیّن ثبوت ہے اور اس بات کا ثبوت بھی کہ کمیونزم کوئی اصولی فلسفہ نہیں بلکہ محض ایک سیاسی تحریک ہے جس کی اصل غرض روس کو طاقتور بنانا ہے اور اُسے مذہب کے مقابل پر کھڑا کرنا سچائی اور دیانت کا منہ چڑانا ہے۔ چنانچہ اسٹیفن کنگ حال ممبر پارلیمنٹ انگلستان حال ہی میں روس میں دورہ کر کے آئے ہیںـ اُن کا ایک مضمون ’’SOVIET UNION‘‘ ماہ جون میں چھپا ہے۔ اِس میں وہ لکھتے ہیں کہ روس کے اِس وقت دو بڑے مقصد ہیں۔
(۱) روسں کو ازسرِ نو تعمیر کرنا۔
(۲) روس کو دنیا میں سب سے بڑا، سب سے اچھا، سب سے زیادہ مالدار قوم بنانا۔ (دیکھو SOVIET UNION NEWS. VOL-IV NO.6) پس کمیونزم محض ایک سیاسی تحریک ہے اور اس کی اصل غرض روس کو طاقتور بنانا ہے۔
کمیونزم تحریک کے نتیجہ میں علمی ترقی کی بندش
(۳) تیسرا نقص کمیونزم میں یہ ہے کہ اس نظام کی وجہ سے جوکمیونزم نے قائم کیا ہے گو روٹی کپڑا ملتا ہے مگر اس کا ایک بہت بڑا نقص یہ ہے کہ اس سے آئندہ علمی ترقی
بالکل رُک جائے گی اس لئے کہ روٹی اور کپڑے کے لئے جتنا روپیہ ایک شخص کو ملتا ہے وہ اتناناکافی ہوتا ہے کہ اس میں سفر کرنا اور دنیا میں پھر نا ایک کمیونسٹ کے لئے بالکل ناممکن ہے۔ جب تک روسیوں کو اقتصادیات میں حُریّتِ شخصی حاصل تھی وہ اپنے روپیہ کا ایک حصہ مختلف سفروں کے لئے رکھ لیتے تھے۔ وہ دنیا میں پھرتے تھے، مختلف مُلکوں اور قوموں میں گھومتے تھے، غیر اقوام سے مل کر اُن کے حالات کا جائزہ لیتے تھے اور پھراُن معلومات سے خود فائدہ اُٹھاتے تھے اور دوسروں کے فائدہ کے لئے اُن معلومات کو اپنے ملک میں شائع کر دیتے تھے اور ملک کے لوگ اُن کی معلومات سے فائدہ اُٹھاکر ترقی کی شاہراہ کی طرف پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ قدم بڑھانے لگتے تھے۔ یہی حقیقی مدرسہ مُلکوں کی علمی ترقی کے لئے قانونِ قدرت نے قائم کیا ہے اور اِس میں پڑھ کر قومیں ترقی کی طرف قدم اُٹھاتی چلی آئی ہیں۔ قرآن کریم نے بھی باربار مختلف مُلکوں کی سیر اور اُن کے حالات دیکھنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اس کے بغیر نکتہ نگاہ وسیع نہیں ہوتا اور مختلف ممالک کے علوم کا آپس میں تبادلہ نہیں ہوتا۔ مگر اب کمیونسٹ سسٹم کی وجہ سے اُن کا لوگوں سے ملنا، دنیا کے حالات معلوم کرنے کے لئے مختلف ممالک میں پھرنابالکل ناممکن ہوگیا ہے اور جہاں جہاں کمیونزم پھیلے گی یہی نتیجہ وہاں بھی پیدا ہوگا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ قوم میں ذہنی تنزّل واقعہ ہو جائے گا۔ کمیونسٹ گورنمنٹ کا کوئی نمائندہ تو دوسرے مُلکوں میں دیکھا جاسکتا ہے مگر کمیونسٹ خیالات کے کسی عام روسی کی شکل دیکھنا اب لوگوں کے لئے ایسا ہی ہوگیا ہے جیسے ہُما کی تلاش ہوتی ہے۔ مجھے وسیع ذرائع حاصل ہیں مگر اَب تک مجھے بھی کسی آزاد روسی کمیونسٹ کو دیکھنے کا موقع نہیں ملاہاں حکومت کے نمائندے مل جاتے ہیں۔ یہ نتیجہ ہے اِس بات کا کہ لوگوں کے پاس کوئی زائد روپیہ رہنے ہی نہیں دیا جاتا۔ روٹی اور کپڑے کی ضروریات کے علاوہ جو کچھ ہوتا ہے حکومت لے جاتی ہے اور لوگ بالکل خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ کہا جاتاہے جب حکومت اپنے نمائندے باہر بھجوادیتی ہے تو اُن کے ذریعہ سے غیر ملکی خیالات اور ایجادات مُلک میں آسکتی ہیں لیکن یہ درست نہیں کیونکہ
(۱) اوّل حکومت کا نمائندہ انہی باتوں کے اخذ کرنے پر مجبور ہے جن کے لئے حکومت اُسے بھجوائے۔
(۲) انسانی ذہنوں اور میلانوں میں بے انتہا فرق ہے۔ کسی شخص کا اپنے شوق سے جانا اور اپنے میلان کے مطابق ایک بات کو اخذ کرنا یہ بالکل مختلف ہے اس سے کہ حکومت خود چن کر کسی شخص کو بھجوائے۔ ایسا منتخب کردہ شخص ہر میلان والے گروہ کی ترقی کا سامان پیدا نہیں کر سکتا۔
(۳) خود مختلف ممالک کے لوگوں کا کثرت سے باہم ملنا انسانی دماغ کی ترقی اور صلح اور امن اور اتحاد کے پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے اِس نظام کی وجہ سے اس کا راستہ بالکل مسدود کر دیا گیا ہے۔
اس وقت جو آزاد روسی باہر ملتے ہیں وہ یا کمیونزم کے مخا لف ہیں جو اپنے مُلک کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں یا وہ کمیونسٹ ہیں جوحکومت کی طرف سے پروپیگنڈا کے لئے مقرر ہیں لیکن اپنے اثر کو وسیع کرنے کے لئے غیر مُلکوں میں جاکر جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ آزاد روسی ہیں اورحکومت سے ان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ جب زائد روپیہ عوام کے پاس ہوتا ہی نہیں تو وہ دُوردراز کا سفر کس طرح کر سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا کراچی سے لاہور آتے ہوئے مجھے ایک دوست نے بتایا کہ ائیر کنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ میں ایک روسی ہے جو اپنے آپ کو آزاد سیاح بتاتا ہے اور کمیونزم کی تائید میںبہت کچھ پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ مَیں نے اُس دوست سے کہا کہ اس سے کہو کہ تمہارا آزاد روسی ہونے کا دعویٰ سر اسر جھوٹا ہے۔ تمہارے نقطہ نگاہ سے میں ایک بڑا زمیندار ہوں مگر میں سیکنڈ میں سفر کر رہاہوں۔ تمہارے ہاں تو بڑے زمیندار ہوتے ہی نہیں تم ایک کسان ہو کر یا مزدور ہو کر کس طرح اتنے دُور دراز علاقہ کا سفر اس عیاشی کے ساتھ کر رہے ہو۔ اگر تمہارا مزدور اور کسان ائیر کنڈیشنڈ کمرہ میں ہزاروں میلوں کا سفر کر رہا ہے تو ہندوستان کے ان لوگوں کے خلاف تمہارا جوش کس امر پر مبنی ہے جو تم سے بہت کم آرام حاصل کر رہے ہیں اور جن کا حال درحقیقتتمہارے مزدوروں کا سا ہے۔ تم سے جو درحقیقت حکومت کے گماشتے ہو ان کو کوئی نسبت ہی نہیں کیونکہ تمہاری دولت اور ان کے گزارہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
کمیونزم نظام قائم رکھنے کے لئے سونٹے کی ضرورت
(۴) چوتھا نقص اس نظام میں یہ ہے کہ جب بھی اِس میں خرابی پیدا ہوئی اور اِس تحریک پر زوال آیا مُلک میں ڈکٹیٹر شپ قائم ہوگی اور نتائج پہلے
سے بھی خطر ناک ہو جائیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ اس نظام میں قابلیّت کو مٹا کر دماغ کو ضائع کر دیا گیا ہے اِس لئے جب بھی تنزّل ہوگا یہ تحریک کُلّی طور پر گر جائے گی اور خلا کو پُر کرنے کے لئے سوائے ڈکٹیٹر کے اور کوئی چیز میسر نہ آئے گی۔ جرمنی نے اگر ہٹلر کو قبول کیا تو کمیونسٹ میلانات کی وجہ سے، جو جرمنی میں شدت سے پیدا ہو رہے تھے۔ فرانس کا تجربہ بھی اِس پر گواہ ہے جب فرانس کے باغیوں میں تنزّل پیدا ہوا تو اس کے نتیجہ میں نپولین جیسا جبارپیدا ہوگیا۔ جمہور میں سے جمہوریت کا کوئی دِلدادہ اس جگہ کو نہ لے سکا۔ اسی طرح بے شک کمیونزم اپنی حکومت کو پرولی ٹیری ایٹ(PRPLETAROATE) کہہ لے یا اِس کا نام ٹوٹیلی ٹیرین (TOTALITARIAN) حکومت رکھ لے اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ نظام آخر چکّر کھا کر ایک ڈکٹیٹر کی شکل اختیار کر لے گا بلکہ اِس وقت بھی عملی رنگ میں یہی حالت ہے کیونکہ گو یہ لوگ اقتدارِ عوام کے حامی ہیں لیکن عملاً حکومت کا اقتدار عوام کے ہاتھ میں دینا پسند نہیں کرتے۔ چنانچہ روس میں ایک منٹ کے لئے بھی جمہوری حکومت قائم نہیں ہوئی بلکہ ڈکٹیٹر شپ ہی چلی جارہی ہے۔ لینن پہلا ڈکٹیٹر تھااب دوسراڈکٹیٹر سٹالن بنا ہوا ہے۔ سٹالن کے بعد شاید موسیومولوٹوف ڈکٹیٹر بن جائیں گے اور جب مولوٹوف مرے تو کسی اور ٹوف یا خوف کی باری آجائے گی۔ بہرحال اس قسم کے نظام کو سونٹے کی مدد کے سوا کبھی قابو میں نہیں رکھا جا سکتا اور روس کا تجربہ اس امر پر شاہد ہے۔
(۵) پانچواں نقص کمیونزم کے اقتصادی نظام میں یہ ہے کہ اِس میں سُود کی ممانعت کو بطور فلسفہ کے اختیار نہیں کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں انفرادی سُودی بنک نہیں ہیں۔ اِس وقت تک مجھے اس بارہ میں کوئی تحقیقی علم نہیں اس لئے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن انفرادی سُودی بنکوں کا نہ ہونا اورسُود کو اصولی طور پر بُرا سمجھنا دونوں بالکل متبائن باتیں ہیں۔ انفرادی سُودی بنک کا نہ ہونا سامان میسر نہ آنے کے سبب سے بھی ہو سکتا ہے۔ اوربنکنگ کے اصول سے عام پبلک کی ناواقفیت کے سبب سے بھی ہوسکتا ہے،مصلحتِ وقتی کے ماتحت بھی ہو سکتا ہے۔ جب سامان میسر آجائیں یا پبلک کا ترقی کرنے والا حصّہ بنکنگ سسٹم سے آگاہ ہوجائے یا وقتی مصلحت بدل جائے تو انفرادی بنک مُلک میں جاری ہو سکتے ہیں لیکن اگر کوئی قوم کسی بات کواصولی طور پر بُرا سمجھتی ہے تو خواہ حالات بدل جائیں، خواہ اِس بات کا باریک اور عملی علم حاصل ہوجائے، خواہ سامان کثرت سے مہیّا ہوں وہ قوم اِس بات کوکبھی اختیار نہیں کرے گی کیونکہ اُس کا اِس بات کوترک کرنا اصولی بناء پر تھا نہ وقتی مشکلات یا وقتی مصالح کی بناء پر۔
غرض روس میں اگر افراد سے لین دین کرنے والے بنک نہیں ہیں تو اِس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ کیپٹلزم کی جڑ کو جو سُودہے روس نے کاٹ دیا ہے۔مَیں نے کہا ہے کہ مجھے اس بارہ میں ذاتی علم نہیں لیکن ایک بات واضح ہے اور وہ یہ کہ کمیونزم کے لٹریچر میں سُود کی ممانعت کا کوئی ذکر نہیں۔ اور یہ بات مجھے اِس بات کا دعویٰ کرنے کا حق دیتی ہے کہ کمیونزم سُود کی اصولی طور پر مخالف نہیں۔ پھر میں دیکھتا ہوں کہ روسی گورنمنٹ دوسری حکومتوں سے جو سُود کے بغیر کوئی کام نہیں کرتیں روپیہ قرض لیتی ہے اس امر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کمیونزم سُود کی مخالف نہیں ہے بلکہ اِس کے حق میں ہے ۔ کیونکہ اگر وہ سُود کے حق میں نہ ہوتی تو سُود پر رقوم قرض کیوں لیتی۔ نیز موجودہ جنگ میں روس نے اپنے ملکی لوگوں سے بھی بہت روپیہ قرض لیا ہے۔ میں قیاس کرتا ہوں کہ یہ روپیہ بھی سُود پر ہی لیا گیا ہے۔
اگر میری یہ رائے درست ہے کہ کمیونزم سُود کے خلاف نہیں بلکہ اس کے حق میں ہے اور بہت سے واقعات میری رائے کی تائید کرتے ہیں تو یہ امر بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ روس میں سُودی کاروبار کی کمی محض ایک وقتی امر ہے اور سابق نظام میں ایک غیر معمولی تغیر کا نتیجہ ہے لیکن جب کمیونسٹ لوگ روس سے باہر جانے لگیں گے تو وہاں کاروبار کے لئے وہ سُود پر روپیہ لیں گے اور جب مُلک زیادہ ترقی کرے گا اور صنعت وحرفت اور زراعت ترقی کریں گے تو یورپ کی دوسری اقوام کی طرح کمیونسٹ بھی اِن کاموں کی ترقی کے لئے سُود کا کاروبا کریں گے۔اِسی طرح جنگوں کو کامیاب طور پر چلانے اور وسیع صنعتی ترقی کے لئے سٹیٹ بنک کی شاخیں مُلک میں کثرت سے کھولی جائیں گی اور آخر سُود اُسی طرح کمیونزم کو کیپٹلزم کی طرف لے جائے گا جس طرح دوسرے مغربی ممالک کو لے گیا ہے۔
(۶) چھٹا نقص کمیونسٹ اقتصادی نظام کا جس کی وجہ سے کیپٹلزم کچلا نہیں جا سکتا ایکسچینج (EXCHANGE) کے طریق کا جواز ہے۔ وہی تبادلۂ سکہ کا طریق جو بنکوں کی وجہ سے اور حکومتوں کے تداخل کی وجہ سے اِس زمانہ میں جاری ہوا ہے کمیونزم بھی اُسی کی تائید کرتا ہے اور اُسی کے مطابق عمل کرتاہے۔ موجودہ زمانہ میں ایکسچینج ریٹ ( یعنی دومُلکوں کے سکوںکی متبادل قیمتوں کی تعیین) دو مُلکوں کی تجارت کے طبعی توازن پر نہیں رہا بلکہ کمزور مُلکوں کے مقابل پر تو بنکوں کے ہاتھ میں اُس کی کنجی ہے۔ اور طاقتور مُلکوں کی شرح مبادلہ خود حکومتیں مقرر کرتی ہیں اور قیمت کی تعیین میں تجارتِ موجودہ کے علاوہ یہ غرض مدّنظر ہوتی ہے کہ کس مُلک سے کس قدر آئندہ تجارت کرنا اِس حکومت کے مقصود ہے۔ ہمیشہ شرح تبادلہ پر غریب مُلک شور مچاتے رہتے ہیں لیکن چونکہ اُن کے پاس جواب دینے کے لئے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ موجود نہیں ہوتی اس لئے خاموش ہوجاتے ہیں اور اس طرح زبردست مُلک کمزور مُلک کو تجارتی طور پر کمزور کر دیتا ہے حالانکہ تبادلہ شرح ایک بناوٹی اصول ہے وہ اصول جس پر دو مُلکوں کے تجارتی تعلقات کی بنیاد قائم ہونی چاہئے تبادلۂ اشیاء ہے یا تبادلۂ قیمت یعنی سونا چاندی۔ لیکن بجائے اشیاء کے تبادلہ یا سونے چاندی پر تجارت کی بنیاد رکھنے کے ایکسچینج ریٹ پر تجارت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جس کی وجہ سے غیرمتمدن ممالک بنکوں کے ہاتھوں پر پڑ گئے ہیں اور متمدن ممالک میں بنکوں میں تجارت سیاست کے تابع چلی گئی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایکسچینج کی وجہ سے تجارت میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے اور موجودہ زمانہ کی بڑھی ہوئی تجارت بغیر کسی آسان طریق تبادلہ کے سہولت سے جاری نہیں رکھی جاسکتی لیکن یہ ضرروری نہیں کہ شرح تبادلہ کو سیاسیات کے تابع رکھا جائے اور کمزور مُلکوں کے لُوٹنے کا ذریعہ بنایا جائے بلکہ اگر غور کیا جائے تو سابق بارٹرسسٹم کو جس میں اشیاء کا اشیاء کے مقابلہ میں تبادلہ ہوتا ہے نہ کہ ایکسچینج ریٹ کے اصول پر، ایسے طریق پر ڈھالا جاسکتا ہے کہ موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق وہ ہوجائے اور حکومتوں کادخل اِس سے ہٹا دیا جائے۔ بلکہ مختلف ممالک کے تاجروں اور حکومت کے نمائندوں کے مشورہ سے وقتاً فوقتاً مختلف ممالک کے لئے ایکسچینج کا ایک ایسا طریق مقرر کیا جائے جس کا بنیادی اصول تبادلۂ اشیاء ہو نہ کہ کاغذی روپیہ کی مصنوعی قیمت پر ۔
جرمنی نے گزشتہ جنگ کے بعد ایکسچینج (EXCHANGE) میں سیاسی دخل اندازی کر کے اپنے کاغذی روپیہ کو اس قدر سستا کر دیا کہ سب دنیا کی دولت اس طرف کھنچی چلی آئی اور جب کافی سرمایہ غیر مُلکوں سے تجارت کرنے کے لئے اُس کے پاس جمع ہو گیا تو اُس نے اپنے کاغذی سکہ کو منسوخ کر دیا اور اس طرح تمام دنیا کے ممالک میں بہت کم خرچ سے بہت بڑی رقوم غیر ملکی سکوں کی اپنی آئندہ تجارت کے لئے جمع کر لیں۔ اگر بارٹرسسٹم ( تبادلہ اشیاء) پر بین الاقوامی تجارت کی بنیاد ہوتی تو جرمنی اس طرح ہر گز نہ کر سکتا تھا۔ روس نے بھی جرمنی کی نقل میں ایکسچینج کو بہت گر ا دیا لیکن بوجہ جرمنی جیسا ہو شیار نہ ہونے کے اور بوجہ صنعتی تنظیم نہ ہونے کے اس نے فائدہ نہ اُٹھایا درحقیقت مصنوعی شرح تبادلہ ایک زبر دستوں کا ہتھیار ہے جس سے وہ کمزور قوموںکی تجارت کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور غیر طبعی طریقوں سے تجارت کے بہاؤ کو اپنی مرضی کے مطابق جدھر چاہتے ہیں لے جاتے ہیں۔
روس نے اِس نظام کو تسلیم کر لیا ہے اور اِس طرح ملکی کیپٹلزم کی بنیاد کو قائم رکھا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جو ں جوں روسی صنعت وحرفت مضبوط ہو گی کمیونزم زیادہ سے زیادہ اس ہتھیار سے کام لے گی اور کمزور ممالک کی تجارتوں کو اپنے مطلب اور اپنے فائدہ کے لئے استعمال کرے گی اور اس طرح گو مادی دولت کو جمع کر لے گی لیکن اصولی طور پر خود اپنے اصول کو توڑنے والی اور غریب اور کمزور ممالک پر ظلم کرنیوالی ثابت ہوگی۔
کمیونزم کا اقتصادیات میں جبر سے کام لینا
(۷) ساتویں اِس نظام کے اقتصادی حصہ کو چلانے کیلئے
جبر سے کام لیا جاتا ہے جو آخرمُلک کے لئے مضر ثابت ہوگا۔کمیونزم کہتی ہے کہ دولت مندوں کی دولت لوٹ لی جائے اور سوائے ابتدائی انسانی ضروریات کے خرچ کے انہیں اور کچھ نہ دیا جائے۔ یہ نظریہ اپنی ذات میں اچھا ہو یا بُرا سوال یہ ہے کہ کمیونزم جبر کو جائزسمجھتی ہے اور اس سے کام لیتی ہے اور بجائے اس کے کہ آہستہ آہستہ ترغیب اور تربیت سے لوگوں کی عادات درست کی جائیںاور اپنے سے کمزورں پر رحم کی عادت ڈالی جائے اور غرباء کی محبت اور اُن سے مساوات کا خیال اُن سے اونچے طبقہ کے لوگوں کے دلوں میں ڈالا جائے کمیونزم جبر کی طرف مائل ہوتی ہے اور اس کی تعلیم دیتی ہے اور اُس نے برسر اقتدار آتے ہی یکدم آسودہ حال لوگوں کی دولت کو چھین لیا اور اُن کی تمام جائدادوں کو اپنے قبضہ میں کر لیا۔ یہ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ جن کو شاہی محلّات میں سے نکال کر چوہڑوں کے گھروںمیں بٹھا دیا جائے اُن کے دلوں میں جتنا بھی اِس تحریک کے متعلق بغض پیدا ہوکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہیں اِس تحریک سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ وہ اِس سے انتہائی طور پر بغض رکھتے ہیں۔ اِس کے مقابلہ میں بے شک اسلام نے بھی اُمراء سے اُن کی دولت لی ہے مگر جبر سے نہیں بلکہ پہلے انہیں وعظ کیا، پھر دولت کے محرکات کو مٹایا، پھر اُن کی ضروریات کو محدود کیا، پھر انہیں زکوٰۃ اور صدقہ وغیرہ احکام کا قائل کیا اور بالآخر ان تدابیر کے باوجود جو دولت اُن کے ہاتھوں میں رہ گئی اُسے اُن کی اولادوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کرا دیا۔ اِس طرح دولت اسلام نے بھی لے لی اور کمیونزم نے بھی مگر کمیونزم نے جبر سے کام لے کر امراء سے اُن کی دولت لی اور اسلام نے محبت سے اُن کی دولت لی۔اِس جبرکا یہ نتیجہ ہے کہ غیر ممالک میں ایک بہت بڑا عنصر اُن اُمراء کا موجود ہے جو روس کے خلاف ہیں کیونکہ کمیونزم نے اُن کی دولت کو چھین لیا اور اُنہیں تخت شاہی سے اُٹھا کر خاکِ مذلّت پر گرا دیا۔
کمیونسٹ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ آجکل اس تحریک کے خلاف کسی مُلک میں جوش نہیں ہے اور وہ اِس پر بہت خوش ہیں حالانکہ اِس وقت کی خاموشی کی وجہ یہ ہے کہ غیر ممالک اِس وقت روس کی مدد کے مختاج ہیں۔ اِس وقت انگلستان کوئی بات روس کے خلاف سننے کے لئے تیار نہیں، اِس وقت امریکہ کوئی بات روس کے خلاف سننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ امریکہ اور انگلستان دونوں اِس وقت روس کی مدد کے محتاج ہیں اور لوگ اِس وجہ سے خاموش بیٹھے ہیں۔ جس دن لڑائی ختم ہوئی اور لوگوں کی آواز پرحکومت کی گرفت نہ رہی اُسی دن وہ لوگ جو آج مصلحت کے ماتحت خاموش بیٹھے ہیں روس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں گے اور اِس تحریک کو مٹانے کی کوشش کریں گے۔(چنانچہ اِس تقریر کے بعد جنگ جرمنی ختم ہو گئی اور مختلف ممالک میں روسی نظام کے خلاف آوازیں اُٹھنی شروع ہو گئی ہیں خصوصاً یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں)
کمیونزم کے ذریعہ عائلی محبت کی موت
(۸) آٹھواں نقص اِس نظام میں یہ ہے کہ اِس میں عائلی محبت کا سر کچل دیا گیا ہے جو آخر مضر ہوگا۔ کمیونزم میں ماں اور باپ اور بہنوں اور بھائیوں اور دوسرے تمام رشتہ داروں
کی محبت کو نظرانداز کر دیاگیا ہے اور بچوں کو کمیونزم کی تعلیم دینے اور مذہب سے بیگانہ کرنے کے لئے حکومت کے بچے قرار دے دیا گیا ہے۔ ہر بچہ بجائے اِس کے کہ ماں کی گود میں رہے، بجائے اِس کے کہ باپ کی آنکھوں کے سامنے پرورش پائے کُلّی طور پر گورنمنٹ کے اختیار میں چلا جاتا ہے یا کم سے کم قانونی طور پرایسا ہے۔ اس طرح ماں باپ کی محبت کا خانہ بالکل خالی کر دیا جاتا ہے۔ یہ نظام بھی ایسا ہے جو دیر تک نہیں چل سکتا۔ یا تو اِس نظام کو بدلنا پڑے گا یا رشیا کاانسان انسان نہ رہے گا کچھ اور بن کر رہ جائے گا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کمیونزم کامیاب ہوگیا حالانکہ اِس وقت کمیونزم کی کامیابی محض زار کے مظالم کی وجہ سے ہے۔ جب پچاس ساٹھ سال کا زمانہ گزر گیا، جب زار کے ظلموں کی یاد دلوں سے مٹ گئی، جب اُس کے نقوش دُھندلے پڑگئے اگراُس وقت بھی یہ نظام کامیاب رہا تب ہم سمجھیں گے کہ کمیونزم واقعہ میں ماں کی محبت اور باپ کے پیار اور بہن کی ہمدردی کو کچلنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ لیکن دنیا یاد رکھے یہ محبتیں کبھی کچلی نہیں جا سکتیں۔ ایک دن آئے گا کہ پھر یہ محبتیں اپنا رنگ لائیں گی پھر دنیا میں ماں کو ماں ہونے کا حق دیا جائے گا، پھر باپ کو باپ ہونے کا حق دیا جائے گا، پھر بہن کو بہن ہونے کا حق دیا جائے گا اورپھر یہ گم گشتہ محبتیں واپس آئیں گی۔ لیکن اِس وقت یہ حالت ہے کہ کمیونزم انسان کو انسان نہیں بلکہ ایک مشین سمجھتا ہے۔ نہ وہ بچہ کے متعلق ماںکے جذبات کی پرواہ کرتا ہے، نہ وہ باپ کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے، نہ وہ بہن کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے، نہ وہ اور رشتہ داروں کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے، وہ انسان کو انسان نہیں بلکہ ایک مشینری کی حیثیت دے رہا ہے مگر یہ مشینری زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ وقت آئے گا کہ انسان اس مشینری کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے گا اور اُس نظام کو اپنے لئے قائم کرے گا جس میں عائلی جذبات کو اپنی پوری شان کے ساتھ برقرار رکھا جائے گا۔
دماغی قابلیّت کی بے قدری
(۹) نواں نقص اِس نظام میں یہ ہے کہ اِس میں دماغ کی قدر نہیں اِس لئے مجبوراً اعلیٰ دماغ کے
لوگ روس میں سے باہر نکلیں گے اور اپنی دماغی ایجادات کی قیمت دنیا سے طلب کریں گے۔بالشوزم کے نزدیک ہاتھ کا کام اصل کام ہے وہ دماغی قابلیتوں کو ہاتھ کے کام کے بغیر بے کار محض قرار دیتا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہاتھ کا کام بھی کام ہے مگر اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دماغی کام بھی اپنی ذات میں بہت بڑی اہمیّت رکھتے ہیں اور پھر فطرتِ انسانی میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنی خدمات کا صلہ چاہتی ہے۔ جب کمیونسٹ گورنمنٹ دماغی قابلیتوں کی قدر نہیں کرے گی تو فطرت کا مقابلہ زیادہ دیرتک نہیں ہو سکے گا۔ یا تو کمیونسٹ نظام خود اپنے اندرتبدیلی کرنے پر مجبور ہوگا اور دوسرے نظاموں کی صف میں آکر کھڑا ہو جائے گا اور اپنے فلسفہ کو ترک کرنے پر مجبور ہوگا یا پھر اعلیٰ دماغ رکھنے والے لوگ باہر نکلیں گے اور غیر ممالک میں اپنی ایجادات کو رجسٹرڈ کرا کے اُن سے فائدہ اُٹھائیں گے مگر روس اُن کی دماغی قابلیتوں کے فوائد سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جائے گا۔ اِس وقت روسی گورنمنٹ سختی سے لوگوں کو باہر جانے سے روکے ہوئے ہے۔ مگر جب آپس میں میل جول شروع ہوا اور اِس جنگ کے نتیجہ میں ایک حد تک ایسا ضرور ہوگا تو روسی موجد باہر نکلیں گے اور غیر ممالک میں دوسرے موجدوں کی حالت کو دیکھ کر خود بھی کمپنیاں قائم کر کے اپنی ایجادات سے نفع اُٹھانا شروع کر دیں گے۔ جیسے جرمنی نے جب یہودیوں پر مظالم شروع کئے تو یہودی جرمن میں سے نکل کر امریکہ میں چلے گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی چیزیں اور وہی دوائیں جو پہلے جرمنی میں تیار ہوا کرتی تھیں اب امریکہ میں تیار ہونی شروع ہو گئی ہیں۔ بڑے بڑے کارخانے امریکہ میں اُن یہودیوں نے کھول رکھے ہیں اور اُن سے خود بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور امریکہ کو بھی فائدہ پہنچا رہے ہیں حالانکہ وہ کارخانے پہلے جرمنی میں تھے جب اُن کے حقوق کو دبایا گیا تو وہ انگلستان اور امریکہ میں چلے گئے۔ اِسی طرح روس میں جب بھی ڈھیل ہوئی اور لوگوں کو آمدورفت کی آزادی ملی وہاں کے موجد باہر نکلیں گے اور غیر ممالک میں بس کر اپنی دفاعی قابلیتوں سے فائدہ اُٹھانا شروع کر دیں گے یا پھر بیرونی ملکوں سے میل جول کے بند ہونے کی وجہ سے روسی دماغ میں کمزوری آنی شروع ہو جائے گی اور آخر وہ ایک کھڑے پانی کے تالاب کی طرح سٹر کر رہ جائے گا۔
روسی صنعت میں تنزّلکا خطرہ
(۱۰) دسواں نقص کمیونسٹ نظام میں یہ ہے کہ چونکہ اِس وقت کھانا اور کپڑا
وغیرہ حکومت کے سپرد ہے اور صنعت وحرفت بھی اُس کے سپرد ہے اور امپورٹ (IMPORT) اور ایکسپورٹ (EXPORT) بھی اس کے قبضہ میں ہیں اور جس مُلک میں وہ قائم ہوئی ہے وہ صنعت میں بہت پیچھے تھا اِس لئے فوراً حقیقی نتائج معلوم نہیں ہوسکتے مگر عقلاً یہ امر ظاہر ہے کہ جب تک صرف اس قدر صنعت وہاں ہے کہ مُلک کی ضرورت کو پورا کرے نقصان کا پتہ نہیں لگ سکتا۔ جس قیمت پر بھی چیز بنے بنتی جائے گی اور مُلک میں کھپتی جائے گی اُس کے مہنگا ہونے کا علم نہیں ہوگا ۔ جب تک وہاں کارخانے صرف روسیوں کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اُس وقت تک یہ پتہ نہیں لگ سکتا کہ کارخانے نفع پر چل رہے ہیں یا نقصان کی طرف جارہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جس قیمت پر بھی کوئی چیز تیار ہوتی ہے وہ مُلک میں کھپ جاتی ہے مگر ایک وقت آئے گا کہ صنعت مُلک کی ضرورت سے زیادہ بڑھنے لگے گی اگر اُس وقت صنعت کو روکا گیا تو اِس میں تنزّل شروع ہوجائے گا۔ اور اگر بڑھنے دیا گیا تو اس صورت میں یہ امر لازمی ہوگا کہ روسی صنعت کی اشیاء دوسرے مُلکوں کو بھجوائی جائیں تب یہ بھی ضروری ہوگا کہ روسی صنعت کی اشیاء کی وہی قیمت مقرر کی جائے جس پر وہ باہر کی منڈیوں میں فروخت ہو سکیں۔ اگر اس مجبوری کے ماتحت روسی پیداوار کو اس کی لاگت سے کم قیمت پر فروخت کیا گیا تو گویا روسی صنّاع غیر مُلکوں کا غلام بن جائے گا کہ رات دن محنت کرکے لاگت سے کم قیمت پر انہیں اشیاء مہیّا کرے گا لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو لازماً مُلک کی صنعت ایک حد تک ترقی کر کے رُک جائیگی۔ یا پھر روس کو امپیر یلزم کا طریق اختیار کرنا ہوگا یعنی دوسرے مُلکوں کو قبضہ میں لا کر اُن پر مصنوعات ٹھونسنی پڑیں گی اور اِس طرح خود اپنے ہاتھ سے روس اپنی آزادی کے دعوؤں کو دفن کردے گا۔ غرض اِس وقت مقابلہ نہ ہونے کی وجہ سے کم سے کم قیمت پر مال پیدا کرنے کی روح سخت کمزور ہے اور آئندہ اور بھی کمزور ہوتی جائے گی۔ اِس وقت اُس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک غریب عورت دن میں پانچ سیر دانے پیس لیتی ہے تو گھر والے خوش ہو جاتے ہیں کہ اس نے خوب کام کیا ہے اور وہی آٹا رات کو پکا کر کھا لیتے ہیں لیکن جب وہ باہر جاکر مزدوری کرتی ہے تب اُسے پتہ لگتا ہے کہ میں نے کتنا کام کیا ہے اور کتنا کام مجھے کرنا چاہئے تھا۔کیونکہ پانچ سیر دانوں کی پسائی کے مقابل پر باہر مزدوری اُسے بہت زیادہ ملتی ہے۔ اِسی طرح جب تک روسی اپنی تیار کردہ اشیاء اپنے گھر میں استعمال کرتے رہتے ہیں یہ صحیح طور پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ روس تجارتی طور پر بڑھ رہاہے یا گھٹ رہا ہے۔ اِس وقت بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ روس اقتصادی طور پر کامیاب ہو رہا ہے لیکن جب اس کی صنعت بڑھے گی اُس وقت اس کا بھانڈا پھوٹ جائے گا اور اقتصادی طور پر وہ بالکل گر جائے گا۔ لیکن اگرکامیاب ہوگیا تو اس کا ایک اور خطرناک نتیجہ نکلے گا جو ذیل کے ہیڈنگ کے نیچے بیان کیا گیاہے۔
کمیونزم کے نظام میں عالمگیر ہمدردی کا فقدان
(۱۱) گیارہواں نقص کمیونزم نظام میں یہ ہے کہ اس کی بنیاد صرف مُلکی ہمدردی پر ہے عالمگیر ہمدردی کا اصل اس میں نہیں ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ
اگر روسی کمیونزم نظام صنعتی ترقی میں کامیاب ہوگیا تو وہ مجبور ہوگا کہ ایک زبردست کیپٹلسٹنظام جو پہلے نظام سے بھی بڑا ہو اور دنیا کیلئے پہلے نظام سے بہت زیادہ خطرناک ہو قائم کرے۔ مَیں حیران ہوں کہ اتنے اہم سوال کی موجودگی میں ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ کمیونزم کی حمایت کس بناء پر کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ روس نے اجتماعی سرمایہ داری کو ایک عظیم الشان شکل میں پیش کیا ہے اور اِس سے دنیا کو آخر بہت نقصان پہنچے گا۔ روس میں اور دوسرے ممالک میں جو کمیونسٹ ہیں وہ اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ کمیونزم نے ہر شخص کی روٹی اور کپڑے کا انتظام کر دیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک روٹی اور کپڑے کا سوال ہے ہم بھی خوش ہیں کہ لوگوں کی اس ضرورت کو پورا کیا گیا لیکن اِس کے ساتھ ہی اُس عظیم الشان خطرہ کوکسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو ایک نئے کیپیٹلسسٹم (CAPITAL SYSTEM) کی صورت میں دنیا کے سامنے آنے والا ہے۔
روس کا دعویٰ ہے کہ اُس نے ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۷ء تک اپنے مُلک کی صنعتی پیداوارکو%۶۲۶ فیصدی بڑھا دیا ہے۔ یعنی پہلے اگر ایک ارب تھی تو اَب چھ ارب پچیس کروڑ ہے۔ پہلے اگر سَو موٹر روس میں بنتا تھا تو اب ۶۲۵ موٹر بنتا ہے یا پہلے اُس کے کارخانوں میں اگر ایک لاکھ تھان کپڑے کا تیار ہوا کرتا تھا تو اب چھ لاکھ پچیس ہزار تھان بنتا ہے۔ یہ ترقی واقعہ میں ایسی ہے جو قابل تعریف ہے۔ روسی کمیونزم کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۷ء تک دس بلین روبلز سے اس کا صنعتی سرمایہ پچہتر بلین روبلز تک بڑھ گیا ہے (روبل کی موجودہ قیمت بہت تھوڑی ہے) گویا اس عرصہ میں اُس نے ساڑھے سات گنا اپنا سرمایہ بڑھا لیا ہے اور سَوا چھ سَو گنا اُس نے اپنی صنعتی پیداوار کو بڑھا لیا ہے۔ اُس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ صرف ۱۹۳۷ء میں اُس نے اپنی ملکی آمد کا ۳؍۱ حصہ کارخانوں کی ترقی پر لگایا ہے یہ بھی بڑی شاندار ترقی ہے۔ مگر ایک بات پر غور کرنا چاہئے کیا روس بغیر دوسرے مُلکوں سے تجارتی لین دین کرنے کے ہمیشہ کیلئے ایک بند دروازہ کی پالیسی پر عمل کر کے اپنی اس ترقی کی رفتار کو جاری رکھ سکتا ہے؟ اِس وقت تو صورت یہ ہے کہ روس نہ بیرونی مُلکوں کو اپنی بنی ہوئی چیزیں بھیجتا ہے اور نہ الِاَّمَاشَائَ اللّٰہُ باہر سے کوئی چیزیں لیتا ہے۔ وہ اگر باہر سے کوئی چیز منگواتا ہے تو صرف اُتنی جس سے اُس کے کارخانوں کی ضروریات پوری ہوسکیں۔ گویا روس کی مثال اس وقت ایسی ہی ہے جیسے ہندوستان کا کسان اپنی زمین پر گزارہ کرتا ہے۔ اُس کے کچھ حصہ سے گڑ پیدا کر لیتا ہے، کچھ حصہ سے ماش پیدا کر لیتا ہے، کچھ حصہ سے چاول پیدا کر لیتا ہے، کچھ حصہ سے تل پیدا کر لیتا ہے، کچھ حصہ سے گندم پیدا کر لیتا ہے اور اِس طرح اپنی زندگی کے دن گزارتا رہتا ہے۔ مگر یہ صورتِ حالات تمدن کے ہر درجہ میں قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر یہ صورت تمدن کے ہر درجہ میں جاری رہ سکتی تو وہ جھگڑے جو آج دنیا کے تمام ممالک میں نظر آ رہے ہیں اور جن کی وجہ سے عالمگیر جنگوں تک نوبت آچکی ہے کیوں پیدا ہوتے۔ بہرحال یہ صورت متمدن ممالک میں قائم نہیں رہ سکتی۔
دنیا کیلئے اقتصادی طور پر ایک سخت دھکّا
دنیا کی ساری قومیں یہ تسلیم کرتی ہیں کہ کوئی مُلک اکیلا زندہ نہیں
رہ سکتا بلکہ وہ اِس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ دوسروں سے تعلقات پیدا کرے اور تجربہ اِس کی صداقت پر گواہ ہے۔ پس جب کہ روس ہمیشہ کیلئے ایک بند دروازہ کی پالیسی پر عمل کر کے ترقی نہیں کر سکتا تو کیا جب روسی کارخانوں کی پیداوار اُس کے مُلک کی ضرورت سے بڑھ جائے گی تو وہ اپنی صنعت کو دوسرے ممالک میں پھیلانے کی کوشش نہیں کرے گا؟ دُور کیوں جائیں اِن جنگ کے دنوں میں ہی روس مجبور ہوا ہے کہ امریکہ اور انگلستان سے نہایت کثرت کے ساتھ سامان منگوائے اور جس سُرعت اور تیزی کے ساتھ روس صنعت میں ترقی کر رہا ہے وہ اگر جاری رہی تو چند سالوں میں ہی روس کے صنعتی کارخانے اِس قدر سامان پیدا کریں گے کہ وہ اِس بات پر مجبور ہو جائے گا کہ غیرمُلکوں کے پاس اُسے فروخت کرے۔ ذرا سوچو کہ جب وہ دن آئے گا تو کیا اُس وقت روس کی وہی پالیسی نہیں ہوگی جو اَب بڑے بڑے تاجروں کی ہوتی ہے؟ اور کیا وہ اِس مال کو فروخت کرنے کیلئے وہی طریقے اختیار نہیں کرے گا جو امریکہ اور انگلستان کے بڑے بڑے تاجر اختیار کرتے ہیں؟ یعنی کیا وہ کسی نہ کسی طرح دوسرے ممالک کو مجبور نہ کرے گا کہ وہ اُس سے مال خریدیں تا کہ اُس کے اپنے مُلک کے مزدور بیکار نہ رہیں اور اُس کی صنعتی اور اقتصادی ترقی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ جیسے ہندوستان کی سیاسی آزادی کا سوال آئے تو انگلستان کے بڑے بڑے مدبر ہائوس آف کامنز میں دُھواں دھار تقریریں کرتے ہیں لیکن جب اقتصادی ترقی کا سوال آ جائے تو فوراً اُس کے اقتصادی اکابر کہنے لگتے ہیں کہ برطانوی مفاد کی حفاظت کرلی جائے۔ یہی حالت روس کی ہوگی لیکن جہاں انگلستان اور امریکہ کا مقابلہ دوسرے مُلکوں سے صرف تاجروں کے زور پر ہوگا وہاں روس کا مقابلہ دوسرے مُلکوں کے تاجروں کے ذریعہ سے نہ ہوگا بلکہ سارے روس کے اشتراکی نظام کا مقابلہ دوسرے مُلکوں کے انفرادی تجارسے ہوگا۔ اور جس دن روس میں یہ حالت پیدا ہوئی اُس وقت روس یہ نہیں کہے گا کہ چلو ہم اپنے کارخانے بند کر دیتے ہیں، ہم اپنے مزدوروں کو بیکار رہنے دیتے ہیں مگر ہم غیرمُلکوں میں اپنے مال کو فروخت نہیں کرتے بلکہ اُس وقت وہ اپنے ہمسایہ ممالک کو مختلف ذرائع سے مجبور کرے گا کہ وہ اس سے چیزیں خریدیں اور حق یہ ہے کہ وہ ان تمام ذرائع کو استعمال میں لائے گا جو بڑے بڑے سرمایہ دار تاجر اپنے استعمال میں لاتے ہیں اور چونکہ روس کی صنعت حکومت کے ہاتھ میں ہے اِس لئے حکومت کا سیاسی زور بھی اِس کے ساتھ کُلّی طور پر شامل ہوگا۔ روس اِس وقت بہت بڑی طاقت ہے۔ حکومت اُس کے ہاتھ میں ہے، رُعب اور دبدبہ اس کو حاصل ہے، ایسی حالت میں اس کا مقابلہ چھوٹے مُلک کب کر سکیں گے بلکہ انگلستان اور امریکہ کے تاجر بھی کب کر سکیں گے۔ اُس وقت روس کو صرف یہی خیال نہیں ہوگا کہ اِس طرح تجارتی نفوذ بڑھا کر اُسے روپیہ آئے گا بلکہ اُسے یہ بھی خیال ہوگا کہ اِس کے نتیجہ میں مُلک کا صنعتی معیار بلند ہوگا۔ مزدور بھوکا نہیں رہے گا، کارخانوں کو بند نہیں کرنا پڑے گا اور غیرممالک کی دولت کو اپنی طرف زیادہ سے زیادہ کھینچا جاسکے گا۔ پس اس کے ہمسایہ کمزور مُلک اِسی طرح اُس کے لئے دروازے کھولنے پر مجبور ہونگے جس طرح مغربی تجار کے لئے وہ اپنے دروازے کھولنے پر مجبور ہوتے ہیں بلکہ اِس سے کہیں اور زیادہ دنیا اقتصادی طور پر ایک سخت دھکّا کھائے گی۔
بعض لوگ اِس موقع پر یہ خیالات پیش کر دیا کرتے ہیں کہ ہم روسی حکومت میں شامل ہو جائیں گے اور اس طرح وہی فوائد حاصل کر لیں گے جو روسی باشندے کمیونزم کی وجہ سے حاصل کرتے ہیں۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو ہم کہتے ہیں دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو کمیونزم کی حمایت کی وجہ سے اپنے آپ کو روسی حکومت میں شامل کرنے کیلئے تیار ہیں۔ کمیونسٹ طبقہ میں اکثر لوگ ایسے ہیں جو یہ تو چاہتے ہیں کہ اُن کے مُلک میں بھی وہی قوانین جاری ہو جائیںجو کمیونسٹ حکومت نے اپنے مُلک میں جاری کئے ہوئے ہیں مگر وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ روسی حکومت کا اُنہیں جزو بنا دیا جائے۔ انگلستان کے کمیونسٹ اِس بات کے تو خواہشمند پائے جاتے ہیں کہ روسی حکومت کے قواعد انگلستان میں بھی جاری ہو جائیں مگر وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ انگلستان روس کا جزو بن جائے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ روس کے قواعد اپنے طور پر مُلک میں جاری کر کے اُس سے فوائد حاصل کریں۔ اِسی طرح امریکہ کے کمیونسٹ یہ تو خواہش رکھتے ہیں کہ امریکہ کے لوگوں کے متعلق بھی وہی قواعد نافذ کئے جائیں جو روس نے اپنی حکومت میں جاری کئے ہوئے ہیں مگر وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ امریکہ روس کا جزو بن جائے اور وہ اُس کی سیاسی حکومت میں شامل ہو جائے۔
مَیںہندوستان کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہاں کے کمیونسٹ کیا رائے رکھتے ہیں کیونکہ ہمارے ہندوستانی کمیونسٹ عام طور پر سوچنے کے عادی نہیں ہوتے اور زیادہ تر کم علم طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ نعرے لگانے کے عادی تو ہیں مگر ان نعروں کی حقیقت کو ان میں سے بہت کم طبقہ سمجھتا ہے باقی لوگ جذبات کی رَو میں بہہ کر عقل و فکر کو جواب دے دیتے ہیں۔ ممکن ہے ہندوستان کے نوے فیصدی کمیونسٹ یہی چاہتے ہوں کہ بیشک ہندوستان کو روس میں ملا دیا جائے انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن باقی دنیا کے کمیونسٹ ایسا نہیں کہتے اور ایسا نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات اُن کی تباہی اور بربادی کا موجب ہوگی۔
روسی مقبوضات میں عدم مساوات
پھر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ایشیائی مقبوضات اِس امر کے شاہد ہیں کہ یورپین لوگوں کی
حالت اور اُن کی حالت میں بہت بڑا فرق ہے۔ مَیں تمام خرچ برداشت کرنے کیلئے تیار ہوں کمیونسٹ پارٹی بیشک میرا آدمی اپنے ساتھ لے اور وہ اُسے بخارا اور ماسکو وغیرہ میں لے جائے اور پھر ثابت کرے کہ بخارا کے غرباء کو بھی وہی کچھ ملتا ہے جو ماسکو کے غرباء کو ملتا ہے یا بخارا کے لوگوں کے لباس اور مکان اور تعلیم وغیرہ کا اُسی طرح انتظام کیا جاتا ہے جس طرح ماسکو کے لوگوں کے لباس اور مکان اور تعلیم کا انتظام کیا جاتا ہے۔ یقینا حالات کا جائزہ لینے پر یہی معلوم ہوگا کہ ماسکو میں اور طریق رائج ہے اور بخارا وغیرہ میں اور طریق رائج ہے۔ یہی حال دوسرے روسی ایشیائی مقبوضات کا ہے۔ کسی اور ثبوت کی کیا ضرورت ہے ابھی دو ہفتے ہوئے روسی حکومت کی طرف سے ایشیائی مقبوضات کے متعلق یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ان علاقوں کے حالات کی درستی کے لئے بھی اب سکیمیں تیار کی جا رہی ہیں اور آئندہ ان کی ترقی کے متعلق بھی ایک خاص پروگرام بنایا جائے گا۔ یہ اعلان ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے جو اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ جیسا سلوک روس اپنے ملک کے باشندوں سے کرتا ہے ویسا ہی سلوک وہ ایشیائی مقبوضات کے باشندوں سے بھی کرتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یورپی روس اور ایشیائی روس میں ایک ساتھ اور ایک ہی قسم کی اقتصادی اصلاحات عمل میں لائی جاتیں اور دونوں مُلک ایک ہی وقت میں ایک سے معیارِ ترقی پرپہنچ جاتے مگر ایسانہیں ہوا۔ پس یہ خیال واقعات کے بالکل خلاف ہے۔ ان علاقوں میں ابھی غرباء موجود ہیں، ان علاقوں میں ابھی مفلوک الحال لوگ موجود ہیں مگر روسی ان کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرتے جو اپنے مُلک کے غرباء سے یا یورپین طبقہ سے کرتے ہیں اور ان دونوں کی حالت میں بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ کمیونزم کی بنیاد ہی مساوات پر ہے وہ ایسا نہیں کرے گی کہ اپنے مُلک کی طاقت بڑھانے کے لئے دوسروں کے حقوق پر چھاپہ مارنے لگے۔ مگر یہ بھی محض وہم ہے اور ’’عصمت بی بی از بے چارگی‘‘والی بات ہے۔ جب تک کمیونزم صنعتی پیداوار کی کمی کی وجہ سے بیرونی مُلکوں یا اُن کی دولت کی ضرورت نہیں سمجھتی اُس وقت تک اُس کا یہ حال ہے لیکن جب یہ مجبوری دُور ہوئی تو وہ دوسروں سے زیادہ غیر ممالک کو لوٹنے اور اُن کی اقتصادی حالت کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کرے گی۔ چنانچہ اِس کا ثبوت یہ ہے کہ جب تک سیاستاً روس کا اپنے مُلک میں اُلجھاؤ تھا جارجیا بھی آزاد تھا، فن لینڈ بھی آزاد تھا، لٹویا بھی آزاد تھا ،لیتھونیا بھی آزاد تھا، استھونیا بھی آزاد تھا اور روس یہ کہا کرتا تھا کہ ہمارے نظام کی یہ خوبی ہے کہ وہ دوسرے مُلکوں سے اُلجھاؤ نہیں کرتا۔ ہم تو حُریّتِ ضمیر کے قائل ہیں ہم نے ان تمام ممالک کو آزاد کر دیا ہے جو ہم سے آزاد ہونا چاہتے تھے ہم نے لٹویا، لیتھونیا ،استھونیا،فن لینڈ، پولینڈ، جارجیا وغیرہ ممالک کو آزاد کر دیا ہے، ترکوں کو آرمینیا کا وہ علاقہ جواُن سے متعلق ہے دے دیا ہے مگر جوں ہی روس کے اندرونی جھگڑے کم ہوئے جارجیا کو روس میں شامل کر لیا گیا۔ جب اور طاقت آئی تو فن لینڈ سے سرحدوں کی بحث شروع کر دی اور طاقت پکڑی تو لٹویا، لیتھونیا اور استھونیا کو اپنے اندر شامل کر لیا۔ رومانیہ کے بعض علاقوں کو ہتھیالیا پھر فن لینڈ کو مغلوب کر کے اُس کے کچھ علاقے لے لئے اور باقی مُلک کی آزادی کو محدود کر دیا۔ اب پولینڈ کا کچھ حصہ لیا جارہا ہے باقی کی آزادی محدود کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ روسی سرحدوں پر وہی حکومت رہ سکتی ہے جو روسی حکومت سے تعاون کرے اور اِس اصل کے ماتحت پولینڈ، زیکوسلواکیہ اور رومانیہ کے اندرونی معاملات میں دخل دیا جارہا ہے۔ ایران کے چشموں پر قبضہ کرنے کی سکیم تیار کی جارہی ہے، ترکی سے آرمینیاکے حصوں کی واپسی اور درّہ دانیال میں روسی نفاذ کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ کیا پُرانی امپیریل حکومتیںاِس کے سِوا کچھ اور کرتی تھیں؟بلکہ کیا وہ اس سے زیادہ آہستگی اور بظاہر نرم نظر آنے والے طریق استعمال نہیں کرتی تھیں؟ انگلستان کو درّہ دانیال کی ضرورت دیر سے محسوس ہو رہی ہے مگر اُس نے صدیوں میں ترکی پر اِس قدر زور نہیں ڈالا جس قدر زور روس چند سالوں میں ڈال رہا ہے۔ اِن امور کے ہوتے ہوئے یہ خیال کرنا کہ روس اپنی صنعتی ترقی کے بعد اس طرح اپنے ہمسایہ مُلکوں کو اقتصادی غلامی اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرے گا جس طرح کہ مغربی ڈیماکریسی کے تجاراپنی حکومتوں پر زور ڈال کر اُن کے ذریعہ سے دوسرے مُلکوں کو مجبور کرتے ہیں ایک وہم نہیں تو اور کیا ہے۔ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ جب روس کو طاقت حاصل ہوئی سیاسی مساوات اور حریّت کے وہ تمام دعوے جو روس کرتا تھا دھرے کے دھرے رہ گئے اور اب اس دعویٰ کا نشان تک مٹا جارہا ہے کہ روس کا دوسرے ممالک سے کوئی تعلق نہیں۔ روس صرف اپنے مُلک کے غرباء کی روٹی اور اُن کے کپڑے کا انتظام کرنا چاہتا ہے۔ جب سیاسی دنیا میں آکر کمیونزم کی رائے بدل گئی اور اُس نے خود اپنے بنائے ہوئے اصول کو اپنے مُلک کے فائدہ اور برتری کے لئے واضح طور پر پس پشت ڈال دیا۔ جارجیا، بخارا، فن لینڈ، لٹویا، لیتھونیا،استھونیا پر قبضہ کر لیا۔ فن لینڈ ، پولینڈ ، رومانیہ، زیکوسلواکیہ کو کم و بیش سیاسی اقتدار کے تلے لے آیا، ایران اورترکی کو زیراثر لانے کے لئے جوڑتوڑ کر رہا ہے، چین کے حصے بخرے کرنے کی تجویزیں ہو رہی ہیں آخر کس مساوات اور حُریّتِ ضمیر کے قانون کے ماتحت اُس کے لئے یہ جائز تھا کہ ان ممالک پر قبضہ کرتا۔ کیوں فن لینڈ اپنے مُلک کا ایک حصہ کاٹ کر روس کو دیتا۔ یا کیوں لٹویا اور لیتھونیا اور استھونیا کی آزادی کو سلب کر لیا جاتا۔ کیا اِن ممالک کا یہ فرض تھا کہ وہ وائٹ رشیا کی حفاظت کرتے اور اپنے آپ کو روس کے لئے قربان کر دیتے۔ یا جارجیا اور بخارا کے فرائض میں شامل تھا کہ وہ روسی حکومت میں اپنے آپ کو شامل کر دیتے۔ اگر حُریّتِ ضمیر اور مساوات اسے جائز قرار دیتے ہیںتو اِس کے اُلٹ کیوں نہ ہوا۔ کیوں روس کا کچھ حصہ کاٹ کر فن لینڈ کو نہ دے دیا گیا تا وہ مضبوط ہو کر اپنی حفاظت کر سکے، کیوں نہ کچھ حصّے کاٹ کر پولینڈ، رومانیا، ترکی اور ایران کو نہ دیے گئے تاوہ مضبوط ہو جاتے۔ اِن کمزور مُلکوں کو حفاظت کی زیادہ ضرورت ہے یا طاقتور روس کو؟ پس حفاظت کے اصول کے لحاظ سے اِن مُلکوں کو اَور علاقے ملنے چاہئیں تھے نہ کہ روس کو ۔ مگر بات یہ ہے کہ پہلے اگر روس خاموش تھا تو محض اِس لئے کہ اُس کے پاس طاقت نہیں تھی۔ جب اُس کے پاس طاقت آگئی تو یہ چھوٹی چھوٹی حکومتیں اُس کا شکار بن گئیں مگر دنیا کی آنکھوں میں خاک جھونکنے کے لئے کہا گیا کہ ہم اِن ممالک پر اس لئے قبضہ کرتے ہیں کہ روسی سرحدیں ان کے بغیر محفوظ نہیں ہیں۔ اگر یہ طریق درست ہے تو کل امریکہ والے بھی کہہ دیں گے کہ ہمارے لئے جاپانی جزیروں پر قبضہ کرنا ضروری ہے کیونکہ ہمارے مُلک کی حفاظت اس کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ کہتے ہیں’’زبردست کا ٹھینگا سر پر‘‘جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ کوئی نہ کوئی بہانہ پیدا کرہی لیا کرتا ہے۔ جب روس کے پاس طاقت آئی تو اس نے بھی ڈیفنس آف سائبیریا، ڈیفنس آف لینن گریڈ، ڈیفنس آف وائٹ رشیا اورڈیفنس آف یوکرین کے بہانہ سے کئی ممالک کی آزادی کو سلب کر لیا۔ جب سیاسیات میں روس کی یہ حالت ہے تو اقتصادیات میں یہ کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ روس دوسرے ممالک کے ساتھ مساوات کا سلوک کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ اگر کہو کہ نہیں ہم اقتصادیات کے متعلق نہیں سمجھ سکتے کہ روس ایسا کرے گا سیاسی صورت الگ ہے۔ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ دور کیوں جاتے ہو مساوات پر زور دینے والی کمیونزم کی یہ حالت ہے کہ وہ آج ایران کے تیل پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ آخر سوال یہ ہے کہ کیا ایران کیلئے اپنے چشموں سے فائدہ اُٹھانا جائزنہیں کہ ایک دوسرا مُلک اُس سے مطالبہ کرتا ہے کہ تیل کے چشموں سے اُسے فائدہ اُٹھانے دیا جائے۔جب ایران کو خود اپنے تیل کے چشموں کی ضرورت ہے، جب اُس کے اپنے آدمی بھوکے مر رہے ہیں تو روس نے اُس سے یہ کیوں مطالبہ کیا؟ اگر مساوات اور بنی نوع انسان کی ہمدردی مقصود تھی تو کیوں ایران کو بغیر سُود کے روپیہ نہ دے دیا کہ اپنے تیل کے چشموں کو کھودو اور اُن سے اپنے مُلک کی حالت کو درست کرو۔ کیا یہ اِس بات کی دلیل نہیں کہ طاقت حاصل ہونے کے نتیجہ میں روس اب یہ چاہتا ہے کہ ایران سے اُس کے تیل کے چشمے بھی چھین لے اور خود اُن پر قابض ہو جائے۔
بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ انگریزوں نے بھی تو ایران کے تیل کے چشموں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ میرا جواب یہ ہے کہ انہوں نے بھی اچھانہیں کیا مگر مَیں تو یہ کہہ رہاہوں کہ اگر انگریزوں نے اچھا نہیں کیا تو روس نے بھی اچھا نہیں کیا۔ تم اُس کو بھی گالیاں دو اور اِس کو بھی بُرا بھلا کہومگر یہ کیا کہ انگریز ایک کام کریں تو انہیں بُرا بھلا کہا جائے اور ویسا ہی کام روسی کریں تو انہیں کچھ نہ کہا جائے بلکہ اُن کی تعریف کی جائے۔ اگر انگریزوں نے ابادان کے چشموں پر قبضہ کیا ہوا ہے تو روس کا مطالبہ بھی تو اِس بات کا ثبوت ہے کہ اقتصادیات میں کمیونزم پُرانے امپیریلسٹک کی پالیسی والے مُلکوں سے کوئی جُداگانہ راہ نہیں رکھتا اور وہ بھی غیر مُلکوں سے مساوات کا سلوک کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔اگر وہ مساوات کے لئے تیار ہے تو کیا اگر ایرانی یہ مطالبہ کریں کہ ہمیں باکو کے چشموں سے فائدہ اُٹھانے دیا جائے تو روسی کہیں گے بہت اچھا آجاؤ اور باکو کے چشموں پر قبضہ کر لو؟ اگر مساوات کا سلوک کیا جاتا تو ایران سے کہا جاتا کہ تمہارا بھی حق ہے کہ مجھ سے مانگو اور میرا بھی حق ہے کہ میں تم سے مانگوں مگرروس اس طرف آتاہی نہیں اور ابھی تو یہ ابتداء ہے جب کمیونزم کی صنعت وحرفت بڑھے گی دوسرے مُلک اس طرح چلائیں گے کہ پہلے کبھی نہیں چلائے اور اس سے زیادہ ان کی صنعت کو کچلا جائے گا جس قدر کہ پہلے کبھی کچلا گیا۔ کیونکہ کمیونزم نے صرف فردی کیپٹلزم کو کچلا ہے اجتماعی کیپٹلزم کو نہیں بلکہ اجتماعی کیپٹلزم کو اِس قدر طاقت دے دی ہے کہ اِس سے پہلے اِسے کبھی نصیب نہیں ہوئی اور اجتماعی کیپٹلزم ہی سب سے زیادہ خطرناک شے ہے۔ امریکہ نے ٹرسٹ سسٹم اور کارٹل سسٹم کے خلاف قانون اِسی لئے پاس کیا ہے۔
ایک خطرناک کیپٹلزم کا اجراء اور اُس کے انسداد کی دو صورتیں
اقتصادی تجربہ اس بات کا شاہد ہے کہ انفرادی تاجر کبھی اتنے کامیاب نہیں ہوئے جس قدرکہ کمپنیاں۔ اور کمپنیاں
کبھی اتنی کامیاب نہیں ہوئیں جس قدر کہ ٹرسٹ۔ اور ٹرسٹ کبھی اتنے کامیاب نہیں ہوئے جس قدر کہ کارٹل۔ اور کارٹل کبھی اتنے کامیاب نہیں ہوئے جس قدرکہ وہ کمپنیاں کامیاب ہوں گی جن کے پیچھے سارے مُلک کی دولت اور سیاست ہوگی جیسا کہ روس میں کیا جارہا ہے۔ افراد کی کمپنیوں کا مقابلہ چھوٹے مُلک اور غیر منظم بڑے مُلک کر سکتے تھے مگراجتماعی حکومتی کیپٹلزم کا مقابلہ چھوٹے مُلک اور بڑے( لیکن کمزور) مُلک کسی صورت میں نہیں کر سکتے۔
اس سے پہلے بھی بڑے صنّاع مُلک چھوٹے مُلکوں پر اقتدار پیدا کر لیتے تھے لیکن انفرادی کیپٹلزم کی موجودگی میں ضروری نہ تھا کہ جو مُلک چھوٹاہواُس میں کیپٹلسٹ نہ ہوں۔ چونکہ مقابلہ افراد میں تھا اس لئے باوجود مُلک کے چھوٹا ہونے کے اس کے کچھ افراد بڑے اور منظم مُلک کا مقابلہ کرتے رہتے تھے کیونکہ وہ بھی کیپٹلسٹ ہوتے تھے۔ انگلستان نہایت منظم صنعتی مُلک ہے مگر باوجود اس کے ہالینڈ، بیلجیئم، سوئٹزرلینڈ جیسے مُلکوں کے بعض کیپٹلسٹ انگلستان کے کیپٹلسٹوں کا مقابلہ کر سکتے تھے کیونکہ مقابلہ انگلستان اور ہالینڈ یا انگلستان اور بیلیجئم اور انگلستان اور سوئٹزرلینڈ کا نہ تھا بلکہ مقابلہ انگلستان اور ہالینڈ کے اور انگلستان اور بیلجیئم اور انگلستان اور سوئٹزرلینڈ کے دو کیپٹلسٹوں کا تھا اور اُن کئے آگے نکلنے سے مُلک کا دوسرا طبقہ بھی فائدہ اُٹھالیتا ہے۔ یہ فرق ایسا ہی ہے جیسا کہ انگلستان اور بیلجیئم کی فوجیں سامنے آئیں تو بیلجیئم مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن انگلستان کا کوئی سپاہی بیلجیئم کے کسی سپاہی کے مقابلہ پر آجائے تو بیلجیئم کا سپاہی انگلستان کے سپاہی پر غالب آسکتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ فردی کیپٹلزم بھی ایک خطرناک شَے ہے مگر اس کے باوجود خود اس مُلک کے لوگوںاور اس کے حریف مُلکوں کے لوگوں کے لئے کچھ نہ کچھ راستہ بچاؤ کا کھلا رہتا ہے لیکن حکومتی کیپٹلزم کے سامنے چھوٹے اور غیر منظم مُلک بالکل نہیں ٹھہر سکتے اور ان کے بچنے کی کوئی ممکن صورت ہی باقی نہیں رہتی۔ اور یہ مقابلہ ایسا ہی عبث ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک مشین گن رکھنے والی فوج کے مقابل پر سونٹے لے کر نکلنے والی فوج عبث اور بے کار ہوتی ہے۔ کمیونزم نے مُلکی اجتماعی کیپٹلزم کا طریق جاری کر کے جس میں سارے مُلک کی دولت اور اس کی سیاسی برتری مجموعی طور پر دوسرے مُلکوں کے منفرد صنّاعـوں اور تاجروں کے مقابل پر کھڑی ہوتی ہے ایک ایسا طریق رائج کیا ہے جودنیا کے اقتصادی نظام کو بالکل تہہ وبالا کر دے گا۔ لوگ ٹرسٹوں اور کارٹلز کے خلاف شور مچارہے تھے اور ان کے ظلموں کے شاکی تھے مگر کمیونزم نظام کے ماتحت ترقی کرنے والی صنعت وحرفت تمام دوسرے مُلکوں کے لئے ایسی خطرناک ثابت ہوگی کہ اس کے مقابلہ پر ٹرسٹ تو کیا کارٹلزبھی ایسے معلوم ہوں گے جیسے ایک دیو کے مقابلہ پر ایک پانچ سالہ لڑکا۔ انگلستان کا ایک بڑا تاجر امریکہ کے ایک بڑے تاجر کا مقابلہ تو کر سکتا تھا اگر مقابلہ نہ ہوسکتاتھا تو انگلستان کے چند تاجر مل کرایک ٹرسٹ بنا لیتے تھے۔ اگر جرمنی کی سائنٹیفک مصنوعات کا مقابلہ امریکہ اور انگلستان کے صناعوں کے لئے مشکل ہوتا تو دونوں مُلکوں کے تاجر مل کر ایک کارٹل کے حصہ دار ہو جاتے تھے مگر کمیونزم کی صنعت کا مقابلہ کوئی زبردست سے زبردست کارٹل بھی کس طرح کر سکتا ہے کیونکہ کمیونزم کے ترقی یافتہ کارخانوں کی مدد پر ایک یا دو تاجر نہ ہوں گے بلکہ سب مُلک کی دولت ہوگی اور تاجروں کی دولت ہی نہ ہوگی روس کی ڈپلومیٹک فوج اور لڑنے والی فوج اور اس کا بحری بیڑا بھی ہو گا کیونکہ اس کے کارخانہ کی ناکامی کسی ایک فرد یا کمپنی کی ناکامی نہ ہوگی بلکہ خود روسی حکومت کی ناکامی ہوگی۔ کیونکہ کمیونزم کے نظامِ صنعت وحرفت کے کارخانے حکومت کے قبضہ اور انتظام میں ہوں گے۔ پس جس صنعت کو یہ مدد حاصل ہوگی اس کا مقابلہ غیر مُلکوں کے تاجر یا ٹرسٹ یا کئی مُلکوں کے اشتراک سے بنے ہوئے کارٹلز بھی کس طرح کر سکتے ہیں۔
پس رشین کمیونزم نے ایک نہایت خطرناک کیپٹلزم کا راستہ کھولا ہے جس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ اس کا مقابلہ اِن دوہی صورتوں سے ہو سکتا ہے۔
(۱) سب دنیا ایک ہی نظام میں پروئی جائے یعنی سب مُلک روسی حکومت کا جزوبن جائیں اور اس طرح آئندہ غیر مساوی مقابلہ کو بند کر دیں۔ مگر کیا کمیونزم میںکوئی ایسے اشتراک کی گنجائش ہے؟ یا کیا غیر مُلکوں کے لوگ مثلاً انگلستان، امریکہ، فرانس کے لوگ اِس امر کے لئے تیار ہیں کہ اس آئندہ آنے والے خطرہ سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو روسی حکومت میں شامل کر دیں؟ اور کیا اس کی کوئی معقول امید ہے کہ اگر وہ ایسا کر بھی دیں تو وہ روسیوں کے ساتھ ہر جہت سے مساوی حقوق حاصل کر لیں گے؟ اگر یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں جیسا کہ میرے نزدیک ہر عقلمند انسان انہیں ناممکن کہے گا تو پھر یہ علاج تو بے کار ہوا۔
(۲) دوسرا ممکن علاج اس خطرہ کا یہ ہو سکتا ہے کہ سب دنیا کے مُلک کمیونزم سسٹم کے مطابق الگ الگ نظام قائم کرلیں۔ مگر سب دنیا کمیونزم میں آجائے تو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ چند حکومتی ٹرسٹ ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گے اور وہ حالت موجودہ حالت سے بہت زیادہ خطرناک ہوجائے گی۔ اِس تبدیلی سے صرف یہ فرق پڑے گا کہ پہلے تو ہندوستان کے تاجرکا رشیا کے تاجر سے مقابلہ ہوا کرتا تھا مگر پھر ہندوستانی حکومت کے صنعتی ادارہ کا مقابلہ روسی حکومت کے صنعتی ادارہ سے ہوگا۔ گویا اب تو جنگ کبھی کبھار ہوتی ہے اُس وقت ایک مستقل جنگ دنیا میں جاری ہو جائے گی۔ ہر تجارتی قافلہ کا افسر درحقیقت ایک سفیر ہوگا اور ہر تجارتی مال اپنی حفاظت کے لئے اپنے مُلک کی فوج اور اُس کا بیڑا ساتھ رکھتا ہوگا۔ تجارتی نزاع تاجروں میں نہیں حکومتوں میں ہوں گے اور لین دین کے لئے کمپنیوں کے مینیجر نہیں بلکہ حکومتوں کے وزیر خط وکتابت کریں گے۔ اِس نظام میں کسی چھوٹے مُلک یا غیر منظم کو کوئی جگہ ہی نہیں مل سکتی۔ چھوٹے مُلک اور غیر منظم مُلک اِس نظام کے جاری ہونے پر اپنی حریّت پوری طرح کھو بیٹھیں گے اور صرف بڑے مُلکوں کی چراگاہیں بن کر رہ جائیں گے۔ اور جو مُلک منظم اور بڑے ہوں گے اُن میں پہلے کی طرح مقابلہ جاری رہے گا صرف فرق یہ ہوگاکہ پہلے تو زید اور بکر کا تجارتی مقابلہ ہوتا تھا آئندہ حکومت کا حکومت سے تجارتی مقابلہ ہوگا۔
اگریہ خیال کیا جائے کہ سب لوگ مل کر ایک باانصاف معاہدہ کرلیں گے تو یہ بھی درست نہیں۔ آج کا روس کل کا روس نہیں اور کل کا روس آج کا روس نہ ہوگا۔ جب اِس کی صنعت وحرفت ترقی کرے گی اور جب اس کی دولت بڑھے گی وہ دوسروں سے اپنی دولت بانٹنے کے لئے تیار نہیں ہوگا بلکہ وہ تو آج بھی تیار نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ ایران کے تیل پر کیوں قبضہ کرنا چاہتا۔
روس کا فعل اپنے قول کے خلاف
روس کا تھری بگز(THREE BIGS) میں شامل ہونا بھی اُس کے اپنے اصول سے ہٹنے
پر دلالت کرتا ہے۔ آخر ان تین بڑوں کے علاوہ جو دوسری حکومتیں ہیں وہ کیا چیزہیں۔ سمجھ لو کہ طاقتور آدمی کے مقابل پر کمزور اور غریب آدمی کی حیثیت رکھتی ہیں۔بیلجیئم کیا ہے؟ ایک کمزور اور غریب آدمی۔ ہالینڈ کیا ہے؟ ایک کمزور اور غریب آدمی۔ روس انگلستان اور امریکہ کیاہیں؟ مضبوط پہلوان اور کڑور پتی تاجر۔ اگر روس اپنے اصول میں سچائی پر قائم ہے تو اُسے اِن کمزور اور غریب ممالک کے ساتھ ایک ہی صف میں اپنے آپ کو کھڑا کرنا چاہئے تھا اور کہنا چاہئے تھا کہ ہمارا اصول یہ ہے کہ سب انسان برابر ہیں۔ ہم اپنے اور اِن کمزور حکومتوں میں کوئی فرق نہیں کرنا چاہتے ۔جیسے ہمیں اپنی جان پیاری ہے ویسے ہی ان کو پیاری ہے، جیسے ہمیں اپنے مُلک کا فائد ہ مدنظر ہے ویسے ہی ان کو مدنظر ہے۔ پس حکومتوں کی مشاورتی مجالس میں ہم میں اور کمزور حکومتوں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے کہ ہر ایک نے اپنے حقوق کی حفاظت کرنی ہے۔ مگر روس کی کمیونسٹ حکومت نے ایسا نہیں کیا اُس نے یہ مطالبہ کیا کہ تین بڑوں کے مشورہ سے سب اصول اور امورطے ہوں۔ اُس نے اپنی آواز کی اَور قیمت مقرر کی ہے اور بیلجیئم اور ہالینڈ کی اور۔ اور اگر بیلجئیم اور ہالینڈ کی آوازوں اور روس کی آواز میں فرق ہے، اگر کمزور قوم کو طاقتور قوم کے مقابل پر نہیں لایا جاسکتا، اگر ایک غریب قوم کے ساتھ مساوات کا سلوک نہیں کیا جاسکتا تو فرد کو فرد کے مقابل پر مساوات کیوں دی جائے۔ ایک عالم اور جاہل اور ذہین اور کند ذہن میں جو قدرتی فرق ہے اُسے کیوں مٹایا جائے۔ اور روس کا خود تھری بِگز (THREE BIGS)میں شامل ہونا اور اِس تین بڑوں یا پانچ بڑوں کے اصول پر زور دینا بتاتا ہے کہ کمیونزم کا مساوات کا اصول بالکل غلط اور دکھاوے کا ہے۔ اگر بڑی حکومت چھوٹی حکومت کے مقابل میں امتیازی سلوک کی مستحق ہے تو عالم جاہل کے مقابل پر اور فطرتی صنّاع اور تاجرایک کودن۳۲؎ صنّاع اور غیر تجربہ کار تاجر کے مقابل پر اپنے فن سے فائدہ اُٹھانے کا کیوں مستحق نہیں۔ ایک بڑی قوم کے مقابل پر ایک چھوٹی قوم کو نیچا کر دینا اِس سے زیادہ خطرناک ہے جتنا کہ ایک شخص کا اپنی قابلیت سے دوسرے سے کچھ آگے نکل جاناخصوصاً جب کہ طبعی مساوات کے قیام کے لئے اسلام کے مقرر کردہ پاکیزہ اصول موجود ہوں۔
اِس موقع پر مجھے ہندوستان کے ایک بڑے لیڈرکا ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک دفعہ ایک مقام پربعض مسائل کے متعلق غور کرنے کے لئے بہت سے لیڈر ہندوستان کے مختلف مقامات سے جمع ہوگئے مجھے بھی سرسکندر مرحوم اور سرفیروزخان نون نے تار دیکر بلوایا۔ یہ مجلس شملہ میں ہوئی تھی غالباً ۷۰ یا ۸۰ لیڈر تھے جومختلف مقامات سے شامل ہونے کے لئے آئے تھے۔ جب اتنے بڑے لیڈروں کو اُس لیڈر نے اکٹھے دیکھا تو انہیں بہت بُرا لگا کہ ہندوستان کے اتنے لیڈر ہیں اور انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ بڑے معاملات اتنے بڑے اجتماعوں میں طے نہیں ہو سکتے بہترہوگا کہ ہم چند لیڈروں کے لیڈر (We Leaders of Leaders) اس میں بیٹھ کر فیصلہ کر کے ان لوگوں کو سنا دیں یہی حال روس کا ہے۔ زید اور بکر کے متعلق تو کہا جاتا ہے کہ اُن میں مساوات ہونی چاہئے مگر جب حکومت کا سوال آتا ہے تو کہا جاتا ہے ہم تین بڑی حکومتیں مل کر جو فیصلہ کریں گی وہی تمام اقوام کو ماننا پڑے گا۔ ان کا حق نہیں کہ وہ ہمارے ساتھ شامل ہوں یاہماری کانفرنس میں شریک ہوں۔آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ سوائے اِس کے کہ روس کے پاس توپیں زیادہ ہیں اور دوسروں کے پاس توپیں کم ہیں، روس کے پاس ٹینک اور ہوائی جہاز اور فوجیں زیادہ ہیں لیکن بیلجیئم، فرانس اور ہالینڈکے پاس کم ہیں۔ اگر سامانِ حرب کی کثرت کی وجہ سے روس اِس بات کا حق رکھتا ہے کہ اُس کی آواز کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ وقعت دی جائے اور وہ دوسرے چھوٹے مُلکوںکے برابر ہونے کے لئے تیار نہیں ہے تو وہ کَل کواُن کو اپنے اقتصادی پروگرام میں شامل کس طرح کرے گا ۔جو مُلک اِس بات کے لئے تیار نہیں ہے کہ وہ دوسرے مُلکوں کی رائے کو کوئی وقعت دے یا ان کو مجلس صلح میں بٹھائے وہ اُن کو کھانا اور کپڑا دینے کے لئے کس طرح تیار ہوگا۔ یقینا جب روس کی انڈسٹری بڑھے گی تو وہ اپنی منڈیوں کے لئے منڈیٹس (MANDATES (چاہے گا برابر کے شریک نہیں۔
غرض سرمایہ داری مُردہ باد کا کوئی سوال نہیں یہ محض وہم ہے جو لوگوں کے اندر پایا جاتا ہے۔ اصل سلوگن یہ ہے کہ الف ؔ کی سرمایہ داری مُردہ باد اور مُلکِ روس کی سرمایہ داری زندہ باد۔ اور اِس کا انجام تم خود سوچ لو۔ الف ؔ اور بؔکی سرمایہ داری کا تولوگ مقابلہ کر سکتے تھے مگروہ روس کی حکومتی سرمایہ داری کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
روس میں غیر روسی کے داخلے کا امتناع
روس اپنی کمزوری کو خود بھی محسوس کرتا ہے اور اِسی وجہ سے وہ غیرممالک
کے تعلقات کو سختی سے روکے ہوئے ہے چنانچہ حال ہی میں اسٹیفن کنگ حال ممبر پارلیمنٹ انگلستان روس میں دورہ کر کے آئے ہیں۔ اُنہوں نے اِس دورہ کا مفصل ذکر ایک مضمون میں کیا ہے جو ’’SOVIET UNION‘‘ کے ماہ جون کے پرچہ میں شائع ہوا ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں ’’ روسی گورنمنٹ نہیں چاہتی کہ روس کی قوم آزادی سے اور بغیر کسی روک کے ہمارے خیالات سے یا کسی اور خیال سے جو روسی نہ ہو واقف ہوسکے‘‘ پھر کہتے ہیں۔ ’’کہ کوئی شخص روسی طرزِ زندگی کو براہِ راست نہیں سمجھ سکتا بجز روسی سرکاری ذرائع کے۔ اور یہ مشکل ابھی کتنے ہی سال تک رہے گی‘‘پھرابھی پچھلے دنوں روس کے ماہرین یہاں آئے تھے۔ امریکہ کے بعض ماہرین بھی اُن کے ساتھ تھے۔ وہ سب سے زیادہ ہندوستان کی حالت کو دیکھ کر حیران ہوئے کیونکہ اُن کے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ سفر کر سکیں لیکن ہندوستان کا ہر شخص جہاں جی چاہے آسانی کے ساتھ آجاسکتا ہے اس لئے جب انہوں نے اپنی حکومت کے خرچ پر ہندوستان کو دیکھا تو انہیں یہ مُلک اس طرح نظر آیا جیسے مر کر انسان اگلے جہان کو دیکھتا ہے۔ یہ نتیجہ تھا اُن کی ناواقفیت کا مگر آخر یہ کولڈ سٹوریج میں رکھنے کا معاملہ کب تک چلے گا۔ ایک دن یہ دیوار ٹوٹے گی اور دُنیا ایک زبردست تغیر دیکھے گی۔
روسی اقتصادیات کے متعلق بعض غور طلب باتیں
روس کی عملی مساوات میں بھی مجھے شبہ ہے۔ مگر وہاں کے پورے حالات چونکہ معلوم نہیں ہوتے اِس لئے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔لیکن مجھے قطعی طور پر معلوم
ہوا ہے کہ روسی سپاہی کالباس نہایت بوسیدہوتا ہے۔ یہ رپورٹیں مجھے اپنی جماعت کے بعض احمدی افسروں اور بعض احمدی سپاہیوںنے پہنچائی ہیں جنہیںفوج میں ایسے مقامات پر کام کرنے کاموقع ملا جہاں روسی افسر اور روسی سپاہی بھی اُن کیساتھ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ روسی سپاہی کا لباس خصوصاً ایشیائی سپاہی کا لباس نہایت ادنیٰ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں مارشل توموشنکو اور مارشل کونیف کی تصویروں کو دیکھا جائے تو انہوں نے نہایت قیمتی تمغے لگائے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کا لباس بھی بڑا خوبصورت ہوتا ہے۔ مارشل کاتمغہ ساٹھ ہزار کی قیمت کا ہوتا ہے ۔ اس تمغہ سے ہی اقتصادی مساوات کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
مساوات کے دعویٰ کی عملاً تغلیط
پھر کمیونزم میں جو مساوات پائی جاتی ہے اُس کا اِس سے بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ
موسیوسٹالن نے اِسی جنگ کے ایّام میں مسٹر چرچل کی ایک ملاقات کے موقع پراُن کے اعزاز میں ایک دعوت دی تو اُس موقع پر بڑی تعداد میں کھانے تیار کئے گئے جو موسیوسٹالن اور ان دوسرے لوگوں نے کھائے جو اس دعوت میں شریک تھے ۔ مسٹرچرچل جب انگلستان واپس گئے تو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس دعوت کاذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر کہا کہ کاش! مجھے اپنے کیپٹلسٹ مُلک میں وہ کھانے میّسر آتے جو پرولی ٹیری ایٹ (Protletariate) حکومت میں مجھے کھانے کو ملے۔ اگر وہاں واقعہ میں مساوات پائی جاتی ہے تو کیا ماسکو کے ہر شہری کو اِسی طرح ساٹھ ساٹھ کھانے ملا کرتے ہیں؟ اگرنہیں تو یہ امور صاف طور پر بتاتے ہیں کہ کامل مساوات کا سوال ابھی حل نہیں ہوااور نہ حل ہوگا۔ تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مجبوری تھی کیونکہ اِن جنگ کے دنوں میں انگلستان کی حکومتی دعوتیں بھی بہت سادہ ہوتی ہیں۔ اِس سے بہت سادہ دعوت بھی کافی ہو سکتی تھی مگر اصل میں تو روسی دبدبہ دکھانامدنظر تھا اور یہ جذبہ مساوات کی روح کو کچلنے کاموجب ہوا کرتا ہے۔ دوسرے اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ مساوات کے معنی روس میں بدل رہے ہیں اور ایک نیا طبقہ امراء کا وہاں پیدا ہو رہا ہے جس کی بنیاد کمیونسٹ پارٹی میں پیدا کئے ہوئے رسوخ پرہے۔ پس مساوات کی شکل بدلی ہے چیز اسی طرح قائم ہے جس طرح پہلے تھی۔
اِس تقریرکے مسودہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے ایک خبر روس کی اِس عدمِ مساوات کے بارہ میں ملی ہے جسے مَیں اِس جگہ نقل کر دینا چاہتا ہوں کیونکہ وہ میرے مضمون کے اِس حصہ پر روشنی ڈالتی ہے اور اِس کی تائید میں ہے۔ آسٹریلیا کے مشہور اخبار’’ سن‘‘ نے اپنے کنبرا کے نامہ نگار کی رپورٹ پر یہ خبر شائع کی ہے کہ آسٹریلین وزیر متعینہ روس نے اپنی رخصت کے ایام میں آسٹریلیا کی پارلیمنٹری سنسر پارٹی کی ایک مجلس میں مندرجہ ذیل واقعات بیان کئے۔
(۱) روس میں ایک نئی دولت مندوں کی جماعت پیدا ہو رہی ہے کیونکہ عام لوگوں کی نسبت کمیونسٹ پارٹی کے سربرآوردہ ممبروں اور ’’صنعتی ماہروں‘‘ سے بہت ہی زیادہ بہتر سلوک کیا جاتا ہے۔
(۲) ریسٹورینٹوں (RESTAURANT) میں پانچ قسم کی غذا تیار ہوتی ہے جس کے ٹکٹ کمیونسٹ پارٹی میں رسوخ اور کام کی نوعیت کے مطابق تقسیم ہوتے ہیں( یعنی اوّل درجہ کو اوّل درجہ کا کھانا۔ دوسرے درجہ والے کو دوسرے درجہ کا کھانااور اسی طرح آخر تک)
(۳) یہ کہ اِن امتیازی سلوکوں کے نتیجہ میں افراد کے درجوں کا فرق ویسا ہی نمایا ں ہے جیسا کہ زار روس کے زمانہ میں تھا۔
(۴) یہ کہ جہاں دوسرے مُلکوں میں بلیک مارکیٹ چور تاجر چلاتے ہیں روس میں خود حکومت کی طرف سے عَلَی الْاِعْلَان یہ مارکیٹ جاری ہے۔
(۵) اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑے عہدہ والے لوگ قریباً ہر چیز حاصل کرسکتے ہیں جب کہ عام کاریگر اپنی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہے۔
آسٹریلین وزیر نے اس خبر کے شائع ہونے پر اظہار افسوس کیا ہے اور لکھا ہے کہ ہماری حکومت اور روس کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر اِس خبر کا انکار نہیں کیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انکار سیاسی ہے حقیقی نہیں۔
یہ خبر وضاحت سے اس اندازہ کی تصدیق کرتی ہے جو مَیں نے اپنے لیکچر میں سوویٹ کے مستقبل کے متعلق لگایا تھا کہ آئندہ ایک نیا طبقہ امراء کا پیدا ہونا ضروری ہے کیونکہ لیاقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔یہ ظاہر ہے کہ چونکہ اسلامی حد بندیاں اِس ممتاز طبقہ کو حدود کے اندر رکھنے کے لئے کمیونزم میں موجود نہیں یہ طبقہ آخر کمیونسٹ حکومتوں کو پھر پُرانے اصول کی طرف لے جائے گا اور کمیونسٹ کی بغاوت کا صرف ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ روس کو اقوامِ عالم میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہو جائے گی اور امپیریلسٹک حکومتوں کی نفع اندوزی میں وہ بھی شریک ہو جائے گا اور ورلڈ پرالیٹریٹ یعنی دنیا کی حکومت عوام کا اصل ایک خواب کی شکل میں تبدیل ہو جائے گا ایسا خواب جو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا کیونکہ کمیونزم فلسفہ انسانی ہمدردی کے اصول پر نہیں بلکہ زار کی حکومت سے انتقام کے اصول پر مبنی ہے۔
روسی سپاہیوں کا تمدّنی معیار
اِس موقع پرضمناً مَیں روسی سپاہیوں کے تمدّنی معیار کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مجھے بتایا
گیا ہے کہ ایران میں سے بنزائن کی ایک گاڑی گزر رہی تھی کہ ایک ڈرم میں سوراخ ہوگیا اور اس میں سے بنزائن بہنے لگا۔ روسی سپاہیوں نے جب یہ دیکھا تو انہوں نے سمجھا کہ شایدرَمْ (RUM)یا بیئر( BEER ) ہے۔ چنانچہ انہوں نے بنزائن کو شراب سمجھ کر پینا شروع کر دیا۔ـ قریباً ایک ہزار روسی سپاہیوں نے یہ بنزائن استعمال کی اور اُن میں سے درجنوں اس زہر کی وجہ سے مر گئے اور سینکڑوں بیمار ہوگئے۔ قومی خدمت کا یہ ایک بہت بُرا نمونہ ہے۔ اتنے سپاہیوں کا اپنے قومی فرض کو بھول جانا اور بجائے قومی مال کی حفاظت کے اُسے اپنے استعمال میں لانے کی کوشش کرنا بتاتا ہے کہ عام سپاہی کی اقتصادی حالت اِس قدر اچھی نہیں کہ وہ حقیقی یا فرضی لالچوں سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ کم سے کم ایران میں رہنے والے روسی سپاہیوں کی حالت ایسی نہیں کہ یہ کہا جاسکے کہ روس نے اُن کی حالت کو بدل دیاہے۔
کمیونزم کے دعویٰ مساوات کے متعلق بعض حل طلب سوالات
انڈسٹری کے متعلق یہ حل طلب سوال ہے کہ کیا ہر انڈسٹری میں ایک ساکام ہے۔ کوئلہ کی کان میں اور قسم کا کام ہے اور دُکان
میں بیٹھنے کا اور کام ہے۔ پھریہ سوال پیدا ہوتاہے کہ درزی کو اَور سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے اور جو ہری کو اَور کی اِس کا کمیونزم میں کیا حل سوچا گیا ہے؟ کیا دُکانوں کا سرمایہ سب حکومت کا ہوتا ہے اور وہاں کی سب تجارت حکومت کے ہاتھ میں ہے پھریہ بھی سوال ہے کہ اچھے اور بُرے ڈاکٹر اور اچھے اور بُرے وکیل کی فیس ایک ہی ہے یا اس میں اختلاف ہے؟ اگراختلاف ہے تو کیوں؟ اگر نہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا سب لوگ اچھے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں؟ اگر جاتے ہیں تو بہرحال وہ سب کا علاج نہیں کر سکتا پھر وہ کیا کرتا ہے؟ یا سب لوگ اچھے وکیل کے پاس جاتے ہیں؟ اگر جاتے ہیں تو وہ سب کے مقدمات نہیں لڑسکتا۔ اگر سب مقدمات نہیں لیتا تو وہ اُن کا انتخاب کس طرح کرتا ہے؟ ایسے ہی بیسیوں سوالات ہیں جن پرغور کر کے مساوات کا حقیقی علم حاصل ہو سکتا ہے۔ ان سوالات کے بغیر حقیقی مساوات کا علم ناممکن ہے۔ مگر ان کے معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے اور جب تک اِن باتوں کا جواب مہیّا نہ کیا جائے کمیونزم کے حامی مساوات کا دعویٰ کرنے میں غلطی پر ہیں۔
صحیح اقتصادی نظام
ان تمام باتوں پرغور کرنے کے بعد میں سمجھتا ہوں ہر عقلمند انسان اِس نتیجہ پر ہی پہنچے گا کہ اصل اقتصادی نظام وہی ہے جو
مذہب کے لئے گنجائش رکھے کیونکہ تھوڑے عرصہ پراثر انداز ہونے والی اقتصادیات پرایک لمبے عرصہ پراثر انداز ہونے والی اقتصادیات کو قربان نہیں کیا جاسکتا۔ اور اقتصادیات وہی اچھی ہیں جن میں ہر فرد کی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان ہو مگر اس کے ساتھ ہی ایک حد تک فردی ترقی کا راستہ بھی کھلا ہوتاکہ نیک رقابت پیدا ہو اور بُری رقابت کچلی جائے۔
اصل بات یہ ہے کہ کمیونزم ایک ردِ عمل ہے لمبے ظلم کا۔ اِسی وجہ سے یہ ظلم کے علاقوں میں کامیاب ہے لیکن امریکہ اور انگلستان وغیرہ میں کامیاب نہیں۔ اِسی طرح نیشلسٹ اورسوشلسٹ علاقوں میں بھی کامیاب نہیں۔ کچھ عرصہ ہوا امریکہ کے ایک اخبار نے مزدوروں سے یہ سوال کیا کہ تم اپنے آپ کو کیپٹلسٹ سمجھتے ہو یا مڈل کلاس(MIDDLE CLASS) میں سے سمجھتے ہو یا غریب کلاس میں سے سمجھتے ہو؟ اِس سوال کے جواب میں اکثر جوابات میں یہ کہا گیا تھا کہ ہم اپنے آپ کو مڈل کلاس (MIDDLE CLASS)میں سے سمجھتے ہیں۔ جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ امریکہ کے مزدور کو یہ خیال بھی نہیں آتا کہ وہ غرباء میںسے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونزم امریکہ میں انگلستان سے بھی زیادہ ناکام رہا ہے کیونکہ وہاں دولت بہت زیادہ ہے اور دولت کی کثرت کی وجہ سے مزدوروں میں یہ احساس ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ غریب ہیں یا انہیں اپنے لئے کسی ایسے نظام کی ضرورت ہے جو اُن کی اِس تکلیف کو دور کر سکے جس کا روٹی یا کپڑے کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔
پس اصل علاج یہی ہے کہ (۱) اسلامی تعلیم کے ماتحت غرباء کو اُن کا حق دیا جائے اور (۲)اُمیدوں اور اُمنگوں کو بڑھا دیا جائے جیسے جرمنی اور اٹلی نے اپنے مُلک کے لوگوں کو روپیہ نہیں دیا لیکن اُس نے اُن کی اُمنگوں کو بڑھا دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے آپ کو غالب اور فاتح اقوام میں سے سمجھنے لگے۔ ترقی کے لئے اُمنگ کا پیدا ہونا نہایت ضروری ہوا کرتا ہے ۔ جس قوم کے دلوں میں سے اُمنگیں مٹ جائیں، اُس کی اُمیدیں مر جائیں، اُس کے جذبات سرد ہو جائیں اور غرباء کے حقوق کو بھی وہ نظر انداز کر دے اُس قوم کی تباہی یقینی ہوتی ہے۔
غرباء کی ضروریات کے متعلق امیروں کا فرض
پس ہمارے مُلک کے اُمراء کو چاہئے کہ وہ وقت پر اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اُن حقوق کو ادا کریں جو اُن پر غرباء کے متعلق عائد ہوتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ
کمیونزم کا پیدا ہونا ایک سزا ہے اُن لمبے مظالم کی جو اُمراء کی طرف سے غرباء پر ہوتے چلے آئے تھے لیکن اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرلیں اور توبہ سے اپنے گزشتہ گناہوں کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ اپنی مرضی سے غرباء کو اُن کے حقوق ادا نہیں کریں گے تو خدا اِس سزا کے ذریعہ اُن کے اموال اُن سے لے لیگا۔ لیکن اگر وہ توبہ کریں گے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائیں گے تو یہ مہیب آفت جو اُن کے سروں پر منڈلا رہی ہے اسی طرح چکر کھا کر گزر جائے گی جس طرح آندھی ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ کی طرف اپنا رُخ موڑ لیتی ہے۔ اَب یہ تمہارا اختیار ہے کہ چاہو تو اللہ تعالیٰ کے اُس محبت کے ہاتھ کو جو تمہاری طرف بڑھایا گیا ہے اَدب کے ساتھ تھامو اور اپنے اموال کو غرباء کی بہبودی کے لئے خرچ کرو اور اگر چاہو تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو برداشت کر لو اور دولت اپنے پاس رکھو جو کچھ دنوں بعد تم سے باغیوں اور فسادیوں کے ہاتھ چھنوادی جائے گی۔ آخر میں مَیں اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ کمیونزم کی ترقی اور روسی اقتصادیات پر غور کر تے وقت ہمیں ایک اور اہم بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے جو ایسے حالات میں کہی گئی ہے جبکہ روس کو دنیا میں کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔
روس کے متعلق اڑہائی ہزار سال پہلے کی ایک پیشگوئی
روس کیا ہے؟ ایک ایسا مُلک ہے جس نے صرف تین چار سَو سال سے اہمیت حاصل کی ہے اِس سے پہلے وہ ایک پراگندہ قوم تھی۔ صرف چند قبائل تھے
جو تھوڑے تھوڑے علاقہ پر قابض تھے مگر اپنے علاقہ میں بھی اُس کو کوئی خاص طاقت حاصل نہیںتھی۔ آج سے ایک ہزار سال پہلے وہ بہت ہی غیر معروف تھا اور اِس قدر بے آباد اور ویران تھا کہ کوئی شخص اُس کی بے آبادی کی وجہ سے اس کی طرف منہ بھی نہیں کرتا تھا۔ اور آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے تو اس سے کوئی شخص واقف بھی نہیں تھا۔ شاذونادر کے طور پر جغرافیہ والوں کو اِس کا علم ہو تو ہو ورنہ یہ اس قدر ویران تھا کہ کوئی شخص اس کی طرف منہ کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا تھا۔ اُس زمانہ میں جب کہ روس کو کوئی اہمیّت حاصل نہیں تھی حزقیل نبی نے آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے روس کے متعلق ایک عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جو آج تک بائبل میں موجو ہے اور حزقیل باب ۳۸ اور ۳۹ میں اِس کا تفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے چنانچہ لکھا ہے۔
’’اور خدا وند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد! جوج کی طرف جو ماجوج کی سر زمین کا ہے اور روش اور مسک اور توبل کا فرمانروا ہے متوجہ ہو اور اُس کے خلاف نبوت کر۔ اور کہہ خداوندخدا یوں فرماتا ہے کہ دیکھ اے جوج روش اور مسک اور توبل کے فرمانروا! میں تیرا مخالف ہوں اور مَیں تجھے پھرا دونگا اور تیرے جبڑوں میں آنکڑے ڈال کر تجھے اور تیرے تمام لشکر اور گھوڑوں اور سواروں کو جو سب کے سب مسلّح لشکر ہیں جو پھریاں اور سپریں لئے ہیں اور سب کے سب تیغ زن ہیں کھینچ نکالوں گا۔ اور اُن کے ساتھ فارس اور کُوش اور فوط جو سب کے سب سپربردار اور خودپوش ہیں، جمر اور اس کا تمام لشکر اور شمال کی دُور اطراف کے اہل تجرمہ اور اُن کا تمام لشکر یعنی بہت سے لوگ جو تیرے ساتھ ہیں تو تیار ہو اور اپنے لئے تیاری کر۔ تواور تیری تمام جماعت جو تیرے پاس فراہم ہوئی ہے اور تو اُن کا پیشوا ہو۔ اور بہت دنوں کے بعد تو یاد کیا جائے گا اور آخری برسوں میں اُس سر زمین پر جو تلوار کے غلبہ سے چھڑائی گئی ہے اور جس کے لوگ بہت سی قوموں کے درمیان سے فراہم کئے گئے ہیں اسرائیل کے پہاڑوں پر جو قدیم سے ویران تھے چڑھ آئے گا۔ لیکن وہ تما م اقوام سے آزاد ہے اور وہ سب کے سب امن و امان سے سکونت کریں گے۔ توچڑھائی کرے گا اور آندھی کی طرح آئے گا۔ تو بادل کی مانند زمین کو چھپائے گا۔ تو اور تیرا تمام لشکر اور بہت سے لوگ تیرے ساتھ ۔خداوندخدا یوں فرماتا ہے کہ اُس وقت یوں ہوگا کہ بہت سے مضمون تیرے دل میں آئیں گے اور تو ایک بڑا منصوبہ باندھے گا اور تو کہے گا کہ مَیں دیہات کی سر زمین پر حملہ کرونگا مَیں اُن پر حملہ کرونگا جو راحت وآرام سے بستے ہیں۔ جن کی نہ فصیل ہے نہ اَڑبنگے اور نہ پھاٹک ہیں تاکہ تو لوٹے اور مال کو چھین لے۔ اور اُن ویرانوں پر جو اَب آباد ہیں اور اُن لوگوں پر جو تمام قوموں میں سے فراہم ہوئے ہیں جو مویشی اور مال کے مالک ہیں اور زمین کی ناف پر بستے ہیں اپنا ہاتھ چلائے۔ سبا اور دوان اور ترسیس کے سوداگر اور اُن کے تمام جوان شیر ببر تجھ سے پوچھیں گے کیا توغارت کرنے آیا ہے؟ کیا تونے اپنا غول اس لئے جمع کیا ہے کہ مال چھین لے او رچاندی سونا لوٹے اور مویشی اور مال لے جائے اور بڑی غنیمت حاصل کرے۔
اِس لئے اے آدم زاد! نبوت کر اور جوج سے کہہ خداوند خدایوں فرماتا ہے کہ جب میری اُمت اسرائیل امن سے بسے گی کیا تجھے خبر نہ ہوگی؟ اور تو اپنی جگہ سے شمال کی دور اطراف سے آئے گا تو اور بہت سے لوگ تیرے ساتھ جو سب کے سب گھوڑوں پر سوار ہوں گے ایک بڑی فوج اور بھاری لشکر۔ تو میری اُمت اسرائیل کے مقابلہ کو نکلے گا اور زمین کو بادل کی طرح چھپا لے گا۔ یہ آخری دنوں میں ہوگا اور مَیں تجھے اپنی سر زمین پر چڑھا لاؤنگا تاکہ قومیں مجھے جانیں۔ جس وقت مَیں اے جوج! ان کی آنکھوں کے سامنے تجھ سے اپنی تقدِیس کراؤں۔ خداوندخدایوں فرماتا ہے کہ کیا تو وہی نہیں جس کی بابت مَیں نے قدیم زمانہ میں اپنے خدمت گذار اسرائیلی نبیوں کی معرفت جنہوں نے ان ایام میں سالہاسال تک نبوت کی فرمایا تھا کہ مَیں تجھے اُن پر چڑھا لاؤنگا اور یوں ہوگا کہ اُن ایام میں جب جوج اسرائیل کی مملکت پر چڑھائی کرے گا تو میرا قہر میرے چہرہ سے نمایاں ہوگا۔ خداوند خدا فرماتا ہے کیونکہ میں نے اپنی غیرت اور آتش قہر میں فرمایا کہ یقینا اُس روز اسرائیل کی سر زمین میں سخت زلزلہ آئے گا یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں اور آسمان کے پرندے اور میدان کے چرندے اورسب کیڑے مکوڑے جوزمین پر رینگتے پھرتے ہیں اور تمام انسان جو رؤے زمین پر ہیں میرے حضور تھر تھرائیں گے اور پہاڑ گر پڑیں گے اور کراڑے بیٹھ جائیں گے اور ہر ایک دیوار زمین پر گر پڑے گی اور مَیں اپنے سب پہاڑوں سے اُس پر تلوار طلب کروں گا۔ خدا وند خدا فرماتا ہے اور ہر ایک انسان کی تلوار اُس کے بھائی پر چلے گی اور مَیں وَبا بھیج کر اور خونریزی کرکے اُسے سزا دونگااور اُس پر اور اُس کے لشکروں پر اور اُن بہت سے لوگوں پر جو اس کے ساتھ ہیں شدّت کا مینہہ اور بڑے بڑے اولے اور آگ اور گندھک برساؤنگا او راپنی بزرگی اور اپنی تقدیس کراؤنگا اور بہت سی قوموں کی نظروں میں مشہور ہوں گا اور وہ جانیں گے کہ خدا وند مَیں ہوں۔
پس اے آدم زاد! توجوج کے خلاف نبوت کر اور کہہ خداوندخدایوں فرماتاہے دیکھ اے جوج ، روش، اور مسک اور توبل کے فرمانروا! مَیں تیرا مخالف ہوںاور مَیں تجھے پھرادونگااور تجھے لئے پھرونگا اور شمال کی دُور اطراف سے چڑھالاؤنگا اور تجھے اسرائیل کے پہاڑوں پر پہنچاؤںگا اور تیری کمان تیرے بائیں ہاتھ سے چُھڑا دوں گا اور تیرے تِیر تیرے داہنے ہاتھ سے گرا دونگا۔ تو اسرائیل کے پہاڑوں پر اپنے سب لشکر اور حمایتیوں سمیت گر جائے گا اور مَیں تجھے ہر قسم کے شکاری پرندوں اور میدان کے درندوں کو دوں گا کہ کھا جائیں۔تو کھلے میدان میں گرے گا کیونکہ مَیں ہی نے کہا خداوند خدا فرماتا ہے اور مَیں ماجوج پر اور اُن پر جو بحری ممالک میں امن و سکونت کرتے ہیں آگ بھیجونگا اور وہ جانیں گے کہ مَیں خدا وندہوں اور مَیں اپنے مقدس نام کو اپنی اُمت اسرائیل میں ظاہر کرونگا اور پھر اپنے مقدس نام کی بے حرمتی نہ ہونے دونگا اور قومیں جانیں گی کہ مَیں خداونداسرائیل کا قدوس ہوں۔ دیکھ! وہ پہنچااور وقوع میں آیا خداوندخدا فرماتا ہے یہ وہی دن ہے جس کی بابت میں نے فرمایا تھا۔ تب اسرائیل کے شہروں کے بسنے والے نکلیں گے اور آگ لگا کر ہتھیاروں کو جلائیں گے یعنی سپروں اور پھر یوں کو، کمانوں اور تیروں کو اور بھالوں اور برچھیوں کو اوروہ سات برس تک اُن کو جلاتے رہیںگے۔ یہاں تک کہ وہ نہ میدان سے لکڑی لائیں گے اور نہ جنگلوں سے کاٹیں گے۔ کیونکہ وہ ہتھیار ہی جلائیں گے اور وہ اپنے لوٹنے والوں کو لوٹیں گے اور اپنے غارت کرنے والوں کو غارت کریں گے۔
خداوندخدا فرماتا ہے۔اور اُسی دن یوں ہوگا کہ مَیں وہاں اسرائیل میں جوج کو ایک گورستان دوں گا یعنی راہگذروں کی وادی جو سمندر کے مشرق میں ہے اُس سے راہگذروں کی راہ بند ہوگی اور وہاں جوج کو اور اُس کی تمام جمعیت کو دفن کریں گے اور جمعیت جوج کی وادی اُس کا نام رکھیں گے اور سات مہینوں تک بنی اسرائیل اُن کو دفن کرتے رہیں گے تاکہ مُلک کو صاف کریں۔ ہاں اُس مُلک کے سب لوگ ان کو دفن کریں گے اور یہ اُن کے لئے ناموری کا سبب ہوگا جس روز میری تمجید ہوگی۔ خداوندخدا فرماتا ہے اور وہ چند آدمیوں کو چُن لیں گے جو اس کام میں ہمیشہ مشغول رہیں گے اور وہ زمین پر گزرتے ہوئے راہگذروں کی مدد سے اُن کو جو سطح زمین پر پڑے رہ گئے ہوں دفن کریں گے تاکہ اُسے صاف کریں پورے سات مہینوں کے بعد تلاش کریں گے اور جب وہ مُلک میں سے گزریں اور اُن میں سے کوئی کسی آدمی کی ہڈی دیکھے تو اُس کے پاس ایک نشان کھڑا کرے گا جب تک دفن کرنیوالے جمعیت جوج کی وادی میں اُسے دفن نہ کریں اور شہر بھی جمعیت کہلائے گا یوں وہ زمین کو پاک کریں گے۔
اور اے آدم زاد! خدا وند خدا فرماتا ہے ہر قسم کے پرندے اور میدان کے ہر ایک جانور سے کہہ جمع ہو کر آؤ میرے اس ذبیحہ پر جسے مَیں تمہارے لئے ذبح کرتا ہوں۔ ہاں اسرائیل کے پہاڑوں پے ایک بڑے ذبیحہ پر ہر طرف سے جمع ہو تاکہ تم گوشت کھاؤ اور خون پیئو تم بہادروں کا گوشت کھاؤ گے اور زمین کے امراء کا خون پیو گے ہاں مینڈھوں ،برّوں، بکروں اور بیلوں کا۔ وہ سب کے سب بسن کے فربہ ہیں اور تم میرے ذبیحہ کی جسے مَیں نے تمہارے لئے ذبح کیا یہاں تک چربی کھاؤ گے کہ سیر ہو جاؤ گے اور اتنا خون پیو گے کہ مست ہو جاؤ گے او رتم میرے دسترخوان پر گھوڑوں اور سواروں سے اور بہادروں اور تمام جنگی مردوں سے سیر ہوگے۔ خداوندخدا فرماتا ہے اور مَیں قوموں کے درمیان اپنی بزرگی ظاہر کروں گا اور تمام قومیں میری سزا کو جو مَیں نے دی اور میرے ہاتھ کو جو مَیں نے اُ ن پر رکھا دیکھیں گی‘‘۔۳۳؎
دیکھو! حزقیل نبی اُس زمانہ میں جب کوئی شخص روس کو نہ جانتا تھا اور جب کسی شخص کے وہم وگمان میںبھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ روس دنیا میں اس قدر ترقی کرے گا کہ اپنی حکومت اور شوکت کے ذریعہ سب پر چھا جائے گا روس کے متعلق پیشگوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:۔
’’ اے روس، ماسکو اور ٹوبالسک کے بادشاہ! خداوندخدایوں فرماتا ہے کہ مَیں دنیا کے آخری زمانہ میں تیری طاقت کو بڑھاؤں گا اور تیری شوکت میں غیر معمولی اضافہ کروں گا یہاں تک کہ تو اس گھمنڈ میں کہ تیری طاقت بہت بڑھ چکی ہے اور تیری عظمت میں اضافہ ہوگیا ہے غیر مُلکوں کو اپنے قبضہ میں لانے اور ان کے اموال اور اُن کے مواشی اور ان کی دولت لوٹنے کی کوشش کر ے گا یہاں تک کہ فارس اور ایران پر بھی تیرا قبضہ ہو جائے گا( جس کی بنیاد ڈالنے کے لئے روس اب ایران کے چشمے مانگ رہا ہے) اے روسـ، ماسکواور ٹوبالسک کے بادشاہ! اس لئے کہ تو غیر مُلکوں کی دولت کو لوٹ لے۔ اُن کا سونا اور چاندی اپنے قبضہ میں کر لے اور اُن کے مواشی اور ان کے اموال کو غصب کر لے اپنے مُلک میں سے نکلے گا (پیشگوئی کے اس حصہ سے ظاہر ہے کہ کمیونزم کا اقتصادی نظام پہلے نظاموں سے بھی زیادہ دوسرے مُلکوں کے لئے خطرناک ہوگا) اور غیر ممالک پر حملہ کرتے ہوئے بڑھتا چلاجائے گا۔ یہاں تک کہ تویروشلم پر حکومت کرنا چاہے گا جس کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں تب میرا غضب تجھ پر بھڑکے گا مَیں آگ اور گندھک کا مینہہ تجھ پر برساؤں گا اور مَیں تجھے بنسیاں مار مار کر تیرے منہ اور جبڑوں کو چیر دونگا اور تجھے اس طرح تباہ وبرباد کروں گا تیری لاشوں کے انبار جنگلوں میں لگ جائیں گے اور لوگ انہیں مہینوں تک زمین میں دفن کرتے رہیں گے‘‘۔
وہ لوگ جو پیشگوئیوں کو نہیں مانتے مَیں اُن سے کہتا ہوں کہ اگر دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے اور اگر وہ اپنے انبیاء کو غیب کی خبروں سے اطلاع نہیں دیا کرتا تو آج سے اڑہائی ہزار سال پہلے حزقیل نبی کو یہ کس نے بتادیا تھا کہ ایک زمانہ میںروس دنیا کی زبردست طاقت بن جائے گا اور وہ دنیا کا سونا اور چاندی لوٹنے کے لئے غیر ممالک پر حملہ کرے گا اور بادل کی طرح اُن پر چھا جائے گا مگر آخر خدا کا غضب اُس پر بھڑکے گا اور وہ آسمانی عذاب کا نشانہ بن کر تباہ وبرباد ہو جائے گا۔ اِس نکتہ پر غور کرنے کے بعد انسان سوائے اِس کے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتاکہ اِس قسم کی قبل ازوقت خبریں دینا خدا کا ہی کام ہے اور اگر دنیا کا ایک خدا ہے اور اُس خدا نے حزقیل نبی کو یہ خبر دی ہے جو آج تک بائبل میں لکھی ہوئی موجود ہے تو پھر اِس خبر کے جو آج سے اڑہائی ہزار سال پہلے دی گئی سوائے اِس کے اور کوئی معنیٰ نہیں ہیں کہ خدا اِس اقتصادی نظام کو دنیا میں رہنے دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔
روس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی
ایک نئی پیشگوئی بھی سُن لو۔ اِس زمانہ میں بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو زارِ روس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ
اُس پر ایک نہایت ہی شدید عذاب آنے والا ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا۔
زاربھی ہو گا تو ہو گا اُس گھڑی باحالِ زار ۳۴؎
یعنی وہ گھڑی آنے والی ہے جب کہ زار بھی باحالِ زار ہو جائے گا۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے عین مطابق بالشویک لوگوں نے زار اور اُس کے خاندان کی مستورات کو ایسے ایسے سخت عذاب دیئے اور اِس اِس رنگ میں اُن کی بے حرمتی کر کے اُن کو مارا کہ وہ واقعات آج بھی سن کر دشمن سے دشمن انسان کا دل بھی کانپ اُٹھتا ہے اور اُس کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے مگر اُس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک او ربھی خبر دی جو یہ ہے ۔
’’۲۲؍ جنوری ۱۹۰۳ء کو مَیں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ زارِ روس کا سونٹا میرے ہاتھ میں آگیا ہے وہ بڑا لمبا اورخوب صورت ہے۔ پھر مَیں نے غور سے دیکھا تو وہ بندوق ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتاکہ وہ بندوق ہے بلکہ اُس میں پوشیدہ نالیاں بھی ہیں گویا بظاہر سونٹا معلوم ہوتا ہے اور وہ بندوق بھی ہے‘‘ ۔۳۵؎
رؤیا میںکسی حکومت کا عصا دیئے جانے کے معنیٰ وہاں طاقت اور نفوذ کے حاصل ہونے کے ہوتے ہیں۔ پس جہاں حزقیل نبی کی خبر یہ بتارہی ہے کہ کمیونسٹ نظامِ اقتصاد کو اللہ تعالیٰ دنیا میں قائم رکھنا پسند نہیں کرتا اور یہ کہ اگر اس نظام کے متولّیوں نے اِس سے توبہ نہ کی اور وہ غیرقوموں میں دخل اندازی اور تصرف سے باز نہ آیا تو خداتعالیٰ کا عذاب اُس پر نازل ہوگا اور وہ اس کی ہیبت ناک سزا کا نشانہ بن کر دنیا کے لئے ایک عبرت کا سامان پیدا کر جائے گا وہاں بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ خبردی ہے کہ آخر روس کا نظام ہمارے ہاتھوں میں دیا جائے گا اور اُس کی اصلاح کا کام ہمارے سپرد ہوگا۔ یہ خدائی کلام ہیں جو ایسے وقت میں کہے گئے ہیں جبکہ ان کے پورا ہونے کے کوئی بھی اسباب دنیا میں نظر نہیں آتے تھے اور نہ اب نظر آتے ہیں۔ مَیں ان ہزاروں لوگوں کے سامنے جو آج اِس مقام پر جمع ہیں خدا تعالیٰ کے اِن کلاموں کو پیش کرتا ہوں۔ حزقی ایل نبی کا کلام وہ ہے جو حضرت مسیح سے چھ سَو سال پہلے یعنی آج سے دوہزار پانچ سَو سال پہلے نازل ہوا جبکہ روس کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اور کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ وہ اتنی طاقت حاصل کر لے گا کہ غیراقوام میں دخل اندازی شروع کردے گا اور اُن کے سونے اور چاندی کو جمع کرنے لگ جائے گا۔ پس غور کرو کہ کتنی عظیم الشان پیشگوئی ہے جو روس کے متعلق کی گئی۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئی موجود ہے جس میں آپ کو زارِ روس کی تباہی کی خبر دی گئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔ اب دوسری پیشگوئی یہ ہے کہ ایک دن روس کی حکومت بدل کر ایسے رنگ میں آجائے گی کہ اُس کا عصا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ جس طرح رسول کریمﷺ نے یہ دیکھا کہ آپ کو قیصر وکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں مگر وہ کنجیاں آپ کی بجائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئیں ۔ اسی طرح گوزارِ روس کے عصا کے متعلق یہ دکھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہ عصا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ میں دیا مگر انبیاء کے ذریعہ جو پیشگوئیاں کی جاتی ہیں وہ سب کی سب اُن کے ہاتھ پر پوری نہیں ہوتیں بلکہ اُن میں سے اکثر اُن کی جماعتوں کے ذریعہ پوری ہوتی ہیں اور اِس پیشگوئی کے متعلق بھی ایسا ہی ہوگا۔ یہ خیالی بات نہیں بلکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ روس کی خرابیوں کو درست کرنا اور اُس کے نظام کی اصلاح کرنا اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اور ایک دن روس کے لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہو کر اس کے بیان کردہ نظام کو اپنے ہاں جاری کریں گے۔ پس جلدیا بدیر کمیونزم کا نظر آنیوالا زبردست خطرہ دُور ہو جائے گا اور لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ دنیا کی خرابیوں کی اصلاح اور اُن کے دکھوں کا علاج صرف اسلامی تعلیم میں ہی پایا جاتا ہے۔
کمیونزم کی تباہی کے متعلق ایک رؤیا
چوبیس سال کی بات ہے مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا میدان ہے
جس میں مَیں کھڑا ہوں۔ اتنے میں مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عظیم الشان بَلا جوایک بہت بڑے اژدہا کی شکل میں ہے دُور سے چلی آرہی ہے۔ وہ اژدہا دس بیس گزلمبا ہے اور ایسا موٹا ہے جیسے کوئی بڑا درخت ہو۔ وہ اژدہا بڑھتا چلا آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ دنیا کے ایک کنارے سے چلاہے اور درمیان میں جس قدر چیزیں تھیں اُن سب کو کھاتا چلا آرہا ہے یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے وہ اژدہا اُس جگہ پر پہنچ گیا جہاں ہم ہیں اور مَیں نے دیکھا کہ باقی لوگوں کو کھاتے کھاتے وہ ایک احمدی کے پیچھے بھی دَوڑا۔ وہ احمدی آگے آگے ہے اور اژدہا پیچھے پیچھے۔ مَیں نے جب دیکھا کہ اژدہا ایک احمدی کو کھانے کے لئے دوڑ پڑا ہے تو مَیں ہاتھ میں سونٹا لے کر اُس کے پیچھے بھاگا لیکن خواب میں مَیں محسوس کرتا ہوں کہ مَیں اتنی تیزی سے دَوڑنہیں سکتا جتنی تیزی سے سانپ دَوڑتا ہے۔ چنانچہ مَیں اگر ایک قدم چلتا ہوں تو سانپ دس قدم کے فاصلہ پر پہنچ جاتا ہے۔ بہرحال مَیں دَوڑتا چلا گیا یہاں تک کہ مَیں نے دیکھا وہ احمدی ایک درخت کے قریب پہنچا او رتیزی سے اُس پر چڑھ گیا۔ اُس نے خیال کیا کہ اگر میں درخت پر چڑھ گیا تو مَیں اژدہا کے حملہ سے بچ جاؤنگا مگر ابھی وہ اس درخت کے نصف میں ہی تھا کہ اژدہا اُس کے پاس پہنچ گیا اور سر اُٹھا کر اُسے نِگل گیا۔ اس کے بعد وہ پھر واپس لَوٹا اور اِس غصہ میں کہ مَیں احمدی کو بچانے کے لئے کیوں اُس کے پیچھے دَوڑا تھا اُس نے مجھ پر حملہ کیا۔ مگر جب وہ مجھ پر حملہ کرتا ہے تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے قریب ہی ایک چارپائی پڑی ہوئی ہے مگر وہ بُنی ہوئی نہیںصرف پٹیاں وغیرہ ہیں۔ جس وقت اژدہا میرے پاس پہنچا مَیں کود کر اُس چارپائی کی پٹیوں پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا اور مَیں نے اپنا ایک پاؤں اُس کی ایک پٹی پر اور دوسرا پاؤں اُس کی دوسری پٹی پر رکھ لیا۔ جب اژدہا چارپائی کے قریب پہنچا تو کچھ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ اس کا مقابلہ کس طرح کرسکتے ہیں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیںکہ لَایَدَانِ لِاَ حَدٍ بِقِتَالِھِمْ۳۶؎ اُس وقت مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سانپ کا حملہ دراصل یاجوج اور ماجوج کا حملہ ہے کیونکہ یہ حدیث اُن کے بارہ میں ہے۔ مَیں اُس وقت یہ بھی خیال کرتا ہوں کہ یہ دجال بھی ہے۔ اتنے میں وہ اژدہا میری چارپائی کے قریب پہنچ گیا اور مَیں نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا دیئے اور اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگنی شروع کر دی۔ اِسی دَوران میںاُن احمدیوں سے جنہوں نے مجھے مقابلہ کرنے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ جب رسول کریم ﷺ فرماچکے ہیں کہ یا جوج اور ماجوج کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکے گی مَیں کہتا ہوں کہ رسول کریمﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ لَایَدَانِ لِاَ حَدٍ بِقِتَالِھِمْ کسی کے پاس کوئی ایسا ہاتھ نہیں ہوگا جس سے وہ اُن کا مقابلہ کر سکے مگر مَیں نے تو اپنے ہاتھ مقابلہ کے لئے اُس کی طرف نہیں بڑھائے بلکہ اپنے دونوں ہاتھ خدا کی طرف اُٹھا دیئے ہیں اور خدا کی طرف ہاتھ اُٹھا کر فتح پانے کے امکان کو رسول کریمﷺ نے ردّ نہیں فرمایا۔ غرض مَیں نے دعا کرنی شروع کر دی کہ اے خدا! مجھ میں تو طاقت نہیں کہ مَیں اِس فتنہ کا مقابلہ کر سکوں لیکن تجھ میں سب طاقت اور قدرت ہے مَیں تجھ سے التجاء کرتا ہوں کہ تو اِس فتنہ کو دور فرما دے۔ جب مَیںنے یہ دُعا کی تو مَیں نے دیکھا کہ آسمان سے اُس اژدہا کی حالت میں تغّیر پیدا ہونے لگا جیسے پہاڑی کیڑے پر نمک گرانے سے ہوتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اُس اژدہا کے جوش میںکمی آنی شروع ہوگئی اور آہستہ آہستہ اُس کی تیزی بالکل کم ہوگئی۔ چنانچہ پہلے تو وہ میری چارپائی کے نیچے گھسا۔ پھر اُس کے جوش میں کمی آنی شروع ہوگئی ۔ پھر وہ خاموشی سے لیٹ گیا اور پھر مَیں نے دیکھا کے وہ ایک ایسی چیزبن گیا ہے۔ جیسے جیلی ہوتی ہے اور بالآخر وہ اژدہا پانی ہو کر بہہ گیااور مَیں نے اپنے ساتھیوں سے کہا دیکھو! دعا کا کیسا اثر ہوا۔ بے شک میرے اندر طاقت نہیں تھی کہ مَیں اُس کا مقابلہ کر سکتا مگر میرے خدا میں تو طاقت تھی کہ وہ اس خطرہ کو دُور کر دیتا۔
ایک قابلِ ذکر امر
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں ہم ہر ایک کے خیر خواہ ہیں اور دشمن سے دشمن انسان کی بدخواہی کا خیال
بھی ہمارے دل کے کسی گوشہ میں نہیں آتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں اخلاق کی فتح ہو، روحانیت کی ترقی ہو، خدا اور اُس کے رسول کی حکومت قائم ہو۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں جو بھی نظام جاری ہو خواہ وہ اقتصادی ہو یا سیاسی، تمدّنی ہو یا معاشرتی بہرحال خدا اور اُس کے رسول کا خانہ خالی نہ رہے اور دنیا کو اُن کے احکام کی اتباع سے نہ روکا جائے۔ پس ہم روس یا کمیونزم کے دشمن نہیں بلکہ روس سے مجھے دلی ہمدردی ہے اور مَیں چاہتا ہوں کہ یہ قوم جو سینکڑوں سال ظلموں کا شکار رہی ہے ترقی کرے اور اس کے دن پھریں۔ ہاں مَیں یا اور کوئی حریت پسند یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ ایک غلط فلسفہ کو بعض قوموں کی ترقی اور دوسروں کے تنزّل کاموجب بنایا جائے۔ پس اسلام اور رسول کریمﷺ کی بیا ن فرمودہ ہدایات کو اگر دنیا کا کوئی نظام اپنا لے اور اپنا نظام اسلامی رنگ میں ڈھال لے تو اُس کی باتیں ہمارے سر آنکھوں پر۔ لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو مذہبی لوگ اِس بات کے پابند ہیں کہ وہ اُس نظام کو قبول نہ کریں کیونکہ بے شک روٹی کی تکلیف بھی بڑی تکلیف ہے مگر مذہب ایسی چیز ہے جسے انسان کسی حالت میں بھی قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔
مَیں نے اس مضمون کے بیان کرنے میں بہت کچھ اختصار کر دیا ہے اور کئی باتیں چھوڑدی ہیں لیکن پھر بھی مَیں نے لمبا وقت لے لیا ہے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ اسلامی اقتصادیات اور کمیونزم کے اثرات کے متعلق مَیں نے جن امور پر روشنی ڈالی ہے دوست اُن پر غور کریں گے اور محض سُنی سُنائی باتوں کے پیچھے نہیں چلیں گے کیونکہ ذہنی ارتقاء کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ جس بات کو بھی اختیار کیا جائے اُس کے تمام پہلوؤں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر لیا جائے تاکہ انسان جس راستہ کو بھی اختیار کرے سوچ سمجھ کر کرے اور جس نظام کو بھی قبول کرے کھلی آنکھوں کے ساتھ کرے۔ یہی وہ طریق ہے جس پر عمل کرنے سے سچائی ظاہر ہو سکتی ہے اور فتنہ وفساد کا سدِّباب ہو سکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی رحم فرمائے اور اپنی ہدایت کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور خداتعالیٰ آپ لوگوں کو بھی اُس راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جو آپ کے لئے بھی مفید ہو اور آپ کی اولادوں کے لئے بھی مفید ہو۔ آپ کے دین کے لئے بھی مفید ہو اور آپ کی دنیا کے لئے بھی مفید ہو۔ وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
(مطبوعہ فیض اللہ پرنٹنگ پریس قادیان ۱۹۴۵ء)
۱؎ الزخرف: ۸۶ ۲؎ آل عمران: ۲۷ ۳؎ البقرۃ: ۲۰۶
۴؎ النساء: ۵۹
A ۴؎ الپ ارسلان (۱۰۲۹۔۱۰۷۲ء): بانی سلطنت سلجوقیہ۔ نہایت دلیر اور نیک دل حکمران تھا۔ ۱۰۶۴ء میں بزنطینی سلطنت کے صوبہ آرمینیا پر قبضہ کیا ۱۰۷۱ء میں اس نے تھوڑی سی فوج کے ساتھ شاہ قسطنطنیہ کو شکست فاش دی اور قیدکر لیا۔ اتفاقاً ایک باغی کے ہاتھ سے مارا گیا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۱۱۹۔ مطبوعہ لاہور۱۹۸۷ء
B۴؎ مِلکِ شاہ سلجوتی MALIK SHAH (۱۰۵۵۔۱۰۹۲ء): ترکیہ کے آخری سلجوتی سلاطین میں سے ایک (۱۰۷۲۔۱۰۹۲ء) سائنس اور فنون لطیفہ کا بڑا دلدادہ تھا۔ اصفہان میں بہت سی مساجد تعمیر کرائیں۔ سن جلالی کی ابتداء اسی کے عہد میں ہوئی۔ سلطان الپ ارسلان کا بیٹا۔ سلطان کی ہلاکت پر ۱۷ سال کی عمر میں ایران کا بادشاہ بنا۔ بخارا، ثمرقند، شام و مصر فتح کر کے سلطنت مضبوط کی اور امیر کاشغر کو خراج ادا کرنے پر مجبور کیا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۶۱۰۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
۵؎ اسد الغابۃ جلد۴ صفحہ۷۵ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۶؎ البقرۃ: ۳۰ ۷؎ النور: ۳۴ ۸؎ ھود: ۸۸
۹؎ العلق: ۲ ۱۰؎ البلد: ۷ تا ۱۸ ۱۱؎ الانفال: ۶۸
۱۲؎ محمد: ۵ ۱۳؎ النور: ۳۴
۱۴؎ بخاری کتاب الایمان باب ماجاء ان الاعمال بالنیۃ
۱۵؎ الحدید: ۲۱
۱۶؎ گنجفہ: ایک کھیل کا نام
۱۷؎ المؤمنون: ۴
۱۸؎،۱۹؎ بخاری کتاب اللباس باب خواتیم الذھب
۲۰؎ اہتزاز: خوشی، مسرت
۲۱؎ النساء: ۵۹ ۲۲؎ التوبۃ: ۳۴،۳۵
۲۳؎ لاکھ: ایک قسم کاگوند
۲۴؎ جیوٹ (JUTE) :پٹ سن
۲۵؎
۲۶؎ الحشر: ۸
۲۷؎ بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اخذ الصدقۃ التمرعند صرام النخل (الخ)
۲۸؎ طٰہٰ: ۱۹۹،۱۲۰ ۲۹؎ البقرۃ: ۳۱ ۳۰؎ اٰل عمران: ۱۰۵
۳۱؎ العلق: ۶
-B۳۱؎ نارمنڈی (NORMANDY): فرانس کے قدیم صوبوںمیں سے ایک صوبہ۔ اس علاقے میں دسویں صدی عیسوی میں ملحد سکنڈے نیویائی لوگوں نے قبضہ کیا۔ انگریزوں اور فرانسیسوں کے مابین جنگوں میں متعدد بار ایک دوسرے نے اس پر قبضہ کیا۔ ۱۴۵۰ء میں چارلس ہفتم نے اس پرقبضہ کیا۔ ۱۹۴۴ء میں یہ پھر میدان جنگ بنا۔ برطانیہ اور امریکہ کے مشترکہ حملے سے نازی فوجوں کو پسپا ہونا پڑا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۶۹۴۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
۳۲؎ کودن: کندذہن
۳۳؎ حزقی ایل باب۳۸ آیت ۱ تا ۲۳۔ باب ۳۹ آیت ۱ تا ۲۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳
۳۴؎ تذکرہ صفحہ ۵۴۰۔ ایڈیشن چہارم
۳۵؎ تذکرہ صفحہ ۴۵۸۔ ایڈیشن چہارم (مفہوماً)
۳۶؎ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال
قرآن کریم پڑھنے پڑھانے
کے متعلق تاکید
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید
(تقریر فرمودہ ۱۱؍ ستمبر ۱۹۴۵ء بمقام بیت اقصیٰ قادیان)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں نے پہلے بھی کئی بار بلکہ کئی بار کا لفظ بھی شاید غلط ہوگا یوں کہنا چاہئے کہ اپنے پیشروؤں کے تسلسل میں متواتر اور بار بار جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ قرآن شریف کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرے لیکن ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے جیسے انسان کی پیدائش اور موت کا ایک وقت ہوتا ہے، جیسے درختوں کے پھل لانے کا ایک وقت ہوتا ہے، جیسے سبزیاں اور ترکاریاں بونے کا ایک وقت ہوتا ہے، جیسے اُن کے کاٹنے کا ایک وقت ہوتا ہے اِسی طرح بنی نوع انسان کے اعمال بھی خاص خاص ماحول میں پیدا ہوتے، پنپتے، بڑھتے اور مکمل ہوتے ہیں۔
ہمارے ایک پُرانے بزرگ اپنے واقعات میں سے ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ کوئی مالدار شخص بہت ہی عیاش تھا اور رات دن اپنے اموال گانے بجانے اور شراب وغیرہ کے شغل میں خرچ کیا کرتا تھا۔ کوئی بزرگ تھے اُنہوں نے اُسے کئی دفعہ سمجھایا لیکن بجائے اِس کے کہ اُن کی نصیحت اس کے دل پر اثر کرتی اور بجائے اِس کے کہ وہ ان کے وعظ سے نصیحت حاصل کرتا وہ اپنی بداعمالیوں میں اور زیادہ بڑھتا چلا گیا اور بجائے اِس کے کہ وہ اس بزرگ کی خیر خواہی اور اس کے اخلاص کی قدر کرتا اُس نے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں ان کو دُکھ دینا شروع کر دیا اور طرح طرح کی تکالیف دینی شروع کر دیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کر کے مکہ مکرمہ کی طرف تشریف لے گئے۔ ایک دفعہ حج کے ایام میں جب کہ لوگ ذوق و شوق سے طوافِ کعبہ کر رہے تھے اور وہ بزرگ بھی طواف کعبہ میں مشغول تھے (حج کرنے والوں نے تو وہاں کی حالت کو دیکھا ہے جنہوں نے نہیں دیکھا وہ اِس طرح اندازہ کر سکتے ہیں کہ جس طرح شمع کے گِرد پروانے چکر لگاتے ہیں اِسی طرح کعبہ کے گِرد ایک عجیب والہانہ رنگ میں دینِ اسلام کے شیدائی پھر رہے ہوتے ہیں۔ اُس وقت اُن کی وہ مضطربانہ حرکات انسانوں کی حرکات معلوم نہیں ہوتیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ شمع ہے اور اُس کے گِرد گھومنے والے پروانے ہیں اور حج کے ایام میں تو اس کے گِرد چلتے وقت راستہ ملنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ بلکہ جیسے میلوں وغیرہ کے دنوں میں ریلوے ٹکٹ گھر کے سامنے لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے اور قدم قدم پر ٹھوکریں لگتی ہیں اِسی طرح وہاں کی حالت ہوتی ہے) اُن کو اپنے سامنے کے آدمی سے ٹھوکر لگی اُنہوں نے آنکھیں اُٹھا کر دیکھا تو وہ مغرور امیر جس کی وجہ سے اُن کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا تھا طوافِ کعبہ کر رہا تھا اُن کو حیرت ہوئی اور اُنہوں نے اُس سے پوچھا کہ تم کہاں؟ اُس نے جواب میں کہا جہاں آپ مجھے دیکھ رہے ہیں وہیں ہوں۔ انہوں نے کہا آخر تمہاری ہدایت کا موجب کونسی چیز ہوئی؟ میں نے ہر طریقہ وعظ کا تمہاری ہدایت کے لئے اختیار کیا تھا اور ہر ذریعہ نصیحت دلانے کا میں نے استعمال کیا تھا لیکن تم پر ایک ذرہ بھر بھی اثر نہ ہوا اب خدا تعالیٰ نے وہ کونسی نئی بات پیدا کر دی ہے جو تمہارے لئے ہدایت کا موجب ہوئی۔ اُس نے کہا کچھ بھی نہیں آپ نے بیشک قرآن شریف بھی استعمال کیا، حدیث بھی استعمال کی، عقل بھی استعمال کی، غرض ہر ممکن طریقہ مجھے سمجھانے کے لئے استعمال کیا لیکن میرے نصیحت حاصل کرنے کا ابھی وقت نہ آیا تھا۔ مجھے قرآن شریف کی آیات بے معنی معلوم ہوتی تھیں، مجھے حدیث کا کلام بالکل فرسودہ کلام نظر آتا تھا، مجھے آپ کی عقل کی باتیں پاگل پن کی باتیں نظر آتی تھیں اور میں اپنی شرارتوں اور اپنی لغویات میں بڑھتا چلا جاتا تھا اور ان حالات میں کسی قسم کا بھی کوئی فرق نہ پڑتا تھا لیکن ایک دن میں اِسی طرح اپنی مجلسِ راگ و رنگ منانے کے لئے بیٹھا ہوا تھا اور تمام سامانِ تعیش کا موجود تھا اور میں لُطف اُٹھا رہا تھا کہ گلی میں سے نہ معلوم کون شخص گزرا۔ اتفاقاً اُس کی آواز اور میری توجہ ہم آہنگ ہوگئیں اور میرے کانوں میں ترنم سے ایک آواز آئی اور یہ الفاظ میرے کانوں میں پڑے ۱؎ کیا مومنوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل خدا کی یاد کی طرف مائل ہوں؟ اُس نے کہا یہ الفاظ جو نہ معلوم کون شخص کس طرز پر اور کس خیال میں پڑھتا چلا جاتا تھا میرے کانوں پر اِس طرح گرے جیسے بیان کیا جاتا ہے کہ قیامت کے دن اسرافیل کا صور پھونکا جائے گا۔ اِن الفاظ کا میرے کانوں میں پڑنا تھا کہ دنیا میری نگاہوں میں تاریک ہوگئی اور وہ چیزیں جن کو میں زندگی کا جزو سمجھتا تھا اب نہایت ہی بے ہنگم نظر آنے لگیں، میں اُسی وقت مجلس سے اُٹھا اور خدا تعالیٰ کے حضور توبہ کی اور اب آپ مجھے یہاں دیکھ رہے ہیں جہاں میں ہوں۔ تو جس شخص پر سارے قرآن شریف نے اثر نہ کیا جب وقت آیا تو ایک آیت نے اُس کی حالت کو بالکل بدل دیا۔ یہی وہ حکمت ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ ہدایت پانے سے محروم ہو جاتے ہیں اور بہت سے لوگ ہدایت دینے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اُس وقت جب کہ ایک شخص کے لئے ہدایت مقدر ہوتی ہے تھک کر اس کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے دس سال مغز ماری کی ہے مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل پر مُہر لگی ہوئی ہے ہم اِس کا کیا کریں؟ اگر اُنہیں علمِ غیب ہوتا تو وہ یہ جانتے کہ یہ دس سال مُہروں کے دس سال تھے مگر اس سے اگلا منٹ جس وقت وہ اس کو چھوڑ کر چلے آئے وہی وقت تھا کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے اس مُہر کو توڑنے کے لئے آ رہے تھے اور ہزار ہا انسان اسی لئے ہدایت سے محروم ہو جاتے ہیں کہ وہ ہدایت کی باتیں سنتے ہیں، پڑھتے ہیں، اُن کے دل میں سچائی کو تلاش کرنے کی جستجو اور خواہش ہوتی ہے مگر ایک وقت گزر جانے کے بعد جب خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کے سینوں کو سچائی سے پُر کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے اور اُن کی مُہروں کو توڑنے کا وقت آتا ہے تو وہ اپنے گھروں میں بیٹھ جاتے اور کہتے ہیں ہم نے بہت غور کر لیا ہے اور بہت کچھ سمجھنے کی کوشش کی ہے شاید دنیا میں ہدایت ہے ہی نہیں یا ہدایت ہمارے لئے مقدر ہی نہیں اس لئے سچے مذہب کی جستجو کی خواہش فضول ہے اور وہ عین اُس وقت اپنے پاؤں کولَوٹا دیتے ہیں جس وقت منزلِ مقصود اُن کے قریب آچکی ہوتی ہے۔
تو میں سمجھتا ہوں کہ شاید خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک وقت مقدر تھا کہ جب اِس تحریک کو ایسی شکل ملنی تھی جس کے ذریعے سے تمام باہر کی جماعتوں کے احمدی قرآن شریف سے واقفیت حاصل کر سکیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اِس تحریک میں نئی تبدیلیوں کا بھی اثر ہے جو قادیان کے مرکزی نظام میں مجھے پچھلے سال سے کرنی پڑیں۔ میں نے محسوس کیا کہ صدر انجمن احمدیہ کے افسر یہ خیال کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کبھی بھی اِس دنیا سے گزر نہیں جانااور اُن کا خیال ہے کہ قیامت کے بوریے وہی سمیٹیں گے اور اُن کے قائم مقاموں کی جماعت کو کوئی ضرورت نہیں۔ جب میں نے دیکھاکہ بڑھاپے کے آثار اُن میں پیدا ہو رہے ہیں، جب میں نے دیکھا کہ اُن کی قوتیں مضمحل ہو رہی ہیں اور جب میں نے دیکھا کہ وہ بات کو جلدی سے فوری طور پر سمجھنے کی قابلیتیں کھو رہے ہیں اور عنقریب ایسا خلا پیدا ہونے والا ہے جس کا پُر کرنا ہمارے اختیار سے باہر ہو جائے گا تو مَیں نے خود اپنے اختیار سے باہر کا نوجوان عنصر اُن میں شامل کر دیا اور واقفین میں سے بھی کچھ نوجوان فارغ کر کے نائب ناظر اور معاون ناظر کر کے اُن کے ساتھ لگانے شروع کر دیئے جس کی وجہ سے نظارتوں کے کاموں میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوگئی ہے۔ مثلاً اِس سال جو خطبہ جمعہ میں نے مولانا آزاد کے متعلق پڑھا تھا اُس کے متعلق میں نے دیکھا کہ وہ کام جو سابق نظارت میں شاید مہینوں تک بھی نہ ہوتا اور کچھ عرصہ کے بعد کہہ دیا جاتا اِس کاخیال تو آیا تھا مگر کچھ مشکلات پیش آگئیں، اِن نوجوانوں نے مل کر میری تقریر اُسی وقت صاف کروا لی اور اِس کا انگریزی ترجمہ بھی کر دیا اور اُسی رات چھپوا کر دوسرے دن صبح ہی تمام ہندوستان میں پھیلا دیا۔ اور ایک آدمی کے ذریعہ کچھ خطبات شملہ بھی بھیج دیئے۔ یہ تبدیلی اس نوجوان خون کی وجہ سے ہوئی ہے جس کا انجمن کی بوڑھی رگوں میں داخل کرنے کا مجھے خدا تعالیٰ نے موقع دیا۔
یہ تحریک بھی میں سمجھتا ہوں کہ اِس تبدیلی کی ممنونِ احسان ہے۔ نیا خون انسان کے لئے ایک ضروری چیز ہے۔ خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ انسان پہلے بوڑھا ہوتا ہے۔ پھر اپنی طاقتیں کھوتا ہے اور پھر عمرِ طبعی کو پہنچ کر مر جاتا ہے اور اگر وقتاً فوقتاً نیا عنصر اُس میں داخل کیا جائے تو وہ سلسلہ قائم رہتا ہے ورنہ نہیں۔ بہرحال مجھے خوشی ہے گو خوشی ابھی مکمل نہیں ہو سکتی کیونکہ لاکھوں کی جماعت میں سے صرف ۷۰،۸۰ آدمیوں کاقرآن شریف کا ترجمہ پڑھنے کے لئے آنا یہ ایک چھوٹا سا بیج تو کہلا سکتا ہے لیکن ایسا درخت نہیں کہلا سکتا جس کے سایہ کے نیچے لاکھوں انسان آرام کر سکیں۔ مگر بہرحال بیجوں سے ہی روئیدگیاں پیدا ہوتی ہیںاور روئیدگیوں سے ہی تنے بن جایا کرتے ہیں اور اِن تنوں سے ہی شاخیں نکلتی ہیں اور شاخیں ہی پتے پیدا کیا کرتی ہیں اور اس طرح وہ ایک بڑا درخت بن جاتا ہے جس کے سائے کے نیچے سینکڑوں بلکہ ہزاروں انسان آرام پاتے ہیں۔ اسی طرح یہ ۷۰،۸۰ یہ تو نہیں کہتا کہ نوجوان کیونکہ اِن میں سے بعض عمر کے لحاظ سے بوڑھے بھی ہیں لیکن یہ روحانی نوجوان جو اِس جگہ پڑھنے کے لئے جمع ہوئے ہیں اگر ہم ان کو بیج کے طور پر تصور کر لیں اور سمجھیں کہ یہ اپنے اپنے وطن جا کر حقیقی بیج ثابت ہونگے (بیج کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس کے اندر بڑھنے بڑھانے، پھلنے اور پھولنے کی طاقت پائی جاتی ہو) تو یہ لوگ سلسلہ کے لئے نہایت ہی مفید وجود ثابت ہو سکتے ہیں اور اسلام کی کھیتی کے لئے کھاد ثابت ہو سکتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے قرآن شریف ہی دین کی جان ہے اِس کو پڑھے پڑھائے بغیر کسی قسم کی ترقی کا خیال کر لینا ایک غلط خیال ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل عام طور پر عورتوں کے درس میں ایک چھوٹی سی مثال سنایا کرتے تھے۔ وہ ایک نہایت ہی لطیف بات ہے اگر ہم چاہیں تو اس سے بہت بڑا سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو! جب میں کہتا ہوں قرآن شریف پڑھو یا سنو تو تم یہ جواب دیا کرتی ہو کہ ہم پڑھی ہوئی نہیں حالانکہ اگر کسی عورت کا بچہ باہر گیا ہوا ہو اور اُس کے نام کا کارڈ باہر سے آئے تو جو پڑھی ہوئی ہوتی ہیں وہ تو اُس کو ایک دفعہ پڑھ کر سرہانے کے نیچے رکھ دیتی ہیں یا ٹرنک میں رکھ لیتی ہیں یا کسی طاق میں رکھ دیتی ہیں مگر جو اَن پڑھ ہوتی ہیں اُن کو ایک دفعہ خط پڑھوا کر سننے سے تسلی نہیں ہوتی بلکہ وہ کسی دوسرے کے پاس جاتی ہیں اور پھر اُس سے سنتی ہیں۔ مثلاً جب ایک اَن پڑھ عورت کے پاس خط آتا ہے تو پہلے وہ گاؤں کے مُلاّ کے پاس جاتی ہے اور کہتی ہے مُلاّ جی! ذرا کارڈ پڑھنا میرے بیٹے کی طرف سے آیا ہے۔ اُس سے سنتی ہے اور سمجھتی ہے کہ شاید کوئی لفظ مُلاّ جی کی نگاہ سے رہ گیاہویا شاید جلدی میں سارا مضمون نہ سنایا ہو، پھر وہ دَوڑی دَوڑی چوہدری جی کی بیٹھک میں جاتی ہے اور کہتی ہے چوہدری جی! ذرا یہ کارڈ تو سنا دینا میرے بیٹے کی طرف سے آیا ہے۔ اُس سے خط سنتی ہے مگر پھر بھی تسلی نہیں ہوتی اور وہ پٹواری جی کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے پٹواری جی! ذرا یہ خط تو سنا دینا میرے بیٹے کی طرف سے آیا ہے اُس سے سنتی ہے۔ پھر وہ مدرّس کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے منشی جی! ذرااِس خط کو تو سنا دینا پھر بھی تسلی نہیں ہوتی تو ڈاکخانے والے بابو کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے۔ ڈاکٹر بابو جی! ذرا اِس خط کو تو سنا دینا (گاؤں والے بیچارے ڈاکخانے کو کم علمی کی وجہ سے ڈاکٹر خانہ کہتے ہیں) وہ اُس کے پاس جاتی ہے اور کہتی ہے ڈاکٹر بابو جی! ذرا یہ خط تو سنا دینا اور اِس طرح جب تک اُسے سات آٹھ دفعہ سن نہیں لیتی اُسے تسلی نہیں ہوتی اور کارڈ کو اپنے قریب ہی رکھتی ہے۔ ایک دو ماہ کے بعد اگر کوئی باہر کا آدمی اس گاؤں میں آ جائے اور اُس کو اِس کا علم ہو جائے کہ وہ پڑھا ہوا ہے تو وہ اُس کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے ذرا یہ خط تو سنا دیں۔ غرض پڑھی لکھی عورتیں تو ایک دفعہ پڑھ کر چپ کر جاتی ہیں مگر اَن پڑھ عورتوں کو تم دیکھتی ہو کہ جب تک سات آٹھ دفعہ خط پڑھوا نہ لیں آرام نہیں لیتیں۔
پس خدا تعالیٰ تمہارا یہ عُذر ہرگز نہیں سنے گا کہ ہم پڑھی ہوئی نہیں ہیں خدا تعالیٰ پوچھے گا کہ تم نے اپنے بیٹے کا کارڈ اتنی دفعہ پڑھوا لیا تھا تو تم نے میرا کارڈ کیوں نہ پڑھوایا۔ اگر تمہیں مجھ سے اتنی بھی محبت ہوتی جتنی اپنے بیٹے سے تھی تو تم میرا خط بھی پڑھوا کر سنا کرتیں مگر تم نے میرا خط بند کر کے رکھ دیا اور کسی سے نہ سنا اور اپنے بیٹے کا کارڈ پڑھواتی پھریں۔ تو حقیقت یہ ہے کہ جس چیز پر انسان کی زندگی کا مدار ہے اور جس کے بغیر انسان انسان نہیں کہلا سکتا اس کے متعلق اس قسم کے عُذر تراشنا کہ ہم پڑھے ہوئے نہیں جاہل ہیں بالکل غلط بات ہے۔
دنیا میں ہر چیز پڑھی تو نہیں جاتی بہت سی چیزیں سننے سے آتی ہیں۔ کیا دنیا کے ہر شخص نے کابل دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے طہران دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے بغداد دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے قاہرہ دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے دمشق دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے قسطنطنیہ دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے ٹوکیو (TOKYO) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے برلن (BERLIN) دیکھاہے؟ کیا ہر شخص نے پیرس (PARIS) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے میڈرڈ (MEDRID) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے لندن (LONDON) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے پیٹس برگ (PETSBURG) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے ماسکو (MOSCOW) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے نیویارک (NEW YORK) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے ہانگ کانگ (HONG KONG) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے شنگھائی دیکھا ہے؟ ہم نے کتنی چیزیں دیکھی ہیں اور کتنی سُنی ہیں؟ اگر مقابلہ کیا جائے تو سننے کی چیزیں ہزار ہا گُنا زیادہ ہیں اور دیکھنے والی چیزیں ہزار ہا گُنا کم ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ دیکھی ہوئی چیزیں اکثر نظر انداز ہو جاتی ہیں اور سنی ہوئی چیزیں اکثر یاد رہتی ہیں۔ ہم روزانہ سیر کے لئے باہر جاتے ہیں اور میدانوں اور پہاڑوں اور جنگلوں میں سے گزرتے ہیں لیکن جب باہر سے آنے والے انسان سے پوچھو کہ تم نے سیر میں کیا کیا دیکھا؟ اُس نے کئی کروڑ چیزیں دیکھی ہوتی ہیں مگر جب پوچھیں تو زیادہ سے زیادہ یوں کہہ دے گا بڑا اچھا نظارہ تھا۔ جب پوچھیں بتاؤ تو سہی کیا نظارہ تھا؟ تو آگے سے یہ جواب دے دیتے ہیں کہ بڑا اچھا نظارہ تھا، دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ دراصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ یاد کچھ نہیں اور ہمارا یہ فقرہ کہنا کہ وہ نظارے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں اپنے اندر درحقیقت یہ مفہوم رکھتا ہے کہ خاص نگاہ سے کسی چیز کو دیکھا ہی نہیں ویسے نظارے اچھے لگے۔ لیکن اِس کے مقابل پر اگر یہ پوچھا جائے کہ راستہ میں کون کون ملا اور کس کس سے کیا کیا باتیں کیں؟ تو وہ اس سے بیسیوں گُنے زیادہ باتیں بتا دے گا۔ وہ یہ بتلائے گا کہ راستے میں فلاں چوہدری ملا اُس نے یہ کہا، فلاں ملا اُس نے یہ کہا اور فلاں آدمی جو مجھے ملا اُس نے یہ کہا تو جو سُنی ہوئی باتیں ہیں وہ قریباً ساری یاد ہونگی اور دیکھی ہوئی باتوں میں سے اکثر بھول گئی ہونگی۔
بات یہ ہے کہ حافظے سے تعلق رکھنے والی دیکھنے اور سننے کی الگ الگ حسیں ہیں اور تجربہ بتاتا ہے کہ سننے والی چیزیں زیادہ یاد رہتی ہیں اور دیکھنے والی چیزیں کم یاد رہتی ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جتنا بھی ہم کسی چیز کو زیادہ قریب کرتے ہیں اُتنا ہی وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہے۔ ہر وقت ماں کی گود میں رہنے والا بچہ ماں کو اتنا یاد نہیں ہوتا جتنا دُور کا رہنے والا۔ وہ اپنے ایک بچہ کو گود میں اُٹھائے ہوئے ہوتی ہے لیکن اُس کا دماغ اُس بچہ کی طرف نہیں ہوتا بلکہ اُس بچہ کی طرف ہوتا ہے جو دور ہوتا ہے۔ اِسی طرح وہ چیزیں جن میں سے انسان ہر وقت گزرتا ہے وہ اتنا اثر اُس کی طبیعت پر نہیں ڈالتیں جتنا وہ چیزیں جن میں سے انسان کبھی کبھی گزرتا ہے اثر ڈالتی ہیں۔ آنکھیں ہر وقت دیکھتی ہیں مگر کان ہر وقت نہیں سنتے، شوروغل تو ہر وقت ہوتا رہتا ہے مگر اُس کی طرف انسان کی توجہ نہیں ہوتی صرف ایک گونج سی ہوتی ہے جو کان سنتے ہیں مگر وہ چیز توجہ کھینچنے والی نہیں ہوتی۔ جس طرح میں تقریر کر رہا ہوں اور میری تقریر تمہاری توجہ کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے تو جو معیّن سننا ہے وہ کبھی کبھی ہوتا ہے۔ لیکن جب تک انسان جاگتا رہتا ہے آنکھیں کھلی رہتی ہیں اور کوئی نہ کوئی چیز ہر وقت آنکھ دیکھتی رہتی ہے جس کی وجہ سے آنکھ فوراً اثر اخذ نہیں کرتی۔ لیکن کان کبھی کبھی سنتے ہیں اس لئے کان اس کو اخذ کرنے کے لئے اور دماغ اس کو حاصل کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اِسے دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لو کہ آپ کا ایک بڑا گہرا دوست آپ کو ملنے کیلئے آتا ہے اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا ہے آپ وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ کہہ کر اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور آپ کو اس کا خیال نہیں رہتا۔ کچھ دیر کے بعد آپ کہتے ہیں اوہ! مجھے خیال نہیں رہا تھا آپ سے بات کرنے کا۔ لیکن ایک اجنبی آدمی آتا ہے تو آپ اُس سے اِس طرح نہیں کرتے جس طرح اپنے دوست کے ساتھ کیا تھا بلکہ آپ فوراً کھڑے ہو جاتے ہیں اور اُسے تپاک سے ملتے ہیں اور پوچھتے ہیں آپ کہاں سے آئے؟ کیسے آئے؟ اس طرح دس بیس باتیں کرتے ہیں اور پھر اُسے تپاک سے رُخصت کرتے ہیں تو نئے آنے والے کی قدر زیادہ ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہماری جماعت کے کئی افراد جو زیادہ سمجھدار نہیں ہوتے وہ اِس پر بگڑ جاتے ہیں کہ غیر کی خاطر کی اور ہماری نہیں کی وہ جانتے نہیں کہ یہ فطرتی اور طبعی امر ہے کہ انسان نئی چیز کی طرف نئی توجہ کرتا ہے اور اسے ایسا کرنا چاہئے۔
حضرت مسیح ناصری کی ایک مثال کیسی لطیف ہے۔ آپ نے فرمایا کوئی شخص تھا اُس نے اپنے اموال دو بیٹوں میں تقسیم کر دیئے اور کہا بیٹو! جاؤ کماؤ اور کھاؤ! اُن میں سے ایک نے کہا باپ سے مال ملا ہے مُفت کا ہے اِس لئے آؤ خوب گل چھرے اُڑائیں۔ اُس نے عیاشی شروع کر دی اور خوب مال اُڑایا۔ دوسرے نے کہا میرے باپ کا مال ہے اِس کی حفاظت کرنی چاہئے۔ اُس نے روپیہ کمانا اور جمع کرنا شروع کردیا۔ حسبِ ضرورت کچھ گزارے کے لئے خرچ کرتا رہا اور باقی رقم جمع کرتا گیا آخر بہت سار وپیہ لے کر گھر واپس آیا۔ باپ نے اُس کی بڑی تعریف کی اور عزت سے گھر میں بٹھایا اور اپنے دوسرے بیٹے کا انتظار کرتا رہا مگر دوسرا بیٹاسارا مال کھا چکا تھا وہ کونسا منہ لے کر باپ کے پاس جاتا، وہ باپ کے پاس جانے کا خیال چھوڑ کر دُور نکل گیا اور کسی شخص کے ہاں سؤر کا گلہ چرانے پر نوکر ہوگیا، روزانہ چھوٹے چھوٹے بچے جو چل نہ سکتے تھے اُن کو کمرپر لادتا اور باقی بچوں کی گردنوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے ریوڑ کو ہانک کر باہر لے جاتا اور لاتا تھا۔ اُس کا مالک بعض اوقات کسی وجہ سے اُسے گالیاںدیتا اور مارنے کے لئے بھی تیار ہو جاتا اور کہتا نالائق! تم نے یہ کام نہیں کیا وہ کام نہیں کیا، وہ اس سے بہت تنگ آگیا اور ایک دن غصے میں آکر اُس نے سؤر کے بچے کو زور سے زمین پر پٹخ دیا اور کہا میرے باپ کے گھر میں صرف بھائی ہی تو نہیں کئی نوکر بھی ہیں اگر نوکری ہی کرنی ہے تو کیوں نہ میں باپ کے پاس چلا جاؤں اور اُس کی نوکری کر لوں، وہ لَوٹ کر اپنے باپ کی طرف آیا۔ جب باپ کو پتہ لگا کہ میرا بیٹا واپس آرہا ہے تو اُس نے اپنے تمام دوستوں کو جمع کیا اور اُس کے استقبال کے واسطے گیا اور اپنے گھر میں لے آیا۔ اُس نے اِس خوشی میں کئی دنبے ذبح کئے اور لوگوں کو بُلا کر اُن کی دعوت کی۔ دوسرا بیٹا جو کما کے لایا تھا اُس کو بہت غصہ چڑھا اور اُس نے اپنے باپ سے کہا اے باپ !تیری بھی عجیب عقلہے میں نے تیرے مال کو حفاظت سے رکھا، کمایا، اُس کو بڑھایا اور پھر واپس لے کر تیرے گھر آیا لیکن تو نے میرے آنے پر ایک کمزور دُنبی بھی ذبح نہیں کی لیکن یہ جس نے تیرے مال کو ضائع کیا اور اس کو تلف کر دیااور عیاشی میں اپنی عمر گزاری یہ آیا تو تو نے اِس کا استقبال کیا اور کئی دُنبے ذبح کرڈالے۔ باپ نے کہا اے میرے بیٹے! تو میرے پاس تھا جو چیز پاس ہوتی ہے اُس کی انسان خوشی نہیں کیا کرتے لیکن جو چیز ـگم ہو جاتی ہے اور پھر ملتی ہے اُس کی خوشی کیا کرتے ہیں۔ یہ گم ہوا تھا مجھے واپس ملا اِس لئے میں نے خوشی کی ۔ ۲؎ پھر حضرت مسیحؑ نے فرمایا۔ ایسا ہی خدا کو اُس شخص کے واپس آنے سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جو گنہگار ہوتا ہے اور توبہ کرکے اُس کے حضور میں حاضر ہو جاتا ہے۔
اِس مثال میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو چیز ہر وقت پاس موجود رہتی ہے اس کی وجہ سے طبیعت میں کوئی خاص تغیر پیدا نہیں ہوتا اور اس کی طرف خاص طور پر توجہ نہیں ہوتی لیکن جو گم جائے یعنی آنکھوں سے اوجھل ہو جائے چونکہ اس کا گم ہو جانا ہر وقت دل میں ٹیس پیدا کرتا ہے اس لئے جب بھی وہ زخم مندمل ہو تو قدرتاً خوشی ہوتی ہے۔ تو جو چیزیں کبھی کبھی سامنے آئیں اُن کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ حِسیں جو کبھی کبھی کام کرتی ہیں وہ گہرا اثر چھوڑ جاتی ہیں بہ نسبت اُن حِسوں کے جو ہرقت کام کرتی ہیں۔
ایک اور موٹی مثال دیکھو! زندگی میں ہم کتنی چیزوں کو دیکھتے ہیں جن کا مادی زندگی سے تعلق ہوتا ہے، مادی زندگی کے لحاظ سے ہمارے جاگنے کی حالت حقیقی ہے اور رؤیا کی حالت غیرحقیقی ہے۔ اور اگلے جہان کے لحاظ سے رؤیا کی حالت حقیقی ہے اور مادی زندگی کی غیرحقیقی۔پس جہاں تک اِس جہاں کا تعلق ہے ہماری رؤیا کی حالت غیر حقیقی ہے اور جاگنے کی حالت حقیقی ہے اب اپنی عمر میں تم اندازہ لگا کر دیکھو کہ عام طور پر آدمی اپنی عمر میں چند رؤیا دیکھتا ہے اور اس کے مقابل پر اربوں ارب نظارے جاگنے کی حالت میں دیکھتا ہے لیکن ان میں سے اکثر بھول جاتے ہیں لیکن جو خواب کے نظارے ہوتے ہیں ان میں سے بعض پر بعض اوقات چالیس پچاس سال گزر جاتے ہیں لیکن وہ نہیں بھولتے۔ کوئی شخص خواب دیکھتا ہے وہ کہتا ہے میں نے ایک بڑا خوشنما درخت چالیس سال ہوئے دیکھا اور اس کے مقابل پر جاگتے ہوئے وہ روزانہ جو بڑے بڑے خوشنما درخت دیکھتا ہے وہ یاد نہیں رہتے کیونکہ مادی آنکھوں کے نظارے وہ روزانہ کرتا ہے اور خواب کی آنکھ سے کبھی کبھی نظارہ دیکھتا ہے یہی فرق دیکھنے اور سننے کی حِس کا ہے۔ انسان کی دیکھنے کی حِس ہر وقت کا م کرتی ہے اور سُننے کی حِس اِس سے کم کام کرتی ہے اس لئے سننے کی حِس کا قوتِ حافظہ پر زیادہ اثر پڑتا ہے بہ نسبت دیکھنے والی حِس کے۔ پھر بعض دفعہ دو دو، تین تین حِسیں مل کر ایک کیفیت کو محسوس کرتی ہیں وہ حافظہ پر اور بھی گہرا اثر ڈالتی ہیںاسی لئے اگر ایک حِس سے کوئی ثواب کا کام کیا جائے اور اس کے ساتھ دوسری ایک دو اور حِسوں کو بھی ملا لیا جائے تو زیادہ ثواب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مسلمان بزرگ باوجود اِس کے کہ اُن کو قرآن شریف حفظ ہوتا تھا وہ قرآن شریف کو کھول کر اُسے آنکھوں سے دیکھتے تھے، زبان سے پڑھتے تھے اور ساتھ ساتھ اُنگلی چلاتے جاتے تھے۔ کسی ایسے ہی بزرگ سے جب کسی نے پوچھا کہ یہ کیا حرکت ہے جب آپ کو قرآن شریف حفظ ہے تو پھر قرآن شریف دیکھ کر کیوں پڑھتے ہیں اور اگر قرآن شریف دیکھ کر پڑھتے ہی ہیں تو ساتھ ساتھ منہ سے کیوں دُہراتے جاتے ہیں اور پھر اِس کے ساتھ اُنگلی ہلاتے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے جواباً کہا کہ میاں! خداتعالیٰ کے سامنے ہر چیز کا جائزہ ہوگا اگر میں نے حافظہ کے ذریعہ پڑھا تو صرف دماغ عبادت گزار ہو گا جب خداتعالیٰ نے مجھے آنکھیں دی ہیں تو یہ عبادت گزار کیوں نہ ہوں اور زبان دی ہے تو وہ عبادت گزار کیوں نہ ہو اِس لئے قرآن شریف دیکھ کر پڑھتا ہوں اور زبان سے دُہراتا جاتا ہوں اور ساتھ ساتھ اُنگلی بھی رکھتا چلا جاتا ہوں تاکہ اُنگلی بھی عبادت گزار ہو جائے۔ تو جتنی حِسیں زیادہ کام کرتی چلی جاتی ہیں ثواب بھی بڑھتا چلا جاتا ہے اِسی طرح حافظے میں جتنی زیادہ حِسیں لگائیں گے اتنی ہی زیادہ بات یاد رہے گی۔ جس کام میں کان، آنکھ اور قوتِ لامسہ تینوں لگ جائیں وہ زیادہ دیر تک حافظہ میں قائم رہے گی تو جن چیزوں کو انسان کبھی کبھار استعمال کرتا ہے وہی حافظہ میں زیادہ قابلِ قدر سمجھی جاتی ہیں کیونکہ کبھی کبھار آنے والے انسان کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے۔
دماغ میں ایک بڑی لائبریری بنی ہوئی ہے جس طرح دنیا میں لائبریریاں ہیں۔ دنیا کی لائبریریاں چھوٹی ہیں لیکن دماغ میں اتنی بڑی لائبریری ہے کہ اربوں ارب کو ٹھڑیاں اِس میں ہیں ہر چیز جسے انسان دیکھتا ہے یا جسے انسان سنتا ہے اُسی وقت حافظہ کے نگران اُس چیز کو جسے وہ دیکھتا ہے یا سنتا ہے یا چھوتا ہے یا چکھتا ہے یا سونگھتا ہے فوراً ہر الگ الگ چیز کو الگ الگ کوٹھڑیوں میں رکھ دیتے ہیں۔ غرض ہر بات کے لئے ایک الگ کوٹھڑی موجود ہے فوراً اُسے وہاں رکھ دیا جاتا ہے اور ہر ادنیٰ حرکت جو ہم کرتے ہیں وہاں محفوظ ہوتی چلی جاتی ہے۔ پھر جب ہمیں کسی وقت کوئی خیال آتا ہے مثلاً ہم نے زید کو دیکھا اُس کو دیکھتے ہی دل میں خیال پید ا ہوتا ہے کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے یہ تو ہمارا پُرانا واقف ہے، ہمارے محلے کا رہنے والا ہے اور ہمیں فلاں جگہ ملا تھا۔پہلے اس کو ان باتوں کا بالکل خیال نہیں ہوتا لیکن جس طرح ایک افسر جب دفتر میں آتا ہے اور اس کے سامنے مسل پیش ہوتی ہے تو وہ کہتا ہے اس کے متعلق پہلے کاغذات پیش کرو اسی طرح جب زید سامنے آتا ہے تو جو دماغ کے لائبریرین ہیں اُن کو فوراً حکم دے دیا جاتا ہے کہ اس کی مسل مکمل کر کے پیش کرو۔ اِس پر وہ اس کی مسل مکمل کر تے ہیں وہ مختلف خانوں سے جوجو باتیں اس سے متعلق ہوتی ہیں انہیں اکٹھا کرتے ہیں اور اس کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور وہ اُسے ملتے ہی کہتا ہے آپ میرے رشتہ دارہیں مجھے فلاں جگہ ملے تھے، آپ کا گھر فلاں جگہ ہے، آپ ہماری بیوی کے فلاں رشتہ دارہیں، آپ کی والدہ ہماری خالہ لگتی ہیں وغیرہ وغیرہ حالانکہ زید کو دیکھنے سے پہلے یہ خیالات اُس کے ذہن میں نہ تھے مگر سامنے آتے ہی ساری کی ساری مسل مکمل ہو کر پیش ہو جاتی ہے۔ تو جتنے زیادہ حواس کسی چیز کے محسوس کرنے میں استعمال ہوتے ہیں اُتنی ہی زیادہ وہ حافظہ میں قائم رہتی ہے کیونکہ اُسے لائبریری کی کئی الماریوں میں رکھا جاتا ہے اور لائبریرین کا اسے نکالنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اگر ایک الماری اُس کے ذہن سے نکل گئی ہو تو دوسری الماری اُسے اس کے وجود کا پتہ دے دیتی ہے۔
غرض خداتعالیٰ نے حافظہ کے متعلق ایک بڑا لطیف اور وسیع قانون بنایا ہے اور اس قانون سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں سُنی ہوئی باتیں ہمیں زیادہ یاد رہتی ہیں بہ نسبت دیکھی ہوئی باتوں کے۔( جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ سُنی ہوئی بات اپنی اصلی شکل میں قائم رہتی ہے اور دیکھی ہوئی چیز بدلتی رہتی ہے جیسے انسانوں کی شکلیں، مکانات، سٹرکوں وغیرہ کی حالت) میری تقریر کو ہی لے لو اِس کا سننا زیادہ اہم ہے پڑھنے سے۔ کیونکہ زیادہ آدمی سننے والے ہیں اور پڑھنے والے تھوڑے ہیں، پڑھنے والے اگر بعد میں پڑھ لیں تو پڑھ سکتے ہیں لیکن اکثر حصہ تعلیم یافتہ نہیںہے اس لئے ہمیں پڑھے ہوؤں کی اتنی فکر نہیں جتنی اَن پڑھوں کی۔ ہمارے ملک میںچھ فیصدی آدمی پڑھے ہوئے ہیں اور ۹۴ فیصد آدمی اَن پڑھ ہیں ۔ ہمیں چھ فیصدی پڑھے ہوؤںکی اتنی فکر نہیں ہونی چاہئے جتنی۹۴فیصدی اَن پڑھوں کی۔ یہ سیدھی اور صاف بات ہے کہ اگر کسی قوم کے ۹۴فیصدی افرادخراب ہوں گے تو چھ فیصدی اس سے بچ نہیں سکتے۔ لکڑی تیرتی ہے اور پتھر ڈوبتا ہے لیکن اگر بڑی لکڑی پر ایک چھوٹے سے پتھر کو رکھ دیں تو وہ بھی تیرتا ہے اور اگر چھوٹی سی لکڑی پر ایک بڑی سِل رکھ دیں تو لکڑی بھی ساتھ ہی ڈوب جائے گی تو کثرت، قلّت کو اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ پس اگر چھ فیصدی آدمی قرآن شریف پڑھ لیں اور اُسے اچھی طرح جان لیں اور ۹۴ فیصدی آدمی قرآن شریف نہ جانتے ہوں تو روحانی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک سَو فیصدی آدمی قرآن شریف نہ پڑھ لیں، اُسے سمجھ نہ لیں، اُسے اچھی طرح جان نہ لیں ہم محفوظ نہیں ہو سکتے اس لئے ضروری ہے کہ باقی ۹۴ فیصدی کو بھی ہم پڑھائیں، ان کی سُستیوں کو دور کریں اور بار بار کہہ کر اُن کو مجبور کر دیں کہ وہ قرآن شریف کو سُنیں اور یاد کریں اور ان کی توجہ اِس طرف پھیر دیں کہ اُن کے لئے قرآن شریف کا سننا اور یاد کرنا ضروری ہے۔
اس کام کو پورا کرنے کے لئے میں نے اس تحریک کو شروع کیا ہے اور اِس دفعہ سَتر اَسّی آدمی آئے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ۷۰،۸۰ آدمی کافی ہیںہاں وہ ۷۰،۸۰ آدمی بنیاد کا کام تو دے سکتے ہیںمگر ہمارے لئے مکمل عمارت کا کام نہیں دے سکتے۔ لاکھو ں کی جماعت میں سے ۷۰،۸۰ آدمیوں کا تیار ہو جانا کوئی حیثیت نہیں رکھتااِس کی تو اتنی بھی حیثیت نہیں جتنی آٹے میں نمک کی۔ یہ تو اُسی وقت ہمارے کام آسکتے ہیں جب یہ اپنی جماعتوں میں جاکر جو کچھ اِنہوں نے پڑھا ہے اُسے اُن لوگوں کو پڑھائیں جو پڑھ سکتے ہیں اور باقیوں کو سننے اور یادکرنے پر مجبور کریں اور اتنا سنائیں کہ اُن کو یاد ہو جائے اور اِس طرح اُن کو یاد کرائیں کہ ہماری جماعت کے تمام افراد کو قرآن شریف کا علم حاصل ہو جائے۔آخر ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں رہتے ہوئے تیرہ یا پندرہ سال کے اندر اندر ایسی جماعت تیار ہو گئی جو ساری دنیا کی معلّم ثابت ہوئی لیکن ہم پر پچاس سال گزر گئے ہیں ابھی تک ہم میں وہ تغیر نہیں پیدا ہوا اور نہ ہم سے وہ تغیر پیدا ہوا ہے۔ اگرچہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کے لئے انہیں ایک سہولت حاصل تھی کہ جو باتیں اُن کے سامنے کی جاتی تھیں وہ اُن کی اپنی زبان میں ہوتی تھیں اس لئے ہر بات سُنتے ہوئے اسے ساتھ ساتھ سمجھتے بھی جاتے تھے ان کے لئے اتنا کافی تھا کہ اگر کوئی انسان ان کے کان میں صرف اتنا ہی کہہ دیتا کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ تو اُن کی زندگی کے لئے کافی تھا اسلئے کہ ان میں سے ہر ایک جانتا تھا کہ ال کے کیا معنی ہیں، وہ جانتا تھاکہ حمد کے کیا معنی ہیں، وہ جانتا تھا کہ دال کے اوپر جو پیش ہے اُس کے کیا معنی ہیں،وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اللّٰہِ جس کے آخر میں ہ ہے اور جس کی ہ کے نیچے زیر ہے اِس کے کیا معنی ہیں، وہ جانتا تھا الرَّحْمٰن میں ال کیا کہتا ہے اور رحمٰن کیا، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ الرَّحِیْمِ کا ال کیا کہتا ہے اور رحیم کیا کہتا ہے، اور الرَّحِیْمِ کے نیچے جو زیر ہے وہ کیا کہتی ہے، وہ یہ سب کچھ جانتا تھا اِس لئے اس کیلئے اَلْحَمْدُ کے الفاظ کا سننا ہی کافی ہو جاتا تھا مگر ہمارے ملک کے لوگ جو عربی زبان سے بکلّی ناواقف ہیں ان سے بِسْمِ اللّٰہِ کی ب سے لیکر وَالنَّاسِ کی س تک قرآن سُن جاؤ اگر انہوں نے ناظرہ پڑھا ہوا ہے یا قرآن حفظ کیا ہوا ہے تو وہ سب کچھ سنا دیں گے لیکن یہ نہ جانتے ہوں گے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ سمجھتے کچھ بھی نہیں بلکہ جو کچھ یاد ہے یا جو لفظ پڑھے ہوئے ہیں انہیں دُہراتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب والوں میں صرف سورہ فاتحہ جو تغیر پیدا کر سکتی تھی ہماری جماعت میں سارا قرآن وہ تغیر پیدا نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ اِس جماعت کے اکثر افراد قرآن کریم کے معنی نہیں جانتے۔اب اِس کا علاج دو ہی طرح ہو سکتا ہے کہ یا تو ہم ان کو قرآن تک لے جائیں یعنی اُن کو عربی پڑھا دیں تا وہ قرآن کو سمجھ سکیں اور اگر یہ نہیں تو قرآن کو اُن تک لے جائیں یعنی اِس کا ترجمہ اُن کو سنائیں۔ ان عربی دانوں کے بغیر ہم قومی تغیر پیدا نہیں کر سکتے اور نہ ہی کوئی روحانی عظیم الشان تغیر کر سکتے ہیں۔ ہمارے اندر جو کوتاہیاں، سُستیاں اور غفلتیں پائی جاتی ہیں اِن کی ایک ہی وجہ ہے کہ ابھی تک ہم پر قرآن شریف کے دروازے نہیں کُھلے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب اسلام باہر کے ممالک میں پھیلا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے تو اُن کے لئے یہی مشکل پیش آئی کہ وہ نمازیں کس طرح پڑھیں، قرآن کس طرح پڑھیں جبکہ اُن کو عربی ہی نہیں آتی۔ اِس حالت کو دیکھ کر حضرت امام ابو حنیفہؒ نے فتویٰ دے دیا کہ گو نماز کو اصل صورت میں پڑھنا زیادہ ثواب کا موجب ہے لیکن جو قرآن شریف نہیں پڑھ سکتے اور نماز بھی عربی میں نہیں پڑھ سکتے وہ قرآن کا ترجمہ پڑھ لیا کریں اور یہ بھی جائز ہے کہ نمازکا بھی اپنی زبان میں ترجمہ کرلیں اور اسے یاد کرلیں اور نماز دل میں پڑھا کریں۔غرض ایک تو وہ لوگ تھے کہ وہ جب اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پڑھتے تھے تو جانتے تھے کہ اِس کے کیا معنی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِکے کیا معنی ہیں لیکن ایک آجکل کے لوگ ہیں جو مسلمان تو ہیں لیکن قرآن شریف کو نہیں جانتے اسلام سے محض ناواقف ہیں۔ ان دونوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص وہ ہے جو ٹرنک کھولتا ہے اور اُس میں سے کپڑے نکال کر دیکھتا ہے کہ یہ پاجامہ ہے، یہ قمیض ہے، یہ کوٹ ہے، یہ پگڑی ہے اور ایک اور انسان ہے وہ ایک ٹرنک جس کو تالا لگا ہوا ہے اُس پر ہاتھ پھیرلیتا ہے کیا اِن دونوں میں کوئی نسبت ہو سکتی ہے؟ جس شخص کو قرآن شریف کے معنی نہیں آتے اُس کی مثال تو ویسی ہے جیسے ٹرنک پر ہاتھ پھیرنے والاانسان۔ اُس کو نہ کپڑے دیکھنے اور نہ استعمال کرنے کی توفیق ہوئی، نہ اُس نے ہاتھوں سے اُن کپڑوں کو ٹٹولا، نہ اُس کے جسم نے انہیں پہنا اور نہ ہی پہن سکتا ہے کیونکہ ٹرنک کو تالا لگا ہوا ہے۔ ایسے شخص کی مثال اُس شخص کی مثال کی طرح کس طرح ہو سکتی ہے جس کے پاس اس ٹرنک کی چابی ہے وہ چابی سے تالا کھولتا ہے، کپڑے پہنتا ہے اور اس سے اپنے جسم کو ڈھانکتا ہے اور اسے خوشنما بنا کر دوستوں کو دکھاتا ہے اِن دونوں میں تو کوئی نسبت ہی نہیں۔ تو جب تک قرآن شریف کو ہم کھول کر لوگوں کے سامنے نہیں لے آتے اورجب تک لوگوں کو اس سے اچھی طرح واقف نہیں کرادیتے اُس وقت تک یہ سمجھ لینا کہ ہم کوئی تغیر پیدا کر لیں گے غلط ہے۔ اور ہماری حالت اُس برہمن کی سی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ایک دن جبکہ بہت زیادہ سردی تھی نہانے کے لئے دریا پر گیا زیادہ سردی کی وجہ سے وہ راستہ میں ٹھٹھررہا تھا اور ڈر رہا تھاکہ اگر دریا میں نہایا تو بیمار ہو جاؤں گا لیکن چونکہ ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ برہمن کوضرور روزانہ دریا پر (دریا اگر پاس ہو) تو نہانا چاہئے اِس لئے باوجود سخت سردی کے وہ دریا کی طرف چل دیا۔ جب وہ دریا کی طرف جارہا تھا تو راستہ میں اسے کوئی دوسرا برہمن آتا ہوا نظر آیا اُس کو دیکھ کر اُس نے کہا کیا کریں آج تو نہایا نہیں جاتا بڑی سردی ہے تم نے کیا کیا؟ دوسرے برہمن نے جواب دیا کہ میں نے تو یہ کیا کہ ایک کنکر اُٹھا کر دریا میں پھینکا اور کہا ’’توراشنان سومور اشنان‘‘ یعنی تیرا نہانا میرا نہانا ہوگیا میں یہ کہہ کر واپس آگیا۔ اس پر وہ برہمن کہنے لگا ’’تور اشنان سوموراشنا ن‘‘ یہی بات ہے تو پھر تیرا نہانامیرا نہانا ہو گیا ۔یعنی کنکر کا نہانا اِس برہمن کا نہانا ہو گیا اور اُس برہمن کا نہانا اِس دوسرے برہمن کا نہانا ہوگیا۔یہی اِس وقت کے لوگوں کی حالت ہے جب کسی سے کوئی اس کے مذہب کے متعلق سوال کرے تو کہہ دیتے ہیں ہمارے مولوی صاحب خوب جانتے ہیں۔گویا ان کے دماغوں کو زنگ لگ چکا ہے اور وہ بے کار ہو چکے ہیں۔ قرآن شریف کا جاننا تو الگ رہا اِن کی حالت تو اُس شخص کی طرح ہے جو صرف ٹرنک پر ہاتھ پھیرلیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے سب کچھ دیکھ لیا اور پا لیا۔
میں جس وقت حج کے لئے گیا تو میاں عبدالوہاب صاحب ایک شخص سہارن پور کے رہنے والے تھے وہ بھی جج کے لئے گئے ہوئے تھے وہ چونکہ بہت ہی سیدھے سادھے آدمی تھے اِس لئے لوگ اُن سے مذاق کرتے تھے۔ اُن کے پاس تھوڑے سے روپے تھے جو اُن کے لڑکوں نے اُن کو دیئے تھے کچھ شرارتی لوگ تھے وہ چاہتے تھے کہ وہ روپیہ اُن سے لے لیں۔ میں مصر کے راستہ سے گیا تھا اور ہمارے نانا صاحب میرناصر نواب صاحب مرحوم جو جہاز سیدھا عرب جاتا ہے اُس میں گئے تھے اُنہوں نے جب دیکھا کہ لوگ ان سے مذاق کرتے ہیں اور ان سے روپیہ لوٹ لینا چاہتے ہیں تو انہوں نے ان کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔ وہ جہاز سے اُترے اور مجھ سے ملے تو میاں عبدالوہاب صاحب ان کے ساتھ تھے ۔مَیں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ بڑا سادہ آدمی ہے اور اس کی سادگی کی وجہ سے کچھ شرارتی لوگ اِس کو لُوٹنا چاہتے تھے اس لئے اس کو میں نے اپنے ساتھ لے لیا۔ میں نے دیکھا کہ واقعی وہ بڑا سادہ آدمی تھا قرآن شریف کا ان کو کچھ پتہ نہیں تھا، نماز انہیں آتی نہیں تھی میں حیران تھا کہ جب اِن کو دین کا کچھ علم ہی نہیں تو آخر وہ کس طرح یہاں آئے؟ میں نے اُن سے پوچھا آپ کا مذہب کیا ہے؟ یہ سوال کر کے میں منٹ بھر خاموش انتظار کرتا رہا جب اُنہوں نے کوئی جواب نہ دیا تو میں سمجھا کہ شایدسنا نہیں۔ پھر میں نے اِسی سوال کو اونچی آواز سے دُہرایا کہ میاں عبدالوہاب! تمہارا مذہب کیا ہے؟ وہ کہنے لگے جلدی نہ کرو سوچ کر جواب دیتا ہوں۔ مجھے یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ سوچنے کا کیا مطلب، حساب تھوڑا ہی ہے کہ ضربیں دے رہے ہیں۔ میں نے کہا میاں عبدالوہاب! میں نے مذہب پوچھا ہے سوچنے والی بات کیا ہے؟ وہ کہنے لگے یونہی نہ گھبرا دیا کرو ذرا سوچ تو لینے دو۔ پھر میں نے کہا اس کا تو ہر ایک کو پتہ ہوتا ہے کہ اس کا مذہب کیا ہے آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ کہنے لگے واپس جاؤں گا تو مُلاّ سے لکھوا کر بھیجوں گا۔ میں نے کہا مَیں مُلاّ کا مذہب نہیں پوچھ رہا آپ کا مذہب پوچھ رہا ہوں۔ پھر کہنے لگے ٹھہر جائیں ذرا سوچ تو لینے دیں آپ تو گھبرا دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد سوچ سوچ کر کہنے لگے میرا مذہب ہے علیہ۔ میرے ذہن میں نہ آیا کہ علیہ کا کیا مطلب ہے۔ میں نے کہا کہ علیہ تو آج تک کوئی مذہب نہیں سنا۔ پھر انہوں نے کہا تم تو گھبرا دیتے ہو سوچنے نہیں دیتے۔ خیر تھوڑی دیر تک علیہ علیہ کر کے کہنے لگے میرا مذہب ہے علیہ امام ۔ اُس وقت میرا ذہن اِس طرف گیا کہ علیہ امام سے مطلب امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ تب میں نے جان کر اُنہیں چڑانا شروع کیا کہ بتائیے آپ کا مذہب کیا ہے چپ کیوں ہیں؟ اِس پر وہ پھر کہنے لگے مَیں نے جو کہا ہے مُلاّ سے لکھوا دوں گا۔ مَیں نے پھر کہا کہ میں مُلاّ کا مذہب نہیں پوچھتا آپ کا پوچھتا ہوں۔ آخر بڑا سوچ سوچ کر انہوں نے کچھ اس قسم کا فقرہ کہا رحمۃ اللہ امام علیہ۔ اِس پر مَیں نے کہا میاں عبدالوہاب! آپ کے یہاں آنے کا کیا فائدہ تھا، آپ خواہ نخواہ اس بڑھاپے میں حج کے لئے چلے آئے آپ کو تو اسلام کا کچھ بھی پتہ نہیں۔ وہ بڑے غصہ میں آ کر بولے۔ میرے بیٹوں نے مجھے مجبور کیا کہ ابا! جا کر حج کر آؤ تب ہم خوش ہونگے مجھے کیا پتہ حج کیا ہوتا ہے۔جب مسلمانوں کی یہ حالت ہو تو کیا اِس پر یہ امید کی جاتی ہے کہ خدا اور اُس کے رسول کی حکومت دنیا میں قائم ہوگی۔ جس شخص کو یہ پتہ نہیں کہ خدا اور رسول کیا چیز ہے وہ خدا اور رسول کی کیا حکومت قائم کر سکتا ہے وہ تو جب بھی قائم کرے گا اپنے نفس کی حکومت قائم کرے گا تو قرآن شریف جانے بغیر اور اس کو سمجھے بغیر خدا کی حکومت قائم نہیں ہوسکتی۔
ہماری قربانیاں بے شک قابلِ قدر ہیں، ہمارے چندے بھی بے شک قابلِ قدر ہیں اور ہماری تبلیغ بھی قابلِ قدر ہے مگر ہم کس چیز کو قائم کرنا چاہتے ہیں؟ خدا اور اُس کے رسول کی حکومت کو؟ مگر خدا اور اس کے رسول کی حکومت بغیر قرآن شریف سمجھے قائم نہیں ہو سکتی۔ ہمیں کیا پتہ ہے کہ جس وقت اسلام کا جھنڈا گاڑا جائے گا اُس وقت کون زندہ ہوگا، ہمیں کیا پتہ ہے کہ اگر ہم زندہ بھی ہوں گے تو اسلام کا جھنڈا گاڑنے کی توفیق ہمیں ملے گی یا کسی اَور کو۔ کیونکہ ہر انسان ہر جگہ موجود نہیں ہوتا۔ پس کیا معلوم کہ جسے اسلام کا جھنڈا گاڑنے کی توفیق حاصل ہوگی وہ کون سا ہاتھ ہوگا۔ اگر اُن انسانوں کو جو ہمارے قائمقام ہونگے اگر اُن کے زمانہ میں جھنڈا گڑا یا اس جگہ پر جہاںجھنڈا گاڑا گیا جو ہمارا قائم مقام ہوا اگر اُس کو قرآن شریف کا پتہ نہیں ہوگا تو اُس نے کیا کرنا ہے۔
اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے کہتے ہیں کہ ایک پٹھان تھا اُس کو خواہش پیدا ہوگئی کہ کسی کو کلمہ پڑھا کر مسلمان بناؤں۔ اُسی گاؤں میں جس میں وہ رہتا تھا ایک بنیا تھا ایک دن اُسے اکیلا دیکھ کر اُسے جوش آ گیا اُس نے اُسے پکڑ لیا اور کہا کلمہ پڑھ، نہیں تو مارتا ہوں۔ اُس نے کہا میں کلمہ کس طرح پڑھوں؟ میں تو مسلمان نہیں ہوں۔ کہنے لگا خو مسلمان ہے یا نہیں آج تم کو کلمہ ضرور پڑھوانا ہے کیونکہ تم کو مسلمان کر کے میں نے جنت میں جانا ہے۔ لالہ نے بڑی منتیں کیں اور ٹالتا رہا کہ شاید اِس عرصہ میں کوئی دوسرا آدمی آ جائے اور میرا چھٹکارا ہو مگر اتفاق کی بات کہ اُس وقت کوئی دوسرا وہاں نہ پہنچا۔ بزدل آدمی کو جان زیادہ پیاری ہوتی ہے جب دیکھا کہ اتنی دیر سے کوئی نہیں آیا تو کہنے لگا اچھا تم کلمہ بتاتے جاؤ میں پڑھتا جاتا ہوں۔ پٹھان نے کہا خو تم آپ پڑھو۔ بنیینے کہا میں ہندو ہوں مجھے کلمے کا کیا پتہ۔ اس پر پٹھان بولا خو تمہارا قسمت بڑا خراب ہے کلمہ تو مجھ کو بھی نہیں آتا، نہیں تو آج تم مسلمان ہو جاتا اور ہم جنت میں چلا جاتا۔ یہی قرآن نہ جاننے والوں کی حالت ہے۔ اس حالت میں کیا چیز ہے جو ہم دنیا کے سامنے لے کر جانا چاہتے ہیں۔ اگر ہم بھی قرآن شریف جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی طرف پیغام ہے اس کو نہیں جانتے، اگر ہمیں اِس کا کچھ علم ہی نہیں اور اِس کی بجائے ہم اپنی باتیں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ غلط بات اور لغو خیال ہے۔
ہر احمدی کو قرآن کریم پڑھنا چاہئے اور جو پڑھنا نہیں جانتے اُن کو سنا کر قرآن کریم سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ ہمارا اوّلین فرض ہے۔ اگر ہم یہ ارادہ کر لیں کہ سَو فیصدی افراد کو قرآن شریف کا ترجمہ سمجھا دیں گے اور اگر ہم اِس میں کامیاب ہو جائیں تو پھر ہماری فتح میں کوئی شک ہی نہیں اور ہماری روحانی حالت میں ایک عظیم الشان تغیر آ جائے گا۔ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ دوسرے مسلمانوں میں بعض لوگ قرآن شریف جانتے ہیں مگر اُن کے حالات بھی خراب ہیں پھر ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ اِس کو جاننے کی کوشش کریں گے اُن کی یہ حالت نہ ہوگی؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اول تو لفظوں کا جاننا اور حکمت کا جاننا دو مختلف اَشیاء ہیں۔ دوسرے میں کہتا ہوں کہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ کیا یہ واقعہ ہے یا نہیں کہ جب ملک میں طاعون یا ہیضہ نہیں ہوتا تو اُس ملک کا کمزور سے کمزور انسان بھی طاعون اور ہیضہ سے محفوظ ہوتا ہے اور جب ملک میں طاعون اور ہیضہ ہوتا ہے تو پھر طاقتور سے طاقتور انسان بھی طاعون اور ہیضہ سے محفوظ نہیں ہوتا۔ اسی طرح جس قوم میں جاہل بکثرت موجود ہوتے ہیں وہاں عالموں کا ایمان بھی خطرہ میں ہوتا ہے اور جس قوم میں علم اچھی طرح پھیلا دیا جاتا ہے اور جہالت کو دور کر دیا جاتا ہے اُس میں عالموں کے ایمان کی مضبوطی کے ساتھ جاہلوں کا ایمان بھی مضبوط ہوجاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کچھ لوگ غیروں میں بھی قرآن شریف جاننے والے موجود ہیںلیکن اوّل تو اُن کا علم محض لفظی ہے دوسرے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اُن کے دائیں بائیں کون کھڑے ہیں؟ ان کے دائیں بائیں کثرت سے جاہل اور خدا سے دُور لوگ کھڑے ہیں جو اُن کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں پس وہ تو چند لفظی طور پر قرآن پڑھے ہوئے لوگ ہیں جو کہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ قوم کو، جبکہ ہماری جماعت میں بے شک حقیقی طور پر قرآن جاننے والے لوگ موجود ہیں لیکن اِن کی تعداد اس قدر کم ہے کہ وہ بھی اپنی جماعت کو پورا فائدہ نہیں پہنچا سکتے کیونکہ وہ نسبتی طور پر اتنے تھوڑے ہیں کہ ان کے نور پر جہالت کی ظلمت کے چھا جانے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ عوام احمدیوں تک بھی قرآن شریف پہنچائیں۔ ان تک قرآن شریف پہنچانا نہ صرف ان کے لئے ضروری ہے بلکہ اس میں اپنی بھی حفاظت ہے۔ احمق ہے وہ انسان جس کے گاؤں میں ہیضہ آجائے اور وہ کہے کہ میرے گاؤںمیں صرف ایک انسان کو ہیضہ ہوا ہے اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس گاؤں میں ایک آدمی کو ہیضہ ہوا ہے تو یقینا اس کا بیٹا بھی ہیضہ سے محفوظ نہیں لیکن اگر اس کے گاؤں کے پرلے کنارے پر ہیضہ کی ایک واردات ہوتی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میرے اپنے بیٹے کو ہیضہ ہوا ہے تو نہ صرف وہ بلکہ اُس کا گاؤں بھی ہیضے سے بچ جائے گا۔ اسی طرح اگر قوم کے تمام افراد روحانی عالم نہیں تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے گاؤں میں ہیضہ آگیا اور جب ہیضہ آگیا تو کوئی نوجوان بھی اس سے محفوظ نہیں۔ اگر اِس قوم میں سے کُلّی طور پر جہالت نکال دیں اور جہالت کا مرض دور کر دیں اور اگر اپنے تمام افراد کو کُلّی طور پر اسلامی علوم سے آشنا کر دیں تو پھر گویا ہم نے ہیضہ کو کُلّی طور پر اپنی قوم سے نکال دیا اور اس صورت میں صرف مضبوط انسان ہی نہیں بلکہ کمزور ایمان والے انسان کو بھی روحانی ہیضہ نہیں ہو سکتا۔ پس آپ لوگ بھی جو یہاں پڑھنے کے لئے آئے ہیں آپ کا یہ کام نہیں کہ یہاں سے پڑھ کر جائیں اور علم کو اپنے تک ہی محدود رکھیں بلکہ آپ کا کام یہ ہے کہ جو کچھ پڑھ کر جائیں لوگوں کو جا کر سنائیں۔ ہر شخص جو تم میں سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کر کے جائے گا وہ یہ ذمہ داری لے کر جائے گا کہ دوسروں کو بھی علم پڑھا ئے ۔اگر وہ واپس جا کر اپنے علاقے کے ہر فرد کو قرآن نہیں سکھائے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم کی حیثیت میں پیش ہو گا۔
جب تک یہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع پیدا نہیں ہوا تھا تم مجرم نہیں تھے مگر اب جبکہ وہ موقع پیدا ہوگیا ہے اگر تم نے سُستی سے کام لیا اور جو کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اِس کو پورا نہ کیا تو تم خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم کی صورت میں پیش ہو گے۔ شاید تم میں سے بعض یہ کہیں کہ پھر تو علمِ قرآن کا حاصل کرنا بجائے فائدہ کے وبالِ جان ہو گیا یہ تو ہم سے غلطی ہوئی کہ ہم یہاں آگئے۔ اگر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو تو یہ صرف ایک بے حقیقت وہم ہوگا۔
دیکھو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جہاد کا موقع آیا بہت سے لوگ اس میں شامل ہوئے اور کچھ نہ ہوئے۔ اب ظاہر ہے کہ جنگ میں نہ جانیوالا شخص اس بات کا مجرم نہیں تھا کہ اُس نے رسول کریم ﷺ کی جان کی حفاظت کیوں نہیں کی بلکہ وہ مجرم تھا اس بات کا کہ وہ جہاد میں کیوں نہیں گیا۔ لیکن ایسے لوگ جو جہاد میں تو شامل ہوئے لیکن اُنہوں نے رسول کریمﷺ کی جان کی حفاظت نہیں کی اور اُس وقت جبکہ رسول کریم ﷺؐ پر حملہ ہوا انہوں نے رسول کریم ﷺ کی جان کی حفاظت کی خاطر اپنی جان قربان نہیں کی وہ ضرور مجرم ہوئے اِس بات کے کہ اُنہوںنے اپنے فرائض کو صحیح طور پر انجام نہیں دیا۔ مجرم دونوں ہوئے لیکن دونوں کے جُرم کی نوعیت مختلف تھی۔ جو جہاد میں شامل نہ ہوئے ان کے جُرم کی نوعیت اور تھی اور بعض منافق جو صحابہؓ سے مل کر جہاد میں شامل تو ہو جاتے تھے مگر اُن کی غرض اسلام اور رسول کریمﷺ کی حفاظت نہ ہوتی تھی اُن کے جُرم کی نوعیت اَور تھی۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیوں مجرم ہوگئے۔ وہ تو میدانِ جنگ میں گئے تھے کیونکہ مجرم کی نوعیت مقامات کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے۔ ہر مقام سے جب انسان ترقی کرتا ہے تو اُس کے اس مقام کے بدلنے کے ساتھ ہی اس کی ذمہ داریوں کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے اور ان کے ادا نہ کرنے کی صورت میں اس کے جُرموں کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔ اِس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک انسان جب پہلی سیڑھی پر ہوتا ہے تو اُس کا پہلی سیڑھی سے گرنے کا امکان ہوتا ہے لیکن جب وہ پہلی سیڑھی سے دوسری سیڑھی پر چڑھ جائے تو اُس کے لئے دوسری سیڑھی سے گرنے کا امکان تو ہوتا ہے لیکن پہلی سیڑھی سے نیچے گرنے کا امکان نہیں ہوتا کیونکہ وہ پہلی سیڑھی پر نہیں ہے لیکن جب وہ تیسری سیڑھی پر چڑھ جائے تو دوسری سیڑھی سے گرنے کا امکان نہیں رہتا۔ ایک شخص ایک مقام پر کھڑا ہے اُس سے کچھ گناہ سر زد ہوتے ہیں۔ ایک اور شخص ہے جو اُس سے اوپر کے مقام پر کھڑا ہے اُس سے اَور قسم کی غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں لیکن وہ غلطیاں سر زد نہیں ہو سکتیں جو نچلے مقام والے انسان سے ہوئیں۔ اسی طرح ایک تیسرا شخص ہے جو دوسرے شخص سے زیادہ اونچے مقام پر ہے اُس سے غلطیاں تو سر زد ہو سکتی ہیں لیکن وہ نہیں جو اُس سے نچلے مقام والے انسان سے سرزد ہو سکتی ہیں۔جرائم تو سب سے ہی ہوں گے لیکن جرائم کی نوعیت ہر مقام پر بدل جائے گی۔ جو سب سے اوپر کے درجہ پر ہوگا اُس کے جرائم کی نوعیت اور ہوگی اور جو اُس سے نچلے درجہ پر ہوگا اُس کے جرائم کی نوعیت اور ہوگی اور جو سب سے نچلے درجہ پر ہوگا اُس کے جرائم کی نوعیت اور ہوگی۔ جو لوگ پڑھنے کے لئے نہیں آئے وہ مجرم ہیں اِس بات کے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو موقع دیا کہ وہ روحانی آنکھیں پیدا کر لیں لیکن اُنہوں نے پیدا نہ کیں اور اندھے رہے۔ اور تم میں سے جو آنکھیںپیدا کر لیں گے لیکن اِس کے ذریعہ اندھوں کو راستہ نہیں دکھلائیں گے تو وہ مجرم ہوں گے اِس بات کے کہ انہوں نے اندھوںکو پکڑ کر منزلِ مقصود تک کیوں نہ پہنچایا۔ پس یہ مت خیال کرو کہ کسی صورت میں بھی تم ذمہ داری سے بچ سکتے تھے تم ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے تھے صرف تمہاری ذمہ داری کی نوعیت بدل سکتی تھی۔ اگر تم قرآن کریم پڑھنے نہ آتے تو تم پر یہ الزام قائم ہوتا کہ ان کو روحانی آنکھیں حاصل کرنے کا موقع مل سکتا تھا مگر یہ اندھے رہے اوراب اگرقرآن کریم پڑھ کر دوسروں کو نہ سکھاؤگے تو یہ الزام ہو گاکہ اِن کو آنکھیں ملی تھیں پھر اِنہوں نے اندھوں کو کیوں راستہ نہ دکھلایا۔ تو آپ کا صرف یہ کام نہیں کہ جب قرآن شریف پڑھ کر جائیں تو اسے اپنے تک ہی محدود رکھیں بلکہ آپ کا یہ بھی کام ہے کہ اپنے وطن واپس جا کر اپنی جماعتوں کو قرآن شریف پڑھائیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ قرآن شریف پڑھائیں تو زیادہ منشاء میرا یہی ہوتا ہے کہ دوسروں کو قرآن شریف سنائیں کیونکہ ہمارے ملک کے اکثر لوگ پڑھے ہوئے نہیں۔
دوسرا فرض آپ کا یہ ہے کہ چونکہ آپ سارا قرآن شریف اِن دنوں میں نہیں پڑھ سکیں گے اور ساری صَرف ونحو بھی نہیں پڑھ سکیں گے بلکہ اِس کے موٹے موٹے مسائل بھی شاید اِس دفعہ ختم نہ کر سکیں گے اِس لئے آپ آج ہی سے دل میں پکا عہد کریں کہ اگلے سال آکر اپنی تعلیم مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ آدھی تعلیم حاصل کرنے سے آپ کی ذمہ داری ایک نئی شکل اختیار کر لیتی ہے ایک شخص جو کسی کے گھر میں کرائے پر رہتا ہے اگر وہ اُس مکان کو خراب کرتا ہے، اُس کو ضائع کرتا ہے تواُس کو محلے والے بھی اور مالک مکان بھی بُرا کہتے ہیں۔ لیکن ایک اور شخص جو ایک مکان کی دیواریں بنا کر چھوڑ دیتا ہے اور مکان کی تکمیل نہیں کرتا اس کی وفات کے بعد اس کے محلے والے ہی اُسے بُرا نہیں کہتے اُس کی اولاد بھی اُسے بُرا کہتی ہے کہ ہمارے باپ نے یونہی روپیہ ضائع کرا دیا۔ اگر وہ یہاں روپیہ نہ لگاتا تو کسی اور جگہ کام آجاتا۔ اور ہمسائے کہتے ہیں اِس کی اینٹیں گرتی ہیں، بے چارے راہ گیروں کے سروں پر لگتی ہیں ان کے سر پھٹ جاتے ہیں یا لوگوں کو ٹھوکریں لگتی ہیں اگر مکان بنانا تھا تو مکمل بناتا، نہیں تو نہ بناتا۔ اب آپ لوگ بھی سوچیں کہ آپ لوگ سارا قرآن شریف ختم کر کے نہیں جا سکتے اس لئے آپ بھی علمِ دین کے مکان کی دیواریں کھڑی کر کے جا رہے ہیں،نہ چھت پڑے گی، نہ دروازے لگیں گے، نہ پلستر ہوگا پس آپ کو یہ وعدہ کر لینا چاہئے اور فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اب ہم اپنی ساری توجہ اِس طرف لگا دیں گے اور اِس سارے علم کو حاصل کر کے چھوڑ یں گے اور آپ کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اگلے سال پھر اِنْشَائَ اللّٰہُ آئیں گے اور اپنے علم کی تکمیل کریں گے یہاں تک کہ سارا علم آجائے۔
دوسرے آپ میں سے جسے خدا تعالیٰ اگلے سال آنے کی پھر توفیق دے وہ دو تین اَور کو تحریک کر کے ضرور اپنے ساتھ لائے تا علم حاصل کر کے واپس اپنے وطنوں میں جا کر پڑھانے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے۔ ہماری جماعت اب اتنی ہے کہ ہزارہا بھی اس کے لئے کافی نہیں ہو سکتے۔ اب اسّی نوے کا تو سوال ہی نہیں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ہزارہا ایسے مبلغ پیدا کریں جنہوں نے قرآن شریف پڑھا ہوا ہو، تا وہ اپنے اپنے وطن واپس جا کر لوگوں کو قرآن شریف پڑھائیں۔ یہی چیز تھی جس کی وجہ سے مجھے خواہش تھی کہ میں آپ لوگوں میں آکرتقریر کروں اور آپ کو آپ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں۔
اب میں آپ لوگوں کو مختصر الفاظ میں کچھ ایسی باتیں بتاتا ہوں جو قرآن کریم کے سمجھنے کے متعلق ہیں۔ جب آپ قرآن شریف پڑھیں گے تو وہ باتیں جو اُستاد آپ کے کانوں میں ڈالیں گے اگر آپ اُن کو یاد رکھیں گے تو آپ کی حیثیت آنحضرت ﷺ کے مقولہ کے مطابق صرف ایسی ہوگی جیسے ایک زمین پر پانی پڑتا ہے اور وہ اُسے محفوظ رکھتی ہے دوسرے لوگ اس سے آکر پانی پیتے ہیں یا پانی لے جاتے ہیں یہ درمیانہ درجہ کے لوگ ہیں۔ رسول کریمﷺ فرماتے ہیں علم کے لحاظ سے تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو وہ جن کی مثال اُس زمین کی سی ہوتی ہے جو ڈھلوان ہوتی ہے اور سخت بھی جس پر پانی ٹھہرتا ہی نہیں۔ ایک زمین ایسی ہوتی ہے جو نشیب میں ہوتی ہے اُس پر پانی پڑتا ہے اور جمع ہو جاتا ہے لیکن پانی تہہ میں نہیں جاتا وہ زمین پانی نہیں پیتی لیکن چار پائے آتے اور پیتے ہیں۔ تیسری مثال ایسی زمین کی ہے جو عمدہ قسم کی ہوتی ہے جس میں روئیدگی اُگانے کی طاقت ہے اُس میں ڈھلوان نہیں کہ پانی بہہ جائے اور وہ کنکریلی نہیں کہ پانی جذب نہ کر سکے بلکہ جب آسمان سے بارش ہوتی ہے تو وہ اُس پانی کو جذب کر لیتی ہے، پیتی ہے پھر سبزہ اُگاتی ہے، پھل پھول اور اناج اُگاتی ہے دوسرے لوگ آتے ہیں اور اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، انسان اُس سے پھل کھاتا ہے اور اناج حاصل کرتا ہے، جانور اُس سے چارہ حاصل کرتے ہیں وہ زمین آپ بھی پانی پیتی ہے اور دوسروں کو بھی پلاتی ہے۔۳؎
یہی تین حالتیں انسان کی ہیں۔ ایک عالم ایسے ہوتے ہیں جو علم کو حاصل کرتے ہیں اور حاصل کر کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اُن کی مثال اُس زمین کی ہے جو پانی پیتی ہے اور روئیدگی اُگاتی ہے آپ بھی فائدہ حاصل کرتی ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔ ایک ایسے عالمِ ہوتے ہیں جو علم حاصل کرتے ہیں اور اُسے اُسی شکل میںمحفوظ رکھتے ہیں وہ عالمِ تو ہوتے ہیں لیکن بے عمل، خدا اور رسول کی باتیں تو لوگوں کو بتاتے ہیں لیکن خود اُن پر عمل نہیں کرتے۔ اُن کی مثال ایسی نشیب زمین کی ہے جو پانی جمع کر لیتی ہے اُسے خود تو پیتی نہیں لیکن دوسروں کو پلادیتی ہے۔ تیسری قسم کے عالموں کی مثال ڈھلوان زمین کی ہے وہ علم حاصل کرتے ہیں لیکن اس کو یاد نہیں رکھتے وہ نہ خود اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور نہ دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں جیسا کہ ڈھلوان کنکریلی زمین سے پانی بہہ جاتا ہے اسی طرح ان پر سے علم گزر جاتا ہے لیکن اس سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔پس اگر آپ لوگوں نے جو پڑھا ہے اُس کو بُھلا دیا تو رسول کریم ﷺ نے آپ لوگوں کی مثال یہ بتائی ہے کہ جیسے کنکریلی ڈھلوان زمین جس نے نہ آپ پانی پیا اور نہ دوسروں کو پلایا۔ اگر آپ نے قرآن شریف کی باتیں سُنیں اور لوگوں کو جا کر سمجھائیں لیکن خود اُن پرعمل نہ کیا تو آپ کی مثال اُس جوہڑ کی سی ہوگی جس میں پانی جمع ہو جاتا ہے لیکن وہ خود اس میں سے پانی نہیں پیتا ہاں لوگوں کو پلا دیتا ہے۔ لیکن اگر آپ نے قرآن شریف کی باتیں سُنیں اور اُن پر عمل کیا اور دوسروں کو بھی قرآن شریف پڑھایا اور سمجھایا تو آپ کی مثال ایسی اچھی زمین کی ہوگی جو خود پانی پیتی ہے اور دوسروں کو گھاس، چارہ، پھل اور پھول دیتی ہے اور بنی نوع انسان اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ یہی وہ زمین ہے جس کے لئے زمیندار خواہش کرتے ہیں اور جس کو حاصل کرنے کے لئے ہر ایک خواہش کرتا ہے۔ راجپوتانہ کے علاقہ میں ہزارہا میل کے میدان بیابان پڑے ہیںلیکن کوئی شخص ان کے لئے خوشی سے ایک پیسہ دینے کی بھی خواہش نہیں رکھتا لیکن لائل پور اور سرگودھا کے علاقوں میں پچیس پچیس ہزار روپے دے کر ایک مربع زمین خریدتے ہیں۔ نیلامی میں تو یہاں تک مول پڑتا ہے کہ ایک دوست نے مجھے بتایا کہ لوگوں نے ایک جگہ پانچ ایکڑ زمین کی ایک لاکھ کئی ہزار بولی دی، تو اچھی زمین ہی قیمتی ہوتی ہے۔ پس اگر آپ قیمتی وجود بننا چاہتے ہیں تو آپ اِس پڑھے ہوئے پر عمل کریں اور جو کچھ یہاں سے سبق حاصل کر کے جائیں اُس کو خود بھی استعمال کریں اور اس سے فائدہ اُٹھائیں اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔
میں ایک اور بات بیان کرتا ہوں جو رسول کریمﷺ کی حدیث کی تردید نہیں کرتی بلکہ تائید کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول کریمﷺ نے جو زمین کی مثال دی تھی اس سے ہمیں ایک اور سبق ملتا ہے اوروہ یہ ہے کہ ایک زمین ایسی ہوتی ہے جوپانی جذب کر تی ہے اور پانی ہی اُگلتی ہے۔ ایک زمین ایسی ہوتی ہے جو پانی جذب کرتی ہے لیکن پانی نہیں نکالتی بلکہ اس کی بجائے انگور،انار، آم،گندم، کپاس، گھاس، چارہ وغیرہ نکالتی ہے۔ اسی طرح اگر آپ لوگوں نے جو کچھ یہاں پڑھا وہی واپس جا کر پڑھایا تو آپ کی مثال ایسی زمین کی ہوگی جو پانی پیتی ہے اور پانی نکال دیتی ہے لیکن اگر آپ دوسری مثال کے مصداق بننا چاہتے ہیں تو آپ میں یہ قابلیت پیدا ہونی چاہئے کہ آپ کو اُستاد جو باتیں بتلائیںاُن میں تغیر و تبدل کر کے ایک نئی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اگر آپ کو صرف وہی نکتے یاد رہتے ہیں جو اُستاد نے بتائے ہیں تو آپ ہرگز اس مثال کے مصداق نہیں ہو سکتے۔ لیکن اگر ان باتوں نے آپ کے دل میں ہیجان پیدا کر دیا ہے اور آپ کے جذبات میں ہیجان پیدا کر دیا ہے اور آپ میں غور کرنے کی عادت پیدا ہوگئی ہے اور آپ کے اندر ایسا تقویٰ پیدا ہوگیا ہے جس سے آپ پرقرآن شریف کے معارف کھل جاتے ہیں تو آپ کی مثال اُس زمین کی سی ہوگی جو پانی پیتی ہے اور اس کے نتیجے میں پھل پھول نکالتی ہے۔ پس آپ لوگ اس زمین کی طرح نہ ہوں جو پانی کے بدلے پانی نکال دیتی ہے بلکہ اُس زمین کی طرح ہوں جو پانی پی کر اس کے نتیجہ میں گھاس چارہ اور پھل اور پھول پیش کرتی ہے۔ تو جب تک آپ میں یہ قابلیتیں پیدا نہ ہو جائیں کہ جو باتیں آپ مدرس سے سنتے ہیں ان کو بدل نہ ڈالیں اور چارے کی شکل میں، پھل پھول کی شکل میں اور غلّے کی شکل میں تبدیل کر کے پیش نہ کریں اُس وقت تک آپ پوری طرح اِس حدیث کے مصداق نہیں ہو سکتے۔ جو انسان بھی علم ایسی صورت میں حاصل کرتا ہے کہ اپنے اُستاد کی بتائی ہوئی باتوں کو اُسی شکل میں رہنے دیتا ہے وہ جہالت اور بے وقوفی کا مرتکب ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں لطیفہ مشہورہے کہ کسی بادشاہ نے اپنے بیٹے کو کسی عالمِ کے پاس بٹھایا جسے ہر قسم کے علوم، علمِ نجوم اور علمِ ہیئت وغیرہ آتے تھے اور اُسے کہا کہ اِس کو تمام علوم میں ماہر کردو۔ جب وہ علوم سیکھ چکا تو بادشاہ نے کہا میں اِس کا علمِ نجوم میں امتحان لیتا ہوں۔ اُس نے اپنی مٹھی میں انگوٹھی کا ایک نگینہ پکڑ لیا اور اپنے بیٹے سے پوچھا بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے؟ اُس نے حساب لگا کر کہا کہ آپ کے ہاتھ میں چکی کا پاٹ ہے۔ بادشاہ اُس کے اُستاد پر بڑا ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے میرے لڑکے کو کیا پڑھایا ہے؟ عالم نے کہا حضور میں نے جو پڑھایا ہے ٹھیک ہے میں نے اُسے ایسا طریقہ بتایا تھا جس سے پتہ لگ جائے کہ آپ کے ہاتھ میں کوئی پتھر کی چیز ہے سو اُس نے یہ بات معلوم کر لی مگر میں آپ کے لڑکے کے دماغ میں بیٹھ نہیں سکتا تھا کہ اِسے عقل بھی دیتا جاؤں، آپ کے بیٹے کے دماغ میں اتنی عقل ہی نہیں کہ وہ معلوم کر سکے کہ مٹھی میں چکی کے پاٹ کا پتھر نہیں آسکتا مٹھی میں تو نگینہ ہی آئے گا۔ پس یہ نہ ہو کہ آپ لوگ اِس قسم کی جہالت کے مرتکب ہوں اور جو علم یہاں سے لے کر جائیںاُسے اسی طرح لفظاً لفظاً دُہرانے لگ جائیں اور یہ نہ دیکھیں کہ دوسرا کس صورت میں اعتراض کر رہا ہے اور ہم جواب کیا دے رہے ہیں۔ وہ آپ کے مقابل پر ایک نیا اعتراض پیش کر رہا ہے لیکن آپ ہیں کہ اُستاد کی بات ہی دُہراتے چلے جاتے ہیں صرف میا ں مٹھو کہنا جانتے ہیں اور کچھ بھی نہیں جانتے۔
پس آپ میں یہ قابلیت پیدا ہونی چاہئے کہ آپ نے جو قرآن شریف کی باتیں سُنی ہیں ان کے لئے معنی استنباط کر کے دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ میرا خیال تھا کہ میں اس سلسلہ میں بعض ہدایات دوں لیکن اب وقت نہیں رہا دوسرے گلے کی خرابی کی وجہ سے بھی میں زیادہ بول نہیں سکتا لیکن میں نے اپنی بعض کتابوں میں قرآن شریف کی تفسیر کے اصول لکھے ہیںاُن کو پڑھیں اور اُن پر غور کریںاور اُن کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
ایک گُر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کبھی اور کبھی اور کبھی بھی اپنے دشمنوں کی بات کو مروڑنے کی عادت نہ ڈالو۔ جو دشمن کی بات کو مروڑتے ہیں وہ دشمن کی بات کو نہیں مروڑتے بلکہ وہ اپنی عقل کو مروڑتے ہیں۔ میں نے بہت لوگوں کو دیکھا ہے کہ دشمن کی باتوں کو مضحکہ خیز بنا کر پیش کرتے ہیں اور پھر اُن پر خود ہنستے ہیں اور دوسروں کو بھی ہنساتے ہیں بظاہر وہ اُس کا مذاق اُڑا رہے ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً وہ اُس کا مذاق نہیں اُڑارہے ہوتے بلکہ اپنے خود ساختہ خیالات کا مذاق اُڑا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا دماغ علم حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ وہ دشمن کے اعتراضوں کو مروڑتے ہیں اور اپنے مطلب کے مطابق پیش کرتے ہیں اور مصنوعی باتوں سے انسان کو پکڑنا چاہتے ہیں اور اِس پر بڑے خوش ہوتے ہیں۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق یہ لکھ لکھ کر بڑے خوش ہوتے تھے کہ مرزا غلام احمد تو مضمون نگار ہے اور حکیم نورالدین ایک طبیب ہے ہاں یہ مان لیتا ہوں کہ مولوی محمد احسن صاحب امر وہی کچھ علمیت رکھتے ہیں اور پھر اس پر بڑے خوش ہوتے تھے کہ میں نے بڑا تیر مارا ہے لیکن اب مرنے کے بعد اُن کو کون یاد کرتا ہے؟ مگر یہاں خداتعالیٰ ہر گھر ، ہر گاؤںاور ہر ملک سے لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لا رہا ہے اور ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غلاموں کے قدموں میں ڈال رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ سے پہلے آپ کے پاس ایک شخص بیمار ہو کر آیا اور حضرت مسیح موعود ؑ کے سلوک کو دیکھ کر یہیں رہ پڑا۔ وہ ایسا بے وقوف تھا کہ مٹی کا تیل کھانے میں ڈال کر کھا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ چکنائی ہی کھانی ہے کوئی دوسرا تیل نہ کھایا یہ کھا لیا۔ اُس وقت یہاں تار گھر نہیں ہوتا تھا تار دینے کے لئے آدمی بٹالے جاتے تھے یہ بھی تار دینے کے لئے بٹالے جاتا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی روزانہ اسٹیشن پر جاتے تھے اور لوگوں کو قادیان آنے سے روکتے تھے ممکن ہے شاذونادر بعض لوگوں کو ورغلا کر واپس بھیج دینے میں کامیاب ہو جاتے ہوں گے۔ وہ لوگوں سے کہتے تھے کہ میں یہاں کا رہنے والا ہوں مرزا صاحب کو خوب جانتا ہوں آپ وہاں نہ جائیں۔ ایک دن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو اسٹیشن پر کوئی بھی آدمی نہ ملا مذکورہ بالا شخص کو جس کا نام پیرا تھا اور جو تار دینے بٹالہ گیا تھا اُنہوں نے دیکھ لیا اور اُس کو تبلیغ کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ اُسے جا کر کہا تجھ پر کیا مار پڑی ہے کہ تو مرزا صاحب کے قابو آگیا ہے تو نے آخر وہاں کیا دیکھا ہے؟ اُس نے یہ واقعہ خود آکر قادیان سنایا اور بتایا کہ پہلے میں حیران ہوا کہ کیا کہوں مجھے آتا تو کچھ ہے نہیں اور حقیقتاًوہ تھا بھی جاہل اور احمدیت سے بالکل ناواقف چونکہ اُس کے رشتہ داروں نے اُسے چھوڑ دیا تھا اور بیماری میں اُس کا علاج نہیں کرایا تھا اِس لئے وہ اُن کو چھوڑ کر قادیان میں ہی رہ گیا تھا حضرت مسیح موعود نے اُس کا علاج کیا اِس لئے وہ حضرت مسیح موعود کے حُسنِ سلوک کو دیکھ کر یہیں رہ پڑا مگر باوجود جاہل ہونے کے اُس کی فطرت نے اُسے جواب سمجھادیا۔ چنانچہ اس کے اپنے بیان کے مطابق مولوی صاحب کو یہ جواب دیاکہ مولوی صاحب! میں تو اَن پڑھ ہوں اور مجھے کچھ نہیں آتا مگر ایک بات میں دیکھتا ہوں وہ یہ کہ مرزا صاحب اپنے گھر سے نہیں نکلتے، لوگ اطلاع کرواتے ہیں، بعض اوقات کسی مجبوری کی وجہ سے مرزا صاحب دیر تک باہر نہیں آتے اور کہلا بھیجتے ہیں کہ طبیعت اچھی نہیں اِس وقت نہیں آسکتے اور گو ملنے والے بڑے بڑے آدمی ہوتے ہیں لیکن چپ کر کے دروازے کے آگے بیٹھے رہتے ہیں اور اگر مصافحہ ہو جاتا ہے تو بڑے خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں بڑا کام ہو گیا۔ مگر مولوی صاحب! میں اکثر بٹالہ آتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسٹیشن پر آتے ہیں اور لوگوں کو ورغلاتے ہیں لیکن پھر بھی لوگ آپ کی نہیں مانتے اور مرزا صاحب کی طرف چلے جاتے ہیں اور پھر کہا کہ مولوی صاحب! آپ کی تو جوتیاں بھی اس کام میں گھس گئی ہونگی مگر سنتا کوئی نہیں آخر کچھ تو مرزا صاحب میں بات ہوگی جو ایسا ہو رہا ہے۔ تو یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جس پر نازل ہوتا ہے۔
بعض اوقات لوگ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتراض ہوتا دیکھ کر اُس کو اُلٹنے لگ جاتے ہیں یا بعض اوقات غصے میں آ جاتے ہیں یہ طریقہ صحیح نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جب بھی کوئی آدمی آ کر کوئی سوال کرتا تو آپ اُس کا صحیح جواب دیتے اور کوئی ایچ پیچ نہ کرتے خواہ دشمنوں کو اس سے ہنسی کا موقع مل جاتا۔ میرے پاس بھی ایک دفعہ دو مولوی دیوبند کے آئے۔ اُن کو پتہ تھا کہ میں کسی مدرسہ میں نہیں پڑھا ہوا۔ میں اُس وقت لاہور میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ان میں سے ایک آدمی نے آتے ہی سوال کیا آپ نے کیا پڑھا ہوا ہے؟ میں نے کہا مَیں نے آپ کی تعریف علم کے مطابق کچھ نہیں پڑھا۔ وہ کہنے لگے آخر کسی مدرسے میں کچھ تو پڑھا ہوگا۔ میں نے کہا میں نے کسی مدرسے میں کچھ نہیں پڑھا۔ تو وہ کہنے لگے آپ نے کسی عربی کے مدرسے میں علومِ اسلامی حاصل نہیں کئے؟ میں نے کہا نہیں بالکل نہیں۔ وہ کہنے لگے تو اِس کا یہ مطلب ہے کہ آپ علومِ اسلامی سے کورے ہیں میں نے مسکرا کر کہا بالکل نہیں۔ اُس وقت اُس کے ساتھ جو دوسرا مولوی آیا تھا وہ بھی پہلے تو اعتراض میں شریک تھا لیکن اُس نے جب میرے چہرے پر نظر ڈالی تو مجھے مسکراتا دیکھ کر چپ نہ رہ سکا اور اپنے ساتھی سے کہنے لگا۔ ان کا مطلب اِس سے کچھ اَور ہے۔ اُس کے ساتھی نے کہا اور کیا مطلب ہو سکتا ہے واضح بات ہے۔ اِس پر دوسرے مولوی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ آخر اسلام کے مبلّغ ہیں آپ کو اسلام کی کچھ تو واقفیت ہوگی۔ میں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جس مکتبہ سے علم حاصل کیا تھا اُسی سے میں نے کیا ہے اور وہی کتاب میں نے پڑھی ہے۔ میں دیوبند میں نہیں پڑھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مدرسہ میں پڑھا ہوں۔ بے شک میں آپ کے علم کے لحاظ سے بڑا جاہل ہوں جس طرح آپ جاہل ہیں میرے علم کے لحاظ سے۔ میرے اِس جواب سے اُن پر ایسی اوس پڑی کہ پھر نہیں بول سکے۔ تو جب کوئی آپ پر اعتراض کرے یا کوئی سوال پوچھے تو اس کا صحیح جواب دینا چاہئے اُس کو موڑنا توڑنا نہیں چاہئے۔
ہماری جماعت کے بعض دوست بعض اوقات دشمن کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ غلط طریقہ ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو علم میں نے سیکھا ہے اس کا معتدبہ حصہ مجھے اسی طرح آیا ہے کہ جب کبھی بھی کوئی دشمن قرآن شریف پر کوئی اعتراض کرتا ہے میں اس کے آگے اعتراض کو اور زیادہ مضبوط کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید وہ اس کو بیان نہ کر سکا ہو کیونکہ بعض اوقات کچھ باتیں بیان کرتے ہوئے نظر انداز ہو جایا کرتی ہیں اس لئے شاید کچھ حصہ نظر انداز ہو گیا ہو تو میں اعتراض کو مضبوط کر کے پھر اس پر غور کرتا ہوں اور جب خدا تعالیٰ مجھے اس کا جواب سمجھاتا ہے تو وہ مکمل جواب ہوتا ہے۔ اور جب میں کسی اعتراض کا جواب دیتا ہوں تو وہ اُس کی تسلی سے بھی زیادہ ہوتا ہے اور اُس میں اُس کے اعتراض سے بھی زیادہ مواد موجود ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم ہنسیں اور تمسخر میں اُس کے اعتراض کو اُڑانے کی کوشش کریں تو ظاہر ہے کہ ہمارا جواب دشمن کے اعتراض کے بعض پہلوؤں پر روشنی نہیں ڈالے گا اور یقینا خود کمزور ہوگا اور ساری حقیقت پر مشتمل نہیں ہوگا اِس وجہ سے اعتراض کرنے والے کے دل میں بھی شکوک باقی رہیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف پر جتنے اعتراضات میں نے اپنے ذہن میں کئے ہیں شاید اتنے اعتراضات سارے مخالفِ اسلام مصنفین نے بھی نہ کئے ہونگے۔ چونکہ میں نے قرآن شریف کے مضامین کو حل کرنے کیلئے بے دردی سے اعتراضات کئے اس لئے اس کی حقیقت بھی مجھ پر زیادہ کھلی اور جیسے ڈاکٹر جب پیٹ کی کسی بیماری کی وجہ سے اپنے بچہ کا آپریشن کرتا ہے اور اُس کا پیٹ پھاڑ دیتا ہے تو وہ اُس کا دشمن نہیں کہلاتا کیونکہ وہ خدمت کر رہا ہوتا ہے اور خارجی مواد کو نکال کر صحت کو درست کر دیتا ہے۔ اِسی طرح جب کبھی کوئی شخص قرآن شریف پر کوئی اعتراض اس لئے کرتا ہے کہ ہے تو یہ خدا تعالیٰ کی کتاب، غلطی اِس میں نہ نکلے گی میری عقل میں نکلے گی میں تو اِس کے پوشیدہ معارف سمجھنا چاہتا ہوں، میں اِس میں جتنا بھی گہرا جاؤں گا اُتنی ہی اچھی چیز ملے گی اور میں مایوس واپس نہیں آؤں گا تو وہ ضرور کامیاب ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ جب آپ قرآن شریف پر اعتراض کریں تو اللہ تعالیٰ پر توکّل ہو اور یہ خیال ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ساتھ ہی یہ دعا بھی مانگیں کہ یا اللہ! یہ اعتراض ہمارے لئے ٹھوکر کا موجب نہ ہو جائے۔ اِس کے ماتحت جب کبھی بھی میں نے غور کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے نئی باتیں سمجھائیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور علمِ غیب پر مشتمل ہے۔ پس اعتراض کے وقت آپ کو ڈرنا نہیں چاہئے کہ قرآن شریف پر اعتراض ہوگا تو کیا بنے گا۔ اگر آپ ڈریں گے تو یہ ایسی ہی جہالت ہوگی جیسی بچے بعض دفعہ کر بیٹھتے ہیں۔
مجھے بھی اپنے بچپن کی ایک جہالت یاد ہے۔ جب میں چھوٹا بچہ تھا تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میںبعض دشمن آتے اور آپ پر اعتراض کرتے تو چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہایت سادگی سے بات کرتے تھے بعض دفعہ مجھے یہ وہم ہوتا تھا شاید آپ اُس شخص کی چالاکی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے مگر جب دشمن مخالفت میں بڑھتا جاتا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی آسمانی طاقت نے آپ پر قبضہ کر لیا ہے اور آپ اِس شان سے جواب دیتے کہ مجلس پر سناٹا چھا جاتا تھا۔ ایسی ہی بے وقوفی ان لوگوں کی ہے جو اس وقت کہ جب کوئی شخص قرآن شریف پر اعتراض کرے تو کہتے ہیں چپ ہو جاؤ ورنہ تمہارا ایمان ضائع ہو جائے گا حالانکہ یہ فضول بات ہے۔ چاہئے تو یہ کہ قرآن شریف پر جو اعتراض ہوں ان کے جوابات ایسے دیئے جاویں کہ دشمن بھی ان کی صداقت کو مان جائے نہ یہ کہ اعتراض کرنے والے کو اعتراض کرنے سے منع کر دیا جائے اور شکوک کو اُس کے دل میں ہی رہنے دیا جائے۔
مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک بات خوب یاد ہے میں نے کئی دفعہ اپنے کانوں سے وہ بات آپ کے منہ سے سنی ہے۔ آپ فرمایا کرتے کہ اگر دنیا میں سارے ابوبکرؓ جیسے لوگ ہوتے تو اِتنے بڑے قرآن شریف کی ضرورت نہیں تھی۔ صرف بِسْمِ اللّٰہِ کی ’’ب‘‘کافی تھی۔ قرآن کریم کا اتنا پُر معارف کلام جو نازل ہوا ہے یہ ابوجہل کی وجہ سے ہے۔ اگر ابوجہل جیسے انسان نہ ہوتے تو اِتنے مفصّل قرآن شریف کی ضرورت نہ تھی۔ غرض قرآن کریم تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس پر جتنے اعتراضات ہوں گے اتنی ہی اس کلام کی خوبیاں ظاہر ہوں گی۔ پس یہ ڈر کہ اعتراض مضبوط ہوگا تو اس کا جواب کس طرح دیا جائے گا ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ کیا خدا کے کلام نے ہمارے ایمان کی حفاظت کرنی ہے یا ہم نے خدا کے کلام کی حفاظت کرنی ہے؟ وہ کلام جس کو اپنے بچاؤ کے لئے انسان کی ضرورت ہے وہ جھوٹا کلام ہے اور چھوڑ دینے کے لائق، ہمارے کام کا نہیں۔ ہمارے کام کا وہی قرآن شریف ہے جس کی حفاظت کیلئے کسی انسان کی ضرورت نہ ہو بلکہ اس کا محافظ خدا ہو اور اس پر جو اعتراض ہو وہ خود اُس کو دور کرے اور اپنی عظمت آپ ظاہر کرے ہمارا قرآن کریم ایسا ہی ہے۔ ہاں ہمیں یہ ضرور چاہئے کہ نہ اعتراض کو اس کی حقیقت سے چھوٹا کریں اور نہ ہی حقیقت سے باہر لے جا کر بڑا بنا دیں بلکہ ہمیں چاہئے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو موازنہ کی طاقت دی ہے اس سے کام لیں۔ اگر موازنہ میں غلطی کر وگے اور اعتراض کو اُس کی عقلی حدود سے بڑھا دو گے تو ضرور تمہارے دل پر زنگ لگ جائے گا اور اگر اعتراض کو بِلاوجہ کم کر دو گے تو تمہارے دماغ کو زنگ لگ جائے گا ۔اور اگر بے دلیل اعتراض بناؤ گے تو تمہاری روحانیت کو زنگ لگ جائے گا۔ درمیان میں جو پُل صراط کا راستہ ہے اُس پر چل کر ہی تم کامیابی کا منہ دیکھ سکتے ہو اور قرآنی علوم کو حاصل کر سکتے ہو۔ آپ کو چاہئے کہ اِس نکتہ کو یاد رکھیں اور اِس پر عمل کر کے قرآن کریم کی تفسیر سیکھیں اور اس کے علوم حاصل کریں اور اس علم کو بڑھائیں۔ اگر آپ وہی باتیں بیان کریں گے جو آپ نے اپنے استاد سے سنی ہیں تو آپ کی مثال اُس زمین کی سی ہوگی جو پانی پی کر پانی اُگل دیتی ہے۔ لیکن اگر آپ اُن باتوں کو جو آپ نے اپنے اُستاد سے سنی ہیں ضرورت کے مطابق ایک نئی شکل دینے میں کامیاب ہوں گے تو آپ کی مثال اُس زمین کی سی ہوگی جو پانی پیتی ہے اور اس کے بعد سبزیاں نکالتی ہے۔
پس میں اِس نصیحت کے ساتھ اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر بھی اور دوسرے لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں اُن پر بھی اپنے فضل نازل کرے قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور یہ بھی توفیق عطا فرمائے کہ آپ اِس کو سمجھ کر ہر نئے اعتراض کے وقت ایک نئے علم کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ نادان کہتے ہیں کہ کسی نئی بات کی کیا ضرورت ہے اگر اِس کی ضرورت تھی تو کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس کا علم نہیں تھا کیا وہ اسے بیان نہیں کر سکتے تھے؟ نادان نہیں جانتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خدا کے کلام کا پانی لے کر آئے اور جس طرح زمین پانی پیتی ہے اور سبزیاں بنا کر اُسے اُگل دیتی ہے اِسی طرح خدا تعالیٰ کے کلام کے مفہوم کو نیک انسان ہمیشہ وقت کی ضرورت کے مطابق ایک نئی شکل میں پیش کرتے رہیں گے ہاں اس تعلیم کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا۔ جس طرح پانی زمین میں جذب ہوتا ہے اور جذب ہو کر زمین میں سے سبزیاں نکالتا ہے اوراس سے پانی ہی کی عظمت ثابت ہوتی ہے اسی طرح قرآن کریم کے محل الفاظ کا انسانی دماغ میں داخل ہو کر اس میں نئے علوم کا پیدا ہونا قرآن کریم ہی کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ لوگوںکو پڑھنے اور پڑھانے کی توفیق عطا فرماوے اور جماعت کے دوسرے دوستوں کو بھی توفیق عطا فرماوے کہ وہ قرآن شریف کے علوم حاصل کریں۔ اور ہماری جماعت میں قرآن شریف کو اس طرح قائم کر دیں کہ اِس کی جڑوں کو کوئی اُکھیڑ نہ سکے اور ہمارے بعد ہماری اولادوں کو بھی توفیق عطا فرماوے کہ قرآنی علوم حاصل کریں اور دنیا میں پھیلائیں اور اِس سلسلہ کو اِس قدر وسیع کرتے چلے جائیں جس طرح پُرانے زمانے میں فقیہہ بیٹھتے تھے۔ جیسے حضرت امام مالکؒ کے تو پانچ پانچ ہزار آدمی درس میں موجود ہوتے تھے اِسی طرح ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ قرآن شریف پڑھنے اور پڑھانے والوں کے دلوں میں یہ جذبہ پیدا کر دے کہ معلّمین قرآن کا پڑھانا اور متعلّمین درسوں میں جانا ایک مصیبت اور چٹی نہ سمجھیں بلکہ پروانوں کی طرح وہاں جمع ہوں۔ اور اِسی طرح ہوتا چلا جائے یہاں تک کہ ہم اور ہماری اولادیں اور اُن کی اولادوں کی اولادیں ایک زمانہ دراز تک خدا تعالیٰ کی حکومت کے ماتحت اُس کے کلام کو سیکھتے اور سکھاتے ہوئے اِس طرح ہنستے ہوئے اور خوشی کے ساتھ اُچھلتے ہوئے چلتے چلے جائیں گویا ہماری زندگی کی لذت اِسی میں محصور ہے۔
(الفضل ۳ تا ۶ ؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء)
۱؎ الحد ید: ۱۷
۲؎ لوقا باب۱۵ آیت ۱۱ تا ۳۲
۳؎ بخاری کتاب العلم باب فضل من علم وعلم
نیکیوں پر استقلال اوردوام کی
عادت ڈالیں
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
نیکیوں پر استقلال اور دوام کی عادت ڈالیں
(تقریر فرمودہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
میں نے اپنے خطبات میں جماعت کو کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ کام وہی بابرکت اور نتیجہ خیز ہوتا ہے جس میں استقلال اور دوام کا رنگ پایا جائے۔ یوں تو ادنیٰ سے ادنیٰ اور ذلیل سے ذلیل انسان بھی کبھی نہ کبھی کوئی نیکی کر لیتا ہے لیکن اُس کا دو دن کے لئے نیکی پر کاربند ہونا اِس بات کی علامت نہیں سمجھی جا سکتی کہ وہ فی الحقیقت نیک انسان ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی شخص کچھ عرصہ باقاعدہ نمازیں ادا کرتا ہے، باقاعدہ چندہ دیتا ہے، دین کے لئے قربانی بھی کرتا ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد اِن سب باتوں کو چھوڑ دیتا ہے تو کوئی عقلمند انسان ایسا نہیں جو ایسے شخص کو کامل طور پر ایماندار یا متقی سمجھ سکے۔ ہمارے ملک کی مساجد میں سے کچھ مساجد ایسی بھی ہیں جو کنچنیوں کی بنوائی ہوئی ہیں یا بعض ایسے لوگوں کی بنوائی ہوئی ہیں جن کی ساری عمر ظلم و تعدّی اور دوسری بدعات میں گزری لیکن جب وہ مرنے کے قریب پہنچے تو کوئی مسجد یا کنواں یا مدرسہ یا لائبریری بنوا دی اور اِس کے بنوانے کے بعد اُنہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کام کر دیا ہے اور مسجد یا کنواں یا مدرسہ یا لائبریری بنوا کر اللہ تعالیٰ پر اتنا بڑا احسان کر دیا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کا کوئی حق نہیں کہ آخرت میں اُن سے اُن کے اعمال کے متعلق باز پُرس کرے۔ گویا اصل مالک وہ ہیں اور اللہ تعالیٰ اُن کا محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہود کی اسی حالت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ ایسے جاہل اور بے وقوف ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کہتے ہیں کہ اصل مالدار تو ہم ہیں اور اللہ تعالیٰ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ فقیر اور محتاج ہے جو اپنے دین کی اشاعت کیلئے ہم سے پیسے مانگتا ہے۱؎ یہ سب باتیںوہ تمسخر سے کہتے تھے حالانکہ جتنا لمبا سلسلہ انبیاء کا بنی اسرائیل میں گزرا ہے اور کسی قوم میں نہیں گزرا لیکن پھر بھی اُن کی ذہنیت میں تبدیلی پیدا نہ ہوئی۔ وہ کبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیتے تھے کہ ۲؎کہ اے موسیٰ! تو اور تیرا رب دونوں جاؤ اور لڑتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ اگر یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کا نام درمیان میں کیوں لاتے ہو۔ قربانیاں ہم کریں، آدمی ہمارے مارے جائیں اور فتح اللہ تعالیٰ کے نام لگے۔ یہ ذہنیت شیطان ہر زمانہ میں لوگوں کے اندر پیدا کرتا رہتا ہے اور اُن کے دلوں میں وساوس اور شبہات پیدا کر کے اُنہیں اللہ تعالیٰ کی راہ سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں ایک پردہ اور اِخفاء کا رنگ ہوتا ہے اِس لئے ظاہر بین نگاہوں کو انسانوں کے ہاتھ تو کام کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کے سامان اُن کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ آسمان پھٹے اور اُس میں سے دنیا والوں کو جبرائیل کا منہ نظر آنے لگے اور جبرائیل بآوازِ بلند یہ کہہ رہا ہو کہ اے لوگو! آدم اللہ تعالیٰ کا نبی ہے اور تمہاری طرف اُس کا پیغام لے کر آیا ہے اس کی تکذیب اور انکار نہ کرنا۔ اور ایسا بھی آج تک کبھی نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مثلاً خانہ کعبہ بنانے کا ارادہ کیا ہو اور شام کے وقت میکائل آسمان سے سر نکال کر دنیا والوں کو آواز دے کہ اپنے اپنے سر بچالو اور کمروں کے اندر بیٹھ جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ آسمان سے خانہ کعبہ کے بنانے کے لئے روپوں کی تھیلیوں کی بارش کرنے لگا ہے۔ نہ حضرت آدمؑ کے زمانے میں ایسا ہوا، نہ حضرت نوحؑ کے زمانہ میں ایسا ہوا، نہ حضرت کرشن ؑ اور رام چندرؑ کے زمانہ میں ایسا ہوا، نہ حضرت موسیٰ ؑ کے زمانہ میں ایسا ہوا، نہ حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانہ میں ایسا ہوا اور نہ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے دین کی اشاعت اور دین کے کاموں کو سرانجام دینے کے لئے آسمان سے روپوں کی بارش کی ہو یا آسمان سے مؤمنوں کے لئے بیجوں کی بارش کی ہو اور وہ خود بخود رات کو اُگ کر صبح تک بڑے بڑے درخت بن گئے ہوں۔ یا اللہ تعالیٰ کے کسی نبی کو اشتہار چھپوانے کی ضرورت پیش آئی ہو تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے چھپے ہوئے اشتہار اُس کی ضرورت کے مطابق پھینک دیئے ہوں۔ یا لڑائی کا موقع ہو اور گھوڑوں اور نیزوں کی ضرورت ہو تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے گھوڑوں اور نیزوں کی بارش کی ہو، نہ کبھی آج تک ایسا ہوا اور نہ آئندہ ایسا ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ذریعہ ہی یہ سارے سامان مہیا کیا کرتا ہے لیکن بنی اسرائیل کی ذہنیت یہ تھی کہ ہم خدا تعالیٰ کا کام کیوں کریں اللہ تعالیٰ خود کرے۔ چنانچہ باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مان لینے کے شروع سے لے کر آخر تک مختلف رنگوں میں وہ حُجّت بازی کرتے رہے۔ گو الفاظ تبدیل کر لیتے تھے کبھی کہہ دیتے تھے کہ جا تُو اور تیرا رَبّ جا کر لڑو فتح ہو جائے تو ہمیں آ کر بتا دینا ہم آ جائیں گے، کبھی کہہ دیتے کہ خدا تعالیٰ تمہیں روپے نہیں دیتا کہ ہم سے مانگتے ہو، کیا خدا تعالیٰ فقیر ہے کہ ہم اُس کے کاموں کو سرانجام دینے کے لئے اپنا مال خرچ کریں؟ اور یہ بات صرف بنی اسرائیل تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ آج مسلمان کہلوانے والوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں اپنے آپ کوشامل کرنے والوں کا بھی یہی حال ہے۔ اگر اسلام کی اشاعت کا سوال ہو تو کہتے ہیں کہ جس نے اسلام بھیجا ہے وہی اِس کو برتر اور غالب کرنے کے سامان پیدا کرے گا ہمارے ہاتھوں کچھ نہیں بنے گا۔ اگر اسلام کے لئے مال کی ضرورت ہو تو کہتے ہیں کہ ہمیں تو خود پیٹ بھر کر روٹی نصیب نہیں ہوتی ہم چندہ کہاں سے دیں، اگر غریبوں کی غربت دور کرنے کا سوال ہو تو کہتے ہیںکہ جس نے ان کو پیدا کیا ہے وہ خود غربت دُور کرنے کے سامان کرے ہم کیوں کریں۔ لیکن جب مرنے لگتے ہیں تو کوئی مسجد یا کنواں یا مہمان خانہ یا امام باڑہ بنوا دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اللہ تعالیٰ کی آنکھیں اب ہمیشہ کے لئے ہمارے سامنے نیچی رہیں گی اور وہ قیامت کے دن ہم سے محاسبہ نہیں کر سکے گا۔
حضرت خلیفہ اوّل کی ایک بہن غیر احمدی تھیں وہ آپ سے ملنے کے لئے ایک دفعہ قادیان آئیں، آپ نے اُن کو تبلیغ کی اور بعض باتیں سکھائیں کہ جا کر اپنے پیر صاحب سے پوچھنا۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ دوبارہ قادیان آئیں تو حضرت خلیفہ اوّل سے کہنے لگیں کہ ہمارے پیر صاحب کہتے ہیں کہ ہم جانیں اور ہمارا کام ہم قیامت کے دن تمہارے ذمہ دار ہوں گے اور تمہارا ہاتھ پکڑ کر تمہیں جنت میں چھوڑ آئیں گے۔ ہم قیامت کے دن تمہارے وکیل ہوں گے اور وکیل خود بحث کیا کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا بے شک وکیل ہی بحث کیا کرتا ہے لیکن اگر بحث میں وکیل سے کوئی بات پوچھی جائے اور وکیل کے پاس وجہ معقول ہو تو وہ جواب دے سکتا ہے لیکن اگر اُس کے پاس وجہ معقول نہ ہو تو وہ کیا جواب دے گا؟ یا اگر جواب دیتا ہے اور وہ غلط نکلتا ہے تو وکیل کا کیا نقصان ہوگا نقصان تو مؤکّل کا ہی ہوگا۔ یہ باتیں آپ کی بہن نے جا کر پیر صاحب کے سامنے بیان کیں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ تیرے ذہن کی باتیں نہیں بلکہ تجھے یہ باتیں نورالدین نے سکھائی ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ تم فکر نہ کرو جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تم سے پوچھے گا تو ہم کہیں گے کہ اس کے ذمہ دار ہم ہیں اِس کا حساب ہم سے لیا جائے ’’پھر تسیں دگڑ دگڑ کردے ہوئے جنت وچ چلے جاناں‘‘ یعنی پھر تم دَگڑ دَگڑ کرتے ہوئے جنت میں چلے جانا۔ انہوں نے کہا پیر صاحب! سوال تو آپ کا ہے کہ آپ جنت میں کیسے داخل ہونگے؟پیر صاحب نے جواب دیا ہمارا کیا ہے جب آپ لوگ جنت میں چلے جائیںگے تو اللہ تعالیٰ ہم سے کہے گا کہ ان کو تم نے جنت میں بھیج دیا ہے اب تم بولو۔ تو ہم کہیں گے کہ ہمارے ساتھ یہ کیا مذاق ہو رہا ہے کیا ہمارے نانا امام حسین کی قربانی کافی نہ تھی کہ آج ہمیں اعمال بجالانے کے لئے دِق کیا جاتا ہے؟ اِس پر ہمیں اللہ تعالیٰ بغیر حساب لئے جنت میںداخل کر دیگا۔
میں سمجھتا ہوں یہ خیالات لوگوںمیں اِسی لئے پیدا ہوتے ہیں کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ نجات ہمارے اپنے اعمال سے وابستہ ہے یہی وجہ ہے کہ اگر وہ کوئی نیکی کا کام کرتے بھی ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ایک احسان سمجھتے ہیں اور یہی ذہنیت ہے جو نیکیوں پر استقلال اور دوام کی عادت پیدا نہیں ہونے دیتی۔ لوگ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کر کے بھی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ پر بڑا احسان کر دیا ہے اور احسان خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، تھوڑا ہو یا زیادہ برابر ہوتا ہے۔ گویا وہ اللہ تعالیٰ کو رشوت دیتے ہیں۔ جس طرح کسی شخص کے پاس ٹکٹ نہ ہو اور وہ ریل گاڑی میںسفر کر رہا ہو اور ٹکٹ چیک کرنے والا آجائے تو وہ بجائے پورا کرایہ ادا کرنے کے کچھ رشوت دے کر ٹکٹ چیکر کو خاموش کر ادے۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے وہ اِس ایک نیکی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی آنکھیں نیچی کرنا چاہتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ اگر ہم ساری عمر بھی نیکیاں کرتے چلے جائیں تو بھی ہماری ذمہ داری ادا نہیں ہوتی۔ وہ لوگ جو کچھ دیر کام کرنے کے بعد کچھ عرصہ قربانی کرنے کے بعد تھک کر بیٹھ جاتے ہیں اور اُن کے اندر سُستی اور غفلت پیدا ہو جاتی ہے اور اِس اَمر کی ضرورت ہوتی ہے کہ اُن کوپھر بیدار کیا جائے اور اُن کو ذمہ داریوں کا اِحساس دلایا جائے ایسے لوگوں کو اپنے انجام کی فکر کرنی چاہئے۔ کیونکہ اگر ایک شخص ساری عمر بھی کھانا کھاتا ہے لیکن صرف دس دن کھانا نہ کھائے تو وہ یا تو مر جائے گا یا مرنے کے قریب پہنچ جائے گا۔ اگر ایک شخص ہزار سال میں نو سَو ننانوے سال اور تین سَو پچاس دن تک کھانا کھاتا رہے لیکن صرف دس پندرہ دن نہ کھائے تو اُس کا پچھلا کھایا ہوا آئندہ نہ کھانے والے دنوں میں کام نہیں آئے گا۔ یہی حال انسان کی روحانی زندگی کا ہے اگر اس کو روحانی غذا نہ ملے تو ایسے شخص کی زندگی خطرہ میں پڑ جاتی ہے اور وہ یا تو مر جاتا ہے یا مرنے کے قریب پہنچ جاتا ہے لیکن اگر وہ اپنی حالت کی طرف توجہ کرے اور توبہ و استغفار کرے تو اسے اللہ تعالیٰ موت کے گڑھے سے نکال لیتا ہے اور اگر توجہ نہ کرے اور اپنی اصلاح کے لئے نیکی کی طرف قدم نہ اُٹھائے تو اُس پر موت وارد ہو جاتی ہے۔ پس تھوڑا سا کام کر کے یہ سمجھ لینا کہ ہم نے اپنی آخرت کے لئے بہت کچھ کر لیا ہے یہ محض نفس کا دھوکا ہے۔ یہ ایسی ذہنیت ہے جو عملی حالت کو خراب کر رہی ہے اور اگر ہماری جماعت بھی اِس رَو میں بہہ جائے تو یہ قابلِ افسوس بات ہوگی۔ میں دیکھتا ہوں کہ نمازوں میں پھر سُستی پیدا ہو رہی ہے۔ آج اِس مسجد میں پہلے سے آدھی قطاریں نماز پڑھنے والوں کی ہیں میرے بیمار ہونے سے اللہ تعالیٰ تو بیمار نہیں ہوگیا۔ وہ تو دیکھتا ہے کہ کون مسجد میں آیا ہے اور کون نہیں آیا۔ دوست آج محلوں میں جا کر لوگوں سے پوچھیں کہ کیا میرے بیمار ہونے سے اللہ تعالیٰ بھی بیمار ہو گیا ہے کہ لوگ نماز پڑھنے کے لئے نہیں آتے۔ کیا اب اللہ تعالیٰ ان کو دیکھ نہیں رہا جیسے پہلے دیکھتا تھا کہ کون مسجد میں آیا ہے اور کون نہیں آیا۔ یا ان کو ضرورت نہیں رہی کہ وہ اس مسجد میں آ کر نماز ادا کریں۔ میرے نزدیک نہ آنے والے لوگوں کی حالت بالکل ویسی ہی ہے جیسے سکول کے بچوں کی ہوتی ہے۔ اگر استاد کی توجہ کسی دوسری طرف ہو جائے یا استاد کلاس میں نہ رہے تو بچے تختیاں رکھ کر آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے کام کو بھول جاتے ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں نے یہ بھی سمجھ لیا ہے کہ میں تو مسجد میں آتا نہیں اس لئے انہیں مسجد میں آنے کی کیا ضرورت ہے۔ بچے تو نادان ہوتے ہیں اس لئے وہ دوسری طرف مشغول ہو جاتے یا آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں لیکن مومن تو بہت عقلمند اور بیدار مغز ہوتا ہے اس کا مقصد ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے رہنا چاہئے۔ بیشک استاد کی غیر حاضری میں بچے جو کچھ کرتے ہیں اسے ان باتوں کا علم نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہے اُسے انسان کی ہر حالت کا علم ہوتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ کون کون مسجد میں آیا ہے اور کون کون نہیں آیا۔ لیکن اگر بفرضِ محال اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرلے کہ میں آج مسجد میں جھانکوں گا تو گو اللہ تعالیٰ تو قادرِ مطلق ہے اُس کے لئے تو یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی وقت نہ دیکھے لیکن اگر محال کے طور پر فرض بھی کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کو روک دے اور مسجد میں نہ دیکھے تو بھی نقصان اُسی شخص کا ہوا جو نماز کے لئے نہیں آیا کیونکہ وہ نماز کے ثواب سے محروم ہو گیا۔ اور میرے نزدیک تو مسجد میں نہ آنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی آنکھیں پھوڑ ڈالے یا اپنے کانوں کو بند کر دے یا اپنی زبان کاٹ ڈالے یا اپنے دانت توڑ دے یا اپنی ناک کاٹ لے۔ جو شخص اپنے ان اعضاء کو کاٹتا ہے وہی دُکھ اُٹھاتا ہے۔ اسی طرح نمازیں بھی انسان کے روحانی اعضاء ہیں۔ نمازوں میں سُستی کرنا اپنے روحانی اعضاء کو کاٹنے کے مترادف ہے اور اگر کسی ایسے شخص کو جو نہ آنکھیں رکھتا ہو، نہ کان رکھتا ہو، نہ ناک رکھتا ہو، نہ زبان رکھتا ہو، نہ ہاتھ رکھتا ہو جنت میں بھی داخل کر دیا جائے تو وہ اس سے کیا فائدہ اُٹھائے گا۔ جیسے کسی لُولے لنگڑے اور اندھے شخص کو شالامار باغ میں بٹھا دیا جائے تو وہ اُس سے کیا لطف حاصل کرسکے گا۔ اسی طرح جس شخص کے روحانی اعضا ء کام نہیں کرتے تو اُسے اگر جنت میں بھی داخل کر دیا جائے تو وہ جنت سے کیا لطف اُٹھائے گا۔ گو ایسے آدمی کا جس کے روحانی اعضاء کام نہ کرتے ہوں جنت میں جانا ناممکن ہے لیکن اگر فرض کر لیا جائے کہ کوئی شخص فرشتوں کو دھوکا دے کر جنت میں چلا بھی جائے تو وہ اندھا، لُنجا اور لنگڑا شخص جنت میں جا کر کیا کرے گا۔ اس کی آنکھیں نہیں کہ جنت کے نظاروں کو دیکھ سکے، اُس کے کان نہیں کہ جنت کی عمدہ آوازوں کو سن سکے، اُس کی زبان نہیں کہ جنت کے ثمرات کو چکھ سکے، اُس کے ہاتھ نہیں کہ کسی کو چھو کر اُس کی لطافت کو محسوس کر سکے جنت سے تو وہی لطف اُٹھا سکتا ہے جس کی نمازیں باقاعدہ ہوں، جس کے چندے باقاعدہ ہوں، اور وہ تقویٰ کی تمام راہوں پر گامزن ہو کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو انسان کے روحانی اعضاء ہیں۔ جس نے ان میں سُستی اختیار کی گویا اُس نے اپنے روحانی اعضاء کاٹ ڈالے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۳؎ کہ جو شخص اس دنیا میں روحانی طور پر اندھا ہے وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہوگا۔
قرآن مجید کا یہ طریق ہے کہ وہ بات کو نہایت اختصار سے بیان کرتا ہے اور یہ بلاغت کا قاعدہ ہے کہ بات ایک جزو کے متعلق کرتے ہیں مگر تمام اجزاء مراد ہوتے ہیں۔ اِس آیت کی تفسیر اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ ۴؎ یعنی ان کے سینوں میں ظاہری طور پر دل تو موجود ہیں لیکن وہ ان سے کام نہیں لیتے اور ان کی آنکھوں میں ظاہری طور پر ڈیلے تو موجود ہیں لیکن وہ اُن سے دیکھتے نہیں اور ان کے ظاہری طور پر کان تو ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں۔ یہ کافر کی علامت ہوتی ہے کہ وہ روحانی لحاظ سے بالکل اندھا، بہرہ اور گونگا ہوتا ہے۔ وہ ظاہری آنکھیں رکھنے کے باوجود نہیں دیکھتا کہ اللہ تعالیٰ کے کیا کیا نشانات ظاہر ہو رہے ہیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی نصرت کر رہا ہے، وہ ظاہری کان رکھنے کے باوجود نہیں سنتا۔ ہر طرف سے صداقت اور سچائی کی آوازیں بلند ہوتی ہیں، چاروں طرف لوگ سچائی کا بآوازِ بلند اقرار کرتے ہیں لیکن اُس کے کانوں میں آواز نہیں پہنچتی، اُس کے پاس دل ہوتا ہے لیکن وہ صرف ایک گوشت کی بوٹی ہوتی ہے۔ جو کام دل کا ہوتا ہے کہ وہ کسی بات کے متعلق فیصلہ کرے اور اُس پر مضبوطی سے قائم ہو جائے یہ بات اس میں نہیں ہوتی۔ پھر کافر گونگا ہوتا ہے یعنی حق کے مقابلہ میں کوئی بات اُس کے منہ سے نہیں نکلتی وہ حق کے مقابلہ میں حیران و ششدر ہو جاتا ہے۔ پس سے مراد صرف آنکھوں کا اندھا پن نہیں بلکہ دوسری آیات جو اسی مضمون کی ہیں وہ بھی اس کے ساتھ شامل ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس دنیا میں روحانی طور پر اندھا ہے وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہوگا، جو شخص اس جہان میں روحانی طور پر اَصَمّہے وہ شخص اگلے جہان میں بھی اَصَمّ ہوگا، جو شخص اس جہان میں روحانی طور پر اَبْکَمُ ہے وہ اگلے جہان میں بھی اَبْکَمُ ہوگا ۔نام ایک عضو کا لیااور مراد اِس سے تمام اعضاء ہیں۔ پس جس شخص کی نہ آنکھیں ہوں، نہ کان ہوں، نہ زبان ہو، نہ ناک ہو، نہ ہاتھ ہوں وہ جنت سے کیا فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے متعلق فرماتے ہیں جنت ایسی چیز ہے کہ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ۵؎ نہ آنکھوں نے اسے دیکھا نہ کانوں نے کبھی اس کی حقیقت کو سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا تصور آ سکتا ہے۔ یہی تینوں الفاظ ہیں جو قرآن مجید نے بیان فرمائے ہیں۔ لَھُمْ قُلُوْبٌ لاَّیَفْقَھُوْنَ بِھَاوَلَھُمْ اٰذَانٌ لاَّیَسْمَعُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لاَّیُبْصِرُوْنَ بِھَا۔ وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِھَا کے مقابل پر مَالَاعَیْنٌ رَأَتْ فرمایا اور وَلَھُمْ اٰذَانٌ لاَّیَسْمَعُوْنَ بِھَا کے مقابل پر وَلَااُذُنٌ سَمِعَتْ فرمایا۔ اور لَھُمْ قُلُوْبٌ لاَّیَفْقَھُوْنَ بِھَا کے بِالمقابل وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ فرمایا۔ یعنی وہ چیزیں ایسی ہیں کہ مؤمن ان چیزوں کو اِس جہان میں نہیں دیکھتا مگر اگلے جہان میں دیکھے گا۔ لیکن کافر اِس جہان میں بھی نہیں دیکھتا اور اگلے جہان میں بھی نہیں دیکھے گا۔ مؤمن کو ایسی آنکھیں دی جائیں گی جو جنت کی چیزوں کو دیکھیں گی، اُن سے لطف اندوز ہوں گی ۔اور اگلے جہان میں مؤمن کو ایسے کان ملیں گے جو جنت کی عمدہ آوازوں کو سُن کر لذت اُٹھائیں گے۔ اور مؤمن کو اگلے جہان میں ایسا دل ملے گا جو جنت کی نعماء سے لذت اندوز ہوگا۔ کافر کے پاس یہ تینوں چیزیں نہیں ہوں گی کیونکہ وہ روحانیت کے لحاظ سے اِس دنیا میں بھی اندھا تھا اور اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا۔ وہ روحانیت کے لحاظ سے اس جہان میں بھی بہرہ تھا اور وہاں بھی بہرہ ہی ہوگا۔ اس کا دل اس جہان میں بھی روحانیت کی باتوں سے ناآشنا تھا اور اگلے جہان میں بھی جنت کی لذات سے ناآشنا ہوگا۔ جو حالت اس کی اس جہان میں ہے وہی حالت اگلے جہان میں ہوگی۔ میرے خیال میں یہ حدیث اِسی آیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں کچھ ایسے حواس دیئے جائیں گے جو اِن حواس کے مشابہہ ہونگے جو اِس وقت ہم رکھتے ہیں تو وہ حواس بہت لطیف ہوں گے۔ اور جنت میں کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن کو دیکھ کر آنکھیں لذت اُٹھائیں گی، کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن سے کان لذت اُٹھائیں گے، کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن سے قلب محظوظ ہوگا، کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن سے زبان لذت پائے گی۔ مثلاً جنت میں ثمرات وغیرہ کھانے کو ملیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ جنتی لوگوں کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ کہیں گے ۶؎لیکن جس شخص کے حواس دنیا میں کام نہیں کرتے اور وہ روحانی نعمتوں سے محروم ہیں وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ پس جو شخص سوچ سمجھ کر اعمال بجا لاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ وہ کسی نیکی سے محروم نہ رہے اُسے ہر نماز کے ذریعہ ایک نئی طاقت دی جاتی ہے۔ اگر وہ حج کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر زکوٰۃ دیتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے۔ اگر وہ کسی کو تعلیم دیتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر وہ نیک بات کسی کو کہتا ہے تو اسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے،اگر وہ کسی کی تربیت کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر وہ اچھے کلمے کی کسی کو تلقین کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر وہ ظلم و تعدی کو دور کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے،اگر وہ کسی یتیم یا بیوہ کے بوجھ کاکفیل بنتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر وہ کسی مصیبت زدہ کی مدد کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، ہر نیکی جو انسان کرتا ہے اس کے ذریعہ وہ اپنی ایک نئی حِس اور نئی طاقت کو زندہ کرتا ہے جو جنت میں اس کے کام آنے والی ہے۔ جتنی نعمتیں جنت میں ہیں اگر انسان چاہے کہ ان سب سے لطف اُٹھائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مقابل پر زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرے۔ جس طرح انسان دنیا میں اچھے نظارے دیکھ کر لطف اُٹھاتا ہے۔ ناک سے خوشبو سونگھ کر یا کانوں سے اچھی آوازوں کو سُن کر لطف اندوز ہوتا ہے یا زبان سے چکھ کر لذت اُٹھاتا ہے۔ اور ہر ایک چیز کی سینکڑوں بلکہ ہزاروں قسمیں ہوتی ہیں۔ نظارے دنیا میں ہزاروں قسم کے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے اعلیٰ ہوتے ہیں۔ اسی طرح خوشبوئیں بھی ہزاروں قسم کی ہوتی ہیں اور چیزوں کے ذائقے بھی ہزاروں قسم کے ہیں۔ ہر ایک آدمی کا ذوق مختلف ہوتا ہے بعض آدمی تُرش چیز کو پسند کرتے ہیں لیکن بعض آدمی تُرش چیز کو سخت ناپسند کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے ذوق کے مطابق نہیں ہوتی اور جن کو تُرش چیز پسند ہے وہ بھی سارے کے سارے کسی ایک چیز کو پسند نہیں کرتے بلکہ مختلف طبائع مختلف چیزوں کو پسند کرتی ہیں کیونکہ تُرش چیزیں کوئی ایک دو قسم کی نہیں بلکہ ہزاروں قسم کی ہیں بعض مٹھاس کو پسند کرتے ہیں، آگے مٹھاس کی بھی ہزاروں قسمیں ہیں، بعض کو گڑ پسند ہوتا ہے، بعض آم کو پسند کرتے ہیں، بعض کو زردہ پسند ہوتا ہے، بعض کو فیرنی پسند ہوتی ہے۔یہ سب چیزیں میٹھی ہیں لیکن کسی کو کوئی میٹھی چیز پسندہوتی ہے اور کسی کو کوئی۔ اسی طرح جنت کی نعمتیں بھی لاکھوں کروڑوں قسم کی ہوں گی مگر ان کے مقابل پر انسان کو بھی کروڑوں کروڑ نیکیاں کرنی چاہئیں۔
قرآن مجید سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں مؤمنوں کے لئے افتراق اور جُدائی کو پسند نہیں فرمایا۔ پس وہاں اعلیٰ اور ادنیٰ کا امتیاز اس رنگ میں باقی نہیں رہے گا کہ وہ ایک دوسرے سے جُدا رہیں بلکہ ان کو ایک درجہ میں جمع کر دیا جائے گا۔ مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ اور دوسرے انبیاء بھی جنت کی لذات سے اسی طرح سَوفیصدی لطف اندوز ہو رہے ہوں گے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔
اصل بات یہ ہے کہ چونکہ جذباتی لحاظ سے انسان پر اس کے پیاروں کی جُدائی شاق گزرتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ادنیٰ اور اعلیٰ کے امتیاز کو مٹا کر ایک ہی مقام میں اُن کو جمع کر دے گا مگر اِس کے باوجود اُن میں مدارج کا امتیاز ہوگا ۔ایک ہی پلیٹ سے دو آدمی کھانا کھاتے ہیں تو ہر ایک ان میں سے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ ہر روز گھر میں کھانا پکتا ہے، میاں، بیوی، بچے اور دوسرے رشتہ دار اُسے کھاتے ہیں مگر کیا وہ سارے کے سارے ایک سا مزہ اُٹھاتے ہیں حالانکہ وہ سب کے سب ایک ہی کھانے میں شریک ہوتے ہیں پس مشارکت سے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ سب مزہ اُٹھانے میں بھی برابر ہوں۔ جنت میں مشارکت بھی ضروری ہے کیونکہ اگر سارے رشتہ داراِن نعمتوں میں شامل نہ ہوں تو جنت پورا انعام نہیں کہلا سکتی۔ باپ کہے گا میرا بیٹا میرے پاس نہیں ہے، بیوی کہے گی میرا خاوند میرے پاس نہیں ہے، خاوند کہے گا کہ میری بیوی میرے پاس نہیں ہے، بیٹا کہے گا میرے ماں باپ میرے پاس نہیں ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ سب کو جمع کر دے گا مگر باوجود ایک جگہ جمع ہونے کے ضروری نہیں کہ وہ سب جنت کی نعمتوں سے ایک جیسا لُطف اُٹھائیں۔ جیسا کہ ہمارے گھروں میں عام طور پر ایک ہی کھانا پکتاہے یہ کبھی نہیں ہوا کہ بیوی خاوند کیلئے تو پلاؤ پکائے، بچوں کیلئے قورما پکائے اور اپنے لئے دال پکائے، کوئی آدمی بھی گھر میں اس تفریق کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن باوجود اس کے کہ وہ سب ایک ہی کھانے میں شریک ہوتے ہیں اُن کے ذوق اور اُن کے مزے میں اختلاف ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بیمار ہے تو وہ اور مزہ اُٹھائے گا، اگر کسی کے دانت نہیں تو وہ اور مزہ اُٹھائے گا اور جس کے دانت بھی ہیں اور صحت بھی ٹھیک ہے وہ اس سے اور مزہ اُٹھائے گا حالانکہ کھانا ایک ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز اور رشتہ دار اور مقرب صحابہؓ وغیرہ کھانے میں آپ کے شریک ہوں گے تا کہ اُن کے دلوں کو ٹھیس نہ لگے لیکن ہر ایک ان میں الگ الگ مزہ لے رہا ہوگا اس لحاظ سے ان میں فرق بھی ہوگا اور درجات کا امتیاز بھی باقی ہوگا۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی بھی سَوفیصدی اُسی طرح جنت سے لُطف اُٹھائیں گے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لُطف اُٹھا رہے ہونگے تو جنت کے مدارج باطل ہو جاتے ہیں اور بڑے اور چھوٹے کا امتیاز باقی نہیں رہتا حالانکہ یہ امتیاز موجود ہوگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ دوسرے لوگ مزہ میں سَوفیصدی تب شامل ہوسکتے ہیں کہ ان کے اعمال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اعمال کے برابر ہوں لیکن ہم میں سے ہر ایک شخص جانتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اعمال کے لحاظ سے تمام انبیاء سے ارفع اور اعلیٰ ہیں۔ پھر باقی انبیاء آپ کے ساتھ جنت کی نعماء میں سَوفیصدی کس طرح شامل ہو سکتے ہیں۔
اِس نکتہ کو یاد رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اِس دنیا میں اپنے اعمال کے ذریعہ جیسا ذوق پیدا کریں گے اسی کے مطابق جنت کی نعمتوں سے لطف اُٹھائیں گے اور ہر نیکی جس کے کرنے میں کوتاہی سے کام لیں گے ہم اپنے ہاتھ سے اُس نعمت کا دروازہ اپنے اوپر بند کریں گے۔اِس نکتہ کو پہلے لوگوں میں سے بھی کسی نے بیان نہیں کیا۔ جہاں تک میں نے صوفیاء کی کتابیں پڑھی ہیں کسی نے اِس بات کے متعلق بحث نہیں کی اور نہ اِس موضوع پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ غرض جنتیوں کے اتصال اور اتحاد سے اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ جنتی لوگوں کو تسکینِ قلب حاصل ہو اور کوئی خلش ان کو تکلیف نہ دے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو بے شک تسکینِ قلب حاصل تھی لیکن بعد میں آنے والے دل میں ایک چبھن محسوس کرتے ہیںکہ کاش! ہم بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ ہوتے، ہم بھی آپ کا زمانہ دیکھتے، ہم بھی آپ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتے لیکن جنت میں اِس قسم کی کوئی خلش باقی نہیں رہے گی۔ پس جنت میں اِتحاد اور اِتصال بھی ہوگا اور وہ اِس طرح کہ اللہ تعالیٰ سب رشتہ داروں کو ایک جگہ جمع کر دے گا تا کہ جُدائی ان کو تکلیف نہ دے لیکن ان میں مدارج کا امتیاز بھی باقی رہے گا اور وہ اس طرح کہ ہر ایک ان میں سے اپنے اپنے ذوق اور اپنی اپنی حِس کے مطابق جنت کی نعمتوں سے لطف اُٹھائے گا۔
پس یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جس جس حِس کو انسان دنیا میں تقویت دے گا اُسی کے مطابق جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوگا اور انسان کی حِسیں اِس دنیا میں اِس طرح تیز ہو سکتی ہیں کہ انسان محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی کے لئے اعمال بجا لائے اور اعمال کے بجالانے میں اِستقلال اور دوام اختیار کرے۔ جب تک اعمال میں اِستقلال اور مداومت کا رنگ نہ ہو اُس وقت تک وہ انسان کی روحانی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ کچھ دن تک التزام سے نماز پڑھنا پھر چھوڑ دینا، کچھ دن اصلاح و ارشاد کے کام میں جوش دکھانا پھر خاموشی اختیار کر لینا، کچھ دن تک قربانی کرنا اور پھر تھک جانا یہ ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے انسان کی روحانی زندگی خطرہ میں ہوتی ہے اور وہ لوگ جو ایسا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جاذب نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل پورے طور پر اُنہیں لوگوں پر نازل ہوتے ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر اعمال بجا لاتے ہیں اور اِس بات کے محتاج نہیں ہوتے کہ نبی یا خلیفہ اُن کو بار بار توجہ دلائے۔ وہ اِس بات کا خیال نہیں کرتے کہ کسی بڑے آدمی نے تحریک کی ہے یا کسی چھوٹے آدمی نے، بلکہ وہ ہر نیک تحریک پر خواہ وہ نبی کی طرف سے ہو یا خلیفہ کی طرف سے ہو یا اُس کے کسی نائب کی طرف سے ہو لَبَّیْکَ کہنے کیلئے تیار رہتے ہیں یہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مورد بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ لوگ نبی یا خلیفہ کی خاطر کام کریں۔ موحّد قوم وہی ہوتی ہے کہ خواہ نبی یا خلیفہ زندہ رہے یا فوت ہو جائے اُس کے اخلاص میں اور اُس کے جوش میں کمی نہ آئے بلکہ وہ اُسی جوش اور اخلاص سے کام کرتی چلے جائے جس جوش اور اخلاص سے وہ پہلے کام کرتی تھی ۔اور یہ حقیقت ہے کہ جو قوم پورے طور پر موحّد ہو اُسے دنیا کی کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی۔ نہ حکومتیں اسے کوئی گزند پہنچا سکتی ہیں اور نہ بادشاہتیں اُس کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ہمیشہ شرک ہی قوموں کی تباہی اور ہلاکت کا موجب ہوتا ہے۔
پس دوستوں کو اِس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ آپ لوگوں کے اعمال میں کسی قسم کی ملونی نہ ہو اور ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں مداومت اختیار کریں اور کسی بات کے متعلق بھی آپ لوگوں کو بار بار توجہ دلانے کی ضرورت نہ ہو بلکہ ایک آواز ہی آپ کے لئے کافی ہوجو قوم اِس بات کی عادی ہو کہ اُسے بار بار بیدار کیا جائے اسے اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ انبیاء اور خلفاء تو اللہ تعالیٰ کی سواریاں ہوتے ہیں جو بوقتِ ضرورت بندوں کو عطا کی جاتی ہیں اور وہ بڑی حد تک جماعتوں کے بوجھوں کو اُٹھاتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ سہولت کے لئے اپنے بندوں کو یہ سواریاں دے دے تو یہ اُس کا احسان ہوتا ہے اور اگر یہ سواریاں نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کی جماعتوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ اِن بوجھوں کو خود اُٹھائیں۔ اگر کسی والد کو اپنا بچہ اُٹھا کر لے جانے کے لئے سواری نہ ملے تو وہ اُس کو پھینک نہیں دیتا بلکہ خود اُٹھا کر لے جاتا ہے۔ اور موت فوت کا سلسلہ تو انسانوں کے ساتھ جاری ہے اِس لئے نہ کسی انسان پر بھروسہ کرنا جائز ہے اور نہ بھروسہ کرنا چاہئے۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو مدینہ کے لوگوں کے لئے بہت بڑے ابتلاء کی صورت پیدا ہوگئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُس وقت مدینہ میں موجود نہ تھے۔ آپ جب مدینہ میں آئے تو آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا علم ہوا اور آپ کو لوگوں کی حالت کا بھی علم ہوا۔ آپ مسجد میں تشریف لائے اور لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مَحَمَّدًاﷺ فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْمَاتَ ۷؎ کہ جو شخص تم میں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا یعنی آپ کی خاطر نماز پڑھتا تھا یا آپ کی خاطر روزہ رکھتا تھا یا آپ کی خاطر زکوٰۃ دیتا تھا اُسے جان لینا چاہئے کہ اُس کا معبود فوت ہو گیا ہے اور اب اُسے ان اعمال کے بجا لانے کی ضرورت نہیں۔
وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَایَمُوْتُ۸؎ اور جو شخص تم میں سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دوسرے احکام پر عمل کرتا تھا اُسے اب بھی یہ اعمال کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور اس پر کبھی موت وارد نہیں ہو سکتی۔
پس جن لوگوں میں یہ کیفیت پیدا ہو جائے کہ خواہ کوئی زندہ رہے یا فوت ہو اُن کے اعمال میں کوئی کمی واقعہ نہ ہو یہی لوگ موحّد ہوتے ہیں اور جب توحید کی روح قوم میں سے مٹ جائے تو قوم بھی مٹ جاتی ہے۔ کیا ہم نے حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کا سپرد کردہ کام چھوڑ دیا تھا؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ ہم نے نہایت اخلاص سے جاری رکھا اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے اخلاص کو قبول فرمایا اور ہمیں پہلے کی نسبت بہت زیادہ ترقی عطا کی گئی۔ اگر آئندہ بھی جماعت اِس روح کو قائم رکھے کہ کسی کی موت کی وجہ سے ان میں سُستی پیدا نہ ہو بلکہ وہ اپنے کام کو پہلے کی نسبت زیادہ ہمت کے ساتھ کرتی چلی جائے تو اللہ تعالیٰ اسے بہت زیادہ ترقیات دے گا۔ پس یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ جس قوم میں توحید زندہ ہے وہ قوم زندہ رہے گی اور جس قوم میں سے توحید مٹ جائے گی وہ قوم بھی مٹ جائے گی۔
(الفضل ۲۹؍ جون ۱۹۶۰ء)
۱؎ (اٰل عمران:۱۸۲)
۲؎ المائدہ: ۲۵ ۳؎ بنی اسرائیل: ۷۳ ۴؎ الاعراف: ۱۸۰
۵؎ بخاری کتاب بدء الخلق باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ… (الخ)
۶؎ البقرۃ: ۲۶
۷،۸؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ۔ باب قول النبیﷺ لوکنت متخذا خلیلا…
آئندہ الیکشنوں کے متعلق
جماعت احمدیہ کی پالیسی
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
آئندہ الیکشنوں کے متعلق جماعتِ احمدیہ کی پالیسی
(رقم فرمودہ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء)
جیسا کہ احباب کو معلوم ہے تھوڑے ہی دنوں میںتمام ہندوستان میں پہلے تو ہندوستان کی دونوںکونسلوں کے لئے ممبروں کے انتخاب کی مہم شروع ہونے والی ہے اور اِس کے بعد صوبہ جاتی انتخابات شروع ہونے والے ہیں۔ میری اور جماعت احمدیہ کی پالیسی شروع سے یہ رہی ہے کہ مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں اور دوسری اقوام میں کوئی باعزت سمجھوتہ ہو جائے اور ملک میں محبت اور پیار اور تعاون کی روح کام کرنے لگے مگر افسوس کہ اِس وقت تک ہم اِس غرض میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
شملہ کانفرنس ایک نادر موقع تھا مگر اسے بھی کھو دیا گیا اور بعض لوگوں نے ذاتی رنجشوں اور اغراض کو مقدم کرتے ہوئے ایسے سوال پیدا کر دیئے کہ ملک کی آزادی کئی سال پیچھے جا پڑی اور چالیس کروڑ ہندوستانی آزادی کے دروازہ پر پہنچ کر پھر غلامی کے گڑھے کی طرف دھکیل دیئے گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
جہاں تک میں نے سوچا ہے اصل سوال ہندوؤں اور مسلمانوں کے اختلافات کا ہے۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ دوسری اقوام کے مفاد نظر انداز کئے جا سکتے ہیں بلکہ میرا یہ مطلب ہے کہ دوسری اقوام کے مفاد اِس جھگڑے کے طے ہو جانے پر نسبتاً سہولت سے طے ہو سکتے ہیں۔ سب سے مشکل سوال ہندو مُسلم سمجھوتے کا ہی ہے اور یہ سوال پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کے مسائل سے بہت پہلے کا ہے۔ اصل مسائل وہی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کا ذہن پاکستان کی طرف پھیرا ہے اور اکھنڈ ہندوستان کے خیالات کے محرک بھی وہی مسائل ہیں جو اِس سے پہلے مسلمانوں کے مطالبات کو ردّ کرانے کا موجب رہے ہیں۔ کسی شاعر نے جو کچھ اِس شعر میں کہا ہے کہ
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من اندازِ قدت را مے شناسم
وہی حال اِس وقت پاکستان اوراکھنڈ ہندوستان کے دعووں کاہے۔ پس اگر کسی طرح ہندو اور مسلمان قریب لائے جا سکیں تو پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کا آپس میں قریب لانا بھی مشکل نہ ہوگا ورنہ پاکستان یا اکھنڈ ہندوستان ہوں یا نہ ہوں، پاکھنڈ ہندوستان بننے میں تو کوئی شُبہ ہی نہیں۔ اِس ہندو مسلمان سمجھوتے کی ممکن صورت یہی ہو سکتی تھی کہ ایک جماعت مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندہ ہو اور ایک جماعت ہندوؤں کی نمائندہ ہو یا ہندوؤں کی اکثریت کی نمائندہ تو نہ ہو یا ایسا کہلانا پسند نہ کرتی ہو مگر اکثر ہندوؤں کی طرف سے سمجھوتہ کرنے کی قابلیت رکھتی ہو اور یہ دونوں جماعتیں مل کر آپس میں فیصلہ کر لیں۔ شملہ میں ایساموقع پیدا ہو گیا تھا مسلمانوں کی طرف سے مُسلم لیگ اور ہندوؤں کے جذبات کی نمائندگی کے لئے کانگرس ایک مجلس میں جمع ہوگئی تھیں مگر افسوس کہ یہ اجتماع مزید افتراق کا موجب بن گیا۔
کانگرس کا دعویٰ ہے کہ وہ سب اقوام کے حقوق کی محافظ ہے اور ہم اِس دعویٰ کو ردّ کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیںکرتے مگر باوجود اِس کے کانگرس اِس امر کا انکار نہیں کر سکتی کہ جو مسلمان یا سکھ یا عیسائی کانگرس میں شامل ہیں وہ مسلمانوں یا سکھوں یا عیسائیوں کی اکثریت کے نمائندے نہیں۔ پس کانگرس اگر یہ دعویٰ کرے کہ ہم جو سوچتے ہیں یا ہم جو سکیم بناتے ہیں اِس میں اُسی طرح سکھوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کا خیال رکھتے ہیں جس طرح ہندوؤں کا خیال رکھتے ہیں تو بحث ختم کرنے کے لئے ہم اِس دعویٰ کو بھی سچا تسلیم کر لینے کے لئے تیار ہیں لیکن کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کے مفاد کا دیانت داری سے خیال رکھنا یا ایسا کرنے کا دعویدار ہونا اُسے اُس کی نیابت کا حق نہیں دے دیتا۔ کیا کوئی وکیل کسی عدالت میں اس دعویٰ کے ساتھ پیش ہو سکتا ہے کہ میں مدعی یا مدعا علیہ کے مقرر کردہ وکیل سے زیادہ سمجھ اور دیانت داری سے اس کے حقوق کو پیش کر سکوں گا؟ کیا کوئی عدالت اس وکیل کے ایسے دعویٰ کو باوجود سچا سمجھنے کے قبول کر سکے گی؟ اور کیا اِس قسم کی اجازت کی موجودگی میں ڈیموکریسی، ڈیموکریسی کہلا سکتی ہے؟
ڈیموکریسی یا جمہوریت کے اصول کے لحاظ سے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کسی جماعت کی نمائندگی کرنے کا کون اہل ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس جماعت کی اکثریت کس کو اپنا نمائندہ قرار دیتی ہے۔ان حالات میں کانگرس کو ہندوؤں کے سِوا تمام دوسری اقوام کا نمائندہ اسی صورت میں قرار دیا جا سکتا ہے اگر ان اقوام کے اکثر افراد کانگرس میں شامل ہوں۔ جہاں تک ہمارا علم ہے کانگرس میں ہندو قوم کی اکثریت کے نمائندے تو ہیں لیکن مسلمانوں، سکھوں یا عیسائیوں کی اکثریت کے نمائندے نہیں اِس لئے خواہ کانگرس مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کے حقوق کی سکیم مسلمانوں، سکھوں یا عیسائیوں کے نمائندوں سے بہتر تجویز کر سکے وہ جمہوری اصول کے مطابق مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کی نمائندہ نہیں کہلا سکتی۔ لیکن باوجود غیرجانبدار اور ملکی تحریک ہونے کے ہندوؤں کی نمائندگی کر سکتی ہے کیونکہ ہندوؤں کی اکثریت اسے تسلیم کر چکی ہے۔ جب حالات یہ ہیں تو عقلاً اور جمہوری اصول کے مطابق قطع نظر اِس کے کہ کانگرس کی سکیم مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے متعلق بہتر ہے یا مُسلم لیگ کی سکیم، مُسلم لیگ کی سکیم ہی کو مسلمانوں کی پیش کردہ سکیم سمجھا جائے گا اور کانگرس کو یا تو میدان چھوڑ کر ہندو مُسلم سمجھوتے کیلئے ہندو مہاسبھا اور مُسلم لیگ کو باہمی سمجھوتے کی دعوت دینی ہوگی یا پھر خود ہندو اکثریت کی نیابت میں مُسلم لیگ سے سمجھوتہ کرنا ہوگا اِس کے سِوا اور کوئی معقول صورت نہیں ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ اگر کانگرس مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندہ نہیں ہے تو مُسلم لیگ کے نمائندہ ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ مُسلم لیگ کو نمائندہ قرار دینے کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ گاندھی جی ایک طرف اور وائسرائے ہند دوسری طرف اسے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت سمجھ کر اِس سے اسلامی حقوق کے بارہ میں گفت و شنید کرنے کے لئے تیار ہوگئے تھے۔ پس مُسلم لیگ نمائندہ ہے یا نہیں ہے مگر اِس میں کوئی شک نہیں کہ اب کانگرس اور گورنمنٹ اس کے سِوا کوئی دوسرا نظریہ اختیار نہیں کر سکتی۔ اگر مُسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ نہیں ہے تو کیا کانگرس اور حکومتِ ہند دونوں مسلمانوں کے حقوق کا ایک غیر نمائندہ جماعت کے ساتھ تصفیہ کر کے مسلمانوں کو تباہ کرنے کی فکر میں تھے؟ لیکن فرض کرو مُسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ نہیں تو پھر کون مسلمانوں کا نمائندہ ہے؟ کیا آزاد مسلمان کانفرنس؟ کیا احرار؟ کیا کوئی اَور جماعت جو صرف اسلامی نام کا لیبل اپنے اوپر چسپاں کئے ہوئے ہے؟ اگر اِن میں سے کوئی ایک یا سب کی سب مل کر مسلمانوں کی نمائندہ ہیں تو کیا کونسلوں میں اِن لوگوں کی کثرت ہے؟ مرکزی کونسلوں میں مُسلم لیگ کے مقابل پر ان کی کیا تعداد ہے؟ جہاں تک مجھے علم ہے صوبہ جاتی کونسلوں میں بھی اور مرکزی کونسلوں میں بھی غیر لیگی ممبروں کی تعداد لیگی ممبروں سے بہت کم ہے اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ مرکزی کونسلوں میں غیر لیگی ممبروں کی نسبت صوبہ جاتی نسبت سے بھی کم ہے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ صوبہ جاتی کونسلوں میں غیر لیگی ممبروں کی نسبتی زیادتی مقامی مناقشات اور رقابتوں کی وجہ سے ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ اِنہی ووٹروں نے صوبہ جات میں ایک پالیسی کے حق میں ووٹ دیئے اور مرکز کے لئے نمائندہ بھجواتے ہوئے دوسری پالیسی کے حق میں ووٹ دیئے۔ پھر مثلاً پنجاب ہے اِس میں یونینسٹ ممبر اصولاً اپنے آپ کو مُسلم لیگ کے حق میں قرار دیتے ہیں اور پاکستان کی عَلَی الْاِعْلَان تائید کرتے ہیں۔ پس ہر یونینسٹ ہندو مُسلم سمجھوتے کے سوال کے لحاظ سے درحقیقت مُسلم لیگی ہے۔ بلکہ وہ تو اِس امر کا مدعی ہے کہ مجھے ذاتی رنجشوں کی وجہ سے ایک طبقہ نے باہر کر دیا ہے ورنہ میں تو پہلے بھی مُسلم لیگی تھا اور اب بھی مُسلم لیگی ہوں۔ اِن حالات میں صوبہ جاتی غیر لیگی ممبروں کی تعداد مُسلم لیگی ممبروں کے مقابل پر اور بھی کم ہو جاتی ہے۔
غرض جس نقطۂ نگاہ سے بھی دیکھیں اِس وقت مسلمانانِ ہند کی اکثریت مُسلم لیگ کے حق میں ہے۔ کانگرس گورنمنٹ اور پبلک ووٹ سب کی شہادت اِس بارہ میں موجود ہے اور اِن حالات میں اگر ہندوستان میں صلح کی پائیدار بنیاد رکھی جاسکتی ہے تو مُسلم لیگ اور کانگرس کے سمجھوتے سے ہی رکھی جا سکتی ہے۔ مگر افسوس کہ باوجود اس کے شملہ کانفرنس کی ناکامی سے بددل ہو کر کانگرس نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ اب وہ مُسلم لیگ سے گفتگو نہیں کرے گی بلکہ براہِ راست مسلمانوں کی اکثریت سے خطاب کرے گی۔ عام حالات میں تو یہ کوئی معیوب بات نہیں۔ اگر کانگرس شروع سے ہی اس نظریہ پر کاربند ہوتی تو کم سے کم میں اسے بالکل حق بجانب سمجھتا لیکن اب جب کہ مسلمان ایک متحدہ محاذ قائم کر چکے ہیں کانگرس کا یہ فیصلہ اُن لوگوں کے لئے بھی تکلیف دِہ ثابت ہوا ہے جو اِس وقت تک کانگرس سے ہمدردی رکھتے تھے۔ مجھے کانگرس سے اختلاف ہے اور بہت سخت اختلاف ہے مگر میں اِس امر کا ہمیشہ قائل رہا ہوں کہ ہندو مُسلم اتحاد کی بنیاد ہندوؤں کی طرف سے کانگرس کے ذریعہ سے ہی پڑ سکے گی اور اس اتحاد کی آرزو میں شملہ کانفرنس کے ایام میں مجھے شکوہ مسلمان نمائندوں سے ہی پیدا ہوتا رہا ہے اور بار بار میرے دل میں یہ خیالات پیدا ہوتے تھے کہ چالیس کروڑ انسانوں کی آزادی کے لئے اگر مسلمان اپنے کچھ اور حق چھوڑ دیں تو کیا حرج ہے لیکن کانگرس کے اِس اعلان نے کہ اب وہ مُسلم لیگ سے بات نہیں کرے گی بلکہ مسلمان افراد سے خطاب کرے گی میرے جذبات کو بالکل بدل دیا اور میں نے محسوس کیا کہ جو لوگ دروازہ سے داخل ہونے میں ناکام رہے ہیں اب وہ سُرنگ لگا کر داخل ہونا چاہتے ہیں اور اِس کے معنی مُسلم لیگ کی تباہی نہیں بلکہ مُسلم کیریکٹر اور مُسلم قوم کی تباہی ہے۔ پس اُسی وقت سے میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ جب تک یہ صورتِ حالات نہ بدلے ہمیں مُسلم لیگ یا مُسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہئے۔ گو ہم دل سے پہلے بھی ایسے اکھنڈ ہندوستان ہی کے قائل تھے جس میں مسلمان کا پاکستان اور ہندو کا ہندوستان برضاء و رغبت شامل ہوں اور اب بھی ہمارا یہی عقیدہ ہے بلکہ ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ ساری دنیا کی ایک حکومت قائم ہو، تا باہمی فسادات دور ہوں اور انسانیت بھی اپنے جوہر دکھانے کے قابل ہو مگر ہم اِس کو آزاد قوموں کی آزاد رائے کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں جبر اور زور سے کمزور کو اپنے ساتھ ملانے سے یہ مقصد نہ دنیا کے بارہ میں پورا ہو سکتا ہے اور نہ ہندوستان اِس طرح اکھنڈ ہندوستان بن سکتا ہے۔
میں نے یہ اُمور اس لئے بیان کئے ہیں تا ہماری جماعت اور ہندوستان کی دوسری جماعتیں میری اِس رائے کو بخوبی سمجھ سکیں جو میں آئندہ انتخابات کے متعلق دینے والا ہوں۔ جو صورتِ حالات میں نے اوپر بیان کی ہے، اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اِس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آئندہ الیکشنوں میں ہر احمدی کو مُسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہئے تا انتخابات کے بعد مُسلم لیگ بِلاخوف تردید کانگرس سے یہ کہہ سکے کہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ ہے۔ اگر ہم اور دوسری مسلمان جماعتیں ایسا نہ کریں گی تو مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کمزور ہو جائے گی اور ہندوستان کے آئندہ نظام میں اِن کی آواز بے اثر ثابت ہوگی اور ایسا سیاسی اور اقتصادی دھکہ مسلمانوں کو لگے گا کہ اور چالیس پچاس سال تک اِن کا سنبھلنا مشکل ہو جائے گا اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی عقلمند آدمی اِس حالت کی ذمہ داری اپنے پر لینے کو تیار ہو۔ پس میں اِس اعلان کے ذریعہ سے پنجاب کے سِوا (جس کی نسبت میں آخر میں کچھ بیان کروں گا) تمام صوبہ جات کے احمدیوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر پورے زور اور قوت کے ساتھ آئندہ انتخابات میں مُسلم لیگ کی مدد کریں اِس طرح کہ:
۱۔ جس قدر احمدیوں کے ووٹ ہیں وہ اپنے حلقہ کے مُسلم لیگی امیدوار کو دیں۔
۲۔ میرا تجربہ ہے کہ احمدیوں کی نیکی اور تقویٰ اور سچائی کی وجہ سے بہت سے غیر احمدی بھی اِن کے کہنے پر ووٹ دیتے ہیں۔ پس میری خواہش یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ پنجاب کے باہر کے تمام احمدی اپنے ووٹ مُسلم لیگ کو دیں بلکہ جو لوگ اِن کے زیر اثر ہیں اُن کے ووٹ بھی مُسلم لیگ کے امیدواروں کو دلائیں۔
۳۔ ہماری جماعت چونکہ اعلیٰ درجہ کی منظم ہے اور قربانی اور ایثار کا مادہ ان میں پایا جاتا ہے اور جب وہ عزم سے کام کرتے ہیں تو حیرت انگیز طور پر لوگوں کے دلوں کو ہِلا دیتے ہیں۔ مَیں ہر احمدی سے یہ بھی خواہش کرتا ہوں کہ وہ اپنے حلقہ اثر سے باہر جا کر اپنے علاقہ کے ہر مسلمان کو آنے والے الیکشن میں مُسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے کی تلقین کرے اور اِس قدر زور لگائے کہ اُس کے حلقۂ اثر میں مُسلم لیگ امیدوار کی کامیابی یقینی ہو جائے۔
میں امید کرتا ہوں کہ احمدی جماعت کے تمام افراد کیا مرد اور کیا عورتیں، مرد مردوں تک پہنچ کر اور عورتیں عورتوں کے پاس جا کر اُن کے خیالات درست کرنے کی کوشش کریں گے اور اِس امر کو اِس قدر اہم سمجھیں گے کہ تمام جگہوں پر مُسلم لیگ کے کارکنوں کو یہ محسوس ہو جائے کہ گویا احمدی یہ سمجھ رہے ہیں کہ مُسلم لیگ کا امیدوار کھڑا نہیں ہوا بلکہ کوئی احمدی امیدوار کھڑا ہوا ہے اور اِس کام میں مقامی مُسلم لیگ کے ساتھ پوری طرح تعاون کریں گے اور جائز ہوگا کہ وہ اِس کے ممبر ہو جائیں اگر ان کے نزدیک اور مُسلم لیگ کے کارکنوں کے نزدیک ان کا شامل ہونا وہاں کے حالات کے لحاظ سے باہر رہنے سے زیادہ مفید ہو۔
جماعت کی تعداد اور اِس کے رسوخ کے لحاظ سے سندھ، صوبہ سرحد ، یوپی، بنگال اور بہار میں احمدیہ جماعتیں خوب اچھا کام کر سکتی ہیں اور مَیں امید کرتا ہوں کہ وہ اِس موقع پر بھی اپنے روایتی ایثار اور قربانی کا نمایاں ثبوت مہیا کریں گی۔
میں نے پنجاب کو مستثنیٰ رکھا ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس جگہ مُسلم لیگ کے بعض کارکن بِلاوجہ ہماری مخالفت کر رہے ہیں۔ مُسلم لیگ ایک سیاسی انجمن ہے اور اِسے اپنے دائرہ عمل کے لحاظ سے ہر مسلمان کہلانے والے کو مسلمان سمجھ کر اپنے ساتھ شریک کرنا چاہئے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہماری جماعت تو ہر جگہ مُسلم لیگ کا پروپیگنڈا کرتی رہی ہے مگر لاہور کے مُسلم لیگ کے ایک جلسہ میں جماعت احمدیہ کو خوب خوب گالیاں دی گئیں حالانکہ گالیاں دینا تو دشمن کے حق میں بھی روا نہیں کجا یہ کہ ایک ایسی جماعت کو گالیاں دی جائیں جو مُسلم لیگ کے بارہ میں بے تعلق بھی نہیں بلکہ اُس کے حق میں ہے۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ گالیاں دینے والے تو چند افراد ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جو جماعت چند افراد کا منہ بند نہیں کر سکتی وہ عام جوش کے وقت کسی اقلیت کی حفاظت کس طرح کر سکے گی۔
جماعت احمدیہ نے اپنا معاملہ مسٹر جناح صاحب کی خدمت میں پیش کیا تھا اُنہوں نے جواب دیا ہے کہ صوبہ جاتی سوال کو صوبہ کی کونسل ہی حل کر سکتی ہے۔ مگر جہاں تک میں نے معلوم کیا ہے، صوبہ جاتی کونسل ابھی اپنے آپ کو اس سوال کے حل کرنے کے قابل نہیں پاتی۔ دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ یونینسٹ پارٹی نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ مرکزی نمائندگی میں مُسلم لیگ کے نمائندوں کا مقابلہ نہیں کرے گی یہ ایک نیک اقدام ہے۔ اور کہتے ہیں کہ صبح کا بُھولا شام کو واپس آئے تو اُسے بُھولا نہیں سمجھنا چاہئے۔ اگر یونینسٹ پارٹی ایک اَور قدم اُٹھائے تو میں سمجھتا ہوں جہاں تک لیگ اور کانگرس کے سمجھوتے کا سوال ہے یونینسٹ پارٹی اُس کے راستہ میں حائل نہیں رہے گی اور مسلمانوں کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے لیڈروں کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسا ہی کریں۔ اِس کے بعد اگر وہ مقامی لیگ کے مقابل پر اپنے ممبر کھڑے کریں تو یہ مُسلم لیگ کے نظریہ اور اس کے مخالف نظریہ کی بحث نہ ہوگی بلکہ یہ صرف ایک ذاتی اور صوبہ جاتی سوال رہ جائے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ یونینسٹ لیڈر اِس طرف توجہ کر کے اپنے نام پر سے وہ دھبہ دھو دیں گے جو اِس وقت اُن کے نام کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور جو ایسا بدنما ہے کہ ہم لوگ جو مُسلم لیگ میں شامل نہ تھے اور ہمارے تعلقات یونینسٹ سے بہت اچھے تھے اس دھبہ کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھنے کی بھی ہمت نہیں پاتے۔ مگر یونینسٹ لیڈر جو کچھ فیصلہ کریں گے اس کا علم مجھے اس وقت نہیں اس لئے بادلِ ناخواستہ میں پنجاب کے متعلق یہ اعلان کرتا ہوں کہ پنجاب کے بارہ میں ہم کوئی اصولی مرکزی پالیسی سرِدست اختیار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ جہاں جہاں سے کوئی احمدی کھڑا ہونا چاہے میرا پہلا مشورہ اُسے یہ ہے کہ وہ مُسلم لیگ کا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ یہ ٹکٹ حاصل نہ کر سکے تو پھر اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ احمدی ووٹ یا اس کی قوم کا ووٹ زیادہ ہے اور اس کا جائز حق دینے سے انکار کیا جا رہا ہے تو پھر اسے اجازت ہے کہ وہ یہ اعلان کر کے ممبری کے لئے کھڑا ہو جائے کہ میں پالیسی کے لحاظ سے مُسلم لیگ سے متفق ہوں مگر چونکہ مُسلم لیگ میرے حلقہ کے ووٹوں کی اکثریت کو اُس کا حق نہیں دیتی اس لئے میں مجبوراً انڈیپنڈنٹ کھڑا ہو رہا ہوں۔ جب تک یونینسٹ پارٹی اپنی پالیسی کی ایسی وضاحت نہیں کرتی جس سے اُس کا مُسلم لیگ کی مرکزی پالیسی سے پورا تعاون اور تائید ثابت ہو اور جس کے بعد شملہ کانفرنس والے حالات کا اعادہ ناممکن ہو جائے میں سمجھتا ہوں کہ کسی احمدی کو یونینسٹ ٹکٹ پر کھڑا نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن اگر وہ ایسی وضاحت کر دے تو پھر جو شخص مُسلم لیگ کے آل انڈیا پروگرام کی تائید کرتے ہوئے پنجاب کے مقامی سوالوں میں یونینسٹ سے اتفاق رکھتا ہو اُس کے ٹکٹ پر اس کا کھڑا ہونا معیوب نہیں ہوگا۔ مگر پہلے میری اور مرکزی ادارہ کی تسلی اِس بارہ میں ہو جانی چاہئے۔ جہاں سے کوئی احمدی کھڑا نہیں ہو رہا وہاں کی جماعتوں کو بھی اپنے مخصوص حالات پیش کر کے امور عامہ سے اپنے حلقہ کے بارہ میں مشورہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرنا چاہئے۔ میری اوپر کی سب ہدایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ:
۱۔ پنجاب کے باہر ہر احمدی پوری طرح مُسلم لیگ کی کمیٹیوں اور اُس کے امیدواروں کی مدد کرے۔ اپنے اور اپنے زیرِ اثر ووٹ ان کو دے اور اپنے علاقہ کے لوگوں کو مُسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے کی تلقین کرے۔
۲۔ پنجاب سے جو احمدی کھڑے ہونا چاہیں اور جن کو علاقہ کی اکثریت ایسا کرنے کا مشورہ دے، وہ مُسلم لیگ سے ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر مُسلم لیگ ایسا نہ کرے اور ووٹر ان پر زور دیں تو وہ یہ اعلان کر کے کہ وہ مُسلم لیگ کی پالیسی ہی کے حق میں ہیں،انڈیپنڈنٹ کھڑے ہوں تو مرکز کو ان پر اعتراض نہ ہوگامگر جب تک یونینسٹ پارٹی کی پالیسی کے بارہ میں ہماری تسلی نہ ہو جائے وہ اُس کے ٹکٹ پر کھڑے نہ ہوں۔ ہاں اگر اِس پارٹی نے اپنی پالیسی ایسی بنا لی کہ مُسلم لیگ کے مرکزی پروگرام کو نقصان پہنچنے کا احتمال نہ رہے تو ہو سکتا ہے کہ امیدوار اور اُس کے حلقہ کے لوگوں کی خواہش کے احترام میں اُسے یونینسٹ پارٹی کی طرف سے کھڑا ہونے کی اجازت دے دی جائے مگر سرِدست ایسا کرنے کی میں کسی احمدی کو اجازت نہیں دیتا۔
۳۔ پنجاب کے تمام احمدی ووٹ یا زیرِ اثر ووٹ محفوظ رکھے جائیں اور ان کے بارہ میں مرکز سے انفرادی مشورہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے۔ آپ ہی آپ فیصلہ نہ کیا جائے کیونکہ صوبہ جاتی پالیٹکس نے ہمارے لئے اور کوئی راستہ کھلا نہیں چھوڑا۔
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء
(الفضل ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء)
مجلس خدام الاحمدیہ کا تفصیلی پروگرام
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مجلس خدام الاحمدیہ کا تفصیلی پروگرام
(تقریر فرمودہ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء برموقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ)
(اس مضمون کو لکھنے والے نے بہت خراب کر دیا ہے۔ اکثر جگہ دلیل کا ایک ٹکڑا نقل کیا ہے دوسرا چھوڑ دیا ہے بعض جگہ واقعات ہی بدل ڈالے ہیں۔ میں نے کاٹ کاٹ کر ترتیب درست کرنے کی تو کوشش کی ہے مگر پھر بھی افسوس ہے کہ مضمون کی اہمیت کو بہت نقصان پہنچ گیا ہے۔)
(مرزا محمود احمد)
تشہّد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا ۔
میں نے اِس دفعہ کے پروگرام میں دیکھا ہے کہ یہ مجلس خدام الاحمدیہ کا ساتواں سالانہ جلسہ ہے۔ سات کا عدد اسلامی اصطلاح میں تکمیل پر دلالت کرتا ہے ۔ پس ہر ایک خادمِ احمدیت کو اپنے دل میں غور کرنا چاہئے کہ آیااِن سات سالوں میں اُس کی یا اُس کے محلہ کی یا اُس کے شہر کی یا اُس کی قوم کی تکمیل ہوگئی ہے؟ سات سال کاعرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہجرت کے سات سال بعد یعنی آٹھویں سال تمام عرب پر غلبہ حاصل کر لیا تھا اور وہ مُلک جو ایک سرے سے دوسرے تک اسلام کی مخالفت میں کھول رہا تھا اور اس کا جوش دوزخ کی آگ کو مات کر رہاتھاعاشقوں اور فدائیوں کے طور پر آپ کے قدموں میں آگرا۔ اِس سات سال کے عرصہ میں صحابہؓ نے مُلک کی حالت کو بدل ڈالا، قلوب کی حالت کو بدل ڈالا اور اُن کے اندر زمین و آسمان کے فرق کی طرح امتیاز قائم کر دیا۔ پس خدام الاحمدیہ کو بھی سوچنا چاہئے کہ انہوں نے اس سات سال کے عرصہ میں مُلک کو چھوڑ کر، ضلع کو چھوڑ کر، شہر کو چھوڑ کر، محلہ کو چھوڑ کر، گھر کو چھوڑ کر صرف اپنے دل میں کیا فرق اور امتیاز پیدا کیا ہے۔ انسان دوسروں کے متعلق ہزاروں باتیں کہتا ہے اگر حق قبول کرنے کے متعلق کوئی بات ہو تو لوگ فوراً دوسروں کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ نادان لوگ ہیںسنتے نہیں، جاہل لوگ ہیں کسی بات پر غور نہیں کرتے، دنیا کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور دین کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ لیکن اگر یہی باتیں ان کے اپنے اندر پائی جائیں تو کیا یہی باتیں وہ اپنے متعلق کہنے کو تیار ہوتے ہیں؟ اپنے ہمسائے کے متعلق ہمیشہ کہتے رہیں گے کہ بڑا ضدی ہے نہیں مانتا دو تین سال سمجھاتے ہوگئے ہیں پھر بھی نہیں سمجھتا لیکن اگر ان کے اپنے متعلق یہی سوال ہو تو کیا وہ اپنے نفس کے متعلق بھی یہی کہیں گے کہ بڑا ضدی ہے نہیں مانتا، بہت سمجھایا ہے نہیں سمجھتا۔ ہمسائے کے متعلق یہ عُذر کر دیتے ہیں کہ سنتا ہی نہیں بڑا جاہل ہے مگر کیا اپنے نفس کے متعلق بھی یہی کہیں گے کہ سنتا ہی نہیں بڑا جاہل ہے۔ اپنے ہمسائے کے متعلق تو کہہ دیتے ہیں کہ سارا دن دنیا کے کاموں میں مشغول رہتا ہے دین کے کاموں کی طرف توجہ نہیں کرتا مگر کیا اپنے نفس کے متعلق بھی یہی کہیں گے کہ سارا دن کام میں لگا رہتا ہوں اس لئے دین کے کاموں کی طرف توجہ نہیں کر سکتا۔ غرض وہ کونسا جواب ہے جو اپنے ہمسائے کے لئے دیتے ہیں اور اپنے لئے بھی وہی جواب پسند کرتے ہوں۔ اگر کوئی شخص ان کی طرف سے یہی جواب دے تو لال لال آنکھیں نکال کر دیکھیں گے اور کہیں گے اس نے میری ہتک کر دی۔
پس یہ ایک اہم سوال ہے اور ہر خادم کو اس امر کے متعلق غور کرنا چاہئے کہ اس سات سال کے عرصہ میں اس نے کیا کیا۔ جہاں تک اہم باتوں کا سوال ہے ابھی تک خدام ان میں بہت پیچھے ہیں۔حاضری کو ہی دیکھ لو کتنی کم ہے، بیرونی جماعتوں کی طرف سے پچھلے سال چودہ نمائندے آئے تھے اور اِس سال اکتیس نمائندے آئے ہیں ہماری جماعتیں آٹھ سَوسے زیادہ ہیں اور جو جماعت آٹھ سَو سے زیادہ شاخیں رکھتی ہو اُس کے صرف اکتیس نمائندے آئیںتو یہ کوئی اچھا نمونہ نہیں بلکہ ایسا نمونہ ہے جسے دشمن کے سامنے پیش کرتے ہوئے ہمارے ماتھے پر پسینے کے قطرے آ جاتے ہیں۔ ہم دوسروں کو بُرا کہتے ہیں لیکن ہماری اپنی حالت بعض باتوں میں اُن سے زیادہ کمزور ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت کا نمونہ اکثر باتوں میں دوسری جماعتوں کی نسبت اچھا ہے لیکن بعض باتوں میں ہم ابھی تک اُن کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ مثلاً خاکساروں کی تعداد ہماری تعداد سے بہت کم ہے اور ہماری جماعت اُن کی نسبت بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے اور اُن سے بہت زیادہ مقامات پر پائی جاتی ہے۔ اگر خاکساروں کی طرف سے کسی جگہ پر جانے کا اعلان ہو جائے تو بسا اوقات دو دو، تین تین ہزار آدمی دو تین مہینے تک ایک ہی شہر میں پڑے رہتے ہیں۔ اُن کی کبھی یہ غرض ہوتی ہے کہ مسٹر محمد علی جناح پر اثر ڈالیں یا گاندھی جی پر اثر ڈالیں اور کبھی یہ غرض ہوتی ہے کہ لکھنو جا کر مدحِ صحابہؓ کے جھگڑے کا فیصلہ کرائیں اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو جاتے ہیں اور ہر شخص اپنے کھانے اور دوسرے اخراجات کا خود ذمہ دار ہوتا ہے مگر ہمارے خدام کی یہ حالت ہے کہ اپنے سالانہ اجتماع پرکُل اکتیس جماعتوں نے نمائندے بھیجے ہیں۔ بے شک ایک سَو اِکسٹھ خدام اور بھی اپنے طور پر شامل ہوئے ہیں لیکن اپنی خوشی سے شامل ہونا اور بات ہے اور اپنے فرض کو پورا کرنا اور بات ہے۔ اور یہ ایک سَو اِکسٹھ خدام جو آئے ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہوں گے جو قریب ترین جگہوں کے رہنے والے ہونگے یا ایسے ہونگے جنہوں نے قادیان آنا تھا اور انہوں نے اپنا پروگرام اس اجتماع کے ساتھ متعلق کر لیا۔ اُن کا آنا خدام الاحمدیہ کے جلسہ کے لئے نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ جس طرح عام طور پر لوگ قادیان آتے رہتے ہیں اسی طرح وہ بھی آئے۔ لیکن اگر وہ بِلااستثناء سارے کے سارے خدام الاحمدیہ کے جلسہ کے لئے ہی آئے ہوں تو بھی اس کے یہ معنی ہیں کہ تمام جماعت میں سے صرف ایک سَو اکسٹھ خادم ایسے ہیں جنہوں نے اپنے کاموں کا حرج کیا اور خوشی سے خدام الاحمدیہ کے جلسہ میں شامل ہوئے۔ اور اِس کے ساتھ یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ آٹھ سَو جماعتوں میں سے صرف اکتیس جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے اپنا فرض ادا کیا۔ مجھے کہا گیا ہے کہ ہم نے الفضل میں اعلان کیا تھا لیکن چونکہ الفضل ہر جگہ نہیں پہنچتا اِس لئے آٹھ سَو جماعتوں میں سے اکتیس نمائندے آئے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بات ماننے کے قابل نہیں کہ آٹھ سَو میں سے صرف اکتیس جگہ الفضل پہنچتا ہے اور باقی جگہوں میں نہیں پہنچتا۔ یہ تو مَیں مان سکتا ہوں کہ آٹھ سَو میں سے سَو یا دو سَو جگہیں ایسی ہو سکتی ہیں جہاں الفضل نہیں پہنچتا لیکن یہ کہ آٹھ سَو میں سے صرف اکتیس جگہ الفضل پہنچتا ہے یہ مَیں ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اگر فرض کر لیں کہ آٹھ سَو میں سے دو سَو جماعتیں ایسی ہیں جہاں الفضل نہیں پہنچتا اور چھ سَو جماعتیں ایسی ہیں جہاں الفضل پہنچتا ہے تو اگر چھ سَو جماعتوں میں سے چھ یا سات سَو نمائندے آ جاتے تو یہ خیال کیا جا سکتا تھا کہ باقی جماعتوں میں الفضل نہیں پہنچتا اس لئے اُن کے نمائندے نہیں آئے لیکن آٹھ سَو میں سے تیس چالیس نمائندوں کا آنا خوش کن بات نہیں اور الفضل کا نہ پہنچنا میرے نزدیک کافی جواب نہیں ہو سکتا۔ پس میرے نزدیک اس میں بہت حدتک دخل اور بہت حد تک ذمہ داری مرکزی ادارے کی ہے۔ مرکز کو چاہئے کہ انسپکٹر بھیج کر اپنی جماعتوں کی تنظیم کرے کیونکہ بغیر انسپکٹروں کے ان بیماریوں کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور نہ بیرونی جماعتیں پورے طور پر مرکز کی آواز کو سن سکتی ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ بہت سی غلطیاں اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ مرکز کی آواز صحیح طور پر لوگوں تک نہیں پہنچتی۔ صرف قواعد بنانے سے کچھ نہیں بنتا بلکہ ان قواعد کے نتائج کی طرف خیال رکھنا چاہئے کہ کیسے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان قواعد کو بدلنے کی ضرورت ہو تو ان کو بدل دیا جائے اور اگر ان میں اصلاح کی ضرورت ہو تو ان میں اصلاح کر دی جائے۔ دیکھو! ذی روح اور غیرذی روح چیزوں کے قواعد میں کتنا بڑا فرق ہے۔ غیر ذی روح چیزوں کے قواعد نہیں بدلتے اور ذی روح چیزوں کے قواعد ہر منٹ اور ہر سیکنڈ بدلتے چلے جاتے ہیں۔ پھرذِی روح چیزوں کے دو حصے ہیں۔ ایک انسان اور دوسرے حیوان۔ ان دونوں کے قواعد میں بھی بہت بڑا فرق ہے۔ مثلاً انسانی خوراک اور جانوروں کی خوراک میں کتنا فرق ہے۔ آدم کے زمانہ سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے سے گائے اور بیل گھاس کھاتے آتے ہیں اور ان کے لئے غذا کے بدلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بعض جانورایسے ہیں کہ وہ جب سے پیدا ہوئے ہیں ایک قسم کا کیڑا کھاتے ہیں۔ بعض جانور ایسے ہیں کہ وہ جب سے پیدا ہوئے گوشت کھاتے ہیں جیسے شیر اورچیتے وغیرہ۔ اور بعض گھاس اور بعض پتے کھاتے چلے آئے ہیں۔ مگر اس کے مقابل پر انسان کی یہ حالت ہے کہ اگر گھر میں ایک ہی قسم کا کھانا دو تین دن تک پکے تو لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ خاوند بیوی سے خفگی کا اظہار کرتا ہے، بیٹا ماں سے ناراضگی کا اظہار کرتا ہے کہ اتنے دن سے گھر میں ایک ہی کھانا پک رہا ہے اور کوئی چیز پکانے کے لئے نہیں رہی۔ پس کجا جانور کہ ان کی خوراک ساری عمر بدلتی ہی نہیں اور کجا انسان کہ اگر ایک ہی قسم کی غذا اسے دو دن کھانی پڑے تو گھر والوں کو صلواتیں سنانا شروع کر دیتا ہے۔ ـپس انسانوں اور جانوروں میں بہت بڑا فرق ہے۔ اس کے بعد اگر نباتات کو دیکھا جائے تو یہ فرق اور بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ نباتات کی جو غذائیں ہیں وہ بھی ابتداء سے آخر تک ایک ہی طرح چلتی چلی جاتی ہیں مگر ساتھ ہی وہ جگہ بھی ایک ہی رکھتی ہیں۔ جانوراپنی جگہ بدل لیتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں مگر درخت پہلو بھی نہیں بدلتے جس جگہ پیدا ہوتے ہیں اُسی جگہ مر جاتے ہیں۔ بیس، پچیس، پچاس، سَو یا ہزار سال جو بھی عمر ہو اس میں وہ کبھی اپنے مقام کو نہیں بدلتا۔ جہاں انسانوں اور حیوانوں میں غذا کے بدلنے کا فرق ہے وہاں نباتات اور حیوانات میں جگہ کے بدلنے کا فرق ہے۔ انسان اور حیوان دونوں جگہ بدل لیتے ہیں لیکن حیوان غذائیں نہیں بدلتے اور انسان اپنی غذائیں بدل لیتے ہیں۔ نباتات غذائیں بھی نہیں بدلتے اور جگہ بھی نہیں بدلتے۔ بعض درخت بیسیوں اور بعض سینکڑوں سال ایک ہی جگہ پیدا ہو کر رہ جاتے ہیں۔ پس انسان کو دوسری اشیاء سے بھی یہی امتیاز حاصل ہے کہ اس کے حالات دوسری مخلوقات کے مقابل پر جلد جلد بدلتے ہیں اور ہر انسان کا دوسرے انسان سے بھی فرق ہوتا ہے تو یقینا ہر زمانہ اور بعض دفعہ ہر جماعت الگ قسم کے قواعد کی محتاج ہوتی ہے مگر بعض نادان منتظم یہ خیال کر لیتے ہیں کہ ہر حالت میں ایک ہی علاج ہونا چاہئے۔ وہ قانون پاس کر دیتے ہیں اور اس قانون کو پاس کرنے کے بعد یہ خیال کر لیتے ہیں کہ اس قانون سے ہر شخص کا علاج ہو جائے گا اور یہ قانون ہر شخص کی حالت کے مطابق ہوگا حالانکہ یہ بات ناممکن ہے۔ ہر انسان کی حالت دوسرے انسان سے الگ ہوتی ہے، ہر جماعت کی حالت دوسری جماعت سے الگ ہوتی ہے اور ہر ایک جماعت کے مختلف لوگوں کی حالت ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوتی ہے۔ جب تک ان تمام حالات کا اندازہ نہ کیا جائے اور ان کے مطابق علاج نہ سوچا جائے وہ بے اثر اور بے فائدہ ثابت ہوگا خواہ وہ علاج کتنا ہی اعلیٰ درجہ کا اور بے نظیر کیوں نہ ہو۔
کام قواعد سے نہیں چلا کرتے بلکہ قواعد کے ساتھ ان کے نتائج کی طرف بھی نگاہ رکھنی چاہئے۔ یہ ایک ناتجربہ کاری کی حالت ہوتی ہے کہ انسان قانون بنا دے لیکن اس کے نتائج پر غور نہ کرے۔ میرے نزدیک جیوریز (JURY)کا صرف یہی فرض نہیں کہ وہ بیٹھیں اور قواعد بنا دیں بلکہ ان قواعد کے نتائج سے پورے طو رپر آگاہ ہونا بھی جیوریز کا فرض ہے اور انہیں علم ہونا چاہئے کہ انہیں ان قواعد کے بنانے سے کس حد تک اپنے مقصد میں کامیابی ہوئی ہے۔
ہر قاعدہ کو جاری کرنے کے بعد دو باتیں دیکھنی چاہئیں۔ اوّل یہ کہ آیا وہ قاعدہ پورے طور پر جاری ہوا ہے یا نہیں۔ دوسرے یہ کہ اس کے نتائج کیسے پیدا ہوئے ہیں۔ اگر کسی جگہ پر بھی اس کے نتائج پیدا نہیں ہوئے تو وہ قاعدہ غلط ہے اور اگر بعض جگہ پیدا ہوئے ہیں اور بعض جگہ پیدا نہیں ہوئے تو یا تو اُس قاعدہ پر وہاں عمل نہیں کیا گیا اور اگر وہاں اُس قاعدہ پر عمل کرنے کے باوجود اچھے نتائج پیدا نہیں ہوئے تو ماننا پڑے گا کہ وہ قاعدہ اُس مقام و گروہ کے لئے مفید نہ تھا اور اِس کا علاج کچھ اور تھا۔ اگر اس گروہ نے اس قاعدہ پر عمل نہیں کیا تو اس پر عمل کرانا چاہئے تھا اور اگر عمل کے بعد بھی اصلاح نہیں ہوئی تو کوئی اور ذریعہ اصلاح کا سوچنا چاہئے۔ اگر ایک ہی علاج تمام انسانوں کے لئے کافی ہوتا تو قرآن مجید میں ہر مسئلہ کے متعلق ایک ہی دلیل بیان ہوتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید ہر رکوع میں ایک نئی دلیل دیتا ہے بلکہ ہر آیت میں ایک نئی دلیل دیتا ہے۔ پس مختلف انسانوں کے علاج مختلف ہوتے ہیں، مختلف روحانی بیماریوں کے علاج مختلف ہوتے ہیں اور مختلف وقتوں کے علاج مختلف ہوتے ہیں۔ ایک وقت میں ہم ایک دلیل مؤثر دیکھتے ہیں لیکن دوسرے وقت میں وہ دلیل بے فائدہ اور بے اثر نظر آتی ہے۔ ایک دلیل ایک انسان کے لئے تو بہت مؤثر نظر آتی ہے مگر دوسرے کے لئے بے اثر نظر آتی ہے ۔ پس اگر ہم نے انسانوں سے معاملہ کرنا ہے تو ہمیں ان مشکلات کو بھی مد نظررکھنا ہو گا جو ان کے راستہ میں پیش آتی ہیں۔ جب تک ہم پوری کوشش کے ساتھ مختلف افرادکی بیماریوں اور ان بیماریوں کی نوعیتوں کی تشخیص نہیں کر لیتے اُس وقت تک نہ ہم بیماری کا پتہ لگا سکتے ہیں اور نہ اس کا صحیح علاج کر سکتے ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے مرضوں کا صحیح طور پر علاج بغیر انسپکٹروں کے نہیں ہو سکتا۔ پس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کو چاہئے کہ وہ اپنے انسپکٹروں کو مختلف علاقوں میں دَوروں کے لئے بھیجے جب وہ دَوروں سے واپس آئیں تو اُن سے صحیح حالات معلوم کئے جائیں۔ اور انسپکٹروں سے دریافت کیا جائے کہ سُستی دکھانے والی جماعتوں کی سُستی کی وجوہ کیا ہیں؟ اور پھر اس کا علاج کیا جائے۔مرکز میں بیٹھے رہنے سے ان حالات کا صحیح طور پر پتہ نہیں چل سکتا اور مرکز پر بیرونی جماعتوں کا قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
مرکز میں دفتر موجود ہے اور پھر یہاں ہر قسم کی واقفیت رکھنے والے آدمی پائے جاتے ہیں مگر کیا جوسامان قادیان کی مجالس کو حاصل ہیں وہی کیا باقی مجالس کو بھی حاصل ہیں؟ قادیان میں علم والے آدمیوں کی بہتات ہے اور اعلیٰ قابلیت رکھنے والوں کی بہتات ہے، نصیحت اور وعظ کرنے والوں کی بہتات ہے، جماعت کی کثرت کی وجہ سے ہر قابلیت کا آدمی مل سکتا ہے لیکن اِن حالات کو بیرونی جماعتوں پر چسپاں نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہر جگہ نہ اتنی قابلیتوں کے آدمی مل سکتے ہیں، نہ اتنے وعظ و نصیحت کرنے والے میسرآسکتے ہیں، نہ وہاں جماعت کی اتنی کثرت ہے کہ خدام الاحمدیہ کے نظام کو جماعتی طور پر دباؤ ڈال کر قائم کیا جا سکتا ہو بلکہ بعض مقامات میں ایک احمدی ہے، بعض میں دو، بعض میں تین، بعض میں چار، اِس سے کم وبیش احمدی ہیں اور بعض مقامات ایسے ہیں جہاں کوئی احمدی بھی تعلیم یافتہ نہیں، بعض جگہوں پر قابل آدمی مل سکتے ہیں، بعض جگہوں پر نہیں مل سکتے اور بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں قابل آدمی تو موجود ہیں لیکن ان کی قابلیت چھپی ہوئی ہے جب تک اُن کو اُبھارانہ جائے اُس وقت تک وہ قابلیتیں ہمارے کام نہیں آسکتیں ۔پس ضروری ہے کہ انسپکٹر مقرر کئے جائیں جو باہر کی جماعتوں کی پورے طور پر نگرانی کریں اور جو قانون مرکز میں جاری کئے جائیں ان کو رواج دینے کی کوشش کریں۔
اِس کے بعد میں خدام کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آئندہ سالوں میں ہاتھ سے کام کرنے کی روح کو دوبارہ زندہ کیا جائے اور خدام سے ایسے کام کرائے جائیں جن میں وہ ہتک محسوس کرتے ہوں اور وہ کام انفرادی طور پر کرائے جائیں۔ جس وقت قادیان کے تمام خدام جمع ہوں اوروہ سب ایک ہی کام کر رہے ہوں تو اُنہیں اُس وقت کسی کام میں ہتک محسوس نہیں ہوگی کیونکہ اُن کے دوسرے ساتھی بھی اُن کے ساتھ اُسی کام میں شریک ہوتے ہیں لیکن اگر ایک خادم اکیلاکوئی کام کر رہا ہو اور اُس کے ساتھی اُسے دیکھیں تو وہ ضرور ہتک محسوس کرے گا۔ میرا اِس سے یہ مطلب نہیں کہ اجتماعی طور پر کوئی کام نہ ہو بے شک اجتماعی طور پر بھی ہو لیکن انفرادی کام کے مواقع بھی کثرت سے پیدا کئے جائیں۔مثلاً کسی غریب کا آٹا اُٹھا کر اُس کے گھر پر پہنچا دیا جائے یا کسی غریب کا چارہ اُٹھا کر اُس کے گھر پہنچا دیا جائے یا کسی غریب کی روٹیاں پکوا دی جائیں۔جب خادم روٹیاں پکوانے جائے گا تو دل میں ڈر رہاہو گا کہ مجھے کوئی دیکھ نہ لے اور اگر کوئی دوست اُسے راستے میں مل جائے تو اُسے کہے گا میری اپنی نہیںفلاں غریب کی ہیں۔ اُس کا یہ اظہار کرنا اِس بات کی دلیل ہوگا کہ وہ اِس کام کو ہتک آمیز خیال کرتا ہے یہ پہلا قدم ہوگا۔ اِسی طرح بعض اور کام اس نوعیت کے سوچے جا سکتے ہیں۔ ایسے کام کرانے سے ہماری غرض یہ ہے کہ کسی خادم میں تکبر کا شائبہ باقی نہ رہے اور اس کا نفس مر جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہر ایک کام کرنے کو تیار ہوجائے۔
ایک اور بات جوبہت زیادہ تو جہ کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ خدام کی سختی کے ساتھ نگرانی کی جائے کہ وہ باجماعت نماز ادا کرتے ہیں یا نہیں۔ ابھی تک محلوں سے اطلاعات آتی رہتی ہیں کہ بعض خادم نمازوں میں سُست ہیں اور باوجود بار بار کہنے کے اپنی اصلاح نہیں کرتے۔ زعماء کو چاہئے کہ اُن کی طرف خاص توجہ کریں۔ خدام کے عہدیداران اُن کے پاس جائیں اور انہیں سمجھائیں۔ اگر اِس کے باوجود وہ توجہ نہ کریں تو محلہ کے پریذیڈنٹ اور دوسرے دوست انہیں سمجھائیں۔ اگر اِس کے بعد بھی وہ نمازوں میں سُستی کریں تو اُن کے نام میرے سامنے پیش کئے جائیں ۔ یہ ایک بہت ضروری حصہ ہے خدام الاحمدیہ کے پروگرام کا۔
خدام الاحمدیہ کے پروگرام میں یہ بات بھی شامل ہونی چاہئے کہ خدا م کی پڑھائی کا خاص خیال رکھا جائے اور اس بات کی نگرانی کی جائے کہ کون کون خادم سٹڈی (STUDY) کے وقت گلیوں میں پھرتا ہے، اِس بات کی نگرانی کے لئے کچھ خادم ہر روزمقرر کئے جاسکتے ہیں اُن کو جہاں کوئی خادم بازار میں پھرتا ہوا مل جائے اُسے پوچھیں کہ تمہارا سٹڈی کا وقت ہے اور تم بازار میں کیوںپھر رہے ہو؟ اگر اِس بات کی نگرانی کی جائے تو ایک تو طالب علموں میں آوارہ گردی کی عادت نہ رہے گی اور دوسرے وہ پڑھائی میں زیادہ دلچسپی لیں گیـ۔ہمارے طالب علموں کی پڑھائی کی موجودہ حالت بہت قابلِ افسوس ہے اور ہمارے سکول کے نتائج اِس وقت تمام سکولوں سے بدتر ہیں۔ میں نے نظارت تعلیم وتربیت کو یہ ہدایت کی کہ صرف اُن اُستادوں کو اِس سال ترقیاں دی جائیں جن کے نتائج اوسط سے پانچ فیصدی زیادہ ہوں۔ اِس پر ناظر صاحب تعلیم مجھے ملنے آئے اور کہا کہ آپ کے مقررہ کردہ قاعدہ کے مطابق تو سارے سکول میں سے صرف ایک استاد ایسا ہے جسے ترقی مل سکتی ہے۔ میں نے کہا کہ سارے پنجاب میں میٹرک کے نتیجہ کی اوسط ۷۶فیصدی ہے گورنمنٹ سکولوں کا نتیجہ ۹۹ فیصدی بلکہ بعض کا سَوفیصدی ہے لیکن آپ کہتے ہیں کہ اوسط پر پانچ فیصدی زائد کرنے سے صرف ایک استاد کو ترقی مل سکتی ہے اچھا آپ اِن اُستادوں کو ترقیاں دے دیں جن کا نتیجہ اوسط کے برابر ہو۔ تو وہ کہنے لگے کہ اِس قاعدہ کے ماتحت بھی صرف دو اُستاد آتے ہیں۔پھر میں نے کہا کہ اچھا اوسط سے پانچ فیصدی کم پر ترقی دے دیں تو وہ کہنے لگے اِس قاعدہ کے ماتحت بھی صرف چار اُستاد آتے ہیں۔ اور اِس پر مَیں نے انہیں کہا کہ کیا باقیوں کو جماعت کے لڑکے فیل کرنے کی خوشی میں ترقیاں دی جائیں؟ ہمارے استاد اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور لڑکوں کی نگرانی کی طرف کما حقہٗ توجہ نہیں کرتے۔ اس میں شک نہیں کہ بہت حد تک نتیجہ کی ذمہ داری لڑکوں پر بھی ہے لیکن جہاں تک نگرانی کا تعلق ہے میں اِس کی ذمہ داری اُستادوں پر ڈالتا ہوں کہ انہوں نے کیوں ان کی نگرانی نہیں کی۔ جہاں تک شوق پیداکرنے کا سوال ہے خدام الاحمدیہ کا فر ض ہے کہ وہ طلباء کے لئے ایسے طریق سوچیں جن کی وجہ سے خدام میں تعلیم کا شوق ترقی کرے۔ بہرحال نگرانی سب سے زیادہ ضروری چیز ہے۔ پڑھائی کے وقت سب خدام گھروں میں بیٹھ کر پڑھائی کریں اور جوطالب علم باہر پھرتا ہوا پکڑا جائے اُس سے باز پُرس کی جائے۔مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر خدام اس پر عمل کریںتو جن طالب علموں کو باہر پھرنے کی عادت ہو وہ خودبخود گھر میں سٹڈی کرنے پر مجبور ہونگے کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ باہر تو پھر نہیں سکتے چلو کوئی کتاب ہی اُٹھا کر پڑھ لیں۔ ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ ’’جاندے چور دی لنگوٹی ہی سہی‘‘۔یعنی جاتے چور کی لنگوٹی ہی سہی اگر چور چوری کر کے بھاگا جارہا ہو اور تم اُس سے اور کچھ نہیں چھین سکتے تو اُس کی لنگوٹی ہی چھین لوآخر کچھ نہ کچھ تو تمہارے ہاتھ آجائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں ایک فقیر تھا جو اکثر اُس کمرے کے سامنے جہاں پہلے محاسب کادفتر تھا بیٹھا کرتا تھا۔ جب اُسے کوئی آدمی احمدیہ چوک میں سے آتا ہوا نظر آتا تو کہتا ایک روپیہ دیدے، جب آنے والاکچھ قدم آگے آجاتا تو کہتا اٹھنی ہی سہی۔ جب وہ کچھ اور آگے آتا تو کہتا چونی ہی سہی، جب اُس کے مقابل پر آجاتا تو کہتا دو آنے ہی دے دے، جب اس کے پاس سے گزرکر دو قدم آگے چلا جاتا تو کہتا ایک آنہ ہی سہی، جب کچھ اور آگے چلا جاتاتو کہتا ایک پیسہ ہی دیدے، جب کچھ اور آگے چلا جاتا ہے تو کہتا دھیلا ہی سہی، جب جانے والا اُس موڑ کے قریب پہنچتا جہاں سے مسجد اقصیٰ کی طرف مُڑتے ہیں تو کہتا پکوڑا ہی دیدے، جب دیکھتا کہ آخری نکڑ پر پہنچ گیا ہے تو کہتا مرچ ہی دے دے۔ وہ روپیہ سے شروع کرتا اور مرچ پر ختم کرتا۔ اِسی طرح کام کرنے والوں کو بھی یہی سمجھنا چاہئے کہ کچھ نہ کچھ تو ہمارے ہاتھ آ جائے۔ اگر پہلی دفعہ سَو میں سے ایک کی طرف توجہ کرے گا تو اگلی دفعہ دو ہو جائیں گے اِس سے اگلی دفعہ چار ہو جائیں گے اور اس طرح آہستہ آہستہ بڑھتے چلے جائیںگے پس کام کرو اور پھر نتیجہ دیکھو۔ جب دُنیوی کام بے نتیجہ نہیں ہوتے تو کس طرح سمجھ لیا جائے کہ اخلاقی اور روحانی کام بغیر نتیجہ کے ہو سکتے ہیں لیکن جن کے من ّ*** ہیں وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو کام کرتے ہیں لیکن نتیجہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ نتیجہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کہنے سے اُن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے تو اپنی طرف سے پوری محنت کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ ہم سے دشمنی نکال رہا ہے۔ یہ کہنا کس قدر حماقت اور بیوقوفی کی بات ہے۔ گویا اپنی کمزوریوں اور خامیوں کواللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جو کام ہم کرتے ہیں اُس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ لیکن اچھے یا بُرے نتیجہ کا دارومدار ہمارے اپنے کام پر ہوتا ہے۔کسی شخص نے ۱۰؍۱ حصہ کسی کام کے لئے محنت کی تو قانون قدرت یہی ہے کہ اُس کا ۱۰؍۱ نتیجہ نکلے ۔اب اس کے ۱۰؍۱ حصہ نکلنے کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کی وجہ سے ۱۰؍۱ حصہ نتیجہ نکلا ورنہ اُس نے محنت تو زیادہ کی تھی۔ قانون قدرت کسی محنت کو ضائع نہیں کرتا لیکن شرارتی نفس یہ کہتا ہے کہ میں نے تو اپنافرض ادا کر دیا تھا لیکن اللہ میاں اپنا فرض ادا کرنا بھول گیا اِس سے بڑا کفر اور کیا ہو سکتا ہے۔ پس جہاں تک محنت اور کوشش کا سوال ہے نتائج ہمارے ہی اختیارمیں ہیں۔ اگر نتیجہ اچھا نہیں نکلتا تو سمجھ لو کہ ہمارے کام میں کوئی غلطی رہ گئی ہے۔ کوشش کرنی چاہئے کہ ہر کام کے نتائج کسی معیّن صورت میں ہمارے سامنے آسکیں۔ اگر ہمارے پاس ریکارڈ محفوظ ہو تو ہم اندازہ کر سکیں گے کہ پچھلے سال سے اس سال نمازوں میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی، تعلیم میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی، اخلاق میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی، کتنے خدام پچھلے سال باہر کی جماعتوں سے سالانہ اجتماع میں شمولیت کے لئے آئے اور کتنے اس سال آئے ہیں اِسی طرح باہر کی خدام الاحمدیہ کی جماعتیں بھی اپنے ہاں ان باتوں کا ریکارڈ رکھیں کہ پچھلے سال تعلیم کتنے فیصدی تھی اور اس سال کتنے فیصدی ہے،اخلاق میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی۔ اور یہ قانون بنا دیا جائے کہ ہر جماعت اجتماع کے موقع پر اپنی رپورٹ پڑھ کر سنائے تاکہ تمہیں معلوم ہو سکے کہ تمہارا قدم ترقی کی طرف جا رہا ہے یا تنزّل کی طرف۔ اِس میں شبہ نہیں کہ کبھی اندازہ میں غلطی بھی ہو سکتی ہے لیکن عام طورپر اندازہ صحیح ہوتا ہے اگر یہ طریقہ اختیار کیا جائے تو کچھ نہ کچھ قدم ضرور ترقی کی طرف اُٹھے گا۔ صحیح اندازہ لگانے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ دس فیصدی کام اس رپورٹ میں سے کم کر دیا جائے۔ مثلاً کسی جماعت کی ترقی بارہ یا پندرہ فیصدی ہے تو اس میں سے دس فیصدی کم کرنے کے بعد ہم کہیں گے کہ اس جماعت نے دس فیصدی ترقی کی ہے پھر تمام جماعتوں کا آپس میں مقابلہ کیا جائے کہ تبلیغی طور پر کونسی مجلس اوّل ہے، تعلیم میں کونسی مجلس اوّل ہے، اخلاق کی ترقی میں کونسی مجلس اوّل ہے، ہاتھوں سے کام کرنے میں کونسی مجلس اوّل ہے ،نمازوں کی باقاعدگی میں کونسی مجلس اوّل ہے۔ اس قسم کے مقابلوں سے ایک دوسرے سے بڑھنے کی رُوح ترقی کرے گی اور اگر کسی مجلس کا کام فرض کرو پچھلے سال بھی دس فیصدی تھا اور اس سال بھی دس فیصدی ہے تو اُس کے متعلق سوچنا چاہئے کہ کیا وجوہ ہیں جو اُس مجلس کی ترقی میں روک ہیں۔پس ایسے ذرائع سوچے جاسکتے ہیں جن سے معیّن نتیجہ نکالاجا سکتا ہے۔
سات سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حکم ہے کہ سات سال کے بچے کو نماز پڑھنے کے لئے کہنا چاہئے اور اگر دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھتا ہو تو اُسے مار پیٹ کر نماز پڑھانی چاہئے۱؎۔گویا پہلے سات سال ترغیب وتحریص کے ہیں اور اگلے سال میں سختی بھی کی جاسکتی ہے۔ پندرہ سال کی عمر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بعض لڑکوں کو جہاد میں شامل ہونے کی اجازت دی ہے۔ پس اگر آج ساری ذمہ داریاں تم پر نہیں ہیں توآج سے آٹھ سال کے بعد تمہیں تمام ذمہ داریاں اپنے اوپر لینی ہوں گی اور خداتعالیٰ کے نزدیک تم ایک ایسے مقام پر پہنچ جاؤ گے جس مقام پر پہنچ کر جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ پس جس دَور میں تم داخل ہو رہے ہو نہایت نازک دَور ہے اور جوذمہ داریاں تم پر پڑنے والی ہیں وہ بہت بڑی ہیں گو پہلے بھی تم ذمہ داریوں سے خالی نہیں لیکن آئندہ ذمہ داریاں ان سے بڑھ کر ہوں گی۔ میرے نزدیک پچھلے سات سال تم نے ضائع کر دیئے ہیں اگر آئندہ سات سال بھی آپ لوگوں نے ضائع کر دیئے تو آپ اللہ تعالیٰ کے نزدیک موردِالزام ہوں گے۔پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اورسمجھ سوچ سے کام لیتے ہوئے ہر کام کو پہلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ چلانے کی کوشش کرو۔ اندھادُھند قانون بنا دینا کوئی فائدہ نہیں دیتا جب تک کسی قانون کے متعلق یہ ثابت نہ ہو جائے کہ یہ واقعی مفید ہے اورہر جگہ جاری کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اندھا دُھند قانون بنانے والوں کی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ایک مثل سنایا کرتے تھے کہ ایک مُلّاتھا اور اُس کے ساتھ اُس کا کنبہ بھی تھا وہ دریا کے کنارے کشتی پر سوار ہونے کے لئے آئے ملاّح اُن کے لئے کشتی لینے گیا کشتی چونکہ کنارے کے پاس ہی تھی مُلّا نے دیکھا کہ ملاّح کے ٹخنوں تک پانی آتا ہے اور دریا کی چوڑائی اتنی ہے اس لحاظ سے زیادہ سے زیادہ پانی کمر تک آجائے گا حالانکہ دریا کے متعلق اس قسم کا اندازہ لگانا حد درجے کی حماقت ہے کیونکہ دریا میں اگر ایک جگہ ٹخنے تک پانی ہو تو اُس کے ساتھ ہی ایک فٹ کے فاصلہ پر بانس کے برابر ہو سکتا ہے مگر اُس مُلّا نے اربعہ سے نتیجہ نکالا کہ پانی کمر تک آئے گا۔یہ خیال کرتے ہوئے اُس نے کشتی کا خیال چھوڑ دیا اور سب بیوی بچوں کو لے کر دریا عبور کرنے لگا ۔ابھی تھوڑی دُور ہی گیا تھا کہ پانی بہت گہرا ہو گیا اور سب غوطے کھانے لگے خود تو وہ تیرنا جانتا تھا اس لئے اُس نے اپنی جان بچالی مگر بیوی بچے سب ڈوب گئے۔دوسرے کنارے پر پہنچ کر پھر اربعہ لگانے لگا کہ شاید پہلے میں نے اربعہ لگانے میں کوئی غلطی کی ہے لیکن دوبارہ وہی نتیجہ نکلا تو وہ کہنے لگا کہ ’’اربعہ نکلا جو ں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں‘‘۔ پس بعض حالات ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں اربعہ نہیں لگایا جاسکتا ہر ایک چیز کا اندازہ الگ الگ طریقہ پر کیا جاتا ہے اور ہر ایک بیماری کا علاج الگ الگ ہوتا ہے، خالی قانون بنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک حالات کو مدنظر نہ رکھا جائے۔
پس میں آئندہ نتیجہ دیکھوں گا میں نہیں سنوں گا کہ کون سیکرٹری تھا اور کس نے اُسے سیکرٹری بنایا مجھے تو کام سے غرض ہے کہ خدام نے نمازوں میں کتنی ترقی کی، سادہ زندگی میںکتنی ترقی کی اور سادہ زندگی کے کن کن اصول پرانہوں نے عمل کیا، تعلیم میں کتنی ترقی کی، کتنے لڑکوں نے انٹرنس، کتنے لڑکوں نے ایف ۔اے اور بی۔اے کے امتحان دیئے، کتنے لڑکے انٹرنس کے بعد کالجوں میں داخل ہوئے، کتنے لڑکوں نے مڈل اور پرائمری کے امتحان دیئے، کتنے لڑکوں نے تبلیغ میں حصہ لیا، ان کے ذریعہ کتنے آدمی احمدی ہوئے، کتنے خدام نے زندگی وقف کی۔
تھوڑے دن ہوئے میں نے تجارت کی تحریک کی ہے اور قادیان میں بیسیوں لڑکے ایسے ہیں جو بے کار ہیں اور ان کے ماں باپ گندم کے لئے منظوریاں لیتے پھرتے ہیں۔ عرضی میں لکھتے ہیں کہ بیس سال کا لڑکا ہے مگر بے کار ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جس لڑکے کے والدین کی یہ حالت ہے وہ بے کار کیوں بیٹھا ہے؟ محلہ کا پریذیڈنٹ سفارش کرتا ہے کہ یہ امداد کے بہت مستحق ہیں۔ میں کہتا ہوں ایسے لڑکے امداد کے مستحق نہیں بلکہ اِس بات کے مستحق ہیں کہ اُن کو بید لگائے جائیں۔ اسی طرح بعض لوگوں کے متعلق سفارش کی جاتی ہے کہ یہ فلاں کے گھر میں کام کرتے ہیں وہاں سے اُنہیں آٹھ روپے ملتے ہیں لیکن آٹھ روپے میں گزارہ نہیں ہوتا اِس لئے اُن کو گندم دی جائے۔ ایسے لوگوں کے متعلق بھی مجھے یہ خیال آتا ہے کہ اگر یہ لوگ کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے تو کیوں پھیری کا کام نہیں کر لیتے۔ پھیری والے ہر روز تین روپے کما لیتے ہیں۔ اگر کسی سے پوچھاجائے کہ آپ کا لڑکا کیوں بے کار ہے تو کہتے ہیں کہ فلاں قسم کا کام ملتا ہے لیکن اُس کی مرضی ہے کہ مجھے اس قسم کا کام ملے تو میں کروں اس لئے بے کارہے۔ (جلسہ کے دنوں میں ایک دوست ملے کہ میرے لڑکے کو چپڑاسی کروادیں میں نے کہا کہ گورنمنٹ ورکشاپ میں ملازم کرو ادیتا ہوں دو چار سال میں اسّی روپے کمانے لگے گا آپ چپڑاسی کیوں بنواتے ہیں؟ اِس پر انہوں نے فرمایا کہ لڑکے کی مرضی چپڑاسی ہونے کی ہی ہے۔) ایسے لڑکوں کی عقلوں کو درست کرنا چاہئے اور انہیں بتانا چاہئے کہ بے کاری ایک ایسی چیز ہے جو جماعتی لحاظ سے اور شخصی لحاظ سے دونوں طرح سخت مُضِرّ ہے۔ میرا خیال ہے کہ صرف قادیان میں سے دو تین سَو آدمی ایسے نکل آئیں گے جو ایسے وقت میں جب کہ ہر طرف روز گار مل رہے ہیں بے کار بیٹھے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ وہ جماعت پر باربن رہے ہیں، وہ اپنے رشتہ داروں پر باربن رہے ہیں، وہ اپنے گھروالوں پرباربنے ہوئے ہیںاگر وہ اپنے آپ کو وقف کریں تو تبلیغ کی تبلیغ اور کام کا کام۔ ہمارے ہاں مثل مشہور ہے’’ نالے حج نالے بیوپار‘‘ یہ تبلیغ کی تبلیغ ہو گی اور بیوپار کا بیوپار ہو گا۔
بلکہ ایک اور بات جس کی طرف میں خدام الاحمدیہ کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی صحتیں نہایت کمزور ہیں اور دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہیں۔ جب میں نوجوانوں کی صحتیں دیکھتا ہوں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہم لوگ جواپنے آپ کوکمزور صحت والے خیال کرتے ہیں اِن نوجوانوں سے اچھے ہیں۔آجکل کے نوجوانوں کے قد بہت چھوٹے ہیں یا بہت پتلے دُبلے یا بہت موٹے، موٹاپا بیماری کی ایک قسم ہوتی ہے، چہرے زرد ہیں اور چہروں پر جھریاں پڑی ہوتی ہیں گویا ان پر جوانی آنے سے پہلے ہی بڑھاپے کا زمانہ آجاتا ہے۔ کہتے ہیں کوئی بُڈھا بازار میں پاؤں پھسلنے کی وجہ سے گر پڑا تو بولا ہائے جوانی یعنی اب جوانی جوکہ تنومندی اور قوت کے دن تھے جاتے رہے اور میں محض بڑھاپے کی وجہ سے گر گیا ہوں۔ جب اُٹھاتو اُس نے دیکھا کہ اُس کے اِردگرد کوئی آدمی نہیں تو اِس پر بولا ’’پھٹے منہ جوانی ویلے توں کہیڑا بہادر سی‘‘یعنی تیرے منہ پر پھٹکار پڑے تو جوانی کے وقت کونسا بہادر تھا۔ ہمارے نوجوانوں کا بھی یہی حال ہے اِن پر جوانی آنے سے پہلے ہی بڑھاپے کا زمانہ آجاتا ہے۔ اگر نوجوانوں کی صحتوں کی یہی حالت رہی تو یہ خطرہ سے خالی نہیں۔ پس خدام الاحمدیہ کا یہ فرض ہے کہ نوجوانوں کی صحت کی طرف جلد توجہ کریں اور ان کے لئے ایسے کام تجویز کریں جو محنت کشی کے ہوں اور جن کے کرنے سے ان کی ورزش ہو اور جسم میں طاقت پیدا ہو۔ مثلاًہر جماعت میں جتنے پیشہ ور ہیں اُن سے کہا جائے کہ وہ خدام کو سائیکل کھولنا اور جوڑنا یا موٹر کی مرمت کا کام یا موٹر ڈرائیونگ سکھا دیں۔ یہ کام ایسے ہیںکہ ان میں انسان کی صحت بھی ترقی کرتی ہے اور انسان ان کو بطور ہابی(HOBBY) کے سیکھ سکتا ہے اور اگر اسے شوق ہو تو اس میں بہت حد تک ترقی بھی کر سکتا ہے۔ سکھ قوم کے مالدار ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ قوم لاری ڈرائیونگ اور لوہار کے کام میں سب سے آگے ہے اور پنجاب کی تمام لاریاں اور اکثر مستر ی خانے ان کے قبضہ میں ہیں جس جگہ جاؤ تمہیں لاری ڈرائیور سکھ ہی نظر آئے گا حالانکہ سکھ پنجاب میں کُل دس بارہ فیصدی ہیں لیکن سفر کے تمام ذرائع اِنہوں نے اپنے قبضہ میں لے رکھے ہیں۔ کسی سٹرک پر کھڑے ہو جاؤ، کسی ضلع یا تحصیل میں چلے جاؤ تم دیکھو گے کہ سائیکلوں پر گزرنے والوں میں دو تہائی سکھ ہوں گے او رایک تہائی ہندو یا مسلمان ہوں گے۔ اور اگر تم گاؤں میں چلے جاؤ تو تم دیکھو گے کہ ایک سکھ سائیکل پر سوار ہے اور اپنی بیوی کو پیچھے بٹھائے لئے جارہا ہے۔ موٹروں کی درستی کے جتنے کارخانے ہیں ان میں سے اکثر سکھوں کے ہیں۔ بندوق بنانے، کارتوس بنانے، لاریاں بنانے، سائیکل بنانے، مشینری بنانے کے جتنے کارخانے ہیں سب سکھوں کے ہیں کیونکہ جتنی سہولت ان کو ان چیزوں کے بنانے میں ہے دوسرے لوگوں کو نہیں۔ اوّل تو ہمارے مسلمانوںکے پاس موٹریں ہی نہیں اور اگر کسی کے پاس ہے بھی تو وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کے اندر کیا ہے۔ اگرکسی جگہ موٹر یا لاری خراب ہو جائے تو پھرسورن سنگھ کی منتیں کریں گے کہ اسے درست کردو۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنا روپیہ سکھوں کے پاس ہے اتنا قومی طور پر ہندوؤں کے پاس بھی نہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ قوم محنت کی بہت عادی ہے۔
لاہور میںایک سکھ نوجوان سے جو کہ بی۔اے پاس تھا اور بانسوں اور رسیوں کی دُکان کرتا تھا میں نے پوچھا کہ آپ ملازمت کیوں نہیں کر لیتے؟ وہ کہنے لگا کہ میرے دوسرے ساتھیوں میں سے جو ملازم ہیں کوئی چالیس روپے لیتا ہے اور کوئی پچاس روپے اور میں تین چار سَو روپے ماہوار کما لیتا ہوں مجھے نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے۔پس کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہماری جماعت اِن کاموں میں ترقی کرنے کی کوشش کرے تو وہ دوسری جماعتوں سے پیچھے رہ جائے۔ اگر ہماری جماعت میں سے پانچ چھ فیصدی لوگ مستری ہو جائیں تو پھر اُمید کی جاسکتی ہے کہ ہمارے لوگ مشینری میں کامیاب ہو سکیں گے کیونکہ اِن لوگوں کو آرگنائز کر کے آئندہ اِن کے لئے زیادہ اچھا پروگرام بنایا جاسکتا ہے اور کچھ اور لوگوں کو ان کے ساتھ لگا کر کام سکھایا جاسکتا ہے۔ اس وقت میرے نزدیک اگر مرکزی مجلس ایک موٹر خرید سکے تو یہ بہت مفید کام ہوگا اِس کے ذریعے خدام کو موٹر ڈرائیونگ کا کام سکھایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ موٹر کی عام مرمت کیا ہوتی ہے، جو خادم سیکھیں ان میں سے بعض مختلف جگہوں پر موٹر کی مرمت کی دُکان کھول لیں۔ یہ بہت مفید کام ہے اِس میں جسمانی صحت بھی ترقی کرے گی اور آمدنی کا ذریعہ بھی ہو گا۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کو گھوڑے کی سواری، سائیکل کی سواری سکھائی جائے۔ سائیکل کی سواری کے ساتھ یہ بات بھی ضروری ہوتی ہے کہ اُسے کھولنا اور مرمت کرنا آتا ہو کیونکہ بعض اوقات چھوٹی سی چیز کی خرابی کی وجہ سے انسان بہت بڑی تکلیف اُٹھاتا ہے۔ پس ہمارے خدام کو مشینری کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے آجکل مشینوں میں برکت دی ہے جو شخص مشینوں پر کام کرناجانتا ہو وہ کسی جگہ بھی چلا جائے اپنے لئے عمدہ گذارہ پیدا کر سکتا ہے۔ آجکل تمام قسم کے فوائدمشینوں سے وابستہ ہیں اور جتنا مشینوں سے آجکل کوئی قوم دُور ہوگی اُتنی ہی وہ ترقیات میں پیچھے رہ جائے گی۔اسی طرح اگر خدام لوہار، ترکھان، بھٹی اور دھونکنی کا کام سیکھیں تو ان کی ورزش کی ورزش بھی ہوتی رہے گی اور پیشے کا پیشہ بھی ہے۔ چونکہ خدام کے لئے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالناضروری ہے اگر خدام ایسے کام کریں تو وہ ایک طرف ہاتھ سے کام کرنے والے ہوں گے اور دوسری طرف اپنا گزارہ پیدا کرنے والے ہوں گے۔ اپنے ہاتھ سے کام کرنا یہ ہمارا طرۂ امتیاز ہونا چاہئے جیسے بعض قومیں اپنے اندر بعض خصوصیتیں پیدا کر لیتی ہیں۔ وہ قومیں جو سمندر کے کنارے پر رہتی ہیں وہ نیوی میں بڑی خوشی سے بھرتی ہوتی ہیں لیکن اگر انفنٹری میں بھرتی ہونے کے لئے اُنہیں کہا جائے تو اِس کے لئے ہرگز تیار نہیں ہونگے۔ اور اگر پنجاب کے لوگوں کو نیوی میں بھرتی ہونے کے لئے کہا جائے تو وہ اِس سے بھاگتے ہیں لیکن انفنٹری میں خوشی کے ساتھ بھرتی ہوتے ہیں اور یہ صرف عادت کی بات ہے۔ پس ہمارے خدام کو یہ ذہنیت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے کہ یہ مشینوں کا زمانہ ہے اور آئندہ زندگی میں وہ مشینوں پر کام کریں گے۔ اگر کارخانوں میں کام نہ کر سکو تو ابتداء میں لڑکوں میں ان کھیلوں کا ہی رواج ڈالو جن میں لوہے کے پُرزوںسے مشینیں بنانی سکھائی جاتی ہیں۔ مثلاً لوہے کے ٹکڑے ملا کر چھوٹے چھوٹے پُل بناتے ہیں، پنگھوڑے، ریلیں اور اِسی قسم کی بعض اور چیزیں تیار کی جاتی ہیں۔ ایسی کھیلوں سے یہ فائدہ بھی ہوگا کہ بچوں کے ذہن انجینئرنگ کی طرف مائل ہوں گے۔
یہ سائنس کی ترقی کا زمانہ ہے اِس لئے خدام الاحمدیہ کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد سائنس کے ابتدائی اصولوں سے واقف ہو جائے اور ابتدائی اصول اِس کثرت کے ساتھ جماعت کے سامنے دُہرائے جائیں کہ ہمارے نائی، دھوبی بھی یہ جانتے ہوں کہ پانی دو گیسوں آکسیجن اور ہائیڈروجن سے بنا ہوا ہے۔ یا روشنی آکسیجن لیتی ہے اور کاربن چھوڑتی ہے اگر اسے آکسیجن نہ ملے تو بجھ جاتی ہے۔ جب اِن ابتدائی باتوں سے اکثر لوگ واقف ہو جائیں گے تو بعد میں آنے والے اِن سے اُوپر کے درجہ پر ترقی پا جائیں گے۔
ایڈیسن جس نے ایک ہزار ایک ایجادیں کی ہیں وہ ایک کارخانے میں چپڑاسی تھا۔ کارخانے میں جو تجربات ہوتے وہ ان کو غور سے دیکھتا رہتا۔ اُس کی اس دلچسپی کو دیکھ کر ایک افسر نے اُسے ایسی جگہ مقرر کر دیا جہاں وہ کام بھی سیکھ سکتا تھا۔ پھر اُسے ایسی درسگاہ میں داخل کرا دیا گیا جہاں وہ ایک حد تک علمِ سائنس سے واقف ہو سکے۔ آخر وہ ایجادیں کرنے لگ گیا اور آج وہ دنیا کا سب سے بڑا موجد سمجھا جاتا ہے۔ بجلی، فونوگراف، ٹیلیفون اِسی طرح کی اور بہت سی چیزیں اِس نے ایجاد کیں اور بعض چیزوں میں ایسی شاندارترمیم کی کہ وہ ایک نئی چیز بن گئیں۔ـ پس جن لوگوں کے دماغ سائنس سے مانوس ہوں وہ دوسری کتابوں سے امداد لے کر ترقی کر جائیں گے۔ بعض لوگ بظاہر نکمّے اور بے عقل سمجھے جاتے ہیں لیکن جب اُن کا دماغ کسی طرف چلتا ہے تو حیران کُن نتائج پیدا کرتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جو بہت زیادہ عقلمند اور ہوشیار نظر آئے وہی سائنس میں ترقی کرے۔ اِس وقت قادیان میں سب سے زیادہ کامیاب کارخانہ میاں محمد احمد خان کا ہے۔ کچھ دن ہوئے مجھے ایک سائنس کا پروفیسر ملا تھا اُس نے مجھے حیرت کے ساتھ کہا کہ میک ورکس نے بہت ترقی کی ہے اور ان کی بعض چیزیں بہت قابلِ تعریف ہیں لیکن میاں محمد احمد خان جو اِس کارخانہ کے موجد ہیں اُن کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی ٹوپی رکھ کر بھول جاتے ہیں کہ کہاں رکھی ہے اور بعض دفعہ ٹوپی اُن کے سر پر ہوتی ہے اور وہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ ایسا ہی ہوا کہ اُن کی ٹوپی ان کے سر پر تھی اور وہ اپنے ماموں میاں بشیراحمد صاحب کی ٹوپی بغل میں دبا کر چل پڑے۔ میاں صاحب نے دیکھا کہ میری ٹوپی لئے جارہے ہیں تو بُلا کر کہا کہ اگر ٹوپی کی ضرورت ہے تو بے شک لے جاؤ ورنہ تمہاری ٹوپی تمہارے سر پر ہے۔ غرض ایک طرف تو اُن کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میری ٹوپی میرے سر پر ہے یا نہیں دوسری طرف سائنس میںاُن کا دماغ خوب چلتا ہے۔ تو بظاہر بعض لوگ ایسے نظر آتے ہیں کہ جن کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ تو کوئی کام بھی نہیں کر سکیں گے لیکن جب اُن کا دماغ کسی طرف چل پڑتا ہے تو وہ دنیا کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ پس میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ جہاں ہمارے دوست دینی علوم سے واقف ہوں وہاں کچھ نہ کچھ انہیں سائنس کے ابتدائی اصول سے ضرور واقفیت ہونی چاہئے کیونکہ ان کا جاننا بھی اس زمانہ کے لحاظ سے بہت ضروری ہے۔
آج میں نے اتنا وسیع پروگرام آپ لوگوں کو بتا دیا ہے کہ اگر آپ اس کے مطابق کام کریں تو دو تین سال میں جماعت کی کایا پلٹ جائے گی اور جماعت اپنے پہلے مقام سے بہت بلند مقام پر پہنچ جائے گی اور دشمن تسلیم کریں گے کہ اِس جماعت کا مقابلہ ناممکن ہے۔ دشمن جب بھی جماعت کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھے گا اُس کی نظریں خیرہ ہو جائیں گی۔
میری صحت تو اچھی نہیں تھی لیکن اِس کے باوجود میں طبیعت پر بوجھ ڈال کر آ گیا ہوں۔ رات سے اسہال ہو رہے ہیں اگر بیٹھوں تو کھڑا نہیں ہو سکتا اور اگر کھڑا ہوں تو بیٹھ نہیں سکتا۔ اب میں دعا کر کے جلسہ کو ختم کرتا ہوں۔
(الفضل ۱۸،۲۱ جنوری ۱۹۴۶ء)
۱؎ ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب متٰی یؤمر الغلام بالصلٰوۃ
مسلمانوں نے اپنے غلبہ کے زمانہ میں اخلاق کا اعلیٰ نمونہ دکھایا
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مسلمانوں نے اپنے غلبہ کے زمانہ میں اخلاق کا
اعلیٰ نمونہ دکھایا
(تقریر فرمودہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
تشہّد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ جب کوئی قوم غالب آتی ہے تو اعلیٰ اخلاق کو ترک کر دیتی ہے۔ مسلمانوں پر یورپین اعتراض کرتے ہیں مگر انہوں نے خود کیسا گندا نمونہ دکھایا ہے۔ مسلمانوں کے غلبہ کے زمانہ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ وہ کسی مُلک میں گئے ہوں اور اُس مُلک کے باشندوں کو خواہ وہ کتنی ہی ادنیٰ حالت میں ہوں فنا کر دیا ہو اور آپ اُن کے مُلک میں بس گئے ہوں۔
مسلمان سپین میں گئے اور وہاں سات سَو سال تک حکومت کی لیکن اِس سات سَو سال کے عرصہ میں اُنہوں نے سپین کے باشندوں کو تباہ نہیں کیا۔ مسلمان بربر۱؎ میں گئے جہاں کے باشندے بالکل وحشی تھے، تباہ حال تھے، ننگے پھرتے تھے لیکن مسلمانوں کے جانے کے بعد اُن کی حالت پہلے سے بہتر ہوگئی۔ مسلمانوں نے اُن کو تعلیم دی اور اُن کے اندر ایسا تغیر پیدا کر دیا کہ دنیا کے بڑے بڑے عالِم بربر میں پیدا ہوئے اور اب تک وہی قوم اس مُلک میں آباد ہے۔ مسلمان مصر میں گئے اور وہاں ایسی شاندار حکومت کی کہ مصر کی زبان ہی عربی ہوگئی لیکن باوجود اِس کے آج تک وہاں کی اصلی قومیں موجود ہیں۔ مسلمان شام میں گئے اور ایسی حکومت کی کہ شام کی زبان ہی عربی ہوگئی لیکن وہاں کی قومیں اب تک موجود ہیں حالانکہ یہاں کثرت سے عیسائی تھے اور اب ان کو آزاد حکومت مل گئی ہے ورنہ پہلے وہ مسلمانوں کے ماتحت تھے لیکن ان کو مجبور نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ اپنے مذہب کو بدلیں۔ مسلمان فلسطین میں گئے لیکن اُنہوں نے وہاں کے باشندوں کو تباہ نہ کیا بلکہ اب تک وہ قومیں موجود ہیں۔ دوسرے مذاہب کو اختیار کر لینے سے ہم کسی کو نہیں روک سکتے۔ وہ اگر مسلمان ہوئے تو اپنی مرضی سے۔ اسی طرح مسلمان افریقہ میں گئے لیکن کوئی علاقہ ایسا نہیں جس کی نسل فنا ہوگئی ہو۔ غرض جہاں جہاں مسلمان گئے وہاں کی اصلی قومیں اب تک موجود ہیں۔ ان کے پہلو بہ پہلو عرب کے باشندے بھی بستے ہیں لیکن وہ قلیل تعداد میں ہیں۔ اِسی طرح ماریشس ہے، جاوا ہے، سماٹرا ہے، مڈغاسکر ہے، فلپائن ہے۔ اِن علاقوں میں سے جس جگہ بھی مسلمان گئے وہاں کے لوگوں کو ہر رنگ میں فائدہ پہنچایا انہوں نے کسی قوم کو مٹایا نہیں اور کسی قوم کی جگہ دنیاوی طور پر نہ لی بلکہ جہاں جہاں بھی مسلمان گئے وہاں اُن علاقوں کی قومیں ان کے زمانہ میں آباد رہیں۔ کسی ایک جگہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ وہاں کی قوموں کو مٹا کر مسلمانوں نے اُن کے مُلک پر قبضہ کر لیا ہو۔ مگر ان ہی علاقوں میں جب یورپین اقوام گئیں تو انہوں نے وہاں کی ساری دولت اور جائدادیں اپنے قبضہ میں کر لیں اور وہاں کے اصلی باشندوں کو مٹا دیا۔ مثلاً نیروبی ہے وہاں عربوں کا اتنا دخل تھا کہ وہاں کی زبان بگڑی ہوئی عربی ہے لیکن باوجود اِس کے کہ نیروبی مسلمانوں کے ماتحت تھا وہاں کی جائدادیں وہاں کے اصلی باشندوں کے پاس رہیں اور اب تک وہ نسلیں چلی آتی ہیں لیکن جب وہاں انگریز گئے تو انہوں نے ان کی زمینوں اور جائدادوں پر قبضہ کر لیا اور کہا کہ حبشیوں کو چونکہ کبھی زمین پر قبضہ کرنے کا خیال نہیں آیا اِس لئے یہ اپنے مُلک میں زمینوں کے مالک نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ وہاں کی زمینیں کچھ انگریزوں میں بانٹ دی گئیں اور کچھ حکومت نے لے لیں۔ ایک ایک انگریز کو بیس بیس میل لمبا علاقہ دے دیا گیا جسے وہ بیس بیس نسلوں تک بھی آباد نہیں کر سکتے۔ لیکن عربوں نے کہا جس کی چیز ہے اُسے دے دو۔ انگریز آسٹریلیا میں گئے اور وہاں کے باشندوں کی ایسی حالت کی کہ اس قوم کے اصل باشندوں کو آج تلاش کرنا سخت مشکل ہے اور اگر ان کو تلاش کیا جائے تو چند ہزار سے زیادہ نہیں ملیں گے حالانکہ وہ ہندوستان سے ڈیوڑھا مُلک ہے۔ امریکہ ہندوستان سے دوگنا ہے اور وہ سارے کا سارا آباد ہے لیکن اب تلاش کرنے سے بھی وہاں کے اصلی باشندے جو کہ ریڈاِنڈینز(RED INDIANS) کہلاتے ہیں چند ہزار سے زیادہ نہیں مل سکتے۔ نہ ان کے پاس جائدادیں ہیں نہ زمینیں وہ مزدوری کرتے ہیں اور اس طرح غریبانہ طور پر اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ اسی طرح کینیڈا ہے کینیڈا کے اصلی باشندے کہاں گئے؟ جن جن جزائر میں یورپین گئے وہاں کے باشندے تباہ ہوگئے۔
آخر کوئی بتائے تو سہی کہ کیا قسّام ِازل نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ مسلمان جہاں جائیں گے وہاں کے اصلی باشندے تو زندہ رہیں گے اور ترقی کریں گے لیکن جہاں یورپین اقوام جائیں گی وہاں کے اصلی باشندے مر جائیں گے۔ کہتے ہیں وہاں کے لوگ خود بخود مر گئے مگر سوال یہ ہے کہ وہ کیوں مَر گئے؟ مسلمانوں کے پاس وٹامنز نہیں تھی لیکن یہ وٹامنز نکال کر بھی وہاں کے اصلی باشندوں کو مارتے جاتے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کا بہانہ ہے ورنہ کون شخص تسلیم کر سکتا ہے کہ مسلمانوں کے ماتحت ہزار سال میں تو وہ قومیں نہ مریں لیکن جہاں فرانسیسی یا انگریز گئے یا دوسری یورپین قومیں گئیں وہاں کے اصلی باشندے دو تین سَو سال کے اندر اندر مرگئے۔ بیشک افریقہ کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں بیماریاں پڑتی ہیں اور جن میں یورپین دس بارہ سال سے زیادہ نہیں رہ سکتے۔ ایسے علاقوں کو چھوڑ دو جہاں بیماریاں پڑتی ہیں اور جہاں سے وہ حبشیوں کو نکال نہیں سکتے۔ جیسے ویسٹ افریقہ ہے جہاں وبائیں بہت زیادہ پڑتی ہیں اِسی لئے اس کا نام WHITE MEN'S GRAVE ہے یعنی سفید آدمی کی قبر۔ جو انگریز بھی وہاں جاتا ہے آٹھ دس سال سے زیادہ وہاں نہیں رہ سکتا اور اگر رہے تو مر جاتا ہے اِس لئے وہاں کے پادریوں کو آٹھ دس سال کے بعد بدل دیا جاتا ہے۔ یہ ہمارے ہی مبلّغ ہیں جو پندرہ سولہ سال سے متواتر کام کر رہے ہیں اور پھر بھی واپس جانے کے خواہشمند ہیں۔ بہرحال انگریز وہاں آٹھ دس سال سے زیادہ نہیں رہ سکتے۔ اِس دوران میں بھی ایک دو سال کے بعد ان کو لمبی چھٹی مل جاتی ہے پھر بھی وہ مشکل سے اتنا عرصہ وہاں رہتے ہیں۔ اِن علاقوں کو تو یورپین لوگوں نے خود چھوڑ دیا ہے کیونکہ قبر میں رہنا کوئی پسند نہیں کرتا اور اس لئے وہاں کے اصلی باشندے وہاں موجود ہیں۔ مگر ان قبروں کو چھوڑ کر باقی سارے علاقے جو اچھے ہیں اور جہاں ان کا قبضہ ہے وہاں انہوں نے اصلی باشندوں کو بالکل بے دخل کر دیا ہے اور ان کی اکثر نسلیں فنا ہوگئی ہیں۔یہی حال نٹال کا ہے وہ سب حبشی بے دخل ہیں، ان کی جائدادوں پر انگریزوں کا قبضہ ہے اور وہ ان کی خدمت گزاری کرتے ہیں۔ بچپن میں جب ہم کھیلا کرتے تھے اور ہمیں کوئی گری پڑی چیز مل جاتی تو ہم اسے ہاتھ میں لے کر کہتے ’’لبھی چیز خدا دی نہ دھیلے دی نہ پا دی‘‘۔ بچپن کے لحاظ سے ہم سمجھتے تھے کہ یہ ایک ایسا منتر ہے کہ جس کے پڑھنے سے دوسرے کی چیز لے لینا جائز ہو جاتا ہے۔
یہی حال اُن لوگوں کا ہے ہم جو چیز اُٹھاتے تھے وہ تو چاک کا ٹکڑا یا کُلّی۲؎ یا اس طرح کی کوئی اور چیز ہوتی تھی جو حقیقت میں دھیلے بلکہ دمڑی کے برابر بھی نہ ہوتی تھی مگر یہ لوگ ملکوں کے مُلک اپنے قبضہ میں لے کر کہتے ہیں ’’لبھی چیز خدا دی‘‘ ہندوستان کا مُلک اُٹھایا اور کہہ دیا ’’لبھی چیز خدا دی‘‘ افریقہ جو ہندوستان سے بھی بڑا ہے اُٹھایا اور کہہ دیا ’’لبھی چیز خدا دی‘‘ کوئی مُلک ایسا نہیں جو ’’لبھی چیز خدا دی‘‘ میں شامل نہ ہو۔ میں ان کے اس جواب پر ہمیشہ حیران ہوتا ہوں کہ اتنے عقلمند ہونے کے باوجود شاید وہ سمجھتے ہیں کہ باقی دنیا پاگل ہے کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اسے سمجھ ہی نہیں سکتی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ لوگ ڈنڈے کے زور سے دبے ہوئے ہیں اور جانتے ہیں کہ اگر شور ڈالا تو جیل خانے میں جائیں گے ورنہ انہیں معلوم ہے کہ یہ تصرف بے جا ہے اور بہت بڑا ظلم ہے جس کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ اس بارہ میں وہ کتنا بڑا نشان ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت نے دکھایا۔ عیسائی کہا کرتے ہیں کہ تاریخ میں آتا ہے کہ اورنگ زیب نے یہ ظلم کیا یا تاریخ کے فلاں صفحہ پر آتا ہے کہ اس نے اس طرح ناانصافیاں کیں یا فلاں مسلمان بادشاہ کے متعلق آتا ہے کہ اس نے فردوسی کے ساتھ ساٹھ ہزار اشرفیوں کا وعدہ کر کے صرف ایک ہزار اشرفی دی۔ مگر پچھلی باتوں کو چھوڑ دو کہ ان کی صحت یا عدمِ صحت کا ہم کو علم نہیں وہ ذرا موجودہ زمانہ میں ہی اپنی حالت تو دیکھیں وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے اس طرح ظلم کئے لیکن وہ اپنے آپ کو تو دیکھیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ جو قومیں مسلمانوں کے قبضہ کرنے سے پہلے موجود اور مسلمانوں کے چلے جانے کے بعد موجود رہیں وہ انگریزوں کے زمانے میں مفقود ہو گئیں۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے موجودہ دنیا کی عمر تو چھ ہزار سال ہے لیکن انگریزوں کے نقطۂ نگاہ سے دنیا کی عمر بیس لاکھ سال ہے ہم انگریزوں کے نقطۂ نگاہ کو ہی بالفرض تسلیم کر لیں تب بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جو نسلیں بیس بیس لاکھ سال سے چلی آ رہی تھیں اور مسلمانوں کے زمانے میں بھی قائم رہیں وہ یورپین قوموں کے قبضہ میں آتے ہی تباہ ہوگئیں۔ یورپین آسٹریلیا میں گئے، افریقہ میں گئے جہاں بھی گئے وہاں کی اصلی قومیں غائب ہونی شروع ہوگئیں۔ صاف ظاہر ہے کہ جب وہاں کے اصلی باشندوں کی زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا، حکومت سے اُنہیں علیحدہ کر کے بے دخل کر دیا گیا اور اپنا غلام بنا لیا گیا تو انہیں زندگی کے ساتھ دلچسپی نہ رہی اور جب کسی انسان کو زندگی سے دلچسپی نہ رہے تو وہ زندہ رہنے کی خواہش ہی نہیں کرتا۔ سمجھتا ہے کہ جب کسی چیز میں میرا دخل ہی نہیں تو میں نے زندہ رہ کر کیا کرنا ہے اس طرح وہ قومیں جو بے دخل ہو جاتیں ہیں خود بخود فنا ہو جاتی ہیں۔ ایک عربی شاعر کے کچھ شعر ہیں جو مجھ کو یاد تو نہیں لیکن وہ شعر تاریخی ہیں اور اُس نے بہت دردناک پیرائے میں بیان کئے ہیں۔ جب گذشتہ جنگ ختم ہوئی اور اتحادی ملکوں میں فتح کی خوشیاں منائی گئیں تو اس نے کچھ شعر کہے جن کا مفہوم یہ ہے کہ اتحادیوں نے جنگ فتح کر لی ہے اور لوگ خوش خوش گھروں کو آ رہے ہیں وہ آئیں گے اور خوشیاں منائیں گے۔ پر اے میرے بھائی! تو اُن کی خوشی میں شامل نہ ہونا کیونکہ یورپین تو اپنے گھروں کو خوشیاں منانے آ رہے ہیں پر تیرا کونسا گھر ہے جہاں تو آکر خوشیاں منائے گا۔ ہاں تیرا گھر تھا لیکن وہاں پر تو غیروں نے قبضہ کر لیا ہے اب تیرے پاس کچھ نہیں۔ فلسطین تیرا گھر تھا لیکن اب نہیں کیونکہ فلسطین پر تو غیروں کا قبضہ ہے۔ وہ لوگ آئیں گے اور خوشیاں منائیں گے اِس لئے کہ اُن کے لئے دنیا میں رہنے کے لئے جگہ ہے لیکن تیرے پاس کونسی جگہ ہے۔ ان کے پاس تجارت ہے پر تیرے پاس کونسی تجارت ہے غرض تیرا تو کچھ بھی نہیں۔ پھر آخر میں کہتا ہے اے میرے بھائی! تیرے لئے دنیا میں کچھ نہیں۔ اب تیرا کام یہ ہے کہ بیلچہ پکڑ اور میرے ساتھ مل، پھر ہم دونوں ایک خندق کھودیں اور خندق کھود کر اپنے مقتولوں کو اُس میں دفن کر دیں یہ ہماری خوشی کا وقت نہیں۔ چونکہ شاعر کی غرض دنیا ہوتی ہے اس لئے وہ خندق کھود کر مُردوں کو دفن کر دیتا ہے۔ پھر کہتا ہے اے بھائی! اب ہم نے اپنے مُردوں کو تو دفن کر لیا ہے اب آ تا کہ ہم ایک اور خندق کھودیں اور اس میں ہم اپنے آپ کو اور اپنے زندوں کو دفن کر لیں کیونکہ ہمارے لئے دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ حالت ہے جو انگریزوں نے بنا دی ہے۔ جس طرف بھی دیکھو یہ قبضہ کئے بیٹھے ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ ہم تمہاری حفاظت کے لئے بیٹھے ہیں اپنے کسی فائدہ کے لئے نہیں۔ امریکہ کے پریذیڈنٹ جو صلح اور انصاف کے نعرے بلند کرتے ہیں، اُن کا ایک مضمون چھپا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہم کسی پر بے جا قبضہ پسند نہیں کرتے لیکن اِردگرد کے چھوٹے چھوٹے مُلک جن کا اپنے قبضہ میں رکھنا ہماری حفاظت کیلئے ضروری ہے ہم صرف اُن پر قبضہ رکھیں گے۔ یہ بات وہی ہے جو یورپین قومیں کہتی ہیں، یہی انگریز کہتے ہیں، یہی فرانسیسی کہتے ہیں اور یہی جرمن والے کہتے ہیں کہ اگر فلاں فلاں مُلک ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو ہماری حفاظت خطرہ میں پڑ جائے گی۔ اب انڈونیشیا کے باشندوں نے جو اپنی آزادی کا عَلم بلند کیا ہے تو فرانسیسیوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ اگر یہ مُلک ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو ہم کیا کریں گے اور انگریزی فوجیں ان کی مدد کر رہی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا دوسروں کو اپنی حفاظت کی ضرورت نہیں؟ آخر ان بیچاروں کا کیا قصور ہے کہ امریکہ والے ان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور ان سے کونسی ایسی خطا سرزد ہوگئی ہے جس کی بناء پر وہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتے۔ غرض یہ غاصب خود تو دوسرے ملکوں پر بے جا تصرف کرتے ہیں لیکن جب ان پر حملہ ہوتا ہے تو انصاف انصاف پکارنے لگ جاتے ہیں۔ اٹلی والوں نے جب ایبے سینیا (ABAY SENIA) پر حملہ کیا اور انگریزوں نے شور مچایا تو گو اٹلی والوں نے بھی اس کا جواب دیا مگر جرمنی نے اس کا جو جواب دیا وہ بہت خوب تھا۔ اُس نے کہا صرف تم ہی اتنے عرصہ سے دنیا کو مہذب بنانے کی کوشش کر رہے ہو اور ہمیں اس میں شامل نہیں کرتے۔ تم اس غرض کے لئے ہندوستان اور دوسرے ممالک پر قبضہ کئے بیٹھے ہو اب ہمیں بھی اس نیک کام میں حصہ لینے دو اور ہمیں بھی دنیا میں تھوڑی سی تہذیب پھیلانے دو۔ پس یہ کہہ دینا کہ ہم تمہارے فائدہ کے لئے آئے ہیں نہایت فضول بات ہے تمہیں ان سے کیا۔ ہر شخص اپنا فائدہ سمجھتا ہے اگر وہ نہیں سمجھتا تو وہ اپنی تباہی آپ مول لیتا ہے دوسرے کو اس سے کیا تعلق۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے ٹاٹا والے کسی رئیس کے روپیہ پر اِس لئے قبضہ کر لیں کہ وہ شرابی ہے اور اپنا مال صحیح طور پر استعمال نہیں کرتا بلکہ ضائع کرتا ہے اگر وہ ایسا کریں تو کیا کوئی شخص ان کی اس بات کو تسلیم کرلے گا؟ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ چونکہ وہ اپنی جائداد شراب نوشی میں اُڑا رہا ہے یا کنچنیوں کا ناچ کروا کر اور اس طرح دوسرے بیہودہ افعال پر اپنا مال ضائع کر رہا تھا اس لئے ٹاٹا والوں نے جو کچھ کیا اچھا کیا۔ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہو سکتا جو اس قسم کے فعل کو جائز قرار دے ہر شخص انہیں مجرم قرار دے گا اور کہے گا تمہیں اس سے کیا غرض کہ وہ اس کو شراب نوشی یا دوسرے لغو کاموں پر کیوں ضائع کرتا ہے، تم اس کے روپیہ پر قبضہ کرنے والے کون ہو۔ یہ حیلہ سازیاں ہیں جو یورپین قوموں کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں اور جن کو لوگ کمزور ہونے کی وجہ سے برداشت کر رہے ہیں۔ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی بھیڑیا کسی نہر کے کنارے اوپر کی طرف کھڑا ہو کر پانی پی رہا تھا اور نچلی طرف ایک بکری کا بچہ پانی پی رہا تھاـ بھیڑیئے کا دل للچایا اور اُس نے چاہا کہ کسی بہانے اُسے کھا جاؤں۔ اُس نے کہا کیوں بے نالائق۔ اب تیری یہ جرأت کہ ہمارا پانی گدلا کرتا ہے؟ اس نے کہا حضور اوپر کی طرف کھڑے پانی پی رہے ہیں اور میں نچلی طرف اس لئے آپ کا گدلا پانی تو میری طرف آ سکتا ہے میرا گدلا پانی آپ کی طرف نہیں جا سکتا۔ بھیڑیئے نے غصے سے اُس پر جھپٹ کر کہا۔ اچھا! اب آگے سے جواب دیتا ہے۔ یہی حالت غالب قوموں کی ہوتی ہے وہ اپنی مرضی چلاتی ہیں اور جو بات دل میں آئے خواہ وہ کتنی ہی احمقانہ ہو اُس پر عمل شروع کر دیتی ہیں۔
جب دنیا کے ایسے گندے حالات ہو جاتے ہیں اور لوگ ظلم میں انتہائی مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ کے نبی آتے ہیں۔ اُن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں انصاف قائم کریں لیکن سوال یہ ہے کہ جو تربیت نبی آ کر کرتے ہیں اور جو اخلاق نبی کے آنے سے کسی کو حاصل ہوتے ہیں وہ تربیت اور وہ اخلاق ہماری جماعت کو حاصل ہیں یا نہیں۔ مَیں نے اپنی جماعت میں بھی یہ نقص دیکھا ہے کہ جب کوئی کسی کی چیز لیتا ہے مثلاً کسی کا مکان کرائے پر لیتا ہے تو اُس کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اگر میرا زور چلے تو میں کرایہ نہ دوں اور صرف یہی نہیں بلکہ اُس مکان پر قبضہ کرکے وہیں بیٹھا رہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آئے ہوئے اتنا عرصہ ہو گیا لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری ترقی نہیں ہوئی۔ میرے نزدیک اِس کی وجہ یہی ہے کہ ابھی تک جماعت نے وہ اخلاق پیدا نہیں کئے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پس اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرو تا تمہیں ترقی ملے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ مظلوم کو بھیڑیئے کے منہ سے نکال کر طبیب کے سپرد کر دے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ مظلوم کو ایک بھیڑیئے کے منہ سے نکال کر دوسرے بھیڑیئے کے منہ میں دے دے۔ پس جب تک ہماری جماعت وہ اخلاق پیدا نہ کر لے جو انبیاء کی جماعتوں میں ہونے چاہئیں اُس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل نازل نہیں ہو سکتے۔ اگر اِن بُرے اخلاق کے باوجود ہم میں حکومت آ جائے تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ خداتعالیٰ (نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ)خود اِس ظلم میں شریک ہوگا اور یہ مظلوم کو بھیڑیئے کے منہ سے نکال کر طبیب کے سپرد کرنے والی بات نہیں ہوگی بلکہ ایک مظلوم کو ایک بھیڑیئے کے منہ سے نکال کر دوسرے بھیڑیئے کے منہ میں دینے والی بات ہو جائے گی۔ صرف فرق یہ ہوگا کہ انگریزوں کے ہاتھ سے نکل کر احمدیوں کے ہاتھ میں مال آ جائے گا ورنہ انگریز بھی ویسے اور احمدی بھی ویسے۔ لیکن اگر احمدیوں کے اخلاق ایسے ہوں گے کہ وہ لوگوں کے مالوں کی حفاظت کرنے والے اور اُن پر احسان کرنے والے ہوں گے تو وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں گے۔
مجھے ایک شخص مکان کے مقدمہ کے بارہ میں ملنے آیا میں نے اُسے سمجھانے کی غرض سے کہا دیکھو! تم فوج میں ملازم ہو۔ سال میں ۱۵،۲۰ دن کے لئے تم آئے ہو اتنا عرصہ تم مہمان خانہ میں یا اپنے کسی دوست کے ہاں ٹھہر سکتے ہو اِس وقت مکان نہیں ملتے۔ اگر تم نے ان کو اپنے پندرہ دن کے آرام کے لئے نکالا تو ان کو بڑی تکلیف ہوگی۔ صحابہؓ نے تو باہر سے آنے والوں کو اپنی جائدادیں دے دی تھیں بلکہ باہر سے آنے والوں کے ساتھ اس سے بڑھ کر یہ سلوک بھی کیا کہ ان میں سے بعض اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو اپنے بھائی کی خاطر طلاق دینے کے لئے تیار ہوگئے تھے تا کہ وہ اُس سے شادی کر لے لیکن ہماری یہ حالت ہے کہ ہم اپنے پندرہ یا زیادہ سے زیادہ بیس دن کے آرام کے لئے ان کو جنہوں نے مکان میں ساڑھے گیارہ مہینے رہنا ہے چاہتے ہیں کہ نکال دیں۔ میں نے اس کو اس طرح نصیحت کی اور دیکھا کہ میری نصیحت کا اس پر اثر تھا لیکن اس نے کہا حضور! میں تسلیم کرتا ہوں کہ انہیں اس طرح دِق کرنا میری غلطی ہے لیکن آپ ان سے دریافت کر لیں انہوں نے آٹھ نو ماہ سے تو کرایہ بھی ادا نہیں کیا جس کی وجہ سے میں ان کو نکالنے پر مجبور ہوں۔ میں نے کہا یہ بات تو معقول ہے اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ اس وقت میری عجیب حالت ہوگئی کہ دیکھو میں نے اس کے دل کو نرم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے ایک ایسی بات پیش کر دی ہے جس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ اگر دوسرے نے کرایہ دیا ہوا ہوتا تو میں نے میدان مار لیا تھا مگر چونکہ وہ آٹھ نو ماہ کا کرایہ بھی کھا جانا چاہتا تھا اور مکان پر قبضہ بھی جمائے رکھنا چاہتا تھا اِس لئے میری حالت اُس وقت ویسی ہی ہوگئی جیسے کہتے ہیں کہ پٹھان نے ایک ہندو کو پکڑ لیا اور کہا کلمہ پڑھو۔ کہنے لگا میں کس طرح پڑھوں میں تو ہندو ہوں۔ پٹھان کہنے لگا خو کلمہ پڑھو ہم ہندو وندو نہیں جانتاتم کو کلمہ پڑھانے سے ہم جنت میں چلا جائے گا۔ اصل بات یہ تھی کہ اُس نے سنا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی کو مسلمان بنا دے تو وہ سیدھا جنت میں چلا جاتا ہے اِس لئے اس نے کہا خواہ تو ہندو ہے یا کوئی اور آج تجھے کلمہ پڑھا کر چھوڑنا ہے۔ اُس نے تلوار نکال لی اور کہا کلمہ پڑھ نہیں تو ابھی مارتا ہوں۔ وہ بیچارہ منتیں کرکے وقت گزارتا رہا اور اِدھر اُدھر دیکھتا رہا کہ شاید کوئی آ جائے اور میں بچ جاؤں لیکن اُس کی بدقسمتی کہ کافی دیر تک کوئی نہ آیا۔ لالوں کو جان پیاری ہوتی ہے آخر تنگ آکر کہنے لگا اچھا کلمہ پڑھاؤ۔ پٹھان نے کہا خو تم خود پڑھو۔ اُس نے کہا میں ہندو ہوں مجھے کہاں آتا ہے۔ کہنے لگا خو تمہارا قسمت خراب ہے کلمہ تو ہم کو بھی نہیں آتا اگر کلمہ آتا تو آج تم کو مسلمان بنا کر ہم جنت میں چلا جاتا۔ اِسی طرح میں نے نصیحت کر کے اُس کے دل کو نرم کیا اور جب نرم کر لیا تو اُس نے ایسا جواب دیا کہ میرا کلمہ وہیں رہ گیا اب میں اُسے کیا جواب دیتا۔ اگر اس نے کرایہ ادا کیا ہوتا تو میں اسے کلمہ پڑھا لیتا لیکن اس کے جواب کے بعد میں کیا کر سکتا تھا۔ پس مومنوں کو دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں چست ہونا چاہئے۔
صحابہؓ میں نیکی کا اتنا غلبہ تھا کہ ایک صحابی کسی دوسرے صحابی کے پاس اپنا گھوڑا بیچنے آئے انہوں نے پوچھا کیا قیمت ہے؟ اُس نے کہا ایک ہزار درہم۔ اُس نے گھوڑے کو دیکھ کر کہا تم نے اِس کا کم مول لگایا ہے اِس کی قیمت تو دو ہزار درہم ہے ۔مالک نے کہا اس کی قیمت ایک ہزار درہم ہے میں صدقہ لینا نہیں چاہتا، میں ایک ہزار درہم ہی لوں گا۔ اُس نے کہا میں کسی کا مال کھانا نہیں چاہتا اِس کی قیمت دو ہزار درہم ہے اور میں دو ہزار درہم ہی دوں گا۔ ہوتے ہوتے یہ بات قاضی کے سامنے پیش ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ یہ گھوڑا دو ہزار کا ہے۔ پھر اُس نے وہ رقم لی۳؎۔ اب دیکھو لینے والا کم بتاتا ہے اور دینے والا زیادہ بتاتا ہے۔ لیکن لینے والا کہتا ہے یہ صدقہ ہے میں نہیں لینا چاہتا اور دینے والا کہتا ہے میں زیادہ دوں گا میں کسی کا مال نہیں کھانا چاہتا۔ یہی چیز تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو حکومت دی۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ جب مسلمان یروشلم کو (جس پر کہ ان کا قبضہ تھا) کسی وجہ سے چھوڑ کر واپس آنے لگے تو بجائے اس کے کہ اس وقت اہلِ شہر جو عیسائی تھے خوش ہوتے کہ مسلمان ہمارے مُلک سے نکل گئے ہیں اور اب ہماری اپنی حکومت ہوگی۔ وہ روتے ہوئے اُن کے ساتھ شہر سے باہر آئے وہ روتے تھے اور دعائیں کرتے تھے کہ خدا آپ لوگوں کو پھر ہمارے شہر میں واپس لائے۴؎۔ اِس نیکی کو پیدا کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دنیا میں تشریف لائے اور آپ نے ایک جماعت قائم کی اب ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ ایسے اخلاق پیدا کرے جو نہایت اعلیٰ درجہ کے ہوں اور جن سے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بن جائے۔
مَیں نے یورپین قوموں کی جہاں بُرائی بیان کی ہے وہاں اُن کی ایک خوبی بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں۔ ان میں یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ قانون کو قائم رکھتے ہیں جہاں وہ لوگوں کی جائدادوں پر قبضہ کر لیتے ہیں وہاں جو قانون بناتے ہیں اُس پر عمل بھی کرتے ہیں لیکن ہمارے مُلک کے لوگ خواہ کسی درجہ کے ہوں وہ اِس کی پرواہ نہیں کرتے۔ اِسی وجہ سے جب کسی انگریز کے پاس مقدمہ چلا جائے تو کہتے ہیں کہ انصاف ہو جائے اور جب مقدمہ کسی ہندوستانی کے پاس جائے تو کہتے ہیں کہ انصاف کی کوئی امید نہیںیہاں سفارش چل جائے گی۔ حتیّٰ کہ ججوں کے متعلق شبہ کرتے ہیں یہ شبہ چاہے غلط ہو یا درست آخر شبہ ہندوستانیوں کو اپنے بھائیوں کے متعلق کیوں پڑتا ہے، اور انگریز جو غیر قوم ہے اس کے متعلق کیوں نہیں ہوتا اسی لئے کہ اگرچہ یورپین لوگ ایک ایسی تلوار ہیں جو قوموں کی قوموں کو کاٹتی چلی جاتی ہیں لیکن جو خاص جوڈیشنل معاملات ہیں اُن میں وہ انصاف کو پوری طرح مدنظر رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے دوسروں پر ان کا اچھا اثر ہوتا ہے اور وہ اپنی ملکی حکومت کی بجائے غیر قوموں کی حکومت کو پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ جرمنی کے جنگی مجرموں پر جو مقدمات ہو رہے ہیں ان میں انگریز مجسٹریٹ ہیں اور وکیل بھی۔ انگریز ہیں لیکن انہیں وکالت کرتے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کو یہ یاد ہی نہیں کہ وہ اتنا لمبا عرصہ اُن سے برسرِپیکار رہے ہیں بلکہ وہ اس طرح جرح کرتے ہیں اور اس شدت کے ساتھ وکالت کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کے کوئی عزیز و اقارب ہیں جن کے لئے وہ اتنی بیتابی اور شدت سے جرح کر رہے ہیں۔ یہی انصاف کی روح ہے جس کی وجہ سے غیر قومیں ان کو پسند کرتی ہیں۔ پس جہاں ان میں ایک رنگ کا ظلم پایا جاتا ہے وہاں ایک رنگ کا انصاف بھی پایا جاتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اُن کی بُری عادت کو چھوڑ دیں اور اچھی عادت کو لے لیں اور ان اخلاق میں ان سے بھی بہتر نمونہ دکھائیں۔
پھر تجارت کو دیکھ لو انگلستان میں خصوصاً اور باقی یورپ میں عموماً یہ خوبی ہے کہ وہ جو چیزیں بناتے ہیں معیاری بناتے ہیں۔ یہاں سے بیٹھے بیٹھے ان سے دس لاکھ کا سَودا کر لو تو اس کے بعد بہت حد تک اطمینان ہوتا ہے کہ جیسی چیز مانگی ہے ویسی ہی مل جائے گی۔ لیکن یہاں پر اگر سامنے بھی سارا مال لیا جائے تو ڈر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دھوکا نہ ہو اور یہ واقعہ ہے کہ یہاں سر پر بیٹھے لوگ دھوکا کر لیتے ہیں۔ ہم ایک دفعہ کشمیر گئے اُس وقت میری عمر بیس سال کی تھی ہمارے ساتھ مولوی سید سرور شاہ صاحب بھی تھے۔ کشمیر میں عام طور پر گبھے بنائے جاتے ہیں جو پُرانے اور پھٹے ہوئے قالینوں سے تیار کئے جاتے ہیں لیکن جب گبھا بن جاتا ہے تو اُس پر مختلف رنگ دیئے جاتے ہیں اور پھر اُس پر ریشم کے دھاگے سے پھول بنا دیتے ہیں اور وہ اچھا خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔ میں نے بھی گبھا بنوایا۔ کمرے کے لحاظ سے بنانے والے کو مَیں نے سائز بتایا کہ اتنا لمبا اور اتنا چوڑا ہو۔ چند دنوں کے بعد اس سے دریافت کیا گیا کہ گبھا تیار ہو گیا ہے یا نہیں؟ اُس نے کہا تیار ہے۔ میں نے دیکھا تو وہ لمبائی اور چوڑائی میں ایک ایک فٹ چھوٹا تھا اور اس سے قیمت میں کئی روپے کا فرق پڑ جاتا تھا۔ پھر وہ کمرے کے لحاظ سے مناسب بھی نہیں تھا۔ میں نے اُسے کہا کہ میں تو اسے لینے کے لئے تیار نہیں یہ تو بہت چھوٹا ہے۔ میں نے تو تمہیں کہہ دیا تھا کہ آٹھ فٹ لمبائی اور پانچ فٹ چوڑائی یعنی چالیس مربع فٹ ہو لیکن تم نے تو سات فٹ لمبا اور چار فٹ چوڑا یعنی اٹھائیس مربع فٹ کا گبھا بنایا ہے اور ۱۲ مربع فٹ کا فرق ڈال دیا ہے جو بہت بڑا فرق ہے۔ ایک تو تم نے مجھے دھوکا دیا ہے دوسرے اتنا چھوٹا ہو جانے کی وجہ سے اب یہ میرے کام کا بھی نہیں رہاکیونکہ میں نے یہ اپنے ایک دوست کے کمرے کا سائز لے کر اُس کو بطور تحفہ پیش کرنے کے لئے بنوایا تھا لیکن اب یہ اس کمرے میں بھدا معلوم ہوگا اس لئے میں اسے پیش نہیں کر سکتا اور یہ اب میرے کام کا نہیں رہا۔ میری یہ بات سن کر اس نے بچوں کی طرح بڑی اونچی آواز سے رونا شروع کر دیا کہ مجھ پر رحم کرو میں مسلمان ہوں۔ وہ یہ فقرہ بار بار دُہرائے اور مجھے غصہ چڑھے کہ یہ کیوں کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اِس لئے مجھ پر رحم کرو کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا تھا کہ میں مسلمان ہوں اس لئے میں کیوں دھوکا نہ کروں یہ میرا ہی حق ہے کہ میں دھوکا کروں۔ اگرچہ اس کا مطلب یہ نہ تھا لیکن اس سے نکلتا یہی تھا۔ اصل میں اُس کا مطلب یہ تھا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے اور تم میرے مسلمان بھائی ہو اس لئے تم مجھے معاف کر دو۔ اُس کے شور کو سن کر لوگ اکٹھے ہوگئے اور کہنے لگے بے چارہ غریب ہے غلطی کر بیٹھا ہے آپ اسے معاف کر دیں اور رقم اسے دے دیں۔ میں نے کہا میں تو دینے کے لئے تیار ہوں لیکن یہ کیوں کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اس لئے مجھے چھوڑ دو گویا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے فریب اور دھوکا کرنا اس کا حق ہے سیدھی طرح کہے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے درگزر کر دیں آئندہ اس طرح نہیں کروں گا۔ یہ آجکل کے مسلمانوں کی حالت ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ فریب کرنا ہمارا حق ہے۔ اگر فریب کرنا ہمارا حق نہیں تو اور کس کا ہے۔ اسی طرح انگریز بند ڈبوں میں دودھ بیچتے ہیں اور اس میں کوئی ملونی نہیں ہوتی لیکن ہمارے ہاں جو دودھ بیچتے ہیں اس میں عام طور پر پانی ملا ہوا ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا واقعہ ہے کہ میر محمد اسحاق صاحب کو ایک دفعہ یہ خیال پیدا ہوا کہ کسی طرح ان دھوکے بازوں کو پکڑا جائے۔ اُنہوں نے ایک آلہ منگوایا جس سے کہ معلوم ہو جاتا ہے کہ دودھ میں ملونی ہے یا نہیں۔ اس آلے میں ایک مقام پر ایک نشان لگا ہوتا ہے جو دودھ کے وزن کے مطابق ہوتا ہے (ہر چیز کا ایک خاص وزن ہوتا ہے اور دودھ کا بھی ایک وزن ہوتا ہے) اگر اس نشان تک آلہ دودھ میں رہے تو دودھ ٹھیک سمجھا جاتا ہے اور اگر وہ آلہ اس نشان سے اونچا رہے تو سمجھا جاتا ہے کہ دودھ میں پانی ملایا گیا ہے۔ چونکہ پانی کا وزن کم ہوتا ہے اور دودھ کا زیادہ اس لئے جب پانی دودھ میں ملتا ہے تو دونوں کا وزن مل کر ایک نیا وزن بن جاتا ہے جو کہ دودھ کے وزن سے ہلکا ہوتا ہے اور آلہ اس نشان تک دودھ میں نہیں ڈوبتا جتنا خالص دودھ ہونے کی وجہ سے ڈوبنا چاہئے اس طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ دودھ میں پانی ملایا گیا ہے۔ وہ آلہ منگوا کر میر صاحب نے شہر میں پھرنا شروع کر دیا اور جس نے بھی دودھ بیچنے کے لئے آنا کہنا کہ دودھ دکھاؤ۔ اگر ٹھیک ہوتا تو اس کو کہہ دینا ٹھیک ہے جاؤ اور بیچو اور اگر آلہ نے دودھ کو ناقص بتانا تو ان کو دودھ بیچنے سے منع کر دینا۔ یہ ان کا مشغلہ ہو گیا تھا کہ سارا دن اِدھر اُدھر پھرنا اور جس کو دیکھنا بلانا اور آلہ لگانا ۔اُس وقت ہسپتال اس چوک میں جہاں پر کہ بُک ڈپو ہے ہوتا تھا اور غالباً ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب وہاں کام کرتے تھے۔ بہرحال جو بھی تھے انہوں نے ایک شخص کے متعلق کہا کہ آلہ کے ذریعہ ہم نے کئی دفعہ اِس کا دودھ دیکھا ہے اور یہ دودھ ٹھیک ہے۔ اس لئے دودھ اس سے لیا جائے ۔مگر اتفاق ایسا ہوا کہ ایک دفعہ وہی شخص برتن میں سے ایک گڑوی دودھ نکال کر کسی کو دینے لگا تو اس میں سے چھوٹی سی مچھلی کود کر باہر آپڑی۔ اصل میں وہ ہوشیار آدمی تھا اس نے جب دیکھا کہ یہ آلہ لگاتے ہیں تو اس نے ڈھاب کا پانی ڈالنا شروع کر دیا۔ ڈھاب کے پانی میں مٹی ملی ہوئی ہوتی ہے اور مٹی بھاری ہوتی ہے اس لئے پانی کا وزن زیادہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے آلہ اس مقررہ نشان تک پہنچ جاتا اور دھوکا بازی کا پتہ نہ لگتا۔ لوگ سمجھتے کہ بڑا دیانتدار ہے کیونکہ آلہ دودھ کے مقررہ نشان تک پہنچ جاتا ہے لیکن ایک دن مچھلی کود کر باہر آ پڑی تو پھر اُس کی چالاکی کا علم ہوا۔ جس قوم میں دھیلے دھیلے اور دمڑی دمڑی کے لئے اتنی دھوکا بازی کی جاتی ہو اور جو قوم دمڑی دمڑی پر اتنی حریص ہو اور جس قوم کے ایسے اخلاق ہوں وہ لوگوں پر کیا رُعب قائم رکھ سکتی ہے۔
اسی طرح ہماری جماعت میں اور بھی کئی ایسے اخلاق کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً جب میں ڈلہوزی میں تھا ہم ایک گجر سے دودھ لیا کرتے تھے، میرے ملازم نے ایک دن مجھے بتایا کہ وہ دودھ میں پانی ڈالتا ہے۔ میں نے اُسے ڈانٹ کر کہا کہ تم اس کے متعلق کیوں بدظنی کرتے ہو؟ مگر بعد میں لوگوں نے مجھے بتایا کہ اس کو دودھ میں پانی ڈالتے ہوئے دیکھا گیا ہے تب مجھے معلوم ہوا کہ بات ٹھیک تھی۔ ایک دن تو لطیفہ ہو گیا۔ ہمارے مہمان زیادہ ہوگئے اِس لئے ہم نے دودھ بجائے سات سیر لینے کے دس سیر لینا شروع کیا۔ دوسرے چوتھے دن چند دوست اُس کو پکڑ کر میرے پاس لائے اور کہا کہ ہم نے اِس کو دودھ میں پانی ڈالتے دیکھا ہے۔ میں نے تحقیقات کروائی تو گوالے نے کہا کہ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میری بھینس سات سیر دودھ دیتی ہے زیادہ نہیں دیتی اِس لئے میں کہاں سے دس سیر لاؤں لیکن یہ کہتے تھے کہ ہم نے ضرور دس سیر دودھ لینا ہے۔ آخر میں کیا کر سکتا تھا میں نے پانی ڈالنا شروع کر دیا تا کہ دس سیر پورا کیا جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سادہ آدمی تھا اُس نے یہ کام دھوکا دینے کیلئے نہیں کیا بلکہ اُس نے سمجھا کہ جب وہ خود دس سیر کہتے ہیں تو اِس کا مطلب صاف ہے کہ پانی ڈال کر دس سیر دودھ پورا کر لو اس لئے میں پانی ڈال کر دیتا ہوں۔ یہ بات تو الگ رہی ڈلہوزی میں تویہ ہوتا ہے کہ دودھ بیچنے والے کہتے ہیں کہ روپے کا تین سیر والا لینا ہے یا روپے کا پانچ سیر والا یا روپے کا سات سیر والا۔ اگر کوئی لالچ میں آ جائے اور سات سیر والا دودھ مانگے تو اس کے سامنے نلکے میں سے ڈیڑھ پاؤ دودھ میں قریباً اڑھائی پاؤ پانی ملا کر اُسے دے دیتے ہیں۔ غرض تجارتی معاملات میں ہندوستانیوں میں عام طور پر دیانت داری نہیں پائی جاتی لیکن یورپین قومیں ان باتوں میں نہایت دیانت دار ہوتی ہیں۔ ان کی چیز اگر خراب ہو جائے تو وہ اسے فوراً پھینک دیں گے لیکن ہمارے مُلک کے تاجر اُن کو پھینکتے نہیں بلکہ سستے داموں بیچنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ہر چیز کا ایک سٹینڈرڈ (STANDERD) ہونا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ اس معیار سے چیز نہ گرے اور اگر گرے تو اس کو بیچا نہ جائے۔ اگر اس کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو کوئی کارخانہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔
ہمارے قادیان میں ہی کئی کارخانے ہیں اور اچھے چل رہے ہیں۔ـ پچھلی دفعہ جب میں لاہور گیا تو بعض بڑے بڑے ماہروں نے تسلیم کیا کہ قادیان اتنی ترقی کر گیا ہے کہ ہندوستان کے کسی اور شہر میں اتنی ترقی نہیں ہوئی لیکن وہ اور دوسرے مال لینے والے سب یہی شکوہ کرتے تھے کہ کارخانوں کا ایک سٹینڈرڈ نہیں بلکہ کبھی اعلیٰ چیز تیار ہو جاتی ہے اور کبھی ادنیٰ۔ اس کے مقابلہ میں انگلستان کی لاکھوں فرمیں ہیں مگر ان کا سٹینڈرڈ قائم ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے چیکرز رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب کارخانے سے باہر مال جانے لگتا ہے تو وہ پہلے مال کو چیک کرتے ہیں اور جو چیز سٹینڈرڈ سے کم ہو اُسے ردّی قرار دے کر باہر نہیں جانے دیتے بلکہ ضائع کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں چیزوں کا سٹینڈرڈ نہ ہونے کی دو وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں چیکرز نہیں۔ دوسرے کارخانہ والے اپنے مال کو جان بوجھ کر چاہے وہ کتنا ہی ردّی ہو باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور ردّی چیز کو کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں اور چونکہ مال لینے والے بھی ہندوستانی ہوتے ہیں وہ بھی سستا مال دیکھ کر خرید لیتے ہیں۔ اگر ایک چیز کارخانہ سے ایک روپیہ پر نکلتی ہے اور بازار میں ڈیڑھ روپیہ کی بکتی ہے تو ردّی مال لینے والے دُکاندار بجائے اِس کے کہ آٹھ آنے کی چیز ایک روپے میں بیچیں وہ ڈیڑھ روپے میں بیچتے ہیں اور اس طرح دوسرے لوگوں کو بھی دھوکے میں رکھتے ہیں کہ یہ اصل سٹینڈرڈ والی چیز ہے اور جب معلوم ہوتا ہے کہ وہ چیز خراب ہے تو وہ دکاندار کے پاس شکوہ کرتے ہیں اور دُکاندار کہتا ہے میں کیا کروں میں نے تو فلاں فرم کو آرڈر دے کر منگوائی تھی اس طرح کارخانہ والوں کی بدنامی ہوتی ہے۔ انگریزوں میں یہ بڑی خوبی ہے کہ وہ ہر چیز کے معیار کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میر مہدی حسن صاحب بھی اِس طرز کے آدمی تھے۔ میر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں چھپوائی کے انچارج تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کسی کتاب کی کاپی چھپتی تو وہ بڑے غور سے پڑھتے۔ اگر فل سٹاپ بھی غلط جگہ لگا ہوتا تو اُس کاپی کو تلف کر دیتے اور نئی لکھواتے۔ اِس طرح کام کرنے والے دو چار دن تک جب تک کہ نئی کاپی تیار نہ ہوتی یونہی بیٹھے رہتے۔ پھر جب وہ تیار ہوتی تو پھر وہ دیکھتے اور اگر کوئی غلطی دیکھتے تو پھر اسے تلف کر دیتے اور اُس وقت تک کتاب چھپنے نہ دیتے جب تک کہ اُنہیں یقین نہ آتا کہ اب اس میں کوئی غلطی نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دریافت فرماتے کہ اتنی دیر کیوں لگائی۔ تو وہ کہتے حضور ابھی پروف میں بڑی غلطیاں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی صاف اور اچھی چیز چاہتے تھے اِس لئے آپ کبھی بھی اِس بات کا خیال نہ فرماتے کہ مزدور اور کام کرنے والے یونہی بیٹھے ہیں اور مفت کی تنخواہیں کھا رہے ہیں بلکہ آپ کی بھی یہ یہی خواہش ہوتی کہ لوگوں کے سامنے اچھی چیز پیش ہو۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ بھی عادت تھی کہ کتاب میں ذرا نقص ہوتا تو اس کو پھاڑ دینا اور فرمانا دوبارہ لکھو۔ کاتب نے پھر کتاب لکھنی اور اگر کہیں ذرا بھی نقص ہوتا تو اسے پھاڑ دینا اور جب تک اچھی کتابت نہ ہوتی اُس وقت تک مضمون چھپنے کے لئے نہ دینا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن سے کتابت کرواتے تھے وہ شروع میں تو احمدی نہیں تھے لیکن بعد میں احمدی ہوگئے اُن کا لڑکا بھی احمدی ہے۔ان میں یہ خوبی تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قدر پہنچانتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُن کی قدر پہچانتے تھے۔ باوجود غیر احمدی ہونے کے جب بھی حضرت صاحب کو کتابت کی ضرورت ہوتی انہوں نے قادیان آ جانا۔ اس زمانے میں تنخواہیں کم ہوتی تھیں پچیس روپے ماہوار اور روٹی کے لئے الاؤنس ملتا تھا۔ ان کی یہ عادت تھی کہ جب کام ختم ہونے کے قریب پہنچتا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آنا اور کہنا حضور! سلام عرض کرنے آیا ہوں مجھے اب گھر جانے کی اجازت دیں۔ آپ نے فرمانا کیوں اتنی جلدی کیا پڑی ہے۔ انہوں نے کہنا حضور! ضرور جانا ہے۔ آپ نے فرمانا ابھی تو کچھ کتابت باقی ہے کہنا حضور! روٹی پکانی پڑتی ہے۔ اِس پر سارا دن صرف ہو جاتا ہے، روٹی پکایا کروں یا کتابت کیا کروں، سارا دن روٹی پکانے میں لگ جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمانا آپ کی روٹی کا میں لنگر خانہ سے انتظام کروا دیتا ہوں۔ اس طرح اُن کو ۳۵ روپے تنخواہ مل جاتی اور روٹی مفت۔ کچھ دن کے بعد اُنہوں نے پھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنا حضور! سلام عرض کرنے آیا ہوں جانے کی اجازت چاہتا ہوں۔ حضرت صاحب نے پوچھنا کیوں کیا بات ہے؟ کہنا حضور! لنگر کی روٹی بھی کوئی روٹی ہے دال الگ پانی الگ اور نمک ہے ہی نہیں اور کسی وقت اتنی مرچیں ڈال دینی کہ آدمی کوسُوکھی روٹی کھانی پڑے یہ روٹی کھا کر کوئی انسان کام نہیں کر سکتا۔ آپ نے فرمانا اچھا بتاؤ کیا کروں؟ اُنہوں نے کہنا اس کے لئے کچھ رقم الگ دے دیا کریں اس مصیبت سے تو خود روٹی پکانے کی مصیبت اُٹھانا بہتر ہے میں خود روٹی پکا لیا کروں گا۔ حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے دس روپے اور بڑھا دینے اور کہنا لو اب آپ کو ۴۵ روپے ملا کریں گے۔ پھر اُنہوں نے دس دن کے بعد آ جانا اور کہنا حضور! سلام عرض کرنے آیا ہوں مجھے گھر جانے کی اجازت دیں۔ یہاں سارا دن روٹی پکاتا رہتا ہوں کام کیا کروں۔ آپ نے فرمانا پھر کیا کریں؟ کہنا حضور! لنگر خانے میں انتظام کروا دیں۔ آپ نے فرمانا اچھا تمہیں ۴۵ روپے ملتے رہیں گے اور کھانا بھی لنگر خانے میںلگوا دیتا ہوں۔ انہوں نے واپس آ کر پھر کام شروع کر دینا۔ کچھ دنوں کے بعد پھر آ جانا اور کہنا حضور! سلام عرض کرنے آیا ہوں جانے کی اجازت چاہتا ہوں۔ حضور نے پوچھنا کیا بات ہے؟ کہنا حضور! لنگر کی روٹی تو مجھ سے نہیں کھائی جاتی بھلا یہ بھی کوئی روٹی ہے آپ مجھے دس روپے روٹی کے لئے دے دیں میں خود انتظام کر لوں گا۔ حضرت صاحب نے دس روپے بڑھا کر ۵۵روپے کر دینے۔ چونکہ وہ حضرت صاحب کی طبیعت سے واقف تھے اُنہوں نے اپنے لڑکے کو سکھایا ہوا تھا کہ میں تیرے پیچھے پیچھے ڈنڈا لے کر بھاگوں گا اور تو شور مچاتے ہوئے حضرت صاحب کے کمرے میں گھس جانا اور اِس اِس طرح کہنا۔ چنانچہ باپ نے ڈنڈا لے کر اُس کے پیچھے بھاگنا اور اُس نے شور مچاتے اور چیختے چلاتے ہوئے حضرت صاحب کے کمرے میں گھس جانا اور کہنا حضور! مار دیا مار دیا۔ اتنے میں اس کے والد نے آ جانا اور کہنا باہر نکل تیری خبر لیتا ہوں۔ حضرت صاحب نے یہ حالت دیکھ کر پوچھنا کیا بات ہے کیوں چھوٹے بچے کو مارتے ہو؟ کہنا حضور! سات آٹھ دن ہوئے اس کو جوتی لے کر دی تھی وہ اس نے گم کر دی ہے۔ اس وقت میں خاموش رہا پھر لے کر دی وہ بھی گم کر دی۔ اب مجھ میں طاقت کہاں ہے کہ اِس کو اَور جوتی لے کر دوں میں اِسے سزا دوں گا۔ اگر آج سزا نہ دی تو کل پھر جوتی گم کر دے گا۔ حضرت صاحب نے فرمانا میاں! بتاؤ جوتی کتنے کی تھی؟ کہنا حضور! تین روپے کی۔ حضرت صاحب نے فرمانا اچھا یہ تین روپے لے لو اور اِس کو کچھ نہ کہو۔ اُنہوں نے تین روپے لے کر واپس آ جانا چار دن نہ گزرنے تو پھر لڑکے نے شور مچاتے ہوئے حضرت صاحب کے کمرے میں گھس جانا اور اُنہوں نے لاٹھی لے کر اُس کے پیچھے پیچھے آنا اور کہنا باہر نکل، اُس دن تو حضرت صاحب کے کہنے پر چھوڑ دیا تھا آج تو تجھے نہیں چھوڑنا۔ حضرت صاحب نے پوچھنا کیا بات ہے کیوں اِس بچے کو مارتے ہو؟ اُس نے کہنا حضور! اُس دن تو میں نے آپ کے کہنے پر چھوڑ دیا تھا آج اِسے نہیں چھوڑنا آج پھر یہ جوتی گم کر آیا ہے۔ حضرت صاحب نے فرمانا اسے نہ مارو جوتی کی قیمت مجھ سے لے لو۔ پھر انہوں نے جو رقم بتانی وصول کر کے لے جانی اور کہنا حضور! میں نے اِس دفعہ چھوڑنا تو نہیں تھا لیکن آپ کے فرمانے پر چھوڑ دیتا ہوں۔ غرض اِس طرح اُنہوں نے کرتے رہنا لیکن کتابت ایسی اچھی کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ اُن ہی سے اپنی کتابیں لکھوایا کرتے تھے اور یہ پسندنہیں کرتے تھے کہ کسی معمولی کاتب سے کتاب لکھوا کر خراب کی جائے کیونکہ اِس طرح کتاب کا معیار لوگوں کی نظروں میں کم ہو جاتا ہے۔ بہرحال ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرے اور نہ صرف وہ خوبیاں حاصل کرے جو انگریزوں میں پائی جاتی ہیں بلکہ اُن سے بھی بہتر خوبیاں اپنے اندر پیدا کرے تا کہ ہماری جماعت کا معیار بلند ہو اور لوگوں پر ہمارا رُعب قائم ہو۔
(الفضل ۲۹تا ۳۱؍ جولائی، ۲؍ اگست ۱۹۶۰ء)
۱؎ بربر: سوڈان کاا یک شہر
۲؎ کُلِّی: رقیق چیز
۳؎
۴؎ فتوح البلدان۔ بلاذری صفحہ۱۴۳،۱۴۴ مطبوعہ قاہرہ ۱۳۱۹ھ
نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو جاتی ہیں
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو جاتی ہیں
(تقریر فرمودہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۵ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام قادیان)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
انسانی زندگی ایک دَور بلکہ چند اَدوار کا نام ہے۔ ایک دَور چل کر ختم ہو جاتا ہے تو ایک اور دَور چل پڑتا ہے ۔ وہ ختم ہوتا ہے تو پھر ایک اور دَور ویسا ہی چل پڑتا ہے۔ جیسے رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات آتی ہے اِسی طرح ایک دَور کے بعد دوسرا چلتا چلا جاتا ہے اور الٰہی منشاء اِسی قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے دَور ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں۔ اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا اِن اَدوار کے لوگ ایک دوسرے کی نقلیں کر رہے ہیں۔ مؤمنوں کی باتیں ویسی ہی معلوم ہوتی ہیں جیسے پہلے مومنوں کی اور کافروں کی باتیں ویسی ہی معلوم ہوتی ہیں جیسی پہلے کافروں کی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حیرت کا اظہار فرماتا ہے کہ ۱؎ ان کافروں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ وہی باتیں کہتے ہیں جو پہلے نبیوں کو ان کے نہ ماننے والوں نے کہیں اور کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جو نئی ہو اور پہلے انبیاء کو ان کے مخالفوں نے نہ کہی ہو۔ عیسائی اور یہودی مصنّفین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمیں کیا علم ہے کہ پہلے انبیاء کے دشمنوں نے وہی اعتراض اپنے وقت کے نبیوں پر کئے تھے یا نہیں جو محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) پر کئے گئے اور ہمارے پاس کیا ثبوت ہے اِس بات کا جو محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہی کہ مجھے یہ الہام ہوا ہے کہ آدم کے دشمنوں نے بھی یہی اعتراض کئے تھے، نوحؑ کے دشمنوںنے بھی یہی اعتراض کئے تھے، ابراہیم ؑ کے دشمنوں نے بھی یہی اعتراض کئے تھے۔ یہ کہنا کہ یہ خبریں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کی گئی ہیں محض باتیں ہی باتیں ہیں اِن میں حقیقت کچھ بھی نہیں۔ بلکہ یہ قصے آدمؑ اور نوحؑ اور ابراہیم ؑ کے منہ سے کہلوا دیئے گئے ہیں۔ اگر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ نہ ملا ہوتا اور کوئی اِس بات کا ثبوت ہم سے مانگتا تو ہمیں مشکل پیش آتی لیکن اِس علم کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق بعینہٖ وہی باتیں کہی گئیں جو جہالت کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے کہی تھیں اور وہی اعتراض آپ پر کئے گئے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمنوں نے آپ پر کئے تھے۔ اِس سے ہم نے یقین کر لیا اور ہمارے لئے شک کی کوئی گنجائش نہ رہی کہ واقعی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمن وہی باتیں کہتے ہونگے جو حضرت آدمؑ ،حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ ،حضرت موسیٰ ؑاورحضرت عیسیٰ ؑکے دشمن کہتے تھے۔ کیونکہ آج ۱۳۰۰ سال کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمن آپ پر وہی اعتراض کرتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر آپ کے دشمنوں نے کئے اور ان میں اتنی مطابقت اور مشابہت ہوتی ہے کہ حیرت آتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمن جب آپ پر اعتراض کرتے تو آپ فرماتے یہی اعتراض آج سے ۱۳۰۰ سال پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر آپ کے مخالفین نے کئے تھے۔ جب وہ باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے قابلِ اعتراض نہ تھیں بلکہ آپ کی صداقت کی دلیل تھیں تو وہ میرے لئے کیوں قابلِ اعتراض بن گئی ہیں۔ پس جو جواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن کا دیا وہی جواب میں تمہیں دیتا ہوں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جواب میں یہ طریق اختیار فرماتے اور لوگوں پر اِس طریق سے حُجّت قائم کرتے تو مخالفین شور مچاتے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی برابری کرتا ہے حالانکہ یہ صاف بات ہے کہ جو اعتراض ابوجہل کرتا تھا جو شخص ان اعتراضوں کو دُہراتا ہے وہ مثیلِ ابوجہل ہے اور جس شخص پر وہ اعتراض کئے جاتے ہیں وہ مثیلِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے۔ پس ہر زمانہ میں مؤمنوں اور کافروں کی پہلے مؤمنوں اور کافروں سے مشابہت ہوتی چلی آئی ہے لیکن دنیا ہمیشہ اِس بات کو بھول جاتی ہے اور جب کبھی نیا دَور آتا ہے تو نئے سرے سے لوگوں کو یہ سبق دینا پڑتا ہے اور اِس اصول کو دنیا کے سامنے دُہرانا پڑتا ہے اور خدا کی طرف سے آنے والا لوگوں کے اِس اصول کو بھول جانے کی وجہ سے لوگوں سے گالیاں سنتا ہے اور ذلتیں برداشت کرتا ہے۔ اس کے اپنے اور بیگانے ،دوست اور دشمن سب مخالف ہو جاتے ہیں اور قریبی رشتہ دار سب سے بڑے دشمن بن جاتے ہیں۔
حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار پاس کے مکانوں میں نئے آنے والوں کو روکنے کے لئے بیٹھے رہتے تھے اور جب کوئی شخص مسلمانوں کے پاس آتا تو وہ رستہ میں اُسے روک لیتے اور سمجھاتے کہ یہ شخص ہمارے رشتہ داروں میں سے ہے، ہم اس کے قریبی رشتہ دار ہونے کے باوجود اِس کو نہیں مانتے کیونکہ ہم لوگ جانتے ہیں کہ سوائے جھوٹ کے اور کوئی بات نہیں۔ ہم آپ لوگوں سے اِس کو زیادہ جانتے ہیں، ہم سے زیادہ آپ کو واقفیت نہیں ہو سکتی، ہم اِس کے ہر ایک راز سے واقف ہیں بہتر ہے کہ آپ یہیں سے واپس چلے جائیں اِسی میں آپ کا فائدہ ہے۔ یہی حال ہم نے اُن کا دیکھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رشتہ دار تھے۔ اُن کی باتوں کو سن کر جو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف کیا کرتے اور ان کی حرکات کو دیکھ کر جو وہ باہر سے آنے والوں کو روکنے کے لئے کرتے انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے کہ ان کی باتوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے رشتہ داروں کی باتوں میں کس قدر مشابہت ہے۔
مرزا امام الدین سارا دن اپنے مکان کے سامنے بیٹھے رہتے۔ دن رات بھنگ گھٹا کرتی اور کچھ وظائف بھی ہوتے رہتے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھ کر انہوں نے پیری مریدی کا سلسلہ شروع کر لیا تھا۔ جب کوئی نیا احمدی باہر سے آتا یا کوئی ایسا آدمی جو احمدی تو نہ ہوتا لیکن تحقیق کے لئے قادیان آتا تو اُس کو بلا کر اپنے پاس بٹھا لیتے اور اُسے سمجھانا شروع کر دیتے۔ میاں! تم کہاں اِس کے دھوکے میں آگئے یہ تو محض فریب اور دھوکا ہے اگر حق ہوتا تو ہم لوگ جو کہ بہت قریبی رشتہ دار ہیں کیوں پیچھے رہتے۔ ہمارا اور مرزا صاحب کا خون ایک ہے تم خود سوچو بھلا خون بھی کبھی دشمن ہو سکتا ہے؟ اگر ہم لوگ انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ شخص صحیح راستے سے لوگوں کو پھیرنے والا ہے اور اس نے لوگوں سے پیسے بٹورنے کے لئے یہ دکان کھول رکھی ہے۔ اب حیرت آتی ہے کہ کونسا ابوجہل آیا جس نے مرزا امام الدین کو یہ باتیں سکھائیں کہ تم باہر سے آنے والوں کو اس طریق سے روکا کرو یہ نسخہ میرا آزمایا ہوا ہے۔ یا پھر یہ ماننا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہی باتیں مسمریزم کے ذریعہ مرزا امام الدین سے کہلوا لیں، دونوں میں سے ایک بات ضرور صحیح ہوگی۔
لدھیانہ کے ایک دوست نور محمد نامی نو مُسلمتھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بہت محبت و اخلاص رکھتے۔ اُنہوں نے مصلح موعود ہونے کادعویٰ بھی کیا تھا وہ کہا کرتے تھے کہ بیٹا جب باپ کے پاس جائے تو اسے کچھ نہ کچھ نذر ضرور پیش کرنی چاہئے۔ اُن کا مطلب یہ تھا کہ میں مصلح موعود ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا ہوں اور چونکہ وہ اپنے آپ کو خاص بیٹا سمجھتے تھے انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کم سے کم ایک لاکھ روپیہ تو انہیں ضرور پیش کرنا چاہئے۔ کہتے ہیں ابھی انہوں نے چالیس پچاس ہزار روپیہ ہی جمع کیا تھا کہ وہ فوت ہوگئے اور نہ معلوم روپیہ کون کھا گیا۔ انہوں نے بہت سے چوہڑے مسلمان کئے اور ان سے کہا کرتے تھے کہ کچھ روپیہ جمع کرو پھر تمہیں دادا پیر کے پاس ملاقات کے لئے لے چلوں گا۔ کچھ عرصہ کے بعد ان نو مسلموں نے کہا کہ پتہ نہیں کہ آپ کب جائیں گے آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم قادیان ہو آئیں۔ اِس پر اُنہوں نے اِن نو مُسلموں کو قادیان آنے کی اجازت دے دی۔ وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب سیر کے لئے نکلے تو وہ باہر کھڑے ہوئے تھے۔ غالباً وہ ۹ آدمی تھے اُن میں سے ہر ایک نے ایک ایک اشرفی پیش کی کیونکہ اُن کے پیر نے کہا تھا کہ تم دادا پیر کے پاس جا رہے ہو میں تمہیں اِس شرط پر جانے کی اجازت دیتا ہوں کہ تم دادا پیر کے سامنے سونا پیش کرو۔ چنانچہ انہوں نے ذکر کیا کہ ہمارے پیر نے ہمیں اِس شرط پر آنے کی اجازت دی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک آدمی آپ کی خدمت میں سونا پیش کرے۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ وہ سیر کو چلے گئے۔ جب سیر سے واپس آئے تو چونکہ اُن کو حُقّہ پینے کی عادت تھی اِس لئے وہ حقہ پینے کے لئے مرزا امام الدین کے پاس چلے گئے۔ وہ حقہ پینے کے لئے بیٹھے ہی تھے کہ مرزا امام الدین نے کہنا شروع کیا۔ انسان کو کام وہ کرنا چاہئے جس سے اُسے کوئی فائدہ ہو تم جو اِتنی دُور سے پیدل سفر کر کے آئے ہو (کیونکہ اُن کے پیر کا حکم تھا کہ تم چونکہ دادا پیر کے پاس جا رہے ہو اِس لئے پیدل جانا ہوگا) بتاؤ تمہیں یہاں آنے سے کیا فائدہ ہوا؟ ایمان انسان کو عقل بھی دے دیتا ہے بلکہ عقل کو تیز کر دیتا ہے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُن میں سے ایک نو مُسلم کہنے لگا کہ ہم پڑھے لکھے تو ہیں نہیں اور نہ ہی کوئی علمی جواب جانتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ آپ کو بھلے مانس مرید ملے نہیں اِس لئے آپ چوہڑوں کے پیر بن گئے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمیں کیا ملا؟ آپ مرزا صاحب کی مخالفت کر کے مرزا سے چوہڑے بن گئے اور ہم مرزا صاحب کو مان کر چوہڑوں سے مرزا ہوگئے۔ لوگ ہمیں مرزائی، مرزائی کہتے ہیں یہ کتنا بڑا فائدہ ہے جو ہمیں حاصل ہوا۔ اب دیکھو یہ کیسی مشابہت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے رشتہ داروں کی باتوں میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رشتہ داروں کی باتوں میں۔
مرزا علی شیر صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سالے اور مرزا فضل احمد صاحب کے خسر تھے۔ اُنہیں لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس جانے سے روکنے کا بڑا شوق تھا۔ رستہ میں ایک بڑی لمبی تسبیح لے کر بیٹھ جاتے تسبیح کے دانے پھیرتے رہتے اور منہ سے گالیاں دیتے چلے جاتے۔ بڑا لٹیرا ہے لوگوں کو لوٹنے کے لئے دُکان کھول رکھی ہے بہشتی مقبرہ کی سڑک پر دارالضعفاء کے پاس بیٹھے رہتے۔ اُس وقت یہ تمام زمین زیر کاشت ہوتی تھی، عمارت کوئی نہ تھی، بڑی لمبی سفید ڈاڑھی تھی سفید رنگ تھا،ـ تسبیح ہاتھ میں لئے بڑے شاندار آدمی معلوم ہوتے تھے اور مغلیہ خاندان کی پوری یادگار تھے، تسبیح لئے بیٹھے رہتے جو کوئی نیا آدمی آتا اُسے اپنے پاس بُلا کر بٹھا لیتے اور سمجھانا شروع کر دیتے کہ مرزا صاحب سے میری قریبی رشتہ داری ہے آخر مَیں نے کیوں نہ اسے مان لیا؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ مَیں اس کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں۔ مَیں جانتا ہوں کہ یہ ایک دکان ہے جو لوگوں کو لوٹنے کے لئے کھولی گئی ہے۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ باہر سے پانچ بھائی آئے غالباً وہ چک سکندر ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ اب تو لوگ جلسہ کے دَوران میں بھی باہر پھرتے رہتے ہیں لیکن اُن پہلے لوگوں میں اخلاص نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا اور قادیان میں دیکھنے کی کوئی خاص چیز نہ تھی، نہ منارۃ المسیح تھا، نہ دفاتر تھے، نہ مسجد مبارک کی ترقیاں ایمان پرور تھیں، نہ مسجد اقصیٰ کی وُسعت اِس قدر جاذب تھی، نہ محلوں میں یہ رونق تھی، نہ کالج تھا نہ سکول تھے۔ اُن دنوں لوگ اپنے اخلاص سے خود ہی قابلِ زیارت جگہ بنا لیا کرتے تھے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد صاحب کا باغ ہے اسے دیکھو اور یہ حضرت صاحب کے لنگر کا باورچی ہے اِس سے ملو اور اِس سے باتیں پوچھو اُن کا ایمان اِسی سے بڑھ جاتا تھا اُن دنوں ابھی بہشتی مقبرہ بھی نہ بنا تھا صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد کا لگایا ہوا باغ تھا۔ لوگ وہاں برکت حاصل کرنے کیلئے جاتے اور علی شیر صاحب رستہ میں بیٹھے ہوئے ہوتے۔ وہ پانچوں بھائی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا باغ دیکھنے کے لئے گئے تو اُن میں سے ایک جو زیادہ جوشیلا تھا وہ کوئی دو سَوگز آگے تھا اور باقی آہستہ آہستہ پیچھے آ رہے تھے۔ علی شیر نے اُسے دیکھ کر کہ یہ باہر سے آیا ہے اپنے پاس بُلا لیا اور پوچھا کہ مرزا کو ملنے آئے ہو؟ اُس نے کہا ہاں مرزا صاحب کو ہی ملنے آیا ہوں۔ علی شیر نے اُس سے کہا ذرا بیٹھ جاؤ اور پھر اُسے سمجھانا شروع کیا کہ میں مرزا کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہوں میں اِس کے حالات سے خوب واقف ہوں، اصل میں آمدنی کم تھی بھائی نے جائداد سے بھی محروم کر دیا اس لئے یہ دُکان کھول لی ہے۔ آپ لوگوں کے پاس کتابیں اور اشتہار پہنچ جاتے ہیں آپ سمجھتے ہیں کہ پتہ نہیں کتنا بڑا بزرگ ہوگا پتہ تو ہم کو ہے جو دن رات اس کے پاس رہتے ہیں۔ یہ باتیں میں نے آپ کی خیر خواہی کے لئے آپ کو بتائیں ہیں۔ چک سکندر سے آنے والے دوست نے بڑے جوش کے ساتھ مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ علی شیر صاحب سمجھے کہ شکار میرے ہاتھ آ گیا ہے۔ اُس دوست نے علی شیر صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا اور پکڑ کر بیٹھ گیا۔ گویا اِسے اُن سے بڑی عقیدت ہوگئی ہے۔ علی شیر صاحب دل میں سمجھے کہ ایک تو میرے قابو میں آ گیا ہے۔ اِس دوست نے اپنے باقی بھائیوں کو آواز دی کہ جلدی آؤ جلدی آؤ۔ اب تو مرزا علی شیر پھولے نہ سمائے کہ اِس کے کچھ اور ساتھی بھی ہیں وہ بھی میرا شکار ہو جائیں گے اور مَیں ان کو بھی اپنا گرویدہ بنا لوں گا۔ اس دوست کے باقی ساتھی دَوڑ کر آگئے تو اس نے کہا۔ مَیں نے تمہیں اس لئے جلدی بلایا ہے کہ ہم قرآن کریم اور حدیث میں شیطان کے متعلق پڑھا کرتے تھے مگر شکل نہیں دیکھی تھی آج اللہ تعالیٰ نے اُس کی شکل بھی دکھا دی ہے تم بھی غور سے دیکھ لو یہ شیطان بیٹھا ہے۔ مرزا علی شیر غصہ سے ہاتھ واپس کھینچتے لیکن وہ نہ چھوڑتا تھا اور اپنے بھائیوں سے کہتا جاتا تھا دیکھ لو اچھی طرح دیکھ لو شاید پھر دیکھنا نہ ملے یہ شیطان ہے۔ پھر اس نے اپنے بھائیوں کو سارا قصہ سنایا۔
اب دیکھو کس طرح ایک قوم دوسری قوم کے قدم بقدم چلتی ہے۔ ہم نے خود دیکھ لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمن تیرہ سَو سال کے بعد وہی اعتراض کرتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے گئے بلکہ وہی اعتراض کئے جاتے ہیں جو حضرت نوحؑ پر آپ کے دشمنوں نے کئے یا جو اعتراض حضرت ابراہیم ؑ پر آپ کے دشمنوں نے کئے، یا جو اعتراض حضرت موسیٰ ؑکے دشمنوں نے آپ پر کئے، یا جو اعتراض حضرت عیسیٰ ؑپر آپ کے دشمنوں نے کئے۔ پس حقیقت یہ ہے کہ سچ کا مقابلہ سوائے جھوٹ اور فریب کے کیا ہی نہیں جا سکتا۔ سچ ہر زمانہ میں سچ ہے اور جھوٹ ہر زمانہ میں جھوٹ ہے۔ سچ کے مقابلہ میں سوائے جھوٹ اور فریب کے آ ہی کیا سکتا ہے۔ اگر کوئی چیز دشمنوں کے پاس سوائے جھوٹ کے ہو تو نکلے۔
ہمارے ہاں مثل مشہور ہے کہ کسی میراثی کے گھر میں رات کے وقت چور آیا یہ سمجھ کر کہ آخر دس بیس پچاس روپے تو اُس کے ہاں ضرور ہونگے اور نہیں تو کوئی کپڑا ہی سہی۔ چور کونسا لاکھ پتی ہوتا ہے کہ ضرور لاکھوں والی جگہ ہی چوری کرے۔ اگر اُسے ایک روپیہ بھی مل جائے تو وہ اُسے ہی غنیمت سمجھتا ہے۔ وہ بھی یہی سمجھتا کہ آخر کوئی نہ کوئی ہدیہ ہی میراثی کو ججمانوں ۲؎کے ہاں سے ملا ہوگا وہی سہی۔ پُرانے زمانے میں یہ دستور تھا کہ جس کے پاس کوئی نقدی یا زیور ہوتا وہ اُسے کسی برتن میں ڈال کر زمین میں دفن کر دیتا تھا اور چوروں نے اُسے نکالنے کا یہ طریق نکالا تھا کہ وہ لاٹھی لے کر گھر کی زمین کو ٹھکور ٹھکور کر دیکھتے جہاں انہیں نرم نرم زمین معلوم ہوتی وہاں سے کھود کر نقدی یا زیور نکال لیتے تھے۔ یہی طریق اُس چور نے اختیار کیا اور لاٹھی لے کر گھر کی زمین کو ٹھکور ٹھکور کر دیکھنے لگا۔ اِسی اثناء میں میراثی کی آنکھ کھل گئی اور اُسے چور کی یہ حرکت دیکھ کر ہنسی آنے لگی کہ ہمیں تو کھانے کو نہیں ملتا اور یہ سوٹیاں مار مار کر خزانہ تلاش کر رہا ہے۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُس نے ہنس کر چور سے کہا۔ ’’ججمان! سانوں ایتھے دن نوں کچھ نہیں لبھدا۔ تہانوں راتیں کی لبھنا ہے‘‘۔ یعنی ہمیں یہاں دن کو کوئی چیز نہیں ملتی آپ کو رات کے وقت یہاں کیا ملے گا۔ یہی حالت مخالفین کی ہے سچ کے مقابلہ میں سوائے جھوٹ کے کوئی اورچیز ہو تو وہ پیش کریں اور سچ کے مقابلہ میں سچ کہاں سے لائیں۔
مقابلہ کے دو ہی طریق ہیں ایک تو یہ کہ خدا تعالیٰ کا بندہ جب کہتا ہے کہ میں نشان دکھاتا ہوں تو دشمن بھی کہیں کہ ہم بھی ویسا ہی نشان دکھاتے ہیں لیکن چونکہ وہ اس بات پر قادر نہیں ہوتے اس لئے نشان کے مقابل پر نشان دکھانے کے لئے سامنے نہیں آتے۔ ہاں دوسرا طریق یہ ہے کہ آئیں بائیں شائیں کرتے اور خوب شور و شغب پیدا کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم خوب مقابلہ کر رہے ہیں اور یہی طریق ہمیشہ انبیاء اور خدا تعالیٰ کے دوسرے خادموں کے دشمن اختیار کیا کرتے ہیں۔
جب سے میں نے مصلح موعود ہونے کا اعلان کیا ہے مولوی محمد علی صاحب نے ویسے ہی اعتراض کرنے شروع کر دیئے ہیں جیسے مولوی ثناء اللہ صاحب کیا کرتے تھے۔ میں خواب یا الہام سناتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے اعلام کی بناء پر اعلان کرتا ہوں لیکن مولوی محمد علی صاحب نہ تو مقابل پر کوئی خواب یا الہام پیش کرتے ہیں اور نہ ہی وہ پیش کر سکتے ہیں کیونکہ وہ سارا زور لگا کر تیس سالہ پُرانا ایک الہام پیش کر سکے ہیں مگر وہ بھی واقعات کے رو سے غلط نکلا ہے۔ پس جب الہام ہوا ہی نہیں تو وہ الہام پیش کیسے کریں۔ اب سوائے اعتراضوں کے ان کے پاس کوئی چیز نہیں اگر وہ اعتراض بھی نہ کریں تو مقابلہ کس طرح کریں۔ حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ کے دشمن اِس بات کا تو انکار نہیں کر سکتے تھے کہ الہام ہوتا ہی نہیں کیونکہ ان سے پہلے انبیاء کو الہام ہوتا تھا اور وہ اس بات کے قائل تھے اِس لئے ان انبیاء کا انکار کرنے والے اس بات کا انکار نہ کر سکتے تھے کہ الہام کوئی چیز نہیں۔ اپنی بات کو درست ثابت کرنے کیلئے اور ان انبیاء کا مقابلہ کرنے کیلئے یہ کہتے تھے کہ ان کے الہام خود ساختہ ہیں۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمنوں نے بھی یہی کہا کہ ان کے الہام خود ساختہ ہیں۔ اگر عیسائیوں اور یہودیوں کا یہ قول درست تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وحی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خود ساختہ تھی اللہ تعالیٰ کی غیرت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقابل پر الہام کر دیتا تا مفتریوں کی قلعی کھل جاتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ان کو الہام سے محروم رکھنا بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی حق پر تھے اور آپ کے دشمن یہودی اور عیسائی ناحق پر تھے۔ اسی طرح آج مولوی محمد علی صاحب یہ کہتے ہیں کہ میرے الہام جھوٹے ہیں لیکن کیوں اللہ تعالیٰ ان کو میرے مقابل پر سچے الہام نہیں کر دیتا، تا دنیا پر واضح ہو جائے کہ مولوی صاحب حق پر ہیں اور مَیں ناحق پر ہوں۔
حیرت کی بات ہے کہ ایک شخص دن رات اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو گمراہ کرے اور دن رات اُس کے بندوں کو فریب اور دغا بازی سے غلط راستہ کی طرف لے جائے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کو غیرت نہ آئے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو غیرت نہیں آتی تو اِس کی وجہ سوائے اِس کے یقینا اور کوئی نہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ جانتا ہے کہ مولوی صاحب اِس کے قرب سے بہت دُور ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اُن کو الہام نہیں کیا۔ پس سچائی کے مقابلے میں ابتداء سے انکار ہوتا رہا ہے یہ سلسلہ ابتداء سے چلتا آیا ہے اور چلتا چلا جائے گا۔
یہ ایک بالکل واضح بات ہے کہ نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے لیکن لوگ پھر بھی اس طریق کو بھول جاتے ہیں۔ وقت سے پہلے وہ ان باتوں کو اپنی مجالس میں دُہراتے اور ان کا اقرار کرتے ہیں لیکن عین موقع پر اِن کا صاف انکار کر دیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام جب فوت ہوئے تو حضرت خلیفہ اوّل کو اس قدر صدمہ ہوا کہ شدتِ غم کی وجہ سے آپ کے منہ سے بات تک نہیں نکلتی تھی اور ضعف اس قدر تھا کہ کبھی کمر پر ہاتھ رکھتے اور کبھی ماتھے پر ہاتھ رکھتے اسی حالت میں مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے حضرت خلیفہ اوّل کا ہاتھ پکڑ کر کہا اَنْتَ الصِّدِّیْقُ اور بعض اور فقرات بھی کہے جن کا مفہوم یہ تھا کہ خلافت اسلام کی سنت ہے لیکن بعد میں مولوی سید محمد احسن صاحب اِس بات پر قائم نہ رہے اور اُنہوں نے خلافت سے منہ پھیر لیا۔ مولوی محمد علی صاحب یا ان کے رفقاء نے ان کے بچوں کو آٹے کی مشین لگوا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ پس اِس بات پر لڑکے اور بیوی پیغامیوں کا ساتھ دیتے رہے اور مولوی صاحب کو بھی مجبور کرتے رہے کہ وہ لاہوریوں کا ساتھ دیں۔ جب وہ ابتلاء کے کچھ عرصہ بعد قادیان میں مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو صاف کہا کہ میں مجبور ہوں فالج نے قویٰ مار دیئے ہیں میں طہارت تک خود نہیں کر سکتا ان لوگوں کو وعدہ دے کر لاہوریوں نے بگاڑ رکھا ہے اور میں ان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوں۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ اگر یعقوب اور اُس کی والدہ کو سنبھال لیا جائے تو میں بھی رہ سکوں گا مگر چونکہ میں اِس قسم کی رشوت دینے کا عادی نہیں مَیں نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ مجھے اکثر ایسے لوگوں کی حالت پر حیرت آتی ہے کہ ذرا ان کو سلسلہ سے کوئی شکایت پیدا ہو تو اُنہیں خلافت کے مسئلہ میں بھی شک پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
گجرات کے دوستوں نے سنایا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے تو ایک اہل حدیث مولوی نے ہمیں کہا اب تم لوگ قابو آئے ہو کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر نبوت کے بعد خلافت ہے۳؎ اور تم میں خلافت نہیں ہوگی تم لوگ انگریزی دان ہو اس لئے خلافت کی طرف تم نہیں جاؤ گے۔ وہ دوست بتاتے ہیں کہ دوسرے دن تار موصول ہوئی کہ جماعت نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کی بیعت کر لی ہے اور ان کو اپنا خلیفہ بنا لیا ہے۔ جب احمدیوں نے اُس مولوی کو بتایا تو کہنے لگا نورالدین بڑا پڑھا لکھا آدمی تھا اِس لئے اُس نے جماعت میں خلافت قائم کر دی اگر اس کے بعد خلافت رہی تو پھر دیکھیں گے۔ جب حضرت خلیفہ اوّل فوت ہوئے تو کہنے لگا اُس وقت اور بات تھی اب کوئی خلیفہ بنے گا تو دیکھیں گے۔ دوست بتاتے ہیں کہ اگلے دن تار پہنچ گئی کہ جماعت نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔ اِس پر کہنے لگا یارو تم بڑے عجیب ہو، تمہارا کوئی پتہ نہیں لگتا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کفر ہمیشہ سے ایک ہی راستے پر چل رہا ہے اور اِس سے پیار کرنے والے ہر نبی کے زمانہ میں وہی طریق اختیار کرتے ہیں جو پہلے انبیاء کے زمانہ میں اختیار کیا گیا۔ اسی طرح ہدایت کا بھی ایک بنا بنایا راستہ ہے جو ابتداء سے آج تک بغیر تغیر و تبدل کے چلا آ رہا ہے اور ہر آنے والا اسی راستہ پر چلتا ہے لیکن لوگ اس بنے ہوئے رستہ کی طرف توجہ نہیں کرتے اور خود تراشیدہ قوانین کی پیروی کرتے ہیں۔ کوئی مُسلم لیگ بناتا ہے، کوئی زمیندارہ لیگ بناتا ہے، کوئی سیاسی انجمنیں بناتا ہے، کوئی اقتصادی انجمنیں بناتا ہے، کوئی مذہبی مجالس قائم کرتا ہے اور اسے دین کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے کافی سمجھتے ہیں حالانکہ دُنیوی ضرورتیں تو سمجھو کہ ان سے پوری ہو سکتی ہیں دینی ضرورتیں کب ان طریقوں سے پوری ہو سکتی ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ خداتعالیٰ کو تو اپنے دین کا فکر نہیں صرف اِن لوگوں کو فکر ہے۔ اگر مسلمان اللہ تعالیٰ کی جماعت ہیں تو اُسے اِن کا فکر ضرور ہوگا، اگر اسلام اللہ تعالیٰ کا دین ہے تو ممکن نہیں کہ وہ اِس کی نگرانی سے غافل ہو، اگر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری کتاب ہے جو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجی گئی تو ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اِس کی حفاظت کا کوئی سامان نہ کیا ہو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دادا کے زمانے میں یمن کا علاقہ حبشہ کے ماتحت تھا اور چونکہ حبشہ ایک عیسائی مُلک تھا اِس لئے یمن کا گورنر بھی عیسائی ہوا کرتا تھا۔ عبدالمطلب کے زمانہ میں یمن کے والی کا نام ابرہہ تھا۔ یہ شخص کعبہ سے سخت دشمنی رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ کسی طرح عرب کے لوگوں کو کعبہ سے پھیر دے۔ چنانچہ اس نے کعبہ کے مقابلہ پر یمن میں ایک معبد تیار کیا اور لوگوں میں تحریک کی کہ وہ بجائے کعبہ کے اس عبادت گاہ کے حج کے لئے آیا کریں۔ عرب کی فطرت بھلا کب اِس بات کو برداشت کر سکتی تھی۔ ایک عرب نے غصہ سے جوش میں آکر اس معبد میں پاخانہ پھر دیا۔ ابرہہ کو اِس بات کا علم ہوا تو اُس نے غصہ میں آ کر ارادہ کیا کہ مکہ پر فوج کشی کر کے کعبہ کو مسمار کر دے۔ چنانچہ وہ ایک بڑے لشکر کے ساتھ یمن سے نکلا اور مکہ کے قریب پہنچ کر شہر کے سامنے اپنی فوجیں ڈال دیں۔ جب قریش کو اِس کا علم ہوا تو وہ سخت خوف زدہ ہوئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہم اس کے مقابلے کی تاب نہیں رکھتے۔ چنانچہ اُنہوں نے عبدالمطلب کو ابرہہ کے پاس بطور وفد کے روانہ کیا۔ وہ ابرہہ کے پاس گئے ابرہہ ان کی باتوں اور ان کی نجابت سے بہت خوش ہوا اور ان سے بڑی عزت کے ساتھ پیش آیا اور اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھو مَیں اِن کو کیا انعام دوں؟ عبدالمطلب نے کہا کہ آپ کی فوج نے میرے دو سَو اونٹ پکڑ لئے ہیں وہ مجھے دِلوا دیئے جائیں۔ اُس نے اونٹ تو واپس دِلوا دیئے مگر منہ بنا کر کہا میں تمہارے کعبہ کو مسمار کرنے کے لئے آیا ہوں تم نے اِس کی فکر نہ کی اور جھوٹے منہ بھی تم نے مجھے یہ نہ کہا کہ کعبہ کو نہ گرایا جائے او رتمہیں اپنے دو سَو اونٹوں کی فکر لگ گئی۔ عبدالمطلب نے جواب میں کہا۔ مَیں تو صرف اونٹوں کا ربّ اور مالک ہوں مگر اس گھر کا بھی ایک مالک ہے وہ خود اِس کی حفاظت کرے گا۔ اگر مجھے اپنے اونٹوں کی فکر ہے تو کیا اُسے اپنے اِس گھر کی فکر نہیں۔۴؎ اسی طرح میں کہتا ہوں اگر واقعہ میں اسلام اللہ تعالیٰ کا دین ہے اور اگر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے تو اللہ تعالیٰ نے یقینا اِس کی حفاظت اور اِس کی بہتری کے لئے کوئی نہ کوئی سبیل پیدا کی ہوگی اور اُسے بندوں کے سہارے نہیں چھوڑا ہوگا۔ وہ بہتری کی سبیل اور حقیقی اسلام کا رستہ آج احمدیت ہے۔ لیکن اگر احمدیت بُری چیز ہے تو اللہ تعالیٰ کا فرض ہے کہ وہ اپنی غیرت دکھائے کیونکہ مخالفین کے نزدیک نَعُوْذُ بِاللّٰہِ احمدیت اُس کے دین میں رخنہ اندازی کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے۔ جیسے فرمایا ۵؎ مگر مولوی کہتے ہیں کہ قرآن کریم تو خدا نے بھیج دیا مگر اِس کی حفاظت ہمارے ذمہ ہے اور مسلمانوں کے لیڈر اِس غرض کے لئے لیگیں، انجمنیں اور ایسوسی ایشنیں بناتے ہیں۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ میں یہ طاقت نہیں کہ وہ قرآن کریم کی حفاظت کر سکے۔ دنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ جو چیز دنیا میں موجود ہے وہ اپنے وجود کا خود پتہ دیتی ہے اور جو چیزیں موجود ہیں ان میں سے جو چیز طاقتور ہوگی وہ دوسری چیزوں پر غالب آ جائے گی۔ جب وہ غالب آنے لگتی ہے تو دنیا بھی اس کا مقابلہ نہیں کرتی اور جو شخص کسی کام کا اہل یا کسی بوجھ کو اُٹھانے والا ہوتا ہے وہ خود بخود ہی میدانِ عمل میں آجاتا ہے۔ پہلے مسلمانوں کے لیڈر اور مسلمانوں کے نمائندہ سر میاں فضل حسین صاحب رہے اُس وقت مسٹر جناح کے خیالات کانگرسی تھے اور کانگرس کی تائید میں تھے اور مُسلم لیگ کا دائرہ اُس وقت اتنا وسیع نہ تھا جتنا اب ہے۔ کچھ عرصہ کانگرس میں کام کرنے کے بعد مسٹر جناح مُسلم لیگ میں آ گئے اور آہستہ آہستہ اپنی قابلیت منواتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ تمام مسلمان لیڈر اُن کے پیچھے لگ گئے اور وہ مُسلم لیگ کے صدر بن گئے۔ یہی حال انگریزی قوم کا ہے تمام قوم پچیس سال تک مسٹر چرچل کو دھتکارتی رہی کہ یہ لڑاکا ہے۔ فساد کرتا ہے لیکن جب جنگ شروع ہوئی تو کیا لیبر اور کیا یونینسٹ اور کیا کنزرویٹونیمسٹر چرچل کو اِس کام کیلئے منتخب کیا ۔تو جو شخص کسی کام کا اہل ہوتا ہے وہ آپ ہی آپ دوسروں پر چھا جاتا ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے بھی انسانوں کی حفاظت ضرورت نہ تھی بلکہ جس کے سپرد یہ کام تھا وہ خود ہی آگے آ جانا چاہئے تھا۔ جب کسی چیز کے اُگنے کا موسم آ جائے اور وہ وقت پر اُگ آئے تو ہم سمجھیں گے کہ اُس کابیج زمین میں موجود تھا لیکن اگر باوجود موسم کے آ جانے کے زمین سے کوئی چیز نہ اُگے ہم تو کہیں گے کہ اس میں کسی چیز کا بیج موجود نہ تھا اس لئے اس سے کوئی چیز نہیں اُگی اور اب اس میں بیج باہر سے ڈالا جائے گا۔ اسی طرح اگر مسلمانوں کی خستہ حالی کے وقت مسلمان خود مل کر اس کا علاج کر لیتے تو ہم سمجھ سکتے تھے کہ اب خدا کی طرف سے کسی کے آنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر اپنی تمام کوششوں کے باوجود مسلمانوں پر خستہ حالی اور اسلام پر ادبار کے بادل چھائے رہیں تو ماننا پڑے گا کہ اب اس کا علاج کرنے والا کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی آئے گا کیونکہ مسلمان خود اس قابل نہیں رہے کہ وہ اسلام کو دوبارہ باقی ادیان پر غالب کر دیں۔ کیا مسٹر جناح دنیا کے سارے مسلمانوں کے نگران ہو سکتے ہیں؟ اور کیا مسٹر جناح اسلامی دنیا کے تمام نقائص اور خرابیوں کو دور کر سکتے ہیں؟ کیا مسٹر جناح یا کوئی مسلمان نمائندہ آج پھر ایمان کو اُسی پہلی حالت میں قائم کر سکتا ہے جو حالت کہ قرونِ اُولیٰ کی تھی؟ ہر انسان جو سوچ اور عقل سے جواب دے گا وہ یہی جواب دے گا کہ مسٹر جناح ہندوستان کے سیاسی لیڈر ہیں دنیا بھر کے مذہبی لیڈر نہیں ہیں۔ یہ کام سوائے ایسے شخص کے نہیں ہو سکتا جو مَؤیَّد مِنَ اللّٰہِ ہو اور جسے اللہ تعالیٰ خود مقرر کرے اور وہ تمام مسلمانوں کا نگران ہو۔ مسلمانوں کے ہر مرض کا علاج کرنے والا اور مسلمانوں کی ہر تکلیف کا مداوا ہو، جو اسلام کو اَدیانِ باطلہ پر غالب کرنے والا ہو۔ آج ایسے ہی شخص کی ضرورت ہے۔ پس جس طرح ہر چیز اپنے موسم میں پیدا ہو جاتی ہے اِسی طرح نبوت اور خلافت بھی اپنے وقت پر پیدا ہو جاتی ہیں اور یہ بات اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے کہ ایک چیز کی اشد ضرورت محسوس کی جائے۔ اُس کا موسم آ جائے، لوگ اس کے لئے بے تاب ہوں لیکن اپنی طرف سے وہ چیز عطا نہ کرے۔ بلکہ حقیقت یہی ہے کہ جس طرح دوسری چیزیں اپنے اپنے موسم میں پیداہوتی ہیں اِسی طرح نبوت اور خلافت بھی اپنے اپنے وقت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کر دی جاتی ہیں تا اِن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے بندے اُس کی قرب کی راہوں پر چلیں اور اُن تمام باتوںسے بچیں جو کہ اُس سے دور لے جاتی ہیں۔اور خلافت قوم میں چلتی چلی جاتی ہے جب تک قوم درست رہتی ہے لیکن جب قوم کے افراد میں غداری اور دغا بازی کی رُوح پیدا ہو جاتی ہے تو خلافت بھی مٹ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن سے یہ نعمت چھین لیتا ہے۔ خدا تعالیٰ قوم کی حالت کو دیکھ کر خلیفہ مقرر کرتا ہے۔ اگر قوم کے حالات درست ہوں تو خلافت دے دیتا ہے اور اگر درست نہ ہوں تو یہ انعام واپس لے لیتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ شرعی مسئلہ ہے اور یہ ایک لحاظ سے ہے بھی لیکن اِسی حد تک کہ بندے اُس کو خلیفہ مقرر کریں۔ مگر خلافت کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک حصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اُس کو خلیفہ بناتا ہے اور ایک یہ ہے کہ بندے اُس کا انتخاب کرتے ہیں۔ جہاں تک بندوں کے انتخاب کا سوال ہے وہ ہو جائے گا لیکن جو حصہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر بندے خلیفہ چننے کے لئے اُن قوانین کی پابندی کریں گے جو خدا تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں تو وہ خلافت کامیاب ہوگی لیکن اگر نہیں کریں گے تو اگرچہ وہ خلیفہ تو بنا لیں گے لیکن کامیاب نہیں ہونگے۔ یا پھر اُس خلیفہ کی حیثیت عیسائیوں کے پوپ کی طرح ہو جائے گی جس سے قوم کوئی حقیقی فائدہ نہیں اُٹھا سکے گی۔ مگر باوجود اِس کے ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے۔
دنیا ان باتوں کو ہمیشہ بھول جاتی ہے حالانکہ یہ بات ہمیشہ اور بار بار ہوتی ہے۔ یہی چیزیں ہماری جماعت میں ہوتی ہیں اور آئندہ بھی ہونگی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے اور اُسی رنگ میں آئے جس رنگ میں حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ اور دوسرے انبیاء مبعوث ہوئے تھے اور آپ کے بعد بھی اُسی رنگ میں سلسلہ خلافت شروع ہوا۔ جس طرح پہلے انبیاء کے بعد خلافت کا سلسلہ قائم ہوا۔ اگرہم عقل کے ساتھ دیکھیں اور اِس کی حقیقت کو پہنچاننے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ ایک عظیم الشان سلسلہ ہے۔ بلکہ میں کہتا ہوں اگر دس ہزار نسلیں بھی اِس کے قیام کے لئے قربان کر دی جائیں تو کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ میں دوسروں کے متعلق تو نہیں جانتا مگر کم از کم اپنے متعلق جانتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی تاریخ پڑھنے کے بعد جب میں حضرت عثمانؓ پر پڑی ہوئی مصیبتوں پر نظر کرتا ہوں اور دوسری طرف اُس نور اور روحانیت کو دیکھتا ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آ کر ان میں پیدا کی تھی تو مَیں کہتا ہوں اگر دنیا میں میری دس ہزار نسلیں پیدا ہونے والی ہوتیں اور وہ ساری کی ساری ایک ساعت میں جمع کر کے قربان کر دی جاتیں تا وہ فتنہ ٹل سکتا تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ جوں دے کر ہاتھی خریدنے کے سَودے سے بھی زیادہ سَستا سَودا ہوتا۔درحقیقت ہمیں کسی چیز کی قیمت کا پتہ پیچھے لگتا ہے۔
اب میں یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ دین کی کوئی قیمت ہی نہیں رہی۔ دین کی قیمت تو الگ رہی ہم دنیاوی حیثیت دیکھتے ہیں تو وہ بھی نہیں رہی۔ کجا وہ وقت تھا کہ ایک مسلمان خواہ کسی جگہ پر چلا جاتا) چاہے وہ چوڑھا ہوتا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اُس کی طرف انگلی نہ اُٹھا سکتا۔ چین کا بادشاہ جس کی بادشاہت اس زمانہ کے لحاظ سے بہت بڑی بادشاہت تھی اُس کو بھی حوصلہ نہیں تھا کہ ایک چوڑھے مسلمان کی طرف اُنگلی اُٹھا سکے اس لئے کہ سارا عالم اسلامی اس کی پشت پر تھا۔ آخری زمانہ میں مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ خلافتِ بغداد بالکل تباہ ہوکر ریاستوں کی شکل اختیار کر چکی تھی لیکن نام باقی تھا۔ کہتے ہیں کہ ہاتھی مرا ہوا بھی بھاری ہوتا ہے۔ خلافت تو تھی گو چند گاؤں بھی ان کے قبضہ میں نہ رہے تھے صرف بغداد تھا باقی سب جگہ دوسری بادشاہتیں قائم ہوگئی تھیں۔ وہ بادشاہ مطلق العنان ہونے کے باوجود بھی خلافت کا احترام کرتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ ہم تو غائب بادشاہ ہیں، اصل بادشاہ خلیفہ ہے۔ یوں وہ اپنا قانون چلاتے تھے، اپنی فوجیں رکھتے تھے، خود ہی لڑائیاں لڑتے تھے، خود ہی فیصلہ کرتے تھے، خود ہی معاملات طے کرتے تھے اور خلیفہ کو پوچھتے تک بھی نہ تھے مگر اِس نام کی بھی برکت تھی۔ اُس زمانہ میں مسلمانوں کے ایک علاقہ میں سے جب کہ مسلمان کمزور ہوچکے تھے یورپین فوجیں گزریں اور اُنہوں نے کسی مسلمان عورت کو چھیڑا (اُس بیچاری کو کچھ پتہ نہ تھا کہ خلافت ٹوٹ چکی ہے اور تقسیم ہو کر مختلف حصوں میں بٹ چکی ہے وہ یہی سنتی آ رہی تھی کہ ابھی تک یہاں خلیفہ کی حکومت ہے) اُس نے اِسی خیال کے ماتحت خلیفہ کو پکار کر بآوازِ بلند یَالَلْخَلِیْفَۃکہا۔ یعنی اے خلیفہ! میں مدد کے لئے تمہیں آواز دیتی ہوں۔ اُس وقت وہاں سے ایک قافلہ گزر رہا تھا اُس نے یہ باتیں سنیں۔ وہ قافلہ بغداد کی طرف جا رہا تھا۔ پُرانے زمانہ میں رواج تھا کہ جب قافلہ شہر میں آتا تو قافلہ کی آمد کی خبر سن کر لوگ شہر کے باہر قافلہ کے استقبال کے لئے جاتے۔ تاجر لوگ بھی اُس وقت وہاں پہنچ جاتے اور آجکل کی بلیک مارکیٹ کی طرح وہیں مال خریدنے کی کوشش کرتے کیونکہ جو مال باہر سے آتا تھا وہ سفر کی مشکلات کی وجہ سے بہت کم آتا تھا اِس لئے ہر ایک تاجر یہی کوشش کرتا کہ وہیں جا کر سَودا کرے اور اُسے دوسروں سے پہلے حاصل کرے۔ جب وہ قافلہ آیا اور شہری اُس کے استقبال کے لئے شہر سے باہر گئے اور اُسے ملے تو اہلِ شہر نے اُن سے سفر کے حالات پوچھنے شروع کئے اور کہا کہ کوئی نئی بات سناؤ۔ اُنہوں نے کہا سفر ہر طرح آرام سے کٹ گیا مگر ہم نے راستہ میں ایک عجیب تمسخر سنا۔ ایک عورت خلیفہ کو آوازیں دے رہی تھی اور مدد کے لئے بُلا رہی تھی۔ اُس بے چاری کو کیا پتہ کہ اِس جگہ اب اُس کی حکومت ہی نہیں۔ یہ باتیں سننے والوں میں سے ایک درباری بھی تھا وہ دربار میں آیا اور بادشاہ سے اِس کا ذکر کیا اُس نے کہا آج ایک عجیب بات ہوئی ہے ایک قافلہ فلاں جگہ سے آیا اور اُس نے سنایا کہ ایک عورت خلیفہ کو پکارتی تھی۔ اگرچہ بادشاہت تو اُس وقت تباہ ہوچکی تھی اور خلافت مٹ چکی تھی مگر معلوم ہوتا ہے ابھی اسلامی ایمان کی کوئی چنگاری باقی تھی۔ خلیفہ میں کوئی طاقت نہ تھی وہ جانتا تھا کہ میں اکیلا ہوں لیکن جب اُس نے یہ بات سنی تو تخت سے اُتر آیا اور ننگے پاؤں چلا اور کہا کہ گو اب خلیفہ کا وہ اقتدار نہیں رہا مگر بہرحال اُس نے خلافت کو آواز دی ہے اب میرا فرض ہے کہ میں اُس کے پاس جاؤں اور اُس کی مدد کروں۔ یہ بات ایسی ہے کہ آج یہاں بیٹھے ہوئے ہمارا خون کھول جاتا ہے اُس زمانہ میں کیوں نہ کھولا ہوگا۔ جونہی یہ بات دوسرے بادشاہوں نے سنی اُنہوں نے خلیفہ کو یہ اطلاع بھیجی کہ ہم مدد دیں گے آپ اُس عورت کو آزاد کرائیں اور اُن سے اِس کا بدلہ لیں۔چنانچہ وہ گئے اور اُنہوں نے اُس عورت کو آزاد کرایا اور عیسائیوں سے اُس کا بدلہ لیا۔
لیکن آج بڑی بڑی مسلمان شخصیتوں کا سوال ہی نہیں رہا اب تو بڑی بڑی مسلمان حکومتیں بھی ریاستوں سے بالا نہیں۔ سب سے بڑی حکومت مسلمانوں کی اِس وقت ترکی کی حکومت ہے مگر اِس کی حالت یہ ہے کہ جب روس کوئی بات کرتا ہے تو وہ کھسیانہ ہو کر کبھی انگریزوں اور کبھی امریکہ کی طرف دیکھتا ہے اور دیکھ کر سوچتا ہے کہ آیا بھبکی دوں یا سسکی بھروں۔ اگر دیکھے کہ وہ ہماری طرف مہربانی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تو سسکیاں مار کر رونے لگ جاتا ہے اور اگر سمجھتا ہے کہ مدد کریں گے تو پھر ان کو بھبھکیاں دیتا ہے۔ ہر ایک کے اندر جذبات ہوتے ہیں لیکن یہ حالت دیکھ کر بھی کسی مسلمان کی غیرت جوش میں نہیں آتی۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اگر میں احمدی نہ ہوتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں پرورش نہ پاتا تو میرے کیا اخلاق ہوتے لیکن اگر میرے یہی جذبات ہوتے جو اِس وقت ہیں اور احمدیت والا ایمان میرے اندر نہ ہوتا تو اگر کوئی سَو فیصدی سے بھی زیادہ یقین دلانے کا کوئی ذریعہ ہو سکتا ہے تو مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یا میں پاگل ہو جاتا اور یا پھر اپنے ہاتھ سے اپنے بیوی بچوں کو مار کر اپنے آپ کو مار ڈالتا کیونکہ میرے نزدیک اس قسم کی زندگی کو ایک لمحہ کیلئے بھی برداشت کرنا کسی خبیث اور بے ایمان آدمی کے سوا کسی کا کام نہیں ہو سکتا۔ یہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ذات ہے جس نے ہمارے دل میں ایک نئی اُمنگ پیدا کر دی ہے۔ آج وہ کرن دُور ہے اور شعائیں فاصلہ پر نظر آتی ہیں مگر بہرحال کھڑکی کھلی نظر آتی ہے اور پتہ لگتا ہے کہ ہم کسی نہ کسی دن اُس مقام پر پہنچیں گے۔ جس طرح اسلام کے دشمنوں نے اسلام کو گھٹنوں کے بل گرانے کی کوشش کی اور ناک رگڑوانا چاہا ہم اِنْشَائَ اللّٰہَ اِن کو گھٹنوں کے بل گرائیں گے اور ناک رگڑوائیں گے۔ مگر ناک رگڑوانے سے مراد یہ نہیں کہ ہم ظاہری رنگ میں ایسا کریں گے بلکہ معنوی رنگ میں ہم ان سے ایسا سلوک کریں گے جو گھٹنے ٹیکنے اور ناک رگڑنے کا مترادف ہوگا۔ دیکھو! جب مکہ فتح ہوا تو اُس وقت ظاہری طور پر کسی نے ناک نہیں رگڑوائے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو یہی کہا کہ تم ہمارے بھائی ہو ہم تمہیں معاف کرتے ہیں۶؎ مگر معنوی طورپر ان کے ناک رگڑے گئے۔ جس شخص کے قتل کے کوئی درپے ہو اور اس کے ساتھ اتنی دشمنی کی گئی ہو کہ اس حالت میں کہ اُس کی لڑکی حاملہ ہونے کی صورت میں اکیلی سفر کر رہی ہو، اُس کے اونٹ کے شغدف کا بند کاٹ کر اُسے گرا دیا ہو اور اِس طرح اُس کا حمل ضائع کروا دیا ہو جب وہ اُس کے سامنے آئیں اور اُن سے پوچھا جائے کہ بتاؤ تم سے کیا سلوک کیا جائے؟ اور وہ کہیں ہم تم سے یوسفؑ والے سلوک کی امید رکھتے ہیں اور وہ کہہ دے تم سے یوسفؑ والا سلوک ہی کیا جائے گا اور تمہیں معاف کیا جائے گا۔ تو بتاؤ اِن مخالفین کی کیا حالت ہوگی۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ ایسے واقعہ سے دل پر ایسی چوٹ لگتی ہے کہ اِس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ بظاہر ان کی بے عزتی نہیں کی گئی اور بظاہر ان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی گئی، بظاہر ان سے ناک نہیں رگڑوائے گئے مگر معنوی طور پر ان کے ناک رگڑے گئے اور ان کے سرجھکائے گئے اور وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی مُردہ ہوگئے۔
میں نے کئی دفعہ ایک واقعہ سنایا ہے۔ بچپن کی بات ہے کہ ایک دفعہ میں نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک کشتی خریدی۔ اُس وقت وہ کشتی ہمیں۲۷ روپے میں مل گئی جو کہ اُس وقت کے لحاظ سے کافی سُستی تھی اب تو کشتی دو سَو روپے میں ملتی ہے۔ ہم قادیان کی ڈھاب میں اُس کشتی پر سیر کیا کرتے تھے۔ جیسے بچوں کا قاعدہ ہے دس پندرہ دن تک تو ہم باقاعدہ سیر کرتے رہے، پھر ہفتہ میں تین دن سیر کرتے، پھر ہفتہ میں دو دن اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ ہم پندرہویں دن سیر کیلئے جاتے۔ جب ہم وہاں نہ ہوتے تو باہر کے لڑکے آ کر اُس کشتی کو چلاتے۔ جب ہم کشتی کو آ کر دیکھتے تو پہلے سے کچھ نہ کچھ خستہ حالت میں ہوتی۔ میں اِس حالت سے بہت تنگ آیا اور میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ کسی طرح تم انہیں پکڑوا دو۔ ایک دن عصر کے وقت ایک لڑکا دَوڑا ہوا آیا اور کہا کہ میں ان لڑکوں کو پکڑوا دوں۔ اُس کشتی میں زیادہ سے زیادہ دس بارہ آدمی بیٹھ سکتے تھے لیکن جب میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ اٹھارہ اُنیس لڑکے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے اتنے آدمی کشتی میں بیٹھے ہوئے دیکھ کر غصہ سے کہا جلدی اِدھر کشتی لاؤ۔ وہ گاؤں کے لڑکے تھے اور گاؤں والوں میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ بڑے زمینداروں کا مقابلہ کر سکیں۔ اِس ڈر سے کہ کہیں پٹ نہ جائیں اُن میں سے کچھ نے چھلانگیں لگا دیں اور تیر کر دوسرے کنارے نکل گئے اور کچھ اتنے مغلوب ہوئے کہ وہیں بیٹھے رہے اور کشتی کو کنارے کی طرف لے آئے۔ میں غصہ سے سوٹی پکڑے ہوئے کھڑا تھا اور اِس خیال میں تھاکہ جب یہ باہر آئیں گے تو میں اُنہیں خوب ماروں گا۔ وہ جب قریب آئے اور میری یہ حالت دیکھی تو اُن میں سے سوائے ایک کے باقی سب نے پانی میں چھلانگیں لگا دیں اور مختلف جہات کو دَوڑ گئے۔ صرف ایک لڑکا کشتی میں رہ گیا جسے میں نے پکڑ لیا۔ میں سمجھتا تھا کہ اصل شرارتی یہی ہے اُس نے مدرسہ احمدیہ کے باورچی خانے کے پاس جہاں خانصاحب فرزند علی صاحب کا مکان ہے اور آجکل وہاں دفتر بیت المال ہے کشتی لا کر کھڑی کی۔ جب وہ کشتی سے اُترا تو میں نے کہا اِدھر آؤ۔ قریب آنے پر میرے دل میں معلوم نہیں کیا خیال آیا کہ میں نے سوٹی رکھ دی اور اُسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا۔ جس وقت میں نے ہاتھ اُٹھایا تو اُس نے بھی ہاتھ اُٹھایا۔ میں نے اُس کو مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا تھا لیکن اُس نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے ہاتھ اُٹھایا تھا۔ اُس کی اِس حرکت کی تاب نہ لاتے ہوئے اور زیادہ غصہ میں آ کر میں نے اپنا ہاتھ اور پیچھے کی طرف کھینچا تا کہ اُسے زور سے چانٹا رسید کروں لیکن جونہی میں نے ہاتھ پیچھے کیا اُس نے ہاتھ نیچے گرا دیا۔ اس وقت میری عمر ۱۷سال کے قریب تھی آج میں ۵۷ سال کا ہو گیا ہوں گویا اِس واقعہ کو چالیس سال گزر چکے ہیں لیکن جب بھی یہ واقعہ مجھے یاد آتا ہے تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور پسینہ چھٹ جاتا ہے۔ جب اُس نے ہاتھ گرایا تو میں اُس وقت اتنا شرمندہ ہوا کہ میں سمجھتا تھا کہ کسی طرح زمین پھٹ جائے تو میں اِس میں سما جاؤں۔ یہ میرے سامنے کھڑا ہے اور اُس نے ہاتھ پیچھے گرا لیا ہے گویا دوسرے الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ مجھے مار لو۔ اُس کی یہ نرمی میرے لئے اتنی تکلیف دہ تھی کہ میں اُس وقت اپنے آپ کو دنیا کا ذلیل ترین انسان خیال کرتا تھا۔ میں کہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور مجھے یہ ذلّت کی حالت نہ دیکھنی پڑے۔ اب دیکھو یہ کتنی چھوٹی سی چیز تھی۔ کشتی صرف ۲۷ روپے کی تھی اور وہ بھی چند آدمیوں کے چندہ سے خریدی ہوئی اور وہ بھی پُرانی۔ پھر وہ سیکنڈ ہینڈ کشتی تھرڈ ہینڈ بنی پھر فورتھ ہینڈ بنی اور پھر ففتھ ہینڈ بنی لیکن اس پر بھی میں جوش میں آ کر اُسے مارنے لگا مگر اُس نے اپنا ہاتھ نیچے کر لیا۔ اس کا نیچے ہاتھ گرانا کسی جذبۂ شرافت کے ماتحت نہیں تھا صرف اِس لئے تھا کہ وہ جانتا تھا کہ بڑے آدمی کے بیٹے ہیں اگر مارا تو اِن کے ساتھی مجھے ماریں گے۔ پھر یہ بھی نہیں تھا کہ مظلوم ہونے کے باوجود اُس نے مجھ پر رحم کیا ہو بلکہ ظالم وہ تھا اور کمزور وہ تھا مگر باوجود اِس کے کہ وہ ظالم تھا اور کمزور تھا اُس کا یہ فعل میرے لئے اتنا تکلیف دہ ہوا کہ آج تک اس واقعہ کو یاد کر کے میں شرمندہ ہو جاتا ہوں ۔پس کیا حال ہوا ہوگا اُن بڑے بڑے آدمیوں کا جو میدانوں میں نکل نکل کر کہتے تھے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کی اولاد کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے، جو کہا کرتے تھے کہ یہ نوجوان تیرے چند روزہ ساتھی ہیں یہ تیرا ساتھ چھوڑ دیں گے، جنہیں وہ بھاگ جانے والے کہتے تھے اور جن کے سامنے وہ میدان میں گھوڑے دَوڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ آؤ مقابل پر ،اور جنہیں وہ کمینہ آدمی سمجھتے تھے جب وہ اُن کے سامنے تلوار نہ اُٹھا سکے اور مغلوب ہوئے تو اُن کی کیا حالت ہوئی ہوگی۔ وہ اُس وقت کتنے ذلیل اور شرمندہ ہوئے ہوں گے اور کس طرح اُن کے ناک رگڑے گئے ہوں گے۔ جب اُن سے ہار کر اُنہوں نے خود اِستدعا کی کہ ہم سے یوسف ؑ کے بھائیوں کا سا سلوک کیا جائے۔ اور پھر اس وقت کیا حالت ہوئی ہوگی جب واقعہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جواب میں یہ فرمایا کہ ہاں ہاں تم سے یوسف ؑ کے بھائیوں کا سا سلوک کیا جائے گا۔ جاؤ اپنے گھروں میںآرام سے بیٹھو ہم تم سے کچھ نہ کہیں گے۔ ۶؎یہی حالت اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ایک دن اسلام کے دشمنوں پر آنے والی ہے۔
(الفضل ۱۷،۱۸؍ اپریل ۱۹۴۶ء)
۱؎ الذّٰریٰت: ۵۴
۲؎ ججمان: برہمنوں یا نائیوں کی آسامی جس کا وہ پشتوں سے کام کرتے آ رہے ہوں۔ مخدوم، آقا، مربی
۳؎ کنز العمال جلد۱۱ صفحہ۱۱۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۸ء
۴؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۴۴ حاشیہ مطبوعہ پاکستان ۱۹۷۷ء
۵؎ الحجر: ۱۰
۶؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۸۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض ومقاصد
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض ومقاصد
(تقریر فرمودہ۲۸؍دسمبر۱۹۴۵ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام قادیان)
تشہّد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا۔
میں نے اپنی جماعت کے دوستوں کو بارہا اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہمارا سب سے اہم فرض یہ ہے کہ ہم ساری دنیا میں اسلام اور احمدیت کی آواز پہنچانے کے لئے اپنے مبلّغین کا جال پھیلادیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کو یہ حقیقت بھی کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ کامیابی صرف فوج کو بھرتی کرلینے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس فوج کے پاس ہر قسم کا وہ سامان موجود ہو جس سے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہم اپنی جماعت میں سے کسی فرد کو یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اے بہادر! جا اور اپنی جان کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دے بلکہ اگر ہماری جماعت کی تعداد دس کروڑ ہو جائے تو ہم دس کروڑ سے بھی کہہ سکتے ہیں کہ جاؤ اور دین کی اشاعت کرو اور اس راستہ میں اگر تمہاری جان بھی چلی جائے تو اس کی کوئی پرواہ نہ کرومگر ہمارے شاباش کہنے سے وہ دس کروڑ آدمی ساری دنیا تک پہنچ نہیں سکتا۔ ساری دنیا تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ جب کوئی ریل میں سوار ہونے لگے تو کرایہ ادا کر کے ٹکٹ خریدے، کسی ہوٹل میں کھانا کھائے تو ہوٹل کا بل ادا کرے کسی شہر میں رہائش کے لئے مکان لے تو اُس مکان کا مناسب کرایہ مالک مکان کو پیش کرے۔ جب تک وہ ریل کا کرایہ ادا نہیں کرے گا،جہاز کا کرایہ ادا نہیں کرے گا،ہوٹل کا خرچ ادا نہیں کرے گا، مکانوں کا کرایہ ادا نہیں کرے گا اُس وقت تک وہ دنیا تک پہنچ ہی کس طرح سکتا ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہو گا کہ اگر وہ اشتہار شائع کرنا چاہے تو اُس کے پاس اِس قدر روپیہ موجود ہو جس سے وہ اشتہار لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچا سکے۔ اگر روپیہ اُس کے پاس نہیں ہو گا تو کاتب اُس کی کتابت کس طرح کرے گا ،پریس اس کو شائع کس طرح کرے گا اور لوگوں میں تقسیم کرنے کے لئے کون اُس کی مدد کرے گا۔ پھر جب کوئی تبلیغ کرنا چاہے گا اس کے لئے یہ بھی ضروری ہو گا کہ وہ کوئی ہال کرایہ پر لے جس میں تقاریر وغیرہ کے لئے لوگوں کو مدعو کر سکے۔ یہاں بھی اگر ہال کرایہ پرلیا جائے تو پچاس ساٹھ روپے خرچ ہو جاتے ہیں اور بیرونی ممالک میں تو کافی روپیہ کی ضروت ہوتی ہے۔ پھر اُس کے لئے بھی ضرروی ہو گا کہ وہ ایسے آدمی اپنے ساتھ رکھے جو اشتہارات تقسیم کرنے میں اس کی مدد کر سکیں۔ یا ایسے بارسوخ ہوں جو علمی طبقہ تک اس کی آواز پہنچا سکیں۔ ان تمام اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر وہ ایک لیکچر بھی دے گا تو خواہ اس میں سَو ڈیڑھ سَو آدمی آئیں اس کا پانچ سات سَو روپیہ خرچ ہو جائے گا۔ پھر اگر وہ ایک اشتہاربھی شائع کرنا چاہے گا تو اُسے کافی اخراجات کی ضروت ہوگی۔ مثلاً انگلستان کی آبادی چار کروڑ ہے اگر وہ چار کروڑ کی آبادی میں سولہ صفحہ کا ایک اشتہار شائع کر ے اور ایک صفحہ کے ایک ہزار اشتہار کی صرف ایک روپیہ قیمت سمجھی جائے تو سولہ صفحہ کے ایک ہزار اشتہار پر سولہ روپے، ایک لاکھ اشتہار پر سولہ سَو روپیہ، ایک کروڑ اشتہار پر ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ اور چار کروڑ پر چھ لاکھ چالیس ہزار روپیہ خرچ آئے گا ۔اگر چار کروڑ کی آبادی میں سے بچوں کو نکال دیا جائے اور اُن کی تعداد نصف سمجھ لی جائے تو دو کروڑ کی آبادی کے لئے سولہ صفحہ کا ایک اشتہار شائع کرنے پرتین لاکھ ۲۰ ہزار روپیہ خرچ آئے گا۔ اور اگر دو کروڑ کے صرف دسویں حصہ تک آواز پہنچائی جائے تب بھی ایک اشتہار کی چھپوائی اور اس کی تقسیم وغیرہ پر ۳۲ہزار روپیہ خرچ ہو گا۔ اگر ہم ان اخراجات کو مہیا نہ کریں تو نہ ہم اپنے مبلّغ ساری دنیا میں پھیلا سکتے ہیں اور نہ وہ اپنی تبلیغ کو وسیع کر سکتے ہیں۔
پس حقیقت یہ ہے کہ کامیابی کے لئے صرف فوج کی موجودگی کافی نہیںہوتی بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ فوج کے پاس وہ سامان ہو جو فتح و کامیابی کے حصول کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے مگر میںدیکھتا ہوں کہ جماعت میں باوجود اخلاص کے اور باوجود عقل اورسمجھ کے تحریک جدید کے متعلق جس کاکام بیرونی ممالک کے مبلّغین کے لئے اخراجات مہیا کرنا اور تبلیغ کے دائرہ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنا ہے کچھ بے تو جہی سی پائی جاتی ہے اور جس طرح بیمار کو ایک لمبے عرصہ تک چارپائی پر لیٹے رہنے کے بعد چلنے میں تکلیف محسوس ہوتی ہے اِسی طرح ہماری جماعت کے افراد میں بھی ایک لمبی قربانی کے بعد تھکان کے آثار نظر آ رہے ہیں حالانکہ دین کے کاموں میں کسی قسم کی سستی اور غفلت پیدا نہیں ہونی چاہئے۔ اِس میں کچھ میر ی بھی غلطی تھی کہ میں نے تحریک جدید کے متعلق ابتداء میں یہ خیال کر لیا کہ وہ دس سال میں ختم ہو جائے گی۔ میں سمجھتا تھا کہ شاید دس سال کے اندر اندر ایسا مضبوط ریزروفنڈ قائم ہو جائے گا جس کی آمد سے تبلیغی اخراجات آسانی سے پورے ہوتے رہیں گے مگر یہ قیاس غلط نکلا اور جماعت کو مزید قربانیوں کی تحریک کرنی پڑی۔تم اسے میری غلطی قرار دے دومگر بہرحال یہ ایک انسانی اندازہ تھا جو غلط نکلا۔ مگر کیا تم میری غلطی کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو نقصان پہنچادو گے یا میری غلطی کی وجہ سے دین میں کسی قسم کی کمزوری کا پیدا ہونا برداشت کرلو گے؟ تم کہہ سکتے ہو کہ ہمارے امام نے غلطی کی اس نے سمجھا کہ دس سال کے اندر تحریک جدید کی آمد سے ایسا ریزرو فنڈ قائم ہو جائے گا جو تبلیغی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوگا مگر اس کا خیال غلط نکلا لیکن دین کا کام تو بہر حال تم نے چلانا ہے۔ اگر تم دین کا کام نہیں کروگے تو آخر وہ کونسی جماعت ہے جو اِس وقت اسلام کی مدد کے لئے آگے آئے گی۔ تمہارے سامنے مسلمان موجود ہیں کیا ان میں سے کسی کو بھی یہ فکر ہے کہ اسلام کو تقویت حاصل ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام جودنیا سے مٹ چکا ہے وہ پھر پوری شان کے ساتھ قائم ہو، اگر غور کرو تو تمہیں محسوس ہوگا کہ صرف ہماری جماعت ہی اِس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں اسلام کا جھنڈا بلند کر رہی ہے۔ اب بتاؤ کہ کیا خدا کے دین اور اُس کی فوج میں شامل ہو کر تم بھی موسیٰ ؑ کے ساتھیوں کی طرح یہی کہوگے کہ ۱؎ تو اور تیرا ربّ آپ دونوںدشمن سے جاکر لڑتے رہوہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ہر وہ شخض جس کے اندر ایمان کا ایک ذرّہ بھی پایا جاتا ہو وہ کہے گا کہ اگر میری گرتے گرتے یہاں تک حالت پہنچنے والی ہو تو خدا اس دن سے پہلے مجھے موت دے دے تا کہ میری زبان سے موسیٰ ؑ کے ساتھیوں کی طرح یہ فقرہ نہ نکلے بلکہ میری زبان وہی کچھ کہے جو محمد رسول اللہ ﷺکے ساتھیوں نے کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ آگے بڑھئے ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۲؎ یہ ایمان ہے جو ہمارے اندر ہونا چاہئے اور یہی ایمان ہے جو قوموں کو زندہ رکھتا ہے۔ ہمیں دنیا کو بتا دینا چاہئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو بُری نگاہ سے دیکھنا آسان بات نہیں۔ جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا کوئی شخص آگے نہیں بڑھے گا اُس وقت تک وہ محمد رسول اللہ ﷺ کوبُرا بھلا نہیں کہہ سکے گا۔ یہ ایمان ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بناتا ہے اور یہی قربانی کی روح ہے جو مُردوں کو زندہ کر دیا کرتی ہے۔پس جماعت کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق اس کے اندر سستی اور غفلت کے جو آثار نظر آرہے ہیں ان کو دور کرے اور قربانیوں کے میدان میں اپنا قدم کبھی ڈھیلا نہ ہونے دے۔
مَیں تو سمجھتا ہوں کہ یہ ایک خدائی تدبیر تھی کہ اس نے مجھے غفلت میں رکھا اور اصل حقیقت اس وقت منکشف ہوئی جب تحریک جدید کی دس سالہ میعاد ختم ہونے کو آئی تم کچھ کہہ لو میرے ساتھ تو یہ بات بالکل ویسی ہی ہوئی جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی جنگ سے پہلے صحابہؓ سے فرمایا کہ باہرنکلو شاید دشمن کے تجارتی قافلہ سے مقابلہ ہو جائے یا شاید کفار کے لشکر سے ہی مقابلہ ہو جائے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ دراصل بدرکی جنگ میں نہ مسلمان لڑنے کی نیت سے نکلے تھے نہ کفار، کفار تو لشکر لے کر اِس لئے نکلے تھے کہ مسلمانوں کے رُعب کو مٹایا جائے اور مسلمان اِس لئے نکلے تھے کہ کفار کا علاقہ پر اثر نہ پڑے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کو اپنے ساتھ لے کر مدینہ سے باہر نکلے تو آپ کو الہام ہوا کہ دشمن کے لشکر سے ہی مقابلہ ہو گا مگر ابھی مسلمانوں کو آپ بتائیں نہیں۔ـچنانچہ جب وہ عین بدر کے موقع کے قریب پہنچ گئے تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ کفار کے لشکر سے مقابلہ ہو اَب بتاؤ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ صحابہؓ نے کہا یاَرَسُوْلَ اللہ! ارادہ کا کیا سوال ہے آپ حکم دیجئے ہم لڑنے کے لئے بالکل تیار ہیں۳؎۔ اب دیکھو نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے علم تھا کہ کفار سے مقابلہ ہونے والا ہے اور نہ صحابہؓ کو اِس بات کا علم تھا۔ جب عین بدرکے مقام پر جاپہنچے تب اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آپ نے صحابہؓ کو بتایا کہ خدا تعالیٰ انہیں مدینہ سے کس غرض کے لئے لایا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ کئی کمزور جو دوسرے موقع پر کمزوری دکھا جاتے عین موقع پر آکر بہادر بن گئے اور انہوں نے دین کیلئے اپنی جانیں قربان کردیں۔ اسی طرح تحریک جدید میں اللہ تعالیٰ نے ایک تدبیر کی میں پہلے یہی سمجھتا رہا کہ یہ بوجھ شاید دس سال تک ہی رہے گامگر آخر اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرما دیا کہ یہ قربانی جماعت کو ایک لمبے عرصہ تک کرنی پڑے گی۔ پس جماعت کا فرض ہے کہ وہ سستی اور غفلت کو دُور کرے اور اللہ تعالیٰ نے اسے قربانیوں کا جو موقع عطا فرمایا ہے اِس میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے۔ یہ کام ایسا ہے جو لاکھوں روپیہ کا تقاضا کرتا ہے اور جب ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا میں پھیلائیں گے اور اِسلام کے جلال اور اس کی شان کے اظہار کے لئے اپنی ہر چیز قربان کردیں گے تو ہمیں اِن تبلیغی سکیموں کے لئے جس قدر روپیہ کی ضرورت ہو گی اُس کو پورا کرنا بھی ہماری جماعت کا ہی فرض ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں صحیح طور پر تبلیغ اسلام کرنے کے لئے ہمیں لاکھوں مبلّغوں اور کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے۔
جب میں رات کو اپنے بستر پر لیٹتاہوں تو بسا اوقات سارے جہان میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے میں مختلف رنگوں میں اندازے لگاتا ہوں،کبھی کہتا ہوں ہمیں اتنے مبلّغ چاہئیں اور کبھی کہتا ہوں اتنے مبلّغوں سے کام نہیں بن سکتا اس سے بھی زیادہ مبلّغ چاہئیں یہاں تک کہ بعض دفعہ بیس بیس لاکھ تک مبلّغین کی تعداد پہنچا کر مَیں سو جایا کرتا ہوں۔ میرے اُس وقت کے خیالات کو اگر ریکارڈ کیا جائے تو شاید دنیا یہ خیال کرے کہ سب سے بڑا شیخ چلّی مَیں ہوں مگر مجھے اپنے ان خیالات اور اندازوں میں اتنامزہ آتا ہے کہ سارے دن کی کوفت دُور ہو جاتی ہے ۔مَیں کبھی سوچتا ہوں کہ پانچ ہزار مبلّغ کافی ہوں گے، پھر کہتا ہوں پانچ ہزار سے کیا بن سکتا ہے دس ہزارکی ضرورت ہے، پھر کہتا ہوں دس ہزار بھی کچھ چیز نہیں، جاوا میں اتنے مبلّغوں کی ضرورت ہے، سماٹرا میں اتنے مبلّغوں کی ضرورت ہے، چین اور جاپان میں اتنے مبلّغوں کی ضرورت ہے، پھر میں ہر مُلک کی آبادی کا حساب لگاتا ہوں، اُن کے اخراجات کا اندازہ لگاتا ہوں اور پھر کہتا ہوں یہ مبلّغ بھی تھوڑے ہیںاِس سے بھی زیادہ مبلّغوں کی ضروت ہے۔ یہاں تک کہ بیس بیس لاکھ تک مبلّغوں کی تعداد پہنچ جاتی ہے۔ اپنے اِن مزے کی گھڑیوں میں مَیں نے بیس بیس لاکھ مبلّغ تجویز کیا ہے۔ دنیا کے نزدیک میرے یہ خیالات ایک واہمہ سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں رکھتے مگر اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جو چیز ایک دفعہ پیدا ہو جائے وہ مرتی نہیں جب تک اپنے مقصد کو پورا نہ کرے۔ لوگ مجھے بے شک شیخ چلّی کہہ لیں مگر میں جانتا ہوں کہ میرے اِن خیالات کا خداتعالیٰ کی پیدا کردہ فضامیں ریکارڈ ہوتا چلا جارہا ہے اور وہ دن دُور نہیں جب اللہ تعالیٰ میرے اِن خیالات کو عملی رنگ میں پورا کرنا شروع کر دے گا۔آج نہیں تو آج سے ساٹھ یا سَو سال کے بعد اگر خدا تعالیٰ کا کوئی بندہ ایسا ہوا جو میرے اِن ریکارڈوں کو پڑھ سکا اور اُسے توفیق ہوئی تو وہ ایک لاکھ مبلّغ تیار کردے گا، پھر اللہ تعالیٰ کسی اَور بندے کو کھڑا کر دے گا جو مبلّغوں کو دو لاکھ تک پہنچا دے گا، پھر کوئی اور بندہ کھڑا ہو جائے گا جو میرے اس ریکارڈ کودیکھ کر مبلّغوں کو تین لاکھ تک پہنچا دے گا اس طرح قدم بقدم اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی لے آئے گا جب ساری دنیا میں ہمارے بیس لاکھ مبلّغ کام کررہے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے اس سے پہلے کسی چیز کے متعلق امید رکھنا بیوقوفی ہوتی ہے۔ میرے یہ خیال بھی اب ریکارڈ میں محفوظ ہو چکے ہیں اور زمانہ سے مٹ نہیں سکتے آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں میرے یہ خیالات عملی شکل اختیار کرنے والے ہیں اور اگر اِن خیالات کا اور کوئی فائدہ نہیں تو کم سے کم اتنا فائدہ تو سرِدست ہو ہی جاتا ہے کہ میرے دن بھر کی کوفت دور ہو جاتی اور آرام سے نیند آجاتی ہے اور اس میں جو مزہ مجھے حاصل ہوتا ہے اُس کا اندازہ کوئی اور شخص لگا ہی نہیں سکتا۔ یہ کام ہے جو ہمارے سامنے ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے کسی اور نے نہیں کرنا۔ اور پھر ہمارے لئے یہ کوئی سوال نہیں کہ ہم نے یہ کام کتنی قربانی سے کرنا ہے۔ بعض کام ایسے ہوتے ہیں جن کے کرتے وقت انسان یہ سوچ لیتا ہے کہ اِس پر وہ کس حد تک روپیہ خرچ کر سکتا ہے۔ اگر زیادہ روپیہ خرچ ہو تو وہ اس کام کے لئے تیار نہیں ہوتا مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ میں ایک ایسا گھوڑا خریدنا چاہتا ہوں کہ جس پر تین سَو روپیہ خرچ آتا ہو تو اِس کے صاف معنٰی یہ ہوں گے کہ اگر ساڑھے تین سَو روپیہ کوگھوڑا ملے گا تو میں نہیں لو ں گا۔ لیکن ہم تو یہ نہیں کہتے کہ اگر فلاں قربانی سے کام ہوا تو ہم کریں گے ورنہ نہیں کریں گے ہمارا یہ اقرار ہے کہ ہم اسلام کے لئے اپنی ہر چیز یہاں تک کہ اپنے مال، جان اور عزت کو بھی قربان کر دیں گے۔ کئی لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ کیا عزت اور آبرو کی قربانی بھی اسلام جائز قرار دیتا ہے؟ میں انہیں ہمیشہ یہ جواب دیا کرتا ہوں کہ ہاں اسلام کے لئے اگر عزت اور آبرو کو بھی قربان کرنا پڑے تو مؤمن کو یہ چیز قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ہزاروں اوقات انسانی زندگی میں ایسے آتے ہیں جب عزت اور آبرو خطرہ میں ہوتی ہے۔ دشمن ننگ و ناموس کو کچلنے کے لئے تیار ہوتا ہے مگر خدا اور اُس کے رسول کی طرف سے انسان پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں وہ اُسے مجبور کرتے ہیں کہ وہ عزت و آبرو کا قربان ہونا برداشت کرلے مگر اپنے فرائض میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہونے دے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب عرب میں ایک طرف جھوٹے مدعیانِ نبوت کا فتنہ اُٹھا اور دوسری طرف قبائلِ عرب میں ایسے باغی پیدا ہو گئے جنہوںنے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور شورش اس حد تک بڑھی کہ مدینہ پر حملہ کا خطرہ پیدا ہو گیا تو اُسوقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے ماتحت اُسامہ بن زیدؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر شام کی طرف عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے روانہ ہو رہا تھا۔حالات کی نزاکت دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور اُن سے کہا کہ اِس وقت باغیوں کی وجہ سے سخت خطرہ ہے اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں بہتر ہو گا کہ اسامہؓ کے لشکر کو روک لیا جائے اگر یہ لشکر بھی روانہ ہو گیا اور باغیوں نے مدینہ پر حملہ کر دیا تو ہماری عورتوں کی وہ بے حرمتی ہو گی کہ اَلْاَمَان۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا خدا کی قسم! اگر دشمن ہم پر غالب آ جائے اور مدینہ کی گلیوں میں کُتے ہماری عورتوں کی ٹانگیں گھسیٹتے پھر یں تب بھی میں اِس لشکر کو نہیں روکوں گا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ ہو نے کا ارشاد فرمایا ہے لشکر جائے گا اور ضرور جائے گا۔۴؎
اب دیکھو یہ اسلام کے لئے عزت اور آبرو کی قربانی تھی جسے پیش کرنے کے لئے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ فوراً تیارہوگئے۔ بیس پچیس ہزار کا لشکر مدینہ کی طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا اور صرف چند سَو آدمی مدینہ میں موجود تھے جو اُن کے مقابلہ کے لئے قطعاً کافی نہیں تھے۔ دس ہزار تجربہ کار سپاہیوں کا لشکر دشمن کو شکست دینے کیلئے موجود تھا مگر چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے شام کی طرف روانہ ہونے کا ارشاد فرما چکے تھے اس لئے حضرت ابو بکرؓ نے کہا کہ باوجود شدید خطرات کے یہ لشکر نہیں رُکے گااِسے ضرور بھیجا جائے گا خواہ مدینہ میں صرف بوڑھے، عورتیں اور بچے ہی رہ جائیں اور دشمن اس قدر غالب آجائے کہ عورتوں کی ٹانگیں مدینہ کی گلیوں میں کتے گھسیٹتے پھر یں۔ بھلا اس سے زیادہ عزت کی قربانی کیا ہوگی کہ شریف اور معزز عورتوں کی لاشیں مدینہ کی گلیوں میں روندی جائیں اور کتے اُن کی ٹانگیں گھسیٹتے پھریں۔
پس یقینا سچے ایمان کے ساتھ ہر انسان کو اپنی جان، اپنے مال، اپنی عزت، اپنی آبرواور اپنے احساسات غرض ہر چیز کی قربانی کے لئے پوری طرح تیار رہنا چاہئے۔ اگر ہم ان قربانیوں کے بغیر اپنی کامیابی کی امید رکھتے ہیں تو یہ امید بالکل غلط ہے۔ قربانیاں ہی ہیں جو قوموں کو کامیاب کرتی ہیں اور قربانیاں ہی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے جس دن ہماری جماعت قربانی کے انتہائی مقام پر پہنچ جائے گی اس دن وہ ایک پیارے بچے کی طرح خداتعالیٰ کی گود میں آجائے گی اورہماری ہر مصیبت اور تکلیف دیکھتے دیکھتے غائب ہو جائے گی۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ بچہ کو بعض دفعہ ماں اپنے ہاتھ میں چھری لے کر ڈراتی ہے اور کہتی ہے آؤ میں تمہیں ذبح کر دوں۔ جب بچہ اچھا کہہ کر چارپائی پر لیٹ جاتا ہے تو ماں اپنے گلے سے اُسے چمٹا لیتی اور اِتنے زور سے اسے چومتی ہے کہ اُس کے کَلّے سرخ ہو جاتے ہیں اِسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے محبت کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اُن کو قربانیوں کی بھڑکتی ہوئی آگ میں چھلانگ لگانے کا حکم دیتا ہے۔ جب مؤمن قربانی کے ارادہ سے اِس تنور میں اپنے آپ کو جھونک دیتے ہیں تو مَعاً اللہ تعالیٰ کی محبت جوش میں آتی ہے اور وہ اِس قدر پیار کرتا ہے کہ انہیں ہر مصیبت اور تکلیف بھول جاتی ہے۔ جب تک ہماری جماعت کے افراد اپنے دلوں میں قربانی کا اِسی قسم کا جذبہ پیدا نہیں کرتے اُس وقت تک وہ کسی قسم کی ترقی حاصل نہیں کر سکتے۔
پس میں جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں قربانی کے میدان میں اپنے قدم کو ڈھیلا نہیں بلکہ تیز تر کرتے چلے جانا چاہئے۔ اسی طرح صدر انجمن احمدیہ کے چندے بھی نہایت اہم ہیں جن کی ادائیگی میں جماعت کو پوری توجہ کے ساتھ حصہ لینا چاہئے۔ میںنے بتایا ہے کہ موجودہ حالت ایسی ہے کہ ہم اسلام کی جنگوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی روک نہیں سکتے ہمارا فرض ہے کہ ہم اِس جنگ کو جاری رکھیں اور اِس راہ میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ ہم میں سے ہر فرد کو یہ امر اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ دین کی ضرورتیں ہم سے ایک بڑی قربانی کا مطالبہ کر رہی ہیں اگرہم سستی اور غفلت سے کام لیں گے اور خدا تعالیٰ کے عائد کر دہ فرائض کو نظر انداز کر دیں گے تو ہم سے زیادہ مجرم اور کوئی نہیں ہوگا۔ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے اِس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اسلام جو اِس وقت مُردہ ہو رہا ہے اِسے اپنی کوششوں سے زندہ کریں اور اپنی تدابیر کو انتہائی کمال تک پہنچا دیں۔ میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کے رحم پر بھروسہ رکھتے ہوئے اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے بہت سی تدابیر اختیار کی ہیں اور کئی سکیمیں ہیں جن کا جماعت کے سامنے اعلان کر چکا ہوں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ان میں سے بھی بہتر تدابیر جماعت کی علمی، تجارتی، صنعتی اور اقتصادی ترقی کے لئے بتاسکے لیکن تمہیں اِس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اگر تم آسمان کی چوٹی پر بھی پہنچ جاؤتب بھی اسلام تمہیں یہی کہتا ہے کہ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِہٖ۵؎ تمہاری ڈھال تمہارا امام ہے اور تمہار ی تمام تر سلامتی محض اسی میں ہے کہ تم اُس کے پیچھے ہو کر جنگ کرو۔اگر تم اپنے امام کو ڈھال نہیں بناتے اور اپنی عقلی تدابیرکے ماتحت دشمن کا مقابلہ کرتے ہوتو تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کامیابی اسی شخص کے لئے مقدر ہے جو اسلام کی جنگ میری متابعت میں لڑے گا۔ پس ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کسی شخص کی ذاتی رائے تجارت کے معاملہ میں مجھ سے بہتر ہو یا صنعت و حرفت کے متعلق وہ زیادہ معلومات پیش کر سکتا ہو لیکن بہرحال جو اصولی سکیم میری طرف سے پیش ہو گی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسی میں برکت پیدا کی جائے گی اور وہی اس کے منشاء اور ارادہ کے ماتحت ہوگی۔ اگر تم اُس سکیم پر عمل کرو گے تو کامیاب ہو جاؤ گے اور اگر تم اُس سکیم کو نظر انداز کر کے اپنی ذاتی آراء کو مد نظر رکھو گے اور اپنے تجربہ اور ذاتی معلومات کو اپنا راہنما بناؤ گے تو تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکو گے۔ میں امید کرتا ہوں کہ جماعتیںاِن تمام باتوں کو پوری طرح ملحوظ رکھیںگی اور کوشش کریں گی کہ اُن کا قدم ترقی کی دَوڑ میں پہلے سے زیادہ تیز ہو۔
میں نے اپنی ایک نظم میں کہا ہے کہ
ہے ساعتِ سعدآئی اسلام کی جنگوں کی
آغاز تو مَیں کر دوں انجام خدا جانے
چنانچہ ایک خوشی تو اللہ تعالیٰ نے جلدنصیب کر دی کہ اس نے محض اپنے فضل سے وہ دن مجھے دکھا دیا جبکہ مبلّغین، اسلام واحمدیت کی اشاعت اور خداتعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کے اظہار کے لئے بیرونی ممالک میں جارہے ہیں۔ اب یہ خداتعالیٰ کی مرضی ہے کہ وہ اس کا انجام مجھے دکھائے یا نہ دکھائے، وہ بادشاہ ہے ہمارا اُس پر کوئی حق نہیں ہم اُس کے رحم اور فضل کے ہر آن طلب گار ہیں اور ہم اُس سے یہی کہتے ہیں کہ اے خدا! تیرے نام کی بلندی ہو اور تیرا جلال دنیا میں پوری طرح ظاہر ہو لیکن انجام خواہ میں دیکھوں یا نہ دیکھوں، ہمارے لڑنے والے سپاہی اپنے غنیم پر کبھی فتح حاصل نہیں کر سکتے جب تک ہم اُن کی مدد نہ کریں، جب تک ہم اُن کے لئے سامان مہیا نہ کریں اور جب تک ہم اُن کے قائم مقام تیار کرنے کی کوشش نہ کریں۔پس جماعت کا فرض ہے کہ وہ ہر قسم کی قربانیوں میں حصہ لے کر اس بوجھ کو اُٹھانے کی کوشش کرے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس پر عائد کیا گیا ہے اور اِس طرح نہ صرف تحریک جدید، وقف زندگی، وقف تجارت اور صنعت وحرفت وغیرہ تحریکات کو کامیاب کرے بلکہ صدر انجمن احمدیہ کے چندوں میں بھی کسی قسم کی کمی نہ آنے دے۔
تحریک جدید کے چندہ کے سلسلہ میں مَیں دوستوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہر احمدی جس نے دفتر اوّل میں حصہ لیا ہے اُسے کوشش کرنی چاہئے کہ کم از کم ایک آدمی دفتر دوم میں حصہ لینے والا کھڑا کرے۔ جس طرح آپ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ آپ کی جسمانی نسل جاری رہے اِسی طرح آپ لوگوںکو یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ آپ کی روحانی نسل جاری رہے۔ اور روحانی نسل کو بڑھانے کا ایک طریق یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو تحریک جدید کے دفتر اوّل میں حصہ لے چکا ہے وہ عہد کرے کہ نہ صرف آخر تک وہ خود پوری باقاعدگی کے ساتھ اس تحریک میں حصہ لیتا رہے گا بلکہ کم سے کم ایک آدمی ایسا ضرور تیار کرے گا جو دفتر دوم میں حصہ لے اور اگر وہ زیادہ آدمی تیار کر سکے تو یہ اور بھی اچھی بات ہے۔ دنیا میں لوگ صرف ایک بیٹے پر خوش نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ اُن کے پانچ پانچ، سات سات بیٹے ہوں جس طرح دنیامیں لوگ اپنے لئے پانچ پانچ، سات سات بیٹے پسند کرتے ہیں اِسی طرح ہر شخص کو یہ کوشش کر نی چاہئے کہ وہ تحریک جدید کے دفتر دوم میںحصہ لینے والے پانچ پانچ، سات سات نئے آدمی تیار کرے۔ پھر دوسرے دفتر میں حصہ لینے والا ہر شخص کوشش کرے کہ وہ تیسرے دفتر کے لئے پانچ پانچ، سات سات آدمی کھڑے کرے اور تیسرے دفتر میں حصہ لینے والا شخص کوشش کرے کہ وہ چوتھے دفتر کے لئے پانچ پانچ، سات سات آدمی تیار کرے تاکہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے اور اِس روپیہ سے تبلیغ کے نظام کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جا سکے۔ اگر دوست زیادہ آدمی تیار نہ کرسکیں تو کم از کم ہر شخص کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ دفتر دوم کے لئے ایک آدمی ضرور تیار کرے ورنہ روحانی لحاظ سے وہ بے نسل سمجھا جائے گا اور دین کی اشاعت کا کام جو اُس نے شروع کیا تھا وہ اُس کی ذات کے ساتھ ہی منقطع ہو جائے گا۔
پس جماعت کو دفتر دوم کی طرف بھی خصوصیت کے ساتھ توجہ کرنی چاہئے۔ تحریک جدید کے دَورِ اوّل میں حصہ لینے والوں میں سے ہر فرد کا دفتردوم کے لئے کم ازکم ایک آدمی تیار کرناایسا ہی ہے جیسے روحانی اولاد کی زیادتی میںحصہ لینا ۔اِس طرح قیامت تک یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چلتا جائے گا اور جماعت کے لئے دائمی ثواب اور خدا تعالیٰ کے قرب کا ایک دائمی رستہ کھلا رہے گا۔
اللہ تعالیٰ اگر انسان کو توفیق عطا فرمائے تو وہ ایک چھوٹے سے چھوٹے لفظ اور ایک چھوٹے سے چھوٹے اشارہ سے بھی وہ کچھ سمجھ لیتا ہے جو بڑی بڑی کتابوں اور تقریروں سے بھی اُسے حاصل نہیں ہوتا۔ یہی وہ مقام ہے جس میں انسان شیطانی حملہ سے کُلّی طور پر محفوظ ہو جاتا ہے اور روحانی میدان میں وہ کسی طرح شکست نہیں کھا سکتا۔ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ یہ بات بیان کی ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل بہت بڑے عالم تھے اور آپ ساری عمر ہی درس و تدریس میں مشغول رہے۔ اور پھر مجھے بھی آپ نے بڑی شفقت اور محبت کے ساتھ پڑھایا اور میری تعلیم کا خاص طور پر خیال رکھا لیکن اصل سبق جو انہوں نے مجھے دیا اور جس کو میں آج تک نہیں بھولا وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ پر توکّل کر کے انسان کو اسی سے علوم سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ اپنی ذات میں ایک ایسا نکتہ ہے کہ اس کے لئے میں اُن کا جتنا بھی ممنون ہوں کم ہے اور جتنا بھی اس نصیحت پر عمل کیا جائے تھوڑا ہے۔
مجھے یا د ہے حافظ روشن علی صاحب اور میں دونوں حضرت خلیفہ اوّل سے پڑھا کرتے تھے بعض اور دوست بھی ہمارے اس سبق میں شریک تھے۔ حافظ صاحب کی عادت تھی کہ وہ بات بات پر بال کی کھال اُدھیڑنے کی کوشش کرتے تھے۔ ابھی ہم نے بخاری کا سبق شروع ہی کیا تھا اور صرف دو چار سبق ہی ہوئے تھے کہ حضرت خلیفہ اوّل ان کے سوالوں سے تنگ آ گئے۔ وہ سبق کو چلنے ہی نہیں دیتے تھے پہلے ایک اعتراض کرتے اور جب حضرت خلیفہ اوّل اس کا جواب دیتے تو وہ اس جواب پر اعتراض کر دیتے۔ پھر جواب دیتے تو جواب الجواب پر اعتراض کر دیتے اور اِس طرح اُن کے سوالات کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ کہتے ہیں خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ میری عمر اُس وقت بیس اکیس سال کی تھی اور طبیعت بھی تیز تھی۔ حافظ صاحب کو سوالات کرتے دیکھا تو میں نے خیال کیا کہ میں کیوں پیچھے رہوں۔ چنانچہ چوتھے دن میں نے بھی سوالات شروع کر دیئے۔ ایک دن تو حضرت خلیفہ اوّل چپ رہے مگر دوسرے دن جب میں نے بعض سوالات کئے تو آپ نے فرمایا حافظ صاحب کے لئے سوالات کرنے جائز ہیں تمہارے لئے نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا۔ دیکھو! تم بڑی مدت سے مجھ سے ملنے والے ہو اور تم میری طبیعت سے اچھی طرح واقف ہو کیا تم کہہ سکتے ہو کہ میں بخیل ہوں یا کوئی علم میرے پاس ایسا ہے جسے میں چھپا کر رکھتا ہوں؟ میں نے کبھی کوئی بات دوسروں سے چھپا کر نہیں رکھی جو کچھ آتا ہے وہ بتا دیا کرتا ہوں۔ اب خواہ تم کتنے اعتراض کرو، میں نے تو بہرحال وہی کچھ کہنا ہے جو میں جانتا ہوں اس سے زیادہ میں کچھ بتا نہیں سکتا۔ اب کسی بات کے متعلق دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو جو بات میں نے بتائی ہے وہ معقول ہے تم اسے سمجھے نہیں اور یا پھر جو بات میں نے بتائی ہے وہ غلط ہے اور تمہارا اعتراض درست ہے۔ اگر تو جو کچھ میں نے بتایا ہے وہ غلط ہے تو یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ میں بددیانتی سے تم کو دھوکا دینے کے لئے کوئی بات نہیں کہتا میں جو کچھ کہتا ہوں اسے صحیح سمجھتے ہوئے ہی کہتا ہوں۔ ایسی صورت میں خواہ تم کتنے اعتراض کرو میں تو وہی کچھ کہتا چلا جاؤں گا جو میں نے ایک دفعہ کہا اور اگر میں نے جو کچھ کہا ہے وہ درست ہے تو اس پر اعتراض کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسی حالت میں اگر تم اعتراض کرو گے تو اس سے تمہاری طبیعت میں ضد پیدا ہوگی کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس لئے میری نصیحت یہ ہے کہ تم سوالات نہ کیا کرو بلکہ خود سوچنے اور غور کرنے کی عادت ڈالو۔ اگر کوئی بات تمہاری سمجھ میں آجائے تو اسے مان لیا کرو اور اگر سمجھ میں نہ آئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرو کہ وہ خود تمہیں سمجھائے اور اپنے پاس سے علم عطا فرمائے۔ اس نصیحت کے بعد مَیں نے پھر حضرت خلیفہ اوّل سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا۔ کچھ دن گزرے تو آپ نے حافظ صاحب کو بھی ڈانٹ دیا کہ وہ دورانِ سبق سوالات نہ کیا کریں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے روزانہ بخاری کا آدھ آدھ پارہ پڑھنا شروع کر دیا۔ بے شک اور علوم بھی ہم پڑھتے تھے لیکن بہرحال آدھ پارہ روزانہ تبھی ختم ہو سکتا ہے جب طالب علم اپنے منہ پر مُہر لگالے اور وہ فیصلہ کرلے کہ میں نے استاد سے کچھ نہیں پوچھنا۔ جو کچھ وہ بتائے گا اسے سنتا چلا جاؤں گا۔ پس علمِ حقیقی جوہر قسم کے شبہات و و ساوس کا ازالہ کر سکتا ہو اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے اور وہی قوم دنیا میں علم کو وسیع طور پر پھیلا سکتی ہے جس کا خدا تعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق ہو کہ خدا تعالیٰ اسے اپنے پاس سے علم سکھائے اور اس کی ہر مشکل کو دور کرے۔
میں بچہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ابھی زندہ تھے کہ میں نے ایک رؤیا دیکھا جو میں نے بارہا سنایا ہے مگر وہ رؤیا ایسا ہے کہ اگر میں اُسے لاکھوں دفعہ سناؤں تب بھی کم ہے اور اگر تم اسے لاکھوں دفعہ سنو تب بھی کم ہے، پھر اگر تم لاکھوں دفعہ سُن کر اس پر لاکھوں دفعہ غور کرو تب بھی اس کی اہمیت کے لحاظ سے یہ کم ہوگا۔ مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک جگہ کھڑا ہوں مشرق کی طرف میرا منہ ہے کہ یکدم مجھے آسمان سے ایسی آواز آئی جیسے پیتل کا کوئی کٹورا ہو اور اُسے انگلی سے ٹھکور دیں تو اُس میں سے ٹن کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ مجھے بھی ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے کٹورے کو انگلی ماری ہے اور اس میں سے ٹن کی آوازپیدا ہوئی ہے۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ آواز پھیلنی اور بلند ہونی شروع ہوئی جیسا کہ آوازیں ہمیشہ جو میں پھیلا کرتی ہیں۔ پہلے تو وہ آواز مجھے سمٹی ہوئی معلوم ہوئی مگر پھر دُور دُور تک پھیلنی شروع ہوگئی جب وہ آواز تمام جو میں پھیلنے لگی تو میں نے ایک عجیب بات یہ دیکھی کہ وہ آواز ساتھ ہی ساتھ ایک نظارہ کی شکل میں بدلتی چلی گئی۔ گویا وہ خالی آواز ہی نہ رہی بلکہ ساتھ ہی ایک نظارہ بھی پیدا ہو گیا۔ رفتہ رفتہ آواز بھی غائب ہوگئی اور صرف نظارہ رہ گیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ نظارہ سمٹ سمٹا کر تصویر کا ایک فریم بن گیا۔ اُس فریم کو میں حیران ہو کر دیکھنے لگا کہ عجیب تماشا ہے کہ پہلے آسمان سے ایک آواز پیدا ہوئی، پھر وہ آواز جو میں پھیلی، پھیل کر نظارہ بنی اور پھر اس نظارے نے تصویر کے ایک چوکھٹے کی صورت اختیار کر لی۔ اس فریم کی درمیانی جگہ خالی ہے گتے تو لگے ہوئے ہیں مگر تصویر کوئی نہیں۔ مَیں اس فریم کو حیرت سے دیکھنے لگا کہ یہ بات کیا ہے کہ اس فریم میں کوئی تصویر نہیں۔ مگر ابھی کچھ لمبا وقفہ نہیں گزرا تھا کہ میں نے دیکھا کہ اس فریم کے اندر ایک تصویر نمودار ہوگئی ہے۔ اِس پر مَیں زیادہ حیران ہوا اور مَیں نے غور کرنا شروع کیا کہ یہ کس کی تصویر ہے۔ ابھی میں اس پر غور ہی کر رہا تھاکہ تصویر ہلنی شروع ہوئی اور پھر تھوڑی دیر کے بعد یکدم اس میں سے ایک وجود کُود کر میرے سامنے آ گیا اور اُس نے مجھے کہا کہ میں خدا کا فرشتہ ہوں کیا مَیں تم کو سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں۔ مَیں نے کہا اگر تم مجھے سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھا دو تو اور کیا چاہئے۔ اُس نے کہا تو پھر سنو۔ چنانچہ مَیں بھی کھڑا ہوں اور وہ بھی۔ اُس نے تفسیر بیان کرنا شروع کر دی اور مَیں اسے سنتا رہا۔ جب وہ ۶؎پر پہنچا تو کہنے لگا آج تک جس قدر مفسرین نے تفسیریں لکھی ہیں اُن سب نے صرف اس آیت تک تفسیر لکھی ہے۔ آگے تفسیر نہیں لکھی۔ مجھے خواب میں فرشتہ کی اس بات پر حیرت محسوس ہوتی ہے مگر زیادہ حیرت نہیں۔ جاگتے ہوئے تو اگر کوئی شخص ایسی بات کہے تو دوسرا فوراً شور مچانے لگ جائے کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ مفسرین نے تو سارے قرآن کی تفسیریں لکھی ہیں مگر خواب میں مجھے فرشتہ کی اس بات پر حیرت نہیں ہوتی اور مَیں سمجھتا ہوں کہ ایسا ہی ہوگا۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ میں تمہیں آگے بھی تفسیر سکھاؤں؟ میں نے کہا ہاں سکھاؤ۔ چنانچہ اس نے۷؎ تک ساری تفسیر سکھا دی اور میری آنکھ کھل گئی۔ اُس وقت مجھے فرشتہ کی سکھائی ہوئی باتوں میں سے دو تین باتیں یاد تھیں لیکن چونکہ دو تین بجے کا وقت تھا مَیں بعد میں پھر سو گیا نتیجہ یہ ہوا کہ جب مَیں دوبارہ اُٹھا تو مجھے ان باتوں میں سے کوئی بات بھی یاد نہ رہی۔ صبح اُٹھ کر میںحضرت خلیفہ اوّل کے پاس پڑھنے کے لئے گیا، اُس وقت حضرت خلیفہ اوّل مجھے طب پڑھایا کرتے تھے، بخاری غالباً ابھی شروع نہیں کی تھی یا شاید شروع کی ہوئی ہو (مجھے اب صحیح طور پر یاد نہیں) میں نے آپ سے کہا کہ آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھائی گئی ہے۔ چنانچہ میں نے اس رؤیا کو بیان کرنا شروع کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ یہ رؤیا سنتے وقت حضرت خلیفہ اوّل کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگ گیا۔ جب رؤیا ختم ہوا تو آپ نے فرمایا اُن باتوں میں سے کچھ ہمیں بھی سناؤ جو فرشتہ نے تمہیں سکھائی ہیں۔ میں نے کہا دو تین باتیں مجھے یاد تھیں مگر چونکہ بعد میں مَیں سو گیا اس لئے وہ باتیں مجھے یاد نہیں رہیں۔ اِس پر حضرت خلیفہ اوّل ناراض ہو کر فرمانے لگے تم نے بڑی غفلت کی کہ فرشتہ کی سکھائی تفسیر کو بُھلا دیا۔ اگر تمہیں ساری رات بھی جاگنا پڑتا تو تمہیں چاہئے تھاکہ تم جاگتے اور اُن باتوں کو لکھ لیتے، سونے کے بعد تو خواب بدل جایا کرتا ہے۔ اُس وقت میرے دل میں بھی ندامت پیدا ہوئی اور مجھے احساس ہوا کہ اگر میں فرشتہ کی بتائی باتوں کو لکھ لیتا تو اچھا ہوتا کیونکہ پہلے کسی اور تاویل کی طرف میرا ذہن نہیں جاتا تھا مگر بعد میں مَیں نے دیکھاکہ اللہ تعالیٰ کا متواتر میرے ساتھ یہ سلوک ہے کہ جب میں سورہ فاتحہ پر غور کروں تو وہ ہمیشہ اس سورۃ کے نئے مطالب مجھ پر کھولتا ہے۔ ابھی گزشتہ سال اللہ تعالیٰ نے اسلام کی اقتصادی، سیاسی اور تمدنی ترقی کے متعلق سورہ فاتحہ سے ایک لمبا مضمون مجھے بتایا۔ وہ مضمون اپنی ذات میں اس قدر اہم اور عظیم الشان ہے کہ اگر اس کو پوری طرح سمجھ لیا جائے تو ان تمام مفاسد کو کامیاب طور پر ردّ کیا جاسکتا ہے جنہوں نے آج دنیا کو نئی قسم کی مشکلات میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ گویا سورہ فاتحہ صرف روحانی ترقی کے ذرائع ہی بیان نہیں کرتی بلکہ اس میں ہر قسم کے فلسفی، سیاسی اور اقتصادی جھگڑوں کے دور کرنے کے ذرائع بھی بیان کئے گئے ہیں اور ایسے طریق بتائے گئے ہیں جن پر چل کر دجال کی ظاہری شان و شوکت کو مٹایا جا سکتا ہے۔
بہرحال ایک لمبے عرصہ سے اللہ تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ سلوک چلا آ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ سورۃ فاتحہ کے نئے حقائق مجھ پر روشن فرماتا ہے یہاں تک کہ دنیا کا کوئی اہم مسئلہ نہیں جس کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے میں نے سورۃ فاتحہ پر غور کیا اور مجھے اس کا صحیح حل اس سورۃ سے نہ مل گیا ہو۔ جس وقت میں نے یہ رؤیا دیکھا میری عمر ۱۷ سال تھی اور اب میری عمر ستاون ۵۷ سال ہے گویا چالیس سال اس رؤیا پر گزر چکے ہیں۔ اس چالیس سالہ عرصہ میں کبھی ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ دشمن نے کوئی اعتراض کیا ہو اور اس کا جواب تفصیلی طور پر قرآن کریم سے معلوم نہ ہوا تواجمالی طور پر سورہ فاتحہ سے نہ مل گیا ہو اور میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایسا متواتر اور مسلسل سلوک ہے کہ اس کے خلاف کبھی ایک دفعہ بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے سورۃ فاتحہ پر غور کیا ہو تو اس کے بیسیوں نئے مضامین مجھ پر نہ کھولے گئے ہوں۔ بے شک کچھ مضامین ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمیشہ دُہرانے پڑتے ہیں مگر ان مضامین کے علاوہ جب بھی میں نے سورہ فاتحہ پر غور کیا ہے ہمیشہ کچھ نہ کچھ زائد مضامین بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے عطا کئے گئے ہیں۔
تفسیر کبیر کی پہلی جلد جب میں نے لکھنی شروع کی تو اُس وقت میں چاہتا تھا کہ سورہ فاتحہ کی تفسیر کو تیس چالیس صفحات میں ہی ختم کر دیا جائے کیونکہ میرا منشاء یہ تھا کہ چھوٹے چھوٹے تفسیری نوٹوں کے ساتھ جلد سے جلد سارا قرآن کریم شائع کر دیا جائے۔ پس چونکہ ارادہ یہ تھا کہ مختصر نوٹ ہوں اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ سورہ فاتحہ کی تفسیر کو تیس چالیس صفحات تک ہی محدود رکھا جائے اور چونکہ پُرانے مضامین ہی اس کثرت کے ساتھ ہیں کہ اگر ان کو لکھا جائے تو وہ تیس چالیس صفحات میں نہیں آ سکتے اس لئے میں نے سمجھا کہ اس تفسیر کے لئے کسی نئے مضمون کی ضرورت نہیں پُرانے مضامین ہی کافی ہیں مگر لکھتے لکھتے مجھے خیال آیا کہ اگر اللہ تعالیٰ اِس وقت بھی کوئی نیا نکتہ سمجھا دے تو یہ اس کا فضل اور احسان ہوگا۔ چنانچہ اِدھر میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی اور اُدھر فوری طور پر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے سورہ فاتحہ کے چند ایسے نئے نکات سمجھا دیئے جو پہلے کبھی ذہن میں نہیں آئے تھے اور جو نہایت اہم اور اصولی نکتے تھے جن کا سلسلہ اور اسلام کی ترقی کے ساتھ گہرا تعلق تھا چنانچہ میں نے ان نکات کو بھی تفسیر میں درج کر دیا۔ غرض میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ سلوک چلا آ رہا ہے کہ وہ غور کرنے پر سورہ فاتحہ کے نئے سے نئے مطالب مجھ پر روشن فرماتا ہے اور درحقیقت علم وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو بندہ آخر دوسرے کو کتنا سکھا سکتا ہے معمولی معمولی ضرورتیں بھی تو انسان پورے طور پر دوسرے کو نہیں بتا سکتا۔ پھر علمی اور اخلاقی اور روحانی ضرورتیں کوئی انسان دوسرے کو کس طرح بتا سکتا ہے اور کس طرح کوئی انسان دوسرے کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ میں آجکل بیمار ہوں میں نے دیکھا ہے بعض دن مجھ پر ایسے گزرتے ہیں کہ نہ میں پیشاب کے لئے جا سکتا ہوں نہ پاخانہ کے لئے، چارپائی پر ہی پاٹ رکھنا پڑتا ہے اور حالت ایسی ہوتی ہے کہ نہ دائیں کروٹ بدل سکتا ہوں نہ بائیں بالکل سیدھا لیٹا رہتا ہوں اور ۱۰،۱۰،۱۲،۱۲ بلکہ بعض دفعہ ۲۴،۲۴ گھنٹہ تک یہی حالت رہتی ہے۔ اگر اس دَوران میں افاقہ بھی ہو تو بہت معمولی ہوتا ہے ایسی حالت میں اگر بیوی بعض دفعہ تھوڑی دیر کے لئے بھی اپنے کسی کام کے لئے جانا چاہے اور وہ کہے کہ اگر کوئی ضرورت ہوتو مجھے بتا دیں تو میں نے دیکھا ہے دو چار منٹ کی ضرورتیں بھی پورے طور پر نہیں بتائی جا سکتیں۔ بعض دفعہ خیال آتا ہے کہ کوئی ضرورت نہیں مگر اس کے جاتے ہی کئی قسم کی ضرورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بعض دفعہ کہا جاتا ہے صرف دوائی پاس رکھ دو اور کسی چیز کی ضرورت نہیں مگر بعد میں خیال آتا ہے کہ ایک ضروری خط لکھنا تھا اس کے لئے قلم چاہئے مگر اُس وقت کوئی ایسا شخص قریب نہیں ہوتا جسے قلم پکڑانے کے لئے کہا جائے۔ جب چھوٹی چھوٹی ضرورتیں بھی انسان دوسرے کو پورے طور پر نہیں بتا سکتا تو دین کے معاملہ میں کون شخص ایسا ہو سکتا ہے جو اوّل سے آخر تک تمام باتیں دوسروں کو بتا سکے۔ اگر دوسروں کی بتائی ہوئی باتوں پر ہی انسان اپنا انحصار رکھے اور خدا تعالیٰ سے اس کا ذاتی تعلق نہ ہو تو عملی زندگی میں اس کی یہی حالت رہے گی کہ
دیکھ لو سرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھ لو۔ آپ نے قرآنی احکام کی کس قدر تشریح کی ہے اور کس کثرت کے ساتھ آپ نے اپنی اُمت کو روحانی مسائل سکھائے ہیں مگر باوجود ان تمام تشریحات کے ہر زمانہ میں نئے سوال پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کے لئے کوئی نیا مثیل محمدؐ پیدا ہوتا ہے اور وہ لوگوں کے پیدا کردہ شبہات و وساوس کا ازالہ کرتا ہے اور یہ سنت اللہ ایسی ہے جو ہر زمانہ میں جاری رہتی ہے۔ ہر زمانہ کی الگ الگ ضرورتیں ہوتی ہیں اور ہر زمانہ میں دشمنانِ اسلام کی طرف سے نئے نئے اعتراضات کئے جاتے ہیں اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں ان کے اعتراضات کے جوابات اور اسلام کے احیاء کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئے مثیل محمدؐ پیدا ہوں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم جس قدر باتیں بیان کرتے ہیں وہ قرآن کریم میں موجود ہوتی ہیں، احادیث سے ان کی تائید ہوتی ہے، آئمہ سلف کی شہادت ان کے حق میں موجود ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ ہم اپنے پاس سے وہ باتیں بتاتے ہیں ہم جو کچھ مال پیش کرتے ہیں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہی مال ہوتا ہے مگر بہرحال ہر زمانہ کے مفاسد کے لحاظ سے پرانی باتوں کو نئے الفاظ میں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ دشمن اپنے اعتراضات کی کمزوری سے واقف ہو کر شرمندہ ہو اور چونکہ اعتراضات ہمیشہ بدلتے چلے جاتے ہیں اور کوئی ایک شخص تمام باتیں پورے طور پر نہیں بتا سکتا اس لئے اصل چیز جس کی طرف ایک مؤمن کو ہمیشہ توجہ رکھنی چاہئے یہ ہے کہ اس کا اللہ تعالیٰ سے براہِ راست تعلق پیدا ہو جائے تا کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے پاس سے اسے علم سکھائے دوسرے انسانوں کی احتیاج جاتی رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی جماعت زندہ نہیں رہ سکتی اور کوئی جماعت کامیاب طور پر اپنے فرائض کو ایک لمبے عرصہ تک ادا نہیں کر سکتی جب تک اُس کے افراد میں یہ تڑپ نہ ہو کہ ہمارا خداتعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق ہو جائے کہ خدا کا پیار ہمیں حاصل ہو، ہم اس کے نام پر فدا ہونے والے ہوں اور وہ ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہو۔ جب تک یہ تعلق مضبوط سے مضبوط تر نہ ہوتا چلا جائے اور محبتِ الٰہی اپنے کمال کو نہ پہنچ جائے اُس وقت تک کوئی انسان تنزّل سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ نجات اسی کے لئے ہے جس نے اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کی اور پھر اس محبت کو اس حد تک بڑھایا کہ اس کے رگ و ریشہ میں اس کا اثر سرایت کر گیا۔
دوسری بات جس کی طرف مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ تمہیں اس بات پر کامل یقین اور ایمان رکھنا چاہئے کہ خواہ دنیا تمہاری کس قدر مخالفت کرے اور تمہاری کامیابی کے راستہ میں کس قدر روڑے اٹکائے تم نے بہرحال جیتنا ہے۔ اگر تم میں سے کسی شخص کے دل میں یہ وسوسہ ہے کہ اس نے نہیں جیتنا تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ بھی اسے احمدی نہیں سمجھتا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے احمدی نہیں سمجھتے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسے احمدی نہیں سمجھتے اور میں بھی اسے احمدی نہیں سمجھتا۔ جس شخص کے دل میں ایک لمحہ کے لئے بھی یہ وسوسہ پیدا ہو جائے کہ ہم دنیا کے مقابلہ میں ہار جائیں گے، دنیا جیت جائے گی اور ہم اپنے مقصد میں ناکام رہیں گے وہ ہرگز احمدی نہیں اور اس نے قطعاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد اور اس کی بعثت کی غرض کو نہیں سمجھا۔ جس شخص کے آنے کی اُمت محمدیہ کے تمام اولیاء خبر دیتے چلے آئے ہیں، جس شخص کے آنے کی گزشتہ انبیاء تک نے خبریں دی ہیں اور جس شخص کے آنے کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا آنا قرار دیا ہے اگر اُس نے بھی دنیا کے مقابلہ میں ہارجانا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہار گئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا ہار نہیں سکتے اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہار نہیں سکتے تو آپ کا مثیل کیسے ہار سکتا ہے۔ پس ہم نے یقینا جیتنا ہے مگر ہم کس طرح جیتیں گے؟ یہ ابھی عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ فتح اور غلبہ کے حصول کے لئے جس انتہائی اخلاص اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ بہ تمام و کمال ابھی ہمارے پاس نہیں یا اگر ہے تو جماعت کے افراد اس سے پوری طرح کام نہیں لیتے۔ ہماری جماعت میں بے شک قربانی کی بہت بڑی روح پائی جاتی ہے اور یہ قربانی اور ایثار کا مادہ اس حد تک ہماری جماعت میں پایا جاتا ہے کہ جب میں اپنی جماعت کی بعض قسم کی قربانیوں کو دیکھتا ہوں یا جب میں اپنی جماعت کے بعض افراد کی قربانیوں کودیکھتا ہوں تو مجھے حیرت آتی ہے کہ ایسے مواد کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے میں کیوں دیر ہو رہی ہے اور کیوں ہماری جماعت کو موجودہ حالت سے بہت بڑھ کر ترقی حاصل نہیں ہوتی۔ لیکن جب میں اپنی جماعت کے کمزور طبقہ پر اپنی نگاہ دَوڑاتا ہوں اور قومی کاموں میں اس کی کمزوری اور غفلت کا مشاہدہ کرتا ہوں تو مجھے حیرت آتی ہے کہ جماعت کو وہ ترقی ملی کیوں جو اِسے حاصل ہے۔ گویا میری حالت بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسے آئینہ خانہ میں جانے والے کی ہوتی ہے۔ جس طرح وہ حیران و پریشان سا ہو جاتا ہے اسی طرح میں بھی جب جماعت کے بعض لوگوں کی یا تمام جماعت کی بعض قسم کی قربانیوں کو دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اس ایثار اور قربانی کے باوجود ہماری جماعت نے کیوں موجودہ حالت سے بہت زیادہ ترقی نہیں کی اور کیوں الٰہی مدد اور اس کی نصرت کے نزول میں دیر ہو رہی ہے؟ لیکن جب میں بعض لوگوں کی کمیِ اخلاق اور ان سے ناقص اعمال کو دیکھتا ہوں اور دینی معاملات میں ان کی غفلت اور کوتاہی پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس قسم کے کمزور طبقہ کے ہوتے ہوئے ہماری جماعت کو جو ترقی ہوئی ہے وہ کیسے ہوئی ہے۔ بہرحال خواہ کمزور طبقہ کی کمزوری اور اس کی غفلت جماعت کیلئے کس قدر اندوہناک ہو یہ یقینی اور قطعی امر ہے کہ ہم نے دنیا پر غالب آنا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم نے کس ذریعہ سے اور کن طریقوں سے جیتنا ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ اسلام کی اس فتح اور غلبہ میں ہمارا اور ہمارے عزیزوں کا کس قدر حصہ ہوگا میں تمہارے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا کہ تم اپنے دلوں میں کیا خیالات رکھتے ہو لیکن میں اپنے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ میرے دل میں یقینا یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اسلام اور احمدیت کو جو فتح حاصل ہونے والی ہے اس میں میرا اور میری اولاد اور میرے پیاروں کا بھی حصہ ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت اخلاص کے اُس بلند مقام تک نہیں پہنچی جس کے بعد کوئی لغزش انسانی قدم کو متزلزل نہیں کر سکتی۔ اگر تم سارے کے سارے اپنے دل میں یہ سمجھتے ہو کہ ہماری جماعت کا ہر فرد مخلص ہے تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہ خیال درست نہیں۔ اگر تم اپنے دماغ کا تجزیہ کرو، اپنے اعمال پر نظر ڈالو اور سلسلہ کے لئے جو کچھ تم سے مطالبات کئے جارہے ہیں اُن پر غور کرتے ہوئے اپنی قربانیوں کو دیکھو تو تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ تم میں سے ہر فرد مخلص نہیں۔ کئی چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی پیدا ہو جاتی ہیں جن سے سلسلہ سے حقیقی اخلاص اور محبت رکھنے والا کبھی ٹھوکر نہیں کھاسکتا مگر جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان باتوں پہ ٹھوکر کھا جاتے ہیں اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جماعت کا ہر فرد مخلص ہے یا ہر فرد سلسلہ کے لئے قربانی کرنے کا انتہائی جذبہ اپنے دل میں رکھتا ہے لیکن بہر حال ایسے لوگ منہ سے تو میری طرف ہی اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں اور ان کی کمزوریاں جماعت کے دوسرے طبقہ پر اثر انداز ہوتی ہیں اس لئے ہم ان کی اصلاح سے غافل نہیں ہو سکتے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ رات کو جب مجھے اپنی جماعت کے اس کمزور طبقہ کا خیال آتا ہے تو میری نینداُڑ جاتی ہے اور میں گھنٹوں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ خدایا! میں کیا کروں اور کس طرح اس طبقہ کی اصلاح کروں؟ میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے میں ان کے دلوں کے گند کو دور کر سکوں۔ انسانی طاقت میں کسی کی اصلاح کے جس قدر ذرائع میں استعمال کرتا ہوں۔ میں تعلیمِ قرآن بھی دیتا ہوں، میں قربانی کی روح پیدا کرنے کے لئے تقریریں بھی کرتا ہوں اور شاید میں نے اتنی تقریریں کر لی ہیں کہ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو بڑے سے بڑے مصنّف کی کتابوں سے بھی بڑھ جائیں اور بیسیوں مجلدات اُن سے تیار ہوجائیں مگر باوجود ان تمام باتوں کے ابھی ایک طبقہ ایسا ہے جس کے دل میں دین کی اشاعت کے لئے وہ دُھن اور جنون نہیں جو صحابہ کے اندر پایا جاتا تھا۔
دیکھو کامیابی حاصل کرنے کا ایک گُر یہ ہوتا ہے کہ قوم کی اکثریت درست ہو جائے تو وہ اقلیت پر غالب آجایا کرتی ہے یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھُمُ اقٖتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ۸؎ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چل پڑو تم ہدایت پا جاؤ گے۔ اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی اکثریت کو ہدایت یافتہ قرار دیا ہے اور بِاَیِّھُمْ میں اسی طرف اشارہ ہے ورنہ مسلمانوں میں بعض منافق بھی تھے اور اس کا خود احادیث سے پتہ چلتا ہے مگر چونکہ کثرت ایسی تھی جس کی اصلاح ہو چکی تھی اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے فرمایا اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھُمُ اقٖتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے تمہیں نظر آجائے گا کہ وہ خدا کے ساتھ چل رہا ہے اس لئے ممکن ہی نہیں کہ تم گمراہ ہو جاؤ۔اصل بات یہ ہے کہ ہدایت خداتعالیٰ سے ملتی ہے اور وہی شخص دوسروں کے لئے ہدایت کا موجب بن سکتا ہے جس کا خدا تعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق ہو کہ اسکی کوئی حرکت اور اس کا کوئی فعل اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے احکام کے خلاف نہ ہو۔ پس چونکہ قطعی ہدایت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس لئے دوسروں کے لئے بھی ہدایت کا موجب وہی شخص ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ چل رہا ہو اور جس کی نگاہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف ہی اُٹھتی ہو۔ اورچونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ خدا تعالیٰ کے پیچھے چل رہے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ میرے صحابہؓ اللہ تعالیٰ سے کیسا مضبوط تعلق رکھتے ہیں اس لئے آپ نے فرمایا میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں ان کی اکثریت ہدایت پر قائم ہے اس لئے تم ان میں سے جس شخص کے پیچھے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پا جاؤ گے کیونکہ وہ خدا کے پیچھے چل رہا ہے یہ جماعت ہے جو جیتا کرتی ہے اور ایسی ہی جماعت کی ہمیں ضرورت ہے جب تک اِس قسم کی جماعت پیدا نہ ہو اُس وقت تک خواہ دس ہزار عالم روزانہ پانچ پانچ سات سات تقریریں کرتے رہیں دنیا میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہو سکتا لیکن جس دن یہ جماعت پیدا ہو جائے گی اس دن تم میں سے ہر شخص عالم ہو گا، تم میں سے ہر شخص عارف ہو گا اور تم میں سے ہر شخص کو خدا تعالیٰ اپنے پاس سے علم سکھائے گا۔ہم نے دیکھا ہے بعض دفعہ معمولی عورتوں کے منہ سے ایسی ایسی معرفت کی باتیںنکلتی ہیں کہ ان کو سُن کر دل خوشی سے اُچھلنے لگ جاتا ہے۔ میں نے خود بعض جاہل اور اَن پڑھ مردوں سے دین کے ایسے ایسے نکات سُنے ہیں کہ میں نے ان کا گھنٹوں اپنے دل میں مزہ اُٹھایا ہے کیونکہ ظاہری لحاظ سے جاہل اور اَن پڑھ ہونے کے باوجود اُن کا خدا سے تعلق تھا اور خدا نے ان کو اپنے پاس سے علم سکھایا۔
پس حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑی چیز تعلق باللہ ہے جب کوئی شخص سچے دل سے خدا کا ہو جائے اور وہ اپنی تمام خواہشات اور ارادوں کو اس کے لئے ترک کر دے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ضرور نئے علوم سکھائے جاتے ہیں اور وہ معرفت اور حکمت میں ترقی کرتے ہوئے کہیں کا کہیں جا پہنچتا ہے۔ موجودہ بیماری میں مجھے جماعت کے متعلق سب سے زیادہ احساس اس بات کا رہا ہے کہ ہماری جماعت کے افراد کا خدا تعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ خود اسے اپنے پاس سے علم سکھائے اور اس کی ہر ضرورت کو پوراکرے۔یہ بیماری عام طور پر لمبی چلتی اور بار بار دورہ کرتی ہے خصوصاً اس عمر میں جس مَیں سے میں گذر رہا ہوں۔ اگر کسی کو یہ مرض ہو جائے تو عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہ مرض دور نہیں ہوتا اِس بناء پر میرے لئے یہ مسئلہ اِس بیماری میں اور بھی اہم ہو گیا اور اس پر غورکرنا میرے لئے ضروری ہوگیا۔ مَیںہمیشہ ہی اس مسئلہ کو سوچتا رہا ہوں کہ آخر ایک دن ایسا آئے گا جب میرا کام ختم ہو جائے گا اس دن سے پہلے پہلے اگر میں اس اصلاح میں کامیاب ہو جاؤں جو جماعتی ترقی کے لئے ضروری ہے اور جس کے بعد جماعت کا قدم اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی تنزّل کی طرف نہیں جا سکتا تو یہ میرے لئے انتہائی خوشی کا مقام ہوگا۔ میں نے قدم بقدم خدا تعالیٰ سے دعائیں اور استمداد کرتے ہوئے مختلف راستے تجویز کئے اور رفتہ رفتہ میں نے ان راستوں کو جماعت کے سامنے پیش کیا مجھے خوشی ہے کہ جماعت نے میری اُن تجاویز پر ایک حد تک عمل کیا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسی برکت عطافرمائی کہ وہ اپنی تعداد اور اپنے وقار کے لحاظ سے کہیں سے کہیں جاپہنچی کجا تو یہ حالت تھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں جو آخری سالانہ جلسہ ہوا اُس میں شامل ہونے والوں کی کل تعداد سات سَو تھی اور حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی میں جو آخری سالانہ جلسہ ہوا اس میں شامل ہونے والوں کی کل تعداد تیرہ سَو تھی اور کُجا یہ حالت ہے کہ اب ہمارے جلسہ کی حاضری اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۳۴،۳۵ ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے گویا حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کے زمانہ میں آخری جلسہ سالانہ پر جس قدر آدمی آئے تھے اُن سے ۲۵ گنا زیادہ آدمی آج ہمارے سالانہ جلسہ میں موجود ہیں اور یہ تعداد ایسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال زیادتی ہوتی چلی جاتی ہے۔ میں نے بارہا کہاہے گو میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں تقریر کرنے کے بعد یہاں سے زندہ اُٹھوں گا یا نہیں مگر جو کچھ میں کہتا ہوں( اور میں وہی کچھ کہتا ہوں جو مجھے خدا تعالیٰ نے کہا)وہ یہ ہے کہ میرے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کے لئے غلبہ اور ترقی اور کامیابی ہی مقدر ہے اور کوئی اس الٰہی تقدیر کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا اس بات پر خواہ کوئی ناراض ہو،شور مچائے، گالیاں دے یا بُرا بھلا کہے اس سے خدائی فیصلہ میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا ۔ یہ تقدیرمبرم ہے جس کا خدا آسمان پر فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ میری زندگی کے آخری لمحات اور میرے جسم کے آخری سانس تک جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھاتا چلا جائے گا۔ جس طرح خدا کی بادشاہت کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا اس طرح خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے وعدہ کو بھی کوئی شخص بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ یہ زمین وآسمان کے خدا کا وعدہ ہے کہ بہرحال میری زندگی میں جماعت کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ میں نہیں جانتا کہ میرے بعد کیا ہوگا مگر بہر حال یہ خدائی فیصلہ ہے میری زندگی میں کوئی انسانی طاقت اس سلسلہ کی ترقی کو روک نہیں سکتی۔ خدا نے اس جماعت اور سلسلہ کی ترقی کو میری ذات سے وابستہ کر دیا ہے اور اُس نے اپنے نام اور اپنی طاقت اور اپنے جلال کے اظہار کے لئے مجھے چُن لیا ہے باوجود اس بات کے کہ میں ایک نہایت کمزور اور جاہل انسان ہوں خدا نے اپنے نام کی اشاعت اور اپنے جلال کے اظہار کو میرے نام کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے جس طرح لکڑی کے تختہ پر کوئی بادشاہ یا شہزادہ سوار ہو جائے تو جب لکڑی کا تختہ پانی میں تیرے گا لازماً بادشاہ بھی اُس کے ساتھ ہی اِدھر اُدھر ہو گا اُس وقت کوئی شخص حقارت کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ اٹھنی کا تختہ ہے اور میں اسے توڑ پھوڑ دوں کیونکہ اُس تختہ پر بادشاہ سوار ہوتا ہے اور اس لکڑی کو چھیڑنے کے معنٰی تخت شاہی کو چھیڑنے کے ہوتے ہیں اسی طرح وہ شخص جو مجھ کو چھیڑے گا وہ مجھ کو نہیں بلکہ عرشِ الٰہی کو چھیڑے گا کیونکہ خدا نے اپنے جلال کا اظہار میرے نام سے وابستہ کر دیا ہے۔ لیکن بہرحال میں نے ایک دن مرنا ہے دنیامیںکوئی شخص عارضی اور فانی کاموں کے متعلق بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ اس کی موت کے ساتھ ختم ہو جائیںپھر جو چیز بمنزلہ جان اور روح ہو اس کے متعلق کون شخص پسند کر سکتا ہے کہ وہ اُس کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو جائے۔ خدا تعالیٰ کے نام کی بلندی اور اس کے جلال کا اظہار ہر مؤمن کی جان اور اُس کی روح ہے پھر کوئی مؤمن یہ کس طرح برداشت کر سکتا ہے کہ میں مروں تو خدا تعالیٰ کا نام بھی دنیا سے مٹ جائے اِسی طرح میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا نام صرف میرے ساتھ وابستہ نہ ہو بلکہ خداتعالیٰ کا نام تمہارے ساتھ وابستہ ہو جائے کیونکہ انسان مر سکتا ہے مگر قوم نہیں مر سکتی۔ جب کوئی نام کسی قوم کے ساتھ وابستہ ہو جائے تو پھر وہ چلتا چلا جاتا ہے اور قوم کے بیٹے نسلاً بعد نسلٍ اُس مقدس امانت کے حامل بنتے چلے جاتے ہیں۔ درحقیقت فرد کے ساتھ کسی چیز کی وابستگی قومی لحاظ سے کوئی بڑا کمال نہیں ہوتا۔ قومی لحاظ سے بڑائی تبھی ہوتی ہے جب قوم سے اللہ تعالیٰ کا نام وابستہ ہو جائے اسی لئے مجھے ہمیشہ یہ تڑپ رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت تمہارے دلوں میں پیدا ہو جائے اور اس سے سچا اور مخلصانہ تعلق تم کو حاصل ہو اور مَیں اس غرض کے لئے ہمیشہ کئی قسم کی کوششیں کرتا رہا ہوں۔ میں نے ہزاروں راستے اور ہزاروں ذرائع تمہارے سامنے رکھے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ان ذرائع پر عمل کر کے سینکڑوں اور ہزاروں مخلص بھی پیدا ہوئے مگر پھر بھی ہماری جماعت میں حقیقی اخلاص کی ابھی کمی ہے جس کے لئے مَیں اللہ تعالیٰ سے متواتر دعائیں کرتا رہتا ہوں۔
اب اس موقع پر مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ یاد رکھو کہ میری موت یا حیات تو کوئی چیز ہی نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موت بڑی چیز تھی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ان سے بھی بڑی چیز تھی مگر اس حقیقت کے باوجود میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اگر جماعت حقیقی ایمان پر قائم ہو اور وہ خدا تعالیٰ سے سچا اور مضبوط تعلق رکھتی ہو تو کسی بڑے سے بڑے نبی کی وفات بھی اس کے قدم کو متزلزل نہیں کر سکتی بلکہ بعض برکات اور ترقیات ایسی ہوتی ہیں جو انبیاء کی وفات کے بعد قوم کو حاصل ہوتی ہیں بشرطیکہ قوم صحیح رنگ میں ایمان پر قائم ہو۔ پس اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرو اور اپنے نفوس میں ایسا تغیر رونما کرو کہ تمہارے دلوں میں یہ بات گڑ جائے کہ ہم نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ سے وابستہ کرناہے اور اس کی محبت اور پیار کو حاصل کرنا ہے۔ جب کسی کو خدا تعالیٰ کی محبت حاصل ہو جائے تو پھر نصیحت کی آواز خود انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے بیرونی نصیحتوں کی اُسے ضرورت نہیں رہتی۔
ہماری جماعت کو یہ امر بھی کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہ مقدر کر رکھا ہے کہ ہم اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب پر غالب کریں مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچانے کے لئے دنیا کے تمام ممالک میں اپنے مبلّغین پھیلانے کی کوشش کریں۔ میں ایک لمبے غورکے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگرہم صحیح طور پر تبلیغ کرنا چاہیں تو فی مرکز ہمیں کم از کم چھ مبلّغ رکھنے چاہئیں۔ یہ تعداد اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور ایک وسیع علاقہ میں چھ مبلّغین کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن پھر بھی اگر بیج کے طور پر ہم اپنی تبلیغ کو دنیا میں پھیلانا چاہیں تو اس سے کم میں ہمارا گزارہ نہیں ہو سکتا۔ یہ چھ مبلّغ جو ایک علاقہ کے لئے تجویز کئے گئے ہیں اس سے مراد کوئی چھوٹا علاقہ نہیں بلکہ سرِدست ہمارے مد نظر یہ ہے کہ اگر ہم یونائٹیڈسٹیٹس امریکہ جیسے وسیع مُلک میں اپنا مرکز قائم کریں تو وہاں بھی اپنے چھ مبلّغ رکھیں حالانکہ وہاں کی آبادی بارہ کروڑ ہے اور وہ ہندوستان سے دو گنامُلک ہے۔ اسی طرح ہم یہ چھ مبلّغ آسٹریلیا کے لئے تجویز کر رہے ہیں حالانکہ وہ ہندوستان سے تگنا علاقہ ہے لیکن بظاہر یہ تعداد خواہ کس قدر ناکافی ہو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم جو بھی مشن قائم کریں اُس کو کامیاب طور پر چلانے کے لئے ایک علاقہ میں ابتدائی طور پر چھ مبلّغ رکھیں۔ ان چھ مبلّغین میں سے ایک تو ایسا ہوگا جس کا کام یہ ہوگا کہ وہ مرکز میں بیٹھ کر رات دن کام کرے جو لوگ ملنے کے لئے آئیں ان سے تبادلۂ خیالات کر ے۔ انہیں سلسلہ کے حالات بتائے۔ مکان اور مسجد وغیرہ دکھائے اور ان کے شبہات کا ازالہ کرے گویا وہ مرکزی انچارج ہو گا۔
دوسرے مبلّغ کا یہ کام ہو گا کہ وہ علمی طبقہ سے اپنے تعلقات رکھے اور انہیں احمدیت کی خصوصیات وغیرہ سے آگاہ کرتا رہے۔ مثلاً جو لوگ عربی یا فارسی جاننے والے ہوں یااسلامی اصول سے دلچسپی رکھتے ہوں یا مثلاً پادری وغیرہ جو مذہبی آدمی سمجھے جاتے ہیں ایسے تمام لوگوں سے اس کے تعلقات ہوں۔ اسی طرح علمی اداروں میں اس کی آمدورفت ہواور وہ مُلک کے تعلیم یا فتہ طبقہ سے اچھے تعلقات رکھنے والا ہوتا کہ علمی حلقہ میں احمدیت کو مقبولیت حاصل ہو اور لوگوں کے دلوں میں جووساوس پائے جاتے ہیں اُن کا ازالہ ہو۔
تیسرا مبلّغ ایسا ہو گا جس کا کام یہ ہوگا کہ بڑے بڑے اور بااثر لوگوں سے اپنے تعلقات رکھے اور مُلک کے اندر جو ان کی پارٹیاں پائی جاتی ہوں ان کے خیالات کو درست رکھنے کی کوشش کرے۔ یہ کام اپنی ذات میں نہایت اہم اور جماعت کی ترقی کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھنے والا ہے۔ اس مبلّغ کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ بڑے بڑے لوگوں سے اپنے تعلقات رکھے تاکہ مُلک کے ہر طبقہ میں اس کے دوست موجود ہوں اور جب بھی کوئی بات احمدیت کے خلاف ہو یا گورنمنٹ کسی غلط فہمی کی بناء پر کوئی ناجائز قدم اُٹھانے لگے تو خود مُلک کے سربرآوردہ لوگ اس کے شبہات کا ازالہ کرنے کے لئے آگے بڑھیں اور وہ لوگوںکو بتا سکیں کہ احمدیت کیا چیز ہے اور وہ دنیا میں کیا تغیر پیدا کرنا چاہتی ہے۔
چوتھے آدمی کا یہ کام ہوگاکہ وہ مُلک بھر کی یونیورسٹیوں سے اپنے تعلقات بڑھائے۔ درحقیقت یونیورسٹیاں مُلک میں خیالات پھیلانے کا گڑھ ہوتی ہیں اور وہی مبلّغ کامیاب ہو سکتے ہیں جو اس نکتہ کو سمجھتے ہوئے یونیورسٹیوں سے اپنے تعلقات زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کریں۔ ہر طالب علم جو کسی سکول یا کالج میں تعلیم پاتا ہے اُسے چونکہ نئے نئے علوم پڑھائے جاتے ہیں اور نئی سے نئی باتیں اُس کے کانوں میں پڑتی ہیں اس لئے اُس کے قلب میں ترقی کا غیرمعمولی جذبہ ہوتا ہے اور وہ خیال کرتاہے کہ پہلوں نے کیا ترقی کی ہے مَیں ایسے ایسے علوم پھیلاؤں گا اور ایسی ایسی ایجادات کروں گا کہ دنیا محو حیرت ہو جائے گی۔ ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ دنیا میں ایسے گزرے ہیں جو مرے تو ایسی حالت میں کہ ایک کلرک سے زیادہ ان کی حیثیت نہیں تھی مگر طالب علمی کے زمانہ میں وہ سمجھتے تھے کہ ہم بادشاہ نہ بنے تو وزیر بننا تو کوئی بات ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ طلباء کے قلوب میں ایک غیر معمولی اُمنگ ہوتی ہے، ان کے خیالات میں بلندی ہوتی ہے اور نئی نئی باتیں سننے اور پھر اُن باتوںکے سیکھنے کا انہیں بے حد شوق ہوتا ہے۔ خود حضرت مسیح موعودؑ پر بھی ابتداء میں زیادہ تر طالب علم ایمان لائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ابتداء میں زیادہ تر وہی لوگ ایمان لائے جو نوجوان تھے۔ بڑی عمر والے حضرت ابوبکرؓ ہی تھے مگر حضرت ابو بکرؓ جب سَوا دو سال کی خلافت کے بعدفوت ہوئے تب وہ اُس تریسٹھ سال کی عمر تک پہنچے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی گویا وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں اڑھائی سال کے قریب چھوٹے تھے۔پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے اور انہوں نے ساڑھے دس سال خلافت کرنے کے بعد ۶۳سال کی عمر میں انتقال کیا۔حضرت ابو بکرؓ کے خلافت کے سَوا دو سال اور حضرت عمر کی خلافت کے ساڑھے دس سال جمع ہو جائیں تو یہ تیرہ سال کا عرصہ بنتا ہے اور چونکہ وہ نبوت کے چھٹے سال ایمان لائے تھے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیس سالہ عہدِ نبوت میں سے چھ سال نکال دئیے جائیں تو سترہ سال رہ جاتے ہیں۔ سترہ سال یہ اور تیرہ سال وہ گویا تیس سال انہوں نے اسلام کی خدمات سرانجام دیں اور چونکہ ان کی وفات تریسٹھ سال میں ہوئی ہے اس لئے معلوم ہوا کہ اسلام لانے کے وقت ان کی عمر ۳۳ سال تھی۔ اسی طرح حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ سترہ سترہ سال کے تھے جب ایمان لائے اور حضرت علی گیارہ سال کے تھے جب انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا نصیب ہوا گویا اسلام کی جڑ اور ستون سب ایسے لوگ ہی ثابت ہوئے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے وقت نوجوان تھے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ اُمنگوں کا زمانہ ہوتا ہے اور انسانی خیالات کی پرواز بہت بلند ہوتی ہے اگر نوجوانوں کو کسی سچائی کا پتہ لگ جائے تو پھر وہ کسی مصیبت اور تکلیف کی پرواہ نہیں کرتے وہ کہتے ہیں ہم مر جائیں گے مگر سچائی کو قبول کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔پس نوجوان طبقہ تک ہمارا اپنی آواز کو پہنچانا نہایت ضروری ہے جس کا طریق یہی ہے کہ ایک مبلّغ ایسا ہو جس کا یونیورسٹیوں سے تعلق ہواور وہ نوجوان طبقہ کو احمدیت کی طرف متوجہ کرتا رہے۔
پانچواں مبلّغ ایسا ہو گا جس کا تجارت سے تعلق ہو گا اور اُس کا فرض ہو گا کہ وہ سلسلہ کے تبلیغی اخراجات کو زیادہ سے زیادہ تجارت کی آمدسے پورا کرنے کی کوشش کرے۔ یہ کام اپنی ذات میں نہایت اہم ہے اور اس کو وسیع طور پر پھیلا کر نہ صرف سلسلہ کے اخراجات کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے بلکہ اس سلسلہ کے اخراجات کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے بلکہ سلسلہ کے لئے نئی آمد بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کام پر جو مبلّغ مقر ہو گا اس کا صرف یہی کام نہیں ہو گا کہ وہ اپنے علاقہ میں تجارت کرے بلکہ اس کایہ کام بھی ہوگا کہ وہ دوسرے ممالک سے تجارتی تعلقات قائم کرے۔ مثلاًانگلستان کا مبلّغ کوشش کرے کہ وہ ایران میں اشیاء بھجوائے یا عرب میں ان کی کھپت کا انتظام کرے اور ایران والا کوشش کرے کہ وہ انگلستان میں چیزیں پہنچائے اس طرح تجارت کو وسیع کرنا، ایک مُلک کے دوسرے مُلک سے تجارتی تعلقات قائم کرنا اور سلسلہ کے اخراجات کو زیادہ سے زیادہ پورا کرنے کی کوشش کرنا اس کا کام ہوگا ۔
چھٹا مبلّغ پراپیگنڈا کے لئے وقف ہو گا اور اس کا فرض ہو گا کہ وہ اخباروں سے تعلقات رکھے جو JOURNALISMکا امتحان پاس کرے،پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرے اور اپنے تعلقات اور دوستیوں کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کی کوشش کرے۔ ہم نے دیکھا ہے اَور تو اَور یورپ جیسے ممالک میں جہاں ایک ایک اخبار کی اشاعت دس دس لاکھ تک ہوتی ہے منہ دیکھے کا لحاظ ہوتا ہے اور چائے کی ایک پیالی اتنا کام کرجاتی ہے جتنا کام بیسیوں روپوں سے نہیں ہوسکتا۔ غرض ایک مبلّغ اشاعت کے لئے وقف ہونا چاہئے اور اُس کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ مصنّفین سے تعلقات رکھے۔ اخبارات اور رسالوں کے مالکوں اور ان کے ایڈیٹروں وغیرہ سے میل جول رکھے اور اس طرح احمدیت کا اثر ان پر قائم کرنے کی کوشش کرے۔ جب تک کسی مرکز میںاس قسم کے چھ مبلّغین نہ رکھے جائیں اور بیک وقت الگ دائرہ میں اپنا کام شروع نہ کریں اُس وقت تک صحیح معنوں میں اشاعتِ اسلام نہیں ہو سکتی۔ گو حقیقت یہ ہے کہ کسی مُلک میں چھ مبلّغین کا موجود ہونا بھی تبلیغی نقطئہ نگاہ سے کسی طرح کافی نہیں سمجھا جاسکتا۔لاہور جیسے شہر میں بھی اگر چھ مبلّغ رکھے جائیں تو وہ سب لوگوں کو پوری طرح تبلیغ نہیں کر سکتے۔ مگر ہم نے بعض علاقوں میں صرف ایک مبلّغ رکھا ہوا ہے اور جب وہ لوگ کسی اور مبلّغ کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہم نے تجھے ایک مبلّغ دیا ہوا ہے حالانکہ واقعہ یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی ہرگز صحیح طور پر تبلیغ نہیں کرسکتا مگر مرکز اس قسم کا جواب دینے پر مجبورہوتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک دفعہ حضرت ابوعبیدہؓ نے لکھا کہ عیسائیوں نے لشکر اسلام پر سخت حملہ کر دیا ہے ان کا کئی لاکھ لشکر ہے اور اسلامی لشکر صرف چند ہزار ہے دشمن کا کامیاب مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم آٹھ ہزار سپاہی ہمیں مدد کے لئے بھجوائے جائیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا تمہارا خط پہنچا جس میں تم نے آٹھ ہزار فوج اپنی مد د کے لئے مانگی ہے میں معدی کرب کو بھیجتا ہوں یہ تین ہزار کاقائم مقام ہے باقی پانچ ہزار سپاہی بھی عنقریب بھیج دئیے جائیںگے۔صحابہؓ کا ایمان بھی دیکھو جب حضرت عمرؓ کا یہ خط پہنچا تو انہوں نے افسوس نہیں کیا کہ عمرؓ نے ہمارے مطالبہ کا کیا جواب دیا ہے بلکہ جب معدی کرب آئے تو حضرت ابوعبیدہؓ نے لشکرِ اسلام سے کہا کہ معدی کرب جن کو حضرت عمرؓ نے تین ہزار کا قائم مقام قرار دیا ہے آرہے ہیںان کا استقبال کرنے چلو۔چنانچہ جب معدی کرب پہنچے تو لشکرِاسلام نے اس زور سے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے نعرے بلند کئے کہ دشمن نے سمجھا مسلمانوں کو کمک پہنچ گئی ہے اور وہ ڈر کر کئی مقامات سے خودبخود پیچھے ہٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے معدی کربوں کی فوج کے سپاہی بھی اب یکے بعد دیگرے اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے باہر جانے شروع ہوگئے ہیں جن کی کوششوں کے نتیجہ میں ہماری جماعت مختلف ممالک میں اب پہلے سے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کر رہی ہے اور اس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چنانچہ مختلف ممالک سے اس قسم کی کئی خوشخبریاں ہمیں مل رہی ہیں مثلاً انگلستان میں پہلے یہ حالت ہوا کرتی تھی کہ کسی ہسٹیریا کی ماری ہوئی عورت کو اگر عیسائیت میں اطمینان حاصل نہ ہوا تو وہ اسلام کی آغوش میں آگئی یا کسی عورت کا کوئی معشوق بھاگ گیا اور اُسے اپنی زندگی دوبھر معلوم ہونے لگی اور پھراس دوران میں اس نے ہمارے مبلّغ کو کہیں تقریر کرتے دیکھ لیا اور اُس نے سمجھا کہ شاید خدا کی پناہ میں مجھے اطمینان حاصل ہو جائے چنانچہ وہ آتی اور اسلام قبول کر لیتی۔ اسی طرح اگر کوئی مرد بھی اسلام قبول کرتا تو ایسا ہی ہوتا جو سوسائٹی کا مارا ہوا ہوتا سوائے تین چار کے جو اچھے طبقہ سے تعلق رکھتے تھے مگر اب نسبتاً زیادہ معقول اور باحیثیت لوگ احمدیت میں شامل ہو رہے ہیں۔
مَیں ہمیشہ اپنے اُن مبلّغوں کو جنہیں یورپ میں تبلیغ کے لئے بھیجا جاتا ہے کہا کرتا ہوں کہ تمہیں عورتوں کی بجائے مردوں کو زیادہ تبلیغ کرنی چاہئے کیونکہ یورپ میں عورتیں مردوں سے تین گناہیں اور اس وجہ سے اُن میں ہسٹیریاکا مرض زیادہ پایا جاتا ہے اگر عورتوں کی طرف توجہ کی جائے تو زیادہ تر ایسی عورتیں ہی اسلام کی طرف آتی ہیں جو ہسٹیریکل ہوتی ہیں اور ہمارامبلّغ اپنی غلطی سے یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ مجھے بہت بڑی کامیابی ہو رہی ہے حالانکہ ان کی توجہ محض ہسٹیریا کا نتیجہ ہوتی ہے۔
مَیں جب پہلی دفعہ یورپ گیا تو ایک عورت نے بڑے شوق سے ہماری مجالس میں آنا شروع کر دیا۔ وہ ہر دوسرے تیسرے روز آجاتی اور آدھ آدھ گھنٹہ تک باتیں کرتی رہتی۔ ہمارے دوست کہتے کہ یہ عورت اسلام سے بہت دلچسپی رکھتی ہے ضرور مسلمان ہو جائے گی مگر آخر مہینہ کے بعد وہ ایک دن برنارڈشاہ کی ایک کتاب میرے پاس لائی اور کہنے لگی میں نے بہت کوشش کی تھی کہ آپ کو برنارڈشاہ کا مرید بنا لوں مگر آ پ نہ بنے یہ اس کی کتاب ہے میں آپ کو مطالعہ کے لئے دینا چاہتی ہوں اسے آپ ضرور پڑھیں ۔مَیں نے اپنے دوستوں سے کہا لو تم تو کہتے تھے کہ یہ عورت مسلمان ہو جائے گی مگر یہ تو اُلٹا مجھے برنارڈشا کا مرید بنانا چاہتی ہے غرض پہلے زیادہ تر عورتیں ہی اسلام کی طرف توجہ کیا کرتی تھیں مگر اب جو نئے مبلّغ بھجوائے گئے ہیں ان کو میں نے خاص طور پر یہ ہدایات دی ہیں کہ وہ یونیورسٹیوں سے تعلقات رکھیں، مذہبی لوگوں سے واقفیت پیدا کریں، اخباروں اور رسالوں والوں سے میل جول رکھیں، مصنفوں سے تعلقات بڑھائیں اور تجارت کے ذریعہ سلسلہ کی آمد میں اضافہ کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اس کے بغیر ہم اپنی تبلیغ کو وسیع نہیں کر سکتے۔ پھر صرف انگلستان میں ہی نہیں بلکہ اور ممالک میں بھی احمدیت کی ترقی کے آثار خدا تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہو رہے ہیں بلکہ ایسے علاقوں میں بھی احمدیت پھیلنی شروع ہوگئی ہے جہاں پہلے باوجود کوشش کے ہمیں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ ملایا میں یا تویہ حالت تھی کہ مولوی غلام حسین صاحب ایاز کو ایک دفعہ لوگوں نے رات کو مار مار کر گلی میں پھینک دیا اور کُتے اُن کو چاٹتے رہے اور یا اب جو لوگ ملایا سے واپس آئے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ اچھے اچھے مالدار ہوٹلوں کے مالک معزز طبقہ کے ستّر اسّی کے قریب دوست احمدی ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ روز بروز ترقی کر رہا ہے، جاوا اورسماٹرا سے جو اطلاع آئی ہے اس میں بھی یہی لکھا ہے کہ آگے کی نسبت تبلیغ کے راستے زیادہ کھل رہے ہیں غرض یہ ایک اہم موقع ہے جس سے ہمیں فائدہ اُٹھانا چاہئے اب ہم ویسے ہی مقام پر کھڑے ہیں جیسے قصہ مشہور ہے کہ پُرانے زمانہ میں ایک دیوارِ قہقہہ ہوا کرتی تھی جو بھی اُس پر چڑھ کر دوسری طرف جھانکتا وہ قہقہہ لگاتے ہوئے اُسی طرف چلا جاتاواپس آنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ہم بھی اس وقت ایک دیوارِ قہقہہ کے نیچے کھڑے ہیں جو شخص جرأت کر کے اس دیوار کی دوسری طرف جھانکے گا اس کا دل دنیا سے ایسا سرد ہو جائے گا کہ پھرواپس لوٹنے کا نام نہیں لے گا اور کامیابی ہمارے قدم چوم لے گی۔
(الفضل ربوہ جلسہ سالانہ نمبر۱۹۶۰ء)
کچھ عرصہ ہوا میں نے جماعت کے دوستوں کو بعض تحریکات کی تھیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ ان پر عمل کئے بغیر جماعت کُلّی طور پر کبھی ترقی نہیں کر سکتی مگرافسوس ہے کہ جماعت نے ان کی طرف پوری توجہ نہیں کی اب میں پھر دوستوں کو ان تحریکات کی طرف توجہ لانا چاہتا ہوں۔ ان میں سے ایک تحریک تو یہ ہے کہ ہر جگہ قرآن کریم کے درس جاری کئے جائیں اور کوشش کی جائے کہ جماعت کا ہر فرد قرآن کریم کا ترجمہ جانتاہو۔ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں کا یہ کام ہے کہ وہ جماعت کی نگرانی رکھیں اور دیکھیں کہ ان میں سے کون کون لوگ قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے۔ پھر جو لوگ ایسے ہوں ان کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا جائے اور اس بارہ میں اس قدر تعہّد سے کام لیا جائے کہ جماعت کا کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے جو قرآن کریم کا ترجمہ نہ جانتا ہو اور جولوگ قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہوں ان کے متعلق کوشش کرنی چاہئے کہ انہیں دوسرے علوم سے واقفیت پیدا ہو۔
پھر میں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ چونکہ دنیوی تعلیم بھی نہایت اہم چیز ہے اس لئے جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے افراد کا جائزہ لے اور کوشش کرے کہ جماعت کاکوئی لڑکا ایسا نہ ہو جو کم از کم پرائمری پاس نہ ہو، پھر جو لڑکے پرائمری پاس ہوں اُن کے متعلق کوشش کرنی چاہئے کہ وہ مڈل تک تعلیم حاصل کریں، جن کی تعلیم مڈل تک ہے اُن کے متعلق کوشش کریں کہ وہ انٹرنس پاس کریں اور جو لڑکے انٹرنس پاس ہیں ان کے متعلق کوشش کریں کہ وہ کالج میں داخل ہوں اور ایف۔اے یا بی۔ اے پا س کریں۔غرض تعلیم کو ترقی دینا ہماری جماعت کا اہم ترین فرض ہے۔ اس طرح ایک طرف تو خود ان کے ایمان میں مضبوطی پیدا ہوگی اور دوسری طرف جماعت کی طاقت اور اس کی قوت میں بھی اضافہ ہو گا۔ پس میں جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ فوراً اس قسم کے نقشے پُر کر کے نظارت میں بھجوائیں کہ ہر جماعت میں پانچ سے بیس سال تک کی عمر کے کتنے لڑکے ہیں؟ ان میں سے کتنے پڑھتے ہیں اور کتنے نہیں پڑھتے۔ اور جو پڑھتے ہیں وہ کون کونسی جماعت میں پڑھتے ہیں، پھر جو نہیں پڑھتے ان کے والدین کو تحریک کی جائے کہ وہ انہیں تعلیم دِلوائیں اور کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ لڑکے سکولوں میں تعلیم حاصل کریں اور ہائی سکولوں میں پاس ہونے والے لڑکوں میں سے جن کے والدین صاحبِ استطاعت ہوں ان کو تحریک کی جائے کہ وہ انہیں یہاں کالج میں پڑھنے کے لئے بھیجیں تا کہ ہماری جماعت دُنیوی تعلیم کے لحاظ سے بھی دوسروں پر فوقیت رکھنے والی ہو۔
تیسری تحریک جو کچھ عرصہ سے میں جماعت کو کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کو اب تجارت کی طرف زیاہ توجہ کرنی چاہئے۔ میں نے بارہا بتایا ہے کہ تجارت ایسی چیز ہے کہ اس کے ذریعہ دنیا میں بہت بڑا اثرورسوخ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے دو نوجوان افریقہ گئے ایک کو ہم نے کہا کہ تمہیں خرچ کے لئے ہم ۲۵ روپے ماہوار دیں گے مگر دوسرے سے ہم نے کہا کہ تمہارے اخراجات برداشت کرنے کی ہمیں توفیق نہیں۔اس نے کہا توفیق کا کیا سوال ہے میں خود محنت مزدوری کر کے اپنے لئے روپیہ پیدا کروں گا سلسلہ پر کوئی بار ڈالنے کے لئے تیار نہیں۔ ہم نے کہا یہ تو بہت مبارک خیال ہے اگر ایسے نوجوان ہمیں میسر آجائیں تو اور کیا چاہئے چنانچہ وہ دونوں گئے اور انہوں نے پندرہ روپیہ چندہ ڈال کر تجارت شروع کی اب ایک تازہ خط سے معلوم ہوا ہے کہ وہی نوجوان جنہوں نے پندرہ روپے سے تجارت شروع کی تھی اب تک ایک ہزار روپیہ تبلیغی اخراجات کے لئے چندہ دے چکے ہیں اور اپنا گزارہ بھی اتنی مدت سے عمدگی کے ساتھ کرتے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی مشن کے ذمہ ان کا چالیس پونڈ کے قریب قرض بھی ہے جو انہوں نے اپنی تجارت کے نفع سے دیا۔ اُنہوں نے لکھا ہے کہ ہم اس سے بھی زیادہ روپیہ کما لیتے مگر چونکہ گورنمنٹ نے مال کی درآمدوبرآمد پر کئی قسم کی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں اس لئے ہم زیادہ روپیہ کما نہیں سکے ورنہ اس قسم کی سینکڑوں مثالیں موجودہیں کہ اس مُلک میں بعض نوجوان ہزار ہزار دو دو ہزارروپیہ کے ساتھ آئے اور اب وہ لاکھ لاکھ ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے مالک ہیں۔ یہاں سے ایک نوجوان امریکہ بھاگ گیا تھا وہ ذہین تو تھا مگر یہاں اسے دین سے کوئی اُنس نہیں تھا۔ غیر مُلک میں جاکر اسے دین سے بھی اُنس پیدا ہو گیا اور اس نے روپیہ بھی کمانا شروع کر دیا۔یہاں سے وہ جہاز میں چوری چھپے بیٹھ کر گیا تھا راستہ میں پکڑا گیا تو اسے جہاز میں کوئلہ ڈالنے پر مقرر کر دیا گیا اس طرح وہ امریکہ پہنچا۔ ایک پیسہ بھی اس کے پاس نہیں تھا مگر اب وہ سال میں دو تین ہزار روپیہ چندہ بھیج دیتا ہے۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے اس نے تحریک جدید کے امانت فنڈ میں تیس پینتیس ہزار روپیہ بھجوایا ہے اس کے علاوہ چھ سات ہزار روپیہ اس نے وصیت کا بھی بھیجا ہے حالانکہ یہاں سے وہ بغیر کسی پیسہ کے گیا تھا۔غرض نوجوان اگر ہمت سے کام لیں تو غیر ممالک میں جاکر وہ ہزاروں روپیہ بڑی آسانی سے کما سکتے ہیں مگر مَیں حیران ہوں کہ ہماری جماعت کے بعض نوجوانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اگر ان کے سپرد کوئی کام کیا جائے تو اُس کو محنت سے سر انجام دینے کی بجائے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں نے وقف زندگی کی تحریک کی اورمیں نے بڑی وضاحت سے جماعت کے نوجوانوں کو باربار سمجھایا کہ دیکھو! تمہیں بطور حق کے ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا، تمہیں اپنے پاس سے کھانا کھانا پڑے گا، تمہیں پیدل سفر کرنا پڑے گا، تمہیں فاقے کرنا پڑیں گے، تمہیں ماریں کھانی پڑیں گی، تمہیں ہر قسم کی تکالیف برداشت کرنی پڑیں گی اور تمہارا فرض ہوگا کہ ان تمام حالات میں ثابت قدم رہو اور استقلال سے خدمتِ دین میں مصروف رہو۔ یہ سبق میں اپنے خطبات میں دُہراتا اور بار بار دُہراتا ہوں پھر میں اس پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ نوجوانوں کو خود انٹرویو کے لئے اپنے سامنے بلاتا ہوںاور کہتا ہوں دیکھو! تم نے میرے خطبات تو پڑھ لئے ہوں گے اب پھر مجھ سے سن لو تمہیں کوئی پیسہ نہیں ملے گا کیا تمہیں منظور ہے؟ وہ کہتے ہیں منظور ہے۔ پھرکہتا ہوں تمہیں پیدل سفر کرنا پڑے گا کیا اس کے لئے تیار ہو؟ وہ کہتے ہیں پوری طرح تیار ہیں۔پھرکہتا ہوں تمہیں جنگلوں میں جانا پڑے گا کیا اس کے لئے تیار ہو؟ وہ کہتے ہیں ہم جنگلوں میں جانے کے لئے بھی تیار ہیں۔پھر کہتا ہوں تمہیں فاقے بھی آئیں گے کیا تم فاقہ کے لئے تیار ہو؟ وہ کہتے ہیں ہم فاقہ کے لئے بھی تیار ہیں۔ میں کہتا ہوں تمہیں لوگوں سے ماریں کھانی پڑیں گی کیا تم اس کے لئے بھی تیار ہو؟ وہ کہتے ہیں ہم ماریں کھانے کے لئے بھی تیار ہیں۔ غرض یہ سبق انہیں خوب یاد کرایا جاتا اور بار بار ان کے سامنے دُہرایا جاتا ہے ۔ اس کے بعد جب ہم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سبق ان کو خوب یاد ہو چکا ہوگا تو ہم کہتے ہیں جاؤ سندھ میں جو سلسلہ کی زمینیں ہیں اُن پر کام کرو،منشی کا کام تمہارے سپرد کیا جاتا ہے جاتے ہیں تو تیسرے دن مینیجر کی طرف سے تار آجاتا ہے کہ منشی صاحب بھاگ گئے ہیں کیونکہ وہ کہتے تھے میرا دل یہاں نہیں لگتا۔کوئی ایک مثال ہو تو اُسے برداشت کیا جائے، دومثالیں ہوں تو اُنہیں برداشت کیا جائے مگر ایسی کئی مثالیں ہیں کہ بعض نوجوانوں نے ہر قسم کی تکالیف برداشت کرنے کا عہد کرتے ہوئے اپنی زندگیاں وقف کیں مگر جب اُن کو سلسلہ کے کسی کام پر مقرر کیا گیا تو بھاگ گئے محض اس لئے کہ تکالیف ان سے برداشت نہیں ہو سکتیں۔ اس قسم کے مواد کو لے کر کوئی جرنیل کیا لڑسکتا ہے۔آدمی کو کم از کم یہ تو تسلی ہونی چاہئے کہ مَیں بھی جان دینے کے لئے تیار ہوں اور میرا ساتھی بھی خدا تعالیٰ کے دین کے لئے اپنی جان دینے کے لئے تیار بیٹھا ہے مگر یہاں یہ حالت ہے کہ بعض نوجوان اپنی زندگی وقف کرتے ہیں اور پھر ذرا سی محنت اور ذرا سی تکلیف پر کام چھوڑ کر بھا گ جاتے ہیں اور جب ان میں سے کسی کو سرزنش کی جاتی ہے تو جماعتیں اُس کو اپنے گلے سے لپٹا لیتی ہیں اور لکھتی ہیںکہ آپ کو اس کے متعلق کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ورنہ یہ آدمی بڑا مخلص ہے اور سلسلہ کے لئے بڑی قربانی کرنے والا ہے۔ حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ جب ایسا شخص واپس آتا تو بیوی اپنے دروازے بند کر لیتی اور کہتی کہ میں تمہاری شکل دیکھنے کے لئے تیار نہیں، بچے اُس سے منہ پھیر لیتے اور کہتے کہ تم دین سے غداری کا ارتکاب کر کے آئے ہو ہم تم سے ملنے کے لئے تیار نہیں،دوست اُس سے منہ موڑ لیتے کہ ہم تم سے دوستی رکھنے کے لئے تیار نہیں تم نے تو موت تک اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کی تھی اب تم خود واپس نہیں آسکتے تمہاری روح ہی آسکتی ہے مگر روح بھی یہاں نہیں آئے گی اللہ تعالیٰ کے حضور جائے گی اس لئے تمہارا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں مگر بعض جماعتیں ایسے لوگوں کو بڑے پیار سے اپنے گلے لگاتی اور سینہ سے چمٹانے لگ جاتی ہیں۔
ہم جب بچے تھے تو حضرت اماں جان ہمیں کہانی سنایا کرتیں تھیں کہ ایک جولاہا کہیں کھڑا تھا کہ بگولا اُٹھا اور وہ اس کی لپیٹ میں اُڑتے اُڑتے کسی شہر کے پاس آگرا۔اس شہر میں ایک نیم پاگل بادشاہ رہا کرتا تھا اور اُس کی ایک خوبصورت لڑکی تھی کئی شہزادوں نے رشتہ کی درخواست کی مگر اس نے سب درخواستوں کو ردّ کر دیا اور کہا کہ میں اپنی لڑکی کی شادی کسی فرشتہ سے کروں گا جو آسمان سے اُترے گا کسی اور کو رشتہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ جوں جوں دن گزرتے گئے لڑکی کی عمر بھی بڑی ہوتی گئی ایک دن وہ جولاہا بگولے کی لپیٹ میں جو اُس شہر کے قریب آکر ننگ دھڑنگ گرا تو لوگ دوڑتے ہوئے بادشاہ کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ حضور! آسمان سے فرشتہ آگیا ہے اب اپنی لڑکی کی شادی کر دیں۔ بادشاہ نے اپنی لڑکی کی جولاہے سے شادی کر دی وہ پہاڑی آدمی تھا نرم نرم گدیلوں اور اعلیٰ اعلیٰ کھانوں کو وہ کیا جانتا تھا اُسے تو سب سے بہتر یہی نظر آتا تھا کہ زمین پر ننگے بدن سوئے اور روکھی سوکھی روٹی کھا لے مگر جب بادشاہ کا داماد بنا تو اُس کی خاطر تواضع بڑھنے لگی نوکر کبھی اس کے لئے پلاؤ پکائیں،کبھی زردہ پکائیں، کبھی مرغا تیار کریں، پھر جب بستر پر لیٹے تو نیچے بھی گدے ہوتے اور اوپر بھی اور کئی خادم اسے دبانے لگ جاتے۔کچھ عرصہ کے بعد وہ اپنی ماں سے ملنے کے لئے آیا ماں نے اُسے دیکھا تو گلے سے چمٹا لیا اور رونے لگی کہ معلوم نہیں اتنے عرصہ میں اس پر کیا کیا مصیبتیں آئی ہوں گی۔ جولا ہا بھی چیخیں مار مار کر رونے لگ گیا اور کہنے لگا اماں! میں تو بڑی مصیبت میں مبتلا رہا ایک ایک دن گزارنا میرے لئے مشکل تھا کوئی ایک تکلیف ہو تو بیان کروں میرے تو پور پورمیں دکھ بھرا ہوا ہے۔اماں! کیا بتاؤں مجھے صبح شام لوگ کیڑے پکا کر کھلاتے (چاول جو اسے کھانے کے لئے دیئے جاتے تھے اُن کا نام اُس نے کیڑے رکھ دیا) پھر وہ نیچے بھی روئی رکھ دیتے اور اوپر بھی اور مجھے مارنے لگ جاتے یعنی دبانے کو اُس نے مارنا قرار دیا اس طرح ایک ایک کر کے اُس نے سارے انعامات گنانے شروع کئے۔ ماں نے یہ سنا تو چیخیں مار کر رونے لگ گئی اور کہنے لگی ’’ہے پُت تجھ پہ یہ یہ دُکھ‘‘ یعنی اتنی چھوٹی سی جان اور یہ یہ مصیبتیں۔ یہی حال بعض واقفین کا ہے کہ جماعتیں ان کو گلے لپٹاتی ہیں سینہ سے لگاتی ہیں اور کہتی ہیں ’’ہے پُت تجھ پہ یہ یہ دُکھ‘‘۔ بہرحال ہمیں واقف چاہئیں مگر بُزدل اور پاگل واقف نہیں بلکہ وہ ہر قسم کے شدائد کو خوشی کے ساتھ برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ میں جہاں واقفین میں سے اس حصہ کی مذمت کرتا ہوں وہاں میں دوسرے حصہ کی تعریف کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے نوجوانوں میں ایسے واقفین زندگی بھی ہیں جنہیں ہر قسم کے خطرات میں ہم نے ڈالا مگر اُنہوں نے ذرا بھی پرواہ نہیں کی، وہ پوری مضبوطی کے ساتھ ثابت قدم رہے اور انہوں نے دین کی خدمت کے لئے کسی قسم کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ چونکہ ہمیں اسلام کی تبلیغ وسیع کرنے کے لئے ابھی مبلّغین کے ایک لمبے سلسلہ کی ضرورت ہے اس لئے میں جماعت کے نوجوانوں کو پھر وقف زندگی کی تحریک کرتا ہوں اور ماں باپ کو اس کی اہمیت کی طرف توجہ لاتے ہوئے کہتا ہوں کہ جب تک ہر باپ یہ اقرار نہیں کرتا کہ میں اپنی اولاد اسلام کے لئے قربان کرنے کو تیار ہوں،جب تک ہر ماںیہ اقرار نہیں کرتی کہ وہ دین کے لئے اپنی اولاد کو قربان کرنا اپنے لئے سعادت کا موجب سمجھے گی اُس وقت تک ہم دین کی ترقی کے لئے کوئی مضبوط اور پائیدار بنیاد قائم نہیں کر سکتے۔ہم میں سے ہر مرد اور ہر عورت کا یہ ایمان ہونا چاہئے کہ اگر دین کے لئے اس کی اولاد قربان ہو جائے گی تو اُس کی موت انتہائی سُکھ کی موت ہو گی اور اگر سلسلہ کے لئے اس کی اولا ہر قسم کی قربانی سے کام نہیں لے گی تو اُس کی موت کی گھڑیاں انتہائی دُکھ اور تکلیف میں گزریں گی۔ یہ ایمان ہے جو ہمارے اندر پیدا ہونا چاہئے۔ جب تک ہم میں سے ہر مرد اور عورت میں فدائیت اور جان نثاری کا یہ جذبہ پیدا نہ ہو اُس وقت تک ہم ایک مضبوط اور ترقی کرنے والی قوم کی بنیاد نہیں رکھ سکتے۔
ایک اعلان میں نے یہ کیا تھا کہ جماعت کے نوجوان اپنے آپ کو اس رنگ میں سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کر یں کہ مرکزکی طرف سے انہیں جہاں بھی تجارت کرنے کے لئے کہا جائے گا وہاں وہ جائیں گے اور اپنے ذاتی کاروبار کے ساتھ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ بھی کرتے رہیں گے۔ تجارت ایک ایسی چیز ہے جس میں انسان بغیر کسی خاص سرمایہ کے بہت تھوڑی محنت کے ساتھ کامیاب ہو سکتا ہے۔ جو لوگ اس طرف توجہ کریں گے وہ نہ صرف اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے لئے روزی کا سامان پیدا کریں گے بلکہ دین کی خدمت کے لئے چندہ بھی دے سکیں گے اور سلسلہ کی اشاعت کوبھی وسیع کرنے کا موجب بنیں گے۔ ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے آپ کو تجارت کے لئے وقف کریں اگر انہیں کام سیکھنے کی ضرورت ہوئی تو ہم انہیں کام سکھائیں گے،انہیں تجارت کے لئے موزوں مقام بتائیں گے، انہیں کارخانوں سے مال دِلوا دیں گے اور اگر کوئی مشکل پیش آئے گی تو اُس کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ افریقہ میں ایسا ہی ہوا کہ بعض لوگ وہاں تجارت کے لئے گئے تو ہم نے اپنی ضمانت پر انہیں کارخانوں سے مال دلوادیا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے عرصہ میں ہی وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوگئے۔ اگر ہماری جماعت کے نوجوان اس طرف توجہ کریں تو ہم قلیل ترین عرصہ میں ہی سارے مُلک میں اپنے تاجر اور صناع پھیلا سکتے ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ جس جس علاقہ میں ہمارا تاجر اور صناع ہو گا ان علاقوں میںصرف ان کی تجارت اور صنعت ہی کامیاب نہیں ہوگی بلکہ جماعت بھی پھیلے گی۔
ایک اور امر جس کی طرف میںاس موقع پر جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ سائنس ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہے۔ اس انسٹیٹیوٹ کے ماتحت ہم مُلک کے مختلف حصوں میں بعض کارخانے کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لئے ہمیں روپیہ کی ضرورت ہو گی۔ جماعت کو چاہئے کہ وہ تیار رہے اورجب مرکز کی طرف سے تحریک ہو تو اس میں پورے جوش کے ساتھ حصہ لے۔ خصوصیت کے ساتھ میں کارخانہ داروں اور تاجروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے آپ کو منظم کرنے کی کوشش کریں اور سائنس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ماتحت جو کارخانے کھولے جائیں گے ان میں حصہ لیں تاکہ ہماری جماعت صنعت و حرفت کے میدان میں بھی ترقی کر سکے اور مزدوروں اور ادنیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ترقی کا سامان پیدا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ادنیٰ اور پس ماندہ اقوام کو اسلام میں داخل کرنا چاہیں تو ہمارے لئے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ یا تو ہمارے پاس بہت بڑی زمینیں اور جائدادیں ہوں اور یا پھر صنعت وحرفت کے لحاظ سے ہمارے پاس کافی طاقت ہو۔ مجھے ایک دفعہ کا نگڑہ کے ضلع سے ایک شخص جو اپنی قوم کا لیڈر تھا ملنے کے لئے آیا اور اس نے کہا ہمارے سات ہزار آدمی اسلام لانے کے لئے تیار ہیں۔ میں نے کہا یہ تو بڑی اچھی بات ہے لیکن آپ کو یہاں آنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ کہنے لگا کوئی بات نہیں ہم کاشتکاری کرتے ہیں اور روپیہ ہمارے پاس کافی ہے اپنے متعلق بتایا کہ میں ٹھیکیدار ہوں اور مجھے مالی رنگ میں کسی قسم کی احتیاج نہیں۔ میں نے کہا پھر بھی کوئی بات تو ہوگی جو اور لوگوں کو چھوڑ کر میرے پاس آئے ہیں۔ کہنے لگا صرف اتنی بات ہے کہ ہماری قوم جس جگہ بسی ہوئی ہے وہ زمین ایک ہندو ٹھاکر کی ہے جس دن ہم مسلمان ہوئے ہندو ٹھاکر نے ہمیں نوٹس دے دینا ہے کہ اپنا سامان اُٹھاؤ اور یہاں سے نکل جاؤ اگر آپ ہمارے لئے زمین کا انتظام کر دیں تو ہم مسلمان ہونے کے لئے بالکل تیار ہیں مکان وغیرہ ہم خود بنا لیں گے ہمیں اس کے لئے کسی مدد کی ضرورت نہیں ہو گی۔ میں نے کہا میں تو تم سے بھی زیادہ مجبور ہوں سات ہزار آدمیوں کو بسانے کے لئے میں کہاں سے زمین لاؤں۔ اُس نے کہا یوں تو علماء بھی کہتے ہیں کہ ہم کلمہ پڑھانے کے لئے تیار ہیں مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان سات ہزار آدمیوں کا پھر بنے گا کیا اور جب یہ نکال دئیے جائیں گے تو ان کو مکانوں کے لئے زمین کہاں سے ملے گی۔ اب دیکھو کس طرح سات ہزار آدمی مفت اسلام میں داخل ہو رہاتھا مگر ایک منٹ کے اندر اندر ہاتھ سے نکل گیا۔ اسی طرح اور بہت سے مقامات ہیں جہاں سات سات دس دس ہزار آدمی منٹوں میں اسلام میں داخل ہو سکتے ہیں وہ بیزار ہیں اپنے مذاہب سے اور بیزار ہیں اپنے مذاہب کے علمبرداروں سے، نہ ان کے مذہب میں نور ہے نہ ہدایت ہے نہ علم ہے نہ دین اور دنیوی ترقی کا کوئی سامان ہے اور نہ کوئی اور خوبی ہے۔اگر ان کی اصلاح اور ترقی کے لئے تجارت اور صنعت و حرفت کے میدان میں ہماری جماعت مضبوط ہو جائے اور مختلف مقامات پر کارخانے کھل جائیں تو ان کے کام کے لئے بھی بہت کچھ گنجائش نکل سکتی ہے۔ کانگرس نے دیہات سدھار کے نام سے جو سکیم جاری کی تھی اس کی غرض بھی در حقیقت ہندو مذہب کی مضبوطی تھی کیونکہ اس ذریعہ سے جب مزدور طبقہ کو کام مل جاتا ہے تو ہندو مذہب پر وہ اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجاتے ہیں۔ بہرحال اگر مختلف مقامات پر کارخانے جاری ہو جائیں اور جماعتیں ان میں حصہ لیں تو یہ تبلیغ اسلام کا ایک ایسا کامیاب ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ ہزاروں ہزار مزدوروں کے لئے کام کرنے کا موقع پیدا ہو جائے گا۔ اس کے بعد جب ہم ان کو اسلام کی دعوت دیں گے تو ان کے لئے اسلام قبول کرنا موجودہ حالات کی نسبت زیادہ آسان ہوگا۔ یہ وہ اہم اور ضروری تحریکات ہیں جو جماعت کو ہمیشہ اپنے مد نظر رکھنی چاہئیں یعنی تعلیم القرآن کو عام کرنا، دُنیوی تعلیم کے حصول میں ترقی کرنا، تحریک جدید کے چندہ میں حصہ لینا، دفتردوم کو مضبوط کرنا، وقف زندگی کی تحریک میں اپنے آپ کو پیش کرنا، وقفِ تجارت میں اپنا نام لکھوانا، صنعت وحرفت کی ترقی کیلئے جو کارخانے جاری کئے جانیوالے ہیں ان میں حصہ لینا۔اگر ان تمام تحریکات میں جماعت پورے جوش کے ساتھ حصہ لے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کا ایک ایسا مکمل دائرہ تیار ہو جاتا ہے کہ جس کے بعد جماعت بغیر کسی تکلیف کے اپنے کاموں کو جاری رکھ سکتی ہے اور وہ لٹریچر بھی جو تبلیغی ضرورتوں کے لئے تیار کیا جا چکا ہے یاآئندہ تیار ہوآسانی سے مختلف ممالک میں پھیلایا جا سکتا ہے۔
میرا یہ بھی ارادہ ہے کہ فضائل القرآن کے موضوع پر گزشتہ سالوں میں جلسہ سالانہ کے موقع پر جو تقاریرمیں کرتا رہا ہوں(یعنی ۱۹۲۸ء، ۱۹۲۹ء،۱۹۳۰ء،۱۹۳۱ء،۱۹۳۲ ء،اور ۱۹۳۶ء میں) ان کو بھی کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے۔ چونکہ انسانی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا میں دوستوں کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص یہ سوچ سمجھ کر میری لکھی ہوئی تفسیر کو پڑھے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ قرآن کریم کی تفسیر مکمل نہیں ہوئی۔اصل بات یہ ہے کہ میرا ترجمہ اور میری تفسیر ہمیشہ ترتیبِ آیات اور ترتیبِ سور کے ماتحت ہوتی ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جو شخص اس نکتہ کو مدنظر رکھے گا وہ فوراً یہ نتیجہ نکال لے گا کہ اس ترتیب کے ماتحت فلاں فلاں آیات کے کیا معنی ہیں۔ فرض کرو ایک نکتہ یہاں ہے اور ایک وہاں اور درمیان میں جگہ خالی ہے تو ہوشیار آدمی دونوں کو دیکھ کر خود بخود درمیانی خلاء کو پُر کرسکے گا اور وہ سمجھ جائے گا کہ جب یہ نکتہ فلاں بات کی طرف توجہ دلاتا ہے اور وہ نکتہ فلاں بات کی طرف تو درمیان میں جو کچھ ہو گا وہ بہرحال وہی ہو گا جو ان دونوں نکتوں کے مطابق ہو۔ اگر درمیانی مضمون کسی اور طرف چلا جائے تو دائیں بائیں کے مضامین بھی لازماً ادھورے رہ جائیں گے اور سلسلۂ مطالب کی کڑی ٹوٹ جائے گی۔ پس میں چونکہ ہمیشہ ترتیبِ آیات اور ترتیبِ سور کو ملحوظ رکھ کر تفسیر کیا کرتا ہوں اس لئے اگر کوئی شخص میری ترتیب کو سمجھ لے تو گو میں نے کسی آیت کی کہیں تفسیر کی ہوگی اور کسی آیت کی کہیں درمیانی آیات کا حل کرنا اُس کے لئے بالکل آسان ہو گا کیونکہ ترتیبِ مضمون اسے کسی اور طرف جانے ہی نہیں دے گی اور وہ اس بات پر مجبور ہوگا کہ باقی آیتوں کے وہی معنی کرے جواس ترتیب کے مطابق ہوں۔
ایک لطیفہ یاد آگیا جب میں سورہ کہف کی تفسیر لکھنے بیٹھا تو میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس آیت کے کیا معنی ہیں کہ۹؎اور اس کا پہلی آیات سے جوڑ کیا ہے؟ میں دو تین گھنٹے سوچتا رہامگر یہ آیت حل نہ ہوئی آخر میں گھبرا گیا اور میں نے کہا اچھا اگر اِس وقت مجھے اس آیت کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تو نہ سہی جب میں تفسیر لکھتے لکھتے یہاں پہنچوں گا تو دیکھا جائے گا جب میں سورئہ کہف کی تفسیر لکھتے لکھتے اس آیت سے پہلی آیت پر پہنچا تو اگلی آیت آپ ہی آپ حل ہوگئی اور میں نے سمجھ لیا کہ اس کے کیا معنی ہیں کیونکہ ان معنوں کے سوا کوئی اور معنی ترتیبِ آیات کے لحاظ سے بن ہی نہیں سکتے تھے۔ اُن دنوں مولوی شیر علی صاحب ولایت میں تھے لطیفہ یہ ہوا کہ جب مولوی شیر علی صاحب انگریزی ترجمۃ القرآن کے نوٹ میرے پاس لائے تو میرے دل میں خیال گزرا کہ چلو یہی دیکھ لو کہکے انہوں نے کیا معنی کئے ہیں۔ جب میں نے دیکھا تو وہی معنی لکھے تھے جو میں نے کئے تھے میں نے کہامولوی شیر علی صاحب نے تو کمال کر دیا کہ جو آیت میرے لئے معمہ بنی رہی تھی اسے اُنہوں نے لند ن میں ہی حل کر لیا۔ اس پر ملک غلام فرید صاحب کہنے لگے کہ یہ مولوی شیر علی صاحب کے معنی نہیں بلکہ آپ کے ہی معنی ہیں آپ نے اگست ۱۹۲۸ء میںجوقرآن کریم کا درس دیا تھا اس میں آپ نے اس آیت کے یہی معنی کئے تھے اور مولوی صاحب نے اسی درس کے نوٹوں سے یہ معنی لئے تھے۔ معلوم ہوتا ہے اُس وقت بھی چونکہ میں ترتیب کے ماتحت تفسیر کر رہا تھا اِس لئے یہ آیت خود بخود حل ہو گئی اور بعد میں مجھے یاد بھی نہ رہا کہ میں نے اس کے کیا معنی کئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب میں بغیر ترتیب کے اس پر غور کرنے بیٹھا تو مجھے اس کے کوئی معنی سمجھ میں نہ آئے لیکن ترتیب میں آکر حل ہو گئے۔
پس میری تفسیر کے متعلق یہ اصولی گُر یاد رکھنا چاہئے کہ میری تفسیر ہمیشہ ترتیبِ آیا ت کے ماتحت چلتی ہے اور جب کوئی تفسیر ترتیب کے ماتحت چل رہی ہو تو ایسی حالت میں اگر کسی کو دو الگ الگ نکتے مل جائیں گے تو خواہ درمیان میں فاصلہ ہو وہ آسانی سے درمیانی آیات کی تفسیر کو نکال سکتا ہے کیونکہ وہ سمجھ جائیگا کہ صحیح تفسیر ہی ہوگی جوان دونکتوں کے مطابق ہو۔ جس طرح پٹواری جب کسی زمین میں الگ الگ مقامات پر کیلے گاڑ دیتا ہے تو پھر اسے کوئی مشکل نہیں رہتی اور وہ آسانی سے پیمائش کر سکتا ہے رسّی کا ایک کونہ ایک کیلے سے باندھ دیتا ہے اور دوسرا کونہ دوسرے کیلے سے اور وہ جانتا ہے کہ اب رسّی اِدھر اُدھر ہو ہی نہیں سکتی اسی طرف جائے گی جس طرف کیلا ہو گا۔ اسی طرح میری تفسیر کے نوٹوں سے انسان سارے قرآن کریم کی تفسیر سمجھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ ہوشیار ہو اور قرآن کریم کو سمجھنے کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہو۔ بہرحال فضائل القرآن کا مضمون بھی نہایت اہم ہے اگر یہ مضمون مکمل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے براہین احمدیہ مکمل ہو جائے گی۔ لیکچر تو کئی سالوں سے تیار ہیں مگر ان میں سے چھپا ایک بھی نہیں اب ارادہ ہے کہ انہیں کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے۔
غرض جماعت کی دینی ،دنیوی ،علمی،تجارتی، صنعتی،اقتصادی، اور تربیتی ترقی کے لئے میں نے مختلف تحریکات کی ہوئی ہیں دوستوں کو ان سب تحریکوں میں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لینا چاہئے۔ پھر سب سے بڑھ کر جو چیز اہمیت رکھنے والی ہے وہ محبتِ الٰہی ہے پس جماعت کو علاوہ اور تحریکات میں حصہ لینے کے کوشش کرنی چاہئے کہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو تاکہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت کرے اور انہیں ہمیشہ اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے۔ پھر زمینداروں کی اصلاح اور ان کی بہبودی کے متعلق بھی میرے ذہن میں ایک سکیم ہے مگر زمیندار بڑی مشکل سے قابو آتے ہیں۔ کئی باتیں اُن کے فائدہ کی ہوتی ہیں مگر جب انہیں سمجھایا جاتا ہے تو ان باتوں کا انہیں قائل کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ان کی اصلاح کے لئے بھی کوئی قدم اُٹھایا جائے جس سے زمیندارہ کام میں ترقی ہو اور پیداوار پہلے سے زیادہ ہوسکے۔ میں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت کے یہ تمام طبقات پوری طرح مضبوط ہو جائیں، زمیندار بھی ترقی کی طرف اپنا قدم اُٹھانا شروع کر دیں، تاجر اور صناع بھی مختلف علاقوں میں تجارت اور صنعت شروع کر دیں، مزدوروں اور ادنیٰ اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے بھی مختلف کارخانوں میں کام کرنے کے مواقع پیدا ہو جائیں تو ہزاروں نہیں لاکھوں لاکھ ہندو اور عیسائی اسلام میں داخل ہونے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ آج دنیا میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو دل سے سمجھتے ہیں کہ اسلام سچا ہے مگر دُنیوی روکیں ان کو اسلام قبول کرنے کی طرف اپنا قدم بڑھانے نہیں دیتیں۔ اگر ہماری جماعت کے تاجر اور صناع اور زمیندار اور کارخانہ دار سب کے سب منظم ہو جائیں اور مزدوروں اور ادنیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ترقی کے لئے ہمارے پاس تجارت اور صنعت وحرفت کا ایک بہت بڑا میدان تیار ہو جائے تو ان لوگوں کے دلوں میں اسلام قبول کرنے کے متعلق جو ایک ظاہری ڈر پایا جاتا ہے وہ جاتا رہے گا اور وہ دلیری اور جرأت کے ساتھ اسلام میں داخل ہونا شروع کر دیں گے اُس وقت ہمیں وہی نظارہ نظر آنے لگے جو اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ ۱۰؎ پھر ہمیں یہ خبریں نہیں آئیں گی کہ آج دس آدمیوں نے بیعت کی ہے، آج بیس نے بیعت کی ہے، آج تیس اور چالیس نے بیعت کی ہے بلکہ ہمارے مبلّغ دنیا کے مختلف اطراف سے ہمیں تاروں پر تاریں بھجوائیں گے کہ آج دس ہزار نے بیعت کی ہے، آج پچاس ہزار نے بیعت کی ہے، آج ایک لاکھ نے بیعت کی ہے صرف اپنے ایثار اورقربانی کے معیار کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم اپنے معیار کو اونچا کر لیں گے تو ہماری ترقی ایک یقینی چیز ہے جس میں کسی قسم کی روک پیدا نہیں ہوسکتی ۔
مَیں آخر میں آپ لوگوں کو یہ نصیحت کرنا چاہتاہوں کہ آپ کو قادیان میں بار بار آنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ قادیان میں ہماری جماعت کے افراد کو کثرت کے ساتھ آنا چاہئے یہاں تک کہ آپ یہ بھی فرماتے کہ جو شخص قادیان میں بار بار نہیں آتا مجھے اُس کے ایمان کے متعلق ہمیشہ شبہ رہتا ہے۔ یہ آپ لوگوں کا ہی قصور ہے کہ صرف جلسہ پر آتے ہیں دوسرے اوقات میں آنے کی بہت کم کوشش کرتے ہیں۔ اب تو میں سوائے بیماری یا سفر کے ہمیشہ مجلس میں بیٹھتا ہوں اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دین کی باتیں دوستوں کو سکھاتا رہتا ہوں یہ بھی ایک نیاموقع ہے جس سے ہماری جماعت کے افراد کو فائدہ اُٹھانا چاہئے تاکہ آہستہ آہستہ وہ لوگ تیار ہو جائیں جو دین کی اشاعت کا کام پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنے کے اہل ہوں اور ان کے متعلق یہ امید کی جاسکتی ہو کہ وہ ہر قسم کی قربانی پیش کرکے دین کا جھنڈا ہمیشہ بلند رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح میری خواہش ہے کہ ہر مسجد بلکہ ہر محلہ میں درس جاری ہوں تا کہ لوگوں کے لئے زیادہ سے زیادہ دین سیکھنے کے مواقع پیدا ہو سکیں۔ پس بجائے اس کے کہ آپ سارازور انہی دنوں میں صرف کریں کوشش کرنی چاہئے کہ دوسرے مواقع پر بھی مرکز میں آتے رہیں۔ لوگوں میں مشہور ہے کہ پوربیا چوبیس گھنٹے میں صرف ایک وقت کھاتا ہے اور خوب کھاتا ہے آپ لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہیں کہ اور ایام میں تو یہاں آنے کی کوشش نہیں کرتے اور سال بھر میں ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر یہاں پہنچنے کے لئے پورا زور صرف کر دیتے ہیں۔ آپ لوگوں کو دوسرے مواقع پر بھی بار بار آنا چاہئے اور اس جگہ دین سیکھنے کے جو مواقع خدا تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں ان سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کا حافظ و ناصر ہو اور وہ ہمیشہ اپنے فضل اور رحم کی بارش آپ پر اور آپ کے تمام متعلقین اور رشتہ داروں پر برسائے تا کہ دین اور دنیا دونوں کی ترقیات کے سامان آپ کے لئے اور آپ کی آئندہ نسلوں کے لئے ہمیشہ جاری رہیں۔ آمِیْن یَا رَبَّ الْعٰلَمِیْن۔
(الفضل ربوہ ۲۸؍ اگست۱۹۵۹ء۔۲۲؍جنوری ۱۹۶۰ء۔۱۱ ؍جولائی ۱۹۶۲ء)
۱؎ المائدہ: ۲۵
۲،۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۲،۱۳۔ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۴؎ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ۵۱ مطبوعہ لاہور ۱۸۹۲ء
۵؎ بخاری کتاب الجہاد والسیر باب یقاتل من وراء الامام … الخ
۶،۷؎ الفاتحہ: ۵،۶،۷
۸؎ مشکٰوۃ کتاب المناقب باب مناقب الصحابۃ
۹؎ الکھف: ۲۴،۲۵
۱۰؎ النصر: ۳
پارلیمنٹری مشن اور ہندوستانیوں
کا فرض
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
پارلیمنٹری مشن اور ہندوستانیوں کا فرض
(رقم فرمودہ ۵؍ اپریل ۱۹۴۶ء)
پارلیمنٹری وفد ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے ہندوستان میں وارد ہو چکا ہے مجھ سے کئی احمدیوں نے پوچھا ہے کہ احمدیوں کو ان کے خیالات کے اظہار کا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟ میں نے اس کا جواب ان احمدیوں کو یہ دیا کہ:۔
اوّل تو ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے (گو مسیحیوں کی انجمن کو کمیشن نے اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی ہے)
دوسرے جہاں تک سیاسیات کا تعلق ہے جو حال دوسرے مسلمانوں کا ہوگا وہی ہمارا ہوگا۔
تیسرے ہم ایک چھوٹی اقلیت ہیں اور پارلیمنٹری وفد اِس وقت اُن سے بات کر رہا ہے جو ہندوستان کے مستقبل کو بنا یا بگاڑ سکتے ہیں۔ دُنیوی نقطۂ نگاہ سے ہم ان جماعتوں میں سے نہیں ہیں اس لئے باوجود اس امر کے کہ جنگی سرگرمیوں کے لحاظ سے اپنی نسبت آبادی کے مدنظر ہم تمام دوسری جماعتوں سے زیادہ قربانی کرنے والے تھے کمیشن کے نقطۂ نگاہ سے ہمیں کوئی اہمیت حاصل نہیں۔
چوتھے یہ کہ خواہ کمیشن کے سامنے ہمارے آدمی پیش ہوں یا نہ ہوں ہم اپنے خیالات تحریر کے ذریعہ سے ہر وقت پیش کر سکتے ہیں۔
سو جواب کے آخری حصہ کے مطابق میں چند باتیں پہلی قسط کے طور پر پارلیمنٹری وفد اور ہندوستان کے نمائندوں سے کہنا چاہتا ہوں۔ وفد کے ممبران کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا کا فساد سب سے زیادہ اِس امر سے ترقی کر رہا ہے کہ حکومتیں اخلاقی اصول کی پیروی سیاسیات میں ضروری نہیں سمجھتیں حالانکہ سیاست افراد کو تسلی دینے کے لئے برتی جاتی ہے اور افراد جو اخلاق کی بناء پر سوچنے اور غور کرنے کے عادی ہیں جب ایک فیصلہ ایسا دیکھتے ہیں کہ جس کی بنیاد عام جانے بوجھے ہوئے اخلاقی نظریات کے خلاف ہوتی ہے تو وہ اس سے تسلی نہیں پاتے اور ان کی دل کی خلش انہیں شورش اور فساد پر آمادہ کر دیتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی امیدوں اور اُمنگوں کے پورا نہ ہونے پر بھی شورش ہوتی ہے لیکن وہ شورش دیرپا نہیں ہوتی اور اس کا ازالہ کرنا ممکن ہوتا ہے لیکن اخلاقی اصول کے خلاف کیا گیا فیصلہ سینکڑوں اور ہزاروں سال تک فساد اور بے چینی کو لمبا کئے جاتا ہے۔ پس انہیں چاہئے کہ ہندوستان کی اُلجھنوں کا حل صرف سیاست کی مدد سے کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اخلاق کے اصول کے مطابق اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں تا اگر اس حل سے کوئی فساد پیدا ہو تو وہ دیر پا نہ ہو۔
دوسرے اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی وعدے حالات کے بدلنے سے بدل سکتے ہیں۔ مثلاً ایک گورنمنٹ سے کسی دوسری گورنمنٹ کا کوئی معاہدہ ہو لیکن بعد میں اس مُلک کی اکثریت اپنی گورنمنٹ کے خلاف ہو جائے تو معاہد حکومت یقینا پابند نہیں کہ اوّل الذکر حکومت کا ان حالات میں بھی ساتھ دے کیونکہ معاہدہ اس امر کی فرضیت پر مبنی تھا کہ وہ حکومت اپنے مُلک کی نمائندہ ہے جب وہ نمائندہ نہ رہے تو معاہد حکومت کا حق ہے کہ اپنے سابق معاہدہ کو تبدیل کر دے جیسا کہ پولینڈ کی حکومت کے بارہ میں انگلستان نے کیا۔ (اس امر کو مَیں نظر انداز کرتا ہوں کہ انگلستان نے پوری تحقیق اس امر کی کر لی تھی کہ نہیں، کہ پولینڈ کی اکثریت سابق حکومت کے ساتھ ہے یا خاص حالات پیدا کر کے اس سے خلاف رائے لے لی گئی ہے) لیکن اگر حالات وہی ہوں جیسے کہ پہلے تھے تو پھر یہ کہہ کر سابق وعدہ کو نظر انداز کر دینا کہ حالات بدلنے پر وعدے بھی بدل سکتے ہیں اخلاق کے خلاف ہوگا۔ حکومت انگریزی کو اپنے سابق وعدوں میں کسی تبدیلی سے پہلے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ وہ کون سے حالات تھے جن میں کوئی وعدہ انہوں نے کیا تھا اور اب کون سے نئے حالات پیدا ہوگئے ہیں جن کا طبعی نتیجہ وعدہ کی تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جب تک وہ ایسا نہ کریں ان کا یہ کہہ دینا کہ اب حالات بدل گئے ہیں صرف متعلقہ جماعت کے دلوں میں شکوک اور جائز شکوک پیدا کرنے کا موجب ہوگا۔ اخلاق کی طاقت یقینا انگلستان اور ہندوستان بلکہ تمام دنیا کی مجموعی طاقت سے بھی زیادہ ہے۔ پس اگر حقیقتاً حالات نہ بدلے ہوں تو گول مول الفاظ استعمال کرنے کی بجائے پارلیمنٹری وفد کو اعلان کرنا چاہئے کہ ہم سے پہلی حکومت بددیانتی سے ہندوستانیوں کو لڑوانے کے لئے بعض اقوام سے کچھ وعدے کر چکی ہے جو ہم برسرِ اقتدار ہونے کے بعد پورا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ لیکن یہ درست نہیں کہ وہ ایک ہی سانس میں پہلی حکومت کی دیانت کا بھی اظہار کرے اور اس کے وعدوں کو یہ کہہ کر توڑ بھی دے کہ بدلے ہوئے حالات میں وعدے بھی بدل جاتے ہیں (حالانکہ جن حالات میں وہ وعدے کئے گئے تھے وہ بالکل نہ بدلے ہوں) عوام الناس فقروں میں آ جاتے ہیں لیکن عقلمند لوگ صرف فقروں سے دھوکا نہیں کھاتے۔
تیسری بات میں مشن کے ممبروں سے یہ کہنی چاہتا ہوں کہ کوئی ایسی حالت پیدا کر دینا جس کے نتیجہ میں ایک اقلیت اپنے حقوق لینے سے محروم رہ جائے، خود انگلستان کو ہی مجرم بنائے گا۔ انگلستان یہ کہہ کر بچ نہیں سکتا کہ اس نے یہ نتیجہ پیدا نہیں کیا۔ نتائج کی ذمہ داری ذرائع پیدا کرنے والے پر ہی ہوا کرتی ہے۔
چوتھی بات کمیشن کے ممبروں سے میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ اگر وہ انصاف کو قائم رکھیں گے تو یقینا ہندو مسلم سمجھوتہ کرانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ میں اس امر کا قائل نہیں کہ انگلستان کا بنایا ہوا ہندوستان اصل ہندوستان ہے لیکن میں اس امر کا بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ہندوستان میں جس قدر اتحاد بھی باہمی سمجھوتہ سے ہو سکے وہ یقینا ہندوستان اور دوسری دنیا کے لئے مفید ہوگا۔ میں برٹش امپائر کے اصول کا دیرینہ مداح ہوں میرے نزدیک برطانوی امپائر کا اصول اِس وقت تک کی قائم کردہ انٹرنیشنل لیگ یا یو این اے سے بدرجہا بہتر ہے۔ اس کی اصلاح کی تو ضرورت ہے لیکن اس کا حصہ دار بننے کا نام غلامی رکھنا ایک جذباتی مظاہرہ تو کہلا سکتا ہے حقیقت نہیں کہلا سکتا۔ مگر بہرحال ہندوستان کے مختلف حصوں کا باہمی تعاون اور ہندوستان کا برطانوی امپائر سے تعاون باہمی سمجھوتے پر مبنی ہونا چاہئے۔
پانچویں ہر سیاسی اصل ضروری نہیں کہ ہر جگہ اپنی تمام شقوں کے ساتھ چسپاں ہو سکے۔ میرا تجربہ ہے کہ انگلستان کے اکثر مدبر اپنے مُلک کے تجربہ کو ہندوستان پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کے حالات یقینا انگلستان سے مختلف ہیں۔ یہاں آزادی کا بھی اور مفہوم ہے اور انصاف کا بھی اور مفہوم ہے۔ مجھے ایک صاحب نے بتایا کہ جب انہوں نے مسٹر گاندھی سے سوال کیا کہ کیا آزاد ہندوستان میں مذہب کی تبدیلی کی اجازت ہوگی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مذہب کی آزادی ضرور ہوگی مگر مذہب کی تبدیلی ایک سیاسی مسئلہ ہے اس بارہ میں حکومت مناسب رویہ اختیار کر سکتی ہے۔ میرے نزدیک یہ نظریہ آزادی کے صریح خلاف ہے۔ مَیں نے اِس امر کی تحقیق کے لئے جماعت احمدیہ کے مرکزی عہدہ داروں سے کہا کہ وہ کانگرس سے اس کا نقطۂ نگاہ دریافت کریں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ جماعت کے سیکرٹری نے اس بارہ میں جو چٹھی لکھی اس کا جواب کانگرس کے سیکرٹری نے نہیں دیا۔ پھر رجسٹری خط گیا اس کا بھی جواب نہیں دیا۔ اس پر تیسرا خط رجسٹری کر کے ارسال کیا گیا مگر اس کاجواب بھی نہ دیا گیا۔ تب تار دی گئی کہ اگر اب بھی جواب نہ دیا گیا تو معاملہ مسٹر گاندھی کے سامنے رکھا جائے گا۔ اس پر کانگرس کے سیکرٹری نے جواب دیا کہ مسٹر بوس کو افسوس ہے کہ اب تک جواب نہیں دیا گیا (اُس وقت مسٹر سبھاش چندر بوس کانگرس کے پریذیڈنٹ تھے) اب جواب بھجوایا جا رہا ہے۔ یہ جواب جب موصول ہوا تو اس میں یہ لکھا تھا کہ آپ کو کانگرس کے کراچی ریزولیوشن نمبر فلاں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ جب لکھا گیا کہ اسی ریزولیوشن کی تعبیر کے متعلق تو ہمارا سوال ہے تو اس کا یہ جواب دیا گیا کہ کانگرس ہی اپنے ریزولیوشن کی تعبیر کر سکتی ہے۔ جب اس پر کہا گیا کہ کانگرس سے تو اس کے عہدہ دار ہی پوچھ سکتے ہیں ہمارے پاس کونسا ذریعہ ہے تو اس پر جواب دیا گیا کہ ہم نہیں پوچھ سکتے آپ ہی دریافت کریں۔ اس واقعہ نے ثابت کر دیا کہ کانگرس کے نزدیک آزادی کا مفہوم یورپ کے زمانۂ وسطیٰ والا ہے جسے مسلمان کسی صورت میں تسلیم نہیں کر سکتے۔ چنانچہ عملاً اس کا یہ نمونہ موجود ہے کہ ہندو ریاستوں میں ایک ہندو اگر مسلمان ہو جائے تو اوّل بغیر مجسٹریٹ کی اجازت کے وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ دوم اسے اپنے ورثہ سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ کانگرس سے جو ہماری گفت و شنید ہوئی ہے اُس نے ریاستوں کے اس رویہ پر مُہرِ تصدیق لگا دی ہے۔ غرض صرف ڈیموکریسی (DEMOCRACY) کے لفظ پر نہیں جانا چاہئے۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ڈیموکریسی کا مفہوم کس قوم میں کیا ہے۔ اِس وقت روس مغربی حکومتوں کے خلاف بار بار یہ اعلان کر رہا ہے کہ مغربی ممالک کے ری ایکشنری (REACTIONARY) لوگ ہمارے خلاف یونان اور ایران اور چین کی تائید کے نام سے غلط فضاء پیدا کر رہے ہیں لیکن کیا صرف ری ایکشنری کے لفظ کے استعمال کی وجہ سے انگلستان اور امریکہ کے لوگ اپنی منصفانہ پالیسی چھوڑ دیں گے؟ اگر نہیں تو صرف ڈیموکریسی کے لفظ کے استعمال سے بھی ان کی تسلی نہیں ہو جانی چاہئے۔
مَیں مسلمانوں کے نمائندوں کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ہندوستان ہمارا بھی اُسی طرح ہے جس طرح ہندوؤں کا۔ ہمیں بعض زیادتی کرنے والوں کی وجہ سے اپنے مُلک کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اس مُلک کی عظمت کے قیام میں ہمارا بہت کچھ حصہ ہے۔ ہندوستان کی خدمت ہندوؤں نے تو انگریزی زمانہ میں انگریزوں کی مدد سے کی لیکن ہم نے اس مُلک کی ترقی کے لئے آٹھ سَو سال تک کوشش کی ہے۔ پشاور سے لے کر منی پور تک اور ہمالیہ سے لے کر مدراس تک اُن محبانِ وطن کی لاشیں ملتی ہیں جنہوں نے اس مُلک کی ترقی کے لئے اپنی عمریں خرچ کر دی تھیں۔ ہر علاقہ میں اسلامی آثار پائے جاتے ہیں کیا ہم ان سب کو خیر باد کہہ دیں گے؟ کیا ان کے باوجودہم ہندوستان کو ہندوؤں کا کہہ سکتے ہیں؟ یقینا ہندوستان ہندوؤں سے ہمارا زیادہ ہے۔قدیم آریہ ورت کے نشانوں سے بہت زیادہ اسلامی آثار اس مُلک میں ملتے ہیں۔ اس مُلک کے مالیہ کا نظام، اس مُلک کا پنچائتی نظام، اس مُلک کے ذرائع آمدو رفت سب ہی تو اسلامی حکومتوں کے آثار میں سے ہیں پھر ہم اسے غیر کیونکر کہہ سکتے ہیں۔ کیا سپین میں سے نکل جانے کی وجہ سے ہم اسے بُھول گئے ہیں؟ ہم یقینا اسے نہیں بُھولے ہم یقینا ایک دفعہ پھر سپین کو لیں گے۔ اسی طرح ہم ہندوستان کو نہیں چھوڑ سکتے یہ مُلک ہمارا ہندوؤں سے زیادہ ہے۔ ہماری سُستی اور غفلت سے عارضی طور پر یہ مُلک ہمارے ہاتھ سے گیا ہے ہماری تلواریں جس مقام پر جا کر کُندہو گئیں وہاں سے ہماری زبانوں کا حملہ شروع ہو گا اور اسلام کے خوبصورت اصول کو پیش کر کے ہم اپنے ہندو بھائیوں کو خود اپنا جزو بنا لیں گے مگر اس کے لئے ہمیں راستہ تو کھلا رکھنا چاہئے۔ ہمیں ہر گزوہ باتیں قبول نہیں کرنی چاہئیں جن میں اسلام اور مسلمانوں کی موت ہو مگر ہمیں وہ طریق بھی اختیار نہیں کرنا چاہئے جس سے ہندوستان میںاسلام کی حیات کا دروازہ بند ہو جائے۔ میرا یقین ہے کہ ہم ایک ایسا منصفانہ طریق اختیار کر سکتے ہیں صرف ہمیں اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہئے۔ اسلام نے انصاف اور اخلاق پر سیاسیات کی بنیاد رکھ کر سیاست کی سطح کو بہت اونچا کر دیا ہے کیا ہم اس سطح پر کھڑے ہو کر صلح اور محبت کی ایک دائمی بنیاد نہیں قائم کر سکتے؟ کیا ہم کچھ دیرکیلئے جذباتی نعروں کی دنیا سے الگ ہو کر حقیقت کی دنیا میں قدم نہیں رکھ سکتے تا ہماری دنیا بھی درست ہو جائے اور دوسروں کی دنیا بھی درست ہو جائے۔
میں مسلمانوں سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ یہ وقت اتحاد کا ہے جس طرح بھی ہو اپنے اختلافات کو مٹا کر مسلمانوں کی اکثریت کی تائید کریں اور اکثریت اپنے لیڈر کا ساتھ دے اُس وقت تک کہ یہ معلوم ہو کہ اب کوئی صورت سمجھوتہ کی باقی نہیں رہی اور اب آزادانہ رائے دینے کا وقت آگیا ہے۔ مگر اِس معاملہ میں جلدی نہ کی جائے تا کامیابی کے قریب پہنچ کر ناکامی کی صورت نہ پیدا ہو جائے۔
میں ہندوبھائیوں سے اور خصوصاً کانگر س والوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کانگرس کے لئے مسٹر گاندھی نے اور کچھ بھی نہ کیا ہو تو بھی انہوں نے اس پر یہ احسان ضرور کیا ہے کہ اسے اس اصل کی طرف ضرور توجہ دلائی ہے کہ ہمارے فیصلوں کی بنیاد اخلاق پر ہونی چاہئے تفصیل میں مجھے خواہ ان سے اختلاف ہومگر اصول میں مجھے ان سے اختلاف نہیں کیونکہ میرے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصل کو جاری کیا ہے۔ آپ لوگوں کو غور کرنا چاہئے کہ ایک طرف تو آپ لوگ عدمِ تشدد کے قائل ہیں دوسری طرف مسلمانوں کے مقابل پر اپنے مطالبات نہ پورا ہونے کی صورت میں بعض لیڈر دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ میں نے آج ہی ایک کانگرسی لیڈر کا اعلان پڑھا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں ۔
’’ کہ کوئی اسے اچھا سمجھے یا بُرا اس کے نتیجہ میں مُلک میں شدید فساد پیدا ہوگا‘‘
پھر لکھتے ہیں۔
’’مگر جو کوئی بھی مُلک کے موجودہ جذبات کو جانتا ہے اس بات کو معلوم کر سکتا ہے کہ کوئی طاقت اس( فساد) کو روک نہیں سکتی اور ممکن ہے کہ یہ( فساد) ایک ایسی شکل اختیار کر لے جسے ہم میں سے کوئی بھی روک نہ سکے‘‘۔
اس لیڈر نے اس کا بھی ذکر کیا ہے کہ مسٹر جناح نے بھی خون خرابہ کی دھمکی دی ہے یہ درست ہے مگر مسٹر جناح نے غلطی کی یا درست کام کیا وہ عدمِ تشدد کے قائل نہیں۔ ان پر یہ الزام نہیں لگ سکتا کہ وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں مگر کانگرس جو عدمِ تشدد کی قائل ہے اگر اس کا ایک لیڈر ایسی بات کرتا ہے تو وہ یقینا دو باتوں میں سے ایک کو ثابت کرتا ہے یا تو اس امرکو کہ کانگرس کی عدمِ تشدد کی پالیسی صرف اس لئے تھی کہ جب وہ جاری کی گئی کانگرس کمزور تھی اس لئے اس پالیسی کے اعلان کے ذریعہ دنیا پر یہ اثر ڈالنا مقصود تھاکہ ہم تو عدمِ تشدد کرنے والے ہیں ہماری گرفتاریاں کر کے برطانیہ ظلم کر رہا ہے یا ہندوستانی گورنمنٹ کی آنکھوں میں خاک ڈالنا مقصود تھا کہ ہم تو عدمِ تشدد کے بڑے حامی ہیں ہمیں اپنا کام کرنے دیں ہم آپ کی حکومت کے لئے مشکلات پیدا نہیں کرتے یا پھر اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ پبلک پر اثر کا دعویٰ کرنے میں کانگرس حقیقت کے خلاف جاتی ہے کیونکہ ہر قوم میں سے کچھ لوگ اپنے لیڈروں کے خلاف ضرور جا سکتے ہیں لیکن قوم کا اتنا حصہ لیڈروں کے خلاف نہیں جا سکتا جو مُلک کے حالات کو قابوسے باہر کر دے یہ اُسی وقت ہوتا ہے جبکہ لیڈر لیڈر ہی نہ ہو اور اپنے اثر اور قبضہ کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہو۔ کانگرس کے لیڈروں کو اس موقع پر بہت ہوشیاری سے کام کرنا چاہئے ورنہ انہیں یاد رہے کہ سیاسی حالات یکساں نہیں رہتے۔ اس قسم کے بیج کبھی نہایت تلخ پھل بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں کیونکہ خواہ وہ مانیں یا نہ مانیں اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک خداہے اور وہ تعداد میں زیادہ، مال میں زیادہ، حکومت میں طاقتور قوم کو تھوڑے اور کمزور لوگوں پر ظلم نہیں کرنے دے گا۔ اسلام ہر حالت میں زندہ رہے گا خواہ مسلمانوں کی غلطیوں کی وجہ سے عارضی طور پر تکلیف اُٹھالے۔
ایک اور بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں میں اس بات کے حق میں ہوں کہ ہو سکے تو باہمی سمجھوتے سے ہم لوگ اُسی طرح اکٹھے رہیں جس طرح کئی سَوسال سے اکٹھے چلے آتے ہیں لیکن فرض کرو مسلمان کُلّی طور پر باقی ہندوستان سے انقطاع کا فیصلہ کریں اور برطانیہ انہیں مجبور کر کے باقی ہندوستان سے ملا دے اور جیسا کہ مسٹر جناح نے کہا ہے مسلمان بزور اس فیصلہ کا مقابلہ کریں تو یقینا وہ قانوناً باغی نہیں کہلا سکتے کیونکہ یہ ایک نیا انتظام ہو گا اور نئی گورنمنٹ، سابق گورنمنٹ کو کوئی حق نہیں کہ وہ مسلمانوں کو جو اس مُلک کے اصل حاکم تھے دوسروں کے ماتحت ان کی مرضی کے خلاف کر دے۔ اس حکومتی ردّوبدل کے وقت ہر حصۂ مُلک کو نیا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے اور اپنے حق کو بزور لینے کا فیصلہ کرتے وقت وہ انٹرنیشنل قانون کے مطابق ہر گز باغی نہیں کہلا سکتے۔ مگر کیا ہندوؤں کو بھی قانون کا تحفظ حاصل ہے؟ وہ کب اس شکل میں مسلم صوبوں کے حاکم ہوئے تھے کہ انہیں دستورِ قدیمہ کو قائم رکھنے کا قانونی حق حاصل ہو۔ حکومتوں کے بدلنے پر’’سٹیٹس کو(STATUS QUO)‘‘ کا سوال ہی نہیں رہتا۔ پس مسلمان خدانخواستہ اگر ایسا کرنے پر مجبور ہوں تو قانونی لحاظ سے وہ جائز کام کریں گے۔ ہندو اگر جبراً ان کو اپنے ماتحت لانا چاہیں تو قانونی لحاظ سے وہ ظالم ہوں گے۔ اگر انگریز مسلمانوں کو ان کی مرضی کے خلاف بقیہ ہندوستان سے ملا دیں تو وہ بھی ظالم ہوں گے کیونکہ مسلمان بھیڑ بکریاں نہیں کہ انگریز جس طرح چاہیں ان سے سلوک کریںپس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس مشکل کو محبت سے سُلجھانے کی کوشش کی جائے زور اور خود ساختہ قانون سے نہیں۔ میں ہندوؤں کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا دل ان کے ساتھ ہے ان معنوں میں کہ میں چاہتا ہوں کہ ہندو مسلمانوں میں آزادانہ سمجھوتہ ہو جائے اور یہ سوتیلے بھائی اس مُلک میں سگے بن کر رہیں۔
میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ میں اس امر کے حق میں ہوں کہ جس طرح ہو ہندوستان کو متحد رکھنے کی کوشش کی جائے ہماری جُدائی اصلی جُدائی نہ ہو بلکہ جُدائی اتحاد کا پیش خیمہ ہو مگر میں اپنے ہندو بھائیوں سے یہ بھی ضرور کہوں گا کہ غلط دلائل کسی حقیقت کو ثابت نہیں کر سکتے بلکہ بہت دفعہ حقیقت کو اور بھی مشتبہہ کر دیتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی دلیل ہے کہ پنجاب سندھ وغیرہ صوبوں کے الگ ہو جانے سے ہندوستان کا ڈیفنس کمزور ہو جائے گا۔ کینیڈا کے الگ ہو جانے سے کیا یونائٹیڈ سٹیٹس کا ڈیفنس کمزور ہو گیا ہے؟ میکسیکو کی آزادی سے کیا یونائٹیڈ سٹیٹس کا ڈیفنس کمزور ہوگیاہے؟ ارجنٹائن کے الگ ہونے سے کیا برازیل کا ڈیفنس کمزور ہو گیا ہے؟ اگر مسلم صوبے الگ بھی ہو جائیں تو باقی ہندوستان کا کیا بگڑ سکتا ہے۔ اِس وقت بھی ہندوستان کی آبادی روس سے قریباً دُگنی، یونائٹیڈ سٹیٹس سے قریباً اَڑھائی گنی ،سابق جرمن سے قریباً چار گنی ہو گی اور مُلک کی وسعت بھی کافی ہو گی۔ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ مسلم صوبے الگ ہو کر ترقی نہیں کر سکیں گے دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے الگ ہو جانے سے ہندوستان اپنی عظمت کھو بیٹھے گا۔ اگر ہندوستان کی عظمت اسلامی صوبوں سے ہے تو ان کے الگ ہونے پر اسلامی صوبوں کو نقصان کیونکر پہنچے گا یہ تو وہی دلیل ہے جو روس اِس وقت پولینڈ،رومانیہ، بلغاریہ ،ٹرکی اور ایران کے بعض صوبوں پر قبضہ کرنے کی تائید میں دیتا ہے۔ روس اپنی تمام طاقت کے ساتھ تو جرمنی اور اٹلی کے حملہ سے جو تباہ شدہ مُلک ہیں نہیں بچ سکتا نہ افغانستان اور جنوبی ایران جیسے زبردست ملکوں کے حملوں سے بچ سکتا ہے اس کے بچنے کی صرف یہی صورت ہے کہ پولینڈ اور رومانیہ اور بلغاریہ اس کے زیر تصرف ہوجائیں یا ٹرکی کے بعض صوبے اور ایران کا شمالی حصہ اسے مل جائے کیا یہ دلیل ہے؟ کیا ایسی ہی دلیلوں سے ہندو مسلمانوں کے دلوں میں اعتبار پیدا کرسکتے ہیں؟ میں پھر کہتا ہوں کہ اس نازک موقع پر اخلاق پراپنے دعوؤںکی بنیاد رکھیں بھلا اِس قسم کے دعوؤں سے کہ مسلم لیگ مسلم رائے کی نمائندہ نہیں کیونکہ اس کے منتخب ممبر جو کونسلوں میں آئے اکثر بڑے زمیندار ہیں کیا بنتا ہے؟ کیا عوام الناس کو یہ اختیار نہیں کہ وہ بڑے زمیندار کو اپنا نمائندہ مقرر کریں؟ اس دلیل سے تو صرف یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پنڈت نہرو صاحب کے نزدیک جنہوں نے یہ امر پیش کیا ہے مسلمان اپنا نمائندہ چننے کے اہل نہیں۔اگر ان کا یہ خیال ہے تو دیانت داری کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ یوں کہیں کہ مسلمان چونکہ اپنے نمائندے چننے کے اہل نہیں اس لئے موجودہ ملکی فیصلہ میں ان سے رائے نہیں لینی چاہئے۔اگر وہ ایسا کہیں تو خواہ یہ بات غلط ہو یا درست مگر منطقی ضرور ہو گی مگر یہ کہنا کہ مسلمانوں نے چونکہ اپنا نمائندہ چند بڑے زمینداروں کو چنا ہے اس لئے وہ لوگ موجودہ سوال کو حل کرنے کے لئے مسلمانوں کے نمائندے نہیں کہلا سکتے ایک ایسی غیر منطقی بات ہے کہ پنڈت نہرو جیسے آدمی سے اس کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اگر ان کا یہ مطلب نہیں تو انہوں نے اس امر کا ذکراس موقع پر کیا کیوں تھا؟ درحقیقت ان کا یہ اعتراض ویسا ہی ہے جیسا کہ بعض مسلمان کہتے ہیں کہ مسٹر گاندھی عموماًمسٹر برلا کے مکان پر کیوں ٹھہرتے ہیں۔ یقینا مسٹر گاندھی کو مسٹر برلا کے مکان پر ٹھہرنے کا پورا حق ہے کیونکہ وہاں ان سے ملنے والوں کے لئے سہولتیں میسر ہیں ان کے وہاں ٹھہرنے سے ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ مالداروں کے قبضہ میں ہیں اسی طرح مسلم لیگ کے امیدوار اگر بڑے زمیندار ہوں اور مسلم پبلک اُن کو منتخب کرے تو اِس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ لوگ مسلمانوں کے نمائندے نہیں ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے لئے غلط قسم کا نمائندہ چنتا ہے تو وہ اپنے کئے کی سزا خود بُھگتے گا دوسرے کسی شخص کو اس کے نمائندہ کی نمائندگی میں شبہ کرنے کا حق نہیں یہ باتیں صرف لڑائی جھگڑے کو بڑھانے کا موجب ہوتی ہیں اور کوئی فائدہ ان سے حاصل نہیں ہوتا۔ پھر یہ بات ہے بھی تو غلط کہ مسلم لیگ کے اکثر نمائندے بڑے زمیندار ہیں پنجاب ہی کو لے لو اِس میں ۷۹ ممبر اِس وقت مسلم لیگ کے نمائندے ہیں اور چھ یونینسٹ پارٹی کے جن سے کانگرس نے سمجھوتہ کیا ہے۔ یونینسٹ پارٹی کے چھ ممبروں میں سے ملک سر خضرحیا ت، ملک سراللہ بخش اور نواب مظفر علی بڑے زمیندار ہیںگویا پچاس فیصدی ممبر بڑے زمیندار ہیں دوسرے تین کو میں ذاتی طور پر نہیں جانتا ممکن ہے ان میں سے بھی کوئی بڑا زمیندار ہو۔ اس کے مقابل پر مسلم لیگ کے ۷۹ممبروں میں سے صرف چار بڑے زمیندار ہیں یعنی نواب صاحب ممدوٹ،نواب لغاری، مسٹر ممتاز دولتانہ اور مسٹر احمد یار دولتانہ۔ دو اور ہیں جو میرے علم میں بڑے زمیندار نہیں مگر شاید انہیں بڑے زمینداروں میں شامل کیا جاسکتا ہو وہ سر فیروز خان اور میجر عاشق حسین ہیں اور ان کوبھی بڑے زمیندار وں میںشامل کر لیا جائے تو یونینسٹ پارٹی جو کانگرس کی حلیف ہے اس کے ممبرو ں میں سے پچاس فیصد بڑے زمینداروں کے مقابلہ پر لیگ کے ۷۹ میں سے ۶ بڑے زمیندار صرف ساڑھے سات فیصدی ہوتے ہیں اور کیا یہ نسبت اِس بات کا ثبوت کہلا سکتی ہے کہ کوئی پارٹی بڑے زمینداروں کی پارٹی ہے۔ بڑے زمینداروں کا طعنہ مدت سے کانگرس کی طرف سے مسلمانوں کو دیا جاتا ہے حالانکہ بڑا خواہ زمیندار ہو یا تاجر اگر وہ بُرے معنوں میں بڑا ہے تو ہر شکل میں بُرا ہے لیکن اگر وہ اپنے حلقہ کا نمائندہ ہے تو جب تک مُلک کا قانونِ انتخاب اُس کی دولت اس کے پاس رہنے دیتا ہے اور جب تک کہ اس کا حلقہ اس کاانتخاب کرتا ہے نمائندگی میں کسی دوسرے سے کم نہیں۔ پنجاب میں گورنمنٹ رپورٹ کے مطابق صرف تیرہ زمیندار ایسے ہیںجو آٹھ ہزار سے زیادہ ریونیو دیتے ہیں(یعنی جن کی آمد رائج الوقت مال گزاری کے اصول کے مطابق ۱۶ ہزار سالانہ سے زائد ہے اس سے کم آمد ہرگز کسی کو بڑا زمیندار نہیں بنا سکتی بلکہ یہ آمد بھی بڑی نہیں کہلا سکتی اتنی آمد معمولی معمولی دُکانداروں کی بھی ہوتی ہے گو وہ ٹیکس سے بچنے کے لئے ظاہر کریں یا نہ کریں۔ زمیندار کا صرف یہی قصور ہے کہ وہ اپنی حیثیت ظاہر کرنے پر مجبور ہے)ان میں غالباً کچھ غیر مسلم بھی ہوں گے اگر سب مسلمان ہی ہوں تو بھی یہ کوئی بڑی تعداد نہیں اور جب یہ دیکھا جائے کہ یہ لوگ جس قدر ریونیو ادا کرتے ہیں وہ پنجاب کے کُل ریونیو کے سویں حصہ سے بھی کم ہے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ پنجاب کی اکثر زمین چھوٹے زمینداروں کے پاس ہے بڑے زمینداروں کے پاس نہیں۔ بڑا زمیندارہ صرف یوپی اور بنگال میں ہے لیکن وہاں کے بڑے زمینداروں میں اکثریت ہندوؤں کی ہے جن میں سے اکثریت کانگرس کی تائید میں ہے۔ مگر اس کے بھی یہ معنی نہیں کہ ہندواکثریت کانگرس کے ساتھ نہیں اور زمینداروں کے ساتھ شامل ہوتے ہوئے بھی کانگرس کی نمائندگی پر کوئی حرف نہیں آتا۔
ایک نصیحت میں کانگر س کوخصوصاًاور عام ہندوؤں کو عموماً یہ کرنا چاہتا ہوں کہ تبلیغِ مذہب اور تبدیلی مذہب کے متعلق وہ اپنا رویہ بدل لیں۔ مذہب کے معاملہ میں دست اندازی کبھی نیک نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی وہ مذہب کو سیاست میں بدل کر کبھی چین نہیں پا سکتے۔ تبلیغِ مذہب اور مذہب بدلنے کی آزادی انہیں ہندوستان کے اساس میں شامل کرنی چاہئے اور اس طرح اس تنگ ظرفی کا خاتمہ کر دینا چاہئے جو ان کی سیاست پر ایک داغ ہے اور اس تنگی کو کوئی آزاد شخص بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ جب تک مُلک کی ذہنیت غلامانہ ہے ایسی باتیں چل جائیں گی لیکن جب حُریت کی ہوا لوگوں کو لگی ایسے غلط نظریوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑک اُٹھیں گے تبدیلی تو ہو کر رہے گی لیکن جو لوگ اِس تنگ ظرفی کے ذمہ دار ہونگے وہ ہمیشہ کے لئے اپنی اولادوں کی نظروں میں ذلیل ہو جائیں گے۔ وہ فطرت کے اس تقاضہ کو اس حقیقت سے سمجھ سکتے ہیں کہ بادشاہ اورنگ زیب کو سب سے زیادہ بدنام کرنے والا وہ غلط الزام ہے کہ اس نے مذہب میں دست اندازی کی۔ ان کا یہ خیال کہ ہم دوسرے کا مذہب بدلوانے پر زورنہیں دیتے ایک غلط خیال ہوگا کیونکہ بدھ، کرشن ،عیسیٰؑ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے لوگ بھی دوسرے کا مذہب نہیں بدلواتے تھے ان کو تبلیغ سے اور اپنے ہم مذہبوں کو مذہب تبدیل کرنے سے روکتے تھے اور تبلیغ کرنے والوں اور مذہب تبدیل کرنے والوں کو سزائیں دیتے تھے۔ اگر ایسا ہی ارادہ آپ لوگوں نے کیا تو اُسی *** کے آپ حصہ دار ہوں گے جس *** کا بوجھ ان پہلوں پر پڑچکا ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ وقت ایسا نہیں کہ غلط اور سُنی سنائی باتوں کو لے کر پبلک میں ہیجان پیدا کیا جائے یا پارلیمنٹری مشن پر اثر ڈالنے کی کوشش کی جائے کوئی خدا کومانے یا نہ مانے مگر فطرتِ صحیحہ کی مخالفت کبھی اچھا نتیجہ پیدا نہیں کرتی۔ یہ وقت سنجیدگی سے اس امر پر غور کرنے کا ہے کہ کس طرح ہمارا مُلک آزاد ہو سکتا ہے اور کس طرح ہر قوم خوش رہ سکتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہواتو ہم صرف قید خانہ بدلنے والے ہوں گے۔
میں نے اس مخلصانہ مشورہ میں صرف اشارات سے کام لیا ہے اگر مجھے مزید وضاحت کی ضرورت ہوئی تو ملامت کرنے والوں کی ملامت سے بے پرواہ ہو کر میں اِنْشَائَ اللّٰہُ اپنا مخلصانہ مشورہ مشن یا پبلک کے اس حصہ کے آگے پیش کروں گا جو سننے کے لئے کان اور سوچنے کے لئے دماغ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پارلیمنٹری وفد کو بھی اور ہندو مسلمان اور دوسری اقوام کے نمائندوں کو بھی صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق بخشے ۔آمین
خاکسار
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ
قادیان
۵۔۴۔۱۹۴۶ء
ہر کام کی بنیاد حق الیقین پر ہونی چاہئے
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ہر کام کی بنیاد حق الیقین پر ہونی چاہئے
سورۃ الم نشرح کی تفسیر کے وقت درس القرآن کے موقع پر فرمایا:۔
قرآن کریم نے یقین کے مختلف مدارج بیان کئے ہیں۔ یوں تو اس کے ہزاروں مدارج ہیں مگر موٹے موٹے تین مدارج ہیں۔ علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں جو خاص اصولی مضامین ہیں ان میں سے ایک یہ بھی مضمون ہے جو مراتب یقین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پہلے صوفیاء کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں پہلے صوفیاء کی کتابوں میں بھی بے شک اس کا ذکر ملتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مضمون میں جو جِدتیں پیدا کی ہیں وہ ان لوگوں کی تشریحات میں نہیں ہیں۔ بعض لوگ اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ یہ باتیں تو امام غزالی ؒکی کتابوں میں بھی پائی جاتی ہیں یا فلاں فلاں مضامین انہوں نے بھی بیان کئے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر اقبال نے کہہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس قسم کے مضامین صوفیاء کی کتابوں سے چرا لئے تھے حالانکہ اگر غور وفکر سے کام لیا جائے تو دونوں کے تقابل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ انہوں نے مضمون میں وہ باریکیاں پیدا نہیں کیں جو ایک ماہرِ فن پیدا کیا کرتا ہے اور نہ مضمون کی نوک پلک انہوں نے نکالی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس مضمون کو بھی لیا ہے ایک ماہرِ فن کے طور پر اس کی باریکیوں اور اس کے خدوخال پر پوری تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور کوئی پہلو بھی تشنۂ تحقیق رہنے نہیں دیا اور یہی ماہر کا کام ہوتا ہے کہ دوسروں سے نمایاں کام کر کے دکھا دیتا ہے۔ مثلاً تصویر کھینچنا بظاہر ایک عام بات ہے ہر شخص تصویرکھینچ سکتا ہے میں بھی اگر پنسل لے کر کوئی تصویر بنانا چاہوں تو اچھی یا بُری جیسی بھی بن سکے کچھ نہ کچھ شکل بنا دوں گا مگر میری بنائی ہوئی تصویر اور ایک ماہرِ فن کی بنائی ہوئی تصویر میں کیا فرق ہوگا یہی ہوگا کہ ماہرِ ف