انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 19
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تعارف کتب
یہ انوار العلوم کی اُنیسویںجلد ہے جو سیدنا حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی کی ۲۷؍مئی ۱۹۴۷ء تا ۴؍جولائی ۱۹۴۸ء کی ۱۸ مختلف تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے۔
(۱) زمانہ جاہلیت میں اہلِ عرب کی خوبیاں اور اُن کا
پس منظر
مکرم سید منیر الحصنی شامی صاحب نے مؤرخہ ۲۱؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں زمانۂ جاہلیت میں اہلِ عرب کے مناقب کے موقع پر عربی زبان میں ایک تقریر کی۔ مگر وقت کی کمی کے باعث تقریر کے بعد حاضرین کو مذکورہ تقریر کے بارہ میں سوالات دریافت کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ چنانچہ دو تین روز بعد مؤرخہ ۲۶؍مئی کو بعد نماز مغرب دوبارہ مجلس منعقد ہوئی تو حضرت مصلح موعود نے حاضرین کو السید منیر الحصنی شامی صاحب سے ان کے لیکچر کے متعلق سوالات پوچھنے کا موقع عطا فرمایا جس پر کچھ احباب نے مکرم منیر الحصنی صاحب سے بعض سوالات دریافت کئے اور الحصنی صاحب نے ان کے سوالات کے جوابات دیئے۔
سوال و جواب کے اختتام پر حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ چونکہ بعض حاضرین عربی زبان سے ناواقف ہیں لہٰذا میں اس گفتگو کا اُردو میں مفہوم بیان کر دیتا ہوں۔ چنانچہ حضور نے سوال و جواب کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ دراصل نہ سوال کرنے والے مقرر کی بات کو پوری طرح سمجھ سکے ہیں اور نہ ہی مقرر صاحب سوالات کو پوری طرح سمجھ سکا ہے۔ لہٰذا دونوں کو ہی غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس کے بعد حضور نے اصل حقیقت حال پر روشنی ڈالی۔ نیز اگلے روز دوبارہ مؤرخہ 27 مئی کو اِسی مضمون کو وضاحت فرمائی۔
حضور نے اپنے اس محاکمہ میں عربوں کی خصوصیات کا پس منظر بیان فرمایا نیز اسلام کے ظہور کے بعد ان میں پیدا ہونے والے اخلاقِ فاضلہ اور ان کی قومی خوبیوں میں پیدا ہونے والے نکھار کی وضاحت فرمائی۔
یہ مضمون ستمبر ۱۹۶۱ء کو روزنامہ الفضل ربوہ میں ۶ قسطوں میں شائع ہوا ہے۔ جسے اب پہلی دفعہ انوار العلوم کی اس جلد میں کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔
(۲) خوف اور امید کا درمیانی راستہ
۱۹۴۷ء میں جب ہندوستان کی آزادی و تقسیم کا معاملہ آخری مراحل میں داخل ہو رہا تھا تو اُس وقت مسلمانوں کے اندر حالات کی نزاکت کا جو احساس نظر آنا چاہیے تھا وہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ چنانچہ اس صورت حال کے پیش نظر حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۲۹؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ایک لیکچر دیا۔ جس میں مسلمانوں کی اِس حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مومن خوف اور رجاء کے درمیان ہوتا ہے نہ تو اُس پر خوف ہی غالب آتا ہے اور نہ اُس پر امید غالب آتی ہے بلکہ یہ دونوں حالتیں اس کے اندر بیک وقت پائی جانی ضروری ہیں جہاں اس کے اندر خوف کا پایا جانا ضروری ہے وہاں اس کے اندر امید کا پایا جانا بھی ضروری ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ نہ تو وہ خوف کی حدود کو پار کر جائے اور نہ امید کی حدود سے تجاوز کر جائے اور یہی وہ اصل مقام ہے جو ایمان کی علامت ہے یا خوش بختی کی علامت ہے ۔‘‘
حضور کے اِس خطاب کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ خوف اور امید کا درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہیے نیز کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ کے دونوں احکام تدبیر اور تقدیر پر عمل ضروری ہے۔ لہٰذا ان حالات میں کہ جہاں مسلمانوں کو کامیابی کی امید نظر آ رہی ہے وہاں خوف کا پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے اور آخری دم تک تدبیر کو عمل میں لانا چاہیے۔
حضور کا یہ خطاب پہلی بار مؤرخہ ۱۲؍ جون ۱۹۴۷ء کو روزنامہ الفضل قادیان میں شائع ہوا اور اب انوارالعلوم کی جلد ھٰذا میں کتابی صورت میں شائع ہو رہاہے۔
(۳)مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مؤرخہ ۳۰؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں یہ فرمودات ارشاد فرمائے جو مؤرخہ ۱۵؍ ستمبر ۱۹۶۱ء کو پہلی بار روزنامہ الفضل میں شائع ہوئے۔
حضورکے ان فرمودات کا موضوع مولانا رومی کا یہ شعر تھا کہ:۔
ہر بَلَا کیں قوم را حق دادہ اَست
زیر آں گنج کرم بنہادہ اَست
یعنی خدا تعالیٰ کی ایک یہ بھی سنت ہے کہ جب کسی قوم پر کوئی بلا آتی ہے تو اس کے نیچے برکتوں کا ایک مخفی خزانہ ہوتا ہے۔ حضور نے اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ یعنی اس بلا کے آچکنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی برکات ظاہر ہوتی ہیں جو اس قوم کے لئے تقویت کا موجب ہوتی ہیں یہ ایک نہایت سچی بات ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب کبھی مومنوں کو مشکلات اور مصائب وآلام کا سا منا ہوتا ہے تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ ایسی باتیں ضرور ظاہر ہوتی ہیں جو ان کے ایمان میں ازدیاد کا موجب ہوتی ہیں اور صداقت اور شوکت کو ظاہر کرنے والی ہوتی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مصیبت اور مشکل جو آپ کو پہنچی اپنے بعد بے شمار معجزات چھوڑ کر گئی اور اس کے ذریعہ سے مومنوں کے ایمان تازہ ہوئے اور وہ قیامت تک کی نسلوں کے لئے برکت اور رحمت کا موجب ہوں گے۔‘‘
حضور کا یہ روح پرور خطاب پہلی دفعہ اس جلد میں کتابی صورت میں شائع ہو رہا ہے۔
(۴) قومی ترقی کے دو اہم اصول
حضرت مصلح موعود نے یہ ارشادات مؤرخہ ۵،۶؍ جون ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ارشاد فرمائے جو پہلی دفعہ اکتوبر ۱۹۶۱ء کے روزنامہ الفضل میں تین قسطوں میں شائع ہوئے۔ جن کو اب اِس جلد میں پہلی بار کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔
حضور نے اپنے اِن فرمودات میں قومی ترقی کے درج ذیل دو اہم اصول بیان فرمائے ہیں۔
۱۔ اپنے مقصد کی برتری اور کامیابی پر پورا یقین پیدا کرنا چاہیے۔ جب کوئی شخص اس یقین سے لبریز ہو جائے تو اس کے اندر کام کی غیر معمولی طاقت اور قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ جو کامیابی کی ضامن بن جاتی ہے۔
۲۔ قومی ترقی کے لئے دوسری ضروری چیز قوتِ ارادی ہے جو ایمان کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ مگر اس سلسلہ میں یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی قوتِ ارادی اور انسان کی قوتِ ارادی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
(۵) سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل
۱۹۴۷ء میں انگریزی تسلط سے ہندوستان کی آزادی نیز ہندوستان کی تقسیم کا اعلان کچھ ہی دنوں تک متوقع تھا مگر حتمی اعلان سے پیشتر ہی پنجاب کی تقسیم کے متعلق انگریزوں کے عزائم سامنے آ رہے تھے۔ چنانچہ ایسے حالات میں حضرت مصلح موعود نے سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل کے نام سے یہ مضمون تحریر فرمایا جسے ٹریکٹ کی صورت میں شائع کروا کر تقسیم کیا گیا۔ نیز افادۂ عام کے لئے یہ مضمون مؤرخہ ۱۹؍ جون ۱۹۴۷ء کو روزنامہ الفضل قادیان میں بھی شائع کیا گیا۔
اس مضمون میں حضور نے سکھوں کو یہ باور کرانا چاہا کہ پنجاب میں ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے پنجاب کی تقسیم کی صورت میں سب سے زیادہ فائدہ ہندوؤں کو حاصل ہوتا ہے اور سب سے زیادہ نقصان سکھوں کو ہوگا۔ لہٰذا سکھوں کو چاہیے کہ وہ ہندوستان کی بجائے پاکستان کے ساتھ الحاق کریں جس سے اُن کو سراسر فائدہ ہوگا جیسا کہ بعد کے حالات نے ثابت بھی کیا۔ حتّٰی کہ علیحدگی پسند تحریکات نے بھی جنم لیا۔
پس اگر سکھ اُس وقت حضرت مصلح موعود کا یہ مشورہ مان جاتے تو آج اُن کو الگ وطن بنانے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی اور پنجاب کی تقسیم سے سکھوں کو جو معاشی، معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے جو نقصان اُٹھانا پڑا اُس سے وہ محفوظ رہتے۔ مگر افسوس کہ سکھوں نے اس اپیل کو وقعت نہ دی۔
(۶) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام واقعات اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت پیش کرتے ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مؤرخہ ۱۷،۲۵ اور ۲۹؍ جون ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں قرآن کریم کی آیت اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی روشنی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے کئی ایمان افروز واقعات نہایت لطیف پیرایہ میں بیان فرمائے۔ جو افادۂ عام کے پیش نظر ماہ اگست و نومبر ۱۹۶۱ء میں روزنامہ الفضل ربوہ میں ۱۰ قسطوں میں شائع ہوئے تھے۔ جنہیں اب پہلی بار اِس جلد میں کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔
ان لیکچرز کا خلاصہ درج ذیل ہے:۔
۱۔ اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائیدات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام انبیاء میںارفع و اعلیٰ مقام، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام اہم واقعات، اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں۔
۲۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہزاروں واقعات اور ہزاروں ایمان افروز نظاروں کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر نازک موقع پر ہر دکھ اور پریشانی کے وقت آپ کے ساتھ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کا ثبوت دیا۔
۳۔ دل ہِلا دینے والے مصائب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا ایمان پر مضبوطی سے قائم رہنا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی سچائی کا زبردست ثبوت ہے۔
۴۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر نازک موقع پر اللہ تعالیٰ نے اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کا وعدہ اپنی پوری شان کے ساتھ پورا کیا۔
۵۔ اوائل میں ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جانثاروں کی ایک چھوٹی سی جماعت کا قائم ہو جانا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی سچائی کا زبردست ثبوت ہے۔
۶۔ ہر موقع اور ہر مرحلہ پر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر معمولی تائید و نصرت فرمائی۔ جس سے اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی صداقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔
(۷) الفضل کے اداریہ جات
حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۲؍ جون ۱۹۴۷ء تا ۲۳؍ مارچ ۱۹۴۸ء گاہ بگاہ روزنامہ الفضل قادیان ثُمَّ لاہور میں تقسیم ہندوستان سے دو ماہ پیشتر اور چند ماہ بعد بعض اہم معاملات و مسائل پر اداریے لکھے جن میں اُس وقت کے اہم مسائل اور ایشوز پر روشنی ڈالی۔ اس جلد میں ان تمام اداریوں کو یکجائی طور پرکتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔ ان اداریوں کے عناوین حسب ذیل ہیں۔
۱۔ سیاستِ حاضرہ
۲۔ قومیں اخلاق سے بنتی ہیں
۳۔ مشرقی اور مغربی پنجاب کا تبادلۂ آبادی
۴۔ پاکستان کی سیاستِ خارجہ
۵۔ جماعت احمدیہ کے امتحان کا وقت
۶۔ قادیان
۷۔ کچھ تو ہمارے پاس رہنے دو
۸۔ قادیان کی خونریز جنگ
۹۔ سیاستِ پاکستان
۱۰۔ پاکستان کا دفاع
۱۱۔ پاکستانی فوج اور فوجی مخزن
۱۲۔ کشمیر اور حیدر آباد
۱۳۔ کشمیر کی جنگ آزادی
۱۴۔ پاکستان کی اقتصادی حالت
۱۵۔ کشمیر
۱۶۔ کشمیر اور پاکستان
۱۷۔ سپریم کمانڈ کا خاتمہ
۱۸۔ مسٹراٹیلی کا بیان
۱۹۔ صوبہ جاتی مسلم لیگ کے عہدہ داروں میں تبدیلی
۲۰۔ کانگرس ریزولیوشن
۲۱۔ تقسیم فلسطین کے متعلق روس اور یونائیٹڈ سٹیٹس کے اتحاد کا راز
۲۲۔مسلم لیگ پنجاب کا نیا پروگرام
۲۳۔کشمیر کے متعلق صلح کی کوشش
۲۴۔پاکستان اور ہندوستان یونین صلح یا جنگ
۲۵۔ خطرہ کی سُرخ جھنڈی
۲۶۔ قادیان، ننکانہ اور کشمیر
(۸) پاکستان کا مستقبل
حضرت مصلح موعود نے پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے معاً بعد پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ’’پاکستان کا مستقبل‘‘ کے موضوع پر بصیرت افروز لیکچرز دیئے۔ جن میں لاہور کے بڑے بڑے دانشور، سکالرز اور اہل علم حضرات شامل ہوئے۔ اور ان لیکچرز پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ پہلے پانچ لیکچرز مینارڈ ہال لاہور اور چھٹا لیکچر یونیورسٹی ہال لاہور میں ارشاد فرمایا۔
زیر نظر لیکچر مؤرخہ ۷؍ دسمبر ۱۹۴۷ء کو مینارڈ ہال لاہور میں ارشاد فرمایا مگر وقت کی کمی کے باعث اس مضمون کے کئی حصے بیان کرنے سے رہ گئے تھے۔ لہٰذا حضرت مصلح موعود نے اپنی یادداشت پر اس مضمون کو افادۂ عام کے لئے روزنامہ الفضل لاہور میں شائع کروانے کی غرض سے تحریر فرمایا تھا جو مؤرخہ ۹؍ دسمبر ۱۹۴۷ء کو روزنامہ الفضل لاہور میں شائع ہوا۔
حضور نے اپنے اس خطاب میں نباتی، زرعی، حیوانی اور معنوی دولت کے لحاظ سے پاکستان کو کیسے ترقی دی جا سکتی ہے، زرّیں تجاویز اور مشوروں سے نوازا۔
(۹) خدا کے فرشتے ہمیں قادیان لے کر دیں گے
حضرت مصلح موعود نے یہ مختصر خطاب جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ۱۹۴۷ء بمقام لاہور کے موقع پر مؤرخہ ۲۷؍ دسمبر کو جلسہ کا افتتاح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ قادیان سے باہر جماعت احمدیہ کا یہ پہلا جلسہ سالانہ تھا۔ لہٰذا جن حالات میں یہ جلسہ منعقد ہو رہا تھا ان میں جذبات کا بے قابو ہونا قدرتی امر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مصلح موعود کا یہ سارا خطاب قادیان سے محبت و عقیدت کے جذبات سے لبریز تھا اور بڑا ہی جذباتی اور رُلانے والا خطاب تھا۔ حضور نے اس خطاب میں قادیان کے واپس ملنے کی توقع ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ہمارا ایمان اور ہمارا یقین ہمیں بار بار کہتا ہے کہ قادیان ہمارا ہے وہ احمدیت کا مرکز ہے اور ہمیشہ احمدیت کا مرکز رہے گا۔ (انشاء اللہ) حکومت خواہ بڑی ہو یا چھوٹی بلکہ حکومتوں کا کوئی مجموعہ بھی ہمیں مستقل طور پر قادیان سے محروم نہیں کر سکتا اگر زمین ہمیں قادیان لے کر نہ دے گی تو ہمارے خدا کے فرشتے آسمان سے اُتریں گے اور ہمیں قادیان لے کر دیں گے ۔‘‘
(۱۰) تقریر جلسہ سالانہ ۲۸ دسمبر ۱۹۴۷ء (غیر مطبوعہ)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ بصیرت افروز خطاب مؤرخہ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۴۷ء کے جلسہ سالانہ منعقدہ لاہور میں ارشاد فرمایا۔ حضور کا یہ خطاب غیر مطبوعہ تھا جو اب پہلی دفعہ انوارالعلوم کی اِس جلد میں شائع ہو رہا ہے۔حضور نے اس خطاب میں درج ذیل متفرق امور پر روشنی ڈالی ہے۔
۱۔ تفسیر کبیر کی اشاعت میں تأخیر کی وجوہات
۲۔ قرآن کریم کے پہلے دس پاروں کا انگریزی ترجمہ مع تفسیری نوٹس و دیباچہ کی اشاعت کی نوید سناتے ہوئے اس انگریزی تفسیر القرآن کے دیباچہ جو حضورنے خود تحریر فرمایا تھا کے دوسری بعض زبانوں میں شائع کرنے کے پروگرام پرروشنی ڈالی۔
۳۔ پارٹیشن کی وجہ سے احمدی طلباء و طالبات کا جو تعلیمی حرج ہوا اُس پر حضور نے تعلیم کی اہمیت و ضرورت بیان فرمائی۔
۴۔ پارٹیشن کی وجہ سے پیدا ہونے والے فتنوں کے باعث جماعت کے چندے بہت متأثر ہوئے۔ لہٰذا حضور نے افرادِ جماعت کو اپنے چندے بڑھانے کی طرف توجہ دلائی۔
۵۔ تقسیمِ ہندوستان کی وجہ سے لاکھوں احمدی ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے ان کی آباد کاری کے متعلق ہدایات فرمائیں۔
۶۔ حضور نے اپنے اس خطاب میں بعض غیر طبعی اور غیر دینی سکیموں پر محاکمہ کرتے ہوئے آبادی کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اور از روئے قرآن آبادی کی کثرت کو ہی قومی ترقی کا ذریعہ قرار دیا کیونکہ مستقبل آدمیوں سے ہی وابستہ ہوتا ہے۔
۷۔ حضورنے اپنے اس خطاب میں پاکستان بننے کی اہمیت اور ہماری ذمہ داریوں پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔
۸۔ بیرونی مشنوں کی مساعی اور حالات و واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے لندن مشن کی خدمات کا بِالخصوص ذکر فرمایا نیز ایک نو احمدی انگریز مبلغ مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب کا ذکرِ خیر بھی بیان فرمایا اِسی طرح جرمن مشن، ہالینڈ مشن، سوئٹزرلینڈ، امریکہ، شام، فلسطین اور انڈونیشیا کے مشنوں کی مساعی پر روشنی ڈالی۔
۹۔ حضور نے پاکستان میں جماعت احمدیہ کے لئے ایک نئے مرکز کی ضرورت پر زور دیا۔
۱۰۔ حضور نے افراد جماعت کو تجارت اور صنعت میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے ایک تجارتی سکیم سے متعارف کروایا اور تجارت و صنعت میں افرادِ جماعت کو دلچسپی لینے کی ضرورت پر زور دیا۔
۱۱۔ آخر پر حضور نے اس سوال پر روشنی ڈالی کہ قادیان سے ہماری جماعت کو ہجرت کیوں کرنی پڑی؟ اس سلسلہ میں حضور نے فرمایا کہ تذکرہ میں بعض الہامات اور پیشگوئیوں کی روشنی میں مفصّل طور پر وضاحت فرمائی کہ ہماری یہ ہجرت اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق ہے۔
(۱۱) دستورِ اسلامی یا اسلامی آئین اساسی
حضرت مصلح موعود نے قادیان سے لاہور ہجرت کے بعد پاکستان کے مستقبل کے موضوع پر جو چھ لیکچر دیئے۔ زیر نظر لیکچر ان میں سے آخری لیکچر تھا جو حضور نے یونیورسٹی ہال لاہور میں دستورِ اسلامی یا اسلامی آئین اساسی کے موضوع پر دیا۔ یہ لیکچر افادۂ عام کیلئے وکالت دیوان تحریک جدید نے مؤرخہ ۱۸؍ فروری ۱۹۴۸ء کو ایک پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا تھا اور اب دوسری مرتبہ انوارالعلوم کی اِس جلد میں شائع کیا جا رہا ہے۔
اس خطاب میں حضور نے دستورِ اسلامی کی وضاحت کرتے ہوئے اس پہلو پر روشنی ڈالی کہ پاکستان میں کس قسم کا آئین یا دستور نافذ ہونا چاہئے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:۔
’’پس اگر پاکستان کی کانسٹی ٹیوشن میں مسلمان جن کی بھاری اکثریت ہوگی یہ قانون پاس کر دیں کہ پاکستان کے علاقے میں مسلمانوں کیلئے قرآن اور سنت کے مطابق قانون بنائے جائیں گے ان کے خلاف قانون بنانا جائز نہیں ہوگا تو گو اساسِ حکومت کُلّی طور پر اسلامی نہیں ہوگا کیونکہ وہ ہو نہیں سکتا مگر حکومت کا طریق عمل اسلامی ہوجائے گا اور مسلمانوں کے متعلق اس کا قانون بھی اسلامی ہو جائے گا اور اسی کا تقاضا اسلام کرتا ہے۔ اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ہندو اور عیسائی اور یہودی سے بھی اسلام پر عمل کروایا جائے بلکہ وہ بالکل اس کے خلاف کہتا ہے۔‘‘
(۱۲) قیام پاکستان اور ہماری ذمہ داریاں
قیام پاکستان کے بعد حضرت مصلح موعود نے لاہور، کراچی، سیالکوٹ، جہلم، نوشہرہ، مردان اور پشاور میں استحکامِ پاکستان کے موضوع پر متعدد لیکچر ارشاد فرمائے جن میں مسلمانوں کو ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔
چنانچہ زیر نظر لیکچر بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ حضور نے مؤرخہ ۱۸؍ مارچ ۱۹۴۸ء کو تھیوسافیکل ہال کراچی میں لجنہ اماء اللہ کراچی کے زیر انتظام یہ لیکچر ارشاد فرمایا تھا۔ جس میں چھ صد سے زائد احمدی و غیر احمدی خواتین نے شمولیت کی۔ لیکچر کا بنیادی نقطہ خواتین کو ان کے فرائض کی ادائیگی کی طرف متوجہ کرنا اور انہیں قربانی اور ایثار کے لئے سرگرمِ عمل کرنا تھا کیونکہ کوئی قوم عورتوں کے تعاون کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔
اس تقریر میں حضور نے درج ذیل دیگر مضامین پر روشنی ڈالتے ہوئے خواتین کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔
۱۔ یقین کامل کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے۔
۲۔ دنیاوی امور دین کے تابع ہونے چاہئیں۔ اصل زندگی وہی ہے جو شریعت کے قوانین کے تابع گزاری جائے۔
۳۔ اُخروی زندگی برحق ہے اور اصل زندگی اُخروی ہی ہے۔
۴۔ سورۃ الکوثر کی تفسیر کرتے ہوئے عورتوں کو عبادت کرنے اور خدا کی راہ میں قربانیاں دینے کی تحریک فرمائی۔ سورۃ کوثر کی آیت فَصَلِّ لِرَبِّکَ کی تفسیر کرتے ہوئے سورۃ الفلق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ا س سورۃ میں حاسدوں کے حسد سے بچنے کی دعا سکھائی گئی ہے اور سورۃ فلق میں وہ دعا بھی سکھا دی ہے جو ان کے حسد سے بچنے کے لئے ضروری ہے۔
۵۔ حضور نے اس تقریر میں عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’اسلام پر ا س وقت جو نازک دَور آیا ہوا ہے وہ ایسا نہیں کہ مرد اور عورت کی قربانی کے بغیر اس میں سے گزرا جا سکے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہر مرد اور عورت یہ سمجھ لے کہ اب اس کی زندگی اپنی نہیں بلکہ اس کی زندگی کی ایک ایک گھڑی اسلام کے لئے وقف ہے اور اسے سمجھ لینا چاہئے کہ زندہ رہ کر اگر ذلّت کی زندگی بسر کرنی پڑے تو اس سے ہزار درجہ بہتر یہ ہے کہ وہ اسلام کی خاطر لڑتا ہوا مارا جائے۔‘‘
حضور کا یہ معرکۃ الآراء لیکچر شعبہ نشرواشاعت لاہور کے زیر انتظام کتابی صورت میں شائع کروایا گیا تھا جسے اب دوبارہ انوارالعلوم کی اس جلد میں شائع کیا جا رہا ہے۔
(۱۳) آسمانی تقدیر کے ظہور کیلئے زمینی جدوجہد بھی ضروری ہے
جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ ۱۹۴۷ء تقسیمِ ہندوستان کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑا تھا۔ حالات کی خرابی، مہاجرین کی آباد کاری اور سواریوں کی عدمِ دستیابی جیسے مسائل کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا کہ جلسہ سالانہ منعقدہ ماہ دسمبر ۱۹۴۷ء میں خواتین شامل نہ ہوں بلکہ مارچ ۱۹۴۸ء میں منعقد ہونے والی مجلس شوریٰ کے ساتھ ایک دن کا اضافہ کرکے جلسہ سالانہ کے دوسرے حصہ کا انعقاد کر کے مستورات کو شامل ہونے کی اجازت دے دی جائے۔ چنانچہ اس پروگرام کے مطابق مؤرخہ ۲۸؍ مارچ ۱۹۴۸ء کو جلسہ سالانہ منعقد کیا گیا جس میں مستورات بھی شامل ہوئیں۔ اس جلسہ کا افتتاح کرتے ہوئے حضور نے یہ لیکچر ارشاد فرمایا تھا جسے روزنامہ الفضل لاہور نے مؤرخہ ۱۸؍ اپریل ۱۹۴۸ء کو افادۂ عام کے لئے شائع کیا تھا۔
اس خطاب میں حضور نے سب سے پہلے تو اِس امر کی طرف توجہ دلائی کہ اجتماع صرف وہی بابرکت ہوتے ہیں جو نیک مقاصد اور نیک ارادوں کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد حضور نے اپنی دو مبشر رؤیا سنائیں جن کی تعبیر میں احمدیت کا مستقبل انتہائی روشن دکھائی دے رہا ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ آمین
(۱۴) تقریر جلسہ سالانہ ۲۸؍ مارچ ۱۹۴۸ء
حضور نے یہ خطاب جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۴۷ء کے تتمہ کے طور پر منعقد ہونے والے جلسہ مؤرخہ ۱۸؍ مارچ ۱۹۴۸ء کو لاہور کے دوسرے سیشن میں ارشاد فرمایا تھا۔
اس خطاب میں حضور نے بیرونی جماعتوں بِالخصوص امریکہ، ہالینڈ اور جرمنی میں جماعتی ترقی اور مساعی کا مختصرا ًتذکرہ فرمانے کے بعد ’’سیرروحانی‘‘ کے مضمون کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ایک عظیم الشان مینار ہے جو قیامت تک روشنی دیتا چلا جائے گا۔ قادیان کا مینار دراصل تصویری زبان میں ہمارا یہ اقرار ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آج سے ہمارے مہمان ہیں اور آپ کے لئے ہم پر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں۔‘‘
(۱۵) آخر ہم کیا چاہتے ہیں
حضرت مصلح موعود نے یہ بصیرت افروز مقالہ پارٹیشن کے بعد تحریر فرمایا جو مؤرخہ ۱۵؍مئی ۱۹۴۸ء کو روزنامہ الفضل لاہور میں شائع ہوا اور بعد ازاں مہتمم نشرواشاعت لاہور کے زیراہتمام پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا گیا۔
اس مقالہ میں حضور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی طرف توجہ دلائی کہ عَلَی الْاِنْسَانِ اَنْ یُّحِبَّ لِاَخِیْہِ مَایُحِبُّ لِنَفْسِہٖ یعنی انسان کو چاہیے کہ وہ جو کچھ اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کرے۔ ہمارے تمام مسائل کا حل اِسی اصول میں پنہاں ہے۔ اگر ہم اپنے اندر یہ روح پیدا کرلیں تو ہمارے تمام مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔
(۱۶) اَلْکُفْرُمِلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ
۱۶؍ مئی ۱۹۴۸ء کو جب استعماری طاقتوں نے اپنی سیاسی مصالح کی تکمیل کے لئے فلسطین کو ناجائز طور پر تقسیم کرا کے اسرائیلی حکومت کی بنیاد رکھوائی تو اُس وقت حضرت مصلح موعود نے اپنی دور بین نگاہ سے مستقبل میں پیش آمدہ حالات و واقعات اور ان کے نتائج کو بھانپ لیا تھا چنانچہ آپ نے اُس وقت اس عنوان کے تحت ایک فکرانگیز اور بصیرت افروز مضمون رقم فرمایا جو ۳۱؍مئی ۱۹۴۸ء کے روزنامہ الفضل میں شائع ہوا۔ اِس مضمون میں آپ نے انتہائی دردمندانہ رنگ میں عالَمِ اسلام کو توجہ دلائی تھی کہ وہ عرب کے عین قلب میں ایک یہودی حکومت کے قیام کے نقصانات کو محسوس کریں اور آپس کے اختلافات کو دور کر کے متحد ہو جائیں اور صیہونیت کے خطرناک عزائم کا مقابلہ کرنے کے لئے مال اور جان کی ہر ممکن قربانی پیش کریں۔ اس مضمون کا عربی ترجمہ کرکے وسیع پیمانہ پر شائع کیا گیا اور عرب پریس نے اس مضمون کو بہت اہمیت دی اور مصنف کا شکریہ ادا کیا اور اس کے مندرجات پر تعریفی تبصرے لکھے۔ چنانچہ دمشق سے شائع ہونے والے شام کے مشہور اخبار ’’النھضۃ‘‘ نے اپنی ۱۶؍ جولائی ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں اس مضمون کا خلاصہ درج کرنے کے بعد لکھا کہ:۔
’’یہ لیکچر بہت عمدہ ہے اور مسلمانوں اور فلسطین کے حق میں بہت اچھی آواز ہے ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دین متین کے بارے میں ہماری تمناؤں اور مصنف کی نیک آرزوؤں کو پورا کرے اور اللہ اِس بلند مقاصد میں ہماری پشت پناہی فرمائے‘‘۔
اس کے علاوہ عالمِ اسلام کے متعدد اخبارات نے بھی اس مضمون پر بہت زور دار ریویو لکھے اور عالَمِ اسلام کو بروقت انتباہ کرنے پر حضور کا شکریہ ادا کیا۔
(۱۷) مسلمانانِ بلوچستان سے ایک اہم خطاب
حضرت مصلح موعود۱۴؍ جون ۱۹۴۸ء کو دورہ پر کوئٹہ تشریف لے گئے۔ جماعت احمدیہ کوئٹہ نے حضور کے اِس دورہ کو غنیمت جانتے ہوئے ہر ممکن استفادہ کی کوشش کی۔ چنانچہ جماعت کوئٹہ نے حضور کے اعزاز میں ایک دعوتِ عصرانہ کا اہتمام کیا۔ جس میں حضور نے یہ خطاب فرمایا۔ یہ خطاب پہلی دفعہ مؤرخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۶۲ء کو روزنامہ الفضل ربوہ نے شائع کیا۔ حضور نے اس عظیم الشان تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ ملک میں اسلامی آئین نافذ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر مسلمان پہلے اپنے نفس پر اسلامی احکام جاری کرنے کی کوشش کرے اپنے آپ کو سچا اور حقیقی مسلمان بنائے بغیر کبھی ہمیں اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل نہیں سکتی۔
(۱۸) پاکستان ایک اینٹ ہے
اُس اسلامی عمارت کی جسے ہم نے دنیا میں قائم کرنا ہے
سیدنا حضرت مصلح موعود نے پاکستان بننے کے معاً بعد ’’پاکستان کا مستقبل‘‘ کے موضوع پر لاہور میں چھ لیکچر ارشاد فرمائے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد حضور مغربی پاکستان کے دوسرے متعدد مرکزی شہروں میں تشریف لے گئے اور پاکستان کے ہزاروں باشندوں کو استحکامِ پاکستان کے موضوع پر اپنے بصیرت افروز خیالات اور تعمیری افکار سے روشناس کرایا۔
جون ۱۹۴۸ء میں حضور کوئٹہ تشریف لے گئے اور کوئٹہ میں نہایت معلومات افزاء اور روح پرور پبلک لیکچر فرمائے۔ جن میں پاکستان کو پیش آمدہ اہم ملکی مسائل میں اہل پاکستان کی راہنمائی کرتے ہوئے نہایت شرح و بسط سے انہیں اپنی قولی و ملی ذمہ داریوں کی بجا آوری کی طرف توجہ دلائی اور اپنے پُرجوش اور محبت بھرے الفاظ میں بے پناہ قوتِ ایمانی اور ناقابلِ تسخیر عزم و ولولہ سے لاکھوں پژمُردہ اور غمزدہ دلوں میں زندگی اور بشارت کی ایک زبردست روح پھونک دی۔
زیر نظر خطاب حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۴ جولائی ۱۹۴۸ء کو ٹاؤن ہال کوئٹہ میں پاکستان اور اس کے مستقبل کے موضوع پر ارشاد فرمایا۔ جسے پہلی دفعہ افادۂ عام کیلئے مؤرخہ ۲۳ مارچ ۱۹۵۲ء کو روزنامہ الفضل لاہور میں شائع کیا گیا اور اب جلد ھٰذا میں شائع ہو رہا ہے۔
٭…٭…٭
زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کی خوبیاں
اور اُن کا پس منظر
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کی خوبیاں اور اُن کا پس منظر
( فرمودہ ۲۶،۲۷ مئی ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
مکرم السید منیر الحصنی صاحب نے ۲۱؍ مئی بعد نماز مغرب زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کے مناقب کے موضوع پر عربی میں تقریر کی تھی مگر چونکہ وقت کم رہ گیا تھا اس لئے دوستوں کو سوالات کا موقع نہ مل سکا۔ ۲۶؍ مئی بعد نماز مغرب جب مجلس منعقد ہوئی تو حضور نے فرمایا:۔
میں دو تین دن سے نزلہ وزکام سے بیمار ہوں اس لئے آج کچھ زیادہ بول نہیں سکتا۔ السید منیر الحصنی صاحب کا لیکچر تو اُس روز ہو گیا تھا مگر سوالات کا حصہ رہ گیا تھا اِس کے متعلق دوستوں کو اب موقع دیا جاتا ہے اگر دوستوں نے کچھ سوالات کرنے ہوں تو وہ کر سکتے ہیں۔
(اس پر تین دوستوں نے سوالات کئے اور معزز لیکچرار نے ان کے جوابات دیئے اس کے بعد حضور نے فرمایا۔)
مجلس میں بہت سے لوگ ایسے بھی بیٹھے ہیں جو عربی نہیں جانتے اور وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکے ہوں گے کہ سوال کرنے والوں نے کیا سوالات کئے ہیں اور جواب دینے والے نے کیا جوابات دیئے ہیں مجھے نزلہ کی شکایت تو ہے لیکن مَیں کچھ باتیں آج بیان کر دوں گا اور باقی پھر کسی وقت بیان ہو جائیں گی۔ یہ تقریر جو منیر الحصنی صاحب نے کی ہے اِس کا مفہوم یہ ہے کہ عرب کے لوگوں میں قبل ازاسلام بھی بعض خوبیاں پائی جاتی تھیں اور جن دوستوں نے اعتراضات کئے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ آیا یہ خوبیاں اُن عربوں میں عام تھیں یا خاص۔ اگر یہ خوبیاں ان میں عام پائی جاتی تھیں تو قرآن کریم کی اس آیت کا مفہوم جو ہم لیتے ہیںغلط قرار پاتا ہے کہ ۱؎ اور اگر وہ خوبیاں خاص خاص لوگوں میں پائی جاتیں تھیں تو کچھ خوبیاں تو قریباً ہر قوم میں ہی پائی جاتی ہیں اور اس وجہ سے عربوں کی کوئی خصوصیت باقی نہیں رہتی۔ جہاں تک میں نے سوالات کرنے والے دوستوں اور لیکچرار کے نقطۂ ہائے نگاہ کے متعلق اندازہ لگایا ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں کو ہی غلط فہمی ہوئی ہے۔ نہ تو سوال کرنے والے ان کی تقریر کو صحیح طور پر سمجھ سکے ہیںاور نہ لیکچرار نے ان کے سوالات کو سمجھا ہے اور دونوں غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں۔
مثنوی میں مولانا روم ایک مثال بیان کرتے ہیں کہ کسی جگہ چار فقیر تھے ان میں سے ایک ہندی تھا، دوسرا ایرانی، تیسرا عرب اور چوتھا تُرک۔ وہ چاروں بازار میں اکٹھے ہو کر لوگوں سے خیرات مانگتے رہے مگر کسی نے انہیں کچھ نہ دیا۔ جب شام ہوئی تو کوئی شخص اُن کے پاس سے گزرا اور جب انہوں نے سوال کیا تو اُسے ان کی حالت پر رحم آیا اور اس نے انہیں ایک پیسہ دے دیا مگر چونکہ پیسہ ایک تھا اور فقیر چار تھے اس لئے انہوں نے آپس میں جھگڑنا شروع کر دیا۔ ہندی کہتا تھا میں صبح سے گلا پھاڑ پھاڑ کر سوال کرتا رہا ہوں اس لئے پیسہ میری خواہش کے مطابق خرچ کیا جائے اور اس پیسہ کی داکھ ۲؎ خریدی جائے گی۔ عرب کہنے لگا تم غلط کہہ رہے ہو پیسہ دینے والے نے میری ہی حالت پر رحم کھا کر پیسہ دیا ہے اس لئے پیسہ میری مرضی کے مطابق خرچ ہو گا اور اس کی داکھ نہیں بلکہ عِنَب۳؎ خریدا جائے گا، ایرانی نے کہا تم دونوں غلط کہہ رہے ہو یہ پیسہ میری مرضی سے خرچ ہوگا اور نہ داکھ خریدی جائے گی اور نہ عِنَب بلکہ انگور خریدا جائے گا۔ یہ سن کر ترکی سخت چیں بجبیں ہوا اور کہنے لگا تمہاری تینوں کی رائے غلط ہے۔ یہ پیسہ میری مرضی کے سِواخرچ نہیں ہو سکتا اور اُس نے ترکی زبان میں انگور کا نام لے کر کہا کہ میں وہ خریدنا چاہتا ہوں۔ اس پر انہوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا اور ان میں سے ہر شخص چاہتا تھا کہ میری بات مانی جائے اور میری خواہش کے مطابق چیز خریدی جائے۔ وہ آپس میں جھگڑ ہی رہے تھے کہ ایک شخص پاس سے گزرا جو اُن چاروں کی زبانیں سمجھتا تھا اُس نے پاس کھڑے ہو کر ان کی باتیں سُنیں اور کہاآؤ میں تمہارے جھگڑئے کا فیصلہ کر دوں اور ہر ایک کی خواہش کے مطابق چیز خرید دوں۔ یہ کہہ کر وہ ان کو ساتھ لے گیا اور جا کر انگور خرید دئیے اور وہ سب خوش ہو گئے۔ اصل بات یہ تھی کہ وہ سب ایک ہی چیز مانگ رہے تھے مگر وہ ایک دوسرے کی زبان نہ سمجھنے کی وجہ سے آپس میں لڑ رہے تھے۔ اسی طرح بعض اوقات اختلاف کی بنیاد محض غلط فہمی پر ہوتی ہے اور فریقین آپس میں جھگڑا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ نہ وہ اس کے نقطئہ نگاہ کو سمجھ رہا ہوتا ہے اور نہ وہ اس کے نقطئہ نگاہ کو، اور وہ آپس میں لڑتے چلے جاتے ہیں لیکن اگر ایک دوسرے کے نقطئہ نگاہ کو سمجھ لیا جائے تو اختلافات کی بنیاد اُٹھ جانے سے کوئی مشکل نہیں رہتی۔ مثلاً یہ لاؤڈسپیکر ہے اس کا جو حصہ میرے سامنے ہیں اس پر تارے سے ہیں اور پیچھے والا حصہ سیاہ ہے اگر میں کہہ دوں کہ لاؤڈ سپیکر پر تارے سے ہیں اور آپ لوگ کہنا شروع کر دیں کہ تارے تو نہیں بلکہ یہ تو سیاہ ہے تو باوجود یکہ ہم دونوں ٹھیک کہہ رہے ہوں گے ہم بحث کرتے چلے جائیں گے میں یہ کہتا رہوں گا کہ یہ سیاہ نہیں بلکہ اس پر تارے ہیں اور آپ کہتے رہیں گے ہمیں تو اس پر تارے نظر نہیں آتے ہمیں تو صاف نظر آرہا ہے کہ یہ سیاہ ہے۔ اوربات صرف اتنی ہوگی کہ جدھر میں بیٹھا ہوں اُس طرف تارے ہیں اور جدھر آپ بیٹھے ہیں اُس طرف سے سیاہ ہے۔ نقطئہ نگاہ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جہاں سے کوئی چیز نظر آرہی ہو۔ہر مربعہ چیز کے چھ جِہت ہوتے ہیں آگے پیچھے دائیں بائیں اور نیچے اوپر۔ اگر اس چیز کی چھ کی چھ جہتیں مختلف رنگوں کی ہوں تو جب اس کی مختلف جِہتوں کو مختلف آدمی دیکھیں گے تو لازماً ان کی رائیں مختلف ہوں گی مثلاً اس کی چھ جہتوں پر مختلف رنگ ہیں زرد،سرخ اور پیلا، سیاہ اور سفید تو اب جو شخص زرد حصہ کے سامنے ہوگا وہ کہے گا اِس کا رنگ زرد ہے اور جس شخص کی نظر کے سامنے سرخ حصہ ہو گا وہ کہے گا زرد نہیں ہے اس کا رنگ سرخ ہے، پھر نیلے حصہ کو دیکھنے والا کہے گا تم دونوںغلط ہونہ یہ زردہے نہ سرخ بلکہ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ چیز نیلی ہے۔ اس طرح چھ جہات کو دیکھنے والے مختلف آراء قائم کر یں گے اور ان میں سے ہر ایک سچ بول رہا ہو گا۔اس جھگڑے کو ختم کرنے کا یہ طریق ہو گا کہ سرخ کہنے والے کو سبز حصہ کی طرف لایا جائے اور نیلا کہنے والے کو سرخ اور سبز حصے دکھائے جائیں ورنہ نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ جھگڑتے چلے جائیں گے اور ایک دوسرے کی بات نہیں مانیں گے ان میں سے ہر ایک حق پر بھی ہو گا اور ناحق پر بھی۔ حق پر اس طرح کہ جو حصہ اُسے نظر آرہا ہے وہ واقعی وہی ہے جو وہ کہتا ہے مگر جو حصہ دوسرے کو نظر آرہا ہے وہ بھی واقعی وہی ہے جو دوسرا کہہ رہا ہے۔ پس ہر ایک چیز کی ایک بیک گراؤنڈ ( Back Ground) ہوتی ہے جس کو پسِ پردہ بھی کہا جا سکتا ہے جب تک اسے مدنظر نہ رکھا جائے انسان اصل حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔
اصل بات یہ ہے کہ منیر الحصنی صاحب شام سے آئے ہوئے ہیں اور اِس وقت شام اور لبنان میں ایک تحریک پیدا ہو رہی ہے جس سے وہ متأثر ہیں اور اسی سے متأثر ہو کر انہوں نے یہ مضمون بیان کیا ہے لیکن اِس امر کو میں بعد میں کسی وقت بیان کروں گا پہلے میں پس پردہ والے حصہ کو لیتا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں کہ وہ کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عرب میں کچھ عیسائی آباد ہیں اور کچھ مسلمان، عیسائی کم ہیں اور مسلمان زیادہ ہیں۔ جب عربوں کا ترکوں کے ساتھ اختلاف ہوا اور عربوں نے دیکھا کہ ترک ہمیشہ ہم پر مظالم کرتے آئے ہیں اور انہوں نے ہماری آزادی کی راہ میں رُکاوٹیں ڈالی ہیں تو ان کے اندر حریت اور آزادی کی روح بیدا رہوئی۔ سیاسی طور پر جب کسی ملک میں آزادی کی روح پیدا ہو تو وہ ساری قوموں کے اتحاد کی خواہاں ہوتی ہے۔جب عربوں کے اندر آزادی کی روح پیدا ہوئی اور اُنہوں نے بِلالحاظ مذہب وملت ایک ہونا چاہا تو جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف مستقبل کے حالات پر نظر کر کے قومیں ایک نہیں ہو سکتیں بلکہ اتحاد کے لئے ماضی کی روایات پر بھی حصر کیا جاتا ہے اور پُرانی باتوں کو تاریخوں سے نکال نکال کر کہا جاتا ہے کہ ہم ایک ہیں اس لئے ہمیں دشمن کے مقابلہ میں متحد ہو جانا چاہئے۔ یہی تحریک ہندوستان کے لوگوں میں بھی پیدا ہوئی اور انہوں نے انگریزوں کے خلاف متحد ہوناچاہا اور اتحاد کی کوشش کی گئی۔مگر بجائے اس کے کہ ہندو مسلمانوں کے ساتھ رواداری سے پیش آتے اور ایک قوم بننے کی کوشش کرتے انہوں نے مسلمانوں کے بزرگوں کی عیب چینی شروع کر دی اور ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے اس لئے اتحاد نہ ہو سکا کیونکہ کسی قوم کے بزرگوں کی عیب چینی کرنے سے کب اتحاد ہو سکتا ہے۔ جو جڑ ماضی میں اکٹھی رہی ہو اُس کی شاخیں بھی اکٹھی رہ سکتی ہیں اور اگر جڑ ہی علیحدہ ہو تو شاخیں کس طرح اکٹھی ہو سکتی ہیں۔ اگر ایک قوم اپنے آپ کو الگ قرار دے دے اور دوسری الگ تو اتحاد کس طرح ہو سکتا ہے۔ عرب کے متعصّب عیسائی پادریوں نے جب دیکھا کہ اتحاد کی کوششیں ہو رہی ہیں تو انہوں نے اس سے ناجائز فائدہ اُٹھانا چاہا اور انہوں نے یہ کوششیں شروع کر دیں کہ عرب چاہے متحد ہو جائے لیکن عیسائیت کو غلبہ حاصل ہو جائے۔ چنانچہ میں نے اِسی قسم کے متعدد پادریوں کی بعض کتابیں پڑھی ہیں جن میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کے کوشش کی ہے کہ عربی زبان اصل میں اریمک یعنی آرامی زبان ہے اور اسی زبان کی مدد سے عربی زبان نے ترقی اور ارتقاء حاصل کیا ہے۔ ان عیسائی مصنفین نے عربی الفاظ اریمک زبان کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی ہے مثلاً اِستفعالکا لفظ ہے، انہوں نے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ است اریمک لفظ ہے اور اسی سے عربوں نے اِستفعال بنالیا ہے یا ان اریمک لفظ ہے اور اسی سے عربوں نے اِنفعال بنا لیا ہے حالانکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس موضوع پر بحث فرمائی ہے حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان اپنے اندر بہت بڑا فلسفہ رکھتی ہے اور یہ فلسفہ کسی اور زبان میں نہیں پایا جاتا۔ مثلاً دوسری زبانوں میں الفاظ زبان کی اصل ہیں لیکن عربی زبان میں الفاظ نہیں بلکہ حروف زبان کی اصل ہیں۔ شرب عربی زبان میں پینے کو کہتے ہیں۴؎ مگر یہ معنی شرب کے نہیں بلکہ ش ر ب کے ہیں چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ش ر ب کسی ترتیب سے عربی میں آجاویں ان کے مرکزی معنی قائم رہیں گے خواہ ش ر ب ہو، خواہ ش ب ر ہو، خواہ رب ش ہو۔غرض ہر حالت میں مرکزی معنی قائم رہیں گے گویا عربی زبان میںحروف، ترتیب حروف اور حرکاتِ حروف کے مجموعہ سے لفظ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ قاعدہ ایسا ہے کہ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے جب قدیم ترین زبانوں کو دیکھا جائے تو قاعدہ ابدال کے مطابق تغیرات کے ساتھ ہزاروں ایسے الفاظ ان میں پائے جاتے ہیں جو اصل میں عربی ہیں اور چونکہ ان لفظوں کو نکال کر وہ زبانیں بالکل بے کار ہو جاتی ہیں اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ وہ زبانیں مستقل نہیں بلکہ عربی سے ہی متغیر ہو کر بنی ہیں لیکن انہوں نے اریمک زبان کو عربی زبان پر فضلیت دینے کے لئے یہ کہہ دیا کہ عربی زبان نقل ہے اریمک زبان کی، جو درحقیقت یہودیوں کی زبان تھی۔ دوسری تدبیر انہوں نے یہ کی کہ یہ کہنا شروع کر دیا کہ عرب کے مشہور اور اعلیٰ درجہ کے تمام شعراء عیسائی تھے۔ چنانچہ اس کے ثبوت میں انہوں نے قیس اور اخطل اور دوسرے شعراء کے نام پیش کر دئیے اور کہا کہ عرب کے اعلیٰ درجہ کے شاعر سب عیسائی تھے اور انہوں نے ہی عربی زبان کو معراجِ کمال تک پہنچایا ہے۔ گویا اس وجہ سے کہ مسلمان چاہتے تھے ہم ترکوں کے مقابلہ میں متحد ہو جائیں عیسائی پادریوں نے جو سخت متعصّب تھے سمجھا کہ اس سے زیادہ اچھا موقع عیسائیت کے غلبہ کا اور کوئی ہاتھ نہ آئے گااور یہ ایسا وقت ہے کہ ہم جو کچھ بھی کہیں گے مسلمان قبول کرتے جائیں گے اور ہماری کسی بات کی تردید نہیں کریں گے۔ اُس وقت حالت بالکل ایسی ہی تھی کہ اگر مسلمان عیسائیوں کی ان باتوں کی تردید کرتے اور کہتے کہ شعراء تمہارے نہیں بلکہ ہمارے اچھے ہیں تو آپس میں اُلجھ کر رہ جاتے اس لئے مسلمانوں نے اِسی میں اپنی بھلائی سمجھی کہ ان کی کسی بات کی نفی نہ کی جائے تاکہ یہ ہم سے خوش ہو جائیں۔ پس مسلمانوں کی اِس مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے متعصب عیسائیوں نے اپنی کتابوں میں بے حد مبالغہ سے کام لیا اور یہ ثابت کرنا چاہا کہ عربی لغت اریمک کی ممنونِ احسان ہے اور عربی زبان میں جس قدر ترقی ہوئی ہے وہ عیسائی شعراء کے ذریعہ ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابتدائی زمانہ میں شاعری ابھی پورے طور پر مدون نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے عرب شعراء کے کلام میں بعض اوقات وزن کے لحاظ سے اس قسم کی غلطیاں ہو جاتی تھیں جیسے اردو میں کوئی شخص جمال اور جلال کہتے کہتے چنار کہہ جائے مگر بعد کا ارتقاء یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ اس ارتقاء میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں۔
اگر غور سے کام لیا جائے تو ہمیں یہی نظرآتا ہے کہ مسلمانوں نے زبان کو اعلیٰ درجہ کے نقطئہ کمال تک پہنچایا ہے چنانچہ اسی وجہ سے متعصب عیسائیوں کے مقابلہ میں خود عیسائیوں اور مسلمانوں کے اندر ایک اور طبقہ پیدا ہوگیا۔ متعصب عیسائی تو یہ کہتے تھے کہ ترقی اور ارتقاء ختم ہو گیا ہے عیسائی شعراء پر۔ مگر درمیانی طبقہ کے عیسائی کہتے تھے کہ ترقی اور ارتقاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی جاری رہا۔ اسی طرح مسلمانوں کا طبقہ تو کہتا تھا کہ ترقی اور ارتقاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی تھا اور عربوں میں بھی یہ خوبیاں پائی جاتی تھیں گویہ ارتقاء بعد میں بھی جاری رہا چنانچہ بعض عیسائیوں نے اس کے متعلق کتابیں بھی لکھی ہیں کہ ارتقاء اسلامی تمدن کے وقت بھی جارہی رہا ،یہ درست نہیں کہ مسلمانوں نے زبان میں کوئی اصلاح اور تجدید نہیں کی۔ غرض ایک حصہ عیسائیوں کا اور ایک حصہ مسلمانوں کا اس نقطئہ نگاہ پر متفق ہوگیا کہ اسلام سے پہلے بھی عربوں میں خوبیاں پائی جاتی تھیں اور بعد میں بھی یہ خوبیاں جاری رہیں اور اس کی وجہ خالص سیاسی اتحاد تھا۔ عیسائیوں نے اس امر کو تسلیم کر لیا کہ اسلام کے آنے پر بھی ترقی اور ارتقاء جاری رہا اور مسلمانوں نے تسلیم کر لیا کہ اسلام سے پیشتربھی عربوں میں خوبیاں موجود تھیںپس یہ ہے اس موضوع کا پس منظر۔باقی رہا اصل سوال تو وہ یہ ہے کہ اگر اسلام سے پیشتر بھی عربوں کے اندر خوبیاں پائی جاتی تھیں تو اسلام کی فوقیت اور اُس کا مَابِہِ الْاِمتیاز طُرّہ کیا ہوا؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ کسی قوم کے اندر بعض خوبیاں چاہے وہ قومی ہوں یا انفرادی پایا جانا اور بات ہے اور ایک ایسی خوبی اس کے اندر ہونا جو اُسے تمام دنیا کا اُستاد بنا دے اور بات ہے۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ عربوں کے اندر پہلے کوئی خوبی نہ تھی اور نہ ہی کا یہ مفہوم ہے کہ اسلام سے پہلے عربوں میں کوئی خوبی نہ تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ خوبیاں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک تو ہوتا ہے ذاتی کیریکٹر یعنی ہر قوم اپنے حالات کے لحاظ سے ایک چیز کو لے لیتی ہے اور اس پر عمل کرنا شروع کر دیتی ہے۔ مثلاً حدیثوں اور تاریخوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرب قوم اسلام سے پہلے بھی مہمان نواز تھی مگر ہم دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی کا نزول ہوا اور آپ گھبرائے ہوئے گھر پہنچے اور حضرت خدیجہؓ سے فرمایا لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ تو حضرت خدیجہؓ نے کہا کَلاَّ اَبْشِرْ فَوَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَداً اِنَّکَ لَتصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِیْثَ وَ تَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَ تَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ۵؎ یعنی آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ میں کئی خوبیاں پائی جاتی ہیں چنانچہ منجملہ اور خوبیوں کے حضرت خدیجہؓ نے یہ بھی کہا کہ خدا آپ کو اِس لئے نہیں چھوڑے گا کہ آپ مہمان نواز ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیںکہ اِدھر حدیثوں سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ عرب آپ کی بعثت سے پہلے بھی مہمان نواز تھے اُدھر حضرت خدیجہؓ نے آپ کی یہ خوبی بیان کی ہے کہ آپ مہمان نواز ہیں جب سارا عرب مہمان نوازی کرتا تھا تو حضرت خدیجہؓ نے امتیازی رنگ میں آپ کی مہمان نوازی کا ذکر کیوں کیا۔ حضرت خدیجہؓ نے آپ کی یہ خوبی اسی لئے بیان کی کہ یہ آپ کو دوسرے عربوں پر ممتاز کر دیتی تھی۔ یوں تو مہمان نوازی عربوں میں عام پائی جاتی تھی اور حاتم طائی کے متعلق بھی بہت سی باتیں مشہور ہیں چنانچہ کہتے ہیں کہ کوئی شخص اس کے پاس ایسی حالت میں پہنچا جبکہ وہ ایک سفر میں تھا جب اُس نے دیکھا کہ میرے پاس اور کوئی چیز مہمان کو کھلانے کے لئے نہیں ہے تو اس نے اپنی اونٹی ذبح کر دی جس پر وہ سفر کر رہا تھا۔ پس جب عربوں میں بھی مہمان نوازی پائی جاتی تھی تو اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ عربوں کی مہمان نوازی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان نوازی میں کیا فرق ہوا۔ عربوں کے اندر یہ خوبی پائے جانے کے باوجود حضرت خدیجہؓ آپ سے کہتی ہیں کہ آپ کے اندر مہمان نوازی کی خوبی بھی پائی جاتی ہے جو عربوں میں نہیں ہے حالانکہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے عربوں کی مہمان نوازی کا ذکر فرمایا ہے فرماتا ہے ۶؎ یعنی وہ فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں نے اپنی قوم کے لئے ڈھیروں ڈھیر روپیہ خرچ کیا ہے۔
پس عرب لوگ فخر کیا کرتے تھے کہ ہم مہمان نواز ہیں مگر ان کی مہمان نوازی کے پیچھے جو روح کام کرتی تھی اگر اس کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مہمان نوازی بعض حالات کے ماتحت تھی وہ بدوی لوگ تھے اور سفر کرتے رہتے تھے اس لئے وہ اپنے حالات کے ماتحت مجبور تھے کہ یہ خوبی اپنے اندر پیدا کرتے ان کی اس خوبی کے پیچھے یہ روح کام نہ کر رہی تھی کہ ان کو بنی نوع انسان کی خدمت کا خیال تھا یا بھوکے اور فاقہ مستوںکا پیٹ بھرنے کا خیال تھا اور نہ ہی ان کے دلوں کے اندر یہ جذبہ پایا جاتا تھا کہ وہ خدا کے بندوں کو رزق کھلا رہے ہیں بلکہ ان کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ ہم کھلائیں گے تو کوئی دوسرا ہمیں بھی کھلائے گا اور وہ کھلائیں گے تو ہم بھی کھلائیں گے۔ ہمارے مولوی سید سرور شاہ صاحب یہاں بیٹھے ہیں یہ ہزارہ کے رہنے والے ہیں۔ ان کے ہم وطن جلسہ پر آتے ہیں تو واپس جاتے ہوئے کہتے ہیں کہ لائیے ہمارا کرایہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے علاقہ میں ریل نہیں اور لوگ جنگلوں میں سفر کرتے ہیںاور چونکہ جنگلوں میں ڈاکے اورلُوٹ مار کا خطرہ ہوتا ہے اس لئے لوگ سفر پر جاتے وقت اپنے ساتھ بستر یا نقدی وغیرہ نہیں لے جاتے اور جہاں ان کو شام ہو جاتی ہے وہیں کوئی نزدیک گاؤں دیکھ کر کسی کے گھر چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لاؤ روٹی اور پھر چلتے ہوئے اُس سے اپنی ضرورت کے لئے روپیہ بھی لے لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے علاقہ میں ہرشخص کے گھر میں بیسوں بستر اور چارپائیاں موجود ہوتی ہیں اور ہر شخص سمجھتا ہے کہ خواہ کتنے بھی مہمان آجائیں اُن کو روٹی اور بستر دینا میرا فرض ہے۔ ان لوگوں نے اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے آپس میں یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ سفر کی حالت میں زید مجھ سے روپیہ لے جائے گا تو میں اس سے روپیہ لے آؤں گا اپنے گھر سے ساتھ کچھ نہیں لے جائیں گے۔ اب اگر کوئی شخص ان باتوںکو مناقب ہزارہ کے طور پر بیان کرنے لگ جائے تو کہاں تک درست ہو سکتا ہے۔ یہ تو ان کا قومی کیریکٹر ہے جو مخصوص حالات نے پیدا کیا ہے اور وہ اس کے لئے مجبور ہیں کیونکہ اس کے سِوا ان کا کام چل ہی نہیں سکتا ان کا یہ خُلق طبعی اور اقتصادی حالات سے پیدا ہوا ہے مگر ہم اسلامی تعلیم کی روشنی میں اس کا نام خُلق نہیں رکھ سکتے زیادہ سے زیادہ اس فعل کو حسین کہہ سکتے ہیں مگر خُلق فاضل نہیں کہہ سکتے۔ خُلق وہ ہوتا ہے جو الٰہی حکم کے ماتحت ہو اوراعلیٰ مقاصد کو اپنے اندر لئے ہوئے ہو ۔
پس بے شک عربوں کے اندر مہمان نوازی تھی مگر وہ اسی قسم کے اقتصادی حالات کے ماتحت تھی اور وہ مجبور تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل چونکہ وہ اعلیٰ مقاصد اپنے اندر لئے ہوئے تھا اس لئے آپ کا یہ فعل ایک نئی چیز بن گئی اور یہ فعل خُلق کہلایا۔ بعض اوقات انسان کسی چیز کی شکل اور اس کے بیرونی حصہ کو دیکھ کر اس کی خوبیوں کے متعلق غلط اندازہ لگالیتا ہے اور بعض دفعہ ایک چیز کو وہ اعلیٰ سمجھتا ہے لیکن وہ نہایت ناقص ہو تی ہے۔ میرے پاس حال ہی میں ایک رسالہ امریکہ سے آنا شروع ہوا ہے جو کسی دوست نے میرا نام لگوادیا ہے اس میں تین تصویریں دکھائی گئی ہیں اور ساتھ لکھا ہوا ہے کہ ان کی شکلیں دیکھ کر بتایا جائے کہ ان میں سے اچھا کون ہے اوربُرا کون۔ اور دوسرے صفحہ پر ان کی اصل حقیقت کو پیش کیا گیا ہے۔ میں نے بھی ان تصویروں کو دیکھ کر اندازہ لگانا شروع کیا تو جس تصویر کے متعلق میں نے اندازہ لگایا تھا کہ یہ نہایت شریف ہے اس کے متعلق دوسری طرف پڑھا تو لکھا تھا کہ یہ مشہور ڈاکوہے اور جس کے متعلق میں نے اندازہ لگایا تھا کہ یہ ڈاکو ہے اس کے متعلق لکھا تھا کہ یہ پرلے درجہ کا شریف انسا ن ہے۔ عام طور پر خونریزی اور فساد کرنے والے لوگوں کے چہرے خراب ہو جاتے ہیں مگر بعض لوگوں نے فن بنایا ہوتا ہے کہ باوجود اس قسم کے افعالِ قبیحہ کے ان کے چہرے خراب نہیں ہوتے۔ اس رسالہ والوں نے بھی لاکھوں ڈاکوؤں میں سے ایک کو چن کر دِکھا دیا جس کا چہرہ شریفوں والا نظر آتا تھا اور لاکھوں شریفوں میں سے ایک کو چن لیا جس کاچہرہ باوجود شرافت کے شرارت ظاہر کرے چنانچہ میں نے ان تصاویر کے متعلق جس قدر اندازے لگائے ان میں سے اکثر غلط نکلے۔ اب دیکھو تصویر کو دیکھ کر انسان اندازہ لگاتا ہے کہ شکل تو اچھی ہے مگر حقیقت یہ ہوتی ہے کہ شکل والا خود اچھا نہیں ہوتا۔ پس فعل حسن اور چیزہے اور اخلاق اور چیز ہے۔ کوئی فعل اپنی ذات میں اچھا ہو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا گیا ہو تم ہم اس کو تو خُلق کہیں گے لیکن جو فعل اپنی ذات میں تو اچھا ہو لیکن مجبوری کے ماتحت ہو تو گو وہ فعل حسن کہلائے گا لیکن خُلق نہیں کہلاسکتا ۔اسی طرح بعض افعال بظاہر بُرے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت وہ اچھے ہوتے ہیں۔ مثلاً میں نے پہلے بھی بار ہا بیان کیا ہے کہ باپ کے سر پر جُوتی مارنا بہت بڑا گنا ہ ہے لیکن اگر کوئی شخص دیکھے کہ باپ کے سر پر سانپ چڑھ رہا ہے اور اُس کے پاس اُس وقت سوائے جوتی کے اور کوئی چیز موجود نہ ہو جو سانپ کو ماری جائے اور وہ جُوتی ہی اُٹھا کر باپ کے سر پر مار دے تو اس کا یہ فعل بُرا نہ ہوگا بلکہ اچھا ہوگا کیونکہ اگر وہ جُوتی نہ مارتا تو سانپ اس کے باپ کو ڈس لیتا اور وہ ہلاک ہو جاتا۔ اسی طرح ہمیں عربوں کی مہمان نوازی کے متعلق یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کن حالات کے ماتحت تھی آیا وہ کسی قسم کے طبعی یا اقتصادی فوائد کے پیش نظر تھی یا وہ خدا کے حکم کے ماتحت ایسا کرتے تھے اور وہ خدا کے بندوں کو مستحق سمجھ کر رزق کھلاتے تھے اور ان کے پیش نظر اعلیٰ درجہ کے مقاصد تھے۔ ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ وہ اس مہمان نوازی کے لئے مجبور تھے اور ان کے پیش نظر بنی نوع انسان کی خدمت ہر گز نہ تھی۔ اسی طرح اور بھی بہت سی باتیں ایسی ہیں جو بظاہر اچھی نظر آتی ہیں مگر درحقیقت وہ بُری ہوتی ہیں یا بظاہر بُری معلوم ہوتی ہیں مگر درحقیقت وہ اچھی ہوتی ہیں مگر یہ ایک لمبا مضمون ہے جو ایک دن میں ختم نہیں ہو سکتا اس لئے میں پھر کسی وقت اِس کے متعلق بیان کروں گا۔
۲۷؍مئی ۱۹۴۷ء
حضور نے فرمایا:۔
میں کل یہ بیان کر رہا تھا کہ جہاں تک بعض اچھے کاموں کا یا بظاہر اچھے نظر آنے والے کاموں کا سوال ہے عربوں کے اندر بعض خوبیاں ضرور پائی جاتی تھیں مثلاً میں یہ مضمون بیان کررہا تھا کہ عربوں کے اندرا کرامِ ضیف کی صفت تھی یعنی وہ مہمان نوازی کرتے تھے اور یہ صفت ان کے اندر انفرادی نہ تھی بلکہ قومی تھی۔ میں نے کل کے مضمون میں بتایا تھا کہ منیر الحصنی صاحب نے اپنی تقریر میں یہ بیان کیا تھا کہ بعض مناقب عربوں کے اندر پائے جاتے تھے اور معترض نے سوال کیا تھا کہ آیا وہ مناقب عربوں کے اندر شخصی تھے یا قومی اگر تو وہ شخصی تھے تو اس قسم کے مناقب ہر قوم میں پائے جاتے ہیں اور اگر وہ قومی تھے تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے زمانہ کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ اس پر حرف آتا ہے میں نے بتایا تھا کہ کسی اچھی یا بظاہر اچھی نظر آنے والی صفت کے متعلق یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ شخصی ہے یا قومی بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے پس پردہ اس شخص یا قوم کے اندر کون سے جذبات کام کر رہے ہیں۔ مثلاً ہم دیکھیں گے کہ قرآن کریم نے جو نقطہ نگاہ کسی کام کی اچھائی یا بُرائی معلوم کرنے کے لئے پیش کیا ہے اس کے معیار کے مطابق وہ فعل اچھا ہے یا نہیں اگر نہیں تو اس فعل کا کسی قوم کے اندر پایا جانا اخلاقِ فاضلہ نہیں کہلا سکتا اس کا نام زیادہ سے زیادہ ہم فعلِ حسن رکھ سکتے ہیں اور فعلِ حسن کا پایا جاناجس کے پیچھے بعض اغراض کام کر رہی ہوں قرآن کریم اور اسلام کے دعویٰ کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ میں نے اکرامِ ضیف کی مثال دی تھی کہ یہ خوبی عربوں کے اندر عام پائی جاتی تھی اور اس کثرت کے ساتھ تھی کہ گویا یہ صفت ان کے ساتھ وابستہ ہو چکی تھی اور وہ غیرارادی طور پر اس کے لئے مجبور ہو چکے تھے۔ لیکن میں نے بتایا تھا کہ فعلِ حسن اور اخلاقِ فاضلہ میں فرق کیا ہے کسی قوم کے اندر کسی ایسی صفت کا پایا جانا جس کے پیچھے ان کے سیاسی اغراض اور مفاد کام کر رہے ہوں فعلِ حسن تو کہلائے گا لیکن اخلاقِ فاضلہ نہیں کہلا سکتا۔ عربوں کا یہ فعل اس لئے نہ تھا کہ وہ خلقِ خدا کی خدمت کرتے تھے بلکہ وہ اپنے مخصوص حالات کے ماتحت اپنے اقتصادی فائدہ کو مد نظر رکھتے ہوئے مجبور تھے کہ وہ مہمان نوازی کرتے۔ عرب لوگ چونکہ خانہ بدوش تھے اور خانہ بدوشوں کے پاس ہوٹل اور ریسٹورنٹ تو ہوتے نہیں کہ اگر سفر در پیش ہوتو ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں قیام کر لیا جائے ان کی تو یہ حالت تھی کہ آج یہاں اور کل وہاں ایسے علاقہ میں جب سفر کرنا پڑجائے تو سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ کسی قبیلہ کے پاس قیام کیا جائے اور جب کسی قبیلہ کے پاس قیام کیا جائے گا تو اس کے لئے ضروری ہوگا کہ اپنے مہمانوں کے لئے سامان خوردونوش مہیا کرے۔ ایسے علاقہ کے لوگ اگر مہمان نوازی نہیں کریں گے تو ان کے لئے بھی سفر کرنا مشکل ہو جائے گا۔فرض کرو ایک قبیلہ یا خاندان کے الف ب، ج د، ھ و افراد سَو میل کے اندر پھیلے ہوئے ہیں ان کو کبھی نہ کبھی سفر ضرور کرنا پڑے گا۔ کسی کا بیٹا کہیں بیاہا ہوگا اور وہ اس کو ملنے جائے گا، کوئی تجارت کے لئے سفر کرے گا، کوئی سیر کی غرض سے سفر اختیار کرے گا اور کوئی کسی اور غرض کے ماتحت۔ یہی حالت عربوں کی تھی وہ جب ایسے سفر کے لئے نکلتے تھے تو ان کے ساتھ سامانِ خورونوش تو ہوتا نہیں تھا اور نہ ہی کسی جگہ ہوٹل یا ریسٹورنٹ ہوتے تھے کہ ان میں قیام کر لیا جائے ایسی صورت میں یہی ہو سکتا تھا کہ جو قبیلہ رستہ میں آئے اس کے پاس ٹھہر جاتے اور وہ ان کے لئے سامانِ خورونوش مہیا کرتا، ان حالات میں اگر وہ قبیلہ کہہ دیتا کہ ہم کیوں کسی کو روٹی دیں یا بستر دیں تو کل کو اسے بھی سفر کرنا پڑتا اور تکلیف کا سامنا ہوتا۔پس جو مشکلات سفر کے لئے الف کو تھیں وہی ب کو بھی تھیںاسی طرح وہی مشکلات ج، د، ہ اور و کو بھی تھیںاگر الف اپنے مہمانوں کو کھانا کھلانے سے انکار کر دے مثلاً وہ ب کو کھانا نہ کھلائے تو اس سے صرف ب کو ہی تکلیف نہ ہوگی بلکہ کل کو ا لف کو بھی ہوگی پس ان حالات میں لازمی طور پر الف مجبور ہے کہ ب ج د ہ اور و کے آدمیوں کی مہمان نوازی کرے ب مجبور ہے الف ج د ہ اور و کے آدمیوں کی مہمان نوازی کرے ج مجبور ہے الف ب ہ اور و کے آدمیوں کی مہمان نوازی کرے اسی طرح دہ اور و مجبور ہیں کہ وہ اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی کریں۔ اگر الف ب کی مہمان نوازی نہ کرے تو کل ب الف کی نہیں کرے گا پس ان کا یہ فعل فورسنر آف ایوینٹس ( Forces of Events)کی وجہ سے تھا ان کے حالات ہی اس قسم کے تھے کہ وہ اس فعل کے لئے مجبور تھے۔ اگر وہ مہمان نوازی نہ کرتے تو ان کو سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا۔ سامانِ خوردو نوش کوئی شخص اپنے ساتھ لے کر چلتا نہ تھا، ہوٹل اور ریسٹورنٹ ہوتے نہ تھے ایسی صورت میں اگر مہمان نوازی نہ کی جائے تو بہت زیادہ دِقّت پیش آتی ہے۔ پس کسی قوم کا ایسے حالات کے ماتحت کوئی صفت اپنے اندر پیدا کرنا کہ وہ اس کے لئے مجبور ہو اُسے ہم جبری تو کہیں گے بِالا رادہ نہیں کہیں گے اور یہ فعلِ حسن تو کہلائے گا لیکن خُلقِ فاضل نہ ہو گا اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کفار کے ایک قول کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے ۷؎ کہ یہ کس طرح کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیا ہے کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کو کسی نے نہیں دیکھا اس نے اگر مال خرچ کیا ہے اور مہمان نوازی کی ہے تو اپنے مفاد کے پیش نظر اور سیاسی اغراض کے ماتحت اس کوکیا حق ہے کہ ہمارے سامنے کہے کہ میں نے اتنا مال تقسیم کیا ہے اگر اس نے مال تقسیم کیا تو کیا کسی پر احسان کیا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اگر اس نے احسان کیا ہے تو اپنے اوپر نہ کہ کسی دوسرے کے اوپر جیسے ہمارے ملک میں اگر کوئی شخص کشمیر کی سیر کا ارادہ کرے اور اسے کوئی کشمیری مل جائے تو واقفیت پیدا کرنے کے لے کہہ دے گا آئیے بھائی صاحب یا اگر افغانستان جارہا ہو اور کوئی پٹھان مل جائے تو کہے گا آئیے خان صاحب! لیکن اگر اس کا کشمیر یا افغانستان جانے کا ارادہ نہ ہو تو کشمیری یا پٹھان کا واقف بھی نہ بنے گا لیکن جب اسے ضرورت درپیش ہوگی تو وہ بھائی صاحب اور خان صاحب کہتا پھرے گا تاکہ اُسے سفر میں سہولت حاصل ہو اور ہمارے ملک میں تو سفر کی تکلیفیں بھی نہیں ہیں ریل کا سفر ہوتا ہے اور جگہ جگہ ہوٹل اور ریسٹورنٹ ہیں اگر کسی سے واقفیت نہ بھی ہو تو بھی سفر آسانی کے ساتھ طے ہو سکتا ہے مگر کوئی مجبوری نہ ہونے کی صورت میں بھی جب کوئی کشمیر وغیرہ سیرکے لئے جاتا ہے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ وہاںکے کسی آدمی سے واقفیت نکل آئے بلکہ یہاں تک کہ بعض لوگ تو یہاں سے کسی دوست کے ذریعہ چٹھیاں لے جاتے ہیں تاکہ منزلِ مقصود پر پہنچ کر کوئی تکلیف نہ ہو پس جہاں ان حالات میں کہ ہمارے ہاں سفر کرنے میں دشواریاں بھی نہیں ہیں یہ ضرورت پیش آجاتی ہے کہ کسی کے ساتھ واقفیت پیدا کی جائے تو عرب کے لوگ جن کے نہ مکان تھے اور نہ ان کے پاس سامانِ خورونوش ہوتا تھا ان کو تو بدرجہ اَولیٰ یہ ضرورت پیش آنی چاہئے تھی۔ ان کو تو پانی بھی آسانی کے ساتھ میسر نہ آتا تھا اور دور دور سے جا کر پانی لانا پڑتا تھا یہ حالات تھے جن کی وجہ سے وہ قدرتی طور پر مجبور تھے اس بات کے لئے کہ وہ مہمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور یہ ایک قومی لین دین تھا۔ آج الف۔ ب کے ہاں مہمان ہوتا تھا تو کل ب۔الف کے ہاں اس لئے اگر ب الف کی مہمان نوازی میں پس وپیش کرتا تو خود اسے بھی تکلیف ہوتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے وہ کہتا ہے میں نے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیا ہے فرماتا ہے ہم یہ تو نہیں کہتے کہ تم نے مال خرچ نہیں کیا سوال تو یہ ہے کہ تم نے جو مال خرچ کیا ہے وہ کس نیت اور ارادہ کے ساتھ کیا ہے۔
دوسری مثال میں نے کل بھی بیان کی تھی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی باروحی کا نزول ہوا تو آپ گھبرائے ہوئے گھر پہنچے اور حضرت خدیجہؓ سے فرمایا لَقَدٌ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ یعنی میں اپنے نفس کے متعلق ڈرتاہوں کہ جو بوجھ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ڈالا ہے اس میں میرا نفس کہیں کمزوری نہ دکھاجائے اور میں اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ ذمہ داری کو ادا کرنے سے قاصر نہ رہ جاؤں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد نہ بن جاؤں۔ اس کے جواب میں حضرت خدیجہؓ نے منجملہ آپ کی اور صفات اور اخلاقِ فاضلہ بیان کرنے کے ایک خُلقِ فاضل یہ بھی بیان کیا کہ اِنَّکَ تَقْرِی الضَّیْفَ آپ مہمان نواز ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رُسوا نہیں کرے گا۔ حالانکہ حضرت خدیجہؓ جانتی تھیں کہ عربوں کے اندر مہمان نوازی پائی جاتی ہے لیکن پھر بھی کہاکہ کَلاَّ اَبْشِرْ فَوَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَداً اِنَّکَ لَتصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِیْثَ وَ تَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَ تَقْرِی الضَّیْفَ یعنی خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ کے اندر مہمان نوازی کی صفت پائی جاتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ اس بات کو سمجھتی تھیں کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان نوازی اور عربوں کی مہمان نوازی میں فرق ہے۔ مکہ والے اگر مہمان نوازی کرتے تھے تو وہ نذروں اور نیازوں کے لئے کرتے تھے اب بھی چلے جاؤاور دیکھ لو وہ اس طرح مہمان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے۔ جب کوئی جاتا ہے تو اس کو کہتے ہیں آئیے ہمارے ہاں تشریف لائیے یہ آپ ہی کا مکان ہے اور ہمارے ہاں آپ کو ہر قسم کی سہولتیں میسر ہوں گی۔ ایک پنجابی تو ان کی باتوں سے یہ خیال کرے گا کہ یہ کہاں سے ہمارے رشتہ دار نکل آئے کہ اس طرح کھینچ کھینچ کر اپنے گھر لئے جاتے ہیں مگر وہ مہمان کو ساتھ لے جائیں گے اور کھانا وغیرہ کھلانے کے بعد کہیں گے میں مطوف ہوں لائیے میری فیس تب جاکر آدمی کو پتہ چلتا ہے کہ یہ تو اپنی فیس کے لئے ایسا کر رہے تھے ورنہ اس سے پہلے وہ یہی سمجھتا ہے کہ یہ میرے حقیقی رشتہ دار معلوم ہوتے ہیں۔ پُرانے زمانہ میں وہ خود نہ مانگتے تھے بلکہ لوگ ان کو نذریں اور نیازیں دے جاتے تھے مگر اب چونکہ حالات بد ل گئے ہیں اس لئے ان کو مانگنا پڑتا ہے۔ اُس زمانہ میں تو مکہ کے ایک حصہ کا گزارہ ہی نذروں اور نیازوں پر تھا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نذروں اور نیازوں سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کے سفر کرتے تھے کہ آپ کو مجبوراً مہمان نوازی کرنی پڑتی، نہ ہی آپ کو کسی کے ساتھ کوئی سیاسی یا اقتصادی غرض تھی۔ ادھر مکہ والوں کی مہمان نوازی اس غرض کے ماتحت ہوتی تھی کہ اب ہم مہمان نوازی کرتے ہیں جب ہم ان کے پاس جائیں گے تو یہ ہماری مہمان نوازی کریں گے۔ مگر آپ نے تو اس قسم کا سفر ہی کبھی نہ کیا تھا آپ تو غار حرا میں عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے تھے آپ کا تعلق نہ نذر و نیاز سے تھا نہ کسی اور غرض کے ساتھ پس آپ کی مہمان نوازی اور مکہ والوں کی مہمان نوازی میں نمایاں فرق تھا۔ آپ کا یہ فعل صرف خدا تعالیٰ کے لئے تھا اور مکہ والوں کا یا دوسرے عربوں کا یہ فعل اپنے نفس کے لئے اور اپنے حالات سے پیدا شدہ مجبوری کے ماتحت تھا۔ پس اس طرح کسی کو کھانا کھلانا یا مہمان نوازی کرنا کہ کل جب میں اس کے پاس جاؤں گا تو یہ میری مہمان نوازی کرے گا اس کو فعل حسن تو کہا جاسکتا ہے خُلقِفاضل نہیں کہا جاسکتا خلق فاضل وہ ہے جس میں اپنے نفس کا خیال نہ ہو بلکہ وہ فعل صرف خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کیا جارہا ہو۔ پس عربوں کی مہمان نوازی Forces of Events کی وجہ سے تھی ورنہ ان کے مدنظر خدمت خلق یا خدا تعالیٰ کی خوشنودی نہ تھی وہ اپنے حالات گردوپیش سے ایسا کرنے پر مجبورتھے۔ خانہ بدوش قومیں جن میں شہریت نہیں ہوتی لازمی طور پر مہمان نوازی کے لئے مجبور ہوتی ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کے حالات تباہ ہو جائیں۔ عرب لوگ جہاں مہمان نواز ہیں وہاں اگر کوئی شخص ان کے منشاء کے خلاف کچھ کر گزرے تو سخت گیر بھی ہوتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ کوئی ہندوستانی حج کرنے جار ہا تھا کہ راستہ میں ایسی حالت میں کہ اس کے پاس نہ پیسہ تھا اور نہ سامانِ خورونوش اپنے قافلہ سے بچھڑ گیا وہ اِدھر اُدھر کھانے کی تلاش میں سرگرداں تھا کہ اسے ایک عرب کی جھونپڑی نظر آئی وہ اس طرف چلا گیا اور کہا میں بھوک سے نڈھال ہو رہا ہوں اور میرے پاس پیسے بھی نہیں ہیں مجھے کھانا دو وہ عرب غریب آدمی تھا اس کے پاس اور تو کچھ نہ تھا، عرب کے جنگلوں اور صحراؤں میں ایسا ہوتا ہے کہ پانی کی دھاریں زمین کے نیچے بہتی ہیں اور کہیں کہیں زمین کے اوپر آجاتی ہیں اور پھر غائب ہو جاتی ہیں اسی طرح اس عرب کی جھونپڑی کے پاس پانی کی دھار زمین کے اوپر تھی اور اس نے کنال دوکنال ٹکڑے میں تربوز بوئے ہوئے تھے، عرب نے اس میں سے تربوز توڑ کر مہمان کو دینے شروع کئے جو کچاتربوز ہوتا وہ پھینک دیتا اور جو پکا ہوتا وہ مہمان کو دے دیتا۔ جب مہمان کا پیٹ بھر گیا تو عرب تلوار لے کر اس کے سرپر کھڑا ہوگیا اور کہا کھڑے ہو جاؤ وہ ہندوستانی بیان کرتا تھا کہ میں عرب کے اس فعل سے سخت متعجب ہوا کہ پہلے تواس نے مجھے تربوز توڑ توڑ کر کھلائے اور اب یہ تلوار سونت کر میرے سر پر آن کھڑا ہوا ہے۔ چنانچہ ہندوستانی نے پوچھا کیا بات ہے؟ عرب نے کہا بات کیا ہے کھڑے ہو جاؤ۔ وہ کھڑا ہوا تو عرب نے اس کی اچھی طرح سے تلاشی لی اور یہ دیکھ کر کہ اس کے پاس سے کچھ نہیں نکلا چھوڑ دیا اور کہنے لگا میں نے تمہاری مہمان نوازی کے لئے اپنا سارا کھیت تباہ کر دیا تھا مگر میں نے مہمان نوازی کا حق تو ادا کر دیا اب میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم نے جو کہا تھا کہ میرے پاس کچھ نہیں آیا تم نے یہ سچ کہا یا جھوٹ؟ اگر تمہارے پاس سے کچھ نکل آتا تو میں تمہیں ضرور ماردیتا کیونکہ یہی ایک کھیت تھا جس پر میرا اور میرے بیوی بچوں کا گزارہ تھا اور یہ میں نے تمہاری مہمان نوازی کے لئے تباہ کر دیا گویا میں نے اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو اور اپنے بیوی بچوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اسی طرح وزیرستان وغیرہ کے پٹھان سٹرک پر سے گزرتے ہوئے لوگوں کو مار دیتے ہیںاور ان کے مال چھین کر لے جاتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص سڑک سے ہٹ کر ان کے گھر میں پہنچ جائے تو وہ اس کی بڑی آؤ بھگت کرتے ہیں اور مہمان نوازی میں کوئی کسر اُٹھانہیں رکھتے۔ یہ مہمان نوازی تو ہے لیکن مہمان نوازی کی غرض کیا ہے؟ اگر ان کی یہ مہمان نوازی خدا کے لئے ہو توسڑک پرجانے والوں کے لئے بھی ہو۔ مگر نہیں سڑک پر جانے والوں کے وہ کپڑے بھی اُتار لیتے ہیں۔ پس یہ فرق ہے فعلِ حسن اور خُلقِ فاضل میں۔ اسلام جب کہتا ہے کہ عربوں کے اندر کوئی خوبی نہ تھی تو وہ اس نقطئہ نگاہ سے کہتا ہے کہ ان کے اس قسم کے افعال اخلاقِ فاضلہ نہ تھے یہ الگ بات ہے کہ کوئی شخص کہہ دے کہ اسلام کا نقطئہ نگاہ غلط ہے۔ ایسی صورت میں اس بات پر بحث ہوگی کہ یہ نقطئہ نگاہ غلط ہے یاصحیح لیکن اسلام کا نقطئہ نگاہ یہ ہے کہ جو فعل اپنی اغراض کے پیش نظر سیاسی یا اقتصادی مفاد کیلئے کیا جائے اور وہ بظاہر حسین نظر آتا ہو تو وہ فعلِ حسن تو ضرور کہلائے گا لیکن اخلاقِ فاضلہ نہیں کہلا سکتا۔ پس عربوں کے اندر مہمان نوازی کا پایا جانا خدا کے لئے یا خلقِ خدا کی خدمت کیلئے نہ تھا بلکہ وہ ان کے مخصوص حالات کے ماتحت تھا اور وہ اس کے لئے مجبور تھے۔ بے شک ان کا یہ فعل خوبصورت نظر آتا ہے اور ہے بھی خوبصورت لیکن اس کے اندر نیکی کا پہلو نہیں ہے اسی طرح عربوں کے اندر پناہ دینے کا رواج تھا مگر وہ بھی کسی دباؤ کے ماتحت اور مختلف اغراض کو اپنے اندر لئے ہوئے تھا۔ ہمارے ملک کے اندر جنگلات پائے جاتے ہیں چوریا ڈاکو پناہ لینے کے لئے اور پولیس کی نظروں سے بچنے کے لئے جنگلات میں چلے جاتے ہیں یا بڑے بڑے شہروں میں چھپ جاتے ہیں جہاں کئی کئی ماہ تک پولیس ان کا سراغ لگاتی رہے تو بھی ناکام رہتی ہے لیکن عرب کی یہ حالت تھی کہ ہر قبیلہ الگ الگ رہتا تھا۔ ہمارے ملک میں تو یہ حالت ہے کہ جس بڑے شہر میں چلے جاؤ وہاں یہی نظر آئے گا کہ ایک گھر گجرات کے کسی شخص کا ہے، دوسرا سیالکوٹ سے آکر رہ رہا ہے، تیسرا مدراس کا آدمی بسلسلہ ملازمت رہتا ہے، چوتھا بمبئی کا آدمی تجارت کی غرض سے آیا ہوا ہے، پانچوں کلکتہ کا ہے گویا ہمارے شہروں کی آبادی اس طرح مخلوط ہوتی ہے کہ اگر کوئی اجنبی کسی کے پاس آکر ٹھہر جائے تو پتہ ہی نہیں لگ سکتا۔ لیکن عربوں کی حالت اس سے بالکل مختلف تھی وہ قبیلہ وار رہتے تھے اور جب کوئی غیر شخص آجاتا تھاتو وہ کہتے تھے یہ غیر ہے ان لوگوں میں چونکہ لوٹ مار اور جھگڑے ہوتے رہتے تھے اس لئے انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ جب کوئی جُرم کر کے کسی کے پاس پہنچ جائے تو وہ اسے پناہ دے تاکہ کل کو ہم اس کے ہاں پناہ لے سکیں۔
عرب کی لڑائیاں تو مشہور ہیں اور معمولی معمولی باتوں پر قبائل آپس میں اُلجھ جاتے تھے اور کئی کئی سال تک آپس میں جنگیں ہوتی رہتی تھیں اسی طرح عرب کی ایک مشہور جنگ جو عرصۂ دراز تک جاری رہی اس کا آغاز اس طرح ہوا کہ کسی شخص کے کھیت میں ایک کتیا نے بچے دئیے اور کسی دوسرے کی اونٹی چرتے چراتے اِدھر سے گزری اور اس کے پاؤں کے نیچے آکر کتیا کا ایک بچہ مارا گیا۔ کھیت والے نے یہ سمجھ کر کہ یہ کتیا میری پناہ میں تھی جھٹ اونٹنی پر حملہ کر کے اس کی کونچیں کاٹ دیں۔ اونٹنی کے مالک نے جب دیکھا کہ میری اونٹنی کو مارا گیا ہے تو اس نے جا کر اُس مارنے والے کو قتل کر دیا اِس پر طرفین کے قبیلے آگئے اور جنگ شروع ہو گئی اور تاریخوں میں آتا ہے کہ وہ جنگ تیس سال تک جاری رہی۔ اب یہ بھی کوئی عقل کی بات تھی کہ کتیا کا بچہ اونٹنی کے پاؤں کے نیچے آکر مر جانے سے تیس سال تک جنگ لڑی جاتی۔ یہ پناہ دینے کا انتہائی جذبہ تھا جو ان لوگوں میں پایا جاتا تھا مگر دیکھنا تو یہ ہے کہ اس بات کا محرک کیا تھا۔ اس بات کا محرک خدا تعالیٰ کی خوشنودی نہ تھی، دین کی پیروی نہ تھی، اگلے جہان کی بہبودی مدنظر نہ تھی، کوئی نیکی کرنا مقصود نہ تھا اس کی محرک صرف قبائلی زندگی اور ان کا رسم ورواج تھا اور وہ صرف ایسے کاموں سے اپنی عزت بڑھانا چاہتے تھے اور یہ دکھانا مقصود تھا کہ ہم اتنے بہادر ہیں۔
ہمیں ان کے اس رواج میں بعض خوبصورت کام بھی نظر آتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے ایک دفعہ فائدہ اُٹھایا تھا۔ آپ جب سفرطائف سے واپس تشریف لائے تو چونکہ عرب دستور کے مطابق مکہ چھوڑدینے کے بعد اب آپ مکہ کے باشندے نہیں تھے بلکہ اب مکہ والوں کا اختیار تھا کہ وہ آپ کو مکہ میں آنے دیں یا نہ آنے دیں اس لئے آپ نے مکہ کے ایک رئیس مطعم بن عدی کو کہلا بھیجا کہ میں مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہوں کیا تم عرب دستور کے مطابق مجھے داخلہ کی اجازت دیتے ہو۔ مطعم بن عدی اسلام کا سخت دشمن تھا لیکن ایسے حالات میں انکار کرنا بھی بہادر عربوں کی شان اور شرافت کے خلاف تھا اس لئے جب یہ پیغام اس کے پاس پہنچا اور پیغامبر نے اسے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیغام تمہاری طرف بھیجا ہے تو وہ اُسی وقت اُٹھ کھڑا ہوا اور کہا جب محمد( ﷺ) نے کہا ہے تو میرا فرض ہے کہ میں اُن کو پناہ دوں یہ کہہ کر اس نے اپنے پانچوں بیٹوں کو بلایا اور کہا آج میری اور میرے خاندان کی عزت کا سوال ہے تم اپنی اپنی تلواریں نکال لو کیونکہ ہم نے محمد( ﷺ) کو اپنی پناہ میں لے کر شہرمیں داخل کرنا ہے اور یاد رکھو کہ تم خود ٹکڑے ٹکڑے ہو جاؤ مگر محمد(ﷺ) کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے پائے۔ چنانچہ وہ خود اور اس کے پانچوں بیٹے تلواریں ننگی کر کے گئے اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حفاظت میں مکہ میں داخل کیا اور آپ نے اسی حالت میں کعبہ کا طواف بھی کیا۸؎ اس کے بعد وہ لوگ آپ کو گھر پہنچا کر واپس چلے گئے اور پھر آپ کی مخالفت میں سر گرم ہو گئے۔ پس یہ خوبی تو عربوں کے اندر تھی مگر عزتِ نفس کے لئے تھی خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے نہ تھی مگر اسلام دنیا میں اخلاقِ فاضلہ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اسلام کہتا ہے میں تمہیں اس لئے اچھے کاموں کا حکم دیتا ہوں کہ تم نیک ہو جاؤ اسلام کہتا ہے میں تمہیں اس لئے اچھے کاموں کا حکم دیتا ہوں تا تمہاری روحانیت بلند ہو جائے اور اسلام کہتا ہے میں تمہیں اس لئے اچھے کاموں کا حکم دیتا ہوں کہ تم اخلاقِ فاضلہ کے حامل ہو جاؤ۔ مگر عربوں میں یہ بات نہ تھی وہ اس لئے مہمان نوازی کرتے تھے کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور تھے۔ وہ اس لئے پناہ دیتے تھے کہ ہم معزز قرار پائیں پھر عربوں کے اندر بعض برائیاں بھی پائی جاتی تھیں اور میں نے اپنی بعض کتابوں میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ عربوں میں اپنی لڑکیا ں مار دینے کا رواج تھا اور قرآن کریم میں بھی اس بات کا ذکرآتا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارے عربوں میں یہ رواج تھا اگر سب میں یہ رواج ہوتا تو نسل کیسے چلتی اور بچے کس طرح پیدا ہوتے اور وہ شادیاں کس طرح کرتے، اگر سارے ہی اپنی لڑکیوں کو ماردیتے تو کچھ عرصہ کے بعدیقینا ان کی نسل ختم ہو جاتی۔ پس سارے عربوں میں یہ رواج نہ تھا بلکہ صرف دو تین قبیلوں میں یہ بات پائی جاتی تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو قتل کر دیتے تھے اور اس کا محرک یہ امر ہوتا تھا کہ ہم اتنے بڑے آدمی ہیں یا اتنی و جاہت رکھتے ہیں کہ ہم اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے ہم کسی ایسے شخص کو رشتہ دیں جو ہم سے کم وجاہت رکھتا ہو۔ یہ جذبہ تھا جس کے ماتحت وہ بیٹیوںکو قتل کر دیتے تھے اوریہ کام صرف وہی لوگ کرتے تھے جو اپنے آپ کو بہت بڑا امیر کبیر یا خاندانی لحاظ سے رُعب اور دبدبے والا یا اثر و رسوخ کے لحاظ سے بڑا آدمی یا سیاست اور تدبیر کے لحاظ سے سیاستدان اور مدّبر سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ کسی کا ہماری بیٹیوں کا خاوند بننا ہماری ہتک ہے۔ مگر وہ رواج ان میں شاذ تھا عام نہ تھا اور جب یہ شاذتھا تو ساری قوم کی طرف یہ فعل کس طرح منسوب ہو سکتا ہے ۔مگر سوال تو یہ ہے کہ باقی عرب جو یہ فعل نہیں کرتے تھے وہ ان کے اس فعل کو کس نگاہ سے دیکھتے تھے اگر باقی عرب یہ کہتے کہ یہ فعل بُرا ہے تو واقعی ساری قوم کی طرف یہ بات منسوب نہیں ہو سکتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو عرب اس پر عامل نہ تھے وہ بھی دوسروں کے اس فعل کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور وہ بُرا نہیں مناتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ یہ بہت اچھا فعل ہے اس لئے چاہے وہ خود نہ کرتے تھے مگر ان کی پسندیدگی کی وجہ سے یہ فعل ساری قوم کی طرف منسوب کیا جائے گا۔ جیسے کسی قوم کا کوئی ایک شخص چوری کر کے واپس پہنچے اور ساری قوم اس کو شاباش کہے تو گوشاباش کہنے والوں نے خود چوری نہ کی ہوگی مگر شاباش کہنے کی وجہ سے اور چوری کے فعل پر پسندیدگی کا اظہار کرنے کی وجہ سے وہ سب چور کہلائیں گے۔ اسی طرح یہ عیب عربوں میں شاذ تو تھالیکن اس پر عامل نہ ہونے والوں کی پسندیدگی کی وجہ سے یہ فعل ساری قوم کی طرف منسوب ہو گا۔ پس عربوں میں بعض مناقب بے شک پائے جاتے تھے گو میں نہیںکہہ سکتا کہ اس لفظ کے لغۃً کیا معنے ہیں اور عربی زبان میں اسے کن معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں نقب کے معنی ہوتے ہیں گہراچلا جانا اور مناقب کے معنے ہیں ایسی رسوم جو کسی قوم کے اندر گھر کر جائیں اور ان کی روز مرہ زندگی کا جزو بن جائیں۔ بہرحال اگر تو مناقب کے معنی افعالِ حسنہ کے ہیں تو افعالِ حسنہ عربوں کے اندر ضرور پائے جاتے تھے لیکن قرآن کریم کے نقطئہ نگاہ سے جن اَفعال کو اخلاقِ فاضلہ کہا گیا ہے وہ ان میں نہ تھے جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ یہودی کہتے تھے کہ حضرت ابراہیم ؑ یہودی تھے اور عیسائی کہتے تھے کہ حضرت ابراہیم عیسائی تھے لیکن جب حضرت ابراہیم یہودیوں اور عیسائیوں کے پیدا ہونے سے بھی بہت پہلے تھے تو وہ یہودی یا عیسائی کس طرح ہو سکتے تھے، یہ قومیں تو آپ کی وفات کے ایک لمبا عرصہ بعد پیدا ہوئیں۔ یہ تو ایسی ہی بات ہو گی جیسے آج کوئی شخص کہہ دے کہ میرے پڑدادا نے آج سے ایک ہزار سال پہلے ریل بنائی تھی یہ سُن کر ہر شخص اس کی بیوقوفی پر ہنس دے گا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم تو یہودیت سے پانچ چھ سَو سال پہلے اور نصرانیت سے قربیاً بیس سَوسال پہلے تھے پھر یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ آپ یہودی تھے یا نصرانی تھے ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن کریم اخلاقِ فاضلہ کی وہ تعریف کرتا ہے جو تعریف اس سے پہلے کسی مذہب نے نہیں کی اور جب اخلاقِ فاضلہ کی صحیح تعریف سب سے پہلے اسلام نے ہی پیش کی ہے تو عربوں میں اسلام سے قبل اخلاقِ فاضلہ پیدا ہی کس طرح ہو سکتے تھے۔ پس جہاں تک قرآن کی تعریف کا سوال ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ عربوں کے اندر کوئی مناقب نہ تھے لیکن اگر مناقب کے معنی افعالِ حسنہ کیلئے جائیں تو یہ عربوں میں ضرور پائے جاتے تھے اور اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اسلام لانے سے پیشتر سَواونٹ ذبح کر کے غریبوں کو کھلائے تھے آپ نے فرمایا تمہاری اسی نیکی کی وجہ سے تمہیں ہدایت نصیب ہوئی ہے۹؎ پس جو فعل اچھا ہو اُسے اچھا ہی کہنا پڑے گا۔
حاتم طائی گو مسلمان نہ تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی سخاوت کی وجہ سے اس کا اتنا خیال تھا کہ جب ایک دفعہ قیدی آئے تو ان میں ایک عورت بھی تھی اس عورت کے متعلق جب معلوم ہوا کہ وہ حاتم طائی کی بیٹی ہے تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے شرم آتی ہے کہ جو شخص غیروں کے ساتھ اتنا حُسن سلوک کرتا تھا اس کی بیٹی کو قید رکھوں یہ کہہ کر آپ نے اسے آزاد کر دیا۔ حاتم طائی کی بیٹی بھی آپ کی صداقت اور شرافت کی قائل ہو چکی تھے اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ! مجھے بھی شرم آتی ہے کہ میرے باقی ساتھی قید رہیں اور میں رہا ہو جاؤں۔ یہ سُن کر آپ نے باقی قیدیوں کو بھی رہا کرنے کا حکم دے دیا۔۱۰؎ پس حاتم طائی کی نیکی ہی تھی جس کی وجہ سے آپ نے اس کی لڑکی اور اس کی قوم کو رہا کر دیا۔ حکیم بن حزام کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوستی تھی گو ابتداء میں وہ آپ پر ایمان نہ لایا تھا مگر آپ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ حکیم بن حزام جیسا غریبوں سے ہمدردی کرنے والا میں نے نہیں دیکھا۔ آپ کے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے جانے کے بعد وہ ایک دفعہ تجارت کے لئے شام کی طرف گیا تو وہاں اس نے ایک نہایت خوبصورت جبّہ دیکھا، اُسے چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی اور آپ کا اس کے دل میں بڑا احترام تھا اس لئے باوجود کافر ہونے کے اور باوجود کفار کا سردار ہونے کے اس نے وہ جُبّہ آپ کے لئے خرید لیا اور واپس مکہ پہنچا اور پھر مکہ سے اونٹ پر سوار ہو کر آپ کے پاس مدینہ پہنچا اور وہ جُبّہ آپ کی خدمت میں پیش کر کے کہا کہ میں نے جب یہ جُبّہ دیکھا اور مجھے خوبصورت معلوم ہوا تو میں نے سمجھا کہ یہ جُبّہ میرے دوست محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کسی کو نہیں سجے گا۔ مگر آپ نے فرمایا میں کسی مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کر سکتا۔ وہ کہنے لگا میں نے آپ کو یہ جُبّہ پہنچانے کے لئے کتنا لمباسفر اختیار کیا ہے اور میرے یہاں آنے کی سوائے اس کے اورکوئی غرض نہ تھی کہ میں آپ کو یہ جُبّہ پہنچاؤں جو مجھے نہایت خوبصورت نظر آیا تھا۔ آپ نے فرمایا اچھااگر تم یہ جُبّہ مجھے دینا ہی چاہتے ہو تو مجھ سے اس کی قیمت لے لو۔ اس نے کہا میں لایا تو آپ کو مفت دینے کے لئے تھا لیکن اگر آپ مفت نہیں لینا چاہتے اور قیمت ادا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی۔ چنانچہ آپ نے قیمت دے کر وہ جُبّہ اُس سے لے لیا۔ ۱۱؎ حکیم بن حزام کی یہ کتنی دوست پروری تھی کہ وہ شام سے ایک تحفہ آپ کے لئے لایا پہلے مکہ پہنچا اور پھر مکہ سے صرف اس غرض کے ماتحت کہ وہ جُبّہ آپ تک پہنچائے اس نے تین سَو میل کا سفر طے کیا صرف اس وجہ سے کہ یہ جُبّہ میرے دوست محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ہی سجے گا۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ اس فعل کے پیچھے کونسا جذبہ کارفرماتھا۔ اس کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ وہ خدا کے ایک بندے کی خدمت کرنا چاہتا تھاتو یہ بڑے اعلیٰ درجہ کا خُلق ہے لیکن اگر اس کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ میں معزز کہلاؤں تو یہ فعل حسنہ تھا اخلاقِ فاضلہ اس کا نام نہیں رکھ جا سکتا۔
قرآن کریم کہتا ہے خُلقِ فاضل صرف وہی فعل ہو سکتا ہے جس کے پیچھے کوئی طبعی جذبہ نہ ہو، کوئی سیاسی غرض نہ ہو، کوئی اقتصادی مفاد مدنظر نہ ہوں بلکہ صرف خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کوئی کام کیا جائے۔ ایک ماں جب اپنے بچے سے محبت کرتی ہے تو وہ طبعی جذبہ کے ماتحت کرتی ہے اور اپنے بچے سے محبت کرنے کے لئے مجبور ہوتی ہے وہ جب بیمار ہوتا ہے اور اس کا دودھ نہیں پیتا تو وہ ڈاکٹروں، حکیموں اور ویدوں کے پاس ماری ماری پھرتی ہے کہ میرا بچہ کیوں میرا خون نہیں چوستا اور کہتی ہے خدا کے لئے اس کا علاج کرو۔ کیا ہم اس کو اخلاقِ فاضلہ کا نام دے سکتے ہیں ہر گز نہیں وہ عورت مجبور ہوتی ہے اپنی محبت کی وجہ سے اسی لئے وہ چاہتی ہے کہ وہ اس کا خون چوستا رہے۔قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ اخلاقِ فاضلہ اختیار کرنے سے آخر انسان اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ اخلاق اس کے طبعی جذبات کی طرح ہو جاتے ہیں اور وہ اخلاق فاضلہ پر بالکل اسی طرح مجبور ہو جاتا ہے جیسے ماں اپنے بچے کو دودھ دینے کے لئے۔ اور مؤمن کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر اس کے اخلاق فاضلہ کے رستہ میں کوئی رُکاوٹ واقع ہو جائے تو وہ بے چین ہو جاتا ہے جو شخص اس حالت کو پہنچ جائے کہ اخلاق فاضلہ اس کے طبعی جذبات کے ماتحت عمل میں آنے لگ جائیں تو باوجود طبعی ہونے کے اس کی نیکی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اُس وقت یہ کہا جائے گا کہ یہ شخص مجسم اخلاق بن گیا ہے۔ غرض عربوں کے اندر اس قسم کے افعالِ حسنہ کا پایا جانا طبعی جذبات تھے جن کے پیچھے نیکی کا جذبہ نہ تھا بلکہ وہ عزتِ نفس کے لئے ایسا کرتے تھے اور اپنے گردوپیش کے حالات سے مجبور تھے کہ وہ ایسا کریں اور اس قوم کے بعض افراد یا بعض قبائل میں جو عیوب پائے جاتے تھے ان میں نہ کرنے والے بھی شریک تھے کیونکہ وہ ان کے عیوب کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے بلکہ ان کی تعریف کرتے تھے۔ بے شک بعض لوگ خود عفت پسند بھی ہوتے تھے مگر جب ایک شاعر کسی مجلس میں کھڑے ہو کر اپنے شعر سناتا تھا جن میں اس نے یہ بیان کیا ہوتا تھا کہ میں نے فلاں کی عورت کو اغوا کر لیا یا فلاں عورت کے ساتھ میں نے یہ کیا تو چاہے مجلس میں ایک شخص خود عفیف ہوتا تھا وہ شاعر کے فعل کو کھیل سمجھتا تھا اور اس پر حیرت اور استعجاب کا اظہار نہ کرتا تھا بلکہ سن کر مسکرا دیتا تھا۔ اس طرح گو وہ خود ایسے فعل کا ارتکاب نہ کرتا تھامگر پسندیدگی کا اظہار کرکے وہ بھی ایسا کرنے والے کے ساتھ شامل ہو جاتا تھا۔
سید منیر الحصنی صاحب نے جو آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان کی ہے کہ ۱۲؎ مفسرین نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ آپ کے آبا ؤاجداد نیک تھے حالانکہ ایک مشرک کو ہم عفیف تو کہہ سکتے ہیں لیکن اسے ساجد نہیں کہہ سکتے۔ یوں تو زبان کے لحاظ سے ہم بتوں کو سجدہ کرنے والوں کو بھی ساجد کہہ سکتے ہیں لیکن قرآن کریم میں جہاں کہیں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس معنوں میں ہوا ہے کہ موحد، ساجد اور راکع یعنی خدا کو سجدہ کرنے والے۔ پس اس آیت میںساجدین کے یہ معنی نہیں کہ ہم نے تجھے موحد ساجدین میں سے گزارا اگر یہ معنی کئے جائیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد خدا رسیدہ تھے تو یہ صحیح نہیں تاریخ اس کے خلاف ہے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرے والدین مشرک تھے اور ابوطالب جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ محبت تھی جب وہ مرنے لگے تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ بھتیجے! تیری باتیں تو سچی معلوم ہوتی ہیں لیکن بات یہ ہے کہ میں اپنی قوم کو نہیں چھوڑ سکتا۔ پس ایک طرف ساجد کے معنی موحد کے اور دوسری طرف تواریخ اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے دادا پڑدادا موحد نہیں تھے اس لئے وہ معنی جو مفسرین کی طرف سے کئے جاتے ہیں صحیح نہیں۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے میں یہ فرمایا ہے کہ اے محمد( ﷺ) تیرے گردوپیش سب موحد ہی موحد ہیں اور تُو موحدین میں پھرتا ہے اور یہ ہمارا کتنا بڑا احسان ہے کہ مکہ جیسی شرک کی سرزمین میں ہم نے موحد ہی موحد پیدا کر دیئے ہیں اور ان لوگوں کو توحید پر عامل کر دیا ہے جو ایک نہیں دو نہیں سینکڑوں بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ تُو دائیں جاتا ہے تو تجھے موحد نظر آتے ہیں، تُو بائیں جاتا ہے تو تجھے موحدملتے ہیں، تُو اِدھر جاتا ہے تو تجھے موحد ملتے ہیں اور تو اُدھر جاتا ہے تو تجھے موحد ملتے ہیں۔ غرض تُو جس طرف بھی جاتا ہے تجھے موحد نظر آتے ہیں اور مکہ جیسی شرک کی بستی میں ہم نے تیرے ساتھ موحدین پیدا کر دیئے ہیں۔ تَقَلُّب کے معنی ہیں اِدھر جانا اور اُدھر جانا۔ آپ جب خود اپنے والدین کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ مشرک تھے اور گو وہ رواجاً شرک کرتے تھے مگر کرتے ضرور تھے پھر یہ کہنا کہ آپ کے والدین موحد تھے یہ ایک ایسی بات ہے جس کے متعلق کوئی ضعیف سے ضعیف روایت بھی نہیں ملتی نہ قرآن کریم سے نہ حدیثوں سے اور نہ تاریخ سے۔ پس تَقَلُّب کا مفہوم یہ نہیں تھا جو عوام نے سمجھ لیا ہے بلکہ یہ لفظ صحابہؓ کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔بعض انبیاء کی بیویاں ان پر ایمان نہ لائی تھیں، بعض کی اولاد نے ان کی نبوت کا انکار کر دیا تھا۔ حضرت لوطؑ کی بیوی آخر تک ایمان نہ لائی تھی گو بیویوں یا اولاد کے انکار سے نبی کی شان میں تو فرق نہیں آتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں تھیں تو خدا تعالیٰ کے دین پر فدا، آپ کی اولاد تھی تو وہ دین پر قربان، آپ کے ساتھی تھے تو وہ اسلام کے سچے عاشق، یہاں تک کہ سب تعلق والوں کو اللہ تعالیٰ نے ساجد بنا دیا اور یہ ایسی بات ہے کہ اور کسی نبی کو نصیب نہیں ہوئی۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تُو جہاں کہیں جاتا ہے موحدین اور ساجدین میں پھرتا ہے، تیرے گھر میں توحید، تیرے دوستوں میں توحید اور تُو جدھر جاتا ہے تو حید کا بیج بویا جاتا ہے اور تُو نے ہزاروں مشرکیں کو ساجدین بنا دیا ہے۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایک نیکی ہوتی ہے بِالفعل اور ایک بِالقوۃ ۔ جہاں تک قابلیت اور ترقی کا سوال ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی بعثت سے قبل بِالفعل ان میں کوئی قابلیت اور ترقی نہیں تھی مگر جہاں تک بالقوۃ قابلیت اور ترقی کا سوال ہے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اہل عرب میں یہ قابلیت اور ترقی پائی جاتی تھی بلکہ اس حدتک پائی جاتی تھی کہ دنیا کی کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی اور یہ بات اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی تدبیر کے عین مطابق ہے اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۱۳؎ پس اللہ تعالیٰ بھی تدبیریں کرتا ہے جو اس کی حکمت پر مبنی ہوتی ہیں اوریہ بھی اس کی تدبیر ہی تھی کہ اس نے اپنا پیغام دنیا تک پہنچانے کے لئے عربوں میں اتنی قابلیت رکھ دی تھی کہ وہ اس بوجھ کو اُٹھا سکتے۔ایک عقلمند انسان کسی بچہ پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتا جو اُس کی طاقت سے بالا ہو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے انسان پر اپنا پیغام پہنچانے کا بوجھ ڈال دے جو اس کام کی اہلیت نہ رکھتا ہو یا وہ اپنے نبی کو کسی ایسی قوم میں بھیج دے جس میں ترقی کی قابلیت بالقوہ بھی نہ پائی جاتی ہو۔ بے شک عربوں کے اندر اخلاق فاضلہ نہ تھے لیکن اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان میں افعال حسنہ ضرور تھے جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ عربوں کے اندر اتنی قابلیت تھی یا نہ تھی کہ وہ اعلیٰ ترقیات کو حاصل کر سکیں ہم کہیں گے کہ اگر ان میں اعلیٰ قابلیت نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قوم کے اندر کیوں بھیجتا۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے اس مقام پر کھڑا کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہترین انسان تھے جو اس عظیم الشان بوجھ کو اُٹھا سکتے اور عربوں کو اس لئے چنا کہ عرب ہی دنیا میں وہ بہترین قوم تھے جو اعلیٰ ترقیات حاصل کر سکتے تھے۔بے شک ابوبکرؓ اسلام سے پیشتر صرف ابوبکر تھے لیکن ان کے اندر بِالقوۃ نیکی موجود تھی اللہ تعالیٰ نے عربوں کو چُنا ہی اس لئے تھا کہ ان میں قابلیت پائی جاتی تھی۔
کسی کا یہ کہنا کہ عرب اسلام سے پیشتر اسلام کی تعلیم پر کیوں نہ عمل کرتے تھے یہ محض حماقت ہوگی۔ اگرکوئی شخص یہ کہے کہ قابل تو رومی بھی تھے، ایرانی بھی تھے یا ہندوستانی بھی تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر رومی قابل ہوتے تو اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اندر بھیجتا، اگر ایرانی قابل ہوتے تو اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اندر مبعوث فرماتا، اگر ہندوستانی قابل ہوتے تو اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اندر بھیجتا اور اگر افریقی اِس قابل ہوتے تو اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے اندر بھیجتا لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو نہ رومیوں میں بھیجتاہے، نہ ایرانیوں میں اور نہ ہندوستانیوں میں بھیجتا ہے اور نہ افریقیوں میں بلکہ اللہ تعالیٰ آپ کو عربوں میں بھیجتا ہے کیا اللہ تعالیٰ اپنے دین کو تباہ کرنا چاہتا تھا کہ اس نے آپ کو عربوں میں مبعوث فرمادیا؟ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عربوں میں بھیجا ہی اس لئے تھا کہ وہ جانتا تھا کہ اِس وقت عرب ہی ایک ایسی قوم ہے جو دنیا کی ساری قوموں سے بڑھ کر اپنے اندر قابلیت رکھتی ہے اوراس میں شک وشبہ کی ذرہ بھر گنجائش نہیں ہو سکتی کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسے انسان تھے جو اس بوجھ کو اُٹھا سکتے تھے۔ اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ عرب ہی ایک ایسی قوم تھی جو مستحق تھی اس بات کی کہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجتا اور ان کو فضیلت اسی بات میں ہے کہ ان کے اندر بِالقوہ نیکی پائی جاتی تھی۔ بِالقوہ اسے کہتے ہیں جو کسی کی ذاتی استعداد ہو اور بِالفعل وہ خوبی ہوتی ہے جو ظاہر ہو رہی ہو۔ پس جہاں تک ذاتی استعداد کا سوال ہے اگر کوئی کہے کہ ذاتی استعداد عربوں کے سوا اور قوموں میں بھی تھی تو یہ بالکل غلط بات ہوگی۔کوئی شخص کہہ دے کہ اگر اسلام ایرانیوں میں جاتا یا رومیوں میں جاتا تو اور بھی ترقیات حاصل کرتا تو یہ بھی قلتِ تدبر کا نتیجہ ہو گا خدا تعالیٰ نے عربوں کو چنا ہی اس لئے تھا کہ وہ دین الٰہی کو انتہائی بلندی پر پہنچا سکتے تھے۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی عرب میں پیدائش اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے ماتحت تھی خدا تعالیٰ نے اچھی طرح اس بات کو دیکھ لیا تھا کہ عرب ہی دنیا میں ایک ایسی قوم ہے جو اس بوجھ کے اُٹھانے کے قابل ہے ورنہ خدا تعالیٰ کو یہ بھی طاقت تھی کہ آپ کو ایران یا روم یا ہندوستان یا افریقہ میں پیدا فرماتا۔ پس جہاں تک اُس زمانہ میں بِالقوہ نیکی کا سوال ہے اگر کوئی کہے کہ عربوں سے بڑھ کر کسی اور قوم میںبِالقوۃ موجود تھی تو یہ بالکل غلط بات ہے۔ اسی طرح اِس زمانہ میں سب سے بڑھ کر قربانی کرنے کا مادہ پنجاب کے لوگوں میں پایا جاتا ہے بعض بنگالی کہہ دیتے ہیں آپ پنجابیوں کو کیوں افضل قرار دیتے ہیں؟ تو میں کہتا ہوں یہ تمہاری قلت تدبر کا نتیجہ ہے جو شخص اس پر اعتراض کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پنجاب میں مبعوث فرما کر یہ بتادیا کہ جو استعداد اورقربانی کا مادہ پنجابیوں کے اندر ہے وہ کسی اور علاقہ کے لوگوں میں نہیں پس اگر کوئی شخض یہ کہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت بنگال یا پشاور یا دکن میں ہونی چاہئے تھی تو یہ اُس کی حماقت ہوگی اللہ تعالیٰ ہی سب سے بہتر انتخاب کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے جس کو فرسٹ(FIRST) قرار دینا تھا دے دیا اور اس کی نظر نے دیکھ لیا کہ اس وقت پنجاب ہی اِس قابل ہے کہ اس میں مَیں اپنا مامور بھیجوں۔ وہ اچھی طرح اس بات کو جانتا تھا کہ ان کے اندر چھپی ہوئی فضیلت ہے اوران میں بِالقوۃ ترقی کی قابلیت موجود ہے۔
پس جہاں تک اخلاقِ فاضلہ کا تعلق ہے بے شک عربوں میں اسلام سے پہلے نہ تھے لیکن ان کے اندر بِالقوہ نیکی کی استعداد موجود تھی اور ان میں بعض چھپی ہوئی خوبیاں پائی جاتی تھیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض زمینیں بظاہر یکساں نظر آتی ہیں لیکن ایک زمین ایسی ہوتی ہے کہ اگر اس پر شبنم بھی پڑ جائے تو وہ غلّہ اُگاتی ہے اور دوسری ایسی ہوتی ہے کہ اگر اس پر متعدد دفعہ بارشیں بھی ہوتی رہیں تو اس میں روئیدگی کی طاقت نہیں آتی۔
پس اللہ تعالیٰ نے عربوں کو اس لئے اپنے دین کیلئے چنا کہ ان میں اس بوجھ کے برداشت کرنے کے لئے قوت موجود تھی اور وہ جانتا تھا کہ جب اس قوم پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چھینٹا پڑے گا ان میں روئیدگی کی وہ طاقت پیدا ہو جائے گی جو کسی اور قوم میں نہیں ہو سکتی۔ پس عربوں کی اس فضیلت کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔اور انکار کرنے کے یہ معنی ہوں گے کہ جان بوجھ کر انکار کیا جارہا ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی جولاہا فوج میں بھرتی ہوگیا جب وہ میدانِ جنگ میں پہنچا تو تیر لگنے سے زخمی ہوگیا اور اُس کا خون بہنے لگا۔ وہ خون کو دیکھتا اور بھاگتا جاتا اور کہتا جاتا یا اللہ! ایہہ خواب ہی ہووے۔ یا اللہ! ایہہ خواب ہی ہووے۔ پس عربوں کی فضیلت کا انکار کرنا اس جولا ہے کی پیروی کے مترادف ہوگا۔ عربوں نے اس طرح اسلام کو قبول کیا اور پھر ساری دنیا میں پھیلایا کہ دنیا حیران رہ گئی اور وہ ایک قلیل عرصہ میں دنیا کے معتدبہ حصہ پر اسلام پھیلانے کا موجب ہوئے۔پس عربوں کا بِالقوہ نیکی کا انکار کوئی اندھا ہی کرے تو کر سکتا ہے لیکن عقل اور دماغ رکھنے والا انسان کبھی اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ عربوں کے اندر جو بِالقوہ نیکی موجود تھی وہ اور کسی قوم کے اندر نہ تھی۔
(الفضل ۳،۵،۷،۸،۹،۱۲؍ستمبر ۱۹۶۱ء)
۱؎ الروم: ۴۲
۲؎ داکھ: انگور کی ایک قسم
۳؎ عِنَب: انگور
۴؎ المنجد صفحہ۵۱۸،۵۱۹ مطبوعہ کراچی ۱۹۷۵ء
۵؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ
۶؎ البلد: ۷ ۷؎ البلد: ۷،۸
۸؎ طبقات ابن سعد جلد۱ صفحہ۲۱۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء
۹؎ بخاری کتاب العتق۔ باب عتق الشرک
۱۰؎
۱۱؎ مسند احمد بن حنبل جلد۳ صفحہ۴۰۲،۴۰۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۱۲؎ الشعراء: ۲۲۰ ۱۳؎ اٰل عمران: ۵۵
خوف اور امید کا درمیانی راستہ
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خوف اور امید کا درمیانی راستہ
(فرمودہ ۲۹؍مئی ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب)
ان ایام میںمسلمان ایک نہایت ہی نازک دَور میں سے گزررہے ہیں اور ان کے اندر موجودہ حالات کی نزاکت کا اتنا احساس نہیں پایا جاتا جتنا کہ پایا جانا چاہئے۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مؤمن خوف اور رجاء کے درمیان درمیان ہوتا ہے نہ تو اس پر خوف ہی غالب آتا ہے اور نہ اس پر امید غالب آتی ہے بلکہ یہ دونوں حالتیں اس کے اندر بہ یک وقت پائی جانی ضروری ہیں جہاں اس کے اندر خوف کا پایا جانا ضروری ہے وہاں اس کے اندر امید کا پایا جانا بھی ضروری ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ نہ تو وہ خوف کی حدود کو پار کر جائے اور نہ امید کی حدود سے تجاوز کر جائے اور یہی وہ اصل مقام ہے جو ایمان کی علامت ہے یا خوش بختی کی علامت ہے اور اس میںمؤمن ہونے کی بھی شرط نہیں اگر کوئی مسلمان نہ بھی ہو اور وہ اس اصل پر عمل کرے اور وہ خوف و رجاء کے درمیانی راستہ پر قدم زن ہو تو یہ اس کی خوش بختی کی علامت ہوگی ورنہ وہ تباہی کا منہ دیکھے گا۔ یہی خوف و رجاء کے الفاظ جو قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں بعینہٖ اسی قسم کے اور انہی معنوں میں انگریزی دان مدبرین نے بھی الفاظ چنے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ وہی انسان اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتا ہے جو نہ OPTIMIST ہو یعنی ہر چیز کو امید کی نگاہ سے دیکھنے والا ہو اور نہ PESSIMIST یعنی ہر چیز میں ناامیدی کا پہلو نکالنے والا ہو بلکہ ان دونوں کے درمیانی راستہ پر چلے۔ اگر وہ ہر چیز کا روشن پہلو دیکھتا رہے گا اور بُرے پہلو کو نظر انداز کر دے گا تو وہ بھی ناکامی کا منہ دیکھے گا اور اگر وہ کُلّیطور پر نا امیدی کا پہلو دیکھتا رہے گا اور امیدکے پہلو کو نظر انداز کر دے تو بھی اس کی یہ حالت نقصان دِہ ہوگی صرف وہی شخص کامیاب ہو سکتا ہے جو ان دونوں کا درمیانی راستہ اختیار کرے یہی تعریف قرآن کریم میں بھی مؤمن کی بیان ہوئی ہے کہ نہ تو وہ کُلّی طور پر خوف کی طرف اور نہ ہی کُلّی طور پر رجاء کی طرف جھک جاتا ہے بلکہ ان دونوں حالتوں کو اپنے اندر رکھتے ہوئے درمیانی راہ اختیار کرتا ہے۔
ان ایام میں ہم دیکھتے ہیں کہ چاہے مسلمان پنجاب اور بنگال میں اکثریت رکھتے ہیں مگر جب کبھی حقوق کا سوال اُٹھتا ہے یورپین قومیں دشمن کے حق میں اور ان کے خلاف رائے رکھتی ہیں اور انگلستان اور امریکہ وغیرہ سے بھی جوآواز اٹھتی ہے وہ عام طور پر مسلمانوں کے خلاف ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ انگلستان کے وہ اخبارات جو پہلے مسلمانوں کی تائید کیا کرتے تھے انہوں نے بھی اب تائید کرنی چھوڑ دی ہے اور پھر تائید میں لکھنا تو الگ بات ہے انصاف کا تقاضا تو یہ تھاکہ گزشتہ فسادات کے دوران میں جب دشمن کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف غلط پروپیگنڈا کیا جارہا تھا اُن کا جواب دیتے لیکن جواب دینا تو درکنار جب کبھی ایسا مضمون نکلتا اور مسلمانوں کی طرف سے اس کا جواب بھیجا جاتا تو وہ اخبار اسے شائع نہیں کرتے رہے۔ گزشتہ ایام میں میں نے انگلستان میں اپنے مبلغین کو لکھا کہ تم لوگ وہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو اور تم کیوں مسلمانوں کی حمایت میں مضمون نہیں لکھتے یا ہندوؤں کے غلط پروپیگنڈا کی تردید نہیں کرتے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو سب کچھ کرتے ہیں اور مضامین بھی لکھتے ہیں لیکن یہاں کے اخبارات ہمارے مضامین چھاپتے نہیں۔ پس عام طور پر انگلستان کے اخبارات مسلمانوں کے خلاف اور ہندوؤں کے حق میں مضامین چھاپتے رہتے ہیں اور ہمیشہ انہی کی تائید کرتے ہیں سوائے اس کے کہ کسی بڑے افسر نے تائید میں کوئی مضمون لکھا تو اسے چھاپ دیا مگر شاذونادرہی ایسا ہوتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اِس وقت انگلستان کے لوگوں کے مد نظر کوئی مصلحت ہے یا حکومت کی طرف سے انہیں ایسا کرنے کے لئے کوئی اشارہ ہے بہر حال وہ جو آواز اُٹھاتے ہیں مسلمانوں کے خلاف اُٹھاتے ہیں۔ وہ لوگ چونکہ سیاسی ہیں اس لئے وہ اپنی حکومت سے حتیّٰ الوسع تعاون کرتے ہیں یہاں کے اخباروں والے توچونکہ سمجھتے ہیں کہ حکومت غیر ملکی ہے اس لئے اگر حکومت کے منشاء کے خلاف بھی کوئی قدم اُٹھایا تو کوئی بُری بات نہیں ہے مگر وہاں کی حکومت چونکہ غیر ملکی نہیں بلکہ ان کی اپنی ہے اس لئے وہ سیاست کے ماتحت حکومت کے ساتھ حتیّٰ الامکان تعاون سے کام لیتے ہیں۔ چنانچہ جب میں ولایت گیا تو ہمارے وہاں جانے پر تمام انگریزی اخبارات نے بڑے لمبے چوڑے مضامین لکھے اور قریباً تمام اخبارات نے ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ گویا وہ ہمیں خوش کرنا چاہتے تھے۔ ابھی میں وہاں ہی تھا کہ مجھے خبر پہنچی کہ امان اللہ خاں والی ٔکابل نے ہمارے مبلغ مولوی نعمت اللہ صاحب کو سنگسار کر دیا ہے ہم نے وہاں جلسہ کیا اور بڑے ریزولیوشن پاس کئے اوراخبارات کو بھجوائے لیکن ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہی اخبارات جنہوں نے ہمارے جانے پر بڑے لمبے چوڑے مضامین لکھے تھے اور کئی دن تک صفحوں کے صفحے سیاہ کرتے رہے انہوں نے سوائے اِس کے کہ اپنے اخباروں کے کسی گوشے میں اس خبر کو جگہ دے دی نمایاں طور پر کسی نے بھی شائع نہ کیا۔ ہمیں اس بات پر سخت تعجب ہوا اور ہم نے مختلف اخبار والوں کے پاس اپنا آدمی بھیجا تو انہوں نے آگے سے یہ بہانہ کر کے ٹال دیا کہ چونکہ آجکل سیاسی معاملات بہت زیادہ ہیںاور ہمیں ان پر مضامین شائع کرنے پڑتے ہیں اور چونکہ پبلک کو ان سیاسی مسائل سے زیادہ دلچسپی ہے اس لئے افسوس ہے کہ ہم اس خبر کو نمایا ں طور پر شائع نہیں کر سکے مگر ایک دو اخبارات ایسے بھی تھے جن کا تعلق ہمارے ساتھ دوستانہ تھا انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہمیں تو گورنمنٹ کی طرف سے اِس قسم کا اشارہ پہنچا ہے کہ یہ خبر شائع نہ کی جائے کیونکہ اس طرح افغانستان کی حکومت سے ہمارے تعلقات خراب ہو جائیں گے ہم یہ تو جانتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں لیکن ملکی حکومت کے ساتھ تعاون کرنابھی ضروری ہوتا ہے اس لئے ہم ایسا کرنے پر مجبور تھے۔ پس یہ بھی ممکن ہے کہ انگلستان کی حکومت نے ہی وہاں کے اخبارات کو مسلمانوں کے خلاف اور ہندوؤں کے حق میں آواز اُٹھانے کے لئے اشارہ کر دیا ہو۔ بہر حال اِس وقت انگلستان والوں کی رائے عامہ مسلمانوں کے خلاف ہے امریکہ جو پہلے ہندوؤں کی بہت زیادہ تائید کیا کرتا تھا بلکہ مسلمانوں کے حقوق کے متعلق کچھ کہنا سننا بھی گوارا نہ کرتا تھا اب اس کے اندر تھوڑی بہت تبدیلی ہو رہی ہے اور اب جو مضامین وہاں کے اخبارات میں چھپتے ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ گو وہ مسلمانوں کے حق اور تائید میں آواز نہیں اُٹھاتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس نے پہلے جیسی مخالفت چھوڑ دی ہے۔ اِدھر ہندوستان کے اندر انگریز افسر عام طور پر ہندوؤں اور سکھوں کی تائید کرتے ہیں مسلمانوں کی نہیں کرتے۔ جہاں تک زیادتی اور ظلم کا سوال ہے اس کا دونوں قوموں نے ارتکاب کیا ہے کسی جگہ ہندوؤں نے اور کسی جگہ مسلمانوں نے جن جن جگہوں میں مسلمانوں نے ظلم کیا ہے ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے ظلم کیا ہے ہم بُرے فعل کو ضرور بُرا کہیں گے مگر ہم ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ جہاں مسلمانوں پر ظلم ہوا ہے اس کے خلاف بھی آواز اُٹھنی چاہئے نہ کہ اسی ظلم کے خلاف جو مسلمانوں نے کیا ہے۔ لاہور اور امرتسر میں جو فسادات ہوئے ہیں ان میں ہندوؤں نے مسلمانوں پر ظلم کیاہے اور ہندوؤں نے ہی فسادات کی ابتداء بھی کی ہے۔ بے شک راولپنڈی اور ملتان وغیرہ میں مسلمانوں نے بھی ظلم کیا اور اگر انہوں نے ظلم کیا ہے تو ہماری جماعت یہ نہیں کہے گی کہ وہاں مسلمانوں نے ظلم نہیں کیا لیکن ہم یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ جہاں ہر وقت یہ شور مچایا جارہا ہے کہ راولپنڈی اور ملتان میں مسلمانوں نے ظلم کیا وہاں یہ آواز بھی تو اُٹھنی چاہئے کہ لاہور اور امرتسر میں ہندوؤں نے ظلم کیا۔ امرتسر کے اندر مسلمان اقلیت میں ہیں اور ہندوؤں نے جی بھر کر ان پر مظالم توڑے ہیں اس میں شبہ نہیں کہ وہاں ہندوؤں کے مکانات بھی جلے ہیں اور ان کو نقصان پہنچا ہے لیکن ابتداء ہندوؤں ہی کی طرف سے ہوئی اور یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ایک کا مکان جلے اور وہ دوسرے کا مکان نہ جلائے۔ جب ہندوؤں نے ظلم کرنے میں پہل کی تھی تو مسلمانوں میں جوش کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا ہاں ملتان والوں کا یہ حق نہ تھا کہ وہ امرتسر کابدلہ وہاں کے ہندوؤں سے لیتے۔ ان کو چاہئے تھا کہ وہ جتھے بنا کر امرتسر پہنچتے اور ظالموں کا مقابلہ کرتے۔ اسی طرح راولپنڈی والوں کا یہ حق نہ تھا کہ وہ امرتسر کا بدلہ وہاں کے ہندوؤں سے لیتے بلکہ ان کا حق یہ تھا کہ وہ جتھا درجتھا امرتسر میں پہنچ جاتے اور اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کرتے۔ جہاں تک امرتسر کے نقصانات کا سوال ہے اس میں شبہ نہیں کہ وہاں کے ہندوؤں کو بھی نقصان پہنچا ہے لیکن ہندوؤں نے بلیک مارکیٹ میں سے اربوں روپیہ کمایا ہواتھا اگر ان کا دس کروڑ کا نقصان بھی ہوگیا تو کیا ہوا ایک فی صدی نقصان کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا مگر دوسری طرف امرتسر کے مسلمان بالکل تباہ ہوگئے ہیں ان کی ساری کی ساری جائدادیں فسادات کی نذر ہو گئی ہیں اور وہ نانِ شبینہ کے بھی محتاج ہو چکے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی تائید میں کوئی آواز نہیں اُٹھتی۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں طرف کو یکساں دیکھا جائے جہاں راولپنڈی اور ملتان کے ظلم کو دیکھا جائے وہاں لاہور اور امرتسر کے ظلم کو بھی دیکھا جائے، لاہور اور امرتسر کے مسلمانوں نے جو دفاعی اقدام کیا وہ حالات سے مجبور ہو کر کیا اور جب حالات اس قسم کے ہو جاتے ہیں تو یہ بات کسی کے اپنے بس میں نہیں رہتی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک چیز کو تو انتہائی طور پر اُبھارا جا رہا ہے لیکن دوسری کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ خاص طور پر رعایت سے کام لیا جارہا ہے۔ جو اُٹھتا ہے وہ کہتا ہے نواکھلی کے مظالم کو دیکھو، راولپنڈی اور ملتان کے مظالم کو دیکھومگر یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ بمبئی، بہار، گڑھ مکتیسر، احمد آباد، امرتسر اور لاہور کے مظالم کو بھی دیکھو۔ تمام اخبارات راولپنڈی اور ملتان کا ذکر الاپتے ہیں مگر انصاف کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ اس طرف کا ذکر نہیں کرتے جس سے ان کے اپنے گھر پرزد پڑتی ہے۔ کانگرس کے اخبارات تو ایسا کریں گے ہی کیونکہ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں لیکن دوسرے اخبارات کا بھی یہی وطیرہ ہے یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جو مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں اور وہ مسلمانوں کو اِس خطرہ اور مصیبت سے آگاہ کر رہی ہیں جو ان پر آنے والا ہے مگر مسلمان ہیں کہ خواب خرگوش سے بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ زمانہ ان کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگا رہا ہے لیکن وہ جاگنے کا نام نہیں لیتے، مصائب کے سیاہ بادل اُمڈے چلے آتے ہیں لیکن مسلمان اپنی آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں، مخالفت کے طوفان ان کے سفینے پر بار بار تباہ کر دینے والی لہریں اُچھالتے ہیں لیکن وہ ابھی تک یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ یہ سب کچھ خواب ہے اور باقی تمام باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ دعوے پر دعوے کرتے چلے جاتے ہیں کہ ہم ایک ایک انچ کے لئے یوں کر دیں گے اورہم یہ کر کے دکھا دیںگے لیکن ان کا عملی پہلو اتنا کمزور ہے کہ اس کو دیکھ کر کوئی عقلمند ان کے دعوؤں کو لفاظی سے زیادہ وقعت نہیں دے سکتا۔ جہاں وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ایک ایک انچ کے لئے اپنی جانیں لڑا دیں گے وہاں وہ یہ بھی شور مچاتے ہیں کہ فلاں D.S.Pیا S.Pیا فلاں تھانیدار کو بدل دیا جائے۔ گویا ایک طرف تو ان کے دعوسے اتنے بلند ہیں کہ سننے والا یہ اندازہ لگاتا ہے کہ شاید یہی لوگ اپنے علاقہ کے کرتا دھرتا ہیں اور دوسری طرف وہ تھانیداروں کی تبدیلی کے لئے شور مچاتے ہیں۔ وہ اپنے دعوؤں کی کامیابی کی ایک جھوٹی امید لگائے بیٹھے ہیں اور جب انہیں سمجھایا جاتا ہے کہ اِس وقت مسلمانوں کو سخت خطرہ درپیش ہے تو کہیں گے نہ نہ نہ اِس بات کا نام نہ لینا ورنہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور ان کی دلیری جاتی رہے گی۔
میں نے ایک مسلمان لیڈر کو کہا کہ آپ مسلمانوں کو سمجھائیں کہ کسی قسم کی زیادتی نہ کریں بلکہ وہ جہاں تک ہو سکے مظلوم بننے کی کوشش کریں تا کہ دنیا کی آواز ان کے حق میں اُٹھے لیکن انہوں نے کہا نہ نہ یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر مسلمان زیادہ مارے گئے تو باقی لوگ ہمت ہار جائیں گے۔ غرض میری اس نصیحت کے جواب میں کہ کچھ دن مرو اور صبر کر و تاکہ ساری دنیا تمہاری تائید کرے انہوں نے مجبوری ظاہر کی کہ اس طرح کرنے سے مسلمانوں کے دل بیٹھ جائیں گے۔ یہ سب باتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ مسلمانوں نے ابھی تک حقیقی تیاری نہیں کی اگر انہوں نے کوئی تیاری کی ہوتی تو ان کے اندر قربانی کے جذبات ہوتے اور اعلیٰ درجہ کی تنظیم ہوتی۔ مثلاً امرتسر میں جب ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا تھا تو ان بے چاروں کو سوائے اس کے اور کوئی صورت نظر نہ آئی کہ وہ حملے کا جواب دیتے اور یہ ان کا حق بھی تھا مگر سوال تو یہ ہے کہ باقی پنجاب کے مسلمانوں نے کیا تیاری کی۔ ان کے لئے یہ بات ہرگز جائز نہ تھی کہ وہ امرتسر کا بدلہ راولپنڈی یا ملتان کے ہندوؤں سے لیتے۔ ظلم کرنے والے تو امرتسر میں بیٹھے تھے راولپنڈی یا ملتان کے ہندوؤں کا اس میں کیا حصہ تھا ان کا یہ فعل سراسر ظلم ہے اور شریعت اسلام نے کسی صورت میں بھی اس کو جائز قرار نہیں دیا۔ تیاری کا مطلب تو یہ تھا کہ وہ امرتسر کے مصیبت زدگان کی امداد کرتے ان کا ایک کروڑ کے قریب نقصان ہوا تھا مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ لوگوں میں چندہ کی تحریک کرتے اور ایک کروڑ نہ سہی کم از کم پچیس لاکھ روپیہ جمع کر کے ان کو وقتی گزارہ کے لئے دے دیا جاتا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو ان کے حوصلے بلند ہو جاتے اور ان کو دلیری ہوتی کہ ہمارے بھی بھائی ہیں اور ہمارے بھی خیر خواہ موجود ہیں جو ہم پر مصیبت آنے کے وقت ہماری امداد کر سکتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ اس کام کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی نہ ہی ان کے لئے چندہ جمع کرنے کے لئے کوئی جدوجہد کی گئی ہے۔ بروقت امداد ایک ایسی چیز ہے جو ایک طرف حوصلے کو بلند کرتی ہے اور دوسری طرف محبت کے جذبات کو اُبھارتی ہے۔
میں نے کئی دفعہ ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ عرب کی مشہور شاعرہ خنساء کے باپ نے اُس کی شادی ایک رئیس کے لڑکے سے کر دی۔ وہ لڑکا نہایت عیاش تھا اور اس کے اندر ہر قسم کے بُرے افعال کی عادات پائی جاتی تھیں۔چنانچہ اس لڑکے نے شراب اور جوئے میں اپنے باپ کی ساری جائیداد تباہ کر دی اور جو کچھ بیوی کا مال و اسباب تھا وہ بھی اُڑا دیا اور آخر جب وہ سب کچھ پھونک چکا تو ایک دن نہایت افسردہ ہو کر بیٹھا ہوا تھا کہ بیوی نے پوچھا کیا بات ہے تم اتنے دلگیر کیوں ہو؟ اس نے کہا بات یہ ہے کہ میں سب جائداد تباہ کر چکا ہوں اور اِس وقت ہمارے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ بیوی نے اسے تسلی دی اور کہا یہ کوئی مایوسی کی بات نہیں میرا بھائی بڑا امیر کبیر ہے اور جب تک وہ زندہ ہے مجھے اُس کی امداد پر پورا بھروسہ ہے اس کی موجودگی میں ہم کیوں اتنا غم کریں۔ چلو اُس کے پاس چلتے ہیں وہ ہماری اس حالت کو دیکھ کر ضرور ہماری امداد کرے گا۔ چنانچہ وہ اسے ساتھ لے کر اپنے بھائی کے پاس گئی اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے بہنوئی کو کسی قسم کی ملامت کرتا کہ تم نے اپنی جائداد کو تباہ کر دیا ہے یا تم نالائق ہو اُس نے بڑی شان وشوکت کے ساتھ اُن کا استقبال کیا اور اپنے دوستوں اور بڑے بڑے رؤساء کو اپنی بہن اور بہنوئی کی آمد کی خوشی میں دعوتیں دی اور متواتر چالیس دن تک دعوتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ چالیس دن کے بعد اس نے چند رؤساء کو بلایا اور کہا دیکھو! میری بہن اِس وقت غربت کی حالت میں ہے اس لئے میری جائداد میں اس کا حق ہے (حالانکہ باپ کی جائداد سے وہ اپنا الگ حصہ لے چکی تھی ) اس لئے آپ انصاف کے ساتھ میری جائداد کو آدھا آدھا تقسیم کردیں آدھا مجھے دے دیں اور آدھا میری بہن کو دے دیں کیونکہ یہ بات انصاف کے خلاف ہے کہ میری بہن غریب ہو جائے اور اس کی مدد نہ کروں۔ اُس زمانہ میں روپے تو ہوتے نہ تھے بھیڑیں بکریاں اونٹنیاں ہوتی تھیں یا تھوڑا بہت سونا چاندی ہوتا تھا اور ایک ایک امیر آدمی کے پاس سینکڑوں اور ہزاروں جانور ہوتے تھے۔ رؤساء نے اس کے مال کا اندازہ لگا کر اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور بہن اپنا آدھا حصہ لے کر اپنے خاوند کے ساتھ واپس گھر آئی۔ کچھ دنوں تک تو اُس کا خاوند بدعادات سے رُکا رہا لیکن بدعادتیں پھر عَود آئیں اور اس نے پھر وہی شراب اور جُوئے کا شُغل شروع کر دیا چنانچہ وہ مال جو اس کی بیوی اپنے بھائی سے لائی تھی چند دنوں میں ختم ہوگیا اور پھر وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہوگیا ایک دن پھر اسی طرح وہ مغموم شکل بنا ئے بیٹھا تھا کہ بیوی نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگا سارا مال ختم ہو گیا ہے اب کیسے گذر ہو گی۔ خنساء نے کہا جب تک میرا بھائی زندہ ہے تمہیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں وہ پھر اسے ساتھ لیکر اپنے بھائی کے پاس پہنچی اور بھائی نے اِس دفعہ پہلے کی نسبت بھی زیادہ شاندار ستقبال کیا اور زیادہ شاندار دعوتیں کیں اور چالیس دن دعوتیں کرنے کے بعد اس نے رؤساء کو بلایا اور کہا میری دولت کو ہم دونوں بھائی بہن میں برابر برابر تقسیم کردو۔ وہ پھر آدھی دولت بھائی سے لیکر اپنے خاوند کے ساتھ گھر واپس آئی کچھ عرصہ تک تو خاوند نے شراب اور جُوئے سے پرہیز کیا۔ لیکن شراب اور جُوئے کی لت ایسی بُری ہوتی ہے کہ اس سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہوتا ہے چنانچہ اُس نے پھر وہی کام شروع کر دئیے اور اس دولت کو بھی اُڑا دیا۔ اس دفعہ اس کے دل میں سخت ندامت پیدا ہوئی کہ اب تو میں خودکشی کر لوں گا لیکن کچھ مانگنے کے لئے نہیں جاؤں گا۔ خنساء کو جب اپنے خاوند کا یہ ارادہ معلوم ہوا تو اس نے کہا میرا بھائی زندہ ہے تو تمہیں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس نے کہا کہ اب مجھے تمہارے بھائی کے پاس جاتے شرم محسوس ہوتی ہے مگر وہ اسے مجبور کر کے پھر اپنے بھائی کے پاس لے گئی اور بھائی نے پہلے سے بھی زیادہ شاندار استقبال کیا اور کوئی کسر اُن کی خدمت میں اُٹھا نہ رکھی۔ اس نے چالیس دن کے بعد پھر رؤساء کو بلایا اور کہا میری بہن پر پھر غربت کی حالت ہے اس لئے میری جائداد کو تقسیم کر کے نصف اسے دے دو۔ اس دفعہ اس کی بیوی جو یہ بات سن رہی تھے اس نے اُسے اندر بلایا اور کہا کچھ خدا کا خوف کرو آخر تمہارے بھی بیوی بچے ہیں ان کا کیا بنے گا وہ تو جواری اور شرابی ہے کیا تم اسی طرح اپنی تمام دولت لُٹا دو گے؟ خاوند نے کہا تم خاموش رہو میں اگر مر گیا تو تم اور خاوند کر لوگی لیکن میری بہن ہی ہے جو مجھے ساری عمر روئے گی۔ غرض بھائی نے پھر اپنی آدھی دولت بہن کو دے کر رُخصت کر دیا۔ خنساء گھر پہنچیں تو کچھ عرصہ تک خاوند نے صبر کئے رکھا لیکن اپنی بدعادتوں سے مجبور ہو کر پھر وہی چال اختیار کی اور ساری دولت اُڑا دی۔ لیکن تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ مر گیا اور اُس کی وفات کے کچھ عرصہ بعد خنساء کا بھائی بھی مر گیا اس محبت کرنے والے بھائی کی موت نے خنساء کے دل پر ایسا گہرا زخم لگایا کہ اس نے اپنے بھائی کی یاد میں مرثیے کہنے شروع کر دئیے اور درد اور محبت کی وجہ سے اس کے خیالات ایسا رنگ اختیار کر گئے کہ عرب کے چوٹی کے شاعروں میں شمار ہونے لگی اور اس نے بھائی کی محبت کے جوش میں اتنے اعلیٰ پایہ کے مرثیے کہے کہ آج تک عرب کے تمام شاعروں میں اعلیٰ درجہ کی شاعرہ شمار کی جاتی ہے۔ اس کے شعروں میں اتنا درد پایا جاتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے جب اس کے شعر سُنے تو آپ رو پڑے اور کہنے لگے خنساء اگر مجھے بھی شعر کہنے آتے تو میں بھی اپنے بھائی کا ایسا ہی مرثیہ کہتا۔ خنساء نے کہا آپ کیسی باتیں کرتے ہیں آپ کا بھائی خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو کر مرا ہے اور اس نے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا ہے خدا کی قسم! اگر میرا بھائی شہادت پاتا تو میں کبھی اس کا مرثیہ نہ پڑھتی اور کبھی اُس کی وفات پر افسوس کا اظہار نہ کرتی۔ اس پر حضرت عمر ؓ خاموش ہو گئے۔ اب دیکھو بھائی کی قربانی نے کتنا درد پیدا کر دیا تھا کہ ایک عامی عورت کو عظیم الشان شاعرہ بنا دیا اور ایسا کہ آج چودہ سَو سال گذرنے کے بعد بھی وہ عرب کی چوٹی کے شاعروں میں شمار کی جاتی ہے۔
پس مسلمان بجائے اس کے کہ امرتسر کے ہندوؤں اور سکھوں کا بدلہ راولپنڈی اور ملتان کے ہندوؤں سکھوں سے لیتے انہیں چاہئے تھا کہ وہ اپنے مال لا کر امرتسر کے مظلوم اور مصیبت زدہ مسلمانوں کے سامنے پیش کر دیتے وہ خود تنگی سے گذراہ کر لیتے اور زیادہ سے زیادہ روپیہ جمع کر کے ان کی مدد کرتے اگر وہ ایسا کرتے تو امرتسر کے مسلمانوں کے دلوں میں خوشی کی لہردوڑجاتی اور ان کو اپنے بھائیوں سے محبت ہوتی اور وہ یہ یقین کر لیتے کہ بے شک ہمیں تکلیف پہنچی ہے لیکن ہماری تکلیف میں حصہ لینے والے ہمارے بھائی موجود ہیں اور وہ اس بات کو محسوس کرتے کہ بے شک ہمیں دُکھ پہنچا ہے مگر ہمارے دکھ بانٹنے والے ہمارے بھائی موجود ہیں ان کے اندر دلیری، جرأت اور حوصلہ پیدا ہو جاتا مگر افسوس کہ مسلمانوں نے بجائے اس احسن اقدام کے راولپنڈی اور ملتان کے ناکردہ گناہ ہندوؤں اور سکھوں سے امرتسر کا بدلہ لینا شروع کر دیا جو سرا سر ناجائز تھا اور وہ اپنے فاقہ مست بھائیوں کو بالکل بھول گئے۔ ان کو یہ احساس تک نہ آیا کہ ہمارے مظلوم بھائی نانِ شبینہ کے محتاج ہو چکے ہیں، انہیں ذرا خیال نہ آیا کہ ہمارے مصیبت زدہ بھائی ہمارے ہاتھوں کی طرف دیکھ رہے ہیں، انہوں نے اپنے اس فرض کو بالکل نہ پہچانا کہ یتیموں اور بیواؤں کی خبر گیری کرنا ان کے لئے ضروری ہے۔ وہ بھول گئے اس بات کو کہ ہمارے بیسیوں بھائی بے یارو مدد گار زخموں سے نڈھال پڑے ہیں، انہوں نے نظر انداز کر دیا اس بات کو کہ ان کے سینکڑوں بھائی اپنے جلے ہوئے اور بے چھت مکانوں کے اندر درد وکرب سے کراہ رہے ہیں اور وہ نہ سوچ سکے اس بات کو کہ ان کے سینکڑوں بھائی دشمن کے ظلم و استبداد کا شکار ہونے کی وجہ سے ان کی امداد کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے صحیح اور سیدھے راستہ پر گامزن ہونے کی بجائے ٹیڑھی راہ کو اختیار کیا اور ایک کے ظلم کا بدلہ دوسرے ناکردہ گناہ سے لینا چاہا۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امرتسر کے ستم رسیدہ مسلمان یہ سمجھنے لگ گئے کہ ہمارا کوئی نہیں ہے اگر کوئی ہوتا تو ہماری خبرگیری نہ کرتا اور ہماری دادرسی نہ کرتا۔
پچھلے دنوں مجھے ایک آدمی نے ایک واقعہ سنایا کہ امرتسر سے بھاگ کر آئے ہوئے دو مسلمانوں نے کسی سے کہا کہ ہم مرنے سے نہیں ڈرتے ہاں ہم اس بات سے ضرور ڈرتے ہیں کہ اگر ہم مارے گئے تو ہمارے بیوی بچے تباہ ہو جائیں گے اور ان کی رکھوالی کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔ اگر پنجاب کے مسلمان امرتسر کے مظلوموں کی مدد کو پہنچتے تو ان کو یہ خیال کبھی نہ آسکتا تھا کہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے بیوی بچوں کا کیا ہوگا۔ مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ وہ بجائے امرتسر کا بدلہ کسی اور جگہ کے ہندوؤں سے لینے کے جتھا در جتھا امرتسر پہنچتے اور اپنے بھائیوں کی خدمت کرتے اور ان کے مالی نقصان کو پورا کرنے کی کوشش کرتے اور انہیں تسلی دیتے تا کہ ان کے اندر قربانی کا جوش اور بھی زیادہ ہوتا اور وہ دشمن کے مقابلہ میں زیادہ دلیر اور زیادہ بہادر بن جاتے اور دنیا میں قدر ہمیشہ اُسی کی ہوتی ہے جو دشمن کا دلیری اور جرأت کے ساتھ مقابلہ کرتا ہوا مارا جائے۔ بزدلی سے مرنے والے پر لوگ *** بھیجتے ہیں اگر مسلمان راولپنڈی اور ملتان میں امرتسر کا بدلہ لینے کی بجائے خود چل کر امرتسر پہنچتے اور جتھوں کی صورت میں آتے، سیالکوٹ سے آتے، گجرات سے آتے، جہلم سے آتے، لائل پور سے آتے اور دوسرے تمام اضلاع سے جوق در جوق امرتسر میں پہنچ جاتے اور کہتے جنہوں نے ہمارے بھائیوں پر ظلم کیا ہے وہ آئیں اور ہمیں بھی ماریں ساتھ ہی وہ اپنے بھائیوں کی اپنے مالوں سے امداد کرتے اور ان سے کہتے یہ ہم تم پراحسان نہیںکر رہے بلکہ چونکہ تم نے ہماری قومیت میں شریک ہونے کی وجہ سے دُکھ اُٹھایا ہے اس لئے ہم تمہاری مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اِس قسم کانظارہ پیش کرنے سے ایک طرف تو مسلمانوں کے حوصلے بڑھ جاتے اور دوسری طرف دشمن مرعوب ہو جاتا اور وہ سمجھ لیتا کہ اگر امرتسر کے مسلمانوں پر کوئی ظلم ہوا تو پنجاب کے لاکھوں کروڑوں مسلمان اس کا بدلہ لینے کا عزم کر چکے ہیں دشمن کے حوصلہ پست ہو جاتے اور وہ کبھی دوسری بار مسلمانوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھ سکتا لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں نے اِس طرف تو کچھ بھی دھیان نہ کیا اور صرف بڑیں ہانکنی شروع کر دیں کہ ہم مٹا کر رکھ دیں گے یا ہم تباہ کرکے رکھ دیں گے۔جیسے آجکل کے گدا گر فقیر جہلاء کے سامنے دعوئے کرتے پھرتے ہیں کہ ہم چودہ طبقوں کو اُلٹا کر رکھ دیں گے حالانکہ ان کی اپنی حالت یہ ہوتی ہے کہ سر سے ننگے، پاؤں سے ننگے، روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کیلئے در بدر مارے مارے پھرتے ہیں مگر دعویٰ وہ یہ کرتے ہیں کہ ہم زمین و آسمان کو درہم برہم کر سکتے ہیں اگر وہ اتنے ہی اپنے دعوؤں میں سچے ہوتے تو در بدر کی خاک کیوں چھانتے پھرتے۔
ایک دوست جو مریض تھے میری ملاقات کے لئے آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے ہاں ایک مولوی صاحب ہیں جو بڑے عالم فاضل ہیں میرے باپ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ اگر آپ حج کے لئے گئے تو میں آپ کو پانچ سَو روپیہ دوں گا مگر جب وہ حج کو گئے تو والد صاحب نے کسی وجہ سے وعدہ پورا نہ کیا اور وہ مولوی صاحب سخت ناراض ہوگئے اس کے بعد والد صاحب نے میرے لئے تجارت کا انتظام کیا جب میرے پاس مال ہوا تو میں نے اپنے باپ کے وعدے کو پورا کرنے کے لئے مولوی صاحب کو پانچ سَو روپے دیتے ہوئے کہا لیجئے میرے والد صاحب تو اس وعدہ کو پورا نہ کر سکے تھے اب میں آپ کو وہ روپیہ دیتاہوں۔ مولوی صاحب نے روپے لے لئے اور صدری میں رکھے جس میں اُن کی ایک گھڑی بھی تھی مگر اتفاق ایسا ہوا کہ وہ صدری چوری ہوگئی اور نہ صرف میرا دیا ہوا پانچ سَو روپیہ ضائع چلا گیا بلکہ ان کا اپنا کچھ روپیہ اور گھڑی بھی چوری ہو گئی۔ اس پر مولوی صاحب نے مجھے کہا تم نے کیسا منحوس روپیہ دیا تھا کہ وہ میرا بھی کچھ روپیہ ساتھ لے کر جاتا رہا۔اب ان مولوی صاحب نے خدا جانے کیا وظیفہ پڑھ کر مجھ پر پھونک دیا ہے کہ میں ایک مرض میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ یہ سن کر میں نے کہا مولوی صاحب نے اگر کسی قسم کا وظیفہ پڑھ کر آپ کو مریض بنا دیا ہے تو انہوں نے یہ کیوں نہ کیا کہ اُسی قسم کا وظیفہ پڑھ کر چور کو پکڑ لیتے اور روپیہ اُس سے واپس لے لیتے۔ مولوی صاحب کو انسانی زندگی میں جو اتنی قیمتی ہے کہ لاکھوں روپیہ سے بھی نہیں مل سکتی تغیر پیدا کرنے والا وظیفہ آتا تھا تو ان کے لئے یہ کونسا مشکل کام تھا کہ وہ چور کو بھی پکڑواتے اس سے اپنا روپیہ بھی لے لیتے اور ساتھ ہی کچھ ہرجانہ بھی لیتے۔ اسی طرح انہوں نے اور بھی اپنے بعض لطائف سنائے جو الف لیلیٰ کے قصوںکی طرح تھے۔ یہ سب خیالی باتیں ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان اپنے اندر ایک دوسرے کی ہمدردی کا جذبہ پیدا کرتے اور جہاں کہیں کسی مسلمان کو دُکھ پہنچتا وہ جتھوں کی صورت میں اس کے پاس پہنچتے، اس کے نقصان کی تلافی کرتے اور اس کے ساتھ ہمددری کا اظہار کرتے تو دشمن کبھی بھی ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھ سکتا مگر افسوس کہ وہ اپنی اصلاح کی طرف سے بالکل غافل بیٹھے ہیں اور دعوؤں پر دعوے کرتے جا رہے ہیں کہ ہم یوں کر دیں گے اور یوں کر دیں گے اور ان کے یہ دعوے بالکل اسی قسم کے ہیں جیسے جادو یا ٹونا کرنے والوں کے ہوتے ہیں۔وہ اس راستہ کو بھول چکے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تجویز کیا تھا یعنی خوف اور رجاء کے درمیان والا راستہ۔ وہ ایک ہی راستے پر چل رہے ہیں یعنی اُمید کے راستہ پر اور اس کو بھی عبور کرنے کی کوشش میں ہیں یہ تو حالت ہے اُمید کی۔
اب دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مسلمان ایسے ہیں جن پر کُلّی طور پر خوف کی حالت طاری ہے اور وہ امید کے راستہ سے بھٹک چکے ہیں وہ لوگ کانگرس کے سامنے ہاتھ جوڑ رہے ہیں اس ڈر سے کہ اگر کانگرس ہم سے ناراض ہوگئی تو خدا جانے ہم پر کون سی آفت ٹوٹ پڑے گی اور کانگرس کی مخالفت سے ہمیں کیا کیا نقصانات برداشت کرنے پڑہیں گے۔ پس ایک طبقہ مسلمانوں کا ایسا ہے جو غلط خوف کی طرف جھکا ہوا ہے اور دوسرا طبقہ ایسا ہے جو غلط امیدیں لگائے بیٹھا ہے حالانکہ مومن کیلئے اللہ تعالیٰ نے جو راستہ تجویز کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس پر بہ یک وقت خوف و رجاء کی حالت طاری رہے۔ ایک طرف اس کے دل میں دشمن کی طرف سے یہ خدشہ رہے کہ کب وہ اچانک اس پر حملہ کر دتیا ہے اور وہ اس کے لئے تدبیریں سوچتا رہے، دوسری طرف وہ اپنی طرف سے تمام تدبیریں کر چکنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل کا منتظر ہو جائے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے ہجرت کی تو رات کے وقت کی اور آپ دشمنوں کی نظروں سے بالکل چھپ کر نکلے حالانکہ آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آپ کو دشمن کے منصوبوں سے بچانے کے بے شمار وعدے تھے اور آپ کو ان وعدوں پر یقین کامل تھا مگر آپ نے اس یقین کے ہوتے ہوئے بھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے ضرور دشمنوں سے محفوظ ومصئون رکھے گا حتَّی الامکان دشمن کی نظروں سے بچ کر نکلنے کی کوشش کی۔ یہ نہیں کہا کہ آجاؤ مکے والو! مجھے پکڑ لو۔ مگر اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں ہو سکتاکہ آپ ڈرتے تھے بلکہ آپ نے صرف احتیاطی پہلو اختیار کیا تھا ورنہ آپ کی دلیری کا یہ عالَم تھا کہ جب آپ اپنے رفیق حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ غار ثور کے اندر تھے تو دشمن عین غار کے منہ پر پہنچ گیا اور اس کے ساتھ کھوجی بھی تھے جو پاؤں کے نشانوں کا کھوج نکالتے وہاں تک پہنچے تھے مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت جب آپ غار کے اندر داخل ہو گئے تو ایک مکڑی نے غار کے منہ پر جھٹ جالا تن دیا۔ دشمنوں نے یہ دیکھ کر کہ غار کے منہ پر تو مکڑی کا جالا ہے اس میں سے کسی آدمی کے گذرنے کا امکان نہیں ہو سکتا یہ خیال کر لیا کہ آپ کسی اور طرف چلے گئے ہیں حالانکہ مکڑی دو یا چار منٹ کے اندر نہایت تیزی کے ساتھ اپنا جالا تیار کر لیتی ہے اور میں نے خود مکڑی کو جالا تنتے دیکھا ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ پردہ ڈالنا چاہتا تھا اس لئے دشمن کی سمجھ میں ہی یہ بات نہ آسکی اور انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو وہ غار کے اندر ہیں یا آسمان پر چلے گئے ہیں کیونکہ پاؤں کے نشانات غار تک پہنچ کر ختم ہو جاتے تھے اُس وقت جب کہ دشمن یہ کہہ رہے تھے کہ یا تو محمد ﷺ اور اس کا ساتھی غار کے اندر ہیں یا آسمان پر چلے گئے ہیں حضرت ابو بکرؓ اندر ان کی باتیں سُن رہے تھے ان کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا اور آہستہ سے آپ کی خدمت میں عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! دشمن تو سر پر آن پہنچا ہے۔۱؎ اس واقعہ کو قرآن کریم نے بھی بیان کیا آپ نے فرمایا۔ ۲؎ ابوبکرؓ ڈرتے کیوں ہو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ پس ایک طرف تو آپ نے اتنی احتیاط کی کہ آپ مکہ سے چُھپ کر نکلے اور دوسری طرف آپ کی اُمید کا یہ عالم تھا کہ باوجود اس کے کہ دشمن ہتھیاروں سے مسلح تھا اور اگر وہ لوگ ذرا بھی جھک کر غار کے اندر دیکھتے تو وہ آپ کو دیکھ سکتے تھے کیونکہ غار ثور کا منہ بڑا چوڑا ہے اور وہ تین گز کے قریب ہے آپ نہایت دلیری اور حوصلہ کے ساتھ فرماتے ہیں ابوبکر ! ڈرتے کیوں ہو جب خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے تو ہمیں کس بات کا ڈر ہے۔ اِدھر حضرت ابو بکرؓ کے اخلاص کی یہ حالت تھی کہ انہوں نے عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں اپنے لئے تو نہیں ڈر رہا میں تو اس لئے ڈر رہا ہوں کہ اگر آپ خدانخواستہ مارے گئے تو خدا تعالیٰ کا دین تباہ ہو جائے گا۔
اسی طرح جب مدینہ میں منافقوں کی شرارت حد سے بڑھ گئی تو آپ کئی رات متواتر نہ سوئے جب آپ کی یہ تکلیف بڑھ گئی تو آپ نے ایک مجلس میں فرمایاکاش! خدا تعالیٰ کسی مخلص مسلمان کے دل میں ڈالتا کہ وہ میرا پہرہ دیتا اور میں سو لیتا۔ آپ کو یہ بات کہے دو تین منٹ ہی ہوئے تھے کہ آپ کو ہتھیاروں کے چھنکار کی آواز آئی۔ آپ نے فرمایا کون ہے؟ آنے والے نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں فلاں ہوں۔ آپ نے فرمایا یہ ہتھیار کیسے ہیں؟ اس نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ کا پہرہ دوں آپ آرام فرمائیں۳؎ ایک طرف تو آپ کی احتیاط کی یہ حالت تھی مگر دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ جب رومیوں کے حملہ کا ڈر تھا اور مدینہ میں یہ خبر عام تھی کہ آج یا کل ہی حملہ ہونے والا ہے اس لئے لوگوں کو نیند بھی نہ آتی تھی۔ ایک رات جب کچھ شور سا ہوا اور صحابہ شور سن کر جمع ہونے لگے اور مسجد میں بیٹھ گئے اِس انتظار میں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورہے ہوں گے آپ کو خبر کی جائے کہ اِس قسم کا شور ہوا ہے وہ اس قسم کی باتیں کر ہی رہے تھے کہ باہر سے ایک سوار آتا دکھائی دیا۔ جب وہ سواران کے پاس پہنچا تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ وہ آنے والا سوار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔آپ نے آتے ہی فرمایا خطرہ کی کوئی بات نہیں میں دیکھ کر آیا ہوں۔ آپ جس گھوڑے پر سوار ہو کر گئے تھے وہ گھوڑا بھی کسی دوسرے کا تھا آپ نے جب شور سنا تو پہلے جا کر گھوڑا لیا اور پھر پیشتر اس کے کہ سارے صحابہ جمع ہو جاتے آپ میلوں میل تک دیکھ کر واپس بھی تشریف لے آئے۔۴؎ اب دیکھو ایک طرف تو خوف کی وہ حالت تھی اور ایک طرف امید کی یہ حالت تھی۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ غزوہ حنین میں جب مسلمانوں کا لشکر پیچھے ہٹا کیونکہ دشمن کے تیروں کے حملہ نے شدت اختیار کر لی تھی آپ صرف چند صحابہؓ کو ساتھ لے کر دشمن کی طرف آگے بڑھے حضرت ابو بکرؓ نے یہ دیکھ کر کہ دشمن کا حملہ شدید ہے آپ کو روکنا چاہا اور آگے بڑھ کر آپ کے گھوڑے کی باگ پکڑلی مگر آپ نے فرمایا چھوڑ دو میرے گھوڑے کی باگ کو۔ اس کے بعد آپ یہ شعر پڑھتے ہوئے آگے بڑھے۔
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِب
اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب۵؎
یعنی میں خدا تعالیٰ کا نبی ہوں اور جھوٹا نہیں ہوں اور میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ آپ کا یہ فرمانا کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اِس کا یہ مطلب تھا کہ اِس وقت دشمن کا حملہ اِس قدر شدید ہے کہ دشمن کے چارہزار تیر انداز تیروں کی بارش برسارہے ہیں اِس حالت میں میرا آگے بڑھنا انسانیت کی شان سے بہت بلند اور بالا نظر آتا ہے اس سے کوئی دھوکا نہ کھائے اور یہ نہ سمجھے کہ مجھ میں خدائی طاقتیں ہیں میں تو عبدالمطلب کا بیٹا ہی ہوں اور ایک بشر ہوں صرف اللہ تعالیٰ کی مدد میرے نبی ہونے کی وجہ سے میرے ساتھ ہے۔
جنگ بدر کے موقع پر صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک اونچی جگہ بنا دی اور عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ آپ یہاں تشریف رکھیں۔ چنانچہ آپ وہیں بیٹھ گئے اور خداتعالیٰ کے حضور نہایت عجز اور رقت سے دعائیں کرنے لگے۔ حضرت ابو بکرؓ نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ کیا اللہ تعالیٰ کے آپ کے ساتھ وعدے نہیں ہیں آپ نے فرمایا وعدے تو ہیں مگر وہ غنی بھی تو ہے اور مؤمن کا کام ہے کہ اس کی غناء کو بھی نہ بھولے۔ ۶؎
پس آپ کو ایک طرف تو خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا اور کامل یقین تھا اور دوسری طرف یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ غنی بھی ہے آپ کو خوف بھی تھا مگر اِس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ احتیاط کی طرف سے کُلّی طور پر پہلو تہی کرتے ہوئے صرف امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں مؤمن کو امید کی بھی اور احتیاط کی بھی سخت ضرورت ہے مگر مسلمان کہتے ہیں دیکھا جائے گا۔ آجکل کے مسلمان دونوں حدود کے سر پر پہنچے ہوئے ہیں حالانکہ اصل طریق جو اِن کو اختیار رکرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ خوف اور امید کی درمیانی راہ تلاش کریں اور خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستوں اور محمد رسول اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تجویزوں پر عمل کریں۔ ایک طرف انہیں انتہا درجہ کی تنظیم کرنی چاہئے اور دوسری طرف خداتعالیٰ پر کامل یقین رکھنا چاہئے کیونکہ مؤمن وہی ہوتا ہے جو ایک طرف تدبیر بھی کرتا ہے اور دوسری طرف تقدیر پر بھی ایمان رکھتا ہے جب یہ دونوں حالتیں اس کے اندر بہ یک وقت جمع ہو جاتی ہیں تو خداتعالیٰ کے فضلوں کے دروازے اس پر کھل جاتے ہیں اور اس وقت خداتعالیٰ کہتا ہے میں نے اپنے بندے کو دو حکم دئیے تھے اور میرے بندے نے دونوں حکم مانے ہیں میں نے اس کوتدبیر کرنے کا حکم دیا تھا اس پر اس نے عمل کیا ہے اور میں نے اس کو تقدیر پر ایمان لانے کو کہا تھا اس پر بھی اس نے عمل کیا ہے اس لئے اب میں نے بھی اپنے اوپر فرض کر لیا ہے کہ میں اپنے فرمانبردار بندے کی اعانت کروں اور اس کے دشمن کے منصوبوں کو خاک میں ملا کر رکھ دوں۔ اور اگر مسلمان ان باتوں پر عمل پیرا نہیں ہوں گے تو خدا تعالیٰ کہے گا تم نے اپنے نفس کا حکم مانا ہے اگر تم میرے متبعین میں سے ہوتے تو کسی دوسرے کی بات کیوں مانتے اس لئے جاؤ میں تمہاری کوئی امداد نہیں کروں گا۔
(الفضل قادیان ۱۷؍جون ۱۹۴۷ء)
۱؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ باب مناقب المہاجرین و فضلھم
۲؎ التوبۃ: ۴۰
۳؎ بخاری کتاب الجہاد باب الحراسۃ فی الغزو
۴؎ بخاری کتاب الادب باب حسن الخلق و السخاء (الخ)
۵؎ مسلم کتاب الجہاد باب غزوۃ حنین
۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۷۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے
مخفی ہوتے ہیں
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں
(فرمودہ ۳۰؍ مئی ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
مثنوی رومی والوں نے ایک نہایت ہی لطیف بات لکھی ہے وہ کہتے ہیں۔
ہر بلا کیں قوم را حق دادہ است
زیر آں گنج کرم بنہادہ است
یعنی خدا تعالیٰ کی ایک یہ بھی سنت ہے کہ جب کسی قسم کی کوئی بلاء مسلمانوں پر آتی ہے اور مسلمانوں سے ہی مخصوص نہیں بلکہ جب بھی کوئی بلاء اِس کی طرف سے کسی قوم پر آتی ہے تو
زیر آں گنج کرم بنہادہ است
اس کے نیچے برکتوں کا ایک مخفی خزانہ ہوتا ہے۔ یعنی اس بلاء کے آچکنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی برکات ظاہر ہوتی ہیں جو اس قوم کے لئے تقویت کا موجب ہوتی ہیں۔ یہ ایک نہایت سچی بات ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب کبھی مؤمنوں کو مشکلات اور مصائب وآلام کا سا منا ہوتا ہے تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ ایسی باتیں ضرور ظاہر ہوتی ہیں جو ان کے ایمان میں اِزدیاد کا موجب ہوتی ہیں اور صداقت اور شوکت کو ظاہر کرنے والی ہوتی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مصیبت اور مشکل جو آپ کو پہنچی اپنے بعد بے شمار معجزات چھوڑ کر گئی اور اس کے ذریعہ سے مؤمنوں کے ایمان تازہ ہوئے اور وہ قیامت تک کی نسلوں کیلئے برکت اور رحمت کا موجب ہوں گے۔ ہمیں جتنے واقعات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مصائب، مشکلات اور تکالیف کے نظر آتے ہیں ان میں سے ہر ایک اپنے اندر لاتعداد نشانات لئے ہوئے ہے۔ جب بعض صحابہؓ کفار مکہ کی بڑھتی ہوئی شرارتوں اور دُکھوں کی وجہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کر کے گئے تو اس میں بھی ہمیں بہت سے نشانات نظر آتے ہیں ۔ جب کفار مکہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے تمام مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا اور آپ کو اور آپ کے صحابہؓ کو متواتر تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑا تو اس میںبھی ہمیں بہت سے نشانات نظر آتے ہیں، سفر طائف میں جب آپ کو کفار نے تکالیف پہنچائیں تو اس میں بھی ہمیں بہت سے نشانات نظر آتے ہیں، جب آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے لئے گئے تو اس میں بھی ہمیں نشانات نظر آتے ہیں، اسی طرح بدر کی جنگ میں بھی ہمیں بہت سے نشانات نظر آتے ہیں،اُحد کی جنگ میں بھی جس میں مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصانات اُٹھانے پڑے اور کئی اکابر صحابہؓ شہید ہوگئے اللہ تعالیٰ کے بہت سے نشانات ہیں، احزاب کی جنگ میں بھی ہمیں بہت سے نشانات نظر آتے ہیں، صلح حدیبیہ اور غزوہ حنین میں بھی بہت سے نشانات ہیں پھر غزوئہ تبوک جو مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا ابتلاء تھا اس میں بھی بہت سے نشانات ہیں، سب سے بڑھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اُمت کے لئے بہت ہی بڑا ابتلاء تھا مگر اس میں بھی ہمیں بہت سے نشانات نظر آتے ہیں۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جو بھی دُکھ آپ کو پہنچا، جو بھی تکالیف آپ کو پہنچی، جو بھی رنج آپ کو پہنچا، جو بھی مصیبت آپ پر آئی اور جس دقّت کا بھی آپ کو سامنا ہوا ان میں سے ہر ایک کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشانات مخفی تھے اور ان میں سے ہر واقعہ اپنے اندر مؤمنوں کی ترقیوں اور کامیابیوں کے سامان لئے ہوئے تھا۔
اِس وقت میں غزوئہ اُحد کو لیتا ہوں غزوئہ اُحد مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا ابتلاء تھا اور ساتھ ہی یہ مصیبت پیش آئی کہ جنگ کے شروع ہونے سے پیشتر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ لیا کہ ہمیں مدینہ کے اندر رہ کر جنگ کرنی چاہئے یا باہر نکل کر؟ تو اُس وقت تو منافقین نے یہ کہا کہ ہمیں باہر جاکر ہی لڑنا چاہئے مگر بعد میں انہوں نے آپ سے غداری کی اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر جانے کے لئے تیار ہوئے تو منافقین نے جانے سے انکار کر دیا اور انہوں نے کہہ دیا کہ یہ بھی کوئی لڑائی ہے یہ تو خواہ مخواہ ہلاکت کے منہ میں جانے والی بات ہے۔ اس جنگ میں آپ کو اور آپ کے صحابہؓ کو بہت زیادہ تکالیف پہنچیں اور بہت زیادہ نقصان اُٹھانا پڑا۔ ستّرصحابہؓ شہید ہوگئے جن میں سے پانچ مہاجرین میں سے تھے اور باقی پینسٹھ انصار میں سے تھے اور شہید ہونے والے صحابہؓ تھے بھی چوٹی کے صحابہؓ جن کی موت کی وجہ سے یوں کہنا چاہئے کہ سارا مدینہ ہِل گیا تھا پھر یہ جنگ اس لئے بھی اسلام کی شدید ترین جنگوں میں شمار کی جاتی ہے کہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو گئے آپ کے دندانِ مبارک ٹوٹ گئے ۱؎ اور بعض صحابہؓ جو آپ کے دائیں بائیں کھڑے آپ کی حفاظت کے لئے لڑ رہے تھے اور دشمن کے واروں کو اپنے اوپر لے رہے تھے ان میں سے بھی بعض مارے گئے اور ان کی لاشیں آپ پر گر گئیں گویا یہ تمام سامان موت کے ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو محفوظ رکھا۔ آپ جب زخمی ہو کر اور بے ہوش ہو کر گر پڑے تو یہ وقت صحابہؓ کے لئے ایک بہت ہی بڑے ابتلاء اور امتحان کا وقت تھا ان میں لڑنے کی سکت نہ رہی تھی اور جب تک آپ ہوش میں آکر نہ اُٹھے اُس وقت تک صحابہؓ یہی سمجھتے رہے کہ اب ہمارے لئے دنیا تاریک ہو چکی ہے کیونکہ جب آپ شہید ہو چکے ہیں تو ہمارا لڑنا اب بالکل بے کار ہے۔ اِس چیز کا نتیجہ ان کے لئے ٹھوکر اور ابتلاء کا باعث ہو سکتا تھا لیکن اس کے اندر بھی ہمیں اللہ تعالیٰ کے بہت سے نشانات نظر آتے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ابتلا ؤں میں اعلیٰ نشانات ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً ابتلاؤں، دکھوں اور مصیبتوں کے وقت انسان کے اخلاق کا پتہ لگتا ہے اگر انسان پر کوئی مصیبت نہ آئے تو اُس کے اخلاق کا پتہ نہیں لگ سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان جو اخلاق خوشی، راحت اور آرام کے وقت دِکھاتا ہے وہ مصیبت دکھ اور رنج پہنچنے پر سب بھول جاتا ہے۔ جب کبھی اس کی حالت سکون سے بے چینی میں تبدیل ہوتی ہے تو اس کے سب اخلاق دھر ے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور وہ بداخلاقی پر اُتر آتا ہے۔ ہمارے ملک میں دہلی اور لکھنؤ کے امراء کے اخلاق مشہور ہیں اور ان دونوں جگہوں کے امراء ایک دوسرے پر فضیلت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دہلی والے کہتے ہیں کہ ہم زیادہ بااخلاق اور متمدن ہیں۔ لکھنؤ میں سادات کی بادشاہت تھی اس لئے عام طور پر وہاں کے امراء کو میر صاحب کہا جاتا ہے اور دہلی میں چونکہ مغل بادشاہت رہی ہے اس لئے وہاں کے امراء کو مرزا صاحب کہا جاتا ہے اب تو دہلی وہ نہیں رہی جو آج سے پچاس سا ل پیشتر تھی مگر آج سے چالیس پچاس سال پہلے دہلی کا کوئی آدمی ملنے پر اُس کو مرزا صاحب کہا جاتا تھا اور لکھنؤ کے کسی شخص کے متعلق صرف یہ معلوم ہونے پر کہ یہ صاحب لکھنؤ کے رہنے والے ہیں انہیں میرصاحب کہا جاتا تھا۔
ایک لطیفہ مشہور ہے کہ دو شخص کسی سٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں کھڑے تھے ان میں سے ایک دلی کا تھا اور دوسرا لکھنؤ کا۔ گاڑی کے آنے میں کچھ دیرتھی ان دونوں نے رسمی علیک سلیک کے بعد جب ایک دوسرے کے متعلق یہ معلوم کیا کہ آپ دہلی کے ہیں اور آپ لکھنؤ کے ہیں تو ان دونوں نے یہ کوشش شروع کر دی کہ اخلاق دکھانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جائیں اور دونوں نے چاہا کہ ایک دوسرے پر اپنے اخلاق کا اثر ڈالیںچنانچہ انہوں نے اپنے اپنے مخصوص طریق پر ایک دوسرے سے گفتگوشروع کر دی اور بات بات پر قبلہ میر صاحب اور قبلہ مرزا صاحب کہا جانے لگا۔ ایک کہتا قبلہ میرصاحب فلاں بات یوں ہوئی اور دوسرا جھک کر کہتا قبلہ مرزا صاحب فلاں بات یوں ہے۔ غرض دونوں نے اپنے اخلاق دکھانے کی کوشش میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ تھوڑی دیر کے بعد گاڑی پلیٹ فارم پر آکر کھڑی ہوگئی تو لکھنؤ والے نے کہا قبلہ مر زا صاحب پہلے آپ چڑھئے۔ دلّی والے نے کہا قبلہ میر صاحب! پہلے آپ۔ لکھنؤ والے نے پھر کہا قبلہ! بھلا میں یہ گستاخی کرسکتا ہوں پہلے آپ ہی کو چڑھنا ہوگا آپ مجھے کیوں کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں۔ چنانچہ وہ کافی دیر تک اسی طرح کرتے رہے۔ لکھنؤ والا فرشی سلام کرتا اور کہتا قبلہ مرزا صاحب پہلے آپ ہی چڑھیں گے اور دلی والا نہایت آداب بجا لا کر کہتا قبلہ میرصاحب پہلے آپ۔ وہ اسی طرح کر رہے تھے کہ گاڑی نے سیٹی دی یہ دیکھ کو وہ دونوںایک ڈبے کی طرف لپکے اور ڈنڈے پکڑ کر بمشکل دروازے میں پہنچے اب صورت یہ تھی کہ دروازہ چھوٹا تھا اور وہ دونوں دروازے کے اندر پھنس گئے نہ وہ اندر جا سکتا تھا اور نہ یہ۔ انہوں نے ایک دوسرے کو دھکے دینے شروع کئے اور آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ سخت کلامی پر اُتر آئے اور ایک کہتا خبیث! اندر جاؤ یا مجھے گذرنے دو۔ دوسرا کہتا مجھے اندر جانے دواور پھر کمینے اور پاجی کے الفاظ شروع ہوگئے۔
پس جب انسان پر مصیبت آتی ہے اور تھوڑی بہت تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اخلاق فاضلہ کو یکسر بھول جاتا ہے۔ اب کہاں وہ حالت کہ قبلہ میر صاحب اور قبلہ مرزا صاحب کہ القاب جھک جھک کر ادا ہو رہے تھے اور کہاں یہ حالت کہ خبیث ، کمینے اور پاجی کے الفاظ پر اُتر آئے۔ پس جب سہولت اور آرام ہو تو لوگ اخلاق دکھاتے ہیں لیکن جب مقابلہ اور مشکلات پیش آئیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے لکھنؤ والوں کے اخلاق کے متعلق اپنا ایک لطیفہ یاد ہے میری شادی چھوٹی عمر میں ہی ہو گئی تھی اُس وقت میری عمر چودہ اور پندرہ سال کے درمیان تھی اور یہ عمر بچپن کی عمر میں ہی شمار ہوتی ہے ۔ اس وقت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب آگرہ میں تھے ہم یوپی میں گئے تو کئی دفعہ تھے مگر وہاں کے مخصوص اخلاق سے کبھی واسطہ نہ پڑا تھا ہم اپنے قریبی رشتہ داروں کے ہاں جاکر ٹھہراکرتے تھے اور وہاں اپنے بزرگوں سے ڈانٹ ڈپٹ ہی سننے میں آتی تھی۔ قبلہ اور حضرت کبھی سنانہ تھا۔ غرض جب شادی کے وقت میں آگرہ میں گیا تو ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب نے میرے اعزاز میں وہاں کے رؤساء کو دعوت دی ان میں ایک شہر کے مجسٹریٹ صاحب بھی تھے جب کھانا کھا چکے اوروہ رؤساء واپس ہونے لگے تو وہ مجسٹریٹ صاحب میرے پاس آئے اور بڑی تعظیم کے ساتھ جھک جھک کر سلام کرنے لگے۔ میں نے اپنی یہاں کی عادت کے مطابق ان کی تعظیم کی مجھے تو جھکناآتانہ تھامگر مَیں ان کے جھکنے پر دل ہی دل میں کہہ رہا تھا کہ یہ کیا کر رہے ہیں میں ان کی تعظیمی حرکات پر بڑی مشکل سے ہنسی کو ضبط کر سکا۔ اُس وقت جو مجھ سے ایک حرکت سرزد ہوئی اُس کو یاد کرکے اب بھی بے اختیار ہنسی آجاتی ہے۔ وہ یوں ہوا کہ مجھ سے ملنے کے بعد جونہی ان مجسٹریٹ صاحب نے منہ موڑا میں نے اُن کی نقل اُتارنی شروع کر دی اور اتفاق ایسا ہوا کہ دروازہ تک پہنچ کر اُن کو کوئی کام یاد آگیا اور وہ واپس مُڑ آئے۔ میں ان کے واپس مُڑنے سے بے خبر رہا اور اسی طرح اُن کی نقل اُتار تا رہا۔ میں نے جو آنکھ اُٹھا کر دیکھا تو وہ سامنے کھڑے تھے یہ دیکھ کر مجھے سخت شرمندگی اُٹھانی پڑی کہ یہ اپنے دل میں کیا سمجھتے ہوں گے۔ غرض ان کے تکلفات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ جس کی حد ہی نہیں مگر اخلاق فاضلہ کا پتہ درحقیقت مشکل اور مصیبت کے وقت لگتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اُحد کی جنگ ایک نہایت صبر آزما جنگ تھی اس سے پہلے کبھی آپ پر قاتلانہ حملہ نہ ہوا تھا اور نہ صرف یہ کہ جنگ احد میں آپ پر حملہ ہی ہوا اور نہ صرف یہ کہ آپ کے بعض دانت بھی ٹوٹ گئے اور نہ صرف یہ کہ آپ زخمی ہوگئے بلکہ دشمن آپ کی بے ہوشی کی حالت میں آپ کے اوپر سے اور آپ کے ساتھیوں کے اوپر سے ان کے جسموں کو روندتا ہوا گزرا اور یہ آپ کی زندگی میں اپنی قسم کی پہلی مثال تھی مگر اس جنگ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح بلندحوصلگی اوراپنے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کیا اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور دل جوئی کی۔اس جنگ کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اخلاق کے کتنے بلند ترین مقام پر کھڑے تھے اور اس جنگ میں صحابہؓ کی عدیم المثال قربانیوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔ میں اُس وقت کی بات کر رہا ہوں جب آپ جنگ ختم ہونے پر مدینہ واپس تشریف لا رہے تھے۔ مدینہ کی عورتیں جو آپ کی شہادت کی خبر سن کر سخت بے قرار تھیں اب وہ آپ کی آمد کی خبر سُن کر آپ کے استقبال کے لئے مدینہ سے باہر کچھ فاصلہ پر پہنچ گئی تھیں ان میں آپ کی ایک سالی زینب بنت جحش۲؎ بھی تھیں ان کے تین نہایت قریبی رشتہ دار جنگ میں شہید ہوگئے تھے۔ رسول کریم ﷺنے جب انہیں دیکھا تو فرمایا اپنے مُردے کا افسوس کرو( یہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے ۔ جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ تمہارا عزیز مارا گیا ہے) زینبؓ بنت جحش نے عر ض کیا یَارَ سُوْلَ اللّٰہ ﷺ کس مُردے کا افسوس کروں؟ آپ نے فرمایا تمہارا ماموں حمزہؓ شہید ہو گیا ہے۔ یہ سن کر حضرت زینبؓ نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور پھر کہا اللہ تعالیٰ ان کے مدارج بلند کرے وہ کیسی اچھی موت مرے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا اچھا اپنے ایک اور مرنے والے کا افسوس کر لو۔ زینب نے عرض کیا یَارَ سُوْلَ اللّٰہ ﷺ کس کا؟ آپ نے فرمایا تمہارا بھائی عبداللہ بن جحش بھی شہید ہوگیا ہے زینب ؓ نے پھر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور کہا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ وہ تو بڑی ہی اچھی موت مرے ہیں۔ آپ نے پھر فرمایا زینبؓ! اپنے ایک اورمُردے کا افسوس کرو۔ اُس نے پوچھا یَارَ سُوْلَ اللّٰہ ﷺ کس کا؟ آپ نے فرمایا تیرا خاوند بھی شہید ہو گیا ہے۔ یہ سُن کرزینبؓ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور اُس نے کہا ہائے افسوس!! یہ دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو! عورت کو اپنے خاوند کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جب میں نے زینبؓ کو اُس کے ماموں کے شہید ہونے کی خبر دی تو اُس نے پڑھا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ، جب میں نے اُسے اس کے بھائی کے شہید ہونے کی خبر دی تو اس نے پھر بھی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ہی پڑھا لیکن جب میں نے اس کے خاوند کے شہید ہونے کی خبر دی تو اس نے ایک آہ بھر کر کہا ہائے افسوس! اور وہ اپنے آنسوؤں کو روک نہ سکی اور گھبرا گئی۔ پھرآپ نے فرمایا عورت کو ایسے وقت میں اپنے عزیز ترین رشتہ داروں اور خونی رشتہ دار بھول جاتے ہیں لیکن اُسے محبت کرنے والا خاوند یاد رہتا ہے اس کے بعد آپ نے زینبؓ سے پوچھا۔ تم نے اپنے خاوند کی وفات کی خبر سن کر ہائے افسوس کیوں کہا تھا؟ زینب ؓ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! مجھے اس کے بیٹے یاد آگئے تھے کہ ان کی کون رکھوالی کرے گا؟ آپ نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کی تمہارے خاوند سے بہتر خبر گیری کرنے والا کوئی شخص پیدا کر دے۔۳؎ چنانچہ اسی دعا کا نتیجہ تھا کہ زینبؓ کی شادی حضرت طلحہؓ کے ساتھ ہوئی اور ان کے ہاں محمد بن طلحہ پیدا ہوا۔ مگر تاریخوں میں ذکر آتا ہے حضرت طلحہؓ اپنے بیٹے محمد کے ساتھ اتنی محبت اور شفقت نہیں کرتے تھے جتنی کہ زینبؓ کے پہلے بچوں کے ساتھ۔ اور لوگ یہ کہتے تھے کہ کسی کے بچوں کو اتنی محبت سے پالنے والا طلحہؓ سے بڑھ کر اور کوئی نہیں اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ تھا۔
اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اُس وقت سعد بن معاذ آپ کی سواری کی باگ پکڑے ہوئے آپ کے آگے آگے خوشی کے ساتھ چل رہے تھے اور ان کو خوشی یہ تھی کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ واپس مدینہ میں لا رہے۔ ہیں حضرت سعد بن معاذکی بوڑھی اور کمزور نظر والدہ بھی مدینہ کی عورتوں کے ساتھ آپ کے استقبال کے لئے باہر آرہی تھیں اور چونکہ اس سے پیشتر مدینہ میں آپ کی وفات کی خبر مشہور ہو چکی تھی اس لئے وہ سُن کر کہ آپ صحیح سلامت تشریف لا رہے ہیں وفورِ محبت سے آپ کی زیارت کے لئے باہر آگئی تھیں حضرت سعدؓ نے جب اپنی والدہ کو دیکھا تو شایداس خیال سے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤں کہ میری بوڑھی والدہ کے دل میں بھی آپ کے لئے کتنی محبت ہے کہ وہ باوجود نظر کی کمزوری اور ضعیفی کے لڑکھڑاتی ہوئی چل رہی ہیں اور وہ آپ کی زیارت کیلئے بے تاب ہیں عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میری ماں۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میری ماں۔ آپ نے فرمایا سواری کو روک لو۔ سواری جب بڑھیا کے قریب پہنچ کر رُکی تو آپ نے اُس بڑھیا کو فرمایا بی بی! مجھے افسوس ہے کہ تمہارا جوان بیٹا عمروبن معاذؓ لڑائی میں شہید ہو گیا ہے۔ وہ بڑھیا جو آپ کی شکل دیکھنے کے لئے بے تاب ہو رہی تھی اُس نے اپنا منہ اوپر اٹھایا اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے آپ کے چہرے کو دیکھا اور عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! جانے بھی دیجیے آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں جب آپ سلامت ہیں تو باقی ساری مصیبتیں میں نے بھون کر کھا لی ہیں۔۴؎
ان واقعات پر غور کرو اور دیکھو کہ آپ کو کتنا زیادہ احساس تھا کہ جس کسی کو تکلیف پہنچتی ہے اس کے ساتھ ہمدردی کی جائے اس کے بعد آپ نے اس بڑھیا سے فرمایا تم بھی خوش ہو اور دوسری تمام بہنوں کو بھی جن کے رشتہ دار لڑائی میں شہید ہوگئے ہیں یہ خوشخبری سنا دو کہ ہمارے جتنے آدمی آج شہید ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے سب کو جنت میں اکٹھا رکھا ہے اور سب نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا! ہمارے پسماندگان کی خبر گیری رکھیو۔ اس کے بعد آپ نے دعا کی کہ اے خدا! اُحد کے شہیدوں کے پسماندگان کے لئے اچھے خبر گیر پیدا فرما۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس طرح آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی اُحد کے شہیدوں کے پسماندگان کی دلجوئی فرمائی اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور باوجود اس کے کہ آپ زخمی ہو چکے تھے، آپ کے عزیز ترین رشتہ دار شہید ہو گئے تھے اور آپ کے عزیز ترین صحابہؓ فوت ہو گئے تھے آپ برابر قدم بقدم مدینہ کے لوگوں کی دلجوئی فرما رہے تھے آپ کو اپنی تکلیف کا ذرہ بھی احساس نہ تھا آپ کے سوا ایسا کوئی شخص نہیں ہو سکتا جو اتنی تکلیفوں ، اتنے دکھوں اور اتنی مصیبت کے وقت دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرے۔ ایسے وقت میں تو لوگ کسی کے ساتھ بات کرنے کے بھی روا دار نہیں ہوتے چہ جائیکہ وہ کسی کے ساتھ ہمدردی کی باتیں کریں۔جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے تو چونکہ زخموں کی وجہ سے آپ کو نقاہت زیادہ تھی اس لئے صحابہؓ نے سہارا دے کر آپ کو سواری سے اُتارا۔ مغرب کی نماز کا وقت تھا آپ نے نماز پڑھی اور گھر تشریف لے گئے۔ مدینہ کی ان عورتوں کو جن کے رشتہ دار جنگ میں شہید ہوگئے تھے اُن کی خبریں پہنچ چکی تھیں انہوں نے رونا شروع کر دیا۔آپ نے جب عورتوں کے رونے کی آوازیں سنیں تو آپ کو مسلمانوں کی تکلیف کا خیال آیا اور آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں پھر آپ نے فرمایا لٰکِنْ حَمْزَۃَ فَـلَا بَوَاکِیَ لَہٗ ہمارے چچا اور رضائی بھائی حمزہ بھی شہید ہوئے ہیں لیکن اُن کا ماتم کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ سن کر صحابہؓجن کو آپ کے جذبات اور احساسات کو پورا کرنے کی اتنی تڑپ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ آپ کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا جذبہ اور چھوٹے سے چھوٹا احساس بھی ایسا نہ رہ جائے جو پورا نہ ہو وہ اپنے گھروں کی طرف دَوڑے اور اپنی عورتوں سے جا کر کہا بس اب تم اپنے عزیزوں کو رونا بند کر دو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر جا کر حمزہؓ کا ماتم کرو۔ اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تھکے ہوئے تشریف لائے تھے آپ آرام فرمانے لگے۔ حضرت بلالؓ نے عشاء کی اذان دی مگر یہ خیال کر کے کہ آپ تھکے ہوئے آئے ہیں آپ کو نہ جگایا جب ثلث رات گذر گئی تو انہوں نے آپ کو نماز کے لئے جگایا۔ آپ جب بیدار ہوئے تو اُس وقت عورتیںابھی تک آپ کے مکان پر حضرت حمزہؓ کا نوحہ کر رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا یہ کیا ہو رہا ہے؟ عرض کیا گیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ مدینہ کی عورتیں حضرت حمزہؓ کی وفات پر رو رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا للہ تعالیٰ مدینہ کی عورتوں پر رحم کرے انہوں نے میرے ساتھ ہمددری کا اظہار کیا ہے۔ پھر فرمایا مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ انصار کو مجھ سے بہت زیادہ محبت ہے۔ ساتھ ہی فرمایا اس طرح نوحہ کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ امر ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ہماری قوم کی یہ عادت ہے اور اگر ہم اس طرح نہ روئیں تو ہمارے جذبات سرد نہیں ہو سکتے آپ نے فرمایا میں رونے سے منع نہیں کرتا ہاں عورتوں سے کہہ دیا جائے کہ وہ منہ پر تھپڑ نہ ماریں اپنے بال نہ نوچیں اور کپڑوں کو نہ پھاڑیں اور اگر یوں رقّت کے ساتھ رونا آئے تو بے شک روئیں۔۵؎ ان باتوں سے آپ کی اخلاقی حالت کا پتہ چلتا ہے کہ باوجود زخمی اور تکلیف میں ہونے کے آپ کو دوسروں کے احساسات اور جذبات کا کتنا احترام تھا۔
پھر تاریخوں میں لکھا ہے کہ حضرت علیؓ نے اُحد سے واپس آکر حضرت فاطمہؓ کو اپنی تلوار دی اور کہا اِس کو دھو دو آج اِس تلوار نے بڑا کام کیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ کی یہ بات سن رہے تھے آپ نے فرمایا علیؓ! تمہاری ہی تلوار نے کام نہیں کیا اور بھی بہت سے تمہارے بھائی ہیں جن کی تلواروں نے جوہر دکھائے ہیں۔ آپ نے چھ سات صحابہؓ کے نام لیتے ہوئے فرمایا ان کی تلواریں تمہاری تلوار سے کم تو نہ تھیں۔۶؎ غرض آپ نے یہ بھی برداشت نہ کیا کہ آپ کا داماد کوئی ایسی بات کرے جس سے دوسرے صحابہؓ کے دلوں کو ٹھیس پہنچے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نظر چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی پہنچتی تھی اور باوجود یکہ جنگ ِاُحد کا واقعہ مستقل اثرات کے لحاظ سے اتنا بڑا واقعہ تھا کہ لوگوں کو اس واقعہ کے بعد سخت فکر تھی کہ دشمن اب دلیر ہوجائے گا یا آئندہ کیا ہوگا اور انسان ایسے اوقات میں چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتا مگر آپ نے ہر ایک کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور سب کی دلجوئی کی۔ آپ نے جب زینب بنت جحش کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور پھر فرمایا دیکھو ایک عورت کا اپنے محبت کرنے والے خاوند کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہوتا ہے تو اِس سے آپ کا یہ مطلب تھا کہ مردوں کو چاہئے کہ وہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کیا کریں اور معمولی معمولی باتوں پر اُن کو مارنے اور کوٹنے نہ لگ جایا کریں ۔جب ان کی عورتیں اپنے عزیزو اقارب سے جدا ہو کر ان کے پاس رہتی ہیں تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا اعزاز کیا جائے نہ کہ بات بات میں ان کے ساتھ جھگڑا فساد کیا جائے۔ آپ کے یہ فرمانے سے ایک طرف تو زینبؓ بنت جحش کی دلجوئی ہو گئی اور دوسری طرف آپ نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی بھی تلقین فرما دی۔ اسی طرح جب آپ نے یہ دیکھا کہ مدینہ کی عورتیں اپنے مرنے والوں کا نوجہ اور ماتم کر رہی ہیں تو آپ نے اس خیال سے کہ مہاجرین اور حضرت حمزہؓ کے رشتہ دار یہ خیال نہ کریں کہ ہمارا یہاں کوئی نہیں ہے اس لئے ان کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے آپ نے فرمایا آج حمزہؓ کو رونے والا کوئی نہیں۔ اور پھر جب مدینہ کی عورتیں حضرت حمزہؓ کا ماتم کرنے لگ گئیں تو آپ نے منع فرما دیا کہ اس طرح ماتم کرنا جائز نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر واقعہ میں آپ کا یہی خیال ہوتاکہ حضرت حمزہؓ کا ضرور ماتم کیا جائے تو آپ بعد میں منع نہ فرماتے۔ آپ نے جب حضرت حمزہؓ کی وفات پر کسی کے نہ رونے پر افسوس کا اظہار فرمایا اُس وقت بھی آپ کا جذبہ صرف دلجوئی کا تھا۔ اور جب آپ نے رونے والوں کو منع فرمایا اُس وقت بھی آپ کا جذبہ دلجوئی کا ہی تھا کیونکہ آپ نے ان عورتوں کو رونے سے روکا بھی اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ انہوں نے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور یہ پھر فرمایا مجھے تو پہلے ہی معلوم تھا کہ انصار کو مجھ سے زیادہ ہمدردی ہے اور یہ کہنے سے آپ کا یہ مطلب تھا کہ وہ رونے سے منع کرنے پربُرا نہ منائیں۔ آپ نے منع بھی کردیا اور ان کا شکریہ بھی ادا کر دیا۔ ہمیں یہ کتناشاندار اور عظیم الشان طریق نظر آتا ہے جو اتنے نازک وقت میں آپ نے اختیار کیا حالانکہ ایسے وقت میں جبکہ عزیز اور قریبی رشتہ دار مارے جا چکے ہوں خود کوئی شخص زخمی ہو اور مستقبل قریب کے ایام میں خطرہ محسوس ہو رہا ہو تو کوئی شخص اس قسم کا نمونہ پیش نہیں کر سکتا جو آپ نے کیا۔ پھرجب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ اُحد میں زخمی ہوگئے اور آپ بے ہوش ہو کر گر گئے یہاں تک کہ آپ کی وفات کی خبر مشہور ہو گئی۔ آپ نے ہوش آنے پر اخلاق فاضلہ کا جو مظاہرہ کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ آپ کے ان اخلاق فاضلہ کا ذکر جو آپ نے جنگ احد میں بے ہوشی کے بعد ہوش آنے پر دکھائے حضرت عمرؓ نے آپ کی وفات کے بعد ان الفاظ میں کیا تھا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کفار نے آپ کے دانت شہید کر دئیے، انہوں نے آپ کے منہ کو زخمی کر دیا، آپ کے اوپر سے پیر رکھتے ہوئے گزرے گئے اور آپ کو اور آپ کے عزیزوں اور قریبی رشتہ داروں اور آپ کے دوستوں کو انہوں نے انتہائی تکالیف پہنچائیں مگر یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ آپ نے ان کی ان ساری باتوں کے جواب میں صرف یہی فرمایا کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ۷؎ کہ اے خدا ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ یہ مجھے پہچان نہیں سکی۔ گویا ان دکھوں اور مصیبتوں کے وقت میں جبکہ آپ بے ہوشی سے ہوش میں آرہے تھے آپ کے منہ سے دشمنوں کے حق میں دعا نکل رہی تھی کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ اے خدا !ان کو میرے مقام کا پتہ نہیں ہے اور یہ مجھے شناخت نہیں کر سکے اس لئے تو ان کو بخش دے۔ اگر یہ مجھے پہچان لیتے تو کیوں اس طرح کرتے۔ یہ کیسے اعلیٰ اخلاق تھے جو آپ نے دکھائے اور کس طرح قدم قدم پر آپ نے وہ نمونہ پیش کیا جو بنی نوع انسان میں سے نہ کوئی پیش کر سکا اور نہ کر سکے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک ٹوٹ جانا یا آپ کو دوسری تکالیف کا پہنچنا ایک وقتی بات تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقرہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ قیامت تک یادگار رہے گا اور قیامت تک مسلمان اپنے پیارے اور محبوب کے اس فقرہ کے ساتھ آپ کو بُرا کہنے والے دشمن پر اتمامِ حجت کرتے رہیں گے اور کہیں گے کہ کچھ تو خیال کروآخر تم کس کو بُرا کہہ رہے ہو؟ کیا تم اُس کو بُرا کہہ رہے ہو جس کو مکہ میں متواتر تیرہ سال تک صرف یہ کہنے پر کہ ایک خدا کی پرستش کرو انتہائی دکھوں میں مبتلا رکھا گیا، جس کو اپنے پیارے وطن سے نکلنے پر مجبور کیا گیا، جس کو مارا اور پیٹا گیا، جس کے دانت توڑ دئیے گئے، جس کے عزیز ترین دوستوں کو شہید کر دیا گیا اور جس کے قریبی رشتہ داروں کو نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کر دیا گیا مگر اس کے دشمن کے ان مظالم کے باوجود کہا تو یہ کہا کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ اب تم ہی کہو کہ کیا ایسے باکمال انسان کو بُرا کہنا انصاف اور شرافت پر مبنی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر جب کس شخص کو دشمن کی طرف سے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ سخت سے سخت گالیاں دیتا ہے۔ اس کے دل میں دشمن کے خلاف انتہائی غصہ اور جوش ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے خدا اس کا بیڑاغرق کرے۔ خدا اسے غارت کرے حالانکہ دوسرے کسی شخص کو اپنے دشمن کی طرف سے اتنی تکلیف پہنچنے کا امکان ہی نہیں جتنی کہ آپ کے دشمنوں نے آپ کو پہنچائی تھیں پھر بھی دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر لوگ اپنے دشمن کے خلاف انتقامی جذبات سے مغلوب ہو جاتے ہیں مگر آپ نے انتہائی دُکھوں کے وقت میں جو نمونہ اخلاقِ فاضلہ کا پیش کیا اس کی نظیر لانے سے دنیا تا قیامت قاصر رہے گی۔ یہ وہی دشمن تھے جو رات دن آپ کے قتل کے منصوبے کیا کرتے تھے، یہ وہی دشمن تھے جنہوں نے آپ کے رشتہ داروں اور آپ کے صحابہؓ کو طرح طرح کی تکالیف پہنچائی تھیں، یہ وہی دشمن تھے جنہوں نے آپ کو اپنے عزیز وطن سے ہجرت کرنے کے لئے مجبور کر دیا تھا اور یہ وہی دشمن تھے جو آپ کے ہجرت کر کے مدینے پہنچ جانے کے بعد بھی آپ کو اور دوسرے مسلمانوں کو مٹا دینا چاہتے تھے۔ مگر آپ فرماتے ہیں اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ آپ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ یہ وہی دشمن ہیں جنہوں نے اسلام لانے والوں کو دوپہر کی تپتی ہوئی ریت پر لِٹا یا تھا، آپ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ یہ وہی دشمن ہیں جنہوں نے آپ پر ایمان لانے والوں کو آہنی سلاخیں آگ میں سرخ کر کر کے داغ دیا تھا، آپ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ یہ وہی دشمن ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو تین سال کے لمبے عرصہ تک شعب ابی طالب میں محصور رکھا تھا اور آپ بھول جاتے ہیں ان تمام مظالم کو جو ان دشمنوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً آپ پر ہوتے رہے اور آپ نہایت درد کے ساتھ دعا کرتے ہیں کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ اے خدا! یہ مجھے پہچان نہیں سکے ورنہ یہ میرے ساتھ ایسا سلوک نہ کرتے۔
میں کہتا ہوں کہ جنگ اُحد کاایک یہی واقعہ ایسا ہے جو سنگ دل سے سنگ دل دشمن کی چیخیں نکال دینے کیلئے کافی ہے اور بڑے سے بڑا دشمن اسلام اس واقعہ کو سن کر یہ پکار اُٹھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جیسا با اخلاق انسان نہ ہوا ہے نہ ہوگا۔ انگریزی ترجمۃ القرآن کے دیباچہ میں اور مضامین کے علاوہ میں نے مختصراً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح عمری بھی لکھی ہے جس کا انگریزی اور گورمکھی کے علاوہ ہندی میں بھی ترجمہ کیا جا رہا ہے وہ ترجمہ اصلاح کے لئے پٹنہ بھیجا گیا تو ایک ہندو پروفیسر جن کے ذریعہ وہ دیباچہ بھیجا گیا تھا ان کی چٹھی آئی کہ اسے پڑھ کر میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور چونکہ ہمیں اس سے قبل ان واقعات کا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی کا علم نہ تھا اس لئے ہم اندھیرے میں رہے۔ اگر کتاب چھپنے میں دیر ہو تو یہ مسودہ پہلے مجھے بھجوا دیا جائے۔
پس یہ واقعہ تو گزر گیا اور اس کو گزرے سینکڑوں سال ہوگئے مگر اس کی یاد رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔ یہ کتنا شاندار نشان ہے جو جنگ اُحد میں اللہ تعالیٰ نے دکھایا۔ غرض
ہر بلا کیں قوم را حق دادہ است
زیر آں گنج کرم بنہادہ است
کتنی صحیح بات ہے۔ یہ اتنا بڑا نشان ہے کہ ہم اس کو پیش کر کے دشمن کو منوا سکتے ہیں کہ اس واقعہ کے ساتھ تعلق رکھنے والا اخلاق فاضلہ کے کتنے اعلیٰ معیار پر قائم تھا اور اس سے دشمنی کرنا اس سے نہیں بلکہ خدا سے دشمنی کرنا ہے۔
عشاء کی اذان کے بعد حضور کچھ دیر تک السید منیر الحصنی صاحب سے عربی میں گفتگو فرماتے رہے اس کے بعد فرمایا:
منیر الحصنی صاحب یہ ذکر کر رہے تھے کہ احمدیت کی وجہ سے مخالفت کے باوجود ان کے خاندان والے اہم کاموں کیلئے انہی کو اپنا نمائندہ منتخب کرتے ہیں اور ان کے قبیلے کے لوگ ہرکام میں انہی کو آگے کرتے ہیں۔ سید منیر الحصنی صاحب تو تعلیم یافتہ آدمی ہیں ہماری جماعت میں ایک میاں مغلا ہیں جو بالکل اَن پڑھ ہیں ان کے بچے آج کل مدرسہ احمدیہ میں پڑھتے ہیں اور وہ جھنگ کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے کہیں سے احمدیت کا نام سن لیا اور چونکہ فطرت میں نیکی تھی وہ قادیان تحقیق کیلئے آئے اور بیعت کر کے واپس گھر چلے گئے۔ جب ان کے گھر والوں کو ان کی احمدیت کے متعلق علم ہوا تو ان کو خوب مارا پیٹا گیا اور بہت سی تکلیفیں دی گئیں۔ ان کے کھانے پینے کے برتن الگ کر دیئے گئے وہ علاقہ جس میں وہ رہتے ہیں چوروں کا ہے اور وہاں کے لوگوں میں چوری کا اتنا رواج ہے کہ وہ اس کو شرعاً یا اخلاقاً بُرا فعل نہیں کہتے۔ گوجرانوالہ، شیخوپورہ، جھنگ اور لائلپور وغیرہ کے علاقوں میں چوری کا اتنا رواج تھا کہ ایک ڈپٹی کمشنر نے ان اضلاع کے متعلق ایک رپورٹ تیار کی تھی جس میں اس نے لکھا تھا کہ ان لوگوں کے اندر چوری کی عادت اتنی زیادہ ہے کہ یہ ان کا ویسا ہی پیشہ ہو گیا ہے جیسے کہ زمینداری کا اور یہ لوگ اس کے بغیر گزارہ کر ہی نہیں سکتے اس لئے ان علاقوں میں چوری کو جرم قرار نہیں دینا چاہئے۔ یہ فن اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ اس پیشہ میں بھی بڑے بڑے رؤساء اور سردار ہوتے ہیں جن کا لوہا چوری پیشہ لوگوں میں مانا جاتا ہے کسی کو شاہ چور کا خطاب دیا جاتا ہے اور کسی کو شہنشاہ چور کا۔ اور جو چھوٹے چور ہوتے ہیں وہ اپنی چوریوں میں سے ان رؤساء کا حصہ مقرر کرتے ہیں اور جب کوئی چوری کرتے ہیں تو ان کا حصہ ان کے گھروں میں پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے فلاں کی بھینس چرائی تھی اس میں سے آپ کا اتنا حصہ ہے۔ ہماری جماعت کے ایک دوست بھی احمدیت سے پہلے شاہ چور تھے وہ بھی اپنے واقعات سنایا کرتے تھے کہ جب میں نے چوری چھوڑ دی تو بھی یہ حالت تھی کہ میرے گھر پرمجھے دوسرے چوروں سے حصہ ملتا رہا اور چور آ کر مجھے کہتے تھے آپ ہمارے سردار ہیں۔ وہ دوست ۱۹۱۸ء میں احمدی ہوئے تھے اور اس کے بعد انہوں نے اس پیشہ کو چھوڑ کر توبہ کر لی۔ غرض میاں مغلا نے سنایا کہ ان کے بھائیوں نے کسی کے ہاں چوری کی اور کچھ جانور چرا لائے۔ جانوروں کے مالک کھوج نکالتے ان کے گھر پہنچے اور ان کے باپ کو کہا کہ تمہارے بیٹوں نے ہمارے جانور چرائے ہیں۔ ان کے باپ نے انکار کر دیا تو انہوں نے کہا ہمیں تمہاری بات کا یقین نہیں آتا۔ ہاں اگر میاں مغلا کہہ دے کہ تیرے بیٹوں نے چوری نہیں کی تو ہم مان جائیں گے۔ چنانچہ میاں مغلا کا باپ ان کے پاس آیا اور کہا اب تمہارے ہی ذریعہ اس جرم سے ہم بچ سکتے ہیں اس لئے تم ان سے جا کر کہہ دو کہ میرے بھائیوں نے تمہارے جانور نہیں چرائے۔ انہوں نے کہا میں تو جھوٹ نہیں بول سکتا، جب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ یہ چوری کر کے لائے ہیں تو اب میں کس طرح جھوٹ بول سکتا ہوں۔ اس پر باپ اور بھائیوں نے ان کو خوب مارا اور کہا خبردار اگر سچ بولا کیا تم اپنے بھائیوں کے ساتھ اتنی بھی ہمدردی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا تم ان سے جا کر کہہ دو کہ مغلا تو کافر ہے، اس کی گواہی تم کیوں مانتے ہو۔ چنانچہ مغلا کا باپ اور بھائی جانوروں کے مالکوں کے پاس گئے اور کہا مغلا تو کافر ہو گیا ہے اس کی گواہی سے تم کس طرح اطمینان حاصل کر سکتے ہو۔ انہوں نے کہا ،ہے تو وہ کافر مگروہ جھوٹ کبھی نہیں بولتا اس لئے ہم اسی کی گواہی لیں گے اور کسی کی گواہی پر ہمیں اعتبار نہیں ہے۔ باپ اور بھائی پھر ان کے پاس آئے اور کہا وہ تو تمہاری گواہی مانگتے ہیں اس لئے ہمارے ساتھ چلو اور صفائی پیش کرو یہ ان کے ساتھ چلے گئے اور بھری مجلس میں کہہ دیا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنے بھائیوں کو جانور لاتے دیکھا ہے۔ اس پر ان کے باپ اور بھائیوں نے انہیں خوب مارا۔ پس لوگ احمدیت کی کتنی بھی مخالفت کریں جہاں کہیں کوئی خاص ذمہ داری کا کام ہوتا ہے انہی کو آگے کیا جاتا ہے۔
یہ بھی سلسلہ کی سچائی کا کتنا بڑا ثبوت ہے کہ مخالف بھی اس بات کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ لوگ سچ بولتے ہیں۔ اَلْفَضْلُ مَاشَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ
(الفضل ۱۵،۱۶،۱۷ ، ۲۱ ستمبر ۱۹۶۱ء)
۱؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۸۴،۸۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲؎ اسد الغابۃ جلد۵ صفحہ۴۲۸ میں زینب کی بجائے حمنہ کا ذکر ہے۔
۳؎ تاریخ ابن تاثیر جلد۲ صفحہ۱۶۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۴؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۲۶۷،۲۶۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۵؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۱۰۴،۱۰۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۱۰۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۷؎ بخاری کتاب الانبیاء باب۵۷ حدیث ۳۴۷۷
قومی ترقی کے دو اہم اصول
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
قومی ترقی کے دواہم اصول
(فرمودہ ۵؍جون ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
کچھ دن ہوئے مَیں نے یہ ذکر کیا تھا کہ جو جماعتیں اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب ہونا چاہیں ان کے لئے کچھ اصول مقرر ہوتے ہیں اور مَیں نے کہا تھا کہ میں ان اصول کے متعلق کسی مجلس میں کچھ باتیں بیان کروں گا مگر اس کے بعد چونکہ بعض اور مضامین شروع ہوتے گئے اس لئے یہ مضمون بیان نہ ہو سکا۔ آج میں اسی مضمون کا کچھ حصہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔
یادرکھنا چاہئے کہ کسی مقصد میں کامیابی کے لئے سب سے پہلی بڑی اور ضروری بات یہ ہوتی ہے کہ جماعت کو اپنے مقصد کے متعلق یقین ہو۔ یعنی ایک مقصدِ عالیہ جو اس کے سامنے ہو اس کے متعلق اسے کامل یقین ہو کہ یہ مقصد ٹھیک ہے، صحیح ہے اور مفید ہے۔ دینی اور دُنیوی جماعتوں کے الگ الگ مقاصد ہوتے ہیں کوئی ایک مقصد انسان اپنے سامنے رکھ لیتا ہے اور اس کی کامیابی کے لئے کوشش شروع کر دیتا ہے، قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱؎ یعنی ہر شخص کے سامنے ایک مقصد ہوتا ہے جس کی طرف وہ اپنی پوری توجہ مبذول کر دیتا ہے اس جگہ سے مرادوہ مطمح نظریا مقاصد عالیہ ہیں جو مفیدا ور با برکت ہوں چاہے وہ دینی ہوں یا دُنیوی، دینی جماعتوں کے سامنے بھی ایک مفید مقصد کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور دُنیوی جماعتوں کے پیش نظر بھی ایک مفید اور بابرکت مقصد کا ہونا ضروری ہوتا ہے، جب تک ان دونوں قسم کی جماعتوں کے سامنے کوئی مفید اور بابرکت مقصد نہ ہو ان کے اندر بیداری پیدا نہیں ہو سکتی مثلاً مسلمانوں کو دیکھ لو آج سے تھوڑا عرصہ پیشتران کے اندر کوئی انجمنیں نہ تھیں اور یہ لوگ کانگرس کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے لیکن جب انہوں نے کانگرس کی خود غرضانہ چالوں کو بھانپا اور اپنی الگ سیاسی پارٹی بنانا چاہی تو عام مسلمانوں نے یہ خیال کیا کہ کانگرس کی موجودگی میں الگ سیاسی پارٹی بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ مسلمان لیڈروں نے یہ دیکھ کر کہ قوم کے نوجوان ان کا پوری طرح ساتھ دینے کو تیار نہیں ہیں اخبارات میں بیان دینے شروع کئے۔ اس وقت یہ حالت تھی کہ اخبار صرف اس وجہ سے ان کے بیان چھاپ دیتے تھے کہ یہ بڑے بڑے لوگ ہیں ان کے ناموں سے بیان چھپنے سے ہمارے اخبارات کی خوب اشاعت ہوگی اور لیڈر اس وجہ سے بیان دیتے تھے کہ ہمارا نام روشن ہو جائے گا مگر اس کا نتیجہ کچھ بھی نہ نکلتا تھا اور عوام الناس کانگرس کا پیچھا نہ چھوڑتے تھے مگر اب چار پانچ سال سے جب مسلمانوں کے سامنے ایک مقصد رکھا گیا اور ان کو سمجھایا گیا کہ یہ مقصد ہمارے لئے مفید اور بابرکت ہے تو ان کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے کہا ہم اپنی الگ حکومت چاہتے ہیں اور جب انہوں نے اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا کہ اس مقصد کے حصول کے لئے کانگرس یا انگریز ہماری مدد نہیں کریں گے تو وہ سمجھ گئے کہ یہ کام اب ہم نے ہی کرنا ہے اور جب ایک مقصد ان کے سامنے آگیا تو ان کے اند ر بیداری پیدا ہوگئی اور وہ اس قسم کے نعرے لگانے لگ گئے کہ لے کے رہیں گے پاکستان۔ مسلمانوں میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جو سیاست سے بالکل بے بہرہ تھے اور وہ پاکستان کے معنے بھی نہ جانتے تھے لیکن یہ مقصد سامنے آنے پر وہ اس کے حصول کے لئے تُل گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے وہ یہی سمجھتے تھے کہ جب کانگرس آزادی کے لئے لڑ رہی ہے تو ہمارے الگ ہو کر لڑنے کی کیا ضرورت ہے اور وہ کہتے تھے کہ جب کانگرس آزادی حاصل کر لے گی تو ہمیں خود بخود آزادی مل جائے گی لیکن جو نہی پاکستان کا سوال اٹھا مسلمانوں کا بچہ بچہ بیدار ہوگیا اور انہوں نے کہا ہمارے اس مقصد کے حصول میں ہندو ہماری مدد نہیں کریں گے، سکھ ہماری مدد نہیں کریں گے، انگریز ہماری مدد نہیں کریں گے بلکہ یہ مقصد اگر حاصل ہو سکتا ہے تو ہماری اپنی قربانیوں سے ہی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ان میں بیداری پیداہوتی گئی اور آخر وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوگئے۔
مذہبی جماعتوںکا مقصد اس سے بالکل جُدا گانہ ہوتا ہے ایک مذہبی جماعت دُنیوی بادشاہت کے پیچھے نہیں پڑتی بلکہ وہ اپنے سامنے یہ مقصد رکھتی ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے اور جب مؤمن اس مقصد کو اپنے سامنے رکھ لیتے ہیں تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ کام ہم ہی نے کرنا ہے کسی اور نے نہیں کرنا۔ دنیا اور کاموں میں لگی رہتی ہے مگر وہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت کی بنیادیں رکھ رہے ہوتے ہیں پس کامیابیوں اور ترقیات کے لئے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ قوم کے سامنے ایک مقصد عالی ہو کیونکہ جب تک مقصد عالی نہ ہوگا بیداری پیدا نہیں ہو سکے گی اور اس مقصد کے متعلق اس قوم یا جماعت کے اندر یہ احساس پایا جائے کہ یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے اور کسی نے نہیں کرنا ۔ جب یہ روح اس کے اندر پیدا ہو جائے گی تو اس مقصد کے حصول میں کوئی روک نہیں رہے گی۔ کامیابیاں اور کامرانیاں اس کے قدم چومیں گی اور ہر میدان میں فتح کا سہرا اس کے سر پر ہو گا مگر اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ مذہبی جماعتیں زمین کی بادشاہت کے لئے جدوجہد نہیں کرتیں بلکہ وہ آسمانی بادشاہت کے لئے کوشاں رہتی ہیں جیسے حضرت مسیح ؑ نے بھی فرمایا ہے کہ اے خدا! تیری بادشاہت جیسے آسمان پر ہے ویسی ہی زمین پر بھی ہو۲؎ یہی وجہ تھی کہ یہودیوں کے اندر غلط فہمی سے یہ احساس پیدا ہوگیا تھا کہ مسیح زمین کی بادشاہت چاہتا ہے حالانکہ وہ آسمانی بادشاہت چاہتا تھا اور عیسائیوں کے دلوں میں اس مقصد کے حصول کے لئے جوش پیدا ہوگیا تھااور وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے اور اسی مقصد کے پیش نظر ان میں سے ہر ایک قربانی کرتا تھا اور ان میں یک جہتی اور یکسوئی پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے وہ جماعت طاقت پکڑگئی۔
پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ نے بتایا کہ مسیح ؑ جو کہتا تھا کہ میں کچھ مدت کے بعد آسمان پر چلا جاؤں گا یہ در اصل پیشگوئی تھی کہ ایک مدت تک میری بادشاہت قائم رہے گی پھر خدا کسی اور کو بھیج دے گا جس کی حکومت دائمی ہوگی۔ پس جب مسیح کی بادشاہت آسمان پر چلی گئی تو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج دیا۔ شروع شروع میں آپ کے ساتھ دس بیس صحابہؓ تھے لیکن ان میں سے ہر شخص یہ سمجھے ہوئے تھا کہ میں نے ہی خدا تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ کام صرف اور صرف ہمارا ہی ہے اور اس کوہم نے ہی سر انجام دینا ہے۔ عتبہ ،شیبہ، ولید اور ابوجہل وغیرہ نے سر انجام نہیں دینا۔ پس وہ سب کے سب خدا تعالیٰ کے دین اور اس کی بادشاہت کے قیام کے لئے لگے رہے اور آخر کامیاب ہوگئے۔ اس وقت ہر شخص جو اسلام کے اندر داخل ہوتا تھا وہ اس ارادہ سے آتا تھا کہ میں نے اپنی جان کو ہلاک کر دینا ہے مگر خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کرکے چھوڑنا ہے اور ان میں سے ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ یہ کام میں نے ہی کرنا ہے۔ یہ قدرتی بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی کام کے متعلق یہ سمجھ لے کہ یہ میں نے ہی کرنا ہے تو اس کے اندر بیداری پیدا ہو جاتی ہے۔ عام طور پر ہمار ی جماعت کے لوگوں کا طریق ہے کہ وہ ایک دوسرے کو دعا کے لئے کہتے رہتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو سنجیدگی کے ساتھ اور ضرورتاً کہتے ہیں اور بعض عادتاً کہہ جاتے ہیں اور پھر جن کو دعا کے لئے کہا جاتا ہے وہ بھی ان دونوں پہلوؤں کو لیتے ہیں جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ مجھ کو جو دعاکے لئے کہا گیا یہ ضرورتاً اور سنجیدگی کے ساتھ نہیں کہا گیا تو وہ دعا نہیں کرتا اور بھول جاتا ہے لیکن جو شخص دعا کی درخواست کرنے والے کے متعلق یہ سمجھتا ہے کہ اس کو واقعی کوئی مصیبت در پیش تھی اور اس نے مجھ سے دعا کی قبولیت پر یقین رکھتے ہوئے دعا کی درخواست کی ہے وہ ضرور دعا کرتا ہے اور ایسی دعاہی اللہ تعالیٰ کے حضور قبول ہوتی ہے۔ مثلاً مجھے اپنا ایک واقعہ یاد ہے کہ ۱۸۔۱۹۱۷ء میں ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب انگریزی فوج میں بھرتی ہو کر بغداد گئے۔ ان کے بھائی نذیر احمد صاحب یہاں تھے۔ وہ ہمارے چھوٹے بھائی میاں شریف احمد صاحب کے ساتھ پڑھتے رہے تھے۔ اُن دنوں ہمارا طریق تھا کہ ہم حضرت اماں جان مد ظلہا العالی کے ساتھ شام کا کھانا کھایا کرتے تھے ایک دن ہم کھانا کھا رہے تھے تو عزیزم میاں شریف احمد صاحب نے مجھے بتایا کہ انہیں نذیر احمد صاحب نے بتایا ہے کہ ان کے بھائی ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب مارے گئے ہیں اور یہ خبر ان کو گورنمنٹ کی طرف سے ملی ہے۔ اس سے کچھ دن پیشتر انہی ڈاکٹر صاحب کی والدہ اور والد صاحب یہاں آئے تھے اور میں نے ان دونوں کو دیکھا تھا وہ دونوں بہت ضعیف تھے اور عجیب بات یہ ہے کہ میں یہ سمجھتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب ان کے اکلوتے بیٹے ہیں حالانکہ وہ سات بھائی تھے۔ جب میں نے ان کے مارے جانے کی خبر سنی تو مجھے ان کے بوڑھے والدین کا خیال کر کے بہت صدمہ ہوا اور مَیں نے خیال کیا کہ ان بے چاروں کا وہی ایک بیٹا بڑھاپے کا سہارا تھا اب ان کا کیا حال ہوگا۔ چنانچہ جب میں عشاء کی نماز کے بعد بیت الدعا میں سنتیں پڑھنے کے لئے گیا تو نہایت جوش اور رقت کے ساتھ میرے منہ سے بار بار یہ الفاظ نکلنے لگے کہ الٰہی! ڈاکٹر مطلوب خاں زندہ ہو جائیں مگر پھر میرے دل میں خیال آتا کہ ہمارا تو یہ عقیدہ ہی نہیں کہ کوئی شخص ایک دفعہ مر کر دوبارہ زندہ ہو جائے مگر اس خیال کے آنے کے بعد بھی میرے منہ سے بے اختیار یہ دعا نکل جاتی کہ الٰہی! ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب زندہ ہو جائیں اور یہ دعا برابر میرے منہ سے نکلتی رہی۔ رات کو جب میں سویا تو میں نے رؤیا میں دیکھا کہ ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب مجھے ملے ہیں اورانہوں نے تین چار دن پہلے کی تاریخ بتا کر کہا کہ میں زندہ ہوں۔ میں نے دوسرے دن کھانا کھاتے وقت یہ خواب میاں شریف احمد صاحب کوسنائی اور ساتھ ہی کہا یہ خواب ہے تو سچی کیونکہ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ خواب سچی ہے مگر میں واقعات کو کیا کروں مرے ہوئے آدمی تو زندہ نہیں ہو سکتے اور اِس کی کوئی اور تعبیر سمجھ میں نہیں آتی۔میاں شریف احمد صاحب نے میری یہ خواب نذیر احمد صاحب کو سنائی وہ بھی اس پر حیران ہوئے لیکن دوسرے ہی دن نذیر احمد صاحب نے بتایا کہ ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کی تار آئی ہے کہ میں صحیح سلامت ہوں۔ یہ سن کر سب حیران رہ گئے کہ گورنمنٹ تو اطلاع دے رہی ہے کہ مطلوب خاں فوت ہو چکا ہے اور خود مطلوب خاں صاحب تار دیتے ہیں کہ میں زندہ ہوں۔اصل بات یہ تھی کہ ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب ایک لڑائی میں شامل ہوئے اور اسی حملہ میں ایک ڈاکٹر کی لاش ملی وہ ڈاکٹر تو سکھ تھا مگر اس کی داڑھی کی وجہ سے انہوں نے سمجھا کہ یہ ڈاکٹر مطلوب خاں کی لاش ہے اور چونکہ لاش کا چہرہ بالکل پہچاننے کے قابل نہ رہ گیا تھا اور پھر وہاں ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب ہی معروف تھے اس لئے سمجھ لیا گیا کہ وہ مارے گئے ہیں اور گورنمنٹ نے ان کے مرنے کی خبر بھی دے دی۔ درحقیقت مطلوب خاں صاحب کو دشمن قید کر کے لے گئے تھے اور جب اتحادیوں کے ہوائی جہازوں نے دشمن پر بمباری کی تو دشمن میں افراتفری پھیل گئی اور یہ کسی طرح بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ پس دعا کے لئے درد دل کا ہونا ضروری ہے۔
ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے دل میں سب سے بڑھ کر کس شخص کے لئے دعا کرنے کے لئے جوش پیدا ہوتا ہے انہوں نے فرمایا جو شخص میرے پاس آکر یہ کہے کہ میرا آپ کے سوا اور کوئی نہیں ہے اس کے لئے میرے دل میں بہت جوش پیدا ہوتا ہے۔ پس جو آکر کہتا ہے کہ میرا تمہارے سوا اور کوئی نہیں اس کے لئے دل میں درد پیدا ہو جاتا ہے مثلاً جب میں نے ڈاکٹر صاحب کی وفات کی خبر سنی تو مجھے ان کے بوڑھے والدین کا خیال کر کے سخت صدمہ ہوا اور میں نے خیال کیا کہ ان کا میرے سِوا کوئی نہیں رہا اس لئے اس قدر درد اور سوز کے ساتھ میرے دل سے دعائیں نکلیں کہ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کو صحیح سلامت رکھ لیا۔ پس کسی مقصد کے لئے یہ جان لینا ضروری ہوتا ہے کہ یہ کام صرف میں نے ہی سرانجام دینا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے مرسل جب آتے ہیں اُس وقت ہر شخص جو ان کی جماعت میں داخل ہوتا ہے یہ سمجھتا ہے کہ دین کا کام میرے سوا اور کسی نے نہیں کرنا جب وہ یہ سمجھ لے تو وہ اس کی انجام دہی کے لئے اپنی ساری قوتیں صرف کر دیتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ مجنوں بن جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب فوت ہوئے تو میں نے اس قسم کی آوازیں سنیں کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے ایسا کہنے والے یہ تو نہیں کہتے تھے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ آپ جھوٹے ہیں مگر یہ کہتے تھے کہ آپ کی وفات ایسے وقت میں ہوئی ہے جبکہ آپ نے خدا تعالیٰ کا پیغام اچھی طرح نہیں پہنچایا اور پھر آپ کی بعض پیشگوئیاں بھی پوری نہیں ہوئیں۔ میری عمر اُس وقت اُنیس سال کی تھی۔ میں نے جب اِس قسم کے فقرات سنے تو میں آپ کی لاش کے سرہانے جا کر کھڑا ہوگیا اور مَیں نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے دعا کی کہ اے خدا! یہ تیرا محبوب تھا جب تک یہ زندہ رہا اس نے تیرے دین کے قیام کے لئے بے انتہاء قربانیاں کیں اب جبکہ اس کو تُونے اپنے پاس بلالیا ہے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس کی وفات بے وقت ہوئی ہے ممکن ہے ایسا کہنے والوں یاان کے باقی ساتھیوں کے لئے اس قسم کی باتیں ٹھوکر کا موجب ہوں اور جماعت کا شیرازہ بکھر جائے اس لئے اے خدا! میں تجھ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی تیرے دین سے پھر جائے تو میں اس کے لئے اپنی جان لڑا دوں گا۔ اُس وقت میں نے سمجھ لیا تھا کہ یہ کام میں نے ہی کرنا ہے اور یہی ایک چیز تھی جس نے ۱۹ سال کی عمر میں ہی میرے دل کے اندر ایک ایسی آگ بھر دی کہ میںنے اپنی ساری زندگی دین کی خدمت پر لگا دی اور باقی تمام مقاصد کو چھوڑ کر صرف یہی ایک مقصد اپنے سامنے رکھ لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس کام کے لئے تشریف لائے تھے وہ اب میں نے ہی کرنا ہے۔ وہ عزم جو اُس وقت میرے دل کے اندر پیدا ہوا تھا آج تک میں اُس کو نت نئی چاشنی کے ساتھ اپنے اندر پاتا ہوں اور وہ عہد جو اُس وقت میں نے آپ کی لاش کے سرہانے کھڑے ہو کر کیا تھا وہ خضر راہ بن کر مجھے ساتھ لئے جاتا ہے ۔ میرا وہی عہد تھا جس نے آج تک مجھے اس مضبوطی کے ساتھ اپنے ارادہ پر قائم رکھا کہ مخالفت کے سینکڑوں طوفان میرے خلاف اُٹھے مگر وہ اس چٹان کے ساتھ ٹکرا کر اپنا ہی سر پھوڑگئے جس پر خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا تھا اور مخالفین کی ہر کوشش، ہر منصوبہ اور ہر شرارت جو انہوں نے میرے خلاف کی وہ خود انہیں کے آگے آتی گئی اور خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل کے ساتھ مجھے ہر موقع پر کامیابیوں کا منہ دکھایا یہاں تک کہ وہی لوگ جو حضرت مسیح موعودد علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے وقت یہ کہتے تھے کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے آپ کے مشن کی کامیابیوں کو دیکھ کر انگشت بدنداں نظر آتے ہیں۔پس جو شخص یہ عہد کر لیتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ یہ کام میں نے ہی سر انجام دینا ہے اُس کے رستہ میں ہزاروں مشکلات پیدا ہوں، ہزاروں روکیں واقع ہوں اور ہزاروں بند اُس کے رستہ میں حائل ہوں وہ ان سب کو عبور کرتا ہوا اس میدان میں جا پہنچتا ہے جہاں کامیابی اس کے استقبال کے لئے کھڑی ہوتی ہے۔ پس ہماری جماعت کے ہر شخص کو یہ عہد کرلینا چاہئے کہ دین کا کام میں نے ہی کرنا ہے اس عہد کے بعد ان کے اندر بیداری پیدا ہو جائے گی اور ہر مشکل ان پر آسان ہوتی جائے گی اور ہر عسر ان کے لئے یسر بن جائے گی ان کو بے شک بعض تکالیف اور مصائب اور آلام سے بھی دو چار ہونا پڑے گا مگر وہ اس میں عین راحت محسوس کریں گے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے کہ دین کی تکمیل کے لئے صرف تم ہی میرے مخاطب ہو تمہارے صحابہ اس کام میں حصہ لیں یا نہ لیں لیکن تم سے بہر حال میں نے کام لینا ہے۳؎ یہی وجہ تھی کہ آپ رات دن اسی کام میں لگے رہتے تھے اور آپ کی ہر حرکت اور آپ کا ہر سکون اور آپ کا ہر قول اور ہر فعل اِس بات کے لئے وقف تھا کہ خدا تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کیا جائے اور آپ اس بات کو سمجھتے تھے کہ یہ اصل میں میرا ہی کام ہے کسی اور کا نہیں۔ جب آپ فوت ہوئے تو بہت سے نادان مسلمان مرتد ہوگئے تاریخوں میں آتا ہے کہ صرف تین جگہیں ایسی رہ گئی تھیں جہاں مسجدوں میں باجماعت نماز ہوتی تھی۔ اسی طرح ملک کے اکثر لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا کیا حق ہے کہ وہ ہم سے زکوٰۃ مانگے۔ جب یہ رَوْ سارے عرب میں پھیل گئی اور حضرت ابوبکرؓ نے ایسے لوگوں پر سختی کرنی چاہی تو حضرت عمرؓ اور بعض اور صحابہؓ حضرت ابو بکرؓ کے پاس پہنچے اور انہوں نے عرض کیا کہ یہ وقت سخت نازک ہے اِس وقت کی ذراسی غفلت بہت بڑے نقصان کا موجب ہوسکتی ہے اس لئے ہماری تجویز یہ ہے کہ اتنے بڑے دشمن کا مقابلہ نہ کیا جائے اور جو زکوٰۃ نہیں دینا چاہتے ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا جائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ تم میں سے جو شخص ڈرتا ہو وہ جہاں چاہے جائے خدا کی قسم! اگر تم میں سے ایک شخص بھی میرا ساتھ نہ دے گا تو بھی میں اکیلا دشمن کا مقابلہ کروں گا اور اگر دشمن مدینہ کے اندر گھس آئے اور میرے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو قتل کر دے اور عورتوں کی لاشیں مدینہ کی گلیوں میں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں ان سے جنگ کروں گا اور اُس وقت تک نہیں رُکوں گا جب تک یہ لوگ اونٹ کا گھٹنا باندھنے کی وہ رسّی بھی جو پہلے زکوٰۃ میں دیا کرتے تھے نہ دینے لگ جائیں۔۴؎ چنانچہ انہوں نے دشمن کی شرارت کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا اور آخر کامیاب ہوئے صرف اس لئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ کام میں نے ہی کرنا ہے اسی لئے انہوں نے مشورہ دینے والے صحابہؓ کو کہہ دیا کہ تم میں سے کوئی شخص میرا ساتھ دے یا نہ دے میں اکیلا دشمن کا مقابلہ کروں گا یہاں تک کہ میری جان خداتعالیٰ کی راہ میں قربان ہو جائے۔ پس جس قوم کے اندر یہ عزم پیدا ہو جائے وہ ہر میدان میں جیت جاتی ہے اور دشمن کبھی اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ اپنے مقصد کی کامیابی پر یقین ہی ایک ایسی چیز ہے جو کسی قوم کو بامِ رفعت پر پہنچا سکتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ہماری جماعت کے لوگوں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے۔ انہیں جان لینا چاہئے کہ جو مقصدِ عالی ان کے سامنے ہے اسے ہمارے سوا کسی اور نے نہیں کرنا اور یہ کام چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اس لئے کس قدر بھی زیادہ قربانیاں ہمیں اس کے لئے کیوں نہ کرنی پڑیں ہم ان سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہمارے سامنے تاریخ میں ایسی ہزاروں مثالیںموجود ہیں کہ لوگوں نے اپنے آقاؤں کے لئے اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔
ایک بادشاہ اور اس کا نوکر کہیں جا رہے تھے کہ دشمن نے ان کو پکڑ لیا اور بادشاہ کو پھانسی کی سزا مل گئی مگر نوکر نے بادشاہ کو پھانسی سے بچانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا اور کہا بادشاہ یہ نہیں بلکہ میں ہوں اس لئے مجھے پھانسی پر چڑھا یا جائے۔
اسی طرح ایک مشہور واقعہ ہے کہ خانخاناں جو بہرام کے بیٹے تھے اور فوج میں جرنیل تھے شاہجہان کے وقت جب بغاوت ہوئی اور باشاہ کے داماد نے یہ شرارت اُٹھائی تو اس میں خانخاناں کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ اُن کا نوکر جو نَو مُسلم تھا ان کا بہت منہ چڑھا تھا انہوں نے اس کو داروغہ بنا دیا تھا اور لوگ اس نوکر کو جانجاناں کے نام سے پکارتے تھے۔ خانخاناں بہت سخی واقع ہوئے تھے مگر جانجاناں ان سے بھی زیادہ سخی تھا اور ان کا بہت سا مال تقسیم کر دیا کرتا تھا اور لوگ اس پر ہمیشہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ خانخاناں نے اس کو کیوں اتنا منہ چڑھا یا ہوا ہے۔ خانخاناں کی سخاوت کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ وہ کھانا کھانے بیٹھے اور ان کا ایک نوکر چوکری۵؎ جَھل رہا تھا کہ وہ رو پڑا انہوں نے جب اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو اس سے پوچھا تمہارے رونے کی کیا وجہ ہے کیا تمہیں میرے پاس رہنے میں کوئی تکلیف ہے؟ نوکر نے کہا تکلیف تو کوئی نہیں صرف یہ بات ہے کہ میں ایک بہت بڑے رئیس کا بیٹا ہوں اور میرا باپ بھی آپ ہی کی طرح کا رئیس تھا اور بالکل اسی طرح اُس کے سامنے کھانے چنے جاتے تھے اور مہمان پاس بیٹھ کر کھاتے تھے جب میں نے آپ کے دسترخوان پر یہ کھانے دیکھے اور اتنے لوگوں کو کھاتے دیکھا تو مجھے اپنا باپ یاد آگیا اور میں بے اختیار رو پڑا۔ عبدالرحیم خانخاناں نے کہا اچھا ایک بات تو بتاؤ کبوتر کے گوشت کا سب سے زیادہ، اچھا اور لذیذ کونسا حصہ ہوتا ہے؟ جو لوگ کبوتر کا گوشت استعمال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس کا سب سے لذیذ حصہ اس کی کھال ہوتی ہے۔ نوکر نے کہا کبوتر کی کھال سب سے زیادہ لذیذ ہوتی ہے، یہ سن کر خانخاناں سمجھ گئے کہ یہ واقعی کسی رئیس کا لڑکا ہے۔ انہوں نے فوراً حکم دیا کہ اِس نوکر کو حمام میں لے جا کر اسے غسل دیا جائے اور اسے اعلیٰ قسم کا لباس پہنا یا جائے اور دسترخوان پر بٹھا کر کھانا کھلایا جائے۔ چنانچہ اس پر عمل کیا گیا جب دوسرے نوکروں نے یہ واقعہ سنا تو ان میں سے بھی ایک نوکر کا جی للچایا اور اُس نے ارادہ کیا کہ میں بھی اسی قسم کا پارٹ ادا کروں گا چنانچہ دوسرے دن جب وہ لڑکا کھانے کے وقت چوکری جھل رہا تھا اس نے بھی رونا شروع کر دیا۔ خانخاناں نے اس سے پوچھا کہ تم کیوں روتے ہو؟ اس نے کہا بات یہ ہے کہ میرا باپ بھی آپ ہی کی طرح کا ایک رئیس تھا اور اسی طرح اس کے سامنے کھانے رکھے جاتے تھے اور نوکر چاکر اور خدمت گذار ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے میں نے جب آپ کے سامنے دسترخوان دیکھا تو مجھے اپنا باپ یاد آگیا۔ خانخاناں نے بے ساختہ اُس سے پوچھا بتاؤ بکرے کے گوشت کا سب سے لذیذ حصہ کونسا ہوتا ہے؟ نوکر نے بِلا سوچے سمجھے کہہ دیا کہ کھال۔ خانخاناں نے نوکروں کو حکم دیا کہ نکال دو اِس بدتمیز کو اس نے جھوٹ بولا ہے۔
خانخاناں کے متعلق ایک اور لطیفہ بھی مشہور ہے۔ کہتے ہیں وہ بہت زیادہ خوبصورت تھے ایک امیر عورت اُن پر فریفتہ ہو گئی اور اُس نے اُن سے کہا میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں تا کہ میرا بیٹا آپ ہی کی طرح کا خوبصورت ہو۔ وہ ہر روز اُن کو شادی کا پیغام بھیجتی تھی مگر وہ انکار کر دیتے تھے۔ ایک دن تنگ آکر اُنہوں نے اُس عورت کو لکھا کہ بچہ ہونا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور فرض کرو میرے ساتھ شادی کر کے بھی تمہارے ہاں کوئی لڑکا نہ پیدا ہو تو تمہاری ساری محنت ضائع جائے گی اس لئے بہتر ہے کہ تم مجھی کو اپنا بیٹا سمجھ لو جس طرح میں اپنی والدہ کی خدمت کیا کرتا ہوں اسی طرح تمہاری بھی خدمت کیا کروں گا۔
غرض میں بیان کر رہا تھا کہ خانخاناں بھی سخی تھے ان کا نوکر جانجاناں ان سے بھی زیادہ سخی تھا اور وہ ان کا بہت سا مال لٹا دیتا تھا۔ لوگ یہ دیکھ کر ناراض ہوتے اور کہتے آپ نے اس نوکر کو اتنا کیوں سر چڑھا رکھا ہے۔ خانخاناں ہمیشہ یہ جواب دیا کرتے کہ جب کبھی مجھ پر کوئی مصیبت کا وقت آیا اُس وقت اِس نوکر کی وفاداری دیکھ لینا۔ چنانچہ جب بغاوت کے زمانہ میں ان پر بھی بغاوت کا الزام لگایا گیا اور اُن کو پھانسی کا حکم ہوا اور سپاہی ان کو پکڑنے کے لئے آئے تو باقی تمام نوکر تو بھاگ گئے لیکن جانجاناں اکیلا اُن کے مقابلہ میں سینہ تان کر کھڑا ہوگیا اور مقابلہ کرتے کرتے اُس نے جان دے دی چنانچہ اب تک اُس کا مقبرہ موجود ہے ایک طرف خانخاناں کا مقبرہ ہے اور دوسری طرف چھوٹا سا جانجاناں کا مزار ہے۔
اب دیکھو دنیا میں چھوٹے چھوٹے محسنوں کے لئے لوگ کتنی قربانیاں کرتے ہیں پھر جب وہ فانی دنیا کے فانی محسنوں کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں یا یوں سمجھ لو کہ جب وہ کوئلوں کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں تو تم روحانی موتیوں اور ہیروں کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کو کیوں قربان نہیں کر سکتے۔ اگر تم ایسا کرو اور اپنی جانیں خدا تعالیٰ کے سپرد کر دو تو اللہ تعالیٰ تمہیں غیر معمولی ترقی عطا فرمائے گا اور تمہارا قدم ہمیشہ ترقی کی طرف بڑھتا چلا جائے گا۔قرآن کریم نے نہایت واضح الفاظ میں بتایا ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ کی راہ میں اپنی جان کی حقیر قربانی پیش کرتا ہے اُسے ابدی حیات عطا کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے َ۶؎ یعنی جو لوگ میری راہ میں اپنی جان دیتے ہیں تم انہیں مُردہ مت کہو وہ لوگ ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں لیکن تم سمجھتے نہیں گویا خدا ان کے لئے مُردہ کا لفظ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کی غیرت کہتی ہے کہ جن لوگوں نے میرے راستہ میں جان دی ہے ان کو مُردہ کہنا بھی گناہ کی بات ہے مُردہ وہ ہیں جو دنیا کے لئے مرے نہ وہ جو خدا کے لئے مرے اور انہوں نے ابدی حیات پائی۔ اب دیکھو یہ خدا تعالیٰ کی کتنی غیرت ہے کہ وہ ان کے لئے مُردہ کا لفظ بھی برداشت نہیں کر سکتا وہ کہتا ہے میرا بندہ کمزور تھا اور اسے صرف مرنا آتا تھا اُس نے مر کر دکھا دیا مگر مجھے زندہ کرنا آتا ہے اس لئے اب میرا فرض ہے کہ میں اسے ابدالآباد کے لئے زندہ رکھوں۔
پس ہماری جماعت کے ہر چھوٹے اور بڑے، نوجوان اور بوڑھے کو اس مقام پر کھڑا ہو جانا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنا ہی سب سے بڑی سعادت ہے۔ جب کوئی شخص اس یقین سے لبریز ہو جاتا ہے تو اس کی ساری کمزوریاں دور ہو جاتی ہیں اور اس کے اندر اتنی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں سے بھی ٹکر لینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔
پس سب سے پہلی چیز جو دینی جماعتوں کی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں اپنے مقصد عالی کے متعلق پورا پورا یقین ہو جب کسی قوم کو یہ یقین حاصل ہو جائے اُس کا رُعب دوسروں پر چھا جاتا ہے اور وہ اس سے ڈرنے لگ جاتے ہیں۔ ہمارے سامنے صحابہؓ کی ایک مثال موجود ہے ایک دفعہ ایک یہودی جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ قرض لیا تھا اور پھر آپ نے اسے ادا بھی کر دیا تھا آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ نے مجھ سے کچھ قرض لیا تھا جو ابھی تک ادا نہیں کیا آپ نے فرمایا وہ تو میں نے ادا کر دیا ہوا ہے۔ یہودی کو تو یہ خیال تھا کہ خواہ میں اپنا قرض واپس لے چکا ہوں مگر جب میں لوگوں کے سامنے آپ سے پھر مانگوں گا تو اِس وجہ سے کہ قرض کی واپسی کے وقت کوئی گواہ موجود نہ تھا آپ گھبرا کر دوبارہ مجھے روپیہ دے دیں گے مگر آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہارا قرض واپس کر دیا تھا۔ اُس نے پھر اصرار کیا اور کہا کہ آپ کو یاد نہیں رہا میرا قرض آپ نے ابھی تک واپس نہیں کیا۔ اس پر ایک صحابی کھڑے ہوگئے انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے قرض ادا کر دیا ہوا ہے۔ اس سے یہودی ڈر گیا اور کہنے لگا ہاں اب مجھے یاد آگیا ہے کہ آپ نے قرض واپس کر دیا تھا جب یہودی چلا گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابیؓ سے فرمایا مجھے تو یہی یاد پڑتا ہے کہ جب میں نے اُس کا قرض واپس کیا تھا تو ہم دونوں کے سوا اور کوئی آدمی پاس نہ تھا تم نے کیسے گواہی دے دی؟ اس صحابیؓ نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ!آپ ہر روز ہمیں فرماتے ہیں کہ آج خدا تعالیٰ نے مجھے یہ کہا اور آج یہ کہا اور ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کی ہر بات سچی ہوتی ہے۔ تو جب آپ یہ فرما رہے تھے کہ میں نے قرض ادا کر دیا ہے تو میں اس بات کوکیوں سچ یقین نہ کرتا۔ پس جب صحابہؓ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنا یقین تھا جو ایک بشر تھے تو جب خدا تعالیٰ ہم سے کہتا ہے کہ تم مروگے تو ہمیں کیوں نہ یقین آئے گا ہمیں تو خدا تعالیٰ پر بہت زیادہ یقین ہونا چاہئے اور ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ جس دن ہم اس رنگ میں اپنی قربانیاں خداتعالیٰ کے حضور پیش کر دیں گے ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کر نے لگ جائے گی۔
پس یقین کر لو کہ اس مقصد سے بڑھ کر اور کوئی مقصدنہیں جو ہمارے سامنے رکھا گیا ہے جب ہم اس مقصد پر قائم ہو جائیں گے تو ہم کبھی ناکام نہیں رہ سکتے کیونکہ جب خدا تعالیٰ نے کہہ دیا ہے کہ تم نے کامیاب ہو جانا ہے تو اس میں شبہ کرنے والا مؤمن نہیں کہلا سکتا یہ یقین قوم کے اندر ایسا جوش، جذبہ اور ولولہ پیدا کر دیتا ہے کہ دوسرے لوگ مؤمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہی بھانپ جاتے ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی بالا طاقت ہے اور وہ اپنی آنکھیں نیچی کر لیتے ہیں۔ انسان کی سمجھ جانوروں سے تو بہر حال زیادہ ہوتی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ دو کتے جب ایک دوسرے کو غراتے ہیں تو ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو کر غوں غوں کرتے ہیں کچھ دیر اسی طرح کرنے کے بعد ایک کتا دُم دَبا کر بھا گ جاتا ہے اِس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس کی غوں میں طاقت ہے۔ اسی طرح جب مؤمن یقین کے ساتھ پُر ہو کر مقابلہ کے لئے نکلتا ہے تو کوئی اس کے مقابلہ میں ٹھہر ہی نہیں سکتا۔
مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ شملہ گیا وہاں ایک گریجوایٹ ہندو تھے میں نے ان کے سامنے مثال پیش کی کہ ہمیں اپنے مذہب کی سچائی پر اتنا کامل یقین ہے کہ اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ انہوں نے کہا آپ یہ کس طرح کہتے ہیں اپنے اپنے مذہب کی سچائی پر ہر شخص کو کامل یقین ہوتا ہے۔ مَیں نے کہا آپ کو وہ یقین حاصل نہیں جو مجھے ہے۔ انہوں نے کہا اس بات کا کیا ثبوت آپ کے پاس ہے؟ میں نے کہا کہ جس طرح میں خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ اسلام سچا مذہب ہے اور قرآن کریم خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اس طرح کی قسم آپ نہیں کھا سکتے۔ انہوں نے کہا میں بھی یہ قسم کھا سکتا ہوں کہ اگر میرا مذہب جھوٹا ہے تو مجھ پر خدا کا عذاب نازل ہو۔ میں نے کہا یہ قسم تو کوئی معنی ہی نہیں رکھتی قسم اِس طرح ہونی چاہئے کہ اے خدا! اگر میرا مذہب سچا نہیں ہے تو تُو مجھ پر، میرے بیوی بچوں پر، میرے خاندان پر اور میری تمام نسلوں پر عذاب نازل کر اور میں ایسی قسم اُٹھانے کے لئے تیار ہوں آپ بھی ایسی ہی قسم اُٹھائیں۔ اس پر وہ کہنے لگے آپ میرے بیوی بچوں کو درمیان میں کیوں لاتے ہیں؟ میں نے کہا اگر آپ کو اپنے مذہب کی سچائی پر کامل یقین ہے تو پھر آپ بیوی بچوں کو بیچ میں لانے سے گھبراتے کیوں ہیں۔ جس کو کامل یقین ہو اس کے لئے تو گھبرانے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہو سکتی اور اسی لئے تو میں نے کہا تھا کہ آپ کو وہ یقین اپنے مذہب کی سچائی پر نہیں جو مجھ کو اپنے مذہب کی سچائی پر ہے۔
غرض ہماری جماعت کو یقین کامل رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے ’’نیمے دروں نیمے بروں‘‘۸؎ والا ایمان کسی کام کا نہیں ہوتا۔ایسا ایمان تو دنیا کی دوسری قوموں مثلاً یہودیوں اور عیسائیوں کے اندر بھی پایا جاتا ہے۔ تمہیں اس بات پر کامل یقین ہونا چاہئے کہ ہم جس مقصد کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں وہ مقصد نہایت اعلیٰ ہے اور وہ وہی ہے جس کا ہمارے خدا نے ہمیں حکم دیا ہے اور تم سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ نے جو امانت ہمارے سپرد کی ہے اس میں خیانت کرنا مؤمنانہ شان کے خلاف ہے اور ہم نے جو کچھ کرنا ہے محض خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کے لئے کرنا ہے۔ جب ہم میں سے ہر شخص اس راز کو اچھی طرح سمجھ لے گا اور اپنے اندر ایک نمایاں تبدیلی پیدا کرے گا تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپ کے رنگ میں رنگیں ہو کر کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کرتا چلا جائے گا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی صحابہؓ کو اس لئے کامیابی حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان میں ابوبکرؓ ،عمرؓ ،عثمانؓ، اور علیؓ تھے بلکہ اس لئے کامیابی حاصل ہوئی تھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے سب کے سب آپ کے رنگ میں رنگیں ہوگئے تھے اور انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ دین کی ساری ذمہ داری ہم پر ہی ہے۔ جب انہوں نے اپنے آپ کو اِس مقام پر کھڑا کر لیا تو اُن کو ہر مشکل آسان نظر آنے لگ گئی اور انہوں نے دین کے لئے وہ قربانیاں پیش کیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آگئی او راُس نے اپنے فرشتوں کی فوجیں ان کی مدد کے لئے اُتاردیں اور وہ جہاں بھی گئے کامیاب و با مراد ہوئے۔ یہاں تک کہ وہ اس وقت کی تمام معلومہ دنیا پر چھا گئے اور انہوں نے دنیا کے کونے کونے میں خدا اور اس کے رسول کے نام کو بلند کر دیا۔ آج ہماری جماعت بھی صحابہؓ کے نقش قدم پر چل رہی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے بھی اُنہی قربانیوں کا مطالبہ کرے جن کا اس نے صحابہؓ سے مطالبہ کیا تھا جب تم وہ قربانیاں پیش کردو گے تو خدا تعالیٰ کے فضل تم پر بھی اسی طرح نازل ہونے شروع ہو جائیں گے جس طرح صحابہؓ پر نازل ہوئے تھے۔
فرمودہ ۶؍ جون ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب
میں نے کل بتایا تھا کہ کسی قوم کی کامیابی کے لئے سب سے پہلی چیز جو ضروری ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے سامنے کوئی مقصدِ عالی ہو اورپھر اس مقصد کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہواور اس کے مفید ہونے پر اسے کامل یقین ہو، ایساکامل یقین کہ کبھی اس کے متعلق قوم کے اندر یہ شبہ ہی پیدا نہ ہو کہ یہ مفید اور بابرکت نہیں ہے اور سب سے بہترین مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ انسان یا قوم اپنے پیدا کرنے والے خدا کے ساتھ گہرا تعلق پیدا کرے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے سپرد کوئی کام کیا جائے جس میں غلطی کا امکان ہی نہ ہوسکتا ہو۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کبھی انسان اپنے لئے خود کوئی مقصد تلاش کرتا ہے تو اُس کے متعلق اُس کے دل میں بسا اوقات شبہات اور وساوس پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ نہ معلوم یہ مقصد صحیح اور مفید اور بابرکت ہے یا نہیں ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ شاید میں غلطی کر رہا ہوں۔ دنیا میں بیسیوں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ کئی لوگوں نے اپنے لئے ایک مقصد تلاش کیا اور کچھ عرصہ تک اُس کو اپنائے رکھا لیکن یکدم ان کی حالت میں تبدیلی پیدا ہو گئی اور انہوں نے اس مقصد کو ترک کر دیا اور جب ان سے پوچھا گیا کہ تم نے اپنے سامنے اتنے عرصہ تک ایک مقصد رکھا تھا اور اب تم اسے چھوڑ رہے ہو اِس کی کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے کہہ دیا کہ وہ مقصد چونکہ ہمارے لئے مفید نہ تھا اِس لئے اس کا چھوڑنا ہی ضروری تھا۔بعض لوگ دیکھے گئے ہیں کہ پہلے تو وہ اپنی تمام تر توجہ تعلیم کی طرف مرکوز کر دیتے ہیں لیکن تھوڑا ہی عرصہ گزرتا ہے کہ ان کی حالت میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ تعلیم کے ارادہ کو ترک کر کے بلکہ بسا اوقات اسے اپنے حالات کے لئے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے سیاسیات میں حصہ لینا شروع کر دیتے ہیں اور جب ان سے پوچھا جائے کہ یہ تم نے کیا کیا کہ تعلیم کو چھوڑ سیاست میں آگئے تو وہ کہتے ہیں کہ اب ہمارے لئے تعلیم کا چھوڑنا اور سیاست میں حصہ لینا ہی مفید تھا لیکن جو شخص یا قوم ایک ایسامقصد سامنے رکھے جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے اسے کہا ہو اور اس کو اپنی کامیابی پر کامل یقین ہو تو وہ کبھی اس کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ مقصد غلط ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ نے اس کے لئے وہ مقصد قرار دیا ہو گا تو وہ ہر قسم کی غلطیوں سے پاک ہوگا اور اگر خدا نے تو اُس کو نہیں کہا بلکہ اس نے اپنے آپ ایک مقصد کو اپنا لیا ہے تو اس کے متعلق اُس کے دل میں شبہات بھی پیدا ہو سکتے ہیں اور وساوس بھی ہوسکتے ہیں۔یا پھر یوں کہنا چاہئے کہ جس مقصد کو خدا کی رضا کے لئے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے اختیار کیا گیا ہو اس میںتبدیلی کا ہر وقت امکان ہوسکتا ہے۔ پس جب ایک دفعہ انسان کسی مقصد کو یہ کہہ کر اختیار کرتا ہے کہ اس کے متعلق خدا نے مجھے حکم دیا ہے تو وہ کبھی اس کے غیر مفید ہونے کے متعلق شکوک میں مبتلا نہیں ہو سکتا۔ اور اگر کوئی شخص پہلے تو یہ کہے کہ اس مقصد کاخدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے اور بعد میں کہنے لگ جائے کہ اس کا حکم تو خدا نے دیا ہے مگر یہ میرے لئے مفید نہیں ہے تو ایسے شخص کو ہر کوئی پاگل سمجھے گا کیونکہ اُس کا یہ کہنا تو درست ہو سکتا ہے کہ میں خدا کو نہیںمانتا یا خدا نے یہ حکم مجھے نہیں دیا تھا بلکہ میں نے اپنے ارادہ سے اس مقصد کو اپنے سامنے رکھا تھااور اب اسے چھوڑ رہا ہوں لیکن خدا تعالیٰ کے وجود کو مانتے ہوئے اور کچھ عرصہ پہلے یہ کہتے ہوئے کہ اس مقصد کے لئے خدا نے مجھے حکم دیا ہے بعد میں کہہ دینا کہ یہ میرے لئے مفید نہیں ہے بالکل پاگل پن کی بات ہے۔ خداتعالیٰ کی طرف کسی مقصد کو منسوب نہ کرتے ہوئے بلکہ اپنے ارادہ کی طرف منسوب کر کے اسے چھوڑ دینے والے کو غلطی خوردہ تو کہہ سکتے ہیں پاگل نہیں کہیں گے لیکن جو شخص کہے کہ ہے تو خدا ہی کی طرف سے لیکن یہ غلط ہے اُس کو ہر کوئی پاگل سمجھے گا اور اِس بات کو کوئی شخص درست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہو گا کہ وہ خدا کی طرف سے بھی ہو اور غلط بھی ہو۔ خدا تعالیٰ کو کامل علیم و خبیر اور مقتدر ہستی تسلیم کرتے ہوئے اوراُس کی ذات کو محیط ِ کُل مانتے ہوئے یہ کہنا کہ اُس نے غلط بات کہہ دی ہے سوائے کسی پاگل اور مجنون کے اور کسی انسان کا کام نہیں۔ پس جو لوگ خداتعالیٰ کو مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں مقصد کے لئے خدا نے ہمیں حکم دیا ان کے متعلق اس امر کا امکان ہی نہیں ہو سکتا کہ بعد میں وہ کہہ دیں کہ یہ ہے تو خدا کی طرف سے مگر ہے غلط لیکن جو لوگ خود اپنے لئے کوئی مقصد تلاش کر لیتے ہیں اور اس کو خدا کی طرف منسوب نہیں کرتے اور بعد میں اسے چھوڑنا چاہیں یا بدلینا چاہیں تو وہ چھوڑ بھی سکتے ہیں اور بدل بھی سکتے ہیں۔ ایسے لوگ تعلیم حاصل کرتے کرتے یکدم چھوڑ دیتے ہیں اور سیاسیات میں حصہ لینا شروع کر دیتے ہیں یا پھر ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص سیاسیات میں حصہ لیتے لیتے یکدم اسے چھوڑ دیتا ہے۔ جیسے گاندھی جی کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ سیاست کرتے کرتے انہوں نے یکدم پہلو بدلا اور کہا میں تو اب چرخہ ہی کاتوں گا سیاست سے میں نے کنارہ کشی کر لی ہے اور چاہے وہ سنجیدگی کے ساتھ کہتے ہیں یا بناوٹ کے ساتھ وہ فخر کے ساتھ کہا کرتے ہیں کہ میں تو کانگرس کا چار آنے کا ممبر بھی نہیں ہوں۔ اسی قسم کی اور بھی ہزاروں مثالیں دنیا میں پائی جاتی ہیں کہ لوگوں نے ایک کام کرتے کرتے دوسرا اختیار کر لیا اور اس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ ان کو وہ مقصد اس ہستی کی طرف سے نہیں دیا گیا ہوتا جس کے متعلق غلطی کا امکان نہیں صرف ان کی اپنی عقل نے ان کو پہلے اِدھر لگایا اور پھر اُدھر لگا دیا۔
مسنراینی بسنٹ ایک بڑی لیڈر عورت تھی اور وہ یہ دعویٰ کرتی تھی کہ مجھے الہام ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا وجود نہ مانتی تھی بلکہ کہتی تھی کہ انسانوں سے اوپر ایک بالا ہستی ہے جو ایک قسم کا مرکزی نقطہ ہے وہ ارواح کو باتیں بتاتی ہے اور ارواح آگے انسانوں تک ان باتوں کو پہنچاتی ہیں۔ مسز اینی بسنٹ نے مدراس کے دو لڑکوں میں سے ایک کے متعلق کہا کہ اس پر خدا کا کلام نازل ہوگا اور یہ دنیا کی اصلاح کرے گا اور مسیح سے بھی بڑا ہوگا اور کہا میری شان یہ ہے کہ میں صرف اس اوتار کو تیار کرنے کے لئے پیدا ہوئی ہوں۔ چنانچہ اس نے کچھ روپیہ اُن دونوں لڑکوں کے والدین کو دے کر وہ لڑکے لے لئے اور اُن کو اپنی نگرانی میں اعلیٰ تعلیم دینی شروع کی اور ان کی ہر وقت کی نگرانی کے لئے اُس نے مسمریزم کے ماہرین مقررکئے اور اُن کی اتنی نگرانی کی جاتی کہ جب وہ لڑکے قضائے حاجت کے لئے جاتے تو مسمریزم کے ماہرین باہر کھڑے رہتے اور ان پر توجہ ڈالتے تا کہ ان کے اندر بُرے خیالات نہ آنے پائیں۔ جب میں ولایت سے واپس آرہا تھا تو اسی جہاز میں وہ دونوں لڑکے بھی تھے۔ ہم نے دیکھا کہ وہ لڑکے جدھر جاتے اُن کی سخت نگرانی کی جاتی۔ ان میں سے جو بڑا لڑکا تھا وہ چھپ چھپا کر بعض دفعہ اِدھر اُدھرنکل جایا کرتا تھا۔ اُس سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ تمہارا ان باتوں کے متعلق کیا خیال ہے؟ اس نے کہایہ سب باتیں بالکل لغو ہیں میں ان کو نہیں مانتا۔ مگرچھوٹا لڑکاجس کے متعلق مسز اینی بسنٹ نے کہا تھا کہ یہ بڑا ہو کر دنیا کی اصلاح کرے گا اور فلاں سنہ میں اپنادعویٰ پیش کرے گا وہ اپنے آپ کو بالکل الگ تھلگ رکھتا تھا اور ایسی شکل بنائے رکھتا تھا جیسے کسی گہری سوچ میں ہو اور کسی بڑی مہم کے متعلق غورو فکر کر رہا ہو۔ کچھ عرصہ کے بعد جب وہ سنہ اور وہ تاریخ آگئی جو مسز اینی بسنٹ نے اُس لڑکے کے دعویٰ کے لئے بیان کی تھی تواُن دنوں سارے ہندوستان میں اُس کے دعویٰ کے متعلق بڑا شور مچا اور جلسے منعقد کئے گئے۔ ایک جلسہ لاہور میں بھی ہوا تھا لیکن اُس جلسہ میں اُس لڑکے نے جو تقریر کی اُس کو سن کر دنیا حیران رہ گئی۔ اُس نے اپنی تقریر میں کہا خدا کا وجود صرف ایک ڈھکوسلہ ہے نہ الہام ہوتا ہے نہ کچھ اور۔ غرض جو مقصد اس کا مسز اینی بسنٹ نے بتایا تھا وہ سب غلط ہو گیا اور وہ خدا تعالیٰ کے وجود کا ہی منکر ہوگیاچہ جائیکہ وہ دنیا کی اصلاح کا کام کرتا اور حضرت مسیحؑ سے بھی بڑا اوتار ہوتا۔ یہ اس لئے ہوا کہ یہ مقصد ایک انسان کا تھا خدا کا نہ تھا۔ مسنراینی بسنٹ نے اُس کو کافی روپیہ دیکر خریدا، اس کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائی، اُس کی دن رات نگرانی کی، اُس کے لئے چیدہ چیدہ معلمین مقرر کئے، بڑے بڑے ماہرین مسمریزم اُس کے لئے بہت بڑی تنخواہوں پر رکھے، اُس کی ہر حرکت اور اُس کے ہر سکون کی نگرانی کی گئی حتیٰ کہ پاخانہ کے وقت بھی مسمریزم کے ماہرین اُس پر توجہ ڈالتے رہے تا کہ اس کے اندر بدخیالات نہ آنے پائیں۔ غرض اس کی تعلیم، اس کی نگہداشت اور اُس کے لئے ہر قسم کے اعلیٰ سامان مہیا کئے گئے صرف اِس لئے کہ یہ لڑکا جب بڑا ہوگا تو دنیا میں ایک نیا مشن قائم کرے گا اور دنیا کی اصلاح کرے گا اور مسیحؑ سے بھی بڑھ کر ہوگا کوئی دقیقہ اُس کے لئے علمی ماحول پیدا کرنے کا اُٹھا نہ رکھا گیا، کوئی کسر اُس کی تعلیم میں باقی نہ رہی، کوئی کمی اُس کی نگرانی میں نہ کی گئی، لیکن وہ لڑکاجب بڑا ہوتا ہے تو کہتا ہے خدا تو ہے ہی نہیں۔ دنیا کی اصلاح کرنا تو درکنار، مسیحؑ سے بڑا ہونا تو ایک طرف وہ سِرے سے خدا ہی کا انکار کر دیتا ہے اور مسنراینی بسنٹ نے اس کے متعلق جو کچھ کہا تھا وہ سَو فیصدی اُس کے اُلٹ نکلتا ہے۔
لیکن آج سے چودہ سَو سال پہلے خدا تعالیٰ کے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ سے خبر پا کر فرماتے ہیں کہ آج سے تیرہ سَو سال کے بعد ایک انسان پیدا ہو گا جو میرا مثیل ہوگا اور وہ میرے لائے ہوئے مشن کو دوبارہ دنیا میں قائم کر دے گا اور میری باتیں لوگوں تک پہنچائے گا۔ وہ دنیا کے کونے کونے میں اسلام پہنچائے گا اور ساری دنیا میں کیا شمال اور کیا جنوب، کیا مشرق اور کیا مغرب خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرے گا۔ جس انسان کے متعلق پیشگوئی کی جارہی ہے نہ اُس کا باپ اُس وقت موجود ہے، نہ اُس کے باپ کا باپ موجود ہے، نہ اُس کے دادا کا دادا موجود ہے اور نہ اُس کے دادا کا پردادا موجود ہے مگر اس کی ساری نشانیاں بتائی جاتی ہیں کہ وہ فلاں علاقہ میں آئے گا، فلاں سنہ میں آئے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فلاں خاندان میں آئے گا۔ پھر یہ پیشگوئی کرنے والے اور جس کے متعلق پیشگوئی کی جارہی ہے دونوں کے زمانوں میں سینکڑوں سالوں کا فاصلہ ہے، پیشگوئی کرنے والے کی زبان اور ہے اور جس کے متعلق پیشگوئی کی جا رہی ہے اُس کی زبان اور ہے، پیشگوئی کرنے والے کی قوم اور ہے اور اس کی قوم اور، پیشگوئی کرنے والے کا ملک اور ہے اور اس کا ملک اور، پیشگوئی کرنے والے کا خاندان اورہے اور اس کا خاندان اور، پیشگوئی ہو جاتی ہے مگر پیشگوئی کے پورا ہونے کے کوئی بھی آثار نہیںہیں۔ ایک قوم چین کے ملک سے اُٹھتی ہے اور اُس کے افراد کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم تمام دنیا پر پھیل جائیںوہ لوگ خدا کے منکر ہیں اور انبیاء کے منکر ہیں اور وہ سفید بھیڑیئے کی پرستش کرتے ہیں وہ لوگ جنگلوں میں رہتے تھے اور ان کے بچوں کو بھیڑئیے اُٹھا کر لے جاتے تھے اِس لئے وہ ان کو بہت زیادہ طاقت ور سمجھ کر ان کی پرستش کرتے تھے مگر ان کے اندر بیداری پیدا ہو جاتی ہے اور وہ دندناتے ہوئے اپنے ملک سے نکل کھڑے ہوتے ہیں، وہ لوٹ اور تباہی مچاتے ہوئے ایک طرف یورپ تک پہنچ جاتے ہیں اور دوسری طرف بغداد تک ۔ بغداد کے گردو پیش وہ اتنی تباہی مچاتے ہیں کہ اٹھارہ لاکھ انسانوں کو تہہ تیغ کر دیتے ہیں۔ مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں اس قوم میں سے ایک شخص ہو گا جو میرا مثیل ہو گا جو اسلام کے ایک دفعہ کمزور ہو جانے کے بعد دوبارہ اُس کو دنیا میں قائم کرے گا، جو توحید کا علمبردار ہوگا اور دنیا کے کونے کونے اور گوشے گوشے میں خداتعالیٰ کے نام کو بلند کرے گا اور میرے لائے ہوئے مشن کو دوبارہ قائم کر دے گا۔ پھر وہ قوم جو چین سے اُٹھی تھی بغدادمیں بادشاہ ہو جاتی ہے اور مسلمانوں پر چالیس پچاس سال تک جابرانہ حکومت کرتی ہے اُس وقت وہ قوم خدا سے ناآشنا ہے، مذہب سے ناآشنا ہے اوراخلاق سے بے بہرہ ہے مگر آخر وہ قوم اسلام قبول کرتی ہے۔ مگر دُنیوی طور پر اِسی قوم سے ایک بادشاہ تیمور نامی اُٹھتا ہے اور دنیا میں تباہی اور خونریزی مچا دیتا ہے وہ آندھی کی طرح اُٹھتا ہے اور بگولے کی طرح مُلکوں کے مُلک اپنے ظلم وستم کی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور پھر فتح و ظفر کے پرچم اُڑاتا ہوا تیزی کے ساتھ بڑھتا ہے اور ہندوستان میں پہنچ جاتا ہے۔ مگر اُس وقت تک بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے پورا ہونے کے کوئی نشانات ظاہر نہیں ہوتے۔ پھر اسی خاندان کا ایک حصہ قادیان میں آکر رہائش پذیر ہوتا ہے جو دُنیوی لحاظ سے بے شک وجاہت رکھتا ہے لیکن دینی لحاظ سے نہیں اور وہ خاندان ایسا ہی ہے جیسے عوام شرفاء ہوتے ہیں۔ پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت نزدیک ہے لیکن اس کے پورا ہونے کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے۔ اس دوران میں قادیان میں ایک شخص غلام مرتضیٰ کے گھر اولاد ہوتی ہے اور وہ اپنی اولاد پر زور دیتا ہے کہ وہ دین کی طرف نہ جائے بلکہ دنیا کمائے بلکہ وہ اپنے ایک بیٹے کا تو لوگوں کے سامنے شکوہ بھی کرتا ہے کہ یہ تو مُلّاں بن گیا ہے اور اِس کو روزی کمانے کی ذرا بھی فکر نہیں۔ اب عین وہ موقع آجاتا ہے جب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی نے پورا ہونا ہے لیکن ابھی تک کوئی آثار اس کے پورا ہونے کے نہیں پائے جاتے۔ ایک لڑکا ایسے گھر میں پرورش پارہا ہے جس میں دنیا داری ہی دنیا داری ہے، باپ اِس کشمکش میں پڑا ہے کہ اس کے بیٹے نوکریاں کریں اور دنیا کمائیں لیکن اسی گھر میں ایک شخص کو یک لخت آوازآتی ہے کہ تُو ہی وہ آدمی ہے جس کے متعلق محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی، تُو ہی وہ موعود مسیح ہے جس کی خبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، تُو ہی وہ مہدی ہے جس کے ذریعہ دنیا کی ہدایت مقدر ہے، تُو ہی وہ فارسی النسل ہے جس کے متعلق محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی تھی کہ اگر دین اسلام ثریا تک بھی پہنچ جائے گا تو وہ واپس لے آئیگا۹؎ تُو ہی وہ موعود اقوامِ عالم ہے جس کے متعلق ہر نبی نے خبر دی تھی۔ اُٹھ اور توحید کا عَلم بلند کر۔
اب دیکھو ان دونوں باتوں میں کتنا فرق ہے ایک طرف تویہ حالت ہے کہ مسزاینی بسنٹ اس لڑکے کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلاتی، اس کے اتالیق مقررہ کرتی ہے، اُس پر نگران رکھتی ہے اور اُس پر ہزاروں روپیہ خرچ کرتی ہے اور کہتی ہے یہ دنیا کی اصلاح کرے گا اور اس کے لئے خالص علمی ماحول پیدا کرتی ہے مگر جب وہ بڑا ہوتا ہے تووہ سرے سے خدا کا ہی انکار کر دیتا ہے۔ دوسری طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ عربوں سے باہر غیر قوم میں سے خدا تعالیٰ ایک شخص کو دین کی تجدید اور اس کے احیاء کے لئے چُنے گا اور دین اور ایمان خواہ آسمان پر اُڑ جائے وہ آسمان پر پہنچے گا اور پھر اُس کو لا کر دنیا میں قائم کر دے گا آپ اس خاندان کے متعلق پیشگوئی فرماتے ہیں جو اس وقت مسلمان ہی نہیں اور وہ خدا اور مذہب کا بھی منکر ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ خاندان مسلمان ہوتا ہے مگر دُنیوی فوائد کے پیش نظر۔ اور متواتر تیرہ سَو سال تک اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے مگر عین اُس وقت جب پیشگوئی کے پورا ہونے کا زمانہ آتا ہے ایک کو ردیہہ۱۰؎ میں ایک چھوٹی سی غیر معروف بستی میں ایک ایسی بستی میں جس کو دس پندرہ میل دُور کے لوگ بھی نہیں جانتے، ایک ایسے خاندان میں جس کی حیثیت کمزور ہو چکی تھی ایک شخص کو خداتعالیٰ چنتا ہے اور کہتا ہے اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے اُٹھ اور کھڑا ہو جا اور اپنا کام شروع کر دے۔ اب دیکھو کجا یہ کہ ایک شخص کی نگرانی کرنا، اُس کو تعلیم دلانا اور اُس پر ہزاروں روپیہ خرچ کردینا مگر بالآخر اُس کا خدا سے منکر ہو جانا اور کجایہ کہ مخالف حالات کی موجودگی میں ایک رات خداتعالیٰ ایک شخص کو پکڑتا ہے اور فرماتا ہے اُٹھ کہ تُو ہی وہ موعود ہے جس کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی۔
پس انسانی مقصد خدائی مقصد کے سامنے بالکل ہیچ ہوتا ہے۔ انسانوں کے مقاصد بدل جاتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کے مقاصد نہیں بدلتے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے لوگ سب کے سب یکساں نہیں ہوتے بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ہر جہت سے ہر قول اور ہر فعل سے خدا نما،رسول نما، اور حقائق نما ہوتے ہیں اور وہ خدا اور رسول اور حقائق میں بالکل محو ہو جاتے ہیں اور اُن کا قدم صرف ایک ہی طرف اُٹھتا ہے لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو دلائل کے ساتھ سچائی کو مان جاتے ہیں حالانکہ سچ کا ماننا اور چیز ہے اور سچ کا جذب ہو جانا اور چیز ہے۔ مؤمن کے اندر سچ جذب ہو جاتا ہے اور غیر مؤمن کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے کہ سچ اس پر سے ایسے گذر جاتا ہے جیسے ہندو سخت سردی میں غسل کیا کرتے ہیں۔ ہم نے خود کئی بار ہندوؤں کو غسل کرتے دیکھا ہے کہ وہ گڑوی سے اپنے اوپر پانی ڈالتے ہیں اور خود کود کر آگے ہو جاتے ہیں اور پانی پیچھے جاگرتا ہے دو چار چھنٹے ان کے بدن پر پانی کے پڑگئے اور ان کا غسل ہو گیا۔
ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی ہندو سردی کے ایام میں دریا پر کانپتا اور ٹھٹھرتا ہوا جا رہا تھا ایک طرف تو اُس کو غسل کی خواہش تھی اور دوسری طرف وہ سردی سے بھی ڈررہا تھا۔ رستہ میں اس کو ایک اور پنڈت ملا جو دریا پر سے نہا کر واپس آرہا تھااُس نے پنڈت جی سے پوچھا سنائیے کیسے نہائے؟ اُس نے کہا کیا بتاؤں سخت سردی تھی اور پانی برف سے بھی ٹھنڈا تھا اس لئے میں نے یہ کیا کہ ایک کنکر اُٹھا کر دریا میں پھینکا اور کہا ’’توراشنان سوموراشنان ‘‘اُس نے سن کر کہااچھا یہ بات ہے تو ’’توراشنان سومور اشنان‘‘ یہ کہہ کر وہ اس کے ساتھ ہی واپس لوٹ آیا۔
اب دیکھو ایک دریاپر گیا بھی تھااور کنکر پھینک کرواپس آگیا مگر دوسرے نے وہیں کہہ دیا کہ ’’توراشنان سومور اشنان‘‘۔ پس یہ انسانی فطرت ہوتی ہے کہ بعض لوگ سچائی کو اپنے اندر جذب نہیں کرتے۔جو لوگ سچ کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں اور اپنی تمام ترتوجہ سچ پرمر کوز کر دیتے ہیں وہ ایسے نتائج پیدا کرتے ہیں کہ کوئی دوسراشخص ان کا وہم و گمان بھی نہیں کرسکتا۔ درحقیت اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں دو طاقتیں کام کر رہی ہیں ایک وِلز پاور (will power) یعنی افکار اور ایک تھنکنگ پاور (Thinking power )یعنی خیالات۔ اور یہ دونوں چیزیں آپس میں بالکل مختلف اور متباین ہیں۔ ایک فلسفی پہلے ایک چیز کو مانتا ہے مگر بعد میں اس کا انکار کر دیتا ہے اور اس کے خلاف چلتا ہے اِس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ اس کو خیالات کی وجہ سے مانتا ہے افکار کی بناء پر نہیں مانتا گویا سچ اس کے اندر جذب نہیں ہوتا۔
ہم ولایت جارہے تھے حافظ روشن علی صاحب مرحوم بھی ساتھ تھے جہاز میں ایک ہندوبھی ولایت جارہا تھا ہم لوگ جب کھانے پر بیٹھتے تو ہم دیکھتے کہ وہ ہندؤ کباب اور گوشت خوب کھاتا مگر اِدھرآکر وہ ہم سے بحث کیا کرتا کہ گوشت خوری جیوہتیا ۱۱؎ہے تمہارااسلام گوشت کھانے کی اجازت دیتا ہے اور یہ سرا سر ظلم ہے۔ پھر جب وہ کھانے کے لئے پہنچتا تو خوب کباب کھاتا۔ ایک دن ہم میں سے بعض دوستوں نے کہا کہ یہ ہندوعجیب آدمی ہے کہ ایک طرف تو وہ بڑے مزے لے لے کر گوشت کھاتاہے اور دوسری طرف بحث کرتا ہے کہ اسلام نے جو گوشت خوری کی اجازت دی ہے یہ جیو ہتیا ہے۔حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے کہا اچھا میں اس کا بندوبست کرتا ہوں اب یا تو وہ گوشت نہیں کھائے گا اور اگر گوشت کھائے گا تو بحث نہیں کرے گا۔ چنانچہ انہوں نے ایک اٹا لین بہرہ کو بُلایا اور اُسے اشارہ سے کہا کہ وہ دیکھو جو فلاں آدمی بیٹھا ہے وہ گوشت خوری کے سخت خلاف ہے اِس لئے اُس کے سامنے کبھی گوشت نہ رکھنا ورنہ کسی وقت وہ تمہیں سخت مارے گا۔ بہرے نے کہا بہت اچھا۔ چنانچہ جب کھانے کا وقت آیا تو بہرے نے اُس ہندو کے سامنے گوشت یا کباب وغیرہ کی کوئی پلیٹ نہ رکھی بلکہ دو تین قسم کی ترکاریاں رکھ دیں۔ اُس نے زہر مار کر کے روٹی کھا لی مگر دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا۔ دوسرے دن پھر یہی حال ہوا۔ دودن تو اُس نے اِس بات کو برداشت کر لیا مگر آخر اُس سے نہ رہا گیا اُس نے بہرے سے پوچھا کہ تم میرے سامنے گوشت کیوں نہیں رکھتے اس نے اسے بتایا کہ فلاں شخص نے مجھے کہا تھا کہ یہ صاحب گوشت کے سخت خلاف ہیں۔وہ حافظ صاحب مرحوم کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ نے بہرے کو کوئی بات کہی تھی؟ انہوں نے کہا ہاں۔ اس نے پوچھا کیا بات کہی تھی؟ انہوں نے کہا میں نے اسے بتایا تھا کہ یہ صاحب گوشت خوری کے سخت خلاف ہیں ان کے سامنے کبھی گوشت نہ رکھنا ورنہ یہ تجھے ماریں گے۔ یہ سن کروہ ہندو کہنے لگا گوشت کھانا الگ بات ہے اور بحث الگ بات۔ میرے کھانے میں آپ کسی قسم کا دخل نہیں دے سکتے۔حافظ صاحب مرحوم نے مسکراکر کہا اچھا میں اِس بات کو نہیں سمجھا تھا کہ آپ کی بحث اور آپ کے عمل میں تضاد ہے۔
اب دیکھو اس ہندو کا فکر تو صحیح تھا کہ گوشت کھانا چاہئے مگر یہ فکر چونکہ اس کے اندر جذب نہ ہوا تھا اِس لئے اُس کے جذبات اور طرف جا رہے تھے اور ارادہ اور طرف۔ پس جب تک سچائی انسان کے اندر جذب نہ ہو جائے تب تک وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتا۔ مسمریزم اور ہپناٹزم والے جب یہ علم کسی کو سکھاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ تمہارے دل میں صرف خیال کا ہی پیدا ہونا کافی نہیں کہ یہ طاقت میرے اندر آجائے گی بلکہ تمہیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ یہ قوت تمہارے اندر آگئی ہے اور تمہیں یقین ہونا چاہئے کہ تم اب اس کو استعمال کرسکتے ہو۔ وہ لوگ خدا کے تو قائل نہیں ہوتے مگر وہ کہتے ہیں کہ ایک محیط کُل ہستی ہے وہ جب یہ علم سیکھتے ہیں تو سانس کھینچتے ہوئے کہتے ہیں اے محیطِ کُل طاقت؟ ہم تجھے اپنے اندر جذب کر رہے ہیں اور وہ سیکھنے والوں سے بھی کہتے ہیں کہ صرف اتنا ہی ضروری نہیں کہ تم یہ خیال کر لو کہ محیط کُل کی طاقت تمہارے اندر جذب ہو رہی ہے بلکہ ضروری چیز یہ ہے کہ تم محسوس کرو کہ یہ طاقت تمہارے اندر جذب ہو رہی ہے اور جب تم محسوس کر لو گے تو وہ طاقت تمہارے اندر آجائے گی۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ جب تم کسی پر عمل کرو اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر توجہ ڈالو یا اس کے کانوں میں آواز دو تو اسے یہ نہ کہو کہ محیطِ کُل کی طاقت تمہارے اندر آئے بلکہ یہ کہو کہ محیط کُل کی طاقت تمہارے اندر آگئی ہے اور یہ صحیح بات ہے میں نے خود بھی اس کے متعلق تجربہ کیا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل کے خسر منشی احمد جان صاحب مر حوم کو اس علم کی بڑی مشق تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دفعہ لدھیانہ میں ایک دعوت سے واپس تشریف لا رہے تھے اور منشی احمد جان صاحب بھی ساتھ تھے کہ آپ نے ان سے پوچھا کہ رتر چھتر والوں کی مریدی میں بارہ سال رہ کر اور مختلف قسم کی ریا ضات کر کے آپ نے کیا حاصل کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا اب مجھ میں اتنی طاقت آگئی ہے کہ فلاں آدمی جو آرہا ہے اگر میں اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالوں اور توجہ کروں تو وہ وہیں تڑپ کر گر جائے۔ یہ سن کر آپ مسکرائے اور اپنی سوٹی کو دو چار دفعہ زمین پر آہستہ آہستہ مارا (آپ ہمیشہ اپنے ہاتھ میں سوٹی رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ سر پر پگڑی باندھنا اور ہاتھ میں سوٹی رکھنا یہ ہماری خاندانی عادت ہے ہم نے بھی جب سے یہ بات سنی اُسی دن سے سوٹی ہاتھ میں رکھنی شروع کر دی مگر اب ہمارے بچے اِس پر عمل نہیں کرتے معلوم نہیں کیا وجہ ہے میں نے تو جس دن یہ بات سُنی تھی اُسی دن اِس پر عمل شروع کر دیا تھا) آپ نے جوش کے ساتھ دو چار دفعہ سوٹی کے ذریعہ زمین کو کریدا اور پھر فرمایا میاں صاحب! اگر وہ شخص آپ کی توجہ سے گر گیا تو اُس کو یا دین کوکیا فائدہ پہنچے گا؟ کیونکہ کسی کام کی دو ہی غرضیں ہوتی ہیں یا تو یہ غرض ہوتی ہے کہ اُس کو فائدہ پہنچے جس کے لئے وہ کام کیا جائے اور یا پھر دین کو فائدہ پہنچے۔ یہ سننا تھا کہ میاں احمد جان صاحب کی یہ حالت ہوئی کہ جیسے کسی پر بجلی گر پڑتی ہے اور انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے کہا حضور! میں آج سے توبہ کرتا ہوںکہ کبھی یہ کام نہیں کروں گا۔ انہوں نے بارہ سال کی متواتر محنت کے بعد یہ علم حاصل کیا تھا مگر یکدم اس سے توبہ کر لی۔ میں نے خود اس علم کے تجارب کئے ہیں۔ خلافت کے ابتدائی زمانہ کی بات ہے کہ مجھے اس کے تجربہ کا شوق ہوا۔ چنانچہ میں نے صرف ایک یا دو دن کی پریکٹس سے اسے سیکھ لیا۔
پس دوسری چیز جو قومی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہے وہ قوتِ ارادی ہے اور قوتِ ارادی وہ نہیں جومسمریزم والوں کی ہوتی ہے بلکہ ایمان کی قوتِ ارادی۔ مسمریزم والوں کی قوتِ ارادی ایمان کی قوتِ ارادی کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتی ہے۔ مسمریزم کی قوتِ ارادی ایمان کی قوتِ ارادی کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتی۔ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی قوتِ ارادی اور انسان کی قوتِ ارادی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اسی مسجد مبارک میں نچلی چھت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجلس میں بیٹھا کرتے تھے ایک دفعہ آپ مجلس میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک ہندو جو لاہور کے کسی دفتر میں اکاونٹنٹ تھا اور مسمریزم کا بڑا ماہر تھا وہ کسی برات کے ساتھ قادیان اس ارادہ سے آیا کہ میں مرزا صاحب پر مسمریزم کروں گا اور وہ مجلس میں بیٹھے ناچنے لگ جائیں گے اور لوگوں کے سامنے اُن کی سُبکی ہوگی یہ واقعہ اس ہندو نے خود ایک احمدی دوست کو سنایا تھا وہ اس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لاہور کے اس احمدی کے ہاتھ اپنی ایک کتاب روانہ فرمائی اور کہا یہ کتاب فلاں ہندو کو دے دینا۔ اس احمدی دوست نے اس کو کتاب پہنچائی اور اس سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے آپ کو اپنی یہ کتاب کیوں بھجوائی ہے اور آپ کا ان کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اِس پر اُس ہندو نے اپنا واقعہ بتایاکہ مجھے مسمریزم کے علم میں اتنی مہارت ہے کہ اگر میں تانگہ میں بیٹھے ہوئے کسی شخص پر توجہ ڈالوں تو وہ شخص جس پر میں نے توجہ ڈالی ہوگی وہ بھی ٹانگہ کے پیچھے بھاگا آئے گاحالانکہ نہ وہ میرا واقف ہوگا اور نہ میں اُس کو جانتا ہوں گا۔ میں نے آریوں اور ہندوؤں سے مرزا صاحب کی باتیں سنی تھیں کہ انہوں نے آریہ مت کے خلاف بہت سی کتابیں لکھی ہیں میں نے ارادہ کیا کہ میں مرزا صاحب پر مسمریزم کے ذریعہ اثر ڈالوں گا اور جب وہ مجلس میں بیٹھے ہوں گے تو ان پر توجہ ڈال کر ان کے مریدوں کے سامنے ان کی سُبکی کروں گا۔ چنانچہ میں ایک شادی کے موقع پر قادیان گیا مجلس منعقد تھی اور میں نے دروازے میں بیٹھ کر مرزا صاحب پر توجہ ڈالنی شروع کی۔ وہ کچھ وعظ و نصیحت کی باتیں کر رہے تھے میں نے توجہ ڈالی تو اُن پر کچھ بھی اثر نہ ہوا میں نے سمجھا ان کی قوتِ ارادی ذرا قوی ہے اس لئے میں نے پہلے سے زیادہ توجہ ڈالنی شروع کی مگر پھر بھی ان پر کچھ اثر نہ ہوا اور وہ اسی طرح باتوں میں مشغول رہے۔ میں نے سمجھا کہ ان کی قوتِ ارادی اور بھی مضبوط ہے اس لئے میں نے جو کچھ میرے علم میں تھا اُس سے کام لیا اور اپنی ساری قوت صَرف کر دی لیکن جب میں ساری قوت لگا بیٹھا تو میں نے دیکھا کہ ایک شیرمیرے سامنے بیٹھا ہے اور وہ مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے میں ڈر کر اور اپنی جوتی اُٹھا کر بھاگا۔ جب میں دروازے میں پہنچا تو مرزا صاحب نے اپنے مریدوں سے کہا دیکھنا یہ کون شخص ہے۔ چنانچہ ایک شخص میرے پیچھے سیڑھیوں سے نیچے اُترا اور اُس نے مسجد کے ساتھ والے چوک میں مجھے پکڑلیا۔ میں چونکہ اُس وقت سخت حواس باختہ تھا اِس لئے میں نے پکڑنے والے سے کہا اِس وقت مجھے چھوڑ دو میرے حواس درست نہیں ہیں میں بعد میں یہ سارا واقعہ مرزا صاحب کو لکھ دوں گا چنانچہ اُسے چھوڑ دیا گیا اور بعد میں اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ تمام واقعہ لکھا اور کہا کہ مجھ سے گستاخی ہو گئی ہے میں آپ کے مرتبہ کو پہچان نہ سکا اس لئے آپ مجھے معاف فرمادیں۔ میاں عبدالعزیز صاحب مغل لاہور والے سنایا کرتے تھے کہ میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے یہ کیوں نہ سمجھا کہ مرزا صاحب مسمریزم جانتے ہیں اور اس علم میں تم سے بڑھ کر ہیں۔ اس نے کہا یہ بات نہیں ہو سکتی کیونکہ مسمریزم کے لئے توجہ کا ہونا ضروری ہے اور یہ عمل کامل سکون اور خاموشی چاہتا ہے مگر مرزا صاحب تو باتوں میں لگے ہوئے تھے اِس لئے میں نے سمجھ لیا کہ ان کی قوتِ ارادی زمینی نہیں بلکہ آسمانی ہے۔
پس جو قوتِ ارادی خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو دی جاتی ہے اور جو کامل ایمان کے بعد پیدا ہوتی ہے اس میں اور انسانی قوتِ ارادی میں بُعدَالمشرقین ہوتا ہے جس شخص کو خداتعالیٰ قوت ارادی عطا فرماتا ہے اس کے سامنے انسانی قوتِ ارادی تو بچوں کا سا کھیل ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے سامنے جادوگروں کے سانپ مات ہوگئے تھے اسی طرح جب خدا تعالیٰ کے پیاروں کی قوتِ ارادی ظاہر ہوتی ہے تو اس قسم کی قوتِ ارادی رکھنے والے لوگ ہیچ ہو جاتے ہیں۔ پس دوسری چیز قومی ترقی کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام سچائیوں کو اپنے اندر جذب کر لیا جائے یہ نہیں کہ صرف وفاتِ مسیح کو مان لیا جائے اور کہہ دیا کہ بس ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے بلکہ وفاتِ مسیح کے مسئلہ کو سامنے رکھ کر اس کے چاروں پہلوؤں پر غور کیا جائے کہ وفاتِ مسیح کا ماننا کیوں ضروری ہے ہمیں جو چیز حیاتِ مسیح کے عقیدہ سے چبھتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک تو حیاتِ مسیح کے عقیدہ سے حضرت عیسیٰ کی فضیلت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ثابت ہوتی ہے حالانکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی شان کا کوئی نبی ہوا ہے نہ ہو گااور حیاتِ مسیح ماننے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے ساری دنیا کی حقیقی اصلاح کی مسیحؑ کی فوقیت ثابت ہوتی ہے اور یہ اسلامی عقائد کے خلاف ہے ہم تو ایک لمحہ کے لئے یہ خیال بھی اپنے دل میں نہیں لا سکتے کہ مسیحؑ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے اور یہ ماننے سے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو زیر زمین مدفون ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام چوتھے آسمان پر بیٹھے ہیں اسلام کی سخت توہین ہوتی ہے دوسری بات جو اس حیاتِ مسیح کے عقیدہ کے ماننے سے ہمیںچبھتی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے توحید الٰہی میں فرق آتا ہے۔ یہ دو چیزیں ہیں جن کی وجہ سے ہمیں وفات مسیح کے مسئلہ پر زور دینا پڑتا ہے اگر یہ باتیں نہ ہوتیں تو مسیح خواہ آسمان پر ہوتے یا زمین پر ہمیں اس سے کیا واسطہ تھا مگر جب ان کا آسمان پر چڑھنامحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی توہین کا موجب بنتا ہے اور توحید کے منافی ہے تو ہم اس عقیدہ کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔ ہم تو یہ بات سننا بھی گوارا نہیں کر سکتے کہ مسیح، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے کُجا یہ کہ اس عقیدہ کو مان لیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عام احمدی جب وفاتِ مسیح کے مسئلہ پر بحث کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے دلائل پیش کر رہے ہوتے ہیں تو اُن کے اندر جوش پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ اس طرح اس مسئلہ کو بیان کرتے ہیں جس طرح عام گفتگو کی جاتی ہے مگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ جب آپ وفاتِ مسیح کا مسئلہ چھیڑتے تھے تو اُس وقت آپ جوش کی وجہ سے کانپ رہے ہوتے تھے اور آپ کی آواز میں اتنا جلال ہوتا تھا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ حیاتِ مسیحؑ کے عقیدہ کا قیمہ کر رہے ہیں۔ آپ کی حالت اُس وقت بالکل متغیر ہو جایا کرتی تھی اور آپ نہایت جوش کے ساتھ یہ بات پیش کرتے تھے کہ دنیا کی ترقی کے راستہ میں ایک بڑا بھاری پتھر پڑا تھا جس کو اُٹھا کر میں دور پھینک رہا ہوں، دنیا تاریکی کے گڑھے میں گر رہی تھی مگر میں اس کو نور کے میدان کی طرف لئے جارہا ہوں۔ آپ جس وقت یہ تقریر کر رہے ہوتے تھے آپ کی آواز میں ایک خاص جوش نظر آتا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تخت پر مسیح بیٹھ گئے ہیں جس نے ان کی عزت اور آبرو چھین لی ہے اور آپ اُس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تخت واپس لینا چاہتے ہیں۔
پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی خود ساختہ متخیّلہ کو چھوڑ دو اور اپنی قوتِ ارادی کو مضبوط بناؤ تم یہ سمجھ لو کہ تمام دنیا کی روحانی خرابی اور تباہی دور کرنے کی ذمہ داری تمہارے سر پر ہے اور اِس قسم کے مسائل پر بحث کرتے ہوئے یہ سمجھ لو کہ یہ حملہ ماضی یا مستقبل کا نہیں بلکہ حال کا ہیـ اور تم پر اور تمہارے عزیزوں اور رشتہ داروں پر ہو رہا ہے اور تم سمجھ لو کہ اگر تم نے اس حملے کا دفاع نہ کیا تو وہ سب تباہ ہو جائیں گے۔ اگر تم ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مخالفت کی باتوں کا جواب دو گے تو سننے والے اور دیکھنے والے کہیں گے کہ یہ شخص سچا پیغامبر ہے لیکن اگر تم روحانیت سے خالی بحث کرو گے تو تم صرف مولوی کہلا سکتے ہو۔ مگر یاد رکھو مولوی کبھی نہیں جیتا کرتے انبیاء جیتتے ہیں اور انبیاء قوتِ متخیّلہ نہیں رکھتے بلکہ قوتِ ارادی رکھتے ہیں ایسی قوتِ ارادی جو عظیم الشان نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہے۔
(الفضل ۵ تا ۸، ۱۰،۱۳،۱۴؍ اکتوبر ۱۹۶۱ء)
۱؎ البقرۃ: ۱۴۹
۲؎ متی باب۶ آیت۹،۱۰ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء (مفہوماً)
۳؎ لاتکلف الا نفسک ۔(النساء: ۸۵)
۴؎ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ۵۱۔ مطبوعہ لاہور ۱۸۹۲ء
۵؎ چوری۔ مورچھل۔چنور: بالوں کا گچھا جس سے مکھیاں اُڑاتے ہیں۔
۶؎ البقرۃ: ۱۵۵
۷؎ ابوداؤد کتاب القضاء باب اذا علم الحاکم صدق شہادۃ الواحد… الخ
۸؎ ’’نیمے دروں نیمے بروں‘‘ یعنی آدھا اندر آدھا باہر
۹؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الجمعۃ باب قولہ واٰخرین منھم لما یلحقوا بھم
۱۰؎ کوردیہہ: (کوردہ)۔ جاہلوں کی بستی
۱۱؎ جیوہتیا: جیو: زندگی۔ روح۔ جاندار۔ ہتیا: قتل۔ خون۔ گناہ۔ جرم۔ دکھ۔ عذاب
سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل
پنجاب کے بٹوارے کا برطانوی فیصلہ ہو چکا ہے اب خود اہل پنجاب نے اس کے متعلق اپنی آخری منظوری دینی ہے یا اس سے انکار کرنا ہے پیشتر اس کے کہ اس کے متعلق کوئی قدم اُٹھایا جائے مناسب ہے کہ ہم اس کے متعلق پوری طرح سوچ لیں۔ ایک دفعہ نہیں دس دفعہ کیونکہ تقسیم کا معاملہ معمولی نہیں بہت اہم ہے۔
اِس وقت تک جو تقسیم کا اعلان ہوا ہے اس کا حسب ذیل نتیجہ نکلا ہے۔ ہندو (انگریزی علاقہ کے) ۲۱ کروڑ میں سے ساڑھے انیس کروڑ ایک مرکز میں جمع ہوگئے ہیں اور صرف ڈیڑھ کروڑ مشرقی اور مغربی اسلامی علاقوں میں گئے ہیں گویا اپنی قوم سے جُدا ہونے والے ہندوؤں کی تعداد صرف سات فیصد ہے باقی ترانوے فیصدی ہندو ایک جھنڈے تلے جمع ہو گئے ہیں۔ مسلمان (انگریزی علاقہ کے) آٹھ کروڑ میں سے پانچ کروڑ دو اسلامی مرکزوں میں جمع ہو گئے ہیں اور تین کروڑ ہندو اکثریت کے علاقوں میں چلے گئے ہیں گویا اپنی قوم سے جُدا ہونے والے مسلمان ۳۷ فیصدی ہیں۔ سکھ(انگریزی علاقہ میں رہنے والے) ۲۱ لاکھ مشرقی پنجاب میں چلے گئے ہیں اور ۱۷ لاکھ مغربی پنجاب میں رہ گئے ہیں گویا ۴۵ فیصدی سکھ مغربی پنجاب میں چلے گئے ہیں اور ۵۵ فیصدی مشرقی پنجاب میں اور تینوں قوموں کی موجودہ حالت یہ ہو گئی ہے۔ ہندو ننانوے فیصدی اپنے مرکز میں جمع ہوگئے ہیں، مسلمان چونسٹھ فیصدی اپنے دو مرکزوں میں جمع ہو گئے ہیں، سکھ پچپن فیصدی اور پینتالیس فیصدی ایسے دو مرکزوں میں جمع ہو گئے ہیں جہاں انہیں اکثریت کا حاصل ہونا تو الگ رہا ۲۵ فیصدی تعداد بھی انہیں حاصل نہیں۔ کیا اس صورتِ حالات پر سکھ خوش ہو سکتے ہیں؟ بات یہ ہے کہ اس بٹوارے سے ہندوؤں کو بے اتنہا فائدہ پہنچا ہے مسلمانوں کو اخلاقی طور پر فتح حاصل ہے لیکن مادی طور پر نقصان، سکھوں کو مادی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی نقصان پہنچا ہے گویا سب سے زیادہ گھاٹا سکھوں کو ہوا ہے اور اس سے کم مسلمانوں کو۔ ہندوؤں کو کسی قسم کا بھی کوئی نقصان نہیں ہوا صرف اس غنیمت میں کمی آئی ہے جو وہ حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن ابھی وقت ہے کہ ہم اس صورت حالات میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں ۲۳؍ مارچ کے بعد پھر یہ سوال آسانی سے حل نہ ہو سکے گا۔
سکھ صاحبان جانتے ہیں کہ احمدیہ جماعت کو کوئی سیاسی اور مادی فائدہ اس یا اُس سکیم سے حاصل نہیں ہوتا۔ احمدیہ جماعت کو ہر طرف سے خطرات نظر آ رہے ہیں ایک پہلو سے ایک خطرہ ہے تو دوسرے پہلو سے دوسرا۔ پس میںجو کچھ کہہ رہا ہوں عام سیاسی نظریہ اور سکھوں کی خیرخواہی کے لئے کہہ رہا ہوں۔ میں جس علاقہ میں رہتا ہوں گو اس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن سکھ اس علاقے میں کافی ہیں اور ہمارے ہمسائے ہیں اور ان کی نسبت آبادی کوئی ۳۳ فیصدی تک ہے اس لئے سکھوں سے ہمارے تعلقات بہت ہیں بعض سکھ رؤساء سے ہمارا خاندانی طور پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ سے بھائی چارہ اب تک چلا آتا ہے اس لئے میری رائے محض خیرخواہی کی بناء پر ہے میرا دل نہیں چاہتا کہ سکھ صاحبان اس طرح کٹ کر رہ جائیں۔ اگر تو کوئی خاص فائدہ سکھوں کو پہنچتا تو میں اِس تجویز کو معقول سمجھتا مگر اب تو صرف اس قدر فرق پڑا ہے کہ سارے پنجاب میں مسلمان تعداد میں اوّل تھے، ہندو دوم اور سکھ سوم اور اب مشرقی پنجاب میں ہندو اوّل مسلمان دوم اور سکھ سوم ہیں۔ سکھ اگر اس بٹوارے سے دوم ہو جاتے تو کچھ معقول بات بھی تھی مگر صرف مسلمان اوّل سے دوم ہوگئے ہیں اور ہندو دوم سے اوّل، سکھوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ پُرانے پنجاب میں مسلمانوں نے اپنے حق سے ساڑھے پانچ فیصدی سکھوں کو دیدیا تھا اب تک ہندوؤں کی طرف سے کوئی اعلان نہیں ہوا کہ وہ کتنا حصہ اپنے حصہ میں سے سکھوں کو دینے کو تیار ہیں۔ پُرانے پنجاب میں چودہ فیصدی سکھوں کو اکیس فیصدی حصہ ملا ہوا تھا اب اٹھارہ فیصدی سکھ مشرقی پنجاب میں ہوگئے ہیں اگر ہندو جو تعداد میں اوّل نمبر پر ہیں مسلمانوں کی طرح اپنے حق سے سکھوں کو دیں تو سکھوں کو نئے صوبہ میں چھبیس فیصدی حق ملنا چاہئے۔ گو سکھ پُرانے انتظام پر خوش نہ تھے اسی وجہ سے انہوں نے صوبہ تقسیم کروایا ہے اس لئے انہیں ہندوؤں سے تیس فیصدی ملے تو وہ تب دنیا کو کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو پرانے پنجاب سے ہم زیادہ فائدہ میں رہے ہیں۔ مسلمانوں نے ہمیں ڈیوڑھا حق دیا تھا اب ہندوؤں نے اپنے حق سے کاٹ کر ہمیں پونے دو گنا دے دیا ہے اس لئے ہمارا بٹوارہ پر زور دینا درست تھا لیکن اگر ایسا نہ ہو اور ہندوؤں نے اپنے حصہ سے اُس نسبت سے بھی سکھوں کو نہ دیا جس نسبت سے پُرانے پنجاب میں مسلمانوں نے سکھوں کو دیا تھا تو سکھ قوم لازماً گھاٹے میں رہے گی۔ نئے صوبہ میں اٹھارہ فیصدی سکھ ہوں گے، بتیس فیصدی مسلمان اور پچاس فیصدی ہندو۔ اگر ہندو اسی نسبت سے اپنا حق سکھوں کو دیں جس طرح مسلمانوں نے پنجاب میں دیا تھاتو سکھوں کو چھبیس فیصدی اور حق مل جائے گا اور نمائندگی کی یہ شکل ہوگی کہ بتیس فیصدی مسلمان اور چھبیس فیصدی سکھ اور بیالیس فیصدی ہندو۔ لیکن اوّل تو ایسا کوئی وعدہ ہندوؤںنے سکھوں سے اب تک نہیں کیا وہ غالباً یہ کوشش کریں گے کہ مسلمانوں کے حق سے سکھوں کو دینا چاہیں لیکن سکھوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے فتنہ کا دروازہ کھلے گا۔ جب مسلمان زیادہ تھے انہوں نے اپنے حصہ سے سکھوں کو دیا، اب ہندؤ زیادہ ہیں اب انہیں اپنے حصہ سے سکھوں کو دینا چاہئے ورنہ تعلقات ناخوشگوار ہو جائیںگے۔
فرض کروکہ ہندو سکھوں کو اپنی نیابت کے حق سے دے بھی دیں جتنا انہیں مسلمانوں نے اپنے حق سے دیا ہوا تھا تو پھر بھی سکھ صاحبان کو ان امور پر غور کرنا چاہئے :۔
۱۔ تمام سکھ امراء منٹگمری، لائل پور اور لاہور میں بستے ہیں اور اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ لائل پور، منٹگمری اور لاہور کے سکھ زمیندارہ کو ملا کر فی سکھ آٹھ ایکڑکی ملکیت بنتی ہے لیکن لدھیانہ ہوشیار پور ، فیروزپور، امرتسرکی سکھ ملکیت کے لحاظ سے ایک ایکڑ فی سکھ ملکیت ہوتی ہے کیونکہ لدھیانہ اور جالندھر میں سکھوں کی ملکیت بہت کم ہے اور اسی وجہ سے وہ زیادہ ترمزدوری پیشہ اور فوجی ملازم ہیں یا ملک سے باہر جا کر غیر ممالک میں کمائی کرتے ہیں اس وجہ سے اگر یہ تقسیم قائم رہی تو اس کا ایک نتیجہ یہ نکلے گا کہ مالدار سکھ مغربی پنجاب سے جا ملیں گے اور اگر مسلمانوںکا رویہ ان سے اچھا رہا اور خدا کرے اچھا رہے تو ان کی ہمدردی مشرقی سکھ سے بالکل جاتی رہے گی اور کوئی مالی امداد وہ اسے نہ دیں گے اور مشرقی علاقہ کا سکھ جو پہلے ہی بہت غریب ہے اپنی تعلیمی اور تہذیبی انجمنوں کو چلا نہ سکے گا۔
دوسرے اسے یہ نقصان ہوگا کہ سکھ قوم مشرقی حصہ میں اقتصادی طور پر اپنا سر اونچا نہ رکھ سکے گی۔
تیسرے اس سے یہ نقص پیدا ہوگا کہ ہوشیار پور، فیروز پور ،جالندھر اور لدھیانہ کے سکھ پہلے سے بھی زیادہ غیر ملکوں کی طرف جانے کے لئے مجبور ہوں گے اور مشرقی پنجاب کے سکھوں کی آبادی روز بروز گرتی چلی جائے گی اور شاید چند سال میں ہی مشرقی پنجاب میں بھی سکھ چودہ فیصدی پر ہی آجائیں۔
پانچویںاس امر کا بھی خطرہ ہے کہ اس بٹوارے کی وجہ سے مغربی پنجاب کی حکومت یہ فیصلہ کرے کہ وہ زمین جو مشرقی پنجاب کے لوگوں کو مغربی پنجاب میں جنگی خدمات کی وجہ سے دی گئی ہے وہ اس بناء پر ضبط کر لی جائے کہ اب ان خدمات کا صلہ دینا نئے ہندو مرکز کے ذمہ ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ جب وہ لوگ الگ ہوگئے ہیں تو اس خدمت کا صلہ جو درحقیقت مرکزی خدمت تھی وہ صوبہ دے جس کا وہ شخص سیاسی باشندہ بھی نہیں ہے۔
زمیندارنقصان کے علاوہ کہ سکھوں کی دوتہائی جائیداد مغربی پنجاب میں رہ جائے گی ایک اور بہت بڑا خطرہ بھی ہے اور وہ یہ کہ جو سکھ تجارت کرتے ہیں ان میں سے اکثرحصہ کی تجارت مغربی پنجاب سے وابستہ ہے سوائے سردار بلدیو سنگھ صاحب کے کہ جن کی تجارت ہندو علاقہ سے وابستہ ہے باقی سب سکھ تجارت مسلمان علاقہ سے وابستہ ہے۔ سکھوں کی تجارت جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں پنجاب میں راولپنڈی ،کوئٹہ، جہلم اور بلوچستان سے وابستہ ہے اور تجارت کی ترقی کے لئے آبادی کی مدد بھی ضروری ہوتی ہے۔ جب سکھوں کی دلچسپی مغربی پنجاب اور اسلامی علاقوں سے کم ہوگی تو لازماً اس تجارت کو بھی نقصان پہنچے گا سوائے سردار بلدیو سنگھ صاحب کے جن کی تجارت بہار سے وابستہ ہے اور کونسا بڑا سکھ تاجر ہے جو مشرقی پنجاب یا ہندوستان میں وسیع تجارت رکھتا ہو۔ ساری کشمیر کی تجارت جو راولپنڈی کے راستہ سے ہوتی ہے یا جہلم کے ذریعہ سے ہوتی ہے سکھوں کے پاس ہے۔ ایران سے آنے والا مال اکثر سکھوں کے ہاتھ سے ہندوستان کی طرف آتا ہے اور اس تجارت کی قیمت کروڑوں تک پہنچتی ہے اگر یہ تاجر موجودہ افراتفری میں اپنی تجارتوں کو بند کریں گے تو نئی جگہ کا پیدا کرنا ان کے لئے آسان نہ ہوگا اور اگر وہ اپنی جگہ پر رہیں گے تو اسلامی حصہ ملک میں ان کی آبادی کے کم ہو جانے کی وجہ سے وہ اس سیاسی اثر سے محروم ہو جائیں گے جو اَب ان کی تائید میں ہے اور پھر اگر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے پہلے علاقہ میں ہی رہیں تو آہستہ آہستہ ان کی ہمدردی اپنے مشرقی بھائیوں سے کم ہو جائے گی اور سکھ انجمنیں ان کی امداد سے محروم رہ جائیں گی۔
یہ امر بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے کہ مشرقی صوبہ کا دارلحکومت لازماً دہلی کے پاس بنایا جائے گا اور اس طرح امرتسر اپنی موجودہ حیثیت کو کھو بیٹھے گا اِس وقت تو لاہور کے قرب کی وجہ سے جہاں کافی سکھ آبادی ہے امرتسر تجارتی طور پر ترقی کر رہا ہے لیکن اگر دارالحکومت مثلاً انبالہ چلا گیا تو انبالہ بوجہ امرتسر سے دور ہونے کے قدرتی طور پر اپنی تجارتی ضرورتوں کے لئے امرتسرکی جگہ دہلی کی طرف دیکھے گا اور لاہور حکومت کے اختلاف کی وجہ سے امرتسر سے پہلے ہی جُدا ہو چکا ہوگا، پھر امرتسر کی تجارت کا ۳؍۱ حصہ اُس مال کی وجہ سے ہے جو افغانستان، بخارا اور کشمیر سے آتا ہے یہ مال بھی اپنے لئے نئے راستے تلاش کرے گا اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ امرتسر کی تجارتی حیثیت بہت گر جائے گی اور یہ شاندار شہر جلد ہی ایک تیسرے درجہ کا شہر بن جائے گا۔ اگر مغربی پنجاب نے مشرقی پنجاب کی ڈگریوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تووہ اٹھارہ لاکھ سکھ جو مغربی پنجاب میں بستے ہیں ایک بڑا کالج مغربی پنجاب میں بنانے پر مجبور ہوں گے اور چونکہ بڑے زمیندار اور بڑے تاجر سکھ مغربی پنجاب میں ہیں ان کے لئے ایک بہت بڑا کالج بنانا مشکل نہ ہوگا اِس طرح خالصہ کالج امرتسر بھی اپنی شان کھوبیٹھے گا اور سکھوں کے اندر دو متوازی سکول اقتصادی اور سیاسی اور تمدنی فلسفوں کے پیدا ہو جائیں گے۔ بے شک ساری قوموں کو ہی اس بٹوارہ سے نقصان ہوگا لیکن چونکہ ہندوؤں کی اکثریت ایک جگہ اور مسلمانوں کی اکثریت ایک جگہ جمع ہو جائے گی انہیں یہ نقصان نہ پہنچے گا یہ نقصان صرف سکھوں کو پہنچے گا جو قریباً برابر تعداد میں دونوں علاقوں میں بٹ جائیں گے اور دونوں میں سے کوئی حصہ اپنی بڑائی کو دوسرے حصہ پر قربان کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا۔ کہا جاتا کہ آبادی کے تبادلہ سے یہ مشکل حل کی جا سکے گی لیکن یہ درست نہیں لائل پور، لاہورر، منٹگمری، شیخوپورہ، گوجرانولہ اور سرگودھا کے سکھ اپنی نہری زمینوں کو چھوڑ کر بارانی زمینوں کو لینے کے لئے کب تیار ہوں گے اور اگر وہ اس پر راضی ہو گئے تو مالی لحاظ سے یہ ان کیلئے بڑا اقتصادی دھکّا ہوگا جس کی وجہ سے قومی انحطاط شروع ہو جائے گا پس پیشتر اس کے سکھ صاحبان پنجاب کے بٹوارے کے متعلق کوئی فیصلہ کریںانہیں ان سب امور پر غور کر لینا چاہئے تا ایسا نہ ہو کہ بعد میں اس مشکل کا حل نہ نکل سکے اور پچھتانا پڑے۔
بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اگر مشکلات پیدا ہوئیں اور ان کا کوئی علاج نہ نکلا تو اس وقت پھر سکھ صاحبان مغربی پنجاب میں آسکتے ہیں لیکن یہ خیال درست نہیں اس لئے کہ اگر اب سکھ صاحبان پنجاب کے بٹوارے کے خلاف رائے دیں تو ان کے ووٹ مسلمان کے ووٹوں سے مل کر بٹوارے کو روک سکتے ہیں لیکن اگر بعد میں انہوں نے ایسا فیصلہ کیا تو یہ صاف بات ہے کہ انبالہ ڈویژن ان کے ساتھ شامل نہ ہوگا اور اگر مغربی پنجاب سے ملا تو صرف جالندھر ڈویژن ملے گا اور اُس وقت پنجاب کی یہ حالت ہوگی کہ اس میں پندرہ فیصدی سکھ ہوں گے اور پندرہ فیصدی ہندو اور ۷۰ فیصدی مسلمان حالانکہ متحدہ پنجاب کی صورت میں بیالیس فیصدی ہندو اور سکھ ہوں گے اور چھپن فیصدی مسلمان اور دو فیصدی دوسرے لوگ۔ ظاہر ہے کہ چونتالیس فیصدی لوگ حکومت میں جو آواز اور اثر رکھتے ہیں وہ تیس فیصدی لوگ کسی صورت میں نہیں رکھ سکتے۔ پس بعد کی تبدیلی کسی صورت میں سکھوں کو وہ فائدہ نہیں پہنچا سکتی جو اِس وقت کی تبدیلی پہنچا سکتی ہے کیونکہ ایک دفعہ پنجاب بانٹا گیا تو پھر انبالہ ڈویژن کو واپس لانا سکھوں کے اختیار سے باہر ہو جائے گا۔
سکھ صاحبان کو یہ امر بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ابھی سے ہندوؤں کی طرف سے آواز اُٹھائی جا رہی ہے کہ یوپی کے چند اضلاع ملا کر مشرقی پنجاب کا ایک بڑا صوبہ بنا دیا جائے اگر ایسا ہوگیا تو اس نئے صوبہ میں ہندو ساٹھ فیصدی، مسلمان تیس فیصدی اور سکھ صرف دس فیصدی رہ جائیں گے۔
بعض سکھ صاحبان یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ جالندھر ڈویژن کی ایک سکھ ریاست بنا دی جائے گی بے شک اس صورت میں سکھوں کی آبادی کی نسبت اس علاقہ میں بڑھ جائے گی مگر اس صورت میں بھی مختلف قوموں کی نسبت آبادی یوں ہوگی۶۰ء۲۵سکھ۵۰ء۳۴ مسلمان اور قریباً چالیس فیصدی ہندو۔ اس صورتِ حالات میں بھی سکھوں کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچ سکتا پرانے پنجاب میں بھی تو سکھوں کو بائیس فیصدی نمائندگی ملی ہوئی تھی۔ پس اگر جالندھر ڈویژن کا الگ صوبہ بھی بنا دیا گیا تو اس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے گا کیونکہ انبالہ ڈویژن کے الگ ہو جانے کی وجہ سے انبالہ صوبہ پر کُلّی طور پر ہندوؤں کا قبضہ ہو جائے گا اور جالندھر ڈویژن میں بوجہ چالیس فیصدی رہ جانے کے سکھ اُن سے اپنے لئے زیادہ نمائندگی کا مطالبہ نہیں کر سکیں گے اور توازن بہت مضبوطی سے ہندوؤں کے ہاتھ میں چلاجائے گا اور وہ انبالہ کے صوبہ میں بغیر کسی سے سمجھوتہ کرنے کے حکومت کر سکیں گے اور جالندھر میں کچھ سکھوں یا مسلمانوں کو ملا کر حکومت کر سکیںگے۔
ایک اور سخت نقصان سکھوں کو اس صورت میں یہ پہنچے گا کہ جالندھر ڈویژن کے سکھوں میں کمیونزم زیادہ زورپکڑرہی ہے۔ فیروز پور، لدھیانہ اور ہوشیارپور اِس کے گڑھ ہیں اس علیحدگی کی وجہ سے ان لوگوں کی آواز بہت طاقت پکڑجائے گی۔ اور اکالی پارٹی چندسالوں میں ہی اس خطرناک بلاء کا مقابلہ کرنے سے اپنے آپ کو بے بس پائے گی خصوصاً جب کہ سیاسی چالوں کی وجہ سے بعض خود غرض پارٹیاں کمیونسٹوں کی مدد کرنے پر آمادہ ہو جائیں گی جیسا کہ گذشتہ الیکشن پر سکھ صاحبان کو تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ میں نے کافی روشنی ان خطرات پرڈال دی ہے جو سکھوں کو پیش آنے والے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ۲۳؍جون کو ہونے والی اسمبلی کی میٹنگ میں وہ ان امور کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کر یں گے۔ اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ سب سے زیادہ اثر عوام سکھوں پر پڑنے والا ہے وہ بھی اپنے لیڈروں پر زور دیں گے کہ اس خود کشی کی پالیسی سے ان کو بچایا جائے۔ میں لکھ چکا ہوں کہ میں بوجہ ایک چھوٹی سی جماعت کا امام ہونے کے کوئی سیاسی غرض اِس مشورہ میں نہیں رکھتا اس لئے سکھ صاحبان کو سمجھ لینا چاہئے کہ میرا مشورہ بالکل مخلصانہ اور محض ان کی ہمدردی کی وجہ سے ہے۔ اگر سیاست میرے اختیار میں ہوتی تو میں انہیں ایسے حقوق دے کر بھی جن سے ان کی تسلی ہو جاتی انہیں اس نقصان سے بچاتا مگر سیاست کی طاقت میرے ہاتھ میں نہیں اس لئے میں صرف نیک مشورہ ہی دے سکتا ہوں ہاں مجھے امید ہے کہ اگر سکھ صاحبان مسٹر جناح سے بات کریں تو یقینا انہیں سکھوں کا خیرخواہ پائیں گے مگر انہیں بات کرتے وقت یہ ضرور مدنظر رکھ لینا چاہئے کہ ہندو صاحباں انہیں کیا کچھ دینے کو تیار ہیں کیونکہ خود کچھ نہ دینا اور دوسروں سے لینے کے مشورے دینا کوئی بڑی بات نہیں۔ اس میں مشورہ دینے والے کا کچھ حرج نہیں ہوتا پس اچھی طرح اونچ نیچ کو دیکھ کر وہ اگر مسلم لیگ کے لیڈروں سے ملیں تو مجھے امید ہے کہ مسلم لیگ کے لیڈر انہیں ناامید نہیں کریں گے۔ اگر مجھ سے بھی اس بارہ میں کوئی خدمت ہو سکے تومجھے اس سے بے انتہا خوشی ہوگی۔
آخر میں میںسکھ صاحبان کو مشورہ دیتا ہوں کہ سب کاموں کی کنجی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے وہ گورونانک دیو جی اور دوسرے گوروؤں کے طریق کو دیکھیں وہ ہر مشکل کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعائیںکیا کرتے تھے اِس وقت ان کو بھی اپنی عقل پر سارا انحصار رکھنے کی بجائے خداتعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں تا اللہ تعالیٰ انہیں وہ راستہ دکھادے جس میں ان کی قوم کی بھی بھلائی ہو اور دوسری قوموں کی بھی بھلائی ہو۔ یہ دن گذر جائیں گے، یہ باتیں بھول جائیں گی لیکن محبت اور پریم کے کئے ہوئے کام کبھی نہیں بھولیں گے اگر بٹوارہ بھی ہونا ہے تو وہ بھی اسی طرح ہونا چاہئے کہ ایک قوم کا گاؤں دوسری قوم کے گاؤں میں اس طرح نہ گھسا ہوا ہو کہ جس طرح دو کنگھیوں کے دندانے ملا دئیے جاتے ہیں اگر ایسا ہوا تو سرحد میں چھاؤنیاں بن جائیں گی اور سینکڑوں میل کے بسنے والے لوگ قیدیوں کی طرح ہو جائیں گے اور علاقے اُجڑ جائیں گے۔ یہ میری نصیحت سکھوں ہی کو نہیں مسلمانوں کو بھی ہے۔ میرے نزدیک تحصیلوں کو تقسیم کا یونٹ تسلیم کر لینے سے اس فتنہ کا ازالہ ہو سکتا ہے اگر اس سے چھوٹا یونٹ بنایا گیا تو جتنا جتنا چھوٹا وہ ہوتاجائے گا اُتنا اُتنا نقصان زیادہ ہوگا۔ ایک عرب شاعر اپنی معشوقہ کو مخاطب کر کے کہتا ہے۔ ع
فَاِنْ کُنْتِ قَدْ اَزْمَعْتِ صَرْمًا فَاَجْمِلِیْ
یعنی اے میری مجبوبہ! اگر تُو نے جُدا ہونے کا فیصلہ ہی کر لیا ہے تو کسی پسندیدہ طریق سے جُداہو۔ میں بھی ہندو، مسلمان، سکھ سے کہتا ہوں کہ اگر جُدا ہونا ہی ہے تو اس طرح جُدا ہو کہ سرحدوں کے لاکھوں غریب باشندے ایک لمبی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
شاید کسی کے دل میں یہ خیال گذرے کہ میں نے ہندوؤںکو کیوں مخاطب نہیں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک ہمدردی کا سوال ہے ہندو بھی ہمارے بھائی ہیں اور میں ان کا کم ہمدرد نہیں مگر ہندو چونکہ اپنے مرکز کی طرف گئے ہیں ان کا فوری نقصان تو ہوگا مگر بوجہ اس کے کہ وہ اکثر تاجر پیشہ ہیں وہ جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں گے۔ اس لئے انہیں یہ کہنا کہ اس تقسیم سے آپ کا دائمی نقصان ہوگا جھوٹ بن جاتا ہے۔ اس لئے میں نے انہیں مخاطب نہیں کیا ورنہ ان سے مجھے کم ہمدردی نہیں۔
آخر میں مَیں دعا کرتا ہوں کہ اے میرے ربّ! میرے اہلِ مُلک کو سمجھ دے اور اوّل تو یہ ملک بٹے نہیں اور اگر بٹے تو اس طرح بٹے کہ پھر مل جانے کے راستے کھلے رہیں۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ
خاکسار
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان
۱۷؍ جون ۱۹۴۷ء
(الفضل ۱۹؍ جون ۱۹۴۷ء)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام اہم واقعات اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت پیش کرتے ہیں
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام اہم واقعات کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍِ عَبْدَہٗ کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت پیش کرتے ہیں
(فرمودہ ۱۷ ؍جون ۱۹۴۷ء )
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
ہمارے سلسلہ میں ۱؎ والی آیت جو سورئہ زمر میں آتی ہے اور جس کے اوّلین مخاطب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ایک بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اُس وقت نازل ہوا جب آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے والد ماجد کی وفات کی خبر ملی اور آپ کے دل میں خیال گزرا کہ ان کی وفات کے بعد آپ کے گذارہ کی کیا صورت ہوگی۔ آپ فرماتے تھے کہ اس خیال کے آتے ہی یہ الہام ہوا کہ یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟ آپ نے اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے کہ اس الہام کے بعد اللہ تعالیٰ میرا ایسا متکفل ہوا کہ کہیں کسی کا باپ بھی ایسا متکفل نہیں ہو سکتا اور اُس نے مجھ پر وہ احسانات فرمائے جن کا میں شمار تک نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد آپ نے اُنہی دنوں اِس الہام کو ایک نگینہ میں کھدوا کر اُس کی انگوٹھی بنوائی جو اَب تک ہمارے خاندان میں محفوظ چلی آرہی ہے۔ پس چونکہ یہ آیت ہمارے سلسلہ کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتی ہے اِس لئے ہماری جماعت کا قریباً ہر فرد اس سے واقف ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ عَبْدَ کے ساتھ ہ ٗ کی اضافت واضح طور پر بتا رہی ہے کہ اس جگہ ہر وہ شخص مخاطب ہے جو اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بن جائے اور یہ ایک حقیقت ہے جس کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالیٰ عَلی قدرِ مراتب اپنے ہر عبد کی خبر گیری کرتا اور اس کی ضروریات کو پورا فرماتا ہے۔ پس یہ ایک ایسا وعدہ ہے جو غیر معیّن ہے اور جس کے معنی یہ ہیں کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کا عَبْد ہوگا وہی اِس آیت کا مخاطب ہوگا چاہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوں، حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں یا ان سے اُتر کر صدیقین ، شہدا، اور صالحین وغیرہ ہوں یعنی جو بھی خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والا عَبْد ہو وہی اِس آیت کا مخاطب ہوگا اور اللہ تعالیٰ علیٰ قدرِ مراتب اپنے سارے عِبَاد سے حسن سلوک فرماتا رہے گا۔ جتنا اعلیٰ عبدہوگا اُتنا ہی اعلیٰ خدا تعالیٰ بھی اُس سے حسن سلوک کرے گا اور جتنا ادنیٰ عبد ہوگا اتنا ہی کم اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کرے گا۔
میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اتنے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی اپنے بندے کی خبر گیری کرتا ہے کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ اتنی خبر گیری تو قریبی سے قریبی رشتہ دار بھی ضرورت پڑنے پر نہیں کیا کرتے۔ ادھر منہ سے ایک چھوٹی سے بات نکلتی ہے اور ادھر پوری ہو جاتی ہے، بعض دفعہ کسی آدمی کے متعلق خیال کیا جاتا ہے تو وہ جھٹ آپہنچتا ہے اور بعض دفعہ کسی چیز کے متعلق خیال کیا جاتا ہے تو وہ جھٹ مل جاتی ہے۔ ابھی اترسوں کا ذکر ہے کہ ایک ایسی بات ہوئی جس کو میرے چھوٹے بچے نے بھی محسوس کیا حالانکہ چھوٹے بچوں میں کسی اہم بات کے احساس کا شعور نہیں ہوتا وہ بات یہ تھی کہ میں نے کہا کہ اِس دفعہ آم ابھی تک نہیں آئے اِس پر ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک آدمی سندھ سے آپہنچا اور اُس کے پاس ہمارے لئے آم تھے۔ میری بیوی نے مجھ سے ذکر کیا کہ بچہ کہہ رہا ہے کہ لو ابھی ابھی ابّا جان نے کہا تھا کہ اِس دفعہ آم نہیں آئے اور وہ آبھی گئے ہیں۔ یہ بات اگر ایک دفعہ ہوتی تو اِس کو اتفاقی کہہ سکتے تھے لیکن اِس قسم کی ہزاروں باتیں اتنے تواتر کے ساتھ ہوتی ہیں اور ان کو اتفاقی نہیں کہا جا سکتا۔ پس یہ آیت حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، یا کسی اور نبی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے سارے بندوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے سارے بندوں کے ساتھ ہی علیٰ قدرِ مراتب حسن سلوک کرتا ہے مگر ہاں یہ آیت اپنی اس شکل میں چونکہ سب سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے اس لئے اس کا سب سے اعلیٰ اور ارفع ظہور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکات پر ہی ہوا ہے ۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آیت تو آپ پر بعد میں اُتری مگر آپ کی ساری زندگی ہی کا نمونہ نظر آتی ہے۔
کا صرف ایک ہی پہلو نہیں بلکہ دو پہلو ہیں اور اس کے اندر دو نہایت عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کو بہت زیادہ خطرات پیش آئیں گے اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر خطرہ کے وقت آپ کی حفاظت کرے گا کیونکہ حفاظت کی ضرورت تبھی ہوتی ہے جب کوئی خطرہ درپیش ہو۔ اگر کوئی خطرہ نہ ہو تو حفاظت اور مدد کے معنی ہی کچھ نہیں ہوتے۔ پس اللہ تعالیٰ میں فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی خطرات سے پُر ہوگی مگر ہر خطرہ کے موقع پر میں اس کی حفاظت کروں گا اور یہ دونوں چیزیں متوازی ہوں گی۔ ایک شخص جس کے پاس بچپن میں ہی بے شمار مال و دولت آجائے، طاقت آجائے، اُس کے نوکر چاکر موجود ہوں، اُس کو پڑھانے والے بڑے بڑے عالم موجود ہوں، اُس کی عالیشان کوٹھیاں ہوں، موٹر کاریں ہوں، اُس کی عمارات اور سازو سامان کو دیکھ کر لوگ اُسے لڑکیاں دینے کے لئے تیار ہوں، اس کی مجلس میں بیٹھنے والے دوست موجود ہوں اور ہر وقت اُس کے پاس عیش وعشرت کی محفلیں منعقد ہوں اُس کو خدا تعالیٰ کی نعمتوں اور انعامات کی قدر نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دولت مند کو مکان، گھوڑے اور ہاتھی وغیرہ سب کچھ خداتعالیٰ ہی دیتا ہے مگر ایسے لوگوں کے پاس چونکہ یہ سب کچھ ماں باپ کی طرف سے پہنچتا ہے اِس لئے یہ بات کہ خدا دیتا ہے ان کی نظر میں نہیں آسکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں تو ہمیں ماں باپ سے بطور ورثہ ملی ہیں ایسے لوگوں کی زندگی خدا تعالیٰ کے فضل کو ظاہر کرنے والی نہیں ہوتی ان کی نظر صرف مادیات میں پھرتی ہے خدا تعالیٰ کی طرف نہیں جاتی۔
غرض سے اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی خطرات سے پُر ہوگی لیکن ہر خطرہ کے وقت میں اس کی مدد کروں گا۔ پس یہ ایک پیشگوئی نہیں بلکہ دو پیشگوئیاں ہیں ایک طرف تو آپ کے متواتر خطرات سے دو چار ہونے کی پیشگوئی ہے اور دوسری طرف متواتر ان خطرات کو دور کرنے اور آپ کی مدد کرنے کی پیشگوئی ہے۔ سب سے پہلا خطرہ جو آپ کو اپنی زندگی میں پیش آیا وہ یہ تھا کہ ابھی آپ اپنی والدہ کے پیٹ میں ہی تھے کہ آپ کے والد کی وفات ہوگئی۔ اُس وقت قدرتاً یہ خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ اس بچہ کو جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہے پالے گا کون؟ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اِدھر آپ پیدا ہوئے اور اُدھر آپ دادا عبدالمطلب کی گود میں پہنچ گئے۔ انہوں نے بچے کو دیکھتے ہی کہا یہ تو چاند سا مُکھڑا ہے اور پھر فرطِ محبت سے بچے کو گود میں اُٹھا کر بیت اللہ میں لے گئے اور وہاں جا کر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا گویا باپ کی موت کے بعد یکدم خداتعالیٰ نے باپ کی جگہ آپ کے دادا کے دل میں باپ جیسی شفقت بھر دی اور کی پیشگوئی پہلی بار پوری ہوئی۔یہ صرف خدا تعالیٰ کا فضل اور اُس کی مدد ہی تھی ورنہ ہم روزانہ کئی واقعات دیکھتے ہیں کہ جب کسی شخص کا کوئی ایسا لڑکا فوت ہو جائے جس کی اولاد ہو تو وہ اپنے پوتے کی طرف سے توجہ پھیر لیتا ہے اور اُسے پرواہ ہی نہیں ہوتی کہ وہ اس کا پوتاہے اسی طرح اس کے دوسرے لواحقین بھی اپنی توجہ اس کی طرف سے پھیر لیتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اس بچہ کے ساتھ دُور کا بھی رشتہ نہیں۔ لیکن آپ کے والد کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے آپ کے دادا کے دل میں آپ کے لئے بے انتہا محبت بھر دی اور اس نے کہا یہ تو ہمارا بیٹا ہے اور چاند کا ٹکڑا ہے یہ والی پیشگوئی کا ہی ظہور تھا کہ باپ نہ تھا تو دادا کے دل میں اللہ تعالیٰ نے محبت اور اُلفت پیدا کر دی۔ پس اللہ تعالیٰ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اے محمدﷺ ! جب تمہارا باپ نہ تھا تو کیا ہم تمہارے باپ بنے تھے یا نہ؟
پھر اس کے بعد خدا تعالیٰ نے جو کام آپ سے لینے تھے وہ تقاضا کرتے تھے کہ آپ کی صحت اعلیٰ درجہ کی ہو اور آپ کے قویٰ نہایت مضبوط ہوں کیونکہ آپ نے ایک طرف تمام انبیاء سے افضل نبی بننا تھا ور دوسری طرف اعلیٰ درجہ کا جرنیل بھی بننا تھا مگر مکہ میں پھلوں کی بھی کمی تھی، پانی کی بھی کمی تھی اور سبزیوں وغیرہ کی بھی کمی تھی اور جب تک مکہ کے لوگ بیرو نجات میں جاکر نہ رہیں ان کی صحت اچھی نہیں رہ سکتی۔ بیرونجات سے مکہ میں پھل اور سبزیاں وغیرہ تو پہنچ جاتی تھیں لیکن اگر باہر سے چیزیں چلی بھی جاتیں تو بھی تازہ بتازہ پھلوں اور سبزیوں کامل جاناجو اثر رکھتا ہے وہ باہر سے آئی ہوئی چیزوں میں کہاں ہوتا ہے۔ مکہ کے لوگوں میں یہ دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کو باہر کے گاؤں میں ۵یا ۶ ماہ کی عمر میں بھجوا دیتے تھے اور جب وہ ۸۔۹ سال کی عمر کے ہوتے تھے تو انہیں واپس لے آتے تھے اور بعضلوگ تو سال دو سال کے بعد ہی واپس لے آتے تھے اور بعض ۸۔۹ سال کا ہو چکنے پر لے آتے۔ اِس سے یہ فائدہ ہوتا کہ ان کی صحت بھی اچھی ہو جاتی اور ان بچوں کی زبان بھی شہر والوں کی نسبت زیادہ صاف ہو جاتی کیونکہ بدویوں کی زبان شہر والوں کی نسبت زیادہ صاف تھی اور شہریوں کی زبان باہر سے قبائل آتے رہنے کی وجہ سے مخلوط سی ہو جاتی تھی۔ غرض مکہ میں ہر چھٹے مہینے باہر کے گاؤں کی عورتیں آتیں اور دودھ پیتے بچوں کو پالنے کے لئے ساتھ لے جاتیں وہ شہر میں چکر لگاتی تھیں اور جس کسی نے اپنا بچہ ان کے حوالہ کرنا ہوتا کر دیتا تھا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد آس پاس کے دیہات کی عورتیں شہر میں آئیں حضرت عبدالمطلب کا گھر بہت مشہور تھا اور ایک قبیلہ کا سردار ہونے کی وجہ سے ان کی بہت زیادہ شہرت تھی اس لئے دیہات سے آنے والی ان دایہ عورتوں میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ عبدالمطلب کے پوتے کو وہ اپنے ساتھ لے جائے مگر جب انہوں نے سنا کہ بچہ کا والد فوت ہو چکا ہے تو انہوں نے خیال کیا کہ اس یتیم بچہ کو پالنے کے بدلہ میں ہمیں کون انعام دے گا۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے کئی عورتیں آپ کی والدہ کے گھر میں آئیں مگر یہ معلوم ہونے پر کہ اِس بچے کا والد فوت ہو چکا ہے واپس چلی گئیں اور کسی نے اس یتیم بچہ کو اپنے ساتھ لے جانا نہ چاہا۔ پانچویں چھٹے نمبر پر حلیمہ آئی مگر اس نے بھی جب بچہ کے یتیم ہونے کے متعلق سنا تو اس بہانہ سے کہ میں پھر آتی ہوں چلی گئی مگر جس طرح اس بچہ کا گھر غریب تھا اسی طرح حلیمہ بھی غریب تھی وہ سارا دن مکہ کے شہر میں بچوں والوں کے گھروں میں پھری لیکن کسی نے اُس کو منہ نہ لگایا گویا ایک طرف ان ساری دایہ عورتوں نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو ردّ کر دیا اور دوسری طرف سارے بچوں والوں نے حلیمہ کو ردّ کر دیا اور جس طرح یسعیا نے کہا تھا ویسا ہی ہوا کہ’’ وہ پتھر جسے معماروں نے ردّ کیا کونے کا سرا ہوگیا‘‘۳؎ آخر حلیمہ کو خیال آیا کہ میں صبح اس بچے کو اس لئے چھوڑ آئی تھی کہ وہ یتیم ہے اور پھر سارے شہر میں سے کسی نے اپنا بچہ مجھے نہ دیا اگر میں اب پھر اسی یتیم بچہ کے گھر جاؤں گی تو اس گھر والے کہیں گے تم ہمارے بچے کو چھوڑ کر گئی تھیں تمہیں بھی سارے شہر سے کوئی بچہ نہ ملا اس لئے وہ کچھ شرمائی ہوئی آمنہ کے گھر آئی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے گئی مگر اس طرح کہ ِادھر آپ کو حلیمہ کے ساتھ بھیجتے وقت آپ کی والدہ کو بھی خیال آیا کہ حلیمہ غریب عورت ہے اور اس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے اُدھر حلیمہ اپنے دل میں کہہ رہی تھی کہ بچہ تو میں لے ہی چلی ہوں مگر مجھے اس کے پالنے کا انعام کہاں مل سکتا ہے لیکن حلیمہ بیان کرتی ہیں کہ جب میں اِس بچے کو لے کر گھر پہنچی تو خدا کی قسم! ہماری وہ بکریاں جن کا دودھ سُوکھ چکا تھا اِس بچے کی برکت سے ان بکریوں کے سُوکھے ہوئے تھنوں میں دودھ بھر گیا اور خدا تعالیٰ نے میرے گھر میں برکت بھر دی۔۴؎ برکت کا مطلب یہ تو نہیں کہ آسمان سے کوئی چیز گرتی ہے ہاں خدا تعالیٰ نے ان بکریوں کے معدے تیز کر دیئے اور وہ گھاس اچھا کھا لیتی تھیں اور دودھ زیادہ دینے لگ گئیں۔
پس اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ جب تمہیں پالنے کا زمانہ آیا تو ایک طرف دیہات کی دایہ عورتوں نے تمہیں رد کر دیا دوسری طرف تمہاری ماں نے دکھتے ہوئے دل کے ساتھ تمہیں ایک غریب دایہ کے سپرد کیا مگر دیکھو ہم نے تمہارے لئے انتظام کیا یا نہ کیا؟ دوسال کے بعد جب رضاعت کی مدّت پوری ہوئی تو دستور کے مطابق حلیمہ آپ کو لے کر مکہ میں آئی اور آمنہ سے جو کچھ ہو سکتا تھا انہوں نے حلیمہ کو دے دیا مگر حلیمہ کے دل میں آپ کے لئے اتنی محبت پیدا ہو چکی تھی کہ اس نے بہ اصرار آپ کی والدہ سے کہا کہ اس بچہ کو کچھ عرصہ اور میرے پاس رہنے دو چنانچہ وہ پھر آپ کو ساتھ لے کر خوش خوش واپس گھر چلی گئی۔ جب آپ کی عمر چار سال کی ہوئی تو حلیمہ آپ کو لے کر مکہ میں آئی اور آپ کی والدہ کے سپرد کر گئی والدہ سے جو کچھ ہو سکتا تھا انہوں نے حلیمہ کو دیا اور جو کچھ اسے ملا وہ لے کر چلی گئی۔ یوں تو حضرت عبدالمطلب بڑے قبیلہ کے آدمی تھے اور ان کا شمار بہت بڑے سرداروں میں ہوتا تھا مگر وہ اتنے زیادہ امیر نہ تھے صرف کھاتے پیتے لوگوں سے تھے ان کی اولاد بہت زیادہ تھی اس لئے اخراجات بھی زیادہ تھے اس لئے وہ حلیمہ کو کچھ زیادہ نہ دے سکے مگر وہی حلیمہ جس کو وہ چھوٹا بچہ لے جاتے وقت یہ خیال تھا کہ اس کو پالنے کے بدلہ میں مجھے کیا ملنا ہے یہ بچہ تو یتیم ہے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا اور اس کے بعد جنگ حنین میں حلیمہ کی ساری قوم قید ہو کر آگئی تو آپ نے یہ خیال کیا کہ یہ لوگ جب سفارش لے کر میرے پاس آئیں گے تو ان سب قیدیوں کو میں چھوڑدوں گا مگر وہ لوگ( جو قبیلہ ہوازن کے تھے) اِس شرم سے آپ کے پاس سفارش کے لئے نہ آئے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارا بچہ تھا اور ہم نے اس کے ساتھ جنگ کی ہے ہم کس طرح اس کے پاس جا کر سفارش کریں۔ آخر آپ کی رضائی بہن یعنی حلیمہ کی بیٹی آپ کے پاس آئی اور آپ نے اس کی ساری قوم کو آزاد کر دیا۔۵؎
اب دیکھو یہ اتنا بڑا بدلہ تھا کہ سارے عرب میں سے کسی بڑے سے بڑے سردار کی طرف سے بھی کسی بچہ کو پالنے کا نہ ملا ہوگا۔ آپ نے اپنی رضائی بہن کی سفارش پر ان کی قوم کے تین ہزار قید ی بِلا فدیہ رہا کر دیئے۔ اگر ایک قیدی کا فدیہ پانچ سَو بھی شمار کیا جائے تو یہ رقم پندرہ لاکھ بنتی ہے مگر آپ نے صرف حلیمہ کی خدمت کے بدلہ میں ان سب قیدیوں کو رہا کر دیا۔اب دیکھو یہ کتنا بڑا انعام تھا جو رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حلیمہ کو ملا۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد ﷺ !تجھے گاؤں کی ساری عورتیں رد کر گئی تھیں اور حلیمہ بھی تجھے ایک دفعہ ردّ کر کے چلی گئی تھی اس خیال سے کہ تم غریب تھے مگر کیا میں نے تیری غربت کو دور کیا یا نہ کیا؟اور تجھ سے حلیمہ کو وہ انعام دلوایا جوسارے عرب میں سے کبھی کسی نے نہ دیا تھا اور نہ دے سکتا تھا۔
اس کے بعد آپ کو یہ صدمہ پہنچا کہ آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب فوت ہوگئے۔ یہ حادثہ بھی آپ کے لئے نہایت تکلیف دِہ تھا مگر حضرت عبدالمطلب نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کو بُلایا اور اُن کو وصیت کی کہ دیکھو!محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو میری امانت سمجھنا اور ہر چیز سے اِس کو زیادہ عزیزرکھنا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کہنے کو تو سب لوگ کہہ جاتے ہیں مگر خیال رکھنے والے بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔ بیویاں مرنے لگتی ہیں تو اپنے خاوندوں سے کہہ جاتی ہیں میرے بچوں کا خاص خیال رکھنا۔ مگر خاوند جب دوسری شادیاں کرتے ہیں تو پہلی بیوی کی اولاد کو کوئی پوچھتا تک نہیں اور وہ اولاد دھکے کھاتی پھرتی ہے۔ خاوند مرتے ہیں تو وہ بھی اپنی اولاد کے متعلق کسی کو خاص خیال رکھنے کے لئے کہہ جاتے ہیں مگر ہم نے دیکھا ہے کہ ان کے بچے بھی در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں اور بعض نظارے تو نہایت درد ناک دکھائی دیتے ہیں۔ پس ہو سکتا تھا کہ ابو طالب بھی اپنے باپ کی وفات کے وقت کی وصیت کا کوئی خیال نہ رکھتے مگر وہ کس طرح نہ رکھتے جبکہ خدا تعالیٰ عرش سے اُن کو وصیت کر رہا تھا اور اُن کے دل میں محمدﷺ کے لئے بے انتہا محبت پیدا کر رہا تھا۔ پس جب آپ ابو طالب کی کفالت میں آئے تو باوجود یکہ ابو طالب کی بہت سی اولاد تھی اور وہ تھے بھی غریب آدمی مگر وہ آپ کے ساتھ اپنے بچوں سے بڑھ کر محبت کرتے تھے اور وہ آپ کو اتنا عزیز رکھتے تھے کہ ہر وقت آپ کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتے تھے یہاں تک کہ رات کو بھی اپنے پاس ہی سُلاتے تھے۔ ابوطالب کی بیوی یعنی آپ کی چچی کے دل میں وہ محبت آپ کے لئے نہ تھی وہ بعض دفعہ کوئی چیز اپنے بچوں میں تقسیم کردیتی تھی اور آپ کو نہ دیتی تھی مگر آپ کے وقار کا بچپن میں ہی یہ عالَم تھا کہ باوجود آٹھ نو سال کی عمر کے آپ نے کبھی ایسی باتوں کا شکوہ نہ کیا اور کبھی اپنے منہ سے کوئی چیز نہ مانگی۔ ابو طالب جب آپ کو ایک طرف بیٹھے دیکھتے تو سمجھ جاتے کہ کوئی بات ہے وہ دیکھتے کہ ان کی بیوی اپنے بچوں میں کوئی چیز تقسیم کر رہی ہے تو وہ پیار سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گود میں اُٹھا لیتے اور یہ نہیں کہتے کہ یہ میرا بھتیجا ہے بلکہ بیوی سے کہتے تُو نے میرے بیٹے کو تو دیا ہی نہیں یعنی وہ اپنے بیٹوں کو بیٹے نہیں سمجھتے تھے بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی حقیقی بیٹا سمجھتے تھے اور وہ بار بار دُہراتے جاتے تھے کہ تُو نے میرے بیٹے کو تو دیا ہی نہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب ماں باپ کی اپنی اولاد زیادہ ہوتی ہے تو دوسروں کی اولاد اُن کی نظر میں ہی نہیں جچتی مگر خدا تعالیٰ نے ابو طالب کے دل میں آپ کے لئے اتنی محبت پیدا کر دی تھی کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں اپنے بیٹوں کو بیٹے ہی نہیں سمجھتے تھے۔ یہ بھی کا ہی نمونہ تھا۔ پس اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺکو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ! تُو یتیم تھا مگر میں نے تیری کفالت کی یا نہ کی اور تیرے یُتم کو دُور کیا یا نہ کیا؟
پھر آپ بڑے ہوئے اُس وقت یہ سوال پیدا ہوتا تھاکہ آپ کونسا کاروبار کریں۔ آپ کے پاس کوئی جائداد نہ تھی جس سے کوئی کاروبار شروع کرتے، نہ ہی آپ جس چچا کی کفالت میں تھے ان کے پاس کوئی مال و دولت تھا کہ وہ آپ کو کاروبار کے لئے کچھ رقم دے دیتے۔ ان کی تو یہ حالت تھی کہ باہر سے آنے والے لوگ کچھ خدمت کر جاتے تھے اور ان کا گذارہ ہو جاتا تھا اس لئے وہ آپ کی کچھ مدد نہ کر سکتے تھے۔ غرض باوجود اس کے کہ آپ کے پاس کاروبار کے لئے کوئی سامان نہ تھا اور آپ کو کوئی فن بھی نہ آتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد فرمائی اور وہ اس طرح کہ ایک قافلہ تجارت کے لئے شام کی طرف جا رہا تھا ایک دولت مند عورت نے آپ کو دیانتدار سمجھتے ہوئے ( کیونکہ آپ امین کے نام سے مشہور تھے) آپ کو بُلایا اور کہا میں آپ کے سپرد اپنے اموال کرتی ہوںآپ قافلہ کے ساتھ شام کو جائیں اور تجارت کر کے واپس آئیں میں آپ کو اِس اِس قدر حصہ دوں گی۔ لوگ تو دَوڑتے پھرتے ہیں اور کبھی کسی کے پاس جاتے ہیں اور کبھی کسی کے دروازہ پر پہنچتے ہیں کہ نوکری مل جائے لیکن اِس دولت مند عورت نے خود بُلا کر آپ کو نوکری دی۔ اب دیکھو جب آپ کی کمائی کا زمانہ آیا تو کُجا یہ حالت کہ لوگ نوکریوں کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں اور کُجا یہ حالت کہ وہ دولت مند عورت آپ کو بُلا کر خود اپنی بہت سی دولت آپ کر سپردکرتی ہے اور کہتی ہے آپ قافلہ کے ساتھ تجارت کے لئے جائیں چنانچہ آپ قافلہ کے ساتھ شام کو گئے اور آپ نے ایسی دیانت داری اور محنت سے کام کیا اور اتنا نفع ہوا کہ پہلے اس عورت کو تجارت میں کبھی اتنا نفع نہ ہوا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلے وہ اپنے نوکروں کے سپرد سارا کاروبار کرتی تھی اور وہ لوگ دیانت داری سے کام نہ کرتے تھے مگر آپ نے ایسا انتظام کیا کہ کسی کو نفع کی رقم سے چھونے تک نہ دیا۔ غرض آپ بہت زیادہ نفع کے ساتھ تجارت کر کے واپس آئے۔ اُس وقت آپ کی عمر شادی کے قابل تھی مگر آپ غریب آدمی تھے اور غریبوں کو لڑکیاں کون دیتا ہے، غریبوں کو تو غریب گھرانوں سے بھی لڑکیاں نہیں ملتیں مگر جب آپ تجارت کر کے واپس مکہ پہنچے اور آپ نے تجارت کا سارا نفع اُس عورت کے سامنے پیش کیا تو وہ اتنا نفع دیکھ کرحیران رہ گئی اوراُس نے نوکروں سے پوچھا اتنی دولت کس طرح نفع میں آگئی؟ اُنہوں نے کہا بات یہ ہے کہ آپ جب ہمیں تجارت کے لئے بھیجتی تھیں تو ہم اس میں سے خود بھی کھاتے پیتے تھے مگر محمد(ﷺ) نے تو کسی کو ہاتھ بھی لگانے نہیں دیا نفع نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ غرض آپ نے تجارت کا کام اس خوش اسلوبی سے کیا کہ وہ دولت مند عورت آپ کی ایمانداری کی قائل ہوگئی۔ وہ بیوہ عورت تھی اور بہت بڑے مال کی مالک تھی، اُس کے بہت سے غلام تھے اور نوکرچاکر تھے اِسی لئے اُس کے قافلے دوسرے مُلکوں میں جا کر تجارت کرتے تھے ورنہ دوسرے ملکوں میں قافلہ بھیجنا معمولی بات نہیں وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ بات چیت کر رہی تھی کہ سہیلی نے اسے کہا بی بی! تم ابھی جوان ہو اور بیوہ ہو چکی ہو اور پھر تمہیں ایسا اچھا دیانت دار اور ایماندار خاوند مل سکتا ہے جس کی دیانتداری اور ایمانداری کی مثال سارے شہر میں نہیں مل سکتی اس لئے تمہیں چاہئے کہ اس کے ساتھ شادی کر لو ۔ اس دولت مند عورت نے اپنی سہیلی کو جواب دیا کہ ہے تو تمہاری بات ٹھیک لیکن اگر یہ بات میرے باپ نے سن لی تو وہ مجھے جان سے مار ڈالے گا۔ سہیلی نے کہا تم اس بات کی فکر نہ کرو یہ سب انتظام میں خود کر لوں گی۔چنانچہ اُس نے اِدھر اس کے باپ کو راضی کر لیا اور اُدھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا اگر آپ کی شادی ایک دولت مند عورت سے ہو جائے تو کیا آپ پسند کریں گے؟ آپ نے فرمایا میرے پاس تو کچھ ہے نہیں اس لئے کوئی دولت مند عورت میرے ساتھ کس طرح شادی کرنے پر رضامند ہوسکتی ہے۔ اُس نے کہا آپ کے پاس جوچیز ہے اُس کو ہر عورت ہی پسند کرتی ہے اور وہ ہے آپ کی دیانت امانت اور شرافت اس لئے آپ اس بات کا فکر نہ کریں کہ آپ کے پاس مال و دولت نہیں ہے آپ کے پاس جو چیز ہے اس کے مقابلہ میں مال و دولت کیا چیز ہے۔ آپ نے فرمایا اپنے چچا کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کر سکتا۔ اُس نے کہا اچھا میں آپ کے چچا سے بھی پوچھ لیتی ہوں چنانچہ وہ ابو طالب کے پاس گئی انہوں نے رضا مندی کا اظہار کیا اور آپ کی شادی ہوگئی۔۶؎ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ اے محمد ﷺ! تیرے پاس کاروبار کے لئے کچھ نہ تھا مگر ہم نے انتظام کیا یا نہ کیا؟ اور جب تیری شادی کا موقع آیا تو باوجود اس کے کہ تُو غریب تھا بتا ہم نے تیری شادی کا انتظام کیا یا نہ کیا؟
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر مرد غریب ہو اور عورت امیر ہو تو مرد کو بسا اوقات ذلّت اُٹھانی پڑتی ہے۔ ہمارے ایک نانا تھے جن کے گھر نواب لوہارو کی بیٹی تھیں اور وہاں سے ہی اُن کو اخراجات کے لئے کچھ رقم آجاتی تھی۔ ہمارے نانا کام تو کرتے تھے اور بیس پچیس روپیہ ماہوار آمدن بھی ہو جاتی تھی مگر اُن کا دستور تھا کہ سارا دن کام کرتے اور جو رقم آتی اس میں سے صرف ایک روپیہ ماہوار اپنے اوپر خرچ کرتے تھے، اُسی میں سے کپڑے کی دھلائی اور باقی ضرورتیں پور ی کر لیا کرتے تھے، کھانے کے لئے اُن کو ایک چپاتی کافی تھی باقی رقم وہ ساری جمع رکھتے تھے اُن کو اِس بات کا بہت زیادہ احساس تھا گھر میں جو کچھ خرچ ہونا ہے یہ بیوی کا مال ہے مجھے اپنی ضروریات پر یہ روپیہ صَرف نہیں کرنا چاہئے۔ اُن کو چائے پینے کا بہت شوق تھا مگر چائے میں چھوٹا سا ایک بتاشہ ڈال کر پی جاتی تھے گویا انہوں نے اپنے نفس کو مارا ہوا تھا صرف اِس لئے کہ گھر میں جو کچھ خرچ ہوتا تھا وہ بیوی کا مال تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد اُن کی بیوی کے والد یعنی اُن کے سسر فوت ہوگئے اور بھائیوں نے روپیہ بھجوانا بند کر دیا اِس پر انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تمہارے والد نے جو رقم مجھے اتنا عرصہ بھیجی تھی اب میں تم کو باقاعدہ دوں گا۔ چنانچہ انہوں نے وہ جمع شدہ رقم ساری کی ساری بیوی کو دے دی۔ اب دیکھو یہ بات طبیعت پر کتنی گراں گزرتی ہے کہ خاوند غریب ہو اور بیوی امیر ہو اور خاوند بیوی کا مال کھاتا رہے۔ مگر جہاں خدا تعالیٰ نے یہ انتظام کیا کہ آپ کی شادی حضرت خدیجہؓ جیسی امیر عورت سے ہو گئی وہاں ایک ابتلاء آپ کے لئے یہ بھی تھا کہ حضرت خدیجہؓ بہت زیادہ امیر تھیں اور آپ غریب تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اس ابتلاء کو اِس طرح دُور کیا کہ کچھ عرصہ کے بعد حضرت خدیجہؓ کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اتنا خوددار اور نیک خاوند میرے مال کو برداشت نہ کرسکے گا اس لئے اس نے اپنے دل میں فیصلہ کیا کہ اپنا سارا مال آپ کے حوالے کردے یہ سوچ کر حضرت خدیجہؓ نے ایک دن آپ سے کہا میں ایک عرض کرنا چاہتی ہوں۔ آپ نے فرمایا خدیجہ! کیا بات ہے؟ حضرت خدیجہؓ نے کہا میں چاہتی ہوں کہ اپنا سارا مال و متاع اور غلام آپ کے سپرد کر دوں۔ آپ نے فرمایا خدیجہ! کیا تم نے اس بات کو اچھی طرح سوچ سمجھ لیا ہے ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتاؤ۔ حضرت خدیجہؓ نے کہا میں نے اچھی طرح اِس معاملہ پر غور کر لیا ہے چاہے کچھ ہو جائے میں اپنا سارا مال آپ کے سپرد کرتی ہوں۔ آپ نے فرمایا اگر یہ بات ہے تو پہلاکام میں یہ کرتا ہوںکہ اِن سارے غلاموں کو آزاد کرتا ہوں۔ حضرت خدیجہؓ نے خندہ پیشانی سے اِس بات کو برداشت کر لیا مگر چونکہ آپ کو تجارت وغیرہ کے معاملہ میں ایک ساتھی کی بھی ضرورت تھی اِس لئے آپ نے جن غلاموں کو آزاد کیا اُن میں سے ایک غلام زید نے تو کہا آپ نے مجھے آزاد کر دیا ہے مگر آپ کے اخلاق اِس قسم کے ہیں کہ میں آپ سے جُدا نہیں ہونا چاہتا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد! (ﷺ)تم اِس بات کو برداشت نہ کرسکتے تھے کہ تم اپنی بیوی کے مال پر گذارہ کرو اس لئے ہم نے تمہارے لئے یہ انتظام کر دیا کہ تمہاری بیوی نے اپنا سارا مال تمہارے قدموں میں لا کر پھینک دیا۔ پھر آپ کو غلام آزاد کرنے کے بعد ایک ساتھی کی ضرورت تھی اس کے لئے ہم نے یہ انتظام کیا کہ تم نے جن غلاموں کو آزاد کیا تھا ان میں سے ایک نے کہہ دیا کہ آپ بے شک مجھے آزاد کر دیں مگر چونکہ آپ کے اخلاق نہایت اعلیٰ درجہ کے ہیں اس لئے میں آپ سے جُدا ہونا نہیں چاہتا۔ اس طرح ہم نے تمہارے ساتھی کی ضرورت بھی پوری کر دی۔ غرض ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح قدم بقدم ہر ضرورت کے وقت، ہر مصیبت کے وقت، ہر خطرہ کے وقت اور ہر تکلیف کے وقت اللہ تعالیٰ نے کانمونہ آپ کی ذات سے اعلیٰ اور ارفع طور پر وابستہ کر کے دکھادیا فَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ العَظِیْم۔
فرمودہ ۲۵ جون ۱۹۴۷ء
آج مَیں پھر اسی مضمون کو لیتا ہوں جو کچھ دن ہوئے میں نے شروع کیا تھا وہ مضمون تو ایسا ہے جس کے بیان کرنے کے لئے صحت کاملہ کا ہونا ضروری ہے کیونکہ مضمون بہت زیادہ تشریح چاہتا ہے اور مجھے چار پانچ دن سے کان میں تکلیف رہی ہے اب کچھ افاقہ ہے اس لئے میں نے ارادہ کیا ہے کہ آج اس مضمون کا کچھ حصہ بیان کردوں۔ وہ مضمون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں کے نظاروں کے متعلق ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر نازک موقع پر، ہر دکھ اور ہر پریشانی کے وقت آپ کے ساتھ کا ثبوت دیا۔ ویسے تو یہ ایک ہی آیت ہے مگر یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہزاروں واقعات اور ہزاروں ایمان افروز نظاروں کا مجموعہ ہے۔ آپ کے سوانح کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قدم قدم پر ہر مصیبت کے وقت آپ کے ساتھ کا معاملہ کیا۔ قبل ازیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی شادی تک کے واقعات بیان کئے تھے آج میں اس سے آگے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ جب آپ کی شادی ہو چکی اور کچھ عرصہ کے بعد آپ کی عمر ایسی حالت کو پہنچ گئی جو روحانی بلوغت کی عمر کہلاتی ہے تو اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے ہی آسمان سے آپ کی مدد کی اور آپ کی روحانی پیاس کو بجھانے کا سامان پیدا کیا۔ یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ بلوغت دو قسم کی ہوتی ہے ایک بلوغت جسمانی ہوتی ہے جو اٹھارہ سے اکیس سال کی عمر تک ہوتی ہے اور ایک بلوغت عقلی ہوتی ہے جو اٹھارہ سے پچیس سال کی عمر تک ہوتی ہے لیکن ان دونوں قسموں کے علاوہ بلوغت کی ایک قسم روحانی بھی ہے جس میں انسان کے تقاضائے طبعی بالغ ہو جاتے ہیں اور انسان اپنے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے لئے ایک خاص لائحہ عمل تجویز کرتا ہے۔ روحانی بلوغت کی عمر کے متعلق قرآن کریم سے اور بزرگوں کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ چالیس سال کی عمر ہے۔
۱۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے۷؎ یعنی جب اپنی بلوغت روحانیہ کو پہنچ گئے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ مکمل جوانی یا بلوغت روحانیہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہےسَنَۃً ۸؎ یعنی جب انسان کامل جوانی کو پہنچ گیا اور اُس کی عمر چالیس سال کی ہوگئی۔
پس بلوغت روحانی چالیس سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے وہاں بعض اوقات اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی حکمت اور مصلحت کے ماتحت ایسے انبیاء کو بھی مبعوث فرمایا ہے جن کی عمر چالیس سال سے کم تھی۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے جب حضرت یحییٰ کو مبعوث فرمایااُس وقت ان کی عمر چھبیس سال تھی اسی طرح حضرت عیسیٰ کی عمر بعثت کے وقت تیس سال تھی لیکن ان دونوں انبیاء کی بعثت چالیس سال سے کم عمرمیں ضرورت اور حکمت کے ماتحت ہوئی۔ حضرت یحییٰ کے متعلق خدا تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ ان کو جلدی ہی اُٹھا لیا جائے ان کی بعثت چھبیس سال کی عمر میں ہوئی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے چونکہ بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں نکلنا تھا جو ان سے پہلے کسی زمانہ میں ملک بدر کر دی گئی تھیں اور خدا تعالیٰ نے ان کو افغانستان اور کشمیر وغیرہ کے علاقوں میں پھیلادیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو چالیس سال سے کم عمر میں ہی مبعوث فرمایا تاکہ آپ پہلے اپنی قوم کے ایک حصہ کو ہدایت دے لیں اور بلوغت حقیقی سے پہلے پہلے بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش کر لیں۔اُس زمانہ میں چونکہ سفر کرنا مشکل تھانہ ریل تھی، نہ تاریں تھیں اور نہ ڈاکخانے تھے اس لئے بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش ایک لمبے وقت کی متقاضی تھی۔ اُس زمانہ میں تیز رَو سواریاں نہ ہونے کی وجہ سے ایک مُلک سے دوسرے مُلک تک پہنچنے میں بعض اوقات سال بلکہ دو دو سال لگ جاتے تھے کیونکہ سمندر کے رستے سے جانا بھی مشکل تھا اور پہاڑوں کو عبور کرنا بھی مشکل تھا اُس وقت راستے نہایت دشوار گزار ہوتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تیس سال کی عمر میں ہی مبعوث فرمادیا تاکہ آپ پہلے اپنی قوم کی راہنمائی فرما لیں اور جب آپ بلوغت حقیقی کو پہنچیں تو بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو تلاش کر چکے ہوں۔ مگر عام طور پر اللہ تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ وہ چالیس سال کی عمر میںہی انبیاء کو مبعوث فرماتا ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چالیس سال کی عمر میں ہی مبعوث ہوئے تھے۔ بہرحال جب آپ اس عمر کے قریب پہنچے تو گردو پیش کے ماحول نے جو کفر واِلحاد سے بھرا پڑا تھا آپ کے دل پر گہرا اثر ڈالا اور آپ کی طبیعت اس سے سخت متنفر اور بیزار ہوئی۔ آپ نے جیسا کہ ہر نبی ہی شرک سے پاک ہوتا ہے کبھی شرک نہیں کیا تھا بلکہ مشرکانہ خیالات بھی آپ کے قریب تک نہ پھٹکے تھے مگر وہ توحید کامل جو شریعت الٰہیہ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی آپ ابھی اُس سے ناواقف تھے اس لئے طبعی طور پرآپ کے دل میں توحید کامل کی جستجو پیدا ہوئی اور معرفت حقّہ اور عرفانِ تامّ کی تڑپ آپ کو ستانے لگی۔ گردوپیش کے حالات نے آپ کو اور بھی ابھارا اور آپ ہمہ تن یادِ خدا میں مصروف رہنے کیلئے خویش و اقارب کو ترک کر کے شہر سے باہر ایک غار میں جسے غار حرا کہتے ہیں تشریف لے جاتے اور کئی کئی دن وہاں عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے۔ جب آپ کا زاد ختم ہو جاتا تو آپ واپس مکہ میں تشریف لاتے اور پھر کچھ ستّو اور کھجوریں یا سوکھا گوشت وغیرہ ساتھ لے کر عبادتِ الٰہی کے لئے غارِحرا میں چلے جاتے۔ آپ کو اس ریاضت شاقہ سے صرف ایک ہی غرض تھی اور وہ یہ کہ آپ کو وہ حقیقی راستہ مل جائے جو انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچانے والا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ُاس وقت آپ کی ایک جاںنثار بیوی موجود تھی مگر وہ اس معاملہ میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتی تھی، آپ کے گہرے اور وفادار دوست موجود تھے مگر وہ بھی اس معاملہ میں آپ کی کوئی مدد کرنے سے قاصر تھے، آپ کے زمانہ میں بعض مذاہب بھی موجود تھے مگر ان کے پیرو بھی روحانی سر چشمہ سے دور ہو جانے کی وجہ سے قسم قسم کے مشرکانہ خیالات میں ملوث ہو چکے تھے ۔کفار مکہ نے تو خانہ کعبہ میں بھی ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے اور یہودی حضرت عزیر کو ابن اللہ قرار دے کر مشرک بن رہے تھے اور عیسائی باپ بیٹا اور روح القدس کی خدائی کے دعویدار تھے غرض جب آپ نے دیکھا کہ اہل مذاہب بھی بگڑچکے ہیں اور دوست وغیرہ بھی اس بارے میں میری کوئی مدد نہیں کرسکتے تو آپ کو اپنے غیر روحانی ماحول سے اتنا اِنقباض پیدا ہوا کہ آپ نے سمجھامَیں ان سے کُلّی طور پر علیحدہ نہیں ہوسکتا لیکن میرے لئے ضروری ہے کہ میَں اِس دنیا سے ایک عارضی انقطاع اختیار کروں اور خدائے واحد سے میں وہ راستہ طلب کروں جو انسان کو خداتعالیٰ تک پہنچا دینے والا ہو۔ آپ ایسی حالت میں عبادت الٰہی اور دعاؤں میں مصروف تھے کہ ایک دن خدا کا فرشتہ آپ پر نازل ہوا اور اُس نے کہا یعنی اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ۔ آپ نے فرمایا مَااَنَابِقَارِیٍٔ میں تو پڑھ نہیں سکتا۔ اس پر فرشتہ نے زور سے آپ کو اپنے سینہ سے لگاکر بھینچا اور پھر کہا ۔آپ نے پھر وہی جواب دیا جو پہلی مرتبہ دیاتھا۔ تب فرشتہ نے پھراپنے پورے زور کے ساتھ اپنے سینہ سے لگا کربھینچا اور کہا ۹؎ یعنی اے محمد! (ﷺ) تُو ربّ کانام لے کر پڑھ جس نے تمام اشیاء کو پیدا کیا ہے جس نے انسان کو خون کے ایک لوتھڑے سے پیدا کیا ہے ہاں ہم تجھے پھر کہتے ہیں کہ تُو اس کلام کو جو تجھ پر نازل کیا جارہاہے لوگوں کو پڑھ کر سنا کیونکہ تیرا ربّ بڑا کریم ہے۔ تیرا ربّ وہ ہے جس نے انسان کو قلم کے ساتھ سکھایا اور اُس نے انسان کو وہ کچھ بتایا جو وہ پہلے نہیں جانتا تھا۔
یہ وحی آپ پر پہلے دن نازل ہوئی اور اس میں آپ کو یہ عظیم الشان بشارت دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اب آپ کو ایسے علوم عطا کئے جانے والے ہیں کہ جن کو اس سے پہلے دنیا میں کوئی انسان نہیں جانتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں جس وقت فرشتہ آپ کو یہ آیت سکھا رہا تھا اُس وقت اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا آپ سے کہہ رہا ہوگا کہ اے محمد ﷺ! بتا کہ میںنے تیری ضرورت کو پورا کیا یا نہیں کیا؟ تیری وفادار بیوی موجود تھی، تیرے وفادار دوست موجود تھے، تجھ سے محبت کرنے والے رشتہ دار موجود تھے مگر اُن میں سے کسی کی طاقت نہ تھی کہ وہ اس بارہ میں تیری مدد کر سکے، تیرے زمانہ کے مذہبی علماء جو بڑے بڑے دعوے کر رہے تھے وہ بھی تیری کیا مدد کر سکتے تھے وہ تو گمراہ اور ہدایت سے محروم تھے۔ اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم! جب دنیا کا کوئی شخص بھی تیری مدد نہ کر سکتا تھا اُس وقت میں نے تیری ضرورت کو پورا کیا اور پھر میں نے صرف تیری ہی ضرورت کو پورا نہ کیا بلکہ تجھے ساری دنیا کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا بنا دیا۔
پھر جب آپ غار حرا سے دنیا کی ہدایت کا پیغام لے کر باہر آئے تو طبعاً آپ کو یہ فکر ہوگا کہ خدانے ہدایت کا سامان تو پیدا کر دیا مگر ایسا نہ ہو میرے عزیز اِس ہدایت کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد بن جائیں اور اس بارہ میں آپ کو سب سے زیادہ فکر حضرت خدیجہؓ کا ہی ہو سکتا تھا کیونکہ وہ آپ کی بڑی ہی خدمت گزار بیوی تھیں اور آپ کو بھی ان سے بڑی محبت تھی مگر اللہ تعالیٰ کا احسان دیکھو کہ جب آپ اپنے گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہؓ سے اِس واقعہ کا ذکر کیا اور ساتھ ہی اِس خوف کا اظہار کیا کہ نہ معلوم میں اتنی بڑی ذمہ داری کو پوری طرح ادا بھی کرسکوں گا یا نہیں تو حضرت خدیجہؓ جو آپ کی محرم راز تھیں اور جو آپ کی پاکیزہ خلوت اور جلوت کی گواہ تھیں انکار کرنے کی بجائے فوراً بول اُٹھیں کہ کَلاَّ وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتّصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ۱۰؎ یعنی خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ وہ ہیں جو صلہ رحمی کرتے ہیں، مصیبت زدہ لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں اور وہ اخلاق فاضلہ جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں ان کو از سر نَو قائم کر رہے ہیں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اگر کوئی شخص محض ظلم کی وجہ سے کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو آپ اُس کی اعانت فرماتے ہیں کیا ایسے بلند کردار کا مالک انسان بھی کبھی ضائع ہو سکتا ہے ۔ یہ وہ گواہی تھی جو حضرت خدیحہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی چالیس سالہ زندگی کے متعلق دی اور جس میں آپ نے یہ حقیقت واضح کی کہ آپ کی پہلی زندگی اس طرح گذری ہے کہ آپ نے خدا تعالیٰ کے رستہ میں کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور ہر موقع پر آپ نے خداتعالیٰ کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیا۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ آپ تو خداتعالیٰ کے ساتھ وفاداری کریںاور خداتعالیٰ آپ کے ساتھ وفاداری نہ کرے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کی شان سے بعید ہے کہ جو شخص اس کے ساتھ وفاداری کرے وہ اُس کوچھوڑ دے آپ ضرور کامیاب ہوں گے۔ پس آپ کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ الفاظ کہہ کر حضرت خدیجہؓ نے یوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی تھی مگر ان الفاظ سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والی حضرت خدیجہؓ ہی تھیں۔ ان کے الفاظ تو آپ کی تسلی دلانے کے لئے تھے مگر اِس کے معنی یہ تھے کہ یاَرَسُوْلَ اللّٰہ! میں آپ پر ایمان لاتی ہوں اور جو تعلیم آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہے اُس کو بالکل سچ اور صحیح تسلیم کرتی ہوں اور اس میں مجھے ذرہ بھر بھی شبہ نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے مانگنے پر ایک مدد گار ملاتھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دیکھو کہ آپ کو بن مانگے مددگار مل گیا یعنی آپ کی وہ بیوی جس کے ساتھ آپ کو بے حد محبت تھی سب سے پہلے آپ پر ایمان لے آئی چونکہ ہر شخص کا مذہب اور عقیدہ آزاد ہوتا ہے اور کوئی کسی کو جبراً منوا نہیں سکتا اس لئے ممکن تھا کہ جب آپ نے حضرت خدیجہؓ سے خداتعالیٰ کی پہلی وحی کا ذکر کیا تو وہ آپ کا ساتھ نہ دیتیں اور کہہ دیتیں کہ میںابھی سوچ سمجھ کر کوئی قدم اُٹھاؤں گی لیکن نہیں حضرت خدیجہ نے بِلاتأمل بِلا توقف اور بِلا پس وپیش آپ کے دعویٰ کی تائید کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فکر کہ ممکن ہے خدیجہ مجھ پر ایمان نہ لائے جاتا رہا اور سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہ ہی ہوئیں۔ اُس وقت خداتعالیٰ عرش پر بیٹھا کہہ رہا تھا اے محمدﷺ! تجھے خدیجہ کے ساتھ پیار تھا اور محبت تھی اور تیرے دل میں یہ خیال تھا کہ کہیں خدیجہ تجھے چھوڑ نہ دے اور تُو اِس فکر میں تھا کہ خدیجہ مجھ پر ایمان لاتی ہے یا نہیں مگر کیا ہم نے تیری ضرورت کو پورا کیا یا نہ کیا؟
اس کے بعد جب آپ کے گھر میں خداتعالیٰ کی وحی کے متعلق باتیں ہوئیں تو زید بن حارث غلام جوآپ کے گھر میں رہتا تھا آگے بڑھا اور اس نے کہا یاَ رَسُوْلَ اللّٰہ! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت علیؓ جن کی عمر اُس وقت گیارہ سال کی تھی اور وہ ابھی بالکل بچہ ہی تھے اور وہ دروازہ کے ساتھ کھڑے ہو کر اِس گفتگو کو سن رہے تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضر ت خدیجہؓ کے درمیان ہو رہی تھی، جب انہوں نے یہ سنا کہ خدا کا پیغام آیا ہے تو وہ علیؓ جو ایک ہونہار اور ہوشیار بچہ تھا، وہ علیؓ جس کے اندر نیکی تھی، وہ علیؓ جس کے نیکی کے جذبات جوش مارتے رہتے تھے مگر نشوونما نہ پاسکے تھے، وہ علیؓجس کے احساسات بہت بلند تھے مگر ابھی تک سینے کے اندر دبے ہوئے تھے اور وہ علیؓ جس کے اندر اللہ تعالیٰ نے قبولیت کا مادہ ودیعت کیا تھا مگر ابھی تک اسے کوئی موقع نہ مل سکا تھا اس نے جب دیکھا کہ اب میرے جذبات کے اُبھرنے کا وقت آگیا ہے، اس نے جب دیکھا کہ اب میرے احساسات کے نشوونما کا موقع آگیا ہے، اس نے جب دیکھا کہ اب خدا مجھے اپنی طرف بُلارہا ہے تو وہ بچہ سا علیؓ اپنے درد سے معمور سینے کے ساتھ لجاتا اور شرماتا ہوا آگے بڑھا اور اُس نے عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! جس بات پر میری چچی ایمان لائی ہے اور جس بات پر زید ایمان لایا ہے اُس پر میں بھی ایمان لاتا ہوں ۔۱۱؎
اس کے آگے چل کر دوستوں کا مقام آتا ہے۔ آپ کے قریب ترین دوست حضرت ابوبکرؓ تھے آپ کے باقی دوست اگر اس موقع پر آپ کو چھوڑ کر جاتے تو آپ کو ذرا بھی قلق نہ ہو سکتا تھا لیکن اگر حضرت ابوبکرؓ آپ کوچھوڑجاتے تو آپ کو انتہائی رنج اور دُکھ ہوتا کیونکہ ان کے اندر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کونیکی اور تقویٰ کی بُو آتی تھی اس لئے آپ کے دل میں بہت زیادہ احساس تھا کہ دیکھئے ابوبکرؓ اس موقع پر کیا قدم اُٹھاتا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اس زمانہ میں پھیری کر کے سامان بیچا کرتے تھے اور جس دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی الٰہی کا اعلان فرمایا اُسی دن دوپہر کو حضرت ابوبکرؓ پھیری سے واپس آئے۔ ان کی واپسی تک یہ خبر سارے شہر میں سُرعت کے ساتھ پھیل چکی تھی دشمن تو ایسی باتوں کو آن کی آن میں اُڑا دیتے ہیں۔ سارے شہر میں اِس کے متعلق چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کوئی کہتا تھا محمدﷺ پاگل ہو گیا ہے، کوئی کہتا تھا وہ اپنی عزت بڑھانا چاہتا ہے، اسی طرح جو کچھ کسی کے منہ میں آتا تھا کہہ دیتا تھا غرض یہ خبر آگ کی طرح سار ے شہر میں پھیل چکی تھی۔ایک نے دوسرے سے ذکر کیا اور دوسرے نے تیسرے سے کہا ہر گھر میں یہی باتیں ہو رہی تھیں حضرت ابوبکرؓ جب دوپہر کے وقت تجارت سے واپس آئے اور مکہ میں پہنچے تو چونکہ شدت کی گرمی تھی اس لئے شہر کے ایک کنارے پر اپنے ایک دوست کے گھر میں پہنچے تاکہ ذرا سستا لیں۔ انہوں نے اپنی گٹھڑی اُتاری اور پانی وغیرہ پی کر چادر اُتار کر لیٹنے ہی لگے تھے کہ اُن کے دوست کی بیوی سے نہ رہا گیا اور اُس نے کہا ہائے ہائے! اس بے چارے کا دوست پاگل ہوگیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ لیٹتے لیٹتے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کس کا دوست؟ اُس عورت نے کہا تمہارا دوست محمد پاگل ہوگیا ہے ۔ حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا تمہیں کس طرح معلوم ہوا کہ وہ پاگل ہوگیا ہے؟ وہ عورت کہنے لگی وہ کہتا ہے خدا کے فرشتے مجھ پر نازل ہوتے ہیں اور خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ اُسی وقت وہاں سے چل پڑے اور سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پہنچے اور دروازہ پردستک دی ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز سے پہچان لیا کہ ابوبکرؓ آئے ہیں۔ آپ نے خیال کیا کہ ایسا نہ ہو کہ میرے یکدم بتادینے سے ابوبکرؓ کو ٹھوکر لگ جائے کیونکہ حضرت ابوبکرؓ آپ کے نہایت قدیمی دوست تھے آپ نے جب دروازہ کھولا تو آپ کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار تھے حضرت ابوبکرؓ نے جب آپ کی یہ حالت دیکھی تو پوچھا کیا یہ بات سچ ہے کہ آپ پر خدا کا فرشتہ نازل ہوا ہے اور خدا تعالیٰ آپ سے ہمکلام ہوا ہے؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اس خوف سے کہ ابوبکرؓ کو ٹھوکر نہ لگ جائے جلدی کوئی بات بتانے میں متأمل تھے اس لئے آپ نے فرمایا ابوبکرؓ! پہلے ذرا سن تو لو۔ بات یہ ہے کہ… حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا میں اور کوئی بات سننا نہیں چاہتا میں تو یہ جاننا چاہتا ہوںکہ آپ پر خدا کے فرشتے اُترے ہیں یا نہیں؟ اس پر آپ نے فرمایا۔ ابوبکر! ذرا میری بات تو سُن لو۔ یہ دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ نے کہا میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ آپ کوئی بات نہ کریں بلکہ مجھے یہ بتائیں کہ کیا یہ سچ ہے کہ آپ نے کہا ہے کہ خدا آپ کے ساتھ باتیں کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکرؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور پھر کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا آپ دلیلیں دے کر میرے ایمان کو کمزور کرنے لگے تھے۔ ۱۲؎
اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا تھا کہ میں ابوبکرؓ کو دلائل دے کر منواؤں گا مگر خداتعالیٰ عرش پر بیٹھا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا ۔ اے محمد!(ﷺ ) ابوبکرؓ کو تیری دلیلوں کی ضرورت نہیں رہی ہم نے خود اس کو دلیلیں دے دی ہوئی ہیںاور وہ جس درجہ اوررُتبہ کا مستحق ہے ہم خود اُس کو کھینچ کر اس کی طرف لے آئیں گے۔ اب دیکھو اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کا یہ کیا شاندار نظارہ ہے۔ حضرت موسیٰ تو مانگ کر ایک مدد گار لیتے ہیں مگر محمد رسول اللہ ﷺ کو خدا تعالیٰ چند منٹوں کے اند ر اندر چار وفادار دے دیتا ہے۔
آپ کی اور حضرت موسیٰ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے کہیں کوئی بادشاہ سیر کو جا رہا تھا کہ اس نے رستہ میں دیکھا کہ ایک بڈھا جس کی عمر اسّی یا نوے سال کی ہے ایک درخت لگارہا ہے اور وہ درخت کوئی اِس قسم کا تھا جو بہت لمبے عرصہ کے بعد پھل دیتا تھا بادشاہ نے سواری کو روک کر بڈھے کو بلایا اور کہا بوڑھے میاں! یہ درخت جو تم لگا رہے ہو یہ تو بہت لمبے عرصے کے بعد پھل دیتا ہے اِس سے تم کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہو؟ بڈھا کہنے گا بادشاہ سلامت! بات یہ ہے کہ ہمارے باپ دادا نے درخت لگائے جن کے پھل ہم نے کھائے اب ہم درخت لگائیں گے جن سے آئندہ آنے والے پھل کھائیں گے اگر ہمارے باپ دادا بھی یہی خیال کرتے کہ ہم ان درختوں کا پھل نہیں کھا سکیں گے اور وہ درخت نہ لگاتے تو ہم پھل کیسے کھاتے اس لئے بادشاہ سلامت! یہ سلسلہ تو اسی طرح چلاآتا ہے کہ لگاتا کوئی ہے اور کھاتا کوئی ہے۔ بادشاہ نے یہ سن کر بڈھے کی عقل کی داد دیتے ہوئے کہا ’’زِہ‘‘ جس کا مطلب یہ تھا کہ کیا خوب بات کہی ہے اور بادشاہ نے اپنے خزانچی کو یہ حکم دے رکھاتھا کہ جب میں کسی بات پر خوش ہو کر زِہ کہوں تو اُسے یکدم تین ہزار درہم کی تھیلی دے دیا کرو اس لئے جب بادشاہ نے کہا زِہ تو خزانچی نے بڈھے کو ایک تھیلی تین ہزار درہم کی دے دی۔ بڈھے نے تھیلی ہاتھ میں لے کر کہا بادشاہ سلامت! آپ تو کہتے تھے کہ تو اِس درخت کا پھل نہیں کھا سکے گا مگر دیکھئے اَور لوگوں کے درخت تو دیر کے بعد پھل دیتے ہیں اور میرے درخت نے لگاتے لگاتے ہی پھل دے دیا۔ اِس پر بادشاہ نے پھر خوش ہو کر کہا زِہ اور خزانچی نے پھر تھیلی تین ہزار کی بڈھے کو دے دی۔ بڈھے نے دوسری تھیلی لے کر کہا بادشاہ سلامت! لوگوں کے درخت تو سال میں ایک بار پھل دیتے ہیں مگر میرے درخت نے لگاتے لگاتے دو دفعہ پھل دے دیا۔ بادشاہ نے پھر خوش ہو کر کہا زِہ اور تیسری تھیلی بھی بڈھے کو دے دی گئی۔ اس پر بادشاہ نے ہمراہیوں سے کہا چلو جلدی یہاں سے نکل چلو ورنہ یہ بڈھا تو ہمارا خزانہ خالی کر دے گا۔ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہی معاملہ ہوا جو اس بڈھے کے ساتھ ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ کے دل میں تو وہ شبہ پیدا ہوا جو بادشاہ کے دل میں پیدا ہوا تھا کہ یہ درخت کب پھل دے گا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امید کی وہ حالت تھی جو اس بڈھے کی تھی کہ اِدھر آپ پر خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوتا ہے اُدھر آپ کو نقد بہ نقد چار پھل مل جاتے ہیں۔ ایک حضرت خدیجہؓ آپ کی بیوی ایک زیدؓ آپ کا غلام، ایک حضرت علیؓ آپ کے بھائی اور ایک حضرت ابوبکرؓ آپ کے وفادار دوست۔ گویا یکدم آپ کے چاروں کونے محفوظ ہو جاتے ہیں اور تھوڑی سی دیر میں آپ کے اردگرد جاںنثاروں، وفاداروں اور محبت کرنے والوں کی ایک چھوٹی سی جماعت پیدا ہو جاتی ہے۔ اب دیکھو حضرت خدیجہ ؓ کو کس نے تبلیغ کی تھی؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ابھی ڈر ہی رہے تھے کہ کہیں میری بیوی میرے دعویٰ کا انکار نہ کر دے مگر خدیجہؓ کہتی ہیں میں آپ پر ایمان لاتی ہوں، زیدؓ کہتا ہے میں آپ پر ایمان لاتا ہوں، علیؓ کہتے ہیں میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور ابوبکرؓ کہتے ہیں میں آپ پر ایمان لاتا ہوں یہ ایمان لانے والے کوئی معمولی آدمی نہ تھے بلکہ ان میں سے ہر شخص درخشندہ اور تابندہ ستارہ تھا۔ وہ زمین پر پیدا ہوئے تھے مگر خدا تعالیٰ نے اُن کے نام آسمان پر فرشتوں کی فہرست میں لکھے ہوئے تھے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ حضرت خدیجہؓ پڑھی ہوئی تھیں مگر حضرت خدیجہؓ نے جو قربانی اسلام کے لئے کی کیا کوئی جاہل عورت ایسا کر سکتی ہے؟ اسی طرح حضرت زیدؓ نے جو قربانیاں اسلام کے لئے کیں وہ بھی اَظْھَرُ مِنَ الشَّمْسِ ہیں۔ اس طرح حضرت علیؓ کو جو مرتبہ حاصل ہوا اور خداتعالیٰ نے ان کو جو علم اور فہم عطا کیا وہ اس قدر اعلیٰ تھا کہ آج تک یورپ کے مؤرخین اُن کی عقل، سمجھ، تقویٰ اور طہارت کی تعریف کرتے ہیں۔ ایمان لانے کے وقت بے شک وہ بچہ تھے مگر اُن کے اندر قابلیت کا مادہ اور جوہر موجود تھا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے اور بھی چار چاند لگا دئیے۔ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ کو جو رُتبہ حاصل ہوا اور انہوں نے اسلام کے لئے جو قربانیاں کیں ان سے اہلِ اسلام تو ایک طرف، یورپین اور امریکی لوگ بھی واقف ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ عیسائی مستشرقین اور دوسرے متعصب مؤرخین اپنی کتابوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو کئی قسم کے حملے کر جاتے ہیں لیکن حضرت ابوبکرؓ کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ ابوبکر ایسا نہ تھا ۔ گویا جو دشمن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے سے نہیں رُکتے وہ ابوبکرؓ کو نشانہ نہیں بناتے۔ پس حضرت ابوبکرؓ کوئی معمولی درجہ کے انسان نہ تھے ان کے تقویٰ اور اخلاص کا یہ عالم تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بغیر کسی دلیل کے ایمان لے آئے تھے۔ انہوں نے رسول کریم ﷺکی زبانی صرف یہ معلوم ہونے پر کہ آپ پر خدا کے فرشتے اُترتے ہیں بغیر کسی حیل و حجت کے آپ کے دعویٰ کی تصدیق کی اور بغیر کسی وقفہ کے آپ پر ایمان لے آئے۔ وہ اپنے اندر ایسی قابلیت اور ایسے جوہر رکھتے تھے جن کی مثال دنیا کی تاریخ پیش ہی نہیں کر سکتی۔ پس یہ ثبوت ہے کی سچائی کا۔
اب ایک اور مرحلہ شروع ہوتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ اسلام شروع کی تو کفارِ مکہ نے آپ کی سخت مخالفت کی اور انہوں نے سمجھا کہ محمدﷺ کی باتیں صرف چند دن کی باتیں ہیں جب لوگ اِس کے پیچھے ہی نہ چلیں گے تو یہ خود بخود درست ہو جائے گا۔ کوئی کہتا تھا اِس کا دماغ خراب ہوگیا ہے کچھ دنوں کے بعد جب اس کا دماغ ٹھیک ہو جائے گا تو یہ خود ہی کہہ دے گا کہ میں غلطی کر رہا تھا مگر جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے دوست اور ان کے رشتہ دار خود ایک ایک، دو دو کر کے ان کو چھوڑ کر محمد رسول اللہ پر ایمان لا رہے ہیں اور ان میں ایسے لوگ جنہیں مکہ کا کلیجہ کہنا بجا ہوگا اُن کو چھوڑ کر آپؐ کے ساتھ ہو رہے ہیں اور بڑے بڑے خاندانوں کے نوجوان جن پر ان لوگوں کو بہت بڑی امیدیں تھیں اور وہ کہتے تھے کہ یہ محمدﷺ کا مقابلہ کریں گے وہ اُن کو چھوڑتے جار ہے ہیں تو اُن کو فکر پیدا ہوئی کہ یہ بات جسے ہم معمولی سمجھتے تھے دن بدن بڑھتی جا رہی ہے آخر انہوں نے مشورہ کیا کہ اب ان مسلمانوں کو ڈنڈے کے ساتھ سیدھا کرنا چاہئے۔ جیسے ہمارے ہاں زمیندار پنجابی زبان میں کہتے ہیں کہ ’’میں تینوں ڈنڈے نال سدھا کرانگا‘‘ یعنی اب میں تمہیں ڈنڈے کے ساتھ سیدھا کردوں گا اسی طرح مکہ والوں نے بھی کہا کہ اب ہم مسلمانوں کو ڈنڈے کے ساتھ ٹھیک کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں پر ظلم کرنے شروع کر دیئے۔ ظلم کے وقت کسی جماعت کے امام یا لیڈر کی جو حالت ہوتی ہے وہ نہایت عجیب ہوتی ہے۔ جب کوئی خطرہ اور سختی کا وقت آتا ہے تو امام کے دل میں طرح طرح کے وساوس پیدا ہوتے ہیں کہ کہیں میرے پیرو سختی کو برداشت نہ کرتے ہوئے کمزوری نہ دکھا جائیں۔ میں بھی ایک جماعت کا امام ہوں مجھے ذاتی تجربہ ہے کہ امام کے لئے سب سے بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کی جماعت عین موقع پر کمزوری نہ دکھا جائے جہاں تک خدا کے خانہ کا تعلق ہے وہ سمجھتا ہے کہ خدا ہماری مدد کرے گا لیکن جب وہ بندوں کے خانہ کے متعلق سوچتا ہے تو وہ ڈرتا ہے کہ کہیں یہ لوگ کسی قسم کی کمزوری نہ دکھا جائیں۔ پس سب سے بڑا خطرہ کسی جماعت کے امام کو نازک موقع پر اپنی جماعت یا پیروؤں کے کمزوری دکھا جانے کے متعلق ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مالی لحاظ سے کمزور تھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ پر ایمان لانے والے نوجوانوں میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو بڑے بڑے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور بڑے بڑے رؤساء کے بیٹے تھے مگر چونکہ وہ خود جائدادوں کے مالک نہ تھے اِس لئے ان کو مالی لحاظ سے کمزور کہنا ہی درست ہوگا چنانچہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ باوجود رؤساء کے بیٹے ہونے کے ماریں کھاتے تھے۔ حضرت زبیرؓ کا ظالم چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کراُن کے ناک میں آگ کا دُھواں دیا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ تم اسلام سے باز آجاؤ مگر وہ جوانمرد بڑی خوشی کے ساتھ اس تکلیف کو برداشت کرتے اور کہتے کہ جب صداقت مجھ پر واضح ہو چکی ہے تو میں اس سے کس طرح انکار کر سکتا ہوں۔ اسی طرح حضرت عثمانؓ گو مُرَفَّہُ الْحال آدمی تھے لیکن اُن کے چچا حکم بن ابی عاص نے ان کو رسیوں سے جکڑ کر پیٹا اور کہا تم محمد کے پاس نہ جایا کرو مگر انہوں نے کہا چچا! تم جتنا مرضی ہے مارلو میں صداقت کے اظہار سے باز نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں میں بعض غلام بھی تھے اور غلاموں کے متعلق مکہ والوں کا قانون یہ تھا کہ مالک کو اپنے غلام پر پورا حق حاصل ہے وہ چاہے اسے مارے یا پیٹے یا قتل کر دے یا بھوکا رکھے یا پیاسا رکھے مالک کو حق حاصل تھا کہ وہ اپنے غلام کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے اور جس طرح ایک مالک کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اپنے بیل کو جوتے وہ شام کو جوت لے یا صبح کو، دوپہر کو جوت لے یا آدھی رات کے وقت یا وہ اپنے اونٹ سے جس طرح چاہے کام لے اور اپنے گھوڑے پر جس وقت اور جس طرح چاہے سواری کرے اسی طرح غلاموں کے متعلق مکہ والوں کا قانون تھا کہ جب اور جس طرح مالک چاہیں اپنے غلاموں کے ساتھ سلوک کرسکتے ہیں۔ چنانچہ جو غلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اُن کے مالکوں نے اُنہیں طرح طرح کی سزائیں دیں، قسم قسم کی اذیتیں دیں اور انواع و اقسام کے دُکھ دیئے۔ آپ جب اِن مظالم کو دیکھتے تو آپ کے دل میں درد پیدا ہوتا تھا مگر مکہ کے قانون کے مطابق آپ اُن کی کوئی مدد نہ کر سکتے تھے۔آپ پر ان مظالم کو دیکھ کر بڑا اثر ہوتا تھا اور ہونا چاہئے تھا کہ ان مظالم کی وجہ سے اور مصائب اور شدائد کی وجہ سے وہ لوگ کسی قسم کی کمزوری نہ دکھا جائیں۔ اور بجائے اس کے کہ وہ ایمان پر قائم رہ کر خدا تعالیٰ کے انعامات کے وارث ہوں اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے مورد ہوں اُس کے غضب کے مورد نہ بن جائیں۔ ان غلاموں میں سے ایک حضرت بلالؓ بھی تھے ان کی زبان صاف نہ تھی اس لئے جب وہ اذان دیتے تھے تو بجائے اَشْھَدُ کے اَسْھَدُکہتے تھے جب وہ نئے نئے مدینہ میں گئے اور انہوں نے اذان کہی اور اَشْہَدُ کی بجائے اَسْہَدُ کہا تو مدینہ کے لوگ جن کو اُن کی قربانیوں کا علم نہ تھا ہنس پڑے اُن کے نزدیک بلالؓ تو صرف ایک حبشی غلام تھا مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ بلالؓ عرش پر کن انعامات کا مستحق قرار پا چکا ہے۔
ایک دن مدینہ کے لوگ بیٹھے آپس میں بلالؓ کے اَسْھَدُ کہنے کے متعلق باتیں کر رہے تھے اور ہنس رہے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ بلالؓ کے اَسْھَدُ کہنے پر ہنستے ہو مگر خدا تعالیٰ عرش پر بلالؓ کے اَسْھَدُکوپیار کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ غرض جب مکہ کے کفار نے مسلمانوں پر اور بِالخصوص غلاموں پر مظالم ڈھانے شروع کئے تو حضرت بلالؓ کا مالک عین دوپہر کے وقت جبکہ آسمان سے آگ برس رہی ہوتی تھی، جب کہ مکہ کا پتھریلہ میدان دہکتے ہوئے انگاروں سے بھی زیادہ گرم ہوتا تھا، جب کہ جھلس دینے والی گرمی پڑ رہی ہوتی تھی، جب تمازتِ آفتاب اپنے پورے شباب پر ہوتی تھی اور جب کہ زمین و آسمان کی حدّت مل جل کر زمین کے ذرّے ذرّے کو آگ سے بھی زیادہ گرم کر رہی ہوتی تھی اُس وقت میں ان کے کپڑے اُتار کر ننگے بدن کے ساتھ زمین پر لٹا دیتا تھا اور بڑے بڑے بھاری پتھر جن میں سے شدتِ گرمی کی وجہ سے غبار سے اُٹھ رہے ہوتے تھے ان کے سینے پر رکھ دیتا تھا اور کہتا تھا اے بلالؓ! تُو محمد (ﷺ) کو چھوڑ دے اور لات اور عزیٰ کی پرستش کر ورنہ اسی طرح عذاب دے دے کر ماروں گا۔ اُس وقت وہ بلالؓ جس کے ہونٹوں پر پپڑی سی جمی ہوتی تھی، جس کی زبان پیاس کی وجہ سے تالو کے ساتھ لگ رہی ہوتی تھی، جس کی ننگی پیٹھ کا چمڑا جھلس رہا ہوتا تھا، جس کا سینہ گرم اور بھاری پتھروں کے بوجھ تلے جلا اور دبا جا رہا ہوتا تھااور جس کا سر بھوک اور پیاس اور گرمی کی شدت سے چکرا رہا ہوتا تھا اُس کے اِنہی پپڑی جمے ہوئے ہونٹوں اور اسی تالو سے لگی ہوئی خشک زبان میں سے ایک آواز نکلتی تھی،ہاں اُس قریب المرگ اور موت کے بوجھ کے نیچے دے ہوئے انسان کے منہ سے ایک باریک سی آواز نکلتی تھی وہ آواز کیا ہوتی تھی وہ آواز ہوتی تھی اَحَدٌ اَحَدٌ ۱۳؎ اُس وقت اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوا کہتا ہوگا اے محمد!ﷺتُو اِس پر ظلم ہوتے دیکھتا ہے اور تو چاہتا ہے کہ اِس کو چھڑا لے مگر تُو اُس کو چھڑا نہیں سکتا ،اے محمد! تُو چاہتا ہے کہ اس کو تسلی دے مگر تو اس کو تسلی بھی نہیں دے سکتا مگر اے محمد! کیا میں موجود نہیں ہوں کہ اس کو تسلی دوں اور اس کی توحید کی تڑپ کو مضبوط کر دوں اور اس کے ایمان میں زیادتی کر دوں؟
اس کے بعد قریش مکہ کے مظالم بڑھنے شروع ہوئے یہاں تک کہ حضرت ابوبکرؓ کو خیال آیا کہ یہاں سے کسی اور جگہ چلے جانا چاہئے جہاں امن اور چین کی زندگی بسر کی جاسکے اور جہاں آزادی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کی جاسکے اور جہاں آزادی کے ساتھ خدائے واحد کی پرستش کی جا سکے۔ حضرت ابوبکرؓ کے اس ارادہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہی ہوئی آپ کے لئے اتنے دیرینہ اور وفادار اور غمگسار دوست کی جدائی سخت تکلیف دہ تھی مگر آپ مجبور تھے ورا ان کی کوئی مدد بھی نہ کر سکتے تھے مگر خدا تعالیٰ بھی اِس بات کو برداشت نہ کر سکتا تھا کہ آپ کا ایک وفادار اور گہرا دوست آپ سے جدا ہو جائے اور آپ کے دل کو رنج پہنچے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ جب تیاری کر کے کہیں جانے لگے تو مکہ کے ایک رئیس نے اُن کو دیکھا اور کہا ابوبکر! کہیں سفر کی تیاریاں معلوم ہوتی ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا مکہ کے لوگوں نے ہم پر اتنا ظلم شروع کر دیا ہے کہ باوجود یکہ ہم ان کا کچھ نہیں بگاڑتے صرف اِس قصور پر کہ ہم خدائے واحد کی پرستش کرتے ہیں ہمیں خدا کا نام لینے سے روکا جاتا ہے۔ وہ رئیس جو حضرت ابوبکرؓ سے بات چیت کر رہا تھا وہ اسلام کا ایک شدید ترین دشمن تھا مگر خدائے تعالیٰ نے اس کو اپنا آلہ کار بنایا اور اس کے دل میں نرمی پیدا کر دی چنانچہ اس رئیس نے حضرت ابوبکرؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ابوبکر! تمہارے جیسا انسان جس شہر سے نکل جائے وہ شہر کبھی بچ نہیں سکتا وہ ضرور اُجڑ جائے گا تم کہیں جانے کا ارادہ ترک کر دو آؤ اور میرے ساتھ چلو تمہیں دکھ دینے والے پہلے مجھ سے نپٹیں گے پھر تمہارے پاس پہنچیں گے۔ چنانچہ اس رئیس نے اُسی وقت سارے شہر میں اعلان کرایا کہ اے لوگو! سن لو جس کسی نے ابوبکر کی طرف انگلی بھی اُٹھائی تو اُس کے لئے اچھا نہ ہوگا کیونکہ ابوبکر آج سے میری امان میں ہے۱۴؎ اُس وقت جب کہ حضرت ابوبکرؓ تیاری کر کے شہر سے نکلے بھی اور واپس بھی آگئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ سمجھ رہے ہوں گے اور افسوس کر رہے ہوں گے کہ میرا ایک دیرینہ دوست مجھ سے جدا ہوگیا ہے مگر خداتعالیٰ عرش پر بیٹھا کہہ رہا تھا ۔
مکہ والوں کے مظالم دن بدن بڑھتے گئے اور انہوں نے طرح طرح کے دکھ مسلمانوں کو دینے شروع کئے۔ غلاموں کو ان کے مالک سخت سے سخت سزائیں دیتے تھے اور دوسرے لوگوں کو ان کے رشتہ دار طرح طرح کے دکھ دیتے تھے۔ کسی کو اتنا مارا گیا کہ اسے ہلکان ہی کر دیا گیا، کسی کی آنکھیں نکال دی گئیں، کسی کو اتنا مارا جاتا کہ اس کے حواس مختل ہو جاتے، کسی کو گرم ریت پر لٹایا جاتا، کسی کو رسیوں سے جکڑ کر مارا جاتا اور کسی کو دہکتے ہوئے کوئلوں پر لٹایا جاتا غرض مسلمانوں کو ایسے ایسے دکھ دئیے جاتے جن کا تصور کر کے بھی انسان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔غرض قریش مکہ کی عداوت بڑھی اور انہوں نے دکھ دینے کی نئی نئی ترکیبیں نکالیں۔ رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم گو غریب تھے مگر آپ کا خاندان مکہ کے اعلیٰ خاندانوں میں شمار ہوتا تھا اور آپ کا تعلق ایسے خاندان سے تھا جو خانہ کعبہ کے متولی تھے مگر لوگوں نے آپ پر بھی سختی کرنی شروع کر دی۔ ایک دن آپ صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان ایک پتھر پر بیٹھے سوچ رہے تھے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کی توحید کو قائم کیا جائے کہ اتنے میں ابوجہل آگیا اور اس نے آتے ہی کہا محمدؐ! تم اپنی باتوں سے باز نہیں آتے یہ کہہ کر اس نے آپ کو سخت غلیظ گالیاں دینی شروع کیں۔ آپ خاموشی کے ساتھ اس کی گالیوں کو سنتے رہے اور برداشت کیا اور ایک لفظ تک منہ سے نہ نکالا۔ ابوجہل جب جی بھر کر گالیاں دے چکا تو اس کے بعد وہ بدبخت آگے بڑھا اور اس نے آپ کے منہ پر تھپڑ مار دیا مگر آپ نے پھر بھی اسے کچھ نہیں کہا آپ جس جگہ بیٹھے تھے اور جہاں ابو جہل نے آپ کو گالیاں دی تھیں وہاں سامنے ہی حضرت حمزہؓ کا گھر تھا۔ حمزہؓ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے ان کا معمول تھا کہ ہر روز صبح سویرے تیر کمان لے کر شکار کے لئے نکل جاتے تھے اور سارا دن شکار کھیلتے رہنے کے بعد شام کو واپس آجایا کرتے تھے اور شام کو قریش کی مجالس کا دورہ کیا کرتے تھے۔ اُس دن بھی جس دن کہ ابو جہل نے رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور تھپڑ مارا حمزہ باہر شکار کے لئے گئے ہوئے تھے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جس وقت ابوجہل آپ پر باربار حملہ کر رہا تھا تو حضرت حمزہؓ کی ایک لونڈی نے دروازہ میں کھڑے ہو کر یہ نظارہ دیکھا کہ ابوجہل بار بار آپ پر حملہ کر رہا ہے اور بے تحاشا گالیاں آپ کو دے رہا ہے اور آپ خاموشی اور سکون کے ساتھ اس کی گالیوں کو برداشت کر رہے ہیں۔ وہ لونڈی دروازے میں کھڑے ہو کر یہ سارا نظارہ دیکھتی رہی وہ بے شک ایک عورت تھی اور کافرہ تھی لیکن پرانے زمانہ میں جہاں مکہ کے لوگ اپنے غلاموں پر ظلم کرتے تھے وہاں یہ بھی ہوتا تھا کہ بعض شرفاء اپنے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک بھی کرتے تھے اور آخر کافی عرصہ گزرنے کے بعد وہ غلام اسی خاندان کا ایک حصہ سمجھے جاتے تھے اسی طرح حضرت حمزہؓ کی وہ لونڈی بھی تھی اُس نے جب یہ سارا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا تو اُس پر اِس کا بہت زیادہ اثر ہوا مگر وہ کر کچھ نہ سکتی تھی وہ دیکھتی اور سنتی رہی اور اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتی رہی اور جلتی رہی ۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر تشریف لے گئے تو وہ بھی اپنے کام کاج میں لگ گئی۔ شام کے وقت حمزہؓ اپنی سواری کو دوڑاتے ہوئے آئے اور روپچی بنے ہوئے تیر کمان کو ایک عجیب انداز سے پکڑے ہوئے دروازہ سے اند ر آئے۔ اُس وقت ان کی چال ڈھال اس قسم کی تھی جیسے عام طور پر بڑے زمینداروں کے لڑکے کرتے ہیں۔ غرض وہ ایک عجیب تمکنت کے ساتھ سر کو اٹھائے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ اُس وقت ان کی اُٹھی ہوئی گردن ان کے خیالات کی ترجمانی کر رہی تھی کہ دیکھو میں کتنا بہادر اور دلیر ہوں اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان کی گردن ہر سامنے آنے والے کو دعوت دے رہی ہے کہ ہے کوئی بہادر جو میرے مقابلہ کی تاب لا سکے۔ جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو ان کی وہ لونڈی جو بڑی دیر سے اپنے غصہ اور غم کے جذبات کو بمشکل دبائے بیٹھی تھی اس نے گرج کر کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ بڑے بہادر بنے پھرتے ہو۔ حمزہؓ یہ سن کر حیران رہ گئے اور تعجب سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ لونڈی نے کہا معاملہ کیا ہے تمہارا بھتیجا محمد(ﷺ) یہاں بیٹھا تھا کہ ابوجہل آیا اور اُس نے محمد پر حملہ کر دیا اور بے تحاشہ گالیاں دینی شروع کر دیں اور پھر اُس کے منہ پر تھپڑمارا مگر محمد نے آگے سے اُف تک نہ کی اور خاموشی کے ساتھ سنتا رہا۔ ابوجہل گالیاں دیتا گیا اور دیتا گیا اور جب تھک گیا تو چلا گیا مگر میں نے دیکھا کہ محمد نے اس کی کسی بات کا جواب نہ دیا۔ تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو اور شکار کھیلتے پھرتے ہو تمہیں شرم نہیں آتی کہ تمہاری موجودگی میں تمہارے بھتیجے کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے۔ حمزہؓ اُس وقت مسلمان نہ تھے اور ریاست کی وجہ سے ان کا دل اسلام کو ماننے کے لئے تیار نہ تھا۔ وہ یہ تو سمجھتے تھے کہ محمد (ﷺ) کی باتیں سچی ہیں مگر وہ اپنے جاہ و جلال اور شان و شوکت کو ایمان پر قربان کرنے کے لئے تیار نہ تھے مگر جب انہوں نے اپنی لونڈی کی زبانی یہ واقعہ سنا تو اُن کی آنکھوں میں خون اُتر آیا اور ان کی خاندانی غیرت جوش میں آئی چنانچہ وہ اسی طرح بغیر آرام کئے غصہ سے کانپتے ہوئے کعبہ کی طرف روانہ ہوگئے اور کعبہ کا طواف کرنے کے بعداُس مجلس کی طرف بڑھے جس میں ابو جہل بیٹھا ہوا لاف زنی کر رہا تھا اور اُسی صبح والے واقعہ کو مزے لے کر بڑے تکبر کے ساتھ لوگوں کے سامنے بیان کر رہا تھا کہ آج میں نے محمد(ﷺ) کو یوں گالیاں دیں اور آج میں نے محمد کے ساتھ یوں کیا۔ حمزہؓ جب اس مجلس میں پہنچے تو انہوں نے جاتے ہی کمان بڑے زور کے ساتھ ابوجہل کے سر پر ماری اور کہا تم اپنے بہادری کے دعوے کر رہے ہو اور لوگوں کو سنا رہے ہو کہ میں نے محمد کو اس طرح ذلیل کیا ہے اور محمد نے اُف تک نہیں کی لے اب میں تجھے ذلیل کرتا ہوں اگر تجھ میں کچھ ہمت ہے تو میرے سامنے بول۔ ابوجہل اُس وقت مکہ کے اندر ایک بادشاہ کی سی حیثیت رکھتا تھا اس لئے جب اس کے ساتھیوں نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ جوش کے ساتھ اُٹھے اور انہوں نے حمزہؓ پر حملہ کرنا چاہاـمگر ابوجہل جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموشی کے ساتھ گالیاں برداشت کرنے کی وجہ سے اور حمزہؓ کی دلیری اور جرأت کی وجہ سے مرعوب ہوگیا تھا بیچ میں آگیا اور ان کو حملہ کرنے سے روک دیا اور کہا تم لوگ جانے دو دراصل بات یہ ہے کہ مجھ سے ہی زیادتی ہوئی تھی اور حمزہؓ حق بجانب ہے۔ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو جس وقت صفا اور مروہ کی پہاڑیوں سے واپس گھر آئے تھے اپنے دل میں یہ کہہ رہے تھے کہ میرا کام لڑنا نہیں ہے بلکہ صبر کے ساتھ گالیاں برداشت کرنا ہے مگر خدا تعالیٰ عرش پر کہہ رہا تھا اے محمد!ﷺ تو لڑنے کے لئے تیار نہیں مگر کیا ہم موجود نہیں ہیں جو تیری جگہ تیرے دشمنوں کا مقابلہ کریں؟ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اُسی دن ابوجہل کا مقابلہ کرنے والا ایک جاںنثار آپ کو دے دیا اور حضرت حمزہؓ نے اسی مجلس میں جس میں کہ انہوں نے ابوجہل کے سر پر کمان ماری تھی اپنے ایمان کا اعلان کر دیا اور ابوجہل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تو نے محمدﷺ کو گالیاں دی ہیں صرف اس لئے کہ وہ کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں اور فرشتے مجھ پر اُترتے ہیں، ذرا کان کھول کر سن لو میں بھی آج سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر ہوں اور مَیں بھی وہی کچھ کہتا ہوں جو محمد کہتا ہے اگر تجھ میں ہمت ہے تو آمیرے مقابلہ پر۔ یہ کہہ کر حمزہؓ مسلمان ہو گئے۔۱۵؎
اس کے بعد جب قریش مکہ نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور یہ بات ان کے قابو سے باہر ہو رہی ہے تو انہیں نے مسلمانوں کو انتہا درجہ کی تکلیفیں دینی شروع کیں اور اپنی ایذا رسانی کو کمال تک پہنچا دیا یہاں تک کہ مکہ کے اندر مسلمانوں کے لئے امن بالکل مٹ گیا ۔اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو جمع کیا اور فرمایا اب دشمنوں کی طرف سے ہم پر اتنے ستم ڈھائے جارہے ہیں جو ہماری حدِبرداشت سے باہر ہیں اس لئے تم میں سے جن جن کے لئے ممکن ہو انہیں چاہئے کہ وہ حبشہ کی طرح ہجرت کر کے چلے جائیں میں نے سنا ہے وہاں کا بادشاہ عادل اور انصاف پسند ہے اور اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ صحابہؓ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ اور آپ؟ آپ نے فرمایا مجھے ابھی تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کی اجازت نہیں ملی۔ چنانچہ آپ کے ارشاد کے ماتحت بہت سے صحابہ ؓ ہجرت کر کے حبشہ کی طرف چلے گئے۔ اِس پر قریش مکہ کے دلوں میں پھر جوش پیدا ہوا اور انہوں نے کہا مسلمان تو بچ کر یہاں سے نکل گئے اور ہمارے پنجہ سے بچ گئے چنانچہ رؤسائے مکہ نے باہم مشورہ کر کے اپنے دوممتاز رئیسوں یعنی عمروبن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو حبشہ کی طرف روانہ کیا اوران کے ساتھ بادشاہ ِحبشہ اور اس کے وزراء اور درباریوں کے لئے تحفے تحائف روانہ کئے۔ یہ وفد نجاشی کے دربار میں پہنچا اور تحفے تحائف پیش کرنے کے بعد کہا اے بادشاہ! آپ ہمارے بھائی ہیں ہمارے ملزم بھاگ کر آپ کی حکومت میں پہنچ چکے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ آپ ان کو واپس کردیں تا کہ ہم ان کو ساتھ لے جائیں یہ لوگ جو بھاگ کر آئے ہیں انہوں نے اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر ایک نیا دین اختیار کر لیا ہے اور یہ سخت فسادی لوگ ہیں اس لئے ہم آپ سے یہ امید کرتے ہیں کہ آپ ہمارے مجرموں کو اپنی پناہ میں نہیں رکھیں گے۔ درباریوں نے بھی اس وفد کی پُرزور تائید کی لیکن نجاشی جو عادل اور رحم دل اور بیدار مغز حکمران تھا اُس نے کہا مجھے پہلے تحقیقات کر لینے دو وہ لوگ میری پناہ میں آئے ہیں جب تک میں ان کے بیانات نہ سُن لوں آپ کے حق میں یکطرفہ فیصلہ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ بادشاہ نے مسلمان مہاجرین کو دربار میں طلب کیا اور اُن سے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے؟ اس پر حضرت جعفر بن ابی طالبؓ نے مسلمانوں کی طرف سے جواب دیا۔ اے بادشاہ! ہم پہلے جاہل تھے اور بت پرستی کرتے تھے ہم ہر قسم کی بدیوں اور بدکاریوں میں مبتلا تھے خدا تعالیٰ نے اپنا رسول ہم میں بھیجا جس نے ہمیں توحید سکھلائی اور بت پرستی سے روکا ہم اُس پرایمان لائے اور اُس کی اتباع کر کے خدائے واحد کی پرستش کرنے لگے، اس پر ہماری قوم ناراض ہوگئی ہمیں انواع و اقسام کی تکلیفوں اور دکھوں میں مبتلا کر دیا اور ہمیں خدا کی عبادت سے روکنا چاہا اور جب یہ ظلم حدِ برداشت سے بڑھ گئے تو ہمارے آقا نے ہمیں حکم دیا کہ تم لوگ حبشہ کی طرف ہجرت کر جاؤکیونکہ حبشہ کا بادشاہ عادل ہے اور اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا چنانچہ ہم یہاں آگئے اس لئے اے بادشاہ! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کے ماتحت ہم پر ظلم نہ ہوگا۔ بادشاہ حضرت جعفرؓ کی اس تقریر سے بہت متأثر ہوا اور کہنے لگا اچھا وہ کلام جو تمہارے رسول پر اُترا ہے مجھے بھی سناؤ۔ اِس پر حضرت جعفرؓ نے نہایت خوش الحانی اور رقت کے ساتھ سورہ مریم کی ابتدائی آیات تلاوت کیں جن کو سُن کر نجاشی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور اُس نے کہا خدا کی قسم! یہ کلام اور ہمارے مسیح کا کلام ایک ہی طرح کا ہے۔ اس کے بعد وہ قریش مکہ کے وفد سے کہنے لگا جاؤ میں تمہارے ساتھ ان لوگوں کو کبھی نہ بھیجوں گا یہ کہہ کر نجاشی نے ان کے تحفے بھی واپس کر دیئے۔ قریش کا وفد یہ دیکھ کر کہ ہمیں ناکامی اور نامرادی کا سامنا ہوا ہے سخت نادم ہوا مگر انہوں نے ایک چال چلی کہ وہ دوسرے دن پھر دربار میں حاضر ہوئے اور کچھ عیسائی پادریوں کو بھی تحفے وغیرہ دے کر ساتھ لے گئے اور بادشاہ سے کہا اے بادشاہ !کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ پناہ گزیں آپ کے نبی حضرت مسیح کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟ نجاشی نے مسلمانوں کو پھر بُلوایا اور پوچھا تم لوگ مسیحؑ کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہو؟ حضرت جعفرؓ نے عرض کیا اے بادشاہ! ہمارے اعتقاد کی رو سے حضرت عیسیٰ خدا تعالیٰ کا ایک مقرب بندہ اور سچا رسول تھا مگر خدا نہ تھا اسی طرح حضرت مسیحؑ کی والدہ نیک اور پارسا عورت تھیں مگر خدا نہ تھیں۔ یہ سن کر نجاشی کہنے لگا یہ لوگ بالکل ٹھیک کہتے ہیں میں بھی مسیحؑ کو خدا نہیں مانتا۔ اُس وقت پادری جوش میں آگئے اور کہا آپ نے عیسائیت کی ہتک کی ہے ہم عوام کو آپ کے خلاف اُکسائیں گے اور آپ کی بادشاہت خطرہ میں پڑ جائے گی۔ بادشاہ نے کہا جب میں بچہ تھا اور دوستوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا تھا تو اُس وقت بھی خداتعالیٰ نے میری مدد کی تھی اور اب بھی میں اُسی پر امید رکھتا ہوں تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو بے شک کرو۔۱۶؎ یہ اشارہ نجاشی نے ایک پُرانے واقعہ کی طرف کیا تھا اور وہ یہ کہ نجاشی ابھی بچہ ہی تھا کہ اس کا والد فوت ہوگیااس لئے اس کے چچا کو عارضی طور پر بادشاہ بنایا گیا تاکہ نجاشی کی بلوغت تک وہ بادشاہت کے کام کو سر انجام دے مگر جب نجاشی جوان ہوا توچچا نے خیال کیا کہ میں اتنے عرصہ سے بادشاہت کر رہا ہوں اب اس کو کیوں دے دوں۔ چنانچہ اُس کے اور اُس کے چچا کے درمیان تنازعہ ہوانوجوانوں نے نجاشی کا ساتھ دیا اور اُس کا چچا حکومت سے دستبردار ہوگیا۔ نجاشی نے اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ خدا جس نے اُس وقت میری مدد کی تھی اب بھی میری مدد کرے گا تم جاؤ اور زور لگا لو۔ غرض نجاشی نے اس وفد کو ناکام و نامراد واپس کر دیا۔ اُس وقت جب کہ قریش مکہ کا وفد مسلمان مہاجرین کی واپسی کے لئے مطالبہ کرنے کے لئے حبشہ گیا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل دھڑک رہاہوگا کہ خدا جانے ان بیچارے وطن سے دُور اُفتادگان کے ساتھ نجاشی کیا سلوک کرتا ہے مگر اُس وقت اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوا کہہ رہا تھا اے محمد! ﷺ کیا میں اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہوں؟
(فرمودہ۲۹؍جون ۱۹۴۷ء)
میں کی تفسیربیان کر رہا تھا جس میں میں نے ہجرتِ حبشہ تک کے واقعات بیان کئے تھے۔ ہجرتِ حبشہ کے بعد کفار مکہ کی طبائع میں بہت زیادہ مخالفت کا جوش پیدا ہوگیا کیونکہ وہ حبشہ سے ناکام و نامراد واپس لَوٹ آئے تھے اور نجاشی نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا دراصل حبشہ سے ناکام واپسی نے ان کو ایک نہیں بلکہ دو وجوہات کی بناء پر مسلمانوں کی اور بھی زیادہ مخالفت کرنے پر آمادہ کر دیا تھا۔ ایک وجہ تو اس کی یہ تھی کہ مسلمانوں کا ایک حصہ بالکل بچ کر ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ ایک غیر ملک میں جا کر انہی مسلمانوں کے سامنے جن کو وہ لوگ ملک میں طرح طرح کی تکلیفیں دیا کرتے تھے انہیں خود ذلیل ہونا پڑا یہ ذلت کفارِ مکہ کے لئے کوئی معمولی بات نہ تھی اور اس کا برداشت کر لینا ان کے لئے آسان نہ تھا اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب مکہ کے مسلمانوں کو ہر ممکن طریق سے دکھ دیئے جائیں اور کوئی ظلم اب نہ رہ جائے جس سے ان کو دوچار نہ ہونا پڑے۔ اس ضمن میں وہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے بھی منصوبے سوچنے لگے اور آپ کے قاتل کے لئے انعامات مقرر کئے جانے لگے۔ ان انعامات مقرر کرنے والوں میں حضرت عمرؓ بھی تھے جو ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے۔ ایک دن کسی نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ تم دوسروں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے انعامات دیتے پھرتے ہو خود یہ کام کیوں نہیں کرتے جبکہ تم اتنے بہادر اور دلیر ہو۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ کی رگِ حمیت پھڑک اُٹھی اور وہ تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑے ہوگئے اور اُسی وقت رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے چل پڑے۔ راستہ میں انہیں کوئی دوست مل گیا اُس نے جو انہیں غیظ و غضب کے عالَم میں ننگی تلوار اپنے ہاتھ میں لئے جاتے دیکھا تو وہ راستہ روک کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا عمرؓ! آج کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا محمد(ﷺ) کو قتل کرنے جا رہا ہوں اس نے بڑا فتنہ برپا کر رکھا ہے۔ وہ ہنس کر کہنے لگا تم محمد کو تو قتل کرنے جا رہے ہو مگر تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ تمہارے اپنے گھر میں کیا ہوگیا ہے۔ کہنے لگے کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا تمہاری تو اپنی بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہوچکے ہیں۔ وہ یہ سن کر اور زیادہ برافروختہ ہوئے اور کہنے لگے اچھا پہلے انہی کو ٹھکانے لگا آتا ہوں۔ چنانچہ وہ جلدی جلدی قدم اُٹھاتے اپنی بہن کے گھر پہنچے اور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ کو زنجیر لگی ہوئی تھی اوراندر ایک صحابی انہیں قرآن کریم پڑھا رہے تھے۔ اُنہوں نے عمر کی آواز سُنی تو اس صحابی کو کہیں چھپا دیا، قرآن کریم کے اوراق بھی اندر رکھ دئیے اور خود دروازہ کھول دیا۔ حضرت عمرؓ جو قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سن چکے تھے انہوں نے آتے ہی بڑے جوش سے کہا کہ میں نے سنا ہے تم دونوں صابی ہوگئے ہو اور تم نے محمد کی پیروی اختیار کر لی ہے؟ اور یہ کہتے ہی وہ اپنے بہنوئی پر جھپٹ پڑے اور انہیں مارنے لگ گئے۔ بہن اسے برداشت نہ کرسکی اور وہ اپنے خاوند کو بچانے کے لئے آگے بڑھی۔ حضرت عمرؓ کاارادہ اپنی بہن پر حملہ کرنے کا نہیں تھا مگر چونکہ وہ درمیان میں آگئیں اور وہ اُس وقت جوش کی حالت میں تھے اس لئے ایک مُکّا ان کی بہن کو بھی جالگا اور ان کی ناک سے خون بہنے لگا۔ بہن کو زخمی دیکھ کر ان کے دل میں ندامت پیدا ہوئی کیونکہ عورت پر ہاتھ اُٹھانا اہلِ عرب کے نزدیک ایک سخت معیوب فعل تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی خفت دور کرنے کے لئے کہا اچھا ان باتوں کو جانے دو اور مجھے بتاؤ کہ تم کیا پڑھ رہے تھے۔ اُن کی بہن بھی اُس وقت جوش کی حالت میں تھیں اور پھر وہ بہن بھی عمرؓ کی ہی تھیں کہنے لگیں تم ناپاک ہو جب تک تم غسل نہ کر لو میں تمہیں ان مقدس اَوراق کو ہاتھ تک نہیں لگانے دوں گی۔ چونکہ حضرت عمر اپنی بہن کی دل جوئی کرنا چاہتے تھے انہوں نے غسل کیا اور پھر کہا اب تو مجھے وہ اَوراق دکھا دو۔ اُن کی بہن نے وہ اوراق ان کے سامنے رکھ دئیے اور انہوں نے اُن کو پڑھنا شروع کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے دل کے پردے دُور ہونے شروع ہوگئے۔ جب وہ اِس آیت پر پہنچے کہ۱۷؎ کہ ان کا سینہ کھل گیا اور انہوں نے کہا یہ تو عجیب کلام ہے مجھے جلدی بتاؤ کہ محمدرسول اللہ کہاںہیں مَیں ان پر ایمان لانا چاہتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن دنوںدارِ ارقم میں تشریف رکھتے تھے آپ کو پتہ بتایا گیا اور وہ سیدھے اس مکان کی طرف چل پڑے مگر حالت یہ تھی کہ ابھی ننگی تلوار اُن کے ہاتھ میں تھی۔ حضرت عمرؓ نے دروازہ پر دستک دی تو صحابہؓ نے جھانک کر دیکھا کہ باہر کون ہے۔ انہیں جب عمرؓ کی شکل نظر آئی اور یہ بھی دیکھا کہ انہوں نے تلوار سونتی ہوئی ہے تو وہ گھبرائے کہ کہیں کوئی فساد پیدا نہ ہو جائے مگر حضرت حمزہؓ جو اُس وقت تک اسلام لا چکے تھے انہوں نے کہا ڈرتے کیوں ہو دروازہ کھولو اگر عمرؓ اچھی نیت سے آیا ہے تو خیر ورنہ اسی تلوار سے ہم اس کی گردن اُڑا دیں گے۔ چنانچہ دروازہ کھولا گیا اور عمرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا عمر! کس نیت سے آئے ہو؟ اُنہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ایمان لانے کے لئے۔ یہ سن کر آپ نے خوشی سے اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہا اور ساتھ ہی صحابہؓ نے اس زور سے نعرئہ تکبیر بلند کیا کہ دور دور تک مکہ میں اس کی آواز گونج اُٹھی ۔۱۸؎
اب دیکھو عمرؓ تو اس ارادہ اور نیت کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے تھے کہ میں آج محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے دم لوں گا مگر اُس وقت خدا تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوا کہہ رہا تھا کہ کیا خدا اپنے بندے کی حفاظت کے لئے کافی نہیں؟ چنانچہ وہی عمر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے کے لئے اپنے گھر سے نکلا تھا اسلام کی تلوار سے خود گھائل ہوگیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ہمیشہ کے لئے داخل ہوگیا۔ حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے بعد وہ عبادتیں جو پہلے چھپ کر ہوا کرتی تھیں سرِعام ہونے لگیں۔ خود حضرت عمرؓ دلیری کے ساتھ کفار میں پھرتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ اگر تم میں سے کسی کے اندر طاقت ہے تو میرے سامنے آئے مگر کسی شخص کو اُن کے سامنے آنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی لیکن حضرت عمرؓ کا یہ رُعب صرف چند دن ہی رہا بعد میں حضرت عمرؓ کی بھی وہی حالت ہوگئی جو دوسرے مسلمانوں کی تھی۔ چنانچہ ایک موقع پر جب ان سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کو اسلام لانے پر دشمنوں کی طرف سے تکلیفیں نہ دی جاتی تھیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے بھی کئی دفعہ دشمنوں نے مارا تھا مگر باقی مسلمان تو خاموشی کے ساتھ مار کھالیتے تھے اور میں اُن کا مقابلہ کرتا تھا اور کبھی مار کھالیتا تھا اور کبھی مار بھی لیتا تھا ۔
پھر کفارِ مکہ کی مخالفت اور تیز ہوئی اور انہوں نے ایک میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا کہ جس طرح بھی ہو سکے محمد (ﷺ) کو ابو طالب کی حفاظت اور ہمددری سے محروم کر دیا جائے کیونکہ ہم ابوطالب کی وجہ سے محمد(ﷺ) کو کچھ کہہ نہیں سکتے اور ابوطالب کے لحاظ کی وجہ سے ہمیں محمد کا بھی لحاظ کرنا پڑتا ہے اس لئے اس معاملہ کو ابوطالب کے سامنے پیش کیا جائے اور کہا جائے کہ یا تو تم اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ ورنہ اُس کی حفاظت اور ہمدردی سے دست بردار ہو جاؤ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ساری قوم تمہاری مخالف ہو جائے گی اور تمہیں اپنا سردار تسلیم کرنے سے انکار کر دے گی۔ یہ پہلا نوٹس تھا جو ابوطالب کو دیا جانے والا تھا اس سے پہلے انہیں سردار انِ قریش کی طرف سے اِس قسم کا کوئی نوٹس نہ دیا گیا تھا۔ غرض قریش نے اپنے بڑے بڑے سرداروں کا ایک وفد ابوطالب کے پاس بھیجا اور کہا کہ آپ ہماری قوم میں معزز ہیں اس لئے ہم آپ سے یہ درخواست کرنے آئے ہیں کہ آپ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں کہ وہ ہمارے بتوں کو بُرا بھلا نہ کہا کرے ہم نے آج تک بہت صبر کیا ہے مگر اب ہم مزید صبر نہیں کر سکتے ہمیں رِجْس، پلید، شَرُّالْبَرِیَّہ، سُفَہَاء اور ذرّیت شیطان کہا جاتا ہے اور ہمارے بتوں کو جہنم کا ایندھن قرار دیا جاتا ہے پس یا تو آپ محمد(ﷺ) کو سمجھائیں اور اسے ان باتوں سے باز رکھیں ورنہ ہم آپ کو بھی اپنی لیڈری سے الگ کر دیں گے۔ ابوطالب کے لئے یہ موقع نہایت نازک تھا وہ اپنی قوم میں نہایت معزز سمجھے جاتے تھے اور لوگ انہیں اپنا لیڈر تسلیم کیا کرتے تھے اور لیڈری کی خاطر بعض اوقات انسان اپنے عزیز ترین رشتہ داروں اور بیٹوں تک کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ابوطالب نے اپنی قوم سے مرعوب ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بُلایا اور کہا اے میرے بھتیجے ! اب تیری باتوں کی وجہ سے قوم سخت مشتعل ہو چکی ہے اور اب معاملہ اِس حد تک پہنچ چکا ہے کہ قریب ہے کہ وہ لوگ کوئی سخت قدم اُٹھائیں جو تمہارے لئے اور میرے لئے بھی تکلیف دہ ہو۔ تو نے ان کے عقلمندوں کو سفیہہ، ان کے بزرگوں کو شَرُّالْبَرِیَّہاور ان کے معبودوں کا نام ہیزمِ جہنم اور وَقُوْدُالنَّار رکھا ہے اور خود ان کو رِجْس اور پلید کہا ہے اس لئے میں محض تمہاری خیر خواہی کے لئے تمہیں یہ مشورہ دیتا ہوں کہ اس دشنام دہی سے بازآجاؤ ورنہ میں اکیلا ساری قوم کے مقابلہ کی جرأت نہیں کرسکتا۔ ساری قوم کے رؤساء وفد کی صورت میں میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے مجھے کہا ہے کہ اب دو رستوں میں سے کوئی سا رستہ اپنے لئے تجویز کر لو۔ یا تو محمد(ﷺ) سے کہو کہ وہ ہمارے بتوں کو گالیاں نہ دیا کرے اور یا پھر اس کی حفاظت سے دستبردار ہو جاؤ اس لئے اے میرے بھتیجے! یہ موقع میرے لئے نہایت نازک ہے اور میرے لئے اپنی قوم کو چھوڑنا مشکل ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ابوطالب کی یہ باتیں سنیں تو آپ نے محسوس کیا کہ جس شخص نے میرے لئے آج تک اتنی تکلیفیں اُٹھائی ہیں اور جس نے میرے ساتھ وفا کے عہد کئے ہوئے ہیں یہ تعلقات آج ٹوٹتے نظر آرہے ہیں اور دُنیوی اسباب کے لحاظ سے میرا یہ سہارا بھی مخالفت کے بوجھ کے نیچے دَب رہا ہے۔ چنانچہ اِن باتوں کا خیال کر کے آپ چشم پُر آب ہوگئے اور فرمایا اے چچا! میں نے ان لوگوں کے بتوں کے حق میں جو کچھ کہا ہے وہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہارِ حقیقت ہے اور میں اسی کام کے لئے دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں کہ ان لوگوں کی خرابیاں ان پر ظاہر کر کے انہیں راہ راست کی طرف بلاؤں۔ پس میں کسی مخالفت یا موت کے ڈر سے حق کے اظہار سے رُک نہیں سکتا میری زندگی تو اس کام کیلئے وقف ہو چکی ہے اس لئے اے چچا! میں آپ کے اور آپ کی قوم کے درمیان کھڑا نہیں ہونا چاہتا اگر آپ کو کسی تکلیف یا اپنی کمزوری کا خیال ہے تو میں آپ کو بخوشی اجازت دیتا ہوں کہ آپ مجھے اپنی پناہ میں رکھنے سے دستبردار ہو جائیں۔ باقی رہا احکامِ الٰہی کو ان لوگوں تک پہنچانے کا سوال تو میں اس کام سے کبھی رُک نہیں سکتا خواہ میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے خدا کی قسم! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند بھی لاکر رکھ دیں تب بھی میں اپنے اس فریضہ کی ادائیگی سے باز نہیں رہ سکتا ۱۹؎ یہ باتیں کہتے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر رقت کی سی حالت طاری تھی اور آپ یہ خیال فرما رہے تھے کہ میرے ساتھ وفا اورمحبت کرنے والا میرے رشتہ داروں میں سے یہی ایک میرا چچا تھا اور یہ رشتہ مروت بھی آج ٹوٹتا نظر آرہا ہے مگر جس وقت آپ یہ خیال فرما رہے تھے کہ وفا، محبت اور مروت کا یہ رشتہ آج ٹوٹ رہا ہے اُس وقت اللہ تعالیٰ عرش پر کہہ رہا تھا اے محمد ! کیا ہم اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہیں؟دشمنوں نے بے شک اپنا پورا زور لگادیا ہے کہ یہ رشتہ ٹوٹ جائے، انہوں نے بے شک اپنی طرف سے پوری کوششیں کی ہیں کہ یہ رشتہ محبت قطع ہو جائے مگر اے محمد! ہم اس رشتے کو کبھی ٹوٹنے نہیں دیں گے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے ابوطالب کے دل کو نرم کر دیا اور وہ ابوطالب جسے قوم کی سرداری کو عزیز رکھنے کا خیال آرہا تھا، وہ ابوطالب جسے قوم کی لیڈری کا خیال آرہا تھا اُس کے اندر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جوش مارنے لگی اور اُس نے رقت بھری آواز میں کہا اے میرے بھتیجے! جا اور اپنے کام میں اسی طرح لگا رہ جب تک میں زندہ ہوں اپنی طاقت کے مطابق تیرا ساتھ دوں گا۔ اب دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس نازک موقع پر کا نمونہ دکھایا اور ابوطالب جو دنیا دار آدمی تھے اور قریب تھا کہ وہ قوم کی سرداری اور لیڈری کی طرف جھک جائیں اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل پر ایسا تصرف کیا کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے مقابلہ میں قوم کی سرداری اور لیڈری کو بھی ترک کرنے پر آمادگی کا اظہار کر دیا ۔
اس کے بعد کفارِ مکہ کی مخالفت اور بھی زیادہ تیز ہو گئی اور انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب ابوطالب کو ایک آخری نوٹس دینا چاہئے چنانچہ وہ ایک میدا ن میں جمع ہوئے اور انہوں نے اپنا ایک نمائندہ ابوطالب کی طرف بھیجا اور کہلا بھیجا کہ ہم فلاں میدان میں جمع ہیں اور یہ ہماری طرف سے آخری نوٹس ہے۔ پہلے تو ہم نے صرف صلح کا نوٹس دیا تھا مگر اب ہم جنگ کا نوٹس دے رہے ہیں کہ جب تک تم محمد( ﷺ) کو ہمارے حوالہ نہ کر دو ہم یہاں سے ہرگز نہیں ہلیں گے ورنہ ساری قوم تمہارا اور مسلمانوں کا مقاطعہ کر دے گی۔ یہ وقت پھر ابوطالب کی آزمائش اور امتحان کا وقت تھا اور اِس نوٹس میں صرف یہی نہیں کہا گیا تھا کہ تمہاری قوم تمہیں چھوڑ دے گی بلکہ یہ دھمکی بھی دی گئی تھی کہ قوم تمہارا مقاطعہ کر دے گی گویا یہ آخری پتھر تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رستہ میں ڈالا گیامگر خداتعالیٰ کی قدرت دیکھو اِدھر ابو طالب نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو جمع کیا اور سارے حالات ان کے سامنے رکھ کر کہا اب قوم کی مخالفت حد سے بڑھتی جا رہی ہے اور رؤسائے قریش نے مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر تم نے محمد(ﷺ) کا ساتھ نہ چھوڑا تو تمہارا مقاطعہ کر دیں گے اس لئے ہمیں محمد (ﷺ) کی حفاظت کرنی چاہئے۔ ابوطالب کی اس تحریک پر سوائے ابولہب کے بنوہاشم اور بنو مطلب کے باقی تمام لوگوں نے اتفاق کا اظہار کیا اور قومی غیرت کی وجہ سے وہ دوسروں کے مقابلہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعانت کے لئے تیار ہوگئے اور خدا تعالیٰ کی حکمت کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کے وہ افراد بھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوسخت تکالیف دیا کرتے تھے انہوں نے بھی عہد کیا کہ ہم بہرحال محمد(ﷺ) کا ساتھ دیں گے اور اس طرح پھر خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہوا کہ صرف ابوطالب ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے دشمنوں کے منہ سے بھی کہلا دیا ہم محمد(ﷺ) کا ساتھ دیں گے چاہے قوم ہمارا مقاطعہ ہی کیوں نہ کر دے۔ چنانچہ ابوطالب نے ان پیغام بھیجنے والے رؤساء کو کہلا بھیجا کہ جو تمہارے جی میں آئے ہمارے ساتھ کرو میں کبھی محمد(ﷺ) کو تمہارے سپرد نہیں کر سکتا اور اس کی حمایت سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ اُس وقت جبکہ کفار مکہ نے اپنی تمام کوششیں صرف کر دی تھیں اور اُس و قت جب کہ انہوں نے ہر قسم کی دھمکیاں دے کر ابوطالب کو آپ کی حمایت سے ہٹانا چاہا تھا خدا تعالیٰ عرش پر کہہ رہا تھا اے محمد!ﷺ تو دلگیر مت ہو۔ اے محمد!ﷺ تو کوئی اندیشہ مت کر اور اے محمد!ﷺ تجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم خود تیرے دشمنوں کو ان کے ارادوں میں خائب و خاسر کر دیں گے اور اِنہیں دشمنوں میں سے کچھ لوگ ایسے تیار کر دیں گے جو اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر تمہاری حمایت کا اعلان کریں گے۔
پھر ایک عجیب بات ہے جس کی طرف پہلے کسی مؤرخ کا ذہن نہیں گیا صرف مجھے ہی خداتعالیٰ نے سمجھائی ہے یہ ہے کہ وہی میدان جس میں کفارِ مکہ جمع ہوئے تھے اور اپنا نمائندہ بھیج کر ابو طالب سے مطالبہ کیا تھا کہ محمد(ﷺ) کو ہمارے حوالہ کر دو اسی میدان میں فتح مکہ کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی جھنڈے گاڑے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ اے کفار! تم یہاں جمع ہو کر محمد(ﷺ) کو بلاتے تھے اس لئے کہ تم جو چاہو اُس کے ساتھ سلوک کرو اب ہم محمد(ﷺ) کو اسی میدان میں لائے ہیں اس لئے نہیں کہ جو سلوک تم چاہو اُس کے ساتھ سلوک کرو بلکہ اس لئے کہ محمدﷺ جو سلوک چاہے تمہارے ساتھ کرے۔ تم تو محمدرسول اللہ کو اس لئے میدان میں مانگ رہے تھے کہ تم اس کے ساتھ جو چاہووہ سلوک کر سکو اور ہم محمدﷺ کا اُس میدان میں لے بھی آئے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ تم جو چاہو اس کے ساتھ سلوک کرو بلکہ اس لئے کہ وہ جو چاہے تمہارے ساتھ سلوک کرے۔ غرض کفارِ مکہ کے مطالبہ کے مقابلہ میں پہلے تو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ دکھایا کہ انہی مطالبہ کرنے والوں کے ساتھیوں اور شدید ترین دشمنوں میں سے کچھ لوگ الگ ہو گئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ ہم محمد کو مطالبہ کرنے والوں کے سپرد نہیں کریں گے اور یہ کہنے والے وہی دشمن تھے جو ہر روز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتے تھے اور آپ پر پتھراؤ کیا کرتے تھے اور دوسرا معجزہ اللہ تعالیٰ نے یہ دکھایا کہ وہ آپ کو اسی میدان میں لایا جہاں بیٹھ کر ائمۃالکفر نے آپ کے خلاف میٹنگ کی تھی اور ابوطالب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ محمدﷺ کو اُن کے حوالے کر دیں مگر اس حالت میں کہ آپ کے ساتھ وہ سلوک نہ ہو جو مکہ والے آپ کے ساتھ کرنا چاہیں بلکہ مکہ والوںکے ساتھ وہ سلوک ہو جو آپ ان کے ساتھ کرنا چاہیں۔غرض جب ابوطالب نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ کرنے والے کفارِ مکہ کو کہلا بھیجا کہ میں اور میری قوم محمدکو تمہارے سپرد نہیں کر سکتے اس لئے تم لوگ جو چاہو ہمارے ساتھ کرو ہم اس کے مقابلہ کے لئے تیار ہیں، تو اس پر کفارِ مکہ نے ایک باقاعدہ معاہدہ لکھا کہ کوئی شخص بنو ہاشم اور بنو مطلب کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات نہیں رکھے گا، کوئی شخص ان کے ساتھ رشتہ نہیں کرے گا، کوئی شخص نہ ان کے پاس کچھ فروخت کرے گا اور کوئی شخص نہ ان سے کچھ خریدے گا اور نہ ہی کوئی شخص کھانے پینے کی کوئی چیز ان کے پاس جانے دے گا جب تک وہ لوگ محمدکو ہمارے حوالہ نہ کر دیں۔ یہ معاہدہ باقاعدہ لکھ کر کعبہ کی دیوار کے ساتھ آویزاں کر دیا گیا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بنو ہاشم اور بنو مطلب کے تمام لوگ کیا مسلم اور کیا غیر مسلم شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے اور شعب ابی طالب وہ جگہ تھی جو بنو ہاشم کا خاندانی درہ تھا اس میں وہ لوگ قیدیوں کی طرح نظر بند کر دیئے گئے اور مکہ کی عملی زندگی سے بالکل منقطع ہوگئے۔ اب دونوں طرف ہی ضد تھی ایک طرف تو یہ ضد تھی کہ جب تک محمد (ﷺ) اپنی تعلیم کو نہیں چھوڑتا یا اُس کی قوم اُسے ہمارے حوالے نہیں کر دیتی ہم اس مقاطعہ کو برقرار رکھیں گے۔ دوسری طرف یہ ضدتھی اور اس کو ضد نہیں بلکہ استقلال کہنا چاہئے کہ چاہے ہمارے ساتھ کتنا ہی بُرا سلوک کیوں نہ روا رکھا جائے ہم ان کے مطالبہ کو تسلیم نہیں کر سکتے۔ گویا ایک طرف راج ہٹ تھی اور دوسری طرف دین ہٹ تھی اور یہ ہٹ کی دونوں قسمیں آپس میں مقابلہ کے لئے تُلی ہوئی تھیں۔ کفر چاہتا تھا کہ اسلام پر غالب آجائے اور اسلام چاہتا تھا کہ کفر کو کھا جائے۔
شعب ابی طالب میں محصور ہونے کے ایام میں محصور ہونے والوں کو جو جو تکلیفیں اُٹھانی پڑیںان کا حال پڑھ کر بدن پر لرزہ آجاتا ہے۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ بعض اوقات انہوں نے غذا نہ ہونے کی وجہ سے جنگلی جانوروں کی طرح درختوں کے پتے کھا کھا کر گذارہ کیا اور بعض نے سوکھے ہوئے چمڑے کو پانی میں صاف اور نرم کر کے بھون کر کھا لیا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی یہ حالت ہوتی تھی کہ بھوک کی وجہ سے ان کے رونے اور چیخنے کی آوازیں دور دور تک سنائی دیتی تھیں اور یہ تکلیف کوئی ہفتہ دو ہفتہ یا مہینہ دو مہینہ کے لئے نہ تھی بلکہ ایک لمبے عرصہ کے لئے تھی اور حالت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ صحابہؓ کہتے ہیں بجائے پاخانہ کے ہم مینگنیاں کرتے تھے مگر دونوں فریق اپنی اپنی ہٹ پر قائم تھے۔ ایک طرف یہ ضد تھی کہ اسلام ہمارے سامنے سرنگوں ہو جائے اور دوسری طرف استقلال کا یہ عالم تھا کہ وہ کہتے تھے کہ چاہے اس رستہ میں ہماری جانیں بھی کیوں نہ چلی جائیں ہم اپنے منصب کو ترک نہیں کرسکتے۔ اب پھر اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں دخل دیا اور وہ اس طرح کہ قریش کے اندر بعض نرم دل اور شریف الطبع لوگ بھی تھے جو اس ظالمانہ معاہدہ کو دیکھ دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتے تھے مگر وہ قوم کے مقابلہ کی تاب نہ رکھتے تھے۔ آخر جب انہوں نے دیکھا کہ ظلم حد سے بڑھ رہا ہے تو ان میں سے ایک نوجوان نے دلیری کی اور جرأت سے کام لیتے ہوئے چار پانچ اور نوجوانوں کو اپنے ساتھ لیا اور کہا یہ ظلم اب برداشت سے باہر ہوا جاتا ہے کیا اس سے بڑھ کر بھی ظلم کی کوئی حد ہو سکتی ہے کہ ہم لوگ تو یہاں آرام سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور مسلمان بے چارے اور ان کے ساتھی اڑھائی سال سے بے آب ودانہ پڑے ہیں اور کوئی ان کا پُر سانِ حال نہیں۔ یہ کہہ کر وہ گئے اور معاہدہ کو جو بوسیدہ ہو چکا تھا اُتار کر پھاڑ دیا اُس کے بعد انہوں نے تلواریں ہاتھ میں لیں اور شعب ابی طالب کے دروازے پر پہنچے اور محصورین کو اپنی تلواروں کی چھاؤں میں وہاں سے نکال لائے۔۲۰؎ جب وہ نوجوان اس معاہدہ کے خلاف تلواریں لے کر کھڑے ہوئے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ عرش پر کہہ رہا تھا اے محمدﷺ! کیا ہم اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہیں؟ اب دیکھو دشمنوں کو کس نے تحریک کی تھی کہ وہ اس معاہدہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور پھر اس کیڑے کو جس نے معاہدہ کا کاغذ کھایا تھا اور بوسیدہ کیا تھا کس نے تحریک کی تھی کہ وہ معاہدہ کو کھاجائے یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل اور کا نمونہ تھا۔
معاہدہ کی تحریر کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کہ آپ محصور تھے ایک دن اپنے چچا حضرت ابو طالب سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے ک وہ معاہدہ جو ہمارے خلاف لکھا گیا تھااور کعبہ کی دیوار کے ساتھ آویزاں کیا گیا تھا اُس کا کاغذ کھایا جا چکا ہے۔ روایات میں لکھا ہے کہ ابوطالب فوراً خانہ کعبہ میں گئے جہاں بہت سے رؤسائے قریش مجلس لگائے بیٹھے تھے اور انہوں نے جاتے ہی کہا اے قریش! تمہارا یہ ظالمانہ معاہدہ کب تک چلے گا محمد نے مجھے بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس معاہدہ کی تحریر کو محو کر دیا ہے تم اس معاہدہ کو نکالو تا کہ دیکھیں کہ میرے بھتیجے کی بات کہاں تک درست ہے۔ چنانچہ معاہدہ دیوار سے اُترواکر دیکھا گیا تو واقعی وہ سب کرم خوردہ ہو چکا تھا۔اس پر قریش کے وہ شریف الطبع لوگ جو اس ظالمانہ معاہدہ کے خلاف ہو چکے تھے اور جن کے دل میں انصاف، رحم اور قرابت داری کے جذبات پیدا ہو رہے تھے ان کو معاہدہ کے خلاف آواز اُٹھانے کا موقع ہاتھ آگیا۔ چنانچہ انہوں نے کاغذ پھاڑ دیا اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔۲۱؎
اس کے بعد مکہ والوں نے فیصلہ کیا کہ محمدﷺ کے ساتھ کوئی شخص بات چیت نہ کرے اور نہ اس کی بات کو سنے اور یہ آپ کے لئے نہایت تکلیف دہ تھا کیونکہ ایک نبی کے لئے سب سے بڑی تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس کی بات نہ سنیں اور اس کے ساتھ نہ بولیں۔ خداتعالیٰ کے نبی تو یہ چاہتے ہیں کہ خواہ لوگ اُن کو جی بھر کر گالیاں دے لیں مگر کم ازکم اُس پیغام کو تو سُن لیں جو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بنی نوع انسان کے لئے لائے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئی دفعہ ہم نے ایک واقعہ سنا ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ دشمن جب ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور مخالفت کرتے ہیں تو ہمیں امید ہوتی ہے کہ ان میں سے سعید روحیں ہماری طرف آجائیں گی لیکن جب نہ تو لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور نہ ہی مخالفت کرتے ہیں اور بالکل خاموش ہو جاتے ہیں تو یہ بات ہمارے لئے تکلیف دِہ ہوتی ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ نبی کی مثال اُس بڑھیا کی سی ہوتی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کچھ پاگل سی تھی اور شہر کے بچے اُسے چھیڑا کرتے تھے اور وہ انہیں گالیاں اور بد دعائیں دیا کرتی تھی آخر بچوں کے ماں باپ نے تجویز کی کہ بچوں کو روکا جائے کہ وہ بڑھیاکو دِق نہ کیا کریں چنانچہ انہوں نے بچوں کو سمجھایا مگر بچے توبچے تھے وہ کب باز آنے والے تھے یہ تجویزبھی کارگر ثابت نہ ہوئی۔ آخر بچوں کے والدین نے فیصلہ کیا کہ بچوں کو باہر نہ نکلنے دیا جائے اور دروازوں کو بند رکھا جائے چنانچہ انہوں نے اِس پر عمل کیا اور دو تین دن تک بچوں کو باہر نہ نکلنے دیا۔ اس بڑھیا نے جب دیکھا کہ اب بچے اسے دِق نہیں کرتے تو وہ گھر گھر جاتی اور کہتی کہ تمہارا بچہ کہاں گیا ہے؟ کیا اسے سانپ نے ڈس لیا ہے؟ کیا وہ ہیضہ سے مر گیا ہے؟ کیا اس پر چھت گر پڑی ہے؟ کیا اس پر بجلی گر گئی ہے؟ غرض وہ ہر دروازہ پر جاتی اور اس قسم کی باتیں کرتی آخر لوگوں نے سمجھا کہ بڑھیا نے تو پہلے سے بھی زیادہ گالیاں اور بد دعائیں دینی شروع کر دی ہیں اس لئے بچوں کو بند رکھنے کا کیا فائدہ اُنہوں نے بچوں کو چھوڑ دیا۔ آپ فرمایا کرتے تھے یہی حالت نبی کی ہوتی ہے۔ جب مخالفت تیز ہوتی ہے تب بھی اسے تکلیف ہوتی ہے اور جب مخالف چپ کر جاتے ہیں تب بھی اسے تکلیف ہوتی ہے کیونکہ جب تک مخالفت نہ ہو لوگوں کی توجہ الٰہی سلسلہ کی طرف پھر نہیں سکتی۔
غرض نبی کے لئے سب سے بڑی تکلیف دہ چیز یہی ہوتی ہے کہ لوگ اُس کی مخالفت چھوڑ دیں اور اُس کی باتیں نہ سنیں اس لئے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مکہ کے لوگ آپ کی باتیں نہیں سنتے اور نہ وہی آپ کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ مکہ سے باہر کسی اور جگہ کے لوگوں کو تبلیغ کرنی چاہئے چنانچہ آپ نے طائف جانے کا ارادہ فرمایا۔ طائف ایک مشہور مقام ہے جو مکہ سے جنوب مشرق کی طرف چالیس میل کے فاصلہ پر ہے طائف میں بڑے بڑے صاحب اثر اور دولت مند لوگ آباد تھے وہ لوگ اپنے آپ کو بڑا جنگجو خیال کرتے تھے اور طائف کی بستی حجاز کی بہت بڑی چھاؤنی سمجھی جاتی تھی۔ غرض آپ طائف پہنچے اور آپ نے وہاں کچھ دنوں تک بڑے بڑے رؤساء کو تبلیغ کی مگر انہوں نے بھی اسلام کو نہ مانا بلکہ تمسخر سے کام لیا۔ طائف کے رئیس اعظم عبدیا لیل نے اس خیال سے کہ کہیں آپ کی باتوں کا اثر شہر کے نوجوانوں پر نہ ہو جائے آوارہ گرد نوجوانوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپ پر پتھر برسائیں اور شہر کے کتے آپ کے پیچھے لگائیں اور آپ کو گالیاں دیں چنانچہ ان اوباشوں نے آپ کے پیچھے کتے لگا دئیے اور آپ کو سخت گالیاں دیں اور ساتھ ہی آپ پر پتھراؤ شروع کر دیا جس سے آپ کا سارا بدن خون سے تر بتر ہو گیا اور برابر تین میل تک ان اوباشوں نے آپ کا تعاقب کیا اور آپ پر پتھر برساتے آئے۔ طائف سے تین میل کے فاصلہ پر پہنچ کر ان لوگوں نے آپ کا پیچھا چھوڑا مگر اُس وقت تک آپ کا سارا جسم لہو لہان ہو چکا تھا آپ اسی حالت میں تھے کہ خدا تعالیٰ کا فرشتہ آپ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ خداتعالیٰ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور کہا ہے کہ اگر آپ حکم دیں تو میں ابھی یہ پہاڑ جو سامنے دکھائی دیتا ہے اسے طائف کی بستی پر اُلٹ دوں اور اس کو تباہ کر دوں۔ آپ نے فرمایا نہیں نہیں آخر انہی لوگوں نے ایمان لانا ہے اگر ان پر عذاب آگیا اور یہ تباہ ہوگئے تو مجھ پر ایمان کون لائے گا۔۲۲؎ یہ بھی کا نمونہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے طائف والوں کے ظلم وستم کو دیکھ کر اپنے پہاڑوں کے فرشتہ کو آپ کے پاس بھیجا کہ اگر اجازت ہو تو طائف کی بستی کو تباہ کر دیا جائے یہ الگ بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرشتہ کو اس بات کی اجازت نہ دی اور وہ تباہی سے بچ گئے۔
کوئی نادان کہہ سکتا ہے کہ فرشتہ کا آنا ایک خیالی بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آپ پر پہلے بھی کبھی فرشتہ کا نزول ہوا تھا یا نہیںاور پہلے بھی کبھی خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت آپ کے شامل حال ہوئی تھی یا نہیں؟ ہم تو دیکھتے ہیں کہ ہر ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ کی نصرت آپ کے شامل حال رہی اور خدا تعالیٰ کے فرشتے آپ کی مدد کے لئے اترتے رہے۔ کیا حضرت عمرؓ کے گھر سے تلوار لے کر نکلنے کے وقت خدا تعالیٰ کے فرشتے آپ کی مدد کے لئے اُترے تھے یا نہیں؟ کیا ہجرت حبشہ کے بعد خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے اُتر کر مٹھی بھر مسلمانوں کو ظالم کفار کے چنگل میں جانے سے بچایا تھا یا نہیں؟ کیا حضرت ابوبکرؓ کے ہجرت کے ارادہ سے گھر سے نکلنے کے وقت جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس باوفا اور پُرانے دوست کی جدائی کا صدمہ ہونے والا تھا خداتعالیٰ کے فرشتوں کا نزول ہوا تھا یانہیں؟ اور پھر خدا تعالیٰ نے ایک دشمن اسلام کے دل کو حضرت ابوبکرؓ کو پناہ دینے کے لئے نرم کر دیا تھا یا نہیں؟ اسی طرح طائف سے واپسی کے وقت بھی خداتعالیٰ کے فرشتہ کا نزول آپ پر ہوا آگے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرشتہ کو اجازت نہ دی کہ طائف کی بستی کو تباہ کر دیا جائے ورنہ وہ تو حکم کا منتظر تھا اور آپ کے ذرا سے اشارے کی دیر تھی۔
اس کے بعد ایک اور نظارہ آتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے خود دشمنوں کے ہاتھوں آپ کی حفاظت کے سامان پیدا کر دئیے طائف سے تین میل کے فاصلہ پر مکہ کے ایک رئیس عتبہ بن ربیعہ کا ایک باغ تھا جس میں دیگر پھلدار درختوں کے علاوہ انگور وغیرہ بھی تھا۔ جب طائف کے لوگ آپ کا تعاقب کر کے اور آپ پر پتھرؤا کر کے واپس لوٹ گئے تو آپ اس باغ کے درختوں کے سایہ میں ایک جگہ بیٹھ کر سستانے لگے اُس وقت آپ کا دل بہت بوجھل ہورہا تھا اِس غم کے ساتھ کہ یہ سفر بھی خالی گیا اور خدا تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانے والوں میں اضافہ نہ ہوا۔ پھر آپ کا دل ان زخموں کی وجہ سے بھی بوجھل تھا جو طائف کے اوباشوں کے پتھراؤ کی وجہ سے آپ کے جسم پر پڑ گئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انہی کفارِ مکہ کے دلوں کو آپ کے لئے نرم کر دیا جوہمیشہ آپ کو تکلیفیں دیا کرتے تھے۔ـعتبہ اور شیبہ اُس وقت اپنے باغ میں موجود تھے اور انہوں نے دور سے آپ کی ساری حالت دیکھ لی تھی جب انہوں نے یہ دیکھا کہ آپ سخت زخمی حالت میں ایک درخت کے سایہ کے نیچے بیٹھے ہیں تو ان کے دلوں میں دور ونزدیک کی رشتہ داری کا یا کچھ قومی احساس پیدا ہوا اور انہوں نے انگور کے کچھ خوشے توڑ کر ایک طشت میں رکھے اور اپنے ایک عیسائی غلام کے ہاتھ آپ کے لئے بھیجے۔ وہ غلام مذہبًا عیسائی تھا اس نے طشت لا کر آپ کے سامنے رکھ دیا۔ آپ نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحَمٰنِ الرَّحِیْم پڑھ کر انگور کھانے شروع کئے یہ دیکھ کر عیسائی غلام سخت حیران ہوا اور آپ سے کہنے لگا آپ مکہ کے رہنے والے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں! وہ کہنے لگا آپ نے پھر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحَمٰنِ الرَّحِیْم کہاں سے سیکھی ہے؟آپ نے فرمایا میں بے شک مکہ کا رہنے والا ہوں مگر میں خدائے واحد کو ماننے والا ہوں۔ پھر آپ نے پوچھا تم کہا ں کے رہنے والے ہو؟ غلام نے کہا میں نینو اکا رہنے والا ہوں۔ آپ نے فرمایا کیا تم اُسی نینو اکے رہنے والے ہو جو خدا کے صالح بندے یونسؑ بن متّٰی کامسکن تھا؟ عیسائی غلام نے کہا ہاں مگر آپ کو یونسؑ کے متعلق کیسے معلوم ہوا۔ آپ نے فرمایا وہ میرا بھائی تھا کیونکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کا نبی تھا اور میں بھی اللہ تعالیٰ کا نبی ہوں۔ عیسائی غلام نے کہا اچھا آپ کی تعلیم کیا ہے؟ اس پر آپ نے اسے مختصر طور پر اپنی تعلیم سنائی اور اُسے تبلیغ بھی کی وہ غلام آپ کی باتیں سُن کر ایسا مسحور ہوا کہ جوں جوں آپ باتیں کرتے جاتے تھے اُس کے جذبات اُبھرتے جاتے تھے آخر اس نے آپ کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں۔۲۳؎ کیونکہ آپ کی تعلیم نبیوں والی ہے عتبہ اور شیبہ دور بیٹھے اس نظارہ کو حیرانگی کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ جب غلام واپس ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے اسے کہا تم نے یہ کیا حرکت کی تھی کہ اس شخص کے ہاتھ چوم رہے تھے۔ اس نے کہا جو تعلیم میں نے اس شخص کی زبانی سُنی ہے وہ نبیوں والی تعلیم ہے۔ پس پیشتر اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں واپس پہنچتے خدا تعالیٰ نے آپ کو ایک موحّد دے دیا اور آپ کے اُس افسوس کو جو سفر طائف کی وجہ سے آپ کو ہوا تھا دور کر دیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے جسمانی پھل (انگور) بھی انہیں دشمنوں کے ہاتھوں سے دیا جو ہمیشہ آپ کو پتھر مارا کرتے تھے اور روحانی پھل (عیسائی)غلام کا ایمان لانا)بھی انہی دشمنوں کے ہاتھ سے دیا گویا وہ غلام جسمانی پھل آپ کو دے گیا اور آپ سے روحانی پھل لے گیا۔ اُس وقت خدا تعالیٰ عرش پر بیٹھا کہہ رہا تھا کیا اے محمد ﷺ! تیرے دل میں یہ افسوس تھا کہ اِس سفر میں ایک بھی موحّد نہیں ملالو میں نے اس افسوس کو دور کرتے ہوئے ایک موحّد تم کو دے دیااور تیرے دشمنوں کے ہاتھوں سے دیا بے شک وہ موحد ایک غلام تھا مگر وہ دنیا کی نظروں میں غلام تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں وہ غلام نہ تھابلکہ قیصرو کسریٰ اور اور فراعنہ مصر بھی اس کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہ رکھتے تھے۔ یہی وہ غلام تھے جن کو لوگ ذلیل سمجھتے تھے مگر جب اسلامی حکومت کا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا عروج بخشا کہ بڑے بڑے رؤساء ان کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہوگئے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ اپنی خلافت کے ایام میں جب حج کے لئے مکہ مکرمہ آئے تو مکہ کے بڑے بڑے رؤساء ان کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے ۔حضرت عمرؓ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ آپ لوگوں کے نسب ناموں کو یاد رکھنے میں بڑے ماہر تھے اور ان کو مکہ والوں کی کئی کئی نسلوں تک کے نام یاد تھے غرض مکہ کے رؤساء آ پ کے پاس آتے گئے اور آپ انہیں بٹھاتے گئے حتیّٰ کہ ایک لمبی سی قطار بن گئی۔ اس زمانہ میں کوئی بڑے ہال یا بارکیں تو ہوتی نہ تھیں یہی دس دس بارہ فٹ کے کمرے ہوتے تھے اس لئے وہ نوجوان روساء ایک کمرہ میں قطار سی بنا کر بیٹھ گئے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ انہی غلاموں میں سے ایک غلام حضرت عمرؓ کی ملاقات کے لئے آیا حضرت عمرؓ نے رؤساء کی قطار میں سے ایک کو فرمایا ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور انہیں جگہ دے دو۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور غلام آیا تو حضرت عمرؓ نے ایک اور رئیس کو ہٹا کر اس کے بیٹھنے کی جگہ بنائی اسی طرح کئی غلام آئے اور اتنے ہی مکہ کے رؤساء کو کو ہٹا کر ان کے بیٹھنے کی لئے جگہ بنائی حتیّٰ کہ رؤساء جوتیوں والی جگہ میں پہنچ گئے اور آخر وہ اس ذلت اور صدمہ کو برداشت نہ کرتے ہوئے وہاں سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور باہر جا کر ایک دوسرے سے کہنے لگے آج تو ہماری بے عزتی کی حد ہوگئی ہے کہ ہمارے مقابلہ میں غلاموں کو ترجیح دی گئی ہے اُن غلاموں کو جو ہمارے باپ دادا کے وقت سے ذلیل اور حقیر چلے آتے تھے اور ہماری جوتیوں میں بیٹھا کرتے تھے۔ ان رؤساء میں ایک سعیدالفطرت رئیس بھی تھا وہ کہنے لگا آخر اس میں کس کا قصور ہے جب ہم اور ہمارے باپ دادارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دُکھ دیا کرتے تھے، جب ہم اور ہمارے باپ دادا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کو روکنے کی کوششیں کیا کرتے تھے، جب ہم اور ہمارے باپ دادارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی دُکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا رکھتے تھے اور جب ہم نے اور ہمارے باپ دادوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بے وفائی کا سلوک کیا اُس وقت یہی غلام تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار رہے اس لئے اب جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہوچکی ہے یہی لوگ معزز اور مکرم سمجھے جانے کے حق دار ہیں نہ کہ ہم۔ وہ کہنے لگے اب ہماری اس غلطی کا کوئی علاج بھی ہوسکتا ہے یا نہیں؟ وہ رئیس کہنے لگا اِس کے متعلق حضرت عمرؓ سے ہی پوچھنا چاہئے چنانچہ یہ لوگ دوبارہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور عرض کیا کہ ہم آپ سے ایک بات کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا میں آپ لوگوں کی بات کو سمجھ گیا ہوں مگر مجھے افسوس ہے کہ جو سلوک میں نے آپ کے ساتھ کیا ہے اِس کے کرنے کے لئے میں مجبور تھا یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں معزز تھے میں آپ کا غلام ہو کر انہیں مکرم اور معزز نہ سمجھتا۔ پس میں نے آپ لوگوں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ مجبور ہو کر کیا ہے۔ وہ کہنے لگے ہم بھی اس بات کو سمجھ چکے ہیں مگر آپ یہ بتائیں کہ کیا ہماری اور ہمارے باپ دادوں کی اس غلطی کا ازالہ کسی طرح ہوسکتا ہے اور کیا اس بدنما داغ کو کسی طرح دور کیا جا سکتا ہے؟ یہ سن کر حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ رقت کی وجہ سے زبان سے تو ان کو کوئی جواب نہ دے سکے مگر ہاتھ اُٹھا کر شمال کی طرف اشارہ کر دیا جہاں اُن دنوں عیسائیوں سے مسلمانوں کی جنگ ہو رہی تھی۔ آپ کے اشارہ کا مطلب یہ تھا کہ تم لوگ اب اسلامی جنگوں میں شامل ہو کر دشمن کے مقابلہ میں نکلو اور اپنے خون بہا کر اِس داغ کو دور کرو۔ چنانچہ تاریخوں میں آتا ہے کہ وہ رؤساء اس مجلس سے اُٹھتے ہی اپنی اپنی سواریوں پر سوار ہو کر شام کی طرف چلے گئے اور ان میں سے ایک بھی زندہ واپس نہ لوٹا۔۲۴؎ غرض غلاموں کو اسلام میں بڑا مقام حاصل ہوا اور اس نے انہیں عزت اور شرف کے ایک بہت بڑے مینار پر کھڑا کردیا۔
ابوسفیان جب ایمان لایا اور مدینہ میں گیا تو اپنی ریاست کے غرور میں اس نے بعض نازیبا باتیں ایک مجلس میں کہہ دیں جس پر مدینہ کے لوگوں نے جن میں بعض غلام بھی تھے ابوسفیان کے خلاف کچھ باتیں کہیں۔ جب یہ باتیں ہو رہی تھیں تو حضرت ابوبکرؓ کہیں پاس سے گزر رہے تھے وہ باتیں سن کر کھڑے ہوگئے اور ان لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا تم لوگ جانتے نہیں یہ شخص( ابوسفیان) مکہ کا بہت بڑا رئیس ہے۔ اس کے بعد اس خیال سے کہ مدینہ والوں کی باتوں کی وجہ سے ابوسفیان کی دل شکنی نہ ہو اور یہ باتیں سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ناراض نہ ہو جائیں حضرت ابوبکرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں فلاں جگہ سے گزر رہا تھا تو میں نے سنا کہ فلاں فلاں ابتدائی ایمان لانے والوں نے (حضرت ابوبکرؓ نے چندغلاموںکا نام لیا) ابو سفیان کے متعلق بعض سخت الفاظ کہے ہیں حضرت ابوبکرؓ کا تو یہ خیال تھاکہ آپ ان ہتک کرنے والوں کو ڈانٹیں گے مگر آپ کے چہرے پر ناراضگی کے آثار پیدا ہوئے اور آپ نے فرمایا ابوبکر! اگر تم نے کوئی بات کہہ کر اُن کا دل دُکھایا ہے تو تم نے ان کا دل نہیں دکھایا بلکہ خدا تعالیٰ کا دل دُکھایا ہے اور اگر وہ تم پر نارض ہیں تو خدا تعالیٰ بھی تم پر ناراض ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اُسی وقت اُٹھ کر اس مجلس میں گئے اور ان لوگوں سے پوچھا کہ آپ مجھ پر ناراض تو نہیں ہیں؟ اور جب انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں ناراضگی کی کیا بات ہے تو حضرت ابوبکرؓ کو تسلی ہوئی۔۲۵؎
غرض محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کی وجہ سے غلام غلام نہ رہے تھے بلکہ وہ دوسرے رؤساء سے بھی بڑھ کر معزز اور مکرم ہوگئے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو وہ اعزاز بخشا جو عرب کے بڑے بڑے رؤساء کو بھی حاصل نہ تھا۔ جب فتح مکہ کے وقت آپ شہر میں داخل ہوئے تو آپ نے فرمایا جو شخص خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے گا اسے پناہ دی جائے گی، جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اسے بھی امن دیا جائے گا پھر آپ نے اسلامی جھنڈا ایک شخص کے ہاتھ میں دے کر فرمایا یہ بلالؓ کا جھنڈا ہے جو شخص بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے آجائے گا اُس کو بھی امن دیا جائے گا۔۲۶؎ یہ وہی بلالؓ تھا جسے وہ لوگ تپتی ہوئی ریت پر لٹا یا کرتے تھے، جسے مکہ کے پتھریلے میدان میںگرم پتھروں پر ننگا کر کے لٹا دیتے تھے اور سنیے پر پتھر رکھ دیتے تھے، جسے وہ لوگ ٹانگوں میں رسہ ڈال کر شہر کے شریراور اوباش نوجوان اور بچوں کے حوالے کر دیا کرتے تھے اور وہ ان کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹا کرتے تھے، یہ وہی بلال تھے جہنیں مکہ کے لوگ حبشی غلام ہونے کی وجہ سے سخت ذلیل سمجھا کرتے تھے مگر اب اسلام میں داخل ہو جانے کی وجہ سے بلالؓ کو وہ مقام اور رُتبہ حاصل ہوا کہ وہی بلالؓ کو ذلیل سمجھنے والے لوگ اس طرح امان پا سکتے تھے کہ وہ بلال کے جھنڈے کے نیچے آجائیں۔ پس جب طائف کی بستی والوں نے کہا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کو تیار نہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجا بلکہ یونس بن متیٰ پر ایمان لانے والا ایک شخص آپ کو دے دیا اور اس نے آپ کوہی انگور نہ کھلائے بلکہ خود بھی آپ سے روحانی انگور کھاکر واپس ہوا ۔اُس وقت عرش پر خدا تعالیٰ کہہ رہا تھا اے محمد! تو یہ خیال کر رہا تھاکہ اِس سفر میں توحید کے ماننے والوں میں اضافہ نہیںہوا مگرکیا ہم نے تجھے ایک مخلص اور باوفا آدمی دیا یا نہیں دیا۔
اس کے بعد ایک اور شاندار نظارہ ہمیں نظرآتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس باغ میں تھوڑی دیر تک آرام فرمانے کے بعدوہاں سے روانہ ہوئے اور نخلہ میں پہنچے جو مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ وہاں کچھ دن قیام کرنے کے بعد آپ نے مکہ جانے کا ارادہ کیامگر مکہ والوں کا یہ قانون تھا کہ ایک دفعہ جو شخص شہر کو چھوڑ جاتا تھا اُس کے شہریت کے حقوق بھی جاتے رہتے تھے۔ یعنی جب تک کوئی شخص مکہ کو چھوڑ کرنہیںجاتا تھا اسے سیٹزن (Citizen) یعنی شہریت کے حقوق حاصل ہوتے تھے مگر شہر کو ایک دفعہ چھوڑ جانے کے بعد جبکہ شہر کے لوگ اس سے ناراض ہوں اُس کے وہ حقوق چھن جاتے تھے اور دوبارہ اُس شہر میں آنے پر وہ حقوق اُسے اس وقت تک نہ مل سکتے تھے جب تک قانون اُسے اِس کی اجازت نہ دے اور وہ قانون یہ تھا کہ شہر کا کوئی رئیس اُسے اپنی حفاظت میںلے لے۔ چنانچہ آپ نے اِس قانون پر عمل کیا اور حضرت زیدؓ کو مکہ کے ایک رئیس مطعم بن عدی کے پاس بھیجا اور کہلا بھیجا کہ میں مکہ میں دوبارہ داخل ہونا چاہتاہوں کیا تم اس کام میں میری مدد کر سکتے ہو؟ آپ نے کسی ایسے شخص کو پیغام نہ بھیجا جو مخالفت میں پُر جوش نہ تھا بلکہ اس شخص کو پیغام بھیجا جو اسلام کا اشد ترین مخالف تھا اگر کوئی مرنجان مرنج آدمی ہوتا تو لوگ سمجھتے کہ وہ نرم دل آدمی تھا اس لئے اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حفاظت میں لے کر مکہ میں داخل کر لیا مگر مطعم بن عدی اسلام کا سخت مخالف تھا مگر ساتھ ہی یہ بات بھی تھی کہ ایسے حالات میں پناہ دینے سے انکار کرنا شرفائے عرب کی فطرت کے خلاف تھا چنانچہ جب حضرت زیدؓ نے مطعم بن عدی سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری طرف پیغام بھیجا ہے کہ کیا تم مجھے اپنی حفاظت میں لے کر مجھے شہری حقوق دلاسکتے ہو؟ تو وہ بِلاحیل و حجت کھڑاہوگیا اور اس نے اپنے تمام بیٹوں کو جمع کیا اور وہ سب مسلح ہو کر خانہ کعبہ کے پاس کھڑے ہوگئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا کہ آپ آجائیں۔ آپ تشریف لائے اور پہلے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور پھر وہاں سے مطعم بن عدی اور اس کے بیٹو ں کی تلواروں کے سایہ میں اپنے گھر میں داخل ہوگئے۔ اس موقع پر مطعم بن عدی نے اپنے بیٹوں سے کہا یاد رکھو جب تک تمہارے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو جائیں محمدﷺکو کسی قسم کی گزند نہ پہنچنے پائے ساتھ ہی اُس نے مکہ میں اعلان کر دیا کہ میں محمدﷺ کو شہری حقوق دیتا ہوں پس جس وقت شہری حقوق کا سوال آیا اور مکہ والے نہ چاہتے تھے کہ آپ دوبارہ شہر میں داخل ہوں اُس وقت خدا تعالیٰ نے ایک شدید ترین دشمن کے ذریعہ آپ کو مکہ میں داخل کیا اور بتا دیا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہوں؟
(الفضل ۲۳؍ اگست ۵،۷،۸،۹،۱۳،۱۴،۱۶،۱۷،۱۸؍ نومبر ۱۹۶۱ء)
۱؎ الزمر: ۳۷
۲؎ تذکرہ صفحہ۲۵۔ ایڈیشن چہارم
۳؎ زبور باب ۱۱۸ آیت۲۲۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۴؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۱۷۱ تا ۱۷۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۵؎
۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۲۰۰۔۲۰۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۷؎ القصص: ۱۵ ۸؎ الاحقاف: ۱۶ ۹؎ العلق: ۲ تا۶
۱۰؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی (الخ)
۱۱؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۲۶۲ تا ۲۶۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۲؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۲۶۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۳۳۹۔۳۴۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۴؎ بخاری کتاب مناقب الانصار باب ہجرۃ النبیﷺ و اصحابہ (الخ)
۱۵؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۳۱۱۔۳۱۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۶؎
۱۷؎ طٰہٰ: ۱۵
۱۸؎ السیرۃ الحلبیۃ الجزء الاوّل صفحہ۳۶۸۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء
۱۹؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۲۸۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۰؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۱ صفحہ۳۸۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء
۲۱؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۶،۱۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۲؎ مسلم کتاب الجہاد باب مالقی النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اذی (الخ)
۲۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۶۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۴؎ اسد الغابۃ جلد۲ صفحہ۳۷۲ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ
۲۵؎
۲۶؎
۲۷؎ طبقات ابن سعد جلد۱ صفحہ۲۱۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء
الفضل کے اداریہ جات
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سیاستِ حاضرہ
اِس وقت مُلک میں سیاست کا دور دورہ ہے۔ ’’ہندوستان آزاد ہو کر رہے گا‘‘ کے ہندوستانی نعرہ کی جگہ اب برطانوی حُکّام یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ہندوستان کو آزادی دے کر رہیں گے لیکن ہندوستانی ہیں کہ آزادی لینے کا نام نہیں لیتے۔ ہر اک انگریزوں کی طرف دیکھ کر آنکھیں مار رہا ہے کہ میرے دوست یہ خمر لطیف میری جھولی میں پھینکو۔ ہندوؤں کے ظلموں کو دیکھ کر مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا غرض یہ تھی کہ اگر ایک حصۂ مُلک میں ہندو ثقافت کو ترقی کا موقع ملے تو دوسرے میں مسلمان بھی اپنے دل کا جوش نکال لیں۔ پہلے تو اس نعرہ پاکستان کا مقابلہ کانگرس نے اکھنڈ ہندوستان کے ریزولیوشنوں سے کیا لیکن جب دیکھا کہ مسلمانوں کی دلیلیں غیر جانبدار طبقہ پر اثر کر رہی ہیں تو پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا مطالبہ کر دیا جو اکھنڈ ہندوستان کیلئے جان دے رہے تھے۔ ا ب کھنڈے ہوئے پنجاب اور بنگال کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ گاندھی جی کبھی کبھی اکھنڈ ہندوستان کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن دو دلی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک آنکھ سے ایک طرف دیکھتے ہیں تو دوسری سے دوسری طرف۔ اگر اکھنڈ کی آواز میں ہندوجاتی کا زیادہ فائدہ نظر آیا تو وہ اس پر زور دے دیں گے اور اگر کھنڈے ہوئے پنجاب اور بنگال میں ہندو برادری کی جھولی بھری گئی تو وہ اسی کی تائید کر دیں گے۔ بہرحال ان کی حالت اب تک گومگو کی سی ہے باقی کانگرس فیصلہ کر چکی ہے کہ پاکستان کا ہوّا تجویز کرنے والوں کیلئے تقسیم بنگال اور تقسیم پنجاب کے دو ہوّے پیش کر دیئے جائیں کہ مسلمان ڈر کر لوٹ آئیں۔
اب مسلمان گومگو کی حالت میں ہے پنجاب کے اکثر مسلمان تو آنکھیں بند کر کے نعرے لگا رہے ہیں کہ ہم پنجاب کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ بنگال والے ذرا غیر فوجی واقع ہوئے ہیں انہوں نے تو جھٹ سرت بوس اور ان کے ساتھیوں کی دست بوسی شروع کر دی ہے اور ایک بنگال اور آزاد بنگال کی دو کاکلوں ۱؎سے ہندوؤں کو بظاہر شکار کرنا شروع کر دیا ہے مگر حقیقت میں خود شکار ہو رہے ہیں اور کشتی کو منجھدار ۲؎ میں ڈبونے کے لئے تیار ہیں۔ مسلمانوں پر اللہ ہی رحم کرے۔ کوئی نہیں سوچتاکہ اس تقسیم کا سوال اُٹھایا ہی کیوں گیا تھا۔ تقسیم ہند کے مطالبہ کی اصل وجہ یہ تھی کہ مُلک کے ایک حصہ میں جہاں مسلمان زیادہ ہیں مسلمانوں کو اپنی تہذیب کے قوانین کے مطابق بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا موقع مل جائے۔ بے شک جو مسلمان ہندو اکثریت کے صوبوں میں رہ جاتے تھے اُنہیں یہ کہہ کر تسلی دلائی جاتی تھی کہ چونکہ اسلامی علاقوں میں ہندو بھی موجود ہونگے اس لئے ان کے خیال سے آپ لوگوں کو ہندو تکلیف نہ دیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ مقصد ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔ اصل مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں کچھ علاقہ میں مسلمان اپنی مخصوص تہذیب اور قومیت کی بناء پر ترقی کر سکیں قطع نظر اس کے کہ کس قدر حصہ مُلک کا مسلمانوں کے قبضہ میں آئے۔ یہ مقصد ہر ایک ایسی اسلامی حکومت کے ذریعہ سے پورا ہو سکتا ہے جو اپنی ذات میں اپنی خود مختارانہ حیثیت کو قائم رکھ سکے۔ پس یہ بحث اصل مدعا سے دور کا بھی تعلق نہیں رکھتی کہ پنجاب کا کتنا حصہ اسلامی حکومت میں آنا چاہئے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کتنا حصہ اسلامی حکومت میں آ سکتا ہے اور جو آسکتا ہے کیا وہ ایک آزاد اور خود مختار حیثیت سے اپنے آپ کو قائم رکھ سکتاہے؟
سکھوں، ہندوؤں کا یہ مطالبہ ہے کہ جس حصہ میں وہ زیادہ ہیں وہ حصہ باقی پنجاب سے الگ کر دیا جائے۔ یہ مطالبہ اُن کا اِس لئے نہیں کہ وہ پنجاب کے اِس حصہ میں الگ حکومت چاہتے ہیں۔ یہ مطالبہ اِس لئے ہے کہ تا اِس مطالبہ سے ڈر کر مسلمان ہندوستان سے الگ ہونے کا مطالبہ ترک کر دیں گو یہ مطالبہ اصولی طور پر درست نہیں۔ مسلمانوں کا مطالبہ پنجاب بنگال وغیرہ صوبوں میں علیحدہ حکومت قائم کرنے کا اِس دلیل پر نہ تھا کہ ان کے ہر حصہ میں مسلمان زیادہ ہیں بلکہ اِس مطالبہ کی بنیاد یہ تھی کہ اگر سارے ہندوستان میں ہندو تہذیب، ہندو زبان، ہندو تمدن کے بڑھنے کے مواقع پیدا کئے جائیں گے تو ہندوستان کے ایک حصہ میں مسلمانوں کے تمدن اور اِن کی زبان اور اِن کی تہذیب کے بڑھنے کا بھی موقع پیدا ہونا چاہئے۔اگر مسلمانوںکا یہ مطالبہ غلط ہے تو تقسیم ہندوستان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ان کے اس مطالبہ کو صحیح تسلیم کر کے ہندوستان کا تقسیم کا فیصلہ کیا جائے تو تقسیم بنگال یا تقسیم پنجاب کا سوال خارج از بحث ہو جاتا ہے مگر یہ بات کون سمجھائے اور کس کو سمجھائے۔ یہاں تو جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا معاملہ ہے بلکہ آجکل تو لاٹھی بھی اُسی کے ہاتھ میں جس کے ہاتھ میں بھینس۔ مسلمان کی کھوپری لاٹھی کے لئے وقف ہے اور اس کا پیٹ بھینس کے سینگوں کیلئے۔
اِس وقت دنیا یا کہو برطانیہ سکھ ہندو کے مطالبہ کو اس نظر سے دیکھ رہی ہے کہ جہاں سکھوں، ہندوؤں کی اکثریت ہے وہاں انہیں کیوں آزاد نہ کیا جائے میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ یہ دلیل غلط ہے لیکن ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ سرِدست انگریز نے کرنا ہے۔ میں نے یا آپ نے نہیں کرنا بعد میں طاقت پکڑ کر کوئی قوم تبدیلی کرے تو کرلے۔ سرِدست تو کفگیر ۳؎ انگیریزکے ہاتھ میں ہے اور کاسۂ گدائی ہندوستانی کے۔ اگر تقسیم پنجاب اور تقسیم بنگال کا یہ نیا فلسفہ انگریز کی سمجھ میں آ گیا ہے، خواہ غلط طور پر ہی آیا ہو تو اس کا علاج ’’میں نہ مانوں‘‘ سے نہ ہو سکے گا اس کا علاج تدبیر سے ہی ہوگا اور وہ تدبیر کم سے کم پنجاب کی تقسیم کے متعلق موجود ہے۔
پنجاب کی تقسیم کا خیال انگریز کو ہندو کی وجہ سے نہیں بلکہ سکھ کی وجہ سے ہے۔ ہندو اس وقت سکھوں کو آگے کر کے اپنا کام نکال رہا ہے اور سکھوں کو جو نقصان تقسیم پنجاب کی وجہ سے ہوگا اس کا یہ علاج بتا رہا ہے کہ مرکزی پنجاب میں اسے ایک نیم آزاد حکومت مل جائے گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وسطی پنجاب میں سکھ دوسرے علاقوں سے زیادہ ہیں لیکن کسی ایک جگہ بھی وہ ساری قوموں سے زیادہ نہیں اس لئے یہ دعوے اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتے لیکن حکومت کی لالچ بُری شَے ہے۔ یہ سوچنے سے انسان کو عاری کر دیتی ہے اور اس وقت سکھ بھی اس خیالی پلاؤ کے فریب میں آ کر چٹخارے مار رہے ہیں۔ انگریز کہتا ہے کہ اگر میں مسلمان کا مطالبہ مانوں تو ہندو سکھ کا کیوں نہ مانوں۔ مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسی دلیل پیش کرے جسے غیرجانبدار لوگ آسانی سے سمجھ سکیں اور آبادی کی زیادتی وجہ تقسیم نہ قرار پائے۔ ہمارے اتنا کہہ دینے سے کہ ہم تقسیم نہ ہونے دیں گے کچھ نہ بنے گا۔ صرف عقلمندانہ تدبیر ہی اس جگہ کام دے سکتی ہے اور وہ تدبیر یہ ہے کہ ہم مطالبہ کریں کہ اوّل تو ہم تقسیم کے قائل ہی نہیں۔ ہمارا پنجاب کی علیحدگی کا مطالبہ صرف اکثریت کی بناء پر نہ تھا بلکہ اس کی بناء اور امور پر تھی لیکن اگر انگریز اس امر کو نہیں مانتا تو پھر ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ لاہور، ملتان، راولپنڈی کی کمشنریاں اسلامی حکومت میں رہنی چاہئیں۔ اس کا جواب سکھ یہ دیں گے کہ امرتسر میں سکھوں کی زیادتی ہے اس لئے امرتسر کا علاقہ ہندو علاقہ میں جانا چاہئے۔ اگر وہ اس دلیل پر زور دیں تو ہمیں اسے بھی مان لینا چاہئے مگر یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ اس دلیل کے مطابق تحصیل اجنالہ، تحصیل فیروز پور، تحصیل زیرہ، تحصیل جالندھر، تحصیل نکودر مسلمان علاقہ میں ملانی چاہئیں۔ اِسی طرح چونکہ تحصیل ہوشیارپور اور تحصیل دسوہہ میں ہندوؤں اور سکھوںسے مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے ان کو بھی اسلامی علاقہ میں ملانا چاہئے۔ اگر ہندو، سکھ دعویٰ کریں کہ ان علاقوں کی اچھوت آبادی ان کے ساتھ ہے تو ان کی رائے شماری کر لی جائے۔ بظاہر رائے شماری پر اچھوت سب کے سب یا نصف تو ضرور مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو مغربی پنجاب کے ساتھ اجنالہ، فیروزپور، زیرہ، جالندھر، نکودر، ہوشیار پور اور دسوہہ کو بھی ملانا ہوگا۔ جس کے یہ معنی ہوں گے کہ چھ سکھ ضلعوں میں سے گورداسپور تو پہلے ہی مسلم اکثریت کی وجہ سے نکل چکا ہوگا۔ باقی پانچ میں سے قریباً دو ضلعے اس تدبیر سے نکل جائیں گے اور تین ضلعے صرف سکھوںکے لئے رہ جائیں گے اور ان میں سے ہر ایک میں سوائے لدھیانہ کے اسلامی حکومت کا علاقہ گھسا ہوا ہوگا۔ سکھ کسی صورت میں اسے قبول نہیں کریں گے۔ پس سکھوں کی سیاسی حالت یہ رہ جائے گی کہ وہ ضلع امرتسر کو چھوڑ دیں یا امرتسر کی دو تحصیلوں کے بدلہ میں اپنے علاقہ کی چھ تحصیلیں چھوڑ دیں۔ یہ دونوں صورتیں سکھوں کی اس خواب کو پریشان کر دیتی ہیں جو اِس وقت ہندو مسمریزم انہیں دکھا رہا ہے۔ اوّل تو وہ ان دو باتوں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں مان سکتے۔ اگر مانیں گے تو ایک دو سال میں ہی پھر مغربی ہندوستان میں ملنے کی خواہش ان کے دل میں پیدا ہو جائے گی اور ہندوسکھ اتحاد کی قلعی ان پر کھل جائے گی۔ یہ تدبیر مسلمانوں کی ایسی ہوگی کہ انگریز عقلاً اسے ردّ نہیں کر سکے گا نہ دوسرا فریق اِس کو قبول کر سکے گا۔ پس سکھ جلد ہی اِس بات کو سمجھ جائیں گے کہ اُن کا فائدہ مسلمانوں سے ملنے میں ہے جن کے مُلک میں وہ چودہ فی صدی ہیں نہ کہ ہندوؤں کے ساتھ ملنے میں جن کے علاقہ میں وہ ایک فی صدی ہیں اور یہ تبدیلی رائے ان کے آپس کے اختلاف کو دور کر کے باہمی دوستی کے سامان پیدا کر دے گی۔(الفضل قادیان ۲؍ جون ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
قومیں اخلاق سے بنتی ہیں
مسلمانوں کو اِس وقت اخلاق کی سخت ضرورت ہے
پاکستان اور ہندوستان کی دو الگ الگ گورنمنٹیں بننے پر سابق نظامِ حکومت چونکہ درہم برہم ہو گیا اس لئے ہر چیز کو اُٹھا کر نئے سرے سے دوسری جگہ رکھا جا رہا ہے۔ ہندو چونکہ پہلے سے ملازمتوں میں زیادہ تھے ہندوستان یونین کے محکموں میں اتنی ابتری پیدا نہیں ہوئی لیکن پاکستان گورنمنٹ کے محکموں میں بہت زیادہ ابتری پیدا ہوگئی ہے اس لئے کہ ہر محکمہ کے لئے کافی آدمی مہیا نہیں ہو رہے اور اس وجہ سے جس کام کے لئے دس آدمی چاہئیں پانچ میسر آتے ہیں۔ یہ خرابی اِس وجہ سے اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ ابھی بہت سے مسلمان ملازم مشرقی پنجاب اور باقی ہندوستان میں رُکے پڑے ہیں۔ اُن کو ابھی تک مشرقی یا مغربی پاکستان میں پہنچایا نہیں جا سکا۔ اگر وہ آ بھی جائیں تب بھی پاکستان کے تجربہ کار کارکنوں میں بہت بڑی کمی رہ جائے گی لیکن ان کے نہ پہنچنے کی وجہ سے تو بہت زیادہ کمی واقعہ ہوگئی ہے اِس کا علاج حکومت کے پاس کوئی نہیں۔ اس کا علاج خود مسلمان ملازموں کے ہاتھ میں ہے۔ آج ہر مسلمان کو چھ گھنٹے کی بجائے دس یا بارہ گھنٹے دفتر میں کام کرنا چاہئے اور ایک ایک منٹ کو ضائع ہونے سے بچانا چاہئے لیکن مختلف دفاتر سے جو شکایتیں ہمیں پہنچ رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جس محکمہ میں دس آدمیوں کی ضرورت ہے اور وہاں پانچ کام کر رہے ہیں وہ پانچ آدمی بجائے دس یا بارہ کا کام کرنے کے اپنا سارا دن ان شکایتوں میں ضائع کر دیتے ہیں کہ ہم پانچ آدمی دس کا کام کس طرح کریں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کام پانچ کا بھی نہیں ہو تا۔ صفر کے برابر رہ جاتا ہے اس مرض کو جلد سے جلد دور کرنا چاہئے۔ ہر پاکستانی ملازم کو سمجھنا چاہئے کہ حکومت کا استحکام اس کی کوششوں پر منحصر ہے۔ ہر پاکستانی ملازم کو یہ محسوس ہونا چاہئے کہ وہ پاکستانی عمارت کا ایک ستون ہے جس کی کمزوری سے عمارت میں کمزوری واقع ہو جائے گی بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ہر پاکستانی ملازم کو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ پاکستانی حکومت کو قائم کرنے کی ذمہ داری صرف اُس پر ہے اور وہ اِس کے لئے خدا اور اُس کے رسول کے سامنے جواب دہ ہے۔ جب یہ روح پاکستانی ملازموں میں پیدا ہو جائے گی تو یقینا اس بھنور میں پھنسی ہوئی کشتی کو کنارے تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائیںگے۔ پاکستان کے ملازموں پر دو ذمہ داریاں ہیں ایک اچھے شہری کی ذمہ داری جو یونائٹیڈ سٹیٹس امریکہ، انگلستان، روس اور دوسری مہذب گورنمنٹوںکے شہری ادا کر رہے ہیں اور ایک ملت اسلامیہ کی ذمہ داری جو ایک اچھے شہری کی ذمہ داری کے علاوہ ہے۔ ایک یونائٹیڈ سٹیٹس امریکہ کا شہری جو روز خرچ کرتا ہے صرف اس لئے خرچ کرتا ہے کہ اس کی حکومت مضبوط ہو جائے اور باعزت زندگی بسرکر سکے۔ ایک انگلستان کا شہری یا ایک روس کا شہری جتنا زور اپنی حکومت کے استحکام میں لگاتا ہے وہ صرف اس کے اچھے شہری کی ذمہ داری تک محدود ہوتا ہے لیکن پاکستان کے ہر شہری پر اور اس کے ہر کارکن پر دو ذمہ داریاں ہیں اس نے اپنی حکومت کو بھی مضبوط کرنا ہے اور اس نے اسلام کے بچے کھچے آثار کو بھی محفوظ رکھنا ہے۔ پس یورپ اور امریکہ کے اچھے شہریوں کی نسبت اس کی ذمہ داریاں دُگنی ہیں اور اس کو یورپ اور امریکہ کے اچھے شہریوں سے بھی دُگنی محنت کرنی چاہئے۔ اگر اس ذمہ داری کا احساس نہ کیا گیا تو آنے والے خطرات کا مقابلہ پاکستان نہیں کر سکے گا لیکن اگر ان ذمہ داریوں کا احساس کیا گیا تو یقینا پاکستان محفوظ رہے گا اور وہ طاقت پکڑتا چلا جائے گا۔
ہمیں یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ ہمارا مُلک انگلستان سے بہت بڑا ہے اور صرف مشرقی پاکستان کی آبادی انگلستان کی آبادی کے قریباً برابر ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پچھلے دو سَو سال میں انگلستان نے جو شوکت حاصل کی وہ صرف مشرقی پاکستان کے افراد کی بدولت پاکستان حاصل نہ کرسکے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اس کی ساری ذمہ داری پاکستان کے کارکنوں پر ہوگی اور صرف اس وجہ سے اس میں ناکامی ہوگی کہ انہوں نے اپنے فرائض کو پوری طرح ادا نہ کیا۔ آج پاکستان کے ہر کلرک، ہر منشی، ہر چپڑاسی، ہر افسر، ہر ماتحت کو اپنے سابقہ احساسات دل سے یکدم نکال دینے چاہئیں۔ پہلے وہ کلرک تھا، منشی تھا، چپڑاسی تھا، دفتری تھا، افسر تھا یا ماتحت تھا اب وہ ایک عظیم الشان آزاد حکومت کا بانی ہے۔ اگر وہ چاہے تو وہ ایک ایسی عمارت تیار کر سکتا ہے جو تاج محل سے بھی زیادہ شاندار ہو۔ اِس کی قربانیاں اگر انسانوں کی نظر سے پوشیدہ رہیں گی تو خدا تعالیٰ کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہیں گی۔ انگلستان، فرانس اور امریکہ نے گزشتہ جنگوں میں اپنے سپاہیوں کا حوصلہ صرف اس تدبیر سے بڑھا دیا کہ جنگ کے بعد ایک غیرمعروف سپاہی کی لاش کو ایک قومی یادگار کا رُتبہ دے دیا جائے گا۔ ایک غیر معروف سپاہی کی یادگار بنانے کا اعلان اگر سارے سپاہیوں میں ایک زندگی کی روح پیدا کر سکتا ہے اور موت کو ان کی آنکھوں میں حقیر بنا کر دکھا سکتا ہے تو کیا پاکستان کا ہر کارکن اپنے نفس کو یہ کہہ کر بلند نہیں کر سکتا کہ میرا کام خواہ دنیا کی نظروں میںنہ آئے لیکن میرے کام کی وجہ سے جب پاکستان کی بنیادیں مضبوط ہو جائیں گی تو یقینا میرا کام قیامت تک مسلمانوں کی نظروں میں رہے گا اور خواہ وہ میرا نام نہ جانتے ہوں مگر ہر کامیابی کے موقع پر اُن کے دلوںمیں یہ دعا نکلے گی کہ خدا اس کا بھلا کرے جس نے پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط کیا تھا۔
پس اے عزیزو! اپنے وقت کو رائیگاں ہونے سے بچاؤ، لغو بحثیں اور فضول گفتگوئیں دوسروں پر چھوڑ دو۔ ہر دفتر کو مضبوط بنا دو ایسا مضبوط کہ آج کا کوئی کام کل پر نہ پڑے بلکہ کل کا کام بھی آج ہی کیاجائے۔ نظام کو توڑنے کی بجائے اُس کو مضبوط کرو کہ کوئی دفتر نظام کے بغیر چل نہیں سکتا۔ نظام شکایتوں سے نہیں بنا کرے، قربانیوں سے بنا کرتے ہیں۔ اگر کوئی افسر تمہاری حق تلفی کرے گاتو تمہاری نظام کی پابندی خود اس کی بددیانتی کو آشکارا کر دے گی اور تمہارے اچھا کام کرنے سے بُرا کام کرنے والے افسروں کی حقیقت آپ دنیا پر روشن ہو جائے گی۔ نیکی آخر دنیا میں غالب آتی ہے، قربانی آخر لوگوں کی توجہ کو کھینچ لیتی ہے۔ اگر ماتحت عملہ دیانتداری پر قائم ہو جائے گا تو افسر بھی دیانتداری پر مجبور ہو جائے گا۔ بددیانت افسر بددیانت ماتحتوں کے ذریعہ سے ہی حکومت کرتے ہیں۔ اگر ماتحت دیانتدار ہو جائیں تو بددیانت افسر یا اپنا روّیہ بدلنے پر مجبور ہو جاتا ہے یا پھر ذلیل ہو کر نکل جاتا ہے۔ مگر یہ طریق بھی غلط ہے کہ افسر کو ہمیشہ ذلیل سمجھا جائے۔ دیانتدار عنصر ہر گروہ اور ہر گروپ میں ملتا ہے۔ پس جہاں دیانتداری پائی جائے اس کی قدر کرو اور صرف کسی شخص کے دوسرے گروپ میں شامل ہونے کی وجہ سے اس کی حقارت نہ کرو، اس کے کام کی تذلیل نہ کرو، جو افسروں میں دیانتدار ہیں وہ بھی عزت کے قابل ہیں اور جو ماتحتوں میں دیانتدار ہیں وہ بھی قوم کے سردار ہیں۔ اپنے عمل سے ان کو شرمندہ کرو جو دیانتدار نہیں اور اپنے عمل سے ان کو تقویت دو جو دیانتدار ہیں تا کہ پاکستان کا ہر محکمہ اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کرنے لگ جائے۔ ہم پاکستان کے ہر شہری سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ اِسے اِس کام میں پاکستان کی حکومت کی مدد کرنی چاہئے۔ آخر یہ افسر اور کلرک آپ کے بھائی بند ہیں۔ آپ کا بھی فرض ہے کہ اِن کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلائیں۔ ان کی کوتاہیاں آخر آپ کے لئے بھی تباہی کا موجب ہونگی اور اِن کی فرض شناسی آپ کی عزت اور آپ کی حفاظت کا موجب بنے گی۔
پس اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں اور دوستوں کو جو سرکاری محکموں میں ہیں ان کے فرض کی طرف توجہ دلاؤ اور ان سے ایسے کام کروانے کی ہرگز کوشش نہ کرو جن سے ان پر رعایت کا الزام لگے اور وہ بددیانتی کے مرتکب ہوں۔ اس صورت میں آپ ایک پیسے کا فائدہ تو اُٹھائیں گے لیکن ہزاروں ہزار کا نقصان کر دیں گے۔ وہی شہری دنیا میںعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جس کی حکومت مضبوط، مستحکم اور دیانتدار ہو۔ چین کی آبادی چالیس کروڑ ہے لیکن اس کے شہری کو وہ عزت حاصل نہیں جو انگلستان، آسٹریلیا، کینیڈا اور یونائٹیڈ سٹیٹس امریکہ کے شہری کو حاصل ہے اس لئے کہ یہ مُلک گو چھوٹے ہیں مگر ان کی حکومتیں مستحکم اور مضبوط ہیں اور حکومتیں اِسی لئے مستحکم اور مضبوط ہیں کہ اِن کے کارکن دیانتدار اور محنتی ہیں۔ پس ہر شخص کو چاہئے کہ وہ سارا زور استعمال کر کے حکومت کے محکموں کو دیانتدار بنائے۔ اور دیانتداری کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ صرف تمہارا حق ادا ہو بلکہ دیانتداری کے یہ معنی ہیں کہ ہر شخص کا حق ادا ہو۔ یہ دیانتداری نہیں کہ آپ لوگ اس کی تعریف کریں جس نے آپ کا حق ادا کر دیا یا جس سے آپ اپنا حق کسی لحاظ سے ادا کروا سکیں۔ دیانتداری یہ ہے کہ قطع نظر کسی تعلق اور رعایت کے ہر پاکستان کے شہری کا حق ادا کیا جائے خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، امیر ہو یا غریب۔ اور پاکستان کا ہر کارکن محنت کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرے یہاں تک کہ اگر اسے اپنے مقررہ وقت سے دوگنا وقت بھی دفتر میں صرف کرنا پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے۔ اگر پاکستان کے کارکن اس معیارِ اخلاق پر قائم ہو جائیں اور اگر پاکستان کا ہر شہری اپنا حق لینے کی بجائے اپنے عزیزوں اور دوستوں کو جو مختلف دفاتر میں کام کر رہے ہیں اس امر کی طرف توجہ دلائے کہ محنت سے کام کرو، دیانت سے کام کرو، بنی نوع انسان کی ہمدردی کے جذبہ سے کام کرو، پاکستان کو دنیا کی حکومتوں میں ایک معزز جگہ دلانے کی نیت سے کام کرو تو یقینا نتائج شاندار ہونگے۔ ہمارے زخم مندمل ہو جائیں گے، ہمارے نقصانات خدا تعالیٰ دوسرے ذرائع سے پورے کر دیگا اور ان لاکھوں مسلمان مظلوموں کے دل کی آگیں بجھ جائیں گی جن کو اس تغیر کی وجہ سے ایسا نقصان پہنچا ہے کہ سینکڑوں سالوں میں بھی دوسری قوموں کے افراد کو نہیں پہنچا۔
(الفضل لاہور ۲؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مشرقی اور مغربی پنجاب کا تبادلۂ آبادی
ہم شروع سے تبادلۂ آبادی کے خلاف رہے ہیں۔ تبادلۂ آبادی کی وجہ سے جو تباہی اور بربادی آئی ہے اِس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی اور ابھی اس تباہی اور بربادی کا سلسلہ لمبا ہوتا چلا جا رہا ہے اور خدا ہی جانتا ہے کہ کب جا کر ختم ہوگا۔ ہر آدمی جو اِدھر سے اُدھر جاتا ہے وہ حقیقی یا بناوٹی مظالم کی ایک لمبی داستان دوسرے مُلک میں اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور ہر مجلس میں جب وہ ان مظالم کی داستان سناتا ہے تو سامعین کے چہروں کا تأثر اور اُن کی داد اسے اپنی کہانی میں مزید مبالغہ کرنے پر آمادہ کر دیتی ہے یہاں تک کہ ہر نئے شہر اور ہر نئے گاؤں میں اس کی کہانی زیادہ سے زیادہ بھیانک صورت اختیار کرتی چلی جاتی ہے اور ان واقعی یا خیالی داستانوں کا نتیجہ ایک بے انتہاء بغض اور کینہ کی صورت میں لاکھوں آدمیوں کے دلوں میں پیدا ہوتا جاتا ہے جو صرف حال کو ہی مکدر نہیں کرتا بلکہ مستقبل کو بھی بھیانک بناتا چلا جاتا ہے۔ ہمارا تو اب بھی یہی خیال ہے کہ دونوں مُلکوں کی آبادی کو پھر اپنے اپنے گھروں میں بسایا جائے اور اس تبادلۂ آبادی کے سلسلہ کو کلیتًہ روک دیا جائے۔ ہمارے نزدیک یہ اب بھی ممکن ہے بشرطیکہ غیر معمولی جدوجہد اور کوشش سے کام لیا جائے لیکن جب تک خدا تعالیٰـ لیڈروں کے دلوں میں یہ تحریک پیدا نہیں کرتا اور جب تک خدا تعالیـ بھاگنے والوں کے دلوں کو پھر دوبارہ ہمت نہیں بخشتا تب تک مجبوراً دوسری تدبیروں سے کام لینا ہی پڑے گا اور تبادلۂ آبادی کے کام کو کسی بہتر صورت میں سر انجام دینا ہی ہوگا۔ جس وقت تبادلۂ آبادی کا کام شروع ہوا ہے مغربی پنجاب میں غیر مسلم ۳۲ لاکھ کی تعداد میں بستے تھے اور مشرقی پنجاب میں ۴۴ لاکھ مسلمان تھے گویا جب کام شروع ہوا ہے اُسی وقت سے مغربی پنجاب کا کام مشرقی پنجاب کی نسبت زیادہ مشکل تھا۔ دوسری مشکل یہ تھی کہ غیر مسلم اس کام کے لئے پہلے سے تیار تھے اور مسلمان اس کام کیلئے تیار نہیں تھے۔ تیسری مشکل یہ تھی کہ غیر مسلموں کی جائدادوں کا ایک بڑا حصہ سونے اور چاندی اور دوسری قیمتی اشیاء کی صورت میں تھا اور مسلمانوں کی جائداد کا بڑا حصہ زمینوں، مکانوں، مویشیوں اور گھر کے اسباب کی صورت میں تھا۔ ظاہر ہے کہ سونا چاندی اور قیمتی اشیاء بہت تھوڑی سی جدوجہد کے ساتھ ایک طرف سے دوسری طرف منتقل کی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ یہ حصہ مال کا تو پہلے ہی چند دنوں میں سکھ اور ہندو نکال کرلے گئے۔ اس کے بعد چونکہ وہ لوگ پہلے سے تیار تھے انہوں نے اپنے اِردگرد کے مسلمانوںپر حملے کر کے ان کے اموال بھی لُوٹ لئے اور یہ لُوٹا ہوا مال ان ہوائی جہازوں کے ذریعہ سے ہندوستان پہنچانا شروع کیا جو ہندوستان سے مغربی پنجاب کے ہندوؤں اور سکھوں کو نکالنے کے لئے آرہے تھے۔ ان جہازوں میں بِالعموم ہندوؤں اور سکھوں کا اپنا مال نہیں جاتا تھا بلکہ لُوٹا ہوا مال جاتا تھا اپنا مال وہ بعد میں قافلوں کے ذریعہ سے لے گئے اور اس طرح قانونی گرفت سے محفوظ رہے۔
مغربی اور مشرقی پنجاب کے تبادلۂ آبادی کے افسروں میں بھی ایک بہت بڑا فرق تھا مغربی پنجاب کے تبادلۂ آبادی کے افسر انگریز تھے اور ہیں۔ مشرقی پنجاب نے بہت جلد انگریز افسروں کو بدل کر ان کی جگہ ہندو اور سکھ لگا دئیے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ ایک انگریز کو مسلمان کی جان اور مال کی اتنی فکر نہیں جتنی ایک ہندو اور سکھ کو ہندو اور سکھ کے مال اور جان کی فکر ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوؤں اور سکھوں کا خروج بہت جلدی اور بہت عمدگی کے ساتھ ہوتا چلا گیااور مسلمانوں کے اس مُلک کے داخلہ میں مشکلات بھی پیدا ہوئیں اور دیر بھی ہوئی۔ اب یہ حال ہے کہ ۲۲‘۲۷ لاکھ مسلمان مشرقی پنجاب میں پڑا ہے لیکن ہندو اور سکھ مغربی پنجاب میں صرف سات آٹھ لاکھ ہے جس دن یہ سات آٹھ لاکھ ختم ہوگیا مشرقی پنجاب میں باقی رہ جانے والے مسلمانوں کی جانوں کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔ ابھی تو ان سات لاکھ آدمیوں کی حفاظت کے خیال سے مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کی جانوں کی حفاظت بھی بعض افسر کرتے رہتے ہیں۔ جب سب ہندو اور سکھ یہاں سے نکل گئے تو پھر کوئی سیاسی محرک بھی مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی جان بچانے کا باقی نہیں رہے گا۔ پہلے ریلیں چلتی تھیں تاکہ ایک دوسرے کے مُلک کے پناہ گزینوں کو نکال لے جائیں لیکن اب وہ سلسلہ بھی بند ہو رہا ہے۔ اب پیدل قافلے چلتے ہیں مگر مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف مسلمانوں کو منتقل کرنے کے لئے پیدل قافلے بھی اب کم ہی چلتے ہیں بیسیوں جگہیں ایسی ہیں جہاں ہفتوں سے مسلمان پڑے ہیں اور فاقے سے مر رہے ہیں، لوٹے جا رہے ہیں، قتل کئے جا رہے ہیں لیکن ان کے نکالنے کی اب تک کوئی تجویز نہیں کی گئی۔ جالندہر،نکودر،گڑھ شنکر، راہوں،فتح گڑھ چوڑیاں اور قادیان چلّا چلّا کر تھک گئے ہیں لیکن پناہ گزینوں کو نکالنے کے لئے اب تک کوئی انتظام نہیں ہو سکا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کام بہت بڑا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کارکن بہت تھوڑے ہیں اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی گورنمنٹ نے آنے والوں کے بسانے کے متعلق جو کوششیں کی ہیں وہ حیرت انگیز بھی ہیں اور قابلِ قدر بھی لیکن ہمارے نزدیک مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کو نکالنے کی جو تدابیر کی گئی ہیں وہ پوری مؤثر نہیں۔ جب مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب کے درمیان یہ سمجھوتہ ہوا کہ ریفیوجی کیمپ کا بنانا اس مُلک کے اختیار میں ہوگا جس مُلک میں پناہ گزین بیٹھے ہوں گے۔ تو گو یہ معاہدہ مغربی پنجاب کی حکومت نے کسی حکمت کے ماتحت ہی کیا ہوگا اور اس میں کچھ فائدہ ہی اس نے سوچا ہوگا مگر اس دن سے مشرقی پنجاب کے مسلمانوں پر بہت بڑی تباہی آرہی ہے چالیس چالیس، پچاس پچاس ہزار آدمی جن جگہوں پر بیٹھے ہیں ان کو ریفیوجی کیمپ نہیں بنایا جاتا کیونکہ اب مسلمان کے لئے ریفیوجی کیمپ بنانا مشرقی پنجاب کی حکومت کے اختیار میں ہے اور جب مسلمان پناہ گزینوں کے علاقوںکو ریفیوجی کیمپ ہی قرار نہیں دیا جاتا تو اُن کی خوراک کی ذمہ داری بھی مشرقی پنجاب کی حکومت پر عائدنہیں ہوتی۔ اس کی وجہ سے وہ لوگ بھوکوں مر رہے ہیں، وہ گاڑیاں نہیں مانگتے، وہ کچھ اور امداد طلب نہیں کرتے اُن کی فریاد صرف یہی ہے کہ ان کو مشرقی پنجاب سے نکال کر پاکستان کی سرحدوں میں داخل کر دیا جائے۔ یہ بے کس اور بے پناہ ہجوم بعض تو پاکستان کی سرحد کے اتنے قریب بستے ہیں کہ تھوڑی سی جدوجہد سے ان کو نکالا جا سکتا ہے لیکن کوئی نہ کوئی روک ان کو نکالنے میں پیدا ہوتی چلی ہی جاتی ہے۔ ہم مغربی پنجاب کی پاکستانی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ اس امر کی طرف زیادہ توجہ دی جائے ان لوگوں کا لاکھوں روپیہ کا مال لوٹا گیا ہے اور ہر روز ان کی عورتوں کی آبرو ریزی کی جاتی ہے۔ ہماری غیرت اور حمیّت کا تقاضا ہے کہ اور سب کام چھوڑ کر بھی اس کام کو کیا جائے۔ ان لوگوں کے ادھر لانے میں پاکستان کا بھی فائدہ ہے۔ وہ وہاں بے کار بیٹھے ہیں اور ہر روز ان کے مال لوٹے جا رہے ہیں اگر وہ کچھ مال بچاکر لے آئے تو پاکستان کی دولت بڑھے گی اور اگر یہاں آکر انہوں نے مختلف کام شروع کر دئیے تو پاکستان کی اقتصادی حالت میں ترقی ہو گی۔ آج پاکستان کی ہر اسلامی انجمن اور ہر اسلامی ادارے کو اس امر پر اپنی توجہ مبذول کر دینی چاہئے۔ اسی طرح ہر با ہمت اور بارسوخ شخص کو ذمہ دار لوگوں کو توجہ دلانے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ وہ بہادراور قربانی کرنے والے افسر جنہوں نے پہلے بھی بہت کچھ کام اس سلسلہ میں کیا ہے انہیں اپنی ہمت کی کمریں کس کر اور بھی زیادہ جوش سے اس کام کو جلد سے جلد پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے خدا کرے کہ ہماری یہ آواز صدا بصحرا ثابت نہ ہو اور لاکھوں مسلمانوں کی جانیں اس تباہی سے بچ جائیں اور اس بلائے عظیم کے آنے سے پہلے جو کہ دمبدم ان کے قریب آرہی ہے وہ پاکستان میں داخل ہو جائیں۔
حال ہی میں ہندوستان یونین کے پرائم منسٹر مسٹر نہرو نے اعلان کیا ہے کہ مغربی پنجاب کے ہندو اور سکھ کو بہت ہی جلد وہاں سے منتقل کر لیا جائے گا لیکن مشرقی پنجاب کے مسلمان کہیں دسمبر تک جا کر پاکستان میں پہنچ سکیں گے ان الفاظ سے ہر مسلمان حقیقت حال کو سمجھ سکتا ہے۔ اگر یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ سارے ہندواور سکھ اکتوبر میں منتقل ہو جائیں گے تو مسلمانوں کو پورے طور پر منتقل ہونے میں نومبر اور دسمبر دو اور مہینے لگیں گے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ان دو مہینوں میں وہ پاکستان کی طرف منتقل ہوں گے۔ غالب خیال یہی ہے کہ وہ اگلے جہان کی طرف منتقل ہوں گے کیونکہ ہندوستان یونین کے لیڈر گو بڑے زور سے امن کے قیام کی اپیلیں کر رہے ہیں اور ہمارے خیال میں کم سے کم ایک حصہ ضرور دیانتداری سے ایسا کر رہا ہے خصوصاًمسٹر نہرو جن کے خیالات نیشنلسٹ ہیں لیکن باوجود ان اپیلوں کے ماتحت عملہ کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ چھوٹے افسر یہ بات برملا کہتے ہوئے سُنے جاتے ہیں کہ مہماتما گاندھی اور مسٹر نہرو کو باتیں کرنے دو ہم نے جو مقصد اپنے سامنے رکھا ہے اسے پورا کر کے چھوڑیں گے۔ پس پیشتر اس کے کہ مغربی پنجاب ہندو اور سکھ سے خالی ہو مشرقی پنجاب کے پناہ گزینوں کو وہاں سے نکال لینا چاہئے کیونکہ وہ اپنے گھروں کو چھوڑ چکے ہیں اور میدانوں میں پڑے ہیں۔ ہمارے نزدیک ان کا واپس مشرقی پنجاب میں جانا تو ضروری ہے لیکن یہ اُسی وقت ہوگا جب وہ یہاں آکر ذرا امن کا سانس لے لیں۔ ہندوستان یونین اور پاکستان کا بامحبت سمجھوتہ ضروری ہے۔ اس کے بغیر ہمارا مُلک ترقی نہیں کر سکتا ہمیں اس کام کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں مُلکوں کے عقلمنداور مدبر آخر اس خیال کے قائل ہو جائیں گے اور سب مل کر ان فتنوں اور فسادوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن جب تک وہ دن آئیں ہمیں اپنے بھائیوں کی جان و مال، عزت اور آبرو کی حفاظت کا خیال کبھی بھی دل سے اوجھل نہ ہونے دینا چاہئے۔ پاکستان کی بنیاد بے غیرتی پر نہیں بلکہ غیرت پر رکھ جانی چاہئے۔
(الفضل لاہور۳ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
پاکستان کی سیاستِ خارجہ
ہم آج ایک ایسے اہم مضمون کی طرف اپنے اہل وطن کی توجہ پھرانا چاہتے ہیں جو پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ پاکستان کی حکومت بالکل نئی نئی بنی ہے اور ابھی اس کے دفاتر کا چارج تجربہ کار آدمیوں کے ہاتھوں میں نہیں اس وجہ سے اس کے کاموں میں بعض دفعہ ایسی خامیاں رہ جاتی ہیں جو پاکستان کی حکومت کی مضبوطی میں خلل ڈالتی ہیں اور ان کا دور کرنا پاکستان کی حکومت کے ثبات کے لئے نہایت ضروری ہے۔ ان خامیوں میں سے ایک ہمارے نزدیک سیاستِ خارجہ کی پالیسی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیاست خارجہ کے دفتر میں ابھی ماہرین فن موجود نہیں اور ایسے آدمیوں کی کمی ہے جو انٹرنیشنل لاء کے جاننے والے ہوں۔ اس وجہ سے پاکستان حکومت اِس وقت ایک لاوارث وجود کی صورت میں نظر آتی ہے۔ کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ جن سے پاکستانی حکومت کے حقوق کو تلف کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کی حکومت کی طرف سے کوئی مؤثر قدم اُٹھانا تو الگ رہا ان کے خلاف پروٹسٹ تک بھی نہیں کیا جاتا حالانکہ اخلاقی اور سیاسی اصول میں فرق ہے۔ حکومت کا کام صرف یہی نہیں ہوتا کہ وہ اخلاقی اصول کی پیروی کرے اس کا کام یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کرے۔ حضرت مسیح ناصری فرماتے ہیں کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دے۔ اگر کوئی تیری چدر مانگے تو اسے کرتہ بھی دے دے اور اگر کوئی تجھے ایک میل تک بیگار لے جائے تو تو دو میل تک اس کے ساتھ چلا جا۔ یہ ایک اخلاقی تعلیم ہے اور بعض حالتوں میں ضروری اور بعض دوسری حالتوں میں مضر۔ اسی لئے اسلام نے اس تعلیم کو تسلیم نہیں کیا بلکہ مختلف حالات میں مختلف قسم کی تعلیم دی ہے لیکن اخلاقی طور پر خواہ یہ تعلیم بعض وقتوں میں مفید اور ضروری بھی ہوتی ہو سیاسیات میں اس پر عمل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سیاسیات کا اصول یہ ہے کہ اگر کوئی قوم اپنے کسی حق کو بغیر احتجاج کے چھوڑدیتی ہے تو بین الاقوامی اصول کے مطابق یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس قوم نے وہ حق ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا ہے اس لئے جب کبھی حکومتوں کے معاملہ میں ایسا واقعہ پیش آتا ہے کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم کا حق تلف کرتی ہے تو خواہ مظلوم قوم اپنا حق زور سے نہ لے۔ خواہ اس کا بدلہ مانگے ہی نہ، وہ قانونی طور پر اپنے نمائندوں کے ذریعہ سے اس کے خلاف احتجاج ضرور کر دیتی ہے تاکہ وہ ظلم آئندہ دوسری قوم کا حق نہ سمجھ لیا جائے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے حقوق پاکستانی حکومت کے تلف ہو رہے ہیں لیکن ان کے خلاف احتجاج بھی نہیں کیا جار ہا۔
ہندوستان اور پاکستان میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ایک دوسرے کے پناہ گزین جب دوسرے مُلک میں جائیں گے تو ان کے سامان کی تلاشی نہیں لی جائے گی۔ اس معاہدہ کے خلاف بعض جگہ پر پاکستان کے افسروں نے پناہ گزینوں کی تلاشیاں لیں اور بعض جگہ پر ہندوستان کے افسروں نے پاکستان کے پناہ گزینوں کی تلاشیاں لیں۔ ہندوستانی یونین نے احتجاج کیا اور پاکستان کے وزیر خارجہ نے اپنے افسروں کو سخت تنبیہہ کی کہ آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہئے اس کے برخلاف ہندوستانی یونین جو حد سے زیادہ تکلیف دینے والی تلاشیاں مسلمان پناہ گزینوں کی لیتی تھی اورلیتی ہے قادیان سے چلنے والے ٹرکوں کی بعض دفعہ چھ چھ گھنٹہ تک متواتر تلاشی لی جاتی رہی ہے اگر آٹھ دس ٹرک کی چھ گھنٹے تک تلاشی لی جائے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ پچاس ساٹھ ہزار کے قافلہ کی دوتین ماہ تک متواتر تلاشی لی جانی چاہئے۔ جالندھر اور لدھیانہ کے مسلمانوں کو بھی اور فیروز پور کے پناہ گزینوں کو بھی اسی طرح دکھ دیا گیا لیکن اس کے متعلق ہمارے علم میں پاکستانی حکومت نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک طرف تو مسلمانوں میں بددِلّی پیدا ہوگی کہ ہمارے حقوق کی حفاظت کا خیال نہیں رکھا جاتا اور دوسری طرف سیاسی طور پر ہندوستانی یونین کو اپنے حقوق منوانے کے متعلق ایک فوقیت حاصل ہو جائے گی۔ یہ خاموشی سیاسی دنیا میں ہرگز اخلاق نہیں کہلائے گی بلکہ کمزوری کہلائے گی اور ہتھیار رکھنے کے مترادف سمجھی جائے گی۔
اسی طرح پاکستانی حکومت اور ہندوستانی یونین میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ایک دوسرے مُلک سے پناہ گزینوں کے لانے کے لئے ٹرکوں کے جو قافلے جائیں گے ان کے کام میں کسی قسم کی رُکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی لیکن باوجود اس معاہدہ کے جو ٹرک پاکستان سے ہندوستان میں جاتے ہیں ان کے کام میں ہندوستان کے افسر دخل اندازی کرتے ہیں۔ چنانچہ قادیان میں تو یہاں تک کیا گیا کہ پاکستانی گورنمنٹ کی بھیجی ہوئی لاریوں میں قافلوں کے افسر نے جو سواریاں چڑھائیں ان کو زبردستی ملٹری کے کیپٹن نے اتار دیا اور کہا کہ جن لوگوں کو میں بٹھاؤں گا وہ جائیں گے اور جن لوگوں کو میں نہیں بٹھاؤں گا وہ نہیں جائیں گے۔Evacuationکے محکمہ کو اس طرف توجہ دلائی گئی اسی طرح ملٹری افسروں کو اس طرف توجہ دلائی گئی تو انہوں نے میجر جنرل چمنی سے فون پر بات کی انہوں نے کہا مقامی افسر کو ایسا کوئی حق نہیں ہم اس کو سمجھا دیں گے لیکن اس کے بعد پانچ قافلے متواتر گئے ہیں اور پانچوں کے ساتھ اس نے متواتریہی معاملہ کیا ہے یہی حال دوسری جگہوں پر بھی ہوتا رہا ہے اس معاملہ کے متعلق پناہ گزینوں کے محکمہ کو پاکستان کے محکمہ خارجہ کے پاس فوراً رپورٹ کرنی چاہئے تھی اور حکومت پاکستان کے محکمہ خارجہ کو فوراً اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنی چاہئے تھی اور کہنا چاہئے تھا کہ لاریاں ہماری، آدمی ہمارے تم کون ہو جو فیصلہ کر و کہ فلاں آدمی لاریوں میں بیٹھیں، فلاں نہ بیٹھیں اور یہ کہ اگر تم اپنے رویہ کو نہ بدلو گے تو ہم اپنی طرف بھی تمھارے ساتھ یہی سلوک کریں گے۔ جو ہوائی جہاز خاص لوگوں کو لینے کے لئے آتے ہیں ان میں دوسرے لوگوں کو بٹھا دیں گے اور ان کو بیٹھنے نہیں دیں گے جن کو تم بٹھانا چاہو۔ اگر حکومت پاکستان کا محکمہ خارجہ اس پر احتجاج کرتا تو ہندوستانی یونین کو فوراً ہوش آجاتی اور وہ ان نالائق افسروں کو سزا دیتی جو ایسی غیر آئینی کارروائی کر رہے ہیں اور ساری مہذب دنیا پاکستان کی تائید کرتی اور اس کو اپنے مطالبہ میں حق بجانب سمجھتی۔
ریاستوں کے معاملہ میں بھی اپنے حقوق کی پوری طرح حفاظت نہیں کی گئی۔ جونا گڑھ کی ریاست نے پاکستان کی حکومت کے ساتھ ملنے کا فیصلہ کیا اور دونوں میں معاہدہ بھی ہوگیا اس معاہدہ کے بعد ہندوستانی یونین نے اپنا ایک پولیٹکل سیکرٹری ریاست جونا گڑھ سے بات کرنے کے لئے ریاست جونا گڑھ میں بھجوایا اور ان سے مطالبہ کیا کہ ہندوؤں کے حقوق میں کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہونے دیں اور یہ کہ اپنی باجگذار ریاستوں کے معاملہ میں بھی وہ دخل نہیں دیں گے۔ جونا گڑھ معاہدہ کے رو سے اپنے خارجی تعلقات پاکستان کے سپرد کر چکا ہے اور جونا گڑھ کی سیاست خارجہ اب خود جونا گڑھ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ پاکستان کے ہاتھ میں ہے یہ معاہدہ چھپ چکا ہے اور تمام دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ جہاں تک امورخارجہ کا تعلق ہے جونا گڑھ کا تعلق پاکستان سے ویسا ہی ہے جیسا کہ جونا گڑھ کا تعلق وائسرئے کے ساتھ تھا۔ کیا انگریزی حکومت کے دور میں یہ ممکن تھا کہ فرانس اور جرمنی اپنا کوئی افسر براہ راست جونا گڑھ میں بھیج سکتے یا اگر فرانس اور جرمنی ایسا کرتے تو اُسی وقت انگریزی حکومت کان سے پکڑ کر اُن کو باہر نہ نکال دیتی اور ان سے یہ نہ کہتی کہ جونا گڑھ کے امور خارجہ ہمارے متعلق ہیں تمہارا جونا گڑھ سے کوئی تعلق نہیں تم ان کے متعلق ہم سے آکر بات کرو؟ لیکن پاکستان کی حکومت نے اس ہتک کو خاموشی کے ساتھ برداشت کر لیا اور اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستانی یونین کو اور بھی دِلیری پیدا ہوگئی اور اب انہوں نے جونا گڑھ کی ایک آزاد حکومت بمبئی میں قائم کر دی ہے۔ کیا وہ حکومتیں جن کے تعلقات آپس میں دوستانہ اصول پر ہوتے ہیں ان کے مُلک میں کوئی ایسی آزاد حکومت قائم کی جاسکتی ہے؟ جو دوست مُلک کے خلاف ہو۔ ہرانٹرنیشنل لاء کا جاننے والا جانتا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا اس قسم کا فعل دوستانہ تعلقات کے منافی سمجھا جاتا ہے اور فوراً وہ حکومت جس کے کسی علاقہ کے خلاف ایسی بات کی جاتی ہے اس پر احتجاج کرتی ہے اور مخالف حکومت کو پناہ دینے والی حکومت یا اس کو اپنے مُلک سے نکال دیتی ہے یا پھر احتجاج کرنے والی طاقت اس سے اپنے دوستانہ تعلقات منقطع کر دیتی ہے۔
ایک معاملہ کشمیر کا ہے ہندوستان گورنمنٹ بار بار اعلان کرتی رہی ہے کہ ٹراونکور کو آزادی نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس کی سرحدیں ہندوستان کے ساتھ ملتی ہیں۔ حیدرآباد کو آزادی کے اعلان کی اجازت نہیں کیونکہ اس کی اکثریت ہندوستان سے ملنا چاہتی ہے کیا یہی حقوق پاکستان کو کشمیر کے متعلق حاصل نہیں؟ کیا کشمیر کی سینکڑوں میل کی سرحد پنجاب اور صوبہ سرحد کے ساتھ نہیں ملتی؟ کیا اس کے برخلاف ہندوستان کے ساتھ اس کا اتصال نہایت ہی چھوٹا نہیں؟ کیا وہاں کی اسی فیصدی آبادی مسلمان نہیں اور کیا ان کی اکثریت پاکستان کی حامی نہیں؟ پھر ہم نہیں سمجھ سکے کہ پاکستان حکومت نے کیوں بار بار یہ اعلان نہیں کیا کہ کشمیر کے معاملہ میں ہم کوئی دخل اندازی پسند نہیں کریں گے۔ کشمیر کی اکثریت پاکستان میں شامل ہونے کی مدعی ہے جب تک کشمیر میں آزاد حالات کے ماتحت ریفرنڈم نہیں کیا جائے گا ہم کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ شامل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے خصوصاً جبکہ اس کی سرحد سینکڑوں میل تک ہماری سرحدوں سے ملتی ہے اور ہندوستان کے ساتھ اس کا اتصال بہت مختصر ہے۔ اگر سیاسی متداول طریقوں کے ذریعہ سے اس قسم کا احتجاج بار بار کیا جاتا اور اخباروں میں اس کا اعلان کیا جاتا تو یقینا کشمیر کی پوزیشن آج اور ہوتی بلکہ جس طرح جونا گڑھ کے مقابلہ میں ہندوستان یونین نے ایک الگ حکومت قائم کر دی ہے کشمیر کے متعلق بھی پاکستان گورنمنٹ کو یہ اعلان کر دینا چاہئے کہ اگر ہمارے علاقہ میں کشمیر کی کوئی آزاد گورنمنٹ بنی تو ہم اس پر گرفت نہیں کریں گے کیونکہ ایسا ہی طریق ہندوستانی یونین نے اختیار کیا ہے۔ کشمیرکی سیاست سے بے تعلق رہنا اِس وقت پاکستان کی گورنمنٹ کے لئے مناسب نہیں اگر کشمیر ہندوستانی یونین میں گیا تو اس کے تین خطرناک نتائج پیدا ہوں گے۔
اوّل: ۳۲ لاکھ وہاں کا مسلمان اسی طرح ختم کر دیا جائے گا جس طرح مشرقی پنجاب کا مسلمان۔
دوسرے: صوبہ پنجاب بالکل غیر محفوظ ہوجائے گا کیونکہ ہندوستان یونین اور کشمیر اور صوبہ سرحد کے درمیان پنجاب ایک مثلث کی شکل میں ہے اور اس مثلث کے ایک خط پر کشمیر آتا ہے دوسرے خط پر ہندوستان یونین تیسرے خط پر صوبہ سرحد اور کچھ حصہ سندھ کا۔ صاف ظاہر ہے کہ جو مُلک مثلث کے دو مخالف خطوط میں آیا ہوا ہوگا وہ کبھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
تیسرا: خطرہ پاکستان کو یہ ہے کہ شروع سے ہی ہندوستان یونین کی نظریں صوبہ سرحد پر ہیں کروڑوں روپیہ خرچ کر کے وہاں خدائی خدمت گار وغیرہ قسم کی جماعتیں بنائی گئی ہیں۔ کشمیر اگر ہندوستانی یونین کے ساتھ ملے تو ہندوستانی یونین کا براہِ راست صوبہ سرحد کے ساتھ تعلق ہو جائے گا کیونکہ کشمیر کی سرحد صوبہ سرحد اور آزاد قبائلی علاقوں سے ملتی ہے اوروہ نہایت آسانی کے ساتھ مظفر گڑھ، گلگت اور چلاس کے علاقہ سے رائفلیں اور روپیہ اور دوسرا جنگی سامان صوبہ سرحد کے کانگرسی ایجنٹوںمیں تقسیم کر سکیں گے اور صوبہ سرحد کے قبائل کو وظائف وغیرہ دے کر وہ اپنے ساتھ ملا سکیں گے اور پاکستان سے اس کا کوئی مداوا نہ ہو سکے گا۔ صوبہ سرحد میں کانگرس نے دور دور تک اپنے پاؤں پھیلا رکھے ہیں اور اس خطرہ سے پاکستان کو ہرگز غافل نہیں ہونا چاہئے۔ ہم نے وقت پر حکومت اور مُلک کے سامنے سارے خطرات رکھ دئیے ہیں خدا کرے مسلمان اس صدمۂ عـظیم سے بچ جائیں اور ان خطرناک نتائج سے محفوظ ہو جائیں جو کشمیر کے انڈین یونین میں شامل ہونے سے پیدا ہوں گے علاج ان کے ہاتھ میں ہے وہ اب بھی علاج کر سکتے ہیں اور علاج کا کرنا نہ کرنا ان کی مرضی پر منحصر ہے مگر ہم اپنے فرض سے سبکدوش ہوتے ہیں۔ وَمَا عَلَیْنَا اِلاَّالْبَـلَاغُ
(الفضل لاہور ۴ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ء)
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
جماعت احمدیہ کے امتحان کا وقت
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔۴؎
ترجمہ اے مؤمنو! یاد کرو جبکہ تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اور نیچے کی طرف سے بھی دشمن آئے اور پتلیاں خوف سے ٹیـڑھی ہو گئیں اور دل دھڑکتے ہوئے گلے میں آپھنسے اور تم خدا تعالیٰ کے متعلق مختلف قسم کے گمان کرنے لگ گئے اس موقع پر مؤمنوں کے ایمانوں کی آزمائش کی گئی اور انہیں ایک سخت زلزلہ سے ہلا دیا گیا اور جبکہ منافق اور وہ لوگ بھی جن کے دلوں میں کچھ کچھ بے ایمانی کا روگ پیدا ہو رہا تھا بول اُٹھے کہ اللہ اور اُس کے رسول نے ہم سے دھوکا کیا اور جبکہ اسی قسم کے لوگوں میں سے ایک گروہ یہ چہ میگوئیاں کرنے لگ گیا کہ اے مدینہ کے لوگو! اب تمہارے لئے دنیا میں کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اب تم اپنے دین اور ایمان کو چھوڑ کر پھر کفر کی حالت کی طرف لوٹ جاؤ۔ اور اس قسم کے لوگوں میں سے ایک گروہ اللہ کے نبی کے حضور میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ ہمارے گھر بے حفاظت ہیں ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم واپس جاکر اپنے گھروں کی حفاظت کر سکیں۔ حالانکہ ان کے گھر کوئی خاص طور پر بے حفاظت نہیں وہ صرف بھاگ کر اپنی جانیں بچانا چاہتے ہیں۔
قرآن کریم کی یہ آیا ت آجکل پورے طور پر قادیان کے احمدیوں پر اور باقی دنیا کے احمدیوں پر چسپاں ہو رہی ہیں۔ قادیان پر اس کے اوپر سے بھی حملہ ہو رہا ہے یعنی حکام بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور نیچے سے بھی حملہ ہو رہا ہے یعنی سکھ آبادی اس کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آج غم اور صدمہ سے لوگوں کی آنکھیں ٹیڑھی ہوتی چلی جاتی ہیں اور دل واقعہ میں اچھل اچھل کر گلے میں اٹک رہے ہیں اور کئی لوگوں کے دلوں میں یہ شہبات پیدا ہو رہے ہیں کہ کیا احمدیت واقعہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی اور کیا انہوں نے اس کے قبول کرنے میں غلطی تو نہیں کی؟ مؤمنوں کے لئے آج دُہری مصیبت ہے ایک طرف حکام اور رعایا کے ظلموں سے بچنے کیلئے امن پسندانہ کوششیں اور ہتھیلیوں پر جانیں رکھ کر اپنے مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت کا فکر اور دوسری طرف اس قسم کے لوگوں کی باتوں کا جواب دینا اور ان چھپے دشمنوں کے خنجروں کو اپنے سینوں میں بغیر آہ کے چبھنے دینا مگر یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم ہونے والے سلسلوں سے ہمیشہ ہی یہ سلوک ہوتا چلا آیا ہے۔ دیکھ لو قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کو پیش آئیں مگر کیا وہ گھبرائے؟ کیا ان کے قدموں میں کسی قسم کا تزلزل پیش آیا؟ بجائے اس کے کہ ان واقعات کو دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے متعلق ان کے دلوں میں کوئی شبہ پیدا ہوتا ان کے دل ایثار اور قربانی کے جذبات سے اور بھی زیادہ متأثر ہوتے گئے۔ ان کے ایمانوں کی یہ کیفیت تھی کہ دشمن کا پندرہ سے بیس ہزار تک کا لشکر جو صرف سات سَو مسلمانوں کے مقابل پر رات اور دن حملے کر رہا تھا نہ دن کو آرام کرنے دیتا تھا نہ رات کو سونے دیتا تھا جب اُس چھوٹی سی خندق کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کے ساتھ مل کر مدینہ کی حفاظت کے لئے کھو دی ہوئی تھی گھوڑوں پر چڑھ کر عبور کر لیتا تھا اور دشمن کے جتھے جنون کی سی کیفیت کے ساتھ اور آندھی کی سی تیزی کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ وسلم کے خیمہ کی طرف بڑھتے تھے تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے اسلام کا خاتمہ کر دیں تو باوجود اسکے کہ صحابہؓ صرف سات سَو تھے وہ اِس تیزی اور بے جگری کے ساتھ لڑتے کہ ہزاروں ہزارکا لشکر منہ کی کھا کر واپس لوٹ جانے پر مجبور ہو جاتا اور بعض دفعہ ان کے بڑے بڑے لیڈر اِس جنگ میں مارے جاتے۔
ایک دفعہ عرب کا ایک نہایت ہی بڑا لیڈر اس قسم کے حملے میں مارا گیا اور اس کی لاش خندق میں گر گئی تو مکہ والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ یہ ہمارا بڑا لیڈر ہے اس کی لاش ہمیں واپس کی جائے ہم اس کے بدلہ میں ہزاروں روپیہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہم نے اس مُردار کو لے کر کیا کرنا ہے تم اُس کو اٹھا کر لے جاؤ۔ سرمیور جیسا دشمن اسلام اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جنگ احزاب کے موقع پر وہ شدید حملے جو رات اور دن مکہ والوں کی طرف سے ہو رہے تھے اور جن میں مٹھی بھر اسلامی لشکر کے مقابلہ میں ان سے کئی گنا آدمی شامل ہوتے تھے جبکہ مسلمانوں کو دنوں تک نہ کھانے کا موقع ملتا تھا، نہ سونے کا موقع ملتا تھا، نہ بیٹھنے کا موقع ملتا تھا ان میں مکہ والوں کے ناکام رہنے کا صرف ایک سبب تھا اور وہ صحابہؓ کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی۔ دشمن اپنے سامانوں کی فرادانی کی وجہ سے خندق کو کود کر عبور کر لیتا اور اپنی تعداد کی زیادتی کی وجہ سے مسلمانوں کو دھکیل کر پیچھے لے جاتا مگر جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کے پاس پہنچتا تو مسلمانوں کے اندر ایسا جوش پیدا ہو جاتا کہ وہ مافوق الا نسانیت طاقتوں کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کو بچانے کے لئے اپنی جانوں سے بے پرواہ ہو کر اس طرح دشمن پر ٹوٹ پڑتے کہ باوجود کثیر التعداد ہونے کے دشمن کو بھاگنا ہی پڑتا۔ اس چیز کو ایمان کہتے ہیں جو چیز اس سے کم ہے وہ ایمان نہیں وہ تمسخر ہے، وہ دھوکا ہے وہ فریب ہے۔
میں احمدیوں سے کہتا ہوں کہ جب وہ بیعت میں داخل ہوئے تھے تو انہوں نے اقرار کیا تھا کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے اور اس دنیا کے لفظ میں ان کی جانیں بھی شامل تھیں، ان کے بچوں کی جانیں بھی شامل تھیں، ان کی بیویوں اور دوسرے گھر کی مستورات کا مستقبل بھی شامل تھا۔ پس آج جبکہ باوجود ہمارے اس بیان کے کہ ہم جس حکومت کے ماتحت رہیں گے اس کے وفا دار رہیں گے ظالم دشمنوں کو ہم پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ حکومت ان کو سزا دینے کی بجائے ہمارے آدمیوں کو سزا دے رہی ہے۔ ہماری جماعت کے نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ قطعی طور پر بھول جائیں کہ ان کے کوئی عزیز اور رشتہ دار بھی ہیں، وہ بھول جائیں اِس بات کو کہ ان کے سامنے کیا مصائب اور مشکلات ہیں، انہیں صرف ایک ہی بات یاد رکھنی چاہئے کہ انہوں نے خداتعالیٰ سے ایک عہد کیا ہے اور اس عہد کو پورا کرنا ان کا فرض ہے۔ آج خدا ہی ان کا باپ ہونا چاہئے، خدا ہی ان کی ماں ہونی چاہئے اور خدا ہی ان کا عزیز اور رشتہ دار ہونا چاہئے، میرے بیٹوں میں سے آٹھ بالغ بیٹے ہیں اور ان آٹھوں کو میں نے اِس وقت قادیان میں رکھا ہوا ہے۔ میں سب سے پہلے ان ہی کو خطاب کر کے کہتا ہوں اور پھر ہر احمدی نوجوان سے خطاب کر کے کہتا ہوں کہ آج تمہارے ایمان کا امتحان ہے آج ثابت قدمی کے ساتھ قید و بند اور قتل کی پرواہ نہ کرتے ہوئے قادیان میں ٹھہرنا اور اس کے مقدس مقامات کی حفاظت کرنا تمہارے فرائض میں شامل ہے۔ تمہارا کام حکومت سے بغاوت کرنا نہیں، تمہارا کام مُلک میں بدامنی پیدا کرنا نہیں، اسلام تم کو اس بات سے روکتا ہے اگر حکومت ہم کو وہاں سے نکالنا چاہتی ہے تو حکومت کے ذمہ دار افسر ہم کو تحریر دے دیں کہ تم قادیان چھوڑ دو۔ پھر ہم اس سوال پر بھی غور کر لیں گے مگر جب تک حکومت کے ذمہ دار افسر منہ سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم کسی کو یہاں سے نکالنا نہیں چاہتے اور ان کے نائب ہمیں دکھ دے دے کر اپنے مقدس مقامات سے نکالنا چاہتے ہیں اُس وقت تک ان کی یہ کارروائی غیر آئینی کارروائی ہے اور ہم اسے کسی صورت میں تسلیم نہیں کریں گے۔ مشرقی پنجاب سے اسلام کا نام مٹادیا گیا ہے ہزاروں ہزار مسجدیں آج بغیر نمازیوں کے ویران پڑی ہیں جن میں جوئے کھیلے جاتے ہیں، شرابیں پی جاتی ہیں، بدکاریاں کی جاتی ہیں، ہمارا فرض ہے کہ کم سے کم ہم جب تک ہماری جان میں جان ہے مشرقی پنجاب میں قادیان کے ذریعہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بلند رکھیں۔ اسلام کو بغیر قربانی کے ختم نہیں ہونے دینا چاہئے۔ اسلام تو پھر جیتے گا ہی احمدیت تو پھر بھی غالب ہی آئے گی لیکن ہماری بد قسمتی ہوگی اگر ہم اپنے ہاتھوں سے اسلام کا جھنڈا چھوڑ کر بھاگیں۔ میں اگر قادیان سے باہر آیا تو صرف اس لئے کہ جماعت نے کثرت رائے سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جماعت کی تنظیم اور اس کے کام چلانے کے لئے جب تک امن نہ ہو مجھے اور بعض ضروری دفاتر کو قادیان سے باہر رہنا چاہئے تا کہ دنیا کی جماعتوں کے ساتھ مرکز کا تعلق رہے لیکن اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ جماعت کے نوجوان خدانخواستہ اس قربانی کو پیش کرنے کے لئے تیار نہیں جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں تو پھر ان کو صاف لفظوں میں یہ کہہ دینا چاہئے ہم ان کو واپس بُلا لیں گے اور خود ان کی جگہ جانیں دینے کے لئے چلے جائیں گے۔ ہمارا باہر آنااپنی جانیں بچانے کے لئے نہیں بلکہ سلسلہ کے کام کو چلانے کے لئے ہے۔ اگر ہمارا باہر آنا بعض لوگوں کے ایمانوں کو متزلزل کرنے کا موجب ہو تو ہم سلسلہ کی شوریٰ کے فیصلہ کی بھی پرواہ نہیں کریں گے اور ان لوگوں کو جن کے دلوں میں ایمان کی کمزوری ہے اس کام سے فارغ کر کے اللہ تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ رکھتے ہوئے خود اس کام کو شروع کر دیں گے۔ میرا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ قادیان کے اکثر نوجوانوں میں کمزوری پائی جاتی ہے مجھے کثرت کے ساتھ نوجوانوں کی یہ چٹھیاں آرہی ہیں کہ وہ دلیری کے ساتھ اور ہمت کے ساتھ ہر قربانی پیش کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ خود میرے بعض بیٹوں اور بعض دوسرے عزیزوں کی مجھے اس قسم کی چٹھیاں آئی ہیں کہ گو ان کا نام قرعہ کے ذریعہ باہر آنے والوں میں نکلا ہے مگر اُن کو اجازت دی جائے کہ وہ قادیان میں رہ کر خدمت کریں یہی وہ لوگ ہیں جو پختہ ایمان والے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو احمدیت اور اسلام کے جھنڈے کو دنیا میں بلند رکھیں گے خواہ مارے جائیں خواہ زندہ رہیں۔ چاہئے کہ صفائی کے ساتھ اور بار بار حکومت کو جتاتے رہو کہ ہم حکومت کے وفادار ہیں اور ہم ایک اچھے شہر ی کے طور پر اس مُلک میں رہنے کا وعدہ کرتے ہیں اور ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ مسٹر گاندھی اور مسٹر نہرو کی طرف سے اعلان ہو رہے ہیں وہ سچے ہیں جھوٹے نہیں اس لئے ہم ان اعلانوںپر یقین رکھتے ہوئے قادیان میں بیٹھے ہیں اگر ان اعلانوں کا کچھ اور مطلب ہے تو ہمیں کہہ دو کہ قادیان سے چلے جاؤ۔ لیکن اگر مسٹر گاندھی اور مسٹر نہرو کے بیانات صحیح ہیں تو پھر ان کے مطابق عمل کرو اور پُرامن شہریوں کو دِق نہ کرو۔ اس طرح بار بار ان پر حجت تمام کرتے رہو اور قیدو بند اور قتل کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے ایمان کا ثبوت دو اور خدا تعالیٰ پر یقین رکھو کہ اوّل تو فتح اور نصرت کے ساتھ وہ تمہاری مدد کرے گا لیکن اگر تم میں سے بعض کے لئے قیدو بند یا قتل مقدر ہے تو خداتعالیٰ تمہیں ابدی زندگی بخشے گا اور اپنے خاص شہداء میں جگہ دے گا۔ اور کون کہہ سکتا ہے کہ اُس کی ایسی موت اس کی زندگی سے زیادہ شاندار نہیں۔ اللہ تعالیٰ تم لوگوں کا حافظ و ناصر ہو اور تم کو ہر تنگی اور ترشی اور مصیبت اور ابتلاء میں صبر اور توکّل اور ایثار کی توفیق بخشے اور تم اپنا ایمان نہ صرف خدا تعالیٰ کے سامنے سلامت لے جاؤ بلکہ اُس کو نہایت خوبصورت اور حسین بنا کر خداتعالیٰ کی خدمت میں پیش کرو تا خداتعالیٰ تم سے اور تمہاری اولادوں سے (اگر کوئی ہیں) اس سے بھی زیادہ نیک سلوک کرے جتنا تم ان کی زندگی میں ان سے کر سکتے تھے۔
خاکسار
(مرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی)
(الفضل ۴؍اکتوبر ۱۹۴۷ء)
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
قادیان
قادیان اس وقت ہندوستان یونین کی دیانتداری کی آزمائش کا محل بنا ہوا ہے۔ قادیان احمدیہ جماعت کا مرکز ہے جس کا یہ عقیدہ ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہیں اس کے پورے طور پر فرمانبردار اور مدد گار رہیں۔ جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی احمدیہ جماعت ہمیشہ حکومت کے ساتھ تعاون کرتی تھی گو مناسب طریق پر اس کی غلطیوں سے اسے آگاہ بھی کرتی رہتی تھی۔ بعض لوگ جماعت احمدیہ کے اس طریق پر اعتراض کرتے تھے اور اسے انگریزوں کا خوشامدی قرار دیتے تھے۔ جماعت احمدیہ اس کے جواب میں ہمیشہ یہی کہتی تھی کہ ہم صرف انگریزوں کے فرمانبردار نہیں بلکہ افغانستان میں افغانی حکومت کے اور عرب میں عربی حکومت کے۔ مصر میں مصری حکومت کے اور اسی طرح دوسرے ممالک میں اُن کی حکومتوں کے فرمانبردار اور مدد گار ہیں ہمارے نزدیک دنیا کا امن بغیر اِس کے قائم ہی نہیں رہ سکتا کہ ہر حکومت میں بسنے والے لوگ اُس کے ساتھ تعاون کریں اور اُس کے مدد گار ہوں۔ پچھلے پچاس سال میں جماعت احمدیہ نے اس تعلیم پر عمل کیا ہے اور آئندہ بھی وہ اس تعلیم پر عمل کرے گی۔ جب ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور اُس میں ہندوستان یونین اور پاکستان قائم ہوئے تو اُس وقت بھی جماعت احمدیہ نے اعلان کیا کہ ہندوستان یونین میں رہنے والے احمدی ہندوستان یونین کی پوری طرح اطاعت کریں گے اور پاکستان میں رہنے والے احمدی پاکستان حکومت کے متعلق جانثاری اور اطاعت سے کام لیں گے۔ پاکستان حکومت نے تو ان کے اس اعلان کی قدر کی اور اچھے شہریوں کی طرف اس سے برتاؤ کیا لیکن ہندوستان یونین نے ان کے اس اعلان کی ذرا بھی قدر نہیں کی اور ۱۶؍ اگست کے بعد پہلے قادیان کے اِردگرد اور پھر قادیان میں وہ فساد مچوایا کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں۔ ایک ایک کر کے احمدی گاؤں کو برباد کیا گیا اور جنہوں نے دفاع کی کوشش کی اُن کو پولیس اور ملٹری نے گولیوں سے مارا۔ جب قادیان کے اِردگرد گاؤں ختم ہوگئے تو پھر قادیان پر حملہ شروع ہوا۔ احمدی جماعت کے معززین یکے بعد دیگرے گرفتار ہونے شروع ہوئے قتل ڈاکے اور خونریزی کے الزام میں۔ گویا وہ جماعت جس نے اپنی طاقت اور قوت کے زمانہ میں قادیان کے رہنے والے کمزور اور قلیل التعداد ہندوؤں اور سکھوں کو کبھی تھپڑ بھی نہیں مارا تھا اس نے تمام علاقہ کے مسلمانوں سے خالی ہو جانے کے بعد اور سکھ پولیس اور ہندو ملٹری کے آ جانے کے بعد ان علاقوں میں نکل کر جن میں کوئی مسلمان نہ دن کو جا سکتا تھا نہ رات کو ڈاکے مارے اور قتل کئے اور یہ ڈاکے اور قتل بھی اُن لوگوں نے کئے جو جماعت کے چوٹی کے آدمی تھے جن میں سے بعض ساٹھ سال کی عمر کے تھے، مرکزی نظام کے سیکرٹری تھے اور یونیورسٹیوں کے گریجوایٹ تھے گویا احمدیہ جماعت جو اپنی عقل اور دانائی میں دنیا بھر میں مشہور تھی اُس وقت اُس کی عقل کا دیوالہ نکل گیا اور سکھ اور ہندو ملٹری کے آنے کے بعد اس نے اپنے مرکزی کارکنوں کو زمیندار سکھوں کو مروانے کے لئے باہر بھیجنا شروع کر دیا اور اس کے گریجوائٹ مبلّغ ڈاکے مارنے کے لئے نکل پڑے۔ شاید پاگل خانہ کے ساکن تو اس کہانی کو مان لیںمگر عقل مند لوگ ان باتوں کو قبول نہیں کر سکتے شاید ہندوستان یونین کے افسر یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا ان کی ہر بے وقوفی کی بات مان لے گی یا شاید وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے سوا باقی ساری دنیا جاہل یا مجنوں ہے۔ ہندوستان یونین کے وزراء نے بار بار یہ اعلان کیا ہے کہ وہ کسی مسلمان کو اپنے مُلک سے نکل جانے پر مجبور نہیں کرتے لیکن قادیان کی مثال موجود ہے کہ ان لوگوں کو جو ہندوستان یونین میں رہنے پر راضی ہی نہیں بلکہ مصر ہیں طرح طرح کی تکلیفیں پہنچا کر پولیس اور ملٹری کے زور سے نکالنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ قادیان کے متعلق ہندوستان یونین دنیا کو کیا جواب دے گی۔ کیا وہ یہ کہے گی کہ یہ لوگ اپنے مقدس مذہبی مقام کو چھوڑ کر جارہے تھے ہم نے ان کو روکا نہیں یا وہ یہ کہے گی کہ ایک کیپٹن اور ایک پوری کمپنی ملٹری کی وہاں موجود تھی اور اس کے علاوہ پولیس کا تھانہ بھی وہاں موجود تھا۳۰۳ کی رائفلوں کے علاوہ سٹین گن اوربرین گن بھی موجود تھیں مگر ان کے باوجود ہندوستان یونین ان سکھوں کے حملوں کو نہ روک سکی جو قادیان پر حملہ کر رہے تھے اور ان احمدیوں کو اپنے مکانات خالی کرنے پڑے جن کے بڈھے ہی بقول ہندوستان یونین اِس فتنہ کے زمانہ میں بھی آٹھ آٹھ دس دس میل باہر جا کر سکھوں کو مار رہے تھے اور جن کے مبلغ اور گریجوائٹ اِردگرد کے سکھوں کے دیہات پر جا کر ڈاکے مار رہے تھے۔ کیا دنیا کا کوئی شخص اس کو تسلیم کر سکے گا کہ یہ باہر نکل نکل کر ڈاکے مارنے قتل کرنے والے لوگ ان سکھ جتھوں سے ڈر کر جن کے مالوں کو لوٹنے کے لئے وہ باہر جاتے تھے اپنے مکان چھوڑ دیں گے اور ملٹری اور پولیس بھی ان بہادر سکھوں کے مقابلہ میں بے کار ہو جائے گی جن کے گاؤں میں دو دو احمدی جا کر ڈاکہ مارنے کے قابل ہو سکے اور جنہیں سلسلہ احمدیہ کے بُڈھے سیکرٹری اِردگرد کے علاقوں میں گولیوں کا نشانہ بناتے پھرتے تھے۔ ہر عقلمند انسان اس بات کو تسلیم کرے گا کہ دونوں کہانیوں میں سے ایک کہانی جھوٹی ہے اور یا پھر دونوں ہی جھوٹی ہیںاور حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں کہانیاں ہی جھوٹی ہیں۔ آج ہندوستان یونین کے افسر حکومت کے نشہ میں اِس قسم کے افتراء کو معقول قرار دے سکتے ہیں مگر آئندہ زمانہ میںمؤرخ اِن کہانیوں کو دنیا کے بدترین جھوٹوں میں سے قرار دیں گے۔ احمدیہ جماعت قادیان میں بیٹھی ہے اور اپنے عقائد کے مطابق بار بار حکومت کو کہہ چکی ہے کہ ہم یہاں رہنا چاہتے ہیں لیکن اگر تم ہمارا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے تو ہمیں حکم دے دو پھر ہم تمہارے اس حکم کے متعلق غور کر کے کوئی فیصلہ کریں گے لیکن ہندوستان یونین کے افسر ایسا نہیں کرتے اور نہ وہ ایسا کرسکتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس سے ان کی ناک کٹ جائے گی اور وہ دنیا میں ذلیل ہو جائیں گے۔ وہ گولیوں کی بوچھاڑوں اور پولیس اور ملٹری کی مدد سے بغیر کسی آئینی وجہ کی موجودگی کے احمدیوں کو قادیان سے نکالنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ تازہ اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ چنددن سے قادیان جانے والی لاریوں کو سٹرک کی خرابی کے بہانہ سے روکا جا رہا ہے لیکن اصل منشاء یہ ہے کہ دنیا سے قادیان کو کاٹ کر وہاں من مانی کارروائیاں کی جائیں چنانچہ ہفتہ اور اتوارکی درمیانی رات کو جبکہ سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر سے انتظامی معاملات کے متعلق فون پر بات کر رہے تھے انہیں یکدم قادیان کے فون کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ قادیان کا کوئی شخص ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو فون کر رہا ہے وہ ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو یہ اطلاع دے رہا تھا کہ د و دن سے یہاں گولی چلائی جا رہی ہے قادیان کے دو محلوں کو لوٹا جا چکا ہے اور ان محلوں کے احمدی سمٹ کر دوسرے محلوں میں چلے گئے ہیں اور یہ گولی پولیس اور ملٹری کی طرف سے چلائی جا رہی ہے۔ اس خبر کے سننے کے بعد ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے ڈپٹی کمشنر گورداسپور سے پوچھا کہ آپ نے یہ بات سنی؟ اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟ انہوںنے کہا ہمیں یہ تو اطلاع تھی کہ بھینی پر سکھ حملہ کر رہے ہیں مگر یہ اطلاع نہیں تھی کہ قادیان پر سکھ حملہ کر رہے ہیں گویا بھینی میں انسان نہیں بستے اور وہ ہندوستان یونین کے شہری نہیں اور اس لئے بھینی میں مسلمانوں کا خون بالکل ارزاں ہے اِس پر ڈی ۔سی سیالکوٹ نے کہا اب آپ کیا کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ تو ڈی ۔سی گورداسپور نے جواب دیا کہ میں کل سپرنٹنڈنٹ پولیس کو وہاں بھجواؤں گا۔ ڈی سی سیالکوٹ نے اُن کو کہا یہ اس قسم کا اہم معاملہ ہے کہ اِس میں آپ کو خود جانا چاہئے آپ خود کیوں نہیں جاتے؟ انہوں نے کہا اچھا میں خود ہی جاؤنگا۔ اس کے بعد قادیان سے فون پر حالات معلوم کرنے کی کوشش کی گئی اور اتفاقاً فون مل گیا جو اکثر نہیں ملا کرتا۔ اس فون کے ذریعہ جو حالات معلوم ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ کل تک ۱۵۰ آدمی مارا جا چکا ہے جن میں سے دو آدمی مسجد کے اندر مارے گئے ہیں۔ احمدیہ کالج پر بھی پولیس اور ملٹری نے قبضہ کر لیا ہے اور دو احمدی محلے لٹوا دئیے ہیں دارالانوار اور دارالرحمت، دارالانوار میں سر ظفراللہ خان کی کوٹھی بھی اور امام جماعت احمدیہ کا بیرونی گھربھی لوٹا گیا ہے۔ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ اب ان باتوں کا نتیجہ کیا ہوگا؟ جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں احمدیہ جماعت کا یہ مسلک نہیں کہ وہ حکومت سے ٹکر کھائے اگر سکھ جتھے ایک ایک احمدی کے مقابلہ میں سَوسَو سکھ بھی لائیں گے تو قادیان کے احمدی ان کا مقابلہ کریں گے اور آخر دم تک ان کا مقابلہ کریں گے لیکن جہاں جہاں پولیس اور ملٹری حملہ کرے گی وہ ان سے لڑائی نہیں کریں گے اپنی جگہ پر چمٹے رہنے کی کوشش کریں گے مگرجس جگہ سے ملٹری اور پولیس ان کو زور سے نکال دے گی اُس کو وہ خالی کر دیں گے اور دنیا پر یہ ثابت کر دیں گے کہ ہندوستان یونین کا یہ دعویٰ بالکل جھوٹا ہے کہ جو ہندوستان یونین میں رہنا چاہے خوشی سے رہ سکتا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو آپ لوگ اپنے آدمیوں کی جانیں کیوں خطرہ میں ڈال رہے ہیں آپ قادیان کو فوراً خالی کر دیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم قایان میں تین اصول کو مدنظر رکھ کر ٹھہرے ہوئے ہیں۔
اوّل مؤمن کو خدا تعالیٰ کی مدد سے آخر وقت تک مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ جب تک ہم کو پکڑ کر نہیں نکالا جاتا، ہمیں کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا کی مشیت اور خدا کا فیصلہ کیا ہے اس لئے احمدی وہاں ڈٹے رہیں گے تا کہ خدا تعالیٰ کے سامنے ان پر یہ حجت نہ کی جائے کہ خدا کی نصرت تو آ رہی تھی تم نے اس سے پہلے کیوںمایوسی ظاہر کی۔
دوسرے جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے احمدیوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ ہندوستان یونین کے دعوؤں کی آزمائش کریں گے اور یہ حقیقت آشکار کر کے چھوڑیں گے کہ جب وہ کہتے ہیں کہ کسی کو ہندوستان یونین سے جانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا تو وہ سچ کہتے ہیں یا جھوٹ۔ احمدی چاہتے ہیں کہ انہیں بھی معلوم ہو جائے اور دنیا کو بھی معلوم ہو جائے کہ ہندوستان یونین کے وزراء جھوٹے ہیں یا سچے۔ بے شک احمدیوں کو وہاں ٹھہرے رہنے میں قربانی کرنی پڑے گی لیکن ان کے وہاں ٹھہرے رہنے سے ایک عظیم الشان حقیقت آشکار ہو جائے گی یا تو دنیا کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ ہندوستان یونین کے افسر نیک نیتی اور دیانتداری کے ساتھ اپنے مُلک میں امن قائم رکھنا چاہتے تھے اور یا دنیا پر یہ ظاہر ہو جائے گا کہ وہ منہ سے کچھ اور کہتے تھے اور ان کے دلوں میں کچھ اور تھا کیونکہ قادیان سے احمدیوں کانکالا جانا ایک فوری واقعہ نہیں تھا کہ جس کی اصلاح ان کے اختیار میں نہیں تھی۔ قادیان پر حملہ ایک مہینہ سے زیادہ عرصہ سے چلا آرہا ہے، اس کے علاوہ خود میں نے پنڈت جواہر لال صاحب نہرو سے باتیں کیں اور اُن کو اس طرف توجہ دلائی ۔ پنڈت جواہر لال صاحب نہرو نے مجھے یقین دلایا کہ ہندوستان یونین ہرگز مسلمانوں کو اپنے علاقے سے نکلنے پر مجبور نہیں کرتی، انہوں نے مجھے یقین دلایاکہ تین چار دنوں تک وہ فون اور تار کے راستے کھلوانے کی کوشش کریں گے اور دو ہفتہ تک قادیان کی ریل گاڑی کے جاری کروانے کی کوشش کریں گے۔ احمدیہ جماعت کا وفد سردار بلدیو سنگھ صاحب سے بھی ملا اور انہوں نے اصلاح کی ذمہ داری لی اور یہاں تک کہا کہ وہ خود قادیان جا کر ان معاملات کو درست کرنے کی کوشش کریں گے۔ احمدیہ جماعت کے وفد نے ہندوستان کے ہائی کمشنر مسٹر سری پرکاش صاحب سے کراچی میں ملاقات کی اور ان کو یہ واقعات بتائے اُنہوں نے کہا میں نے ہندوستان یونین کو اس طرف توجہ دلائی ہے اور دو تاریں اس کے متعلق دی ہیں مگر مجھے جواب نہیں ملا۔ احمدیہ جماعت کا وفد اِس عرصہ میں سردار سمپورن سنگھ صاحب ڈپٹی ہائی کمشنر ہندوستان یونین سے ملا اور متعدد بار ملا اُنہوں نے یقین دلایا کہ اُنہوں نے افسران کی توجہ کو اِس طرف پھیرایا ہے اور اُنہوں نے ایک خط بھی دکھایا جو اُنہوں نے ڈاکٹر بھارگوا صاحب وزیر اعظم مشرقی پنجاب اور سردار سورن سنگھ صاحب ہوم منسٹر مشرقی پنجاب کو لکھا تھا جس کا مضمون یہ تھا کہ مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہو گیا ہے۔ اب صرف قادیان باقی ہے یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے اور احمدیہ جماعت کا مقدس مذہبی مرکز ہے اسے تباہ کرنے میں مجھے کوئی حکمت نظر نہیں آتی، اگر اس کی حفاظت کی جائے تو یہ زیادہ معقول ہوگا۔ پھر ڈپٹی ہائی کمشنر کے مشورہ سے احمدیہ جماعت کا ایک وفد جالندھر گیا اور ڈاکٹر بھارگوا صاحب اور سردار سورن سنگھ صاحب سے ملا اور چوہدری لہری سنگھ صاحب سے ملا۔ ان لوگوں نے یقین دلایا کہ وہ احمدیہ جماعت کے مرکز کو ہندوستان یونین میں رہنے کو ایک اچھی بات سمجھتے ہیں، اچھی بات ہی نہیں بلکہ قابل فخر بات سمجھتے ہیں اور یہ کہ وہ فوراً اس معاملہ میں دخل دیں گے۔ پھر اس بارہ میں لارڈمونٹ بیٹن کو بھی متواتر تاریں دی گئیں، مسٹر گاندھی کو بھی متواتر تاریں دی گئیں بہت سے ممالک سے ہندوستان یونین کے وزراء کو تاریں آئیں۔ انگلستان کے نومسلموں کا وفد مسٹر ہینڈرسن سے جو ہندوستان کے معاملات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ملا۔ مسزوجے لکشمی پنڈت نے بھی اپنے بھائی کو تار دی۔ اس عرصہ میں قادیان کے بہادر باشندے انسانوں کے ڈر کو دل سے نکال کر پولیس ملٹری اور سکھ جتھوں کے مشترکہ حملوں کو برداشت کرتے چلے گئے لیکن اس تمام لمبے زمانہ میں حکومت کی طرف سے کوئی قدم اصلاح کا نہیں اُٹھایا گیا ان واقعات کی موجودگی میں ہندوستان یونین یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہمیں اصلاح کا موقع نہیں ملا۔
تیسرے اپنے مقدس مقامات کو یونہی چھوڑ دینا ایک گناہ کی بات ہے۔ جب تک تمام ممکن انسانی کوششیں اس کے بچانے کے لئے خرچ نہ کی جائیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کام میں احمدیہ جماعت کو بہت سی قربانی کرنی پڑے گی اور بظاہر دنیا کو وہ بیکار نظر آئے گی لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر بتایا ہے حقیقت میں وہ بے کار نہیں ہوگی۔ وہ قربانی جو قادیان کے احمدی پیش کریں گے وہ پاکستان کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں کام آئے گی اور اگر ہندوستان یونین نے اب بھی اپنا رویہ بدل لیا تو اس کا یہ رویہ ایک پائدار صلح کی بنیاد رکھنے میں ممد ہوگا۔
جماعت احمدیہ کمزور ہے اور ایک علمی جماعت ہے وہ فوجی کاموں سے ناواقف ہے لیکن وہ اسلام کی عزت قائم رکھنے کیلئے اپنے ناچیز خون کو پیش کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ ہمارے سینکڑوں عزیز بھاگتے ہوئے نہیں اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہوئے مارے گئے ہیں اور شاید اور بھی مارے جائیں کم سے کم لوکل حکّام کی نیت یہی معلوم ہوتی ہے کہ سب کے سب مارے جائیں لیکن ہم خدا تعالیٰ سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کرے گا اور ہمارے دلوں کو صبر اور ایمان بخشے گا۔ ہمارے مارے جانے والوں کی قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی۔ وہ ہندوستان میں اسلام کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں کام آئیں گی خدا کرے ایساہی ہو۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
(الفضل لاہور۷؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء)
ہم قادیان کے متعلق پہلے کچھ حالات لکھ چکے ہیںہم بتا چکے ہیں کہ قادیان اور مشرقی پنجاب کے دوسرے شہروں میں فرق ہے۔ قادیان کے باشندے قادیان میں رہنا چاہتے ہیں لیکن مشرقی پنجاب کے دوسرے شہروں کے باشندوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ مشرقی پنجاب میں نہ رہیں۔ ہندوستان یونین کی گورنمنٹ بار بار کہہ چکی ہے کہ ہم کسی کو نکالتے نہیں لیکن قادیان کے واقعات اس کے اس دعویٰ کی کامل طور پر تردید کرتے ہیں۔ حال ہی میں قادیان کے کچھ ذمہ وار افسر گورنمنٹ افسروں سے ملے اور باتوں باتوں میں ان سے کہا کہ آپ لوگ اپنی پالیسی ہم پر واضح کر دیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم قادیان کو چھوڑ دیں تو پھر صفائی کے ساتھ اس بات کا اظہار کر دیں۔ افسر مجاز نے جواب دیا کہ ہم ایسا ہرگز نہیں چاہتے ہم چاہتے ہیں کہ آپ قادیان میں رہیں۔ جب اُسے کہا گیا کہ وہ کہاں رہیں پولیس اور ملٹری کی مدد سے سکھوں نے تو سب محلوں کے احمدیوں کو زبردستی نکال دیا ہے اور سب اسباب لوٹ لیا ہے آپ ہمارے مکان خالی کرا دیں تو ہم رہنے کیلئے تیار ہیں تو اِس پر افسر مجاز بالکل خاموش ہو گیا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ درحقیقت وہ افسر خود تو دیانتدار ہی تھا لیکن وہ وہی کچھ رٹ لگا رہا تھا جو اسے اوپر سے سکھایا گیا تھا جب اس پر اپنے دعویٰ کا بودا ہونا ثابت ہو گیا تو خاموشی کے سوا اس نے کوئی چارہ نہ دیکھا۔ شاید دل ہی دل میں وہ ان افسروں کو گالیاں دیتا ہوگا جنہوں نے اسے یہ خلافِ عقل بات سکھائی تھی۔
قادیان کے تازہ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ لکڑی قریباً ختم ہے گندم بھی ختم ہو رہی ہے۔ گورنمنٹ کی طرف سے غذا مہیا کرنے کا کوئی انتظام نہیں۔ اب تک ایک چھٹانک آٹا بھی گورنمنٹ نے مہیا نہیںکیا۔ عورتوں اور بچوں کو نکالنے کا جو انتظام تھا اس میں دیدہ دانستہ روکیں ڈالی جا رہی ہیں۔بارش ہوئے کو آج نو دن ہو چکے ہیں، بارش کے بعد قادیان سے دو قافلے آچکے ہیں۔ اسی طرح قریباً روزانہ ہندوستانی یونین کے ٹرکس فوج یا پولیس سے متعلق قادیان آتے جاتے ہیں اور اس کے ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں۔ چار تاریخ کو پولیس کا ایک ٹرک قادیان سے چل کر واہگہ تک آیا۔ تین تاریخ کو پاکستان کے اُن فوجی افسروں کے سامنے جو گورداسپور کی فوج سے قادیان جانے کی اجازت لینے گئے تھے ایک فوجی افسر نے آ کر میجر سے پوچھا کہ وہ ٹرک جو قادیان جانا تھا کس وقت جائے گا؟ پاکستانی افسروں کی موجودگی میںاِس سوال کو سُن کر میجر گھبرا گیا اور اُس کو اشارہ سے کہا چلا جا اور پھر پاکستانی افسروں کو کہا اس شخص کو غلطی لگی ہے۔ قادیان کوئی ٹرک نہیں جا سکتا۔ چار ہی تاریخ کو پاکستان کے جو ٹرک قادیان گئے تھے اور اُن کو بٹالہ میں روکا گیا تھا انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دو ملٹری کے ٹرک قادیان سے بٹالہ آئے۔ سب سے کھلا ثبوت اس بات کے غلط ہونے کا تو یہ ہے کہ انہی تاریخوں میں جن میں کہا جاتا ہے کہ قادیان جانے والی سڑک خراب ہے، پُرانی ملٹری قادیان سے باہر آئی ہے اور نئی ملٹری قادیان گئی ہے کیا یہ تبدیلی ہوائی جہازوں کے ذریعہ سے ہوئی ہے یقینا ٹرکوں کے ذریعہ سے ہوئی ہے۔ پس یہ بہانہ بالکل غلط ہے اور اصل غرض صرف یہ ہے کہ قادیان کے باشندوں کو جنہوں نے استقلال کے ساتھ مشرقی پنجاب میں رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے اِس جرم میں ہلاک کر دیا جائے کہ وہ کیوں مشرقی پنجاب میں سے نکلتے نہیں۔ منہ سے کہا جاتا ہے کہ ہم کسی کو نکالتے نہیں لیکن عمل سے اِس کی تردید کی جاتی ہے۔ یہ بات اخلاقی لحاظ سے نہایت ہی گندی اور نہایت ناپسندیدہ ہے۔ جماعت احمدیہ نے مسٹر گاندھی کے پاس بھی بار بار اپیل کی ہے، تاریں بھی دی ہیں اور بعض خطوط بھی لکھے ہیں لیکن مسٹر گاندھی کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ کرنے کی فرصت نہیں۔ مسٹر نہرو کو بھی اس طرف توجہ دلائی گئی ہے مگر وہ بھی بڑے کاموں میں مشغول ہیں۔ چند ہزار بے گناہ انسانوں کا مارا جانا ایسا معاملہ نہیں ہے جس کی طرف یہ بڑے لوگ توجہ کر سکیں۔ ایک چھوٹی سی مذہبی جماعت کے مقدس مقامات کی ہتک ان بڑے آدمیوں کے لئے کوئی قابلِ اعتنا بات نہیں اگر اس کا سَواں حصہ بھی انگریز قادیان میں بس رہے ہوتے اور ان کی جان کا خطرہ ہوتا تو لارڈ مونٹ بیٹن ۵؎ کو حقوقِ انسانیت کا جذبہ فوراً بے تاب کر دیتا۔ مسٹر گاندھی بیسیوں تقریریں انگریزوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کے متعلق پبلک کے سامنے کر دیتے۔ مسٹر نہرو کی آفیشل مشین فوراً متحرک ہو جاتی مگر کمزور جماعتوں کا خیال رکھنا خدا تعالیٰ کے سپرد ہے۔ وہی غریبوں کا والی وارث ہوتا ہے یا وہ انہیں ایسی تکالیف سے بچاتا ہے اور یا پھر وہ ایسے مظلوموں کا انتقام لیتا ہے ہم تمام شریف دنیا کے سامنے اپیل کرتے ہیں کہ اس ظلم کے دور کرنے کی طرف توجہ کریں۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ پاکستان گورنمنٹ اِس ظلم کو دور کرنے میں کیوں بے بس ہے۔ بجائے اس کے کہ ان باتوں کو سُن کر پاکستان گورنمنٹ کے متعلقہ حُکام کوئی مؤثر قدم اُٹھاتے انہوں نے بھی یہ حکم دے دیا ہے کہ چونکہ قادیان کی سڑک کو مشرقی پنجاب نے ناقابلِ سفر قرار دیا ہے اس لئے آئندہ ہماری طرف سے بھی کوئی کانوائے وہاں نہیں جائے گی۔ حالانکہ انہیں چاہئے یہ تھا کہ جب مغربی پنجاب کے علاقوں میں بھی بارش ہوئی ہے تو وہ ان علاقوں کو بھی ناقابلِ سفر قرار دے دیتے اور مشرقی پنجاب جانے والے قافلوں کو روک لیتے۔ قادیان کے مصائب کو کم کرنے کا ایک ذریعہ یہ تھا کہ قادیان کو ریفیوجی کیمپ قرار دے دیا جاتا لیکن دونوں گورنمنٹیں یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ ریفیوجی کیمپ وہی گورنمنٹ مقرر کرے گی جس کی حکومت میں وہ علاقہ ہو۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ جو معاہدہ ہو اُس کی پابندی کی جائے لیکن سوال تو یہ ہے کہ اگر بار بار توجہ دلانے کے بعد بھی ہندوستان یونین مسلمان پناہ گزینوں کے بڑے بڑے کیمپوں کو ریفیوجی کیمپ قرار نہیں دیتی تو پاکستان کی حکومت کیوں مشرقی پنجاب کے پناہ گزینوں کے نئے مقامات کو ریفیوجی کیمپ قرار دے رہی ہے۔ حال ہی میں پاکستان گورنمنٹ نے پانچ نئے ریفیوجی کیمپ مقرر کئے جانے کا اعلان کیا ہے۔ کیا وہ اس کے مقابلہ میں ہندوستان یونین سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتی کہ تم بھی ہماری مرضی کے مطابق پانچ نئے کیمپ بناؤ۔ ہمیں موثق ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ حال ہی میں ہندوستان یونین نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ریفیوجی کیمپ بنانے کا مطالبہ کیا ہے جہاں صرف پانچ ہزار پناہ گزین ہیں۔ پاکستانی حکومت کو چاہئے کہ ہندوستان یونین سے کہے کہ اگر ڈیرہ اسماعیل خان میں کیمپ بنانا چاہتے ہو تو قادیان میں بھی کیمپ بناؤ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستانی حکومت کا رعب کم ہوتا جائے گا اور ہندوستان یونین کے مطالبات بڑھتے جائیں گے اور مسلمانوں کے حقوق پامال ہوتے چلے جائیں گے۔
تازہ آفیشل رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک سولہ لاکھ چھیالیس ہزار سات سَوپچاس مسلمان مشرقی پنجاب کے کیمپوں میں پڑے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں صرف سات لاکھ سینتالیس ہزار دو سَو بہتر غیر مسلم مغربی پنجاب میں ہیں۔ ہمارے حساب سے تو یہ اندازہ بھی غلط ہے۔ مسلمان ساڑھے سولہ لاکھ نہیں ۲۵۔۲۶ لاکھ کے قریب مشرقی پنجاب میں پڑے ہیں اور خطرہ ہے کہ اپنے حقوق کو استقلال کے ساتھ نہ مانگنے کے نتیجہ میں یہ سات لاکھ غیر مسلم بھی جلدی سے اُدھر نکل جائے گا اور ۲۵ لاکھ مسلمانوں میں سے بمشکل ایک دو لاکھ اِدھر پہنچے گا یا کوئی اتفاقی بچ نکلا ورنہ جو کچھ سکھ جتھے اور سکھ ملٹری اور پولیس ان سے کر رہی ہے اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی اُمید اِن کے بچنے کی نظر نہیں آتی۔ بعض چھوٹے افسر یہ کہتے بھی سُنے گئے ہیں کہ مغربی پنجاب اتنے پناہ گزینوں کو سنبھال نہیں سکتا۔ پس جتنے مسلمان اِدھر مرتے ہیں اس سے آبادی کا کام آسان ہو رہا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی خطرناک خیال ہے ہمیں یقین ہے مغربی پنجاب کی حکومت کے اعلیٰ حکام اور وزراء کا یہ خیال نہیں مگر اس قسم کا خیال چند آدمیوں کے دلوںمیں بھی پیدا ہونا قوم کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے۔ مغربی پنجاب کے مسلمانوں کو جلدی منظم ہو جانا چاہئے اور جلد اپنے حقوق کی حفاظت کرنے کی سعی کرنی چاہئے اگر آج تمام مسلمان منظم ہو جائیں اور اگر آج بھی حکومت اور رعایا کے درمیان مضبوط تعاون پیدا ہو جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان اس ابتلائے عظیم میں سے گزرنے کے بعد بھی بچ سکتا ہے اور ترقی کی طرف اس کا قدم بڑھ سکتا ہے۔
(الفضل ۹؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کچھ تو ہمارے پاس رہنے دو
پنجاب میں اس وقت جو تباہی اور بربادی آئی ہے اس کا اندازہ نہ الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے نہ خیالات سے ۔ بغیر کسی اشتعال کے، بغیر کسی وجہ کے خداکے بندوںکا قتل عام اس طرح شروع کر دیا جاتا ہے کہ حیرت ہی آتی ہے کہ خدا کے بندوں نے خدا کو کس طرح بُھلا دیا ہے۔ قتل تو اشتعال کے وقت بھی ناجائز ہے لیکن بِلا اشتعال کے، بغیر کسی وجہ کے قتل اور عورتوں بچوں کا قتل ایسا فعل ہے جس کو دنیا کا کوئی مذہب بھی جائز قرار نہیں دیتا، دنیا کی کوئی تہذیب بھی اسے روا نہیں سمجھتی۔ سیاسی لڑائی ہی سہی، مُلکی جھگڑا ہی سہی، لیکن اس سیاسی لڑائی یا اس مُلکی جھگڑے میں ان عورتوں اور بچوں کا کیا دخل ہے جو بے تحاشا مارے جاتے ہیں، اُن بوڑھوں اور ضعیفوں کا کیا دخل ہے جو برسرِعام قتل کئے جاتے ہیں۔ ہندو سکھ مسلمان کے دشمن سہی، مسلمان ہندو سکھوں کے دشمن سہی لیکن ایسٹرن پنجاب کے مسلمان کی جائداد پر ایک عام سکھ یا ہندو کا کیا حق ہے اور مغربی پنجاب کے سکھ یا ہندو کی جائداد پر ایک عام مسلمان کا کیا حق ہے۔ مشرقی پنجاب کے مسلمان کی جائداد مشرقی پنجاب کی حکومت کی کفالت میں ہے اور مغربی پنجاب کے ہندو سکھ کی جائداد مغربی پنجاب کی حکومت کی کفالت میں ہے۔ پس مشرقی پنجاب کے ہندو اور سکھ کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ مشرقی پنجاب کو چھوڑنے والے مسلمان کی جائداد کو نہ چھوئے اور مغربی پنجاب کے مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ہندو اور سکھ کی جائداد کو ہرگز نہ چھوئے۔ دونوں گورنمنٹیں دونوں جائدادوں کی کفیل رہیں ۔اگر دونوں طرف کے باشندے پھر اپنے اپنے مُلک میں آباد ہونا چاہیں تو وہ مال حکومتیں ان کے سپرد کر دیں اور اگر وہ اپنے مُلک میں واپس نہ جانا چاہیں گے تو حکومتیں باہمی حساب کر کے ہر ایک کی جائداد کی قیمت مالکوں میں بانٹ دیں اگر کچھ جائداد لاوارث ہوگی تو اس کی وارث مشرقی پنجاب میں مشرقی حکومت ہوگی اور مغربی پنجاب میں پاکستان کی حکومت ہوگی۔ یہی اسلامی حکم ہے اور اسی کی تصدیق عقل کرتی ہے۔ ہندو اور سکھ مسلمان نہیں مگر وہ عقل کا تو دعویٰ کرتا ہے اور مسلمان کے دماغ میں عقل بھی ہے اور وہ ساتھ ہی مسلمان بھی ہے۔ اس طرح اسے دُہری راہنمائی اور دُہری ہدایت حاصل ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس پر عمل نہیں ہو رہا۔ کثرت کے ساتھ مسلمان اخبارات میں یہ خبریں شائع ہورہی ہیں کہ مغربی پنجاب میں ہندوؤں اور سکھوں کی جائداد کو نہ لُوٹا جائے لیکن بعض لوگ لُوٹ رہے ہیں اور مشرقی پنجاب میں تو یہ بات اتنی زیادہ ہے کہ اس کااندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن مشرقی پنجاب کا یہ ظلم ہمیں اپنے فرائض سے بری الذمہ نہیں کر دیتا۔ ہم دنیا کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے ہمارا لاکھ لُوٹا تھا ہم نے ان کا دس ہزار لُوٹا ہے کیونکہ دنیا کا ہر معقول انسان ہمیں کہے گا کہ کیا تمہارا لاکھ لُوٹنے والا انسان وہی تھا جس کا تم نے دس ہزار روپیہ لیا تھا؟ اس کا ہم کوئی جواب نہیں دے سکتے کیونکہ واقعہ میں وہ وہ آدمی نہیں تھا۔ اس پر مزید غضب یہ ہے کہ مغربی پنجاب میں اکثر لُوٹنے والے مشرقی پنجاب سے آئے ہوئے نہیں مغربی پنجاب کے لوگ ہیں اور مشرقی پنجاب میں لُوٹنے والے اکثر مشرقی پنجاب کے باشندے ہیں مغربی پنجاب کے گئے ہوئے لوگ نہیں۔ گویا ظلم سے لُوٹا ہوا مال بھی ان لوگوں کو نہیں ملتا جن کے مال لُوٹے گئے ہیں ان لوگوں کو ملتا ہے جن کے گھر اور جائدادیں محفوظ ہیں۔
جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں ایسے تمام لاوارث مال شریعت اسلامیہ کے رو سے حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں۔ پس پاکستان کے علاقہ کا جو مال ہندو اور سکھ چھوڑ جاتا ہے وہ کسی مسلمان کا نہیں وہ حکومت پاکستان کا ہے اور جو شخص اس مال کو لُوٹتا ہے وہ ہندو سکھ کو نہیں لُوٹتا پاکستان کو لُوٹتا ہے۔ جب امن ہوگا اور باہمی سمجھوتہ ہوگا تو حکومت پاکستان کو ان چیزوں کی قیمت ادا کرنی پڑے گی اور جب ایسا ہوا پاکستان کی حکومت کو مالی طور پر بہت بڑا نقصان پہنچے گا۔ کیا یہ دیانتداری ہے؟ کیا یہ انصاف ہے کہ خود اپنی ہی حکومت کی جڑیں کاٹی جائیں؟
جس طرح افراد کو حق نہیں کہ افراد کا مال لُوٹیں اسی طرح افراد کو یہ بھی حق نہیں کہ وہ غیرقوموں کے افراد کو ان کے دوسرے بھائیوں کے ظلموں کی وجہ سے اپنے مُلک میں تنگ کریں۔ اس بارہ میں بھی مسلمان اخبارات نہایت دلیری سے بار بار پبلک کو توجہ دلا چکے ہیں مگر ہمیں افسوس ہے کہ اب تک پبلک نے اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھا۔ ہر سمجھانے والے کو یہ کہا جاتا ہے کہ مشرقی پنجاب کو دیکھو وہاں مسلمانوں پر کیا ظلم ہو رہا ہے مگر ایسا کہنے والا یہ غور نہیں کرتا کہ خود اسی کا جواب اسے مجرم بنا رہا ہے۔ مشرقی پنجاب کا سکھ اور ہندو کیوں ظالم ہے اس لئے کہ اسے وہاں کے مسلمان کو دکھ دینے یا قتل کرنے کا کوئی قانونی حق حاصل نہیں۔ اگر یہ اصول ٹھیک ہے تو کیا یہ اصول اس مسلمان پر چسپاں نہیں ہوتا جو مغربی پنجاب میں کسی ایسے سکھ یا ہندو کو دِق کرتا یا اسے قتل کرتا ہے جو مغربی پنجاب کو چھوڑنا پسند نہیں کرتا اور ہمارے ساتھ رہنے پر رضا مند ہے۔ اگر اس سکھ یا ہندو کو مارنا یا دِق کرنا ہمارے لئے جائز ہے تو پھر مشرقی پنجاب کے سکھ اور ہندو پر بھی ہم کوئی اعتراض نہیں کر سکتے کیونکہ یہ درندوں والا قانون ہے اور اسی درندوں والے قانون پر وہ عمل کر رہا ہے اور ہم سے بہت زیادہ زور سے وہ عمل کر رہا ہے۔ اگر یہ فعل قابلِ تعریف بات ہے تو مشرقی پنجاب کا سکھ اور ہندو ہم سے بہت زیادہ قابلِ تعریف کام کر رہا ہے۔ کیونکہ جتنے سکھ ہندو، مسلمان مارتے ہیںان سے کئی گناہ زیادہ مسلمانوں کو وہ قتل کر رہا ہے۔ وہ ہم سے کئی گنا زیادہ مسلمانوں کو دِق کر رہا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بارہا یہودیوں اور عیسائیوں سے فرماتا ہے کہ تم مسلمان تو نہیں مگر کسی مذہب کو تو ماننے والے ہو کم سے کم تمہیں اپنے مذہب پر تو عمل کرنا چاہئے۔ جب تک تم اپنے مذہب پر عمل نہ کرو اُس وقت تک تمہاری کوئی حیثیت نہیں۔ یہ قانون ہمیں بھی اپنے متعلق یاد رکھنا چاہئے۔ ہم مسلمان ہیں ہمیں اسلام کے احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہم سکھ اور ہندو نہیں کہ ہم سکھوں اور ہندوؤں کا طریق اختیار کریں۔ مصر کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک عیسائی روزانہ یہ تقریر لوگوں کے اندر کیا کرتا کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دے ۶؎ اور اس سے وہ اپنے مذہب کی فضیلت ثابت کیا کرتا تھا۔ ایک دن ایک مسلمان وہاں سے گزرا اور اس نے آگے بڑھ کر ایک تھپڑ اُسے مارا۔ پادری نے اس کو پکڑ لیا اور پولیس کو آواز دی۔ اس شخص نے کہا پادری صاحب! آپ تو روزانہ وعظ کیاکرتے ہیں کہ انجیل کی تعلیم نہایت اعلیٰ ہے وہ کہتی ہے کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دے۔ پادری نے جواب میں کہا مگر آج تو میں اسلام ہی کی تعلیم پر عمل کروں گا کیونکہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو آئندہ کے لئے میں یہاں کام نہیں کر سکوں گا۔ خواہ وہ مسلمان جس نے اس پادری کو تھپڑ مارا تھا پکڑاہی گیا ہو اور اسے سزا بھی ملی ہو پھر بھی اس نے اسلامی تعلیم کی فوقیت تو ثابت کروا لی اور عیسائی سے اقرار کروا لیا کہ وہ اپنی تعلیم پر عمل نہیں کر سکتا۔ کیا ہم بھی دنیا کے سامنے یہی کہیں گے کہ بے شک اسلام کی اخلاقی تعلیم بہت اعلیٰ ہے مگر اِس وقت ہم ہندوؤں اور سکھوں کا طریق ہی اختیار کریں گے اور اسی میں ہماری نجات ہے۔ ایسا کہنے کے بعد اسلام کی دشمنوں کی نظر میں کیا وقعت رہ جائے گی۔ ہماری جانیں، ہمارے مال، ہمار ی عزتیں مشرقی پنجاب میں برباد ہوئیں۔ اگر مغربی پنجاب میں ہمارا ایمان سلامت رہ جائے اور اس شورش اور فساد کے وقت میں ہم دنیا کو یہ بتا سکیں کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے امن اور صلح قائم ہو سکتی ہے تو ہم گھاٹے میں نہیں رہیں گے۔ مال دشمن کے پاس چلا جائے گا ایمان ہم کو مل جائے گا لیکن اگر یہ بات نہ ہوئی، اگر ہم نے یہاں وہی طور طریقہ اختیار کیا جو سکھ اور ہندو مشرقی پنجاب میں اختیار کر رہا ہے تو ہمارے پاس کچھ بھی تو باقی نہیں رہے گا نہ دین نہ دنیا۔
پس ہم تمام احباب سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ مُلک میں یہ جذبہ پیدا کریں کہ اس موقع پر وہ اسلامی طریق کو اختیار کریں۔ انتقام لینا حکومت کے اختیار میں ہوتا ہے پبلک کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ حکومت کو توجہ دلاؤ کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرے مگر خود قانون اپنے ہاتھ میں نہ لو کہ یہ اسلام کے خلاف ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا کہ جب ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! اگر میںکسی شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری کرتے دیکھوں تو چونکہ اسلام نے زانی کی سزا رجم مقرر فرمائی ہے تب میں اُس کو قتل کر دوں؟ آپ نے فرمایا نہیں حکومت کو اطلاع دو اور حکومت کو اپنا قانون خود جاری کرنے دو۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تم خدا تعالیٰ کی نگاہ میں قاتل سمجھے جاؤ گے۔۷؎ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کس طرح حکومت کی ذمہ داریوں کو حکومت کے سپرد رکھنے کی تاکید کی ہے۔ ہمیں یہ حکم نہیں بھولنا چاہئے اور حکومت کی ذمہ واریوں کو اپنے قبضہ میں نہیں لینا چاہئے۔ یقینا یہ بات ہم پر گراں گزرتی ہے ہر رپورٹ جو ہم کو مشرقی پنجاب سے پہنچے گی ہمارے جذبات کو اُبھارے گی، ہماری طبیعت میں غصہ پیدا کرے گی، ہمارے اعصاب کھنچنے لگ جائیں گے اور ہمارے سر کی طرف خون چڑھنا شروع ہو جائے گا لیکن ہمیں اپنے طبعی جذبات کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اخلاق کے تابع رکھنا چاہئے۔ اسی سے دنیا میں ہماری عزت ہوگی اور اسی سے ہمارے دین کی بھلائی ہوگی۔
جو ہندو یا سکھ ہمارے مُلک میں رہنا چاہیں ہمیں اُن کو اپنی امانت سمجھنا چاہئے اور جو لوگ اپنا مال چھوڑ گئے ہیں ہمیں اس مال کو پاکستان کی امانت سمجھنا چاہئے۔ سابق مسلمانوں نے تو اپنے اخلاق کے ایسے شاندار نمونے چھوڑے ہیں کہ ہمیں اپنے لئے کسی نئے رستہ کے تجویز کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ سپین کے ایک مسلمان کو ایک عیسائی نے مار دیا۔ قاتل دَوڑ کر ایک بڑے محل میں داخل ہوا اور اس کے مالک سے کہا میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں مجھے پکڑنے کے لئے لوگ آ رہے ہیں۔ اس رئیس نے اسے اپنے مکان کے پچھواڑے میں کسی جگہ بند کر دیا جب وہ باہر نکلا تو آگے سے اسے پولیس ملی جس نے ایک لاش اُٹھائی ہوئی تھی وہ لاش انہوں نے اس کے آگے رکھ دی اور اسے بتایا کہ اس کا اکلوتا بیٹا ایک شخص نے مار دیا ہے اور وہ اس کے قاتل کی تلاش کر رہے ہیں۔ وہ اس طرف بھاگا ہوا آیا ہے مگر ابھی تک اُنہیں مل نہیں سکا۔ رئیس نے سمجھ لیا کہ وہ شخص جس کو اِس نے پیچھے مکان میں چھپایا ہے وہی اِس کے بیٹے کا قاتل ہے۔ مگر وہ سچا مسلمان تھا اپنا قول دے چکا تھا۔ پولیس کو اُس نے رخصت کیا اور اُس کمرہ کی طرف گیا جس میں اُس نے قاتل کو چھپا رکھا تھا۔ کمرہ کھول کر اُس نے کچھ روپیہ اِس قاتل کے ہاتھ میں رکھا اور کہا کہ پچھواڑے کی طرف سے نکل کر بھاگ جاؤ۔ پولیس تمہاری تلاش میں ہے۔ یہ روپیہ میں تمہیں دیتا ہوں تا کہ تمہارے بھاگنے میں مدد دے۔ باقی مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ تم قاتل ہو اور جس شخص کو تم نے مارا ہے وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے مگر مسلمان غدار نہیں ہوتا میں تمہیں پناہ دے چکا ہوں اب میں تم پر ہاتھ نہیں اُٹھا سکتا۔ یہ اسلامی اخلاق ہیں جن کی وجہ سے اسلام دنیا میں پھیلا، یہ اسلامی اخلاق ہیں جن کی وجہ سے اسلامی مبلّغوں کے سامنے تمام دنیا کی آنکھیں نیچی رہتی تھیں۔ ہمیں پھر ان اسلامی اخلاق کو زندہ کرنا چاہئے۔ غم و غصہ سے ہمارے دل مرتے ہیں تو مرنے دو کٹتے ہیں تو کٹنے دو۔ ہمارے مدنظر صرف ایک چیز رہنی چاہئے کہ اسلام زندہ ہو اور اسلام کی فوقیت دنیا کے تمام مذہبوں اور طریقوں پر ظاہر ہو۔(الفضل لاہور ۸؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء)
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
قادیان کی خونریز جنگ
اکتوبر کی پہلی تاریخ کو جب گورداسپور کی ملٹری نے قادیان میں کنوائے جانے کی ممانعت کردی تو میں اُسی وقت سمجھ گیا تھا کہ اب قادیان پر ظلم توڑے جائیں گے۔ لاہور میں کئی دوستوں کو میں نے یہ کہہ دیا تھا اور مغربی پنجاب کے بعض حُکّام کو بھی اپنے اس خیال کی اطلاع دے دی تھی۔ اِس خطرہ کے مدِنظر ہم نے کئی ذرائع سے مشرقی پنجاب کے حُکّام سے فون کر کے حالات معلوم کئے لیکن ہمیں یہ جواب دیا گیا کہ قادیان میں بالکل خیریت ہے اور احمدی اپنے محلوں میں آرام سے بس رہے ہیں صرف سڑکوں کی خرابی کی وجہ سے کنوائے کو روکا گیا لیکن جب اِس بات پر غور کیا جاتا کہ لاہور اِوَیکیویشن (Evacuation)کمانڈر کی طرف سے مشرقی پنجاب کے ملٹری حُکّام کو بعض کنوائز کی اطلاع دی گئی اور اُنہیں کہا گیا کہ اگر قادیان کی طرف کنوائے جانے میں کوئی روک ہے تو آپ ہم کو بتا دیں۔ میجر چمنی سے بھی پوچھا گیا اور بریگیڈیئر پرنج پائے متعینہ گورداسپور سے بھی پوچھا گیا تو ان سب نے اطلاع دی کہ قادیان جانے میں کوئی روک نہیں باوجود اِس کے جب کنوائے گئے تو ان کو بٹالہ اور گوراسپور سے واپس کر دیا گیا۔ یہ واقعات پہلے شائع ہو چکے ہیں ان واقعات نے میرے شبہات کو اور بھی قوی کر دیا۔ آخر ایک دن ایک فون جو قادیان سے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے نام کیا گیا تھا اتفاقاً سیالکوٹ میں بھی سنا گیا معلوم ہوا کہ قادیان پر دو دن سے حملہ ہو رہا ہے او ربے انتہاء ظلم توڑے جا رہے ہیں۔ پولیس حملہ آوروں کے آگے آگے چلتی ہے اور گولیاں مار مار کر احمدیوں کا صفایا کر رہی ہے تب اصل حقیقت معلوم ہوئی۔
دوسرے دن ایک سب انسپکٹر پولیس جو چھٹی پر قادیان گیا ہوا تھا کسی ذریعہ سے جس کا ظاہر کرنا مناسب نہیں لاہور پہنچا اور اُس نے بہت سی تفاصیل بیان کیں۔ اُس کے بعد ایک ملٹری گاڑی میں جو قادیان بعض مغربی پنجاب کے افسروں اور بعض مشرقی پنجاب کے افسروں کو جو قادیان کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجی گئی تھی میں بعض اور لوگ تھے جنہوں نے اور تفصیل بیان کی۔ اِن حالات سے معلوم ہوا کہ حملہ سے پہلے کرفیو لگا دیا گیا تھا پہلے قادیان کی پرانی آبادی پر جس میں احمدیہ جماعت کے مرکزی دفاتر واقع ہیں حملہ کیا گیا۔ اس حصہ کے لوگ اس حملہ کا مقابلہ کرنے لگے اُنہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ باہر کے محلوں پر بھی تھوڑی دیر بعد حملہ کر دیا گیا ہے یہ لوگ سات گھنٹہ تک لڑتے رہے اور اس خیال میں رہے کہ یہ حملہ صرف مرکزی مقام پر ہے باہر کے مقام محفوظ ہیں چونکہ جماعت احمدیہ کا یہ فیصلہ تھا کہ ہم نے حملہ نہیں کرنا بلکہ صرف دفاع کرنا ہے اس لئے تمام محلوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ جب تک ایک خاص اشارہ نہ کیا جائے کسی محلہ کو باقاعدہ لڑائی کی اجازت نہیں۔ جب افسر یہ تسلی کر لیں کہ حملہ اتنا لمبا ہو گیا ہے کہ اب کوئی شخص یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ احمدیہ جماعت نے مقابلہ میں ابتداء کی ہے وہ مقررہ اشارہ کریں گے اُس وقت جماعت منظم طور پر مقابلہ کرے گی۔ اس فیصلہ میں ایک کوتاہی رہ گئی وہ یہ کہ اس بات کو نہیں سوچا گیا کہ اگر پولیس بیرونی شہر اور اندرونی شہر کے تعلقات کو کاٹ دے تو ایک دوسرے کے حالات کا علم نہ ہو سکے گا۔ پس ان حالات میں ہر محلہ کا الگ کمانڈر مقرر ہو جانا چاہئے جو ضرورت کے وقت آزادانہ کارروائی کر سکے۔ یہ غلطی اس وجہ سے ہوئی کہ قادیان کے لوگ فوجی تجربہ نہیں رکھتے وہ تو مبلّغ، مدرّس، پروفیسر، تاجر اور زمیندار ہیں ہر قسم کے فوجی نقطۂ نگاہ پر حاوی ہونا ان کے لئے مشکل ہے۔ بہرحال یہ غلطی ہوئی اور باہر کے محلوں نے اس بات کا انتظار کیا کہ جب ہم کو وہ اشارہ ملے گا تب ہم منظم مقابلہ کریں گے لیکن اُس وقت اتفاق سے سب ذمہ دار کارکن مرکزی دفاتر میں تھے اور باہر کے محلوں میں کوئی ذمہ دار افسر نہیں تھا اور مرکز کے لوگ غلطی سے یہ سمجھ رہے تھے کہ حملہ صرف مرکزی مقام پر ہے باہر کے محلوں پر نہیںاورباہر کے محلے یہ سمجھ رہے تھے کہ ہمارے حالات کا علم مرکزی محلہ کو ہوگا کسی مصلحت کی وجہ سے اُنہوںنے ہمیں مقابلہ کرنے کا اشارہ نہیں کیا۔ سات گھنٹہ کی لڑائی کے بعد جب مرکزی محلہ پر زور بڑھا تو مرکزی محلہ کی حفاظت کیلئے معیّن اشارہ کیا گیا مگر اُس وقت تک بہت سے بیرونی محلوں کو پولیس اور ایک حد تک ملٹری کے حملے صاف کرواچکے تھے۔ حملہ آوروں کی بہادری کا یہ حال تھا کہ سات گھنٹے کے حملہ کے بعد جب جوابی حملہ کا بِگل بجایا گیا تو پانچ منٹ کے اندر پولیس اور حملہ آور جتھے بھاگ کر میدان خالی کر گئے۔ ان حملوں میں دو سَو سے زیادہ آدمی مارے گئے لیکن ان کی لاشیں جماعت کو اُٹھانے نہیں دی گئیں تا ان کی تعداد کا بھی علم نہ ہو سکے اور ان کی شناخت بھی نہ ہوسکے بغیر جنازہ کے اور بغیر اسلامی احکام کی ادائیگی کے یہ لوگ، ظالم مشرقی پولیس کے ہاتھوں مختلف گڑھوں میں دبا دیئے گئے تا کہ دنیا کو اُس ظلم کا اندازہ نہ ہو سکے جو اُس دن قادیان میں مشرقی پنجاب کی پولیس نے کیا تھا۔ مشرقی پنجاب کے بالا حکام سے جو ہمیں اطلاع ملی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ مقامی حُکّام نے مرکزی حُکّام کو صرف یہ اطلاع دی کہ سکھ جتھوںنے احمدی محلوں پر حملہ کیا۔ تیس آدمی سکھ جتھوں کے مارے گئے اور تیس آدمی احمدیوں کے مارے گئے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دوسَو سے زیادہ قادیان میں احمدی مارے گئے جن میں کچھ غیر احمدی بھی شامل تھے جیسا کہ آگے بتایا جائے گا اور سکھ بھی تیس سے زیادہ مارے گئے کیونکہ گو اس غلطی کی وجہ سے جو اوپر بیان ہوچکی ہے منظم مقابلہ نہیں کیا لیکن مختلف آدمی بھی حفاظتی چوکیوں پر تھے انہوں نے اچھا مقابلہ کیا اور بہت سے حملہ آوروں کو مارا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جب باہر سے پویس اور سکھ حملہ کر رہے تھے اور ملٹری بھی ان کے ساتھ تھی (گو کہا جاتا ہے کہ ملٹری کے اکثر سپاہیوں نے ہوا میں فائر کئے ہیں) اُس وقت کچھ پولیس کے سپاہی محلوں کے اندر گھس گئے اور انہوں نے احمدیوں کو مجبور کیا کہ یہ کرفیو کا وقت ہے اپنے گھروں میں گھس جائیں چنانچہ ایک احمدی گریجوایٹ جو اپنے دروازے کے آگے کھڑا تھا اُسے پولیس مین نے کہا کہ تم دروازے کے باہر کیوں کھڑے ہو؟ جب اس نے کہا کہ یہ میرا گھر ہے میں اپنے گھر کے سامنے کھڑا ہوں تو اُسے شوٹ کر دیا گیا اور جب وہ تڑپ رہا تھا تو سپاہی نے سنگین سے اُس پر حملہ کر دیا اور تڑپتے ہوئے جسم پر سنگین مار مار کر اُسے مار دیا۔ اس کے بعد بہت سے محلوں کو لُوٹ لیاگیا اور اب ان کے اندر کسی ٹوٹے پھوٹے سامان یا بے قیمت چیزوں کے سوا کچھ باقی نہیں۔ مرکزی حصہ پر جو حملہ ہوا اس میں ایک شاندار واقعہ ہوا ہے جو قرون اولیٰ کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ جب حملہ کرتے ہوئے پولیس اور سکھ شہر کے اندر گھس آئے اور شہرکے مغربی حصہ کے لوگوں کو مار پیٹ کر خالی کرانا چاہا اور وہ لوگ مشرقی حصہ میں منتقل ہو گئے تو معلوم ہوا کہ گلی کے پار ایک گھر میں چالیس عورتیں جمع تھیں وہ وہیں رہ گئی ہیں انہیں افسران نکلوانے کے لئے گلی کے سرے پر جو مکان تھا وہاں پہنچے اور ان کے نکالنے کے لئے دو نوجوانوں کو بھیجا۔ یہ نوجوان جس وقت گلی پار کرنے لگے تو سامنے کی چھتوں سے پولیس نے ان پر بے تحاشا گولیاں چلانی شروع کیں اور وہ لوگ واپس گھر میں آنے پر مجبور ہوگئے تب لکڑی کے تختے منگوا کر گلی کے مشرقی اور مغربی مکانوں کی دیواروں پر رکھ کر عورتوں کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کی گئی جو نوجوان اس کام کے لئے گئے ان میں ایک غلام محمد صاحب ولد مستری غلام قادر صاحب سیالکوٹ تھے اور دوسرے عبدالحق نام قادیان کے تھے جو احمدیت کی طرف مائل تو تھے مگر ابھی جماعت میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ یہ دونوں نوجوان برستی ہوئی گولیوں میں سے تختے پر سے کودتے ہوئے اُس مکان میں چلے گئے جہاں چالیس عورتیں محصور تھیں اُنہوں نے ایک ایک عورت کو کندھے پر اُٹھا کر تختے پر ڈالنا شروع کیا اور مشرقی مکان والوں نے انہیں کھینچ کھینچ کر اپنی طرف لانا شروع کیا جب وہ اپنے خیال میں سب عورتوں کو نکال چکے اور خود واپس آ گئے تو معلوم ہوا کہ اُنتالیس عورتیں آئی ہیں اور ایک بڑھیا عورت جو گولیوں سے ڈر کے مارے ایک کونے میں چھپی ہوئی تھی رہ گئی ہے۔ اب اِردگرد کی چھتوں پر پولیس جتھوں کا ہجوم زیادہ ہوچکاتھا گولیاں بارش کی طرح گر رہی تھیں اور بظاہر اس مکان میں واپس جانا ناممکن تھا مگر میاں غلام محمد صاحب ولد میاں غلام قادر صاحب سیالکوٹی نے کہا کہ جس طرح بھی ہو مَیں واپس جاؤں گا اور اس عورت کو بچا کر لاؤں گا او روہ برستی ہوئی گولیوں میں جو نہ صرف درمیانی راستہ پر برسائی جا رہی تھیں بلکہ اُس گھر پر بھی برس رہی تھیں جہاں احمدی کھڑے ہوئے بچاؤ کی کوشش کر رہے تھے کود کر اُس تختے پر چڑھ گئے جو دونوں مکانوں کے درمیان پُل کے طور پر رکھا گیا تھا جب وہ دوسرے مکان میں کود رہے تھے تو رائفل کی گولی ان کے پیٹ میں لگی اور وہ مکان کے اندر گر پڑے مگر اس حالت میں بھی اس بہادر نوجوان نے اپنی تکلیف کی پرواہ نہ کی اور اُس بڑھیا عورت کو تلاش کر کے تختے پر چڑھانے کی کوشش کی لیکن شدید زخموں کی وجہ سے وہ اس میںکامیاب نہ ہو سکا اور دوتین کوششوں کے بعد نڈھال ہو کر گر گیا۔ اس پر میاں عبدالحق صاحب نے کہا کہ میں جا کر ان دونوں کے بچانے کی کوشش کرتا ہوں اور وہ کود کر اس تختہ پر چڑھ گئے۔ اُن کو دیکھتے ہی ایک پولیس مین دوڑا ہوا آیا اور ایک پاس کے مکان سے صرف چند فٹ کے فاصلہ پر سے ان کی کمر میں گولی مار دی اور وہ وہیں فوت ہوگئے جب حملہ آور بگل بجنے پر دَوڑ گئے تو زخمی غلام محمد صاحب اور اس بڑھیا کو اس مکان سے نکالا گیا چونکہ ہسپتال پر پولیس نے قبضہ کر لیا ہے اور وہاں سے مریضوں کو زبردستی نکال دیا ہے اور تمام ڈاکٹری آلات اور دوائیاں وہاں ہی پڑی ہیں مریضوں اور زخمیوں کا علاج نہیں کیا جا سکتا اور یوں بھی غلام محمد صاحب شدید زخمی تھے معمولی علاج سے بچ نہ سکے اور چند گھنٹوں میں فوت ہوگئے۔ مرنے سے پہلے انہوں نے اپنے ایک دوست کو بلایا اور اسے یہ باتیں لکھوائیں کہ :۔
’’مجھے اسلام اور احمدیت پر پکا یقین ہے میں اپنے ایمان پر قائم جان دیتا ہوں۔ میں اپنے گھر سے اسی لئے نکلا تھا کہ میں اسلام کے لئے جان دوںگا آپ لوگ گواہ رہیں کہ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور جس مقصد کے لئے جان دینے کے لئے آیا تھا میں نے اس مقصد کے لئے جان دے دی۔ جب میں گھر سے چلا تھا تو میری ماں نے نصیحت کی تھی کہ بیٹا دیکھنا پیٹھ نہ دکھانا۔ میری ماں سے کہہ دینا کہ تمہارے بیٹے نے تمہاری وصیت پوری کر دی اور پیٹھ نہیں دکھائی اور لڑتے ہوئے مارا گیا‘‘۔
چونکہ ظالم پولیس نے سب راستوں کو روکا ہوا ہے مقتولین کو قبروں میں دفن نہیں کیا جا سکا اس لئے جو لوگ فوت ہوتے ہیں یا قتل ہوتے ہیں انہیں گھروں میں ہی دفن کیا جاتا ہے ان نوجوانوں کو بھی گھروں میں ہی دفن کرنا پڑا اور میاں غلام محمد اور عبدالحق دونوں کی لاشیں میرے مکان کے ایک صحن میں پہلو بہ پہلو سپردِ خاک کر دی گئیں۔ یہ دونوں بہادر اور سینکڑوں آدمی اِس وقت منوں مٹی کے نیچے دفن ہیں لیکن اُنہوں نے اپنی قوم کی عزت کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ مرنے والے مرگئے اُنہوں نے بہرحال مرنا ہی تھا اگر وہ اور کسی صورت میں مَرتے تو ان کے نام کو یاد رکھنے والا کوئی نہ ہوتا اور وہ اپنے دین کی حفاظت اور اسلام کا جھنڈا اونچا رکھنے کیلئے مرے ہیں اس لئے حقیقتاً وہ زندہ ہیں اور آپ ہی زندہ نہیں بلکہ اپنے بہادرانہ کارناموں کی وجہ سے آئندہ اپنی قوم کو زندہ رکھتے چلے جائیں گے۔ ہر نوجوان کہے گا کہ جو قربانی ان نوجوانوں نے کی وہ ہمارے لئے کیوں ناممکن ہے جو نمونہ اُنہوں نے دکھایا وہ ہم کیوں نہیں دکھا سکتے۔ خدا کی رحمتیں ان لوگوں پر نازل ہوں اور ان کانیک نمونہ مسلمانوں کے خون کو گرماتا رہے اور اسلام کا جھنڈا ہندوستان میں سرنگوں نہ ہو۔
اسلام زندہ باد۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم زندہ باد۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
(الفضل لاہور ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سیاستِ پاکستان
ہم پہلے ایک دفعہ لکھ چکے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کو بہت زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی حکومت ابھی نئی نئی قائم ہوئی ہے اور اس کے لئے اقتصادی اور انتظامی مشکلات بے انتہاء ہیں۔ جہاں تک محنت اور کوشش کا سوال ہے وزراء باوجود ناتجربہ کاری کے اپنی طاقت سے زیادہ کام کر رہے ہیں لیکن دو نقص ایسے ہیں جن کی وجہ سے کام سنبھل نہیں سکتا۔
اوّل تو یہ کہ بوجہ دفتری کام کی ناواقفیت کے وزراء کو وقت کا اندازہ نہیں اور نہ لوگوں کو ان کی مہمات کا اندازہ ہے۔ بعض دفعہ معمولی باتوں میں وزراء زیادہ وقت صَرف کر دیتے ہیں اور بعض دفعہ غیر ضروری باتوں کو پیش کرنے کیلئے مُلک کے لوگ ان کے پاس آ جاتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ اُنہیں ملاقات کا موقع دیا جائے۔
دوسرے ایک ایک وزیر کے پاس کئی کام ہیں اس ہنگامی زمانہ میں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی اقتصادی حالت کمزور ہے لیکن جس کام کے لئے جتنے آدمیوں کی ضرورت ہے ان کے مہیا کئے بغیر چارہ نہیں۔ مہذب حکومتوں میں ہر وزیر کے ساتھ ایک ایک نائب وزیر ہوا کرتا ہے اور وہ بھی پارلیمنٹ کے ممبروں میں سے ہوتا ہے لیکن پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتوںمیں سوائے مشرقی بنگال کے چند وزراء کے سپرد سارے کام کر دیئے گئے ہیں اور نائب وزیر مقرر نہیں اس کی وجہ سے نہ تو کام ٹھیک ہو سکتاہے اور نہ مسلمانوں میں نئے تجربہ کار آدمی پیدا ہوتے ہیں۔ آخر وزراء بھی انسان ہیں اور ان کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اگر کل کو ایک وزیر فوت ہو گیا تو یہی ہوگا کہ اس کا محکمہ بھی کسی اور وزیر کے سپرد کر دیا جائے گا اور کام کی زیادتی کی وجہ سے دونوں وزارتوں کا کام تباہ ہو جائے گا یا کسی ناتجربہ کار کو اس کام پر لگایا جائے گا جو نئے سرے سے پھر تجربہ کرنا شروع کرے گا۔ اگر اس مجرب نسخہ پر عمل کیا جاتا کہ ہر وزیر کے ساتھ ایک نائب وزیر لگایا جاتا جس کے سپرد اس وزارت کے بعض محکمے کر دیئے جاتے یا جس کے تفویض میں بعض چھوٹے کام دے دیئے جاتے تو اس نقصان کا خطرہ نہ رہتا اور مزید نوجوانوں کی تربیت ہوتی چلی جاتی اور کسی اتفاقی حادثہ یا اختلاف کی وجہ سے اگر کوئی وزیر الگ ہو جاتا یا الگ کیا جاتا تو اس کا قائمقام فوراً ہی میسر آ سکتا اور نئے تجربوں میں وقت ضائع نہ ہوتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض جگہوں پر پارلیمنٹری سیکرٹری مقرر کئے گئے ہیں لیکن پارلیمنٹری سیکرٹری اور نائب وزیر کے کاموں میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ پارلیمنٹری سیکرٹری کے سپرد محکمے نہیںہوا کرتے وہ تو ایک قسم کا پرائیویٹ سیکرٹری ہوتاہے لیکن نائب وزیر ایک باقاعدہ وزیر ہوتاہے اور کئی محکمے اورکئی ضروری کام اس کے سپرد ہوتے ہیں اور وزیر کی عدم موجودگی میں وزارت کا کام وہ خود کرتا ہے پارلیمنٹری سیکرٹری ایسا نہیںکر سکتا۔ اگر مالی مشکلات ہوں تو وزراء کی تنخواہیں کم کی جا سکتی ہیں آخر غریبوں کے گزارے غریبانہ ہی ہوسکتے ہیں۔ ہمارے مُلک کی موجودہ حالت کے لحاظ سے اگر نائب وزیروں کو ایک ایک ہزار روپیہ تنخواہ دے دی جائے تو بڑی کافی ہے۔ اِس طرح دو ڈپٹی کمشنروں کی تنخواہ سے ساری وزارتوں میں نائب وزیر رکھے جا سکتے ہیں۔
اگر وزراء بڑھا دیئے جائیں اور ہر وزیر کے ساتھ نائب وزیر مقرر کر دیئے جائیں تو ہر صوبہ میں اور مرکز میں بہت جلد تجربہ کار آدمی پیدا ہو جائیں گے اور تقسیم کار کی وجہ سے کام بھی اچھا ہونے لگ جائے گا۔
مذکورہ بالا نقائص کی وجہ سے پاکستان کا سیاسی نظام بہت کمزور طور پر چل رہا ہے۔ بہت سے ضروری ممالک جن سے فوراً پاکستان کا تعلق قائم ہو جانا چاہئے تھا، ان سے اب تک تعلق قائم نہیں ہو سکا اور شاید پاکستانی حکومت کے ذمہ داروں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ بعض طریقے ایسے بھی ہیں کہ بہت کم خرچ سے بیرونی ممالک سے تعلق قائم کئے جا سکتے ہیں۔
اس وقت ہم تین مُلکوں کا ذکر کرتے ہیں جن سے پاکستان کے سیاسی تعلقات فوراًقائم ہو جانے چاہئیں تھے اور جن کی طرف سے حکومت پاکستان کو فوری توجہ دینی چاہئے تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔یہ مُلک انڈونیشیا، ایبے سینیا اور سعودی عرب ہیں۔ انڈونیشیا دوسرا بڑا اسلامی مُلک ہے جس میں مسلمانوں کی آبادی چھ کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ پھر اس کا مقامِ وقوع ایسی جگہ پر ہے کہ اس سے تعلقات آئندہ پاکستان کی ترقی اور حفاظت میںبہت کچھ ممد ہو سکتے ہیں لیکن جبکہ ہندوستان یونین اس کے ساتھ تعلق بڑھا رہی ہے پاکستان حکومت نے اب تک پوری جدوجہد سے کام نہیں لیا۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے پیار ہے اور وہ ایک دوسرے سے ہمدردی رکھتے ہیں لیکن سیاسی معاملات کچھ ایسے پیچیدہ ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ دوست دشمن بن جاتے ہیں اور دشمن دوست بن جاتے ہیں اور صرف مذہبی اتحاد کو سیاسی اتحاد کا پورا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا۔ جرمنی بھی عیسائی تھا اور انگلستان بھی عیسائی تھا مگر پھر بھی یہ دونوں لڑتے تھے۔ پس ہمیں اس بات پر اعتماد کر کے نہیں بیٹھ جانا چاہئے کہ انڈونیشیا کے لوگ مسلمان ہیں اس لئے بغیر کسی جدوجہد کے ہمارا اِن سے دوستانہ قائم رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ بعض دوسری حکومتیں ان پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ انڈونیشیا کا فائدہ ان حکومتوں کے ساتھ تعلقات پیداکرنے میں زیادہ ہے اور پاکستان کے ساتھ تعلق پیدا کرنے میں کم ہے۔ اگر ایسا ہوا اور اس کوشش میں وہ کامیاب ہو گئے تو یقینا باوجود مسلمان ہونے کے انڈونیشیا کے لوگ اپنے سیاسی فوائد کی خاطر پاکستان کی طرف سے ہٹ جائیں گے اور ان دوسری حکومتوں کی طرف جھک جائیں گے۔ اس قسم کی کوشش انڈین یونین کی طرف سے شروع ہے۔انڈین یونین کے افسر کوئی موقع نہیں جانے دیتے جس میں وہ انڈونیشیا کے وزراء کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش نہ کریں۔ ہمیں لنڈن سے اطلاع ملی ہے کہ سلطان شہریار حال ہی میں امریکہ سے واپسی پر انگلستان سے گزرے اور باوجود پاکستانی ہائی کمشنر کی موجودگی کے وہ ہندوستانی یونین کے ہائی کمشنر مسٹر منین کے گھر پر ان کے مہمان ٹھہرے۔ انسان اسی کے گھر پر ٹھہرنا پسند کرتا ہے جس کا وہ دوست ہوتا ہے اور جس کو میزبانی کا موقع ملے وہ مہمان پر دوسروں سے زیادہ اثر ڈال سکتا ہے۔ سلطان شہریار کو یقینا ہندوستان کے ہائی کمشنر نے اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دی ہوگی۔ اگر پاکستان کا ہائی کمشنر بھی ایسا کرتا تو سلطان شہریار یقینا اِن کے ہاں ٹھہرنے کو ترجیح دیتے۔ ہمارے نزدیک تمام پاکستانی سفراء اور ہائی کمشنروں کو ہدایت جانی چاہئے کہ وہ تمام اسلامی ممالک کے نمائندوں، سفیروں، وزیروں اور سیاسی لیڈروں کے ساتھ تعلقات بڑھائیں اور جب بھی وہ اس مُلک میں داخل ہوں جہاں وہ پاکستانی سفیر یا ہائی کمشنر مقرر ہے وہ اُن کو اپنے گھر پر مہمان ٹھہرنے کی دعوت دیں اگر وہ ہوٹل میں ٹھہرنا ہی پسند کریں تو وہ ان کے اعزاز میںپارٹی دیں اور ان کے اس کام میں تعاون کریں جس کام کے لئے وہ اس مُلک میں آئے ہیںاس کانتیجہ یہ ہوگا کہ تمام اسلامی ممالک زیادہ سے زیادہ آپس میں متحد ہوتے جائیں گے اور چند ہی سالوں میں ایک زبردست اسلامی حکومت پیدا ہو جائے گی جسے چھیڑنے کا کسی دشمن کو حوصلہ نہ پڑے گا۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ مسلمان حکومتوںمیں سے کوئی ایک بھی تو ایسی نہیں جو دنیا کی بڑی حکومتوں میں شامل کئے جانے کی مستحق ہو۔ آبادی کے لحاظ سے، اقتصادی لحاظ سے، قومی تنظیم کے لحاظ سے مسلمان حکومتیں دوسری بہت سی حکومتوں سے پیچھے ہیں۔ ان کو صف اوّل میں لانے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ ساری مسلمان طاقتیں متحد ہو جائیں اور سیاسی معاملات میں ایک ہی آواز اُٹھائیںاگر وہ ایسا کر لیں تو کم سے کم اپنی متحدہ حیثیت میں وہ دنیا کی بڑی حکومتوں میں شمار ہونے لگ جائیں گی۔
دوسری خبر اسی سلسلہ میں ہمیں یہ ملی ہے کہ اب تک سعودی عرب سے بھی تعلقات پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی حالانکہ سعودی عرب وہ مُلک ہے جس میں ہمارامقدس مقام مکہ مکرمہ اور ہمارا قبلہ گاہ بیت اللہ اور ہمارے آقا کا مقامِ ہجرت اور مدفن مدینہ منورہ واقعہ ہیں۔ ہم خواہ کسی مذہب اور فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں ہم ان مقامات کی طرف سے اپنی نظریں نہیں ہٹا سکتے اور جس حکومت کے ماتحت بھی یہ مقامات ہوں اُس کیساتھ تعلق پیدا کرناہمارا ضروری فرض ہے کیونکہ مسلمانوںکا حقیقی اتحاد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے ذریعہ سے ہی ہو سکتا ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ستمبر کے آخر میں سلطان ابن سعود ۸؎ عرب کے تیل کے چشموں کے پاس حفوف مقام پر کچھ دنوں کے لئے آ کر قیام پذیر ہوئے۔ عبدالرشید صاحب گیلانی سابق وزیر اعظم عراق جو جرمن کی جنگ کے وقت جرمنی سے ساز باز کرنے کے الزام کے نیچے آ گئے تھے اور عراق سے بھاگ کرجرمنی چلے گئے تھے اور آجکل سلطان ابن سعود کے پاس رہتے ہیں، ان کے ساتھ تھے۔ کچھ ہندوستانی جو عبدالرشید صاحب گیلانی کے اُس وقت کے واقف تھے جب وہ جرمنی میں تھے اُن سے ملنے کے لئے گئے اور اُن کی وساطت سے سلطان ابن سعود سے بھی ملے۔ ان لوگوں نے پنجاب کے واقعات ہائلہ سلطان اور ان کے وزیروں اور شہزادوں کو سنائے۔ اس کے جواب میں سلطان ابن سعود اور ان کے وزیروں نے کہا کیا وجہ ہے کہ پاکستان حکومت اپنا سفیر ہمارے ہاں نہیں بھجواتی تا کہ ہم لوگوں کو بھی پاکستان کے حالات معلوم ہوتے رہیں اور موقع مناسب پر ہم ان کی تائید میں آواز بلند کر سکیں۔ پھر اُنہوں نے ایک معزز ہندوستانی سے کہا کہ اگر وہ اپنا سفیر باہر سے نہیں بھجوا سکتی تو کیوں تم کو ہی وہ اپنا سفیر یہاں مقرر نہیں کر دیتی۔ سیاست سے ناواقف لوگ شاید اِس فقرہ کا مطلب نہ سمجھ سکیں۔ بات یہ ہے کہ یورپ کی اکثر چھوٹی اورغریب حکومتیں جو زیادہ سفارتوں کا بار نہیں اُٹھا سکتیں اپنی رعایا کے بعض افراد کو جو تجارتوں کی وجہ سے یا پیشوں کی وجہ سے دوسرے ممالک میں رہتے ہیں اپنے قنصل مقرر کر دیتی ہیں کچھ خرچ ماہوار انہیں دفتر اور خط و کتابت اور کلرکوں کے لئے دے دیتے ہیں اور اس طرح ان کے حقوق اس مُلک میں محفوظ کرنے کا ایک ذریعہ نکل آتا ہے۔ وہ تاجر اور پیشہ ور اس لئے اس کام کو قبول کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے اُس کی حیثیت اُس علاقہ میں بہت بڑھ جاتی ہے اور کئی قسم کے فائدے حاصل کر لیتا ہے اور اسے مقرر کرنے والی حکومت کو یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ بغیر زیادہ خرچ کرنے کے اُس کا نمائندہ اُس مُلک میں مقرر ہو جاتاہے۔ سلطان ابن سعود مغربی تعلیم سے نابلد ہی سہی مگر وہ عملی سیاسیات کو خوب سمجھتے ہیں اس لئے انہیںتعجب ہوا کہ اگر پاکستان کی حکومت زیادہ روپیہ نہیں خرچ کر سکتی تو عرب میں رہنے والے ہندوستانی کو تو اپنا قائمقام مقرر کر سکتی ہے تا کہ وہ محکمانہ طور پر اپنے مُلک کے معاملات سے سعودی عرب کو واقف کرتا رہے۔ آخر حکومتیں اخباری خبروں پر تو کوئی احتجاج نہیں کر سکتیں وہ اُسی وقت احتجاج کرتی ہیں جب ان کو سیاسی راستوں سے اطلاع دی جائے اگر سیاسی سفیر یا قنصل نہ ہوں تو باقاعدہ طور پر دوسری حکومت کے سامنے حالات نہیں پہنچ سکتے اور وہ حکومت بھی آئینی طور پر ان کے متعلق کوئی کارروائی نہیں کر سکتی۔ اگر پاکستان کے نمائندے سعودی عرب، عراق، شام، ٹرکی، ایران اور مصر میں ہوتے اور مقررہ سیاسی رستوں سے ان حکومتوں کو اپنی مشکلات سے اطلاع دیتے تو وہ حکومتیں بطور حکومت ہندوستانی حکومت کے سامنے احتجاج کرتیں اور اس کا اثر ساری دنیا کی حکومتوں پر پڑتا۔ اخباروں کی ہمدردی اور بڑے بڑے لیڈروں کے بیانات بھی بے شک بہت فائدہ دیتے ہیں مگر حکومتوں کے باقاعدہ احتجاج اور اخباروں کے مضامین میں بہت بڑا فرق ہے۔ آخر اس میں مشکل ہی کیا ہے ہر مُلک میں کچھ نہ کچھ معزز ہندوستانی موجود ہیں۔ باقاعدہ سفارتیں نہ سہی غیر معمولی نمائندگی کے حقوق اسلامی ممالک میں ایک ایک معزز ہندوستانی کے سپرد کر دیئے جائیں تو سیاسی تعلقات پاکستان اور دوسری اسلامی حکومتوں میں فوراً قائم ہو سکتے ہیں۔ ایسے انتظام پر شاید ہزار ڈیڑھ ہزار روپیہ ماہوار خرچ ہوگا، اس سے زیادہ نہیں۔
تیسری شکایت ہمیں یہ پہنچی ہے کہ ایبے سینیا میں ہندوستان کی آزادی کا دن منایا گیا اور ہندوستانی جھنڈے تقسیم کئے گئے اور خوشی سے ایبے سینیا کے لوگوں نے ہندوستانی جھنڈے لہرائے لیکن پاکستان کی آزادی کا دن نہ منایا گیا اور نہ پاکستان کے جھنڈے وہاں لہرائے گئے۔ ایبے سینیا کے شاہی خاندان کا ایک حصہ مسلمان ہے اور بعض زبردست فوجی قبائل بھی مسلمان ہیں وہ اس نظارہ کو دیکھ کر بہت مایوس ہوئے اور ایبے سینیا کے ہندوستانی ڈاکٹر جو اتفاقاً احمدی ہے سے پوچھا کہ یہاں پاکستانی جھنڈے کیوں نہیں آئے اور پاکستان کی طرف سے ہم لوگوں کو خوشی میں شامل ہونے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟ وہ سوائے افسوس کے اور کیا کر سکتاتھا اب اُس نے پاکستان کو لکھا ہے کہ کچھ پاکستانی جھنڈے بھجوا دیئے جائیں تا کہ وہ مسلمانوں میں تقسیم کئے جائیں اور اس کے نمونہ پر وہ اپنے لئے جھنڈے بنوا لیں کیونکہ ایبے سینیا کے مسلمان چاہتے ہیں کہ وہ بھی پاکستان کی خوشی میں شامل ہوں۔ ایبے سینیا گو حکومت کے لحاظ سے عیسائی ہے لیکن اس کو تین عظیم الشان حیثیتیں حاصل ہیں۔ ایک یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں ایبے سینیا نے ہجرتِ اولیٰ کے مسلمانوں کو پناہ دی تھی اور اُس وقت کا بادشاہ مسلمان بھی ہو گیا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُس بادشاہ اور اُس کی قوم کے لئے خاص طور پر دعا فرمائی تھی آج تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط اس مُلک میں محفوظ چلا آتا ہے۔
دوسرے ایبے سینیا کے شاہی خاندان کا ایک حصہ مسلمان ہے۔ کبھی کبھی وہ غالب آکر اس مُلک میں اسلامی حکومت بھی قائم کر دیتا ہے۔ ایبے سینیا اپنے معدنی اور دوسرے ذرائع کی وجہ سے اور اپنے مُلک کی وسعت کی وجہ سے اور اپنے مقامِ وقوع کی وجہ سے ایسی حیثیت رکھتا ہے کہ اگر کسی وقت وہاں اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو وہ اسلامی سیاست کی تقویت میں بہت بڑی ممد ثابت ہوگی۔
تیسرے پاکستان کے محاذ میں ایبے سینیا کا مُلک واقعہ ہے۔ اٹلی کے لوگوں نے اریتھیریا لے کر اس کو سمندر سے الگ کر دیا ہے لیکن باوجود اس کے وہ مُلک حجاز سے تھوڑی دور ایک پتلی خلیج کے بالمقابل واقع ہے اس لئے اس کے ساتھ تعلقات عرب اور پاکستان کے لئے نہایت ہی مفید نتیجہ خیزہو سکتے ہیں۔ اگر اس مُلک میں بھی کوئی سیاسی قائمقام مقرر ہوجائے تو آئندہ افریقہ میں اسلام کی اشاعت اور ترقی کے لئے رستہ کھل جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان باتوں کی طرف توجہ اس لئے نہیں ہو رہی کہ وزیروں کے سپرد بہت سے کام ہیں اور نائب وزراء مقرر نہیں ہیں۔ ہمارے نزدیک اِس طرف جلد توجہ کرنی چاہئے اور اسلامی پریس اور ذِی اثر مسلمانوںکو بار بار حکومت پر اِس کی ضرورت واضح کرتے رہنا چاہئے۔
پاکستان کس حکومت سے تعاون کرے؟
مغربی پنجاب کا تعلیم یافتہ طبقہ آجکل اپنی مجالس میں کثرت سے
یہگفتگو کرتا ہوا سنا جاتا ہے کہ پاکستان کو اپنے بقاء کے لئے کسی نہ کسی دوسری قوم سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ اکثر لوگ انگریز سے بدظن ہیں اور اس کے ساتھ صلح کرنا پسند نہیں کرتے۔ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی طرف بھی مسلمان نوجوانوں کی کوئی رغبت نظر نہیں آتی لیکن اکثر نوجوان روس کی مدد لینے کی طرف مائل نظر آتے ہیں ہمارے نزدیک یہ ایک خطرناک بات ہے اور اِس رَو کو جتنی جلدی ہو سکے روکنا چاہئے۔ ہمارے نزدیک اس قسم کے خیالات رکھنے والے لوگوں کو دو باتیں کبھی نہیں بھولنی چاہئیں۔
اوّل آج تک روس کے ساتھ تعلق رکھنے والی کوئی حکومت آزاد نہیں ہوئی۔ روسی فلسفہ اس پر جبراً ٹھونسا گیا ہے کوئی مُلک ایسا نہیں جس نے روس سے معاہدہ کیا ہو اور اس پر کمیونسٹ حکومت ٹھونس نہ دی گئی ہو۔ کمیونسٹ خیال کا رکھنا اَور چیز ہے اور کمیونسٹ حکومت کا ٹھونسنا اور چیز ہے لمبی تعلیم اور لمبے غور اور لمبے تجربہ کے بعد ایک خیال کو اَپنا لینا بُرا نہیں ہوتا لیکن پیشتر اس کے کہ مُلک کے لوگوں کی اکثریت ایک بات پر قائم ہو، اقلیت کی مدد کر کے اس کو ایک خاص نظام اختیار کرنے پر مجبور کر دینا نہایت مہلک ہوتا ہے اور مذہبی آزادی کو تباہ کر دیتا ہے۔
دوسری بات یہ یاد رکھنی چاہئے کہ مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان ممالک پر روس کی نظر ہے وہ ان کو تباہ کرنا چاہتا ہے اس لئے باوجود انگریزوں کی مخالفت کے وہ روس کی طرف مائل نہیں۔ مصر، شام،حجاز، عراق اور ٹرکی کی حکومتیں سب کی سب روسی نفوذ کے خلاف اور اس سے خائف ہیں۔ پبلک میں سے بھی اکثر اسی خیال کے ہیں۔ ایران بھی روسی دخل اندازی سے نالاں اور گریاں ہے۔ پاکستان کی حقیقی ترقی کا راز مُسلم اقوام کے اتحاد میں ہے اگر ہم اسلام کی سچی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مسلمان حکومتوں کو اکٹھا کرنا پڑے گا تا کہ اسلام کے اثر اور اس کے نفوذ کو بڑھا سکیں۔ اگر پاکستان کے نوجوانوںکی توجہ روس کی طرف رہی تو لازمی طور پر پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک میںتفرقہ پیدا ہو جائے گا اور یہ دونوں مل کر ایک مقصد اور مدعا کے حصول کے لئے کوششیں نہیں کر سکیں گے پس اسلامی اتحاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے اور اسلام کی ترقی کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہمیں اس خیال کے قریب بھی نہیں جاناچاہئے۔
پاکستان کی مالی حالت
چاروں طرف سے خبریں آ رہی ہیں کہ پاکستان کی مالی حالت کمزور ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ خبریں بہت حد تک
درست ہیں۔ پاکستان ریلوں میں بِالعموم بغیر ٹکٹ کے لوگ سوار ہوتے ہیں اور جب اُنہیں پکڑا جائے تو کہتے ہیں کہ اب تو ٹرین ہماری اپنی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ریلوں کی آمدن بالکل گر گئی ہے اور ایک مہینہ میں سے دو کروڑ روپیہ کا خسارہ ہوا ہے اگر یہی حالت رہی تو لازماً حکومت کو ریلیں بند کر دینی پڑیںگی۔ ریلوں کے بند ہونے کے بعد تجارت بھی بند ہو جائے گی اور سفروں کی دِقت کی وجہ سے مُلک میں میل جول بھی بند ہو جائے گا۔ ایک سچے مسلمان کاتو یہ فرض تھا کہ وہ اس بات پر زور دیتا کہ چونکہ پاکستان حکومت کی مالی حالت کمزور ہے ریل کا کرایہ بڑھا دو میں اس موجودہ کرایہ سے زیادہ کرایہ دوں گا۔ بے ٹکٹ ریل میں چڑھنے والا یقینا پاکستان کا دشمن ہے، وہ مسلمان قوم کا بھی دشمن ہے اور ایسے دشمن کو سمجھانا اور نہ سمجھے تو اس پر قومی دباؤ ڈالنا ہر پاکستان کے خیر خواہ کا فرض ہے۔ پس ہم ریل میں سفر کرنے والے ہر مسلمان مسافر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ خود ٹکٹ لے اور اپنے کمرہ میں بیٹھنے والے کسی شخص کو بغیر ٹکٹ کے سفر نہ کرنے دے۔ اب مُلک تمہارا ہے، اب ریل بھی تمہاری ہے اور مُلک کی حفاظت اور ریل کی آمد کی حفاظت اور دوسرے سرکاری محکموں کی آمد کی حفاظت کرنا بھی تمہارا فرض ہے۔ یہ کہنا کہ اب ریل چونکہ پاکستان کی ہے اور ہم بھی پاکستان کے ہیںاِس لئے ہمارا حق ہے کہ جس طرح چاہیں اس ریل کو استعمال کریں عقل کے بھی خلاف ہے اور دیانت کے بھی خلاف ہے۔ اِن لوگوںکے بچے یا بھائی یا بیویاں اگر بیمار ہوتے ہیں تو کیا یہ لوگ ان کے علاج پر روپیہ خرچ کیا کرتے ہیں یا یہ کہا کرتے ہیں کہ یہ بچہ بھی میرا ہے یہ بیوی بھی میری ہے اب میں جس طرح چاہوں ان کو مار دوں۔ جو شخص پاکستان کی آمد کو نقصان پہنچاتا ہے وہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور وہ اپنی قوم کو نقصان پہنچاتا ہے اور عقلمند انسان اپنے مال کو نقصان نہیں پہنچایا کرتے بلکہ اسے بڑھانے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔
اسی طرح شکایت کی جاتی ہے کہ زمیندار معاملہ ادا نہیں کر رہے۔ یہ بھی نہایت ہی گندی روح ہے اگر انہوں نے ایسا ہی کیا تو پھر پاکستان حکومت قائم نہیں رہ سکے گی۔ اگر وہ اپنے مُلک میں عزت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنی قربانیاں پہلے کی نسبت زیادہ کرنی پڑیں گی۔ اپنی حکومت کے الفاظ کے پردہ میں اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کی کوشش کرنا انہیں بہت ہی مہنگا پڑے گا۔
(الفضل لاہور ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
پاکستان کا دفاع
پاکستان کے دفاع کا موضوع ہر مجلس میں زیر بحث آ رہا ہے۔ ہر اخبار اس پر بحث کر رہا ہے اور ہر انجمن اس پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہی ہے اس موضوع کے متعلق کئی سوال سوچنے والے ہیں اور کئی مشکلات حل کرنے والی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ مسئلہ دیر تک لٹکایا جا سکتا ہے؟ کیا پاکستان کا مستقبل اس سوال کے فوری حل کا تقاضا نہیں کرتا؟ کیا پاکستان چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا نہیں؟ کیا اس کی طرف اعداء کی انگلیاں بُرے ارادوں سے نہیں اُٹھ رہیں؟ اگر ایسا ہے اور ضرور ہے تو ہمیں جلد سے جلد اس بارے میں کوئی تدبیر کرنی چاہئے۔
پاکستان کی کُل فوج ۸۰ ہزار ہے جس میں سے لڑنے والے سپاہی صرف ۳۴ ہزار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ۳۴ ہزار آدمی پاکستان کی لمبی سرحد کی حفاظت نہیں کر سکتا اس لئے پاکستان کی فوج کی تعداد اور بھی کم کر دینی چاہئے اور اسے زیادہ سے زیادہ مشینی جتھوں کی صورت میں تبدیل کر دینا چاہئے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ جرمن کی جنگ میں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ مشینی جتھے نہایت ہی کارآمد ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ مشینی جتھے ایسے ہی ممالک میں کام آتے ہیں جہاں دونوں طرف کثرت سے پختہ سڑکیں پائی جاتی ہوں۔ ہندوستان کے مُلک میں پنجاب میں بڑی پکی سڑک تو ایک ہی ہے باقی تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر معمولی قسم کی پکی سڑکیں آتی ہیں اور اکثر کچے راستے ہیں ایسی جگہ پر مشینی دستے عمدہ طور پر کام نہیں کر سکتے اور نہ اپنے عقب کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ایسے مُلک میں گھوڑ سوار فوج اور سائیکل فوج اور پیدل فوج بڑی آسانی سے مشینی دستوں کا رستہ کاٹ سکتی اور ان کے حملہ کو بیکار کر سکتی ہے اس لئے جہاں پاکستان کو کچھ مشینی دستوں کی ضرورت ہے وہاں اسے ایسی فوج کی بھی ضرورت ہے جو بے سڑک والے علاقوں میں گھوڑوں پر سوار ہو کر دو سڑکوں کے درمیانی علاقہ کو صاف کرتی چلی جائے اور مشینی فوج کے عقب کی حفاظت کر سکے مگر یہ سوال تو اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ پاکستان حملہ آور کی حیثیت میں ہو۔ پاکستان تو کسی پر حملہ کرنے کی نیت ہی نہیں رکھتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ بہترین جرنیلوں کا مقولہ ہے کہ بہترین دفاع حملہ ہے اگر کوئی ہم پر حملہ کرے تو اس حملہ سے بچنے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ہم اس پر حملہ کر دیں تو بھی ہم اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ کوئی فوج محض حملہ کرنے کی تدبیروں سے کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جرمن حکومت گزشتہ دنوں لڑائیوں میں محض اس لئے شکست کھا گئی کہ اس نے صرف حملہ کی تیاریاں کی تھیں دفاع کی کوئی تیاری اس نے نہیں کی تھی۔ دونوں دفعہ جب اس کا حملہ ناکام رہا تو وہ دفاع کی قوت سے بھی محروم ہو گیا کیونکہ دفاع کا پہلو اس نے مدِ نظر نہیں رکھا تھا۔ یہ پُرانا مقولہ اب تک بھی درست چلا آرہا ہے کہ ’’جنگ دو سر دارد‘‘ جنگ میں کبھی انسان آگے بڑھتا ہے کبھی پیچھے ہٹتا ہے جب تک پیچھے ہٹنے کے لئے بھی پوری تدبیریں نہ کی گئی ہوں کبھی کوئی فوج کامیاب نہیں ہوتی۔ پس صرف مشینی دستوں پر زور دینا پاکستان کے دفاع کو فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ کسی دشمن کے حملہ کی صورت میں اس کے حملہ کی شدت کو روکنے کیلئے بِالمقابل حملہ کرنے میں تو یہ دستے کام آ جائیں گے لیکن ان کا فائدہ دیرپا اور دُور رس نہیںہوگا کیونکہ پاکستان کے اِردگرد جتنے ممالک ہیں اُن میں سڑکوں کا وسیع جال اِس طرح نہیںپھیلاہوا جس طرح یورپ میں پھیلا ہوا ہے۔ پس اس معاملہ میں یورپ کی نقل کرنا خواہ اس کا فیصلہ بڑے بڑے جرنیل ہی کیوں نہ کریں خلافِ عقل اور نامناسب ہے۔ ہمارے نزدیک پاکستان کی فوج کا بڑھانا نہایت ضروری ہے۔
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستانی فوج کی پاکستانی جرنیل ہی راہ نمائی کریں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِس وقت ہمارے پاس تجربہ کار افسر بہت کم ہیں لیکن جہاں ناتجربہ کاری نقصان دِہ ہوتی ہے، ہمدردی کی کمی اس سے بھی زیادہ نقصان دِہ ہوتی ہے۔ اگر جاں نثار اور تجربہ کار مل جائیںتو فَبِھَا لیکن اگر ایسے افسر نہ ملیں تو کم تجربہ کار لیکن جانثار افسر تجربہ کار لیکن بے تعلق افسر سے یقینا بہت زیادہ بہتر ہے۔
پولینڈ جب روس اور جرمنی سے آزاد ہوا تو اُس کے پاس تجربہ کار افسر نہیں تھے کیونکہ نہ جرمن کی فوجوں میںپولش لوگوں کو بڑے عہدے ملتے تھے اور نہ روسی فوجوں میں پولش لوگوںکو بڑے عہدے ملتے تھے اُس وقت پولش نے اپنی فوجوں کی کمانڈ ایک گویے کے سپرد کی اور اس گویے نے تھوڑے بہت فوجی اصول سے واقف پولش افسروں کی مدد سے اپنے مُلک کو آزاد کرالیا۔ کیا پاکستان کے مسلمان افسر اس گویے سے بھی کم قابلیت رکھتے ہیں۔ اس گویے کی کیا قابلیت تھی صرف حب الوطنی، وطن کی محبت کے بے انتہا جذبہ نے اس گویے کو ایک قابل جرنیل بنا دیا۔ کیا ہم یہ خیال کر سکتے ہیں کہ پاکستانی فوج کے مسلمان افسروں کے دل سے وطن کی محبت کا جذبہ بالکل مفقود ہے؟ ہم مانتے ہیں کہ پُرانی روایات کا اثر اب تک افسروں کے دل پر باقی ہے۔ ابھی ان کی حب الوطنی کی روح نے ان کی آنکھیں نہیں کھولیں، ابھی اپنی قوم کو سربلندوبالا کرنے کے جذبات ان کے دل میںپوری طرح نہیں اُمڈے مگر پھر بھی ایک پاکستانی، پاکستانی ہی ہے اپنے مُلک کی خدمت کے علاوہ اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی جان بچانے کی خواہش بھی اسے زیادہ محنت سے کام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر پاکستان پر کوئی حملہ ہو تو ایک پاکستانی جرنیل کو صرف اپنے مُلک کی عزت کا ہی خیال نہیں ہوگا بلکہ اسے یہ بھی نظر آ رہا ہوگا کہ اگر دشمن آگے بڑھا تو اُس کے ماں باپ، اُس کی بیوی، اُس کے بھائی ،اُس کی بہنیں، اُس کے بچے، اُس کے دوسرے عزیزوںکے بچے، اُس کے پڑوسی، اُس کے املاک اس کی جائدادیں یہ سب تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ پس مُلکی جذبہ کے علاوہ خاندان اور قرابت کے بچانے کا جذبہ بھی اس کے اندر کام کرتا ہوگا۔ پس ہمیں اس بات کی فکر میں زیادہ نہیں پڑنا چاہئے کہ ہمارے مُلک کے آدمی ابھی پوری طرح تجربہ کار نہیں۔
جدید ٹرکی کے بانی کمال اتاترک۹؎ صرف ایک کرنیل تھے لیکن وطنی محبت کے جذبہ میں سرشار ہو کر اِس کرنیل نے بڑے بڑے جرنیلوں کے چھکے چھڑا دیئے۔ فرانس کا مشہور مارشل شہنشاہ نپولین ۱۰؎ صرف فوج کا ایک لفٹیننٹ تھا لیکن اس لفٹیننٹنے دنیا کے مشہور ترین جرنیلوںکی قیادت کی صرف اس لئے کہ اس کا دل وطن کی محبت کے جذبات سے سرشار تھا۔ امریکہ کا پہلا پریذیڈنٹ اور پہلا کمانڈرانچیف جارج واشنگٹن ۱۱؎ محض ایک سویلین تھا لیکن وطن کی محبت کے جذبات نے اس کے اندر وہ قابلیت پیدا کر دی کہ بڑے بڑے جرنیلوں کی راہ نمائی کر کے اُس نے اپنے مُلک کو انگریزی غلبہ سے آزاد کروا لیا۔ ہٹلر ۱۲؎ کا انجام چاہے کیساہی خراب ہوا ہو لیکن اس میں کیا شک ہے کہ وہ فوج میں صوبیداری کاعہدہ رکھنے والا دنیا کے بہترین جرنیلوں کے پیدا کرنے کا باعث ہوا۔ گوئرنگ ۱۳؎ محض ایک ہوا باز تھا اور ہوا باز بھی ایسا جو ابھی صرف تجربہ ہی حاصل کر رہا تھا مگر مُلک کی محبت کے جذبات نے پائلٹ گوئرنگ کو دنیا کے سب سے زبردست ہوائی جہاز کے بیڑہ کا مارشل گوئرنگ بنا دیا۔ ہم کیوں خیال کریں کہ پاکستان کے افسر حب الوطنی کے جذبہ سے بالکل عاری ہیں یقینا ان میں بھی اپنے وطن پر جان دینے کی خواہش رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ اگر انہوں موقع دیا جائے کہ وہ اپنے مُلک کی آزادنہ خدمت کریں تو یقینا وہ مُلک کے لئے بہترین تعویز اور فخر کا موجب ثابت ہونگے۔ فوج میں ایسے کام بھی ہو سکتے ہیں جن کے لئے خاص فنون کے ماہروں کی ضرورت ہو۔ ایسے فنون کے ماہر بے شک باہر سے بھی لئے جا سکتے ہیں اور اگر ضرورت سمجھی جائے تو بعض لڑنے والے افسر بھی باہر سے لئے جا سکتے ہیں لیکن یہ افسر ایسے نہیں ہونے چاہئیں جو تقسیم ہند سے پہلے قائداعظم اور مُسلم لیگ کو سَو سَو گالیاں دیا کرتے تھے اور ہم یقین کے طور پر جانتے ہیںکہ ایسے انگریز افسر پاکستان کی فوج میں موجود ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ایسے انگریز افسر پاکستانی فوج میں نہ رہیں۔ بے شک اگر ضرورت ہو تو اُن کو رکھا جائے لیکن قومی دفاع کے اہم عہدوں پر ان کو مقرر نہیں کرنا چاہئے۔ ہر فوجی افسر قومی دفاع کے اہم کام پر مقرر نہیں ہوتا۔ جس طرح دوسرے کاموں میںکوئی عہدہ اہمیت والا ہوتا ہے کوئی غیر اہمیت والا ہوتا ہے یہی حالت فوج کی بھی ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ جب ایسے افسر دوسرے غیر اہم کاموں پر لگائے جا سکتے ہیں تو کیوں انہیں ان کاموں پر لگا کر ایسے عہدے جو دفاع کے لحاظ سے بہت اہم ہیں مسلمان افسروں کے سپرد نہ کئے جائیں۔
مگر ایک اور بات بھی ہے اگر یہ اصلاحات کر بھی دی جائیںتب بھی پاکستان کی فوج پورے طور پر اپنی مُلکی سرحدوں کا دفاع نہیں کر سکتی۔ پاکستان کی سرحد کوہِ ہندوکش سے شروع ہو کر مانسہرہ، ہزارہ، راولپنڈی، جہلم، گجرات اور سیالکوٹ کے ساتھ ہوتی ہوئی، منٹگمری، بہاولپور، سکھر، خیرپور سے گزرتی ہوئی امر کوٹ کی تحصیل کے خاتمہ پر سمندر سے جا کر ملتی ہے۔ اس تمام سرحد کی لمبائی کوئی ایک ہزار میل کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی وہ سرحد بھی ہے جو افغانستان کے ساتھ ملتی ہے۔ اگر خدا کرے کشمیر پاکستان میں شامل ہو جائے تو پاکستان کی سرحد چھوٹی ہو کر چھ سَو میل کے قریب رہ جائے گی لیکن اگر کشمیر نہ ملا تو ہزار میل کی سرحد ہوگی۔ اگر لڑنے والی فوج ۳۴ ہزار ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ صرف ایک یا ڈیڑھ ڈویژن یعنی ۱۲ یا ۱۸ ہزار آدمی اگلی صف میں کام کر سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ایک میل کی حفاظت کیلئے ہمارے پاس ۱۲ یا ۱۸ سپاہی ہیں۔ فرانس کی جرمن سے جو سرحد ملتی تھی وہ کوئی اڑھائی سَو میل کے قریب تھی اور جرمن کی جو سرحد روس سے ملتی تھی وہ بھی کوئی تین ساڑے تین سَو میل تھی۔ ان پانچ چھ سَو میل کی سرحدات کے لئے جرمن نے ۸۰ لاکھ فوج تیار کی تھی۔ اسی طرح فرانس نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کیلئے ۷۰ لاکھ فوج تیار کی تھی۔ اگر ان فوجوں کا بیس فیصدی حصہ ایک وقت میں جنگی محاذ پر لڑتا ہوتو جرمن کی سرحدوں کے ہر میل کی حفاظت کیلئے تین ہزار آدمی کا ایک وقت میں انتظام تھا لیکن پاکستانی حدود میں فی میل کی حفاظت کیلئے صرف ۱۸ آدمی مہیا ہو سکیں گے۔ فرق ظاہر ہے اور نتائج کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں یہ بات بھی ٹھیک ہے، لیکن جب مشکلیں پڑتی ہیں، جب قوموں کی زندگی اور موت کا سوال پیدا ہوتا ہے تو حکومتوں اور مُلک کے باشندوں کا فرض ہوتا ہے کہ روپیہ کی عدم موجودگی کی صورت میں وہ قومی کاموں کو قومی قربانیوں سے پورا کریں۔ پاکستان کے لئے اِس سے زیادہ نازک وقت اور کونسا ہوگا اگر پاکستان کے باشندے اب بھی بیدار نہ ہوئے تو کب بیدار ہونگے۔ یہ جو ۲ لاکھ آدمی بے کار مشرقی پنجاب میں مارا گیا ہے اور وہ اربوں کی جائدادیں جو مشرقی پنجاب میںتباہ ہوئی ہیں اگر وہی آدمی اور وہی جائدادیں اور وہی روپیہ مُلکی دفاع میں صَرف کیا جاتا تو پاکستان یقینا ایک لمبے عرصہ کیلئے اپنے مُلک کی بنیادوں کو مضبوط کر لیتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ کیا صورت ہے جس سے یہ ضرورت پوری کی جاسکے۔ ہم اس بارہ میں اپنے خیالات اگلے مقالہ میں اِنْشَائَ اللّٰہ ظاہر کریں گے۔
(الفضل لاہور ۱۵؍اکتوبر ۱۹۴۷ء)
ہم اپنے پہلے مقالہ میں لکھ چکے ہیں کہ پاکستان کی سرحد کشمیر اور افغانستان کی سرحدوں کو ملا کر سولہ سَو میل لمبی ہے بلکہ بلوچستان اور افغانستان کی سرحدوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو انیس سَو میل لمبی ہے اگر کشمیر پاکستان میں شامل ہو جائے اور اس کی سرحد کو نکال دیا جائے تو پھر یہ سرحد پندرہ سَو میل لمبی ہے اور اگر افغانستان کی سرحد کو بھی نکال دیا جائے تو پھر بھی ہندوستان سے ملنے والی سرحد چھ سَو میل ہے اور پاکستان کی موجودہ فوج میں سے جو فوج ایک وقت میں سرحد پر رکھی جا سکتی ہے اُس کی تعداد کسی وقت میں ۱۸ ہزار سے زیادہ نہیں ہو سکتی بلکہ یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ ایک وقت میں صرف ۱۲ ہزار فوج استعمال کی جا سکے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر میل کی حفاظت کیلئے صرف تیس سپاہی ہونگے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ کوئی فوج ساری سرحد پر پھیل کر کھڑی نہیں ہوتی لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اتنی لمبی سرحد میں بیسیوںچوکیاں بنانی پڑیں گی اگر پچاس چوکی رکھی جائیں اور فی چوکی دو پلٹنیں رکھی جائیں تو سات ہزار فوج تو صرف اسی میں لگ جائے گی۔ باقی پانچ ہزار فوج رہ گئی، پانچ ہزار فوج اتنے بڑے علاقہ میں لڑ ہی کیا سکتی ہے۔ صرف چھ سَو میل لمبی سرحد کی حفاظت کے لئے بھی ہمارے پاس کم سے کم ایک لاکھ سپاہی اگلی صف میں ہونا چاہئے۔ پاکستان کی آبادی صوبہ سرحد اور سندھ کو ملا کر دو کروڑ ۸۰ ہزار ہے۔ اگر قبائلی علاقوں کو بھی ملا لیا جائے تو تقریباً ۳ کروڑ ہو جائے گی۔ اگر کشمیر بھی شامل ہو جائے تو کشمیر کی ۳۲ لاکھ مسلمان آبادی مل کر یہ تعداد ۳ کروڑ ۳۰ لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس آبادی میں سے صرف ۶۰ لاکھ آبادی ایسی ہے جس میں سے اچھا سپاہی نہیں مل سکتا۔ باقی ۲ کروڑ ۷۰ لاکھ کی آبادی ایسی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت ہی شاندار سپاہی پیدا کرتی رہی ہے اور کر سکتی ہے۔ سرحد کا پٹھان، آزاد علاقہ کا قبائلی، پونچھ، میرپور، کوٹلی اور مظفر آباد کا پہاڑی، پنجاب کا پٹھان، راجپوت، بلوچ اور جاٹ یہ سب کے سب نہایت اعلیٰ درجہ کے سپاہی ہیں اور صرف مرنا ہی نہیں جانتے بلکہ دشمن کو مارنا بھی جانتے ہیں۔ قومی جنگوں میں چھ فیصدی سے لے کر ۱۶ فیصدی تک کی آبادی لڑائی میں کارآمد ہوتی ہے اوسطاً اگر ۱۰ فیصدی سمجھی جائے تو مشرقی پاکستان میں سے ۲۷ لاکھ سپاہی مہیا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابل میں ہندوستان کی جنگی نفری بہت کم ہے۔ ہندوستان کا ساٹھ فیصدی آدمی ایسا ہے جو جنگ کے قابل نہیں۔ ریاستوں کو نکال کر ہندوستان کی آبادی کوئی ۲۰ کروڑ ہے جس میں سے ۱۲ کروڑ آدمی تو کسی صورت میں بھی لڑنے کے قابل نہیں۔ باقی رہ گئے آٹھ کروڑ ان میں سے بھی اکثر حصہ ناقص سپاہی ہے صرف تین چار کروڑ آدمی ان کا ایسا ہے جس میں سے اچھا سپاہی لیا جا سکتا ہے۔ مگر وہ بھی اس پایہ کا نہیں ہے جس پایہ کا مسلمان سپاہی ہے۔ پس ہندوستان میں سے بھی پورا زور لگانے کے بعد ۳۰،۳۵ لاکھ سپاہی مل سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں لیکن جب لڑائی کے سوال پر غور کیا جاتا ہے تو صرف نفری نہیں دیکھی جاتی بلکہ سرحد کی لمبائی بھی دیکھی جاتی ہے۔ جس طرح لمبی سرحد کی حفاظت تھوڑے سپاہی نہیں کر سکتے اس طرح چھوٹی سرحد پر ساری فوج استعمال نہیں کی جاتی۔ چھ سَو میل لمبی سرحد پر ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ ۶۔۷ لاکھ فوج استعمال کی جا سکتی ہے۔ باقی ساری فوج ریزرو میں رہے گی اور راستوں کی حفاظت کا کام کرے گی۔ پس اگر خدانخواستہ کبھی ہندوستان اور پاکستان میں جنگ چھڑ جائے تو جہاں تک نفری کا سوال ہے ان دونوں کے درمیان کی سرحد کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہندوستان کی آبادی کی کثرت ہندوستان کو یہ نفع تو پہنچا سکتی ہے کہ وہ جنگ کو زیادہ دیر تک جاری رکھ سکے یا زیادہ آدمیوں کی قربانی برداشت کر سکے لیکن جہاں تک جنگ کا تعلق ہے وہ پاکستان کی فوج سے زیادہ تعداد والی فوج نہیں بھیج سکتا کیونکہ درمیان کی سرحد کی لمبائی اِس بات کی اجازت ہی نہیں دیتی کہ ایک وقت میں اس جگہ اتنی فوج کو استعمال کیا جا سکے خصوصاً اس لئے کہ جیسے پہلے بتایا جا چکا ہے یہ دونوں مُلک عمدہ سڑکوں سے محروم ہیں اور گو سرحد چھ سَو میل لمبی ہے لیکن ایک مُلک سے دوسرے مُلک تک پہنچنے کے جو راستے ہیں وہ بہت محدود ہیں اور جنگ زیادہ تر رستوں سے ہی کی جا سکتی ہے۔ جہاں سے توپ خانہ اور سامان وغیرہ موٹروں پر آگے پیچھے بھیجا جا سکتا ہے اور جہاں پر سے فوج قطاروں میں مارچ کر سکتی ہے۔ غرض جہاں تک فوجی نفری کا سوال ہے، صرف مشرقی پاکستان ہی تمام پاکستان کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے اور اس معاملہ میں کسی مایوسی کی ضرورت نہیں۔ ہاں سوال صرف یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ دونوں مُلکوں میں جنگ چھڑ جائے تو اتنی فوج مہیا کس طرح کی جائے گی۔ سپاہیانہ قابلیت کا آدمی موجود ہونا اور بات ہے اور سپاہی کا موجود ہونا اور بات ہے۔ ہر جاٹ اور بلوچ سپاہی بننے کی قابلیت رکھتا ہے لیکن ہر جاٹ اور بلوچ سپاہی تو نہیں اس لئے بغیر فوجی مشق کے جنگ کے وقت میں وہ کام نہیں آ سکتا۔ اور جنگ کے وقت فوری طور پر سپاہی کو فنونِ جنگ سکھائے نہیں جا سکتے اور اس سے بھی زیادہ مشکل یہ ہے کہ افسر فوراً تیار کئے جاسکیں۔ افسروں کی تعداد بِالعموم ڈیڑھ فیصدی ہوتی ہے۔ ۲۷ لاکھ فوج کے لئے چھوٹے بڑے افسر ۴۰ ہزار کے قریب ہونے چاہئیں۔ ہماری تو ساری فوج ہی ۳۰ ہزار ہے اگر خطرے کا موقع آیا تو کسی صورت میں بھی اس فوج کو معقول طور پر وسیع نہیں کیا جا سکتا اور اس کا علاج ضروری ہے۔ یہ علاج کس طرح ہو سکتا ہے اس کے لئے یہ مختلف سکیمیں پیش کی جا رہی ہیں اور پیش کی جا سکتی ہیں۔
اوّل: مُلک کے تمام افراد کو رائفلیں رکھنے کی کھلی اجازت دی جائے اورجہاں تک ہو سکے گورنمنٹ خود رائفلیں سستے داموں پر مہیا کرے۔
دوم: نیشنل گارڈز کے طریق کو رائج کیا جائے جو مسلم لیگ کے ماتحت ہو۔
سوم: ہوم گارڈز کے اصول پر نوجوانوں کو فوجی ٹریننگ دی جائے جو گورنمنٹ کی نگرانی میں ہو۔
چہارم: ایک ٹیریٹوریل فورس فوجی انتظام کے ماتحت تیار کی جائے۔
پنجم: جبری بھرتی مُلک میں جاری کی جائے اور اس کا انتظام ملٹری کے ماتحت ہو۔
یہ پانچ طریق ہیںجن سے مُلک کی جنگی نفری کو منظم کیا جا سکتا ہے اور وقت پڑنے پر اس سے کام لیا جا سکتا ہے۔ اب ہم اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ ان پانچوں طریقوں میں سے کونسا طریقہ زیادہ بہتر اور مناسب ہوگا۔
(۱) پہلا مجوزہ طریق یہ ہے کہ مُلک میں کثرت سے رائفلیں رکھنے کی تحریک کی جائے اور گورنمنٹ سستے داموں لوگوں کو رائفلیں مہیا کر کے دے۔ یہ طریق جس مُلک میں بھی رائج ہوا ہے کامیاب نہیں ہوا اور ہمیشہ اس کے نتیجہ میں فساد اور دنگے کا رستہ کھلتا رہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہتھیار رکھنے کا حق عام شہریوں کو حاصل ہونا چاہئے اور صرف ان لوگوں کو ہتھیار رکھنے کی اجازت نہ دینی چاہئے جو مجرمانہ حیثیت رکھتے ہیں یا ناقابلِ اعتبار ہیں اور جب یہ شرط ہو تو لازماً یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہتھیار کے لئے لائسنس ضروری ہے اور ہتھیار رکھنے کے متعلق کچھ نہ کچھ نگرانی کی طاقت گورنمنٹ کے ہاتھ میں ضرور ہونی چاہئے ورنہ بدمعاش اور چور طبقہ مُلک کے امن میں خلل ڈال دے گا بلکہ زیادہ تر ہتھیار یہی لوگ رکھیں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض باغیانہ ذہنیت والی انجمنیں پیدا ہو جائیں اور وہ اسلحہ کی طاقت سے مُلک کی جائز حکومت کو توڑنے کی کوشش کریں۔ پس یہ تجویز مُلک کے لئے مضر ہے اور یقینا ہر سمجھدار انسان کو اس کی مخالفت کرنی چاہئے۔ لائسنس ضرور رہنا چاہئے گو اس سختی سے لائسنس نہیں دینے چاہئیں جس سختی سے برطانوی حکومت ہندوستانیوں کو لائسنس دیا کرتی تھی اس سے بہت زیادہ لائسنس ملنے چاہئیں۔ غریب اور امیر کی کوئی تمیز نہیں ہونی چاہئے۔ اس بات کی کوئی شرط نہیں ہونی چاہئے کہ جو شخص ڈپٹی کمشنر کا منہ چڑھا ہو یا افسروں کو خوشامد کرتا ہو یا پولیس کے ساتھ کام کرتا ہو صرف اُس کو لائسنس دیا جائے۔ جیسے یورپ میں قاعدہ ہے عام طور پر نام رجسٹرڈ کرانے سے لائسنس مل جاتا ہے اور نام رجسٹرڈ ہونے کی وجہ سے گورنمنٹ کو موقع حاصل رہتا ہے کہ وہ ایسے شخص کی نگرانی کر سکے اور دیکھ سکے کہ وہ ہتھیار کا ناجائز استعمال تو نہیں کر سکتا۔
(۲) یہ تجویز کہ نیشنل گارڈز کی سکیم کو مسلم لیگ کی نگرانی میں منظم کیا جائے جمہوری اصول کے خلاف ہے۔ جمہوری اصول کے مطابق پارلیمنٹ کے انتخابات تک پارٹیاں الگ الگ کام کرتی ہیں جب کوئی پارٹی برسراقتدار آ جاتی ہے تو اُسی دن سے وہ سارے مُلک کی نمائندہ بن جاتی ہے صرف اپنی پارٹی کی نمائندہ نہیں ہوتی۔ پس کوئی فوجی تنظیم کسی پارٹی کے قبضہ میں نہیں ہونی چاہئے ورنہ جمہوریت ختم ہو جائے گی اور فاسزم اور ناٹسزم شروع ہو جائے گا۔ کسی حکومت کے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ اپنی سیاسی پارٹی کو فوجی تنظیم کی اجازت دے اور دوسروں کو اس سے منع کر دے اگر وہ ایسا کرے گی تو لازمی طور پر دوسری پارٹیاں مخفی طور پر اپنی تنظیم شروع کر دیں گی تا کہ وقت آنے پر وہ اپنی حفاظت کر سکیں پھر یا تو گورنمنٹ کو ایسی پارٹیوں کو دبانا پڑے گا اور اس پر بے جا رعایت اور بے جا دشمنی کا الزام لگے گا اور یا وہ دوسری پارٹیوں کے فعل پر چشم پوشی سے کام لے گی۔ اس صورت میں قانون کا احترام مُلک سے جاتا رہے گا اور قانون شکنی کی روح مُلک میں بڑھتی جائے گی۔
(۳) تیسری تجویز ہوم گارڈز کی ہے جو ایک قسم کی ملٹری ملیشیا ہوتی ہے اور صوبہ جاتی حکومتوں کے انتظام کے نیچے ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تجویز بھی ناقص ہے۔ اوّل تو ہوم گارڈز کی ٹریننگ بہت ادنیٰ ہوتی ہے دوسرے ہوم گارڈز چونکہ سول اور صوبہ جاتی گورنمنٹ کے ماتحت ہوتے ہیں ان میں اور فوج میں اکثر رقابت پیدا ہو جاتی ہے اور ان کا وجود فوج کو سیاسی کاموں میں دخل دینے کی طرف مائل کر دیتا ہے۔ اس سے پوری طرح بچنا چاہئے۔
(۴،۵) چوتھی تجویز ٹیرٹیوریل فورس کی ہے اور پانچویں عام جبری فوجی تعلیم کی۔ یہ دونوں تجویزیں چونکہ آپس میں ملتی ہیں اس لئے ہم ان کا اکٹھا ذکر کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ابھی وقت نہیں آتا کہ عام جبری فوجی تعلیم دی جائے۔ نہ اتنے افسر ہمارے پاس مہیا ہیں اور نہ ابھی اتنا روپیہ ہے۔ پس ہمارے نزدیک بہترین تجویز ٹیرٹیوریل فورس کی ہے۔ ٹیریٹوریل فورس دفاعِ مُلکی کے اصول پر تیار کی جاتی ہے یعنی اس فوج کو اور اس کے افسروںکو حملے کا کام تو نہیں سکھایا جاتا لیکن دفاع کے تمام ہنر اُن کو سکھائے جاتے ہیں اس لئے اس میں شامل ہونے والے لوگ بغیر اپنے نجی کاموں کو نقصان پہنچانے کے فوجی ٹریننگ حاصل کر لیتے ہیں اور اس ٹریننگ میں مناسب تعداد میں افسر بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ اس فوج کی موجودگی میں باقاعدہ فوج کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں مشینی دستوںمیں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ حملہ کرنے کے اصول میں ماہر بنانے پر زور دیا جا سکتا ہے کیونکہ جنگ کی صورت میں دفاع کے مورچے فوراً ٹیریٹوریل فوج سنبھال لیتی ہے اور باقاعدہ فوج آگے بڑھنے کے لئے آزاد ہو جاتی ہے۔ ٹیریٹوریل فوج چونکہ بہت حد تک فوجی فنون سے واقف ہوتی ہے اور مختلف قسم کے دستوں میں تعاون بھی قائم ہو چکا ہوتا ہے اس لئے صرف تین تین چار چار مہینہ کی ٹریننگ سے یہی فوج حملہ آور فوج کی شکل میں تبدیل کی جا سکتی ہے۔ اس فوج کی ٹریننگ سے کسی قسم کی بغاوت وغیرہ کا خطرہ بھی نہیںہو سکتا کیونکہ فوجی سپاہی کا ہتھیار اس کے پاس نہیں ہوا کرتا۔ پریکٹس کے بعد اس سے ہتھیار لے لیا جاتا ہے اور فوجی مخزن میں رکھ دیا جاتا ہے جس پر گورنمنٹ کی نگرانی ہوتی ہے اور ٹیریٹوریل فورس پر خرچ بھی بہت کم ہوتا ہے۔ اگر طوعی طور پر ایسی بھرتی شروع کر دی جائے تو پہلے سال پچاس ہزار آدمی کی فوج کا تیار کرنا مناسب ہوگا۔ جسے ہر سال بڑھایا جا سکتا ہے اور چار پانچ سال میں دس لاکھ تک فوج تیار کی جا سکتی ہے۔ اس فوج کی ٹریننگ کے دو حصے کئے جا سکتے ہیں۔ عام سپاہی روزانہ ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ فوجی تربیت کے لئے دے۔ یہ ٹریننگ مقامی ہونی چاہئے یعنی کسی سپاہی کو اپنا شہر چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جانے کی ضرورت محسوس نہ ہو تاکہ وہ اپنا کام چھوڑے بغیر ایسی ٹریننگ حاصل کر سکے۔ اس صورت میں زیر تعلیم سپاہیوں پر کچھ بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد وہ ایک اوسط درجہ کے سپاہی بن جائیں گے۔ افسروں کی ٹریننگ کا اصول یہ ہو کہ اس طرح چھ مہینہ کی ٹریننگ لینے کے بعد دو مہینے کا مستقل کورس ان کے لئے مقرر کیا جائے جس پر انہیں کمان کرنے کے اصول سکھائے جائیں۔ اگر اس تجویز کے مطابق پچاس ہزار کی ٹریننگ کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے بیس ہزار آدمی کی ٹریننگ شروع کی جائے تو ایک ہزار معلم رکھنا پڑے گا جن کا عہدہ جمعدار کا ہوگا اور ایک لاکھ روپیہ ماہوار ان لوگوں کی تنخواہوں اور راشنوں پر خرچ ہوگا۔ بیس ہزار رائفل اور وردی وغیرہ پرکوئی ۳۰۔۳۵ لاکھ روپیہ خرچ ہوگا چونکہ سکھانے والے افسر تنخواہ دار ہوں گے وہ ایک حصہ کی صبح ٹریننگ کر سکتے ہیں اور ایک حصہ کی شام کو۔ اس طرح آدھے افسر کام آ سکتے ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ بجائے ایک ہزار آدمی کے پانچ سَو آدمی سے ہی کام چل سکتا ہے اور بجائے ایک لاکھ روپیہ کے پچاس ہزار روپیہ ماہوار سے کام چل سکتا ہے۔ اتنے افسر چھ ماہ میں بیس ہزار آدمی کو ٹریننگ دے سکتے ہیں اور سارا خرچ اس ٹریننگ پر کوئی چالیس لاکھ روپیہ سالانہ ہوگا۔ جب مقامی لوگ کام سیکھ جائیں تو اگلے چھ ماہ میں ان میں سے ہوشیار آدمیوں کو ایک ایک مہینہ کی خاص تعلیم دلا کر فوجی معلّم کا کام سکھایا جا سکتا ہے اور پھر اپنے اپنے علاقہ میں ان کو فوجی معلّم مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں اگر کوئی شخص طوعی طور پر کام کرنے کیلئے تیار نہ ہو تو اسے ۲۰،۲۵ روپے ماہوار الاؤنس دینے سے کام لیا جاسکے گا۔ ایسے لوگوں کی امداد کے ساتھ سال نہیںتو ڈیڑھ سال میں ایک لاکھ آدمی ٹیریٹوریل فورس کا تیار کیا جا سکتا ہے اور پھر اگلے سالوں میں یہ طاقت اور بھی وسیع کی جا سکتی ہے۔ دوسرے اس ٹیریٹوریل فورس کے علاوہ تمام مُلک میں فوجی کلبیں بنا دینی چاہئیں۔ ان فوجی کلبوں کا اصول یہ ہونا چاہئے کہ جو لوگ اس کے ممبر ہوں وہ اپنے خرچ پر ٹریننگ لیں۔ گورنمنٹ ان کے لئے صرف معلّم مہیا کرے یا رائفل اور کارتوس، باقی وردی وہ خود اپنے روپیہ سے خریدیں۔ یہ فوجی کلبیں بڑے اور چھوٹے شہروں میں ہو سکتی ہیں۔ گاؤں میں ان کا چلنا ممکن نہیں لیکن پاکستان کے شہروں کی آبادی بھی ۳۵۔ ۴۰ لاکھ کے قریب ہے۔ اگر فوجی کلبوں کا رواج قائم کر دیا جائے تو صرف ۲۰۔۳۰ لاکھ روپیہ سالانہ کے خرچ سے دو لاکھ کے قریب سپاہی اور افسر اَور تیار ہو جائے گا جو ٹیریٹوریل فورس کے برابر تو تجربہ کار نہیں ہوگا لیکن ایسا ضرور ہوگا کہ جنگ کے موقع پر دو تین مہینہ کی تربیت کے بعد وہ ٹیریٹوریل فورس کی جگہ کام کرنے کے قابل ہو جائے جبکہ اس عرصہ میں ٹیریٹوریل فورس اعلیٰ تربیت کے بعد حملہ آور فوج کی جگہ لینے کیلئے تیار ہو جائے گی۔ اگر یہ ہو جائے تو یقینا جنگ کی صورت میں مُلک کو اتنا وقت مل جائے گا کہ آرمی کلب کے ممبر دفاع سنبھالنے کے قابل ہو جائیں اور دفاع کے لئے تیار کی ہوئی ٹیریٹوریل فورس حملہ آور فوج کی صورت میں تبدیل ہو جائے ۔ اس عرصہ میں نئی ٹیریٹوریل فورس کی تیاری کا موقع مل جائے گا اور ضرورت کے مطابق نئی فوج تیار ہوتی جائے گی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مُلک میں اسلحہ کو بالکل آزاد کر دینا اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ مُلکوں میں بھی کبھی بابرکت ثابت نہیں ہوا۔ لائسنس کی شرطیں ضرور رہنی چاہئیں۔ فسادی یا غیر معتبر لوگوں کو لائسنس نہیں ملنے چاہئیں۔ نیشنل گارڈز جو ایک سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں ان کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہئے اگر ایک سیاسی پارٹی کو فوج بھرتی کرنے کی اجازت ہو تو ہر پارٹی کو فوج بھرتی کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ یہ درست نہیں کہ جو پارٹی برسراقتدار آ جائے اسے تو فوج بھرتی کرنے کی اجازت ہو اور دوسری پارٹیوں کو نہ ہو۔ اس طرح سیاسی آزادی خطرہ میں پڑ جائے گی اور ڈکٹیٹر شپ اور فاسزم کے اصول جاری ہو جائیں گے۔ ہوم گارڈز کا اصول بھی غلط ہے کیونکہ ایک تو ان کی ٹریننگ ناقص ہوتی ہے دوسرے ان کا انتظام سویلین لوگوں کے ماتحت ہونے کی وجہ سے ان کا فوج کے ساتھ ٹکراؤ ہوتا ہے اور فوج کو اس بات کی تحریک ہوتی ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں دخل دینے لگ جائے اور یہ نہایت خطرناک بات ہے۔ جبری بھرتی بھی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ مُلک ابھی اس کے لئے تیار نہیں لیکن ٹیریٹوریل فورس اور فوجی کلبوں کا اجراء فوراً شروع ہو جانا چاہئے۔ ان دونوں چیزوں پر ایسی صورت میں کہ دو تین لاکھ آدمی کی ٹریننگ مدِنظر ہو۔ ایک کروڑ روپیہ سالانہ سے زیادہ خرچ نہیں ہوگا کیونکہ سوائے معلّموں اور سوائے رائفل اور کارتوس کے خرچ کے اور ایک حصہ کے وردی کے خرچ کے اور کوئی بوجھ مُلک پر نہیں ہوگا۔ اس فوج کی بڑی تعداد ایسے خدمتگاروں کی ہوگی جو اپنی وردیوں کا خرچ خود اُٹھائیں گے اور جب تک ٹریننگ کا سوال ہے ۲۵ رائفلیں سَو آدمیوں کو کام سکھائیں گی کیونکہ پریڈیں مختلف وقتوں میں اور آگے پیچھے ہونگی اور ایک ہی رائفل چار دفعہ استعمال ہو سکے گی۔ اس طرح لوگوں کو حب الوطنی کے جذبات دکھانے کا بھی موقع مل جائے گا اور پاکستان کی آبادی میں جنگی فنون کا میلان بھی پیدا ہو جائے گا اور ہر محلے اور گلی میں ایک طوعی سپاہی کی موجودگی اور بیسیوں آدمیوں کے دلوں میں فوجی زندگی کی خواہش پیدا کر دے گی اور موت کے ڈر کو دلوں سے نکالتی چلی جائے گی۔
(الفضل لاہور ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
پاکستانی فوج اور فوجی مخزن
کل ۱۵؍ تاریخ کو پاکستانی فوج کے ایک سَو چودھویں بریگیڈ کا مظاہرہ ہوا اس میں پاکستانی فوج نے وزیر دفاع نواب زادہ لیاقت علی خاں صاحب کو سلامی دی۔ پاکستانی فوج کی راہنمائی بریگیڈیر نذیر احمد نے کی جو اِس وقت پاکستانی فوج کے سب سے سینئر مسلمان بریگیڈیر ہیں۔ جہاں تک مظاہرہ کی شان اور عظمت کا سوال ہے ہمارے نزدیک اس موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اور لاہور شہر کی بڑائی کو دیکھتے ہوئے یہ مظاہرہ اس سے زیادہ شاندار ہونا چاہئے تھا جتنا کہ ہوا۔ اس مظاہرہ میں مختلف بٹالینز (Batalians) کے نمائندوں کی کُل تعداد اندازاً آٹھ سَو کے قریب تھی اور مظاہرہ کی لمبائی اور وسعت صرف موٹروں ٹینکوں کے استعمال اور ان کی سست رفتاری کے سبب سے تھی۔ بعض پاکستانی افسر بشمولیت بریگیڈیر نذیر نہایت چست اور اپنے کام کے قابل اور اہل نظر آتے تھے اور بعض افسروں کے اندر وہ چستی نظر نہ آتی تھی جوہونی چاہئے تھی۔ دو تین افسروں نے تو یہاں تک غفلت کی کہ وزیر دفاع کے پاس سے گزر گئے اور سلامی تک نہ دی۔ بعضوں نے سلامی میں اتنی جلد بازی سے کام لیا کہ وزیر دفاع کے پاس پہنچنے سے بہت پہلے ہی سلامی دینی شروع کر دی حالانکہ مناسب طریق یہ تھا کہ وہ وزیر دفاع کے پاس پہنچتے وقت دو تین گز پہلے سے سلامی دینی شروع کرتے۔ بعض لطائف بھی اس موقع پر ہوگئے۔ کرنل فلچ ایک انگریز افسر مجمع کو دیکھتے ہوئے مسکراتے چلے جاتے تھے اور نظارہ کی کیفیت نے اُن پر کچھ ایسا اثر کیا ہوا تھا کہ سلامی کا اُن کو خیال ہی نہیں آیا۔ مسکراتے مسکراتے وہ عین وزیر دفاع کے سامنے پہنچ گئے اور یکدم انہیں اپنے فرض کی طرف توجہ ہوئی۔ چہرہ سنجیدہ بنا لیا اور سلامی کی جگہ سے آگے گزرتے ہوئے سلام کرتے چلے گئے۔ بہرحال عام اثر یہی تھا کہ پاکستانی سپاہیوں نے بہت اچھی نمائش کی ہے۔ ان کے سُتے ہوئے جسم اور بَل کھاتے ہوئے پٹھے اس بات کے شاہد تھے کہ پاکستان پر حملہ کرنا کسی کے لئے آسان بات نہ ہوگی۔ ان لوگوں کی آنکھوں سے ظاہر تھا کہ وہ پاکستان کی فوج کا حصہ ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور وقت آنے پر پاکستان کی عظمت کے قیام کے لئے ہر قربانی کرنے کیلئے تیار ہوں گے۔ ایک بڑا فائدہ اس مظاہرہ کا یہ بھی ہوا کہ لوگوں میں جو بے چینی پیدا تھی کہ پاکستان کی سرحدیں غیر محفوظ ہیں، اس کا ایک حد تک ازالہ ہو گیا اور پاکستان کے باشندوں کو معلوم ہو گیا کہ ان کے گھروں کی حفاظت کے لئے ان کے محافظ سپاہی سرحد پر موجود ہیں۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ پاکستانی سپاہی سکھ سپاہی کی طرح موٹے نہیں تھے ان کا عام قد بھی اتنا لمبا نہیں تھا جتنا کہ عام سکھ سپاہی کا ہوتا ہے لیکن ان کا جسم بہت گتھا ہوا اور ورزشی تھا اور ہر دیکھنے والا یہ محسوس کرتا تھا کہ استقلال کے ساتھ لمبا کام کرنے کی اہلیت مسلمان سپاہی میں سکھ سپاہی سے زیادہ پائی جاتی ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ سکھ سپاہی کی ساری بہادری اس کی وحشت اور درندگی پر مبنی ہے اور اس وحشت اور درندگی کا کمال بھی اس کی اندرونی طاقتوں سے نہیں پیدا ہوتا بلکہ شراب کے استعمال سے اس کے اس جوہر کو مدد پہنچائی جاتی ہے جو سپاہی موت کا خوف شراب کے نشہ سے دور کرنا چاہتا ہے وہ ہرگز بہادر سپاہی نہیں کہلا سکتا۔ وہ انسان نہیں ایک مشین ہے جسے دوسرا ہاتھ چلاتا ہے۔ مسلمان سپاہی کی بہادری اُس کا ذاتی جوہر ہے لڑائی کے وقت اس کا دماغ صاف ہوتا ہے، شراب نے اُس کے حواس پر قابو نہیں پایا ہوتا، وہ سارے نتائج کو دیکھتے ہوئے اور سارے خطرات کو جانچتے ہوئے دشمن کے مقابلہ کے لئے آگے بڑھتا ہے اور بسا اوقات اگر وہ دشمن پر غالب نہیں آ سکتا تو اپنی جان کو قربان کر کے اس کے بڑھنے کی رفتار کو سست کر دیتا ہے اور اسی طرح اپنے مُلک کے لئے دفاع کی تیاری کا ایک موقع پیدا کر دیتا ہے اس وقت ساری دنیا میں مسلمان سپاہی ہی ایک ایسا سپاہی ہے جو غیر طبعی ذرائع کے استعمال کئے بغیر بہادری کا نمونہ دکھلاتا ہے۔ مسلمان کے سِوا ساری دنیا میں شراب کا عام رواج ہے اور حکومتیں سپاہیوں کو لڑائی کے وقت خاص طو رپر شراب مہیا کر کے دیتی ہیں تا کہ موت کا ڈر ان کے دل سے جاتا رہے اور وہ شراب کے نشہ میں دشمن کی طرف آگے بڑھیں، انسانوں کی طرح نہیں بلکہ درندوں کی طرح۔ پس ہم یقین رکھتے ہیں کہ مسلمان فوجوںکی تربیت جب بھی مکمل ہو جائے گی وہ دنیا کے دوسرے سپاہیوں سے بہتر ثابت ہوں گی کیونکہ انسان ہمیشہ درندوں پر فوقیت رکھتا چلا آیا ہے۔ شراب کے نشہ میں مخمور ہو کر لڑنے والا سپاہی اور شراب کو چھوئے بغیر اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے والا سپاہی مساوی نہیں ہو سکتے دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پس ہمارے لئے امیدوں کا ایک وسیع دروازہ کھلا ہے، ہماری ترقی کی راہیں بہت زیادہ کشادہ اور بہت دور تک جانے والی ہیں کیونکہ ہمارے دشمن نے وہ تمام ذرائع استعمال کرلئے ہیں جو اس کی ترقی میں مدد دے سکتے تھے مگر ہمارے خزانے ابھی زمین میں مدفون ہیں جب ہم وہ تمام ذرائع استعمال کر لیں گے جن سے ایک اچھا سپاہی بہت ہی اچھا بنایا جا سکتا ہے تو ہمارا سپاہی یقینا دوسری قوموں کے سپاہی سے بہت اچھا ثابت ہوگا۔
اس مظاہرہ کے دیکھنے والوں کے لئے ایک اور امر بھی نہایت خوشی کا موجب تھا لاکھوں مسلمان اس مظاہرہ کو دیکھنے کے لئے میلوں میل سڑکوں پر کھڑے تھے ان میں سے اکثر نوجوان تھے جن کے جسموں کی بناوٹ اور جن کی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ وہ سب یا ان میں سے اکثر سپاہی ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں یہ میلوں میل لمبا انسانوں کا مجموعہ ہندوؤں اور سکھوں کے وجود سے کُلّی طور پر خالی تھا۔ اس میں مسلمان ہی مسلمان تھے گو اکثر کے سر ننگے تھے بہتوں کے کپڑے بوسیدہ تھے لیکن پھر بھی جو اختلاف ایسے مجمعوں میں پہلے زمانوں میں نظر آتا تھا، ان میں نظر نہ آتا تھا۔ وہ مرجھائے ہوئے چہرے اور ڈرتی ہوئی آنکھیں جو دوسری اقوام کے اختلاف کی وجہ سے بڑے مجمعوں کی خوبصورتی کو خراب کر دیا کرتی تھیں وہ کل مفقود تھی۔ مجمع کا ہر شخص سپاہی بننے کے قابلیت رکھتا تھا اور آئندہ ہونے والا سپاہی نظرآتا تھا۔ اگر ان نوجوانوں کی صحیح تربیت کی جائے اور ان کے اخلاق کو بلند کیا جائے اور ٹیرٹیوریل فورس۱۴؎ اور فوجی کلبوں کے ذریعہ سے جن کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں، ان کو مُلک کی فوجی خدمت میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے تو یقینا لاہور ہی سے ایک لاکھ پاکستانی سپاہی پیدا کیا جا سکتا ہے۔ لاہور کے ضلع کی سرحد جو ہندوستان سے ملتی ہے، وہ پچاس میل کے قریب ہوگی۔ اگر لاہور سے اتنا سپاہی پیدا ہو جائے تو لاہور، قصور، اور چونیاں کی تحصیل سے بھی یقینا پچاس ساٹھ ہزار سپاہی مل سکتا ہے۔ ان سپاہیوں کے ذریعہ سے نہ صرف لاہور کی حفاظت کی جا سکتی ہے بلکہ سارا پاکستانی مُلک محفوظ ہو سکتا ہے اور پاکستانی فوج کا کام بہت آسان ہو جاتا ہے۔ہمارے نزدیک ٹیرٹیوریل فورس اور فوجی کلبوں کے قیام میں بالکل دیر نہیں کرنی چاہئے۔ فوج کے مہیا کرنے کا یہ ایک بہترین اور سہل ترین ذریعہ ہے اس کا انتظام کُلّی طور پر فوج کے محکمہ کے ماتحت ہونا چاہئے اور سول محکموں کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے تا کہ دو عملی پیدا نہ ہو اور فوج کو سیاسی مسائل سے بالکل الگ رکھا جا سکے۔ ہمارے پاس سپاہیوں کا ایک وسیع مخزن ہے اگر اس وسیع مخزن کو استعمال نہ کیا گیا اور وقت پر اسے کام میں لانے کے لئے کوشش نہ کی گئی تو یہ پاکستان سے غداری ہوگی اور ذمہ دار لوگوں کا یہ قصور قوم کبھی معاف نہیں کر سکے گی۔ ذمہ دار لوگوں کو یہ خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ قوم کی جہالت سے فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا۔ ایک وقت میں اگر قوم جاہل ہو اور اپنے فوائد کو نہ سمجھتی ہو تو دوسرے وقت میں وہ بیدار اور ہوشیار بھی ہو سکتی ہے۔ اس بیداری اور ہوشیاری کے زمانہ میں وہ ہرگز یہ عذر نہیں سنے گی کہ چونکہ ہم غافل اور حالات سے جاہل تھے اس لئے ہمارے ذمہ دار حُکّام نے کام کو صحیح طریقوں پر نہیں چلایا وہ اپنے ذمہ دار افسروں پر یہ اعتراض کرے گی کہ اگر ہم غافل اور جاہل تھے تو تمہاری ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی تھی۔جب قومیں ہوشیار ہوتی ہیں تو وہ اپنے حقوق کی خود نگہداشت کر لیتی ہیں لیکن تربیت اور تنظیم کی طرف سے جب قومیں غافل ہوتی ہیں تو مُلک کے افسروں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے اور ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو خود بھی ادا کریں جو بیدار قومیں حکومت کی مدد کے بغیر ادا کرتی ہیں۔
(الفضل ۱۷؍ اکتوبر۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کشمیر اور حیدر آباد
حیدر آباد اور کشمیر کے حالات بالکل ایک سے ہیں۔ حیدر آباد کے والی مسلمان ہیں وہاں کی آبادی کی اکثریت ہندو ہے یعنی قریباً ۸۵ فیصدی ہندو اور ۱۵ فیصدی مسلمان۔ جاگیر دار زیادہ تر مسلمان ہیں اور تجارت میں مسلمانوں کا کافی حصہ ہے۔ یہ مُلک بہت وسیع ہے پونے دو کروڑ کے قریب اس کی آبادی ہے اور مُلک کی آمد ۲۵ کروڑ روپیہ سالانہ ہے۔ کشمیر کا حال اس کے اُلٹ ہے کشمیر کا رقبہ حیدر آباد سے بھی زیادہ ہے لیکن آبادی صرف چالیس لاکھ ہے آبادی کے لحاظ سے کشمیر کی ریاست ہندوستان میں تیسرے نمبر پر ہے۔ دوسرے نمبر پر میسور ہے جس کی آبادی ۷۳ لاکھ ۲۸ ہزار ہے۔ صنعت و حرفت اور جنگلات اور جڑی بوٹیوں کے لحاظ سے کشمیر حیدر آباد پر بھی فوقیت رکھتا ہے۔ پھلوں کی پیداوار اور یہاں کی تجارت سارے ہندوستان میں اوّل نمبر پر ہے۔ اس کی سرحدیں چونکہ روس سے ملتی ہیں اس لئے سیاسی طور پر یہ ایک نہایت ہی اہم مرکز ہے پنجاب کے ساتھ ساتھ اس کی سرحدیں پانچ سَو میل تک لمبی چلی گئی ہیں۔ اگر کشمیر انڈین یونین میں چلا جائے تو پنجاب کا دفاع قریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ حیدر آباد کے برخلاف کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور راجہ ہندو ہے مسلمان ۸۰ فیصدی اور ہندو ۲۰ فیصدی ہیں۔ اِس وقت یہ دونوں ریاستیں محلِ نزاع بنی ہوئی ہیں حیدر آباد بھی پوری آزادی کا مطالبہ کرتا ہے اور کشمیر بھی پوری آزادی کے ارادے ظاہر کر چکا ہے۔ بعد کے حالات نے دونوں ریاستوں کے ارادوں میں تذبذب پیدا کر دیا ہے۔ حیدر آباد اور کشمیر دونوں محسوس کر رہے ہیں کہ اقتصادی دباؤ سے ان دونوں حکومتوں کو تباہ کیا جا سکتا ہے اس لئے لازمی طور پر ان کو کوئی نہ کوئی سمجھوتہ ہندوستان یا پاکستان سے کرنا پڑے گا۔ کشمیر کی سرحدیں چونکہ دونوں مُلکوں سے ملتی ہیں۔ ہندوستان سے کم اور پاکستان سے زیادہ اس لئے بوجہ اس کے کہ اس کا راجہ ہندو ہے اس کی کوشش یہ ہے کہ اگر کسی حکومت سے ملنا ہی پڑے تو وہ ہندوستان سے ملے۔ مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر ان میں سے ایک حصہ کو ہندوستان کے ساتھ شامل ہونے کی تائید میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔ مگر ظاہری طور پر ان سے یہ اعلان کرایا جا رہا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ ملنا نہیں چاہتے اور آخری فیصلہ اپنے ہاتھ میں رکھناچاہتے ہیں مگر حقیقت یہ نہیں، حقیقت یہی ہے کہ کشمیر مخفی سمجھوتہ ہندوستان سے کرچکا ہے اور دنیا کو یہ دکھانے کے لئے کہ کشمیر نے جو فیصلہ کیا ہے مُلک کی اکثریت کی رائے کے مطابق کیا ہے اس فیصلہ کو چھپایا جا رہا ہے اور یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کا کچھ حصہ توڑ کر مُلک کی اکثریت سے بھی یہ اعلان کروا دیا جائے کہ وہ انڈین یونین میں ملنا چاہتے ہیں لیکن چونکہ مسلمان اِس وقت اس فیصلہ کے ساتھ اتفاق ظاہر کرنے کیلئے تیار نہیں پہلے ان سے یہ منزل طے کروائی جا رہی ہے کہ ہم نہ ہندوستان میں ملنا چاہتے ہیں نہ پاکستان میں۔ جب یہ منزل طے ہو جائے گی اور مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہو جائے گا تو پھر اس تفرقہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ مسلمان جو اپنے بھائیوں سے پھٹ چکے ہونگے اور پاکستان کی مخالفت کر چکے ہونگے انہیں ہندوستان یونین میں شامل ہونے کے فیصلہ پر آمادہ کر لیا جائے گا۔
ہم نے اوپر جو کچھ لکھا ہے اس سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ حیدر آباد اور کشمیر کے سوال متوازی ہیں اور ایک کا فیصلہ دوسرے کے فیصلہ کے ساتھ بندھا ہوا ہے جب تک ان میں سے کوئی ایک حکومت فیصلہ نہیں کرتی اُس وقت تک پاکستان کے ہاتھ مضبوط ہیں۔ عقلی طور پر ان دونوں ریاستوں کے فیصلے دو اصول میں سے ایک پر مبنی ہو سکتے ہیں یا تو اس اصل پر کہ جدھر راجہ جانا چاہے اُس کو اجازت ہو۔ اگر یہ اصل تسلیم کر لیا جائے تو حیدر آباد پاکستان میں شامل ہو سکتا ہے یا آزادی کا اعلان کرکے پاکستان سے معاہدہ کر سکتا ہے اور کشمیر ہندوستان یونین میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں پاکستان کی آبادی میں پونے دو کروڑ کی زیادتی ہو جائے گی اور ایک طاقتور حکومت جس میں کثرت سے معدنیات پائی جاتی ہیں پاکستان کو مل جائیں گی اور بوجہ پاکستان میں شمولیت کے ہندوستان اس کے ذرائع آمد و رفت کو بھی بند نہیں کرسکے گا کیونکہ اس طرح وہ پاکستان سے جنگ کرنے والا قرار پائے گا دوسرے اس اصل پر فیصلہ ہو سکتا ہے کہ مُلک کی اکثریت جس امر کافیصلہ کرے اُسی طرف ریاست جا سکتی ہے اگر اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے تو کشمیر پاکستان کے ساتھ ملنے پر مجبور ہوگا اور حیدر آباد ہندوستان کے ساتھ ملنے پر مجبور ہوگا اگر ایسا ہوا تو پاکستان کو یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ ۳۲ لاکھ مسلمان آبادی اس کی آبادی میں اور شامل ہو جائے گی۔ لکڑی کا بڑا ذخیرہ اس کو مل جائے گا، بجلی کی پیداوار کے لئے آبشاروں سے مدد حاصل ہو جائے گی اور روس کے ساتھ اس کی سرحد کے مل جانے کی وجہ سے اسے سیاسی طور پر بڑی فوقیت حاصل ہو جائے گی۔ پس پاکستان کے لئے ان دونوں ریاستوں میں سے کسی ایک کامل جانا نہایت ہی ضروری ہے لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ اس معاملہ کی طرف پاکستان گورنمنٹ نے توجہ نہیں کی اور ہندوستانی گورنمنٹ جلد جلد ایسے حالات پیدا کر رہی ہے کہ شاید دونوں ریاستیں ہی ہندوستان میں شامل ہو جائیں۔ پاکستان گورنمنٹ کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ ان دونوں ریاستوں کے متعلق ویسی ہی جلدی سے کام لیتی جیسا کہ ہندوستان لے رہا ہے اور ہندوستان پر یہ زور ڈالتی کہ ان دونوں ریاستوں کے متعلق ایک ہی اصل سے کام لیا جائے گا یا دونوں ریاستوں کا فیصلہ حکمران کے فیصلہ کے مطابق ہوگا یا دونوں ریاستوں کا فیصلہ آبادی کی اکثرت کے فیصلہ کے مطابق ہوگا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اب یہ تشویشناک اطلاعیںآ رہی ہیں کہ چار پانچ دن کے اندر اندر حیدر آباد اپنا آخری فیصلہ کر دے گا بلکہ شاید آج ۱۶ تاریخ کو ہی اس کا آخری فیصلہ شائع ہو جائے۔ اگر ایسا ہو گیا اور حیدر آباد ہندوستان کے ساتھ مل گیا تو دنیا دیکھ لے گی کہ ہندوستان یونین رعایا کی اکثریت کے فیصلہ کو نظر انداز کر کے اس امر پر زور دینے لگے گی کہ جو والی ریاست کہے اسی کے مطابق فیصلہ ہونا چاہئے اور کشمیر کا والی ریاست یقینا ہندوستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کرے گا۔ جب تک حیدر آباد ہندوستان یونین میں شامل نہیں ہوتا ہندوستان یونین اس دلیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی کیونکہ اگر وہ کشمیر کو ملانے کے لئے اس دلیل پر زور دے تو حیدر آباد اس کے ہاتھ سے جاتا ہے لیکن جب حیدر آباد اس کے ساتھ مل گیا تو پھر وہ اسی دلیل پر زور دے گا خصوصاً اس لئے کہ پاکستان کے بعض لیڈر یہ اعلان کر چکے ہیں کہ موجودہ قانون کے لحاظ سے فیصلہ کا حق والی ریاست کو ہے نہ کہ مُلک کی اکثریت کو۔ اس صورت میں کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے ہمارے پاس کوئی دلیل باقی نہیں رہے گی۔ پس ہمارے نزدیک پیشتر اس کے کہ حیدر آباد کے فیصلہ کا اعلان ہو حکومتِ پاکستان کو اعلیٰ سیاسی سطح پر ان دونوں ریاستوں کے متعلق ایک ہی وقت میں فیصلہ کرنے پر اصرار کرنا چاہئے اور ہندوستانی یونین سے یہ منوا لینا چاہئے کہ وہ دونوں طریق میں سے کس کے مطابق فیصلہ چاہتا ہے کہ آیا والی ٔریاست کی مرضی کے مطابق یا آبادی کی کثرت رائے کے مطابق۔ اگر والی ٔریاست کی مرضی کے مطابق فیصلہ ہو تو حیدر آباد اور جونا گڑھ کے متعلق ان کو اصرار کرنا چاہئے کہ یہ پاکستان میں شامل ہوں اور اگر آبادی کی کثرتِ رائے کے مطابق فیصلہ ہو تو پھر کشمیر کے متعلق ان کو اصرار کرنا چاہئے کہ وہ پاکستان میں شامل ہو۔
ہم جو کچھ اوپر لکھ آئے ہیں اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان کا فائدہ اسی میں ہے کہ کشمیر اس کے ساتھ شامل ہو۔ حیدر آباد کی حفاظت کرنی اس کے لئے مشکل ہے اور پھر کسی ایسی حکومت کو دیر تک قابو میں نہیں رکھا جا سکتا جس کی آبادی کی اکثریت ایسے اتحاد کے مخالف ہو۔ تیسرے حیدر آباد چاروں طرف سے ہندوستان یونین میں گھرا ہوا ہے اس کے برخلاف کشمیر کی اکثر آبادی مسلمان ہے کشمیر کا لمبا ساحل پاکستان سے ملتا ہے۔ کشمیر کی معدنی اور نباتاتی دولت ان اشیاء پر مشتمل ہے جن کی پاکستان کو اپنی زندگی کے لئے اشد ضرورت ہے اور کشمیر کا ایک ساحل پاکستان کو چین اور روس کی سرحدوں سے ملا دیتا ہے۔ یہ فوائد اتنے عظیم الشان ہیں کہ ان کو کسی صورت میں بھی چھوڑنا درست نہیں۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کی سرحدیں کشمیر کے ہندوستان یونین میں مل جانے کی وجہ سے بہت غیر محفوظ ہو جاتی ہیں۔ پس مُلک کے ہر اخبار، ہر انجمن، ہر سیاسی ادارے اور ہر ذمہ دار آدمی کو پاکستان حکومت پر متواتر زور دینا چاہئے کہ حیدر آباد کے فیصلہ سے پہلے پہلے کشمیر کا فیصلہ کروا لیا جائے ورنہ حیدر آباد کے ہندوستان یونین سے مل جانے کے بعد کوئی دلیل ہمارے پاس کشمیر کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لئے باقی نہیں رہے گی۔ سوائے اس کے کہ کشمیر کے لوگ خود بغاوت کر کے آزادی حاصل کریں لیکن یہ کام بہت لمبا اور مشکل ہے اور اگر کشمیر گورنمنٹ ہندوستان یونین میں شامل ہوگئی تو پھر یہ کام خطرناک بھی ہو جائے گا کیونکہ ہندوستان یونین اس صورت میں اپنی فوجیں کشمیر میں بھیج دے گی اور کشمیر کو فتح کرنے کا صرف یہی ذریعہ ہوگا کہ پاکستان اور ہندوستان یونین آپس میں جنگ کریں، کیا ایسا کرنا دُور اندیشی کے مطابق ہوگا؟ کیا ایسا کرنا موجودہ وقت میں ہمارے لئے مناسب ہوگا۔ جو کام تھوڑی سی دُور اندیشی اور تھوڑی سی عقلمندی سے اِس وقت آسانی سے ہو سکتا ہے، اسے تغافل اور سستی کی وجہ سے لٹکا دینا ہرگز عقلمندی نہیں کہلا سکتا۔
(الفضل لاہور ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کشمیر کی جنگ آزادی
ایک ماہ کے قریب عرصہ سے کشمیر کے لوگوں نے اپنی آزادی کے لئے جدوجہد کرنی شروع کی اور یہ جدوجہد ان مظالم کے نتیجہ میں ہے جو ریاست کشمیر کی طرف سے مسلمانوں پر کئے جا رہے تھے۔ پٹھان کشمیر کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے قدرتی طور پر ان مظالم سے متأثر ہوئے خصوصاً اس لئے کہ مظفر آباد، ریاست کشمیر اور ہزارہ علاقہ سرحد کے ہزاروں آدمی آپس میں رشتہ داری کا تعلق رکھتے ہیں ۔ بِالخصوص ضلع مظفر آباد کے مسلمان رؤساء اور ضلع ہزارہ کے مسلمان رؤساء کے درمیان کثرت سے شادی بیاہ ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کشمیر سے اوپر کے رہنے والوں کے نہایت ہی قریبی تعلقات سرحد کے بعض قبائل سے ہیں ان تعلقات کی بناء پر یہ ممکن نہ تھا کہ کشمیر کے واقعات سے صوبہ سرحد متأثر نہ ہوتا یا پونچھ اور میرپور کے واقعات سے راولپنڈی، جہلم اور گجرات متأثر نہ ہوتے تو لازماً ان علاقوں میں بھی جوش پھیلا اور سرحد کے کچھ قبائل کشمیر میں اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے داخل ہو گئے۔ کشمیر کی حکومت نے بجائے اصلاح کرنے کے ہندوستان یونین کے ساتھ اِلحاق کا فیصلہ کر دیا اور اس کی مدد طلب کی اور ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ شیخ محمد عبداللہ صاحب مشہور لیڈر کشمیر اس موقع پر صحیح طریق عمل اختیار کرنے سے قاصر رہے اور انہوں نے کشمیر کے راجہ کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کے طور پر کام کرنے کا فیصلہ کر دیا۔ دنیا کی ساری حکومتوں میں شاید کشمیر ہی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اِس میں ایک وقت میں دو وزیر اعظم ہیں۔ مسٹر مہر چند مہاجن دیوان کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں اور شیخ عبداللہ صاحب پرائم منسٹر کے نام سے۔ حالانکہ دیوان اور پرائم منسٹر ایک ہی چیز کا نام ہے۔ ہمیں اس واقعہ پر ایک پُرانا لطیفہ یاد آتا ہے۔ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے جب پنجاب میں انجمنوں کا نیا نیا رواج شروع ہوا تو ایک بزرگ جو بھیرہ کے رہنے والے تھے اور جموں میں ایک بہت بڑے عہدہ پر ملازم تھے جب کچھ دنوں کے لئے اپنے وطن بھیرہ میں آئے تو انہیں ایک نئی انجمن اسلامیہ کی بنیاد رکھے جانے کی خبر ملی اور اس کے عہدہ داروں کو اُن سے ملوایا گیا۔ ایک صاحب کو پیش کیا گیا کہ یہ صاحب صدر مجلس اسلامیہ ہیں۔ دوسرے صاحب کو پیش کیا گیا کہ یہ پریذیڈنٹ مجلس اسلامیہ ہیں۔ اسی طرح ایک مجلس اسلامیہ کے مربی کے طور پر اور ایک صاحب پیٹرن۱۵؎ کے طور پر پیش کئے گئے۔ ان بزرگ نے علیحدگی میں سیکرٹری سے پوچھا کہ یہ کیا تماشہ ہے ایک مجلس کے دو دو صدر تو ہم نے کبھی سنے نہ تھے۔ سیکرٹری نے جواب دیا کہ صاحب! جانے دیجئے جاہلوں کو اسی طرح بے وقوف بنایا جاتاہے۔ جب ہم نے انجمن اسلامیہ کی بنیاد رکھی تو ہمیں محسوس ہوا کہ فلاں فلاں دو شخصوں کو ملائے بغیر کام نہیں چل سکے گا مگر وہ دونوں صاحب برابر کے جوڑ تھے اس لئے ان میں سے کسی ایک کو صدر اور کسی کو نائب صدر نہیں بنایا جا سکتا تھا اس پر ہم نے ان کی جہالت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ تدبیر کی کہ ایک کانام صدر رکھ دیا اور ایک کا نام پریذیڈنٹ رکھ دیا اور صدر صاحب کے کان میں یہ کہہ دیا کہ یہ انجمن اسلامیہ ہے اور صدر اسلامی نام ہے اس لئے یہی عہدہ بڑا ہے اور پریذیڈنٹ صاحب کے کان میں کہہ دیا کہ آجکل انگریزی راج ہے عربی کے ناموں کو کون پوچھتا ہے اصل عہدہ تو پریذیڈنٹ کا ہی ہے۔ اب ان دونوں صاحبان سے ہم کام لے رہے ہیں اور ہمارا کام چل رہا ہے۔ کانگرس اور مہاراجہ جموں نے بھی اسی تدبیر سے کام لیا ہے ایک صاحب کو دیوان کا عہدہ ملا ہوا ہے اور ایک صاحب کو پرائم منسٹر کا۔ اعلان پرائم منسٹر سے کروائے جا رہے ہیں اور کام دیوان سے لیا جا رہا ہے۔ ایک شہرت کی رشوت کا شکار ہے اور ایک اقتدار کے حاصل ہونے میں مگن ہے۔ یہ دونوں خوش ہیں تو باقی لوگوں کے اعتراض کی حقیقت ہی کیا ہے۔ بہرحال اس چال سے ایک طرف مہاراج نے اپنے اختیارات اپنے ہی ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف وہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں مگر یہ چال اتنی خطرناک نہیں جتنی خطرناک یہ بات ہے کہ بوجہ آزاد حکومت کشمیر کے منظم نہ ہونے کے کشمیر اور پاکستان دونوں جگہوں پر گھبراہٹ کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ لاہور تو اس وقت غلط افواہوں اور جھوٹی خبروں کا مرکز بن رہا ہے۔ ذرا کسی شخص کو کشمیر کے معاملات سے دلچسپی لیتے ہوئے دیکھیں تو لوگ جھٹ اس کے پیچھے دَوڑ پڑتے ہیں اور تجسس شروع کر دیتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک مسلمانوں کو اپنے فائدہ کے لئے اس سے بچنا چاہئے۔ کام کرنے والے ناتجربہ کار ہیں آگے ہی ان پر حد سے زیادہ بوجھ ہے۔ اگر ان سے یہ امید کی جائے کہ وہ ہر تجویز کو عَلَی الْاِعلان بیان کریں تو وہ کام کر ہی کس طرح سکتے ہیں۔ اگر یہی کنسوئیاں لینے اور ہر کسی کے پھٹے میں پاؤں اَڑانے کا سلسلہ جاری رہا تو کشمیر کی آزادی کی بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔
ہمارے نزدیک اس وقت خبر دینے والوں اور خبریں لینے والوں اور خبریں چھاپنے والوں کا سب سے اہم فرض یہ ہونا چاہئے کہ سچی خبریں دیں۔ سچی خبریں سنیں اور سچی خبریں چھاپیں۔ ہمارے بعض اخبارات میں کشمیر کی فتوحات کے متعلق بعض خبریں قبل از وقت شائع ہو گئیں۔ اخبارات تو مجبور تھے ان کو جو خبریں آئیں انہوں نے چھاپ دیں لیکن خبریں بھجوانے والے خداتعالیٰ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ ان کی غلط خبروں نے آخر قوم کے حوصلہ کو پست کرنا شروع کر دیا جو لوگ دس دن پہلے سے سرینگر کی فتح اور ایروڈ روم کے قبضہ کی خبریں سنا رہے تھے جب دن کے بعد دن گزرتا گیا اور وہ اپنے سروں پر ہندوستان کے ہوائی جہازوں کو اُڑتے ہوئے دیکھتے رہے اور تازہ دم فوجوں کے پہنچنے کی خبریں سنتے رہے اور سرینگر میں شیخ محمد عبداللہ اور اُن کی گورنمنٹ کے کام کی اطلاعات پڑھتے رہے اور مسٹر پٹیل ۱۶؎ اور سردار بلدیو سنگھ کے سرینگر کے دورہ کا حال انہوں نے پڑھا تو انہوں نے لازمی طور پر یہ سمجھا کہ آزاد کشمیر کی فوجیں کشمیر فتح کرنے کے بعد شکست کھا گئی ہیں اور واپس لوٹ آئی ہیں۔ کشمیر ایک مُلک ہے اور مُلکوں کا فتح کرنا چند دن کا کام نہیں ہوتا۔ بارہ مولا پر آزاد فوجوں کا قبضہ دیر سے ہوا ہوا ہے۔ اگر آج بھی اس بات کا اعلان کیا جاتا کہ بارہ مولا آج فتح ہوا ہے تو یہ بہت بڑا کارنامہ ہوتا اور یقینا مسلمانوں کے حوصلے اس سے گھٹتے نہ بلکہ بڑھتے لیکن سرینگر کی فتح کی خبریں سننے کے دس دن بعد یہ خبریں سننا کہ ابھی مجاہد فوج بارہ مولا کے اِردگرد پھر رہی ہے اور یہ کہ ہندوستانی یونین کی فوجیں برابر اڈہ میں اُتر رہی ہیں ایک سخت ہمت توڑنے والی بات تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اپنی زبان چاٹنے والے چیتے کی طرح وہ لوگ بھی جو حقیقت حال سے واقف تھے پہلے تو ان خبروں کے اشاعتی اثر کا خیال کر کر کے مزے لیتے رہے مگر کچھ دنوں کے بعد خود ہی روایتی چیتے کی طرح اپنی زبان کو کھوئے جانے پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگے اور اِدھر اُدھر گھبرائے ہوئے پھرنے لگے کہ اب کیا ہوگا۔ یہ حالت اگر دُور نہ ہوئی تو اس سے آزادی کشمیر کی کوششوں کو سخت نقصان پہنچے گا۔ پس ہم باادب تمام مسلمانوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ:۔
اوّل اخباروں یا دوسرے اداروں کو ہرگز کوئی ایسی خبر نہ بھیجیں جو ثابت شدہ حقیقت نہ ہو جس میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہو، ایسی خبروں سے قوم کے حوصلے نہیں بڑھتے بلکہ جب اُن کی غلطی ثابت ہوتی ہے تو قوم کے حوصلے گر جاتے ہیں اور عارضی طور پر بڑھا ہوا حوصلہ ایک مستقل شکست خوردہ ذہنیت میں تبدیل ہو جاتا ہے اور قوم ایک ایسے گڑھے میں گر جاتی ہے جس میں سے اُس کا نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔
دوم اخبارات کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہر نامہ نگار کی خبر کو تسلیم نہ کر لیا کریں بلکہ اگر کوئی نامہ نگار غلط خبر دے تو اس سے سختی سے باز پُرس کیا کریں تا کہ آئندہ کیلئے نامہ نگاروں کو کان ہو جائیں اور وہ اخبار کی بدنامی اور قوم کی تباہی کا موجب نہ بنیں۔
سوم ہمیں یہ عادت ترک کر دینی چاہئے کہ چاروں طرف سے حقیقت حال کے معلوم کرنے کے لئے قوتِ شنوائی کا جال پھیلاتے پھریں یا تو کام کرنے والوں پر ہمیں اعتبار ہے یا ہمیں اعتبار نہیں۔ اگر کام کرنے والوں پر ہمیں اعتبار ہے تو ہمیں اُن کو کام کرنے دینا چاہئے اور ان کے راستہ میں مشکلات پیدا نہیں کرنی چاہئیں اور اگر ہمیں کام کرنے والوں پر اعتبار نہیں تو ہمیں دوسرے کام کرنے والے پیدا کرنے چاہئیں یا کوئی ایسا فیصلہ کرنا چاہئے جس سے کام کرنے والوں کی اصلاح ہو لیکن جہاں معلوم ہو کہ کوئی شخص کشمیر کا کام کر رہا ہے اور اس کے پیچھے بیسیوں جاسوس دَوڑ پڑے اور چاروں طرف سے سوالات کی اُس پر بھرمار ہوگئی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ جس کا اس کام سے تعلق نہیں اُسے بیسیوں خبریں اِن سوال کرنے والوں سے مل جائیں گی اور خود سوال کرنے والوں کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ اور اگر اس کا اس کام سے کوئی تعلق ہے تو اُسے یکدم یوں معلوم ہوگا کہ وہ ایک شیشہ کی دیواروں والے حمام میں ننگا نہا رہا ہے جس کے چاروں طرف کھڑے ہوئے لوگ اُسے دیکھ رہے ہیں۔ ایسا آدمی نہا نہیں سکتا اور اگر یہ آدمی نہا نہیں سکتا تو وہ آدمی ایک اہم سیاسی کام کس طرح کر سکتا ہے۔ قوم کے وفاداروں کا کام تو یہ ہوتا ہے کہ اگر اُن کی نظر اتفاقی طور پر کسی ایسی چیز پر پڑ بھی جائے تو وہ آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ ہمیں یہ سن کر تعجب ہوا کہ ایک محکمہ جسے خبروں کے معلوم کرنے کے بہت سے ذرائع حاصل ہیں جب اُس کے افسر سے کسی نے یہ کہا کہ ہماری اس معاملے میں مدد کریں کہ فلاں بات بغیر مشہور ہوئے منزلِ مقصود تک پہنچ جائے تو اُس افسر نے آگے سے یہ جواب دیا کہ یہ احتیاط فضول ہے آجکل کونسی بات چھپی رہتی ہے۔ دیکھئے تو فلاں نے فلاں کو اس اس قسم کی ہدایت جاری کی اور وہ بھی سب کو معلوم ہو گئی۔ وہ بات جو بتانے والے نے بتائی نہایت ہی اہم تھی۔ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ جب وہ ہدایت منزلِ مقصود تک پہنچی تو ایک ذمہ دار افسر نے ایک اور ذمہ دار افسرکو یوں فون کیا کہ ہمیں بڈھے نے فلاں کام کرنے کا حکم دیا تھا مگر ہم نے وہ کام نہیں کیا۔ یہ فون کرنے والا پاکستان کا افسر تھا اور جس کو فون گیا گیا تھا وہ انڈین یونین کا افسر تھا۔ ہر ایک پاکستان کا خیر خواہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ صورتِ حالات ناقابلِ برداشت ہے ہم اپنے ہاتھ سے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں یہ ذہنیت بدلنی چاہئے یہ حالات تبدیل ہونے چاہئیں ورنہ کام کو نقصان پہنچے گا۔ یہ اصول جو ہم نے بیان کئے ہیں ایسے نہیں جن سے صرف رازدانوں کو واقفیت ہو ہم نہ کشمیر میں ہیں نہ آزاد گورنمنٹ سے ہمارا کوئی تعلق ہے مگر ہم اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے ان باتوں کو سمجھ رہے ہیں اور ہر مسلمان ہماری طرح سمجھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ سمجھنا چاہے اور بشرطیکہ اپنی قوم کی وفاداری کا جذبہ اس کے دل میں موجزن ہو۔
(الفضل ۷؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
پاکستان کی اقتصادی حالت
جب ہندوستان کے دو ٹکڑے ہونے کا سوال پیش تھا اُس وقت متحدہ ہندوستان کے مدعی اسی بات پر زور دیا کرتے تھے کہ اگر ہندوستان کے دو ٹکڑے ہوئے تو پاکستان اقتصادی طور پر اتنا کمزور ہو گا کہ وہ اپنی آزاد ہستی کو قائم نہیں رکھ سکے گا۔ انگریزکا بھی یہی خیال تھا اور اسی وجہ سے وہ پاکستان کا مخالف تھا اس لئے نہیں کہ وہ مسلمانوں کا خیر خواہ ہے بلکہ اس لئے کہ انگریز ہندوستان کو آزادی صرف روس کے ڈر کی وجہ سے دے رہا تھا۔ انگریز اس بات کو سمجھ چکاتھا کہ آئندہ جنگ میں روس ہندوستان کو لپیٹ میں لانے کی ضرور کوشش کرے گا۔ جرمن کے ساتھ جنگ میں ہندوستان کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا کیونکہ وہ جرمنی سے بہت دور تھا۔ جاپان کے ساتھ جنگ میںبھی ہندوستان ایسی اہمیت نہیں رکھتا تھا کیونکہ جاپانی فوجیں ہندوستان میں صرف ایک لمبا اور دشوار گزار راستہ طے کر کے داخل ہو سکتی تھیں اور اس وجہ سے کوئی بڑی فوج ہندوستان پر حملہ آور نہیں ہو سکتی تھی لیکن روس کی سرحدیں ہندوستان سے ملتی ہیں۔ پامیرؔ کی طرف سے گو ایک دشوار گزار پہاڑی راستہ طے کرنا پڑتا ہے اور افغانستان کی طرف سے۔ گو ایک آزاد قوم کے ساتھ ٹکرانا پڑتا ہے لیکن بہرحال یہ مشکلات اتنی سخت نہیں جتنی کہ جرمن اور جاپان کے راستہ میں تھیں۔ پس آئندہ جنگ جو روس کے ساتھ ہوتی نظر آتی ہے اس میں ہندوستان ایک نہایت ہی اہم حیثیت رکھے گا۔ انگریز سمجھتا تھا کہ پاکستان کی اقتصادی حالت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے وہ مضبوط اور بڑی فوج نہیں رکھ سکتا اور ہندوستان اپنے اعلیٰ رنگروٹوںسے محروم ہو جانے کی وجہ سے باوجود وسیع مالی ذرائع کے کوئی بڑی فوج نہیں رکھ سکتا۔ ہندوستان بڑی فوج تبھی رکھ سکتا ہے جب کہ ہندوستان کا وہ حصہ جو اَب پاکستان کہلاتا ہے اس کے ساتھ شامل ہو۔ روپیہ ہندو قوم مہیا کرے اور سپاہی مسلمان قوم مہیا کرے۔ روس جیسے مُلک کے ساتھ لڑائی کرنے کے لئے پندرہ بیس لاکھ کی فوج ضروری ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اتنی فوج انگریز کے نزدیک پاکستان کبھی بھی نہیں رکھ سکتا تھا اس لئے انگریز چاہتا تھا کہ کسی طرح ہندو اور مسلمان اکٹھے رہیں اور ہندوستان تقسیم نہ ہو اور جب یہ نہ ہوا تو پھر اس نے یہ خواہش شروع کی کہ کسی طرح پاکستان کمزور ہو کر ہندوستان کیساتھ دوبارہ مل جانے کی طرف مائل ہو جائے۔ چنانچہ یہ کھیل جاری ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ پاکستان کی اقتصادی حالت کو درست کیا جائے لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی جا رہی۔ پاکستان کی سب سے بڑی صنعت اور اس کی دولت کا مدار کپاس پر ہے کپاس کے کارخانے اکثر ہندؤوں کے پاس تھے جو انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ یہ کارخانے اب تک مقاطعہ پر لوگوں کو نہیں دیئے گئے اور کپاس زمیندار چننے لگ گئے ہیں چونکہ زمیندار زیادہ دیر تک گھر میں جنس نہیں رکھ سکتا زمینداروں نے تنگ آ کر کپاس سستے نرخوں پر بیچنی شروع کر دی ہے اور چونکہ گاہک کو نہیں پتہ کہ کارخانہ کب شروع ہوگا اور آیا اسے کوئی نفع مل سکے گا یا نہیں وہ دبا کر بہت ہی سستے داموں پر کپاس لے رہا ہے۔ اِس وقت منٹگمری میں آٹھ روپے من، سرگودھا میں چار روپے من اور شیخوپورہ میں پانچ روپے من کپاس بِک رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اِن حالات میں زمیندار کو اتنی رقم بھی نہیں ملے گی جتنی کہ اس نے گورنمنٹ کو بطور معاملہ ادا کرنی ہے۔ ان پریشان کُن حالات میں جب کہ انسان پہلے ہی دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اُٹھتا ہے اور دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سوتا ہے اگر زمیندار پر ایسی تباہی آئی تو اس کے نتائج ہر شخص خود سمجھ سکتاہے۔ گزشتہ سال کپاس کی قیمت ۲۲ روپے کے قریب تھی کُجا بائیس روپیہ اور کُجا سات آٹھ روپیہ دونوں قیمتوں میں کوئی بھی تو نسبت نہیں۔ سندھ کے کارخانوں کو چلے ہوئے پندرہ بیس دن گزر چکے ہیں سینکڑوں بیلز وہ نکال چکے ہیں اور ان کی روئی منڈی میں جا رہی ہے۔ وہاں اس سال بھی بائیس روپے من کپاس کی قیمت مل رہی ہے۔ اب قیمتوں کے اس اختلاف کی وجہ سے نتیجہ یہ نکلے گا کہ یا تو سندھ کے روئی کے تاجر جو اس سال کثرت سے مسلمان ہونگے،بالکل تباہ ہو جائیں گے کیونکہ اُنہوں نے بائیس روپیہ پر روئی خریدی ہوگی اور پنجاب کی قیمتیں منڈی کی قیمتوں کو گرا دیں گی یا پھر پنجاب کی روئی تاجر سستے داموں خرید کر بڑی قیمتوں پر بیچے گا اور پنجاب کا زمیندار بالکل تباہ ہو جائے گا۔ بہرحال یا سندھ کا تاجر تباہ ہوگا یا پنجاب کا زمیندار تباہ ہوگا۔ اس کا ایک ہی علاج ہے کہ پنجاب کے روئی کے کارخانے فوراً چلنے شروع ہو جائیں اور اتنی کثرت سے کارخانے چلیں کہ مقابلہ قائم رہے۔ اگر ہر منڈی میں ایک ایک کارخانہ چلایا گیا اور جو کارخانے کھلے وہ ایک دوسرے سے دُور دُور واقع ہوئے تو پھر بھی کارخانہ دار قیمتوں کو بزور گرانے کی کوشش کریں گے۔ پس پنجاب کے زمیندار کی حالت کو درست رکھنے کیلئے کپاس کے کارخانے فوراً چلائے جانے چاہئیں اور اتنی تعداد میں چلائے جانے چاہئیں کہ کارخانوں کا مقابلہ قائم رہے اور زمیندار کو مناسب قیمت مل سکے۔
ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پنجاب گورنمنٹ جننگ کے کارخانوں کو بھی ایک قومی صنعت بنانا چاہتی ہے اس میں تو کوئی شُبہ نہیں کہ مُلک کی چند صنعتوں کو قومی بنانا مفید ہو سکتا ہے لیکن تمام صنعتوں کو قومی بنانا کبھی بھی مفید نہیں ہوتا۔ اس سے مقابلہ کی روح ماری جاتی ہے اور جمہوریت کو سخت نقصان پہنچتا ہے مگر اس مضمون کے بارہ میں ہم اِس وقت کچھ لکھنا نہیں چاہتے۔ ہم صرف اِس طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ اگر روئی کے کارخانے سرکاری ہوئے تو لازماً روئی کی قیمتیں گر جائیں گی کیونکہ قیمتیں گاہکوں کی زیادتی کی وجہ سے بڑھتی ہیں۔ جب ایک چیز کے حد سے زیادہ گاہک ہوں تو اُس کی قیمت حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے اور جب ایک چیز کے حد سے کم گاہک ہوں تو اُس کی قیمت حد سے زیادہ گر جاتی ہے۔ اگر جننگ کے کارخانوں کی مالک گورنمنٹ ہوئی تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ سارے پنجاب میں گاہک ایک ہی شخص ہوگا یعنی حکومت۔ اور جب گاہک ایک شخص ہوا تو لازماً ہر زمیندار کو اس کے پاس اپنی کپاس بیچنی پڑے گی اور جب گاہک کو پتہ ہوگا کہ میرے سوا یہ زمیندار کسی اور کے پاس کپاس نہیں بیچ سکتا تو یقینا گاہک جو چاہے گا قیمت تجویز کرے گا اور زمیندار مجبور ہوگا کہ اُسی قیمت پر اپنی جنس کو بیچے اور اس سے پاکستان کی اقتصادیات بالکل تباہ ہو جائے گی اور انگریز کا وہ خدشہ بلکہ اب تو یوں کہنا چاہئے کہ وہ خواہش جو وہ پاکستان کی اقتصادی تباہی کے متعلق اپنے دل میں رکھتا تھا اور جس کے بغیر ہندوستان کے اتحاد اور روس کے دفاع کے مسائل حل نہیں ہوتے تھے پوری ہو جائے گی اور مسلمان اس آزادی کو کھو بیٹھیں گے جس کے لئے اُنہوں نے اتنی قربانی اور جدوجہد کی ہے۔ پس پاکستان کی اقتصادی حالت کو درست کرنا گورنمنٹ کے اہم ترین فرائض میں سے ہے اور اس کی طرف جتنی بھی توجہ دی جائے کم ہے لیکن یہاں تو یہ حال ہے کہ اب تک فیکٹریاں کرائے پر بھی نہیں دی گئیں اور نہ لوہے کی پتیوں کا انتظام کیا گیا ہے نہ کوئلے کا انتظام کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کارخانوں کے تقسیم ہو جانے کے بعد بھی کام فوراً نہیں چل سکے گا۔ اوّل تو کم سے کم دو ہفتے کارخانوں کی صفائی پر لگیں گے پھر عملہ تلاش کرنے میں بھی ٹھیکیداروں کا وقت خرچ ہوگا بلکہ اگر ہماری اطلاعات ٹھیک ہیں تو بہت سی جگہوں پر ہندومالکانِ کارخانہ نے بعض اہم پُرزے مشینوں میں سے نکال کر چھپا دیئے ہیں جس کی وجہ سے کارخانوں کے چلانے میں دِقّت ہوگی اور جب انجینئرمشینوں کو صاف کرنے لگیں گے تو انہیں معلوم ہوگا کہ وہ مشینیں اس وقت تک چلنے کے قابل ہی نہیں جب تک کہ بیرونی ممالک سے نئے پُرزے لا کر ان میں نہ ڈالے جائیں۔ جس کے دوسرے معنی یہ ہونگے کہ اس سال روئی کے بہت سے کارخانے چل ہی نہیں سکیں گے۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو زمیندار کی تباہی میں کوئی شُبہ ہی نہیں رہتا اور پاکستان کی مالیات کو بھی سخت نقصان پہنچنے کا امکان ہے کیونکہ پاکستان کی بڑی دولتوں میں سے ایک دولت اس کی کپاس ہے لیکن اگر یہ اطلاعات درست نہیں، تب بھی بغیر کوئلہ اور بغیر لوہے کی پتیوں اور بغیر ان کے وقت پر مہیا ہو جانے کے اور کارخانوں کے فوراً جاری ہو جانے کے زمیندار کے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ پس ہم حکومت کو اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ اس معاملہ میں زیادہ دیر نہ کرے اور فوراً کارخانے جاری کروا دے ورنہ زمیندار تو تباہ ہی ہو جائیں گے، حکومت کی اپنی مالی حالت کو بھی سخت دھکا لگے گا اور اسے بہت سے مقامات پر معاملہ اور آبیانہ معاف کرنا پڑے گا کیونکہ ان حالات میں زمیندار معاملہ دے کر اگلے چھ مہینے روٹی نہیںکھا سکتا اور اگلے چھ مہینے وہ روٹی کھائے گا تو گورنمنٹ کا معاملہ ادا نہیں کر سکے گا۔
ہماری سب سے بڑی طاقت قرآن کریم ہے
الفضل کی کسی گزشتہ اشاعت میں ہم نے
ان کالموں میں لکھا تھا کہ پاکستان کی سب سے بڑی دولت قرآن کریم کی تعلیم ہے۔ زندگی کا کوئی پہلو نہیں جس کے متعلق ہم کوایک بنا بنایا اصول اس تعلیم میں نہ ملتا ہو۔ انسان کے بنائے ہوئے قانونوں میں افراط تفریط کا خدشہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ انسانی عقل ایک نہایت ہی محدود چیز ہے اور چونکہ ایک وقت میں ایک سوال کے ہر پہلو کو پیش نظر رکھنا اس کے احاطۂ اقتدار سے باہر ہے اس لئے عقل جو بھی اصول بناتی ہے اس میں کچھ نہ کچھ خامی رہ جاتی ہے۔ دنیاکی تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ ایک وقت اور ایک حالات میں جو بات نہایت مستحسن معلوم ہوتی تھی۔ دوسرے وقت اور دوسرے حالات میں وہی بات غلط ثابت ہوتی ہے۔ ایک زمانہ میں سائنس اور فلسفہ کے جو نتائج ہم کو آخری معلوم ہوتے ہیں زمانہ مابعد میں ان کی تردید ہو جاتی ہے لیکن قرآن کریم میں جو باتیں کہی گئیں ہیں اَٹل ہیں۔ زندگی کے جو اصول بیان کئے گئے ہیں وہ آخری ہیں۔ یہ صرف زبانی دعویٰ نہیں بلکہ چودہ سَو سال کی اسلامی تاریخ کا اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو نظر آئے گا کہ جب کبھی انسانی عقل نے اس آفتاب کے چہرے پر پردے ڈالنے کی کوشش کی ہے تو اس کی جاودانی شعاعوں نے ان پردوں کو تار تار کر کے ہوا میں اُڑا دیا ہے۔ ہندوستان میں شہنشاہِ اکبر۱۷؎ کے عہد میں اسلامی تعلیم کو سیاسی مصالح پر قربان کرنے کی ا نتہائی کوشش ہو چکی ہے، شاہی دربار سے الحاد کی جو تاریک گھٹا اُٹھی تھی اُس نے ایک وقت کے لئے تو بے شک آفتاب کی روشنی کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کر دیا تھا مگر تاریکیوں کے یہ بادل زیادہ دیر تک مطلع پر چھائے نہ رہ سکے۔ حضرت سیّد احمد سرہندی ۱۸؎ مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ نے ایک ہی اشارے میں ان بادلوں کو پھاڑ کر رکھ دیا اور آفتابِ اسلام کا درخشاں چہرہ دنیا کے سامنے کر دیا اور اس کی روح پرور شعاعیں کوہ و دمن کو منور کرنے لگیں۔ یہ چشمۂ فیض حضرت سیّد احمد بریلوی علیہ الرحمۃ ۱۹؎کے عہد سعید تک جاری رہا۔ پھر مغربی الحاد کا طوفان اُٹھا جس نے ایک دفعہ پھر مسلمانان ہند کی نگاہوں سے آفتابِ عالمتاب کو پنہاں کر دیا۔ یہ سب سے بڑا طوفان ہے جو دنیا کی پیدائش سے لے کر عقل کے طاغوت نے آج تک بپا کیا ہے لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ اس طوفان کی بھی آخری گھڑیاں آن پہنچی ہیں۔ دنیا میں جو انقلابات رونما ہو رہے ہیں اگرچہ بظاہر وہ نہایت بھیانک مناظرکے حامل نظر آتے ہیں لیکن صرف انسانی تجربہ کی کسوٹی پر رکھنے سے بھی ہر صاحب ادراک محسوس کر سکتا ہے کہ طاغوتی طاقتیں اپنے حدِکمال کو عبور کر کے انحطاط کی طرف مائل ہوچکی ہیں اور عقل و خرد کے بلبلے پھٹ جانے کے لئے ایک ذرا سی ٹھیس کے منتظر ہیں۔
قدرت نے خالص مسلمانوں، فدایانِ نبی اُمی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ بستی یونہی اتفاقاً آباد نہیں کر ڈالی، اُس نے اِس وقت ہماری آزمائش کے لئے ہمیں چنا ہے، اِس وقت پاکستان کے مسلمان سب سے بڑے میدانِ امتحان میں ہیں، اگر ہم میں ذرا بھی اسلامی حمیت باقی ہے، اگر ہماری رگوں میں زندگی کی رمق موجود ہے، اگر اس راکھ کے ڈھیر میں ایک بھی جلتی ہوئی چنگاری بچی ہوئی ہے تو یقینا ہم ایک بار پھر وہی شعلہ اُٹھا سکتے ہیں جس میں بھسم ہونے کے لئے طاغوتی عقل نے اتنا ایندھن اکٹھا کر دیا ہے کہ جتنا اس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ شیطان نے اپنی آخری بازی لگا رکھی ہے اگر ہم جیت گئے، کاش ہم جیت جائیں تو پھر قیامت تک وہ سر نہیں اُٹھا سکے گا۔ دریودھن نے فریب کا پانسا پھینک کر بے شک ہمارا سب کچھ ہتھیا لیا ہوا ہے، دنیاوی لحاظ سے ہم بے شک کنگال ہو چکے ہیں ، بے شک دشمن نے ہمیں اپنی دانست میں ہلاک کر کے غار میں پھینک دیاہے لیکن یہ ہم سے کیوں ہوا؟ اس لئے کہ ہم نے اپنے اٹل اصولوں کو چھوڑ کر اس کے فنا ہونے والے اصولوں کو مان لیا۔ ہم اپنے سیدھے راستے سے بھٹک کر اُس کی پیچ در پیچ پگڈنڈیوں پر چل پڑے جہاں چپہ چپہ پر اس نے اپنے تیر انداز متعین کر رکھے ہیں۔ جن کی بوچھاڑ نے ہماری روحوں تک کو مجروح کر دیا ہے لیکن باوجود اس کے کہ ہم کو ہمارے املاک سے محروم کر کے بن باس کی طرف دھکیل دیا گیا ہے پھر بھی ہمارے لئے نا امید ہونے اور حوصلہ ہارنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ ہماری کمک آسمان سے آتی ہے زمین سے نہیں۔اس کمک نے آڑے وقت کبھی کوتاہی نہیں کی۔ وہی جس نے کورکشتر کے میدان میں پانڈو کے بیٹوں کی کرشن کو بھیج کر مدد کی تھی، وہی جس نے ابراہیم کے لئے نمرودی آتش کدے کو لہلہاتے ہوئے پھولوں کا دامن بنا دیا تھا، وہی جس نے نوح کی کشتی کو ساحل پر لگایا اور جس نے موسیٰ کے لئے سمندر کو دو ٹکڑے کر دیئے تھے۔ جس نے ہمیں خود تاتاری طوفان سے بال بال بچا کر نکال لیا تھا وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح زندہ ہے، اُس کا آخری پیغام زندہ ہے، اُس پیغام کا لانے والا خاتم النبیین کہلانے والا زندہ ہے، وہ منبع قوت جو کبھی ختم نہیں ہوتا ہم کو مفت دیا گیا تھا لیکن افسوس کہ ہم نے دھوکے میں آ کر اپنی زندگی کے تار اس سے منقطع کر لئے۔ ہمارے فانوس جس نور سے روشن ہوئے تھے ہم نے اس نور سے رشتہ توڑ لیا اگرہم آج پھر اس منبع قوت سے اپنے فانوسوں کے تار جوڑ لیں تو یقینا ہمارا گم ہوا ہوا نور پھر ہم کو ایک آن میں واپس مل سکتا ہے کیونکہ وہ منبع قوت ہمیشہ کیلئے ہمارے لئے وقف کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں نے پاکستان اسلام کے نام پر، اسلامی تہذیب و تمدن کے قیام کے نام پر لیا ہے اس لئے جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے آج پاکستان کا مسلمان خدا تعالیٰ کی امتحان گاہ میں ہے۔ خدا تعالیٰ کا نور قرآن پاک اور اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی راہنمائی کے لئے موجود ہے۔ اگر اس نے اس کی رہنمائی کو قبول کر لیا تو یقینا پاکستان ہی نہیں تمام دنیا اس کے قدموںکے نیچے آ جائے گی۔ ورنہ وہ بھی جو اس کے پاس ہے اس سے چھین لیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے کام کو کسی دوسری قوم کے سپرد کرے گاکیونکہ خداتعالیٰ کے کام کے مقابل کسی فرد یا کسی بڑی سے بڑی قوم کی پَرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں۔
(الفضل ۹؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کشمیر
کشمیر کے متعلق نہایت متوحش خبریں آ رہی ہیں جن لوگوں نے یہ خیال کیا ہوا تھا کہ کشمیر کا سوال چند دنوں میں حل کیا جا سکتا ہے نہ صرف ان کی غلطی ان پر واضح ہوگئی بلکہ دوسرے لوگ بھی ان کی غلطی کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بڑھی ہوئی اُمیدوں کا نتیجہ جب حسبِ امید نہیں نکلتا تو لوگ اس بات کے سوچنے کی طاقت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں کہ حالات کے مطابق کتنا نتیجہ نکلنا چاہئے تھا اور وہ صرف یہی سوچتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں کہا گیا تھا اتنا نتیجہ نہیں نکلا۔ خواہ وہ نتیجہ جس کی وہ امید کر رہے تھے عقل اور واقعات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور اس کی وجہ سے وہ لوگ دل چھوڑ بیٹھتے ہیں اور مجبوری کے بغیر کمزوری دکھانے لگ جاتے ہیں۔
ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے اور ہوا ہے کہ جب مبالغہ آمیز خبریں شائع کی جائیں تو دشمن بہت زیادہ ہوشیار ہو جاتا ہے جب کشمیر میں انڈین یونین کی فوجیں آئیں تو شروع میں وہ صرف ایک بریگیڈ بھجوانا کافی سمجھتے تھے لیکن پاکستان سے جب یہ آوازیں اُٹھنی شروع ہوئیں کہ پچاس ہزار مجاہد سرینگر کے میدان کی طرف بڑھ رہا ہے توانڈین یونین نے تین ڈویژن کشمیر بھجوانے کا فیصلہ کر دیا اور تمام ڈکوٹا ہوائی جہاز جو ہندوستان میں میسر آ سکتے تھے ان کو اس کام پر لگادیا گیا نتیجہ یہ ہوا کہ جتنی فوج بھجوانے کا ارادہ نہیں تھا اتنی فوج بھیج دی گئی اور جس عرصہ میں فوج بھیجنے کا ارادہ تھا اس سے پہلے بھیج دی گئی۔ ہماری طرف سے صرف فخر کا اظہار ہوا اور اُدھر سے کام ہو گیا۔ اس فخر کا ہم کو کیا فائدہ ہوا؟ صرف مخالف نے اس سے فائدہ اُٹھایا اور ہمارے دوستوں کو اس سے سوائے نقصان کے اور کچھ حاصل نہ ہوا۔
یہ تو ایک کھلی ہوئی صداقت ہے جس کا انکار نہ حکومت پاکستان کرتی ہے نہ کوئی مسلمان کر سکتا ہے کہ گو پاکستان عَلَی الْاِعْلَان جنگ میں شامل نہیں لیکن وہ کشمیر کو اپنا حق سمجھتا ہے اور کشمیری مسلمانوں کی آزادی اسے مطلوب ہے۔ وہ کسی صورت میں بھی پسند نہیں کر سکتا کہ کشمیر کا مسلمان ڈوگروں کا غلام بنا کر رکھا جائے یا سکھوں کی کرپانوں کا نشانہ بنتا رہے۔ جب یہ ایک حقیقت ہے تو اس حقیقت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بھی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں اور جنگ سے اُتر کر جتنی تدابیر اس کام کے لئے استعمال کی جا سکتی ہیں وہ استعمال کر جانی چاہئیں۔ مثلاً اخباری پروپیگنڈا حکومت پاکستان کی نگرانی میں آ جانا چاہئے۔ سنسر نہ ہومگر حکومت پاکستان کا پریس نمائندہ اخبارات کو خفیہ طور پر ایسی ہدایتیں دیتا رہے کہ کس قسم کی خبریں شائع کرنا تحریک کشمیر کے مخالف ہوگا اور کس قسم کی خبریں شائع کرنا تحریک کشمیر کے مخالف نہ ہوگا۔ یورپ اور امریکہ کا پریس بالکل آزاد سمجھا جاتا ہے لیکن وہاں بھی امور خارجہ کا ایک نمائندہ پریس کے ساتھ لگا ہوا ہوتا ہے اور وہ ہر اہم موقع پر پریس کو توجہ دلاتا رہتا ہے کہ اس مسئلہ کے کونسے پہلوؤں کی اشاعت آپ کے مُلک کے مفاد کے لئے مضر ہوگی اور کونسے پہلوؤں کی اشاعت آپ کے مُلک کے مفاد کیلئے مفید ہوگی۔ پریس بے شک آزاد ہوتا ہے مگر وہ اپنے مُلک کا دشمن تو نہیں ہوتا۔ امور خارجہ کے نمائندہ کی طرف سے جب ان کے سامنے حقیقت کو واضح کر دیا جاتا ہے تو نوّے فیصدی پریس وہی طریق اختیار کرتا ہے جس کی سفارش امور خارجہ نے کی ہوتی ہے۔دس فیصدی پریس جو اس کے خلاف کرتا ہے اس کی آواز نوّے فیصدی کی آواز کے نیچے دَب جاتی ہے اور مجموعی طور پر پبلک گمراہ نہیں ہوتی اور دس فیصدی پریس کی آواز کو دوسرے ممالک مُلک کی آواز نہیں سمجھتے اس لئے اس کی آواز سے بھی نقصان نہیں پہنچتا۔ یہی طریقہ یہاں بھی اختیار کرنا ضروری تھا۔ چاہئے تھا کہ پاکستان حکومت کے محکمہ امور خارجہ کا ایک افسر فوراً مقرر کر دیا جاتا جو پاکستان کے پریس کو براہِ راست یا اپنے نمائندوں کے ذریعہ ان کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا رہتا۔ اس کے نتیجہ میں لازماً پاکستان کے پریس کا اکثر حصہ اس طریق کو اختیار کر لیتا اور ایسے مضامین یا ایسی خبریں شائع نہ کرتا جن سے کشمیر کے مسلمانوں کے مفاد کو نقصان پہنچتا اور اگر کوئی حصہ اس کے مخالف بھی چلتا تو اکثر پریس کی خبریںچونکہ اس کے خلاف ہوتیں اور ان کے مضامین بھی اس کے خلاف ہوتے، نہ مُلک کی عام رائے اس سے متأثر ہوتی اور نہ دوسرے ممالک اس کی آواز سے متأثر ہو کر کوئی ایسا قدم اُٹھاتے جو کشمیرکے مسئلہ کو پیچیدہ بنا دینے والا ہوتا۔ بہرحال اس وجہ سے کہ پریس کو کوئی راہ نمائی حکومت کی طرف سے حاصل نہ ہوئی (گو ہمیں معلوم ہے کہ بعض دوسرے لوگوں نے پاکستان کے پریس کے ایک حصہ کے سامنے یہ حقیقت واضح کر دی تھی کہ اس قسم کی خبروں کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ دشمن ہوشیار ہو جائے گا اور پاکستان اور کشمیر کے افراد کے حوصلے بعد میں جا کر پست ہو جائیں گے) پریس نے اپنے لئے خود ایک طریقہ انتخاب کیا جس کا نتیجہ ہمارے نزدیک مُلک کیلئے مضر نکلا۔ مگر بہرحال پریس پر کوئی الزام نہیں کیونکہ اُنہوں نے اپنے لئے ایک ایسا طریق اختیار کر لیا تھا جو اُن کی سمجھ میں مُلک کے لئے مفید تھا۔ ان کو تحریک کشمیر کے ذمہ دار افسروں کی طرف سے ایسی ہی اطلاعات پہنچتی رہی تھیں جن کی وجہ سے وہ کشمیر کے کام کو نہایت ہی معمولی سمجھتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ غالباً چند دن میں سارا کشمیر صاف ہو جائے گا بعد کے واقعات نے اس خیال کی تردید کر دی اور اب یہ معاملہ نہایت ہی پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ درست نہیں کہ یہ مسئلہ کامیاب طو رپر حل ہی نہیں کیا جا سکتا یقینا یہ مسئلہ کامیاب طور پر حل کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ عقل اور سمجھ سے کام لیا جائے اور بشرطیکہ پاکستان کامسلمان کشمیر کی تحریک چلانے والوں کی پوری طرح امداد کرے۔ اب سردیاں آ رہی ہیں اور اگر کشمیر کی تحریک جاری رہی تو برف میں تحریک کشمیر کی فوجوں کو کام کرنا پڑے گا۔ تحریک کشمیر میں کام کرنے والے لوگ برفانی علاقوں کے ہیں۔ مظفر آباد، پونچھ، ریاسی، میرپور، کشمیر اور سرحدی قبائل کے لوگ سب برفانی علاقوں کے ہیں مگر باوجود اس کے وہ بغیر سامان کے ان علاقوںمیں کام نہیں کر سکتے۔ انہیںگرم جرابوں، گرم سویٹروں، بوٹوں، پینٹوں اور بھاری کمبلوںکی ضرورت چند دن میں پیش آئے گی۔ اگر چند دن میں یہ چیزیں ان تک نہ پہنچیں تو ان کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور یہ امر ظاہر ہے کہ طبعی تقاضوں کا مقابلہ کوئی انسان نہیں کر سکتا۔ بغیر کھانے کے سپاہی لڑ نہیں سکتا اور بغیر سردی گرمی کے مقابلہ کا سامان ہونے کے سپاہی لڑ نہیں سکتا۔ ایک سپاہی سردی میں رات تو گزار سکتا ہے بلکہ متواتر راتیں گزار کر اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہے مگر وہ تمام اخلاص اور تمام جذبۂ ایثار کے باوجود اپنی صحت اور اپنی طاقت کو قائم نہیں رکھ سکتا۔ ہر شخص جان سکتا ہے کہ ہمیں اس امر میں خوشی نہیں ہوسکتی کہ ہمارے افراد نے قربانی کر کے اپنی جانیں دے دیں۔ ہمیں اگر خوشی ہو سکتی ہے تو اس بات میں کہ ان کی قربانی کے نتیجہ میں ہمارے بھائی آزاد ہو گئے اور یہ نتیجہ تبھی نکل سکتا ہے جب کہ آزاد کشمیر کے سپاہیوں کی صحتیں درست رہیں اور ان کی طاقت قائم رہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ ان کی صحتوں کی درستی اور طاقت کے قیام کا مدار عمدہ غذا اور سردی کو برداشت کرنے والے لباس کے مہیا ہونے پر ہے۔
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ مغربی پاکستان کے لوگوں کے ذمہ اِس وقت مشرقی پاکستان کے پناہ گزینوں کے لباس کے مہیا کرنے کا بہت بڑا کام ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اگر کشمیر کے مجاہدین کے لئے گرم جرابوں اور گرم کپڑوں کا سامان مہیا نہ کیا گیا تو وہ ہرگز سردی میں اس جنگ کو جاری نہ رکھ سکیں گے۔ پس اس کے لئے ابھی سے مُلک کو تیار ہو جاناچاہئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غلط امیدوں کے خلاف نتائج نکلے ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ خبریں جو شائع ہو رہی تھیں درست ثابت نہیں ہوئیں اور اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ ایسے لوگوں پر کام کو چھوڑ دیا گیا تھا جو پورے طور پر اس کام کے اہل نہیں تھے۔ ایسے سرحدی قبائل لڑائی کے لئے آگے چلے گئے جو اپنے مُلک سے دور رہ کر لڑنے کے عادی نہیں اور جو صرف پندرہ بیس دن تک ایک وقت میں لڑائی کر سکتے ہیں وہ بہادر بھی ہیں، وہ جانباز بھی ہیں، وہ لڑائی کے دھنی بھی ہیں، وہ جان دینے سے بھی نہیں ڈرتے ان کے حوصلے اور ان کی قربانیوں کا کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن وہ ہمیشہ سے ہی ایسی جنگ کے عادی ہیں جو ان کے گھروں کے آس پاس لڑی جائے۔ وہ سَو دو سَو میل باہر جا کر لڑنے کے عادی نہیں۔ نسلاً بعد نسلٍ وہ ان پہاڑیوں میں لڑنے کے عادی ہیں جن میں وہ پیدا ہوئے جن کے کونے کونے سے وہ واقف ہیں، جن کے ہر نشیب و فراز کا ان کو علم ہے، جن کی ہر وادی اور ہر چوٹی کا نقشہ ان کی آنکھوں کے سامنے رہتا ہے۔ پھر ان لڑائیوں میں جو لوگ لڑتے رہتے ہیں ان کا عقب ہمیشہ محفوظ رہا ہے کیونکہ وہ اپنے گھروں سے دور کبھی نکلے ہی نہیں اور اس وجہ سے وہ جانتے ہی نہیں کہ عقب کی حفاظت کتنی ضروری ہے کیونکہ ان کے راستے یا تو خود ان کے بیوی بچوں کی نگرانی میں ہوتے تھے یا ان کے دوست قبائل کی نگرانی میں ہوتے تھے۔ ان کے رستوں کو وہی توڑ سکتا تھا جو ان کے گھروں میں داخل ہو اس لئے اپنے رستوں کی حفاظت کا خیال کبھی سرحدی قبائل کے دلوں میں پیدا ہی نہیں ہوتا لیکن اپنے گھر سے دور جا کرلڑنے والی فوجوں کے لئے سب سے اہم سوال ان رستوں کی حفاظت کا ہوتا ہے جہاں سے اُن کو رسد پہنچتی ہے اور جن کی حفاظت کے بغیر ان کا پیچھا محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس قسم کی تربیت سرحدی قبائل کی نہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سرحد کے قبائل بے تحاشا آگے بڑھتے چلے گئے انہوں نے یہ نہ سوچا کہ ان کا پیچھا کون سنبھالے گا کیونکہ پیچھا سنبھالنے کا خیال کبھی ان کے دل میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ وہ ہمیشہ اپنے گھر کی پہاڑیوں میں لڑتے رہے اور ایسی پہاڑیوں میں وہ لڑتے رہے جن کی چپہ چپہ زمین کے وہ واقف ہیں۔ جب وہ اپنے مُلک سے دور جا کر اپنی عادت کے مطابق لڑے تو دشمن کو کئی موقعوں پر ان کا پیچھا روک لینے کا موقع مل گیا اور اس سے ان کو بہت نقصان پہنچا۔ دوسرے کئی لوگ جو اپنے گھروں سے اِس خیال سے نکلے تھے کہ پندرہ بیس دن کی لڑائی کے بعد ہمارا کام ختم ہو جائے گا۔ بعض دفعہ وہ اچانک میدانِ جنگ سے واپس آ گئے اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ ہم اپنی لڑائی کی مدت کو پورا کر چکے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے قبائل پونچھ اور کشمیر کے یا سرحد کے جو میدانِ جنگ میں لڑ رہے تھے ان کا پہلو یکدم ننگا ہو گیا اور باوجود مضبوط ارادہ کے وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے اور فتح شکست سے بدل گئی۔ اس کے سِوا بھی بعض اور باتیں اور خبریں ہمیں موثق ذرائع سے معلوم ہوئی ہیں مگر ان کا ذکر کرنا مناسب نہیں کیونکہ ان باتوں کے اظہار سے آزادی کشمیر کی تحریک کا کام کرنے والوں کو نقصان پہنچے گا۔ ہمارے دل میں دُکھ ہے کہ ایسا کیوں ہوا مگر ہم یہ بے وقوفی کرنا نہیں چاہتے کہ پچھلے نقصان پر واویلا کر کے آئندہ کی کامیابی کو اور بھی مخدوش بنا دیں۔ بہرحال جہاں تک ہمیں علم ہے آزادیٔ کشمیر کی تحریک میں کام کرنے والے اپنی سابقہ غلطیوں کی اصلاح میں مشغول ہیں اور آئندہ کے لئے نئی جدوجہد کے مستقل ارادے رکھتے ہیں مگر جیسا کہ ہم اوپر بتا چکے ہیں وہ بغیر سامانوں کے کچھ نہیں کر سکتے اور یہ سامان بغیر روپیہ کے میسر نہیں آ سکتے۔ پس ہم تمام مسلمانوں کی توجہ اس طرف پھراتے ہیں کہ اِس وقت بخل سے کام نہ لیں کیونکہ کشمیر کا مستقبل پاکستان کے مستقبل سے وابستہ ہے۔ آج اچھا کھانے اور اچھا پہننے کا سوال نہیں پاکستان کے مسلمانوں کو خود فاقے رہ کر اور ننگے رہ کر بھی پاکستان کی مضبوطی کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور جیسا کہ ہم اوپر بتا چکے ہیں پاکستان کی مضبوطی کشمیر کی آزادی کے ساتھ وابستہ ہے۔ ہم تمام پاکستان کے رہنے والوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد میں حصہ لینے والوں کی کمبلوں، گرم کوٹوں، برساتی کوٹوں، زمین پر بچھانے والی برساتیوں، برفانی بوٹوں، گرم جرابوں اور گرم سویٹروں سے امداد کریں۔ یہ چیزیں کچھ تو ان دُکانوں سے مہیا کی جا سکتی ہیں جنہوں نے گزشتہ زمانہ میں ڈسپوزل کے محکمہ سے سامان خریدا تھا اور کچھ سامان ابھی ڈسپوزل کے سٹوروں میں پڑا ہوگا جو مُلک کے پاس فروخت کرنے کیلئے ہے وہاں سے بھی سامان خریدا جا سکتا ہے اور کچھ سامان خود سرحد، کشمیر اور پونچھ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے صحیح جگہ روپیہ بھجوا دینا نہایت ضروری ہے۔ ہم پاکستان کے تمام اخباروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے خریداروں سے روزانہ اس کام کے لئے چندہ کی اپیل کریں یا سارے اخبار مل کر ایک کمیٹی بنا لیں جو مشترکہ طور پر روپیہ جمع کرے اور ایسے ضروری سامان خریدے جو مغربی پاکستان میں مل سکتے ہیں اور جو مغربی پاکستان میں نہیں مل سکتے لیکن خود کشمیر اور پونچھ اور سرحد میں مل سکتے ہیں، ان کے لئے روپیہ عارضی حکومت کو بھجوائیں یا عارضی حکومت کی ان شاخوں کو بھجوائیں جو مُلک کے مختلف حصوں میں کام کر رہی ہیں۔ ہم الفضل کے خریداروں اور الفضل کے پڑھنے والوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ جو کچھ انہیں توفیق ہو اس کام کے لئے بھجوائیں مگر اتنی بات کا فی نہیں اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر الفضل کا خریدار اور ہر الفضل کا پڑھنے والا اپنے اپنے علاقہ کے لوگوں سے بھی چندہ کی اپیل کرے۔ اگر ہمارے اخبار کے خریدار اورہمارے اخبار کے پڑھنے والے لوگوں پر ساری حقیقت واضح کر دیں تو یقینا لوگ دل کھول کر چندہ دیںگے لیکن سوال زیادہ روپیہ کا بھی نہیں جو زیادہ دے سکتا ہے وہ زیادہ دے جو زیادہ نہیں دے سکتا یا زیادہ دینا نہیں چاہتا وہ اگر ایک پیسہ بھی دیتا ہے تو اپنے مُلک کی خدمت کرتا ہے۔ اگر ہزار آدمی ایک ایک پیسہ دے کر بھی ایک سپاہی کی جان بچا لیتے ہیں تو یقینا وہ فتح کو قریب کر دیتے ہیں اس لئے کمر ہمت کس کر کھڑے ہو جائیں اور اپنے علاقہ کے تمام لوگوں سے خواہ وہ کسی قوم اور کسی فرقہ اور کسی خیال کے ہوں، چندہ جمع کریں اور جلد سے جلد بھجوائیں اِس تمام چندے کا حساب رکھا جائے گا اور بعد میں حساب شائع کیا جائے گا یاد رکھیں کہ الفضل ایسے چندے کو اور ایسی چیزوں کو جو اس چندہ میں آئیں سَو فیصدی اس جگہ پر پہنچا دے گا جہاں پہنچ کر وہ کشمیر کی تحریک کو اِنْشَائَ اللّٰہ فائدہ پہنچا سکیں گی۔(الفضل لاہور ۱۲؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کشمیر اور پاکستان
یوں تو مسلمان عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کا معاملہ نہایت اہم ہے لیکن اس کی اہمیت کاپورا انکشاف انہیں حاصل نہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کشمیر کا ہندوستان سے الحاق شاید کوئی نیا مسئلہ ہے مگر یہ بات درست نہیں حقیقت یہ ہے کہ کشمیرکے ہندوستان سے الحاق کی داغ بیل بہت عرصہ پہلے پڑ چکی تھی۔ باؤنڈری کے فیصلہ سے عرصہ پہلے ہندوستان کی تقسیم کے سوال کا فیصلہ ہوتے ہی لارڈ مونٹ بیٹن کشمیر گئے اور ان کے سفر کا مقصد وحید یہی تھا کہ وہ مہاراجہ کشمیر کو ہندوستان میں شامل ہونے کی تحریک کریں۔ حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ لارڈ مونٹ بیٹن کُلّی طور پر ہندوؤں کی تائید میں رہے ہیں اور مسلمانوں کے مفاد کی اُنہوں نے کبھی بھی پرواہ نہیں کی۔ اگر انہوں نے پاکستان کے بنانے کے حق میں رائے دی تو اس یقین کے ساتھ دی کہ تھوڑے ہی عرصہ میں پاکستان تباہ ہو کر پھر ہندوستان میں شامل ہو جائے گا اور ان کا سارا زور اسی بات کے لئے خرچ ہوتا رہا۔ جب لارڈ مونٹ بیٹن کشمیر کے راجہ کو نصیحت کرنے کیلئے وہاں گئے اور اسی طرح کانگرس کے اور لیڈر بھی جیسے مسٹر گاندھی وہاں گئے تو لازمی بات ہے کہ ان بحثوں میں گورداسپور کے ضلع کا سوال بھی پیدا ہوا ہوگا۔ کشمیر اگر ہندوستان یونین سے ملتا اور تحصیل بٹالہ اور تحصیل گورداسپور ہندوستان یونین میں شامل نہ ہوتے تو اس کے معنی یہ تھے کہ کشمیر کا ہندوستان سے تعلق صرف ضلع کانگڑہ کے ذریعہ پیدا کیا جا سکتا تھا۔ ہر شخص جو پنجاب کے جغرافیہ سے واقف ہے سمجھ سکتا ہے کہ کانگڑہ کے ذریعہ سے کشمیر کا صحیح تعلق ہندوستان سے پیدا ہونا قریباً ناممکن ہے۔ نہ کانگڑہ کے ذریعہ سے ہندوستان کی چیزیں کشمیر پہنچ سکتی تھیں نہ کشمیر کی چیزیں ہندوستان پہنچ سکتی تھیں اس لئے اُسی وقت یہ بھی فیصلہ کر دیا گیا کہ تحصیل گورداسپور اور تحصیل بٹالہ ہندوستان میں شامل کی جائیں تاکہ مادھو پور کے رستے پٹھانکوٹ سے کشمیر کا تعلق پیدا ہو اور پٹھانکوٹ سے ریل کے ذریعہ سے باقی ہندوستان سے۔
تحصیل گورداسپور اور تحصیل بٹالہ کا ہندوستان کے ساتھ شامل کرنا باوجود اس کے کہ ان میں مسلمانوں کی اکثریت تحصیل شکر گڑھ سے زیادہ ہے اور تحصیل شکر گڑھ کو پاکستان میں شامل کرنا صاف بتاتا ہے کہ اس تقسیم میں کشمیر کے لئے رستہ بنانا مدنظر تھا۔ مسٹر ریڈکلف نے بے شک گورداسپور اور بٹالہ کو ہندوستان میں شامل کرنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ لوئر باری دوآب کا علاقہ تقسیم نہ ہو لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ یہ محض بہانہ تھا کیونکہ لوئر باری دو آب پھر بھی تقسیم ہوگئی۔ لوئرباری دو آب کا وہ حصہ جو تحصیل لاہور کو سیراب کرتا ہے وہ پھر بھی پاکستان میں آیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ درحقیقت لوئر باری دوآب کا محض ایک بہانہ تھا۔ تحصیل گورداسپور اور تحصیل بٹالہ کو ہندوستان میں شامل کرنے کی وجہ لوئر باری دو آب کی تقسیم کا خوف نہیں تھا کیونکہ یہ تقسیم خود اسی ایوارڈ میں موجود ہے۔ ان دونوں تحصیلوں کو ہندوستان میں شامل کرنے کا باعث صرف بٹالہ پٹھانکوٹ ریلوے کو ہندوستان یونین میں لانا تھا۔ اس ریل کے ہندوستان یونین میں جانے کے بغیر کشمیر ہندوستان کے ساتھ مل نہیں سکتا تھا۔ پس جب لارڈ مونٹ بیٹن کشمیر گئے تو ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ کشمیر کو ہندوستان یونین سے ملانے کے لئے بٹالہ اور گورداسپور کی تحصیلوں کو ہندوستان یونین میں ملانا ضروری ہوگا اور جب سرریڈکلف نے اپنا ایوارڈ دیا تو ان کے ذہن میں بھی یہ بات تھی کہ کشمیر کو ہندوستان یونین میں ملایا جائے گا اس لئے تحصیل گورداسپور اور تحصیل بٹالہ کی مسلم اکثریت کو عقل اور انصاف کے خلاف قربان کر دینا ضروری ہے اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پس جب لارڈمونٹ بیٹن مہاراجہ کشمیر سے ملنے کیلئے گئے اور کانگرس نے مہاراجہ کشمیر پر زور دینا شروع کیا کہ وہ ہندوستان یونین کے ساتھ شامل ہوں تو اس کے معنی یہ تھے کہ ان لوگوں نے گورداسپور اور بٹالہ کو ہندوستان یونین میں شامل کرنے کا پہلے سے فیصلہ کیا ہوا تھا اور جب سرریڈکلف نے گورداسپور اور بٹالہ کو خلافِ انصاف اور خلافِ عقل ہندوستان یونین میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے یہ معنی تھے کہ کشمیر کو ہندوستان یونین میں شامل کرنے کا فیصلہ پہلے سے ہوچکا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان نتائج کو صحیح تسلیم کرنے کی صورت میں انگلستان کی دو بڑی ہستیوں پر خطرناک الزام عائد ہوتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ مندرجہ بالا واقعات کی بناء پر اس نتیجہ کے سِوا کوئی اور نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا۔ اگر یہ بات ممکن تھی اور اگر عقل اور انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ گورداسپور اور بٹالہ کی تحصیلیں پاکستان میں شامل ہوں تو سرریڈکلف کے ایوارڈ سے پہلے لارڈمونٹ بیٹن، مسٹر گاندھی اور دوسرے کانگرسی اکابر کا مہاراجہ کشمیر کے پاس جانا اور انہیں ہندوستان یونین میں شامل ہونے کی تحریک کرنا بالکل بے معنی ہو جاتاہے۔ کیا کوئی عقلمند آدمی اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ لارڈ مونٹ بیٹن، مسٹرگاندھی اور دوسرے کانگرسی اکابر ایک ایسی بات منوانے کے لئے کشمیر گئے تھے جو تحصیل گورداسپور اور تحصیل بٹالہ میں مسلم اکثریت کے ہونے کی وجہ سے بالکل ناممکن تھی، ان کا جانا بتاتا ہے کہ یہ بات پہلے سے طے پا چکی تھی اور تحصیل بٹالہ اور تحصیل گورداسپور باوجود مسلم اکثریت کے ہندوستان یونین میں شامل کی جائیں گی اور اگر یہ بات پہلے سے طے کی جا چکی تھی تو سرریڈکلف کا ایوارڈ محض ایک دکھاواتھا۔ ایک طے شدہ بات کے اعلان سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہ تھی۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس سازش میں کون کون آدمی شامل تھا مگر ایوارڈ سے پہلے لارڈ مونٹ بیٹن، مسٹر گاندھی اور دوسرے کانگرسی اکابر کا کشمیر جا کر مہاراجہ کشمیر پر انڈین یونین میں شامل ہونے کے لئے زور دینا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ سازش ضرور تھی اور ایوارڈ سے پہلے یہ بات جانی بوجھی ہوئی تھی کہ کشمیر کا ہندوستان یونین سے ملنا ممکن ہوگا اور تحصیل بٹالہ اور تحصیل گورداسپور اس بات میں روک نہیں ڈالیں گی۔ تاریخ اس ڈرامہ کو کھیلنے والوں کو یقینا مجرم گردانے گی۔ وہ لاکھوں آدمی جو اس بددیانتی کی وجہ سے مظالم کا شکار ہوئے ہیں اُن کی روحیں عرش کے پائے پکڑ کر خدا تعالیٰ کی غیرت کو بھڑکاتی رہیں گی اور تمام دنیا کے دیانتدار مؤرخ برطانوی گورنمنٹ کے ہندوستان میں اس آخری فعل کی شناعت اور بُرائی کو آئندہ نسلوں کے سامنے بار بار پیش کرتے رہیں گے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے اس جگہ برطانوی گورنمنٹ کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ یقینا ساری برطانوی گورنمنٹ اس سازش میں شریک نہیں ہوسکتی اورہمیں یقین ہے کہ وہ شامل نہیں ہوگی لیکن اس امر کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ڈرامہ اس کی آنکھوں کے سامنے کھیلا گیا ہے اور باوجود اس کے کہ وہ اس ڈرامہ کی حقیقت کو سمجھ سکتی تھی اور سمجھتی تھی اور اس نے ان ایکٹوں کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ لوگ صرف اس خیال سے کشمیر جاتے تھے کہ ممکن ہے گورداسپور اور بٹالہ کی تحصیلیں ہندوستان یونین میں چلی جائیں۔ جب لارڈ مونٹ بیٹن کا یہ اعلان موجود تھا کہ کسی جگہ کی کسی قوم کی اکثریت کو دوسری قوم کا غلام نہیں بنایا جائے گا تو اپنے اس اعلان کے بعد لارڈ مونٹ بیٹن کو یہ شُبہ ہی کس طرح ہو سکتا تھا کہ تحصیل گورداسپور اور تحصیل بٹالہ کی مُسلم اکثریت ہندوستان یونین میں چلی جائے گی اور اس طرح کشمیر کو ہندوستان یونین میں ملانے کا موقع مل جائے گا۔ جب لارڈ مونٹ بیٹن نے یہ اعلان کیا تھا کہ گورداسپور میں مسلمانوں کی اکثریت ۵۱فیصدی سے بھی کم ہے تو اُسی وقت احمدیہ جماعت کی طرف سے اُن کو تار دی گئی تھی کہ ضلع گورداسپور میں مسلمانوں کی تعداد ۵۳ فیصدی ہے مگر آپ نے اپنے اعلان میں ۵۱فیصدی سے بھی کم قرار دیا ہے۔ آپ گورنمنٹ آف انڈیا کی شائع شدہ مردم شماری کی رپورٹ دیکھیں اس میں صاف طور پر ضلع گورداسپور کی مسلم آبادی ۵۳ فیصدی سے زیادہ لکھی ہوئی ہے یا تو آپ اپنے بیان کی تردید کریں ورنہ دنیا یہ شُبہ کرے گی کہ آپ نے بیان دیدہ دانستہ دیا ہے اور ضلع گورداسپور کو ہندوستان میں شامل کرانے کی بنیاد ڈالی ہے۔ لارڈ مونٹ بیٹن نے احمدیہ جماعت کے اس احتجاج کا کوئی جواب نہ دیا اور واقف کاروں کے دل میں اُسی وقت یہ احساس پیدا ہو گیا کہ تحصیل بٹالہ اور تحصیل گورداسپور کے ہندوستان میں شامل ہونے کا فیصلہ ہوچکا ہے اور آئندہ جو کچھ بھی ہوگا محض ایک ڈرامہ ہوگا، ایک کھیل ہوگا اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ کیا لارڈ مونٹ بیٹن میں یہ جرأت ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ وہ اعداد و شمار جو انہوں نے گورداسپور کی مسلم آبادی کے متعلق پریس کانفرنس میں بیان کئے تھے سنسس رپورٹ (CENSUS REPORT) کے مطابق ہیں اور کیا وہ اس بات کا انکار کر سکتے ہیں کہ احمدیہ جماعت نے اُسی وقت ان کے سامنے پروٹسٹ کیا تھا اور انہوں نے پروٹسٹ کا جواب تک نہ دیا۔
بہرحال جیسا کہ ہم ثابت کر چکے ہیں کشمیر کو ہندوستان یونین میں ملا دینے کا فیصلہ برطانوی حکومت کے بعض نمائندے اور کانگرس مشترکہ طور پرپہلے سے کرچکے تھے اس کے بعد جو کچھ کیا گیا ہے وہ محض دکھاوا اور کھیل ہے مگر بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔کشمیر کو ہندوستان یونین میں ملا دینے کا فیصلہ صرف کشمیر کی خاطر نہیں کیا گیا بلکہ اس لئے کیا گیاہے کہ صوبہ سرحد کے ساتھ ہندوستان یونین کا تعلق قائم ہو جائے۔ صوبہ سرحد میں سرخ پوشوں (RED SHIRTS) کے ذریعہ سے کانگرس کی تائید میں ایک جال پھیلایا گیا ہے۔ عبدالغفار خان۲۰؎ کے ذریعہ سے لاکھوں روپیہ کانگرس سرحد پر تقسیم کر رہی ہے۔ نومبر ۱۹۴۶ء میں بعض انگریز اور امریکن اخبار نویسوں نے ہمارے نمائندہ سے خواہش کی تھی کہ وہ اس بات کا پتہ لے کہ فقیرا یپی حقیقت میں کانگرس کے ساتھ ہے یا مُسلم لیگ کے ساتھ اس پر ہمارا نمائندہ پشاور اور پشاور سے ہوتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان گیاتھا وہاں اسے ایک ذمہ دار افسر نے فقیرایپی کے ایک رشتہ کے بھائی سے ملوایا اور اس نے یہ بات بیان کی کہ چند دن پہلے کانگرس کا ایک نمائندہ پینتالیس ہزار روپیہ لے کر فقیرایپی کو دینے کیلئے گیا ہے مگر ساتھ ہی اس نے یہ بات بھی بڑھا دی کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ فقیرایپی بڑے جوشیلے مسلمان ہیں، وہ کانگرس کا روپیہ نہیں لیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ اُنہوں نے روپیہ لیا اور اَب وہ کانگرس کی طرف سے کام کر رہے ہیں۔
اب تین طاقتیں پاکستان کے خلاف صوبہ سرحد میں کام کر رہی ہیں۔ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ میں سرخ پوشوں کی جماعت، آزاد سرحد میں فقیرایپی کے لوگ اور افغانستان میں وہ پارٹی جو افغانستان کی سرحدوں کو سندھ تک بڑھا دینے کی تائید میں آوازیں اُٹھا رہی ہے۔ افغانستان کی فوجی طاقت ہرگز اتنی نہیں کہ وہ پاکستان میں داخل ہو کر سندھ کو فتح کر سکے۔ یہ فریب اسے ہندوستان کے بعض آدمیوں نے دیا ہے اور سکیم یہ ہے کہ خدانخواستہ اگر کشمیر کی آزادی کی تحریک کو کچل دیا جائے اور ہندوستان یونین کا اثر کشمیر کی آخری سرحدوں تک پہنچ جائے تو وہاں سے روپیہ اور اسلحہ شمال مغربی صوبہ میں پھیلایا جائے اور سرحد پار کے قبائل میں پھیلایا جائے۔ اس اسلحہ اور روپیہ کے قبول کرنے کیلئے زمین تیار ہے اور اس اسلحہ اور روپیہ کو پھیلانے کیلئے آدمی بھی میسر ہیں۔ جب یہ سکیم مکمل ہو جائے گی تو اُدھر سے سرحد میں بغاوت کرا دی جائے گی۔ اِدھر سے فقیرایپی کے ساتھ سرحدی صوبہ میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے اور تیسری طرف کشمیر کی طرف سے ڈوگرے اور سِکھ سپاہی فوج سے چوری بھاگ بھاگ کر ضلع ہزارہ اور راولپنڈی پر حملے شروع کر دیں گے۔ نتیجہ ظاہر ہے پاکستان کی حالت اگر مشرقی سرحد سے سِکھ بھی حملے کرنے لگ جائیں تو صرف اس مصالحہ کی سی رہ جائے گی جو شامی کباب (سینڈوچ) کے پیٹ میں بھرا ہوا ہوتا ہے اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایسی خطرناک صورت ہوگی کہ اس سے بچنا نہایت اور نہایت ہی مشکل ہوگا۔ تقسیم پنجاب سے پہلے کی سوچی ہوئی یہ سکیمیں ہیں اور شطرنج کی سی چال کے ساتھ ہوشیاری کے ساتھ اس سکیم کو پورا کیا جا رہا ہے۔ ہم نے وقت پر اپنے اہل وطن کو ہوشیار کر دیا ہے زمانہ بتا دے گا کہ جو بات آج عقل کی آنکھوں سے نظر آ رہی ہے، کچھ عرصہ کے بعد واقعات بھی اس کی شہادت دینے لگیں گے۔ ہمارے نزدیک اِس کا علاج یقینا موجود ہے اور حکومت پاکستان اب بھی اپنی مات کو جیت میں تبدیل کر سکتی ہے۔ اب بھی وہ ان منصوبوں کے بد اثرات سے محفوظ رہ سکتی ہے کیا کسی کے کان ہیں کہ وہ سنے، کسی کی آنکھیں ہیں کہ وہ دیکھے، کوئی دل گردے والا انسان ہے جو ہمت کر کے اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے کھڑا ہو جائے؟
(الفضل لاہور ۱۴؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سپریم کمانڈ کا خاتمہ
اخبارات میں یہ اعلان ہوا ہے کہ ۳۰؍ نومبر سے سپریم کمانڈ کا خاتمہ کر دیا جائے گا ساتھ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ سپریم کمانڈ کے خاتمہ کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان یونین سپریم کمانڈر کے ساتھ تعاون نہیں کرتی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب کہ ہندوستان یونین سپریم کمانڈ کے ختم کر دینے پر راضی ہے، پاکستان گورنمنٹ کی طرف سے سپریم کمانڈ کے ختم کرنے پر اعتراض کیا گیا ہے۔ مسلمان اخبارات میں سے بعض نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ سپریم کمانڈ کو ختم کر دیا گیا ہے۔ سپریم کمانڈ کے ختم کرنے کی رپورٹیں دیر سے آ رہی ہیں۔ اکتوبر کے شروع میں یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ سپریم کمانڈ کو اکتوبر کے آخر میں ختم کر دیا جائے گا۔ اُس وقت ہم نے اپنے نمائندوں کے ذریعہ سے اس خبر کی تصدیق کرنی چاہی تو ہمیں بتایا گیا کہ سپریم کمانڈ کے خاتمہ پر ہندوستان یونین اور پاکستان دونوں متفق ہوگئے ہیں ہم نے ذمہ دار افسروں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ یہ قدم غلط ہے افسروں اور سامان کے تقسیم کرنے کے بغیر مُلک کے تقسیم کرنے سے جو دھکا پہنچا ہے، وہی بات سپریم کمانڈ کے ختم کرنے پر پیدا ہو جائے گی۔ جو کچھ مشرقی پنجاب میں ہوا اس کی وجہ زیادہ تر یہی تھی کہ پاکستان اور ہندوستان کے سامان اور سپاہیوں کے تقسیم ہونے سے پہلے ہی دونوں حکومتیں آزاد ہوگئیں۔ پاکستان کا سپاہی ہندوستان میں تھا، ان کا سامان بھی ہندوستان میں تھا اس لئے سکھ خوب سمجھتا تھا کہ میں جتنا بھی خون خرابہ کروں گا اُس کو روکنے والا کوئی نہیں۔ باؤنڈری فورس کا خاتمہ بھی اِس کا بہت کچھ ذمہ دار تھا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باؤنڈری فورس چونکہ لارڈ مونٹ بیٹن کے ماتحت رکھی گئی تھی اِس لئے اُس نے بہت کچھ ہندوستان یونین کی رعایت کی لیکن پھر بھی بوجہ اس کے کہ اس میں مسلمان فوج بھی کچھ نہ کچھ موجود تھی اس کے ہوتے ہوئے اتنا ظلم نہیں ہو سکا جتنا کہ اس کے بعد ہوا۔ باؤنڈری فورس کے ختم ہوتے ہی تباہی پر تباہی آنی شروع ہو گئی۔ ہم حیران تھے کہ باؤنڈری فورس کو امن کے قیام سے پہلے ختم کیوں کیا گیا ہے حالانکہ مشکلات کا اصل حل یہ نہیں تھا کہ باؤنڈری فورس کو ختم کیا جائے بلکہ اصل حل یہ تھا کہ باؤنڈری فورس گورنر جنرل ہندوستان اور گورنر جنرل پاکستان دونوں کے ماتحت ہو۔ تیسرے ممبر اس میں سپریم کمانڈر شامل کر لئے جاتے یا اگر دونوں گورنر جنرل اِس قدر وقت نہ دے سکتے تو دونوں گورنر جنرلوں کے نمائندے سپریم کمانڈر کے ساتھ مل کر اِس فورس کا انتظام کرتے اور یہ فورس اُس وقت تک نہ ہٹائی جاتی جب تک کہ دونوں مُلکوں کے پناہ گزین اپنی اپنی جگہوں پر نہ پہنچ جاتے۔ اگر ایسا کیا جاتا تو ہمارا خیال ہے کہ نہ اتنی خونریزی ہوتی اورنہ اتنا علاقہ خالی ہوتا۔ ایسی صورت میں ہمارے نزدیک کچھ نہ کچھ مسلمان مشرقی پنجاب میں بیٹھے رہنے اور کچھ عرصہ کے بعد لوگوں کے جوش ٹھنڈے ہو جانے کی وجہ سے وہ مستقل طور پر وہاں بیٹھ سکتے تھے۔ باؤنڈری فورس کا خاتمہ ایسی جلدی سے ہوا کہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں میں سے اکثر باوجود اس کے کہ دو دن پہلے وہ اپنے شہر میں بیٹھ رہنے کا فیصلہ کر چکے تھے اس دہشت کی وجہ سے کہ باؤنڈری فورس ختم ہوگئی، اب خبر نہیں کیا ہوگا، دو دن کے اندر اندر شہروں سے نکل کر کیمپوں میں چلے گئے۔ جتنی دہشت باؤنڈری فورس کے ختم ہونے سے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوئی ہے اور کسی بات سے اُتنی دہشت پیدا نہیں ہوئی سوائے گورداسپور کے جس کا فیصلہ یکدم ہوا۔ باقی لوگ پہلے سے جانتے تھے کہ ہم مشرقی پنجاب میں آ چکے ہیں لیکن وہ یہ سمجھتے تھے کہ کچھ عرصہ تک باؤنڈری فورس کی وجہ سے ایک قسم کی حفاظت ان کو حاصل رہے گی لیکن یہ اعلان ہوتے ہی کہ دو دن کے اندر باؤنڈری فورس ختم ہو جائے گی ان کے سوچنے کی قوت بالکل ماری گئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب ہمارے لئے قیامت آ گئی اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کچھ تو یوں بھی تباہی آنی تھی رہی سہی کسر باؤنڈری فورس کے اتنی جلدی ٹوٹنے نے نکال دی۔ اگر باؤنڈری فورس کی اصلاح کی جاتی۔ مسلمان فوج کی نسبت بڑھانے پر اصرار کیا جاتا اور اس کی نگرانی لارڈ مونٹ بیٹن کی بجائے دونوں گورنر جنرل یا ان کے نمائندوں اور سپریم کمانڈر کے سپرد کی جاتی تو یہ خونریزی جو اَب ہوئی ہے ہمارے خیال میں اس سے بہت کم ہوتی۔ یقینا خونریزی باؤنڈری فورس کی موجودگی میں بھی ہوتی اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ خونریزی بہرحال ہونی تھی اور ہوئی مگر سوال صرف اس بات کا ہے کہ تیس اور اکتیس اگست کو جو دہشت مشرقی پنجاب کے مسلمانوں میں پیدا ہوئی وہ باؤنڈری فورس کے توڑنے کا خالص نتیجہ تھا اور اُس نے اِس تمام مقاومت کی کمر توڑ دی جو بعض جگہ کے مسلمان پیش کرنے کیلئے تیار تھے۔
سپریم کمانڈ کے توڑنے میں بھی یہی خطرات ہیں پاکستان کی فوج کا بہت سا حصہ تو اِدھر آچکا ہے لیکن پاکستان کا بہت سا سامان ابھی ہندوستان میں پڑا ہے بعض غیرضروری سامان ایسا بھی ہے جو پاکستان کے پاس زیادہ ہے اور ہندوستان میں کم ہے لیکن ضروری سامان زیادہ تر ہندوستان یونین میں پڑا ہے۔ پاکستان کے گولہ بارود کا حصہ پچھتر ہزار ٹن یعنی قریباً ۲۱ لاکھ من اب تک ہندوستان یونین میں ہے اور توپ خانے کا بہت سا سامان اور ہوائی جہازوں کا بہت سا سامان اور بحری فوج کا بہت سا سامان ابھی انڈین یونین کے پاس ہے۔ اس سامان کے بغیر پاکستان کی حفاظت کی کوئی کوشش نہیں کی جا سکتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سپریم کمانڈ نے پورے انصاف سے کام نہیں لیا اور جس سرعت سے پاکستان کو سامان مہیا ہونا چاہئے تھا اُس سرعت سے پاکستان کو سامان مہیا نہیں کیا اور جس نسبت سے پاکستان سے سامان نکالنا چاہئے تھا اس نسبت سے زیادہ تیزی کے ساتھ پاکستان سے سامان نکالا گیا ہے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ نسبت قائم رکھی گئی ہے۔ اگر سپریم کمانڈ ختم ہوگئی تو پاکستان کے سامان کا بھجوانا کُلّی طور پر ہندوستان یونین کے ہاتھ میں ہوگا۔ کیا کوئی سمجھدار انسان کہہ سکتا ہے کہ جنرل آخنلیک پاکستان کے جس سامان کو ہندوستان یونین سے پاکستان کی طرف نہیں بھجوا سکتا، اس کو سردار بلدیوسنگھ بھجوا دیں گے۔ یہ اتنی غلط بات ہے جس کو ہر چھوٹی سے چھوٹی عقل والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان گورنمنٹ جو پہلے خود سپریم کمانڈ کے توڑنے کی تائید میں تھی اب اُس وقت تک اس کمانڈ کے توڑنے کی تائید میں نہیں جب تک کہ پاکستان کا سامان پاکستان کو نہ مل جائے اور یہ فیصلہ پاکستان گورنمنٹ کا بالکل عقل کے مطابق ہے اور ہمارے نزدیک پاکستان گورنمنٹ کو اصرار کرنا چاہئے کہ جب باہمی سمجھوتہ سے ایک تاریخ مقرر ہوچکی ہے تو اُس وقت تک سپریم کمانڈ کو توڑنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اگر ہندوستان یونین اس سے پہلے سپریم کمانڈ کو توڑنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ جلدی سے ہمارا سامان ہمارے حوالے کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو وہ خود سپریم کمانڈ کو قائم رکھنے کے سامان پیدا کرتی ہے۔ آخر ہندوستان یونین اکیلے تو کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ پاکستان گورنمنٹ کو برٹش گورنمنٹ پر زور دینا چاہئے کہ اگر تم سپریم کمانڈ کو ہمارے سامان کے ملنے سے پہلے ختم کرتے ہو تو تم نہ صرف ایک معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہو بلکہ ان خطرناک نتائج کے پیدا کرنے کے بھی ذمہ دار ہو جو سپریم کمانڈ کے خاتمہ کے نتیجہ میں پیدا ہوں گے۔ اگر تم اس کو ختم کرنا چاہتے ہو تو ہمارا حصہ جو ہندوستان یونین سے ہمیں ملنے والا ہے یا ان سے فوراً دلواؤ یا اپنے پاس سے دو۔ آخر برطانوی گورنمنٹ کے وعدہ کی کوئی تو قیمت ہونی چاہئے اگر وہ اتنی ہی نامرد ہو چکی ہے اور اتنی ہی بے بس ہو چکی ہے تو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سمجھوتہ کرانے میں اُس نے دخل ہی کیوں دیا۔ جب ہندوستان یونین کے ظلموں پر پاکستان شکایت کرتا ہے تو برطانوی گورنمنٹ اور برطانوی ڈومینین اپنی بے بسی کا اظہار کر دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ تمہارا اندرونی معاملہ ہے اور جب ایک ایسا معاہدہ جو ہندوستان اور پاکستان اور برطانیہ کے مشورہ سے ہوا تھا اسے توڑا جاتا ہے تو برطانوی گورنمنٹ یہ کہہ دیتی ہے کہ چونکہ ہندوستان نہیں مانتا اس لئے ہم سپریم کمانڈ کو ختم کرتے ہیں۔ کیا برطانوی گورنمنٹ کی سیاست آئندہ اسی نقطہ پر چکر کھائے گی کہ ہندوستان یونین کیا چاہتی ہے اور کیا نہیں چاہتی اگر برطانوی گورنمنٹ کی آئندہ یہی پالیسی ہوگی تو اسے اس کا اعلان کر دینا چاہئے۔ آخر ایک ایسا فیصلہ جو تین طاقتوں نے مل کر کیا تھا اسے ایک طاقت کے کہنے سے کس طرح توڑا جاسکتا ہے اور انصاف کا کون سا قانون ایسا کرنے کی تائید کرتا ہے۔ ہم ان مسلمان اخبارات سے بھی پوچھتے ہیں جو سپریم کمانڈ کے توڑنے پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ ہمیں بتائیں کہ پاکستان کا اتنا سامان جو ابھی ہندوستان یونین کے پاس ہے، سپریم کمانڈ کے ٹوٹنے کے بعد اس کے لانے کی کیا ترکیب ہوگی۔ کیا ان کے نزدیک فیلڈ مارشل آخنلیک جو سامان نہیں بھجوا سکا، سردار بلدیوسنگھ اس کو بھجوا سکیں گے؟ اگر ان کے نزدیک سردار بلدیوسنگھ پر زیادہ اعتبار کیا جا سکتا ہے تو ہمارے نزدیک پاکستان کے قیام کی غرض ہی کوئی نہ تھی اور اگر سردار بلدیوسنگھ صاحب کے ہاتھوں سے اس سامان کا پاکستان کی طرف آنا زیادہ مشکل ہو جائے گا تو سپریم کمانڈ کے توڑنے پر خوشی کے اظہار کے معنے کیا ہیں کیا ہم صرف اس لئے کہ انگریز نے ہمارے ساتھ غداری کی ہے اپنا نقصان کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے؟ اگر تو سوال یہ ہو کہ معاملہ انگریز کے ہاتھ میں رہے یا مسلمان کے ہاتھ میں؟ تو ہم سمجھتے ہیں کہ سارے مسلمان اِس بات پر اتفاق کریں گے کہ مسلمان کے ہاتھ میں رہنا زیادہ بہتر ہے لیکن اگر سوال یہ نہ ہو بلکہ یہ ہو کہ ہندوستان یونین سے پاکستان کا مال بھجوانے کا اختیار فیلڈمارشل آخنلیک کے ہاتھ میں ہو یا سردار بلدیو سنگھ کے ہاتھ میں؟ تو جواب بالکل ظاہر ہے۔ جس طرح پہلے سوال کے جواب میں مسلمانوں کے اندر اختلافِ رائے کم ہی ہوگا، اسی طرح ہمارے نزدیک اس سوال کے جواب میں بھی کوئی سمجھدار انسان اختلاف نہیں کر سکتا قریباً سب مسلمانوں کا جواب یہی ہوگا کہ اگر سردار بلدیو سنگھ اور فیلڈ مارشل آخنلیک کا سوال ہے تو ہم فیلڈ مارشل آخنلیک پر زیادہ اعتبار کر سکتے ہیں بہ نسبت سردار بلدیو سنگھ صاحب کے۔ پاکستان ابھی کمزور ہے اور وہ اپنا حق اس دلیری سے نہیں لے سکتا جیسا کہ دیر سے قائم شدہ حکومتیں لیا کرتی ہیں لیکن یہ بات صاف اور سیدھی ہے کہ اگر فیلڈ مارشل آخنلیک ہمارا تیس فی صدی نقصان کریں گے تو سردار بلدیوسنگھ ہمارا ستر فی صدی نقصان کریں گے۔ پس اس صورت حالات کے ہوتے ہوئے پاکستان کے دوستوں میں سے بعض کا یہ کہنا کہ شکر ہے سپریم کمانڈ توڑ دی گئی، صرف اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے واقعات کو پورے غور سے نہیں دیکھا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں جو ہندوستان یونین کا سامان ہے ہم اسے روک سکتے ہیں ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان میں ہندوستان یونین کا جو سامان ہے وہ زیادہ تر دوائیوں وغیرہ کی قسم کا ہے لیکن ہندوستان یونین میں جو پاکستان کا سامان ہے وہ گولہ بارود اور توپوں اور طیاروں اور بحری جہازوں کی قسم کا ہے۔ دونوں کی قیمت کا کوئی موازنہ ہی نہیں جو چیزیں ہمارے پاس ہیں ان کے بغیر ہندوستان یونین ایک حد تک گزارہ کر سکتی ہے لیکن جو چیزیں ان کے پاس ہیں ان کے بغیر پاکستان گزارہ نہیں کر سکتا۔ ہم اگر حقیقت حال پر پوری روشنی ڈالیں تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم ایک ایسی چیز کو ظاہر کر رہے ہیں جو حکومت کا راز ہے۔ ہم نے بعض ذرائع سے پاکستان کی طاقت جو سامان کے لحاظ سے ہے، وہ معلوم کر لی ہے لیکن ہم اس کا ظاہر کرنا نہ دشمن کے نقطۂ نگاہ سے درست سمجھتے ہیں نہ دوست کے نقطۂ نگاہ سے، اس لئے ہم اس کو ظاہر نہیں کر سکتے۔ مگر ہم یہ ضرور کہہ دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان کو ان سامانوں کی اشد ضرورت ہے جو اس کے حصہ میں آ تو گئے ہیں لیکن ہندوستان یونین میں پڑے ہیں۔ پاکستان کے توپ خانہ والا حصہ بہت ہی کمزور ہے نہ اس کے پاس پورا سامان ہے، نہ پورا گولہ بارود ہے، نہ مسلمان ٹرینڈ افسر ہیں کسی صورت میں بھی توپ خانہ کے حصہ کو مسلمان افسر سنبھال نہیں سکتا۔ توپ خانہ کا بڑے سے بڑا مسلمان افسر میجر کی حیثیت رکھتا ہے حالانکہ تجربہ کار کمانڈ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک میجر جنرل کے ہاتھ میں ہو۔ پیادہ فوج میں ایسے مسلمان افسر موجود ہیں جو یا تو میجر جنرل ہیں یا میجر جنرل بنائے جا سکتے ہیں لیکن توپ خانہ میں نہ تو بڑے درجہ کے مسلمان افسر موجود ہیں نہ اتنے افسر موجود ہیں جو سارے توپ خانہ کے کام کو چلاسکیں اور نہ اتنا سامان موجود ہے جس سے توپ خانہ کے حصہ کو محفوظ سمجھا جا سکے۔ افسر تو ہندوستان یونین ہمیں دے نہیں سکتی نہ ہم اس سے لے سکتے ہیں مگر اتنی کمزوری کے باوجود اگر سامان کی بھی کمزوری پیدا ہوگئی تو اس کا نتیجہ ظاہر ہے۔ پس ہمارے نزدیک مسلمان پبلک کو ایک آواز کے ساتھ پاکستان گورنمنٹ پر زور دینا چاہئے کہ وہ برطانوی گورنمنٹ پر زور دے کہ وہ ہندوستان یونین کے معاہدہ کے توڑنے کی بناء پر وہ سپریم کمانڈ کو توڑنے کا کوئی حق نہیں رکھتی۔ اسے یا تو ہندوستان یونین سے ہمارا سامان تیس نومبر سے پہلے دلوانا چاہئے یا اپنے پاس سے وہ سامان ہم کو دینا چاہئے۔ نہیں تو اگر اس کے اندر کوئی شرافت باقی ہے تو اسے صاف کہہ دینا چاہئے کہ سپریم کمانڈ کو نہیںتوڑا جائے گا، جب تک پاکستان کا کل سامان ہندوستان یونین اس کو ادا نہیں کر دیتی۔
جونا گڑھ، انڈین یونین اور گاندھی جی
گاندھی نے ۱۱؍ نومبر کی شام کو پرارتھنا ۲۱؎کے بعد تقریر کرتے ہوئے
فرمایا ہے کہ:۔
’’کل کے اخبارات میں مندرجہ بیانات کے مدنظر جونا گڑھ کے وزیر اعظم اور نائب وزیر کا ہندوستانی حکومت کو ریاست جونا گڑھ کے اختیارات سونپ دینا میرے نزدیک ہر گز بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ آزاد ہند میں تمام علاقے عوام کی مُلکیت ہیں اور کوئی شہزادہ یا فردِ واحد اس مُلکیت کی اجارہ داری کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور نواب جونا گڑھ، مہاراجہ کشمیر اور نواب حیدر آباد تینوں میں سے کسی کو حق نہیں کہ وہ اپنے عوام کی مرضی کے خلاف کسی یونین سے الحاق کا فیصلہ کرلے‘‘۔
ہم حیران ہیں کہ گاندھی جی نے یہ دو متضاد باتیں ایک ہی وقت میں کس طرح فرما دیں۔ اگر یہ درست ہے کہ آزاد ہند میں تمام علاقے عوام کی ملکیت ہیں اور کوئی شہزادہ یا فردِ واحد اس ملکیت کی اجارہ داری کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور نہ وہ عوام کی مرضی کے خلاف کسی یونین میں شامل ہو سکتا ہے تو پھر بلامنطقی تخالف کے یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ جونا گڑھ کے وزیر اعظم اور نائب وزیر کا ہندوستانی حکومت کو ریاست کے اختیارات سونپ دینا درست ہے۔ کیا جونا گڑھ کا وزیر اعظم یا نائب وزیر جونا گڑھ کے عوام کے نمائندہ ہیں یا کیا وہ نواب صاحب جونا گڑھ کے نمائندہ ہیں؟ اگر یہ درست ہے کہ وہ عوام کے نمائندہ نہیں اور نواب صاحب کے نمائندہ ہیں تو ظاہر ہے کہ گاندھی جی کے پہلے اصول کے مطابق کہ آزاد ہند کے علاقے عوام کی ملکیت ہیں اور کوئی شہزادہ یا فردِ واحد اس ملکیت کی اجارہ داری کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور نہ کسی ڈومینین۲۲؎ سے اپنے عوام کی مرضی کے بغیر الحاق کر سکتا ہے تو ایک فردِ واحد یا دو افراد جو عوام کے نمائندے نہیں کس طرح ریاست کی ریاست کسی یونین کے حوالے کر سکتے ہیں کیا جو بین الاقوامی اصول خود گاندھی جی نے پیش کیا ہے اس کے رو سے وزرائے جونا گڑھ کا یہ فعل اس قانون کی صریح خلاف ورزی نہیں ہے خاص کر جبکہ جونا گڑھ کے معاملہ میں ریاست کا حکمران پاکستان سے اِلحاق کر چکا ہے اگرحکمران کا اِلحاق درست نہیں تو حکومت ہند کا خاص کر ایسی صورت میں اختیارات پر ریاست نواب جونا گڑھ کے مقرر کردہ وزراء کے توسط سے قبضہ کر لینا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ خواہ کوئی وزیر، وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو ہمیں تو گاندھی جی کی اِس منطق کی سمجھ نہیں آئی۔ کیا گاندھی جی اِن دونوں متضاد باتوں میں تطبیق دے سکتے ہیں۔
اس بے اصولی اور متضاد بیانی کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہندوستانی حکومت طاقت کے دکھاوے اور غلط منطق کے بل پر نہ صرف جونا گڑھ اور حیدر آباد کو جہاں مسلم حکمران ہیں اور ہندوؤں کی اکثریت ہے بلکہ مسلمان اکثریت والی ریاست کشمیر کو بھی جس کا حکمران ہندو ہے بیک وقت ہڑپ کر جانا چاہتی ہے اور اس سیاسی قمار بازی میں جہاں تک ممکن ہو سکتا ہے فریب کا پانسہ پھینکتی چلی جاتی ہے اور آخر کار پاکستان کو کمزور کر کے مسلمانوں سے وہ پانچ صوبے بھی ہتھیالینا چاہتی ہے جو لنڈورے ۲۳؎ کر کے ان کو ملے ہیں۔
اسی بیان میں گاندھی جی نے جونا گڑھ کے اختیارات پر غاصبانہ قبضہ جمانے پر انتہائی خوشی کا اظہار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس معاملہ کا یہ پہلو نہایت خوشکن ہے کہ انجام اس طرح ہوا ہے افسوس ہے کہ ہم آپ کی اس خوشی میں شامل نہیں ہو سکتے۔ ہاں اگر گاندھی جی ہندوستانی حکومت کو د ستی وار کرنے سے روک سکتے تو ہمارے لئے بھی باعث صد مسرت ہوتا کیونکہ ہندوستان کے موجودہ مصائب حکومت ہندوستان کی متواتر ٹیڑھی رفتار کا براہِ راست نتیجہ ہیں۔
(الفضل لاہور ۱۵؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مسٹر ایٹلی۲۴؎ کا بیان
مسٹر ایٹلی انگلستان کے وزیر اعظم نے پاکستان اور ہندوستان کے متعلق حال میں جو بیان ایک مجلسی تقریب میں دیا ہے، اس میں کہا ہے کہ ہندوستانی لیڈروں کے باہمی فیصلہ کے مطابق ہندوستان تقسیم ہوا اور دو علیحدہ علیحدہ ڈومینن وجود میں آئیں اب یہ ہمارے لئے سخت تکلیف کا باعث ہے کہ تقسیم کے بعد ایسے خطرناک فرقہ وارانہ اختلافات نے سراُٹھایا ہے جو شدید قسم کے جانی نقصان کا موجب ہو رہے ہیں۔
اِس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم مسٹر ایٹلی بھی ان واقعات کو جو تقسیم ہندوستان کے بعد یہاں رونما ہوئے ہیں اچھی طرح جانتے ہیں اگرچہ آپ نے اپنے بیان میں بڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے کسی واحد ڈومینن کو ان ہولناک واقعات کا ذمہ دار ٹھہرانے سے گریز کیا ہے پھر بھی یہ ناممکن ہے کہ آپ کو اب تک صحیح صورتِ حال کی تفہیم نہ ہوئی ہو۔
آپ نے اپنے بیان میں ان ہولناک واقعات کی تمام ذمہ داری دونوں ڈومنینز پر مشترکہ طور پر ڈالی ہے اور ان فرائض کو جو حکومت برطانیہ پر بوجہ برطانوی دولت مشترکہ کے مرکز ہونے کے عائد ہوتے ہیں اُن کو اپنے بیان میں بالکل نہیں چھیڑا حالانکہ پاکستان اور ہندوستان نوآبادیوں کا اس دولت مشترکہ کا حصہ ہونے کی وجہ سے برطانوی حکومت کا فرض ہے کہ موجودہ ہولناک واقعات کے متعلق برطانوی حکومت کی پالیسی پر پوری پوری روشنی ڈالے اور جو کچھ اس سے ہو سکتا ہے ان ہولناک واقعات کو روکنے کیلئے کوئی معین قدم اُٹھائے۔
مسٹر ایٹلی کی نظر سے یہ حقیقت مخفی نہیں ہونی چاہئے کہ شروع ہی سے ہندوستانی ڈومینن نے جارحانہ روش اختیار کی ہوئی ہے اور جہاں تک ممکن ہے پاکستان کو کمزور اور ناکارہ بنانے کے لئے جائز و ناجائز ہر قسم کے طریقے اختیار کر رہی ہے ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ برطانوی مقتدر سیاسی لیڈروں نے اس حقیقت کو جانتے ہوئے اس کے متعلق کیا سوچا ہے اور عملاً کیا قدم اُٹھایا ہے۔ ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ بظاہر وہ بے تعلق تماشائیوں کی سی روش اختیار کئے ہوئے ہیں اور ان فرائض سے بالکل بے پروا ہیں جو دولت مشترکہ میں مرکزی حیثیت رکھنے کی وجہ سے ان پر عائد ہوتے ہیں۔ دنیا کے سیاسی حلقوں میں برطانوی حکومت کی یہ بے حسی ضرور قابل پُرسش سمجھی جائے گی اور اس کو اس بات کو واضح کرنے کیلئے ضرور توقع کی جائے گی کہ وہ اپنے فرائض کو جو بوجوہاتِ بالا اس پرعائد ہوتے ہیں ادا کرنے کیلئے کیا کیا اقدامات لے رہی ہے۔ بفرض محال اگر کینیڈا اور آسٹریلیا کے درمیان اس قسم کی کشمکش شروع ہو جائے جس قسم کی کشمکش اب ہندوستان اور پاکستان کے مابین ہو رہی ہے تو کیا حکومت برطانیہ اس قسم کی بے حسی کامظاہرہ کرے گی جس قسم کی بے حسی وہ ان دونوں ڈومینینز کی صورت حال کے متعلق دکھا رہی ہے۔ یقینا اس کا رویہ موجودہ رویہ سے اس صورت میں بالکل مختلف ہوگا اور وہ کینیڈا اور آسٹریلیا کے باہمی آویزش ۲۵؎کے وقت ضرور حرکت میں آئے گی اور ضرور دونوں کے تعلقات کے مسائل کو سلجھانے کے لئے مؤثر طریقے اختیار کرے گی۔ کیا یہ بات تعجب میں ڈالنے والی نہیں ہے کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کی باہمی آویزش کے متعلق بے تعلق تماشائیوں کی سی حیثیت اختیار کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر رہی۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سوال معین صورت میں کسی ڈومینن کی طرف سے اس کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ پاکستان حکومت نے پچھلے دنوں خاص طور پر ان معاملات کی طرف اس کی توجہ دلائی تھی اور دولت مشترکہ کے تمام ممبروں سے فرقہ وارانہ سوال کو حل کرنے کی استدعا کی تھی۔ اُس وقت برطانوی حکومت کے لئے صریحاً ایک ایسا موقع پیدا ہو گیا تھا کہ اگر اس معاملہ میں اُس کی نیتیں درست ہوتیں تو وہ کوئی نہ کوئی عملی قدم اُٹھاتی اور اس خدا کی مخلوق کو کسی حد تک ان مصائب سے بچا لیتی جن کا سلسلہ دن بدن بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور کسی طرح کم ہوتا نظر نہیں آتا حالانکہ اس کا فرض تھا کہ دولت مشترکہ کے ان دو ممبروں کے درمیان توازن قائم کرنے کیلئے ہرممکن کوشش کرتی۔
ان وجوہات کے پیش نظر مسٹر ایٹلی کا بیان کم از کم پاکستان کے نقطۂ نظر سے نہایت مایوس کُن ہے کیونکہ تمام دنیا اب اس حقیقت کو جان چکی ہے کہ ہندوستانی حکومت کی جارحانہ روش ہی ان تمام مصائب اور ہولناک واقعات کی ذمہ دار ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان کی تقسیم ہندوستانی لیڈروں کی باہمی رضامندی سے عمل میں آئی تھی لیکن محض اس کا ذکر کر دینے سے برطانیہ ان ہولناک واقعات کی جواب دہی سے سبکدوش نہیں ہو سکتا۔ اس سے تو اُلٹا یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ دیدہ دانستہ اپنے فرائض کی ادائیگی سے گریز کر رہا ہے۔ دو ڈومینینز کی باہمی چپقلش کا تماشہ اس کی ضیافت دیدہ وگوش کے لئے دلچسپ سامان سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتا اور ان کو خاص کر پاکستان کو ان کے باہمی رضامندانہ فیصلہ پر متفق ہونے کی سزا دے رہا ہے کیونکہ متفقہ فیصلہ کی وجہ سے ہندوستان کی آزادی کو مزید التواء میں ڈالنے کے لئے اس کے پاس کوئی وجہ باقی نہیں رہ گئی تھی۔ بظاہر بے حسی کی یہ پالیسی جو اس نے اختیار کر رکھی ہے یقینا اس کے انتقامی جذبہ کی طرف انگشت نمائی کر رہی ہے اور وہ گویا زبانِ حال سے کہہ رہا ہے ’’دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ غلام ہندوستان کی بیماری کیلئے آزادی کا نسخہ راس نہیں آئے گا اُلٹا بیماری کو بڑھانے والا ثابت ہوگا‘‘ ہم کو تسلیم ہے کہ ہندوستان کے موجودہ کشت و خون کے کھیل کے لئے خود اس براعظم کے ناعاقبت اندیش کھلاڑیوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے لیکن غور سے دیکھنے والے آسانی سے معلوم کر سکتے ہیں کہ انتقالِ اختیار کے عمل میں برطانیہ کے ارباب حل و عقد ۲۶؎نے دیدہ دانستہ ایسی روش اختیار کی جس سے ان ہولناک نتائج کا پیدا ہو جانا یقینی تھا۔ اگر پچھلی جانبدارانہ کارروائیوں کو نظر انداز کر بھی دیا جائے اور صرف ۳؍جون ۱۹۴۷ء کے بعد کے حالات کو پیش نظر رکھ کر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے تقسیم کو تکمیل تک پہنچانے میں برطانیہ کی طرف سے حصہ لیا، لارڈ مونٹ بیٹن سمیت پاکستان کو کمزور سے کمزور بنانے کے لئے نہایت جانبدارانہ روح سے کام لیتے رہے ہیں۔ جس اصول پر لارڈ مونٹ بیٹن نے دونوں طرف کے لیڈروں سے رضامندانہ فیصلہ کی دستاویز پر دستخط کرائے تھے، اس اصول کی خود ہی اپنے دوسرے دن والے بیان میں لارڈ موصوف نے دھجیاں اُڑا دی تھیں جب اُنہوں نے یہ کہہ دیا کہ بعض اضلاع مثلاً گورداسپور کی صورت میں جہاں اکثریت کنارے پر ہے ردّوبدل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح پر آپ نے خود ان غیر منصفانہ دھکے شاہی کے لئے راستہ کھول دیا جس کے نتیجہ میں گورداسپور، بٹالہ اور دوسری تحصیلوں کی مُسلم اکثریت بالکل بے دست و پا ہو کر رہ گئی اور ان مظالم کا نشانہ بنی جو سکھ اور ہندو لیڈروں نے ان پر ڈھانے کے لئے پہلے ہی سوچ رکھے تھے۔ ہم مانتے ہیں کہ جو بے انصافیاں مسلمانوں کے ساتھ ہوئی ہیں، حکومت برطانیہ مجموعی طور پر ان کے لئے قابل الزام نہیں ٹھہرائی جا سکتی اور اس کی زیادہ ذمہ داری ان دیگر مخفی یا ظاہر وجوہات پر ہے جو ہندوستانی لیڈروں کی ریشہ دوانیوں نے پیدا کیں اور تقسیم کرنے والوں پر جا و بیجا اثر ڈال کر ایسا فیصلہ کروا لیا جو ہر طرح نہ صرف انصاف کے اصولوں کے خلاف تھا بلکہ خود لارڈ مونٹ بیٹن کے ۳ ؍جون والے اعلان کے بھی سراسر اُلٹ تھا لیکن اس کے باوجود برطانیہ اب صرف یہ کہہ کر چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا کہ یہ فیصلہ ہندوستان کے لیڈروں کی باہم رضامندی سے ہوا تھا محض اس لئے کہ مسلم لیگ نے اس فیصلہ کے خلاف اتنا شدید احتجاج نہیں کیا جتنا اس کو کرنا چاہئے تھا۔ اِس کو رضامندانہ فیصلہ نہیں کہا جا سکتا۔ ایسی صورت میں کیا برطانیہ کے لئے لازم نہ تھا کہ کم از کم لارڈمونٹ بیٹن کے ۳؍ جون والے متفقہ اعلان کی کسوٹی پر اس فیصلہ کو پرکھتا اور اپنی منصفانہ رائے کا اظہار کرتا۔ خاص کر اب جب کہ اس غیر منصفانہ فیصلہ کے بدیع نتائج روز روشن کی طرح اس کے سامنے آچکے ہیں۔ کیا برطانیہ کا فرض نہیں ہے کہ پاکستان کے ان حدود کو قائم رکھنے کیلئے ہی اب دخل اندازی کرے جو نہایت کتروبیونت۲۷؎ کے بعد پاکستان کو حاصل ہوئے ہیں اور جس پر اس نے طوعاً و کرہاً قناعت اختیار کر لی تھی۔ اور باتوں کو چھوڑ دیجئے صرف ہندوستانی ڈومینین کی ان چیرہ دستیوں ہی کو لیجئے جو وہ اب ریاستوں کے معاملات میں پیچیدگیاں پیدا کر کے پاکستان کی ہستی کو خطرے میں ڈال رہی ہے اور اس کو کمزور سے کمزور تر کرنے کے درپے ہو رہی ہے۔ اس نے پاکستان سے جنگ برپا کرنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور ایسے مجرمانہ اقدامات کئے ہیں کہ ہمیں حیرانی ہے کیوں پاکستان اب تک خاموشی اختیار کئے چلا جاتا ہے اور ہندوستان کی حکومت تمام بین الاقوامی رواداریوں کو اس طرح پس پشت ڈال رہی ہے کہ اگر پاکستان کو برطانیہ سے وہ تعلق نہ بھی ہوتا جو دولت مشترکہ کا ممبر ہونے کی وجہ سے اس کو ہے تو محض انسانیت کے لحاظ سے ہی اس کا دخل دینا ناواجب قرار نہیں دیا جاسکتا تھا اس لئے مسٹر ایٹلی کے بیان سے ہم یہ نتیجہ برآمد کرنے کے ہرطرح حقدار ہیں کہ برطانیہ خود حکومت ہندوستان کی جارحانہ کارروائیوں کو پاکستان کے عَلَی الرَّغْم مستحسن خیال کرتا ہے اس لحاظ سے مسٹر ایٹلی کا بیان دنیائے انصاف کی عدالت میں اس کی بے حسی اور اپنے فرائض کی ادائیگی سے دیدہ و دانستہ گریز پر مبنی قرار دیا جائے گا۔
(الفضل لاہور ۱۶؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
صوبہ جاتی مسلم لیگ کے عہدہ داروںمیں تبدیلی
پچھلے چند دنوں سے یہ شور سنا جا رہا تھا کہ ایک طرف صوبہ جاتی مسلم لیگ کے اندر اختلافات پیدا ہو رہے ہیں تو دوسری طرف صوبائی وزارت کے اندر بھی اختلافات پیدا ہو رہے ہیں مختلف لوگوں نے ان اختلافات کو مختلف نگاہوں سے دیکھا ہوگا ایک غیر جانبدار اخبار اِن اختلافات کو جس نگاہ سے دیکھتا ہے وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو سکتا اس لئے ہم اس بارہ میں اپنے خیالات ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔
ہمارے نزدیک وزارت کے اختلافات اور صوبائی مسلم لیگ کے اختلافات کی جڑ ایک ہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مُسلم لیگ پاکستان کے حصول کے بعد ایک نئی تبدیلی کی محتاج ہے۔ پاکستان کا خیال ایسے وقت میں پیدا ہوا جب کہ مسلمان یہ محسوس کر چکے تھے کہ اُن کی قومی زندگی خطرہ میں ہے۔ گویا پاکستان کا خیال ایک منفی خیال تھا، مثبت خیال نہیں تھا۔ پاکستان کے خیال کی بنیاد اس امر پر نہیں تھی کہ ہم نے یہ یہ کام کرنے ہیں جو ہندوؤں کے ساتھ مل کر ہم نہیں کر سکتے بلکہ پاکستان کے خیال کی بنیاداِس بات پر تھی کہ مسلمانوں کو بحیثیت مسلمان خواہ وہ کسی شعبۂ زندگی سے تعلق رکھتے ہوں ترقی اور پھیلاؤ کے ذرائع ہندوؤں کے ساتھ مل کر رہتے ہوئے میسر نہیں آ سکتے تھے۔ یہ سوال کہ مسلمانوں کی ترقی کس رنگ میں ہو سکتی ہے، کیا کیا تدابیر اختیار کرنے سے مسلمانوں کے مختلف گروہ اور مختلف علاقے عزت اور آرام اور سکون حاصل کرسکتے ہیں نہ پیدا ہوا نہ اس سوال پر غور کرنے کا موقع تھا جیسے ڈاکو رات کے وقت حملہ کرتے ہیں تو شہر کے لوگ اُس وقت یہ نہیں سوچنے بیٹھتے کہ یہ کس گھر کو لوٹیں گے اگر شہر کے لوگ مقابلہ کا فیصلہ کرتے ہیں تو غریب اور امیر سارے مقابلہ میں لگ جاتے ہیں۔ غریب یہ نہیں سوچا کرتے کہ ہمارے پاس تو کچھ ہے نہیں ہمیں لوٹنا اُنہوں نے کیا ہے اور اگر شہر کے لوگ بھاگنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو امیر یہ نہیں سوچتا کہ میں اپنے مال کو خالی چھوڑے جا رہا ہوں اور غریب یہ نہیں سوچتا کہ میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں، ڈاکوؤں نے مجھے چھیڑنا ہی کیوں ہے یہی حال پچھلے تین چار سال میں مسلمانوں کا رہا ہے اُنہیں یہ نظر آ گیا کہ ہماری زندگی خطرہ میں ہے۔ یہ نظریہ ایک قسم کا فطری نظریہ تھا اور فطری نظریے دلیلوں کے ماتحت نہیں ہوتے۔ ماں اپنے بچہ کی آنکھوں کی طرف مذاق سے تیزی سے اُنگلی کرتی ہے تو بچہ یکدم سر پیچھے کرتا ہے اور آنکھیں بھینچ لیتا ہے۔ ماں اپنے بچہ کی آنکھ نکالنا نہیں چاہتی مگر انسان کے اندر یہ طبعی جذبہ ہے کہ جب کوئی ایسی صورت پیدا ہو جس کے نتیجہ میں نقصان کا احتمال ہو تو بغیر اس بات کے سوچنے کے کہ واقعہ میں نقصان ہوگا یا نہیں انسان کا جسم اُس کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اگر فعل مذاق میں کیا گیا ہو تو اس احتیاط سے حرج کوئی نہیں ہوتا اور اگر یہ فعل نقصان پہنچانے کے لئے کیا گیا ہو تو اس پیش بندی سے خطرہ سے حفاظت ہو جاتی ہے۔ اسی قسم کا ایک طبعی جذبہ تھا جو مسلمانوں کے اندر پیدا ہوا اور ان میں سے بیشتر حصہ پاکستان کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گیا اب جبکہ پاکستان مل گیا ہے مُلک کا ایک حصہ تو یہ کہتا ہے کہ لو جی جو چیز ملنی تھی وہ مل گئی اور یہ نہیں سوچتا کہ منفی نظریہ گری ہوئی قوموں کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھا کرتا۔ گری ہوئی قوموں کی ترقی کیلئے مثبت نظریوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ ایک امیر کے لئے یہ منفی نظریہ کافی ہے کہ اس کی دولت میں زاول نہ پیدا ہو، ایک غریب کے لئے اس منفی نظریہ کے معنے ہی کوئی نہیں کہ اس کی دولت میں زوال نہ پیدا ہو، اس کے لئے یہی نظریہ کارآمد ہو سکتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے گزارہ کیلئے آمد پیدا کرے۔
پس پاکستان کے مسلمان جو تنزل کی منزلوں کو طے کر رہے ہیں ان کے لئے اب اس نظریہ کے کوئی بھی معنی نہیں کہ وہ ہندو کے ضرر سے بچ گئے ہیں وہ تو ایسی تدابیر کے محتاج ہیں جن سے وہ اپنی گرتی ہوئی حالت کو سنبھال لیں اور سنبھلی ہوئی حالت کو ترقی کی طرف لے جائیں۔ پاکستان اپنی ذات میں اس نظریہ میں ممد تو ضرور ہو سکتا ہے مگر وہ اس نظریہ کا قائمقام نہیں ہو سکتا۔
ان حالات میں طبعی طور پر بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہونا تھا کہ ہمیں اپنے لئے ایک پروگرام مقرر کرنا چاہئے۔ مسلم لیگ کے لیڈر جو اَب گورنمنٹ پر قابض ہوچکے تھے اُنہیں ایسی مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑا کہ وہ اپنے عام محکمانہ کاموں کی طرف بھی پوری توجہ نہیں دے سکتے تھے ان کو یہ موقع میسر ہی کب آ سکتا تھا کہ وہ مسلمانوں کے لئے کسی آئندہ پروگرام پر غور کریں اور اسے قوم کے سامنے پیش کریں۔ اس وجہ سے وہ لوگ جو جلد سے جلد کسی پروگرام کے بنانے کے حق میں تھے بے تاب ہو رہے تھے اور اپنی خواہشات کو پورا ہوتے نہ دیکھ کر بغاوت کی روح ان میں پیدا ہو رہی تھی۔ مسلم لیگ حکومت پارٹی کو آج سے کہیں پہلے اس طبعی تقاضے کا احساس ہوناچاہئے تھا اور آج سے کہیں پہلے اُنہیں مُسلم لیگی عہدوں کو چھوڑ دینا چاہئے تھا لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے دَبے ہوئے جذبات اُبھرنے لگے اور اُبھرے ہوئے جذبات مجالس میں اور اخباروں کے صفحات پر پھیلنے لگے۔ یہی نظریہ وزارت کے اندر بھی اختلافات پیدا کرنے کا موجب ہوا۔ وزارت کے بھی دو حصے تھے ایک حصہ تو وہ تھا جو یہ سمجھ رہا تھا کہ مسلمان آزاد ہوگئے ہیں اب آہستہ آہستہ تجربہ کے بعد وہ خود ایک ایسا پروگرام مرتب کر لیں گے جو ان کی ترقی کا موجب ہوگا۔ دوسرا حصہ ایسا تھا جو ایک پروگرام پہلے سے طے کر کے لایا تھا۔ وہ بضد تھا کہ اس کے پروگرام کو حکومت اپنا لے اور وہ دوسرے وزراء کے اس نظریہ سے متفق نہیں تھا کہ موجودہ شورش کے بعد مُلک آرام اور اطمینان سے اپنے لئے کوئی پروگرام تجویز کر لے گا۔ ہمارے نزدیک یہ دونوں نظریے بے نقص نہیں تھے اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ پیشتر اس کے کہ مُلک پورے طور پر ایک نظریہ کی چھان بین کرے اور اس کے حسن و قبح سے واقف ہو جائے اور اسے اختیار کرنے یا ردّ کرنے کا فیصلہ کرے اسے قبول کر لینا ذہنی اور مادی طور پر سخت مضر ہوتا ہے۔ اگر وہ نظریہ بُرا ہے تو مادی طور پر مُلک کو نقصان پہنچ جائے گا اور کسی ایک شخص کو خواہ وہ کتنا بھی بڑا ہو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مُلک کی غفلت میں اس پر ایک ایسا قانون ٹھونس دے جس قانون کو ابھی مُلک اچھی طرح سمجھ نہیں سکا اور ذہنی طور پر اس لئے کہ اگر وہ قانون اچھا بھی ہے تب بھی مُلک پر ایک ایسا قانون ٹھونسنا جس کو مُلک نے خود سوچ سمجھ کر اپنے لئے پسند نہیں کیا، مُلک کے افراد کے اندر غلامانہ ذہنیت پیدا کرتا ہے۔ ہمارے لئے یہی ضروری نہیں ہوتا کہ ہم اچھا کام کریں، ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ ہم اس کام کو سوچ سمجھ کر اختیار کریں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بیان فرماتا ہے کہ۲۸؎ تُو کفار سے کہہ دے کہ میرے اور تمہارے درمیان یہی فرق نہیں کہ میں سچ پر ہوں اور تم غلطی پر ہو بلکہ میرے اور تمہارے درمیان یہ بھی فرق ہے کہ تم جس چیز کو سچ قرار دے کر اس کی تائید کر رہے ہو تم نے اس کے تمام پہلوؤں پر غور کر کے اور خود سوچ سمجھ کر اسے اختیار نہیں کیا لیکن میں نے اور میرے ساتھیوں نے جن عقیدوں اور جن طریقہ ہائے عمل کو اختیار کیا ہے سوچ اور سمجھ کر اور سارے پہلوؤں کا جائزہ لے کر اور ہر رنگ میں انہیں مفید پا کر اختیار کیا ہے۔ یہی وہ اسلامی اصول ہے جس پر چل کر مسلمان ہمیشہ ذہنی غلامی سے آزاد رہ سکتا ہے۔ ہمارا یہی فرض نہیں کہ ہم قوم کو ایک ایسے راستہ پر چلائیں جو ٹھیک ہو بلکہ ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم قوم کو ایسی تربیت دیں کہ وہ خود سوچنے اور سمجھنے کی اہل ہو جائے او رپھر ہر نئے مسئلہ کو ایسے رنگ میں اس کے سامنے پیش کریں کہ وہ عمدگی اور خوبی کے ساتھ اس پر غور کرکے ایک نتیجہ پر پہنچے اور جب وہ ہمارے خیالات سے متفق ہو جائے تو ہم اس خیال کو جاری کر دیں یہی وہ اسلامی جمہوریت ہے جو دنیا کی دوسری جمہوریتوں سے مختلف ہے لیکن یہی وہ جمہوریت ہے جو ساری جمہوریتوں کے عیوب سے پاک ہے۔ اچھی سے اچھی چیز کو غفلت اور گھبراہٹ کے موقع پر قوم پر ٹھونس دینا اور یہ خیال کرنا کہ ہم قوم کی خیر خواہی کر رہے ہیں کسی رنگ میں بھی قوم کے لئے مفید نہیں ہو سکتا۔ اگر بعض صورتوں میں قوم کو مادی فائدہ پہنچے گا تو اس کی ذہنیت پست ہو جائے گی اور وہی اچھی غذا اس کے لئے زہر بن جائے گی اور وہ خود سوچنے کی عادت سے محروم رہ جائے گی۔ ایک تندرست ہٹے کٹے انسان کے منہ میں لقمہ دینا کسی قدر بد تہذیبی کا فعل سمجھا جاتا ہے۔ لقمہ بھی وہی ہوتا ہے دانت بھی وہی ہوتے ہیں لیکن دوسرے ہاتھ سے جو شاید بعض حالات میں اپنے ہاتھ سے بھی زیادہ صاف ہو وہ لقمہ کھانا ایک تندرست و توانا آدمی کے لئے کتنا گھناؤنا معلوم ہوتا ہے۔ چاول کا دانہ مکھی سے زیادہ معدہ میں گڑ بڑ پیدا کر دیتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے سب مقصد حاصل ہوگئے اب ہمیں فوری طور پر کسی نئے پروگرام کے اختیار کرنے کی ضرورت نہیں، وہ بھی غلطی کرتے ہیں اگر بڑی اور اصولی باتوں کے لئے ہمیں نہ صرف خود سوچنے کی ضرورت ہے بلکہ قوم کو خود سوچنے کا موقع دینے کی ضرورت ہے بلکہ اہم مسائل کے متعلق مُلک سے رائے عامہ لینے کی ضرورت ہے تو بعض باتیں ایسی بھی تو ہیں جن کو مُلک سوچ چکا ہے اور جو دیر سے زیر بحث چلی آتی رہی ہیں کیوں نہ ان کے متعلق فوری طور پر کوئی تدابیر اختیار کی جائیں مثلاً یہی لے لو کہ گو پاکستان ایک جمہوری اصول پر قائم شدہ حکومت ہے لیکن بہرحال وہ مسلمانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے تو کیوں نہ فوری طور پر ان امور کے متعلق کوئی قانون جاری کر دیا جائے جن میں کوئی دو رائیں ہو ہی نہیں سکتیں۔ مثلاً کیوں نہ فوری طور پر یہ قانون پاس کر دیا جائے کہ ورثہ کے متعلق اسلامی قانون مسلمانوں میں جاری ہو، اسی طرح طلاق اور خلع کے متعلق اسلامی قانون جاری ہو۔ اسی طرح شراب کا پینا یا بیچنا مسلمان کے لئے منع ہو یہ قانون بہرحال مسلمان کے لئے ہوتے۔ اس پر ہندو یا عیسائی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ ایک ہندو کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایک مسلمان شراب نہیں پیتا یا اپنی جائداد کا حصہ اپنی بیٹی کو کیوں دیتا ہے یا ایک مرد کو طلاق کا اور عورت کو خلع کا خاص شرائط کے ماتحت حق حاصل ہے اسی طرح یہ کوئی اختلاقی مسئلہ نہیں تھا کہ مُلک کے آزاد ہوتے ہی مُلک میں اسلحہ کو قیود سے آزاد کیا جاتا۔ لائسنس کے بغیر تو کسی مہذب مُلک میں بھی اسلحہ کی اجازت نہیں لیکن ان مہذب ممالک میں لائسنسوں پر ایسی قیود نہیں لگائی گئیں جیسی کہ اس مُلک میں۔ حکومت کو فوراً ہی لائسنس پر سے قیود ہٹانی چاہئے تھیں اور اس قسم کا قانون پاس کرنا چاہئے تھا کہ سوائے بدمعاشوں اور فسادیوں کے ہر شریف شہری ہتھیار رکھ سکے اور اسے ہتھیار چلانا آتا ہو۔ اسی طرح سالہا سال سے کانگرس بھی اور مُسلم لیگ بھی اس بات پر لڑتی چلی آئی تھیں کہ جلسہ اور تقریر اور تحریر کی عام آزادی ملنی چاہئے۔ اس بات کے متعلق بھی کسی نئے غور کی ضرورت نہیں تھی یہ تو ایک انسانی حق ہے جس کا مطالبہ دنیا کی ہر قوم کرتی چلی آئی ہے۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ فوراً ان امور کے متعلق احکام نافذ کر دیتی اور مُلک کے اندر یہ احساس پیدا کر دیتی کہ اب وہ آزاد ہیں پہلے کی طرح غلام نہیں ہیں۔ اسی طرح ایگزیکٹو اور جوڈیشل کو جدا کرنے کا مسئلہ ہے۔ سالہاسال سے اس پر بحثیں ہوتی چلی آئی ہیں۔ کانگرس نے بھی اس کی تائید کی ہے، مسلم لیگ نے بھی اس کی تائید کی ہے، اسلامی قانون کے مطابق بھی یہ ایک تسلیم شُدہ حقیقت ہے کہ ایگزیکٹو کا محکمہ الگ ہونا چاہئے اور قضاء کا محکمہ الگ ہونا چاہئے۔ جب تک ان دونوں محکموں کو آزاد نہ کیا جائے، افراد میں آزادی کی روح پیدا ہی نہیںہو سکتی۔ ہر شخص کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ قضاء کے ذریعہ سے اپنا حق لے سکتا ہے اور ہر افسر کو محسوس ہونا چاہئے کہ اگر وہ کسی کا حق مارے گا تو اسے اس کی جواب دہی بھی کرنی پڑے گی۔ ان امور اور ایسے ہی کئی امور کے متعلق حکومت فوری کارروائی کر سکتی تھی لیکن ہوا یہ کہ وہی پُرانے قانون اور وہی پُرانے طریق باقی رہے اور ابھی تک مُلک کے باشندوں نے پوری طرح یہ بھی محسوس نہیں کیا کہ ان کا مُلک آزاد ہوچکا ہے۔ پس ہمارے نزدیک دونوں فریق کی غلطی تھی۔ اس نقص کی اصلاح کا یہ بھی ایک طریقہ تھا کہ مُسلم لیگ کے عہدے ایسے لوگوں کو دیئے جاتے جو وزارت کے ممبر نہ ہوتے۔ ۱۶؍تاریخ کو یہ نیک قدم اُٹھایا گیا ہے ہمیں اس سے تعلق نہیں کہ کون صدر ہوا ہے کون نہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ مُلک کے فائدہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ مُلک کی سیاسی انجمن پر مُلک کے وزراء قابض نہ ہوں لیکن جس طرح یہ ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ مُلک کی آئین ساز مجلس مُلک کی وزارت اور اس کے افسروں کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے۔ ان تین آزاد یا نیم آزاد اداروں کے باہمی تعاونوں سے ہی مُلک کی حالت درست ہوا کرتی ہے۔سیاسی انجمن کو حکومت کے افسروں کے اثر سے آزاد ہونا چاہئے۔ مجلس آئین ساز کو سیاسی ادارے کے حکم سے آزاد ہوناچاہئے اور حکومت اور حُکّام کو سیاسی انجمن کی دخل اندازی سے آزاد ہونا چاہئے بے شک اگر سیاسی انجمن یہ سمجھتی ہے کہ مجلس آئین ساز اس کی پالیسی کو ٹھیک طرح نہیں چلائے گی تو آئندہ انتخاب کے موقع پر وہ اس کے ممبروں کی جگہ دوسرے ممبر کھڑے کر دے۔ آئین ساز اسمبلی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ سمجھتی ہے کہ وزراء اس کی مرضی کے مطابق کام نہیں کر رہے تو وہ ان کے خلاف عدمِ اعتماد کا ووٹ پاس کر دے۔ اگر حُکّام صحیح طور پر کام نہ کر رہے ہوں تو پلیٹ فارم پر سے ان کے خلاف آواز اُٹھائی جا سکتی ہے لیکن خفیہ دباؤ یا مستقل طور پر اس کے کام میں دخل اندازی کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتی۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو نظام کی کَل بالکل ڈھیلی پڑ جائے گی اور دنیا کا بہترین قانون بھی پاکستان کو مضبوط نہ بنا سکے گا۔
اسلامی قانون اور غیر مسلم اقلیتیں
پنجاب مسلم لیگ کونسل میں یہ قرار داد بھی پاس کی گئی ہے کہ پاکستان میں اسلامی شریعت
کو نافذ کرنا چاہئے اس ضمن میں اس حقیقت کو نظر انداز نہ کیا جائے کہ غیر مسلموں نے بوجہ ناواقفیت اسلامی قانون یا مذہبی قانون کے خلاف اکثر اظہارِ رائے کیا ہے۔ ان کے خیال میں اگر پاکستان میں اسلامی شریعت جاری کی گئی تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ غیر مسلموں کے لئے کوئی سامان ترقی اپنی تہذیب، اپنے مذہب اور دوسرے کاروبار کے لئے نہیں رہے گا اور یہ غیرمسلموں پر سختی ہوگی اور ان کے لئے ایسی حکومت کے زیر سایہ جس میں اسلامی قانون رائج ہو زندگی دو بھر ہو جائے گی۔
جیساکہ ہم نے عرض کیا ہے یہ محض ایک غلط فہمی ہے جو اسلامی قانون کو صحیح طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے غیر مسلموں کے دماغ میں پیداہوگئی ہے یا پیداکی گئی ہوئی ہے کچھ تو خود لکھے پڑھے غیرمسلموں نے اسلامی قانون کے متعلق دیدہ دانستہ یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً عیسائی پادریوں نے یورپ میں اسلام کو اس طرح پیش کیا کہ گویا اس میں کوئی خوبی ہے ہی نہیں بلکہ یہ مذہب صرف وحشیوں میں پنپ سکتا ہے مہذب اقوام کے لئے اس میں کوئی پیغام نہیں۔ ان عیسائیوں کی تقلید میں ہندوستان میں پنڈت دیانند اور اس کے پیراؤں نے ہندوؤں میں اس غلط فہمی کو پھیلانے میں بڑا حصہ لیا۔
غیرمُسلموں میں اس خیال کو دو وجوہات سے پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ ایک تو یہ ہے کہ مسلمان دنیا کے اکثر ممالک میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے یہ ایک رَو تھی کہ جس مُلک میں بھی مسلمانوں کا اقتدار قائم ہوا، وہاں اکثر لوگ اپنے پُرانے مذہب کو چھوڑ کر اسلام اختیار کرتے رہے لیکن ان میں سے جو لوگ اپنے قدیم مذہب کے لئے تعصب رکھتے تھے اُنہوں نے بجائے اس کے کہ اسلام کی داخلی خوبیوں پر قبولِ اسلام کو محمول کرتے اس کو محض مسلمانوں کے دنیوی اقتدار پر محمول کیا اور یہ غلط خیال دل میں جما لیا کہ ان کے بھائی بندوں نے محض جبر کے سامنے اپنے ہتھیار ڈالے ہیں۔ مذہب کے علاوہ اس تعصب کی بناء حُب الوطنی کے غلط جذبات کی بھی مرہون منت ہے۔ چنانچہ آپ غور سے پنڈت دیانند کی تحریریں پڑھیں گے تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ آپ اتنے مذہب کیلئے نہیں جتنے آریہ ورت کیلئے بیقرار تھے اور آریہ تحریک مذہبی نہیں بلکہ وطنی اور قومی تحریک ہے۔ مذہب کو محض مُلکی اور قومی مقاصد کا ذریعہ سمجھ کر اُچھالا گیا ہے اور اسلام اور عیسائیت کے خلاف نفرت مذہبی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ سیاسی نقطۂ نظر سے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی تعصب نے جو دیدہ دانستہ غیر مسلموں میں ان کے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے پھیلایا ان کو اسلامی قانون کے صحیح تصور کے ادراک سے محروم کر دیا ہے۔
دوسری بات جو اس تعصب کو غیر مسلموں کے دلوں میں پختہ کرنے اور تقویت دینے میں بڑی حد تک ممدو و معاون ثابت ہوئی خود مسلمانوں کا عمل ہے۔ جوں جوں اسلام نئی قوموں میں پھیلتا گیا توں توں اسلام کی ہیئت کذائی ہر قوم کی ذہنیت کے مطابق بدلتی چلی گئی۔ مختلف قوموں نے اسلام کی چند ظاہری خوبیوں سے متأثر ہو کر اس کو قبول تو کر لیا مگر اس کے مقتضیات کی کُنہہ پر حاوی نہ ہو سکیں اور اس کے مرکزی اصولوں کو جذب نہ کر سکیں بلکہ اُلٹا اسلام کے چہرے پر اپنی قدیم رسم و رواج اور معتقدات کے پردے چڑھا دیئے اور اسلامی شریعت میں ایسی باتیں اپنی طرف سے داخل کر لیں جن کو اسلام سے دُور کا تعلق بھی نہ تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں اسلام کی حقیقت ان لوگوں پر واضح نہیں ہو سکتی تھی جن تک اسلام ایسی قوموں کے ذریعہ پہنچا جنہوں نے اسلامی شریعت کے آفتاب کو اپنے پُرانے خیالات کے بادلوں سے ڈھانپ دیا تھا۔
غیر مسلموں میں اسلامی شریعت کے متعلق غلط فہمی پھیلنے کی یہ دو موٹی وجوہات ہیں اور ان کے دلوں میں اسلامی شریعت کے خلاف نفرت کی گرہ ایسی مضبوط پڑ گئی ہے کہ وہ اس کے نام سے بھی چڑ جاتے ہیں اس لئے اس بدظنی کو دور کرنے کیلئے اوّل تو خود مسلمانوں کو اپنے اعمال کے ذریعہ اسلام کا صحیح نمونہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے مسلمانوں کا یہ بھی فرض ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت کی طرف کماحقہٗ توجہ مبذول کریں۔ غیر مسلموں میں سادہ اور آسان طریقوں سے اسلامی شریعت کے موٹے موٹے اصولوں کو پھیلانے کے لئے ایک شعبہ نشرواشاعت کا قائم کیا جائے جس کی غرض صرف اتنی ہو کہ جو تعصب کا جن غیر مسلموں کے دلوں میں اسلامی شریعت کے خلاف بیٹھا ہوا ہے، اس کو نکالا جائے لیکن یہ کام اُس وقت تک کامیابی سے نہیں ہو سکتا جب تک ہم خود اسلامی شریعت کا عملاً صحیح نمونہ بن کر نہ دکھائیں۔ ہر نیک اور بدبات کا اثر الفاظ سن کر نہیں اعمال کے دیکھنے سے ہوتا ہے محض اسلام کی خوبیوں کے متعلق لن ترانیاں ۲۹؎ کوئی مفید اثر پیدا نہیں کر سکتیں اس لئے ضروری ہے کہ جو لوگ پاکستان میں اسلامی شریعت رائج کرنے کے مشتاق ہیں ان کو پہلے اپنے آپ کا جائزہ لینا چاہئے اور اپنے اخلاق کو اس معیار تک بلند کرنا چاہئے جہاں پہنچ کر بغیر الفاظ کے دوسروں کو متأثر کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر اس طرح غیر مسلموں کو اسلام سے متأثر کرنے میں ہم کامیاب ہوجائیں تو اسلامی شریعت کی سادگی خود بخود ان کے دلوں کو کھینچ لے گی کیونکہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ اقلیتوں کے متعلق اسلامی شریعت میں اتنی رواداری سے کام لیا گیا ہے کہ دنیا کی کوئی شریعت اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتی۔
(الفضل لاہور ۲۰؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کانگرس ریزولیوشن
۱۴؍نومبرکو کانگرس ورکنگ کمیٹی نے ایک ریزولیوشن آل انڈیا کانگرس کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کیلئے منظور کیا ہے۔ ہماری پرائیویٹ اطلاع یہ ہے کہ یہ ریزولیوشن خود مسٹر گاندھی کا تیار کردہ ہے۔ ۱۴؍ تاریخ کو کانگرس ورکنگ کمیٹی نے مسٹر گاندھی سے خواہش ظاہر کی کہ چونکہ وہ رات اور دن میٹنگ کر رہے ہیں ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ اس اہم ریزولیوشن کے الفاظ اس احتیاط سے تیار کر سکیں جس احتیاط کی اس ریزولیوشن کے تیار کرنے میں ضرورت ہے مسٹر گاندھی نے ان کی اس درخواست کو منظور کر لیا اور تمام دوسرے کام بند کر کے اس ریزولیوشن کے الفاظ تیار کر کے ورکنگ کمیٹی میں بھجوا دیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اصل ریزولیوشن تو مسٹر گاندھی نے تیار کیا تھا اس میں خفیف سی اصلاحات کی گئی ہیں۔ غالباً مسٹر گاندھی نے ان اصطلاحات کو تسلیم کر لیا ہوگا کیونکہ بعد میں مسٹر گاندھی نے اس ریزولیوشن کی تصدیق کر دی ہے۔ اس ریزولیوشن کے الفاظ یہ ہیں۔
وہ خطرناک واقعات جو پنجاب اور بعض دوسری جگہوں پرگزشتہ مہینوں میں ہوئے ہیں ان کے نتیجہ میں ان علاقوں کی آبادیوں کو وسیع تعداد میں نقل مکانی کرنی پڑی ہے اور لاکھوں آدمیوں کو ناقابل بیان نقصان پہنچا ہے۔ امداد اور دوبارہ آباد کرنے کے مسائل ایسی اہمیت پکڑ گئے ہیں کہ ان کی مثال تاریخ میں بالکل نہیںمل سکتی۔ ہندوستان گورنمنٹ نے ہمت اور عزم کے ساتھ ان نئے حالات کا مقابلہ کیا ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں یہ واضح کر دینا چاہئے کہ ان معاملات کو حل کرتے وقت قومی پالیسی کیا ہوگی۔
’’آل انڈیا کانگرس کمیٹی اس وسعت کے ساتھ نقل مکانی کو جس کے نتیجہ میں لاکھوں لاکھ انسانوں کو تکلیف پہنچی ہے اور جس کے نتیجہ میں قوم کی اقتصادی حالت کو سخت دھکا لگا ہے اور جو کانگرس کے ان بنیادی اصولوں کو جو ابتداء ہی سے کانگرس نے اختیار کر رکھے ہیں، سخت نقصان پہنچاتی ہے، ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ آل انڈیا کانگرس کمیٹی کی رائے میں یہ تبادلۂ آبادی روکا جانا چاہئے اور ہندوستان یونین میں بھی اور پاکستان میں بھی ایسے حالات پیدا کئے جانے چاہئیں کہ اقلیتیں امن اور حفاظت کے ساتھ رہ سکیں۔ اگر اس قسم کے حالات پیدا کر دیئے جائیں تو ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ کی طرف منتقل ہونے کی خواہش آپ ہی آپ سرد پڑ جائے گی۔ کمیٹی کی رائے میں پاکستان کے ہندو اور سکھ باشندوں کو مجبور کرنا کہ وہ اپنے گھر چھوڑ دیں اور ہندوستان یونین کی طرف چلے جائیں اور ہندوستان یونین کے مسلمانوں کو مجبور کرنا کہ وہ پاکستان کی طرف ہجرت کر جائیں ایک ناواجب فعل ہے۔
کمیٹی یہ محسوس کرتی ہے کہ جو کچھ ہوچکا ہے اس کا پورا ازالہ کرنا ناممکن ہے۔ مگر باوجود اس کے وہ فیصلہ کرتی ہے کہ اس بارہ میں ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ دونوں ڈومینین کے مہاجرین آخر کار اپنے اپنے گھروں میں جا کر آباد ہو جائیں اور اپنے پیشوں اور فنوں کو ان علاقوں میں جا کر امن اور حفاظت کے حالات میں اختیار کریں۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے گھر ابھی تک نہیں چھوڑے اُن کو وہیں رہنے پر آمادہ کرنا چاہئے سوائے اِس کے کہ وہ اپنی ذاتی خواہش کے ساتھ نقل مکانی پر مصر ہوں اگر ایسا ہو تو ان کے سفر کو آسان بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے۔ دونوں حکومتوں کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ ان اصول پر باہمی گفت و شنید شروع کریں اور ایسے حالات پیدا کریں جن کے ماتحت دونوں طرف کے مہاجر اپنے وطنوں میں پورے اطمینان کے ساتھ پھر جا کر آباد ہوسکیں۔
بہرحال ہندوستان یونین کو ہماری مقررہ پالیسی پر عمل کرنا چاہئے اور ان اقلیتوں کی پوری حفاظت کرنی چاہئے جو ابھی تک ہندوستان یونین میں بس رہی ہیں اور انہیں جبر کے ساتھ اپنے گھروں سے نہیں نکالنا چاہئے اور نہ ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیںکہ جن کی وجہ سے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوں۔ کانگرس کی چونکہ یہ فیصل شدہ پالیسی ہے اس لئے وہ لوگ جوانڈین یونین کو چھوڑنے کا ارادہ کر رہے ہیں ان کی ہر طرح خبر گیری کرنی چاہئے اور یونین کے باشندوں کو ان کا جب تک کہ وہ لوگ ہندوستان میں بستے ہیں خیال رکھنا چاہئے ایسے لوگوں کی نسبت یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ گویا وہ ناخواندہ مہمان ہیں اور صرف ایک مہربانی کے طور پر ان کی موجودگی کو برداشت کیا جا رہا ہے۔ ایسے لوگ وہی اختیارات رکھیں گے اور ویسی ہی ان پر ذمہ داریاں ہوں گی جیسی کہ دوسرے شہریوں پر، جہاں پر وہ کیمپوں میں رہ رہے ہوں ان سے یہ امید کی جائے گی کہ وہ اپنے ساتھی مہاجرین سے مل کر کوئی نہ کوئی مُلکی خدمت کریں اور کیمپوں کے اچھے انتظام کی خاطر جو قوانین بنائے جائیں، ان کی پابندی کریں۔ وہ لوگ جو کیمپوں کی نگرانی کرنے کے اہل سمجھے جائیں اُن کی نگرانی کے ماتحت کیمپوں کے رہنے والوں کو حفظانِ صحت اور دوسری خدمات کو بخوشی بجا لانا چاہئے اور جو لوگ کیمپوں پر نگران مقرر کئے گئے ہوں ان کو چاہئے کہ ایسے کاموں میں خود بھی شریک ہوا کریں۔ پناہ گزینوں کو ایسے کام سپرد کئے جانے چاہئیں جن سے نفع حاصل ہو اور اُس نفع میں اِن لوگوں کو بھی شریک کیا جانا چاہئے۔ مغربی پنجاب کے پناہ گزینوں کو عام حالات میں مشرقی پنجاب میں ہی بسانا چاہئے اور پاکستان کے دوسرے حصوں کے پناہ گزینوں کو ایسے علاقوں میں بسانا چاہئے جن کا فیصلہ مرکزی حکومت صوبجاتی حکومتوں کے ساتھ مل کر کرے۔ اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ خاص علاقہ کے لوگ جہاںتک ہو سکے اکٹھے ہی بسائے جایا کریں۔ اس کام میں صوبجاتی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ مرکزی حکومت کے ساتھ پورا تعاون کریں او رپناہ گزینوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو جگہ دینے کیلئے رستہ نکالیں۔ کوئی گھر جس کو کسی مسلمان نے اپنی مرضی سے نہیں چھوڑا اس میں کوئی پناہ گزیں نہ بسایا جائے۔ پناہ گزینوں کی نقل و حرکت جس کا پہلے ہی سے ریلوں کے ذریعہ سے یا لاریوں کے ذریعہ سے یا اور دوسرے ذرائع سے انتظام کیا جا رہا ہے آئندہ اوپر کے بتائے ہوئے قانون کے ماتحت ہونی چاہئے اور کسی شخص کو اپنی جگہ سے نہیں نکالنا چاہئے جب تک کہ وہ ایسا کرنے کی خود خواہش نہ رکھتا ہو۔ یہی قانون ان ریاستوں کے متعلق بھی جاری ہونا چاہئے جو انڈین یونین میں شامل ہوئی ہیں اور جن میں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یا تو نکل گئی ہے یا نکال دی گئی ہے۔ آل انڈیا کانگرس کمیٹی یقین رکھتی ہے کہ ہندوستان یونین کی مرکزی حکومت، مشرقی پنجاب کی حکومت اور ان ریاستوں کی حکومتیں جن پر اس نقل مکانی کا اثر پڑا ہے، اوپر کی بیان کردہ پالیسی کو فوراً جاری کریں گی اور اپنے تمام افسروں کو حکم دیں گی کہ وہ مذکورہ بالا پالیسی کی لفظ بلفظ پیروی کریں‘‘۔
اس ریزولیوشن کے الفاظ میں تھوڑی بہت تبدیلی کی گنجائش تو موجود ہے جیسا کہ ہم اپنے دوسرے آرٹیکل میں بیان کریں گے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس ریزولیوشن میں نہایت ہی اچھے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے اور پاکستان کی حکومت کو فوراً ان خیالات کی تائید کرنی چاہئے یہ سوال کہ ہندوستان کی حکومت نے اب تک اس پرعمل کیا ہے یا نہیں یا پاکستان کی حکومت نے اب تک اس پرعمل کیا ہے یا نہیں ایک ثانوی حیثیت رکھتا ہے ہم ماضی کو بعض حالات میں بھول نہیں سکتے۔ ہم بعض حالات میں ماضی کو بھولنا نہیں چاہتے۔ ہم بعض حالات میں ماضی کو بھول جانا بے غیرتی سمجھتے ہیں۔ یہ باتیں ہمارے مدنظر ہیں اور ہر ایک عقلمند کو مدنظر رہنی چاہئیں لیکن بعض ذمہ داریاں متوازی طور پر ادا کی جا سکتی ہیں۔ ہمیں ماضی کے ان حصوں کو یاد رکھتے ہوئے جن کے بداثرات کا ازالہ کرنا ہمارے ذمہ فرض ہے مستقبل کے لئے کسی راستہ کے کھولنے سے دریغ نہیں ہونا چاہئے۔ سیاست دان اور مقالہ نویس مستقبل قریب میں اور مؤرخ مستقبل بعید میں ان واقعات پر بحثیں کرتے چلے جائیں گے جو گزشتہ مہینوں میں ہندوستان میں پیش آئے ہیں اس بارہ میں نہ ہم اپنا حق چھوڑنا چاہتے ہیں۔ نہ انڈین یونین کے لوگوں سے ان کا حق چھڑوانا چاہتے ہیں لیکن اس حق کو قائم رکھتے ہوئے بھی ہم آئندہ کے متعلق کوئی مناسب سمجھوتہ کر سکتے ہیں اور ہمیں ایسا ضرور کرنا چاہئے۔
ہمارے نزدیک چاہئے یہی تھا کہ پاکستان کی حکومت پہلے اِس سوال کو اُٹھاتی کیونکہ بہت سی باتیں جو اِس ریزولیوشن میں بیان کی گئی ہیں وہ اسلامی اصول کے مطابق ہیں اور اسلام کی پیش کردہ ہیں۔ امن اور انصاف کو قائم کرنا سب سے پہلا فرض اسلامی حکومتوں کا ہے۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو امن کے قیام کے لئے سنہری قواعد پیش کرتا ہے اور اسلام کا لانے والا مقدس وجود ہی وہ ہے جس نے ان سنہری قواعد پر خود عمل کر کے دکھایا ہے اور وہی ایسا کربھی سکتا تھا کیونکہ دنیا میں ایک ہی شخص گزرا ہے جو نبوت اور کامل اقتدار والی حکومت پر ایک ہی وقت میں فائز رہا ہے۔ بنی اسرائیل کے نبی موسیٰ اور عیسیٰ، ایران کے نبی زرتشتؑ، ہندوستان کے نبی کرشنؑ اور رام چندر جیؑ اور چین کے نبی کنفیوسشؑ کو یہ مواقع میسر نہیں آئے۔ ہم اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر اور ایامِ ابتلاء بھی ایسے دیکھے کہ جن کی مثال دنیا کے کسی اور نبی کی زندگی میں نہیں پائی جاتی۔ اور ان ایام میں وہ اعلیٰ درجہ کا نمونہ صبر، برداشت اور استقلال کا دکھایا کہ جس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اور اس نے ایک غالب اور فاتح کے ایام بھی دیکھے اور عفو اور رحم اور انصاف اور درگزر اور شفقت اور ہمدردی اور ایسی تنظیم کا جس کا نیک اثر بڑوں اور چھوٹوں سب پر پڑتا ہے ایسا شاندار نظارہ دکھایا کہ اس کی مثال بھی دنیا کی تاریخ میں کسی اور جگہ نہیں ملتی۔ ہمارا خزانہ ہمارے گھر سے نکلنا چاہئے اور ہمیں کبھی یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ ہمارے نبی کا ورثہ دوسرے لوگ دنیا کے سامنے پیش کریں ہم اور صرف ہم اس بات کے حقدار ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کیا اور کہا وہ سب سے پہلے ہماری زبانوں اور ہمارے ذہنوں سے دنیا کے سامنے آئے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے یہ باتیں ہمارے آدمیوں نے بھی پیش کی ہیں۔ یہ بالکل درست ہے راجہ غضنفر علی صاحب نے جو کوشش کی ہے اس کے مقابلہ میں ہندوستان یونین کا کوئی وزیر اپنی خدمات پیش نہیں کر سکتا۔ راجہ غضنفر علی صاحب ۳۰؎ ہزار تحسین اور آفرین کے مستحق ہیں۔ ادھر مسٹر گاندھی نے بھی بہت کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے اور ان کے اثر اور ان کے سمجھانے سے مسٹر نہرو اور دوسرے ہندو لیڈروں نے بھی وقتاً فوقتاً بعض اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن راجہ غضنفر علی صاحب آخر راجہ غضنفر علی صاحب ہیں اور مسٹر گاندھی اور پنڈت نہرو آخر مسٹر گاندھی اور پنڈت نہرو ہی ہیں۔ بڑے سے بڑے فرد کی آواز قوم کی آواز کا قائم مقام نہیں ہو سکتی۔ ہمارا فرض تھا کہ گزشتہ ایام میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس کر کے ان خیالات کو اپنی قوم کی طرف سے پیش کرتے۔ راجہ غضنفر علی صاحب کے خیالات کو ہندوستان یونین کے لوگ یہ کہہ کر نظر انداز کر سکتے تھے کہ ایک شخص تھا جس کے دل میں اچھے خیالات پیدا ہوئے مگر اس کی قوم نے ان خیالات کو اپنایا نہیں اور یہی بات مسٹر گاندھی کے متعلق بھی کہی جا سکتی تھی۔ اِدھر راجہ غضنفر علی صاحب کے خیالات کے متعلق کئی دفعہ ہمارے اخبارات نے مخالفانہ تنقید کی ہے اُدھر مسٹر گاندھی اور پنڈت نہرو کے خیالات کے خلاف ہندوستان کے اخبارات نے تنقید کی ہے۔ پس انفرادی خیالات کا اظہار اور چیز ہے اور قومی طور پر ایک بات کہنا اور چیز ہے۔ ہمارے نزدیک اب بھی موقع ہے لیگ کو فوراً اس کے جواب میں ایک اعلان شائع کرنا چاہئے جس میں اپنی قومی پالیسی کو قومی مجلس کے ذریعہ سے شائع کر دینا چاہئے تا کہ دنیا پر یہ بد اثر نہ پڑے کہ کانگرس تو صلح کا ہاتھ بڑھا رہی ہے لیکن لیگ ایسا کرنا نہیں چاہتی۔ لیگ یقینا ان خیالات کی کانگرس سے بھی زیادہ حامی ہے کیونکہ یہ خیالات اسلامی ہیں بلکہ لیگ کو چاہئے کہ ان خامیوں کی بھی اصلاح کر دے جو اس ریزولیوشن میں پائی جاتی ہیں اور کانگرس سے بھی زیادہ وسیع حوصلہ کے ساتھ صلح اور آشتی کا ہاتھ بڑھائے۔ اس کے بعد عمل کا سوال پیدا ہوگا۔ اگر کانگرس نے لیگ کی تائید کے بعد عمل کی طرف قدم نہ اُٹھایا تو دنیا کو یہ جاننے کا موقع مل جائے گا کہ کانگرس نے وہ بات کہی جس پر وہ عمل کرنا چاہتی تھی۔ جب لیگ نے اس کی پالیسی کی تائید کر دی تو اس نے اپنا قدم پیچھے ہٹا لیا۔ اگر ایسا ہوا تو لیگ کی عزت دنیا کی نظروں میں بڑھ جائے گی اور مسلمانوں کو پھر ایک بار اُس عزت سے حصہ مل جائے گاجو ان کے نبی مکرم نے ان کے ورثہ میں چھوڑی ہے اور اگر کانگرس نے لیگ کے اعلان کا خیرمقدم کیا اور اپنی شائع کردہ پالیسی پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو گئی تو اِس سے بہتر بات ہندوستان کے لئے اور کیا ہوگی۔ بہت سے جھگڑے آپس میں طے کرنے والے باقی ہیں۔ بہت سی شکایتوں کا ازالہ ہونے والا ہے۔ مگر بسا اوقات جب لوگ ایک بات کو محبت سے طے کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں تو دوسری باتوں کا تصفیہ بھی آپ ہی آپ ہوتا چلاجاتا ہے۔ ایک نیکی دوسری نیکی کی طرف لے جاتی ہے۔ صلح کے لئے بڑھایا ہوا ایک قدم دو اور قدموں کے بڑھانے کے لئے رستہ صاف کر دیتا ہے۔ آؤ ہم ان لاکھوں غریبوں اور مسکینوں کا خیال کریں جو اپنے وطنوں سے دور اِدھر اُدھر دھکے کھاتے پھرتے ہیں جن کے ساتھ حسن سلوک بھی کیا جاتا ہے اور جن پر زبانِ طعن بھی دراز کی جاتی ہے۔ بعض لوگ بھائیوں کی طرح ان سے بغلگیر ہورہے ہیں تو بعض ان سے فقیروں اور بھِک منگوں کا سا سلوک کر رہے ہیں۔ آؤ ہم ان لوگوں کو پھر اپنے گھروں میں بسانے کے لئے ایک جدوجہد کریں اور ایک ایسا قدم اُٹھائیں جس سے مُلک میں امن کی فضا پیدا ہو جائے۔ شاید دلوں میں نرمی پیدا ہونے کے بعد وہ دوسرے سیاسی اور اقتصادی جھگڑے بھی طے ہو جائیں جو اِس وقت ہندوستان کے خیالات کو مشوش کر رہے ہیں۔ (الفضل لاہور ۲۱؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کانگرس ریزولیوشن کی کمزوریاں
ہم لکھ چکے ہیں کہ کانگرس ریزولیوشن میں پاکستان اور ہندوستان میں امن کے قیام کے لئے جو تجاویز پیش کی گئی ہیں وہ نہایت مناسب ہیں مگر اس کے ساتھ ہی اس میں کچھ کمزوریاں بھی باقی رہ گئی ہیں۔ اس ریزولیوشن میں اس امر کو نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ ان حالات کے پیدا کرنے والوں کو جن کی وجہ سے اقلیتوں کو گھر چھوڑنے پڑے پکڑا جائے اور انہیں سزا دی جائے دنیا کا کوئی انسان بھی اس امر کو تسلیم نہیں کر سکتا کہ ایک کروڑ کے قریب آدمی جس نے اپنے وطن کو چھوڑا ہے بغیر کسی وجہ کے اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسری طرف چلا گیا ہے یا ان لوگوں کی ہم مذہب حکومتوں نے انہیں اپنی طرف بلایا ہے اور یا پھر غیر مذاہب کے لوگوں نے یا غیر مذاہب کی اکثریت والی حکومتوں نے انہیں مجبور کر کے اپنے گھروں سے نکالا ہے ان دو صورتوں کے سوا کوئی تیسری صورت ممکن نہیں۔ اگر تو پاکستان کی حکومت نے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو بُلایا ہے یا پاکستان کی مسلم انجمنوں نے ہندوستان کے رہنے والے مسلمانوں کو بُلایا ہے یا پاکستان میں رہنے والے ہندوؤں کو ہندوستان کی گورنمنٹ نے بلایا ہے یا ہندوستان کی ہندو یا سکھ انجمنوں نے بلایا ہے تو کانگرس کا ریزولیوشن بالکل اُدھورا رہ جاتا ہے کیونکہ کانگرس کے ریزولیوشن میں اس قسم کی نقل مکانی کے خلاف کوئی بات نہیں پائی جاتی حالانکہ اس کے خلاف ضرور آواز اُٹھائی جانی چاہئے تھی۔ اگر اس کے بر خلاف حکومتوں یا حاکموں یا غیر مذاہب کے افراد نے ہندوستان سے مسلمانوں اور پاکستان سے ہندوؤں اور سکھوں کو نکلوایا ہے تو وہ لوگ جنہوں نے ایسا کیا، ان کے خلاف بھی تو کوئی قدم اُٹھانا چاہئے۔ کانگرس جب یہ کہتی ہے کہ وہ حالات بدلے جائیں جن کے باعث ہندوستان اور پاکستان سے مسلمان اور ہندو نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں تو اِس کے معنی اِس کے سِوا اور کیا ہو سکتے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے ہندوستان سے مسلمانوں کو اور پاکستان سے ہندوؤں یا سکھوں کو نکالا آئندہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے لیکن کیا اس ریزولیوشن کا ان لوگوں پر کوئی بھی اثر ہو سکتا ہے جنہوں نے پچاس لاکھ مسلمانوں کو گورنمنٹ کی آنکھوں کے سامنے پنجاب سے نکال دیا یا چالیس لاکھ ہندوؤں اور سکھوں کو گورنمنٹ کی آنکھوں کے سامنے پاکستان سے نکال دیا۔ اگر یہ سب کے سب لوگ غیر مذاہب کے ظلموں کی وجہ سے نکلے تھے تو ان ظلم کرنے والوں کے خلاف دونوں حکومتوں نے کیا کارروائی کی ہے۔ اگر آئندہ کسی کارروائی کے کرنے کا کانگرس حکم دیتی ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ سمجھتی ہے کہ ہمیں یہ طاقت حاصل ہے کہ ہم ان لوگوں کو سزا دے سکیں۔ اور اگر واقعہ میں کانگرس یہ سمجھتی ہے کہ وہ ان مجرموں کو سزا دے سکتی ہے تو کیوں وہ ان جرائم پر سزا نہیں دیتی جو اِس وقت تک صادر ہوچکے ہیں۔ مشرقی پنجاب میں اب مسلمان رہ ہی کتنے گئے ہیں آٹھ یا دس لاکھ آدمی ریفیوجی کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں اور جالندھر ڈویژن میں سوائے قادیان کے اور کسی گاؤں یا قصبہ میں مسلمان نہیں۔ انبالہ ڈویژن کے بعض شہروں اور قصبوں میں مسلمان ابھی پائے جاتے ہیں لیکن نکالے جانے والوں اور مارے جانے والوں کی تعداد سے ان کی کوئی بھی نسبت نہیں۔ پس یہ اعلان کرنا کہ یہ جو تھوڑے سے آدمی رہ گئے ہیں اگر ان پر کوئی ظلم کرے گا تو ہم سختی سے کام لیں گے ایک بے معنی سا اعلان ہے۔ وہ لاکھوں آدمی جو مارا جاچکا ہے اور وہ ہزار ہا عورت جس کو زبردستی چھین لیا گیا ہے اور وہ اربوں روپیہ کی جائداد جو جبراً ہتھیا لی گئی ہے اگر یہ فعل بُرا تھا تو کیوں اس کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی۔ کیا یہ بات عجیب نہیں معلوم ہوگی کہ ایک قصبہ جس میں سے سَو مسلمان نکل چکا ہے اور دس مسلمان باقی ہیںاور ان سَو مسلمانوں کے گھروں پر سکھ اور ہندو قابض ہوچکے ہیں۔ کانگرس کے اعلان کے بعد وہی ہندو اور سکھ جو پہلے مسلمانوں کو نکال کر ان کے گھروں پر قابض ہو چکے ہیں نئے آنے والے سکھوں اور ہندوؤں سے لڑ رہے ہوں گے کہ یہ جو دس مسلمان رہ گئے ہیں ان کو گھروں سے نہ نکالو کیونکہ کانگرس کا ریزولیوشن ہو گیا ہے اور جب وہ نئے آنے والے ہندو اور سکھ کہیں گے کہ تم بھی تو مسلمانوں کو نکال کر ان کے گھروں میں بیٹھے ہو تو وہ پُرانے غاصب اِن نئے غاصبوں کو کہیں گے کہ کانگرس کا ریزولیوشن پچھلے واقعات کے متعلق نہیں آئندہ کے واقعات کے متعلق ہے ہم نے جتنے آدمی مارے اور جتنے گھر ضبط کئے ان سب کو کانگرس ریزولیوشن نے معاف کر دیا ہے اور آئندہ کے لئے حکم دیاہے کہ ایسا کام نہیں ہونا چاہئے۔ کیا ان حالات میں کانگرس کے ریزولیوشن پر کامیابی سے عمل کیا جا سکتا ہے؟ یہی بات ہم پاکستان کے متعلق بھی کہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے مقام ضرور ہیں جہاں سے ہندوؤں کو جبراً نکالا گیا ہے یا ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ وہ نکل جائیں۔ اگر پاکستان گورنمنٹ ہندوؤں کو اپنے مُلک میں رکھنا چاہتی ہے تو ان کو بھی یہی طریق اختیار کرنا ہوگاکہ جو پچھلے مجرم ہیں اُن کو پکڑیں اور سزا دیں۔ آخر لاکھوں آدمی پھونکوں سے تو نہیں مر گئے۔ لوگ اربوں کی جائداد چھوڑ کر بلاوجہ تو نہیں بھاگ گئے۔ کوئی مارنے والا آدمی ضرور تھا، لوگوں کے پاس ایسے ہتھیار ضرور تھے جن سے قتل کی واردتیں ہوئیں اور حالات ضرور اِس طرح بگڑے کہ غیر قوموں کے لوگوں نے اپنے لئے اس مُلک میں پناہ کی کوئی صورت نہ دیکھی اور اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ جب تک ان حالات کے پیدا کرنے والوں اور ان قاتلوں اور ان عورتوں کو پکڑنے والوں کو سخت سزائیں نہ دی جائیں گی جن کے افعال نے پاکستان اور ہندوستان سے نکلنے پر اقلیتوں کو مجبور کر دیا ہے، اُس وقت تک امن کے ریزولیوشن کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ کل کو پھر ایک جوش اُٹھے گا اور پھر دونوں طرف خون خرابہ شروع ہو جائے گا اور پھر مُلک کی سیاسی انجمنیں ایک ریزولیوشن پاس کر دیں گی کہ آئندہ خبردار ایسا مت ہو۔ کبھی پچھلے حساب کی صفائی کے بغیر آئندہ کی کوئی صفائی ہوا کرتی ہے؟ لاکھوں لاکھ قاتل ہندوستان یونین میں پھر رہا ہے وہ سٹیجوں پر کھڑے ہو کر تقریریں بھی کر رہا ہے، وہ اخباروں میں مضامین بھی لکھ رہا ہے، وہ کانگرس کے جلسوں میں ممبروں کے طور پر شامل بھی ہو رہا ہے لیکن ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ لاکھوں لاکھ مسلمان جو مارا گیا ہے اس کے خون کی تحقیقات کوئی نہیں ہو رہی۔ ضلع گورداسپور میں ہی جس سے سات لاکھ کے قریب مسلمانوں کو مار کر نکال دیا گیا ہے، دو اڑھائی سَو مسلمان اس لئے جیل خانوں میں سڑ رہے ہیں کہ اُنہوں نے سکھوں کو یا ہندوؤں کو مارنے کی کوشش کی لیکن سکھ ایک بھی اِس جرم میں قید نہیں ہے کہ اس نے مسلمانوں کو مارا اور ان کے گھروں کو لوٹا اور اُن کی جائدادوں پر قبضہ کیا۔ کیا کوئی عقلمند انسان اس بات کو باور کر سکتا ہے کہ حکومت کو اس قوم کے مجرم تو نظر آ سکتے تھے جن کو ہزاروں کی تعداد میں قتل کیا گیا، جن کی سینکڑوں کی تعداد میں عورتیں چھین لی گئیں، جن کی سَوفیصدی جائدادوں پر قبضہ کر لیا گیا لیکن اس قوم کے مجرم اسے بالکل نظر نہیں آئے جنہوں نے ایک ہزار سے زیادہ مسلمان گاؤں کو تباہ کر دیا۔ پانچ سات ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کر دیا، تین چار لاکھ سے زیادہ مویشی ان کے چھین لئے۔ پانچ لاکھ ایکڑ زمین پر قبضہ کر لیا، ایک کروڑ سے زیادہ قیمت کے اَثَاثَۃُ الْبَیْت کو ہتھیا لیا ہمیں حکومت یا کانگرس بتائے تو سہی کہ کم سے کم بھی ایک ضلع میں مسلمانوں کی موت کا اور عورتوں کے نکالے جانے کا اور جائدادوں پر قبضہ کا اندازہ لگانے کے بعد ان افعال کے مرتکب آخرکتنے آدمی قرار دیئے جا سکتے ہیں اور جتنے انسانوں کی طرف یہ جرم منسوب کیا جا سکتا ہے ان میں سے کتنے آدمی اِس وقت حوالات میں ہیں۔ اگر ان تمام حرکات کے بعد ہندو اور سکھ تو حوالات میں نہیں مگر مسلمان حوالات میں ہیں تو کیا کوئی مان سکے گا کہ حکومت ہند نے امن کے قیام کے لئے پوری کوشش کی تھی اور کانگرس کے ریزولیوشن کے مطابق وہ تعریف کی مستحق ہے؟ مگر گزشتہ کو جانے دو کیا کانگرس کے ریزولیوشن میں اس بات کا انتظام کیا گیا ہے کہ اب اس ریزولیوشن کے بعد ان مجرموں کو پکڑا جائے اور ان کو سزا دی جائے؟ اور ان مسلمان ملزموں کو چھوڑا جائے جن کا صرف اتنا قصور تھا کہ وہ مار کھانے والے مسلمانوں کی حفاظت کے لئے زبان کھول سکتے تھے اور شور مچا سکتے تھے یا ایک تنظیم کے ماتحت ان کو ان مظالم کی جگہوں سے نکال کر لے جانا چاہتے تھے۔ ہم ہندوستان ہی کے متعلق ایسا نہیں سمجھتے، پاکستان گورنمنٹ میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں اور پاکستان گورنمنٹ کا بھی یہی فرض ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ پاکستان میں سے کچھ ہندو اور سکھ پہلے سے سوچی ہوئی تدبیروں کے ماتحت نکل گئے تھے، ہم مانتے ہیں کہ کچھ ہندو اور سکھ اِردگرد کے ہندو اور سکھ ہمسایوں کو انگیخت اور ان کے اشارہ سے ہندوستان چلے گئے تھے لیکن ہم اس کا بھی انکار نہیں کر سکتے کہ پاکستان میں سے کچھ ہندو اور سکھ مسلمانوں کے دباؤ اور ان کی سختی کی وجہ سے نکلنے پر مجبور ہوئے،کچھ ہندوؤں اور سکھوں کی عورتیں اُٹھا لی گئیں۔ کچھ ہندوؤں اور سکھوں کی جائدادیں لُوٹی گئیں، کچھ ہندو اور سکھ قتل کئے گئے یہ کام پبلک کی ایک جماعت نے کیا اور بعض افسروں کے اشارہ سے ہوا لیکن ہمیں پاکستان کے متعلق یہ بھی اطلاع نہیں کہ اس میں ان مسلمان مجرموں اور ان افسر مجرموں کو پکڑ کر ان پر مقدمات چلائے گئے ہوں جنہوں نے یہ حرکات کیں۔ جن لوگوں نے ہندوؤں اور سکھوں پر ظلم کیا، ان کو مارا، اُن کی عورتیں نکالیں، اُن کی جائدادوں کو لُوٹا وہ چند افراد نہیںہو سکتے تھے وہ یقینا ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں تھے مگر اس الزام میں تو سینکڑوں بھی نہیں پکڑے گئے۔ آئندہ کا اطمینان گزشتہ جرائم پر ندامت کے اظہار سے پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر پاکستان اور ہندوستان کی مجلسوں میں مسلمان اور ہندو اور سکھ مجرم اپنی دھوتیاں پھیلائے اور تہبندیں لٹکائے اور چھاتیاں تانے بیٹھے ہوئے پبلک سے تحسین و آفرین کا انعام حاصل کر رہے ہوں تو ایسے ریزولیوشن کا نتیجہ نکل ہی کیا سکتا ہے۔ دنیا لفظوں کو نہیں دیکھا کرتی وہ عمل کو دیکھا کرتی ہے۔ جب تک ان مجرموںکو پکڑنے کا انتظام نہیں کیا جائے گا خواہ وہ لاکھوں کی تعداد میں کیوں نہ ہوں، جب تک قاتلوں اور لٹیروں کو سزا نہ دی جائے گی اُس وقت تک نیک سے نیک نیت سے پاس کئے ہوئے ریزولیوشن بھی بیکار اور بے فائدہ ثابت ہوں گے۔
حسین رضی اللہ عنہ
وہ نام جن کے زبان پر آنے کے ساتھ رفیع و بلند کیفیتیں اور تعظیم و تکریم کے عظیم الشان جذبات دل میں پیدا ہو جاتے ہیں۔
ان ناموں میں سے ایک وہ نام بھی ہے جس کو آج ہم نے زیب عنوان بنایا ہے۔ کونسا مسلمان ہے جس کے دل و دماغ پر حسینؓ کے نام کو سنتے ہی ایک غیر معمولی کیفیت طاری نہیں ہو جاتی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا اس نام کے حروف اور ان کی ترکیب میں کوئی ایسی بات ہے جو یہ اثر ہمارے دلوں پر کرتی ہے ان میں کوئی شک نہیں کہ بعض وقت محض حروف کا حسن ہی کسی لفظ کی کشش کا باعث ہوتا ہے اور حسین کے لفظ میں بھی وہ حسن ضرور موجود ہے لیکن وہ خاص کیفیت جو اس نام کے لینے اور سننے سے ہمارے دل و دماغ پر چھا جاتی ہے وہ یقینا صرف اس حسن آواز اور لوچ کی پیداوار نہیں ہے جو ان حروف یا ان کی ترکیب میں ہے جن سے حسین کا لفظ بنا ہے۔
تھوڑے سے غور سے ہم کو معلوم ہوگا کہ اس لفظ یا نام کے ساتھ کچھ ایسے عظیم الشان واقعات وابستہ ہوگئے ہیں کہ گو ان واقعات کا پورا پورا نقشہ ہمارے سامنے نہ بھی آئے لیکن جب ہم اس نام کو زبان سے دُہراتے ہیں تو جو کیفیت ہمارے دل و دماغ پر چھا جاتی ہے اس کی ساخت میں ان واقعات کا سایہ ضرور گزر رہا ہوتا ہے جو اس انسان کو پیش آئے تھے جس نے میدانِ کربلا میں صداقت کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے نہ صرف اپنی جان کو قربان کر دیا تھا بلکہ اپنے خاندان کے قریباً تمام نرینہ افراد کو اس غرض کے لئے اپنی آنکھوں سے خاک و خون میں تڑپتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ ہے وہ مدھم سا پس منظر جو اس لفظ یا نام کی پُر اثر طاقت کا حقیقی منبع ہے اور اس کو دُہراتے ہی ہماری آنکھوں کے سامنے اُبھر آتا ہے۔ عربوں میں ویسے تو یہ نام کوئی خاص نام نہ تھا بلکہ عام تھا کئی اشخاص کے نام حسین تھے۔ اس میں کوئی خاص کیفیت یا کشش نہ تھی اب یہ نام صرف ایک عظیم الشان ہستی کا نام ہونے کی وجہ سے کچھ ایسی کیفیتوں کا حامل ہو گیا ہے کہ جب کوئی مسلمان یہ نام سنتا ہے یا اپنی زبان سے دُہراتا ہے تو اس کے رگ و پے میں ایک ہیجان سا پیدا ہو جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف نام میں کچھ نہیں ہوتا۔ یہی نام اب اس قدر عام ہو گیا ہے کہ شاید ہی کوئی گاؤںہوگا جہاں تین چار نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اشخاص ایسے نہ ہوں جن کا نام حسین ہو لیکن جب ان میں سے ہم کسی کو اس نام سے پکارتے ہیں تو وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی جو اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب اِس نام سے ہماری مراد وہ خاص ہستی ہوتی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اس کو یہ قبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نام اپنی ذات میں خواہ کتنا بھی اچھا ہو جب تک اس نام کے ساتھ اس شخص کا کام بھی ہمارے دل کی آنکھ میں متشکل نہ ہو محض نام کوئی خاص کیفیت پیدا نہیں کر سکتا۔
ایک پُر اثر اور دلکش شعر میں جو الفاظ ہوتے ہیں وہی معمولی الفاظ ہوتے ہیں جو ہم اپنے روزمرہ میں استعمال کرتے ہیں لیکن آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ شاعر کو بعض وقت اس طرح بھی داد دی جاتی ہے کہ ’’صاحب! آپ نے فلاں لفظ میں جان ڈال دی ہے‘‘ یہاں جان ڈالنے کے معنی صرف یہ ہوتے ہیں کہ شاعر نے اس خاص لفظ کو لفظوں کے ایسے ماحول میں رکھ دیا ہے کہ گویا اس میں جان پڑ گئی ہے۔ لفظ کی ذاتی خوبی کی وجہ سے نہیں بلکہ ماحول کی وجہ سے کسی لفظ میں جان پڑتی ہے۔ اسی طرح کسی نام میں اس شخص کے کام کی وجہ سے جان پڑتی ہے جس کا وہ نام ہوتا ہے۔
اب اگر ہم ہزار بار نہیں لاکھ بار حسین حسین اپنی زبان سے رَٹیں اور وہ واقعات ہمارے ذہن میں نہ ہوں جو میدانِ کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیش آئے تھے، وہ استقامت، وہ جانبازی، وہ قربانی کی روح جو اُنہوں نے اُس وقت دکھائی اگر ہم کو یاد نہ آئے تو محض حسین حسین پکارنے سے نہ تو اس عظیم الشان نام کی وہ عزت و تکریم ہمارے دل میں پیدا ہو سکتی ہے جس کا وہ مستحق ہے اور نہ ہماری اپنی ذات کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے بلکہ ان واقعات کو دُہرانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ اگر ہم ان واقعات سے سبق حاصل نہ کریں محض ان واقعات کو دُہرا دینا کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک ان کو اس طرح پیش نہ کیا جائے کہ سن کر ہم میں بھی ویسے ہی کام کرنے کے جذبات پیدا نہ ہوں، ویسا ہی جوش نہ اُٹھے۔
وہ مثالی قربانی جو خاتونِ جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس عظیم الشان بیٹے نے میدانِ کربلا میں پیش کی ہم اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتے۔ ایک معمولی لکھا پڑھا انسان بلکہ اَن پڑھ مسلمان بھی کچھ نہ کچھ ان کا علم ضرور رکھتا ہے۔ اِس وقت ہم جو کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ آؤ اس نام کو ہم بے فائدہ رَٹ رَٹ کر بدنام نہ کریں بلکہ ان کاموں کی تقلید کی کوشش کریں جو اس ہستی نے میدانِ کربلا میں دکھا کر ایک عالم سے خراجِ تحسین حاصل کیا جن کی وجہ سے یہ معمولی سا نام زندہ ہو گیا۔ اور ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گیا اور ان باتوں پر غور کریں جن باتوں سے متاثر ہو کر محمد علی جوہر مرحوم نے یہ شعر کہا تھا۔ ع
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اِس وقت ہر مسلمان میدانِ کربلا میں ہے اگر ہم کو اس میدان میں مرنا ہی ہے تو آؤ ہم بھی حسینؓ کی موت مریں تا کہ اس کی طرح ہمارا نام بھی زندۂ جاوید ہو۔ ورنہ جو پیدا ہوتا ہے ایک دن مرتا ہی ہے۔ کتنے تھے جن کے نام حسین تھے جو مر گئے مگر ان کو کوئی یاد بھی نہیں کرتا مگر ایک حسین ؓہے صرف ایک حسینؓ جس کو دنیا بھلانا بھی چاہے تو نہیں بھلا سکتی جس کو دل سے مٹانا بھی چاہے تو نہیں مٹا سکتی کیونکہ اس حسین نے اپنے نام کو اپنے کام سے صفحۂ ہستی پر پتھر کی لکیر بنا دیا ہے کیونکہ اس نام کی پشت و پناہ وہ عظیم الشان قربانی ہے جو مُردہ ناموں کے جسموں میں جان ڈال دیا کرتی ہے کیونکہ اس نے اپنے نام کو ایسے ماحول میں رکھ دیا ہے جس سے وہ روشنی کا مینار بن گیا ہے اگر تم بھی چاہتے ہو کہ تمہارا نام بھی روشنی کا ایسا مینار بن جائے جو
’’شب تاریک و بیم موج و دریائے چنیں حایل‘‘
کے عالَم میں دوسروں کو ساحلِ مراد کا نشان دکھائے تو تم کو بھی وہی کام کرنے ہوں گے جو حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کئے۔(الفضل لاہور ۲۳؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تقسیمِ فلسطین کے متعلق روس اور یونائیٹڈ سٹیٹس
کے اتحاد کا راز
یہ بات لوگوں کے لئے مُعمہ بن رہی ہے کہ روس جو کل تک عربوں کی دوستی کا دَم بھر رہا تھا یکدم تقسیم فلسطین کا حامی کیوں ہو گیا ہے اور عربوںکی مخالفت کیوں کر رہا ہے؟ یہ مسئلہ اور بھی زیادہ لَایَنْحَلْ ۳۱؎ ہو جاتا ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت سب سے زیادہ رقابت روس اور یونائیٹڈسٹیٹس میں ہے اور یونائیٹڈ سٹیٹس سب سے زیادہ تقسیم فلسطین کا حامی ہے۔ جس چیز کا یونائیٹڈ سٹیٹس حامی ہو روس کے خطرات اس کے متعلق بہت نمایاں ہونے چاہئیں لیکن پچھلے چند ہفتوں سے یکدم روس نے پلٹا کھایا ہے اور وہ اس معاملہ میں یونائٹیڈسٹیٹس کی پوری مدد کر رہا ہے مگر انگلستان جو اور دوسرے معاملات میں یونائیٹڈ سٹیٹس کا ساتھ دے رہا ہے اس معاملہ میں یونائیٹڈسٹیٹس کے خلاف چل رہا ہے۔ یہ کایا پلٹ کیوں ہوئی ہے؟ اس کے سمجھنے کیلئے بعض گزشتہ تاریخی واقعات کے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
جس وقت روس میں بالشویک۳۲؎ نے بغاوت کی تو بہت سے لوگوں کے لئے یہ امر حیرت کا موجب تھا کہ اس بغاوت میں حصہ لینے والے لوگوں میں جو بالشویک پارٹی کے ذمہ دار عہدوں پر متمکن تھے بہت سے یہودی بھی تھے جنہوںنے اپنے نام بدل دیئے ہوئے تھے اُس وقت ایک خفیہ سرکلر بھی پکڑا گیا تھا جس میں کئی سال پہلے یہودیوں کی ایگزیکٹو انجمن نے ایک پروگرام شائع کیا تھا۔ یہ پروگرام ۱۹۱۱ء میں شائع ہوا تھا اور اس پروگرام میں یہ بتایا گیا تھا کہ روسی حکومت کی حالت ایسی کمزور ہو رہی ہے کہ جلدی ہی وہاں ایک انقلاب رونما ہوگا۔ پس یہودی سرمایہ داروں اور کارخانہ داروں کو چاہئے کہ وہ اس انقلاب کی مدد کریں اور یہودی مصنفوں کو چاہئے کہ وہ اس انقلاب کی تائید میں اور اس انقلاب کو طاقت دینے کیلئے تصانیف شائع کریں۔ روسی انقلاب کے بعد روسی حکومت کی امداد سے یہودیوں کو فلسطین کی طرف آگے بڑھنا چاہئے۔ یہ پمفلٹ ایک پادری کے قبضہ میں آیا جس نے اس پمفلٹ کو یورپ کے بعض اخبارات میں شائع کرایا لیکن اسے ایک فریب اور یہودیوں کے خلاف سازش قرار دے کر قابل اعتناء نہ سمجھا گیا۔ ۱۹۱۷ء میں جب بغاوت ہوئی اور بالشویک پارٹی آگے آئی تو اُس وقت اس کے ممبروں میں ایک معتدبہ حصہ یہودیوں کا دیکھ کر پھر بعض لوگوں نے اس پمفلٹ کی طرف توجہ دلائی اور یہ آواز اُٹھائی کہ وہی سکیم اِس موجودہ بغاوت میں کام کرتی نظر آتی ہے لیکن اس وقت انگلستان کی مالی حالت خراب تھی اور یہودی سرمایہ داروں کی امداد کا خواہاں تھا اور امریکہ کا پریذیڈنٹ ڈاکٹر وِلسن ۳۳؎ دو ہی سال بعد اپنے انتخاب کے لئے یہودی ووٹوں اور یہودیوں کی تائید کا محتاج تھا اس لئے اس آواز کو مصلحتاً دبا دیا گیا اور اس اختلاف کی خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ انگلستان اور امریکہ کی متحدہ کوششیں کامیاب ہوگئیں اور یہ آواز ایک دفعہ پھر دَب گئی اور دنیا کو ایک دفعہ پھر تھپکیاں دے کر سُلا دیا گیا۔ اس وقت روس کی طاقت بالکل کمزور تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ یہ کوشش اگر صحیح بھی ہے تو نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی اس لئے ایک کمزور جدوجہد کو دبانے کے لئے ایک طاقتور قوم کو اپنے خلاف کر لینا عقل کے خلاف ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ سکیم آہستہ آہستہ روس میں طاقت پکڑتی گئی۔ آج سے دس سال پہلے روس میں یہودیوں کے خلاف بھی ایک رَو پیدا ہوئی لیکن اس کی حیثیت پارٹی پالیٹکس سے زیادہ نہیں تھی۔ سٹالن ۳۴؎ اصل میں یہودی ہے اسی طرح اور کئی سوویٹ لیڈر یہودی ہیں کچھ ایسی پارٹیاں بھی روس میں ہیں جو سٹالن اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ہیں وہ کبھی کبھی یہ آواز اُٹھاتی ہیں کہ موجودہ گورنمنٹ یہودیوں کی تائید کرتی ہے اور جب یہ آواز ذرا بلند ہونے لگتی ہے تو سوویٹ گورنمنٹ ظاہرداری کے طور پر یہودیوں کو کسی قدر دبا دیتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سوویٹ گورنمنٹ خود اس سکیم کی تائید میں ہے لیکن ہم یہ یقینا کہہ سکتے ہیں کہ سوویٹ گورنمنٹ اس تحریک سے فائدہ ضرور اُٹھانا چاہتی ہے۔ سوویٹ گورنمنٹ کی یہ سوچی ہوئی اور فیصلہ شدہ سکیم ہے کہ وہ کسی طرح میڈی ٹرینین (Medi Terranean) پر قبضہ کرے۔ میڈی ٹرینین پر قبضہ کرنے کے بعد انگلستان اور امریکہ کا تصرف ایشیا پربالکل ختم ہو جاتا ہے اور مشرقی یورپ اور ایشیا پر اثر پیدا کر لینے کے بعد مغربی یورپ اور امریکہ کی طاقت بالکل ٹوٹ جاتی ہے۔ مشرقِ وسطی پر قابض روس کا مقابلہ افریقہ کے بہت کم آبادی والے علاقے کر ہی کیا سکتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ افریقہ کے ساحلوں پر قبضہ کرنے کے بعد روس اس قابل ہوگا کہ وہ امریکہ کے دل کے سامنے اپنا خنجر نکال کر کھڑا ہو جائے اور امریکہ کی نقل و حرکت کے رستوں کو مسدود کر دے۔ ان سکیموں کے خلاف روسی لیڈر خواہ یہودی تحریک کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں اگر کسی صورت میں بھی مشرقِ وسطی میں یہودیوں کی طاقت انہیں فائدہ پہنچا سکتی ہو تو وہ لازماً یہودی منصوبوں کو نظر انداز کرتے ہوئے یہودیوں کی حکومت کے قیام میں پوری مدد کریں گے اور وہ ایسا کر بھی رہے ہیں۔ مگر ایسی راہوں سے کہ ان کی تدبیریں ضائع نہ ہو جائیں اور وہ یہودیوں کے ہاتھ میں نہ کھیلیں بلکہ یہودی ان کے ہاتھ میں کھیلیں۔ چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرقی جرمنی، پولینڈ، رومانیہ، بلغاریہ اور زیکوسلویکیا کے یہودیوں کو کوئی سال بھر تک روسی ایجنٹوں نے اپنے ڈھب پر لانے کی کوشش کی اور جب وہ لوگ روسی پروپیگنڈا سے متأثر ہوگئے اور ان کی ہمدردیاں روسی مقاصد کے ساتھ وابستہ ہوگئیں تو روس نے اُن کو اس روپیہ سے امداد دے کر جو جرمن اور آسٹرین سے انہوں نے لوٹا تھا اور جو زیادہ تر اُن نوٹوں پر مشتمل تھا جو ان ممالک میں انگریزوں اور امریکنوں نے اپنے پروپیگنڈہ کی خاطر پھیلائے تھے اُنہیں مغربی یورپ کے طرف دھکیلنا شروع کیا۔ وہ لوگ ظاہر یہ کرتے تھے کہ روس کے مظالم سے تنگ آ کر وہ مغربی ممالک کی طرف بھاگ رہے ہیں جہاں سے وہ فلسطین جائیں گے۔ بعض لوگوں نے روسیوں کی اس چالاکی کو سمجھ لیا چنانچہ وہ امریکن جرنیل جو اُس وقت یورپ کی دوبارہ آبادی کے کام پر یو۔ این۔ اے کی طرف سے مقرر تھا اس نے ایک اخباری نمائندہ کے سامنے اس خیال کا اظہار کیا کہ ہزاروں یہودی اس کے علاقے سے بھاگتے ہوئے مغربی یورپ کی طرف آرہے ہیں اور یہ بیان کرتے ہیں کہ اُن کو روسیوں نے لوٹ لیا ہے اور ان کے ظلموں سے تنگ آ کر وہ اِدھر بھاگے ہیں لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ان کے بٹوے روپوں سے بھرے ہوئے ہیں اور ایسے روپیہ سے بھرے ہوئے ہیں جو صرف روسی حکومت ہی اُن کو دے سکتی تھی اس لئے یہ ہجرت دیانتدارانہ ہجرت نہیں بلکہ اس کے پیچھے کوئی اور سکیم مخفی ہے۔ امریکن جرنیل کے اس بیان پر روسی مقبوضہ جرمنی کے کمانڈر اور روس کے بہت سے سیاسی افسروں نے بڑے زور سے پروٹیسٹ کیا اور اس پر اتنا شور پڑا کہ یو۔ این۔ اے کی تقسیم امداد کی انجمن کو اُس جرنیل کے خلاف ایکشن لینا پڑا لیکن چونکہ وہ جرنیل بہت بارسوخ تھا اُس نے اپنی عزت بچانے کیلئے کچھ مدت کی مہلت حاصل کر لی اور چند مہینوں کے بعد خود ہی کام سے الگ ہو گیا مگر اس نے اتنی ہمت ضرور کی کہ اپنے بیان کو واپس لینے سے انکار کر دیا لیکن روسی پروپیگنڈا کی وجہ سے امریکن گورنمنٹ کے نمائندوں کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ اس جرنیل کا یہ بیان کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ اُدھر سے آرہے ہیں درست معلوم نہیں ہوتا مگر یہ واقعہ درست تھا اور یہ تحریک ضرور جاری تھی۔ ذرا سے غور سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ تحریک کیوں جاری کی گئی تھی۔ اس کے جاری کرنے کی اس کے سِوا اور کوئی غرض نہ تھی کہ بالشویک خیالات سے متأثر یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعداد فلسطین میں آباد کرا دی جائے تا کہ آئندہ فلسطین روس کے ساتھ متحد ہو اور روس کو فلسطین میں پاؤں جمانے کا موقع مل جائے۔ روس سے براہِ راست اس قسم کی جماعتیں بھجوانے کا نتیجہ یہ ہوتا کہ لوگوں کی توجہ فوراً اس راز کی طرف مائل ہو جاتی اس لئے تجویز یہ کی گئی کہ پہلے وہ لوگ اپنے آپ کو روسی ظلموں کا شکار قرار دے کر مغربی یورپ میں جائیں اور پھر وہاں سے فلسطین کی طرف ہجرت کریں تا کہ لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو سکے کہ ان کی نقل و حرکت کسی روسی سکیم کے ماتحت ہے۔ ان لوگوں نے جب فرانس، اٹلی اور جرمنی کے مغربی حصوں کی طرف سے فلسطین کی طرف یورش کی تو انگریزوں نے سمجھ لیا کہ یہ لوگ فلسطین میں جا کر ہمارے خلاف منصوبہ بازی کریں گے اس لئے اُنہوں نے ایسے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر جزیرہ سائپرس میں قید کرنا شروع کر دیا اور اس وجہ سے یہودیوں کو عام طور پر اور ان لوگوں کو خصوصیت کے ساتھ برطانوی حکومت سے بغض پیدا ہو گیا۔
دوسرا رُخ اس کشمکش کا یہ ہے کہ امریکہ کی اقتصادی مشین بہت حد تک یہودیوں کے قبضہ میں ہے چونکہ امریکہ ایک نوآبادی ہے اور نو آبادیوں میں ہر قسم کے لوگ کثرت سے آ کر بس سکتے ہیں اور اپنے وطن کو وہی لوگ زیادہ تر چھوڑتے ہیں جن کو اپنے وطن میں تکالیف ہوں اس لئے یورپ کے جن مُلکوں میں یہودیوں کو تکلیفیں پہنچی تھیں وہ وہاں سے ہجرت کر کے امریکہ میں چلے جاتے تھے اور چونکہ امریکہ نے ہر مُلک کے مہاجرین کے لئے ایک کوٹہ مقرر کر دیا تھا اور چونکہ یہودی یورپ کے تمام ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اس لئے جب کہ جرمن، ایٹلین، فرانسیسی، انگریزوں، ڈچوں اور دوسرے ممالک کے لئے ہجرت میں روکیں اور حد بندیاں تھیں یہودی بوجہ سارے مُلکوں میں پھیلے ہونے کے سب مُلکوں کے کوٹہ سے فائدہ اُٹھاتے تھے اس لئے دوسری ساری قوموں کی نسبت یہودیوں کا داخلہ امریکہ میں زیادہ سرعت اور زیادہ تعداد میں ہو رہا تھا پس یہودیوں کا قبضہ دوسری قوموں کی نسبت امریکہ میں زیادہ تھا۔ علاوہ اس کے کہ باہر کی قوموں میں سے نئی آنے والی قوموں میں ان کو بڑی کثرت حاصل ہے وہ تجارتی طور پر بھی امریکہ کی منڈیوں پر بڑا قبضہ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودی کبھی بھی نیشنلسٹ خیالات کا نہیں ہوا۔ یہودی دماغ ہمیشہ قومیت کی طرف راغب رہا ہے اس لئے کسی مُلک کا فرد ہونے کی وجہ سے وہ اپنی قومی ذمہ داریوں کو بھول نہیں جاتا۔ ایک امریکہ کو جانے والا انگریز ایک دو نسلوں میں انگلستان کو بھول جاتا ہے۔ اسی طرح ایک جرمن اور ایک ایٹلین بھی لیکن ایک یہودی ایک ہزار سال میں بھی اپنے یہودی ہونے کو نہیں بھولتا۔ سینکڑوں سال کے بعد بھی اگر امریکہ کے ایک یہودی کو جرمن کا ایک یہودی ملتا ہے تو وہ اُس کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے بہ نسبت امریکہ کے رہنے والے شخص کے۔ اِس وجہ سے یہودی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر کے ہمیشہ بین الاقوامی منڈیوں پر قابض رہے ہیں اِن کی اس طاقت کی وجہ سے بھی امریکن یہودیوں کی طاقت بڑھ گئی ہے۔ پس ان کی مدد حاصل کرنے کیلئے امریکن حکومتوں نے یکے بعد دیگرے یہودیوں کی فلسطین کو یہودی آبادی بنانے کی سکیم کی تائید کرنی شروع کی۔ پہلے تو یہ تائید صرف اپنے لوکل حالات کی وجہ سے تھی لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد جب امریکنوں نے دیکھا کہ انگریزوں کی طاقت کمزور ہوگئی ہے اور وہ اپنی دور کی چھاؤنیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے اور اس وجہ سے بعض ممالک میں خصوصاً مشرقِ وسطی میں روسیوں کے تصرف کے بڑھ جانے کا خطرہ ہے تو اُنہوں نے فلسطین میں یہودیوں کے آباد کرانے کی سکیم کی خاص طور پر تائید کرنی شروع کر دی۔ اس خیال سے کہ چونکہ یہودی ہمارے ممنونِ احسان ہیں اور فلسطین کی نو آبادی کے ترقی دینے میں امریکہ کے روپیہ کا خاص حصہ ہے اس لئے اگر کبھی عرب ممالک روس کی طرف مائل ہوئے تو یہودیوں کی یہ چھاؤنی امریکہ کی فوجوں کے لئے ایک کارآمد اڈہ ثابت ہوگی۔ اس طرح دو متضاد چلنے والی نہریں قدرتی حالات کی مجبوری سے ایک ہی سمت بہنے لگیں۔ روس جو کچھ ہی عرصہ پہلے عربوں کی تائید کر رہا تھا اس نے یہ محسوس کیا کہ فلسطین میں اس کے بھجوائے ہوئے یہودیوں کی کافی تعداد پہنچ چکی ہے اور کچھ نئے یہودی اس نے اپنے مُلک سے بھجوانے کے لئے بھی تیار کر لئے جیسا کہ یو۔ این۔ اے میں مصری نمائندہ کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوڈیسا ۳۵؎ میں بہت سے یہودی نما یہودی فلسطین میں آنے کے لئے جمع ہو رہے ہیں (یہودی نما یہودیوں سے مصری نمائندہ کا یہ منشاء ہے کہ ان میں سے بعض جھوٹے بنائے ہوئے یہودی ہیں اصلی یہودی نہیں) بہرحال روس نے چند مہینے پہلے تو یہودیوں کی اس لئے مخالفت کی تا کہ لوگوں کو یہ شبہ نہ ہو کہ روس فلسطین کے یہودیوں سے کچھ کام لینا چاہتا ہے اور اپنے ہم خیال لوگوں کو فلسطین میں داخل کر رہا ہے اور عرب لوگ اِس دھوکا میں رہے کہ روس ان کی امداد کر رہا ہے۔ جب اس نے یہ دیکھاکہ کافی تعداد ایسے یہودیوں کی فلسطین میں گھس گئی ہے جو روسی اثر کو غالب کر سکتے ہیں تو اس نے یکدم اپنی روش بدل لی او رعربوں کی بجائے یہودیوں کی تائید کرنی شروع کر دی۔ اِدھر امریکہ والے بھی یہ سمجھتے ہوئے کہ فلسطین تو انہی کے روپیہ سے ترقی کر رہا ہے اگر یہودی حکومت الگ بنی تو وہ یقینا امریکہ ہی کی مدد کرے گی، یہودیوں کی علیحدہ حکومت کے قیام کی تائیدمیں بڑھتے چلے گئے۔ بظاہر دونوں حکومتیں ایک مقصد کی حمایت کر رہی ہیں لیکن دونوں حکومتیں اس لئے اس ایک مقصد کی حمایت کر رہی ہیں کہ روس سمجھتا ہے کہ اب میرا کافی اثر فلسطین پر ہو چکا ہے اور میں فلسطین سے اپنی مرضی کا کام لے سکتا ہوں اور امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ فلسطین کی تمام ترقی میری ہی امداد پر منحصر ہے اس لئے میں جس طرح چاہوں گا فلسطین کی یہودی آبادی سے کام لوں گا۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ دونوں میں سے کس کا اندازہ صحیح ہے۔ بہرحال دونوں کا مقصد ایک ہے گو ایک دوسرے کے خلاف ہے۔ دونوں ہی قوموں کا مقصد یہ ہے کہ فلسطین کو دوسری قوم سے جنگ کے وقت اپنے اڈہ کے طور پر استعمال کریں۔ روس یہ خیال کرتا ہے کہ میری تدبیر کامیاب ہوچکی اور اب فلسطین کا اڈہ میرے کام آئے گا اور امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ میری سکیم زیادہ مؤثر ہے اور فلسطین کا یہودی مجھ سے آزاد ہو کر روس کی طرف نہیں جا سکتا۔ انگریز یہ دیکھ رہا ہے اس کا مقام ان دونوں سکیموں میں کہیں بھی نہیں اس لئے اب وہ فلسطین کی تقسیم کا مخالف ہو رہا ہے لیکن امریکہ کے ڈر کے مارے مخالفت کر بھی نہیں سکتا اس لئے وہ غیرجانبدارانہ حیثیت اختیار کر رہا ہے مگر اوپر کی تفاصیل سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ درحقیقت سب نفسا نفسی کی مرض میں مبتلا ہیں عربوں اور مسلمانوں سے کسی کو ہمدردی نہیں ہے مسلمان صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے اور اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پاکستان میں عالمگیر اسلامی تنظیم کا قیام
ہمیں یہ سن کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ لاہور میں ممُلکت پاکستان کی پہلی
عالمگیر اسلامی تنظیم اسلامک ورلڈ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے نام سے قیام پذیر ہوئی ہے جس کا مقصد دنیا کے تمام اسلامی ممالک میں ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی مراسم کا استحکام ہوگا۔
اس قسم کی تنظیم کا قیام آج سے مدتوں پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ کئی اسلامی مفکر اس قسم کی تنظیم کی ضرورت دیر سے محسوس کر رہے تھے اور بعض نے انفرادی طور پر کوششیں بھی کیں لیکن عالَم اسلام کے مختلف اجزاء کے اضطرابی ماحول نے جو مغربی اقوام کی ریشہ دوانیوں اور زیادہ تر خود مسلمانوں کی ذاتی کمزوریوں کا نتیجہ ہے ان انفرادی کوششوں کو کبھی بارآور ہونے نہیں دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ انجمن ان مقاصد کے حصول کے لئے جو اس نے اپنے سامنے رکھے ہیں پورے انہماک سے جدوجہد کرے تو تھوڑی مدت میں تمام اسلامی دنیا ایک نہایت پائیدار اور مضبوط رشتہ میں منسلک ہوسکتی ہے اور ایک ایسا ٹھوس اور ناقابلِ ہزیمت وجود بن سکتی ہے کہ جس کو دنیا کی تمام مخالف طاقتیں بھی مل کر ہِلا نہیں سکتیں اگر اس کام کا بیڑا اُٹھانے والوں نے استقلال اور ہمت سے کام لیا تو اس کی کامیابی یقینی ہے۔
ہمیں امید ہے کہ ایسوسی ایشن کا آئین مرتب کرنے کیلئے جو ابتدائی کمیٹی مقرر کی گئی ہے وہ آئین مرتب کرتے وقت نہایت وُسعت نظر اور کشادہ دِلی سے کام لیتے ہوئے اپنے میدانِ عمل کو مسلمان اقوام کے ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی مقاصد کے رشتۂ اشتراک کو مضبوط و مربوط کرنے تک ہی محدود رکھے گی اور اعتقادات کے فردی اختلافات کو اپنے راستہ میں حائل نہیں ہونے دے گی۔ اسلام میں عقیدۂ توحید ایک ایسی چٹانی بنیاد ہے کہ جس پر اتحادِ باہمی کی عمارت اُٹھانا کچھ بھی مشکل نہیں۔
اِس وقت تمام دنیا کے مسلمان کچھ ایسے مشترکہ مصائب میں گرفتار ہیں کہ ان سے نجات حاصل کرنا بغیر تمام اسلامی اقوام کے اشتراکِ عمل کے ممکن نہیں۔ کبھی وہ زمانہ تھا کہ اسلامی مساوات اور اسلامی طور و طریق کی یکسانی اور آپس میں میل جول کی آسانیاں غیروں سے تحسین و ستائش کا خراج حاصل کرتی تھیں جس کے مٹے ہوئے آثار اب بھی کہیں کہیں نظر آسکتے ہیں لیکن موجودہ قیامت خیز حالات نے کچھ ایسی نفسانفسی کا عالَم پیدا کر دیا ہے کہ ہم نے وہ تمام باتیں فراموش کر دی ہیں جو انسان کو انسان سے قریب کرنے والی ہم کو اسلام نے عطا کی تھیں اور ہم ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ ہو کر رہ گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ باطل پرست طاقتیں یکے بعد دیگرے سب کو نگلتی چلی جا رہی ہیں۔
(الفضل لاہور ۲۷؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مسلم لیگ پنجاب کا نیا پروگرام
ہم پہلے بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکے ہیں کہ بے سوچے سمجھے قوم کے اوپر کسی پروگرام کا ٹھونسا عقل اور دانائی کا طریق نہیں ہوتا۔ اب پھر ایک دفعہ ہم وزارت پنجاب اور تمام مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ یہ راہ نہایت ہی خطرناک اور مُہلک ہے اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمارے قومی کارکنوں کو یہ بات تو بُری لگے گی لیکن مسلمانوں کے فائدہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس تلخ سچائی کے کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اِس وقت پنجاب کی حکومت کی عنان ہے وہ ابھی معمولی ادارے چلانے کا تجربہ نہیں رکھتے بڑی بڑی سکیموں کے ایجاد کرنے اور ان کو چلانے کا سوال تو بالکل الگ ہے۔ انگریز جس حالت میں حکومت کی مشینری چھوڑ کر گیا تھا آج اُس سے بہت بدتر حالت میںہے۔ پنجاب کا تعلیم یافتہ طبقہ ہی نہیںبلکہ حکومت پاکستان کے بڑے بڑے ذمہ دار افسر بھی یہ شکایت کر رہے ہیں کہ پنجاب کاانتظام خرابی کی طرف جا رہا ہے اور اسکے ذمہ دار افسر اصلاح کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ سندھ کی گورنمنٹ بدنام چلی آتی تھی مگر سندھ کی حالت پنجاب سے بہت بہتر ہے اور اسی طرح صوبہ سرحد کی حالت پنجاب سے بہتر ہے اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ سندھ اور صوبہ سرحد نئے نئے تجربے کرنے کی طرف متوجہ نہیں۔ وہ عملی جدوجہد کے ساتھ اصلاح کر کے مُلک کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور چونکہ اصلاح کا پہلا قدم یہی ہوا کرتا ہے۔ اس لئے وہ پنجاب کی نسبت زیادہ کامیاب ہیں۔ سندھ کے روئی کے کارخانے مدت ہوئی چل چکے اور بعض کارخانے تو اب کام ختم کرکے بند بھی ہونے والے ہیں۔ کئی کارخانے دسمبر کے آخر تک اپنا کام ختم کر دیں گے لیکن پنجاب میں ابھی روز اوّل ہے ٹھیکے ابھی تقسیم نہیں کئے گئے اور بند دُکانیں ابھی کھولی نہیں گئیں۔ خفیہ طور پر ہندو تاجروں سے سمجھوتے کئے جا رہے ہیں کہ کسی طرح وہ واپس آ کر پھر اپنے کام سنبھال لیں اور لیگ اور حکومت پنجاب کے ذمہ دار حُکّام اپنی پرائیویٹ مجلسوں میں اس بات کا اقرار کر رہے ہیں بلکہ بعض تو پلیٹ فارم پر بھی اس کا اعلان کر چکے ہیں کہ ہندوؤں نے پھر آ کر کام شروع نہ کیا تو پاکستان کی مالی حالت بالکل تباہ ہو جائے گی۔ ایک طرف تو یہ حالت ہے کہ جو کام پہلے سے چل رہے تھے اُنہی کو سنبھالا نہیں جا سکتا اور وہ خلا جو ہندوؤں کے بھاگ جانے سے پیداہو چکا ہے اُس کا ۱۰۰؍۱ حصہ بھی اِس وقت تک پُر نہیں ہوا۔ بنکوں کی بزنس رُکی ہوئی ہے لوگ چیک لئے پھرتے ہیں اور اُن کو توڑنے والا کوئی نہیں۔ بنک شکایت کرتے ہیں کہ ہمیں ٹرینڈ آدمی نہیں مل رہے۔ کارخانوں والے رو رہے ہیں کہ اوّل تو مشینری لوگوں نے اِدھر اُدھر کر لی ہے دوسرے کارخانوں کے نام بدل کر جھوٹی فہرستیں تیار کر لی گئی ہیں۔ اصل کارخانہ کا سامان تو اِدھر اُدھر کر دیا گیا ہے، جھوٹے نام کا کارخانہ جب انڈسٹریل ڈیپارٹمنٹ کسی کو تقسیم کرتا ہے تو وہاں انسٹرکٹر آف انڈسٹریل لکھ دیتا ہے کہ اس نام کا کوئی کارخانہ ہے ہی نہیں۔ دو مہینے خراب کرنے کے بعد یہ جواب جتنا دل شکن اور ساتھ ہی آنکھیں کھولنے والا ہے اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جو بے چینی ان حالات سے پیدا ہو رہی ہے اس کا علاج نئی نئی سکیموں سے کرنا بالکل غلط طریق اور قوم کے لئے مُہلک ہے۔ پہلے اُن رخنوں کو بھرنا چاہئے جو مُلک کی اقتصادی حالت میں پیدا ہو چکے ہیں۔ جو کارخانے اور جو صنعتیں اور جو تجارتیں ہندوؤں کے پاس تھیں اگر وہ مسلمان سنبھال لیں اور صحیح طور پر ان کے ٹیکسوں کی تشخیص ہو جائے تو صوبہ جاتی حکومتوں اور مرکزی حکومت کی مالی حالت نہایت ہی شاندار ہو جاتی ہے۔ اِس وقت صنعتی کارخانوں کو مُلکی اور قومی بنانے کی سکیمیں ایسی ہیں جیسا کہ کسی شخص کا مکان ٹپک رہا ہو اور وہ بجائے چھت پر تین چار ٹوکریاں مٹی ڈال کر اپنے بیوی بچوںکو اور اپنے اسباب کو ضرر سے بچانے کے کسی انجنیئر کی طرف دوڑ جائے کہ ہم آئندہ ایک کوٹھی تیار کریں گے اس کا نقشہ کیسا ہونا چاہئے اور کس کس قسم کا میٹریل اس میں ہونا چاہئے۔ جو کچھ خدا نے دے رکھا ہے پہلے اُس کو سنبھالو وہ ہاتھوں سے نکل رہا ہے اور اقتصادی نظام تہہ و بالا ہو رہا ہے۔ جو کام ہندو افراد آج سے پہلے پنجاب میں کر رہے تھے اور جو یورپین کاموں کے مقابلہ میں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا جب وہی کام نہیں سنبھالا جا سکتا تو آئندہ ان کی تعمیروں کے خواب دیکھنا جو تعمیریں کہ بیسیوں سال کی کشمکش اور جدوجہد اور غور وفکر کے بعد یورپ کے فلاسفر اب کھڑی کرنے لگے ہیں اور جس کی خوبی کا مغرب کا کثیر حصہ بھی ابھی قائل نہیں ہوا اور اس کے مُلک کے لئے مضر ہونے پر مصر ہے کہاں تک معقول کہا جا سکتا ہے اور کہاں تک مُلک کے مفاد کے مطابق ہو سکتا ہے۔مُلک کی اہم صنعتوں کی اصطلاح بھی ایک نہایت پیچیدہ اصطلاح ہے۔ یورپ کی چند مغربی کتابوں میںاہم صنعتوں کی اصطلاح پڑھ کر لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ شاید اہم صنعتوں کی اصطلاح چند مخصوص صنعتوں کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے حالانکہ یہ درست نہیں۔ ہر مُلک کی اہم صنعتیں الگ الگ ہیں اور اہم صنعتوں کا فیصلہ کرنا آسان کام نہیں۔ اہم صنعتوں کا فیصلہ ہوائی، بحری اور برّی فوجوں کے بڑے افسر اور ان کے اقتصادی مشیر مرکز اور صوبہ جات کے مالی افسروں اور پبلک کے اقتصادی ماہروں کے ساتھ مل کر کیا کرتے ہیں۔ ہر مُلک کی اہم صنعتیں دوسرے مُلک کی اہم صنعتوں سے مختلف ہوا کرتی ہیں۔ اہم صنعت کی کوئی ایسی جامع مانع تعریف نہیں ہے جو ہر مُلک پر یکساں چسپاں ہو سکے۔ مغربی ممالک کے اقتصادی ماہر اس ابتدائی نکتہ کو سمجھتے ہیں مگر ہمارے مُلک کی بدقسمتی ہے کہ ہم حقیقت کو سمجھے بغیر صرف الفاظ کے پیچھے چل پڑتے ہیں جس طرح ہمارے مُلک کا عامل نعرے لگا کر یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے دشمن کو قتل کر دینے اور مار دینے میں کامیاب ہو گیا ہے اور موچی دروازہ کے باہر کی میٹنگ میں جو اس نے شور کیا ہے اس شور کی وجہ سے اس کی قوم ہر ایک خطرہ سے محفوظ ہوگئی ہے اسی طرح ہمارے مُلک کا لیڈر یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے یورپ کی کوئی کتاب پڑھ لی ہے یا اس نے بعض اخباروں کا مطالعہ کیا ہے اور اس میں سے بعض الفاظ جو اِس وقت مغرب میں یا مغرب کے ایک طبقہ میں مقبول ہو رہے ہیں اسے پسند آ گئے ہیں خصوصاً اس حال میںکہ کالج کے ناتجربہ کار طلباء بھی ان الفاظ کی خوبصورتی سے متأثر ہو کر موقع اور بے موقع ان الفاظ کو استعمال کرنے لگ گئے ہیں تو ان الفاظ کو اپنے پروگرام میں شامل کر دینا گویا مُلک کی ترقی کا راستہ کھول دینا ہے۔ ہماری اس حالت پر خدا ہی رحم کرے ہماری گاڑی دریا کے منجدھار میں پھنسی ہوئی ہے ہم اس گاڑی کو اس دریا سے نکالنے کی کوشش تو نہیں کر رہے اور دو سَو میل کے فاصلہ پر ایک بجلی سے چلنے والی ریل کی سکیم بنا رہے ہیں۔ جس ریل کے چلانے کے لئے جو مشکلات پیش آتی ہیں ہم ان سے ذرا بھی واقفیت نہیں رکھتے نہ ہماری قوم ان مشکلات سے کوئی واقفیت رکھتی ہے کہ وہ صحیح فیصلہ ہمارے لئے کر سکے۔ مگر ہم ہیں کہ اِس وقت جب کہ گاڑی دریا کی تیز دھار کی مار سے اُلٹنے والی ہے ہماری بیوی اور بچے خوف سے چیخیں مار رہے ہیں۔ بیلوںکے جسم ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہے ہیں، اپنے خیالی پلاؤ کے مزے اُڑا رہے ہیں اور گردوپیش کے تمام خطرات سے آنکھیںبند کر کے مزے سے سر ہِلا رہے اور چٹکیاں بجا رہے ہیں۔
(الفضل لاہور ۲۹؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کشمیر کے متعلق صلح کی کوشش
آج کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کے متعلق صلح کی گفتگو ہو رہی ہے اور یہ بھی انہی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی میں شیخ عبداللہ صاحب کو اس غرض کیلئے بلایا گیا ہے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صلح اس اصول پر ہو رہی ہے کہ پاکستان زور دے کر قبائلی لوگوں کو واپس کرا دے۔ ہندوستان کی فوج کی واپسی کا کوئی ذکر نہیں۔ مسٹر گاندھی بھی بہت خوش نظر آتے ہیں کہ صلح کے امکانات روشن ہو رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ لارڈ مونٹ بیٹن کی کوشش سے ہندوستان میں امن کے قیام کی صورت نکل آئے گی۔ شرائطِ صلح جو بتائی گئی ہیں وہ کشمیر کے مسلمانوں کے لئے نہایت خطرناک ہیں ۔ کشمیر کے مسلمانوں نے جو قربانیاں کی ہیں وہ ایسی نہیں کہ ان کو یونہی نظر انداز کر دیا جائے۔ خصوصاً پونچھ کے مسلمانوں نے سردھڑ کی بازی لگا دی ہے کوئی ایسا سمجھوتہ جو ان کے حقوق کی حفاظت نہ کرے یقینا پونچھ کے بہادر جانبازوں کی زندگی ختم کرنے والا ہوگا۔ اس جنگ کے بعد اگر کشمیر پر کوئی ایسی حکومت قابض ہوئی جو ڈوگرہ راج کے تسلسل کو جاری رکھنے والی ہوئی یا جس میں آزاد مسلمانوں کا عنصر بڑی بھاری تعداد میں نہ ہوا تو پونچھ، میرپور اور ریاسی کا بہادر مسلمان ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا وہ کسی صورت میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ خدا کرے کہ یہ خبر غلط ہو لیکن چونکہ پاکستان گورنمنٹ کی طرف سے اس کے خلاف کوئی اعلان نہیں ہوا اس لئے ہمیں شبہ ہے کہ یہ خبر اگر ساری نہیں تو کچھ حصہ اس کا ضرور سچا ہے۔ پاکستان گورنمنٹ نے بار بار اعلان کیا ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں حصہ نہیں لے رہی اور اگر یہ بات درست ہے تو پاکستان گورنمنٹ کو آزاد کشمیر تحریک کے راستہ میں روڑے اٹکانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ پبلک کی ہمدردیاں آزاد مُلکوں میں ہمیشہ ایسے ممالک کے حق میں جاتی ہیں جن سے کہ ان کا کوئی تعلق ہوتا ہے۔ انگلستان، یونائٹیڈسٹیٹس امریکہ، فرانس،جرمنی اور دوسرے ممالک باوجود اس کے کہ ان کی حکومتیں بعض حالات میں شامل نہیں ہوئیں دو جنگ کرنے والے فریق میں سے ایک کی مدد کرتی رہی ہیں۔ اگر پاکستان کی آبادی بھی اسی طرح کشمیر کی تحریک آزادی میں حصہ لینے والوں کی مدد کرے تو وہ اپنے جائز حقوق سے کام لیتی ہے اور اسے روکنے کا کسی کو حق نہیں۔ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ ملنا یا کُلّی طور پر آزاد ہونا۔ لیکن پاکستان کے ساتھ اس کے دوستانہ تعلقات کا ہونا پاکستان کی زندگی کے لئے نہایت ضروری ہے اس کے بغیر پاکستان ہرگز زندہ نہیں رہ سکتا۔ پس کوئی ایسی تجویز جو اس کے خلاف ہو وہ ہرگز پاکستان کے لئے قابل قبول نہیں ہونی چاہئے۔ پٹھانوں کو جو کشمیر کے معاملہ میں گہری دلچسپی ہے اس کے ثبوت کے طور پر کرنل شاہ پسند صاحب کا وہ خط پیش کیا جا سکتا ہے جو الفضل کے ہفتہ کے ایڈیشن میں شائع ہوچکا ہے۔ کرنل شاہ پسند صاحب اس میں لکھتے ہیں کہ ان کو اور دوسرے پٹھانوں کو کشمیر کے معاملہ میں اتنی دلچسپی اور اتنا گہرا تعلق ہے کہ وہ اور ان کی قوم ان مظالم کو کسی صورت میں بھی بھولنے کیلئے تیار نہیں جو ڈوگرہ راج کی طرف سے مسلمانوں پر کئے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ اس جنگ میں ہمیں فتح ہوگی یا شکست لیکن ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ چاہے سال دو سال یا تین سال لگ جائیں ہم کشمیر کی تحریکِ آزادی کی امداد کو ترک نہیں کریں گے۔ اُنہوں نے اس راز کو بھی افشاء کیا ہے کہ دو سال پہلے خود اُن کو بھی بیس ہزار روپے کی ایک پیشکش کی گئی تھی جس کو اُنہوں نے ٹھکرا دیا اور یہ کہ فقیر ایپی صاحب نے بھی ان کو کانگرس کے حق میں کرنے کی کوشش کی تھی اور قائد اعظم مسٹر جناح کے خلاف اُکسایا تھا کہ وہ ایک شیعہ ہیں اور تم ایک شیعہ کی اتباع کیوں کرتے ہو۔ کرنل شاہ پسند صاحب ایک مشہور فوجی جرنیل ہیں اور ان کا یہ خط ایک بہادر جرنیل کے خیالات کا آئینہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ اُنہوں نے لکھا ہے وہ ان کے دلی جذبات کا اظہار ہے اور اس میں کسی قسم کی بناوٹ اور تکلّف نہیںہے۔ کرنل شاہ پسند صاحب نے جو خیالات ظاہر کئے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ مہمندوں اور آفریدیوں کے خیالات بھی ایسے ہی ہونگے۔ یہ لوگ ہماری سرحدوں کے محافظ ہیں اور ان کے جذبات کا خیال رکھنا ہمارے لئے ضروری ہے۔ پٹھانوں کی جانیں جس طرح بمبئی اور جالندھر اور لدھیانہ میں لی گئی ہیں اور ہندوستان کے بعض اور مقامات میں جس طرح ان کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی گئی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے پٹھان کبھی بھی تسلی نہیں پا سکتے کہ اس قسم کے ظالم لوگ ان کی سرحد پر آ بسیں اور ان کے معاملات میں دخل اندازی کرتے رہیں۔ پس کسی قسم کی صلح کی گفتگو سے پہلے پٹھان قبائل سے رائے لینا نہایت ضروری ہے۔ پٹھان قبائل کچھ تو آزاد ہیں اور کچھ نیم آزاد اور ان کا تعلق پاکستان سے ایک رنگ میں اتحادی تعلق ہے۔ دنیا کی حکومتیں کبھی بھی اپنے اتحادیوں سے رائے لئے بغیر کوئی قدم نہیں اُٹھایا کرتیں کیونکہ اگر وہ ایسا کریں تو پھر اتحاد بے معنی ہو جاتا ہے اور اس سے نیک نتائج کا پیدا ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح گو کشمیر کی آزاد تحریک کو اس وقت تک پاکستان نے تسلیم نہیں کیا لیکن اس سے مشورہ لینا بین الاقوامی قانون کے خلاف نہیں۔ حال ہی میں سپین کی ایسی حکومت جس کے پاس سپین کے مُلک کا ایک انچ بھی نہیں ہے، اس کے ایک وزیر کو حکومت برطانیہ کے بعض عہدہ داروں نے بُلایا اور اس سے مشورہ لیا۔ سپین کی گورنمنٹ نے اس پر احتجاج بھی کیا لیکن حکومت برطانیہ نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ اس سے پہلے اسی آزاد حکومت سے فرانس کے وزراء مشورے کر چکے ہیں۔ پس گو کشمیر کی آزاد حکومت پاکستان کے نزدیک ایک تسلیم شدہ حکومتِ نہیں لیکن سیاسی رواج کے مطابق ان سے غیر آئینی گفتگو کرنا پاکستان کے لئے منع نہیں اور کشمیر کے متعلق کسی فیصلہ سے پہلے ان لوگوں کے خیالات کا معلوم کرنا نہایت ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کشمیر کی آبادی کا وہ حصہ جو شیخ عبداللہ کے ساتھ ہے وہ تو پہلے ہی پاکستان کا مخالف ہے، اس غلطی کی وجہ سے وہ حصہ بھی مخالف ہو جائے گا جو اِس وقت پاکستان کے حق میں ہے اور پاکستان کی سرحد نہ صرف حکومت کے تعلقات کے لحاظ سے بلکہ رعایا کے تعلقات کے لحاظ سے بھی غیر محفوظ ہو جائے گی۔ ہم پھر یہ کہہ دینا چاہتے ہیں کہ اِس وقت تک جو خبریں ہیں وہ غیر سرکاری ہیں ممکن ہے وہ جھوٹی ہوں اور خدا کرے وہ جھوٹی ہوں لیکن چونکہ یہ خطرہ ہے کہ ان کے اندر کوئی سچائی بھی پائی جاتی ہو اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم وقت سے پہلے حکومت اور پبلک کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلا دیں۔ بڑے بڑے سمجھ دار بعض دفعہ غلطیاں کر جاتے ہیں اور حکومت کے وزراء کا اندرونی اور بیرونی حالات سے واقف ہونا اس بات کی ضمانت نہیں ہوتا کہ وہ کبھی غلطی نہیں کریں گے جمہوری حکومتوں میں اخبارات کا یہ حق سمجھا جاتا ہے کہ وہ حکومت کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلائیں۔ کبھی اخبارات حق پر ہوتے ہیں اور کبھی حکومت حق پر ہوتی ہے اِن دونوں کی آزادانہ رائے ایک دوسرے کی رائے کی اصلاح کر کے مُلک کی بہتری کا موجب ہوتی رہتی ہے۔ پس ہم اپنا فرض ادا کر رہے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت ہمارے مخلصانہ خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ایسی غلطی نہیں کرے گی جو آئندہ پاکستان کے لئے نقصان کا موجب ہو جائے اور جس کی وجہ سے کشمیر اور صوبہ سرحد کے مسلمانوں سے اس کے تعلقات بگڑ جائیں۔ پاکستان اس سے پہلے کشمیر کے متعلق یہ تجویز پیش کر چکا ہے کہ ہندوستان یونین کی فوجیں وہاں سے واپس بُلا لی جائیں اور ادھر پاکستان اپنا اثر اور رسوخ استعمال کر کے افغان قبائل کو وہاں سے واپس لوٹنے پر مجبور کرے۔ اس کے بعد ایک آزاد ماحول کے ماتحت ریاست کشمیر اور جموں کے لوگوں سے رائے لی جائے۔ پھر جس طرف ان کی اکثریت ہو اس کے مطابق کشمیر کی حکومت کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ تجویز بالکل معقول اور انصاف کے مطابق اور دُور اندیشانہ تھی۔ اگر یہی تجویز اس وقت پاس ہوئی ہے تو ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے بشرطیکہ ایک اور امر کا بھی اس میں خیال رکھا جائے اور وہ یہ ہے کہ جموں اور کشمیر میںبسنے والی قوم ایک نہیں جموں اور کشمیر کی قومیں اسی طرح مختلف مذہب اور مختلف نسل رکھتی ہیں جس طرح کہ ہندوستان کی قومیں۔ جموں کا ڈوگرہ الگ نسل سے تعلق رکھتا ہے اور الگ مذہب سے تعلق رکھتا ہے، جموں کا مسلمان الگ نسل اور الگ مذہب سے تعلق رکھتا ہے، ریاسی اور میرپور کا مسلمان بالکل الگ قوم اور نسل کا ہے، مگر ایک حد تک پونچھ کے لوگوں سے اس کا تعلق ہے۔ پونچھ، میرپور اور ریاسی کے مسلمانوں کو ایک گروپ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اِن لوگوں کی رشتہ داریاں راولپنڈی، جہلم اور گجرات کے ساتھ ہیں۔ کشمیر ویلی کے مسلمان بالکل علیحدہ ہیں ان کی زبان اور ہے اور ان کی قوم اور ہے اور ضلع مظفر آباد کے لوگ بالکل الگ قوم کے ہیں وہ ہزارہ کے لوگوں سے رشتہ داری رکھتے ہیں اور سواتی قوم سے ان کے تعلقات ہیں اس لئے وہ پٹھانوں کی طرف زیادہ مائل ہیں بہ نسبت پونچھوں اور کشمیریوں کے۔ بارہ مولا کے اوپر کے علاقے پہاڑی ہیں اور گلگت تک ان علاقوں کی بسنے والی قومیں ایک طرف تو چینی نسل کے اثرات کے نیچے ہیں تو دوسری طرف افغانی نسل کے اثرات کے نیچے ہیں۔ بہرحال یہ قومیں مخلوط ہیں مگر کسی صورت میں بھی ڈوگروں یا کشمیریوں کے ساتھ ان کا واسطہ نہیں۔ یہ پانچ علاقے ہیں اگر ہندوستان کی حکومت کا فیصلہ کرنے سے پہلے سندھ، پنجاب اور نارتھ ویسٹرن پراونس کی رائے کو ہندوستان کے دوسرے لوگوں کی رائے سے علیحدہ رکھنے کی اہمیت تسلیم کی گئی تھی تو کوئی وجہ نہیں کہ ان لوگوں کی رائے بھی علیحدہ علیحدہ نہ لی جائے۔ پس ہمارے نزدیک میرپور، ریاسی اور پونچھ کی رائے شماری الگ ہونی چاہیے اور بالغ افراد کے حق رائے شماری پر اس کی بنیاد ہونی چاہئے۔ اسی طرح ضلع جموں اور ضلع اودھم پور کی رائے شماری الگ ہونی چاہئے۔ ضلع مظفر آباد کی الگ ہونی چاہئے اور کشمیر ویلی کی الگ ہونی چاہئے اور بارہ مولا کی اوپر کی پہاڑیوں کے باشندوں کی جو گلگت اور تبت تک چلے جاتے ہیں الگ رائے شماری ہونی چاہئے۔ اگر کسی مُلک کے تمام باشندوں کی اکٹھی رائے شماری ہی قانون ہے تو ہندوستان میں ہندوؤں کی رائے مسلمانوں سے زیادہ تھی تو پھر پاکستان کے علیحدہ کرنے کا حق کس طرح پیدا ہوا۔ اگر پاکستان کو علیحدہ کرنے کا حق جائز حق تھا تو کوئی وجہ نہیں کہ جموں اور ریاست کشمیر کے اندر بسنے والے پانچ علاقوں کا الگ الگ حق نہ سمجھا جائے۔ یہ لوگ رائے دینے کے بعد پھر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آیا وہ اکٹھے رہنا چاہتے ہیں یا الگ حکومتیں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ موجودہ حالات کے لحاظ سے ہم سمجھتے ہیں کہ یقینا پونچھ، ریاسی اور میرپور پاکستان میں شامل ہو جائیں گے۔ اِسی طرح مظفر آباد بھی پاکستان کے حق میں ووٹ دے گا اور بارہ مولا سے اوپر کے پہاڑی لوگ جن کی سرحد روس اور چین کی سرحد سے ملتی ہے، وہ بھی یقینا پاکستان کے حق میں ووٹ دیں گے۔ ان علاقوں کا بدھ بھی مسلمانوں کے ساتھ ہے ڈوگروں کے ساتھ نہیں۔ ریاست کی مدد سے وہاں کی تمام تجارت سکھوں کے قبضہ میں ہے اور ان کی لوٹ مار انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔ نہایت سُستی قیمتوں پر چیزیں خریدی جاتی ہیں اور بیس گنے زیادہ قیمت پر لا کر کشمیر اور پنجاب میں بیچی جاتی ہیں حالانکہ یہ تجارت وہاں کے باشندوں کا حق ہے جو بدھ اور مسلمان ہیں مگر حکومت کی مشینری ان لوگوں کو آگے نہیں آنے دیتی۔ کوئی وجہ نہیں کہ ان لوگوں کو جب وہ نسلی اور لسانی طور پر باقی کشمیر کے لوگوں سے الگ ہیں، آزادانہ طور پر رائے دینے کا حق نہ دیا جائے اور اگر ان کے مُلک کی رائے دوسرے صوبوں سے الگ فیصلہ کرے تو ان کو علیحدگی کا حق نہ دیا جائے۔ پاکستان نے جو حق اپنے لئے مانگا تھا کوئی وجہ نہیں کہ وہی حق گلکت، مظفر آباد، کشمیر اور پونچھ، میرپور اور ریاسی کو نہ دیا جائے اور ان کے اس حق کی تائید میں پاکستان کی گورنمنٹ اور پاکستان کی رعایا آواز نہ اُٹھائے۔ ہم کشمیر کے متعلق مشکوک ہیں کہ آیا کشمیر ویلی کے لوگ اِس وقت پاکستان کے حق میں ووٹ دیں گے یا نہیں دیں گے کیونکہ کشمیر کے نائب وزیر شیخ عبداللہ نے اپنے چند دنوں کے اقتدار میں بہت سے قومی لیڈروں کو گرفتار کر لیا ہے اور بہت سے قومی لیڈر چھپے پھرتے ہیں جب تک کشمیر ویلی آزادی کے بعد دو تین مہینے غیر جانبدار افسروں کے ماتحت نہ رہے، اس کے باشندوں کی رائے آزادانہ رائے نہیں کہلا سکتی۔ پس انصاف کے مطابق فیصلہ جس کی تائید پاکستان حکومت اور پاکستان کی رعایا کو کرنی چاہئے یہی ہے کہ:۔
(۱) پہلے تو جموں اور کشمیر سے ہندوستانی فوج کو واپس بلایا جائے۔
(۲) افغان اور دوسرے لوگ جو کشمیر کے باہر کے ہیں ان کو بھی واپس کیا جائے۔ اس کے بعد ایک غیر جانبدارانہ حکومت قائم کی جائے اور یونان کے بادشاہ کی طرح جموں کے راجہ کو مجبور کیا جائے کہ جب تک مُلک کے بالغوں کی رائے شماری کے بعد جموں اور کشمیر سٹیٹ کی آئندہ ساخت کا فیصلہ نہ ہو جائے۔ اور وہ فیصلہ اُس کے حق میں نہ ہو، اُس وقت تک مہاراجہ جموں اور کشمیر سے باہر رہیں۔ جموں اور کشمیر سٹیٹ یونان سے زیادہ آزاد نہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تعارف کتب
یہ انوار العلوم کی اُنیسویںجلد ہے جو سیدنا حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی کی ۲۷؍مئی ۱۹۴۷ء تا ۴؍جولائی ۱۹۴۸ء کی ۱۸ مختلف تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے۔
(۱) زمانہ جاہلیت میں اہلِ عرب کی خوبیاں اور اُن کا
پس منظر
مکرم سید منیر الحصنی شامی صاحب نے مؤرخہ ۲۱؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں زمانۂ جاہلیت میں اہلِ عرب کے مناقب کے موقع پر عربی زبان میں ایک تقریر کی۔ مگر وقت کی کمی کے باعث تقریر کے بعد حاضرین کو مذکورہ تقریر کے بارہ میں سوالات دریافت کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ چنانچہ دو تین روز بعد مؤرخہ ۲۶؍مئی کو بعد نماز مغرب دوبارہ مجلس منعقد ہوئی تو حضرت مصلح موعود نے حاضرین کو السید منیر الحصنی شامی صاحب سے ان کے لیکچر کے متعلق سوالات پوچھنے کا موقع عطا فرمایا جس پر کچھ احباب نے مکرم منیر الحصنی صاحب سے بعض سوالات دریافت کئے اور الحصنی صاحب نے ان کے سوالات کے جوابات دیئے۔
سوال و جواب کے اختتام پر حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ چونکہ بعض حاضرین عربی زبان سے ناواقف ہیں لہٰذا میں اس گفتگو کا اُردو میں مفہوم بیان کر دیتا ہوں۔ چنانچہ حضور نے سوال و جواب کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ دراصل نہ سوال کرنے والے مقرر کی بات کو پوری طرح سمجھ سکے ہیں اور نہ ہی مقرر صاحب سوالات کو پوری طرح سمجھ سکا ہے۔ لہٰذا دونوں کو ہی غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس کے بعد حضور نے اصل حقیقت حال پر روشنی ڈالی۔ نیز اگلے روز دوبارہ مؤرخہ 27 مئی کو اِسی مضمون کو وضاحت فرمائی۔
حضور نے اپنے اس محاکمہ میں عربوں کی خصوصیات کا پس منظر بیان فرمایا نیز اسلام کے ظہور کے بعد ان میں پیدا ہونے والے اخلاقِ فاضلہ اور ان کی قومی خوبیوں میں پیدا ہونے والے نکھار کی وضاحت فرمائی۔
یہ مضمون ستمبر ۱۹۶۱ء کو روزنامہ الفضل ربوہ میں ۶ قسطوں میں شائع ہوا ہے۔ جسے اب پہلی دفعہ انوار العلوم کی اس جلد میں کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔
(۲) خوف اور امید کا درمیانی راستہ
۱۹۴۷ء میں جب ہندوستان کی آزادی و تقسیم کا معاملہ آخری مراحل میں داخل ہو رہا تھا تو اُس وقت مسلمانوں کے اندر حالات کی نزاکت کا جو احساس نظر آنا چاہیے تھا وہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ چنانچہ اس صورت حال کے پیش نظر حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۲۹؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ایک لیکچر دیا۔ جس میں مسلمانوں کی اِس حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مومن خوف اور رجاء کے درمیان ہوتا ہے نہ تو اُس پر خوف ہی غالب آتا ہے اور نہ اُس پر امید غالب آتی ہے بلکہ یہ دونوں حالتیں اس کے اندر بیک وقت پائی جانی ضروری ہیں جہاں اس کے اندر خوف کا پایا جانا ضروری ہے وہاں اس کے اندر امید کا پایا جانا بھی ضروری ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ نہ تو وہ خوف کی حدود کو پار کر جائے اور نہ امید کی حدود سے تجاوز کر جائے اور یہی وہ اصل مقام ہے جو ایمان کی علامت ہے یا خوش بختی کی علامت ہے ۔‘‘
حضور کے اِس خطاب کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ خوف اور امید کا درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہیے نیز کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ کے دونوں احکام تدبیر اور تقدیر پر عمل ضروری ہے۔ لہٰذا ان حالات میں کہ جہاں مسلمانوں کو کامیابی کی امید نظر آ رہی ہے وہاں خوف کا پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے اور آخری دم تک تدبیر کو عمل میں لانا چاہیے۔
حضور کا یہ خطاب پہلی بار مؤرخہ ۱۲؍ جون ۱۹۴۷ء کو روزنامہ الفضل قادیان میں شائع ہوا اور اب انوارالعلوم کی جلد ھٰذا میں کتابی صورت میں شائع ہو رہاہے۔
(۳)مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مؤرخہ ۳۰؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں یہ فرمودات ارشاد فرمائے جو مؤرخہ ۱۵؍ ستمبر ۱۹۶۱ء کو پہلی بار روزنامہ الفضل میں شائع ہوئے۔
حضورکے ان فرمودات کا موضوع مولانا رومی کا یہ شعر تھا کہ:۔
ہر بَلَا کیں قوم را حق دادہ اَست
زیر آں گنج کرم بنہادہ اَست
یعنی خدا تعالیٰ کی ایک یہ بھی سنت ہے کہ جب کسی قوم پر کوئی بلا آتی ہے تو اس کے نیچے برکتوں کا ایک مخفی خزانہ ہوتا ہے۔ حضور نے اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ یعنی اس بلا کے آچکنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی برکات ظاہر ہوتی ہیں جو اس قوم کے لئے تقویت کا موجب ہوتی ہیں یہ ایک نہایت سچی بات ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب کبھی مومنوں کو مشکلات اور مصائب وآلام کا سا منا ہوتا ہے تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ ایسی باتیں ضرور ظاہر ہوتی ہیں جو ان کے ایمان میں ازدیاد کا موجب ہوتی ہیں اور صداقت اور شوکت کو ظاہر کرنے والی ہوتی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مصیبت اور مشکل جو آپ کو پہنچی اپنے بعد بے شمار معجزات چھوڑ کر گئی اور اس کے ذریعہ سے مومنوں کے ایمان تازہ ہوئے اور وہ قیامت تک کی نسلوں کے لئے برکت اور رحمت کا موجب ہوں گے۔‘‘
حضور کا یہ روح پرور خطاب پہلی دفعہ اس جلد میں کتابی صورت میں شائع ہو رہا ہے۔
(۴) قومی ترقی کے دو اہم اصول
حضرت مصلح موعود نے یہ ارشادات مؤرخہ ۵،۶؍ جون ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ارشاد فرمائے جو پہلی دفعہ اکتوبر ۱۹۶۱ء کے روزنامہ الفضل میں تین قسطوں میں شائع ہوئے۔ جن کو اب اِس جلد میں پہلی بار کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔
حضور نے اپنے اِن فرمودات میں قومی ترقی کے درج ذیل دو اہم اصول بیان فرمائے ہیں۔
۱۔ اپنے مقصد کی برتری اور کامیابی پر پورا یقین پیدا کرنا چاہیے۔ جب کوئی شخص اس یقین سے لبریز ہو جائے تو اس کے اندر کام کی غیر معمولی طاقت اور قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ جو کامیابی کی ضامن بن جاتی ہے۔
۲۔ قومی ترقی کے لئے دوسری ضروری چیز قوتِ ارادی ہے جو ایمان کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ مگر اس سلسلہ میں یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی قوتِ ارادی اور انسان کی قوتِ ارادی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
(۵) سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل
۱۹۴۷ء میں انگریزی تسلط سے ہندوستان کی آزادی نیز ہندوستان کی تقسیم کا اعلان کچھ ہی دنوں تک متوقع تھا مگر حتمی اعلان سے پیشتر ہی پنجاب کی تقسیم کے متعلق انگریزوں کے عزائم سامنے آ رہے تھے۔ چنانچہ ایسے حالات میں حضرت مصلح موعود نے سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل کے نام سے یہ مضمون تحریر فرمایا جسے ٹریکٹ کی صورت میں شائع کروا کر تقسیم کیا گیا۔ نیز افادۂ عام کے لئے یہ مضمون مؤرخہ ۱۹؍ جون ۱۹۴۷ء کو روزنامہ الفضل قادیان میں بھی شائع کیا گیا۔
اس مضمون میں حضور نے سکھوں کو یہ باور کرانا چاہا کہ پنجاب میں ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے پنجاب کی تقسیم کی صورت میں سب سے زیادہ فائدہ ہندوؤں کو حاصل ہوتا ہے اور سب سے زیادہ نقصان سکھوں کو ہوگا۔ لہٰذا سکھوں کو چاہیے کہ وہ ہندوستان کی بجائے پاکستان کے ساتھ الحاق کریں جس سے اُن کو سراسر فائدہ ہوگا جیسا کہ بعد کے حالات نے ثابت بھی کیا۔ حتّٰی کہ علیحدگی پسند تحریکات نے بھی جنم لیا۔
پس اگر سکھ اُس وقت حضرت مصلح موعود کا یہ مشورہ مان جاتے تو آج اُن کو الگ وطن بنانے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی اور پنجاب کی تقسیم سے سکھوں کو جو معاشی، معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے جو نقصان اُٹھانا پڑا اُس سے وہ محفوظ رہتے۔ مگر افسوس کہ سکھوں نے اس اپیل کو وقعت نہ دی۔
(۶) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام واقعات اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت پیش کرتے ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مؤرخہ ۱۷،۲۵ اور ۲۹؍ جون ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں قرآن کریم کی آیت اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی روشنی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے کئی ایمان افروز واقعات نہایت لطیف پیرایہ میں بیان فرمائے۔ جو افادۂ عام کے پیش نظر ماہ اگست و نومبر ۱۹۶۱ء میں روزنامہ الفضل ربوہ میں ۱۰ قسطوں میں شائع ہوئے تھے۔ جنہیں اب پہلی بار اِس جلد میں کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔
ان لیکچرز کا خلاصہ درج ذیل ہے:۔
۱۔ اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائیدات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام انبیاء میںارفع و اعلیٰ مقام، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام اہم واقعات، اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں۔
۲۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہزاروں واقعات اور ہزاروں ایمان افروز نظاروں کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر نازک موقع پر ہر دکھ اور پریشانی کے وقت آپ کے ساتھ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کا ثبوت دیا۔
۳۔ دل ہِلا دینے والے مصائب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا ایمان پر مضبوطی سے قائم رہنا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی سچائی کا زبردست ثبوت ہے۔
۴۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر نازک موقع پر اللہ تعالیٰ نے اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کا وعدہ اپنی پوری شان کے ساتھ پورا کیا۔
۵۔ اوائل میں ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جانثاروں کی ایک چھوٹی سی جماعت کا قائم ہو جانا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی سچائی کا زبردست ثبوت ہے۔
۶۔ ہر موقع اور ہر مرحلہ پر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر معمولی تائید و نصرت فرمائی۔ جس سے اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی صداقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔
(۷) الفضل کے اداریہ جات
حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۲؍ جون ۱۹۴۷ء تا ۲۳؍ مارچ ۱۹۴۸ء گاہ بگاہ روزنامہ الفضل قادیان ثُمَّ لاہور میں تقسیم ہندوستان سے دو ماہ پیشتر اور چند ماہ بعد بعض اہم معاملات و مسائل پر اداریے لکھے جن میں اُس وقت کے اہم مسائل اور ایشوز پر روشنی ڈالی۔ اس جلد میں ان تمام اداریوں کو یکجائی طور پرکتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔ ان اداریوں کے عناوین حسب ذیل ہیں۔
۱۔ سیاستِ حاضرہ
۲۔ قومیں اخلاق سے بنتی ہیں
۳۔ مشرقی اور مغربی پنجاب کا تبادلۂ آبادی
۴۔ پاکستان کی سیاستِ خارجہ
۵۔ جماعت احمدیہ کے امتحان کا وقت
۶۔ قادیان
۷۔ کچھ تو ہمارے پاس رہنے دو
۸۔ قادیان کی خونریز جنگ
۹۔ سیاستِ پاکستان
۱۰۔ پاکستان کا دفاع
۱۱۔ پاکستانی فوج اور فوجی مخزن
۱۲۔ کشمیر اور حیدر آباد
۱۳۔ کشمیر کی جنگ آزادی
۱۴۔ پاکستان کی اقتصادی حالت
۱۵۔ کشمیر
۱۶۔ کشمیر اور پاکستان
۱۷۔ سپریم کمانڈ کا خاتمہ
۱۸۔ مسٹراٹیلی کا بیان
۱۹۔ صوبہ جاتی مسلم لیگ کے عہدہ داروں میں تبدیلی
۲۰۔ کانگرس ریزولیوشن
۲۱۔ تقسیم فلسطین کے متعلق روس اور یونائیٹڈ سٹیٹس کے اتحاد کا راز
۲۲۔مسلم لیگ پنجاب کا نیا پروگرام
۲۳۔کشمیر کے متعلق صلح کی کوشش
۲۴۔پاکستان اور ہندوستان یونین صلح یا جنگ
۲۵۔ خطرہ کی سُرخ جھنڈی
۲۶۔ قادیان، ننکانہ اور کشمیر
(۸) پاکستان کا مستقبل
حضرت مصلح موعود نے پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے معاً بعد پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ’’پاکستان کا مستقبل‘‘ کے موضوع پر بصیرت افروز لیکچرز دیئے۔ جن میں لاہور کے بڑے بڑے دانشور، سکالرز اور اہل علم حضرات شامل ہوئے۔ اور ان لیکچرز پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ پہلے پانچ لیکچرز مینارڈ ہال لاہور اور چھٹا لیکچر یونیورسٹی ہال لاہور میں ارشاد فرمایا۔
زیر نظر لیکچر مؤرخہ ۷؍ دسمبر ۱۹۴۷ء کو مینارڈ ہال لاہور میں ارشاد فرمایا مگر وقت کی کمی کے باعث اس مضمون کے کئی حصے بیان کرنے سے رہ گئے تھے۔ لہٰذا حضرت مصلح موعود نے اپنی یادداشت پر اس مضمون کو افادۂ عام کے لئے روزنامہ الفضل لاہور میں شائع کروانے کی غرض سے تحریر فرمایا تھا جو مؤرخہ ۹؍ دسمبر ۱۹۴۷ء کو روزنامہ الفضل لاہور میں شائع ہوا۔
حضور نے اپنے اس خطاب میں نباتی، زرعی، حیوانی اور معنوی دولت کے لحاظ سے پاکستان کو کیسے ترقی دی جا سکتی ہے، زرّیں تجاویز اور مشوروں سے نوازا۔
(۹) خدا کے فرشتے ہمیں قادیان لے کر دیں گے
حضرت مصلح موعود نے یہ مختصر خطاب جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ۱۹۴۷ء بمقام لاہور کے موقع پر مؤرخہ ۲۷؍ دسمبر کو جلسہ کا افتتاح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ قادیان سے باہر جماعت احمدیہ کا یہ پہلا جلسہ سالانہ تھا۔ لہٰذا جن حالات میں یہ جلسہ منعقد ہو رہا تھا ان میں جذبات کا بے قابو ہونا قدرتی امر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مصلح موعود کا یہ سارا خطاب قادیان سے محبت و عقیدت کے جذبات سے لبریز تھا اور بڑا ہی جذباتی اور رُلانے والا خطاب تھا۔ حضور نے اس خطاب میں قادیان کے واپس ملنے کی توقع ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ہمارا ایمان اور ہمارا یقین ہمیں بار بار کہتا ہے کہ قادیان ہمارا ہے وہ احمدیت کا مرکز ہے اور ہمیشہ احمدیت کا مرکز رہے گا۔ (انشاء اللہ) حکومت خواہ بڑی ہو یا چھوٹی بلکہ حکومتوں کا کوئی مجموعہ بھی ہمیں مستقل طور پر قادیان سے محروم نہیں کر سکتا اگر زمین ہمیں قادیان لے کر نہ دے گی تو ہمارے خدا کے فرشتے آسمان سے اُتریں گے اور ہمیں قادیان لے کر دیں گے ۔‘‘
(۱۰) تقریر جلسہ سالانہ ۲۸ دسمبر ۱۹۴۷ء (غیر مطبوعہ)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ بصیرت افروز خطاب مؤرخہ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۴۷ء کے جلسہ سالانہ منعقدہ لاہور میں ارشاد فرمایا۔ حضور کا یہ خطاب غیر مطبوعہ تھا جو اب پہلی دفعہ انوارالعلوم کی اِس جلد میں شائع ہو رہا ہے۔حضور نے اس خطاب میں درج ذیل متفرق امور پر روشنی ڈالی ہے۔
۱۔ تفسیر کبیر کی اشاعت میں تأخیر کی وجوہات
۲۔ قرآن کریم کے پہلے دس پاروں کا انگریزی ترجمہ مع تفسیری نوٹس و دیباچہ کی اشاعت کی نوید سناتے ہوئے اس انگریزی تفسیر القرآن کے دیباچہ جو حضورنے خود تحریر فرمایا تھا کے دوسری بعض زبانوں میں شائع کرنے کے پروگرام پرروشنی ڈالی۔
۳۔ پارٹیشن کی وجہ سے احمدی طلباء و طالبات کا جو تعلیمی حرج ہوا اُس پر حضور نے تعلیم کی اہمیت و ضرورت بیان فرمائی۔
۴۔ پارٹیشن کی وجہ سے پیدا ہونے والے فتنوں کے باعث جماعت کے چندے بہت متأثر ہوئے۔ لہٰذا حضور نے افرادِ جماعت کو اپنے چندے بڑھانے کی طرف توجہ دلائی۔
۵۔ تقسیمِ ہندوستان کی وجہ سے لاکھوں احمدی ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے ان کی آباد کاری کے متعلق ہدایات فرمائیں۔
۶۔ حضور نے اپنے اس خطاب میں بعض غیر طبعی اور غیر دینی سکیموں پر محاکمہ کرتے ہوئے آبادی کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اور از روئے قرآن آبادی کی کثرت کو ہی قومی ترقی کا ذریعہ قرار دیا کیونکہ مستقبل آدمیوں سے ہی وابستہ ہوتا ہے۔
۷۔ حضورنے اپنے اس خطاب میں پاکستان بننے کی اہمیت اور ہماری ذمہ داریوں پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔
۸۔ بیرونی مشنوں کی مساعی اور حالات و واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے لندن مشن کی خدمات کا بِالخصوص ذکر فرمایا نیز ایک نو احمدی انگریز مبلغ مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب کا ذکرِ خیر بھی بیان فرمایا اِسی طرح جرمن مشن، ہالینڈ مشن، سوئٹزرلینڈ، امریکہ، شام، فلسطین اور انڈونیشیا کے مشنوں کی مساعی پر روشنی ڈالی۔
۹۔ حضور نے پاکستان میں جماعت احمدیہ کے لئے ایک نئے مرکز کی ضرورت پر زور دیا۔
۱۰۔ حضور نے افراد جماعت کو تجارت اور صنعت میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے ایک تجارتی سکیم سے متعارف کروایا اور تجارت و صنعت میں افرادِ جماعت کو دلچسپی لینے کی ضرورت پر زور دیا۔
۱۱۔ آخر پر حضور نے اس سوال پر روشنی ڈالی کہ قادیان سے ہماری جماعت کو ہجرت کیوں کرنی پڑی؟ اس سلسلہ میں حضور نے فرمایا کہ تذکرہ میں بعض الہامات اور پیشگوئیوں کی روشنی میں مفصّل طور پر وضاحت فرمائی کہ ہماری یہ ہجرت اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق ہے۔
(۱۱) دستورِ اسلامی یا اسلامی آئین اساسی
حضرت مصلح موعود نے قادیان سے لاہور ہجرت کے بعد پاکستان کے مستقبل کے موضوع پر جو چھ لیکچر دیئے۔ زیر نظر لیکچر ان میں سے آخری لیکچر تھا جو حضور نے یونیورسٹی ہال لاہور میں دستورِ اسلامی یا اسلامی آئین اساسی کے موضوع پر دیا۔ یہ لیکچر افادۂ عام کیلئے وکالت دیوان تحریک جدید نے مؤرخہ ۱۸؍ فروری ۱۹۴۸ء کو ایک پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا تھا اور اب دوسری مرتبہ انوارالعلوم کی اِس جلد میں شائع کیا جا رہا ہے۔
اس خطاب میں حضور نے دستورِ اسلامی کی وضاحت کرتے ہوئے اس پہلو پر روشنی ڈالی کہ پاکستان میں کس قسم کا آئین یا دستور نافذ ہونا چاہئے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:۔
’’پس اگر پاکستان کی کانسٹی ٹیوشن میں مسلمان جن کی بھاری اکثریت ہوگی یہ قانون پاس کر دیں کہ پاکستان کے علاقے میں مسلمانوں کیلئے قرآن اور سنت کے مطابق قانون بنائے جائیں گے ان کے خلاف قانون بنانا جائز نہیں ہوگا تو گو اساسِ حکومت کُلّی طور پر اسلامی نہیں ہوگا کیونکہ وہ ہو نہیں سکتا مگر حکومت کا طریق عمل اسلامی ہوجائے گا اور مسلمانوں کے متعلق اس کا قانون بھی اسلامی ہو جائے گا اور اسی کا تقاضا اسلام کرتا ہے۔ اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ہندو اور عیسائی اور یہودی سے بھی اسلام پر عمل کروایا جائے بلکہ وہ بالکل اس کے خلاف کہتا ہے۔‘‘
(۱۲) قیام پاکستان اور ہماری ذمہ داریاں
قیام پاکستان کے بعد حضرت مصلح موعود نے لاہور، کراچی، سیالکوٹ، جہلم، نوشہرہ، مردان اور پشاور میں استحکامِ پاکستان کے موضوع پر متعدد لیکچر ارشاد فرمائے جن میں مسلمانوں کو ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔
چنانچہ زیر نظر لیکچر بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ حضور نے مؤرخہ ۱۸؍ مارچ ۱۹۴۸ء کو تھیوسافیکل ہال کراچی میں لجنہ اماء اللہ کراچی کے زیر انتظام یہ لیکچر ارشاد فرمایا تھا۔ جس میں چھ صد سے زائد احمدی و غیر احمدی خواتین نے شمولیت کی۔ لیکچر کا بنیادی نقطہ خواتین کو ان کے فرائض کی ادائیگی کی طرف متوجہ کرنا اور انہیں قربانی اور ایثار کے لئے سرگرمِ عمل کرنا تھا کیونکہ کوئی قوم عورتوں کے تعاون کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔
اس تقریر میں حضور نے درج ذیل دیگر مضامین پر روشنی ڈالتے ہوئے خواتین کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔
۱۔ یقین کامل کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے۔
۲۔ دنیاوی امور دین کے تابع ہونے چاہئیں۔ اصل زندگی وہی ہے جو شریعت کے قوانین کے تابع گزاری جائے۔
۳۔ اُخروی زندگی برحق ہے اور اصل زندگی اُخروی ہی ہے۔
۴۔ سورۃ الکوثر کی تفسیر کرتے ہوئے عورتوں کو عبادت کرنے اور خدا کی راہ میں قربانیاں دینے کی تحریک فرمائی۔ سورۃ کوثر کی آیت فَصَلِّ لِرَبِّکَ کی تفسیر کرتے ہوئے سورۃ الفلق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ا س سورۃ میں حاسدوں کے حسد سے بچنے کی دعا سکھائی گئی ہے اور سورۃ فلق میں وہ دعا بھی سکھا دی ہے جو ان کے حسد سے بچنے کے لئے ضروری ہے۔
۵۔ حضور نے اس تقریر میں عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’اسلام پر ا س وقت جو نازک دَور آیا ہوا ہے وہ ایسا نہیں کہ مرد اور عورت کی قربانی کے بغیر اس میں سے گزرا جا سکے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہر مرد اور عورت یہ سمجھ لے کہ اب اس کی زندگی اپنی نہیں بلکہ اس کی زندگی کی ایک ایک گھڑی اسلام کے لئے وقف ہے اور اسے سمجھ لینا چاہئے کہ زندہ رہ کر اگر ذلّت کی زندگی بسر کرنی پڑے تو اس سے ہزار درجہ بہتر یہ ہے کہ وہ اسلام کی خاطر لڑتا ہوا مارا جائے۔‘‘
حضور کا یہ معرکۃ الآراء لیکچر شعبہ نشرواشاعت لاہور کے زیر انتظام کتابی صورت میں شائع کروایا گیا تھا جسے اب دوبارہ انوارالعلوم کی اس جلد میں شائع کیا جا رہا ہے۔
(۱۳) آسمانی تقدیر کے ظہور کیلئے زمینی جدوجہد بھی ضروری ہے
جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ ۱۹۴۷ء تقسیمِ ہندوستان کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑا تھا۔ حالات کی خرابی، مہاجرین کی آباد کاری اور سواریوں کی عدمِ دستیابی جیسے مسائل کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا کہ جلسہ سالانہ منعقدہ ماہ دسمبر ۱۹۴۷ء میں خواتین شامل نہ ہوں بلکہ مارچ ۱۹۴۸ء میں منعقد ہونے والی مجلس شوریٰ کے ساتھ ایک دن کا اضافہ کرکے جلسہ سالانہ کے دوسرے حصہ کا انعقاد کر کے مستورات کو شامل ہونے کی اجازت دے دی جائے۔ چنانچہ اس پروگرام کے مطابق مؤرخہ ۲۸؍ مارچ ۱۹۴۸ء کو جلسہ سالانہ منعقد کیا گیا جس میں مستورات بھی شامل ہوئیں۔ اس جلسہ کا افتتاح کرتے ہوئے حضور نے یہ لیکچر ارشاد فرمایا تھا جسے روزنامہ الفضل لاہور نے مؤرخہ ۱۸؍ اپریل ۱۹۴۸ء کو افادۂ عام کے لئے شائع کیا تھا۔
اس خطاب میں حضور نے سب سے پہلے تو اِس امر کی طرف توجہ دلائی کہ اجتماع صرف وہی بابرکت ہوتے ہیں جو نیک مقاصد اور نیک ارادوں کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد حضور نے اپنی دو مبشر رؤیا سنائیں جن کی تعبیر میں احمدیت کا مستقبل انتہائی روشن دکھائی دے رہا ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ آمین
(۱۴) تقریر جلسہ سالانہ ۲۸؍ مارچ ۱۹۴۸ء
حضور نے یہ خطاب جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۴۷ء کے تتمہ کے طور پر منعقد ہونے والے جلسہ مؤرخہ ۱۸؍ مارچ ۱۹۴۸ء کو لاہور کے دوسرے سیشن میں ارشاد فرمایا تھا۔
اس خطاب میں حضور نے بیرونی جماعتوں بِالخصوص امریکہ، ہالینڈ اور جرمنی میں جماعتی ترقی اور مساعی کا مختصرا ًتذکرہ فرمانے کے بعد ’’سیرروحانی‘‘ کے مضمون کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ایک عظیم الشان مینار ہے جو قیامت تک روشنی دیتا چلا جائے گا۔ قادیان کا مینار دراصل تصویری زبان میں ہمارا یہ اقرار ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آج سے ہمارے مہمان ہیں اور آپ کے لئے ہم پر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں۔‘‘
(۱۵) آخر ہم کیا چاہتے ہیں
حضرت مصلح موعود نے یہ بصیرت افروز مقالہ پارٹیشن کے بعد تحریر فرمایا جو مؤرخہ ۱۵؍مئی ۱۹۴۸ء کو روزنامہ الفضل لاہور میں شائع ہوا اور بعد ازاں مہتمم نشرواشاعت لاہور کے زیراہتمام پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا گیا۔
اس مقالہ میں حضور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی طرف توجہ دلائی کہ عَلَی الْاِنْسَانِ اَنْ یُّحِبَّ لِاَخِیْہِ مَایُحِبُّ لِنَفْسِہٖ یعنی انسان کو چاہیے کہ وہ جو کچھ اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کرے۔ ہمارے تمام مسائل کا حل اِسی اصول میں پنہاں ہے۔ اگر ہم اپنے اندر یہ روح پیدا کرلیں تو ہمارے تمام مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔
(۱۶) اَلْکُفْرُمِلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ
۱۶؍ مئی ۱۹۴۸ء کو جب استعماری طاقتوں نے اپنی سیاسی مصالح کی تکمیل کے لئے فلسطین کو ناجائز طور پر تقسیم کرا کے اسرائیلی حکومت کی بنیاد رکھوائی تو اُس وقت حضرت مصلح موعود نے اپنی دور بین نگاہ سے مستقبل میں پیش آمدہ حالات و واقعات اور ان کے نتائج کو بھانپ لیا تھا چنانچہ آپ نے اُس وقت اس عنوان کے تحت ایک فکرانگیز اور بصیرت افروز مضمون رقم فرمایا جو ۳۱؍مئی ۱۹۴۸ء کے روزنامہ الفضل میں شائع ہوا۔ اِس مضمون میں آپ نے انتہائی دردمندانہ رنگ میں عالَمِ اسلام کو توجہ دلائی تھی کہ وہ عرب کے عین قلب میں ایک یہودی حکومت کے قیام کے نقصانات کو محسوس کریں اور آپس کے اختلافات کو دور کر کے متحد ہو جائیں اور صیہونیت کے خطرناک عزائم کا مقابلہ کرنے کے لئے مال اور جان کی ہر ممکن قربانی پیش کریں۔ اس مضمون کا عربی ترجمہ کرکے وسیع پیمانہ پر شائع کیا گیا اور عرب پریس نے اس مضمون کو بہت اہمیت دی اور مصنف کا شکریہ ادا کیا اور اس کے مندرجات پر تعریفی تبصرے لکھے۔ چنانچہ دمشق سے شائع ہونے والے شام کے مشہور اخبار ’’النھضۃ‘‘ نے اپنی ۱۶؍ جولائی ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں اس مضمون کا خلاصہ درج کرنے کے بعد لکھا کہ:۔
’’یہ لیکچر بہت عمدہ ہے اور مسلمانوں اور فلسطین کے حق میں بہت اچھی آواز ہے ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دین متین کے بارے میں ہماری تمناؤں اور مصنف کی نیک آرزوؤں کو پورا کرے اور اللہ اِس بلند مقاصد میں ہماری پشت پناہی فرمائے‘‘۔
اس کے علاوہ عالمِ اسلام کے متعدد اخبارات نے بھی اس مضمون پر بہت زور دار ریویو لکھے اور عالَمِ اسلام کو بروقت انتباہ کرنے پر حضور کا شکریہ ادا کیا۔
(۱۷) مسلمانانِ بلوچستان سے ایک اہم خطاب
حضرت مصلح موعود۱۴؍ جون ۱۹۴۸ء کو دورہ پر کوئٹہ تشریف لے گئے۔ جماعت احمدیہ کوئٹہ نے حضور کے اِس دورہ کو غنیمت جانتے ہوئے ہر ممکن استفادہ کی کوشش کی۔ چنانچہ جماعت کوئٹہ نے حضور کے اعزاز میں ایک دعوتِ عصرانہ کا اہتمام کیا۔ جس میں حضور نے یہ خطاب فرمایا۔ یہ خطاب پہلی دفعہ مؤرخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۶۲ء کو روزنامہ الفضل ربوہ نے شائع کیا۔ حضور نے اس عظیم الشان تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ ملک میں اسلامی آئین نافذ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر مسلمان پہلے اپنے نفس پر اسلامی احکام جاری کرنے کی کوشش کرے اپنے آپ کو سچا اور حقیقی مسلمان بنائے بغیر کبھی ہمیں اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل نہیں سکتی۔
(۱۸) پاکستان ایک اینٹ ہے
اُس اسلامی عمارت کی جسے ہم نے دنیا میں قائم کرنا ہے
سیدنا حضرت مصلح موعود نے پاکستان بننے کے معاً بعد ’’پاکستان کا مستقبل‘‘ کے موضوع پر لاہور میں چھ لیکچر ارشاد فرمائے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد حضور مغربی پاکستان کے دوسرے متعدد مرکزی شہروں میں تشریف لے گئے اور پاکستان کے ہزاروں باشندوں کو استحکامِ پاکستان کے موضوع پر اپنے بصیرت افروز خیالات اور تعمیری افکار سے روشناس کرایا۔
جون ۱۹۴۸ء میں حضور کوئٹہ تشریف لے گئے اور کوئٹہ میں نہایت معلومات افزاء اور روح پرور پبلک لیکچر فرمائے۔ جن میں پاکستان کو پیش آمدہ اہم ملکی مسائل میں اہل پاکستان کی راہنمائی کرتے ہوئے نہایت شرح و بسط سے انہیں اپنی قولی و ملی ذمہ داریوں کی بجا آوری کی طرف توجہ دلائی اور اپنے پُرجوش اور محبت بھرے الفاظ میں بے پناہ قوتِ ایمانی اور ناقابلِ تسخیر عزم و ولولہ سے لاکھوں پژمُردہ اور غمزدہ دلوں میں زندگی اور بشارت کی ایک زبردست روح پھونک دی۔
زیر نظر خطاب حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۴ جولائی ۱۹۴۸ء کو ٹاؤن ہال کوئٹہ میں پاکستان اور اس کے مستقبل کے موضوع پر ارشاد فرمایا۔ جسے پہلی دفعہ افادۂ عام کیلئے مؤرخہ ۲۳ مارچ ۱۹۵۲ء کو روزنامہ الفضل لاہور میں شائع کیا گیا اور اب جلد ھٰذا میں شائع ہو رہا ہے۔
٭…٭…٭
زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کی خوبیاں
اور اُن کا پس منظر
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کی خوبیاں اور اُن کا پس منظر
( فرمودہ ۲۶،۲۷ مئی ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
مکرم السید منیر الحصنی صاحب نے ۲۱؍ مئی بعد نماز مغرب زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کے مناقب کے موضوع پر عربی میں تقریر کی تھی مگر چونکہ وقت کم رہ گیا تھا اس لئے دوستوں کو سوالات کا موقع نہ مل سکا۔ ۲۶؍ مئی بعد نماز مغرب جب مجلس منعقد ہوئی تو حضور نے فرمایا:۔
میں دو تین دن سے نزلہ وزکام سے بیمار ہوں اس لئے آج کچھ زیادہ بول نہیں سکتا۔ السید منیر الحصنی صاحب کا لیکچر تو اُس روز ہو گیا تھا مگر سوالات کا حصہ رہ گیا تھا اِس کے متعلق دوستوں کو اب موقع دیا جاتا ہے اگر دوستوں نے کچھ سوالات کرنے ہوں تو وہ کر سکتے ہیں۔
(اس پر تین دوستوں نے سوالات کئے اور معزز لیکچرار نے ان کے جوابات دیئے اس کے بعد حضور نے فرمایا۔)
مجلس میں بہت سے لوگ ایسے بھی بیٹھے ہیں جو عربی نہیں جانتے اور وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکے ہوں گے کہ سوال کرنے والوں نے کیا سوالات کئے ہیں اور جواب دینے والے نے کیا جوابات دیئے ہیں مجھے نزلہ کی شکایت تو ہے لیکن مَیں کچھ باتیں آج بیان کر دوں گا اور باقی پھر کسی وقت بیان ہو جائیں گی۔ یہ تقریر جو منیر الحصنی صاحب نے کی ہے اِس کا مفہوم یہ ہے کہ عرب کے لوگوں میں قبل ازاسلام بھی بعض خوبیاں پائی جاتی تھیں اور جن دوستوں نے اعتراضات کئے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ آیا یہ خوبیاں اُن عربوں میں عام تھیں یا خاص۔ اگر یہ خوبیاں ان میں عام پائی جاتی تھیں تو قرآن کریم کی اس آیت کا مفہوم جو ہم لیتے ہیںغلط قرار پاتا ہے کہ ۱؎ اور اگر وہ خوبیاں خاص خاص لوگوں میں پائی جاتیں تھیں تو کچھ خوبیاں تو قریباً ہر قوم میں ہی پائی جاتی ہیں اور اس وجہ سے عربوں کی کوئی خصوصیت باقی نہیں رہتی۔ جہاں تک میں نے سوالات کرنے والے دوستوں اور لیکچرار کے نقطۂ ہائے نگاہ کے متعلق اندازہ لگایا ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں کو ہی غلط فہمی ہوئی ہے۔ نہ تو سوال کرنے والے ان کی تقریر کو صحیح طور پر سمجھ سکے ہیںاور نہ لیکچرار نے ان کے سوالات کو سمجھا ہے اور دونوں غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں۔
مثنوی میں مولانا روم ایک مثال بیان کرتے ہیں کہ کسی جگہ چار فقیر تھے ان میں سے ایک ہندی تھا، دوسرا ایرانی، تیسرا عرب اور چوتھا تُرک۔ وہ چاروں بازار میں اکٹھے ہو کر لوگوں سے خیرات مانگتے رہے مگر کسی نے انہیں کچھ نہ دیا۔ جب شام ہوئی تو کوئی شخص اُن کے پاس سے گزرا اور جب انہوں نے سوال کیا تو اُسے ان کی حالت پر رحم آیا اور اس نے انہیں ایک پیسہ دے دیا مگر چونکہ پیسہ ایک تھا اور فقیر چار تھے اس لئے انہوں نے آپس میں جھگڑنا شروع کر دیا۔ ہندی کہتا تھا میں صبح سے گلا پھاڑ پھاڑ کر سوال کرتا رہا ہوں اس لئے پیسہ میری خواہش کے مطابق خرچ کیا جائے اور اس پیسہ کی داکھ ۲؎ خریدی جائے گی۔ عرب کہنے لگا تم غلط کہہ رہے ہو پیسہ دینے والے نے میری ہی حالت پر رحم کھا کر پیسہ دیا ہے اس لئے پیسہ میری مرضی کے مطابق خرچ ہو گا اور اس کی داکھ نہیں بلکہ عِنَب۳؎ خریدا جائے گا، ایرانی نے کہا تم دونوں غلط کہہ رہے ہو یہ پیسہ میری مرضی سے خرچ ہوگا اور نہ داکھ خریدی جائے گی اور نہ عِنَب بلکہ انگور خریدا جائے گا۔ یہ سن کر ترکی سخت چیں بجبیں ہوا اور کہنے لگا تمہاری تینوں کی رائے غلط ہے۔ یہ پیسہ میری مرضی کے سِواخرچ نہیں ہو سکتا اور اُس نے ترکی زبان میں انگور کا نام لے کر کہا کہ میں وہ خریدنا چاہتا ہوں۔ اس پر انہوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا اور ان میں سے ہر شخص چاہتا تھا کہ میری بات مانی جائے اور میری خواہش کے مطابق چیز خریدی جائے۔ وہ آپس میں جھگڑ ہی رہے تھے کہ ایک شخص پاس سے گزرا جو اُن چاروں کی زبانیں سمجھتا تھا اُس نے پاس کھڑے ہو کر ان کی باتیں سُنیں اور کہاآؤ میں تمہارے جھگڑئے کا فیصلہ کر دوں اور ہر ایک کی خواہش کے مطابق چیز خرید دوں۔ یہ کہہ کر وہ ان کو ساتھ لے گیا اور جا کر انگور خرید دئیے اور وہ سب خوش ہو گئے۔ اصل بات یہ تھی کہ وہ سب ایک ہی چیز مانگ رہے تھے مگر وہ ایک دوسرے کی زبان نہ سمجھنے کی وجہ سے آپس میں لڑ رہے تھے۔ اسی طرح بعض اوقات اختلاف کی بنیاد محض غلط فہمی پر ہوتی ہے اور فریقین آپس میں جھگڑا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ نہ وہ اس کے نقطئہ نگاہ کو سمجھ رہا ہوتا ہے اور نہ وہ اس کے نقطئہ نگاہ کو، اور وہ آپس میں لڑتے چلے جاتے ہیں لیکن اگر ایک دوسرے کے نقطئہ نگاہ کو سمجھ لیا جائے تو اختلافات کی بنیاد اُٹھ جانے سے کوئی مشکل نہیں رہتی۔ مثلاً یہ لاؤڈسپیکر ہے اس کا جو حصہ میرے سامنے ہیں اس پر تارے سے ہیں اور پیچھے والا حصہ سیاہ ہے اگر میں کہہ دوں کہ لاؤڈ سپیکر پر تارے سے ہیں اور آپ لوگ کہنا شروع کر دیں کہ تارے تو نہیں بلکہ یہ تو سیاہ ہے تو باوجود یکہ ہم دونوں ٹھیک کہہ رہے ہوں گے ہم بحث کرتے چلے جائیں گے میں یہ کہتا رہوں گا کہ یہ سیاہ نہیں بلکہ اس پر تارے ہیں اور آپ کہتے رہیں گے ہمیں تو اس پر تارے نظر نہیں آتے ہمیں تو صاف نظر آرہا ہے کہ یہ سیاہ ہے۔ اوربات صرف اتنی ہوگی کہ جدھر میں بیٹھا ہوں اُس طرف تارے ہیں اور جدھر آپ بیٹھے ہیں اُس طرف سے سیاہ ہے۔ نقطئہ نگاہ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جہاں سے کوئی چیز نظر آرہی ہو۔ہر مربعہ چیز کے چھ جِہت ہوتے ہیں آگے پیچھے دائیں بائیں اور نیچے اوپر۔ اگر اس چیز کی چھ کی چھ جہتیں مختلف رنگوں کی ہوں تو جب اس کی مختلف جِہتوں کو مختلف آدمی دیکھیں گے تو لازماً ان کی رائیں مختلف ہوں گی مثلاً اس کی چھ جہتوں پر مختلف رنگ ہیں زرد،سرخ اور پیلا، سیاہ اور سفید تو اب جو شخص زرد حصہ کے سامنے ہوگا وہ کہے گا اِس کا رنگ زرد ہے اور جس شخص کی نظر کے سامنے سرخ حصہ ہو گا وہ کہے گا زرد نہیں ہے اس کا رنگ سرخ ہے، پھر نیلے حصہ کو دیکھنے والا کہے گا تم دونوںغلط ہونہ یہ زردہے نہ سرخ بلکہ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ چیز نیلی ہے۔ اس طرح چھ جہات کو دیکھنے والے مختلف آراء قائم کر یں گے اور ان میں سے ہر ایک سچ بول رہا ہو گا۔اس جھگڑے کو ختم کرنے کا یہ طریق ہو گا کہ سرخ کہنے والے کو سبز حصہ کی طرف لایا جائے اور نیلا کہنے والے کو سرخ اور سبز حصے دکھائے جائیں ورنہ نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ جھگڑتے چلے جائیں گے اور ایک دوسرے کی بات نہیں مانیں گے ان میں سے ہر ایک حق پر بھی ہو گا اور ناحق پر بھی۔ حق پر اس طرح کہ جو حصہ اُسے نظر آرہا ہے وہ واقعی وہی ہے جو وہ کہتا ہے مگر جو حصہ دوسرے کو نظر آرہا ہے وہ بھی واقعی وہی ہے جو دوسرا کہہ رہا ہے۔ پس ہر ایک چیز کی ایک بیک گراؤنڈ ( Back Ground) ہوتی ہے جس کو پسِ پردہ بھی کہا جا سکتا ہے جب تک اسے مدنظر نہ رکھا جائے انسان اصل حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔
اصل بات یہ ہے کہ منیر الحصنی صاحب شام سے آئے ہوئے ہیں اور اِس وقت شام اور لبنان میں ایک تحریک پیدا ہو رہی ہے جس سے وہ متأثر ہیں اور اسی سے متأثر ہو کر انہوں نے یہ مضمون بیان کیا ہے لیکن اِس امر کو میں بعد میں کسی وقت بیان کروں گا پہلے میں پس پردہ والے حصہ کو لیتا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں کہ وہ کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عرب میں کچھ عیسائی آباد ہیں اور کچھ مسلمان، عیسائی کم ہیں اور مسلمان زیادہ ہیں۔ جب عربوں کا ترکوں کے ساتھ اختلاف ہوا اور عربوں نے دیکھا کہ ترک ہمیشہ ہم پر مظالم کرتے آئے ہیں اور انہوں نے ہماری آزادی کی راہ میں رُکاوٹیں ڈالی ہیں تو ان کے اندر حریت اور آزادی کی روح بیدا رہوئی۔ سیاسی طور پر جب کسی ملک میں آزادی کی روح پیدا ہو تو وہ ساری قوموں کے اتحاد کی خواہاں ہوتی ہے۔جب عربوں کے اندر آزادی کی روح پیدا ہوئی اور اُنہوں نے بِلالحاظ مذہب وملت ایک ہونا چاہا تو جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف مستقبل کے حالات پر نظر کر کے قومیں ایک نہیں ہو سکتیں بلکہ اتحاد کے لئے ماضی کی روایات پر بھی حصر کیا جاتا ہے اور پُرانی باتوں کو تاریخوں سے نکال نکال کر کہا جاتا ہے کہ ہم ایک ہیں اس لئے ہمیں دشمن کے مقابلہ میں متحد ہو جانا چاہئے۔ یہی تحریک ہندوستان کے لوگوں میں بھی پیدا ہوئی اور انہوں نے انگریزوں کے خلاف متحد ہوناچاہا اور اتحاد کی کوشش کی گئی۔مگر بجائے اس کے کہ ہندو مسلمانوں کے ساتھ رواداری سے پیش آتے اور ایک قوم بننے کی کوشش کرتے انہوں نے مسلمانوں کے بزرگوں کی عیب چینی شروع کر دی اور ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے اس لئے اتحاد نہ ہو سکا کیونکہ کسی قوم کے بزرگوں کی عیب چینی کرنے سے کب اتحاد ہو سکتا ہے۔ جو جڑ ماضی میں اکٹھی رہی ہو اُس کی شاخیں بھی اکٹھی رہ سکتی ہیں اور اگر جڑ ہی علیحدہ ہو تو شاخیں کس طرح اکٹھی ہو سکتی ہیں۔ اگر ایک قوم اپنے آپ کو الگ قرار دے دے اور دوسری الگ تو اتحاد کس طرح ہو سکتا ہے۔ عرب کے متعصّب عیسائی پادریوں نے جب دیکھا کہ اتحاد کی کوششیں ہو رہی ہیں تو انہوں نے اس سے ناجائز فائدہ اُٹھانا چاہا اور انہوں نے یہ کوششیں شروع کر دیں کہ عرب چاہے متحد ہو جائے لیکن عیسائیت کو غلبہ حاصل ہو جائے۔ چنانچہ میں نے اِسی قسم کے متعدد پادریوں کی بعض کتابیں پڑھی ہیں جن میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کے کوشش کی ہے کہ عربی زبان اصل میں اریمک یعنی آرامی زبان ہے اور اسی زبان کی مدد سے عربی زبان نے ترقی اور ارتقاء حاصل کیا ہے۔ ان عیسائی مصنفین نے عربی الفاظ اریمک زبان کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی ہے مثلاً اِستفعالکا لفظ ہے، انہوں نے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ است اریمک لفظ ہے اور اسی سے عربوں نے اِستفعال بنالیا ہے یا ان اریمک لفظ ہے اور اسی سے عربوں نے اِنفعال بنا لیا ہے حالانکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس موضوع پر بحث فرمائی ہے حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان اپنے اندر بہت بڑا فلسفہ رکھتی ہے اور یہ فلسفہ کسی اور زبان میں نہیں پایا جاتا۔ مثلاً دوسری زبانوں میں الفاظ زبان کی اصل ہیں لیکن عربی زبان میں الفاظ نہیں بلکہ حروف زبان کی اصل ہیں۔ شرب عربی زبان میں پینے کو کہتے ہیں۴؎ مگر یہ معنی شرب کے نہیں بلکہ ش ر ب کے ہیں چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ش ر ب کسی ترتیب سے عربی میں آجاویں ان کے مرکزی معنی قائم رہیں گے خواہ ش ر ب ہو، خواہ ش ب ر ہو، خواہ رب ش ہو۔غرض ہر حالت میں مرکزی معنی قائم رہیں گے گویا عربی زبان میںحروف، ترتیب حروف اور حرکاتِ حروف کے مجموعہ سے لفظ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ قاعدہ ایسا ہے کہ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے جب قدیم ترین زبانوں کو دیکھا جائے تو قاعدہ ابدال کے مطابق تغیرات کے ساتھ ہزاروں ایسے الفاظ ان میں پائے جاتے ہیں جو اصل میں عربی ہیں اور چونکہ ان لفظوں کو نکال کر وہ زبانیں بالکل بے کار ہو جاتی ہیں اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ وہ زبانیں مستقل نہیں بلکہ عربی سے ہی متغیر ہو کر بنی ہیں لیکن انہوں نے اریمک زبان کو عربی زبان پر فضلیت دینے کے لئے یہ کہہ دیا کہ عربی زبان نقل ہے اریمک زبان کی، جو درحقیقت یہودیوں کی زبان تھی۔ دوسری تدبیر انہوں نے یہ کی کہ یہ کہنا شروع کر دیا کہ عرب کے مشہور اور اعلیٰ درجہ کے تمام شعراء عیسائی تھے۔ چنانچہ اس کے ثبوت میں انہوں نے قیس اور اخطل اور دوسرے شعراء کے نام پیش کر دئیے اور کہا کہ عرب کے اعلیٰ درجہ کے شاعر سب عیسائی تھے اور انہوں نے ہی عربی زبان کو معراجِ کمال تک پہنچایا ہے۔ گویا اس وجہ سے کہ مسلمان چاہتے تھے ہم ترکوں کے مقابلہ میں متحد ہو جائیں عیسائی پادریوں نے جو سخت متعصّب تھے سمجھا کہ اس سے زیادہ اچھا موقع عیسائیت کے غلبہ کا اور کوئی ہاتھ نہ آئے گااور یہ ایسا وقت ہے کہ ہم جو کچھ بھی کہیں گے مسلمان قبول کرتے جائیں گے اور ہماری کسی بات کی تردید نہیں کریں گے۔ اُس وقت حالت بالکل ایسی ہی تھی کہ اگر مسلمان عیسائیوں کی ان باتوں کی تردید کرتے اور کہتے کہ شعراء تمہارے نہیں بلکہ ہمارے اچھے ہیں تو آپس میں اُلجھ کر رہ جاتے اس لئے مسلمانوں نے اِسی میں اپنی بھلائی سمجھی کہ ان کی کسی بات کی نفی نہ کی جائے تاکہ یہ ہم سے خوش ہو جائیں۔ پس مسلمانوں کی اِس مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے متعصب عیسائیوں نے اپنی کتابوں میں بے حد مبالغہ سے کام لیا اور یہ ثابت کرنا چاہا کہ عربی لغت اریمک کی ممنونِ احسان ہے اور عربی زبان میں جس قدر ترقی ہوئی ہے وہ عیسائی شعراء کے ذریعہ ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابتدائی زمانہ میں شاعری ابھی پورے طور پر مدون نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے عرب شعراء کے کلام میں بعض اوقات وزن کے لحاظ سے اس قسم کی غلطیاں ہو جاتی تھیں جیسے اردو میں کوئی شخص جمال اور جلال کہتے کہتے چنار کہہ جائے مگر بعد کا ارتقاء یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ اس ارتقاء میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں۔
اگر غور سے کام لیا جائے تو ہمیں یہی نظرآتا ہے کہ مسلمانوں نے زبان کو اعلیٰ درجہ کے نقطئہ کمال تک پہنچایا ہے چنانچہ اسی وجہ سے متعصب عیسائیوں کے مقابلہ میں خود عیسائیوں اور مسلمانوں کے اندر ایک اور طبقہ پیدا ہوگیا۔ متعصب عیسائی تو یہ کہتے تھے کہ ترقی اور ارتقاء ختم ہو گیا ہے عیسائی شعراء پر۔ مگر درمیانی طبقہ کے عیسائی کہتے تھے کہ ترقی اور ارتقاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی جاری رہا۔ اسی طرح مسلمانوں کا طبقہ تو کہتا تھا کہ ترقی اور ارتقاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی تھا اور عربوں میں بھی یہ خوبیاں پائی جاتی تھیں گویہ ارتقاء بعد میں بھی جاری رہا چنانچہ بعض عیسائیوں نے اس کے متعلق کتابیں بھی لکھی ہیں کہ ارتقاء اسلامی تمدن کے وقت بھی جارہی رہا ،یہ درست نہیں کہ مسلمانوں نے زبان میں کوئی اصلاح اور تجدید نہیں کی۔ غرض ایک حصہ عیسائیوں کا اور ایک حصہ مسلمانوں کا اس نقطئہ نگاہ پر متفق ہوگیا کہ اسلام سے پہلے بھی عربوں میں خوبیاں پائی جاتی تھیں اور بعد میں بھی یہ خوبیاں جاری رہیں اور اس کی وجہ خالص سیاسی اتحاد تھا۔ عیسائیوں نے اس امر کو تسلیم کر لیا کہ اسلام کے آنے پر بھی ترقی اور ارتقاء جاری رہا اور مسلمانوں نے تسلیم کر لیا کہ اسلام سے پیشتربھی عربوں میں خوبیاں موجود تھیںپس یہ ہے اس موضوع کا پس منظر۔باقی رہا اصل سوال تو وہ یہ ہے کہ اگر اسلام سے پیشتر بھی عربوں کے اندر خوبیاں پائی جاتی تھیں تو اسلام کی فوقیت اور اُس کا مَابِہِ الْاِمتیاز طُرّہ کیا ہوا؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ کسی قوم کے اندر بعض خوبیاں چاہے وہ قومی ہوں یا انفرادی پایا جانا اور بات ہے اور ایک ایسی خوبی اس کے اندر ہونا جو اُسے تمام دنیا کا اُستاد بنا دے اور بات ہے۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ عربوں کے اندر پہلے کوئی خوبی نہ تھی اور نہ ہی کا یہ مفہوم ہے کہ اسلام سے پہلے عربوں میں کوئی خوبی نہ تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ خوبیاں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک تو ہوتا ہے ذاتی کیریکٹر یعنی ہر قوم اپنے حالات کے لحاظ سے ایک چیز کو لے لیتی ہے اور اس پر عمل کرنا شروع کر دیتی ہے۔ مثلاً حدیثوں اور تاریخوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرب قوم اسلام سے پہلے بھی مہمان نواز تھی مگر ہم دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی کا نزول ہوا اور آپ گھبرائے ہوئے گھر پہنچے اور حضرت خدیجہؓ سے فرمایا لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ تو حضرت خدیجہؓ نے کہا کَلاَّ اَبْشِرْ فَوَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَداً اِنَّکَ لَتصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِیْثَ وَ تَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَ تَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ۵؎ یعنی آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ میں کئی خوبیاں پائی جاتی ہیں چنانچہ منجملہ اور خوبیوں کے حضرت خدیجہؓ نے یہ بھی کہا کہ خدا آپ کو اِس لئے نہیں چھوڑے گا کہ آپ مہمان نواز ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیںکہ اِدھر حدیثوں سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ عرب آپ کی بعثت سے پہلے بھی مہمان نواز تھے اُدھر حضرت خدیجہؓ نے آپ کی یہ خوبی بیان کی ہے کہ آپ مہمان نواز ہیں جب سارا عرب مہمان نوازی کرتا تھا تو حضرت خدیجہؓ نے امتیازی رنگ میں آپ کی مہمان نوازی کا ذکر کیوں کیا۔ حضرت خدیجہؓ نے آپ کی یہ خوبی اسی لئے بیان کی کہ یہ آپ کو دوسرے عربوں پر ممتاز کر دیتی تھی۔ یوں تو مہمان نوازی عربوں میں عام پائی جاتی تھی اور حاتم طائی کے متعلق بھی بہت سی باتیں مشہور ہیں چنانچہ کہتے ہیں کہ کوئی شخص اس کے پاس ایسی حالت میں پہنچا جبکہ وہ ایک سفر میں تھا جب اُس نے دیکھا کہ میرے پاس اور کوئی چیز مہمان کو کھلانے کے لئے نہیں ہے تو اس نے اپنی اونٹی ذبح کر دی جس پر وہ سفر کر رہا تھا۔ پس جب عربوں میں بھی مہمان نوازی پائی جاتی تھی تو اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ عربوں کی مہمان نوازی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان نوازی میں کیا فرق ہوا۔ عربوں کے اندر یہ خوبی پائے جانے کے باوجود حضرت خدیجہؓ آپ سے کہتی ہیں کہ آپ کے اندر مہمان نوازی کی خوبی بھی پائی جاتی ہے جو عربوں میں نہیں ہے حالانکہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے عربوں کی مہمان نوازی کا ذکر فرمایا ہے فرماتا ہے ۶؎ یعنی وہ فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں نے اپنی قوم کے لئے ڈھیروں ڈھیر روپیہ خرچ کیا ہے۔
پس عرب لوگ فخر کیا کرتے تھے کہ ہم مہمان نواز ہیں مگر ان کی مہمان نوازی کے پیچھے جو روح کام کرتی تھی اگر اس کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مہمان نوازی بعض حالات کے ماتحت تھی وہ بدوی لوگ تھے اور سفر کرتے رہتے تھے اس لئے وہ اپنے حالات کے ماتحت مجبور تھے کہ یہ خوبی اپنے اندر پیدا کرتے ان کی اس خوبی کے پیچھے یہ روح کام نہ کر رہی تھی کہ ان کو بنی نوع انسان کی خدمت کا خیال تھا یا بھوکے اور فاقہ مستوںکا پیٹ بھرنے کا خیال تھا اور نہ ہی ان کے دلوں کے اندر یہ جذبہ پایا جاتا تھا کہ وہ خدا کے بندوں کو رزق کھلا رہے ہیں بلکہ ان کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ ہم کھلائیں گے تو کوئی دوسرا ہمیں بھی کھلائے گا اور وہ کھلائیں گے تو ہم بھی کھلائیں گے۔ ہمارے مولوی سید سرور شاہ صاحب یہاں بیٹھے ہیں یہ ہزارہ کے رہنے والے ہیں۔ ان کے ہم وطن جلسہ پر آتے ہیں تو واپس جاتے ہوئے کہتے ہیں کہ لائیے ہمارا کرایہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے علاقہ میں ریل نہیں اور لوگ جنگلوں میں سفر کرتے ہیںاور چونکہ جنگلوں میں ڈاکے اورلُوٹ مار کا خطرہ ہوتا ہے اس لئے لوگ سفر پر جاتے وقت اپنے ساتھ بستر یا نقدی وغیرہ نہیں لے جاتے اور جہاں ان کو شام ہو جاتی ہے وہیں کوئی نزدیک گاؤں دیکھ کر کسی کے گھر چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لاؤ روٹی اور پھر چلتے ہوئے اُس سے اپنی ضرورت کے لئے روپیہ بھی لے لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے علاقہ میں ہرشخص کے گھر میں بیسوں بستر اور چارپائیاں موجود ہوتی ہیں اور ہر شخص سمجھتا ہے کہ خواہ کتنے بھی مہمان آجائیں اُن کو روٹی اور بستر دینا میرا فرض ہے۔ ان لوگوں نے اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے آپس میں یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ سفر کی حالت میں زید مجھ سے روپیہ لے جائے گا تو میں اس سے روپیہ لے آؤں گا اپنے گھر سے ساتھ کچھ نہیں لے جائیں گے۔ اب اگر کوئی شخص ان باتوںکو مناقب ہزارہ کے طور پر بیان کرنے لگ جائے تو کہاں تک درست ہو سکتا ہے۔ یہ تو ان کا قومی کیریکٹر ہے جو مخصوص حالات نے پیدا کیا ہے اور وہ اس کے لئے مجبور ہیں کیونکہ اس کے سِوا ان کا کام چل ہی نہیں سکتا ان کا یہ خُلق طبعی اور اقتصادی حالات سے پیدا ہوا ہے مگر ہم اسلامی تعلیم کی روشنی میں اس کا نام خُلق نہیں رکھ سکتے زیادہ سے زیادہ اس فعل کو حسین کہہ سکتے ہیں مگر خُلق فاضل نہیں کہہ سکتے۔ خُلق وہ ہوتا ہے جو الٰہی حکم کے ماتحت ہو اوراعلیٰ مقاصد کو اپنے اندر لئے ہوئے ہو ۔
پس بے شک عربوں کے اندر مہمان نوازی تھی مگر وہ اسی قسم کے اقتصادی حالات کے ماتحت تھی اور وہ مجبور تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل چونکہ وہ اعلیٰ مقاصد اپنے اندر لئے ہوئے تھا اس لئے آپ کا یہ فعل ایک نئی چیز بن گئی اور یہ فعل خُلق کہلایا۔ بعض اوقات انسان کسی چیز کی شکل اور اس کے بیرونی حصہ کو دیکھ کر اس کی خوبیوں کے متعلق غلط اندازہ لگالیتا ہے اور بعض دفعہ ایک چیز کو وہ اعلیٰ سمجھتا ہے لیکن وہ نہایت ناقص ہو تی ہے۔ میرے پاس حال ہی میں ایک رسالہ امریکہ سے آنا شروع ہوا ہے جو کسی دوست نے میرا نام لگوادیا ہے اس میں تین تصویریں دکھائی گئی ہیں اور ساتھ لکھا ہوا ہے کہ ان کی شکلیں دیکھ کر بتایا جائے کہ ان میں سے اچھا کون ہے اوربُرا کون۔ اور دوسرے صفحہ پر ان کی اصل حقیقت کو پیش کیا گیا ہے۔ میں نے بھی ان تصویروں کو دیکھ کر اندازہ لگانا شروع کیا تو جس تصویر کے متعلق میں نے اندازہ لگایا تھا کہ یہ نہایت شریف ہے اس کے متعلق دوسری طرف پڑھا تو لکھا تھا کہ یہ مشہور ڈاکوہے اور جس کے متعلق میں نے اندازہ لگایا تھا کہ یہ ڈاکو ہے اس کے متعلق لکھا تھا کہ یہ پرلے درجہ کا شریف انسا ن ہے۔ عام طور پر خونریزی اور فساد کرنے والے لوگوں کے چہرے خراب ہو جاتے ہیں مگر بعض لوگوں نے فن بنایا ہوتا ہے کہ باوجود اس قسم کے افعالِ قبیحہ کے ان کے چہرے خراب نہیں ہوتے۔ اس رسالہ والوں نے بھی لاکھوں ڈاکوؤں میں سے ایک کو چن کر دِکھا دیا جس کا چہرہ شریفوں والا نظر آتا تھا اور لاکھوں شریفوں میں سے ایک کو چن لیا جس کاچہرہ باوجود شرافت کے شرارت ظاہر کرے چنانچہ میں نے ان تصاویر کے متعلق جس قدر اندازے لگائے ان میں سے اکثر غلط نکلے۔ اب دیکھو تصویر کو دیکھ کر انسان اندازہ لگاتا ہے کہ شکل تو اچھی ہے مگر حقیقت یہ ہوتی ہے کہ شکل والا خود اچھا نہیں ہوتا۔ پس فعل حسن اور چیزہے اور اخلاق اور چیز ہے۔ کوئی فعل اپنی ذات میں اچھا ہو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا گیا ہو تم ہم اس کو تو خُلق کہیں گے لیکن جو فعل اپنی ذات میں تو اچھا ہو لیکن مجبوری کے ماتحت ہو تو گو وہ فعل حسن کہلائے گا لیکن خُلق نہیں کہلاسکتا ۔اسی طرح بعض افعال بظاہر بُرے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت وہ اچھے ہوتے ہیں۔ مثلاً میں نے پہلے بھی بار ہا بیان کیا ہے کہ باپ کے سر پر جُوتی مارنا بہت بڑا گنا ہ ہے لیکن اگر کوئی شخص دیکھے کہ باپ کے سر پر سانپ چڑھ رہا ہے اور اُس کے پاس اُس وقت سوائے جوتی کے اور کوئی چیز موجود نہ ہو جو سانپ کو ماری جائے اور وہ جُوتی ہی اُٹھا کر باپ کے سر پر مار دے تو اس کا یہ فعل بُرا نہ ہوگا بلکہ اچھا ہوگا کیونکہ اگر وہ جُوتی نہ مارتا تو سانپ اس کے باپ کو ڈس لیتا اور وہ ہلاک ہو جاتا۔ اسی طرح ہمیں عربوں کی مہمان نوازی کے متعلق یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کن حالات کے ماتحت تھی آیا وہ کسی قسم کے طبعی یا اقتصادی فوائد کے پیش نظر تھی یا وہ خدا کے حکم کے ماتحت ایسا کرتے تھے اور وہ خدا کے بندوں کو مستحق سمجھ کر رزق کھلاتے تھے اور ان کے پیش نظر اعلیٰ درجہ کے مقاصد تھے۔ ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ وہ اس مہمان نوازی کے لئے مجبور تھے اور ان کے پیش نظر بنی نوع انسان کی خدمت ہر گز نہ تھی۔ اسی طرح اور بھی بہت سی باتیں ایسی ہیں جو بظاہر اچھی نظر آتی ہیں مگر درحقیقت وہ بُری ہوتی ہیں یا بظاہر بُری معلوم ہوتی ہیں مگر درحقیقت وہ اچھی ہوتی ہیں مگر یہ ایک لمبا مضمون ہے جو ایک دن میں ختم نہیں ہو سکتا اس لئے میں پھر کسی وقت اِس کے متعلق بیان کروں گا۔
۲۷؍مئی ۱۹۴۷ء
حضور نے فرمایا:۔
میں کل یہ بیان کر رہا تھا کہ جہاں تک بعض اچھے کاموں کا یا بظاہر اچھے نظر آنے والے کاموں کا سوال ہے عربوں کے اندر بعض خوبیاں ضرور پائی جاتی تھیں مثلاً میں یہ مضمون بیان کررہا تھا کہ عربوں کے اندرا کرامِ ضیف کی صفت تھی یعنی وہ مہمان نوازی کرتے تھے اور یہ صفت ان کے اندر انفرادی نہ تھی بلکہ قومی تھی۔ میں نے کل کے مضمون میں بتایا تھا کہ منیر الحصنی صاحب نے اپنی تقریر میں یہ بیان کیا تھا کہ بعض مناقب عربوں کے اندر پائے جاتے تھے اور معترض نے سوال کیا تھا کہ آیا وہ مناقب عربوں کے اندر شخصی تھے یا قومی اگر تو وہ شخصی تھے تو اس قسم کے مناقب ہر قوم میں پائے جاتے ہیں اور اگر وہ قومی تھے تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے زمانہ کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ اس پر حرف آتا ہے میں نے بتایا تھا کہ کسی اچھی یا بظاہر اچھی نظر آنے والی صفت کے متعلق یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ شخصی ہے یا قومی بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے پس پردہ اس شخص یا قوم کے اندر کون سے جذبات کام کر رہے ہیں۔ مثلاً ہم دیکھیں گے کہ قرآن کریم نے جو نقطہ نگاہ کسی کام کی اچھائی یا بُرائی معلوم کرنے کے لئے پیش کیا ہے اس کے معیار کے مطابق وہ فعل اچھا ہے یا نہیں اگر نہیں تو اس فعل کا کسی قوم کے اندر پایا جانا اخلاقِ فاضلہ نہیں کہلا سکتا اس کا نام زیادہ سے زیادہ ہم فعلِ حسن رکھ سکتے ہیں اور فعلِ حسن کا پایا جاناجس کے پیچھے بعض اغراض کام کر رہی ہوں قرآن کریم اور اسلام کے دعویٰ کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ میں نے اکرامِ ضیف کی مثال دی تھی کہ یہ خوبی عربوں کے اندر عام پائی جاتی تھی اور اس کثرت کے ساتھ تھی کہ گویا یہ صفت ان کے ساتھ وابستہ ہو چکی تھی اور وہ غیرارادی طور پر اس کے لئے مجبور ہو چکے تھے۔ لیکن میں نے بتایا تھا کہ فعلِ حسن اور اخلاقِ فاضلہ میں فرق کیا ہے کسی قوم کے اندر کسی ایسی صفت کا پایا جانا جس کے پیچھے ان کے سیاسی اغراض اور مفاد کام کر رہے ہوں فعلِ حسن تو کہلائے گا لیکن اخلاقِ فاضلہ نہیں کہلا سکتا۔ عربوں کا یہ فعل اس لئے نہ تھا کہ وہ خلقِ خدا کی خدمت کرتے تھے بلکہ وہ اپنے مخصوص حالات کے ماتحت اپنے اقتصادی فائدہ کو مد نظر رکھتے ہوئے مجبور تھے کہ وہ مہمان نوازی کرتے۔ عرب لوگ چونکہ خانہ بدوش تھے اور خانہ بدوشوں کے پاس ہوٹل اور ریسٹورنٹ تو ہوتے نہیں کہ اگر سفر در پیش ہوتو ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں قیام کر لیا جائے ان کی تو یہ حالت تھی کہ آج یہاں اور کل وہاں ایسے علاقہ میں جب سفر کرنا پڑجائے تو سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ کسی قبیلہ کے پاس قیام کیا جائے اور جب کسی قبیلہ کے پاس قیام کیا جائے گا تو اس کے لئے ضروری ہوگا کہ اپنے مہمانوں کے لئے سامان خوردونوش مہیا کرے۔ ایسے علاقہ کے لوگ اگر مہمان نوازی نہیں کریں گے تو ان کے لئے بھی سفر کرنا مشکل ہو جائے گا۔فرض کرو ایک قبیلہ یا خاندان کے الف ب، ج د، ھ و افراد سَو میل کے اندر پھیلے ہوئے ہیں ان کو کبھی نہ کبھی سفر ضرور کرنا پڑے گا۔ کسی کا بیٹا کہیں بیاہا ہوگا اور وہ اس کو ملنے جائے گا، کوئی تجارت کے لئے سفر کرے گا، کوئی سیر کی غرض سے سفر اختیار کرے گا اور کوئی کسی اور غرض کے ماتحت۔ یہی حالت عربوں کی تھی وہ جب ایسے سفر کے لئے نکلتے تھے تو ان کے ساتھ سامانِ خورونوش تو ہوتا نہیں تھا اور نہ ہی کسی جگہ ہوٹل یا ریسٹورنٹ ہوتے تھے کہ ان میں قیام کر لیا جائے ایسی صورت میں یہی ہو سکتا تھا کہ جو قبیلہ رستہ میں آئے اس کے پاس ٹھہر جاتے اور وہ ان کے لئے سامانِ خورونوش مہیا کرتا، ان حالات میں اگر وہ قبیلہ کہہ دیتا کہ ہم کیوں کسی کو روٹی دیں یا بستر دیں تو کل کو اسے بھی سفر کرنا پڑتا اور تکلیف کا سامنا ہوتا۔پس جو مشکلات سفر کے لئے الف کو تھیں وہی ب کو بھی تھیںاسی طرح وہی مشکلات ج، د، ہ اور و کو بھی تھیںاگر الف اپنے مہمانوں کو کھانا کھلانے سے انکار کر دے مثلاً وہ ب کو کھانا نہ کھلائے تو اس سے صرف ب کو ہی تکلیف نہ ہوگی بلکہ کل کو ا لف کو بھی ہوگی پس ان حالات میں لازمی طور پر الف مجبور ہے کہ ب ج د ہ اور و کے آدمیوں کی مہمان نوازی کرے ب مجبور ہے الف ج د ہ اور و کے آدمیوں کی مہمان نوازی کرے ج مجبور ہے الف ب ہ اور و کے آدمیوں کی مہمان نوازی کرے اسی طرح دہ اور و مجبور ہیں کہ وہ اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی کریں۔ اگر الف ب کی مہمان نوازی نہ کرے تو کل ب الف کی نہیں کرے گا پس ان کا یہ فعل فورسنر آف ایوینٹس ( Forces of Events)کی وجہ سے تھا ان کے حالات ہی اس قسم کے تھے کہ وہ اس فعل کے لئے مجبور تھے۔ اگر وہ مہمان نوازی نہ کرتے تو ان کو سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا۔ سامانِ خوردو نوش کوئی شخص اپنے ساتھ لے کر چلتا نہ تھا، ہوٹل اور ریسٹورنٹ ہوتے نہ تھے ایسی صورت میں اگر مہمان نوازی نہ کی جائے تو بہت زیادہ دِقّت پیش آتی ہے۔ پس کسی قوم کا ایسے حالات کے ماتحت کوئی صفت اپنے اندر پیدا کرنا کہ وہ اس کے لئے مجبور ہو اُسے ہم جبری تو کہیں گے بِالا رادہ نہیں کہیں گے اور یہ فعلِ حسن تو کہلائے گا لیکن خُلقِ فاضل نہ ہو گا اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کفار کے ایک قول کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے ۷؎ کہ یہ کس طرح کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیا ہے کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کو کسی نے نہیں دیکھا اس نے اگر مال خرچ کیا ہے اور مہمان نوازی کی ہے تو اپنے مفاد کے پیش نظر اور سیاسی اغراض کے ماتحت اس کوکیا حق ہے کہ ہمارے سامنے کہے کہ میں نے اتنا مال تقسیم کیا ہے اگر اس نے مال تقسیم کیا تو کیا کسی پر احسان کیا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اگر اس نے احسان کیا ہے تو اپنے اوپر نہ کہ کسی دوسرے کے اوپر جیسے ہمارے ملک میں اگر کوئی شخص کشمیر کی سیر کا ارادہ کرے اور اسے کوئی کشمیری مل جائے تو واقفیت پیدا کرنے کے لے کہہ دے گا آئیے بھائی صاحب یا اگر افغانستان جارہا ہو اور کوئی پٹھان مل جائے تو کہے گا آئیے خان صاحب! لیکن اگر اس کا کشمیر یا افغانستان جانے کا ارادہ نہ ہو تو کشمیری یا پٹھان کا واقف بھی نہ بنے گا لیکن جب اسے ضرورت درپیش ہوگی تو وہ بھائی صاحب اور خان صاحب کہتا پھرے گا تاکہ اُسے سفر میں سہولت حاصل ہو اور ہمارے ملک میں تو سفر کی تکلیفیں بھی نہیں ہیں ریل کا سفر ہوتا ہے اور جگہ جگہ ہوٹل اور ریسٹورنٹ ہیں اگر کسی سے واقفیت نہ بھی ہو تو بھی سفر آسانی کے ساتھ طے ہو سکتا ہے مگر کوئی مجبوری نہ ہونے کی صورت میں بھی جب کوئی کشمیر وغیرہ سیرکے لئے جاتا ہے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ وہاںکے کسی آدمی سے واقفیت نکل آئے بلکہ یہاں تک کہ بعض لوگ تو یہاں سے کسی دوست کے ذریعہ چٹھیاں لے جاتے ہیں تاکہ منزلِ مقصود پر پہنچ کر کوئی تکلیف نہ ہو پس جہاں ان حالات میں کہ ہمارے ہاں سفر کرنے میں دشواریاں بھی نہیں ہیں یہ ضرورت پیش آجاتی ہے کہ کسی کے ساتھ واقفیت پیدا کی جائے تو عرب کے لوگ جن کے نہ مکان تھے اور نہ ان کے پاس سامانِ خورونوش ہوتا تھا ان کو تو بدرجہ اَولیٰ یہ ضرورت پیش آنی چاہئے تھی۔ ان کو تو پانی بھی آسانی کے ساتھ میسر نہ آتا تھا اور دور دور سے جا کر پانی لانا پڑتا تھا یہ حالات تھے جن کی وجہ سے وہ قدرتی طور پر مجبور تھے اس بات کے لئے کہ وہ مہمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور یہ ایک قومی لین دین تھا۔ آج الف۔ ب کے ہاں مہمان ہوتا تھا تو کل ب۔الف کے ہاں اس لئے اگر ب الف کی مہمان نوازی میں پس وپیش کرتا تو خود اسے بھی تکلیف ہوتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے وہ کہتا ہے میں نے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیا ہے فرماتا ہے ہم یہ تو نہیں کہتے کہ تم نے مال خرچ نہیں کیا سوال تو یہ ہے کہ تم نے جو مال خرچ کیا ہے وہ کس نیت اور ارادہ کے ساتھ کیا ہے۔
دوسری مثال میں نے کل بھی بیان کی تھی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی باروحی کا نزول ہوا تو آپ گھبرائے ہوئے گھر پہنچے اور حضرت خدیجہؓ سے فرمایا لَقَدٌ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ یعنی میں اپنے نفس کے متعلق ڈرتاہوں کہ جو بوجھ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ڈالا ہے اس میں میرا نفس کہیں کمزوری نہ دکھاجائے اور میں اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ ذمہ داری کو ادا کرنے سے قاصر نہ رہ جاؤں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد نہ بن جاؤں۔ اس کے جواب میں حضرت خدیجہؓ نے منجملہ آپ کی اور صفات اور اخلاقِ فاضلہ بیان کرنے کے ایک خُلقِ فاضل یہ بھی بیان کیا کہ اِنَّکَ تَقْرِی الضَّیْفَ آپ مہمان نواز ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رُسوا نہیں کرے گا۔ حالانکہ حضرت خدیجہؓ جانتی تھیں کہ عربوں کے اندر مہمان نوازی پائی جاتی ہے لیکن پھر بھی کہاکہ کَلاَّ اَبْشِرْ فَوَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَداً اِنَّکَ لَتصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِیْثَ وَ تَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَ تَقْرِی الضَّیْفَ یعنی خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ کے اندر مہمان نوازی کی صفت پائی جاتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ اس بات کو سمجھتی تھیں کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان نوازی اور عربوں کی مہمان نوازی میں فرق ہے۔ مکہ والے اگر مہمان نوازی کرتے تھے تو وہ نذروں اور نیازوں کے لئے کرتے تھے اب بھی چلے جاؤاور دیکھ لو وہ اس طرح مہمان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے۔ جب کوئی جاتا ہے تو اس کو کہتے ہیں آئیے ہمارے ہاں تشریف لائیے یہ آپ ہی کا مکان ہے اور ہمارے ہاں آپ کو ہر قسم کی سہولتیں میسر ہوں گی۔ ایک پنجابی تو ان کی باتوں سے یہ خیال کرے گا کہ یہ کہاں سے ہمارے رشتہ دار نکل آئے کہ اس طرح کھینچ کھینچ کر اپنے گھر لئے جاتے ہیں مگر وہ مہمان کو ساتھ لے جائیں گے اور کھانا وغیرہ کھلانے کے بعد کہیں گے میں مطوف ہوں لائیے میری فیس تب جاکر آدمی کو پتہ چلتا ہے کہ یہ تو اپنی فیس کے لئے ایسا کر رہے تھے ورنہ اس سے پہلے وہ یہی سمجھتا ہے کہ یہ میرے حقیقی رشتہ دار معلوم ہوتے ہیں۔ پُرانے زمانہ میں وہ خود نہ مانگتے تھے بلکہ لوگ ان کو نذریں اور نیازیں دے جاتے تھے مگر اب چونکہ حالات بد ل گئے ہیں اس لئے ان کو مانگنا پڑتا ہے۔ اُس زمانہ میں تو مکہ کے ایک حصہ کا گزارہ ہی نذروں اور نیازوں پر تھا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نذروں اور نیازوں سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کے سفر کرتے تھے کہ آپ کو مجبوراً مہمان نوازی کرنی پڑتی، نہ ہی آپ کو کسی کے ساتھ کوئی سیاسی یا اقتصادی غرض تھی۔ ادھر مکہ والوں کی مہمان نوازی اس غرض کے ماتحت ہوتی تھی کہ اب ہم مہمان نوازی کرتے ہیں جب ہم ان کے پاس جائیں گے تو یہ ہماری مہمان نوازی کریں گے۔ مگر آپ نے تو اس قسم کا سفر ہی کبھی نہ کیا تھا آپ تو غار حرا میں عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے تھے آپ کا تعلق نہ نذر و نیاز سے تھا نہ کسی اور غرض کے ساتھ پس آپ کی مہمان نوازی اور مکہ والوں کی مہمان نوازی میں نمایاں فرق تھا۔ آپ کا یہ فعل صرف خدا تعالیٰ کے لئے تھا اور مکہ والوں کا یا دوسرے عربوں کا یہ فعل اپنے نفس کے لئے اور اپنے حالات سے پیدا شدہ مجبوری کے ماتحت تھا۔ پس اس طرح کسی کو کھانا کھلانا یا مہمان نوازی کرنا کہ کل جب میں اس کے پاس جاؤں گا تو یہ میری مہمان نوازی کرے گا اس کو فعل حسن تو کہا جاسکتا ہے خُلقِفاضل نہیں کہا جاسکتا خلق فاضل وہ ہے جس میں اپنے نفس کا خیال نہ ہو بلکہ وہ فعل صرف خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کیا جارہا ہو۔ پس عربوں کی مہمان نوازی Forces of Events کی وجہ سے تھی ورنہ ان کے مدنظر خدمت خلق یا خدا تعالیٰ کی خوشنودی نہ تھی وہ اپنے حالات گردوپیش سے ایسا کرنے پر مجبورتھے۔ خانہ بدوش قومیں جن میں شہریت نہیں ہوتی لازمی طور پر مہمان نوازی کے لئے مجبور ہوتی ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کے حالات تباہ ہو جائیں۔ عرب لوگ جہاں مہمان نواز ہیں وہاں اگر کوئی شخص ان کے منشاء کے خلاف کچھ کر گزرے تو سخت گیر بھی ہوتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ کوئی ہندوستانی حج کرنے جار ہا تھا کہ راستہ میں ایسی حالت میں کہ اس کے پاس نہ پیسہ تھا اور نہ سامانِ خورونوش اپنے قافلہ سے بچھڑ گیا وہ اِدھر اُدھر کھانے کی تلاش میں سرگرداں تھا کہ اسے ایک عرب کی جھونپڑی نظر آئی وہ اس طرف چلا گیا اور کہا میں بھوک سے نڈھال ہو رہا ہوں اور میرے پاس پیسے بھی نہیں ہیں مجھے کھانا دو وہ عرب غریب آدمی تھا اس کے پاس اور تو کچھ نہ تھا، عرب کے جنگلوں اور صحراؤں میں ایسا ہوتا ہے کہ پانی کی دھاریں زمین کے نیچے بہتی ہیں اور کہیں کہیں زمین کے اوپر آجاتی ہیں اور پھر غائب ہو جاتی ہیں اسی طرح اس عرب کی جھونپڑی کے پاس پانی کی دھار زمین کے اوپر تھی اور اس نے کنال دوکنال ٹکڑے میں تربوز بوئے ہوئے تھے، عرب نے اس میں سے تربوز توڑ کر مہمان کو دینے شروع کئے جو کچاتربوز ہوتا وہ پھینک دیتا اور جو پکا ہوتا وہ مہمان کو دے دیتا۔ جب مہمان کا پیٹ بھر گیا تو عرب تلوار لے کر اس کے سرپر کھڑا ہوگیا اور کہا کھڑے ہو جاؤ وہ ہندوستانی بیان کرتا تھا کہ میں عرب کے اس فعل سے سخت متعجب ہوا کہ پہلے تواس نے مجھے تربوز توڑ توڑ کر کھلائے اور اب یہ تلوار سونت کر میرے سر پر آن کھڑا ہوا ہے۔ چنانچہ ہندوستانی نے پوچھا کیا بات ہے؟ عرب نے کہا بات کیا ہے کھڑے ہو جاؤ۔ وہ کھڑا ہوا تو عرب نے اس کی اچھی طرح سے تلاشی لی اور یہ دیکھ کر کہ اس کے پاس سے کچھ نہیں نکلا چھوڑ دیا اور کہنے لگا میں نے تمہاری مہمان نوازی کے لئے اپنا سارا کھیت تباہ کر دیا تھا مگر میں نے مہمان نوازی کا حق تو ادا کر دیا اب میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم نے جو کہا تھا کہ میرے پاس کچھ نہیں آیا تم نے یہ سچ کہا یا جھوٹ؟ اگر تمہارے پاس سے کچھ نکل آتا تو میں تمہیں ضرور ماردیتا کیونکہ یہی ایک کھیت تھا جس پر میرا اور میرے بیوی بچوں کا گزارہ تھا اور یہ میں نے تمہاری مہمان نوازی کے لئے تباہ کر دیا گویا میں نے اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو اور اپنے بیوی بچوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اسی طرح وزیرستان وغیرہ کے پٹھان سٹرک پر سے گزرتے ہوئے لوگوں کو مار دیتے ہیںاور ان کے مال چھین کر لے جاتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص سڑک سے ہٹ کر ان کے گھر میں پہنچ جائے تو وہ اس کی بڑی آؤ بھگت کرتے ہیں اور مہمان نوازی میں کوئی کسر اُٹھانہیں رکھتے۔ یہ مہمان نوازی تو ہے لیکن مہمان نوازی کی غرض کیا ہے؟ اگر ان کی یہ مہمان نوازی خدا کے لئے ہو توسڑک پرجانے والوں کے لئے بھی ہو۔ مگر نہیں سڑک پر جانے والوں کے وہ کپڑے بھی اُتار لیتے ہیں۔ پس یہ فرق ہے فعلِ حسن اور خُلقِ فاضل میں۔ اسلام جب کہتا ہے کہ عربوں کے اندر کوئی خوبی نہ تھی تو وہ اس نقطئہ نگاہ سے کہتا ہے کہ ان کے اس قسم کے افعال اخلاقِ فاضلہ نہ تھے یہ الگ بات ہے کہ کوئی شخص کہہ دے کہ اسلام کا نقطئہ نگاہ غلط ہے۔ ایسی صورت میں اس بات پر بحث ہوگی کہ یہ نقطئہ نگاہ غلط ہے یاصحیح لیکن اسلام کا نقطئہ نگاہ یہ ہے کہ جو فعل اپنی اغراض کے پیش نظر سیاسی یا اقتصادی مفاد کیلئے کیا جائے اور وہ بظاہر حسین نظر آتا ہو تو وہ فعلِ حسن تو ضرور کہلائے گا لیکن اخلاقِ فاضلہ نہیں کہلا سکتا۔ پس عربوں کے اندر مہمان نوازی کا پایا جانا خدا کے لئے یا خلقِ خدا کی خدمت کیلئے نہ تھا بلکہ وہ ان کے مخصوص حالات کے ماتحت تھا اور وہ اس کے لئے مجبور تھے۔ بے شک ان کا یہ فعل خوبصورت نظر آتا ہے اور ہے بھی خوبصورت لیکن اس کے اندر نیکی کا پہلو نہیں ہے اسی طرح عربوں کے اندر پناہ دینے کا رواج تھا مگر وہ بھی کسی دباؤ کے ماتحت اور مختلف اغراض کو اپنے اندر لئے ہوئے تھا۔ ہمارے ملک کے اندر جنگلات پائے جاتے ہیں چوریا ڈاکو پناہ لینے کے لئے اور پولیس کی نظروں سے بچنے کے لئے جنگلات میں چلے جاتے ہیں یا بڑے بڑے شہروں میں چھپ جاتے ہیں جہاں کئی کئی ماہ تک پولیس ان کا سراغ لگاتی رہے تو بھی ناکام رہتی ہے لیکن عرب کی یہ حالت تھی کہ ہر قبیلہ الگ الگ رہتا تھا۔ ہمارے ملک میں تو یہ حالت ہے کہ جس بڑے شہر میں چلے جاؤ وہاں یہی نظر آئے گا کہ ایک گھر گجرات کے کسی شخص کا ہے، دوسرا سیالکوٹ سے آکر رہ رہا ہے، تیسرا مدراس کا آدمی بسلسلہ ملازمت رہتا ہے، چوتھا بمبئی کا آدمی تجارت کی غرض سے آیا ہوا ہے، پانچوں کلکتہ کا ہے گویا ہمارے شہروں کی آبادی اس طرح مخلوط ہوتی ہے کہ اگر کوئی اجنبی کسی کے پاس آکر ٹھہر جائے تو پتہ ہی نہیں لگ سکتا۔ لیکن عربوں کی حالت اس سے بالکل مختلف تھی وہ قبیلہ وار رہتے تھے اور جب کوئی غیر شخص آجاتا تھاتو وہ کہتے تھے یہ غیر ہے ان لوگوں میں چونکہ لوٹ مار اور جھگڑے ہوتے رہتے تھے اس لئے انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ جب کوئی جُرم کر کے کسی کے پاس پہنچ جائے تو وہ اسے پناہ دے تاکہ کل کو ہم اس کے ہاں پناہ لے سکیں۔
عرب کی لڑائیاں تو مشہور ہیں اور معمولی معمولی باتوں پر قبائل آپس میں اُلجھ جاتے تھے اور کئی کئی سال تک آپس میں جنگیں ہوتی رہتی تھیں اسی طرح عرب کی ایک مشہور جنگ جو عرصۂ دراز تک جاری رہی اس کا آغاز اس طرح ہوا کہ کسی شخص کے کھیت میں ایک کتیا نے بچے دئیے اور کسی دوسرے کی اونٹی چرتے چراتے اِدھر سے گزری اور اس کے پاؤں کے نیچے آکر کتیا کا ایک بچہ مارا گیا۔ کھیت والے نے یہ سمجھ کر کہ یہ کتیا میری پناہ میں تھی جھٹ اونٹنی پر حملہ کر کے اس کی کونچیں کاٹ دیں۔ اونٹنی کے مالک نے جب دیکھا کہ میری اونٹنی کو مارا گیا ہے تو اس نے جا کر اُس مارنے والے کو قتل کر دیا اِس پر طرفین کے قبیلے آگئے اور جنگ شروع ہو گئی اور تاریخوں میں آتا ہے کہ وہ جنگ تیس سال تک جاری رہی۔ اب یہ بھی کوئی عقل کی بات تھی کہ کتیا کا بچہ اونٹنی کے پاؤں کے نیچے آکر مر جانے سے تیس سال تک جنگ لڑی جاتی۔ یہ پناہ دینے کا انتہائی جذبہ تھا جو ان لوگوں میں پایا جاتا تھا مگر دیکھنا تو یہ ہے کہ اس بات کا محرک کیا تھا۔ اس بات کا محرک خدا تعالیٰ کی خوشنودی نہ تھی، دین کی پیروی نہ تھی، اگلے جہان کی بہبودی مدنظر نہ تھی، کوئی نیکی کرنا مقصود نہ تھا اس کی محرک صرف قبائلی زندگی اور ان کا رسم ورواج تھا اور وہ صرف ایسے کاموں سے اپنی عزت بڑھانا چاہتے تھے اور یہ دکھانا مقصود تھا کہ ہم اتنے بہادر ہیں۔
ہمیں ان کے اس رواج میں بعض خوبصورت کام بھی نظر آتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے ایک دفعہ فائدہ اُٹھایا تھا۔ آپ جب سفرطائف سے واپس تشریف لائے تو چونکہ عرب دستور کے مطابق مکہ چھوڑدینے کے بعد اب آپ مکہ کے باشندے نہیں تھے بلکہ اب مکہ والوں کا اختیار تھا کہ وہ آپ کو مکہ میں آنے دیں یا نہ آنے دیں اس لئے آپ نے مکہ کے ایک رئیس مطعم بن عدی کو کہلا بھیجا کہ میں مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہوں کیا تم عرب دستور کے مطابق مجھے داخلہ کی اجازت دیتے ہو۔ مطعم بن عدی اسلام کا سخت دشمن تھا لیکن ایسے حالات میں انکار کرنا بھی بہادر عربوں کی شان اور شرافت کے خلاف تھا اس لئے جب یہ پیغام اس کے پاس پہنچا اور پیغامبر نے اسے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیغام تمہاری طرف بھیجا ہے تو وہ اُسی وقت اُٹھ کھڑا ہوا اور کہا جب محمد( ﷺ) نے کہا ہے تو میرا فرض ہے کہ میں اُن کو پناہ دوں یہ کہہ کر اس نے اپنے پانچوں بیٹوں کو بلایا اور کہا آج میری اور میرے خاندان کی عزت کا سوال ہے تم اپنی اپنی تلواریں نکال لو کیونکہ ہم نے محمد( ﷺ) کو اپنی پناہ میں لے کر شہرمیں داخل کرنا ہے اور یاد رکھو کہ تم خود ٹکڑے ٹکڑے ہو جاؤ مگر محمد(ﷺ) کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے پائے۔ چنانچہ وہ خود اور اس کے پانچوں بیٹے تلواریں ننگی کر کے گئے اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حفاظت میں مکہ میں داخل کیا اور آپ نے اسی حالت میں کعبہ کا طواف بھی کیا۸؎ اس کے بعد وہ لوگ آپ کو گھر پہنچا کر واپس چلے گئے اور پھر آپ کی مخالفت میں سر گرم ہو گئے۔ پس یہ خوبی تو عربوں کے اندر تھی مگر عزتِ نفس کے لئے تھی خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے نہ تھی مگر اسلام دنیا میں اخلاقِ فاضلہ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اسلام کہتا ہے میں تمہیں اس لئے اچھے کاموں کا حکم دیتا ہوں کہ تم نیک ہو جاؤ اسلام کہتا ہے میں تمہیں اس لئے اچھے کاموں کا حکم دیتا ہوں تا تمہاری روحانیت بلند ہو جائے اور اسلام کہتا ہے میں تمہیں اس لئے اچھے کاموں کا حکم دیتا ہوں کہ تم اخلاقِ فاضلہ کے حامل ہو جاؤ۔ مگر عربوں میں یہ بات نہ تھی وہ اس لئے مہمان نوازی کرتے تھے کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور تھے۔ وہ اس لئے پناہ دیتے تھے کہ ہم معزز قرار پائیں پھر عربوں کے اندر بعض برائیاں بھی پائی جاتی تھیں اور میں نے اپنی بعض کتابوں میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ عربوں میں اپنی لڑکیا ں مار دینے کا رواج تھا اور قرآن کریم میں بھی اس بات کا ذکرآتا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارے عربوں میں یہ رواج تھا اگر سب میں یہ رواج ہوتا تو نسل کیسے چلتی اور بچے کس طرح پیدا ہوتے اور وہ شادیاں کس طرح کرتے، اگر سارے ہی اپنی لڑکیوں کو ماردیتے تو کچھ عرصہ کے بعدیقینا ان کی نسل ختم ہو جاتی۔ پس سارے عربوں میں یہ رواج نہ تھا بلکہ صرف دو تین قبیلوں میں یہ بات پائی جاتی تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو قتل کر دیتے تھے اور اس کا محرک یہ امر ہوتا تھا کہ ہم اتنے بڑے آدمی ہیں یا اتنی و جاہت رکھتے ہیں کہ ہم اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے ہم کسی ایسے شخص کو رشتہ دیں جو ہم سے کم وجاہت رکھتا ہو۔ یہ جذبہ تھا جس کے ماتحت وہ بیٹیوںکو قتل کر دیتے تھے اوریہ کام صرف وہی لوگ کرتے تھے جو اپنے آپ کو بہت بڑا امیر کبیر یا خاندانی لحاظ سے رُعب اور دبدبے والا یا اثر و رسوخ کے لحاظ سے بڑا آدمی یا سیاست اور تدبیر کے لحاظ سے سیاستدان اور مدّبر سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ کسی کا ہماری بیٹیوں کا خاوند بننا ہماری ہتک ہے۔ مگر وہ رواج ان میں شاذ تھا عام نہ تھا اور جب یہ شاذتھا تو ساری قوم کی طرف یہ فعل کس طرح منسوب ہو سکتا ہے ۔مگر سوال تو یہ ہے کہ باقی عرب جو یہ فعل نہیں کرتے تھے وہ ان کے اس فعل کو کس نگاہ سے دیکھتے تھے اگر باقی عرب یہ کہتے کہ یہ فعل بُرا ہے تو واقعی ساری قوم کی طرف یہ بات منسوب نہیں ہو سکتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو عرب اس پر عامل نہ تھے وہ بھی دوسروں کے اس فعل کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور وہ بُرا نہیں مناتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ یہ بہت اچھا فعل ہے اس لئے چاہے وہ خود نہ کرتے تھے مگر ان کی پسندیدگی کی وجہ سے یہ فعل ساری قوم کی طرف منسوب کیا جائے گا۔ جیسے کسی قوم کا کوئی ایک شخص چوری کر کے واپس پہنچے اور ساری قوم اس کو شاباش کہے تو گوشاباش کہنے والوں نے خود چوری نہ کی ہوگی مگر شاباش کہنے کی وجہ سے اور چوری کے فعل پر پسندیدگی کا اظہار کرنے کی وجہ سے وہ سب چور کہلائیں گے۔ اسی طرح یہ عیب عربوں میں شاذ تو تھالیکن اس پر عامل نہ ہونے والوں کی پسندیدگی کی وجہ سے یہ فعل ساری قوم کی طرف منسوب ہو گا۔ پس عربوں میں بعض مناقب بے شک پائے جاتے تھے گو میں نہیںکہہ سکتا کہ اس لفظ کے لغۃً کیا معنے ہیں اور عربی زبان میں اسے کن معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں نقب کے معنی ہوتے ہیں گہراچلا جانا اور مناقب کے معنے ہیں ایسی رسوم جو کسی قوم کے اندر گھر کر جائیں اور ان کی روز مرہ زندگی کا جزو بن جائیں۔ بہرحال اگر تو مناقب کے معنی افعالِ حسنہ کے ہیں تو افعالِ حسنہ عربوں کے اندر ضرور پائے جاتے تھے لیکن قرآن کریم کے نقطئہ نگاہ سے جن اَفعال کو اخلاقِ فاضلہ کہا گیا ہے وہ ان میں نہ تھے جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ یہودی کہتے تھے کہ حضرت ابراہیم ؑ یہودی تھے اور عیسائی کہتے تھے کہ حضرت ابراہیم عیسائی تھے لیکن جب حضرت ابراہیم یہودیوں اور عیسائیوں کے پیدا ہونے سے بھی بہت پہلے تھے تو وہ یہودی یا عیسائی کس طرح ہو سکتے تھے، یہ قومیں تو آپ کی وفات کے ایک لمبا عرصہ بعد پیدا ہوئیں۔ یہ تو ایسی ہی بات ہو گی جیسے آج کوئی شخص کہہ دے کہ میرے پڑدادا نے آج سے ایک ہزار سال پہلے ریل بنائی تھی یہ سُن کر ہر شخص اس کی بیوقوفی پر ہنس دے گا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم تو یہودیت سے پانچ چھ سَو سال پہلے اور نصرانیت سے قربیاً بیس سَوسال پہلے تھے پھر یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ آپ یہودی تھے یا نصرانی تھے ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن کریم اخلاقِ فاضلہ کی وہ تعریف کرتا ہے جو تعریف اس سے پہلے کسی مذہب نے نہیں کی اور جب اخلاقِ فاضلہ کی صحیح تعریف سب سے پہلے اسلام نے ہی پیش کی ہے تو عربوں میں اسلام سے قبل اخلاقِ فاضلہ پیدا ہی کس طرح ہو سکتے تھے۔ پس جہاں تک قرآن کی تعریف کا سوال ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ عربوں کے اندر کوئی مناقب نہ تھے لیکن اگر مناقب کے معنی افعالِ حسنہ کیلئے جائیں تو یہ عربوں میں ضرور پائے جاتے تھے اور اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اسلام لانے سے پیشتر سَواونٹ ذبح کر کے غریبوں کو کھلائے تھے آپ نے فرمایا تمہاری اسی نیکی کی وجہ سے تمہیں ہدایت نصیب ہوئی ہے۹؎ پس جو فعل اچھا ہو اُسے اچھا ہی کہنا پڑے گا۔
حاتم طائی گو مسلمان نہ تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی سخاوت کی وجہ سے اس کا اتنا خیال تھا کہ جب ایک دفعہ قیدی آئے تو ان میں ایک عورت بھی تھی اس عورت کے متعلق جب معلوم ہوا کہ وہ حاتم طائی کی بیٹی ہے تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے شرم آتی ہے کہ جو شخص غیروں کے ساتھ اتنا حُسن سلوک کرتا تھا اس کی بیٹی کو قید رکھوں یہ کہہ کر آپ نے اسے آزاد کر دیا۔ حاتم طائی کی بیٹی بھی آپ کی صداقت اور شرافت کی قائل ہو چکی تھے اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ! مجھے بھی شرم آتی ہے کہ میرے باقی ساتھی قید رہیں اور میں رہا ہو جاؤں۔ یہ سُن کر آپ نے باقی قیدیوں کو بھی رہا کرنے کا حکم دے دیا۔۱۰؎ پس حاتم طائی کی نیکی ہی تھی جس کی وجہ سے آپ نے اس کی لڑکی اور اس کی قوم کو رہا کر دیا۔ حکیم بن حزام کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوستی تھی گو ابتداء میں وہ آپ پر ایمان نہ لایا تھا مگر آپ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ حکیم بن حزام جیسا غریبوں سے ہمدردی کرنے والا میں نے نہیں دیکھا۔ آپ کے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے جانے کے بعد وہ ایک دفعہ تجارت کے لئے شام کی طرف گیا تو وہاں اس نے ایک نہایت خوبصورت جبّہ دیکھا، اُسے چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی اور آپ کا اس کے دل میں بڑا احترام تھا اس لئے باوجود کافر ہونے کے اور باوجود کفار کا سردار ہونے کے اس نے وہ جُبّہ آپ کے لئے خرید لیا اور واپس مکہ پہنچا اور پھر مکہ سے اونٹ پر سوار ہو کر آپ کے پاس مدینہ پہنچا اور وہ جُبّہ آپ کی خدمت میں پیش کر کے کہا کہ میں نے جب یہ جُبّہ دیکھا اور مجھے خوبصورت معلوم ہوا تو میں نے سمجھا کہ یہ جُبّہ میرے دوست محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کسی کو نہیں سجے گا۔ مگر آپ نے فرمایا میں کسی مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کر سکتا۔ وہ کہنے لگا میں نے آپ کو یہ جُبّہ پہنچانے کے لئے کتنا لمباسفر اختیار کیا ہے اور میرے یہاں آنے کی سوائے اس کے اورکوئی غرض نہ تھی کہ میں آپ کو یہ جُبّہ پہنچاؤں جو مجھے نہایت خوبصورت نظر آیا تھا۔ آپ نے فرمایا اچھااگر تم یہ جُبّہ مجھے دینا ہی چاہتے ہو تو مجھ سے اس کی قیمت لے لو۔ اس نے کہا میں لایا تو آپ کو مفت دینے کے لئے تھا لیکن اگر آپ مفت نہیں لینا چاہتے اور قیمت ادا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی۔ چنانچہ آپ نے قیمت دے کر وہ جُبّہ اُس سے لے لیا۔ ۱۱؎ حکیم بن حزام کی یہ کتنی دوست پروری تھی کہ وہ شام سے ایک تحفہ آپ کے لئے لایا پہلے مکہ پہنچا اور پھر مکہ سے صرف اس غرض کے ماتحت کہ وہ جُبّہ آپ تک پہنچائے اس نے تین سَو میل کا سفر طے کیا صرف اس وجہ سے کہ یہ جُبّہ میرے دوست محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ہی سجے گا۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ اس فعل کے پیچھے کونسا جذبہ کارفرماتھا۔ اس کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ وہ خدا کے ایک بندے کی خدمت کرنا چاہتا تھاتو یہ بڑے اعلیٰ درجہ کا خُلق ہے لیکن اگر اس کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ میں معزز کہلاؤں تو یہ فعل حسنہ تھا اخلاقِ فاضلہ اس کا نام نہیں رکھ جا سکتا۔
قرآن کریم کہتا ہے خُلقِ فاضل صرف وہی فعل ہو سکتا ہے جس کے پیچھے کوئی طبعی جذبہ نہ ہو، کوئی سیاسی غرض نہ ہو، کوئی اقتصادی مفاد مدنظر نہ ہوں بلکہ صرف خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کوئی کام کیا جائے۔ ایک ماں جب اپنے بچے سے محبت کرتی ہے تو وہ طبعی جذبہ کے ماتحت کرتی ہے اور اپنے بچے سے محبت کرنے کے لئے مجبور ہوتی ہے وہ جب بیمار ہوتا ہے اور اس کا دودھ نہیں پیتا تو وہ ڈاکٹروں، حکیموں اور ویدوں کے پاس ماری ماری پھرتی ہے کہ میرا بچہ کیوں میرا خون نہیں چوستا اور کہتی ہے خدا کے لئے اس کا علاج کرو۔ کیا ہم اس کو اخلاقِ فاضلہ کا نام دے سکتے ہیں ہر گز نہیں وہ عورت مجبور ہوتی ہے اپنی محبت کی وجہ سے اسی لئے وہ چاہتی ہے کہ وہ اس کا خون چوستا رہے۔قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ اخلاقِ فاضلہ اختیار کرنے سے آخر انسان اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ اخلاق اس کے طبعی جذبات کی طرح ہو جاتے ہیں اور وہ اخلاق فاضلہ پر بالکل اسی طرح مجبور ہو جاتا ہے جیسے ماں اپنے بچے کو دودھ دینے کے لئے۔ اور مؤمن کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر اس کے اخلاق فاضلہ کے رستہ میں کوئی رُکاوٹ واقع ہو جائے تو وہ بے چین ہو جاتا ہے جو شخص اس حالت کو پہنچ جائے کہ اخلاق فاضلہ اس کے طبعی جذبات کے ماتحت عمل میں آنے لگ جائیں تو باوجود طبعی ہونے کے اس کی نیکی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اُس وقت یہ کہا جائے گا کہ یہ شخص مجسم اخلاق بن گیا ہے۔ غرض عربوں کے اندر اس قسم کے افعالِ حسنہ کا پایا جانا طبعی جذبات تھے جن کے پیچھے نیکی کا جذبہ نہ تھا بلکہ وہ عزتِ نفس کے لئے ایسا کرتے تھے اور اپنے گردوپیش کے حالات سے مجبور تھے کہ وہ ایسا کریں اور اس قوم کے بعض افراد یا بعض قبائل میں جو عیوب پائے جاتے تھے ان میں نہ کرنے والے بھی شریک تھے کیونکہ وہ ان کے عیوب کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے بلکہ ان کی تعریف کرتے تھے۔ بے شک بعض لوگ خود عفت پسند بھی ہوتے تھے مگر جب ایک شاعر کسی مجلس میں کھڑے ہو کر اپنے شعر سناتا تھا جن میں اس نے یہ بیان کیا ہوتا تھا کہ میں نے فلاں کی عورت کو اغوا کر لیا یا فلاں عورت کے ساتھ میں نے یہ کیا تو چاہے مجلس میں ایک شخص خود عفیف ہوتا تھا وہ شاعر کے فعل کو کھیل سمجھتا تھا اور اس پر حیرت اور استعجاب کا اظہار نہ کرتا تھا بلکہ سن کر مسکرا دیتا تھا۔ اس طرح گو وہ خود ایسے فعل کا ارتکاب نہ کرتا تھامگر پسندیدگی کا اظہار کرکے وہ بھی ایسا کرنے والے کے ساتھ شامل ہو جاتا تھا۔
سید منیر الحصنی صاحب نے جو آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان کی ہے کہ ۱۲؎ مفسرین نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ آپ کے آبا ؤاجداد نیک تھے حالانکہ ایک مشرک کو ہم عفیف تو کہہ سکتے ہیں لیکن اسے ساجد نہیں کہہ سکتے۔ یوں تو زبان کے لحاظ سے ہم بتوں کو سجدہ کرنے والوں کو بھی ساجد کہہ سکتے ہیں لیکن قرآن کریم میں جہاں کہیں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس معنوں میں ہوا ہے کہ موحد، ساجد اور راکع یعنی خدا کو سجدہ کرنے والے۔ پس اس آیت میںساجدین کے یہ معنی نہیں کہ ہم نے تجھے موحد ساجدین میں سے گزارا اگر یہ معنی کئے جائیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد خدا رسیدہ تھے تو یہ صحیح نہیں تاریخ اس کے خلاف ہے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرے والدین مشرک تھے اور ابوطالب جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ محبت تھی جب وہ مرنے لگے تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ بھتیجے! تیری باتیں تو سچی معلوم ہوتی ہیں لیکن بات یہ ہے کہ میں اپنی قوم کو نہیں چھوڑ سکتا۔ پس ایک طرف ساجد کے معنی موحد کے اور دوسری طرف تواریخ اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے دادا پڑدادا موحد نہیں تھے اس لئے وہ معنی جو مفسرین کی طرف سے کئے جاتے ہیں صحیح نہیں۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے میں یہ فرمایا ہے کہ اے محمد( ﷺ) تیرے گردوپیش سب موحد ہی موحد ہیں اور تُو موحدین میں پھرتا ہے اور یہ ہمارا کتنا بڑا احسان ہے کہ مکہ جیسی شرک کی سرزمین میں ہم نے موحد ہی موحد پیدا کر دیئے ہیں اور ان لوگوں کو توحید پر عامل کر دیا ہے جو ایک نہیں دو نہیں سینکڑوں بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ تُو دائیں جاتا ہے تو تجھے موحد نظر آتے ہیں، تُو بائیں جاتا ہے تو تجھے موحدملتے ہیں، تُو اِدھر جاتا ہے تو تجھے موحد ملتے ہیں اور تو اُدھر جاتا ہے تو تجھے موحد ملتے ہیں۔ غرض تُو جس طرف بھی جاتا ہے تجھے موحد نظر آتے ہیں اور مکہ جیسی شرک کی بستی میں ہم نے تیرے ساتھ موحدین پیدا کر دیئے ہیں۔ تَقَلُّب کے معنی ہیں اِدھر جانا اور اُدھر جانا۔ آپ جب خود اپنے والدین کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ مشرک تھے اور گو وہ رواجاً شرک کرتے تھے مگر کرتے ضرور تھے پھر یہ کہنا کہ آپ کے والدین موحد تھے یہ ایک ایسی بات ہے جس کے متعلق کوئی ضعیف سے ضعیف روایت بھی نہیں ملتی نہ قرآن کریم سے نہ حدیثوں سے اور نہ تاریخ سے۔ پس تَقَلُّب کا مفہوم یہ نہیں تھا جو عوام نے سمجھ لیا ہے بلکہ یہ لفظ صحابہؓ کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔بعض انبیاء کی بیویاں ان پر ایمان نہ لائی تھیں، بعض کی اولاد نے ان کی نبوت کا انکار کر دیا تھا۔ حضرت لوطؑ کی بیوی آخر تک ایمان نہ لائی تھی گو بیویوں یا اولاد کے انکار سے نبی کی شان میں تو فرق نہیں آتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں تھیں تو خدا تعالیٰ کے دین پر فدا، آپ کی اولاد تھی تو وہ دین پر قربان، آپ کے ساتھی تھے تو وہ اسلام کے سچے عاشق، یہاں تک کہ سب تعلق والوں کو اللہ تعالیٰ نے ساجد بنا دیا اور یہ ایسی بات ہے کہ اور کسی نبی کو نصیب نہیں ہوئی۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تُو جہاں کہیں جاتا ہے موحدین اور ساجدین میں پھرتا ہے، تیرے گھر میں توحید، تیرے دوستوں میں توحید اور تُو جدھر جاتا ہے تو حید کا بیج بویا جاتا ہے اور تُو نے ہزاروں مشرکیں کو ساجدین بنا دیا ہے۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایک نیکی ہوتی ہے بِالفعل اور ایک بِالقوۃ ۔ جہاں تک قابلیت اور ترقی کا سوال ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی بعثت سے قبل بِالفعل ان میں کوئی قابلیت اور ترقی نہیں تھی مگر جہاں تک بالقوۃ قابلیت اور ترقی کا سوال ہے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اہل عرب میں یہ قابلیت اور ترقی پائی جاتی تھی بلکہ اس حدتک پائی جاتی تھی کہ دنیا کی کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی اور یہ بات اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی تدبیر کے عین مطابق ہے اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۱۳؎ پس اللہ تعالیٰ بھی تدبیریں کرتا ہے جو اس کی حکمت پر مبنی ہوتی ہیں اوریہ بھی اس کی تدبیر ہی تھی کہ اس نے اپنا پیغام دنیا تک پہنچانے کے لئے عربوں میں اتنی قابلیت رکھ دی تھی کہ وہ اس بوجھ کو اُٹھا سکتے۔ایک عقلمند انسان کسی بچہ پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتا جو اُس کی طاقت سے بالا ہو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے انسان پر اپنا پیغام پہنچانے کا بوجھ ڈال دے جو اس کام کی اہلیت نہ رکھتا ہو یا وہ اپنے نبی کو کسی ایسی قوم میں بھیج دے جس میں ترقی کی قابلیت بالقوہ بھی نہ پائی جاتی ہو۔ بے شک عربوں کے اندر اخلاق فاضلہ نہ تھے لیکن اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان میں افعال حسنہ ضرور تھے جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ عربوں کے اندر اتنی قابلیت تھی یا نہ تھی کہ وہ اعلیٰ ترقیات کو حاصل کر سکیں ہم کہیں گے کہ اگر ان میں اعلیٰ قابلیت نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قوم کے اندر کیوں بھیجتا۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے اس مقام پر کھڑا کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہترین انسان تھے جو اس عظیم الشان بوجھ کو اُٹھا سکتے اور عربوں کو اس لئے چنا کہ عرب ہی دنیا میں وہ بہترین قوم تھے جو اعلیٰ ترقیات حاصل کر سکتے تھے۔بے شک ابوبکرؓ اسلام سے پیشتر صرف ابوبکر تھے لیکن ان کے اندر بِالقوۃ نیکی موجود تھی اللہ تعالیٰ نے عربوں کو چُنا ہی اس لئے تھا کہ ان میں قابلیت پائی جاتی تھی۔
کسی کا یہ کہنا کہ عرب اسلام سے پیشتر اسلام کی تعلیم پر کیوں نہ عمل کرتے تھے یہ محض حماقت ہوگی۔ اگرکوئی شخص یہ کہے کہ قابل تو رومی بھی تھے، ایرانی بھی تھے یا ہندوستانی بھی تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر رومی قابل ہوتے تو اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اندر بھیجتا، اگر ایرانی قابل ہوتے تو اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اندر مبعوث فرماتا، اگر ہندوستانی قابل ہوتے تو اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اندر بھیجتا اور اگر افریقی اِس قابل ہوتے تو اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے اندر بھیجتا لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو نہ رومیوں میں بھیجتاہے، نہ ایرانیوں میں اور نہ ہندوستانیوں میں بھیجتا ہے اور نہ افریقیوں میں بلکہ اللہ تعالیٰ آپ کو عربوں میں بھیجتا ہے کیا اللہ تعالیٰ اپنے دین کو تباہ کرنا چاہتا تھا کہ اس نے آپ کو عربوں میں مبعوث فرمادیا؟ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عربوں میں بھیجا ہی اس لئے تھا کہ وہ جانتا تھا کہ اِس وقت عرب ہی ایک ایسی قوم ہے جو دنیا کی ساری قوموں سے بڑھ کر اپنے اندر قابلیت رکھتی ہے اوراس میں شک وشبہ کی ذرہ بھر گنجائش نہیں ہو سکتی کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسے انسان تھے جو اس بوجھ کو اُٹھا سکتے تھے۔ اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ عرب ہی ایک ایسی قوم تھی جو مستحق تھی اس بات کی کہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجتا اور ان کو فضیلت اسی بات میں ہے کہ ان کے اندر بِالقوہ نیکی پائی جاتی تھی۔ بِالقوہ اسے کہتے ہیں جو کسی کی ذاتی استعداد ہو اور بِالفعل وہ خوبی ہوتی ہے جو ظاہر ہو رہی ہو۔ پس جہاں تک ذاتی استعداد کا سوال ہے اگر کوئی کہے کہ ذاتی استعداد عربوں کے سوا اور قوموں میں بھی تھی تو یہ بالکل غلط بات ہوگی۔کوئی شخص کہہ دے کہ اگر اسلام ایرانیوں میں جاتا یا رومیوں میں جاتا تو اور بھی ترقیات حاصل کرتا تو یہ بھی قلتِ تدبر کا نتیجہ ہو گا خدا تعالیٰ نے عربوں کو چنا ہی اس لئے تھا کہ وہ دین الٰہی کو انتہائی بلندی پر پہنچا سکتے تھے۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی عرب میں پیدائش اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے ماتحت تھی خدا تعالیٰ نے اچھی طرح اس بات کو دیکھ لیا تھا کہ عرب ہی دنیا میں ایک ایسی قوم ہے جو اس بوجھ کے اُٹھانے کے قابل ہے ورنہ خدا تعالیٰ کو یہ بھی طاقت تھی کہ آپ کو ایران یا روم یا ہندوستان یا افریقہ میں پیدا فرماتا۔ پس جہاں تک اُس زمانہ میں بِالقوہ نیکی کا سوال ہے اگر کوئی کہے کہ عربوں سے بڑھ کر کسی اور قوم میںبِالقوۃ موجود تھی تو یہ بالکل غلط بات ہے۔ اسی طرح اِس زمانہ میں سب سے بڑھ کر قربانی کرنے کا مادہ پنجاب کے لوگوں میں پایا جاتا ہے بعض بنگالی کہہ دیتے ہیں آپ پنجابیوں کو کیوں افضل قرار دیتے ہیں؟ تو میں کہتا ہوں یہ تمہاری قلت تدبر کا نتیجہ ہے جو شخص اس پر اعتراض کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پنجاب میں مبعوث فرما کر یہ بتادیا کہ جو استعداد اورقربانی کا مادہ پنجابیوں کے اندر ہے وہ کسی اور علاقہ کے لوگوں میں نہیں پس اگر کوئی شخض یہ کہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت بنگال یا پشاور یا دکن میں ہونی چاہئے تھی تو یہ اُس کی حماقت ہوگی اللہ تعالیٰ ہی سب سے بہتر انتخاب کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے جس کو فرسٹ(FIRST) قرار دینا تھا دے دیا اور اس کی نظر نے دیکھ لیا کہ اس وقت پنجاب ہی اِس قابل ہے کہ اس میں مَیں اپنا مامور بھیجوں۔ وہ اچھی طرح اس بات کو جانتا تھا کہ ان کے اندر چھپی ہوئی فضیلت ہے اوران میں بِالقوۃ ترقی کی قابلیت موجود ہے۔
پس جہاں تک اخلاقِ فاضلہ کا تعلق ہے بے شک عربوں میں اسلام سے پہلے نہ تھے لیکن ان کے اندر بِالقوہ نیکی کی استعداد موجود تھی اور ان میں بعض چھپی ہوئی خوبیاں پائی جاتی تھیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض زمینیں بظاہر یکساں نظر آتی ہیں لیکن ایک زمین ایسی ہوتی ہے کہ اگر اس پر شبنم بھی پڑ جائے تو وہ غلّہ اُگاتی ہے اور دوسری ایسی ہوتی ہے کہ اگر اس پر متعدد دفعہ بارشیں بھی ہوتی رہیں تو اس میں روئیدگی کی طاقت نہیں آتی۔
پس اللہ تعالیٰ نے عربوں کو اس لئے اپنے دین کیلئے چنا کہ ان میں اس بوجھ کے برداشت کرنے کے لئے قوت موجود تھی اور وہ جانتا تھا کہ جب اس قوم پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چھینٹا پڑے گا ان میں روئیدگی کی وہ طاقت پیدا ہو جائے گی جو کسی اور قوم میں نہیں ہو سکتی۔ پس عربوں کی اس فضیلت کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔اور انکار کرنے کے یہ معنی ہوں گے کہ جان بوجھ کر انکار کیا جارہا ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی جولاہا فوج میں بھرتی ہوگیا جب وہ میدانِ جنگ میں پہنچا تو تیر لگنے سے زخمی ہوگیا اور اُس کا خون بہنے لگا۔ وہ خون کو دیکھتا اور بھاگتا جاتا اور کہتا جاتا یا اللہ! ایہہ خواب ہی ہووے۔ یا اللہ! ایہہ خواب ہی ہووے۔ پس عربوں کی فضیلت کا انکار کرنا اس جولا ہے کی پیروی کے مترادف ہوگا۔ عربوں نے اس طرح اسلام کو قبول کیا اور پھر ساری دنیا میں پھیلایا کہ دنیا حیران رہ گئی اور وہ ایک قلیل عرصہ میں دنیا کے معتدبہ حصہ پر اسلام پھیلانے کا موجب ہوئے۔پس عربوں کا بِالقوہ نیکی کا انکار کوئی اندھا ہی کرے تو کر سکتا ہے لیکن عقل اور دماغ رکھنے والا انسان کبھی اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ عربوں کے اندر جو بِالقوہ نیکی موجود تھی وہ اور کسی قوم کے اندر نہ تھی۔
(الفضل ۳،۵،۷،۸،۹،۱۲؍ستمبر ۱۹۶۱ء)
۱؎ الروم: ۴۲
۲؎ داکھ: انگور کی ایک قسم
۳؎ عِنَب: انگور
۴؎ المنجد صفحہ۵۱۸،۵۱۹ مطبوعہ کراچی ۱۹۷۵ء
۵؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ
۶؎ البلد: ۷ ۷؎ البلد: ۷،۸
۸؎ طبقات ابن سعد جلد۱ صفحہ۲۱۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء
۹؎ بخاری کتاب العتق۔ باب عتق الشرک
۱۰؎
۱۱؎ مسند احمد بن حنبل جلد۳ صفحہ۴۰۲،۴۰۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۱۲؎ الشعراء: ۲۲۰ ۱۳؎ اٰل عمران: ۵۵
خوف اور امید کا درمیانی راستہ
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خوف اور امید کا درمیانی راستہ
(فرمودہ ۲۹؍مئی ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب)
ان ایام میںمسلمان ایک نہایت ہی نازک دَور میں سے گزررہے ہیں اور ان کے اندر موجودہ حالات کی نزاکت کا اتنا احساس نہیں پایا جاتا جتنا کہ پایا جانا چاہئے۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مؤمن خوف اور رجاء کے درمیان درمیان ہوتا ہے نہ تو اس پر خوف ہی غالب آتا ہے اور نہ اس پر امید غالب آتی ہے بلکہ یہ دونوں حالتیں اس کے اندر بہ یک وقت پائی جانی ضروری ہیں جہاں اس کے اندر خوف کا پایا جانا ضروری ہے وہاں اس کے اندر امید کا پایا جانا بھی ضروری ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ نہ تو وہ خوف کی حدود کو پار کر جائے اور نہ امید کی حدود سے تجاوز کر جائے اور یہی وہ اصل مقام ہے جو ایمان کی علامت ہے یا خوش بختی کی علامت ہے اور اس میںمؤمن ہونے کی بھی شرط نہیں اگر کوئی مسلمان نہ بھی ہو اور وہ اس اصل پر عمل کرے اور وہ خوف و رجاء کے درمیانی راستہ پر قدم زن ہو تو یہ اس کی خوش بختی کی علامت ہوگی ورنہ وہ تباہی کا منہ دیکھے گا۔ یہی خوف و رجاء کے الفاظ جو قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں بعینہٖ اسی قسم کے اور انہی معنوں میں انگریزی دان مدبرین نے بھی الفاظ چنے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ وہی انسان اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتا ہے جو نہ OPTIMIST ہو یعنی ہر چیز کو امید کی نگاہ سے دیکھنے والا ہو اور نہ PESSIMIST یعنی ہر چیز میں ناامیدی کا پہلو نکالنے والا ہو بلکہ ان دونوں کے درمیانی راستہ پر چلے۔ اگر وہ ہر چیز کا روشن پہلو دیکھتا رہے گا اور بُرے پہلو کو نظر انداز کر دے گا تو وہ بھی ناکامی کا منہ دیکھے گا اور اگر وہ کُلّیطور پر نا امیدی کا پہلو دیکھتا رہے گا اور امیدکے پہلو کو نظر انداز کر دے تو بھی اس کی یہ حالت نقصان دِہ ہوگی صرف وہی شخص کامیاب ہو سکتا ہے جو ان دونوں کا درمیانی راستہ اختیار کرے یہی تعریف قرآن کریم میں بھی مؤمن کی بیان ہوئی ہے کہ نہ تو وہ کُلّی طور پر خوف کی طرف اور نہ ہی کُلّی طور پر رجاء کی طرف جھک جاتا ہے بلکہ ان دونوں حالتوں کو اپنے اندر رکھتے ہوئے درمیانی راہ اختیار کرتا ہے۔
ان ایام میں ہم دیکھتے ہیں کہ چاہے مسلمان پنجاب اور بنگال میں اکثریت رکھتے ہیں مگر جب کبھی حقوق کا سوال اُٹھتا ہے یورپین قومیں دشمن کے حق میں اور ان کے خلاف رائے رکھتی ہیں اور انگلستان اور امریکہ وغیرہ سے بھی جوآواز اٹھتی ہے وہ عام طور پر مسلمانوں کے خلاف ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ انگلستان کے وہ اخبارات جو پہلے مسلمانوں کی تائید کیا کرتے تھے انہوں نے بھی اب تائید کرنی چھوڑ دی ہے اور پھر تائید میں لکھنا تو الگ بات ہے انصاف کا تقاضا تو یہ تھاکہ گزشتہ فسادات کے دوران میں جب دشمن کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف غلط پروپیگنڈا کیا جارہا تھا اُن کا جواب دیتے لیکن جواب دینا تو درکنار جب کبھی ایسا مضمون نکلتا اور مسلمانوں کی طرف سے اس کا جواب بھیجا جاتا تو وہ اخبار اسے شائع نہیں کرتے رہے۔ گزشتہ ایام میں میں نے انگلستان میں اپنے مبلغین کو لکھا کہ تم لوگ وہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو اور تم کیوں مسلمانوں کی حمایت میں مضمون نہیں لکھتے یا ہندوؤں کے غلط پروپیگنڈا کی تردید نہیں کرتے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو سب کچھ کرتے ہیں اور مضامین بھی لکھتے ہیں لیکن یہاں کے اخبارات ہمارے مضامین چھاپتے نہیں۔ پس عام طور پر انگلستان کے اخبارات مسلمانوں کے خلاف اور ہندوؤں کے حق میں مضامین چھاپتے رہتے ہیں اور ہمیشہ انہی کی تائید کرتے ہیں سوائے اس کے کہ کسی بڑے افسر نے تائید میں کوئی مضمون لکھا تو اسے چھاپ دیا مگر شاذونادرہی ایسا ہوتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اِس وقت انگلستان کے لوگوں کے مد نظر کوئی مصلحت ہے یا حکومت کی طرف سے انہیں ایسا کرنے کے لئے کوئی اشارہ ہے بہر حال وہ جو آواز اُٹھاتے ہیں مسلمانوں کے خلاف اُٹھاتے ہیں۔ وہ لوگ چونکہ سیاسی ہیں اس لئے وہ اپنی حکومت سے حتیّٰ الوسع تعاون کرتے ہیں یہاں کے اخباروں والے توچونکہ سمجھتے ہیں کہ حکومت غیر ملکی ہے اس لئے اگر حکومت کے منشاء کے خلاف بھی کوئی قدم اُٹھایا تو کوئی بُری بات نہیں ہے مگر وہاں کی حکومت چونکہ غیر ملکی نہیں بلکہ ان کی اپنی ہے اس لئے وہ سیاست کے ماتحت حکومت کے ساتھ حتیّٰ الامکان تعاون سے کام لیتے ہیں۔ چنانچہ جب میں ولایت گیا تو ہمارے وہاں جانے پر تمام انگریزی اخبارات نے بڑے لمبے چوڑے مضامین لکھے اور قریباً تمام اخبارات نے ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ گویا وہ ہمیں خوش کرنا چاہتے تھے۔ ابھی میں وہاں ہی تھا کہ مجھے خبر پہنچی کہ امان اللہ خاں والی ٔکابل نے ہمارے مبلغ مولوی نعمت اللہ صاحب کو سنگسار کر دیا ہے ہم نے وہاں جلسہ کیا اور بڑے ریزولیوشن پاس کئے اوراخبارات کو بھجوائے لیکن ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہی اخبارات جنہوں نے ہمارے جانے پر بڑے لمبے چوڑے مضامین لکھے تھے اور کئی دن تک صفحوں کے صفحے سیاہ کرتے رہے انہوں نے سوائے اِس کے کہ اپنے اخباروں کے کسی گوشے میں اس خبر کو جگہ دے دی نمایاں طور پر کسی نے بھی شائع نہ کیا۔ ہمیں اس بات پر سخت تعجب ہوا اور ہم نے مختلف اخبار والوں کے پاس اپنا آدمی بھیجا تو انہوں نے آگے سے یہ بہانہ کر کے ٹال دیا کہ چونکہ آجکل سیاسی معاملات بہت زیادہ ہیںاور ہمیں ان پر مضامین شائع کرنے پڑتے ہیں اور چونکہ پبلک کو ان سیاسی مسائل سے زیادہ دلچسپی ہے اس لئے افسوس ہے کہ ہم اس خبر کو نمایا ں طور پر شائع نہیں کر سکے مگر ایک دو اخبارات ایسے بھی تھے جن کا تعلق ہمارے ساتھ دوستانہ تھا انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہمیں تو گورنمنٹ کی طرف سے اِس قسم کا اشارہ پہنچا ہے کہ یہ خبر شائع نہ کی جائے کیونکہ اس طرح افغانستان کی حکومت سے ہمارے تعلقات خراب ہو جائیں گے ہم یہ تو جانتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں لیکن ملکی حکومت کے ساتھ تعاون کرنابھی ضروری ہوتا ہے اس لئے ہم ایسا کرنے پر مجبور تھے۔ پس یہ بھی ممکن ہے کہ انگلستان کی حکومت نے ہی وہاں کے اخبارات کو مسلمانوں کے خلاف اور ہندوؤں کے حق میں آواز اُٹھانے کے لئے اشارہ کر دیا ہو۔ بہر حال اِس وقت انگلستان والوں کی رائے عامہ مسلمانوں کے خلاف ہے امریکہ جو پہلے ہندوؤں کی بہت زیادہ تائید کیا کرتا تھا بلکہ مسلمانوں کے حقوق کے متعلق کچھ کہنا سننا بھی گوارا نہ کرتا تھا اب اس کے اندر تھوڑی بہت تبدیلی ہو رہی ہے اور اب جو مضامین وہاں کے اخبارات میں چھپتے ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ گو وہ مسلمانوں کے حق اور تائید میں آواز نہیں اُٹھاتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس نے پہلے جیسی مخالفت چھوڑ دی ہے۔ اِدھر ہندوستان کے اندر انگریز افسر عام طور پر ہندوؤں اور سکھوں کی تائید کرتے ہیں مسلمانوں کی نہیں کرتے۔ جہاں تک زیادتی اور ظلم کا سوال ہے اس کا دونوں قوموں نے ارتکاب کیا ہے کسی جگہ ہندوؤں نے اور کسی جگہ مسلمانوں نے جن جن جگہوں میں مسلمانوں نے ظلم کیا ہے ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے ظلم کیا ہے ہم بُرے فعل کو ضرور بُرا کہیں گے مگر ہم ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ جہاں مسلمانوں پر ظلم ہوا ہے اس کے خلاف بھی آواز اُٹھنی چاہئے نہ کہ اسی ظلم کے خلاف جو مسلمانوں نے کیا ہے۔ لاہور اور امرتسر میں جو فسادات ہوئے ہیں ان میں ہندوؤں نے مسلمانوں پر ظلم کیاہے اور ہندوؤں نے ہی فسادات کی ابتداء بھی کی ہے۔ بے شک راولپنڈی اور ملتان وغیرہ میں مسلمانوں نے بھی ظلم کیا اور اگر انہوں نے ظلم کیا ہے تو ہماری جماعت یہ نہیں کہے گی کہ وہاں مسلمانوں نے ظلم نہیں کیا لیکن ہم یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ جہاں ہر وقت یہ شور مچایا جارہا ہے کہ راولپنڈی اور ملتان میں مسلمانوں نے ظلم کیا وہاں یہ آواز بھی تو اُٹھنی چاہئے کہ لاہور اور امرتسر میں ہندوؤں نے ظلم کیا۔ امرتسر کے اندر مسلمان اقلیت میں ہیں اور ہندوؤں نے جی بھر کر ان پر مظالم توڑے ہیں اس میں شبہ نہیں کہ وہاں ہندوؤں کے مکانات بھی جلے ہیں اور ان کو نقصان پہنچا ہے لیکن ابتداء ہندوؤں ہی کی طرف سے ہوئی اور یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ایک کا مکان جلے اور وہ دوسرے کا مکان نہ جلائے۔ جب ہندوؤں نے ظلم کرنے میں پہل کی تھی تو مسلمانوں میں جوش کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا ہاں ملتان والوں کا یہ حق نہ تھا کہ وہ امرتسر کابدلہ وہاں کے ہندوؤں سے لیتے۔ ان کو چاہئے تھا کہ وہ جتھے بنا کر امرتسر پہنچتے اور ظالموں کا مقابلہ کرتے۔ اسی طرح راولپنڈی والوں کا یہ حق نہ تھا کہ وہ امرتسر کا بدلہ وہاں کے ہندوؤں سے لیتے بلکہ ان کا حق یہ تھا کہ وہ جتھا درجتھا امرتسر میں پہنچ جاتے اور اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کرتے۔ جہاں تک امرتسر کے نقصانات کا سوال ہے اس میں شبہ نہیں کہ وہاں کے ہندوؤں کو بھی نقصان پہنچا ہے لیکن ہندوؤں نے بلیک مارکیٹ میں سے اربوں روپیہ کمایا ہواتھا اگر ان کا دس کروڑ کا نقصان بھی ہوگیا تو کیا ہوا ایک فی صدی نقصان کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا مگر دوسری طرف امرتسر کے مسلمان بالکل تباہ ہوگئے ہیں ان کی ساری کی ساری جائدادیں فسادات کی نذر ہو گئی ہیں اور وہ نانِ شبینہ کے بھی محتاج ہو چکے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی تائید میں کوئی آواز نہیں اُٹھتی۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں طرف کو یکساں دیکھا جائے جہاں راولپنڈی اور ملتان کے ظلم کو دیکھا جائے وہاں لاہور اور امرتسر کے ظلم کو بھی دیکھا جائے، لاہور اور امرتسر کے مسلمانوں نے جو دفاعی اقدام کیا وہ حالات سے مجبور ہو کر کیا اور جب حالات اس قسم کے ہو جاتے ہیں تو یہ بات کسی کے اپنے بس میں نہیں رہتی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک چیز کو تو انتہائی طور پر اُبھارا جا رہا ہے لیکن دوسری کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ خاص طور پر رعایت سے کام لیا جارہا ہے۔ جو اُٹھتا ہے وہ کہتا ہے نواکھلی کے مظالم کو دیکھو، راولپنڈی اور ملتان کے مظالم کو دیکھومگر یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ بمبئی، بہار، گڑھ مکتیسر، احمد آباد، امرتسر اور لاہور کے مظالم کو بھی دیکھو۔ تمام اخبارات راولپنڈی اور ملتان کا ذکر الاپتے ہیں مگر انصاف کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ اس طرف کا ذکر نہیں کرتے جس سے ان کے اپنے گھر پرزد پڑتی ہے۔ کانگرس کے اخبارات تو ایسا کریں گے ہی کیونکہ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں لیکن دوسرے اخبارات کا بھی یہی وطیرہ ہے یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جو مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں اور وہ مسلمانوں کو اِس خطرہ اور مصیبت سے آگاہ کر رہی ہیں جو ان پر آنے والا ہے مگر مسلمان ہیں کہ خواب خرگوش سے بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ زمانہ ان کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگا رہا ہے لیکن وہ جاگنے کا نام نہیں لیتے، مصائب کے سیاہ بادل اُمڈے چلے آتے ہیں لیکن مسلمان اپنی آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں، مخالفت کے طوفان ان کے سفینے پر بار بار تباہ کر دینے والی لہریں اُچھالتے ہیں لیکن وہ ابھی تک یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ یہ سب کچھ خواب ہے اور باقی تمام باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ دعوے پر دعوے کرتے چلے جاتے ہیں کہ ہم ایک ایک انچ کے لئے یوں کر دیں گے اورہم یہ کر کے دکھا دیںگے لیکن ان کا عملی پہلو اتنا کمزور ہے کہ اس کو دیکھ کر کوئی عقلمند ان کے دعوؤں کو لفاظی سے زیادہ وقعت نہیں دے سکتا۔ جہاں وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ایک ایک انچ کے لئے اپنی جانیں لڑا دیں گے وہاں وہ یہ بھی شور مچاتے ہیں کہ فلاں D.S.Pیا S.Pیا فلاں تھانیدار کو بدل دیا جائے۔ گویا ایک طرف تو ان کے دعوسے اتنے بلند ہیں کہ سننے والا یہ اندازہ لگاتا ہے کہ شاید یہی لوگ اپنے علاقہ کے کرتا دھرتا ہیں اور دوسری طرف وہ تھانیداروں کی تبدیلی کے لئے شور مچاتے ہیں۔ وہ اپنے دعوؤں کی کامیابی کی ایک جھوٹی امید لگائے بیٹھے ہیں اور جب انہیں سمجھایا جاتا ہے کہ اِس وقت مسلمانوں کو سخت خطرہ درپیش ہے تو کہیں گے نہ نہ نہ اِس بات کا نام نہ لینا ورنہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور ان کی دلیری جاتی رہے گی۔
میں نے ایک مسلمان لیڈر کو کہا کہ آپ مسلمانوں کو سمجھائیں کہ کسی قسم کی زیادتی نہ کریں بلکہ وہ جہاں تک ہو سکے مظلوم بننے کی کوشش کریں تا کہ دنیا کی آواز ان کے حق میں اُٹھے لیکن انہوں نے کہا نہ نہ یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر مسلمان زیادہ مارے گئے تو باقی لوگ ہمت ہار جائیں گے۔ غرض میری اس نصیحت کے جواب میں کہ کچھ دن مرو اور صبر کر و تاکہ ساری دنیا تمہاری تائید کرے انہوں نے مجبوری ظاہر کی کہ اس طرح کرنے سے مسلمانوں کے دل بیٹھ جائیں گے۔ یہ سب باتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ مسلمانوں نے ابھی تک حقیقی تیاری نہیں کی اگر انہوں نے کوئی تیاری کی ہوتی تو ان کے اندر قربانی کے جذبات ہوتے اور اعلیٰ درجہ کی تنظیم ہوتی۔ مثلاً امرتسر میں جب ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا تھا تو ان بے چاروں کو سوائے اس کے اور کوئی صورت نظر نہ آئی کہ وہ حملے کا جواب دیتے اور یہ ان کا حق بھی تھا مگر سوال تو یہ ہے کہ باقی پنجاب کے مسلمانوں نے کیا تیاری کی۔ ان کے لئے یہ بات ہرگز جائز نہ تھی کہ وہ امرتسر کا بدلہ راولپنڈی یا ملتان کے ہندوؤں سے لیتے۔ ظلم کرنے والے تو امرتسر میں بیٹھے تھے راولپنڈی یا ملتان کے ہندوؤں کا اس میں کیا حصہ تھا ان کا یہ فعل سراسر ظلم ہے اور شریعت اسلام نے کسی صورت میں بھی اس کو جائز قرار نہیں دیا۔ تیاری کا مطلب تو یہ تھا کہ وہ امرتسر کے مصیبت زدگان کی امداد کرتے ان کا ایک کروڑ کے قریب نقصان ہوا تھا مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ لوگوں میں چندہ کی تحریک کرتے اور ایک کروڑ نہ سہی کم از کم پچیس لاکھ روپیہ جمع کر کے ان کو وقتی گزارہ کے لئے دے دیا جاتا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو ان کے حوصلے بلند ہو جاتے اور ان کو دلیری ہوتی کہ ہمارے بھی بھائی ہیں اور ہمارے بھی خیر خواہ موجود ہیں جو ہم پر مصیبت آنے کے وقت ہماری امداد کر سکتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ اس کام کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی نہ ہی ان کے لئے چندہ جمع کرنے کے لئے کوئی جدوجہد کی گئی ہے۔ بروقت امداد ایک ایسی چیز ہے جو ایک طرف حوصلے کو بلند کرتی ہے اور دوسری طرف محبت کے جذبات کو اُبھارتی ہے۔
میں نے کئی دفعہ ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ عرب کی مشہور شاعرہ خنساء کے باپ نے اُس کی شادی ایک رئیس کے لڑکے سے کر دی۔ وہ لڑکا نہایت عیاش تھا اور اس کے اندر ہر قسم کے بُرے افعال کی عادات پائی جاتی تھیں۔چنانچہ اس لڑکے نے شراب اور جوئے میں اپنے باپ کی ساری جائیداد تباہ کر دی اور جو کچھ بیوی کا مال و اسباب تھا وہ بھی اُڑا دیا اور آخر جب وہ سب کچھ پھونک چکا تو ایک دن نہایت افسردہ ہو کر بیٹھا ہوا تھا کہ بیوی نے پوچھا کیا بات ہے تم اتنے دلگیر کیوں ہو؟ اس نے کہا بات یہ ہے کہ میں سب جائداد تباہ کر چکا ہوں اور اِس وقت ہمارے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ بیوی نے اسے تسلی دی اور کہا یہ کوئی مایوسی کی بات نہیں میرا بھائی بڑا امیر کبیر ہے اور جب تک وہ زندہ ہے مجھے اُس کی امداد پر پورا بھروسہ ہے اس کی موجودگی میں ہم کیوں اتنا غم کریں۔ چلو اُس کے پاس چلتے ہیں وہ ہماری اس حالت کو دیکھ کر ضرور ہماری امداد کرے گا۔ چنانچہ وہ اسے ساتھ لے کر اپنے بھائی کے پاس گئی اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے بہنوئی کو کسی قسم کی ملامت کرتا کہ تم نے اپنی جائداد کو تباہ کر دیا ہے یا تم نالائق ہو اُس نے بڑی شان وشوکت کے ساتھ اُن کا استقبال کیا اور اپنے دوستوں اور بڑے بڑے رؤساء کو اپنی بہن اور بہنوئی کی آمد کی خوشی میں دعوتیں دی اور متواتر چالیس دن تک دعوتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ چالیس دن کے بعد اس نے چند رؤساء کو بلایا اور کہا دیکھو! میری بہن اِس وقت غربت کی حالت میں ہے اس لئے میری جائداد میں اس کا حق ہے (حالانکہ باپ کی جائداد سے وہ اپنا الگ حصہ لے چکی تھی ) اس لئے آپ انصاف کے ساتھ میری جائداد کو آدھا آدھا تقسیم کردیں آدھا مجھے دے دیں اور آدھا میری بہن کو دے دیں کیونکہ یہ بات انصاف کے خلاف ہے کہ میری بہن غریب ہو جائے اور اس کی مدد نہ کروں۔ اُس زمانہ میں روپے تو ہوتے نہ تھے بھیڑیں بکریاں اونٹنیاں ہوتی تھیں یا تھوڑا بہت سونا چاندی ہوتا تھا اور ایک ایک امیر آدمی کے پاس سینکڑوں اور ہزاروں جانور ہوتے تھے۔ رؤساء نے اس کے مال کا اندازہ لگا کر اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور بہن اپنا آدھا حصہ لے کر اپنے خاوند کے ساتھ واپس گھر آئی۔ کچھ دنوں تک تو اُس کا خاوند بدعادات سے رُکا رہا لیکن بدعادتیں پھر عَود آئیں اور اس نے پھر وہی شراب اور جُوئے کا شُغل شروع کر دیا چنانچہ وہ مال جو اس کی بیوی اپنے بھائی سے لائی تھی چند دنوں میں ختم ہوگیا اور پھر وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہوگیا ایک دن پھر اسی طرح وہ مغموم شکل بنا ئے بیٹھا تھا کہ بیوی نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگا سارا مال ختم ہو گیا ہے اب کیسے گذر ہو گی۔ خنساء نے کہا جب تک میرا بھائی زندہ ہے تمہیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں وہ پھر اسے ساتھ لیکر اپنے بھائی کے پاس پہنچی اور بھائی نے اِس دفعہ پہلے کی نسبت بھی زیادہ شاندار ستقبال کیا اور زیادہ شاندار دعوتیں کیں اور چالیس دن دعوتیں کرنے کے بعد اس نے رؤساء کو بلایا اور کہا میری دولت کو ہم دونوں بھائی بہن میں برابر برابر تقسیم کردو۔ وہ پھر آدھی دولت بھائی سے لیکر اپنے خاوند کے ساتھ گھر واپس آئی کچھ عرصہ تک تو خاوند نے شراب اور جُوئے سے پرہیز کیا۔ لیکن شراب اور جُوئے کی لت ایسی بُری ہوتی ہے کہ اس سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہوتا ہے چنانچہ اُس نے پھر وہی کام شروع کر دئیے اور اس دولت کو بھی اُڑا دیا۔ اس دفعہ اس کے دل میں سخت ندامت پیدا ہوئی کہ اب تو میں خودکشی کر لوں گا لیکن کچھ مانگنے کے لئے نہیں جاؤں گا۔ خنساء کو جب اپنے خاوند کا یہ ارادہ معلوم ہوا تو اس نے کہا میرا بھائی زندہ ہے تو تمہیں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس نے کہا کہ اب مجھے تمہارے بھائی کے پاس جاتے شرم محسوس ہوتی ہے مگر وہ اسے مجبور کر کے پھر اپنے بھائی کے پاس لے گئی اور بھائی نے پہلے سے بھی زیادہ شاندار استقبال کیا اور کوئی کسر اُن کی خدمت میں اُٹھا نہ رکھی۔ اس نے چالیس دن کے بعد پھر رؤساء کو بلایا اور کہا میری بہن پر پھر غربت کی حالت ہے اس لئے میری جائداد کو تقسیم کر کے نصف اسے دے دو۔ اس دفعہ اس کی بیوی جو یہ بات سن رہی تھے اس نے اُسے اندر بلایا اور کہا کچھ خدا کا خوف کرو آخر تمہارے بھی بیوی بچے ہیں ان کا کیا بنے گا وہ تو جواری اور شرابی ہے کیا تم اسی طرح اپنی تمام دولت لُٹا دو گے؟ خاوند نے کہا تم خاموش رہو میں اگر مر گیا تو تم اور خاوند کر لوگی لیکن میری بہن ہی ہے جو مجھے ساری عمر روئے گی۔ غرض بھائی نے پھر اپنی آدھی دولت بہن کو دے کر رُخصت کر دیا۔ خنساء گھر پہنچیں تو کچھ عرصہ تک خاوند نے صبر کئے رکھا لیکن اپنی بدعادتوں سے مجبور ہو کر پھر وہی چال اختیار کی اور ساری دولت اُڑا دی۔ لیکن تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ مر گیا اور اُس کی وفات کے کچھ عرصہ بعد خنساء کا بھائی بھی مر گیا اس محبت کرنے والے بھائی کی موت نے خنساء کے دل پر ایسا گہرا زخم لگایا کہ اس نے اپنے بھائی کی یاد میں مرثیے کہنے شروع کر دئیے اور درد اور محبت کی وجہ سے اس کے خیالات ایسا رنگ اختیار کر گئے کہ عرب کے چوٹی کے شاعروں میں شمار ہونے لگی اور اس نے بھائی کی محبت کے جوش میں اتنے اعلیٰ پایہ کے مرثیے کہے کہ آج تک عرب کے تمام شاعروں میں اعلیٰ درجہ کی شاعرہ شمار کی جاتی ہے۔ اس کے شعروں میں اتنا درد پایا جاتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے جب اس کے شعر سُنے تو آپ رو پڑے اور کہنے لگے خنساء اگر مجھے بھی شعر کہنے آتے تو میں بھی اپنے بھائی کا ایسا ہی مرثیہ کہتا۔ خنساء نے کہا آپ کیسی باتیں کرتے ہیں آپ کا بھائی خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو کر مرا ہے اور اس نے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا ہے خدا کی قسم! اگر میرا بھائی شہادت پاتا تو میں کبھی اس کا مرثیہ نہ پڑھتی اور کبھی اُس کی وفات پر افسوس کا اظہار نہ کرتی۔ اس پر حضرت عمر ؓ خاموش ہو گئے۔ اب دیکھو بھائی کی قربانی نے کتنا درد پیدا کر دیا تھا کہ ایک عامی عورت کو عظیم الشان شاعرہ بنا دیا اور ایسا کہ آج چودہ سَو سال گذرنے کے بعد بھی وہ عرب کی چوٹی کے شاعروں میں شمار کی جاتی ہے۔
پس مسلمان بجائے اس کے کہ امرتسر کے ہندوؤں اور سکھوں کا بدلہ راولپنڈی اور ملتان کے ہندوؤں سکھوں سے لیتے انہیں چاہئے تھا کہ وہ اپنے مال لا کر امرتسر کے مظلوم اور مصیبت زدہ مسلمانوں کے سامنے پیش کر دیتے وہ خود تنگی سے گذراہ کر لیتے اور زیادہ سے زیادہ روپیہ جمع کر کے ان کی مدد کرتے اگر وہ ایسا کرتے تو امرتسر کے مسلمانوں کے دلوں میں خوشی کی لہردوڑجاتی اور ان کو اپنے بھائیوں سے محبت ہوتی اور وہ یہ یقین کر لیتے کہ بے شک ہمیں تکلیف پہنچی ہے لیکن ہماری تکلیف میں حصہ لینے والے ہمارے بھائی موجود ہیں اور وہ اس بات کو محسوس کرتے کہ بے شک ہمیں دُکھ پہنچا ہے مگر ہمارے دکھ بانٹنے والے ہمارے بھائی موجود ہیں ان کے اندر دلیری، جرأت اور حوصلہ پیدا ہو جاتا مگر افسوس کہ مسلمانوں نے بجائے اس احسن اقدام کے راولپنڈی اور ملتان کے ناکردہ گناہ ہندوؤں اور سکھوں سے امرتسر کا بدلہ لینا شروع کر دیا جو سرا سر ناجائز تھا اور وہ اپنے فاقہ مست بھائیوں کو بالکل بھول گئے۔ ان کو یہ احساس تک نہ آیا کہ ہمارے مظلوم بھائی نانِ شبینہ کے محتاج ہو چکے ہیں، انہیں ذرا خیال نہ آیا کہ ہمارے مصیبت زدہ بھائی ہمارے ہاتھوں کی طرف دیکھ رہے ہیں، انہوں نے اپنے اس فرض کو بالکل نہ پہچانا کہ یتیموں اور بیواؤں کی خبر گیری کرنا ان کے لئے ضروری ہے۔ وہ بھول گئے اس بات کو کہ ہمارے بیسیوں بھائی بے یارو مدد گار زخموں سے نڈھال پڑے ہیں، انہوں نے نظر انداز کر دیا اس بات کو کہ ان کے سینکڑوں بھائی اپنے جلے ہوئے اور بے چھت مکانوں کے اندر درد وکرب سے کراہ رہے ہیں اور وہ نہ سوچ سکے اس بات کو کہ ان کے سینکڑوں بھائی دشمن کے ظلم و استبداد کا شکار ہونے کی وجہ سے ان کی امداد کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے صحیح اور سیدھے راستہ پر گامزن ہونے کی بجائے ٹیڑھی راہ کو اختیار کیا اور ایک کے ظلم کا بدلہ دوسرے ناکردہ گناہ سے لینا چاہا۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امرتسر کے ستم رسیدہ مسلمان یہ سمجھنے لگ گئے کہ ہمارا کوئی نہیں ہے اگر کوئی ہوتا تو ہماری خبرگیری نہ کرتا اور ہماری دادرسی نہ کرتا۔
پچھلے دنوں مجھے ایک آدمی نے ایک واقعہ سنایا کہ امرتسر سے بھاگ کر آئے ہوئے دو مسلمانوں نے کسی سے کہا کہ ہم مرنے سے نہیں ڈرتے ہاں ہم اس بات سے ضرور ڈرتے ہیں کہ اگر ہم مارے گئے تو ہمارے بیوی بچے تباہ ہو جائیں گے اور ان کی رکھوالی کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔ اگر پنجاب کے مسلمان امرتسر کے مظلوموں کی مدد کو پہنچتے تو ان کو یہ خیال کبھی نہ آسکتا تھا کہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے بیوی بچوں کا کیا ہوگا۔ مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ وہ بجائے امرتسر کا بدلہ کسی اور جگہ کے ہندوؤں سے لینے کے جتھا در جتھا امرتسر پہنچتے اور اپنے بھائیوں کی خدمت کرتے اور ان کے مالی نقصان کو پورا کرنے کی کوشش کرتے اور انہیں تسلی دیتے تا کہ ان کے اندر قربانی کا جوش اور بھی زیادہ ہوتا اور وہ دشمن کے مقابلہ میں زیادہ دلیر اور زیادہ بہادر بن جاتے اور دنیا میں قدر ہمیشہ اُسی کی ہوتی ہے جو دشمن کا دلیری اور جرأت کے ساتھ مقابلہ کرتا ہوا مارا جائے۔ بزدلی سے مرنے والے پر لوگ *** بھیجتے ہیں اگر مسلمان راولپنڈی اور ملتان میں امرتسر کا بدلہ لینے کی بجائے خود چل کر امرتسر پہنچتے اور جتھوں کی صورت میں آتے، سیالکوٹ سے آتے، گجرات سے آتے، جہلم سے آتے، لائل پور سے آتے اور دوسرے تمام اضلاع سے جوق در جوق امرتسر میں پہنچ جاتے اور کہتے جنہوں نے ہمارے بھائیوں پر ظلم کیا ہے وہ آئیں اور ہمیں بھی ماریں ساتھ ہی وہ اپنے بھائیوں کی اپنے مالوں سے امداد کرتے اور ان سے کہتے یہ ہم تم پراحسان نہیںکر رہے بلکہ چونکہ تم نے ہماری قومیت میں شریک ہونے کی وجہ سے دُکھ اُٹھایا ہے اس لئے ہم تمہاری مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اِس قسم کانظارہ پیش کرنے سے ایک طرف تو مسلمانوں کے حوصلے بڑھ جاتے اور دوسری طرف دشمن مرعوب ہو جاتا اور وہ سمجھ لیتا کہ اگر امرتسر کے مسلمانوں پر کوئی ظلم ہوا تو پنجاب کے لاکھوں کروڑوں مسلمان اس کا بدلہ لینے کا عزم کر چکے ہیں دشمن کے حوصلہ پست ہو جاتے اور وہ کبھی دوسری بار مسلمانوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھ سکتا لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں نے اِس طرف تو کچھ بھی دھیان نہ کیا اور صرف بڑیں ہانکنی شروع کر دیں کہ ہم مٹا کر رکھ دیں گے یا ہم تباہ کرکے رکھ دیں گے۔جیسے آجکل کے گدا گر فقیر جہلاء کے سامنے دعوئے کرتے پھرتے ہیں کہ ہم چودہ طبقوں کو اُلٹا کر رکھ دیں گے حالانکہ ان کی اپنی حالت یہ ہوتی ہے کہ سر سے ننگے، پاؤں سے ننگے، روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کیلئے در بدر مارے مارے پھرتے ہیں مگر دعویٰ وہ یہ کرتے ہیں کہ ہم زمین و آسمان کو درہم برہم کر سکتے ہیں اگر وہ اتنے ہی اپنے دعوؤں میں سچے ہوتے تو در بدر کی خاک کیوں چھانتے پھرتے۔
ایک دوست جو مریض تھے میری ملاقات کے لئے آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے ہاں ایک مولوی صاحب ہیں جو بڑے عالم فاضل ہیں میرے باپ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ اگر آپ حج کے لئے گئے تو میں آپ کو پانچ سَو روپیہ دوں گا مگر جب وہ حج کو گئے تو والد صاحب نے کسی وجہ سے وعدہ پورا نہ کیا اور وہ مولوی صاحب سخت ناراض ہوگئے اس کے بعد والد صاحب نے میرے لئے تجارت کا انتظام کیا جب میرے پاس مال ہوا تو میں نے اپنے باپ کے وعدے کو پورا کرنے کے لئے مولوی صاحب کو پانچ سَو روپے دیتے ہوئے کہا لیجئے میرے والد صاحب تو اس وعدہ کو پورا نہ کر سکے تھے اب میں آپ کو وہ روپیہ دیتاہوں۔ مولوی صاحب نے روپے لے لئے اور صدری میں رکھے جس میں اُن کی ایک گھڑی بھی تھی مگر اتفاق ایسا ہوا کہ وہ صدری چوری ہوگئی اور نہ صرف میرا دیا ہوا پانچ سَو روپیہ ضائع چلا گیا بلکہ ان کا اپنا کچھ روپیہ اور گھڑی بھی چوری ہو گئی۔ اس پر مولوی صاحب نے مجھے کہا تم نے کیسا منحوس روپیہ دیا تھا کہ وہ میرا بھی کچھ روپیہ ساتھ لے کر جاتا رہا۔اب ان مولوی صاحب نے خدا جانے کیا وظیفہ پڑھ کر مجھ پر پھونک دیا ہے کہ میں ایک مرض میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ یہ سن کر میں نے کہا مولوی صاحب نے اگر کسی قسم کا وظیفہ پڑھ کر آپ کو مریض بنا دیا ہے تو انہوں نے یہ کیوں نہ کیا کہ اُسی قسم کا وظیفہ پڑھ کر چور کو پکڑ لیتے اور روپیہ اُس سے واپس لے لیتے۔ مولوی صاحب کو انسانی زندگی میں جو اتنی قیمتی ہے کہ لاکھوں روپیہ سے بھی نہیں مل سکتی تغیر پیدا کرنے والا وظیفہ آتا تھا تو ان کے لئے یہ کونسا مشکل کام تھا کہ وہ چور کو بھی پکڑواتے اس سے اپنا روپیہ بھی لے لیتے اور ساتھ ہی کچھ ہرجانہ بھی لیتے۔ اسی طرح انہوں نے اور بھی اپنے بعض لطائف سنائے جو الف لیلیٰ کے قصوںکی طرح تھے۔ یہ سب خیالی باتیں ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان اپنے اندر ایک دوسرے کی ہمدردی کا جذبہ پیدا کرتے اور جہاں کہیں کسی مسلمان کو دُکھ پہنچتا وہ جتھوں کی صورت میں اس کے پاس پہنچتے، اس کے نقصان کی تلافی کرتے اور اس کے ساتھ ہمددری کا اظہار کرتے تو دشمن کبھی بھی ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھ سکتا مگر افسوس کہ وہ اپنی اصلاح کی طرف سے بالکل غافل بیٹھے ہیں اور دعوؤں پر دعوے کرتے جا رہے ہیں کہ ہم یوں کر دیں گے اور یوں کر دیں گے اور ان کے یہ دعوے بالکل اسی قسم کے ہیں جیسے جادو یا ٹونا کرنے والوں کے ہوتے ہیں۔وہ اس راستہ کو بھول چکے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تجویز کیا تھا یعنی خوف اور رجاء کے درمیان والا راستہ۔ وہ ایک ہی راستے پر چل رہے ہیں یعنی اُمید کے راستہ پر اور اس کو بھی عبور کرنے کی کوشش میں ہیں یہ تو حالت ہے اُمید کی۔
اب دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مسلمان ایسے ہیں جن پر کُلّی طور پر خوف کی حالت طاری ہے اور وہ امید کے راستہ سے بھٹک چکے ہیں وہ لوگ کانگرس کے سامنے ہاتھ جوڑ رہے ہیں اس ڈر سے کہ اگر کانگرس ہم سے ناراض ہوگئی تو خدا جانے ہم پر کون سی آفت ٹوٹ پڑے گی اور کانگرس کی مخالفت سے ہمیں کیا کیا نقصانات برداشت کرنے پڑہیں گے۔ پس ایک طبقہ مسلمانوں کا ایسا ہے جو غلط خوف کی طرف جھکا ہوا ہے اور دوسرا طبقہ ایسا ہے جو غلط امیدیں لگائے بیٹھا ہے حالانکہ مومن کیلئے اللہ تعالیٰ نے جو راستہ تجویز کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس پر بہ یک وقت خوف و رجاء کی حالت طاری رہے۔ ایک طرف اس کے دل میں دشمن کی طرف سے یہ خدشہ رہے کہ کب وہ اچانک اس پر حملہ کر دتیا ہے اور وہ اس کے لئے تدبیریں سوچتا رہے، دوسری طرف وہ اپنی طرف سے تمام تدبیریں کر چکنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل کا منتظر ہو جائے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے ہجرت کی تو رات کے وقت کی اور آپ دشمنوں کی نظروں سے بالکل چھپ کر نکلے حالانکہ آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آپ کو دشمن کے منصوبوں سے بچانے کے بے شمار وعدے تھے اور آپ کو ان وعدوں پر یقین کامل تھا مگر آپ نے اس یقین کے ہوتے ہوئے بھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے ضرور دشمنوں سے محفوظ ومصئون رکھے گا حتَّی الامکان دشمن کی نظروں سے بچ کر نکلنے کی کوشش کی۔ یہ نہیں کہا کہ آجاؤ مکے والو! مجھے پکڑ لو۔ مگر اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں ہو سکتاکہ آپ ڈرتے تھے بلکہ آپ نے صرف احتیاطی پہلو اختیار کیا تھا ورنہ آپ کی دلیری کا یہ عالَم تھا کہ جب آپ اپنے رفیق حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ غار ثور کے اندر تھے تو دشمن عین غار کے منہ پر پہنچ گیا اور اس کے ساتھ کھوجی بھی تھے جو پاؤں کے نشانوں کا کھوج نکالتے وہاں تک پہنچے تھے مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت جب آپ غار کے اندر داخل ہو گئے تو ایک مکڑی نے غار کے منہ پر جھٹ جالا تن دیا۔ دشمنوں نے یہ دیکھ کر کہ غار کے منہ پر تو مکڑی کا جالا ہے اس میں سے کسی آدمی کے گذرنے کا امکان نہیں ہو سکتا یہ خیال کر لیا کہ آپ کسی اور طرف چلے گئے ہیں حالانکہ مکڑی دو یا چار منٹ کے اندر نہایت تیزی کے ساتھ اپنا جالا تیار کر لیتی ہے اور میں نے خود مکڑی کو جالا تنتے دیکھا ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ پردہ ڈالنا چاہتا تھا اس لئے دشمن کی سمجھ میں ہی یہ بات نہ آسکی اور انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو وہ غار کے اندر ہیں یا آسمان پر چلے گئے ہیں کیونکہ پاؤں کے نشانات غار تک پہنچ کر ختم ہو جاتے تھے اُس وقت جب کہ دشمن یہ کہہ رہے تھے کہ یا تو محمد ﷺ اور اس کا ساتھی غار کے اندر ہیں یا آسمان پر چلے گئے ہیں حضرت ابو بکرؓ اندر ان کی باتیں سُن رہے تھے ان کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا اور آہستہ سے آپ کی خدمت میں عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! دشمن تو سر پر آن پہنچا ہے۔۱؎ اس واقعہ کو قرآن کریم نے بھی بیان کیا آپ نے فرمایا۔ ۲؎ ابوبکرؓ ڈرتے کیوں ہو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ پس ایک طرف تو آپ نے اتنی احتیاط کی کہ آپ مکہ سے چُھپ کر نکلے اور دوسری طرف آپ کی اُمید کا یہ عالم تھا کہ باوجود اس کے کہ دشمن ہتھیاروں سے مسلح تھا اور اگر وہ لوگ ذرا بھی جھک کر غار کے اندر دیکھتے تو وہ آپ کو دیکھ سکتے تھے کیونکہ غار ثور کا منہ بڑا چوڑا ہے اور وہ تین گز کے قریب ہے آپ نہایت دلیری اور حوصلہ کے ساتھ فرماتے ہیں ابوبکر ! ڈرتے کیوں ہو جب خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے تو ہمیں کس بات کا ڈر ہے۔ اِدھر حضرت ابو بکرؓ کے اخلاص کی یہ حالت تھی کہ انہوں نے عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں اپنے لئے تو نہیں ڈر رہا میں تو اس لئے ڈر رہا ہوں کہ اگر آپ خدانخواستہ مارے گئے تو خدا تعالیٰ کا دین تباہ ہو جائے گا۔
اسی طرح جب مدینہ میں منافقوں کی شرارت حد سے بڑھ گئی تو آپ کئی رات متواتر نہ سوئے جب آپ کی یہ تکلیف بڑھ گئی تو آپ نے ایک مجلس میں فرمایاکاش! خدا تعالیٰ کسی مخلص مسلمان کے دل میں ڈالتا کہ وہ میرا پہرہ دیتا اور میں سو لیتا۔ آپ کو یہ بات کہے دو تین منٹ ہی ہوئے تھے کہ آپ کو ہتھیاروں کے چھنکار کی آواز آئی۔ آپ نے فرمایا کون ہے؟ آنے والے نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں فلاں ہوں۔ آپ نے فرمایا یہ ہتھیار کیسے ہیں؟ اس نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ کا پہرہ دوں آپ آرام فرمائیں۳؎ ایک طرف تو آپ کی احتیاط کی یہ حالت تھی مگر دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ جب رومیوں کے حملہ کا ڈر تھا اور مدینہ میں یہ خبر عام تھی کہ آج یا کل ہی حملہ ہونے والا ہے اس لئے لوگوں کو نیند بھی نہ آتی تھی۔ ایک رات جب کچھ شور سا ہوا اور صحابہ شور سن کر جمع ہونے لگے اور مسجد میں بیٹھ گئے اِس انتظار میں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورہے ہوں گے آپ کو خبر کی جائے کہ اِس قسم کا شور ہوا ہے وہ اس قسم کی باتیں کر ہی رہے تھے کہ باہر سے ایک سوار آتا دکھائی دیا۔ جب وہ سواران کے پاس پہنچا تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ وہ آنے والا سوار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔آپ نے آتے ہی فرمایا خطرہ کی کوئی بات نہیں میں دیکھ کر آیا ہوں۔ آپ جس گھوڑے پر سوار ہو کر گئے تھے وہ گھوڑا بھی کسی دوسرے کا تھا آپ نے جب شور سنا تو پہلے جا کر گھوڑا لیا اور پھر پیشتر اس کے کہ سارے صحابہ جمع ہو جاتے آپ میلوں میل تک دیکھ کر واپس بھی تشریف لے آئے۔۴؎ اب دیکھو ایک طرف تو خوف کی وہ حالت تھی اور ایک طرف امید کی یہ حالت تھی۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ غزوہ حنین میں جب مسلمانوں کا لشکر پیچھے ہٹا کیونکہ دشمن کے تیروں کے حملہ نے شدت اختیار کر لی تھی آپ صرف چند صحابہؓ کو ساتھ لے کر دشمن کی طرف آگے بڑھے حضرت ابو بکرؓ نے یہ دیکھ کر کہ دشمن کا حملہ شدید ہے آپ کو روکنا چاہا اور آگے بڑھ کر آپ کے گھوڑے کی باگ پکڑلی مگر آپ نے فرمایا چھوڑ دو میرے گھوڑے کی باگ کو۔ اس کے بعد آپ یہ شعر پڑھتے ہوئے آگے بڑھے۔
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِب
اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب۵؎
یعنی میں خدا تعالیٰ کا نبی ہوں اور جھوٹا نہیں ہوں اور میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ آپ کا یہ فرمانا کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اِس کا یہ مطلب تھا کہ اِس وقت دشمن کا حملہ اِس قدر شدید ہے کہ دشمن کے چارہزار تیر انداز تیروں کی بارش برسارہے ہیں اِس حالت میں میرا آگے بڑھنا انسانیت کی شان سے بہت بلند اور بالا نظر آتا ہے اس سے کوئی دھوکا نہ کھائے اور یہ نہ سمجھے کہ مجھ میں خدائی طاقتیں ہیں میں تو عبدالمطلب کا بیٹا ہی ہوں اور ایک بشر ہوں صرف اللہ تعالیٰ کی مدد میرے نبی ہونے کی وجہ سے میرے ساتھ ہے۔
جنگ بدر کے موقع پر صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک اونچی جگہ بنا دی اور عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ آپ یہاں تشریف رکھیں۔ چنانچہ آپ وہیں بیٹھ گئے اور خداتعالیٰ کے حضور نہایت عجز اور رقت سے دعائیں کرنے لگے۔ حضرت ابو بکرؓ نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ کیا اللہ تعالیٰ کے آپ کے ساتھ وعدے نہیں ہیں آپ نے فرمایا وعدے تو ہیں مگر وہ غنی بھی تو ہے اور مؤمن کا کام ہے کہ اس کی غناء کو بھی نہ بھولے۔ ۶؎
پس آپ کو ایک طرف تو خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا اور کامل یقین تھا اور دوسری طرف یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ غنی بھی ہے آپ کو خوف بھی تھا مگر اِس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ احتیاط کی طرف سے کُلّی طور پر پہلو تہی کرتے ہوئے صرف امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں مؤمن کو امید کی بھی اور احتیاط کی بھی سخت ضرورت ہے مگر مسلمان کہتے ہیں دیکھا جائے گا۔ آجکل کے مسلمان دونوں حدود کے سر پر پہنچے ہوئے ہیں حالانکہ اصل طریق جو اِن کو اختیار رکرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ خوف اور امید کی درمیانی راہ تلاش کریں اور خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستوں اور محمد رسول اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تجویزوں پر عمل کریں۔ ایک طرف انہیں انتہا درجہ کی تنظیم کرنی چاہئے اور دوسری طرف خداتعالیٰ پر کامل یقین رکھنا چاہئے کیونکہ مؤمن وہی ہوتا ہے جو ایک طرف تدبیر بھی کرتا ہے اور دوسری طرف تقدیر پر بھی ایمان رکھتا ہے جب یہ دونوں حالتیں اس کے اندر بہ یک وقت جمع ہو جاتی ہیں تو خداتعالیٰ کے فضلوں کے دروازے اس پر کھل جاتے ہیں اور اس وقت خداتعالیٰ کہتا ہے میں نے اپنے بندے کو دو حکم دئیے تھے اور میرے بندے نے دونوں حکم مانے ہیں میں نے اس کوتدبیر کرنے کا حکم دیا تھا اس پر اس نے عمل کیا ہے اور میں نے اس کو تقدیر پر ایمان لانے کو کہا تھا اس پر بھی اس نے عمل کیا ہے اس لئے اب میں نے بھی اپنے اوپر فرض کر لیا ہے کہ میں اپنے فرمانبردار بندے کی اعانت کروں اور اس کے دشمن کے منصوبوں کو خاک میں ملا کر رکھ دوں۔ اور اگر مسلمان ان باتوں پر عمل پیرا نہیں ہوں گے تو خدا تعالیٰ کہے گا تم نے اپنے نفس کا حکم مانا ہے اگر تم میرے متبعین میں سے ہوتے تو کسی دوسرے کی بات کیوں مانتے اس لئے جاؤ میں تمہاری کوئی امداد نہیں کروں گا۔
(الفضل قادیان ۱۷؍جون ۱۹۴۷ء)
۱؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ باب مناقب المہاجرین و فضلھم
۲؎ التوبۃ: ۴۰
۳؎ بخاری کتاب الجہاد باب الحراسۃ فی الغزو
۴؎ بخاری کتاب الادب باب حسن الخلق و السخاء (الخ)
۵؎ مسلم کتاب الجہاد باب غزوۃ حنین
۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۷۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے
مخفی ہوتے ہیں
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں
(فرمودہ ۳۰؍ مئی ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
مثنوی رومی والوں نے ایک نہایت ہی لطیف بات لکھی ہے وہ کہتے ہیں۔
ہر بلا کیں قوم را حق دادہ است
زیر آں گنج کرم بنہادہ است
یعنی خدا تعالیٰ کی ایک یہ بھی سنت ہے کہ جب کسی قسم کی کوئی بلاء مسلمانوں پر آتی ہے اور مسلمانوں سے ہی مخصوص نہیں بلکہ جب بھی کوئی بلاء اِس کی طرف سے کسی قوم پر آتی ہے تو
زیر آں گنج کرم بنہادہ است
اس کے نیچے برکتوں کا ایک مخفی خزانہ ہوتا ہے۔ یعنی اس بلاء کے آچکنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی برکات ظاہر ہوتی ہیں جو اس قوم کے لئے تقویت کا موجب ہوتی ہیں۔ یہ ایک نہایت سچی بات ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب کبھی مؤمنوں کو مشکلات اور مصائب وآلام کا سا منا ہوتا ہے تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ ایسی باتیں ضرور ظاہر ہوتی ہیں جو ان کے ایمان میں اِزدیاد کا موجب ہوتی ہیں اور صداقت اور شوکت کو ظاہر کرنے والی ہوتی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مصیبت اور مشکل جو آپ کو پہنچی اپنے بعد بے شمار معجزات چھوڑ کر گئی اور اس کے ذریعہ سے مؤمنوں کے ایمان تازہ ہوئے اور وہ قیامت تک کی نسلوں کیلئے برکت اور رحمت کا موجب ہوں گے۔ ہمیں جتنے واقعات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مصائب، مشکلات اور تکالیف کے نظر آتے ہیں ان میں سے ہر ایک اپنے اندر لاتعداد نشانات لئے ہوئے ہے۔ جب بعض صحابہؓ کفار مکہ کی بڑھتی ہوئی شرارتوں اور دُکھوں کی وجہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کر کے گئے تو اس میں بھی ہمیں بہت سے نشانات نظر آتے ہیں ۔ جب کفار مکہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے تمام مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا اور آپ کو اور آپ کے صحابہؓ کو متواتر تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑا تو اس میںبھی ہمیں بہت سے نشانات نظر آتے ہیں، سفر طائف میں جب آپ کو کفار نے تکالیف پہنچائیں تو اس میں بھی ہمیں بہت سے نشانات نظر آتے ہیں، جب آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے لئے گئے تو اس میں بھی ہمیں نشانات نظر آتے ہیں، اسی طرح بدر کی جنگ میں بھی ہمیں بہت سے نشانات نظر آتے ہیں،اُحد کی جنگ میں بھی جس میں مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصانات اُٹھانے پڑے اور کئی اکابر صحابہؓ شہید ہوگئے اللہ تعالیٰ کے بہت سے نشانات ہیں، احزاب کی جنگ میں بھی ہمیں بہت سے نشانات نظر آتے ہیں، صلح حدیبیہ اور غزوہ حنین میں بھی بہت سے نشانات ہیں پھر غزوئہ تبوک جو مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا ابتلاء تھا اس میں بھی بہت سے نشانات ہیں، سب سے بڑھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اُمت کے لئے بہت ہی بڑا ابتلاء تھا مگر اس میں بھی ہمیں بہت سے نشانات نظر آتے ہیں۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جو بھی دُکھ آپ کو پہنچا، جو بھی تکالیف آپ کو پہنچی، جو بھی رنج آپ کو پہنچا، جو بھی مصیبت آپ پر آئی اور جس دقّت کا بھی آپ کو سامنا ہوا ان میں سے ہر ایک کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشانات مخفی تھے اور ان میں سے ہر واقعہ اپنے اندر مؤمنوں کی ترقیوں اور کامیابیوں کے سامان لئے ہوئے تھا۔
اِس وقت میں غزوئہ اُحد کو لیتا ہوں غزوئہ اُحد مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا ابتلاء تھا اور ساتھ ہی یہ مصیبت پیش آئی کہ جنگ کے شروع ہونے سے پیشتر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ لیا کہ ہمیں مدینہ کے اندر رہ کر جنگ کرنی چاہئے یا باہر نکل کر؟ تو اُس وقت تو منافقین نے یہ کہا کہ ہمیں باہر جاکر ہی لڑنا چاہئے مگر بعد میں انہوں نے آپ سے غداری کی اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر جانے کے لئے تیار ہوئے تو منافقین نے جانے سے انکار کر دیا اور انہوں نے کہہ دیا کہ یہ بھی کوئی لڑائی ہے یہ تو خواہ مخواہ ہلاکت کے منہ میں جانے والی بات ہے۔ اس جنگ میں آپ کو اور آپ کے صحابہؓ کو بہت زیادہ تکالیف پہنچیں اور بہت زیادہ نقصان اُٹھانا پڑا۔ ستّرصحابہؓ شہید ہوگئے جن میں سے پانچ مہاجرین میں سے تھے اور باقی پینسٹھ انصار میں سے تھے اور شہید ہونے والے صحابہؓ تھے بھی چوٹی کے صحابہؓ جن کی موت کی وجہ سے یوں کہنا چاہئے کہ سارا مدینہ ہِل گیا تھا پھر یہ جنگ اس لئے بھی اسلام کی شدید ترین جنگوں میں شمار کی جاتی ہے کہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو گئے آپ کے دندانِ مبارک ٹوٹ گئے ۱؎ اور بعض صحابہؓ جو آپ کے دائیں بائیں کھڑے آپ کی حفاظت کے لئے لڑ رہے تھے اور دشمن کے واروں کو اپنے اوپر لے رہے تھے ان میں سے بھی بعض مارے گئے اور ان کی لاشیں آپ پر گر گئیں گویا یہ تمام سامان موت کے ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو محفوظ رکھا۔ آپ جب زخمی ہو کر اور بے ہوش ہو کر گر پڑے تو یہ وقت صحابہؓ کے لئے ایک بہت ہی بڑے ابتلاء اور امتحان کا وقت تھا ان میں لڑنے کی سکت نہ رہی تھی اور جب تک آپ ہوش میں آکر نہ اُٹھے اُس وقت تک صحابہؓ یہی سمجھتے رہے کہ اب ہمارے لئے دنیا تاریک ہو چکی ہے کیونکہ جب آپ شہید ہو چکے ہیں تو ہمارا لڑنا اب بالکل بے کار ہے۔ اِس چیز کا نتیجہ ان کے لئے ٹھوکر اور ابتلاء کا باعث ہو سکتا تھا لیکن اس کے اندر بھی ہمیں اللہ تعالیٰ کے بہت سے نشانات نظر آتے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ابتلا ؤں میں اعلیٰ نشانات ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً ابتلاؤں، دکھوں اور مصیبتوں کے وقت انسان کے اخلاق کا پتہ لگتا ہے اگر انسان پر کوئی مصیبت نہ آئے تو اُس کے اخلاق کا پتہ نہیں لگ سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان جو اخلاق خوشی، راحت اور آرام کے وقت دِکھاتا ہے وہ مصیبت دکھ اور رنج پہنچنے پر سب بھول جاتا ہے۔ جب کبھی اس کی حالت سکون سے بے چینی میں تبدیل ہوتی ہے تو اس کے سب اخلاق دھر ے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور وہ بداخلاقی پر اُتر آتا ہے۔ ہمارے ملک میں دہلی اور لکھنؤ کے امراء کے اخلاق مشہور ہیں اور ان دونوں جگہوں کے امراء ایک دوسرے پر فضیلت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دہلی والے کہتے ہیں کہ ہم زیادہ بااخلاق اور متمدن ہیں۔ لکھنؤ میں سادات کی بادشاہت تھی اس لئے عام طور پر وہاں کے امراء کو میر صاحب کہا جاتا ہے اور دہلی میں چونکہ مغل بادشاہت رہی ہے اس لئے وہاں کے امراء کو مرزا صاحب کہا جاتا ہے اب تو دہلی وہ نہیں رہی جو آج سے پچاس سا ل پیشتر تھی مگر آج سے چالیس پچاس سال پہلے دہلی کا کوئی آدمی ملنے پر اُس کو مرزا صاحب کہا جاتا تھا اور لکھنؤ کے کسی شخص کے متعلق صرف یہ معلوم ہونے پر کہ یہ صاحب لکھنؤ کے رہنے والے ہیں انہیں میرصاحب کہا جاتا تھا۔
ایک لطیفہ مشہور ہے کہ دو شخص کسی سٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں کھڑے تھے ان میں سے ایک دلی کا تھا اور دوسرا لکھنؤ کا۔ گاڑی کے آنے میں کچھ دیرتھی ان دونوں نے رسمی علیک سلیک کے بعد جب ایک دوسرے کے متعلق یہ معلوم کیا کہ آپ دہلی کے ہیں اور آپ لکھنؤ کے ہیں تو ان دونوں نے یہ کوشش شروع کر دی کہ اخلاق دکھانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جائیں اور دونوں نے چاہا کہ ایک دوسرے پر اپنے اخلاق کا اثر ڈالیںچنانچہ انہوں نے اپنے اپنے مخصوص طریق پر ایک دوسرے سے گفتگوشروع کر دی اور بات بات پر قبلہ میر صاحب اور قبلہ مرزا صاحب کہا جانے لگا۔ ایک کہتا قبلہ میرصاحب فلاں بات یوں ہوئی اور دوسرا جھک کر کہتا قبلہ مرزا صاحب فلاں بات یوں ہے۔ غرض دونوں نے اپنے اخلاق دکھانے کی کوشش میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ تھوڑی دیر کے بعد گاڑی پلیٹ فارم پر آکر کھڑی ہوگئی تو لکھنؤ والے نے کہا قبلہ مر زا صاحب پہلے آپ چڑھئے۔ دلّی والے نے کہا قبلہ میر صاحب! پہلے آپ۔ لکھنؤ والے نے پھر کہا قبلہ! بھلا میں یہ گستاخی کرسکتا ہوں پہلے آپ ہی کو چڑھنا ہوگا آپ مجھے کیوں کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں۔ چنانچہ وہ کافی دیر تک اسی طرح کرتے رہے۔ لکھنؤ والا فرشی سلام کرتا اور کہتا قبلہ مرزا صاحب پہلے آپ ہی چڑھیں گے اور دلی والا نہایت آداب بجا لا کر کہتا قبلہ میرصاحب پہلے آپ۔ وہ اسی طرح کر رہے تھے کہ گاڑی نے سیٹی دی یہ دیکھ کو وہ دونوںایک ڈبے کی طرف لپکے اور ڈنڈے پکڑ کر بمشکل دروازے میں پہنچے اب صورت یہ تھی کہ دروازہ چھوٹا تھا اور وہ دونوں دروازے کے اندر پھنس گئے نہ وہ اندر جا سکتا تھا اور نہ یہ۔ انہوں نے ایک دوسرے کو دھکے دینے شروع کئے اور آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ سخت کلامی پر اُتر آئے اور ایک کہتا خبیث! اندر جاؤ یا مجھے گذرنے دو۔ دوسرا کہتا مجھے اندر جانے دواور پھر کمینے اور پاجی کے الفاظ شروع ہوگئے۔
پس جب انسان پر مصیبت آتی ہے اور تھوڑی بہت تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اخلاق فاضلہ کو یکسر بھول جاتا ہے۔ اب کہاں وہ حالت کہ قبلہ میر صاحب اور قبلہ مرزا صاحب کہ القاب جھک جھک کر ادا ہو رہے تھے اور کہاں یہ حالت کہ خبیث ، کمینے اور پاجی کے الفاظ پر اُتر آئے۔ پس جب سہولت اور آرام ہو تو لوگ اخلاق دکھاتے ہیں لیکن جب مقابلہ اور مشکلات پیش آئیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے لکھنؤ والوں کے اخلاق کے متعلق اپنا ایک لطیفہ یاد ہے میری شادی چھوٹی عمر میں ہی ہو گئی تھی اُس وقت میری عمر چودہ اور پندرہ سال کے درمیان تھی اور یہ عمر بچپن کی عمر میں ہی شمار ہوتی ہے ۔ اس وقت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب آگرہ میں تھے ہم یوپی میں گئے تو کئی دفعہ تھے مگر وہاں کے مخصوص اخلاق سے کبھی واسطہ نہ پڑا تھا ہم اپنے قریبی رشتہ داروں کے ہاں جاکر ٹھہراکرتے تھے اور وہاں اپنے بزرگوں سے ڈانٹ ڈپٹ ہی سننے میں آتی تھی۔ قبلہ اور حضرت کبھی سنانہ تھا۔ غرض جب شادی کے وقت میں آگرہ میں گیا تو ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب نے میرے اعزاز میں وہاں کے رؤساء کو دعوت دی ان میں ایک شہر کے مجسٹریٹ صاحب بھی تھے جب کھانا کھا چکے اوروہ رؤساء واپس ہونے لگے تو وہ مجسٹریٹ صاحب میرے پاس آئے اور بڑی تعظیم کے ساتھ جھک جھک کر سلام کرنے لگے۔ میں نے اپنی یہاں کی عادت کے مطابق ان کی تعظیم کی مجھے تو جھکناآتانہ تھامگر مَیں ان کے جھکنے پر دل ہی دل میں کہہ رہا تھا کہ یہ کیا کر رہے ہیں میں ان کی تعظیمی حرکات پر بڑی مشکل سے ہنسی کو ضبط کر سکا۔ اُس وقت جو مجھ سے ایک حرکت سرزد ہوئی اُس کو یاد کرکے اب بھی بے اختیار ہنسی آجاتی ہے۔ وہ یوں ہوا کہ مجھ سے ملنے کے بعد جونہی ان مجسٹریٹ صاحب نے منہ موڑا میں نے اُن کی نقل اُتارنی شروع کر دی اور اتفاق ایسا ہوا کہ دروازہ تک پہنچ کر اُن کو کوئی کام یاد آگیا اور وہ واپس مُڑ آئے۔ میں ان کے واپس مُڑنے سے بے خبر رہا اور اسی طرح اُن کی نقل اُتار تا رہا۔ میں نے جو آنکھ اُٹھا کر دیکھا تو وہ سامنے کھڑے تھے یہ دیکھ کر مجھے سخت شرمندگی اُٹھانی پڑی کہ یہ اپنے دل میں کیا سمجھتے ہوں گے۔ غرض ان کے تکلفات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ جس کی حد ہی نہیں مگر اخلاق فاضلہ کا پتہ درحقیقت مشکل اور مصیبت کے وقت لگتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اُحد کی جنگ ایک نہایت صبر آزما جنگ تھی اس سے پہلے کبھی آپ پر قاتلانہ حملہ نہ ہوا تھا اور نہ صرف یہ کہ جنگ احد میں آپ پر حملہ ہی ہوا اور نہ صرف یہ کہ آپ کے بعض دانت بھی ٹوٹ گئے اور نہ صرف یہ کہ آپ زخمی ہوگئے بلکہ دشمن آپ کی بے ہوشی کی حالت میں آپ کے اوپر سے اور آپ کے ساتھیوں کے اوپر سے ان کے جسموں کو روندتا ہوا گزرا اور یہ آپ کی زندگی میں اپنی قسم کی پہلی مثال تھی مگر اس جنگ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح بلندحوصلگی اوراپنے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کیا اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور دل جوئی کی۔اس جنگ کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اخلاق کے کتنے بلند ترین مقام پر کھڑے تھے اور اس جنگ میں صحابہؓ کی عدیم المثال قربانیوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔ میں اُس وقت کی بات کر رہا ہوں جب آپ جنگ ختم ہونے پر مدینہ واپس تشریف لا رہے تھے۔ مدینہ کی عورتیں جو آپ کی شہادت کی خبر سن کر سخت بے قرار تھیں اب وہ آپ کی آمد کی خبر سُن کر آپ کے استقبال کے لئے مدینہ سے باہر کچھ فاصلہ پر پہنچ گئی تھیں ان میں آپ کی ایک سالی زینب بنت جحش۲؎ بھی تھیں ان کے تین نہایت قریبی رشتہ دار جنگ میں شہید ہوگئے تھے۔ رسول کریم ﷺنے جب انہیں دیکھا تو فرمایا اپنے مُردے کا افسوس کرو( یہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے ۔ جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ تمہارا عزیز مارا گیا ہے) زینبؓ بنت جحش نے عر ض کیا یَارَ سُوْلَ اللّٰہ ﷺ کس مُردے کا افسوس کروں؟ آپ نے فرمایا تمہارا ماموں حمزہؓ شہید ہو گیا ہے۔ یہ سن کر حضرت زینبؓ نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور پھر کہا اللہ تعالیٰ ان کے مدارج بلند کرے وہ کیسی اچھی موت مرے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا اچھا اپنے ایک اور مرنے والے کا افسوس کر لو۔ زینب نے عرض کیا یَارَ سُوْلَ اللّٰہ ﷺ کس کا؟ آپ نے فرمایا تمہارا بھائی عبداللہ بن جحش بھی شہید ہوگیا ہے زینب ؓ نے پھر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور کہا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ وہ تو بڑی ہی اچھی موت مرے ہیں۔ آپ نے پھر فرمایا زینبؓ! اپنے ایک اورمُردے کا افسوس کرو۔ اُس نے پوچھا یَارَ سُوْلَ اللّٰہ ﷺ کس کا؟ آپ نے فرمایا تیرا خاوند بھی شہید ہو گیا ہے۔ یہ سُن کرزینبؓ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور اُس نے کہا ہائے افسوس!! یہ دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو! عورت کو اپنے خاوند کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جب میں نے زینبؓ کو اُس کے ماموں کے شہید ہونے کی خبر دی تو اُس نے پڑھا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ، جب میں نے اُسے اس کے بھائی کے شہید ہونے کی خبر دی تو اس نے پھر بھی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ہی پڑھا لیکن جب میں نے اس کے خاوند کے شہید ہونے کی خبر دی تو اس نے ایک آہ بھر کر کہا ہائے افسوس! اور وہ اپنے آنسوؤں کو روک نہ سکی اور گھبرا گئی۔ پھرآپ نے فرمایا عورت کو ایسے وقت میں اپنے عزیز ترین رشتہ داروں اور خونی رشتہ دار بھول جاتے ہیں لیکن اُسے محبت کرنے والا خاوند یاد رہتا ہے اس کے بعد آپ نے زینبؓ سے پوچھا۔ تم نے اپنے خاوند کی وفات کی خبر سن کر ہائے افسوس کیوں کہا تھا؟ زینب ؓ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! مجھے اس کے بیٹے یاد آگئے تھے کہ ان کی کون رکھوالی کرے گا؟ آپ نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کی تمہارے خاوند سے بہتر خبر گیری کرنے والا کوئی شخص پیدا کر دے۔۳؎ چنانچہ اسی دعا کا نتیجہ تھا کہ زینبؓ کی شادی حضرت طلحہؓ کے ساتھ ہوئی اور ان کے ہاں محمد بن طلحہ پیدا ہوا۔ مگر تاریخوں میں ذکر آتا ہے حضرت طلحہؓ اپنے بیٹے محمد کے ساتھ اتنی محبت اور شفقت نہیں کرتے تھے جتنی کہ زینبؓ کے پہلے بچوں کے ساتھ۔ اور لوگ یہ کہتے تھے کہ کسی کے بچوں کو اتنی محبت سے پالنے والا طلحہؓ سے بڑھ کر اور کوئی نہیں اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ تھا۔
اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اُس وقت سعد بن معاذ آپ کی سواری کی باگ پکڑے ہوئے آپ کے آگے آگے خوشی کے ساتھ چل رہے تھے اور ان کو خوشی یہ تھی کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ واپس مدینہ میں لا رہے۔ ہیں حضرت سعد بن معاذکی بوڑھی اور کمزور نظر والدہ بھی مدینہ کی عورتوں کے ساتھ آپ کے استقبال کے لئے باہر آرہی تھیں اور چونکہ اس سے پیشتر مدینہ میں آپ کی وفات کی خبر مشہور ہو چکی تھی اس لئے وہ سُن کر کہ آپ صحیح سلامت تشریف لا رہے ہیں وفورِ محبت سے آپ کی زیارت کے لئے باہر آگئی تھیں حضرت سعدؓ نے جب اپنی والدہ کو دیکھا تو شایداس خیال سے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤں کہ میری بوڑھی والدہ کے دل میں بھی آپ کے لئے کتنی محبت ہے کہ وہ باوجود نظر کی کمزوری اور ضعیفی کے لڑکھڑاتی ہوئی چل رہی ہیں اور وہ آپ کی زیارت کیلئے بے تاب ہیں عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میری ماں۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میری ماں۔ آپ نے فرمایا سواری کو روک لو۔ سواری جب بڑھیا کے قریب پہنچ کر رُکی تو آپ نے اُس بڑھیا کو فرمایا بی بی! مجھے افسوس ہے کہ تمہارا جوان بیٹا عمروبن معاذؓ لڑائی میں شہید ہو گیا ہے۔ وہ بڑھیا جو آپ کی شکل دیکھنے کے لئے بے تاب ہو رہی تھی اُس نے اپنا منہ اوپر اٹھایا اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے آپ کے چہرے کو دیکھا اور عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! جانے بھی دیجیے آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں جب آپ سلامت ہیں تو باقی ساری مصیبتیں میں نے بھون کر کھا لی ہیں۔۴؎
ان واقعات پر غور کرو اور دیکھو کہ آپ کو کتنا زیادہ احساس تھا کہ جس کسی کو تکلیف پہنچتی ہے اس کے ساتھ ہمدردی کی جائے اس کے بعد آپ نے اس بڑھیا سے فرمایا تم بھی خوش ہو اور دوسری تمام بہنوں کو بھی جن کے رشتہ دار لڑائی میں شہید ہوگئے ہیں یہ خوشخبری سنا دو کہ ہمارے جتنے آدمی آج شہید ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے سب کو جنت میں اکٹھا رکھا ہے اور سب نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا! ہمارے پسماندگان کی خبر گیری رکھیو۔ اس کے بعد آپ نے دعا کی کہ اے خدا! اُحد کے شہیدوں کے پسماندگان کے لئے اچھے خبر گیر پیدا فرما۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس طرح آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی اُحد کے شہیدوں کے پسماندگان کی دلجوئی فرمائی اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور باوجود اس کے کہ آپ زخمی ہو چکے تھے، آپ کے عزیز ترین رشتہ دار شہید ہو گئے تھے اور آپ کے عزیز ترین صحابہؓ فوت ہو گئے تھے آپ برابر قدم بقدم مدینہ کے لوگوں کی دلجوئی فرما رہے تھے آپ کو اپنی تکلیف کا ذرہ بھی احساس نہ تھا آپ کے سوا ایسا کوئی شخص نہیں ہو سکتا جو اتنی تکلیفوں ، اتنے دکھوں اور اتنی مصیبت کے وقت دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرے۔ ایسے وقت میں تو لوگ کسی کے ساتھ بات کرنے کے بھی روا دار نہیں ہوتے چہ جائیکہ وہ کسی کے ساتھ ہمدردی کی باتیں کریں۔جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے تو چونکہ زخموں کی وجہ سے آپ کو نقاہت زیادہ تھی اس لئے صحابہؓ نے سہارا دے کر آپ کو سواری سے اُتارا۔ مغرب کی نماز کا وقت تھا آپ نے نماز پڑھی اور گھر تشریف لے گئے۔ مدینہ کی ان عورتوں کو جن کے رشتہ دار جنگ میں شہید ہوگئے تھے اُن کی خبریں پہنچ چکی تھیں انہوں نے رونا شروع کر دیا۔آپ نے جب عورتوں کے رونے کی آوازیں سنیں تو آپ کو مسلمانوں کی تکلیف کا خیال آیا اور آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں پھر آپ نے فرمایا لٰکِنْ حَمْزَۃَ فَـلَا بَوَاکِیَ لَہٗ ہمارے چچا اور رضائی بھائی حمزہ بھی شہید ہوئے ہیں لیکن اُن کا ماتم کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ سن کر صحابہؓجن کو آپ کے جذبات اور احساسات کو پورا کرنے کی اتنی تڑپ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ آپ کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا جذبہ اور چھوٹے سے چھوٹا احساس بھی ایسا نہ رہ جائے جو پورا نہ ہو وہ اپنے گھروں کی طرف دَوڑے اور اپنی عورتوں سے جا کر کہا بس اب تم اپنے عزیزوں کو رونا بند کر دو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر جا کر حمزہؓ کا ماتم کرو۔ اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تھکے ہوئے تشریف لائے تھے آپ آرام فرمانے لگے۔ حضرت بلالؓ نے عشاء کی اذان دی مگر یہ خیال کر کے کہ آپ تھکے ہوئے آئے ہیں آپ کو نہ جگایا جب ثلث رات گذر گئی تو انہوں نے آپ کو نماز کے لئے جگایا۔ آپ جب بیدار ہوئے تو اُس وقت عورتیںابھی تک آپ کے مکان پر حضرت حمزہؓ کا نوحہ کر رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا یہ کیا ہو رہا ہے؟ عرض کیا گیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ مدینہ کی عورتیں حضرت حمزہؓ کی وفات پر رو رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا للہ تعالیٰ مدینہ کی عورتوں پر رحم کرے انہوں نے میرے ساتھ ہمددری کا اظہار کیا ہے۔ پھر فرمایا مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ انصار کو مجھ سے بہت زیادہ محبت ہے۔ ساتھ ہی فرمایا اس طرح نوحہ کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ امر ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ہماری قوم کی یہ عادت ہے اور اگر ہم اس طرح نہ روئیں تو ہمارے جذبات سرد نہیں ہو سکتے آپ نے فرمایا میں رونے سے منع نہیں کرتا ہاں عورتوں سے کہہ دیا جائے کہ وہ منہ پر تھپڑ نہ ماریں اپنے بال نہ نوچیں اور کپڑوں کو نہ پھاڑیں اور اگر یوں رقّت کے ساتھ رونا آئے تو بے شک روئیں۔۵؎ ان باتوں سے آپ کی اخلاقی حالت کا پتہ چلتا ہے کہ باوجود زخمی اور تکلیف میں ہونے کے آپ کو دوسروں کے احساسات اور جذبات کا کتنا احترام تھا۔
پھر تاریخوں میں لکھا ہے کہ حضرت علیؓ نے اُحد سے واپس آکر حضرت فاطمہؓ کو اپنی تلوار دی اور کہا اِس کو دھو دو آج اِس تلوار نے بڑا کام کیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ کی یہ بات سن رہے تھے آپ نے فرمایا علیؓ! تمہاری ہی تلوار نے کام نہیں کیا اور بھی بہت سے تمہارے بھائی ہیں جن کی تلواروں نے جوہر دکھائے ہیں۔ آپ نے چھ سات صحابہؓ کے نام لیتے ہوئے فرمایا ان کی تلواریں تمہاری تلوار سے کم تو نہ تھیں۔۶؎ غرض آپ نے یہ بھی برداشت نہ کیا کہ آپ کا داماد کوئی ایسی بات کرے جس سے دوسرے صحابہؓ کے دلوں کو ٹھیس پہنچے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نظر چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی پہنچتی تھی اور باوجود یکہ جنگ ِاُحد کا واقعہ مستقل اثرات کے لحاظ سے اتنا بڑا واقعہ تھا کہ لوگوں کو اس واقعہ کے بعد سخت فکر تھی کہ دشمن اب دلیر ہوجائے گا یا آئندہ کیا ہوگا اور انسان ایسے اوقات میں چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتا مگر آپ نے ہر ایک کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور سب کی دلجوئی کی۔ آپ نے جب زینب بنت جحش کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور پھر فرمایا دیکھو ایک عورت کا اپنے محبت کرنے والے خاوند کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہوتا ہے تو اِس سے آپ کا یہ مطلب تھا کہ مردوں کو چاہئے کہ وہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کیا کریں اور معمولی معمولی باتوں پر اُن کو مارنے اور کوٹنے نہ لگ جایا کریں ۔جب ان کی عورتیں اپنے عزیزو اقارب سے جدا ہو کر ان کے پاس رہتی ہیں تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا اعزاز کیا جائے نہ کہ بات بات میں ان کے ساتھ جھگڑا فساد کیا جائے۔ آپ کے یہ فرمانے سے ایک طرف تو زینبؓ بنت جحش کی دلجوئی ہو گئی اور دوسری طرف آپ نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی بھی تلقین فرما دی۔ اسی طرح جب آپ نے یہ دیکھا کہ مدینہ کی عورتیں اپنے مرنے والوں کا نوجہ اور ماتم کر رہی ہیں تو آپ نے اس خیال سے کہ مہاجرین اور حضرت حمزہؓ کے رشتہ دار یہ خیال نہ کریں کہ ہمارا یہاں کوئی نہیں ہے اس لئے ان کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے آپ نے فرمایا آج حمزہؓ کو رونے والا کوئی نہیں۔ اور پھر جب مدینہ کی عورتیں حضرت حمزہؓ کا ماتم کرنے لگ گئیں تو آپ نے منع فرما دیا کہ اس طرح ماتم کرنا جائز نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر واقعہ میں آپ کا یہی خیال ہوتاکہ حضرت حمزہؓ کا ضرور ماتم کیا جائے تو آپ بعد میں منع نہ فرماتے۔ آپ نے جب حضرت حمزہؓ کی وفات پر کسی کے نہ رونے پر افسوس کا اظہار فرمایا اُس وقت بھی آپ کا جذبہ صرف دلجوئی کا تھا۔ اور جب آپ نے رونے والوں کو منع فرمایا اُس وقت بھی آپ کا جذبہ دلجوئی کا ہی تھا کیونکہ آپ نے ان عورتوں کو رونے سے روکا بھی اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ انہوں نے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور یہ پھر فرمایا مجھے تو پہلے ہی معلوم تھا کہ انصار کو مجھ سے زیادہ ہمدردی ہے اور یہ کہنے سے آپ کا یہ مطلب تھا کہ وہ رونے سے منع کرنے پربُرا نہ منائیں۔ آپ نے منع بھی کردیا اور ان کا شکریہ بھی ادا کر دیا۔ ہمیں یہ کتناشاندار اور عظیم الشان طریق نظر آتا ہے جو اتنے نازک وقت میں آپ نے اختیار کیا حالانکہ ایسے وقت میں جبکہ عزیز اور قریبی رشتہ دار مارے جا چکے ہوں خود کوئی شخص زخمی ہو اور مستقبل قریب کے ایام میں خطرہ محسوس ہو رہا ہو تو کوئی شخص اس قسم کا نمونہ پیش نہیں کر سکتا جو آپ نے کیا۔ پھرجب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ اُحد میں زخمی ہوگئے اور آپ بے ہوش ہو کر گر گئے یہاں تک کہ آپ کی وفات کی خبر مشہور ہو گئی۔ آپ نے ہوش آنے پر اخلاق فاضلہ کا جو مظاہرہ کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ آپ کے ان اخلاق فاضلہ کا ذکر جو آپ نے جنگ احد میں بے ہوشی کے بعد ہوش آنے پر دکھائے حضرت عمرؓ نے آپ کی وفات کے بعد ان الفاظ میں کیا تھا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کفار نے آپ کے دانت شہید کر دئیے، انہوں نے آپ کے منہ کو زخمی کر دیا، آپ کے اوپر سے پیر رکھتے ہوئے گزرے گئے اور آپ کو اور آپ کے عزیزوں اور قریبی رشتہ داروں اور آپ کے دوستوں کو انہوں نے انتہائی تکالیف پہنچائیں مگر یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ آپ نے ان کی ان ساری باتوں کے جواب میں صرف یہی فرمایا کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ۷؎ کہ اے خدا ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ یہ مجھے پہچان نہیں سکی۔ گویا ان دکھوں اور مصیبتوں کے وقت میں جبکہ آپ بے ہوشی سے ہوش میں آرہے تھے آپ کے منہ سے دشمنوں کے حق میں دعا نکل رہی تھی کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ اے خدا !ان کو میرے مقام کا پتہ نہیں ہے اور یہ مجھے شناخت نہیں کر سکے اس لئے تو ان کو بخش دے۔ اگر یہ مجھے پہچان لیتے تو کیوں اس طرح کرتے۔ یہ کیسے اعلیٰ اخلاق تھے جو آپ نے دکھائے اور کس طرح قدم قدم پر آپ نے وہ نمونہ پیش کیا جو بنی نوع انسان میں سے نہ کوئی پیش کر سکا اور نہ کر سکے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک ٹوٹ جانا یا آپ کو دوسری تکالیف کا پہنچنا ایک وقتی بات تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقرہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ قیامت تک یادگار رہے گا اور قیامت تک مسلمان اپنے پیارے اور محبوب کے اس فقرہ کے ساتھ آپ کو بُرا کہنے والے دشمن پر اتمامِ حجت کرتے رہیں گے اور کہیں گے کہ کچھ تو خیال کروآخر تم کس کو بُرا کہہ رہے ہو؟ کیا تم اُس کو بُرا کہہ رہے ہو جس کو مکہ میں متواتر تیرہ سال تک صرف یہ کہنے پر کہ ایک خدا کی پرستش کرو انتہائی دکھوں میں مبتلا رکھا گیا، جس کو اپنے پیارے وطن سے نکلنے پر مجبور کیا گیا، جس کو مارا اور پیٹا گیا، جس کے دانت توڑ دئیے گئے، جس کے عزیز ترین دوستوں کو شہید کر دیا گیا اور جس کے قریبی رشتہ داروں کو نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کر دیا گیا مگر اس کے دشمن کے ان مظالم کے باوجود کہا تو یہ کہا کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ اب تم ہی کہو کہ کیا ایسے باکمال انسان کو بُرا کہنا انصاف اور شرافت پر مبنی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر جب کس شخص کو دشمن کی طرف سے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ سخت سے سخت گالیاں دیتا ہے۔ اس کے دل میں دشمن کے خلاف انتہائی غصہ اور جوش ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے خدا اس کا بیڑاغرق کرے۔ خدا اسے غارت کرے حالانکہ دوسرے کسی شخص کو اپنے دشمن کی طرف سے اتنی تکلیف پہنچنے کا امکان ہی نہیں جتنی کہ آپ کے دشمنوں نے آپ کو پہنچائی تھیں پھر بھی دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر لوگ اپنے دشمن کے خلاف انتقامی جذبات سے مغلوب ہو جاتے ہیں مگر آپ نے انتہائی دُکھوں کے وقت میں جو نمونہ اخلاقِ فاضلہ کا پیش کیا اس کی نظیر لانے سے دنیا تا قیامت قاصر رہے گی۔ یہ وہی دشمن تھے جو رات دن آپ کے قتل کے منصوبے کیا کرتے تھے، یہ وہی دشمن تھے جنہوں نے آپ کے رشتہ داروں اور آپ کے صحابہؓ کو طرح طرح کی تکالیف پہنچائی تھیں، یہ وہی دشمن تھے جنہوں نے آپ کو اپنے عزیز وطن سے ہجرت کرنے کے لئے مجبور کر دیا تھا اور یہ وہی دشمن تھے جو آپ کے ہجرت کر کے مدینے پہنچ جانے کے بعد بھی آپ کو اور دوسرے مسلمانوں کو مٹا دینا چاہتے تھے۔ مگر آپ فرماتے ہیں اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ آپ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ یہ وہی دشمن ہیں جنہوں نے اسلام لانے والوں کو دوپہر کی تپتی ہوئی ریت پر لِٹا یا تھا، آپ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ یہ وہی دشمن ہیں جنہوں نے آپ پر ایمان لانے والوں کو آہنی سلاخیں آگ میں سرخ کر کر کے داغ دیا تھا، آپ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ یہ وہی دشمن ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو تین سال کے لمبے عرصہ تک شعب ابی طالب میں محصور رکھا تھا اور آپ بھول جاتے ہیں ان تمام مظالم کو جو ان دشمنوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً آپ پر ہوتے رہے اور آپ نہایت درد کے ساتھ دعا کرتے ہیں کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ اے خدا! یہ مجھے پہچان نہیں سکے ورنہ یہ میرے ساتھ ایسا سلوک نہ کرتے۔
میں کہتا ہوں کہ جنگ اُحد کاایک یہی واقعہ ایسا ہے جو سنگ دل سے سنگ دل دشمن کی چیخیں نکال دینے کیلئے کافی ہے اور بڑے سے بڑا دشمن اسلام اس واقعہ کو سن کر یہ پکار اُٹھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جیسا با اخلاق انسان نہ ہوا ہے نہ ہوگا۔ انگریزی ترجمۃ القرآن کے دیباچہ میں اور مضامین کے علاوہ میں نے مختصراً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح عمری بھی لکھی ہے جس کا انگریزی اور گورمکھی کے علاوہ ہندی میں بھی ترجمہ کیا جا رہا ہے وہ ترجمہ اصلاح کے لئے پٹنہ بھیجا گیا تو ایک ہندو پروفیسر جن کے ذریعہ وہ دیباچہ بھیجا گیا تھا ان کی چٹھی آئی کہ اسے پڑھ کر میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور چونکہ ہمیں اس سے قبل ان واقعات کا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی کا علم نہ تھا اس لئے ہم اندھیرے میں رہے۔ اگر کتاب چھپنے میں دیر ہو تو یہ مسودہ پہلے مجھے بھجوا دیا جائے۔
پس یہ واقعہ تو گزر گیا اور اس کو گزرے سینکڑوں سال ہوگئے مگر اس کی یاد رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔ یہ کتنا شاندار نشان ہے جو جنگ اُحد میں اللہ تعالیٰ نے دکھایا۔ غرض
ہر بلا کیں قوم را حق دادہ است
زیر آں گنج کرم بنہادہ است
کتنی صحیح بات ہے۔ یہ اتنا بڑا نشان ہے کہ ہم اس کو پیش کر کے دشمن کو منوا سکتے ہیں کہ اس واقعہ کے ساتھ تعلق رکھنے والا اخلاق فاضلہ کے کتنے اعلیٰ معیار پر قائم تھا اور اس سے دشمنی کرنا اس سے نہیں بلکہ خدا سے دشمنی کرنا ہے۔
عشاء کی اذان کے بعد حضور کچھ دیر تک السید منیر الحصنی صاحب سے عربی میں گفتگو فرماتے رہے اس کے بعد فرمایا:
منیر الحصنی صاحب یہ ذکر کر رہے تھے کہ احمدیت کی وجہ سے مخالفت کے باوجود ان کے خاندان والے اہم کاموں کیلئے انہی کو اپنا نمائندہ منتخب کرتے ہیں اور ان کے قبیلے کے لوگ ہرکام میں انہی کو آگے کرتے ہیں۔ سید منیر الحصنی صاحب تو تعلیم یافتہ آدمی ہیں ہماری جماعت میں ایک میاں مغلا ہیں جو بالکل اَن پڑھ ہیں ان کے بچے آج کل مدرسہ احمدیہ میں پڑھتے ہیں اور وہ جھنگ کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے کہیں سے احمدیت کا نام سن لیا اور چونکہ فطرت میں نیکی تھی وہ قادیان تحقیق کیلئے آئے اور بیعت کر کے واپس گھر چلے گئے۔ جب ان کے گھر والوں کو ان کی احمدیت کے متعلق علم ہوا تو ان کو خوب مارا پیٹا گیا اور بہت سی تکلیفیں دی گئیں۔ ان کے کھانے پینے کے برتن الگ کر دیئے گئے وہ علاقہ جس میں وہ رہتے ہیں چوروں کا ہے اور وہاں کے لوگوں میں چوری کا اتنا رواج ہے کہ وہ اس کو شرعاً یا اخلاقاً بُرا فعل نہیں کہتے۔ گوجرانوالہ، شیخوپورہ، جھنگ اور لائلپور وغیرہ کے علاقوں میں چوری کا اتنا رواج تھا کہ ایک ڈپٹی کمشنر نے ان اضلاع کے متعلق ایک رپورٹ تیار کی تھی جس میں اس نے لکھا تھا کہ ان لوگوں کے اندر چوری کی عادت اتنی زیادہ ہے کہ یہ ان کا ویسا ہی پیشہ ہو گیا ہے جیسے کہ زمینداری کا اور یہ لوگ اس کے بغیر گزارہ کر ہی نہیں سکتے اس لئے ان علاقوں میں چوری کو جرم قرار نہیں دینا چاہئے۔ یہ فن اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ اس پیشہ میں بھی بڑے بڑے رؤساء اور سردار ہوتے ہیں جن کا لوہا چوری پیشہ لوگوں میں مانا جاتا ہے کسی کو شاہ چور کا خطاب دیا جاتا ہے اور کسی کو شہنشاہ چور کا۔ اور جو چھوٹے چور ہوتے ہیں وہ اپنی چوریوں میں سے ان رؤساء کا حصہ مقرر کرتے ہیں اور جب کوئی چوری کرتے ہیں تو ان کا حصہ ان کے گھروں میں پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے فلاں کی بھینس چرائی تھی اس میں سے آپ کا اتنا حصہ ہے۔ ہماری جماعت کے ایک دوست بھی احمدیت سے پہلے شاہ چور تھے وہ بھی اپنے واقعات سنایا کرتے تھے کہ جب میں نے چوری چھوڑ دی تو بھی یہ حالت تھی کہ میرے گھر پرمجھے دوسرے چوروں سے حصہ ملتا رہا اور چور آ کر مجھے کہتے تھے آپ ہمارے سردار ہیں۔ وہ دوست ۱۹۱۸ء میں احمدی ہوئے تھے اور اس کے بعد انہوں نے اس پیشہ کو چھوڑ کر توبہ کر لی۔ غرض میاں مغلا نے سنایا کہ ان کے بھائیوں نے کسی کے ہاں چوری کی اور کچھ جانور چرا لائے۔ جانوروں کے مالک کھوج نکالتے ان کے گھر پہنچے اور ان کے باپ کو کہا کہ تمہارے بیٹوں نے ہمارے جانور چرائے ہیں۔ ان کے باپ نے انکار کر دیا تو انہوں نے کہا ہمیں تمہاری بات کا یقین نہیں آتا۔ ہاں اگر میاں مغلا کہہ دے کہ تیرے بیٹوں نے چوری نہیں کی تو ہم مان جائیں گے۔ چنانچہ میاں مغلا کا باپ ان کے پاس آیا اور کہا اب تمہارے ہی ذریعہ اس جرم سے ہم بچ سکتے ہیں اس لئے تم ان سے جا کر کہہ دو کہ میرے بھائیوں نے تمہارے جانور نہیں چرائے۔ انہوں نے کہا میں تو جھوٹ نہیں بول سکتا، جب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ یہ چوری کر کے لائے ہیں تو اب میں کس طرح جھوٹ بول سکتا ہوں۔ اس پر باپ اور بھائیوں نے ان کو خوب مارا اور کہا خبردار اگر سچ بولا کیا تم اپنے بھائیوں کے ساتھ اتنی بھی ہمدردی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا تم ان سے جا کر کہہ دو کہ مغلا تو کافر ہے، اس کی گواہی تم کیوں مانتے ہو۔ چنانچہ مغلا کا باپ اور بھائی جانوروں کے مالکوں کے پاس گئے اور کہا مغلا تو کافر ہو گیا ہے اس کی گواہی سے تم کس طرح اطمینان حاصل کر سکتے ہو۔ انہوں نے کہا ،ہے تو وہ کافر مگروہ جھوٹ کبھی نہیں بولتا اس لئے ہم اسی کی گواہی لیں گے اور کسی کی گواہی پر ہمیں اعتبار نہیں ہے۔ باپ اور بھائی پھر ان کے پاس آئے اور کہا وہ تو تمہاری گواہی مانگتے ہیں اس لئے ہمارے ساتھ چلو اور صفائی پیش کرو یہ ان کے ساتھ چلے گئے اور بھری مجلس میں کہہ دیا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنے بھائیوں کو جانور لاتے دیکھا ہے۔ اس پر ان کے باپ اور بھائیوں نے انہیں خوب مارا۔ پس لوگ احمدیت کی کتنی بھی مخالفت کریں جہاں کہیں کوئی خاص ذمہ داری کا کام ہوتا ہے انہی کو آگے کیا جاتا ہے۔
یہ بھی سلسلہ کی سچائی کا کتنا بڑا ثبوت ہے کہ مخالف بھی اس بات کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ لوگ سچ بولتے ہیں۔ اَلْفَضْلُ مَاشَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ
(الفضل ۱۵،۱۶،۱۷ ، ۲۱ ستمبر ۱۹۶۱ء)
۱؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۸۴،۸۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲؎ اسد الغابۃ جلد۵ صفحہ۴۲۸ میں زینب کی بجائے حمنہ کا ذکر ہے۔
۳؎ تاریخ ابن تاثیر جلد۲ صفحہ۱۶۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۴؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۲۶۷،۲۶۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۵؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۱۰۴،۱۰۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۱۰۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۷؎ بخاری کتاب الانبیاء باب۵۷ حدیث ۳۴۷۷
قومی ترقی کے دو اہم اصول
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
قومی ترقی کے دواہم اصول
(فرمودہ ۵؍جون ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
کچھ دن ہوئے مَیں نے یہ ذکر کیا تھا کہ جو جماعتیں اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب ہونا چاہیں ان کے لئے کچھ اصول مقرر ہوتے ہیں اور مَیں نے کہا تھا کہ میں ان اصول کے متعلق کسی مجلس میں کچھ باتیں بیان کروں گا مگر اس کے بعد چونکہ بعض اور مضامین شروع ہوتے گئے اس لئے یہ مضمون بیان نہ ہو سکا۔ آج میں اسی مضمون کا کچھ حصہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔
یادرکھنا چاہئے کہ کسی مقصد میں کامیابی کے لئے سب سے پہلی بڑی اور ضروری بات یہ ہوتی ہے کہ جماعت کو اپنے مقصد کے متعلق یقین ہو۔ یعنی ایک مقصدِ عالیہ جو اس کے سامنے ہو اس کے متعلق اسے کامل یقین ہو کہ یہ مقصد ٹھیک ہے، صحیح ہے اور مفید ہے۔ دینی اور دُنیوی جماعتوں کے الگ الگ مقاصد ہوتے ہیں کوئی ایک مقصد انسان اپنے سامنے رکھ لیتا ہے اور اس کی کامیابی کے لئے کوشش شروع کر دیتا ہے، قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱؎ یعنی ہر شخص کے سامنے ایک مقصد ہوتا ہے جس کی طرف وہ اپنی پوری توجہ مبذول کر دیتا ہے اس جگہ سے مرادوہ مطمح نظریا مقاصد عالیہ ہیں جو مفیدا ور با برکت ہوں چاہے وہ دینی ہوں یا دُنیوی، دینی جماعتوں کے سامنے بھی ایک مفید مقصد کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور دُنیوی جماعتوں کے پیش نظر بھی ایک مفید اور بابرکت مقصد کا ہونا ضروری ہوتا ہے، جب تک ان دونوں قسم کی جماعتوں کے سامنے کوئی مفید اور بابرکت مقصد نہ ہو ان کے اندر بیداری پیدا نہیں ہو سکتی مثلاً مسلمانوں کو دیکھ لو آج سے تھوڑا عرصہ پیشتران کے اندر کوئی انجمنیں نہ تھیں اور یہ لوگ کانگرس کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے لیکن جب انہوں نے کانگرس کی خود غرضانہ چالوں کو بھانپا اور اپنی الگ سیاسی پارٹی بنانا چاہی تو عام مسلمانوں نے یہ خیال کیا کہ کانگرس کی موجودگی میں الگ سیاسی پارٹی بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ مسلمان لیڈروں نے یہ دیکھ کر کہ قوم کے نوجوان ان کا پوری طرح ساتھ دینے کو تیار نہیں ہیں اخبارات میں بیان دینے شروع کئے۔ اس وقت یہ حالت تھی کہ اخبار صرف اس وجہ سے ان کے بیان چھاپ دیتے تھے کہ یہ بڑے بڑے لوگ ہیں ان کے ناموں سے بیان چھپنے سے ہمارے اخبارات کی خوب اشاعت ہوگی اور لیڈر اس وجہ سے بیان دیتے تھے کہ ہمارا نام روشن ہو جائے گا مگر اس کا نتیجہ کچھ بھی نہ نکلتا تھا اور عوام الناس کانگرس کا پیچھا نہ چھوڑتے تھے مگر اب چار پانچ سال سے جب مسلمانوں کے سامنے ایک مقصد رکھا گیا اور ان کو سمجھایا گیا کہ یہ مقصد ہمارے لئے مفید اور بابرکت ہے تو ان کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے کہا ہم اپنی الگ حکومت چاہتے ہیں اور جب انہوں نے اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا کہ اس مقصد کے حصول کے لئے کانگرس یا انگریز ہماری مدد نہیں کریں گے تو وہ سمجھ گئے کہ یہ کام اب ہم نے ہی کرنا ہے اور جب ایک مقصد ان کے سامنے آگیا تو ان کے اند ر بیداری پیدا ہوگئی اور وہ اس قسم کے نعرے لگانے لگ گئے کہ لے کے رہیں گے پاکستان۔ مسلمانوں میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جو سیاست سے بالکل بے بہرہ تھے اور وہ پاکستان کے معنے بھی نہ جانتے تھے لیکن یہ مقصد سامنے آنے پر وہ اس کے حصول کے لئے تُل گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے وہ یہی سمجھتے تھے کہ جب کانگرس آزادی کے لئے لڑ رہی ہے تو ہمارے الگ ہو کر لڑنے کی کیا ضرورت ہے اور وہ کہتے تھے کہ جب کانگرس آزادی حاصل کر لے گی تو ہمیں خود بخود آزادی مل جائے گی لیکن جو نہی پاکستان کا سوال اٹھا مسلمانوں کا بچہ بچہ بیدار ہوگیا اور انہوں نے کہا ہمارے اس مقصد کے حصول میں ہندو ہماری مدد نہیں کریں گے، سکھ ہماری مدد نہیں کریں گے، انگریز ہماری مدد نہیں کریں گے بلکہ یہ مقصد اگر حاصل ہو سکتا ہے تو ہماری اپنی قربانیوں سے ہی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ان میں بیداری پیداہوتی گئی اور آخر وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوگئے۔
مذہبی جماعتوںکا مقصد اس سے بالکل جُدا گانہ ہوتا ہے ایک مذہبی جماعت دُنیوی بادشاہت کے پیچھے نہیں پڑتی بلکہ وہ اپنے سامنے یہ مقصد رکھتی ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے اور جب مؤمن اس مقصد کو اپنے سامنے رکھ لیتے ہیں تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ کام ہم ہی نے کرنا ہے کسی اور نے نہیں کرنا۔ دنیا اور کاموں میں لگی رہتی ہے مگر وہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت کی بنیادیں رکھ رہے ہوتے ہیں پس کامیابیوں اور ترقیات کے لئے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ قوم کے سامنے ایک مقصد عالی ہو کیونکہ جب تک مقصد عالی نہ ہوگا بیداری پیدا نہیں ہو سکے گی اور اس مقصد کے متعلق اس قوم یا جماعت کے اندر یہ احساس پایا جائے کہ یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے اور کسی نے نہیں کرنا ۔ جب یہ روح اس کے اندر پیدا ہو جائے گی تو اس مقصد کے حصول میں کوئی روک نہیں رہے گی۔ کامیابیاں اور کامرانیاں اس کے قدم چومیں گی اور ہر میدان میں فتح کا سہرا اس کے سر پر ہو گا مگر اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ مذہبی جماعتیں زمین کی بادشاہت کے لئے جدوجہد نہیں کرتیں بلکہ وہ آسمانی بادشاہت کے لئے کوشاں رہتی ہیں جیسے حضرت مسیح ؑ نے بھی فرمایا ہے کہ اے خدا! تیری بادشاہت جیسے آسمان پر ہے ویسی ہی زمین پر بھی ہو۲؎ یہی وجہ تھی کہ یہودیوں کے اندر غلط فہمی سے یہ احساس پیدا ہوگیا تھا کہ مسیح زمین کی بادشاہت چاہتا ہے حالانکہ وہ آسمانی بادشاہت چاہتا تھا اور عیسائیوں کے دلوں میں اس مقصد کے حصول کے لئے جوش پیدا ہوگیا تھااور وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے اور اسی مقصد کے پیش نظر ان میں سے ہر ایک قربانی کرتا تھا اور ان میں یک جہتی اور یکسوئی پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے وہ جماعت طاقت پکڑگئی۔
پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ نے بتایا کہ مسیح ؑ جو کہتا تھا کہ میں کچھ مدت کے بعد آسمان پر چلا جاؤں گا یہ در اصل پیشگوئی تھی کہ ایک مدت تک میری بادشاہت قائم رہے گی پھر خدا کسی اور کو بھیج دے گا جس کی حکومت دائمی ہوگی۔ پس جب مسیح کی بادشاہت آسمان پر چلی گئی تو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج دیا۔ شروع شروع میں آپ کے ساتھ دس بیس صحابہؓ تھے لیکن ان میں سے ہر شخص یہ سمجھے ہوئے تھا کہ میں نے ہی خدا تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ کام صرف اور صرف ہمارا ہی ہے اور اس کوہم نے ہی سر انجام دینا ہے۔ عتبہ ،شیبہ، ولید اور ابوجہل وغیرہ نے سر انجام نہیں دینا۔ پس وہ سب کے سب خدا تعالیٰ کے دین اور اس کی بادشاہت کے قیام کے لئے لگے رہے اور آخر کامیاب ہوگئے۔ اس وقت ہر شخص جو اسلام کے اندر داخل ہوتا تھا وہ اس ارادہ سے آتا تھا کہ میں نے اپنی جان کو ہلاک کر دینا ہے مگر خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کرکے چھوڑنا ہے اور ان میں سے ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ یہ کام میں نے ہی کرنا ہے۔ یہ قدرتی بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی کام کے متعلق یہ سمجھ لے کہ یہ میں نے ہی کرنا ہے تو اس کے اندر بیداری پیدا ہو جاتی ہے۔ عام طور پر ہمار ی جماعت کے لوگوں کا طریق ہے کہ وہ ایک دوسرے کو دعا کے لئے کہتے رہتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو سنجیدگی کے ساتھ اور ضرورتاً کہتے ہیں اور بعض عادتاً کہہ جاتے ہیں اور پھر جن کو دعا کے لئے کہا جاتا ہے وہ بھی ان دونوں پہلوؤں کو لیتے ہیں جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ مجھ کو جو دعاکے لئے کہا گیا یہ ضرورتاً اور سنجیدگی کے ساتھ نہیں کہا گیا تو وہ دعا نہیں کرتا اور بھول جاتا ہے لیکن جو شخص دعا کی درخواست کرنے والے کے متعلق یہ سمجھتا ہے کہ اس کو واقعی کوئی مصیبت در پیش تھی اور اس نے مجھ سے دعا کی قبولیت پر یقین رکھتے ہوئے دعا کی درخواست کی ہے وہ ضرور دعا کرتا ہے اور ایسی دعاہی اللہ تعالیٰ کے حضور قبول ہوتی ہے۔ مثلاً مجھے اپنا ایک واقعہ یاد ہے کہ ۱۸۔۱۹۱۷ء میں ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب انگریزی فوج میں بھرتی ہو کر بغداد گئے۔ ان کے بھائی نذیر احمد صاحب یہاں تھے۔ وہ ہمارے چھوٹے بھائی میاں شریف احمد صاحب کے ساتھ پڑھتے رہے تھے۔ اُن دنوں ہمارا طریق تھا کہ ہم حضرت اماں جان مد ظلہا العالی کے ساتھ شام کا کھانا کھایا کرتے تھے ایک دن ہم کھانا کھا رہے تھے تو عزیزم میاں شریف احمد صاحب نے مجھے بتایا کہ انہیں نذیر احمد صاحب نے بتایا ہے کہ ان کے بھائی ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب مارے گئے ہیں اور یہ خبر ان کو گورنمنٹ کی طرف سے ملی ہے۔ اس سے کچھ دن پیشتر انہی ڈاکٹر صاحب کی والدہ اور والد صاحب یہاں آئے تھے اور میں نے ان دونوں کو دیکھا تھا وہ دونوں بہت ضعیف تھے اور عجیب بات یہ ہے کہ میں یہ سمجھتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب ان کے اکلوتے بیٹے ہیں حالانکہ وہ سات بھائی تھے۔ جب میں نے ان کے مارے جانے کی خبر سنی تو مجھے ان کے بوڑھے والدین کا خیال کر کے بہت صدمہ ہوا اور مَیں نے خیال کیا کہ ان بے چاروں کا وہی ایک بیٹا بڑھاپے کا سہارا تھا اب ان کا کیا حال ہوگا۔ چنانچہ جب میں عشاء کی نماز کے بعد بیت الدعا میں سنتیں پڑھنے کے لئے گیا تو نہایت جوش اور رقت کے ساتھ میرے منہ سے بار بار یہ الفاظ نکلنے لگے کہ الٰہی! ڈاکٹر مطلوب خاں زندہ ہو جائیں مگر پھر میرے دل میں خیال آتا کہ ہمارا تو یہ عقیدہ ہی نہیں کہ کوئی شخص ایک دفعہ مر کر دوبارہ زندہ ہو جائے مگر اس خیال کے آنے کے بعد بھی میرے منہ سے بے اختیار یہ دعا نکل جاتی کہ الٰہی! ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب زندہ ہو جائیں اور یہ دعا برابر میرے منہ سے نکلتی رہی۔ رات کو جب میں سویا تو میں نے رؤیا میں دیکھا کہ ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب مجھے ملے ہیں اورانہوں نے تین چار دن پہلے کی تاریخ بتا کر کہا کہ میں زندہ ہوں۔ میں نے دوسرے دن کھانا کھاتے وقت یہ خواب میاں شریف احمد صاحب کوسنائی اور ساتھ ہی کہا یہ خواب ہے تو سچی کیونکہ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ خواب سچی ہے مگر میں واقعات کو کیا کروں مرے ہوئے آدمی تو زندہ نہیں ہو سکتے اور اِس کی کوئی اور تعبیر سمجھ میں نہیں آتی۔میاں شریف احمد صاحب نے میری یہ خواب نذیر احمد صاحب کو سنائی وہ بھی اس پر حیران ہوئے لیکن دوسرے ہی دن نذیر احمد صاحب نے بتایا کہ ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کی تار آئی ہے کہ میں صحیح سلامت ہوں۔ یہ سن کر سب حیران رہ گئے کہ گورنمنٹ تو اطلاع دے رہی ہے کہ مطلوب خاں فوت ہو چکا ہے اور خود مطلوب خاں صاحب تار دیتے ہیں کہ میں زندہ ہوں۔اصل بات یہ تھی کہ ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب ایک لڑائی میں شامل ہوئے اور اسی حملہ میں ایک ڈاکٹر کی لاش ملی وہ ڈاکٹر تو سکھ تھا مگر اس کی داڑھی کی وجہ سے انہوں نے سمجھا کہ یہ ڈاکٹر مطلوب خاں کی لاش ہے اور چونکہ لاش کا چہرہ بالکل پہچاننے کے قابل نہ رہ گیا تھا اور پھر وہاں ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب ہی معروف تھے اس لئے سمجھ لیا گیا کہ وہ مارے گئے ہیں اور گورنمنٹ نے ان کے مرنے کی خبر بھی دے دی۔ درحقیقت مطلوب خاں صاحب کو دشمن قید کر کے لے گئے تھے اور جب اتحادیوں کے ہوائی جہازوں نے دشمن پر بمباری کی تو دشمن میں افراتفری پھیل گئی اور یہ کسی طرح بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ پس دعا کے لئے درد دل کا ہونا ضروری ہے۔
ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے دل میں سب سے بڑھ کر کس شخص کے لئے دعا کرنے کے لئے جوش پیدا ہوتا ہے انہوں نے فرمایا جو شخص میرے پاس آکر یہ کہے کہ میرا آپ کے سوا اور کوئی نہیں ہے اس کے لئے میرے دل میں بہت جوش پیدا ہوتا ہے۔ پس جو آکر کہتا ہے کہ میرا تمہارے سوا اور کوئی نہیں اس کے لئے دل میں درد پیدا ہو جاتا ہے مثلاً جب میں نے ڈاکٹر صاحب کی وفات کی خبر سنی تو مجھے ان کے بوڑھے والدین کا خیال کر کے سخت صدمہ ہوا اور میں نے خیال کیا کہ ان کا میرے سِوا کوئی نہیں رہا اس لئے اس قدر درد اور سوز کے ساتھ میرے دل سے دعائیں نکلیں کہ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کو صحیح سلامت رکھ لیا۔ پس کسی مقصد کے لئے یہ جان لینا ضروری ہوتا ہے کہ یہ کام صرف میں نے ہی سرانجام دینا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے مرسل جب آتے ہیں اُس وقت ہر شخص جو ان کی جماعت میں داخل ہوتا ہے یہ سمجھتا ہے کہ دین کا کام میرے سوا اور کسی نے نہیں کرنا جب وہ یہ سمجھ لے تو وہ اس کی انجام دہی کے لئے اپنی ساری قوتیں صرف کر دیتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ مجنوں بن جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب فوت ہوئے تو میں نے اس قسم کی آوازیں سنیں کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے ایسا کہنے والے یہ تو نہیں کہتے تھے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ آپ جھوٹے ہیں مگر یہ کہتے تھے کہ آپ کی وفات ایسے وقت میں ہوئی ہے جبکہ آپ نے خدا تعالیٰ کا پیغام اچھی طرح نہیں پہنچایا اور پھر آپ کی بعض پیشگوئیاں بھی پوری نہیں ہوئیں۔ میری عمر اُس وقت اُنیس سال کی تھی۔ میں نے جب اِس قسم کے فقرات سنے تو میں آپ کی لاش کے سرہانے جا کر کھڑا ہوگیا اور مَیں نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے دعا کی کہ اے خدا! یہ تیرا محبوب تھا جب تک یہ زندہ رہا اس نے تیرے دین کے قیام کے لئے بے انتہاء قربانیاں کیں اب جبکہ اس کو تُونے اپنے پاس بلالیا ہے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس کی وفات بے وقت ہوئی ہے ممکن ہے ایسا کہنے والوں یاان کے باقی ساتھیوں کے لئے اس قسم کی باتیں ٹھوکر کا موجب ہوں اور جماعت کا شیرازہ بکھر جائے اس لئے اے خدا! میں تجھ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی تیرے دین سے پھر جائے تو میں اس کے لئے اپنی جان لڑا دوں گا۔ اُس وقت میں نے سمجھ لیا تھا کہ یہ کام میں نے ہی کرنا ہے اور یہی ایک چیز تھی جس نے ۱۹ سال کی عمر میں ہی میرے دل کے اندر ایک ایسی آگ بھر دی کہ میںنے اپنی ساری زندگی دین کی خدمت پر لگا دی اور باقی تمام مقاصد کو چھوڑ کر صرف یہی ایک مقصد اپنے سامنے رکھ لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس کام کے لئے تشریف لائے تھے وہ اب میں نے ہی کرنا ہے۔ وہ عزم جو اُس وقت میرے دل کے اندر پیدا ہوا تھا آج تک میں اُس کو نت نئی چاشنی کے ساتھ اپنے اندر پاتا ہوں اور وہ عہد جو اُس وقت میں نے آپ کی لاش کے سرہانے کھڑے ہو کر کیا تھا وہ خضر راہ بن کر مجھے ساتھ لئے جاتا ہے ۔ میرا وہی عہد تھا جس نے آج تک مجھے اس مضبوطی کے ساتھ اپنے ارادہ پر قائم رکھا کہ مخالفت کے سینکڑوں طوفان میرے خلاف اُٹھے مگر وہ اس چٹان کے ساتھ ٹکرا کر اپنا ہی سر پھوڑگئے جس پر خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا تھا اور مخالفین کی ہر کوشش، ہر منصوبہ اور ہر شرارت جو انہوں نے میرے خلاف کی وہ خود انہیں کے آگے آتی گئی اور خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل کے ساتھ مجھے ہر موقع پر کامیابیوں کا منہ دکھایا یہاں تک کہ وہی لوگ جو حضرت مسیح موعودد علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے وقت یہ کہتے تھے کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے آپ کے مشن کی کامیابیوں کو دیکھ کر انگشت بدنداں نظر آتے ہیں۔پس جو شخص یہ عہد کر لیتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ یہ کام میں نے ہی سر انجام دینا ہے اُس کے رستہ میں ہزاروں مشکلات پیدا ہوں، ہزاروں روکیں واقع ہوں اور ہزاروں بند اُس کے رستہ میں حائل ہوں وہ ان سب کو عبور کرتا ہوا اس میدان میں جا پہنچتا ہے جہاں کامیابی اس کے استقبال کے لئے کھڑی ہوتی ہے۔ پس ہماری جماعت کے ہر شخص کو یہ عہد کرلینا چاہئے کہ دین کا کام میں نے ہی کرنا ہے اس عہد کے بعد ان کے اندر بیداری پیدا ہو جائے گی اور ہر مشکل ان پر آسان ہوتی جائے گی اور ہر عسر ان کے لئے یسر بن جائے گی ان کو بے شک بعض تکالیف اور مصائب اور آلام سے بھی دو چار ہونا پڑے گا مگر وہ اس میں عین راحت محسوس کریں گے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے کہ دین کی تکمیل کے لئے صرف تم ہی میرے مخاطب ہو تمہارے صحابہ اس کام میں حصہ لیں یا نہ لیں لیکن تم سے بہر حال میں نے کام لینا ہے۳؎ یہی وجہ تھی کہ آپ رات دن اسی کام میں لگے رہتے تھے اور آپ کی ہر حرکت اور آپ کا ہر سکون اور آپ کا ہر قول اور ہر فعل اِس بات کے لئے وقف تھا کہ خدا تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کیا جائے اور آپ اس بات کو سمجھتے تھے کہ یہ اصل میں میرا ہی کام ہے کسی اور کا نہیں۔ جب آپ فوت ہوئے تو بہت سے نادان مسلمان مرتد ہوگئے تاریخوں میں آتا ہے کہ صرف تین جگہیں ایسی رہ گئی تھیں جہاں مسجدوں میں باجماعت نماز ہوتی تھی۔ اسی طرح ملک کے اکثر لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا کیا حق ہے کہ وہ ہم سے زکوٰۃ مانگے۔ جب یہ رَوْ سارے عرب میں پھیل گئی اور حضرت ابوبکرؓ نے ایسے لوگوں پر سختی کرنی چاہی تو حضرت عمرؓ اور بعض اور صحابہؓ حضرت ابو بکرؓ کے پاس پہنچے اور انہوں نے عرض کیا کہ یہ وقت سخت نازک ہے اِس وقت کی ذراسی غفلت بہت بڑے نقصان کا موجب ہوسکتی ہے اس لئے ہماری تجویز یہ ہے کہ اتنے بڑے دشمن کا مقابلہ نہ کیا جائے اور جو زکوٰۃ نہیں دینا چاہتے ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا جائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ تم میں سے جو شخص ڈرتا ہو وہ جہاں چاہے جائے خدا کی قسم! اگر تم میں سے ایک شخص بھی میرا ساتھ نہ دے گا تو بھی میں اکیلا دشمن کا مقابلہ کروں گا اور اگر دشمن مدینہ کے اندر گھس آئے اور میرے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو قتل کر دے اور عورتوں کی لاشیں مدینہ کی گلیوں میں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں ان سے جنگ کروں گا اور اُس وقت تک نہیں رُکوں گا جب تک یہ لوگ اونٹ کا گھٹنا باندھنے کی وہ رسّی بھی جو پہلے زکوٰۃ میں دیا کرتے تھے نہ دینے لگ جائیں۔۴؎ چنانچہ انہوں نے دشمن کی شرارت کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا اور آخر کامیاب ہوئے صرف اس لئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ کام میں نے ہی کرنا ہے اسی لئے انہوں نے مشورہ دینے والے صحابہؓ کو کہہ دیا کہ تم میں سے کوئی شخص میرا ساتھ دے یا نہ دے میں اکیلا دشمن کا مقابلہ کروں گا یہاں تک کہ میری جان خداتعالیٰ کی راہ میں قربان ہو جائے۔ پس جس قوم کے اندر یہ عزم پیدا ہو جائے وہ ہر میدان میں جیت جاتی ہے اور دشمن کبھی اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ اپنے مقصد کی کامیابی پر یقین ہی ایک ایسی چیز ہے جو کسی قوم کو بامِ رفعت پر پہنچا سکتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ہماری جماعت کے لوگوں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے۔ انہیں جان لینا چاہئے کہ جو مقصدِ عالی ان کے سامنے ہے اسے ہمارے سوا کسی اور نے نہیں کرنا اور یہ کام چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اس لئے کس قدر بھی زیادہ قربانیاں ہمیں اس کے لئے کیوں نہ کرنی پڑیں ہم ان سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہمارے سامنے تاریخ میں ایسی ہزاروں مثالیںموجود ہیں کہ لوگوں نے اپنے آقاؤں کے لئے اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔
ایک بادشاہ اور اس کا نوکر کہیں جا رہے تھے کہ دشمن نے ان کو پکڑ لیا اور بادشاہ کو پھانسی کی سزا مل گئی مگر نوکر نے بادشاہ کو پھانسی سے بچانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا اور کہا بادشاہ یہ نہیں بلکہ میں ہوں اس لئے مجھے پھانسی پر چڑھا یا جائے۔
اسی طرح ایک مشہور واقعہ ہے کہ خانخاناں جو بہرام کے بیٹے تھے اور فوج میں جرنیل تھے شاہجہان کے وقت جب بغاوت ہوئی اور باشاہ کے داماد نے یہ شرارت اُٹھائی تو اس میں خانخاناں کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ اُن کا نوکر جو نَو مُسلم تھا ان کا بہت منہ چڑھا تھا انہوں نے اس کو داروغہ بنا دیا تھا اور لوگ اس نوکر کو جانجاناں کے نام سے پکارتے تھے۔ خانخاناں بہت سخی واقع ہوئے تھے مگر جانجاناں ان سے بھی زیادہ سخی تھا اور ان کا بہت سا مال تقسیم کر دیا کرتا تھا اور لوگ اس پر ہمیشہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ خانخاناں نے اس کو کیوں اتنا منہ چڑھا یا ہوا ہے۔ خانخاناں کی سخاوت کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ وہ کھانا کھانے بیٹھے اور ان کا ایک نوکر چوکری۵؎ جَھل رہا تھا کہ وہ رو پڑا انہوں نے جب اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو اس سے پوچھا تمہارے رونے کی کیا وجہ ہے کیا تمہیں میرے پاس رہنے میں کوئی تکلیف ہے؟ نوکر نے کہا تکلیف تو کوئی نہیں صرف یہ بات ہے کہ میں ایک بہت بڑے رئیس کا بیٹا ہوں اور میرا باپ بھی آپ ہی کی طرح کا رئیس تھا اور بالکل اسی طرح اُس کے سامنے کھانے چنے جاتے تھے اور مہمان پاس بیٹھ کر کھاتے تھے جب میں نے آپ کے دسترخوان پر یہ کھانے دیکھے اور اتنے لوگوں کو کھاتے دیکھا تو مجھے اپنا باپ یاد آگیا اور میں بے اختیار رو پڑا۔ عبدالرحیم خانخاناں نے کہا اچھا ایک بات تو بتاؤ کبوتر کے گوشت کا سب سے زیادہ، اچھا اور لذیذ کونسا حصہ ہوتا ہے؟ جو لوگ کبوتر کا گوشت استعمال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس کا سب سے لذیذ حصہ اس کی کھال ہوتی ہے۔ نوکر نے کہا کبوتر کی کھال سب سے زیادہ لذیذ ہوتی ہے، یہ سن کر خانخاناں سمجھ گئے کہ یہ واقعی کسی رئیس کا لڑکا ہے۔ انہوں نے فوراً حکم دیا کہ اِس نوکر کو حمام میں لے جا کر اسے غسل دیا جائے اور اسے اعلیٰ قسم کا لباس پہنا یا جائے اور دسترخوان پر بٹھا کر کھانا کھلایا جائے۔ چنانچہ اس پر عمل کیا گیا جب دوسرے نوکروں نے یہ واقعہ سنا تو ان میں سے بھی ایک نوکر کا جی للچایا اور اُس نے ارادہ کیا کہ میں بھی اسی قسم کا پارٹ ادا کروں گا چنانچہ دوسرے دن جب وہ لڑکا کھانے کے وقت چوکری جھل رہا تھا اس نے بھی رونا شروع کر دیا۔ خانخاناں نے اس سے پوچھا کہ تم کیوں روتے ہو؟ اس نے کہا بات یہ ہے کہ میرا باپ بھی آپ ہی کی طرح کا ایک رئیس تھا اور اسی طرح اس کے سامنے کھانے رکھے جاتے تھے اور نوکر چاکر اور خدمت گذار ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے میں نے جب آپ کے سامنے دسترخوان دیکھا تو مجھے اپنا باپ یاد آگیا۔ خانخاناں نے بے ساختہ اُس سے پوچھا بتاؤ بکرے کے گوشت کا سب سے لذیذ حصہ کونسا ہوتا ہے؟ نوکر نے بِلا سوچے سمجھے کہہ دیا کہ کھال۔ خانخاناں نے نوکروں کو حکم دیا کہ نکال دو اِس بدتمیز کو اس نے جھوٹ بولا ہے۔
خانخاناں کے متعلق ایک اور لطیفہ بھی مشہور ہے۔ کہتے ہیں وہ بہت زیادہ خوبصورت تھے ایک امیر عورت اُن پر فریفتہ ہو گئی اور اُس نے اُن سے کہا میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں تا کہ میرا بیٹا آپ ہی کی طرح کا خوبصورت ہو۔ وہ ہر روز اُن کو شادی کا پیغام بھیجتی تھی مگر وہ انکار کر دیتے تھے۔ ایک دن تنگ آکر اُنہوں نے اُس عورت کو لکھا کہ بچہ ہونا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور فرض کرو میرے ساتھ شادی کر کے بھی تمہارے ہاں کوئی لڑکا نہ پیدا ہو تو تمہاری ساری محنت ضائع جائے گی اس لئے بہتر ہے کہ تم مجھی کو اپنا بیٹا سمجھ لو جس طرح میں اپنی والدہ کی خدمت کیا کرتا ہوں اسی طرح تمہاری بھی خدمت کیا کروں گا۔
غرض میں بیان کر رہا تھا کہ خانخاناں بھی سخی تھے ان کا نوکر جانجاناں ان سے بھی زیادہ سخی تھا اور وہ ان کا بہت سا مال لٹا دیتا تھا۔ لوگ یہ دیکھ کر ناراض ہوتے اور کہتے آپ نے اس نوکر کو اتنا کیوں سر چڑھا رکھا ہے۔ خانخاناں ہمیشہ یہ جواب دیا کرتے کہ جب کبھی مجھ پر کوئی مصیبت کا وقت آیا اُس وقت اِس نوکر کی وفاداری دیکھ لینا۔ چنانچہ جب بغاوت کے زمانہ میں ان پر بھی بغاوت کا الزام لگایا گیا اور اُن کو پھانسی کا حکم ہوا اور سپاہی ان کو پکڑنے کے لئے آئے تو باقی تمام نوکر تو بھاگ گئے لیکن جانجاناں اکیلا اُن کے مقابلہ میں سینہ تان کر کھڑا ہوگیا اور مقابلہ کرتے کرتے اُس نے جان دے دی چنانچہ اب تک اُس کا مقبرہ موجود ہے ایک طرف خانخاناں کا مقبرہ ہے اور دوسری طرف چھوٹا سا جانجاناں کا مزار ہے۔
اب دیکھو دنیا میں چھوٹے چھوٹے محسنوں کے لئے لوگ کتنی قربانیاں کرتے ہیں پھر جب وہ فانی دنیا کے فانی محسنوں کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں یا یوں سمجھ لو کہ جب وہ کوئلوں کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں تو تم روحانی موتیوں اور ہیروں کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کو کیوں قربان نہیں کر سکتے۔ اگر تم ایسا کرو اور اپنی جانیں خدا تعالیٰ کے سپرد کر دو تو اللہ تعالیٰ تمہیں غیر معمولی ترقی عطا فرمائے گا اور تمہارا قدم ہمیشہ ترقی کی طرف بڑھتا چلا جائے گا۔قرآن کریم نے نہایت واضح الفاظ میں بتایا ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ کی راہ میں اپنی جان کی حقیر قربانی پیش کرتا ہے اُسے ابدی حیات عطا کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے َ۶؎ یعنی جو لوگ میری راہ میں اپنی جان دیتے ہیں تم انہیں مُردہ مت کہو وہ لوگ ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں لیکن تم سمجھتے نہیں گویا خدا ان کے لئے مُردہ کا لفظ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کی غیرت کہتی ہے کہ جن لوگوں نے میرے راستہ میں جان دی ہے ان کو مُردہ کہنا بھی گناہ کی بات ہے مُردہ وہ ہیں جو دنیا کے لئے مرے نہ وہ جو خدا کے لئے مرے اور انہوں نے ابدی حیات پائی۔ اب دیکھو یہ خدا تعالیٰ کی کتنی غیرت ہے کہ وہ ان کے لئے مُردہ کا لفظ بھی برداشت نہیں کر سکتا وہ کہتا ہے میرا بندہ کمزور تھا اور اسے صرف مرنا آتا تھا اُس نے مر کر دکھا دیا مگر مجھے زندہ کرنا آتا ہے اس لئے اب میرا فرض ہے کہ میں اسے ابدالآباد کے لئے زندہ رکھوں۔
پس ہماری جماعت کے ہر چھوٹے اور بڑے، نوجوان اور بوڑھے کو اس مقام پر کھڑا ہو جانا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنا ہی سب سے بڑی سعادت ہے۔ جب کوئی شخص اس یقین سے لبریز ہو جاتا ہے تو اس کی ساری کمزوریاں دور ہو جاتی ہیں اور اس کے اندر اتنی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں سے بھی ٹکر لینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔
پس سب سے پہلی چیز جو دینی جماعتوں کی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں اپنے مقصد عالی کے متعلق پورا پورا یقین ہو جب کسی قوم کو یہ یقین حاصل ہو جائے اُس کا رُعب دوسروں پر چھا جاتا ہے اور وہ اس سے ڈرنے لگ جاتے ہیں۔ ہمارے سامنے صحابہؓ کی ایک مثال موجود ہے ایک دفعہ ایک یہودی جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ قرض لیا تھا اور پھر آپ نے اسے ادا بھی کر دیا تھا آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ نے مجھ سے کچھ قرض لیا تھا جو ابھی تک ادا نہیں کیا آپ نے فرمایا وہ تو میں نے ادا کر دیا ہوا ہے۔ یہودی کو تو یہ خیال تھا کہ خواہ میں اپنا قرض واپس لے چکا ہوں مگر جب میں لوگوں کے سامنے آپ سے پھر مانگوں گا تو اِس وجہ سے کہ قرض کی واپسی کے وقت کوئی گواہ موجود نہ تھا آپ گھبرا کر دوبارہ مجھے روپیہ دے دیں گے مگر آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہارا قرض واپس کر دیا تھا۔ اُس نے پھر اصرار کیا اور کہا کہ آپ کو یاد نہیں رہا میرا قرض آپ نے ابھی تک واپس نہیں کیا۔ اس پر ایک صحابی کھڑے ہوگئے انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے قرض ادا کر دیا ہوا ہے۔ اس سے یہودی ڈر گیا اور کہنے لگا ہاں اب مجھے یاد آگیا ہے کہ آپ نے قرض واپس کر دیا تھا جب یہودی چلا گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابیؓ سے فرمایا مجھے تو یہی یاد پڑتا ہے کہ جب میں نے اُس کا قرض واپس کیا تھا تو ہم دونوں کے سوا اور کوئی آدمی پاس نہ تھا تم نے کیسے گواہی دے دی؟ اس صحابیؓ نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ!آپ ہر روز ہمیں فرماتے ہیں کہ آج خدا تعالیٰ نے مجھے یہ کہا اور آج یہ کہا اور ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کی ہر بات سچی ہوتی ہے۔ تو جب آپ یہ فرما رہے تھے کہ میں نے قرض ادا کر دیا ہے تو میں اس بات کوکیوں سچ یقین نہ کرتا۔ پس جب صحابہؓ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنا یقین تھا جو ایک بشر تھے تو جب خدا تعالیٰ ہم سے کہتا ہے کہ تم مروگے تو ہمیں کیوں نہ یقین آئے گا ہمیں تو خدا تعالیٰ پر بہت زیادہ یقین ہونا چاہئے اور ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ جس دن ہم اس رنگ میں اپنی قربانیاں خداتعالیٰ کے حضور پیش کر دیں گے ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کر نے لگ جائے گی۔
پس یقین کر لو کہ اس مقصد سے بڑھ کر اور کوئی مقصدنہیں جو ہمارے سامنے رکھا گیا ہے جب ہم اس مقصد پر قائم ہو جائیں گے تو ہم کبھی ناکام نہیں رہ سکتے کیونکہ جب خدا تعالیٰ نے کہہ دیا ہے کہ تم نے کامیاب ہو جانا ہے تو اس میں شبہ کرنے والا مؤمن نہیں کہلا سکتا یہ یقین قوم کے اندر ایسا جوش، جذبہ اور ولولہ پیدا کر دیتا ہے کہ دوسرے لوگ مؤمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہی بھانپ جاتے ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی بالا طاقت ہے اور وہ اپنی آنکھیں نیچی کر لیتے ہیں۔ انسان کی سمجھ جانوروں سے تو بہر حال زیادہ ہوتی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ دو کتے جب ایک دوسرے کو غراتے ہیں تو ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو کر غوں غوں کرتے ہیں کچھ دیر اسی طرح کرنے کے بعد ایک کتا دُم دَبا کر بھا گ جاتا ہے اِس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس کی غوں میں طاقت ہے۔ اسی طرح جب مؤمن یقین کے ساتھ پُر ہو کر مقابلہ کے لئے نکلتا ہے تو کوئی اس کے مقابلہ میں ٹھہر ہی نہیں سکتا۔
مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ شملہ گیا وہاں ایک گریجوایٹ ہندو تھے میں نے ان کے سامنے مثال پیش کی کہ ہمیں اپنے مذہب کی سچائی پر اتنا کامل یقین ہے کہ اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ انہوں نے کہا آپ یہ کس طرح کہتے ہیں اپنے اپنے مذہب کی سچائی پر ہر شخص کو کامل یقین ہوتا ہے۔ مَیں نے کہا آپ کو وہ یقین حاصل نہیں جو مجھے ہے۔ انہوں نے کہا اس بات کا کیا ثبوت آپ کے پاس ہے؟ میں نے کہا کہ جس طرح میں خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ اسلام سچا مذہب ہے اور قرآن کریم خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اس طرح کی قسم آپ نہیں کھا سکتے۔ انہوں نے کہا میں بھی یہ قسم کھا سکتا ہوں کہ اگر میرا مذہب جھوٹا ہے تو مجھ پر خدا کا عذاب نازل ہو۔ میں نے کہا یہ قسم تو کوئی معنی ہی نہیں رکھتی قسم اِس طرح ہونی چاہئے کہ اے خدا! اگر میرا مذہب سچا نہیں ہے تو تُو مجھ پر، میرے بیوی بچوں پر، میرے خاندان پر اور میری تمام نسلوں پر عذاب نازل کر اور میں ایسی قسم اُٹھانے کے لئے تیار ہوں آپ بھی ایسی ہی قسم اُٹھائیں۔ اس پر وہ کہنے لگے آپ میرے بیوی بچوں کو درمیان میں کیوں لاتے ہیں؟ میں نے کہا اگر آپ کو اپنے مذہب کی سچائی پر کامل یقین ہے تو پھر آپ بیوی بچوں کو بیچ میں لانے سے گھبراتے کیوں ہیں۔ جس کو کامل یقین ہو اس کے لئے تو گھبرانے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہو سکتی اور اسی لئے تو میں نے کہا تھا کہ آپ کو وہ یقین اپنے مذہب کی سچائی پر نہیں جو مجھ کو اپنے مذہب کی سچائی پر ہے۔
غرض ہماری جماعت کو یقین کامل رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے ’’نیمے دروں نیمے بروں‘‘۸؎ والا ایمان کسی کام کا نہیں ہوتا۔ایسا ایمان تو دنیا کی دوسری قوموں مثلاً یہودیوں اور عیسائیوں کے اندر بھی پایا جاتا ہے۔ تمہیں اس بات پر کامل یقین ہونا چاہئے کہ ہم جس مقصد کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں وہ مقصد نہایت اعلیٰ ہے اور وہ وہی ہے جس کا ہمارے خدا نے ہمیں حکم دیا ہے اور تم سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ نے جو امانت ہمارے سپرد کی ہے اس میں خیانت کرنا مؤمنانہ شان کے خلاف ہے اور ہم نے جو کچھ کرنا ہے محض خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کے لئے کرنا ہے۔ جب ہم میں سے ہر شخص اس راز کو اچھی طرح سمجھ لے گا اور اپنے اندر ایک نمایاں تبدیلی پیدا کرے گا تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپ کے رنگ میں رنگیں ہو کر کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کرتا چلا جائے گا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی صحابہؓ کو اس لئے کامیابی حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان میں ابوبکرؓ ،عمرؓ ،عثمانؓ، اور علیؓ تھے بلکہ اس لئے کامیابی حاصل ہوئی تھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے سب کے سب آپ کے رنگ میں رنگیں ہوگئے تھے اور انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ دین کی ساری ذمہ داری ہم پر ہی ہے۔ جب انہوں نے اپنے آپ کو اِس مقام پر کھڑا کر لیا تو اُن کو ہر مشکل آسان نظر آنے لگ گئی اور انہوں نے دین کے لئے وہ قربانیاں پیش کیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آگئی او راُس نے اپنے فرشتوں کی فوجیں ان کی مدد کے لئے اُتاردیں اور وہ جہاں بھی گئے کامیاب و با مراد ہوئے۔ یہاں تک کہ وہ اس وقت کی تمام معلومہ دنیا پر چھا گئے اور انہوں نے دنیا کے کونے کونے میں خدا اور اس کے رسول کے نام کو بلند کر دیا۔ آج ہماری جماعت بھی صحابہؓ کے نقش قدم پر چل رہی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے بھی اُنہی قربانیوں کا مطالبہ کرے جن کا اس نے صحابہؓ سے مطالبہ کیا تھا جب تم وہ قربانیاں پیش کردو گے تو خدا تعالیٰ کے فضل تم پر بھی اسی طرح نازل ہونے شروع ہو جائیں گے جس طرح صحابہؓ پر نازل ہوئے تھے۔
فرمودہ ۶؍ جون ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب
میں نے کل بتایا تھا کہ کسی قوم کی کامیابی کے لئے سب سے پہلی چیز جو ضروری ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے سامنے کوئی مقصدِ عالی ہو اورپھر اس مقصد کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہواور اس کے مفید ہونے پر اسے کامل یقین ہو، ایساکامل یقین کہ کبھی اس کے متعلق قوم کے اندر یہ شبہ ہی پیدا نہ ہو کہ یہ مفید اور بابرکت نہیں ہے اور سب سے بہترین مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ انسان یا قوم اپنے پیدا کرنے والے خدا کے ساتھ گہرا تعلق پیدا کرے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے سپرد کوئی کام کیا جائے جس میں غلطی کا امکان ہی نہ ہوسکتا ہو۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کبھی انسان اپنے لئے خود کوئی مقصد تلاش کرتا ہے تو اُس کے متعلق اُس کے دل میں بسا اوقات شبہات اور وساوس پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ نہ معلوم یہ مقصد صحیح اور مفید اور بابرکت ہے یا نہیں ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ شاید میں غلطی کر رہا ہوں۔ دنیا میں بیسیوں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ کئی لوگوں نے اپنے لئے ایک مقصد تلاش کیا اور کچھ عرصہ تک اُس کو اپنائے رکھا لیکن یکدم ان کی حالت میں تبدیلی پیدا ہو گئی اور انہوں نے اس مقصد کو ترک کر دیا اور جب ان سے پوچھا گیا کہ تم نے اپنے سامنے اتنے عرصہ تک ایک مقصد رکھا تھا اور اب تم اسے چھوڑ رہے ہو اِس کی کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے کہہ دیا کہ وہ مقصد چونکہ ہمارے لئے مفید نہ تھا اِس لئے اس کا چھوڑنا ہی ضروری تھا۔بعض لوگ دیکھے گئے ہیں کہ پہلے تو وہ اپنی تمام تر توجہ تعلیم کی طرف مرکوز کر دیتے ہیں لیکن تھوڑا ہی عرصہ گزرتا ہے کہ ان کی حالت میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ تعلیم کے ارادہ کو ترک کر کے بلکہ بسا اوقات اسے اپنے حالات کے لئے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے سیاسیات میں حصہ لینا شروع کر دیتے ہیں اور جب ان سے پوچھا جائے کہ یہ تم نے کیا کیا کہ تعلیم کو چھوڑ سیاست میں آگئے تو وہ کہتے ہیں کہ اب ہمارے لئے تعلیم کا چھوڑنا اور سیاست میں حصہ لینا ہی مفید تھا لیکن جو شخص یا قوم ایک ایسامقصد سامنے رکھے جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے اسے کہا ہو اور اس کو اپنی کامیابی پر کامل یقین ہو تو وہ کبھی اس کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ مقصد غلط ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ نے اس کے لئے وہ مقصد قرار دیا ہو گا تو وہ ہر قسم کی غلطیوں سے پاک ہوگا اور اگر خدا نے تو اُس کو نہیں کہا بلکہ اس نے اپنے آپ ایک مقصد کو اپنا لیا ہے تو اس کے متعلق اُس کے دل میں شبہات بھی پیدا ہو سکتے ہیں اور وساوس بھی ہوسکتے ہیں۔یا پھر یوں کہنا چاہئے کہ جس مقصد کو خدا کی رضا کے لئے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے اختیار کیا گیا ہو اس میںتبدیلی کا ہر وقت امکان ہوسکتا ہے۔ پس جب ایک دفعہ انسان کسی مقصد کو یہ کہہ کر اختیار کرتا ہے کہ اس کے متعلق خدا نے مجھے حکم دیا ہے تو وہ کبھی اس کے غیر مفید ہونے کے متعلق شکوک میں مبتلا نہیں ہو سکتا۔ اور اگر کوئی شخص پہلے تو یہ کہے کہ اس مقصد کاخدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے اور بعد میں کہنے لگ جائے کہ اس کا حکم تو خدا نے دیا ہے مگر یہ میرے لئے مفید نہیں ہے تو ایسے شخص کو ہر کوئی پاگل سمجھے گا کیونکہ اُس کا یہ کہنا تو درست ہو سکتا ہے کہ میں خدا کو نہیںمانتا یا خدا نے یہ حکم مجھے نہیں دیا تھا بلکہ میں نے اپنے ارادہ سے اس مقصد کو اپنے سامنے رکھا تھااور اب اسے چھوڑ رہا ہوں لیکن خدا تعالیٰ کے وجود کو مانتے ہوئے اور کچھ عرصہ پہلے یہ کہتے ہوئے کہ اس مقصد کے لئے خدا نے مجھے حکم دیا ہے بعد میں کہہ دینا کہ یہ میرے لئے مفید نہیں ہے بالکل پاگل پن کی بات ہے۔ خداتعالیٰ کی طرف کسی مقصد کو منسوب نہ کرتے ہوئے بلکہ اپنے ارادہ کی طرف منسوب کر کے اسے چھوڑ دینے والے کو غلطی خوردہ تو کہہ سکتے ہیں پاگل نہیں کہیں گے لیکن جو شخص کہے کہ ہے تو خدا ہی کی طرف سے لیکن یہ غلط ہے اُس کو ہر کوئی پاگل سمجھے گا اور اِس بات کو کوئی شخص درست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہو گا کہ وہ خدا کی طرف سے بھی ہو اور غلط بھی ہو۔ خدا تعالیٰ کو کامل علیم و خبیر اور مقتدر ہستی تسلیم کرتے ہوئے اوراُس کی ذات کو محیط ِ کُل مانتے ہوئے یہ کہنا کہ اُس نے غلط بات کہہ دی ہے سوائے کسی پاگل اور مجنون کے اور کسی انسان کا کام نہیں۔ پس جو لوگ خداتعالیٰ کو مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں مقصد کے لئے خدا نے ہمیں حکم دیا ان کے متعلق اس امر کا امکان ہی نہیں ہو سکتا کہ بعد میں وہ کہہ دیں کہ یہ ہے تو خدا کی طرف سے مگر ہے غلط لیکن جو لوگ خود اپنے لئے کوئی مقصد تلاش کر لیتے ہیں اور اس کو خدا کی طرف منسوب نہیں کرتے اور بعد میں اسے چھوڑنا چاہیں یا بدلینا چاہیں تو وہ چھوڑ بھی سکتے ہیں اور بدل بھی سکتے ہیں۔ ایسے لوگ تعلیم حاصل کرتے کرتے یکدم چھوڑ دیتے ہیں اور سیاسیات میں حصہ لینا شروع کر دیتے ہیں یا پھر ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص سیاسیات میں حصہ لیتے لیتے یکدم اسے چھوڑ دیتا ہے۔ جیسے گاندھی جی کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ سیاست کرتے کرتے انہوں نے یکدم پہلو بدلا اور کہا میں تو اب چرخہ ہی کاتوں گا سیاست سے میں نے کنارہ کشی کر لی ہے اور چاہے وہ سنجیدگی کے ساتھ کہتے ہیں یا بناوٹ کے ساتھ وہ فخر کے ساتھ کہا کرتے ہیں کہ میں تو کانگرس کا چار آنے کا ممبر بھی نہیں ہوں۔ اسی قسم کی اور بھی ہزاروں مثالیں دنیا میں پائی جاتی ہیں کہ لوگوں نے ایک کام کرتے کرتے دوسرا اختیار کر لیا اور اس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ ان کو وہ مقصد اس ہستی کی طرف سے نہیں دیا گیا ہوتا جس کے متعلق غلطی کا امکان نہیں صرف ان کی اپنی عقل نے ان کو پہلے اِدھر لگایا اور پھر اُدھر لگا دیا۔
مسنراینی بسنٹ ایک بڑی لیڈر عورت تھی اور وہ یہ دعویٰ کرتی تھی کہ مجھے الہام ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا وجود نہ مانتی تھی بلکہ کہتی تھی کہ انسانوں سے اوپر ایک بالا ہستی ہے جو ایک قسم کا مرکزی نقطہ ہے وہ ارواح کو باتیں بتاتی ہے اور ارواح آگے انسانوں تک ان باتوں کو پہنچاتی ہیں۔ مسز اینی بسنٹ نے مدراس کے دو لڑکوں میں سے ایک کے متعلق کہا کہ اس پر خدا کا کلام نازل ہوگا اور یہ دنیا کی اصلاح کرے گا اور مسیح سے بھی بڑا ہوگا اور کہا میری شان یہ ہے کہ میں صرف اس اوتار کو تیار کرنے کے لئے پیدا ہوئی ہوں۔ چنانچہ اس نے کچھ روپیہ اُن دونوں لڑکوں کے والدین کو دے کر وہ لڑکے لے لئے اور اُن کو اپنی نگرانی میں اعلیٰ تعلیم دینی شروع کی اور ان کی ہر وقت کی نگرانی کے لئے اُس نے مسمریزم کے ماہرین مقررکئے اور اُن کی اتنی نگرانی کی جاتی کہ جب وہ لڑکے قضائے حاجت کے لئے جاتے تو مسمریزم کے ماہرین باہر کھڑے رہتے اور ان پر توجہ ڈالتے تا کہ ان کے اندر بُرے خیالات نہ آنے پائیں۔ جب میں ولایت سے واپس آرہا تھا تو اسی جہاز میں وہ دونوں لڑکے بھی تھے۔ ہم نے دیکھا کہ وہ لڑکے جدھر جاتے اُن کی سخت نگرانی کی جاتی۔ ان میں سے جو بڑا لڑکا تھا وہ چھپ چھپا کر بعض دفعہ اِدھر اُدھرنکل جایا کرتا تھا۔ اُس سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ تمہارا ان باتوں کے متعلق کیا خیال ہے؟ اس نے کہایہ سب باتیں بالکل لغو ہیں میں ان کو نہیں مانتا۔ مگرچھوٹا لڑکاجس کے متعلق مسز اینی بسنٹ نے کہا تھا کہ یہ بڑا ہو کر دنیا کی اصلاح کرے گا اور فلاں سنہ میں اپنادعویٰ پیش کرے گا وہ اپنے آپ کو بالکل الگ تھلگ رکھتا تھا اور ایسی شکل بنائے رکھتا تھا جیسے کسی گہری سوچ میں ہو اور کسی بڑی مہم کے متعلق غورو فکر کر رہا ہو۔ کچھ عرصہ کے بعد جب وہ سنہ اور وہ تاریخ آگئی جو مسز اینی بسنٹ نے اُس لڑکے کے دعویٰ کے لئے بیان کی تھی تواُن دنوں سارے ہندوستان میں اُس کے دعویٰ کے متعلق بڑا شور مچا اور جلسے منعقد کئے گئے۔ ایک جلسہ لاہور میں بھی ہوا تھا لیکن اُس جلسہ میں اُس لڑکے نے جو تقریر کی اُس کو سن کر دنیا حیران رہ گئی۔ اُس نے اپنی تقریر میں کہا خدا کا وجود صرف ایک ڈھکوسلہ ہے نہ الہام ہوتا ہے نہ کچھ اور۔ غرض جو مقصد اس کا مسز اینی بسنٹ نے بتایا تھا وہ سب غلط ہو گیا اور وہ خدا تعالیٰ کے وجود کا ہی منکر ہوگیاچہ جائیکہ وہ دنیا کی اصلاح کا کام کرتا اور حضرت مسیحؑ سے بھی بڑا اوتار ہوتا۔ یہ اس لئے ہوا کہ یہ مقصد ایک انسان کا تھا خدا کا نہ تھا۔ مسنراینی بسنٹ نے اُس کو کافی روپیہ دیکر خریدا، اس کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائی، اُس کی دن رات نگرانی کی، اُس کے لئے چیدہ چیدہ معلمین مقرر کئے، بڑے بڑے ماہرین مسمریزم اُس کے لئے بہت بڑی تنخواہوں پر رکھے، اُس کی ہر حرکت اور اُس کے ہر سکون کی نگرانی کی گئی حتیٰ کہ پاخانہ کے وقت بھی مسمریزم کے ماہرین اُس پر توجہ ڈالتے رہے تا کہ اس کے اندر بدخیالات نہ آنے پائیں۔ غرض اس کی تعلیم، اس کی نگہداشت اور اُس کے لئے ہر قسم کے اعلیٰ سامان مہیا کئے گئے صرف اِس لئے کہ یہ لڑکا جب بڑا ہوگا تو دنیا میں ایک نیا مشن قائم کرے گا اور دنیا کی اصلاح کرے گا اور مسیحؑ سے بھی بڑھ کر ہوگا کوئی دقیقہ اُس کے لئے علمی ماحول پیدا کرنے کا اُٹھا نہ رکھا گیا، کوئی کسر اُس کی تعلیم میں باقی نہ رہی، کوئی کمی اُس کی نگرانی میں نہ کی گئی، لیکن وہ لڑکاجب بڑا ہوتا ہے تو کہتا ہے خدا تو ہے ہی نہیں۔ دنیا کی اصلاح کرنا تو درکنار، مسیحؑ سے بڑا ہونا تو ایک طرف وہ سِرے سے خدا ہی کا انکار کر دیتا ہے اور مسنراینی بسنٹ نے اس کے متعلق جو کچھ کہا تھا وہ سَو فیصدی اُس کے اُلٹ نکلتا ہے۔
لیکن آج سے چودہ سَو سال پہلے خدا تعالیٰ کے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ سے خبر پا کر فرماتے ہیں کہ آج سے تیرہ سَو سال کے بعد ایک انسان پیدا ہو گا جو میرا مثیل ہوگا اور وہ میرے لائے ہوئے مشن کو دوبارہ دنیا میں قائم کر دے گا اور میری باتیں لوگوں تک پہنچائے گا۔ وہ دنیا کے کونے کونے میں اسلام پہنچائے گا اور ساری دنیا میں کیا شمال اور کیا جنوب، کیا مشرق اور کیا مغرب خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرے گا۔ جس انسان کے متعلق پیشگوئی کی جارہی ہے نہ اُس کا باپ اُس وقت موجود ہے، نہ اُس کے باپ کا باپ موجود ہے، نہ اُس کے دادا کا دادا موجود ہے اور نہ اُس کے دادا کا پردادا موجود ہے مگر اس کی ساری نشانیاں بتائی جاتی ہیں کہ وہ فلاں علاقہ میں آئے گا، فلاں سنہ میں آئے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فلاں خاندان میں آئے گا۔ پھر یہ پیشگوئی کرنے والے اور جس کے متعلق پیشگوئی کی جارہی ہے دونوں کے زمانوں میں سینکڑوں سالوں کا فاصلہ ہے، پیشگوئی کرنے والے کی زبان اور ہے اور جس کے متعلق پیشگوئی کی جا رہی ہے اُس کی زبان اور ہے، پیشگوئی کرنے والے کی قوم اور ہے اور اس کی قوم اور، پیشگوئی کرنے والے کا ملک اور ہے اور اس کا ملک اور، پیشگوئی کرنے والے کا خاندان اورہے اور اس کا خاندان اور، پیشگوئی ہو جاتی ہے مگر پیشگوئی کے پورا ہونے کے کوئی بھی آثار نہیںہیں۔ ایک قوم چین کے ملک سے اُٹھتی ہے اور اُس کے افراد کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم تمام دنیا پر پھیل جائیںوہ لوگ خدا کے منکر ہیں اور انبیاء کے منکر ہیں اور وہ سفید بھیڑیئے کی پرستش کرتے ہیں وہ لوگ جنگلوں میں رہتے تھے اور ان کے بچوں کو بھیڑئیے اُٹھا کر لے جاتے تھے اِس لئے وہ ان کو بہت زیادہ طاقت ور سمجھ کر ان کی پرستش کرتے تھے مگر ان کے اندر بیداری پیدا ہو جاتی ہے اور وہ دندناتے ہوئے اپنے ملک سے نکل کھڑے ہوتے ہیں، وہ لوٹ اور تباہی مچاتے ہوئے ایک طرف یورپ تک پہنچ جاتے ہیں اور دوسری طرف بغداد تک ۔ بغداد کے گردو پیش وہ اتنی تباہی مچاتے ہیں کہ اٹھارہ لاکھ انسانوں کو تہہ تیغ کر دیتے ہیں۔ مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں اس قوم میں سے ایک شخص ہو گا جو میرا مثیل ہو گا جو اسلام کے ایک دفعہ کمزور ہو جانے کے بعد دوبارہ اُس کو دنیا میں قائم کرے گا، جو توحید کا علمبردار ہوگا اور دنیا کے کونے کونے اور گوشے گوشے میں خداتعالیٰ کے نام کو بلند کرے گا اور میرے لائے ہوئے مشن کو دوبارہ قائم کر دے گا۔ پھر وہ قوم جو چین سے اُٹھی تھی بغدادمیں بادشاہ ہو جاتی ہے اور مسلمانوں پر چالیس پچاس سال تک جابرانہ حکومت کرتی ہے اُس وقت وہ قوم خدا سے ناآشنا ہے، مذہب سے ناآشنا ہے اوراخلاق سے بے بہرہ ہے مگر آخر وہ قوم اسلام قبول کرتی ہے۔ مگر دُنیوی طور پر اِسی قوم سے ایک بادشاہ تیمور نامی اُٹھتا ہے اور دنیا میں تباہی اور خونریزی مچا دیتا ہے وہ آندھی کی طرح اُٹھتا ہے اور بگولے کی طرح مُلکوں کے مُلک اپنے ظلم وستم کی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور پھر فتح و ظفر کے پرچم اُڑاتا ہوا تیزی کے ساتھ بڑھتا ہے اور ہندوستان میں پہنچ جاتا ہے۔ مگر اُس وقت تک بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے پورا ہونے کے کوئی نشانات ظاہر نہیں ہوتے۔ پھر اسی خاندان کا ایک حصہ قادیان میں آکر رہائش پذیر ہوتا ہے جو دُنیوی لحاظ سے بے شک وجاہت رکھتا ہے لیکن دینی لحاظ سے نہیں اور وہ خاندان ایسا ہی ہے جیسے عوام شرفاء ہوتے ہیں۔ پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت نزدیک ہے لیکن اس کے پورا ہونے کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے۔ اس دوران میں قادیان میں ایک شخص غلام مرتضیٰ کے گھر اولاد ہوتی ہے اور وہ اپنی اولاد پر زور دیتا ہے کہ وہ دین کی طرف نہ جائے بلکہ دنیا کمائے بلکہ وہ اپنے ایک بیٹے کا تو لوگوں کے سامنے شکوہ بھی کرتا ہے کہ یہ تو مُلّاں بن گیا ہے اور اِس کو روزی کمانے کی ذرا بھی فکر نہیں۔ اب عین وہ موقع آجاتا ہے جب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی نے پورا ہونا ہے لیکن ابھی تک کوئی آثار اس کے پورا ہونے کے نہیں پائے جاتے۔ ایک لڑکا ایسے گھر میں پرورش پارہا ہے جس میں دنیا داری ہی دنیا داری ہے، باپ اِس کشمکش میں پڑا ہے کہ اس کے بیٹے نوکریاں کریں اور دنیا کمائیں لیکن اسی گھر میں ایک شخص کو یک لخت آوازآتی ہے کہ تُو ہی وہ آدمی ہے جس کے متعلق محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی، تُو ہی وہ موعود مسیح ہے جس کی خبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، تُو ہی وہ مہدی ہے جس کے ذریعہ دنیا کی ہدایت مقدر ہے، تُو ہی وہ فارسی النسل ہے جس کے متعلق محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی تھی کہ اگر دین اسلام ثریا تک بھی پہنچ جائے گا تو وہ واپس لے آئیگا۹؎ تُو ہی وہ موعود اقوامِ عالم ہے جس کے متعلق ہر نبی نے خبر دی تھی۔ اُٹھ اور توحید کا عَلم بلند کر۔
اب دیکھو ان دونوں باتوں میں کتنا فرق ہے ایک طرف تویہ حالت ہے کہ مسزاینی بسنٹ اس لڑکے کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلاتی، اس کے اتالیق مقررہ کرتی ہے، اُس پر نگران رکھتی ہے اور اُس پر ہزاروں روپیہ خرچ کرتی ہے اور کہتی ہے یہ دنیا کی اصلاح کرے گا اور اس کے لئے خالص علمی ماحول پیدا کرتی ہے مگر جب وہ بڑا ہوتا ہے تووہ سرے سے خدا کا ہی انکار کر دیتا ہے۔ دوسری طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ عربوں سے باہر غیر قوم میں سے خدا تعالیٰ ایک شخص کو دین کی تجدید اور اس کے احیاء کے لئے چُنے گا اور دین اور ایمان خواہ آسمان پر اُڑ جائے وہ آسمان پر پہنچے گا اور پھر اُس کو لا کر دنیا میں قائم کر دے گا آپ اس خاندان کے متعلق پیشگوئی فرماتے ہیں جو اس وقت مسلمان ہی نہیں اور وہ خدا اور مذہب کا بھی منکر ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ خاندان مسلمان ہوتا ہے مگر دُنیوی فوائد کے پیش نظر۔ اور متواتر تیرہ سَو سال تک اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے مگر عین اُس وقت جب پیشگوئی کے پورا ہونے کا زمانہ آتا ہے ایک کو ردیہہ۱۰؎ میں ایک چھوٹی سی غیر معروف بستی میں ایک ایسی بستی میں جس کو دس پندرہ میل دُور کے لوگ بھی نہیں جانتے، ایک ایسے خاندان میں جس کی حیثیت کمزور ہو چکی تھی ایک شخص کو خداتعالیٰ چنتا ہے اور کہتا ہے اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے اُٹھ اور کھڑا ہو جا اور اپنا کام شروع کر دے۔ اب دیکھو کجا یہ کہ ایک شخص کی نگرانی کرنا، اُس کو تعلیم دلانا اور اُس پر ہزاروں روپیہ خرچ کردینا مگر بالآخر اُس کا خدا سے منکر ہو جانا اور کجایہ کہ مخالف حالات کی موجودگی میں ایک رات خداتعالیٰ ایک شخص کو پکڑتا ہے اور فرماتا ہے اُٹھ کہ تُو ہی وہ موعود ہے جس کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی۔
پس انسانی مقصد خدائی مقصد کے سامنے بالکل ہیچ ہوتا ہے۔ انسانوں کے مقاصد بدل جاتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کے مقاصد نہیں بدلتے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے لوگ سب کے سب یکساں نہیں ہوتے بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ہر جہت سے ہر قول اور ہر فعل سے خدا نما،رسول نما، اور حقائق نما ہوتے ہیں اور وہ خدا اور رسول اور حقائق میں بالکل محو ہو جاتے ہیں اور اُن کا قدم صرف ایک ہی طرف اُٹھتا ہے لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو دلائل کے ساتھ سچائی کو مان جاتے ہیں حالانکہ سچ کا ماننا اور چیز ہے اور سچ کا جذب ہو جانا اور چیز ہے۔ مؤمن کے اندر سچ جذب ہو جاتا ہے اور غیر مؤمن کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے کہ سچ اس پر سے ایسے گذر جاتا ہے جیسے ہندو سخت سردی میں غسل کیا کرتے ہیں۔ ہم نے خود کئی بار ہندوؤں کو غسل کرتے دیکھا ہے کہ وہ گڑوی سے اپنے اوپر پانی ڈالتے ہیں اور خود کود کر آگے ہو جاتے ہیں اور پانی پیچھے جاگرتا ہے دو چار چھنٹے ان کے بدن پر پانی کے پڑگئے اور ان کا غسل ہو گیا۔
ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی ہندو سردی کے ایام میں دریا پر کانپتا اور ٹھٹھرتا ہوا جا رہا تھا ایک طرف تو اُس کو غسل کی خواہش تھی اور دوسری طرف وہ سردی سے بھی ڈررہا تھا۔ رستہ میں اس کو ایک اور پنڈت ملا جو دریا پر سے نہا کر واپس آرہا تھااُس نے پنڈت جی سے پوچھا سنائیے کیسے نہائے؟ اُس نے کہا کیا بتاؤں سخت سردی تھی اور پانی برف سے بھی ٹھنڈا تھا اس لئے میں نے یہ کیا کہ ایک کنکر اُٹھا کر دریا میں پھینکا اور کہا ’’توراشنان سوموراشنان ‘‘اُس نے سن کر کہااچھا یہ بات ہے تو ’’توراشنان سومور اشنان‘‘ یہ کہہ کر وہ اس کے ساتھ ہی واپس لوٹ آیا۔
اب دیکھو ایک دریاپر گیا بھی تھااور کنکر پھینک کرواپس آگیا مگر دوسرے نے وہیں کہہ دیا کہ ’’توراشنان سومور اشنان‘‘۔ پس یہ انسانی فطرت ہوتی ہے کہ بعض لوگ سچائی کو اپنے اندر جذب نہیں کرتے۔جو لوگ سچ کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں اور اپنی تمام ترتوجہ سچ پرمر کوز کر دیتے ہیں وہ ایسے نتائج پیدا کرتے ہیں کہ کوئی دوسراشخص ان کا وہم و گمان بھی نہیں کرسکتا۔ درحقیت اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں دو طاقتیں کام کر رہی ہیں ایک وِلز پاور (will power) یعنی افکار اور ایک تھنکنگ پاور (Thinking power )یعنی خیالات۔ اور یہ دونوں چیزیں آپس میں بالکل مختلف اور متباین ہیں۔ ایک فلسفی پہلے ایک چیز کو مانتا ہے مگر بعد میں اس کا انکار کر دیتا ہے اور اس کے خلاف چلتا ہے اِس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ اس کو خیالات کی وجہ سے مانتا ہے افکار کی بناء پر نہیں مانتا گویا سچ اس کے اندر جذب نہیں ہوتا۔
ہم ولایت جارہے تھے حافظ روشن علی صاحب مرحوم بھی ساتھ تھے جہاز میں ایک ہندوبھی ولایت جارہا تھا ہم لوگ جب کھانے پر بیٹھتے تو ہم دیکھتے کہ وہ ہندؤ کباب اور گوشت خوب کھاتا مگر اِدھرآکر وہ ہم سے بحث کیا کرتا کہ گوشت خوری جیوہتیا ۱۱؎ہے تمہارااسلام گوشت کھانے کی اجازت دیتا ہے اور یہ سرا سر ظلم ہے۔ پھر جب وہ کھانے کے لئے پہنچتا تو خوب کباب کھاتا۔ ایک دن ہم میں سے بعض دوستوں نے کہا کہ یہ ہندوعجیب آدمی ہے کہ ایک طرف تو وہ بڑے مزے لے لے کر گوشت کھاتاہے اور دوسری طرف بحث کرتا ہے کہ اسلام نے جو گوشت خوری کی اجازت دی ہے یہ جیو ہتیا ہے۔حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے کہا اچھا میں اس کا بندوبست کرتا ہوں اب یا تو وہ گوشت نہیں کھائے گا اور اگر گوشت کھائے گا تو بحث نہیں کرے گا۔ چنانچہ انہوں نے ایک اٹا لین بہرہ کو بُلایا اور اُسے اشارہ سے کہا کہ وہ دیکھو جو فلاں آدمی بیٹھا ہے وہ گوشت خوری کے سخت خلاف ہے اِس لئے اُس کے سامنے کبھی گوشت نہ رکھنا ورنہ کسی وقت وہ تمہیں سخت مارے گا۔ بہرے نے کہا بہت اچھا۔ چنانچہ جب کھانے کا وقت آیا تو بہرے نے اُس ہندو کے سامنے گوشت یا کباب وغیرہ کی کوئی پلیٹ نہ رکھی بلکہ دو تین قسم کی ترکاریاں رکھ دیں۔ اُس نے زہر مار کر کے روٹی کھا لی مگر دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا۔ دوسرے دن پھر یہی حال ہوا۔ دودن تو اُس نے اِس بات کو برداشت کر لیا مگر آخر اُس سے نہ رہا گیا اُس نے بہرے سے پوچھا کہ تم میرے سامنے گوشت کیوں نہیں رکھتے اس نے اسے بتایا کہ فلاں شخص نے مجھے کہا تھا کہ یہ صاحب گوشت کے سخت خلاف ہیں۔وہ حافظ صاحب مرحوم کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ نے بہرے کو کوئی بات کہی تھی؟ انہوں نے کہا ہاں۔ اس نے پوچھا کیا بات کہی تھی؟ انہوں نے کہا میں نے اسے بتایا تھا کہ یہ صاحب گوشت خوری کے سخت خلاف ہیں ان کے سامنے کبھی گوشت نہ رکھنا ورنہ یہ تجھے ماریں گے۔ یہ سن کروہ ہندو کہنے لگا گوشت کھانا الگ بات ہے اور بحث الگ بات۔ میرے کھانے میں آپ کسی قسم کا دخل نہیں دے سکتے۔حافظ صاحب مرحوم نے مسکراکر کہا اچھا میں اِس بات کو نہیں سمجھا تھا کہ آپ کی بحث اور آپ کے عمل میں تضاد ہے۔
اب دیکھو اس ہندو کا فکر تو صحیح تھا کہ گوشت کھانا چاہئے مگر یہ فکر چونکہ اس کے اندر جذب نہ ہوا تھا اِس لئے اُس کے جذبات اور طرف جا رہے تھے اور ارادہ اور طرف۔ پس جب تک سچائی انسان کے اندر جذب نہ ہو جائے تب تک وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتا۔ مسمریزم اور ہپناٹزم والے جب یہ علم کسی کو سکھاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ تمہارے دل میں صرف خیال کا ہی پیدا ہونا کافی نہیں کہ یہ طاقت میرے اندر آجائے گی بلکہ تمہیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ یہ قوت تمہارے اندر آگئی ہے اور تمہیں یقین ہونا چاہئے کہ تم اب اس کو استعمال کرسکتے ہو۔ وہ لوگ خدا کے تو قائل نہیں ہوتے مگر وہ کہتے ہیں کہ ایک محیط کُل ہستی ہے وہ جب یہ علم سیکھتے ہیں تو سانس کھینچتے ہوئے کہتے ہیں اے محیطِ کُل طاقت؟ ہم تجھے اپنے اندر جذب کر رہے ہیں اور وہ سیکھنے والوں سے بھی کہتے ہیں کہ صرف اتنا ہی ضروری نہیں کہ تم یہ خیال کر لو کہ محیط کُل کی طاقت تمہارے اندر جذب ہو رہی ہے بلکہ ضروری چیز یہ ہے کہ تم محسوس کرو کہ یہ طاقت تمہارے اندر جذب ہو رہی ہے اور جب تم محسوس کر لو گے تو وہ طاقت تمہارے اندر آجائے گی۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ جب تم کسی پر عمل کرو اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر توجہ ڈالو یا اس کے کانوں میں آواز دو تو اسے یہ نہ کہو کہ محیطِ کُل کی طاقت تمہارے اندر آئے بلکہ یہ کہو کہ محیط کُل کی طاقت تمہارے اندر آگئی ہے اور یہ صحیح بات ہے میں نے خود بھی اس کے متعلق تجربہ کیا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل کے خسر منشی احمد جان صاحب مر حوم کو اس علم کی بڑی مشق تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دفعہ لدھیانہ میں ایک دعوت سے واپس تشریف لا رہے تھے اور منشی احمد جان صاحب بھی ساتھ تھے کہ آپ نے ان سے پوچھا کہ رتر چھتر والوں کی مریدی میں بارہ سال رہ کر اور مختلف قسم کی ریا ضات کر کے آپ نے کیا حاصل کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا اب مجھ میں اتنی طاقت آگئی ہے کہ فلاں آدمی جو آرہا ہے اگر میں اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالوں اور توجہ کروں تو وہ وہیں تڑپ کر گر جائے۔ یہ سن کر آپ مسکرائے اور اپنی سوٹی کو دو چار دفعہ زمین پر آہستہ آہستہ مارا (آپ ہمیشہ اپنے ہاتھ میں سوٹی رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ سر پر پگڑی باندھنا اور ہاتھ میں سوٹی رکھنا یہ ہماری خاندانی عادت ہے ہم نے بھی جب سے یہ بات سنی اُسی دن سے سوٹی ہاتھ میں رکھنی شروع کر دی مگر اب ہمارے بچے اِس پر عمل نہیں کرتے معلوم نہیں کیا وجہ ہے میں نے تو جس دن یہ بات سُنی تھی اُسی دن اِس پر عمل شروع کر دیا تھا) آپ نے جوش کے ساتھ دو چار دفعہ سوٹی کے ذریعہ زمین کو کریدا اور پھر فرمایا میاں صاحب! اگر وہ شخص آپ کی توجہ سے گر گیا تو اُس کو یا دین کوکیا فائدہ پہنچے گا؟ کیونکہ کسی کام کی دو ہی غرضیں ہوتی ہیں یا تو یہ غرض ہوتی ہے کہ اُس کو فائدہ پہنچے جس کے لئے وہ کام کیا جائے اور یا پھر دین کو فائدہ پہنچے۔ یہ سننا تھا کہ میاں احمد جان صاحب کی یہ حالت ہوئی کہ جیسے کسی پر بجلی گر پڑتی ہے اور انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے کہا حضور! میں آج سے توبہ کرتا ہوںکہ کبھی یہ کام نہیں کروں گا۔ انہوں نے بارہ سال کی متواتر محنت کے بعد یہ علم حاصل کیا تھا مگر یکدم اس سے توبہ کر لی۔ میں نے خود اس علم کے تجارب کئے ہیں۔ خلافت کے ابتدائی زمانہ کی بات ہے کہ مجھے اس کے تجربہ کا شوق ہوا۔ چنانچہ میں نے صرف ایک یا دو دن کی پریکٹس سے اسے سیکھ لیا۔
پس دوسری چیز جو قومی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہے وہ قوتِ ارادی ہے اور قوتِ ارادی وہ نہیں جومسمریزم والوں کی ہوتی ہے بلکہ ایمان کی قوتِ ارادی۔ مسمریزم والوں کی قوتِ ارادی ایمان کی قوتِ ارادی کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتی ہے۔ مسمریزم کی قوتِ ارادی ایمان کی قوتِ ارادی کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتی۔ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی قوتِ ارادی اور انسان کی قوتِ ارادی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اسی مسجد مبارک میں نچلی چھت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجلس میں بیٹھا کرتے تھے ایک دفعہ آپ مجلس میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک ہندو جو لاہور کے کسی دفتر میں اکاونٹنٹ تھا اور مسمریزم کا بڑا ماہر تھا وہ کسی برات کے ساتھ قادیان اس ارادہ سے آیا کہ میں مرزا صاحب پر مسمریزم کروں گا اور وہ مجلس میں بیٹھے ناچنے لگ جائیں گے اور لوگوں کے سامنے اُن کی سُبکی ہوگی یہ واقعہ اس ہندو نے خود ایک احمدی دوست کو سنایا تھا وہ اس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لاہور کے اس احمدی کے ہاتھ اپنی ایک کتاب روانہ فرمائی اور کہا یہ کتاب فلاں ہندو کو دے دینا۔ اس احمدی دوست نے اس کو کتاب پہنچائی اور اس سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے آپ کو اپنی یہ کتاب کیوں بھجوائی ہے اور آپ کا ان کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اِس پر اُس ہندو نے اپنا واقعہ بتایاکہ مجھے مسمریزم کے علم میں اتنی مہارت ہے کہ اگر میں تانگہ میں بیٹھے ہوئے کسی شخص پر توجہ ڈالوں تو وہ شخص جس پر میں نے توجہ ڈالی ہوگی وہ بھی ٹانگہ کے پیچھے بھاگا آئے گاحالانکہ نہ وہ میرا واقف ہوگا اور نہ میں اُس کو جانتا ہوں گا۔ میں نے آریوں اور ہندوؤں سے مرزا صاحب کی باتیں سنی تھیں کہ انہوں نے آریہ مت کے خلاف بہت سی کتابیں لکھی ہیں میں نے ارادہ کیا کہ میں مرزا صاحب پر مسمریزم کے ذریعہ اثر ڈالوں گا اور جب وہ مجلس میں بیٹھے ہوں گے تو ان پر توجہ ڈال کر ان کے مریدوں کے سامنے ان کی سُبکی کروں گا۔ چنانچہ میں ایک شادی کے موقع پر قادیان گیا مجلس منعقد تھی اور میں نے دروازے میں بیٹھ کر مرزا صاحب پر توجہ ڈالنی شروع کی۔ وہ کچھ وعظ و نصیحت کی باتیں کر رہے تھے میں نے توجہ ڈالی تو اُن پر کچھ بھی اثر نہ ہوا میں نے سمجھا ان کی قوتِ ارادی ذرا قوی ہے اس لئے میں نے پہلے سے زیادہ توجہ ڈالنی شروع کی مگر پھر بھی ان پر کچھ اثر نہ ہوا اور وہ اسی طرح باتوں میں مشغول رہے۔ میں نے سمجھا کہ ان کی قوتِ ارادی اور بھی مضبوط ہے اس لئے میں نے جو کچھ میرے علم میں تھا اُس سے کام لیا اور اپنی ساری قوت صَرف کر دی لیکن جب میں ساری قوت لگا بیٹھا تو میں نے دیکھا کہ ایک شیرمیرے سامنے بیٹھا ہے اور وہ مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے میں ڈر کر اور اپنی جوتی اُٹھا کر بھاگا۔ جب میں دروازے میں پہنچا تو مرزا صاحب نے اپنے مریدوں سے کہا دیکھنا یہ کون شخص ہے۔ چنانچہ ایک شخص میرے پیچھے سیڑھیوں سے نیچے اُترا اور اُس نے مسجد کے ساتھ والے چوک میں مجھے پکڑلیا۔ میں چونکہ اُس وقت سخت حواس باختہ تھا اِس لئے میں نے پکڑنے والے سے کہا اِس وقت مجھے چھوڑ دو میرے حواس درست نہیں ہیں میں بعد میں یہ سارا واقعہ مرزا صاحب کو لکھ دوں گا چنانچہ اُسے چھوڑ دیا گیا اور بعد میں اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ تمام واقعہ لکھا اور کہا کہ مجھ سے گستاخی ہو گئی ہے میں آپ کے مرتبہ کو پہچان نہ سکا اس لئے آپ مجھے معاف فرمادیں۔ میاں عبدالعزیز صاحب مغل لاہور والے سنایا کرتے تھے کہ میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے یہ کیوں نہ سمجھا کہ مرزا صاحب مسمریزم جانتے ہیں اور اس علم میں تم سے بڑھ کر ہیں۔ اس نے کہا یہ بات نہیں ہو سکتی کیونکہ مسمریزم کے لئے توجہ کا ہونا ضروری ہے اور یہ عمل کامل سکون اور خاموشی چاہتا ہے مگر مرزا صاحب تو باتوں میں لگے ہوئے تھے اِس لئے میں نے سمجھ لیا کہ ان کی قوتِ ارادی زمینی نہیں بلکہ آسمانی ہے۔
پس جو قوتِ ارادی خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو دی جاتی ہے اور جو کامل ایمان کے بعد پیدا ہوتی ہے اس میں اور انسانی قوتِ ارادی میں بُعدَالمشرقین ہوتا ہے جس شخص کو خداتعالیٰ قوت ارادی عطا فرماتا ہے اس کے سامنے انسانی قوتِ ارادی تو بچوں کا سا کھیل ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے سامنے جادوگروں کے سانپ مات ہوگئے تھے اسی طرح جب خدا تعالیٰ کے پیاروں کی قوتِ ارادی ظاہر ہوتی ہے تو اس قسم کی قوتِ ارادی رکھنے والے لوگ ہیچ ہو جاتے ہیں۔ پس دوسری چیز قومی ترقی کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام سچائیوں کو اپنے اندر جذب کر لیا جائے یہ نہیں کہ صرف وفاتِ مسیح کو مان لیا جائے اور کہہ دیا کہ بس ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے بلکہ وفاتِ مسیح کے مسئلہ کو سامنے رکھ کر اس کے چاروں پہلوؤں پر غور کیا جائے کہ وفاتِ مسیح کا ماننا کیوں ضروری ہے ہمیں جو چیز حیاتِ مسیح کے عقیدہ سے چبھتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک تو حیاتِ مسیح کے عقیدہ سے حضرت عیسیٰ کی فضیلت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ثابت ہوتی ہے حالانکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی شان کا کوئی نبی ہوا ہے نہ ہو گااور حیاتِ مسیح ماننے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے ساری دنیا کی حقیقی اصلاح کی مسیحؑ کی فوقیت ثابت ہوتی ہے اور یہ اسلامی عقائد کے خلاف ہے ہم تو ایک لمحہ کے لئے یہ خیال بھی اپنے دل میں نہیں لا سکتے کہ مسیحؑ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے اور یہ ماننے سے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو زیر زمین مدفون ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام چوتھے آسمان پر بیٹھے ہیں اسلام کی سخت توہین ہوتی ہے دوسری بات جو اس حیاتِ مسیح کے عقیدہ کے ماننے سے ہمیںچبھتی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے توحید الٰہی میں فرق آتا ہے۔ یہ دو چیزیں ہیں جن کی وجہ سے ہمیں وفات مسیح کے مسئلہ پر زور دینا پڑتا ہے اگر یہ باتیں نہ ہوتیں تو مسیح خواہ آسمان پر ہوتے یا زمین پر ہمیں اس سے کیا واسطہ تھا مگر جب ان کا آسمان پر چڑھنامحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی توہین کا موجب بنتا ہے اور توحید کے منافی ہے تو ہم اس عقیدہ کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔ ہم تو یہ بات سننا بھی گوارا نہیں کر سکتے کہ مسیح، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے کُجا یہ کہ اس عقیدہ کو مان لیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عام احمدی جب وفاتِ مسیح کے مسئلہ پر بحث کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے دلائل پیش کر رہے ہوتے ہیں تو اُن کے اندر جوش پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ اس طرح اس مسئلہ کو بیان کرتے ہیں جس طرح عام گفتگو کی جاتی ہے مگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ جب آپ وفاتِ مسیح کا مسئلہ چھیڑتے تھے تو اُس وقت آپ جوش کی وجہ سے کانپ رہے ہوتے تھے اور آپ کی آواز میں اتنا جلال ہوتا تھا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ حیاتِ مسیحؑ کے عقیدہ کا قیمہ کر رہے ہیں۔ آپ کی حالت اُس وقت بالکل متغیر ہو جایا کرتی تھی اور آپ نہایت جوش کے ساتھ یہ بات پیش کرتے تھے کہ دنیا کی ترقی کے راستہ میں ایک بڑا بھاری پتھر پڑا تھا جس کو اُٹھا کر میں دور پھینک رہا ہوں، دنیا تاریکی کے گڑھے میں گر رہی تھی مگر میں اس کو نور کے میدان کی طرف لئے جارہا ہوں۔ آپ جس وقت یہ تقریر کر رہے ہوتے تھے آپ کی آواز میں ایک خاص جوش نظر آتا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تخت پر مسیح بیٹھ گئے ہیں جس نے ان کی عزت اور آبرو چھین لی ہے اور آپ اُس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تخت واپس لینا چاہتے ہیں۔
پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی خود ساختہ متخیّلہ کو چھوڑ دو اور اپنی قوتِ ارادی کو مضبوط بناؤ تم یہ سمجھ لو کہ تمام دنیا کی روحانی خرابی اور تباہی دور کرنے کی ذمہ داری تمہارے سر پر ہے اور اِس قسم کے مسائل پر بحث کرتے ہوئے یہ سمجھ لو کہ یہ حملہ ماضی یا مستقبل کا نہیں بلکہ حال کا ہیـ اور تم پر اور تمہارے عزیزوں اور رشتہ داروں پر ہو رہا ہے اور تم سمجھ لو کہ اگر تم نے اس حملے کا دفاع نہ کیا تو وہ سب تباہ ہو جائیں گے۔ اگر تم ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مخالفت کی باتوں کا جواب دو گے تو سننے والے اور دیکھنے والے کہیں گے کہ یہ شخص سچا پیغامبر ہے لیکن اگر تم روحانیت سے خالی بحث کرو گے تو تم صرف مولوی کہلا سکتے ہو۔ مگر یاد رکھو مولوی کبھی نہیں جیتا کرتے انبیاء جیتتے ہیں اور انبیاء قوتِ متخیّلہ نہیں رکھتے بلکہ قوتِ ارادی رکھتے ہیں ایسی قوتِ ارادی جو عظیم الشان نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہے۔
(الفضل ۵ تا ۸، ۱۰،۱۳،۱۴؍ اکتوبر ۱۹۶۱ء)
۱؎ البقرۃ: ۱۴۹
۲؎ متی باب۶ آیت۹،۱۰ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء (مفہوماً)
۳؎ لاتکلف الا نفسک ۔(النساء: ۸۵)
۴؎ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ۵۱۔ مطبوعہ لاہور ۱۸۹۲ء
۵؎ چوری۔ مورچھل۔چنور: بالوں کا گچھا جس سے مکھیاں اُڑاتے ہیں۔
۶؎ البقرۃ: ۱۵۵
۷؎ ابوداؤد کتاب القضاء باب اذا علم الحاکم صدق شہادۃ الواحد… الخ
۸؎ ’’نیمے دروں نیمے بروں‘‘ یعنی آدھا اندر آدھا باہر
۹؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الجمعۃ باب قولہ واٰخرین منھم لما یلحقوا بھم
۱۰؎ کوردیہہ: (کوردہ)۔ جاہلوں کی بستی
۱۱؎ جیوہتیا: جیو: زندگی۔ روح۔ جاندار۔ ہتیا: قتل۔ خون۔ گناہ۔ جرم۔ دکھ۔ عذاب
سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل
پنجاب کے بٹوارے کا برطانوی فیصلہ ہو چکا ہے اب خود اہل پنجاب نے اس کے متعلق اپنی آخری منظوری دینی ہے یا اس سے انکار کرنا ہے پیشتر اس کے کہ اس کے متعلق کوئی قدم اُٹھایا جائے مناسب ہے کہ ہم اس کے متعلق پوری طرح سوچ لیں۔ ایک دفعہ نہیں دس دفعہ کیونکہ تقسیم کا معاملہ معمولی نہیں بہت اہم ہے۔
اِس وقت تک جو تقسیم کا اعلان ہوا ہے اس کا حسب ذیل نتیجہ نکلا ہے۔ ہندو (انگریزی علاقہ کے) ۲۱ کروڑ میں سے ساڑھے انیس کروڑ ایک مرکز میں جمع ہوگئے ہیں اور صرف ڈیڑھ کروڑ مشرقی اور مغربی اسلامی علاقوں میں گئے ہیں گویا اپنی قوم سے جُدا ہونے والے ہندوؤں کی تعداد صرف سات فیصد ہے باقی ترانوے فیصدی ہندو ایک جھنڈے تلے جمع ہو گئے ہیں۔ مسلمان (انگریزی علاقہ کے) آٹھ کروڑ میں سے پانچ کروڑ دو اسلامی مرکزوں میں جمع ہو گئے ہیں اور تین کروڑ ہندو اکثریت کے علاقوں میں چلے گئے ہیں گویا اپنی قوم سے جُدا ہونے والے مسلمان ۳۷ فیصدی ہیں۔ سکھ(انگریزی علاقہ میں رہنے والے) ۲۱ لاکھ مشرقی پنجاب میں چلے گئے ہیں اور ۱۷ لاکھ مغربی پنجاب میں رہ گئے ہیں گویا ۴۵ فیصدی سکھ مغربی پنجاب میں چلے گئے ہیں اور ۵۵ فیصدی مشرقی پنجاب میں اور تینوں قوموں کی موجودہ حالت یہ ہو گئی ہے۔ ہندو ننانوے فیصدی اپنے مرکز میں جمع ہوگئے ہیں، مسلمان چونسٹھ فیصدی اپنے دو مرکزوں میں جمع ہو گئے ہیں، سکھ پچپن فیصدی اور پینتالیس فیصدی ایسے دو مرکزوں میں جمع ہو گئے ہیں جہاں انہیں اکثریت کا حاصل ہونا تو الگ رہا ۲۵ فیصدی تعداد بھی انہیں حاصل نہیں۔ کیا اس صورتِ حالات پر سکھ خوش ہو سکتے ہیں؟ بات یہ ہے کہ اس بٹوارے سے ہندوؤں کو بے اتنہا فائدہ پہنچا ہے مسلمانوں کو اخلاقی طور پر فتح حاصل ہے لیکن مادی طور پر نقصان، سکھوں کو مادی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی نقصان پہنچا ہے گویا سب سے زیادہ گھاٹا سکھوں کو ہوا ہے اور اس سے کم مسلمانوں کو۔ ہندوؤں کو کسی قسم کا بھی کوئی نقصان نہیں ہوا صرف اس غنیمت میں کمی آئی ہے جو وہ حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن ابھی وقت ہے کہ ہم اس صورت حالات میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں ۲۳؍ مارچ کے بعد پھر یہ سوال آسانی سے حل نہ ہو سکے گا۔
سکھ صاحبان جانتے ہیں کہ احمدیہ جماعت کو کوئی سیاسی اور مادی فائدہ اس یا اُس سکیم سے حاصل نہیں ہوتا۔ احمدیہ جماعت کو ہر طرف سے خطرات نظر آ رہے ہیں ایک پہلو سے ایک خطرہ ہے تو دوسرے پہلو سے دوسرا۔ پس میںجو کچھ کہہ رہا ہوں عام سیاسی نظریہ اور سکھوں کی خیرخواہی کے لئے کہہ رہا ہوں۔ میں جس علاقہ میں رہتا ہوں گو اس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن سکھ اس علاقے میں کافی ہیں اور ہمارے ہمسائے ہیں اور ان کی نسبت آبادی کوئی ۳۳ فیصدی تک ہے اس لئے سکھوں سے ہمارے تعلقات بہت ہیں بعض سکھ رؤساء سے ہمارا خاندانی طور پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ سے بھائی چارہ اب تک چلا آتا ہے اس لئے میری رائے محض خیرخواہی کی بناء پر ہے میرا دل نہیں چاہتا کہ سکھ صاحبان اس طرح کٹ کر رہ جائیں۔ اگر تو کوئی خاص فائدہ سکھوں کو پہنچتا تو میں اِس تجویز کو معقول سمجھتا مگر اب تو صرف اس قدر فرق پڑا ہے کہ سارے پنجاب میں مسلمان تعداد میں اوّل تھے، ہندو دوم اور سکھ سوم اور اب مشرقی پنجاب میں ہندو اوّل مسلمان دوم اور سکھ سوم ہیں۔ سکھ اگر اس بٹوارے سے دوم ہو جاتے تو کچھ معقول بات بھی تھی مگر صرف مسلمان اوّل سے دوم ہوگئے ہیں اور ہندو دوم سے اوّل، سکھوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ پُرانے پنجاب میں مسلمانوں نے اپنے حق سے ساڑھے پانچ فیصدی سکھوں کو دیدیا تھا اب تک ہندوؤں کی طرف سے کوئی اعلان نہیں ہوا کہ وہ کتنا حصہ اپنے حصہ میں سے سکھوں کو دینے کو تیار ہیں۔ پُرانے پنجاب میں چودہ فیصدی سکھوں کو اکیس فیصدی حصہ ملا ہوا تھا اب اٹھارہ فیصدی سکھ مشرقی پنجاب میں ہوگئے ہیں اگر ہندو جو تعداد میں اوّل نمبر پر ہیں مسلمانوں کی طرح اپنے حق سے سکھوں کو دیں تو سکھوں کو نئے صوبہ میں چھبیس فیصدی حق ملنا چاہئے۔ گو سکھ پُرانے انتظام پر خوش نہ تھے اسی وجہ سے انہوں نے صوبہ تقسیم کروایا ہے اس لئے انہیں ہندوؤں سے تیس فیصدی ملے تو وہ تب دنیا کو کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو پرانے پنجاب سے ہم زیادہ فائدہ میں رہے ہیں۔ مسلمانوں نے ہمیں ڈیوڑھا حق دیا تھا اب ہندوؤں نے اپنے حق سے کاٹ کر ہمیں پونے دو گنا دے دیا ہے اس لئے ہمارا بٹوارہ پر زور دینا درست تھا لیکن اگر ایسا نہ ہو اور ہندوؤں نے اپنے حصہ سے اُس نسبت سے بھی سکھوں کو نہ دیا جس نسبت سے پُرانے پنجاب میں مسلمانوں نے سکھوں کو دیا تھا تو سکھ قوم لازماً گھاٹے میں رہے گی۔ نئے صوبہ میں اٹھارہ فیصدی سکھ ہوں گے، بتیس فیصدی مسلمان اور پچاس فیصدی ہندو۔ اگر ہندو اسی نسبت سے اپنا حق سکھوں کو دیں جس طرح مسلمانوں نے پنجاب میں دیا تھاتو سکھوں کو چھبیس فیصدی اور حق مل جائے گا اور نمائندگی کی یہ شکل ہوگی کہ بتیس فیصدی مسلمان اور چھبیس فیصدی سکھ اور بیالیس فیصدی ہندو۔ لیکن اوّل تو ایسا کوئی وعدہ ہندوؤںنے سکھوں سے اب تک نہیں کیا وہ غالباً یہ کوشش کریں گے کہ مسلمانوں کے حق سے سکھوں کو دینا چاہیں لیکن سکھوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے فتنہ کا دروازہ کھلے گا۔ جب مسلمان زیادہ تھے انہوں نے اپنے حصہ سے سکھوں کو دیا، اب ہندؤ زیادہ ہیں اب انہیں اپنے حصہ سے سکھوں کو دینا چاہئے ورنہ تعلقات ناخوشگوار ہو جائیںگے۔
فرض کروکہ ہندو سکھوں کو اپنی نیابت کے حق سے دے بھی دیں جتنا انہیں مسلمانوں نے اپنے حق سے دیا ہوا تھا تو پھر بھی سکھ صاحبان کو ان امور پر غور کرنا چاہئے :۔
۱۔ تمام سکھ امراء منٹگمری، لائل پور اور لاہور میں بستے ہیں اور اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ لائل پور، منٹگمری اور لاہور کے سکھ زمیندارہ کو ملا کر فی سکھ آٹھ ایکڑکی ملکیت بنتی ہے لیکن لدھیانہ ہوشیار پور ، فیروزپور، امرتسرکی سکھ ملکیت کے لحاظ سے ایک ایکڑ فی سکھ ملکیت ہوتی ہے کیونکہ لدھیانہ اور جالندھر میں سکھوں کی ملکیت بہت کم ہے اور اسی وجہ سے وہ زیادہ ترمزدوری پیشہ اور فوجی ملازم ہیں یا ملک سے باہر جا کر غیر ممالک میں کمائی کرتے ہیں اس وجہ سے اگر یہ تقسیم قائم رہی تو اس کا ایک نتیجہ یہ نکلے گا کہ مالدار سکھ مغربی پنجاب سے جا ملیں گے اور اگر مسلمانوںکا رویہ ان سے اچھا رہا اور خدا کرے اچھا رہے تو ان کی ہمدردی مشرقی سکھ سے بالکل جاتی رہے گی اور کوئی مالی امداد وہ اسے نہ دیں گے اور مشرقی علاقہ کا سکھ جو پہلے ہی بہت غریب ہے اپنی تعلیمی اور تہذیبی انجمنوں کو چلا نہ سکے گا۔
دوسرے اسے یہ نقصان ہوگا کہ سکھ قوم مشرقی حصہ میں اقتصادی طور پر اپنا سر اونچا نہ رکھ سکے گی۔
تیسرے اس سے یہ نقص پیدا ہوگا کہ ہوشیار پور، فیروز پور ،جالندھر اور لدھیانہ کے سکھ پہلے سے بھی زیادہ غیر ملکوں کی طرف جانے کے لئے مجبور ہوں گے اور مشرقی پنجاب کے سکھوں کی آبادی روز بروز گرتی چلی جائے گی اور شاید چند سال میں ہی مشرقی پنجاب میں بھی سکھ چودہ فیصدی پر ہی آجائیں۔
پانچویںاس امر کا بھی خطرہ ہے کہ اس بٹوارے کی وجہ سے مغربی پنجاب کی حکومت یہ فیصلہ کرے کہ وہ زمین جو مشرقی پنجاب کے لوگوں کو مغربی پنجاب میں جنگی خدمات کی وجہ سے دی گئی ہے وہ اس بناء پر ضبط کر لی جائے کہ اب ان خدمات کا صلہ دینا نئے ہندو مرکز کے ذمہ ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ جب وہ لوگ الگ ہوگئے ہیں تو اس خدمت کا صلہ جو درحقیقت مرکزی خدمت تھی وہ صوبہ دے جس کا وہ شخص سیاسی باشندہ بھی نہیں ہے۔
زمیندارنقصان کے علاوہ کہ سکھوں کی دوتہائی جائیداد مغربی پنجاب میں رہ جائے گی ایک اور بہت بڑا خطرہ بھی ہے اور وہ یہ کہ جو سکھ تجارت کرتے ہیں ان میں سے اکثرحصہ کی تجارت مغربی پنجاب سے وابستہ ہے سوائے سردار بلدیو سنگھ صاحب کے کہ جن کی تجارت ہندو علاقہ سے وابستہ ہے باقی سب سکھ تجارت مسلمان علاقہ سے وابستہ ہے۔ سکھوں کی تجارت جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں پنجاب میں راولپنڈی ،کوئٹہ، جہلم اور بلوچستان سے وابستہ ہے اور تجارت کی ترقی کے لئے آبادی کی مدد بھی ضروری ہوتی ہے۔ جب سکھوں کی دلچسپی مغربی پنجاب اور اسلامی علاقوں سے کم ہوگی تو لازماً اس تجارت کو بھی نقصان پہنچے گا سوائے سردار بلدیو سنگھ صاحب کے جن کی تجارت بہار سے وابستہ ہے اور کونسا بڑا سکھ تاجر ہے جو مشرقی پنجاب یا ہندوستان میں وسیع تجارت رکھتا ہو۔ ساری کشمیر کی تجارت جو راولپنڈی کے راستہ سے ہوتی ہے یا جہلم کے ذریعہ سے ہوتی ہے سکھوں کے پاس ہے۔ ایران سے آنے والا مال اکثر سکھوں کے ہاتھ سے ہندوستان کی طرف آتا ہے اور اس تجارت کی قیمت کروڑوں تک پہنچتی ہے اگر یہ تاجر موجودہ افراتفری میں اپنی تجارتوں کو بند کریں گے تو نئی جگہ کا پیدا کرنا ان کے لئے آسان نہ ہوگا اور اگر وہ اپنی جگہ پر رہیں گے تو اسلامی حصہ ملک میں ان کی آبادی کے کم ہو جانے کی وجہ سے وہ اس سیاسی اثر سے محروم ہو جائیں گے جو اَب ان کی تائید میں ہے اور پھر اگر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے پہلے علاقہ میں ہی رہیں تو آہستہ آہستہ ان کی ہمدردی اپنے مشرقی بھائیوں سے کم ہو جائے گی اور سکھ انجمنیں ان کی امداد سے محروم رہ جائیں گی۔
یہ امر بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے کہ مشرقی صوبہ کا دارلحکومت لازماً دہلی کے پاس بنایا جائے گا اور اس طرح امرتسر اپنی موجودہ حیثیت کو کھو بیٹھے گا اِس وقت تو لاہور کے قرب کی وجہ سے جہاں کافی سکھ آبادی ہے امرتسر تجارتی طور پر ترقی کر رہا ہے لیکن اگر دارالحکومت مثلاً انبالہ چلا گیا تو انبالہ بوجہ امرتسر سے دور ہونے کے قدرتی طور پر اپنی تجارتی ضرورتوں کے لئے امرتسرکی جگہ دہلی کی طرف دیکھے گا اور لاہور حکومت کے اختلاف کی وجہ سے امرتسر سے پہلے ہی جُدا ہو چکا ہوگا، پھر امرتسر کی تجارت کا ۳؍۱ حصہ اُس مال کی وجہ سے ہے جو افغانستان، بخارا اور کشمیر سے آتا ہے یہ مال بھی اپنے لئے نئے راستے تلاش کرے گا اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ امرتسر کی تجارتی حیثیت بہت گر جائے گی اور یہ شاندار شہر جلد ہی ایک تیسرے درجہ کا شہر بن جائے گا۔ اگر مغربی پنجاب نے مشرقی پنجاب کی ڈگریوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تووہ اٹھارہ لاکھ سکھ جو مغربی پنجاب میں بستے ہیں ایک بڑا کالج مغربی پنجاب میں بنانے پر مجبور ہوں گے اور چونکہ بڑے زمیندار اور بڑے تاجر سکھ مغربی پنجاب میں ہیں ان کے لئے ایک بہت بڑا کالج بنانا مشکل نہ ہوگا اِس طرح خالصہ کالج امرتسر بھی اپنی شان کھوبیٹھے گا اور سکھوں کے اندر دو متوازی سکول اقتصادی اور سیاسی اور تمدنی فلسفوں کے پیدا ہو جائیں گے۔ بے شک ساری قوموں کو ہی اس بٹوارہ سے نقصان ہوگا لیکن چونکہ ہندوؤں کی اکثریت ایک جگہ اور مسلمانوں کی اکثریت ایک جگہ جمع ہو جائے گی انہیں یہ نقصان نہ پہنچے گا یہ نقصان صرف سکھوں کو پہنچے گا جو قریباً برابر تعداد میں دونوں علاقوں میں بٹ جائیں گے اور دونوں میں سے کوئی حصہ اپنی بڑائی کو دوسرے حصہ پر قربان کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا۔ کہا جاتا کہ آبادی کے تبادلہ سے یہ مشکل حل کی جا سکے گی لیکن یہ درست نہیں لائل پور، لاہورر، منٹگمری، شیخوپورہ، گوجرانولہ اور سرگودھا کے سکھ اپنی نہری زمینوں کو چھوڑ کر بارانی زمینوں کو لینے کے لئے کب تیار ہوں گے اور اگر وہ اس پر راضی ہو گئے تو مالی لحاظ سے یہ ان کیلئے بڑا اقتصادی دھکّا ہوگا جس کی وجہ سے قومی انحطاط شروع ہو جائے گا پس پیشتر اس کے سکھ صاحبان پنجاب کے بٹوارے کے متعلق کوئی فیصلہ کریںانہیں ان سب امور پر غور کر لینا چاہئے تا ایسا نہ ہو کہ بعد میں اس مشکل کا حل نہ نکل سکے اور پچھتانا پڑے۔
بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اگر مشکلات پیدا ہوئیں اور ان کا کوئی علاج نہ نکلا تو اس وقت پھر سکھ صاحبان مغربی پنجاب میں آسکتے ہیں لیکن یہ خیال درست نہیں اس لئے کہ اگر اب سکھ صاحبان پنجاب کے بٹوارے کے خلاف رائے دیں تو ان کے ووٹ مسلمان کے ووٹوں سے مل کر بٹوارے کو روک سکتے ہیں لیکن اگر بعد میں انہوں نے ایسا فیصلہ کیا تو یہ صاف بات ہے کہ انبالہ ڈویژن ان کے ساتھ شامل نہ ہوگا اور اگر مغربی پنجاب سے ملا تو صرف جالندھر ڈویژن ملے گا اور اُس وقت پنجاب کی یہ حالت ہوگی کہ اس میں پندرہ فیصدی سکھ ہوں گے اور پندرہ فیصدی ہندو اور ۷۰ فیصدی مسلمان حالانکہ متحدہ پنجاب کی صورت میں بیالیس فیصدی ہندو اور سکھ ہوں گے اور چھپن فیصدی مسلمان اور دو فیصدی دوسرے لوگ۔ ظاہر ہے کہ چونتالیس فیصدی لوگ حکومت میں جو آواز اور اثر رکھتے ہیں وہ تیس فیصدی لوگ کسی صورت میں نہیں رکھ سکتے۔ پس بعد کی تبدیلی کسی صورت میں سکھوں کو وہ فائدہ نہیں پہنچا سکتی جو اِس وقت کی تبدیلی پہنچا سکتی ہے کیونکہ ایک دفعہ پنجاب بانٹا گیا تو پھر انبالہ ڈویژن کو واپس لانا سکھوں کے اختیار سے باہر ہو جائے گا۔
سکھ صاحبان کو یہ امر بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ابھی سے ہندوؤں کی طرف سے آواز اُٹھائی جا رہی ہے کہ یوپی کے چند اضلاع ملا کر مشرقی پنجاب کا ایک بڑا صوبہ بنا دیا جائے اگر ایسا ہوگیا تو اس نئے صوبہ میں ہندو ساٹھ فیصدی، مسلمان تیس فیصدی اور سکھ صرف دس فیصدی رہ جائیں گے۔
بعض سکھ صاحبان یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ جالندھر ڈویژن کی ایک سکھ ریاست بنا دی جائے گی بے شک اس صورت میں سکھوں کی آبادی کی نسبت اس علاقہ میں بڑھ جائے گی مگر اس صورت میں بھی مختلف قوموں کی نسبت آبادی یوں ہوگی۶۰ء۲۵سکھ۵۰ء۳۴ مسلمان اور قریباً چالیس فیصدی ہندو۔ اس صورتِ حالات میں بھی سکھوں کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچ سکتا پرانے پنجاب میں بھی تو سکھوں کو بائیس فیصدی نمائندگی ملی ہوئی تھی۔ پس اگر جالندھر ڈویژن کا الگ صوبہ بھی بنا دیا گیا تو اس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے گا کیونکہ انبالہ ڈویژن کے الگ ہو جانے کی وجہ سے انبالہ صوبہ پر کُلّی طور پر ہندوؤں کا قبضہ ہو جائے گا اور جالندھر ڈویژن میں بوجہ چالیس فیصدی رہ جانے کے سکھ اُن سے اپنے لئے زیادہ نمائندگی کا مطالبہ نہیں کر سکیں گے اور توازن بہت مضبوطی سے ہندوؤں کے ہاتھ میں چلاجائے گا اور وہ انبالہ کے صوبہ میں بغیر کسی سے سمجھوتہ کرنے کے حکومت کر سکیں گے اور جالندھر میں کچھ سکھوں یا مسلمانوں کو ملا کر حکومت کر سکیںگے۔
ایک اور سخت نقصان سکھوں کو اس صورت میں یہ پہنچے گا کہ جالندھر ڈویژن کے سکھوں میں کمیونزم زیادہ زورپکڑرہی ہے۔ فیروز پور، لدھیانہ اور ہوشیارپور اِس کے گڑھ ہیں اس علیحدگی کی وجہ سے ان لوگوں کی آواز بہت طاقت پکڑجائے گی۔ اور اکالی پارٹی چندسالوں میں ہی اس خطرناک بلاء کا مقابلہ کرنے سے اپنے آپ کو بے بس پائے گی خصوصاً جب کہ سیاسی چالوں کی وجہ سے بعض خود غرض پارٹیاں کمیونسٹوں کی مدد کرنے پر آمادہ ہو جائیں گی جیسا کہ گذشتہ الیکشن پر سکھ صاحبان کو تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ میں نے کافی روشنی ان خطرات پرڈال دی ہے جو سکھوں کو پیش آنے والے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ۲۳؍جون کو ہونے والی اسمبلی کی میٹنگ میں وہ ان امور کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کر یں گے۔ اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ سب سے زیادہ اثر عوام سکھوں پر پڑنے والا ہے وہ بھی اپنے لیڈروں پر زور دیں گے کہ اس خود کشی کی پالیسی سے ان کو بچایا جائے۔ میں لکھ چکا ہوں کہ میں بوجہ ایک چھوٹی سی جماعت کا امام ہونے کے کوئی سیاسی غرض اِس مشورہ میں نہیں رکھتا اس لئے سکھ صاحبان کو سمجھ لینا چاہئے کہ میرا مشورہ بالکل مخلصانہ اور محض ان کی ہمدردی کی وجہ سے ہے۔ اگر سیاست میرے اختیار میں ہوتی تو میں انہیں ایسے حقوق دے کر بھی جن سے ان کی تسلی ہو جاتی انہیں اس نقصان سے بچاتا مگر سیاست کی طاقت میرے ہاتھ میں نہیں اس لئے میں صرف نیک مشورہ ہی دے سکتا ہوں ہاں مجھے امید ہے کہ اگر سکھ صاحبان مسٹر جناح سے بات کریں تو یقینا انہیں سکھوں کا خیرخواہ پائیں گے مگر انہیں بات کرتے وقت یہ ضرور مدنظر رکھ لینا چاہئے کہ ہندو صاحباں انہیں کیا کچھ دینے کو تیار ہیں کیونکہ خود کچھ نہ دینا اور دوسروں سے لینے کے مشورے دینا کوئی بڑی بات نہیں۔ اس میں مشورہ دینے والے کا کچھ حرج نہیں ہوتا پس اچھی طرح اونچ نیچ کو دیکھ کر وہ اگر مسلم لیگ کے لیڈروں سے ملیں تو مجھے امید ہے کہ مسلم لیگ کے لیڈر انہیں ناامید نہیں کریں گے۔ اگر مجھ سے بھی اس بارہ میں کوئی خدمت ہو سکے تومجھے اس سے بے انتہا خوشی ہوگی۔
آخر میں میںسکھ صاحبان کو مشورہ دیتا ہوں کہ سب کاموں کی کنجی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے وہ گورونانک دیو جی اور دوسرے گوروؤں کے طریق کو دیکھیں وہ ہر مشکل کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعائیںکیا کرتے تھے اِس وقت ان کو بھی اپنی عقل پر سارا انحصار رکھنے کی بجائے خداتعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں تا اللہ تعالیٰ انہیں وہ راستہ دکھادے جس میں ان کی قوم کی بھی بھلائی ہو اور دوسری قوموں کی بھی بھلائی ہو۔ یہ دن گذر جائیں گے، یہ باتیں بھول جائیں گی لیکن محبت اور پریم کے کئے ہوئے کام کبھی نہیں بھولیں گے اگر بٹوارہ بھی ہونا ہے تو وہ بھی اسی طرح ہونا چاہئے کہ ایک قوم کا گاؤں دوسری قوم کے گاؤں میں اس طرح نہ گھسا ہوا ہو کہ جس طرح دو کنگھیوں کے دندانے ملا دئیے جاتے ہیں اگر ایسا ہوا تو سرحد میں چھاؤنیاں بن جائیں گی اور سینکڑوں میل کے بسنے والے لوگ قیدیوں کی طرح ہو جائیں گے اور علاقے اُجڑ جائیں گے۔ یہ میری نصیحت سکھوں ہی کو نہیں مسلمانوں کو بھی ہے۔ میرے نزدیک تحصیلوں کو تقسیم کا یونٹ تسلیم کر لینے سے اس فتنہ کا ازالہ ہو سکتا ہے اگر اس سے چھوٹا یونٹ بنایا گیا تو جتنا جتنا چھوٹا وہ ہوتاجائے گا اُتنا اُتنا نقصان زیادہ ہوگا۔ ایک عرب شاعر اپنی معشوقہ کو مخاطب کر کے کہتا ہے۔ ع
فَاِنْ کُنْتِ قَدْ اَزْمَعْتِ صَرْمًا فَاَجْمِلِیْ
یعنی اے میری مجبوبہ! اگر تُو نے جُدا ہونے کا فیصلہ ہی کر لیا ہے تو کسی پسندیدہ طریق سے جُداہو۔ میں بھی ہندو، مسلمان، سکھ سے کہتا ہوں کہ اگر جُدا ہونا ہی ہے تو اس طرح جُدا ہو کہ سرحدوں کے لاکھوں غریب باشندے ایک لمبی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
شاید کسی کے دل میں یہ خیال گذرے کہ میں نے ہندوؤںکو کیوں مخاطب نہیں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک ہمدردی کا سوال ہے ہندو بھی ہمارے بھائی ہیں اور میں ان کا کم ہمدرد نہیں مگر ہندو چونکہ اپنے مرکز کی طرف گئے ہیں ان کا فوری نقصان تو ہوگا مگر بوجہ اس کے کہ وہ اکثر تاجر پیشہ ہیں وہ جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں گے۔ اس لئے انہیں یہ کہنا کہ اس تقسیم سے آپ کا دائمی نقصان ہوگا جھوٹ بن جاتا ہے۔ اس لئے میں نے انہیں مخاطب نہیں کیا ورنہ ان سے مجھے کم ہمدردی نہیں۔
آخر میں مَیں دعا کرتا ہوں کہ اے میرے ربّ! میرے اہلِ مُلک کو سمجھ دے اور اوّل تو یہ ملک بٹے نہیں اور اگر بٹے تو اس طرح بٹے کہ پھر مل جانے کے راستے کھلے رہیں۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ
خاکسار
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان
۱۷؍ جون ۱۹۴۷ء
(الفضل ۱۹؍ جون ۱۹۴۷ء)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام اہم واقعات اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت پیش کرتے ہیں
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام اہم واقعات کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍِ عَبْدَہٗ کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت پیش کرتے ہیں
(فرمودہ ۱۷ ؍جون ۱۹۴۷ء )
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
ہمارے سلسلہ میں ۱؎ والی آیت جو سورئہ زمر میں آتی ہے اور جس کے اوّلین مخاطب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ایک بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اُس وقت نازل ہوا جب آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے والد ماجد کی وفات کی خبر ملی اور آپ کے دل میں خیال گزرا کہ ان کی وفات کے بعد آپ کے گذارہ کی کیا صورت ہوگی۔ آپ فرماتے تھے کہ اس خیال کے آتے ہی یہ الہام ہوا کہ یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟ آپ نے اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے کہ اس الہام کے بعد اللہ تعالیٰ میرا ایسا متکفل ہوا کہ کہیں کسی کا باپ بھی ایسا متکفل نہیں ہو سکتا اور اُس نے مجھ پر وہ احسانات فرمائے جن کا میں شمار تک نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد آپ نے اُنہی دنوں اِس الہام کو ایک نگینہ میں کھدوا کر اُس کی انگوٹھی بنوائی جو اَب تک ہمارے خاندان میں محفوظ چلی آرہی ہے۔ پس چونکہ یہ آیت ہمارے سلسلہ کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتی ہے اِس لئے ہماری جماعت کا قریباً ہر فرد اس سے واقف ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ عَبْدَ کے ساتھ ہ ٗ کی اضافت واضح طور پر بتا رہی ہے کہ اس جگہ ہر وہ شخص مخاطب ہے جو اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بن جائے اور یہ ایک حقیقت ہے جس کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالیٰ عَلی قدرِ مراتب اپنے ہر عبد کی خبر گیری کرتا اور اس کی ضروریات کو پورا فرماتا ہے۔ پس یہ ایک ایسا وعدہ ہے جو غیر معیّن ہے اور جس کے معنی یہ ہیں کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کا عَبْد ہوگا وہی اِس آیت کا مخاطب ہوگا چاہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوں، حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں یا ان سے اُتر کر صدیقین ، شہدا، اور صالحین وغیرہ ہوں یعنی جو بھی خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والا عَبْد ہو وہی اِس آیت کا مخاطب ہوگا اور اللہ تعالیٰ علیٰ قدرِ مراتب اپنے سارے عِبَاد سے حسن سلوک فرماتا رہے گا۔ جتنا اعلیٰ عبدہوگا اُتنا ہی اعلیٰ خدا تعالیٰ بھی اُس سے حسن سلوک کرے گا اور جتنا ادنیٰ عبد ہوگا اتنا ہی کم اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کرے گا۔
میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اتنے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی اپنے بندے کی خبر گیری کرتا ہے کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ اتنی خبر گیری تو قریبی سے قریبی رشتہ دار بھی ضرورت پڑنے پر نہیں کیا کرتے۔ ادھر منہ سے ایک چھوٹی سے بات نکلتی ہے اور ادھر پوری ہو جاتی ہے، بعض دفعہ کسی آدمی کے متعلق خیال کیا جاتا ہے تو وہ جھٹ آپہنچتا ہے اور بعض دفعہ کسی چیز کے متعلق خیال کیا جاتا ہے تو وہ جھٹ مل جاتی ہے۔ ابھی اترسوں کا ذکر ہے کہ ایک ایسی بات ہوئی جس کو میرے چھوٹے بچے نے بھی محسوس کیا حالانکہ چھوٹے بچوں میں کسی اہم بات کے احساس کا شعور نہیں ہوتا وہ بات یہ تھی کہ میں نے کہا کہ اِس دفعہ آم ابھی تک نہیں آئے اِس پر ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک آدمی سندھ سے آپہنچا اور اُس کے پاس ہمارے لئے آم تھے۔ میری بیوی نے مجھ سے ذکر کیا کہ بچہ کہہ رہا ہے کہ لو ابھی ابھی ابّا جان نے کہا تھا کہ اِس دفعہ آم نہیں آئے اور وہ آبھی گئے ہیں۔ یہ بات اگر ایک دفعہ ہوتی تو اِس کو اتفاقی کہہ سکتے تھے لیکن اِس قسم کی ہزاروں باتیں اتنے تواتر کے ساتھ ہوتی ہیں اور ان کو اتفاقی نہیں کہا جا سکتا۔ پس یہ آیت حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، یا کسی اور نبی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے سارے بندوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے سارے بندوں کے ساتھ ہی علیٰ قدرِ مراتب حسن سلوک کرتا ہے مگر ہاں یہ آیت اپنی اس شکل میں چونکہ سب سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے اس لئے اس کا سب سے اعلیٰ اور ارفع ظہور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکات پر ہی ہوا ہے ۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آیت تو آپ پر بعد میں اُتری مگر آپ کی ساری زندگی ہی کا نمونہ نظر آتی ہے۔
کا صرف ایک ہی پہلو نہیں بلکہ دو پہلو ہیں اور اس کے اندر دو نہایت عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کو بہت زیادہ خطرات پیش آئیں گے اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر خطرہ کے وقت آپ کی حفاظت کرے گا کیونکہ حفاظت کی ضرورت تبھی ہوتی ہے جب کوئی خطرہ درپیش ہو۔ اگر کوئی خطرہ نہ ہو تو حفاظت اور مدد کے معنی ہی کچھ نہیں ہوتے۔ پس اللہ تعالیٰ میں فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی خطرات سے پُر ہوگی مگر ہر خطرہ کے موقع پر میں اس کی حفاظت کروں گا اور یہ دونوں چیزیں متوازی ہوں گی۔ ایک شخص جس کے پاس بچپن میں ہی بے شمار مال و دولت آجائے، طاقت آجائے، اُس کے نوکر چاکر موجود ہوں، اُس کو پڑھانے والے بڑے بڑے عالم موجود ہوں، اُس کی عالیشان کوٹھیاں ہوں، موٹر کاریں ہوں، اُس کی عمارات اور سازو سامان کو دیکھ کر لوگ اُسے لڑکیاں دینے کے لئے تیار ہوں، اس کی مجلس میں بیٹھنے والے دوست موجود ہوں اور ہر وقت اُس کے پاس عیش وعشرت کی محفلیں منعقد ہوں اُس کو خدا تعالیٰ کی نعمتوں اور انعامات کی قدر نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دولت مند کو مکان، گھوڑے اور ہاتھی وغیرہ سب کچھ خداتعالیٰ ہی دیتا ہے مگر ایسے لوگوں کے پاس چونکہ یہ سب کچھ ماں باپ کی طرف سے پہنچتا ہے اِس لئے یہ بات کہ خدا دیتا ہے ان کی نظر میں نہیں آسکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں تو ہمیں ماں باپ سے بطور ورثہ ملی ہیں ایسے لوگوں کی زندگی خدا تعالیٰ کے فضل کو ظاہر کرنے والی نہیں ہوتی ان کی نظر صرف مادیات میں پھرتی ہے خدا تعالیٰ کی طرف نہیں جاتی۔
غرض سے اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی خطرات سے پُر ہوگی لیکن ہر خطرہ کے وقت میں اس کی مدد کروں گا۔ پس یہ ایک پیشگوئی نہیں بلکہ دو پیشگوئیاں ہیں ایک طرف تو آپ کے متواتر خطرات سے دو چار ہونے کی پیشگوئی ہے اور دوسری طرف متواتر ان خطرات کو دور کرنے اور آپ کی مدد کرنے کی پیشگوئی ہے۔ سب سے پہلا خطرہ جو آپ کو اپنی زندگی میں پیش آیا وہ یہ تھا کہ ابھی آپ اپنی والدہ کے پیٹ میں ہی تھے کہ آپ کے والد کی وفات ہوگئی۔ اُس وقت قدرتاً یہ خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ اس بچہ کو جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہے پالے گا کون؟ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اِدھر آپ پیدا ہوئے اور اُدھر آپ دادا عبدالمطلب کی گود میں پہنچ گئے۔ انہوں نے بچے کو دیکھتے ہی کہا یہ تو چاند سا مُکھڑا ہے اور پھر فرطِ محبت سے بچے کو گود میں اُٹھا کر بیت اللہ میں لے گئے اور وہاں جا کر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا گویا باپ کی موت کے بعد یکدم خداتعالیٰ نے باپ کی جگہ آپ کے دادا کے دل میں باپ جیسی شفقت بھر دی اور کی پیشگوئی پہلی بار پوری ہوئی۔یہ صرف خدا تعالیٰ کا فضل اور اُس کی مدد ہی تھی ورنہ ہم روزانہ کئی واقعات دیکھتے ہیں کہ جب کسی شخص کا کوئی ایسا لڑکا فوت ہو جائے جس کی اولاد ہو تو وہ اپنے پوتے کی طرف سے توجہ پھیر لیتا ہے اور اُسے پرواہ ہی نہیں ہوتی کہ وہ اس کا پوتاہے اسی طرح اس کے دوسرے لواحقین بھی اپنی توجہ اس کی طرف سے پھیر لیتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اس بچہ کے ساتھ دُور کا بھی رشتہ نہیں۔ لیکن آپ کے والد کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے آپ کے دادا کے دل میں آپ کے لئے بے انتہا محبت بھر دی اور اس نے کہا یہ تو ہمارا بیٹا ہے اور چاند کا ٹکڑا ہے یہ والی پیشگوئی کا ہی ظہور تھا کہ باپ نہ تھا تو دادا کے دل میں اللہ تعالیٰ نے محبت اور اُلفت پیدا کر دی۔ پس اللہ تعالیٰ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اے محمدﷺ ! جب تمہارا باپ نہ تھا تو کیا ہم تمہارے باپ بنے تھے یا نہ؟
پھر اس کے بعد خدا تعالیٰ نے جو کام آپ سے لینے تھے وہ تقاضا کرتے تھے کہ آپ کی صحت اعلیٰ درجہ کی ہو اور آپ کے قویٰ نہایت مضبوط ہوں کیونکہ آپ نے ایک طرف تمام انبیاء سے افضل نبی بننا تھا ور دوسری طرف اعلیٰ درجہ کا جرنیل بھی بننا تھا مگر مکہ میں پھلوں کی بھی کمی تھی، پانی کی بھی کمی تھی اور سبزیوں وغیرہ کی بھی کمی تھی اور جب تک مکہ کے لوگ بیرو نجات میں جاکر نہ رہیں ان کی صحت اچھی نہیں رہ سکتی۔ بیرونجات سے مکہ میں پھل اور سبزیاں وغیرہ تو پہنچ جاتی تھیں لیکن اگر باہر سے چیزیں چلی بھی جاتیں تو بھی تازہ بتازہ پھلوں اور سبزیوں کامل جاناجو اثر رکھتا ہے وہ باہر سے آئی ہوئی چیزوں میں کہاں ہوتا ہے۔ مکہ کے لوگوں میں یہ دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کو باہر کے گاؤں میں ۵یا ۶ ماہ کی عمر میں بھجوا دیتے تھے اور جب وہ ۸۔۹ سال کی عمر کے ہوتے تھے تو انہیں واپس لے آتے تھے اور بعضلوگ تو سال دو سال کے بعد ہی واپس لے آتے تھے اور بعض ۸۔۹ سال کا ہو چکنے پر لے آتے۔ اِس سے یہ فائدہ ہوتا کہ ان کی صحت بھی اچھی ہو جاتی اور ان بچوں کی زبان بھی شہر والوں کی نسبت زیادہ صاف ہو جاتی کیونکہ بدویوں کی زبان شہر والوں کی نسبت زیادہ صاف تھی اور شہریوں کی زبان باہر سے قبائل آتے رہنے کی وجہ سے مخلوط سی ہو جاتی تھی۔ غرض مکہ میں ہر چھٹے مہینے باہر کے گاؤں کی عورتیں آتیں اور دودھ پیتے بچوں کو پالنے کے لئے ساتھ لے جاتیں وہ شہر میں چکر لگاتی تھیں اور جس کسی نے اپنا بچہ ان کے حوالہ کرنا ہوتا کر دیتا تھا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد آس پاس کے دیہات کی عورتیں شہر میں آئیں حضرت عبدالمطلب کا گھر بہت مشہور تھا اور ایک قبیلہ کا سردار ہونے کی وجہ سے ان کی بہت زیادہ شہرت تھی اس لئے دیہات سے آنے والی ان دایہ عورتوں میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ عبدالمطلب کے پوتے کو وہ اپنے ساتھ لے جائے مگر جب انہوں نے سنا کہ بچہ کا والد فوت ہو چکا ہے تو انہوں نے خیال کیا کہ اس یتیم بچہ کو پالنے کے بدلہ میں ہمیں کون انعام دے گا۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے کئی عورتیں آپ کی والدہ کے گھر میں آئیں مگر یہ معلوم ہونے پر کہ اِس بچے کا والد فوت ہو چکا ہے واپس چلی گئیں اور کسی نے اس یتیم بچہ کو اپنے ساتھ لے جانا نہ چاہا۔ پانچویں چھٹے نمبر پر حلیمہ آئی مگر اس نے بھی جب بچہ کے یتیم ہونے کے متعلق سنا تو اس بہانہ سے کہ میں پھر آتی ہوں چلی گئی مگر جس طرح اس بچہ کا گھر غریب تھا اسی طرح حلیمہ بھی غریب تھی وہ سارا دن مکہ کے شہر میں بچوں والوں کے گھروں میں پھری لیکن کسی نے اُس کو منہ نہ لگایا گویا ایک طرف ان ساری دایہ عورتوں نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو ردّ کر دیا اور دوسری طرف سارے بچوں والوں نے حلیمہ کو ردّ کر دیا اور جس طرح یسعیا نے کہا تھا ویسا ہی ہوا کہ’’ وہ پتھر جسے معماروں نے ردّ کیا کونے کا سرا ہوگیا‘‘۳؎ آخر حلیمہ کو خیال آیا کہ میں صبح اس بچے کو اس لئے چھوڑ آئی تھی کہ وہ یتیم ہے اور پھر سارے شہر میں سے کسی نے اپنا بچہ مجھے نہ دیا اگر میں اب پھر اسی یتیم بچہ کے گھر جاؤں گی تو اس گھر والے کہیں گے تم ہمارے بچے کو چھوڑ کر گئی تھیں تمہیں بھی سارے شہر سے کوئی بچہ نہ ملا اس لئے وہ کچھ شرمائی ہوئی آمنہ کے گھر آئی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے گئی مگر اس طرح کہ ِادھر آپ کو حلیمہ کے ساتھ بھیجتے وقت آپ کی والدہ کو بھی خیال آیا کہ حلیمہ غریب عورت ہے اور اس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے اُدھر حلیمہ اپنے دل میں کہہ رہی تھی کہ بچہ تو میں لے ہی چلی ہوں مگر مجھے اس کے پالنے کا انعام کہاں مل سکتا ہے لیکن حلیمہ بیان کرتی ہیں کہ جب میں اِس بچے کو لے کر گھر پہنچی تو خدا کی قسم! ہماری وہ بکریاں جن کا دودھ سُوکھ چکا تھا اِس بچے کی برکت سے ان بکریوں کے سُوکھے ہوئے تھنوں میں دودھ بھر گیا اور خدا تعالیٰ نے میرے گھر میں برکت بھر دی۔۴؎ برکت کا مطلب یہ تو نہیں کہ آسمان سے کوئی چیز گرتی ہے ہاں خدا تعالیٰ نے ان بکریوں کے معدے تیز کر دیئے اور وہ گھاس اچھا کھا لیتی تھیں اور دودھ زیادہ دینے لگ گئیں۔
پس اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ جب تمہیں پالنے کا زمانہ آیا تو ایک طرف دیہات کی دایہ عورتوں نے تمہیں رد کر دیا دوسری طرف تمہاری ماں نے دکھتے ہوئے دل کے ساتھ تمہیں ایک غریب دایہ کے سپرد کیا مگر دیکھو ہم نے تمہارے لئے انتظام کیا یا نہ کیا؟ دوسال کے بعد جب رضاعت کی مدّت پوری ہوئی تو دستور کے مطابق حلیمہ آپ کو لے کر مکہ میں آئی اور آمنہ سے جو کچھ ہو سکتا تھا انہوں نے حلیمہ کو دے دیا مگر حلیمہ کے دل میں آپ کے لئے اتنی محبت پیدا ہو چکی تھی کہ اس نے بہ اصرار آپ کی والدہ سے کہا کہ اس بچہ کو کچھ عرصہ اور میرے پاس رہنے دو چنانچہ وہ پھر آپ کو ساتھ لے کر خوش خوش واپس گھر چلی گئی۔ جب آپ کی عمر چار سال کی ہوئی تو حلیمہ آپ کو لے کر مکہ میں آئی اور آپ کی والدہ کے سپرد کر گئی والدہ سے جو کچھ ہو سکتا تھا انہوں نے حلیمہ کو دیا اور جو کچھ اسے ملا وہ لے کر چلی گئی۔ یوں تو حضرت عبدالمطلب بڑے قبیلہ کے آدمی تھے اور ان کا شمار بہت بڑے سرداروں میں ہوتا تھا مگر وہ اتنے زیادہ امیر نہ تھے صرف کھاتے پیتے لوگوں سے تھے ان کی اولاد بہت زیادہ تھی اس لئے اخراجات بھی زیادہ تھے اس لئے وہ حلیمہ کو کچھ زیادہ نہ دے سکے مگر وہی حلیمہ جس کو وہ چھوٹا بچہ لے جاتے وقت یہ خیال تھا کہ اس کو پالنے کے بدلہ میں مجھے کیا ملنا ہے یہ بچہ تو یتیم ہے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا اور اس کے بعد جنگ حنین میں حلیمہ کی ساری قوم قید ہو کر آگئی تو آپ نے یہ خیال کیا کہ یہ لوگ جب سفارش لے کر میرے پاس آئیں گے تو ان سب قیدیوں کو میں چھوڑدوں گا مگر وہ لوگ( جو قبیلہ ہوازن کے تھے) اِس شرم سے آپ کے پاس سفارش کے لئے نہ آئے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارا بچہ تھا اور ہم نے اس کے ساتھ جنگ کی ہے ہم کس طرح اس کے پاس جا کر سفارش کریں۔ آخر آپ کی رضائی بہن یعنی حلیمہ کی بیٹی آپ کے پاس آئی اور آپ نے اس کی ساری قوم کو آزاد کر دیا۔۵؎
اب دیکھو یہ اتنا بڑا بدلہ تھا کہ سارے عرب میں سے کسی بڑے سے بڑے سردار کی طرف سے بھی کسی بچہ کو پالنے کا نہ ملا ہوگا۔ آپ نے اپنی رضائی بہن کی سفارش پر ان کی قوم کے تین ہزار قید ی بِلا فدیہ رہا کر دیئے۔ اگر ایک قیدی کا فدیہ پانچ سَو بھی شمار کیا جائے تو یہ رقم پندرہ لاکھ بنتی ہے مگر آپ نے صرف حلیمہ کی خدمت کے بدلہ میں ان سب قیدیوں کو رہا کر دیا۔اب دیکھو یہ کتنا بڑا انعام تھا جو رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حلیمہ کو ملا۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد ﷺ !تجھے گاؤں کی ساری عورتیں رد کر گئی تھیں اور حلیمہ بھی تجھے ایک دفعہ ردّ کر کے چلی گئی تھی اس خیال سے کہ تم غریب تھے مگر کیا میں نے تیری غربت کو دور کیا یا نہ کیا؟اور تجھ سے حلیمہ کو وہ انعام دلوایا جوسارے عرب میں سے کبھی کسی نے نہ دیا تھا اور نہ دے سکتا تھا۔
اس کے بعد آپ کو یہ صدمہ پہنچا کہ آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب فوت ہوگئے۔ یہ حادثہ بھی آپ کے لئے نہایت تکلیف دِہ تھا مگر حضرت عبدالمطلب نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کو بُلایا اور اُن کو وصیت کی کہ دیکھو!محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو میری امانت سمجھنا اور ہر چیز سے اِس کو زیادہ عزیزرکھنا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کہنے کو تو سب لوگ کہہ جاتے ہیں مگر خیال رکھنے والے بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔ بیویاں مرنے لگتی ہیں تو اپنے خاوندوں سے کہہ جاتی ہیں میرے بچوں کا خاص خیال رکھنا۔ مگر خاوند جب دوسری شادیاں کرتے ہیں تو پہلی بیوی کی اولاد کو کوئی پوچھتا تک نہیں اور وہ اولاد دھکے کھاتی پھرتی ہے۔ خاوند مرتے ہیں تو وہ بھی اپنی اولاد کے متعلق کسی کو خاص خیال رکھنے کے لئے کہہ جاتے ہیں مگر ہم نے دیکھا ہے کہ ان کے بچے بھی در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں اور بعض نظارے تو نہایت درد ناک دکھائی دیتے ہیں۔ پس ہو سکتا تھا کہ ابو طالب بھی اپنے باپ کی وفات کے وقت کی وصیت کا کوئی خیال نہ رکھتے مگر وہ کس طرح نہ رکھتے جبکہ خدا تعالیٰ عرش سے اُن کو وصیت کر رہا تھا اور اُن کے دل میں محمدﷺ کے لئے بے انتہا محبت پیدا کر رہا تھا۔ پس جب آپ ابو طالب کی کفالت میں آئے تو باوجود یکہ ابو طالب کی بہت سی اولاد تھی اور وہ تھے بھی غریب آدمی مگر وہ آپ کے ساتھ اپنے بچوں سے بڑھ کر محبت کرتے تھے اور وہ آپ کو اتنا عزیز رکھتے تھے کہ ہر وقت آپ کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتے تھے یہاں تک کہ رات کو بھی اپنے پاس ہی سُلاتے تھے۔ ابوطالب کی بیوی یعنی آپ کی چچی کے دل میں وہ محبت آپ کے لئے نہ تھی وہ بعض دفعہ کوئی چیز اپنے بچوں میں تقسیم کردیتی تھی اور آپ کو نہ دیتی تھی مگر آپ کے وقار کا بچپن میں ہی یہ عالَم تھا کہ باوجود آٹھ نو سال کی عمر کے آپ نے کبھی ایسی باتوں کا شکوہ نہ کیا اور کبھی اپنے منہ سے کوئی چیز نہ مانگی۔ ابو طالب جب آپ کو ایک طرف بیٹھے دیکھتے تو سمجھ جاتے کہ کوئی بات ہے وہ دیکھتے کہ ان کی بیوی اپنے بچوں میں کوئی چیز تقسیم کر رہی ہے تو وہ پیار سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گود میں اُٹھا لیتے اور یہ نہیں کہتے کہ یہ میرا بھتیجا ہے بلکہ بیوی سے کہتے تُو نے میرے بیٹے کو تو دیا ہی نہیں یعنی وہ اپنے بیٹوں کو بیٹے نہیں سمجھتے تھے بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی حقیقی بیٹا سمجھتے تھے اور وہ بار بار دُہراتے جاتے تھے کہ تُو نے میرے بیٹے کو تو دیا ہی نہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب ماں باپ کی اپنی اولاد زیادہ ہوتی ہے تو دوسروں کی اولاد اُن کی نظر میں ہی نہیں جچتی مگر خدا تعالیٰ نے ابو طالب کے دل میں آپ کے لئے اتنی محبت پیدا کر دی تھی کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں اپنے بیٹوں کو بیٹے ہی نہیں سمجھتے تھے۔ یہ بھی کا ہی نمونہ تھا۔ پس اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺکو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ! تُو یتیم تھا مگر میں نے تیری کفالت کی یا نہ کی اور تیرے یُتم کو دُور کیا یا نہ کیا؟
پھر آپ بڑے ہوئے اُس وقت یہ سوال پیدا ہوتا تھاکہ آپ کونسا کاروبار کریں۔ آپ کے پاس کوئی جائداد نہ تھی جس سے کوئی کاروبار شروع کرتے، نہ ہی آپ جس چچا کی کفالت میں تھے ان کے پاس کوئی مال و دولت تھا کہ وہ آپ کو کاروبار کے لئے کچھ رقم دے دیتے۔ ان کی تو یہ حالت تھی کہ باہر سے آنے والے لوگ کچھ خدمت کر جاتے تھے اور ان کا گذارہ ہو جاتا تھا اس لئے وہ آپ کی کچھ مدد نہ کر سکتے تھے۔ غرض باوجود اس کے کہ آپ کے پاس کاروبار کے لئے کوئی سامان نہ تھا اور آپ کو کوئی فن بھی نہ آتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد فرمائی اور وہ اس طرح کہ ایک قافلہ تجارت کے لئے شام کی طرف جا رہا تھا ایک دولت مند عورت نے آپ کو دیانتدار سمجھتے ہوئے ( کیونکہ آپ امین کے نام سے مشہور تھے) آپ کو بُلایا اور کہا میں آپ کے سپرد اپنے اموال کرتی ہوںآپ قافلہ کے ساتھ شام کو جائیں اور تجارت کر کے واپس آئیں میں آپ کو اِس اِس قدر حصہ دوں گی۔ لوگ تو دَوڑتے پھرتے ہیں اور کبھی کسی کے پاس جاتے ہیں اور کبھی کسی کے دروازہ پر پہنچتے ہیں کہ نوکری مل جائے لیکن اِس دولت مند عورت نے خود بُلا کر آپ کو نوکری دی۔ اب دیکھو جب آپ کی کمائی کا زمانہ آیا تو کُجا یہ حالت کہ لوگ نوکریوں کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں اور کُجا یہ حالت کہ وہ دولت مند عورت آپ کو بُلا کر خود اپنی بہت سی دولت آپ کر سپردکرتی ہے اور کہتی ہے آپ قافلہ کے ساتھ تجارت کے لئے جائیں چنانچہ آپ قافلہ کے ساتھ شام کو گئے اور آپ نے ایسی دیانت داری اور محنت سے کام کیا اور اتنا نفع ہوا کہ پہلے اس عورت کو تجارت میں کبھی اتنا نفع نہ ہوا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلے وہ اپنے نوکروں کے سپرد سارا کاروبار کرتی تھی اور وہ لوگ دیانت داری سے کام نہ کرتے تھے مگر آپ نے ایسا انتظام کیا کہ کسی کو نفع کی رقم سے چھونے تک نہ دیا۔ غرض آپ بہت زیادہ نفع کے ساتھ تجارت کر کے واپس آئے۔ اُس وقت آپ کی عمر شادی کے قابل تھی مگر آپ غریب آدمی تھے اور غریبوں کو لڑکیاں کون دیتا ہے، غریبوں کو تو غریب گھرانوں سے بھی لڑکیاں نہیں ملتیں مگر جب آپ تجارت کر کے واپس مکہ پہنچے اور آپ نے تجارت کا سارا نفع اُس عورت کے سامنے پیش کیا تو وہ اتنا نفع دیکھ کرحیران رہ گئی اوراُس نے نوکروں سے پوچھا اتنی دولت کس طرح نفع میں آگئی؟ اُنہوں نے کہا بات یہ ہے کہ آپ جب ہمیں تجارت کے لئے بھیجتی تھیں تو ہم اس میں سے خود بھی کھاتے پیتے تھے مگر محمد(ﷺ) نے تو کسی کو ہاتھ بھی لگانے نہیں دیا نفع نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ غرض آپ نے تجارت کا کام اس خوش اسلوبی سے کیا کہ وہ دولت مند عورت آپ کی ایمانداری کی قائل ہوگئی۔ وہ بیوہ عورت تھی اور بہت بڑے مال کی مالک تھی، اُس کے بہت سے غلام تھے اور نوکرچاکر تھے اِسی لئے اُس کے قافلے دوسرے مُلکوں میں جا کر تجارت کرتے تھے ورنہ دوسرے ملکوں میں قافلہ بھیجنا معمولی بات نہیں وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ بات چیت کر رہی تھی کہ سہیلی نے اسے کہا بی بی! تم ابھی جوان ہو اور بیوہ ہو چکی ہو اور پھر تمہیں ایسا اچھا دیانت دار اور ایماندار خاوند مل سکتا ہے جس کی دیانتداری اور ایمانداری کی مثال سارے شہر میں نہیں مل سکتی اس لئے تمہیں چاہئے کہ اس کے ساتھ شادی کر لو ۔ اس دولت مند عورت نے اپنی سہیلی کو جواب دیا کہ ہے تو تمہاری بات ٹھیک لیکن اگر یہ بات میرے باپ نے سن لی تو وہ مجھے جان سے مار ڈالے گا۔ سہیلی نے کہا تم اس بات کی فکر نہ کرو یہ سب انتظام میں خود کر لوں گی۔چنانچہ اُس نے اِدھر اس کے باپ کو راضی کر لیا اور اُدھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا اگر آپ کی شادی ایک دولت مند عورت سے ہو جائے تو کیا آپ پسند کریں گے؟ آپ نے فرمایا میرے پاس تو کچھ ہے نہیں اس لئے کوئی دولت مند عورت میرے ساتھ کس طرح شادی کرنے پر رضامند ہوسکتی ہے۔ اُس نے کہا آپ کے پاس جوچیز ہے اُس کو ہر عورت ہی پسند کرتی ہے اور وہ ہے آپ کی دیانت امانت اور شرافت اس لئے آپ اس بات کا فکر نہ کریں کہ آپ کے پاس مال و دولت نہیں ہے آپ کے پاس جو چیز ہے اس کے مقابلہ میں مال و دولت کیا چیز ہے۔ آپ نے فرمایا اپنے چچا کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کر سکتا۔ اُس نے کہا اچھا میں آپ کے چچا سے بھی پوچھ لیتی ہوں چنانچہ وہ ابو طالب کے پاس گئی انہوں نے رضا مندی کا اظہار کیا اور آپ کی شادی ہوگئی۔۶؎ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ اے محمد ﷺ! تیرے پاس کاروبار کے لئے کچھ نہ تھا مگر ہم نے انتظام کیا یا نہ کیا؟ اور جب تیری شادی کا موقع آیا تو باوجود اس کے کہ تُو غریب تھا بتا ہم نے تیری شادی کا انتظام کیا یا نہ کیا؟
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر مرد غریب ہو اور عورت امیر ہو تو مرد کو بسا اوقات ذلّت اُٹھانی پڑتی ہے۔ ہمارے ایک نانا تھے جن کے گھر نواب لوہارو کی بیٹی تھیں اور وہاں سے ہی اُن کو اخراجات کے لئے کچھ رقم آجاتی تھی۔ ہمارے نانا کام تو کرتے تھے اور بیس پچیس روپیہ ماہوار آمدن بھی ہو جاتی تھی مگر اُن کا دستور تھا کہ سارا دن کام کرتے اور جو رقم آتی اس میں سے صرف ایک روپیہ ماہوار اپنے اوپر خرچ کرتے تھے، اُسی میں سے کپڑے کی دھلائی اور باقی ضرورتیں پور ی کر لیا کرتے تھے، کھانے کے لئے اُن کو ایک چپاتی کافی تھی باقی رقم وہ ساری جمع رکھتے تھے اُن کو اِس بات کا بہت زیادہ احساس تھا گھر میں جو کچھ خرچ ہونا ہے یہ بیوی کا مال ہے مجھے اپنی ضروریات پر یہ روپیہ صَرف نہیں کرنا چاہئے۔ اُن کو چائے پینے کا بہت شوق تھا مگر چائے میں چھوٹا سا ایک بتاشہ ڈال کر پی جاتی تھے گویا انہوں نے اپنے نفس کو مارا ہوا تھا صرف اِس لئے کہ گھر میں جو کچھ خرچ ہوتا تھا وہ بیوی کا مال تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد اُن کی بیوی کے والد یعنی اُن کے سسر فوت ہوگئے اور بھائیوں نے روپیہ بھجوانا بند کر دیا اِس پر انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تمہارے والد نے جو رقم مجھے اتنا عرصہ بھیجی تھی اب میں تم کو باقاعدہ دوں گا۔ چنانچہ انہوں نے وہ جمع شدہ رقم ساری کی ساری بیوی کو دے دی۔ اب دیکھو یہ بات طبیعت پر کتنی گراں گزرتی ہے کہ خاوند غریب ہو اور بیوی امیر ہو اور خاوند بیوی کا مال کھاتا رہے۔ مگر جہاں خدا تعالیٰ نے یہ انتظام کیا کہ آپ کی شادی حضرت خدیجہؓ جیسی امیر عورت سے ہو گئی وہاں ایک ابتلاء آپ کے لئے یہ بھی تھا کہ حضرت خدیجہؓ بہت زیادہ امیر تھیں اور آپ غریب تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اس ابتلاء کو اِس طرح دُور کیا کہ کچھ عرصہ کے بعد حضرت خدیجہؓ کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اتنا خوددار اور نیک خاوند میرے مال کو برداشت نہ کرسکے گا اس لئے اس نے اپنے دل میں فیصلہ کیا کہ اپنا سارا مال آپ کے حوالے کردے یہ سوچ کر حضرت خدیجہؓ نے ایک دن آپ سے کہا میں ایک عرض کرنا چاہتی ہوں۔ آپ نے فرمایا خدیجہ! کیا بات ہے؟ حضرت خدیجہؓ نے کہا میں چاہتی ہوں کہ اپنا سارا مال و متاع اور غلام آپ کے سپرد کر دوں۔ آپ نے فرمایا خدیجہ! کیا تم نے اس بات کو اچھی طرح سوچ سمجھ لیا ہے ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتاؤ۔ حضرت خدیجہؓ نے کہا میں نے اچھی طرح اِس معاملہ پر غور کر لیا ہے چاہے کچھ ہو جائے میں اپنا سارا مال آپ کے سپرد کرتی ہوں۔ آپ نے فرمایا اگر یہ بات ہے تو پہلاکام میں یہ کرتا ہوںکہ اِن سارے غلاموں کو آزاد کرتا ہوں۔ حضرت خدیجہؓ نے خندہ پیشانی سے اِس بات کو برداشت کر لیا مگر چونکہ آپ کو تجارت وغیرہ کے معاملہ میں ایک ساتھی کی بھی ضرورت تھی اِس لئے آپ نے جن غلاموں کو آزاد کیا اُن میں سے ایک غلام زید نے تو کہا آپ نے مجھے آزاد کر دیا ہے مگر آپ کے اخلاق اِس قسم کے ہیں کہ میں آپ سے جُدا نہیں ہونا چاہتا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد! (ﷺ)تم اِس بات کو برداشت نہ کرسکتے تھے کہ تم اپنی بیوی کے مال پر گذارہ کرو اس لئے ہم نے تمہارے لئے یہ انتظام کر دیا کہ تمہاری بیوی نے اپنا سارا مال تمہارے قدموں میں لا کر پھینک دیا۔ پھر آپ کو غلام آزاد کرنے کے بعد ایک ساتھی کی ضرورت تھی اس کے لئے ہم نے یہ انتظام کیا کہ تم نے جن غلاموں کو آزاد کیا تھا ان میں سے ایک نے کہہ دیا کہ آپ بے شک مجھے آزاد کر دیں مگر چونکہ آپ کے اخلاق نہایت اعلیٰ درجہ کے ہیں اس لئے میں آپ سے جُدا ہونا نہیں چاہتا۔ اس طرح ہم نے تمہارے ساتھی کی ضرورت بھی پوری کر دی۔ غرض ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح قدم بقدم ہر ضرورت کے وقت، ہر مصیبت کے وقت، ہر خطرہ کے وقت اور ہر تکلیف کے وقت اللہ تعالیٰ نے کانمونہ آپ کی ذات سے اعلیٰ اور ارفع طور پر وابستہ کر کے دکھادیا فَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ العَظِیْم۔
فرمودہ ۲۵ جون ۱۹۴۷ء
آج مَیں پھر اسی مضمون کو لیتا ہوں جو کچھ دن ہوئے میں نے شروع کیا تھا وہ مضمون تو ایسا ہے جس کے بیان کرنے کے لئے صحت کاملہ کا ہونا ضروری ہے کیونکہ مضمون بہت زیادہ تشریح چاہتا ہے اور مجھے چار پانچ دن سے کان میں تکلیف رہی ہے اب کچھ افاقہ ہے اس لئے میں نے ارادہ کیا ہے کہ آج اس مضمون کا کچھ حصہ بیان کردوں۔ وہ مضمون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں کے نظاروں کے متعلق ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر نازک موقع پر، ہر دکھ اور ہر پریشانی کے وقت آپ کے ساتھ کا ثبوت دیا۔ ویسے تو یہ ایک ہی آیت ہے مگر یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہزاروں واقعات اور ہزاروں ایمان افروز نظاروں کا مجموعہ ہے۔ آپ کے سوانح کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قدم قدم پر ہر مصیبت کے وقت آپ کے ساتھ کا معاملہ کیا۔ قبل ازیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی شادی تک کے واقعات بیان کئے تھے آج میں اس سے آگے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ جب آپ کی شادی ہو چکی اور کچھ عرصہ کے بعد آپ کی عمر ایسی حالت کو پہنچ گئی جو روحانی بلوغت کی عمر کہلاتی ہے تو اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے ہی آسمان سے آپ کی مدد کی اور آپ کی روحانی پیاس کو بجھانے کا سامان پیدا کیا۔ یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ بلوغت دو قسم کی ہوتی ہے ایک بلوغت جسمانی ہوتی ہے جو اٹھارہ سے اکیس سال کی عمر تک ہوتی ہے اور ایک بلوغت عقلی ہوتی ہے جو اٹھارہ سے پچیس سال کی عمر تک ہوتی ہے لیکن ان دونوں قسموں کے علاوہ بلوغت کی ایک قسم روحانی بھی ہے جس میں انسان کے تقاضائے طبعی بالغ ہو جاتے ہیں اور انسان اپنے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے لئے ایک خاص لائحہ عمل تجویز کرتا ہے۔ روحانی بلوغت کی عمر کے متعلق قرآن کریم سے اور بزرگوں کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ چالیس سال کی عمر ہے۔
۱۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے۷؎ یعنی جب اپنی بلوغت روحانیہ کو پہنچ گئے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ مکمل جوانی یا بلوغت روحانیہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہےسَنَۃً ۸؎ یعنی جب انسان کامل جوانی کو پہنچ گیا اور اُس کی عمر چالیس سال کی ہوگئی۔
پس بلوغت روحانی چالیس سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے وہاں بعض اوقات اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی حکمت اور مصلحت کے ماتحت ایسے انبیاء کو بھی مبعوث فرمایا ہے جن کی عمر چالیس سال سے کم تھی۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے جب حضرت یحییٰ کو مبعوث فرمایااُس وقت ان کی عمر چھبیس سال تھی اسی طرح حضرت عیسیٰ کی عمر بعثت کے وقت تیس سال تھی لیکن ان دونوں انبیاء کی بعثت چالیس سال سے کم عمرمیں ضرورت اور حکمت کے ماتحت ہوئی۔ حضرت یحییٰ کے متعلق خدا تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ ان کو جلدی ہی اُٹھا لیا جائے ان کی بعثت چھبیس سال کی عمر میں ہوئی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے چونکہ بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں نکلنا تھا جو ان سے پہلے کسی زمانہ میں ملک بدر کر دی گئی تھیں اور خدا تعالیٰ نے ان کو افغانستان اور کشمیر وغیرہ کے علاقوں میں پھیلادیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو چالیس سال سے کم عمر میں ہی مبعوث فرمایا تاکہ آپ پہلے اپنی قوم کے ایک حصہ کو ہدایت دے لیں اور بلوغت حقیقی سے پہلے پہلے بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش کر لیں۔اُس زمانہ میں چونکہ سفر کرنا مشکل تھانہ ریل تھی، نہ تاریں تھیں اور نہ ڈاکخانے تھے اس لئے بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش ایک لمبے وقت کی متقاضی تھی۔ اُس زمانہ میں تیز رَو سواریاں نہ ہونے کی وجہ سے ایک مُلک سے دوسرے مُلک تک پہنچنے میں بعض اوقات سال بلکہ دو دو سال لگ جاتے تھے کیونکہ سمندر کے رستے سے جانا بھی مشکل تھا اور پہاڑوں کو عبور کرنا بھی مشکل تھا اُس وقت راستے نہایت دشوار گزار ہوتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تیس سال کی عمر میں ہی مبعوث فرمادیا تاکہ آپ پہلے اپنی قوم کی راہنمائی فرما لیں اور جب آپ بلوغت حقیقی کو پہنچیں تو بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو تلاش کر چکے ہوں۔ مگر عام طور پر اللہ تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ وہ چالیس سال کی عمر میںہی انبیاء کو مبعوث فرماتا ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چالیس سال کی عمر میں ہی مبعوث ہوئے تھے۔ بہرحال جب آپ اس عمر کے قریب پہنچے تو گردو پیش کے ماحول نے جو کفر واِلحاد سے بھرا پڑا تھا آپ کے دل پر گہرا اثر ڈالا اور آپ کی طبیعت اس سے سخت متنفر اور بیزار ہوئی۔ آپ نے جیسا کہ ہر نبی ہی شرک سے پاک ہوتا ہے کبھی شرک نہیں کیا تھا بلکہ مشرکانہ خیالات بھی آپ کے قریب تک نہ پھٹکے تھے مگر وہ توحید کامل جو شریعت الٰہیہ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی آپ ابھی اُس سے ناواقف تھے اس لئے طبعی طور پرآپ کے دل میں توحید کامل کی جستجو پیدا ہوئی اور معرفت حقّہ اور عرفانِ تامّ کی تڑپ آپ کو ستانے لگی۔ گردوپیش کے حالات نے آپ کو اور بھی ابھارا اور آپ ہمہ تن یادِ خدا میں مصروف رہنے کیلئے خویش و اقارب کو ترک کر کے شہر سے باہر ایک غار میں جسے غار حرا کہتے ہیں تشریف لے جاتے اور کئی کئی دن وہاں عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے۔ جب آپ کا زاد ختم ہو جاتا تو آپ واپس مکہ میں تشریف لاتے اور پھر کچھ ستّو اور کھجوریں یا سوکھا گوشت وغیرہ ساتھ لے کر عبادتِ الٰہی کے لئے غارِحرا میں چلے جاتے۔ آپ کو اس ریاضت شاقہ سے صرف ایک ہی غرض تھی اور وہ یہ کہ آپ کو وہ حقیقی راستہ مل جائے جو انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچانے والا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ُاس وقت آپ کی ایک جاںنثار بیوی موجود تھی مگر وہ اس معاملہ میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتی تھی، آپ کے گہرے اور وفادار دوست موجود تھے مگر وہ بھی اس معاملہ میں آپ کی کوئی مدد کرنے سے قاصر تھے، آپ کے زمانہ میں بعض مذاہب بھی موجود تھے مگر ان کے پیرو بھی روحانی سر چشمہ سے دور ہو جانے کی وجہ سے قسم قسم کے مشرکانہ خیالات میں ملوث ہو چکے تھے ۔کفار مکہ نے تو خانہ کعبہ میں بھی ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے اور یہودی حضرت عزیر کو ابن اللہ قرار دے کر مشرک بن رہے تھے اور عیسائی باپ بیٹا اور روح القدس کی خدائی کے دعویدار تھے غرض جب آپ نے دیکھا کہ اہل مذاہب بھی بگڑچکے ہیں اور دوست وغیرہ بھی اس بارے میں میری کوئی مدد نہیں کرسکتے تو آپ کو اپنے غیر روحانی ماحول سے اتنا اِنقباض پیدا ہوا کہ آپ نے سمجھامَیں ان سے کُلّی طور پر علیحدہ نہیں ہوسکتا لیکن میرے لئے ضروری ہے کہ میَں اِس دنیا سے ایک عارضی انقطاع اختیار کروں اور خدائے واحد سے میں وہ راستہ طلب کروں جو انسان کو خداتعالیٰ تک پہنچا دینے والا ہو۔ آپ ایسی حالت میں عبادت الٰہی اور دعاؤں میں مصروف تھے کہ ایک دن خدا کا فرشتہ آپ پر نازل ہوا اور اُس نے کہا یعنی اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ۔ آپ نے فرمایا مَااَنَابِقَارِیٍٔ میں تو پڑھ نہیں سکتا۔ اس پر فرشتہ نے زور سے آپ کو اپنے سینہ سے لگاکر بھینچا اور پھر کہا ۔آپ نے پھر وہی جواب دیا جو پہلی مرتبہ دیاتھا۔ تب فرشتہ نے پھراپنے پورے زور کے ساتھ اپنے سینہ سے لگا کربھینچا اور کہا ۹؎ یعنی اے محمد! (ﷺ) تُو ربّ کانام لے کر پڑھ جس نے تمام اشیاء کو پیدا کیا ہے جس نے انسان کو خون کے ایک لوتھڑے سے پیدا کیا ہے ہاں ہم تجھے پھر کہتے ہیں کہ تُو اس کلام کو جو تجھ پر نازل کیا جارہاہے لوگوں کو پڑھ کر سنا کیونکہ تیرا ربّ بڑا کریم ہے۔ تیرا ربّ وہ ہے جس نے انسان کو قلم کے ساتھ سکھایا اور اُس نے انسان کو وہ کچھ بتایا جو وہ پہلے نہیں جانتا تھا۔
یہ وحی آپ پر پہلے دن نازل ہوئی اور اس میں آپ کو یہ عظیم الشان بشارت دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اب آپ کو ایسے علوم عطا کئے جانے والے ہیں کہ جن کو اس سے پہلے دنیا میں کوئی انسان نہیں جانتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں جس وقت فرشتہ آپ کو یہ آیت سکھا رہا تھا اُس وقت اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا آپ سے کہہ رہا ہوگا کہ اے محمد ﷺ! بتا کہ میںنے تیری ضرورت کو پورا کیا یا نہیں کیا؟ تیری وفادار بیوی موجود تھی، تیرے وفادار دوست موجود تھے، تجھ سے محبت کرنے والے رشتہ دار موجود تھے مگر اُن میں سے کسی کی طاقت نہ تھی کہ وہ اس بارہ میں تیری مدد کر سکے، تیرے زمانہ کے مذہبی علماء جو بڑے بڑے دعوے کر رہے تھے وہ بھی تیری کیا مدد کر سکتے تھے وہ تو گمراہ اور ہدایت سے محروم تھے۔ اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم! جب دنیا کا کوئی شخص بھی تیری مدد نہ کر سکتا تھا اُس وقت میں نے تیری ضرورت کو پورا کیا اور پھر میں نے صرف تیری ہی ضرورت کو پورا نہ کیا بلکہ تجھے ساری دنیا کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا بنا دیا۔
پھر جب آپ غار حرا سے دنیا کی ہدایت کا پیغام لے کر باہر آئے تو طبعاً آپ کو یہ فکر ہوگا کہ خدانے ہدایت کا سامان تو پیدا کر دیا مگر ایسا نہ ہو میرے عزیز اِس ہدایت کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد بن جائیں اور اس بارہ میں آپ کو سب سے زیادہ فکر حضرت خدیجہؓ کا ہی ہو سکتا تھا کیونکہ وہ آپ کی بڑی ہی خدمت گزار بیوی تھیں اور آپ کو بھی ان سے بڑی محبت تھی مگر اللہ تعالیٰ کا احسان دیکھو کہ جب آپ اپنے گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہؓ سے اِس واقعہ کا ذکر کیا اور ساتھ ہی اِس خوف کا اظہار کیا کہ نہ معلوم میں اتنی بڑی ذمہ داری کو پوری طرح ادا بھی کرسکوں گا یا نہیں تو حضرت خدیجہؓ جو آپ کی محرم راز تھیں اور جو آپ کی پاکیزہ خلوت اور جلوت کی گواہ تھیں انکار کرنے کی بجائے فوراً بول اُٹھیں کہ کَلاَّ وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتّصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ۱۰؎ یعنی خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ وہ ہیں جو صلہ رحمی کرتے ہیں، مصیبت زدہ لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں اور وہ اخلاق فاضلہ جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں ان کو از سر نَو قائم کر رہے ہیں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اگر کوئی شخص محض ظلم کی وجہ سے کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو آپ اُس کی اعانت فرماتے ہیں کیا ایسے بلند کردار کا مالک انسان بھی کبھی ضائع ہو سکتا ہے ۔ یہ وہ گواہی تھی جو حضرت خدیحہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی چالیس سالہ زندگی کے متعلق دی اور جس میں آپ نے یہ حقیقت واضح کی کہ آپ کی پہلی زندگی اس طرح گذری ہے کہ آپ نے خدا تعالیٰ کے رستہ میں کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور ہر موقع پر آپ نے خداتعالیٰ کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیا۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ آپ تو خداتعالیٰ کے ساتھ وفاداری کریںاور خداتعالیٰ آپ کے ساتھ وفاداری نہ کرے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کی شان سے بعید ہے کہ جو شخص اس کے ساتھ وفاداری کرے وہ اُس کوچھوڑ دے آپ ضرور کامیاب ہوں گے۔ پس آپ کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ الفاظ کہہ کر حضرت خدیجہؓ نے یوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی تھی مگر ان الفاظ سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والی حضرت خدیجہؓ ہی تھیں۔ ان کے الفاظ تو آپ کی تسلی دلانے کے لئے تھے مگر اِس کے معنی یہ تھے کہ یاَرَسُوْلَ اللّٰہ! میں آپ پر ایمان لاتی ہوں اور جو تعلیم آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہے اُس کو بالکل سچ اور صحیح تسلیم کرتی ہوں اور اس میں مجھے ذرہ بھر بھی شبہ نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے مانگنے پر ایک مدد گار ملاتھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دیکھو کہ آپ کو بن مانگے مددگار مل گیا یعنی آپ کی وہ بیوی جس کے ساتھ آپ کو بے حد محبت تھی سب سے پہلے آپ پر ایمان لے آئی چونکہ ہر شخص کا مذہب اور عقیدہ آزاد ہوتا ہے اور کوئی کسی کو جبراً منوا نہیں سکتا اس لئے ممکن تھا کہ جب آپ نے حضرت خدیجہؓ سے خداتعالیٰ کی پہلی وحی کا ذکر کیا تو وہ آپ کا ساتھ نہ دیتیں اور کہہ دیتیں کہ میںابھی سوچ سمجھ کر کوئی قدم اُٹھاؤں گی لیکن نہیں حضرت خدیجہ نے بِلاتأمل بِلا توقف اور بِلا پس وپیش آپ کے دعویٰ کی تائید کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فکر کہ ممکن ہے خدیجہ مجھ پر ایمان نہ لائے جاتا رہا اور سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہ ہی ہوئیں۔ اُس وقت خداتعالیٰ عرش پر بیٹھا کہہ رہا تھا اے محمدﷺ! تجھے خدیجہ کے ساتھ پیار تھا اور محبت تھی اور تیرے دل میں یہ خیال تھا کہ کہیں خدیجہ تجھے چھوڑ نہ دے اور تُو اِس فکر میں تھا کہ خدیجہ مجھ پر ایمان لاتی ہے یا نہیں مگر کیا ہم نے تیری ضرورت کو پورا کیا یا نہ کیا؟
اس کے بعد جب آپ کے گھر میں خداتعالیٰ کی وحی کے متعلق باتیں ہوئیں تو زید بن حارث غلام جوآپ کے گھر میں رہتا تھا آگے بڑھا اور اس نے کہا یاَ رَسُوْلَ اللّٰہ! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت علیؓ جن کی عمر اُس وقت گیارہ سال کی تھی اور وہ ابھی بالکل بچہ ہی تھے اور وہ دروازہ کے ساتھ کھڑے ہو کر اِس گفتگو کو سن رہے تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضر ت خدیجہؓ کے درمیان ہو رہی تھی، جب انہوں نے یہ سنا کہ خدا کا پیغام آیا ہے تو وہ علیؓ جو ایک ہونہار اور ہوشیار بچہ تھا، وہ علیؓ جس کے اندر نیکی تھی، وہ علیؓ جس کے نیکی کے جذبات جوش مارتے رہتے تھے مگر نشوونما نہ پاسکے تھے، وہ علیؓجس کے احساسات بہت بلند تھے مگر ابھی تک سینے کے اندر دبے ہوئے تھے اور وہ علیؓ جس کے اندر اللہ تعالیٰ نے قبولیت کا مادہ ودیعت کیا تھا مگر ابھی تک اسے کوئی موقع نہ مل سکا تھا اس نے جب دیکھا کہ اب میرے جذبات کے اُبھرنے کا وقت آگیا ہے، اس نے جب دیکھا کہ اب میرے احساسات کے نشوونما کا موقع آگیا ہے، اس نے جب دیکھا کہ اب خدا مجھے اپنی طرف بُلارہا ہے تو وہ بچہ سا علیؓ اپنے درد سے معمور سینے کے ساتھ لجاتا اور شرماتا ہوا آگے بڑھا اور اُس نے عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! جس بات پر میری چچی ایمان لائی ہے اور جس بات پر زید ایمان لایا ہے اُس پر میں بھی ایمان لاتا ہوں ۔۱۱؎
اس کے آگے چل کر دوستوں کا مقام آتا ہے۔ آپ کے قریب ترین دوست حضرت ابوبکرؓ تھے آپ کے باقی دوست اگر اس موقع پر آپ کو چھوڑ کر جاتے تو آپ کو ذرا بھی قلق نہ ہو سکتا تھا لیکن اگر حضرت ابوبکرؓ آپ کوچھوڑجاتے تو آپ کو انتہائی رنج اور دُکھ ہوتا کیونکہ ان کے اندر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کونیکی اور تقویٰ کی بُو آتی تھی اس لئے آپ کے دل میں بہت زیادہ احساس تھا کہ دیکھئے ابوبکرؓ اس موقع پر کیا قدم اُٹھاتا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اس زمانہ میں پھیری کر کے سامان بیچا کرتے تھے اور جس دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی الٰہی کا اعلان فرمایا اُسی دن دوپہر کو حضرت ابوبکرؓ پھیری سے واپس آئے۔ ان کی واپسی تک یہ خبر سارے شہر میں سُرعت کے ساتھ پھیل چکی تھی دشمن تو ایسی باتوں کو آن کی آن میں اُڑا دیتے ہیں۔ سارے شہر میں اِس کے متعلق چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کوئی کہتا تھا محمدﷺ پاگل ہو گیا ہے، کوئی کہتا تھا وہ اپنی عزت بڑھانا چاہتا ہے، اسی طرح جو کچھ کسی کے منہ میں آتا تھا کہہ دیتا تھا غرض یہ خبر آگ کی طرح سار ے شہر میں پھیل چکی تھی۔ایک نے دوسرے سے ذکر کیا اور دوسرے نے تیسرے سے کہا ہر گھر میں یہی باتیں ہو رہی تھیں حضرت ابوبکرؓ جب دوپہر کے وقت تجارت سے واپس آئے اور مکہ میں پہنچے تو چونکہ شدت کی گرمی تھی اس لئے شہر کے ایک کنارے پر اپنے ایک دوست کے گھر میں پہنچے تاکہ ذرا سستا لیں۔ انہوں نے اپنی گٹھڑی اُتاری اور پانی وغیرہ پی کر چادر اُتار کر لیٹنے ہی لگے تھے کہ اُن کے دوست کی بیوی سے نہ رہا گیا اور اُس نے کہا ہائے ہائے! اس بے چارے کا دوست پاگل ہوگیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ لیٹتے لیٹتے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کس کا دوست؟ اُس عورت نے کہا تمہارا دوست محمد پاگل ہوگیا ہے ۔ حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا تمہیں کس طرح معلوم ہوا کہ وہ پاگل ہوگیا ہے؟ وہ عورت کہنے لگی وہ کہتا ہے خدا کے فرشتے مجھ پر نازل ہوتے ہیں اور خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ اُسی وقت وہاں سے چل پڑے اور سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پہنچے اور دروازہ پردستک دی ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز سے پہچان لیا کہ ابوبکرؓ آئے ہیں۔ آپ نے خیال کیا کہ ایسا نہ ہو کہ میرے یکدم بتادینے سے ابوبکرؓ کو ٹھوکر لگ جائے کیونکہ حضرت ابوبکرؓ آپ کے نہایت قدیمی دوست تھے آپ نے جب دروازہ کھولا تو آپ کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار تھے حضرت ابوبکرؓ نے جب آپ کی یہ حالت دیکھی تو پوچھا کیا یہ بات سچ ہے کہ آپ پر خدا کا فرشتہ نازل ہوا ہے اور خدا تعالیٰ آپ سے ہمکلام ہوا ہے؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اس خوف سے کہ ابوبکرؓ کو ٹھوکر نہ لگ جائے جلدی کوئی بات بتانے میں متأمل تھے اس لئے آپ نے فرمایا ابوبکرؓ! پہلے ذرا سن تو لو۔ بات یہ ہے کہ… حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا میں اور کوئی بات سننا نہیں چاہتا میں تو یہ جاننا چاہتا ہوںکہ آپ پر خدا کے فرشتے اُترے ہیں یا نہیں؟ اس پر آپ نے فرمایا۔ ابوبکر! ذرا میری بات تو سُن لو۔ یہ دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ نے کہا میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ آپ کوئی بات نہ کریں بلکہ مجھے یہ بتائیں کہ کیا یہ سچ ہے کہ آپ نے کہا ہے کہ خدا آپ کے ساتھ باتیں کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکرؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور پھر کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا آپ دلیلیں دے کر میرے ایمان کو کمزور کرنے لگے تھے۔ ۱۲؎
اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا تھا کہ میں ابوبکرؓ کو دلائل دے کر منواؤں گا مگر خداتعالیٰ عرش پر بیٹھا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا ۔ اے محمد!(ﷺ ) ابوبکرؓ کو تیری دلیلوں کی ضرورت نہیں رہی ہم نے خود اس کو دلیلیں دے دی ہوئی ہیںاور وہ جس درجہ اوررُتبہ کا مستحق ہے ہم خود اُس کو کھینچ کر اس کی طرف لے آئیں گے۔ اب دیکھو اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کا یہ کیا شاندار نظارہ ہے۔ حضرت موسیٰ تو مانگ کر ایک مدد گار لیتے ہیں مگر محمد رسول اللہ ﷺ کو خدا تعالیٰ چند منٹوں کے اند ر اندر چار وفادار دے دیتا ہے۔
آپ کی اور حضرت موسیٰ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے کہیں کوئی بادشاہ سیر کو جا رہا تھا کہ اس نے رستہ میں دیکھا کہ ایک بڈھا جس کی عمر اسّی یا نوے سال کی ہے ایک درخت لگارہا ہے اور وہ درخت کوئی اِس قسم کا تھا جو بہت لمبے عرصہ کے بعد پھل دیتا تھا بادشاہ نے سواری کو روک کر بڈھے کو بلایا اور کہا بوڑھے میاں! یہ درخت جو تم لگا رہے ہو یہ تو بہت لمبے عرصے کے بعد پھل دیتا ہے اِس سے تم کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہو؟ بڈھا کہنے گا بادشاہ سلامت! بات یہ ہے کہ ہمارے باپ دادا نے درخت لگائے جن کے پھل ہم نے کھائے اب ہم درخت لگائیں گے جن سے آئندہ آنے والے پھل کھائیں گے اگر ہمارے باپ دادا بھی یہی خیال کرتے کہ ہم ان درختوں کا پھل نہیں کھا سکیں گے اور وہ درخت نہ لگاتے تو ہم پھل کیسے کھاتے اس لئے بادشاہ سلامت! یہ سلسلہ تو اسی طرح چلاآتا ہے کہ لگاتا کوئی ہے اور کھاتا کوئی ہے۔ بادشاہ نے یہ سن کر بڈھے کی عقل کی داد دیتے ہوئے کہا ’’زِہ‘‘ جس کا مطلب یہ تھا کہ کیا خوب بات کہی ہے اور بادشاہ نے اپنے خزانچی کو یہ حکم دے رکھاتھا کہ جب میں کسی بات پر خوش ہو کر زِہ کہوں تو اُسے یکدم تین ہزار درہم کی تھیلی دے دیا کرو اس لئے جب بادشاہ نے کہا زِہ تو خزانچی نے بڈھے کو ایک تھیلی تین ہزار درہم کی دے دی۔ بڈھے نے تھیلی ہاتھ میں لے کر کہا بادشاہ سلامت! آپ تو کہتے تھے کہ تو اِس درخت کا پھل نہیں کھا سکے گا مگر دیکھئے اَور لوگوں کے درخت تو دیر کے بعد پھل دیتے ہیں اور میرے درخت نے لگاتے لگاتے ہی پھل دے دیا۔ اِس پر بادشاہ نے پھر خوش ہو کر کہا زِہ اور خزانچی نے پھر تھیلی تین ہزار کی بڈھے کو دے دی۔ بڈھے نے دوسری تھیلی لے کر کہا بادشاہ سلامت! لوگوں کے درخت تو سال میں ایک بار پھل دیتے ہیں مگر میرے درخت نے لگاتے لگاتے دو دفعہ پھل دے دیا۔ بادشاہ نے پھر خوش ہو کر کہا زِہ اور تیسری تھیلی بھی بڈھے کو دے دی گئی۔ اس پر بادشاہ نے ہمراہیوں سے کہا چلو جلدی یہاں سے نکل چلو ورنہ یہ بڈھا تو ہمارا خزانہ خالی کر دے گا۔ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہی معاملہ ہوا جو اس بڈھے کے ساتھ ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ کے دل میں تو وہ شبہ پیدا ہوا جو بادشاہ کے دل میں پیدا ہوا تھا کہ یہ درخت کب پھل دے گا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امید کی وہ حالت تھی جو اس بڈھے کی تھی کہ اِدھر آپ پر خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوتا ہے اُدھر آپ کو نقد بہ نقد چار پھل مل جاتے ہیں۔ ایک حضرت خدیجہؓ آپ کی بیوی ایک زیدؓ آپ کا غلام، ایک حضرت علیؓ آپ کے بھائی اور ایک حضرت ابوبکرؓ آپ کے وفادار دوست۔ گویا یکدم آپ کے چاروں کونے محفوظ ہو جاتے ہیں اور تھوڑی سی دیر میں آپ کے اردگرد جاںنثاروں، وفاداروں اور محبت کرنے والوں کی ایک چھوٹی سی جماعت پیدا ہو جاتی ہے۔ اب دیکھو حضرت خدیجہ ؓ کو کس نے تبلیغ کی تھی؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ابھی ڈر ہی رہے تھے کہ کہیں میری بیوی میرے دعویٰ کا انکار نہ کر دے مگر خدیجہؓ کہتی ہیں میں آپ پر ایمان لاتی ہوں، زیدؓ کہتا ہے میں آپ پر ایمان لاتا ہوں، علیؓ کہتے ہیں میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور ابوبکرؓ کہتے ہیں میں آپ پر ایمان لاتا ہوں یہ ایمان لانے والے کوئی معمولی آدمی نہ تھے بلکہ ان میں سے ہر شخص درخشندہ اور تابندہ ستارہ تھا۔ وہ زمین پر پیدا ہوئے تھے مگر خدا تعالیٰ نے اُن کے نام آسمان پر فرشتوں کی فہرست میں لکھے ہوئے تھے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ حضرت خدیجہؓ پڑھی ہوئی تھیں مگر حضرت خدیجہؓ نے جو قربانی اسلام کے لئے کی کیا کوئی جاہل عورت ایسا کر سکتی ہے؟ اسی طرح حضرت زیدؓ نے جو قربانیاں اسلام کے لئے کیں وہ بھی اَظْھَرُ مِنَ الشَّمْسِ ہیں۔ اس طرح حضرت علیؓ کو جو مرتبہ حاصل ہوا اور خداتعالیٰ نے ان کو جو علم اور فہم عطا کیا وہ اس قدر اعلیٰ تھا کہ آج تک یورپ کے مؤرخین اُن کی عقل، سمجھ، تقویٰ اور طہارت کی تعریف کرتے ہیں۔ ایمان لانے کے وقت بے شک وہ بچہ تھے مگر اُن کے اندر قابلیت کا مادہ اور جوہر موجود تھا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے اور بھی چار چاند لگا دئیے۔ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ کو جو رُتبہ حاصل ہوا اور انہوں نے اسلام کے لئے جو قربانیاں کیں ان سے اہلِ اسلام تو ایک طرف، یورپین اور امریکی لوگ بھی واقف ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ عیسائی مستشرقین اور دوسرے متعصب مؤرخین اپنی کتابوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو کئی قسم کے حملے کر جاتے ہیں لیکن حضرت ابوبکرؓ کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ ابوبکر ایسا نہ تھا ۔ گویا جو دشمن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے سے نہیں رُکتے وہ ابوبکرؓ کو نشانہ نہیں بناتے۔ پس حضرت ابوبکرؓ کوئی معمولی درجہ کے انسان نہ تھے ان کے تقویٰ اور اخلاص کا یہ عالم تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بغیر کسی دلیل کے ایمان لے آئے تھے۔ انہوں نے رسول کریم ﷺکی زبانی صرف یہ معلوم ہونے پر کہ آپ پر خدا کے فرشتے اُترتے ہیں بغیر کسی حیل و حجت کے آپ کے دعویٰ کی تصدیق کی اور بغیر کسی وقفہ کے آپ پر ایمان لے آئے۔ وہ اپنے اندر ایسی قابلیت اور ایسے جوہر رکھتے تھے جن کی مثال دنیا کی تاریخ پیش ہی نہیں کر سکتی۔ پس یہ ثبوت ہے کی سچائی کا۔
اب ایک اور مرحلہ شروع ہوتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ اسلام شروع کی تو کفارِ مکہ نے آپ کی سخت مخالفت کی اور انہوں نے سمجھا کہ محمدﷺ کی باتیں صرف چند دن کی باتیں ہیں جب لوگ اِس کے پیچھے ہی نہ چلیں گے تو یہ خود بخود درست ہو جائے گا۔ کوئی کہتا تھا اِس کا دماغ خراب ہوگیا ہے کچھ دنوں کے بعد جب اس کا دماغ ٹھیک ہو جائے گا تو یہ خود ہی کہہ دے گا کہ میں غلطی کر رہا تھا مگر جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے دوست اور ان کے رشتہ دار خود ایک ایک، دو دو کر کے ان کو چھوڑ کر محمد رسول اللہ پر ایمان لا رہے ہیں اور ان میں ایسے لوگ جنہیں مکہ کا کلیجہ کہنا بجا ہوگا اُن کو چھوڑ کر آپؐ کے ساتھ ہو رہے ہیں اور بڑے بڑے خاندانوں کے نوجوان جن پر ان لوگوں کو بہت بڑی امیدیں تھیں اور وہ کہتے تھے کہ یہ محمدﷺ کا مقابلہ کریں گے وہ اُن کو چھوڑتے جار ہے ہیں تو اُن کو فکر پیدا ہوئی کہ یہ بات جسے ہم معمولی سمجھتے تھے دن بدن بڑھتی جا رہی ہے آخر انہوں نے مشورہ کیا کہ اب ان مسلمانوں کو ڈنڈے کے ساتھ سیدھا کرنا چاہئے۔ جیسے ہمارے ہاں زمیندار پنجابی زبان میں کہتے ہیں کہ ’’میں تینوں ڈنڈے نال سدھا کرانگا‘‘ یعنی اب میں تمہیں ڈنڈے کے ساتھ سیدھا کردوں گا اسی طرح مکہ والوں نے بھی کہا کہ اب ہم مسلمانوں کو ڈنڈے کے ساتھ ٹھیک کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں پر ظلم کرنے شروع کر دیئے۔ ظلم کے وقت کسی جماعت کے امام یا لیڈر کی جو حالت ہوتی ہے وہ نہایت عجیب ہوتی ہے۔ جب کوئی خطرہ اور سختی کا وقت آتا ہے تو امام کے دل میں طرح طرح کے وساوس پیدا ہوتے ہیں کہ کہیں میرے پیرو سختی کو برداشت نہ کرتے ہوئے کمزوری نہ دکھا جائیں۔ میں بھی ایک جماعت کا امام ہوں مجھے ذاتی تجربہ ہے کہ امام کے لئے سب سے بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کی جماعت عین موقع پر کمزوری نہ دکھا جائے جہاں تک خدا کے خانہ کا تعلق ہے وہ سمجھتا ہے کہ خدا ہماری مدد کرے گا لیکن جب وہ بندوں کے خانہ کے متعلق سوچتا ہے تو وہ ڈرتا ہے کہ کہیں یہ لوگ کسی قسم کی کمزوری نہ دکھا جائیں۔ پس سب سے بڑا خطرہ کسی جماعت کے امام کو نازک موقع پر اپنی جماعت یا پیروؤں کے کمزوری دکھا جانے کے متعلق ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مالی لحاظ سے کمزور تھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ پر ایمان لانے والے نوجوانوں میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو بڑے بڑے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور بڑے بڑے رؤساء کے بیٹے تھے مگر چونکہ وہ خود جائدادوں کے مالک نہ تھے اِس لئے ان کو مالی لحاظ سے کمزور کہنا ہی درست ہوگا چنانچہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ باوجود رؤساء کے بیٹے ہونے کے ماریں کھاتے تھے۔ حضرت زبیرؓ کا ظالم چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کراُن کے ناک میں آگ کا دُھواں دیا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ تم اسلام سے باز آجاؤ مگر وہ جوانمرد بڑی خوشی کے ساتھ اس تکلیف کو برداشت کرتے اور کہتے کہ جب صداقت مجھ پر واضح ہو چکی ہے تو میں اس سے کس طرح انکار کر سکتا ہوں۔ اسی طرح حضرت عثمانؓ گو مُرَفَّہُ الْحال آدمی تھے لیکن اُن کے چچا حکم بن ابی عاص نے ان کو رسیوں سے جکڑ کر پیٹا اور کہا تم محمد کے پاس نہ جایا کرو مگر انہوں نے کہا چچا! تم جتنا مرضی ہے مارلو میں صداقت کے اظہار سے باز نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں میں بعض غلام بھی تھے اور غلاموں کے متعلق مکہ والوں کا قانون یہ تھا کہ مالک کو اپنے غلام پر پورا حق حاصل ہے وہ چاہے اسے مارے یا پیٹے یا قتل کر دے یا بھوکا رکھے یا پیاسا رکھے مالک کو حق حاصل تھا کہ وہ اپنے غلام کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے اور جس طرح ایک مالک کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اپنے بیل کو جوتے وہ شام کو جوت لے یا صبح کو، دوپہر کو جوت لے یا آدھی رات کے وقت یا وہ اپنے اونٹ سے جس طرح چاہے کام لے اور اپنے گھوڑے پر جس وقت اور جس طرح چاہے سواری کرے اسی طرح غلاموں کے متعلق مکہ والوں کا قانون تھا کہ جب اور جس طرح مالک چاہیں اپنے غلاموں کے ساتھ سلوک کرسکتے ہیں۔ چنانچہ جو غلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اُن کے مالکوں نے اُنہیں طرح طرح کی سزائیں دیں، قسم قسم کی اذیتیں دیں اور انواع و اقسام کے دُکھ دیئے۔ آپ جب اِن مظالم کو دیکھتے تو آپ کے دل میں درد پیدا ہوتا تھا مگر مکہ کے قانون کے مطابق آپ اُن کی کوئی مدد نہ کر سکتے تھے۔آپ پر ان مظالم کو دیکھ کر بڑا اثر ہوتا تھا اور ہونا چاہئے تھا کہ ان مظالم کی وجہ سے اور مصائب اور شدائد کی وجہ سے وہ لوگ کسی قسم کی کمزوری نہ دکھا جائیں۔ اور بجائے اس کے کہ وہ ایمان پر قائم رہ کر خدا تعالیٰ کے انعامات کے وارث ہوں اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے مورد ہوں اُس کے غضب کے مورد نہ بن جائیں۔ ان غلاموں میں سے ایک حضرت بلالؓ بھی تھے ان کی زبان صاف نہ تھی اس لئے جب وہ اذان دیتے تھے تو بجائے اَشْھَدُ کے اَسْھَدُکہتے تھے جب وہ نئے نئے مدینہ میں گئے اور انہوں نے اذان کہی اور اَشْہَدُ کی بجائے اَسْہَدُ کہا تو مدینہ کے لوگ جن کو اُن کی قربانیوں کا علم نہ تھا ہنس پڑے اُن کے نزدیک بلالؓ تو صرف ایک حبشی غلام تھا مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ بلالؓ عرش پر کن انعامات کا مستحق قرار پا چکا ہے۔
ایک دن مدینہ کے لوگ بیٹھے آپس میں بلالؓ کے اَسْھَدُ کہنے کے متعلق باتیں کر رہے تھے اور ہنس رہے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ بلالؓ کے اَسْھَدُ کہنے پر ہنستے ہو مگر خدا تعالیٰ عرش پر بلالؓ کے اَسْھَدُکوپیار کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ غرض جب مکہ کے کفار نے مسلمانوں پر اور بِالخصوص غلاموں پر مظالم ڈھانے شروع کئے تو حضرت بلالؓ کا مالک عین دوپہر کے وقت جبکہ آسمان سے آگ برس رہی ہوتی تھی، جب کہ مکہ کا پتھریلہ میدان دہکتے ہوئے انگاروں سے بھی زیادہ گرم ہوتا تھا، جب کہ جھلس دینے والی گرمی پڑ رہی ہوتی تھی، جب تمازتِ آفتاب اپنے پورے شباب پر ہوتی تھی اور جب کہ زمین و آسمان کی حدّت مل جل کر زمین کے ذرّے ذرّے کو آگ سے بھی زیادہ گرم کر رہی ہوتی تھی اُس وقت میں ان کے کپڑے اُتار کر ننگے بدن کے ساتھ زمین پر لٹا دیتا تھا اور بڑے بڑے بھاری پتھر جن میں سے شدتِ گرمی کی وجہ سے غبار سے اُٹھ رہے ہوتے تھے ان کے سینے پر رکھ دیتا تھا اور کہتا تھا اے بلالؓ! تُو محمد (ﷺ) کو چھوڑ دے اور لات اور عزیٰ کی پرستش کر ورنہ اسی طرح عذاب دے دے کر ماروں گا۔ اُس وقت وہ بلالؓ جس کے ہونٹوں پر پپڑی سی جمی ہوتی تھی، جس کی زبان پیاس کی وجہ سے تالو کے ساتھ لگ رہی ہوتی تھی، جس کی ننگی پیٹھ کا چمڑا جھلس رہا ہوتا تھا، جس کا سینہ گرم اور بھاری پتھروں کے بوجھ تلے جلا اور دبا جا رہا ہوتا تھااور جس کا سر بھوک اور پیاس اور گرمی کی شدت سے چکرا رہا ہوتا تھا اُس کے اِنہی پپڑی جمے ہوئے ہونٹوں اور اسی تالو سے لگی ہوئی خشک زبان میں سے ایک آواز نکلتی تھی،ہاں اُس قریب المرگ اور موت کے بوجھ کے نیچے دے ہوئے انسان کے منہ سے ایک باریک سی آواز نکلتی تھی وہ آواز کیا ہوتی تھی وہ آواز ہوتی تھی اَحَدٌ اَحَدٌ ۱۳؎ اُس وقت اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوا کہتا ہوگا اے محمد!ﷺتُو اِس پر ظلم ہوتے دیکھتا ہے اور تو چاہتا ہے کہ اِس کو چھڑا لے مگر تُو اُس کو چھڑا نہیں سکتا ،اے محمد! تُو چاہتا ہے کہ اس کو تسلی دے مگر تو اس کو تسلی بھی نہیں دے سکتا مگر اے محمد! کیا میں موجود نہیں ہوں کہ اس کو تسلی دوں اور اس کی توحید کی تڑپ کو مضبوط کر دوں اور اس کے ایمان میں زیادتی کر دوں؟
اس کے بعد قریش مکہ کے مظالم بڑھنے شروع ہوئے یہاں تک کہ حضرت ابوبکرؓ کو خیال آیا کہ یہاں سے کسی اور جگہ چلے جانا چاہئے جہاں امن اور چین کی زندگی بسر کی جاسکے اور جہاں آزادی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کی جاسکے اور جہاں آزادی کے ساتھ خدائے واحد کی پرستش کی جا سکے۔ حضرت ابوبکرؓ کے اس ارادہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہی ہوئی آپ کے لئے اتنے دیرینہ اور وفادار اور غمگسار دوست کی جدائی سخت تکلیف دہ تھی مگر آپ مجبور تھے ورا ان کی کوئی مدد بھی نہ کر سکتے تھے مگر خدا تعالیٰ بھی اِس بات کو برداشت نہ کر سکتا تھا کہ آپ کا ایک وفادار اور گہرا دوست آپ سے جدا ہو جائے اور آپ کے دل کو رنج پہنچے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ جب تیاری کر کے کہیں جانے لگے تو مکہ کے ایک رئیس نے اُن کو دیکھا اور کہا ابوبکر! کہیں سفر کی تیاریاں معلوم ہوتی ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا مکہ کے لوگوں نے ہم پر اتنا ظلم شروع کر دیا ہے کہ باوجود یکہ ہم ان کا کچھ نہیں بگاڑتے صرف اِس قصور پر کہ ہم خدائے واحد کی پرستش کرتے ہیں ہمیں خدا کا نام لینے سے روکا جاتا ہے۔ وہ رئیس جو حضرت ابوبکرؓ سے بات چیت کر رہا تھا وہ اسلام کا ایک شدید ترین دشمن تھا مگر خدائے تعالیٰ نے اس کو اپنا آلہ کار بنایا اور اس کے دل میں نرمی پیدا کر دی چنانچہ اس رئیس نے حضرت ابوبکرؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ابوبکر! تمہارے جیسا انسان جس شہر سے نکل جائے وہ شہر کبھی بچ نہیں سکتا وہ ضرور اُجڑ جائے گا تم کہیں جانے کا ارادہ ترک کر دو آؤ اور میرے ساتھ چلو تمہیں دکھ دینے والے پہلے مجھ سے نپٹیں گے پھر تمہارے پاس پہنچیں گے۔ چنانچہ اس رئیس نے اُسی وقت سارے شہر میں اعلان کرایا کہ اے لوگو! سن لو جس کسی نے ابوبکر کی طرف انگلی بھی اُٹھائی تو اُس کے لئے اچھا نہ ہوگا کیونکہ ابوبکر آج سے میری امان میں ہے۱۴؎ اُس وقت جب کہ حضرت ابوبکرؓ تیاری کر کے شہر سے نکلے بھی اور واپس بھی آگئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ سمجھ رہے ہوں گے اور افسوس کر رہے ہوں گے کہ میرا ایک دیرینہ دوست مجھ سے جدا ہوگیا ہے مگر خداتعالیٰ عرش پر بیٹھا کہہ رہا تھا ۔
مکہ والوں کے مظالم دن بدن بڑھتے گئے اور انہوں نے طرح طرح کے دکھ مسلمانوں کو دینے شروع کئے۔ غلاموں کو ان کے مالک سخت سے سخت سزائیں دیتے تھے اور دوسرے لوگوں کو ان کے رشتہ دار طرح طرح کے دکھ دیتے تھے۔ کسی کو اتنا مارا گیا کہ اسے ہلکان ہی کر دیا گیا، کسی کی آنکھیں نکال دی گئیں، کسی کو اتنا مارا جاتا کہ اس کے حواس مختل ہو جاتے، کسی کو گرم ریت پر لٹایا جاتا، کسی کو رسیوں سے جکڑ کر مارا جاتا اور کسی کو دہکتے ہوئے کوئلوں پر لٹایا جاتا غرض مسلمانوں کو ایسے ایسے دکھ دئیے جاتے جن کا تصور کر کے بھی انسان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔غرض قریش مکہ کی عداوت بڑھی اور انہوں نے دکھ دینے کی نئی نئی ترکیبیں نکالیں۔ رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم گو غریب تھے مگر آپ کا خاندان مکہ کے اعلیٰ خاندانوں میں شمار ہوتا تھا اور آپ کا تعلق ایسے خاندان سے تھا جو خانہ کعبہ کے متولی تھے مگر لوگوں نے آپ پر بھی سختی کرنی شروع کر دی۔ ایک دن آپ صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان ایک پتھر پر بیٹھے سوچ رہے تھے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کی توحید کو قائم کیا جائے کہ اتنے میں ابوجہل آگیا اور اس نے آتے ہی کہا محمدؐ! تم اپنی باتوں سے باز نہیں آتے یہ کہہ کر اس نے آپ کو سخت غلیظ گالیاں دینی شروع کیں۔ آپ خاموشی کے ساتھ اس کی گالیوں کو سنتے رہے اور برداشت کیا اور ایک لفظ تک منہ سے نہ نکالا۔ ابوجہل جب جی بھر کر گالیاں دے چکا تو اس کے بعد وہ بدبخت آگے بڑھا اور اس نے آپ کے منہ پر تھپڑ مار دیا مگر آپ نے پھر بھی اسے کچھ نہیں کہا آپ جس جگہ بیٹھے تھے اور جہاں ابو جہل نے آپ کو گالیاں دی تھیں وہاں سامنے ہی حضرت حمزہؓ کا گھر تھا۔ حمزہؓ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے ان کا معمول تھا کہ ہر روز صبح سویرے تیر کمان لے کر شکار کے لئے نکل جاتے تھے اور سارا دن شکار کھیلتے رہنے کے بعد شام کو واپس آجایا کرتے تھے اور شام کو قریش کی مجالس کا دورہ کیا کرتے تھے۔ اُس دن بھی جس دن کہ ابو جہل نے رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور تھپڑ مارا حمزہ باہر شکار کے لئے گئے ہوئے تھے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جس وقت ابوجہل آپ پر باربار حملہ کر رہا تھا تو حضرت حمزہؓ کی ایک لونڈی نے دروازہ میں کھڑے ہو کر یہ نظارہ دیکھا کہ ابوجہل بار بار آپ پر حملہ کر رہا ہے اور بے تحاشا گالیاں آپ کو دے رہا ہے اور آپ خاموشی اور سکون کے ساتھ اس کی گالیوں کو برداشت کر رہے ہیں۔ وہ لونڈی دروازے میں کھڑے ہو کر یہ سارا نظارہ دیکھتی رہی وہ بے شک ایک عورت تھی اور کافرہ تھی لیکن پرانے زمانہ میں جہاں مکہ کے لوگ اپنے غلاموں پر ظلم کرتے تھے وہاں یہ بھی ہوتا تھا کہ بعض شرفاء اپنے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک بھی کرتے تھے اور آخر کافی عرصہ گزرنے کے بعد وہ غلام اسی خاندان کا ایک حصہ سمجھے جاتے تھے اسی طرح حضرت حمزہؓ کی وہ لونڈی بھی تھی اُس نے جب یہ سارا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا تو اُس پر اِس کا بہت زیادہ اثر ہوا مگر وہ کر کچھ نہ سکتی تھی وہ دیکھتی اور سنتی رہی اور اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتی رہی اور جلتی رہی ۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر تشریف لے گئے تو وہ بھی اپنے کام کاج میں لگ گئی۔ شام کے وقت حمزہؓ اپنی سواری کو دوڑاتے ہوئے آئے اور روپچی بنے ہوئے تیر کمان کو ایک عجیب انداز سے پکڑے ہوئے دروازہ سے اند ر آئے۔ اُس وقت ان کی چال ڈھال اس قسم کی تھی جیسے عام طور پر بڑے زمینداروں کے لڑکے کرتے ہیں۔ غرض وہ ایک عجیب تمکنت کے ساتھ سر کو اٹھائے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ اُس وقت ان کی اُٹھی ہوئی گردن ان کے خیالات کی ترجمانی کر رہی تھی کہ دیکھو میں کتنا بہادر اور دلیر ہوں اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان کی گردن ہر سامنے آنے والے کو دعوت دے رہی ہے کہ ہے کوئی بہادر جو میرے مقابلہ کی تاب لا سکے۔ جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو ان کی وہ لونڈی جو بڑی دیر سے اپنے غصہ اور غم کے جذبات کو بمشکل دبائے بیٹھی تھی اس نے گرج کر کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ بڑے بہادر بنے پھرتے ہو۔ حمزہؓ یہ سن کر حیران رہ گئے اور تعجب سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ لونڈی نے کہا معاملہ کیا ہے تمہارا بھتیجا محمد(ﷺ) یہاں بیٹھا تھا کہ ابوجہل آیا اور اُس نے محمد پر حملہ کر دیا اور بے تحاشہ گالیاں دینی شروع کر دیں اور پھر اُس کے منہ پر تھپڑمارا مگر محمد نے آگے سے اُف تک نہ کی اور خاموشی کے ساتھ سنتا رہا۔ ابوجہل گالیاں دیتا گیا اور دیتا گیا اور جب تھک گیا تو چلا گیا مگر میں نے دیکھا کہ محمد نے اس کی کسی بات کا جواب نہ دیا۔ تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو اور شکار کھیلتے پھرتے ہو تمہیں شرم نہیں آتی کہ تمہاری موجودگی میں تمہارے بھتیجے کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے۔ حمزہؓ اُس وقت مسلمان نہ تھے اور ریاست کی وجہ سے ان کا دل اسلام کو ماننے کے لئے تیار نہ تھا۔ وہ یہ تو سمجھتے تھے کہ محمد (ﷺ) کی باتیں سچی ہیں مگر وہ اپنے جاہ و جلال اور شان و شوکت کو ایمان پر قربان کرنے کے لئے تیار نہ تھے مگر جب انہوں نے اپنی لونڈی کی زبانی یہ واقعہ سنا تو اُن کی آنکھوں میں خون اُتر آیا اور ان کی خاندانی غیرت جوش میں آئی چنانچہ وہ اسی طرح بغیر آرام کئے غصہ سے کانپتے ہوئے کعبہ کی طرف روانہ ہوگئے اور کعبہ کا طواف کرنے کے بعداُس مجلس کی طرف بڑھے جس میں ابو جہل بیٹھا ہوا لاف زنی کر رہا تھا اور اُسی صبح والے واقعہ کو مزے لے کر بڑے تکبر کے ساتھ لوگوں کے سامنے بیان کر رہا تھا کہ آج میں نے محمد(ﷺ) کو یوں گالیاں دیں اور آج میں نے محمد کے ساتھ یوں کیا۔ حمزہؓ جب اس مجلس میں پہنچے تو انہوں نے جاتے ہی کمان بڑے زور کے ساتھ ابوجہل کے سر پر ماری اور کہا تم اپنے بہادری کے دعوے کر رہے ہو اور لوگوں کو سنا رہے ہو کہ میں نے محمد کو اس طرح ذلیل کیا ہے اور محمد نے اُف تک نہیں کی لے اب میں تجھے ذلیل کرتا ہوں اگر تجھ میں کچھ ہمت ہے تو میرے سامنے بول۔ ابوجہل اُس وقت مکہ کے اندر ایک بادشاہ کی سی حیثیت رکھتا تھا اس لئے جب اس کے ساتھیوں نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ جوش کے ساتھ اُٹھے اور انہوں نے حمزہؓ پر حملہ کرنا چاہاـمگر ابوجہل جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموشی کے ساتھ گالیاں برداشت کرنے کی وجہ سے اور حمزہؓ کی دلیری اور جرأت کی وجہ سے مرعوب ہوگیا تھا بیچ میں آگیا اور ان کو حملہ کرنے سے روک دیا اور کہا تم لوگ جانے دو دراصل بات یہ ہے کہ مجھ سے ہی زیادتی ہوئی تھی اور حمزہؓ حق بجانب ہے۔ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو جس وقت صفا اور مروہ کی پہاڑیوں سے واپس گھر آئے تھے اپنے دل میں یہ کہہ رہے تھے کہ میرا کام لڑنا نہیں ہے بلکہ صبر کے ساتھ گالیاں برداشت کرنا ہے مگر خدا تعالیٰ عرش پر کہہ رہا تھا اے محمد!ﷺ تو لڑنے کے لئے تیار نہیں مگر کیا ہم موجود نہیں ہیں جو تیری جگہ تیرے دشمنوں کا مقابلہ کریں؟ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اُسی دن ابوجہل کا مقابلہ کرنے والا ایک جاںنثار آپ کو دے دیا اور حضرت حمزہؓ نے اسی مجلس میں جس میں کہ انہوں نے ابوجہل کے سر پر کمان ماری تھی اپنے ایمان کا اعلان کر دیا اور ابوجہل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تو نے محمدﷺ کو گالیاں دی ہیں صرف اس لئے کہ وہ کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں اور فرشتے مجھ پر اُترتے ہیں، ذرا کان کھول کر سن لو میں بھی آج سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر ہوں اور مَیں بھی وہی کچھ کہتا ہوں جو محمد کہتا ہے اگر تجھ میں ہمت ہے تو آمیرے مقابلہ پر۔ یہ کہہ کر حمزہؓ مسلمان ہو گئے۔۱۵؎
اس کے بعد جب قریش مکہ نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور یہ بات ان کے قابو سے باہر ہو رہی ہے تو انہیں نے مسلمانوں کو انتہا درجہ کی تکلیفیں دینی شروع کیں اور اپنی ایذا رسانی کو کمال تک پہنچا دیا یہاں تک کہ مکہ کے اندر مسلمانوں کے لئے امن بالکل مٹ گیا ۔اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو جمع کیا اور فرمایا اب دشمنوں کی طرف سے ہم پر اتنے ستم ڈھائے جارہے ہیں جو ہماری حدِبرداشت سے باہر ہیں اس لئے تم میں سے جن جن کے لئے ممکن ہو انہیں چاہئے کہ وہ حبشہ کی طرح ہجرت کر کے چلے جائیں میں نے سنا ہے وہاں کا بادشاہ عادل اور انصاف پسند ہے اور اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ صحابہؓ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ اور آپ؟ آپ نے فرمایا مجھے ابھی تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کی اجازت نہیں ملی۔ چنانچہ آپ کے ارشاد کے ماتحت بہت سے صحابہ ؓ ہجرت کر کے حبشہ کی طرف چلے گئے۔ اِس پر قریش مکہ کے دلوں میں پھر جوش پیدا ہوا اور انہوں نے کہا مسلمان تو بچ کر یہاں سے نکل گئے اور ہمارے پنجہ سے بچ گئے چنانچہ رؤسائے مکہ نے باہم مشورہ کر کے اپنے دوممتاز رئیسوں یعنی عمروبن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو حبشہ کی طرف روانہ کیا اوران کے ساتھ بادشاہ ِحبشہ اور اس کے وزراء اور درباریوں کے لئے تحفے تحائف روانہ کئے۔ یہ وفد نجاشی کے دربار میں پہنچا اور تحفے تحائف پیش کرنے کے بعد کہا اے بادشاہ! آپ ہمارے بھائی ہیں ہمارے ملزم بھاگ کر آپ کی حکومت میں پہنچ چکے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ آپ ان کو واپس کردیں تا کہ ہم ان کو ساتھ لے جائیں یہ لوگ جو بھاگ کر آئے ہیں انہوں نے اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر ایک نیا دین اختیار کر لیا ہے اور یہ سخت فسادی لوگ ہیں اس لئے ہم آپ سے یہ امید کرتے ہیں کہ آپ ہمارے مجرموں کو اپنی پناہ میں نہیں رکھیں گے۔ درباریوں نے بھی اس وفد کی پُرزور تائید کی لیکن نجاشی جو عادل اور رحم دل اور بیدار مغز حکمران تھا اُس نے کہا مجھے پہلے تحقیقات کر لینے دو وہ لوگ میری پناہ میں آئے ہیں جب تک میں ان کے بیانات نہ سُن لوں آپ کے حق میں یکطرفہ فیصلہ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ بادشاہ نے مسلمان مہاجرین کو دربار میں طلب کیا اور اُن سے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے؟ اس پر حضرت جعفر بن ابی طالبؓ نے مسلمانوں کی طرف سے جواب دیا۔ اے بادشاہ! ہم پہلے جاہل تھے اور بت پرستی کرتے تھے ہم ہر قسم کی بدیوں اور بدکاریوں میں مبتلا تھے خدا تعالیٰ نے اپنا رسول ہم میں بھیجا جس نے ہمیں توحید سکھلائی اور بت پرستی سے روکا ہم اُس پرایمان لائے اور اُس کی اتباع کر کے خدائے واحد کی پرستش کرنے لگے، اس پر ہماری قوم ناراض ہوگئی ہمیں انواع و اقسام کی تکلیفوں اور دکھوں میں مبتلا کر دیا اور ہمیں خدا کی عبادت سے روکنا چاہا اور جب یہ ظلم حدِ برداشت سے بڑھ گئے تو ہمارے آقا نے ہمیں حکم دیا کہ تم لوگ حبشہ کی طرف ہجرت کر جاؤکیونکہ حبشہ کا بادشاہ عادل ہے اور اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا چنانچہ ہم یہاں آگئے اس لئے اے بادشاہ! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کے ماتحت ہم پر ظلم نہ ہوگا۔ بادشاہ حضرت جعفرؓ کی اس تقریر سے بہت متأثر ہوا اور کہنے لگا اچھا وہ کلام جو تمہارے رسول پر اُترا ہے مجھے بھی سناؤ۔ اِس پر حضرت جعفرؓ نے نہایت خوش الحانی اور رقت کے ساتھ سورہ مریم کی ابتدائی آیات تلاوت کیں جن کو سُن کر نجاشی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور اُس نے کہا خدا کی قسم! یہ کلام اور ہمارے مسیح کا کلام ایک ہی طرح کا ہے۔ اس کے بعد وہ قریش مکہ کے وفد سے کہنے لگا جاؤ میں تمہارے ساتھ ان لوگوں کو کبھی نہ بھیجوں گا یہ کہہ کر نجاشی نے ان کے تحفے بھی واپس کر دیئے۔ قریش کا وفد یہ دیکھ کر کہ ہمیں ناکامی اور نامرادی کا سامنا ہوا ہے سخت نادم ہوا مگر انہوں نے ایک چال چلی کہ وہ دوسرے دن پھر دربار میں حاضر ہوئے اور کچھ عیسائی پادریوں کو بھی تحفے وغیرہ دے کر ساتھ لے گئے اور بادشاہ سے کہا اے بادشاہ !کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ پناہ گزیں آپ کے نبی حضرت مسیح کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟ نجاشی نے مسلمانوں کو پھر بُلوایا اور پوچھا تم لوگ مسیحؑ کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہو؟ حضرت جعفرؓ نے عرض کیا اے بادشاہ! ہمارے اعتقاد کی رو سے حضرت عیسیٰ خدا تعالیٰ کا ایک مقرب بندہ اور سچا رسول تھا مگر خدا نہ تھا اسی طرح حضرت مسیحؑ کی والدہ نیک اور پارسا عورت تھیں مگر خدا نہ تھیں۔ یہ سن کر نجاشی کہنے لگا یہ لوگ بالکل ٹھیک کہتے ہیں میں بھی مسیحؑ کو خدا نہیں مانتا۔ اُس وقت پادری جوش میں آگئے اور کہا آپ نے عیسائیت کی ہتک کی ہے ہم عوام کو آپ کے خلاف اُکسائیں گے اور آپ کی بادشاہت خطرہ میں پڑ جائے گی۔ بادشاہ نے کہا جب میں بچہ تھا اور دوستوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا تھا تو اُس وقت بھی خداتعالیٰ نے میری مدد کی تھی اور اب بھی میں اُسی پر امید رکھتا ہوں تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو بے شک کرو۔۱۶؎ یہ اشارہ نجاشی نے ایک پُرانے واقعہ کی طرف کیا تھا اور وہ یہ کہ نجاشی ابھی بچہ ہی تھا کہ اس کا والد فوت ہوگیااس لئے اس کے چچا کو عارضی طور پر بادشاہ بنایا گیا تاکہ نجاشی کی بلوغت تک وہ بادشاہت کے کام کو سر انجام دے مگر جب نجاشی جوان ہوا توچچا نے خیال کیا کہ میں اتنے عرصہ سے بادشاہت کر رہا ہوں اب اس کو کیوں دے دوں۔ چنانچہ اُس کے اور اُس کے چچا کے درمیان تنازعہ ہوانوجوانوں نے نجاشی کا ساتھ دیا اور اُس کا چچا حکومت سے دستبردار ہوگیا۔ نجاشی نے اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ خدا جس نے اُس وقت میری مدد کی تھی اب بھی میری مدد کرے گا تم جاؤ اور زور لگا لو۔ غرض نجاشی نے اس وفد کو ناکام و نامراد واپس کر دیا۔ اُس وقت جب کہ قریش مکہ کا وفد مسلمان مہاجرین کی واپسی کے لئے مطالبہ کرنے کے لئے حبشہ گیا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل دھڑک رہاہوگا کہ خدا جانے ان بیچارے وطن سے دُور اُفتادگان کے ساتھ نجاشی کیا سلوک کرتا ہے مگر اُس وقت اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوا کہہ رہا تھا اے محمد! ﷺ کیا میں اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہوں؟
(فرمودہ۲۹؍جون ۱۹۴۷ء)
میں کی تفسیربیان کر رہا تھا جس میں میں نے ہجرتِ حبشہ تک کے واقعات بیان کئے تھے۔ ہجرتِ حبشہ کے بعد کفار مکہ کی طبائع میں بہت زیادہ مخالفت کا جوش پیدا ہوگیا کیونکہ وہ حبشہ سے ناکام و نامراد واپس لَوٹ آئے تھے اور نجاشی نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا دراصل حبشہ سے ناکام واپسی نے ان کو ایک نہیں بلکہ دو وجوہات کی بناء پر مسلمانوں کی اور بھی زیادہ مخالفت کرنے پر آمادہ کر دیا تھا۔ ایک وجہ تو اس کی یہ تھی کہ مسلمانوں کا ایک حصہ بالکل بچ کر ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ ایک غیر ملک میں جا کر انہی مسلمانوں کے سامنے جن کو وہ لوگ ملک میں طرح طرح کی تکلیفیں دیا کرتے تھے انہیں خود ذلیل ہونا پڑا یہ ذلت کفارِ مکہ کے لئے کوئی معمولی بات نہ تھی اور اس کا برداشت کر لینا ان کے لئے آسان نہ تھا اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب مکہ کے مسلمانوں کو ہر ممکن طریق سے دکھ دیئے جائیں اور کوئی ظلم اب نہ رہ جائے جس سے ان کو دوچار نہ ہونا پڑے۔ اس ضمن میں وہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے بھی منصوبے سوچنے لگے اور آپ کے قاتل کے لئے انعامات مقرر کئے جانے لگے۔ ان انعامات مقرر کرنے والوں میں حضرت عمرؓ بھی تھے جو ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے۔ ایک دن کسی نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ تم دوسروں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے انعامات دیتے پھرتے ہو خود یہ کام کیوں نہیں کرتے جبکہ تم اتنے بہادر اور دلیر ہو۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ کی رگِ حمیت پھڑک اُٹھی اور وہ تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑے ہوگئے اور اُسی وقت رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے چل پڑے۔ راستہ میں انہیں کوئی دوست مل گیا اُس نے جو انہیں غیظ و غضب کے عالَم میں ننگی تلوار اپنے ہاتھ میں لئے جاتے دیکھا تو وہ راستہ روک کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا عمرؓ! آج کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا محمد(ﷺ) کو قتل کرنے جا رہا ہوں اس نے بڑا فتنہ برپا کر رکھا ہے۔ وہ ہنس کر کہنے لگا تم محمد کو تو قتل کرنے جا رہے ہو مگر تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ تمہارے اپنے گھر میں کیا ہوگیا ہے۔ کہنے لگے کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا تمہاری تو اپنی بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہوچکے ہیں۔ وہ یہ سن کر اور زیادہ برافروختہ ہوئے اور کہنے لگے اچھا پہلے انہی کو ٹھکانے لگا آتا ہوں۔ چنانچہ وہ جلدی جلدی قدم اُٹھاتے اپنی بہن کے گھر پہنچے اور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ کو زنجیر لگی ہوئی تھی اوراندر ایک صحابی انہیں قرآن کریم پڑھا رہے تھے۔ اُنہوں نے عمر کی آواز سُنی تو اس صحابی کو کہیں چھپا دیا، قرآن کریم کے اوراق بھی اندر رکھ دئیے اور خود دروازہ کھول دیا۔ حضرت عمرؓ جو قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سن چکے تھے انہوں نے آتے ہی بڑے جوش سے کہا کہ میں نے سنا ہے تم دونوں صابی ہوگئے ہو اور تم نے محمد کی پیروی اختیار کر لی ہے؟ اور یہ کہتے ہی وہ اپنے بہنوئی پر جھپٹ پڑے اور انہیں مارنے لگ گئے۔ بہن اسے برداشت نہ کرسکی اور وہ اپنے خاوند کو بچانے کے لئے آگے بڑھی۔ حضرت عمرؓ کاارادہ اپنی بہن پر حملہ کرنے کا نہیں تھا مگر چونکہ وہ درمیان میں آگئیں اور وہ اُس وقت جوش کی حالت میں تھے اس لئے ایک مُکّا ان کی بہن کو بھی جالگا اور ان کی ناک سے خون بہنے لگا۔ بہن کو زخمی دیکھ کر ان کے دل میں ندامت پیدا ہوئی کیونکہ عورت پر ہاتھ اُٹھانا اہلِ عرب کے نزدیک ایک سخت معیوب فعل تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی خفت دور کرنے کے لئے کہا اچھا ان باتوں کو جانے دو اور مجھے بتاؤ کہ تم کیا پڑھ رہے تھے۔ اُن کی بہن بھی اُس وقت جوش کی حالت میں تھیں اور پھر وہ بہن بھی عمرؓ کی ہی تھیں کہنے لگیں تم ناپاک ہو جب تک تم غسل نہ کر لو میں تمہیں ان مقدس اَوراق کو ہاتھ تک نہیں لگانے دوں گی۔ چونکہ حضرت عمر اپنی بہن کی دل جوئی کرنا چاہتے تھے انہوں نے غسل کیا اور پھر کہا اب تو مجھے وہ اَوراق دکھا دو۔ اُن کی بہن نے وہ اوراق ان کے سامنے رکھ دئیے اور انہوں نے اُن کو پڑھنا شروع کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے دل کے پردے دُور ہونے شروع ہوگئے۔ جب وہ اِس آیت پر پہنچے کہ۱۷؎ کہ ان کا سینہ کھل گیا اور انہوں نے کہا یہ تو عجیب کلام ہے مجھے جلدی بتاؤ کہ محمدرسول اللہ کہاںہیں مَیں ان پر ایمان لانا چاہتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن دنوںدارِ ارقم میں تشریف رکھتے تھے آپ کو پتہ بتایا گیا اور وہ سیدھے اس مکان کی طرف چل پڑے مگر حالت یہ تھی کہ ابھی ننگی تلوار اُن کے ہاتھ میں تھی۔ حضرت عمرؓ نے دروازہ پر دستک دی تو صحابہؓ نے جھانک کر دیکھا کہ باہر کون ہے۔ انہیں جب عمرؓ کی شکل نظر آئی اور یہ بھی دیکھا کہ انہوں نے تلوار سونتی ہوئی ہے تو وہ گھبرائے کہ کہیں کوئی فساد پیدا نہ ہو جائے مگر حضرت حمزہؓ جو اُس وقت تک اسلام لا چکے تھے انہوں نے کہا ڈرتے کیوں ہو دروازہ کھولو اگر عمرؓ اچھی نیت سے آیا ہے تو خیر ورنہ اسی تلوار سے ہم اس کی گردن اُڑا دیں گے۔ چنانچہ دروازہ کھولا گیا اور عمرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا عمر! کس نیت سے آئے ہو؟ اُنہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ایمان لانے کے لئے۔ یہ سن کر آپ نے خوشی سے اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہا اور ساتھ ہی صحابہؓ نے اس زور سے نعرئہ تکبیر بلند کیا کہ دور دور تک مکہ میں اس کی آواز گونج اُٹھی ۔۱۸؎
اب دیکھو عمرؓ تو اس ارادہ اور نیت کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے تھے کہ میں آج محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے دم لوں گا مگر اُس وقت خدا تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوا کہہ رہا تھا کہ کیا خدا اپنے بندے کی حفاظت کے لئے کافی نہیں؟ چنانچہ وہی عمر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے کے لئے اپنے گھر سے نکلا تھا اسلام کی تلوار سے خود گھائل ہوگیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ہمیشہ کے لئے داخل ہوگیا۔ حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے بعد وہ عبادتیں جو پہلے چھپ کر ہوا کرتی تھیں سرِعام ہونے لگیں۔ خود حضرت عمرؓ دلیری کے ساتھ کفار میں پھرتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ اگر تم میں سے کسی کے اندر طاقت ہے تو میرے سامنے آئے مگر کسی شخص کو اُن کے سامنے آنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی لیکن حضرت عمرؓ کا یہ رُعب صرف چند دن ہی رہا بعد میں حضرت عمرؓ کی بھی وہی حالت ہوگئی جو دوسرے مسلمانوں کی تھی۔ چنانچہ ایک موقع پر جب ان سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کو اسلام لانے پر دشمنوں کی طرف سے تکلیفیں نہ دی جاتی تھیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے بھی کئی دفعہ دشمنوں نے مارا تھا مگر باقی مسلمان تو خاموشی کے ساتھ مار کھالیتے تھے اور میں اُن کا مقابلہ کرتا تھا اور کبھی مار کھالیتا تھا اور کبھی مار بھی لیتا تھا ۔
پھر کفارِ مکہ کی مخالفت اور تیز ہوئی اور انہوں نے ایک میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا کہ جس طرح بھی ہو سکے محمد (ﷺ) کو ابو طالب کی حفاظت اور ہمددری سے محروم کر دیا جائے کیونکہ ہم ابوطالب کی وجہ سے محمد(ﷺ) کو کچھ کہہ نہیں سکتے اور ابوطالب کے لحاظ کی وجہ سے ہمیں محمد کا بھی لحاظ کرنا پڑتا ہے اس لئے اس معاملہ کو ابوطالب کے سامنے پیش کیا جائے اور کہا جائے کہ یا تو تم اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ ورنہ اُس کی حفاظت اور ہمدردی سے دست بردار ہو جاؤ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ساری قوم تمہاری مخالف ہو جائے گی اور تمہیں اپنا سردار تسلیم کرنے سے انکار کر دے گی۔ یہ پہلا نوٹس تھا جو ابوطالب کو دیا جانے والا تھا اس سے پہلے انہیں سردار انِ قریش کی طرف سے اِس قسم کا کوئی نوٹس نہ دیا گیا تھا۔ غرض قریش نے اپنے بڑے بڑے سرداروں کا ایک وفد ابوطالب کے پاس بھیجا اور کہا کہ آپ ہماری قوم میں معزز ہیں اس لئے ہم آپ سے یہ درخواست کرنے آئے ہیں کہ آپ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں کہ وہ ہمارے بتوں کو بُرا بھلا نہ کہا کرے ہم نے آج تک بہت صبر کیا ہے مگر اب ہم مزید صبر نہیں کر سکتے ہمیں رِجْس، پلید، شَرُّالْبَرِیَّہ، سُفَہَاء اور ذرّیت شیطان کہا جاتا ہے اور ہمارے بتوں کو جہنم کا ایندھن قرار دیا جاتا ہے پس یا تو آپ محمد(ﷺ) کو سمجھائیں اور اسے ان باتوں سے باز رکھیں ورنہ ہم آپ کو بھی اپنی لیڈری سے الگ کر دیں گے۔ ابوطالب کے لئے یہ موقع نہایت نازک تھا وہ اپنی قوم میں نہایت معزز سمجھے جاتے تھے اور لوگ انہیں اپنا لیڈر تسلیم کیا کرتے تھے اور لیڈری کی خاطر بعض اوقات انسان اپنے عزیز ترین رشتہ داروں اور بیٹوں تک کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ابوطالب نے اپنی قوم سے مرعوب ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بُلایا اور کہا اے میرے بھتیجے ! اب تیری باتوں کی وجہ سے قوم سخت مشتعل ہو چکی ہے اور اب معاملہ اِس حد تک پہنچ چکا ہے کہ قریب ہے کہ وہ لوگ کوئی سخت قدم اُٹھائیں جو تمہارے لئے اور میرے لئے بھی تکلیف دہ ہو۔ تو نے ان کے عقلمندوں کو سفیہہ، ان کے بزرگوں کو شَرُّالْبَرِیَّہاور ان کے معبودوں کا نام ہیزمِ جہنم اور وَقُوْدُالنَّار رکھا ہے اور خود ان کو رِجْس اور پلید کہا ہے اس لئے میں محض تمہاری خیر خواہی کے لئے تمہیں یہ مشورہ دیتا ہوں کہ اس دشنام دہی سے بازآجاؤ ورنہ میں اکیلا ساری قوم کے مقابلہ کی جرأت نہیں کرسکتا۔ ساری قوم کے رؤساء وفد کی صورت میں میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے مجھے کہا ہے کہ اب دو رستوں میں سے کوئی سا رستہ اپنے لئے تجویز کر لو۔ یا تو محمد(ﷺ) سے کہو کہ وہ ہمارے بتوں کو گالیاں نہ دیا کرے اور یا پھر اس کی حفاظت سے دستبردار ہو جاؤ اس لئے اے میرے بھتیجے! یہ موقع میرے لئے نہایت نازک ہے اور میرے لئے اپنی قوم کو چھوڑنا مشکل ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ابوطالب کی یہ باتیں سنیں تو آپ نے محسوس کیا کہ جس شخص نے میرے لئے آج تک اتنی تکلیفیں اُٹھائی ہیں اور جس نے میرے ساتھ وفا کے عہد کئے ہوئے ہیں یہ تعلقات آج ٹوٹتے نظر آرہے ہیں اور دُنیوی اسباب کے لحاظ سے میرا یہ سہارا بھی مخالفت کے بوجھ کے نیچے دَب رہا ہے۔ چنانچہ اِن باتوں کا خیال کر کے آپ چشم پُر آب ہوگئے اور فرمایا اے چچا! میں نے ان لوگوں کے بتوں کے حق میں جو کچھ کہا ہے وہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہارِ حقیقت ہے اور میں اسی کام کے لئے دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں کہ ان لوگوں کی خرابیاں ان پر ظاہر کر کے انہیں راہ راست کی طرف بلاؤں۔ پس میں کسی مخالفت یا موت کے ڈر سے حق کے اظہار سے رُک نہیں سکتا میری زندگی تو اس کام کیلئے وقف ہو چکی ہے اس لئے اے چچا! میں آپ کے اور آپ کی قوم کے درمیان کھڑا نہیں ہونا چاہتا اگر آپ کو کسی تکلیف یا اپنی کمزوری کا خیال ہے تو میں آپ کو بخوشی اجازت دیتا ہوں کہ آپ مجھے اپنی پناہ میں رکھنے سے دستبردار ہو جائیں۔ باقی رہا احکامِ الٰہی کو ان لوگوں تک پہنچانے کا سوال تو میں اس کام سے کبھی رُک نہیں سکتا خواہ میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے خدا کی قسم! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند بھی لاکر رکھ دیں تب بھی میں اپنے اس فریضہ کی ادائیگی سے باز نہیں رہ سکتا ۱۹؎ یہ باتیں کہتے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر رقت کی سی حالت طاری تھی اور آپ یہ خیال فرما رہے تھے کہ میرے ساتھ وفا اورمحبت کرنے والا میرے رشتہ داروں میں سے یہی ایک میرا چچا تھا اور یہ رشتہ مروت بھی آج ٹوٹتا نظر آرہا ہے مگر جس وقت آپ یہ خیال فرما رہے تھے کہ وفا، محبت اور مروت کا یہ رشتہ آج ٹوٹ رہا ہے اُس وقت اللہ تعالیٰ عرش پر کہہ رہا تھا اے محمد ! کیا ہم اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہیں؟دشمنوں نے بے شک اپنا پورا زور لگادیا ہے کہ یہ رشتہ ٹوٹ جائے، انہوں نے بے شک اپنی طرف سے پوری کوششیں کی ہیں کہ یہ رشتہ محبت قطع ہو جائے مگر اے محمد! ہم اس رشتے کو کبھی ٹوٹنے نہیں دیں گے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے ابوطالب کے دل کو نرم کر دیا اور وہ ابوطالب جسے قوم کی سرداری کو عزیز رکھنے کا خیال آرہا تھا، وہ ابوطالب جسے قوم کی لیڈری کا خیال آرہا تھا اُس کے اندر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جوش مارنے لگی اور اُس نے رقت بھری آواز میں کہا اے میرے بھتیجے! جا اور اپنے کام میں اسی طرح لگا رہ جب تک میں زندہ ہوں اپنی طاقت کے مطابق تیرا ساتھ دوں گا۔ اب دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس نازک موقع پر کا نمونہ دکھایا اور ابوطالب جو دنیا دار آدمی تھے اور قریب تھا کہ وہ قوم کی سرداری اور لیڈری کی طرف جھک جائیں اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل پر ایسا تصرف کیا کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے مقابلہ میں قوم کی سرداری اور لیڈری کو بھی ترک کرنے پر آمادگی کا اظہار کر دیا ۔
اس کے بعد کفارِ مکہ کی مخالفت اور بھی زیادہ تیز ہو گئی اور انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب ابوطالب کو ایک آخری نوٹس دینا چاہئے چنانچہ وہ ایک میدا ن میں جمع ہوئے اور انہوں نے اپنا ایک نمائندہ ابوطالب کی طرف بھیجا اور کہلا بھیجا کہ ہم فلاں میدان میں جمع ہیں اور یہ ہماری طرف سے آخری نوٹس ہے۔ پہلے تو ہم نے صرف صلح کا نوٹس دیا تھا مگر اب ہم جنگ کا نوٹس دے رہے ہیں کہ جب تک تم محمد( ﷺ) کو ہمارے حوالہ نہ کر دو ہم یہاں سے ہرگز نہیں ہلیں گے ورنہ ساری قوم تمہارا اور مسلمانوں کا مقاطعہ کر دے گی۔ یہ وقت پھر ابوطالب کی آزمائش اور امتحان کا وقت تھا اور اِس نوٹس میں صرف یہی نہیں کہا گیا تھا کہ تمہاری قوم تمہیں چھوڑ دے گی بلکہ یہ دھمکی بھی دی گئی تھی کہ قوم تمہارا مقاطعہ کر دے گی گویا یہ آخری پتھر تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رستہ میں ڈالا گیامگر خداتعالیٰ کی قدرت دیکھو اِدھر ابو طالب نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو جمع کیا اور سارے حالات ان کے سامنے رکھ کر کہا اب قوم کی مخالفت حد سے بڑھتی جا رہی ہے اور رؤسائے قریش نے مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر تم نے محمد(ﷺ) کا ساتھ نہ چھوڑا تو تمہارا مقاطعہ کر دیں گے اس لئے ہمیں محمد (ﷺ) کی حفاظت کرنی چاہئے۔ ابوطالب کی اس تحریک پر سوائے ابولہب کے بنوہاشم اور بنو مطلب کے باقی تمام لوگوں نے اتفاق کا اظہار کیا اور قومی غیرت کی وجہ سے وہ دوسروں کے مقابلہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعانت کے لئے تیار ہوگئے اور خدا تعالیٰ کی حکمت کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کے وہ افراد بھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوسخت تکالیف دیا کرتے تھے انہوں نے بھی عہد کیا کہ ہم بہرحال محمد(ﷺ) کا ساتھ دیں گے اور اس طرح پھر خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہوا کہ صرف ابوطالب ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے دشمنوں کے منہ سے بھی کہلا دیا ہم محمد(ﷺ) کا ساتھ دیں گے چاہے قوم ہمارا مقاطعہ ہی کیوں نہ کر دے۔ چنانچہ ابوطالب نے ان پیغام بھیجنے والے رؤساء کو کہلا بھیجا کہ جو تمہارے جی میں آئے ہمارے ساتھ کرو میں کبھی محمد(ﷺ) کو تمہارے سپرد نہیں کر سکتا اور اس کی حمایت سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ اُس وقت جبکہ کفار مکہ نے اپنی تمام کوششیں صرف کر دی تھیں اور اُس و قت جب کہ انہوں نے ہر قسم کی دھمکیاں دے کر ابوطالب کو آپ کی حمایت سے ہٹانا چاہا تھا خدا تعالیٰ عرش پر کہہ رہا تھا اے محمد!ﷺ تو دلگیر مت ہو۔ اے محمد!ﷺ تو کوئی اندیشہ مت کر اور اے محمد!ﷺ تجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم خود تیرے دشمنوں کو ان کے ارادوں میں خائب و خاسر کر دیں گے اور اِنہیں دشمنوں میں سے کچھ لوگ ایسے تیار کر دیں گے جو اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر تمہاری حمایت کا اعلان کریں گے۔
پھر ایک عجیب بات ہے جس کی طرف پہلے کسی مؤرخ کا ذہن نہیں گیا صرف مجھے ہی خداتعالیٰ نے سمجھائی ہے یہ ہے کہ وہی میدان جس میں کفارِ مکہ جمع ہوئے تھے اور اپنا نمائندہ بھیج کر ابو طالب سے مطالبہ کیا تھا کہ محمد(ﷺ) کو ہمارے حوالہ کر دو اسی میدان میں فتح مکہ کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی جھنڈے گاڑے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ اے کفار! تم یہاں جمع ہو کر محمد(ﷺ) کو بلاتے تھے اس لئے کہ تم جو چاہو اُس کے ساتھ سلوک کرو اب ہم محمد(ﷺ) کو اسی میدان میں لائے ہیں اس لئے نہیں کہ جو سلوک تم چاہو اُس کے ساتھ سلوک کرو بلکہ اس لئے کہ محمدﷺ جو سلوک چاہے تمہارے ساتھ کرے۔ تم تو محمدرسول اللہ کو اس لئے میدان میں مانگ رہے تھے کہ تم اس کے ساتھ جو چاہووہ سلوک کر سکو اور ہم محمدﷺ کا اُس میدان میں لے بھی آئے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ تم جو چاہو اس کے ساتھ سلوک کرو بلکہ اس لئے کہ وہ جو چاہے تمہارے ساتھ سلوک کرے۔ غرض کفارِ مکہ کے مطالبہ کے مقابلہ میں پہلے تو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ دکھایا کہ انہی مطالبہ کرنے والوں کے ساتھیوں اور شدید ترین دشمنوں میں سے کچھ لوگ الگ ہو گئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ ہم محمد کو مطالبہ کرنے والوں کے سپرد نہیں کریں گے اور یہ کہنے والے وہی دشمن تھے جو ہر روز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتے تھے اور آپ پر پتھراؤ کیا کرتے تھے اور دوسرا معجزہ اللہ تعالیٰ نے یہ دکھایا کہ وہ آپ کو اسی میدان میں لایا جہاں بیٹھ کر ائمۃالکفر نے آپ کے خلاف میٹنگ کی تھی اور ابوطالب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ محمدﷺ کو اُن کے حوالے کر دیں مگر اس حالت میں کہ آپ کے ساتھ وہ سلوک نہ ہو جو مکہ والے آپ کے ساتھ کرنا چاہیں بلکہ مکہ والوںکے ساتھ وہ سلوک ہو جو آپ ان کے ساتھ کرنا چاہیں۔غرض جب ابوطالب نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ کرنے والے کفارِ مکہ کو کہلا بھیجا کہ میں اور میری قوم محمدکو تمہارے سپرد نہیں کر سکتے اس لئے تم لوگ جو چاہو ہمارے ساتھ کرو ہم اس کے مقابلہ کے لئے تیار ہیں، تو اس پر کفارِ مکہ نے ایک باقاعدہ معاہدہ لکھا کہ کوئی شخص بنو ہاشم اور بنو مطلب کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات نہیں رکھے گا، کوئی شخص ان کے ساتھ رشتہ نہیں کرے گا، کوئی شخص نہ ان کے پاس کچھ فروخت کرے گا اور کوئی شخص نہ ان سے کچھ خریدے گا اور نہ ہی کوئی شخص کھانے پینے کی کوئی چیز ان کے پاس جانے دے گا جب تک وہ لوگ محمدکو ہمارے حوالہ نہ کر دیں۔ یہ معاہدہ باقاعدہ لکھ کر کعبہ کی دیوار کے ساتھ آویزاں کر دیا گیا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بنو ہاشم اور بنو مطلب کے تمام لوگ کیا مسلم اور کیا غیر مسلم شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے اور شعب ابی طالب وہ جگہ تھی جو بنو ہاشم کا خاندانی درہ تھا اس میں وہ لوگ قیدیوں کی طرح نظر بند کر دیئے گئے اور مکہ کی عملی زندگی سے بالکل منقطع ہوگئے۔ اب دونوں طرف ہی ضد تھی ایک طرف تو یہ ضد تھی کہ جب تک محمد (ﷺ) اپنی تعلیم کو نہیں چھوڑتا یا اُس کی قوم اُسے ہمارے حوالے نہیں کر دیتی ہم اس مقاطعہ کو برقرار رکھیں گے۔ دوسری طرف یہ ضدتھی اور اس کو ضد نہیں بلکہ استقلال کہنا چاہئے کہ چاہے ہمارے ساتھ کتنا ہی بُرا سلوک کیوں نہ روا رکھا جائے ہم ان کے مطالبہ کو تسلیم نہیں کر سکتے۔ گویا ایک طرف راج ہٹ تھی اور دوسری طرف دین ہٹ تھی اور یہ ہٹ کی دونوں قسمیں آپس میں مقابلہ کے لئے تُلی ہوئی تھیں۔ کفر چاہتا تھا کہ اسلام پر غالب آجائے اور اسلام چاہتا تھا کہ کفر کو کھا جائے۔
شعب ابی طالب میں محصور ہونے کے ایام میں محصور ہونے والوں کو جو جو تکلیفیں اُٹھانی پڑیںان کا حال پڑھ کر بدن پر لرزہ آجاتا ہے۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ بعض اوقات انہوں نے غذا نہ ہونے کی وجہ سے جنگلی جانوروں کی طرح درختوں کے پتے کھا کھا کر گذارہ کیا اور بعض نے سوکھے ہوئے چمڑے کو پانی میں صاف اور نرم کر کے بھون کر کھا لیا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی یہ حالت ہوتی تھی کہ بھوک کی وجہ سے ان کے رونے اور چیخنے کی آوازیں دور دور تک سنائی دیتی تھیں اور یہ تکلیف کوئی ہفتہ دو ہفتہ یا مہینہ دو مہینہ کے لئے نہ تھی بلکہ ایک لمبے عرصہ کے لئے تھی اور حالت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ صحابہؓ کہتے ہیں بجائے پاخانہ کے ہم مینگنیاں کرتے تھے مگر دونوں فریق اپنی اپنی ہٹ پر قائم تھے۔ ایک طرف یہ ضد تھی کہ اسلام ہمارے سامنے سرنگوں ہو جائے اور دوسری طرف استقلال کا یہ عالم تھا کہ وہ کہتے تھے کہ چاہے اس رستہ میں ہماری جانیں بھی کیوں نہ چلی جائیں ہم اپنے منصب کو ترک نہیں کرسکتے۔ اب پھر اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں دخل دیا اور وہ اس طرح کہ قریش کے اندر بعض نرم دل اور شریف الطبع لوگ بھی تھے جو اس ظالمانہ معاہدہ کو دیکھ دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتے تھے مگر وہ قوم کے مقابلہ کی تاب نہ رکھتے تھے۔ آخر جب انہوں نے دیکھا کہ ظلم حد سے بڑھ رہا ہے تو ان میں سے ایک نوجوان نے دلیری کی اور جرأت سے کام لیتے ہوئے چار پانچ اور نوجوانوں کو اپنے ساتھ لیا اور کہا یہ ظلم اب برداشت سے باہر ہوا جاتا ہے کیا اس سے بڑھ کر بھی ظلم کی کوئی حد ہو سکتی ہے کہ ہم لوگ تو یہاں آرام سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور مسلمان بے چارے اور ان کے ساتھی اڑھائی سال سے بے آب ودانہ پڑے ہیں اور کوئی ان کا پُر سانِ حال نہیں۔ یہ کہہ کر وہ گئے اور معاہدہ کو جو بوسیدہ ہو چکا تھا اُتار کر پھاڑ دیا اُس کے بعد انہوں نے تلواریں ہاتھ میں لیں اور شعب ابی طالب کے دروازے پر پہنچے اور محصورین کو اپنی تلواروں کی چھاؤں میں وہاں سے نکال لائے۔۲۰؎ جب وہ نوجوان اس معاہدہ کے خلاف تلواریں لے کر کھڑے ہوئے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ عرش پر کہہ رہا تھا اے محمدﷺ! کیا ہم اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہیں؟ اب دیکھو دشمنوں کو کس نے تحریک کی تھی کہ وہ اس معاہدہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور پھر اس کیڑے کو جس نے معاہدہ کا کاغذ کھایا تھا اور بوسیدہ کیا تھا کس نے تحریک کی تھی کہ وہ معاہدہ کو کھاجائے یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل اور کا نمونہ تھا۔
معاہدہ کی تحریر کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کہ آپ محصور تھے ایک دن اپنے چچا حضرت ابو طالب سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے ک وہ معاہدہ جو ہمارے خلاف لکھا گیا تھااور کعبہ کی دیوار کے ساتھ آویزاں کیا گیا تھا اُس کا کاغذ کھایا جا چکا ہے۔ روایات میں لکھا ہے کہ ابوطالب فوراً خانہ کعبہ میں گئے جہاں بہت سے رؤسائے قریش مجلس لگائے بیٹھے تھے اور انہوں نے جاتے ہی کہا اے قریش! تمہارا یہ ظالمانہ معاہدہ کب تک چلے گا محمد نے مجھے بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس معاہدہ کی تحریر کو محو کر دیا ہے تم اس معاہدہ کو نکالو تا کہ دیکھیں کہ میرے بھتیجے کی بات کہاں تک درست ہے۔ چنانچہ معاہدہ دیوار سے اُترواکر دیکھا گیا تو واقعی وہ سب کرم خوردہ ہو چکا تھا۔اس پر قریش کے وہ شریف الطبع لوگ جو اس ظالمانہ معاہدہ کے خلاف ہو چکے تھے اور جن کے دل میں انصاف، رحم اور قرابت داری کے جذبات پیدا ہو رہے تھے ان کو معاہدہ کے خلاف آواز اُٹھانے کا موقع ہاتھ آگیا۔ چنانچہ انہوں نے کاغذ پھاڑ دیا اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔۲۱؎
اس کے بعد مکہ والوں نے فیصلہ کیا کہ محمدﷺ کے ساتھ کوئی شخص بات چیت نہ کرے اور نہ اس کی بات کو سنے اور یہ آپ کے لئے نہایت تکلیف دہ تھا کیونکہ ایک نبی کے لئے سب سے بڑی تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس کی بات نہ سنیں اور اس کے ساتھ نہ بولیں۔ خداتعالیٰ کے نبی تو یہ چاہتے ہیں کہ خواہ لوگ اُن کو جی بھر کر گالیاں دے لیں مگر کم ازکم اُس پیغام کو تو سُن لیں جو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بنی نوع انسان کے لئے لائے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئی دفعہ ہم نے ایک واقعہ سنا ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ دشمن جب ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور مخالفت کرتے ہیں تو ہمیں امید ہوتی ہے کہ ان میں سے سعید روحیں ہماری طرف آجائیں گی لیکن جب نہ تو لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور نہ ہی مخالفت کرتے ہیں اور بالکل خاموش ہو جاتے ہیں تو یہ بات ہمارے لئے تکلیف دِہ ہوتی ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ نبی کی مثال اُس بڑھیا کی سی ہوتی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کچھ پاگل سی تھی اور شہر کے بچے اُسے چھیڑا کرتے تھے اور وہ انہیں گالیاں اور بد دعائیں دیا کرتی تھی آخر بچوں کے ماں باپ نے تجویز کی کہ بچوں کو روکا جائے کہ وہ بڑھیاکو دِق نہ کیا کریں چنانچہ انہوں نے بچوں کو سمجھایا مگر بچے توبچے تھے وہ کب باز آنے والے تھے یہ تجویزبھی کارگر ثابت نہ ہوئی۔ آخر بچوں کے والدین نے فیصلہ کیا کہ بچوں کو باہر نہ نکلنے دیا جائے اور دروازوں کو بند رکھا جائے چنانچہ انہوں نے اِس پر عمل کیا اور دو تین دن تک بچوں کو باہر نہ نکلنے دیا۔ اس بڑھیا نے جب دیکھا کہ اب بچے اسے دِق نہیں کرتے تو وہ گھر گھر جاتی اور کہتی کہ تمہارا بچہ کہاں گیا ہے؟ کیا اسے سانپ نے ڈس لیا ہے؟ کیا وہ ہیضہ سے مر گیا ہے؟ کیا اس پر چھت گر پڑی ہے؟ کیا اس پر بجلی گر گئی ہے؟ غرض وہ ہر دروازہ پر جاتی اور اس قسم کی باتیں کرتی آخر لوگوں نے سمجھا کہ بڑھیا نے تو پہلے سے بھی زیادہ گالیاں اور بد دعائیں دینی شروع کر دی ہیں اس لئے بچوں کو بند رکھنے کا کیا فائدہ اُنہوں نے بچوں کو چھوڑ دیا۔ آپ فرمایا کرتے تھے یہی حالت نبی کی ہوتی ہے۔ جب مخالفت تیز ہوتی ہے تب بھی اسے تکلیف ہوتی ہے اور جب مخالف چپ کر جاتے ہیں تب بھی اسے تکلیف ہوتی ہے کیونکہ جب تک مخالفت نہ ہو لوگوں کی توجہ الٰہی سلسلہ کی طرف پھر نہیں سکتی۔
غرض نبی کے لئے سب سے بڑی تکلیف دہ چیز یہی ہوتی ہے کہ لوگ اُس کی مخالفت چھوڑ دیں اور اُس کی باتیں نہ سنیں اس لئے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مکہ کے لوگ آپ کی باتیں نہیں سنتے اور نہ وہی آپ کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ مکہ سے باہر کسی اور جگہ کے لوگوں کو تبلیغ کرنی چاہئے چنانچہ آپ نے طائف جانے کا ارادہ فرمایا۔ طائف ایک مشہور مقام ہے جو مکہ سے جنوب مشرق کی طرف چالیس میل کے فاصلہ پر ہے طائف میں بڑے بڑے صاحب اثر اور دولت مند لوگ آباد تھے وہ لوگ اپنے آپ کو بڑا جنگجو خیال کرتے تھے اور طائف کی بستی حجاز کی بہت بڑی چھاؤنی سمجھی جاتی تھی۔ غرض آپ طائف پہنچے اور آپ نے وہاں کچھ دنوں تک بڑے بڑے رؤساء کو تبلیغ کی مگر انہوں نے بھی اسلام کو نہ مانا بلکہ تمسخر سے کام لیا۔ طائف کے رئیس اعظم عبدیا لیل نے اس خیال سے کہ کہیں آپ کی باتوں کا اثر شہر کے نوجوانوں پر نہ ہو جائے آوارہ گرد نوجوانوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپ پر پتھر برسائیں اور شہر کے کتے آپ کے پیچھے لگائیں اور آپ کو گالیاں دیں چنانچہ ان اوباشوں نے آپ کے پیچھے کتے لگا دئیے اور آپ کو سخت گالیاں دیں اور ساتھ ہی آپ پر پتھراؤ شروع کر دیا جس سے آپ کا سارا بدن خون سے تر بتر ہو گیا اور برابر تین میل تک ان اوباشوں نے آپ کا تعاقب کیا اور آپ پر پتھر برساتے آئے۔ طائف سے تین میل کے فاصلہ پر پہنچ کر ان لوگوں نے آپ کا پیچھا چھوڑا مگر اُس وقت تک آپ کا سارا جسم لہو لہان ہو چکا تھا آپ اسی حالت میں تھے کہ خدا تعالیٰ کا فرشتہ آپ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ خداتعالیٰ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور کہا ہے کہ اگر آپ حکم دیں تو میں ابھی یہ پہاڑ جو سامنے دکھائی دیتا ہے اسے طائف کی بستی پر اُلٹ دوں اور اس کو تباہ کر دوں۔ آپ نے فرمایا نہیں نہیں آخر انہی لوگوں نے ایمان لانا ہے اگر ان پر عذاب آگیا اور یہ تباہ ہوگئے تو مجھ پر ایمان کون لائے گا۔۲۲؎ یہ بھی کا نمونہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے طائف والوں کے ظلم وستم کو دیکھ کر اپنے پہاڑوں کے فرشتہ کو آپ کے پاس بھیجا کہ اگر اجازت ہو تو طائف کی بستی کو تباہ کر دیا جائے یہ الگ بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرشتہ کو اس بات کی اجازت نہ دی اور وہ تباہی سے بچ گئے۔
کوئی نادان کہہ سکتا ہے کہ فرشتہ کا آنا ایک خیالی بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آپ پر پہلے بھی کبھی فرشتہ کا نزول ہوا تھا یا نہیںاور پہلے بھی کبھی خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت آپ کے شامل حال ہوئی تھی یا نہیں؟ ہم تو دیکھتے ہیں کہ ہر ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ کی نصرت آپ کے شامل حال رہی اور خدا تعالیٰ کے فرشتے آپ کی مدد کے لئے اترتے رہے۔ کیا حضرت عمرؓ کے گھر سے تلوار لے کر نکلنے کے وقت خدا تعالیٰ کے فرشتے آپ کی مدد کے لئے اُترے تھے یا نہیں؟ کیا ہجرت حبشہ کے بعد خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے اُتر کر مٹھی بھر مسلمانوں کو ظالم کفار کے چنگل میں جانے سے بچایا تھا یا نہیں؟ کیا حضرت ابوبکرؓ کے ہجرت کے ارادہ سے گھر سے نکلنے کے وقت جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس باوفا اور پُرانے دوست کی جدائی کا صدمہ ہونے والا تھا خداتعالیٰ کے فرشتوں کا نزول ہوا تھا یانہیں؟ اور پھر خدا تعالیٰ نے ایک دشمن اسلام کے دل کو حضرت ابوبکرؓ کو پناہ دینے کے لئے نرم کر دیا تھا یا نہیں؟ اسی طرح طائف سے واپسی کے وقت بھی خداتعالیٰ کے فرشتہ کا نزول آپ پر ہوا آگے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرشتہ کو اجازت نہ دی کہ طائف کی بستی کو تباہ کر دیا جائے ورنہ وہ تو حکم کا منتظر تھا اور آپ کے ذرا سے اشارے کی دیر تھی۔
اس کے بعد ایک اور نظارہ آتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے خود دشمنوں کے ہاتھوں آپ کی حفاظت کے سامان پیدا کر دئیے طائف سے تین میل کے فاصلہ پر مکہ کے ایک رئیس عتبہ بن ربیعہ کا ایک باغ تھا جس میں دیگر پھلدار درختوں کے علاوہ انگور وغیرہ بھی تھا۔ جب طائف کے لوگ آپ کا تعاقب کر کے اور آپ پر پتھرؤا کر کے واپس لوٹ گئے تو آپ اس باغ کے درختوں کے سایہ میں ایک جگہ بیٹھ کر سستانے لگے اُس وقت آپ کا دل بہت بوجھل ہورہا تھا اِس غم کے ساتھ کہ یہ سفر بھی خالی گیا اور خدا تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانے والوں میں اضافہ نہ ہوا۔ پھر آپ کا دل ان زخموں کی وجہ سے بھی بوجھل تھا جو طائف کے اوباشوں کے پتھراؤ کی وجہ سے آپ کے جسم پر پڑ گئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انہی کفارِ مکہ کے دلوں کو آپ کے لئے نرم کر دیا جوہمیشہ آپ کو تکلیفیں دیا کرتے تھے۔ـعتبہ اور شیبہ اُس وقت اپنے باغ میں موجود تھے اور انہوں نے دور سے آپ کی ساری حالت دیکھ لی تھی جب انہوں نے یہ دیکھا کہ آپ سخت زخمی حالت میں ایک درخت کے سایہ کے نیچے بیٹھے ہیں تو ان کے دلوں میں دور ونزدیک کی رشتہ داری کا یا کچھ قومی احساس پیدا ہوا اور انہوں نے انگور کے کچھ خوشے توڑ کر ایک طشت میں رکھے اور اپنے ایک عیسائی غلام کے ہاتھ آپ کے لئے بھیجے۔ وہ غلام مذہبًا عیسائی تھا اس نے طشت لا کر آپ کے سامنے رکھ دیا۔ آپ نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحَمٰنِ الرَّحِیْم پڑھ کر انگور کھانے شروع کئے یہ دیکھ کر عیسائی غلام سخت حیران ہوا اور آپ سے کہنے لگا آپ مکہ کے رہنے والے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں! وہ کہنے لگا آپ نے پھر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحَمٰنِ الرَّحِیْم کہاں سے سیکھی ہے؟آپ نے فرمایا میں بے شک مکہ کا رہنے والا ہوں مگر میں خدائے واحد کو ماننے والا ہوں۔ پھر آپ نے پوچھا تم کہا ں کے رہنے والے ہو؟ غلام نے کہا میں نینو اکا رہنے والا ہوں۔ آپ نے فرمایا کیا تم اُسی نینو اکے رہنے والے ہو جو خدا کے صالح بندے یونسؑ بن متّٰی کامسکن تھا؟ عیسائی غلام نے کہا ہاں مگر آپ کو یونسؑ کے متعلق کیسے معلوم ہوا۔ آپ نے فرمایا وہ میرا بھائی تھا کیونکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کا نبی تھا اور میں بھی اللہ تعالیٰ کا نبی ہوں۔ عیسائی غلام نے کہا اچھا آپ کی تعلیم کیا ہے؟ اس پر آپ نے اسے مختصر طور پر اپنی تعلیم سنائی اور اُسے تبلیغ بھی کی وہ غلام آپ کی باتیں سُن کر ایسا مسحور ہوا کہ جوں جوں آپ باتیں کرتے جاتے تھے اُس کے جذبات اُبھرتے جاتے تھے آخر اس نے آپ کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں۔۲۳؎ کیونکہ آپ کی تعلیم نبیوں والی ہے عتبہ اور شیبہ دور بیٹھے اس نظارہ کو حیرانگی کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ جب غلام واپس ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے اسے کہا تم نے یہ کیا حرکت کی تھی کہ اس شخص کے ہاتھ چوم رہے تھے۔ اس نے کہا جو تعلیم میں نے اس شخص کی زبانی سُنی ہے وہ نبیوں والی تعلیم ہے۔ پس پیشتر اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں واپس پہنچتے خدا تعالیٰ نے آپ کو ایک موحّد دے دیا اور آپ کے اُس افسوس کو جو سفر طائف کی وجہ سے آپ کو ہوا تھا دور کر دیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے جسمانی پھل (انگور) بھی انہیں دشمنوں کے ہاتھوں سے دیا جو ہمیشہ آپ کو پتھر مارا کرتے تھے اور روحانی پھل (عیسائی)غلام کا ایمان لانا)بھی انہی دشمنوں کے ہاتھ سے دیا گویا وہ غلام جسمانی پھل آپ کو دے گیا اور آپ سے روحانی پھل لے گیا۔ اُس وقت خدا تعالیٰ عرش پر بیٹھا کہہ رہا تھا کیا اے محمد ﷺ! تیرے دل میں یہ افسوس تھا کہ اِس سفر میں ایک بھی موحّد نہیں ملالو میں نے اس افسوس کو دور کرتے ہوئے ایک موحّد تم کو دے دیااور تیرے دشمنوں کے ہاتھوں سے دیا بے شک وہ موحد ایک غلام تھا مگر وہ دنیا کی نظروں میں غلام تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں وہ غلام نہ تھابلکہ قیصرو کسریٰ اور اور فراعنہ مصر بھی اس کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہ رکھتے تھے۔ یہی وہ غلام تھے جن کو لوگ ذلیل سمجھتے تھے مگر جب اسلامی حکومت کا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا عروج بخشا کہ بڑے بڑے رؤساء ان کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہوگئے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ اپنی خلافت کے ایام میں جب حج کے لئے مکہ مکرمہ آئے تو مکہ کے بڑے بڑے رؤساء ان کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے ۔حضرت عمرؓ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ آپ لوگوں کے نسب ناموں کو یاد رکھنے میں بڑے ماہر تھے اور ان کو مکہ والوں کی کئی کئی نسلوں تک کے نام یاد تھے غرض مکہ کے رؤساء آ پ کے پاس آتے گئے اور آپ انہیں بٹھاتے گئے حتیّٰ کہ ایک لمبی سی قطار بن گئی۔ اس زمانہ میں کوئی بڑے ہال یا بارکیں تو ہوتی نہ تھیں یہی دس دس بارہ فٹ کے کمرے ہوتے تھے اس لئے وہ نوجوان روساء ایک کمرہ میں قطار سی بنا کر بیٹھ گئے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ انہی غلاموں میں سے ایک غلام حضرت عمرؓ کی ملاقات کے لئے آیا حضرت عمرؓ نے رؤساء کی قطار میں سے ایک کو فرمایا ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور انہیں جگہ دے دو۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور غلام آیا تو حضرت عمرؓ نے ایک اور رئیس کو ہٹا کر اس کے بیٹھنے کی جگہ بنائی اسی طرح کئی غلام آئے اور اتنے ہی مکہ کے رؤساء کو کو ہٹا کر ان کے بیٹھنے کی لئے جگہ بنائی حتیّٰ کہ رؤساء جوتیوں والی جگہ میں پہنچ گئے اور آخر وہ اس ذلت اور صدمہ کو برداشت نہ کرتے ہوئے وہاں سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور باہر جا کر ایک دوسرے سے کہنے لگے آج تو ہماری بے عزتی کی حد ہوگئی ہے کہ ہمارے مقابلہ میں غلاموں کو ترجیح دی گئی ہے اُن غلاموں کو جو ہمارے باپ دادا کے وقت سے ذلیل اور حقیر چلے آتے تھے اور ہماری جوتیوں میں بیٹھا کرتے تھے۔ ان رؤساء میں ایک سعیدالفطرت رئیس بھی تھا وہ کہنے لگا آخر اس میں کس کا قصور ہے جب ہم اور ہمارے باپ دادارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دُکھ دیا کرتے تھے، جب ہم اور ہمارے باپ دادا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کو روکنے کی کوششیں کیا کرتے تھے، جب ہم اور ہمارے باپ دادارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی دُکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا رکھتے تھے اور جب ہم نے اور ہمارے باپ دادوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بے وفائی کا سلوک کیا اُس وقت یہی غلام تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار رہے اس لئے اب جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہوچکی ہے یہی لوگ معزز اور مکرم سمجھے جانے کے حق دار ہیں نہ کہ ہم۔ وہ کہنے لگے اب ہماری اس غلطی کا کوئی علاج بھی ہوسکتا ہے یا نہیں؟ وہ رئیس کہنے لگا اِس کے متعلق حضرت عمرؓ سے ہی پوچھنا چاہئے چنانچہ یہ لوگ دوبارہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور عرض کیا کہ ہم آپ سے ایک بات کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا میں آپ لوگوں کی بات کو سمجھ گیا ہوں مگر مجھے افسوس ہے کہ جو سلوک میں نے آپ کے ساتھ کیا ہے اِس کے کرنے کے لئے میں مجبور تھا یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں معزز تھے میں آپ کا غلام ہو کر انہیں مکرم اور معزز نہ سمجھتا۔ پس میں نے آپ لوگوں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ مجبور ہو کر کیا ہے۔ وہ کہنے لگے ہم بھی اس بات کو سمجھ چکے ہیں مگر آپ یہ بتائیں کہ کیا ہماری اور ہمارے باپ دادوں کی اس غلطی کا ازالہ کسی طرح ہوسکتا ہے اور کیا اس بدنما داغ کو کسی طرح دور کیا جا سکتا ہے؟ یہ سن کر حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ رقت کی وجہ سے زبان سے تو ان کو کوئی جواب نہ دے سکے مگر ہاتھ اُٹھا کر شمال کی طرف اشارہ کر دیا جہاں اُن دنوں عیسائیوں سے مسلمانوں کی جنگ ہو رہی تھی۔ آپ کے اشارہ کا مطلب یہ تھا کہ تم لوگ اب اسلامی جنگوں میں شامل ہو کر دشمن کے مقابلہ میں نکلو اور اپنے خون بہا کر اِس داغ کو دور کرو۔ چنانچہ تاریخوں میں آتا ہے کہ وہ رؤساء اس مجلس سے اُٹھتے ہی اپنی اپنی سواریوں پر سوار ہو کر شام کی طرف چلے گئے اور ان میں سے ایک بھی زندہ واپس نہ لوٹا۔۲۴؎ غرض غلاموں کو اسلام میں بڑا مقام حاصل ہوا اور اس نے انہیں عزت اور شرف کے ایک بہت بڑے مینار پر کھڑا کردیا۔
ابوسفیان جب ایمان لایا اور مدینہ میں گیا تو اپنی ریاست کے غرور میں اس نے بعض نازیبا باتیں ایک مجلس میں کہہ دیں جس پر مدینہ کے لوگوں نے جن میں بعض غلام بھی تھے ابوسفیان کے خلاف کچھ باتیں کہیں۔ جب یہ باتیں ہو رہی تھیں تو حضرت ابوبکرؓ کہیں پاس سے گزر رہے تھے وہ باتیں سن کر کھڑے ہوگئے اور ان لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا تم لوگ جانتے نہیں یہ شخص( ابوسفیان) مکہ کا بہت بڑا رئیس ہے۔ اس کے بعد اس خیال سے کہ مدینہ والوں کی باتوں کی وجہ سے ابوسفیان کی دل شکنی نہ ہو اور یہ باتیں سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ناراض نہ ہو جائیں حضرت ابوبکرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں فلاں جگہ سے گزر رہا تھا تو میں نے سنا کہ فلاں فلاں ابتدائی ایمان لانے والوں نے (حضرت ابوبکرؓ نے چندغلاموںکا نام لیا) ابو سفیان کے متعلق بعض سخت الفاظ کہے ہیں حضرت ابوبکرؓ کا تو یہ خیال تھاکہ آپ ان ہتک کرنے والوں کو ڈانٹیں گے مگر آپ کے چہرے پر ناراضگی کے آثار پیدا ہوئے اور آپ نے فرمایا ابوبکر! اگر تم نے کوئی بات کہہ کر اُن کا دل دُکھایا ہے تو تم نے ان کا دل نہیں دکھایا بلکہ خدا تعالیٰ کا دل دُکھایا ہے اور اگر وہ تم پر نارض ہیں تو خدا تعالیٰ بھی تم پر ناراض ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اُسی وقت اُٹھ کر اس مجلس میں گئے اور ان لوگوں سے پوچھا کہ آپ مجھ پر ناراض تو نہیں ہیں؟ اور جب انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں ناراضگی کی کیا بات ہے تو حضرت ابوبکرؓ کو تسلی ہوئی۔۲۵؎
غرض محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کی وجہ سے غلام غلام نہ رہے تھے بلکہ وہ دوسرے رؤساء سے بھی بڑھ کر معزز اور مکرم ہوگئے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو وہ اعزاز بخشا جو عرب کے بڑے بڑے رؤساء کو بھی حاصل نہ تھا۔ جب فتح مکہ کے وقت آپ شہر میں داخل ہوئے تو آپ نے فرمایا جو شخص خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے گا اسے پناہ دی جائے گی، جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اسے بھی امن دیا جائے گا پھر آپ نے اسلامی جھنڈا ایک شخص کے ہاتھ میں دے کر فرمایا یہ بلالؓ کا جھنڈا ہے جو شخص بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے آجائے گا اُس کو بھی امن دیا جائے گا۔۲۶؎ یہ وہی بلالؓ تھا جسے وہ لوگ تپتی ہوئی ریت پر لٹا یا کرتے تھے، جسے مکہ کے پتھریلے میدان میںگرم پتھروں پر ننگا کر کے لٹا دیتے تھے اور سنیے پر پتھر رکھ دیتے تھے، جسے وہ لوگ ٹانگوں میں رسہ ڈال کر شہر کے شریراور اوباش نوجوان اور بچوں کے حوالے کر دیا کرتے تھے اور وہ ان کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹا کرتے تھے، یہ وہی بلال تھے جہنیں مکہ کے لوگ حبشی غلام ہونے کی وجہ سے سخت ذلیل سمجھا کرتے تھے مگر اب اسلام میں داخل ہو جانے کی وجہ سے بلالؓ کو وہ مقام اور رُتبہ حاصل ہوا کہ وہی بلالؓ کو ذلیل سمجھنے والے لوگ اس طرح امان پا سکتے تھے کہ وہ بلال کے جھنڈے کے نیچے آجائیں۔ پس جب طائف کی بستی والوں نے کہا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کو تیار نہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجا بلکہ یونس بن متیٰ پر ایمان لانے والا ایک شخص آپ کو دے دیا اور اس نے آپ کوہی انگور نہ کھلائے بلکہ خود بھی آپ سے روحانی انگور کھاکر واپس ہوا ۔اُس وقت عرش پر خدا تعالیٰ کہہ رہا تھا اے محمد! تو یہ خیال کر رہا تھاکہ اِس سفر میں توحید کے ماننے والوں میں اضافہ نہیںہوا مگرکیا ہم نے تجھے ایک مخلص اور باوفا آدمی دیا یا نہیں دیا۔
اس کے بعد ایک اور شاندار نظارہ ہمیں نظرآتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس باغ میں تھوڑی دیر تک آرام فرمانے کے بعدوہاں سے روانہ ہوئے اور نخلہ میں پہنچے جو مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ وہاں کچھ دن قیام کرنے کے بعد آپ نے مکہ جانے کا ارادہ کیامگر مکہ والوں کا یہ قانون تھا کہ ایک دفعہ جو شخص شہر کو چھوڑ جاتا تھا اُس کے شہریت کے حقوق بھی جاتے رہتے تھے۔ یعنی جب تک کوئی شخص مکہ کو چھوڑ کرنہیںجاتا تھا اسے سیٹزن (Citizen) یعنی شہریت کے حقوق حاصل ہوتے تھے مگر شہر کو ایک دفعہ چھوڑ جانے کے بعد جبکہ شہر کے لوگ اس سے ناراض ہوں اُس کے وہ حقوق چھن جاتے تھے اور دوبارہ اُس شہر میں آنے پر وہ حقوق اُسے اس وقت تک نہ مل سکتے تھے جب تک قانون اُسے اِس کی اجازت نہ دے اور وہ قانون یہ تھا کہ شہر کا کوئی رئیس اُسے اپنی حفاظت میںلے لے۔ چنانچہ آپ نے اِس قانون پر عمل کیا اور حضرت زیدؓ کو مکہ کے ایک رئیس مطعم بن عدی کے پاس بھیجا اور کہلا بھیجا کہ میں مکہ میں دوبارہ داخل ہونا چاہتاہوں کیا تم اس کام میں میری مدد کر سکتے ہو؟ آپ نے کسی ایسے شخص کو پیغام نہ بھیجا جو مخالفت میں پُر جوش نہ تھا بلکہ اس شخص کو پیغام بھیجا جو اسلام کا اشد ترین مخالف تھا اگر کوئی مرنجان مرنج آدمی ہوتا تو لوگ سمجھتے کہ وہ نرم دل آدمی تھا اس لئے اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حفاظت میں لے کر مکہ میں داخل کر لیا مگر مطعم بن عدی اسلام کا سخت مخالف تھا مگر ساتھ ہی یہ بات بھی تھی کہ ایسے حالات میں پناہ دینے سے انکار کرنا شرفائے عرب کی فطرت کے خلاف تھا چنانچہ جب حضرت زیدؓ نے مطعم بن عدی سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری طرف پیغام بھیجا ہے کہ کیا تم مجھے اپنی حفاظت میں لے کر مجھے شہری حقوق دلاسکتے ہو؟ تو وہ بِلاحیل و حجت کھڑاہوگیا اور اس نے اپنے تمام بیٹوں کو جمع کیا اور وہ سب مسلح ہو کر خانہ کعبہ کے پاس کھڑے ہوگئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا کہ آپ آجائیں۔ آپ تشریف لائے اور پہلے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور پھر وہاں سے مطعم بن عدی اور اس کے بیٹو ں کی تلواروں کے سایہ میں اپنے گھر میں داخل ہوگئے۔ اس موقع پر مطعم بن عدی نے اپنے بیٹوں سے کہا یاد رکھو جب تک تمہارے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو جائیں محمدﷺکو کسی قسم کی گزند نہ پہنچنے پائے ساتھ ہی اُس نے مکہ میں اعلان کر دیا کہ میں محمدﷺ کو شہری حقوق دیتا ہوں پس جس وقت شہری حقوق کا سوال آیا اور مکہ والے نہ چاہتے تھے کہ آپ دوبارہ شہر میں داخل ہوں اُس وقت خدا تعالیٰ نے ایک شدید ترین دشمن کے ذریعہ آپ کو مکہ میں داخل کیا اور بتا دیا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہوں؟
(الفضل ۲۳؍ اگست ۵،۷،۸،۹،۱۳،۱۴،۱۶،۱۷،۱۸؍ نومبر ۱۹۶۱ء)
۱؎ الزمر: ۳۷
۲؎ تذکرہ صفحہ۲۵۔ ایڈیشن چہارم
۳؎ زبور باب ۱۱۸ آیت۲۲۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۴؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۱۷۱ تا ۱۷۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۵؎
۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۲۰۰۔۲۰۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۷؎ القصص: ۱۵ ۸؎ الاحقاف: ۱۶ ۹؎ العلق: ۲ تا۶
۱۰؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی (الخ)
۱۱؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۲۶۲ تا ۲۶۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۲؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۲۶۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۳۳۹۔۳۴۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۴؎ بخاری کتاب مناقب الانصار باب ہجرۃ النبیﷺ و اصحابہ (الخ)
۱۵؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۳۱۱۔۳۱۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۶؎
۱۷؎ طٰہٰ: ۱۵
۱۸؎ السیرۃ الحلبیۃ الجزء الاوّل صفحہ۳۶۸۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء
۱۹؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۲۸۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۰؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۱ صفحہ۳۸۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء
۲۱؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۶،۱۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۲؎ مسلم کتاب الجہاد باب مالقی النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اذی (الخ)
۲۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۶۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۴؎ اسد الغابۃ جلد۲ صفحہ۳۷۲ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ
۲۵؎
۲۶؎
۲۷؎ طبقات ابن سعد جلد۱ صفحہ۲۱۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء
الفضل کے اداریہ جات
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سیاستِ حاضرہ
اِس وقت مُلک میں سیاست کا دور دورہ ہے۔ ’’ہندوستان آزاد ہو کر رہے گا‘‘ کے ہندوستانی نعرہ کی جگہ اب برطانوی حُکّام یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ہندوستان کو آزادی دے کر رہیں گے لیکن ہندوستانی ہیں کہ آزادی لینے کا نام نہیں لیتے۔ ہر اک انگریزوں کی طرف دیکھ کر آنکھیں مار رہا ہے کہ میرے دوست یہ خمر لطیف میری جھولی میں پھینکو۔ ہندوؤں کے ظلموں کو دیکھ کر مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا غرض یہ تھی کہ اگر ایک حصۂ مُلک میں ہندو ثقافت کو ترقی کا موقع ملے تو دوسرے میں مسلمان بھی اپنے دل کا جوش نکال لیں۔ پہلے تو اس نعرہ پاکستان کا مقابلہ کانگرس نے اکھنڈ ہندوستان کے ریزولیوشنوں سے کیا لیکن جب دیکھا کہ مسلمانوں کی دلیلیں غیر جانبدار طبقہ پر اثر کر رہی ہیں تو پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا مطالبہ کر دیا جو اکھنڈ ہندوستان کیلئے جان دے رہے تھے۔ ا ب کھنڈے ہوئے پنجاب اور بنگال کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ گاندھی جی کبھی کبھی اکھنڈ ہندوستان کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن دو دلی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک آنکھ سے ایک طرف دیکھتے ہیں تو دوسری سے دوسری طرف۔ اگر اکھنڈ کی آواز میں ہندوجاتی کا زیادہ فائدہ نظر آیا تو وہ اس پر زور دے دیں گے اور اگر کھنڈے ہوئے پنجاب اور بنگال میں ہندو برادری کی جھولی بھری گئی تو وہ اسی کی تائید کر دیں گے۔ بہرحال ان کی حالت اب تک گومگو کی سی ہے باقی کانگرس فیصلہ کر چکی ہے کہ پاکستان کا ہوّا تجویز کرنے والوں کیلئے تقسیم بنگال اور تقسیم پنجاب کے دو ہوّے پیش کر دیئے جائیں کہ مسلمان ڈر کر لوٹ آئیں۔
اب مسلمان گومگو کی حالت میں ہے پنجاب کے اکثر مسلمان تو آنکھیں بند کر کے نعرے لگا رہے ہیں کہ ہم پنجاب کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ بنگال والے ذرا غیر فوجی واقع ہوئے ہیں انہوں نے تو جھٹ سرت بوس اور ان کے ساتھیوں کی دست بوسی شروع کر دی ہے اور ایک بنگال اور آزاد بنگال کی دو کاکلوں ۱؎سے ہندوؤں کو بظاہر شکار کرنا شروع کر دیا ہے مگر حقیقت میں خود شکار ہو رہے ہیں اور کشتی کو منجھدار ۲؎ میں ڈبونے کے لئے تیار ہیں۔ مسلمانوں پر اللہ ہی رحم کرے۔ کوئی نہیں سوچتاکہ اس تقسیم کا سوال اُٹھایا ہی کیوں گیا تھا۔ تقسیم ہند کے مطالبہ کی اصل وجہ یہ تھی کہ مُلک کے ایک حصہ میں جہاں مسلمان زیادہ ہیں مسلمانوں کو اپنی تہذیب کے قوانین کے مطابق بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا موقع مل جائے۔ بے شک جو مسلمان ہندو اکثریت کے صوبوں میں رہ جاتے تھے اُنہیں یہ کہہ کر تسلی دلائی جاتی تھی کہ چونکہ اسلامی علاقوں میں ہندو بھی موجود ہونگے اس لئے ان کے خیال سے آپ لوگوں کو ہندو تکلیف نہ دیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ مقصد ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔ اصل مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں کچھ علاقہ میں مسلمان اپنی مخصوص تہذیب اور قومیت کی بناء پر ترقی کر سکیں قطع نظر اس کے کہ کس قدر حصہ مُلک کا مسلمانوں کے قبضہ میں آئے۔ یہ مقصد ہر ایک ایسی اسلامی حکومت کے ذریعہ سے پورا ہو سکتا ہے جو اپنی ذات میں اپنی خود مختارانہ حیثیت کو قائم رکھ سکے۔ پس یہ بحث اصل مدعا سے دور کا بھی تعلق نہیں رکھتی کہ پنجاب کا کتنا حصہ اسلامی حکومت میں آنا چاہئے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کتنا حصہ اسلامی حکومت میں آ سکتا ہے اور جو آسکتا ہے کیا وہ ایک آزاد اور خود مختار حیثیت سے اپنے آپ کو قائم رکھ سکتاہے؟
سکھوں، ہندوؤں کا یہ مطالبہ ہے کہ جس حصہ میں وہ زیادہ ہیں وہ حصہ باقی پنجاب سے الگ کر دیا جائے۔ یہ مطالبہ اُن کا اِس لئے نہیں کہ وہ پنجاب کے اِس حصہ میں الگ حکومت چاہتے ہیں۔ یہ مطالبہ اِس لئے ہے کہ تا اِس مطالبہ سے ڈر کر مسلمان ہندوستان سے الگ ہونے کا مطالبہ ترک کر دیں گو یہ مطالبہ اصولی طور پر درست نہیں۔ مسلمانوں کا مطالبہ پنجاب بنگال وغیرہ صوبوں میں علیحدہ حکومت قائم کرنے کا اِس دلیل پر نہ تھا کہ ان کے ہر حصہ میں مسلمان زیادہ ہیں بلکہ اِس مطالبہ کی بنیاد یہ تھی کہ اگر سارے ہندوستان میں ہندو تہذیب، ہندو زبان، ہندو تمدن کے بڑھنے کے مواقع پیدا کئے جائیں گے تو ہندوستان کے ایک حصہ میں مسلمانوں کے تمدن اور اِن کی زبان اور اِن کی تہذیب کے بڑھنے کا بھی موقع پیدا ہونا چاہئے۔اگر مسلمانوںکا یہ مطالبہ غلط ہے تو تقسیم ہندوستان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ان کے اس مطالبہ کو صحیح تسلیم کر کے ہندوستان کا تقسیم کا فیصلہ کیا جائے تو تقسیم بنگال یا تقسیم پنجاب کا سوال خارج از بحث ہو جاتا ہے مگر یہ بات کون سمجھائے اور کس کو سمجھائے۔ یہاں تو جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا معاملہ ہے بلکہ آجکل تو لاٹھی بھی اُسی کے ہاتھ میں جس کے ہاتھ میں بھینس۔ مسلمان کی کھوپری لاٹھی کے لئے وقف ہے اور اس کا پیٹ بھینس کے سینگوں کیلئے۔
اِس وقت دنیا یا کہو برطانیہ سکھ ہندو کے مطالبہ کو اس نظر سے دیکھ رہی ہے کہ جہاں سکھوں، ہندوؤں کی اکثریت ہے وہاں انہیں کیوں آزاد نہ کیا جائے میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ یہ دلیل غلط ہے لیکن ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ سرِدست انگریز نے کرنا ہے۔ میں نے یا آپ نے نہیں کرنا بعد میں طاقت پکڑ کر کوئی قوم تبدیلی کرے تو کرلے۔ سرِدست تو کفگیر ۳؎ انگیریزکے ہاتھ میں ہے اور کاسۂ گدائی ہندوستانی کے۔ اگر تقسیم پنجاب اور تقسیم بنگال کا یہ نیا فلسفہ انگریز کی سمجھ میں آ گیا ہے، خواہ غلط طور پر ہی آیا ہو تو اس کا علاج ’’میں نہ مانوں‘‘ سے نہ ہو سکے گا اس کا علاج تدبیر سے ہی ہوگا اور وہ تدبیر کم سے کم پنجاب کی تقسیم کے متعلق موجود ہے۔
پنجاب کی تقسیم کا خیال انگریز کو ہندو کی وجہ سے نہیں بلکہ سکھ کی وجہ سے ہے۔ ہندو اس وقت سکھوں کو آگے کر کے اپنا کام نکال رہا ہے اور سکھوں کو جو نقصان تقسیم پنجاب کی وجہ سے ہوگا اس کا یہ علاج بتا رہا ہے کہ مرکزی پنجاب میں اسے ایک نیم آزاد حکومت مل جائے گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وسطی پنجاب میں سکھ دوسرے علاقوں سے زیادہ ہیں لیکن کسی ایک جگہ بھی وہ ساری قوموں سے زیادہ نہیں اس لئے یہ دعوے اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتے لیکن حکومت کی لالچ بُری شَے ہے۔ یہ سوچنے سے انسان کو عاری کر دیتی ہے اور اس وقت سکھ بھی اس خیالی پلاؤ کے فریب میں آ کر چٹخارے مار رہے ہیں۔ انگریز کہتا ہے کہ اگر میں مسلمان کا مطالبہ مانوں تو ہندو سکھ کا کیوں نہ مانوں۔ مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسی دلیل پیش کرے جسے غیرجانبدار لوگ آسانی سے سمجھ سکیں اور آبادی کی زیادتی وجہ تقسیم نہ قرار پائے۔ ہمارے اتنا کہہ دینے سے کہ ہم تقسیم نہ ہونے دیں گے کچھ نہ بنے گا۔ صرف عقلمندانہ تدبیر ہی اس جگہ کام دے سکتی ہے اور وہ تدبیر یہ ہے کہ ہم مطالبہ کریں کہ اوّل تو ہم تقسیم کے قائل ہی نہیں۔ ہمارا پنجاب کی علیحدگی کا مطالبہ صرف اکثریت کی بناء پر نہ تھا بلکہ اس کی بناء اور امور پر تھی لیکن اگر انگریز اس امر کو نہیں مانتا تو پھر ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ لاہور، ملتان، راولپنڈی کی کمشنریاں اسلامی حکومت میں رہنی چاہئیں۔ اس کا جواب سکھ یہ دیں گے کہ امرتسر میں سکھوں کی زیادتی ہے اس لئے امرتسر کا علاقہ ہندو علاقہ میں جانا چاہئے۔ اگر وہ اس دلیل پر زور دیں تو ہمیں اسے بھی مان لینا چاہئے مگر یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ اس دلیل کے مطابق تحصیل اجنالہ، تحصیل فیروز پور، تحصیل زیرہ، تحصیل جالندھر، تحصیل نکودر مسلمان علاقہ میں ملانی چاہئیں۔ اِسی طرح چونکہ تحصیل ہوشیارپور اور تحصیل دسوہہ میں ہندوؤں اور سکھوںسے مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے ان کو بھی اسلامی علاقہ میں ملانا چاہئے۔ اگر ہندو، سکھ دعویٰ کریں کہ ان علاقوں کی اچھوت آبادی ان کے ساتھ ہے تو ان کی رائے شماری کر لی جائے۔ بظاہر رائے شماری پر اچھوت سب کے سب یا نصف تو ضرور مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو مغربی پنجاب کے ساتھ اجنالہ، فیروزپور، زیرہ، جالندھر، نکودر، ہوشیار پور اور دسوہہ کو بھی ملانا ہوگا۔ جس کے یہ معنی ہوں گے کہ چھ سکھ ضلعوں میں سے گورداسپور تو پہلے ہی مسلم اکثریت کی وجہ سے نکل چکا ہوگا۔ باقی پانچ میں سے قریباً دو ضلعے اس تدبیر سے نکل جائیں گے اور تین ضلعے صرف سکھوںکے لئے رہ جائیں گے اور ان میں سے ہر ایک میں سوائے لدھیانہ کے اسلامی حکومت کا علاقہ گھسا ہوا ہوگا۔ سکھ کسی صورت میں اسے قبول نہیں کریں گے۔ پس سکھوں کی سیاسی حالت یہ رہ جائے گی کہ وہ ضلع امرتسر کو چھوڑ دیں یا امرتسر کی دو تحصیلوں کے بدلہ میں اپنے علاقہ کی چھ تحصیلیں چھوڑ دیں۔ یہ دونوں صورتیں سکھوں کی اس خواب کو پریشان کر دیتی ہیں جو اِس وقت ہندو مسمریزم انہیں دکھا رہا ہے۔ اوّل تو وہ ان دو باتوں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں مان سکتے۔ اگر مانیں گے تو ایک دو سال میں ہی پھر مغربی ہندوستان میں ملنے کی خواہش ان کے دل میں پیدا ہو جائے گی اور ہندوسکھ اتحاد کی قلعی ان پر کھل جائے گی۔ یہ تدبیر مسلمانوں کی ایسی ہوگی کہ انگریز عقلاً اسے ردّ نہیں کر سکے گا نہ دوسرا فریق اِس کو قبول کر سکے گا۔ پس سکھ جلد ہی اِس بات کو سمجھ جائیں گے کہ اُن کا فائدہ مسلمانوں سے ملنے میں ہے جن کے مُلک میں وہ چودہ فی صدی ہیں نہ کہ ہندوؤں کے ساتھ ملنے میں جن کے علاقہ میں وہ ایک فی صدی ہیں اور یہ تبدیلی رائے ان کے آپس کے اختلاف کو دور کر کے باہمی دوستی کے سامان پیدا کر دے گی۔(الفضل قادیان ۲؍ جون ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
قومیں اخلاق سے بنتی ہیں
مسلمانوں کو اِس وقت اخلاق کی سخت ضرورت ہے
پاکستان اور ہندوستان کی دو الگ الگ گورنمنٹیں بننے پر سابق نظامِ حکومت چونکہ درہم برہم ہو گیا اس لئے ہر چیز کو اُٹھا کر نئے سرے سے دوسری جگہ رکھا جا رہا ہے۔ ہندو چونکہ پہلے سے ملازمتوں میں زیادہ تھے ہندوستان یونین کے محکموں میں اتنی ابتری پیدا نہیں ہوئی لیکن پاکستان گورنمنٹ کے محکموں میں بہت زیادہ ابتری پیدا ہوگئی ہے اس لئے کہ ہر محکمہ کے لئے کافی آدمی مہیا نہیں ہو رہے اور اس وجہ سے جس کام کے لئے دس آدمی چاہئیں پانچ میسر آتے ہیں۔ یہ خرابی اِس وجہ سے اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ ابھی بہت سے مسلمان ملازم مشرقی پنجاب اور باقی ہندوستان میں رُکے پڑے ہیں۔ اُن کو ابھی تک مشرقی یا مغربی پاکستان میں پہنچایا نہیں جا سکا۔ اگر وہ آ بھی جائیں تب بھی پاکستان کے تجربہ کار کارکنوں میں بہت بڑی کمی رہ جائے گی لیکن ان کے نہ پہنچنے کی وجہ سے تو بہت زیادہ کمی واقعہ ہوگئی ہے اِس کا علاج حکومت کے پاس کوئی نہیں۔ اس کا علاج خود مسلمان ملازموں کے ہاتھ میں ہے۔ آج ہر مسلمان کو چھ گھنٹے کی بجائے دس یا بارہ گھنٹے دفتر میں کام کرنا چاہئے اور ایک ایک منٹ کو ضائع ہونے سے بچانا چاہئے لیکن مختلف دفاتر سے جو شکایتیں ہمیں پہنچ رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جس محکمہ میں دس آدمیوں کی ضرورت ہے اور وہاں پانچ کام کر رہے ہیں وہ پانچ آدمی بجائے دس یا بارہ کا کام کرنے کے اپنا سارا دن ان شکایتوں میں ضائع کر دیتے ہیں کہ ہم پانچ آدمی دس کا کام کس طرح کریں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کام پانچ کا بھی نہیں ہو تا۔ صفر کے برابر رہ جاتا ہے اس مرض کو جلد سے جلد دور کرنا چاہئے۔ ہر پاکستانی ملازم کو سمجھنا چاہئے کہ حکومت کا استحکام اس کی کوششوں پر منحصر ہے۔ ہر پاکستانی ملازم کو یہ محسوس ہونا چاہئے کہ وہ پاکستانی عمارت کا ایک ستون ہے جس کی کمزوری سے عمارت میں کمزوری واقع ہو جائے گی بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ہر پاکستانی ملازم کو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ پاکستانی حکومت کو قائم کرنے کی ذمہ داری صرف اُس پر ہے اور وہ اِس کے لئے خدا اور اُس کے رسول کے سامنے جواب دہ ہے۔ جب یہ روح پاکستانی ملازموں میں پیدا ہو جائے گی تو یقینا اس بھنور میں پھنسی ہوئی کشتی کو کنارے تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائیںگے۔ پاکستان کے ملازموں پر دو ذمہ داریاں ہیں ایک اچھے شہری کی ذمہ داری جو یونائٹیڈ سٹیٹس امریکہ، انگلستان، روس اور دوسری مہذب گورنمنٹوںکے شہری ادا کر رہے ہیں اور ایک ملت اسلامیہ کی ذمہ داری جو ایک اچھے شہری کی ذمہ داری کے علاوہ ہے۔ ایک یونائٹیڈ سٹیٹس امریکہ کا شہری جو روز خرچ کرتا ہے صرف اس لئے خرچ کرتا ہے کہ اس کی حکومت مضبوط ہو جائے اور باعزت زندگی بسرکر سکے۔ ایک انگلستان کا شہری یا ایک روس کا شہری جتنا زور اپنی حکومت کے استحکام میں لگاتا ہے وہ صرف اس کے اچھے شہری کی ذمہ داری تک محدود ہوتا ہے لیکن پاکستان کے ہر شہری پر اور اس کے ہر کارکن پر دو ذمہ داریاں ہیں اس نے اپنی حکومت کو بھی مضبوط کرنا ہے اور اس نے اسلام کے بچے کھچے آثار کو بھی محفوظ رکھنا ہے۔ پس یورپ اور امریکہ کے اچھے شہریوں کی نسبت اس کی ذمہ داریاں دُگنی ہیں اور اس کو یورپ اور امریکہ کے اچھے شہریوں سے بھی دُگنی محنت کرنی چاہئے۔ اگر اس ذمہ داری کا احساس نہ کیا گیا تو آنے والے خطرات کا مقابلہ پاکستان نہیں کر سکے گا لیکن اگر ان ذمہ داریوں کا احساس کیا گیا تو یقینا پاکستان محفوظ رہے گا اور وہ طاقت پکڑتا چلا جائے گا۔
ہمیں یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ ہمارا مُلک انگلستان سے بہت بڑا ہے اور صرف مشرقی پاکستان کی آبادی انگلستان کی آبادی کے قریباً برابر ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پچھلے دو سَو سال میں انگلستان نے جو شوکت حاصل کی وہ صرف مشرقی پاکستان کے افراد کی بدولت پاکستان حاصل نہ کرسکے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اس کی ساری ذمہ داری پاکستان کے کارکنوں پر ہوگی اور صرف اس وجہ سے اس میں ناکامی ہوگی کہ انہوں نے اپنے فرائض کو پوری طرح ادا نہ کیا۔ آج پاکستان کے ہر کلرک، ہر منشی، ہر چپڑاسی، ہر افسر، ہر ماتحت کو اپنے سابقہ احساسات دل سے یکدم نکال دینے چاہئیں۔ پہلے وہ کلرک تھا، منشی تھا، چپڑاسی تھا، دفتری تھا، افسر تھا یا ماتحت تھا اب وہ ایک عظیم الشان آزاد حکومت کا بانی ہے۔ اگر وہ چاہے تو وہ ایک ایسی عمارت تیار کر سکتا ہے جو تاج محل سے بھی زیادہ شاندار ہو۔ اِس کی قربانیاں اگر انسانوں کی نظر سے پوشیدہ رہیں گی تو خدا تعالیٰ کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہیں گی۔ انگلستان، فرانس اور امریکہ نے گزشتہ جنگوں میں اپنے سپاہیوں کا حوصلہ صرف اس تدبیر سے بڑھا دیا کہ جنگ کے بعد ایک غیرمعروف سپاہی کی لاش کو ایک قومی یادگار کا رُتبہ دے دیا جائے گا۔ ایک غیر معروف سپاہی کی یادگار بنانے کا اعلان اگر سارے سپاہیوں میں ایک زندگی کی روح پیدا کر سکتا ہے اور موت کو ان کی آنکھوں میں حقیر بنا کر دکھا سکتا ہے تو کیا پاکستان کا ہر کارکن اپنے نفس کو یہ کہہ کر بلند نہیں کر سکتا کہ میرا کام خواہ دنیا کی نظروں میںنہ آئے لیکن میرے کام کی وجہ سے جب پاکستان کی بنیادیں مضبوط ہو جائیں گی تو یقینا میرا کام قیامت تک مسلمانوں کی نظروں میں رہے گا اور خواہ وہ میرا نام نہ جانتے ہوں مگر ہر کامیابی کے موقع پر اُن کے دلوںمیں یہ دعا نکلے گی کہ خدا اس کا بھلا کرے جس نے پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط کیا تھا۔
پس اے عزیزو! اپنے وقت کو رائیگاں ہونے سے بچاؤ، لغو بحثیں اور فضول گفتگوئیں دوسروں پر چھوڑ دو۔ ہر دفتر کو مضبوط بنا دو ایسا مضبوط کہ آج کا کوئی کام کل پر نہ پڑے بلکہ کل کا کام بھی آج ہی کیاجائے۔ نظام کو توڑنے کی بجائے اُس کو مضبوط کرو کہ کوئی دفتر نظام کے بغیر چل نہیں سکتا۔ نظام شکایتوں سے نہیں بنا کرے، قربانیوں سے بنا کرتے ہیں۔ اگر کوئی افسر تمہاری حق تلفی کرے گاتو تمہاری نظام کی پابندی خود اس کی بددیانتی کو آشکارا کر دے گی اور تمہارے اچھا کام کرنے سے بُرا کام کرنے والے افسروں کی حقیقت آپ دنیا پر روشن ہو جائے گی۔ نیکی آخر دنیا میں غالب آتی ہے، قربانی آخر لوگوں کی توجہ کو کھینچ لیتی ہے۔ اگر ماتحت عملہ دیانتداری پر قائم ہو جائے گا تو افسر بھی دیانتداری پر مجبور ہو جائے گا۔ بددیانت افسر بددیانت ماتحتوں کے ذریعہ سے ہی حکومت کرتے ہیں۔ اگر ماتحت دیانتدار ہو جائیں تو بددیانت افسر یا اپنا روّیہ بدلنے پر مجبور ہو جاتا ہے یا پھر ذلیل ہو کر نکل جاتا ہے۔ مگر یہ طریق بھی غلط ہے کہ افسر کو ہمیشہ ذلیل سمجھا جائے۔ دیانتدار عنصر ہر گروہ اور ہر گروپ میں ملتا ہے۔ پس جہاں دیانتداری پائی جائے اس کی قدر کرو اور صرف کسی شخص کے دوسرے گروپ میں شامل ہونے کی وجہ سے اس کی حقارت نہ کرو، اس کے کام کی تذلیل نہ کرو، جو افسروں میں دیانتدار ہیں وہ بھی عزت کے قابل ہیں اور جو ماتحتوں میں دیانتدار ہیں وہ بھی قوم کے سردار ہیں۔ اپنے عمل سے ان کو شرمندہ کرو جو دیانتدار نہیں اور اپنے عمل سے ان کو تقویت دو جو دیانتدار ہیں تا کہ پاکستان کا ہر محکمہ اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کرنے لگ جائے۔ ہم پاکستان کے ہر شہری سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ اِسے اِس کام میں پاکستان کی حکومت کی مدد کرنی چاہئے۔ آخر یہ افسر اور کلرک آپ کے بھائی بند ہیں۔ آپ کا بھی فرض ہے کہ اِن کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلائیں۔ ان کی کوتاہیاں آخر آپ کے لئے بھی تباہی کا موجب ہونگی اور اِن کی فرض شناسی آپ کی عزت اور آپ کی حفاظت کا موجب بنے گی۔
پس اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں اور دوستوں کو جو سرکاری محکموں میں ہیں ان کے فرض کی طرف توجہ دلاؤ اور ان سے ایسے کام کروانے کی ہرگز کوشش نہ کرو جن سے ان پر رعایت کا الزام لگے اور وہ بددیانتی کے مرتکب ہوں۔ اس صورت میں آپ ایک پیسے کا فائدہ تو اُٹھائیں گے لیکن ہزاروں ہزار کا نقصان کر دیں گے۔ وہی شہری دنیا میںعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جس کی حکومت مضبوط، مستحکم اور دیانتدار ہو۔ چین کی آبادی چالیس کروڑ ہے لیکن اس کے شہری کو وہ عزت حاصل نہیں جو انگلستان، آسٹریلیا، کینیڈا اور یونائٹیڈ سٹیٹس امریکہ کے شہری کو حاصل ہے اس لئے کہ یہ مُلک گو چھوٹے ہیں مگر ان کی حکومتیں مستحکم اور مضبوط ہیں اور حکومتیں اِسی لئے مستحکم اور مضبوط ہیں کہ اِن کے کارکن دیانتدار اور محنتی ہیں۔ پس ہر شخص کو چاہئے کہ وہ سارا زور استعمال کر کے حکومت کے محکموں کو دیانتدار بنائے۔ اور دیانتداری کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ صرف تمہارا حق ادا ہو بلکہ دیانتداری کے یہ معنی ہیں کہ ہر شخص کا حق ادا ہو۔ یہ دیانتداری نہیں کہ آپ لوگ اس کی تعریف کریں جس نے آپ کا حق ادا کر دیا یا جس سے آپ اپنا حق کسی لحاظ سے ادا کروا سکیں۔ دیانتداری یہ ہے کہ قطع نظر کسی تعلق اور رعایت کے ہر پاکستان کے شہری کا حق ادا کیا جائے خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، امیر ہو یا غریب۔ اور پاکستان کا ہر کارکن محنت کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرے یہاں تک کہ اگر اسے اپنے مقررہ وقت سے دوگنا وقت بھی دفتر میں صرف کرنا پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے۔ اگر پاکستان کے کارکن اس معیارِ اخلاق پر قائم ہو جائیں اور اگر پاکستان کا ہر شہری اپنا حق لینے کی بجائے اپنے عزیزوں اور دوستوں کو جو مختلف دفاتر میں کام کر رہے ہیں اس امر کی طرف توجہ دلائے کہ محنت سے کام کرو، دیانت سے کام کرو، بنی نوع انسان کی ہمدردی کے جذبہ سے کام کرو، پاکستان کو دنیا کی حکومتوں میں ایک معزز جگہ دلانے کی نیت سے کام کرو تو یقینا نتائج شاندار ہونگے۔ ہمارے زخم مندمل ہو جائیں گے، ہمارے نقصانات خدا تعالیٰ دوسرے ذرائع سے پورے کر دیگا اور ان لاکھوں مسلمان مظلوموں کے دل کی آگیں بجھ جائیں گی جن کو اس تغیر کی وجہ سے ایسا نقصان پہنچا ہے کہ سینکڑوں سالوں میں بھی دوسری قوموں کے افراد کو نہیں پہنچا۔
(الفضل لاہور ۲؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مشرقی اور مغربی پنجاب کا تبادلۂ آبادی
ہم شروع سے تبادلۂ آبادی کے خلاف رہے ہیں۔ تبادلۂ آبادی کی وجہ سے جو تباہی اور بربادی آئی ہے اِس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی اور ابھی اس تباہی اور بربادی کا سلسلہ لمبا ہوتا چلا جا رہا ہے اور خدا ہی جانتا ہے کہ کب جا کر ختم ہوگا۔ ہر آدمی جو اِدھر سے اُدھر جاتا ہے وہ حقیقی یا بناوٹی مظالم کی ایک لمبی داستان دوسرے مُلک میں اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور ہر مجلس میں جب وہ ان مظالم کی داستان سناتا ہے تو سامعین کے چہروں کا تأثر اور اُن کی داد اسے اپنی کہانی میں مزید مبالغہ کرنے پر آمادہ کر دیتی ہے یہاں تک کہ ہر نئے شہر اور ہر نئے گاؤں میں اس کی کہانی زیادہ سے زیادہ بھیانک صورت اختیار کرتی چلی جاتی ہے اور ان واقعی یا خیالی داستانوں کا نتیجہ ایک بے انتہاء بغض اور کینہ کی صورت میں لاکھوں آدمیوں کے دلوں میں پیدا ہوتا جاتا ہے جو صرف حال کو ہی مکدر نہیں کرتا بلکہ مستقبل کو بھی بھیانک بناتا چلا جاتا ہے۔ ہمارا تو اب بھی یہی خیال ہے کہ دونوں مُلکوں کی آبادی کو پھر اپنے اپنے گھروں میں بسایا جائے اور اس تبادلۂ آبادی کے سلسلہ کو کلیتًہ روک دیا جائے۔ ہمارے نزدیک یہ اب بھی ممکن ہے بشرطیکہ غیر معمولی جدوجہد اور کوشش سے کام لیا جائے لیکن جب تک خدا تعالیٰـ لیڈروں کے دلوں میں یہ تحریک پیدا نہیں کرتا اور جب تک خدا تعالیـ بھاگنے والوں کے دلوں کو پھر دوبارہ ہمت نہیں بخشتا تب تک مجبوراً دوسری تدبیروں سے کام لینا ہی پڑے گا اور تبادلۂ آبادی کے کام کو کسی بہتر صورت میں سر انجام دینا ہی ہوگا۔ جس وقت تبادلۂ آبادی کا کام شروع ہوا ہے مغربی پنجاب میں غیر مسلم ۳۲ لاکھ کی تعداد میں بستے تھے اور مشرقی پنجاب میں ۴۴ لاکھ مسلمان تھے گویا جب کام شروع ہوا ہے اُسی وقت سے مغربی پنجاب کا کام مشرقی پنجاب کی نسبت زیادہ مشکل تھا۔ دوسری مشکل یہ تھی کہ غیر مسلم اس کام کے لئے پہلے سے تیار تھے اور مسلمان اس کام کیلئے تیار نہیں تھے۔ تیسری مشکل یہ تھی کہ غیر مسلموں کی جائدادوں کا ایک بڑا حصہ سونے اور چاندی اور دوسری قیمتی اشیاء کی صورت میں تھا اور مسلمانوں کی جائداد کا بڑا حصہ زمینوں، مکانوں، مویشیوں اور گھر کے اسباب کی صورت میں تھا۔ ظاہر ہے کہ سونا چاندی اور قیمتی اشیاء بہت تھوڑی سی جدوجہد کے ساتھ ایک طرف سے دوسری طرف منتقل کی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ یہ حصہ مال کا تو پہلے ہی چند دنوں میں سکھ اور ہندو نکال کرلے گئے۔ اس کے بعد چونکہ وہ لوگ پہلے سے تیار تھے انہوں نے اپنے اِردگرد کے مسلمانوںپر حملے کر کے ان کے اموال بھی لُوٹ لئے اور یہ لُوٹا ہوا مال ان ہوائی جہازوں کے ذریعہ سے ہندوستان پہنچانا شروع کیا جو ہندوستان سے مغربی پنجاب کے ہندوؤں اور سکھوں کو نکالنے کے لئے آرہے تھے۔ ان جہازوں میں بِالعموم ہندوؤں اور سکھوں کا اپنا مال نہیں جاتا تھا بلکہ لُوٹا ہوا مال جاتا تھا اپنا مال وہ بعد میں قافلوں کے ذریعہ سے لے گئے اور اس طرح قانونی گرفت سے محفوظ رہے۔
مغربی اور مشرقی پنجاب کے تبادلۂ آبادی کے افسروں میں بھی ایک بہت بڑا فرق تھا مغربی پنجاب کے تبادلۂ آبادی کے افسر انگریز تھے اور ہیں۔ مشرقی پنجاب نے بہت جلد انگریز افسروں کو بدل کر ان کی جگہ ہندو اور سکھ لگا دئیے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ ایک انگریز کو مسلمان کی جان اور مال کی اتنی فکر نہیں جتنی ایک ہندو اور سکھ کو ہندو اور سکھ کے مال اور جان کی فکر ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوؤں اور سکھوں کا خروج بہت جلدی اور بہت عمدگی کے ساتھ ہوتا چلا گیااور مسلمانوں کے اس مُلک کے داخلہ میں مشکلات بھی پیدا ہوئیں اور دیر بھی ہوئی۔ اب یہ حال ہے کہ ۲۲‘۲۷ لاکھ مسلمان مشرقی پنجاب میں پڑا ہے لیکن ہندو اور سکھ مغربی پنجاب میں صرف سات آٹھ لاکھ ہے جس دن یہ سات آٹھ لاکھ ختم ہوگیا مشرقی پنجاب میں باقی رہ جانے والے مسلمانوں کی جانوں کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔ ابھی تو ان سات لاکھ آدمیوں کی حفاظت کے خیال سے مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کی جانوں کی حفاظت بھی بعض افسر کرتے رہتے ہیں۔ جب سب ہندو اور سکھ یہاں سے نکل گئے تو پھر کوئی سیاسی محرک بھی مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی جان بچانے کا باقی نہیں رہے گا۔ پہلے ریلیں چلتی تھیں تاکہ ایک دوسرے کے مُلک کے پناہ گزینوں کو نکال لے جائیں لیکن اب وہ سلسلہ بھی بند ہو رہا ہے۔ اب پیدل قافلے چلتے ہیں مگر مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف مسلمانوں کو منتقل کرنے کے لئے پیدل قافلے بھی اب کم ہی چلتے ہیں بیسیوں جگہیں ایسی ہیں جہاں ہفتوں سے مسلمان پڑے ہیں اور فاقے سے مر رہے ہیں، لوٹے جا رہے ہیں، قتل کئے جا رہے ہیں لیکن ان کے نکالنے کی اب تک کوئی تجویز نہیں کی گئی۔ جالندہر،نکودر،گڑھ شنکر، راہوں،فتح گڑھ چوڑیاں اور قادیان چلّا چلّا کر تھک گئے ہیں لیکن پناہ گزینوں کو نکالنے کے لئے اب تک کوئی انتظام نہیں ہو سکا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کام بہت بڑا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کارکن بہت تھوڑے ہیں اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی گورنمنٹ نے آنے والوں کے بسانے کے متعلق جو کوششیں کی ہیں وہ حیرت انگیز بھی ہیں اور قابلِ قدر بھی لیکن ہمارے نزدیک مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کو نکالنے کی جو تدابیر کی گئی ہیں وہ پوری مؤثر نہیں۔ جب مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب کے درمیان یہ سمجھوتہ ہوا کہ ریفیوجی کیمپ کا بنانا اس مُلک کے اختیار میں ہوگا جس مُلک میں پناہ گزین بیٹھے ہوں گے۔ تو گو یہ معاہدہ مغربی پنجاب کی حکومت نے کسی حکمت کے ماتحت ہی کیا ہوگا اور اس میں کچھ فائدہ ہی اس نے سوچا ہوگا مگر اس دن سے مشرقی پنجاب کے مسلمانوں پر بہت بڑی تباہی آرہی ہے چالیس چالیس، پچاس پچاس ہزار آدمی جن جگہوں پر بیٹھے ہیں ان کو ریفیوجی کیمپ نہیں بنایا جاتا کیونکہ اب مسلمان کے لئے ریفیوجی کیمپ بنانا مشرقی پنجاب کی حکومت کے اختیار میں ہے اور جب مسلمان پناہ گزینوں کے علاقوںکو ریفیوجی کیمپ ہی قرار نہیں دیا جاتا تو اُن کی خوراک کی ذمہ داری بھی مشرقی پنجاب کی حکومت پر عائدنہیں ہوتی۔ اس کی وجہ سے وہ لوگ بھوکوں مر رہے ہیں، وہ گاڑیاں نہیں مانگتے، وہ کچھ اور امداد طلب نہیں کرتے اُن کی فریاد صرف یہی ہے کہ ان کو مشرقی پنجاب سے نکال کر پاکستان کی سرحدوں میں داخل کر دیا جائے۔ یہ بے کس اور بے پناہ ہجوم بعض تو پاکستان کی سرحد کے اتنے قریب بستے ہیں کہ تھوڑی سی جدوجہد سے ان کو نکالا جا سکتا ہے لیکن کوئی نہ کوئی روک ان کو نکالنے میں پیدا ہوتی چلی ہی جاتی ہے۔ ہم مغربی پنجاب کی پاکستانی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ اس امر کی طرف زیادہ توجہ دی جائے ان لوگوں کا لاکھوں روپیہ کا مال لوٹا گیا ہے اور ہر روز ان کی عورتوں کی آبرو ریزی کی جاتی ہے۔ ہماری غیرت اور حمیّت کا تقاضا ہے کہ اور سب کام چھوڑ کر بھی اس کام کو کیا جائے۔ ان لوگوں کے ادھر لانے میں پاکستان کا بھی فائدہ ہے۔ وہ وہاں بے کار بیٹھے ہیں اور ہر روز ان کے مال لوٹے جا رہے ہیں اگر وہ کچھ مال بچاکر لے آئے تو پاکستان کی دولت بڑھے گی اور اگر یہاں آکر انہوں نے مختلف کام شروع کر دئیے تو پاکستان کی اقتصادی حالت میں ترقی ہو گی۔ آج پاکستان کی ہر اسلامی انجمن اور ہر اسلامی ادارے کو اس امر پر اپنی توجہ مبذول کر دینی چاہئے۔ اسی طرح ہر با ہمت اور بارسوخ شخص کو ذمہ دار لوگوں کو توجہ دلانے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ وہ بہادراور قربانی کرنے والے افسر جنہوں نے پہلے بھی بہت کچھ کام اس سلسلہ میں کیا ہے انہیں اپنی ہمت کی کمریں کس کر اور بھی زیادہ جوش سے اس کام کو جلد سے جلد پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے خدا کرے کہ ہماری یہ آواز صدا بصحرا ثابت نہ ہو اور لاکھوں مسلمانوں کی جانیں اس تباہی سے بچ جائیں اور اس بلائے عظیم کے آنے سے پہلے جو کہ دمبدم ان کے قریب آرہی ہے وہ پاکستان میں داخل ہو جائیں۔
حال ہی میں ہندوستان یونین کے پرائم منسٹر مسٹر نہرو نے اعلان کیا ہے کہ مغربی پنجاب کے ہندو اور سکھ کو بہت ہی جلد وہاں سے منتقل کر لیا جائے گا لیکن مشرقی پنجاب کے مسلمان کہیں دسمبر تک جا کر پاکستان میں پہنچ سکیں گے ان الفاظ سے ہر مسلمان حقیقت حال کو سمجھ سکتا ہے۔ اگر یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ سارے ہندواور سکھ اکتوبر میں منتقل ہو جائیں گے تو مسلمانوں کو پورے طور پر منتقل ہونے میں نومبر اور دسمبر دو اور مہینے لگیں گے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ان دو مہینوں میں وہ پاکستان کی طرف منتقل ہوں گے۔ غالب خیال یہی ہے کہ وہ اگلے جہان کی طرف منتقل ہوں گے کیونکہ ہندوستان یونین کے لیڈر گو بڑے زور سے امن کے قیام کی اپیلیں کر رہے ہیں اور ہمارے خیال میں کم سے کم ایک حصہ ضرور دیانتداری سے ایسا کر رہا ہے خصوصاًمسٹر نہرو جن کے خیالات نیشنلسٹ ہیں لیکن باوجود ان اپیلوں کے ماتحت عملہ کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ چھوٹے افسر یہ بات برملا کہتے ہوئے سُنے جاتے ہیں کہ مہماتما گاندھی اور مسٹر نہرو کو باتیں کرنے دو ہم نے جو مقصد اپنے سامنے رکھا ہے اسے پورا کر کے چھوڑیں گے۔ پس پیشتر اس کے کہ مغربی پنجاب ہندو اور سکھ سے خالی ہو مشرقی پنجاب کے پناہ گزینوں کو وہاں سے نکال لینا چاہئے کیونکہ وہ اپنے گھروں کو چھوڑ چکے ہیں اور میدانوں میں پڑے ہیں۔ ہمارے نزدیک ان کا واپس مشرقی پنجاب میں جانا تو ضروری ہے لیکن یہ اُسی وقت ہوگا جب وہ یہاں آکر ذرا امن کا سانس لے لیں۔ ہندوستان یونین اور پاکستان کا بامحبت سمجھوتہ ضروری ہے۔ اس کے بغیر ہمارا مُلک ترقی نہیں کر سکتا ہمیں اس کام کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں مُلکوں کے عقلمنداور مدبر آخر اس خیال کے قائل ہو جائیں گے اور سب مل کر ان فتنوں اور فسادوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن جب تک وہ دن آئیں ہمیں اپنے بھائیوں کی جان و مال، عزت اور آبرو کی حفاظت کا خیال کبھی بھی دل سے اوجھل نہ ہونے دینا چاہئے۔ پاکستان کی بنیاد بے غیرتی پر نہیں بلکہ غیرت پر رکھ جانی چاہئے۔
(الفضل لاہور۳ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
پاکستان کی سیاستِ خارجہ
ہم آج ایک ایسے اہم مضمون کی طرف اپنے اہل وطن کی توجہ پھرانا چاہتے ہیں جو پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ پاکستان کی حکومت بالکل نئی نئی بنی ہے اور ابھی اس کے دفاتر کا چارج تجربہ کار آدمیوں کے ہاتھوں میں نہیں اس وجہ سے اس کے کاموں میں بعض دفعہ ایسی خامیاں رہ جاتی ہیں جو پاکستان کی حکومت کی مضبوطی میں خلل ڈالتی ہیں اور ان کا دور کرنا پاکستان کی حکومت کے ثبات کے لئے نہایت ضروری ہے۔ ان خامیوں میں سے ایک ہمارے نزدیک سیاستِ خارجہ کی پالیسی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیاست خارجہ کے دفتر میں ابھی ماہرین فن موجود نہیں اور ایسے آدمیوں کی کمی ہے جو انٹرنیشنل لاء کے جاننے والے ہوں۔ اس وجہ سے پاکستان حکومت اِس وقت ایک لاوارث وجود کی صورت میں نظر آتی ہے۔ کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ جن سے پاکستانی حکومت کے حقوق کو تلف کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کی حکومت کی طرف سے کوئی مؤثر قدم اُٹھانا تو الگ رہا ان کے خلاف پروٹسٹ تک بھی نہیں کیا جاتا حالانکہ اخلاقی اور سیاسی اصول میں فرق ہے۔ حکومت کا کام صرف یہی نہیں ہوتا کہ وہ اخلاقی اصول کی پیروی کرے اس کا کام یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کرے۔ حضرت مسیح ناصری فرماتے ہیں کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دے۔ اگر کوئی تیری چدر مانگے تو اسے کرتہ بھی دے دے اور اگر کوئی تجھے ایک میل تک بیگار لے جائے تو تو دو میل تک اس کے ساتھ چلا جا۔ یہ ایک اخلاقی تعلیم ہے اور بعض حالتوں میں ضروری اور بعض دوسری حالتوں میں مضر۔ اسی لئے اسلام نے اس تعلیم کو تسلیم نہیں کیا بلکہ مختلف حالات میں مختلف قسم کی تعلیم دی ہے لیکن اخلاقی طور پر خواہ یہ تعلیم بعض وقتوں میں مفید اور ضروری بھی ہوتی ہو سیاسیات میں اس پر عمل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سیاسیات کا اصول یہ ہے کہ اگر کوئی قوم اپنے کسی حق کو بغیر احتجاج کے چھوڑدیتی ہے تو بین الاقوامی اصول کے مطابق یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس قوم نے وہ حق ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا ہے اس لئے جب کبھی حکومتوں کے معاملہ میں ایسا واقعہ پیش آتا ہے کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم کا حق تلف کرتی ہے تو خواہ مظلوم قوم اپنا حق زور سے نہ لے۔ خواہ اس کا بدلہ مانگے ہی نہ، وہ قانونی طور پر اپنے نمائندوں کے ذریعہ سے اس کے خلاف احتجاج ضرور کر دیتی ہے تاکہ وہ ظلم آئندہ دوسری قوم کا حق نہ سمجھ لیا جائے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے حقوق پاکستانی حکومت کے تلف ہو رہے ہیں لیکن ان کے خلاف احتجاج بھی نہیں کیا جار ہا۔
ہندوستان اور پاکستان میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ایک دوسرے کے پناہ گزین جب دوسرے مُلک میں جائیں گے تو ان کے سامان کی تلاشی نہیں لی جائے گی۔ اس معاہدہ کے خلاف بعض جگہ پر پاکستان کے افسروں نے پناہ گزینوں کی تلاشیاں لیں اور بعض جگہ پر ہندوستان کے افسروں نے پاکستان کے پناہ گزینوں کی تلاشیاں لیں۔ ہندوستانی یونین نے احتجاج کیا اور پاکستان کے وزیر خارجہ نے اپنے افسروں کو سخت تنبیہہ کی کہ آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہئے اس کے برخلاف ہندوستانی یونین جو حد سے زیادہ تکلیف دینے والی تلاشیاں مسلمان پناہ گزینوں کی لیتی تھی اورلیتی ہے قادیان سے چلنے والے ٹرکوں کی بعض دفعہ چھ چھ گھنٹہ تک متواتر تلاشی لی جاتی رہی ہے اگر آٹھ دس ٹرک کی چھ گھنٹے تک تلاشی لی جائے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ پچاس ساٹھ ہزار کے قافلہ کی دوتین ماہ تک متواتر تلاشی لی جانی چاہئے۔ جالندھر اور لدھیانہ کے مسلمانوں کو بھی اور فیروز پور کے پناہ گزینوں کو بھی اسی طرح دکھ دیا گیا لیکن اس کے متعلق ہمارے علم میں پاکستانی حکومت نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک طرف تو مسلمانوں میں بددِلّی پیدا ہوگی کہ ہمارے حقوق کی حفاظت کا خیال نہیں رکھا جاتا اور دوسری طرف سیاسی طور پر ہندوستانی یونین کو اپنے حقوق منوانے کے متعلق ایک فوقیت حاصل ہو جائے گی۔ یہ خاموشی سیاسی دنیا میں ہرگز اخلاق نہیں کہلائے گی بلکہ کمزوری کہلائے گی اور ہتھیار رکھنے کے مترادف سمجھی جائے گی۔
اسی طرح پاکستانی حکومت اور ہندوستانی یونین میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ایک دوسرے مُلک سے پناہ گزینوں کے لانے کے لئے ٹرکوں کے جو قافلے جائیں گے ان کے کام میں کسی قسم کی رُکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی لیکن باوجود اس معاہدہ کے جو ٹرک پاکستان سے ہندوستان میں جاتے ہیں ان کے کام میں ہندوستان کے افسر دخل اندازی کرتے ہیں۔ چنانچہ قادیان میں تو یہاں تک کیا گیا کہ پاکستانی گورنمنٹ کی بھیجی ہوئی لاریوں میں قافلوں کے افسر نے جو سواریاں چڑھائیں ان کو زبردستی ملٹری کے کیپٹن نے اتار دیا اور کہا کہ جن لوگوں کو میں بٹھاؤں گا وہ جائیں گے اور جن لوگوں کو میں نہیں بٹھاؤں گا وہ نہیں جائیں گے۔Evacuationکے محکمہ کو اس طرف توجہ دلائی گئی اسی طرح ملٹری افسروں کو اس طرف توجہ دلائی گئی تو انہوں نے میجر جنرل چمنی سے فون پر بات کی انہوں نے کہا مقامی افسر کو ایسا کوئی حق نہیں ہم اس کو سمجھا دیں گے لیکن اس کے بعد پانچ قافلے متواتر گئے ہیں اور پانچوں کے ساتھ اس نے متواتریہی معاملہ کیا ہے یہی حال دوسری جگہوں پر بھی ہوتا رہا ہے اس معاملہ کے متعلق پناہ گزینوں کے محکمہ کو پاکستان کے محکمہ خارجہ کے پاس فوراً رپورٹ کرنی چاہئے تھی اور حکومت پاکستان کے محکمہ خارجہ کو فوراً اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنی چاہئے تھی اور کہنا چاہئے تھا کہ لاریاں ہماری، آدمی ہمارے تم کون ہو جو فیصلہ کر و کہ فلاں آدمی لاریوں میں بیٹھیں، فلاں نہ بیٹھیں اور یہ کہ اگر تم اپنے رویہ کو نہ بدلو گے تو ہم اپنی طرف بھی تمھارے ساتھ یہی سلوک کریں گے۔ جو ہوائی جہاز خاص لوگوں کو لینے کے لئے آتے ہیں ان میں دوسرے لوگوں کو بٹھا دیں گے اور ان کو بیٹھنے نہیں دیں گے جن کو تم بٹھانا چاہو۔ اگر حکومت پاکستان کا محکمہ خارجہ اس پر احتجاج کرتا تو ہندوستانی یونین کو فوراً ہوش آجاتی اور وہ ان نالائق افسروں کو سزا دیتی جو ایسی غیر آئینی کارروائی کر رہے ہیں اور ساری مہذب دنیا پاکستان کی تائید کرتی اور اس کو اپنے مطالبہ میں حق بجانب سمجھتی۔
ریاستوں کے معاملہ میں بھی اپنے حقوق کی پوری طرح حفاظت نہیں کی گئی۔ جونا گڑھ کی ریاست نے پاکستان کی حکومت کے ساتھ ملنے کا فیصلہ کیا اور دونوں میں معاہدہ بھی ہوگیا اس معاہدہ کے بعد ہندوستانی یونین نے اپنا ایک پولیٹکل سیکرٹری ریاست جونا گڑھ سے بات کرنے کے لئے ریاست جونا گڑھ میں بھجوایا اور ان سے مطالبہ کیا کہ ہندوؤں کے حقوق میں کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہونے دیں اور یہ کہ اپنی باجگذار ریاستوں کے معاملہ میں بھی وہ دخل نہیں دیں گے۔ جونا گڑھ معاہدہ کے رو سے اپنے خارجی تعلقات پاکستان کے سپرد کر چکا ہے اور جونا گڑھ کی سیاست خارجہ اب خود جونا گڑھ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ پاکستان کے ہاتھ میں ہے یہ معاہدہ چھپ چکا ہے اور تمام دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ جہاں تک امورخارجہ کا تعلق ہے جونا گڑھ کا تعلق پاکستان سے ویسا ہی ہے جیسا کہ جونا گڑھ کا تعلق وائسرئے کے ساتھ تھا۔ کیا انگریزی حکومت کے دور میں یہ ممکن تھا کہ فرانس اور جرمنی اپنا کوئی افسر براہ راست جونا گڑھ میں بھیج سکتے یا اگر فرانس اور جرمنی ایسا کرتے تو اُسی وقت انگریزی حکومت کان سے پکڑ کر اُن کو باہر نہ نکال دیتی اور ان سے یہ نہ کہتی کہ جونا گڑھ کے امور خارجہ ہمارے متعلق ہیں تمہارا جونا گڑھ سے کوئی تعلق نہیں تم ان کے متعلق ہم سے آکر بات کرو؟ لیکن پاکستان کی حکومت نے اس ہتک کو خاموشی کے ساتھ برداشت کر لیا اور اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستانی یونین کو اور بھی دِلیری پیدا ہوگئی اور اب انہوں نے جونا گڑھ کی ایک آزاد حکومت بمبئی میں قائم کر دی ہے۔ کیا وہ حکومتیں جن کے تعلقات آپس میں دوستانہ اصول پر ہوتے ہیں ان کے مُلک میں کوئی ایسی آزاد حکومت قائم کی جاسکتی ہے؟ جو دوست مُلک کے خلاف ہو۔ ہرانٹرنیشنل لاء کا جاننے والا جانتا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا اس قسم کا فعل دوستانہ تعلقات کے منافی سمجھا جاتا ہے اور فوراً وہ حکومت جس کے کسی علاقہ کے خلاف ایسی بات کی جاتی ہے اس پر احتجاج کرتی ہے اور مخالف حکومت کو پناہ دینے والی حکومت یا اس کو اپنے مُلک سے نکال دیتی ہے یا پھر احتجاج کرنے والی طاقت اس سے اپنے دوستانہ تعلقات منقطع کر دیتی ہے۔
ایک معاملہ کشمیر کا ہے ہندوستان گورنمنٹ بار بار اعلان کرتی رہی ہے کہ ٹراونکور کو آزادی نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس کی سرحدیں ہندوستان کے ساتھ ملتی ہیں۔ حیدرآباد کو آزادی کے اعلان کی اجازت نہیں کیونکہ اس کی اکثریت ہندوستان سے ملنا چاہتی ہے کیا یہی حقوق پاکستان کو کشمیر کے متعلق حاصل نہیں؟ کیا کشمیر کی سینکڑوں میل کی سرحد پنجاب اور صوبہ سرحد کے ساتھ نہیں ملتی؟ کیا اس کے برخلاف ہندوستان کے ساتھ اس کا اتصال نہایت ہی چھوٹا نہیں؟ کیا وہاں کی اسی فیصدی آبادی مسلمان نہیں اور کیا ان کی اکثریت پاکستان کی حامی نہیں؟ پھر ہم نہیں سمجھ سکے کہ پاکستان حکومت نے کیوں بار بار یہ اعلان نہیں کیا کہ کشمیر کے معاملہ میں ہم کوئی دخل اندازی پسند نہیں کریں گے۔ کشمیر کی اکثریت پاکستان میں شامل ہونے کی مدعی ہے جب تک کشمیر میں آزاد حالات کے ماتحت ریفرنڈم نہیں کیا جائے گا ہم کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ شامل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے خصوصاً جبکہ اس کی سرحد سینکڑوں میل تک ہماری سرحدوں سے ملتی ہے اور ہندوستان کے ساتھ اس کا اتصال بہت مختصر ہے۔ اگر سیاسی متداول طریقوں کے ذریعہ سے اس قسم کا احتجاج بار بار کیا جاتا اور اخباروں میں اس کا اعلان کیا جاتا تو یقینا کشمیر کی پوزیشن آج اور ہوتی بلکہ جس طرح جونا گڑھ کے مقابلہ میں ہندوستان یونین نے ایک الگ حکومت قائم کر دی ہے کشمیر کے متعلق بھی پاکستان گورنمنٹ کو یہ اعلان کر دینا چاہئے کہ اگر ہمارے علاقہ میں کشمیر کی کوئی آزاد گورنمنٹ بنی تو ہم اس پر گرفت نہیں کریں گے کیونکہ ایسا ہی طریق ہندوستانی یونین نے اختیار کیا ہے۔ کشمیرکی سیاست سے بے تعلق رہنا اِس وقت پاکستان کی گورنمنٹ کے لئے مناسب نہیں اگر کشمیر ہندوستانی یونین میں گیا تو اس کے تین خطرناک نتائج پیدا ہوں گے۔
اوّل: ۳۲ لاکھ وہاں کا مسلمان اسی طرح ختم کر دیا جائے گا جس طرح مشرقی پنجاب کا مسلمان۔
دوسرے: صوبہ پنجاب بالکل غیر محفوظ ہوجائے گا کیونکہ ہندوستان یونین اور کشمیر اور صوبہ سرحد کے درمیان پنجاب ایک مثلث کی شکل میں ہے اور اس مثلث کے ایک خط پر کشمیر آتا ہے دوسرے خط پر ہندوستان یونین تیسرے خط پر صوبہ سرحد اور کچھ حصہ سندھ کا۔ صاف ظاہر ہے کہ جو مُلک مثلث کے دو مخالف خطوط میں آیا ہوا ہوگا وہ کبھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
تیسرا: خطرہ پاکستان کو یہ ہے کہ شروع سے ہی ہندوستان یونین کی نظریں صوبہ سرحد پر ہیں کروڑوں روپیہ خرچ کر کے وہاں خدائی خدمت گار وغیرہ قسم کی جماعتیں بنائی گئی ہیں۔ کشمیر اگر ہندوستانی یونین کے ساتھ ملے تو ہندوستانی یونین کا براہِ راست صوبہ سرحد کے ساتھ تعلق ہو جائے گا کیونکہ کشمیر کی سرحد صوبہ سرحد اور آزاد قبائلی علاقوں سے ملتی ہے اوروہ نہایت آسانی کے ساتھ مظفر گڑھ، گلگت اور چلاس کے علاقہ سے رائفلیں اور روپیہ اور دوسرا جنگی سامان صوبہ سرحد کے کانگرسی ایجنٹوںمیں تقسیم کر سکیں گے اور صوبہ سرحد کے قبائل کو وظائف وغیرہ دے کر وہ اپنے ساتھ ملا سکیں گے اور پاکستان سے اس کا کوئی مداوا نہ ہو سکے گا۔ صوبہ سرحد میں کانگرس نے دور دور تک اپنے پاؤں پھیلا رکھے ہیں اور اس خطرہ سے پاکستان کو ہرگز غافل نہیں ہونا چاہئے۔ ہم نے وقت پر حکومت اور مُلک کے سامنے سارے خطرات رکھ دئیے ہیں خدا کرے مسلمان اس صدمۂ عـظیم سے بچ جائیں اور ان خطرناک نتائج سے محفوظ ہو جائیں جو کشمیر کے انڈین یونین میں شامل ہونے سے پیدا ہوں گے علاج ان کے ہاتھ میں ہے وہ اب بھی علاج کر سکتے ہیں اور علاج کا کرنا نہ کرنا ان کی مرضی پر منحصر ہے مگر ہم اپنے فرض سے سبکدوش ہوتے ہیں۔ وَمَا عَلَیْنَا اِلاَّالْبَـلَاغُ
(الفضل لاہور ۴ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ء)
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
جماعت احمدیہ کے امتحان کا وقت
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔۴؎
ترجمہ اے مؤمنو! یاد کرو جبکہ تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اور نیچے کی طرف سے بھی دشمن آئے اور پتلیاں خوف سے ٹیـڑھی ہو گئیں اور دل دھڑکتے ہوئے گلے میں آپھنسے اور تم خدا تعالیٰ کے متعلق مختلف قسم کے گمان کرنے لگ گئے اس موقع پر مؤمنوں کے ایمانوں کی آزمائش کی گئی اور انہیں ایک سخت زلزلہ سے ہلا دیا گیا اور جبکہ منافق اور وہ لوگ بھی جن کے دلوں میں کچھ کچھ بے ایمانی کا روگ پیدا ہو رہا تھا بول اُٹھے کہ اللہ اور اُس کے رسول نے ہم سے دھوکا کیا اور جبکہ اسی قسم کے لوگوں میں سے ایک گروہ یہ چہ میگوئیاں کرنے لگ گیا کہ اے مدینہ کے لوگو! اب تمہارے لئے دنیا میں کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اب تم اپنے دین اور ایمان کو چھوڑ کر پھر کفر کی حالت کی طرف لوٹ جاؤ۔ اور اس قسم کے لوگوں میں سے ایک گروہ اللہ کے نبی کے حضور میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ ہمارے گھر بے حفاظت ہیں ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم واپس جاکر اپنے گھروں کی حفاظت کر سکیں۔ حالانکہ ان کے گھر کوئی خاص طور پر بے حفاظت نہیں وہ صرف بھاگ کر اپنی جانیں بچانا چاہتے ہیں۔
قرآن کریم کی یہ آیا ت آجکل پورے طور پر قادیان کے احمدیوں پر اور باقی دنیا کے احمدیوں پر چسپاں ہو رہی ہیں۔ قادیان پر اس کے اوپر سے بھی حملہ ہو رہا ہے یعنی حکام بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور نیچے سے بھی حملہ ہو رہا ہے یعنی سکھ آبادی اس کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آج غم اور صدمہ سے لوگوں کی آنکھیں ٹیڑھی ہوتی چلی جاتی ہیں اور دل واقعہ میں اچھل اچھل کر گلے میں اٹک رہے ہیں اور کئی لوگوں کے دلوں میں یہ شہبات پیدا ہو رہے ہیں کہ کیا احمدیت واقعہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی اور کیا انہوں نے اس کے قبول کرنے میں غلطی تو نہیں کی؟ مؤمنوں کے لئے آج دُہری مصیبت ہے ایک طرف حکام اور رعایا کے ظلموں سے بچنے کیلئے امن پسندانہ کوششیں اور ہتھیلیوں پر جانیں رکھ کر اپنے مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت کا فکر اور دوسری طرف اس قسم کے لوگوں کی باتوں کا جواب دینا اور ان چھپے دشمنوں کے خنجروں کو اپنے سینوں میں بغیر آہ کے چبھنے دینا مگر یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم ہونے والے سلسلوں سے ہمیشہ ہی یہ سلوک ہوتا چلا آیا ہے۔ دیکھ لو قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کو پیش آئیں مگر کیا وہ گھبرائے؟ کیا ان کے قدموں میں کسی قسم کا تزلزل پیش آیا؟ بجائے اس کے کہ ان واقعات کو دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے متعلق ان کے دلوں میں کوئی شبہ پیدا ہوتا ان کے دل ایثار اور قربانی کے جذبات سے اور بھی زیادہ متأثر ہوتے گئے۔ ان کے ایمانوں کی یہ کیفیت تھی کہ دشمن کا پندرہ سے بیس ہزار تک کا لشکر جو صرف سات سَو مسلمانوں کے مقابل پر رات اور دن حملے کر رہا تھا نہ دن کو آرام کرنے دیتا تھا نہ رات کو سونے دیتا تھا جب اُس چھوٹی سی خندق کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کے ساتھ مل کر مدینہ کی حفاظت کے لئے کھو دی ہوئی تھی گھوڑوں پر چڑھ کر عبور کر لیتا تھا اور دشمن کے جتھے جنون کی سی کیفیت کے ساتھ اور آندھی کی سی تیزی کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ وسلم کے خیمہ کی طرف بڑھتے تھے تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے اسلام کا خاتمہ کر دیں تو باوجود اسکے کہ صحابہؓ صرف سات سَو تھے وہ اِس تیزی اور بے جگری کے ساتھ لڑتے کہ ہزاروں ہزارکا لشکر منہ کی کھا کر واپس لوٹ جانے پر مجبور ہو جاتا اور بعض دفعہ ان کے بڑے بڑے لیڈر اِس جنگ میں مارے جاتے۔
ایک دفعہ عرب کا ایک نہایت ہی بڑا لیڈر اس قسم کے حملے میں مارا گیا اور اس کی لاش خندق میں گر گئی تو مکہ والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ یہ ہمارا بڑا لیڈر ہے اس کی لاش ہمیں واپس کی جائے ہم اس کے بدلہ میں ہزاروں روپیہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہم نے اس مُردار کو لے کر کیا کرنا ہے تم اُس کو اٹھا کر لے جاؤ۔ سرمیور جیسا دشمن اسلام اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جنگ احزاب کے موقع پر وہ شدید حملے جو رات اور دن مکہ والوں کی طرف سے ہو رہے تھے اور جن میں مٹھی بھر اسلامی لشکر کے مقابلہ میں ان سے کئی گنا آدمی شامل ہوتے تھے جبکہ مسلمانوں کو دنوں تک نہ کھانے کا موقع ملتا تھا، نہ سونے کا موقع ملتا تھا، نہ بیٹھنے کا موقع ملتا تھا ان میں مکہ والوں کے ناکام رہنے کا صرف ایک سبب تھا اور وہ صحابہؓ کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی۔ دشمن اپنے سامانوں کی فرادانی کی وجہ سے خندق کو کود کر عبور کر لیتا اور اپنی تعداد کی زیادتی کی وجہ سے مسلمانوں کو دھکیل کر پیچھے لے جاتا مگر جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کے پاس پہنچتا تو مسلمانوں کے اندر ایسا جوش پیدا ہو جاتا کہ وہ مافوق الا نسانیت طاقتوں کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کو بچانے کے لئے اپنی جانوں سے بے پرواہ ہو کر اس طرح دشمن پر ٹوٹ پڑتے کہ باوجود کثیر التعداد ہونے کے دشمن کو بھاگنا ہی پڑتا۔ اس چیز کو ایمان کہتے ہیں جو چیز اس سے کم ہے وہ ایمان نہیں وہ تمسخر ہے، وہ دھوکا ہے وہ فریب ہے۔
میں احمدیوں سے کہتا ہوں کہ جب وہ بیعت میں داخل ہوئے تھے تو انہوں نے اقرار کیا تھا کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے اور اس دنیا کے لفظ میں ان کی جانیں بھی شامل تھیں، ان کے بچوں کی جانیں بھی شامل تھیں، ان کی بیویوں اور دوسرے گھر کی مستورات کا مستقبل بھی شامل تھا۔ پس آج جبکہ باوجود ہمارے اس بیان کے کہ ہم جس حکومت کے ماتحت رہیں گے اس کے وفا دار رہیں گے ظالم دشمنوں کو ہم پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ حکومت ان کو سزا دینے کی بجائے ہمارے آدمیوں کو سزا دے رہی ہے۔ ہماری جماعت کے نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ قطعی طور پر بھول جائیں کہ ان کے کوئی عزیز اور رشتہ دار بھی ہیں، وہ بھول جائیں اِس بات کو کہ ان کے سامنے کیا مصائب اور مشکلات ہیں، انہیں صرف ایک ہی بات یاد رکھنی چاہئے کہ انہوں نے خداتعالیٰ سے ایک عہد کیا ہے اور اس عہد کو پورا کرنا ان کا فرض ہے۔ آج خدا ہی ان کا باپ ہونا چاہئے، خدا ہی ان کی ماں ہونی چاہئے اور خدا ہی ان کا عزیز اور رشتہ دار ہونا چاہئے، میرے بیٹوں میں سے آٹھ بالغ بیٹے ہیں اور ان آٹھوں کو میں نے اِس وقت قادیان میں رکھا ہوا ہے۔ میں سب سے پہلے ان ہی کو خطاب کر کے کہتا ہوں اور پھر ہر احمدی نوجوان سے خطاب کر کے کہتا ہوں کہ آج تمہارے ایمان کا امتحان ہے آج ثابت قدمی کے ساتھ قید و بند اور قتل کی پرواہ نہ کرتے ہوئے قادیان میں ٹھہرنا اور اس کے مقدس مقامات کی حفاظت کرنا تمہارے فرائض میں شامل ہے۔ تمہارا کام حکومت سے بغاوت کرنا نہیں، تمہارا کام مُلک میں بدامنی پیدا کرنا نہیں، اسلام تم کو اس بات سے روکتا ہے اگر حکومت ہم کو وہاں سے نکالنا چاہتی ہے تو حکومت کے ذمہ دار افسر ہم کو تحریر دے دیں کہ تم قادیان چھوڑ دو۔ پھر ہم اس سوال پر بھی غور کر لیں گے مگر جب تک حکومت کے ذمہ دار افسر منہ سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم کسی کو یہاں سے نکالنا نہیں چاہتے اور ان کے نائب ہمیں دکھ دے دے کر اپنے مقدس مقامات سے نکالنا چاہتے ہیں اُس وقت تک ان کی یہ کارروائی غیر آئینی کارروائی ہے اور ہم اسے کسی صورت میں تسلیم نہیں کریں گے۔ مشرقی پنجاب سے اسلام کا نام مٹادیا گیا ہے ہزاروں ہزار مسجدیں آج بغیر نمازیوں کے ویران پڑی ہیں جن میں جوئے کھیلے جاتے ہیں، شرابیں پی جاتی ہیں، بدکاریاں کی جاتی ہیں، ہمارا فرض ہے کہ کم سے کم ہم جب تک ہماری جان میں جان ہے مشرقی پنجاب میں قادیان کے ذریعہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بلند رکھیں۔ اسلام کو بغیر قربانی کے ختم نہیں ہونے دینا چاہئے۔ اسلام تو پھر جیتے گا ہی احمدیت تو پھر بھی غالب ہی آئے گی لیکن ہماری بد قسمتی ہوگی اگر ہم اپنے ہاتھوں سے اسلام کا جھنڈا چھوڑ کر بھاگیں۔ میں اگر قادیان سے باہر آیا تو صرف اس لئے کہ جماعت نے کثرت رائے سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جماعت کی تنظیم اور اس کے کام چلانے کے لئے جب تک امن نہ ہو مجھے اور بعض ضروری دفاتر کو قادیان سے باہر رہنا چاہئے تا کہ دنیا کی جماعتوں کے ساتھ مرکز کا تعلق رہے لیکن اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ جماعت کے نوجوان خدانخواستہ اس قربانی کو پیش کرنے کے لئے تیار نہیں جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں تو پھر ان کو صاف لفظوں میں یہ کہہ دینا چاہئے ہم ان کو واپس بُلا لیں گے اور خود ان کی جگہ جانیں دینے کے لئے چلے جائیں گے۔ ہمارا باہر آنااپنی جانیں بچانے کے لئے نہیں بلکہ سلسلہ کے کام کو چلانے کے لئے ہے۔ اگر ہمارا باہر آنا بعض لوگوں کے ایمانوں کو متزلزل کرنے کا موجب ہو تو ہم سلسلہ کی شوریٰ کے فیصلہ کی بھی پرواہ نہیں کریں گے اور ان لوگوں کو جن کے دلوں میں ایمان کی کمزوری ہے اس کام سے فارغ کر کے اللہ تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ رکھتے ہوئے خود اس کام کو شروع کر دیں گے۔ میرا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ قادیان کے اکثر نوجوانوں میں کمزوری پائی جاتی ہے مجھے کثرت کے ساتھ نوجوانوں کی یہ چٹھیاں آرہی ہیں کہ وہ دلیری کے ساتھ اور ہمت کے ساتھ ہر قربانی پیش کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ خود میرے بعض بیٹوں اور بعض دوسرے عزیزوں کی مجھے اس قسم کی چٹھیاں آئی ہیں کہ گو ان کا نام قرعہ کے ذریعہ باہر آنے والوں میں نکلا ہے مگر اُن کو اجازت دی جائے کہ وہ قادیان میں رہ کر خدمت کریں یہی وہ لوگ ہیں جو پختہ ایمان والے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو احمدیت اور اسلام کے جھنڈے کو دنیا میں بلند رکھیں گے خواہ مارے جائیں خواہ زندہ رہیں۔ چاہئے کہ صفائی کے ساتھ اور بار بار حکومت کو جتاتے رہو کہ ہم حکومت کے وفادار ہیں اور ہم ایک اچھے شہر ی کے طور پر اس مُلک میں رہنے کا وعدہ کرتے ہیں اور ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ مسٹر گاندھی اور مسٹر نہرو کی طرف سے اعلان ہو رہے ہیں وہ سچے ہیں جھوٹے نہیں اس لئے ہم ان اعلانوںپر یقین رکھتے ہوئے قادیان میں بیٹھے ہیں اگر ان اعلانوں کا کچھ اور مطلب ہے تو ہمیں کہہ دو کہ قادیان سے چلے جاؤ۔ لیکن اگر مسٹر گاندھی اور مسٹر نہرو کے بیانات صحیح ہیں تو پھر ان کے مطابق عمل کرو اور پُرامن شہریوں کو دِق نہ کرو۔ اس طرح بار بار ان پر حجت تمام کرتے رہو اور قیدو بند اور قتل کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے ایمان کا ثبوت دو اور خدا تعالیٰ پر یقین رکھو کہ اوّل تو فتح اور نصرت کے ساتھ وہ تمہاری مدد کرے گا لیکن اگر تم میں سے بعض کے لئے قیدو بند یا قتل مقدر ہے تو خداتعالیٰ تمہیں ابدی زندگی بخشے گا اور اپنے خاص شہداء میں جگہ دے گا۔ اور کون کہہ سکتا ہے کہ اُس کی ایسی موت اس کی زندگی سے زیادہ شاندار نہیں۔ اللہ تعالیٰ تم لوگوں کا حافظ و ناصر ہو اور تم کو ہر تنگی اور ترشی اور مصیبت اور ابتلاء میں صبر اور توکّل اور ایثار کی توفیق بخشے اور تم اپنا ایمان نہ صرف خدا تعالیٰ کے سامنے سلامت لے جاؤ بلکہ اُس کو نہایت خوبصورت اور حسین بنا کر خداتعالیٰ کی خدمت میں پیش کرو تا خداتعالیٰ تم سے اور تمہاری اولادوں سے (اگر کوئی ہیں) اس سے بھی زیادہ نیک سلوک کرے جتنا تم ان کی زندگی میں ان سے کر سکتے تھے۔
خاکسار
(مرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی)
(الفضل ۴؍اکتوبر ۱۹۴۷ء)
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
قادیان
قادیان اس وقت ہندوستان یونین کی دیانتداری کی آزمائش کا محل بنا ہوا ہے۔ قادیان احمدیہ جماعت کا مرکز ہے جس کا یہ عقیدہ ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہیں اس کے پورے طور پر فرمانبردار اور مدد گار رہیں۔ جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی احمدیہ جماعت ہمیشہ حکومت کے ساتھ تعاون کرتی تھی گو مناسب طریق پر اس کی غلطیوں سے اسے آگاہ بھی کرتی رہتی تھی۔ بعض لوگ جماعت احمدیہ کے اس طریق پر اعتراض کرتے تھے اور اسے انگریزوں کا خوشامدی قرار دیتے تھے۔ جماعت احمدیہ اس کے جواب میں ہمیشہ یہی کہتی تھی کہ ہم صرف انگریزوں کے فرمانبردار نہیں بلکہ افغانستان میں افغانی حکومت کے اور عرب میں عربی حکومت کے۔ مصر میں مصری حکومت کے اور اسی طرح دوسرے ممالک میں اُن کی حکومتوں کے فرمانبردار اور مدد گار ہیں ہمارے نزدیک دنیا کا امن بغیر اِس کے قائم ہی نہیں رہ سکتا کہ ہر حکومت میں بسنے والے لوگ اُس کے ساتھ تعاون کریں اور اُس کے مدد گار ہوں۔ پچھلے پچاس سال میں جماعت احمدیہ نے اس تعلیم پر عمل کیا ہے اور آئندہ بھی وہ اس تعلیم پر عمل کرے گی۔ جب ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور اُس میں ہندوستان یونین اور پاکستان قائم ہوئے تو اُس وقت بھی جماعت احمدیہ نے اعلان کیا کہ ہندوستان یونین میں رہنے والے احمدی ہندوستان یونین کی پوری طرح اطاعت کریں گے اور پاکستان میں رہنے والے احمدی پاکستان حکومت کے متعلق جانثاری اور اطاعت سے کام لیں گے۔ پاکستان حکومت نے تو ان کے اس اعلان کی قدر کی اور اچھے شہریوں کی طرف اس سے برتاؤ کیا لیکن ہندوستان یونین نے ان کے اس اعلان کی ذرا بھی قدر نہیں کی اور ۱۶؍ اگست کے بعد پہلے قادیان کے اِردگرد اور پھر قادیان میں وہ فساد مچوایا کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں۔ ایک ایک کر کے احمدی گاؤں کو برباد کیا گیا اور جنہوں نے دفاع کی کوشش کی اُن کو پولیس اور ملٹری نے گولیوں سے مارا۔ جب قادیان کے اِردگرد گاؤں ختم ہوگئے تو پھر قادیان پر حملہ شروع ہوا۔ احمدی جماعت کے معززین یکے بعد دیگرے گرفتار ہونے شروع ہوئے قتل ڈاکے اور خونریزی کے الزام میں۔ گویا وہ جماعت جس نے اپنی طاقت اور قوت کے زمانہ میں قادیان کے رہنے والے کمزور اور قلیل التعداد ہندوؤں اور سکھوں کو کبھی تھپڑ بھی نہیں مارا تھا اس نے تمام علاقہ کے مسلمانوں سے خالی ہو جانے کے بعد اور سکھ پولیس اور ہندو ملٹری کے آ جانے کے بعد ان علاقوں میں نکل کر جن میں کوئی مسلمان نہ دن کو جا سکتا تھا نہ رات کو ڈاکے مارے اور قتل کئے اور یہ ڈاکے اور قتل بھی اُن لوگوں نے کئے جو جماعت کے چوٹی کے آدمی تھے جن میں سے بعض ساٹھ سال کی عمر کے تھے، مرکزی نظام کے سیکرٹری تھے اور یونیورسٹیوں کے گریجوایٹ تھے گویا احمدیہ جماعت جو اپنی عقل اور دانائی میں دنیا بھر میں مشہور تھی اُس وقت اُس کی عقل کا دیوالہ نکل گیا اور سکھ اور ہندو ملٹری کے آنے کے بعد اس نے اپنے مرکزی کارکنوں کو زمیندار سکھوں کو مروانے کے لئے باہر بھیجنا شروع کر دیا اور اس کے گریجوائٹ مبلّغ ڈاکے مارنے کے لئے نکل پڑے۔ شاید پاگل خانہ کے ساکن تو اس کہانی کو مان لیںمگر عقل مند لوگ ان باتوں کو قبول نہیں کر سکتے شاید ہندوستان یونین کے افسر یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا ان کی ہر بے وقوفی کی بات مان لے گی یا شاید وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے سوا باقی ساری دنیا جاہل یا مجنوں ہے۔ ہندوستان یونین کے وزراء نے بار بار یہ اعلان کیا ہے کہ وہ کسی مسلمان کو اپنے مُلک سے نکل جانے پر مجبور نہیں کرتے لیکن قادیان کی مثال موجود ہے کہ ان لوگوں کو جو ہندوستان یونین میں رہنے پر راضی ہی نہیں بلکہ مصر ہیں طرح طرح کی تکلیفیں پہنچا کر پولیس اور ملٹری کے زور سے نکالنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ قادیان کے متعلق ہندوستان یونین دنیا کو کیا جواب دے گی۔ کیا وہ یہ کہے گی کہ یہ لوگ اپنے مقدس مذہبی مقام کو چھوڑ کر جارہے تھے ہم نے ان کو روکا نہیں یا وہ یہ کہے گی کہ ایک کیپٹن اور ایک پوری کمپنی ملٹری کی وہاں موجود تھی اور اس کے علاوہ پولیس کا تھانہ بھی وہاں موجود تھا۳۰۳ کی رائفلوں کے علاوہ سٹین گن اوربرین گن بھی موجود تھیں مگر ان کے باوجود ہندوستان یونین ان سکھوں کے حملوں کو نہ روک سکی جو قادیان پر حملہ کر رہے تھے اور ان احمدیوں کو اپنے مکانات خالی کرنے پڑے جن کے بڈھے ہی بقول ہندوستان یونین اِس فتنہ کے زمانہ میں بھی آٹھ آٹھ دس دس میل باہر جا کر سکھوں کو مار رہے تھے اور جن کے مبلغ اور گریجوائٹ اِردگرد کے سکھوں کے دیہات پر جا کر ڈاکے مار رہے تھے۔ کیا دنیا کا کوئی شخص اس کو تسلیم کر سکے گا کہ یہ باہر نکل نکل کر ڈاکے مارنے قتل کرنے والے لوگ ان سکھ جتھوں سے ڈر کر جن کے مالوں کو لوٹنے کے لئے وہ باہر جاتے تھے اپنے مکان چھوڑ دیں گے اور ملٹری اور پولیس بھی ان بہادر سکھوں کے مقابلہ میں بے کار ہو جائے گی جن کے گاؤں میں دو دو احمدی جا کر ڈاکہ مارنے کے قابل ہو سکے اور جنہیں سلسلہ احمدیہ کے بُڈھے سیکرٹری اِردگرد کے علاقوں میں گولیوں کا نشانہ بناتے پھرتے تھے۔ ہر عقلمند انسان اس بات کو تسلیم کرے گا کہ دونوں کہانیوں میں سے ایک کہانی جھوٹی ہے اور یا پھر دونوں ہی جھوٹی ہیںاور حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں کہانیاں ہی جھوٹی ہیں۔ آج ہندوستان یونین کے افسر حکومت کے نشہ میں اِس قسم کے افتراء کو معقول قرار دے سکتے ہیں مگر آئندہ زمانہ میںمؤرخ اِن کہانیوں کو دنیا کے بدترین جھوٹوں میں سے قرار دیں گے۔ احمدیہ جماعت قادیان میں بیٹھی ہے اور اپنے عقائد کے مطابق بار بار حکومت کو کہہ چکی ہے کہ ہم یہاں رہنا چاہتے ہیں لیکن اگر تم ہمارا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے تو ہمیں حکم دے دو پھر ہم تمہارے اس حکم کے متعلق غور کر کے کوئی فیصلہ کریں گے لیکن ہندوستان یونین کے افسر ایسا نہیں کرتے اور نہ وہ ایسا کرسکتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس سے ان کی ناک کٹ جائے گی اور وہ دنیا میں ذلیل ہو جائیں گے۔ وہ گولیوں کی بوچھاڑوں اور پولیس اور ملٹری کی مدد سے بغیر کسی آئینی وجہ کی موجودگی کے احمدیوں کو قادیان سے نکالنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ تازہ اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ چنددن سے قادیان جانے والی لاریوں کو سٹرک کی خرابی کے بہانہ سے روکا جا رہا ہے لیکن اصل منشاء یہ ہے کہ دنیا سے قادیان کو کاٹ کر وہاں من مانی کارروائیاں کی جائیں چنانچہ ہفتہ اور اتوارکی درمیانی رات کو جبکہ سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر سے انتظامی معاملات کے متعلق فون پر بات کر رہے تھے انہیں یکدم قادیان کے فون کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ قادیان کا کوئی شخص ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو فون کر رہا ہے وہ ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو یہ اطلاع دے رہا تھا کہ د و دن سے یہاں گولی چلائی جا رہی ہے قادیان کے دو محلوں کو لوٹا جا چکا ہے اور ان محلوں کے احمدی سمٹ کر دوسرے محلوں میں چلے گئے ہیں اور یہ گولی پولیس اور ملٹری کی طرف سے چلائی جا رہی ہے۔ اس خبر کے سننے کے بعد ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے ڈپٹی کمشنر گورداسپور سے پوچھا کہ آپ نے یہ بات سنی؟ اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟ انہوںنے کہا ہمیں یہ تو اطلاع تھی کہ بھینی پر سکھ حملہ کر رہے ہیں مگر یہ اطلاع نہیں تھی کہ قادیان پر سکھ حملہ کر رہے ہیں گویا بھینی میں انسان نہیں بستے اور وہ ہندوستان یونین کے شہری نہیں اور اس لئے بھینی میں مسلمانوں کا خون بالکل ارزاں ہے اِس پر ڈی ۔سی سیالکوٹ نے کہا اب آپ کیا کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ تو ڈی ۔سی گورداسپور نے جواب دیا کہ میں کل سپرنٹنڈنٹ پولیس کو وہاں بھجواؤں گا۔ ڈی سی سیالکوٹ نے اُن کو کہا یہ اس قسم کا اہم معاملہ ہے کہ اِس میں آپ کو خود جانا چاہئے آپ خود کیوں نہیں جاتے؟ انہوں نے کہا اچھا میں خود ہی جاؤنگا۔ اس کے بعد قادیان سے فون پر حالات معلوم کرنے کی کوشش کی گئی اور اتفاقاً فون مل گیا جو اکثر نہیں ملا کرتا۔ اس فون کے ذریعہ جو حالات معلوم ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ کل تک ۱۵۰ آدمی مارا جا چکا ہے جن میں سے دو آدمی مسجد کے اندر مارے گئے ہیں۔ احمدیہ کالج پر بھی پولیس اور ملٹری نے قبضہ کر لیا ہے اور دو احمدی محلے لٹوا دئیے ہیں دارالانوار اور دارالرحمت، دارالانوار میں سر ظفراللہ خان کی کوٹھی بھی اور امام جماعت احمدیہ کا بیرونی گھربھی لوٹا گیا ہے۔ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ اب ان باتوں کا نتیجہ کیا ہوگا؟ جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں احمدیہ جماعت کا یہ مسلک نہیں کہ وہ حکومت سے ٹکر کھائے اگر سکھ جتھے ایک ایک احمدی کے مقابلہ میں سَوسَو سکھ بھی لائیں گے تو قادیان کے احمدی ان کا مقابلہ کریں گے اور آخر دم تک ان کا مقابلہ کریں گے لیکن جہاں جہاں پولیس اور ملٹری حملہ کرے گی وہ ان سے لڑائی نہیں کریں گے اپنی جگہ پر چمٹے رہنے کی کوشش کریں گے مگرجس جگہ سے ملٹری اور پولیس ان کو زور سے نکال دے گی اُس کو وہ خالی کر دیں گے اور دنیا پر یہ ثابت کر دیں گے کہ ہندوستان یونین کا یہ دعویٰ بالکل جھوٹا ہے کہ جو ہندوستان یونین میں رہنا چاہے خوشی سے رہ سکتا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو آپ لوگ اپنے آدمیوں کی جانیں کیوں خطرہ میں ڈال رہے ہیں آپ قادیان کو فوراً خالی کر دیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم قایان میں تین اصول کو مدنظر رکھ کر ٹھہرے ہوئے ہیں۔
اوّل مؤمن کو خدا تعالیٰ کی مدد سے آخر وقت تک مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ جب تک ہم کو پکڑ کر نہیں نکالا جاتا، ہمیں کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا کی مشیت اور خدا کا فیصلہ کیا ہے اس لئے احمدی وہاں ڈٹے رہیں گے تا کہ خدا تعالیٰ کے سامنے ان پر یہ حجت نہ کی جائے کہ خدا کی نصرت تو آ رہی تھی تم نے اس سے پہلے کیوںمایوسی ظاہر کی۔
دوسرے جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے احمدیوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ ہندوستان یونین کے دعوؤں کی آزمائش کریں گے اور یہ حقیقت آشکار کر کے چھوڑیں گے کہ جب وہ کہتے ہیں کہ کسی کو ہندوستان یونین سے جانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا تو وہ سچ کہتے ہیں یا جھوٹ۔ احمدی چاہتے ہیں کہ انہیں بھی معلوم ہو جائے اور دنیا کو بھی معلوم ہو جائے کہ ہندوستان یونین کے وزراء جھوٹے ہیں یا سچے۔ بے شک احمدیوں کو وہاں ٹھہرے رہنے میں قربانی کرنی پڑے گی لیکن ان کے وہاں ٹھہرے رہنے سے ایک عظیم الشان حقیقت آشکار ہو جائے گی یا تو دنیا کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ ہندوستان یونین کے افسر نیک نیتی اور دیانتداری کے ساتھ اپنے مُلک میں امن قائم رکھنا چاہتے تھے اور یا دنیا پر یہ ظاہر ہو جائے گا کہ وہ منہ سے کچھ اور کہتے تھے اور ان کے دلوں میں کچھ اور تھا کیونکہ قادیان سے احمدیوں کانکالا جانا ایک فوری واقعہ نہیں تھا کہ جس کی اصلاح ان کے اختیار میں نہیں تھی۔ قادیان پر حملہ ایک مہینہ سے زیادہ عرصہ سے چلا آرہا ہے، اس کے علاوہ خود میں نے پنڈت جواہر لال صاحب نہرو سے باتیں کیں اور اُن کو اس طرف توجہ دلائی ۔ پنڈت جواہر لال صاحب نہرو نے مجھے یقین دلایا کہ ہندوستان یونین ہرگز مسلمانوں کو اپنے علاقے سے نکلنے پر مجبور نہیں کرتی، انہوں نے مجھے یقین دلایاکہ تین چار دنوں تک وہ فون اور تار کے راستے کھلوانے کی کوشش کریں گے اور دو ہفتہ تک قادیان کی ریل گاڑی کے جاری کروانے کی کوشش کریں گے۔ احمدیہ جماعت کا وفد سردار بلدیو سنگھ صاحب سے بھی ملا اور انہوں نے اصلاح کی ذمہ داری لی اور یہاں تک کہا کہ وہ خود قادیان جا کر ان معاملات کو درست کرنے کی کوشش کریں گے۔ احمدیہ جماعت کے وفد نے ہندوستان کے ہائی کمشنر مسٹر سری پرکاش صاحب سے کراچی میں ملاقات کی اور ان کو یہ واقعات بتائے اُنہوں نے کہا میں نے ہندوستان یونین کو اس طرف توجہ دلائی ہے اور دو تاریں اس کے متعلق دی ہیں مگر مجھے جواب نہیں ملا۔ احمدیہ جماعت کا وفد اِس عرصہ میں سردار سمپورن سنگھ صاحب ڈپٹی ہائی کمشنر ہندوستان یونین سے ملا اور متعدد بار ملا اُنہوں نے یقین دلایا کہ اُنہوں نے افسران کی توجہ کو اِس طرف پھیرایا ہے اور اُنہوں نے ایک خط بھی دکھایا جو اُنہوں نے ڈاکٹر بھارگوا صاحب وزیر اعظم مشرقی پنجاب اور سردار سورن سنگھ صاحب ہوم منسٹر مشرقی پنجاب کو لکھا تھا جس کا مضمون یہ تھا کہ مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہو گیا ہے۔ اب صرف قادیان باقی ہے یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے اور احمدیہ جماعت کا مقدس مذہبی مرکز ہے اسے تباہ کرنے میں مجھے کوئی حکمت نظر نہیں آتی، اگر اس کی حفاظت کی جائے تو یہ زیادہ معقول ہوگا۔ پھر ڈپٹی ہائی کمشنر کے مشورہ سے احمدیہ جماعت کا ایک وفد جالندھر گیا اور ڈاکٹر بھارگوا صاحب اور سردار سورن سنگھ صاحب سے ملا اور چوہدری لہری سنگھ صاحب سے ملا۔ ان لوگوں نے یقین دلایا کہ وہ احمدیہ جماعت کے مرکز کو ہندوستان یونین میں رہنے کو ایک اچھی بات سمجھتے ہیں، اچھی بات ہی نہیں بلکہ قابل فخر بات سمجھتے ہیں اور یہ کہ وہ فوراً اس معاملہ میں دخل دیں گے۔ پھر اس بارہ میں لارڈمونٹ بیٹن کو بھی متواتر تاریں دی گئیں، مسٹر گاندھی کو بھی متواتر تاریں دی گئیں بہت سے ممالک سے ہندوستان یونین کے وزراء کو تاریں آئیں۔ انگلستان کے نومسلموں کا وفد مسٹر ہینڈرسن سے جو ہندوستان کے معاملات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ملا۔ مسزوجے لکشمی پنڈت نے بھی اپنے بھائی کو تار دی۔ اس عرصہ میں قادیان کے بہادر باشندے انسانوں کے ڈر کو دل سے نکال کر پولیس ملٹری اور سکھ جتھوں کے مشترکہ حملوں کو برداشت کرتے چلے گئے لیکن اس تمام لمبے زمانہ میں حکومت کی طرف سے کوئی قدم اصلاح کا نہیں اُٹھایا گیا ان واقعات کی موجودگی میں ہندوستان یونین یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہمیں اصلاح کا موقع نہیں ملا۔
تیسرے اپنے مقدس مقامات کو یونہی چھوڑ دینا ایک گناہ کی بات ہے۔ جب تک تمام ممکن انسانی کوششیں اس کے بچانے کے لئے خرچ نہ کی جائیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کام میں احمدیہ جماعت کو بہت سی قربانی کرنی پڑے گی اور بظاہر دنیا کو وہ بیکار نظر آئے گی لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر بتایا ہے حقیقت میں وہ بے کار نہیں ہوگی۔ وہ قربانی جو قادیان کے احمدی پیش کریں گے وہ پاکستان کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں کام آئے گی اور اگر ہندوستان یونین نے اب بھی اپنا رویہ بدل لیا تو اس کا یہ رویہ ایک پائدار صلح کی بنیاد رکھنے میں ممد ہوگا۔
جماعت احمدیہ کمزور ہے اور ایک علمی جماعت ہے وہ فوجی کاموں سے ناواقف ہے لیکن وہ اسلام کی عزت قائم رکھنے کیلئے اپنے ناچیز خون کو پیش کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ ہمارے سینکڑوں عزیز بھاگتے ہوئے نہیں اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہوئے مارے گئے ہیں اور شاید اور بھی مارے جائیں کم سے کم لوکل حکّام کی نیت یہی معلوم ہوتی ہے کہ سب کے سب مارے جائیں لیکن ہم خدا تعالیٰ سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کرے گا اور ہمارے دلوں کو صبر اور ایمان بخشے گا۔ ہمارے مارے جانے والوں کی قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی۔ وہ ہندوستان میں اسلام کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں کام آئیں گی خدا کرے ایساہی ہو۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
(الفضل لاہور۷؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء)
ہم قادیان کے متعلق پہلے کچھ حالات لکھ چکے ہیںہم بتا چکے ہیں کہ قادیان اور مشرقی پنجاب کے دوسرے شہروں میں فرق ہے۔ قادیان کے باشندے قادیان میں رہنا چاہتے ہیں لیکن مشرقی پنجاب کے دوسرے شہروں کے باشندوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ مشرقی پنجاب میں نہ رہیں۔ ہندوستان یونین کی گورنمنٹ بار بار کہہ چکی ہے کہ ہم کسی کو نکالتے نہیں لیکن قادیان کے واقعات اس کے اس دعویٰ کی کامل طور پر تردید کرتے ہیں۔ حال ہی میں قادیان کے کچھ ذمہ وار افسر گورنمنٹ افسروں سے ملے اور باتوں باتوں میں ان سے کہا کہ آپ لوگ اپنی پالیسی ہم پر واضح کر دیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم قادیان کو چھوڑ دیں تو پھر صفائی کے ساتھ اس بات کا اظہار کر دیں۔ افسر مجاز نے جواب دیا کہ ہم ایسا ہرگز نہیں چاہتے ہم چاہتے ہیں کہ آپ قادیان میں رہیں۔ جب اُسے کہا گیا کہ وہ کہاں رہیں پولیس اور ملٹری کی مدد سے سکھوں نے تو سب محلوں کے احمدیوں کو زبردستی نکال دیا ہے اور سب اسباب لوٹ لیا ہے آپ ہمارے مکان خالی کرا دیں تو ہم رہنے کیلئے تیار ہیں تو اِس پر افسر مجاز بالکل خاموش ہو گیا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ درحقیقت وہ افسر خود تو دیانتدار ہی تھا لیکن وہ وہی کچھ رٹ لگا رہا تھا جو اسے اوپر سے سکھایا گیا تھا جب اس پر اپنے دعویٰ کا بودا ہونا ثابت ہو گیا تو خاموشی کے سوا اس نے کوئی چارہ نہ دیکھا۔ شاید دل ہی دل میں وہ ان افسروں کو گالیاں دیتا ہوگا جنہوں نے اسے یہ خلافِ عقل بات سکھائی تھی۔
قادیان کے تازہ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ لکڑی قریباً ختم ہے گندم بھی ختم ہو رہی ہے۔ گورنمنٹ کی طرف سے غذا مہیا کرنے کا کوئی انتظام نہیں۔ اب تک ایک چھٹانک آٹا بھی گورنمنٹ نے مہیا نہیںکیا۔ عورتوں اور بچوں کو نکالنے کا جو انتظام تھا اس میں دیدہ دانستہ روکیں ڈالی جا رہی ہیں۔بارش ہوئے کو آج نو دن ہو چکے ہیں، بارش کے بعد قادیان سے دو قافلے آچکے ہیں۔ اسی طرح قریباً روزانہ ہندوستانی یونین کے ٹرکس فوج یا پولیس سے متعلق قادیان آتے جاتے ہیں اور اس کے ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں۔ چار تاریخ کو پولیس کا ایک ٹرک قادیان سے چل کر واہگہ تک آیا۔ تین تاریخ کو پاکستان کے اُن فوجی افسروں کے سامنے جو گورداسپور کی فوج سے قادیان جانے کی اجازت لینے گئے تھے ایک فوجی افسر نے آ کر میجر سے پوچھا کہ وہ ٹرک جو قادیان جانا تھا کس وقت جائے گا؟ پاکستانی افسروں کی موجودگی میںاِس سوال کو سُن کر میجر گھبرا گیا اور اُس کو اشارہ سے کہا چلا جا اور پھر پاکستانی افسروں کو کہا اس شخص کو غلطی لگی ہے۔ قادیان کوئی ٹرک نہیں جا سکتا۔ چار ہی تاریخ کو پاکستان کے جو ٹرک قادیان گئے تھے اور اُن کو بٹالہ میں روکا گیا تھا انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دو ملٹری کے ٹرک قادیان سے بٹالہ آئے۔ سب سے کھلا ثبوت اس بات کے غلط ہونے کا تو یہ ہے کہ انہی تاریخوں میں جن میں کہا جاتا ہے کہ قادیان جانے والی سڑک خراب ہے، پُرانی ملٹری قادیان سے باہر آئی ہے اور نئی ملٹری قادیان گئی ہے کیا یہ تبدیلی ہوائی جہازوں کے ذریعہ سے ہوئی ہے یقینا ٹرکوں کے ذریعہ سے ہوئی ہے۔ پس یہ بہانہ بالکل غلط ہے اور اصل غرض صرف یہ ہے کہ قادیان کے باشندوں کو جنہوں نے استقلال کے ساتھ مشرقی پنجاب میں رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے اِس جرم میں ہلاک کر دیا جائے کہ وہ کیوں مشرقی پنجاب میں سے نکلتے نہیں۔ منہ سے کہا جاتا ہے کہ ہم کسی کو نکالتے نہیں لیکن عمل سے اِس کی تردید کی جاتی ہے۔ یہ بات اخلاقی لحاظ سے نہایت ہی گندی اور نہایت ناپسندیدہ ہے۔ جماعت احمدیہ نے مسٹر گاندھی کے پاس بھی بار بار اپیل کی ہے، تاریں بھی دی ہیں اور بعض خطوط بھی لکھے ہیں لیکن مسٹر گاندھی کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ کرنے کی فرصت نہیں۔ مسٹر نہرو کو بھی اس طرف توجہ دلائی گئی ہے مگر وہ بھی بڑے کاموں میں مشغول ہیں۔ چند ہزار بے گناہ انسانوں کا مارا جانا ایسا معاملہ نہیں ہے جس کی طرف یہ بڑے لوگ توجہ کر سکیں۔ ایک چھوٹی سی مذہبی جماعت کے مقدس مقامات کی ہتک ان بڑے آدمیوں کے لئے کوئی قابلِ اعتنا بات نہیں اگر اس کا سَواں حصہ بھی انگریز قادیان میں بس رہے ہوتے اور ان کی جان کا خطرہ ہوتا تو لارڈ مونٹ بیٹن ۵؎ کو حقوقِ انسانیت کا جذبہ فوراً بے تاب کر دیتا۔ مسٹر گاندھی بیسیوں تقریریں انگریزوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کے متعلق پبلک کے سامنے کر دیتے۔ مسٹر نہرو کی آفیشل مشین فوراً متحرک ہو جاتی مگر کمزور جماعتوں کا خیال رکھنا خدا تعالیٰ کے سپرد ہے۔ وہی غریبوں کا والی وارث ہوتا ہے یا وہ انہیں ایسی تکالیف سے بچاتا ہے اور یا پھر وہ ایسے مظلوموں کا انتقام لیتا ہے ہم تمام شریف دنیا کے سامنے اپیل کرتے ہیں کہ اس ظلم کے دور کرنے کی طرف توجہ کریں۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ پاکستان گورنمنٹ اِس ظلم کو دور کرنے میں کیوں بے بس ہے۔ بجائے اس کے کہ ان باتوں کو سُن کر پاکستان گورنمنٹ کے متعلقہ حُکام کوئی مؤثر قدم اُٹھاتے انہوں نے بھی یہ حکم دے دیا ہے کہ چونکہ قادیان کی سڑک کو مشرقی پنجاب نے ناقابلِ سفر قرار دیا ہے اس لئے آئندہ ہماری طرف سے بھی کوئی کانوائے وہاں نہیں جائے گی۔ حالانکہ انہیں چاہئے یہ تھا کہ جب مغربی پنجاب کے علاقوں میں بھی بارش ہوئی ہے تو وہ ان علاقوں کو بھی ناقابلِ سفر قرار دے دیتے اور مشرقی پنجاب جانے والے قافلوں کو روک لیتے۔ قادیان کے مصائب کو کم کرنے کا ایک ذریعہ یہ تھا کہ قادیان کو ریفیوجی کیمپ قرار دے دیا جاتا لیکن دونوں گورنمنٹیں یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ ریفیوجی کیمپ وہی گورنمنٹ مقرر کرے گی جس کی حکومت میں وہ علاقہ ہو۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ جو معاہدہ ہو اُس کی پابندی کی جائے لیکن سوال تو یہ ہے کہ اگر بار بار توجہ دلانے کے بعد بھی ہندوستان یونین مسلمان پناہ گزینوں کے بڑے بڑے کیمپوں کو ریفیوجی کیمپ قرار نہیں دیتی تو پاکستان کی حکومت کیوں مشرقی پنجاب کے پناہ گزینوں کے نئے مقامات کو ریفیوجی کیمپ قرار دے رہی ہے۔ حال ہی میں پاکستان گورنمنٹ نے پانچ نئے ریفیوجی کیمپ مقرر کئے جانے کا اعلان کیا ہے۔ کیا وہ اس کے مقابلہ میں ہندوستان یونین سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتی کہ تم بھی ہماری مرضی کے مطابق پانچ نئے کیمپ بناؤ۔ ہمیں موثق ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ حال ہی میں ہندوستان یونین نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ریفیوجی کیمپ بنانے کا مطالبہ کیا ہے جہاں صرف پانچ ہزار پناہ گزین ہیں۔ پاکستانی حکومت کو چاہئے کہ ہندوستان یونین سے کہے کہ اگر ڈیرہ اسماعیل خان میں کیمپ بنانا چاہتے ہو تو قادیان میں بھی کیمپ بناؤ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستانی حکومت کا رعب کم ہوتا جائے گا اور ہندوستان یونین کے مطالبات بڑھتے جائیں گے اور مسلمانوں کے حقوق پامال ہوتے چلے جائیں گے۔
تازہ آفیشل رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک سولہ لاکھ چھیالیس ہزار سات سَوپچاس مسلمان مشرقی پنجاب کے کیمپوں میں پڑے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں صرف سات لاکھ سینتالیس ہزار دو سَو بہتر غیر مسلم مغربی پنجاب میں ہیں۔ ہمارے حساب سے تو یہ اندازہ بھی غلط ہے۔ مسلمان ساڑھے سولہ لاکھ نہیں ۲۵۔۲۶ لاکھ کے قریب مشرقی پنجاب میں پڑے ہیں اور خطرہ ہے کہ اپنے حقوق کو استقلال کے ساتھ نہ مانگنے کے نتیجہ میں یہ سات لاکھ غیر مسلم بھی جلدی سے اُدھر نکل جائے گا اور ۲۵ لاکھ مسلمانوں میں سے بمشکل ایک دو لاکھ اِدھر پہنچے گا یا کوئی اتفاقی بچ نکلا ورنہ جو کچھ سکھ جتھے اور سکھ ملٹری اور پولیس ان سے کر رہی ہے اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی اُمید اِن کے بچنے کی نظر نہیں آتی۔ بعض چھوٹے افسر یہ کہتے بھی سُنے گئے ہیں کہ مغربی پنجاب اتنے پناہ گزینوں کو سنبھال نہیں سکتا۔ پس جتنے مسلمان اِدھر مرتے ہیں اس سے آبادی کا کام آسان ہو رہا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی خطرناک خیال ہے ہمیں یقین ہے مغربی پنجاب کی حکومت کے اعلیٰ حکام اور وزراء کا یہ خیال نہیں مگر اس قسم کا خیال چند آدمیوں کے دلوںمیں بھی پیدا ہونا قوم کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے۔ مغربی پنجاب کے مسلمانوں کو جلدی منظم ہو جانا چاہئے اور جلد اپنے حقوق کی حفاظت کرنے کی سعی کرنی چاہئے اگر آج تمام مسلمان منظم ہو جائیں اور اگر آج بھی حکومت اور رعایا کے درمیان مضبوط تعاون پیدا ہو جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان اس ابتلائے عظیم میں سے گزرنے کے بعد بھی بچ سکتا ہے اور ترقی کی طرف اس کا قدم بڑھ سکتا ہے۔
(الفضل ۹؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کچھ تو ہمارے پاس رہنے دو
پنجاب میں اس وقت جو تباہی اور بربادی آئی ہے اس کا اندازہ نہ الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے نہ خیالات سے ۔ بغیر کسی اشتعال کے، بغیر کسی وجہ کے خداکے بندوںکا قتل عام اس طرح شروع کر دیا جاتا ہے کہ حیرت ہی آتی ہے کہ خدا کے بندوں نے خدا کو کس طرح بُھلا دیا ہے۔ قتل تو اشتعال کے وقت بھی ناجائز ہے لیکن بِلا اشتعال کے، بغیر کسی وجہ کے قتل اور عورتوں بچوں کا قتل ایسا فعل ہے جس کو دنیا کا کوئی مذہب بھی جائز قرار نہیں دیتا، دنیا کی کوئی تہذیب بھی اسے روا نہیں سمجھتی۔ سیاسی لڑائی ہی سہی، مُلکی جھگڑا ہی سہی، لیکن اس سیاسی لڑائی یا اس مُلکی جھگڑے میں ان عورتوں اور بچوں کا کیا دخل ہے جو بے تحاشا مارے جاتے ہیں، اُن بوڑھوں اور ضعیفوں کا کیا دخل ہے جو برسرِعام قتل کئے جاتے ہیں۔ ہندو سکھ مسلمان کے دشمن سہی، مسلمان ہندو سکھوں کے دشمن سہی لیکن ایسٹرن پنجاب کے مسلمان کی جائداد پر ایک عام سکھ یا ہندو کا کیا حق ہے اور مغربی پنجاب کے سکھ یا ہندو کی جائداد پر ایک عام مسلمان کا کیا حق ہے۔ مشرقی پنجاب کے مسلمان کی جائداد مشرقی پنجاب کی حکومت کی کفالت میں ہے اور مغربی پنجاب کے ہندو سکھ کی جائداد مغربی پنجاب کی حکومت کی کفالت میں ہے۔ پس مشرقی پنجاب کے ہندو اور سکھ کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ مشرقی پنجاب کو چھوڑنے والے مسلمان کی جائداد کو نہ چھوئے اور مغربی پنجاب کے مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ہندو اور سکھ کی جائداد کو ہرگز نہ چھوئے۔ دونوں گورنمنٹیں دونوں جائدادوں کی کفیل رہیں ۔اگر دونوں طرف کے باشندے پھر اپنے اپنے مُلک میں آباد ہونا چاہیں تو وہ مال حکومتیں ان کے سپرد کر دیں اور اگر وہ اپنے مُلک میں واپس نہ جانا چاہیں گے تو حکومتیں باہمی حساب کر کے ہر ایک کی جائداد کی قیمت مالکوں میں بانٹ دیں اگر کچھ جائداد لاوارث ہوگی تو اس کی وارث مشرقی پنجاب میں مشرقی حکومت ہوگی اور مغربی پنجاب میں پاکستان کی حکومت ہوگی۔ یہی اسلامی حکم ہے اور اسی کی تصدیق عقل کرتی ہے۔ ہندو اور سکھ مسلمان نہیں مگر وہ عقل کا تو دعویٰ کرتا ہے اور مسلمان کے دماغ میں عقل بھی ہے اور وہ ساتھ ہی مسلمان بھی ہے۔ اس طرح اسے دُہری راہنمائی اور دُہری ہدایت حاصل ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس پر عمل نہیں ہو رہا۔ کثرت کے ساتھ مسلمان اخبارات میں یہ خبریں شائع ہورہی ہیں کہ مغربی پنجاب میں ہندوؤں اور سکھوں کی جائداد کو نہ لُوٹا جائے لیکن بعض لوگ لُوٹ رہے ہیں اور مشرقی پنجاب میں تو یہ بات اتنی زیادہ ہے کہ اس کااندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن مشرقی پنجاب کا یہ ظلم ہمیں اپنے فرائض سے بری الذمہ نہیں کر دیتا۔ ہم دنیا کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے ہمارا لاکھ لُوٹا تھا ہم نے ان کا دس ہزار لُوٹا ہے کیونکہ دنیا کا ہر معقول انسان ہمیں کہے گا کہ کیا تمہارا لاکھ لُوٹنے والا انسان وہی تھا جس کا تم نے دس ہزار روپیہ لیا تھا؟ اس کا ہم کوئی جواب نہیں دے سکتے کیونکہ واقعہ میں وہ وہ آدمی نہیں تھا۔ اس پر مزید غضب یہ ہے کہ مغربی پنجاب میں اکثر لُوٹنے والے مشرقی پنجاب سے آئے ہوئے نہیں مغربی پنجاب کے لوگ ہیں اور مشرقی پنجاب میں لُوٹنے والے اکثر مشرقی پنجاب کے باشندے ہیں مغربی پنجاب کے گئے ہوئے لوگ نہیں۔ گویا ظلم سے لُوٹا ہوا مال بھی ان لوگوں کو نہیں ملتا جن کے مال لُوٹے گئے ہیں ان لوگوں کو ملتا ہے جن کے گھر اور جائدادیں محفوظ ہیں۔
جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں ایسے تمام لاوارث مال شریعت اسلامیہ کے رو سے حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں۔ پس پاکستان کے علاقہ کا جو مال ہندو اور سکھ چھوڑ جاتا ہے وہ کسی مسلمان کا نہیں وہ حکومت پاکستان کا ہے اور جو شخص اس مال کو لُوٹتا ہے وہ ہندو سکھ کو نہیں لُوٹتا پاکستان کو لُوٹتا ہے۔ جب امن ہوگا اور باہمی سمجھوتہ ہوگا تو حکومت پاکستان کو ان چیزوں کی قیمت ادا کرنی پڑے گی اور جب ایسا ہوا پاکستان کی حکومت کو مالی طور پر بہت بڑا نقصان پہنچے گا۔ کیا یہ دیانتداری ہے؟ کیا یہ انصاف ہے کہ خود اپنی ہی حکومت کی جڑیں کاٹی جائیں؟
جس طرح افراد کو حق نہیں کہ افراد کا مال لُوٹیں اسی طرح افراد کو یہ بھی حق نہیں کہ وہ غیرقوموں کے افراد کو ان کے دوسرے بھائیوں کے ظلموں کی وجہ سے اپنے مُلک میں تنگ کریں۔ اس بارہ میں بھی مسلمان اخبارات نہایت دلیری سے بار بار پبلک کو توجہ دلا چکے ہیں مگر ہمیں افسوس ہے کہ اب تک پبلک نے اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھا۔ ہر سمجھانے والے کو یہ کہا جاتا ہے کہ مشرقی پنجاب کو دیکھو وہاں مسلمانوں پر کیا ظلم ہو رہا ہے مگر ایسا کہنے والا یہ غور نہیں کرتا کہ خود اسی کا جواب اسے مجرم بنا رہا ہے۔ مشرقی پنجاب کا سکھ اور ہندو کیوں ظالم ہے اس لئے کہ اسے وہاں کے مسلمان کو دکھ دینے یا قتل کرنے کا کوئی قانونی حق حاصل نہیں۔ اگر یہ اصول ٹھیک ہے تو کیا یہ اصول اس مسلمان پر چسپاں نہیں ہوتا جو مغربی پنجاب میں کسی ایسے سکھ یا ہندو کو دِق کرتا یا اسے قتل کرتا ہے جو مغربی پنجاب کو چھوڑنا پسند نہیں کرتا اور ہمارے ساتھ رہنے پر رضا مند ہے۔ اگر اس سکھ یا ہندو کو مارنا یا دِق کرنا ہمارے لئے جائز ہے تو پھر مشرقی پنجاب کے سکھ اور ہندو پر بھی ہم کوئی اعتراض نہیں کر سکتے کیونکہ یہ درندوں والا قانون ہے اور اسی درندوں والے قانون پر وہ عمل کر رہا ہے اور ہم سے بہت زیادہ زور سے وہ عمل کر رہا ہے۔ اگر یہ فعل قابلِ تعریف بات ہے تو مشرقی پنجاب کا سکھ اور ہندو ہم سے بہت زیادہ قابلِ تعریف کام کر رہا ہے۔ کیونکہ جتنے سکھ ہندو، مسلمان مارتے ہیںان سے کئی گناہ زیادہ مسلمانوں کو وہ قتل کر رہا ہے۔ وہ ہم سے کئی گنا زیادہ مسلمانوں کو دِق کر رہا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بارہا یہودیوں اور عیسائیوں سے فرماتا ہے کہ تم مسلمان تو نہیں مگر کسی مذہب کو تو ماننے والے ہو کم سے کم تمہیں اپنے مذہب پر تو عمل کرنا چاہئے۔ جب تک تم اپنے مذہب پر عمل نہ کرو اُس وقت تک تمہاری کوئی حیثیت نہیں۔ یہ قانون ہمیں بھی اپنے متعلق یاد رکھنا چاہئے۔ ہم مسلمان ہیں ہمیں اسلام کے احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہم سکھ اور ہندو نہیں کہ ہم سکھوں اور ہندوؤں کا طریق اختیار کریں۔ مصر کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک عیسائی روزانہ یہ تقریر لوگوں کے اندر کیا کرتا کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دے ۶؎ اور اس سے وہ اپنے مذہب کی فضیلت ثابت کیا کرتا تھا۔ ایک دن ایک مسلمان وہاں سے گزرا اور اس نے آگے بڑھ کر ایک تھپڑ اُسے مارا۔ پادری نے اس کو پکڑ لیا اور پولیس کو آواز دی۔ اس شخص نے کہا پادری صاحب! آپ تو روزانہ وعظ کیاکرتے ہیں کہ انجیل کی تعلیم نہایت اعلیٰ ہے وہ کہتی ہے کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دے۔ پادری نے جواب میں کہا مگر آج تو میں اسلام ہی کی تعلیم پر عمل کروں گا کیونکہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو آئندہ کے لئے میں یہاں کام نہیں کر سکوں گا۔ خواہ وہ مسلمان جس نے اس پادری کو تھپڑ مارا تھا پکڑاہی گیا ہو اور اسے سزا بھی ملی ہو پھر بھی اس نے اسلامی تعلیم کی فوقیت تو ثابت کروا لی اور عیسائی سے اقرار کروا لیا کہ وہ اپنی تعلیم پر عمل نہیں کر سکتا۔ کیا ہم بھی دنیا کے سامنے یہی کہیں گے کہ بے شک اسلام کی اخلاقی تعلیم بہت اعلیٰ ہے مگر اِس وقت ہم ہندوؤں اور سکھوں کا طریق ہی اختیار کریں گے اور اسی میں ہماری نجات ہے۔ ایسا کہنے کے بعد اسلام کی دشمنوں کی نظر میں کیا وقعت رہ جائے گی۔ ہماری جانیں، ہمارے مال، ہمار ی عزتیں مشرقی پنجاب میں برباد ہوئیں۔ اگر مغربی پنجاب میں ہمارا ایمان سلامت رہ جائے اور اس شورش اور فساد کے وقت میں ہم دنیا کو یہ بتا سکیں کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے امن اور صلح قائم ہو سکتی ہے تو ہم گھاٹے میں نہیں رہیں گے۔ مال دشمن کے پاس چلا جائے گا ایمان ہم کو مل جائے گا لیکن اگر یہ بات نہ ہوئی، اگر ہم نے یہاں وہی طور طریقہ اختیار کیا جو سکھ اور ہندو مشرقی پنجاب میں اختیار کر رہا ہے تو ہمارے پاس کچھ بھی تو باقی نہیں رہے گا نہ دین نہ دنیا۔
پس ہم تمام احباب سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ مُلک میں یہ جذبہ پیدا کریں کہ اس موقع پر وہ اسلامی طریق کو اختیار کریں۔ انتقام لینا حکومت کے اختیار میں ہوتا ہے پبلک کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ حکومت کو توجہ دلاؤ کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرے مگر خود قانون اپنے ہاتھ میں نہ لو کہ یہ اسلام کے خلاف ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا کہ جب ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! اگر میںکسی شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری کرتے دیکھوں تو چونکہ اسلام نے زانی کی سزا رجم مقرر فرمائی ہے تب میں اُس کو قتل کر دوں؟ آپ نے فرمایا نہیں حکومت کو اطلاع دو اور حکومت کو اپنا قانون خود جاری کرنے دو۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تم خدا تعالیٰ کی نگاہ میں قاتل سمجھے جاؤ گے۔۷؎ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کس طرح حکومت کی ذمہ داریوں کو حکومت کے سپرد رکھنے کی تاکید کی ہے۔ ہمیں یہ حکم نہیں بھولنا چاہئے اور حکومت کی ذمہ واریوں کو اپنے قبضہ میں نہیں لینا چاہئے۔ یقینا یہ بات ہم پر گراں گزرتی ہے ہر رپورٹ جو ہم کو مشرقی پنجاب سے پہنچے گی ہمارے جذبات کو اُبھارے گی، ہماری طبیعت میں غصہ پیدا کرے گی، ہمارے اعصاب کھنچنے لگ جائیں گے اور ہمارے سر کی طرف خون چڑھنا شروع ہو جائے گا لیکن ہمیں اپنے طبعی جذبات کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اخلاق کے تابع رکھنا چاہئے۔ اسی سے دنیا میں ہماری عزت ہوگی اور اسی سے ہمارے دین کی بھلائی ہوگی۔
جو ہندو یا سکھ ہمارے مُلک میں رہنا چاہیں ہمیں اُن کو اپنی امانت سمجھنا چاہئے اور جو لوگ اپنا مال چھوڑ گئے ہیں ہمیں اس مال کو پاکستان کی امانت سمجھنا چاہئے۔ سابق مسلمانوں نے تو اپنے اخلاق کے ایسے شاندار نمونے چھوڑے ہیں کہ ہمیں اپنے لئے کسی نئے رستہ کے تجویز کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ سپین کے ایک مسلمان کو ایک عیسائی نے مار دیا۔ قاتل دَوڑ کر ایک بڑے محل میں داخل ہوا اور اس کے مالک سے کہا میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں مجھے پکڑنے کے لئے لوگ آ رہے ہیں۔ اس رئیس نے اسے اپنے مکان کے پچھواڑے میں کسی جگہ بند کر دیا جب وہ باہر نکلا تو آگے سے اسے پولیس ملی جس نے ایک لاش اُٹھائی ہوئی تھی وہ لاش انہوں نے اس کے آگے رکھ دی اور اسے بتایا کہ اس کا اکلوتا بیٹا ایک شخص نے مار دیا ہے اور وہ اس کے قاتل کی تلاش کر رہے ہیں۔ وہ اس طرف بھاگا ہوا آیا ہے مگر ابھی تک اُنہیں مل نہیں سکا۔ رئیس نے سمجھ لیا کہ وہ شخص جس کو اِس نے پیچھے مکان میں چھپایا ہے وہی اِس کے بیٹے کا قاتل ہے۔ مگر وہ سچا مسلمان تھا اپنا قول دے چکا تھا۔ پولیس کو اُس نے رخصت کیا اور اُس کمرہ کی طرف گیا جس میں اُس نے قاتل کو چھپا رکھا تھا۔ کمرہ کھول کر اُس نے کچھ روپیہ اِس قاتل کے ہاتھ میں رکھا اور کہا کہ پچھواڑے کی طرف سے نکل کر بھاگ جاؤ۔ پولیس تمہاری تلاش میں ہے۔ یہ روپیہ میں تمہیں دیتا ہوں تا کہ تمہارے بھاگنے میں مدد دے۔ باقی مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ تم قاتل ہو اور جس شخص کو تم نے مارا ہے وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے مگر مسلمان غدار نہیں ہوتا میں تمہیں پناہ دے چکا ہوں اب میں تم پر ہاتھ نہیں اُٹھا سکتا۔ یہ اسلامی اخلاق ہیں جن کی وجہ سے اسلام دنیا میں پھیلا، یہ اسلامی اخلاق ہیں جن کی وجہ سے اسلامی مبلّغوں کے سامنے تمام دنیا کی آنکھیں نیچی رہتی تھیں۔ ہمیں پھر ان اسلامی اخلاق کو زندہ کرنا چاہئے۔ غم و غصہ سے ہمارے دل مرتے ہیں تو مرنے دو کٹتے ہیں تو کٹنے دو۔ ہمارے مدنظر صرف ایک چیز رہنی چاہئے کہ اسلام زندہ ہو اور اسلام کی فوقیت دنیا کے تمام مذہبوں اور طریقوں پر ظاہر ہو۔(الفضل لاہور ۸؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء)
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
قادیان کی خونریز جنگ
اکتوبر کی پہلی تاریخ کو جب گورداسپور کی ملٹری نے قادیان میں کنوائے جانے کی ممانعت کردی تو میں اُسی وقت سمجھ گیا تھا کہ اب قادیان پر ظلم توڑے جائیں گے۔ لاہور میں کئی دوستوں کو میں نے یہ کہہ دیا تھا اور مغربی پنجاب کے بعض حُکّام کو بھی اپنے اس خیال کی اطلاع دے دی تھی۔ اِس خطرہ کے مدِنظر ہم نے کئی ذرائع سے مشرقی پنجاب کے حُکّام سے فون کر کے حالات معلوم کئے لیکن ہمیں یہ جواب دیا گیا کہ قادیان میں بالکل خیریت ہے اور احمدی اپنے محلوں میں آرام سے بس رہے ہیں صرف سڑکوں کی خرابی کی وجہ سے کنوائے کو روکا گیا لیکن جب اِس بات پر غور کیا جاتا کہ لاہور اِوَیکیویشن (Evacuation)کمانڈر کی طرف سے مشرقی پنجاب کے ملٹری حُکّام کو بعض کنوائز کی اطلاع دی گئی اور اُنہیں کہا گیا کہ اگر قادیان کی طرف کنوائے جانے میں کوئی روک ہے تو آپ ہم کو بتا دیں۔ میجر چمنی سے بھی پوچھا گیا اور بریگیڈیئر پرنج پائے متعینہ گورداسپور سے بھی پوچھا گیا تو ان سب نے اطلاع دی کہ قادیان جانے میں کوئی روک نہیں باوجود اِس کے جب کنوائے گئے تو ان کو بٹالہ اور گوراسپور سے واپس کر دیا گیا۔ یہ واقعات پہلے شائع ہو چکے ہیں ان واقعات نے میرے شبہات کو اور بھی قوی کر دیا۔ آخر ایک دن ایک فون جو قادیان سے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے نام کیا گیا تھا اتفاقاً سیالکوٹ میں بھی سنا گیا معلوم ہوا کہ قادیان پر دو دن سے حملہ ہو رہا ہے او ربے انتہاء ظلم توڑے جا رہے ہیں۔ پولیس حملہ آوروں کے آگے آگے چلتی ہے اور گولیاں مار مار کر احمدیوں کا صفایا کر رہی ہے تب اصل حقیقت معلوم ہوئی۔
دوسرے دن ایک سب انسپکٹر پولیس جو چھٹی پر قادیان گیا ہوا تھا کسی ذریعہ سے جس کا ظاہر کرنا مناسب نہیں لاہور پہنچا اور اُس نے بہت سی تفاصیل بیان کیں۔ اُس کے بعد ایک ملٹری گاڑی میں جو قادیان بعض مغربی پنجاب کے افسروں اور بعض مشرقی پنجاب کے افسروں کو جو قادیان کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجی گئی تھی میں بعض اور لوگ تھے جنہوں نے اور تفصیل بیان کی۔ اِن حالات سے معلوم ہوا کہ حملہ سے پہلے کرفیو لگا دیا گیا تھا پہلے قادیان کی پرانی آبادی پر جس میں احمدیہ جماعت کے مرکزی دفاتر واقع ہیں حملہ کیا گیا۔ اس حصہ کے لوگ اس حملہ کا مقابلہ کرنے لگے اُنہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ باہر کے محلوں پر بھی تھوڑی دیر بعد حملہ کر دیا گیا ہے یہ لوگ سات گھنٹہ تک لڑتے رہے اور اس خیال میں رہے کہ یہ حملہ صرف مرکزی مقام پر ہے باہر کے مقام محفوظ ہیں چونکہ جماعت احمدیہ کا یہ فیصلہ تھا کہ ہم نے حملہ نہیں کرنا بلکہ صرف دفاع کرنا ہے اس لئے تمام محلوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ جب تک ایک خاص اشارہ نہ کیا جائے کسی محلہ کو باقاعدہ لڑائی کی اجازت نہیں۔ جب افسر یہ تسلی کر لیں کہ حملہ اتنا لمبا ہو گیا ہے کہ اب کوئی شخص یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ احمدیہ جماعت نے مقابلہ میں ابتداء کی ہے وہ مقررہ اشارہ کریں گے اُس وقت جماعت منظم طور پر مقابلہ کرے گی۔ اس فیصلہ میں ایک کوتاہی رہ گئی وہ یہ کہ اس بات کو نہیں سوچا گیا کہ اگر پولیس بیرونی شہر اور اندرونی شہر کے تعلقات کو کاٹ دے تو ایک دوسرے کے حالات کا علم نہ ہو سکے گا۔ پس ان حالات میں ہر محلہ کا الگ کمانڈر مقرر ہو جانا چاہئے جو ضرورت کے وقت آزادانہ کارروائی کر سکے۔ یہ غلطی اس وجہ سے ہوئی کہ قادیان کے لوگ فوجی تجربہ نہیں رکھتے وہ تو مبلّغ، مدرّس، پروفیسر، تاجر اور زمیندار ہیں ہر قسم کے فوجی نقطۂ نگاہ پر حاوی ہونا ان کے لئے مشکل ہے۔ بہرحال یہ غلطی ہوئی اور باہر کے محلوں نے اس بات کا انتظار کیا کہ جب ہم کو وہ اشارہ ملے گا تب ہم منظم مقابلہ کریں گے لیکن اُس وقت اتفاق سے سب ذمہ دار کارکن مرکزی دفاتر میں تھے اور باہر کے محلوں میں کوئی ذمہ دار افسر نہیں تھا اور مرکز کے لوگ غلطی سے یہ سمجھ رہے تھے کہ حملہ صرف مرکزی مقام پر ہے باہر کے محلوں پر نہیںاورباہر کے محلے یہ سمجھ رہے تھے کہ ہمارے حالات کا علم مرکزی محلہ کو ہوگا کسی مصلحت کی وجہ سے اُنہوںنے ہمیں مقابلہ کرنے کا اشارہ نہیں کیا۔ سات گھنٹہ کی لڑائی کے بعد جب مرکزی محلہ پر زور بڑھا تو مرکزی محلہ کی حفاظت کیلئے معیّن اشارہ کیا گیا مگر اُس وقت تک بہت سے بیرونی محلوں کو پولیس اور ایک حد تک ملٹری کے حملے صاف کرواچکے تھے۔ حملہ آوروں کی بہادری کا یہ حال تھا کہ سات گھنٹے کے حملہ کے بعد جب جوابی حملہ کا بِگل بجایا گیا تو پانچ منٹ کے اندر پولیس اور حملہ آور جتھے بھاگ کر میدان خالی کر گئے۔ ان حملوں میں دو سَو سے زیادہ آدمی مارے گئے لیکن ان کی لاشیں جماعت کو اُٹھانے نہیں دی گئیں تا ان کی تعداد کا بھی علم نہ ہو سکے اور ان کی شناخت بھی نہ ہوسکے بغیر جنازہ کے اور بغیر اسلامی احکام کی ادائیگی کے یہ لوگ، ظالم مشرقی پولیس کے ہاتھوں مختلف گڑھوں میں دبا دیئے گئے تا کہ دنیا کو اُس ظلم کا اندازہ نہ ہو سکے جو اُس دن قادیان میں مشرقی پنجاب کی پولیس نے کیا تھا۔ مشرقی پنجاب کے بالا حکام سے جو ہمیں اطلاع ملی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ مقامی حُکّام نے مرکزی حُکّام کو صرف یہ اطلاع دی کہ سکھ جتھوںنے احمدی محلوں پر حملہ کیا۔ تیس آدمی سکھ جتھوں کے مارے گئے اور تیس آدمی احمدیوں کے مارے گئے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دوسَو سے زیادہ قادیان میں احمدی مارے گئے جن میں کچھ غیر احمدی بھی شامل تھے جیسا کہ آگے بتایا جائے گا اور سکھ بھی تیس سے زیادہ مارے گئے کیونکہ گو اس غلطی کی وجہ سے جو اوپر بیان ہوچکی ہے منظم مقابلہ نہیں کیا لیکن مختلف آدمی بھی حفاظتی چوکیوں پر تھے انہوں نے اچھا مقابلہ کیا اور بہت سے حملہ آوروں کو مارا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جب باہر سے پویس اور سکھ حملہ کر رہے تھے اور ملٹری بھی ان کے ساتھ تھی (گو کہا جاتا ہے کہ ملٹری کے اکثر سپاہیوں نے ہوا میں فائر کئے ہیں) اُس وقت کچھ پولیس کے سپاہی محلوں کے اندر گھس گئے اور انہوں نے احمدیوں کو مجبور کیا کہ یہ کرفیو کا وقت ہے اپنے گھروں میں گھس جائیں چنانچہ ایک احمدی گریجوایٹ جو اپنے دروازے کے آگے کھڑا تھا اُسے پولیس مین نے کہا کہ تم دروازے کے باہر کیوں کھڑے ہو؟ جب اس نے کہا کہ یہ میرا گھر ہے میں اپنے گھر کے سامنے کھڑا ہوں تو اُسے شوٹ کر دیا گیا اور جب وہ تڑپ رہا تھا تو سپاہی نے سنگین سے اُس پر حملہ کر دیا اور تڑپتے ہوئے جسم پر سنگین مار مار کر اُسے مار دیا۔ اس کے بعد بہت سے محلوں کو لُوٹ لیاگیا اور اب ان کے اندر کسی ٹوٹے پھوٹے سامان یا بے قیمت چیزوں کے سوا کچھ باقی نہیں۔ مرکزی حصہ پر جو حملہ ہوا اس میں ایک شاندار واقعہ ہوا ہے جو قرون اولیٰ کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ جب حملہ کرتے ہوئے پولیس اور سکھ شہر کے اندر گھس آئے اور شہرکے مغربی حصہ کے لوگوں کو مار پیٹ کر خالی کرانا چاہا اور وہ لوگ مشرقی حصہ میں منتقل ہو گئے تو معلوم ہوا کہ گلی کے پار ایک گھر میں چالیس عورتیں جمع تھیں وہ وہیں رہ گئی ہیں انہیں افسران نکلوانے کے لئے گلی کے سرے پر جو مکان تھا وہاں پہنچے اور ان کے نکالنے کے لئے دو نوجوانوں کو بھیجا۔ یہ نوجوان جس وقت گلی پار کرنے لگے تو سامنے کی چھتوں سے پولیس نے ان پر بے تحاشا گولیاں چلانی شروع کیں اور وہ لوگ واپس گھر میں آنے پر مجبور ہوگئے تب لکڑی کے تختے منگوا کر گلی کے مشرقی اور مغربی مکانوں کی دیواروں پر رکھ کر عورتوں کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کی گئی جو نوجوان اس کام کے لئے گئے ان میں ایک غلام محمد صاحب ولد مستری غلام قادر صاحب سیالکوٹ تھے اور دوسرے عبدالحق نام قادیان کے تھے جو احمدیت کی طرف مائل تو تھے مگر ابھی جماعت میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ یہ دونوں نوجوان برستی ہوئی گولیوں میں سے تختے پر سے کودتے ہوئے اُس مکان میں چلے گئے جہاں چالیس عورتیں محصور تھیں اُنہوں نے ایک ایک عورت کو کندھے پر اُٹھا کر تختے پر ڈالنا شروع کیا اور مشرقی مکان والوں نے انہیں کھینچ کھینچ کر اپنی طرف لانا شروع کیا جب وہ اپنے خیال میں سب عورتوں کو نکال چکے اور خود واپس آ گئے تو معلوم ہوا کہ اُنتالیس عورتیں آئی ہیں اور ایک بڑھیا عورت جو گولیوں سے ڈر کے مارے ایک کونے میں چھپی ہوئی تھی رہ گئی ہے۔ اب اِردگرد کی چھتوں پر پولیس جتھوں کا ہجوم زیادہ ہوچکاتھا گولیاں بارش کی طرح گر رہی تھیں اور بظاہر اس مکان میں واپس جانا ناممکن تھا مگر میاں غلام محمد صاحب ولد میاں غلام قادر صاحب سیالکوٹی نے کہا کہ جس طرح بھی ہو مَیں واپس جاؤں گا اور اس عورت کو بچا کر لاؤں گا او روہ برستی ہوئی گولیوں میں جو نہ صرف درمیانی راستہ پر برسائی جا رہی تھیں بلکہ اُس گھر پر بھی برس رہی تھیں جہاں احمدی کھڑے ہوئے بچاؤ کی کوشش کر رہے تھے کود کر اُس تختے پر چڑھ گئے جو دونوں مکانوں کے درمیان پُل کے طور پر رکھا گیا تھا جب وہ دوسرے مکان میں کود رہے تھے تو رائفل کی گولی ان کے پیٹ میں لگی اور وہ مکان کے اندر گر پڑے مگر اس حالت میں بھی اس بہادر نوجوان نے اپنی تکلیف کی پرواہ نہ کی اور اُس بڑھیا عورت کو تلاش کر کے تختے پر چڑھانے کی کوشش کی لیکن شدید زخموں کی وجہ سے وہ اس میںکامیاب نہ ہو سکا اور دوتین کوششوں کے بعد نڈھال ہو کر گر گیا۔ اس پر میاں عبدالحق صاحب نے کہا کہ میں جا کر ان دونوں کے بچانے کی کوشش کرتا ہوں اور وہ کود کر اس تختہ پر چڑھ گئے۔ اُن کو دیکھتے ہی ایک پولیس مین دوڑا ہوا آیا اور ایک پاس کے مکان سے صرف چند فٹ کے فاصلہ پر سے ان کی کمر میں گولی مار دی اور وہ وہیں فوت ہوگئے جب حملہ آور بگل بجنے پر دَوڑ گئے تو زخمی غلام محمد صاحب اور اس بڑھیا کو اس مکان سے نکالا گیا چونکہ ہسپتال پر پولیس نے قبضہ کر لیا ہے اور وہاں سے مریضوں کو زبردستی نکال دیا ہے اور تمام ڈاکٹری آلات اور دوائیاں وہاں ہی پڑی ہیں مریضوں اور زخمیوں کا علاج نہیں کیا جا سکتا اور یوں بھی غلام محمد صاحب شدید زخمی تھے معمولی علاج سے بچ نہ سکے اور چند گھنٹوں میں فوت ہوگئے۔ مرنے سے پہلے انہوں نے اپنے ایک دوست کو بلایا اور اسے یہ باتیں لکھوائیں کہ :۔
’’مجھے اسلام اور احمدیت پر پکا یقین ہے میں اپنے ایمان پر قائم جان دیتا ہوں۔ میں اپنے گھر سے اسی لئے نکلا تھا کہ میں اسلام کے لئے جان دوںگا آپ لوگ گواہ رہیں کہ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور جس مقصد کے لئے جان دینے کے لئے آیا تھا میں نے اس مقصد کے لئے جان دے دی۔ جب میں گھر سے چلا تھا تو میری ماں نے نصیحت کی تھی کہ بیٹا دیکھنا پیٹھ نہ دکھانا۔ میری ماں سے کہہ دینا کہ تمہارے بیٹے نے تمہاری وصیت پوری کر دی اور پیٹھ نہیں دکھائی اور لڑتے ہوئے مارا گیا‘‘۔
چونکہ ظالم پولیس نے سب راستوں کو روکا ہوا ہے مقتولین کو قبروں میں دفن نہیں کیا جا سکا اس لئے جو لوگ فوت ہوتے ہیں یا قتل ہوتے ہیں انہیں گھروں میں ہی دفن کیا جاتا ہے ان نوجوانوں کو بھی گھروں میں ہی دفن کرنا پڑا اور میاں غلام محمد اور عبدالحق دونوں کی لاشیں میرے مکان کے ایک صحن میں پہلو بہ پہلو سپردِ خاک کر دی گئیں۔ یہ دونوں بہادر اور سینکڑوں آدمی اِس وقت منوں مٹی کے نیچے دفن ہیں لیکن اُنہوں نے اپنی قوم کی عزت کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ مرنے والے مرگئے اُنہوں نے بہرحال مرنا ہی تھا اگر وہ اور کسی صورت میں مَرتے تو ان کے نام کو یاد رکھنے والا کوئی نہ ہوتا اور وہ اپنے دین کی حفاظت اور اسلام کا جھنڈا اونچا رکھنے کیلئے مرے ہیں اس لئے حقیقتاً وہ زندہ ہیں اور آپ ہی زندہ نہیں بلکہ اپنے بہادرانہ کارناموں کی وجہ سے آئندہ اپنی قوم کو زندہ رکھتے چلے جائیں گے۔ ہر نوجوان کہے گا کہ جو قربانی ان نوجوانوں نے کی وہ ہمارے لئے کیوں ناممکن ہے جو نمونہ اُنہوں نے دکھایا وہ ہم کیوں نہیں دکھا سکتے۔ خدا کی رحمتیں ان لوگوں پر نازل ہوں اور ان کانیک نمونہ مسلمانوں کے خون کو گرماتا رہے اور اسلام کا جھنڈا ہندوستان میں سرنگوں نہ ہو۔
اسلام زندہ باد۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم زندہ باد۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
(الفضل لاہور ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سیاستِ پاکستان
ہم پہلے ایک دفعہ لکھ چکے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کو بہت زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی حکومت ابھی نئی نئی قائم ہوئی ہے اور اس کے لئے اقتصادی اور انتظامی مشکلات بے انتہاء ہیں۔ جہاں تک محنت اور کوشش کا سوال ہے وزراء باوجود ناتجربہ کاری کے اپنی طاقت سے زیادہ کام کر رہے ہیں لیکن دو نقص ایسے ہیں جن کی وجہ سے کام سنبھل نہیں سکتا۔
اوّل تو یہ کہ بوجہ دفتری کام کی ناواقفیت کے وزراء کو وقت کا اندازہ نہیں اور نہ لوگوں کو ان کی مہمات کا اندازہ ہے۔ بعض دفعہ معمولی باتوں میں وزراء زیادہ وقت صَرف کر دیتے ہیں اور بعض دفعہ غیر ضروری باتوں کو پیش کرنے کیلئے مُلک کے لوگ ان کے پاس آ جاتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ اُنہیں ملاقات کا موقع دیا جائے۔
دوسرے ایک ایک وزیر کے پاس کئی کام ہیں اس ہنگامی زمانہ میں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی اقتصادی حالت کمزور ہے لیکن جس کام کے لئے جتنے آدمیوں کی ضرورت ہے ان کے مہیا کئے بغیر چارہ نہیں۔ مہذب حکومتوں میں ہر وزیر کے ساتھ ایک ایک نائب وزیر ہوا کرتا ہے اور وہ بھی پارلیمنٹ کے ممبروں میں سے ہوتا ہے لیکن پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتوںمیں سوائے مشرقی بنگال کے چند وزراء کے سپرد سارے کام کر دیئے گئے ہیں اور نائب وزیر مقرر نہیں اس کی وجہ سے نہ تو کام ٹھیک ہو سکتاہے اور نہ مسلمانوں میں نئے تجربہ کار آدمی پیدا ہوتے ہیں۔ آخر وزراء بھی انسان ہیں اور ان کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اگر کل کو ایک وزیر فوت ہو گیا تو یہی ہوگا کہ اس کا محکمہ بھی کسی اور وزیر کے سپرد کر دیا جائے گا اور کام کی زیادتی کی وجہ سے دونوں وزارتوں کا کام تباہ ہو جائے گا یا کسی ناتجربہ کار کو اس کام پر لگایا جائے گا جو نئے سرے سے پھر تجربہ کرنا شروع کرے گا۔ اگر اس مجرب نسخہ پر عمل کیا جاتا کہ ہر وزیر کے ساتھ ایک نائب وزیر لگایا جاتا جس کے سپرد اس وزارت کے بعض محکمے کر دیئے جاتے یا جس کے تفویض میں بعض چھوٹے کام دے دیئے جاتے تو اس نقصان کا خطرہ نہ رہتا اور مزید نوجوانوں کی تربیت ہوتی چلی جاتی اور کسی اتفاقی حادثہ یا اختلاف کی وجہ سے اگر کوئی وزیر الگ ہو جاتا یا الگ کیا جاتا تو اس کا قائمقام فوراً ہی میسر آ سکتا اور نئے تجربوں میں وقت ضائع نہ ہوتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض جگہوں پر پارلیمنٹری سیکرٹری مقرر کئے گئے ہیں لیکن پارلیمنٹری سیکرٹری اور نائب وزیر کے کاموں میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ پارلیمنٹری سیکرٹری کے سپرد محکمے نہیںہوا کرتے وہ تو ایک قسم کا پرائیویٹ سیکرٹری ہوتاہے لیکن نائب وزیر ایک باقاعدہ وزیر ہوتاہے اور کئی محکمے اورکئی ضروری کام اس کے سپرد ہوتے ہیں اور وزیر کی عدم موجودگی میں وزارت کا کام وہ خود کرتا ہے پارلیمنٹری سیکرٹری ایسا نہیںکر سکتا۔ اگر مالی مشکلات ہوں تو وزراء کی تنخواہیں کم کی جا سکتی ہیں آخر غریبوں کے گزارے غریبانہ ہی ہوسکتے ہیں۔ ہمارے مُلک کی موجودہ حالت کے لحاظ سے اگر نائب وزیروں کو ایک ایک ہزار روپیہ تنخواہ دے دی جائے تو بڑی کافی ہے۔ اِس طرح دو ڈپٹی کمشنروں کی تنخواہ سے ساری وزارتوں میں نائب وزیر رکھے جا سکتے ہیں۔
اگر وزراء بڑھا دیئے جائیں اور ہر وزیر کے ساتھ نائب وزیر مقرر کر دیئے جائیں تو ہر صوبہ میں اور مرکز میں بہت جلد تجربہ کار آدمی پیدا ہو جائیں گے اور تقسیم کار کی وجہ سے کام بھی اچھا ہونے لگ جائے گا۔
مذکورہ بالا نقائص کی وجہ سے پاکستان کا سیاسی نظام بہت کمزور طور پر چل رہا ہے۔ بہت سے ضروری ممالک جن سے فوراً پاکستان کا تعلق قائم ہو جانا چاہئے تھا، ان سے اب تک تعلق قائم نہیں ہو سکا اور شاید پاکستانی حکومت کے ذمہ داروں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ بعض طریقے ایسے بھی ہیں کہ بہت کم خرچ سے بیرونی ممالک سے تعلق قائم کئے جا سکتے ہیں۔
اس وقت ہم تین مُلکوں کا ذکر کرتے ہیں جن سے پاکستان کے سیاسی تعلقات فوراًقائم ہو جانے چاہئیں تھے اور جن کی طرف سے حکومت پاکستان کو فوری توجہ دینی چاہئے تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔یہ مُلک انڈونیشیا، ایبے سینیا اور سعودی عرب ہیں۔ انڈونیشیا دوسرا بڑا اسلامی مُلک ہے جس میں مسلمانوں کی آبادی چھ کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ پھر اس کا مقامِ وقوع ایسی جگہ پر ہے کہ اس سے تعلقات آئندہ پاکستان کی ترقی اور حفاظت میںبہت کچھ ممد ہو سکتے ہیں لیکن جبکہ ہندوستان یونین اس کے ساتھ تعلق بڑھا رہی ہے پاکستان حکومت نے اب تک پوری جدوجہد سے کام نہیں لیا۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے پیار ہے اور وہ ایک دوسرے سے ہمدردی رکھتے ہیں لیکن سیاسی معاملات کچھ ایسے پیچیدہ ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ دوست دشمن بن جاتے ہیں اور دشمن دوست بن جاتے ہیں اور صرف مذہبی اتحاد کو سیاسی اتحاد کا پورا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا۔ جرمنی بھی عیسائی تھا اور انگلستان بھی عیسائی تھا مگر پھر بھی یہ دونوں لڑتے تھے۔ پس ہمیں اس بات پر اعتماد کر کے نہیں بیٹھ جانا چاہئے کہ انڈونیشیا کے لوگ مسلمان ہیں اس لئے بغیر کسی جدوجہد کے ہمارا اِن سے دوستانہ قائم رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ بعض دوسری حکومتیں ان پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ انڈونیشیا کا فائدہ ان حکومتوں کے ساتھ تعلقات پیداکرنے میں زیادہ ہے اور پاکستان کے ساتھ تعلق پیدا کرنے میں کم ہے۔ اگر ایسا ہوا اور اس کوشش میں وہ کامیاب ہو گئے تو یقینا باوجود مسلمان ہونے کے انڈونیشیا کے لوگ اپنے سیاسی فوائد کی خاطر پاکستان کی طرف سے ہٹ جائیں گے اور ان دوسری حکومتوں کی طرف جھک جائیں گے۔ اس قسم کی کوشش انڈین یونین کی طرف سے شروع ہے۔انڈین یونین کے افسر کوئی موقع نہیں جانے دیتے جس میں وہ انڈونیشیا کے وزراء کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش نہ کریں۔ ہمیں لنڈن سے اطلاع ملی ہے کہ سلطان شہریار حال ہی میں امریکہ سے واپسی پر انگلستان سے گزرے اور باوجود پاکستانی ہائی کمشنر کی موجودگی کے وہ ہندوستانی یونین کے ہائی کمشنر مسٹر منین کے گھر پر ان کے مہمان ٹھہرے۔ انسان اسی کے گھر پر ٹھہرنا پسند کرتا ہے جس کا وہ دوست ہوتا ہے اور جس کو میزبانی کا موقع ملے وہ مہمان پر دوسروں سے زیادہ اثر ڈال سکتا ہے۔ سلطان شہریار کو یقینا ہندوستان کے ہائی کمشنر نے اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دی ہوگی۔ اگر پاکستان کا ہائی کمشنر بھی ایسا کرتا تو سلطان شہریار یقینا اِن کے ہاں ٹھہرنے کو ترجیح دیتے۔ ہمارے نزدیک تمام پاکستانی سفراء اور ہائی کمشنروں کو ہدایت جانی چاہئے کہ وہ تمام اسلامی ممالک کے نمائندوں، سفیروں، وزیروں اور سیاسی لیڈروں کے ساتھ تعلقات بڑھائیں اور جب بھی وہ اس مُلک میں داخل ہوں جہاں وہ پاکستانی سفیر یا ہائی کمشنر مقرر ہے وہ اُن کو اپنے گھر پر مہمان ٹھہرنے کی دعوت دیں اگر وہ ہوٹل میں ٹھہرنا ہی پسند کریں تو وہ ان کے اعزاز میںپارٹی دیں اور ان کے اس کام میں تعاون کریں جس کام کے لئے وہ اس مُلک میں آئے ہیںاس کانتیجہ یہ ہوگا کہ تمام اسلامی ممالک زیادہ سے زیادہ آپس میں متحد ہوتے جائیں گے اور چند ہی سالوں میں ایک زبردست اسلامی حکومت پیدا ہو جائے گی جسے چھیڑنے کا کسی دشمن کو حوصلہ نہ پڑے گا۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ مسلمان حکومتوںمیں سے کوئی ایک بھی تو ایسی نہیں جو دنیا کی بڑی حکومتوں میں شامل کئے جانے کی مستحق ہو۔ آبادی کے لحاظ سے، اقتصادی لحاظ سے، قومی تنظیم کے لحاظ سے مسلمان حکومتیں دوسری بہت سی حکومتوں سے پیچھے ہیں۔ ان کو صف اوّل میں لانے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ ساری مسلمان طاقتیں متحد ہو جائیں اور سیاسی معاملات میں ایک ہی آواز اُٹھائیںاگر وہ ایسا کر لیں تو کم سے کم اپنی متحدہ حیثیت میں وہ دنیا کی بڑی حکومتوں میں شمار ہونے لگ جائیں گی۔
دوسری خبر اسی سلسلہ میں ہمیں یہ ملی ہے کہ اب تک سعودی عرب سے بھی تعلقات پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی حالانکہ سعودی عرب وہ مُلک ہے جس میں ہمارامقدس مقام مکہ مکرمہ اور ہمارا قبلہ گاہ بیت اللہ اور ہمارے آقا کا مقامِ ہجرت اور مدفن مدینہ منورہ واقعہ ہیں۔ ہم خواہ کسی مذہب اور فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں ہم ان مقامات کی طرف سے اپنی نظریں نہیں ہٹا سکتے اور جس حکومت کے ماتحت بھی یہ مقامات ہوں اُس کیساتھ تعلق پیدا کرناہمارا ضروری فرض ہے کیونکہ مسلمانوںکا حقیقی اتحاد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے ذریعہ سے ہی ہو سکتا ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ستمبر کے آخر میں سلطان ابن سعود ۸؎ عرب کے تیل کے چشموں کے پاس حفوف مقام پر کچھ دنوں کے لئے آ کر قیام پذیر ہوئے۔ عبدالرشید صاحب گیلانی سابق وزیر اعظم عراق جو جرمن کی جنگ کے وقت جرمنی سے ساز باز کرنے کے الزام کے نیچے آ گئے تھے اور عراق سے بھاگ کرجرمنی چلے گئے تھے اور آجکل سلطان ابن سعود کے پاس رہتے ہیں، ان کے ساتھ تھے۔ کچھ ہندوستانی جو عبدالرشید صاحب گیلانی کے اُس وقت کے واقف تھے جب وہ جرمنی میں تھے اُن سے ملنے کے لئے گئے اور اُن کی وساطت سے سلطان ابن سعود سے بھی ملے۔ ان لوگوں نے پنجاب کے واقعات ہائلہ سلطان اور ان کے وزیروں اور شہزادوں کو سنائے۔ اس کے جواب میں سلطان ابن سعود اور ان کے وزیروں نے کہا کیا وجہ ہے کہ پاکستان حکومت اپنا سفیر ہمارے ہاں نہیں بھجواتی تا کہ ہم لوگوں کو بھی پاکستان کے حالات معلوم ہوتے رہیں اور موقع مناسب پر ہم ان کی تائید میں آواز بلند کر سکیں۔ پھر اُنہوں نے ایک معزز ہندوستانی سے کہا کہ اگر وہ اپنا سفیر باہر سے نہیں بھجوا سکتی تو کیوں تم کو ہی وہ اپنا سفیر یہاں مقرر نہیں کر دیتی۔ سیاست سے ناواقف لوگ شاید اِس فقرہ کا مطلب نہ سمجھ سکیں۔ بات یہ ہے کہ یورپ کی اکثر چھوٹی اورغریب حکومتیں جو زیادہ سفارتوں کا بار نہیں اُٹھا سکتیں اپنی رعایا کے بعض افراد کو جو تجارتوں کی وجہ سے یا پیشوں کی وجہ سے دوسرے ممالک میں رہتے ہیں اپنے قنصل مقرر کر دیتی ہیں کچھ خرچ ماہوار انہیں دفتر اور خط و کتابت اور کلرکوں کے لئے دے دیتے ہیں اور اس طرح ان کے حقوق اس مُلک میں محفوظ کرنے کا ایک ذریعہ نکل آتا ہے۔ وہ تاجر اور پیشہ ور اس لئے اس کام کو قبول کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے اُس کی حیثیت اُس علاقہ میں بہت بڑھ جاتی ہے اور کئی قسم کے فائدے حاصل کر لیتا ہے اور اسے مقرر کرنے والی حکومت کو یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ بغیر زیادہ خرچ کرنے کے اُس کا نمائندہ اُس مُلک میں مقرر ہو جاتاہے۔ سلطان ابن سعود مغربی تعلیم سے نابلد ہی سہی مگر وہ عملی سیاسیات کو خوب سمجھتے ہیں اس لئے انہیںتعجب ہوا کہ اگر پاکستان کی حکومت زیادہ روپیہ نہیں خرچ کر سکتی تو عرب میں رہنے والے ہندوستانی کو تو اپنا قائمقام مقرر کر سکتی ہے تا کہ وہ محکمانہ طور پر اپنے مُلک کے معاملات سے سعودی عرب کو واقف کرتا رہے۔ آخر حکومتیں اخباری خبروں پر تو کوئی احتجاج نہیں کر سکتیں وہ اُسی وقت احتجاج کرتی ہیں جب ان کو سیاسی راستوں سے اطلاع دی جائے اگر سیاسی سفیر یا قنصل نہ ہوں تو باقاعدہ طور پر دوسری حکومت کے سامنے حالات نہیں پہنچ سکتے اور وہ حکومت بھی آئینی طور پر ان کے متعلق کوئی کارروائی نہیں کر سکتی۔ اگر پاکستان کے نمائندے سعودی عرب، عراق، شام، ٹرکی، ایران اور مصر میں ہوتے اور مقررہ سیاسی رستوں سے ان حکومتوں کو اپنی مشکلات سے اطلاع دیتے تو وہ حکومتیں بطور حکومت ہندوستانی حکومت کے سامنے احتجاج کرتیں اور اس کا اثر ساری دنیا کی حکومتوں پر پڑتا۔ اخباروں کی ہمدردی اور بڑے بڑے لیڈروں کے بیانات بھی بے شک بہت فائدہ دیتے ہیں مگر حکومتوں کے باقاعدہ احتجاج اور اخباروں کے مضامین میں بہت بڑا فرق ہے۔ آخر اس میں مشکل ہی کیا ہے ہر مُلک میں کچھ نہ کچھ معزز ہندوستانی موجود ہیں۔ باقاعدہ سفارتیں نہ سہی غیر معمولی نمائندگی کے حقوق اسلامی ممالک میں ایک ایک معزز ہندوستانی کے سپرد کر دیئے جائیں تو سیاسی تعلقات پاکستان اور دوسری اسلامی حکومتوں میں فوراً قائم ہو سکتے ہیں۔ ایسے انتظام پر شاید ہزار ڈیڑھ ہزار روپیہ ماہوار خرچ ہوگا، اس سے زیادہ نہیں۔
تیسری شکایت ہمیں یہ پہنچی ہے کہ ایبے سینیا میں ہندوستان کی آزادی کا دن منایا گیا اور ہندوستانی جھنڈے تقسیم کئے گئے اور خوشی سے ایبے سینیا کے لوگوں نے ہندوستانی جھنڈے لہرائے لیکن پاکستان کی آزادی کا دن نہ منایا گیا اور نہ پاکستان کے جھنڈے وہاں لہرائے گئے۔ ایبے سینیا کے شاہی خاندان کا ایک حصہ مسلمان ہے اور بعض زبردست فوجی قبائل بھی مسلمان ہیں وہ اس نظارہ کو دیکھ کر بہت مایوس ہوئے اور ایبے سینیا کے ہندوستانی ڈاکٹر جو اتفاقاً احمدی ہے سے پوچھا کہ یہاں پاکستانی جھنڈے کیوں نہیں آئے اور پاکستان کی طرف سے ہم لوگوں کو خوشی میں شامل ہونے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟ وہ سوائے افسوس کے اور کیا کر سکتاتھا اب اُس نے پاکستان کو لکھا ہے کہ کچھ پاکستانی جھنڈے بھجوا دیئے جائیں تا کہ وہ مسلمانوں میں تقسیم کئے جائیں اور اس کے نمونہ پر وہ اپنے لئے جھنڈے بنوا لیں کیونکہ ایبے سینیا کے مسلمان چاہتے ہیں کہ وہ بھی پاکستان کی خوشی میں شامل ہوں۔ ایبے سینیا گو حکومت کے لحاظ سے عیسائی ہے لیکن اس کو تین عظیم الشان حیثیتیں حاصل ہیں۔ ایک یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں ایبے سینیا نے ہجرتِ اولیٰ کے مسلمانوں کو پناہ دی تھی اور اُس وقت کا بادشاہ مسلمان بھی ہو گیا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُس بادشاہ اور اُس کی قوم کے لئے خاص طور پر دعا فرمائی تھی آج تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط اس مُلک میں محفوظ چلا آتا ہے۔
دوسرے ایبے سینیا کے شاہی خاندان کا ایک حصہ مسلمان ہے۔ کبھی کبھی وہ غالب آکر اس مُلک میں اسلامی حکومت بھی قائم کر دیتا ہے۔ ایبے سینیا اپنے معدنی اور دوسرے ذرائع کی وجہ سے اور اپنے مُلک کی وسعت کی وجہ سے اور اپنے مقامِ وقوع کی وجہ سے ایسی حیثیت رکھتا ہے کہ اگر کسی وقت وہاں اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو وہ اسلامی سیاست کی تقویت میں بہت بڑی ممد ثابت ہوگی۔
تیسرے پاکستان کے محاذ میں ایبے سینیا کا مُلک واقعہ ہے۔ اٹلی کے لوگوں نے اریتھیریا لے کر اس کو سمندر سے الگ کر دیا ہے لیکن باوجود اس کے وہ مُلک حجاز سے تھوڑی دور ایک پتلی خلیج کے بالمقابل واقع ہے اس لئے اس کے ساتھ تعلقات عرب اور پاکستان کے لئے نہایت ہی مفید نتیجہ خیزہو سکتے ہیں۔ اگر اس مُلک میں بھی کوئی سیاسی قائمقام مقرر ہوجائے تو آئندہ افریقہ میں اسلام کی اشاعت اور ترقی کے لئے رستہ کھل جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان باتوں کی طرف توجہ اس لئے نہیں ہو رہی کہ وزیروں کے سپرد بہت سے کام ہیں اور نائب وزراء مقرر نہیں ہیں۔ ہمارے نزدیک اِس طرف جلد توجہ کرنی چاہئے اور اسلامی پریس اور ذِی اثر مسلمانوںکو بار بار حکومت پر اِس کی ضرورت واضح کرتے رہنا چاہئے۔
پاکستان کس حکومت سے تعاون کرے؟
مغربی پنجاب کا تعلیم یافتہ طبقہ آجکل اپنی مجالس میں کثرت سے
یہگفتگو کرتا ہوا سنا جاتا ہے کہ پاکستان کو اپنے بقاء کے لئے کسی نہ کسی دوسری قوم سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ اکثر لوگ انگریز سے بدظن ہیں اور اس کے ساتھ صلح کرنا پسند نہیں کرتے۔ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی طرف بھی مسلمان نوجوانوں کی کوئی رغبت نظر نہیں آتی لیکن اکثر نوجوان روس کی مدد لینے کی طرف مائل نظر آتے ہیں ہمارے نزدیک یہ ایک خطرناک بات ہے اور اِس رَو کو جتنی جلدی ہو سکے روکنا چاہئے۔ ہمارے نزدیک اس قسم کے خیالات رکھنے والے لوگوں کو دو باتیں کبھی نہیں بھولنی چاہئیں۔
اوّل آج تک روس کے ساتھ تعلق رکھنے والی کوئی حکومت آزاد نہیں ہوئی۔ روسی فلسفہ اس پر جبراً ٹھونسا گیا ہے کوئی مُلک ایسا نہیں جس نے روس سے معاہدہ کیا ہو اور اس پر کمیونسٹ حکومت ٹھونس نہ دی گئی ہو۔ کمیونسٹ خیال کا رکھنا اَور چیز ہے اور کمیونسٹ حکومت کا ٹھونسنا اور چیز ہے لمبی تعلیم اور لمبے غور اور لمبے تجربہ کے بعد ایک خیال کو اَپنا لینا بُرا نہیں ہوتا لیکن پیشتر اس کے کہ مُلک کے لوگوں کی اکثریت ایک بات پر قائم ہو، اقلیت کی مدد کر کے اس کو ایک خاص نظام اختیار کرنے پر مجبور کر دینا نہایت مہلک ہوتا ہے اور مذہبی آزادی کو تباہ کر دیتا ہے۔
دوسری بات یہ یاد رکھنی چاہئے کہ مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان ممالک پر روس کی نظر ہے وہ ان کو تباہ کرنا چاہتا ہے اس لئے باوجود انگریزوں کی مخالفت کے وہ روس کی طرف مائل نہیں۔ مصر، شام،حجاز، عراق اور ٹرکی کی حکومتیں سب کی سب روسی نفوذ کے خلاف اور اس سے خائف ہیں۔ پبلک میں سے بھی اکثر اسی خیال کے ہیں۔ ایران بھی روسی دخل اندازی سے نالاں اور گریاں ہے۔ پاکستان کی حقیقی ترقی کا راز مُسلم اقوام کے اتحاد میں ہے اگر ہم اسلام کی سچی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مسلمان حکومتوں کو اکٹھا کرنا پڑے گا تا کہ اسلام کے اثر اور اس کے نفوذ کو بڑھا سکیں۔ اگر پاکستان کے نوجوانوںکی توجہ روس کی طرف رہی تو لازمی طور پر پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک میںتفرقہ پیدا ہو جائے گا اور یہ دونوں مل کر ایک مقصد اور مدعا کے حصول کے لئے کوششیں نہیں کر سکیں گے پس اسلامی اتحاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے اور اسلام کی ترقی کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہمیں اس خیال کے قریب بھی نہیں جاناچاہئے۔
پاکستان کی مالی حالت
چاروں طرف سے خبریں آ رہی ہیں کہ پاکستان کی مالی حالت کمزور ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ خبریں بہت حد تک
درست ہیں۔ پاکستان ریلوں میں بِالعموم بغیر ٹکٹ کے لوگ سوار ہوتے ہیں اور جب اُنہیں پکڑا جائے تو کہتے ہیں کہ اب تو ٹرین ہماری اپنی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ریلوں کی آمدن بالکل گر گئی ہے اور ایک مہینہ میں سے دو کروڑ روپیہ کا خسارہ ہوا ہے اگر یہی حالت رہی تو لازماً حکومت کو ریلیں بند کر دینی پڑیںگی۔ ریلوں کے بند ہونے کے بعد تجارت بھی بند ہو جائے گی اور سفروں کی دِقت کی وجہ سے مُلک میں میل جول بھی بند ہو جائے گا۔ ایک سچے مسلمان کاتو یہ فرض تھا کہ وہ اس بات پر زور دیتا کہ چونکہ پاکستان حکومت کی مالی حالت کمزور ہے ریل کا کرایہ بڑھا دو میں اس موجودہ کرایہ سے زیادہ کرایہ دوں گا۔ بے ٹکٹ ریل میں چڑھنے والا یقینا پاکستان کا دشمن ہے، وہ مسلمان قوم کا بھی دشمن ہے اور ایسے دشمن کو سمجھانا اور نہ سمجھے تو اس پر قومی دباؤ ڈالنا ہر پاکستان کے خیر خواہ کا فرض ہے۔ پس ہم ریل میں سفر کرنے والے ہر مسلمان مسافر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ خود ٹکٹ لے اور اپنے کمرہ میں بیٹھنے والے کسی شخص کو بغیر ٹکٹ کے سفر نہ کرنے دے۔ اب مُلک تمہارا ہے، اب ریل بھی تمہاری ہے اور مُلک کی حفاظت اور ریل کی آمد کی حفاظت اور دوسرے سرکاری محکموں کی آمد کی حفاظت کرنا بھی تمہارا فرض ہے۔ یہ کہنا کہ اب ریل چونکہ پاکستان کی ہے اور ہم بھی پاکستان کے ہیںاِس لئے ہمارا حق ہے کہ جس طرح چاہیں اس ریل کو استعمال کریں عقل کے بھی خلاف ہے اور دیانت کے بھی خلاف ہے۔ اِن لوگوںکے بچے یا بھائی یا بیویاں اگر بیمار ہوتے ہیں تو کیا یہ لوگ ان کے علاج پر روپیہ خرچ کیا کرتے ہیں یا یہ کہا کرتے ہیں کہ یہ بچہ بھی میرا ہے یہ بیوی بھی میری ہے اب میں جس طرح چاہوں ان کو مار دوں۔ جو شخص پاکستان کی آمد کو نقصان پہنچاتا ہے وہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور وہ اپنی قوم کو نقصان پہنچاتا ہے اور عقلمند انسان اپنے مال کو نقصان نہیں پہنچایا کرتے بلکہ اسے بڑھانے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔
اسی طرح شکایت کی جاتی ہے کہ زمیندار معاملہ ادا نہیں کر رہے۔ یہ بھی نہایت ہی گندی روح ہے اگر انہوں نے ایسا ہی کیا تو پھر پاکستان حکومت قائم نہیں رہ سکے گی۔ اگر وہ اپنے مُلک میں عزت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنی قربانیاں پہلے کی نسبت زیادہ کرنی پڑیں گی۔ اپنی حکومت کے الفاظ کے پردہ میں اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کی کوشش کرنا انہیں بہت ہی مہنگا پڑے گا۔
(الفضل لاہور ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
پاکستان کا دفاع
پاکستان کے دفاع کا موضوع ہر مجلس میں زیر بحث آ رہا ہے۔ ہر اخبار اس پر بحث کر رہا ہے اور ہر انجمن اس پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہی ہے اس موضوع کے متعلق کئی سوال سوچنے والے ہیں اور کئی مشکلات حل کرنے والی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ مسئلہ دیر تک لٹکایا جا سکتا ہے؟ کیا پاکستان کا مستقبل اس سوال کے فوری حل کا تقاضا نہیں کرتا؟ کیا پاکستان چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا نہیں؟ کیا اس کی طرف اعداء کی انگلیاں بُرے ارادوں سے نہیں اُٹھ رہیں؟ اگر ایسا ہے اور ضرور ہے تو ہمیں جلد سے جلد اس بارے میں کوئی تدبیر کرنی چاہئے۔
پاکستان کی کُل فوج ۸۰ ہزار ہے جس میں سے لڑنے والے سپاہی صرف ۳۴ ہزار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ۳۴ ہزار آدمی پاکستان کی لمبی سرحد کی حفاظت نہیں کر سکتا اس لئے پاکستان کی فوج کی تعداد اور بھی کم کر دینی چاہئے اور اسے زیادہ سے زیادہ مشینی جتھوں کی صورت میں تبدیل کر دینا چاہئے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ جرمن کی جنگ میں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ مشینی جتھے نہایت ہی کارآمد ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ مشینی جتھے ایسے ہی ممالک میں کام آتے ہیں جہاں دونوں طرف کثرت سے پختہ سڑکیں پائی جاتی ہوں۔ ہندوستان کے مُلک میں پنجاب میں بڑی پکی سڑک تو ایک ہی ہے باقی تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر معمولی قسم کی پکی سڑکیں آتی ہیں اور اکثر کچے راستے ہیں ایسی جگہ پر مشینی دستے عمدہ طور پر کام نہیں کر سکتے اور نہ اپنے عقب کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ایسے مُلک میں گھوڑ سوار فوج اور سائیکل فوج اور پیدل فوج بڑی آسانی سے مشینی دستوں کا رستہ کاٹ سکتی اور ان کے حملہ کو بیکار کر سکتی ہے اس لئے جہاں پاکستان کو کچھ مشینی دستوں کی ضرورت ہے وہاں اسے ایسی فوج کی بھی ضرورت ہے جو بے سڑک والے علاقوں میں گھوڑوں پر سوار ہو کر دو سڑکوں کے درمیانی علاقہ کو صاف کرتی چلی جائے اور مشینی فوج کے عقب کی حفاظت کر سکے مگر یہ سوال تو اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ پاکستان حملہ آور کی حیثیت میں ہو۔ پاکستان تو کسی پر حملہ کرنے کی نیت ہی نہیں رکھتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ بہترین جرنیلوں کا مقولہ ہے کہ بہترین دفاع حملہ ہے اگر کوئی ہم پر حملہ کرے تو اس حملہ سے بچنے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ہم اس پر حملہ کر دیں تو بھی ہم اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ کوئی فوج محض حملہ کرنے کی تدبیروں سے کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جرمن حکومت گزشتہ دنوں لڑائیوں میں محض اس لئے شکست کھا گئی کہ اس نے صرف حملہ کی تیاریاں کی تھیں دفاع کی کوئی تیاری اس نے نہیں کی تھی۔ دونوں دفعہ جب اس کا حملہ ناکام رہا تو وہ دفاع کی قوت سے بھی محروم ہو گیا کیونکہ دفاع کا پہلو اس نے مدِ نظر نہیں رکھا تھا۔ یہ پُرانا مقولہ اب تک بھی درست چلا آرہا ہے کہ ’’جنگ دو سر دارد‘‘ جنگ میں کبھی انسان آگے بڑھتا ہے کبھی پیچھے ہٹتا ہے جب تک پیچھے ہٹنے کے لئے بھی پوری تدبیریں نہ کی گئی ہوں کبھی کوئی فوج کامیاب نہیں ہوتی۔ پس صرف مشینی دستوں پر زور دینا پاکستان کے دفاع کو فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ کسی دشمن کے حملہ کی صورت میں اس کے حملہ کی شدت کو روکنے کیلئے بِالمقابل حملہ کرنے میں تو یہ دستے کام آ جائیں گے لیکن ان کا فائدہ دیرپا اور دُور رس نہیںہوگا کیونکہ پاکستان کے اِردگرد جتنے ممالک ہیں اُن میں سڑکوں کا وسیع جال اِس طرح نہیںپھیلاہوا جس طرح یورپ میں پھیلا ہوا ہے۔ پس اس معاملہ میں یورپ کی نقل کرنا خواہ اس کا فیصلہ بڑے بڑے جرنیل ہی کیوں نہ کریں خلافِ عقل اور نامناسب ہے۔ ہمارے نزدیک پاکستان کی فوج کا بڑھانا نہایت ضروری ہے۔
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستانی فوج کی پاکستانی جرنیل ہی راہ نمائی کریں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِس وقت ہمارے پاس تجربہ کار افسر بہت کم ہیں لیکن جہاں ناتجربہ کاری نقصان دِہ ہوتی ہے، ہمدردی کی کمی اس سے بھی زیادہ نقصان دِہ ہوتی ہے۔ اگر جاں نثار اور تجربہ کار مل جائیںتو فَبِھَا لیکن اگر ایسے افسر نہ ملیں تو کم تجربہ کار لیکن جانثار افسر تجربہ کار لیکن بے تعلق افسر سے یقینا بہت زیادہ بہتر ہے۔
پولینڈ جب روس اور جرمنی سے آزاد ہوا تو اُس کے پاس تجربہ کار افسر نہیں تھے کیونکہ نہ جرمن کی فوجوں میںپولش لوگوں کو بڑے عہدے ملتے تھے اور نہ روسی فوجوں میں پولش لوگوںکو بڑے عہدے ملتے تھے اُس وقت پولش نے اپنی فوجوں کی کمانڈ ایک گویے کے سپرد کی اور اس گویے نے تھوڑے بہت فوجی اصول سے واقف پولش افسروں کی مدد سے اپنے مُلک کو آزاد کرالیا۔ کیا پاکستان کے مسلمان افسر اس گویے سے بھی کم قابلیت رکھتے ہیں۔ اس گویے کی کیا قابلیت تھی صرف حب الوطنی، وطن کی محبت کے بے انتہا جذبہ نے اس گویے کو ایک قابل جرنیل بنا دیا۔ کیا ہم یہ خیال کر سکتے ہیں کہ پاکستانی فوج کے مسلمان افسروں کے دل سے وطن کی محبت کا جذبہ بالکل مفقود ہے؟ ہم مانتے ہیں کہ پُرانی روایات کا اثر اب تک افسروں کے دل پر باقی ہے۔ ابھی ان کی حب الوطنی کی روح نے ان کی آنکھیں نہیں کھولیں، ابھی اپنی قوم کو سربلندوبالا کرنے کے جذبات ان کے دل میںپوری طرح نہیں اُمڈے مگر پھر بھی ایک پاکستانی، پاکستانی ہی ہے اپنے مُلک کی خدمت کے علاوہ اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی جان بچانے کی خواہش بھی اسے زیادہ محنت سے کام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر پاکستان پر کوئی حملہ ہو تو ایک پاکستانی جرنیل کو صرف اپنے مُلک کی عزت کا ہی خیال نہیں ہوگا بلکہ اسے یہ بھی نظر آ رہا ہوگا کہ اگر دشمن آگے بڑھا تو اُس کے ماں باپ، اُس کی بیوی، اُس کے بھائی ،اُس کی بہنیں، اُس کے بچے، اُس کے دوسرے عزیزوںکے بچے، اُس کے پڑوسی، اُس کے املاک اس کی جائدادیں یہ سب تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ پس مُلکی جذبہ کے علاوہ خاندان اور قرابت کے بچانے کا جذبہ بھی اس کے اندر کام کرتا ہوگا۔ پس ہمیں اس بات کی فکر میں زیادہ نہیں پڑنا چاہئے کہ ہمارے مُلک کے آدمی ابھی پوری طرح تجربہ کار نہیں۔
جدید ٹرکی کے بانی کمال اتاترک۹؎ صرف ایک کرنیل تھے لیکن وطنی محبت کے جذبہ میں سرشار ہو کر اِس کرنیل نے بڑے بڑے جرنیلوں کے چھکے چھڑا دیئے۔ فرانس کا مشہور مارشل شہنشاہ نپولین ۱۰؎ صرف فوج کا ایک لفٹیننٹ تھا لیکن اس لفٹیننٹنے دنیا کے مشہور ترین جرنیلوںکی قیادت کی صرف اس لئے کہ اس کا دل وطن کی محبت کے جذبات سے سرشار تھا۔ امریکہ کا پہلا پریذیڈنٹ اور پہلا کمانڈرانچیف جارج واشنگٹن ۱۱؎ محض ایک سویلین تھا لیکن وطن کی محبت کے جذبات نے اس کے اندر وہ قابلیت پیدا کر دی کہ بڑے بڑے جرنیلوں کی راہ نمائی کر کے اُس نے اپنے مُلک کو انگریزی غلبہ سے آزاد کروا لیا۔ ہٹلر ۱۲؎ کا انجام چاہے کیساہی خراب ہوا ہو لیکن اس میں کیا شک ہے کہ وہ فوج میں صوبیداری کاعہدہ رکھنے والا دنیا کے بہترین جرنیلوں کے پیدا کرنے کا باعث ہوا۔ گوئرنگ ۱۳؎ محض ایک ہوا باز تھا اور ہوا باز بھی ایسا جو ابھی صرف تجربہ ہی حاصل کر رہا تھا مگر مُلک کی محبت کے جذبات نے پائلٹ گوئرنگ کو دنیا کے سب سے زبردست ہوائی جہاز کے بیڑہ کا مارشل گوئرنگ بنا دیا۔ ہم کیوں خیال کریں کہ پاکستان کے افسر حب الوطنی کے جذبہ سے بالکل عاری ہیں یقینا ان میں بھی اپنے وطن پر جان دینے کی خواہش رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ اگر انہوں موقع دیا جائے کہ وہ اپنے مُلک کی آزادنہ خدمت کریں تو یقینا وہ مُلک کے لئے بہترین تعویز اور فخر کا موجب ثابت ہونگے۔ فوج میں ایسے کام بھی ہو سکتے ہیں جن کے لئے خاص فنون کے ماہروں کی ضرورت ہو۔ ایسے فنون کے ماہر بے شک باہر سے بھی لئے جا سکتے ہیں اور اگر ضرورت سمجھی جائے تو بعض لڑنے والے افسر بھی باہر سے لئے جا سکتے ہیں لیکن یہ افسر ایسے نہیں ہونے چاہئیں جو تقسیم ہند سے پہلے قائداعظم اور مُسلم لیگ کو سَو سَو گالیاں دیا کرتے تھے اور ہم یقین کے طور پر جانتے ہیںکہ ایسے انگریز افسر پاکستان کی فوج میں موجود ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ایسے انگریز افسر پاکستانی فوج میں نہ رہیں۔ بے شک اگر ضرورت ہو تو اُن کو رکھا جائے لیکن قومی دفاع کے اہم عہدوں پر ان کو مقرر نہیں کرنا چاہئے۔ ہر فوجی افسر قومی دفاع کے اہم کام پر مقرر نہیں ہوتا۔ جس طرح دوسرے کاموں میںکوئی عہدہ اہمیت والا ہوتا ہے کوئی غیر اہمیت والا ہوتا ہے یہی حالت فوج کی بھی ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ جب ایسے افسر دوسرے غیر اہم کاموں پر لگائے جا سکتے ہیں تو کیوں انہیں ان کاموں پر لگا کر ایسے عہدے جو دفاع کے لحاظ سے بہت اہم ہیں مسلمان افسروں کے سپرد نہ کئے جائیں۔
مگر ایک اور بات بھی ہے اگر یہ اصلاحات کر بھی دی جائیںتب بھی پاکستان کی فوج پورے طور پر اپنی مُلکی سرحدوں کا دفاع نہیں کر سکتی۔ پاکستان کی سرحد کوہِ ہندوکش سے شروع ہو کر مانسہرہ، ہزارہ، راولپنڈی، جہلم، گجرات اور سیالکوٹ کے ساتھ ہوتی ہوئی، منٹگمری، بہاولپور، سکھر، خیرپور سے گزرتی ہوئی امر کوٹ کی تحصیل کے خاتمہ پر سمندر سے جا کر ملتی ہے۔ اس تمام سرحد کی لمبائی کوئی ایک ہزار میل کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی وہ سرحد بھی ہے جو افغانستان کے ساتھ ملتی ہے۔ اگر خدا کرے کشمیر پاکستان میں شامل ہو جائے تو پاکستان کی سرحد چھوٹی ہو کر چھ سَو میل کے قریب رہ جائے گی لیکن اگر کشمیر نہ ملا تو ہزار میل کی سرحد ہوگی۔ اگر لڑنے والی فوج ۳۴ ہزار ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ صرف ایک یا ڈیڑھ ڈویژن یعنی ۱۲ یا ۱۸ ہزار آدمی اگلی صف میں کام کر سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ایک میل کی حفاظت کیلئے ہمارے پاس ۱۲ یا ۱۸ سپاہی ہیں۔ فرانس کی جرمن سے جو سرحد ملتی تھی وہ کوئی اڑھائی سَو میل کے قریب تھی اور جرمن کی جو سرحد روس سے ملتی تھی وہ بھی کوئی تین ساڑے تین سَو میل تھی۔ ان پانچ چھ سَو میل کی سرحدات کے لئے جرمن نے ۸۰ لاکھ فوج تیار کی تھی۔ اسی طرح فرانس نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کیلئے ۷۰ لاکھ فوج تیار کی تھی۔ اگر ان فوجوں کا بیس فیصدی حصہ ایک وقت میں جنگی محاذ پر لڑتا ہوتو جرمن کی سرحدوں کے ہر میل کی حفاظت کیلئے تین ہزار آدمی کا ایک وقت میں انتظام تھا لیکن پاکستانی حدود میں فی میل کی حفاظت کیلئے صرف ۱۸ آدمی مہیا ہو سکیں گے۔ فرق ظاہر ہے اور نتائج کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں یہ بات بھی ٹھیک ہے، لیکن جب مشکلیں پڑتی ہیں، جب قوموں کی زندگی اور موت کا سوال پیدا ہوتا ہے تو حکومتوں اور مُلک کے باشندوں کا فرض ہوتا ہے کہ روپیہ کی عدم موجودگی کی صورت میں وہ قومی کاموں کو قومی قربانیوں سے پورا کریں۔ پاکستان کے لئے اِس سے زیادہ نازک وقت اور کونسا ہوگا اگر پاکستان کے باشندے اب بھی بیدار نہ ہوئے تو کب بیدار ہونگے۔ یہ جو ۲ لاکھ آدمی بے کار مشرقی پنجاب میں مارا گیا ہے اور وہ اربوں کی جائدادیں جو مشرقی پنجاب میںتباہ ہوئی ہیں اگر وہی آدمی اور وہی جائدادیں اور وہی روپیہ مُلکی دفاع میں صَرف کیا جاتا تو پاکستان یقینا ایک لمبے عرصہ کیلئے اپنے مُلک کی بنیادوں کو مضبوط کر لیتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ کیا صورت ہے جس سے یہ ضرورت پوری کی جاسکے۔ ہم اس بارہ میں اپنے خیالات اگلے مقالہ میں اِنْشَائَ اللّٰہ ظاہر کریں گے۔
(الفضل لاہور ۱۵؍اکتوبر ۱۹۴۷ء)
ہم اپنے پہلے مقالہ میں لکھ چکے ہیں کہ پاکستان کی سرحد کشمیر اور افغانستان کی سرحدوں کو ملا کر سولہ سَو میل لمبی ہے بلکہ بلوچستان اور افغانستان کی سرحدوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو انیس سَو میل لمبی ہے اگر کشمیر پاکستان میں شامل ہو جائے اور اس کی سرحد کو نکال دیا جائے تو پھر یہ سرحد پندرہ سَو میل لمبی ہے اور اگر افغانستان کی سرحد کو بھی نکال دیا جائے تو پھر بھی ہندوستان سے ملنے والی سرحد چھ سَو میل ہے اور پاکستان کی موجودہ فوج میں سے جو فوج ایک وقت میں سرحد پر رکھی جا سکتی ہے اُس کی تعداد کسی وقت میں ۱۸ ہزار سے زیادہ نہیں ہو سکتی بلکہ یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ ایک وقت میں صرف ۱۲ ہزار فوج استعمال کی جا سکے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر میل کی حفاظت کیلئے صرف تیس سپاہی ہونگے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ کوئی فوج ساری سرحد پر پھیل کر کھڑی نہیں ہوتی لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اتنی لمبی سرحد میں بیسیوںچوکیاں بنانی پڑیں گی اگر پچاس چوکی رکھی جائیں اور فی چوکی دو پلٹنیں رکھی جائیں تو سات ہزار فوج تو صرف اسی میں لگ جائے گی۔ باقی پانچ ہزار فوج رہ گئی، پانچ ہزار فوج اتنے بڑے علاقہ میں لڑ ہی کیا سکتی ہے۔ صرف چھ سَو میل لمبی سرحد کی حفاظت کے لئے بھی ہمارے پاس کم سے کم ایک لاکھ سپاہی اگلی صف میں ہونا چاہئے۔ پاکستان کی آبادی صوبہ سرحد اور سندھ کو ملا کر دو کروڑ ۸۰ ہزار ہے۔ اگر قبائلی علاقوں کو بھی ملا لیا جائے تو تقریباً ۳ کروڑ ہو جائے گی۔ اگر کشمیر بھی شامل ہو جائے تو کشمیر کی ۳۲ لاکھ مسلمان آبادی مل کر یہ تعداد ۳ کروڑ ۳۰ لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس آبادی میں سے صرف ۶۰ لاکھ آبادی ایسی ہے جس میں سے اچھا سپاہی نہیں مل سکتا۔ باقی ۲ کروڑ ۷۰ لاکھ کی آبادی ایسی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت ہی شاندار سپاہی پیدا کرتی رہی ہے اور کر سکتی ہے۔ سرحد کا پٹھان، آزاد علاقہ کا قبائلی، پونچھ، میرپور، کوٹلی اور مظفر آباد کا پہاڑی، پنجاب کا پٹھان، راجپوت، بلوچ اور جاٹ یہ سب کے سب نہایت اعلیٰ درجہ کے سپاہی ہیں اور صرف مرنا ہی نہیں جانتے بلکہ دشمن کو مارنا بھی جانتے ہیں۔ قومی جنگوں میں چھ فیصدی سے لے کر ۱۶ فیصدی تک کی آبادی لڑائی میں کارآمد ہوتی ہے اوسطاً اگر ۱۰ فیصدی سمجھی جائے تو مشرقی پاکستان میں سے ۲۷ لاکھ سپاہی مہیا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابل میں ہندوستان کی جنگی نفری بہت کم ہے۔ ہندوستان کا ساٹھ فیصدی آدمی ایسا ہے جو جنگ کے قابل نہیں۔ ریاستوں کو نکال کر ہندوستان کی آبادی کوئی ۲۰ کروڑ ہے جس میں سے ۱۲ کروڑ آدمی تو کسی صورت میں بھی لڑنے کے قابل نہیں۔ باقی رہ گئے آٹھ کروڑ ان میں سے بھی اکثر حصہ ناقص سپاہی ہے صرف تین چار کروڑ آدمی ان کا ایسا ہے جس میں سے اچھا سپاہی لیا جا سکتا ہے۔ مگر وہ بھی اس پایہ کا نہیں ہے جس پایہ کا مسلمان سپاہی ہے۔ پس ہندوستان میں سے بھی پورا زور لگانے کے بعد ۳۰،۳۵ لاکھ سپاہی مل سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں لیکن جب لڑائی کے سوال پر غور کیا جاتا ہے تو صرف نفری نہیں دیکھی جاتی بلکہ سرحد کی لمبائی بھی دیکھی جاتی ہے۔ جس طرح لمبی سرحد کی حفاظت تھوڑے سپاہی نہیں کر سکتے اس طرح چھوٹی سرحد پر ساری فوج استعمال نہیں کی جاتی۔ چھ سَو میل لمبی سرحد پر ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ ۶۔۷ لاکھ فوج استعمال کی جا سکتی ہے۔ باقی ساری فوج ریزرو میں رہے گی اور راستوں کی حفاظت کا کام کرے گی۔ پس اگر خدانخواستہ کبھی ہندوستان اور پاکستان میں جنگ چھڑ جائے تو جہاں تک نفری کا سوال ہے ان دونوں کے درمیان کی سرحد کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہندوستان کی آبادی کی کثرت ہندوستان کو یہ نفع تو پہنچا سکتی ہے کہ وہ جنگ کو زیادہ دیر تک جاری رکھ سکے یا زیادہ آدمیوں کی قربانی برداشت کر سکے لیکن جہاں تک جنگ کا تعلق ہے وہ پاکستان کی فوج سے زیادہ تعداد والی فوج نہیں بھیج سکتا کیونکہ درمیان کی سرحد کی لمبائی اِس بات کی اجازت ہی نہیں دیتی کہ ایک وقت میں اس جگہ اتنی فوج کو استعمال کیا جا سکے خصوصاً اس لئے کہ جیسے پہلے بتایا جا چکا ہے یہ دونوں مُلک عمدہ سڑکوں سے محروم ہیں اور گو سرحد چھ سَو میل لمبی ہے لیکن ایک مُلک سے دوسرے مُلک تک پہنچنے کے جو راستے ہیں وہ بہت محدود ہیں اور جنگ زیادہ تر رستوں سے ہی کی جا سکتی ہے۔ جہاں سے توپ خانہ اور سامان وغیرہ موٹروں پر آگے پیچھے بھیجا جا سکتا ہے اور جہاں پر سے فوج قطاروں میں مارچ کر سکتی ہے۔ غرض جہاں تک فوجی نفری کا سوال ہے، صرف مشرقی پاکستان ہی تمام پاکستان کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے اور اس معاملہ میں کسی مایوسی کی ضرورت نہیں۔ ہاں سوال صرف یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ دونوں مُلکوں میں جنگ چھڑ جائے تو اتنی فوج مہیا کس طرح کی جائے گی۔ سپاہیانہ قابلیت کا آدمی موجود ہونا اور بات ہے اور سپاہی کا موجود ہونا اور بات ہے۔ ہر جاٹ اور بلوچ سپاہی بننے کی قابلیت رکھتا ہے لیکن ہر جاٹ اور بلوچ سپاہی تو نہیں اس لئے بغیر فوجی مشق کے جنگ کے وقت میں وہ کام نہیں آ سکتا۔ اور جنگ کے وقت فوری طور پر سپاہی کو فنونِ جنگ سکھائے نہیں جا سکتے اور اس سے بھی زیادہ مشکل یہ ہے کہ افسر فوراً تیار کئے جاسکیں۔ افسروں کی تعداد بِالعموم ڈیڑھ فیصدی ہوتی ہے۔ ۲۷ لاکھ فوج کے لئے چھوٹے بڑے افسر ۴۰ ہزار کے قریب ہونے چاہئیں۔ ہماری تو ساری فوج ہی ۳۰ ہزار ہے اگر خطرے کا موقع آیا تو کسی صورت میں بھی اس فوج کو معقول طور پر وسیع نہیں کیا جا سکتا اور اس کا علاج ضروری ہے۔ یہ علاج کس طرح ہو سکتا ہے اس کے لئے یہ مختلف سکیمیں پیش کی جا رہی ہیں اور پیش کی جا سکتی ہیں۔
اوّل: مُلک کے تمام افراد کو رائفلیں رکھنے کی کھلی اجازت دی جائے اورجہاں تک ہو سکے گورنمنٹ خود رائفلیں سستے داموں پر مہیا کرے۔
دوم: نیشنل گارڈز کے طریق کو رائج کیا جائے جو مسلم لیگ کے ماتحت ہو۔
سوم: ہوم گارڈز کے اصول پر نوجوانوں کو فوجی ٹریننگ دی جائے جو گورنمنٹ کی نگرانی میں ہو۔
چہارم: ایک ٹیریٹوریل فورس فوجی انتظام کے ماتحت تیار کی جائے۔
پنجم: جبری بھرتی مُلک میں جاری کی جائے اور اس کا انتظام ملٹری کے ماتحت ہو۔
یہ پانچ طریق ہیںجن سے مُلک کی جنگی نفری کو منظم کیا جا سکتا ہے اور وقت پڑنے پر اس سے کام لیا جا سکتا ہے۔ اب ہم اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ ان پانچوں طریقوں میں سے کونسا طریقہ زیادہ بہتر اور مناسب ہوگا۔
(۱) پہلا مجوزہ طریق یہ ہے کہ مُلک میں کثرت سے رائفلیں رکھنے کی تحریک کی جائے اور گورنمنٹ سستے داموں لوگوں کو رائفلیں مہیا کر کے دے۔ یہ طریق جس مُلک میں بھی رائج ہوا ہے کامیاب نہیں ہوا اور ہمیشہ اس کے نتیجہ میں فساد اور دنگے کا رستہ کھلتا رہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہتھیار رکھنے کا حق عام شہریوں کو حاصل ہونا چاہئے اور صرف ان لوگوں کو ہتھیار رکھنے کی اجازت نہ دینی چاہئے جو مجرمانہ حیثیت رکھتے ہیں یا ناقابلِ اعتبار ہیں اور جب یہ شرط ہو تو لازماً یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہتھیار کے لئے لائسنس ضروری ہے اور ہتھیار رکھنے کے متعلق کچھ نہ کچھ نگرانی کی طاقت گورنمنٹ کے ہاتھ میں ضرور ہونی چاہئے ورنہ بدمعاش اور چور طبقہ مُلک کے امن میں خلل ڈال دے گا بلکہ زیادہ تر ہتھیار یہی لوگ رکھیں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض باغیانہ ذہنیت والی انجمنیں پیدا ہو جائیں اور وہ اسلحہ کی طاقت سے مُلک کی جائز حکومت کو توڑنے کی کوشش کریں۔ پس یہ تجویز مُلک کے لئے مضر ہے اور یقینا ہر سمجھدار انسان کو اس کی مخالفت کرنی چاہئے۔ لائسنس ضرور رہنا چاہئے گو اس سختی سے لائسنس نہیں دینے چاہئیں جس سختی سے برطانوی حکومت ہندوستانیوں کو لائسنس دیا کرتی تھی اس سے بہت زیادہ لائسنس ملنے چاہئیں۔ غریب اور امیر کی کوئی تمیز نہیں ہونی چاہئے۔ اس بات کی کوئی شرط نہیں ہونی چاہئے کہ جو شخص ڈپٹی کمشنر کا منہ چڑھا ہو یا افسروں کو خوشامد کرتا ہو یا پولیس کے ساتھ کام کرتا ہو صرف اُس کو لائسنس دیا جائے۔ جیسے یورپ میں قاعدہ ہے عام طور پر نام رجسٹرڈ کرانے سے لائسنس مل جاتا ہے اور نام رجسٹرڈ ہونے کی وجہ سے گورنمنٹ کو موقع حاصل رہتا ہے کہ وہ ایسے شخص کی نگرانی کر سکے اور دیکھ سکے کہ وہ ہتھیار کا ناجائز استعمال تو نہیں کر سکتا۔
(۲) یہ تجویز کہ نیشنل گارڈز کی سکیم کو مسلم لیگ کی نگرانی میں منظم کیا جائے جمہوری اصول کے خلاف ہے۔ جمہوری اصول کے مطابق پارلیمنٹ کے انتخابات تک پارٹیاں الگ الگ کام کرتی ہیں جب کوئی پارٹی برسراقتدار آ جاتی ہے تو اُسی دن سے وہ سارے مُلک کی نمائندہ بن جاتی ہے صرف اپنی پارٹی کی نمائندہ نہیں ہوتی۔ پس کوئی فوجی تنظیم کسی پارٹی کے قبضہ میں نہیں ہونی چاہئے ورنہ جمہوریت ختم ہو جائے گی اور فاسزم اور ناٹسزم شروع ہو جائے گا۔ کسی حکومت کے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ اپنی سیاسی پارٹی کو فوجی تنظیم کی اجازت دے اور دوسروں کو اس سے منع کر دے اگر وہ ایسا کرے گی تو لازمی طور پر دوسری پارٹیاں مخفی طور پر اپنی تنظیم شروع کر دیں گی تا کہ وقت آنے پر وہ اپنی حفاظت کر سکیں پھر یا تو گورنمنٹ کو ایسی پارٹیوں کو دبانا پڑے گا اور اس پر بے جا رعایت اور بے جا دشمنی کا الزام لگے گا اور یا وہ دوسری پارٹیوں کے فعل پر چشم پوشی سے کام لے گی۔ اس صورت میں قانون کا احترام مُلک سے جاتا رہے گا اور قانون شکنی کی روح مُلک میں بڑھتی جائے گی۔
(۳) تیسری تجویز ہوم گارڈز کی ہے جو ایک قسم کی ملٹری ملیشیا ہوتی ہے اور صوبہ جاتی حکومتوں کے انتظام کے نیچے ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تجویز بھی ناقص ہے۔ اوّل تو ہوم گارڈز کی ٹریننگ بہت ادنیٰ ہوتی ہے دوسرے ہوم گارڈز چونکہ سول اور صوبہ جاتی گورنمنٹ کے ماتحت ہوتے ہیں ان میں اور فوج میں اکثر رقابت پیدا ہو جاتی ہے اور ان کا وجود فوج کو سیاسی کاموں میں دخل دینے کی طرف مائل کر دیتا ہے۔ اس سے پوری طرح بچنا چاہئے۔
(۴،۵) چوتھی تجویز ٹیرٹیوریل فورس کی ہے اور پانچویں عام جبری فوجی تعلیم کی۔ یہ دونوں تجویزیں چونکہ آپس میں ملتی ہیں اس لئے ہم ان کا اکٹھا ذکر کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ابھی وقت نہیں آتا کہ عام جبری فوجی تعلیم دی جائے۔ نہ اتنے افسر ہمارے پاس مہیا ہیں اور نہ ابھی اتنا روپیہ ہے۔ پس ہمارے نزدیک بہترین تجویز ٹیرٹیوریل فورس کی ہے۔ ٹیریٹوریل فورس دفاعِ مُلکی کے اصول پر تیار کی جاتی ہے یعنی اس فوج کو اور اس کے افسروںکو حملے کا کام تو نہیں سکھایا جاتا لیکن دفاع کے تمام ہنر اُن کو سکھائے جاتے ہیں اس لئے اس میں شامل ہونے والے لوگ بغیر اپنے نجی کاموں کو نقصان پہنچانے کے فوجی ٹریننگ حاصل کر لیتے ہیں اور اس ٹریننگ میں مناسب تعداد میں افسر بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ اس فوج کی موجودگی میں باقاعدہ فوج کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں مشینی دستوںمیں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ حملہ کرنے کے اصول میں ماہر بنانے پر زور دیا جا سکتا ہے کیونکہ جنگ کی صورت میں دفاع کے مورچے فوراً ٹیریٹوریل فوج سنبھال لیتی ہے اور باقاعدہ فوج آگے بڑھنے کے لئے آزاد ہو جاتی ہے۔ ٹیریٹوریل فوج چونکہ بہت حد تک فوجی فنون سے واقف ہوتی ہے اور مختلف قسم کے دستوں میں تعاون بھی قائم ہو چکا ہوتا ہے اس لئے صرف تین تین چار چار مہینہ کی ٹریننگ سے یہی فوج حملہ آور فوج کی شکل میں تبدیل کی جا سکتی ہے۔ اس فوج کی ٹریننگ سے کسی قسم کی بغاوت وغیرہ کا خطرہ بھی نہیںہو سکتا کیونکہ فوجی سپاہی کا ہتھیار اس کے پاس نہیں ہوا کرتا۔ پریکٹس کے بعد اس سے ہتھیار لے لیا جاتا ہے اور فوجی مخزن میں رکھ دیا جاتا ہے جس پر گورنمنٹ کی نگرانی ہوتی ہے اور ٹیریٹوریل فورس پر خرچ بھی بہت کم ہوتا ہے۔ اگر طوعی طور پر ایسی بھرتی شروع کر دی جائے تو پہلے سال پچاس ہزار آدمی کی فوج کا تیار کرنا مناسب ہوگا۔ جسے ہر سال بڑھایا جا سکتا ہے اور چار پانچ سال میں دس لاکھ تک فوج تیار کی جا سکتی ہے۔ اس فوج کی ٹریننگ کے دو حصے کئے جا سکتے ہیں۔ عام سپاہی روزانہ ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ فوجی تربیت کے لئے دے۔ یہ ٹریننگ مقامی ہونی چاہئے یعنی کسی سپاہی کو اپنا شہر چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جانے کی ضرورت محسوس نہ ہو تاکہ وہ اپنا کام چھوڑے بغیر ایسی ٹریننگ حاصل کر سکے۔ اس صورت میں زیر تعلیم سپاہیوں پر کچھ بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد وہ ایک اوسط درجہ کے سپاہی بن جائیں گے۔ افسروں کی ٹریننگ کا اصول یہ ہو کہ اس طرح چھ مہینہ کی ٹریننگ لینے کے بعد دو مہینے کا مستقل کورس ان کے لئے مقرر کیا جائے جس پر انہیں کمان کرنے کے اصول سکھائے جائیں۔ اگر اس تجویز کے مطابق پچاس ہزار کی ٹریننگ کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے بیس ہزار آدمی کی ٹریننگ شروع کی جائے تو ایک ہزار معلم رکھنا پڑے گا جن کا عہدہ جمعدار کا ہوگا اور ایک لاکھ روپیہ ماہوار ان لوگوں کی تنخواہوں اور راشنوں پر خرچ ہوگا۔ بیس ہزار رائفل اور وردی وغیرہ پرکوئی ۳۰۔۳۵ لاکھ روپیہ خرچ ہوگا چونکہ سکھانے والے افسر تنخواہ دار ہوں گے وہ ایک حصہ کی صبح ٹریننگ کر سکتے ہیں اور ایک حصہ کی شام کو۔ اس طرح آدھے افسر کام آ سکتے ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ بجائے ایک ہزار آدمی کے پانچ سَو آدمی سے ہی کام چل سکتا ہے اور بجائے ایک لاکھ روپیہ کے پچاس ہزار روپیہ ماہوار سے کام چل سکتا ہے۔ اتنے افسر چھ ماہ میں بیس ہزار آدمی کو ٹریننگ دے سکتے ہیں اور سارا خرچ اس ٹریننگ پر کوئی چالیس لاکھ روپیہ سالانہ ہوگا۔ جب مقامی لوگ کام سیکھ جائیں تو اگلے چھ ماہ میں ان میں سے ہوشیار آدمیوں کو ایک ایک مہینہ کی خاص تعلیم دلا کر فوجی معلّم کا کام سکھایا جا سکتا ہے اور پھر اپنے اپنے علاقہ میں ان کو فوجی معلّم مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں اگر کوئی شخص طوعی طور پر کام کرنے کیلئے تیار نہ ہو تو اسے ۲۰،۲۵ روپے ماہوار الاؤنس دینے سے کام لیا جاسکے گا۔ ایسے لوگوں کی امداد کے ساتھ سال نہیںتو ڈیڑھ سال میں ایک لاکھ آدمی ٹیریٹوریل فورس کا تیار کیا جا سکتا ہے اور پھر اگلے سالوں میں یہ طاقت اور بھی وسیع کی جا سکتی ہے۔ دوسرے اس ٹیریٹوریل فورس کے علاوہ تمام مُلک میں فوجی کلبیں بنا دینی چاہئیں۔ ان فوجی کلبوں کا اصول یہ ہونا چاہئے کہ جو لوگ اس کے ممبر ہوں وہ اپنے خرچ پر ٹریننگ لیں۔ گورنمنٹ ان کے لئے صرف معلّم مہیا کرے یا رائفل اور کارتوس، باقی وردی وہ خود اپنے روپیہ سے خریدیں۔ یہ فوجی کلبیں بڑے اور چھوٹے شہروں میں ہو سکتی ہیں۔ گاؤں میں ان کا چلنا ممکن نہیں لیکن پاکستان کے شہروں کی آبادی بھی ۳۵۔ ۴۰ لاکھ کے قریب ہے۔ اگر فوجی کلبوں کا رواج قائم کر دیا جائے تو صرف ۲۰۔۳۰ لاکھ روپیہ سالانہ کے خرچ سے دو لاکھ کے قریب سپاہی اور افسر اَور تیار ہو جائے گا جو ٹیریٹوریل فورس کے برابر تو تجربہ کار نہیں ہوگا لیکن ایسا ضرور ہوگا کہ جنگ کے موقع پر دو تین مہینہ کی تربیت کے بعد وہ ٹیریٹوریل فورس کی جگہ کام کرنے کے قابل ہو جائے جبکہ اس عرصہ میں ٹیریٹوریل فورس اعلیٰ تربیت کے بعد حملہ آور فوج کی جگہ لینے کیلئے تیار ہو جائے گی۔ اگر یہ ہو جائے تو یقینا جنگ کی صورت میں مُلک کو اتنا وقت مل جائے گا کہ آرمی کلب کے ممبر دفاع سنبھالنے کے قابل ہو جائیں اور دفاع کے لئے تیار کی ہوئی ٹیریٹوریل فورس حملہ آور فوج کی صورت میں تبدیل ہو جائے ۔ اس عرصہ میں نئی ٹیریٹوریل فورس کی تیاری کا موقع مل جائے گا اور ضرورت کے مطابق نئی فوج تیار ہوتی جائے گی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مُلک میں اسلحہ کو بالکل آزاد کر دینا اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ مُلکوں میں بھی کبھی بابرکت ثابت نہیں ہوا۔ لائسنس کی شرطیں ضرور رہنی چاہئیں۔ فسادی یا غیر معتبر لوگوں کو لائسنس نہیں ملنے چاہئیں۔ نیشنل گارڈز جو ایک سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں ان کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہئے اگر ایک سیاسی پارٹی کو فوج بھرتی کرنے کی اجازت ہو تو ہر پارٹی کو فوج بھرتی کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ یہ درست نہیں کہ جو پارٹی برسراقتدار آ جائے اسے تو فوج بھرتی کرنے کی اجازت ہو اور دوسری پارٹیوں کو نہ ہو۔ اس طرح سیاسی آزادی خطرہ میں پڑ جائے گی اور ڈکٹیٹر شپ اور فاسزم کے اصول جاری ہو جائیں گے۔ ہوم گارڈز کا اصول بھی غلط ہے کیونکہ ایک تو ان کی ٹریننگ ناقص ہوتی ہے دوسرے ان کا انتظام سویلین لوگوں کے ماتحت ہونے کی وجہ سے ان کا فوج کے ساتھ ٹکراؤ ہوتا ہے اور فوج کو اس بات کی تحریک ہوتی ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں دخل دینے لگ جائے اور یہ نہایت خطرناک بات ہے۔ جبری بھرتی بھی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ مُلک ابھی اس کے لئے تیار نہیں لیکن ٹیریٹوریل فورس اور فوجی کلبوں کا اجراء فوراً شروع ہو جانا چاہئے۔ ان دونوں چیزوں پر ایسی صورت میں کہ دو تین لاکھ آدمی کی ٹریننگ مدِنظر ہو۔ ایک کروڑ روپیہ سالانہ سے زیادہ خرچ نہیں ہوگا کیونکہ سوائے معلّموں اور سوائے رائفل اور کارتوس کے خرچ کے اور ایک حصہ کے وردی کے خرچ کے اور کوئی بوجھ مُلک پر نہیں ہوگا۔ اس فوج کی بڑی تعداد ایسے خدمتگاروں کی ہوگی جو اپنی وردیوں کا خرچ خود اُٹھائیں گے اور جب تک ٹریننگ کا سوال ہے ۲۵ رائفلیں سَو آدمیوں کو کام سکھائیں گی کیونکہ پریڈیں مختلف وقتوں میں اور آگے پیچھے ہونگی اور ایک ہی رائفل چار دفعہ استعمال ہو سکے گی۔ اس طرح لوگوں کو حب الوطنی کے جذبات دکھانے کا بھی موقع مل جائے گا اور پاکستان کی آبادی میں جنگی فنون کا میلان بھی پیدا ہو جائے گا اور ہر محلے اور گلی میں ایک طوعی سپاہی کی موجودگی اور بیسیوں آدمیوں کے دلوں میں فوجی زندگی کی خواہش پیدا کر دے گی اور موت کے ڈر کو دلوں سے نکالتی چلی جائے گی۔
(الفضل لاہور ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
پاکستانی فوج اور فوجی مخزن
کل ۱۵؍ تاریخ کو پاکستانی فوج کے ایک سَو چودھویں بریگیڈ کا مظاہرہ ہوا اس میں پاکستانی فوج نے وزیر دفاع نواب زادہ لیاقت علی خاں صاحب کو سلامی دی۔ پاکستانی فوج کی راہنمائی بریگیڈیر نذیر احمد نے کی جو اِس وقت پاکستانی فوج کے سب سے سینئر مسلمان بریگیڈیر ہیں۔ جہاں تک مظاہرہ کی شان اور عظمت کا سوال ہے ہمارے نزدیک اس موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اور لاہور شہر کی بڑائی کو دیکھتے ہوئے یہ مظاہرہ اس سے زیادہ شاندار ہونا چاہئے تھا جتنا کہ ہوا۔ اس مظاہرہ میں مختلف بٹالینز (Batalians) کے نمائندوں کی کُل تعداد اندازاً آٹھ سَو کے قریب تھی اور مظاہرہ کی لمبائی اور وسعت صرف موٹروں ٹینکوں کے استعمال اور ان کی سست رفتاری کے سبب سے تھی۔ بعض پاکستانی افسر بشمولیت بریگیڈیر نذیر نہایت چست اور اپنے کام کے قابل اور اہل نظر آتے تھے اور بعض افسروں کے اندر وہ چستی نظر نہ آتی تھی جوہونی چاہئے تھی۔ دو تین افسروں نے تو یہاں تک غفلت کی کہ وزیر دفاع کے پاس سے گزر گئے اور سلامی تک نہ دی۔ بعضوں نے سلامی میں اتنی جلد بازی سے کام لیا کہ وزیر دفاع کے پاس پہنچنے سے بہت پہلے ہی سلامی دینی شروع کر دی حالانکہ مناسب طریق یہ تھا کہ وہ وزیر دفاع کے پاس پہنچتے وقت دو تین گز پہلے سے سلامی دینی شروع کرتے۔ بعض لطائف بھی اس موقع پر ہوگئے۔ کرنل فلچ ایک انگریز افسر مجمع کو دیکھتے ہوئے مسکراتے چلے جاتے تھے اور نظارہ کی کیفیت نے اُن پر کچھ ایسا اثر کیا ہوا تھا کہ سلامی کا اُن کو خیال ہی نہیں آیا۔ مسکراتے مسکراتے وہ عین وزیر دفاع کے سامنے پہنچ گئے اور یکدم انہیں اپنے فرض کی طرف توجہ ہوئی۔ چہرہ سنجیدہ بنا لیا اور سلامی کی جگہ سے آگے گزرتے ہوئے سلام کرتے چلے گئے۔ بہرحال عام اثر یہی تھا کہ پاکستانی سپاہیوں نے بہت اچھی نمائش کی ہے۔ ان کے سُتے ہوئے جسم اور بَل کھاتے ہوئے پٹھے اس بات کے شاہد تھے کہ پاکستان پر حملہ کرنا کسی کے لئے آسان بات نہ ہوگی۔ ان لوگوں کی آنکھوں سے ظاہر تھا کہ وہ پاکستان کی فوج کا حصہ ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور وقت آنے پر پاکستان کی عظمت کے قیام کے لئے ہر قربانی کرنے کیلئے تیار ہوں گے۔ ایک بڑا فائدہ اس مظاہرہ کا یہ بھی ہوا کہ لوگوں میں جو بے چینی پیدا تھی کہ پاکستان کی سرحدیں غیر محفوظ ہیں، اس کا ایک حد تک ازالہ ہو گیا اور پاکستان کے باشندوں کو معلوم ہو گیا کہ ان کے گھروں کی حفاظت کے لئے ان کے محافظ سپاہی سرحد پر موجود ہیں۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ پاکستانی سپاہی سکھ سپاہی کی طرح موٹے نہیں تھے ان کا عام قد بھی اتنا لمبا نہیں تھا جتنا کہ عام سکھ سپاہی کا ہوتا ہے لیکن ان کا جسم بہت گتھا ہوا اور ورزشی تھا اور ہر دیکھنے والا یہ محسوس کرتا تھا کہ استقلال کے ساتھ لمبا کام کرنے کی اہلیت مسلمان سپاہی میں سکھ سپاہی سے زیادہ پائی جاتی ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ سکھ سپاہی کی ساری بہادری اس کی وحشت اور درندگی پر مبنی ہے اور اس وحشت اور درندگی کا کمال بھی اس کی اندرونی طاقتوں سے نہیں پیدا ہوتا بلکہ شراب کے استعمال سے اس کے اس جوہر کو مدد پہنچائی جاتی ہے جو سپاہی موت کا خوف شراب کے نشہ سے دور کرنا چاہتا ہے وہ ہرگز بہادر سپاہی نہیں کہلا سکتا۔ وہ انسان نہیں ایک مشین ہے جسے دوسرا ہاتھ چلاتا ہے۔ مسلمان سپاہی کی بہادری اُس کا ذاتی جوہر ہے لڑائی کے وقت اس کا دماغ صاف ہوتا ہے، شراب نے اُس کے حواس پر قابو نہیں پایا ہوتا، وہ سارے نتائج کو دیکھتے ہوئے اور سارے خطرات کو جانچتے ہوئے دشمن کے مقابلہ کے لئے آگے بڑھتا ہے اور بسا اوقات اگر وہ دشمن پر غالب نہیں آ سکتا تو اپنی جان کو قربان کر کے اس کے بڑھنے کی رفتار کو سست کر دیتا ہے اور اسی طرح اپنے مُلک کے لئے دفاع کی تیاری کا ایک موقع پیدا کر دیتا ہے اس وقت ساری دنیا میں مسلمان سپاہی ہی ایک ایسا سپاہی ہے جو غیر طبعی ذرائع کے استعمال کئے بغیر بہادری کا نمونہ دکھلاتا ہے۔ مسلمان کے سِوا ساری دنیا میں شراب کا عام رواج ہے اور حکومتیں سپاہیوں کو لڑائی کے وقت خاص طو رپر شراب مہیا کر کے دیتی ہیں تا کہ موت کا ڈر ان کے دل سے جاتا رہے اور وہ شراب کے نشہ میں دشمن کی طرف آگے بڑھیں، انسانوں کی طرح نہیں بلکہ درندوں کی طرح۔ پس ہم یقین رکھتے ہیں کہ مسلمان فوجوںکی تربیت جب بھی مکمل ہو جائے گی وہ دنیا کے دوسرے سپاہیوں سے بہتر ثابت ہوں گی کیونکہ انسان ہمیشہ درندوں پر فوقیت رکھتا چلا آیا ہے۔ شراب کے نشہ میں مخمور ہو کر لڑنے والا سپاہی اور شراب کو چھوئے بغیر اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے والا سپاہی مساوی نہیں ہو سکتے دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پس ہمارے لئے امیدوں کا ایک وسیع دروازہ کھلا ہے، ہماری ترقی کی راہیں بہت زیادہ کشادہ اور بہت دور تک جانے والی ہیں کیونکہ ہمارے دشمن نے وہ تمام ذرائع استعمال کرلئے ہیں جو اس کی ترقی میں مدد دے سکتے تھے مگر ہمارے خزانے ابھی زمین میں مدفون ہیں جب ہم وہ تمام ذرائع استعمال کر لیں گے جن سے ایک اچھا سپاہی بہت ہی اچھا بنایا جا سکتا ہے تو ہمارا سپاہی یقینا دوسری قوموں کے سپاہی سے بہت اچھا ثابت ہوگا۔
اس مظاہرہ کے دیکھنے والوں کے لئے ایک اور امر بھی نہایت خوشی کا موجب تھا لاکھوں مسلمان اس مظاہرہ کو دیکھنے کے لئے میلوں میل سڑکوں پر کھڑے تھے ان میں سے اکثر نوجوان تھے جن کے جسموں کی بناوٹ اور جن کی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ وہ سب یا ان میں سے اکثر سپاہی ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں یہ میلوں میل لمبا انسانوں کا مجموعہ ہندوؤں اور سکھوں کے وجود سے کُلّی طور پر خالی تھا۔ اس میں مسلمان ہی مسلمان تھے گو اکثر کے سر ننگے تھے بہتوں کے کپڑے بوسیدہ تھے لیکن پھر بھی جو اختلاف ایسے مجمعوں میں پہلے زمانوں میں نظر آتا تھا، ان میں نظر نہ آتا تھا۔ وہ مرجھائے ہوئے چہرے اور ڈرتی ہوئی آنکھیں جو دوسری اقوام کے اختلاف کی وجہ سے بڑے مجمعوں کی خوبصورتی کو خراب کر دیا کرتی تھیں وہ کل مفقود تھی۔ مجمع کا ہر شخص سپاہی بننے کے قابلیت رکھتا تھا اور آئندہ ہونے والا سپاہی نظرآتا تھا۔ اگر ان نوجوانوں کی صحیح تربیت کی جائے اور ان کے اخلاق کو بلند کیا جائے اور ٹیرٹیوریل فورس۱۴؎ اور فوجی کلبوں کے ذریعہ سے جن کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں، ان کو مُلک کی فوجی خدمت میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے تو یقینا لاہور ہی سے ایک لاکھ پاکستانی سپاہی پیدا کیا جا سکتا ہے۔ لاہور کے ضلع کی سرحد جو ہندوستان سے ملتی ہے، وہ پچاس میل کے قریب ہوگی۔ اگر لاہور سے اتنا سپاہی پیدا ہو جائے تو لاہور، قصور، اور چونیاں کی تحصیل سے بھی یقینا پچاس ساٹھ ہزار سپاہی مل سکتا ہے۔ ان سپاہیوں کے ذریعہ سے نہ صرف لاہور کی حفاظت کی جا سکتی ہے بلکہ سارا پاکستانی مُلک محفوظ ہو سکتا ہے اور پاکستانی فوج کا کام بہت آسان ہو جاتا ہے۔ہمارے نزدیک ٹیرٹیوریل فورس اور فوجی کلبوں کے قیام میں بالکل دیر نہیں کرنی چاہئے۔ فوج کے مہیا کرنے کا یہ ایک بہترین اور سہل ترین ذریعہ ہے اس کا انتظام کُلّی طور پر فوج کے محکمہ کے ماتحت ہونا چاہئے اور سول محکموں کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے تا کہ دو عملی پیدا نہ ہو اور فوج کو سیاسی مسائل سے بالکل الگ رکھا جا سکے۔ ہمارے پاس سپاہیوں کا ایک وسیع مخزن ہے اگر اس وسیع مخزن کو استعمال نہ کیا گیا اور وقت پر اسے کام میں لانے کے لئے کوشش نہ کی گئی تو یہ پاکستان سے غداری ہوگی اور ذمہ دار لوگوں کا یہ قصور قوم کبھی معاف نہیں کر سکے گی۔ ذمہ دار لوگوں کو یہ خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ قوم کی جہالت سے فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا۔ ایک وقت میں اگر قوم جاہل ہو اور اپنے فوائد کو نہ سمجھتی ہو تو دوسرے وقت میں وہ بیدار اور ہوشیار بھی ہو سکتی ہے۔ اس بیداری اور ہوشیاری کے زمانہ میں وہ ہرگز یہ عذر نہیں سنے گی کہ چونکہ ہم غافل اور حالات سے جاہل تھے اس لئے ہمارے ذمہ دار حُکّام نے کام کو صحیح طریقوں پر نہیں چلایا وہ اپنے ذمہ دار افسروں پر یہ اعتراض کرے گی کہ اگر ہم غافل اور جاہل تھے تو تمہاری ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی تھی۔جب قومیں ہوشیار ہوتی ہیں تو وہ اپنے حقوق کی خود نگہداشت کر لیتی ہیں لیکن تربیت اور تنظیم کی طرف سے جب قومیں غافل ہوتی ہیں تو مُلک کے افسروں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے اور ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو خود بھی ادا کریں جو بیدار قومیں حکومت کی مدد کے بغیر ادا کرتی ہیں۔
(الفضل ۱۷؍ اکتوبر۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کشمیر اور حیدر آباد
حیدر آباد اور کشمیر کے حالات بالکل ایک سے ہیں۔ حیدر آباد کے والی مسلمان ہیں وہاں کی آبادی کی اکثریت ہندو ہے یعنی قریباً ۸۵ فیصدی ہندو اور ۱۵ فیصدی مسلمان۔ جاگیر دار زیادہ تر مسلمان ہیں اور تجارت میں مسلمانوں کا کافی حصہ ہے۔ یہ مُلک بہت وسیع ہے پونے دو کروڑ کے قریب اس کی آبادی ہے اور مُلک کی آمد ۲۵ کروڑ روپیہ سالانہ ہے۔ کشمیر کا حال اس کے اُلٹ ہے کشمیر کا رقبہ حیدر آباد سے بھی زیادہ ہے لیکن آبادی صرف چالیس لاکھ ہے آبادی کے لحاظ سے کشمیر کی ریاست ہندوستان میں تیسرے نمبر پر ہے۔ دوسرے نمبر پر میسور ہے جس کی آبادی ۷۳ لاکھ ۲۸ ہزار ہے۔ صنعت و حرفت اور جنگلات اور جڑی بوٹیوں کے لحاظ سے کشمیر حیدر آباد پر بھی فوقیت رکھتا ہے۔ پھلوں کی پیداوار اور یہاں کی تجارت سارے ہندوستان میں اوّل نمبر پر ہے۔ اس کی سرحدیں چونکہ روس سے ملتی ہیں اس لئے سیاسی طور پر یہ ایک نہایت ہی اہم مرکز ہے پنجاب کے ساتھ ساتھ اس کی سرحدیں پانچ سَو میل تک لمبی چلی گئی ہیں۔ اگر کشمیر انڈین یونین میں چلا جائے تو پنجاب کا دفاع قریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ حیدر آباد کے برخلاف کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور راجہ ہندو ہے مسلمان ۸۰ فیصدی اور ہندو ۲۰ فیصدی ہیں۔ اِس وقت یہ دونوں ریاستیں محلِ نزاع بنی ہوئی ہیں حیدر آباد بھی پوری آزادی کا مطالبہ کرتا ہے اور کشمیر بھی پوری آزادی کے ارادے ظاہر کر چکا ہے۔ بعد کے حالات نے دونوں ریاستوں کے ارادوں میں تذبذب پیدا کر دیا ہے۔ حیدر آباد اور کشمیر دونوں محسوس کر رہے ہیں کہ اقتصادی دباؤ سے ان دونوں حکومتوں کو تباہ کیا جا سکتا ہے اس لئے لازمی طور پر ان کو کوئی نہ کوئی سمجھوتہ ہندوستان یا پاکستان سے کرنا پڑے گا۔ کشمیر کی سرحدیں چونکہ دونوں مُلکوں سے ملتی ہیں۔ ہندوستان سے کم اور پاکستان سے زیادہ اس لئے بوجہ اس کے کہ اس کا راجہ ہندو ہے اس کی کوشش یہ ہے کہ اگر کسی حکومت سے ملنا ہی پڑے تو وہ ہندوستان سے ملے۔ مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر ان میں سے ایک حصہ کو ہندوستان کے ساتھ شامل ہونے کی تائید میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔ مگر ظاہری طور پر ان سے یہ اعلان کرایا جا رہا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ ملنا نہیں چاہتے اور آخری فیصلہ اپنے ہاتھ میں رکھناچاہتے ہیں مگر حقیقت یہ نہیں، حقیقت یہی ہے کہ کشمیر مخفی سمجھوتہ ہندوستان سے کرچکا ہے اور دنیا کو یہ دکھانے کے لئے کہ کشمیر نے جو فیصلہ کیا ہے مُلک کی اکثریت کی رائے کے مطابق کیا ہے اس فیصلہ کو چھپایا جا رہا ہے اور یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کا کچھ حصہ توڑ کر مُلک کی اکثریت سے بھی یہ اعلان کروا دیا جائے کہ وہ انڈین یونین میں ملنا چاہتے ہیں لیکن چونکہ مسلمان اِس وقت اس فیصلہ کے ساتھ اتفاق ظاہر کرنے کیلئے تیار نہیں پہلے ان سے یہ منزل طے کروائی جا رہی ہے کہ ہم نہ ہندوستان میں ملنا چاہتے ہیں نہ پاکستان میں۔ جب یہ منزل طے ہو جائے گی اور مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہو جائے گا تو پھر اس تفرقہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ مسلمان جو اپنے بھائیوں سے پھٹ چکے ہونگے اور پاکستان کی مخالفت کر چکے ہونگے انہیں ہندوستان یونین میں شامل ہونے کے فیصلہ پر آمادہ کر لیا جائے گا۔
ہم نے اوپر جو کچھ لکھا ہے اس سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ حیدر آباد اور کشمیر کے سوال متوازی ہیں اور ایک کا فیصلہ دوسرے کے فیصلہ کے ساتھ بندھا ہوا ہے جب تک ان میں سے کوئی ایک حکومت فیصلہ نہیں کرتی اُس وقت تک پاکستان کے ہاتھ مضبوط ہیں۔ عقلی طور پر ان دونوں ریاستوں کے فیصلے دو اصول میں سے ایک پر مبنی ہو سکتے ہیں یا تو اس اصل پر کہ جدھر راجہ جانا چاہے اُس کو اجازت ہو۔ اگر یہ اصل تسلیم کر لیا جائے تو حیدر آباد پاکستان میں شامل ہو سکتا ہے یا آزادی کا اعلان کرکے پاکستان سے معاہدہ کر سکتا ہے اور کشمیر ہندوستان یونین میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں پاکستان کی آبادی میں پونے دو کروڑ کی زیادتی ہو جائے گی اور ایک طاقتور حکومت جس میں کثرت سے معدنیات پائی جاتی ہیں پاکستان کو مل جائیں گی اور بوجہ پاکستان میں شمولیت کے ہندوستان اس کے ذرائع آمد و رفت کو بھی بند نہیں کرسکے گا کیونکہ اس طرح وہ پاکستان سے جنگ کرنے والا قرار پائے گا دوسرے اس اصل پر فیصلہ ہو سکتا ہے کہ مُلک کی اکثریت جس امر کافیصلہ کرے اُسی طرف ریاست جا سکتی ہے اگر اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے تو کشمیر پاکستان کے ساتھ ملنے پر مجبور ہوگا اور حیدر آباد ہندوستان کے ساتھ ملنے پر مجبور ہوگا اگر ایسا ہوا تو پاکستان کو یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ ۳۲ لاکھ مسلمان آبادی اس کی آبادی میں اور شامل ہو جائے گی۔ لکڑی کا بڑا ذخیرہ اس کو مل جائے گا، بجلی کی پیداوار کے لئے آبشاروں سے مدد حاصل ہو جائے گی اور روس کے ساتھ اس کی سرحد کے مل جانے کی وجہ سے اسے سیاسی طور پر بڑی فوقیت حاصل ہو جائے گی۔ پس پاکستان کے لئے ان دونوں ریاستوں میں سے کسی ایک کامل جانا نہایت ہی ضروری ہے لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ اس معاملہ کی طرف پاکستان گورنمنٹ نے توجہ نہیں کی اور ہندوستانی گورنمنٹ جلد جلد ایسے حالات پیدا کر رہی ہے کہ شاید دونوں ریاستیں ہی ہندوستان میں شامل ہو جائیں۔ پاکستان گورنمنٹ کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ ان دونوں ریاستوں کے متعلق ویسی ہی جلدی سے کام لیتی جیسا کہ ہندوستان لے رہا ہے اور ہندوستان پر یہ زور ڈالتی کہ ان دونوں ریاستوں کے متعلق ایک ہی اصل سے کام لیا جائے گا یا دونوں ریاستوں کا فیصلہ حکمران کے فیصلہ کے مطابق ہوگا یا دونوں ریاستوں کا فیصلہ آبادی کی اکثرت کے فیصلہ کے مطابق ہوگا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اب یہ تشویشناک اطلاعیںآ رہی ہیں کہ چار پانچ دن کے اندر اندر حیدر آباد اپنا آخری فیصلہ کر دے گا بلکہ شاید آج ۱۶ تاریخ کو ہی اس کا آخری فیصلہ شائع ہو جائے۔ اگر ایسا ہو گیا اور حیدر آباد ہندوستان کے ساتھ مل گیا تو دنیا دیکھ لے گی کہ ہندوستان یونین رعایا کی اکثریت کے فیصلہ کو نظر انداز کر کے اس امر پر زور دینے لگے گی کہ جو والی ریاست کہے اسی کے مطابق فیصلہ ہونا چاہئے اور کشمیر کا والی ریاست یقینا ہندوستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کرے گا۔ جب تک حیدر آباد ہندوستان یونین میں شامل نہیں ہوتا ہندوستان یونین اس دلیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی کیونکہ اگر وہ کشمیر کو ملانے کے لئے اس دلیل پر زور دے تو حیدر آباد اس کے ہاتھ سے جاتا ہے لیکن جب حیدر آباد اس کے ساتھ مل گیا تو پھر وہ اسی دلیل پر زور دے گا خصوصاً اس لئے کہ پاکستان کے بعض لیڈر یہ اعلان کر چکے ہیں کہ موجودہ قانون کے لحاظ سے فیصلہ کا حق والی ریاست کو ہے نہ کہ مُلک کی اکثریت کو۔ اس صورت میں کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے ہمارے پاس کوئی دلیل باقی نہیں رہے گی۔ پس ہمارے نزدیک پیشتر اس کے کہ حیدر آباد کے فیصلہ کا اعلان ہو حکومتِ پاکستان کو اعلیٰ سیاسی سطح پر ان دونوں ریاستوں کے متعلق ایک ہی وقت میں فیصلہ کرنے پر اصرار کرنا چاہئے اور ہندوستانی یونین سے یہ منوا لینا چاہئے کہ وہ دونوں طریق میں سے کس کے مطابق فیصلہ چاہتا ہے کہ آیا والی ٔریاست کی مرضی کے مطابق یا آبادی کی کثرت رائے کے مطابق۔ اگر والی ٔریاست کی مرضی کے مطابق فیصلہ ہو تو حیدر آباد اور جونا گڑھ کے متعلق ان کو اصرار کرنا چاہئے کہ یہ پاکستان میں شامل ہوں اور اگر آبادی کی کثرتِ رائے کے مطابق فیصلہ ہو تو پھر کشمیر کے متعلق ان کو اصرار کرنا چاہئے کہ وہ پاکستان میں شامل ہو۔
ہم جو کچھ اوپر لکھ آئے ہیں اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان کا فائدہ اسی میں ہے کہ کشمیر اس کے ساتھ شامل ہو۔ حیدر آباد کی حفاظت کرنی اس کے لئے مشکل ہے اور پھر کسی ایسی حکومت کو دیر تک قابو میں نہیں رکھا جا سکتا جس کی آبادی کی اکثریت ایسے اتحاد کے مخالف ہو۔ تیسرے حیدر آباد چاروں طرف سے ہندوستان یونین میں گھرا ہوا ہے اس کے برخلاف کشمیر کی اکثر آبادی مسلمان ہے کشمیر کا لمبا ساحل پاکستان سے ملتا ہے۔ کشمیر کی معدنی اور نباتاتی دولت ان اشیاء پر مشتمل ہے جن کی پاکستان کو اپنی زندگی کے لئے اشد ضرورت ہے اور کشمیر کا ایک ساحل پاکستان کو چین اور روس کی سرحدوں سے ملا دیتا ہے۔ یہ فوائد اتنے عظیم الشان ہیں کہ ان کو کسی صورت میں بھی چھوڑنا درست نہیں۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کی سرحدیں کشمیر کے ہندوستان یونین میں مل جانے کی وجہ سے بہت غیر محفوظ ہو جاتی ہیں۔ پس مُلک کے ہر اخبار، ہر انجمن، ہر سیاسی ادارے اور ہر ذمہ دار آدمی کو پاکستان حکومت پر متواتر زور دینا چاہئے کہ حیدر آباد کے فیصلہ سے پہلے پہلے کشمیر کا فیصلہ کروا لیا جائے ورنہ حیدر آباد کے ہندوستان یونین سے مل جانے کے بعد کوئی دلیل ہمارے پاس کشمیر کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لئے باقی نہیں رہے گی۔ سوائے اس کے کہ کشمیر کے لوگ خود بغاوت کر کے آزادی حاصل کریں لیکن یہ کام بہت لمبا اور مشکل ہے اور اگر کشمیر گورنمنٹ ہندوستان یونین میں شامل ہوگئی تو پھر یہ کام خطرناک بھی ہو جائے گا کیونکہ ہندوستان یونین اس صورت میں اپنی فوجیں کشمیر میں بھیج دے گی اور کشمیر کو فتح کرنے کا صرف یہی ذریعہ ہوگا کہ پاکستان اور ہندوستان یونین آپس میں جنگ کریں، کیا ایسا کرنا دُور اندیشی کے مطابق ہوگا؟ کیا ایسا کرنا موجودہ وقت میں ہمارے لئے مناسب ہوگا۔ جو کام تھوڑی سی دُور اندیشی اور تھوڑی سی عقلمندی سے اِس وقت آسانی سے ہو سکتا ہے، اسے تغافل اور سستی کی وجہ سے لٹکا دینا ہرگز عقلمندی نہیں کہلا سکتا۔
(الفضل لاہور ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کشمیر کی جنگ آزادی
ایک ماہ کے قریب عرصہ سے کشمیر کے لوگوں نے اپنی آزادی کے لئے جدوجہد کرنی شروع کی اور یہ جدوجہد ان مظالم کے نتیجہ میں ہے جو ریاست کشمیر کی طرف سے مسلمانوں پر کئے جا رہے تھے۔ پٹھان کشمیر کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے قدرتی طور پر ان مظالم سے متأثر ہوئے خصوصاً اس لئے کہ مظفر آباد، ریاست کشمیر اور ہزارہ علاقہ سرحد کے ہزاروں آدمی آپس میں رشتہ داری کا تعلق رکھتے ہیں ۔ بِالخصوص ضلع مظفر آباد کے مسلمان رؤساء اور ضلع ہزارہ کے مسلمان رؤساء کے درمیان کثرت سے شادی بیاہ ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کشمیر سے اوپر کے رہنے والوں کے نہایت ہی قریبی تعلقات سرحد کے بعض قبائل سے ہیں ان تعلقات کی بناء پر یہ ممکن نہ تھا کہ کشمیر کے واقعات سے صوبہ سرحد متأثر نہ ہوتا یا پونچھ اور میرپور کے واقعات سے راولپنڈی، جہلم اور گجرات متأثر نہ ہوتے تو لازماً ان علاقوں میں بھی جوش پھیلا اور سرحد کے کچھ قبائل کشمیر میں اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے داخل ہو گئے۔ کشمیر کی حکومت نے بجائے اصلاح کرنے کے ہندوستان یونین کے ساتھ اِلحاق کا فیصلہ کر دیا اور اس کی مدد طلب کی اور ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ شیخ محمد عبداللہ صاحب مشہور لیڈر کشمیر اس موقع پر صحیح طریق عمل اختیار کرنے سے قاصر رہے اور انہوں نے کشمیر کے راجہ کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کے طور پر کام کرنے کا فیصلہ کر دیا۔ دنیا کی ساری حکومتوں میں شاید کشمیر ہی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اِس میں ایک وقت میں دو وزیر اعظم ہیں۔ مسٹر مہر چند مہاجن دیوان کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں اور شیخ عبداللہ صاحب پرائم منسٹر کے نام سے۔ حالانکہ دیوان اور پرائم منسٹر ایک ہی چیز کا نام ہے۔ ہمیں اس واقعہ پر ایک پُرانا لطیفہ یاد آتا ہے۔ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے جب پنجاب میں انجمنوں کا نیا نیا رواج شروع ہوا تو ایک بزرگ جو بھیرہ کے رہنے والے تھے اور جموں میں ایک بہت بڑے عہدہ پر ملازم تھے جب کچھ دنوں کے لئے اپنے وطن بھیرہ میں آئے تو انہیں ایک نئی انجمن اسلامیہ کی بنیاد رکھے جانے کی خبر ملی اور اس کے عہدہ داروں کو اُن سے ملوایا گیا۔ ایک صاحب کو پیش کیا گیا کہ یہ صاحب صدر مجلس اسلامیہ ہیں۔ دوسرے صاحب کو پیش کیا گیا کہ یہ پریذیڈنٹ مجلس اسلامیہ ہیں۔ اسی طرح ایک مجلس اسلامیہ کے مربی کے طور پر اور ایک صاحب پیٹرن۱۵؎ کے طور پر پیش کئے گئے۔ ان بزرگ نے علیحدگی میں سیکرٹری سے پوچھا کہ یہ کیا تماشہ ہے ایک مجلس کے دو دو صدر تو ہم نے کبھی سنے نہ تھے۔ سیکرٹری نے جواب دیا کہ صاحب! جانے دیجئے جاہلوں کو اسی طرح بے وقوف بنایا جاتاہے۔ جب ہم نے انجمن اسلامیہ کی بنیاد رکھی تو ہمیں محسوس ہوا کہ فلاں فلاں دو شخصوں کو ملائے بغیر کام نہیں چل سکے گا مگر وہ دونوں صاحب برابر کے جوڑ تھے اس لئے ان میں سے کسی ایک کو صدر اور کسی کو نائب صدر نہیں بنایا جا سکتا تھا اس پر ہم نے ان کی جہالت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ تدبیر کی کہ ایک کانام صدر رکھ دیا اور ایک کا نام پریذیڈنٹ رکھ دیا اور صدر صاحب کے کان میں یہ کہہ دیا کہ یہ انجمن اسلامیہ ہے اور صدر اسلامی نام ہے اس لئے یہی عہدہ بڑا ہے اور پریذیڈنٹ صاحب کے کان میں کہہ دیا کہ آجکل انگریزی راج ہے عربی کے ناموں کو کون پوچھتا ہے اصل عہدہ تو پریذیڈنٹ کا ہی ہے۔ اب ان دونوں صاحبان سے ہم کام لے رہے ہیں اور ہمارا کام چل رہا ہے۔ کانگرس اور مہاراجہ جموں نے بھی اسی تدبیر سے کام لیا ہے ایک صاحب کو دیوان کا عہدہ ملا ہوا ہے اور ایک صاحب کو پرائم منسٹر کا۔ اعلان پرائم منسٹر سے کروائے جا رہے ہیں اور کام دیوان سے لیا جا رہا ہے۔ ایک شہرت کی رشوت کا شکار ہے اور ایک اقتدار کے حاصل ہونے میں مگن ہے۔ یہ دونوں خوش ہیں تو باقی لوگوں کے اعتراض کی حقیقت ہی کیا ہے۔ بہرحال اس چال سے ایک طرف مہاراج نے اپنے اختیارات اپنے ہی ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف وہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں مگر یہ چال اتنی خطرناک نہیں جتنی خطرناک یہ بات ہے کہ بوجہ آزاد حکومت کشمیر کے منظم نہ ہونے کے کشمیر اور پاکستان دونوں جگہوں پر گھبراہٹ کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ لاہور تو اس وقت غلط افواہوں اور جھوٹی خبروں کا مرکز بن رہا ہے۔ ذرا کسی شخص کو کشمیر کے معاملات سے دلچسپی لیتے ہوئے دیکھیں تو لوگ جھٹ اس کے پیچھے دَوڑ پڑتے ہیں اور تجسس شروع کر دیتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک مسلمانوں کو اپنے فائدہ کے لئے اس سے بچنا چاہئے۔ کام کرنے والے ناتجربہ کار ہیں آگے ہی ان پر حد سے زیادہ بوجھ ہے۔ اگر ان سے یہ امید کی جائے کہ وہ ہر تجویز کو عَلَی الْاِعلان بیان کریں تو وہ کام کر ہی کس طرح سکتے ہیں۔ اگر یہی کنسوئیاں لینے اور ہر کسی کے پھٹے میں پاؤں اَڑانے کا سلسلہ جاری رہا تو کشمیر کی آزادی کی بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔
ہمارے نزدیک اس وقت خبر دینے والوں اور خبریں لینے والوں اور خبریں چھاپنے والوں کا سب سے اہم فرض یہ ہونا چاہئے کہ سچی خبریں دیں۔ سچی خبریں سنیں اور سچی خبریں چھاپیں۔ ہمارے بعض اخبارات میں کشمیر کی فتوحات کے متعلق بعض خبریں قبل از وقت شائع ہو گئیں۔ اخبارات تو مجبور تھے ان کو جو خبریں آئیں انہوں نے چھاپ دیں لیکن خبریں بھجوانے والے خداتعالیٰ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ ان کی غلط خبروں نے آخر قوم کے حوصلہ کو پست کرنا شروع کر دیا جو لوگ دس دن پہلے سے سرینگر کی فتح اور ایروڈ روم کے قبضہ کی خبریں سنا رہے تھے جب دن کے بعد دن گزرتا گیا اور وہ اپنے سروں پر ہندوستان کے ہوائی جہازوں کو اُڑتے ہوئے دیکھتے رہے اور تازہ دم فوجوں کے پہنچنے کی خبریں سنتے رہے اور سرینگر میں شیخ محمد عبداللہ اور اُن کی گورنمنٹ کے کام کی اطلاعات پڑھتے رہے اور مسٹر پٹیل ۱۶؎ اور سردار بلدیو سنگھ کے سرینگر کے دورہ کا حال انہوں نے پڑھا تو انہوں نے لازمی طور پر یہ سمجھا کہ آزاد کشمیر کی فوجیں کشمیر فتح کرنے کے بعد شکست کھا گئی ہیں اور واپس لوٹ آئی ہیں۔ کشمیر ایک مُلک ہے اور مُلکوں کا فتح کرنا چند دن کا کام نہیں ہوتا۔ بارہ مولا پر آزاد فوجوں کا قبضہ دیر سے ہوا ہوا ہے۔ اگر آج بھی اس بات کا اعلان کیا جاتا کہ بارہ مولا آج فتح ہوا ہے تو یہ بہت بڑا کارنامہ ہوتا اور یقینا مسلمانوں کے حوصلے اس سے گھٹتے نہ بلکہ بڑھتے لیکن سرینگر کی فتح کی خبریں سننے کے دس دن بعد یہ خبریں سننا کہ ابھی مجاہد فوج بارہ مولا کے اِردگرد پھر رہی ہے اور یہ کہ ہندوستانی یونین کی فوجیں برابر اڈہ میں اُتر رہی ہیں ایک سخت ہمت توڑنے والی بات تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اپنی زبان چاٹنے والے چیتے کی طرح وہ لوگ بھی جو حقیقت حال سے واقف تھے پہلے تو ان خبروں کے اشاعتی اثر کا خیال کر کر کے مزے لیتے رہے مگر کچھ دنوں کے بعد خود ہی روایتی چیتے کی طرح اپنی زبان کو کھوئے جانے پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگے اور اِدھر اُدھر گھبرائے ہوئے پھرنے لگے کہ اب کیا ہوگا۔ یہ حالت اگر دُور نہ ہوئی تو اس سے آزادی کشمیر کی کوششوں کو سخت نقصان پہنچے گا۔ پس ہم باادب تمام مسلمانوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ:۔
اوّل اخباروں یا دوسرے اداروں کو ہرگز کوئی ایسی خبر نہ بھیجیں جو ثابت شدہ حقیقت نہ ہو جس میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہو، ایسی خبروں سے قوم کے حوصلے نہیں بڑھتے بلکہ جب اُن کی غلطی ثابت ہوتی ہے تو قوم کے حوصلے گر جاتے ہیں اور عارضی طور پر بڑھا ہوا حوصلہ ایک مستقل شکست خوردہ ذہنیت میں تبدیل ہو جاتا ہے اور قوم ایک ایسے گڑھے میں گر جاتی ہے جس میں سے اُس کا نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔
دوم اخبارات کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہر نامہ نگار کی خبر کو تسلیم نہ کر لیا کریں بلکہ اگر کوئی نامہ نگار غلط خبر دے تو اس سے سختی سے باز پُرس کیا کریں تا کہ آئندہ کیلئے نامہ نگاروں کو کان ہو جائیں اور وہ اخبار کی بدنامی اور قوم کی تباہی کا موجب نہ بنیں۔
سوم ہمیں یہ عادت ترک کر دینی چاہئے کہ چاروں طرف سے حقیقت حال کے معلوم کرنے کے لئے قوتِ شنوائی کا جال پھیلاتے پھریں یا تو کام کرنے والوں پر ہمیں اعتبار ہے یا ہمیں اعتبار نہیں۔ اگر کام کرنے والوں پر ہمیں اعتبار ہے تو ہمیں اُن کو کام کرنے دینا چاہئے اور ان کے راستہ میں مشکلات پیدا نہیں کرنی چاہئیں اور اگر ہمیں کام کرنے والوں پر اعتبار نہیں تو ہمیں دوسرے کام کرنے والے پیدا کرنے چاہئیں یا کوئی ایسا فیصلہ کرنا چاہئے جس سے کام کرنے والوں کی اصلاح ہو لیکن جہاں معلوم ہو کہ کوئی شخص کشمیر کا کام کر رہا ہے اور اس کے پیچھے بیسیوں جاسوس دَوڑ پڑے اور چاروں طرف سے سوالات کی اُس پر بھرمار ہوگئی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ جس کا اس کام سے تعلق نہیں اُسے بیسیوں خبریں اِن سوال کرنے والوں سے مل جائیں گی اور خود سوال کرنے والوں کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ اور اگر اس کا اس کام سے کوئی تعلق ہے تو اُسے یکدم یوں معلوم ہوگا کہ وہ ایک شیشہ کی دیواروں والے حمام میں ننگا نہا رہا ہے جس کے چاروں طرف کھڑے ہوئے لوگ اُسے دیکھ رہے ہیں۔ ایسا آدمی نہا نہیں سکتا اور اگر یہ آدمی نہا نہیں سکتا تو وہ آدمی ایک اہم سیاسی کام کس طرح کر سکتا ہے۔ قوم کے وفاداروں کا کام تو یہ ہوتا ہے کہ اگر اُن کی نظر اتفاقی طور پر کسی ایسی چیز پر پڑ بھی جائے تو وہ آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ ہمیں یہ سن کر تعجب ہوا کہ ایک محکمہ جسے خبروں کے معلوم کرنے کے بہت سے ذرائع حاصل ہیں جب اُس کے افسر سے کسی نے یہ کہا کہ ہماری اس معاملے میں مدد کریں کہ فلاں بات بغیر مشہور ہوئے منزلِ مقصود تک پہنچ جائے تو اُس افسر نے آگے سے یہ جواب دیا کہ یہ احتیاط فضول ہے آجکل کونسی بات چھپی رہتی ہے۔ دیکھئے تو فلاں نے فلاں کو اس اس قسم کی ہدایت جاری کی اور وہ بھی سب کو معلوم ہو گئی۔ وہ بات جو بتانے والے نے بتائی نہایت ہی اہم تھی۔ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ جب وہ ہدایت منزلِ مقصود تک پہنچی تو ایک ذمہ دار افسر نے ایک اور ذمہ دار افسرکو یوں فون کیا کہ ہمیں بڈھے نے فلاں کام کرنے کا حکم دیا تھا مگر ہم نے وہ کام نہیں کیا۔ یہ فون کرنے والا پاکستان کا افسر تھا اور جس کو فون گیا گیا تھا وہ انڈین یونین کا افسر تھا۔ ہر ایک پاکستان کا خیر خواہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ صورتِ حالات ناقابلِ برداشت ہے ہم اپنے ہاتھ سے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں یہ ذہنیت بدلنی چاہئے یہ حالات تبدیل ہونے چاہئیں ورنہ کام کو نقصان پہنچے گا۔ یہ اصول جو ہم نے بیان کئے ہیں ایسے نہیں جن سے صرف رازدانوں کو واقفیت ہو ہم نہ کشمیر میں ہیں نہ آزاد گورنمنٹ سے ہمارا کوئی تعلق ہے مگر ہم اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے ان باتوں کو سمجھ رہے ہیں اور ہر مسلمان ہماری طرح سمجھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ سمجھنا چاہے اور بشرطیکہ اپنی قوم کی وفاداری کا جذبہ اس کے دل میں موجزن ہو۔
(الفضل ۷؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
پاکستان کی اقتصادی حالت
جب ہندوستان کے دو ٹکڑے ہونے کا سوال پیش تھا اُس وقت متحدہ ہندوستان کے مدعی اسی بات پر زور دیا کرتے تھے کہ اگر ہندوستان کے دو ٹکڑے ہوئے تو پاکستان اقتصادی طور پر اتنا کمزور ہو گا کہ وہ اپنی آزاد ہستی کو قائم نہیں رکھ سکے گا۔ انگریزکا بھی یہی خیال تھا اور اسی وجہ سے وہ پاکستان کا مخالف تھا اس لئے نہیں کہ وہ مسلمانوں کا خیر خواہ ہے بلکہ اس لئے کہ انگریز ہندوستان کو آزادی صرف روس کے ڈر کی وجہ سے دے رہا تھا۔ انگریز اس بات کو سمجھ چکاتھا کہ آئندہ جنگ میں روس ہندوستان کو لپیٹ میں لانے کی ضرور کوشش کرے گا۔ جرمن کے ساتھ جنگ میں ہندوستان کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا کیونکہ وہ جرمنی سے بہت دور تھا۔ جاپان کے ساتھ جنگ میںبھی ہندوستان ایسی اہمیت نہیں رکھتا تھا کیونکہ جاپانی فوجیں ہندوستان میں صرف ایک لمبا اور دشوار گزار راستہ طے کر کے داخل ہو سکتی تھیں اور اس وجہ سے کوئی بڑی فوج ہندوستان پر حملہ آور نہیں ہو سکتی تھی لیکن روس کی سرحدیں ہندوستان سے ملتی ہیں۔ پامیرؔ کی طرف سے گو ایک دشوار گزار پہاڑی راستہ طے کرنا پڑتا ہے اور افغانستان کی طرف سے۔ گو ایک آزاد قوم کے ساتھ ٹکرانا پڑتا ہے لیکن بہرحال یہ مشکلات اتنی سخت نہیں جتنی کہ جرمن اور جاپان کے راستہ میں تھیں۔ پس آئندہ جنگ جو روس کے ساتھ ہوتی نظر آتی ہے اس میں ہندوستان ایک نہایت ہی اہم حیثیت رکھے گا۔ انگریز سمجھتا تھا کہ پاکستان کی اقتصادی حالت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے وہ مضبوط اور بڑی فوج نہیں رکھ سکتا اور ہندوستان اپنے اعلیٰ رنگروٹوںسے محروم ہو جانے کی وجہ سے باوجود وسیع مالی ذرائع کے کوئی بڑی فوج نہیں رکھ سکتا۔ ہندوستان بڑی فوج تبھی رکھ سکتا ہے جب کہ ہندوستان کا وہ حصہ جو اَب پاکستان کہلاتا ہے اس کے ساتھ شامل ہو۔ روپیہ ہندو قوم مہیا کرے اور سپاہی مسلمان قوم مہیا کرے۔ روس جیسے مُلک کے ساتھ لڑائی کرنے کے لئے پندرہ بیس لاکھ کی فوج ضروری ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اتنی فوج انگریز کے نزدیک پاکستان کبھی بھی نہیں رکھ سکتا تھا اس لئے انگریز چاہتا تھا کہ کسی طرح ہندو اور مسلمان اکٹھے رہیں اور ہندوستان تقسیم نہ ہو اور جب یہ نہ ہوا تو پھر اس نے یہ خواہش شروع کی کہ کسی طرح پاکستان کمزور ہو کر ہندوستان کیساتھ دوبارہ مل جانے کی طرف مائل ہو جائے۔ چنانچہ یہ کھیل جاری ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ پاکستان کی اقتصادی حالت کو درست کیا جائے لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی جا رہی۔ پاکستان کی سب سے بڑی صنعت اور اس کی دولت کا مدار کپاس پر ہے کپاس کے کارخانے اکثر ہندؤوں کے پاس تھے جو انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ یہ کارخانے اب تک مقاطعہ پر لوگوں کو نہیں دیئے گئے اور کپاس زمیندار چننے لگ گئے ہیں چونکہ زمیندار زیادہ دیر تک گھر میں جنس نہیں رکھ سکتا زمینداروں نے تنگ آ کر کپاس سستے نرخوں پر بیچنی شروع کر دی ہے اور چونکہ گاہک کو نہیں پتہ کہ کارخانہ کب شروع ہوگا اور آیا اسے کوئی نفع مل سکے گا یا نہیں وہ دبا کر بہت ہی سستے داموں پر کپاس لے رہا ہے۔ اِس وقت منٹگمری میں آٹھ روپے من، سرگودھا میں چار روپے من اور شیخوپورہ میں پانچ روپے من کپاس بِک رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اِن حالات میں زمیندار کو اتنی رقم بھی نہیں ملے گی جتنی کہ اس نے گورنمنٹ کو بطور معاملہ ادا کرنی ہے۔ ان پریشان کُن حالات میں جب کہ انسان پہلے ہی دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اُٹھتا ہے اور دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سوتا ہے اگر زمیندار پر ایسی تباہی آئی تو اس کے نتائج ہر شخص خود سمجھ سکتاہے۔ گزشتہ سال کپاس کی قیمت ۲۲ روپے کے قریب تھی کُجا بائیس روپیہ اور کُجا سات آٹھ روپیہ دونوں قیمتوں میں کوئی بھی تو نسبت نہیں۔ سندھ کے کارخانوں کو چلے ہوئے پندرہ بیس دن گزر چکے ہیں سینکڑوں بیلز وہ نکال چکے ہیں اور ان کی روئی منڈی میں جا رہی ہے۔ وہاں اس سال بھی بائیس روپے من کپاس کی قیمت مل رہی ہے۔ اب قیمتوں کے اس اختلاف کی وجہ سے نتیجہ یہ نکلے گا کہ یا تو سندھ کے روئی کے تاجر جو اس سال کثرت سے مسلمان ہونگے،بالکل تباہ ہو جائیں گے کیونکہ اُنہوں نے بائیس روپیہ پر روئی خریدی ہوگی اور پنجاب کی قیمتیں منڈی کی قیمتوں کو گرا دیں گی یا پھر پنجاب کی روئی تاجر سستے داموں خرید کر بڑی قیمتوں پر بیچے گا اور پنجاب کا زمیندار بالکل تباہ ہو جائے گا۔ بہرحال یا سندھ کا تاجر تباہ ہوگا یا پنجاب کا زمیندار تباہ ہوگا۔ اس کا ایک ہی علاج ہے کہ پنجاب کے روئی کے کارخانے فوراً چلنے شروع ہو جائیں اور اتنی کثرت سے کارخانے چلیں کہ مقابلہ قائم رہے۔ اگر ہر منڈی میں ایک ایک کارخانہ چلایا گیا اور جو کارخانے کھلے وہ ایک دوسرے سے دُور دُور واقع ہوئے تو پھر بھی کارخانہ دار قیمتوں کو بزور گرانے کی کوشش کریں گے۔ پس پنجاب کے زمیندار کی حالت کو درست رکھنے کیلئے کپاس کے کارخانے فوراً چلائے جانے چاہئیں اور اتنی تعداد میں چلائے جانے چاہئیں کہ کارخانوں کا مقابلہ قائم رہے اور زمیندار کو مناسب قیمت مل سکے۔
ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پنجاب گورنمنٹ جننگ کے کارخانوں کو بھی ایک قومی صنعت بنانا چاہتی ہے اس میں تو کوئی شُبہ نہیں کہ مُلک کی چند صنعتوں کو قومی بنانا مفید ہو سکتا ہے لیکن تمام صنعتوں کو قومی بنانا کبھی بھی مفید نہیں ہوتا۔ اس سے مقابلہ کی روح ماری جاتی ہے اور جمہوریت کو سخت نقصان پہنچتا ہے مگر اس مضمون کے بارہ میں ہم اِس وقت کچھ لکھنا نہیں چاہتے۔ ہم صرف اِس طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ اگر روئی کے کارخانے سرکاری ہوئے تو لازماً روئی کی قیمتیں گر جائیں گی کیونکہ قیمتیں گاہکوں کی زیادتی کی وجہ سے بڑھتی ہیں۔ جب ایک چیز کے حد سے زیادہ گاہک ہوں تو اُس کی قیمت حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے اور جب ایک چیز کے حد سے کم گاہک ہوں تو اُس کی قیمت حد سے زیادہ گر جاتی ہے۔ اگر جننگ کے کارخانوں کی مالک گورنمنٹ ہوئی تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ سارے پنجاب میں گاہک ایک ہی شخص ہوگا یعنی حکومت۔ اور جب گاہک ایک شخص ہوا تو لازماً ہر زمیندار کو اس کے پاس اپنی کپاس بیچنی پڑے گی اور جب گاہک کو پتہ ہوگا کہ میرے سوا یہ زمیندار کسی اور کے پاس کپاس نہیں بیچ سکتا تو یقینا گاہک جو چاہے گا قیمت تجویز کرے گا اور زمیندار مجبور ہوگا کہ اُسی قیمت پر اپنی جنس کو بیچے اور اس سے پاکستان کی اقتصادیات بالکل تباہ ہو جائے گی اور انگریز کا وہ خدشہ بلکہ اب تو یوں کہنا چاہئے کہ وہ خواہش جو وہ پاکستان کی اقتصادی تباہی کے متعلق اپنے دل میں رکھتا تھا اور جس کے بغیر ہندوستان کے اتحاد اور روس کے دفاع کے مسائل حل نہیں ہوتے تھے پوری ہو جائے گی اور مسلمان اس آزادی کو کھو بیٹھیں گے جس کے لئے اُنہوں نے اتنی قربانی اور جدوجہد کی ہے۔ پس پاکستان کی اقتصادی حالت کو درست کرنا گورنمنٹ کے اہم ترین فرائض میں سے ہے اور اس کی طرف جتنی بھی توجہ دی جائے کم ہے لیکن یہاں تو یہ حال ہے کہ اب تک فیکٹریاں کرائے پر بھی نہیں دی گئیں اور نہ لوہے کی پتیوں کا انتظام کیا گیا ہے نہ کوئلے کا انتظام کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کارخانوں کے تقسیم ہو جانے کے بعد بھی کام فوراً نہیں چل سکے گا۔ اوّل تو کم سے کم دو ہفتے کارخانوں کی صفائی پر لگیں گے پھر عملہ تلاش کرنے میں بھی ٹھیکیداروں کا وقت خرچ ہوگا بلکہ اگر ہماری اطلاعات ٹھیک ہیں تو بہت سی جگہوں پر ہندومالکانِ کارخانہ نے بعض اہم پُرزے مشینوں میں سے نکال کر چھپا دیئے ہیں جس کی وجہ سے کارخانوں کے چلانے میں دِقّت ہوگی اور جب انجینئرمشینوں کو صاف کرنے لگیں گے تو انہیں معلوم ہوگا کہ وہ مشینیں اس وقت تک چلنے کے قابل ہی نہیں جب تک کہ بیرونی ممالک سے نئے پُرزے لا کر ان میں نہ ڈالے جائیں۔ جس کے دوسرے معنی یہ ہونگے کہ اس سال روئی کے بہت سے کارخانے چل ہی نہیں سکیں گے۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو زمیندار کی تباہی میں کوئی شُبہ ہی نہیں رہتا اور پاکستان کی مالیات کو بھی سخت نقصان پہنچنے کا امکان ہے کیونکہ پاکستان کی بڑی دولتوں میں سے ایک دولت اس کی کپاس ہے لیکن اگر یہ اطلاعات درست نہیں، تب بھی بغیر کوئلہ اور بغیر لوہے کی پتیوں اور بغیر ان کے وقت پر مہیا ہو جانے کے اور کارخانوں کے فوراً جاری ہو جانے کے زمیندار کے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ پس ہم حکومت کو اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ اس معاملہ میں زیادہ دیر نہ کرے اور فوراً کارخانے جاری کروا دے ورنہ زمیندار تو تباہ ہی ہو جائیں گے، حکومت کی اپنی مالی حالت کو بھی سخت دھکا لگے گا اور اسے بہت سے مقامات پر معاملہ اور آبیانہ معاف کرنا پڑے گا کیونکہ ان حالات میں زمیندار معاملہ دے کر اگلے چھ مہینے روٹی نہیںکھا سکتا اور اگلے چھ مہینے وہ روٹی کھائے گا تو گورنمنٹ کا معاملہ ادا نہیں کر سکے گا۔
ہماری سب سے بڑی طاقت قرآن کریم ہے
الفضل کی کسی گزشتہ اشاعت میں ہم نے
ان کالموں میں لکھا تھا کہ پاکستان کی سب سے بڑی دولت قرآن کریم کی تعلیم ہے۔ زندگی کا کوئی پہلو نہیں جس کے متعلق ہم کوایک بنا بنایا اصول اس تعلیم میں نہ ملتا ہو۔ انسان کے بنائے ہوئے قانونوں میں افراط تفریط کا خدشہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ انسانی عقل ایک نہایت ہی محدود چیز ہے اور چونکہ ایک وقت میں ایک سوال کے ہر پہلو کو پیش نظر رکھنا اس کے احاطۂ اقتدار سے باہر ہے اس لئے عقل جو بھی اصول بناتی ہے اس میں کچھ نہ کچھ خامی رہ جاتی ہے۔ دنیاکی تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ ایک وقت اور ایک حالات میں جو بات نہایت مستحسن معلوم ہوتی تھی۔ دوسرے وقت اور دوسرے حالات میں وہی بات غلط ثابت ہوتی ہے۔ ایک زمانہ میں سائنس اور فلسفہ کے جو نتائج ہم کو آخری معلوم ہوتے ہیں زمانہ مابعد میں ان کی تردید ہو جاتی ہے لیکن قرآن کریم میں جو باتیں کہی گئیں ہیں اَٹل ہیں۔ زندگی کے جو اصول بیان کئے گئے ہیں وہ آخری ہیں۔ یہ صرف زبانی دعویٰ نہیں بلکہ چودہ سَو سال کی اسلامی تاریخ کا اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو نظر آئے گا کہ جب کبھی انسانی عقل نے اس آفتاب کے چہرے پر پردے ڈالنے کی کوشش کی ہے تو اس کی جاودانی شعاعوں نے ان پردوں کو تار تار کر کے ہوا میں اُڑا دیا ہے۔ ہندوستان میں شہنشاہِ اکبر۱۷؎ کے عہد میں اسلامی تعلیم کو سیاسی مصالح پر قربان کرنے کی ا نتہائی کوشش ہو چکی ہے، شاہی دربار سے الحاد کی جو تاریک گھٹا اُٹھی تھی اُس نے ایک وقت کے لئے تو بے شک آفتاب کی روشنی کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کر دیا تھا مگر تاریکیوں کے یہ بادل زیادہ دیر تک مطلع پر چھائے نہ رہ سکے۔ حضرت سیّد احمد سرہندی ۱۸؎ مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ نے ایک ہی اشارے میں ان بادلوں کو پھاڑ کر رکھ دیا اور آفتابِ اسلام کا درخشاں چہرہ دنیا کے سامنے کر دیا اور اس کی روح پرور شعاعیں کوہ و دمن کو منور کرنے لگیں۔ یہ چشمۂ فیض حضرت سیّد احمد بریلوی علیہ الرحمۃ ۱۹؎کے عہد سعید تک جاری رہا۔ پھر مغربی الحاد کا طوفان اُٹھا جس نے ایک دفعہ پھر مسلمانان ہند کی نگاہوں سے آفتابِ عالمتاب کو پنہاں کر دیا۔ یہ سب سے بڑا طوفان ہے جو دنیا کی پیدائش سے لے کر عقل کے طاغوت نے آج تک بپا کیا ہے لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ اس طوفان کی بھی آخری گھڑیاں آن پہنچی ہیں۔ دنیا میں جو انقلابات رونما ہو رہے ہیں اگرچہ بظاہر وہ نہایت بھیانک مناظرکے حامل نظر آتے ہیں لیکن صرف انسانی تجربہ کی کسوٹی پر رکھنے سے بھی ہر صاحب ادراک محسوس کر سکتا ہے کہ طاغوتی طاقتیں اپنے حدِکمال کو عبور کر کے انحطاط کی طرف مائل ہوچکی ہیں اور عقل و خرد کے بلبلے پھٹ جانے کے لئے ایک ذرا سی ٹھیس کے منتظر ہیں۔
قدرت نے خالص مسلمانوں، فدایانِ نبی اُمی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ بستی یونہی اتفاقاً آباد نہیں کر ڈالی، اُس نے اِس وقت ہماری آزمائش کے لئے ہمیں چنا ہے، اِس وقت پاکستان کے مسلمان سب سے بڑے میدانِ امتحان میں ہیں، اگر ہم میں ذرا بھی اسلامی حمیت باقی ہے، اگر ہماری رگوں میں زندگی کی رمق موجود ہے، اگر اس راکھ کے ڈھیر میں ایک بھی جلتی ہوئی چنگاری بچی ہوئی ہے تو یقینا ہم ایک بار پھر وہی شعلہ اُٹھا سکتے ہیں جس میں بھسم ہونے کے لئے طاغوتی عقل نے اتنا ایندھن اکٹھا کر دیا ہے کہ جتنا اس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ شیطان نے اپنی آخری بازی لگا رکھی ہے اگر ہم جیت گئے، کاش ہم جیت جائیں تو پھر قیامت تک وہ سر نہیں اُٹھا سکے گا۔ دریودھن نے فریب کا پانسا پھینک کر بے شک ہمارا سب کچھ ہتھیا لیا ہوا ہے، دنیاوی لحاظ سے ہم بے شک کنگال ہو چکے ہیں ، بے شک دشمن نے ہمیں اپنی دانست میں ہلاک کر کے غار میں پھینک دیاہے لیکن یہ ہم سے کیوں ہوا؟ اس لئے کہ ہم نے اپنے اٹل اصولوں کو چھوڑ کر اس کے فنا ہونے والے اصولوں کو مان لیا۔ ہم اپنے سیدھے راستے سے بھٹک کر اُس کی پیچ در پیچ پگڈنڈیوں پر چل پڑے جہاں چپہ چپہ پر اس نے اپنے تیر انداز متعین کر رکھے ہیں۔ جن کی بوچھاڑ نے ہماری روحوں تک کو مجروح کر دیا ہے لیکن باوجود اس کے کہ ہم کو ہمارے املاک سے محروم کر کے بن باس کی طرف دھکیل دیا گیا ہے پھر بھی ہمارے لئے نا امید ہونے اور حوصلہ ہارنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ ہماری کمک آسمان سے آتی ہے زمین سے نہیں۔اس کمک نے آڑے وقت کبھی کوتاہی نہیں کی۔ وہی جس نے کورکشتر کے میدان میں پانڈو کے بیٹوں کی کرشن کو بھیج کر مدد کی تھی، وہی جس نے ابراہیم کے لئے نمرودی آتش کدے کو لہلہاتے ہوئے پھولوں کا دامن بنا دیا تھا، وہی جس نے نوح کی کشتی کو ساحل پر لگایا اور جس نے موسیٰ کے لئے سمندر کو دو ٹکڑے کر دیئے تھے۔ جس نے ہمیں خود تاتاری طوفان سے بال بال بچا کر نکال لیا تھا وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح زندہ ہے، اُس کا آخری پیغام زندہ ہے، اُس پیغام کا لانے والا خاتم النبیین کہلانے والا زندہ ہے، وہ منبع قوت جو کبھی ختم نہیں ہوتا ہم کو مفت دیا گیا تھا لیکن افسوس کہ ہم نے دھوکے میں آ کر اپنی زندگی کے تار اس سے منقطع کر لئے۔ ہمارے فانوس جس نور سے روشن ہوئے تھے ہم نے اس نور سے رشتہ توڑ لیا اگرہم آج پھر اس منبع قوت سے اپنے فانوسوں کے تار جوڑ لیں تو یقینا ہمارا گم ہوا ہوا نور پھر ہم کو ایک آن میں واپس مل سکتا ہے کیونکہ وہ منبع قوت ہمیشہ کیلئے ہمارے لئے وقف کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں نے پاکستان اسلام کے نام پر، اسلامی تہذیب و تمدن کے قیام کے نام پر لیا ہے اس لئے جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے آج پاکستان کا مسلمان خدا تعالیٰ کی امتحان گاہ میں ہے۔ خدا تعالیٰ کا نور قرآن پاک اور اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی راہنمائی کے لئے موجود ہے۔ اگر اس نے اس کی رہنمائی کو قبول کر لیا تو یقینا پاکستان ہی نہیں تمام دنیا اس کے قدموںکے نیچے آ جائے گی۔ ورنہ وہ بھی جو اس کے پاس ہے اس سے چھین لیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے کام کو کسی دوسری قوم کے سپرد کرے گاکیونکہ خداتعالیٰ کے کام کے مقابل کسی فرد یا کسی بڑی سے بڑی قوم کی پَرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں۔
(الفضل ۹؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کشمیر
کشمیر کے متعلق نہایت متوحش خبریں آ رہی ہیں جن لوگوں نے یہ خیال کیا ہوا تھا کہ کشمیر کا سوال چند دنوں میں حل کیا جا سکتا ہے نہ صرف ان کی غلطی ان پر واضح ہوگئی بلکہ دوسرے لوگ بھی ان کی غلطی کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بڑھی ہوئی اُمیدوں کا نتیجہ جب حسبِ امید نہیں نکلتا تو لوگ اس بات کے سوچنے کی طاقت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں کہ حالات کے مطابق کتنا نتیجہ نکلنا چاہئے تھا اور وہ صرف یہی سوچتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں کہا گیا تھا اتنا نتیجہ نہیں نکلا۔ خواہ وہ نتیجہ جس کی وہ امید کر رہے تھے عقل اور واقعات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور اس کی وجہ سے وہ لوگ دل چھوڑ بیٹھتے ہیں اور مجبوری کے بغیر کمزوری دکھانے لگ جاتے ہیں۔
ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے اور ہوا ہے کہ جب مبالغہ آمیز خبریں شائع کی جائیں تو دشمن بہت زیادہ ہوشیار ہو جاتا ہے جب کشمیر میں انڈین یونین کی فوجیں آئیں تو شروع میں وہ صرف ایک بریگیڈ بھجوانا کافی سمجھتے تھے لیکن پاکستان سے جب یہ آوازیں اُٹھنی شروع ہوئیں کہ پچاس ہزار مجاہد سرینگر کے میدان کی طرف بڑھ رہا ہے توانڈین یونین نے تین ڈویژن کشمیر بھجوانے کا فیصلہ کر دیا اور تمام ڈکوٹا ہوائی جہاز جو ہندوستان میں میسر آ سکتے تھے ان کو اس کام پر لگادیا گیا نتیجہ یہ ہوا کہ جتنی فوج بھجوانے کا ارادہ نہیں تھا اتنی فوج بھیج دی گئی اور جس عرصہ میں فوج بھیجنے کا ارادہ تھا اس سے پہلے بھیج دی گئی۔ ہماری طرف سے صرف فخر کا اظہار ہوا اور اُدھر سے کام ہو گیا۔ اس فخر کا ہم کو کیا فائدہ ہوا؟ صرف مخالف نے اس سے فائدہ اُٹھایا اور ہمارے دوستوں کو اس سے سوائے نقصان کے اور کچھ حاصل نہ ہوا۔
یہ تو ایک کھلی ہوئی صداقت ہے جس کا انکار نہ حکومت پاکستان کرتی ہے نہ کوئی مسلمان کر سکتا ہے کہ گو پاکستان عَلَی الْاِعْلَان جنگ میں شامل نہیں لیکن وہ کشمیر کو اپنا حق سمجھتا ہے اور کشمیری مسلمانوں کی آزادی اسے مطلوب ہے۔ وہ کسی صورت میں بھی پسند نہیں کر سکتا کہ کشمیر کا مسلمان ڈوگروں کا غلام بنا کر رکھا جائے یا سکھوں کی کرپانوں کا نشانہ بنتا رہے۔ جب یہ ایک حقیقت ہے تو اس حقیقت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بھی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں اور جنگ سے اُتر کر جتنی تدابیر اس کام کے لئے استعمال کی جا سکتی ہیں وہ استعمال کر جانی چاہئیں۔ مثلاً اخباری پروپیگنڈا حکومت پاکستان کی نگرانی میں آ جانا چاہئے۔ سنسر نہ ہومگر حکومت پاکستان کا پریس نمائندہ اخبارات کو خفیہ طور پر ایسی ہدایتیں دیتا رہے کہ کس قسم کی خبریں شائع کرنا تحریک کشمیر کے مخالف ہوگا اور کس قسم کی خبریں شائع کرنا تحریک کشمیر کے مخالف نہ ہوگا۔ یورپ اور امریکہ کا پریس بالکل آزاد سمجھا جاتا ہے لیکن وہاں بھی امور خارجہ کا ایک نمائندہ پریس کے ساتھ لگا ہوا ہوتا ہے اور وہ ہر اہم موقع پر پریس کو توجہ دلاتا رہتا ہے کہ اس مسئلہ کے کونسے پہلوؤں کی اشاعت آپ کے مُلک کے مفاد کے لئے مضر ہوگی اور کونسے پہلوؤں کی اشاعت آپ کے مُلک کے مفاد کیلئے مفید ہوگی۔ پریس بے شک آزاد ہوتا ہے مگر وہ اپنے مُلک کا دشمن تو نہیں ہوتا۔ امور خارجہ کے نمائندہ کی طرف سے جب ان کے سامنے حقیقت کو واضح کر دیا جاتا ہے تو نوّے فیصدی پریس وہی طریق اختیار کرتا ہے جس کی سفارش امور خارجہ نے کی ہوتی ہے۔دس فیصدی پریس جو اس کے خلاف کرتا ہے اس کی آواز نوّے فیصدی کی آواز کے نیچے دَب جاتی ہے اور مجموعی طور پر پبلک گمراہ نہیں ہوتی اور دس فیصدی پریس کی آواز کو دوسرے ممالک مُلک کی آواز نہیں سمجھتے اس لئے اس کی آواز سے بھی نقصان نہیں پہنچتا۔ یہی طریقہ یہاں بھی اختیار کرنا ضروری تھا۔ چاہئے تھا کہ پاکستان حکومت کے محکمہ امور خارجہ کا ایک افسر فوراً مقرر کر دیا جاتا جو پاکستان کے پریس کو براہِ راست یا اپنے نمائندوں کے ذریعہ ان کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا رہتا۔ اس کے نتیجہ میں لازماً پاکستان کے پریس کا اکثر حصہ اس طریق کو اختیار کر لیتا اور ایسے مضامین یا ایسی خبریں شائع نہ کرتا جن سے کشمیر کے مسلمانوں کے مفاد کو نقصان پہنچتا اور اگر کوئی حصہ اس کے مخالف بھی چلتا تو اکثر پریس کی خبریںچونکہ اس کے خلاف ہوتیں اور ان کے مضامین بھی اس کے خلاف ہوتے، نہ مُلک کی عام رائے اس سے متأثر ہوتی اور نہ دوسرے ممالک اس کی آواز سے متأثر ہو کر کوئی ایسا قدم اُٹھاتے جو کشمیرکے مسئلہ کو پیچیدہ بنا دینے والا ہوتا۔ بہرحال اس وجہ سے کہ پریس کو کوئی راہ نمائی حکومت کی طرف سے حاصل نہ ہوئی (گو ہمیں معلوم ہے کہ بعض دوسرے لوگوں نے پاکستان کے پریس کے ایک حصہ کے سامنے یہ حقیقت واضح کر دی تھی کہ اس قسم کی خبروں کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ دشمن ہوشیار ہو جائے گا اور پاکستان اور کشمیر کے افراد کے حوصلے بعد میں جا کر پست ہو جائیں گے) پریس نے اپنے لئے خود ایک طریقہ انتخاب کیا جس کا نتیجہ ہمارے نزدیک مُلک کیلئے مضر نکلا۔ مگر بہرحال پریس پر کوئی الزام نہیں کیونکہ اُنہوں نے اپنے لئے ایک ایسا طریق اختیار کر لیا تھا جو اُن کی سمجھ میں مُلک کے لئے مفید تھا۔ ان کو تحریک کشمیر کے ذمہ دار افسروں کی طرف سے ایسی ہی اطلاعات پہنچتی رہی تھیں جن کی وجہ سے وہ کشمیر کے کام کو نہایت ہی معمولی سمجھتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ غالباً چند دن میں سارا کشمیر صاف ہو جائے گا بعد کے واقعات نے اس خیال کی تردید کر دی اور اب یہ معاملہ نہایت ہی پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ درست نہیں کہ یہ مسئلہ کامیاب طو رپر حل ہی نہیں کیا جا سکتا یقینا یہ مسئلہ کامیاب طور پر حل کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ عقل اور سمجھ سے کام لیا جائے اور بشرطیکہ پاکستان کامسلمان کشمیر کی تحریک چلانے والوں کی پوری طرح امداد کرے۔ اب سردیاں آ رہی ہیں اور اگر کشمیر کی تحریک جاری رہی تو برف میں تحریک کشمیر کی فوجوں کو کام کرنا پڑے گا۔ تحریک کشمیر میں کام کرنے والے لوگ برفانی علاقوں کے ہیں۔ مظفر آباد، پونچھ، ریاسی، میرپور، کشمیر اور سرحدی قبائل کے لوگ سب برفانی علاقوں کے ہیں مگر باوجود اس کے وہ بغیر سامان کے ان علاقوںمیں کام نہیں کر سکتے۔ انہیںگرم جرابوں، گرم سویٹروں، بوٹوں، پینٹوں اور بھاری کمبلوںکی ضرورت چند دن میں پیش آئے گی۔ اگر چند دن میں یہ چیزیں ان تک نہ پہنچیں تو ان کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور یہ امر ظاہر ہے کہ طبعی تقاضوں کا مقابلہ کوئی انسان نہیں کر سکتا۔ بغیر کھانے کے سپاہی لڑ نہیں سکتا اور بغیر سردی گرمی کے مقابلہ کا سامان ہونے کے سپاہی لڑ نہیں سکتا۔ ایک سپاہی سردی میں رات تو گزار سکتا ہے بلکہ متواتر راتیں گزار کر اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہے مگر وہ تمام اخلاص اور تمام جذبۂ ایثار کے باوجود اپنی صحت اور اپنی طاقت کو قائم نہیں رکھ سکتا۔ ہر شخص جان سکتا ہے کہ ہمیں اس امر میں خوشی نہیں ہوسکتی کہ ہمارے افراد نے قربانی کر کے اپنی جانیں دے دیں۔ ہمیں اگر خوشی ہو سکتی ہے تو اس بات میں کہ ان کی قربانی کے نتیجہ میں ہمارے بھائی آزاد ہو گئے اور یہ نتیجہ تبھی نکل سکتا ہے جب کہ آزاد کشمیر کے سپاہیوں کی صحتیں درست رہیں اور ان کی طاقت قائم رہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ ان کی صحتوں کی درستی اور طاقت کے قیام کا مدار عمدہ غذا اور سردی کو برداشت کرنے والے لباس کے مہیا ہونے پر ہے۔
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ مغربی پاکستان کے لوگوں کے ذمہ اِس وقت مشرقی پاکستان کے پناہ گزینوں کے لباس کے مہیا کرنے کا بہت بڑا کام ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اگر کشمیر کے مجاہدین کے لئے گرم جرابوں اور گرم کپڑوں کا سامان مہیا نہ کیا گیا تو وہ ہرگز سردی میں اس جنگ کو جاری نہ رکھ سکیں گے۔ پس اس کے لئے ابھی سے مُلک کو تیار ہو جاناچاہئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غلط امیدوں کے خلاف نتائج نکلے ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ خبریں جو شائع ہو رہی تھیں درست ثابت نہیں ہوئیں اور اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ ایسے لوگوں پر کام کو چھوڑ دیا گیا تھا جو پورے طور پر اس کام کے اہل نہیں تھے۔ ایسے سرحدی قبائل لڑائی کے لئے آگے چلے گئے جو اپنے مُلک سے دور رہ کر لڑنے کے عادی نہیں اور جو صرف پندرہ بیس دن تک ایک وقت میں لڑائی کر سکتے ہیں وہ بہادر بھی ہیں، وہ جانباز بھی ہیں، وہ لڑائی کے دھنی بھی ہیں، وہ جان دینے سے بھی نہیں ڈرتے ان کے حوصلے اور ان کی قربانیوں کا کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن وہ ہمیشہ سے ہی ایسی جنگ کے عادی ہیں جو ان کے گھروں کے آس پاس لڑی جائے۔ وہ سَو دو سَو میل باہر جا کر لڑنے کے عادی نہیں۔ نسلاً بعد نسلٍ وہ ان پہاڑیوں میں لڑنے کے عادی ہیں جن میں وہ پیدا ہوئے جن کے کونے کونے سے وہ واقف ہیں، جن کے ہر نشیب و فراز کا ان کو علم ہے، جن کی ہر وادی اور ہر چوٹی کا نقشہ ان کی آنکھوں کے سامنے رہتا ہے۔ پھر ان لڑائیوں میں جو لوگ لڑتے رہتے ہیں ان کا عقب ہمیشہ محفوظ رہا ہے کیونکہ وہ اپنے گھروں سے دور کبھی نکلے ہی نہیں اور اس وجہ سے وہ جانتے ہی نہیں کہ عقب کی حفاظت کتنی ضروری ہے کیونکہ ان کے راستے یا تو خود ان کے بیوی بچوں کی نگرانی میں ہوتے تھے یا ان کے دوست قبائل کی نگرانی میں ہوتے تھے۔ ان کے رستوں کو وہی توڑ سکتا تھا جو ان کے گھروں میں داخل ہو اس لئے اپنے رستوں کی حفاظت کا خیال کبھی سرحدی قبائل کے دلوں میں پیدا ہی نہیں ہوتا لیکن اپنے گھر سے دور جا کرلڑنے والی فوجوں کے لئے سب سے اہم سوال ان رستوں کی حفاظت کا ہوتا ہے جہاں سے اُن کو رسد پہنچتی ہے اور جن کی حفاظت کے بغیر ان کا پیچھا محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس قسم کی تربیت سرحدی قبائل کی نہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سرحد کے قبائل بے تحاشا آگے بڑھتے چلے گئے انہوں نے یہ نہ سوچا کہ ان کا پیچھا کون سنبھالے گا کیونکہ پیچھا سنبھالنے کا خیال کبھی ان کے دل میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ وہ ہمیشہ اپنے گھر کی پہاڑیوں میں لڑتے رہے اور ایسی پہاڑیوں میں وہ لڑتے رہے جن کی چپہ چپہ زمین کے وہ واقف ہیں۔ جب وہ اپنے مُلک سے دور جا کر اپنی عادت کے مطابق لڑے تو دشمن کو کئی موقعوں پر ان کا پیچھا روک لینے کا موقع مل گیا اور اس سے ان کو بہت نقصان پہنچا۔ دوسرے کئی لوگ جو اپنے گھروں سے اِس خیال سے نکلے تھے کہ پندرہ بیس دن کی لڑائی کے بعد ہمارا کام ختم ہو جائے گا۔ بعض دفعہ وہ اچانک میدانِ جنگ سے واپس آ گئے اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ ہم اپنی لڑائی کی مدت کو پورا کر چکے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے قبائل پونچھ اور کشمیر کے یا سرحد کے جو میدانِ جنگ میں لڑ رہے تھے ان کا پہلو یکدم ننگا ہو گیا اور باوجود مضبوط ارادہ کے وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے اور فتح شکست سے بدل گئی۔ اس کے سِوا بھی بعض اور باتیں اور خبریں ہمیں موثق ذرائع سے معلوم ہوئی ہیں مگر ان کا ذکر کرنا مناسب نہیں کیونکہ ان باتوں کے اظہار سے آزادی کشمیر کی تحریک کا کام کرنے والوں کو نقصان پہنچے گا۔ ہمارے دل میں دُکھ ہے کہ ایسا کیوں ہوا مگر ہم یہ بے وقوفی کرنا نہیں چاہتے کہ پچھلے نقصان پر واویلا کر کے آئندہ کی کامیابی کو اور بھی مخدوش بنا دیں۔ بہرحال جہاں تک ہمیں علم ہے آزادیٔ کشمیر کی تحریک میں کام کرنے والے اپنی سابقہ غلطیوں کی اصلاح میں مشغول ہیں اور آئندہ کے لئے نئی جدوجہد کے مستقل ارادے رکھتے ہیں مگر جیسا کہ ہم اوپر بتا چکے ہیں وہ بغیر سامانوں کے کچھ نہیں کر سکتے اور یہ سامان بغیر روپیہ کے میسر نہیں آ سکتے۔ پس ہم تمام مسلمانوں کی توجہ اس طرف پھراتے ہیں کہ اِس وقت بخل سے کام نہ لیں کیونکہ کشمیر کا مستقبل پاکستان کے مستقبل سے وابستہ ہے۔ آج اچھا کھانے اور اچھا پہننے کا سوال نہیں پاکستان کے مسلمانوں کو خود فاقے رہ کر اور ننگے رہ کر بھی پاکستان کی مضبوطی کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور جیسا کہ ہم اوپر بتا چکے ہیں پاکستان کی مضبوطی کشمیر کی آزادی کے ساتھ وابستہ ہے۔ ہم تمام پاکستان کے رہنے والوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد میں حصہ لینے والوں کی کمبلوں، گرم کوٹوں، برساتی کوٹوں، زمین پر بچھانے والی برساتیوں، برفانی بوٹوں، گرم جرابوں اور گرم سویٹروں سے امداد کریں۔ یہ چیزیں کچھ تو ان دُکانوں سے مہیا کی جا سکتی ہیں جنہوں نے گزشتہ زمانہ میں ڈسپوزل کے محکمہ سے سامان خریدا تھا اور کچھ سامان ابھی ڈسپوزل کے سٹوروں میں پڑا ہوگا جو مُلک کے پاس فروخت کرنے کیلئے ہے وہاں سے بھی سامان خریدا جا سکتا ہے اور کچھ سامان خود سرحد، کشمیر اور پونچھ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے صحیح جگہ روپیہ بھجوا دینا نہایت ضروری ہے۔ ہم پاکستان کے تمام اخباروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے خریداروں سے روزانہ اس کام کے لئے چندہ کی اپیل کریں یا سارے اخبار مل کر ایک کمیٹی بنا لیں جو مشترکہ طور پر روپیہ جمع کرے اور ایسے ضروری سامان خریدے جو مغربی پاکستان میں مل سکتے ہیں اور جو مغربی پاکستان میں نہیں مل سکتے لیکن خود کشمیر اور پونچھ اور سرحد میں مل سکتے ہیں، ان کے لئے روپیہ عارضی حکومت کو بھجوائیں یا عارضی حکومت کی ان شاخوں کو بھجوائیں جو مُلک کے مختلف حصوں میں کام کر رہی ہیں۔ ہم الفضل کے خریداروں اور الفضل کے پڑھنے والوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ جو کچھ انہیں توفیق ہو اس کام کے لئے بھجوائیں مگر اتنی بات کا فی نہیں اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر الفضل کا خریدار اور ہر الفضل کا پڑھنے والا اپنے اپنے علاقہ کے لوگوں سے بھی چندہ کی اپیل کرے۔ اگر ہمارے اخبار کے خریدار اورہمارے اخبار کے پڑھنے والے لوگوں پر ساری حقیقت واضح کر دیں تو یقینا لوگ دل کھول کر چندہ دیںگے لیکن سوال زیادہ روپیہ کا بھی نہیں جو زیادہ دے سکتا ہے وہ زیادہ دے جو زیادہ نہیں دے سکتا یا زیادہ دینا نہیں چاہتا وہ اگر ایک پیسہ بھی دیتا ہے تو اپنے مُلک کی خدمت کرتا ہے۔ اگر ہزار آدمی ایک ایک پیسہ دے کر بھی ایک سپاہی کی جان بچا لیتے ہیں تو یقینا وہ فتح کو قریب کر دیتے ہیں اس لئے کمر ہمت کس کر کھڑے ہو جائیں اور اپنے علاقہ کے تمام لوگوں سے خواہ وہ کسی قوم اور کسی فرقہ اور کسی خیال کے ہوں، چندہ جمع کریں اور جلد سے جلد بھجوائیں اِس تمام چندے کا حساب رکھا جائے گا اور بعد میں حساب شائع کیا جائے گا یاد رکھیں کہ الفضل ایسے چندے کو اور ایسی چیزوں کو جو اس چندہ میں آئیں سَو فیصدی اس جگہ پر پہنچا دے گا جہاں پہنچ کر وہ کشمیر کی تحریک کو اِنْشَائَ اللّٰہ فائدہ پہنچا سکیں گی۔(الفضل لاہور ۱۲؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کشمیر اور پاکستان
یوں تو مسلمان عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کا معاملہ نہایت اہم ہے لیکن اس کی اہمیت کاپورا انکشاف انہیں حاصل نہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کشمیر کا ہندوستان سے الحاق شاید کوئی نیا مسئلہ ہے مگر یہ بات درست نہیں حقیقت یہ ہے کہ کشمیرکے ہندوستان سے الحاق کی داغ بیل بہت عرصہ پہلے پڑ چکی تھی۔ باؤنڈری کے فیصلہ سے عرصہ پہلے ہندوستان کی تقسیم کے سوال کا فیصلہ ہوتے ہی لارڈ مونٹ بیٹن کشمیر گئے اور ان کے سفر کا مقصد وحید یہی تھا کہ وہ مہاراجہ کشمیر کو ہندوستان میں شامل ہونے کی تحریک کریں۔ حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ لارڈ مونٹ بیٹن کُلّی طور پر ہندوؤں کی تائید میں رہے ہیں اور مسلمانوں کے مفاد کی اُنہوں نے کبھی بھی پرواہ نہیں کی۔ اگر انہوں نے پاکستان کے بنانے کے حق میں رائے دی تو اس یقین کے ساتھ دی کہ تھوڑے ہی عرصہ میں پاکستان تباہ ہو کر پھر ہندوستان میں شامل ہو جائے گا اور ان کا سارا زور اسی بات کے لئے خرچ ہوتا رہا۔ جب لارڈ مونٹ بیٹن کشمیر کے راجہ کو نصیحت کرنے کیلئے وہاں گئے اور اسی طرح کانگرس کے اور لیڈر بھی جیسے مسٹر گاندھی وہاں گئے تو لازمی بات ہے کہ ان بحثوں میں گورداسپور کے ضلع کا سوال بھی پیدا ہوا ہوگا۔ کشمیر اگر ہندوستان یونین سے ملتا اور تحصیل بٹالہ اور تحصیل گورداسپور ہندوستان یونین میں شامل نہ ہوتے تو اس کے معنی یہ تھے کہ کشمیر کا ہندوستان سے تعلق صرف ضلع کانگڑہ کے ذریعہ پیدا کیا جا سکتا تھا۔ ہر شخص جو پنجاب کے جغرافیہ سے واقف ہے سمجھ سکتا ہے کہ کانگڑہ کے ذریعہ سے کشمیر کا صحیح تعلق ہندوستان سے پیدا ہونا قریباً ناممکن ہے۔ نہ کانگڑہ کے ذریعہ سے ہندوستان کی چیزیں کشمیر پہنچ سکتی تھیں نہ کشمیر کی چیزیں ہندوستان پہنچ سکتی تھیں اس لئے اُسی وقت یہ بھی فیصلہ کر دیا گیا کہ تحصیل گورداسپور اور تحصیل بٹالہ ہندوستان میں شامل کی جائیں تاکہ مادھو پور کے رستے پٹھانکوٹ سے کشمیر کا تعلق پیدا ہو اور پٹھانکوٹ سے ریل کے ذریعہ سے باقی ہندوستان سے۔
تحصیل گورداسپور اور تحصیل بٹالہ کا ہندوستان کے ساتھ شامل کرنا باوجود اس کے کہ ان میں مسلمانوں کی اکثریت تحصیل شکر گڑھ سے زیادہ ہے اور تحصیل شکر گڑھ کو پاکستان میں شامل کرنا صاف بتاتا ہے کہ اس تقسیم میں کشمیر کے لئے رستہ بنانا مدنظر تھا۔ مسٹر ریڈکلف نے بے شک گورداسپور اور بٹالہ کو ہندوستان میں شامل کرنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ لوئر باری دوآب کا علاقہ تقسیم نہ ہو لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ یہ محض بہانہ تھا کیونکہ لوئر باری دو آب پھر بھی تقسیم ہوگئی۔ لوئرباری دو آب کا وہ حصہ جو تحصیل لاہور کو سیراب کرتا ہے وہ پھر بھی پاکستان میں آیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ درحقیقت لوئر باری دوآب کا محض ایک بہانہ تھا۔ تحصیل گورداسپور اور تحصیل بٹالہ کو ہندوستان میں شامل کرنے کی وجہ لوئر باری دو آب کی تقسیم کا خوف نہیں تھا کیونکہ یہ تقسیم خود اسی ایوارڈ میں موجود ہے۔ ان دونوں تحصیلوں کو ہندوستان میں شامل کرنے کا باعث صرف بٹالہ پٹھانکوٹ ریلوے کو ہندوستان یونین میں لانا تھا۔ اس ریل کے ہندوستان یونین میں جانے کے بغیر کشمیر ہندوستان کے ساتھ مل نہیں سکتا تھا۔ پس جب لارڈ مونٹ بیٹن کشمیر گئے تو ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ کشمیر کو ہندوستان یونین سے ملانے کے لئے بٹالہ اور گورداسپور کی تحصیلوں کو ہندوستان یونین میں ملانا ضروری ہوگا اور جب سرریڈکلف نے اپنا ایوارڈ دیا تو ان کے ذہن میں بھی یہ بات تھی کہ کشمیر کو ہندوستان یونین میں ملایا جائے گا اس لئے تحصیل گورداسپور اور تحصیل بٹالہ کی مسلم اکثریت کو عقل اور انصاف کے خلاف قربان کر دینا ضروری ہے اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پس جب لارڈمونٹ بیٹن مہاراجہ کشمیر سے ملنے کیلئے گئے اور کانگرس نے مہاراجہ کشمیر پر زور دینا شروع کیا کہ وہ ہندوستان یونین کے ساتھ شامل ہوں تو اس کے معنی یہ تھے کہ ان لوگوں نے گورداسپور اور بٹالہ کو ہندوستان یونین میں شامل کرنے کا پہلے سے فیصلہ کیا ہوا تھا اور جب سرریڈکلف نے گورداسپور اور بٹالہ کو خلافِ انصاف اور خلافِ عقل ہندوستان یونین میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے یہ معنی تھے کہ کشمیر کو ہندوستان یونین میں شامل کرنے کا فیصلہ پہلے سے ہوچکا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان نتائج کو صحیح تسلیم کرنے کی صورت میں انگلستان کی دو بڑی ہستیوں پر خطرناک الزام عائد ہوتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ مندرجہ بالا واقعات کی بناء پر اس نتیجہ کے سِوا کوئی اور نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا۔ اگر یہ بات ممکن تھی اور اگر عقل اور انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ گورداسپور اور بٹالہ کی تحصیلیں پاکستان میں شامل ہوں تو سرریڈکلف کے ایوارڈ سے پہلے لارڈمونٹ بیٹن، مسٹر گاندھی اور دوسرے کانگرسی اکابر کا مہاراجہ کشمیر کے پاس جانا اور انہیں ہندوستان یونین میں شامل ہونے کی تحریک کرنا بالکل بے معنی ہو جاتاہے۔ کیا کوئی عقلمند آدمی اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ لارڈ مونٹ بیٹن، مسٹرگاندھی اور دوسرے کانگرسی اکابر ایک ایسی بات منوانے کے لئے کشمیر گئے تھے جو تحصیل گورداسپور اور تحصیل بٹالہ میں مسلم اکثریت کے ہونے کی وجہ سے بالکل ناممکن تھی، ان کا جانا بتاتا ہے کہ یہ بات پہلے سے طے پا چکی تھی اور تحصیل بٹالہ اور تحصیل گورداسپور باوجود مسلم اکثریت کے ہندوستان یونین میں شامل کی جائیں گی اور اگر یہ بات پہلے سے طے کی جا چکی تھی تو سرریڈکلف کا ایوارڈ محض ایک دکھاواتھا۔ ایک طے شدہ بات کے اعلان سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہ تھی۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس سازش میں کون کون آدمی شامل تھا مگر ایوارڈ سے پہلے لارڈ مونٹ بیٹن، مسٹر گاندھی اور دوسرے کانگرسی اکابر کا کشمیر جا کر مہاراجہ کشمیر پر انڈین یونین میں شامل ہونے کے لئے زور دینا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ سازش ضرور تھی اور ایوارڈ سے پہلے یہ بات جانی بوجھی ہوئی تھی کہ کشمیر کا ہندوستان یونین سے ملنا ممکن ہوگا اور تحصیل بٹالہ اور تحصیل گورداسپور اس بات میں روک نہیں ڈالیں گی۔ تاریخ اس ڈرامہ کو کھیلنے والوں کو یقینا مجرم گردانے گی۔ وہ لاکھوں آدمی جو اس بددیانتی کی وجہ سے مظالم کا شکار ہوئے ہیں اُن کی روحیں عرش کے پائے پکڑ کر خدا تعالیٰ کی غیرت کو بھڑکاتی رہیں گی اور تمام دنیا کے دیانتدار مؤرخ برطانوی گورنمنٹ کے ہندوستان میں اس آخری فعل کی شناعت اور بُرائی کو آئندہ نسلوں کے سامنے بار بار پیش کرتے رہیں گے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے اس جگہ برطانوی گورنمنٹ کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ یقینا ساری برطانوی گورنمنٹ اس سازش میں شریک نہیں ہوسکتی اورہمیں یقین ہے کہ وہ شامل نہیں ہوگی لیکن اس امر کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ڈرامہ اس کی آنکھوں کے سامنے کھیلا گیا ہے اور باوجود اس کے کہ وہ اس ڈرامہ کی حقیقت کو سمجھ سکتی تھی اور سمجھتی تھی اور اس نے ان ایکٹوں کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ لوگ صرف اس خیال سے کشمیر جاتے تھے کہ ممکن ہے گورداسپور اور بٹالہ کی تحصیلیں ہندوستان یونین میں چلی جائیں۔ جب لارڈ مونٹ بیٹن کا یہ اعلان موجود تھا کہ کسی جگہ کی کسی قوم کی اکثریت کو دوسری قوم کا غلام نہیں بنایا جائے گا تو اپنے اس اعلان کے بعد لارڈ مونٹ بیٹن کو یہ شُبہ ہی کس طرح ہو سکتا تھا کہ تحصیل گورداسپور اور تحصیل بٹالہ کی مُسلم اکثریت ہندوستان یونین میں چلی جائے گی اور اس طرح کشمیر کو ہندوستان یونین میں ملانے کا موقع مل جائے گا۔ جب لارڈ مونٹ بیٹن نے یہ اعلان کیا تھا کہ گورداسپور میں مسلمانوں کی اکثریت ۵۱فیصدی سے بھی کم ہے تو اُسی وقت احمدیہ جماعت کی طرف سے اُن کو تار دی گئی تھی کہ ضلع گورداسپور میں مسلمانوں کی تعداد ۵۳ فیصدی ہے مگر آپ نے اپنے اعلان میں ۵۱فیصدی سے بھی کم قرار دیا ہے۔ آپ گورنمنٹ آف انڈیا کی شائع شدہ مردم شماری کی رپورٹ دیکھیں اس میں صاف طور پر ضلع گورداسپور کی مسلم آبادی ۵۳ فیصدی سے زیادہ لکھی ہوئی ہے یا تو آپ اپنے بیان کی تردید کریں ورنہ دنیا یہ شُبہ کرے گی کہ آپ نے بیان دیدہ دانستہ دیا ہے اور ضلع گورداسپور کو ہندوستان میں شامل کرانے کی بنیاد ڈالی ہے۔ لارڈ مونٹ بیٹن نے احمدیہ جماعت کے اس احتجاج کا کوئی جواب نہ دیا اور واقف کاروں کے دل میں اُسی وقت یہ احساس پیدا ہو گیا کہ تحصیل بٹالہ اور تحصیل گورداسپور کے ہندوستان میں شامل ہونے کا فیصلہ ہوچکا ہے اور آئندہ جو کچھ بھی ہوگا محض ایک ڈرامہ ہوگا، ایک کھیل ہوگا اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ کیا لارڈ مونٹ بیٹن میں یہ جرأت ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ وہ اعداد و شمار جو انہوں نے گورداسپور کی مسلم آبادی کے متعلق پریس کانفرنس میں بیان کئے تھے سنسس رپورٹ (CENSUS REPORT) کے مطابق ہیں اور کیا وہ اس بات کا انکار کر سکتے ہیں کہ احمدیہ جماعت نے اُسی وقت ان کے سامنے پروٹسٹ کیا تھا اور انہوں نے پروٹسٹ کا جواب تک نہ دیا۔
بہرحال جیسا کہ ہم ثابت کر چکے ہیں کشمیر کو ہندوستان یونین میں ملا دینے کا فیصلہ برطانوی حکومت کے بعض نمائندے اور کانگرس مشترکہ طور پرپہلے سے کرچکے تھے اس کے بعد جو کچھ کیا گیا ہے وہ محض دکھاوا اور کھیل ہے مگر بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔کشمیر کو ہندوستان یونین میں ملا دینے کا فیصلہ صرف کشمیر کی خاطر نہیں کیا گیا بلکہ اس لئے کیا گیاہے کہ صوبہ سرحد کے ساتھ ہندوستان یونین کا تعلق قائم ہو جائے۔ صوبہ سرحد میں سرخ پوشوں (RED SHIRTS) کے ذریعہ سے کانگرس کی تائید میں ایک جال پھیلایا گیا ہے۔ عبدالغفار خان۲۰؎ کے ذریعہ سے لاکھوں روپیہ کانگرس سرحد پر تقسیم کر رہی ہے۔ نومبر ۱۹۴۶ء میں بعض انگریز اور امریکن اخبار نویسوں نے ہمارے نمائندہ سے خواہش کی تھی کہ وہ اس بات کا پتہ لے کہ فقیرا یپی حقیقت میں کانگرس کے ساتھ ہے یا مُسلم لیگ کے ساتھ اس پر ہمارا نمائندہ پشاور اور پشاور سے ہوتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان گیاتھا وہاں اسے ایک ذمہ دار افسر نے فقیرایپی کے ایک رشتہ کے بھائی سے ملوایا اور اس نے یہ بات بیان کی کہ چند دن پہلے کانگرس کا ایک نمائندہ پینتالیس ہزار روپیہ لے کر فقیرایپی کو دینے کیلئے گیا ہے مگر ساتھ ہی اس نے یہ بات بھی بڑھا دی کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ فقیرایپی بڑے جوشیلے مسلمان ہیں، وہ کانگرس کا روپیہ نہیں لیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ اُنہوں نے روپیہ لیا اور اَب وہ کانگرس کی طرف سے کام کر رہے ہیں۔
اب تین طاقتیں پاکستان کے خلاف صوبہ سرحد میں کام کر رہی ہیں۔ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ میں سرخ پوشوں کی جماعت، آزاد سرحد میں فقیرایپی کے لوگ اور افغانستان میں وہ پارٹی جو افغانستان کی سرحدوں کو سندھ تک بڑھا دینے کی تائید میں آوازیں اُٹھا رہی ہے۔ افغانستان کی فوجی طاقت ہرگز اتنی نہیں کہ وہ پاکستان میں داخل ہو کر سندھ کو فتح کر سکے۔ یہ فریب اسے ہندوستان کے بعض آدمیوں نے دیا ہے اور سکیم یہ ہے کہ خدانخواستہ اگر کشمیر کی آزادی کی تحریک کو کچل دیا جائے اور ہندوستان یونین کا اثر کشمیر کی آخری سرحدوں تک پہنچ جائے تو وہاں سے روپیہ اور اسلحہ شمال مغربی صوبہ میں پھیلایا جائے اور سرحد پار کے قبائل میں پھیلایا جائے۔ اس اسلحہ اور روپیہ کے قبول کرنے کیلئے زمین تیار ہے اور اس اسلحہ اور روپیہ کو پھیلانے کیلئے آدمی بھی میسر ہیں۔ جب یہ سکیم مکمل ہو جائے گی تو اُدھر سے سرحد میں بغاوت کرا دی جائے گی۔ اِدھر سے فقیرایپی کے ساتھ سرحدی صوبہ میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے اور تیسری طرف کشمیر کی طرف سے ڈوگرے اور سِکھ سپاہی فوج سے چوری بھاگ بھاگ کر ضلع ہزارہ اور راولپنڈی پر حملے شروع کر دیں گے۔ نتیجہ ظاہر ہے پاکستان کی حالت اگر مشرقی سرحد سے سِکھ بھی حملے کرنے لگ جائیں تو صرف اس مصالحہ کی سی رہ جائے گی جو شامی کباب (سینڈوچ) کے پیٹ میں بھرا ہوا ہوتا ہے اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایسی خطرناک صورت ہوگی کہ اس سے بچنا نہایت اور نہایت ہی مشکل ہوگا۔ تقسیم پنجاب سے پہلے کی سوچی ہوئی یہ سکیمیں ہیں اور شطرنج کی سی چال کے ساتھ ہوشیاری کے ساتھ اس سکیم کو پورا کیا جا رہا ہے۔ ہم نے وقت پر اپنے اہل وطن کو ہوشیار کر دیا ہے زمانہ بتا دے گا کہ جو بات آج عقل کی آنکھوں سے نظر آ رہی ہے، کچھ عرصہ کے بعد واقعات بھی اس کی شہادت دینے لگیں گے۔ ہمارے نزدیک اِس کا علاج یقینا موجود ہے اور حکومت پاکستان اب بھی اپنی مات کو جیت میں تبدیل کر سکتی ہے۔ اب بھی وہ ان منصوبوں کے بد اثرات سے محفوظ رہ سکتی ہے کیا کسی کے کان ہیں کہ وہ سنے، کسی کی آنکھیں ہیں کہ وہ دیکھے، کوئی دل گردے والا انسان ہے جو ہمت کر کے اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے کھڑا ہو جائے؟
(الفضل لاہور ۱۴؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سپریم کمانڈ کا خاتمہ
اخبارات میں یہ اعلان ہوا ہے کہ ۳۰؍ نومبر سے سپریم کمانڈ کا خاتمہ کر دیا جائے گا ساتھ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ سپریم کمانڈ کے خاتمہ کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان یونین سپریم کمانڈر کے ساتھ تعاون نہیں کرتی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب کہ ہندوستان یونین سپریم کمانڈ کے ختم کر دینے پر راضی ہے، پاکستان گورنمنٹ کی طرف سے سپریم کمانڈ کے ختم کرنے پر اعتراض کیا گیا ہے۔ مسلمان اخبارات میں سے بعض نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ سپریم کمانڈ کو ختم کر دیا گیا ہے۔ سپریم کمانڈ کے ختم کرنے کی رپورٹیں دیر سے آ رہی ہیں۔ اکتوبر کے شروع میں یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ سپریم کمانڈ کو اکتوبر کے آخر میں ختم کر دیا جائے گا۔ اُس وقت ہم نے اپنے نمائندوں کے ذریعہ سے اس خبر کی تصدیق کرنی چاہی تو ہمیں بتایا گیا کہ سپریم کمانڈ کے خاتمہ پر ہندوستان یونین اور پاکستان دونوں متفق ہوگئے ہیں ہم نے ذمہ دار افسروں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ یہ قدم غلط ہے افسروں اور سامان کے تقسیم کرنے کے بغیر مُلک کے تقسیم کرنے سے جو دھکا پہنچا ہے، وہی بات سپریم کمانڈ کے ختم کرنے پر پیدا ہو جائے گی۔ جو کچھ مشرقی پنجاب میں ہوا اس کی وجہ زیادہ تر یہی تھی کہ پاکستان اور ہندوستان کے سامان اور سپاہیوں کے تقسیم ہونے سے پہلے ہی دونوں حکومتیں آزاد ہوگئیں۔ پاکستان کا سپاہی ہندوستان میں تھا، ان کا سامان بھی ہندوستان میں تھا اس لئے سکھ خوب سمجھتا تھا کہ میں جتنا بھی خون خرابہ کروں گا اُس کو روکنے والا کوئی نہیں۔ باؤنڈری فورس کا خاتمہ بھی اِس کا بہت کچھ ذمہ دار تھا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باؤنڈری فورس چونکہ لارڈ مونٹ بیٹن کے ماتحت رکھی گئی تھی اِس لئے اُس نے بہت کچھ ہندوستان یونین کی رعایت کی لیکن پھر بھی بوجہ اس کے کہ اس میں مسلمان فوج بھی کچھ نہ کچھ موجود تھی اس کے ہوتے ہوئے اتنا ظلم نہیں ہو سکا جتنا کہ اس کے بعد ہوا۔ باؤنڈری فورس کے ختم ہوتے ہی تباہی پر تباہی آنی شروع ہو گئی۔ ہم حیران تھے کہ باؤنڈری فورس کو امن کے قیام سے پہلے ختم کیوں کیا گیا ہے حالانکہ مشکلات کا اصل حل یہ نہیں تھا کہ باؤنڈری فورس کو ختم کیا جائے بلکہ اصل حل یہ تھا کہ باؤنڈری فورس گورنر جنرل ہندوستان اور گورنر جنرل پاکستان دونوں کے ماتحت ہو۔ تیسرے ممبر اس میں سپریم کمانڈر شامل کر لئے جاتے یا اگر دونوں گورنر جنرل اِس قدر وقت نہ دے سکتے تو دونوں گورنر جنرلوں کے نمائندے سپریم کمانڈر کے ساتھ مل کر اِس فورس کا انتظام کرتے اور یہ فورس اُس وقت تک نہ ہٹائی جاتی جب تک کہ دونوں مُلکوں کے پناہ گزین اپنی اپنی جگہوں پر نہ پہنچ جاتے۔ اگر ایسا کیا جاتا تو ہمارا خیال ہے کہ نہ اتنی خونریزی ہوتی اورنہ اتنا علاقہ خالی ہوتا۔ ایسی صورت میں ہمارے نزدیک کچھ نہ کچھ مسلمان مشرقی پنجاب میں بیٹھے رہنے اور کچھ عرصہ کے بعد لوگوں کے جوش ٹھنڈے ہو جانے کی وجہ سے وہ مستقل طور پر وہاں بیٹھ سکتے تھے۔ باؤنڈری فورس کا خاتمہ ایسی جلدی سے ہوا کہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں میں سے اکثر باوجود اس کے کہ دو دن پہلے وہ اپنے شہر میں بیٹھ رہنے کا فیصلہ کر چکے تھے اس دہشت کی وجہ سے کہ باؤنڈری فورس ختم ہوگئی، اب خبر نہیں کیا ہوگا، دو دن کے اندر اندر شہروں سے نکل کر کیمپوں میں چلے گئے۔ جتنی دہشت باؤنڈری فورس کے ختم ہونے سے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوئی ہے اور کسی بات سے اُتنی دہشت پیدا نہیں ہوئی سوائے گورداسپور کے جس کا فیصلہ یکدم ہوا۔ باقی لوگ پہلے سے جانتے تھے کہ ہم مشرقی پنجاب میں آ چکے ہیں لیکن وہ یہ سمجھتے تھے کہ کچھ عرصہ تک باؤنڈری فورس کی وجہ سے ایک قسم کی حفاظت ان کو حاصل رہے گی لیکن یہ اعلان ہوتے ہی کہ دو دن کے اندر باؤنڈری فورس ختم ہو جائے گی ان کے سوچنے کی قوت بالکل ماری گئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب ہمارے لئے قیامت آ گئی اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کچھ تو یوں بھی تباہی آنی تھی رہی سہی کسر باؤنڈری فورس کے اتنی جلدی ٹوٹنے نے نکال دی۔ اگر باؤنڈری فورس کی اصلاح کی جاتی۔ مسلمان فوج کی نسبت بڑھانے پر اصرار کیا جاتا اور اس کی نگرانی لارڈ مونٹ بیٹن کی بجائے دونوں گورنر جنرل یا ان کے نمائندوں اور سپریم کمانڈر کے سپرد کی جاتی تو یہ خونریزی جو اَب ہوئی ہے ہمارے خیال میں اس سے بہت کم ہوتی۔ یقینا خونریزی باؤنڈری فورس کی موجودگی میں بھی ہوتی اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ خونریزی بہرحال ہونی تھی اور ہوئی مگر سوال صرف اس بات کا ہے کہ تیس اور اکتیس اگست کو جو دہشت مشرقی پنجاب کے مسلمانوں میں پیدا ہوئی وہ باؤنڈری فورس کے توڑنے کا خالص نتیجہ تھا اور اُس نے اِس تمام مقاومت کی کمر توڑ دی جو بعض جگہ کے مسلمان پیش کرنے کیلئے تیار تھے۔
سپریم کمانڈ کے توڑنے میں بھی یہی خطرات ہیں پاکستان کی فوج کا بہت سا حصہ تو اِدھر آچکا ہے لیکن پاکستان کا بہت سا سامان ابھی ہندوستان میں پڑا ہے بعض غیرضروری سامان ایسا بھی ہے جو پاکستان کے پاس زیادہ ہے اور ہندوستان میں کم ہے لیکن ضروری سامان زیادہ تر ہندوستان یونین میں پڑا ہے۔ پاکستان کے گولہ بارود کا حصہ پچھتر ہزار ٹن یعنی قریباً ۲۱ لاکھ من اب تک ہندوستان یونین میں ہے اور توپ خانے کا بہت سا سامان اور ہوائی جہازوں کا بہت سا سامان اور بحری فوج کا بہت سا سامان ابھی انڈین یونین کے پاس ہے۔ اس سامان کے بغیر پاکستان کی حفاظت کی کوئی کوشش نہیں کی جا سکتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سپریم کمانڈ نے پورے انصاف سے کام نہیں لیا اور جس سرعت سے پاکستان کو سامان مہیا ہونا چاہئے تھا اُس سرعت سے پاکستان کو سامان مہیا نہیں کیا اور جس نسبت سے پاکستان سے سامان نکالنا چاہئے تھا اس نسبت سے زیادہ تیزی کے ساتھ پاکستان سے سامان نکالا گیا ہے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ نسبت قائم رکھی گئی ہے۔ اگر سپریم کمانڈ ختم ہوگئی تو پاکستان کے سامان کا بھجوانا کُلّی طور پر ہندوستان یونین کے ہاتھ میں ہوگا۔ کیا کوئی سمجھدار انسان کہہ سکتا ہے کہ جنرل آخنلیک پاکستان کے جس سامان کو ہندوستان یونین سے پاکستان کی طرف نہیں بھجوا سکتا، اس کو سردار بلدیوسنگھ بھجوا دیں گے۔ یہ اتنی غلط بات ہے جس کو ہر چھوٹی سے چھوٹی عقل والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان گورنمنٹ جو پہلے خود سپریم کمانڈ کے توڑنے کی تائید میں تھی اب اُس وقت تک اس کمانڈ کے توڑنے کی تائید میں نہیں جب تک کہ پاکستان کا سامان پاکستان کو نہ مل جائے اور یہ فیصلہ پاکستان گورنمنٹ کا بالکل عقل کے مطابق ہے اور ہمارے نزدیک پاکستان گورنمنٹ کو اصرار کرنا چاہئے کہ جب باہمی سمجھوتہ سے ایک تاریخ مقرر ہوچکی ہے تو اُس وقت تک سپریم کمانڈ کو توڑنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اگر ہندوستان یونین اس سے پہلے سپریم کمانڈ کو توڑنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ جلدی سے ہمارا سامان ہمارے حوالے کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو وہ خود سپریم کمانڈ کو قائم رکھنے کے سامان پیدا کرتی ہے۔ آخر ہندوستان یونین اکیلے تو کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ پاکستان گورنمنٹ کو برٹش گورنمنٹ پر زور دینا چاہئے کہ اگر تم سپریم کمانڈ کو ہمارے سامان کے ملنے سے پہلے ختم کرتے ہو تو تم نہ صرف ایک معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہو بلکہ ان خطرناک نتائج کے پیدا کرنے کے بھی ذمہ دار ہو جو سپریم کمانڈ کے خاتمہ کے نتیجہ میں پیدا ہوں گے۔ اگر تم اس کو ختم کرنا چاہتے ہو تو ہمارا حصہ جو ہندوستان یونین سے ہمیں ملنے والا ہے یا ان سے فوراً دلواؤ یا اپنے پاس سے دو۔ آخر برطانوی گورنمنٹ کے وعدہ کی کوئی تو قیمت ہونی چاہئے اگر وہ اتنی ہی نامرد ہو چکی ہے اور اتنی ہی بے بس ہو چکی ہے تو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سمجھوتہ کرانے میں اُس نے دخل ہی کیوں دیا۔ جب ہندوستان یونین کے ظلموں پر پاکستان شکایت کرتا ہے تو برطانوی گورنمنٹ اور برطانوی ڈومینین اپنی بے بسی کا اظہار کر دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ تمہارا اندرونی معاملہ ہے اور جب ایک ایسا معاہدہ جو ہندوستان اور پاکستان اور برطانیہ کے مشورہ سے ہوا تھا اسے توڑا جاتا ہے تو برطانوی گورنمنٹ یہ کہہ دیتی ہے کہ چونکہ ہندوستان نہیں مانتا اس لئے ہم سپریم کمانڈ کو ختم کرتے ہیں۔ کیا برطانوی گورنمنٹ کی سیاست آئندہ اسی نقطہ پر چکر کھائے گی کہ ہندوستان یونین کیا چاہتی ہے اور کیا نہیں چاہتی اگر برطانوی گورنمنٹ کی آئندہ یہی پالیسی ہوگی تو اسے اس کا اعلان کر دینا چاہئے۔ آخر ایک ایسا فیصلہ جو تین طاقتوں نے مل کر کیا تھا اسے ایک طاقت کے کہنے سے کس طرح توڑا جاسکتا ہے اور انصاف کا کون سا قانون ایسا کرنے کی تائید کرتا ہے۔ ہم ان مسلمان اخبارات سے بھی پوچھتے ہیں جو سپریم کمانڈ کے توڑنے پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ ہمیں بتائیں کہ پاکستان کا اتنا سامان جو ابھی ہندوستان یونین کے پاس ہے، سپریم کمانڈ کے ٹوٹنے کے بعد اس کے لانے کی کیا ترکیب ہوگی۔ کیا ان کے نزدیک فیلڈ مارشل آخنلیک جو سامان نہیں بھجوا سکا، سردار بلدیوسنگھ اس کو بھجوا سکیں گے؟ اگر ان کے نزدیک سردار بلدیوسنگھ پر زیادہ اعتبار کیا جا سکتا ہے تو ہمارے نزدیک پاکستان کے قیام کی غرض ہی کوئی نہ تھی اور اگر سردار بلدیوسنگھ صاحب کے ہاتھوں سے اس سامان کا پاکستان کی طرف آنا زیادہ مشکل ہو جائے گا تو سپریم کمانڈ کے توڑنے پر خوشی کے اظہار کے معنے کیا ہیں کیا ہم صرف اس لئے کہ انگریز نے ہمارے ساتھ غداری کی ہے اپنا نقصان کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے؟ اگر تو سوال یہ ہو کہ معاملہ انگریز کے ہاتھ میں رہے یا مسلمان کے ہاتھ میں؟ تو ہم سمجھتے ہیں کہ سارے مسلمان اِس بات پر اتفاق کریں گے کہ مسلمان کے ہاتھ میں رہنا زیادہ بہتر ہے لیکن اگر سوال یہ نہ ہو بلکہ یہ ہو کہ ہندوستان یونین سے پاکستان کا مال بھجوانے کا اختیار فیلڈمارشل آخنلیک کے ہاتھ میں ہو یا سردار بلدیو سنگھ کے ہاتھ میں؟ تو جواب بالکل ظاہر ہے۔ جس طرح پہلے سوال کے جواب میں مسلمانوں کے اندر اختلافِ رائے کم ہی ہوگا، اسی طرح ہمارے نزدیک اس سوال کے جواب میں بھی کوئی سمجھدار انسان اختلاف نہیں کر سکتا قریباً سب مسلمانوں کا جواب یہی ہوگا کہ اگر سردار بلدیو سنگھ اور فیلڈ مارشل آخنلیک کا سوال ہے تو ہم فیلڈ مارشل آخنلیک پر زیادہ اعتبار کر سکتے ہیں بہ نسبت سردار بلدیو سنگھ صاحب کے۔ پاکستان ابھی کمزور ہے اور وہ اپنا حق اس دلیری سے نہیں لے سکتا جیسا کہ دیر سے قائم شدہ حکومتیں لیا کرتی ہیں لیکن یہ بات صاف اور سیدھی ہے کہ اگر فیلڈ مارشل آخنلیک ہمارا تیس فی صدی نقصان کریں گے تو سردار بلدیوسنگھ ہمارا ستر فی صدی نقصان کریں گے۔ پس اس صورت حالات کے ہوتے ہوئے پاکستان کے دوستوں میں سے بعض کا یہ کہنا کہ شکر ہے سپریم کمانڈ توڑ دی گئی، صرف اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے واقعات کو پورے غور سے نہیں دیکھا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں جو ہندوستان یونین کا سامان ہے ہم اسے روک سکتے ہیں ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان میں ہندوستان یونین کا جو سامان ہے وہ زیادہ تر دوائیوں وغیرہ کی قسم کا ہے لیکن ہندوستان یونین میں جو پاکستان کا سامان ہے وہ گولہ بارود اور توپوں اور طیاروں اور بحری جہازوں کی قسم کا ہے۔ دونوں کی قیمت کا کوئی موازنہ ہی نہیں جو چیزیں ہمارے پاس ہیں ان کے بغیر ہندوستان یونین ایک حد تک گزارہ کر سکتی ہے لیکن جو چیزیں ان کے پاس ہیں ان کے بغیر پاکستان گزارہ نہیں کر سکتا۔ ہم اگر حقیقت حال پر پوری روشنی ڈالیں تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم ایک ایسی چیز کو ظاہر کر رہے ہیں جو حکومت کا راز ہے۔ ہم نے بعض ذرائع سے پاکستان کی طاقت جو سامان کے لحاظ سے ہے، وہ معلوم کر لی ہے لیکن ہم اس کا ظاہر کرنا نہ دشمن کے نقطۂ نگاہ سے درست سمجھتے ہیں نہ دوست کے نقطۂ نگاہ سے، اس لئے ہم اس کو ظاہر نہیں کر سکتے۔ مگر ہم یہ ضرور کہہ دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان کو ان سامانوں کی اشد ضرورت ہے جو اس کے حصہ میں آ تو گئے ہیں لیکن ہندوستان یونین میں پڑے ہیں۔ پاکستان کے توپ خانہ والا حصہ بہت ہی کمزور ہے نہ اس کے پاس پورا سامان ہے، نہ پورا گولہ بارود ہے، نہ مسلمان ٹرینڈ افسر ہیں کسی صورت میں بھی توپ خانہ کے حصہ کو مسلمان افسر سنبھال نہیں سکتا۔ توپ خانہ کا بڑے سے بڑا مسلمان افسر میجر کی حیثیت رکھتا ہے حالانکہ تجربہ کار کمانڈ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک میجر جنرل کے ہاتھ میں ہو۔ پیادہ فوج میں ایسے مسلمان افسر موجود ہیں جو یا تو میجر جنرل ہیں یا میجر جنرل بنائے جا سکتے ہیں لیکن توپ خانہ میں نہ تو بڑے درجہ کے مسلمان افسر موجود ہیں نہ اتنے افسر موجود ہیں جو سارے توپ خانہ کے کام کو چلاسکیں اور نہ اتنا سامان موجود ہے جس سے توپ خانہ کے حصہ کو محفوظ سمجھا جا سکے۔ افسر تو ہندوستان یونین ہمیں دے نہیں سکتی نہ ہم اس سے لے سکتے ہیں مگر اتنی کمزوری کے باوجود اگر سامان کی بھی کمزوری پیدا ہوگئی تو اس کا نتیجہ ظاہر ہے۔ پس ہمارے نزدیک مسلمان پبلک کو ایک آواز کے ساتھ پاکستان گورنمنٹ پر زور دینا چاہئے کہ وہ برطانوی گورنمنٹ پر زور دے کہ وہ ہندوستان یونین کے معاہدہ کے توڑنے کی بناء پر وہ سپریم کمانڈ کو توڑنے کا کوئی حق نہیں رکھتی۔ اسے یا تو ہندوستان یونین سے ہمارا سامان تیس نومبر سے پہلے دلوانا چاہئے یا اپنے پاس سے وہ سامان ہم کو دینا چاہئے۔ نہیں تو اگر اس کے اندر کوئی شرافت باقی ہے تو اسے صاف کہہ دینا چاہئے کہ سپریم کمانڈ کو نہیںتوڑا جائے گا، جب تک پاکستان کا کل سامان ہندوستان یونین اس کو ادا نہیں کر دیتی۔
جونا گڑھ، انڈین یونین اور گاندھی جی
گاندھی نے ۱۱؍ نومبر کی شام کو پرارتھنا ۲۱؎کے بعد تقریر کرتے ہوئے
فرمایا ہے کہ:۔
’’کل کے اخبارات میں مندرجہ بیانات کے مدنظر جونا گڑھ کے وزیر اعظم اور نائب وزیر کا ہندوستانی حکومت کو ریاست جونا گڑھ کے اختیارات سونپ دینا میرے نزدیک ہر گز بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ آزاد ہند میں تمام علاقے عوام کی مُلکیت ہیں اور کوئی شہزادہ یا فردِ واحد اس مُلکیت کی اجارہ داری کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور نواب جونا گڑھ، مہاراجہ کشمیر اور نواب حیدر آباد تینوں میں سے کسی کو حق نہیں کہ وہ اپنے عوام کی مرضی کے خلاف کسی یونین سے الحاق کا فیصلہ کرلے‘‘۔
ہم حیران ہیں کہ گاندھی جی نے یہ دو متضاد باتیں ایک ہی وقت میں کس طرح فرما دیں۔ اگر یہ درست ہے کہ آزاد ہند میں تمام علاقے عوام کی ملکیت ہیں اور کوئی شہزادہ یا فردِ واحد اس ملکیت کی اجارہ داری کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور نہ وہ عوام کی مرضی کے خلاف کسی یونین میں شامل ہو سکتا ہے تو پھر بلامنطقی تخالف کے یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ جونا گڑھ کے وزیر اعظم اور نائب وزیر کا ہندوستانی حکومت کو ریاست کے اختیارات سونپ دینا درست ہے۔ کیا جونا گڑھ کا وزیر اعظم یا نائب وزیر جونا گڑھ کے عوام کے نمائندہ ہیں یا کیا وہ نواب صاحب جونا گڑھ کے نمائندہ ہیں؟ اگر یہ درست ہے کہ وہ عوام کے نمائندہ نہیں اور نواب صاحب کے نمائندہ ہیں تو ظاہر ہے کہ گاندھی جی کے پہلے اصول کے مطابق کہ آزاد ہند کے علاقے عوام کی ملکیت ہیں اور کوئی شہزادہ یا فردِ واحد اس ملکیت کی اجارہ داری کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور نہ کسی ڈومینین۲۲؎ سے اپنے عوام کی مرضی کے بغیر الحاق کر سکتا ہے تو ایک فردِ واحد یا دو افراد جو عوام کے نمائندے نہیں کس طرح ریاست کی ریاست کسی یونین کے حوالے کر سکتے ہیں کیا جو بین الاقوامی اصول خود گاندھی جی نے پیش کیا ہے اس کے رو سے وزرائے جونا گڑھ کا یہ فعل اس قانون کی صریح خلاف ورزی نہیں ہے خاص کر جبکہ جونا گڑھ کے معاملہ میں ریاست کا حکمران پاکستان سے اِلحاق کر چکا ہے اگرحکمران کا اِلحاق درست نہیں تو حکومت ہند کا خاص کر ایسی صورت میں اختیارات پر ریاست نواب جونا گڑھ کے مقرر کردہ وزراء کے توسط سے قبضہ کر لینا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ خواہ کوئی وزیر، وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو ہمیں تو گاندھی جی کی اِس منطق کی سمجھ نہیں آئی۔ کیا گاندھی جی اِن دونوں متضاد باتوں میں تطبیق دے سکتے ہیں۔
اس بے اصولی اور متضاد بیانی کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہندوستانی حکومت طاقت کے دکھاوے اور غلط منطق کے بل پر نہ صرف جونا گڑھ اور حیدر آباد کو جہاں مسلم حکمران ہیں اور ہندوؤں کی اکثریت ہے بلکہ مسلمان اکثریت والی ریاست کشمیر کو بھی جس کا حکمران ہندو ہے بیک وقت ہڑپ کر جانا چاہتی ہے اور اس سیاسی قمار بازی میں جہاں تک ممکن ہو سکتا ہے فریب کا پانسہ پھینکتی چلی جاتی ہے اور آخر کار پاکستان کو کمزور کر کے مسلمانوں سے وہ پانچ صوبے بھی ہتھیالینا چاہتی ہے جو لنڈورے ۲۳؎ کر کے ان کو ملے ہیں۔
اسی بیان میں گاندھی جی نے جونا گڑھ کے اختیارات پر غاصبانہ قبضہ جمانے پر انتہائی خوشی کا اظہار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس معاملہ کا یہ پہلو نہایت خوشکن ہے کہ انجام اس طرح ہوا ہے افسوس ہے کہ ہم آپ کی اس خوشی میں شامل نہیں ہو سکتے۔ ہاں اگر گاندھی جی ہندوستانی حکومت کو د ستی وار کرنے سے روک سکتے تو ہمارے لئے بھی باعث صد مسرت ہوتا کیونکہ ہندوستان کے موجودہ مصائب حکومت ہندوستان کی متواتر ٹیڑھی رفتار کا براہِ راست نتیجہ ہیں۔
(الفضل لاہور ۱۵؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مسٹر ایٹلی۲۴؎ کا بیان
مسٹر ایٹلی انگلستان کے وزیر اعظم نے پاکستان اور ہندوستان کے متعلق حال میں جو بیان ایک مجلسی تقریب میں دیا ہے، اس میں کہا ہے کہ ہندوستانی لیڈروں کے باہمی فیصلہ کے مطابق ہندوستان تقسیم ہوا اور دو علیحدہ علیحدہ ڈومینن وجود میں آئیں اب یہ ہمارے لئے سخت تکلیف کا باعث ہے کہ تقسیم کے بعد ایسے خطرناک فرقہ وارانہ اختلافات نے سراُٹھایا ہے جو شدید قسم کے جانی نقصان کا موجب ہو رہے ہیں۔
اِس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم مسٹر ایٹلی بھی ان واقعات کو جو تقسیم ہندوستان کے بعد یہاں رونما ہوئے ہیں اچھی طرح جانتے ہیں اگرچہ آپ نے اپنے بیان میں بڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے کسی واحد ڈومینن کو ان ہولناک واقعات کا ذمہ دار ٹھہرانے سے گریز کیا ہے پھر بھی یہ ناممکن ہے کہ آپ کو اب تک صحیح صورتِ حال کی تفہیم نہ ہوئی ہو۔
آپ نے اپنے بیان میں ان ہولناک واقعات کی تمام ذمہ داری دونوں ڈومنینز پر مشترکہ طور پر ڈالی ہے اور ان فرائض کو جو حکومت برطانیہ پر بوجہ برطانوی دولت مشترکہ کے مرکز ہونے کے عائد ہوتے ہیں اُن کو اپنے بیان میں بالکل نہیں چھیڑا حالانکہ پاکستان اور ہندوستان نوآبادیوں کا اس دولت مشترکہ کا حصہ ہونے کی وجہ سے برطانوی حکومت کا فرض ہے کہ موجودہ ہولناک واقعات کے متعلق برطانوی حکومت کی پالیسی پر پوری پوری روشنی ڈالے اور جو کچھ اس سے ہو سکتا ہے ان ہولناک واقعات کو روکنے کیلئے کوئی معین قدم اُٹھائے۔
مسٹر ایٹلی کی نظر سے یہ حقیقت مخفی نہیں ہونی چاہئے کہ شروع ہی سے ہندوستانی ڈومینن نے جارحانہ روش اختیار کی ہوئی ہے اور جہاں تک ممکن ہے پاکستان کو کمزور اور ناکارہ بنانے کے لئے جائز و ناجائز ہر قسم کے طریقے اختیار کر رہی ہے ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ برطانوی مقتدر سیاسی لیڈروں نے اس حقیقت کو جانتے ہوئے اس کے متعلق کیا سوچا ہے اور عملاً کیا قدم اُٹھایا ہے۔ ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ بظاہر وہ بے تعلق تماشائیوں کی سی روش اختیار کئے ہوئے ہیں اور ان فرائض سے بالکل بے پروا ہیں جو دولت مشترکہ میں مرکزی حیثیت رکھنے کی وجہ سے ان پر عائد ہوتے ہیں۔ دنیا کے سیاسی حلقوں میں برطانوی حکومت کی یہ بے حسی ضرور قابل پُرسش سمجھی جائے گی اور اس کو اس بات کو واضح کرنے کیلئے ضرور توقع کی جائے گی کہ وہ اپنے فرائض کو جو بوجوہاتِ بالا اس پرعائد ہوتے ہیں ادا کرنے کیلئے کیا کیا اقدامات لے رہی ہے۔ بفرض محال اگر کینیڈا اور آسٹریلیا کے درمیان اس قسم کی کشمکش شروع ہو جائے جس قسم کی کشمکش اب ہندوستان اور پاکستان کے مابین ہو رہی ہے تو کیا حکومت برطانیہ اس قسم کی بے حسی کامظاہرہ کرے گی جس قسم کی بے حسی وہ ان دونوں ڈومینینز کی صورت حال کے متعلق دکھا رہی ہے۔ یقینا اس کا رویہ موجودہ رویہ سے اس صورت میں بالکل مختلف ہوگا اور وہ کینیڈا اور آسٹریلیا کے باہمی آویزش ۲۵؎کے وقت ضرور حرکت میں آئے گی اور ضرور دونوں کے تعلقات کے مسائل کو سلجھانے کے لئے مؤثر طریقے اختیار کرے گی۔ کیا یہ بات تعجب میں ڈالنے والی نہیں ہے کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کی باہمی آویزش کے متعلق بے تعلق تماشائیوں کی سی حیثیت اختیار کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر رہی۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سوال معین صورت میں کسی ڈومینن کی طرف سے اس کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ پاکستان حکومت نے پچھلے دنوں خاص طور پر ان معاملات کی طرف اس کی توجہ دلائی تھی اور دولت مشترکہ کے تمام ممبروں سے فرقہ وارانہ سوال کو حل کرنے کی استدعا کی تھی۔ اُس وقت برطانوی حکومت کے لئے صریحاً ایک ایسا موقع پیدا ہو گیا تھا کہ اگر اس معاملہ میں اُس کی نیتیں درست ہوتیں تو وہ کوئی نہ کوئی عملی قدم اُٹھاتی اور اس خدا کی مخلوق کو کسی حد تک ان مصائب سے بچا لیتی جن کا سلسلہ دن بدن بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور کسی طرح کم ہوتا نظر نہیں آتا حالانکہ اس کا فرض تھا کہ دولت مشترکہ کے ان دو ممبروں کے درمیان توازن قائم کرنے کیلئے ہرممکن کوشش کرتی۔
ان وجوہات کے پیش نظر مسٹر ایٹلی کا بیان کم از کم پاکستان کے نقطۂ نظر سے نہایت مایوس کُن ہے کیونکہ تمام دنیا اب اس حقیقت کو جان چکی ہے کہ ہندوستانی حکومت کی جارحانہ روش ہی ان تمام مصائب اور ہولناک واقعات کی ذمہ دار ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان کی تقسیم ہندوستانی لیڈروں کی باہمی رضامندی سے عمل میں آئی تھی لیکن محض اس کا ذکر کر دینے سے برطانیہ ان ہولناک واقعات کی جواب دہی سے سبکدوش نہیں ہو سکتا۔ اس سے تو اُلٹا یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ دیدہ دانستہ اپنے فرائض کی ادائیگی سے گریز کر رہا ہے۔ دو ڈومینینز کی باہمی چپقلش کا تماشہ اس کی ضیافت دیدہ وگوش کے لئے دلچسپ سامان سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتا اور ان کو خاص کر پاکستان کو ان کے باہمی رضامندانہ فیصلہ پر متفق ہونے کی سزا دے رہا ہے کیونکہ متفقہ فیصلہ کی وجہ سے ہندوستان کی آزادی کو مزید التواء میں ڈالنے کے لئے اس کے پاس کوئی وجہ باقی نہیں رہ گئی تھی۔ بظاہر بے حسی کی یہ پالیسی جو اس نے اختیار کر رکھی ہے یقینا اس کے انتقامی جذبہ کی طرف انگشت نمائی کر رہی ہے اور وہ گویا زبانِ حال سے کہہ رہا ہے ’’دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ غلام ہندوستان کی بیماری کیلئے آزادی کا نسخہ راس نہیں آئے گا اُلٹا بیماری کو بڑھانے والا ثابت ہوگا‘‘ ہم کو تسلیم ہے کہ ہندوستان کے موجودہ کشت و خون کے کھیل کے لئے خود اس براعظم کے ناعاقبت اندیش کھلاڑیوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے لیکن غور سے دیکھنے والے آسانی سے معلوم کر سکتے ہیں کہ انتقالِ اختیار کے عمل میں برطانیہ کے ارباب حل و عقد ۲۶؎نے دیدہ دانستہ ایسی روش اختیار کی جس سے ان ہولناک نتائج کا پیدا ہو جانا یقینی تھا۔ اگر پچھلی جانبدارانہ کارروائیوں کو نظر انداز کر بھی دیا جائے اور صرف ۳؍جون ۱۹۴۷ء کے بعد کے حالات کو پیش نظر رکھ کر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے تقسیم کو تکمیل تک پہنچانے میں برطانیہ کی طرف سے حصہ لیا، لارڈ مونٹ بیٹن سمیت پاکستان کو کمزور سے کمزور بنانے کے لئے نہایت جانبدارانہ روح سے کام لیتے رہے ہیں۔ جس اصول پر لارڈ مونٹ بیٹن نے دونوں طرف کے لیڈروں سے رضامندانہ فیصلہ کی دستاویز پر دستخط کرائے تھے، اس اصول کی خود ہی اپنے دوسرے دن والے بیان میں لارڈ موصوف نے دھجیاں اُڑا دی تھیں جب اُنہوں نے یہ کہہ دیا کہ بعض اضلاع مثلاً گورداسپور کی صورت میں جہاں اکثریت کنارے پر ہے ردّوبدل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح پر آپ نے خود ان غیر منصفانہ دھکے شاہی کے لئے راستہ کھول دیا جس کے نتیجہ میں گورداسپور، بٹالہ اور دوسری تحصیلوں کی مُسلم اکثریت بالکل بے دست و پا ہو کر رہ گئی اور ان مظالم کا نشانہ بنی جو سکھ اور ہندو لیڈروں نے ان پر ڈھانے کے لئے پہلے ہی سوچ رکھے تھے۔ ہم مانتے ہیں کہ جو بے انصافیاں مسلمانوں کے ساتھ ہوئی ہیں، حکومت برطانیہ مجموعی طور پر ان کے لئے قابل الزام نہیں ٹھہرائی جا سکتی اور اس کی زیادہ ذمہ داری ان دیگر مخفی یا ظاہر وجوہات پر ہے جو ہندوستانی لیڈروں کی ریشہ دوانیوں نے پیدا کیں اور تقسیم کرنے والوں پر جا و بیجا اثر ڈال کر ایسا فیصلہ کروا لیا جو ہر طرح نہ صرف انصاف کے اصولوں کے خلاف تھا بلکہ خود لارڈ مونٹ بیٹن کے ۳ ؍جون والے اعلان کے بھی سراسر اُلٹ تھا لیکن اس کے باوجود برطانیہ اب صرف یہ کہہ کر چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا کہ یہ فیصلہ ہندوستان کے لیڈروں کی باہم رضامندی سے ہوا تھا محض اس لئے کہ مسلم لیگ نے اس فیصلہ کے خلاف اتنا شدید احتجاج نہیں کیا جتنا اس کو کرنا چاہئے تھا۔ اِس کو رضامندانہ فیصلہ نہیں کہا جا سکتا۔ ایسی صورت میں کیا برطانیہ کے لئے لازم نہ تھا کہ کم از کم لارڈمونٹ بیٹن کے ۳؍ جون والے متفقہ اعلان کی کسوٹی پر اس فیصلہ کو پرکھتا اور اپنی منصفانہ رائے کا اظہار کرتا۔ خاص کر اب جب کہ اس غیر منصفانہ فیصلہ کے بدیع نتائج روز روشن کی طرح اس کے سامنے آچکے ہیں۔ کیا برطانیہ کا فرض نہیں ہے کہ پاکستان کے ان حدود کو قائم رکھنے کیلئے ہی اب دخل اندازی کرے جو نہایت کتروبیونت۲۷؎ کے بعد پاکستان کو حاصل ہوئے ہیں اور جس پر اس نے طوعاً و کرہاً قناعت اختیار کر لی تھی۔ اور باتوں کو چھوڑ دیجئے صرف ہندوستانی ڈومینین کی ان چیرہ دستیوں ہی کو لیجئے جو وہ اب ریاستوں کے معاملات میں پیچیدگیاں پیدا کر کے پاکستان کی ہستی کو خطرے میں ڈال رہی ہے اور اس کو کمزور سے کمزور تر کرنے کے درپے ہو رہی ہے۔ اس نے پاکستان سے جنگ برپا کرنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور ایسے مجرمانہ اقدامات کئے ہیں کہ ہمیں حیرانی ہے کیوں پاکستان اب تک خاموشی اختیار کئے چلا جاتا ہے اور ہندوستان کی حکومت تمام بین الاقوامی رواداریوں کو اس طرح پس پشت ڈال رہی ہے کہ اگر پاکستان کو برطانیہ سے وہ تعلق نہ بھی ہوتا جو دولت مشترکہ کا ممبر ہونے کی وجہ سے اس کو ہے تو محض انسانیت کے لحاظ سے ہی اس کا دخل دینا ناواجب قرار نہیں دیا جاسکتا تھا اس لئے مسٹر ایٹلی کے بیان سے ہم یہ نتیجہ برآمد کرنے کے ہرطرح حقدار ہیں کہ برطانیہ خود حکومت ہندوستان کی جارحانہ کارروائیوں کو پاکستان کے عَلَی الرَّغْم مستحسن خیال کرتا ہے اس لحاظ سے مسٹر ایٹلی کا بیان دنیائے انصاف کی عدالت میں اس کی بے حسی اور اپنے فرائض کی ادائیگی سے دیدہ و دانستہ گریز پر مبنی قرار دیا جائے گا۔
(الفضل لاہور ۱۶؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
صوبہ جاتی مسلم لیگ کے عہدہ داروںمیں تبدیلی
پچھلے چند دنوں سے یہ شور سنا جا رہا تھا کہ ایک طرف صوبہ جاتی مسلم لیگ کے اندر اختلافات پیدا ہو رہے ہیں تو دوسری طرف صوبائی وزارت کے اندر بھی اختلافات پیدا ہو رہے ہیں مختلف لوگوں نے ان اختلافات کو مختلف نگاہوں سے دیکھا ہوگا ایک غیر جانبدار اخبار اِن اختلافات کو جس نگاہ سے دیکھتا ہے وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو سکتا اس لئے ہم اس بارہ میں اپنے خیالات ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔
ہمارے نزدیک وزارت کے اختلافات اور صوبائی مسلم لیگ کے اختلافات کی جڑ ایک ہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مُسلم لیگ پاکستان کے حصول کے بعد ایک نئی تبدیلی کی محتاج ہے۔ پاکستان کا خیال ایسے وقت میں پیدا ہوا جب کہ مسلمان یہ محسوس کر چکے تھے کہ اُن کی قومی زندگی خطرہ میں ہے۔ گویا پاکستان کا خیال ایک منفی خیال تھا، مثبت خیال نہیں تھا۔ پاکستان کے خیال کی بنیاد اس امر پر نہیں تھی کہ ہم نے یہ یہ کام کرنے ہیں جو ہندوؤں کے ساتھ مل کر ہم نہیں کر سکتے بلکہ پاکستان کے خیال کی بنیاداِس بات پر تھی کہ مسلمانوں کو بحیثیت مسلمان خواہ وہ کسی شعبۂ زندگی سے تعلق رکھتے ہوں ترقی اور پھیلاؤ کے ذرائع ہندوؤں کے ساتھ مل کر رہتے ہوئے میسر نہیں آ سکتے تھے۔ یہ سوال کہ مسلمانوں کی ترقی کس رنگ میں ہو سکتی ہے، کیا کیا تدابیر اختیار کرنے سے مسلمانوں کے مختلف گروہ اور مختلف علاقے عزت اور آرام اور سکون حاصل کرسکتے ہیں نہ پیدا ہوا نہ اس سوال پر غور کرنے کا موقع تھا جیسے ڈاکو رات کے وقت حملہ کرتے ہیں تو شہر کے لوگ اُس وقت یہ نہیں سوچنے بیٹھتے کہ یہ کس گھر کو لوٹیں گے اگر شہر کے لوگ مقابلہ کا فیصلہ کرتے ہیں تو غریب اور امیر سارے مقابلہ میں لگ جاتے ہیں۔ غریب یہ نہیں سوچا کرتے کہ ہمارے پاس تو کچھ ہے نہیں ہمیں لوٹنا اُنہوں نے کیا ہے اور اگر شہر کے لوگ بھاگنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو امیر یہ نہیں سوچتا کہ میں اپنے مال کو خالی چھوڑے جا رہا ہوں اور غریب یہ نہیں سوچتا کہ میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں، ڈاکوؤں نے مجھے چھیڑنا ہی کیوں ہے یہی حال پچھلے تین چار سال میں مسلمانوں کا رہا ہے اُنہیں یہ نظر آ گیا کہ ہماری زندگی خطرہ میں ہے۔ یہ نظریہ ایک قسم کا فطری نظریہ تھا اور فطری نظریے دلیلوں کے ماتحت نہیں ہوتے۔ ماں اپنے بچہ کی آنکھوں کی طرف مذاق سے تیزی سے اُنگلی کرتی ہے تو بچہ یکدم سر پیچھے کرتا ہے اور آنکھیں بھینچ لیتا ہے۔ ماں اپنے بچہ کی آنکھ نکالنا نہیں چاہتی مگر انسان کے اندر یہ طبعی جذبہ ہے کہ جب کوئی ایسی صورت پیدا ہو جس کے نتیجہ میں نقصان کا احتمال ہو تو بغیر اس بات کے سوچنے کے کہ واقعہ میں نقصان ہوگا یا نہیں انسان کا جسم اُس کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اگر فعل مذاق میں کیا گیا ہو تو اس احتیاط سے حرج کوئی نہیں ہوتا اور اگر یہ فعل نقصان پہنچانے کے لئے کیا گیا ہو تو اس پیش بندی سے خطرہ سے حفاظت ہو جاتی ہے۔ اسی قسم کا ایک طبعی جذبہ تھا جو مسلمانوں کے اندر پیدا ہوا اور ان میں سے بیشتر حصہ پاکستان کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گیا اب جبکہ پاکستان مل گیا ہے مُلک کا ایک حصہ تو یہ کہتا ہے کہ لو جی جو چیز ملنی تھی وہ مل گئی اور یہ نہیں سوچتا کہ منفی نظریہ گری ہوئی قوموں کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھا کرتا۔ گری ہوئی قوموں کی ترقی کیلئے مثبت نظریوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ ایک امیر کے لئے یہ منفی نظریہ کافی ہے کہ اس کی دولت میں زاول نہ پیدا ہو، ایک غریب کے لئے اس منفی نظریہ کے معنے ہی کوئی نہیں کہ اس کی دولت میں زوال نہ پیدا ہو، اس کے لئے یہی نظریہ کارآمد ہو سکتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے گزارہ کیلئے آمد پیدا کرے۔
پس پاکستان کے مسلمان جو تنزل کی منزلوں کو طے کر رہے ہیں ان کے لئے اب اس نظریہ کے کوئی بھی معنی نہیں کہ وہ ہندو کے ضرر سے بچ گئے ہیں وہ تو ایسی تدابیر کے محتاج ہیں جن سے وہ اپنی گرتی ہوئی حالت کو سنبھال لیں اور سنبھلی ہوئی حالت کو ترقی کی طرف لے جائیں۔ پاکستان اپنی ذات میں اس نظریہ میں ممد تو ضرور ہو سکتا ہے مگر وہ اس نظریہ کا قائمقام نہیں ہو سکتا۔
ان حالات میں طبعی طور پر بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہونا تھا کہ ہمیں اپنے لئے ایک پروگرام مقرر کرنا چاہئے۔ مسلم لیگ کے لیڈر جو اَب گورنمنٹ پر قابض ہوچکے تھے اُنہیں ایسی مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑا کہ وہ اپنے عام محکمانہ کاموں کی طرف بھی پوری توجہ نہیں دے سکتے تھے ان کو یہ موقع میسر ہی کب آ سکتا تھا کہ وہ مسلمانوں کے لئے کسی آئندہ پروگرام پر غور کریں اور اسے قوم کے سامنے پیش کریں۔ اس وجہ سے وہ لوگ جو جلد سے جلد کسی پروگرام کے بنانے کے حق میں تھے بے تاب ہو رہے تھے اور اپنی خواہشات کو پورا ہوتے نہ دیکھ کر بغاوت کی روح ان میں پیدا ہو رہی تھی۔ مسلم لیگ حکومت پارٹی کو آج سے کہیں پہلے اس طبعی تقاضے کا احساس ہوناچاہئے تھا اور آج سے کہیں پہلے اُنہیں مُسلم لیگی عہدوں کو چھوڑ دینا چاہئے تھا لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے دَبے ہوئے جذبات اُبھرنے لگے اور اُبھرے ہوئے جذبات مجالس میں اور اخباروں کے صفحات پر پھیلنے لگے۔ یہی نظریہ وزارت کے اندر بھی اختلافات پیدا کرنے کا موجب ہوا۔ وزارت کے بھی دو حصے تھے ایک حصہ تو وہ تھا جو یہ سمجھ رہا تھا کہ مسلمان آزاد ہوگئے ہیں اب آہستہ آہستہ تجربہ کے بعد وہ خود ایک ایسا پروگرام مرتب کر لیں گے جو ان کی ترقی کا موجب ہوگا۔ دوسرا حصہ ایسا تھا جو ایک پروگرام پہلے سے طے کر کے لایا تھا۔ وہ بضد تھا کہ اس کے پروگرام کو حکومت اپنا لے اور وہ دوسرے وزراء کے اس نظریہ سے متفق نہیں تھا کہ موجودہ شورش کے بعد مُلک آرام اور اطمینان سے اپنے لئے کوئی پروگرام تجویز کر لے گا۔ ہمارے نزدیک یہ دونوں نظریے بے نقص نہیں تھے اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ پیشتر اس کے کہ مُلک پورے طور پر ایک نظریہ کی چھان بین کرے اور اس کے حسن و قبح سے واقف ہو جائے اور اسے اختیار کرنے یا ردّ کرنے کا فیصلہ کرے اسے قبول کر لینا ذہنی اور مادی طور پر سخت مضر ہوتا ہے۔ اگر وہ نظریہ بُرا ہے تو مادی طور پر مُلک کو نقصان پہنچ جائے گا اور کسی ایک شخص کو خواہ وہ کتنا بھی بڑا ہو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مُلک کی غفلت میں اس پر ایک ایسا قانون ٹھونس دے جس قانون کو ابھی مُلک اچھی طرح سمجھ نہیں سکا اور ذہنی طور پر اس لئے کہ اگر وہ قانون اچھا بھی ہے تب بھی مُلک پر ایک ایسا قانون ٹھونسنا جس کو مُلک نے خود سوچ سمجھ کر اپنے لئے پسند نہیں کیا، مُلک کے افراد کے اندر غلامانہ ذہنیت پیدا کرتا ہے۔ ہمارے لئے یہی ضروری نہیں ہوتا کہ ہم اچھا کام کریں، ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ ہم اس کام کو سوچ سمجھ کر اختیار کریں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بیان فرماتا ہے کہ۲۸؎ تُو کفار سے کہہ دے کہ میرے اور تمہارے درمیان یہی فرق نہیں کہ میں سچ پر ہوں اور تم غلطی پر ہو بلکہ میرے اور تمہارے درمیان یہ بھی فرق ہے کہ تم جس چیز کو سچ قرار دے کر اس کی تائید کر رہے ہو تم نے اس کے تمام پہلوؤں پر غور کر کے اور خود سوچ سمجھ کر اسے اختیار نہیں کیا لیکن میں نے اور میرے ساتھیوں نے جن عقیدوں اور جن طریقہ ہائے عمل کو اختیار کیا ہے سوچ اور سمجھ کر اور سارے پہلوؤں کا جائزہ لے کر اور ہر رنگ میں انہیں مفید پا کر اختیار کیا ہے۔ یہی وہ اسلامی اصول ہے جس پر چل کر مسلمان ہمیشہ ذہنی غلامی سے آزاد رہ سکتا ہے۔ ہمارا یہی فرض نہیں کہ ہم قوم کو ایک ایسے راستہ پر چلائیں جو ٹھیک ہو بلکہ ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم قوم کو ایسی تربیت دیں کہ وہ خود سوچنے اور سمجھنے کی اہل ہو جائے او رپھر ہر نئے مسئلہ کو ایسے رنگ میں اس کے سامنے پیش کریں کہ وہ عمدگی اور خوبی کے ساتھ اس پر غور کرکے ایک نتیجہ پر پہنچے اور جب وہ ہمارے خیالات سے متفق ہو جائے تو ہم اس خیال کو جاری کر دیں یہی وہ اسلامی جمہوریت ہے جو دنیا کی دوسری جمہوریتوں سے مختلف ہے لیکن یہی وہ جمہوریت ہے جو ساری جمہوریتوں کے عیوب سے پاک ہے۔ اچھی سے اچھی چیز کو غفلت اور گھبراہٹ کے موقع پر قوم پر ٹھونس دینا اور یہ خیال کرنا کہ ہم قوم کی خیر خواہی کر رہے ہیں کسی رنگ میں بھی قوم کے لئے مفید نہیں ہو سکتا۔ اگر بعض صورتوں میں قوم کو مادی فائدہ پہنچے گا تو اس کی ذہنیت پست ہو جائے گی اور وہی اچھی غذا اس کے لئے زہر بن جائے گی اور وہ خود سوچنے کی عادت سے محروم رہ جائے گی۔ ایک تندرست ہٹے کٹے انسان کے منہ میں لقمہ دینا کسی قدر بد تہذیبی کا فعل سمجھا جاتا ہے۔ لقمہ بھی وہی ہوتا ہے دانت بھی وہی ہوتے ہیں لیکن دوسرے ہاتھ سے جو شاید بعض حالات میں اپنے ہاتھ سے بھی زیادہ صاف ہو وہ لقمہ کھانا ایک تندرست و توانا آدمی کے لئے کتنا گھناؤنا معلوم ہوتا ہے۔ چاول کا دانہ مکھی سے زیادہ معدہ میں گڑ بڑ پیدا کر دیتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے سب مقصد حاصل ہوگئے اب ہمیں فوری طور پر کسی نئے پروگرام کے اختیار کرنے کی ضرورت نہیں، وہ بھی غلطی کرتے ہیں اگر بڑی اور اصولی باتوں کے لئے ہمیں نہ صرف خود سوچنے کی ضرورت ہے بلکہ قوم کو خود سوچنے کا موقع دینے کی ضرورت ہے بلکہ اہم مسائل کے متعلق مُلک سے رائے عامہ لینے کی ضرورت ہے تو بعض باتیں ایسی بھی تو ہیں جن کو مُلک سوچ چکا ہے اور جو دیر سے زیر بحث چلی آتی رہی ہیں کیوں نہ ان کے متعلق فوری طور پر کوئی تدابیر اختیار کی جائیں مثلاً یہی لے لو کہ گو پاکستان ایک جمہوری اصول پر قائم شدہ حکومت ہے لیکن بہرحال وہ مسلمانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے تو کیوں نہ فوری طور پر ان امور کے متعلق کوئی قانون جاری کر دیا جائے جن میں کوئی دو رائیں ہو ہی نہیں سکتیں۔ مثلاً کیوں نہ فوری طور پر یہ قانون پاس کر دیا جائے کہ ورثہ کے متعلق اسلامی قانون مسلمانوں میں جاری ہو، اسی طرح طلاق اور خلع کے متعلق اسلامی قانون جاری ہو۔ اسی طرح شراب کا پینا یا بیچنا مسلمان کے لئے منع ہو یہ قانون بہرحال مسلمان کے لئے ہوتے۔ اس پر ہندو یا عیسائی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ ایک ہندو کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایک مسلمان شراب نہیں پیتا یا اپنی جائداد کا حصہ اپنی بیٹی کو کیوں دیتا ہے یا ایک مرد کو طلاق کا اور عورت کو خلع کا خاص شرائط کے ماتحت حق حاصل ہے اسی طرح یہ کوئی اختلاقی مسئلہ نہیں تھا کہ مُلک کے آزاد ہوتے ہی مُلک میں اسلحہ کو قیود سے آزاد کیا جاتا۔ لائسنس کے بغیر تو کسی مہذب مُلک میں بھی اسلحہ کی اجازت نہیں لیکن ان مہذب ممالک میں لائسنسوں پر ایسی قیود نہیں لگائی گئیں جیسی کہ اس مُلک میں۔ حکومت کو فوراً ہی لائسنس پر سے قیود ہٹانی چاہئے تھیں اور اس قسم کا قانون پاس کرنا چاہئے تھا کہ سوائے بدمعاشوں اور فسادیوں کے ہر شریف شہری ہتھیار رکھ سکے اور اسے ہتھیار چلانا آتا ہو۔ اسی طرح سالہا سال سے کانگرس بھی اور مُسلم لیگ بھی اس بات پر لڑتی چلی آئی تھیں کہ جلسہ اور تقریر اور تحریر کی عام آزادی ملنی چاہئے۔ اس بات کے متعلق بھی کسی نئے غور کی ضرورت نہیں تھی یہ تو ایک انسانی حق ہے جس کا مطالبہ دنیا کی ہر قوم کرتی چلی آئی ہے۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ فوراً ان امور کے متعلق احکام نافذ کر دیتی اور مُلک کے اندر یہ احساس پیدا کر دیتی کہ اب وہ آزاد ہیں پہلے کی طرح غلام نہیں ہیں۔ اسی طرح ایگزیکٹو اور جوڈیشل کو جدا کرنے کا مسئلہ ہے۔ سالہاسال سے اس پر بحثیں ہوتی چلی آئی ہیں۔ کانگرس نے بھی اس کی تائید کی ہے، مسلم لیگ نے بھی اس کی تائید کی ہے، اسلامی قانون کے مطابق بھی یہ ایک تسلیم شُدہ حقیقت ہے کہ ایگزیکٹو کا محکمہ الگ ہونا چاہئے اور قضاء کا محکمہ الگ ہونا چاہئے۔ جب تک ان دونوں محکموں کو آزاد نہ کیا جائے، افراد میں آزادی کی روح پیدا ہی نہیںہو سکتی۔ ہر شخص کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ قضاء کے ذریعہ سے اپنا حق لے سکتا ہے اور ہر افسر کو محسوس ہونا چاہئے کہ اگر وہ کسی کا حق مارے گا تو اسے اس کی جواب دہی بھی کرنی پڑے گی۔ ان امور اور ایسے ہی کئی امور کے متعلق حکومت فوری کارروائی کر سکتی تھی لیکن ہوا یہ کہ وہی پُرانے قانون اور وہی پُرانے طریق باقی رہے اور ابھی تک مُلک کے باشندوں نے پوری طرح یہ بھی محسوس نہیں کیا کہ ان کا مُلک آزاد ہوچکا ہے۔ پس ہمارے نزدیک دونوں فریق کی غلطی تھی۔ اس نقص کی اصلاح کا یہ بھی ایک طریقہ تھا کہ مُسلم لیگ کے عہدے ایسے لوگوں کو دیئے جاتے جو وزارت کے ممبر نہ ہوتے۔ ۱۶؍تاریخ کو یہ نیک قدم اُٹھایا گیا ہے ہمیں اس سے تعلق نہیں کہ کون صدر ہوا ہے کون نہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ مُلک کے فائدہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ مُلک کی سیاسی انجمن پر مُلک کے وزراء قابض نہ ہوں لیکن جس طرح یہ ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ مُلک کی آئین ساز مجلس مُلک کی وزارت اور اس کے افسروں کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے۔ ان تین آزاد یا نیم آزاد اداروں کے باہمی تعاونوں سے ہی مُلک کی حالت درست ہوا کرتی ہے۔سیاسی انجمن کو حکومت کے افسروں کے اثر سے آزاد ہونا چاہئے۔ مجلس آئین ساز کو سیاسی ادارے کے حکم سے آزاد ہوناچاہئے اور حکومت اور حُکّام کو سیاسی انجمن کی دخل اندازی سے آزاد ہونا چاہئے بے شک اگر سیاسی انجمن یہ سمجھتی ہے کہ مجلس آئین ساز اس کی پالیسی کو ٹھیک طرح نہیں چلائے گی تو آئندہ انتخاب کے موقع پر وہ اس کے ممبروں کی جگہ دوسرے ممبر کھڑے کر دے۔ آئین ساز اسمبلی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ سمجھتی ہے کہ وزراء اس کی مرضی کے مطابق کام نہیں کر رہے تو وہ ان کے خلاف عدمِ اعتماد کا ووٹ پاس کر دے۔ اگر حُکّام صحیح طور پر کام نہ کر رہے ہوں تو پلیٹ فارم پر سے ان کے خلاف آواز اُٹھائی جا سکتی ہے لیکن خفیہ دباؤ یا مستقل طور پر اس کے کام میں دخل اندازی کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتی۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو نظام کی کَل بالکل ڈھیلی پڑ جائے گی اور دنیا کا بہترین قانون بھی پاکستان کو مضبوط نہ بنا سکے گا۔
اسلامی قانون اور غیر مسلم اقلیتیں
پنجاب مسلم لیگ کونسل میں یہ قرار داد بھی پاس کی گئی ہے کہ پاکستان میں اسلامی شریعت
کو نافذ کرنا چاہئے اس ضمن میں اس حقیقت کو نظر انداز نہ کیا جائے کہ غیر مسلموں نے بوجہ ناواقفیت اسلامی قانون یا مذہبی قانون کے خلاف اکثر اظہارِ رائے کیا ہے۔ ان کے خیال میں اگر پاکستان میں اسلامی شریعت جاری کی گئی تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ غیر مسلموں کے لئے کوئی سامان ترقی اپنی تہذیب، اپنے مذہب اور دوسرے کاروبار کے لئے نہیں رہے گا اور یہ غیرمسلموں پر سختی ہوگی اور ان کے لئے ایسی حکومت کے زیر سایہ جس میں اسلامی قانون رائج ہو زندگی دو بھر ہو جائے گی۔
جیساکہ ہم نے عرض کیا ہے یہ محض ایک غلط فہمی ہے جو اسلامی قانون کو صحیح طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے غیر مسلموں کے دماغ میں پیداہوگئی ہے یا پیداکی گئی ہوئی ہے کچھ تو خود لکھے پڑھے غیرمسلموں نے اسلامی قانون کے متعلق دیدہ دانستہ یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً عیسائی پادریوں نے یورپ میں اسلام کو اس طرح پیش کیا کہ گویا اس میں کوئی خوبی ہے ہی نہیں بلکہ یہ مذہب صرف وحشیوں میں پنپ سکتا ہے مہذب اقوام کے لئے اس میں کوئی پیغام نہیں۔ ان عیسائیوں کی تقلید میں ہندوستان میں پنڈت دیانند اور اس کے پیراؤں نے ہندوؤں میں اس غلط فہمی کو پھیلانے میں بڑا حصہ لیا۔
غیرمُسلموں میں اس خیال کو دو وجوہات سے پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ ایک تو یہ ہے کہ مسلمان دنیا کے اکثر ممالک میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے یہ ایک رَو تھی کہ جس مُلک میں بھی مسلمانوں کا اقتدار قائم ہوا، وہاں اکثر لوگ اپنے پُرانے مذہب کو چھوڑ کر اسلام اختیار کرتے رہے لیکن ان میں سے جو لوگ اپنے قدیم مذہب کے لئے تعصب رکھتے تھے اُنہوں نے بجائے اس کے کہ اسلام کی داخلی خوبیوں پر قبولِ اسلام کو محمول کرتے اس کو محض مسلمانوں کے دنیوی اقتدار پر محمول کیا اور یہ غلط خیال دل میں جما لیا کہ ان کے بھائی بندوں نے محض جبر کے سامنے اپنے ہتھیار ڈالے ہیں۔ مذہب کے علاوہ اس تعصب کی بناء حُب الوطنی کے غلط جذبات کی بھی مرہون منت ہے۔ چنانچہ آپ غور سے پنڈت دیانند کی تحریریں پڑھیں گے تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ آپ اتنے مذہب کیلئے نہیں جتنے آریہ ورت کیلئے بیقرار تھے اور آریہ تحریک مذہبی نہیں بلکہ وطنی اور قومی تحریک ہے۔ مذہب کو محض مُلکی اور قومی مقاصد کا ذریعہ سمجھ کر اُچھالا گیا ہے اور اسلام اور عیسائیت کے خلاف نفرت مذہبی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ سیاسی نقطۂ نظر سے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی تعصب نے جو دیدہ دانستہ غیر مسلموں میں ان کے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے پھیلایا ان کو اسلامی قانون کے صحیح تصور کے ادراک سے محروم کر دیا ہے۔
دوسری بات جو اس تعصب کو غیر مسلموں کے دلوں میں پختہ کرنے اور تقویت دینے میں بڑی حد تک ممدو و معاون ثابت ہوئی خود مسلمانوں کا عمل ہے۔ جوں جوں اسلام نئی قوموں میں پھیلتا گیا توں توں اسلام کی ہیئت کذائی ہر قوم کی ذہنیت کے مطابق بدلتی چلی گئی۔ مختلف قوموں نے اسلام کی چند ظاہری خوبیوں سے متأثر ہو کر اس کو قبول تو کر لیا مگر اس کے مقتضیات کی کُنہہ پر حاوی نہ ہو سکیں اور اس کے مرکزی اصولوں کو جذب نہ کر سکیں بلکہ اُلٹا اسلام کے چہرے پر اپنی قدیم رسم و رواج اور معتقدات کے پردے چڑھا دیئے اور اسلامی شریعت میں ایسی باتیں اپنی طرف سے داخل کر لیں جن کو اسلام سے دُور کا تعلق بھی نہ تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں اسلام کی حقیقت ان لوگوں پر واضح نہیں ہو سکتی تھی جن تک اسلام ایسی قوموں کے ذریعہ پہنچا جنہوں نے اسلامی شریعت کے آفتاب کو اپنے پُرانے خیالات کے بادلوں سے ڈھانپ دیا تھا۔
غیر مسلموں میں اسلامی شریعت کے متعلق غلط فہمی پھیلنے کی یہ دو موٹی وجوہات ہیں اور ان کے دلوں میں اسلامی شریعت کے خلاف نفرت کی گرہ ایسی مضبوط پڑ گئی ہے کہ وہ اس کے نام سے بھی چڑ جاتے ہیں اس لئے اس بدظنی کو دور کرنے کیلئے اوّل تو خود مسلمانوں کو اپنے اعمال کے ذریعہ اسلام کا صحیح نمونہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے مسلمانوں کا یہ بھی فرض ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت کی طرف کماحقہٗ توجہ مبذول کریں۔ غیر مسلموں میں سادہ اور آسان طریقوں سے اسلامی شریعت کے موٹے موٹے اصولوں کو پھیلانے کے لئے ایک شعبہ نشرواشاعت کا قائم کیا جائے جس کی غرض صرف اتنی ہو کہ جو تعصب کا جن غیر مسلموں کے دلوں میں اسلامی شریعت کے خلاف بیٹھا ہوا ہے، اس کو نکالا جائے لیکن یہ کام اُس وقت تک کامیابی سے نہیں ہو سکتا جب تک ہم خود اسلامی شریعت کا عملاً صحیح نمونہ بن کر نہ دکھائیں۔ ہر نیک اور بدبات کا اثر الفاظ سن کر نہیں اعمال کے دیکھنے سے ہوتا ہے محض اسلام کی خوبیوں کے متعلق لن ترانیاں ۲۹؎ کوئی مفید اثر پیدا نہیں کر سکتیں اس لئے ضروری ہے کہ جو لوگ پاکستان میں اسلامی شریعت رائج کرنے کے مشتاق ہیں ان کو پہلے اپنے آپ کا جائزہ لینا چاہئے اور اپنے اخلاق کو اس معیار تک بلند کرنا چاہئے جہاں پہنچ کر بغیر الفاظ کے دوسروں کو متأثر کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر اس طرح غیر مسلموں کو اسلام سے متأثر کرنے میں ہم کامیاب ہوجائیں تو اسلامی شریعت کی سادگی خود بخود ان کے دلوں کو کھینچ لے گی کیونکہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ اقلیتوں کے متعلق اسلامی شریعت میں اتنی رواداری سے کام لیا گیا ہے کہ دنیا کی کوئی شریعت اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتی۔
(الفضل لاہور ۲۰؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کانگرس ریزولیوشن
۱۴؍نومبرکو کانگرس ورکنگ کمیٹی نے ایک ریزولیوشن آل انڈیا کانگرس کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کیلئے منظور کیا ہے۔ ہماری پرائیویٹ اطلاع یہ ہے کہ یہ ریزولیوشن خود مسٹر گاندھی کا تیار کردہ ہے۔ ۱۴؍ تاریخ کو کانگرس ورکنگ کمیٹی نے مسٹر گاندھی سے خواہش ظاہر کی کہ چونکہ وہ رات اور دن میٹنگ کر رہے ہیں ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ اس اہم ریزولیوشن کے الفاظ اس احتیاط سے تیار کر سکیں جس احتیاط کی اس ریزولیوشن کے تیار کرنے میں ضرورت ہے مسٹر گاندھی نے ان کی اس درخواست کو منظور کر لیا اور تمام دوسرے کام بند کر کے اس ریزولیوشن کے الفاظ تیار کر کے ورکنگ کمیٹی میں بھجوا دیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اصل ریزولیوشن تو مسٹر گاندھی نے تیار کیا تھا اس میں خفیف سی اصلاحات کی گئی ہیں۔ غالباً مسٹر گاندھی نے ان اصطلاحات کو تسلیم کر لیا ہوگا کیونکہ بعد میں مسٹر گاندھی نے اس ریزولیوشن کی تصدیق کر دی ہے۔ اس ریزولیوشن کے الفاظ یہ ہیں۔
وہ خطرناک واقعات جو پنجاب اور بعض دوسری جگہوں پرگزشتہ مہینوں میں ہوئے ہیں ان کے نتیجہ میں ان علاقوں کی آبادیوں کو وسیع تعداد میں نقل مکانی کرنی پڑی ہے اور لاکھوں آدمیوں کو ناقابل بیان نقصان پہنچا ہے۔ امداد اور دوبارہ آباد کرنے کے مسائل ایسی اہمیت پکڑ گئے ہیں کہ ان کی مثال تاریخ میں بالکل نہیںمل سکتی۔ ہندوستان گورنمنٹ نے ہمت اور عزم کے ساتھ ان نئے حالات کا مقابلہ کیا ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں یہ واضح کر دینا چاہئے کہ ان معاملات کو حل کرتے وقت قومی پالیسی کیا ہوگی۔
’’آل انڈیا کانگرس کمیٹی اس وسعت کے ساتھ نقل مکانی کو جس کے نتیجہ میں لاکھوں لاکھ انسانوں کو تکلیف پہنچی ہے اور جس کے نتیجہ میں قوم کی اقتصادی حالت کو سخت دھکا لگا ہے اور جو کانگرس کے ان بنیادی اصولوں کو جو ابتداء ہی سے کانگرس نے اختیار کر رکھے ہیں، سخت نقصان پہنچاتی ہے، ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ آل انڈیا کانگرس کمیٹی کی رائے میں یہ تبادلۂ آبادی روکا جانا چاہئے اور ہندوستان یونین میں بھی اور پاکستان میں بھی ایسے حالات پیدا کئے جانے چاہئیں کہ اقلیتیں امن اور حفاظت کے ساتھ رہ سکیں۔ اگر اس قسم کے حالات پیدا کر دیئے جائیں تو ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ کی طرف منتقل ہونے کی خواہش آپ ہی آپ سرد پڑ جائے گی۔ کمیٹی کی رائے میں پاکستان کے ہندو اور سکھ باشندوں کو مجبور کرنا کہ وہ اپنے گھر چھوڑ دیں اور ہندوستان یونین کی طرف چلے جائیں اور ہندوستان یونین کے مسلمانوں کو مجبور کرنا کہ وہ پاکستان کی طرف ہجرت کر جائیں ایک ناواجب فعل ہے۔
کمیٹی یہ محسوس کرتی ہے کہ جو کچھ ہوچکا ہے اس کا پورا ازالہ کرنا ناممکن ہے۔ مگر باوجود اس کے وہ فیصلہ کرتی ہے کہ اس بارہ میں ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ دونوں ڈومینین کے مہاجرین آخر کار اپنے اپنے گھروں میں جا کر آباد ہو جائیں اور اپنے پیشوں اور فنوں کو ان علاقوں میں جا کر امن اور حفاظت کے حالات میں اختیار کریں۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے گھر ابھی تک نہیں چھوڑے اُن کو وہیں رہنے پر آمادہ کرنا چاہئے سوائے اِس کے کہ وہ اپنی ذاتی خواہش کے ساتھ نقل مکانی پر مصر ہوں اگر ایسا ہو تو ان کے سفر کو آسان بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے۔ دونوں حکومتوں کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ ان اصول پر باہمی گفت و شنید شروع کریں اور ایسے حالات پیدا کریں جن کے ماتحت دونوں طرف کے مہاجر اپنے وطنوں میں پورے اطمینان کے ساتھ پھر جا کر آباد ہوسکیں۔
بہرحال ہندوستان یونین کو ہماری مقررہ پالیسی پر عمل کرنا چاہئے اور ان اقلیتوں کی پوری حفاظت کرنی چاہئے جو ابھی تک ہندوستان یونین میں بس رہی ہیں اور انہیں جبر کے ساتھ اپنے گھروں سے نہیں نکالنا چاہئے اور نہ ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیںکہ جن کی وجہ سے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوں۔ کانگرس کی چونکہ یہ فیصل شدہ پالیسی ہے اس لئے وہ لوگ جوانڈین یونین کو چھوڑنے کا ارادہ کر رہے ہیں ان کی ہر طرح خبر گیری کرنی چاہئے اور یونین کے باشندوں کو ان کا جب تک کہ وہ لوگ ہندوستان میں بستے ہیں خیال رکھنا چاہئے ایسے لوگوں کی نسبت یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ گویا وہ ناخواندہ مہمان ہیں اور صرف ایک مہربانی کے طور پر ان کی موجودگی کو برداشت کیا جا رہا ہے۔ ایسے لوگ وہی اختیارات رکھیں گے اور ویسی ہی ان پر ذمہ داریاں ہوں گی جیسی کہ دوسرے شہریوں پر، جہاں پر وہ کیمپوں میں رہ رہے ہوں ان سے یہ امید کی جائے گی کہ وہ اپنے ساتھی مہاجرین سے مل کر کوئی نہ کوئی مُلکی خدمت کریں اور کیمپوں کے اچھے انتظام کی خاطر جو قوانین بنائے جائیں، ان کی پابندی کریں۔ وہ لوگ جو کیمپوں کی نگرانی کرنے کے اہل سمجھے جائیں اُن کی نگرانی کے ماتحت کیمپوں کے رہنے والوں کو حفظانِ صحت اور دوسری خدمات کو بخوشی بجا لانا چاہئے اور جو لوگ کیمپوں پر نگران مقرر کئے گئے ہوں ان کو چاہئے کہ ایسے کاموں میں خود بھی شریک ہوا کریں۔ پناہ گزینوں کو ایسے کام سپرد کئے جانے چاہئیں جن سے نفع حاصل ہو اور اُس نفع میں اِن لوگوں کو بھی شریک کیا جانا چاہئے۔ مغربی پنجاب کے پناہ گزینوں کو عام حالات میں مشرقی پنجاب میں ہی بسانا چاہئے اور پاکستان کے دوسرے حصوں کے پناہ گزینوں کو ایسے علاقوں میں بسانا چاہئے جن کا فیصلہ مرکزی حکومت صوبجاتی حکومتوں کے ساتھ مل کر کرے۔ اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ خاص علاقہ کے لوگ جہاںتک ہو سکے اکٹھے ہی بسائے جایا کریں۔ اس کام میں صوبجاتی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ مرکزی حکومت کے ساتھ پورا تعاون کریں او رپناہ گزینوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو جگہ دینے کیلئے رستہ نکالیں۔ کوئی گھر جس کو کسی مسلمان نے اپنی مرضی سے نہیں چھوڑا اس میں کوئی پناہ گزیں نہ بسایا جائے۔ پناہ گزینوں کی نقل و حرکت جس کا پہلے ہی سے ریلوں کے ذریعہ سے یا لاریوں کے ذریعہ سے یا اور دوسرے ذرائع سے انتظام کیا جا رہا ہے آئندہ اوپر کے بتائے ہوئے قانون کے ماتحت ہونی چاہئے اور کسی شخص کو اپنی جگہ سے نہیں نکالنا چاہئے جب تک کہ وہ ایسا کرنے کی خود خواہش نہ رکھتا ہو۔ یہی قانون ان ریاستوں کے متعلق بھی جاری ہونا چاہئے جو انڈین یونین میں شامل ہوئی ہیں اور جن میں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یا تو نکل گئی ہے یا نکال دی گئی ہے۔ آل انڈیا کانگرس کمیٹی یقین رکھتی ہے کہ ہندوستان یونین کی مرکزی حکومت، مشرقی پنجاب کی حکومت اور ان ریاستوں کی حکومتیں جن پر اس نقل مکانی کا اثر پڑا ہے، اوپر کی بیان کردہ پالیسی کو فوراً جاری کریں گی اور اپنے تمام افسروں کو حکم دیں گی کہ وہ مذکورہ بالا پالیسی کی لفظ بلفظ پیروی کریں‘‘۔
اس ریزولیوشن کے الفاظ میں تھوڑی بہت تبدیلی کی گنجائش تو موجود ہے جیسا کہ ہم اپنے دوسرے آرٹیکل میں بیان کریں گے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس ریزولیوشن میں نہایت ہی اچھے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے اور پاکستان کی حکومت کو فوراً ان خیالات کی تائید کرنی چاہئے یہ سوال کہ ہندوستان کی حکومت نے اب تک اس پرعمل کیا ہے یا نہیں یا پاکستان کی حکومت نے اب تک اس پرعمل کیا ہے یا نہیں ایک ثانوی حیثیت رکھتا ہے ہم ماضی کو بعض حالات میں بھول نہیں سکتے۔ ہم بعض حالات میں ماضی کو بھولنا نہیں چاہتے۔ ہم بعض حالات میں ماضی کو بھول جانا بے غیرتی سمجھتے ہیں۔ یہ باتیں ہمارے مدنظر ہیں اور ہر ایک عقلمند کو مدنظر رہنی چاہئیں لیکن بعض ذمہ داریاں متوازی طور پر ادا کی جا سکتی ہیں۔ ہمیں ماضی کے ان حصوں کو یاد رکھتے ہوئے جن کے بداثرات کا ازالہ کرنا ہمارے ذمہ فرض ہے مستقبل کے لئے کسی راستہ کے کھولنے سے دریغ نہیں ہونا چاہئے۔ سیاست دان اور مقالہ نویس مستقبل قریب میں اور مؤرخ مستقبل بعید میں ان واقعات پر بحثیں کرتے چلے جائیں گے جو گزشتہ مہینوں میں ہندوستان میں پیش آئے ہیں اس بارہ میں نہ ہم اپنا حق چھوڑنا چاہتے ہیں۔ نہ انڈین یونین کے لوگوں سے ان کا حق چھڑوانا چاہتے ہیں لیکن اس حق کو قائم رکھتے ہوئے بھی ہم آئندہ کے متعلق کوئی مناسب سمجھوتہ کر سکتے ہیں اور ہمیں ایسا ضرور کرنا چاہئے۔
ہمارے نزدیک چاہئے یہی تھا کہ پاکستان کی حکومت پہلے اِس سوال کو اُٹھاتی کیونکہ بہت سی باتیں جو اِس ریزولیوشن میں بیان کی گئی ہیں وہ اسلامی اصول کے مطابق ہیں اور اسلام کی پیش کردہ ہیں۔ امن اور انصاف کو قائم کرنا سب سے پہلا فرض اسلامی حکومتوں کا ہے۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو امن کے قیام کے لئے سنہری قواعد پیش کرتا ہے اور اسلام کا لانے والا مقدس وجود ہی وہ ہے جس نے ان سنہری قواعد پر خود عمل کر کے دکھایا ہے اور وہی ایسا کربھی سکتا تھا کیونکہ دنیا میں ایک ہی شخص گزرا ہے جو نبوت اور کامل اقتدار والی حکومت پر ایک ہی وقت میں فائز رہا ہے۔ بنی اسرائیل کے نبی موسیٰ اور عیسیٰ، ایران کے نبی زرتشتؑ، ہندوستان کے نبی کرشنؑ اور رام چندر جیؑ اور چین کے نبی کنفیوسشؑ کو یہ مواقع میسر نہیں آئے۔ ہم اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر اور ایامِ ابتلاء بھی ایسے دیکھے کہ جن کی مثال دنیا کے کسی اور نبی کی زندگی میں نہیں پائی جاتی۔ اور ان ایام میں وہ اعلیٰ درجہ کا نمونہ صبر، برداشت اور استقلال کا دکھایا کہ جس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اور اس نے ایک غالب اور فاتح کے ایام بھی دیکھے اور عفو اور رحم اور انصاف اور درگزر اور شفقت اور ہمدردی اور ایسی تنظیم کا جس کا نیک اثر بڑوں اور چھوٹوں سب پر پڑتا ہے ایسا شاندار نظارہ دکھایا کہ اس کی مثال بھی دنیا کی تاریخ میں کسی اور جگہ نہیں ملتی۔ ہمارا خزانہ ہمارے گھر سے نکلنا چاہئے اور ہمیں کبھی یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ ہمارے نبی کا ورثہ دوسرے لوگ دنیا کے سامنے پیش کریں ہم اور صرف ہم اس بات کے حقدار ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کیا اور کہا وہ سب سے پہلے ہماری زبانوں اور ہمارے ذہنوں سے دنیا کے سامنے آئے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے یہ باتیں ہمارے آدمیوں نے بھی پیش کی ہیں۔ یہ بالکل درست ہے راجہ غضنفر علی صاحب نے جو کوشش کی ہے اس کے مقابلہ میں ہندوستان یونین کا کوئی وزیر اپنی خدمات پیش نہیں کر سکتا۔ راجہ غضنفر علی صاحب ۳۰؎ ہزار تحسین اور آفرین کے مستحق ہیں۔ ادھر مسٹر گاندھی نے بھی بہت کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے اور ان کے اثر اور ان کے سمجھانے سے مسٹر نہرو اور دوسرے ہندو لیڈروں نے بھی وقتاً فوقتاً بعض اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن راجہ غضنفر علی صاحب آخر راجہ غضنفر علی صاحب ہیں اور مسٹر گاندھی اور پنڈت نہرو آخر مسٹر گاندھی اور پنڈت نہرو ہی ہیں۔ بڑے سے بڑے فرد کی آواز قوم کی آواز کا قائم مقام نہیں ہو سکتی۔ ہمارا فرض تھا کہ گزشتہ ایام میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس کر کے ان خیالات کو اپنی قوم کی طرف سے پیش کرتے۔ راجہ غضنفر علی صاحب کے خیالات کو ہندوستان یونین کے لوگ یہ کہہ کر نظر انداز کر سکتے تھے کہ ایک شخص تھا جس کے دل میں اچھے خیالات پیدا ہوئے مگر اس کی قوم نے ان خیالات کو اپنایا نہیں اور یہی بات مسٹر گاندھی کے متعلق بھی کہی جا سکتی تھی۔ اِدھر راجہ غضنفر علی صاحب کے خیالات کے متعلق کئی دفعہ ہمارے اخبارات نے مخالفانہ تنقید کی ہے اُدھر مسٹر گاندھی اور پنڈت نہرو کے خیالات کے خلاف ہندوستان کے اخبارات نے تنقید کی ہے۔ پس انفرادی خیالات کا اظہار اور چیز ہے اور قومی طور پر ایک بات کہنا اور چیز ہے۔ ہمارے نزدیک اب بھی موقع ہے لیگ کو فوراً اس کے جواب میں ایک اعلان شائع کرنا چاہئے جس میں اپنی قومی پالیسی کو قومی مجلس کے ذریعہ سے شائع کر دینا چاہئے تا کہ دنیا پر یہ بد اثر نہ پڑے کہ کانگرس تو صلح کا ہاتھ بڑھا رہی ہے لیکن لیگ ایسا کرنا نہیں چاہتی۔ لیگ یقینا ان خیالات کی کانگرس سے بھی زیادہ حامی ہے کیونکہ یہ خیالات اسلامی ہیں بلکہ لیگ کو چاہئے کہ ان خامیوں کی بھی اصلاح کر دے جو اس ریزولیوشن میں پائی جاتی ہیں اور کانگرس سے بھی زیادہ وسیع حوصلہ کے ساتھ صلح اور آشتی کا ہاتھ بڑھائے۔ اس کے بعد عمل کا سوال پیدا ہوگا۔ اگر کانگرس نے لیگ کی تائید کے بعد عمل کی طرف قدم نہ اُٹھایا تو دنیا کو یہ جاننے کا موقع مل جائے گا کہ کانگرس نے وہ بات کہی جس پر وہ عمل کرنا چاہتی تھی۔ جب لیگ نے اس کی پالیسی کی تائید کر دی تو اس نے اپنا قدم پیچھے ہٹا لیا۔ اگر ایسا ہوا تو لیگ کی عزت دنیا کی نظروں میں بڑھ جائے گی اور مسلمانوں کو پھر ایک بار اُس عزت سے حصہ مل جائے گاجو ان کے نبی مکرم نے ان کے ورثہ میں چھوڑی ہے اور اگر کانگرس نے لیگ کے اعلان کا خیرمقدم کیا اور اپنی شائع کردہ پالیسی پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو گئی تو اِس سے بہتر بات ہندوستان کے لئے اور کیا ہوگی۔ بہت سے جھگڑے آپس میں طے کرنے والے باقی ہیں۔ بہت سی شکایتوں کا ازالہ ہونے والا ہے۔ مگر بسا اوقات جب لوگ ایک بات کو محبت سے طے کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں تو دوسری باتوں کا تصفیہ بھی آپ ہی آپ ہوتا چلاجاتا ہے۔ ایک نیکی دوسری نیکی کی طرف لے جاتی ہے۔ صلح کے لئے بڑھایا ہوا ایک قدم دو اور قدموں کے بڑھانے کے لئے رستہ صاف کر دیتا ہے۔ آؤ ہم ان لاکھوں غریبوں اور مسکینوں کا خیال کریں جو اپنے وطنوں سے دور اِدھر اُدھر دھکے کھاتے پھرتے ہیں جن کے ساتھ حسن سلوک بھی کیا جاتا ہے اور جن پر زبانِ طعن بھی دراز کی جاتی ہے۔ بعض لوگ بھائیوں کی طرح ان سے بغلگیر ہورہے ہیں تو بعض ان سے فقیروں اور بھِک منگوں کا سا سلوک کر رہے ہیں۔ آؤ ہم ان لوگوں کو پھر اپنے گھروں میں بسانے کے لئے ایک جدوجہد کریں اور ایک ایسا قدم اُٹھائیں جس سے مُلک میں امن کی فضا پیدا ہو جائے۔ شاید دلوں میں نرمی پیدا ہونے کے بعد وہ دوسرے سیاسی اور اقتصادی جھگڑے بھی طے ہو جائیں جو اِس وقت ہندوستان کے خیالات کو مشوش کر رہے ہیں۔ (الفضل لاہور ۲۱؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کانگرس ریزولیوشن کی کمزوریاں
ہم لکھ چکے ہیں کہ کانگرس ریزولیوشن میں پاکستان اور ہندوستان میں امن کے قیام کے لئے جو تجاویز پیش کی گئی ہیں وہ نہایت مناسب ہیں مگر اس کے ساتھ ہی اس میں کچھ کمزوریاں بھی باقی رہ گئی ہیں۔ اس ریزولیوشن میں اس امر کو نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ ان حالات کے پیدا کرنے والوں کو جن کی وجہ سے اقلیتوں کو گھر چھوڑنے پڑے پکڑا جائے اور انہیں سزا دی جائے دنیا کا کوئی انسان بھی اس امر کو تسلیم نہیں کر سکتا کہ ایک کروڑ کے قریب آدمی جس نے اپنے وطن کو چھوڑا ہے بغیر کسی وجہ کے اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسری طرف چلا گیا ہے یا ان لوگوں کی ہم مذہب حکومتوں نے انہیں اپنی طرف بلایا ہے اور یا پھر غیر مذاہب کے لوگوں نے یا غیر مذاہب کی اکثریت والی حکومتوں نے انہیں مجبور کر کے اپنے گھروں سے نکالا ہے ان دو صورتوں کے سوا کوئی تیسری صورت ممکن نہیں۔ اگر تو پاکستان کی حکومت نے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو بُلایا ہے یا پاکستان کی مسلم انجمنوں نے ہندوستان کے رہنے والے مسلمانوں کو بُلایا ہے یا پاکستان میں رہنے والے ہندوؤں کو ہندوستان کی گورنمنٹ نے بلایا ہے یا ہندوستان کی ہندو یا سکھ انجمنوں نے بلایا ہے تو کانگرس کا ریزولیوشن بالکل اُدھورا رہ جاتا ہے کیونکہ کانگرس کے ریزولیوشن میں اس قسم کی نقل مکانی کے خلاف کوئی بات نہیں پائی جاتی حالانکہ اس کے خلاف ضرور آواز اُٹھائی جانی چاہئے تھی۔ اگر اس کے بر خلاف حکومتوں یا حاکموں یا غیر مذاہب کے افراد نے ہندوستان سے مسلمانوں اور پاکستان سے ہندوؤں اور سکھوں کو نکلوایا ہے تو وہ لوگ جنہوں نے ایسا کیا، ان کے خلاف بھی تو کوئی قدم اُٹھانا چاہئے۔ کانگرس جب یہ کہتی ہے کہ وہ حالات بدلے جائیں جن کے باعث ہندوستان اور پاکستان سے مسلمان اور ہندو نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں تو اِس کے معنی اِس کے سِوا اور کیا ہو سکتے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے ہندوستان سے مسلمانوں کو اور پاکستان سے ہندوؤں یا سکھوں کو نکالا آئندہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے لیکن کیا اس ریزولیوشن کا ان لوگوں پر کوئی بھی اثر ہو سکتا ہے جنہوں نے پچاس لاکھ مسلمانوں کو گورنمنٹ کی آنکھوں کے سامنے پنجاب سے نکال دیا یا چالیس لاکھ ہندوؤں اور سکھوں کو گورنمنٹ کی آنکھوں کے سامنے پاکستان سے نکال دیا۔ اگر یہ سب کے سب لوگ غیر مذاہب کے ظلموں کی وجہ سے نکلے تھے تو ان ظلم کرنے والوں کے خلاف دونوں حکومتوں نے کیا کارروائی کی ہے۔ اگر آئندہ کسی کارروائی کے کرنے کا کانگرس حکم دیتی ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ سمجھتی ہے کہ ہمیں یہ طاقت حاصل ہے کہ ہم ان لوگوں کو سزا دے سکیں۔ اور اگر واقعہ میں کانگرس یہ سمجھتی ہے کہ وہ ان مجرموں کو سزا دے سکتی ہے تو کیوں وہ ان جرائم پر سزا نہیں دیتی جو اِس وقت تک صادر ہوچکے ہیں۔ مشرقی پنجاب میں اب مسلمان رہ ہی کتنے گئے ہیں آٹھ یا دس لاکھ آدمی ریفیوجی کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں اور جالندھر ڈویژن میں سوائے قادیان کے اور کسی گاؤں یا قصبہ میں مسلمان نہیں۔ انبالہ ڈویژن کے بعض شہروں اور قصبوں میں مسلمان ابھی پائے جاتے ہیں لیکن نکالے جانے والوں اور مارے جانے والوں کی تعداد سے ان کی کوئی بھی نسبت نہیں۔ پس یہ اعلان کرنا کہ یہ جو تھوڑے سے آدمی رہ گئے ہیں اگر ان پر کوئی ظلم کرے گا تو ہم سختی سے کام لیں گے ایک بے معنی سا اعلان ہے۔ وہ لاکھوں آدمی جو مارا جاچکا ہے اور وہ ہزار ہا عورت جس کو زبردستی چھین لیا گیا ہے اور وہ اربوں روپیہ کی جائداد جو جبراً ہتھیا لی گئی ہے اگر یہ فعل بُرا تھا تو کیوں اس کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی۔ کیا یہ بات عجیب نہیں معلوم ہوگی کہ ایک قصبہ جس میں سے سَو مسلمان نکل چکا ہے اور دس مسلمان باقی ہیںاور ان سَو مسلمانوں کے گھروں پر سکھ اور ہندو قابض ہوچکے ہیں۔ کانگرس کے اعلان کے بعد وہی ہندو اور سکھ جو پہلے مسلمانوں کو نکال کر ان کے گھروں پر قابض ہو چکے ہیں نئے آنے والے سکھوں اور ہندوؤں سے لڑ رہے ہوں گے کہ یہ جو دس مسلمان رہ گئے ہیں ان کو گھروں سے نہ نکالو کیونکہ کانگرس کا ریزولیوشن ہو گیا ہے اور جب وہ نئے آنے والے ہندو اور سکھ کہیں گے کہ تم بھی تو مسلمانوں کو نکال کر ان کے گھروں میں بیٹھے ہو تو وہ پُرانے غاصب اِن نئے غاصبوں کو کہیں گے کہ کانگرس کا ریزولیوشن پچھلے واقعات کے متعلق نہیں آئندہ کے واقعات کے متعلق ہے ہم نے جتنے آدمی مارے اور جتنے گھر ضبط کئے ان سب کو کانگرس ریزولیوشن نے معاف کر دیا ہے اور آئندہ کے لئے حکم دیاہے کہ ایسا کام نہیں ہونا چاہئے۔ کیا ان حالات میں کانگرس کے ریزولیوشن پر کامیابی سے عمل کیا جا سکتا ہے؟ یہی بات ہم پاکستان کے متعلق بھی کہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے مقام ضرور ہیں جہاں سے ہندوؤں کو جبراً نکالا گیا ہے یا ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ وہ نکل جائیں۔ اگر پاکستان گورنمنٹ ہندوؤں کو اپنے مُلک میں رکھنا چاہتی ہے تو ان کو بھی یہی طریق اختیار کرنا ہوگاکہ جو پچھلے مجرم ہیں اُن کو پکڑیں اور سزا دیں۔ آخر لاکھوں آدمی پھونکوں سے تو نہیں مر گئے۔ لوگ اربوں کی جائداد چھوڑ کر بلاوجہ تو نہیں بھاگ گئے۔ کوئی مارنے والا آدمی ضرور تھا، لوگوں کے پاس ایسے ہتھیار ضرور تھے جن سے قتل کی واردتیں ہوئیں اور حالات ضرور اِس طرح بگڑے کہ غیر قوموں کے لوگوں نے اپنے لئے اس مُلک میں پناہ کی کوئی صورت نہ دیکھی اور اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ جب تک ان حالات کے پیدا کرنے والوں اور ان قاتلوں اور ان عورتوں کو پکڑنے والوں کو سخت سزائیں نہ دی جائیں گی جن کے افعال نے پاکستان اور ہندوستان سے نکلنے پر اقلیتوں کو مجبور کر دیا ہے، اُس وقت تک امن کے ریزولیوشن کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ کل کو پھر ایک جوش اُٹھے گا اور پھر دونوں طرف خون خرابہ شروع ہو جائے گا اور پھر مُلک کی سیاسی انجمنیں ایک ریزولیوشن پاس کر دیں گی کہ آئندہ خبردار ایسا مت ہو۔ کبھی پچھلے حساب کی صفائی کے بغیر آئندہ کی کوئی صفائی ہوا کرتی ہے؟ لاکھوں لاکھ قاتل ہندوستان یونین میں پھر رہا ہے وہ سٹیجوں پر کھڑے ہو کر تقریریں بھی کر رہا ہے، وہ اخباروں میں مضامین بھی لکھ رہا ہے، وہ کانگرس کے جلسوں میں ممبروں کے طور پر شامل بھی ہو رہا ہے لیکن ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ لاکھوں لاکھ مسلمان جو مارا گیا ہے اس کے خون کی تحقیقات کوئی نہیں ہو رہی۔ ضلع گورداسپور میں ہی جس سے سات لاکھ کے قریب مسلمانوں کو مار کر نکال دیا گیا ہے، دو اڑھائی سَو مسلمان اس لئے جیل خانوں میں سڑ رہے ہیں کہ اُنہوں نے سکھوں کو یا ہندوؤں کو مارنے کی کوشش کی لیکن سکھ ایک بھی اِس جرم میں قید نہیں ہے کہ اس نے مسلمانوں کو مارا اور ان کے گھروں کو لوٹا اور اُن کی جائدادوں پر قبضہ کیا۔ کیا کوئی عقلمند انسان اس بات کو باور کر سکتا ہے کہ حکومت کو اس قوم کے مجرم تو نظر آ سکتے تھے جن کو ہزاروں کی تعداد میں قتل کیا گیا، جن کی سینکڑوں کی تعداد میں عورتیں چھین لی گئیں، جن کی سَوفیصدی جائدادوں پر قبضہ کر لیا گیا لیکن اس قوم کے مجرم اسے بالکل نظر نہیں آئے جنہوں نے ایک ہزار سے زیادہ مسلمان گاؤں کو تباہ کر دیا۔ پانچ سات ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کر دیا، تین چار لاکھ سے زیادہ مویشی ان کے چھین لئے۔ پانچ لاکھ ایکڑ زمین پر قبضہ کر لیا، ایک کروڑ سے زیادہ قیمت کے اَثَاثَۃُ الْبَیْت کو ہتھیا لیا ہمیں حکومت یا کانگرس بتائے تو سہی کہ کم سے کم بھی ایک ضلع میں مسلمانوں کی موت کا اور عورتوں کے نکالے جانے کا اور جائدادوں پر قبضہ کا اندازہ لگانے کے بعد ان افعال کے مرتکب آخرکتنے آدمی قرار دیئے جا سکتے ہیں اور جتنے انسانوں کی طرف یہ جرم منسوب کیا جا سکتا ہے ان میں سے کتنے آدمی اِس وقت حوالات میں ہیں۔ اگر ان تمام حرکات کے بعد ہندو اور سکھ تو حوالات میں نہیں مگر مسلمان حوالات میں ہیں تو کیا کوئی مان سکے گا کہ حکومت ہند نے امن کے قیام کے لئے پوری کوشش کی تھی اور کانگرس کے ریزولیوشن کے مطابق وہ تعریف کی مستحق ہے؟ مگر گزشتہ کو جانے دو کیا کانگرس کے ریزولیوشن میں اس بات کا انتظام کیا گیا ہے کہ اب اس ریزولیوشن کے بعد ان مجرموں کو پکڑا جائے اور ان کو سزا دی جائے؟ اور ان مسلمان ملزموں کو چھوڑا جائے جن کا صرف اتنا قصور تھا کہ وہ مار کھانے والے مسلمانوں کی حفاظت کے لئے زبان کھول سکتے تھے اور شور مچا سکتے تھے یا ایک تنظیم کے ماتحت ان کو ان مظالم کی جگہوں سے نکال کر لے جانا چاہتے تھے۔ ہم ہندوستان ہی کے متعلق ایسا نہیں سمجھتے، پاکستان گورنمنٹ میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں اور پاکستان گورنمنٹ کا بھی یہی فرض ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ پاکستان میں سے کچھ ہندو اور سکھ پہلے سے سوچی ہوئی تدبیروں کے ماتحت نکل گئے تھے، ہم مانتے ہیں کہ کچھ ہندو اور سکھ اِردگرد کے ہندو اور سکھ ہمسایوں کو انگیخت اور ان کے اشارہ سے ہندوستان چلے گئے تھے لیکن ہم اس کا بھی انکار نہیں کر سکتے کہ پاکستان میں سے کچھ ہندو اور سکھ مسلمانوں کے دباؤ اور ان کی سختی کی وجہ سے نکلنے پر مجبور ہوئے،کچھ ہندوؤں اور سکھوں کی عورتیں اُٹھا لی گئیں۔ کچھ ہندوؤں اور سکھوں کی جائدادیں لُوٹی گئیں، کچھ ہندو اور سکھ قتل کئے گئے یہ کام پبلک کی ایک جماعت نے کیا اور بعض افسروں کے اشارہ سے ہوا لیکن ہمیں پاکستان کے متعلق یہ بھی اطلاع نہیں کہ اس میں ان مسلمان مجرموں اور ان افسر مجرموں کو پکڑ کر ان پر مقدمات چلائے گئے ہوں جنہوں نے یہ حرکات کیں۔ جن لوگوں نے ہندوؤں اور سکھوں پر ظلم کیا، ان کو مارا، اُن کی عورتیں نکالیں، اُن کی جائدادوں کو لُوٹا وہ چند افراد نہیںہو سکتے تھے وہ یقینا ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں تھے مگر اس الزام میں تو سینکڑوں بھی نہیں پکڑے گئے۔ آئندہ کا اطمینان گزشتہ جرائم پر ندامت کے اظہار سے پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر پاکستان اور ہندوستان کی مجلسوں میں مسلمان اور ہندو اور سکھ مجرم اپنی دھوتیاں پھیلائے اور تہبندیں لٹکائے اور چھاتیاں تانے بیٹھے ہوئے پبلک سے تحسین و آفرین کا انعام حاصل کر رہے ہوں تو ایسے ریزولیوشن کا نتیجہ نکل ہی کیا سکتا ہے۔ دنیا لفظوں کو نہیں دیکھا کرتی وہ عمل کو دیکھا کرتی ہے۔ جب تک ان مجرموںکو پکڑنے کا انتظام نہیں کیا جائے گا خواہ وہ لاکھوں کی تعداد میں کیوں نہ ہوں، جب تک قاتلوں اور لٹیروں کو سزا نہ دی جائے گی اُس وقت تک نیک سے نیک نیت سے پاس کئے ہوئے ریزولیوشن بھی بیکار اور بے فائدہ ثابت ہوں گے۔
حسین رضی اللہ عنہ
وہ نام جن کے زبان پر آنے کے ساتھ رفیع و بلند کیفیتیں اور تعظیم و تکریم کے عظیم الشان جذبات دل میں پیدا ہو جاتے ہیں۔
ان ناموں میں سے ایک وہ نام بھی ہے جس کو آج ہم نے زیب عنوان بنایا ہے۔ کونسا مسلمان ہے جس کے دل و دماغ پر حسینؓ کے نام کو سنتے ہی ایک غیر معمولی کیفیت طاری نہیں ہو جاتی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا اس نام کے حروف اور ان کی ترکیب میں کوئی ایسی بات ہے جو یہ اثر ہمارے دلوں پر کرتی ہے ان میں کوئی شک نہیں کہ بعض وقت محض حروف کا حسن ہی کسی لفظ کی کشش کا باعث ہوتا ہے اور حسین کے لفظ میں بھی وہ حسن ضرور موجود ہے لیکن وہ خاص کیفیت جو اس نام کے لینے اور سننے سے ہمارے دل و دماغ پر چھا جاتی ہے وہ یقینا صرف اس حسن آواز اور لوچ کی پیداوار نہیں ہے جو ان حروف یا ان کی ترکیب میں ہے جن سے حسین کا لفظ بنا ہے۔
تھوڑے سے غور سے ہم کو معلوم ہوگا کہ اس لفظ یا نام کے ساتھ کچھ ایسے عظیم الشان واقعات وابستہ ہوگئے ہیں کہ گو ان واقعات کا پورا پورا نقشہ ہمارے سامنے نہ بھی آئے لیکن جب ہم اس نام کو زبان سے دُہراتے ہیں تو جو کیفیت ہمارے دل و دماغ پر چھا جاتی ہے اس کی ساخت میں ان واقعات کا سایہ ضرور گزر رہا ہوتا ہے جو اس انسان کو پیش آئے تھے جس نے میدانِ کربلا میں صداقت کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے نہ صرف اپنی جان کو قربان کر دیا تھا بلکہ اپنے خاندان کے قریباً تمام نرینہ افراد کو اس غرض کے لئے اپنی آنکھوں سے خاک و خون میں تڑپتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ ہے وہ مدھم سا پس منظر جو اس لفظ یا نام کی پُر اثر طاقت کا حقیقی منبع ہے اور اس کو دُہراتے ہی ہماری آنکھوں کے سامنے اُبھر آتا ہے۔ عربوں میں ویسے تو یہ نام کوئی خاص نام نہ تھا بلکہ عام تھا کئی اشخاص کے نام حسین تھے۔ اس میں کوئی خاص کیفیت یا کشش نہ تھی اب یہ نام صرف ایک عظیم الشان ہستی کا نام ہونے کی وجہ سے کچھ ایسی کیفیتوں کا حامل ہو گیا ہے کہ جب کوئی مسلمان یہ نام سنتا ہے یا اپنی زبان سے دُہراتا ہے تو اس کے رگ و پے میں ایک ہیجان سا پیدا ہو جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف نام میں کچھ نہیں ہوتا۔ یہی نام اب اس قدر عام ہو گیا ہے کہ شاید ہی کوئی گاؤںہوگا جہاں تین چار نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اشخاص ایسے نہ ہوں جن کا نام حسین ہو لیکن جب ان میں سے ہم کسی کو اس نام سے پکارتے ہیں تو وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی جو اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب اِس نام سے ہماری مراد وہ خاص ہستی ہوتی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اس کو یہ قبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نام اپنی ذات میں خواہ کتنا بھی اچھا ہو جب تک اس نام کے ساتھ اس شخص کا کام بھی ہمارے دل کی آنکھ میں متشکل نہ ہو محض نام کوئی خاص کیفیت پیدا نہیں کر سکتا۔
ایک پُر اثر اور دلکش شعر میں جو الفاظ ہوتے ہیں وہی معمولی الفاظ ہوتے ہیں جو ہم اپنے روزمرہ میں استعمال کرتے ہیں لیکن آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ شاعر کو بعض وقت اس طرح بھی داد دی جاتی ہے کہ ’’صاحب! آپ نے فلاں لفظ میں جان ڈال دی ہے‘‘ یہاں جان ڈالنے کے معنی صرف یہ ہوتے ہیں کہ شاعر نے اس خاص لفظ کو لفظوں کے ایسے ماحول میں رکھ دیا ہے کہ گویا اس میں جان پڑ گئی ہے۔ لفظ کی ذاتی خوبی کی وجہ سے نہیں بلکہ ماحول کی وجہ سے کسی لفظ میں جان پڑتی ہے۔ اسی طرح کسی نام میں اس شخص کے کام کی وجہ سے جان پڑتی ہے جس کا وہ نام ہوتا ہے۔
اب اگر ہم ہزار بار نہیں لاکھ بار حسین حسین اپنی زبان سے رَٹیں اور وہ واقعات ہمارے ذہن میں نہ ہوں جو میدانِ کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیش آئے تھے، وہ استقامت، وہ جانبازی، وہ قربانی کی روح جو اُنہوں نے اُس وقت دکھائی اگر ہم کو یاد نہ آئے تو محض حسین حسین پکارنے سے نہ تو اس عظیم الشان نام کی وہ عزت و تکریم ہمارے دل میں پیدا ہو سکتی ہے جس کا وہ مستحق ہے اور نہ ہماری اپنی ذات کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے بلکہ ان واقعات کو دُہرانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ اگر ہم ان واقعات سے سبق حاصل نہ کریں محض ان واقعات کو دُہرا دینا کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک ان کو اس طرح پیش نہ کیا جائے کہ سن کر ہم میں بھی ویسے ہی کام کرنے کے جذبات پیدا نہ ہوں، ویسا ہی جوش نہ اُٹھے۔
وہ مثالی قربانی جو خاتونِ جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس عظیم الشان بیٹے نے میدانِ کربلا میں پیش کی ہم اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتے۔ ایک معمولی لکھا پڑھا انسان بلکہ اَن پڑھ مسلمان بھی کچھ نہ کچھ ان کا علم ضرور رکھتا ہے۔ اِس وقت ہم جو کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ آؤ اس نام کو ہم بے فائدہ رَٹ رَٹ کر بدنام نہ کریں بلکہ ان کاموں کی تقلید کی کوشش کریں جو اس ہستی نے میدانِ کربلا میں دکھا کر ایک عالم سے خراجِ تحسین حاصل کیا جن کی وجہ سے یہ معمولی سا نام زندہ ہو گیا۔ اور ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گیا اور ان باتوں پر غور کریں جن باتوں سے متاثر ہو کر محمد علی جوہر مرحوم نے یہ شعر کہا تھا۔ ع
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اِس وقت ہر مسلمان میدانِ کربلا میں ہے اگر ہم کو اس میدان میں مرنا ہی ہے تو آؤ ہم بھی حسینؓ کی موت مریں تا کہ اس کی طرح ہمارا نام بھی زندۂ جاوید ہو۔ ورنہ جو پیدا ہوتا ہے ایک دن مرتا ہی ہے۔ کتنے تھے جن کے نام حسین تھے جو مر گئے مگر ان کو کوئی یاد بھی نہیں کرتا مگر ایک حسین ؓہے صرف ایک حسینؓ جس کو دنیا بھلانا بھی چاہے تو نہیں بھلا سکتی جس کو دل سے مٹانا بھی چاہے تو نہیں مٹا سکتی کیونکہ اس حسین نے اپنے نام کو اپنے کام سے صفحۂ ہستی پر پتھر کی لکیر بنا دیا ہے کیونکہ اس نام کی پشت و پناہ وہ عظیم الشان قربانی ہے جو مُردہ ناموں کے جسموں میں جان ڈال دیا کرتی ہے کیونکہ اس نے اپنے نام کو ایسے ماحول میں رکھ دیا ہے جس سے وہ روشنی کا مینار بن گیا ہے اگر تم بھی چاہتے ہو کہ تمہارا نام بھی روشنی کا ایسا مینار بن جائے جو
’’شب تاریک و بیم موج و دریائے چنیں حایل‘‘
کے عالَم میں دوسروں کو ساحلِ مراد کا نشان دکھائے تو تم کو بھی وہی کام کرنے ہوں گے جو حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کئے۔(الفضل لاہور ۲۳؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تقسیمِ فلسطین کے متعلق روس اور یونائیٹڈ سٹیٹس
کے اتحاد کا راز
یہ بات لوگوں کے لئے مُعمہ بن رہی ہے کہ روس جو کل تک عربوں کی دوستی کا دَم بھر رہا تھا یکدم تقسیم فلسطین کا حامی کیوں ہو گیا ہے اور عربوںکی مخالفت کیوں کر رہا ہے؟ یہ مسئلہ اور بھی زیادہ لَایَنْحَلْ ۳۱؎ ہو جاتا ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت سب سے زیادہ رقابت روس اور یونائیٹڈسٹیٹس میں ہے اور یونائیٹڈ سٹیٹس سب سے زیادہ تقسیم فلسطین کا حامی ہے۔ جس چیز کا یونائیٹڈ سٹیٹس حامی ہو روس کے خطرات اس کے متعلق بہت نمایاں ہونے چاہئیں لیکن پچھلے چند ہفتوں سے یکدم روس نے پلٹا کھایا ہے اور وہ اس معاملہ میں یونائٹیڈسٹیٹس کی پوری مدد کر رہا ہے مگر انگلستان جو اور دوسرے معاملات میں یونائیٹڈ سٹیٹس کا ساتھ دے رہا ہے اس معاملہ میں یونائیٹڈسٹیٹس کے خلاف چل رہا ہے۔ یہ کایا پلٹ کیوں ہوئی ہے؟ اس کے سمجھنے کیلئے بعض گزشتہ تاریخی واقعات کے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
جس وقت روس میں بالشویک۳۲؎ نے بغاوت کی تو بہت سے لوگوں کے لئے یہ امر حیرت کا موجب تھا کہ اس بغاوت میں حصہ لینے والے لوگوں میں جو بالشویک پارٹی کے ذمہ دار عہدوں پر متمکن تھے بہت سے یہودی بھی تھے جنہوںنے اپنے نام بدل دیئے ہوئے تھے اُس وقت ایک خفیہ سرکلر بھی پکڑا گیا تھا جس میں کئی سال پہلے یہودیوں کی ایگزیکٹو انجمن نے ایک پروگرام شائع کیا تھا۔ یہ پروگرام ۱۹۱۱ء میں شائع ہوا تھا اور اس پروگرام میں یہ بتایا گیا تھا کہ روسی حکومت کی حالت ایسی کمزور ہو رہی ہے کہ جلدی ہی وہاں ایک انقلاب رونما ہوگا۔ پس یہودی سرمایہ داروں اور کارخانہ داروں کو چاہئے کہ وہ اس انقلاب کی مدد کریں اور یہودی مصنفوں کو چاہئے کہ وہ اس انقلاب کی تائید میں اور اس انقلاب کو طاقت دینے کیلئے تصانیف شائع کریں۔ روسی انقلاب کے بعد روسی حکومت کی امداد سے یہودیوں کو فلسطین کی طرف آگے بڑھنا چاہئے۔ یہ پمفلٹ ایک پادری کے قبضہ میں آیا جس نے اس پمفلٹ کو یورپ کے بعض اخبارات میں شائع کرایا لیکن اسے ایک فریب اور یہودیوں کے خلاف سازش قرار دے کر قابل اعتناء نہ سمجھا گیا۔ ۱۹۱۷ء میں جب بغاوت ہوئی اور بالشویک پارٹی آگے آئی تو اُس وقت اس کے ممبروں میں ایک معتدبہ حصہ یہودیوں کا دیکھ کر پھر بعض لوگوں نے اس پمفلٹ کی طرف توجہ دلائی اور یہ آواز اُٹھائی کہ وہی سکیم اِس موجودہ بغاوت میں کام کرتی نظر آتی ہے لیکن اس وقت انگلستان کی مالی حالت خراب تھی اور یہودی سرمایہ داروں کی امداد کا خواہاں تھا اور امریکہ کا پریذیڈنٹ ڈاکٹر وِلسن ۳۳؎ دو ہی سال بعد اپنے انتخاب کے لئے یہودی ووٹوں اور یہودیوں کی تائید کا محتاج تھا اس لئے اس آواز کو مصلحتاً دبا دیا گیا اور اس اختلاف کی خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ انگلستان اور امریکہ کی متحدہ کوششیں کامیاب ہوگئیں اور یہ آواز ایک دفعہ پھر دَب گئی اور دنیا کو ایک دفعہ پھر تھپکیاں دے کر سُلا دیا گیا۔ اس وقت روس کی طاقت بالکل کمزور تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ یہ کوشش اگر صحیح بھی ہے تو نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی اس لئے ایک کمزور جدوجہد کو دبانے کے لئے ایک طاقتور قوم کو اپنے خلاف کر لینا عقل کے خلاف ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ سکیم آہستہ آہستہ روس میں طاقت پکڑتی گئی۔ آج سے دس سال پہلے روس میں یہودیوں کے خلاف بھی ایک رَو پیدا ہوئی لیکن اس کی حیثیت پارٹی پالیٹکس سے زیادہ نہیں تھی۔ سٹالن ۳۴؎ اصل میں یہودی ہے اسی طرح اور کئی سوویٹ لیڈر یہودی ہیں کچھ ایسی پارٹیاں بھی روس میں ہیں جو سٹالن اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ہیں وہ کبھی کبھی یہ آواز اُٹھاتی ہیں کہ موجودہ گورنمنٹ یہودیوں کی تائید کرتی ہے اور جب یہ آواز ذرا بلند ہونے لگتی ہے تو سوویٹ گورنمنٹ ظاہرداری کے طور پر یہودیوں کو کسی قدر دبا دیتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سوویٹ گورنمنٹ خود اس سکیم کی تائید میں ہے لیکن ہم یہ یقینا کہہ سکتے ہیں کہ سوویٹ گورنمنٹ اس تحریک سے فائدہ ضرور اُٹھانا چاہتی ہے۔ سوویٹ گورنمنٹ کی یہ سوچی ہوئی اور فیصلہ شدہ سکیم ہے کہ وہ کسی طرح میڈی ٹرینین (Medi Terranean) پر قبضہ کرے۔ میڈی ٹرینین پر قبضہ کرنے کے بعد انگلستان اور امریکہ کا تصرف ایشیا پربالکل ختم ہو جاتا ہے اور مشرقی یورپ اور ایشیا پر اثر پیدا کر لینے کے بعد مغربی یورپ اور امریکہ کی طاقت بالکل ٹوٹ جاتی ہے۔ مشرقِ وسطی پر قابض روس کا مقابلہ افریقہ کے بہت کم آبادی والے علاقے کر ہی کیا سکتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ افریقہ کے ساحلوں پر قبضہ کرنے کے بعد روس اس قابل ہوگا کہ وہ امریکہ کے دل کے سامنے اپنا خنجر نکال کر کھڑا ہو جائے اور امریکہ کی نقل و حرکت کے رستوں کو مسدود کر دے۔ ان سکیموں کے خلاف روسی لیڈر خواہ یہودی تحریک کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں اگر کسی صورت میں بھی مشرقِ وسطی میں یہودیوں کی طاقت انہیں فائدہ پہنچا سکتی ہو تو وہ لازماً یہودی منصوبوں کو نظر انداز کرتے ہوئے یہودیوں کی حکومت کے قیام میں پوری مدد کریں گے اور وہ ایسا کر بھی رہے ہیں۔ مگر ایسی راہوں سے کہ ان کی تدبیریں ضائع نہ ہو جائیں اور وہ یہودیوں کے ہاتھ میں نہ کھیلیں بلکہ یہودی ان کے ہاتھ میں کھیلیں۔ چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرقی جرمنی، پولینڈ، رومانیہ، بلغاریہ اور زیکوسلویکیا کے یہودیوں کو کوئی سال بھر تک روسی ایجنٹوں نے اپنے ڈھب پر لانے کی کوشش کی اور جب وہ لوگ روسی پروپیگنڈا سے متأثر ہوگئے اور ان کی ہمدردیاں روسی مقاصد کے ساتھ وابستہ ہوگئیں تو روس نے اُن کو اس روپیہ سے امداد دے کر جو جرمن اور آسٹرین سے انہوں نے لوٹا تھا اور جو زیادہ تر اُن نوٹوں پر مشتمل تھا جو ان ممالک میں انگریزوں اور امریکنوں نے اپنے پروپیگنڈہ کی خاطر پھیلائے تھے اُنہیں مغربی یورپ کے طرف دھکیلنا شروع کیا۔ وہ لوگ ظاہر یہ کرتے تھے کہ روس کے مظالم سے تنگ آ کر وہ مغربی ممالک کی طرف بھاگ رہے ہیں جہاں سے وہ فلسطین جائیں گے۔ بعض لوگوں نے روسیوں کی اس چالاکی کو سمجھ لیا چنانچہ وہ امریکن جرنیل جو اُس وقت یورپ کی دوبارہ آبادی کے کام پر یو۔ این۔ اے کی طرف سے مقرر تھا اس نے ایک اخباری نمائندہ کے سامنے اس خیال کا اظہار کیا کہ ہزاروں یہودی اس کے علاقے سے بھاگتے ہوئے مغربی یورپ کی طرف آرہے ہیں اور یہ بیان کرتے ہیں کہ اُن کو روسیوں نے لوٹ لیا ہے اور ان کے ظلموں سے تنگ آ کر وہ اِدھر بھاگے ہیں لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ان کے بٹوے روپوں سے بھرے ہوئے ہیں اور ایسے روپیہ سے بھرے ہوئے ہیں جو صرف روسی حکومت ہی اُن کو دے سکتی تھی اس لئے یہ ہجرت دیانتدارانہ ہجرت نہیں بلکہ اس کے پیچھے کوئی اور سکیم مخفی ہے۔ امریکن جرنیل کے اس بیان پر روسی مقبوضہ جرمنی کے کمانڈر اور روس کے بہت سے سیاسی افسروں نے بڑے زور سے پروٹیسٹ کیا اور اس پر اتنا شور پڑا کہ یو۔ این۔ اے کی تقسیم امداد کی انجمن کو اُس جرنیل کے خلاف ایکشن لینا پڑا لیکن چونکہ وہ جرنیل بہت بارسوخ تھا اُس نے اپنی عزت بچانے کیلئے کچھ مدت کی مہلت حاصل کر لی اور چند مہینوں کے بعد خود ہی کام سے الگ ہو گیا مگر اس نے اتنی ہمت ضرور کی کہ اپنے بیان کو واپس لینے سے انکار کر دیا لیکن روسی پروپیگنڈا کی وجہ سے امریکن گورنمنٹ کے نمائندوں کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ اس جرنیل کا یہ بیان کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ اُدھر سے آرہے ہیں درست معلوم نہیں ہوتا مگر یہ واقعہ درست تھا اور یہ تحریک ضرور جاری تھی۔ ذرا سے غور سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ تحریک کیوں جاری کی گئی تھی۔ اس کے جاری کرنے کی اس کے سِوا اور کوئی غرض نہ تھی کہ بالشویک خیالات سے متأثر یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعداد فلسطین میں آباد کرا دی جائے تا کہ آئندہ فلسطین روس کے ساتھ متحد ہو اور روس کو فلسطین میں پاؤں جمانے کا موقع مل جائے۔ روس سے براہِ راست اس قسم کی جماعتیں بھجوانے کا نتیجہ یہ ہوتا کہ لوگوں کی توجہ فوراً اس راز کی طرف مائل ہو جاتی اس لئے تجویز یہ کی گئی کہ پہلے وہ لوگ اپنے آپ کو روسی ظلموں کا شکار قرار دے کر مغربی یورپ میں جائیں اور پھر وہاں سے فلسطین کی طرف ہجرت کریں تا کہ لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو سکے کہ ان کی نقل و حرکت کسی روسی سکیم کے ماتحت ہے۔ ان لوگوں نے جب فرانس، اٹلی اور جرمنی کے مغربی حصوں کی طرف سے فلسطین کی طرف یورش کی تو انگریزوں نے سمجھ لیا کہ یہ لوگ فلسطین میں جا کر ہمارے خلاف منصوبہ بازی کریں گے اس لئے اُنہوں نے ایسے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر جزیرہ سائپرس میں قید کرنا شروع کر دیا اور اس وجہ سے یہودیوں کو عام طور پر اور ان لوگوں کو خصوصیت کے ساتھ برطانوی حکومت سے بغض پیدا ہو گیا۔
دوسرا رُخ اس کشمکش کا یہ ہے کہ امریکہ کی اقتصادی مشین بہت حد تک یہودیوں کے قبضہ میں ہے چونکہ امریکہ ایک نوآبادی ہے اور نو آبادیوں میں ہر قسم کے لوگ کثرت سے آ کر بس سکتے ہیں اور اپنے وطن کو وہی لوگ زیادہ تر چھوڑتے ہیں جن کو اپنے وطن میں تکالیف ہوں اس لئے یورپ کے جن مُلکوں میں یہودیوں کو تکلیفیں پہنچی تھیں وہ وہاں سے ہجرت کر کے امریکہ میں چلے جاتے تھے اور چونکہ امریکہ نے ہر مُلک کے مہاجرین کے لئے ایک کوٹہ مقرر کر دیا تھا اور چونکہ یہودی یورپ کے تمام ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اس لئے جب کہ جرمن، ایٹلین، فرانسیسی، انگریزوں، ڈچوں اور دوسرے ممالک کے لئے ہجرت میں روکیں اور حد بندیاں تھیں یہودی بوجہ سارے مُلکوں میں پھیلے ہونے کے سب مُلکوں کے کوٹہ سے فائدہ اُٹھاتے تھے اس لئے دوسری ساری قوموں کی نسبت یہودیوں کا داخلہ امریکہ میں زیادہ سرعت اور زیادہ تعداد میں ہو رہا تھا پس یہودیوں کا قبضہ دوسری قوموں کی نسبت امریکہ میں زیادہ تھا۔ علاوہ اس کے کہ باہر کی قوموں میں سے نئی آنے والی قوموں میں ان کو بڑی کثرت حاصل ہے وہ تجارتی طور پر بھی امریکہ کی منڈیوں پر بڑا قبضہ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودی کبھی بھی نیشنلسٹ خیالات کا نہیں ہوا۔ یہودی دماغ ہمیشہ قومیت کی طرف راغب رہا ہے اس لئے کسی مُلک کا فرد ہونے کی وجہ سے وہ اپنی قومی ذمہ داریوں کو بھول نہیں جاتا۔ ایک امریکہ کو جانے والا انگریز ایک دو نسلوں میں انگلستان کو بھول جاتا ہے۔ اسی طرح ایک جرمن اور ایک ایٹلین بھی لیکن ایک یہودی ایک ہزار سال میں بھی اپنے یہودی ہونے کو نہیں بھولتا۔ سینکڑوں سال کے بعد بھی اگر امریکہ کے ایک یہودی کو جرمن کا ایک یہودی ملتا ہے تو وہ اُس کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے بہ نسبت امریکہ کے رہنے والے شخص کے۔ اِس وجہ سے یہودی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر کے ہمیشہ بین الاقوامی منڈیوں پر قابض رہے ہیں اِن کی اس طاقت کی وجہ سے بھی امریکن یہودیوں کی طاقت بڑھ گئی ہے۔ پس ان کی مدد حاصل کرنے کیلئے امریکن حکومتوں نے یکے بعد دیگرے یہودیوں کی فلسطین کو یہودی آبادی بنانے کی سکیم کی تائید کرنی شروع کی۔ پہلے تو یہ تائید صرف اپنے لوکل حالات کی وجہ سے تھی لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد جب امریکنوں نے دیکھا کہ انگریزوں کی طاقت کمزور ہوگئی ہے اور وہ اپنی دور کی چھاؤنیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے اور اس وجہ سے بعض ممالک میں خصوصاً مشرقِ وسطی میں روسیوں کے تصرف کے بڑھ جانے کا خطرہ ہے تو اُنہوں نے فلسطین میں یہودیوں کے آباد کرانے کی سکیم کی خاص طور پر تائید کرنی شروع کر دی۔ اس خیال سے کہ چونکہ یہودی ہمارے ممنونِ احسان ہیں اور فلسطین کی نو آبادی کے ترقی دینے میں امریکہ کے روپیہ کا خاص حصہ ہے اس لئے اگر کبھی عرب ممالک روس کی طرف مائل ہوئے تو یہودیوں کی یہ چھاؤنی امریکہ کی فوجوں کے لئے ایک کارآمد اڈہ ثابت ہوگی۔ اس طرح دو متضاد چلنے والی نہریں قدرتی حالات کی مجبوری سے ایک ہی سمت بہنے لگیں۔ روس جو کچھ ہی عرصہ پہلے عربوں کی تائید کر رہا تھا اس نے یہ محسوس کیا کہ فلسطین میں اس کے بھجوائے ہوئے یہودیوں کی کافی تعداد پہنچ چکی ہے اور کچھ نئے یہودی اس نے اپنے مُلک سے بھجوانے کے لئے بھی تیار کر لئے جیسا کہ یو۔ این۔ اے میں مصری نمائندہ کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوڈیسا ۳۵؎ میں بہت سے یہودی نما یہودی فلسطین میں آنے کے لئے جمع ہو رہے ہیں (یہودی نما یہودیوں سے مصری نمائندہ کا یہ منشاء ہے کہ ان میں سے بعض جھوٹے بنائے ہوئے یہودی ہیں اصلی یہودی نہیں) بہرحال روس نے چند مہینے پہلے تو یہودیوں کی اس لئے مخالفت کی تا کہ لوگوں کو یہ شبہ نہ ہو کہ روس فلسطین کے یہودیوں سے کچھ کام لینا چاہتا ہے اور اپنے ہم خیال لوگوں کو فلسطین میں داخل کر رہا ہے اور عرب لوگ اِس دھوکا میں رہے کہ روس ان کی امداد کر رہا ہے۔ جب اس نے یہ دیکھاکہ کافی تعداد ایسے یہودیوں کی فلسطین میں گھس گئی ہے جو روسی اثر کو غالب کر سکتے ہیں تو اس نے یکدم اپنی روش بدل لی او رعربوں کی بجائے یہودیوں کی تائید کرنی شروع کر دی۔ اِدھر امریکہ والے بھی یہ سمجھتے ہوئے کہ فلسطین تو انہی کے روپیہ سے ترقی کر رہا ہے اگر یہودی حکومت الگ بنی تو وہ یقینا امریکہ ہی کی مدد کرے گی، یہودیوں کی علیحدہ حکومت کے قیام کی تائیدمیں بڑھتے چلے گئے۔ بظاہر دونوں حکومتیں ایک مقصد کی حمایت کر رہی ہیں لیکن دونوں حکومتیں اس لئے اس ایک مقصد کی حمایت کر رہی ہیں کہ روس سمجھتا ہے کہ اب میرا کافی اثر فلسطین پر ہو چکا ہے اور میں فلسطین سے اپنی مرضی کا کام لے سکتا ہوں اور امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ فلسطین کی تمام ترقی میری ہی امداد پر منحصر ہے اس لئے میں جس طرح چاہوں گا فلسطین کی یہودی آبادی سے کام لوں گا۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ دونوں میں سے کس کا اندازہ صحیح ہے۔ بہرحال دونوں کا مقصد ایک ہے گو ایک دوسرے کے خلاف ہے۔ دونوں ہی قوموں کا مقصد یہ ہے کہ فلسطین کو دوسری قوم سے جنگ کے وقت اپنے اڈہ کے طور پر استعمال کریں۔ روس یہ خیال کرتا ہے کہ میری تدبیر کامیاب ہوچکی اور اب فلسطین کا اڈہ میرے کام آئے گا اور امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ میری سکیم زیادہ مؤثر ہے اور فلسطین کا یہودی مجھ سے آزاد ہو کر روس کی طرف نہیں جا سکتا۔ انگریز یہ دیکھ رہا ہے اس کا مقام ان دونوں سکیموں میں کہیں بھی نہیں اس لئے اب وہ فلسطین کی تقسیم کا مخالف ہو رہا ہے لیکن امریکہ کے ڈر کے مارے مخالفت کر بھی نہیں سکتا اس لئے وہ غیرجانبدارانہ حیثیت اختیار کر رہا ہے مگر اوپر کی تفاصیل سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ درحقیقت سب نفسا نفسی کی مرض میں مبتلا ہیں عربوں اور مسلمانوں سے کسی کو ہمدردی نہیں ہے مسلمان صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے اور اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پاکستان میں عالمگیر اسلامی تنظیم کا قیام
ہمیں یہ سن کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ لاہور میں ممُلکت پاکستان کی پہلی
عالمگیر اسلامی تنظیم اسلامک ورلڈ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے نام سے قیام پذیر ہوئی ہے جس کا مقصد دنیا کے تمام اسلامی ممالک میں ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی مراسم کا استحکام ہوگا۔
اس قسم کی تنظیم کا قیام آج سے مدتوں پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ کئی اسلامی مفکر اس قسم کی تنظیم کی ضرورت دیر سے محسوس کر رہے تھے اور بعض نے انفرادی طور پر کوششیں بھی کیں لیکن عالَم اسلام کے مختلف اجزاء کے اضطرابی ماحول نے جو مغربی اقوام کی ریشہ دوانیوں اور زیادہ تر خود مسلمانوں کی ذاتی کمزوریوں کا نتیجہ ہے ان انفرادی کوششوں کو کبھی بارآور ہونے نہیں دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ انجمن ان مقاصد کے حصول کے لئے جو اس نے اپنے سامنے رکھے ہیں پورے انہماک سے جدوجہد کرے تو تھوڑی مدت میں تمام اسلامی دنیا ایک نہایت پائیدار اور مضبوط رشتہ میں منسلک ہوسکتی ہے اور ایک ایسا ٹھوس اور ناقابلِ ہزیمت وجود بن سکتی ہے کہ جس کو دنیا کی تمام مخالف طاقتیں بھی مل کر ہِلا نہیں سکتیں اگر اس کام کا بیڑا اُٹھانے والوں نے استقلال اور ہمت سے کام لیا تو اس کی کامیابی یقینی ہے۔
ہمیں امید ہے کہ ایسوسی ایشن کا آئین مرتب کرنے کیلئے جو ابتدائی کمیٹی مقرر کی گئی ہے وہ آئین مرتب کرتے وقت نہایت وُسعت نظر اور کشادہ دِلی سے کام لیتے ہوئے اپنے میدانِ عمل کو مسلمان اقوام کے ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی مقاصد کے رشتۂ اشتراک کو مضبوط و مربوط کرنے تک ہی محدود رکھے گی اور اعتقادات کے فردی اختلافات کو اپنے راستہ میں حائل نہیں ہونے دے گی۔ اسلام میں عقیدۂ توحید ایک ایسی چٹانی بنیاد ہے کہ جس پر اتحادِ باہمی کی عمارت اُٹھانا کچھ بھی مشکل نہیں۔
اِس وقت تمام دنیا کے مسلمان کچھ ایسے مشترکہ مصائب میں گرفتار ہیں کہ ان سے نجات حاصل کرنا بغیر تمام اسلامی اقوام کے اشتراکِ عمل کے ممکن نہیں۔ کبھی وہ زمانہ تھا کہ اسلامی مساوات اور اسلامی طور و طریق کی یکسانی اور آپس میں میل جول کی آسانیاں غیروں سے تحسین و ستائش کا خراج حاصل کرتی تھیں جس کے مٹے ہوئے آثار اب بھی کہیں کہیں نظر آسکتے ہیں لیکن موجودہ قیامت خیز حالات نے کچھ ایسی نفسانفسی کا عالَم پیدا کر دیا ہے کہ ہم نے وہ تمام باتیں فراموش کر دی ہیں جو انسان کو انسان سے قریب کرنے والی ہم کو اسلام نے عطا کی تھیں اور ہم ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ ہو کر رہ گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ باطل پرست طاقتیں یکے بعد دیگرے سب کو نگلتی چلی جا رہی ہیں۔
(الفضل لاہور ۲۷؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مسلم لیگ پنجاب کا نیا پروگرام
ہم پہلے بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکے ہیں کہ بے سوچے سمجھے قوم کے اوپر کسی پروگرام کا ٹھونسا عقل اور دانائی کا طریق نہیں ہوتا۔ اب پھر ایک دفعہ ہم وزارت پنجاب اور تمام مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ یہ راہ نہایت ہی خطرناک اور مُہلک ہے اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمارے قومی کارکنوں کو یہ بات تو بُری لگے گی لیکن مسلمانوں کے فائدہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس تلخ سچائی کے کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اِس وقت پنجاب کی حکومت کی عنان ہے وہ ابھی معمولی ادارے چلانے کا تجربہ نہیں رکھتے بڑی بڑی سکیموں کے ایجاد کرنے اور ان کو چلانے کا سوال تو بالکل الگ ہے۔ انگریز جس حالت میں حکومت کی مشینری چھوڑ کر گیا تھا آج اُس سے بہت بدتر حالت میںہے۔ پنجاب کا تعلیم یافتہ طبقہ ہی نہیںبلکہ حکومت پاکستان کے بڑے بڑے ذمہ دار افسر بھی یہ شکایت کر رہے ہیں کہ پنجاب کاانتظام خرابی کی طرف جا رہا ہے اور اسکے ذمہ دار افسر اصلاح کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ سندھ کی گورنمنٹ بدنام چلی آتی تھی مگر سندھ کی حالت پنجاب سے بہت بہتر ہے اور اسی طرح صوبہ سرحد کی حالت پنجاب سے بہتر ہے اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ سندھ اور صوبہ سرحد نئے نئے تجربے کرنے کی طرف متوجہ نہیں۔ وہ عملی جدوجہد کے ساتھ اصلاح کر کے مُلک کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور چونکہ اصلاح کا پہلا قدم یہی ہوا کرتا ہے۔ اس لئے وہ پنجاب کی نسبت زیادہ کامیاب ہیں۔ سندھ کے روئی کے کارخانے مدت ہوئی چل چکے اور بعض کارخانے تو اب کام ختم کرکے بند بھی ہونے والے ہیں۔ کئی کارخانے دسمبر کے آخر تک اپنا کام ختم کر دیں گے لیکن پنجاب میں ابھی روز اوّل ہے ٹھیکے ابھی تقسیم نہیں کئے گئے اور بند دُکانیں ابھی کھولی نہیں گئیں۔ خفیہ طور پر ہندو تاجروں سے سمجھوتے کئے جا رہے ہیں کہ کسی طرح وہ واپس آ کر پھر اپنے کام سنبھال لیں اور لیگ اور حکومت پنجاب کے ذمہ دار حُکّام اپنی پرائیویٹ مجلسوں میں اس بات کا اقرار کر رہے ہیں بلکہ بعض تو پلیٹ فارم پر بھی اس کا اعلان کر چکے ہیں کہ ہندوؤں نے پھر آ کر کام شروع نہ کیا تو پاکستان کی مالی حالت بالکل تباہ ہو جائے گی۔ ایک طرف تو یہ حالت ہے کہ جو کام پہلے سے چل رہے تھے اُنہی کو سنبھالا نہیں جا سکتا اور وہ خلا جو ہندوؤں کے بھاگ جانے سے پیداہو چکا ہے اُس کا ۱۰۰؍۱ حصہ بھی اِس وقت تک پُر نہیں ہوا۔ بنکوں کی بزنس رُکی ہوئی ہے لوگ چیک لئے پھرتے ہیں اور اُن کو توڑنے والا کوئی نہیں۔ بنک شکایت کرتے ہیں کہ ہمیں ٹرینڈ آدمی نہیں مل رہے۔ کارخانوں والے رو رہے ہیں کہ اوّل تو مشینری لوگوں نے اِدھر اُدھر کر لی ہے دوسرے کارخانوں کے نام بدل کر جھوٹی فہرستیں تیار کر لی گئی ہیں۔ اصل کارخانہ کا سامان تو اِدھر اُدھر کر دیا گیا ہے، جھوٹے نام کا کارخانہ جب انڈسٹریل ڈیپارٹمنٹ کسی کو تقسیم کرتا ہے تو وہاں انسٹرکٹر آف انڈسٹریل لکھ دیتا ہے کہ اس نام کا کوئی کارخانہ ہے ہی نہیں۔ دو مہینے خراب کرنے کے بعد یہ جواب جتنا دل شکن اور ساتھ ہی آنکھیں کھولنے والا ہے اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جو بے چینی ان حالات سے پیدا ہو رہی ہے اس کا علاج نئی نئی سکیموں سے کرنا بالکل غلط طریق اور قوم کے لئے مُہلک ہے۔ پہلے اُن رخنوں کو بھرنا چاہئے جو مُلک کی اقتصادی حالت میں پیدا ہو چکے ہیں۔ جو کارخانے اور جو صنعتیں اور جو تجارتیں ہندوؤں کے پاس تھیں اگر وہ مسلمان سنبھال لیں اور صحیح طور پر ان کے ٹیکسوں کی تشخیص ہو جائے تو صوبہ جاتی حکومتوں اور مرکزی حکومت کی مالی حالت نہایت ہی شاندار ہو جاتی ہے۔ اِس وقت صنعتی کارخانوں کو مُلکی اور قومی بنانے کی سکیمیں ایسی ہیں جیسا کہ کسی شخص کا مکان ٹپک رہا ہو اور وہ بجائے چھت پر تین چار ٹوکریاں مٹی ڈال کر اپنے بیوی بچوںکو اور اپنے اسباب کو ضرر سے بچانے کے کسی انجنیئر کی طرف دوڑ جائے کہ ہم آئندہ ایک کوٹھی تیار کریں گے اس کا نقشہ کیسا ہونا چاہئے اور کس کس قسم کا میٹریل اس میں ہونا چاہئے۔ جو کچھ خدا نے دے رکھا ہے پہلے اُس کو سنبھالو وہ ہاتھوں سے نکل رہا ہے اور اقتصادی نظام تہہ و بالا ہو رہا ہے۔ جو کام ہندو افراد آج سے پہلے پنجاب میں کر رہے تھے اور جو یورپین کاموں کے مقابلہ میں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا جب وہی کام نہیں سنبھالا جا سکتا تو آئندہ ان کی تعمیروں کے خواب دیکھنا جو تعمیریں کہ بیسیوں سال کی کشمکش اور جدوجہد اور غور وفکر کے بعد یورپ کے فلاسفر اب کھڑی کرنے لگے ہیں اور جس کی خوبی کا مغرب کا کثیر حصہ بھی ابھی قائل نہیں ہوا اور اس کے مُلک کے لئے مضر ہونے پر مصر ہے کہاں تک معقول کہا جا سکتا ہے اور کہاں تک مُلک کے مفاد کے مطابق ہو سکتا ہے۔مُلک کی اہم صنعتوں کی اصطلاح بھی ایک نہایت پیچیدہ اصطلاح ہے۔ یورپ کی چند مغربی کتابوں میںاہم صنعتوں کی اصطلاح پڑھ کر لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ شاید اہم صنعتوں کی اصطلاح چند مخصوص صنعتوں کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے حالانکہ یہ درست نہیں۔ ہر مُلک کی اہم صنعتیں الگ الگ ہیں اور اہم صنعتوں کا فیصلہ کرنا آسان کام نہیں۔ اہم صنعتوں کا فیصلہ ہوائی، بحری اور برّی فوجوں کے بڑے افسر اور ان کے اقتصادی مشیر مرکز اور صوبہ جات کے مالی افسروں اور پبلک کے اقتصادی ماہروں کے ساتھ مل کر کیا کرتے ہیں۔ ہر مُلک کی اہم صنعتیں دوسرے مُلک کی اہم صنعتوں سے مختلف ہوا کرتی ہیں۔ اہم صنعت کی کوئی ایسی جامع مانع تعریف نہیں ہے جو ہر مُلک پر یکساں چسپاں ہو سکے۔ مغربی ممالک کے اقتصادی ماہر اس ابتدائی نکتہ کو سمجھتے ہیں مگر ہمارے مُلک کی بدقسمتی ہے کہ ہم حقیقت کو سمجھے بغیر صرف الفاظ کے پیچھے چل پڑتے ہیں جس طرح ہمارے مُلک کا عامل نعرے لگا کر یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے دشمن کو قتل کر دینے اور مار دینے میں کامیاب ہو گیا ہے اور موچی دروازہ کے باہر کی میٹنگ میں جو اس نے شور کیا ہے اس شور کی وجہ سے اس کی قوم ہر ایک خطرہ سے محفوظ ہوگئی ہے اسی طرح ہمارے مُلک کا لیڈر یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے یورپ کی کوئی کتاب پڑھ لی ہے یا اس نے بعض اخباروں کا مطالعہ کیا ہے اور اس میں سے بعض الفاظ جو اِس وقت مغرب میں یا مغرب کے ایک طبقہ میں مقبول ہو رہے ہیں اسے پسند آ گئے ہیں خصوصاً اس حال میںکہ کالج کے ناتجربہ کار طلباء بھی ان الفاظ کی خوبصورتی سے متأثر ہو کر موقع اور بے موقع ان الفاظ کو استعمال کرنے لگ گئے ہیں تو ان الفاظ کو اپنے پروگرام میں شامل کر دینا گویا مُلک کی ترقی کا راستہ کھول دینا ہے۔ ہماری اس حالت پر خدا ہی رحم کرے ہماری گاڑی دریا کے منجدھار میں پھنسی ہوئی ہے ہم اس گاڑی کو اس دریا سے نکالنے کی کوشش تو نہیں کر رہے اور دو سَو میل کے فاصلہ پر ایک بجلی سے چلنے والی ریل کی سکیم بنا رہے ہیں۔ جس ریل کے چلانے کے لئے جو مشکلات پیش آتی ہیں ہم ان سے ذرا بھی واقفیت نہیں رکھتے نہ ہماری قوم ان مشکلات سے کوئی واقفیت رکھتی ہے کہ وہ صحیح فیصلہ ہمارے لئے کر سکے۔ مگر ہم ہیں کہ اِس وقت جب کہ گاڑی دریا کی تیز دھار کی مار سے اُلٹنے والی ہے ہماری بیوی اور بچے خوف سے چیخیں مار رہے ہیں۔ بیلوںکے جسم ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہے ہیں، اپنے خیالی پلاؤ کے مزے اُڑا رہے ہیں اور گردوپیش کے تمام خطرات سے آنکھیںبند کر کے مزے سے سر ہِلا رہے اور چٹکیاں بجا رہے ہیں۔
(الفضل لاہور ۲۹؍ نومبر ۱۹۴۷ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کشمیر کے متعلق صلح کی کوشش
آج کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کے متعلق صلح کی گفتگو ہو رہی ہے اور یہ بھی انہی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی میں شیخ عبداللہ صاحب کو اس غرض کیلئے بلایا گیا ہے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صلح اس اصول پر ہو رہی ہے کہ پاکستان زور دے کر قبائلی لوگوں کو واپس کرا دے۔ ہندوستان کی فوج کی واپسی کا کوئی ذکر نہیں۔ مسٹر گاندھی بھی بہت خوش نظر آتے ہیں کہ صلح کے امکانات روشن ہو رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ لارڈ مونٹ بیٹن کی کوشش سے ہندوستان میں امن کے قیام کی صورت نکل آئے گی۔ شرائطِ صلح جو بتائی گئی ہیں وہ کشمیر کے مسلمانوں کے لئے نہایت خطرناک ہیں ۔ کشمیر کے مسلمانوں نے جو قربانیاں کی ہیں وہ ایسی نہیں کہ ان کو یونہی نظر انداز کر دیا جائے۔ خصوصاً پونچھ کے مسلمانوں نے سردھڑ کی بازی لگا دی ہے کوئی ایسا سمجھوتہ جو ان کے حقوق کی حفاظت نہ کرے یقینا پونچھ کے بہادر جانبازوں کی زندگی ختم کرنے والا ہوگا۔ اس جنگ کے بعد اگر کشمیر پر کوئی ایسی حکومت قابض ہوئی جو ڈوگرہ راج کے تسلسل کو جاری رکھنے والی ہوئی یا جس میں آزاد مسلمانوں کا عنصر بڑی بھاری تعداد میں نہ ہوا تو پونچھ، میرپور اور ریاسی کا بہادر مسلمان ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا وہ کسی صورت میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ خدا کرے کہ یہ خبر غلط ہو لیکن چونکہ پاکستان گورنمنٹ کی طرف سے اس کے خلاف کوئی اعلان نہیں ہوا اس لئے ہمیں شبہ ہے کہ یہ خبر اگر ساری نہیں تو کچھ حصہ اس کا ضرور سچا ہے۔ پاکستان گورنمنٹ نے بار بار اعلان کیا ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں حصہ نہیں لے رہی اور اگر یہ بات درست ہے تو پاکستان گورنمنٹ کو آزاد کشمیر تحریک کے راستہ میں روڑے اٹکانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ پبلک کی ہمدردیاں آزاد مُلکوں میں ہمیشہ ایسے ممالک کے حق میں جاتی ہیں جن سے کہ ان کا کوئی تعلق ہوتا ہے۔ انگلستان، یونائٹیڈسٹیٹس امریکہ، فرانس،جرمنی اور دوسرے ممالک باوجود اس کے کہ ان کی حکومتیں بعض حالات میں شامل نہیں ہوئیں دو جنگ کرنے والے فریق میں سے ایک کی مدد کرتی رہی ہیں۔ اگر پاکستان کی آبادی بھی اسی طرح کشمیر کی تحریک آزادی میں حصہ لینے والوں کی مدد کرے تو وہ اپنے جائز حقوق سے کام لیتی ہے اور اسے روکنے کا کسی کو حق نہیں۔ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ ملنا یا کُلّی طور پر آزاد ہونا۔ لیکن پاکستان کے ساتھ اس کے دوستانہ تعلقات کا ہونا پاکستان کی زندگی کے لئے نہایت ضروری ہے اس کے بغیر پاکستان ہرگز زندہ نہیں رہ سکتا۔ پس کوئی ایسی تجویز جو اس کے خلاف ہو وہ ہرگز پاکستان کے لئے قابل قبول نہیں ہونی چاہئے۔ پٹھانوں کو جو کشمیر کے معاملہ میں گہری دلچسپی ہے اس کے ثبوت کے طور پر کرنل شاہ پسند صاحب کا وہ خط پیش کیا جا سکتا ہے جو الفضل کے ہفتہ کے ایڈیشن میں شائع ہوچکا ہے۔ کرنل شاہ پسند صاحب اس میں لکھتے ہیں کہ ان کو اور دوسرے پٹھانوں کو کشمیر کے معاملہ میں اتنی دلچسپی اور اتنا گہرا تعلق ہے کہ وہ اور ان کی قوم ان مظالم کو کسی صورت میں بھی بھولنے کیلئے تیار نہیں جو ڈوگرہ راج کی طرف سے مسلمانوں پر کئے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ اس جنگ میں ہمیں فتح ہوگی یا شکست لیکن ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ چاہے سال دو سال یا تین سال لگ جائیں ہم کشمیر کی تحریکِ آزادی کی امداد کو ترک نہیں کریں گے۔ اُنہوں نے اس راز کو بھی افشاء کیا ہے کہ دو سال پہلے خود اُن کو بھی بیس ہزار روپے کی ایک پیشکش کی گئی تھی جس کو اُنہوں نے ٹھکرا دیا اور یہ کہ فقیر ایپی صاحب نے بھی ان کو کانگرس کے حق میں کرنے کی کوشش کی تھی اور قائد اعظم مسٹر جناح کے خلاف اُکسایا تھا کہ وہ ایک شیعہ ہیں اور تم ایک شیعہ کی اتباع کیوں کرتے ہو۔ کرنل شاہ پسند صاحب ایک مشہور فوجی جرنیل ہیں اور ان کا یہ خط ایک بہادر جرنیل کے خیالات کا آئینہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ اُنہوں نے لکھا ہے وہ ان کے دلی جذبات کا اظہار ہے اور اس میں کسی قسم کی بناوٹ اور تکلّف نہیںہے۔ کرنل شاہ پسند صاحب نے جو خیالات ظاہر کئے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ مہمندوں اور آفریدیوں کے خیالات بھی ایسے ہی ہونگے۔ یہ لوگ ہماری سرحدوں کے محافظ ہیں اور ان کے جذبات کا خیال رکھنا ہمارے لئے ضروری ہے۔ پٹھانوں کی جانیں جس طرح بمبئی اور جالندھر اور لدھیانہ میں لی گئی ہیں اور ہندوستان کے بعض اور مقامات میں جس طرح ان کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی گئی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے پٹھان کبھی بھی تسلی نہیں پا سکتے کہ اس قسم کے ظالم لوگ ان کی سرحد پر آ بسیں اور ان کے معاملات میں دخل اندازی کرتے رہیں۔ پس کسی قسم کی صلح کی گفتگو سے پہلے پٹھان قبائل سے رائے لینا نہایت ضروری ہے۔ پٹھان قبائل کچھ تو آزاد ہیں اور کچھ نیم آزاد اور ان کا تعلق پاکستان سے ایک رنگ میں اتحادی تعلق ہے۔ دنیا کی حکومتیں کبھی بھی اپنے اتحادیوں سے رائے لئے بغیر کوئی قدم نہیں اُٹھایا کرتیں کیونکہ اگر وہ ایسا کریں تو پھر اتحاد بے معنی ہو جاتا ہے اور اس سے نیک نتائج کا پیدا ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح گو کشمیر کی آزاد تحریک کو اس وقت تک پاکستان نے تسلیم نہیں کیا لیکن اس سے مشورہ لینا بین الاقوامی قانون کے خلاف نہیں۔ حال ہی میں سپین کی ایسی حکومت جس کے پاس سپین کے مُلک کا ایک انچ بھی نہیں ہے، اس کے ایک وزیر کو حکومت برطانیہ کے بعض عہدہ داروں نے بُلایا اور اس سے مشورہ لیا۔ سپین کی گورنمنٹ نے اس پر احتجاج بھی کیا لیکن حکومت برطانیہ نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ اس سے پہلے اسی آزاد حکومت سے فرانس کے وزراء مشورے کر چکے ہیں۔ پس گو کشمیر کی آزاد حکومت پاکستان کے نزدیک ایک تسلیم شدہ حکومتِ نہیں لیکن سیاسی رواج کے مطابق ان سے غیر آئینی گفتگو کرنا پاکستان کے لئے منع نہیں اور کشمیر کے متعلق کسی فیصلہ سے پہلے ان لوگوں کے خیالات کا معلوم کرنا نہایت ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کشمیر کی آبادی کا وہ حصہ جو شیخ عبداللہ کے ساتھ ہے وہ تو پہلے ہی پاکستان کا مخالف ہے، اس غلطی کی وجہ سے وہ حصہ بھی مخالف ہو جائے گا جو اِس وقت پاکستان کے حق میں ہے اور پاکستان کی سرحد نہ صرف حکومت کے تعلقات کے لحاظ سے بلکہ رعایا کے تعلقات کے لحاظ سے بھی غیر محفوظ ہو جائے گی۔ ہم پھر یہ کہہ دینا چاہتے ہیں کہ اِس وقت تک جو خبریں ہیں وہ غیر سرکاری ہیں ممکن ہے وہ جھوٹی ہوں اور خدا کرے وہ جھوٹی ہوں لیکن چونکہ یہ خطرہ ہے کہ ان کے اندر کوئی سچائی بھی پائی جاتی ہو اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم وقت سے پہلے حکومت اور پبلک کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلا دیں۔ بڑے بڑے سمجھ دار بعض دفعہ غلطیاں کر جاتے ہیں اور حکومت کے وزراء کا اندرونی اور بیرونی حالات سے واقف ہونا اس بات کی ضمانت نہیں ہوتا کہ وہ کبھی غلطی نہیں کریں گے جمہوری حکومتوں میں اخبارات کا یہ حق سمجھا جاتا ہے کہ وہ حکومت کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلائیں۔ کبھی اخبارات حق پر ہوتے ہیں اور کبھی حکومت حق پر ہوتی ہے اِن دونوں کی آزادانہ رائے ایک دوسرے کی رائے کی اصلاح کر کے مُلک کی بہتری کا موجب ہوتی رہتی ہے۔ پس ہم اپنا فرض ادا کر رہے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت ہمارے مخلصانہ خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ایسی غلطی نہیں کرے گی جو آئندہ پاکستان کے لئے نقصان کا موجب ہو جائے اور جس کی وجہ سے کشمیر اور صوبہ سرحد کے مسلمانوں سے اس کے تعلقات بگڑ جائیں۔ پاکستان اس سے پہلے کشمیر کے متعلق یہ تجویز پیش کر چکا ہے کہ ہندوستان یونین کی فوجیں وہاں سے واپس بُلا لی جائیں اور ادھر پاکستان اپنا اثر اور رسوخ استعمال کر کے افغان قبائل کو وہاں سے واپس لوٹنے پر مجبور کرے۔ اس کے بعد ایک آزاد ماحول کے ماتحت ریاست کشمیر اور جموں کے لوگوں سے رائے لی جائے۔ پھر جس طرف ان کی اکثریت ہو اس کے مطابق کشمیر کی حکومت کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ تجویز بالکل معقول اور انصاف کے مطابق اور دُور اندیشانہ تھی۔ اگر یہی تجویز اس وقت پاس ہوئی ہے تو ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے بشرطیکہ ایک اور امر کا بھی اس میں خیال رکھا جائے اور وہ یہ ہے کہ جموں اور کشمیر میںبسنے والی قوم ایک نہیں جموں اور کشمیر کی قومیں اسی طرح مختلف مذہب اور مختلف نسل رکھتی ہیں جس طرح کہ ہندوستان کی قومیں۔ جموں کا ڈوگرہ الگ نسل سے تعلق رکھتا ہے اور الگ مذہب سے تعلق رکھتا ہے، جموں کا مسلمان الگ نسل اور الگ مذہب سے تعلق رکھتا ہے، ریاسی اور میرپور کا مسلمان بالکل الگ قوم اور نسل کا ہے، مگر ایک حد تک پونچھ کے لوگوں سے اس کا تعلق ہے۔ پونچھ، میرپور اور ریاسی کے مسلمانوں کو ایک گروپ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اِن لوگوں کی رشتہ داریاں راولپنڈی، جہلم اور گجرات کے ساتھ ہیں۔ کشمیر ویلی کے مسلمان بالکل علیحدہ ہیں ان کی زبان اور ہے اور ان کی قوم اور ہے اور ضلع مظفر آباد کے لوگ بالکل الگ قوم کے ہیں وہ ہزارہ کے لوگوں سے رشتہ داری رکھتے ہیں اور سواتی قوم سے ان کے تعلقات ہیں اس لئے وہ پٹھانوں کی طرف زیادہ مائل ہیں بہ نسبت پونچھوں اور کشمیریوں کے۔ بارہ مولا کے اوپر کے علاقے پہاڑی ہیں اور گلگت تک ان علاقوں کی بسنے والی قومیں ایک طرف تو چینی نسل کے اثرات کے نیچے ہیں تو دوسری طرف افغانی نسل کے اثرات کے نیچے ہیں۔ بہرحال یہ قومیں مخلوط ہیں مگر کسی صورت میں بھی ڈوگروں یا کشمیریوں کے ساتھ ان کا واسطہ نہیں۔ یہ پانچ علاقے ہیں اگر ہندوستان کی حکومت کا فیصلہ کرنے سے پہلے سندھ، پنجاب اور نارتھ ویسٹرن پراونس کی رائے کو ہندوستان کے دوسرے لوگوں کی رائے سے علیحدہ رکھنے کی اہمیت تسلیم کی گئی تھی تو کوئی وجہ نہیں کہ ان لوگوں کی رائے بھی علیحدہ علیحدہ نہ لی جائے۔ پس ہمارے نزدیک میرپور، ریاسی اور پونچھ کی رائے شماری الگ ہونی چاہیے اور بالغ افراد کے حق رائے شماری پر اس کی بنیاد ہونی چاہئے۔ اسی طرح ضلع جموں اور ضلع اودھم پور کی رائے شماری الگ ہونی چاہئے۔ ضلع مظفر آباد کی الگ ہونی چاہئے اور کشمیر ویلی کی الگ ہونی چاہئے اور بارہ مولا کی اوپر کی پہاڑیوں کے باشندوں کی جو گلگت اور تبت تک چلے جاتے ہیں الگ رائے شماری ہونی چاہئے۔ اگر کسی مُلک کے تمام باشندوں کی اکٹھی رائے شماری ہی قانون ہے تو ہندوستان میں ہندوؤں کی رائے مسلمانوں سے زیادہ تھی تو پھر پاکستان کے علیحدہ کرنے کا حق کس طرح پیدا ہوا۔ اگر پاکستان کو علیحدہ کرنے کا حق جائز حق تھا تو کوئی وجہ نہیں کہ جموں اور ریاست کشمیر کے اندر بسنے والے پانچ علاقوں کا الگ الگ حق نہ سمجھا جائے۔ یہ لوگ رائے دینے کے بعد پھر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آیا وہ اکٹھے رہنا چاہتے ہیں یا الگ حکومتیں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ موجودہ حالات کے لحاظ سے ہم سمجھتے ہیں کہ یقینا پونچھ، ریاسی اور میرپور پاکستان میں شامل ہو جائیں گے۔ اِسی طرح مظفر آباد بھی پاکستان کے حق میں ووٹ دے گا اور بارہ مولا سے اوپر کے پہاڑی لوگ جن کی سرحد روس اور چین کی سرحد سے ملتی ہے، وہ بھی یقینا پاکستان کے حق میں ووٹ دیں گے۔ ان علاقوں کا بدھ بھی مسلمانوں کے ساتھ ہے ڈوگروں کے ساتھ نہیں۔ ریاست کی مدد سے وہاں کی تمام تجارت سکھوں کے قبضہ میں ہے اور ان کی لوٹ مار انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔ نہایت سُستی قیمتوں پر چیزیں خریدی جاتی ہیں اور بیس گنے زیادہ قیمت پر لا کر کشمیر اور پنجاب میں بیچی جاتی ہیں حالانکہ یہ تجارت وہاں کے باشندوں کا حق ہے جو بدھ اور مسلمان ہیں مگر حکومت کی مشینری ان لوگوں کو آگے نہیں آنے دیتی۔ کوئی وجہ نہیں کہ ان لوگوں کو جب وہ نسلی اور لسانی طور پر باقی کشمیر کے لوگوں سے الگ ہیں، آزادانہ طور پر رائے دینے کا حق نہ دیا جائے اور اگر ان کے مُلک کی رائے دوسرے صوبوں سے الگ فیصلہ کرے تو ان کو علیحدگی کا حق نہ دیا جائے۔ پاکستان نے جو حق اپنے لئے مانگا تھا کوئی وجہ نہیں کہ وہی حق گلکت، مظفر آباد، کشمیر اور پونچھ، میرپور اور ریاسی کو نہ دیا جائے اور ان کے اس حق کی تائید میں پاکستان کی گورنمنٹ اور پاکستان کی رعایا آواز نہ اُٹھائے۔ ہم کشمیر کے متعلق مشکوک ہیں کہ آیا کشمیر ویلی کے لوگ اِس وقت پاکستان کے حق میں ووٹ دیں گے یا نہیں دیں گے کیونکہ کشمیر کے نائب وزیر شیخ عبداللہ نے اپنے چند دنوں کے اقتدار میں بہت سے قومی لیڈروں کو گرفتار کر لیا ہے اور بہت سے قومی لیڈر چھپے پھرتے ہیں جب تک کشمیر ویلی آزادی کے بعد دو تین مہینے غیر جانبدار افسروں کے ماتحت نہ رہے، اس کے باشندوں کی رائے آزادانہ رائے نہیں کہلا سکتی۔ پس انصاف کے مطابق فیصلہ جس کی تائید پاکستان حکومت اور پاکستان کی رعایا کو کرنی چاہئے یہی ہے کہ:۔
(۱) پہلے تو جموں اور کشمیر سے ہندوستانی فوج کو واپس بلایا جائے۔
(۲) افغان اور دوسرے لوگ جو کشمیر کے باہر کے ہیں ان کو بھی واپس کیا جائے۔ اس کے بعد ایک غیر جانبدارانہ حکومت قائم کی جائے اور یونان کے بادشاہ کی طرح جموں کے راجہ کو مجبور کیا جائے کہ جب تک مُلک کے بالغوں کی رائے شماری کے بعد جموں اور کشمیر سٹیٹ کی آئندہ ساخت کا فیصلہ نہ ہو جائے۔ اور وہ فیصلہ اُس کے حق میں نہ ہو، اُس وقت تک مہاراجہ جموں اور کشمیر سے باہر رہیں۔ جموں اور کشمیر سٹیٹ یونان سے زیادہ آزاد نہ