انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 20
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
پیش لفظ
اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان اور اُس کی دی ہوئی توفیق سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود (اللہ آپ سے راضی ہو) کی حقائق و معارف سے پُرسلسلۂ تصانیف بنام ’’انوارالعلوم‘‘ کی بیسویںجلد احبابِ جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ وَمَا تَوْفِیْقَنَا اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ
’’انوارالعلوم‘‘ کی بیسویںجلد حضرت مصلح موعود کی ۱۹۴۸ء کی چھ تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے جس میں معرکۃ الآرا تصنیف دیباچہ تفسیر القرآن بھی شامل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوشیارپور میں چلّہ کشی کے دوران آپ کی تضرعات کو پایۂ قبولیت بخشتے ہوئے ایک عظیم الشان پیشگوئی سے نوازا جو اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء میں شائع ہوئی۔ اس پیشگوئی میں ۵۲ علامات کے حامل پسر موعود کا وعدہ دیا گیا۔ جس کے بارہ میں فرمایا گیا کہ ’’وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا، وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا، کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہوگا، قومیں اُس سے برکت پائیں گی، اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا۔‘‘ اِس عظیم الشان پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو ایک فرزندِ دلبند، گرامی ارجمند عطا فرمایا جس کے وجود میں ۵۲ علامات کا شاندار ظہور ہوا اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے خود اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر ۱۹۴۴ء میں اپنے مصلح موعودہونے کا اعلان فرمایا۔
حضرت فضل عمر اپنی تمام عمر علومِ ظاہری و باطنی اور اپنی ذہانت و فطانت کے ذریعہ اقوامِ عالم کی راہنمائی کرتے رہے۔ اپنوں نے بھی فیض پایا اور غیروں نے بھی برکت حاصل کی۔ کلام اللہ کا مرتبہ اِس شان سے ظاہر ہوا کہ اغیار نے بھی کہا کہ مرزا محمود کے پاس قرآن ہے تم اُس کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہو۔ اَلْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ
قوموں کی رستگاری کا عظیم کارنامہ عمر بھر سرانجام دیتے رہے۔ کشمیر کے حقوق اور آزادی کی بات ہو یا مسلمانانِ ہند کی آزادی کا مسئلہ، فلسطینیوں کے حقوق و مسائل کی بات ہو یا عربوں کے حقوق و مسائل کی آپ نے بابانگِ دہل ان کے حق میں آواز اُٹھائی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس سعی جمیلہ کو قبول فرمایا۔
’’انوارالعلوم‘‘ کی بیسویں جلد ۱۹۴۸ء کی چھ تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے۔ یہ وہ دَور ہے جب کہ ہجرتِ پاکستان کا واقعہ ابھی بالکل تازہ تھا اور حضور عارضی طور پر رتن باغ لاہور میں فروکش تھے۔ اسی سال اللہ تعالیٰ نے اولوالعزم خلیفہ کی برکت سے جماعت کو دوسرا مرکز ’’ربوہ‘‘ عطا فرمایا۔ جلسہ سالانہ لاہور کا انعقاد ہوا۔ سیاسی منظر نامے میںحیدر آباد دکن پر قبضہ اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات ہوئی۔ اِن مواقع پر حضور کی تحریرات احمدیو ں اور اہل پاکستان کی راہنمائی کا موجب بنیں۔
حضور کی معرکۃ الآراء تصنیف ’’دیباچہ تفسیر القرآن‘‘ بھی ستمبر ۱۹۴۸ء میں منظر عام پر آئی۔ جس میں ضرورتِ قرآن اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح اور صداقت کا بیّن اظہار فرمایا۔ اور اس سلسلہ میں یورپ کے اعتراضات کے دندان شکن جوابات سپردِ قلم فرمائے۔
احمدیت کیا ہے اور کس غرض کے لیے اس کو قائم کیا گیا؟ اِس بنیادی سوال کا خوبصورت اور مدلل جواب ’’احمدیت کا پیغام‘‘ کتابچہ میں تحریر فرمایا۔ یہ کتابچہ بھی اِس جلد کی زینت ہے۔
۱۹۴۸ء میں ہندوستان کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضور نے جو رُوح پرور اور زندگی بخش پیغام شرکائے جلسہ کے نام ارسال فرمایا اُس کو بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ غرضیکہ جلد ھٰذا جہاں حضور کے تبحر علمی کی آئینہ دار ہے وہاں ۱۹۴۸ء کے معروضی حالات پر بھی روشنی ڈالنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ اِس مواد کو نافع الناس بنائے۔ آمین
اِس موقع پر خاکساراپنے قارئین کرام سے ایک نہایت اہم اور ضروری گزارش کرنا چاہتا ہے۔ ’’انوارالعلوم‘‘ کی اشاعت کا جب منصوبہ شروع کیا گیا تو اُس وقت یہی خیال تھا کہ ۲۰ جلدوں میں جملہ تحریرات و خطابات مدوّن ہو جائیں گے۔ چنانچہ ۱۹۹۵ء میں تین ہزار روپے ایڈوانس بکنگ کی صورت میں سیٹ کی قیمت مقرر ہوئی۔ جسے طباعت اور کاغذ کی گرانی کے پیش نظر ۲۰۰۸ء میں چار ہزار روپے کر دیا گیا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن کو ’’انوارالعلوم‘‘ کی ۲۰ جلدیںشائع کرنے کی توفیق مل چکی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ
اِن کتب کی اشاعت کے دوران اخبارات و رسائل میں سے کافی تعداد میں مزید مواد ملا ہے جو ابتدائی فہرست میں شامل نہ تھا۔ اِسی طرح حضور کا غیر مطبوعہ مواد بھی مل رہا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں نئی صورتِ حال تحریر کی گئی تو حضورانور نے فرمایا:
’’جو مواد میسر ہے سب شائع ہونا چاہیے‘‘۔
چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیر کے اِس ارشاد کے مطابق حضرت مصلح موعود کا جو بھی مواد میسر ہوگا وہ سب انوارالعلوم کی مزید جلدوں میں مدوّن کر کے طبع کیا جائے گا۔ انشاء اللہ
انوارالعلوم کی ۲۰ جلدوں میں ۲۰؍دسمبر ۱۹۴۸ء تک کا مواد شامل کیا گیا ہے۔ ۲۵؍دسمبر ۱۹۴۸ء سے دسمبر ۱۹۶۵ء تک تقریباً پانچ جلدوں کا مواد موجود ہے جس کی ابتدائی ترتیب دے دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مربیان کرام کی آمدو روانگی کے موقع پر حضور کے خطابات نیز طلبہ مدرسہ احمدیہ و ہائی سکول سے خطابات کا مواد علیحدہ سے تقریباً دو جلدوں کا موجود ہے۔ اسی طرح قبل از خلافت تشحیذالاذہان، ریویو آف ریلیجنز اور الفضل کے مضامین اور غیر مطبوعہ مواد کی تین جلدیں بن سکتی ہیں۔ خلافت کے بعد تشحیذ، ریویو اور الفضل کے مضامین و غیر مطبوعہ مواد کی ایک جلد تیار ہو جائے گی۔ انشاء اللہ
قبل ازیں ۲۰ جلدوں کے لیے ایڈوانس بکنگ کی سہولت دی گئی تھی۔ اب مزید ۱۱/۱۰ جلدوں کے لیے بھی یہی سہولت میسر ہوگی لیکن اِس کی حتمی قیمت بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں طے کر لی جائے گی۔
خاکسار اُن تمام احباب جماعت کا شکر گزار ہے جنہوں نے کتب کی خریداری میں ادارہ ھذا سے ہر ممکن تعاون فرمایا۔ خاکسار امید کرتا ہے کہ آئندہ جلدوں کی خریداری کے سلسلہ میں بھی احباب کا تعاون ہمیں حاصل رہے گا تا کہ ہم سیدنا حضرت فضل عمر کے علمی فیضان کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں اور حضرت مصلح موعود کے روح پرور اور ولولہ انگیز خطابات کے ذریعہ ہماری علمی اور روحانی آبیاری ہوتی رہے۔ آپ سب کے تعاون پر خاکسار از حد ممنون ہے۔ جَزَاکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔
اس جِلد کی تیاری کے مختلف مراحل میں حسبِ سابق بہت سے بزرگان اور مربیان کرام نے اِس اہم اور تاریخی کام کی تدوین و اشاعت میں خاکسار کی عملی معاونت فرمائی ہے۔ مکرم مولانا فضل الٰہی صاحب بشیر اور مکرم چوہدری رشید الدین صاحب نے مسودات کی ترتیب و اصلاح اور ابتدائی پروف ریڈنگ کے سلسلہ میں بہت محنت و اخلاص سے خدمات سرانجام دی ہیں۔
مکرم عبدالرشید صاحب اٹھوال، مکرم حبیب اللہ صاحب باجوہ اور مکرم فضل احمد صاحب شاہد مربیان سلسلہ نے پروف ریڈنگ، حوالہ جات کی تلاش، مسودات کی نظر ثانی، اعراب کی درستگی، Re-Checking اور متفرق امور کے سلسلہ میں دلی بشاشت اور لگن سے اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ تعارف کتب مکرم مبشر احمد صاحب خالد مربی سلسلہ کا تحریرکردہ ہے۔ فَجَزَاہُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ۔
خاکسار ان سب احباب کا ممنونِ احسان اور شکرگزار ہے۔ نیز دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ اِن سب دوستوں کے علم و معرفت میں برکت عطا فرمائے، اپنی بے انتہا رحمتوں اور فضلوں سے نوازے اور ہمیں ہمیشہ اپنی ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کرنے اور حضرت مصلح موعود کے علمی فیضان کو احباب جماعت تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
والسلام
خاکسار
ناصر احمد شمس
سیکرٹری فضل عمر فائونڈیشن
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تعارف کتب
یہ انوار العلوم کی بیسویں جلد ہے جو سیدنا حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی کی ۱۹۴۸ء کی چھ مختلف تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے۔
(۱)اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک رہو
سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی جب ۱۹۴۸ء میں پہلی دفعہ کوئٹہ تشریف لے گئے تو مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ نے حضور کے اعزاز میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا۔ اِس موقع پر حضور نے یہ انتہائی ایمان افروز تقریر فرمائی جو پہلی دفعہ مؤرخہ ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۶۱ء کو افادۂ عام کے لیے روزنامہ الفضل میں شائع کی گئی۔ اِس پُر معارف تقریر میں حضور نے متعدد امور کی طرف توجہ دلائی جن میں سے خاص طور پر قرآن کریم کی صحت تلفظ کے ساتھ تلاوت کرنا ہے۔ اسی طرح حضور نے عیسائیوں کے اسلامی تعلیم پر متعدد اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اب عیسائیوں کی نئی نسل آہستہ آہستہ اسلامی تعلیمات کی حکمتوں کو سمجھنے اور ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جس سے ہم سمجھتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب تمام دنیا صداقت اسلام کی قائل ہو جائے گی مگر اس کے ساتھ آپ نے احبابِ جماعت کو یہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’دنیا میں آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گذری جس نے صرف میٹھی میٹھی باتوں سے دنیاکوفتح کر لیا ہو۔ قومیں ہمیشہ مصیبتوں او ر ابتلائوں کی تلواروں کے سایہ تلے بڑھتی او ر ترقی کرتی ہیں اور اُنہیں لوگوں کے اعتراضات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔پس اپنے آپ کو اِس فتح کااہل بنائو۔ جب تک آپ لو گ خدااور اس کے رسول ؐ کے دیوانے نہیں بن جاتے ،جب تک موجودہ فیشن اور رسم و رواج کو کچلنے کے لئے تیار نہیں ہوجاتے اُس وقت تک اسلامی احکام کو ایک غیر مسلم کبھی بھی قبول کرنے کے لئے تیا ر نہیں ہوگا ۔‘‘
(۲) دیباچہ تفسیر القرآن
اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی مصلح موعود میں پسر موعود کی علامت یہ بیان فرمائی تھی کہ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا… کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر ہوگا‘‘۔ حضرت مصلح موعود کے متعلق بیان فرمودہ اِس علامت سے ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ نے خود آپ کا معلّم بننا تھا اور خود آپ کو ظاہری و باطنی علوم سے بہرہ ور کرنا تھا۔چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ کسی علم میں بھی دنیا کا کوئی عالم آپ کا مقابلہ نہ کر سکا اور جس کو بھی آپ سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا وہ اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا کہ واقعی مذکورہ بالا پیشگوئی کا حرف حرف آپ کے وجود میں پورا ہوا۔ بِالخصوص قرآن کریم کے علوم و معارف پر آپ کو ایسی دسترس عطا فرمائی گئی کہ غیر بھی اس کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ چنانچہ پاک و ہند کے ایک مایہ ناز اِنشا پرداز اور اُردو ادب کے مسلّم نقاد علامہ نیاز فتح پوری صاحب نے آپکی شہرۂ آفاق ’’تفسیر کبیر‘‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کی خدمت میں تحریر فرمایا کہ:۔
’’اِس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویۂ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔ آپ کی تبحر علمی، آپ کی وسعت نظر، آپ کی غیرمعمولی فکروفراست، آپ کا حسن استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے‘‘۔
( الفضل ۱۷؍ نومبر ۱۹۶۳ء)
حضرت مصلح موعود کے انتقال پر مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے لکھا کہ:۔
’’علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح، تبیین و ترجمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی بلند و ممتاز مرتبہ ہے‘‘۔(صدقِ جدید لکھنو ۱۸؍ اپریل ۱۹۶۵ء)
حضرت مصلح موعود نے ایک دفعہ خود فرمایا کہ:
’’میں وہ شخص تھا جسے علومِ ظاہری و باطنی میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لیے بھجوایا اور مجھے قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتے تھے‘‘۔(الموعود صفحہ۲۱۰)
ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا کہ:
’’میں نے کوئی امتحان پاس نہیں کیا۔ ہر دفعہ فیل ہی ہوتا رہا ہوں مگر اب میں خدا کے فضل سے کہتا ہوں کہ کسی علم کا مدعی آ جائے اور ایسے علم کا مدعی آ جائے جس کا میں نے نام بھی نہ سنا ہو اور اپنی باتیں میرے سامنے مقابلہ کے طور پر پیش کرے اور میں اُسے لاجواب نہ کر دوں تو جو اُس کا جی چاہے کہے‘‘۔(ملائکۃ اللہ صفحہ۵۳)
پس زیر نظر کتاب ’’دیباچہ تفسیر القرآن‘‘ حضرت مصلح موعود کے مذکورہ بالا دعاوی کا منہ بولتا ثبوت ہے جسے حضور نے ایک قلیل وقت میں تصنیف فرمایا۔ اِس میں یورپ کے نقادین اسلام کے مشہور اعتراضات کے دندان شکن جوابات دیئے گئے ہیں اور ضرورتِ قرآن پر نہایت لطیف رنگ میں بحث کی گئی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس سیرت کے واقعات از ولادت تا وفات ایسے عمدہ اور دلکش پیرایہ میں بیان کیے گئے ہیں جو اپنی نظیر آپ ہیں نیز آپ کے بارہ میں بائبل میں مندرج پیشگوئیاں بھی تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔ اس کے مضامین عالیہ اوربراہین نیرہ مندرجہ ذیل شعر کے مصداق ہیں۔
اَحَادِیْثُ قَدْ صِیْغَتْ فَتُلْھِیْ بِحُسْنِھَا
عَنِ الْوَشْیِ اَوْ شُمَّتْ لَاَغْنَتْ عَنِ الْمِسْکِ
یعنی اس کے مضامین اور عبارتیں ایسے رنگ میں ڈھالی گئی ہیں کہ جو اپنی ذاتی زیبائش اور حسن کی وجہ سے بناؤ سنگھار اور نقش و نگار سے مستغنی کر دیتی ہیں اور اگر اُنہیں سونگھی جانے والی چیز سے تشبیہہ دی جائے تو اس کی خوشبو کستوری سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ یہ کتاب کلام اللہ قرآن کریم کے عالی مرتبت ہونے کو ثابت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اِس معرکۃ الآراء کتاب کو ہمیں پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(۳) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں ہمارے
ہاتھ سے قائم ہوگی
سیدنا حضرت مصلح موعود نے یہ روح پرور تقریر مؤرخہ ۲۰؍ ستمبر ۱۹۴۸ء بروز دوشنبہ ربوہ کے افتتاح کے موقع پر ارشاد فرمائی تھی۔ یہ تقریر شروع کرنے سے پیشتر حضور نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعائیں پڑھیں جو آپ نے مکہ مکرمہ کی بنیاد رکھتے وقت پڑھی تھیں۔ ان دعاؤں کے بعد سب سے پہلے حضور نے ان دعاؤں کے اس موقع پر پڑھنے اور مانگنے کی حکمت اور فلسفہ بیان فرمایا۔ اِس کے بعد آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور مقام و مرتبہ کو دنیا میں ایک دفعہ پھر قائم کر کے دکھانے کا عزم ظاہر فرمایا کیونکہ آپؐ محسن انسانیت ہیں اور فرمایا اگر اِس کام میں ہماری جانیں اور ہمارے بیوی بچوں کی جانیں بھی چلی جائیں تو یہ ہمارے لیے عزت کا موجب ہوگا۔ نیز آپ نے فرمایا کہ اِس وقت جس قدر تحریکیں دنیا میں جاری ہیں وہ ساری کی ساری دُنیوی مقاصد پر مبنی ہیں صرف ایک ہی اہل دین حق کی مذہبی تحریک ہے اور وہ احمدیت ہے۔ یہ وہ تحریک ہے جس میں دنیا کے ہر مذہب، ہر قوم، ہر زبان اور ہر مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والا شامل ہو سکتا ہے۔ پس یہی ایک جماعت ہے جس نے دین حق کے جھنڈے کو بلند رکھنے کا عزم کر رکھا ہے۔ جس کے لیے شہروں کو چھوڑ کر اس بے آب و گیاہ میدان کا انتخاب کیا ہے۔ اِس کے بعد حضور نے ربوہ کی زمین کے انتخاب کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اِس تعلق میں اپنی ایک ۶ سالہ پُرانی رؤیا بیان فرمائی۔ نیز اس کے حصول کے سلسلہ میں ہونیوالی کوششوں کا بھی ذکر فرمایا۔ یہ تقریر الفضل کے سالانہ نمبر ۱۹۶۴ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔
(۴) مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب
حضرت مصلح موعود نے یہ مضمون بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے موقع پر تحریر فرمایا جو مؤرخہ ۲۱؍ ستمبر ۱۹۴۸ء کو روزنامہ الفضل میں شائع ہوا۔
اِس مضمون کا آغار حضور نے اپنی ایک رؤیا سے کیا ہے جس میں آپ کو ابوالہول جیسی ایک چیز دکھائی گئی جس کے دو سَر تھے۔ یہ رؤیا حضور کو ۱۱ اور ۱۲ ستمبر کی درمیانی رات کو دکھائی گئی جبکہ قائد اعظم کی وفات مؤرخہ ۱۱ ؍ستمبر کو رات ۱۰ بجے ہوئی تھی۔ حضور کا سونے کا معمول عموماً رات تقریباً گیارہ بجے کے بعد ہوتا تھا اس لیے یہ یقینی بات ہے کہ یہ رؤیا حضور کو قائد اعظم کی وفات کے بعد رات کو دکھائی گئی۔ مگر سونے سے قبل تک حضور کو قائد اعظم کی وفات کی ابھی اطلاع نہیں ملی تھی۔ پس حضور نے اس رؤیا کی تعبیر یہ فرمائی کہ اِس رؤیا میں جس چیز کی شکل دکھائی گئی اس کے دو سَر تھے جس سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں پر دو مصیبتیں آنے والی ہیں مگر مسلمان ان دونوں مصیبتوں کو برداشت کر جائیں گے۔ ان میں سے ایک مصیبت تو قائد اعظم جیسے ایک عظیم لیڈر کی وفات اور دوسری مصیبت حیدر آباد دکن پر ہندوستانی فوج کا قبضہ تھا۔
اِس مضمون کے آخر پر حضور نے حیدر آباد دکن کی سلطنت کی کچھ تاریخ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حق تو یہ ہے کہ حیدر آباد دکن اپنے حالات کے لحاظ سے انڈین یونین میں ہی شامل ہونا چاہیے تھا جس طرح کہ کشمیر اپنے حالات کے لحاظ سے پاکستان میں شامل ہونا چاہیے لیکن ان واقعات پر کوئی جزع فزع کرنے کی بجائے مسلمانانِ پاکستان اگر مضبوط ارادے ، بلند حوصلہ اور پختہ عزم سے کام لیں تو یقینا پاکستان روز بروز ترقی کرتا چلا جائے گا اور دنیا کی مضبوط ترین طاقتوں میں سے ہو جائے گا۔
(۵) احمدیت کا پیغام
حضرت مصلح موعود نے یہ کتابچہ اکتوبر ۱۹۴۸ء میں تحریر فرمایا۔ اس کتابچہ میں احمدیت سے متعلق اِس بنیادی سوال کہ’’احمدیت کیا ہے اور کس غرض سے اس کو قائم کیا گیا ہے؟‘‘ کا جواب تحریر فرمایا ہے جس میں نہایت ہی آسان پیرایہ میں جماعت احمدیہ کا عقائد کے لحاظ سے تعارف کروایا گیا ہے۔ اِس تعلق میں سب سے پہلے آپ نے مذکورہ بالا سوال کرنیوالوں کو یہ بات سمجھائی ہے کہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے اور نہ ہی احمدیوں کا کوئی الگ کلمہ ہے۔ آپ نے تحریر فرمایا کہ دنیا کے تمام مذاہب میں سے صرف اسلام کو یہ فخر اور اعزاز حاصل ہے کہ اس کا ایک کلمہ ہے۔ اور احمدیت چونکہ حقیقی دین ہونے کی دعویدار ہے اس لیے جماعت احمدیہ کا کلمہ بھی وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔
اِس کے بعد حضور نے جماعت احمدیہ کے متعلق عقائد کے لحاظ سے بعض شکوک کا ازالہ فرمایا جس میں ختم نبوت، ملائکہ اللہ، نجات، احادیث، تقدیر، جہاد جیسے مسائل کے متعلق جماعت احمدیہ کا نقطۂ نظر بیان فرمایا۔
اِسی طرح اِس کتابچہ میں ایک نئی جماعت بنانے کی وجہ اور غرض و غایت بیان فرمائی۔ نیزجماعت احمدیہ کے پروگرام پر روشنی ڈالی اور آخر پر احمدیوں کو دوسری جماعتوں سے علیحدہ رکھنے کی وجہ بیان فرمائی۔
پس یہ کتابچہ جماعت احمدیہ کے تعارف کے لحاظ سے انتہائی لاجواب ہے جسے ہمیں کثرت سے دوسروں کو پڑھانا چاہیے۔
(۶) ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام
حضرت مصلح موعود نے ۱۹۴۸ء کے جلسہ سالانہ ہندوستان کے موقع پر ہندوستان کے احمدیوں کے نام جو پیغام ۲۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو تحریر کر کے ارسال فرمایا اِس پیغام کو اب انوارالعلوم کی اِس جلد نمبر۲۰ میں شامل اشاعت کیا جا رہا ہے۔
اِس پیغام کے آغاز میں حضور نے اس جلسہ سالانہ کے منعقد کرنے پر جماعت احمدیہ بھارت کو ھدیۂ تبریک پیش کیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ جماعتیں صدمات میں سے گذرے بغیر کبھی بڑی جماعتیں نہیں بن سکتیں۔ (حضور کا اس میں دراصل پارٹیشن کی طرف اشارہ تھا) پارٹیشن کے نتیجہ میں جو جماعتی نقصان ہوا اُس کے ذکر کے بعد حضور نے ہندوستان کے احمدیوں کو اُس وقت کے حالات کے پیش نظر اُن کی دمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ:۔
’’پس آپ لوگ اب اپنی نئی ذمہ داریوں کوسمجھتے ہوئے نئے سرے سے اپنے دفاتر کی تنظیم کریں اورہندوستان کی باقی جماعتوں کودوبارہ زندہ کرنے اورزندہ رکھنے کی کوشش کریں ۔صرف یہی نہیں بلکہ ان کو بڑھانے اورپھیلانے کی کوشش کریں۔ وہ تمام اغراض جن کے لئے احمدیہ جماعت قائم کی گئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں لکھی ہوئی موجود ہیں ۔ان اغراض کو سامنے رکھ کر صدر انجمن احمدیہ کی تنظیم کریں اور تمام ہندوستان کی جماعتوں کے ساتھ خط و کتابت کرکے ان کو منظم کریں اورپھیلنے پھولنے میں مدد دیں۔ ‘‘
اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک رہو
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک رہو
(فرمودہ ۷؍اگست ۱۹۴۸ء بمقام کوئٹہ )
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اچھاکام تعریف کے قابل ہوتاہے اور بُراکام مذمت کے قابل ہوتاہے لیکن کبھی کبھی استاد اپنے شاگردوں کادل بڑھانے کیلئے ان کے تھوڑے اور نامکمل کام کو بھی قابلِ تعریف ظاہر کرتاہے اور کبھی و ہ ان کے اندرنیا عز م پیداکر نے کیلئے ان کے اچھے کاموں کو بھی قابلِ اعتراض اورقابلِ تنقید قرار دیتاہے ۔جس کی وجہ سے شاگرداپنے کاموں کی طرف زیادہ توجہ کرنے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں ۔
عرفی یاانوری ان دونوں میں سے کسی ایک کے متعلق مجھے ایک واقعہ یاد ہے۔وہ ذکر کرتاہے کہ میں شعر کہاکرتاتھا اور اصلاح کے لئے استاد کے پاس لے جایا کرتا تھامگر وہ بڑی سختی کے ساتھ ان پر تنقید کیاکرتاتھا ۔اتنی سخت تنقید کہ وہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ وہ کہتاہے کہ مجھے اپنے متعلق احساس پیداہوگیاتھاکہ میں بڑااچھاادیب بن گیاہوں لیکن میں نے متواتر دیکھا کہ میرااستاد برابرجرح کرتاچلاجاتاتھا۔میںنے یہ خیال کرکے کہ یہ جرح نامناسب ہے اورتعصب پر مبنی ہے ایک دفعہ شرارت کر کے پرانی کاپیوں سے کچھ کاغذ اُکھیڑے اور ان کی جِلد بنالی اور خط بدل کرکسی سے چند نظمیں ان پر نقل کرالیں اوراپنے استاد کے پاس لے گیا۔ میں نے کہا مجھے اپنے والد صاحب کی لائبریری میں سے پُرانے شاعروں کے کلام کے یہ اجزاء ملے ہیں ۔انہوں نے وہ نظمیں پڑھنی شروع کی ہی تھیں کہ بے تحاشہ تعریف کرنی شروع کردی کہ یہ بڑااعلیٰ درجہ کاکلام ہے اس نے بہت ہی عمدہ کہا ہے ۔وہ کہتاہے جب میں نے یہ تعریفیں سنیں توکہا استاد جی! بس رہنے دیجئے ۔میں نے دیکھ لیا ہے کہ آپ بِلاوجہ مجھ پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ یہ میرے ہی شعر تھے جو میں پُرانے کاغذوں پر لکھ کر لے آیاہوں اورمیں نے یونہی آزمانے کے لئے یہ کہہ دیاتھا کہ یہ پُرانی نظمیں ہیں ۔ وہ لکھتاہے کہ جب میں نے یہ بات کہی تو میرے استاد کا چہر ہ افسرد ہ ہوگیا اور اس نے کہا میں تو سمجھتاتھا کہ میں اپنے پیچھے ایک ایسا شاگردچھوڑ جائوں گا جس کافارسی زبان میں کو ئی مقابلہ نہیں کرسکے گامگرآج تم نے یہ جرأت کی ہے تواس کی وجہ سے اب تمہاری تمام ترقی ختم ہوگئی ہے ۔میں دشمنی کی وجہ سے تم پر تنقید نہیں کیا کرتا تھا بلکہ اس لئے تنقید کرتاتھاکہ تاتم زیادہ سے زیادہ کو شش کرو اور تمہارے مخفی جوہر زیادہ سے زیادہ ظاہرہوں ۔اگر میں کہہ دیتاکہ تم اچھے شاعر بن گئے ہو توتم مزید محنت نہ کرتے یہ جرح ہی کانتیجہ ہے کہ تم نے خوب زور لگایا اورمحنت سے کام لیا اور اب تم صاحب کمال بن گئے ہو لیکن اب تمہار ی ترقی ختم ہوگئی ہے۔وہ لکھتا ہے کہ واقعہ یہی ہے کہ میں نے پھر اس سے زیا دہ ترقی نہیں کی۔
پس تنقید کئی وجوہ سے ہوتی ہے ۔کبھی کام کرنے والے کی تعریف کی جاتی ہے کہ کم حوصلہ انسان سست نہ ہوجائے اور ہمت نہ ہار بیٹھے اورکبھی سخت تنقید کی جاتی ہے تاباحوصلہ آدمی زیادہ سے زیاد ہ اپنے دماغ پر زور ڈال کراپنے مخفی جوہر کو باہر نکالنے کی کوشش کرے۔یہ کام بہت ہی مشکل ہے۔فطرت کاسمجھنا بہت مشکل ہوتاہے ۔جیسے اس استاد نے غلطی کی اور اتنی سخت تنقید کی کہ جس سے شاگرد مایوس ہوگیا اور آخر اس نے دھوکادیا جس کی وجہ سے وہ آئندہ ترقی حاصل نہ کرسکا ۔پس کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان غلط اندازہ لگاتاہے او رسمجھتا ہے کہ فلاں آدمی بہت بلندحوصلہ ہے ۔اس پر جتنی بھی تنقید کی جائے اتنی ہی وہ محنت کرے گا اوراس کے مخفی جوہر ظاہر ہوں گے لیکن اس کانتیجہ اُلٹ نکلتاہے وہ کم حوصلہ اور کم ہمت ہوتاہے اوراس تنقید کی وجہ سے وہ مایوس ہوجاتاہے اورآئندہ ترقیوںسے محروم ہوجاتاہے ۔ پھر بعض دفعہ ایساہوتاہے کہ انسان سمجھتاہے کہ یہ کم حوصلہ اور کم ہمت ہے اس کی ہمت و حوصلہ بڑھانے کے لئے وہ اس کی تعریف شروع کردیتاہے لیکن وہ کم حوصلہ نہیں ہوتا اگروہ اس پر تنقیدکرتا تواس کے مخفی جوہر ظاہر ہوتے لیکن استاد نے اس کا اندازہ غلط لگایا اورکم حوصلہ سمجھ کر تعریف کردی ۔اس تعریف کی وجہ سے وہ محنت اور مزید جدوجہد نہیں کرتا ۔اس لئے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتااوران اعلیٰ ترقیات سے محروم ہوجاتاہے جن کا حصول اس کے لئے ممکن تھا۔مگر ان خطرات کے درمیان بہرحال ایک تیسراراستہ بھی ہے اوروہ یہ کہ انسان اچھے کام کی تعریف کرے اوربُرے کی مذمت کرے۔ بعض غلطیاںایسی ہوتی ہیں کہ وہ تھوڑی سی کوشش سے درست ہوجاتی ہیں اوراگرانہیں نظر انداز کیاجائے توقومی ترقی رُک جاتی ہے۔
کوئٹہ میں مَیں پہلی دفعہ آیا ہوں۔ اگرچہ یہاں کے خدام میں سے بعض نے قادیان میں تعلیم پائی ہے اوربعض کے ماں باپ بھی وہاں رہتے تھے مگر پھر بھی ان کے کاموںپر مجھے تنقید کااس طرح موقع نہیں ملا جیسے آج ملا ہے۔میں جب سے یہاں آیاہوں میں محسوس کرتاہوںکہ یہاں کے خدام علمی حصے کی طرف بہت کم توجہ کرتے ہیں ۔مثلاً جس خادم نے تلاوت کی ہے اُس نے اِس امر کو ملحو ظ نہیں رکھا کہ قرآن مجید صحیح طور پر پڑھاجائے ۔اگروہ تھوڑی سی اس امر کی کوشش کرتے توبڑی آسانی کے ساتھ صحیح طور پر تلاوت کرسکتے تھے ۔میں نے دیکھا کہ انہوں نے بِالعموم الف کو فتح کے ساتھ اداکیا ہے ۔ان کی تلاوت میں ۵۰یا۶۰فیصدی الف تھے جو انہوں نے فتح کے ساتھ اداکئے ہیں۔ حالانکہ الف اورفتح الگ الگ چیز یں ہیں اوران دونوں میں بہت فرق ہے ۔ اسی طرح انہوں نے مدات کو بِالعموم گرادیا ہے ۔یعنی جہاں دوالف تھے وہاں انہوںنے ایک ہی الف پڑھا ہے اسی طرح اور باتیں بھی تھیں جنکی وجہ سے تلاوت ناقص ہوگئی ۔
میں اس بات کاقائل نہیں کہ کوئی شخص اس بات میں لگارہے کہ قاری کی طرح وہ قراء ت کرسکے لیکن جو کام آسانی کے ساتھ کیاجاسکتاہے اسے کیوں چھوڑاجائے۔ یہ کو شش کر نا کہ ہم قاری کی طرح ہی اداکریں درست نہیں کیونکہ اس کی طاقت ہمیں خدانے نہیں بخشی۔ میری مرحومہ بیوی اُمِّ طاہر بیان کیاکرتی تھیں کہ ان کے والد صاحب کو قرآن مجید کے پڑھنے پڑھانے کابڑاشوق تھا ۔انہوں نے اپنے لڑکوں کو قرآن پڑھانے کے لئے استاد رکھے ہوئے تھے اورلڑکی کو بھی قرآن پڑھنے کے لئے ان کے سپرد کیا ہوا تھا۔ اُمِّ طاہر بتایاکرتی تھیں کہ وہ استاد بہت ماراکرتے تھے اورہماری انگلیوں میں شاخیں ڈال ڈال کر ان کو دباتے تھے مارتے تھے پیٹتے تھے اس لئے کہ ہم ٹھیک طورپر تلفّظ کیوں ادانہیں کرتے ۔ہم پنجابی لوگوں کالہجہ ہی ایساہے کہ ہم عربوں کی طرح عربی کے الفاظ ادانہیں کرسکتے۔
لاہورمیں ایک میاں چٹّو رہاکرتے تھے و ہ بعد میں چکڑالوی ہوگئے ان کے پاس ایک عرب آیااور وہ اُس کو لے کر قادیان پہنچے ان دنوں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید جوعلاقہ خوست کے ایک بہت بڑے بزرگ تھے یہاں تک کہ امیر امان اللہ خاں کے داداحبیب اللہ خاںکی رسم تاجپوشی بھی انہی سے کروائی گئی تھی ،وہ بھی قادیان میں آئے ہوئے تھے ۔وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اورباتیں ہورہی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دوتین دفعہ ض کااستعمال کیا۔ آپ کالہجہ اگرچہ درست تھا لیکن لکھنو کے آدمی جیسے اسے اداکرتے ہیں آپ ویسے ادانہیں کرسکتے تھے دوچار دفعہ آپ نے یہ لفظ استعمال کیا تووہ عرب جو کئی سال سے لکھنؤ میں رہتاتھا اوراردوبولتاتھا اس نے کہا آپ کو کس نے مسیح موعود بنایاہے؟آپ کوتو ض بھی صحیح طور پر اداکرنا نہیں آتا ۔صاحبزادہ صاحب بڑ ے عالم تھے اورآپ کو معلوم تھا کہ اس کی کیاحقیقت ہے ۔وہ غصہ میں آگئے اورا سے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اُٹھایا ۔مولوی عبدالکریم صاحب نے دیکھ لیا ۔ آپ نے اسے چھڑانے کی کو شش کی۔ آپ چو نکہ پٹھان اور طاقتور تھے اور مولوی عبدالکریم صاحب اکیلے اس میں کامیاب نہیں ہوسکتے تھے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کادوسراہاتھ پکڑ لیا کیونکہ آپ کا خیال تھا کہ آپ اسے مار بیٹھیں گے۔ اب دیکھو اس عرب نے یہ کیسی لغوحرکت کی۔ ہر ملک کاالگ الگ لہجہ ہوتاہے ۔
عر ب خودکہتے ہیں کہ ہم ناطقین بِالضاد ۱؎ ہیں،ہندوستانی اسے ادانہیں کرسکتے ۔ ہندوستان میں ض کو قریب ترین اداکرنے والوں میں سے ایک میں ہوںلیکن میں بھی یہ نہیں کہتا کہ میں اسے بالکل صحیح اداکرتاہوں ۔قریب ترین ہی اداکرتاہوں ۔ہندوستانی لوگ اسے دواد یا ضاد پڑھتے ہیں لیکن اس کے مخارج اورہیں پس جب عرب خود کہتاہے کہ ہم ناطقین بِالضاد ہیں اور کوئی اسے صحیح طورپر ادانہیں کرسکتا توپھر اعتراض کی بات ہی کیاہوئی ۔جرمن لوگوں کو لے لو وہ گڈ اور گاڈ کے لفظوں کو ادانہیں کرسکتے ۔وہ یاگڈ کہیں گے یا گوٹھ کہیں گے۔ پس میں یہ تونہیں کہتا کہ ہم ان الفاظ کواداکرنے کااہتمام کریں جن کے اداکرنے کے ہم قابل نہیں یہ تو محض وقت کاضیاع ہے لیکن الف اداکرناہماری طاقت سے باہر نہیں ۔ مد کواداکرنا ہمار ی طاقت سے باہر نہیں۔اگر صحیح طور پر کوشش کی جائے توقرآن کو ہم اپنے لہجہ کے لحاظ سے اچھی طر ح ادا کر سکتے ہیں خصوصاً جبکہ گلا اچھا ہو۔
پھر تلاوت کے بعد جو نظم پڑھی گئی ہے وہ بھی اس دستور کے مطابق کہ عموماً پہلے چند اشعار ٹھیک پڑھے جاتے ہیں اورپھر غلطیاں شروع ہوجاتی ہیں ۔اسی طرح انہوں نے بھی سات آٹھ اشعار توٹھیک پڑھے اوراس کے بعد غلطیاں شروع کردیں جب جلسہ میں کوئی شخص تلاوت کرتا ہے یانظم کے لئے کھڑاہوتاہے تواس چھوٹی سی عبارت کا مجلس میں پڑھ لیناکوئی مشکل امر نہیں ہوتا اوراگروہ خود اسے صحیح طور پر ادانہیں کرسکتا توکسی واقف زبان سے درست کروالینا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہوتا ۔یہ قدرتی بات ہے کہ ایسی صورت میں سننے والے بجائے فائدہ اُٹھانے کے لفظی غلطیوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں اوراس طرح فائدہ سے محروم ہوجاتے ہیںاس لئے میں نصیحت کرتاہوں کہ خدام صحیح طورپر قرآن کریم پڑھنا سیکھیں اوراُردوکی عبارتوں کو بھی صحیح اداکرنے کی کوشش کیاکریں ۔
ایڈریس میں جن کاموںکی طرف اشارہ کیا گیا ہے میں ان سے خوش ہوں کہ انہوں نے ان کاموں کے کرنے کی کو شش کی ہے لیکن میں ان کی توجہ اس طرف پھراناچاہتاہوںکہ جس کام کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں وہ اتنا عظیم الشان ہے کہ اس کے لئے یہ کوششیں کافی نہیں ہوسکتیں۔ مخالف ہمارے مقصد کونہیں سمجھتاتووہ معذور ہے ۔ اگروہ ضد یاناواقفیت کی وجہ سے ہماری مخالفت کرتاہے تو کوئی اعتراض کی بات نہیں وہ تواس پر غور ہی نہیں کرناچاہتایااگر غور کرتاہے تو تعصب کی وجہ سے وہ صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتالیکن اگرہم بھی اپنے مقصد کونہ سمجھیں اورہمارابھی رویہ ایساہی ہو کہ ہم اپنے مقصد کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں توہم پر یقیناً افسوس ہوگا۔ ہمارا دعویٰ ہے او رہم یقین رکھتے ہیں کہ ہمارادعویٰ سچا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نازک حالت کو دیکھ کر حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجااوراس کامقصد یہ ہے کہ آپ کی جماعت کے ذریعہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کو پھر سے دنیا میں قائم کردے ۔ یہ مقصد ہے جس کے لئے ہمیں کھڑاکیاگیا ہے اورجس کی خداتعالیٰ ہم سے امیدکرتاہے اوریہ معمولی چیز نہیں۔ ایک انسان کے لئے ایک انسان کی اصلاح بھی ناممکن ہے مگرہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے۔ اسلام کے ماننے والوں میں سے کتنے ہیں جوخوشی سے ان احکام کو مانتے ہیں اوران پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں۔پھر جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم اسلام کے احکام پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو واقعہ میں عمل کرنے کے لئے تیار ہیں اورپھر جو عمل کرنے کی کو شش بھی کرتے ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو ان پر عمل کرکے صحیح طور پر کامیاب ہوئے ہیں۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہ اسلام کے معنی ہی نہیں سمجھتے ۔ہرآدمی ایسی چیزوں اورعقائد کو جو رسم و رواج میں داخل ہیں الگ کرلیتا ہے اور کہتاہے ان کو الگ کرلو باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے۔کچھ عورتیں پردہ کی قائل نہیں ہیں وہ اس کو الگ کرلیتی ہیں اورکہتی ہیں بھلا اللہ تعالیٰ کو چھوٹے چھوٹے امور میں دخل دینے کی کیاضرورت ہے ۔پردہ کو الگ کردوباقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے ۔ہمارے نوجوان جن کے لئے ڈاڑھی رکھنا مشکل ہے وہ کہہ دیتے ہیں یہ توکوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی، باقی جوکچھ ہے وہ اسلام ہے۔ سُود لینے والا کہہ دیتاہے کہ بینکنگ تو نہایت ضروری چیز ہے اس لئے سُود کو چھو ڑو،باقی جو کچھ ہے اسلام ہے ۔غرض جس حکم کو وہ نہیں مانتا اس کے نزدیک وہ اسلام نہیں،باقی اموراسلام میں داخل ہیں توپھر باقی کیارہ جاتا ہے۔ سُود بھی اسلام میں داخل نہیں، نمازیں بھی اسلام میں داخل نہیں ،ڈاڑھیاں بھی اسلام میں داخل نہیں توپھر کچھ بھی اسلام میں داخل نہیں ۔
مثل مشہور ہے کہ کو ئی بُزدل آدمی تھااسے وہم ہوگیا تھا کہ و ہ بہت بہادر ہے ۔و ہ گو دنے والے کے پاس گیا۔پرانے زمانہ میں یہ رواج تھا کہ پہلوان اور بہادر لوگ اپنے بازوپر اپنے کیریکٹر اوراخلاق کے مطابق نشان کھدوالیتے تھے۔یہ بھی گودنے والے کے پاس گیا۔گودنے والے نے پوچھا تم کیا گُدواناچاہتے ہو؟اس نے کہا میں شیر گدوانا چاہتا ہوں۔ جب وہ شیر گودنے لگا تواس نے سوئی چبھوئی ۔سوئی چبھونے سے درد توہوناہی تھاوہ دلیر توتھا نہیںاس نے کہا یہ کیا کرنے لگے ہو؟ گودنے والے نے کہاشیر گودنے لگاہوں ۔اس نے پوچھا شیر کا کونسا حصہ گودنے لگے ہو؟ اس نے کہا دُم گودنے لگاہوں ۔اس آدمی نے کہا شیر کی دُم اگر کٹ جائے توکیا وہ شیر نہیں رہتا ؟گودنے والے نے کہا شیر تو رہتا ہے ۔کہنے لگا اچھا دُم چھوڑ دو اور دوسرا کام کرو۔اس نے پھر سوئی ماری توو ہ بول اُٹھا۔اب کیا کرنے لگے ہو؟اس نے کہا اب دایاں بازو گودنے لگاہوں ۔اس آدمی نے کہا اگرشیر کالڑائی یامقابلہ کرتے ہوئے دایاں ہاتھ کٹ جائے تو کیاوہ شیر نہیں رہتا؟اس نے کہا شیر تو رہتاہے ۔کہنے لگا پھر اس کو چھوڑو اورآگے چلو۔ اسی طرح وہ بایاں بازو گو دنے لگا توکہا اسے بھی رہنے دو کیا اس کے بغیر شیر نہیں رہتا؟ پھر ٹانگ گودنی چاہی تب بھی اس نے یہی کہا ۔آخر وہ بیٹھ گیا ۔اس آدمی نے پوچھا کام کیوں نہیں کرتے۔ گودنے والے نے کہا اب کچھ نہیں رہ گیا ۔یہی آجکل اسلام کے ساتھ سلوک کیا جاتاہے۔ لوگ اپنی مطلب کی چیزیں الگ کرلیتے ہیں اورکہہ دیتے ہیں کہ باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے۔
ہمارے ناناجان فرمایاکرتے تھے کہ چھوٹی عمر میں میری طبیعت بہت چلبلی تھی ۔آپ میردرد کے نواسے تھے اوردہلی کے رہنے والے تھے ۔وہاں آم بھی ہوتے ہیں۔آپ فرمایا کرتے تھے جب والدہ والد صاحب اور بہن بھائی صبح کے وقت آم چوسنے لگتے تومیں جو آم میٹھاہوتا اس کو کھٹاکھٹاکہہ کر الگ رکھ لیتااورباقی آم ان کے ساتھ مل کرکھالیتا۔جب آم ختم ہوجاتے تو میں کہتا میراتو پیٹ نہیں بھرا۔ اچھا میں یہ کھٹے آم ہی کھالیتاہوںاور سارے آم کھاجاتا۔ایک دن میرے بڑے بھائی جو بعد میں میر درد کے گدی نشین ہوئے انہوں نے کہا میرا بھی پیٹ نہیں بھرامیں بھی آج کھٹے آم چوس لیتاہوں ۔فرماتے تھے میں نے بہتیرا زور لگایا مگر وہ باز نہ آئے۔ آخرانہوںنے آم چوسے اور کہایہ آم تو بڑے میٹھے ہیں تم یو نہی کہتے تھے کہ کھٹے ہیں ۔جس طرح وہ آم چوستے وقت میٹھے آم الگ کرلیتے تھے اور باقی دوسروں کے ساتھ مل کر چو س لیتے تھے اور بعد میں کھٹے کھٹے کہہ کر وہ بھی چوس لیتے تھے یہی حال آجکل کے مسلمانوں کا ہے ۔و ہ لوگ جو کہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ کو نافذ کیاجائے ان کا اگر یہ حال ہوتو ان لوگوںکاکیاحال ہوگا جو اسلام کو جانتے ہی نہیں۔وہ تو پھر ہڈیاں اور بوٹی کچھ بھی نہیں چھوڑیں گے ۔
یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں نے یہ لکھ لکھ کر کتابیں سیاہ کرڈالی ہیں کہ اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کیامصیبت ہے کہ انسان پوراایک مہینہ روزے رکھتا جائے ۔اگر معدہ خراب ہوجائے تب تو ہو کہ ایک آدھ دن کاروزہ رکھ لیامگرمتواتر ایک مہینہ روزہ رکھتے جانا کونسی عقل کی بات ہے ۔پھر یہ کام کازمانہ ہے ،رات اور دن کام کرناہوتاہے اور دن میں کئی شفٹیں ہوتی ہیں اور روزانہ پانچ پانچ نمازوں کا پڑھنا اورپھر امام کے انتظار میں بیٹھے رہنا کونسی عقل کی بات ہے ۔بھلا اس طرح انڈسٹری کیسے چل سکتی ہے ۔یہ زمانہ تجارت کاہے۔ بینکنگ کے علاوہ دوسرے مُلکوں سے ہم ضروری اشیاء کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔تم کہتے ہو بینکنگ اُڑادو۔ اس طرح تومُلک تباہ ہوجائے گا۔پھر تجارت کیسے کی جائے گی ۔اِسی طرح تم کہتے ہو انشورنس کواُڑادو۔انسان جتنا کماتاہے،کھاجاتاہے۔اگراس کواڑادیاجائے تومرنے والا تو مر گیا، یتیم بچوں کے لئے کچھ نہیں رہے گااور اس طرح قو م پر ایک غیر معمولی بار پڑ جائے گا پھرعورتوں کی مددکے بغیر مرد کام نہیں کرسکتا ۔عورتیں مردوں کے دوش بدوش چلتی ہیں اوروہ ان کی عزت کاخیال کرکے ان کے اِکرام کے طور پر بڑی سے بڑی قربانی کرلیتاہے۔ اگر عورتوں کو پردہ میں بٹھادیاجائے توپھر دنیا کاکام کیسے چلے گا۔یہ صفائی کازمانہ ہے صحت ٹھیک ہونی چاہئے ۔ تم کہتے ہو ڈاڑھیاں رکھو اِس سے تو جوئیں پڑ جائیں گی اور میل بڑھ جائے گی، یہ بھی کوئی انسانیت ہے ۔جرمن والے توٹنڈ ہی کروالیتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہم پر انگریز حاکم تھے جس کے نتیجہ میں سروں کے بال محفوظ رہ گئے بلکہ بودے نکل آئے ۔ اگرجرمن حاکم ہوتے تو وہ سر کے بال بھی اُڑادیتے ۔
غرض تمام اسلامی احکام جو اسلام پیش کرتاہے ۔ان پر وہ اعتراض کرتے ہیں مثلاً ایک سے زیادہ شادیاں کرناہے۔وہ کہتے ہیں یہ بھی کوئی انصاف کی بات ہے، مرد کو اگرزیادہ شادیاںکرنے کاحق ہے توعورت کوکیوں نہیں ۔اسی طرح پہلے تو طلاق بھی بُری سمجھی جاتی تھی لیکن آجکل اسے بُرانہیں سمجھاجاتابلکہ ٹائمز آف لندن میں ایک دفعہ میں نے ایک واقعہ پڑھا کہ امریکہ میں ایک عورت تھی جب وہ فوت ہوئی تو وہ ۱۷خاوند کرچکی تھی ۔جن میں سے بارہ خاوند اس کے جنازے پر موجود تھے ۔پھرطلاق کی وجوہات بھی وہاں بہت معمولی ہوتی ہیں۔ ایک عورت نے لکھا کہ میں نے اپنے خاوند سے اس لئے طلاق لی کہ میں نے ایک ناول لکھا اور خاوند سے کہا کہ اس کو شائع کرنے کی اجازت دو۔اس نے کہا میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ میں نے جج سے کہا میں ادبی عورت ہوں اورمیرے کام میں میراخاوند روک بنتاہے اس لئے میں طلاق لیناچاہتی ہوں۔جج نے کہاٹھیک ہے ،اس طرح تو ملک کا ادب خراب ہوجائے گا۔ غرض ساری باتیں ایسی ہی مضحکہ خیز نہیں مگرایک زمانہ ایساگذراہے کہ طلاق پربڑااعتراض کیاجاتاتھا اور طلاق کے بعد شادی کوفحش خیال کیاجاتاتھا۔مگراب وہی مسئلہ ہے جس پر دوسری قومیں بھی عمل کررہی ہیںبلکہ اس میں حدسے زیادہ گذر گئی ہیں ۔پھر قریب کی شادیاں ہیں۔ عیسائی اورہندوبھی اس پر اعتراض کرتے تھے۔ مگراب مسودے تیار ہورہے ہیں کہ اس کی اجازت ہونی چاہئے۔ غرض اب غیر قومیں بھی اسلامی احکام کی فضیلت کو تسلیم کررہی ہیں لیکن اسلام میںکوئی ایک حکم نہیں بلکہ ہزاروں احکام ہیں جن پر عمل کرناضروری ہے ۔بھلاوہ لوگ جو ہروقت سوٹ پہننے کے دِلدادہ ہیں ،آجکل حج کیسے کرسکتے ہیں وہاں اَنْ سلے کپڑے پہننے پڑتے ہیں ان کو یہ لو گ کیسے برداشت کرسکتے ہیںیہ توکہیں گے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ یہ کیا بدتمیزی کی بات ہے۔
غرض یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ ان کو مسلمانوں میں بھی رائج کرنامشکل ہے کجا یہ کہ ان کو یورپین ممالک میں رائج کیاجائے ۔و ہ تو چھوٹی سے چھوٹی باتوںپر بھی اعتراض کردیتے ہیں ۔ ہمارے مبلّغ جب امریکہ میں گئے تو وہ وہاں دیسی لباس پہناکرتے تھے۔ ایک دن دو عورتیں آئیں اور انہوں نے کہا ہم اسلام کے متعلق باتیں سننے آئی ہیں۔ ہمارے مبلّغ شلوار پہنے باہر آگئے ۔وہ کمرے میں داخل ہوئے ہی تھے کہ وہ عورتیں شور مچا کر بھاگیں کہ ہمارے سامنے یہ شخص ننگا آگیاہے،ہماری ہتک ہے ۔مبلّغ نے کہا میں کیسے ننگا ہوں، میں نے تو شلوار پہنی ہوئی ہے لیکن ان کے نزدیک یہ نائٹ ڈریس تھا اوررات کوہی پہناجاتاتھااور ا ن کے نزدیک نائٹ ڈریس میں آدمی ننگاہوتاہے ۔غرض بہت شور ہوا،محلہ والے انہیں مارنے کودَوڑے ۔ اتنے میں کوئی پادری آگئے اورانہوں نے کہا یہ توان کے ملک کا لباس ہے ان کے نزدیک ایسے شخص کو ننگا نہیں کہتے ۔
میں جب انگلینڈ گیا تو میں نے چند گرم پاجامے سلوائے تھے مگروہاں جاکر میں نے فیصلہ کیا کہ میں شلوار ہی پہنوں گا، میں ان کالباس کیوں پہنوں۔ ہمارے جو وہاں مبلّغ تھے وہ باربار کہتے تھے کہ لو گ ہمارے متعلق کیاکہتے ہوں گے ۔ مگر میں نے کہا جب ہمارے ملک میں انگریز جاتاہے تو کیاوہ شلوار پہنتاہے؟ اگروہ شلوار نہیں پہنتا تو میں پتلون کیوں پہنوں ۔وہ کہتے تھے عورتیں آتی ہیں تو بُرامناتی ہیں کیونکہ اس لباس میں وہ آدمی کو ننگا سمجھتی ہیں ۔میں نے کہامیں تو کپڑے پہنے ہوئے ہوں اورمجھے کپڑے نظر آرہے ہیں۔ ایک دن سرڈینی سن راس آئے جولنڈن میں ایک کالج کے پرنسپل تھے ۔ان کے ساتھ دواوربھی پروفیسر تھے۔میں نے کہا۔ سرڈینی سن راس! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں اگرآپ بے تکلفی سے بتائیں۔ انہوں نے کہا پوچھ لیجئے۔میں نے کہا جولباس میں پہنے ہوئے ہوں ،کیا آپ او رآپ کے دوست اسے بُرا تو نہیں مناتے؟ انہوں نے کہا سچ پوچھیں توہم بُرامناتے ہیں۔ میں نے کہا آپ جب ہندوستا ن گئے تھے تو کیاآپ نے شلوارپہنی تھی اور اگرنہیں پہنی تھی تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ انگریز خود تودوسروں کالباس نہیں پہنتے مگریہ حق رکھتے ہیں کہ دوسروں کو اپنا لباس پہننے پرمجبور کردیں۔ کہنے لگے یہ بات اَنْ لاجیکل تو ہے لیکن ہم بُرا ضرور مناتے ہیں۔ پھر میں نے کہا میں ایک اورسوال پوچھناچاہتاہوں کہ آپ بُرا تو مناتے ہیں مگرآپ کس کے کیریکٹر کو مضبوط سمجھتے ہیں؟ آیااس کے کیریکٹر کوجوآپ کی رَومیں بہہ جائے یاجواپنے طریق پر قائم رہے کیونکہ جو اپنے طریق پر قائم رہے وہی بہادر ہے۔کہنے لگے جو اپنے طریق پر قائم رہے وہی بہادر ہے۔میں نے کہا بس مجھے اس تعریف کی ضرورت ہے دوسری کسی بات کی میں پرواہ نہیں کرتا ۔
غرض ہم اسلام کی باتوںکو دوسروں سے نہیں منواسکتے جب تک ہم ان پر عمل کرنے میں رات دن ایک نہ کردیں اور دعائیںکرکے ہمارے ناک نہ رگڑے جائیں اوراپنی کوششوں کو بڑھانہ دیں۔ جب تک ہم دوسروں کی باتوں کو برداشت نہیں کرسکتے اوراپنے اندرایک قسم کی دیوانگی پیدانہیںکرلیتے اُس وقت تک ہم کو ئی عظیم الشان تغیر پیدانہیں کرسکتے ۔آج تک کوئی بھی بڑاکام نہیں ہواجس کے کرنے والے کولوگوںنے پاگل نہ کہاہو۔ جب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا اورایک بڑے مقصد کو لے کر دنیا کے سامنے کھڑے ہوگئے تو کیا کوئی یہ خیال بھی کرسکتاتھا کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے ۔دنیا کے سب لوگ کہتے تھے کہ یہ کام نہیں ہوسکتا یہ توعقل کے خلاف ہے ، بھلااتنا بڑاتغیر دنیا میں کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ ان کے نزدیک آپ نے قوم کی تمام رسوم کو چھوڑ کر ایک نیا طریق اختیار کرلیا تھا ۔ان کے اندر یہ احساس تھا کہ یہ کام نہیں ہوسکتا،اس لئے وہ آپ کو پاگل کہتے تھے لیکن آپ صرف منہ سے ہی نہیں کہتے تھے بلکہ جو کہتے تھے اس کے لئے پوری جدوجہد بھی کرتے تھے ۔جب ان کے کہنے کے بعد بھی آپ رات اور دن جدوجہد میں لگے رہے تو و ہ کہتے یہ شخص پکا پاگل ہے مگرآپ برابر اس کے لئے اپنی زندگی کو لگاتے چلے گئے کیونکہ آپ کو یہ یقین تھا کہ یہ کام آپ کر کے چھوڑیں گے اوراس میںضرور کامیاب ہوں گے۔
توحید کے مسئلہ کو لے لو جس کو آجکل بڑے فخر کے ساتھ تم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہو اور تمہاری گردنیں ان کے سامنے بلندرہتی ہیں۔تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ فطرتی مسئلہ ہے حالانکہ اس مسئلہ کو بھی وہ مجنونانہ خیال سمجھتے تھے۔قرآن میں آتا ہے کہ ۲؎ وہ لوگ یہ خیال بھی نہیںکرسکتے تھے کہ ایک خداہوسکتاہے ،ان کے نزدیک توکئی خداتھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ آپؐ نے سارے خدائوں کو کوٹ کرایک خدابنالیاہے۔ان کے ذہنوں میں ایک خدا کا مسئلہ آتاہی نہیں تھا۔
بھیرہ کے ایک طبیب تھے جن کانام الٰہ دین تھا۔انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی کتب کو پڑھاہواتھا۔وہ آپ کے بہت معتقدتھے لیکن احمدی نہیں ہوئے تھے۔ ان کے پاس ان کا ایک مریض احمدی چلا گیا اور اس نے تبلیغ شروع کردی۔ آپ کے دعویٰ کا انہیں علم تھا وہ اپنے آپ کو بہت بڑاعالم سمجھتے تھے اورحضرت خلیفہ اول جن کے علم و فضل کا ہر ایک اقرار کرتا ہے وہ ان کے متعلق کہاکرتے تھے کہ نورالدین کیاجانتاہے، وہ تو صرف ابتدائی باتیں جانتا ہے۔ جب اس دوست نے انہیں تبلیغ کی توکہنے لگے میاں جانے بھی دو کیا مرزا صاحب کی کتابوں کو تم مجھ سے زیادہ سمجھتے ہو ۔میں آپ کی کتابوں کو جتنا سمجھتاہوں تم نہیں سمجھتے۔ میں نے آپ کی کتابوں کا گہرامطالعہ کیاہواہے۔آپ بڑے عالم ہیں کیاوہ اتنی بڑی بیوقوفی کی بات کہہ سکتے ہیںکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں۔قرآن میں صاف لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔بھلا آپ جیساعالم یہ کہہ سکتاہے کہ وہ زندہ نہیں۔ اصل میں تم نے کتابوں کو غور سے پڑھا نہیں۔مجھے اصل بات کا پتہ ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جب آپ نے براہین احمدیہ لکھی تواس میں اسلام کی صداقت کو اتنے زبردست دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ آپ سے قبل ۱۳۰۰سا ل تک کسی عالم سے ایسانہیں ہو سکا تھا اوروہ ایسے دلائل تھے کہ ان کے سامنے عیسائی اورہندو ٹھہر نہیں سکتے تھے ۔مگرمولویوں کی عقل ماری گئی اوربجا ئے خوش ہونے کے انہوں نے آپ پر کفر کے فتوے لگانے شرو ع کر دیئے۔ مرزاصاحب نے کہا اچھا اب میں تم سے اس کابدلہ لیتاہوں۔ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کاآسمان پر جانا سیدھی سادھی بات ہے لیکن اب میں اس کاانکار کرتاہوں ۔اگر تم میں ہمت ہے توتم اس سیدھی سادھی بات کو ثابت کرکے دکھادو۔پس یہ تو محض ان کی عقل کاامتحان لینے کے لئے مرزاصاحب نے کیا تھا ۔اگریہ سب مولوی آپ سے جاکر معافی مانگ لیں تو آپ اسی قرآن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ ثابت کردیں ۔غرض جس طرح ان کے خیال میں حیاتِ مسیح کامسئلہ ایک ثابت شُدہ مسئلہ تھا اسی طرح مکہ والوں کے نزدیک کئی خدائوں کا ہونا ایک ثابت شُدہ مسئلہ تھا ۔و ہ سمجھتے تھے کہ محمد رسول اللہ نے سب خدائوں کا قیمہ کرکے ایک بنالیا ہے۔ مگرپھر دیکھو آپ نے ان سے یہ مسئلہ منوالیایانہیں۔وہ جو سمجھتے تھے کہ کئی خداہیں ان کا یہ حال ہوگیا۔
جب مکہ فتح ہواتوچند ایسے آدمی تھے جن کو معاف کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب نہ سمجھا ، اوران کے قتل کا حکم صادر کردیا ۔ان میں سے ایک ہندہ ابوسفیا ن کی بیوی بھی تھی۔ یہ وہی عورت ہے جس نے حضرت حمزہؓ کا مثلہ کروایاتھا ۔آپؐ نے مناسب سمجھا کہ اسے اس ظالمانہ فعل اورخلافِ انسانیت حرکت کی سزادی جائے ۔اُس وقت پردہ کاحکم نازل ہوچکا تھا۔جب عورتیںبیعت کے لئے آئیں توہندہ بھی چادر اوڑھ کر ساتھ آگئی اور اُس نے بیعت کرلی۔ جب وہ اس فقرہ پر پہنچی کہ ہم شرک نہیں کریں گی توچونکہ وہ بڑی تیز طبیعت تھی اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! ہم اب بھی شرک کریں گی؟آپؐ اکیلے تھے اور ہم نے پوری طاقت اور قوت کے ساتھ آپ کامقابلہ کیا۔اگرہمارے خداسچے ہوتے توآپ کیوں کامیاب ہوتے۔ وہ بالکل بیکارثابت ہوئے اور ہم ہار گئے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہندہ ہے؟ آپؐ اس کی آواز کوپہچانتے تھے ،آخر رشتہ دار ہی تھی ۔ہندہ نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! اب میں مسلمان ہو چکی ہوں اب آ پ کو مجھے قتل کرنے کا اختیار نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا ہاں اب تم پر کوئی گرفت نہیں ہوسکتی۔۳؎
غرض وہ قوم جو سمجھتی تھی کہ آپ نے سب خدائوں کو کوٹ کر ایک خدابنالیاہے ان میں اتنا تغیر پیداہوگیاکہ ہندہ جیسی عورت نے کہا کہ کیاکوئی کہہ سکتاہے کہ خداایک نہیں۔اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ ایک زمانہ ایساآئے گا جب تمام دنیا صداقت اسلام کی قائل ہوجا ئے گی ۔اب تو یہ حالت ہے کہ ایک مسلمان اپنی عملی کمزوریوں کی وجہ سے دوسروں کے سامنے شرمندہ ہوجاتاہے لیکن ایک دن آئے گا جبکہ یورپین اقوام بھی ان احکام کوتسلیم کریں گی اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ لوگ بادشاہوں کے مذہب کے تابع ہوتے ہیں بے شک کچھ لوگ وہ بھی ہوتے ہیں جو نقال ہواکرتے ہیں ۔جیسے شروع شروع میں مسلمان آئے توہندو بھی فارسی بولنے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔اسی طرح جیساکوئی فیشن ہوجائے لوگ بھی وہی اختیار کرلیتے ہیں ۔اُس وقت ہندوئو ں نے بھی داڑھیاں رکھ لی تھیںمگر جب انگریزوں کازمانہ آیا تو داڑھی منڈوانا شروع کردی۔ چھوٹے کو ٹ پہننے شروع کردیئے ۔
جب اسلام غالب آئے گا توہرانسان ا س بات میں فخر محسوس کرے گاکہ وہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرے لیکن جب تک اسلام غالب نہیں آتا ہمیں بڑی بڑی قربانیاں کرنی پڑیں گی اور اپنے نفسوں کومارناہوگا ۔ جب تک ہم اپنے نفسوں کو مار کر موجودہ رسم و رواج کے خلاف اپنے آپ کو نہیں اُبھاریں گے، دریا کی دھار کے خلاف تیرنے کی کوشش نہیں کریں گے، ملامت کی تلوار کے نیچے، ہنسی اورمذاق کی تلوار کے نیچے، سیاسی لوگوں کے سیاسی اعتراضات کی تلوار کے نیچے ، مذہبی اور فلسفی لوگوں کے اعتراضات کی تلوار کے نیچے اپناسر رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اُس وقت تک اس عظیم الشان مقصد کے پوراکرنے کی ہمیں امید نہیں رکھنی چاہئے۔ دنیا میں آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گذری جس نے صرف میٹھی میٹھی باتوں سے دنیاکوفتح کر لیا ہو۔ قومیں ہمیشہ مصیبتوں او ر ابتلائوں کی تلواروں کے سایہ تلے بڑھتی او ر ترقی کرتی ہیں اور انہیں لوگوں کے اعتراضات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔پس اپنے آپ کو اِس فتح کااہل بنائو۔ جب تک آپ لوگ خدا اور اس کے رسول ؐ کے دیوانے نہیں بن جاتے ،جب تک موجودہ فیشن اور رسم و رواج کو کچلنے کے لئے تیار نہیں ہوجاتے اُس وقت تک اسلامی احکام کو ایک غیر مسلم کبھی بھی قبول کرنے کے لئے تیا ر نہیں ہوگا ۔
انگلینڈ سے مجھے ایک غیر مسلمہ کاخط آیا۔وہ احمدی تو ہوچکی ہے مگر تعلیم ابھی کم ہے۔ وہ ہمارے مبلّغ کے متعلق لکھتی ہے کہ جب میں ان کے لیکچر میں جاتی ہوں تو جو کچھ وہ کہتے ہیں میں سمجھتی ہوں کہ یہ ناممکن ہے، اسے کیسے قبول کیاجاسکتاہے مگر جب میں ان کے جوش اور ان کے چہرہ کی حالت دیکھتی ہو ں تو مجھے یقین ہوجاتاہے اور میرادل تسلی پاجاتاہے کہ آخر یہ ہو کر رہے گا۔ غرض جب لو گ ہمارے عزم کو دیکھ کر ہمارے اندر سنجیدگی اور جو ش دیکھیں گے تو وہ انہیں خود بخود ماننے پر مجبور ہوجائیں گے ۔
پس پہلے اپنے اندر جوش اور سنجیدگی پیداکرنی چاہئے پھر ہم دوسروں کی توجہ کو بھی پھیر سکیں گے اوروہ سمجھ لیں گے کہ اسلام کی باتیں سچی ہیں اوروہ ان پر سچے دل سے غور کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے اورپھر اسلام اُس مقام پر پہنچ جائے گا جس پر آج سے تیرہ سَو سال پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچایاتھا۔
(الفضل ۱۱؍اکتوبر۱۹۶۱ ء)
۱؎ ناطقین بِالضاد: ض بولنے والے
۲؎ ص: ۶
۳؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۹۴ تا۹۶ مطبوعہ بیروت ۱۳۲۰ھ
دیباچہ تفسیر القرآن
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بَاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ۔ھُوَ النَّاصِرُ
دیباچہ
تفسیر القرآن (انگریزی)
اس نئے ترجمہ اور تفسیری نوٹوں کو پیش کرتے ہوئے ہم یہ بتا دینا مناسب سمجھتے ہیں کہ اس کی غرض تجارتی نہیں ہے اورنہ صرف ایک جدید چیز کا پیش کرنا اصل مقصود ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت تک وہ اقوام جو عربی سے ناواقف ہیں ایک نئے ترجمہ کی محتاج ہیں اور ساری دنیا عربی دانوں کو بھی شامل کرتے ہوئے ایک نئے انداز کے تفسیری نوٹوں کی محتاج ہے اس کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں۔
انگریزی نئے ترجمہ اور نئی تفسیر کے لکھنے کی وجوہ
(۱) اِس وقت تک قرآن کریم کے جس قدر انگریزی تراجم غیر مسلموں نے کئے ہیں وہ سب کے سب ایسے
لوگوں نے کئے ہیں جو عربی زبان سے یا تو بالکل
ناواقف تھے یا بہت ہی کم علم عربی زبان کا رکھتے تھے۔ اس وجہ سے قرآن کریم کا ترجمہ کرنا تو الگ رہا وہ اِس کا مفہوم بھی اچھی طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے اور بعض نے تو کسی اور زبان کے ترجمہ سے اپنی زبان میں ترجمہ کر دیا تھا جس کی وجہ سے مفہوم اور بھی حقیقت سے دُور جا پڑا تھا۔
(۲) مزید خرابی اُن تراجم میں یہ تھی کہ اُن کی بنیاد عربی لغت پر نہیں تھی بلکہ تفسیروں پر تھی اور تفسیر ایک شخص کی رائے ہوتی ہے جس کا کوئی حصہ کسی کے نزدیک قابلِ قبول ہوتا ہے اورکوئی حصہ کسی کے نزدیک۔ اور کوئی حصہ مصنف کے سوا کسی کے نزدیک بھی قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ اِس قسم کا ترجمہ ایک رائے کا اظہار تو کہلا سکتا ہے حقیقت کا آئینہ دار نہیں کہلا سکتا۔
اِن نقائص کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضرورت شدید طور پر محسوس ہوتی تھی کہ ایک ایسا ترجمہ قرآن کریم کا غیر عربی دان لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے جو:
(الف) عربی دان افراد کی کوشش اور محنت کا نتیجہ ہو اور:
(ب) جو لغتِ عربی پر مبنی ہو۔ چنانچہ یہ انگریزی ترجمہ جس کے بعد دوسری زبانوں کے تراجم اِنْشَائَ اللّٰہُ جلد شائع کئے جائیں گے انہی دو اصول کے ماتحت شائع کیا جا رہا ہے۔
عربی زبان سے دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنے میں ایک دِقّت
اِس میں کوئی شک نہیں کہ چونکہ عربی زبان ایک فلسفیانہ زبان ہے اور اِس کے تمام الفاظ معیّن حکمتوں کے ماتحت وضع کئے گئے
ہیں اور اس وجہ سے کہ ان کے مادے ابتدائی جذبات و مشاہداتِ انسانی کے اظہار کے لئے بنائے گئے ہیں اس لئے استعمال میںا ن کے معنی بعض دفعہ نہایت وسیع ہی نہیں ہوجاتے بلکہ نہایت گہرے بھی ہو جاتے ہیں۔ دوسری زبانوں میںا ن کا پورا ترجمہ کرنا قریباًنا ممکن ہے اور جب تک کہ تفسیری نوٹوں میںا ن معانی کی وسعت بیان نہ کی جائے صرف ترجمہ پورے مضمون کو ظاہر نہیں کر سکتا۔ اس لئے جو ترجمہ ہم پیش کر رہے ہیں اِن معنوں میں مکمل ترجمہ نہیں کہلا سکتا کہ انگریزی ترجمہ نے عربی عبارت کا پورا مفہوم یا قریباً پورا مفہوم بیان کر دیا ہے بلکہ وہ ترجمہ عربی عبارت کے مختلف مفہوموں سے صرف ایک مفہوم کو ظاہر کرنے والا قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کمی کو پورا کر نے کے لئے ہم نے:
(۱) مختصر نوٹ ترجمہ کے نیچے دئیے ہیں یہ نوٹ اِس وجہ سے کہ ایک مکمل تفسیر نہیں ہیں ان مختلف معانی کو جو ہمارے نزدیک کسی آیت کے ہیں مکمل طور پر تو نہیں ظاہر کرتے مگر کم سے کم ترجمہ کی محدودیت کا کسی قدر ازالہ کر دیتے ہیں۔
(۲) دوسرے پڑھنے والے کوترجمہ میں بصیرت بخشنے کے لئے اور اس کے دل کو اِس بات پر مطمئن کرنے کے لئے کہ جو ترجمہ ہم نے کیا ہے وہ آزاد نہیں ہے بلکہ لغت اور وضع کلام کے مطابق ہے ہم نے ضروری الفاظ کے معانی ایسی کتب لغت سے جو نہ صرف مسلمانوں کے نزدیک بلکہ عربی بولنے والے غیرمذاہب کے لوگوں کے نزدیک بھی مسلّمہ ہیں حاشیہ میں دئیے ہیں تاکہ ایک عربی سے ناواقف آدمی بھی یہ معلوم کر سکے کہ جو ترجمہ ہم نے کیا ہے وہ خواہ کسی دوسرے کے نزدیک قابل قبول نہ ہو، مگر ہے عربی لغت کے عین مطابق۔ اور بغیر کسی قرآنی دلیل کے جس سے معلوم ہو کہ اس جگہ اس لفظ کو ان معنوں میں قرآن کریم نے استعمال نہیں کیا یا بغیر شواہد لغت عربیہ کے اسے ردّ کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں۔
تفسیری نوٹ لکھنے کی وجوہ
ترجمہ کے متعلق اس قدر تشریح کے بعد اب ہم تشریحی نوٹوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی
شک نہیںکہ درجنوںتفسیریں قرآن کریم کی اِس وقت تک لکھی جا چکی ہیں اور شاید ان کی موجودگی میں کسی نئی تفسیر کی ضرورت نہ سمجھی جائے لیکن ان تفسیروںکی موجودگی کے باوجود ہم نے یہ تفسیری نوٹ لکھے ہیں اس کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:۔
(۱) جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے عربی زبان کے الفاظ وسیع معانی رکھتے ہیں لیکن ترجمہ میں صرف ایک ہی معنی کا خیال رکھا جاسکتا ہے اس لئے ضروری تھا کہ نیچے نوٹ دیئے جاتے تاکہ بعض اور اہم معانی پر بھی روشنی پڑجاتی۔
(۲) قرآن کریم کی تمام اہم اور مفصل تفسیریں جو اِس وقت تک لکھی گئی ہیں عربی زبان میں ہیں اور ظاہر ہے کہ جو لوگ قرآن کریم کی عبارت کو نہیں سمجھ سکتے وہ اس کی تفاسیر سے بھی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔
(۳) جو نوٹ تفسیری رنگ میں قرآن کریم کے تراجم کے حواشی میں غیر مسلم مترجموں نے لکھے ہیں وہ:
(الف) مخالفین اسلام کی کتب سے متأثر ہو کر لکھے گئے ہیں۔
(ب) ان لوگوں کوعربی زبان کا یا تو بالکل علم نہ تھا یا بہت ہی کم علم تھا اس وجہ سے معتبر اور مفصل تفسیروں سے وہ فائدہ نہیں اُٹھا سکے۔ چنانچہ مغربی زبانوں میں جس قدر تراجم ہیں ان میں سے کسی ایک کے حواشی میں بھی قرآن کریم کی معتبر اور مفصل تفاسیر میں سے کسی کا بھی حوالہ نہیں آتا، صرف ادنیٰ اور عوام الناس کی دلچسپی کے لئے لکھی ہوئی تفاسیر کا حوالہ آتا ہے اور اگر کسی بڑی تفسیر کا حوالہ ہوتا ہے تو کسی دوسری تفسیر سے نقل کیا ہوا ہوتا ہے خود اس کتاب کو پڑھ کر استفادہ کیا ہوا نہیں ہوتا۔
(۴) کسی علمی کتاب کو سمجھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ نہ صرف اُس زبان کا علم ہو جس میں وہ کتاب لکھی ہوئی ہے، نہ صرف اُن تفاسیر پر عبور ہو جو اُس زبان یا علم کے ماہروں نے لکھی ہیں بلکہ خود اُس کتاب کا بھی اِس قدر گہرا مطالعہ ہو کہ اس کی اپنی اصطلاحات اور محاورات اور ان اصول کا علم حاصل ہو جائے جن کے گرد اُس کی تعلیم کی فروع چکر کھاتی ہیں۔ اگر یہ علم نہ ہو تو تفسیروں کی مدد سے بھی کوئی شخص صحیح ترجمانی نہیں کر سکتا۔ چونکہ یہ درجہ کسی مغربی مترجم یا شارح قرآن کو حاصل نہ تھا اس لئے ان کے نوٹ بعض دفعہ مضحکہ خیز حدتک جا پہنچتے ہیں۔
(۵) ہر زمانہ اپنے ساتھ نئے علوم لاتا ہے۔ ان علوم کی ہر علمی کتاب کی تعلیم ایک نئی تنقید کا شکار ہوتی ہے اور اس کے مطالب یا زیادہ واضح ہو جاتے ہیں یا زیادہ مشکوک ہو جاتے ہیں۔ قرآن کریم بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا۔ پس موجودہ زمانہ کے علوم کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی تفسیر ضروری تھی تا معلوم ہو سکے کہ وہ موجودہ علوم کی روشنی میں اپنی ہادیانہ شان کس حد تک قائم رکھ سکا ہے یا اس کی شان کس حد تک آگے سے بھی زیادہ روشن ہوگئی ہے۔
جب قرآن کریم کی پہلی تفاسیرلکھی گئیں اُس وقت عربی زبان میں مکمل بائبل موجود نہ تھی بلکہ اُس کے جن ٹکڑوں کے تراجم عربی زبان میں ہوئے تھے وہ بھی مفسرین کی دسترس سے باہر تھے اس وجہ سے پرانے مفسرین نے قرآن کریم کے ان مضامین کی طرف جن میں موسوی سلسلہ کی تاریخ کی طرف اشارہ ہے صرف اپنے علم کے مطابق روشنی ڈالی ہے، جو بعض دفعہ نہایت مایوس کن اور بعض دفعہ مضحکہ خیز ہو جاتی ہے۔ مغربی مصنفین ان کی غلطیوں کو قرآن کریم کی طرف منسوب کر کے ہنسی اُڑاتے ہیں حالانکہ ان مفسروں نے جو کچھ لکھا بائبل کو پڑھ کر نہیں لکھابلکہ یہودی اورمسیحی علماء سے پوچھ کر لکھا تھا۔ بعض دفعہ اُن علماء نے بائبل کی بجائے اپنی روایات کی کتب سے انہیں مضمون بتا دئیے اور بعض دفعہ ان کی ناواقفیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان سے تمسخر کیا۔ بیشک ان پر اعتبار کر کے ان مفسرین نے سادگی اور بے احتیاطی کا اظہار کیا لیکن اُس بات سے اُس زمانہ کے یہودی اور مسیحی علماء کی دیانت اور اُن کے تقویٰ پر جو زَد پڑتی ہے وہ بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ پس موجودہ مغربی مصنفین کو قرآن کریم کے مفسرین پر ہنسی اُڑانے کی بجائے خود اپنے آباء کی دیانت پر ماتم کرنا چاہئے۔ اب جبکہ بائبل کے علوم ہر کس و ناکس کے لئے ظاہر ہو گئے ہیں اور عبرانی،لاطینی اوریونانی کتب بھی مسلم علماء کی دسترس میں ہیں اس لیے موقع پیدا ہو گیا ہے کہ نئے رنگ میں ان مضامین پر روشنی ڈالی جائے جو قرآن کریم میں موسوی سلسلہ اور بائبل کے متعلق بیان ہوئے ہیں۔
(۶) پرانے زمانہ میں مختلف مذاہب کے درمیان اعمال کے متعلق تعلیمی برتری کا مقابلہ بہت کم تھا، بلکہ رسم ورواج اور عقائد کی بحث تک علماء کی گفتگو محدود رہتی تھی۔ اس وجہ سے قرآن کریم کی وہ تعلیم جو اخلاقی، تعلیمی، اقتصادی، سیاسی اور تعامل باہمی کے امور کے متعلق تھی زیربحث نہ آتی تھی۔ آج دنیا کی توجہ ان امور کی طرف زیادہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے قرآن کریم کی ایسی تفسیر پیش کی جائے جس میں ان اُمور کے متعلق جو اس کی تعلیم ہے اس پر زیادہ روشنی ڈالی جائے۔
(۷) قرآن کریم چونکہ الہامی کتاب ہے اس میں آئندہ زمانہ کی پیشگوئیاں بھی ہیں۔ جن کے متعلق صحیح روشنی اُسی وقت ڈالی جا سکتی ہے جبکہ وہ پوری ہو چکی ہوں۔ اس لئے بھی ضروری تھا کہ اِس زمانہ میں نئی تفسیر پیش کی جائے جو اِس وقت پوری ہوچکنے والی پیشگوئیوں کو ظاہر کرے۔
(۸) قرآن کریم کی تعلیم سب مذاہب اور فلسفوں پرحاوی ہے اور وہ سب مذاہب کی اچھی تعلیموں پر مشتمل ہونے کے علاوہ ناقص کا نقص بھی ظاہر کرتی ہے اور نا مکمل کو مکمل بھی کرتی ہے۔ ابتدائی زمانۂ اسلام کے مفسرین کو چونکہ ان مذاہب اور ان فلسفوں کا علم نہ تھا وہ ان کے متعلق قرآنی تعلیم کو صحیح طور پر اخذ نہیں کر سکے۔ اب وہ سب پوشیدہ علوم ظاہر ہو چکے ہیں اور قرآن کریم کے وہ حصے جو ان کے متعلق ہیں اس کے عارفوں پر روشن ہو گئے ہیں پس اِس زمانہ میں پرانی تفسیروں کی اِس کمی کو پورا کرنا بھی ایک اہم ضرورت ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وجوہاتِ مندرجہ بالا کی موجودگی میںیہ ترجمہ اور تفسیر جو ہم پیش کر رہے ہیں صرف نا قابل اعتراض ہی نہیںبلکہ ایک اہم ضرورت کو پورا کر رہا ہے، ہم اسے پورا کرکے اپنا حق ادا کر رہے ہیں۔
ہم اُمیدکرتے ہیں کہ جو لوگ ہمارے پیش کردہ ترجمہ اور تفسیر کو غور سے پڑھیں گے اور تعصب سے آزاد ہو کر اِس کا مطالعہ کریں گے وہ اسلام کو ایک نئے زاویہ سے دیکھنے پر مجبور ہوں گے اور اُن پر ثابت ہو جائے گا کہ اسلام نقائص سے پرُ مذہب نہیں جیسا کہ مغربی مصنفوں نے پیش کیا ہے بلکہ وہ روحانی علم کا ایک خوبصورت باغ ہے جس میں سیر کرنے والا ہر قسم کی خوشبو اور ہر قسم کے حسن کے نظارہ سے مستفیض ہوتا ہے اور وہ اُس آسمانی جنت کا ایک مکمل ارضی نقشہ ہے جس کا وعدہ سب مذاہب کے بانی دیتے چلے آئے ہیں۔
قرآن کریم کی ضرورت
آج سے قریباً سَوا تیرہ سَو سال پہلے جب قرآن کریم نازل ہوا دنیا میں اور بھی بہت سے مذاہب اور بہت سی کتابیں
موجود تھیں۔ عرب کے اردگرد عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید دونوں کے ماننے والے پائے جاتے تھے۔ خود بعض عرب بھی عیسائی ہو چکے تھے یا عیسائیت کی طرف رغبت رکھتے تھے۔ اسی طرح بعض عرب یہودیوں کے مذہب میں بھی شامل ہوتے رہتے تھے، چنانچہ مدینہ کا کعب بن اشرف یہودِ مدینہ کا سردار مشہور دشمن اسلام اور اس کا باپ ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ کعب کا باپ طی قبیلہ سے تھا۔ یہود سے اسے ایسی عقیدت ہوئی کہ ابورافع بن ابی حقیق یہودی نے اس سے اپنی لڑکی کی شادی کر دی اوراس یہودی لڑکی کے بطن سے کعب پیدا ہوا۔ ۱؎
مکہ مکرمہ میں علاوہ عیسائی غلاموں کے خود مکہ کے بعض باشندے بھی عیسائیت کی طرف رغبت رکھتے تھے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی حضرت خدیجہؓ کے بھائی ورقہ بن نوفل نہ صرف یہ کہ عیسائی عقائد رکھتے تھے بلکہ انہوں نے کچھ عبرانی بھی سیکھی تھی اور وہ عبرانی اناجیل سے عربی میں ترجمہ کرتے تھے۔ بخاری میں لکھا ہیکَانَ إمْرَأً قَدْ تَنَصَّرَفِی الْجَاھِلِیَّۃِ وَکَانَ یَکْتُبُ کِتَابَ الْعِبْرَانِیِّ فَیَکْتُبُ مِنَ الْاِنْجِیْلِ باِ لْعِبْرَانِیَّۃِ مَاشَائَ اللّٰہُ اَنْ یَکْتُبَ ۲؎ یعنی ورقہ بن نوفل نے جاہلیت میں عیسائیت اختیار کرلی تھی اوروہ عبرانی سے عربی میں اناجیل کا ترجمہ کیا کرتے تھے۔
عرب کے دوسرے کنارے پر ایرانی آ باد تھے اور وہ بھی ایک نبی اور ایک کتاب کے ماننے والے تھے۔ زرتشت نبی کی کتاب ژند اَوِستاگوانسانی دستبرد کا شکار ہو چکی تھی لیکن تاہم لاکھوں انسانوں کا مرجع عقیدت بنی ہوئی تھی اور ایک زبردست حکومت اس کے قانون کی اتباع کی مدعی تھی۔ ہندوستان میں ویدہزاروں سالوں سے لوگوں کی عقیدت کا مرجع بنے ہوئے تھے اور کرشن جی کی گیتا اور بدھ کی تعلیم مزید برآں تھیں۔ چین میں کنفیوشس ازم کا زور تھا اور بدھ مذہب بھی اپنے پائوں پھیلا رہا تھا ان کتابوں اور ان تعلیموں کے ہوتے ہوئے کیا کسی نئی کتاب کی ضرورت تھی؟ یہ ایک سوال ہے جو قرآن کریم کے دیکھتے ہی ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے یا پیدا ہونا چاہئے۔ اس سوال کا جواب کئی رنگ سے دیا جا سکتا ہے۔
اوّل: کیا یہ اختلافِ مذاہب خود اِس بات کی دلیل نہ تھا کہ ان سب مذاہب کو متحد کرنے کے لئے کوئی اور مذہب آنا چاہئے؟
دوم: کیا انسانی دماغ اسی طرح ارتقاء کی منزلوں کو طے کرتا ہوا نہیں جا رہا تھا جس طرح انسانی جسم نے کسی زمانہ میں ارتقاء کی منزلیں طے کی تھیں۔ پھر کیا جس طرح جسم کی ارتقائی منزلیں ایک مقام پر پہنچ کر ایک مستقل صورت اختیار کر گئیں اسی طرح کیا روح اور دماغ کے لئے بھی ضروری نہ تھا کہ وہ ارتقائی منزلیں طے کرتے ہوئے ایک ایسی منزل پر پہنچے جو انسانی پیدائش کا مقصود تھی؟
سوم: کیا پہلی کتب میں کوئی ایسا نقص تو نہیں آگیا تھا جس کی وجہ سے دنیا کو شدید طور پر ایک نئی کتاب کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی اور قرآن کریم اس ضرورت کو پورا کرنے والا تھا؟
چہارم: کیا سابق مذاہب اپنی تعلیم کو حتمی اور آخری قرار دے رہے تھے یا وہ خود بھی ایک ارتقاء کے قائل تھے اور روحانیت کی ترقی کے لئے ایک ایسے نقطہ کی خبر دے رہے تھے جس پر جمع ہو کر بنی نوع انسان کو انسانی پیدائش کا مقصد حاصل کرنا تھا؟
میرے نزدیک ان چاروں سوالوں کا جواب ہی اس سوال کو حل کر دے گا کہ قرآن کریم سے پہلے مختلف کتب اور مختلف مذاہب کی موجودگی میں قرآن کریم کی کیا ضرورت پیش آئی تھی۔ پس میںان چاروں سوالوں کو باری باری لے کر جواب دیتا ہوں۔
پہلا سوال اور اس کا جواب
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ اختلافِ مذاہب خود اس بات کی دلیل نہ تھا کہ ان سب مذاہب کو متحد کرنے
کے لئے کوئی اور مذہب آنا چاہئے؟ ا س کاجواب یہ ہے کہ مذہب اوّل انسان کو خدا تعالیٰ سے ملانے کے لئے آتا ہے اور دوسری غرض ا س کی شفقت علیٰ خلق اللہ کی تکمیل ہوتی ہے۔
اسلام کے سِوا باقی سب مذاہب قومی مذہب تھے یونیورسل نہ تھے
اسلام سے پہلے جتنے بھی مذاہب دنیا میں موجود تھے وہ سب ایک دوسرے سے مختلف بلکہ ایک دوسرے کو ردّ کرنے
والے تھے۔ بائبل دنیا کے خدا کو نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے خدا کو پیش کرتی تھی، چنانچہ اس میں بار بار یہ ذکر آتا ہے کہ:
’’خد اوند بنی اسرائیل کا خد امبارک ہے جس نے تجھے بھیجا ہے کہ تُو آج کے دن میرا استقبال کرے۔‘‘ ۳؎
’’ خداوند بنی اسرائیل کا خد امبارک ہے جس نے آج کے دن ایک آدمی ٹھہرایا کہ میری ہی آنکھوں کے دیکھتے ہوئے تخت پر بیٹھے۔‘‘۴؎
’’ خداوند اسرائیل کا خداوندا بدالا باد مبارک ہو۔‘‘۵؎
’’ خدا وند اسرائیل کا خدا مبارک ہو جس نے اپنے ہاتھ سے وہ کلام کہ جس کو اپنے منہ سے میرے باپ دائود سے کہا تھا پورا کیا۔‘‘ ۶؎
’’ خداوند خدا اسرائیل کا خدا جو اکیلا ہے عجائب کام کرتا ہے۔‘‘ ۷؎
حضرت مسیح ؑبھی اپنے آپ کو صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث قرار دیتے تھے اور دوسری قوموں کے افراد کو دھتکار دیتے تھے۔ چنانچہ انجیل میں لکھا ہے:۔
’’ تب یسوع وہاں سے روانہ ہو کے صوراورصیدا کی اطراف میں گیا اور دیکھو ایک کنعانی عورت وہاں کی سرزمین سے نکل کر اسے پکارتی ہوئی چلی آئی کہ اے خداوند دائود کے بیٹے! مجھ پر رحم کر کہ میری بیٹی ایک دیو کے غلبہ سے بے حال ہے۔ اس نے کچھ جواب نہ دیا۔ تب اس کے شاگردوں نے پا س آکر اس کی منت کی کہ اسے رخصت کر، کیونکہ وہ ہمارے پیچھے چلاتی ہے۔ اس نے جواب میں کہا میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سِوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔ پھر وہ آئی اور سجدہ کر کے کہا۔اے خدا وند! میری مدد کر۔ اس نے جواب دیا کہ مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو پھینک دیویں۔‘‘ ۸؎
اِسی طرح حضرت مسیح نے اپنے حواریوں کو یہ تعلیم دی کہ:۔
’’ وہ چیز جو پاک ہے کتوں کو مت دو اور اپنے موتی سؤروں کے آگے مت پھینکو۔ ایسا نہ ہو کہ وے انہیں پامال کریں اور پھر کر تمہیں پھاڑیں۔‘‘۹؎
ویدوں کے ماننے والوں میں وید اس حد تک ہندوستان کی اونچی ذاتوں کے ساتھ مخصوص کر دیے گئے تھے کہ گوتم جو تمام ہندو قوم اور سناتن دھرم کا تسلیم شدہ شارح قانون ہے لکھتاہے کہ :
’’ شودر اگر وید کو سن لے تو راجہ سیسے اور لاکھ سے اس کے کان بھردے۔ وید منتروں کا اچارن (تلاوت) کرنے پر اُس کی زبان کٹوا دے۔ اور اگر وید کوپڑھ لے تو اس کا جسم ہی کا ٹ دے۔‘‘ ۱۰؎
اسی طرح خود وید میں غیر قوموں کے لئے جو تعلیم موجود ہے وہ نہایت ہی شدید اور سخت ہے۔ رگوید میں ویدک دھرم کے مخالفین کو کتا قرار دیتے ہوئے یہ بددعا کی گئی ہے کہ:
’’ اے آگ دیوتا! تُو ان بُرے کتوں ( مخالفین) کو دُور لے جا کر باندھ دے‘‘۔ ۱۱؎
اتھرو وید میں بھی یہ تعلیم دی گئی ہے کہ غیر ویدک دھرمی لوگوں کوجکڑ کر اُن کے گھروں کو لُوٹ لینا چاہئے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ:۔
’’ اے ویدک دھرمی لوگو تم چیتے جیسے بن کر اپنے مخالفین کو باندھ لو اور پھر ان کے کھانے تک کی چیزیں زبردستی اُٹھا لائو۔ ۱۲؎
اسی طرح ویدوں میں چاند، سورج، آگ، پانی اوراِندر سے یہاں تک کہ گھاس سے بھی یہ دعائیں کی گئی ہیں کہ غیر ویدک دھرمی لوگوں کو تباہ و برباد کردیا جائے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ :
’’ اے آگ! تُو ہمارے مخالفوں کو جلا کر راکھ کر دے۔‘‘ ۱۳؎
’’ اے اِندر! تُو ہمارے مخالفوں کو چیر پھاڑ ڈال اور جو ہم سے نفرت رکھتے ہیں انہیں تتر بتر کر دے۔‘‘۱۴؎
’’ اے مخالفو! تم سر کٹے ہوئے سانپوں کی طرح بے سر اور اندھے ہو جائو اس کے بعد پھر اِندر دیوتا تمہارے چیدہ چیدہ لوگوں کو تباہ کر دے۔‘‘۱۵؎
’’ اے وبھ گھاس! تُو ہمارے مخالفوں کو جلادے اور تباہ کر اور جس طرح تُو پیدا ہوتے وقت زمین کو چیر کر باہر نکل آتا ہے ویسے ہی تُو ہمارے مخالفوں کے سروں کو چیرتا ہوا اوپر کو نکل کر اُن کو تباہ کر کے زمین پر گرا دے۔‘‘ ۱۶؎
پھر ہندو دھرم میں یہ بھی تعلیم موجود ہے کہ غیرویدک دھرمی لوگوں کے ساتھ بات چیت بھی نہ کرو ۔۱۷؎
اگر کوئی ویدوں پر اعتراض کرے تو اُسے ملک سے باہر نکال د ویعنی حبس دوام کی سزا دو۔۱۸؎
کنفیوشس ازم اور زردشت مذہب بھی قومی مذہب تھے۔ اُنہوں نے کبھی بھی دنیا کو اپنا مخاطب نہ سمجھا نہ دنیا کو تبلیغ کرنے کی کوشش کی۔ جس طرح ہندو مذہب کے مطابق ہندوستان خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کا ملک تھا اسی طرح کنفیوشس ازم کے مطابق چین آسمانی بادشاہت کا مظہر تھا اور زرتشتیوں کے نزدیک ایران آسمانی بادشاہت کا مظہر تھا۔ اس اختلاف کے ہوتے ہوئے یا تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا کے پیدا کرنے والے کئی خدا ہیں اور یا یہ ماننا پڑے گا کہ خداتعالیٰ کی وحدانیت کے لئے اس اختلاف کو مٹا دینا ضروری تھا۔
خدا ایک ہے
اب زمانہ اس قدر ترقی کرچکا ہے کہ شاید مجھے اس بات کے متعلق کچھ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ اس دنیا کو پیدا کرنے والا اگر کوئی ہے تو وہ
ایک ہی ہے۔اسرائیلیوں، ہندوئوں، چینیوں اور ایرانیوں کا خدا عربوں، افغانوں، یورپینوں، منگولیوں اور سامی نسل کے لوگوں کے خدا سے کوئی مختلف خدا نہیں۔ اس دنیا میں ایک قانون جاری ہے۔ آسمان سے پاتال تک ایک ہی نظام کی کڑیاں ہمیں نظر آتی ہیں۔ درحقیقت سائنس کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ تمام طبیعاتی اور میکینکل تغیرات ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں اور یاتو بقول مادی علماء کے یہ ساری کائنات ایک قسم کی حرکت کا نتیجہ ہے اور یا پھر اس ساری کائنات کو بنانے والا ایک ہی ہاتھ ہے۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھنے کے بعد یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اسرائیلیوں کا خدا کون ہے اور عربوں کا خدا کون ہے اور ہندوئوں کا خدا کون ہے؟
اور اگر خدا ایک ہے تو پھر یہ مختلف مذاہب کیوں پیدا ہوئے؟ کیا وہ مذاہب صرف بنی نوع انسان کی دماغی اختراع سے تھے اس لئے ہر قوم نے اپنا اپنا خدا تجویز کر لیا؟ اگر نہیں تو پھر اس اختلاف کی وجہ کیا تھی؟ اور کیا پھر اس اختلاف کا ہمیشہ کے لئے جاری رہنا دنیا کے لئے مفید ہو سکتا تھا؟
مختلف ادیان کے انسانی دماغ کی اختراع نہ ہونے کی وجوہ
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا یہ مذاہب بنی نوع انسان کی دماغی اختراع کا نتیجہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں اور
ہرگزنہیں اور اس کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:۔
جو مذاہب دنیا میں قائم ہوگئے ہیں جب ہم ان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو مندرجہ ذیل امور ہمیں نظر آتے ہیں۔
۱۔ تمام مذاہب کے بانی دُنیوی طور پر کمزور اور نادار قسم کے آدمی تھے اور کوئی طاقت ان کو حاصل نہ تھی مگر باوجود اس کے انہوں نے دنیا کے چھوٹے بڑوں کو مخاطب کیا اور وہ اور ان کے اتباع نہایت ادنیٰ حالت سے نکل کر اعلیٰ حالت تک پہنچ گئے۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ کوئی طاقتور ہستی ان کے پیچھے کام کر رہی تھی۔
پاکیزہ زندگی
۲۔ تمام کے تمام بانیانِ مذاہب ایسے ہیں کہ ان کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی ان کے دشمنوں کے نزدیک بھی پاک تھی اب یہ کیونکر خیال کیا جا
سکتاہے کہ ایسے پاکیزہ لوگوں نے جو انسان تک پر جھوٹ نہیں بولتے تھے خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولنا شروع کر دیا۔
یقینا ان کے دعویٰ سے پہلے کی پاکیزہ زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچے تھے۔ قرآن کریم نے خاص طور پرا س دلیل کو لیا ہے اور فرماتا ہے۔۱۹؎ یعنی میں نے اپنی عمر تمہارے اندر گزاری ہے اور تم نے میری زندگی کو دیکھا ہے اور گواہی دی ہے کہ میں جھوٹ بولنے والا نہیں ہوں۔ پھر تم کس طرح سمجھتے ہو کہ آج میں خدا تعالیٰ کی ذات پر افتراء کرنے لگ گیا ہوں۔
اسی طرح فرماتا ہے۔
۲۰؎
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر یہ بہت بڑا فضل اور انعام اور احسان کیا ہے کہ اس نے انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا ہے یہی مضمون ذیل کی آیت میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ ۲۱؎ یعنی تمہاری طرف تمہیں میں سے ایک رسول آیا ہے یعنی کوئی ایسا شخص تمہارے سامنے رسالت کا دعویٰ نہیں کر رہا جس کے حالاتِ زندگی سے تم ناآشنا ہو بلکہ ایسا شخص مدعی ٔ مأموریت ہے جس کے حالات کو تم خوب جانتے ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ اس کی زندگی کیسی پاکیزہ گزری ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اور انبیاء کے متعلق بھی یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ وہ اپنی قوم ہی میں سے مبعوث کئے گئے تھے۔ اور اُس قوم کے لوگ یہ عذر نہیں کر سکتے کہ ہم ان کے حالات سے واقف نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب دوزخی دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو اُن سے کہا جائے گا
۲۲؎ یعنی کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہیں آئے جو تم پر ہماری آیات پڑھا کرتے تھے اور تمہیں اِس دن کے عذاب سے ڈرایا کرتے تھے؟
اسی طرح فرماتا ہے۔
۲۳؎ یعنی اے جنوں اورانسانوں کے گروہ! کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے ایسے رسول نہیں آئے جو تمہیں ہمارے نشانات سے آگاہ کیا کرتے تھے اور اِس دن کے عذاب سے ڈرایا کرتے تھے؟
ایک اور جگہ فرماتا ہے۔
۲۴؎ ہم نے ان لوگوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جس کی تعلیم یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
پھر فرماتا ہے۲۵؎ یعنی قیامت کے دن ہم ہر قوم کے خلاف خود اُنہی میں سے ایک رسول کھڑا کریں گے اس جگہ شہید سے مراد ہر وہ نبی ہے جو کسی قوم کی طرف مبعوث ہوا۔ یعنی قیامت کے دن وہ انبیاء اپنے نمونہ کو پیش کریں گے کہ کلامِ الٰہی نے اُن پر کیا اثر کیا۔ اِس طرح خدا تعالیٰ کفّار کو شرمندہ کر ے گا کہ ہمارا یہ نبی تو اِس کمال کو پہنچ گیا اور تم انکار کر کے تمام ترقیات سے محروم رہ گئے۔ اس جگہ تمام انبیاء کے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ وہ تھے یعنی ہر وہ قوم جس کی طرف وہ مبعوث کئے گئے ان میں سے ہر ایک کو جانتی تھی اور وہ ان لوگوں کی پاکیزگی اور طہارت کی شاہد تھی۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی کئی مقامات پر فرمایا ہے کہ ۲۶؎ ۲۷؎ ۲۸؎ یعنی عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ھود کومبعوث کیا اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو مبعوث کیا اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو مبعوث کیا۔ گویا ھود، صالح اور شعیب سب کے سب اپنی قوم کی نظروں میں ایسا مقام رکھتے تھے کہ وہ ان کے حالاتِ زندگی سے پوری طرح واقف تھے۔
اسی طرح حضرت صالح کے متعلق آتا ہے کہ جب انہوں نے خدا تعالیٰ کے احکام بیان فرمائے تو ان کی قوم نے کہا ۲۹؎ اے صالح! تُو تو اِس دعویٰ سے پہلے ہماری اُمیدوں کا مرکز تھا تُو نے یہ کیا کیا کہ تُو نے ہمیں اُس عبادت سے روک دیا جو ہمارے باپ دادا ایک مدت سے کرتے چلے آرہے تھے۔
اِسی طرح حضرت شعیبؑ کے متعلق اُن کی قوم نے کہا۔
۳۰؎ اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے آبائو اجداد کے طریقوں کو ترک کر دیں یا ہم اپنے اموال کی تقسیم میں تیری ہدایات کی تقلید کریں اور اپنی مرضی چھوڑ دیں۔ تُو تو بڑا حلیم اور رشید تھا تجھے کیا ہوا ہے کہ تُو ایسی غلط تعلیم دینے لگا۔
اِن آیات سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت صالحؑ، حضرت شعیبؑ اور اسی طرح باقی تمام انبیاء کے متعلق قرآن کریم میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ کوئی گمنام آدمی نہ تھے۔ ان کی اقوام ان کی زندگیوں پر شاہد تھیں اور ان کی نیکی، تقویٰ اور عبادت پر گواہ تھیں اور یہ نہیں کہہ سکتی تھیں کہ کسی پوشیدہ حالات والے یا بدکار شخص نے قوم کو لُوٹنے کی تجویز کی ہے۔
بانیانِ مذاہب اور دُنیوی تعلیم
۳۔ تمام کے تمام بانیانِ مذاہب دُنیوی تعلیم کے لحاظ سے قریباً کورے تھے لیکن جو تعلیم اُنہوں
نے لوگوں کی راہنمائی اور ہدایت کیلئے دی ہے وہ نہایت ہی اعلیٰ، مناسب حال اور مناسب زمانہ ہے اور اُس پر چل کر ان کی قوم نے صدیوں تک تہذیب اور شائستگی میں دنیا کی راہنمائی کی ہے۔ یہ کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ جو شخص دُنیوی علوم سے بے بہرہ ہے وہ خداتعالیٰ پر افتراء کر کے یکدم ایسی قدرت حاصل کر لیتا ہے کہ اس کی بتائی ہوئی تعلیم اُس زمانہ کی تعلیمات پر فائق ہو اور ان پر غالب آ جائے، یہ کام تو صرف ایک بالا ہستی کی تائید ہی سے ہو سکتا ہے۔
بانیانِ مذاہب زمانہ کی رَو کے خلاف تعلیم دیتے تھے
۴۔ جس قدر بانیانِ مذاہب گزرے ہیں ان کی تعلیم پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ ہی وہ زمانہ کی رَو کے خلاف رہی ہے۔ اگر ان کی تعلیمیں
زمانہ کی رَو کے مطابق ہوتیں تو کہا جا سکتا تھا کہ وہ اپنی جماعت کے ذہنی ارتقاء کے نمائندے تھے لیکن وہ لوگ تو اپنے زمانہ کی تعلیم کو نہ صرف ردّ کرتے تھے بلکہ اس کے خلاف ایک اور تعلیم بھی پیش کرتے تھے جس کی وجہ سے ملک میں ایک آگ لگ جاتی تھی لیکن باوجود اس کے ان کے مخاطب ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ یہ چیز بھی بتاتی ہے کہ وہ نمائندۂ انسان نہیں تھے بلکہ حقیقی مصلح اور خد اتعالیٰ کے نبی تھے۔
موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ایک خدا کی تعلیم کتنی عجیب چیز تھی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں جبکہ مادیت کچھ یہود کی دنیا پرستی کی وجہ سے اور کچھ رومی حکومت کے غلبہ کی وجہ سے فلسطین پرغالب آرہی تھی روحانیت پر زور دینا اور دنیا طلبی کے خلاف وعظ کرنا اور اُس وقت جبکہ یہود رومی کوڑوں کے نیچے تلملا رہے تھے اور انتقام کے جذبات ان کے دل میں پیدا ہو رہے تھے، انہیں عفواورر حم کی تعلیم دینا کتنی عجیب بات تھی۔ہندوستان میں ایک طرف کرشن ؑ کا لڑائی کی تعلیم دینااور دوسری طرف مادیت سے دل ہٹا کر خداتعالیٰ کے ساتھ لَو لگانے کی تعلیم دینا اُس زمانہ کے حالات کے کیسا خلاف تھا۔ زرتشتی تعلیم بھی جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی تھی ایران جیسے آزاد خیال لوگوں کیلئے کتنی ناقابل قبول تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عرب میں پیدا ہو کر یہودیوں اور عیسائیوں کو دعوت دینا جبکہ مسیحیوں اور یہودیوں کے نزدیک ان کے مذہب کے سوا کہیں اور ہدایت نہیں پائی جاتی تھی اور مکہ والوں کو جوکہ شرک میں ڈوبے ہوئے تھے تو حید کی تعلیم دینا اورجو اپنی نسلی برتری کے خیالات میں مگن تھے انہیں تمام بنی نوع انسان کے برابر ہونے کا پیغام پہنچانا، شراب میں مست اور جوئے میں غرق رہنے والوں کو شراب کی حرمت اور جوئے کی شناعت کی تعلیم دینا بلکہ زندگی کے ہر شعبے کے متعلق رائج الوقت خیالات اور اعمال کی مخالفت کرنا اور اس کی جگہ ایک نئی تعلیم پیش کرنا اور پھر اس میں کامیاب ہو جانا بتاتا ہے کہ آپ پہاڑ کی چوٹی سے پوری شدت کے ساتھ گرنے والے دریا کی مخالف سمت میں تیر کر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے اور یہ کام انسانی طاقت سے باہر ہے۔
بانیانِ مذاہب کے ذریعہ نشانات و معجزات کا ظہور
۵۔ جس قدر بانیانِ مذاہب گزرے ہیں سب کے ہاتھوں سے ایسے نشانات اور معجزات ظاہر ہوئے ہیں جن کا ظہور کسی انسان کے ہاتھو ںسے نہیںہو سکتا۔
سب سے پہلے توان میں سے ہر ایک نے اپنے دعویٰ کے ساتھ ہی یہ خبر بھی دے دی ہے کہ میری تعلیم پھیل کر رہے گی اور اس کے ساتھ ٹکرانے والا خود پاش پاش ہو جائے گا اور باوجود اس کے کہ دُنیوی لحاظ سے وہ بہت کمزور تھے، دُنیوی علوم کے لحاظ سے صفر تھے اور زمانہ کی رَو کے خلاف تعلیم دینے والے تھے اور باوجود اِس کے کہ ان کی شدید ترین مخالفت کی گئی پھر بھی وہ غالب آئے اوران کی بتائی ہوئی خبر پوری ہوئی۔ کون انسان قبل ازوقت ایسی خبر دے سکتا ہے اور پھر کون سی انسانی طاقت اسے پورا کروا سکتی ہے۔
انبیاء کی ترقی اور دنیاوی لیڈروں کی ترقی میں فرق
اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض دوسرے انسانوں نے بھی غیر معمولی ترقیاں کی ہیں مگر یہاں سوال غیرمعمولی ترقی کا نہیں بلکہ سوال اس بات کا ہے کہ
ان لوگوںنے خد اتعالیٰ کی طرف منسوب کر کے اپنی ترقی کا اعلان کیا اوراپنی اخلاقی زندگی اور موت کو اس پیشگوئی کے ساتھ وابستہ کر دیا اور پھر زمانہ کی رَو کے خلاف چلے۔ بیشک نپولین،۳۱؎ ہٹلر،۳۲؎ اور چنگیز خان۳۳؎ نے بھی ادنیٰ حالت سے ترقی کی لیکن وہ زمانہ کی رَو کے خلاف نہ چلے تھے۔ انہوں نے کبھی یہ اعلان نہیں کیا کہ خد اتعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ باوجود مخالفت کے تم جیت جائو گے۔ پھر ان کی کبھی شدید مخالفت نہیں ہوئی کیونکہ جس بات کا وہ اعلان کر رہے تھے ملک کے اکثر افراد خود اس کے خواہشمند تھے۔ ذرائع میں اختلاف ہوتو ہو مگر مقصود میںاختلاف نہیں تھا۔ اگر وہ ہار جاتے یا ہار گئے تو ان کی عظمت میں کوئی فرق نہیں آسکتا۔ باوجود اس کے وہ قوم کے لیڈر بنے رہے اور یہی امید کرتے تھے کہ ہم ہی بنے رہیں مگر ذرا خیال تو کرو کہ اگر موسٰیؑ اور عیسٰیؑ اور کرشن ؑاور زرتشت ؑاور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ناکام رہتے تو کیا وہ آئندہ نسلوں میں قوم کے ہیرو کے طور پر یاد کئے جا سکتے تھے ؟ ان کی اپنی قومیں انہیں دھوکاباز اور دغا باز کہتیں، تاریخیں ان کے ذکر کو نظر انداز کر دیتیں اور وہ ہمیشہ کیلئے بدنامی کے گڑھے میں گر جاتے۔ پس ان کے دعویٰ میںاور نپولین اور ہٹلر وغیرہ کے دعویٰ میں زمین و آسمان کا فرق ہے اوراُن کی کامیابیوں اور ا ِن کی کامیابیوں میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے۔
پھر ذرا ان لوگوں کے انجام کو بھی دیکھو۔ نپولین،ہٹلراورچنگیز خان کو کتنے لوگ عقیدت اور محبت سے یاد کرتے ہیں۔ ہیرو تو وہ ہوتے ہیں جن کا قبضہ قوم کے ایک حصہ کے دماغوں پر بھی ہو لیکن کیا ان کے ہاتھوں اور پائوں اور دلوں پر بھی ان لوگوں کا قبضہ ہے؟ مگر اِن دُنیوی لیڈروں کے مقابلہ پر دینی راہبر ایسے تھے کہ لاکھوں آدمی ہر زمانہ میں ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اُسی طرف آنکھ اُٹھائی ہے جس طرف اُٹھانے کے لئے ان لوگوں نے کہا تھا اور اُسی بات کو سنا ہے جس کے سننے کی ان لوگوں نے اجازت دی تھی اور وہی فقرات اپنی زبان پر لائے ہیںجن فقرات کے بولنے کی ان کی طرف سے ہدایت تھی اور ان کے ہاتھ اور پائوں ان ہی کامو ں کے لئے چلے ہیں جن کاموںمیں حصہ لینے کی اُنہوں نے ترغیب دی تھی۔ کیا دوسرے قومی لیڈروں کے متعلق اِس مثال کا لاکھواں یاکروڑواں حصہ بھی ثابت کیا جا سکتا ہے؟ پس یہ لوگ یقینا خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے اور ان کے لائے ہوئے مذہب یقینا خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے۔
بانیانِ مذاہب کی تعلیم میں اختلاف کی وجہ
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے تو ان کی تعلیمات میں اختلاف کیوں تھا؟ کیا خدا تعالیٰ مختلف تعلیمیں دے سکتا ہے جبکہ کوئی عقلمند انسان بھی
مختلف تعلیمیں نہیں دیا کرتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک ہی قسم کے حالات میں مختلف قسم کی تعلیمیں نہیں دی جاتیں بلکہ مختلف حالات میں مختلف تعلیمیں دینا ہی حکیم،ہستیوں کا کام ہوتا ہے۔ آدم کے زمانہ میں تمام بنی نوع ایک ہی جگہ رہتے تھے اس لئے ان کے لئے ایک ہی قسم کی تعلیم کافی تھی۔ شاید نوح ؑتک بھی یہی حالت تھی مگر میں اس کے متعلق قطعی رائے نہیں رکھتا۔ بائبل کہتی ہے کہ بابل کے زمانہ تک تمام قومیں ایک ہی جگہ پر رہتی تھیں۔ گو بائبل تاریخ کی کتاب نہیں لیکن ایک بات جو اس دعویٰ کی تائید میں مجھے تاریخ سے نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ دنیا کی تمام اقوام میں یہاں تک کہ بعض جزائر کے وحشی قبائل میں بھی طوفا نِ نوح ؑکی خبر ملتی ہے۔ چونکہ ایسا طوفان جو ساری دنیا میں آیا ہو اور پھر ساری دنیا کو اس کے عالمگیر ہونے کا علم بھی ہو، یہ ایک غیر طبعی سادعویٰ ہو گا اس لئے یہی بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ دنیا کے کسی ایک مقام پر یہ طوفان آیا تھا جب کہ دنیا کی آبادی ایک جگہ پر تھی اور اس کے بعد لوگ اِدھراُدھر پھیل گئے۔ پس گو بابل کے زمانہ تک دنیا کا ایک ہونا ثابت نہ ہو مگر نوح ؑکے زمانہ تک تو دنیا کا ایک ہونا ثابت ہوتا ہے ۔
نوح ؑکے زمانہ کے بعد کسی وقت جب بنی نوع انسان متفرق ملکوں میں پھیل گئے اور وہ تعلیم جو نوح ؑنے دی تھی آہستہ آہستہ خراب ہونے لگی تو اِس وجہ سے کہ آمدورفت کے ذرائع محدود تھے اور ایک ملک کے نبی کی آواز دوسری جگہ نہیں پہنچتی تھی خدا تعالیٰ نے مختلف ملکوں میں اپنے نبی بھیجے تاکہ کوئی قوم اُس کی ہدایت سے محروم نہ رہ جائے اور اس سے اختلافِ مذاہب کی بنیاد پڑی۔ چونکہ بنی نوع انسان کی دماغی حالت ابھی تکمیل کو اور علم و عقل اپنے نقطۂ مرکزی کو نہ پہنچے تھے اس لئے ہر ملک اور اُس ملک کی دماغی حالت کے مطابق تعلیمات نازل ہوئیں۔ لیکن جب نسلیں ترقی کرتی گئیں اور غیر ممالک آباد ہونے شروع ہوئے اور آبادیوں کے فاصلے کم ہوتے چلے گئے اور ذرائع آمدورفت میں ترقی ہوتی چلی گئی۔ کشتیوں نے جہازوں کی صورت اور جہازوں نے بادبانی جہازوں کی صورت اختیار کر لی۔ پائوں پر چلنے والوں نے بیلوں پر، پھر اونٹوں، گدھوں، گھوڑوں پر چڑھنا شروع کیا پھر ہاتھیوں پر چڑھنا شروع کیا اور پھر آرام اور سہولت سے سفر کرنے کیلئے بیلوں، گھوڑوں اور گدھوں کو گاڑیوں میں جوتنا شروع کیا اور پھر ان گاڑیوں اور جہازوں نے سڑکوں اور سمندروں کے ذریعہ سے دُور دور تک آمد و رفت کے سلسلہ کو جاری کیا۔
تمام بنی نوع کیلئے ایک کامل دین کا ظہور اور توحید پر زور
الغرض جب انسانی دماغ اِس حد تک پہنچ گیا کہ مختلف حالات کے متوازی تعلیمات کو سمجھ سکے اور موقع مناسب پر ان کااستعمال کر سکے۔ جب
انسان باہمی میل جول کے بعد اس نتیجہ پر پہنچنے کے قابل ہوا کہ سب بنی نوع انسان ایک ہی ہیں اور سب کا پید اکرنے والا ایک خدا ہے اور سب کو ہدایت دینے والا ایک ہادی ہے تب اللہ تعالیٰ نے ریگستانِ عرب کی بستی مکہ میں اپنا وہ آخری پیغام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا جس کی پہلی آیت یہ ہے ۳۴؎ یعنی وہ خدا تعالیٰ تمام تعریفوں کامستحق ہے جو ہر قوم اور ہر ملک کی یکساں ربوبیت کرنے والا ہے اور اس کی ربوبیت کا پہلو کسی ایک قوم یا ا یک ملک کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور جس پیغام کا خاتمہ اِن آیات پر ہوتا ہے ۳۵؎ یعنی توکہہ میں اُس خدا کی پناہ طلب کرتا ہوں جو تمام بنی نوع انسان کا ربّ ہے، جو تمام بنی نوع انسان کا بادشاہ ہے، جو تمام بنی نوع انسان کا معبود ہے، وہ شخص جس پر یہ کلام نازل ہوا وہ شخص یقینا آدمِ ؑثانی تھا جس طرح آدمِ اوّل کے زمانہ میں ایک ہی کلام اور ایک ہی اُمت تھی اِسی طرح اِس کے زمانہ میںبھی ایک ہی کلام اور ایک ہی اُمت ہو گئی۔ پس اگر اِس دنیا کا پیدا کرنے والا خدا ایک ہی ہے اور اگر وہ تمام اقوام اور تمام ممالک کے ساتھ یکساں تعلق رکھتا ہے تو ضروری تھا کہ کسی وقت تمام قومیں اور تمام افراد ایک نقطۂ مرکزی کی طرف جھکتے یا ایک نقطہ پر جمع ہونے کا سامان ان کے لئے پید اکیا جاتا اور اِس ضرورت کو صرف قرآن کریم پورا کرتا ہے۔ قرآن کریم کے بغیر دنیا کی روحانی پیدائش بالکل بیکار ہو جاتی ہے کیونکہ دنیا اگر روحانی طور پر ایک نقطہ پر جمع نہیں ہوتی تو خدا ئے واحدکی واحدا نیت کس طرح ثابت ہو سکتی ہے۔ شروع شروع میں دریائوں کے کئی نالے ہوتے ہیں مگر دریا آخر ایک بڑے وسیع رستہ میں اکٹھا ہو کر بہہ چلتا ہے تب اس کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے۔ موسٰیؑ عیسٰیؑ ، زرتشتؑ، کرشن ؑاور دوسرے انبیاء کی تعلیمات پہاڑی نالے تھے۔ اپنی اپنی جگہ وہ بھی مفید کام کرتے رہے تھے مگر ان نالوں کا ایک دریا میں مل جانا خد اتعالیٰ کی وحدانیت اور بنی نوع انسان کی انتہائی ترقی پر پہنچنے کے لئے نہایت ضروری تھا۔
قرآن مجید کے سواکسی نبی کی تعلیم سب قوموں کیلئے نہ تھی
اگر قرآن اِس غرض کو پورا نہیں کرتا تو کس نبی کی کتاب اِس غرض کو پورا کرتی ہے؟ کیا بائبل اِس غرض کو پورا کرتی ہے جو خدا کو بنی اسرائیل کے ساتھ
مخصوص کر دیتی ہے؟ کیا زرتشت کی کتاب اِس ضرورت کو پورا کرتی ہے جو خدا کے نور کو ایرانیوں کے ساتھ وابستہ کر دیتی ہے؟ کیا وید اُس ضرورت کو پورا کرتے ہیں جو ویدوں کے سننے والے شُودر کے کانوں میں سیسہ پِگھلا کر ڈالنے کا ارشاد کرتے ہیں؟ کیا بدھ اِس ضرورت کو پورا کرتے ہیں جن کا ذہن ہندوستان کی چار دیواری سے باہر کبھی گیا ہی نہیں؟ ہاں! کیا مسیحؑ کی تعلیم اِس غرض کو پورا کرنے والی ہے جو خو دکہتا ہے کہ:
’’ یہ مت خیال کرو کہ میں توراۃ یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے آیا ہوں۔ میں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پوری کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو‘‘۔ ۳۶؎
اور موسٰی ؑ اور گزشتہ نبیوں نے عالمگیرمذہب کے متعلق جو کچھ خیالات ظاہر کئے ہیں وہ میں اوپر لکھ ہی چکا ہوں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیت نے ساری دنیا کو تبلیغ کی ہے مگر یہ تبلیغ مسیحؑ کے ذہن میں تو نہ تھی۔ سوال اِس کا نہیں کہ دنیا کیا کرتی ہے۔ سوال اس بات کا ہے کہ بھیجنے والے خدا کا منشاء کیا تھااور اس منشاء کو مسیح کے سوا کون ظاہر کر سکتا ہے۔ مسیح خود کہتا ہے کہ:۔
’’ میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا‘‘ ۔۳۷؎
اور کہ:
’’ ابن آدم آیا ہے کہ کھوئے ہوئے کو ڈھونڈ کے بچاوے‘‘۔ ۳۸؎
پس مسیحؑ کی تعلیم سوائے بنی اسرائیل کے اور کسی کے لئے نہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مسیحؑ نے دوسری اقوام کی طرف جانے کی بھی ہدایت کی تھی جیسے کہ اُس نے کہا :۔
’’تم جا کر سب قوموں کو شاگرد کرو اور انہیں باپ ، بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو‘‘۔۳۹؎
مگر اس حوالہ سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مسیحؑ نے بنی اسرائیل کے سوا اور قوموں کی طرف بھی جانے کی ہدایت کی تھی درست نہیں۔ کیونکہ مسیح خود کہتا ہے کہ:۔
’’ تم جو میرے پیچھے ہو لئے جب نئی خلقت میں ابن آدم جلال کے تخت پر بیٹھے گا تم بھی بارہ تختوں پر بیٹھو گے اور اسرائیل کے بارہ گروہوں کی عدالت ہوگی‘‘۔۴۰؎
اس آیت سے ظاہر ہے کہ مسیحؑ کی حکومت تا ابد بنی اسرائیل کے بارہ گروہوں پر ہے نہ کہ دوسری قوموں پر۔ اسی طرح مسیحؑ کہتا ہے:۔
’’میں بنی اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا‘‘۔ ۴۱؎
پھر اس نے ہدایت کی طالب عورت کو جو کہ اسرائیلی نہ تھی بلکہ کنعان کی رہنے والی تھی۔ کہا کہ:
’’ مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کے آگے پھینک دیویں‘‘۔ ۴۲؎
پھر وہ کہتا ہے ۔
’’ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا۔ بلکہ پہلے بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جائو‘‘۔۴۳؎
یہ خیال نہ کیا جائے کہ اس جگہ ’’ پہلے ‘‘ کا لفظ ہے اور مطلب یہ ہے کہ پہلے اسرائیلی شہروں میں جائو اور پھر غیر اسرائیلی شہروں میں جانا کیونکہ اس جگہ خالی اسرائیلیوں کے شہروں میں پھرنا مراد نہیں بلکہ اسرائیلیوں کو مسیحی بنانا مراد ہے اورمطلب یہ ہے کہ جب تک اسرائیلی مسیحی نہ ہو جائیں کسی اور قوم کی طرف توجہ نہ کرنا اور خود مسیحؑ نے واضح کر دیا ہے کہ یہ کام مسیح ثانی کی آمد تک پورا نہ ہوگا۔ چنانچہ اس باب کی آیت ۲۳ میں لکھا ہے: ۔
’’ جب وے تمہیں ایک شہر میں ستاویں تو دوسرے میں بھاگ جائو۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم اسرائیل کے سب شہروں میں نہ پھر چکو گے جب تک کہ ابن آدم نہ آئے گا‘‘۔۴۴؎
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت میں بنی اسرائیل کے شہروں میں پھر جانا مراد نہیں کیونکہ یہ کام تو چند مہینوں میں ہو سکتا تھا بلکہ اس سے مراد بنی اسرائیل کا مسیحیت میں داخل ہونا ہے اور مسیحؑ فرماتے ہیں کہ اُن کی آمدِ ثانی تک یہ کام پورا نہیں ہوگا۔ پس مسیحؑ کی آمدِ ثانی تک غیر قوموں کو مخاطب کرنے میں مسیحی لوگ حق بجانب نہیں بلکہ مسیح کی تعلیم کے خلاف چلنے والے ہیں۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری بھی غیر اقوام میں اناجیل کی منادی کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ چند رسولوں کے متعلق لکھا ہے:۔
’’ وے جو اس جو روجفا سے جو کہ استیفن کے سبب برپا ہوئی تتر بتر ہو گئے تھے۔ پھرتے پھرتے فینیکے وکپرس اور انطاکیہ میں پہنچے مگر یہودیوں کے سوا کسی کو کلام نہ سناتے تھے‘‘۔ ۴۵؎
اسی طرح جب حواریوں نے سنا کہ پطرس نے ایک جگہ غیر قوموں میں انجیل کی منادی کی ہے تو وہ سخت ناراض ہوئے اور جب پطرس یروشلم میں آیا تو مختون اُس سے یہ کہہ کر بحث کرنے لگے کہ تو نا مختونوں کے پاس گیا اور اُن کے ساتھ کھایا ۔۴۶؎
پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی شخص بھی نہیں تھا جس نے ساری دنیا کو خطاب کیا ہو اور قرآن سے پہلے کوئی کتاب نہ تھی جس نے ساری دنیا کو مخاطب کرنے کا دعویٰ کیا ہو۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جنہوں نے ساری دنیا کو مخاطب کر کے کہا کہ۴۷؎
یعنی اے لوگو! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پس قرآن کریم کا آنا ان اختلافات کے مٹانے کے لئے جو وقتی اور قومی تعلیموں کی وجہ سے پید ا ہوگئے تھے ضروری تھا۔ اگر قرآن نہ آتا تو دنیا پر یہ بھی ثابت نہ ہوتا کہ دنیا کا پیدا کرنے والاایک خداہے اور نہ یہ ثابت ہوتا کہ دنیا ایک خاص مقصود کو مدنظر رکھ کر پیدا کی گئی ہے۔ پس گزشتہ مذاہب کا اختلاف اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ دنیا کو متحد کرنے والی آخری تعلیم کے رستہ میں روک نہیں بلکہ ان کا وجود ہی ایک ایسی تعلیم کا متقاضی ہے۔
دوسرا سوال اور اُس کا جواب
دوسرا سوال یہ ہے کہ انسانی دماغ اسی طرح
ارتقاء کی منزلوں کوطے کرتے ہوئے نہیں جا رہا
تھا جس طرح انسانی جسم نے کسی زمانہ میںا رتقاء کی منزلیں طے کی تھیں؟ پھر کیا جس طرح جسم کی ارتقائی منزلیں ایک مقام پر پہنچ کر ایک مستقل صورت اختیار کر گئیں اسی طرح کیا روح اور دماغ کیلئے بھی یہ ضروری نہ تھا کہ وہ ارتقائی منزلوں کو طے کرتے ہوئے ایک ایسی منزل پر پہنچتے جو انسانی پیدائش کا مقصود تھی؟
تمدن وتہذیب اور کلچر سے کیا مراد ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مختلف ممالک کی تہذیب اور
تمدن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا پر تہذیب اور تمدن کے کئی دَور آئے ہیں اور بعض اُن میں سے اتنے شاندارگزرے ہیں کہ بادی النظر میں وہ دَور ہمارے موجودہ دَور کے بالکل مشابہہ معلوم ہوتے ہیں۔ اگر مکینیکل ترقی کو الگ کر دیا جائے تو پُرانا دَورِ تمدن موجودہ دَورِ تمدن کے بالکل مشابہہ معلوم ہوتا ہے ۔ اسی طرح پرانا دَورِ تہذیب بھی موجودہ زمانہ کے دَورِ تہذیب کے بہت حد تک مشابہہ نظر آتا ہے۔ مگر زیادہ غور سے دیکھا جائے تو دو فرق ہمیں نمایاں نظر آتے ہیں لیکن پیشتر اِس کے کہ میں ان ا متیازوں کا ذکر کروں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ تمدن یعنی سویلیزیشن اور تہذیب یعنی کلچر سے میری کیا مراد ہے۔ میرے نزدیک تمدن ایک خالص مادی نقطۂ نگاہ ہے۔ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی اعمال میں جو یکسانیت اور سہولت پیدا ہو جاتی ہے وہ میرے نزدیک تمدن کہلاتی ہے۔ انسانی اعمال کے نتیجہ میںجس قسم کی اور جس قدر پیداوار دنیا میںہو اُس کو ایک دوسری جگہ پہنچانے کے لئے نقل و حرکت کے جتنے ذرائع موجود ہوں، مال کو سہولت کے ساتھ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی طرف منتقل کرنے کے لئے جتنی تدبیریں کی گئی ہوں، تعلیم جتنی رائج ہو، صنعت وحرفت جتنی منظم کرلی گئی ہو، سائنس کی طرف قوم میں جتنا میلان پایا جاتا ہو اور مُلک میں امن کے قیام کے لئے جس حد تک فوجی تنظیم کی گئی ہو، یہ چیزیں لازمی طور پر انسان کے اعمال پر اثر ڈالتی ہیں اور ان میں جو ملک ترقی یافتہ ہو اُس کے افراد کی زندگی دوسری اقوام کے افراد کی زندگی سے نمایاں طور پر الگ نظر آتی ہے اورمیرے نزدیک اِسی کو تمدن یا سویلیزیشن کہتے ہیں۔ ایک زراعتی طور پر غیرتعلیم یافتہ ملک کے لوگوں کی غذا یقینا زراعتی طور پر زیادہ ترقی یافتہ ملک کی نسبت مختلف ہوگی۔ زراعتی طور پر ترقی یافتہ ملک طبی طور پر تجویز کردہ اور زبان کے ذائقہ کے مطابق خوراک استعمال کرے گا اور اس کی خوراک میں بہتات ہو گی۔ مگر زراعت میں غیر ترقی یافتہ ملک کے لوگوں کی خوراک میں نہ طبی اصول مدنظر رکھے جا سکیں گے نہ ذائقہ کا سوال مدنظر ہوگا۔ قدرت نے جو غذا ان کے ملک میں پیدا کردی ہے وہ اسی کے کھانے پر مجبور ہوں گے اور اس سے آگے ان کی نگاہ جا ہی نہیں سکے گی۔ اسی طرح ایک صنعت و حرفت میں پیچھے رہ جانے والا ملک صنعت و حرفت میں ترقی کر جانے والے ملک کامقابلہ لباس اور مکان اور مکان کے فرنیچر میں بھی نہیں کر سکتا۔ مکانوں کی حفاظت اور نگہداشت میں بھی نہیں کر سکتا کیونکہ اُس ملک کے پا س اتنے کپڑے نہیں ہوں گے کہ اُس کے ماہر اِس فکر میں لگ جائیں کہ وہ کپڑے کس کس شکل میں استعمال کئے جائیں۔ مختلف کوٹوں کی ساخت اور ان کے استعمال کے مواقع تو الگ رہے ان لوگوں کو تو کپڑے کی کمی کی وجہ سے خود کوٹ کا بھی خیال نہیں آسکتا۔ بلکہ وہ لوگ تو کرتے کو بھی ایک عیاشی سمجھیں گے۔ بکروٹے کے چمڑے کے بوٹ تو الگ رہے اُن لوگوں کے لئے تو بھینس کے صاف شدہ چمڑے کے بوٹوں پر اصرار کرنا بھی ناممکن ہو گا۔ بلکہ ان کے لئے تو جوتی بھی ایک عیاشی کاخیال ہو گی اور وہ یا توننگے پائوں پھرنے کو زندگی کا ایک معمول سمجھیں گے یا بالوں والے چمڑے تسموں کے ساتھ پیر میں باندھ کر یہ خیال کریں گے کہ ہم ایک نعمتِ عظمیٰ کے مالک ہو گئے ہیں۔ چونکہ میں یہ مضمون ضمناً لکھ رہا ہوں اِس کی تفصیلات بیان نہیں کرتا لیکن ایک ادنیٰ تدبر سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ زندگیوں کا یہ فرق محض زراعت، صنعت وحرفت، سائنس اور تعلیم کے فرق کا نتیجہ ہے۔ مگر فرق اتنا بڑا ہے کہ ایک قسم کی زندگی کے عادی لوگ دوسری قسم کی زندگی کے عادی لوگوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا بھی برداشت نہیں کر سکیں گے۔ یہی چیز میرے نزدیک تمدن یعنی سویلیزیشن کہلاتی ہے اور اس کے اختلافات پر دنیا کی صلح اور دنیا کی جنگ کا بہت کچھ انحصار ہے۔ یہی تمدن آخر امپیریل ازم اور خواہش عالمگیری انسان کے دل میں پید ا کرتا ہے۔
دوسری چیز تہذیب یعنی کلچر ہے اِس کو تمدن سے وہی نسبت ہے جو روح کو جسم سے ہے۔ تمدن مادی ترقی کا نتیجہ ہے اور تہذیب دماغی ترقی کا نتیجہ ہے۔ تہذیب یعنی کلچر اُن افکار اور اُن خیالات کا نتیجہ ہے جو کسی قوم میں مذہب یا اخلاق کے اثر کے نیچے پیدا ہوتے ہیں۔ مذہب ایک بنیاد قائم کرتا ہے اور مذہب کے پیرو اُس بنیاد پر ایک عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ خواہ وہ بنیاد رکھنے والے کے خیالات سے کتنے بھی دُور چلے جائیں وہ بنیاد کو چھوڑ نہیں سکتے۔ جس شخص نے عمارت کی بنیاد رکھی ہو اُس کے نقشہ سے عمارت بنوانے والے کے نقشہ کو کتنا بھی اختلاف ہو پھر بھی وہ بنیاد کے کونوں اور زاویوں سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح دنیا میں مختلف مذاہب اور مختلف فلسفوں نے انسانی دماغ کو خاص خاص راستوں پر چلایا ہے اور اس کے نتیجہ میں افکار نے جو صورت اختیار کی ہے وہ اخلاق اور آرٹ کی نقل میں ایسی مخصوص نو عیتیں اختیار کر گئی ہے کہ دیکھنے والا مختلف مذاہب کے سچے پیروئوں کے اصولِ اخلاق اور آرٹ کے ظہور کو جدا جدا صورتوں میں دیکھتا ہے اور یہی چیز کلچر ہے۔
مختلف کلچر بھی قوموں میں اختلاف کاموجب ہیں
کلچر بھی قوموں میں اختلاف کرنے کا موجب ہوتی ہے۔آج دنیا میںدہریت غالب ہے۔ آج دنیا میں وُسعت خیالی کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ مگر باوجود اس کے
ایک عیسائی کہلانے والے دہریہ اور ایک متعصب عیسائی میں جس سہولت کے ساتھ جوڑ اور اتفاق ہو جاتا ہے اس سہولت کے ساتھ اس عیسائی کہلانے والے دہریہ کامسلمان کہلانے والے دہریہ سییا ایک متعصب عیسائی کا ایک متعصب مسلمان سے اتفاق نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ زمانہ کے اختلاف میں پولیٹیکل خیالات کا بھی جو کہ تمدن یعنی سویلیزیشن کا نتیجہ ہیں بہت کچھ دخل ہے مگر کلچر کے اختلاف کا بھی اس سے کم دخل نہیں۔ مسلمان خواہ یورپ کا رہنے والا ہو جب اُسے ایشیائی مسلمان ملتا ہے تو جس طرح اس کے دل کی کلی کھل جاتی ہے اس طرح یورپ کے عیسائی کے ساتھ ملنے سے نہیں کھلتی۔ جس طرح یورپ کے ایک متعصب عیسائی کے دل کی کلی امریکہ کے ایک دہریہ عیسائی کے ساتھ مل کر کھل جاتی ہے اس طرح یورپ کے ایک مسلمان کے ساتھ مل کر نہیں کھلتی۔
کیا اس کی وجہ تعصب مذہب ہے؟ یقینا نہیں۔ کیونکہ اگر تعصب مذہب اس کا باعث ہوتا تو چاہئے تھا کہ یہ تعصب ایک عیسائی کو مسلمان کی نسبت ایک دہریہ کا زیادہ مخالف بناتا لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ پس اصل وجہ یہی ہے کہ ایک عیسائی خواہ وہ دہریہ ہو گیا ہو مگر اُس کی تہذیب یا کلچر عیسائی ہے۔ اس کا فکر تو عیسائیت سے آزاد ہو گیا ہے مگر اُس کی طبیعت اور افعال عیسائیت کی تہذیب سے آزاد نہیں ہوئے۔ کیونکہ نسلوں کا اثر ایک دم مٹایا نہیں جا سکتا۔ ایک آرٹسٹ خواہ دہریہ ہو اس کی تصویریں، اس کی میوزک اور اس کی تعمیر عیسائی کلچر سے جدا نہیں ہو سکتی اور اگر وہ جدا ہو گی تو ایک بھونڈی سی چیز نظر آئے گی جیسے گلاب کے باغ میں کیکر کا درخت لگا دیا جائے۔
اس تشریح کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تمدن اور تہذیب کے دَور کبھی تو الگ الگ آتے ہیں اور کبھی ایک ہی وقت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یعنی کبھی کسی ملک میں تمدنی دَور آیا ہے لیکن تہذیبی دَور نہیں آیااور کبھی تہذیبی دَور آیا ہے اور تمدنی دَور نہیں آیا۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے روم اپنے اقتدار کی حالت میں ایک اچھے تمدن کا نمونہ پیش کرنے والا تھا لیکن اس کی کوئی تہذیب یا کلچر نہیں تھا۔ اُس کا آرٹ اور اُس کا فلسفہ مقررہ ابتدائی اصول کے تابع نہ تھا بلکہ ہر شخص کا ذہن آزاد انہ طور پر کام کر رہا تھا۔ مسیحؑ کے زمانہ میں پہلی چند صدیوں میں عیسائیت نے کوئی تمدن تو دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا لیکن ایک اعلیٰ درجہ کی تہذیب اور کلچر پیش کیا۔ وہ بھی ایک اصول اور ایک خاص دائرہ کے اندر کام کرنے والے لوگ تھے مگر ان کے اصول اور ان کے دائرے مذہب کے تعیّن کردہ تھے۔ لیکن روم کے اصول اور دائرے مادیات کے مقرر کردہ تھے۔ پس ابتدائی روم تمدن کا ایک اعلیٰ نمونہ تھا اور ابتدائی عیسائیت کلچر کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی۔ روم کے دوسرے دَورِ ترقی میںتمدن اور کلچر مل گئے۔ روم نے جب عیسائیت قبول کی تو اس میں تمدن بھی تھااور تہذیب بھی تھی لیکن اس کا تمدن تہذیب کے تابع تھا جیسا کہ آجکل یورپ میں تمدن بھی ہے اور تہذیب بھی ہے مگر بوجہ مادیت کے غلبہ کے اُس کی تہذیب اُس کے تمدن کے تابع ہے۔
تہذیب و تمدن کے مختلف اَدوار
ہم تاریخ عالَم کے ابتدائی دَوروں میں دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں مذہب نے اچھا فلسفہ،
اخلاق اور اچھی تہذیب پیدا کی ہے وہ ہمارے زمانہ کے بہت قریب آگئی ہے اور جہاں جہاں مادیت نے عمدہ تمدن پیدا کیا ہے وہ تمدن ہمارے تمدن کے بہت قریب آگیا ہے، لیکن دو فرق نمایاں نظر آتے ہیں۔ اسلام سے پہلے کا تمدن اور ایک ہی جڑ کی شاخیں نظر نہیں آتیں یا اگر نظر آتی ہیں تو نامکمل صورت میں ۔یہودی مذہب میں بیشک تمدن کو تہذیب کے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی ہے اور تورات نے بہت حد تک سوسائٹی کے نظم و نسق کو اور اس کی مادی ترقی کوبھی مذہب کے دائرہ میں لانے کی کوشش کی ہے مگر بائبل کی یہ کوشش ابتدائی کوشش تو کہلا سکتی ہے کامیاب اور آخری کوشش نہیں کہلا سکتی۔ یہی حال ہندو مذہب اور زرتشتی مذہب کا ہے۔
ایک لچکدار تعلیم کی ضرورت
زندگی کی ہزاروں ضرورتوں کے متعلق قانونِ اخلاق کا وہ لچکدار فلسفہ جو ہر موقع اور ضرورت پر کام آسکے
اِن مذاہب میں مفقود ہے۔ ایک ٹھوس غیر لچکدار تعلیم نا مکمل صورت میں تمدن کے متعلق پائی جاتی ہے لیکن وسیع انسانی دنیا کی غیر لچکدار تعلیم رہنمائی نہیں کر سکتی۔ انسان کو دوسرے حیوانات سے یہی تو امتیاز حاصل ہے کہ سب کے سب انسان بظاہر ایک بھی ہیں اور سب کے سب ایک دوسرے سے جدا بھی ہیں۔ دنیا کی تمام بھینسیں اور تمام شیر اور تمام چیتے اور تمام باز اور تمام مچھلیاں غرض نباتات خواہ از قسم حیوانات ہوں یا جمادات، خواہ حیواناتِ سمندری ہوں یا ہوائی ہوں یا خشکی کے ہوں اُ ن کی شکلیں بھی ایک ہیں اوراُن کے دماغ بھی ایک ہیں۔ اُن کی شکلیں بھی ایک قسم کا قانون چاہتی ہیں اوراُن کے دماغ بھی ایک قسم کا قانون چاہتے ہیں لیکن انسان اس بات میں منفرد ہے۔ تمام انسان ایک قسم کی شکل اور ایک قسم کے اعضاء لے کر پیدا ہوتے ہیں لیکن اُن کے دماغی افکار ایک دوسرے سے اتنے جدا ہوتے ہیں کہ بسااوقات بیوی مشرق میں ہوتی ہے تو خاوند مغرب میں یا باپ مغرب میںہوتا ہے تو بیٹا مشرق میں۔ ایسی ہستیوں کو جمع کرنے کے لئے یقینا ایک لچکدار تعلیم کی ضرورت ہے جو اپنی لچک کے ساتھ اپنے قانون کی شدت کا ازالہ کر دے اور ہر نوعیت کے خیالات کوا یک رسّی میں باندھ دے۔
یہودی اور عیسائی کلچروں کے بعد ایک نئے کلچر کی ضرورت
دنیا میں جوں جوں ترقی ہوتی چلی گئی ہے ہمیں معلوم ہے کہ دنیا اس طرف آنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ موسٰی ؑنے بنی اسرائیل کو ایک مذہب
بھی دیا اور ایک تمدن بھی دیا مگر غیر لچکدار تمدن انسانی فطرت کو تسلی نہ دے سکا۔ جونہی بنی اسرائیل کے دماغوں میں نئے افکار اور نئے خیالات اور نئی اُمنگیں پیدا ہوئیں اور انہوں نے ایک نئے آسمان میں اُڑنا شروع کر دیا، موسٰی ؑ کا تمدن ان سے بہت پیچھے رہ گیا۔ اس تمدن نے نئے زمانہ کے اسرائیلیوں کو اچھا شہری نہیں بنایا بلکہ یا تو باغی بنا دیا یا منافق شہری بنا دیا۔ مسیحؑ نے اس حالت کو دیکھا تو پکار اُٹھا کہ شریعت *** ہے کیونکہ اُس نے دیکھ لیا کہ موسوی شریعت نے غیرلچکدار ہونے کی وجہ سے انسانوں کو یا تو باغی بنا دیا یا منافق بنا دیا۔ مگر یہ اُس وقت نہیں ہوا جب موسٰی ؑدنیا میں آئے تھے بلکہ اُس کے صدیوں بعد ایسا ہوا۔ موسوی تعلیم ایک بچے کا کوٹ تھا جو جوان ہو جانے کی صورت میں بنی اسرائیل کے جسم پر درست نہیں آسکتا تھا۔ مسیحؑ نے ان مضحکہ خیز شکلوں کود یکھا جو تنو مند جوانوں کی شکل میں بچوں کے چھوٹے چھوٹے فراک پہنے پھر رہے تھے اور مسیحؑ کی فطرت نے اس سے بغاوت کی! نہیں بلکہ مسیح کے دل میں خدا کی آواز گونجی کہ۔ دیکھو یہ لوگ اُس حالت سے آگے نکل چکے ہیں جس حالت میںموسوی تعلیم کا وہ نقشہ ان کے لئے کافی ہو سکتا تھا جوبنی اسرائیل کے علماء نے موسٰی ؑ کے زمانہ میں کھینچا تھا۔ اب ان کے لئے ایک نئے کوٹ کی ضرورت ہے مگر اس نے جو علاج ان کے لئے تجویز کیا یا زیادہ درست یہ ہے کہ جو علاج صدیوں بعد کے عیسائیوں نے مسیح کے منہ سے بیان کیا یہ تھا کہ شریعت *** ہے۔ وہ کھانا جو انسان معدہ کی طاقت کو نظر انداز کرکے کھاتا ہے یقینا ایک *** ہوتا ہے۔ مگر اس قول سے بھی زیادہ اور کوئی احمقانہ قول نہیں کہ کھانا *** ہے۔ بچے کا کوٹ بڑے آدمی کے جسم پر یقینا مضحکہ انگیز ہوتا ہے مگر بڑے کا کوٹ بچے کے جسم پر بھی تو مضحکہ انگیز ہوتا ہے۔ ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ بچے کا کوٹ بڑے انسان کے جسم پر مضحکہ انگیز ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیںکہ بڑے آدمی کا کوٹ بچے کے جسم پر مضحکہ انگیز ہے مگر کوٹ کو مضحکہ انگیز تو کوئی بیوقوف ہی کہے گا۔پس میرے نزدیک تو مسیحؑ کی طرف اِس قول کو منسوب کرنا ظلم ہے۔ یقینا مسیحؑ نے یوں کہا ہو گا کہ موسوی تعلیم کی موجودہ تشریح آجکل کے زمانہ کے لوگوں کے لئے *** ہے۔ اگر اس نے ایسا کہا تو بالکل سچ کہا۔مگر مسیحؑ کے اَتباع نے اس فاضلانہ قول کو ایک احمقانہ شکل دے دی۔ مگر بہرحال خواہ مسیح نے وہ کہا جو میں سمجھتا ہوں کہ اُس نے کہا تھا اور خواہ وہ کہا جو عیسائیوں کے علمائے سابق نے غلطی سے سمجھا کہ اُس نے یہ کہا تھا۔ بہرحال یہ تو ثابت ہے کہ انسانی دماغ موسٰی ؑ کے زمانہ سے ترقی کر کے آگے نکل چکاتھا اس کے لئے ایک نئی تعلیم کی ضرورت تھی ایک نئے اصولِ اخلاق کی ضرورت تھی۔ ایک نئے تمدن کی ضرورت تھی اور ایک نئی تہذیب کی ضرورت تھی لیکن جہاں موسوی علماء نے انسان کی گردن میں رسّہ لپیٹ کر اُس کو درخت کے ساتھ باندھ دیا تھا وہاں عیسوی تعلیم نے انسان کو تمام اخلاقی اور مذہبی قیود اور پابندیوں سے آزاد کر کے حیوان بنا دیا۔ موسوی قانون نے یہودی دماغ کو اپنے زمانہ سے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ سوائے اس کے کہ وہ باغی ہو یا منافق ہو اور عیسائی قانون نے انسان کو تمام اخلاقی ذمہ داریوں سے آزاد کر دیا اور اس کے دماغ میں یہ بات ڈال دی کہ خدا کا قانون تیری اصلاح نہیںکر سکتا۔تب انسان نے خدا کے کام کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انسان نے اپنی نجات کے لئے اپنا رستہ آپ تلاش کرنا شروع کر دیا اور دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ وہی مذہب جو نجات کے لئے خدا کی راہنمائی کو ضروری قرار دیتا تھا اس نے اپنی ترقی کے لئے خدا کی راہنمائی کو غیر ضروری قرار دے دیا۔ چونکہ ہمارے سامنے مختلف مذاہب میں سے مکمل کڑی صرف بنی اسرائیل کے مذہب کی ہے اس لئے میں نے اس کی مثال پیش کی ہے کیونکہ مسلسل کڑیوں سے ہی ارتقاء کا مسئلہ نکالا جا سکتا ہے اور اسرائیلی مذہب کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسانی دماغ پرانے زمانہ میں ارتقاء کی منزلیں طے کرتا چلاجارہا تھا۔ اِسی طرح دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسانی دماغ تمدن کے مختلف اَدوار میں سے گزرتا چلا آیا ہے، مگر پھر بھی اخوتِ انسانی کے نقطۂ مرکزی تک وہ کبھی نہیں پہنچ سکا۔ پس یہ دونوں شہادتیں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ جس طرح انسانی جسم نے پیدائش عالم کے ابتدائی دَور میں ارتقاء کی منزلیں طے کی تھیں اسی طرح انسانی دماغ بھی انسانی تاریخ کے ابتدائی اَدوار میں ارتقاء کی منزلیں طے کرتا چلا آیا تھا لیکن اسلام سے پہلے وہ کبھی بھی ارتقاء کی آخری منزل تک نہیں پہنچا۔ اپنی تمدنی ترقیوں کے اَدوار میں وہ کبھی بھی قومی اور نسلی امتیازوں سے بالا نہیں ہوا اورانسانی اخوت کا مسئلہ اُس کے ذہن میں نہیں آیا نہ اپنی تہذیبی ترقی کے اَدوار میں اُس نے شریعت اور قانون کے آخری نقطہ کو پایا۔ موسوی تعلیم نے تمدن اور تہذیب کو جمع کرنے کی کوشش کی مگر ایک عرصہ کے بعد وہ ناکام ہو گئی کیونکہ اس کا فیصلہ اس بارہ میں آخری فیصلہ نہ تھا۔ مسیحؑ نے تبدیلی کرنی چاہی مگر وہ تبدیلی اس بغاوت کے طوفان کے آگے خس و خاشاک کی طرح اُڑ گئی جو اُس وقت انسانوں کے دماغ میں پیدا ہو رہا تھا۔ مسیحؑ کی تعلیم کا صرف یہی حصہ باقی رہ گیا جو انجیل نے اس صورت میں پیش کیا ہے کہ شریعت ایک *** ہے۔ حالانکہ ہر سمجھ دار انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ فقرہ اپنی موجودہ شکل میں خود ایک بہت بڑی *** ہے جس نے انسان کو خد اتعالیٰ سے برگشتہ اور اس کی راہنمائی سے آزاد کر دیاہے۔ پس ابھی مقامِ ارتقاء باقی تھا۔ انسانی تہذیب اور تمدن کے سابق تغیرات اس بات کی طرف اشارہ کررہے تھے کہ تہذیب و تمدن بھی اُسی طرح مسئلہ ارتقاء کے ماتحت ہیں جس طرح انسانی جسم۔ اور ضرور ہے کہ دنیا ایک دن اسی طرح تمدن اور تہذیب کا آخری ارتقائی مقام دیکھے جس طرح انسانی جسم کی پیدائش نے ارتقاء کا آخری مقام دیکھا۔ اور یہ حقیقت اسلام سے پہلے مذاہب کی موجودگی میں بھی ایک اور مذہب کی ضرورت کو تسلیم کرواتی ہے اور اِسی ضرورت کو پورا کرنے کا قرآن کریم مدعی ہے۔
تیسرے سوال کا جواب
تیسرا سوال جس کا مثبت میں جواب ملنے سے قرآن کریم کی ضرورت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے یہ ہے کہ کیا پہلی
کتب میں کوئی ایسا نقص تو نہیں آگیا تھا جس کی وجہ سے ایک نئی کتاب کی ضرورت شدید طور پر دنیا کو محسوس ہورہی تھی اور قرآن کریم اس ضرورت کو پورا کرنے والا تھا؟
سب سے پہلی چیز جو کسی کتاب کو صحیح معنوں میں مفید بنا سکتی ہے اور جس کی بناء پر اُس سے اچھے نتائج کی امید کی جا سکتی ہے وہ اُس کا بیرونی دست برد سے محفوظ ہونا ہے۔ الٰہی کتابوں کو انسانی کتابوں پر یہی فوقیت حاصل ہوتی ہے کہ اگر ہم کسی کتاب کو الٰہی کتاب تسلیم کر لیتے ہیں تو ہمیں اِس بات کی بھی تسلی ہو جاتی ہے کہ اِس کتاب کے ذریعہ سے ہم کسی قسم کی غلطی میں نہیں پڑیں گے کیونکہ خداتعالیٰ کے وجود پرایمان اسی بات پر مشتمل ہے کہ وہ ایسی ہستی ہے جو نور ہی نور ہے اور اس میںظلمت بالکل نہیں، ہدایت ہی ہدایت ہے اور اس میں گمراہی بالکل نہیں۔ اگراللہ تعالیٰ پر ایمان اس یقین پر مشتمل نہ ہو توپھر اس کی کوئی قیمت ہی باقی نہیں رہتی۔ اگر الٰہی کلام بھی غلطیوں سے پرُ ہو سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ انسان اپنی راہنمائی کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کو قبول کرے۔ پس الٰہی کتاب پر ایمان کی بنیاد اس یقین پر ہے کہ وہ غلطیوں سے پاک ہے۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک کتاب الٰہی تو ہو لیکن بعد میں انسانی دست بُرد نے اُس کوخراب کر دیا ہو۔ اگر کسی الٰہی کتاب کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ اس کے اندر انسانوں نے بھی کچھ اپنی طرف سے ملا دیا ہے تو پھر وہ کتاب انسانی ہدایت کے لئے بیکار ہو جائے گی اور اس کو پڑھنے والوں کے دلوں میں اس پر عمل کرنے کے لئے کبھی بھی وہ جوش پیدا نہ ہوگا جو جوش ایسے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے جواس کتاب کو کُلّی طور پر شروع سے آخر تک خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں اور سمجھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
بائبل انسانی دست بُرد سے محفوظ نہیں ہے
جب اس نقطۂ نگاہ سے ہم پہلی کتب کو دیکھتے ہیں تو وہ قطعی
طور پر ہمارے لئے تسلی کا موجب ثابت نہیں ہوتیں۔ عہد نامہ قدیم کے ماننے والے اس کو خداتعالیٰ کی کتاب کہتے ہیں ، مسیحی بھی اسے خدا ئی کتاب قرار دیتے ہیں اور مسلمان بھی اسے خدا ہی کی طرف سے نازل شدہ کتاب قرار دیتے ہیں لیکن خدا کی طرف سے نازل ہونا اور بات ہے اور اُسی صورت میں آج تک موجود ہونا اور بات۔ اور ان دونوں باتوں میں بڑ ابھاری فرق ہے۔ بیشک مذکورہ بالا تینوں قومیں اس بات پر متفق ہیں کہ عہد قدیم کے انبیاء سے خدا بولتا تھا لیکن عقیدۃً یہ تینوں قومیں اس بات پر متفق نہیں کہ موجوہ عہد نامۂ قدیم وہی کلام ہے جوان انبیاء پر نازل ہوا تھا اور نہ بیرونی اور نہ اندرونی شہادت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ موجودہ عہد نامۂ قدیم وہی کلام ہے جو بنی اسرائیل کے انبیاء پر نازل ہوا تھا۔ اسرائیلی تاریخ اس بات پر متفق ہے کہ نبو کدنضر کے زمانہ میں اسرائیلی صحف جلا دئیے گئے تھے اور برباد کر دئیے گئے تھے اور دوبارہ انہیں عزرا نبی نے لکھا۔ چنانچہ عزرا کی نسبت یہودی کتب میں لکھا ہے:۔
’’ شریعت بھلا دی گئی تھی مگر عزرا نے پھر اسے دوبارہ قائم کیا‘‘۔
۴۸؎ ``It was forgotten but Ezra restored it``.
پھر لکھا ہے۔ عزرا نے تورات کو دوبارہ زندہ کیا اور اس میں اشورین حروف داخل کئے۔
``Ezra established the text of pentateuch, introducing ۴۹؎therein the Assyian of square characters``.
اسی طرح لکھا ہے:۔
’’ اس نے تورات کے دوبارہ لکھنے کے وقت مسودے کے بعض لفظوں کی صحت کے متعلق شبہ ظاہر کیا اور ان پر نشان لگا دیئے اور کہا کہ اگر ایلیا نبی اِس عبارت کی تصدیق کر ے تو یہ نشان غلط قرار دئیے جائیں اور اگر ان مشکوک سمجھی ہوئی عبارتوں کو مشکوک قرار دے تو جن الفاظ پر نشان لگا دئیے گئے ہیں اُنہیں آئندہ بائبل سے نکال دیا جائے۔
``He showed his doubts concerning the correctness of some words of the text by placing points over them. Should Elijah, Said he, approve the text, the points will be disregarded, should he disapprove, the doubtful
۵۰؎ words will be removed from the text.``
ا ن عبارات سے ظاہر ہوتا ہے کہ توریت جس شکل میں بھی اُس وقت موجود تھی خواہ وہ عزرا کی لکھی ہوئی تھی خواہ پہلے سے کوئی نسخے موجود تھے وہ مشکوک تھی اور اس کی عبارتوں اور الفاظ کی نسبت قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ خد اتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اُسی طرح محفوظ ہیں جس طرح نازل ہوئے تھے۔ عزرا کی لکھی ہوئی کتاب جو موجودہ بائبلوں میں سے خارج کر دی گئی ہے اور جو درحقیقت موجودہ بائبلوں سے کم قابل اعتبار نہیں ہے اور جسے یونانی کی کتاب عزرا کہا جاتا ہے پہلے زمانے میں عزرا اور نحمیاہ کی کتابوں سے بھی پہلے بائبل میں درج کی جاتی تھی۔ لیکن بعد کو جب اُس وقت کے پوپ نے جیروم سے جو عیسائیوں کا بہت بڑا پادری تھا بائبل کی تدوین کرائی تو اس نے عزرا کو اس بناء پر بائبل میں سے نکال دینے کا فیصلہ کر دیا کہ اس کا عبرانی نسخہ محفوظ نہیں۔ اس کتاب کو بعض مصنف عزرا کی کتاب ثالث قرار دیتے ہیں اور بعض ثانی قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ کتاب بائبل سے نکال دی گئی ہے لیکن پھر بھی اکثر حصہ یہودیوں اور مسیحیوں کا اس کو عزرا کی کتاب قرار دیتا ہے اور اس کتاب کے چودھویں باب میں لکھا ہے:
’’ دیکھو اے خدا میں جائوں گا جیسا کہ تُو نے مجھے حکم دیا تھا اور جو لوگ موجود ہیں میں اُن کو فہمائش کروں گا، لیکن جو لوگ بعد کو پیدا ہوں گے اُن کو کون فہمائش کرے گا۔ اس طرح دنیا تاریکی میں ہے اور جو لوگ اِس میں رہتے ہیں بغیر روشنی کے ہیں کیونکہ تیرا قانون جل گیا۔ پس کوئی نہیں جانتا اُن چیزوں کو جو تُوکرتاہے اور ان کاموں کو جو شروع ہونے والے ہیں لیکن اگر مجھ پر تیری مہربانی ہے تو تُوروح القدس کو مجھ میں بھیج اور میں لکھوں جو کچھ کہ دنیا میں ابتداء سے ہوا ہے اور جو کچھ تیرے قانون میں لکھا تھا تاکہ تیری راہ کو پاویں اور وہ لوگ جو اخیر زمانہ میں ہوں گے زندہ رہیں۔اُس نے مجھ کو یہ جواب دیا کہ جا اپنے راستہ سے لوگوں کو اکٹھا کر اور اُن سے کہہ وہ چالیس دن
تک تجھ کو نہ ڈھونڈیں۔ لیکن دیکھ تُو بہت سے صندوق کے تختے تیار کر اور زاریا، ڈبریا، سلیمیا، ایکانس اور عازیل پانچوں کو جو بہت تیزی سے لکھنے والے ہیں اپنے ساتھ لے اور یہاں آ اور میں تیرے دل میں سمجھ کی شمع روشن کروں گا جو نہ بجھے گی تاوقتیکہ وہ
چیزیں پوری نہ ہوں جو تو لکھنی شروع کرے گا‘‘۔
اِس باب کی آیت ۲۰ تا ۲۵ کے اصل الفاظ انگریزی زبان میں مندرجہ ذیل ہیں:۔
20. Behold, Lord, I will go, as Thou hast commanded me, and reprove the people which are present but they that shall be born afterward, who shall admonish Them? Thus the world is set in darkness, and they That dwell therein
are without light.
21. For Thy Iaw is burnt, therefore no man knoweth the things that are done of the works that shall begin.
22. But if I have found grace before thee. Send the Holy Ghost into me. And I shall write all that hath been done in the world since the beginning, which were written in thy law that men may find Thy Path, and that they
which will live in the latter days may live.
23. And He answered me, saying, Go thy way, gather the people tohether, and say unto them, that they seek thee
not for forty days.
24. But look thou prepare thee many box trees and take with thee, sarea, Dabria, Selemia, Ecanus, and Asiel
these five which are ready to wrirte swiftly.
25. And come hither, and I shall light a candle of understanding in Thine heart which shall not be put out, till the things be performed which thou shalt begin to
۵۱؎write.``
غرض حضرت عزرا اور پانچ زود نویس چالیس روز تک دوسروں سے الگ تھلگ جا بیٹھے اور الہامی تائید سے انہوں نے چالیس دن میں دوسَو چار کتابیں لکھیں۔ چنانچہ اس باب کی چوالیسویں آیت میں لکھا ہے:۔
``44. In forty days they wrote two hundred and four
۵۲؎ books.``.
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ:۔
(الف) عزرا نبی کے وقت میں جو قریباً چارسَو سال قبل مسیح تھا تورات اور دیگر انبیاء کی کتابیں جل گئی تھیں۔
(ب) ان کا نسخہ اُس وقت موجود نہ تھا۔
(ج) عزرا نے دوبارہ وہ کتابیں لکھیں۔
گویا یہ بتایا گیا ہے کہ وہ الہامی تھیں مگر مراد الہامی تائید ہے۔ یہ مراد نہیں کہ ان کا ایک ایک نقطہ الہام تھا۔ کیونکہ یہودی تاریخ بتاتی ہے کہ خود عزرا نے بعض حصوں کے مشکوک ہونے کا اعتراف کیا تھا اور ان کا فیصلہ ایلیا پر اُٹھا رکھا تھا۔ پس موجودہ تورات وہ تورات نہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی بلکہ وہ تورات ہے جو عزرا نے اپنے حافظہ سے لکھی تھی اور جس کے بعض حصوں کے متعلق خود عزرا کو بھی شبہ تھا بلکہ میں توکہتا ہوں کہ یوںسمجھنا چاہئے کہ وہ یہ تورات بھی نہیں ہے جوعزرا نے لکھی تھی کیونکہ عزرا نے ۲۰۴ کتابیں لکھی تھیں مگر ۲۰۴ کتابیں موجودہ بائبل میں ہمیں نہیں ملتیں۔
عزرا کے حافظہ کے متعلق خود مسیحی مصنفوں کو بھی شبہات ہیں۔ چنانچہ ریورنڈ آدم کلارک بائبل کے مشہور مسیحی مفسر اپنی تفسیر مطبوعہ ۱۸۹۱ء کے صفحہ ۱۶۸۱ پر ا۔تواریخ باب ۴ آیت ۷ کے ماتحت لکھتے ہیں:
’’ اِس جگہ غلطی سے عزرا نے بیٹے کی جگہ پوتا لکھ دیا ہے۔ ایسے اختلافوں میں تطبیق بے فائدہ ہے‘‘۔
علمائے یہود کہتے ہیں کہ عزرا کو معلوم نہ تھا کہ بعض بعض کے بیٹے ہیں یا پوتے۔ جب یہودی اور عیسائی علماء کا عزرا کے حافظہ کے متعلق یہ خیال تھا تو یہودی اور عیسائیوں کے عوام الناس اور دوسری اقوام کے لوگ اس پر کیا تسلی پا سکتے ہیں اور جس کتاب کی سند ایسی ہو وہ روحانی معاملات میں کیونکر لوگوں کی تشفی کا موجب ہو سکتی ہے۔
اندرونی شہادت کہ موجودہ تورات اصلی تورات نہیں
اب میں بائبل کی اندورنی شہادت کو لیتا ہوں کہ وہ بھی اِس بات پر دلالت کرتی ہے موجودہ تورات حضرت موسٰی علیہ السلام پر نازل شد ہ کتاب نہیں۔ اس بارہ
میںسب سے اہم اور واضح وہ دلیل ہے جو استثناء باب ۳۴ میں حضرت موسٰیؑ کی وفات کو بیان کرتی ہے۔ اس آیت میں لکھا ہے:
’’ سو خدا وند کا بندہ موسیٰ خدا وند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مر گیا اور اُس نے اُسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا، پر آج کے دن تک کوئی اُس کی قبر کو نہیں جانتا‘‘ ۔۵۳؎
یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ اس کا مضمون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سینکڑوں سال بعد استثناء میں بڑھایا گیا ہے بھلا کون عقلمند یہ تسلیم کر سکتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسٰی ؑ کو الہام میں فرمایا ہو کہ آج تک تمہاری قبر کوئی نہیں جانتا۔ کیا کسی زندہ انسان سے ایسا کلام کیا جا سکتا ہے؟ اور پھر کیا ’’ آج تک ‘‘ کا لفظ اس بارہ میں خود سے کو مخاطب کر کے کہا جا سکتا ہے؟ پھر آیت ۸ میں لکھا ہے:
’’ سو بنی اسرائیل موسٰی کے لئے موآب کے میدانوں میں تیس دن تک رویا کئے
اورا ن کے رونے پیٹنے کے دن موسیٰ کے لئے آخر ہوئے‘‘۔۵۴؎
یہ آیت بھی بتاتی ہے کہ یہ موسیٰ کا کلام نہیں۔ موسیٰ کی کتاب میں بعد میں داخل کیا گیا ہے۔ پھر آیت ۱۰ میں لکھا ہے:
’’ اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ کی مانند کوئی نبی نہیں آیا جس سے خدا وند آمنے سامنے آشنائی کرتا‘‘۔
یہ آیت بھی بتاتی ہے کہ یہ حضرت موسیٰ کا الہام نہیں بلکہ ان کی وفات کے کئی سَو سال بعد کسی نے یہ آیت حضرت موسیٰ کی کتاب میںد اخل کی ہے ممکن ہے وہ عزرا ہی ہوںاور ممکن ہے کوئی اور ہی شخص ہوں۔
دوسری اندرونی دلیل اس بات کی کہ موجودہ تورات حضرت موسیٰ کے بعد لکھی گئی اور اُس میںد وسرے لوگو ں کی تحریریں بھی شامل ہیں یہ ہے کہ پیدائش باب ۱۴ آیت ۱۴ میں لکھا ہے:۔
’’ جب ابرام نے سنا کہ میرا بھائی گرفتار ہوا تو اُس نے اپنے ساتھ سیکھے ہوئے تین سَو اٹھارہ خانہ زادوں کو لے کر دان تک ان کا تعاقب کیا‘‘۔
لیکن قاضیوں باب ۱۸ آیت ۲۷تا۲۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر جس کا نام پیدائش میں ’’دان‘‘ آیا ہے پہلے لیس کہلاتا تھا لیکن موسیٰ کے کوئی ۸۰ سال بعد اس شہر کو فتح کرکے اس کا نام ’’دان‘‘ رکھاگیا۔ چنانچہ لکھا ہے:
’’ وہ میکاہ کی بنوائی ہوئی چیزوں کو اور اس کا ہن کو جو اس کے ہاں تھا لے کر لیس میںا یسے لوگوں کے پاس پہنچے جو امن اور چین سے رہتے تھے اور ان کو تہہ تیغ کیا اور شہر جلا دیا اور بچانے والا کوئی نہ تھا۔ کیونکہ وہ صیدا سے دور تھا اور یہ لوگ کسی سے سروکار نہیں رکھتے تھے اور وہ شہر بیتِ رحوب کے پاس کی وادی میں تھا۔ پھر انہوں نے وہ شہر بنایا اور اس میں رہنے لگے اور اس شہر کا نام اپنے باپ’’ دان‘‘ کے نام پر جو اسرائیل کی اولاد تھادان رکھا۔ لیکن پہلے اس شہر کا نام لیس تھا‘‘۔
پس جو نام حضرت موسٰی ؑکے ۸۰ سال بعد رکھا گیا تھا وہ موسیٰ کی کتاب میں کس طرح آسکتا تھا؟ اس حوالہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ کی کتاب میں ان کی وفات کے بعد دخل اندازی ہوتی رہی اور بعض لوگوں نے اپنے زمانہ کے خیالات اور افکار اس میں داخل کر دیئے۔ یہ تغیرو تبدل صرف موسیٰ کی کتابوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ دوسری کتابوں کا بھی یہی حال ہے۔ چنانچہ یشوع کی کتاب کے باب ۲۴ آیت ۲۹ میں لکھاہے:۔
اور ایسا ہو اکہ بعد ان باتوں کے نون کا بیٹا یشوع خداوند کا بندہ جو ایک سَو دس برس کا بوڑھا تھا رحلت کر گیا۔
اسی طرح ایوب کی کتاب باب ۴۲ آیت ۱۷ میں لکھا ہے۔
’’اورایوب بوڑھا اور عمردراز ہو کے مر گیا‘‘۔
ان حوالوں سے صاف ظاہر ہے کہ یشوع کی کتاب کو یشوع نے نہیںلکھا اور ایوب کی کتاب کو ایوب نے نہیں لکھا بلکہ بعد کے لوگوں نے سنی سنائی باتوں کی بناء پر لکھ دی تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بائبل کے انبیاء نے توالٰہی کلام ایک جگہ جمع کر دیا تھا مگر بعد میں مٹ گیا اور لوگوں نے اپنی یاد سے وہ کلام دوبارہ لکھا اور بہت سی باتیں اپنی طرف سے اس میں داخل کردیں۔
کیا اِس قسم کی کتابیں جو نہ صرف تاریخی شواہد کی بناء پر بلکہ اپنی اندرونی شہادت کی بناء پر بھی مجروح اور غیر یقینی ہیں اور ان میں غلط واقعات بھی بیان ہو گئے ہیں، یہ ثابت نہیں کرتیں کہ دنیا کو موسٰی ؑاور ان کے بعد آنے والے نبیوں کی کتابیں تسلی نہیں دے سکتی تھیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت سے ہاتھ کھینچ لیا اور ایک ایسی کتاب کی امید دنیا کو لگا دی جوہر قسم کی انسانی دستبرد سے پاک اور محفوظ ہو؟ اگر موسٰی ؑاور اس کے بعد آنے والے نبیوں کی کتابوں کے بگاڑ کے بعد بھی خدا تعالیٰ کسی ایسے کلام کی بنیاد نہ رکھتا جو یقینی اور محفوظ ہوتا تو ہمیں ماننا پڑتا کہ خداتعالیٰ کو اپنے بندوں کی ہدایت اور راہنمائی کا کوئی فکر نہیں اوروہ ایمان کے بیج کو یقین اور اطمینان کی زمین میں بونے کی بجائے شک و شبہ اور بے اطمینانی کی زمین میں بونا چاہتا ہے اور اسے اتنا اعتبار بھی بخشنا نہیں چاہتا جتنا کفر کو حاصل ہے لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ امر خدا تعالیٰ کی شان کے شایاں ہے؟ اگر نہیں تو ہمیں یقینا اُس کتاب کی تلاش کرنی پڑے گی جس نے منسوخ، محرف اور مبدل بائبل کی جگہ لی۔
بائبل کی متضاد باتیں
بائبل سے اور بھی ایسی اندورنی شہادتوں کا پتہ لگتا ہے جو اس بات پر روشنی ڈالتی ہیں کہ بائبل اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہیں
ہے ۔مثلاً :
۱۔ تورات کی پہلی کتاب پیدائش میں لکھا ہے۔
’’تب خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت اوراپنی مانند بنا ویں‘‘۔۵۵؎
آگے چل کر لکھا ہے:۔
’’ لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا‘‘۔۵۶؎
ا ب اِن دونوں حوالوں میںتطابق کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ نیک و بد کی پہچان خد اکو بھی نہیں کیونکہ آدم خدا کی مانند تھا اور خدا تعالیٰ کی صفات آدم میں پائی جاتی تھیں اور سب سے بڑی صفت نیک وبد کی پہچان ہی ہے کیونکہ سب صفتیں اس کے ماتحت ہی آتی ہیں۔ اگر آدم کو نیک و بدکی پہچان نہ تھی تو کوئی اچھی صفت بھی بطور خلق کے اس کے اندر نہیں پائی جاتی تھی کیونکہ نیک کام وہی ہوتا ہے جو ارادے اور علم کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کام کے ساتھ ارادہ اور علم نہ ہو وہ نیک نہیں کہلا سکتا۔ جب آدم کو نیک و بد کی پہچان ہی نہ تھی تو آدم اصولِ اخلاق کے ماتحت نہ کسی بدی سے بچنے والا تھا اور نہ کسی نیکی کو بجالانے والا تھا۔ اسی طرح عملی طور پر اسے اچھی اور بُری باتوں کی کوئی تمیز نہ تھی۔ کیا خد اتعالیٰ کا وجود بھی یہودی اور مسیحی مذہب کے مطابق ایسا ہی ہے؟ کیا خداکو اِس بات کا کوئی علم نہیں کہ نیکی کیا چیز ہے اور بدی کیا چیز ہے؟ اگر بدی اور نیکی کا اُس کو علم نہیں تو وہ نبیوں کو کیوں بھیجتا ہے؟ اور کیا خدا کی صفات نیکیوں کو قائم کرنے والی اور بدیوں کو مٹانے والی نہیں ہیں؟اگر اس سوال کو ہم نظر انداز بھی کردیں کہ انسان کی پیدائش کی غرض ہی نیک وبد کی پہچان ہے اور اگر یہ پہچان اسے حاصل نہ ہوتو اس کے وجود کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ پھر یہ دیکھنا چاہئے کہ بغیر نیک وبد کی پہچان کے آدم خدا کی مانند ہو کس طرح گیا۔ اِس پہچان کے بغیر وہ خدا کی مانند ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اگر وہ خدا کی مانند تھا تو یہ غلط ہے کہ اسے کہا گیا کہ تونیک و بد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا۔ اور اگر یہ درست ہے کہ اسے کہا گیا تھا کہ نیک و بدکی پہچان کے درخت سے نہ کھاناتو یہ غلط ہے کہ خد انے اسے اپنی مانند بنایا۔
۲۔ پیدائش باب ۲، آیت ۱۷ میں لکھا ہے:۔
’’ جس دن تو اس نیک و بد کی پہچان کے درخت سے کھا ئے گا توضرور مرے گا‘‘۔
اسی طرح پیدائش باب ۲ آیت ۹میں لکھا ہے:۔
’’ اور باغ کے بیچوں بیچ حیات کے درخت اور نیک و بد کی پہچان کے درخت کو زمین سے لگایا‘‘۔
اس آیت کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں یا تو یہ کہ ایک ہی درخت میں دائمی حیات بخشنے اور نیک وبد کی پہچان دینے کی خاصیت تھی اور یا یہ کہ یہ دو درخت تھے۔ ایک میں حیات بخشنے کی طاقت تھی اور دوسرے میں نیک و بدکی پہچان دینے کی طاقت تھی۔ا گر اِس کے معنی یہ لئے جائیں کہ یہ دو درخت نہیں تھے بلکہ ایک ہی درخت تھا تو پیدائش باب ۲ آیت۱۷ کا حوالہ جو اوپر لکھا جا چکا ہے کہ:
’’ جس دن تو اس سے کھائے گا مر جائے گا‘‘۔
غلط ہو جاتا ہے۔ کیونکہ آیت ۹ تو اُسے حیات کا درخت قرار دیتی ہے موت کا نہیں۔ اور اگر یہ دو الگ الگ درخت تھے تو پھر یہ دونوں آیتیں متضاد ہیں۔ کیونکہ نیک وبد کی پہچان کے درخت سے کھانے سے موت کا آنا لازمی نہ تھا اس لیے کہ اگر آدمؑ حیات کے درخت سے کھا لیتے جیسا کہ بائبل سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوںنے کھایا تو نیک و بد کی پہچان کے درخت سے کھانے کے باوجود اُن پر موت کیونکر آئی؟ اگر ایک درخت کے کھانے سے موت لازماً آنی تھی تو دوسرے درخت کا پھل کھانے سے حیاتِ جاودانی مل جانی تھی۔ ایسے شخص کا معاملہ تو کوئی عقل حل ہی نہیں کر سکتی کہ ایک درخت اسے ہمیشہ کے لئے زندہ رکھنا چاہتا ہے اور دوسرا درخت اُسے مار دینا چاہتا ہے۔
بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدمؑ اور ان کی بیوی نے حیات کے درخت کا پھل کھایا ہے کیونکہ پیدائش باب ۳ آیت ۲،۳ میں لکھا ہے:۔
’’ عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل ہم توکھاتے ہیں مگر اُس درخت کے پھل کو جو باغ کے بیچوں بیچ ہے خدا نے کہا کہ تم اُسے نہ کھانا اور نہ اُسے چھونا ایسا نہ ہو کہ مر جائو‘‘۔
اِن آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوائے نیک وبد پہچان کے درخت کے باقی سب درختوں کا پھل آدمؑ اور اس کی بیوی کھاتے تھے۔ اگر بائبل کی یہ بات درست ہے تو آدمؑ اور اس کی بیوی حیات کے درخت کا پھل بھی کھاتے تھے اور جب وہ حیات کے درخت کا پھل بھی کھاتے تھے تواُن پر موت کس طرح آئی۔ لیکن عجیب بات ہے کہ باب ۳ کی آیت ۲۲ میں لکھا ہے کہ خدا نے فرشتوں سے کہا:۔
’’ ایسا نہ ہو کہ آدم اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کر کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے‘‘۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ آدمؑ نے حیات کے درخت سے کچھ نہ کھایا تھا۔ اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ اِس آیت کا مضمون درست ہے جو بتاتی ہے کہ آدمؑ نے حیات کے درخت سے کچھ نہ کھایا تھا یا اس باب کی آیت ۲ درست ہے جس میں آدم کی بیوی کا قول درج ہے کہ سوائے نیک وبد کی پہچان کے درخت کے باقی سب درختوں کا پھل آدم اور حوا کھاتے تھے۔ اور آیا یہ بات درست ہے کہ نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے سے انسان ضرور مرتا ہے یا یہ بات درست ہے کہ حیات کے درخت کا پھل کھانے سے انسان کبھی نہیں مرتا۔
یہ سب متضاد باتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کلام میںایسی باتیں نہیں آسکتیں۔ یقینا یہ باتیں مختلف مصنّفین نے اپنے اپنے خیالات کے مطابق تورات میں درج کر دیں اور چونکہ اُن مصنّفین کے خیالات متضاد تھے اس لئے اُن کے پیش کردہ نظریے بھی متضاد تھے۔ اور جس کتاب میں متضاد باتیںآجائیں جو ایک ہی وقت میں اورا یک ہی انسان میں کسی صورت میں جمع نہ ہو سکیں اور وہ کتاب ان کو ایک ہی وقت اور ایک ہی انسان میں جمع کرتی ہو تو یقینا وہ خدا کی کتاب تو الگ رہی ایک عقلمند انسان کی کتاب بھی کہلانے کی مستحق نہیں ہو سکتی۔ مگر موسیٰ علیہ السلام یقینا خدا کے نبی تھے اور تورات یقینا خد اکی نازل کردہ کتاب تھی پس یہ اختلاف بعد میں پیدا ہوا۔ نہ اس اختلاف سے خدا تعالیٰ پر کوئی الزام آتا ہے اور نہ موسیٰ پر۔ ہاں یہ ہم ضرور کہیں گے کہ خدا نے جب بائبل کی جگہ ایک اورکتاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو بائبل کی حفاظت سے اُس نے ہاتھ کھینچ لیا اور وہ ایک محفوظ کتاب نہ رہی۔
۳۔ پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۴ میں لکھاہے:۔
’’اور ابراہام نے اُس مقام کا نام ’’ یہوواہ یزی‘‘ رکھا۔‘‘ چنانچہ یہ آج تک کہا جاتا ہے کہ خداوند کے پہاڑ پر دیکھا جائے گا‘‘۔
لیکن خروج باب۲ آیت ۲،۳ میں لکھا ہے۔
’’ پھر خدا نے موسیٰ کو فرمایا اور کہا میں خداوند ہوں ’’ یہوواہ‘‘۔ اور میں نے ابراہام اور اضحاق اور یعقوب پر خدا کے نام سے اپنے تئیںظاہر کیا اور یہوواہ کے نام سے اُن پر ظاہر نہ ہوا۔‘‘
اِن دونوں آیتوں کا تضاد ظاہر ہے۔ کتاب خروج کہتی ہے کہ یہوواہ کے نام سے پہلی بار موسیٰ کو روشناس کیا گیا۔ اس سے پہلے کسی نبی کو خصوصاً ابراہیم ؑ۔ اسحاق ؑاوریعقوبؑ پر خدا تعالیٰ کا یہواہ نام ظاہر نہیں کیا گیا لیکن کتاب پیدائش کہتی ہے کہ ابراہیم ؑپر بھی اس نام کو ظاہر کیا گیا تھا اور اُس نے ایک پہاڑی کا نام ’’ یہوواہ یری‘‘ رکھ دیا تھا۔
۴۔ گنتی باب ۳۳ آیت ۳۸ میںحضرت ہارون کے متعلق لکھا ہے:۔
’’ہارون کاہن خدا وند کے حکم کے مطابق کوہِ طور پر گیا اور اس نے بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کے پیچھے چالیسویں برس کے پانچویں مہینے کی پہلی تاریخ وفات پائی‘‘۔
لیکن استثناء باب ۱۰ آیت ۶ میں لکھا ہے:۔
’’ تب بنی اسرائیل نے بیراث بنی یقعان سے موسیرہ کو کوچ کیا۔ وہاں ہارون کا انتقال ہوا اور وہیں گاڑا گیا‘‘۔
ایک ہی شخص دو جگہ وفات نہیں پا سکتا۔ یقینا یہ دو الگ الگ مؤرخوں کا کام ہے کہ اُنہوں نے بائبل میں اپنی اپنی تحقیق کو خدا تعالیٰ کا الہام قرار دے کر شامل کر دیاہے۔
۵۔ نمبر ۱ سموئیل باب ۱۶ آیت ۱۰ تا ۱۳ سے ظاہر ہے کہ دائود یسی کا آٹھواں بیٹا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے :۔
’’یسی نے اپنے سات بیٹوں کو سموئیل کے سامنے نکالا اور سموئیل نے یسی سے کہا کہ خدا نے ان کو نہیں چنا ہے۔ پھر سموئیل نے یسی سے پوچھا کہ تیرے سب لڑکے یہی ہیں؟ اس نے کہا سب سے چھوٹا ابھی رہ گیا ہے وہ بھیڑ بکریاں چراتا ہے۔ سموئیل نے یسی سے کہا کہ اُسے بُلا بھیج کیونکہ جب تک وہ یہاں نہ آجائے ہم نہیں بیٹھیں گے۔ سو وہ اُسے بُلوا کر اندر لایا۔ وہ سرخ رنگ اور خوبصورت اور حسین تھا اور خداوند نے فرمایا اُٹھ اور اُسے مسح کر کیونکہ وہ یہی ہے۔ تب سموئیل نے تیل کا سینگ لیا اور اسے اس کے بھائیوں کے درمیان مسح کیا اور خداوند کی روح اُس دن سے آگے دائود پر زور سے نازل ہوتی رہی۔ پھر سموئیل اُٹھ کر رامہ کو چلا گیا‘‘۔
مگر نمبر ۱ تواریخ باب ۲ آیت ۱۳ تا ۱۵ میں لکھا ہے کہ دائود یسی کا ساتواں بیٹا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
’’ اور یسی سے اُس کا پلوٹھا الیاب پیدا ہوا اور ابینداب دوسرا اور سمع تیسرا، نینیتل چوتھا، ردی پانچواں، عوضم چھٹا ،دائود ساتواں ‘‘۔
یہ اختلاف بتاتا ہے کہ بائبل میں مختلف مؤرخوں نے اپنے اپنے خیالات داخل کر دئیے ہیں اور یہ موجودہ حالت میں محفوظ آسمانی کتاب نہیں کہلا سکتی۔
۶۔ نمبر ۲ سموئیل باب ۶ آیت ۲۳ میں لکھا ہے:۔
’’ سو سائول کی بیٹی میکل مرتے دم تک بے اولاد رہی۔‘‘
مگر نمبر ۲ سموئیل باب ۲۱ آیت ۸ میں لکھا ہے:۔
’’ اور سائول کی بیٹی میکل کے پانچوں بیٹوں کو جو برزلی محولاتی کے بیٹے عدری ایل سے ہوئے تھے لے کر ان کو جبعونیوں کے حوالے کیا‘‘۔
ایک ہی کتاب میں ایک ہی جگہ اُسے بانجھ قرار دیا گیا ہے اور اُسی کتاب میںد وسری جگہ اس کے پانچ بیٹے قرار دئیے گئے ہیں۔
۷۔ نمبر ۲ تواریخ باب ۲۱ آیت ۱۹،۲۰ میں لکھا ہے کہ یہورام بادشاہ ۳۲ سال کی عمر میں بادشاہ ہوا اور آٹھ برس اُس نے بادشاہت کی اور پھر دو سال بادشاہت سے معزول ہو کرایک سخت بیماری کے اثر سے وفات پا گیا۔
گویا اس کی عمر ۴۲ سال کی تھی۔ لیکن اِسی کتاب کے باب ۲۲ آیت ۱،۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ یروشلم کے باشندوں نے یہورام کے چھوٹے بیٹے اخزیاہ کو اُس کی جگہ بادشاہ بنایاکیونکہ اُس انبوہ نے جو عربوں کے ساتھ چھائونی میں آیا تھا سب بڑے بیٹوں کو قتل کیا تھا سو اخزیاہ بن یہورام یہوواہ کا بادشاہ ہوا۔ اخزیاہ بیالیس برس کی عمر میں بادشاہ ہوا۔
چونکہ اوپر کے حوالہ سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہورام کی عمر اُس کی وفات کے وقت ۴۲ سال کی تھی اس لئے اس دوسرے حوالے کی بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہورام بادشاہ کا سب سے چھوٹا بیٹا اخزیاہ جب اپنے باپ کی وفات پر تخت پر بیٹھا تو اُس کی عمر بھی ۴۲ سال کی تھی۔ گویا وہ اپنے باپ کا ہم عمر تھا اور اس کے بڑے بھائی جن کو عربوں نے یہورام کے خلاف لڑائی میں مار دیا تھا وہ سب اپنے باپ سے بڑے تھے۔ کیا کوئی معقول انسان اس قسم کی لغو باتوں کو تسلیم کر سکتا ہے؟ بیالیس سال کی عمر میں باپ مارا جاتا ہے اور اُس کا سب سے چھوٹا بیٹا اُسی عمر کا اس کے بعد بادشاہ بن جاتا ہے!! یہ باتیں تو ایسی ہیں کہ کسی کمزور سے کمزور عقل والے انسان کی کتاب میں بھی نہیں پائی جاتیں کجا یہ کہ خدا کی نازل کردہ کتاب میں پائی جائیں۔ صاف ظاہر ہے کہ خدا کے الہام میں یہ باتیں نہ تھیں۔ نبیوں کے کلام میں یہ باتیں نہ تھیں۔ کسی ایک آدمی نے بھی یہ باتیں نہیں لکھیں۔ بلکہ کئی آدمیوں نے اپنے اپنے خیالات لکھ دئیے ہیں۔ کسی یہودی مؤرخ کا یہ خیال تھا کہ یہورام بیالیس سال کی عمر میں فوت ہوا اور اُس نے یہ بات لکھ دی۔ کسی دوسرے یہودی مؤرخ کا یہ خیال تھا کہ یہورام جب مرا اُس کی عمر سَو سال تھی اور اُس وقت سب سے چھوٹا بیٹا بیالیس سال کا تھا اُس نے یہ بات درج کردی کہ جب یہورام کا بیٹا تخت پر بیٹھا تو بیالیس سا ل کا تھا۔ اب یہ باتیں بظاہر متضاد نظر آتی ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ جس نے یہورام کو ۴۲ سا ل میں مارا ہے اُس کے خیال میں اخزیاہ کی عمر تخت نشینی کے وقت بیالیس نہیں تھی بلکہ شاید ۱۴،۱۵ سال ہو ۔اور جس شخص نے یہ لکھ دیا کہ اخزیاہ کی عمر تخت نشینی کے وقت ۴۲ سال تھی اُس کی تحقیق میں یہورام کی عمر اُس کی وفات کے وقت ۴۲ سال یقینا نہیں تھی لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایسی کتاب انسان کی روحانیت کو کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے اور وہ کس طرح یقین اور ایمان کے ساتھ اس کے مطالب پر غور کر سکتا ہے۔ اگر تو یہ کہا جاتا کہ تورات مجموعہ ہے لاکھوں یہودیوں کی تحقیقاتوں کا تو پھر بھی اِس کتاب کی کچھ قیمت باقی رہ جاتی۔ لیکن ایک طرف تو اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والاکلام کہا جاتا ہے اور دوسری طرف وہ ہزاروں ہزار افراد کی تحقیقاتوں کا مجموعہ نظر آتا ہے اور اس طرح ایک غلط نام دے دینے کی وجہ سے تھوڑی بہت عظمت جو اِسے حاصل ہو سکتی تھی وہ بھی جاتی رہی ہے۔ بھلا کون کہہ سکتا ہے کہ ایسی کتاب دنیا کی راہنمائی کا موجب ہو سکتی ہے اورکون کہہ سکتا ہے کہ اس کتاب کے بعد کسی اور کتاب کے آنے کی ضرورت نہیں تھی۔
بائبل کے ظالمانہ احکام
پھر صرف متضاد باتیں ہی نہیں ہمیں بائبل میں ظالمانہ احکام بھی نظر آتے ہیںجو ہر گز خدائے رحیم و کریم کی طرف منسوب
نہیں کئے جاسکتے۔ مثلاً:
۱۔ خروج باب۲۱آیت ۲۰،۲۱ میں لکھا ہے:۔
’’اگر کوئی اپنے غلام یا لونڈی کو لاٹھیاں مارے اوروہ مارکھاتی ہوئی مرجائے تو اسے سزا دی جائے۔ لیکن اگر وہ ایک دن یادودن جئے تو اسے سزا نہ دی جائے اس لئے کہ وہ اس کا مال ہے۔‘‘
اس تعلیم میں غلاموں کے لئے کتنی سختی ہے ۔ ایک ظالم اپنے غلام اور اپنی لونڈی کو لاٹھیوں سے مارتا ہے اور اتنا مارتا ہے کہ وہ غلام یا لونڈی ایک دو دن کے بعد مرجائے لیکن بائبل کہتی ہے اب وہ سزا کا مستحق نہیں کیونکہ غلام اور لونڈی اس کا مال ہیں ۔کیا یہ تعلیم اس قابل تھی کہ ہمیشہ کے لئے اسے قائم رکھا جاتا؟ کیا یہ تعلیم ایسی نہ تھی کہ اس کی جگہ پر وہ تعلیم لائی جاتی جو غلام اور لونڈیوں کے دستور مٹانے والی اور مالک کے ہاتھوں کو روکنے والی ہوتی۔ یہ تعلیم اسلام ہی کے ذریعہ دنیا کو حاصل ہوئی چنانچہ اسلام نے جہاں غلامی کو مٹانے کے لئے قانون پاس کئے وہاں یہ اصول بھی مقرر کردیا کہ جو غلام یا لونڈی لوگوں کے ہاتھ میں کسی وجہ سے باقی رہ گئے ہوں ان کو ہرگز مارا پیٹا نہ جائے ۔ احادیث میں آتا ہے ایک دفعہ ابو مسعود انصاریؓ اپنے غلام کو ماررہے تھے کہ اُنہیں پیچھے سے آواز آئی ۔اے مسعود! جس قدر تجھ کو غلام پر مقدرت حاصل ہے اس کے کہیں زیادہ خدا کو تجھ پر مقدرت حاصل ہے ۔ وہ کہتے ہیں میں نے مڑکر دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لارہے تھے اس پر ڈر کے مارے میرے ہاتھ سے کوڑا گر پڑا اور میں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! یہ غلام خدا کے لئے آزاد ہے۔ آپ نے فرمایا اگر تُو اسے آزاد نہ کرتا تو آگ تیرا منہ جھلستی۔ ۵۷؎
اسی طرح ایک اور صحابی فرماتے ہیں ہم سات بھائی تھے اور ہمارے پاس ایک لونڈی تھی۔ ہم میں سے چھوٹے بھائی نے اُس کے منہ پر تھپڑ مارا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس لونڈی کو فوراً آزاد کر دیا جائے کیونکہ جو شخص اپنے غلام یا لونڈی کو مارتا ہے وہ اس کو رکھنے کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔۵۸؎
خودرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا یہ حال تھا کہ جب آپ کی شادی کے موقع پر آپ کی بیوی نے اپنا مال اور غلام آپ کی خدمت میں پیش کر دئیے۔ تو آپ نے فرمایا میں کسی انسان کو اپنا غلام رکھنے کے لئے تیار نہیںہوں۔ یہ کہہ کر آپ نے سب غلام آزاد کر دئیے اور ساری عمر آپ نے کوئی غلام نہیں رکھا۔
۲۔ احبار باب ۲۰ آیت ۲۷ میں لکھا ہے کہ:۔
’’مرد یا عورت جس کا یار دیو ہے یا جادوگر ہے تو دونوں قتل کئے جاویں، چاہئے کہ تم اُن پر پتھرائو کرو اور اُن کا خون اُنہی پر ہووے‘‘۔
اِسی طرح خروج باب ۲۲ آیت ۱۸ میں لکھا ہے کہ:۔
’’ تُو جادوگروں کو جینے مت دے‘‘۔
یہ کیسی خلافِ عقل تعلیم ہے اور پھر ظالمانہ بھی۔ اگر جادوگر سے مراد یہاں ہتھکنڈے دکھانے والے لوگ ہیں تو وہ ایک معصوم پیشہ لوگ ہیں۔ انسان کی مشوش زندگی میں کبھی کبھی ہنسی اور مذاق کا وقت بھی آجاتا ہے۔ اُس وقت یہ لوگ اپنی دیرینہ مشقوں کے ذریعہ سے لوگوں کی توجہات کو زیادہ سنجیدہ مسائل سے اپنے ہتھکنڈوں کی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ اس بے ضرر پیشہ کو قتل کا موجب قرار دینا انصاف کی تعلیم نہیں کہہ سکتے۔ اور اگر جادوگر سے مراد وہ روایتی جادوگر ہیں جو مرد کو بیل اور عورت کو چڑیا بنا دیتے ہیں تو یہ تعلیم نہ صرف احمقانہ ہے بلکہ ظالمانہ بھی۔ کیونکہ ایسے جادوگر نہ کبھی ہوئے اور نہ کبھی ہوں گے اور کسی کی طرف ایسے جادو منسوب کر کے قتل کر دینا ظالمانہ فعل ہے۔
استثناء باب ۷ آیت ۲ میں لکھا ہے:۔
’’ جبکہ خدا وند تیرا خداا نہیں تیرے حوالہ کرے تو تُو اُنہیں ماریو اور حرم کیجیئو نہ تو ان سے کوئی عہدکریو اور نہ ان پر رحم کریو ‘‘۔
ایک مغلوب دشمن کے متعلق یہ کیسی ظالمانہ تعلیم ہے۔ تمام دشمنوں کو قتل کر دینا، ان کے ساتھ کسی قسم کا عہد نہ کرنا اور ہر قسم کے رحم سے انہیں محروم کرد ینا یہ ظلم بادشاہوں کا فعل تو ہو سکتا ہے خدائے رحیم و کریم کی تعلیم نہیں ہوسکتی۔ یقینا یہ تعلیم موسٰی ؑکے بعد آنے والے سفاک یہودیوں کے دماغوں کا اختراع ہے اور موسٰی ؑکی کتاب میں داخل کر کے اُس کو بھی گندہ کر دیا ہے۔
بائبل کی خلاف عقل باتیں
بائبل میں بعض ایسی باتیں ہیں جو بالکل خلافِ عقل ہیں۔ مثلاً :
۱۔ احبار باب ۱۱ آیت۳ میں لکھا ہے ’’خرگوش جگالی کرتا ہے۔‘‘
۲۔ اِسی طرح گنتی باب ۲۲ آیت ۲۸ میں بلعام کی گدھی کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے بلعام سے باتیں کیں۔
۳۔ پیدائش باب ۴۶ آیت ۲۷ ،۲۸ میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر میں آئے تھے تو ۷۰ تھے، لیکن ۲۱۵ سال کے بعد یعنی موسٰی ؑکے زمانہ میں ان کی تعداد اِس قدر بڑھ گئی کہ عورتوں اور بچوں کو نکال کر چھ لاکھ کے قریب پہنچ گئے۔ چنانچہ خروج باب ۱۲ آیت ۳۷ میں لکھا ہے:۔
’’ اور بنی اسرائیل نے رعمیس سے ’’سکات‘‘ تک پیادے سفر کیا۔ ان کے مرد سِوا لڑکوں کے چھ لاکھ کے قریب تھے‘‘۔
اگر مردوں کی تعداد کوملحوظ رکھ کر عورتوں اور بچوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو کل تعداد ۲۵ لاکھ کے قریب پہنچ جاتی ہے مگر یہ سخت مبالغہ اور عقل کے خلاف بات ہے۔ ۲۱۵ سال میں ۷۰ آدمیوںکا ۲۵ لاکھ ہوجانا بالکل عقل کے خلاف بات ہے اور واقعہ کے بھی خلاف ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب مصر سے کنعان کی طرف ہجرت کی اور چالیس سال تک وہ جنگلوں میں پھرے تو کیا ۲۵ لاکھ آدمیوں کا روٹی کا انتظام چالیس پچاس سال تک ان جنگلوں میں ہو سکتا تھا؟ بیشک بعض زمانوں کے متعلق بائبل میں آتا ہے کہ خد اتعالیٰ نے ان کے لئے آسمان سے بٹیر اُتارے اور زمین میں ترنجبین پیدا کر دی لیکن بائبل کے بیان کے مطابق یہ خوراک سارے عرصے کے لئے مہیا نہیں ہوئی تھی۔ پھر دوسرے عرصہ میں اتنے آدمیوں کے لئے خوراک کہاں سے لاتے تھے؟ پھر بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایک چشمہ سے پانی پی لیتے تھے۔ کیا کوئی عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ ایک ایک چشمہ سے ۲۵ لاکھ آدمی پانی سے سیراب ہو سکتا ہے۔ جن علاقوں سے وہ گزرے ان میں ندیاں نہیں ہیں۔ کسی کسی جگہ پر چشمے ملتے ہیں اور چشمہ میں عام طور پر چند محدود فٹ پانی ہوتا ہے کیا اس سے ۲۵ لاکھ آدمی سیراب ہو سکتے ہیں؟ ایسی خلافِ عقل بیان والی بائبل کس طرح بنی نوع انسان کے لئے تسلی کا موجب ہو سکتی ہے۔ بیشک وہ خدا کی طرف سے تھی، بیشک خدا کے نبیوں نے اسے لکھا تھا لیکن وہ مٹ چکی تھی۔ وہ مسخ ہو چکی تھی، وہ انسانی دست بُرد کا شکار ہو چکی تھی، ایسی کتاب کو اُس کے بگڑ جانے کے بعد بھی خدا تعالیٰ کا کلام کہنا دشمنوں کو خدا تعالیٰ پر اعتراض کرنے کا موقع دینا ہے۔ ضروری تھا کہ اس کے بعد ایک اور کتاب آتی جو انسانی دست بُرد سے پاک ہوتی اور ایسی خلافِ عقل باتوں سے محفوظ ہوتی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں قرآن نے اِس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے ۵۹؎ بنی اسرائیل جو فرعون کے ظلم سے ڈر کر بھاگے تھے اُن کی تعداد صرف چند ہزار تھی اور یہی بات صحیح اور درست ہے ورنہ ۲۵ لاکھ یہودی فلسطین کے چھوٹے چھوٹے قبائل سے ڈر کس طرح سکتے تھے۔ فلسطین کی آبادی تو اپنی شان و شوکت کے زمانہ میں بھی ۲۵۔ ۳۰ لاکھ سے نہیں بڑھی۔ آجکل بھی اس کی آبادی ۱۳۔۱۴ لاکھ ہے اور اس میں اور زیادتی کرنے کے خلاف عرب سختی سے احتجاج کر رہے ہیں۔ پرانے زمانہ میں جبکہ خوراک اِدھر اُدھر پہنچانے کے سامان مفقود تھے غیر زرعی علاقوں میں بڑی آبادی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ موسٰی ؑکے وقت میں یقینا سارے فلسطین کی آبادی چند ہزار افراد پر مشتمل ہوگی۔ چنانچہ بنی اسرائیل اور ان کے دشمنوں کی لڑائیوں میں ہمیشہ سینکڑوں اور ہزاروںافراد کا ہی پتہ لگتا ہے۔ اگر موسٰی ؑکے ساتھ ۲۵ لاکھ آدمی فلسطین میں سے آئے تھے تو سفر کا زمانہ تو الگ رہا حکومت کے زمانہ میں بھی خوراک کا انتظام نہ ہو سکتا تھا اور لڑائی کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ یہ لوگ تو اپنے کندھوں کے دھکوں سے ہی ان چند ہزار افراد سے فلسطین کو خالی کر سکتے تھے جو اُن سے پہلے وہاں بس رہے تھے۔
۴۔ اسی طرح تورات میں لکھا ہے:۔
’’ جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ پہاڑ سے اُترنے میں دیری کرتا ہے تو وہ ہارون کے پاس جمع ہوئے اور اسے کہا کہ اُٹھ ہمارے لئے معبود بنا جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ یہ مرد موسیٰ جو ہمیں مصر کے ملک سے نکال لایا ہے ہم نہیں جانتے کہ اسے کیا ہوا۔ ہارون نے انہیں کہا کہ زیور سونے کے جو تمہاری جورئووں اور تمہارے بیٹوں اور تمہاری بیٹیوں کے کانوں میں ہیں توڑ توڑ کے مجھ پاس لائو۔ چنانچہ سب لوگ زیور جو اُن کے پاس تھے توڑ توڑ کرہارون کے پاس لائے اور اس نے ان کے ہاتھوں سے لیا اورایک بچھڑا ڈھال کراس کی صورت چھینی سے درست کی اور انہوں نے کہا کہ اے اسرائیل! یہ تمہارا معبود ہے جو تمہیں مصر کے ملک سے نکال لایا اورجب ہارون نے یہ دیکھا تو اس کے آگے ایک قربا نگاہ بنائی اور ہاورن نے یہ کہہ کر منادی کی کہ کل خداوند کے لئے عید ہے اور وَے صبح کو اُٹھے اور سو ختنی قربانیاں چڑھائیں اور سلامتی کی قربانیاں گزاریں اور لوگ کھانے پینے کو بیٹھے اور کھیلنے کو اُٹھے‘‘۔۶۰؎
لیکن یہ بات کسی انسان کی عقل میں نہیں آسکتی۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جس سے خدا کلام کرے وہ شرک کرنے لگ جائے۔ ایک ہاتھی کودیکھنے والا اسے چوہا نہیں قرار دے سکتا۔ایک سورج کو دیکھنے والا اسے موم کی شمع نہیں قرار دے سکتا۔ایک انسان کو دیکھنے والا اسے مچھر نہیں قرار دے سکتا۔پھریہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خد اکو دیکھنے والا اوراس سے باتیں کرنے والا نبی ایک سونے کے بنے ہوئے بت کو خدا قرار دیدے۔ ہم ایک پاگل سے بھی تو اس قسم کی امید نہیں کر سکتے۔ پھر خدا کے ایک نبی سے اس قسم کی امید کس طرح کر سکتے ہیں۔
دوسرے یہودی تو معذور تھے۔ نہ اُنہوں نے خدا کو دیکھا تھا نہ اس سے باتیں کی تھیں۔ انہوں نے موسیٰ اور ہارون کی باتیں سنی تھیں اوراس پر ایمان لے آئے۔ اِسی طرح ان سے سامری نے جو کچھ کہا اُنہوں نے مان لیا۔ مگر ہارون کو کیا ہو گیا تھا؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جس نے خدا کو دیکھا ہو اور اس سے باتیں کی ہوں وہ سامری کے دھوکے میں آجائے اور خود اپنے ہاتھ سے ایک سونے کا بچھڑا بنا کر اسے خدا قرار دینے لگے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دلوں کے بھید جاننے والے خدا نے اس شخص کو بنی اسرائیل کی اصلاح کیلئے چنا ہو جو موقع پر اتنا بزدل اور کمزور ثابت ہوا ہو؟ ایک عام بادشاہ کی تعریف کرنے والے مؤرخین لکھا کرتے ہیں کہ اس نے اچھے جرنیل چنے اور یہ اس کے کمال کی علامت ہے۔ حالانکہ کوئی بادشاہ اپنے جرنیلوں کے دلوں کو نہیں پڑھ سکتا۔ لیکن بائبل کہتی ہے کہ خدا خدا بھی ہے اور غیب دان بھی ہے اور سب انسانوں سے خواہ وہ بادشاہ ہوں یا غیربادشاہ زیادہ عالم اور زیادہ جاننے والا بھی ہے مگر ساتھ ہی وہ ہم سے یہ منوانا چاہتی ہے کہ ہارون کو خدا نے ایک نبی کے مقام پر کھڑا کیا اور دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا اور اُس سے باتیں کیں اور اپنا وجود اُس پر ظاہر کیا مگر جب سامری نے اس کے آگے شرک کی تعلیم پیش کی تو اس کے ساتھیوں کے کہنے پر اس نے ایک سونے کا بچھڑا بنایا اور لوگوں کے سامنے رکھ دیا اور کہا یہ تمہارا خدا ہے۔ وہ قوم کے ڈر کے مارے خدا کو بھول گیا، اپنے دین کو بھول گیا، اپنی ذمہ داری کو بھول گیا، اپنے علم کو بھول گیا اور جاہلوں اور نادانوں کی طرح ایک بے جان کھلونے کے سامنے اپنے ماتھے کو رگڑنے لگا۔ بائبل میں دست اندازی کرنے والے مصنّف خود بیوقوف ہوں گے لیکن یہ ان کی انتہائی جسارت تھی کہ وہ بعد میں آنے والے لوگوں کو بھی اپنے جیسا بے وقوف سمجھتے تھے۔ یقینا اُن کی دست بُرد کے بعد ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جو تورات کی ان لغویات کا پول کھول دے اور دنیا کو بتا دے کہ ہارونؑ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔ چنانچہ وہ کتاب قرآن کریم کی صورت میں نازل ہوئی اور اس نے یہ اعلان کیا کہ ہارونؑ نے ہرگز شرک نہ کیا تھا بلکہ اس نے اپنی قوم کو شرک سے روکا تھا۔ چنانچہ فرماتاتا ہے۔
۶۱؎ یقینا ہارون نے موسیٰ کے پہاڑ سے واپس آنے سے بھی پہلے بنی اسرائیل سے کہہ دیا تھا کہ اس بچھڑے کے ذریعہ سے تم گمراہی میں مبتلا کر دیئے گئے ہو اور تمہارا ربّ وہ ہے جس نے تمہاری پیدائش سے بھی پہلے تمہاری زندگی کی راحت کے سامان مہیا کر دئیے ہیں (اور یہ بچھڑا تمہاری آنکھوں کے سامنے بنایا گیا ہے) پس میری اتباع کرو اور میرا حکم مانو(اور شرک میں مبتلا نہ ہو) کیا کوئی عقلمند دنیا میں یہ کہہ سکتا ہے کہ موسٰی ؑپر نازل ہونے والی کتاب جب صداقتوں اور سچائیوں کو جھٹلانے لگے اور خلافِ عقل باتیں بیان کرنے لگے تو اُس وقت کسی ایسی کامل کتاب کی ضرورت نہ تھی جو آئے تو موسٰی ؑکے دوہزار سال بعد لیکن سچائیاں اس طرح بیان کرے کہ گویا موسٰی ؑکے وقت میں اور اس کے ساتھ موجود تھی۔
۵۔ پیدائش باب ۱۹ آیت ۲۶ میں لکھا ہے کہ لوط کی بیوی نے لوط کے ساتھ شہر سے بھاگتے ہوئے پیچھے پھر کر دیکھا اور وہ نمک کا کھمبا بن گئی۔ تورات کی یہ بات جنوں اور پریوں کے کسی افسانہ میں مذکورہوتی تو یہ اس کا ٹھیک مقالہ ہوتا۔ مگر خدا کے کلام میں ایسی باتوں کا کیا دخل۔ قرآن کریم نے کس صفائی کے ساتھ حقیقت کو بیان کر دیا ہے فرماتا ہے کَانَتْ مِنَ الْغٰبِریْنَ۔۶۲؎ لوط کی بیوی کھمبا ومبا کوئی نہیں بنی بلکہ اس نے لوط کے ساتھ جانا پسند نہ کیا کیونکہ وہ خدا کی محبت پر اپنے رشتہ داروں کی محبت کو ترجیح دیتی تھی۔ غرض ایسی بیسیوں باتیں ہیں جو ہیں تو موسٰی ؑکے زمانہ کی لیکن تورات اِن کو غلط بیان کرتی ہے۔ مگر قرآن کریم نے دو ہزارسال کے بعد آکر اُن کی اصلاح کی ہے اور ایسی اصلاح کی ہے کہ عقل سلیم اُن کی سچائی تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔
بائبل کی خلافِ اخلاق باتیں
پھر بائبل میں بعض ایسی خلافِ اخلاق باتیں بھی درج ہیں جن کی نسبت کوئی یہ یقین نہیں کر سکتا کہ وہ
خدا تعالیٰ کی طرف سے کہی گئی ہوں یا خدا کے نبیوں نے ایسا کام کیا ہو گا۔
۱۔ پیدائش باب ۹ میں لکھا ہے کہ نوح ؑنے انگور کا ایک باغ لگایا اُس کی مے پی کر نشہ میں آیا اور اپنے ڈیرے کے اندر اپنے آپ کو ننگا کیا اور اس کے بیٹے حام نے اُس کی عریانی کا تماشہ دیکھا اور پھر جا کے اپنے بھائیوںکو خبر دی۔۶۳؎ کیا کوئی عقل مند آدمی اس بات کو باور کر سکتا ہے کہ وہ نوح جس کی نسبت آتا ہے:۔
’’ نوح اپنے قرنوں میںصادق اور کامل تھا اورنوح خدا کے ساتھ چلتا تھا‘‘۔۶۴؎
وہ ننگا ہو کر اپنے بچوں کے سامنے آجائے گا؟ اور کیا یہ بات کوئی عقلمند انسان مان سکتا ہے کہ نوح ننگا ہو اوربُرا بھلاحام کو کہا جائے؟ ایک ننگے پر نظر ڈالنے والا انسان آخر اُس کو ننگا نہیں تو اور کیا دیکھے گا۔ پس حام کا اس میں کیا قصور تھا کہ اُس نے نشہ سے چور اپنے باپ کو دیکھ لیا۔ مگر بائبل کہتی ہے کہ نوح نے کہا:۔
’’ کنعان ملعون ہو‘‘ ۶۵؎
حالانکہ کنعان کا کوئی بھی قصور نہ تھا۔ دیکھنے والا کنعان کا باپ حام تھا۔ حام کے خلاف تو نوح نے ایک لفظ بھی نہیں کہا مگر کنعان پر *** کر دی جس کا کوئی قصور نہ تھا۔ کیا اس لئے کہ حام اُس کا بیٹا تھا اور کنعان اُس کا پوتا تھا؟ پس اِس قسم کے اعمال نہایت ہی اخلاق سوز ہیں اور خداتعالیٰ کے ایک نبی کی طرف ایسی باتیں منسوب کرنا نہایت ہی شرمناک امر ہے۔ ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ باتیں یقینا موسٰی ؑ سے خدا تعالیٰ نے نہیں کہیں نہ موسٰی ؑ نے اپنی کتاب میں لکھی ہیں۔ نبیوں کو چور اور بٹ مار کہنے والے یہودی علماء نے یہ باتیں اپنے گناہوں کو چھپانے کے لئے موسٰی ؑکے کلام میں داخل کردیں اور اس بات کو ضروری بنا دیا کہ پھر خدا تعالیٰ ایک کامل کتاب دنیا میں اُتارے جو اِس قسم کی بیہودہ اور لغو اورمفتریانہ باتوں سے پاک ہو اور وہ قرآن کریم ہے۔
۲۔ پیدائش باب ۱۹ آیت۰ ۳ تا ۳۵ میں لکھا ہے کہ:
’’ لوط اپنی دونوں بیٹیوں سمیت اپنے شہر سے نکل کر ایک غار میں رہنے لگا۔ تب پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ ہمارا باپ بوڑھا ہے اور زمین پر کوئی مرد نہیں ہے جو تمام جہان کے دستور کے موافق ہمارے پاس اندر آوے۔ آئو ہم اپنے باپ کومے پلاویں اور اس سے ہم بستر ہوویں تاکہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں سو اُنہوں نے اُسی رات اپنے باپ کو مے پلائی اور پلوٹھی اندر گئی اور اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی۔ پر اُس نے لیٹتے اور اُٹھتے وقت اُسے نہ پہچانا اور دوسرے روز ایسا ہو اکہ پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ دیکھ کل رات میں اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی آئو آج رات بھی اس کو مے پلاویں اور تُو بھی جا کر اُس سے ہم بستر ہو کہ ہم اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں۔ سو اُس رات بھی اُنہوں نے اپنے باپ کو مے پلائی اور چھوٹی اُٹھ کے اُس سے ہم بستر ہوئی اور اس نے اُٹھتے اور بیٹھے وقت اُسے نہ پہچانا‘‘۔
کیا یہ تعلیم واقعہ کے لحاظ سے ممکن اور اخلاق کے لحاظ سے قابل برداشت ہے؟ مگر تورات خدا تعالیٰ کے ایک نبی کی نسبت ایسی کہانی بیان کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔ لیکن تورات سے مراد اِس جگہ وہ تورات نہیں جو خدا نے موسٰی ؑپر نازل کی تھی بلکہ یہ وہ تورات ہے جو بنی اسرائیل کے علماء نے اُس وقت لکھی جب اُنہیں حضرت لوط کی حقیقی یا نام نہاد اولاد مو آب یا بنی عمون سے اختلاف پیدا ہو گیا تھا اور بنی اسرائیل کا ایمان اتنا کمزور ہو چکا تھا اور دل اتنے سخت ہو چکے تھے کہ اُنہوں نے موآب اور بنی عمون کو ملعون کرنے کے لئے خد ا کے نبی حضرت لوطؑ پر حملہ کیا اور خد اکی کتاب میں ایسی گندی باتیں لکھیں جن کو خدا تعالیٰ کے نبیوں کی نسبت کوئی شخص سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوسکتا۔ کیا عیسائی اور یہودی دنیا خدا کے نبیوں کی نسبت ایسی باتیں سن سکتی ہے؟ اگر سن سکتی ہے تو یہ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ ایک ایسی پاک اور منزہ کتاب خد اتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی جو اِس قسم کے ذہنوں کا علاج کرتی۔
۳۔ تورات میں لکھا ہے اگر کئی بھائی ایک جا رہتے ہوں اور ایک ان میں سے بے اولاد مر جائے، تو اُس مرحوم کی جورو کا بیاہ کسی اجنبی سے نہ کیا جائے بلکہ اس کے شوہر کا بھائی اس سے خلوت کرے اور اُسے اپنی جورو کرلے اور بھاوج کا حق اُسے ادا کرے اور یوں ہو گا کہ اُس کا پلوٹھا جو اس سے پیدا ہو تو اس کے مرحوم بھائی کے نام پر قائم ہو گا تاکہ اس کا نام اسرائیل میں سے مٹ نہ جائے۔ ۶۶؎
اگر کسی اور شخص کی اولاد کے ذریعہ سے کسی شخص کا نام قائم رہ سکتا ہے تو بھائیوں کی اولاد کے ہونے کی صورت میں کیا ضرورت ہے کہ اس کے بھائیوں کے نطفہ سے اس کی بیوی کے ہاں بھی کوئی بیٹا پیدا ہو۔ اگر بھائیوں کابیٹا اس کا بیٹا ہو سکتا ہے تو پھر اس کی بیوی سے بد کاری کروانے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ بائبل یہی کہہ دیتی کہ بھائیوں کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا مرنے والے کی طرف منسوب کر دیا جائے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ چونکہ یہودی علماء نے حضرت لوط پر ایک گندہ الزام لگایا تھا خدا نے ایسی تعلیم ان کے ہاتھوں سے تورات میں لکھوادی تاکہ لوط پر جھوٹا الزام لگانے والے یہودی سارے کے سارے خود اُس گند میں مبتلا ہو جائیں جو کام اُنہوں نے حضرت لوط کی طرف منسوب کیا تھا۔ یقینا عہد نامہ قدیم کی یہ خرابیاں اِس بات کی بیّن دلیل تھیں کہ دنیا کو اِس قسم کی کامل کتاب کی ضرورت تھی جو عیبوں اور نقصوں سے پاک ہو اور وہ کتاب قرآن کریم ہے۔
موجودہ اناجیل کی حالت
میں اوپر بتا چکا ہوں کہ عہد نامہ قدیم ظاہری اور باطنی دونوں طور پر محرف و مبدل ہو چکا ہے اوراس کی تعلیم اور
اس کی روشنی سے کسی انسان کا ہدایت پانا ناممکن ہے۔ اب میں عہد نامہ جدید کو لیتا ہوں۔
(۱) عہد نامہ جدید کا کوئی وجود نہیں ہیجو کتابیں عہد نامہ جدید کے نام سے ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہیں، وہ ہرگز نہ مسیح کے اقوال پر مشتمل ہیں اور نہ ان کے حواریوں کے اصل اقوال پر۔ مسیح یہودی النسل انسان تھے اور ان کے حواری بھی یہودی النسل تھے۔ اس لئے اگر مسیح کا کوئی قول اپنی اصل شکل میں محفوظ ہو سکتاہے تو عبرا نی زبان میں۔ اور اگر ان کے حواریوں کا کوئی قول اپنی شکل میں محفوظ ہو سکتا ہے تو وہ بھی عبرانی زبان میں ہی محفوظ ہو سکتا ہے۔ لیکن انجیل کا کوئی نسخہ پرانی عبرانی زبان میں محفوظ نہیں ہے بلکہ اناجیل تمام کی تمام یونانی زبان میں ہیں۔ عیسائی پادری اس عظیم الشان نقص کو چھپانے کے لئے کہہ دیا کرتے ہیں کہ اُس زمانہ میں لوگوں کی زبان یونانی ہوگئی تھی لیکن کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ قومیں اپنی زبان آسانی سے نہیں چھوڑا کرتیںبلکہ وہ اپنی زبان کو ایسا ہی قیمتی ورثہ سمجھتی ہیں جیسا کہ جائیداد و املاک کو مشرقی یورپ کی درجنوں قومیں روس کے ماتحت تین تین چار چار سَو سال سے چلی آئیں ہیں لیکن اب تک ان کی زبانیں موجود ہیں۔ الجزائر اور مراکش پر فرانس اور سپین کا قبضہ ایک لمبے عرصے سے چلا آیا ہے، مگر باوجود اس کے وہاں کے لوگوں کی زبان عربی ہے۔ ان قوموں کو بھی نظر انداز کر دو خود یہودیوں کو ہی لے لو۔ حضرت مسیحؑ کے زمانہ پر ساڑھے اُنیس سَوسال گزر جانے کے بعد بھی انہوں نے اپنی زبان پوری طرح نہیں چھوڑی۔ا ب بھی یورپ اور امریکہ کے مختلف ممالک کے رہنے والے یہودی یِدِّش (YIDDISH ) زبان بولتے ہیں جو مختلف ممالک کی بگڑی ہوئی یہودی زبان ہے۔ اگر اُنیس سَو سال کی رہائش جو کلی طور پر دوسری اقوام کے ماحول میں گزری ہے وہ بھی یہودیوں کی زبان نہیں مٹا سکی تو ایک قلیل عرصہ کی اطالوی صحبت یہود کی زبان کو کس طرح بدل سکتی ہے؟ یاد رکھنا چاہئے کہ اطالوی حکومت فلسطین میں حضرت مسیحؑ سے صرف چالیس سال پیشتر شروع ہوئی تھی اور یہ اتنا لمبا عرصہ نہیں جس میں کوئی قوم اپنی زبان کو چھوڑ دے۔ لیکن اس کے علاوہ یہ باتیں بھی یاد رکھنے کے قابل ہیں کہ :۔
ا۔ تاریخی قومیں اپنی زبان کو کبھی نہیں چھوڑا کرتیںاور یہودی ایک تاریخی قوم ہے۔
ب۔یہودیوں کا مذہب عبرانی زبان میں تھا اِس لئے اس زبان کو چھوڑنا ان کے لئے بالکل ناممکن تھا۔
ج۔ یہودی لوگ تہذیب و شائستگی کے لحاظ سے اپنے آپ کو اطالوی قوم سے کم نہیں سمجھتے تھے بلکہ بالا سمجھتے تھے اس لئے بھی یہودی اپنی زبان کے چھوڑنے پر تیار نہیں ہو سکتے تھے۔
د۔ یہودی قوم آئندہ کی حکومت کی امیدوار تھی، جو قومیں آئندہ کے متعلق امیدیں کھو بیٹھتی ہیں اُن کادل بھی کمزور ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ وہ اپنی زبان کی حفاظت سے بے پروا ہوجاتی ہیں۔ لیکن حضرت مسیحؑ کے زمانہ میں تو یہودی یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ جلد یہودیوں کا بادشاہ ظاہر ہو گا اور وہ پھر دوبارہ یہودی حکومت قائم کرے گا۔ پس یہ کس طرح ممکن ہو سکتاتھا کہ اُس زمانہ میں وہ اپنی زبان کو ترک کر دیتے۔
ہ۔ اُس زمانہ کے یہودی مصنّفوں کی کتابیں اصل یا بگڑی ہوئی یہودی زبان میں ہیں۔ اگر ان لوگوں کی زبان بدل چکی تھی تو چاہئے تھا کہ اُس صدی یا اُس کے قریب کی لکھی ہوئی کتابیں اصل عبرانی یا بگڑی ہوئی عبرانی زبان کی بجائے کسی اور زبان میں ہوتیں۔
و۔ پرانی اناجیل کے نسخے یونانی زبان میں ملتے ہیں لیکن حضرت مسیحؑ کے وقت میں ابھی تک اطالوی شہنشاہیت دو ٹکڑوں میں تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ اس کا مرکز ابھی روم میں ہی تھا اور رومی زبان اور یونانی زبان میں بہت کچھ فرق ہے اگر اطالوی حکومت کا کوئی اثر یہودیوں کی قوم پر پڑا بھی تھا تو اس کے نتیجہ میں اطالوی الفاظ عبرانی میں داخل ہونے چاہئیں تھے نہ کہ یونانی۔ لیکن اناجیل کے پرانے نسخے یونانی زبان میں پائے جاتے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اناجیل اُس وقت لکھی گئیں جبکہ رومی ایمپائر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی تھی اور اس کے مشرقی مقبوضات یونانی ایمپائر کے حصہ میں آگئے تھے اور یونانی زبان نے بھی عیسائیت اور اس کے لٹریچر پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا تھا۔
ز۔ جتنے فقرے اناجیل میں اپنی اصل شکل میں محفوظ ہیں وہ سب کے سب عبرانی زبان میں ہیں مثلاً ہوشعنا ۶۷؎ ایلی ایلی لما سبقتانی۶۸؎ رِبّی ۶۹؎ تلیشا قومی۷۰؎
ح۔ اعمال باب ۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کے صلیب پر لٹکائے جانے کے بعد تک یہودی لوگ عبرانی زبان میں باتیں کرتے تھے۔ چنانچہ لکھا ہے:ـ۔
’’ تب وے سب روح مقدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں جیسے روح نے انہیں بولنے کی قدرت بخشی بولنے لگے اور خد اترس یہودی ہر ایک قوم میں سے جو آسمان کے تلے ہے یروشلم میں آرہے ہیں۔ سو جب یہ آواز آئی تو بھیڑ لگ گئی اور سب دَنگ ہو گئے کیونکہ ہر ایک نے انہیں اپنی اپنی بولی بولتے سنا اور سب حیران ہوئے اور تعجب کرکے آپس میں کہنے لگے دیکھو کیا یہ سب جو بولتے ہیں جلیلی نہیں! پس کیونکر ہم میں سے اپنے اپنے وطن کی بولی سنتا ہے۔ ہم پار تھی اور میدی اور عیلامی اور رہنے والے مسوپوتا میہ، یہودیہ اور کپدکیہ۔ نپطس اور آسیہ کے فروگیہ اور پمفولیہ۔ مصر اور لیبیاکے اس حصہ کے جو قرینی کے علاقہ میں ہے اور رومی مسافر یہودی اور یہودی مرید۔ کریتی اور عرب کے ہوکے ہم اپنی اپنی زبانوں میںانہیں خدا کی بڑی باتیں بولتے سنتے ہیں اور سب حیران ہوئے اور گھبرا کے ایک دوسرے سے کہنے لگا کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے اَوروں نے ٹھٹھے سے کہا کہ یہ نئی مَے کے نشے میں ہیں ‘‘۔۷۱؎
اِس حوالہ سے ثابت ہے کہ اُس وقت تک فلسطین کے لوگوں کی زبان عبرا نی تھی اور غیرزبانوں کی بولیاں بولنا اُن کے لئے ایک غیر معمولی بات تھی۔ جو نام اوپر گنائے گئے ہیں اِن میں صاف طو پر رومیوں کا ذکر آتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اُس زمانہ میں رومی زبان فلسطین کی زبان نہیں تھی اور اس میں باتیں کرنا لوگوں کے لئے ایک اچنبھے کی بات تھی۔ اس بات سے قطع نظر کر کے کہ یہ واقعہ کس حد تک صحیح ہے اس حوالہ سے اس بات کاتو یقینی طور پر ثبوت مل جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب کے واقعہ کے بعد بھی یہودیوں کی زبان عبرانی ہی تھی۔ غیر زبانیں جاننے والے اُن میں بہت ہی کم پائے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ جب مسیح کے حواریوں نے بعض غیر زبانوں میںباتیں کیں جن میں رومی زبان بھی شامل تھی تو لوگوں نے اُن پر یہ الزام لگا دیا کہ وہ مَے کے نشہ میں بکواس کر رہے ہیں۔ اگر سارے ملک کی زبان رومی یا یونانی ہوتی تو کس طرح ہو سکتا تھا کہ عوام الناس اِن زبانوں کو نہ سمجھ سکتے اور ان کی تقریروں کو بے معنی قرار دے کر انہیں شراب کے نشہ میں مخمور سمجھ لیتے۔
مندرجہ بالا تمام دلائل سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورآپ کے حواریوں کی زبان عبرانی تھی لاطینی یا یونانی نہیں تھی۔ پس جو اناجیل یونانی یا لاطینی میں ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہیں وہ یقینا حضرت مسیحؑ کے بہت عرصہ بعد لکھی گئی ہیں اور اُس زمانہ میں لکھی گئی ہیں جبکہ عیسائیت رومیوں میں پھیل گئی تھی بلکہ رومن شہنشاہیت دو ٹکڑے ہو کر اٹلی اور یونان کی حکومتوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔
اِس قسم کی کتابیں جو سو یا دو سَو سال بعد غیر معلوم مصنفوں نے لکھی تھیں اور زبردستی حضرت مسیح اور ان کے حواریوں کی طرف منسوب کردی گئی تھیں اُن سے انسان کی روحانیت کو کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ ضرور تھا کہ ان کے ہوتے بھی نیا آسمانی صحیفہ نازل ہو جو اِس قسم کی خرابیوں سے پاک ہو اور انسان اِس یقین سے اس پر غور کر سکے کہ یہ پاک اور صاف کلام میرے پیدا کرنے والے کا تھا۔
دوسری دلیل:انجیل میں حضرت مسیح ناصری صاف طور پر بیان فرماتے ہیں کہ میں پُرانی کتابوں کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ قائم کرنے آیا ہوں۔ چنانچہ متی میں لکھا ہے:۔
’’ یہ خیال مت کرو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا ، میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہو ں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیںا یک نقطہ یا ایک شوشہ تورات کا ہر گز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پور انہ ہو‘‘۔۷۲؎
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ناصری کا اصل کام یہودیوں کو دوبارہ موسوی مذہب پر قائم کرنا تھا،مگر انجیل کی موجودہ شکل ہمیں بتاتی ہے کہ موسوی شریعت اس کے ذریعہ سے بالکل منسوخ کر دی گئی ہے یہ امر اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اناجیل درحقیقت وہ نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پیش کی تھیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم یقینا وہی ہو گی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں لائے تھے۔ صرف ایسے امور جو فقیہوں اور فریسیوں نے موسوی شریعت میں اپنی طرف سے داخل کر کے اسے بگاڑ دیا تھا، مٹا دیئے گئے ہوں گے ۔ لیکن انجیل فقیہوں اور فریسیوں کے احکام کو نہیں مٹاتی بلکہ موسٰی ؑعلیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے نبیوں کے احکام کو بھی مٹاتی ہے۔ اس طرح اس کا ایک حصہ اس کے دوسرے حصہ کو باطل قرار دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ جس کتاب کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو باطل قرار دے، وہ کتاب کسی ایک مصنف کی لکھی ہوئی نہیں ہو سکتی یا کسی معقول مصنف کی لکھی ہوئی نہیں ہو سکتی۔ چونکہ کہا جاتا ہے کہ یہ کتابیں حضرت مسیح کے حواریوں کی لکھوائی ہوئی ہیں اس لئے یہ توکہنا مشکل ہے کہ ان کتابوں کے مصنف معقول آدمی نہیں تھے۔ خدا تعالیٰ کے نبیوں کے خاص حواری معقول ہوا کرتے ہیں۔ پس ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ حواریوں نے اصل میں کوئی انجیل نہیں لکھوائی تھی۔ وہ زبانی باتیں کہتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کے شاگردوں کے شاگردوں نے اُن کی زبانی باتوں میں اپنے خیالات مِلا دئیے اور اس طرح وہ اناجیل متضاد باتوں کا مجموعہ بن کر رہ گئیں۔
اناجیل کی تحریف و تبدل کے متعلق عیسائی علماء کے خیالات
اندورنی شہادت پیش کرنے کے بعد اب ہم انجیل کے متعلق بعض عیسائی علماء کے خیالات درج کرتے ہیں۔
(الف) تفسیر ہارن جلد ۴ حصہ دوم باب ۴ مطبوعہ ۱۸۸۲ء میں لکھاہے:۔
’’ کلیسیا کے قد ماء مؤرخین سے اناجیل کی تالیف کے زمانہ کے متعلق جو حالات ہم تک پہنچے ہیں ایسے غیر معیّن اور ابتر ہیں کہ کسی ایک امر معیّن کی طرف نہیں پہنچاتے اور پُرانے قدماء نے اپنے وقت کی گپوں کو سچ سمجھ کر لکھ دیا اور اُن لوگوں نے جو اُن کے بعد ہوئے ادب کر کے ان لوگوں کے لکھے ہوئے کو قبول کر لیا اور یہ روایات سچی اور جھوٹی ایک لکھنے والے سے دوسرے لکھنے والے کو پہنچیں اور مدتِ درازکے گزر جانے کے بعد اُن کی تنقید مُتَعَزَّرْ ہو گئی‘‘۔
(ب) پھر اس جلد میں لکھا ہے کہ :۔
’’ پہلی انجیل ۳۷ یا ۳۸ یا ۴۱ یا ۴۳ یا ۴۸ یا ۶۱،۶۲ یا ۶۴ عیسوی میں اور دوسری انجیل ۵۶ سے ۶۵ تک اور غالباً ۶۰ یا ۶۳ میں اور تیسری انجیل ۵۳ یا ۶۳ میں یا۶۴ میں اور چوتھی انجیل ۶۸ یا ۶۹ یا ۷۰ یا ۹۷ یا ۹۸ عیسوی میں تألیف ہوئیں اور نامۂ عبرانیہ اور نامۂ روم پطرس اور نامۂ دوم سوم یوحنا اور نامۂ یعقوب اور نامۂ یہودا اور مشاہداتِ یوحنا اور نامۂ اوّل یوحنا کے بعض ورس ( یعنی آیات)کا حال تو ایسا ابتر ہے کہ کہنے کے لائق نہیں ان کو تو محض زبردستی سے بِلاسند حواریوں کی طرف منسوب کرتے ہیں اور بہت علماء فرقہ پروٹسٹنٹ نے اِن کتب کا انکار کیا تھا‘‘۔۷۳؎
(ج) کاتھلک ہیرلڈ جلد ۷ مطبوعہ ۱۸۴۴ء صفحہ ۲۰۵ پر لکھاہے:۔
’’ اسٹاڈسن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ یوحنا کی انجیل یقینا بِلاریب مدرسہ اسکندریہ کے کسی طالب علم نے لکھی ہے اور ہارن اپنی تفسیر میں لکھتاہے کہ فرقہ ایلوجین جو دوسری صدی میں تھا اس انجیل ( یوحنا) اور اسی طرح یوحنا کی سب تصنیفات سے انکار کرتاہے‘‘۔
(د) یوسیبس اپنی تاریخ کلیسیاء کی کتاب نمبر ۳ کے باب ۳ میں لکھتا ہے کہ:۔
’’پطرس کا پہلا خط سچا ہے مگر دوسرا خط پطرس کا کبھی پاک کتاب میں شامل نہیں کیا گیا لیکن پڑھا جاتا تھا‘‘۔
(ہ) پھر اِسی کتاب کے پچیسویں باب میں لکھتا ہے کہ:۔
’’ نامۂ یعقوب اور نامۂ یہودا اور نامۂ روم پطرس اور نامۂ دوم سوم یوحنا پر کلام کیا گیا ہے کہ آیا یہ سب انجیل نویسوں نے لکھے ہیں یا دوسرے لوگوں نے جن کے یہی نام تھے‘‘۔۷۴؎
(و) تفسیر بائبل ہارن صاحب جلد ۴ میں لکھا ہے کہ:۔
پہلے اناجیل عبرانی میں تھیںپھر کسی غیر معلوم شخص نے یونانی میں ترجمہ کیا۔
(ز) انسائیکلو پیڈیا ببلیکا میں لکھا ہے:۔
``The NT was written by Christians for Christians: it was moreover written in Greek for Greek speaking Communities, and the style of writting ( with the exeption, possibly, of the Apocalypce) was that of current literary composition. There has been no real break in the continuity of the Greek-speaking church and we find accordingly that few real blunders of writing are met with in the leading types of the extent texts. This state of things has not prevented Variations, but they are not for the most part accidental. And over whelming majority of the various readings of the MSS of the NT were from the very first intentional alterations. The NT in very early times had no canonical authority, and alterations, and additions ۷۵؎were actually made where they seemed improvements.``
یعنی عہد نامہ قدیم عیسائیوں نے عیسائیوں کی خاطر لکھا تھا۔ علاوہ ازیں یہ یونانی میں یونانی بولنے والوں کے لئے لکھا گیا تھا اور طرزِ تحریر اُس وقت کے رائج طرزِ تحریر کے مطابق تھا۔ یونانی بولنے والے گرجا کے تاریخی تسلسل میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس لئے ہمیں تحریر کی کوئی حقیقی غلطی موجودہ نسخوں میں نہیں ملتی۔ گو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اختلافات پائے نہیں جاتے۔ لیکن وہ اختلافات اتفاقی نہیں ہیں بلکہ دیدہ دانستہ پیدا کئے گئے ہیں اور شروع سے ہی بعض مصنفوں نے بِالا رادہ وہ تغیرات عہد نامہ میں پیدا کئے۔ حقیقت یہ ہے کہ عہد نامہ قدیم اپنے ابتدائی زمانہ میں کوئی مذہبی تقدس نہیں رکھتا تھا( یعنی اُسے خدائی کتاب نہیں کہا جاتا تھا) اس لئے جہاں کہیں تبدیلیوں اور زیادتیوں سے مضمون میں اصلاح کی امید کی جاتی تھی وہاں تبدیلیاں اور زیادتیاں دلیری سے کرد ی جاتی تھیں۔
(ح) پھر لکھا ہے:۔
What is certain is that by the middle of fourth century. Latin biblical MSS exhibited a most confusing variety of text caused at least in part by revision from later Greek MSS as well as by modifications of the Latin phraseology. This confusion lasted until all the old latin (or-ante-hieronymain) texts were supplanted by the revised version of jerome (383-400 A.D) which was undertaken at the request of pope Damasus ultimately
۷۶؎became the vulgate of the western Church.
یعنی جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ چوتھی صدی کے درمیان میں بائبل کا لاطینی نسخہ نہایت ہی پراگندہ حالت میں تھا اور یہ مضامین کی پراگندگی یونانی نسخہ سے مقابلہ کی وجہ سے اور لاطینی اصطلاحوں میں تبدیلی کی وجہ سے پید ا ہوگئی تھی اور یہ اختلافات قائم رہے یہاں تک کہ پُرانے لاطینی نسخہ کی جگہ جیروم کا اصلاح شدہ نسخہ جو ۳۸۳ء سے ۴۰۰ء تک کے درمیان زمانہ کے پوپ ڈیمیس کے حکم سے تیار کیا گیا تھا، عیسائیوں میں رائج کیا گیا۔
(ط) اِسی طرح لکھا ہے:۔
`` More important than these external matters are the variations which in course of time crept in the text itself. Many of these variations are mere slips of the eye, ear, memory, or judgment on the part of a copyist, who had no intention to do otherwise than follow what lay before him. But transcribers, and especilally early transcribers, by no means aimed at that minute accuracy which is expected of modern critical editor. Corrections were made in the interests of Grammar or on style. Slight changes were adopted in order to remove difficclties. Additions came in especially from parallel narratives in the gospels, citations from the Old Testament were made more exact or more complete. That all this was done in perfect good Faith and simply because no strict conception of the duty of a copyist existed, is especially clear from the almost entire absence of deliberate falsification of the text in the interest of doctrinal controversy. It may suffice to mention, in addition to what has been already said that glosses or notes originally written on the margin very often ended by being taken into the text, and that the custom of reading thus Scriptured in public worship naturally brought in liturgical additions, such as the doxology of the Lord's prayer while the Commencement of an ecclesiastical lesson torn from its proper context had often to be supplemented by a few explanatory words, which soon
۷۷؎ came to be regarded as part of the original.
اِن بیرونی باتوں کی نسبت زیادہ اہم وہ تبدیلیاں اور وہ اختلافات ہیں جو کہ مرورِ زمانہ کی وجہ سے متن میں شامل ہوگئیں۔ اِن تبدیلیوں میں سے بہت سی نقل نویسوں کی آنکھ، کان اور یادداشت یا فہم کی غلطیوں کی وجہ سے ہوئیں جن کی اپنی نیت سوائے اس کے اور کوئی نہ تھی کہ جو کچھ اُن کے سامنے ہے وہ اُسے من و عن نقل کر دیں۔ لیکن مزید نسخے تیارکرنے والوں اور ان میںسے خاص طور پر ابتدائی لوگوں کا اصلی مقصد یہ نہیں تھا کہ بہت باریک بینی کے ساتھ صحت کا خیال رکھیں جیسا کہ موجودہ زمانہ کے نقادوںسے توقع کی جاتی ہے۔ گرامر اور سلاست عبارت کے پیش نظر بھی ان میں اصلاحات کی گئیں۔ مشکلات کو دُور کرنے کے لیے بعض معمولی تبدیلیاں بھی کی گئیں۔ عہد نامہ قدیم کے اقتباسات لینے میں یہ کوشش کی گئی کہ وہ زیادہ معیّن اور زیادہ اصل صورت اختیار کر لیں۔ یہ کام پوری نیک نیتی کے ساتھ کیا گیا کیونکہ اُس وقت ایک نقل نویس کے فرائض کے متعلق کوئی سخت نظریہ موجود نہیں تھا۔ یہ بات اس سے ظاہر ہے کہ متن میں کوئی دیدہ دانستہ جھوٹ کی آمیزش جو مذہبی عقائد کی بنا پر کی گئی ہے قریباً مفقود نظر آتی ہے۔ مندرجہ بالا امور کے علاوہ اس بات کا ذکر کرنا کافی ہوگا کہ حاشیہ پر درج شدہ نوٹوں کو اکثر متن میں شامل کر دیا جاتا تھا۔ اور اس طرح پبلک دینی اجتماعوں میں مذہبی صحیفوں کو پڑھنے کے رواج نے ایسی زیادتیاں کر دیں جیسا کہ دعائے ربّانی کے نعتیہ اشعار میں۔ اسی طرح بعض دینی اسباق کو اپنے اصل متن سے علیحدہ کیا جاتا تو اس کی ابتداء میں بعض تشریحی الفاظ کا اضافہ کیا جاتا۔ اور یہ تشریحات کچھ عرصہ کے بعد اصل عبارت کا حصہ سمجھی جانے لگیں۔
(ی) اور پھر لکھا ہے:۔
It appears from what we have already seen that a considerable portion of the NT is made up of writing not
۷۸؎ directly apostolic.
جن امور کاہم اِس سے پہلے جائزہ لے چکے ہیں اُن سے ظاہر ہے کہ عہد نامہ جدید کے معتدبہ حصے ایسی تحریروں پر مشتمل ہیں جو براہِ راست رسولوں کی طرف سے نہیں ہیں۔
(ک)
Yest, as a matter of fact,evrey book in the NT with the exception of the four great epistles of St. paul is at present more or less the subject of controversy, and
۷۹؎ interpolations are assented even in these.
پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ عہد نامہ جدید کی ہر کتاب سوائے پولوس رسول کے چار عظیم الشان خطوط کے کم و بیش مابہ النزاع ہے اور بیان کیا جاتا ہے کہ ان میں بھی دخل اندازی کی گئی ہے اور زیادتیاں ہوئی ہیں۔
پھر پُرانے زمانہ کی تحریف و تبدل کو تو جانے دو لطف یہ ہے کہ انجیل میں آج تک بھی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ چنانچہ:۔
۱۔ یوحنا باب ۵ آیت ۲ تا ۵ لکھا تھا :۔
(۱) یروشلم میں بھیڑدروازہ کے پاس ایک حوض ہے جو عبرانی میں بیت حسدا کہلاتاہے۔ اُس کے پانچ اُسارے ہیں۔ ان میں ناتوانوں اور اندھوں اور لنگڑوں اور پژ مردوں کی ایک بڑی بھیڑ پڑی تھی جو پانی کے ہلنے کے منتظر تھے۔ کیونکہ ایک فرشتہ بعضے وقت اُس حوض میں اُترکے پانی کوہلاتا تھا اور پانی کے ہلنے کے بعد جو کوئی کہ پہلے اس میں اُترتا کیسی ہی بیماری میں گرفتار ہو اُس سے چنگا ہو جاتا تھا۔
یہ واقعہ سینکڑوں سال سے انجیل میں لکھا جارہا تھا اور کسی مسیحی کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہوا تھا کہ یہ واقعہ کسی اَور نے انجیل میں داخل کردیا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ نے جب عیسائیت پر یہ اعتراض کیا کہ اگر فلسطین میں ایک ایساحوض موجود تھا جس میں گرنے سے لوگوں کو شفاء ہو جاتی تھی تو گو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اس میں کسی خاص تاریخ میں گرنے سے شفاء ہوتی ہے مگرمسیحؑ نے سمجھ لیا کہ یہ وہم ہے۔ اور اصل بات یہ ہے کہ اس پانی میں نہانے سے شفاء ہوتی ہے۔ پس مسیحؑ نے اس کا پانی مریضوں کو استعمال کرانا شروع کر دیاجس سے اُن کو شفاء ہو نی شروع ہو گئی اور لوگ ان کے معجزات کے قائل ہو گئے۔چنانچہ یوحنا باب ۹ آیت ۱ تا ۷ میں لکھا ہے:۔
’’ پھر اس نے جاتے ہوئے ایک شخص کو جو جنم سے اندھا تھا دیکھا اور اس کے شاگردوں نے اُس سے پوچھا کہ اے ربی! گناہ کس نے کیا؟ اس شخص نے یا اس کے ماں باپ نے کہ یہ اندھا پیدا ہوا۔ یسوع نے جواب دیا نہ تو اس شخص نے گناہ کیا نہ اس کے ماں باپ نے لیکن یوں ہوا کہ خدا کے کام اس میں ظاہر ہوویں۔ ضرور ہے کہ جس نے مجھے بھیجا ہے میں اُس کے کامو ں کو جب تک کہ دن ہے کروں۔ رات آتی ہے اور کوئی اُس وقت کام نہیں کر سکتا۔ جب تک میں جہان میں ہوں جہان کا نور ہوں۔ یہ کہہ کے اس نے زمین پر تھوکا اور تھوک سے مٹی گوندھی اور وہ مٹی اُس اندھے کی آنکھ پر لیپ کی اور اُس سے کہا جااور سلوام کے حوض میں نہا۔ تب وہ جا کے نہایا اور بینا ہو کے آیا‘‘۔
چونکہ اس سے مسیح کے معجزات پر زد پڑتی تھی اس لئے تازہ اُردو بائبل میں سے یہ تالاب کا واقعہ اُڑا دیا گیا ہیجس کے صاف معنی یہ ہیں کہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعتراض سے بچنے کے لئے انجیل بدل دی گئی ہے۔ اگر یہ واقعہ انجیل میں نہیں تھا تو انیس سَو سال سے کس طرح اس میں شامل ہوتا چلا آیا اوراگر یہ واقعہ انجیل میں تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعتراض سے ڈر کر عیسائی دنیا نے اِس کو انجیل میں سے کیوں نکال دیا؟
۲۔ متی باب ۱۹ آیت ۱۶۔۱۷ میں لکھا تھا:۔
’’ اور دیکھو ایک نے آکے اس سے کہا اے نیک استاد میں کونسا نیک کام کروں کہ ہمیشہ کی زندگی پائوں؟ اُس نے اسے کہا۔ تُو کیوں مجھے نیک کہتا ہے۔ نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا‘‘۔
یہ حوالہ اس بات کا ایک بیّن ثبوت تھا کہ حضرت مسیحؑ کے متعلق عیسائیوں کایہ اِدعا کہ وہ معصوم عن الخطاء اور ہر قسم کے گناہوں اور عیوب سے منزہ تھے بالکل باطل اور بے بنیاد ہے۔ا گر وہ گناہوں سے منزہ ہوتے تو محض ایک کے نیک اُستاد کہنے پر وہ جواب میں یہ کیوں کہتے کہ’’ تُو کیوں مجھے نیک کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا‘‘۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کے سامنے اِس حوالہ کو پیش کیا اور انہیں بتایا کہ تم مسیحؑ کی معصومیت کا دعویٰ کس طرح کر سکتے ہو جبکہ مسیح خودا پنی معصومیت کا اعتراف نہیں کرتا بلکہ صرف اتنی سی بات پر کہ ایک شخص نے اسے نیک استاد کہہ کر پکارا وہ کہہ اُٹھا کہ تُو مجھے نیک کیوں کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا۔ یہ اعتراض ایسا زبردست تھا کہ عیسائیوں سے اِس کا جواب بن نہ پڑا اور وہ اِس بات پر مجبور ہوئے کہ اِس آیت کے الفاظ اور اس کے مفہوم کو بالکل بدل ڈالیں ۔ چنانچہ موجودہ اناجیل میں مذکورہ بالا الفاظ کو بدل کر یہ الفاظ درج کر دئیے گئے ہیں:۔
’’اور دیکھو ایک شخص نے پاس آکر کہا اے استاد! میں کونسی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پائوں۔ اُس نے اُس سے کہا تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے نیک تو ایک ہی ہے‘‘۔
’’ تُو کیوں مجھے نیک کہتا ہے‘‘ اور’’ تُو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے‘‘۔ اِن دونوں فقرات میں موجود جو فرق ہے وہ ظاہر ہے۔ ایک حوالہ میں اپنے نیک ہونے سے انکار کیا گیا ہے اور دوسرے حوالہ میںصرف اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ تُو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں سوال کرتا ہے۔ حالانکہ حضرت مسیح دنیا میںآئے ہی اس لئے تھے کہ وہ لوگوں کو نیکی اور ہدایت کی راہ بتائیں۔ا گر وہ نیکی اور ہدایت کی راہ بتانے کیلئے نہیں آئے تھے تو ان کی بعثت کی غرض کیا تھی۔ اُن کو ہمارے عقیدہ کے مطابق خدا تعالیٰ کا نبی کہو یا عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کا بیٹا سمجھودونوں صورتوں میں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ دنیا کو ہدایت اور نیکی کی راہ بتانے کے لئے آئے تھے۔ پس جب وہ آئے ہی اِسی غرض کے لئے تھے کہ لوگوں کو نیکی اور ہدایت کی راہ بتائیں تو وہ یہ کس طرح کہہ سکتے تھے کہ تُو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے پھر اگر ان سے نیکی کی بابت کچھ پوچھنا جرم تھا یا وہ دوسروں کو بتا نہیں سکتے تھے کہ نیکی کی راہ کون سی ہے تو انجیل کے مختلف مقامات پر انہوں نے نیکی کی تعلیم کیوں دی ہے؟ ایک طرف اُن کا لوگوں کو نیکی کی راہ بتانا اور دوسری طرف ان کا اس منصب پر کھڑا ہونا کہ لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کا موجب بنیں، بتا رہا ہے کہ اُن سے یہ سوال نہیں کیا گیا تھا اے استاد! میں کونسی نیکی کروں؟ اور نہ انہوں نے یہ جواب دیا کہ تُو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے بلکہ درحقیقت ان سے وہی سوال کیا گیا تھا جس کا پہلی اناجیل میں ذکر کیاگیا تھا اور جس کا جواب انہو ں نے یہ دیا کہ ’’تُو کیوں مجھے نیک کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا‘‘۔ مگر عیسائیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعتراضات سے ڈر کر اِس آیت کوبدل ڈالا جو ثبوت ہے اس بات کا کہ موجودہ اناجیل میں اب بھی تحریف و تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
۳۔ نمبر۱ یوحنا باب ۵ آیت ۷ میں لکھا تھا:۔
’’ اور گواہی دینے والے تین ہیں۔ روح اور پانی اور خون۔ اور یہ تینوں ایک ہی بات پر متفق ہیں‘‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِس حوالہ کی بناء پر عیسائیوں پر اعتراض کیا کہ تم تو مسیح کو خدا کہتے ہو مگر انجیل یہ بتاتی ہے کہ وہ رحمِ مادر میں نو ماہ تک خون کھاتا رہا اور یوحنا حواری کے قول کے مطابق وہ خود خون تھا۔ جو شخص نوماہ تک رحمِ مادر میں خون کھاتا رہا اور جسے خود خون قرار دیا گیا ہے اُس کو خدا قرار دینا کتنی غیر معقول اور عقل و فہم سے بعید بات ہے۔ یہ حملہ بھی ایسا زبردست تھا کہ عیسائی اِس کی تاب نہ لا سکے اور اُنہوں نے اِس آیت کی بجائے موجودہ اناجیل میں یہ الفاظ لکھ دئیے کہ:۔
’’ تین ہیں جو آسمان پر گواہی دیتے ہیں۔ باپ اور کلام اور روح قدس اور یہ تینوں ایک ہیں‘‘۔
۴۔ مرقس باب ۹ آیت ۱۴تا ۲۹ میں لکھا ہے:۔
’’ اور جب وہ اپنے شاگردوں کے پاس آیا تو دیکھا کہ ان کے چاروں طرف بڑی بھیڑ اور فقیہوں کو ان سے بحث کرتے دیکھا اور فی الفور ساری بھیڑ اُسے دیکھ کر نہایت حیران ہوئی۔ اُس کے پاس دوڑ کے اُسے سلام کیا۔ تب اس نے فقیہوں سے پوچھا تم ان سے کیا بحث کرتے ہو؟ ایک نے اُس بھیڑ میں سے جواب دیا اور کہا اے استاد! میں اپنے بیٹے کو جس میں گونگی روح ہے تیرے پاس لایا ہوں وہ جہاں کہیں اسے پکڑتی ہے پٹک دیتی ہے اور وہ کف بھر لاتا ہے اور اپنے دانت پیستا ہے اور وہ سُوکھ جاتا ہے۔ میں نے شاگردوں سے کہا تھا کہ وہ اسے باہر کر دیں، پر وہ نہ کر سکے۔ اس نے اس کے جواب میں کہا اے بے ایمان قوم! میں کب تک تمہارے ساتھ رہوں میں کب تک تمہاری برداشت کروں اُسے میرے پاس لائو۔ وہ اُسے اس کے پاس لائے اور جب اُس نے اُسے دیکھا فی الفور روح نے اسے اینٹھایا اور وہ زمین پر گرا اور کف بھرکے لَوٹنے لگا۔ تب اُس نے اس کے باپ سے پوچھا کتنی مدت سے یہ اس کو ہوا؟ وہ بولا بچپن سے۔ اور وہ بہت بار اسے آگ میں اور پانی میں ڈالتی تھی تاکہ اسے جان سے مار دے۔ پر اگرتُو کچھ کر سکتا ہے تو ہم پر رحم کر کے ہماری مد د کر۔ یسوع نے اسے کہا اگر تو ایمان لا سکے تو ایماندار کے لئے سب کچھ ہو سکتا ہے۔ تب فی الفور اُس لڑکے کا باپ چلایا اور آنسو بہا کے کہا۔اے خدا وند! میں ایمان لاتا ہوں۔ تومیری بے ایمانی کا چارہ کر۔ جب یسوع نے دیکھا کہ لوگ دور سے جمع ہوتے ہیںتو اس ناپاک روح کو ملامت کر کے اُسے کہا اے گونگی بہری روح! میں تجھے حکم کرتا ہوں اس سے باہر نکل اور اس میں پھر کبھی مت داخل ہو۔ وہ چلا کر اور اُسے بہت اینٹھا کر اُس سے نکل گئی اور وہ مردہ سا ہو گیا ایسا کہ بہتوں نے کہا کہ وہ مر گیا۔ تب یسوع نے اُس کا ہاتھ پکڑ کے اُسے اُٹھایا اور وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور جب وہ گھر میں آیا اُس کے شاگردوں نے خلوت میں اُس سے پوچھا کہ ہم اُسے کیوں نہ نکال سکے؟ اُس نے انہیں کہا کہ یہ جنس سِوا دعا اور روزہ کے کسی اور طرح سے نکل نہیں سکتی‘‘۔
عیسائی اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت مسیحؑ پر ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کے حصول کے لئے کسی عمل صالح کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن اوپر کے حوالہ کی یہ آیت کہ ’’یہ جنس سِوا دُعا اور روزہ کے کسی اور طرح سے نکل نہیں سکتی‘‘ بتاتی تھی کہ دعا اور روزہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے ذرائع میں سے ایک اہم ذریعہ ہیں۔ چونکہ حضرت مسیحؑ کے حواریوں نے اِن ذرائع سے کام نہ لیا اس لئے باوجود اس با ت کے کہ وہ حضرت مسیحؑ پر ایمان لا چکے تھے انجیل کے بیان کے مطابق وہ ایک بد روح کو نہ نکال سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اِس آیت کو پیش کرتے ہوئے عیسائیوں پر اعتراض کیا کہ تمہارا محض اِسی بات پر انحصار رکھنا کہ تم حضر ت مسیحؑ پر ایمان لے آئے ہو اور ہر قسم کے عمل صالح کو باطل قرار دینا درست نہیں۔ حضر ت مسیح تو خود تسلیم کرتے ہیں کہ دعا اور روزہ بھی ضروری چیزیں ہیں اور یہ بھی کہ وہ دعا اور روزہ سے کام لیتے تھے۔ تو جب دعا اور روزہ کی ضرورت ہے تو معلوم ہو اکہ محض حضر ت مسیحؑ پر ایمان انسان کو ہر قسم کی نیکی سے مستفیض اور نجات کا مستحق نہیں بنا سکتا۔ یہ اعتراض ایسا زبردست تھا کہ عیسائی اِس کا کوئی جواب نہ دے سکے اور انہوں نے اپنی خیر اِسی میں سمجھی کہ اِس آیت کو اناجیل میں سے نکال دیں۔ چنانچہ موجودہ اناجیل میں ہمیں یہ آیت کہیں نظر نہیں آتی۔ گویا ایک آیت کو کتاب میںسے خارج کر دیا گیا اور اس طرح ثابت کر دیا گیا کہ انجیل اب تک انسانی دست بُرد کا شکار ہور ہی ہے۔
۵۔متی باب ۱۲ آیت ۳۹،۴۰ میں لکھا تھا کہ ایک موقع پر جب بعض فقیہوں اور فریسوں نے حضرت مسیح سے کہا کہ:۔
’’ اے استاد! ہم تجھ سے ایک نشان چاہتے ہیں‘‘۔
تو حضر ت مسیح نے ان کو جواب دیا کہ :۔
’’ اِس زمانہ کے بد اور حرامکار لوگ نشان ڈھوندتے ہیں پر یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی نشان انہیں دکھایا نہ جائے گا کیونکہ جیسا کہ یونس تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا۔ ویسا ہی انسان کا بیٹا تین دن اور تین رات زمین کے دل میں ہوگا‘‘۔
مذکورہ بالا آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ حضرت مسیح کی اصل پیشگوئی یہ تھی کہ جس طرح یونس نبی تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہے، اسی طرح میں بھی تین دن اور تین رات قبر کے اندر رہوں گا اور یونس نبی سے میری مماثلت ثابت ہو جائے گی۔ مگر اناجیل بتا تی ہیں کہ حضرت مسیح جمعہ کی شام کو قبر میں رکھے گئے۸۰؎ اور جب اتوار کی صبح کو انہیں قبر میں دیکھا گیا تو وہ اس جگہ سے غائب تھے۔۸۱؎ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ صرف ایک دن اور دو رات قبر میں رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ نے عیسائی دنیا سے مطالبہ کیا کہ جب حضرت مسیح کی پیشگوئی یہ تھی کہ لوگوںکو ویساہی نشان دکھایا جائے گا جیسے یونس نبی کے ذریعہ نشان ظاہر ہوا۔ یعنی جیسے یونس نبی تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میںرہا ویسے ہی ابن آد م تین دن اور تین رات قبر میں رہے گا تو وہ تین دن اور تین رات زمین کے اندر کس طرح رہے؟ وہ واقعات جو اناجیل میں بیان کئے گئے ہیں وہ تو اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ جب عیسائیوں نے دیکھا کہ ا ُن کیلئے اِس اعتراض سے بچائو کی کوئی صورت نہیں تو انہوں نے اِس آیت میں تحریف سے کام لیا اور موجود اناجیل میں بجائے تین دن اور تین رات کے ’’ تین رات دن‘‘ کر دیا ۔اِس طرح انہوں نے گو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعتراض سے بچانے کی کوشش کی ہے لیکن درحقیقت انہوں نے اپنے عمل سے ایک دفعہ پھر اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اناجیل میں تحریف و تبدیل ہوتی چلی آئی ہے اور اب بھی عیسائی ضرورت محسوس ہونے پر اِس میں تحریف و تبدیل کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ جب حالات یہ ہیں تو ایسی کتاب کے متعلق یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی رہنمائی کا فرض سر انجام دے سکتی ہے۔ یا کوئی شخص کس طرح اس کی آیات کے متعلق یہ یقینسے کہہ سکتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ جب عیسائی آج بھی اِس کی آیات میں تبدیلی کرنے سے احتراز نہیں کرتے تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ پہلے جو کچھ انہوں نے لکھا تھا وہ خدا تعالیٰ کا کلام تھا۔ پس اناجیل میں تحریف و تبدیل کا متواتر ہوتے چلے آنا ثبوت ہے اِس بات کا کہ موجودہ اناجیل خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور وہ روحانی نقطئہ نگاہ سے بنی نوع انسان کے لئے کسی صحیح راہنمائی کا باعث نہیںہو سکتیں۔
اناجیل میں اختلافات
اناجیل کے اندر جو اختلافات پائے جاتے ہیں وہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ یہ خد اتعالیٰ کی کتاب نہیں۔ یا یہ کہ بعد میں انسانی دست بُرد نے اس کو بالکل بدل ڈالا کیونکہ ایک معقول انسان اپنی لکھی ہوئی کتاب میں اختلافات کو روا نہیں رکھتا تو پھر خدا کی کتاب میں اختلافات کیونکر پائے جا سکتے ہیں۔ ہم ذیل میں مثال کے طور پر نئے عہد نامہ کے چند اختلافات بیان کرتے ہیں۔
۱۔ مسیح کی پیدائش کی نسبت متی باب ۱ آیت ۲۱، ۲۲ اور لوقا باب ۱ آیت ۳۲ ، ۳۳ میں لکھا ہے کہ مسیح عام انسانوں میں سے ہوگا۔ہاں وہ خدا کا بیٹا کہلائے گا۔ لیکن یوحنا کی انجیل میںلکھا ہے کہ مسیح کلمہ ہے جو ہمیشہ سے خدا کے ساتھ تھا اور خود خد اتھا۔ سب چیزیں اسی سے پیدا ہوئیں۔ ۸۲؎
۲۔ متی باب ۳ آیت ۱۳تا ۱۷ مرقس باب۱ آیت ۹ تا ۱۲ لوقا باب ۳ آیت ۲۱۔ ۲۲ اور باب ۴ آیت ۱ میں بتایا گیا ہے کہ مسیح نے یوحنا سے بپتسمہ پایا اور بتپسمہ پاتے ہی وہ اُسی وقت یا اُسی دن اُس کے پاس سے چلا گیا۔ لیکن انجیل یوحنا میں بپتسمہ پانے کا ذکر نہیں اور مسیح کی ملاقات یوحنا سے دو دن تک بتائی گئی ہے۔ ۸۳؎
۳۔ یوحنا باب ۱ آیت ۱۹ تا ۴۴ سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح یوحنا اور اُ ن کے ساتھیوں سے کچھ دن ملاقات کرنے کے بعد سیدھا جلیل چلا گیا۔ لیکن متی باب ۴ آیت ۱ مرقس باب ۱ آیت ۱۲ اور لوقا باب ۴ آیت ۱ میں لکھا ہے کہ مسیح یوحنا سے بتپسمہ پانے کے فوراً بعد شیطان کے ساتھ امتحان دینے کی خاطر جنگل کو گیا اور چالیس دن وہاں رہا۔
۴۔ یوحنا باب ۱ آیت ۳۵ تا ۵۱ میں لکھا ہو اہے کہ یوحنا کی ملاقات کے معاً بعد یوحنا کے شاگرد اندر یاس اور ایک غیر معلوم شاگرد مسیح نے اپنے حواری بنائے اور جلیل کو جاتے ہوئے شمعون، پطرس، نتنائیل کو اُس نے اپنا مرید بنایا۔ لیکن متی بات ۴ آیت ۱۲ تا ۲۲۔ مرقس باب ۱ آیت ۱۲ تا ۲۰۔ لوقاباب ۴ آیت ۱۴، ۱۵ اور لوقا باب ۵ آیت ۱ تا ۱۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ یوحنا کی ملاقات کے بعد چالیس دن جنگل میںرہ کر مسیح نے روزہ رکھا۔ پھر یوحنا کے قید ہونے کی خبر سن کر جلیل گیا۔ وہاں کئی جگہ اور کئی دن اس نے وعظ کئے۔ پھر جلیل کی جھیل کے کنارہ پر جا کر اُس نے شمعون اور پطرس اوراِندریاس اور یوحنا اور یعقوب کو اپنا شاگرد بنایا۔ گویا یوحنا نے اِن لوگوں کے ایمان لانے کی جو جگہ بتائی ہے دوسری اناجیل اُس کے خلاف بتاتی ہیں اور یوحنا نے جو وقت بتایا ہے دوسری اناجیل اُس وقت کے قریباًدو ماہ بعد کا وقت بتاتی ہیں۔
۵۔ یوحنا باب ۴ آیت۳ و آیت ۴۳ تا ۴۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کا وطن یہودیہ تھا اور مسیح اِس خیال سے کہ پیغمبر کی عزت اپنے وطن میں نہیں ہوتی اُسے چھوڑ کر جلیل چلے گئے جہاں کے لوگوں نے اُ ن کی بہت قدر کی۔
لیکن اس کے خلاف متی باب ۱۳ آیت ۵۴ تا ۵۸ ،لوقا باب ۴ آیت ۲۴ اور مرقس باب۶ آیت ۴ میں لکھاہے کہ مسیح کا وطن یہودیہ نہیں تھا بلکہ جلیل تھا۔ جب جلیل میں اِن کی قدر نہ ہوئی تو اُنہوں نے کہا کہ کسی نبی کی قدر اُس کے وطن میں نہیں ہوتی۔
۶۔ یوحنا باب ۳ آیت ۲۲ تا ۲۶ اور یوحنا باب ۴ آیت ا تا۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے یوحنا کی قید سے پہلے ہی اپنی تعلیم بیان کرنی شروع کردی تھی اوربپتسمہ دینا بھی شروع کر دیا تھا۔ لیکن متی باب ۴ آیت ۱۲ تا ۱۷،مرقس باب ۱ آیت ۱۴۔ ۱۵، متی باب ۲۸ آیت ۱۹ اور مرقس باب ۱۶ آیت ۱۵۔۱۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے اپنی تعلیم کی تبلیغ تو یوحنا کے قید ہونے کے بعد شروع کی اور بپتسمہ کاحکم اپنے مرنے سے جی اُٹھنے کے بعد دیا۔ جیسا کہ لکھا ہے:۔
’’پھر وَے گیارہ شاگرد جلیل کے اُس پہاڑ کو جہاں یسوع نے اُنہیں فرمایا تھا گئے اور اُسے دیکھ کر اُنہوں نے اُس کو سجدہ کیا۔ پھر بعضے دبدہ ۸۴؎ میںرہے اور یسوع نے پاس آکر اُن سے کہا کہ آسمان اور زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا اس لئے تم جا کر سب قوموں کو شاگرد کرو اور انہیں باپ اور بیٹے اور روح قدس کے نام سے بپتسمہ دو‘‘۔
۷۔ یوحنا باب ۱۳ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح نے آخری کھانا عید سے ایک روز پہلے کھایا اور عید کے روز وفات پائی۔ لیکن متی باب ۲۶ آیت ۱۷۔ مرقس باب ۱۴ آیت ۱۲ تا ۱۶ ۔ لوقا باب ۲۲ آیت ۷ تا ۱۳۔ متی باب ۲۷ آیت ۵ ۱ تا ۳۱۔مرقس باب ۱۲؍۱۴ اور باب ۱۵ آیت ۶ تا ۲۰ لوقا باب ۲۳ آیت ۱۳ تا ۲۵ اور باب ۲۲ آیت ۱۳ تا۲۷سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے آخری کھانا عید کی شام کوکھایا تھا اور عید سے دوسرے دن صلیب پائی۔
۸۔ یوحنا باب ۱۴آیت ۱۵ تا ۳۱ اور باب ۱۶ آیت ۱ تا ۱۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے بعد فارقلیط یا روح القدس آئیں گے۔ اِس کے دوبارہ زندہ ہو کر واپس آنے کا کہیں صاف طور پر ذکر نہیں۔ لیکن متی باب ۱۷ آیت ۲۳ اور مرقس باب ۹ آیت ۳۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح تو دوبارہ زندہ ہو کر آئے گا لیکن فارقلیط کے دوبارہ آنے کا کوئی ذکر نہیں۔
۹۔ یوحنا کی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے حواریوں میںسے یوحنا اُس کاسب سے بڑا اور پیارا حواری تھا اِس لئے اُس کا نام مسیح کاپیارا ہو گیا تھا۔ دیکھو یوحنا باب ۱۳ آیت ۲۳۔ اور باب ۱۸ آیت ۱۵۔ اور باب ۱۹ آیت ۲۶،۲۷۔ لیکن دوسری انجیلوں سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح کاسب سے پیارا حواری پطرس تھا اور تین شاگرد خاص تھے۔ پطرس۔ یوحنا۔ یعقوب۔ تعجب ہے کہ یوحنا کی انجیل میں یعقوب کا توذکر ہی نہیں کیا گیا اور پطرس اور یوحنا میں سے یوحنا کو زیادہ مقرب قرار دیا گیا ہے حالانکہ دوسری اناجیل پطرس کو زیادہ مقرب قرار دیتی ہیں۔ دیکھو متی باب ۱۷ آیت ۱۔ باب ۲۶ آیت ۳۷۔ مرقس باب ۵ آیت ۳۷۔ باب ۹ آیت ۲۔ باب ۱۳آیت ۳۔ باب ۱۴ آیت ۳۳۔ لوقا باب ۹ آیت ۲۸۔ باب ۲۲ آیت ۳۲۔
۱۰۔ لوقا (باب ۳ آیت۳۳)نے یوسف کو ہیلی کا بیٹا بتایاہے اور متی (باب ۱ آیت ۱۶)نے یوسف کو یعقوب کا بیٹا بتا یا ہے۔
۱۱۔ لوقا (باب ۲ آیت۴)نے مسیح کو دائود کی اولاد ناتھن سے لکھا ہے اور متی نے ناتھن کے بھائی سلیمان بادشاہ کی نسل سے اُسے قراردیا ہے۔۸۵؎
۱۲۔ متی کے نسب نامہ میں یوسف سے ابراہیم تک ۴۱ اشخاص کے نام ہیں اور لوقا کے نسب نامہ میں ۵۶ ۔اور پھر ہر دو شجرہ نسب کے ناموں میں کئی جگہ اختلاف پایا جاتا ہے۔
۱۳۔ لوقا کا خود اپنا کلام بھی مختلف معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی انجیل کے باب ۲۴ آیت ۵۰۔۵۱ میں لکھتے ہیں کہ:۔
’’ مسیح اپنے شاگردوں کے سامنے بیت عنیا میں آسمان پر چلے گئے‘‘۔ لیکن یہی لوقا اپنی تصنیف اعمال میں لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ زیتون کے پہاڑپر ہوا تھا۔
۱۴۔ لوقا اپنی انجیل کے باب ۲۴ آیت ۲۱،۲۹،۳۶ اور ۵۱ میں لکھتے ہیں کہ جس روز مسیح جی اُٹھے تھے اُسی دن یا پہلی رات جو آئی تھی اُس میں آسمان پر چلے گئے۔ لیکن یہی لوقا اعمال باب ۱ آیت ۳ میں لکھتے ہیں کہ وہ جی اٹھنے کے چالیس دن بعد آسمان پر چلے گئے تھے۔
۱۵۔ متی باب ۱۰ آیت ۱۰ میں لکھا ہے کہ مسیح نے اپنے حواریوں سے کہا کہ راستہ کے لئے نہ جھولی دو نہ کرتے نہ جوتیاں نہ لاٹھی لو۔ لیکن مرقس باب ۶ آیت ۸،۹ میں لکھا ہے کہ مسیح نے اپنے حواریوں کو حکم دیا کہ سفر کے لئے سوائے لاٹھی کے کچھ نہ لو۔ پھر لکھا ہے کہ جوتیاں پہنو۔ گویا متی کی روایت کے مطابق تو جوتی سے بھی منع کیا گیا تھا اور لاٹھی سے بھی۔ لیکن مرقس کی روایت کے مطابق لاٹھیاں لینے اور جوتیاں پہننے کاحکم تھا۔
انجیل میں بعض توہمات کا ذکر
انجیل کی تعلیم کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ توہمات سے بھی خالی نہیں۔چنانچہ :۔
ا۔ مرقس باب ۱ آیت ۱۲،۱۳ میں لکھا ہے:
’’ اور روح اسے فی الفور بیابان میں لے گئی اور وہ وہاں بیابان میں چالیس دن تک رہ کے شیطان سے آزمایا گیا اور جنگل کے جانوروں کے ساتھ رہتا تھا اور فرشتے اُس کی خدمت کرتے تھے‘‘۔
یہ واقعات بالکل وہم ہیں اور الٰہی سنت اِن امور کے بالکل خلاف ہے۔ اِس دنیا میں انسان انسانوں کے ساتھ ہی رہتا ہے نہ کہ جانوروں اور شیطانوں یا فرشتوں کے ساتھ۔ کیا کوئی عقلمند یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قانون پہلے اس دنیا کے لئے کچھ اور تھا اورا ب کچھ اور ہو گیا ہے۔ نہ تو اس دنیا میں شیطان کسی کے ساتھ ظاہری طور پر رہتے ہیں نہ فرشتے ظاہری طورپر خدمت کرتے ہیں۔ کشفی طور پر اِن نظاروں کا نظر آنا اور بات ہے۔ ایسے کشفی نظارے نہ صرف پہلے ہوتے تھے بلکہ اب بھی ہوتے ہیں اور میں خود اس معاملہ میں تجربہ رکھتا ہوں۔ لیکن یہ بات نہ پہلے ہوتی تھی نہ اب ہوتی ہے کہ انسان جانوروںمیںرہ رہا ہو بھیڑئیے اور شیر اُس کے اِردگرد بیٹھے ہوئے ہیں شیطان آتا ہے اور اُس کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور خدا کا وہ بندہ اُس کے پیچھے پیچھے پھرتا اور بلاوجہ اُس کے احکام کو مانتا چلا جاتا ہے اور کبھی کبھی اُس سے بغاوت بھی کر دیتا ہے۔اِسی طرح فرشتے آتے ہیں اُس کے لئے روٹی پکاتے ہیں، اس کے لئے ہنڈیا تیار کرتے ہیں، اس کے لئے پانی مہیا کرتے ہیں۔ کہانیوں کی کتابوں میں تو ایسی باتیں آسکتی ہیں لیکن مذہبی کتابوںکا ایسی باتوںسے کیا تعلق۔ اگر نیا عہد نامہ کپلنگ کی’’جنگل بک‘‘ کی طرح ہوتا یا الف لیلیٰ کی مانند ہوتا تو اس قسم کی باتیں قابل اعتراض نہ ہوتیں لیکن نیا عہد نامہ تو لوگوں کی مذہبی اور روحانی رہنمائی کیلئے ہے اِس میں اِس قسم کی کہانیوںکا کیا مطلب؟ ہم مسیح ناصری جیسے نیک اور پاک آدمی کی نسبت کسی صورت میں بھی یہ نہیں مان سکتے کہ اُس نے ایسی باتیں کہی ہوں۔ وہ خدا تعالیٰ کاایک برگزیدہ رسول تھا اور دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے آیا تھا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسا پاکیزہ انسان دنیا کو ایسی باتیں بتاتا جو اُس کو جادۂ اعتدال سے پھرا دیں اوروہم میں مبتلا کردیں۔ پس یہ باتیں یقینا بعد میں داخل کی گئی ہیں اور ان کی ذمہ داری مسیح پر نہیں اور نہ اُس کے حواریوں پر ہے بلکہ بعد میں آنے والے ایسے عیسائیوں پر ہے جن کی روحانیت مر چکی تھی اور جو لوگوں کی واہ وا کو صداقت اور راستی پر ترجیح دیتے تھے۔
(ب) مرقس باب ۵ آیت ۱ تا ۱۴ میں لکھا ہے۔
’’ اور وے دریا کے پار گدرینیو ں کے ملک میں پہنچے اور جونہی وہ کشتی سے اُترے وہیں ایک آدمی جس میں ایک ناپاک روح تھی قبروں سے نکلتے ہوئے اُسے ملا اور وہ قبروں کے درمیان رہا کرتا تھا اور کوئی اُسے زنجیروں سے بھی جکڑ نہ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ بار بار بیڑیوں اور زنجیروں سے جکڑ اگیا تھا۔ لیکن اُس نے زنجیروں کو توڑا اور بیڑیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کئے اور کوئی اُسے قابو میں نہ لا سکا۔ وہ ہمیشہ رات دن پہاڑوں اور قبروں کے بیچ چلایا کرتااور اپنے تئیں پتھروں سے کاٹتا تھا۔ پر جونہی اُس نے یسوع کو دو رسے دیکھا دَوڑا اور اُسے سجدہ کیا اور بُری آواز سے چلا کے کہا۔ اے خدا تعالیٰ کے بیٹے یسوع! مجھے تجھ سے کیا کام ! تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں مجھے نہ ستا۔ کیونکہ اُس نے کہا تھا کہ اے ناپاک روح اِس آدمی سے نکل آ۔پھر اُس سے پوچھا تیرا کیا نام ہے؟ تب اُس نے جواب دیا کہ میرا نام تمن ہے اِس لئے کہ ہم بہت ہیں۔ پھر اُس نے اُس کی بہت منت کی کہ ہمیں اِس سرزمین سے مت نکال اور وہاں پہاڑوں کے نزدیک ایک سؤروں کا غول چرتا تھا۔ سو سب دیووں نے اُس کی منت کر کے کہا کہ ہم کو اِن سؤروں کے درمیان بھیج تاکہ ہم اُن میں بیٹھیں۔ یسوع نے انہیں فی الفور اجازت دی اور وے ناپاک روحیں نکل کر سؤروں میں بیٹھ گئیں اور وہ غول کڑاڑے پر سے دریا میں کودا اور وے قریب دو ہزار کے تھے جو دریا میں ڈوب کر مر گئے اور وے جو سؤروں کوچراتے تھے بھاگے اور شہر اور دیہات میں خبر پہنچائی۔ تب وے اِس ماجرے کو دیکھنے نکلے‘‘۔
اِن آیات میں اِس قدر وہم کی باتیں جمع کر دی گئی ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے۔ اوّل یہ کہ ایک شخص اتنا پاگل اور مضبوط تھا کہ کسی قسم کی زنجیریں اُس کو جکڑ نہیں سکتی تھیں۔ وہ ہر قسم کی زنجیریں توڑدیتا تھا۔ کیاکوئی انسان اِس قسم کا ہو سکتا ہے جو ہر قسم کی زنجیریں توڑ دے؟ ہاں یہ ممکن ہے کہ اُس زمانہ میں لوگوں کو زنجیریں بنانی نہ آتی ہوں اور وہ گھڑیوں کی زنجیروں جیسی کمزور زنجیروں سے لوگوں کو باندھتے ہوں۔
پھر لکھا ہے۔ وہ دیوانہ اپنے تئیں پتھروںسے کاٹتا تھا۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک شخص متواتر سالہا سال سے اپنے آپ کو پتھروں سے کاٹتا تھا اور پھر بھی وہ مرتا نہیں تھا۔
پھر لکھاہے۔ مسیح نے اُس شخص کو کہا کہ اے ناپاک روح! اِس آدمی میںسے نکل آ۔ یہ تو پہاڑی اور جاہل علاقوں کے خیالات ہیں نہ کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ رسول کے خیالات۔ اگر اِس قسم کی بدروحیں لوگوں میں آیا کرتی تھیں تو اب کیوں نہیں آتیں؟ اور کون سے ایسے ذرائع ہیں جن سے ایسی بدروحوں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ جس چیز کو آج ڈاکٹروں نے ’’ نیورس تھی نیا‘‘ یا ہسٹیریا یاجنون قرار دیا ہے اس کو پرانے زمانے کے نااقف لوگ بدروحیں قرارد یتے تھے۔ مگر انجیل یہ بتاتی ہے کہ حضرت مسیح ؑجیسا سنجیدہ اور استباز اور عقلمند انسان بھی ان جاہلوں کی طرح یہ کہتا تھا کہ مجنونوں کے اندر کوئی بدروح داخل ہو جاتی ہے۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ۔ خدا تعالیٰ کے ایک راستباز پر یہ کتنا بڑا الزام ہے۔ اپنی تو ہم پرستی کو دنیا کے ایک عظیم الشان رہنما کی طرف منسوب کر دینا یقینا ایک بہت بڑا ظلم ہے مسیح خود ایسی بات نہیں کر سکتا تھا اور نہ اُس کے حواری ایسی بات کر سکتے تھے۔ یقینا یہ بعد کے جہال کی داخل کی ہوئی بات ہے جنہوں نے انجیل کو اُس کے حقیقی معیار سے نیچے گرادیا۔
پھر آگے چل کر اس وہم کو اور بھی پکا کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مسیح نے بدروح سے اُس کا نام پوچھا تو اُس نے کہا ’’ میرا نام تمن ہے اِس لئے کہ ہم بہت ہیں‘‘۔ گویا ایک روح اتفاقی طور پر پیدا نہیں ہوگئی تھی بلکہ ایک بڑا جتھا روحوں کا اُس وقت پایا جاتا تھا۔
پھر یہ کہا گیا ہے کہ روح نے مسیح کی منتیں کیں کہ اِس سرزمین سے اُس کو نہ نکالیں لیکن جب مسیح نے نہ مانا تو سب دیووں نے اُس کی منت کر کے کہا کہ ہم کو اِن سؤروں کے درمیان بھیج تاکہ ہم اُن پر بیٹھیں۔ اِس پر یسوع نے فی الفور انہیں اجازت دی اور وے ناپاک روحیں نکل کے سؤروں میں بیٹھ گئیں اور وہ غول (یعنی سؤروں کا غول ) کڑاڑے پر سے دریا میں کودا اور وے قریب دو ہزار کے تھے جود ریا میں ڈوب کر مر گئے۔
اِن چند فقروں میں کتنا بڑا وہم اور کتنا ظلم موجود ہے۔ وہم تو یہ ہے کہ بدروحوں نے انسان میںسے نکل کر سؤروں میں جانے کی اجازت مانگی۔ اور ظلم یہ کہ مسیح نے دوسرے لوگوں کے سؤروں پر بد روحوں کو مسلط ہونے کی اجازت دی اور اس طرح ہزاروں روپیہ کا مال لوگوں کا ضائع کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ جب وہ روحیں مسیح سے پوچھے بغیر آدمی کے جسم میں داخل ہو گئی تھیں تو سؤروں میںد اخل ہونے کے لئے انہیں کسی اجازت کی کیا ضرورت تھی؟ دوسرے یہ کہ سؤروں کا گلہ کسی کی ملکیت تھا۔ جنگلی سؤر تو اِس طرح دوہزار کے گلے کی صورت میں شہر کے پاس آکر نہیں پھرا کرتے۔ اتنی تعداد میں شہر کے قریب پھرنے والے سؤر تو کسی کی ملکیت ہوا کرتے ہیں۔ اِس پر سوال ہوتا ہے کہ کسی کی ملکیت کو تباہ کرنے کا مسیح کو کیا حق پہنچتا تھا؟ اگر کوئی کہے کہ خد اکے بیٹے کو سب چیزوں پر ملکیت کا حق حاصل ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خد ا تعالیٰ کو محبت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ا گر خد امحض اپنی ملکیت اعلیٰ سے حق کے طور پر انسان کی ملکیت کو تباہ اور بربادکر سکتا ہے تو پھر کونسا روحانی نظام دنیا میں کام کر رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا ثبوت کیا ہے؟ علاوہ ازیں اِس میں ایک اور عظیم الشان وہم کا بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ سؤروں میں جب یہ روحیں چلی گئیں تو وہ دریا میں کود کر مر گئے یہ عجیب بات ہے کہ وہ بد روحیں ایک انسان میں گئیں تو وہ دریا میں نہ کودا لیکن دو ہزار سؤروں میں گئیں تو وہ دریا میں کود کر مرگئے۔ پس یہ آیات وہم پر دلالت کرتی ہیں اور ظالمانہ مضامین ان کے اندر پائے جاتے ہیں اور کوئی عقلمند انسان جو مسیح کی عظمت کا قائل ہو وہ اِن آیات کو مسیح یا اُن کے حواریوں کی طرف منسوب نہیں کر سکتا۔ لازماً ماننا پڑتا ہے کہ یہ آیات بعد میں بنا کر انجیل میں داخل کی گئی ہیں۔
ج۔ انجیل میں لکھا ہے مسیح مردے زندہ کیا کرتے تھے اورمردے واپس شہر میں آکر داخل ہو جایا کرتے تھے۔ چنانچہ یوحنا باب ۱۱ آیت ۴۳۔۴۴ میں لکھا ہے اور وہ یہ کہہ کر بلند آواز سے چلایا کہ اے لعزر باہر نکل! تب وہ جو مر گیا تھا کفن سے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے نکل آیا اور اُس کا چہرہ گردا گرد رومال سے لپٹا ہوا تھا۔
اسی طرح لکھا ہے۔
’’ دیکھو ہیکل کا پردہ اوپر سے نیچے تک پھٹ گیا اور زمین کانپی اور پتھر تڑک گئے اور قبریں کھل گئیں اور بہت لاشیں پاک لوگوں کی جو آرام میں تھے اُٹھیں اور اُٹھنے کے بعد قبروں سے نکل کر اور مقدس شہر میں جا کر بہتوں کو نظر آئیں‘‘۔۸۶؎
کیا کوئی عقلمند اِن باتوں کو تسلیم کر سکتا ہے؟ اگر مردے پہلے زندہ ہوتے تھے تو اب کیوں نہیں ہوتے؟ اگر کہو کہ یہ مسیح کی علامت تھی تو یہ غلط ہے۔ مسیح کہتے ہیں اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو تو جو نشانات میں نے دکھائے ہیں اُن سے بہتر نشانات تم دکھا سکتے ہو۔ چنانچہ یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۲۔۱۳ میں لکھاہے:۔
’’میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا اور اُن سے بھی بڑے کام کرے گا۔ کیونکہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور جو کچھ تم میرے نام سے مانگو گے وہی کر وںگا تاکہ باپ بیٹے میں جلال پاوے۔ اگر تم میرے نام سے کچھ مانگو گے تو میں وہی کروں گا‘‘۔
مگر کیا اِس پیشگوئی کے مطابق اب بھی عیسائی مردوں کو زندہ کرتے ہیں؟
د۔ متی باب ۱۴ آیت ۲۵ تا ۲۷ میں لکھا:۔
’’ اور رات کے پچھلے پہر یسوع دریا پر چلتاہوا اُن کے پاس آیا۔ جب شاگردوں نے اسے دریا پر چلتے دیکھا وے گھبرا کے کہنے لگے یہ بھوت ہے اور ڈر سے چلائے۔ وہیں یسوع نے انہیں کہا کہ خاطر جمع رکھو میں ہوں۔ مت ڈرو‘‘۔
یہ بھی ایک وہم ہے جس کا انجیل میں ذکر کیا گیا، ورنہ پانی پر کون چل سکتا ہے۔
ہ۔ لوقا باب ۱۱ آیت ۲۴ تا ۲۶ میں لکھا ہے:۔
’’ جب ناپاک روح آد می سے باہر نکلتی ہے تو سوکھی جگہوں میں آرام ڈھونڈتی ہے اور جب نہیں پاتی تو کہتی ہے کہ میں اپنے گھر کو جس سے نکلی ہوں پھر جائوںگی اور یہ کہ اسے جھاڑا ہوا اور آراستہ پاتی ہے تب جاکے اَور سات روحیں جو اُس سے بدتر ہیں اپنے ساتھ لاتی ہے اور وے اس میں داخل ہوکے وہاں بستی ہیں اور اُس آدمی کا پچھلا حال پہلے سے بُرا ہوتا ہے‘‘۔
یہ کیسے وہمی خیالات ہیں۔ اوّل یہ بیان کر نا کہ ناپاک روح آدمی میں سے نکل کر سُوکھی جگہ میں آرام ڈھونڈتی پھرتی ہے اور پھر سات اَور گندی روحیں لے کر واپس آجاتی ہے۔ کیا کوئی عقلمند انسان اِن باتوں کو تسلیم کر سکتا ہے؟ اور کیا اِن باتوں کو حضرت مسیح اور خدا کے کلام کی طرف منسوب کرنا جائز ہو سکتا ہے؟ جھوٹ بہت ہی بُری چیز ہے اوروہم بھی ایک نہایت گندی مرض ہے۔ لیکن جھوٹ اور وہم کو خدا تعالیٰ کے نبیوں اور خدا تعالیٰ کے کلام کی طرف منسوب کرنا تو اور بھی ظالمانہ فعل ہے اور انجیل کے نادان دوستوں نے اِس جرم کا ارتکاب کر کے اُسے دنیا کی ہدایت دینے والی کتابوں سے ہمیشہ کے لئے نکال دیا ہے۔
انجیل کی خلافِ اخلاق باتیں
ا۔ مرقس باب ۱۱ آیت ۱۲ تا ۱۴ میں لکھا ہے:
’’ صبح کو جب وہ بیت عنیاہ سے باہر آئے تو اُس کو بھوک لگی اور دور سے انجیر کا ایک درخت پتوں سے لدا ہوا دیکھ کے وہ گیا کہ شاید اس میں کچھ پاوے۔ جب وہ اُس پاس آیا تو پتوں کے سوا کچھ نہ پایا کیونکہ انجیر کا موسم نہ تھا۔ تب یسوع نے اُس سے خطاب کر کے کہا کہ کوئی تجھ سے پھل نہ کھاوے‘‘۔
اِس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ:۔
(الف) مسیح باوجود یکہ ایک ایسے ملک کے رہنے والے تھے جہاں انجیر کثرت سے ہوتی ہے مگر وہ ایسے ناواقف تھے کہ انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ انجیر کے درخت کو کب پھل لگتا ہے۔
(ب) وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ایسے بد اخلاق تھے کہ بجائے اپنی غلطی پر شر مندہ ہونے کے انہوں نے ایک بے جان درخت کو بد دعا دی اور کہا کہ آئندہ کوئی تجھ سے کبھی پھل نہ کھاوے۔ ہم مسلمان جو مسیح کی خدائی کے قائل نہیں انہیں خد اکا ایک نبی مانتے ہیں ہم بھی تو ان سے ایسی بد تہذیبی کے ارتکاب کو تسلیم نہیں کرسکتے۔ پھر تعجب ہے ان لوگوں پر جو اُن کو خدا کا بیٹا بناتے ہیں اور اخلاق کا بہترین نمونہ قرار دیتے ہیں اور پھر بھی انجیل میں ایسی باتیں ان کے متعلق پڑھتے ہیںاور انہیں برداشت کر لیتے ہیں اور اُن کے دل میں یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ یہ باتیں مسیح نے کبھی نہیں کہی ہو ںگی بلکہ دوسرے لوگوں نے اُن کی طرف منسوب کر دی ہوںگی۔
آجکل کے بعض پادری اس حوالہ کے متعلق کہا کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہودی قوم اب پھل دینے کے ناقابل ہو گی اس لئے آئندہ یہودیوں میں سے کوئی نیک پھل پیدا نہیں ہو گا۔ لیکن کیا کوئی شخص جو علمِ ادب سے ذرا بھی حصہ رکھتا ہو اِس عبارت کے ایسے معنی کر سکتا ہے؟ کیا انجیر کے درخت سے یہودیوں کو تمثیل دینے کیلئے اِس بات کی بھی ضرورت تھی کہ مسیح اُس وقت انجیر کے درخت کے پاس جائے جب اُسے بھوک لگی ہو۔ پھر اُس درخت کے پاس جائے جس میں پتے موجود تھے اور پھر راوی اُس کے متعلق یہ الفاظ بھی کہے کہ مسیح اِس لئے اُس درخت کے پاس گیا تھا کہ شاید اُس میں کچھ پاوے۔مگر جب وہ اس کے پاس پہنچا تو پتوں کے سوا کچھ نہ پایا کیونکہ انجیر کا موسم نہ تھا۔ مسیح کا بھوک لگنے پر درخت کے پاس جانا اورایسے درخت کے پاس جانا جس میں پتے لگے ہوئے تھے اور اس امید کے ساتھ جانا کہ اس سے پھل ملے گا جیسا کہ فقرہ’’ شاید اُس میںکچھ پاوے‘‘ سے ظاہر ہے اور پھر راوی کا یہ کہنا ’’ کیونکہ انجیر کا موسم نہ تھا‘‘ صاف بتاتا ہے کہ کسی تمثیل کے لئے مسیح اُس درخت کے پاس نہیں گیا تھا بلکہ اپنی بھوک کو دُور کرنے کیلئے گیا اور ایسے موسم میں گیا جبکہ ممکن تھا کہ درخت میں پھل لگا ہوا ہوتا۔ مگر ابھی پورا وقت نہیں آیا تھا یا شاید اس درخت میں پھل عام موسم سے ذرا دیر میں لگتا تھا یا شاید اُس کی بیماری کی وجہ سے اس درخت میں پھل ہی نہیں لگتا تھا۔ اس پر مسیح ناراض ہو گیا اور اس درخت پر *** کی۔
کیا درختوں، دریائوں، پہاڑوں اور پتھروں کو *** کرنے والے انسان معقول اور بااخلاق انسان سمجھے جاتے ہیں؟ کیا انجیل میں تبدیلی کرنے والا انسان یہ خیال کرتا تھا کہ مسیح جیسے شریف انسان کو آنے والی دنیا ایسے بُرے اخلاق سے متصف سمجھ لے گی؟ عیسائی تو بیشک اُس کے دھوکا میں آگئے مگر ہم مسلمان یہ باتیں کبھی مسیح کی طرف منسوب نہیں کر سکتے۔ اس لئے نہیں کہ مسیح کی شخصیت دوسرے نبیوں سے نرالی تھی بلکہ اس لئے کہ کسی شریف انسان سے بھی ہم ایسی اُمید نہیں کر سکتے خواہ وہ نبی نہ بھی ہو۔
۲۔ متی باب ۷ آیت ۶ میں لکھا ہے:۔
’’ وہ چیز جو پاک ہے کتوں کو مت دو اور اپنے موتی سؤروں کے آگے نہ پھینکو۔ ایسا نہ ہو کہ وے انہیں پامال کردیں اور پھر کر تمہیں پھاڑیں‘‘۔
یہ چیز جسے پاک اور موتی قرار دیا گیا ہے خدا تعالیٰ کی وحی اور اس کے نشانات ہیں اور کتے اور سؤر سے مراد وہ لوگ ہیں جو اُس وقت تک حضرت مسیح پر ایمان نہ لائے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کے نشانات پاکیزہ چیزوں سے بھی پاک ہیں اور موتیوں سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک چیزیں اور موتی ایسے ہی لوگوں کے لئے آتے ہیں جن کو ایمان نصیب نہیں ہوتا۔ کیا خدا تعالیٰ کے نبی اِن لوگوں کو ایمان دینے کے لئے آتے ہیں جو پہلے سے مؤمن ہوتے ہیں؟ ہم تو دیکھتے ہیں کہ کبھی بھی خدا تعالیٰ کے نبی ایسے زمانہ میں نہیں آئے جب دنیا مؤمن تھی ہمیشہ تاریکی اور ظلمت کے زمانہ میں خدا کے نبی آیا کرتے ہیں اور اُ ن کا کام یہی ہوتا ہے کہ دنیا کے بھولے بھٹکوں کو راہِ ہدایت کی طرف لائیں۔ دنیا کی بھولی ہوئی روحیں اُن کا مقصود ہوتی ہیں اور دنیا کے بھٹکے ہوئے لوگوں کو ہدایت دینا ہی اُن کا مدعا ہوتا ہے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ خدا کا پیارا اُن کو کتا اور سؤر قرار دے، محض اس جرم پر کہ ابھی تک ہدایت اُن پر ظاہر نہیں ہوئی؟ اور کیا خدا کا نبی یہ کہہ سکتا ہے کہ اُن کے آگے خدا کی تعلیمیں پیش نہ کرو کیونکہ وہ اُن کو پائوں تلے روندیں گے؟ا گر خدا تعالیٰ کے نشانات نہ ماننے والے کے سامنے پیش نہ کئے جائیں تو وہ اُن کو قبول کس طرح کریں گے اور دنیا ہدایت کی طرف آئے گی کیونکر؟ پس یہ مسیح پر بہت بڑا الزام ہے کہ جن لوگوں کی ہدایت کے لئے اُسے بھیجا گیا تھا اُنہی کو اُس نے کتے اور سؤر قرار دیا۔کسی شرارت کی وجہ سے نہیں، کسی خاص معاندانہ فعل کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اِس لئے کہ اب تک اُن پر صداقت ظاہر نہ ہوئی تھی۔
اِس کے مقابلہ میں ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلاَّیَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۸۷؎ اے ہمارے رسول! تُو اپنی جان کو ہلاک کر رہا ہے اِس لئے کہ کافر لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔ کیا ہی زمین و آسمان کا فرق ہے اِن دونوں مدعیانِ ہدایت و ارشاد میں کہ ایک تو ایمان نہ لانے والوںکے غم میں اپنی جان کو ہلاک کر رہا ہے اور دوسرا اپنے حواریوں کو حکم دے رہا ہے کہ اِن کتوں اور سؤروں کی پرواہ نہ کرو اور اِن کو خدا تعالیٰ کا کلام مت پہنچائو۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عالی اخلاق کی وجہ سے تمام انبیاء سے بڑھ کر تھے مگر میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ حضرت مسیح اخلاق سے اتنا گرے ہوئے تھے۔ بیشک وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو نہیں پہنچے تھے مگر وہ خدا کے نبی تھے خدا تعالیٰ کی طرف سے اخلاق اور روحانیت سکھانے کے لئے لوگوں کی طرف آئے تھے اور یقینا اُن کا نمونہ لاکھوں کروڑوں لوگوں سے اچھا تھا۔ افسوس ہے اُس شخص پر جس نے ایسی بُری بات مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کی۔ اِس سلسلہ میں اُس کنعانی عورت کا واقعہ بھی نہیں بھلایا جاسکتا جس کاذکر متی باب ۱۵ آیت ۲۱ تا ۲۶ اور مرقس باب ۷ آیت ۲۴ تا ۲۷ میں آتا ہے۔ اُس عورت نے نہایت عاجزی سے مسیح سے عرض کی اور اپنے قومی رواج کے مطابق اُسے سجدہ بھی کیا اور اُس سے صرف اتنا چاہا کہ وہ اُس کو بھی اپنی لائی ہوئی ہدایت سے روشناس کرے۔ مگر مسیح نے بقول انجیل یہ جواب دیا کہ:۔
’’ مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو پھینک دیں‘‘۔
وہ مسکین عورت کس اشتیاق اور تمنا کے ساتھ مسیح کے پاس آئی ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ وہ اُس سے روٹی مانگے، اِس لئے نہیں کہ وہ اُس سے کپڑا مانگے، اس لئے نہیں کہ وہ اُس سے پانی مانگے، وہ صرف اتنا چاہتی تھی کہ اُس کو کوئی ایسا رستہ بتا دیا جائے جس سے وہ اپنے خدا سے مل سکے۔ وہ اُسی چیز کو طلب کرنے آئی تھی جس کے دینے کا مسیح مدعی تھا۔ مگر موجودہ اناجیل کہتی ہیں مسیح نے اُسے دُھتکار دیا۔ ایک طاقتور اور قوی مرد نے ایک کمزور اور مسکین عورت کو منہ در منہ کہہ کر اُس کی تذلیل کی۔ کیا اِس حوالہ سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ مسیح نے اُس کنعانی عورت کی تذلیل نہیں کی بلکہ جنس نسوانی کی تذلیل کر کے اپنی نسبت یہ ثابت کر دیا کہ وہ مسکین عورتوں کا رہنما نہیں ہے اور یہودی نسل کااِس قدر دلدادہ ہے کہ یہودی کنچنیوں سے اپنے پائوں پر عطر ملوانا پسند کرتا ہے لیکن غیر یہودی عورت کو ہدایت دینا پسند نہیں کرتا۔۸۸؎
اگر عیسائی دنیا اِس حوالہ کو تسلیم کرتی ہو تو بیشک کرے مگر میں کبھی مان نہیں سکتا کہ حواریوں نے اُس کی نسبت ایسا کہا ہو۔ میرے نزدیک یہ باتیں بعد کے لوگوں نے اپنے پاس سے بنائی ہیں اور ایسے وقت میں بنائی ہیں جبکہ مسیح کی حقیقی حیثیت لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو چکی تھی۔ اصلی مسیح دنیا سے غائب ہو چکا تھا اور ایک خیالی مسیح اُس زمانہ کے نادان اور دین سے ناواقف لوگ بنا رہے تھے۔
۳۔ یوحنا باب ۲ آیت ۱ تا ۴ میں لکھا ہے:۔
’’ اور تیسرے دن قانائے جلیل میں کسی کا بیاہ ہوا اور یسوع کی ماں وہاںتھی اور یسوع اور اُس کے شاگردوں کی بھی اُس بیاہ میں دعوت تھی اور میَ گھٹ گئی۔ یسوع کی ماں نے اُس سے کہا کہ اُن کے پاس میَ نہ رہی۔ یسوع نے اُس سے کہا ’’ اے عورت مجھے تجھ سے کیا کام‘‘!
اِسی طرح متی باب ۱۲ آیت ۴۷۔ ۴۸ میں لکھا ہے:۔
’’ کسی نے اس سے کہا کہ دیکھ تیری ماں او ر تیرے بھائی باہر کھڑے تجھ سے بات کیا چاہتے ہیں۔ پر اُس نے جواب میں خبر دینے والے سے کہا کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی‘‘۔
یوحنا اور متی کے یہ دونوں حوالے بتاتے ہیں کہ مسیح اس سب سے قوی رشتہ کی بھی پرواہ نہیں کرتا تھا جس کی عزت و احترام ہر شریف انسان کا کام ہے۔ کیا آج مسیحی دنیا میں کوئی شریف انسان ماں سے کہہ سکتا ہے کہ ’’ اے عورت! مجھے تجھ سے کیا کام‘‘ اور کیا آج مسیحی دنیا میں یہ کہہ کر کہ ’’ کون ہے میری ماں اور کون ہیںمیرے بھائی‘‘ شریفوں میں گنا جا سکتا ہے؟ پھر کیا مسیح کی ہی مقدس ذات اِس تمسخر کے لئے باقی رہ گئی تھی کہ انجیل اس کی طرف ایسی بات منسوب کرتی ہے؟ ماں کا ادب تو ادنیٰ قوموں میں بھی پایا جاتا ہے یہ اُن اخلاق میںسے ہے جن کی ذلیل ترین انسانوں سے بھی امید کی جاتی ہے۔ مگر بنی اسرائیل کا وہ آخری تاجدار، موسوی سلسلہ کا وہ آخری ہیرو جو اپنی قوم کو تاریکی اور ظلمت سے نکالنے اور اسے بااخلاق بنانے کے لئے آیا تھا اُس کی نسبت موجودہ اناجیل ہم سے منوانا چاہتی ہیں کہ اُس نے اپنی ماں کے ساتھترش روئی کی اور اُس کے متعلق گستاخانہ رویہ اختیار کیا۔ عیسائی کہتے ہیں وہ خد اکابیٹا تھا، وہ انسان تھاہی نہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ اگر مسیح کی اصل شان خدا کا بیٹا ہوناہی تھی تو وہ مریم کے گھر میں کیوں پیدا ہوا تھا، اگر مریم کے گھر میںپیدا ہونے کی حالت اُس نے اپنے لئے پسند کر لی اور نو مہینہ تک مریم کو اُن تکالیف میں مبتلا رکھا جن تکالیف کو مائیں حمل کے ایام میں برداشت کیا کرتی ہیں، اگر خدا کے بیٹے نے دو سال تک مریم کی چھاتیوں سے دودھ پینے کی تکلیف گوارا کر لی، اگر اُس نے کئی سال اپنی تربیت اور خبر گیری کا بوجھ اُس پر ڈالا تو کیا وہ یہ بھی ذمہ داری اپنے اوپر نہیںلے سکتا تھا کہ اُس عورت کو جسے اُس نے اپنی ماں بننے کا موقع دیا ادب و احترام کے ساتھ یاد کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف مسیحی دنیا کے عذرات ہیں۔ اُن کے دلوں میں مسیح کی اتنی محبت نہیں ہے جتنی کہ انہیں محرف و مبدل انجیلوں کی پچ ۸۹؎ہے کیونکہ وہ انجیلیںاُن کی بنائی ہوئی ہیں اور مسیح خداتعالیٰ کی مقدس مخلوق تھا۔ پس وہ سیدھا رستہ اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں کہ انجیلوں کی غلطی کا اقرار کریں مگر اس بات پر آمادہ ہوجاتے ہیںکہ مسیح کو بدنام ہونے دیں۔ لیکن دنیا کے تمام معقول انسان جنہوں نے مسیح کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے اور اس کی قوتِ قدسیہ کو پہنچاننے کی کوشش کی ہے وہ اِس امر کا اقرار کئے بغیر نہیںرہ سکتے کہ موجودہ اناجیل بگڑی ہوئی ہیں، غلط ہیں اور ایسے امور پر مشتمل ہیں جو روحانیت کے قریب نہیں کرتے بلکہ روحانیت سے دور پھینک دیتے ہیں اور یقینا ان کی اِس حالت کے بعد خدا کی طرف سے ایک نئے الہام کی ضرورت تھی جواِس قسم کی غلطیوں سے پاک ہو اور بنی نوع انسان کو اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ روحانیت کی طرف لے جائے اور وہ کتاب قرآن کریم ہے۔
ویدوں میں تحریف و تبدیل کا ثبوت
تیسرا مذہب جو اپنے ماننے والوں کی تعداد کے لحاظ سے خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے، ہندو مذہب ہے۔ قرآنی تعلیم کے مطابق ہمارا یقین ہے کہ ہندو مذہب کی بنیاد بھی الٰہی الہام کے ذریعہ پڑی ہے اور چونکہ اِس مذہب والوں کے نزدیک وید ہی شرعی کتاب ہے ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ یہی الہام اُس کے نبیوں پر نازل ہوا تھا لیکن اِس کتاب کی موجودہ حالت یہ ہے کہ جن لوگوں پر یہ کتاب نازل ہوئی تھی اُن کے نام تک معلوم نہیں، وید منتروں کے شروع میں بعض لوگوں کے نام درج ہیں لیکن اُن کے متعلق خود ہندو علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ وہ نہیں جن پر الہام ہوا تھا بلکہ ویدوں کے جمع کرنے والے تھے۔ ایسی صورت میں ویدوں کی تاریخی حیثیت کچھ باقی نہیں رہتی۔ ویدوں کے علماء کی ویدوں کے متعلق مندرجہ ذیل رائیں ہیں:
۱۔ پنڈت ویدک منی صاحب اپنی کتاب ’’ وید سروسو‘‘ کے صفحہ ۹۷ پر لکھتے ہیں:۔
’’ حقیقت میں جس قدر بُری حالت اِس اتھرووید کی ہوئی ہے اتنی اور کسی وید کی نہیں ہوئی۔ سائن آچاریہ کے بعد بھی کئی سُو کت اِس میں ملا دئیے گئے ہیں۔ ملانے کا ڈھنگ بہت اچھا سوچا گیا ہے۔ وہ یہ کہ پہلے اُس کے شروع اور آخر میں ’’ اتھ‘‘ (شروع) اور ’’اِتی‘‘ (ختم) لکھ دیا جاتا ہے۔ جب دیکھا کسی نے پوچھا تک نہیں تب شروع آخر میں اتھ اِتی لکھنا بند کر دیا جاتا ہے بس صرف اتنے سے وہ ( یعنی اضافہ) سنہتا(ویدک مجموعہ) میں مل جاتا ہے، جیسے رگوید سنہتا میں بالکھلیتہ سُوکت ملائے جارہے ہیں ویسے ہی اتھرووید کے آخر میں آجکل کنتاپ سُوکت ملائے جار ہے ہیں۔ اگر پوچھا جائے کہ پانچویں انوواک سے لے کر کنتاپ سُوکتوں سمیت جتنے سُوکت اتھروید میں ملائے جار ہے ہیں وہ کہاں سے آئے تو کوئی جواب نہیں ملتا۔ جہالت کا اتنا دور دورہ ہے کہ آخر میں اتھرووید سنہتا سماپتا لکھا ہوا دیکھ کر ہی یہ یقین کر لیا جاتا ہے کہ بس جو کچھ اِس خاتمہ تک چھپا ہو ایا لکھا ہوا ہے وہ سب اتھرو وید سنہتا ہے یہ خیال نہیں کیا جاتا کہ چھاپنے والا یا لکھنے والا کون اور کتنی قابلیت رکھتا ہے۔‘‘
۲۔ پنڈت مہیش چندر پرشادبی۔ اے سنسکرت ساہتیہ کا اتہاس جلد دوم کے صفحہ ۱۶۰ پر لکھتے ہیں:ـ
’’ واجنئی شکل یجر وید سمہتا بالکل نئی طرز پر ہے۔ اِس میں وید اور برہمن بھاگ (حصے) الگ الگ پائے جاتے ہیں۔ اس میں چالیس ادھیائے ہیں۔ مگر لوگوں کا وشواش ہے کہ اِن میں ۱۸۔ اصل ہیں اور باقی بعد میں ملائے گئے ہیں۔ ادھیائے اسے ۱۸ تک کا بھاگ تیئستری سنہتاو کرشن یجر روید کے نظم و نثر سے مطابقت رکھتا ہے۔ اِن ۱۸ ادھیائوں کے ہر ایک لفظ کی تشریح اُس کے براہمن میں ملتی ہے۔ مگر باقی ۱۷ ادھیائوں کے صرف تھوڑے تھوڑے منتروں پر ہی اس میں ٹپنی ( حواشی ) پائی جاتی ہے۔ کاتیائن نے ادھیائے ۲۶ سے ۳۵ تک کو کھل ( ملاوٹ )کے نام سے لکھاہے۔ ادھیائے ۱۹ سے ۲۵ میں بھی یگیہ کے طریقوں کا ذکر ہے۔ یہ تیئستری سنہتا سے نہیں ملتے۔ ۲۶ سے لے کر ۲۹۔ ادھیائوں تک کچھ خاص طور پر انہی یگیوں کے متعلق منتروں کا ذکر ہے جس کے بارہ میں پہلے ادھیائوں میں بیان ہے اور اِس سے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ضرور بعد میں دئیے گئے ہیں‘‘۔
۳۔ پنڈت شانتی دیو شاستری رسالہ گنگا فروری ۱۹۳۱ء صفحہ ۲۳۲ پر لکھتے ہیں:۔
’ـ’ پہلے تو آج تک یہ بھی فیصلہ نہیں ہو اکہ وید چار ہیں یا تین۔ منوسمرتی اور شت پتھ براہمن کی رو سے رگوید، یجروید اور سام وید۔ یہ تین وید ہیں اور واجنئی اپنشد براہمنو اپنشد اور منڈک اپنشد کی روسے چار وید ہیں‘‘۔
۴۔ پنڈت ہردے نر ائن ایم۔ ایس ۔ سی رسالہ گنگا بابت ماہ جنوری ۱۹۳۱ء میںلکھتے ہیں:۔
’’ شونک رشی کے چرن دیوہ وغیرہ تصانیف میں وید منتروں اور اُن کے لفظوں اور حرفوں تک کی جو گنتی دی ہوئی ہے وہ موجودہ ویدوں میں نہیں ملتی۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ویدوں میں کئی منتر ملائے گئے ہیں اور کئی نکالے گئے ہیں‘‘۔
۵۔ پنڈت شانتی ویوشاستری رسالہ گنگا بابت ماہ فروری ۱۹۳۱ء صفحہ ۲۳۱ پر لکھتے ہیں:۔
’’ جس وقت شونک رشی کاچرن دیوہ تصنیف ہوااُ س وقت شاکل سنہتا (رگوید) کے ایک لاکھ ۵۳ ہزار آٹھ سَو چھبیس لفظ، چار لاکھ ۳۲ ہزار حروف اور دس ہزار چھ سَو بائیس منتر تھے مگر آجکل گنتی کرنے پر یہ تعداد نہیں ملتی‘‘۔
۶۔ ڈاکٹر تارا پدچودہری ایم اے۔ پی ۔ا یچ۔ ڈی پروفیسر پٹنہ کالج رسالہ گنگا کے وید نمبر بابت ماہ جنوری ۱۹۳۲ء کے صفحہ ۷۴ پر لکھتے ہیں:۔
’’ ان کے علاوہ (ویدوں میں) ایسے الفاظ بھی ہیں جن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشدھ پاٹھ ( غلط متن) معلوم ہوتا ہے کہ بولنے والوں اور لکھنے والوں کی خامیوں کے باعث کئی قسم کی غلطیاں واقع ہو گئی ہیں‘‘۔
۷۔ پنڈت ویدک منی جی اپنی کتاب وید سروسو کے صفحہ ۱۰۵و۱۰۶ پر لکھتے ہیں:۔
’’ گوپتھ براہمن کا زمانۂ تصنیف عین وہ زمانہ ہے جبکہ یگوں کا عروج تھا۔ اُس زمانہ رگویدی ، یجر ویدی، سام ویدی اور اتھروویدی ایک دوسرے سے اینٹھے ہوئے تھے اور مختلف قسم کے فرائض اور من گھڑت طریقوں سے یگ وغیرہ کرنے میں محو تھے اور ان میں سے جس جس کو رگوید کے جس قدر منتر مطلوب تھے وہ اُس اُس نے اپنے اپنے وید میں شامل کر لئے تھے اور ہر ایک اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا تھا اور دوسروں سے نفرت کرتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ شاکھا بھید ( نسخوں) کے اختلاف کے باعث رگویدی رگویدی سے یجر ویدی یجر ویدی سے۔ سام ویدی سام ویدی سے اور اتھروویدی اتھروویدی سے بھی الگ ہوگیا۔ واشکل سنہتا والا شاکل سنہتا ( یہ رگ وید کے د ومختلف نسخوں کے نام ہیں) مادھنیدن سنہتا والا کانو سنہتا( یہ یجرویدی کے دو مختلف نسخوں کے نام ہیں) کؤتھم سنہتا والا رانائنی سنہتا( یہ سام وید کے دو مختلف نسخوں کے نام ہیں) اور شونک سنہتا والا پیلاد سنہتا ( یہ اتھرو وید کے د ومختلف نسخوں کے نام ہیں) کے پاٹھ ( متن) کو سب سے اعلیٰ اور خالص اور دوسری شاکھا (نسخے) کے متن کو قطعی بُرا اور غلط کہتا تھا۔ آج جو وید کے مختلف نسخوں میں طرح طرح کے اختلافات نظر آتے ہیں یہ اکثر اُسی بُرے زمانہ میں جنم پائے ہوئے ہیں‘‘۔
۸۔ اسی کتاب کے صفحہ ۱۰۸ پر لکھا ہے:۔
’’اِن کے علاوہ براہمن گرنتھوں کا بھی بہت سا حصہ ان ( ویدوں) میں شامل ہے،جو پڑھنے سے فوراً معلوم ہو جاتا ہے۔ اتھر ووید کی بھی یہی حالت ہے۔ ودوانوں (علماء) کو اِس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ دینی کتاب کی ایسی حالت افسوسناک ہے‘‘۔
۹۔ پھر اس کتاب کے صفحہ ۱۰۹ پر لکھا ہے:۔
’’ یہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ اِس وقت اتھرووید کی صرف دو شاکھا سنہتا (مختلف نسخے) ملتے ہیں۔ ایک پیلا د سنہتا اور دوسری شونک سنہتا ۔ دونوں میں پپلاد زیادہ لائق تسلیم ہے، لیکن وہ چھپی نہیں اور نہ ہی اُس پر سائن آچاریہ نے تفسیر کی ہے۔ دوسری شونک سنہتا چھپی ہوئی ملتی ہے جس کے تین ایڈیشن مختلف پریسوں میں چھپے ہوئے ملتے ہیں۔ جن میں دو مول ( صرف متن) اور ایک سائن اچاریہ کی تفسیر کے ساتھ چھپی ہے۔د ونوں مول میںسے ایک ویدک پریس اجمیر کی اور دوسری بمبئی پریس کی چھپی ہوئی ہے۔ اس کا چھاپنے والا سیوک لال ہے۔ تینوں میں سُوکتوں (بابوں) اور منتروں کا اختلاف ہے‘‘۔
بعض آریہ سماجی عالموں نے اِس اختلاف کو مٹانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ اپنی کوششوں میں ناکام رہے ہیں۔ چنانچہ آریہ سماجی عالم پنڈت رگھونندن شرما ساہتیہ بھوشن ویدک سمپتی صفحہ ۵۷۰ و ۵۷۱ پر ا س اختلاف کی اہمیت کو کمزور کرنے کے لئے لکھتے ہیں:۔
’’ جہاں تک ہمیں علم ہے اب تک اِس قسم کا کوئی ایک بھی ثبوت پیش نہیں کیا گیا جس سے معلوم ہو کہ ویدوں میں فلاں جگہ ملاوٹ ہے جس کو آج تک کوئی نہیںجانتا تھا۔ جن مقامات میں ملاوٹ بتائی جاتی ہے وہ بہت دنوں سے ( براہمن گرنتھوں کی تصنیف کے زمانہ سے) سب کو معلوم ہے ۔ وہ ملاوٹیں نہیں بلکہ ایک قسم کے ضمیمے ہیں جو کاتبوں اور پریس والوںکی غفلت کی وجہ سے اصل متن میں گھس کر متن جیسے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ بال کھلیہ سُوکت رگوید میں ( یہ ۱۱ سُوکت یعنی باب ہیں جن میں ۸۰ منتر ہیں) کھل یعنی براہمن بھاگ یجروید میں (یہ بھی کئی باب ہیں آرنیک اور سہانا منی سوکت سام وید میں )( یہ دو باب۶۵ منتر ہیں) اور گنتاپ سُوکت اتھرووید میں ملے ہوئے ہیں ( یہ اکھٹے دس سُوکت یعنی باب ہیں جن میں ۱۵۰ منتر ہیں) اور ان کو سبھی جانتے ہیں اور ان سب کے متعلق مفصل ثبوت بھی موجود ہیں۔ اِن کے علاوہ کچھ مقامات یجروید اور اتھرووید میں اور بھی ہیں جن کا علم ان فقروں اور منتروں کے پڑھنے سے ہو جاتا ہے کہ وہ ملاوٹی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح شاکھائوں ( وید کے مختلف نسخوں) کی گڑبڑ کا سب کو علم ہے…اور شدھ ویدک شاکھائیں موجود ہیں اِس طرح ملاوٹی حصہ کا بھی سب کو علم ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ واجنی ٔ (یجروید کے مروّج نسخہ) کے منتروں کی تعدا د ۱۹۰۰ ہے جن میں شکری کے منتر ملے ہوئے ہیں۔ کیونکہ لکھا ہے …یعنی سَوکم دوہزار منتر واجنی ٔ کے ہیں اور انہی میں شکری کے بھی شامل ہیں۔ جب یہ واجنی ٔ سنہتا ہے تب اِس میں منتر واجنی ٔ کے ہونے چاہئیں شکری کے نہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیںکہ موجودہ واجنی ٔسنہتا کے منتروں کی تعداد ۱۹۷۵ء ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوجاتاہے کہ شکری کے منتر ۱۹۰۰ میں ہی گھسے ہیں اور باقی ۷۵ منتر کہیں باہر سے لا کر جوڑے گئے ہیں‘‘۔
ظاہر ہے کہ یہ بیان ویدوں کو تحریف سے بَری نہیں کرتا بلکہ انہیں تحریف کا اقرار کراتا ہے۔ اِن حوالہ جات سے صاف ظاہر ہے کہ ویدوں کے پُرانے اور جدید علماء سب اِس بات پر متفق ہیں کہ ویدوں میں دوسرے لوگوں کے منتر بھی شامل ہو گئے ہیں۔ یہ کہنا کہ براہمنوں نے دریافت کر لیا تھا کہ فلاں منتر بناوٹی ہے اور فلاں اصلی ، یہ ایک بے معنی چیز ہے۔ اگر وید کے علماء کو یقین ہو گیا ہے کہ فلاںفلاں منتر بناوٹی ہے تو اُن کو نکال کیوں نہیں دیا۔ ان کا ویدوں کے اندر رکھنا بتاتا ہے کہ ویدوں کے علماء کو یقین نہ تھا۔ چنانچہ آریہ سماج کے مصنف نے آخر میں یہی لکھ دیا ہے کہ یجروید کے ۱۹۰۰ منتر اصلی ہیں باقی ۷۵ منتر کہیں باہر سے لا کر جوڑے گئے ہیں۔ اور ان ۱۹۰۰ کے متعلق بھی لکھ دیا ہے کہ ان میں بھی کچھ شکری کے منتر ہیں’’ باقی‘‘ اور’’کچھ‘‘ کے الفاظ بتاتے ہیںکہ حقیقت کسی کو بھی معلوم نہیں۔ ساری بنیادو ہم و قیاس پر رکھی جاتی ہے۔ مگر کیا واہمہ پر رکھی ہوئی بنیاد روحانیت کو کچھ فائدہ پہنچا سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ سے اتھرووید کی اصلیت کے متعلق شبہ پیدا ہوتا چلا آیا ہے اور یجروید اور رگ وید بھی اِسی طرح آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اِدھر کے منتر اُڑا کر کسی نے اُدھر رکھ دئیے ہیں جہاں اِس قدر گڑ بڑ ہو وہاں کوئی شخص قطعی طور پر یہ فیصلہ کس طرحکر سکتا ہے کہ فلاں منتر خد اکی طرف سے ہے اور فلاں منتر لوگوں کا داخل کردہ ہے۔ اور جس کتاب کے متعلق ایسے شک و شبہات پیدا ہو چکے ہوں اُس پر دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کی بنیاد رکھی ہی کب جا سکتی ہے۔ یقینا جب کسی کتاب کی یہ حالت ہو جائے تو اس کے بعد کسی اور کتاب کی ضرورت ہوگی جو انسانی دست بُرد سے پاک اور محفوظ ہو اور جس پر انسان یقین اور قطعیت کے ساتھ اپنے عقیدوں کی بنیاد رکھ سکے اور جس کے متعلق وہ ویسا ہی یقین رکھے جیسے اُسے سورج اور چاند بلکہ اپنے نفس کے وجود پر یقین ہے اور وہ کہہ سکے کہ اس کا لفظ لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں اُس کی رہنمائی میں یقینا خدا تعالیٰ کو پا سکتا ہوں اور ا س ضرورت کو پورا کرنے والی کتاب قرآن کریم ہے۔
ویدوں میں ظالمانہ احکام
۱۔ اتھرووید کانڈ نمبر ۴ سُوکت ۲۲ منتر میں لکھا ہے:۔
’’اے ویدک دھرمی راجائو اور دوسرے ویدک دھرمیو! تم شیرجیسے بن کر رعیتوں کو کھا جائو اور چیتے جیسے بن کر اپنے دشمنوں کو با ندھ کر جکڑ لو۔ اس کے بعد اپنی مخالفت کرنے والوں کے کھانے تک اُٹھا لو۔‘‘
۲۔ سام وید اُتر آرچک پرپھاٹک گیارہ منتر میں لکھا ہے:۔
’’اے مخالف تم سرکٹے ہوئے سانپوں کی طرح بے سر اور اندھے ہوجائو۔ اس کے بعد پھر جو تم میں چیدہ چیدہ ہوں اُن کو اِندر اور آگ دیوتا تباہ کریں‘‘۔
۳۔ سام وید اُتر آرچک ادھیائے اا منتر ۱میں لکھا ہے:۔
’’ اے اِندر دیوتا! ہمارا دیا ہوا سوم رس تجھے خوش اورمتوالا کرے تُو ہمیں دھن و دولت دے اور وید کے دشمنوں کو تباہ اور ہلاک کر‘‘۔
۴۔ سام وید اُتر آرچک ادھیائے ۱۰ منتر۳ میں لکھا ہے:۔
’’ اے اِندر دیوتا تو غیر ویدک دھرمیوں کو کب یوں کچل کر تباہ کرے گا جیسے چھتری دار پھول کو پائوں سے کچل کر تباہ کر دیا جاتا ہے۔ا ے اِندر! تُو کب تک ہماری اِن دعائوں کو سنے گا‘‘۔
۵۔ اتھرووید کانڈ نمبر ۱۹ سُوکت ۲۸ منتر ۴ تا ۱۰ میں لکھا ہے:۔
’’ اے دبھ! تُو ہمارے دشمنوں کے دلوں کو توڑ دے جیسے تُو اُگتے وقت میں زمین کی کھال کو چیرتی ہوئی اُوپر کو نکل آتی ہے ویسے ہی اِن ہمارے دشمنوں کے سروں کو چیر کر اُوپر کو نکل کر اِن کو گرا کر تباہ کر دے‘‘۔
۶۔ اتھرووید کانڈ نمبر ۱۹ سُوکت ۲۹ منتر ۱ تا ۹ میں لکھا ہے:۔
’’ اے دبھ! تو میرے دشمنوں اور مقابلہ کرنے والوں کو چبھ اور میرے دوسرے ہر قسم کے مخالفین کو بھی چبھ جا۔ اے دبھ! میرے دشمنوں اور مقابلہ کرنے والوں کو تباہ کر اور ہمارے مخالفین کو بھی تباہ و برباد کر وغیرہ وغیرہ‘‘۔
۷۔ یجر وید ادھیائے ۲۷ منتر ۲ میں لکھا ہے:۔
’’ا ے آگ ہم براہمن لوگ جو تیرے پجاری ہیں تُو ہمیں عزت و دولت دے مگر ہمارے مخالفوں کو سمجھ نہ دے‘‘۔
۸۔ یجر وید ادھیائے ۱۱ منتر ۸۰ میں لکھا ہے۔
’’ اے آگ دیوتا جو لوگ ہم کو دھن و دولت نہیں دیتے بلکہ ہماری مخالفت کرتے ہیں، تُواُن کو جلا کر راکھ کر دے‘‘۔
ویدوں کے علاوہ دوسری مذہبی کتب میں بھی اِسی قسم کی تعلیم ہے۔ چنانچہ منوسمرتی جو تمام ہندوئوں کے نزدیک ویدوں کی حقیقی تفسیر ہے اُس میں لکھا ہے کہ:۔
’’ویدوں پر اعتراض کرنے والوں کو ملک سے باہر نکال دو۔‘‘۹۰؎
۹۔ ’’جو شودربراہمن کے برابر بیٹھنا چاہے راجہ یا تو اُس کی کمر پر گرم لوہے کے داغ دے، اُسے ملک سے نکال دے یا سرین کٹوا دے‘‘۔
۱۰۔ پھر ادھیائے نمبر ۸ شلوک ۴۱ میں بھی لکھا ہے کہ:۔
’’ براہمن بغیر کسی شک و شبہ کے شودر کا مال ودولت لے لے کیونکہ شودر کا تو اپنا کچھ بھی نہیں بلکہ اُس کا سب کچھ اُس کے مالک براہمن کا ہی ہے‘‘۔
۱۱۔ ادھیائے نمبر ۸شلوک ۴۱۳ میں لکھا ہے:۔
’’ شودر چاہے براہمن کا خریدا ہو اہو یا نہ خریدا ہوا ہو براہمن اُس سے ضرور غلامی کرائے کیونکہ برہما جی نے شودر کو پیدا ہی غلامی کے لئے کیا ہے‘‘۔
۱۲۔ پھرادھیائے نمبر ۸ شلوک ۴۱۴ میں لکھا ہے:۔
’’ شودر آزاد کرنے پر بھی آزاد نہیں ہو سکتا بلکہ غلام ہی رہتا ہے کیونکہ غلامی شودر کی فطرتی چیز ہے وہ بھلا اُس سے علیحدہ ہو سکتی ہے‘‘۔
۱۳۔ پھر ادھیائے نمبر ۸ شلوک ۲۷۲ میں لکھا ہے:۔
’’ اگر شودر فخر کے ساتھ مذہبی مسائل بتانے شروع کر دے تو تیل کو خوب گرم کر کے اُس کے کانوں میں بھر دو‘‘۔
اس تعلیم سے ظاہر ہے کہ ہندو دھرم کے نزدیک سوائے چند مخصوص ذاتوں کے باقی سب لوگ خدا تعالیٰ کے فضل اور اُس کے رحم سے محروم ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہیں جن کے لئے ویدوں کا پڑھنایا سنایا جانا گناہ ہے اور اگر وہ ایسی عبادت سے کام لیں کہ ویدوں کو پڑھیں یا سنیں یا یاد کریں تو اُن کو سخت سے سخت سزا دینی چاہئے حتیٰ کہ اُنہیں قتل تک کر دینا چاہئے۔ یہ تعلیم بتاتی ہے کہ ویدک دھرم صرف چند اقوام کے لئے تھا اور عالمگیر مذہب نہیں تھا۔ برہمنوں، کھتریوں اور ویشوں کے سِوا خدا تعالیٰ کی بہت سی مخلوق دنیا میں اور بھی پائی جاتی ہے۔ یہ قومیں تو صرف ہندوستان کی آبادی کا ایک حصہ ہیں مگر اُن سے کئی گناآبادی اور ہندوستان سے باہر ملتی ہے۔ اِس تعلیم کی موجودگی میں کون کہہ سکتا ہے کہ وہ لوگ کسی صورت میں بھی ہدایت پا سکتے ہیں۔ مگر کیا خدائے رحیم و کریم کا یہ قانون ہو سکتا ہے؟ کیا ممکن ہے کہ وہ دنیا کے ایک حصہ کو ہدایت کے لئے پیدا کر دے اور دوسرے حصہ کو اپنی تقدیر کے ساتھ دوزخی بنادے؟ یقینا یہ تعلیم نہ صرف ظالمانہ ہے بلکہ خدا تعالیٰ پر بھی نہایت گندہ الزام لگانے والی ہے۔ ہمارا خدا وہ مہربان آقا ہے جس کے احسانوں سے دنیا کا کوئی بھی گوشہ خالی نہیں ہے۔ زمین کے اوپر بسنے والی مخلوق اور زمین کے نیچے بسنے والی مخلوق اور ہوائوں میں اُڑنے والی مخلوق ساری کی ساری اپنی قابلیت اور اپنی طاقتوں کے مطابق اُس کے فضلوںاور اُس کے احسانوں کے نیچے پرورش پا رہی ہے۔ا س نے تمام بنی نوع انسان کو ایک قسم کے دماغ اور ایک قسم کے افکار اور ایک قسم کی قوتیں عطا کی ہیں۔ وہ پاکیزہ جذبات جو انسان کو روحانیت کی اعلیٰ فضا میں اُڑا کر لے جاتے ہیںاُن سے ہمیں نہ یورپ کے لوگ محروم نظر آتے ہیں نہ امریکہ کے لوگ محروم نظر آتے ہیں نہ ایشیا کے لوگ محروم نظر آتے ہیں نہ ہندوئوں کے دل اُن سے زیادہ پاک ہیں نہ اُن کی فکریں اُن سے زیادہ بلند ہیں۔ پھر کیسے ہو سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی اکثر مخلوق کو ہدایت سے محروم کرد یتا اور صرف ۶/۱ مخلوق کو ہدایت کا اہل قرار دیتا ۔ یہ تعلیم خود چلا چلا کر کہہ رہی ہے کہ ویدوں کے بعد ایک اور ایسی کتاب کی دنیا کو ضرورت تھی جو ساری دنیا کو خد اتعالیٰ کی ہدایت کے لئے بلائے اور عجمی او ر عربی کوایک صف میں لا کر کھڑا کر دے اور وہ تمام بنی نوع انسان کی ہمددری اور محبت کی تعلیم دینے والی ہو اور ذلیل اور ادنیٰ اقوام اُس کے نزدیک حقیر نہ ہوں بلکہ دوسروں سے زیادہ قابل امداد اور دوسروں سے زیادہ قابل رحم اور دوسروں سے زیادہ قابل ہمدردی ہوں اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے قرآن کریم نازل ہوا تھا۔
ویدوں میں توہمات
وید ایسی تعلیموں سے بھی بھرے ہوئے ہیں جو محض توہمات پر مبنی ہیں۔ مثلاً ویدوں میں عناصر کو دیوتائوں کی صورت میں پیش کیا
گیا ہے۔ آجکل بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف صفاتِ الٰہیہ کے نام ہیں مگر ہم ویدوں میں دیکھتے ہیں کہ آگ جلا کر اُس پر تیل اور دوسری قیمتی چیزیں چھڑکنے کا حکم ہے جیسا کہ رگوید کی دوسری کتاب کے دسویں منتر کے چوتھے شلوک سے ثابت ہوتا ہے اور اِن چیزوں کے چھڑکنے کے متعلق یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ گویا اگنی کی خوراک ہیں۔ا گراگنی وغیرہ صفاتِ الٰہیہ ہیں تو پھر آگ جلا کر اُن پر تیل اور دوسری چیزیں چھڑکنے کے معنی کیا ہوئے؟ اور ان چیزوں کو آگ کی خوراک قرار دینے کے کیا معنی ہوئے؟ اگر یہ صفاتِ الٰہیہ ہیں تو پھر ظاہر میں آگ جلا کر اُن پر تیل وغیرہ چھڑکنامحض ایک وہم ہے اور اگر یہ چیزیں دیوتا تسلیم کی گئی ہیںتو اُن کا دیوتا تسلیم کرنا خود ایک وہم ہے۔ بہرحال کوئی معنی لے لئے جائیں وہم ہی کی تعلیم اس سے نکلتی ہے۔
اِ سی طرح رگوید کی دوسری کتاب کے گیارہویں ادھیائے کے گیارہویں شلوک میں لکھا ہے:
’’ او اِندر! تُو سوم پی اور یہ خوشی دینے والا رس تجھے خوشی پہنچائے‘‘۔
اب اِندریا تو فرشتوں کا نام قرار دیا جا سکتا ہے یاخداتعالیٰ کا۔ اگر یہ خدا تعالیٰ کا نام ہے تب بھی سوم کا رس خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرنا ایک نہایت ہی ادنیٰ قسم کا وہم ہے۔ اور اگر اِندر کسی فرشتے یا اور کسی روح کا نام ہے تب بھی اُس کے آگے سوم کارس پیش کرنا ایک نہایت ہی ادنیٰ وہم ہے کیونکہ خد اتعالیٰ کی ہستی وراء الورا ہے اور اُس کے فرشتے روحانی وجود ہیںاُن کے لئے کسی شربت کے پینے یا پلانے کا خیال کرنا بھی ایک نہایت ہی مضحکہ خیز خیال ہے۔
پھر اِسی ادھیائے کے پندرھویں منتر میںلکھا ہے۔
’’ او اِندر ! تو سوم کا رس پی تاکہ تجھے طاقت اور خوشی آئے‘‘۔
خدا تعالیٰ یا اُس کے فرشتوں کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ سوم کا رس اُن کو طاقت بخشتا ہے یہ بھی کتنا مضحکہ انگیز خیال ہے۔
یہ ایک دومنتر نہیں بلکہ سینکڑوں منترویدں میں ایسے پائے جاتے ہیں جو اس قسم کی وہم والی تعلیمیں پیش کرتے ہیں۔ دیوتائوں کا آسمانوں پر کبھی بادلوں پر سواری کر نا اور کبھی رتھوں پر چڑھنا یہ اور اِسی قسم کے بہت سے خیالات ویدوں میں بھرے ہوئے ہیں۔
ویدوں کی خلافِ اخلاق تعلیم
ویدوں میں بہت سی خلافِ اخلاق تعلیم بھی ہے، لیکن وہ اتنی عریاں ہے کہ تفصیل کے ساتھ بیان
نہیں کی جا سکتی۔ اس میں شہوانی قوتوں اور شہوانی اعضاء کے متعلق ایسی ایسی باتیں بیان کی گئی ہیں کہ جو اس عریانی کے ساتھ طب کی کتابوں میں بھی لکھنی جائز نہیں۔
اِن تمام وجوہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وید جس کے بہت سے حصے اِس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے ہوں گے ا ِن میں انسانوں نے ایسی تعلیمیں ملا دی ہیں کہ جن کی بناء پر اب وہ قابل عمل نہیں رہے اور یقینا اِس خرابی کے بعد جو ویدوں میں آج سے سینکڑوں سال پہلے واقعہ ہو چکی ہے ایک ایسے کلام کی ضرورت تھی جو اِن تمام نقائص سے پاک ہو اوروہ کلام قرآن کریم ہے۔
ویدوں میں تناقض
چونکہ ویدوں میںمختلف زمانوں میں مختلف لوگوں نے دست اندازی کی ہے اِس لئے اُن کے مضامین میں بہت کچھ
تناقض بھی پیدا ہو گیا ہے۔ چنانچہ ہم ذیل میں اس تناقض کی چند مثالیں بیان کرتے ہیں:۔
۱۔ ویدوں میں یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ سورج کو کس نے پیدا کیا ہے؟ اور اِس کا جواب مختلف ویدوں میں دیا گیا ہے۔ چنانچہ رگوید منڈل نمبر ۹ سُوکت ۹۶ منتر نمبر ۵ میں لکھا ہے:
ــ’’سورج کواکیلے سوم دیوتا نے پید ا کیا تھا‘‘۔
لیکن رگوید منڈل نمبر ۸ سُوکت ۳۶ منتر نمبر ۴ میںلکھا ہے:۔
’’سورج کو اکیلے اِندر دیوتا نے پید اکیا تھا‘‘۔
یہ عجیب بات ہے کہ وہی کتاب ایک باب میں تو کہتی ہے کہ سورج کو اکیلے سوم دیوتا نے پید اکیا تھا اور دوسرے باب میں یہ کہتی ہے کہ سورج کو اکیلے اِندر دیوتا نے پید ا کیا تھا، لیکن دوسرے وید تو اور بھی کمال کر دیتے ہیں ۔یجر وید ادھیائے ۱۳ منتر ۱۲ میں لکھاہے :۔
’’ سورج کو اکیلے برہما نے اپنی آنکھ سے پیدا کیا تھا‘‘۔
گویا رگویدتو اکیلے سوم دیوتا اور اکیلے اِندر دیوتا سے سورج کو پید اشدہ قرار دیتا ہے لیکن یجر وید نہ اُسے سوم دیوتا کا پیدا کیا ہوا قرار دیتا ہے نہ اِندر دیوتا کا بلکہ اُسے برہما دیوتا کا پیدا کیا ہو ابتاتا ہے اور بتاتا ہے کہ اُسے برہما نے پیدا بھی اپنی آنکھ سے کیا تھا۔ اتھرو وید اس کے بالکل خلاف ایک اور ہی حقیقت بیان کرتا ہے۔ اِس میں لکھا ہے:۔
’’ سب دیوتائوں نے مل کر سورج کو پیدا کیا تھا‘‘۔۹۱؎
اتھر ووید کی اِس روایت نے حقیقت بالکل ہی بدل دی۔ وہ سورج کو نہ اکیلے سوم دیوتا کا پیدا کیا ہوا قرار دیتا ہے نہ اِندر دیوتا کا نہ بر ہما کا بلکہ وہ سب دیوتائوں کو اُس کی پیدائش میں شریک قرار دیتا ہے۔
۲۔ ویدوںسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج پہلے ز مین پر تھا پھر اُس کو اُٹھا کر آسمان پر لے گئے۔ علمِ ہیئت کے لحاظ سے یہ بات کیسی ہی عجیب کیوں نہ ہو میں اِس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اِس حکایت کی تفصیلات کے متعلق بھی ویدوں میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔کرشن یجر وید تیتری سنگتا میں لکھا ہے:۔
’’ سورج پہلے زمین پر تھا۔ دیوتا اپنی پیٹھوں پر اُسے رکھ کر اُوپر جنت میں لے گئے اور وہیں رکھ دیا‘‘۔
کرشن یجر وید میں لکھا ہے:۔
’’ سورج کو صرف ورن دیوتا ہی زمین سے اُٹھا کر اوپر جنت میں لے گیا تھا‘‘۔
لیکن رگوید منڈل نمبر ۱۰ سُوکت ۱۵۶ منتر ۴ میں لکھا ہے:۔
’’ اکیلے آگ دیوتا نے سورج کو اوپر جنت میں لے جا کررکھا تھا‘‘
اور رگو ید منڈل نمبر ۱۰ منتر ۳ میں لکھا ہے:۔
’’ سورج کو انگرارشی کی اولاد نے اوپر لے جا کر جنت میں رکھا تھا‘‘۔
اتھرو وید کانڈ نمبر ۱۳ سُوکت نمبر۲ منتر نمبر ۲ ۱ میں لکھا ہے:۔
’’ اے سورج! تجھے اوپر جنت میں لے جا کر صرف اکیلے اتری رشی نے اِس لئے رکھا تھا تاکہ تو مہینوں کو بنایا کرے‘‘۔
شکل یجر وید ادھیائے نمبر ۴ منتر ۳۱ میں لکھا ہے:۔
’’ سورج کو اوپر لے جا کر اکیلے ورن دیوتا نے ہی رکھا تھا‘‘۔
قطع نظر اِس کے کہ سورج کو زمین سے اُٹھا کر آسمان پر رکھنے کا عقیدہ کیسا مضحکہ خیز ہے اور بتاتا ہے کہ پرانے زمانہ کے ہندوئوں میں یہ خیال تھا کہ سورج ایک بہت چھوٹی سی چیز ہے اور زمین کے کسی گوشہ میں رکھی جا سکتی ہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ اس مضحکہ انگیز خیال کے مطابق بھی اتنی متضاد روایتیں ہیں کہ وہ تضاد خود اپنی ذات میں مضحکہ انگیز ہو جاتا ہے۔ صرف رگوید کی مختلف فصلوں میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ ایک فصل میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ آگ دیوتا نے سورج کو اُٹھا کر آسمان پر رکھا لیکن اس کتاب کی دوسری فصل میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نہیںبلکہ اِندر دیوتا نے ایسا کیا۔ اور پھر اسی کتاب کے ایک اور منتر میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ کام اِن دونوں ہی نے نہیں کیا تھا بلکہ انگرارشی کی اولاد نے یہ کام کیا تھا۔ اسی طرح یجر وید میں ایک جگہ تو یہ کہا ہے کہ سورج کوتمام دیوتا اپنی پیٹھ پر اُٹھا کر لے گئے لیکن دوسری جگہ یہ لکھا ہے کہ سورج کو اکیلے ورن دیوتا نے زمین سے اُٹھا کر آسمان پر رکھا۔ اتھرو وید اِن سب سے نرالی حکایت بیان کرتا ہے اور اتری رشی کو اس غیرمعمولی شان کے کام کے لئے مخصوص کرتا ہے۔
۳۔ زمین و آسمان کی پیدائش کے متعلق بھی ویدوں نے بعض حقائق بیان کئے ہیں۔ لیکن وہ حقائق بھی ایک دوسرے سے ایسے ہی مختلف ہیں جیسا کہ جنوں اور پریوں کی کہانیاں آپس میں مختلف ہوتی ہیں۔
سام وید پورد آرچک میں لکھا ہے:۔
’’ زمین وآسمان کو اکیلے سوم دیوتا نے پیدا کیا تھا‘‘۔
لیکن رگوید منڈل نمبر۸ سُوکت ۲۶ منتر ۴ میں لکھا ہے:۔
’’ زمین و آسمان کو سوم رس پینے والے اکیلے اِندر دیوتا نے ہی پیدا کیا تھا‘‘۔
مگر اسی رگوید کے منڈل نمبر ۲ سُوکت ۴۰ منتر ۱ میں لکھا ہے:۔
’’ زمین وآسمان کو پوشا دیوتا اور سوم دیوتا دونوں نے مل کر پید اکیا تھا‘‘۔
مگریجر وید کہتا ہے کہ:۔
’’ زمین و آسمان کو اکیلے برہما نے پیدا کیاتھا‘‘۔
منو سمرتی دشت پتھ برہمن میں لکھا ہے:۔
’’ زمین و آسمان کو اکیلے پرجا پتی نے ہی پیدا کیا تھا‘‘۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ منو سمرتی وید نہیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہندو قوم اِس کو ویدوں کی صحیح تفسیر قرار دیتی ہے اصل ویدوں میں بھی زمین وآسمان کی پیدائش کے متعلق کچھ کم اختلاف نہیں تھا کہ منوجی نے اِس اختلاف کو اَور بھی اُبھار دیا۔سام وید سوم دیوتا کو زمین و آسمان کی پیدائش کا موجب قرار دیتا ہے لیکن رگوید ایک جگہ اِندر دیوتا کو اور دوسری جگہ پوشا دیوتا اور سوم دیوتا کو زمین وآسمان کی پیدائش کا موجب قرار دیتا ہے۔ مگر منوجی نے اِن تمام ویدوں کی تشریح کرتے ہوئے سوم اور اِندر اور پوشا اور برہما سب کو پیدائش کائنات سے جواب دے دیا اور پرجا پتی کو ان کا پیدا کرنے والا قرار دے دیا۔
دیوتائوں کی تعداد کے متعلق اختلاف
۴۔ گو ہم مانتے ہیں کہ وید جب بھی نازل ہوئے تھے خدا تعالیٰ کی
طرف سے نازل ہوئے تھے اور یقینا وہ توحید کی تعلیم پر مشتمل تھے مگر موجودہ وید وہ نہیں جو کہ شروع میں رشیوں پر نازل ہوئے تھے۔ ان میںکثرت کے ساتھ شرک کی تعلیم پائی جاتی ہے بلکہ اس کثرت کے ساتھ کہ اس نے توحید کی تعلیم کو دبا لیا ہے۔ چنانچہ اِس بارہ میں بھی جو تعلیم ویدوں میں بیان ہوئی ہے اُس کی ہم چند مثالیں دیتے ہیں:۔
یجروید میں لکھا ہے کہ:۔
’’دیوتا کل ۳۳ ہیں۔ ۱۱زمین میں ۱۱ آسمان اور ۱۱ اُوپر جنت میں‘‘۔
رگوید منڈل نمبر ۳ سُوکت۹ منتر ۹ میں لکھا ہے کل دیوتا ۳۳۴۰ ہیں۔۳۳۴۰ کی تعداد اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ رگوید کے بیان کے مطابق ۳۳۳۹ دیوتائوں نے مل کر آگ دیوتا کو گھی سے سینچا اور اُس کے پاس گئے۔ پس ۳۳۳۹ میں ایک جمع ہوا تو ۳۳۴۰ ہو گئے۔ چنانچہ رگوید منڈل نمبر ۱۰ سُوکت نمبر ۵۲ منتر ۶ میں صاف الفاظ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کل دیوتا ۳۳۴۰ہیں۔
ویدوں میں دیوتائوں کے متعلق اتنا اختلاف حیرت انگیز ہے کہیجر وید میں تو دیوتا ۳۳ قرار دیئے گئے ہیں اور رگوید میں ۳۳۴۰۔ توحید کو چھوڑنا ہی ایک نہایت خطرناک بات تھی مگر جو خیالی دیوتا تجویز کئے گئے ان کی تعداد میں بھی اتنا اختلاف کہ وہ کبھی ۳۳ ہو جاتے ہیں اور کبھی۳۳۴۰۔ یہ اختلاف یقینا انسان کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ بے شک جب وید نازل ہوئے ہوں گے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں گے مگر موجودہ وید ہرگز انسان کی روحانیت کو تسلی نہیں دے سکتے اور اِن کے بعد اور ان کے باوجود بھی ایک ایسی کتاب کی دنیا کو ضرورت تھی جو ہر قسم کی خلافِ اخلاق، متناقض، ظالمانہ اور وہموں سے پُر تعلیموں سے پاک ہو اور یہی کتاب قرآن کریم ہے۔
چوتھا سوال اور اُس کا جواب
چوتھا سوال جو پہلی کتب کی موجودگی میں قرآن کریم کے نزول کی ضرورت کے متعلق روشنی ڈال سکتا ہے یہ ہے کہ کیا سابق مذاہب اپنی تعلیم کو حتمی اور آخری قرار دے رہے تھے؟ یا وہ خود بھی ایک ارتقاء کے قائل تھے؟ اور روحانیت کی ترقی کے لئے ایک ایسے نقطہ کی خبر دے رہے تھے جس پر جمع ہو کر بنی نوع کو انسانی پیدائش کے مقصد کوحاصل کرنا تھا؟
بائبل میں قرآن مجید کے نزول اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے متعلق پیشگوئیاں
اس سوال کے متعلق یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ انبیاء کی ایک مسلسل کڑی جو ہمیں
الٰہی منشاء سے آگاہ کر سکے درحقیقت ہمیں بائبل میں ہی ملتی ہے۔ انبیاء کے حالات کو محفوظ رکھنے میں بائبل نے جو کام کیا وہ قرآن کریم سے پہلے اور کسی کتاب نے نہیں کیا اِس لئے ہم اس سوال کا جواب دینے کیلئے کہ آیا پہلی کتابیں اپنے بعد کسی اور کتاب کی اور پہلے نبی اپنے بعد کسی اور نبی کی خبر دیتے ہیں یا نہیں جو دنیا میں ہدایت اور راستی کی تعلیم کو مکمل کرنے والا اوربنی نوع انسان کی روحانی ترقی کا آخری نقطہ بننے والا تھا، بائبل پر نظر ڈالتے ہیں۔
پہلی پیشگوئی۔ حضرت ابراہیم
کی اولاد سے وعدہ
بائبل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام سے خدا تعالیٰ کے بہت سے وعدے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کسدیوں کے اُور
میںپیدا ہوئے اور وہاں سے اپنے باپ کے ساتھ ہجرت کر کے کنعان کی طرف روانہ ہوئے لیکن اُن کے والد حاران میں آکر ٹھہر گئے۔ اُن کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ حاران سے نکل کر کنعان کوروانہ ہوں اور فرمایا:۔
’’ اور میں تجھے ایک بڑی قوم بنائوں گا اور تجھ کو مبارک اور تیرا نام بڑا کروں گا اور تُو ایک برکت ہو گا اور اُن کو جو تجھے برکت دیتے ہیں برکت دوں گا اور اُس کو جوتجھ پر *** کرتا ہے *** کروں گا اور دنیا کے سب گھرانے تجھ سے برکت پاویں گے‘‘۔ ۹۲؎
اسی طرح لکھا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا:۔
’’ کہ یہ تمام ملک جو تُو اب دیکھتا ہے میں تجھ کو اور تیری نسل کو ہمیشہ کے لئے دوںگا‘‘۔۹۳؎
پھر پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۰ تا ۱۲ میں لکھا ہے:۔
’’ پھر خدا وند کے فرشتے نے اُسے ( یعنی ہاجرہ سے) کہا کہ میں تیری اولاد کو بہت بڑھائوںگاکہ وہ کثرت سے گنی نہ جائے اور خداوند کے فرشتے نے اُسے کہا کہ تُو حاملہ ہے اور ایک بیٹا جنے گی اُس کا نام اسماعیل رکھنا کہ خداو ند نے تیرا دُکھ سن لیا۔ وہ گورخر سا ہو گا اُس کا ہاتھ سب کے اور سب کے ہاتھ اُس کے برخلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بودوباش کرے گا‘‘۔
پھر اسی بائبل میں لکھا ہے:۔
’’ پھر خدا نے ابراہام سے کہا کہ تُو اور تیرے بعد تیری نسل پشت درپشت میرے عہد کو نگاہ رکھیں اور میر اعہد جومیرے اور تمہارے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے جسے تم یاد رکھو سو یہ ہے کہ تم میںسے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیاجائے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کرو اور یہ اُس عہد کا نشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے‘‘۔۹۴؎
پھر لکھا ہے:۔
’’ اور وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہیں ہوا وہی شخص اپنے لوگوں میں سے کٹ جائے کہ اُس نے میرا عہد توڑا‘‘۔۹۵؎
پھر لکھا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ کو بھی ایک بیٹے کی بشارت دی تھی اور فرمایا کہ:۔
’’ میں اُسے برکت دوں گا اور اُس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا یقینا میںاُسے برکت بخشوں گا یقینا میں اُسے برکت دوں گا اوروہ قوموں کی ماں ہو گی اورملکوں کے بادشاہ اُس سے پیدا ہوں گے‘‘۔۹۶؎
پھر سارہ کی اولاد کے متعلق لکھا ہے کہ:۔
’’ میں اُس سے اور بعد اُس کے اُس کی اولاد سے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہے قائم کروںگا‘‘۔۹۷؎
پھر اسماعیل کے متعلق لکھا ہے:۔
’’ اور اسماعیل کے حق میں میَں نے تیری سنی۔ ۹۸؎
اسماعیل کے حق میں حضرت ابراہیم نے یہ دعا کی تھی کہ:۔
’’کاش! کہ اسماعیل تیرے حضور جیتا رہے‘‘۔۹۹؎
’’دیکھ! میں اُسے برکت دوں گا اور اُسے برو مند کروں گا اور اُسے بہت بڑھائوںگا اور اُس سے ۱۲ سردار پیدا ہوںگے اور میں اُسے بڑی قوم بنائوں گالیکن میں اضحاق کو جس کو سرہ دوسرے سال اُسی وقت معین میں جنے گی اپنا عہد قائم کروںگا‘‘۔۱۰۰؎
پھر لکھا ہے:۔
’’ اور اُس لونڈی کے بیٹے سے بھی میں ایک قوم پیدا کروںگا ا س لئے کہ وہ بھی تیری نسل ہے‘‘۔۱۰۱؎
پھر حضرت اسماعیل کے متعلق لکھا ہے۔ خدا نے حضرت ہاجرہ کو الہام کیا کہ:۔
’’ اس لڑکے کی آواز جہاں وہ پڑا ہے خدا نے سنی۔ اُٹھ اور لڑکے کواُٹھا اور اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اُس کو ایک بڑی قوم بنائوں گا‘‘۔۱۰۲؎
پھر لکھا ہے :۔
’’ خد ا ا س لڑکے کے ساتھ تھا اور وہ بڑھا اور بیابان میں رہا کیا اور تیر اَنداز ہو گیا اور وہ فاران کے بیابان میں رہا اور اُس کی ماں نے ملک مصر سے ایک عورت اُس سے بیاہنے کو لی‘‘۔۱۰۳؎
اِن حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے اسمٰعیل اور اسحاق تھے۔ اسمٰعیل بڑے بیٹے تھے اور اسحاق دوسرے بیٹے تھے خدا تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے عہد تھا کہ وہ اُن کی نسل کو بڑھائے گا اور بابرکت کرے گا۔ یہ بابرکت کرنے کے الفاظ حضرت اسحاق ؑ کے متعلق بھی ہیں اور حضرت اسماعیل ؑ کے متعلق بھی ہیں۔ اِسی طرح نسل کے بڑھانے کے الفاظ بھی حضرت اسحاقؑ کے متعلق بھی ہیں اور حضرت اسماعیل ؑ کے متعلق بھی ہیں اوریہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسمٰعیل فاران کے بیابان میں رہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کنعان کی زمین حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کو دے دی گئی تھی اور پھر یہ بھی کہ خدا تعالیٰ کے اس عہد کی علامت یہ ہوگی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نرینہ نسل کا ختنہ کیا جائے گا۔ اِن پیشگوئیوں کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اسحاقؑ کی نسل کو بڑی ترقی نصیب ہوئی اور خد اتعالیٰ نے جو عہد حضرت اسحاقؑ سے باندھا تھا وہ بڑی شان سے پورا ہوا۔ حضرت موسیٰ اور حضرت دائود اور حضرت حزقیل اور حضرت دانی ایل اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام اُن کی نسل سے ظاہر ہوئے اوردنیا کے لئے بڑی رحمت کا موجب ثابت ہوئے۔ کنعان کا ملک دو ہزار سال تک اُن کے قبضہ میں رہا سوائے ایک خفیف وقفہ کے کہ اس وقفہ میں بھی وہ ملک کلی طور پر اُن کے ہاتھ سے نہیں نکلا۔ صرف وہ اس میں کمزور ہو گئے تھے۔ لیکن ساتویں صدی بعد مسیح میں اسحاق کی اولاد اور موسیٰ کی تعلیم پر ظاہری طور پر چلنے والے لوگوں کو کلی طور پر کنعان کے ملک سے دست بردار ہونا پڑا اور اس ملک میں اسمٰعیل کی اولاد سیاسی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی غالب آگئی۔ بنی اسرائیل کا اُس زمانہ میں کنعان سے نکالا جانا صاف بتاتا ہے کہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی معرفت جو وعدہ کیا گیا تھا اب اُس کے مستحق بنی اسرائیل یا اُن کے متعلق خاندان نہیں رہے تھے مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں قیامت تک یہ ملک بنی اسرائیل کے قبضہ میں رکھوں گا اور خدا کی بات جھوٹی نہیں ہو سکتی۔ پس صاف ظاہر ہے کہ قیامت کے معنی ظاہری قیامت کے نہیں بلکہ ایک نئی شریعت کے ظہور کے ہیں جو الہامی اصطلاح میں نیا آسمان اور نئی زمین بنانا کہلاتا ہے اور لازماً قیامت کے برپا ہوئے بغیر نیا آسمان اور نئی زمین نہیں بنائے جا سکتے۔ پس قیامت تک بنواسحاق کے قبضہ کے یہی معنی تھے کہ جب ایک نیا شرعی نبی آئے گا تو اُس وقت یہ ملک بنو اسحاق کے قبضہ میں نہ رہے گا۔ چنانچہ اِس طرف حضرت دائودؑ کے ایک کلام سے اشارہ بھی نکلتا ہے جہاں تورات میں لکھا ہے کہ قیامت تک بنو اسحاق ا س ملک پر قابض رہیں گے وہاں حضرت دائودؑ نے اِس پیشگوئی کو دوسرے الفاظ میں پیش کیا ہے وہ فرماتے ہیں:۔
’’ صادق زمین کے وارث ہوںگے اور ابد تک اُس میں بسیں گے‘‘۔۱۰۴؎
اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنواسحاق کی تباہی کا وقت قریب آرہا تھا۔ا ب نبیوں کا کلام دنیا کی توجہ اِس طرف پھر ارہا تھا کہ اب وہ نسلی وعدہ بدل کر روحانی شکل اختیار کرنے والا ہے اور بنو اسمٰعیل راستباز بن کر ابراہیمی پیشگوئیوں کے وارث بننے والے ہیں اور ایک نیا عہداُن کے ذریعہ سے شروع ہونے والا ہے۔ا گر یہ بات نہیں تو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ماننے والے بنواسمٰعیل کو فلسطین کی زمین میں کیوں غالب کر دیا۔ اُس نے تو صاف طور پر عہد کیا تھا کہ فلسطین کی زمین بنو اسحاق کو دی جائے گی۔ اگر وہ عہد ایک اور قوم کے ذریعہ سے پورا نہیں ہونا تھا تو یہ تبدیلی خدا تعالیٰ نے کس طرح گوارا کی۔ا گر یہ تبدیلی چند سال کے لئے عارضی طور پر ہوتی تو کوئی بات نہ تھی کیونکہ قومی زندگیوں میںاُتار چڑھائو ہو ہی جایا کرتے ہیں لیکن یہ تبدیلی تو اتنی لمبی چلی کہ آج تیرہ سَو سال کے بعد بھی فلسطین کے اکثر حصہ پر مسلمان اور اسمٰعیل کی اولاد قابض ہیں۔ یورپ اور امریکہ زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح اِن حالات کو بدل دیں لیکن اب تک وہ کامیاب نہیں ہوئے اور اگر کوئی کامیابی اُن کو حاصل بھی ہوئی تو وہ عارضی ہو گی یا بنو اسرائیل مسلمان ہو کر نئے عہد کے ذریعہ سے ایک نئی زندگی فلسطین میں پائیں گے اور یا پھر وہ دوبارہ فلسطین میں سے نکال دئیے جائیں گے کیونکہ فلسطین اُن لوگوں کے ہاتھ میں رہے گاجو ابراہیمی عہد کو پورا کرنے والے ہوں گے۔ مسیحی لوگ بھی اپنے آپ کو ابراہیمی عہد کا پورا کرنے والا قرار دیتے ہیں لیکن تعجب ہے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اِس عہد کی علامت ہی یہ ہے کہ وہ قوم ختنہ کروائے گی لیکن عیسائی تو ختنہ سے آزاد ہو چکے ہیں۔ ہاں بنو اسمٰعیل جو تیرہ سَو سال سے فلسطین پر قابض ہیں وہ قرآن کریم کے نازل ہونے سے پہلے بھی ختنہ کرواتیتھے اور اب بھی ختنہ کرواتے ہیں۔ غرض جیساکہ اِن پیشگویوں میں بتایا گیا تھا کہ اسمٰعیل اور اسحاق دونوں کو برکت دی جائے گی وہ پیشگوئیاں پوری ہونی ضروری تھیں۔ بنو اسحاق کو اُن کے وعدہ کے مطابق کنعان کی حکومت دی گئی اور بنو اسمٰعیل کواُن کے وعدہ کے مطابق عرب کی حکومت دی گئی۔ آخر جب بنو اسحاق کی قیامت آگئی تو دائود کی پیشگوئی کے مطابق نسلی لحاظ سے نہیں بلکہ راستباز ہونے کے لحاظ سے کنعان پر غلبہ بنو اسمٰعیل کو دے دیا گیا۔ گویا نسلی وعدہ ابراہیم کے مطابق مسلمانوں کو مکہ اور اس کے اِرد گرد کا علاقہ ملا۔ جس کا دعویٰ قرآن کریم نے سورۃ بقرہ رکوع ۱۵/۱۵ میں کیا ہے اور راستباز ہونے کے لحاظ سے بنو اسحاق کی مذہبی تباہی کے بعد وہ کنعان کے بھی وارث قرار پائے۔
دوسری پیشگوئی۔ حضرت موسیٰ کے بعد ایک شرعی نبی کا ظہور
حضرت موسیٰ علیہ السلام جب خدا تعالیٰ کے حکم سے طور پر گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ:۔
’’خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرے گا‘‘۔۱۰۵؎
پھر لکھا ہے۔
’’ میں اُن کے لئے اُن کے بھائیوں میںسے تجھ سا ایک بنی برپا کروں گا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے فرمائوں گا وہ سب اُن سے کہے گا اور ایسا ہو گا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کاحساب اُس سے لوںگا۔ لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اُسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے‘‘۔۱۰۶؎
اِن آیتوں سے ظاہر ہے کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک نئے صاحبِ شریعت نبی کی پیشگوئی کی گئی تھی جو بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ہو گا۔ صاحبِ شریعت ہونے کی پیشگوئی اِن الفاظ سے نکلتی ہے کہ وہ موسیٰ کی مانند ہو گا اور موسیٰ صاحبِ شریعت نبی تھے۔ دوسری خبر اِس پیشگوئی میںیہ دی گئی ہے کہ سب باتیں جو اُسے کہی جائیں گی وہ لوگوں سے بیان کر دے گا۔ یہ علامت بھی بتاتی ہے وہ صاحبِ شریعت ہو گا کیونکہ صاحبِ شریعت نبی قوم کی بنیاد رکھنے والا ہوتا ہے محض ایک مصلح نہیں ہوتااس لئے اُسے حکم ہوتا ہے کہ وہ اپنی ساری تعلیم لوگوں کے سامنے بیان کرے کیونکہ شریعت کے بغیر قوم کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ مگر جو غیر تشریعی نبی ہوتا ہے وہ چونکہ صرف پہلی کتاب کا شارح ہوتا ہے اُس کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ساری وحی لوگوں کو سنائے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض باتیں اُس کے ذاتی علم کے طور پر اُسے کہی گئی ہوں لیکن ضروری نہ ہو کہ وہ اپنی قوم سے اُن کا ذکر کرے۔ یہ بھی اِن آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ اِس پیشگوئی کا موعود نبی اپنی تعلیم کو خد اتعالیٰ کا نام لے کر دنیا کے سامنے پیش کرے گا اور جو لوگ اُس کی تعلیم کونہ سنیں گے اُن کو سزا دی جائے گی اور وہ خدا کے عذاب کے نیچے آئیں گے۔یہ بھی اِس پیشگوئی میںبتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اِس پیشگوئی سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر اس پیشگوئی کا مستحق ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے گا تو ایسا شخص قتل کر دیا جائے گا۔ا ب پیشگوئی کے اِن تمام اجزاء کو سامنے رکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک اِس پیشگوئی کو پورا کرنے والا نبی دنیا میں کوئی پید ا ہی نہیں ہوا۔ درمیانی انبیاء کا تو ذکر جانے دو، اُن کی تونہ کوئی اُمت موجود ہے نہ کوئی قوم پائی جاتی ہے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں جن کے ماننے والے دنیا میں پائے جاتے ہیں اور جو اُنہیں آخری مصلح قرار دے کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مگر اِس پیشگوئی کو سامنے رکھ کر دیکھو کیا اِس پیشگوئی کی شرائط حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر پوری اُترتی ہیں؟
اوّل: اِس پیشگوئی سے پتہ لگتا ہے کہ وہ صاحبِ شریعت نبی ہو گا۔ کیا عیسیٰ علیہ السلام کوئی شریعت لائے؟ عیسیٰ علیہ السلام نے تو یہ کہا ہے کہ:
’’ یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب کو منسوخ کرنے آیا۔ میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو‘‘۔۱۰۷؎
پھر اُن کے حواریوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ:۔
’’ شریعت کو ایمان سے کچھ نسبت نہیں۔ مسیح نے ہمیں مول لے کر شریعت کی *** سے چھڑایا‘‘۔۱۰۸؎
گویا مسیح خود کسی شریعت کے لانے کے مدعی نہیں اور اُن کے حواری شریعت کو ہی *** قرار دیتے ہیں۔ پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ حضر ت مسیح اور اُن کی قوم اِس پیشگوئی کی مستحق ہو؟
(۲) اِس پیشگوئی میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ آنے والا بنی اسرائیل کے بھائیوں میںسے ہوگا لیکن مسیح تو بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے نہیں تھا بلکہ خود بنی اسرائیل میںسے تھا۔ بعض عیسائی صاحبان ایسے موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ چونکہ اس کا کوئی با پ نہیںتھا اِس لئے وہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے کہلا سکتا ہے۔ لیکن یہ دلیل ہرگزمعقول نہیںکیونکہ بائبل کے الفاظ بتاتے ہیں کہ وہ بھائی بہت ہوں گے اور اُن بہت سے بھائیوں کی نسل میںسے وہ موعود نے ظاہر ہونا تھا۔ کیا عیسیٰ علیہ السلام کی قسم کے لوگ بھی بہت سے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر عیسیٰ علیہ السلام پر یہ پیشگوئی کیونکر چسپاں ہو سکتی ہے؟
علاوہ ازیں بائبل میں تو مسیح کی نسبت لکھا ہے کہ وہ دائود کی نسل میں سے ہوگا۱۰۹؎ اگر بن باپ ہونے کی وجہ سے حضر ت مسیح کو بنی اسرائیل میں سے خارج کر دیا جائے تو پھر وہ دائود کی نسل میں بھی نہیں رہ سکتے اور اس پیشگوئی سے اُنہیں جواب مل جاتا ہے۔
(۳) اِس پیشگوئی میں لکھا ہے کہ میں اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا۔ لیکن انجیل میں تو خدا کا کلام ہمیں کہیں نظر ہی نہیں آتا۔ یا تو اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سوانح ہیں یا اُن کے بعض لیکچر اور یا پھر حواریوں کی باتیں۔
(۴) اِس پیشگوئی میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ موعود ایک نبی ہو گا۔ مگر مسیح کے متعلق تو مسیحی قوم یہ کہتی ہے کہ وہ خد اکا بیٹا تھا نبی نہیں تھا۔ پس جب مسیح نبی ہی نہ تھے تو وہ اس پیشگوئی کے پورا کرنے والے کس طرح ہو سکتے ہیں؟
(۵) اِ س پیشگوئی میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ خدا کا نام لے کر اپنا الہام لوگوں کو سنائے گا مگر اناجیل میں تو کوئی ایک فقرہ بھی ہمیں نہیں ملتا جس میںمسیح نے یہ کہا ہو کہ خدا نے مجھے یہ بات لوگوں کو پہنچانے کا حکم دیا ہے۔
(۶) اِس پیشگوئی میں یہ ذکر ہے۔ ’’ جو کچھ میں اُسے فرمائوں گا وہ سب اُن سے کہے گا اور ساری سچائی کی راہیں اُس کے ذریعہ دنیا پر ظاہر ہوں گی‘‘۔
لیکن مسیح خود کہتا ہے کہ وہ سچائیاں دنیا کو نہیں بتاتے۔ وہ کہتے ہیں:۔
’’ میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے، لیکن جب وہ روحِ حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتائے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی، لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی‘‘۔۱۱۰؎
اِن حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ مسیح علیہ السلام پر یہ پیشگوئی تو پوری نہیں ہوئی اور جب حضرت مسیحؑ پر یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تھی تو اِس کے صاف معنی یہ ہیںکہ مسیح علیہ السلام کے بعد آنے والے ایک ایسے نبی کی پیشگوئی عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید میں موجود تھی جو ساری سچائیوں کو ظاہر کرے گا اور دنیا میں خد اتعالیٰ کے نام کو ہمیشہ کے لئے قائم کرے گا۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ قرآن کریم اس پیشگوئی کو پورا کرنے والا ہے ۔چنانچہ:۔
(۱) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخص تھے جو بنو اسمٰعیل میں پیدا ہوئے جو بنو اسحاق کے بھائی تھے۔
(۲) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخص تھے جنہوں نے موسیٰ کے مانند ہونے کا دعویٰ کیا چنانچہ قرآن میں آتا ہے۔ ۱۱۱؎ ہم نے تمہاری طرف تم میں سے ایک رسول بھیجا جس طرح فرعون کی طرف ہم نے رسول بھیجا تھا۔ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی موسٰی ؑکی طرح نبی ہیں۔
(۳) اِس پیشگوئی میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ آنے والا موعود نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا نہ کہ کوئی اور دعویٰ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا مگر اس کے برخلاف کہا جاتا ہے کہ مسیح نے نبی ہونے کادعویٰ نہیں کیا۔چنانچہ انجیل مرقس میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ
’’ لوگ کیا کہتے ہیں کہ میں کون ہوں؟ اُنہوں نے کہا کہ یوحنا بپتسمہ دینے والا اور بعضے الیاس اوربعضے نبیوں میں سے ایک۔ پھر اُس نے اُنہیں کہا تم کیا کہتے ہو کہ میں کون ہوں؟ پطرس نے جواب میں اُس سے کہا کہ تُو تو مسیح ہے تب اُس نے انہیں تاکید کی کہ میری بابت کسی سے یہ مت کہو‘‘۔۱۱۲؎
اِس آیت میں مسیح نے اپنے متعلق یوحنا یا الیاس یا نبیوں میں سے کوئی نبی ہونے سے انکار کیا ہے۔ لیکن موسیٰ کی پیشگوئی بتاتی ہے کہ وہ جو موسیٰ کے نقشِ قدم پر آنے والا ہے نبی ہو گا۔ پس یقینا یہ پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں ہوتی ہے نہ کہ مسیح پر۔
(۴) اِس پیشگوئی میں کہا گیا تھا کہ میں اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا۔ لیکن ساری انجیلوں میں ہمیں خدا کا کلام کہیں نظر نہیں آتا۔ اِس کے برخلاف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو پیش کیا۔ جو شروع سے لے کر آخر تک خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا نام بھی قرآن کریم میں کلام اللہ رکھا گیا ہے۔۱۱۳؎
(۵) اِس پیشگوئی میں کہا گیا تھا کہ جو کچھ میںاُسے فرمائوں گا وہ سب اُن سے کہے گا۔ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ مسیح نے خود اقرار کیا ہے کہ جو کچھ اُسے کہا گیا تھا وہ سب کا سب لوگوں کو نہیں سناتا تھا لیکن اُس نے یہ پیشگوئی ضرور کی تھی کہ میرے بعد ایک ایسا شخص آئے گا جو سب سچائی کی راہیں لوگوں کو بتائے گا۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا سارا کلام لوگوں کو پہنچاتے ہیں اور کوئی بات جس کی دین کے لئے ضرورت ہے انہوں نے چھوڑی نہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے ۱۱۴؎ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تیرے متعلق یہ پیشگوئی ہے کہ جب تو دنیا میں آئے گا تو ساری سچائیاں دنیا کو سنائے گا۔ اس لئے دنیا خواہ بُرا منائے یا اچھا تو کسی کی پرواہ نہ کر اور جو وحی تجھے کی جاتی ہے وہ ساری کی ساری لوگوں کو سُنا دے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے ۱۱۵؎ میں نے آج اِس کلام کے ذریعہ سے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور ہدایت کی نعمت تمہارے لئے کمال تک پہنچا دی ہے اور امن اور سلامتی کو تمہارا مذہب قرار دے دیا ہے۔ پس محمد رسول اللہ ہی تھے جن کو ساری سچائیاں بتائی گئیں اور جنہوں نے دنیا کو ساری سچائیاں بتادیں اور کوئی ایک سچائی بھی نہیں چھپائی۔ کیونکہ مسیح کے زمانہ کے لوگ ابھی تک ساری سچائیوں کو سننے اور قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوئے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت انسان روحانی ارتقاء کی سب منزلوں کو طے کر چکا تھا اور وقت آگیاتھا کہ ساری سچائیاں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو جائیں اور خد ا تعالیٰ کا رسول وہ ساری سچائیاں لوگوں کو سُنا دے۔
(۶) اِس پیشگوئی میں یہ بتایا گیا تھاکہ خد اتعالیٰ کا کلام جو اُس پر نازل ہو گا وہ خدا کا نام لے کر دنیا کو سنائے گا۔ یہ بات بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہی پوری ہوئی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسے نبی ہیں جن کی الہامی کتاب کا ہر باب اِس آیت سے شروع ہوتا ہے’’ میں اللہ کا نام لے کر یہ باتیں تمہیں سناتا ہوں‘‘۔ پس یہ علامت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ روحانی ارتقاء کی وہ آخری کڑی جس کی موسیٰ نے خبر دی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات تھی۔
(۷) کہا گیا تھا کہ ’’ وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اُسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے‘‘۔۱۱۶؎
اِس آیت میں موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ دنیا کو یہ بتایا گیا تھا کہ جس نبی کی اِس آیت میں خبر دی گئی ہے چو نکہ اُس کے لئے انسان کی روحانی ترقی کی آخری کڑی ہونا مقدر ہے اور اگر کوئی جھوٹا شخص اس عہدے کو اپنی طرف سے فریب سے منسوب کر ے تو اِس سے بڑے خطرات پید اہو سکتے ہیں اس لئے خد ا تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ جو شخص بھی جھوٹے طور پر اس پیشگوئی کو اپنی طرف منسوب کرے گا وہ قتل کیا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہو گا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں اِس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ جب آپ نے دعویٰ کیا آپ اکیلے تھے، آپ نہایت ہی کمزور تھے، دشمن بڑے جتھے والا اور بڑا طاقتور تھا مگر باوجود اِس کے کہ دشمنوں نے اپنا سارا زور لگایا وہ آپ کو قتل نہیں کر سکے۔ باوجود اس کے کہ اُس وقت کی زبردست حکومتیں آپ کے مقابلہ پر آئیں سب پاش پاش ہو گئیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کامیاب اور با مراد انسان کی حیثیت میں فوت ہوئے۔ آپ کی ساری قوم آپ کی وفات سے پہلے آپ پر ایمان لے آئی اور آپ کی وفات کے چند سال بعد ہی آپ کے خلفاء کے ذریعہ سے ساری دنیا میں اسلام پھیل گیا۔ اگر موسیٰ خدا کا راستباز نبی تھا اور اگر استثناء کی یہ پیشگوئی واقعہ میں خدا کی طرف سے تھی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کے مدعی تھے کیا اِس طرح کامیاب و کامران ہو سکتے تھے جیساکہ وہ ہوئے؟ اور کیا آپ کے دشمن آپ کو قتل کرنے میں اس طرح ناکام ہو سکتے تھے جیسا کہ ہوئے؟ یہی نہیں کہ اتفاقی طور پر آپ دشمن کے حملوں سے بچ گئے ہوں بلکہ موسیٰ کی اس پیشگوئی کے مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن کریم نے بڑے زور شور سے عربوں کے سامنے یہ اعلان کر دیا تھا کہ۱۱۷؎ یعنی اللہ تعالیٰ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں کے حملوں سے بچائے گا اور آپ کی جان کی حفاظت کرے گا۔ اسی طرح آپ کے مخالفوں کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن کریم نے یہ فرمادیا تھا کہ۱۱۸؎ خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب کو کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے برگزیدہ رسولوں کے۔ پھر جب وہ کسی کو اپنا رسول بنا کر بھیجتا ہے تو وہ اُس کے آگے اور پیچھے اس کی حفاظت کے سامان کرتا رہتا ہے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اُس نے ایک خاص کام کے لئے بھیجا ہے تو وہ اُنہیں بغیر حفاظت کے نہیں چھوڑے گا اور دشمن کو آپ کے مارنے پر قادر نہیں کرے گا۔
اِ ن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام اتفاقی انجام نہیں تھا بلکہ آپ نے شروع سے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ کو خدا تعالیٰ دشمن کے حملوں سے بچائے گا اور دشمن آپ کے قتل کر نے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ اس طرح آپ نے دنیا کو ہوشیار کر دیا تھا کہ میں استثناء باب ۱۸ آیت ۲۰ کی پیشگوئی کے مطابق قتل نہیں کیا جائوں گا کیونکہ میں جھوٹا نہیں بلکہ حقیقی طور پر موسیٰ کی پیشگوئی کا مصداق ہوں۔
خلاصہ یہ کہ موسیٰ علیہ السلام نے بعثت محمدیہ سے قریباً ۱۹ سَو سال پہلے یہ خبر دی تھی کہ موسوی شریعت الٰہی کلام کا آخری نقطہ نہیں ابھی انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مزید ہدایتوں کی ضرورت ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ آخری زمانہ میں ایک اور مأمور بھیجے گا وہ مأمور دنیا کے سامنے سب سچائیوں کو پیش کرے گا اوروہی انسان کی روحانی ترقی کا آخری نقطہ ہوگا اس پیشگوئی کے مطابق دنیا میں ابھی ایک اور کتاب اور ایک اور نبی کی ضرورت تھی۔ پس قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائبل اور موسیٰ اور عیسیٰ کی بعثت کے بعداگر دنیا کی ہدایت کا دعویٰ کیا تو وہ بالکل حق بجانب اور خدا تعالیٰ کے کلام کو پورا کرنے والے تھے۔ قرآن کریم غیرضروری نہ تھا بلکہ اگر قرآن کریم نہ آتا تو خد اتعالیٰ کی بتائی ہوئی بہت سی باتیں ظہور میں نہ آتیں اور دنیا بد اعتقادی اور شک کے مرض میں مبتلا ہوجاتی۔
تیسری پیشگوئی۔ جبلِ فاران سے دس ہزار قدوسیوں کیساتھ ایک عظیم الشان نبی کا ظہور
استثناء باب ۳۳ میں لکھا ہے۔ ’’ اور اُس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر
طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑسے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا او ر اُس کے دہنے ہاتھ میںایک آتشی شریعت اُن کے لئے تھی‘‘۔۱۱۹؎
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اِس کلام میں اپنے تین جلوے بتائے ہیں۔ ان میں سے پہلا جلوہ سینا سے ظاہر ہوا۔ اِس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تورات میں لکھا ہے:۔
’’ اور خداوند کو ہِ سینا پہاڑ کی چوٹی پر نازل ہوا اور خدا وند نے پہاڑ کی چوٹی پر موسٰی ؑکو بلایا اور موسٰی ؑچڑھ گیا‘‘۱۲۰؎
یہ خدائی جلوہ ظاہر ہوا اور جو جو برکتیں اِس میں پوشیدہ تھیں وہ دنیا پر ظاہر کر کے چلاگیا۔ اس کے بعد دوسرے جلوے کا ذکر کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ وہ شعیر سے طلوع ہو گا۔ شعیر وہ مقام ہے جس کے آس پاس حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات ظاہر ہوئے۔ پس شعیر سے طلوع ہونے کے معنی حضرت مسیح علیہ السلام کے ظہور کے ہیں۔ مسیحی علمائے اناجیل نے نہ معلوم کیوں شعیر کو سینا کا مترادف قرار دیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شعیر فلسطین کا حصہ ہے۔ یہ نام مختلف شکلوں میں بگڑ کر آیا ہے اور یہ نام ایک قوم کا بھی ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے تھی اور بنو آشر کہلاتی تھی اور یہ شمال مغربی فلسطین کے علاقے کا بھی نام ہے۔ پس شعیر سے مراد وہی جلوہ ہے جو خصوصیت کے ساتھ فلسطین میں ظاہر ہونے والا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام تو کنعان پہنچے ہی نہیں اُسی جگہ پر فوت ہو گئے جہاں کنعان کی سرحدیںنظر آتی تھیں اور موسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی ایسا جلوہ ظاہر نہیں ہوا جو اِس قسم کی عظمت والا ہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جلوہ تھا۔ پس شعیر سے طلوع ہونے سے مراد حضرت مسیح کا ظہور ہے جو عین کنعان میں ظاہر ہوئے اور جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے پھر ایک دفعہ دنیا کو اپنی شکل دکھلائی۔
تیسرا جلوہ فاران سے ظاہر ہونا تھا۔ فاران سے مراد وہ پہاڑ ہیں جو مدینہ اور مکہ کے درمیان ہیں۔ چنانچہ عربی جغرافیہ نویس ہمیشہ سے ہی مدینہ اور مکہ کے درمیانی علاقہ کا نام فاران رکھتے چلے آئے ہیں۔ مدینہ اور مکہ کے درمیان ایک پڑائو ہے جس کا نام وادیٔ فاطمہ ہے جب قافلے وہاں سے گزرتے ہیں تو وہاں کے بچے قافلہ والوں کے پاس پھول بیچتے ہیں اور جب اُن سے قافلہ والے پوچھیں کہ یہ پھول تم کہاںسے لائے ہو؟ تو وہ کہتے ہیں مِنْ بَرِیَّۃِ فَارَانَ۔ فاران کے جنگل سے لائے ہیں۔ پس فاران یقینی طور پر عرب اور حجاز کا ہی علاقہ ہے تو رات سے ثابت ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اِسی فاران کے میدان میں رہے تھے۔لکھا ہے:۔
’’ اور خداوند اس لڑکے ( یعنی اسمٰعیل) کے ساتھ تھا اور وہ بڑھا اور بیابان میں رہا کیا او ر تیراندازہوگیا اور وہ فاران کے بیابان میں رہا اور اس کی ماں نے ملک مصر سے ایک عورت اُس سے بیاہنے کو لی‘‘۔ ۱۲۱؎
بائبل فاران کے مقام کوعربوں کے بیان کی نسبت کسی قدر مختلف جگہ پر قرار دیتی ہے اور کنعان کے کناروں پر ہی بتاتی ہے۔ لیکن جنگل اور پہاڑ شہروں کی طرح کسی چھوٹے سے علاقہ میں محدود نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ سینکڑوں اور ہزاروں میل تک پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ پس اگر بائبل کا بیان صحیح تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس کے یہی معنی ہوں گے کہ فاران کے پہاڑ اور اس کا بیابان کنعان کے پاس سے شروع ہوتا ہے۔ اس سے یہ تو ثابت نہ ہو گا کہ وہ ختم بھی وہیں ہو جاتا ہے۔ بائبل تسلیم کرتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک بیٹا اسمٰعیل نامی تھا اور بائبل بتاتی ہے کہ وہ فاران میں رہا۔ اب فاران کے جغرافیہ کے متعلق تو اسمٰعیل کی اولاد کی گواہی ہی تسلیم کی جائے گی کیونکہ وہی فاران کی رہنے والی ہے۔ بنو اسرائیل تو تاریخ اور جغرافیہ میں اتنے کمزور تھے کہ وہ اس رستہ کو بھی صحیح طور پر بیان نہیں کر سکے جس رستہ پر چل کر وہ مصر سے کنعان آئے تھے دوسرے ملکوں کے متعلق اُن کی گواہی کی قیمت ہی کیا ہے۔ دنیا میںایک ہی قوم ہے جو اپنے آپ کو اسمٰعیل کی اولاد کہتی ہے اور وہ قریش ہیںاور وہ عرب میں بستے ہیں اورمکہ مکرمہ اُن کا مرکز ہے۔ اگر عربوں کا یہ دعویٰ غلط ہے تو سوال یہ ہے کہ اِس غلط دعویٰ کے بنانے کی انہیں غرض کیا تھی۔ بنو اسحاق تو اُن کو کوئی عزت دیتے ہی نہیں تھے۔ پھر ایک جنگل میں رہنے والی قوم کو اِس بات کی کیا ضرروت پیش آئی تھی کہ وہ اپنے آپ کو اسمٰعیل کی اولاد قرار دے اور اگر اُس نے جھوٹ بنایا ہی تھا تو اسمٰعیل کی اصل اولاد کہاں گئی؟ بائبل کہتی ہے کہ اسمٰعیل کے ۱۲ بیٹے تھے۔ بائبل کہتی ہے کہ اُن ۱۲ بیٹوں کی نسل آگے بہت پھیلے گی۔ لکھا ہے:۔
’’ اور اس لونڈی کے بیٹے (اسماعیل) سے بھی میں ایک قوم پیدا کروں گا اِس لئے کہ وہ بھی تیری نسل ہے‘‘۔۱۲۲؎
پھر لکھا ہے:۔
’’اُٹھ اور لڑکے (اسماعیل) کو اُٹھا اور اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اُس کو ایک بڑی قوم بناؤں گا۔‘‘ ۱۲۲؎
پھر لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا:۔
’’ اور اسمٰعیل کے حق میں میں نے تیری سنی، دیکھ میں اُسے برکت دوں گا اور اُسے برومند کروںگا اور اُسے بہت بڑھائوں گا اور اس سے ۱۲ سردار پید اہوں گے اور میں اُسے بڑی قوم بنائوں گا‘‘۔ ۱۲۴؎
اِن پیشگویئوں میں بتایا گیا ہے کہ اسمٰعیل کی نسل بہت پھیلے گی اور بڑی بابرکت ہو گی۔ اگر عرب کے لوگوں کا دعویٰ جھوٹا ہے تو پھر بائبل بھی جھوٹی ہے کیونکہ دنیا میں اور کوئی قوم اپنے آپ کو بنو اسمٰعیل نہیں کہتی جس کو پیش کر کے بائبل کی اِن پیشگوئیوں کو سچا ثابت کیا جا سکے اور اگر قریش بنو اسمٰعیل ہیں تو پھر ابراہیم بھی سچا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قریش کو برکت دی اور ابراہیم ؑ کی وہ پیشگوئیاں اُن کے ذریعہ پوری ہوئیں جو بنو اسمٰعیل کے متعلق تھیں۔
تاریخ کا سب سے بڑا ثبوت قومی روایات ہی ہوتی ہیں اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ ایک قوم سینکڑوں سال سے اپنے آپ کو بنو اسمٰعیل کہتی چلی آئی ہے اور اُس کے بیان کو مزید تقویت اِس بات سے یہ حاصل ہوتی ہے کہ دنیا کی اور کوئی قوم اپنے آپ کو بنو اسمٰعیل نہیں کہتی۔ پھر جہاں بائبل مانتی ہے کہ بنو اسمٰعیل فاران میں رہے وہاں عرب کے لوگ بھی مکہ سے لے کر شمالی عرب کی سرحد تک کے علاقہ کو فاران کہتے چلے آرہے ہیں۔ پس یقینا یہی علاقہ فاران تھا جیسا کہ یقینا قریش ہی بنو اسمٰعیل تھے اور فاران سے ظاہر ہونے والا جلوہ عربوں سے ہی ظاہر ہونے والا تھا۔
بنو اسمٰعیل کے عرب میں رہنے کا یہ بھی ثبوت ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ۱۲ بیٹوں کے نام جو بائبل میں آتے ہیں یہ ہیں۔ نبیت۔ قیدار۔ اوبئیل۔ مبسام۔ مشماع۔ دُومہ۔ مسا۔ حدد۔ تیما۔ یطور۔ نفیس۔ قدمہ۔۱۲۵؎
قدیم رواج کے مطابق اِن کی اولادوں کے نام بھی اپنے باپوں پر ہوں گے جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد اپنے باپوں کے نام سے کہلاتی ہے اِسی طرح ملکوں کے نام بھی پُرانے دستور کے مطابق بِالعموم قوموں کے نام پر رکھے جاتے ہیں۔ اِس رواج کو مدنظر رکھتے ہوئے جب ہم دیکھتے ہیںتو سارے عرب میں اِن بیٹوں کی اولاد پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔
پہلا بیٹا نبیت تھا جس کی اولاد جغرافیہ نویسوں کے بیان کے مطابق ۳۰۔ ۳۸ ڈگری عرضِ شمالی اور ۳۶۔ ۳۸ ڈگری طول مشرقی کے درمیان رہی تھی۔ چنانچہ ریورنڈ کاتری بی کاری ایم اے نے اِس کو تسلیم کیا ہے کہ اُن کے نزدیک فلسطین سے لے کر بندر ینبوع تک جو مدینہ منورہ کا بندر ہے یہ قوم پھیلی ہوئی تھی۔
دوسرا بیٹا قیدار تھا۔ اِس کی قوم بھی عربوں میں پائی جاتی ہے۔ قیدار کے معنی ہیں ’’اونٹوں والا‘‘ یہ قبیلہ حجاز اور مدینہ کے درمیان آباد ہے۔ بطلیموس اور پلینی دونوں نے اپنے جغرافیوں میں حجاز کی قوموں کا ذکر کرتے ہوئے کیڈری اور گڈرونائینی قوموں کا ذکر کیا ہے جو صاف طور پر قیدار ہی کا بگڑا ہو اہے تلفظ ہے اور اب تک بعض عرب اپنے آپ کو قیدار کی نسل سے بتاتے ہیں۔
تیسرا بیٹا اوبئیل تھا جو زیفس کے بیان کے مطابق اوبئیل نامی قوم بھی اسی عرب علاقہ میں بستی تھی۔
چوتھا بیٹا مبسام تھا اس کا ثبوت عام جغرافیوں میں کہیں نہیں ملتا لیکن ممکن ہے کہ یہ نام بگڑ گیا ہو اور کسی اَور شکل میں پایا جاتا ہو۔
پانچواں بیٹا مشماع تھا۔ عرب میںاب تک بنو مسماع پائے جاتے ہیں۔
چھٹا بیٹا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا دومہ تھا اور دومہ کا مقام اب تک عرب میں پایاجاتا ہے جس کا ذکر عرب جغرافیہ نویس ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں کہ دومہ اسمٰعیل کا بیٹا تھا جس کے نام پر یہ نام پڑا۔ چنانچہ عرب میں یہ ایک مشہور مقام ہے۔
ساتواں بیٹا مسا تھا۔ اس کے نام پر بھی ایک قوم یمن میں پائی جاتی ہے اور اس کی جائے رہائش کے کھنڈرات وہاں موجود ہیں۔ ریورنڈ کاتری بی کاری نے اپنی کتاب میں اُن کاذکر کیا ہے۔
آٹھواں بیٹا حدد تھا اس کے نام پر یمن کا مشہور شہر حدیدہ بنا ہوا ہے۔
نواں بیٹا تیما تھا۔ نجد سے حجاز تک کا علاقہ تیما کہلاتا ہے اور یہاں یہ قوم بستی ہے بلکہ خلیج فارس تک پھیل گئی ہے۔
دسواں بیٹا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا یطور تھا۔ اِن کا مقام بھی عرب میں معلوم ہوتا ہے اور جدور کے نام سے مشہور ہے جو یطور کا بگڑا ہوا ہے ۔یا عام طور پر ج سے بدل جاتی ہے اور ط اور ت ،د سے بدل جاتے ہیں یس جدور اصل میں یطور ہی ہے۔
گیارہواں بیٹا نفیس تھا اور مسٹر فاسٹر کا بیان ہے جو زیفس اور تورات کی سند کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم بھی بیابانِ عرب میں رہتی تھی۔
بارہواں بیٹا قدمہ تھا۔ اِن کی جائے رہائش بھی یمن میں ثابت ہے۔ مشہور جغرافیہ نویس مسعودی لکھتا ہے کہ مشہور قبیلہ اصحابُ الرس جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی آتا ہے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا اور وہ دو قبیلے تھے ایک کا نام قدمان تھا اور ا یک کا نام یامین تھا۔ بعض جغرافیہ نویس کہتے ہیں کہ دوسرے قبیلے کا نام یامین نہیں بلکہ رعویل تھا۔
ان جغرافیائی اور تاریخی شواہد سے صاف ثابت ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی تمام اولاد عرب میںبستی تھی۔ یہ تمام اولاد چونکہ خانہ کعبہ اور مکہ کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کرتی چلی آئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام مکہ میں ہی آکر بسے تھے اور اس وجہ سے یہی علاقہ عربوں اور تورات کے بیان کے مطابق فاران کا علاقہ ہے۔
یسعیاہ نبی کی پیشگوئی عرب کے متعلق
یسعیاہ نبی کے الہامی کلام کی شہادت بھی اِس بات کی تائید میں ہے کہ بنو اسمٰعیل
عرب میں رہے۔ چنانچہ یسعیاہ باب ۲۱ میں لکھا ہے:
’’ عرب کی بابت الہامی کلام۔ عرب کے صحرا میں تم رات کاٹو گے۔ا ے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کر پیاسے کا استقبال کرنے آئو۔ا ے تیما کی سرزمین کے باشندو! روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو۔ کیونکہ وے تلواروں کے سامنے سے ننگی تلوار سے اور کھینچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا۔ ہنوز ایک برس مزدور کے سے ایک ٹھیک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیر اندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا‘‘۔۱۲۶؎
اِس پیشگوئی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے ایک سال بعد جو جنگ بدر ہوئی تھی اُس کا ذکر کیا گیا ہے۔ اِس سے بنو قیدار یعنی مکہ اور مکہ کے اِردگرد رہنے والے لوگ بہت بُری طرح مسلمانوں سے ہارے اور اُن کی تلواروں اور کمانوں کی تاب نہ لاکر نہایت ذلت سے پسپا ہوئے۔ اِس پیشگوئی کے اوپر صاف لکھا ہے ’’ عرب کی بابت الہامی کلام‘‘ اور اِس میں تیما اور قیدار کو عرب کا علاقہ قرار دیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے الہام کے مطابق ۷۱۴ برس قبل مسیح جو یسعیاہ کا زمانہ تھا اُس وقت حجاز میں اسمٰعیل کی اولاد بس رہی تھی۔
غرض جس نقطۂ نگاہ سے بھی دیکھیں یہ ثابت ہے کہ قریش بنو اسمٰعیل تھے اور فاران بائبل کے مطابق وہی علاقہ ہے جس میں بنو اسمٰعیل رہے۔
حبقوق نبی کی پیشگوئی
پس فاران سے ظاہر ہونے والا جلوہ یقینا جلوۂ محمدی ہی تھا جس کی خبر موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ دی گئی اور اس کی خبر حبقوق نبی
نے مسیح سے ۶۲۶ برس پہلے دی اور کہا:
’’ خدا تیما سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا۔ سلاہ۔ اُس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اُس کی حمد سے معمور ہوئی اور اُس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی۔ اُس کے ہاتھ سے کرنیں نکلیں پر وہاں بھی اُس کی قدرت درپردہ تھی۔ مری اُس کے آگے آگے چلی اور اُس کے قدموں پرآتشی وبا روانہ ہوئی۔ وہ کھڑا ہوا اور اُس نے زمین کو لرزہ دیا۔ اُس نے نگاہ کی اورقوموں کو پراگندہ کر دیا اور قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اُس کے آگے دھنس گئیں۔ اُس کی قدیم راہیں یہی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بپت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے‘‘۔۱۲۷؎
اِس پیشگوئی میں بھی تیما او ر کوہِ فاران سے ایک قدوس کے ظاہر ہونے کا ذکر آتا ہے۔ پس موسیٰ کی پیشگوئی اور حبقوق کی پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ حضر ت مسیحؑ تک انسان اپنے ارتقاء کے آخری نقطہ کو پہنچنے والا نہ تھا بلکہ حضر ت مسیح کے بعد ایک اور جلوۂ الٰہی ظاہر ہونے والا تھا جس کو صرف جمالی جلوہ نہیں ہونا تھا بلکہ اُس کے ساتھ ایک آتشی شریعت کا ہونا بھی لازمی تھا اور جیساکہ ہم اُوپر ثابت کر چکے ہیں کہ تیما کی سرزمین اور کوہِ فاران سے ظاہر ہونے والے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور اُن کی آتشی شریعت قرآن کریم تھی جس نے گناہوں او ر شیطانی کاروبار کو جلا کر رکھ دیا۔ موسیٰ نے کہا جب وہ کوہِ فاران سے ظاہر ہو گا تو اُس کے ساتھ دس ہزار قدوسی آئیں گے۔ وہ کون تھا جو کوہِ فاران سے ظاہر ہوا اور اُس کے ساتھ دس ہزار قدوسی تھے؟ وہ صرف محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جو فاران کی پہاڑیوں پر سے ہوتے ہوئے جب مکہ پر حملہ آور ہوئے تو آپ کے ساتھ دس ہزار آدمی تھا جس پر ساری تاریخیں متفق ہیں۔ کیا مسیح پر یہ پیشگوئی چسپاں ہو سکتی ہے؟ کیا دائود پر یہ پیشگوئیاں چسپاں ہو سکتی ہیں؟ وہ کب فاران سے ظاہر ہوئے اور کب اُن کے ساتھ دس ہزار قدوسی تھے؟ مسیح کے ساتھ توکل ۱۲ حواری تھے جن میں سے ایک نے مسیح کو چند روپے لے کر بیچ دیا اور دوسرے نے اُس پر *** کی۔ باقی رہ گئے دس۔ سو بائبل کہتی ہے کہ وہ دس بھی بھاگ گئے اگر وہ قائم بھی رہتے اور نہ بھاگتے تب بھی دس اور دس ہزار میں بڑا بھاری فرق ہے اور تورات تو کہتی ہے کہ وہ اُس کے ساتھ ہوںگے اور مسیح کے دس آدمیوں کی نسبت انجیل کہتی ہے کہ وہ اُس کا ساتھ چھوڑ گئے۔
اِسی طرح حبقوق میں لکھا ہے’’ زمین اُس کی حمد سے معمور ہوئی‘‘۔ وہ کون ہے جس کا نام محمد تھا اور جس کے دشمن اُسے گالیاں دیتے تو اُس کا نام لے کر اُنہیں گالیاں دینے کی جرأت نہیں ہوتی تھی کیونکہ محمد یعنی تعریف والا کہہ کر وہ اُسے کیا گالی دے سکتے تھے اِس لئے وہ اس کو مذمم کہہ کر گالی دیتے تھے اور جب کبھی آپ کے صحابہ کو گالیاں سن کر جوش آتا تو آپ فرماتے تمہارے لئے جوش کی کوئی وجہ نہیں۔ وہ مجھے تو گالیاں نہیں دیتے وہ تو کسی مذمم کو گالیاں دیتے ہیں۔ پس وہ جس کے نام میں ہی حمد آتی ہے اور جس کی اُمت کی شاعری کا ایک جز و ہی نعت ِمحمد (یعنی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ) ہو گیا ہے کیا اُس کے سوا کوئی اور شخص بھی اس پیشگوئی کا مستحق ہو سکتا ہے؟
پھر لکھا ہے۔’’ مری اُس کے آگے چلی اور اُس کے قدموں پر آتشی وباروانہ ہوئی‘‘۔ یہ پیشگوئی بھی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی صادق آتی ہے کیونکہ آپ کے ذریعہ خد اتعالیٰ نے آپ کے دشمن کو تباہ کیا۔ گو اِس جگہ مری کے الفاظ ہیں جو بیماری پر دلالت کرتے ہیں مگر مراد تباہی اور ہلاکت ہی ہے کیونکہ جس ذریعہ سے بھی موت عام ہو جائے وہ مری اور وبا کہلائے گا۔پھر لکھا ہے۔ ’’ وہ کھڑا ہوا اور اُس نے زمین کو لرزہ دیا۔ اُس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا‘‘۔
یہ پیشگوئی بھی نہ تو موسٰی ؑعلیہ السلام پر صادق آسکتی ہے نہ مسیح علیہ السلام پر۔ موسیٰ علیہ السلام تو اپنے دشمن سے لڑتے ہوئے فوت ہو گئے اور مسیح علیہ السلام کو تو بقول عیسائیوں کے اُن کے دشمنوں نے پھانسی دے دیا۔ جس نے ز مین کو لرزہ دیا اور جس کی نگاہ نے قوموں کو پراگندہ کر دیا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ خود آپ نے دعویٰ فرمایا ہے نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ۱۲۸؎ خدا تعالیٰ نے مجھے رعب عطا فرما کر میری مدد کی ہے میںجہاں جائوں ایک مہینہ کے فاصلہ تک دشمن مجھ سے ڈر جاتا ہے۔
پھر لکھا ہے ’’ قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اُس کے آگے دھنس گئیں‘‘۔
یہ پیشگوئی بھی رسول کریم ﷺکے ذریعہ ہی ثابت ہوئی، کیونکہ آپ کے دشمن آپ کے مقابلہ میں ہلاک و تباہ ہو گئے اور پہاڑ اور پہاڑیوں سے مراد طاقتور دشمن ہی ہوا کرتے ہیں۔
پھر لکھا ہے ’’ میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بپت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے‘‘۔
اِس پیشگوئی سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آنے والا موعود شام سے کسی باہر کے علاقے کا ہو گا اور جب اُس کی فوجیں کیش یا کوشان اور مدائن کے علاقوں کی طرف بڑھیں گی تو اُن علاقوں کی فوجیں اس کی فوجوں کے آگے لرز جائیں گی۔ اس پیشگوئی کے موعود بھی موسیٰ علیہ السلام نہیں ہو سکتے نہ مسیح علیہ السلام ہو سکتے ہیں یہ پیشگوئی بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی صادق آتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپ کی مٹھی بھر فوج آپ کے خلیفہ اوّل حضر ت ابوبکر ؓ کے زمانہ میں فلسطین کی طرف بڑھی تو باوجود اس کے کہ کنعان اُس وقت قیصر روما کے ماتحت تھا اور وہ آدھی دنیا کا بادشاہ تھا مسلمانوں کی مٹھی بھر فوج کے آگے قیصر کی فوجیں اس طرح بھاگیں کہ کیش کے خیموں پر آفت آگئی اور زمین مدیان کے پردے کانپ گئے اور ان علاقوں نے اپنی نجات اس بات میں پائی کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں کے قدموں میں اپنے ہتھیار ڈال دیں۔
چوتھی پیشگوئی۔ ایک محبوب نبی کا دس ہزار آدمیوں کے ساتھ ظہور
حضرت سلیمانؑ فرماتے ہیں:۔
(الف) ’’ میرا محبوب سرخ و سفید ہے۔ دس ہزار آدمیوں کے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے اُس کا سر ایسا ہے جیسا چھو کا سونا۔ اُس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں اور کوّے کی سی کالی ہیں۔ اُس کی آنکھیں اُن کبوتریوں کی مانند ہیں جولب دریا دودھ میں نہا کے تمکنت سے بیٹھتی ہیں۔ اُس کے رخسارے پھولوں کے چمن اور بلسان کی اُبھری ہوئی کیاری کی مانند ہیں۔ اُس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا مُرٹپکتا ہے۔ اُس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے سونے کی کڑیاں جن میںترسیس کے جواہر جڑے گئے۔ اُس کا پیٹ ہاتھی دانت کا سا کام ہے جس پر نیلم سے گل بنے ہوں۔ اُس کے پیر ایسے جیسے سنگِ مر مر کے ستون جو سونے کے پایوں پر کھڑے کئے جاویں۔ اُس کی قامت لبنان کی سی۔ وہ خوبی میں رشک سرو ہے۔ اُس کا منہ شیرینی ہے ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے۔ اے یروشلم کی بیٹیو! یہ میرا پیارا ہے یہ میرا جانی ہے‘‘۔۱۲۹؎
اِس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ ایک نبی پیدا ہونے والا ہے جو دوسرے نبیوں سے افضل ہوگا۔ کیونکہ لکھا ہے:
’’ تیرے محبوب کو دوسرے محبوب کی نسبت سے کیا فضیلت ہے‘‘۔۱۳۰؎
پھر اس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ محبوب دس ہزار آدمیوں کے درمیان جھنڈے کی مانند کھڑا ہو گا۔ چونکہ جھنڈا فوج کی علامت ہے اِس لئے اِس کے معنی یہ ہیں کہ ایک عظیم الشان موقع پر وہ دس ہزار سپاہیوں کی افسری کرے گا۔
پھر لکھا ہے۔ ’’ اُس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا مُر ٹپکتا ہے‘‘۔
مُر ایک گوند ہے جس کا مزہ تلخ لیکن تأثیر نہایت اعلیٰ اور خوشبو نہایت عمدہ ہوتی ہے۔ کیڑوں کے مارنے کے لئے نہایت اعلیٰ سمجھی جاتی ہے اور زخموں کے اند مال میں نہایت ہی مفید ہے۔ کرم کش اَدْوِیہ میں پڑتی ہے اور زخموں کی مرہموں میں ڈالی جاتی ہے۔ اسی طرح خوشبوئوں کے مصالحوں میں بھی اُس کو استعمال کیا جاتا ہے اور عطروں کے بنانے میں بھی کام میں لائی جاتی ہے۔
پھر لکھا ہے:۔
’’ وہ محمدیم ہے‘‘۔ اِس کا ترجمہ انگریزی بائبل میں ALL TOGATHER LOVELY کیا گیا ہے اور اُردو بائبل میں سراپا عشق انگیز کیاگیا ہے۔ یعنی اُسے دیکھ کر انسان اُس سے محبت کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ پیشگوئی واضح طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں ہوتی ہے۔ آپ ہی موسیٰ کی پیشگوئی کے مطابق دس ہزار قدوسیوں کے سردار ہونے کی حیثیت میں فاران کی چوٹیوں پر سے گزر تے ہوئے مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے۔ آپ ہی وہ شخص تھے جن کا کلام صحیح معنوں میں دنیا کے لئے مُر ثابت ہوا ہے اور اس میں انسانی اصلاح کے لئے تمام قواعد بیان کر دئیے گئے ہیں جو بعض قومو ں کے منہ میں کڑوے معلوم ہوتے ہیں گو ہیں وہ کرم کش اور خوشبو دار۔ اور آپ ہی ہیں جن کا نام محمد تھا۔
عیسائی مصنف اِس پیشگوئی سے گھبرا کر کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس موعود کا نام محمدنہیں بلکہ محمدیم لکھاہے۔ لیکن یہ اعتراض ایک بے معنی اعتراض ہے۔ تورات نے تو خدا کو بھی ’’ الوہیم‘‘ لکھا ہے۔ عبرانی زبان کا قاعدہ ہے کہ وہ اعزاز اور اکرام کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کر دیتی ہے۔ اُردو زبان میں بھی ہم دیکھتے ہیںکہ اعزاز کے موقع پر جمع کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اگر ایک اُردولیکچرار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں کوئی لیکچر دے گا تو آخر میں کہے گا یہ ہیں ہمارے محمد۔ حالانکہ اس کی مراد یہ ہو گی کہ گو ہمارا آقا محمد تو ایک ہی شخص ہے لیکن میں آپ کے اعزاز کے طور پر جمع کا لفظ بولتا ہوں۔
(ب) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک اور پیشگوئی غزل الغزلات باب ۴ میں بیان ہوئی ہے۔ اس میں حضرت سلیمان اپنی محبوبہ کو بہن بھی کہتے ہیں اور ساتھ ہی زوجہ بھی کہتے ہیں چنانچہ غزل الغزلات باب ۴ آیت ۹ میں اپنی محبوبہ کی نسبت کہتے ہیں:۔
’’ اے میری بوا میری زوجہ‘‘
پھر آیت ۱۰ میںلکھا ہے:۔
’’ اے میری بہن میری زوجہ‘‘۔
پھر آیت ۱۲ میں لکھا ہے۔
’’ میری بوا میری زوجہ‘‘۔
اِن دونوں الفاظ کا جوڑ بتاتا ہے کہ آنے والا محبوب بنو اسمٰعیل میں سے ہوگا۔ جیسے حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ وہ تیرے بھائیوں میں سے ہوگا۔ چونکہ حضرت سلیمان اس کو ایک معشوق کی صورت میں پیش کر رہے ہیں اِس لئے انہوں نے بجائے بھائی کے بہن کا لفظ استعمال کیا ہے اور ا س میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس کی تعلیم بنو اسحاق کے نبیوں کی طرح صرف اپنی قوم کے لئے نہیں ہوگی بلکہ دوسری اقوام کے لئے بھی اُس کے گھر کا دروازہ کھلا ہو گا جس کی طرف زوجہ کے لفظ سے اشارہ کیا گیا ہے۔اس پیشگوئی میں مؤنث کے صیغوںسے دھوکا نہیں کھانا چاہئے کیونکہ یہ ایک شاعرانہ رنگ کا کلا م ہے چنانچہ اِسی باب کے آخر میں جا کر کہا ہے۔
’’ میرا محبوب اپنے باغیچے میں آوے اور اُس کے لذیذ میوے کھاوے‘‘۔۱۳۱؎
یہاں بجائے مؤنث کے مذکر کا صیغہ استعمال کر دیا گیا ہے۔ یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سِوا کسی اور پر پوری نہیں ہوتی۔ حضرت مسیح بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے نہیں تھے نہ اُن کی تعلیم غیر قوموں کے لئے تھی جیسا کہ پہلے ثابت کیا جا چکا ہے۔
(ج) اِسی طرح غزل الغزلات میں لکھا ہے:۔
’’ میں سیاہ فام جمیلہ ہو ں۔ اے یروشلم کی بیٹیو! قیدار کے خیموں کی مانند، سلیمان کے پردوں کی مانند مجھے مت تاکو کہ میں سیاہ فام ہوں‘‘۔۱۳۲؎
اِس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان نے ایک ایسے نبی کی خبر دی ہے جو جنوب کا رہنے والا ہو گا اور بنو اسحق کی نسبت جو شمال کے رہنے والے تھے اُس کا رنگ کم اُجلا ہو گا یا یوں کہو کہ اُس کی قوم کا رنگ کم اُجلا ہو گا۔ چنانچہ شامیوں اور فلسطینیوں کے رنگ بوجہ شمال میں رہنے کے عربوں کی نسبت زیادہ سفید ہوتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں پیدا ہوئے تھے۔
(د) اِسی باب میں پھر آنے والے موعود کی یہ علامت بتائی گئی ہے کہ :۔
’’ میری ماں کے بیٹے ناخوش تھے۔ انہوں نے مجھ سے تاکستانوں کی نگہبانی کرائی، پر میں نے اپنے تاکستانوں کی جو خاص میرا ہے نگہبانی نہیں کی‘‘۔۱۳۳؎
یہ درحقیقت موعود کی قوم کی طرف اشارہ ہے۔ عرب لوگ کہیں قیصر کی نوکری کرتے تھے اور کہیں ایرانیوں کی نوکریاں کرتے تھے مگر خود اپنے ملک کی ترقی کا اُ ن کو کوئی خیال نہ تھا۔ یہاں تک کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور انہوں نے اُن کے اندر بیداری پیدا کی اور اُن کی روحانی اور علمی اور سیاسی اصلاح کی جس کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ عرب اپنے تاکستانوں کے محافظ ہو گئے بلکہ وہ دنیا بھر کے تاکستانوں کے آزاد محافظ بن گئے۔
(ہ)اسی طرح غزل الغز لات میں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ اسرائیلی سلسلہ کے لوگوں کو چاہئے کہ آنے والے موعود کو خواہ مخواہ اپنی طرف متوجہ نہ کریں ورنہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
’’ اے یروشلم کی بیٹیو! میں غزالوں اور میدان کی ہرنیوں کی قسم تمہیں دیتا ہوں کہ تم میری پیاری کو نہ جگائو اور نہ اُٹھائو جب تک وہ اُٹھنے نہ چاہے‘‘۔۱۳۴؎
یہی مضمون پھر باب ۳ آیت ۵ میں بیان کیا گیا ہے اور یہی مضمون پھر سہ بارہ باب ۸ آیت۴ میں بیان کیا گیا ہے۔ا ِن عبارتوں کا مطلب یہی ہے کہ جب وہ نبی ہو گاتو یہود اور عیسائی بنی اسرائیل کی دو شاخیں اُسے دِق کریں گی اور وہ اُس کو مجبور کریں گی کہ وہ اُن پر حملہ کرے لیکن چونکہ وہ خد تعالیٰ کی طرف سے ہو گا یہود اور عیسائی اُس کے مقابلہ میں کامیاب نہ ہو سکیں گے بلکہ خطرناک شکست کھائیں گے۔ حضرت سلیمانؑ اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہیں کہ دیکھ! اُس کو جگانا نہیں یعنی اُس کو چھیڑ کر اپنی طرف متوجہ نہ کرنا۔ ہاں جب وہ آپ جاگے یعنی جب خداتعالیٰ کی مشیت چاہے کہ وہ تمہارے ملکوں کی طر ف توجہ کرے تو پھر بے شک کرے مگر خود اُس کو نہ چھیڑنا اس لئے کہ جو قوم خود کسی نبی کو چھیڑتی ہے وہ اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنا لیتی ہے جیسا کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھیڑ کر اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنالیا۔ لیکن اگر کوئی قوم نہ چھیڑے تو نبی اُس کی طرف جارحانہ طور پر توجہ نہیں کرتا۔ صرف وعظ و نصیحت سے اُس کو مخاطب کرتا ہے۔ نبی تلوار اُس کے خلاف اُٹھاتے ہیں جو پہلے اُن کے خلاف تلوار اُٹھاتے ہیں اور اُنہی کے خلاف جنگ کرتے ہیں جو خد اکے سچے دین کو مٹانے کے لئے جبرا ور تعدی سے کام لیتے ہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس پر شاہد ہے اور حضرت سلیمان نے اپنی قوم کو اِسی خطرہ سے آگاہ کیا ہے۔
یہ پیشگوئیاں کسی صورت میں بھی حضرت مسیح پر چسپاں نہیں ہو سکتیں۔ نہ تو مسیح فلسطین کے جنوب میںپیدا ہوئے نہ وہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے تھے نہ اُن کو کوئی ایسی طاقت حاصل تھی کہ اُن کو چھیڑنے کی وجہ سے بنو اسرائیل تباہ ہوتے۔ یہ ساری کی ساری پیشگوئیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں ہو سکتی ہیں اور اُنہی کی خبر غزل الغزلات میں دی گئی ہے۔ غزل الغزلات درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے اظہار میں لکھی گئی ہے۔
پانچویں پیشگوئی۔ یسعیاہ نبی نے بھی ایک عظیم الشان نبی کے ظہور کی خبر دی
یسعیاہ کی کتاب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں سے بھری پڑی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ
ایک عظیم الشان نبی اَورآنے والا ہے جو دنیا کیلئے سلامتی اور امن لائے گا لیکن جیسا کہ سنتِ الٰہی ہے پیشگوئیوں میں ایک رنگ اخفاء کا بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ یسعیاہ کی پیشگوئیوں میں بھی یروشلم اور صیہوں وغیرہ کے نام آئے ہیں جس کی وجہ سے مسیحی مصنفوں نے دھوکا کھایا ہے کہ یہ پیشگوئیاں مسیح کے متعلق ہیں۔ حالانکہ یروشلم یا بنو اسرائیل یا صیہوں کے الفاظ اپنی ذات میں تو پیشگوئی کا کوئی حصہ نہیں۔ ا گر پیشگوئی کی تفصیلات مسیح پر چسپاں نہیں ہوتیں تو صرف یروشلم اورصیہو ں کے الفاظ سے کیا دھوکا لگ سکتا ہے۔اس صورت میں ہمیں یہی ماننا پڑے گا کہ یروشلم اور صیہوں اور بنی اسرائیل سے مراد صرف یہ ہے کہ میرے مقدس مقامات اور میری پیاری قوم نہ کہ حقیقی طور پر یروشلم اور صیہوں اور بنی اسرائیل۔
(الف) اس سلسلہ میں سب سے پہلی پیشگوئی میں یسعیاہ باب ۴ سے نقل کرتا ہوں۔ لکھا ہے:۔
’’ اُس دن سات عورتیں ایک مرد کو پکڑکر کہیں گی کہ ہم اپنی روٹی کھائیں گی اور اپنے کپڑے پہنیں گی تُو ہم سب سے صرف اتنا کرکہ ہم تیرے نام کی کہلاویں تاکہ ہماری شرمندگی مٹے۔ اُس دن خداوند کی شان شوکت اور حشمت ہوگی اور زمین کاپھل اُن کے لئے جو بنی اسرائیل میں سے بچ نکلے لذیذ اور خوشنما ہو گا اور ایسا ہوگا کہ ہر ایک جو صیہوں میں چھوٹا ہوا ہو گااور یروشلم میں باقی رہے گا۔ بلکہ ہر ایک جس کا نام یروشلم کے زندوں میں لکھا ہو گا مقدس کہلائے گا‘‘۔۱۳۵؎
اِس پیشگوئی میں اگر صیہوں اور یروشلم کو استعارہ قرار دیا جائے تو جو مفہوم اِس پیشگوئی کا نکلتا ہے وہ سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی پر صادق نہیں آتا۔اِن آیتوں میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنے والے موعود کے ساتھ شوکت اور حشمت ہو گی اور اُس کو دنیا کی غنیمتیں ملیں گی اور اُس کی قوم کے لوگ مقدس کہلائیں گے اور اُس کے زمانہ میں کثرتِ ازدواج کی ضرورت ہوگی۔ کیا یہ باتیں مسیح اور اُس کے حواریوں پر چسپاں ہوتی ہیں؟ کیا مسیح کا زمانہ شوکت اور حشمت والا تھایا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ شوکت اور حشمت والا تھا؟ کیا دنیا کی غنیمتیں مسیح اور اُس کے حواریوں کو ملیں یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے صحابہ کو؟ کیا مسیح کے زمانہ میں کثرتِ ازدواج کی ضرورت پیش آئی یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں؟ مسیح نے تو کثرتِ ازدواج کو ناپسند کیا ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرتِ ازدواج کو مناسب حالات میں جائز بلکہ پسندیدہ کہا ہے۔ آپ ہی کے زمانہ میں لڑائیاں ہوئیں اور لڑائیوں میں جوان آدمی مارے گئے اور عورتیں یا بیوہ ہو گئیں یا جوان عورتوں کے لئے رشتے میسر نہ آئے۔ پس آپ نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ ایسی صورت میں مردوں کا فرض ہے کہ ایک سے زیادہ عورتوںسے شادیاں کریں تاکہ قوم میں بدکاری اور آوارہ گردی پیدا نہ ہو۔
(ب) یسعیاہ نبی اپنی کتاب کے باب ۵ میں پیشگوئی فرماتے ہیں:۔
’’ وہ قوموں کے لئے دُور سے ایک جھنڈا کھڑا کرتا ہے اور اُنہیں زمین کی اشیاء سے سیٹی بجا کے بلاتا ہے اور دیکھ وے دَوڑ کے جلد آتے ہیں۔ کوئی اُن میں نہ تھک جاتا اور نہ پھسل پڑتا ہے۔ وے نہیں اُونگھتے اور نہیںسوتے۔ اُن کا کمر بند کھلتا نہیں ہے اور نہ اُن کی جوتیوں کا تسمہ ٹوٹتا ہے۔اُن کے تیر تیز ہیں اور اُن کی ساری کمانیں کشیدہ ہیں۔ اُن کے گھوڑوں کے سم چقماق کے پتھر کی مانند ٹھہرتے اور اُن کے پہیے گرد باد کی مانند وے شیرنی کی مانند گرجتے ہیں۔ ہاں وے جوان شیروں کی مانند گرجتے ہیں وے غراتے اور شکار پکڑتے اور اُسے بے روک ٹوک لے جاتے ہیں اور کوئی بچانے والا نہیں اور اُس دن اُن پر ایسا شور مچائیں گے جیسا سمندر کا شور ہوتا ہے اور یہ زمین کی طرف تاکیں گے اور کیا دیکھتے ہیں کہ اندھیرا اور تنگ حالی ہے اور روشنی اُس کی بدیو ں سے تاریک ہو جاتی ہے‘‘۔۱۳۶؎
اِس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک زمانہ میں تمام قوموں کے لئے فلسطین سے دُور کسی جگہ پر ایک جھنڈا کھڑا کرے گا اور اس جھنڈے والا دنیا کی مختلف قوموں کو بلائے گا اور وہ جلدی سے دَوڑ کر اُس کے پا س جمع ہو جائیںگی۔ وہ لوگ بڑی بڑی قربانیاں کرنے والے ہوںگے اور غفلت اور سستی سے محفوظ ہوںگے۔اُنہیں لڑائیاں کرنی پڑیں گی۔ اُن کے گھوڑوں کے سموں سے آگ نکلے گی اور جب وہ حملہ کرنے کے لئے چلیں گے تو ہوا میں گرداُڑے گی۔ وہ اپنے شکار پر غالب آجائیں گے اور اُن کے شکار کو کوئی بچانے والا نہیں ہو گا۔ وہ ایسا کیوں کریں گے؟ اس لئے کہ وہ دیکھیں گے کہ ز مین میں تاریکی اور ظلمت پھیلی ہوئی ہے اور لوگ ایک عظیم الشان انقلاب کے محتاج ہیں۔
یہ پیشگوئی کُلّی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ صرف چسپاں ہوتی ہے بلکہ قرآن کریم میں اِس پیشگوئی کے مطابق فلسطین سے دُور یعنی مکہ میں آپ ظاہر ہوئے اور آپ کا جھنڈا مدینہ میں کھڑا کیا گیا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے قرآنی الفاظ میں یہ اعلان کیا۱۳۷؎ اے انسانو! میں تما م لوگوں کی طرف خدا کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ آپ ہی کی آواز پر چاروں طرف سے لوگ دَوڑنے لگ گئے اور جلد جلد آپ کے گرد جمع ہو گئے۔ مسیح کی زندگی میں تو ایک شخص بھی غیرقوموں میں سے اُس پر ایمان نہیں لایا تھا۔ اُس کے سارے کے سارے حواری چالیس پچاس میل کے حلقہ کے اندر رہنے والے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر یمن کے رہنے والے اور نجد کے رہنے والے یہودیوں میں سے بھی اور ایرانیوں میں سے بھی اور عیسائیوں میں سے بھی ایمان لائے اور آپ کے گرد جمع ہو گئے اور اِس پیشگوئی کے مطابق اُنہوں نے ایسی قربانیاں اور اَن تھک کو ششیں کیں کہ دشمن سے دشمن بھی اُن کی قربانیوں کی تعریف کئے بغیر نہیں رہتا اور خدا تعالیٰ نے بھی اپنے کلام میں اُن کی نسبت فرمایا ہے ۱۳۸؎ اُنہوںنے ایسی قربانیاں کیں کہ خد اُن سے راضی ہو گیا اور وہ خدا سے راضی ہو گئے۔ اور پھر قرآن کریم میں اُن کا یوں ذکر بھی آتا ہے کہ ۱۳۹؎ کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنے عہد پورے کر دئیے ہیں اورکچھ وہ ہیں جو اپنے عہد کے پورا کرنے کے انتظار میں ہیں۔ پھر اُن کو جنگیں بھی پیش آئیں اور تیروں اور کمانوں سے اُنہوں نے کام لیا۔اُن کے گھوڑے چقماق کی طرح ہو گئے اور اُن کے پہییٔ گرد باد۱۴۰؎ کی مانند جس کی طرف خود قرآن کریم میں اشارہ کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱۴۱؎ یعنی ہم قسم کھاتے ہیں اُن اسپ سواروں کی جو تیزی سے دشمن پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھتے ہیں ایسی تیزی سے کہ اُن کے گھوڑوں کے ٹاپوں سے آگ نکلنے لگتی ہے اور اُن کے حملہ سے گردو غبار کا ایک طوفان اُٹھ پڑتا ہے اور وہ ایسی شان اور طاقت کے ساتھ اپنے دشمن کی صفوں میں گھس کر اُسے مغلوب کر لیتے ہیں۔ کس طرح لفظ بلفظ اس پیشگوئی کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے۔
پھر یہ جو اِس پیشگوئی میں کہا ہے کہ ’’ وہ زمین کی طرف تاکیں گے اور کیا دیکھتے ہیںکہ اندھیرا اور تنگ حالی ہے اور روشنی اس کی بدلیوں سے تاریک ہو جاتی ہے‘‘۔
اِسی کی طرف قرآن کریم میں اِن الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ۱۴۲؎ تمام دنیا میں خشکی اور تری میں فساد اور خرابی پیدا ہو گئی ہے اور خدا تعالیٰ کے ایک مامور کے ظاہر ہونے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے۔
۱۴۳؎ یہ خدا کا رسول اس لئے آیا ہے کہ دنیا سب کی سب تاریکی میں پڑی ہے اور وہ اس کو تاریکی سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔
(ج) یسعیاہ باب ۸ میں لکھا ہے:۔
’’ ربُّ الافواج جو کہے تم اُس کی تقدیس کرو اور اُس سے ڈرتے رہو اور اس کی ہی دہشت رکھو۔ وہ تمہارے لئے ایک مقدس ہو گا۔ پر اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے ٹکر کا پتھر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان اور یروشلم کے باشندو ں کے لئے پھندا اور دام ہووے گا۔ بہت لوگ اُن سے ٹھوکر کھائیں گے اور گریں گے اورٹوٹ جائیں گے اور دام میں پھنسیں گے اور پکڑے جائیں گے۔ شہادت نامہ بند کر لو اور میرے شاگردوں کے لئے شریعت پر مہر کرو۔ میں بھی خداوند کی راہ دیکھوں گا جو اَب یعقوب کے گھرانے سے اپنا منہ چھپاتا ہے میں اُس کا انتظار کروںگا‘‘۔۱۴۴؎
اِس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ کا ایک مقدس ظاہر ہوگا لیکن وہ بنی اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوگا اور یروشلم کے باشندوں کے لئے پھندا اور دام بنے گا۔ا گر وہ اس کا مقابلہ کریں گے تو وہ شکست کھائیں گے اور پکڑے جائیں گے۔ اُس کے زمانہ میں یہودی شریعت ختم کردی جائے گی اور یعقوب کے گھرانے سے خدا تعالیٰ منہ پھیر لے گا۔
انجیل نویس اس پیشگوئی کے متعلق خاموش ہیں اور شاید وہ اسرائیل کے دونوں گھرانوں سے وہ دو گھرانے مراد لیتے ہیں جن میں سے ایک نے سلیمان کے بیٹے کا ساتھ دیا تھااور دوسرے نے اُن سے بغاوت کر کے الگ حکومت قائم کر لی تھی۔ لیکن یہ درست نہیں ہوسکتا۔ اِس پیشگوئی میں تو یہ بتایاگیا ہے کہ خدا کا ایک مقدس کھڑا ہو گا اور اُس کے زمانہ میں یہ باتیں ہوں گی۔ یا تو اس مقدس سے مراد مسیح ہے اور یا پھر مسیح کے بعد کوئی اور آنے والا شخص ہے۔ کیونکہ یسعیاہ اور مسیح کے درمیان کوئی ایسا باعظمت انسان نہیں گزرا جس کے ساتھ بنو اسرائیل نے ٹکر کھائی ہو۔ صرف حضرت مسیحؑ ہی ایسے تھے جن سے بنوا سرائیل نے ٹکر کھائی۔ مگر کیا مسیح سے ٹکر کھا کر بنو اسرائیل پکڑے گئے یا اُن کے شاگردوں کے لئے شریعت پر مہر کر دی گئی؟ مسیح تو صاف کہتا ہے کہ :۔
’’ یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا ہوں۔ میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو‘‘۔۱۴۵؎
بلکہ مسیح اپنے بعد کے زمانہ کے لئے بھی کہتا ہے کہ:۔
’’ کیا براتی جب تک کہ دولہا اُن کے ساتھ ہے روزہ رکھ سکتے ہیں۔ وے جب تک کہ دولہا اُن کے ساتھ ہے روزہ نہیں رکھ سکتے۔ لیکن وے دن آویں گے جب دولہا اُن سے جدا کیا جائے گا، تب اُنہی دنوں میں وے روزے رکھیںگے‘‘۔۱۴۶؎
اِن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کے فیصلہ کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد بھی آپ کے حواریوں کے لیے موسوی تعلیم پر عمل کرنا لازم ہوگا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو مسیح یہ کہتا کہ میں نے تو ہمیشہ کے لئے روزے منسوخ کر دئیے ہیںمگر وہ خود روز ے رکھتا ہے اور اپنے حواریوں کے متعلق خبر دیتا ہے کہ گو آجکل اِن میں کمزوری پائی جاتی ہے لیکن آئندہ زمانہ میں وہ روزے رکھنے لگ جائیں گے۔
پس شریعت پر مہر کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ شریعت کو بالکل اُڑا دیا گیا بلکہ اس پیشگوئی کے یہی معنی ہیں کہ اُس مقدس کے زمانہ میں موسوی شریعت منسوخ کر دی جائے گی اور ایک نئی شریعت قائم کر دی جائے گی۔ اگر یہ نہ ہوتا تو یہ کیوںکہا جاتا کہ یعقوب کے گھرانے سے خدا اپنا منہ پھیر لے گا۔ کیا مسیح یعقوب کے گھرانے سے نہیں تھا؟ اگر مسیح یعقوب کے گھرانے میں سے نہیں تھا تو وہ دائود کی نسل میں سے نہیں تھا؟ اور اگر وہ دائود کی نسل میں سے نہیں تھا تو پھر مسیح کے متعلق جوپیشگوئیاں ہیں اُن کا بھی وہ مستحق نہیں تھا۔
(د) یسعیاہ باب ۹ میں لکھا ہے:۔
’’ ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا ور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کاندھے پر ہو گی اور وہ اِس نام سے کہلاتا ہے۔ عجیب۔ مشیر۔ خدائے قادر۔ ابدیت کا باپ۔ سلامتی کاشہزادہ۔ اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی۔ وہ دائود کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے لے کر ابد تک بندوبست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا۔ رَبُّ الافواج کی غیوری یہ کرے گی‘‘۔۱۴۷؎
اِس پیشگوئی میں ایک موعود کی خبر دی گئی ہے جو بادشاہ ہو گا اور جس کے پانچ نام ہوں گے (۱) عجیب (۲) مشیر (۳) خدائے قادر (۴) ابدیت کا باپ (۵) سلامتی کا شہزادہ۔ اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی اور وہ دائود کے تخت پر ہمیشہ کے لئے بیٹھے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا۔ اناجیل کے حاشیہنویسوں نے اِس باب کے شروع میں لکھا ہے کہ اِس میں مسیح کی پیدائش کی خبر ہے۔ لیکن اُن علامتوں میں سے جو اِس پیشگوئی میں بیان کی گئی ہیں کوئی ایک بھی تو حضرت مسیحؑ پر صادق نہیں آتی۔ وہ کب بادشاہ ہوئے؟ کب اُن کو عجیب۔ مشیر۔ خدائے قادر۔ ابدیت کا باپ اور سلامتی کا شہزادہ کہا گیا؟ ’’عجیب‘‘ تو شاید اُن کی پیدائش کے لحاظ سے اُن کو کہا بھی جا سکے گو ایسا کہا نہیں گیا کیونکہ جو اُ ن کو نہیں مانتے تھے وہ تو اُن کی پیدائش کو ناجائز قرار دیتے تھے۔ پس وہ اُنہیں’’ عجیب‘‘ نہیں قرار دے سکتے تھے اور جو مانتے تھے وہ اُن کی پیدائش کے متعلق مختلف شبہات میں تھے۔ کوئی انہیں دائود کی اولاد قرارد یتا تھا اور کوئی روح القدس کی۔ دوسرا نام مشیر بتایا گیا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مشیر ہونے کا کبھی موقع نہیں ملا۔ ساری انجیل میں دیکھ لو کسی ایک جگہ بھی انہوں نے اپنی قوم سے مشورہ نہیں لیاا ورنہ انہوں نے اپنی قوم کو کوئی مشورہ دیا۔ پھر وہ مشیر کس طرح کہلائے؟ تیسرا نام خدائے قادر بتلایا گیا ہے۔ مسیح تو ساری عمر ابن اللہ کہلاتے رہے۔ وہ خدائے قادر کس طرح کہلا سکتے تھے؟ اور پھر مسیح تو اناجیل کے بیان کے مطابق پھانسی دے کر مار دیا گیا تھا، ایسا انسان قادر کس طرح کہلا سکتا ہے۔ اناجیل میںصاف آتا ہے کہ جب حضرت مسیح صلیب پر لٹکائے گئے تو یہودیوں نے اُن کو طعنہ دیا کہ اگر تُو خد اکا بیٹا ہے تو صلیب پر سے اُتر آ۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
’’ یوں ہی سردار کا ہنوں نے بھی فقیہوں اور بزرگوں کے ساتھ ٹھٹھا مار کے کہا۔ اِس نے اَوروں کو بچا یا مگر آپ کو نہیں بچا سکتا۔ اگر اسرائیل کا بادشاہ ہے تو اب صلیب پرسے اُتر آوے تو ہم اِس پر ایمان لاویں گے‘‘۔۱۴۸؎
حتی کہ وہ چوربھی حضرت مسیح کے ساتھ صلیب دئیے گئے تھے اُن کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بھی اُسے طعنے مارتے تھے۔۱۴۹؎
پس حضرت مسیحؑ پر یہ حوالہ چسپاں نہیں ہو سکتا کیونکہ اُس کی قدرت نہ کبھی ظاہر ہوئی نہ لوگوں نے اُس کی قدرت کا کبھی اقرار کیا۔ اُس کے دشمن بھی اُس کی قدرتوں کا انکار کیاکرتے تھے اور اُس کے دوست بھی اُس کی قدرتوں کے منکر تھے۔ا گر ایسا نہ ہوتا تو مسیح کے حواری اُس کو چھوڑ کر بھاگ کیوںجاتے؟ جیسا کہ لکھا ہے:۔
’’ تب سب شاگرد اُسے چھوڑ کر بھاگ گئے۔‘‘۱۵۰ ؎
کیا کبھی کوئی شخض قادر کو بھی چھوڑا کرتا ہے؟
چوتھا نام ابدیت کا باپ ہے۔ یہ نام بھی حضر ت مسیحؑ پر چسپاں نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جیسا کہ اوپر ثابت کیا جا چکا ہے وہ خود اپنے بعد ایک مامور کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔
پانچواں نام سلامتی کا شہزادہ ہے۔ یہ نام بھی حضر ت مسیحؑ پر چسپاں نہیں ہو سکتا کیونکہ اُنہیں کبھی بادشاہت نصیب ہی نہیں ہوئی کہ اُن کے ذریعہ سے دنیا کو سلامتی ملی ہو وہ تو خود یہود سے دُکھ پاتے رہے، آخر پکڑے گئے اور صلیب پر لٹکائے گئے۔ پس اُنہیں سلامتی کا شہزادہ کسی صورت میں بھی نہیں کہا جا سکتا۔
پھر لکھا ہے ’’اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی۔‘‘ یہ بات بھی حضرت مسیحؑ میں نہیں پائی جاتی۔ نہ اُن کو سلطنت ملی نہ اُس کا اقبال اور سلامتی انہوں نے دیکھی۔ اِسی طرح لکھا ہے ’’ وہ دائود کے تخت پر اور اُس کی مملکت میں آج سے لے کر ابد تک بندوبست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا‘‘۔ یہ بات بھی حضرت مسیحؑ کو نصیب نہیں ہوئی۔ یہ سب کی سب علامتیں رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی پائی جاتی ہیں۔ آپ کے کندھے پر سلطنت رکھی گئی اور گو آپ نہیں چاہتے تھے کہ آپ بادشاہ ہوں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ آپ بادشاہ بننے پر مجبور ہو گئے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ حضرت مسیحؑ تو باوجود اِس کے کہ اُن کے پاس نہ کوئی حکومت تھی نہ طاقت پھر بھی بادشاہ کہلانے کے شوقین تھے جیسا کہ متی باب ۲۱ میں لکھا ہے:۔
’’ مسیح گدھے پر سوار ہو کر یروشلم میں داخل ہو ا تاکہ جونبی نے کہا تھا پورا ہو کہ صیہوں کی بیٹی سے کہو کہ دیکھ تیرا بادشاہ فروتنی سے گدھی پر بلکہ گدھی کے بچہپر سوار ہو کر تجھ پاس آتا ہے‘‘۔۱۵۱؎
اِسی طرح متی باب ۲۷ آیت ۱۱ میں لکھا ہے:۔
’’ یسوع حاکم کے روبرو کھڑا تھا اور حاکم نے اُس سے پوچھا کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ یسوع نے اُس سے کہا ہاں تُو ٹھیک کہتا ہے‘‘۔
لوقا باب ۲۳ میں لکھاہے:۔
’’ اور ساری جماعت اُٹھ کے اُسے پیلا طوس کے پاس لے گئی اور اس پر نالش کرنی شروع کی کہ اُسے ہم نے قوم کو بہکاتے اور قیصر کو محصول دینے سے منع کرتے اور اپنے تئیں مسیح بادشاہ کہتے پایا۔ تب پیلا طوس نے اُس سے پوچھا کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ اُس نے اُس کے جواب میں کہا وہی ہے جو تُو کہتا ہے‘‘۔۱۵۲؎
یوحنا باب ۱۸ آیت ۳۷ میں لکھا ہے:۔
’’ تب پیلا طوس نے اُسے کہا سو کیا تو بادشاہ ہے؟ یسوع نے جواب دیا کہ جیسا آپ فرماتے ہیں میں بادشاہ ہو ں‘‘۔
لیکن رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم باوجود حکومت اور طاقت حاصل ہونے کے بادشاہ کہلانے سے سخت نفرت رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ قیصرو کسریٰ والا رنگ ہم میں نہیں ہونا چاہئے۔ اُن کو جب خدا تعالیٰ اقتدار بخشتا ہے تو وہ بنی نوع انسان کو غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمیں خدا تعالیٰ نے خدمت خلق کے لئے پیدا کیا ہے۔
پھر لکھاتھا کہ اُس کا نام’’ عجیب ‘‘ہو گا۔ حضر ت مسیح خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہ عجیب نام پانے والا وہ موعود ہے جواُن کے بعد آئے گا۔ چنانچہ انگور ستان کی مثال میں حضرت مسیح کہتے ہیں:۔
’’ ایک مالک نے انگور ستان لگایا اور باغبا نوں کے حوالے کر دیا۔ پھر مالک نے نوکروں کو اُس کا پھل لانے کے لئے باغبانوں کے پاس بھیجا مگر باغبانوں نے باری باری تمام نوکروں کو مارا پیٹا یا پتھرائو کیا۔ اِس کے بعد اور بڑے بڑے نوکر بھیجے گئے مگر اُن کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا۔ پھر اُس نے اپنے بیٹے کو بھیجا مگر بیٹے کو بھی انہوں نے مار ڈالا‘‘۔ ۱۵۳؎
اِس کے بعد مسیح نے لوگوں سے سوال کیا کہ وہ باغبان جنہوں نے یہ معاملہ کیا بتائو ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ لوگوں نے کہا :۔
’’ اِن بدوں کو بُری طرح مار ڈالے گا اور انگور ستان کو اور باغبانوں کو سونپے گا جو اُسے موسم میں میوہ پہنچا ویں۔ یسوع نے انہیں کہا کہ کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راجگیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سِرا ہوا۔ یہ خدا کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب۔ اِس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اُس کو میوہ لادے دی جائے گی۔ جو اُس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا پر جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا‘‘۔۱۵۴؎
اِس تمثیل کے بیان کرتے وقت حضرت مسیحؑ نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ بیٹے کو صلیب دینے کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اور مأمور ظاہر ہو گا جو کونے کا پتھر کہلائے گا اور وہ مسیح اور تمام باقی لوگوں کی نظروں میں عجیب ہوگا۔ پس جب مسیح خود کہتا ہے کہ عجیب وہ شخص کہلائے گا جو بیٹے کو صلیب دئیے جانے کے بعد آئے گا تو یقینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی عجیب ہیں جو مسیح کے صلیب پانے کے بعد ظاہر ہوئے۔
دوسرا نام آنے والے کامشیر رکھا گیا ہے۔ یہ نام بھی صرف رسول کریمﷺپر ہی چسپاں ہوتا ہے کیونکہ آپ ہی تھے جن سے ساری قوم مشورہ لیا کرتی تھی اور جنہوں نے اپنی قوم میں مشورے کا رواج ڈالا اور حکومت کے لئے یہ لازمی قرار دیا کہ وہ باشند گانِ ملک کے مشورہ سے ہر ایک کام کیا کرے۔ رسول کریم ﷺکے مشوروں کا ذکر قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۔۱۵۵؎ اے مؤمنو! جب کبھی تم رسول سے مشورہ لیا کرو تو مشورہ لینے سے پہلے غرباء اور مساکین میں تقسیم کرنے کے لئے کچھ صدقہ پیش کیا کرو۔ یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہو گا لیکن اگر تمہارے پاس کچھ نہ ہو تو پھر اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ اِس صورت میں تم بغیر صدقہ پیش کرنے کے بھی مشورہ لے سکتے ہو۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگ کثرت سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل وقت تو تمام بنی نوع انسان کا ہے بعض لوگ اپنی خاص ضرورتوں کے لئے آپ کے وقت کو نسبتاً زیادہ استعمال نہ کرنے لگ جائیں یہ قانون مقرر کر دیا گیا کہ جو شخص آپ سے مشورہ لے وہ غریبوں اور مسکینوں کے لئے کچھ صدقہ کی رقم بھی بیت المال میں ادا کرے تاکہ آپ کا وقت جو افراد کے کاموں میں لگے اُس کا کچھ نہ کچھ ازالہ اِس صدقہ کے ذریعہ سے ہو جائے۔ جس شخص سے لوگ اِس کثرت سے مشورہ لیا کرتے تھے کہ اُس کے مشورہ کو ایک مستقل ادارہ قرار دے دیا گیا وہی شخص مشیر کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔ پھر اِس لئے بھی آپ مشیر کہلانے کے مستحق ہیںکہ آپ نے حکومت کی بنیاد قومی مشوروں پر رکھی۔ چنانچہ قرآن کریم میں جو آپ پر نازل ہونے والی وحی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱۵۶؎ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ کوئی حکومتی کام نہ کریں جب تک کہ وہ ملک کے نمائندوں سے مشورہ نہ لے لیا کریں۔ اِس کی تشریح میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَاخِلَافَۃَ اِلاَّبِالْمَشْوَرَۃِ۱۵۷؎ اسلامی حکومت مشورہ کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ جو حکومت بھی باشندگانِ ملک کے مشورہ کے بغیر چلائی جائے گی وہ اسلامی نہیں کہلائے گی۔ مگر اس کے مقابلہ میں نہ مسیح نے کوئی مشورہ دنیا کو دیا نہ مشورہ کی اہمیت پر زور دیا۔ پس یقینا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخص تھے جو مشیر کہلاتے تھے اور مشیر کہلاتے ہیں۔
تیسرا نام اُس کا’’خدائے قادر ‘‘ہے۔ تورات کی رو سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ سے مشابہت حاصل تھی چنانچہ خروج باب ۷ آیت ۱ میں لکھا ہے:۔
’’ پھر خدا وند نے موسیٰ سے کہا دیکھ میں نے تجھے فرعون کے لئے خدا سا بنایا‘‘۔
اِسی طرح خروج باب ۴ آیت ۱۶ میں اللہ تعالیٰ حضرت موسٰی ؑکو فرماتا ہے:۔
’’ تُو اُس ( یعنی ہارون) کے لئے خداکی جگہ ہو گا‘‘۔
جس طرح مسیحؑ بائبل کے محاورہ کے مطابق ابن اللہ کہلانے کے مستحق ہیں اِسی طرح بائبل کے لحاظ سے حضرت موسیٰ مظہر خدا تھے۔ پس جب کبھی خدا کے لفظ سے کسی انسان کی طرف اشارہ کیا جائے گا تو اِس سے مراد یا موسیٰ علیہ السلام ہوں گے یا کوئی مثیل موسٰی ؑہو گا۔ اور یہ میں اُوپر بتا آیا ہوں کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد ایک ایسے نبی کے آنے کی خبر دی تھی جو اُن جیسا ہو گا۔۱۵۸؎ اور یہ بھی میں بتا چکا ہوں کہ اس پیشگوئی کی تمام علامتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی ہیں۔ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی خدا یا صحیح لفظوں میں یوں کہو کہ خدا کے مظہر کہلانے کے مستحق تھے۔ چنانچہ آپ کے متعلق قرآن کریم میں بھی آتا ہے ۔۱۵۹؎ جب بدر کے موقع پر تُو نے کنکر اُٹھا کر دشمن کی طرف پھینکے تھے تو اِن کنکروں کو پھینکنے والا تیرا ہاتھ نہیں تھا بلکہ خدا کا ہاتھ تھا۔
اِسی طرح آپ کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے۱۶۰؎ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ کی بیعت کرتے ہیں۔ یعنی توا للہ تعالیٰ کا مظہر ہے۔ پس اِس پیشگوئی کے مطابق اگر کوئی شخص ہو سکتا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات ہو سکتی ہے۔ پھر لفظ قادر بھی آپ ہی کی ذات پر دلالت کرتا ہے کیونکہ آپ ہی تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں ا پنے سارے دشمنوں کو زیر کر لیا اور تمام مخالفتوں اور عداوتوں کا سر کچل دیا۔
چوتھا نام ’’ ابدیت کا باپ‘‘ بتایا گیا ہے۔ یہ علامت بھی آپ پر ہی چسپاں ہوتی ہے کیونکہ آپ ہی ہیں جنہو ں نے یہ دعویٰ کیا کہ آپ کی تعلیم قیامت تک کے لئے ہے اور یہ کہ جس آنے والے مسیح کی خبر دی گئی ہے وہ بھی آپ کی اُمت کا ایک فرد ہو گا کوئی نیا شخص نہیں ہو گا جس کی وجہ سے آپ کی بادشاہت میں کوئی فرق یا اختلال واقعہ ہو جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔۱۶۱؎ یعنی ہم نے تجھے صرف اِس لئے بھیجا ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان کو تُو اس طرح جمع کرے کہ اُن میں سے کوئی طبقہ اور کوئی زمانہ تیری تبلیغ سے باہر نہ رہے اور تُو تمام انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر کے طور پر کام دے۔ لیکن اکثر انسان تیری اِس حیثیت سے واقف نہیں ہیں۔ پھر فرماتا ہے دشمن اعتراض کرتے ہیںکہ یہ وعدہ کہ تُو سب دنیا کی طرف اور ہمیشہ کیلئے ہے کس طرح پورا ہو گا۔ اگر تم سچے ہو تو اس کی دلیل دو۔ اس کا جواب دیتا ہے کہ تُو اُن سے کہہ دے کہ تمہارے لئے ہم ایک مدت مقرر کر چکے ہیں تم نہ اس مدت سے ایک ساعت پیچھے رہ سکتے ہو اور نہ آگے بڑھو گے۔ یعنی وہ وعدہ عین وقت پر پورا ہو جائے گا۔ یہ مدت وہی ہے جس کا ذکر سورہ سجدہ میں کیا گیا ہے۔ سورہ سجدہ میں اللہ فرماتا ہے ۱۶۲؎ اللہ تعالیٰ اسلام کو دنیا میں قائم کرے گا۔ پھر اسلام کا زور رفتہ رفتہ کم ہونا شروع ہو گا اور ایک دن میں جس کی لمبائی ایک ہزار سال کے برابر ہوگی وہ خدا تعالیٰ کی طرف چڑھنا شروع ہو گا اور اس میں کمزوری اور اضمحلال کے آثار پیدا ہو جائیںگے۔ اسلام کی ترقی کا زمانہ قرآن کریم سے بھی اور احادیث سے بھی تین سَوسال کا معلوم ہوتا ہے اِس میں ہزار سال شامل کیا جائے تو یہ زمانہ تیرہ سَو سال کا ہو جاتا ہے۔ پس سورہ سجدہ کی آیت کو ملا کر اِس آیت کے یہ معنی بنتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ کیلئے بشیرو نذیر ہونا اور تمام دنیا کی طرف ہونا تیرہ سَو سال کے بعد کُلّی طور پر ثابت ہو گا۔ اِن آیات میں اِس بات کی خبر دی گئی ہے کہ تیرہ سَو سال پر خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کا نزول ہو گا اور مسیح موعود آپ کی اُمت میں سے ہو گا اور چونکہ تمام انبیاء کا وہی آخری موعود ہے جب وہ آپ کی اُمت میں سے ہوگا تو اِس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ قیامت تک آپ کی شریعت قائم رہنے والی ہے اور آپ کی شریعت کو منسوخ کرنے والا کوئی اور شخص نہیں آئے گا۔ اور چونکہ اُس کے زمانہ میں تبلیغ اِسلام پر خاس طور پر زور دیا جائے گا اور اسلام دنیا میں پھیل جائے گا اِس لئے یہ امر اور بھی مستحکم ہو جائے گا کہ اسلام کو مٹانے والی کوئی طاقت دنیا میں نہیں اور ہر قوم اور ہر علاقہ کے لوگ اُس کے مخاطب ہیں جو آہستہ آہستہ اُس میں شامل ہو جائیں گے۔ پس ’’ابدیت کا باپ‘‘ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سِوا اور کوئی نہیں۔
پانچواں نام آپ کا ’’ سلامتی کا شہزادہ‘‘ رکھا گیا ہے۔ چونکہ شہزادہ بمعنی بادشاہ بھی آتا ہے اِس لئے ہم اس کے یہ معنی کر سکتے ہیں کہ وہ سلامتی کابادشاہ ہو گا۔ یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں ہوتی ہے۔ آپ جس مذہب کے بانی تھے اس کا نام خدا تعالیٰ نے اسلام رکھا تھا یعنی سلامتی۔ پس سلامتی کے شہزادے کے معنی ہوں گے اسلام کا بادشاہ۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اسلام کے بادشاہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ اسلام آپ ہی کی لائی ہوئی تعلیم کا نام ہے۔ اِسلام کے تمام مسائل آپ ہی کی طرف لَوٹتے ہیںا ور آپ ہی کے فیصلہ کے مطابق تمام اِسلامی عالم میں عمل کیاجاتا ہے۔ پس آپ تو سلامتی کے شہزادے ہیں لیکن مسیح سلامتی کا شہزادہ کیونکر کہلا سکتا ہے؟ پھر کسی شخص کو اگر کسی چیز کا شہزادہ کہا جائے تو اِس کے ایک یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ وہ چیز اُس میں کثرت سے پائی جاتی ہے۔ اُس کو نہ حکومت ملی نہ اُس نے عفو اور رأفت سے کام لیا۔ محض منہ سے کہہ دینا کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو، اِس میں تو کوئی خاص فضیلت نہیں عمل اصل چیز ہے اور یہ عمل صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات سے ظاہر ہوا۔ کیسے کیسے مظالم تھے جو مکہ والوں نے آپ پر اور آپ کی جماعت پر کئے۔ کتنے خون تھے جو آپ کے رشتہ داروں اور آپ کے اتباع کے اِن لوگوں نے بہائے۔ شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم سر سے لے کر پیر تک گواہ تھا اُن مظالم کا جو آپ کے دشمنوں نے آپ کے خلاف روا رکھے کیونکہ کبھی آپ پر سنگباری کی گئی، کبھی آپ پر تیر اندازی کی گئی، کبھی آپ کے جسم کو اَور ذرائع سے تکلیف پہنچانے کی کوشش کی گئی، وطن سے آپ کو بے وطن ہونا پڑا اور آپ کے صحابہ کو بھی۔ پھر مائوں نے بچوں کو چھوڑ دیا، خاوندوں نے بیویوں کو چھوڑ دیا، بھائیوں نے بھائیوں کو چھوڑ دیاا ور مسلمان ایک مقہور اور متروک جماعت ہو کر رہ گئے۔ غریب اور کمزور مردو ں کو دو اُونٹوں سے باندھ کر اور متضاد جہتوں کی طرف چلا کر چیر دیا گیا۔ عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے ما رکر اُنہیں مار دیا۔ غلاموں کو ننگا کر کے سخت پتھروں پر سے گھسیٹا۔ جلتی ہوئی ریت پر لٹا کر اُن کے سینوں پر ظالم کودے اور اصرار کیا کہ تم کہو خدا ایک نہیں بلکہ بت بھی خدا کے شریک ہیں۔ جنگ میں مسلمان شہداء کی لاشیں چیر کر اُن کے جگر اور دل نکال کر باہر پھینک دئیے گئے۔ اُن کے ناک اور کان کاٹ دئیے گئے۔ غرض زندوں اورمُردوں، مردوں اور عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں ہر ایک کو دُکھ دیا گیا۔ ہر ایک کی تذلیل کی گئی، ہر ایک کے ساتھ خلافِ انسانیت مظالم کا ارتکاب کیا گیا۔ یہ سب کچھ ہوا مگر جب خدا تعالیٰ کی نصرت نے آخر مسلمانوں کو فتح دی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنے دشمنوں کے سامنے صرف یہ اعلان کیا کہ لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ۱۶۳؎ جب ہمیں خدا نے قوت اور طاقت دی ہے ہم اعلان کرتے ہیں کہ مکہ کے تمام لوگوں کو معاف کیا جاتا ہے اور اُن کے مظالم کی اُنہیں کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ یہی نہیں کہ اُن کو سزا نہیں دی گئی بلکہ اُن کے جذبات کا اتنا احترام کیا گیا کہ جب اسلامی لشکر مکہ میں داخل ہونے کے لئے بڑھ رہا تھا تو ایک اِسلامی جرنیل نے یہ کہہ دیا کہ آج ہم زور سے مکہ میں داخل ہوں گے اوراُن مظالم کا بدلہ لیں گے جو مکہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہؓ پر کئے تھے۔ اِس پر آپؐ نے اُس جرنیل کو معزول کر دیا او رفرمایا اِن باتوں سے مکہ والوں کی دل شکنی ہوتی ہے۔ کیا مسیح کی زندگی میں کوئی بھی ایسا واقعہ ہے؟ کیا مسیح کے حواریوں کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ ہے؟ کیا ساری مسیحی تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ ہے؟ عیسائی بھی شروع میں مظلوم تھے۔ عیسائی بھی شروع میں مغلوب تھے۔ مگر جب اُنہیں حکومت ملی کیا اُنہوں نے اپنے دشمنوں اور اپنے مخالفوں کے ساتھ نرمی اور رحم کا برتائو کیا؟ روما کی تاریخ نکال کر دیکھو اُس کے اَوراق اُن مظالم کی یاد سے سرخ ہو رہے ہیں جو عیسائیوں نے فتح اور غلبہ کے وقت اپنے دشمنوں پر ڈھائے۔ پھر مسیح سلامتی کا شہزادہ کس طرح ہوا؟ اُسے تو کسی کو سلامتی دینے کی توفیق ہی نہیں ملی۔ جب اُس کے اتباع کو توفیق ملی تو اُنہوں نے سلامتی نہیں دی انہوں نے ہلاکت دی۔ اُنہوں نے تباہی دی، اُنہوں نے بربادی دی مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ نے فتح اور غلبہ بخشا اور آپ نے اُن وسیع مظالم کے باوجود جن کے مقابلہ میں وہ مظالم جو یہود نے مسیح پر کئے تھے بالکل زرد اور بے حقیقت ہو جاتے ہیں رحم و عفو اور چشم پوشی سے کام لیا۔ پس آپ ہی سلامتی کے شہزادے تھے اور آپ ہی یسعیاہ کی پیشگوئی کے مصداق تھے۔
ساتویں علامت اُس موعود کی یہ لکھی ہے کہ:۔
’’ اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی‘‘۔
میں بتا چکا ہوں کہ مسیح کو تو حکومت ملی ہی نہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جن کو حکومت ملی اور جن کے صحابہؓ کی زندگیوں میں ہی ساری دنیا پر اسلام قابض ہو گیا اور اس انصاف کے ساتھ انہوں نے حکومت کی کہ نہیں کہہ سکتے اُن کا اقبال بڑا تھا یا اُن کی سلامتی بڑی تھی۔
آٹھویں علامت یہ لکھی ہے کہ:
’’ وہ دائود کے تخت پر اور اُس کی مملکت پر آج سے لے کر ابد تک بندوبست کر ے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا‘‘۔
مسیح، دائود کے تخت پر کب بیٹھے تھے؟ شاید کہا جائے کہ اُن کی بعثت کے تین سَو سال کے بعد جب رومن حکومت عیسائیت میں داخل ہو گئی تو مسیح کو دائود کے تخت پر حکومت مل گئی۔ لیکن یہ معنی درست نہیں ہو سکتے کیونکہ وہاں تو لکھا ہے کہ اُسے وہ حکومت اَبد تک ملے گی لیکن مسیح کی حکومت تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ختم ہو گئی اور مسلمانوں کا قبضہ اُس ملک پر ہو گیا۔ چنانچہ تیرہ سَو سال سے مسلمان اس ملک پر قابض ہیں۔ کیا تین سَو سال کی حکومت اَبد کہلائے گی یا تیرہ سَو سال والی حکومت اَبد کہلائے گی؟ یہ صاف بات ہے کہ تیرہ سَو سال والی حکومت ہی اَبد کہلائے گی۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِس وقت انگریزی حکومت جو عیسائی حکومت ہے اِس ملک پر قابض ہے۔ لیکن خدا کی قدرت ہے کہ انگریزوں کو اس ملک پر بادشاہ ہونے کے لحاظ سے حکومت حاصل نہیں بلکہ مندیٹری پاور (MANDATORY POWER) ہونے کے لحاظ سے تصرف حاصل ہے اور عارضی طور پر تھوڑی مدت کے لئے کسی کا درمیان میں آجانا یہ پیشگوئی کے خلاف ہوتا بھی نہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہت کیسی عدالت اور انصاف والی تھی ،اِس کا ثبوت اِس بات سے ملتا ہے کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں عارضی طور پر اسلامی لشکر رومی لشکر کی کثرت اور اس کے دبائو کی وجہ سے پیچھے ہٹا اور مسلمانوں نے بیت المقدس اور اُس کے ار د گرد کے علاقوں والوں کو بُلا کر اُن کے ٹیکس یہ کہتے ہوئے واپس کئے کہ ٹیکس امن اور حفاظت کی غرض سے ہوتے ہیں چونکہ ہم لوگ اس ملک کو اب چھوڑ رہے ہیں اور ہم آپ کو نہ امن د ے سکتے ہیں نہ آپ کی حفاظت کر سکتے ہیں اِس لئے آپ کا روپیہ آپ کو واپس کیا جاتا ہے ہمارا اِس روپیہ پر کوئی حق نہیں تو تاریخیں بتاتی ہیں کہ اِس بات کو سن کر یروشلم کے باشندے ایسے متأثر ہوئے کہ باوجود اِس کے کہ اُن کے ہم مذہبوں کی فوجیں آگے بڑھ رہی تھیں اور اُن کے مذہب کے مخالف لوگ اُن کے ملک کو خالی کر رہے تھے یروشلم کے باشندے روتے ہوئے شہر سے باہر اسلامی لشکر کو چھوڑنے کے لئے آئے اور ساتھ دعائیں کرتے جا تے تھے کہ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو جلد واپس لائے کہ ہم نے آپ جیسا انصاف اِس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو گا اِس بات کا کہ’’ وہ دائود کے تخت پر اور اُس کی مملکت پر آج سے لے کر اَبد تک بندوبست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا‘‘۔
(ھ) اِسی طرح لکھا ہے:۔
’’ اور خد اوند اپنے تئیں مصریوں پر ظاہر کرے گاا ورا ُس دن مصری خدا وند کو پہچانیں گے اور ذبیحے اور ہدیے گزاریں گے۔ ہاں وے خدا وندکے لئے منتیں مانیں گے اور ادا کریں گے خدا وند تو مصریوں کوبہت دن تک مارا کرے گا، لیکن وہ انہیں چنگا بھی کرے گا اوروے خدا وند کی طر ف رجوع ہوں گے اور وہ اُن کی دعا سنے گا اور انہیں صحت بخشے گا۔ اُس روز سے مصر سے اسور تک ایک شاہراہ ہوگی اور اسوری مصر میں آویں گے اور مصری اسور کو جائیں گے اورمصری اسوریوں کے ساتھ مل کر عبادت کریں گے اُس روز اسرائیل مصر اور اسور کا میراث ہو گا اور زمین کے درمیان برکت کا باعث ٹھہرے گا کہ رَبُّ الافواج اُسے برکت بخشے گا اور فرماوے گا۔ مبارک ہو مصر میری اُمت۔ اسور میرے ہاتھ کی صنعت اور اسرائیل میری میراث‘‘۔۱۶۴؎
اِس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے آپ کو مصریوں پر ظاہر کرے گا اور مصری خدا تعالیٰ کو پہچانیں گے اور وہ ذبیحے اور ہدیے گزاریں گے اورمصر اور شام آپس میں ملا دیئے جائیں گے۔ شامی مصر میں آجائیں گے اور مصری شام میں جائیں گے اورمصری شامیوں کے ساتھ مل کر عبادت کریں گے۔ یہ پیشگوئی بھی بانی اسلام حضر ت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پوری ہوئی۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ کچھ عرصہ کے لئے مصری عیسائی ہو گئے تھے لیکن وہ نہایت ہی قلیل عرصہ تھا۔ اِس کے بعد تیرہ سَو سال سے مصر مسلمان چلا آتا ہے۔ یسعیاہ کی زبان سے خدا کہتا ہے ’’ مبارک ہو مصرمیری اُمت‘‘۔ مصریوں سے پوچھو کہ وہ کس کی اُمت ہیں؟ آیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یا مسیح کی؟
پھر لکھا ہے ’’ مبارک ہو اسور میرے ہاتھ کی صنعت‘‘۔ اسوریوں سے بھی پوچھ کر دیکھ لو کہ وہ آیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہیں یا مسیح کی اُ مت؟
پھر لکھا ہے ’’ مبارک ہوا سرائیل میری میراث‘‘۔
اِن علاقوں میں جا کر دیکھ لو اسرائیل کا علاقہ فلسطین کس کی میراث ہے؟ اِس وقت زور دے کر وہاں یہود کو داخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر یہودی تو مسیح کی اُمت نہیں۔ اِ س پیشگوئی کو تو مسیح پر چسپاں کیا جا رہا ہے اورمسیحی اب بھی وہاں قلیل ہیں اور مسلمان اب بھی زیادہ ہیں۔ اگر یہودی اِس ملک پر قابض بھی ہو گئے تو یہ کہا جائے گا کہ عارضی طور پر مسلمانوں کے غلبہ میں اختلال واقع ہو گیا، مسیح کو تو پھر بھی کچھ فائدہ نہیں ہونے کا۔ خواہ مسلمان فلسطین پر حاکم رہیں خواہ یہودی، مسیح کا دامن تو خالی ہی رہتا ہے اور وہ اِس پیشگوئی کا مستحق کسی صورت میں بھی نہیں ٹھہرتا۔
پھر اس پیشگوئی میں لکھا تھا کہ اسور اور مصر تک ایک شاہراہ ہو گی یعنی یہ ملک آپس میں مل جائیں گے۔ اسوری مصر میں آئیں گے اور مصری اسور کو جائیں گے اور مصری اسوریوں کے ساتھ مل کر عبادت کریں گے۔ کیا یہ مسیح کے ذریعہ سے ہوا؟ عیسائی بے شک مصر پر قابض ہوئے اور اسور پر بھی قابض ہوئے اور ان ملکوں کی کثرت ایک وقت میں عیسائی بھی ہو گئی۔ لیکن کیا کبھی بھی وہ زمانہ آیا ہے جب مذکورہ بالا آیتوں کا مضمون مصر اور اسور کی حالت پر صادق آیا ہو؟ اِن آیتوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِن دونوں ملکوں کی قومیت ایک ہو جائے گی اوراُن کی زبان ایک ہو جائے گی۔ مل کر عبادت کرنے کے بھی یہی معنی ہیں اور ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے کا بھی یہی مطلب ہے۔ ورنہ ہر ملک کے لوگ دوسرے ملک میں آیا جا یا ہی کرتے ہیں۔ پیشگوئی کا مفہوم یہی ہے کہ وہ اتنے متحد ہو جائیں گے کہ اُن کی ایک قوم ہو جائے گی۔ مگر دنیا جانتی ہے کہ عیسائی حکومت کے زمانہ میں کبھی بھی مصر اور اسور ایک نہیں ہوئے۔ روم کے ماتحت بے شک یہ دونوں ملک تھے لیکن ہمیشہ مصر کا انتظام اَور رنگ کا رہا اور اسور کا انتظام اَور رنگ کا رہا۔ مصر میں ایک نیم آزاد بادشاہ حکومت کرتا تھا اور اسور میں ایک گورنر رہتا تھا۔ بلکہ مصر کا کلیسیا اسور کے کلیسیا سے بالکل مختلف تھا۔ مصر میں عیسائیت نے اسکندریہ کے گرجا کے ماتحت ایک نئی شکل اختیار کر لی تھی اور وہ فلسطین اور شامی گرجا کی شکل سے بالکل مختلف تھی۔ پھر مصریوں کی عبادت قبطی زبان میں ہوتی تھی اور شامیوں کی عبادت بگڑی ہوئی مخلوط عبرانی اوریونانی زبان میں۔ ہاں اسلامی زمانہ میں یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ صدیوں تک شام اور مصر ایک حکومت رہے دونوں ملکوں کی زبان ایک ہو گئی اوراب تک ایک ہے۔ جس کی وجہ سے دونوں کی عبادت اکٹھی ہوتی تھی اور اکٹھی ہوتی ہے۔ دونوں ملکوں میں ایک قوم ہونے کا احساس پید اہو گیا۔ شامی علماء مصر میں جاتے تھے اور وہ مصری علماء کی طرح ہی معزز گنے جاتے تھے اور مصری علماء شام میں آتے تھے اور وہ شامی علماء کی طرح ہی معزز گنے جاتے تھے۔ اِس زمانہ میں بھی کہ یورپین سیاست نے اسلامی ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے عرب لیگ میں مصر، شام اور فلسطین دوش بدوش مل کر کام کر رہے ہیں۔ پس یہ پیشگوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پوری ہوئی اور یہ پیشگوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کی قوم کے متعلق ہی تھی۔ مسیح اور کلیسیا کی طرف اِس کو منسوب کرنا صریح ظلم ہے۔
(و) پھر یسعیاہ میں لکھا ہے:۔
’’ تُو ایک نئے نام سے کہلایا جائے گا جو خداوند کا منہ تجھے رکھ دے گا‘‘۔۱۶۵؎
اِسی طرح یسعیاہ باب ۶۵ میں لکھا ہے:۔
’’ اور تم اپنا نام اپنے پیچھے چھوڑو گے جو میرے برگزیدوں پر *** کا باعث ہو گا کیونکہ خد اوند یہوواہ تم کو قتل کرے گا اور اپنے بندوں کو دوسرے نام سے بُلائے گا‘‘۔۱۶۶؎
اِس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ ایک نیا سلسلہ ایک نئے نام سے جاری کیا جائے گا اور اُس نئے نام کو یہ خصوصیت حاصل ہو گی کہ وہ نیا نام اس سلسلہ کے لوگ خود نہیں رکھیں گے بلکہ خد اتعالیٰ اپنے منہ سے اُن کا وہ نام تجویز کرے گا۔ اِس پیشگوئی کو بھی بائبل نویسوں نے کلیسیا پر لگایا ہے حالانکہ مسیحیوں کو کوئی نام خد اتعالیٰ کی طرف سے نہیں ملا۔ ہاں اپنے طور پر مختلف مسیحی فرقوں نے اپنے اپنے نام رکھ لئے ہیں۔ ساری دنیا میں صرف ایک ہی قوم ہے جس کو خد تعالیٰ کی طر ف سے نام ملا ہے اور وہ مسلمان ہیں چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱۶۷؎ خدا تعالیٰ نے ہی تم لوگوں کا نام رکھا ہے پہلے انبیاء کی پیشگوئیوں میں بھی اور اب اس قرآن کریم کے ذریعہ سے بھی۔ دیکھو کس طرح یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کی طرف صاف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہم نے پہلے سے ہی بتا دیا تھا کہ ہم تمہارا نام خود رکھیں گے۔ چنانچہ اب ہم نے خود سلامتی کے شہزادہ کی پیشگوئی کے مطابق تمہارا نام مسلم رکھا ہے۔ یہ پیشگوئی نہایت ہی عجیب اور لطیف ہے۔ تمام دنیا کی تاریخ اِس بات پر شاہد ہے کہ کسی نبی نے اِس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ اُس کی جماعت کا نام الہامی طور پر خدا تعالیٰ نے رکھا ہے۔ لیکن یسعیاہ کہتا ہے کہ پہلے دستوروں کے خلاف ایک نبی آئے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کی جماعت کا نام خاص الہام سے رکھے گا۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اعلان فرماتے ہیں کہ خد اتعالیٰ نے میری اُمت کا نام مسلم اور میرے مذہب کا نام اِسلام رکھا ہے۔
چھٹی پیشگوئی
دانیال نبی کی کتاب کے دوسرے باب میں ایک خواب لکھی ہے جو نبو کدنضر بادشاہ نے دیکھی تھی۔ لیکن وہ اُسے دیکھنے کے بعد بھول گیا۔ تب اُس
نے اپنے وقت کے حکیموں سے خواب اور اُس کی تعبیر دریافت کی۔ باقی لوگ تو نہ بتا سکے دانیال نے خدا تعالیٰ سے دعا کر کے وہ خواب معلوم کر لی اور بادشاہ کے سامنے بیان کی وہ خواب یہ تھی۔
’’ تُو نے اے بادشاہ! نظر کی تھی اور دیکھ ایک بڑی مورت تھی۔ وہ بڑی مورت جس کی رونق بے نہایت تھی تیرے سامنے کھڑی ہوئی اور اُس کی صورت ہیبت ناک تھی۔ اُس مورت کا سرخالص سونے کا تھا۔ اُس کا سینہ اور اُس کے بازو چاندی کے۔ اُس کا شکم اور رانیں تابنے کی تھیں۔ اُس کی ٹانگیں لوہے کی اور اُس کے پائوں کچھ لوہے کے اور کچھ مٹی کے تھے اور تُو اُسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ ایک پتھر بغیر اس کے کوئی ہاتھ سے کاٹ کے نکالے آپ سے آپ نکلا جو اس شکل کے پائوں پر جو لوہے اور مٹی کے تھے لگا اور اُنہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ تب لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کی مانند ہوئے اور ہوا اُنہیں اُڑالے گئی یہاں تک کہ اُن کا پتہ نہ ملا اور وہ پتھر جس نے اُس مورت کو مارا ایک بڑا پہاڑ بن گیا اور تمام زمین کو بھر دیا‘‘۔۱۶۸؎
اِس کی تعبیر دانیال نبی نے جو کی وہ یہ ہے:۔
’’ تُو اے بادشاہ! بادشاہوں کا بادشاہ ہے اس لئے کہ آسمان کے خدا نے تجھے ایک بادشاہت اور توانائی اور قوت اور شوکت بخشی ہے اور جہاں کہیں بنی آدم سکونت کرتے ہیں اُس نے میدان کے چوپائے اور ہوا کے پرندے تیرے قابو میں کر دئیے اور تجھے اُن سبھوں کا حاکم کیا۔ تُو ہی وہ سونے کا سرہے اورتیرے بعد ایک اور سلطنت برپا ہوگی جو تجھ سے چھوٹی ہو گی اور اُس کے بعد ایک اور سلطنت تانبے کی جو تمام زمین پر حکومت کرے گی اور چوتھی سلطنت لوہے کی مانند مضبوط ہوگی اورجس طرح کہ لوہا توڑ ڈالتا ہے اور سب چیزوں پر غالب ہوتا ہے ہاں لوہے کی طرح سے جو سب چیزوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے اُس ہی طرح وہ ٹکڑے ٹکڑے کرے گی اور کچل ڈالے گی اور جو کہ تو نے دیکھا کہ اُس کے پائوں اور اُنگلیاں کچھ تو کمہار کی ماٹی کی اور کچھ لوہے کی تھیں تو اس سلطنت میں تفرقہ ہو گا۔ مگر جیسا کہ تُو نے دیکھا کہ اس میں لوہا گلادے۱۶۹؎ سے ملا ہو ا تھا۔ سو لوہے کی توانائی اُس میں ہوگی اور جیساکہ پائوں کی اُنگلیاں کچھ لوہے کی اور کچھ ماٹی کی تھیں سو وہ سلطنت کچھ قوی کچھ ضعیف ہو گی اور جیسا تُو نے دیکھا کہ لوہا گلاوے سے ملا ہوا ہے وے اپنے انسان کی نسل سے ملاویں گے لیکن جیسا لوہا مٹی سے میل نہیں کھاتا تیسا وے باہم میل نہ کھاویں گے اور اُن بادشاہوں کے ایام میں آسمان کا خد ا ایک سلطنت برپا کرے گا جو تا ابد نیست نہ ہووے گی اور وہ سلطنت دوسری قوم کے قبضہ میں نہ پڑے گی وہ اُن سب مملکتوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی تااَبد قائم رہے گی جیسا کہ تُو نے دیکھا کہ وہ پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے اُس کو پہاڑ سے کاٹ نکالے آپ سے آپ نکلا اور اُس نے لوہے اور تانبے اور مٹی اور چاندی اور سونے کو ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ خد اتعالیٰ نے بادشاہ کو وہ کچھ دکھایا جو آگے کو ہونے والا ہے اور یہ خواب یقینی ہے اور اُس کی تعبیر یقینی‘‘۔۱۷۰؎
اِس تعبیر میں خود حضرت دانیال نے سونے کے سر سے بابل کا بادشاہ مراد لیا ہے۔ چاندی کے سینہ اور چاندی کے بازو سے مراد فارس اور مادہ کی حکومت تھی جو بابل کی بادشاہت کے بعد آئی۔ تانبے کی رانوں سے مراد سکندر کی حکومت تھی جو اُس کے بعد دنیا پر غالب ہوا۔ اور لوہے کی ٹانگوں سے مراد روما کی حکومت تھی جو ایرانی حکومت کے تنزل کے وقت دنیا میں طاقتور ہوئی۔ اِس آخری حکومت کے متعلق لکھا ہے ’’ اُس کے پائوں کچھ لوہے اور کچھ مٹی کے تھے‘‘۔ جس کی تعبیر یہ تھی کہ یہ حکومت ایشیا سے یورپ میں پھیل جائے گی۔ لوہے کی ٹانگوں سے مراد یوروپین حکومت ہے کہ وہ بوجہ ایک قوم اور ایک مذہب ہونے کے زیادہ مضبوط تھی لیکن پائوں مٹی اور لوہے کے مشترک بنے ہوئے تھے۔ لیکن وہ یورپین قوم بعض مشرقی اقوام کو فتح کر کے ایک شہنشاہیت کی صورت اختیار کر لے گی اور جیسا کہ شہنشاہیتوں کا قاعدہ ہے وہ اپنی وسعت اور سامانوں کی فراہمی کے لحاظ سے قوی ہوتی ہیں لیکن غیر قوموں کے اشتراک کی وجہ سے اُن میں ضعف بھی پیدا ہو جاتا ہے وہ حکومت اپنے آخری زمانہ میں بوجہ غیر قوموں کی شمولیت کے کمزوری کی طرف مائل ہو جائے گی۔ اِس کے بعد لکھا ہے:۔
’’ ایک پتھر بغیر اس کے کوئی ہاتھ سے کاٹ کے نکالے آپ سے آپ نکلا جو اُس شکل کے پائوں پر جو لوہے اور مٹی کے تھے لگااور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا تب لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کے مانند ہوئے اور ہوا انہیں اڑا لے گئی یہاں تک کہ اُن کا پتہ نہ ملا اور وہ پتھر جس نے اُس مورت کو مارا ایک بڑا پہاڑ بن گیا اور تمام زمین کو بھر دیا‘‘ـ۔
اِن الفاظ میں محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کی خبر دی گئی ہے۔ آپ کی جماعت کا ٹکرائو پہلے قیصر روما سے اور پھر ایران کی حکومت سے ہوا۔ اور جب قیصر روما سے آپ کی جماعت کا ٹکرائو ہوا اُس وقت وہ سکندر کی وراثت پر بھی قابض تھا اورروما کی وراثت کا بھی وارث تھا اورجب آپ کا ٹکر ائو ایرانی حکومت سے ہوا تو وہ بابل اور فارس اور میدیا دونوں حکومتوں کی قائمقام تھی۔ جب آپ کے صحابہؓ سے ٹکر انے کی وجہ سے یہ دونوں حکومتیں تباہ ہوئیں تو دانیال کے قول کے مطابق لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کی مانند ہو گئے۔ خواب کی ترتیب اور دانیال کی کی ہوئی تعبیر دونوں ہی اِس مضمون کی تائید کرتی ہیں۔ اِس میں کیا شبہ ہے کہ بابل کی جگہ فارس اور میدیا نے لی اور فارس اور میدیا کا زور سکندر نے توڑا اور سکندر کی حکومت کو رومی حکومت کھا گئی جس نے اپنے مشرقی مرکز میں بیٹھ کر ایک زبردست یورپین ایشیائی شہنشاہیت قائم کی۔ اس شہنشاہیت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ہی توڑا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک لشکر لے کر قیصر کی سرحدوں کی طرف تشریف لے گئے تھے لیکن یہ معلوم کرکے کہ قیصر کی فوجوں کی عرب پر حملہ آور ہونے کی خبر قبل از وقت تھی واپس تشریف لے آئے۔ مگر اس کے بعد رومی حکومت کی سرحدوں سے برابر چھیڑ چھاڑ جاری رہی جس کے نتیجہ میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر تیار کر کے اس طرف بھجوایا اور آخر حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میںرومیوں اور مسلمانوں میں باقاعدہ لڑائی چھڑ گئی اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایران اس لڑائی میں شامل ہو گیا اور آپ کی زندگی میں ہی دونوں حکومتیں تباہ اور برباد ہو گئیں اور دُور سرحدوں پر چھوٹی چھوٹی ریاستیں بن کر رہ گئیں۔ اِس پتھر کے متعلق یسعیاہ اور متی میں بھی خبریں دی گئی ہیں۔ چنانچہ یسعیاہ باب ۸ آیت ۱۴ میں ایک آنے والے موعود کے متعلق لکھا ہے:۔
’’ وہ تمہارے لئے ایک مقدس ہو گاپر اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے ٹکر کا پتھر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان ۔‘‘
پھر آیت ۱۵ میں لکھا ہے:۔
’’ بہت سے لوگ اُن سے ٹھوکر کھائیں گے اور گریں گے اور ٹوٹ جائیں گے۔‘‘
اور متی باب ۲۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ موعود جسے پتھر کہا گیا ہے مسیح نہیں بلکہ مسیح کے بعد آنے والا دوسراشخص ہے:۔
اور آیت ۴۴ میں اس کی یہ شان بیان کی گئی ہے کہ:۔
’’ جو اِس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا پر جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا‘‘۔
اِسی طرح زبور باب ۱۱۸ آیت ۴۲ میں لکھا ہے:
’’ وہ پتھر جسے معماروں نے ردّ کیا کونے کا سِرا ہو گیا‘‘۔
متی باب ۲۱ میں بھی اِس پیشگوئی کی طر ف اشارہ کیا گیا ہے اور لکھا ہے:
’’یسوع نے اُنہیں کہا کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راجگیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سِرا ہوا‘‘۔
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اِس پیشگوئی کے متعلق خود حضرت مسیح کا فیصلہ ہے کہ یہ پیشگوئی اُن پر صادق نہیں آتی بلکہ اُس وجود پر صادق آتی ہے جو بیٹے کے صلیب پر لٹکا دینے کے بعد ظاہر ہو گا۔ عیسائی لوگ اپنی خوش فہمی سے اِس سے مراد کلیسیا لیتے ہیں حالانکہ کلیسیا اِس پیشگوئی سے مراد ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ دانیال نبی کی خواب میں رومی حکومت جو کلیسیاکی نمائندہ تھی تانبے کی رانیں اور لوہے کے پائوں قرار دی گئی ہے اور یہ بتایاگیا ہے کہ یہ پتھر بت کے پائوں پر گرے گا یعنی مشرقی رومی حکومت کے آخری حصہ سے اِس کا ٹکرائو ہو گا اور وہ رومی حکومت یعنی کلیسیا کی نمائندہ حکومت کو توڑ دے گا۔ پس اس پیشگوئی سے مراد کلیسیا کسی صورت میں نہیں ہوسکتا۔ مسیح تو مشرقی رومی حکومت سے پہلے آیا تھا اور کلیسیا کا رومی حکومت کو توڑنا کیا معنی! رومی حکومت تو اس کی نمائندہ تھی جس نے رومی حکومت کو توڑا وہی اس پتھر والی پیشگوئی کا موعود تھا۔ پس یہ پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کے سوا اور کسی کے ذریعہ سے پوری نہیں ہوئی۔ پھر جیسا کہ پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ وہ پتھر تمام دنیا میں پھیل جائے گا اور پہاڑ کی طرح بن جائے گا ویسا ہی ہوا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے قیصر وکسرٰی کو شکست دی تو تمام دنیا پر اسلامی حکومت پھیل گئی اور وہ چھوٹا سا پتھر ایک پہاڑ بن کر دنیا پر چھا گیا اور ایک ہزار سال تک دنیا کی قسمت کا فیصلہ مسلمانوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔
انجیل کی پیشگوئیاں
انگورستان کی تمثیل کی پیشگوئی
(الف) متی باب ۲۱ میں حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں:۔
’’ یہ ایک اور تمثیل سنو۔ ایک گھر کامالک تھا جس نے انگورستان لگایا اور اس کے چاروں طرف رَوندھا اور اُس کے بیچ میں کھود کے کولہو گاڑا اور بُرج بنایااور باغبانوں کو سونپ کے آپ پردیس گیا اور جب میوہ کا موسم قریب آیا اُس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں کے پاس بھیجا کہ اُس کا پھل لائیں۔ پر اُن باغبانوں نے اُس کے نوکروں کو پکڑکے ایک کو پیٹا اور ایک کو مارڈالا اور ایک کو پتھرائو کیا۔ پھر اُس نے اَور نوکروں کو جو پہلوں سے بڑھ کر تھے بھیجا۔ اُنہوں نے اُن کے ساتھ بھی ویسا ہی کیا آخر اُس نے اپنے بیٹے کو یہ کہہ کر بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے دبیں گے لیکن باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا تو آپس میں کہنے لگے کہ وارث یہی ہے آئو اِسے مار ڈالیں کہ اس کی میراث ہماری ہو جائے اوراُسے پکڑ کے اور انگورستان کے باہر لے جا کر قتل کیا۔ جب انگورستان کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا؟ وے اسے بولے اِن بدوں کو بُری طرح مار ڈالے گا اور انگورستان کو اَور باغبانوں کو سونپے گا جو اُسے موسم پر میوہ پہنچادیں۔ یسوع نے اُنہیں کہا کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راجگیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سِرا ہوا۔ یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب۔ اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خد اکی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اس کا میوہ لاوے دی جائے گی۔ جو اُس پتھر پر گرے گا چور ہوجائے گا۔ جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا۔ جب سردار کاہنوں اور فریسیوں نے اُس کی یہ تمثیلیں سنیں تو سمجھ گئے کہ ہمارے ہی حق میں کہتا ہے اور اُنہوں نے چاہا کہ اُسے پکڑ لیں پر عوام سے ڈرے کیونکہ وے اُسے نبی جانتے تھے۔۱۷۱؎
اِس پیشگوئی کا پہلے بھی اشارۃًذکر آتا رہا ہے۔ یہ تمثیل جو حضرت مسیحؑ نے بیان فرمائی ہے اس میں آپ نے انبیاء کی تاریخ شروع سے لے کر آخر تک تمثیلاً دُہر ادی ہے۔ جیسا کہ خود انجیل کی عبارت سے ظاہر ہے۔ تاکستان سے مراد دنیا ہے۔ باغبانوں سے مراد بنی نوع انسان ہیں اور مالک کے ٹیکس سے مراد نیکی اور تقویٰ اور خدا کی عبادت کرنا ہے۔ ملازموں سے مراد اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہیں جو یکے بعد دیگرے دنیا میں آتے رہے۔ خدا کے بیٹے سے مراد خود مسیحؑ ہیں جو انبیاء کے ایک لمبے سلسلہ کے بعد دنیا میں ظاہر ہوئے مگر باغبانوں نے اُن کو صلیب پر لٹکا دیا اور اُن کے پیغام کی طرف توجہ نہ کی۔
اِس کے بعد لکھا ہے کہ وہ کونے کا پتھر ظاہر ہو گا جسے راجگیروں نے ناپسند کیا۔ یعنی اسمٰعیل کی اولاد جن کو بنو اسحاق حقارت کی نگاہ سے دیکھتے چلے آئے تھے اُن میں ایک نبی ظاہر ہو گا اور اُسی کو خاتم النبیین ہونے کا فخر حاصل ہوگا۔ اُس کے ذریعہ سے تمام شریعتیں ختم کر دی جائیں گی اور وہ آخری شریعت لانے والا ہو گا۔ بنو اسرائیل کو یہ بات عجیب معلوم ہو گی مگر جیسا کہ حضرت مسیحؑ کہتے ہیں باوجود بنو اسرائیل کے ناپسند کرنے کے خدا اُس اسماعیلی نبی کو بادشاہت دے گا اور خدا کی بادشاہت بنو اسرائیل سے لے لی جائے گی اور اُس کی جگہ یہ باغ اِس دوسری قوم کے سپرد کر دیا جائے گا یعنی اُمتِ محمدیہ کے جو اُس کے میوے لاتی رہے گی یعنی خدا تعالیٰ کی عبادت کو دنیا میں قائم رکھے گی۔ ہر شخص جو انصاف کے ساتھ غور کرنے کا عادی ہو وہ معلوم کر سکتا ہے کہ حضرت مسیحؑ کے بعد ظاہر ہونے والے مدعیوں میں سے کوئی بھی سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس پیشگوئی کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ آخر وہ کون تھا جس سے عیسائیت اور یہودیت ٹکر ائی اور پاش پاش ہو گئی؟ وہ کون تھا جو اِس قوم کے ساتھ تعلق رکھتا تھا جسے بنو اسحاق حقارت کی نگاہ سے دیکھتے چلے آئے تھے؟ وہ کون تھا جس پر وہ گرا اُسے اُس نے چور چور کر دیا اور جو اُس پر گرا وہ بھی چور چور ہو گیا۔ یقینا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سِوا اس پیشگوئی کا مصداق اور کوئی نہیں۔
(ب) متی باب ۲۳ آیت ۳۸، ۳۹ میں لکھا ہے:۔
’’ دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے تم مجھے پھر نہ دیکھو گے۔ جب تک کہو گے مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے ‘‘۔
اِن آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیحؑ اپنی قوم سے عنقریب جدا ہونے والے ہیں اور ان کی قوم پھر اُنہیں نہ دیکھ سکے گی جب تک وہ یہ نہ کہے گی کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے۔
اِس عبارت سے ظاہر ہے کہ مسیح کے چلے جانے کے بعد دو الٰہی مظہر ظاہر ہونے والے ہیں۔ ایک الٰہی ظہور، مسیح کے غائب ہوجانے کے بعد ہو گا اور وہ خدا تعالیٰ کا ظہور کہلائے گا۔ اِس ظہور کے بعد دوبارہ مسیح ظاہر ہوگا۔ لیکن جب تک خد اتعالیٰ کے نام پر ظاہر ہونے والا مظہر پیدا نہ ہو جائے اُس وقت تک مسیح د وبارہ دنیا میں نہیں آسکتا اور لوگ اُسے نہیں دیکھ سکتے۔
میں پہلے یہ ثابت کر چکا ہوں کہ خد اتعالیٰ کے نام پر ظاہر ہونے والے مظہر سے مراد مثیل موسیٰ ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ تھے۔ واقعاتی شہادت کی رو سے بھی اور خود مسیح کی شہادت کی رو سے بھی۔ پس ’’ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے‘‘ سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہے اور اس پیشگوئی میں خبر دی گئی ہے کہ مسیح روحانی ارتقاء کا آخری نقطہ نہیں بلکہ آخری نقطہ وہ ہے جو خدا وند کے نام پر آئے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ خداوند کے نام پر آنے والے مظہر کے بعد پھر مسیح کو دوبارہ آنا ہے اِس لئے مسیح ہی روحانیت کا آخری نقطہ قرار پائے گا۔ تو اِس کا جواب خود حضرت مسیحؑ نے ہی دے دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔’’ اب سے تم مجھے پھر نہ دیکھو گے جب تک کہ کہو گے مبارک ہے وہ جو خدا وند کے نام پر آتا ہے‘‘۔ یعنی مسیح کو دوبارہ دیکھنا اُسی کے لئے ممکن ہوگا جو مثیل موسیٰ پر ایمان لاچکا ہوگا۔ مثیل موسیٰ کا منکر مسیح کو نہیں دیکھ سکے گایعنی اس کو پہچان نہیں سکے گا۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح اپنی دوبارہ آمد کے وقت مثیل موسیٰ کے اتباع میں سے ہوگا۔ پس وہی شخص مسیح پر ایمان لائے گاجو پہلے اُس کے متبوع پر ایمان لاچکا ہوگا۔ پس آنے والا مسیح کوئی علیحدہ وجود نہیں بلکہ مثیل موسیٰ کا ہی ظل اور اس کا بروز ہے اس لئے روحانی منازل کا آخری ارتقائی نقطہ مثیل موسیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔
(ج) انجیل میں لکھا ہے کہ:۔
’’ یوحنا کے پاس لوگ آئے اور اُس سے پوچھا کہ کیا وہ مسیح ہے؟ تو اس نے کہا میں مسیح نہیں ہوں۔ تب انہوں نے اُس سے پوچھا تو اور کون ؟ کیا تُو الیاس ہے؟ اُس نے کہا میں نہیں ہوں ۔ پھر انہوں نے اُس سے پوچھا آیا تُو وہ نبی ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں۔‘‘۱۷۲؎
پھر آگے چل کر لکھا ہے:۔
’’ انہوں نے اُس سے سوال کیا اور کہا کہ اگر تو نہمسیحؑ ہے نہ الیاس اور نہ وہ نبی۔ پس کیوں بپتسمہ دیتا ہے‘‘۔۱۷۳؎
اِن آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح کے وقت یہود میں تین بشارتیں مشہور تھیں۔
اوّل: الیاس دوبارہ دنیا میں آنے والا ہے۔
دوم: مسیح پید ا ہونے والا ہے۔
سوم: وہ نبی یعنی موسیٰ کا موعود نبی آنے والا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تین وجود الگ الگ سمجھے جاتے تھے۔ الیاس الگ وجود تھا۔ مسیح الگ وجود تھا اور ’’ وہ نبی‘‘ الگ وجود تھا۔ حضرت مسیح فرما چکے ہیں کہ یوحنا الیاس ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔
’’ الیاس جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو‘‘۔۱۷۴؎
اور لوقاباب ا آیت ۱۷ سے بھی پتہ لگتا ہے کہ حضرت یوحنا کی پیدائش سے پہلے اُن کے والد حضرت زکریا سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا’’ وہ اس سے آگے الیاس کی طبیعت اور قوت کے ساتھ چلے گا‘‘۔
پھر مرقس باب ۹ آیت ۱۳ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح نے فرمایا:۔
’’ میں تم سے کہتا ہوں الیاس تو آچکا‘‘۔
پھر متی باب ۱۷ آیت ۱۲ میں لکھا ہے:۔
’’ پر میں تم سے کہتا ہوں کہ الیاس تو آچکا۔ لیکن اُنہوں نے اُس کو نہیں پہچانا۔ بلکہ جو چاہا اُس کے ساتھ کیا‘‘۔
اِن تمام حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ الیاس سے مراد اناجیل کی تعلیم کے مطابق یوحنا تھے۔ مسیح کے متعلق تو فیصلہ ہی ہے کہ عہد نامہ جدید والا نبی یسوع ابن مریم ہی مسیح کے نام سے خداتعالیٰ کی طرف سے دنیا میں ظاہر ہوا۔اب رہ گیا ’’ وہ نبی‘‘ نہ یوحنا وہ نبی ہو سکتا ہے نہ مسیح وہ نبی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وہ نبی ایک علیحدہ وجود ہے۔ پھر یہ بھی ثابت ہے کہ وہ نبی مسیح کے زمانہ تک نہیں آیا تھا۔ پس معلوم ہوا کہ وہ موعود جسے بائبل ’’وہ نبی‘‘ کے نام سے یاد کرتی تھی اناجیل کی گواہی کے مطابق مسیح ناصری کے بعد نازل ہونے والا تھا اور مسیح ناصری کے بعد سوائے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی شخص نہیں جس نے ’’ وہ نبی‘‘ ہونے کا دعویٰ کیاہو اور جس پر وہ تمام علامتیں صادق آتی ہوں جو ’’ وہ نبی‘‘ میں پائی جانے والی تھیں جیسا کہ اُوپر ثابت کیا جاچکا ہے۔
(د) اِسی طرح لوقا میں لکھا ہے:۔
’’ اور دیکھو میں اپنے باپ کے اُس موعود کو تم پر بھیجتا ہوں لیکن جب تک عالم بالا کی قوت سے ملبس نہ ہوں یروشلم میں ٹھہرو‘‘۔۱۷۵؎
اِس پیشگوئی سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے بعد ایک اَور موعود ظاہر ہونے والا تھا مگر وہ کون موعود ہے؟ سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آج تک کوئی شخص بھی تو اس پیشگوئی کے پورا کرنے کا مدعی نہیں ہوا۔
(ھ) یوحنا میں لکھا ہے: ۔
’’ لیکن وہ تسلی دینے والا جو روحِ قدس ہے جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھلاوے گا اور سب باتیں جو کچھ کہ میں نے تمہیں کہی ہیں تمہیں یاد دلا دے گا‘‘۔ ۱۷۶؎
یہ پیشگوئی بھی سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی پر صادق نہیں آتی۔ بیشک اِس میں یہ لکھا ہے کہ باپ میرے نام سے اُسے بھیجے گا۔ لیکن نام سے بھیجنے کے یہی معنی ہیں کہ وہ میری تصدیق کرے گا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی تصدیق کی اور آپ کو راست باز قرار دیا اور اعلان فرمایا کہ جو لوگ آپ کو *** کہتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ مسیح خدا کا برگزیدہ اور اس کا رسول ہے۔ اِس جگہ پر یہ صاف لکھا گیا ہے کہ ’’ وہی تمہیں سب چیزیں سکھلا وے گا‘‘ اور استثناء باب ۱۸ کی پیشگوئی میں بھی یہی الفاظ ہیں کہ’’ جو کچھ میں اُسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا‘‘۱۷۷؎ پس اس پیشگوئی میں استثناء باب۱۸ والے نبی ہی کی خبر دی گئی ہے اور یہ پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی صادق آتی ہے جیسا کہ اُوپر لکھا جاچکا ہے اور آپ ہی کا وجود دنیا کو تسلی دینے والا تھا۔
(و) یوحنا باب ۱۶ میں لکھا ہے:۔
’’ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لئے میرا جانا ہی فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو تسلی دینے والا تم پاس نہ آئے گا۔ پر اگر میں جائوں تو میں اُسے تم پاس بھیج دوں گا اور وہ آن کر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے تقصیر وار ٹھہرائے گا۔ گناہ سے اِس لئے کہ وے مجھ پر ایمان نہیں لائے۔ راستی سے اِس لئے کہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے۔ عدالت سے اِس لئے کہ اِس جہان کے سردار پر حکم کیا گیا ہے۔ میری اَور بہت سی باتیں ہیںکہ میں تمہیں کہوں پر اب تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روحِ حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتاوے گی اِ س لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی۔ لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی۔ وہ میری بزرگی کرے گی اِ س لئے کہ وہ میری چیزوں سے پاوے گی اورتمہیں دکھا وے گی‘‘۔۱۷۸؎
اِن آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح کے اُٹھ جانے یعنی مسیح کی وفات کے بعد وہ تسلی دینے والا موعود ظاہر ہو گا۔ وہ دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے تقصیر وار ٹھہرائے گا۔ گناہ سے اِس طرح کہ وہ یہود کو ملامت کرے گا کہ وہ کیوں مسیح پر ایمان نہیں لائے۔ راستی سے اِ س طرح کہ وہ مسیح کی زندگی کا عقیدہ جو غلط طور پر عیسائیوں میں رائج ہو گیا تھا اِس کو دور کرے گا اور دنیا پر ثابت کرے گا کہ دنیا پھر اِس مسیح کو دوبارہ نہیں دیکھے گی جو بنی اسرائیل میں نازل ہوا تھا۔ عدالت سے اِس طرح کہ اُس کے ذریعہ شیطان کو کچل دیا جائے گا۔
پھر یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ روحِ حق جب آئے گی تو وہ ساری سچائی کی راہیں بتائے گی۔ اور یہ بتایا گیا تھا کہ اُس کی الہامی کتاب میں کوئی انسانی کلام نہیں ہو گابلکہ شروع سے لے کر آخر تک خدائی کلام ہی اُس میں ہو گا۔ پھر یہ بتایا گیا تھا کہ وہ آئندہ کی خبریں دے گا اور یہ بھی کہ وہ مسیح کی بزرگی بیان کرے گا اور جو عیب اُس پرلگائے گئے ہیں اُن کو دور کرے گا۔یہ پیشگوئی واضح طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی ہے۔ اِس میں کہا گیا ہے کہ جب تک مسیح آسمان پر نہ جائے، وہ تسلی دلانے والا نہیں آسکتا۔ اعمال باب ۳ آیت ۲۱،۲۲ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے آسمان پر جانے کے اور اس کے دوبارہ نازل ہونے کے درمیان استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کے موعود کو پیدا ہونا ہے پس تسلی دلانے والے سے مراد استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ والا موعود ہی ہے۔
پھر لکھا ہے کہ وہ موعود مسیح کے منکروں کو ملامت کرے گا۔ اِس سے مراد عیسائی تو ہو نہیں سکتے۔کسی شخص کے متبع تو اُس کے دشمنوں کو ملامت کیا ہی کرتے ہیں ۔ یہ علامت بتارہی ہے کہ وہ موعود کسی غیر قوم کا ہوگا اور بظاہر اُس کو مسیح کے ساتھ کوئی نسلی یا مِلّی تعلق نہیں ہوگا مگر اِس وجہ سے کہ وہ راستبازہوگا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا غیر قوم میں سے ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے آپ کو راستبازوں کی عزت کا نگران سمجھے گا اور اُن کی عزّت کی حفاظت کرے گا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسماعیلی نبی تھے۔ عیسائی یا یہودی نہیں تھے۔ مگر باوجود اس کے دیکھو کس طرح اُنہوں نے مسیح کی عزّت کی حفاظت کی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہود کی نسبت فرماتا ہے۔ ۔ ۱۷۹؎ یعنی یہود کے کفرکی وجہ سے اور اُن کے حضرت مریم پر نہایت گندہ الزام لگانے کی وجہ سے اور اُن کے اِس قول کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح ابن مریم کو قتل کردیا ہے جواللہ کا رسول تھا حالانکہ انہوں نے نہ تو اُس کو تلوار سے مارا اور نہ صلیب پر لٹکاکر مارا ۔ صرف اُن کو ایک شبہ پیدا ہوگیا کہ وہ صلیب پر مرگیا ہے مگر یہ صرف شبہ تھا اُنہیں ایسا یقین نہ تھا۔چنانچہ خود اُن کی قوم میں یہ اختلاف چلا آیا ہے اور وہ اس کے بارے میں کسی یقینی بات پر قائم نہیں ۔اُن کو اِس بات کا علم حاصل نہیں بلکہ صرف تخمینی طور پر یہ بات کہتے ہیں اور یہ قطعی بات ہے کہ وہ اُسے مارنے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُس کو صلیب کی *** موت سے بچا کر اپنے مقربوں میں جگہ دی۔ اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ ہراہل کتاب اپنی موت سے پہلے پہلے اس کے متعلق ایمان ظاہر کرتا رہے گاکہ وہ صلیب پر مرگیا ہے ۔ لیکن قیامت کے دن مسیح اُن کے اوپر گواہی دے گا کہ انہوں نے اس پر یہ الزام لگا کر کہ وہ صلیب پر مرگیا ہے افتراء کیا ہے۔ پس یہودیوں کے ان ظلموں کی وجہ سے ہم نے اُن آسمانی نعمتوں سے ان کو محروم کردیا جو پہلے اُن کا حق سمجھی جاتی تھیں۔اِن آیات میں کس طرح حضرت مسیح کے منکروں پر حجت تمام کی گئی ہے۔
دوسری بات یہ فرمائی گئی تھی کہ وہ مسیح کی وفات ثابت کرے گا اور دنیا کو بتا دے گا کہ دنیا پھر اسرائیلی مسیح کو نہیں دیکھے گی۔ یہ کام بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور اس غلط عقیدہ کو باطل کرکے رکھ دیا جو عیسائیوں میں پھیلا ہوا تھا کہ مسیح آسمان پر بیٹھا ہوا ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۱۸۰؎ ان آیات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت مسیح سے سوال کرے گا کہ کیا تُو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو معبود بناؤ؟ حضرت مسیح فرمائیں گے اے ربّ! تیری ذات پاک ہے بھلا میں ایسا کرسکتا تھا کہ وہ بات کہوں جس کا تونے مجھے حق نہیں دیا۔ اگر میں نے ایسا کہا ہوتا تو تیرے علم سے یہ بات چھپ تو نہیں سکتی تھی۔ جوکچھ میرے جی میں ہے تُو جانتا ہے اورجس غرض سے تُو نے یہ سوال کیا ہے میں اُسے نہیں جانتا تُو سب غیبوں کو جاننے والا ہے میں نے تو انہیں وہی بات کہی تھی جس کا تُو نے مجھے حکم دیا تھا ۔ کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی ربّ ہے اور تمہارا بھی ربّ ہے اور جب تک میں اُن میں رہا اُن کا نگران رہا ۔ پھر جب تونے مجھے وفات دے دی تو تُو اُن کا خود نگران تھا اور تو ہرچیز دیکھنے بھالنے والا ہے۔ اگر تُو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تُو انہیں معاف کردے تو تُو بڑا غالب حکمت والا ہے۔
اِن آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور مسیح کی قوم نے اُس وقت اُن کو خدائی کا درجہ دے دیا جب وہ فوت ہوکر اس دنیا سے جاچکے تھے۔ اورجیسا کہ پہلی آیت میں بیان کیا جاچکا ہے دنیا کو یہ بتادیا کہ مسیح کے آسمان پر جانے کے معنے محض یہ ہیں کہ وہ اپنے کام میں کامیاب ہو کر اور باعزت ہوکر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگئے ۔
تیسری خبر یہ دی گئی تھی کہ شیطان اُس کے ذریعہ سے کچل دیا جائے گا۔ تمام نبیوں میں سے محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم ہی ایک ایسے نبی ہیں جنہوں نے شیطان کے کچلنے کے ذرائع کو اختیار کیا اور بنی نوع انسان کی پاکیزگی کے لئے صحیح سامان بہم پہنچائے ۔ مگر اس کی تفصیل کا ابھی وقت نہیں ۔ اس کی تفصیل قرآن شریف کی تفسیر سے ملے گی یا کسی قدر آئندہ اسی دیباچے میں بیان کروں گا۔ مگرا یک موٹی بات تو ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ کسی نبی نے بھی شیطان سے پناہ مانگنے کی دُعا اپنی اُمت کو نہیں سکھائی سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ مسلمان اپنے کاموں میں اُٹھتے بیٹھتے شیطان اور اس کے حملوں سے پناہ مانگتے ہیں ۔ یہ تعلیم گذشتہ انبیاء میں سے کسی کے ہاں نہیں پائی جاتی۔ پس جس قوم کو شیطان کا سرکچلنے کی ہدایت دن اور رات ملتی رہی ہو اور جس کے دل شیطانی حکومت کے توڑنے کا احساس ہر وقت زندہ رکھا جاتا ہو ظاہر ہے کہ وہی شیطان کو مارنے کی اہل سمجھی جائے گی اور اسی قوم کا نبی شیطان کو مارنے والا کہلائے گا۔ یہ تو نہ کبھی پہلے ہوا ہے نہ آئندہ ہوگا کہ شیطانی وسائل اِس دنیا سے بالکل مٹ جائیں کیونکہ اس کے بغیر تو ایمان کی قدر ہی کوئی باقی نہیں رہتی۔ شیطان کے مارنے کے معنے یہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ نیکی دنیا میں قائم کی جائے ۔ کلیسیا تو بہر حال اِس کا مستحق نہیں ہوسکتا کیونکہ اُس نے تو شریعت کو *** قرار دے کر نیکی کا وجود ہی مشتبہ کر دیا ہے۔ اورجو یہ کہا گیا تھا کہ وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتائے گی۔ اِس کی تشریح میں استثناء باب۱۸ کی پیشگوئی کے ماتحت کر آیا ہوں۔ آئندہ کی خبروں کے متعلق جو کہا گیاہے اِس کیلئے صرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جتنی آئندہ کی خبریں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہیں اور کسی نبی نے نہیںدیں۔ اِس پر کچھ روشنی آگے چل کر ڈالی جائے گی یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور یہ جو کہا گیا تھا کہ اُس کا کلام سارے کا سارا کلام اللہ ہو گا یہ بھی ایک ایسی پیشگوئی ہے جس کا اور کوئی مصداق نہیں ہو سکتا۔ عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید کی کوئی بھی تو کتاب نہیں جو انسانی کلام سے خالی ہو، لیکن قرآن کریم وہ کتاب ہے جس میں شروع سے لے کر آخر تک وہی بیان کیا گیا ہے جو خد اتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اَور وں کا تو ذکر کیا خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا بھی ایک لفظ اِس کتاب میں نہیں۔ آخر میں یہ جو کہا گیا تھا کہ ’’ وہ میری بزرگی کر ے گی‘‘ سو یہ بزرگی کرنے والے نبی بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ آپ ہی ہیں جنہوں نے مسیح کو اس الزام سے بچایا کہ وہ صلیبی موت سے مرکر نَعُوْذُ بِاللّٰہ *** ہوا۔ آپ ہی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کو اِس الزام سے بچایا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہ خدائی کا دعویٰ کر کے وہ خدا تعالیٰ سے بیوفائی اور غداری کرتے تھے۔ آپ ہی ہیں جنہوں نے حضرت مسیحؑ کو یہودیوں کے اعتراضات سے نجات دلائی۔ پس اِس پیشگوئی کا مصداق آپؐ کے سوا کوئی نہیں۔
(ز) کتاب اعمال میں لکھا ہے:۔
’’ ضرور ہے کہ آسمان اُسے (یعنی مسیح کو) لئے رہے اُس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر خد انے اپنے سب پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا اپنی حالت پر آویں۔ کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اُٹھاوے گا۔ جو کچھ وہ تمہیں کہے اُس کی سب سنو اور ایسا ہی ہو گا کہ ہر نفس جو اُس نبی کی نہ سنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا۔ بلکہ سب نبیوں نے سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا اِن دنوں کی خبر دی‘‘۔۱۸۱؎
اِن آیات میں حضرت موسیٰ کی کتاب استثناء والی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ آنے والا موعود جب تک ظاہر نہ ہو جائے اُس وقت تک مسیح کی دوبارہ آمد نہیں ہو گی۔ استثناء کی پیشگوئی میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ موعود نئی شریعت لائے گا۔ پس اِس پیشگوئی کو اعمال میں دُہر اکر اِس بات کا اقرار کیا گیا ہے کہ آنے والے موعود کے ذریعہ سے مسیح کی تعلیم منسوخ کر دی جائے گی ورنہ نئی شریعت کے تو کوئی معنی ہی نہیںہو سکتے۔ ایک ہی وقت میں ایک قوم میں دو شریعتیں تو چل نہیں سکتیں۔ پس یہ آنے والا موعود یقینا ارتقاء کا آخری نقطہ ہے۔ جو موسیٰ اور مسیح کی تعلیموں کو منسوخ کرنے والا تھا اور جس کو ایک نئی شریعت دنیا کے سامنے ظاہر کرنی تھی۔ اعمال نے ایک اَور روشنی بھی اِس موعود کے متعلق ڈالی ہے اور وہ یہ کہ سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبی گزرے ہیں اُنہوں نے اِس موعود کی خبر دی ہے۔ موسیٰ کی خبر کا تو پہلے ذکر آچکا ہے اوردائود نبی سموئیل کے بعد ہوئے ہیں۔ اِس لیے اعمال کی آیت ۲۴ کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ سے لے کر تمام انبیاء نے اس آنے والے کی خبر دی ہے۔ پس جب تک یہ نبی دنیا میں ظاہر نہ ہو اُس وقت تک دنیا کی روحانی تعمیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ اور میں پہلے ثابت کر آیا ہوں کہ یہ نبی بائبل کی بتائی ہوئی علامتوں کے مطابق سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کوئی شخص نہیں۔ حاصل یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی تمام انبیاء کا موعود تھا اور آپ کی شریعت ہی تمام انبیاء کی موعود تھی۔ پس یہ اعتراض کسی صورت میں درست نہیں ہو سکتا کہ تورات اور انجیل کی موجودگی یا اَور کتابوں کی موجودگی میں قرآن کریم کی کیا ضرورت ہے۔ جب سابق نبیوں نے قرآن کریم کی ضرورت تسلیم کی ہے اور اس کی پیشگوئی کی ہے تو اُن کی اُمتوں کو کیا حق ہے کہ وہ اِس کی ضرورت سے انکار کریںبلکہ اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ قرآن کریم کی ضرورت سے انکار کریں گی تو اُن کے نبیوں کی صداقت بھی مشتبہ ہوجائے گی اور اِن نبیوں کی پیشگوئیاں جھوٹی ثابت ہو کر وہ موسیٰ کے اس قول کی زد میں آجائیں گی ’’ جب نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور وہ جو اُس نے کہا ہے واقع نہ ہو یا پورا نہ ہو تو وہ بات خداوند نے نہیں کہی اور اس نبی نے گستاخی سے کہی ہے تو اس سے مت ڈر‘‘۔۱۸۲؎
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
یہ مضمون بیان کرنے کے بعد کہ باوجود بہت سی الہامی کتب کے موجود ہونے کے آج سے تیرہ سَو سال پہلے دنیا ایک اَور شریعت اور ایک اَور کتاب کی محتاج تھی میں اِس مضمون کو اختصاراً لیتا ہوں کہ قرآن کریم کس شخص پر نازل ہوا اور کن حالات میں نازل ہوا۔ کیونکہ یہ مضمون بھی قرآن کریم کی اہمیت سمجھنے کے لئے نہایت ممد ہے۔ گو فلسفی مزاج لوگوں کے لئے تو اتنا دیکھنا ہی کافی ہوتا ہے کہ جو مضمون اِن کے سامنے پیش کیا گیا ہے وہ کیا قیمت رکھتا ہے۔ چنانچہ عربی میں مثل ہے اُنْظُرْ اِلٰی مَاقِیْلَ وَلَا تَنْظُرْ اِلٰی مَنْ قَالَ۔ تُو یہ دیکھ کہ جو بات کہی گئی وہ کیا ہے اور اِس بات کی طرف نہ دیکھ کہ اس کا کہنے والا کون ہے۔ مگر دنیا کی اکثریت یہ بھی دیکھنا چاہتی ہے کہ کہنے والا کون ہے۔ اور خصوصاً الہامی کتابوں کے متعلق تو یہ نہایت ضروری ہوتا ہے کہ اِن کتابوں کو پیش کرنے والوں کے یعنی اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے متعلق بھی دنیا کو یہ معلوم ہو کہ اُن کی زندگی کیسی تھی کیونکہ مذہبی قانون صرف حکم سے منوایا نہیں جاتا ہے۔ حکومت نظام کے لئے قائم ہوتی ہے اور اس کا تعلق صرف ظاہر سے ہوتا ہے اِس لئے کسی ملک کی آئینی تنظیم کے لئے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ اُس میں ایک آئین پایا جائے۔ کیونکہ قانون کا منشاء صرف اِس قدر ہوتا ہے کہ لوگوں کا ظاہر قانون کا پابند ہو جائے۔ چنانچہ عدالتوں میں کسی کی نیت بُری ثابت کرنا اُس کو مجرم نہیں بنا دیتا جب تک اُس نیت کے مطابق اُس کے فعل کا صدور بھی اُس سے ثابت نہ ہو مگر مذہبی دنیا میں ظاہر سے بھی زیادہ باطن پر زور دیا جاتا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ظاہر کو ترک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ظاہر ،باطن کی علامت ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ظاہری اصلاح کے ساتھ باطنی اصلاح بھی ہو جائے مگر باطنی اصلاح کے ساتھ ظاہری اصلاح کا ہو جانا لازمی ہے۔ جس طرح یہ نہیں ہو سکتا کہ آگ ہو لیکن اس سے گرمی پیدا نہ ہو، اِسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ دل میں صفائی ہو اور ظاہری اعمال اُس کے مطابق نہ ہوں۔ عارضی کوتاہی یا غفلت اور بات ہے لیکن عام طور پر دل کی صفائی کے مطابق انسان کے اعمال صادر ہوتے ہیں اور دل کی صفائی کا بہترین ذریعہ اچھا نمونہ ہوتا ہے۔ قانون انسان کے دماغ پر اثر ڈالتا ہے لیکن اچھا نمونہ انسا ن کے دل پر اثر ڈالتا ہے۔ قانون کی حکومت فکر پر ہوتی ہے لیکن اچھے نمونہ کی حکومت جذبات پر ہوتی ہے۔ ہم صرف فکر کی اصلاح سے انسان کی روحانی اور جسمانی اصلاح نہیں کر سکتے۔ فکر کا نتیجہ غیر متواتر اعمال کے ذریعہ سے ظاہر ہوتاہے لیکن جذبات کا نتیجہ متواتر اور مسلسل اعمال کے ذریعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ ایک عام خیر خواہ انسان جس رنگ میں اپنے گردو پیش کے لوگوں کی خیر خواہی کرتا ہے اُس کی خیر خواہی کا نمونہ اُس خیر خواہی کے نمونہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو ماں اپنے بچہ کے متعلق دکھاتی ہے۔ اِس لئے کہ جس کا دماغ اخلاقی تعلیم سے متأثر ہو اہے وہ اُس شخص کا مقابلہ نہیں کر سکتا جس کے جذبات اخلاقی تعلیم سے متأتر ہوں۔ ماں کی محبت اپنے بچہ سے اُس کے جذبات کی وجہ سے ہوتی ہے اور ایک فلاسفر کی محبت اپنے ہمسایوں سے دلائلِ عقلیہ کی بناء پر ہوتی ہے۔
انبیاء کے اعمال فکری جذباتی ہوتے ہیں اور لوگوں کے لئے نمونہ
جو اعمال دلائل کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں وہ متواتر اور مسلسل نہیں ہو سکتے کیونکہ بعض دفعہ انسان کی توجہ حقیقت کی
طرف نہیں پھرتی۔ بعض دفعہ اُس کے ارادہ اور عمل کے درمیان ایک لمبی سوچ اور فکر حائل ہو جاتی ہے مگر جو جذبات کے ماتحت لوگوں سے کوئی کام کرتا ہے اُس کے کام فوری ہوتے ہیں اور مسلسل ہوتے ہیں۔ ماں کو اگر کوئی لاکھ دلیل دے کہ تُو اپنے بچہ کے لئے قربانی نہ کر جو کر رہی ہے تو وہ کبھی اُس کی بات نہیں مانے گی اوربچے کی تکلیف کے متعلق وہ سوچنے نہیں بیٹھے گی۔ وہ اندھا دھند اور فوری طور پر اپنے بچہ کی خیر خواہی کے لئے وہ تدابیر اختیار کر نے کو آمادہ ہو جائے گی جو تدابیر اُس کے نزدیک اُس کے بچہ کے فائدہ کے لئے ضروری ہوں گی اور رات اور دن میں کوئی وقت بھی ایسا نہیں ہو گا جب اُس کا دماغ اپنے بچہ کی خیر خواہی سے خالی ہو۔ پس حقیقی اصلاح جبھی ہو سکتی ہے کہ اخلاقِ فاضلہ بنی نوع انسان کے جذبات کا حصہ بنا دئیے جائیں۔ وہ اخلاق کے مطالبات کو فکر کے بعد پورا نہ کریں بلکہ اخلاقی مطالبات کو اپنی ذات میں محسوس کرنے لگیں۔ جذبات کو بعض لوگ بُرا کہتے ہیں لیکن جذبات بُرے ہی نہیں اچھے بھی ہوتے ہیں۔ جذبہ کے اصل معنی تو یہ ہیں کہ ارادہ اور عمل کے درمیان جو فکر کی لمبی دیوار کھڑی ہوتی ہے وہ چھوٹی کر دی جائے یا بالکل اُڑا دی جائے تاکہ انسانی اعمال محدودہوکر نہ رہ جائیں بلکہ جذبات کی وجہ سے وہ سینکڑوں گنے زیادہ ترقی کر جائیں۔ جو شخص خالی فکر سے کام لیتا ہے وہ بہت سا وقت سوچنے اور غور کرنے میں گزار دیتا ہے۔ لیکن جو شخص ایک دفعہ سوچ کر اور غور کر کے ایک سچائی کو معلوم کر لیتا ہے اور ایک نیکی کو پا لیتا ہے پھر وہ اُس سچائی اور نیکی کو اپنے دل کی طرف منتقل کر دیتا ہے اور اسے اپنے جذبات کا حصہ بنا دیتاہے تو وہ اُس نیکی اور سچائی پر عمل کرنے میں اتنا تیز اور پھرتیلا ہوتا ہے کہ وہ شخص جو صرف فکر سے کام لینے کا عادی ہے اُس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔ فکر سے کام لینے والا جتنی دیر میں ایک کام کرے گا جذبات سے کام لینے والا اُتنی دیر میں بیسیوں کام کر جائے گا اور ہم اس جذبات سے کام لینے والے شخص کو وحشی نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ جذبات کا غلام نہیں ہے بلکہ پہلے اُس نے فکر اور غور سے سچائیوں اور نیکیوں کو دریافت کیا اس کے بعد اُس نے اُن سچائیوں اور نیکیوں کو اپنے جذبات کا حصہ بنا لیا۔ پس ایسے شخص کا جذباتی عمل غیرارادی نہیں ہوتا بلکہ ارادہ کے تابع ہوتا ہے۔ صرف اتنی بات ہے کہ یہ اُس کام کو جو ایک دفعہ فکر سے لے چکا ہے بار بار دُہرانا نہیں چاہتا اور ایک ایسا کا م جو پہلے کیا جا چکا ہو اُس کو بغیر ضرورت دُہرانا عقلمندی تو نہیں بیوقوفی کی بات ہے۔ پس یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی اصلاح اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک سچائیاں اور نیکیاں انسان کے جذبات کا جزو نہ بن جائیں۔ جب تک انسان صرف فکر کی اتباع کرے گا وہ دُبْدَھا۱۸۳؎ اور شک اور دیر کا شکار رہے گا۔ جب وہ سچائیوں اور نیکیوں کے اصول کو فکر اور غور سے معلوم کرکے اپنے جذبات کا حصہ بنا لے گا تو دُبْدَھا اور شک اور دیر سے وہ محفوظ ہو جائے گا۔ وہ سچائیوں پر عمل کرے گا اور نیکیاں ظاہر کر ے گا مگر بغیر تردّد کے، بغیر شبہ کے، بغیر دُبْدَھا کے۔ اوریہ چیز جیساکہ میں نے بتایا ہے بغیر اچھے نمونہ کے پیدا نہیں ہو سکتی۔ ہم عقلی دلیل سے اپنے دماغ کو تسلی دیتے ہیں۔ عقلی دلیل محبت کے جذبات کو نہیں اُبھارا کرتی۔ محبت کے جذبات کو قربانی اور ایثار کا نمونہ ہی اُبھارا کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی عبادت کے الفاظ کتنے ہی شاندار ہوں اُن سے وہ سوزو گداز پیدا نہیں ہو سکتا جو ایک انسان کو سوزو گداز سے عبادت کرتے ہوئے دیکھ کر پید اہوتا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ خالی نمونہ بھی ٹھوکر کا موجب ہو جاتا ہے کیونکہ جب تک فکر پاکیزہ نہ ہو جذبات رسم و رواج کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور رسم ورواج عقل اور دانائی کو قتل کر دینے والی چیز یں ہیں۔ پس ایک ہی وقت میں مدلل تعلیم کی بھی ضرورت ہے اور پاک نمونہ کی بھی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آسمانی کتابیں ہمیشہ نبیوں پر نازل ہوتی رہی ہیں۔ خالی کتاب کبھی آسمان سے نہیں پھینکی گئی۔ کتاب انسان کے دماغ کو نور بخشتی ہے اورنمونہ اُس کتاب کے مضمون کو انسان کے دل میں داخل کر دیتا ہے اور اُس کے جذبات کا حصہ بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن میدانوں میں خدا تعالیٰ کے انبیاء کامیاب ہوئے ہیں فلاسفراُن میدانوں میں ہمیشہ ناکام ہوئے ہیں کیونکہ فلاسفر اپنے فلسفوں سے ہمیشہ لوگوں کے دماغوں کی اصلاح کی فکر کرتے ہیں مگر اپنے اچھے نمونہ سے اُن کے دلوں کی اصلاح نہیں کرتے۔ جبکہ انبیاء آسمانی کتابوں کے ذریعہ سے لوگوں کے دماغوں کو بھی نور بخشتے ہیں اور اپنے نمونہ کے ذریعہ سے اُ ن کے دلوں کو بھی پاک کرتے ہیں اوراُن کی ذات میں جو خدا تعالیٰ کے معجزات اور نشانات ظاہر ہوتے ہیں وہ لوگوں کے ایمان اور یقین کو بڑھانے کا موجب ہوتے ہیں۔ اِس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں یہ ضروری ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے کچھ حالات بھی اِس موقع پر بیان کر دئیے جائیں۔
آنحضرت ﷺ کے حالاتِ زندگی
خدا تعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا نشان اور اِسلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان
ثبوت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات جتنے ظاہر ہیں اور کسی نبی کی زندگی کے حالات اتنے ظاہر نہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس تفصیل کے نتیجہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنے اعتراض ہوئے ہیں اتنے اعتراض اور کسی نبی کے وجود پر نہیں ہوئے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان اعتراضوں کے حل ہوجانے کے بعد جس طرح شرح صدر اور جس اخلاص سے ایک انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے محبت کر سکتا ہے اور کسی انسان کی ذات سے اتنی محبت ہرگز نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جن کی زندگیاں پوشیدہ ہوتی ہیں اُن کی محبت میں رخنہ پڑجانے کا احتمال ہمیشہ رہتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو ایک کھلی کتاب تھی۔ دشمن کے اعتراضات حل ہونے کے بعد کوئی ایسا کونہ نہیں رہتا جس پر سے مڑنے کے بعد آپ کی زندگی کے متعلق ایک نیا زاویہ نگاہ ہمارے سامنے آسکتا ہو۔ نہ کوئی تہہ ایسی باقی رہتی ہے جس کے کھولنے کے بعد کسی اور قسم کی حقیقت ہم پر ظاہر ہوتی ہو۔ یہ امر ظاہر ہے کہ ایسے انسان کی زندگی کے حالات قرآن کریم کے دیباچہ میں ضمنی طور پر مختصراً بھی نہیں بیان کئے جا سکتے۔ صرف اُن کی طر ف ایک خفیف سا اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ خفیف اشارہ بھی اِس سے بہتر رہے گا کہ میں اس مضمون کو ہی ترک کردوں کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے آسمانی کتب کو صحیح معنوں میں لوگوں کے دماغوں میں راسخ کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اُس کے ساتھ اعلیٰ نمونہ بھی ہو اور سب سے اعلیٰ نمونہ وہی ہو سکتا ہے جس پر وہ کتاب نازل ہوئی ہو۔ یہ نقطہ باریک اور فلسفیانہ ہے اور بہت سے مذاہب نے تو اِس کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں۔ چنانچہ ہندو مذہب ویدوں کو پیش کرتا ہے مگر ویدوں کے لانے والے رشیوں اور منیوں کی تاریخ کے متعلق بالکل خاموش ہے۔ ہندو مذہب کے علماء اِس کی ضرورت کو آج تک بھی نہیں سمجھ سکے۔ اِسی طرح عیسائی اور یہودی علماء اورپادری بڑی بیباکی سے کہہ دیتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے فلاں نبی میں فلاں نقص تھا اور فلاں نبی میں فلاں نقص تھا۔ وہ یہ بات نہیں سمجھ سکتے کہ جس شخص کو خد اتعالیٰ نے اپنے کلام کے لئے چنا جب وہ کلام اُس کی اصلاح نہیں کر سکا تو کسی دوسرے کی اصلاح کیا کرے گا اور اگر وہ شخص ایسا ہی ناقابل اصلاح تھا تو خد اتعالیٰ نے اُسے چنا کیوں؟ کیا وجہ ہے کہ کسی اور کو نہیں چن لیا؟ آخر خدا تعالیٰ کے لئے کیا مجبوری تھی کہ وہ زبور کے لئے دائود کو چنتا۔ وہ بنی اسرائیل میں سے کسی اور انسان کا انتخاب کر سکتا تھا۔ پس یہ دونوں باتیں غیر معقول ہیں۔ یہ خیال کر لینا کہ خدا تعالیٰ نے جس پر کلام نازل کیا وہ کلام اُس کی اصلاح نہیں کر سکا یا یہ خیال کر لینا کہ خدا تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو چن لیا جو ناقابل اصلاح تھا یہ دونوں باتیں عقل کے بالکل خلاف ہیں۔ مگر بہرحال مختلف مذاہب میں اپنے منبع سے دوری کی وجہ سے اِس قسم کے غلط خیالات پیدا ہو گئے ہیں۔ یا یوں کہو کہ انسانی دماغ کی ترقی کے کامل نہ ہونے کے سبب سے پرانے زمانہ میں اِن چیزوں کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں گیا۔ مگر اِسلام میں شروع سے ہی اس امر کی اہمیت سمجھی گئی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہؓ تیرہ چودہ سال کی عمر میں آپ سے بیاہی گئیں اور کوئی سات سال کا عرصہ آپ کی صحبت میں رہیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو اُن کی عمر۲۱ سال تھی اور وہ پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں لیکن باوجود اِس کے اُن پر یہ فلسفہ روشن تھا۔ ایک دفعہ آپ سے کسی نے سوال کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق تو کچھ فرمائیے تو آپ نے فرمایا کَانَ خُلُقُہٗ کُلُّہُ الْقُرْاٰنُ ۱۸۴؎ یعنی آپ کے اخلاق کا پوچھتے ہو جو کچھ آپ کہا کرتے تھے اُنہی باتوں کا قرآن کریم میں حکم ہے اور قرآن کریم کی لفظی تعلیم آپ کے عمل سے جداگانہ نہیںہے۔ ہر خلق جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اُس پر آپ کا عمل تھا اور ہر عمل جو آپ کرتے تھے اُسی کی قرآن کریم میں تعلیم ہے۔ یہ کیسی لطیف بات ہے ۔ معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اتنے وسیع اور اتنے اعلیٰ تھے کہ ایک نوجوان لڑکی جو تعلیم یافتہ بھی نہیں تھی اُس کی توجہ کو بھی اِس حد تک پھر انے میں کامیاب ہوگئے کہ ہندو، یہودی اور مسیحی فلسفی جس امر کی حقیقت کو نہ سمجھ سکے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس امر کی حقیقت کو پاگئیں اور ایک چھوٹے سے فقرہ میں آپ نے یہ لطیف فلسفہ بیان کردیا کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک راستباز اور مخلص انسان دنیا کو ایک تعلیم دے اور پھر اُس پر عمل نہ کرے یا خود ایک نیکی پر عمل کرے اور دنیا سے اُسے چھپائے اس لئے تمہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق معلوم کرنے کے لئے کسی تاریخ کی ضرورت نہیں ۔ وہ ایک راستباز اور مخلص انسان تھے جو کہتے تھے وہ کرتے تھے اور جوکرتے تھے وہ کہتے تھے۔ ہم نے اُن کو دیکھا اور قرآن کریم کو سمجھ لیا۔ تم جوبعد میں آئے ہو قرآن پڑھو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھ لو۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
محمد ﷺکے ظہور کے وقت عرب کی حالت
بت پرستی
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس زمانہ میں پیدا ہوئے اُس زمانہ کے حالات کو بھی آپ کے حالات کا ایک حصہ ہی سمجھنا چاہئے کیونکہ اِسی پس پردہ کو مدنظر
رکھ کر آپ کی زندگی کے حالات کی حقیقت کو انسان اچھی طرح سمجھ سکتا ہے ۔ آپ مکہ مکرمہ میں پیداہوئے اورآپ کی پیدائش شمسی حساب سے اگست ۵۷۰ء میں بنتی ہے۔ آپ کی پیدائش پر آپ کا نام محمد رکھا گیا جس کے معنے تعریف کئے گئے کے ہیں۔ جب آپ پیدا ہوئے اُس وقت تمام کا تمام عرب سوائے چند مستثنیات کے مشرک تھا ۔ یہ لوگ اپنے آپ کو ابراہیم ؑ کی نسل میں سے قرار دیتے تھے اور یہ بھی مانتے تھے کہ ابراہیم ؑ مشرک نہیں تھے لیکن اِس کے باوجود وہ شرک کرتے تھے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ بعض انسان ترقی کرتے کرتے خداتعالیٰ کے ایسے قریب ہوگئے ہیں کہ اُن کی شفاعت خدا تعالیٰ کی درگاہ میں ضرور قبول کی جاتی ہے اور چونکہ خداتعالیٰ کا وجود بہت بلند شان والا ہے اُس تک پہنچنا ہر ایک انسان کا کام نہیں کامل انسان ہی اُس تک پہنچ سکتے ہیں اس لئے عام انسانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی وسیلہ بنائیں اور اس وسیلہ کے ذریعے سے خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور مدد حاصل کریں ۔ اس عجیب و غریب عقیدہ کی رو سے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو موحّد مانتے ہوئے اپنے لئے شرک کا جواز بھی پیدا کرلیتے تھے۔ ابراہیم ؑبڑا پاکباز تھا۔ وہ خدا کے پاس براہ راست پہنچ سکتا تھا مگر مکہ کے لوگ اس درجہ کے نہیں تھے اس لئے انہیں بعض بڑی ہستیوں کو وسیلہ بنانے کی ضرورت تھی۔ جس غرض کے حصول کے لئے وہ ان ہستیوں کے بُتوں کی عبادت کرتے تھے اور اس طرح بخیالِ خود اُن کو خوش کرکے خداتعالیٰ کے دربار میں اپنا وسیلہ بنالیتے تھے ۔اس عقیدہ میں جو تقائص اور بے جوڑ حصے ہیں اُن کے حل کرنے کی طرف اُن کا ذہن کبھی گیا ہی نہیں تھا کیونکہ کوئی موحّد معلم ان کو نہیں ملا تھا۔ جب شرک کسی قوم میں شروع جاتا ہے تو پھر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ایک سے دوبنتے ہیں اور دوسے تین۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت خانہ کعبہ میں (جو اب مسلمانوں کی مقدس مسجد ہے اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیھما السلام کا بنایا ہوا عبادت خانہ ہے) مؤرخین کے قول کے مطابق تین سَو ساٹھ بُت تھے گویا قمری مہینوں کے لحاظ سے ہردن کے لئے ایک علیحدہ بُت تھا۔ اِن بُتوں کے علاوہ اِرد گرد کے علاقوں کے بڑے بڑے قصبات میں اور بڑی بڑی اقوام کے مراکز میں علیحدہ بُت تھے گویا عرب کا چپہ چپہ شرک میں مبتلا ہورہا تھا۔ عرب لوگوں میں زبان کی تہذیب اور اصلاح کا خیال بہت زیادہ تھا انہوں نے اپنی زبان کو زیادہ سے زیادہ علمی بنانے کی کوشش کی مگر اس کے سوا اُن کے نزدیک علم کے کوئی معنی نہ تھے۔ تاریخ ، جغرافیہ، حساب وغیرہ علوم میں سے کوئی ایک علم بھی وہ نہ جانتے تھے۔ ہاں بوجہ صحراء کی رہائش اور اس میں سفر کرنے کے علم ہیئت کے ماہر تھے۔ سارے عرب میں ایک مدرسہ بھی نہ تھا۔ مکہ مکرمہ میں کہاجاتا ہے کہ صرف چند گنتی کے آدمی پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ اخلاقی لحاظ سے عرب ایک عجیب متضاد قوم تھی ۔ اُن میں بعض نہایت ہی خطرناک گناہ پائے جاتے تھے اور بعض ایسی نیکیاں بھی پائی جاتی تھیں کہ جواُن کی قوم کے معیار کو بہت بلند کردیتی تھیں۔
شراب نوشی اور قمار بازی
عرب شراب کے سخت عادی تھے اور شراب کے نشہ میں بے ہوش ہوجانا یا بکواس کرنے لگنا اُن کے
نزدیک عیب نہیں بلکہ خوبی تھا۔ ایک شریف آدمی کی شرافت کی علامتوں میں سے یہ بھی تھا کہ وہ اپنے دوستوں اور ہمسائیوں کو خوب شراب پلائے ۔امراء کے لئے دن کے پانچ وقتوں میں شراب کی مجلسیں لگانا ضروری تھا ۔جوا اُن کی قومی کھیل تھی مگر اُس کو انہوں نے ایک فن بنالیا تھا۔ وہ جو ا اس لئے نہیں کھیلتے تھے کہ اپنے اموال بڑھائیں بلکہ جوئے کو انہوں نے سخاوت اور بڑائی کا ذریعہ بنایا ہوا تھا۔ مثلاً جوا کھیلنے والوں میں یہ معاہدہ ہوتا تھا کہ جو جیتے وہ جیتے ہوئے مال سے اپنے دوستوں اور اپنی قوم کی دعوتیں کرے۔ جنگوں کے موقع پر جوئے کو ہی روپیہ جمع کرنے کا ذریعہ بنایا جاتا تھا ۔ جنگ کے ایام میں آجکل بھی لاٹری کا رواج بڑھ رہا ہے مگر یورپ اور امریکہ کے لاٹری بازوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس ایجاد کا سہرا عربوں کے سر ہے ۔ جب کبھی جنگ ہوتی تھی تو عرب قبائل آپس میں جوا کھیلتے تھے اور جو جیتتا تھا وہ جنگ کے اکثر اخراجات اُٹھاتا تھا ۔ غرض دنیاکی دوسری آسائشوں اور سہولتوں سے محروم ہونے کا بدلہ عربوں نے شراب اور جوئے سے لیا تھا۔
تجارت
عرب لوگ تاجر تھے اوراُن کے تجارت کے قافلے دور دور تک جاتے تھے ۔ ایبے سینیا سے بھی وہ تجارت کرتے تھے اور شام اور فلسطین سے بھی وہ تجارت
کرتے تھے ہندوستان، سے بھی ان کے تجارتی تعلقات تھے ۔ ان کے امراء ہندوستان کی بنی ہوئی تلواروں کی خاص قدر کرتے تھے ۔ کپڑا زیادہ تریمن اورشام سے آتا تھا۔ یہ تجارتیں عرب کے شہروں کے ہاتھ میں تھیں بقیہ عرب سوائے یمن اور بعض شمالی علاقوں کے بدوی زندگی بسر کرتے تھے۔ نہ اُن کے کوئی شہر تھے نہ اُن کی کوئی بستیاں تھیں۔ صرف قبائل نے ملک کے علاقے تقسیم کر لیے تھے۔ اِن علاقوں میں وہ چکر کھاتے پھرتے تھے۔ جہاں کا پانی ختم ہو جاتا تھا وہاں سے چل پڑتے تھے اور جہاں پانی مل جاتا تھا وہاں ڈیرے ڈال دیتے تھے۔ بھیڑ، بکریاں، اُونٹ اُن کی پونجی ہوتے تھے اُن کی صوف اور اُون سے کپڑے بناتے۔ اُن کی کھالوں سے خیمے تیار کرتے اور جو حصہ بچ جاتا اُسے منڈیوں میں لے جا کر بیچ ڈالتے۔
عرب کے دیگر حالات و عادات و خصائل
سونے چاندی سے وہ نا آشناتو تھے مگر سونا اور چاندی ان
کے لئے ایک نہایت ہی کمیاب جنس تھی۔ حتی کہ اُن کے عوام اور غرباء میں زیورات کوڑیوں اور خوشبودار مصالحوں سے بنائے جاتے تھے۔ لونگوں اور خربوزوں اور ککڑیوں وغیرہ کے بیجوں اور اِسی قسم کی اَور چیزوں سے وہ ہار تیار کر تے اوراُن کی عورتیں یہ ہار پہن کر زیوروں سے مستغنی ہو جاتی تھیں۔ فسق و فجور کثرت سے تھا۔ چوری کم تھی مگر ڈاکہ بے انتہاء تھا۔ ایک دوسرے کو لُوٹ لینا وہ ایک قومی حق سمجھتے تھے مگر اس کے ساتھ ہی قول کی پاسداری جتنی عربوں میں ملتی ہے اتنی اور کسی قوم میں نہیں ملتی۔ اگر کوئی شخص کسی طاقتور آدمی یا قوم کے پاس آکر کہہ دیتا کہ میں تمہاری پناہ میں آگیا ہوں تو اُس شخص یا اُس قوم کے لئے ضروری ہوتا تھا کہ وہ اُس کو پناہ دے۔ اگر وہ قوم اُسے پناہ نہ دے تو سارے عرب میں وہ ذلیل ہو جاتی تھی۔ شاعروں کو بہت بڑا اقتدار حاصل تھا وہ گویا قومی لیڈر سمجھے جاتے تھے۔ لیڈروں کے لئے زبان کی فصاحت اور اگر ہوسکے تو شاعر ہونا نہایت ضروری تھا۔ مہمان نوازی انتہاء درجہ تک پہنچی ہوئی تھی۔ جنگل میں بھولا بھٹکا مسافر اگر کسی قبیلہ میں پہنچ جاتا اور کہتاکہ میں تمہارا مہمان آیا ہوں تو وہ بے دریغ بکرے اور دنبے اور اُونٹ ذبح کر دیتے تھے۔ اُن کے لئے مہمان کی شخصیت میں کوئی دلچسپی نہ تھی، مہمان کا آجانا ہی اُن کے نزدیک قوم کی عزت اور احترام کو بڑھانے والا تھا اور قوم پر فرض ہو جاتا تھا کہ اُس کی عزت کر کے اپنی عزت کو بڑھائے۔ عورتوں کو کوئی حقوق اُس قوم میں حاصل نہیں تھے۔ بعض قبائل میں یہ عزت کی بات سمجھی جاتی تھی کہ باپ اپنی لڑکی کو مار ڈالے۔ مؤرخین یہ بات غلط لکھتے ہیں کہ سارے عرب میں لڑکیوں کو مارنے کا رواج تھا۔ یہ رواج تو طبعی طور پر سارے ملک میں نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر سارے ملک میں یہ رواج جاری ہو جائے تو پھر اُ س ملک کی نسل کس طرح باقی رہ سکتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عرب اور ہندوستان اور دوسرے ممالک میں جہاں جہاں بھی یہ رواج پایا جاتا ہے اِس کی صورت یہ ہوا کرتی ہے کہ بعض خاندان اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر یا بعض خاندان اپنے آپ کو ایسی مجبوریوں میں مبتلا دیکھ کر اُن کی لڑکیوں کے لئے اُن کی شان کے مطابق رشتے نہیں ملیں گے لڑکیوں کو مار دیا کرتے ہیں۔ اِس رواج کی بُرائی اُس کے ظلم میں ہے نہ اِس امر میں کہ ساری قوم میں سے لڑکیاں مٹا دی جاتی ہیں۔ عربوں کی بعض قوموں میں تو لڑکیاں مارنے کا طریقہ یوں رائج تھا کہ وہ لڑکی زندہ دفن کر دیتے تھے اور بعض میں اس طرح کہ وہ اُس کا گلا گھونٹ دیتے تھے اور بعض اَور طریقوں سے ہلاک کر دیتے تھے۔ اصلی ماں کے سوا دوسری مائوں کو عرب لوگ ماں نہیں سمجھتے تھے اور اُن سے شادیاں کرنے میں حرج نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ باپ کے مرنے کے بعد کئی لڑکے اپنی سوتیلی مائوں سے بیاہ کر لیتے تھے۔ کثرتِ ازدواج عام تھی۔ کوئی حد بندی نکاحوں کی نہیں ہوتی تھی۔ ایک سے زیادہ بہنوں سے بھی ایک شخص شادی کر لیتا تھا۔ لڑائی میں سخت ظلم کرتے تھے جہاں بغض بہت زیادہ ہوتا تھا زخمیوں کے پیٹ چاک کر کے اُن کے کلیجے چبا جاتے تھے۔ ناک کان کاٹ دیتے تھے۔ آنکھیں نکال دیتے تھے۔ غلامی کا رواج عام تھا۔ اِردگرد کے کمزور قبائل کے آدمیوں کو پکڑ کے لے آتے تھے اور اُن کو غلام بنا لیتے تھے۔ غلام کو کوئی حقوق حاصل نہیں تھے۔ ہر مالک اپنے غلام سے جو چاہتا سلوک کرتا اُس کے خلاف کوئی گرفت نہ تھی۔ اگر وہ قتل بھی کر دیتا تو اس پر کوئی الزام نہ آتا تھا۔ اگر کسی دوسرے آدمی کے غلام کو مار دیتا تب بھی وہ موت کی سزا سے محفوظ سمجھا جاتا تھا اور مالک کو کچھ معاوضہ دے کر آزادی کر حاصل لیتا تھا۔ لونڈیوں کو اپنی شہوانی ضرورتوں کے پورا کرنے کا ذریعہ بنانا ایک قانونی حق تسلیم کیا جاتا تھا۔ لونڈیوں کی اولادیں بھی آگے غلام ہوتی تھیں اور صاحبِ اولاد لونڈیاں بھی لونڈیاں ہی رہتی تھیں۔ غرض جہاں تک علم و ترقی کا سوال ہے عرب لوگ بہت پیچھے تھے، جہاں تک بین الاقوامی رحم اور حسن سلوک کا سوال ہے عرب کے لوگ بہت پیچھے تھے، جہاں تک صنف نازک کے تعلق کا سوال ہے عرب لوگ دوسری اقوام سے بہت پیچھے تھے۔ مگر بعض شخصی اور بہادرانہ اخلاق اُن میں ضرور پائے جاتے تھے اور اس حد تک پائے جاتے تھے کہ شاید اُس زمانہ کی دوسری قوموں میں اس کی مثال نہیں پائی جاتی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت
اِس ماحول میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش سے
پہلے ہی آپ کے والد جن کا نام عبداللہ تھا فوت ہو گئے تھے اور آپ کو اور آپ کی والدہ حضرت آمنہ کو اُن کے دادا عبدالمطلب نے اپنی کفایت میں لے لیا تھا۔ عرب کے رواج کے مطابق آپ دودھ پلانے کے لئے طائف کے پاس رہنے والی ایک عورت کے سپرد کئے گئے۔ عرب لوگ اپنے بچوں کو دیہاتی عورتوں کے سپرد کر دیا کرتے تھے تا اُن کی زبان صاف ہوجائے اور اُن کی صحت درست ہو۔ آپ کی عمر کے چھٹے سال میں آپ کی والدہ بھی مدینہ سے آتے ہوئے جہاں وہ اپنے ننھیال سے ملنے گئی تھیں مدینہ اور مکہ کے درمیان فوت ہو گئیں اور وہیں دفن ہوئیں اور آپ کو ایک خادمہ اپنے ساتھ مکہ لائی اور دادا کے سپرد کر دیا۔ آپ آٹھویں سال میں تھے کہ آپ کے دادا جو آپ کے نگران تھے وہ بھی فوت ہو گئے اور آپ کے چچا ابو طالب اپنے والد کی وصیت کے مطابق آپ کے نگران ہوئے۔ عرب سے باہر آپ کو دو تین دفعہ جانے کا موقع ملا۔ جن میں سے ایک سفر آپ نے بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ کیا جو کہ تجارت کے لئے شام کی طر ف گئے تھے۔ یہ سفر آپ کا غالباً شام کے جنوب مشرقی تجارتی شہروں تک ہی محدود تھا کیونکہ اس سفر میں بیت المقدس وغیرہ جگہوں میں سے کسی کا ذکر نہیں آتا۔ اس کے بعد آپ جوانی تک مکہ میں ہی مقیم رہے۔
مجلس حلف الفضول میں آپ کی شمولیت
آپ کی طبیعت بچپن سے ہی سوچنے اور فکر کرنے کی طرف
مائل تھی اور لوگوں کی لڑائیوں جھگڑوں میںآپ دخل نہیں دیا کرتے تھے بلکہ لڑائیوں اور فسادوں کے دُور کرانے میں حصہ لیتے تھے چنانچہمکہ اور اِس کے گردو نواح کے قبائل کی لڑائیوں سے تنگ آکر جب مکہ کے کچھ نوجوانوں نے ایک انجمن بنائی جس کی غرض یہ تھی کہ وہ مظلوموں کی مدد کیا کرے گی، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے شوق سے اُس مجلس میں شامل ہوگئے۔ اس مجلس کے ممبروں نے اِن الفاظ میں قسمیں کھائی تھیں کہ:
’’ وہ مظلوموں کی مدد کریں گے اور اُن کے حق اُن کو لے کر دیں گے جب تک کہ سمندر میں ایک قطرہ پانی کا موجود ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکیں گے تو وہ خود اپنے پاس سے مظلوم کا حق ادا کر دیں گے‘‘۔۱۸۵؎
شاید اس قسم پر عمل کرنے کا موقع آپ کے سوا اور کسی کو نہیں ملا۔ جب آپ نے دعویٔ نبوت کیا اور سب سے زیادہ مکہ کے سردار ابوجہل نے آپ کی مخالفت میں حصہ لیا اور لوگوں سے یہ کہنا شروع کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کوئی بات نہ کرے۔ اُن کی کوئی بات نہ مانے۔ ہر ممکن طریق سے اُن کو ذلیل کرے۔ اُس وقت ایک شخص جس نے ابوجہل سے کچھ قرضہ وصول کرنا تھا مکہ میںآیا اور اُس نے ابوجہل سے اپنے قرضہ کا مطالبہ کیا۔ ابوجہل نے اُس کا قرض ادا کر نے سے انکا رکردیا۔ اُس نے مکہ کے بعض لوگوں سے اس امر کی شکایت کی اور بعض نوجوانوں نے شرارت سے اُسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ بتایا کہ اُن کے پاس جائو وہ تمہاری اِس بارہ میں مدد کریں گے۔ اُن کی غرض یہ تھی کہ یا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس مخالفت کے مدنظر جو مکہ والوں کی طرف سے عموماً اور ابوجہل کی طرف سے خصوصاً ہو رہی تھی اُس کی امداد کرنے سے انکار کردیں گے اور اس طرح عربوں میں ذلیل ہو جائیں گے اور قسم توڑنے والے کہلائیں گے یا پھر آپ اس کی مدد کے لئے ابوجہل کے پاس جائیں گے اور وہ آپ کو ذلیل کر کے اپنے گھر سے نکال دے گا۔ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ شخص گیا اور اُس نے ابوجہل کی شکایت کی تو آپ بِلا تأمل اُٹھ کر اس کے ساتھ چل دئیے اور ابوجہل کے دروازہ پر جا کر دستک دی۔ ابوجہل گھر سے باہر نکلا اور دیکھا کہ اُس کا قرض خواہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُس کے دروازہ پر کھڑا ہے۔ آپ نے فوراً اُسے توجہ دلائی کہ اِس شخص کا تم نے فلاں فلاں حق دینا ہے اِس کو ادا کرو اور ابوجہل نے بِلا چون و چرا اُس کا حق اُسے ادا کر دیا۔ جب شہر کے رئوساء نے ابوجہل کو ملامت کی کہ تم ہم سے تو یہ کہا کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ذلیل کرو اور اس سے کوئی تعلق نہ رکھو لیکن تم نے خود اُس کی بات مانی اور اُس کی عزت قائم کی۔ تو ابوجہل نے کہا خد اکی قسم! اگر تم میری جگہ ہوتے تو تم بھی یہی کرتے۔ میں نے دیکھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دائیں اور بائیں مست اُونٹ کھڑے ہیں جو میری گردن مروڑ کر مجھے ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔۱۸۶؎ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی روایت میں کوئی صداقت ہے یا نہیں۔ آیا اُسے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے کوئی نشان دکھایا تھا یا صرف اُس پر حق کا رُعب چھا گیا اور اُس نے یہ دیکھ کر کہ سارے مکہ کا مطعون اور مقہور انسان ایک مظلوم کی حمایت کے جوش میں اکیلا بغیر کسی ظاہری مدد کے مکہ کے سردار کے دروازہ پر کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ اِس شخص کا جو حق تم نے دینا ہے وہ ادا کردو تو حق کے رُعب نے اُس کی شرارت کی روح کو کچل دیا اور اُسے سچائی کے آگے سر جھکانا پڑا۔
حضرت خدیجہؓ سے آنحضرت ﷺکی شادی
جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۲۵ سال کے ہوئے
تو آپ کی نیکی اور آپ کے تقویٰ کی شہرت عام طور پر پھیل چکی تھی لوگ آپ کی طرف انگلیاں اُٹھاتے اور کہتے یہ سچا انسان جا رہا ہے۔ یہ امانت والا انسان جا رہا ہے۔ یہ خبریں مکہ کی ایک مالدار بیوہ کو بھی پہنچیں اور اُس نے آپ کے چچا ابو طالب سے خواہش کی کہ وہ اپنے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کہیں کہ اُس کا تجارتی مال جو شام کے تجارتی قافلہ کے ساتھ جا رہا ہے وہ اُس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے۔ ابو طالب نے آپ سے ذکر کیا اور آپ نے اسے منظور کر لیا۔ اس سفر میں آپ کو بڑی کامیابی ہوئی اور اُمید سے زیادہ نفع کے ساتھ آپ لَوٹے۔ خدیجہؓ نے محسوس کیا کہ یہ نفع صرف منڈیوں کے حالات کی وجہ سے نہیں بلکہ امیر قافلہ کی نیکی اور دیانت کی وجہ سے ہے۔ اُس نے اپنے غلام میسرہ سے جو آپ کے ساتھ تھا آپ کے حالات دریافت کئے اور اُس نے بھی اُس کے خیال کی تائید کی اور بتایا کہ سفر میں جس دیانتداری اور خیر خواہی سے آپ نے کام کیا ہے وہ صرف آپؐ ہی کا حصہ تھا۔ اِس بات کا حضرت خدیجہؓ کی طبیعت پر خاص اثر ہوا۔ باوجود اِس کے کہ وہ اُس وقت چالیس سا ل کی تھیں اور دو دفعہ بیوہ ہو چکی تھیں اُنہوں نے اپنی ایک سہیلی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بجھوایا تا معلوم کرے کہ کیا آپ اُن سے شادی کر نے پر رضا مند ہوں گے؟ وہ سہیلی آپ کے پاس آئی اور اُس نے آپ سے پوچھا کہ آپ شادی کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے کہا میرے پاس کوئی مال نہیں ہے جس سے میں شادی کروں۔ اُس سہیلی نے کہا اگر یہ مشکل دور ہو جائے اور ایک شریف امیر عورت سے آپ کی شادی ہو جائے تو پھر؟ آپ نے فرمایا وہ کون عورت ہے؟ اُس نے کہا خدیجہؓ۔ آپ نے فرمایا میں اُس تک کس طرح پہنچ سکتا ہوں؟ اِس پر اُس سہیلی نے کہا کہ یہ میرے ذمہ رہا۔ آپ نے فرمایا مجھے منظور ہے۔ تب خدیجہؓ نے آپ کے چچا کی معرفت شادی کا فیصلہ پختہ کیا اور آپ کی شادی حضرت خدیجہؓ سے ہوئی۔ ایک غریب و یتیم نوجوان کے لئے دولت کا یہ پہلا دروازہ کھلا، مگر اُس نے اِس دولت کو جس طرح استعمال کیا وہ ساری دنیا کیلئے ایک سبق آموز واقعہ ہے۔
غلاموں کی آزادی اور زیدؓ کا ذکر
آپ کی شادی کے بعد جب حضرت خدیجہؓ نے یہ محسوس کیا کہ آپ کا حساس دل
ایسی زندگی میں کوئی لطف نہیں پائے گا کہ آپ کی بیوی مالدار ہو اور آپ اُس کے محتاج ہوں تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں اپنا مال اور اپنے غلام آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہوں۔ آپ نے کہا خدیجہ! کیا سچ مچ؟ جب اُنہوں نے پھردوبارہ اقرار کیا تو آپ نے فرمایا میرا پہلا کام یہ ہو گا کہ میں غلاموں کو آزاد کردوں۔ چنانچہ آپ نے اُسی وقت حضرت خدیجہ کے غلاموں کو بُلایا اور فرمایا تم سب لوگ آج سے آزاد ہو اور مال کا اکثر حصہ غرباء ہیں تقسیم کر دیا۔ جو غلام آپ نے آزاد کئے اُ ن میں ایک زید نامی غلام بھی تھا۔ وہ دوسرے غلاموں سے زیادہ زیرک اور زیادہ ہوشیار تھا کیونکہ وہ ایک شریف اور معزز خاندان کا لڑکا تھا جسے بچپن میں ڈاکو چرا کر لے گئے تھے اور وہ بکتا بکاتا مکہ میں پہنچا تھا۔ اُس نوجوان نے اپنی زیرکی اور ہوشیاری سے اس بات کو سمجھ لیا کہ آزادی کی نسبت اِس شخص کی غلامی بہت بہتر ہے۔ جب آپ نے غلاموں کو آزاد کیا جن میں زید بھی تھا تو زید نے کہا آپ تو مجھے آزاد کرتے ہیں پر میں آزاد نہیں ہوتا، میں آپ کے ساتھ ہی رہنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ وہ آپ کے ساتھ رہا اور روز بروز آپ کی محبت میں بڑھتا چلا گیا۔ چونکہ وہ ایک مالدار خاندان کا لڑکا تھا اُس کے باپ اور چچا ڈاکوئوں کے پیچھے پیچھے اپنے بچہ کو تلاش کرتے ہوئے نکلے۔ آخراُ نہیں معلوم ہو اکہ اُن کا لڑکا مکہ میں ہے۔ چنانچہ وہ مکہ میں آئے اور پتہ لیتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچے اور آپ سے عرض کیا کہ آپ ہمارے بچہ کو آزاد کر دیں اور جتنا روپیہ چاہیں لے لیں۔ آپ نے فرمایا زید کو تو میں آزاد کر چکا ہو ں وہ بڑی خوشی سے آپ لوگوں کے ساتھ جاسکتا ہے۔ پھر آپ نے زید کو بُلوا کر اُس کے باپ اور چچا سے ملوا دیا۔ جب دونوں فریق مل چکے اور آنسوئوں سے اپنے دل کی بھڑاس نکال چکے تو زید کے باپ نے اُس سے کہا کہ اِس شریف آدمی نے تم کو آزاد کر دیا ہے تمہاری ماں تمہاری یاد میں تڑپ رہی ہے اب تم جلدی چلو اور اُس کے لئے راحت اور تسکین کا موجب بنو۔ زیدنے کہا ماں اور باپ کس کو پیارے نہیں ہوتے میرا دل بھی اِس محبت سے خالی نہیں ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اِس قدر میرے دل میں داخل ہو چکی ہے کہ اس کے بعد میں آپؐ سے جدا نہیں ہو سکتا۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے آپ لوگوں سے مل لیا لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہونا میری طاقت سے باہر ہے۔ زید کے باپ اور چچا نے بہت زور دیا مگر زید نے اُن کے ساتھ جانا منظور نہ کیا۔ زید کی اِس محبت کو دیکھ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ زید آزاد تو پہلے ہی تھا مگر آج سے یہ میرا بیٹا ہے۔۱۸۷؎ اِس نئی صورتِ حالات کو دیکھ کر زید کے باپ اور چچا واپس وطن چلے گئے اور زید ہمیشہ کے لئے مکہ کے ہو گئے۔
غارِ حرا میں خدا کی عبادت کرنا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب تیس سال سے زیادہ ہوئی تو آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کی
عبادت کی رغبت پہلے سے زیادہ جوش مارنے لگی۔ آخر آپ شہر کے لوگوں کی شرارتوں، بدکاریوں اور خرابیوں سے متنفر ہو کر مکہ سے دو تین میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک پتھروں سے بنی ہوئی چھوٹی سی غار میں خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے لگ گئے۔ حضرت خدیجہؓ چند دن کی غذا آپ کے لئے تیار کر دیتیں۔۱۸۸ ؎ آپ وہ لے کر حرا میں چلے جاتے تھے اوراُن دو تین پتھروں کے اندر بیٹھ کر خد اتعالیٰ کی عبادت میں رات اور دن مصروف رہتے تھے۔
پہلی قرآنی وحی
جب آپ چالیس سال کے ہوئے تو ایک دن آپ نے اِسی غار میں ایک کشفی نظارہ دیکھا کہ ایک شخص آپ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ’’پڑھیئے‘‘۔
آپ نے فرمایا میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔ اِس پر اُس نے دوبارہ اورسہ بارہ کہا اور آخر پانچ فقرے اُس نے آپ سے کہلوانے
۔۱۸۹؎ یہ قرآنی ابتدائی وحی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس کا مفہوم یہ ہے کہ تمام دنیا کو اپنے رب کے نام پر جس نے تجھ کو اور کل مخلوق کو پید اکیا ہے پڑھ کر آسمانی پیغام سنا دے۔ وہ خدا جس نے انسان کو ایسے طور پر پیدا کیا ہے کہ اُس کے دل میں خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کی محبت کا بیج پایا جاتا ہے۔ ہاں سب دنیا کو یہ پیغام سنا دے کہ تیرا ربّ جو سب سے زیادہ عزت والا ہے تیرے ساتھ ہوگا۔ وہ جس نے دنیا کو علوم سکھانے کے لئے قلم بنایا ہے اور انسان کو وہ کچھ سکھانے کے لئے آمادہ ہوا ہے جو اِس سے پہلے انسان نہیں جانتا تھا۔
یہ چند الفاظ قرآن کریم کی اُن سب تعلیموں پر حاوی ہیں جو آئندہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی تھی اور دنیا کی اصلاح کا ایک اہم بیج اُن کے اندر پایا جاتا تھا۔ اِن کی تفسیر تو قرآن شریف میں اپنے موقع پر آئے گی اِس موقع پر ان آیتوں کا اِس لئے ذکر کر دیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا یہ ایک اہم واقعہ ہے اور قرآن کریم کے لئے یہ آیات ایک بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ کلام نازل ہوا تو آپ کے دل میں یہ خوف پیدا ہو گیا کہ کیا میں خدا تعالیٰ کی اتنی بڑی ذمہ داری ادا کر سکوں گا؟ کوئی اور ہوتا تو کِبر اور غرور سے اُس کا دماغ پھر جاتا کہ خدائے قادر نے ایک کام میرے سپرد کیا ہے۔ مگر محمدرسول صلی اللہ علیہ وسلم کام جانتے تھے کام پر اِترانا نہیں جانتے تھے۔ آپ اس الہام کے بعد حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے۔ آپ کا چہرہ اُترا ہوا تھا اور گھبراہٹ کے آثار ظاہر تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے پوچھا آخر ہوا کیا؟ آپ نے سارا واقعہ سنایا اور فرمایا میرے جیسا کمزور انسان اِس بوجھ کو کس طرح اُٹھا سکے گا۔ حضرت خدیجہؓ نے کہا کَلاَّ وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ ۱۹۰؎ خدا کی قسم! یہ کلام خدا تعالیٰ نے اِس لئے آپ پر نازل نہیں کیا کہ آپ ناکام اور نامراد ہوں اور خد اآپ کا ساتھ چھوڑ دے۔ خد ا تعالیٰ ایسا کب کر سکتا ہے۔ آپ تو وہ ہیں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں اور بیکس اور بے مددگار لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں۔ وہ اخلاق جو ملک سے مٹ چکے تھے وہ آپ کی ذات کے ذریعہ سے دوبارہ قائم ہورہے ہیں۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور سچی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ کیاایسے انسان کو خد اتعالیٰ ابتلاء میں ڈال سکتا ہے؟ پھر وہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو عیسائی ہو چکے تھے۔ اُنہوں نے جب یہ واقعہ سنا تو بے اختیار بول اُٹھے آپ پر وہی فرشتہ نازل ہوا ہے جو موسیٰ پر نازل ہوا تھا۱۹۱؎ گویا اشتناء باب ۱۸ آیت ۱۸ والی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا۔ جب اِس بات کی خبر زید آپ کے آزاد کردہ غلام کو جو اُس وقت کوئی پچیس تیس سال کے تھے اور علیؓ آپ کے چچا کے بیٹے کو جن کی عمر اُس وقت گیارہ سال کی تھی پہنچی تو دونوں آپ پر فوراً ایمان لائے۔
حضرت ابوبکرؓ کا آنحضرت ﷺپر ایمان لانا
ابوبکرؓ آپ کے بچپن کے دوست جو شہر سے باہر گئے
ہوئے تھے، جب شہر میں داخل ہوئے تو معاً اُن کے کانوں میں یہ آوازیں پڑنی شروع ہوئیں کہ تمہارا دوست دیوانہ ہوگیا ہے، وہ کہتا ہے آسمان سے فرشتے اُتر کر مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔ ابوبکرؓ سیدھے آپ کے دروازہ پر آئے اور دستک دی۔ جب آپ نے دروازہ کھولا تو اُنہوں نے آپ سے حقیقت حال کے متعلق سوال کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچپن کے دوست کو ٹھوکر سے بچانے کے لئے کچھ تشریح کرنی چاہی۔ ابوبکرؓ نے روکا اور کہا کہ مجھے صرف اتنا جواب دیجئے کہ کیا آپ نے یہ اعلان کیا ہے کہ خدا کے فرشتے آپ کے پاس آئے اور اُنہوں نے آپ سے باتیں کیں؟ آپ نے پھر تشریح کرنی چاہی مگر ابوبکرؓ نے قسم دے کر کہا کہ صرف اِس سوال کا جواب دیجئے اور کچھ نہ کہئے۔ جب آپ نے اثبات میں جواب دیا تو ابوبکرؓ نے کہا گواہ رہئے میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور پھر کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ !آپ تو دلائل دے کر میرے ایمان کو کمزور کرنے لگے تھے۔ جس نے آپ کی زندگی کو دیکھا ہو کیا اُسے آپ کی سچائی کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت ہو سکتی ہے؟۱۹۲؎
مؤمنوں کی چھوٹی سی جماعت
یہ ایک چھوٹی سی جماعت تھی جس سے اسلام کی بنیاد پڑی۔ ایک عورت کہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ رہی
تھی، ایک گیارہ سالہ بچہ، ایک جوان آزاد کردہ غلام،بے وطن اور غیروں میں رہنے والا جس کی پشت پر کوئی نہ تھا۔ایک نوجوان دوست اورایک مدعی الہام۔ یہ وہ چھوٹا سا قافلہ تھا جو دنیا میں نور پھیلانے کے لئے کفر و ضلالت کے میدان کی طرف نکلا۔ لوگوں نے جب یہ باتیں سنیں اُنہوں نے قہقہے لگائے۔ باہم دگر چشمکیں کیں اور نظروں ہی نظرو ں میں ایک دوسرے کو جتایا کہ یہ لوگ مجنون ہو گئے ہیں اِن کی باتوں سے متعجب نہ ہو، بلکہ سنو اور مزہ اُٹھائو۔ مگر حق اپنی پوری شان کے ساتھ ظاہر ہونا شروع ہوا ور یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مطابق ’’حکم پر حکم۔ حکم پر حکم۔ قانون پر قانون۔ قانون پر قانون‘‘۔۱۹۳؎ ہوتا گیا۔ ’’تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں‘‘۱۹۴؎ اور ’’اجنبی زبا ن‘‘۱۹۵؎ سے جس سے عرب پہلے نا آشنا تھے، خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ عربوں سے باتیں کرنی شروع کیں۔ نوجوانوں کے دل لرزنے لگے، صداقت کے متلاشیوں کے جسموں پر کپکپی پید اہوئی۔ اُن کی ہنسی، ٹھٹھے اور استہزاء کی آوازوں میں پسندیدگی اور تحسین کے کلمات بھی آہستہ آہستہ بلند ہونے شروع ہوئے۔ غلاموں ، نوجوانوں اور مظلوم عورتوں کا ایک جتھا آپ کے گر دجمع ہونے لگ گیا۔ کیونکہ آپ کی آواز میں عورتیں اپنے حقوق کی حفاظت دیکھ رہی تھیں۔ غلام اپنی آزادی کا اعلان سن رہے تھے اور نوجوان بڑی بڑی اُمیدوں اور ترقیوں کے راستے کھلتے ہوئے محسوس کر رہے تھے۔
رؤسائیمکہ کی مخالفت
جب ہنسی اور ٹھٹھے کی آوازوں میں سے تحسین اور تعریف کی آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہوگئیں، تو مکہ کے رئوساء
گھبرا گئے، حکام کے دل میں خوف پیدا ہونے لگا۔ وہ جمع ہوئے ، اُنہوں نے مشورے کئے، منصوبے باندھے اور ہنسی اور ٹھٹھے کی جگہ ظلم و تعدی اور سختی اور قطع تعلق کی تجاویز کا فیصلہ کیا گیا اور اُن پر عمل ہونا شروع ہوا۔ اب مکہ سنجیدگی سے اسلام کے ساتھ ٹکرانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔اب وہ ’’پاگلانہ‘‘ دعویٰ ایک ترقی کرنے والی حقیقت نظر آرہا تھا ۔مکہ کی سیاست کے لئے خطرہ، مکہ کے مذہب کے لئے خطرہ، مکہ کے تمدن کے لئے خطرہ اور مکہ کے رسم ور واج کے لئے خطرہ دکھائی دے رہا تھا۔ اسلام ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین بناتا ہوا نظر آتا تھا۔ جس نئے آسمان اور زمین کے ہوتے ہوئے عرب کا پُرانا آسمان اور پُرانی زمین قائم نہیں رہ سکتے تھے۔ اب یہ سوال مکہ والوں کے لئے ہنسی کا سوال نہیں رہا تھا اب یہ زندگی اور موت کا سوال تھا۔ اُنہوں نے اسلام کے چیلنج کو قبول کیا اور اُسی روح کے ساتھ قبول کیا جس روح کے ساتھ نبیوں کے دشمن نبیوں کے چیلنج کو قبول کرتے چلے آئے تھے اور وہ دلیل کا جواب دلیل سے نہیں بلکہ تلوار اور تیرکے ساتھ دینے پر آمادہ ہو گئے۔ اسلا م کی خیر خواہی کا جواب ویسے ہی بلند اخلاق کے ذریعہ سے نہیں بلکہ گالی گلوچ اور بد کلامی سے دینے کا اُنہو ں نے فیصلہ کر لیا۔ ایک دفعہ پھر دنیا میں کفر اور اسلام کی لڑائی شروع ہوگئی۔ ایک دفعہ پھر شیطان کے لشکروں نے فرشتوں پر ہلّہ بول دیا۔ بھلا اُن مٹھی بھر آدمیوں کی طاقت ہی کیا تھی کہ مکہ والوں کے سامنے ٹھہر سکیں۔ عورتیں بے شرمانہ طریقوں سے قتل کی گئیں۔مرد ٹانگیں چیر چیر کر مار ڈالے گئے، غلام تپتی ہوئی ریت اور کھردرے پتھروں پر گھسیٹے گئے۔ اِس حد تک کہ اُن کے چمڑے انسانی چمڑوں کی شکلیں بدل کر حیوانی چمڑے بن گئے۔ ایک مدت بعد اسلام کی فتح کے زمانہ میں جب اسلام کا جھنڈا مشرق و مغرب میں لہرا رہا تھا ایک دفعہ ایک ابتدائی نو مسلم غلام خبابؓ کی پیٹھ ننگی ہوئی تو اُن کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اُن کی پیٹھ کا چمڑا انسانوں جیسا نہیں جانوروں جیسا ہے وہ گھبرا گئے اور اُن سے دریافت کیا کہ آپ کو یہ کیا بیماری ہے؟ وہ ہنسے اور کہا بیماری نہیں یہ یاد گار ہے اُس وقت کی جب ہم نو مسلم غلاموں کو عرب کے لوگ مکہ کی گلیوں میں سخت اور کھردرے پتھروں پر گھسیٹا کرتے تھے اور متواتر یہ ظلم ہم پر روا رکھے جاتے تھے اُسی کے نتیجہ میں میری پیٹھ کا چمڑہ یہ شکل اختیار کر گیا ہے۔
مؤمن غلاموں پر کفّارِ مکہ کا ظلم و ستم
یہ غلام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے مختلف اقوام کے تھے اِن
میں حبشی بھی تھے جیسے بلالؓ ، رومی بھی تھے جیسے صہیبؓ۔ پھر اُن میں عیسائی بھی تھے جیسے جبیرؓ اور صہیبؓ۔ اور مشرکین بھی تھے جیسے بلالؓ اور عمارؓ ۔ بلالؓ کو اُس کے مالک تپتی ریت پر لٹا کر اوپر یا تو پتھر رکھ دیتے یا نوجوانوں کو سینہ پر کودنے کے لئے مقرر کر دیتے۔ حبشی النسل بلالؓ اُمیہ بن خلف نامی ایک مکی رئیس کے غلام تھے۔ اُمیہ اُنہیں دوپہر کے وقت گرمی کے موسم میں مکہ سے باہر لے جا کر تپتی ہوئی ریت پر ننگا کر کے لٹا دیتا تھا اور بڑے بڑے گرم پتھر اُن کے سینہ پر رکھ کر کہتا تھا کہ لات اور عزیٰ کی الوہیت کو تسلیم کر اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے علیحدگی کا اظہار کر۔ بلالؓ اُس کے جواب میں کہتے اَحَدٌ اَحَدٌ ۱۹۶؎ یعنی ا للہ ایک ہی ہے اللہ ایک ہی ہے۔بار بار آپ کا یہ جواب سن کر اُمیہ کو اَور غصہ آجاتا اور وہ آپ کے گلے میں رسہ ڈال کر شریر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور کہتا کہ ان کو مکہ کی گلیوں میں پتھروں کے اُوپر سے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں۔ جس کی وجہ سے اُن کا بدن خون سے تربتر ہوجاتا مگر وہ پھر بھی اَحَدٌ اَحَدٌ کہتے چلے جاتے ، یعنی خدا ایک خدایک۔ عرصہ کے بعد جب خد اتعالیٰ نے مسلمانوں کو مدینہ میں امن دیا جب وہ آزادی سے عبادت کرنے کے قابل ہو گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالؓ کو اذان دینے کے لئے مقرر کیا۔ یہ حبشی غلام جب اذان میں اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہ کی بجائے اَسْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہتا تو مدینہ کے لوگ جو اُس کے حالات سے ناواقف تھے ہنسنے لگ جاتے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلالؓ کی اذان پر ہنستے ہوئے پایا تو آپ لوگوں کی طرف مڑے اور کہا تم بلالؓ کی اذان پر ہنستے ہو مگر خد اتعالیٰ عرش پر اُس کی اذان سن کر خوش ہوتا ہے۔ آپ کا اشارہ اِسی طرف تھا کہ تمہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ یہ ’’ش‘‘ نہیں بول سکتا۔ مگر ’’ش‘‘ اور ’’س‘‘ میں کیا رکھا ہے خد اتعالیٰ جانتا ہے کہ جب تپتی ریت پر ننگی پیٹھ کے ساتھ اِس کو لٹا دیا جاتا تھا اور اس کے سینہ پر ظالم اپنی جوتیوں سمیت کودا کرتے تھے اور پوچھتے تھے کہ کیا اب بھی سبق آیا ہے یا نہیں؟ تو یہ اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں اَحَدٌ اَحَدٌ کہہ کر خد اتعالیٰ کی توحید کا اعلان کرتا رہتا تھا اور اپنی وفاداری ، اپنے توحید کے عقیدہ اور اپنے دل کی مضبوطی کا ثبوت دیتا تھا۔ پس اُس کا اَسْھَدُ بہت سے لوگوں کے اَشْھَدُ سے زیادہ قیمتی تھا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اُن پر یہ ظلم دیکھے تو اُن کے مالک کو اُن کی قیمت ادا کر کے اُنہیں آزاد کروا دیا۔ اسی طرح اور بہت سے غلاموں کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے مال سے آزاد کرایا۔ اِ ن غلاموں میں سے صہیبؓ ایک مالدار آدمی تھے۔ یہ تجارت کرتے تھے اور مکہ کے باحیثیت آدمیوں میں سمجھے جاتے تھے مگر باوجود اس کے کہ وہ مالدار بھی تھے اور آزاد بھی ہو چکے تھے قریش اُن کو مار مار کر بیہوش کر دیتے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تو آپ کے بعد صہیبؓ نے بھی چاہا کہ وہ بھی ہجرت کر کے مدینہ چلے جائیں مگر مکہ کے لوگوں نے اُن کو روکا اور کہا کہ جو دولت تم نے مکہ میں کمائی ہے تم اُسے مکہ سے باہر کس طرح لے جا سکتے ہو ہم تمہیں مکہ سے جانے نہیں دیں گے۔ صہیبؓ نے کہا اگر میں یہ سب کی سب دولت چھوڑ دوں تو کیا پھر تم مجھے جانے دو گے؟ وہ اِس بات پر رضا مند ہو گئے اور آپ اپنی ساری دولت مکہ والوں کے سپرد کر کے خالی ہاتھ مدینہ چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ نے فرمایا ۔ صہیبؓ! تمہارا یہ سَودا سب پہلے سَودوں سے نفع مند رہا۔ یعنی پہلے اسباب کے مقابلہ میں تم روپیہ حاصل کیا کرتے تھے مگر اب روپیہ کے مقابلہ میں تم نے ایمان حاصل کیا ہے۔
اِن غلاموں میں اکثر تو ظاہر و باطن میں مستقل رہے، لیکن بعض سے ظاہر میں کمزوریاں بھی ظاہر ہوئیں۔ چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمارؓ نامی غلام کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہ سسکیاں لے رہے تھے اور آنکھیں پونچھ رہے تھے۔ آپ نے پوچھا عمار! کیا معاملہ ہے؟ عمار نے کہا اے اللہ کے رسول! بہت ہی بُرا۔ وہ مجھے مارتے گئے اور دکھ دیتے گئے اور اُس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک میرے منہ سے آپ کے خلاف اور دیوتائوں کی تائید میں کلمات نہیں نکلوا لئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا لیکن تم اپنے دل میں کیا محسوس کر تے تھے؟ عمار نے کہا دل میں تو ایک غیر متزلزل ایمان محسوس کرتا تھا۔ آپ نے فرمایا اگر دل ایمان پر مطمئن تھا تو خدا تعالیٰ تمہاری کمزوری کو معاف کر دے گا۔۱۹۷؎
آپ کے والد یاسرؓ اور آپ کی والدہ سمیہؓ کو بھی کفّار بہت دکھ دیتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جبکہ اُن دونوں کو دکھ دیا جا رہا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس سے گزرے۔ آپ نے اُن دونوں کی تکلیفوں کو دیکھا اور آپ کا دل درد سے بھر آیا۔ آپ اُن سے مخاطب ہو کر بولے صَبْراً اٰلَ یَاسِر فَاِنَّ مَوْعِدَ کُمُ الْجَنَّۃَ۔۱۹۸؎ اے یاسر کے خاندان! صبر سے کام لو۔ خدا نے تمہارے لئے جنت تیار کر چھوڑی ہے ۔ اور یہ پیشگوئی تھوڑے ہی دنوںمیں پوری ہو گئی کیونکہ یاسرؓ مار کھاتے کھاتے مر گئے مگر اِس پر بھی کفّار کو صبر نہ آیا اور اُنہوں نے اُن کی بڑھیا بیوی سمیہؓ پر ظلم جاری رکھے۔ چنانچہ ابوجہل نے ایک دن غصہ میں اُن کی ران پر زور سے نیزہ مارا جو ران کو چیرتا ہوا اُن کے پیٹ میں گھس گیا اور تڑپتے ہوئے اُنہوں نے جان دے دی۔۱۹۹؎
زنبیرہؓ بھی ایک لونڈی تھیں اُن کو ابوجہل نے اتنا مارا کہ اُن کی آنکھیں ضائع ہوگئیں۔۲۰۰؎
ابو فکیہہؓ صفوان بن اُمیہ کے غلام تھے ۔ اُن کو اُن کا مالک اور اُس کا خاندان گرم تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیتا اور بڑے بڑے گر م پتھر اُن کے سینہ پر رکھ دیتا یہاں تک کہ اُن کی زبان باہر نکل آتی۔ یہی حال باقی غلاموں کا بھی تھا۔۲۰۱؎
بیشک یہ ظلم انسانی طاقت سے بالا تھے، مگر جن لوگوں پر یہ ظلم کئے جار ہے تھے وہ ظاہر میں انسان تھے اور باطن میں فرشتے۔ قرآن صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل اور کانوں پر نازل نہیں ہو رہا تھا خد ااُن لوگوں کے دلوں میں بھی بول رہا تھا اور کبھی کوئی مذہب قائم نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ابتدائی ماننے والوں کے دلوں میں سے خد ا کی آواز بلند نہ ہو۔ جب انسانوں نے اُن کو چھوڑ دیا، جب رشتہ داروں نے اُن سے منہ پھیر لیا تو خد اتعالیٰ اُن کے دلوں میں کہتا تھا میں تمہارے ساتھ ہوں، میں تمہارے ساتھ ہوں اور یہ سب ظلم اُن کے لئے راحت ہو جاتے تھے۔ گالیاں دعائیں بن کر لگتی تھیں۔ پتھر مرہم کے قائمقام ہو جاتے تھے مخالفتیں بڑھتی گئیں مگر ایمان بھی ساتھ ہی ترقی کر تا گیا۔ ظلم اپنی انتہاء کو پہنچ گیا مگر اخلاص بھی تمام گزشتہ حدبندیوں سے اُوپر نکل گیا۔
آزاد مسلمانوں پر ظلم
آزاد مسلمانوں پر بھی کچھ کم ظلم نہیں ہوتے تھے۔ اُن کے بزرگ اور خاندانوں کے بڑے لوگ اُنہیں بھی قسم قسم کی تکلیفیں دیتے
تھے۔ حضرت عثمانؓ چالیس سال کی عمر کے قریب کے تھے اور مالدار آدمی تھے مگر باوجود اس کے جب قریش نے مسلمانوں پر ظلم کرنے کا فیصلہ کیا تواُن کے چچا حکم نے اُن کو رسیوں سے باندھ کر خوب پیٹا۔ زبیرؓ بن العوام ایک بہت بڑے بہادر نوجوان تھے۔ اسلام کی فتوحات کے زمانہ میں وہ ایک زبردست جرنیل ثابت ہوئے۔ ان کا چچا بھی اُن کو خوب تکلیفیں دیتا تھا۔ چٹائی میں لپیٹ دیتا تھا اور نیچے سے دُھواں دیتا تھا تاکہ اُن کا سانس رُک جائے اورپھر کہتا تھا کہ کیا اب بھی اسلام سے باز آئو گے یا نہیں؟ مگر وہ اِن تکالیف کو برداشت کرتے اور جواب میں یہی کہتے کہ میں صداقت کو پہچان کر اُس سے انکار نہیں کر سکتا۔
حضرت ابوذرؓ، غفار قبیلہ کے ایک آدمی تھے وہاں اُنہوں نے سنا کہ مکہ میں کسی شخص نے خداتعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ تحقیقات کے لئے مکہ آئے تو مکہ والوں نے اُنہیں ورغلایا اور کہا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تو ہمارا رشتہ دا رہے۔ ہم جانتے ہیںکہ اُس نے ایک دکان کھولی ہے۔ مگر ابوذرؓ اپنے ارادہ سے باز نہ آئے اور کئی تدابیر اختیار کر کے آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعلیم بتائی اور آپ اسلام لے آئے۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی کہ اگر میں کچھ عرصہ تک اپنی قوم کو اپنے اسلام کی خبر نہ دوں توکچھ حرج تو نہیں؟ آپ نے فرمایا اگر چند دن خاموش رہیں تو کوئی حرج نہیں۔ اِس اجازت کے ساتھ وہ اپنے قبیلہ کی طرف واپس چلے اور دل میں فیصلہ کر لیا کہ کچھ عرصہ تک میں اپنے حالات کو درست کر لوں گا تو اپنے اسلام کو ظاہر کروں گا۔ جب وہ مکہ کی گلیوں میں سے گزررہے تھے تو اُنہوں نے دیکھا کہ رئوسائے مکہ اسلام کے خلاف گالی گلوچ کر رہے ہیں۔ کچھ دنوں کے لئے اپنے عقیدہ کو چھپائے رکھنے کا خیال اُن کے دل سے اُسی وقت محو ہوگیا۔ اور بے اختیار ہو کر اُنہوں نے اِس مجلس کے سامنے یہ اعلان کیا اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اُس کے بندے اور رسول ہیں۔ دشمنوں کی اِس مجلس میں اِس آواز کا اُٹھنا تھا کہ سب لوگ ان کو مارنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اتنا مارا کہ وہ بیہوش ہو کر جاپڑے لیکن پھر بھی ظالموں نے اپنے ہاتھ نہ کھینچے اور مارتے ہی چلے گئے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباسؓ جو اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے وہاں آگئے اور اُنہوں نے اِن لوگوں کو سمجھایا کہ ابوذر کے قبیلہ میںسے ہو کر تمہارے غلے کے قافلے آتے ہیں اگر اُس کی قوم کو غصہ آگیا تو مکہ بھوکا مر جائے گا۔ اِس پر اُن لوگوں نے اُن کو چھوڑ دیا۔ا بوذرؓ نے ایک دن آرام کیا اور دوسرے دن پھر اُسی مجلس میں پہنچے۔ وہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف باتیں کرنا روزانہ کا شغل تھا۔ جب یہ خانہ کعبہ میں گئے تو پھر وہی ذکر ہو رہا تھا۔ اُنہوں نے پھر کھڑے ہو کر اپنے عقیدۂ توحید کا اعلان کیا اور پھر اُن لوگوں نے اُن کو مارنا پیٹنا شروع کیا۔ اِسی طرح تین دن ہوتا رہا۔۲۰۲؎ اس کے بعد یہ اپنے قبیلہ کی طرف چلے گئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مظالم
خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بھی محفوظ نہ تھی۔ طرح طرح سے
آپ کو دکھ دیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ آپ عبادت کر رہے تھے کہ آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر لوگوں نے کھینچنا شروع کیا یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ وہاں آگئے اور اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے چھڑایا کہ اے لوگو! کیا تم ایک آدمی کو اس جرم میں قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے خدا میرا آقا ہے۔ ۲۰۳؎
ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ کی پیٹھ پر اُونٹ کی اوجھری لا کر رکھ دی گئی اور اس کے بوجھ سے اُس وقت تک آپ سر نہ اُٹھا سکے جب تک بعض لوگوں نے پہنچ کر اُس اوجھری کو آپ کی پیٹھ سے ہٹایا نہیں۔۲۰۴؎
ایک دفعہ آپ بازار سے گزر رہے تھے تو مکہ کے اوباشوں کی ایک جماعت آپ کے گرد ہو گئی اور رستہ بھر آپ کی گردن پر یہ کہہ کر تھپڑ مارتی چلی گئی کہ لوگو! یہ وہ شخص ہے جو کہتا ہے میں نبی ہوں۔
آپ کے گھرمیں اِردگرد کے گھروں سے متواتر پتھر پھینکے جاتے تھے۔ باورچی خانہ میں گندی چیزیں پھینکی جاتی تھیں۔ جن میں بکروں اور اونٹوں کی انتڑیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔ جب آپ نماز پڑھتے تو آپ پر خاک دھول ڈالی جاتی حتی کہ مجبور ہو کر آپ کو چٹان میں سے نکلے ہوئے ایک پتھر کے نیچے چھپ کر نماز پڑھنی پڑتی تھی۔ مگر یہ مظالم بیکار نہ جار ہے تھے۔ شریف الطبع لوگ اِن کو دیکھتے اور اسلام کی طرف اُن کے دل کھنچے چلے جاتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن خانہ کعبہ کے قریب صفا پہاڑی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو جہل آپ کا سب سے بڑا دشمن اور مکہ کا سردار وہاں سے گزرا اور اُس نے آپ کو گالیاں دینی شروع کیں۔ آپ اُس کی گالیاں سنتے رہے اور کوئی جواب نہ دیااو ر خاموشی سے اُٹھ کر اپنے گھر چلے گئے ۔ آپ کے خاندان کی ایک لونڈی اِس واقعہ کو دیکھ رہی تھی۔ شام کے وقت آپ کے چچا حمزؓہ جو ایک نہایت دلیر اور بہادر آدمی تھے اور جن کی بہادری کی وجہ سے شہر کے لوگ اُن سے خائف تھے شکار کھیل کر جنگل سے واپس آئے اور کندھے کے ساتھ کمان لٹکائے ہوئے نہایت ہی تبختر۲۰۵؎ کے ساتھ اپنے گھر میں داخل ہوئے۔ لونڈی کا دل صبح کے نظارہ سے بے حد متأثر تھا۔ وہ حمزؓہ کو اِس شکل میں دیکھ کر برداشت نہ کرسکی اور انہیں طعنہ دے کر کہا۔ تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو، ہر وقت اسلحہ سے مسلح رہتے ہو۔ مگر کیا تمہیں معلوم ہے کہ صبح ابوجہل نے تمہارے بھتیجے سے کیاکیا؟ حمزؓہ نے پوچھا کیاکیا؟ اُس نے وہ سب واقعہ حمزؓہ کے سامنے بیان کیا۔ حمزہ گو مسلمان نہ تھے مگر دل کے شریف تھے۔ اسلام کی باتیں تو سنی ہوئی تھیں اور یقینا اُن کے دل پر ان کا اثر ہو چکا تھا مگر اپنی آزاد زندگی کی وجہ سے سنجیدگی کے ساتھ اُن پر غور کرنے کا موقع نہیں ملا تھا لیکن اِس واقعہ کو سن کر اُن کی رگِ حمیت جوش میں آگئی ۔آنکھوں پر سے غفلت کا پردہ دُور ہوگیا اورانہیں یوں معلوم ہوا کہ ایک قیمتی چیز ہاتھوں سے نکلی جارہی ہے۔ اُسی وقت گھر سے باہر آئے اور خانہ کعبہ کی طرف گئے جو رؤساء کے مشورے کا مخصوس مقام تھا۔ اپنی کمان کندھے سے اُتاری اور زور سے ابوجہل کو ماری اور کہا سنو ! میں بھی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے مذہب کو اختیار کرتا ہوں۔ تم نے صبح اُسے بِلاوجہ گالیاں دیں اِس لئے کہ وہ آگے سے جواب نہیں دیتا ۔ اگر بہادر ہو تو اَب میری مار کا جواب دو۔ یہ واقعہ ایسا اچانک ہوا کہ ابوجہل بھی گھبراگیا۔ اُس کے ساتھی حمزؓہ سے لڑنے کو اُٹھے لیکن حمزؓہ کی بہادری کا خیال کرکے اور اُن کے قومی جتھا پر نظر کرکے ابو جہل نے خیال کیا کہ اگر لڑائی شروع ہوگئی تو اِس کا نتیجہ نہایت خطرناک نکلے گااِس لئے مصلحت سے کام لے کر اُس نے اپنے ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ چلو جانے دو میں نے واقعہ میں اِس کے بھتیجے کو بہت بُری طرح گالیاں دی تھیں۔۲۰۶؎
پیغامِ اسلام
جب مخالفت تیز ہوگئی اور اِدھر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ؓ نے اصرارسے مکہ والوں کو خداتعالیٰ کا یہ پیغام پہنچانا شروع کیاکہ اس
دنیا کا پیدا کرنے والا خدا ایک ہے،اُس کے سِوا کوئی اور معبود نہیں۔ جس قدر نبی گذرے ہیں سب ہی اُس کی توحید کا اقرار کیا کرتے تھے اور اپنے ہم قوموں کو بھی اِسی تعلیم کی طرف بلایا کرتے تھے۔ تم خدا ئے واحد پر ایمان لاؤ، اِن پتھرکے بتوں کو چھوڑ دو کہ یہ بالکل بے کار ہیں اور ان میں کوئی طاقت نہیں ۔ اے مکہ والو! کیا تم دیکھتے نہیں کہ ان کے سامنے جو نذرو نیاز رکھی جاتی ہے اگر اس پر مکھیوں کا جھرمٹ آ بیٹھے تو وہ ان مکھیوں کو اُڑانے کی بھی طاقت نہیں رکھتے، اگر کوئی اُن پر حملہ کرے تو وہ اپنی حفاظت نہیں کرسکتے، اگر کوئی اُن سے سوال کرے تو وہ جواب نہیں دے سکتے، اگر کوئی ان سے مدد مانگے تو وہ اس کی مدد نہیں کرسکتے ۔ مگر خدائے واحد تو مانگنے والوں کی ضرورت پوری کرتا ہے ۔ سوال کرنے والوں کو جواب دیتا ہے ۔ مدد مانگنے والوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو زیر کرتا ہے اور اپنے عبادت گذار بندوں کو اعلیٰ ترقیات بخشتا ہے ۔ اُس سے روشنی آتی ہے جو اس کے پرستاروں کے دلوں کو منور کردیتی ہے۔ پھر تم کیوں ایسے خدا کو چھوڑ کر بے جان بتوں کے آگے جھکتے ہو اور اپنی عمر ضائع کررہے ہو۔ تم دیکھتے نہیں کہ خدا تعالیٰ کی توحید کو چھوڑ کر تمہارے خیالات بھی گندے اور دل بھی تاریک ہوگئے ہیں۔ تم قسم قسم کی وہمی تعلیموں میں مبتلا ہو۔ حلال وحرام کی تم میں تمیز نہیں رہی۔ اچھے اور بُرے میں تم امتیاز نہیں کرسکتے۔ اپنی ماؤں کی بے حرمتی کرتے ہو، اپنی بہنوں اور بیٹیوں پر ظلم کرتے ہو اور ان کے حق اُنہیں نہیں دیتے۔ اپنی بیویوں سے تمہارا سلوک اچھا نہیں۔ یتامیٰ کے حق مارتے ہو اور بیواؤں سے بُرا سلوک کرتے ہو۔ غریبوں اور کمزوروں پر ظلم کرتے ہو اور دوسروں کے حق مار کر اپنی بڑائی قائم کرنا چاہتے ہو۔ جھوٹ اور فریب سے تم کو عار نہیں۔ چوری اور ڈاکہ سے تم کو نفرت نہیں۔ جوا اور شراب تمہارا شغل ہے ۔ حصولِ علم اور قومی خدمت کی طرف تمہاری توجہ نہیں۔ خدائے واحد کی طرف سے کب تک غافل رہوگے۔ آؤ اور اپنی اصلاح کرو اور ظلم چھوڑ دو۔ ہر حق دار کو اُس کا حق دو۔ خدا نے اگر مال دیا ہے تو ملک و قوم کی خدمت اور کمزوروں اور غریبوں کی ترقی کے لئے اُسے خرچ کرو۔ عورتوںکی عزت کرو اور ان کے حق ادا کرو۔ یتیموں کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھو اور اُن کی خبر گیری کو اعلیٰ درجہ کی نیکی سمجھو۔ بیواؤں کا سہارا بنو ۔ نیکیوں اور تقویٰ کو قائم کرو۔ انصاف اور عدل ہی نہیں بلکہ رحم اور احسان کو اپنا شعار بناؤ ۔ اس دنیا میں تمہارا آنا بیکار نہ جانا چاہئے۔ اچھے آثار اپنے پیچھے چھوڑو، تا دائمی نیکی کا بیج بویا جائے۔ حق لینے میں نہیں بلکہ قربانی اور ایثار میں اصل عزت ہے ۔ پس تم قربانی کرو، خدا کے قریب ہو۔ خدا کے بندوں کے مقابل پر ایثار کا نمونہ دکھاؤ تاخدا تعالیٰ کے ہاں تمہارا حق قائم ہو۔بے شک ہم کمزور ہیں مگر ہماری کمزوری کو نہ دیکھو۔ آسمان پر سچائی کی حکومت کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے عدل کا ترازو رکھا جائے گا اور انصاف اور رحم کی حکومت قائم کی جائے گی جس میں کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ مذہب کے معاملہ میں دخل اندازی نہ کی جائے گی۔ عورتوں اور غلاموں پر جو ظلم ہوتے رہے ہیں وہ مٹا دیئے جائیں گے اور شیطان کی حکومت کی جگہ خدائے واحد کی حکومت قائم کردی جائے گی۔
کفّارِ مکہ کی ابو طالب کے پاس شکایت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا استقلال
جب یہ تعلیمیں بار بار مکہ والوں کو سنائی جانے لگیں اور شریف الطبع لوگوں کی رغبت اسلام کی طرف
بڑھنے لگی تو ایک دن مکہ کے سردار جمع ہو کر آپ کے چچا ابو طالب کے پاس آئے اور اُن سے کہا کہ آپ ہمارے رئیس ہیں اور آپ کی خاطر ہم نے آپ کے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کچھ نہیں کہا۔ اب وقت آگیا ہے کہ آپ کے ساتھ ہم آخری فیصلہ کریں یا تو آپ اُسے سمجھائیں اور اس سے پوچھیں کہ آخر وہ ہم سے چاہتا کیا ہے۔ اگر اُس کی خواہش عزت حاصل کرنے کی ہے تو ہم اسے اپنا سردار بنانے کے لئے تیار ہیں۔ اگر وہ دولت کا خواہش مند ہے تو ہم میں سے ہر شخص اپنے مال کا کچھ حصہ اُس کو دینے کے لئے تیار ہے۔ اگر اُسے شادی کی خواہش ہے تو مکہ کی ہرلڑکی جو اُسے پسند ہو اُس کا نام لے ہم اُس سے اُس کا بیاہ کرانے کے لئے تیا ر ہیں۔ ہم اِس کے بدلہ میں اُس سے کچھ نہیں چاہتے اور کسی بات سے نہیں روکتے۔ ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے بتوں کو بُرا کہنا چھوڑ دے۔ وہ بیشک کہے خدا ایک ہے مگر یہ نہ کہے کہ ہمارے بت بُرے ہیں۔ اگرو ہ اتنی بات مان لے تو ہماری اس سے صلح ہو جائے گی۔ آپ اُسے سمجھائیں اور ہماری تجویز کے قبول کرنے پر آمادہ کریں۔ ورنہ پھر دو باتوں میں سے ایک ہو گی یا آپ کو اپنا بھتیجا چھوڑنا پڑے گا یا آپ کی قوم آپ کی ریاست سے انکار کر کے آپ کو چھوڑ دے گی۔ ابوطالب کے لئے یہ بات نہایت ہی شاق تھی۔ عربوں کے پاس روپیہ پیسہ تو تھوڑا ہی ہوتا تھا ان کی ساری خوشی اُن کی ریاست میں ہوتی تھی۔ رؤساء قوم کے لئے زندہ رہتے تھے اور قوم رئوساء کے لئے زندہ رہتی تھی۔ یہ بات سن کر ابو طالب بیتاب ہو گئے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بُلوایا اور کہا کہ اے میرے بھتیجے! میری قوم میرے پاس آئی ہے اور اس نے مجھے یہ پیغام دیا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر تمہارا بھتیجا ان باتوں میں سے کسی ایک بات پر بھی راضی نہ ہوتو پھر ہماری طرف سے ہر ایک قسم کی پیشکش ہو چکی ہے اگر وہ اس پر بھی اپنے طریقہ سے باز نہیں آتا تو آپ کا کام ہے کہ اسے چھوڑ دیں اوراگر آپ اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں تو پھر ہم لوگ آپ کی ریاست سے انکار کر کے آپ کو چھوڑ دیں گے۔ جب ابو طالب نے یہ بات کی تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اُن کے آنسوئوں کو دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور آپ نے فرمایا اے میرے چچا! میں یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنی قوم کو چھوڑ دیں اور میرا ساتھ دیں۔ آپ بیشک میرا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنی قوم کے ساتھ مل جائیں۔ لیکن مجھے خدائے وحدہ لاشریک کی قسم ہے کہ اگر سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کر کھڑا کر دیںتب بھی میں خد ا تعالیٰ کی توحید کا وعظ کرنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ میں اپنے کام میں لگا رہوں گا جب تک خد ا مجھے موت دے۔ آپ اپنی مصلحت کو خود سوچ لیں۔ یہ ایمان سے پُر اور یہ اخلاص سے بھر ا ہوا جواب ابو طالب کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی تھا۔ اُنہوں نے سمجھ لیا کہ گو مجھے ایمان لانے کی توفیق نہیں ملی لیکن اِس ایمان کا نظارہ دیکھنے کی توفیق ملنا ہی سب دولتوں سے بڑی دولت ہے اور آپ نے کہا اے میرے بھتیجے! جا اور اپنا فرض ادا کرتا رہ۔ قوم اگر مجھے چھوڑنا چاہتی ہے تو بیشک چھوڑ دے میں تجھے نہیں چھوڑ سکتا۔۲۰۷؎
حبشہ کی طرف ہجرت
جب مکہ والوں کا ظلم انتہاء کو پہنچ گیا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے ساتھیوں کو بُلوایا اور فرمایا مغرب کی طرف
سمندر پار ایک زمین ہے جہاں خد اکی عبادت کی وجہ سے ظلم نہیں کیا جاتا۔ مذہب کی تبدیلی کی وجہ سے لوگوں کو قتل نہیں کیا جاتا وہاں ایک منصف بادشاہ ہے، تم لوگ ہجرت کر کے وہاں چلے جائو شاید تمہارے لئے آسانی کی راہ پید اہو جائے۔ کچھ مسلمان مرد اور عورتیں اور بچے آپ کے اس ارشاد پر ایبے سینیا کی طرف چلے گئے۔ ان لوگوں کا مکہ سے نکلنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ مکہ کے لوگ اپنے آپ کو خانہ کعبہ کا متولّی سمجھتے تھے اور مکہ سے باہر چلے جانا ان کے لئے ایک ناقابل برداشت صدمہ تھا۔ وہی شخص یہ بات کہہ سکتا تھا جس کے لئے دنیا میں کوئی اور ٹھکانہ باقی نہ رہے۔ پس ان لوگوں کا نکلنا ایک نہایت ہی دردناک واقعہ تھا۔ پھر نکلنابھی اُن لوگوں کو چوری ہی پڑا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مکہ والوںکو معلوم ہوگیا تو وہ ہمیں نکلنے نہیں دیں گے اور اس وجہ سے وہ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی آخری ملاقات سے بھی محروم جا رہے تھے۔ اُن کے دلوں کی جو حالت تھی سو تھی، اُن کے دیکھنے والے بھی ان کی تکلیف سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ چنانچہ جس وقت یہ قافلہ نکل رہا تھا حضرت عمرؓ جو اُس وقت تک کافر اور اسلام کے شدید دشمن تھے اور مسلمانوں کو تکلیف دینے والوں میں سے چوٹی کے آدمی تھے اتفاقاً اُس قافلہ کے بعض افراد کو مل گئے۔ اُن میں ایک صحابیہ اُمِّ عبداللہ نامی بھی تھیں۔ بندھے ہوئے سامان اور تیار سواریوں کو جب آپ نے دیکھا تو آپ سمجھ گئے کہ یہ لوگ مکہ کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ آپ نے کہا اُمِّ عبداللہ یہ تو ہجرت کے سامان نظر آرہے ہیں۔ اُمِّ عبداللہ کہتی ہیں میںنے جواب میں کہا ہا ں خدا کی قسم! ہم کسی اور ملک میں چلے جائیں گے کیونکہ تم نے ہم کو بہت دکھ دئیے ہیں اور ہم پر بہت ظلم کئے ہیں ہم اُس وقت تک اپنے ملک میں نہیں لوٹیں گے جب تک خد ا تعالیٰ ہمارے لئے کوئی آسانی اور آرام کی صورت نہ پیدا کر دے۔ اُمِّ عبداللہ بیان کرتی ہیں کہ عمر نے جواب میں کہا اچھا خدا تمہارے ساتھ ہو اور میں نے اُن کی آواز میں رقت محسوس کی جو اِس سے پہلے میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ پھر وہ جلدی سے منہ پھیر کر چلے گئے اور میں نے محسوس کیا کہ اِس واقعہ سے ان کی طبیعت نہایت ہی غمگین ہوگئی ہے۔۲۰۸؎
جب اُن لوگوں کے ہجرت کرنے کی مکہ والوں کو خبر ہوئی تو اُنہوں نے ان کا تعاقب کیا اور سمندر تک ان کے پیچھے گئے مگر یہ قافلہ اِن لوگوں کے سمندر تک پہنچنے سے پہلے ہی حبشہ کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔ جب مکہ والوں کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک وفد بادشاہ ِحبشہ کے پاس بھیجا جائے جو اُسے مسلمانوں کے خلاف بھڑکائے اور اُسے تحریک کرے کہ وہ مسلمانوں کو مکہ والوں کے سپرد کردے تاکہ وہ اُنہیں ان کی اِس شوخی کی سزا دیں کہ رئوسائے شہر کے ظلموں کو برداشت نہ کرتے ہوئے وہ مکہ سے کیوں بھاگے تھے۔ اِس وفد میں عمرو بن العاص بھی تھے جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے اور مصر اُنہی کے ہاتھوں فتح ہوا۔ یہ وفد حبشہ گیا اور بادشاہ سے ملا اورامرائے دربار کو اُنہو ں نے خوب اُکسایا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے بادشاہِ حبشہ کے دل کو مضبوط کر دیا اور اُس نے باوجود اِن لوگوں کے اصرار کے اور باوجود درباریوں کے اصرار کے مسلمانوں کو کفّار کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا۔ جب یہ وفد ناکام واپس آیا تو مکہ والوں نے ان مسلمانوں کو بُلانے کے لئے ایک اور تدبیر سوچی اور وہ یہ کہ حبشہ جانے والے بعض قافلوں میں یہ خبر مشہور کر دی کہ مکہ کے سب لوگ مسلمان ہو گئے ہیں۔ جب یہ خبر حبشہ پہنچی تو اکثر مسلمان خوشی سے مکہ کی طرف واپس لوٹے مگر مکہ پہنچ کر اُن کو معلوم ہو اکہ یہ خبر محض شرارتاً مشہور کی گئی تھی اور اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ اس پر کچھ لوگ تو واپس حبشہ چلے گئے اور کچھ مکہ میں ہی ٹھہر گئے۔ اِن مکہ میں ٹھہرنے والوں میں سے عثمان بن مظعونؓ بھی تھے جو مکہ کے ایک بہت بڑے رئیس کے بیٹے تھے۔ اِس دفعہ ان کے باپ کے ایک دوست ولید بن مغیرہ نے ان کو پناہ دی اور وہ امن سے مکہ میں رہنے لگے۔ مگر اس عرصہ میں انہو ں نے دیکھا کہ بعض دوسرے مسلمانوں کو دکھ دئیے جاتے ہیں اور اُنہیں سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی جاتی ہیں۔ چونکہ وہ غیر تمند نوجوان تھے ولید کے پاس گئے اور اُسے کہدیا کہ میں آپ کی پناہ کو واپس کرتا ہوں کیونکہ مجھ سے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ دوسرے مسلمان دکھ اُٹھائیں اور میں آرام میں رہوں۔ چنانچہ ولید نے اعلان کر دیا کہ عثمان اب میری پنا ہ میں نہیں۔ اس کے بعد ایک دن لبید عرب کا مشہور شاعر مکہ کے رئوساء میں بیٹھا اپنے شعر سنا رہا تھا کہ اُس نے ایک مصرع پڑھا
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَامَحَا لَۃَ زَائِلٌ
جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر نعمت آخر مٹ جانے والی ہے۔ عثمان نے کہا یہ غلط ہے جنت کی نعمتیں ہمیشہ قائم رہیںگی۔ لبید ایک بہت بڑا آدمی تھا یہ جواب سن کر جوش میں آگیا اور اُس نے کہا اے قریش کے لوگو! تمہارے مہمان کو تو پہلے اس طرح ذلیل نہیں کیا جا سکتا تھا اب یہ نیا رواج کب سے شروع ہوا ہے؟ اِس پر ایک شخص نے کہا یہ ایک بیوقوف آدمی ہے اِس کی بات کی پرواہ نہ کریں۔ حضرت عثمانؓ نے اپنی بات پر اصرار کیا اور کہا بیوقوفی کی کیا بات ہے جو بات میں نے کہی ہے وہ سچ ہے۔ اس پر ایک شخص نے اُٹھ کر زور سے آپ کے منہ پر گھونسا مارا جس سے آپ کی ایک آنکھ نکل گئی۔ ولید اُس وقت اُس مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ عثمانؓ کے باپ کے ساتھ اُس کی بڑی گہری دوستی تھی۔ اپنے مردہ دوست کے بیٹے کی یہ حالت اُس سے دیکھی نہ گئی۔ مگر مکہ کے رواج کے مطابق جب عثمانؓ اس کی پناہ میں نہیں تھے تو وہ ان کی حمایت بھی نہیں کر سکتا تھا، اس لئے اَور تو کچھ نہ کر سکا نہایت ہی دکھ کے ساتھ عثمانؓ ہی کو مخاطب کر کے بولا! اے میرے بھائی کے بیٹے! خد اکی قسم تیری یہ آنکھ اس صدمہ سے بچ سکتی تھی جبکہ تو ایک زبردست حفاظت میں تھا (یعنی میری پناہ میں تھا) لیکن تو نے خود ہی اس پناہ کو چھوڑ دیا اور یہ دن دیکھا۔ عثمانؓ نے جواب میں کہا جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے میں خود اس کا خواہشمند تھا تم میری پھوٹی ہوئی آنکھ پر ماتم کر رہے ہو حالانکہ میری تندرست آنکھ اس بات کیلئے تڑپ رہی ہے کہ جو میری بہن کے ساتھ ہوا ہے وہی میرے ساتھ کیوں نہیں ہوتا۔ ۲۰۹؎ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ میرے لئے بس ہے۔ اگر وہ تکلیفیں اُٹھا رہے ہیں تو میں کیوں نہ اُٹھاؤں۔ میرے لئے خدا کی حمایت کافی ہے۔
حضرت عمرؓ کا قبولِ اسلام
اِسی زمانہ میں مکہ میں ایک اور واقعہ ظاہر ہوا جس نے مکہ میں آگ لگا دی اور یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ عمرؓ جو بعد
میں اسلام کے دوسرے خلیفہ ہوئے اور جو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں شدید ترین دشمنوں میں سے تھے۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے اُن کے دل میں خیال آیا کہ اِس وقت تک اسلام کے مٹانے کے لئے بہت کچھ کوششیں کی گئی ہیں مگر کامیابی نہیںہوئی کیوں نہ اسلام کے بانی کو قتل کردیا جائے اور اِس فتنہ کو ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے۔ یہ خیال آتے ہی اُنہوں نے تلوار اُٹھائی اور گھر سے نکلے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں چل کھڑے ہوئے ۔ راستہ میں اُن کا کوئی دوست ملا اور اِس حالت میں دیکھ کر کچھ حیران ہوا اور آپ سے سوال کیا کہ عمرؓ ! کہاں جارہے ہو؟ عمرؓ نے کہا میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کرنے کے لئے جارہا ہوں۔ اُس نے کہا کیا تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کرکے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قبیلہ سے محفوظ رہ سکو گے؟ اور ذرا اپنے گھر کی تو خبر لو تمہاری بہن اور تمہارا بہنوئی بھی مسلمان ہوچکے ہیں۔ یہ خبر حضرت عمرؓ کے سر پر بجلی کی طرح گری انہوں نے سوچا میں جو اسلام کا بدترین دشمن ہوں میں جو محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کو مارنے کے لئے جارہا ہوں میری ہی بہن اور میراہی بہنوئی اسلام قبول کرچکے ہیں اگر ایسا ہے تو پہلے مجھے اپنی بہن اور بہنوئی سے نپٹنا چاہئے۔ یہ سوچتے ہوئے وہ اپنی بہن کے گھر کی طرف چلے جب دروازہ پر پہنچے تو انہیں اندر سے خوش الحانی سے کسی کلام کے پڑھنے کی آوازیں آئیں۔ یہ پڑھنے والے خبابؓ جو اُن کی بہن اور اُن کے بہنوئی کو قرآن شریف سکھلا رہے تھے۔ عمرؓ تیزی سے گھر میں داخل ہوئے۔ اُن کے پائوں کی آہٹ سن کر خبابؓ تو کسی کونہ میں چھپ گئے اور اُن کی بہن نے جن کا نام فاطمہؓ تھا قرآن شریف کے وہ اَوراق جو اُس وقت پڑھے جار ہے تھے، چھپا دئیے۔ حضرت عمرؓ کمرہ میں داخل ہوئے تو غصہ سے پوچھا میں نے سنا ہے کہ تم اپنے دین سے پھر گئے ہو؟ اور یہ کہہ کر اپنے بہنوئی پر جو اُن کے چچا زاد بھائی بھی تھے حملہ آور ہوئے۔ فاطمہؓ نے جب دیکھا کہ ان کے بھائی عمرؓ ان کے خاوند پر حملہ کرنے لگے تو وہ دوڑ کر اپنے خاوند کے آگے کھڑی ہو گئیں۔ عمرؓ ہاتھ اُٹھا چکے تھے اُن کا ہاتھ زور سے اُن کے بہنوئی کے منہ کی طرف آرہا تھا اور اب اس ہاتھ کو روکنا اُن کی طاقت سے باہر تھا مگر اب ان کے ہاتھ کے سامنے ان کے بہنوئی کی بجائے ان کی بہن کا چہرہ تھا۔ عمرؓ کا ہاتھ زور سے فاطمہؓکے چہرہ پر گرا اور فاطمہؓ کے ناک سے خون کے تراڑے ۲۱۰؎ بہنے لگے۔ فاطمہؓ نے مار تو کھا لی مگر دلیری سے کہا عمر! یہ بات سچ ہے کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور یاد رکھیئے کہ ہم اِس دین کو نہیں چھوڑ سکتے آپ سے جو کچھ ہو سکتا ہو کر لیں۔ عمرؓ ایک بہادر آدمی تھے ظلم نے اُن کی بہادری کو مٹا نہیں دیا تھا۔ ایک عورت اور پھر اپنی بہن کو اپنے ہی ہاتھ سے زخمی دیکھا تو شرمندگی اور ندامت سے گھڑوں پانی پڑ گیا۔ بہن کے چہرہ سے خون بہہ رہا تھااور عمرؓ کے دل سے اب ان کا غصہ دور ہو چکا تھا۔ اپنی بہن سے معافی مانگنے کی خواہش زور پکڑ رہی تھی اور تو کوئی بہانہ نہ سُوجھا بہن سے بولے اچھا! لائو مجھے وہ کلام تو سنائو جو تم لوگ ابھی پڑھ رہے تھے۔ فاطمہؓ نے کہا میں نہیں دکھائوں گی۔ کیونکہ آپ ان اَوراق کو ضائع کر دو گے۔ عمر نے کہا نہیں بہن میں ایسا نہیں کروں گا۔ فاطمہ نے کہا تم تو نجس ہو پہلے غسل کرو پھر دکھائوں گی عمرؓ ندامت کی شدت کی وجہ سے سب کچھ کرنے کے لیے تیار تھے۔ وہ غسل پر بھی راضی ہو گئے۔ جب غسل کر کے واپس آئے تو فاطمہؓ نے اُن کے ہاتھ میں قرآن کریم کے اَوراق دے دئیے۔ یہ قرآن کریم کے اَوراق سورہ طٰہٰ کی کچھ آیات تھیں۔ جب وہ اسے پڑھتے ہوئے اِس آیت پر پہنچے
۲۱۱؎ یقینا میں ہی اللہ ہوں اور کوئی معبود نہیں صرف میں ہی معبود ہوں۔ پس اے مخاطب! میری عبادت کر اور نماز پڑھ اور اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر میری عبادت کو قائم کر۔ رسمی عبادت نہیں بلکہ میری بزرگی کو دنیا میں قائم کرنے والی عبادت۔ یاد رکھ کہ اِس کلام کو قائم کرنے والی گھڑی آرہی ہے میں اس کے ظاہر کرنے کے سامان پیدا کر رہا ہوں جن کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہر ایک جان کو جیسے جیسے وہ کام کرتی ہے اس کے مطابق بدلہ مل جائے گا۔ حضرت عمرؓ جب اس آیت پر پہنچے تو بے اختیار ان کے منہ سے نکل گیا یہ کیساعجیب اور پاک کلام ہے۔ خبابؓ نے جب یہ الفاظ سنے تو وہ اس جگہ سے جہاں چھپے ہوئے تھے باہر نکل آئے اور کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی دعا کا نتیجہ ہے۔ مجھے خد اکی قسم! میں نے کل ہی آپ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا تھا کہ الٰہی! عمر بن الخطاب یا عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کو اسلام کی طرف ضرور ہدایت بخش۔ عمرؓ کھڑے ہوگئے اورکہا مجھے بتائو کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کہاں ہیں؟ جب آپ کو بتایا گیا کہ آپ دار ارقم میں رہتے ہیں تو آپ اُسی طرح ننگی تلوارلیے ہوئے وہاں پہنچے اور دروازہ پر دستک دی۔ صحابہؓ نے دروازہ کی دراڑوں میںسے دیکھا تو انہیں عمرؓ ننگی تلوار لئے کھڑے نظر آئے۔ وہ ڈرے کہ ایسا نہ ہو دروازہ کھول دیں تو عمرؓ اندر آکر کوئی فساد کریں۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوا کیا ؟دروازہ کھول دو۔ عمرؓ اِسی طرح تلوار لیے اندر داخل ہوئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور فرمایا عمر! کس ارادہ سے آئے ہو؟ عمرؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ !میں مسلمان ہونے آیا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر بلند آواز سے اللّٰہُ اَکْبَرُ کہا یعنی اللہ سب سے بڑا ہے اور آپ کے سب ساتھیوں نے بھی یہی الفاظ زور سے دُہرائے یہاں تک کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اُٹھیں۲۱۲؎ اور تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر مکہ میں آگ کی طرح پھیل گئی اور عمرؓ سے بھی وہی سختی کا برتائو ہونا شروع ہو گیا جو پہلے دوسرے صحابہؓ سے ہوتا تھا۔ مگر وہی عمرؓ جو پہلے مارنے اور قتل کرنے میں مزہ اُٹھایا کرتے تھے اب مار کھانے اور پیٹے جانے میں لذت حاصل کرنے لگے۔ چنانچہ خود عمرؓ کا بیان ہے کہ ایمان لانے کے بعد میں مکہ کی گلیوں میں ماریں ہی کھاتا رہتا تھا۔
مسلمانوں سے مقاطعہ
غرض ظلم اب حد سے باہر ہوتے جار ہے تھے۔ کچھ لوگ مکہ چھوڑ کر چلے گئے تھے اور جو باقی تھے وہ پہلے سے بھی
زیادہ ظلموں کا شکار ہونے لگے تھے مگر ظالموں کے دل ابھی ٹھنڈے نہ ہوئے تھے، جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارے گزشتہ ظلموں سے مسلمانوں کے دل نہیں ٹوٹے۔ ان کے ایمانوں میں تزلزل واقعہ نہیں ہوا بلکہ وہ خدائے واحد کی پرستش میں اور بھی بڑھ گئے اور بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور بتوں سے ان کی نفرت ترقی ہی کرتی چلی جاتی ہے تو انہو ںنے پھر ایک مجلس شوریٰ قائم کی اور فیصلہ کر دیا کہ مسلمانوں کے ساتھ کلی طور پر مقاطعہ کر دیا جائے۔ کوئی شخص سَودا اُن کے پاس فروخت نہ کرے۔ کوئی شخص ان کے ساتھ لین دین نہ کرے۔ اُس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند متبعین اورا ن کے بیوی بچوں سمیت اور اپنے چند ایسے رشتہ داروں کے ساتھ جو باوجود اسلام نہ لانے کے آپ کا ساتھ چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھے ایک الگ مقام میں جو ابوطالب کی ملکیت تھا پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ ان لوگوں کے پاس نہ روپیہ تھا نہ سامان نہ ذخائر جن کی مدد سے وہ جیتے۔ وہ اس تنگی کے زمانہ میں جن حالات میں سے گزرے ہو ں گے ان کا اندازہ لگانا دوسرے انسان کے لئے ممکن نہیں۔ قریباً تین سال تک یہ حالات اسی طرح قائم رہے اور مکہ کے مقاطعہ کے فیصلہ میں کوئی کمزوری پید انہ ہوئی۔ قریباً تین سال کے بعد مکہ کے پانچ شریف آدمیوں کے دل میں اِس ظلم کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی۔ وہ شعب ابی طالب کے دروازہ پر گئے اور محصورین کو آواز دے کر کہا کہ وہ باہر نکلیں اور کہ وہ اس مقاطعہ کے معاہدہ کو توڑنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ ابو طالب جو اس لمبے محاصرہ اور فاقوں کی وجہ سے کمزور ہو رہے تھے باہر آئے اور اپنی قوم کو مخاطب کر کے اُنہیں ملامت کی کہ ان کا یہ لمبا ظلم کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ ان پانچ شریف انسانوں کی بغاوت فوراً بجلی کی طرح شہر میں پھیل گئی۔ فطرتِ انسانی نے پھر سر اُٹھانا شروع کیا۔ نیکی کی روح نے پھر ایک دفعہ سانس لیا اور مکہ کے لوگ اس شیطانی معاہدہ کو توڑنے پر مجبور ہوئے۔۲۱۳؎ معاہدہ تو ختم ہو گیا مگر تین سالہ فاقوں نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔ تھوڑے ہی دنوںمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفا شعار بیوی حضرت خدیجہؓ اس مقاطعہ کے دنوں کی تکلیفوں کے نتیجہ میں فوت ہو گئیں اور اس کے ایک مہینہ بعد ابوطالب بھی اِس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
حضرت خدیجہؓ اور ابو طالب کی وفات کے بعدتبلیغ میں رُکاوٹیں اور آنحضرت ﷺ کا سفر طائف
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحا بہ اب ابوطالب کے
مصالحانہ اثر سے محروم ہوگئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی کی ساتھی حضرت خدیجہؓ بھی آپ سے جد ا ہو گئیں۔ اِن دونوں کی وفات سے طبعی طور پر اُن لوگوں کی ہمدردیاں بھی آپ سے اور آپ کے صحابہؓ سے کم ہوگئیں جو ان کے تعلقات کی وجہ سے ظالموں کو ظلم سے روکتے رہتے تھے۔ ابو طالب کی وفات کے تازہ صدمہ کی وجہ سے اور ابو طالب کی وصیت کی وجہ سے چند دن آپ کے شدید دشمن اور ابو طالب کے چھوٹے بھائی ابو لہب نے آپ کا ساتھ دیا۔لیکن جب مکہ والوں نے اس کے جذبات کو یہ کہہ کر اُبھارا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تو تمام اُن لوگوں کو جو توحید الٰہی کے قائل نہیں مجرم اور قابل سزا سمجھتا ہے تو اپنے آباء کی غیرت کے جوش میں ابولہب نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور عہد کیا کہ وہ آئندہ پہلے سے بھی زیادہ آپ کی مخالفت کرے گا۔ محصوری کی زندگی کی وجہ سے چونکہ تین سال تک لوگ اپنے رشتہ داروں سے جدا رہے تھے اس لئے تعلقات میں ایک سردی پیدا ہو گئی تھی۔ مکہ والے مسلمانوں سے قطع کلا می کے عادی ہو چکے تھے اِس لئے تبلیغ کا میدان محدود ہو گیا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ حالت دیکھی تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ وہ مکہ کی بجائے طائف کے لوگوں کو جا کر اسلام کی دعوت دیں۔ آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ مکہ والوں کی مخالفت نے اِس ارادہ کو اَور بھی مضبوط کر دیا۔ اوّل تو مکہ والے بات سنتے ہی نہیں تھے دوسرے اب انہوں نے یہ طریقہ اختیار کر لیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گلیوں میں چلنے ہی نہ دیتے۔ جب آپ باہر نکلتے آپ کے سر پر مٹی پھینکی جاتی تاکہ آپ لوگوں سے مل ہی نہ سکیں۔ ایک دفعہ اسی حالت میں واپس لوٹے تو آپ کی ایک بیٹی آپ کے سر پر مٹی ہٹاتے ہوئے رونے لگی۔ آپ نے فرمایا او میری بچی! رو نہیں کیونکہ یقینا خدا تمہارے باپ کے ساتھ ہے۔ ۲۱۴؎
آپ تکالیف سے گھبراتے نہ تھے، لیکن مشکل یہ تھی کہ لوگ بات سننے کو تیار نہ تھے۔ جہاں تک تکالیف کا سوال ہے آپ اُن کو ضروری سمجھتے تھے بلکہ آپ کے لئے سب سے زیادہ تکلیف کا دن تو وہ ہوتا تھا جب کو ئی شخص آپ کو تکلیف نہیں دیتا تھا۔ لکھا ہے کہ ایک دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی گلیوں میں تبلیغ کے لئے نکلے مگر اُس دن کسی منصوبہ کے تحت کسی شخص نے آپ سے کلام نہ کیا اور نہ آپ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف دی نہ کسی غلام نے نہ کسی آزاد نے۔ تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صدمہ اور غم سے خاموش لیٹ گئے۔ یہاں تک کہ خد اتعالیٰ نے آپ کو تسلی دی اور فرمایا جائو اور اپنی قوم کو پھر اور پھر اور پھر ہوشیار کرو اور ان کی عدمِ توجہی کی پرواہ نہ کرو۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات گراں نہ گزرتی تھی کہ لوگ آپ کو دکھ دیتے تھے لیکن خدا کا نبی جو دنیا کو ہدایت دینے کے لئے مبعوث ہوا تھا وہ اس بات کو کب برداشت کر سکتا تھا کہ لوگ اُس سے بات ہی نہ کریں اور اس کی بات سننے کے لئے تیار ہی نہ ہوں۔ ایسی بیکار زندگی اس کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی۔ پس آپ نے پختہ فیصلہ کر لیا کہ اب آپ طائف کی طرف جائیں گے اور طائف کے لوگوں کو خد اتعالیٰ کا پیغام پہنچائیں گے اور خداتعالیٰ کے نبیوں کے لیے یہی مقدر ہوتا ہے کہ وہ اِدھر سے اُدھر مختلف قوموں کو مخاطب کرتے پھریں۔ حضرت موسٰی ؑکے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، کبھی وہ آلِ فرعون سے مخاطب ہوا تو کبھی آلِ اسحاق سے اور کبھی مدین کے لوگوں سے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی تبلیغ کے شوق میں کبھی جلیل کے لوگوں، کبھی یردن پار کے لوگوں، کبھی یروشلم کے لوگوں، اور کبھی اور دوسرے لوگوں کو مخاطب کرنا پڑا۔ جب مکہ کے لوگوں نے باتیں سننے سے ہی انکار کر دیا اور یہ فیصلہ کر لیا کہ مارو اور پیٹو مگر بات بالکل نہ سنو، تو آپ نے طائف کی طرف رُخ کیا۔ طائف مکہ سے کوئی ساٹھ میل کے قریب جنوب مشرق کی طرف ایک شہر ہے جو اپنے پھلوں اور اپنی زراعت کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ شہر بت پرستی میں مکہ والوں سے کم نہ تھا۔ خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کے سِوا لاتؔ نامی ایک مشہور بت طائف کی اہمیت کا موجب تھا جس کی زیارت کیلئے عرب کے لوگ دُور دُور سے آتے تھے۔ طائف کے لوگوں کی مکہ سے بہت رشتہ داریاں بھی تھیں اور طائف اور مکہ کے درمیان کی سرسبز مقامات میں مکہ والوں کی جائدادیں بھی تھیں۔ جب آپ طائف پہنچے تو وہاں کے رئوساء آپ سے ملنے کے لئے آنے شروع ہوئے لیکن کوئی شخص حق کو قبول کر نے کے لئے تیار نہ ہوا۔ عوام الناس نے بھی اپنے رئوساء کی اتباع کی اور خدا کے پیغام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا۔ دنیا داروں کی نگاہ میں بے سامان او ربے مدد گار نبی حقیر ہی ہوا کرتا ہے وہ تو اسلحہ اور فوجوں کی آواز سننا جانتے ہیں آپ کی نسبت باتیں تو پہنچ ہی چکی تھیں جب آپ طائف پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ بجائے اس کے کہ آپ کے ساتھ کوئی فوج اور جتھا ہوتا آپ صرف زید ہی کی ہمراہی میں طائف کے مشہور حصوں میں تبلیغ کرتے پھرتے ہیں تو دل کے اندھوں نے اپنے سامنے خد اکا نبی نہیں بلکہ ایک حقیر اور دھتکارا ہوا انسان پایا اور سمجھے کہ شاید اِس کو دکھ دینا اور تکلیف پہنچانا قوم کے رئوساء کی نظروں میں ہم کو معزز کر دے گا۔ وہ ایک دن جمع ہوئے، کتے انہوں نے اپنے ساتھ لئے، لڑکوں کو اُکسایا اور پتھروں سے اپنی جھولیاں بھر لیںاور بیدردی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھرائو کرنا شروع کیا۔ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہر سے دھکیلتے ہوئے باہر لے گئے۔ آپ کے پائوں لہولہان ہوگئے اور زیدؓ آپ کو بچاتے ہوئے سخت زخمی ہوئے مگر ظالموں کا د ل ٹھنڈا نہ ہوا وہ آپ کے پیچھے چلتے گئے اور چلتے گئے جب تک شہر سے کئی میل دُور کی پہاڑیوں تک آپ نہ پہنچ گئے اُنہوں نے آپ کا پیچھا نہ چھوڑا۔جب یہ لوگ آپ کا پیچھا کر رہے تھے تو آپ اِس ڈر سے کہ خدا تعالیٰ کا غضب ان پر نہ بھڑک اُٹھے آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھتے اور نہایت الحاح سے دعا کرتے۔ الٰہی! ا ِن لوگوں کو معاف کرکہ یہ نہیں جانتے کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔۲۱۵؎
زخمی، تھکے ہوئے اور دنیا کے لوگوں کی طرف سے دھتکارے ہوئے آپ ایک انگورستان کے سایہ میں پناہ گزیں ہوئے۔ یہ انگورستان مکہ کے دو سرداروں کا تھا۔ یہ سردار اُس وقت اِس انگورستان میں تھے پُرانے اور شدید دشمن جنہوںنے دس سال تک آپ کی مخالفت میں اپنی زندگی گزاری تھی شاید اُس وقت اِس بات سے متأثر ہو گئے کہ ایک مکہ کے آدمی کو طائف کے لوگوں نے زخمی کیا ہے یا شاید وہ گھڑی ایسی گھڑی تھی جب نیکی کا بیج اُن کے دلوں میں سر اُٹھا رہا تھااُنہوں نے ایک تھال انگوروں کا بھرا اور اپنے غلام عداس کو کہا کہ جائو اور اِن مسافرو ں کو اسے دو۔ عداس نینوا کا رہنے والا ایک عیسائی تھا۔ جب اُس نے یہ انگور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے اور آپ نے یہ کہتے ہوئے اُن انگوروں کو لیا کہ خد اکے نام پر جو بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے میں یہ لیتا ہوں تو عیسائیت کی یاد اُس کے دل میں پھر تازہ ہو گئی۔ اُس نے محسوس کیا کہ اُس کے سامنے خدا کا ایک نبی بیٹھا ہے جو اسرائیلی نبیوں کی سی زبان میں باتیں کرتا ہے۔ اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم کہا ں کے رہنے والے ہو؟ جب اُس نے کہا نینوا کا۔ تو آپ نے فرمایا وہ نیک انسان یونس جو متی کا بیٹا تھا اور نینوا کا باشندہ وہ میری طرح خد اکا ایک نبی تھا۔ پھر آپ نے اُس کو اپنے مذہب کی تبلیغ شروع کی۔ عداس کی حیرانی چند ہی لمحوں میںتعجب سے بدل گئی۔ تعجب ایمان میں تبدیل ہو گیا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ اجنبی غلام آنسوئوں سے بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گیا اور آپ کے سر اور ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دینے لگا۔۲۱۶؎ عداس کی باتوں سے فارغ ہو کر آپ اللہ تعالیٰ کی طرف مخاطب ہوئے اور آپ نے خدا سے یوں دعا مانگی۔
اَللّٰھُمََّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَ ھَوَ انِیْ عَلَی النَّاسِ یَااَرحَمَ الرَّاحِمِیْنَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّیْ اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ اِلٰی بَعِیْدٍ یَتَجَھَّمُنِیْ اَمْ اِلٰی عَدُوٍّمَلَکْتَہٗ اَمْرِیْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ بِکَ عَلَیَّ غَضَبٌفَلاَ اُبَالِیْ وَلٰـکِنْ عَافِیَتُکَ ھِیَ اَوْسَعُ لِیْ۔ اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمٰتُ وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُالدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ مِنْ اَنْ تُنَزِّلَ بِیْ غَضَبَکَ اَوْیَحِلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ لَکَ الْعُقْبٰی حَتّٰی تَرْضٰی وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلاَّبِکَ ۲۱۷؎
یعنی اے میرے ربّ! میں تیرے ہی پاس اپنی کمزوریوں اور اپنے سامانوں کی کمی اور لوگوں کی نظروں میں اپنے حقیر ہونے کی شکایت کرتا ہوں۔ لیکن تو غریبوں اور کمزوروں کا خدا ہے اور تو میرا بھی خد اہے تو مجھے کس کے ہاتھوں میں چھوڑے گا۔ کیا اجنبیوں کے ہاتھوں میں جو مجھے اِدھر اُدھر دھکیلتے پھریں گے یا اُس دشمن کے ہاتھ میں جو میرے وطن میں مجھ پر غالب ہے۔ اگر تیرا غضب مجھ پر نہیں تو مجھے اِن دشمنوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ تیرا رحم میرے ساتھ ہے اور تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسیع ہے۔ میں تیرے چہرہ کی روشنی میں پناہ چاہتا ہوں۔ یہ تیرا ہی کام ہے کہ تو تاریکی کو دنیا سے بھگا دے اور اِس دنیا اور اگلی دنیا میں امن بخشے۔ تیرا غصہ اور تیری غیرت مجھ پر نہ بھڑکیں۔ تو اگر ناراض بھی ہوتا ہے تو اس لئے کہ پھر خوشی کا اظہار کرے اور تیرے سوا کوئی حقیقی طاقت اور کوئی حقیقی پناہ کی جگہ نہیں۔
یہ دعا مانگ کر آپ مکہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن درمیان میں نخلہ نامی مقام پر ٹھہر گئے۔ چند دن وہاں سستا کر پھر آپ مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن عرب کے دستور کے مطابق لڑائی کی وجہ سے مکہ چھوڑدینے کے بعد آپ مکہ کے باشندے نہیں رہے تھے اب مکہ والوں کا اختیار تھا کہ وہ آپ کومکہ میں آنے دیتے یا نہ آتے دیتے اس لئے آپ نے مکہ کے ایک رئیس مطعم بن عدی کو کہلا بھیجا کہ میں مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہوں کیا تم عرب کے دستور کے مطابق مجھے داخلہ کی اجازت دیتے ہو؟ مطعم باوجود شدید دشمن ہونے کے ایک شریف الطبع انسان تھا اُس نے اُسی وقت اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کو ساتھ لیا اور مسلح ہو کر کعبہ کے صحن میں جا کھڑا ہوا اور آپ کو پیغام بھیجا کہ وہ مکہ میں آپ کو آنے کی اجازت دیتا ہے۔ آپ مکہ میں داخل ہوئے کعبہ کا طواف کیا اور مطعم اپنی اولاد اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ تلواریں کھینچے ہوئے آپ کو آپ کے گھر تک پہنچانے کے لئے آیا۔۲۱۸؎ یہ پناہ نہیں تھی کیو نکہ اس کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم ہوتے رہے اور مطعم نے کوئی حفاظت آپ کی نہیں کی بلکہ یہ صرف مکہ میں داخلہ کی قانونی اجازت تھی۔
آپ کے اِس سفر کے متعلق دشمنوں کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ اِس سفر میں آپ نے بے نظیر قربانی اور استقلال کا نمونہ دکھایا ہے۔ سرولیم میور اپنی کتاب ’’لائف آفمحمد‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے طائف کے سفر میں ایک شاندار اور شجاعانہ رنگ پایا جاتا ہے۔ اکیلا آدمی جس کی اپنی قوم نے اُس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھااور اُسے دھتکار دیا خد اکے نام پر بہادری کے ساتھ نینوا کے یوناہ نبی کی طرح ایک بت پرست شہر کو توبہ کی اورخدائی مشن کی دعوت دینے کے لئے نکلا۔ یہ امر اُس کے اِ س ایمان پر کہ وہ اپنے آپ کو کلی طور پر خد اکی طرف سے سمجھتا تھا ایک بہت تیز روشنی ڈالتا ہے‘‘۔۲۱۹؎
مکہ نے پھر ایذاء دہی اور استہزاء کے دروازے کھول دئیے۔ پھر خد اکے نبی کے لئے اُس کا وطن جہنم کا نمونہ بننے لگا۔ مگر اِس پر بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دلیری سے لوگوں کو خدا کی تعلیم پہنچاتے رہے۔ مکہ کے گلی کوچوں میں ’’ خد ا ایک ہے خدا ایک ہے‘‘کی آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ محبت سے، پیار سے، خیر خواہی سے، آپ مکہ والوں کو بت پرستی کے خلاف وعظ کرتے رہے۔ لوگ بھاگتے تھے تو آپ اُن کے پیچھے جاتے تھے۔ لوگ منہ پھیرتے تھے تو آپ پھر بھی باتیں سنائے چلے جاتے تھے۔ صداقت آہستہ آہستہ گھر کر رہی تھی۔ وہ تھوڑے سے مسلمان جو ہجرتِ حبشہ سے بچے ہوئے مکہ میں رہ گئے تھے وہ اندر ہی اندر اپنے رشتہ داروں، دوستوں، ساتھیوں اور ہمسائیوں میں تبلیغ کر رہے تھے۔ بعض کے دل ایمان سے منور ہو جاتے تھے تو عَلَی الْاعْلَان اپنے مذہب کا اظہار کر دیتے تھے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ ماریں کھانے اور تکلیفیں اُٹھانے میں شریک ہو جاتے تھے۔ مگر بہت تھے جنہوں نے روشنی کو دیکھ تو لیاتھا مگر اُس کے قبول کر نے کی توفیق نہیں ملی تھی۔ وہ اُس دن کا انتظار کر رہے تھے جب خداکی بادشاہت زمین پر آئے اور وہ اُس میں داخل ہوں۔
باشند گانِ مدینہ کا قبولِ اسلام
اِسی عرصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بار بار خبر دی جا رہی تھی کہ تمہارے
لئے ہجرت کا وقت آرہا ہے اور آپ پر یہ بھی کھل چکا تھا کہ آپ کی ہجرت کا مقام ایک ایسا شہر ہے جس میں کنویں بھی ہیں اور کھجوروں کے باغ بھی پائے جاتے ہیں۔ پہلے آپ نے یمامہ کی نسبت خیال کیا کہ شاید وہ ہجرت کا مقام ہو گا۲۲۰؎ مگر جلد ہی یہ خیال آپ کے دل سے نکال دیا گیا اور آپ اِس انتطار میں لگ گئے کہ خد اتعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق جو شہر بھی مقدر ہے وہ اپنے آپ کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے لئے پیش کر ے گا۔ اِسی دوران میں حج کا زمانہ آگیا عرب کے چاروں طرف سے لوگ مکہ میں حج کے لئے جمع ہونے شروع ہوئے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عادت کے مطابق جہاں کچھ آدمیوں کو کھڑا دیکھتے تھے اُن کے پاس جا کر اُنہیں توحید کا وعظ سنانے لگ جاتے تھے اور خدا کی بادشاہت کی خوشخبری دیتے تھے اور ظلم اور بدکاری اور فساد اور شرارت سے بچنے کی نصیحت کرتے تھے۔ بعض لوگ آپ کی بات سنتے اور حیرت کا اظہار کر کے جد ا ہو جاتے۔ بعض باتیں سن رہے ہوتے تو مکہ والے آ کر اُن کو وہاں سے ہٹا دیتے تھے۔ بعض جو پہلے سے مکہ والوں کی باتیں سن چکے ہوتے وہ ہنسی اُڑا کر آپ سے جد ا ہو جاتے۔ اسی حالت میں آپ منٰی کی وادی میں پھر رہے تھے کہ چھ سات آدمی جو مدینہ کے باشندے تھے آپ کی نظر پڑے۔ آپ نے اُن سے کہا کہ آپ لوگ کس قبیلہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں؟ اُنہوں نے کہا خزرج قبیلہ کے ساتھ۔ آپ نے کہا وہی قبیلہ جو یہودیوں کا حلیف ہے؟ اُنہوں نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا کیا آپ لوگ تھوڑی دیر بیٹھ کر میری باتیں سنیں گے؟ اُن لوگوں نے چونکہ آپ کا ذکر سنا ہوا تھا اور دل میں آپ کے دعویٰ سے کچھ دلچسپی تھی اُنہوں نے آپ کی بات مان لی اور آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی باتیں سننے لگ گئے۔ آپ نے اُنہیں بتایا کہ خدا کی بادشاہت قریب آرہی ہے، بت اب دنیا سے مٹا دیئے جائیں گے، توحید کو دنیا میں قائم کر دیا جائے گا۔ نیکی اور تقویٰ پھر ایک دفعہ دنیا میں قائم ہو جائیں گے۔ کیا مدینہ کے لوگ اِس عظیم الشان نعمت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟ انہوں نے آپ کی باتیں سنیں اور متأثر ہوئے اور کہا آپ کی تعلیم کو تو ہم قبول کرتے ہیں۔ باقی رہا یہ کہ مدینہ اسلام کو پناہ دینے کے لئے تیار ہے یا نہیں اس کے لئے ہم اپنے وطن جا کر اپنی قوم سے بات کریں گے پھر ہم دوسرے سال اپنی قوم کا فیصلہ آپ کو بتائیں گے۔۲۲۱؎ یہ لوگ واپس گئے اور اُنہوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں میں آپ کی تعلیم کا ذکر کرنا شروع کیا ۔ اُس وقت مدینہ میں دو عرب قبائل اوس اور خزرج بستے تھے اور تین یہودی قبائل یعنی بنو قریظہ اور بنو نضیر اور بنو قینقاع۔اوس اور خزرج کی آپس میں لڑائی تھی۔ بنو قریظہ اور بنو نضیر اوس کے ساتھ اور بنو قینقاع خزرج کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ مدتوں کی لڑائی کے بعد اُن میں یہ احساس پیدا ہو رہا تھا کہ ہمیں آپس میں صلح کر لینی چاہئے۔ آخر باہمی مشورہ سے یہ قرار پایا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول جو خزرج کا سردار تھا اُسے سارا مدینہ اپنا بادشاہ تسلیم کر لے۔ یہودیوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اوس اور خزرج بائبل کی پیشگوئیاں سنتے رہتے تھے۔ جب یہودی اپنی مصیبتوں اور تکلیفوں کا حال بیان کرتے تواُس کے آخر میں یہ بھی کہہ دیا کرتے تھے کہ ایک نبی جو موسیٰ کا مثیل ہو گا ظاہر ہونے والا ہے اُس کا وقت قریب آرہا ہے جب وہ آئے گا ہم پھر ایک دفعہ دنیا پر غالب ہو جائیں گے ،یہود کے دشمن تباہ کر دئیے جائیں گے۔ جب اُن حاجیوں سے مدینہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کو سنا آپ کی سچائی اُن کے دلوں میں گھر کر گئی اور اُنہو ںنے کہا یہ تو وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کی یہودی ہمیں خبر دیا کرتے تھے۔ پس بہت سے نوجوان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی سچائی سے متأثر ہوئے اور یہودیوں سے سنی ہوئی پیشگوئیاں اُن کے ایمان لانے میں مؤید ہوئیں۔ چنانچہ اگلے سال حج کے موقع پر پھر مدینہ کے لوگ آئے۔ بارہ آدمی اِس دفعہ مدینہ سے یہ ارادہ کرکے چلے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہو جائیں گے۔ اِن میں سے دس خزرج قبیلہ کے تھے اور دو اوس کے۔ منٰی میں وہ آپ سے ملے اوراُنہوں نے آپ کے ہاتھ پر اِس بات کا اقرار کیا کہ وہ سوائے خدا کے اور کسی کی پرستش نہیں کریں گے، وہ چوری نہیں کر یں گے، وہ بدکاری نہیں کر یں گے، وہ اپنی لڑکیوں کو قتل نہیں کر یں گے، وہ ایک دوسرے پر جھوٹے الزام نہیں لگائیں گے، نہ وہ خدا کے نبی کی دوسری نیک تعلیمات میں نافرمانی کریں گے۔۲۲۲؎ یہ لوگ واپس آگئے تو اُنہو ں نے اپنی قوم میں اور بھی زیادہ زور سے تبلیغ شروع کر دی۔ مدینہ کے گھروں میں سے بت نکال کر باہر پھینکے جانے لگے۔ بتوں کے آگے سر جھکانے والے لوگ اب گردنیں اُٹھا کر چلنے لگے۔ خد اکے سوا اب لوگوں کے ماتھے کسی کے سامنے جھکنے کے لئے تیار نہ تھے۔ یہودی حیران تھے کہ صدیوں کی دوستی اور صدیوں کی تبلیغ سے جو تبدیلی وہ نہ پیدا کر سکے اسلام نے وہ تبدیلی چند دنوں میں پید اکر دی۔ توحید کا وعظ مدینہ والوں کے دلوں میں گھر کرتا جاتا تھا۔ یکے بعد دیگرے لوگ آتے اور مسلمانوں سے کہتے ہمیں اپنا دین سکھائو۔ لیکن مدینہ کے نو مسلم نہ تو خود اسلام کی تعلیم سے پوری طرح واقف تھے اور نہ اُن کی تعداد اتنی تھی کہ وہ سینکڑوں اور ہزاروں آدمیوں کو اسلام کے متعلق تفصیل سے بتا سکیں اس لئے اُنہو ںنے مکہ میں ایک آدمی بجھوایا اور مبلغ کی درخواست کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعبؓ نامی ایک صحابی کو جو حبشہ کی ہجرت سے واپس آئے تھے مدینہ میں تبلیغ اسلام کے لئے بھجوا یا۔ مصعبؓ مکہ سے باہر پہلا اسلامی مبلغ تھا۔
اسراء
اُنہی ایام میں خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آئندہ کے لئے پھر ایک زبردست بشارت دی۔ آپ کو ایک کشف میں بتایا گیا کہ آپ یروشلم گئے ہیں اور نبیوں نے
آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔۲۲۳؎ یروشلم کی تعبیر مدینہ تھا، جو آئندہ کے لئے خد ائے واحد کی عبادت کا مرکز بننے والا تھا اور آپ کے پیچھے نبیوں کے نماز پڑھنے کی تعبیر یہ تھی کہ مختلف مذاہب کے لوگ آپ کے مذہب میں داخل ہوں گے اورآپ کا مذہب عالمگیر ہو جائے گا۔ یہ وقت مکہ میں مسلمانوں کے لئے نہایت ہی سخت تھا اور تکالیف انتہاء کو پہنچ چکی تھیں۔ اس کشف کا سنانا مکہ والوں کے لئے ہنسی اور استہزاء کا ایک نیا موجب ہو گیا اور اُنہوں نے ہر مجلس میں آپ کے اِس کشف پر ہنسی اُڑانی شروع کی۔ مگر کون جانتا تھا کہ نئے یروشلم کی تعمیر شروع تھی۔ مشرق و مغرب کی قومیں کان دھرے خد اکے آخری نبی کی آواز سننے کے لئے متوجہ کھڑی تھیں۔
رومیوں کے غلبہ کی پیشگوئی
اِنہی ایام میں قیصر اور کسریٰ کے درمیان ایک خطرناک جنگ ہوئی اور کسریٰ کو فتح حاصل ہوئی۔ شام میں ایرانی
فوجیں پھیل گئیں۔ یروشلم تباہ کر دیا گیا۔ حتی کہ ایرانی فوجیں یونان اور ایشائے کوچک تک پہنچ گئیں اور باسفورس کے دہانہ پر ایرانی جرنیلوں نے قسطنطنیہ سے صرف دس میل کے فاصلہ پر اپنے خیمے گاڑ دئیے۔ اِس واقعہ پر مکہ کے لوگوں نے خوشیاں منانی شروع کیں اور کہا خد اکا فیصلہ ظاہر ہو گیا ہے۔ بت پرست ایرانیوں نے اہل کتاب عیسائیوں کو شکست دے دی۔ اُس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو خبر دی گئی کہ۲۲۴؎ یعنی رومی فوجیں عرب کے قریب ممالک میں شکست کھا گئی ہیں لیکن اپنی شکست کے بعد پھر اُن کو فتح حاصل ہو گی چند سال کے اندر اندر۔ خدا ہی کا اختیار دنیا میں پہلے بھی رائج تھا اور آئندہ بھی رائج رہے گا۔ جب وہ فتح کا دن آئے گا اُس وقت مؤمنوں کو بھی خد اکی مدد سے خوشی نصیب ہوگی۔ خدا جن کو چن لیتا ہے اُن کی مدد کرتا ہے وہ بڑی شان والا اور بڑا مہربان ہے۔ یہ اُس خد اکا وعدہ ہے جو اپنے وعدوں کو تبدیل نہیں کرتا۔ لیکن اکثر لوگ خد اکی قدرتوں سے ناواقف ہیں۔ چند ہی سال بعد خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی پوری کر دی۔ ایک طرف رومیوں نے ایرانیوں کو شکست دے کر اپنے ملک کو آزاد کرا لیا اور دوسری طرف جیسا کہ کہا گیا تھا اُنہی ایام میں مسلمانوں کو مکہ کے لوگوں کے خلاف فتوحات حاصل ہونی شروع ہوئیں۔ جبکہ مکہ کے لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ اُنہوں نے لوگوں کو مسلمانوں کی باتیں سننے سے روک کر اور مسلمانوں پر ظلم کرنے پر آمادہ کر کے اسلام کا خاتمہ کر دیا ہے۔ خد اکا کلام متواتر اسلام کی فتوحات کی خبریں دے رہا تھا اور بتا رہاتھا کہ مکہ والوں کی تباہی کی گھڑی قریب سے قریب تر آرہی ہے۔ چنانچہ انہی ایام میں محمد رسول اللہ ﷺ نے بڑے زور سے خدا تعالیٰ کی اس وحی کا اعلان کیا کہ ۲۲۵؎ یعنی مکہ والے کہتے ہیں کہ کیوں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے ربّ کے پاس سے کوئی نشان ہمارے لئے نہیں لاتا۔ کیا پہلے نبیوں کی پیشگوئیاں جو اس کے حق میں ہیں وہ اُن کے لئے کافی نشان نہیں ہے۔ ہم اگر پوری تبلیغ سے پہلے ہی مکہ والوں کو ہلاک کر دیتے تو مکہ والے کہہ سکتے تھے کہ اے ہمارے ربّ! کیوں تو نے ہماری طرف کوئی رسول نہ بھیجا کہ ہم ذلیل اور رُسوا ہونے سے پہلے تیری تعلیموں کے پیچھے چلتے۔ تو کہہ دے ہر شخص کو اپنے وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے پس تم بھی اُس گھڑی کا انتظا رکرو جب حجت تمام ہو جائے گی تب تم یقینا جان لو گے کہ سیدھے راستہ پر اور خدا تعالیٰ کی ہدایت پر کون چل رہا ہے۔
ہر روز خد اکی نئی وحی نازل ہو رہی تھی اور ہرروز وہ اسلام کی ترقی اور کفّار کی تباہی کی خبریں دے رہی تھی۔ مکہ والے ایک طرف اپنی طاقت اور شوکت کو دیکھتے تھے اور دوسری طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی کمزوری کو دیکھتے تھے اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی میں خدا تعالیٰ کی نصرتوں اور مسلمانوں کی کامیابیوں کی خبریں پڑھتے تھے تو حیران ہو کر سوچتے تھے کہ آیا وہ پاگل ہو گئے ہیں یا محمد ’’ رسول اللہ ‘‘ پاگل ہو گیا ہے۔ مکہ والے تو یہ امیدیں کر رہے تھے کہ ہمارے ظلموں اور ہماری تعدّی کی وجہ سے اب مسلمانوں کو مایوس ہو کر ہماری طرف آ جانا چاہئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود بھی اور اُن کے ساتھیوں کو بھی اُن کے دعویٰ میں شبہات پیدا ہو جانے چاہئیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اعلان کر رہے تھے کہ ۲۲۶؎ اے مکہ والو! جن خیالات میں تم پڑے ہوئے ہو وہ درست نہیں۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں اُن چیزوں کی جو تمہیں نظر آرہی ہیں اور اُن کی بھی جو تمہاری نظروں سے ابھی پوشیدہ ہیں کہ یہ قرآن ایک معزز رسول کی زبان سے تم کو سنایا جا رہا ہے یہ کسی شاعر کا کلام نہیں مگر تمہارے دل میں ایمان کم ہی پید ا ہوتا ہے۔ یہ کسی کاہن کی تک بندی نہیں ہے مگر افسوس تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔ یہ سب جہانوں کے پیدا کرنے والے خدا کی طرف سے اُتارا گیا ہے اور ہم جو سب جہانوں کے رب ہیں تم سے کہتے ہیں کہ اگر یہ ایک آیت بھی جھوٹی بنا کر ہماری طرف منسوب کرتا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اُس کی رگِ جان کو کاٹ دیتے اور اگر تم سب لوگ مل کر بھی اُس کو بچانا چاہتے تو تم اُس کو نہ بچا سکتے۔ مگر یہ قرآن تو خدا سے ڈرنے والوں کے لئے ایک نصیحت ہے اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں اِس قرآن کو جھٹلانے والے بھی موجود ہیں مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کی تعلیم اس منکروں کے دلوں میں حسرتیں پیدا کر رہی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ کاش! یہ تعلیم ہمارے پاس ہوتی۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جو باتیں اِس قرآن میں بتائی گئی ہیں وہ لفظاً لفظاً پوری ہو کر رہیں گی۔ پس اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اِن لوگوں کی مخالفتوں کی پرواہ نہ کر اور اپنے عظیم الشان رب کے نام کی بزرگی بیان کرتا چلا جا۔
آخر تیسرا حج بھی آپہنچا اورمدینہ کے حاجیوں کا قافلہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل مکہ میں وار د ہوا۔ مکہ والوں کی مخالفت کی وجہ سے مدینہ کے لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدہ ملنے کی خواہش کی۔ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہن اِدھر منتقل ہو چکا تھا کہ شاید ہجرت مدینہ ہی کی طرف مقدر ہے ۔ آپ نے اپنے معتبر رشتہ داروں سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور انہوں نے آپ کو سمجھانا شروع کیا کہ آپ ایسا نہ کریں۔ مکہ والے دشمن ہی سہی پھر بھی اس میں بڑے بڑے با اثر لوگ آپ کے رشتہ داروں میں سے موجود ہیں نہ معلوم مدینہ میں کیا ہو اور وہاں آپ کے رشتہ دار آپ کی مدد کر سکیں یا نہ کر سکیں۔ مگر چونکہ آپ سمجھ چکے تھے کہ خد ائی فیصلہ یہی ہے آپ نے اپنے رشتہ داروں کی باتیں ردّ کر دیں اور مدینہ جانے کا فیصلہ کر دیا۔
آدھی رات کے بعد پھر وادیٔ عقبہ میںمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کے مسلمان جمع ہوئے۔ اب آپ کے ساتھ آپ کے چچا عباسؓ بھی تھے۔ اِس دفعہ مدینہ کے مسلمانوں کی تعداد ۷۳ تھی۔ اُن میں ۶۲ خزرج قبیلہ کے تھے اور گیارہ اوس کے تھے۲۲۷؎ اور اس قافلہ میں دو عورتیں بھی شامل تھیں جن میں سے ایک بنی نجار قبیلہ کی اُمِّ عمارہؓ بھی تھیں۔ چونکہ مصعبؓ کے ذریعہ سے اِن لوگوں تک اسلام کی تفصیلات پہنچ چکی تھیں یہ لوگ ایمان اور یقین سے پُر تھے، بعد کے واقعات نے ظاہر کر دیا کہ یہ لوگ آئندہ اسلام کا ستون ثابت ہونے والے تھے۔ اُمِّ عمارہؓ جو اُس دن شامل ہوئیں اُنہوں نے اپنی اولاد میں اسلام کی محبت اتنی داخل کردی کہ اُن کا بیٹا خبیبؓ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسیلمہ کذاب کے لشکر کے ہاتھ میں قید ہو گیا تو مسیلمہ نے اُسے بُلا کر پوچھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں؟ خبیبؓ نے کہاں ہاں۔ پھر مسیلمہ نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ خبیبؓ نے کہا نہیں۔اس پر مسیلمہ نے حکم دیا کہ ان کا عضو کاٹ لیا جائے۔ تب مسیلمہ نے پھر اُن سے پوچھا۔ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ خبیبؓ نے کہا ہاں۔ پھر اُس نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ خبیبؓ نے کہا نہیں۔ پھر اُس نے آپ کا ایک دوسرا عضو کاٹنے کا حکم دیا۔ ہر عضو کاٹنے کے بعد وہ سوال کرتا جاتا تھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور خبیب ؓ کہتاتھا کہ نہیں۔ اِسی طرح اس کے سارے اعضاء کاٹے گئے اور آخر میں اِسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اپنے ایمان کا اعلان کرتے ہوئے وہ خدا سے جاملا۔۲۲۸؎
خوداُمِّ عمارہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سی جنگوں میں شامل ہوئیں۔ غرض یہ ایک مخلص اور ایمان والا قافلہ تھا جس کے افراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دولت اور مال مانگنے نہیں آئے تھے بلکہ صرف ایمان طلب کرنے آئے تھے۔ عباسؓ نے اُن کو مخاطب کر کے کہا اے خزرج قبیلہ کے لوگو! یہ میرا عزیز اپنی قوم میں معزز ہے اِس کی قوم کے لوگ خواہ وہ مسلمان ہیں یا نہیں اس کی حفاظت کرتے ہیں لیکن اب اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ تمہارے پاس جائے۔ اے خزرج کے لوگو! اگر یہ تمہارے پاس گیا تو سارا عرب تمہارا مخالف ہو جائے گا۔ا گر تم اپنی ذمہ داری کو سمجھتے اور اُن خطرات کو پہچانتے ہوئے جو تمہیں اِس کے دین کی حفاظت میں پیش آنے والے ہیں اِس کو لے جانا چاہتے ہو تو خوشی سے لے جائو ورنہ اِس ارادہ سے باز آجائو۔ اِس قافلہ کے سردار البراء تھے اُنہوں نے کہا ہم نے آپ کی باتیں سن لیں۔ ہم اپنے ارادہ میں پختہ ہیں ہماری جانیں خدا کے نبی کے قدموں پر نثار ہیں۔ اب فیصلہ اُس کے اختیار میں ہے۔ ہم اُس کا ہر فیصلہ قبول کریں گے۔ اِس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی تعلیم سمجھانی شروع کی اور خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کا وعظ کیا اور اُنہیں کہا کہ اگر وہ اسلام کی حفاظت اپنی بیویوں اور اپنے بچوں کی طرح کرنے کا وعدہ کرتے ہیں تو وہ آپ کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہیں۔۲۲۹؎ آپ اپنی بات ختم کرنے نہ پائے تھے کہ مدینہ کے ۷۲ جاں نثار یک زبان ہوکر چلائے ہاں! ہاں!! اُس وقت جوش میں اُنہیںمکہ والوں کی شرارتوں کا خیال نہ رہا اور اُن کی آوازیں فضاء میں گونج گئیں۔ عباسؓ نے اُنہیں ہوشیا ر کیا اور کہا خاموش ! خاموش! ایسانہ ہو کہ مکہ کے لوگوں کو اِس واقعہ کا علم ہو جائے۔ مگر اب وہ ایمان حاصل کر چکے تھے، اب موت اُن کی نظروں میں حقیر ہو چکی تھی۔ عباسؓ کی بات سن کر اُن کا ایک رئیس بولا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! ہم ڈرتے نہیں، آپ اجازت دیجئے ابھی مکہ والوں سے لڑ کر اُنہوں نے جو ظلم آپ پر کئے ہیں اُ س کا بدلہ لینے کو تیا رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ابھی خداتعالیٰ نے مجھے اُن کے مقابل پر کھڑا ہونے کا حکم نہیں دیا۔ اِس کے بعد مدینہ کے لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور یہ مجلس برخاست ہوئی۔۲۳۰؎
مکہ کے لوگوں کو اِس واقعہ کی بھنک پہنچ گئی اور وہ مدینہ کے سرداروں کے پاس شکایت لے کر گئے۔ لیکن چونکہ عبداللہ بن ابی ابن سلول مدینہ کے قافلہ کا سردار تھا اور اُسے خود اس واقعہ کا علم نہیں تھا اُس نے اُنہیں تسلی دلائی اور کہا کہ اُنہوں نے یونہی کوئی جھوٹی افواہ سن لی ہے ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کیونکہ مدینہ کے لوگ میرے مشورہ کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے۔ مگر وہ کیا سمجھتا تھا کہ اب مدینہ کے لوگوں کے دلوں میں شیطان کی جگہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم ہو چکی تھی۔ اِس کے بعد مدینہ کا قافلہ واپس چلا گیا۔
مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت
اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے ہجرت کی تیاری شروع کی۔ ایک کے
بعد ایک خاندان مکہ سے غائب ہونا شروع ہوا۔ اب وہ لوگ بھی جو خد اتعالیٰ کی بادشاہت کا انتظار کر رہے تھے دلیر ہو گئے۔ بعض دفعہ ایک ہی رات میں مکہ کی ایک پوری گلی کے مکانوں کو تالے لگ جاتے تھے اور صبح کے وقت جب شہر کے لوگ گلی کو خاموش پاتے تو دریافت کرنے پر اُنہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس گلی کے تمام رہنے والے مدینہ کو ہجرت کر گئے ہیں اور اسلام کے اِس گہرے اثر کو دیکھ کر جو اندر ہی اندر مکہ کے لوگوں میں پھیل رہا تھا وہ حیران رہ جاتے تھے۔
آخر مکہ مسلمانوں سے خالی ہوگیا ، صرف چند غلام، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ مکہ میں رہ گئے۔ جب مکہ کے لوگوں نے دیکھا کہ اب شکار ہمارے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے تو رئوساء پھر جمع ہوئے اور مشورے کے بعد اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دینا ہی مناسب ہے۔ خدا تعالیٰ کے خاص تصرف سے آپ کے قتل کی تاریخ آپ کی ہجرت کی تاریخ سے موافق پڑی۔ جب مکہ کے لوگ آپ کے گھر کے سامنے آپ کے قتل کے لئے جمع ہورہے تھے آپ رات کی تاریکی میں ہجرت کے ارادہ سے اپنے گھر سے باہر نکل رہے تھے۔ مکہ کے لوگ ضرور شبہ کرتے ہوں گے کہ اُن کے ارادہ کی خبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مل چکی ہو گی۔ مگر پھر بھی جب آپ اُن کے سامنے سے گزرے تو اُنہوں نے یہی سمجھا کہ یہ کوئی اور شخص ہے اور بجائے آپ پر حملہ کرنے کے سمٹ سمٹ کر آپ سے چھپنے لگ گئے، تاکہ اُن کے ارادوں کی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خبر نہ ہو جائے۔ اِس رات سے پہلے دن ہی آپ کے ساتھ ہجرت کرنے کے لئے ابوبکرؓ کو بھی اطلاع دے دی گئی تھی پس وہ بھی آپ کو مل گئے اور دونوں مل کر تھوڑی دیر میں مکہ سے روانہ ہو گئے اور مکہ سے تین چار میل پر ثور نامی پہاڑی کے سرے پر ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے۔۲۳۱؎ جب مکہ کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے چلے گئے ہیں تواُنہوں نے ایک فوج جمع کی اورآپ کا تعاقب کیا۔ ایک کھوجی اُنہوں نے اپنے ساتھ لیا جو آپ کا کھوج لگاتے ہوئے ثور پہاڑ پر پہنچا۔ وہاں اُس نے اُس غار کے پاس پہنچ کر جہاں آپ ابوبکرؓ کے ساتھ چھپے ہوئے تھے یقین کے ساتھ کہا کہ یا تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اِس غار میں ہے یا آسمان پر چڑھ گیا ہے۔ اُس کے اِس اعلان کو سن کر ابوبکرؓ کا دل بیٹھنے لگا اور اُنہوں نے آہستہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا دشمن سر پر آپہنچا ہے اور اب کوئی دم میں غار میں داخل ہونے والا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَناَ۔۲۳۲؎ ابو بکر! ڈرو نہیں خدا ہم دونوں کے ساتھ ہے۔ا بوبکرؓ نے جواب میں کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں اپنی جان کے لئے نہیں ڈرتا کیونکہ میں تو ایک معمولی انسان ہوں مارا گیا تو ایک آدمی ہی مارا جائے گا یَارَ سُوْلَ اللّٰہ! مجھے تو صرف یہ خوف تھا کہ اگر آپ کی جان کو کوئی گزند پہنچا تو دنیا میں سے روحانیت اور دین کا نام مٹ جائے گا۔ آپ نے فرمایا کوئی پرواہ نہیں یہاں ہم دو ہی نہیں ہیں تیسرا خدا تعالیٰ بھی ہمارے پاس ہے۔ چونکہ اب وقت آپہنچا تھا کہ خداتعالیٰ اسلام کو بڑھائے اور ترقی دے اور مکہ والوں کے لئے مہلت کا وقت ختم ہو چکا تھا خداتعالیٰ نے مکہ والوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور اُ نہوں نے کھوجی سے استہزاء شروع کر دیا اور کہا کیا اُنہوں نے اِس کھلی جگہ پر پناہ لینی تھی؟ یہ کوئی پناہ کی جگہ نہیںہے اور پھر اِس جگہ کثرت سے سانپ بچھو رہتے ہیں یہاں کوئی عقلمند پناہ لے سکتا ہے اور بغیر اس کے کہ غار میں جھانک کر دیکھتے کھوجی سے ہنسی کرتے ہوئے وہ واپس لوٹ گئے۔
دو دن اِسی غار میں انتظار کر نے کے بعد پہلے سے طے کی ہوئی تجویز کے مطابق رات کے وقت غار کے پاس سواریاں پہنچائی گئیں اور دو تیز رفتار اُونٹنیوں پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی روانہ ہوئے۔ ایک اونٹنی پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور رستہ دکھانے والا آدمی سوار ہوا اور دوسری اُونٹنی پر حضرت ابوبکرؓ اور ان کا ملازم عامر بن فہیرہ سوار ہوئے۔ مدینہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ مکہ کی طرف کیا۔ اُس مقدس شہر پر جس میں آپ پیدا ہوئے، جس میں آپ مبعوث ہوئے اور جس میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے زمانہ سے آپ کے آبائواجداد رہتے چلے آئے تھے آپ نے آخری نظرڈالی اور حسرت کے ساتھ شہر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے مکہ کی بستی! تو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔ اُس وقت حضرت ابوبکرؓ نے بھی نہایت افسوس کے ساتھ کہا اِن لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے۔۲۳۳؎
سراقہ کا تعاقب اور اُس کے متعلق آنحضرت ﷺکی ایک پیشگوئی
جب مکہ والے آپ کی تلاش میں ناکا م رہے تو اُنہوں نے اعلان کر دیا کہ جو کوئی محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) یا ابوبکرؓ
کو زندہ یا مُردہ واپس لے آئے گا اُس کو سَو(۱۰۰) اُونٹنی انعام دی جائے گی اوراس اعلان کی خبر مکہ کے اِردگرد کے قبائل کو بجھوا دی گئی۔ چنانچہ سراقہ بن مالک ایک بدوی رئیس اس انعام کے لالچ میں آپ کے پیچھے روانہ ہوا۔ تلاش کرتے کرتے اُس نے مدینہ کی سڑک پر آپ کو جالیا۔ جب اُس نے دو اُونٹنیوں اور ان کے سواروں کو دیکھا اور سمجھ لیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے ساتھی ہیں تو اُس نے اپنا گھوڑا اُن کے پیچھے دَوڑا دیا۔ مگر راستہ میں گھوڑے نے زور سے ٹھوکر کھائی اور سراقہ گر گیا۔ سراقہ بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ اپنا واقعہ خود اس طرح بیان کرتا ہے کہ جب میں گھوڑے سے گرا تو میں نے عربوں کے دستور کے مطابق اپنے تیروں سے فال نکالی اور فال بُری نکلی۔ مگرانعام کے لالچ کی وجہ سے میں پھر گھوڑے پر سوار ہو کر پیچھے دوڑا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وقار کے ساتھ اپنی اُونٹنی پر سوار چلے جا رہے تھے۔ اُنہوں نے مڑ کر مجھے نہیں دیکھا ، لیکن ابوبکرؓ (اِس ڈر سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی گزند نہ پہنچے) بار بار منہ پھیر کر مجھے دیکھتے تھے۔ جب دوسری دفعہ میں اُن کے قریب پہنچا تو پھر میرے گھوڑے نے زور سے ٹھوکر کھائی اور میں گر گیا۔ اِس پر پھر میں نے اپنے تیروں سے فال لی اور فال خراب نکلی۔ میں نے دیکھا کہ ریت میں گھوڑے کے پائوں اتنے دھنس گئے تھے کہ اُن کا نکالنا مشکل ہو رہا تھا۔ تب میں نے سمجھا کہ یہ لوگ خد اکی حفاظت میں ہیں اور میں نے اُنہیں آواز دی کہ ٹھہرو اور میری بات سنو! جب وہ لوگ میرے پاس آئے تومیں نے اُنہیں بتایا کہ میں اِس ارادہ سے یہاں آیا تھا مگر اب میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے اور میں واپس جا رہا ہوں، کیونکہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا جائو، مگر دیکھو کسی کو ہمارے متعلق خبر نہ دینا۔ اُس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ چونکہ یہ شخص سچا معلوم ہوتا ہے اِس لئے ضرور ہے کہ ایک دن کامیاب ہو۔ اِس خیال کے آنے پر میں نے درخواست کی کہ جب آپ کو غلبہ حاصل ہو گا اُس زمانہ کے لئے مجھے کوئی امن کا پروانہ لکھ دیں۔ آپ نے عامر بن فہیرہ حضرت ابوبکر کے خادم کو ارشاد فرمایا کہ اِسے امن کا پروانہ لکھ دیا جائے۔ ۲۳۴؎ چنانچہ اُنہوں نے امن کا پروانہ لکھ دیا۔ جب سراقہ لوٹنے لگا تو معاً اللہ تعالیٰ نے سراقہ کے آئندہ حالات آپؐ پر غیب سے ظاہر فرمادئیے اور اُن کے مطابق آپ نے اُسے فرمایا۔ سراقہ! اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ سراقہ نے حیران ہو کر پوچھا، کسریٰ بن ہرمز شہنشاہِ ایران کے؟ آپ نے فرمایا ہاں! ۲۳۵؎ آپ کی یہ پیشگوئی کوئی سولہ سترہ سال کے بعد جا کر لفظ بلفظ پوری ہوئی۔
سراقہ مسلمان ہو کر مدینہ آگیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے حضرت ابوبکرؓ پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے۔ اسلام کی بڑھتی ہوئی شان کو دیکھ کر ایرانیوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دئیے اور بجائے اسلام کو کچلنے کے خود اسلام کے مقابلہ میں کچلے گئے۔ کسریٰ کا دارالامارۃ اسلامی فوجوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال ہوا اور ایران کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آئے۔ جو مال اُس ایرانی حکومت کا اسلامی فوجوں کے قبضہ میں آیا اُس میں وہ کڑے بھی تھے جو کسریٰ ایرانی دستور کے مطابق تخت پر بیٹھتے وقت پہنا کرتا تھا۔ سراقہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے اِس واقعہ کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت اُسے پیش آیا تھا مسلمانوں کو نہایت فخر کے ساتھ سنایا کرتا تھا اور مسلمان اِس بات سے آگاہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسے مخاطب کر کے فرمایا تھا، سراقہ! اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھ میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ حضرت عمرؓ کے سامنے جب اموالِ غنیمت لا کر رکھے گئے اور اُن میں اُنہو ں نے کسریٰ کے کنگن دیکھے تو سب نقشہ آپ کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ وہ کمزوری اور ضعف کا وقت جب خد اکے رسول کو اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ آنا پڑا تھا، وہ سراقہ اور دوسرے آدمیوں کا آپ کے پیچھے اِس لئے گھوڑے دوڑانا کہ آپ کو مار کر یا زندہ کسی صورت میں بھی مکہ والوں تک پہنچا دیں تو وہ سَو اُونٹوں کے مالک ہو جائیں گے اور اُس وقت آپ کا سراقہ سے کہنا سراقہ اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ کتنی بڑی پیشگوئی تھی کتنا مصفّٰی غیب تھا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے سامنے کسریٰ کے کنگن دیکھے تو خدا کی قدرت اُن کی آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔ اُنہوں نے کہا سراقہ کو بلائو۔ سراقہ بلائے گئے تو حضرت عمرؓ نے اُنہیں حکم دیا کہ وہ کسریٰ کے کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنیں۔ سراقہ نے کہا۔ اے خدا کے رسول کے خلیفہ! سونا پہننا تو مسلمانوں کے لئے منع ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ہاں منع ہے مگر ان موقعوں کے لئے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے ہاتھ میں سونے کے کنگن دکھائے تھے یا تو تم یہ کنگن پہنو گے یا میں تمہیں سزا دوں گا۔ سراقہ کا اعتراض تو محض شریعت کے مسئلہ کی وجہ سے تھا ورنہ وہ خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ سراقہ نے وہ کنگن اپنے ہاتھ میں پہن لئے اور مسلمانوں نے اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
آنحضرت ﷺ کا مدینہ منورہ میں ورود
مکہ سے بھاگ کر نکلنے والا رسول اب دنیا کا بادشاہ تھا، وہ خود اِس
دنیا میں موجود نہیں تھا مگر اُس کے غلام اُس کی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ سراقہ کو رخصت کرنے کے بعد چند منزلیں طے کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچ گئے مدینہ کے لوگ بے صبری سے آپ کا انتظار کر رہے تھے اور اِس سے زیادہ اُن کی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی تھی کہ وہ سورج جو مکہ کے لئے نکلا تھا مدینہ کے لوگوں پر جا طلوع ہوا۔
جب انہیںیہ خبرپہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے غائب ہیں تو وہ اُسی دن سے آپ کی انتظار کر رہے تھے۔ اُن کے وفد روزانہ مدینہ سے باہر کئی میل تک آپ کی تلاش کے لئے نکلتے تھے اور شام کو مایوس ہو کر واپس آجاتے تھے۔ جب آپ مدینہ کے پاس پہنچے تو آپ نے فیصلہ کیا کہ پہلے آپ قبا میں جو مدینہ کے پاس ایک گائوں تھا ٹھہریں۔ ایک یہودی نے آپ کی اُونٹنیوں کو آتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ قافلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور اُس نے آواز دی اے قیلہ کی اولاد! (قیلہ مدینہ والوں کی ایک دادی تھی) تم جس کی انتظار میں تھے آگیا ہے۔ اِس آواز کے پہنچتے ہی مدینہ کا ہر شخص قبا کی طرف دَوڑ پڑا۔ قبا کے باشندے اِس خیال سے کہ خد اکا نبی اُن میں ٹھہرنے کے لئے آیا ہے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔
اِس موقع پر ایک ایسی بات ہوئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی کے کمال پر دلالت کرتی تھی۔ مدینہ کے اکثر لوگ آپ کی شکل سے واقف نہ تھے۔ جب قبا سے باہر آپ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ بھاگتے ہوئے مدینہ سے آپ کی طرف آرہے تھے تو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ سادگی سے بیٹھے ہوئے تھے اُن میں سے نا واقف لوگ حضرت ابوبکرؓ کو دیکھ کر جو عمر میں گو چھوٹے تھے مگر اُن کی ڈاڑھی میں کچھ سفید بال آئے ہوئے تھے اور اسی طرح اُن کا لباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بہتر تھا یہی سمجھتے تھے کہ ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور بڑے ادب سے آپ کی طر ف منہ کر کے بیٹھ جاتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جب یہ بات دیکھی تو سمجھ لیا کہ لوگوں کو غلطی لگ رہی ہے۔ وہ جھٹ چادر پھیلا کر سورج کے سامنے کھڑے ہوگئے اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ !آپ پر دھوپ پڑ رہی ہے میں آپ پر سایہ کرتا ہوں۲۳۶؎ اور اِس لطیف طریق سے اُنہوں نے لوگوں پر اُن کی غلطی کو ظاہر کر دیا۔ قبا میں دس دن رہنے کے بعد مدینہ کے لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ لے گئے۔ جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے مدینہ کے تمام مسلمان کیا مرد کیا عورتیں اور کیا بچے سب گلیوں میں نکلے ہوئے آپ کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ بچے اور عورتیں یہ شعر گا رہے تھے
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوِدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا
مَادَعَا لِلّٰہِ دَاعِ
اَیُّھَا الْمَبْعُوْثُ فِیْنَا
جِئْتَ بِالْاَ مْرِ الْمُطَاعِ۲۳۷؎
یعنی چودھویں رات کا چاند ہم پر وداع کے موڑ سے چڑھا ہے اور جب تک خد اکی طرف بلانے والا دنیا میں کوئی موجود رہے ہم پر اس احسان کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے اور اے وہ جس کو خدا نے ہم میں مبعوث کیا ہے تیرے حکم کی پوری طرح اطاعت کی جائے گی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس جہت سے مدینہ میں داخل ہوئے تھے وہ مشرقی جہت نہیں تھی۔ مگر چودھویں رات کا چاند تو مشرق سے چڑھا کرتا ہے۔ پس مدینہ کے لوگوں کا اشارہ اِس بات کی طرف تھا کہ اصل چاند تو روحانی چاند ہے۔ ہم اِس وقت تک اندھیرے میں تھے اب ہمارے لئے چاند چڑھا ہے اور چاند بھی اُس جہت سے چڑھا ہے جدھر سے وہ چڑھا نہیں کرتا۔ یہ پیر کا دن تھا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے اور پیر ہی کے دن آپ غارِ ثور سے نکلے تھے اور یہ عجیب بات ہے کہ پیر ہی کے دن مکہ آپ کے ہاتھ پر فتح ہوا۔
جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ آپ اُس کے گھر میں ٹھہریں۔ جس جس گلی میں سے آپ کی اُونٹنی گزرتی تھی اُس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ!یہ ہمارا گھر ہے اور یہ ہمارا مال ہے اور یہ ہماری جانیںہیں جو آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہیں یَارَسُوْلَ اللّٰہ! اور ہم آپ کی حفاظت کرنے کے قابل ہیں آپ ہمارے ہی پاس ٹھہریں۔ بعض لوگ جوش میں آگے بڑھتے اور آپ کی اُونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تاکہ آپ کو اپنے گھر میں اُتروا لیں۔ مگر آپ ہر ایک شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اُونٹنی کو چھوڑ دو یہ آج خد اتعالیٰ کی طرف سے مأمور ہے یہ وہیں کھڑی ہو گی جہاں خدا تعالیٰ کا منشاء ہو گا۔ آخر مدینہ کے ایک سرے پر بنو نجار کے یتیموں کی ایک زمین کے پاس جا کر اُونٹنی ٹھہر گئی۔ آپ نے فرمایا خد اتعالیٰ کا یہی منشاء معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہریں۔۲۳۸؎ پھر فرمایا یہ زمین کس کی ہے؟ زمین کچھ یتیموں کی تھی اُن کا ولی آگے بڑھا اور اُس نے کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! یہ فلاں فلاں یتیم کی زمین ہے اور آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے آپ نے فرمایا ہم کسی کا مال مفت نہیں لے سکتے۔ آخر اُس کی قیمت مقرر کی گئی اور آپ نے اس جگہ پر مسجد اور اپنے مکانات بنانے کا فیصلہ کیا۔۲۳۹؎
حضرت ابو ایوبؓ انصاری کے مکان پر قیام
اِس کے بعد آپ نے فرمایا سب سے قریب گھر کس کا
ہے؟ ابو ایوبؓ انصاری آگے بڑھے اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میرا گھر سب سے قریب ہے اور آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے۔ آپ نے فرمایا گھر جائو اور ہمارے لئے کوئی کمرہ تیار کرو۔ ابوایوبؓ کا مکان دو منزلہ تھا اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اُوپر کی منزل تجویز کی مگر آپ نے اِس خیال سے کہ ملنے والوں کو تکلیف ہو گی نچلی منزل پسند فرمائی۔
انصار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے جو شدید محبت پیدا ہو گئی تھی، اُس کا مظاہرہ اِس موقع پر بھی ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر حضر ت ابوایوبؓ مان تو گئے کہ آپ نچلی منزل میں ٹھہریں، لیکن ساری رات میاں بیوی اس خیال سے جاگتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے نیچے سو رہے ہیں پھر وہ کس طرح اِس بے ادبی کے مرتکب ہو سکتے ہیں کہ وہ چھت کے اوپر سوئیں۔ رات کو ایک برتن پانی کا گر گیا تو اِس خیال سے کہ چھت کے نیچے پانی نہ ٹپک پڑے حضرت ایوبؓ نے دَوڑ کر اپنا لحاف اُس پانی پر ڈال کر پانی کی رطوبت کو خشک کیا۔ صبح کے وقت پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارے حالات عرض کئے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر جانا منظور فرما لیا۔ حضرت ابوایوبؓ روزانہ کھانا تیار کرتے اور آپ کے پاس بجھواتے پھر جو آپ کا بچا ہو اکھانا آتا وہ سارا گھر کھاتا۔ کچھ دنوں کے بعد اصرار کے ساتھ باقی انصار نے بھی مہمان نوازی میں اپنا حصہ طلب کیا اور جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے گھر کا انتظام نہ ہو گیا باری باری مدینہ کے مسلمان آپ کے گھر میں کھانا پہنچاتے رہے۔۲۴۰؎
حضرت اَنسؓ خادم آنحضرت ﷺکی شہادت
مدینہ کی ایک بیوہ عورت کا ایک ہی لڑکا اَنسؓ نامی
تھا۔ اُس کی عمر آٹھ سال تھی وہ اُسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائیں اور کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میرے اِس لڑکے کو اپنی خدمت کے لئے قبول فرمائیں۔ وہ عورت اپنی محبت کی وجہ سے اپنے لڑکے کو قربانی کے لئے پیش کر رہی تھی لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ اُس کا لڑکا قربانی کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کی زندگی کے لئے قبول کیا گیا۔
اَنسؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اِسلام کے بہت بڑے عالم ہوئے اور آہستہ آہستہ بہت بڑے مالدار ہو گئے۔ اُنہوں نے ایک سَوسال سے زیادہ عمر پائی اور اِسلامی بادشاہت میں بہت عزت کی نگاہ کے ساتھ دیکھے جاتے تھے۔ اَنسؓ کا بیان ہے کہ میں نے چھوٹی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل کیا اور آپ کی زندگی تک آپ کے ساتھ رہا کبھی آپ نے مجھ سے سختی کے ساتھ بات نہیں کی، کبھی جھڑکی نہیں دی، کبھی کسی ایسے کام کیلئے نہیں کہا جو میری طاقت سے باہر ہو۔۲۴۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامِ مدینہ کے ایام میں صرف اَنسؓ سے خدمت لینے کا موقع ملا اور اَنسؓ کی شہادت اِس بارہ میں آپ کے اخلاق پر نہایت تیز روشنی ڈالنے والی ہے۔
مکہ سے اہل وعیال کو بُلوانا مسجد نبوی کی بنیاد رکھنا
کچھ عرصہ کے بعد آپ نے اپنے آزاد کردہ
غلام زیدؓ کو مکہ میںبھجوایا کہ وہ آپ کے اہل وعیال کو لے آئے۔ چونکہ مکہ والے اِس اچانک ہجرت کی وجہ سے کچھ گھبراگئے تھے اِس لئے کچھ عرصہ تک مظالم کا سلسلہ بند رہا اور اسی گھبراہٹ کی وجہ سے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے خاندان کے مکہ چھوڑنے میں مزاحم نہیں ہوئے اور یہ لوگ خیریت سے مدینہ پہنچ گئے۔ اِس عرصہ میں جو زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدی تھی سب سے پہلے وہاں آپ نے مسجد کی بنیاد رکھی۲۴۲؎ اور اس کے بعد اپنے لئے اور اپنے ساتھیوں کے لئے مکان بنوائے جس پر کوئی سات مہینے کا عرصہ لگا۔
مدینہ کے مشرک قبائل کا اِسلام میں داخل ہونا
مدینہ میں آپ کے داخلہ کے بعد چندہی دن میں
مدینہ کے مشرک قبائل میں سے اکثر لوگ مسلمان ہو گئے، جو دل سے مسلمان نہ ہوئے تھے وہ ظاہری طور پر مسلمانوں میں شامل ہوگئے اور اس طرح پہلی دفعہ مسلمانوں میں منافقوں کی ایک جماعت قائم ہوئی جو بعد کے زمانہ میں کچھ تو سچے طور پر ایمان لے آئی اور کچھ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف منصوبے اور سازشیں کرتی رہی۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ظاہر میں بھی اِسلام نہ لائے مگر یہ لوگ مدینہ میں اِسلام کی شوکت کو برداشت نہ کر سکے اور مدینہ سے ہجرت کر کے مکہ چلے گئے۔ اس طرح مدینہ دنیا کا پہلا شہرتھا جس میں خالصتہً خدائے واحد کی عبادت قائم کی گئی۔ یقینا اُس وقت دنیا کے پردہ پر اس شہر کے سوا اور کوئی شہریا گائوں خالصتہً خدائے واحد کی عبادت کرنے والا نہیں تھا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ کتنی بڑی خوشی اور اُن کے ساتھیوں کی نگاہوں میں یہ کتنی عظیم الشان کامیابی تھی کہ مکہ سے ہجرت کرنے کے چند دنوں بعد ہی خد اتعالیٰ نے اُن کے ذریعہ سے ایک شہر کو پورے طور پر خدائے قادر کا پرستار بنا دیا جس میں اور کسی بت کی پوجا نہیں کی جاتی تھی، نہ ظاہری بت کی نہ باطنی بت کی لیکن اس تبدیلی سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ مسلمانوں کے لئے اب امن آگیا تھا۔ مدینہ میں عربوں میںسے بھی ایک جماعت منافقوں کی ایسی موجود تھی جو آپ کی جان کی دشمن تھی اور یہود بھی ریشہ دوانیاں کر رہے تھے۔ چنانچہ اِس خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے آپ خود بھی چوکس رہتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو بھی چوکس رہنے کی تاکید کرتے تھے۔ شروع میں بعض دن ایسے بھی آئے کہ آ پ کو رات بھر جاگنا پڑا۔ ایک دفعہ ایسی ہی حالت میں جب آپ کو جاگتے رہنے سے تھکان محسوس ہوئی تو آپ نے فرمایا اِس وقت کوئی مخلص آدمی پہرہ دیتا تو میں سو جاتا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی آپ نے پوچھا کون ہے؟ تو آواز آئی یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں سعد بن وقاص ہوں جو آپ کا پہرہ دینے کے لئے آیا ہوں۔۲۴۳؎ اِس پر آپ نے آرام فرمایا۔ انصار کو خود بھی یہ محسوس ہو رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ کی رہائش ہم پر بہت بڑی ذمہ واری ڈالتی ہے اور یہ کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دشمنوں کے حملوں سے محفوظ نہیں چنانچہ انہوںنے باہمی فیصلہ کر کے مختلف قبائل کی باریاں مقرر کر دیں۔ ہر قبیلہ کے کچھ لوگ باری باری آپ کے گھر کا پہرہ دیتے تھے۔
غرض مکی زندگی اور مدنی زندگی میں اگر کوئی فرق تھا تو صرف یہ کہ اب مسلمان خدا کے نام پر قائم کی ہوئی مسجد میں بغیر دوسرے لوگوں کی دخل اندازی کے پانچوں وقت نمازیں پڑھ سکتے تھے۔
مکہ والوں کی مسلمانوں کو دوبارہ دُکھ دینے کی تدبیریں
دو تین مہینے گزرنے کے بعد مکہ کے لوگوں کی پریشانی دُور ہوئی اور اُنہوں نے نئے سرے سے مسلمانوں کو دکھ دینے کی تدابیر سوچنی شروع
کیں۔ مگر مشورہ کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ صرف مکہ اور گرد و نواح میں مسلمانوں کو تکلیف دینا اُنہیں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں کر سکتا۔ وہ اِسلام کو تبھی مٹا سکتے ہیں جب مدینہ سے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکلوا دیں۔چنانچہ یہ مشورہ کرکے مکہ کے لوگوں نے عبداللہ ابن ابی بن سلول کے نام جس کی نسبت پہلے بتایا جا چکا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے مدینہ والوں نے اُسے اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا خط لکھا اور اسے توجہ دلائی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ جانے کی وجہ سے مکہ کے لوگوں کو بہت صدمہ ہوا ہے۔ مدینہ کے لوگوں کو چاہئے نہیں تھا کہ وہ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو پناہ دیتے۔ اِس کے آخر میں یہ الفاظ تھے’’ اِنَّکُمْ اٰوَیْتُمْ صَاحِبَنَا وَاِنَّا نُقْسِمُ بِاللّٰہِ لَتُقَاتِلَنَّہٗ اَوْتُخْرِجَنَّہٗ اَوْلَنُسَیِّرَنَّ اِلَیْکُمْ بِاَجْمَعِنَا حَتّٰی نَقْتُلَ مُقَاتِلَتَکُمْ وَنَسْتَبِیْحَ نِسَائَ کُمْ۔‘‘ ۲۴۴؎ یعنی اب جبکہ تم لوگوں نے ہمارے آدمی( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنے گھروں میں پناہ دی ہے ہم خد اتعالیٰ کی قسم کھا کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ یاتو تم مدینہ کے لوگ اس کے ساتھ لڑائی کر و یا اُسے اپنے شہر سے نکال دو نہیں تو ہم سب کے سب مل کر مدینہ پر حملہ کریں گے اور مدینہ کے تمام قابل جنگ آدمیوں کو قتل کر دیںگے اورعورتوں کو لونڈیاں بنا لیں گے۔ اِس خط کے ملنے پر عبداللہ ابن ابی بن سلول کی نیت کچھ خراب ہو ئی اور اُس نے دوسرے منافقوں سے مشورہ کیا کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے یہاںر ہنے دیا تو ہمارے لئے خطرات کا دروازہ کھل جائے گا اِس لئے چاہئے کہ ہم آپ کے ساتھ لڑائی کریں اور مکہ والوں کو خوش کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع مل گئی اور آپ عبداللہ ابن ابی بن سلول کے پاس گئے اور اُسے سمجھایا کہ تمہارا یہ فعل خود تمہارے لئے ہی مضر ہو گا۔ کیونکہ تم جانتے ہو کہ مدینہ کے بہت سے لوگ مسلمان ہو چکے ہیں اور اِسلام کے لئے جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں اگر تم ایساکرو گے تو وہ لوگ یقینا مہاجرین کے ساتھ ہوں گے اور تم لوگ اِس لڑائی کو شروع کر کے بالکل تباہ ہو جائو گے۔ عبداللہ ابن ابی بن سلول پر اپنی غلطی کھل گئی اور وہ اِس ارادہ سے باز آگیا۔
انصار و مہاجرین میں مؤاخات
اِنہی ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور تدبیر اِسلام کی مضبوطی کے لئے اختیار
کی اور وہ یہ کہ آپ نے تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور دو دو آدمیوں کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا۔اِس مؤاخات یعنی بھائی چارے کا انصار نے ایسی خوشدلی سے استقبال کیا کہ ہر انصاری اپنے بھائی کو اپنے گھر پر لے گیا اور اپنی جائیداد اُس کے سامنے پیش کردی کہ اُسے نصف نصف بانٹ لیا جائے۔ ایک انصاری نے تو یہاں تک حد کر دی کہ اپنے مہاجر بھائی سے اصرار کیا کہ میں اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں تم اُس سے شادی کر لو۔۲۴۵؎ مگر مہاجرین نے اُ ن کے اِس اخلاص کا شکریہ ادا کر کے اُن کی جائیدادوں میں سے حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ مگر پھر بھی انصار مصر رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! جب یہ مہاجرین ہمارے بھائی ہو گئے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہمارے مال میں حصہ دار نہ ہوں۔ ہاں چونکہ یہ زمیندارہ سے واقف نہیں اور تاجر پیشہ لوگ ہیں اگر یہ ہماری زمینوں سے حصہ نہیں لیتے تو پھر ہماری زمینوں کی جو آمدنیاں ہوں اِس میں ضرور ان کو حصہ دار بنایا جائے۔ مہاجرین نے اِس پر بھی اُن کے ساتھ حصہ دار بننا پسند نہ کیا اور اپنے آبائی پیشہ تجارت میں لگ گئے اور تھوڑے ہی دنوں میں اُ ن میں سے کئی مالدار ہو گئے۔ مگر انصار اِس حصہ بٹانے پر اتنے مصر تھے کہ بعض انصار جو فوت ہوئے اُن کی اولادوں نے عرب کے دستور کے مطابق اپنے مہاجر بھائیوں کو مرنے والے کی جائیداد میں سے حصہ دیا اور کئی سال تک اس پر عمل ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ قرآن کریم میں اِس عمل کی منسوخی کا ارشاد نازل ہوا۔
مہاجرین و انصار اور یہود کے مابین معاہدہ
علاوہ مسلمانوں کو بھائی بھائی بنانے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اہل مدینہ کے درمیان ایک معاہدہ کرایا۔ آپ نے یہودیوں اور عربوں کے سرداروں کو جمع کیا اور فرمایا۔
پہلے یہاں صرف دو گروہ تھے مگر اب تین گروہ ہو گئے ہیں۔ یعنی پہلے تو صرف یہود اور مدینہ کے عرب یہاں بستے تھے مگر اب یہود، مدینہ کے عرب اور مکہ کے مہاجر تین گروہ ہو گئے ہیں۔ اِس لئے چاہئے کہ آپس میںایک صلح نامہ قائم ہوجائے۔ چنانچہ آپس کے سمجھوتے کے ساتھ ایک معاہدہ لکھا گیا اس معاہدہ کے الفاظ یہ ہیں:۔
’’ معاہدہ مابین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،مؤمنوں اور اُن تمام لوگوں کے جو اُن سے بخوشی مل جائیں۔
مہاجرین سے اگر کوئی قتل ہو جائے تو وہ اُس کے خون کا ذمہ دار خود ہوں گے اور اپنے قیدیوں کو خود چھڑائیں گے اورمدینہ کے مختلف مسلمان قبائل بھی اسی طرح اِن امور میں اپنے قبائل کے ذمہ دار ہوں گے۔ جو شخص بغاوت پھیلائے یا دشمنی پیدا کرے اور نظام میں تفرقہ ڈالے تمام معاہدین اُس کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے۔ خواہ وہ اُن کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی کافر مسلمان کے ہاتھ سے لڑائی میں مارا جائے تو اُس کے مسلمان رشتہ دار مسلمان سے بدلہ نہیں لیں گے اور نہ کسی مسلمان کے مقابلہ میں ایسے کافر کی مدد کریں گے۔ جو کوئی یہودی ہمارے ساتھ مل جائے اس کی ہم سب مدد کریں گے۔ یہودیوں کو کسی قسم کی تکلیف نہیں دی جائے گی نہ کسی دشمن کی اُن کے خلاف مدد کی جائے گی۔ کوئی غیر مؤمن مکہ کے لوگوں کو اپنے گھر میں پناہ نہیں دے گا نہ اُن کی جائداد اپنے پاس امانت رکھے گا اورنہ کافروں اور مؤمنوں کی لڑائی میں کسی قسم کی دخل اندازی کرے گا۔ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو ناجائز طور پر مار دے تو تمام مسلمان اُس کے خلاف متحدہ کوشش کریں گے۔ اگر ایک مشرک دشمن مدینہ پر حملہ کرے تو یہودی مسلمانوں کا ساتھ دیں گے اور بحصۂ رسدی خرچ برداشت کریں گے۔ یہودی قبائل جو مدینہ کے مختلف قبائل کے ساتھ معاہدہ کر چکے ہیں اُن کے حقوق مسلمانوں کے سے حقوق ہوں گے۔ یہودی اپنے مذہب پر قائم رہیں گے اور مسلمان اپنے مذہب پر قائم رہیںگے۔ جو حقوق یہودیوں کو ملیں گے وہی ان کے اتباع کو بھی ملیں گے۔ مدینہ کے لوگوں میں سے کوئی شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی لڑائی شروع نہیں کرسکے گا لیکن اِس شرط کے ماتحت کوئی شخص اُس کے جائز انتقام سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ یہودی اپنی تنظیم میں سے اپنے اخراجات خود برداشت کریں گے اور مسلمان اپنے اخراجات خود برداشت کریں گے لیکن لڑائی کی صورت میں وہ دونوں مل کر کام کریںگے۔ مدینہ اُن تمام لوگوں کے لئے جو اس معاہدہ میں شامل ہوتے ہیں ایک محترم جگہ ہوگی۔ جو اجنبی کہ شہر کے لوگوں کی حمایت میں آجائیں اُن کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا جو اصل باشد گانِ شہر کے ساتھ ہوگا۔ لیکن مدینہ کے لوگو ںکو یہ اجازت نہ ہو گی کہ کسی عورت کو اُس کے رشتہ داروں کی مرضی کے بغیر اپنے گھروں میں رکھیں۔ جھگڑے اور فساد خدا اور اُس کے رسول کے پاس فیصلہ کے لئے پیش کئے جائیں گے۔ مکہ والوں اور اُن کے حلیف قبائل کے ساتھ اِس معاہدہ میں شامل ہونے والے کوئی معاہدہ نہیں کریں گے، کیونکہ اِس معاہدہ میں شامل ہونے والے مدینہ کے دشمنوں کے خلاف اِس معاہدہ کے ذریعہ سے اتفاق کر چکے ہیں۔ جس طرح جنگ علیحدہ نہیں کی جاسکے گی اِسی طرح صلح بھی علیحدہ نہیں کی جا سکے گی۔ لیکن کسی کو مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ لڑائی میں شامل ہو۔ ہاں اگر کوئی شخص ظلم کا کوئی فعل کرے گا تو وہ سزا کا مستحق ہو گا۔ یقینا خدا نیکوں اور دینداروں کا محافظ ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) خد ا کے رسول ہیں‘‘۔۲۴۶؎
یہ معاہدہ کا خلاصہ ہے۔ اِس معاہدہ میں بار بار اِس بات پر زور دیا گیا تھا کہ دیانتداری اور صفائی کوہاتھ سے نہیں چھوڑا جائے گا اور ظالم اپنے ظلم کا خود ذمہ دار ہو گا۔ اِس معاہدہ سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ یہودیوں کے ساتھ اور مدینہ کے اُن باشندوں کے ساتھ جو اِسلام میں شامل نہ ہوں محبت، پیار اور ہمدردی کا سلوک کیا جائے گا اور انہیں بھائیوں کی طرح رکھا جائے گا۔ پس بعد میں یہود کے ساتھ جس قدر جھگڑے پید اہوئے اُن کی ذمہ داری خالصۃً یہود پر تھی۔
اہل مکہ کی طرف سے از سر نو شرارتوں کا آغاز
جیساکہ بتایا جاچکا ہے کہ دو تین مہینہ کے بعد
مکہ والوں کی پریشانی جب دور ہوئی تو اُنہوںنے پھر سے اِسلام کے خلاف ایک نیا محاذ قائم کیا۔ چنانچہ انہی ایام میں مدینہ کے ایک رئیس سعد بن معاذ جو اوس قبیلہ کے سردار تھے بیت اللہ کا طواف کرنے کے لئے مکہ گئے تو ابوجہل نے اُن کو دیکھ کر بڑے غصہ سے کہا کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ اُس مرتد ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو پناہ دینے کے بعد تم لوگ امن کے ساتھ کعبہ کا طواف کر سکو گے اور تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم اُس کی حفاظت اور امداد کی طاقت رکھتے ہو۔ خدا کی قسم! اگر اِس وقت تیرے ساتھ ابوصفوان نہ ہوتا تو تُو اپنے گھر والوں کے پاس بچ کر نہ جا سکتا۔سعد بن معاذ نے کہا۔ وَاللّٰہِ! اگر تم نے ہمیں کعبہ سے روکا تو یاد رکھو پھر تمہیں بھی تمہارے شامی راستہ پرامن نہیں مل سکے گا۔ اُنہی دنوں میں ولید بن مغیرہ مکہ کا ایک بہت بڑا رئیس بیمار ہوا اور اُس نے محسوس کیا کہ اُس کی موت قریب ہے۔ ایک دن مکہ کے بڑے بڑے رئیس اُس کے پاس بیٹھے تھے تو وہ بے اختیار ہو کر رونے لگ گیا۔ مکہ کے رئوساء حیران ہوئے اور اُس سے پوچھا کہ آخر آپ روتے کیوں ہیں؟ ولید نے کہا کیا تم سمجھتے ہو کہ میں موت کے ڈر سے روتا ہوں وَاللّٰہِ! ایسا ہر گز نہیں، مجھے تو یہ غم ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین پھیل جائے اور مکہ بھی اِس کے قبضہ میں چلا جائے۔ ابوسفیان نے جواب میں کہا۔ اِس بات کا غم نہ کرو جب تک ہم زندہ ہیں ایسا نہیں ہوگا ہم اِس بات کے ضامن ہیں ۔
اِن تمام واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ مکہ کے لوگوں کے مظالم میں جو وقفہ ہوا تھا وہ عارضی تھا۔ دوبارہ قوم کو اُکسایا جا ررہا تھا۔ مرنے والے رئوساء موت کے بستر پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی قسمیں لے رہے تھے۔ مدینہ کے لوگوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑائی پر آمادہ کیا جار ہا تھا اوراُن کے انکار پر دھمکیاں دی جار ہی تھیں کہ مکہ والے اور اُن کے حلیف قبائل لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کریں گے او رمدینہ کے مردوں کو ماردیں گے اورعورتوں کو غلام بنا لیں گے۔
آنحضرت ﷺ کی مدافعانہ تدابیر
پس اِن حالات میں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں خاموش بیٹھے رہتے
اور مدینہکی حفاظت کا کوئی سامان نہ کرتے تو یقینا آپ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عاید ہوتی۔ پس آپ نے چھوٹے چھوٹے وفدوں کی صورت میں اپنے صحابہ کو مکہ کے اِردگرد بجھوانا شروع کیا تاکہ مکہ والوں کی کارروائیوں کا آپ کو علم ہوتا رہے۔بعض دفعہ اِن لوگوں کی مکہ کے قافلوں یا مکہ کی بعض جماعتوں سے مٹھ بھیڑ بھی ہوجاتی اور ایک دوسرے کو دیکھ لینے کے بعد لڑائی تک بھی نوبت پہنچ جاتی۔ مسیحی مصنف لکھتے ہیں کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چھیڑ چھاڑ تھی۔ کیا مکہ میں تیرہ سال تک جو مسلمانوں پر ظلم کیا گیا اور مدینہ کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرنے کی جو کوشش کی گئی اور پھر مدینہ پر حملہ کرنے کی جو دھمکیاں دی گئیں، اِن واقعات کی موجودگی میں آپ کا خبردار رہنے کے لئے وفود بھجوانا کیا چھیڑ چھاڑ کہلا سکتا ہے؟ کونسا دنیا کا قانون ہے جو مکہ کے تیرہ سال کے مظالم کے بعد بھی مسلمانوں اور اہل مکہ میں لڑائی چھیڑنے کے لئے کسی مزید وجہ کی ضرورت سمجھتا ہو۔ آج مغربی ممالک اپنے آپ کو بہت ہی مہذب سمجھتے ہیں۔ جو کچھ مکہ میں ہوا کیا اُن سے نصف واقعات پر بھی کوئی قوم لڑے تو کوئی شخص اُسے مجرم قرار دے سکتا ہے؟ کیا اگر کوئی حکومت کسی دوسرے ملک کے لوگوں کو ایک جماعت کے قتل کرنے یا اپنے ملک سے نکال دینے پر مجبور کرے تو اُس جماعت کو حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اُس سے لڑائی کا اعلان کرے؟ پس مدینہ میں اِسلامی حکومت کے قیام کے بعد کسی نئی وجہ کے پیدا ہونے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مکی زندگی کے واقعات مسلمانوں کو پورا حق دیتے تھے کہ وہ مکہ والوں سے جنگ کا اعلان کر دیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔ اُنہوں نے صبر کیا اور صرف دشمنوں کی شرارتوں کا پتہ لگاتے رہنے کی حد تک اپنی کوششیں محدود رکھیں۔ مگر جب مکہ والوں نے خود مدینہ کے عربوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا، مسلمانوں کو حج کرنے سے روک دیا اور اُن کے ان قافلے نے جو شام میں تجارت کے لئے جاتے تھے انہوں نے اپنے اصل راستے کو چھوڑ کر مدینہ کے اِردگرد کے قبائل میں سے ہو کر گزرنا اور ان کو مدینہ والوں کے خلاف اُکسانا شروع کیا تو مدینہ کی حفاظت کے لئے مسلمانوں کا بھی فرض تھا کہ وہ اس لڑائی کے چیلنج کو جو مکہ والے متواتر چودہ سال سے انہیں دے رہے تھے قبول لیتے اور دنیا کے کسی شخص کو حق حاصل نہیں کہ وہ چیلنج کے قبول کرنے پر اعتراض کرے۔
مدینہ میں اِسلامی حکومت کی بنیاد
جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیرونی حالات کی خبرگیری کر رہے تھے وہاں آپ مدینہ
کی اصلاح سے بھی غافل نہیں تھے۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ مدینہ کے مشرک اکثر اخلاص کے ساتھ اور بعض منافقت کے ساتھ مسلمان ہو چکے تھے اِس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسلامی طریق حکومت کو اُن میں قائم کرنا شروع کیا۔ پہلے عرب کے دستور کے مطابق لوگ لڑ بھڑ کر اپنے حقوق کا فیصلہ کرلیا کرتے تھے۔ اب باقاعدہ قاضی مقرر کئے گئے جن کے فیصلہ کے بغیر کوئی شخص اپنا حق دوسرے سے حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ پہلے مدینہ کے لوگوں کو علم کی طرف توجہ نہیں تھی اب اِس بات کا انتظام کیا گیا کہ پڑھے لکھے لوگ اَن پڑھوں کو پڑھانا شروع کریں۔ ظلم، تعدی اور بے انصافی روک دی گئی۔ عورتوں کے حقوق کو قائم کیا گیا۔ شریعت کے مطابق تمام مالداروں پر ٹیکس مقرر کئے گئے جو غرباء پر خرچ کئے جاتے تھے اور شہر کی عام حالت کی ترقی کے لئے بھی استعمال کئے جاتے تھے۔ مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کی گئی۔ لاوارثوں کے لئے باقاعدہ تعلیموں کا انتظام کیا گیا۔ لین دین میں تحریر اور معاہدہ کی پابندیاں مقرر کی گئیں۔ غلاموں پر سختی کو سختی سے روکا جانے لگا۔ صفائی اور حفظانِ صحت کے اصول پر زور دیا جانے لگا۔ مردم شماری کی ابتدا کی گئی۔ گلیوں اور سڑکوں کے چوڑا کرنے کے احکام جاری کئے گئے۔ سڑکوں کی صفائی کے متعلق احکام جاری کئے گئے۔ غرض عائلی اور شہری زندگی کے تمام اصول مدوّن کئے گئے اوراُن کو باقاعدگی سے جاری کرنے کے لئے تدابیر اختیار کی گئیں اور عرب پہلی دفعہ منظم اور مہذب سوسائٹی کے اصول سے روشناس ہوئے۔
اِدھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے لئے ایک ایسا قانون پیش کر رہے تھے جو نہ صرف اُس زمانہ کے لئے بلکہ ہمیشہ کیلئے اور نہ صرف اُن کے لئے بلکہ دنیا کی دوسری اقوام کیلئے بھی عزت، شرف، امن اور ترقی کا موجب تھا۔ اُدھر مکہ کے لوگ اِسلام کے خلاف باقاعدہ جنگ کی تیاریاں کرنے میں مشغول تھے جس کا نتیجہ بدر کی جنگ کی صورت میں ظاہر ہوا۔
قریش کے تجارتی قافلہ کی آمد اور غزوہ بدر
ہجرت کے تیرھویں مہینے میںشام سے ایک تجارتی قافلہ ابو سفیان کی سرگردگی میں آ رہا تھا کہ اُس کی حفاظت کے بہانہ سے مکہ والوں نے ایک زبردست لشکر مدینہ کی طرف
لے جانے کا فیصلہ کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اِس کی اطلاع مل گئی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ پر وحی ہوئی۔ اب وقت آگیا ہے کہ دشمن کے ظلم کا اُس کے اپنے ہتھیار کے ساتھ جواب دیا جائے۔ چنانچہ آپ مدینہ کے چند ساتھیوں کو لے کر نکلے۔ جب آپ مدینہ سے نکلے ہیں اُس وقت تک یہ ظاہر نہ تھا کہ آیا مقابلہ قافلہ والوں سے ہو گا یا اصل لشکر سے، اِس لئے تین سَو آدمی آپؐ کے ساتھ مدینہ سے نکلے۔
یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قافلہ سے مراد مال سے لدے ہوئے اُونٹ تھے بلکہ مکہ والے اِن قافلوں کے ساتھ ایک مضبوط فوجی جتھہ بھجوایا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ اِن قافلوں کے ذریعہ سے مسلمانوں کو مرعوب بھی کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اِس قافلہ سے پہلے دو قافلوں کا ذکر تاریخ میں آتا ہے کہ اُن میں سے ایک کی حفاظت پر دو سَو سپاہی مقرر تھا اور دوسرے کی حفاظت پر تین سَو سپاہی مقررتھا۔ پس اِن حالات میں مسیحی مصنفوں کا یہ لکھنا کہ تین سَو سپاہی لے کر آپ مکہ کے ایک نہتے قافلہ کو لوٹنے کے لئے نکلے تھے محض دھوکا دہی کے لئے ہے۔ یہ قافلہ چونکہ بہت بڑا تھا اِس لئے پہلے قافلوں کے حفاظتی دستوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا چاہئے کہ اُس کے ساتھ چار پانچ سَو سوار ضرور موجود ہو گا۔ اتنے بڑے حفاظتی دستہ کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے اگر اِسلامی لشکر جو صرف تین سَو آدمیوں پر مشتمل تھا اور جن کے پاس پورا سازو سامان بھی نہ تھا نکلا تو اُسے لوٹ کا نام دینا محض تعصب، ضد اور بے انصافی ہی کہلا سکتا ہے۔ اگر صرف اس قافلہ کا سوال ہوتاتب بھی اُس سے لڑائی جنگ ہی کہلاتی اور جنگ بھی مدافعانہ جنگ کیونکہ مدینہ کا لشکر کمزور تھا اور صرف اِسی فتنہ کو دور کرنے کے لئے نکلا تھا جس کی اِردگرد کے قبائل کو شرارت پر اُکسا کر مکہ کے قافلے بنیاد رکھ رہے تھے۔ مگر جیساکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ الٰہی منشاء بھی تھا کہ قافلہ سے نہیں بلکہ اصل مکی لشکر سے مقابلہ ہو اور صرف مسلمانوں کے اخلاص اور اُن کے ایمان کو ظاہر کرنے کے لئے پہلے سے اِس امر کا اظہار نہ کیا گیا۔ جب مسلمان بغیر پوری تیاری کے مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے تو کچھ دور جا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ پر ظاہر کیا کہ الٰہی منشاء یہی ہے کہ مکہ کے اصل لشکر سے مقابلہ ہو۔ لشکر کے متعلق مکہ سے جو خبریں آچکی تھیں اُن سے معلوم ہوتا تھا کہ لشکر کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے اور پھر وہ سب کے سب تجربہ کار سپاہی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آنے والے لوگ صرف ۳۱۳ تھے اور اُن میں سے بھی بہت سے ایسے تھے جو لڑائی کے فن سے ناواقف تھے۔ پھر سامانِ جنگ بھی اُن کے پاس پورا نہ تھا۔ اکثر یا توپیدل تھے یا اُونٹوں پرسوار تھے۔ گھوڑا صرف ایک تھا۔ اِس چھوٹے سے لشکر کے ساتھ جو بے سروسامان بھی تھا ایک تجربہ کار دشمن کا مقابلہ جو تعداد میں اُن سے تگنے سے بھی زیادہ تھا نہایت ہی خطرناک بات تھی اس لئے آپ نے نہ چاہا کہ کوئی شخص اُس کی مرضی کے خلاف جنگ پر مجبور کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ اب قافلہ کا کوئی سوال نہیں صرف فوج ہی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ وہ اِس بارہ میں آپ کو مشورہ دیں۔ ایک کے بعد دوسرامہاجر کھڑا ہوا اور اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اگر دشمن ہمارے گھروں پر چڑھ کر آیا ہے تو ہم اُس سے ڈرتے نہیں ہم اُس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ہر ایک کا جواب سن کر آپ یہی فرماتے چلے جاتے مجھے اور مشورہ دو مجھے اور مشورہ دو۔ مدینہ کے لوگ اُس وقت تک خاموش تھے اِس لئے کہ حملہ آورفوج مہاجرین کی رشتہ دار تھی۔ وہ ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ اُن کی بات سے مہاجرین کا دل دُکھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری سردار کھڑے ہوئے اور عرض کیا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ!مشورہ توآپ کومل رہا ہے مگر پھر بھی جو آپ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپ کی مراد ہم باشندگانِ مدینہ سے ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں! اُس سردار نے جواب میں کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب کر رہے ہیں کہ آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہمارے اور آپ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں آپ پر اور مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے لیکن اب اِس وقت آپ مدینہ سے باہر تشریف لے آئے ہیں اور شاید وہ معاہدہ اِن حالات کے ماتحت قائم نہیں رہتا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! جس وقت وہ معاہدہ ہوا تھا اُس وقت تک ہم پر آپ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہیں ہوئی تھی لیکن اب جبکہ ہم پر آپ کا مرتبہ اور آپ کی شان پورے طور پر ظاہر ہو چکی ہے یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اب اُس معاہدہ کا کوئی سوال نہیں۔ ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح آپ سے یہ نہیں کہیں گے اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَاِنَّا ھٰھُنَاقَا عِدُوْنَتو اور تیرا ربّ جائو اور دشمن سے جنگ کرتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں، بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اوربائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اوریَا رَسُوْلَ اللّٰہ! دشمن جو آپ کو نقصان پہنچانے کیلئے آیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں پر سے گزرتا ہوا نہ جائے۔۲۴۷؎ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!جنگ تو ایک معمولی بات ہے، یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمندر ہے آپ ہمیں حکم دیجئے کہ سمند رمیں اپنے گھوڑے ڈال دو اورہم بِلا دریغ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے۔ ۲۴۸؎
یہ وہ فدائیت اور اخلاص کا نمونہ تھا جس کی مثال کوئی سابق نبی پیش نہیں کر سکتا۔ موسیٰ کے ساتھیوں کا حوالہ تو اُن لوگوں نے خود ہی دے دیا تھا حضرت مسیح کے حواریوں نے دشمن کے مقابلہ میں جو نمونہ دکھایا انجیل اِس پر گواہ ہے۔ ایک نے تو چند روپوں پر اپنے اُستاد کو بیچ دیا۔ دوسرے نے اُس پر *** کی اور باقی دس اُ س کو چھوڑ کر اِدھر سے اُدھر بھاگ گئے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ساتھی صرف ڈیڑھ سال کی صحبت کے بعد ایمان میں اتنے پختہ ہو گئے کہ وہ اُن کے کہنے پر سمندر میں کودنے کے لئے بھی تیار تھے۔
یہ مشورہ محض اِس غرض سے تھا تاکہ جو لوگ ایمان کے کمزور ہوں اُن کو واپس جانے کی اجازت دے دی جائے لیکن جب مہاجرین و انصار نے ایک دوسرے سے بڑھ کر اخلاص اور ایمان کا نمونہ دکھایا اور دونوں فریق نے اِ س بات پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ خد اکے وعدوں کے باوجود تعداد میں دشمن سے ایک تہائی ہونے کے اور باوجود سامانوں کے لحاظ سے دشمنوں سے کئی گنا کم ہونے کے بے غیرتی دکھاتے ہوئے جنگ سے پیٹھ نہیں دکھائیں گے بلکہ خد اتعالیٰ کے دین کی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدانِ جنگ میں خوشی سے جان دے دیں گے۔ تو آپ آگے بڑھے۔ جب آپ بدر کے مقام پر پہنچے تو ایک صحابی کے مشورہ سے دشمن کے قریب جا کر بدر کے چشمہ پر اِسلامی لشکر اُتار دیا گیا۔ لیکن اِس طرح گو پانی پر تو قبضہ ہو گیا مگر وہ میدان جو مسلمانوں کے حصہ میں آیا بوجہ ریتلا ہونے کے جنگی حرکات کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہوا اور صحابہ گھبرا گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات دعا کرتے رہے اور بار بار خدا تعالیٰ سے یہ عرض کرتے تھے کہ اے میرے ربّ!ساری دنیا کے پردہ پر صرف یہی لوگ تیری عبادت کرنے والے ہیں۔ اے میرے رب! اگر یہ لوگ آج اِس لڑائی میں مارے گئے تو تیرا نام لینے والا اس دنیا میں کون باقی رہے گا۔۲۴۹؎
اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعائوں کو سنا اور رات کو بارش ہو گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس میدان میں وہ مسلمان تھے بوجہ ریتلا ہونے کے بارش کی وجہ سے جم گیا اور وہ میدان جو کفّار کے قبضہ میں تھا بوجہ چکنی مٹی کا ہونے کے بارش کی وجہ سے نہایت پھسلواں ہو گیا۔ شاید کفّارِ مکہ نے باوجود اُس میدان میں مسلمانوں سے پہلے پہنچ جانے کے اِس لئے اُس میدان کو چنا تھا کہ پختہ مٹی کی وجہ سے اُس میں جنگی حرکات بڑی آسانی کے ساتھ ہو سکتی تھیں اور سامنے کا ریتلا میدان اِس لئے چھوڑ دیا تھا کہ مسلمان وہاں ڈیرہ لگائیں گے اورجنگی حرکات کرتے وقت اُن کے پائوں ریت میں دھنس دھنس جائیں گے مگر خدا تعالیٰ نے راتوں رات پانسہ پلٹ دیا۔ ریتلا میدان ایک جما ہوا پختہ میدان ہو گیا اور پختہ میدان پھسلویں زمین بن گیا۔ رات کو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دی اور بتایا کہ تمہارے فلاں فلاں دشمن مارے جائیں گے اور فلاں فلاں جگہ پر مارے جائیں گے۔ چنانچہ جنگ میں ایسا ہی ہوا اور وہ دشمن اُن ہی جگہوں پر جو آپ نے بتائی تھیں مارے گئے۔ جب فوج ایک دوسرے کے مقابلہ میں صف آراء ہوئی اُس وقت جو اخلاص کا نمونہ صحابہؓ نے دکھایا اُس پر مندرجہ ذیل مثال سے خوب روشنی پڑتی ہے۔
اِسلامی لشکر میں جو چند تجربہ کار جرنیل تھے، اُن میں سے ایک حضرت عبدالرحمن بن عوف بھی تھے جو مکہ کے سرداروں میں سے تھے۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ آج مجھ پر بہت سی ذمہ داری عاید ہوتی ہے اور اس خیال سے میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے دائیں بائیں مدینہ کے دو نوجوان لڑکے ہیں تب میرا دل سینہ میں بیٹھ گیا اور میں نے کہا بہادر جرنیل لڑنے کے لئے اِس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ اُس کا دایاں اور بایاں پہلو مضبوط ہو، تاکہ وہ دشمن کی صفوں میں دلیری سے گھس سکے، لیکن میرے گرد مدینہ کے ناتجربہ کار لڑکے ہیں میں آج اپنے فن کا مظاہرہ کس طرح کر سکوں گا۔ ابھی یہ خیال میرے دل میں گزرا ہی تھا کہ میرے ایک پہلو میں کھڑے ہوئے لڑکے نے میری پسلی میں کہنی ماری۔ جب میں اس کی طرف متوجہ ہوا تو اُس نے میرے کان میں کہا چچا! ہم نے سنا ہے کہ ابوجہل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبہت دُکھ دیا کرتا تھا، چچا! میرا دل چاہتا ہے کہ میں آج اُس کے ساتھ مقابلہ کروں آپ مجھے بتائیں وہ کون ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ابھی میں جواب دینے نہیں پایا تھا کہ میرے دوسرے پہلو میں دوسرے ساتھی نے کہنی ماری اور جب میں اُس کی طرف متوجہ ہوا تو اُس نے بھی آہستہ سے وہی سوال مجھ سے کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اُن کی اِس دلیری پر حیران رہ گیاکیونکہ باوجود تجربہ کار سپاہی ہونے کے میںبھی یہ خیال نہیں کرتا تھا کہ لشکر کے کمانڈر پر اکیلا جا کر حملہ کر سکتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں میں نے اُن کے اِس سوال پر اُنگلی اُٹھائی اور کہا وہ شخص جو سر سے پیر تک مسلح ہے اور دشمن کی صفوں کے پیچھے کھڑا ہے اور جس کے آگے دو تجربہ کار جرنیل ننگی تلواریں لئے کھڑے ہیں وہی ابوجہل ہے۔وہ کہتے ہیں ابھی میری اُنگلی نیچے نہیں گری تھی کہ وہ دونوں لڑکے جس طرح عقاب چڑیا پر حملہ کرتا ہے اس طرح چیختے ہوئے کفّار کی صفوں میں گھس گئے۔ اُن کا یہ حملہ ایسا اچانک اور ایسا خلافِ توقع تھا کہ کسی شخص کی تلوار اُن کے خلاف نہ اُٹھ سکی اور وہ تیر کی سی تیزی کے ساتھ ابوجہل تک جا پہنچے۔ اُس کے پہرہ داروں نے اُن پر وار کئے، ایک کا وار خالی گیا اور دوسرے کے وار سے ایک نوجوان کا ہاتھ کٹ گیا۔ لیکن دونوں میں سے کسی نے کوئی پرواہ نہ کی اورصرف ابوجہل کی طرف متوجہ ہوئے اور اُس پر اِس زور سے جا کر حملہ کیا کہ وہ زمین پر گر گیا اور پھر اُنہوںنے اُسے نہایت شدید زخمی کر دیا۔۲۵۰؎ مگر بوجہ تلوار چلانے کا فن نہ جاننے کے اُسے قتل نہ کر سکے۔
اِس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ مظالم جو مکہ کے لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے رہے تھے وہ قریب سے دیکھنے والوں کو کتنے بھیانک نظر آتے تھے۔ اب بھی اِن مظالم کو تاریخ میں پڑھ کر ایک شریف آدمی کا دل دھڑکنے لگتا ہے اوررونگٹے کھڑے ہو جا تے ہیں۔ مگر مدینہ کے لوگ تو اُن لوگوں کے منہ سے ان مظالم کی داستانیں سنتے تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے وہ مظالم ہوتے دیکھے۔ ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس اور صلح جو یا نہ زندگی کو دیکھتے تھے دوسری طرف مکہ والوں کے انسانیت سوز مظالم کے واقعات سنتے تھے تو اُن کے دل اِس حسرت سے بھر جاتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنی صلح جوئی اور پُرعافیت مزاج کی وجہ سے ان لوگوں کا جواب نہیں دیا کاش! وہ ہمارے سامنے آجائیں تو ہم انہیں بتائیں کہ اگر اُن کے ظلموںکا جواب نہیں دیا گیا تو اِس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مسلمان کمزور تھے بلکہ اِس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کو خد اتعالیٰ کی طرف سے اُن کا جواب دینے کی اجازت نہیں تھی۔ مسلمانوں کے دلوں کی کیفیت کا اندازہ اِس سے بھی ہو سکتا ہے کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ابوجہل نے ایک بدوی سردار کو اِس بات کے لئے بھیجا کہ وہ اندازہ کرے کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے۔ جب وہ واپس لوٹا تو اُس نے بتایا کہ مسلمان تین سَوا تین سَو کے قریب ہوں گے۔ اِس پر ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا اب مسلمان ہم سے بچ کر کہاں جاتے ہیں۔ مگر اُس شخص نے کہا۔ا ے مکہ والو! میری نصیحت تم کو یہی ہے کہ تم اِن لوگوں سے نہ لڑو کیونکہ میں نے جتنے آدمی مسلمانوں کے دیکھے ہیں اُن کو دیکھ کر مجھ پر یہی اثر ہوا ہے کہ اُونٹوں پر آدمی سوار نہیں موتیں سوار ہیں۲۵۱؎ یعنی اُن میں سے ہر شخص مرنے کیلئے اِس میدان میں آیا ہے زندہ واپس جانے کے لئے نہیں آیا۔ اور جو شخص موت کو اپنے لئے آسان کر لیتا ہے اور موت سے ملنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اُس کا مقابلہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہوا کرتی۔
ایک عظیم الشان پیشگوئی کا پورا ہونا
جب جنگ شروع ہونے کا وقت آیا۔ رسول کریم ﷺاُس جگہ سے جہاں آپ
بیٹھ کر دعا کر رہے تھے باہر تشریف لائے اور فرمایاسَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔۲۵۲؎ دشمنوں کا لشکر شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر میدان چھوڑ جائے گا۔ یہ الفاظ جو آپ نے فرمائے یہ قرآن کریم کی ایک پیشگوئی تھی جو مکہ میں ہی اس جنگ کے متعلق قرآن کریم میں نازل ہوئی تھی۔ مکہ میں جب مسلمان کفّار کے ظلموں کا تختۂ مشق ہو رہے تھے اور اِدھر اُدھر ہجرت کر کے جا رہے تھے خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی یہ آیات نازل فرمائیں۲۵۳؎ یعنی اے مکہ والو! فرعون کی طرف بھی اِنذار کی باتیں آئی تھیں، لیکن اُنہوں نے ہماری تمام آیتوں کا انکار کیا پس ہم نے اُن کو اس طرح پکڑ لیا جیسے ایک طاقتور غالب ہستی پکڑا کرتی ہے۔ ( اے مکہ والو!) بتائو کیا تمہارے کفّار اُن (کفّار) سے اچھے ہیں یا تمہارے لئے پہلی کتابوں میں حفاظت کا کوئی وعدہ آچکا ہے؟ وہ کہتے ہیں ہم تو ایک بڑی طاقت ہیں جو دشمنوں سے ہارتی نہیں بلکہ دشمنوں سے بدلے لیا کرتی ہے ( وہ یہ باتیں کرتے رہیں) اُن کے جتھے عنقریب اکٹھے ہوں گے اور پھر اُنہیں شکست ملے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے، بلکہ اُن کی تباہی کی گھڑی کا خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے اور یہ تباہی کی گھڑی بڑی ہلاکت والی اور بڑی کڑوی ہو گی اُس دن مجرم پریشانی اور عذاب میں مبتلا ہوں گے اور اپنے مونہوں کے بل گھسیٹ کر اُن کو آگ کے گڑھوں میں ڈال دیا جائے گا اور کہا جائے گا اب پڑے عذاب چکھو۔
یہ آیتیں سورہ قمر کی ہیں اور سورہ قمر تمام اِسلامی رواتیوں کے مطابق مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ مسلمان علماء بھی اس سورۃ کو پانچویں سے دسویں سال بعد دعویٰ نبوت قرار دیتے ہیں۔ یعنی ہجرت سے کم سے کم تین سال پہلے یہ نازل ہوئی تھی بلکہ غالباً آٹھ سال پہلے۔ یورپین محقق بھی اِس کی تصدیق کرتے ہیں۔ چنانچہ نولڈ کے اس سورۃ کو دعویٰ نبوت کے پانچ سال بعد کی قرار دیتا ہے۔ ریورنڈ ویری لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک نولڈ کے نے اِس سورۃ کے نزول کا وقت کسی قدر پہلے قرار دے دیا ہے۔ وہ اپنا اندازہ یہ بتاتے ہیں کہ چھٹے یا ساتویں سال ہجرت سے پہلے یہ نازل ہوئی۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اُن کے نزدیک یہ سورۃ چھٹے یا ساتویں سال بعد دعویٔ نبوت کی ہے۔ بہرحال مسلمانوں کے دشمنوں نے بھی اِس سورۃ کو ہجرت سے کئی سال پہلے کا قرار دیا ہے۔ اُس زمانہ میں کس صفائی کے ساتھ اس جنگ کی خبر دی گئی تھی اور کفّار کا انجام بتا دیا گیا تھا اور پھر کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی جنگ شروع ہونے سے پہلے اِن آیات کو پڑھ کر مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ خدا کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے۔
غرض چونکہ وہ وقت آگیا تھا جس کی خبر یسعیاہ نبی نے قبل از وقت دے چھوڑی تھی ۲۵۴؎ اور جس کی خبر قرآن کریم نے دوبارہ جنگ شروع ہونے سے چھ یا آٹھ سال پہلے دی تھی اِس لئے باوجود اِس کے کہ مسلمان اِس جنگ کے لئے تیار نہ تھے اور باوجود اِس کے کہ کفّار کو بھی اُن کے بعض ساتھیوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ لڑائی نہیں کرنی چاہئے۔ لڑائی ہو گئی اور ۳۱۳ آدمی جن میں سے اکثر ناتجربہ کار اور سب ہی بے سامان تھے کفّار کے تجربہ کار لشکر کے مقابلہ میں جس کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی کھڑے ہو گئے۔ جنگ ہوئی اور چند ہی گھنٹوں کے اندر عرب کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔ یسعیاہ کی پیشگوئی کے مطابق قیدار کی حشمت جاتی رہی اور مکہ کی فوج کچھ لاشیں اور کچھ قیدی پیچھے چھوڑ کر سر پر پائوں رکھ کر مکہ کی طرف بھاگ پڑی۔ جو قیدی پکڑے گئے اُن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباسؓ بھی تھے جو ہمیشہ آپ کا ساتھ دیا کرتے تھے، اُنہیں مجبور کر کے مکہ والے اپنے ساتھ لڑائی کے لئے لے آئے تھے۔ اِسی طرح قیدیوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بیٹی کے خاوند ابوالعاص بھی تھے۔ مارے جانے والوں میں ابوجہل مکہ کی فوج کا کمانڈر اور اِسلام کا سب سے بڑا دشمن بھی شامل تھا۔
بدر کے قیدی
اِس فتح پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوش بھی تھے کہ وہ پیشگوئیاں جو متواتر چودہ سال سے آپ کے ذریعہ سے شائع کی جا رہی تھیں اور وہ پیشگوئیاں جو
پہلے انبیاء اِس دن کے متعلق کر چکے تھے پوری ہو گئیں، لیکن مکہ کے مخالفوں کاعبرتناک انجام بھی آپ کی نظروں کے سامنے تھا۔ آپ کی جگہ پر کوئی اور شخص ہوتا تو خوشی سے اُچھلتا اور کودتا لیکن جب آپ کے سامنے سے مکہ کے قیدی رسیوں میں بندھے ہوئے گزرے تو آپ اور آپ کے باوفا ساتھی ابوبکرؓ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے۔ اُس وقت حضرت عمرؓ جو بعد میں آپ کے دوسرے خلیفہ ہوئے سامنے سے آئے تو اُنہیں حیرت ہوئی کہ اِس فتح اور خوشی کے وقت میں آپ کیوں رو رہے ہیں اورانہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! مجھے بھی بتائیے کہ اِس وقت رونے کا کیا باعث ہے؟ اگر وہ بات میرے لئے بھی رونے کاموجب ہے تو میں بھی روئوں گا، نہیں تو کم سے کم میں آپ کے غم میں شریک ہونے کے لئے رونی صورت ہی بنا لوں گا۔ آپ نے فرمایا دیکھتے نہیں خد ا تعالیٰ کی نافرمانی سے آج مکہ والوں کی کیا حالت ہو رہی ہے۔۲۵۵؎
آپ کے انصاف اور آپ کی عدالت کا جس کی خبر یسعیاہ نے بار بار اپنی پیشگوئیوں میں دی ہے اِس موقع پر ایک لطیف ثبوت ملا۔ مدینہ کی طرف واپس آتے ہوئے رات کو جب آپ سونے کے لئے لیٹے تو صحابہؓ نے دیکھا کہ آپ کو نیند نہیں آتی۔ آخر اُنہوں نے سوچ کر یہ نتیجہ نکالا کہ آپ کے چچا عباس ؓ چونکہ رسیوں میں جکڑ ے ہونے کی وجہ سے سو نہیں سکتے اور اُ ن کے کراہنے کی آوازیں آتی ہیں اِس لئے اُن کی تکلیف کا خیال کر کے آپ کو نیند نہیں آتی۔ اُنہوں نے آپس میں مشورہ کر کے حضرت عباسؓ کے بندھنوں کو ڈھیلا کر دیا۔حضرت عباسؓ سو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نیند آگئی۔ تھوڑی دیر کے بعد یکدم گھبرا کے آپ کی آنکھ کھلی اور آپ نے پوچھا عباسؓ خاموش کیوں ہیں؟ اُن کے کراہنے کی آوازاب کیو ں نہیں آتی؟ آپ کے دل میں یہ وہم پید اہو ا کہ شاید تکلیف کی وجہ سے بیہوش ہو گئے۔ صحابہؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ہم نے آپ کی تکلیف کو دیکھ کر اُن کے بندھن ڈھیلے کر دئیے ہیں۔ آپ نے فرمایا نہیں!نہیں!! یہ بے انصافی نہیں ہو نی چاہئے۔ جس طرح عباسؓ میرا رشتہ دار ہے دوسرے قیدی بھی تو دوسروں کے رشتہ دار ہیں یا تو سب قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کر دو تاکہ وہ آرام سے سو جائیں اور یا پھر عباسؓ کے بندھن بھی کس دو۔ صحابہؓ نے آپ کی بات سن کر سب قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کر دئیے اور حفاظت کی ساری ذمہ داری اپنے سر پر لے لی۔۲۵۶؎ جو لوگ قید ہوئے تھے اُن میں سے جو پڑھنا جانتے تھے آپ نے اُن کا صرف یہی فدیہ مقرر کیا کہ وہ مدینہ کے دس دس لڑکوں کو پڑھنا سکھا دیں۔ بعض جن کا فدیہ دینے والا کوئی نہیں تھا اُن کو یونہی آزاد کر دیا۔ وہ امراء جو فدیہ دے سکتے تھے اُن سے مناسب فدیہ لے کر اُن کو چھوڑ دیا اور اس طرح اِس پرانی رسم کو کہ قیدیوں کو غلام بنا کر رکھا جاتا تھا آپ نے ختم کر دیا۔
جنگ اُحد
کفّار کے لشکر نے میدان سے بھاگتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اگلے سال ہم دوبارہ مدینہ پر حملہ کریں گے اوراپنی شکست کا مسلمانوں سے بدلہ لیں گے
چنانچہ ایک سال کے بعد وہ پھر پوری تیاری کر کے مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔مکہ والوں کے غصہ کا یہ حال تھا کہ بدر کی جنگ کے بعد اُنہوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ کسی شخص کو اپنے مردوں پر رونے کی اجازت نہیں اور جو تجارتی قافلے آئیںگے اُن کی آمد آئندہ جنگ کے لئے محفوظ رکھی جائے گی۔ چنانچہ بڑی تیاری کے بعد تین ہزار سپاہیوں سے زیادہ تعداد اس کا ایک لشکر ابوسفیان کی قیادت میں مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے مشورہ لیا کہ آیا ہم کو شہر میں ٹھہر کر مقابلہ کرنا چاہئے یا باہر نکل کر۔ آپ کا اپنا خیال یہی تھا کہ دشمن کو حملہ کرنے دیا جائے تاکہ جنگ کی ابتداء کا بھی وہی ذمہ دار ہو اور مسلمان اپنے گھروں میں بیٹھ کر اُس کا مقابلہ آسانی سے کر سکیں، لیکن وہ نوجوان مسلمان جن کو بدر کی جنگ میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا تھا اور جن کے دلوں میں حسرت رہی تھی کہ کاش! ہم کو بھی خدا کی راہ میں شہید ہونے کا موقع ملتا اُنہوں نے اصرار کیا کہ ہمیں شہادت سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ نے اُن کی بات مان لی۔
مشورہ لیتے وقت آپ نے اپنی ایک خواب بھی سنائی۔ فرمایا خواب میں مَیں نے چند گائیں دیکھی ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ میری تلوار کا سرا ٹوٹ گیا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ گائیں ذبح کی جارہی ہیں اور پھر یہ کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط اور محفوظ زِرہ کے اندر ڈالا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ میں ایک مینڈھے کی پیٹھ پر سوار ہوں۔ صحابہؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ نے اِن خوابوں کی کیا تعبیر فرمائی؟ آپ نے فرمایا گائے کے ذبح ہونے کی تعبیر یہ ہے کہ میرے بعض صحابہؓ شہید ہوں گے اور تلوار کا سرا ٹوٹنے سے مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ میرے عزیزوں میں سے کوئی اہم وجود شہید ہو گا یا شاید مجھے ہی اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے اور زرّہ کے اندر ہاتھ ڈالنے کی تعبیر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارا مدینہ میں ٹھہرنا زیادہ مناسب ہے اور مینڈھے پر سوار ہونے والے خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ کفّار کے لشکر کے سردار پر ہم غالب آئیںگے یعنی وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے مار ا جائے گا۔۲۵۷؎
گو اس خواب میںمسلمانوں پر یہ واضح کردیا گیا تھا کہ اُن کا مدینہ میں رہنا زیادہ اچھا ہے مگر چونکہ خواب کی تعبیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تھی، الہامی نہیں تھی آپ نے اکثریت کی رائے کو تسلیم کر لیا اور لڑائی کے لئے باہر جانے کا فیصلہ کر دیا۔ جب آپ باہر نکلے تو نوجوانوں کو اپنے دلوںمیں ندامت محسوس ہوئی اوراُنہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! جو آپ کا مشورہ ہے وہی صحیح ہے ہمیں مدینہ میں ٹھہر کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا خد اکا نبی جب زرہ پہن لیتا ہے تو اُتارا نہیں کرتا اب خواہ کچھ ہو ہم آگے ہی جائیں گے۔ اگر تم نے صبر سے کام لیا تو خدا کی نصرت تم کو مل جائے گی۔ ۲۵۸؎ یہ کہہ کر آپ ایک ہزار لشکر کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور تھوڑے فاصلہ پر جا کر رات بسر کرنے کے لئے ڈیرہ لگا دیا۔ آپ کا ہمیشہ طریق تھا کہ آپ دشمن کے پاس پہنچ کر اپنے لشکر کو کچھ دیر آرام کرنے کاموقع دیا کرتے تھے تاکہ وہ اپنا سامان وغیرہ تیار کر لیں۔ صبح کی نماز کے وقت جب آپ نکلے تو آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ یہودی بھی اپنے معاہد قبیلوں کی مدد کے بہانہ سے آئے ہیں۔ چونکہ یہود کی ریشہ دوانیوں کا آپ کو علم ہو چکا تھا آپ نے فرمایا کہ اِن لوگوں کو واپس کر دیا جائے۔ اِس پر عبداللہ بن ابی بن سلول جو منافقوں کا رئیس تھا وہ بھی اپنے تین سَو ساتھیوںکو لے کر یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ گیا کہ اب یہ لڑائی نہیں رہی۔۲۵۹؎ یہ تو ہلاکت کے منہ میں جانا ہے کیونکہ خود اپنے مدد گاروں کو لڑائی سے روکا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہو ا کہ مسلمان صرف سات سَو رہ گئے جو تعداد میں کفّار کی تعداد سے چوتھے حصہ سے بھی کم تھے اور سامانوں کے لحاظ سے اور بھی کمزور۔ کیونکہ کفّار میں سات سَو زِرہ پوش تھا اور مسلمانوں میں صر ف ایک زِرہ پوش ۔اور کفّار میں دو سَو گھوڑ سوا رتھا مگر مسلمانوں کے پا س دو گھوڑے تھے۔ آخر آپ اُحد پر پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے ایک پہاڑی درہ کی حفاظت کے لئے پچاس سپاہی مقررکئے اور سپاہیوں کے افسر کو تاکید کی کہ وہ درہ اتنا ضروری ہے کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم اِس جگہ سے نہ ہلنا۔۲۶۰؎ اِس کے بعد آپ بقیہ ساڑھے چھ سَو آدمی لے کر دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلے جو اَب دشمن کی تعداد سے قریباً پانچواں حصہ تھے۔ لڑائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے تھوڑی ہی دیر میں ساڑھے چھ سَو مسلمانوں کے مقابلہ میں تین ہزار مکہ کا تجربہ کار سپاہی سر پر پائوں رکھ کر بھاگا۔
فتح مبدَّل بہ شکست
مسلمانوں نے اُن کا تعاقب شروع کیا، تو ان لوگوں نے جو پشت کے درّہ کی حفاظت کے لئے کھڑے تھے اُنہوں نے اپنے افسر
سے کہا اب تو دشمن کو شکست ہو چکی ہے اب ہمیں بھی جہاد کاثواب لینے دیا جائے۔ افسر نے اُن کواِس بات سے روکا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد دلائی مگر اُنہوں نے کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا صرف تاکید کے لئے فرمایاتھا ورنہ آپ کی مراد یہ تو نہیں ہو سکتی تھی کہ دشمن بھاگ بھی جائے تو یہاں کھڑے رہو۔ یہ کہہ کر اُنہوں نے درہ چھوڑ دیا اور میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ بھاگتے ہوئے لشکر میں سے خالد بن ولید کی جو بعد میں اِسلام کے بڑے بھاری جرنیل ثابت ہوئے نظر خالی درّہ پر پڑی جہاں صرف چند آدمی اپنے افسر کے ساتھ کھڑے تھے۔ خالدؓ نے کفّار کے لشکر کے دوسرے جرنیل عمرو ابن العاص کو آواز دی اور کہا۔ ذرا پیچھے پہاڑی درّہ پر نگاہ ڈالو۔ عمرو بن العاص نے جب درہ پر نگاہ ڈالی تو سمجھا کہ عمر کا بہترین موقع مجھے حاصل ہو رہا ہے دونوں جرنیلوں نے اپنے بھاگتے ہوئے دوستوں کوسنبھالا اور اِسلامی لشکر کا بازو کاٹتے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گئے۔ چند مسلمان جو وہاں درّہ کی حفاظت کے لئے کھڑے رہ گئے تھے، اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوئے پشت پر سے اِسلامی لشکر پر آ پڑے۔ اُن کے فاتحانہ نعروں کو سن کر سامنے کا بھاگتا ہوا بقیہ لشکر بھی میدان جنگ کی طرف لوٹ پڑا۔ یہ حملہ ایسا اچانک ہوا اور کافروں کا تعاقب کرنے کی وجہ سے مسلمان اتنے پھیل چکے تھے کہ کوئی باقاعدہ اِسلامی لشکر اُن لوگوں کے مقابلہ میں نہیں تھا۔ اکیلا اکیلا سپاہی میدان میں نظر آر ہا تھا، جن میں سے بعض کو اُن لوگوں نے مار دیا۔ باقی اِس حیرت میں کہ یہ ہو کیا گیا ہے پیچھے کی طرف دوڑے۔ چند صحابہؓ دوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے، جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ تیس تھی۔۲۶۱؎ کفّار نے شدت کے ساتھ اُس مقام پر حملہ کیا جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے۔ یکے بعد دیگرے صحابہؓ آپ کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جانے لگے۔ علاوہ شمشیر زنوں کے تیر انداز اُونچے ٹیلوں پر کھڑے ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بے تحاشہ تیر مارتے تھے۔ اُس وقت طلحہؓ جو قریش میں سے تھے اور مکہ کے مہاجرین میں شامل تھے یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن سب کے سب تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی طرف پھینک رہا ہے اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے کھڑا کر دیا۔ تیر کے بعد تیر جو نشانہ پر گرتا تھا وہ طلحہؓ کے ہاتھ پر گرتا تھا، مگر جانباز اور وفادار صحابیؓ اپنے ہاتھ کو کوئی حرکت نہیں دیتا تھا۔ اِس طرح تیر پڑتے گئے اور طلحہؓ کا ہاتھ زخموں کی شدت کی وجہ سے بالکل بیکار ہو گیا اور صرف ایک ہی ہاتھ اُن کا باقی رہ گیا۔ سالہا سال بعد اِسلام کی چوتھی خلافت کے زمانہ میں جب مسلمانوں میں خانہ جنگی واقع ہوئی تو کسی دشمن نے طعنہ کے طور پر طلحہؓکو کہا۔ ٹنڈا۔ اِس پر ایک دوسرے صحابیؓ نے کہا ہاں ٹنڈا ہی ہے مگر کیسا مبارک ٹنڈا ہے۔ تمہیں معلوم ہے طلحہؓ کا یہ ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی حفاظت میں ٹنڈا ہوا تھا۔ اُحد کی جنگ کے بعد کسی شخص نے طلحہؓ سے پوچھا کہ جب تیر آپ کے ہاتھ پر گرتے تھے تو کیا آپ کو درد نہیں ہوتی تھی اور کیا آپ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی؟ طلحہؓ نے جواب دیا۔ درد بھی ہوتی تھی اور اُف بھی نکلنا چاہتی تھی، لیکن میں اُف کرتا نہیں تھا تا ایسا نہ ہو کہ اُف کرتے وقت میرا ہاتھ ہل جائے اور تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر آگرے۔
مگر یہ چند لوگ کب تک اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ لشکر کفّار کا ایک گروہ آگے بڑھا اور اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد کے سپاہیوں کو دھکیل کر پیچھے کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تن تنہا پہاڑ کی طرح وہاں کھڑے تھے کہ زور سے ایک پتھر آپ کے خود پر لگا اور خود کے کیل آپ کے سر پر گھس گئے اور آپ بیہوش ہو کر اُن صحابہؓ کی لاشوں پر جاپڑے جو آپ کے اِردگرد لڑتے ہوئے شہید ہو چکے تھے۲۶۲؎ اس کے بعد کچھ اور صحابہؓ آپ کے جسم کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے اوراُن کی لاشیں آپ کے جسم پر جا گریں۔ کفّار نے آپ کے جسم کو لاشوں کے نیچے دبا ہوا دیکھ کر سمجھا کہ آپ مارے جا چکے ہیں۔ چنانچہ مکہ کا لشکر اپنی صفوں کو درست کرنے کے لئے پیچھے ہٹ گیا۔ جو صحابہؓ آپ کے گرد کھڑے تھے اور جن کو کفّار کے لشکر کا ریلا دھکیل کر پیچھے لے گیاتھا اُن میں حضرت عمرؓ بھی تھے۔ جب آپ نے دیکھا کہ میدان سب لڑنے والوں سے صاف ہو چکا ہے تو آپ کو یقین ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں اور وہ شخص جس نے بعد میں ایک ہی وقت میں قیصر اور کسریٰ کا مقابلہ بڑی دلیری سے کیا اور اُس کا دل کبھی نہ گھبرایا اور کبھی نہ ڈرا وہ ایک پتھر پر بیٹھ کر بچوں کی طرح رونے لگ گیا۔ اِتنے میں مالکؓ نامی ایک صحابی جو اِسلامی لشکر کی فتح کے وقت پیچھے ہٹ گئے تھے کیونکہ اُنہیں فاقہ تھا اور را ت سے اُنہوں نے کچھ نہیں کھایا تھا جب فتح ہو گئی تو وہ چند کھجوریں لے کر پیچھے کی طرف چلے گئے تاکہ اُنہیں کھا کر اپنی بھوک کا علاج کریں۔ وہ فتح کی خوشی میں ٹہل رہے تھے کہ ٹہلتے ٹہلتے حضرت عمرؓ تک جا پہنچے اور عمرؓ کو روتے ہوئے دیکھ کر نہایت ہی حیران ہوئے اور حیرت سے پوچھا۔ عمر! آ پ کو کیا ہوا؟ اِسلام کی فتح پر آپ کو خوش ہونا چاہئے یا رونا چاہئے؟ عمرؓ نے جواب میں کہا مالک ! شاید تم فتح کے معاً بعد پیچھے ہٹ آئے تھے تمہیں معلوم نہیں کہ لشکر کفّار پہاڑی کے دامن سے چکر کاٹ کر اِسلامی لشکر پر حملہ آوار ہوا اور چونکہ مسلما ن پر اگندہ ہو چکے تھے اُن کا مقابلہ کوئی نہ کر سکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ سمیت اُن کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوئے اور مقابلہ کرتے کرتے شہید ہو گئے۔ مالکؓ نے کہا عمرؓ!! اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو آپ یہاں بیٹھے کیوں رو رہے ہیں؟ جس دنیا میں ہمارا محبوب گیا ہے ہمیں بھی تو وہاں جانا چاہئے۔ یہ کہا اور وہ آخری کجھور جو آپ کے ہاتھ میں تھی جسے آپ منہ میں ڈالنے ہی والے تھے اُسے یہ کہتے ہوئے زمین پر پھینک دیا کہ اے کجھور! مالک اور جنت کے درمیان تیرے سِوا اور کونسی چیز روک ہے۔ یہ کہا اور تلوار لے کر دشمن کے لشکر میں گھس گئے۔ تین ہزار آدمی کے مقابلہ میں ایک آدمی کر ہی کیا سکتا تھا مگر خد ائے واحد کی پرستا رروح ایک بھی بہتوں پر بھاری ہوتی ہے۔ مالکؓ اِس بے جگری سے لڑے کہ دشمن حیران ہو گیا۔ مگر آخر زخمی ہوئے پھر گرے اور گر کر بھی دشمن کے سپاہیوں پر حملہ کرتے رہے جس کے نتیجہ میں کفّارِ مکہ نے اِس وحشت سے آپ پر حملہ کیا کہ جنگ کے بعد آپ کی لاش کے ۷۰ ٹکڑے ملے حتی کہ آپ کی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی۔ آخر ایک اُنگلی سے آپ کی بہن نے پہچان کر بتایا کہ یہ میرے بھائی مالک کی لاش ہے۔۲۶۳؎
وہ صحابہؓ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد تھے اور جو کفّار کے ریلے کی وجہ سے پیچھے دھکیل دئیے گئے تھے کفّار کے پیچھے ہٹتے ہی وہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے۔ آپ کے جسم مبارک کو اُنہوں نے اُٹھایا اور ایک صحابی عبیدہ بن الجراحؓ نے اپنے دانتوں سے آپ کے سر میں گھسی ہوئی کیل کو زور سے نکالا جس سے اُن کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آگیااور صحابہؓ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دیئے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہو جائیں۔ بھاگا ہو الشکر پھر جمع ہونا شروع ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے۔ جب دامنِ کوہ میں بچا کھچا لشکر کھڑا تھا تو ابوسفیان نے بڑے زور سے آواز دی اور کہا ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کی بات کا جواب نہ دیاتا ایسا نہ ہو دشمن حقیقت حال سے واقف ہوکر حملہ کرد ے اور زخمی مسلمان پھر دوبارہ دشمن کے حملہ کا شکار ہو جائیں۔ جب اِسلامی لشکر سے اِس بات کا کوئی جواب نہ ملا تو ابو سفیان کو یقین ہو گیا کہ اُس کا خیال درست ہے اور اس نے بڑے زور سے آواز دے کر کہا ہم نے ابو بکرؓ کو بھی مار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ کو بھی حکم فرمایا کہ کوئی جواب نہ دیں۔ پھر ابو سفیان نے آواز دی ہم نے عمرؓ کو بھی مار دیا۔ تب عمرؓ جو بہت جوشیلے آدمی تھے اُنہوں نے اُس کے جواب میں یہ کہنا چاہا کہ ہم لوگ خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور تمہارے مقابلہ کے لئے تیار ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ مسلمانوں کو تکلیف میں مت ڈالو اور خاموش رہو۔ اب کفّار کو یقین ہو گیا کہ اِسلام کے بانی کو بھی اور اُن کے دائیں بائیں بازو کو بھی ہم نے مار دیا ہے۔ اِس پر ابوسفیان اور اُس کے ساتھیوں نے خوشی سے نعرہ لگایا اُعْلُ ھُبَل۔ اُعْلُ ھُبَل۔ ہمارے معزز بت ہبل کی شان بلند ہو کہ اُس نے آج اِسلام کا خاتمہ کر دیا ہے۔ وہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنی موت کے اعلان پر، ابوبکرؓ کی موت کے اعلان پر اور عمرؓ کی موت کے اعلان پر خاموشی کی نصیحت فرما رہے تھے تا ایسا نہ ہو کہ زخمی مسلمانوں پر پھر کفّار کا لشکرلوٹ کر حملہ کر دے اور مٹھی بھر مسلمان اُس کے ہاتھوں شہید ہو جائیں۔ اب جبکہ خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہوا اور شرک کا نعرہ میدان میں ماراگیا تو آپ کی روح بے تاب ہوگئی اور آپ نے نہایت جوش سے صحابہؓ کی طر ف دیکھ کر فرمایا تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے؟ صحابہ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!ہم کیا کہیں؟ فرمایا کہو اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ۔ اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ۔۲۶۴؎ تم جھوٹ بولتے ہو کہ ہبل کی شان بلند ہوئی۔ اللّٰہ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْک ہی معزز ہے اوراُس کی شان بالا ہے۔ اوراس طرح آپ نے اپنے زندہ ہونے کی خبر دشمنوں تک پہنچا دی۔ اِس دلیرانہ اور بہادرانہ جواب کا اثر کفّار کے لشکر پر اتنا گہرا پڑ اکہ باوجود اِس کے کہ اُن کی اُمیدیں اس جواب سے خاک میں مل گئیں اور باوجود اس کے کہ اُن کے سامنے مٹھی بھر زخمی مسلمان کھڑے ہوئے تھے جن پر حملہ کر کے اُن کو مار دینا مادی قوانین کے لحاظ سے بالکل ممکن تھا وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہ کر سکے اور جس قدر فتح اُن کو نصیب ہوئی تھی اُسی کی خوشیاں مناتے ہوئے مکہ کو واپس چلے گئے۔
اُحد کی جنگ میں بظاہر فتح کے بعد ایک شکست کا پہلو پیدا ہوا مگر یہ جنگ درحقیقت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان تھا۔ اِس جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسلمانوں کو پہلے کامیابی نصیب ہوئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے عزیز چچا حمزہؓ لڑائی میں مارے گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق شروع حملہ میں کفّار کے لشکر کا علمبردار مارا گیا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق خود آپ بھی زخمی ہوئے اور بہت سے صحابہ شہید ہوئے۔ اِس کے علاوہ مسلمانوں کو ایسے اخلاص اور ایمان کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا جس کی مثال تاریخ میں اور کہیںنہیںملتی۔
چند واقعات تو اِس اخلاص اور ایمان کے مظاہرہ کے پہلے بیان ہو چکے ہیں ایک اور واقعہ بھی بیان کر نے کے قابل ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے صحابہؓ کے دلوں میں کتنا پختہ ایمان پیدا کر دیا تھا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ صحابہ کی معیت میں پہاڑ کے دامن کی طرف چلے گئے اور دشمن پیچھے ہٹ گیا تو آپ نے بعض صحابہ کو اِس بات پر مأمور فرمایاکہ وہ میدان میں جائیں اور زخمیوں کی خبر لیں۔ ایک صحابی میدان میں تلاش کرتے کرتے ایک زخمی انصاری کے پاس پہنچے۔ دیکھا تو اُن کی حالت خطرناک تھی اور وہ جان توڑ رہے تھے۔ یہ صحابی اُن کے پاس پہنچے اور اُنہیں اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ کہا اُنہوں نے کانپتا ہوا ہاتھ مصافحہ کے لئے اُٹھایا اوراُن کا ہاتھ پکڑ کر کہا میں انتظارکر رہا تھا کہ کوئی ساتھی مجھے مل جائے۔ اُنہوں نے اِس صحابی سے پوچھا کہ آپ کی حالت توخطرناک معلوم ہوتی ہے کیا کوئی پیغام ہے جو آپ اپنے رشتہ دار کو دینا چاہتے ہیں؟ اُس مرنے والے صحابیؓ نے کہا ہاں! ہاں! میری طرف سے میرے رشتہ داروں کو سلام کہنا اوراُنہیں کہناکہ میں تومر رہا ہوں مگر اپنے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک مقدس امانت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تم میںچھوڑے جا رہا ہوں۔ اے میرے بھائیو اور رشتہ دارو! وہ خدا کاسچا رسول ہے میں اُمید کرتا ہوں کہ تم اس کی حفاظت میں اپنی جانیں دینے سے دریغ نہیں کرو گے اور میری اس وصیت کو یا د رکھو گے۔۲۶۵؎
مرنے والے انسان کے دل میں ہزاروں پیغام اپنے رشتہ داروں کو پہنچانے کے لئے پیدا ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اتنے بے نفس ہو چکے تھے کہ نہ اُنہیں اپنے بیٹے یاد تھے، نہ بیویاں یا د تھیں، نہ مال یا د تھا، نہ جائدادیں یاد تھیں اُنہیں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی یا درہتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ دنیا کی نجات اِس شخص کے ساتھ ہے۔ ہمارے مرنے کے بعدا گر ساری اولادیں زندہ رہیں تو وہ کوئی بڑا کام نہیں کر سکتیں، لیکن اگر اِس نجات دہندہ کی حفاظت میں اُنہوں نے اپنی جانیں دے دیں تو گو ہمارے اپنے خاندان مٹ جائیں گے مگر دنیا زندہ ہوجائے گی۔ شیطان کے پنجہ میں پھنسا ہوا ا نسان پھر نجات پا جائے گا اورہمارے خاندانوں کی زندگی سے ہزاروں گنے زیادہ قیمتی بنو آدم کی زندگی اور نجات ہے۔
بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمیوں اور شہدا ء کو جمع کیا، زخمیوں کی مرہم پٹی کی گئی اور شہداء کے دفنانے کا انتظام کیا گیا۔ اُس وقت آپ کو معلوم ہوا کہ ظالم کفّارِ مکہ نے بعض مسلمان شہداء کے ناک کان بھی کاٹ دئیے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ جن کے ناک کان کاٹے گئے ہیں اُن میں خود آپ کے چچا حمزہؓ بھی تھے۔ آپ کو یہ نظارہ دیکھ کر افسوس ہوا اور آپ نے فرمایا کفّار نے خود اپنے عمل سے اپنے لئے اُس بدلہ کو جائز بنا دیا ہے جس کو ہم ناجائز سمجھتے تھے۔ مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس وقت آپ کو وحی ہوئی کہ کفّار جو کچھ کرتے ہیں اُن کوکرنے دو تم رحم اور انصاف کادامن ہمیشہ تھامے رکھو۔۲۶۶؎
جنگ اُحد سے واپسی اور
اہل مدینہ کے جذباتِ فدائیت
جب اِسلامی لشکر واپس مدینہ کی طرف لوٹا تو اُس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت اور اِسلامی لشکر کی پراگندگی کی
خبر مدینہ پہنچ چکی تھی۔ مدینہ کی عورتیں اور بچے دیوانہ وار اُحدکی طرف دَوڑے جا رہے تھے۔ اکثر کو تو راستہ میں خبر مل گئی اور وہ رُک گئے، مگر بنو دینار قبیلہ کی ایک عورت دیوانہ وار آگے بڑھتے ہوئے اُحد تک جا پہنچی۔ جب وہ دیوانہ وار اُحد کے میدان کی طرف جار ہی تھی اُس عورت کا خاوند اور بھائی اور باپ اُحد میں مارے گئے تھے اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔ جب اُسے اُس کے باپ کے مارے جانے کی خبر دی گئی تو اُس نے کہا مجھے بتائو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ چونکہ خبر دینے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مطمئن تھے وہ باری باری اُسے اس کے بھائی اور خاوند اور بیٹے کی موت کی خبر دیتے چلے گئے مگر وہ یہی کہتی چلی جاتی تھی ’’مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم‘‘۔ ارے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا؟ بظاہر یہ فقرہ غلط معلوم ہوتا ہے اور اسی وجہ سے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اُس کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہوا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فقرہ غلط نہیں بلکہ عورتوں کے محاورہ کے مطابق بالکل درست ہے۔ عورت کے جذبات بہت تیز ہوتے ہیں اور وہ بسااوقات مُردوں کو زندہ سمجھ کر کلام کرتی ہے۔ جیسے بعض عورتوں کے خاوند یا بیٹے مر جاتے ہیں تو اُ ن کی موت پر اُن سے مخاطب ہو کر وہ اِس قسم کی باتیں کرتی رہتی ہیں کہ مجھے کس پر چھوڑ چلے ہو؟ یا بیٹا! اس بڑھاپے میں مجھ سے کیوں منہ موڑ لیا؟ یہ شدتِ غم میں فطرتِ انسا نی کا ایک نہایت لطیف مظاہرہ ہوتا ہے۔ اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبرسن کر اُس عورت کا حال ہوا۔ وہ آپ کو فوت شدہ ماننے کے لئے تیار نہ تھی اور دوسری طر ف اِس خبر کی تردید بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس لئے شدت ِغم میں یہ کہتی جاتی تھی ارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کیا۔ یعنی ایسا وفادار انسان ہم کو یہ صدمہ پہنچانے پر کیونکر راضی ہو گیا۔
جب لوگوں نے دیکھا کہ اُسے اپنے باپ، بھائی اور خاوند کی کوئی پرواہ نہیں تو وہ اس کے سچے جذبات کو سمجھ گئے اور اُنہوں نے کہا۔ فلانے کی اماں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو جس طرح تو چاہتی ہے خدا کے فضل سے خیریت سے ہیں۔ اس پر اُس نے کہامجھے دکھائو وہ کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا۔ آگے چلی جائو وہ آگے کھڑے ہیں۔ وہ عورت دوڑ کر آپ تک پہنچی اور آپ کے دامن کو پکڑ کر بولی یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جب آپ سلامت ہیں تو کوئی مرے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔۲۶۷؎
مردوں نے جنگ میں وہ نمونہ ایمان کا دکھایا اور عورتوں نے یہ نمونہ اخلاص کا دکھایا، جس کی مثال میں نے ابھی بیان کی ہے۔ عیسائی دنیا مریم مگد لینی اور اس کی ساتھی عورتوں کی اِس بہادری پر خوش ہے کہ وہ مسیح کی قبر پر صبح کے وقت دشمنو ں سے چھپ کر پہنچی تھیں۔ میں اُن سے کہتا ہوںآئو اور ذرا میرے محبوب کے مخلصوں اور فدائیوں کو دیکھو کہ کن حالتوں میں اُنہوں نے اُس کا ساتھ دیا اور کن حالتوں میں اُنہوں نے توحید کے جھنڈے کو بلند کیا۔
اِس قسم کی فدائیت کی ایک اور مثال بھی تاریخوں میں ملتی ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہدا ء کو دفن کر کے مدینہ واپس گئے تو پھر عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کیلئے نکل آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُونٹنی کی باگ سعد بن معاذؓ مدینہ کے رئیس نے پکڑی ہوئی تھی اور فخر سے آگے آگے دوڑے جاتے تھے شاید دنیا کو یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیریت سے اپنے گھر واپس لے آئے۔ شہر کے پاس اُنہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی آتی ہوئی ملی۔ اُحد میں اُس کا ایک بیٹا عمرو بن معاذؓ بھی مارا گیا۔ اُسے دیکھ کر سعد بن معاذؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ااُمّی۔ اے اللہ کے رسول! میری ماں آرہی ہے۔ آپ نے فرمایا خد ا تعالیٰ کی برکتوں کے ساتھ آئے۔ بڑھیا آگے بڑھی اور اپنی کمزور پھٹی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل نظر آجائے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ پہچان لیا اور خوش ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مائی! مجھے تمہارے بیٹے کی شہادت پر تم سے ہمدردی ہے۔ اِس پر نیک عورت نے کہا۔ حضور! جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا تو سمجھو کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔ ’’ مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔‘‘۲۶۸؎ کیا عجیب محاورہ ہے۔ محبت کے کتنے گہرے جذبات پر دلالت کرتاہے غم انسان کو کھا جاتا ہے۔ وہ عورت جس کے بڑھاپے میں اُس کا عصائے پیری ٹوٹ گیا کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیںتو میں اس غم کو کھا جائو ں گی۔ میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہوگی بلکہ یہ خیال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اُس نے جان دی میری قوت کے بڑھانے کا موجب ہو گا۔ اے انصار! میری جان تم پر فدا ہو تم کتنا ثواب لے گئے۔
بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے مدینہ پہنچے۔ گو اِس لڑائی میں بہت سے مسلمان مار ے بھی گئے اور بہت سے زخمی بھی ہوئے لیکن پھر بھی اُحد کی جنگ شکست نہیں کہلا سکتی۔ جو واقعات میں نے اُوپر بیان کئے ہیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک بہت بڑی فتح تھی ایسی فتح کہ قیامت تک مسلمان اس کو یاد کر کے اپنے ایمان کو بڑھا سکتے ہیں اور بڑھاتے رہیں گے۔ مدینہ پہنچ کر آپ نے پھر اپنا اصل کام یعنی تربیت اور تعلیم اور اصلاحِ نفس کاشروع کر دیا۔ مگر آپ یہ کام سہولت اور آسانی سے نہیں کر سکے۔ اُحد کے واقعہ کے بعد یہود میںاور بھی دلیری پیدا ہو گئی اور منافقوں نے اور بھی سر اُٹھانا شروع کر دیا اور وہ سمجھے کہ شاید اِسلام کو مٹا دینا انسانی طاقت کے اند رکی بات ہے۔ چنانچہ یہودیوں نے طرح طرح سے آپ کوتکلیفیں دینی شروع کر دیں ۔گندے شعر بنا کر اُن میں آپ کی اور آپ کے خاندان کی ہتک کی جاتی تھی۔ ایک دفعہ آپ کو کسی جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لئے یہودیوں کے قلعہ میں جانا پڑا تو اُنہوں نے ایک تجویز کی کہ جہاں آپ بیٹھے تھے اُس کے اُوپر سے ایک بڑی سِل گرا کر آپ شہید کر دیئے جائیں مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو وقت پر بتا دیا اور آپ وہا ں سے بغیر کچھ کہنے کے چلے آئے۲۶۹؎۔ بعد میں یہودں نے اپنے قصور کو تسلیم کر لیا ۔
مسلمان عورتوں کی بازاروں میں بیحرمتی کی جاتی تھی۔ایک دفعہ اس جھگڑے میں ایک مسلمان بھی مارا گیا۔ایک دفعہ ایک مسلمان لڑکی کا سر یہود نے پتھر وں سے مار مار کر کچل دیا اور وہ تڑپ تڑپ کر مرگئی۔اِن اسباب کی وجہ سے یہودیوں کے ساتھ بھی مسلمانوں کو جنگ کرنا پڑی۔ مگر عرب اور یہود کے دستور کے مطابق مسلمانوں نے اُن کو مارا نہیں،بلکہ صرف مدینہ سے چلے جانے کی شرط پر اُنہیں چھوڑ دیا ۔چنانچہ اُن دونوں قبیلوں میں سے ایک تو شام کی طرف ہجرت کر گیا اور دوسرے کا کچھ حصہ شام کو چلا گیا اور کچھ مدینہ سے شمال کی طرف خیبر نامی ایک شہر کی طرف ۔ یہ شہر عرب میں یہود کا مرکز تھا اور زبر دستقلعوں پر مشتمل تھا۔
شراب نوشی کی ممانعت کاحکم اوراُس کابے نظیر اثر
جنگ اُحد اور اس کے بعد کی جنگ کے وقفہ کے درمیان دنیا نے اِسلام کے اس اثر کی جو اس کا اپنے پیروؤں پر تھا ایک بیّن مثال دیکھی ۔ ہماری مراد
امتناعِ شراب سے ہے۔اِسلام سے پہلے اہلِ عرب کی حالت کو بیان کرتے ہوئے ہم نے بتلایا تھاکہ اہلِ عرب عادی شراب خور تھے۔ ہر معزز عرب خاندان میں دن میں پانچ دفعہ شراب پی جاتی تھی اور شراب کے نشہ میں مدہوش ہو جانا اُن کے لئے معمولی بات تھی اور اس میں وہ ذرا بھی شرم محسوس نہ کرتے تھے بلکہ وہ اس کو ایک اچھا کام سمجھتے تھے۔جب کوئی مہمان آتا تو گھر کی مالکہ کا فرض ہوتا کہ وہ شراب کا دَور جاری کرتی۔اِس قسم کے لوگوں سے ایسی تباہ کن عادت کو چھڑانا کوئی آسان بات نہ تھی۔مگر ہجرت کے چوتھے سال آنحضرت ﷺپر حکم نازل ہوا ہے کہ شراب حرام کی جاتی ہے ۔ اس حکم کا اعلان ہوتے ہی مسلمانوں نے شراب پینا بالکل ترک کردیا۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے۔کہ جب شراب کی حرمت کا الہام نازل ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو بلایا اور حکم دیا کے اس نئے حکم کا اعلان مدینہ کی گلیوں میں کر دو۔ایک انصاری کے گھر میں جو مدینہ کا مسلمان تھا اُس وقت شراب کی مجلس ہو رہی تھی بہت سے لوگ مدعو تھے اور شراب کا دَور چل رہا تھا۔ایک بڑا مٹکا خالی ہو چکا تھااور ایک دوسرا مٹکا شروع کیا جانے والا تھا۔لوگ مدہوش ہو چکے تھے اور بہت سے اور مدہوش ہونے کے قریب تھے۔ اس حالت میں اُنہوں نے سنا کہ کوئی شخص اعلان کر رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت شراب پینا منع فرمادیا ہے۔ اُن میں سے ایک شخص اُٹھا اور بولا یہ تو شراب کے امتناع کا حکم معلوم ہوتا ہے۔ ٹھہرو معلو م کر لیں۔اتنے میں ایک اور شخص اُٹھا اور اُس نے مٹکے کو جو شراب سے بھرا ہوا تھااپنی لاٹھی مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کہا پہلے حکم کی تعمیل کرو اور پھر دریافت کرو ۔یہ کافی ہے کہ ہم نے ایسا اعلان سن لیا اور یہ مناسب نہیں کہ ہم شراب پیتے جائیں اور تحقیقات کریں بلکہ ہمارا فرض یہ ہے کہ شراب کو گلیوں میں بہہ جانے دیںاور پھر اعلان کے متعلق تحقیقات کریں۔۲۷۰؎
اس مسلمان کا خیال درست تھا ، کیونکہ اگر شراب کا پیا جانا ممنوع قرار دیا جا چکا تھاتو اس کے بعد اگر وہ شراب پینا جاری رکھتے تو ایک جرم کے مرتکب ہوتے اور اگر شراب پینا ممنوع نہیں قرار دیا گیا تھاتو شراب کا بہا دینا اِتنا بڑا نقصان نہ تھا کہ اُسے برداشت نہ کیا جا سکتا۔اس اعلان کے بعد شراب نوشی مسلمانوں سے بالکل دور ہو گئی۔اس انقلابِ عظیم کو برپا کرنے کے لئے کوئی خاص کوشش اور مجاہدہ کی ضرورت نہیں پڑی ۔ایسے مسلمان جنہوں نے اِس حکم کو سُنا اور جو فوری تعمیل اِس کی ہوئی اُس کو دیکھا،ستّر اسّی سال تک زندہ رہے مگر اُن میں سے ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جس نے اس حکم کے بعد اس کی خلاف ورزی کی ہو ،اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے تو وہ ایسے شخص کے متعلق ہے جس نے براہِ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ نہ کیا تھا۔
جب ہم اس کا مقابلہ امریکہ کی تحریک امتناعِ شراب سے کرتے ہیں اور ان کو ششوں کو دیکھتے ہیں جو اس حکم کو نافذ کر نے کے لئے کی گئیںیا جو سالہا سال تک یورپ میں کی گئیں،تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ ایک صورت میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محض ایک اعلان کافی تھا کہ اس تمدّنی عیب کو عرب کے لوگوں سے معدوم کردے۔مگر دوسری صورت میں امتناعِ شراب کے لئے قوانین بنائے گئے۔پولیس، فوج اور ٹیکس کے محکموں کے کارکنوں نے مل کر شراب نوشی کی *** کو دور کرنے کے لئے متحدہ طور پر کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے اور انہیں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا پڑا۔ شراب نوشی کی جیت رہی اور شراب نوشی کو دُور نہ کی جا سکی ۔ ہمارے اِس زمانہ کو ایک ترقی کا زمانہ کہتے ہیں مگر جب اس کا مقابلہ ابتدائے اِسلام کے زمانہ سے کرتے ہیں تو ہم حیران ہو جاتے ہیںکہ ان دونوں میں سے ترقی کا زمانہ کونسا ہے ۔ہمارا یہ زمانہ یا اِسلام کا وہ زمانہ جس نے اس قدر بڑا تمدّنی انقلاب پیدا کر دیا؟
غزوہ اُحد کے بعد کفّار قبائل کے ناپاک منصوبے
اُحد کا واقعہ ایسی بات نہ تھی کہ آسانی سے
بھولا جا سکتا ۔ مکّہ والوں نے خیال کیا تھا کہ یہ اُن کی اسلام کے خلاف پہلی فتح ہے اُنہوں نے اس کی خبر تمام عرب میں شائع کی اور عرب کے قبائل کو اِسلام کے خلاف بھڑکانے اور یہ یقین دلانے کا ذریعہ بنایا کہ مسلمان نا قابلِ تسخیر نہیں ہیں۔ اور اگر وہ ترقی کرتے رہے ہیں تو اس کی وجہ اُن کی طاقت نہیںتھی بلکہ عرب قبائل کی بے توجہی تھی ۔عرب متحدہ کوشش کریں تو مسلمانوں پر غالب آ جانا کوئی مشکل امر نہیں ۔ اِس پروپیگنڈا کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے خلاف مخالفت زور پکڑتی گئی اور دیگر قبائل نے مسلمانوں کو تکلیف دینے میں مکہ والوں سے بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لینا شروع کیا۔بعض نے کھلم کھلا حملے شروع کر دئیے اور بعض نے خفیہ طور پر اُن کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔
ہجرت کے چوتھے سال عرب کے دو قبائل عضل اور قارۃ نے اپنے نمائندے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج کر عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اِسلام کی طرف مائل ہیں اور درخواست کی کہ کچھ آدمی جو تعلیم اِسلام سے پوری طرح سے واقف ہوں،بھیج دئیے جائیں تاکہ وہ اُن کے درمیان رہ کر اُن کو اِس نئے مذہب کی تعلیم دیں۔دراصل یہ ایک سازش تھی جو اِسلام کے پکے دشمن بنولحیان نے کی تھی اور ان کا مقصد یہ تھا کہ جب یہ نمائندے مسلمانوں کو لے کر آئیں گے تو وہ اُن کو قتل کر کے اپنے رئیس سفیان بن خالد کا بدلہ لیں گے۔چنانچہ اُنہوں نے عضل اور قارۃ کے نمائندوں کو اِس غرض سے کہ وہ چند مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے آئیں، انعام کے بڑے بڑے وعدے دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تھا۔ جب عضل اور قارۃ کے لوگوں نے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر درخواست کی تو آپ نے اُن کی بات پر اعتبار کر کے دس مسلمانوں کو اُن کے ساتھ کر دیا کہ ان کو اِسلام کے عقائد اور اصولوں کی تعلیم دیں ۔ جب یہ جماعت بنولحیان کے علاقہ میں پہنچی تو عضل اور قارۃ کے لوگوں نے بنولحیان کو اطلاع بھجوادی ور اُن کو کہلا بھیجا کہ مسلمانوں کو یاتوگرفتار کر لیں یا موت کے گھاٹ اُتار دیں۔ اِس ناپاک منصوبے کے ماتحت بنولحیان کے دو سَو مسلح آدمی مسلمانو ں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور آخر مقامِ رجیع میں اُن کو آگھیرا۔دس مسلمانوں اور دو سَو دشمنوں کے درمیان لڑائی ہوئی۔ مسلمانوں کے دل نورِ ایمان سے پُر تھے اور دشمن اِس سے تہی تھے۔دس مسلمان ایک ٹیلہ پر چڑھ گئے اور دو سَو آدمیوں کو دعوتِ مبارزت دی۔دشمن نے ایک فریب کر کے اُن کو گرفتار کرنا چاہااور اُن سے کہا کہ اگر تم نیچے اُتر آئو توتمہیں کچھ نہ کہا جائے گا،مگر مسلمانوں کے امیر نے کہا کہ ہم کافروں کے عہدوپیمان کو خوب دیکھ چکے ہیں۔اس کے بعد اُنہوں نے آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر کہا اے خدا! تو ہماری حالت کو دیکھ رہا ہے اپنے رسول کو ہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے۔جب کفّار نے دیکھا کہ مسلمانوں کی اِس چھوٹی سی جماعت پر اُن کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا تو انہوں نے اُن پر حملہ کر دیا اور مسلمان بغیر خوفِ شکست کے لڑتے چلے گئے،یہاں تک کہ دس میں سے سات شہید ہو گئے۔باقی تین جو بچ رہے تھے اُن کو کفّار نے پھروعدہ دیاکہ ہم تمہاری جانیں بچا لیں گے بشرطیکہ تم ٹیلے سے نیچے اُتر آئو۔ لیکن جب وہ کفّار کے وعدہ پر اعتبار کرکے نیچے اُتر آئے تو کفار نے اُنہیں اپنی کمانوں کی تانتوں سے جکڑ کر باندھ لیا۔اِس پر اُن میں سے ایک نے کہا کہ یہ پہلی خلاف ورزی ہے جو تم اپنے عہد کی کر رہے ہواللہ ہی جانتا ہے کہ تم اِس کے بعد کیا کرو گے۔یہ کہہ کر اُس نے اُن کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔کفّارنے اُس کو مارنا اور گھسیٹنا شروع کر دیا۔مگر آخر اُس کے مقابلے اور استقلال سے اِس قدر مایوس ہو گئے کہ اُنہوں نے اُس کو وہیں قتل کر دیا۔باقی دو کو وہ ساتھ لے گئے اور بطور غلاموں کے قریش مکہ کے پاس فروخت کر دیا۲۷۱؎ ان میں سے ایک کا نام خبیبؓ تھااور دوسرے کا زید۔خبیبؓ کا خریدار اپنے باپ کا بدلہ لینے کے لئے جسے خبیبؓ نے جنگِ بدر میں قتل کیا تھاخبیب کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ایک دن خبیب ؓ نے اپنی ضرورت کے لئے اُسترا مانگا۔اُسترا خبیبؓ کے ہاتھ میں تھا کہ گھر والوں کا ایک بچہ کھیلتے ہوئے اُس کے پاس چلا گیا۔خبیب ؓ نے اِس کو اُٹھا کر اپنی ران پر بیٹھا لیا۔بچے کی ماں نے جب یہ دیکھا تو دہشت زدہ ہو گئی اور اُسے یقین ہوگیا کہ اب خبیبؓ بچے کو قتل کر دے گاکیونکہ وہ خبیبؓ کو چند دنوں میں قتل کرنے والے تھے۔ اُس وقت اُسترا اُس کے ہاتھ میں تھا اوربچہ اُس کے اتنا قریب تھاکہ وہ اُسے نقصان پہنچا سکتا تھا۔ خبیبؓ نے اُس کے چہرے سے پریشانی کو بھانپ لیا اور کہا کہ کیا تم خیال کرتی ہو کہ میں تمہارے بچے کو قتل کردونگا؟ یہ خیال کبھی دل میں نہ لائو میں ایسا بُرا فعل نہیں کر سکتا۔ مسلمان دھوکا باز نہیں ہوتے۔ وہ عورت خبیبؓ کے اِس دیانتدارانہ اور صحیح طریق عمل سے بہت متأثر ہوئی۔ اِس بات کو اُس نے ہمیشہ یاد رکھا اور ہمیشہ کہا کرتی تھی کہ میں نے خبیبؓ سا قیدی کوئی نہیں دیکھا۔ آخر کار مکّہ والے خبیبؓ کو ایک کھلے میدان میں لے گئے تا اُس کو قتل کر کے جشن منائیں۔ جب اُن کے قتل کا وقت آن پہنچاتو خبیبؓ نے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ قریش نے اُن کی یہ بات مان لی اور خبیبؓ نے سب کے سامنے اِس دنیا میں آخری بار اپنے اللہ کی عبادت کی۔ جب وہ نماز ختم کر چکے تو اُنہوں نے کہا کہ میں اپنی نماز جاری رکھنا چاہتا تھامگر اس خیال سے ختم کر دی ہے کہ کہیں تم یہ نہ سمجھو کہ میں مرنے سے ڈرتا ہوں۔پھر آرام سے اپنا سر قاتل کے سامنے رکھ دیااور ایسا کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے:
وَلَسْتُ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا
عَلٰی اَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ
وَذٰلِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِلٰہِ وَاِنْ یَّشَأْ
یُبَارِکُ عَلٰی اَوصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعٖ۲۷۲؎
یعنی جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے پرواہ نہیں ہے کہ میں کس پہلو پر قتل ہو کر گروں۔یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے۔اور اگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا۔
خبیبؓ نے ابھی یہ شعر ختم نہ کیے تھے کہ جلاد کی تلوار اُن کی گردن پر پڑی اور اُن کا سر خاک پر آگرا۔ جو لوگ یہ جشن منانے کے لئے جمع ہوئے تھے اُن میں ایک شخص سعید بن عامر بھی تھاجو بعد میں مسلمان ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ جب کبھی خبیبؓ کے قتل کا ذکر سعید کے سامنے ہوتا تو اس کو غش آجایا کرتا۔۲۷۳؎
دوسرا قیدی زید بھی قتل کرنے کے لئے باہر لے جایا گیا۔اِس تماشہ کو دیکھنے والوں میں ابوسفیان رئیس مکہ بھی تھا۔وہ زید کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ محمدؐ تمہاری جگہ پر ہواور تم اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہو؟زیدؓ نے بڑے غصہ سے جواب دیا کہ ابوسفیان!تم کیا کہتے ہو؟ خدا کی قسم! میرے لئے مرنا اِس سے بہتر ہے کہ آنحضرتﷺ کے پائوں کو مدینہ کی گلیوں میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے۔اِس فدائیت سے ابوسفیان متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکااور اُس نے حیرت سے زید کی طرف دیکھااور فوراً ہی دبی زبان میں کہاکہ خدا گواہ ہے کہ جس طرح محمدؐکے ساتھ محمدؐ کے ساتھی محبت کرتے ہیں میں نے نہیں دیکھاکہ کوئی اور شخص کسی سے محبت کرتا ہو۔۲۷۴؎
۷۰ حفاظِ قرآن کے قتل کا حادثہ
انہی ایام کے قریب قریب نجد کے کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے
تااُن کے ساتھ چند مسلمانوں کو بھیج دیا جائے تاکہ وہ اُن کو اِسلام سکھلائیں۔آنحضرتﷺ نے اُن کا اعتبارنہ کیا۔مگر ابوبراء نے جو اُس وقت مدینہ میں تھے کہاکہ میں اس قبیلہ کی طرف سے ضمانتی بنتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین دلایا کہ وہ کوئی شرارت نہیں کریں گے۔ اِس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷۰ مسلمانوں کو جو حافظ قرآن تھے اِس کام کے لئے انتخاب کیا۔جب یہ جماعت بئر معونہ پرپہنچی تو اُن میں سے ایک شخص حرام بن ملحان قبیلہ عامر کے رئیس کے پاس گیا جو ابوبراء کا بھتیجا تھاتاکہ اُس کو اِسلام کا پیغام دے۔بظاہر قبیلہ والوں نے حرام کا اچھی طرح استقبال کیا مگر جس وقت وہ رئیس کے سامنے تقریر کر رہے تھے تو ایک آدمی چھپ کر پیچھے سے آیااوراُن پر نیزہ سے حملہ کیا۔حرامؓ وہیں مارے گئے۔جب نیزہ اُن کے گلے سے پار ہوا تو وہ یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ یعنی اللہ اکبر۔کعبہ کے ربّ کی قسم !میں اپنی مراد کو پہنچ گیا۔۲۷۵؎
اِس دھوکا بازی سے حرامؓ کے قتل کرنے کے بعد قبیلہ کے سرداروں نے اہلِ قبیلہ کو جوش دلایاکہ باقی جماعت معلّمین پر بھی حملہ کریں۔مگر قبیلہ والوں نے کہا کہ ہمارے رئیس ابوبراء نے ضامن بننا منظور کیا ہے ہم اِس جماعت پر حملہ نہیں کر سکتے۔اس پر قبیلہ کے سرداروں نے اُن دو قبیلوںکی مددکے ساتھ جو مسلمان معلّمین کو لانے کے لئے گئے تھے،جماعت معلّمین پر حملہ کر دیا۔ اُن کا یہ کہنا کہ ہم وعظ کرنے اور اِسلام سکھانے آئے ہیں لڑنے نہیں آئے بالکل کارگر نہ ہوا اور کفار نے مسلمانوں کوقتل کرنا شروع کردیا۔آخر تین آدمیوں کے سِوا باقی سب شہید ہوگئے۔ اس جماعت میں سے ایک آدمی لنگڑا تھااور لڑائی ہونے سے پہلے پہاڑی پر چڑھ گیا تھااور دو اُونٹ چرانے جنگل کو گئے ہوئے تھے۔ واپسی پر اُنہوں نے دیکھا کہ اُن کے چھیاسٹھ ساتھی میدان میں مرے پڑے ہیں۔ دونوںنے آپس میں مشورہ کیا۔ ایک نے کہاکہ ہمیں چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اِس حادثہ کی اطلاع دیں۔ دسرے نے کہا جہاں ہماری جماعت کا سردار جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا امیر مقرر کیا تھاقتل کیا گیاہے میں اُس جگہ کو چھوڑ نہیں سکتا۔یہ کہتے ہوئے وہ تن تنہا کفّار پر حملہ آور ہوااور لڑتا ہوا مارا گیا۔دوسرے کو گرفتار کر لیا گیامگر بعد میں ایک قسم کی بناء پر جو قبیلہ کے ایک سردار نے کھائی تھی وہ چھوڑدیا گیا۔ قتل ہونے والوں میں عامربن فہیرہ بھی تھے جو حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام تھے۔اُن کا قاتل ایک شخص جبار بن سلمٰی تھاجو بعد میں مسلمان ہو گیا۔جبار کہا کرتا تھا کہ عامر کا قتل ہی میرے مسلمان ہونے کا موجب ہواتھا۔جبار کہتا ہے کہ جب میں جبار کو قتل کرنے لگاتو میں نے عامر کو یہ کہتے سنا فُزْتُ وَاللّٰہِخدا کی قسم! میں نے اپنی مراد کو پالیا۔اس کے بعد میں نے ایک شخص سے پوچھا۔جب مسلمان کو موت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ ایسی باتیں کیوں کرتا ہے؟ اُس شخص نے جواب دیا کہ مسلمان اللہ کی راہ میں موت کو نعمت اور فتح سمجھتا ہے۔جبار پر اِس جواب کا ایسا اثر ہواکہ اُس نے اِسلام کا باقاعدہ مطالعہ شروع کر دیا اور بِالآخر مسلمان ہو گیا۔۲۷۶؎
ان دو اندوہناک واقعات کی خبر جس میں قریباً ۸۰ مسلمان ایک شرارت آمیز سازش کے نتیجے میں شہید ہو گئے تھے فوراً مدینہ پہنچ گئی۔ مقتولین کوئی معمولی آدمی نہ تھے بلکہ حفّاظِ قرآن تھے۔ وہ کسی جرم کے مرتکب نہیں ہوئے تھے، نہ اُنہوں نے کسی کو دُکھ دیا تھا۔ وہ کسی جنگ میں بھی شریک نہیں تھے بلکہ اللہ اور مذہب کا جھوٹا واسطہ دیکر وہ دھوکے سے دشمن کے تصرف میں دے دیئے گئے تھے۔اِن واقعات سے بِلا شک و شبہ ثابت ہوتا ہے کہ کفّار کو اِسلام سے سخت دشمنی تھی۔اس کے بِالمقابل اِسلام کے حق میں مسلمانوں کا جوش بھی نہایت گہرا اور پائدار تھا۔
غزوہ بنی مصطلق
جنگِ اُحد کے بعد مکّہ میں سخت قحط پڑا۔مکّہ والوں کو جو دشمنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی اور جو تدابیر وہ آپ کے برخلاف لوگوں کے
درمیان نفرت پھیلانے کی ملک بھر میں کر رہے تھے،بالکل نظر انداز کر کے آنحضرت ﷺنے اِس سخت مصیبت کے وقت میں مکّہ کے غرباء کی امداد کے لئے ایک رقم جمع کی،مگر اِس خیرخواہی کا بھی اہلِ مکہ پر کچھ اثر نہ ہوااور اُن کی دشمنی میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ وہ دشمنی میں اَور بھی بڑھ گئے۔ ایسے قبائل بھی جو پہلے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کرتے تھے دشمن بن گئے۔ اِن قبائل میں سے ایک قبیلہ بنی مصطلق تھا۔ اُن کے تعلقات مسلمانوں کے ساتھ اچھے تھے مگراب اُنہوں نے مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری شروع کر دی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کی تیاری کا علم ہوا تو آپ نے حقیقت حال دریافت کرنے کے لئے کچھ آدمی بھیجے۔ جنہوں نے واپس آکر اُن اطلاعات کی تصدیق کی۔ اِس پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ خود جا کر اس نئے حملہ کا مقابلہ کریں۔ چنانچہ آپ نے ایک فوج تیار کی اور اُسے لے کر بنو مصطلق کی طرف گئے۔ جب مسلمانوں کی فوج کا دشمن سے مقابلہ ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوشش کی کہ دشمن بغیر لڑائی کے پیچھے ہٹ جانے پر آمادہ ہوجائے مگر اُنہوں نے انکار کیا۔ اِس پر جنگ ہوئی اور چند گھنٹوں کے اندر دشمن کو شکست ہو گئی۔
چونکہ کفّارِ مکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے تھے اور جو قبائل دوست تھے وہ بھی دشمن بن رہے تھے، اس لئے اُن منافقین نے بھی جو مسلمانوں کے درمیان موجود تھے اِس موقع پر یہ جرأت کی کہ وہ مسلمانوں کی طرف سے ہو کر جنگ میں حصہ لیں۔ غالباً اُن کا خیال تھا کہ اس طرح اُنہیں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا موقع مل سکے گا مگر بنو مصطلق کے ساتھ جو لڑائی ہوئی وہ چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی اِس لئے اِس لڑائی کے دوران میں منافقین کو کوئی شرارت کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ بنو مصطلق کے قصبہ میں کچھ دن قیام فرمائیں۔ آپ کے قیام کے دوران میں ایک مکہ کے رہنے والے مسلمان کا ایک مدینہ کے رہنے والے مسلمان سے کنویں سے پانی نکالنے کے متعلق جھگڑا ہو گیا۔ اتفاق سے یہ مکہ والا آدمی ایک آزاد شدہ غلام تھا اُس نے مدینہ والے شخص کو مارا۔ جس پر اُس نے اہل مدینہ کو جنہیں انصار کہتے تھے پکارا اور مکہ والے نے مہاجرین کو پکارا۔ اِس طرح جوش پھیل گیا۔ کسی نے یہ دریافت کرنے کی کوشش نہ کی کہ اصل واقعہ کیا ہے۔ دونوں طرف کے جوان آدمیوں نے تلواریں نکال لیں۔ عبداللہ بن ابی بن سلول سمجھا کہ ایسا موقع خدا نے مہیا کر دیاہے۔ اُس نے چاہا کہ آگ پر تیل ڈالے اور اہل مدینہ کو مخاطب کر کے کہا کہ اِن مہاجرین پر تمہاری مہربانی حد سے بڑھ گئی ہے اور تمہارے نیک سلوک سے اُن کے سر پھر گئے ہیں اور یہ دن بدن تمہارے سرپر چڑھتے جاتے ہیں۔ قریب تھا کہ اِس تقریر کا وہی اثر ہو ا ہوتاجو عبداللہ چاہتا تھا اور جھگڑا شدت پکڑ جاتا مگر ایسا نہ ہوا۔ عبداللہ نے اپنی شر انگیز تقریر کا اندازہ لگانے میں غلطی کی تھی اور یہ سمجھتے ہوئے کہ انصار پر اس کا اثر ہو گیا ہے، اُس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم مدینہ میں واپس پہنچ لیں پھر جو معزز ترین انسان ہے وہ ذلیل ترین انسان کو باہر نکال دے گا۔ معزز ترین انسان سے اُس کی مراد وہ خود تھا اور ارذل ترین سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ)۔ جو نہی یہ بات اُس کے منہ سے نکلی مؤمنوں پر اُس کی حقیقت کھل گئی اور انہوں نے کہا کہ یہ معمولی بات نہیں بلکہ یہ شیطان کا قول ہے جو ہمیں گمراہ کرنے آیا ہے۔ ایک جوان آدمی اُٹھا اور اپنے چچا کے ذریعے اُس نے یہ خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دی۔ آپ نے عبداللہ بن ابی بن سلول اور اُس کے دوستوں کو بلایا اور پوچھا کیا بات ہوئی ہے؟ عبداللہ نے اور اس کے دوستوں نے بالکل انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ واقعہ جو ہمارے ذمہ لگایا گیا ہے ہوا ہی نہیں۔ آپ نے کچھ نہ کہا۔ لیکن سچی بات پھیلنی شروع ہو گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد عبداللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے عبداللہ نے بھی یہ بات سنی۔ وہ فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا ۔ اے اللہ کے نبی! میرے باپ نے آپ کی ہتک کی ہے اُس کی سزا موت ہے اگر آپ یہی فیصلہ کریں تو میں پسند کرتا ہوںکہ آپ مجھے حکم دیں کہ میں اپنے باپ کو قتل کروں۔ اگر آپ کسی اور کو حکم دیں گے اور میرا باپ اُس کے ہاتھوں مارا جائے گا تو ہو سکتا ہے کہ میں اُس آدمی کو قتل کر کے اپنے باپ کا بدلہ لوں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے لوں۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میرا ہر گز ارادہ نہیں میں تمہارے والد کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا سلوک کروں گا۔ جب عبداللہ نے اپنے باپ کی بیوفائی اور درشت کلامی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نرمی اور مہربانی سے مقابلہ کیا تو اس کا ایمان اور بڑھ گیا اور اپنے باپ کے خلاف اُس کا غصہ بھی اُسی نسبت سے ترقی کر گیا۔ جب لشکرمدینہ کے قریب پہنچا تو اس نے آگے بڑھ کر اپنے باپ کا راستہ روک لیا اور کہا میں تم کو مدینہ کے اندر داخل نہیں ہونے دوں گاتا وقتیکہ تم وہ الفاظ واپس نہ لے لوجو تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف استعمال کئے ہیں۔ جس منہ سے یہ بات نکلی ہے کہ خد اکا نبی ذلیل ہے اور تم معزز ہو اُسی منہ سے تم کو یہ بات کہنی ہو گی کہ خد اکا نبی معزز ہے اور تم ذلیل ہو۔ جب تک تم یہ نہ کہو میں تمہیں ہرگز آگے نہ جانے دوں گا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول حیران اور خوفزدہ ہو گیا اور کہنے لگا اے میرے بیٹے! میں تمہارے ساتھ اتفاق کرتا ہوں، محمد معزز ہے اور میں ذلیل ہوں۔ نوجوان عبداللہ نے اس پر اپنے باپ کو چھوڑ دیا۔ ۲۷۷؎
مدینہ پر سارے عرب کی چڑھائی
غزوہ خندق
اس سے پہلے یہود کے دو قبیلوں کا ذکر کیا جا چکا ہے جو لڑائی، فساد،قتل اور قتل کرنے کے منصوبوں کی وجہ سے مدینہ سے جلاوطن کر دیئے گئے تھے۔ ان
میں سے بنو نضیر کا کچھ حصہ تو شام کی طرف ہجرت کر گیا تھا اور کچھ حصہ مدینہ سے شمال کی طرف خیبر نامی ایک شہر کی طرف ہجرت کر گیا تھا۔ خیبر عرب میں یہود کا ایک بہت بڑا مرکز تھا اورایک قلعہ بند شہر تھا۔ یہاں جا کر بنو نضیر نے مسلمانوں کے خلاف عربوں میں جوش پھیلانا شروع کیا۔ مکہ والے تو پہلے ہی مخالف تھے، کسی مزید انگیخت کے محتاج نہ تھے۔ اسی طرح غطفان نامی نجد کا قبیلہ جو عرب کے قبیلوں میں بہت بڑی حیثیت رکھتا تھا وہ بھی مکہ والوں کی دوستی میں اِسلام کی دشمنی پر آمادہ رہتا تھا۔ اب یہود نے قریش اور غطفان کو جوش دلانے کے علاوہ بنو سلیم اور بنواسد دو اَور زبردست قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف اُکسانا شروع کیا اور اسی طرح بنوسعد نامی قبیلہ جو یہود کا حلیف تھا اُس کو بھی کفّارِ مکہ کاساتھ دینے کے لئے تیا رکیا۔ ایک لمبی تیاری کے بعد عرب کے تمام زبردست قبائل کے ایک اتحادِ عام کی بنیاد رکھ دی گئی جس میں مکہ کے لوگ بھی شامل تھے۔ مکہ کے اِردگرد کے قبائل بھی تھے اور نجد اور مدینہ سے شمال کی طرف کے علاقوں کے قبائل بھی شامل تھے اور یہود بھی شامل تھے۔ اِن سب قبائل نے مل کر مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لئے ایک زبردست لشکر تیار کیا۔ یہ ماہ شوال ۵ہجری آخر فروری و مارچ ۶۲۷ء کا واقعہ ہے۔۲۷۸؎ مختلف مؤرخوں نے اس لشکر کا اندازہ دس ہزار سے چوبیس ہزار تک لگایا ہے۔لیکن ظاہر ہے کہ تمام عرب کے اجتماع کا نتیجہ صرف دس ہزار سپاہی نہیں ہو سکتا یقینا چوبیس ہزار والا اندازہ زیادہ صحیح ہے اور اگر اور کچھ نہیں تو یہ لشکر اٹھارہ بیس ہزار کا تو ضرور ہوگا۔ مدینہ ایک معمولی قصبہ تھا اِس قصبہ کے خلاف سارے عرب کی چڑھائی کوئی معمولی نہیں تھی۔ مدینہ کے مرد جمع کر کے (جن میں بوڑھے، جوان اور بچے بھی شامل ہوں) صرف تین ہزار آدمی نکل سکتے تھے اس کے برخلاف دشمن کی فوج بیس اور چوبیس ہزار کے درمیان تھی اور پھر وہ سب کے سب فوجی آدمی تھے۔ جوان اور لڑنے کے قابل تھے۔ کیونکہ جب شہر میں رہ کر حفاظت کا سوال پیدا ہوتاہے تو اس میں بچے اور بوڑھے بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ مگر جب دُور دراز مقام پر لشکر چڑھائی کر کے جاتا ہے تو اُس میں صرف جوان اور مضبوط آدمی ہوتے ہیں۔ پس یہ بات یقینی ہے کہ کفّار کے لشکر میں بیس ہزار یا پچیس ہزار جتنے بھی آدمی تھے وہ سب کے سب مضبوط ، جوان اور تجربہ کار سپاہی تھے۔ لیکن مدینہ کے کل مردوں کی تعداد بچوں اور اپاہچوں کو ملا کر بمشکل تین ہزار ہوتی تھی۔ ظاہر ہے کہ ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر مدینہ کے لشکر کی تعداد تین ہزار سمجھی جائے تو دشمن کی تعداد چالیس ہزار سمجھنی چاہئے اور اگر دشمن کے لشکر کی تعداد بیس ہزار سمجھی جائے تو مدینہ کے سپاہیوں کی تعداد صرف ڈیڑھ ہزار فرض کرنی چاہئے۔ جب اِس لشکر کے جمع ہونے اور حملہ کی تیاریوں کی خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے صحابہ کو جمع کر کے مشورہ کیا کہ اس موقع پر کیا کرنا چاہئے۔ صحابہ میں سلمانؓ فارسی سے جو سب سے پہلے فارسی مسلمان تھے دریافت فرمایا کہ تمہارے ملک میں ایسے موقع پر کیا کیا کرتے ہیں؟ تو اُنہوںنے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! جب شہر بے حفاظت ہو اور سپاہی تھوڑے ہوں تو ہمارے ملک کے لوگ خندق کھود کر اُس کے اندر محصور ہوجایا کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی یہ تجویز پسند فرمائی۔ مدینہ کے ایک طرف ٹیلے تھے دوسری طرف ایسے محلے تھے جن کے مکانات ایک دوسرے سے پیوستہ تھے اور دشمن صرف چند گلیوں میں سے ہو کر آسکتا تھا۔ تیسری طرف کچھ مکانات تھے اور کچھ باغات اور کچھ فاصلہ پر یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے قلعے تھے۔ یہ قبیلہ چونکہ مسلمانوں سے اتحاد کا معاہدہ کر چکاتھا اِس لیے یہ سمت بھی محفوظ سمجھ لی گئی تھی۔ چوتھی طرف کھلا میدان تھا اور اس طرف سے زیادہ خطرہ ہو سکتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ اِس کھلے میدان کی طرف خندق بنا دی جائے تاکہ دشمن اچانک شہر میں داخل نہ ہو سکے۔ چنانچہ آپ نے دس دس گز کا حصہ کھولنے کیلئے دس دس آدمیوں کے سپرد کر دیا اور اس طرح قریباً ایک میل لمبی خندق کھدوائی۔ جب خندق کھودی جارہی تھی تو زمین میں سے ایک ایسا پتھر نکلا جو کسی طرح لوگوں سے ٹوٹتا نہیں تھا۔ صحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس بات کی خبر دی تو آپ وہاں خود تشریف لے گئے۔ اپنے ہاتھ میں کدال پکڑا اور زور سے اُس پتھر پر مارا۔ کدال کے پڑنے سے اس پتھر میں سے روشنی نکلی اور آپ نے فرمایا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ پھر دوبارہ آپ نے کدال مارا تو پھر روشنی نکلی پھر آپ نے فرمایا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ پھر آپ نے تیسری دفعہ کدال مارا اور پھر پتھر سے روشنی نکلی اور ساتھ ہی پتھر ٹوٹ گیا۔اس موقع پر پھر آپ نے فرمایا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ صحابہؓ نے آپ سے پوچھا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ نے تین دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرُکیوں فرمایا؟ آپ نے فرمایا پتھر پر کدال پڑنے سے تین دفعہ جو روشنی نکلی تو تینوں دفعہ خدا نے مجھے اسلا م کی آئندہ ترقیات کا نقشہ دکھایا۔ پہلی دفعہ کی روشنی میں مملکت قیصر کے شام کے محلات دکھائے گئے اور اُس کی کنجیاں مجھے دی گئیں، دوسری دفعہ کی روشنی میں مدائن کے سفید محلات مجھے دکھائے گئے اورمملکت فارس کی کنجیاں مجھے دی گئیں، تیسری دفعہ کی روشنی میں صنعاء کے دروازے مجھے دکھائے گئے اور مملکت یمن کی کنجیاں مجھے دی گئیں۔۲۷۹؎ پس تم خد اکے وعدوں پر یقین رکھو دشمن تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
یہ تھوڑے سے آدمی اتنی لمبی خندق فوجی اصول کے مطابق تو نہیں کھود سکتے تھے۔ پس یہ خندق اتنا ہی فائدہ دے سکتی تھی کہ دشمن اچانک اندر نہ گھس آئے ورنہ اس خندق سے پار ہونا دشمن کیلئے نا ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ آئندہ جو واقعات بیان ہوں گے اُن سے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے کہ دشمن نے بھی مدینہ کے حالات کو مدنظر رکھ کر اُسی طرف سے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔ چنانچہ دشمن کا لشکر جرار اسی طرف سے مدینہ میں داخل ہونے کیلئے آگے بڑھا۔ رسول کریم ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے بھی کچھ لوگوں کو شہر کے دوسرے حصوں کی حفاظت کیلئے مقرر کر دیا اور بقیہ آدمیوں کو ساتھ لے کر جو بارہ سَو کے قریب تھے خندق کی حفاظت کیلئے تشریف لے گئے۔
غزوہ خندق کے وقت اِسلامی لشکر کی اصل تعداد کیا تھی؟
اِس موقع پر مسلمانوں کے لشکر کی تعداد کے بارہ میں مؤرخین میں سخت اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے اس لشکر کی تعداد تین ہزار لکھی ہے بعض نے
بارہ تیرہ سَو اور بعض نے سات سَو۔ یہ اتنا بڑا اختلاف ہے کہ اس کی تأویل بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہے اور مؤرخین اسے حل نہیں کر سکے۔ لیکن میں نے اس کی حقیقت کو پالیا ہے اور وہ یہ کہ تینوں قسم کی روایتیں درست ہیں۔ یہ بتایا جا چکاہے کہ جنگ اُحد میں منافقین کے واپس آجانے کے بعد مسلمانوں کا لشکر صرف سات سَو افراد پر مشتمل تھا۔ جنگ احزاب اس کے صرف دو سال کے بعد ہوئی ہے اور اس عرصہ میں کوئی بڑا قبیلہ اِسلام لا کر مدینہ میں آکر نہیں بسا۔ پس سات سَو آدمیوں کا یکدم تین ہزار ہو جانا قرین قیاس نہیں۔ دوسری طرف یہ امر بھی قرین قیاس نہیں کہ اُحد کے دو سال بعد تک باوجود اِسلام کی ترقی کے قابلِ جنگ مسلمان اتنے ہی رہے جتنے اُحد کے وقت تھے۔ پس اِن دونوں تنقیدوں کے بعد وہ روایت ہی درست معلوم ہوتی ہے کہ لڑنے کے قابل مسلمان جنگ احزاب کے وقت کوئی بارہ سَو تھے۔ اب رہا یہ سوال کہ پھر کسی نے تین ہزار اور کسی نے سات سَو کیوں لکھا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دو روایتیں الگ الگ حالتوں اور نظریوں کے ماتحت بیان کی گئی ہیں۔ جنگ احزاب کے تین حصے تھے ایک حصہ اس کا وہ تھا جب ابھی دشمن مدینہ کے سامنے نہ آیا تھا اور خندق کھودی جار ہی تھی۔ اس کام میں کم سے کم مٹی ڈھونے کی خدمت بچے بھی کر سکتے تھے اور بعض عورتیں بھی اس کام میں مدد دے سکتی تھیں۔ پس جب تک خندق کھودنے کاکام رہا مسلمان لشکر کی تعداد تین ہزار تھی مگر اِس میںبچے بھی شامل تھے اورصحابیہ عورتوں کے جوش کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اِس تعداد میں کچھ عورتیں بھی شامل ہوں گی جو خندق کھودنے کا کام تو نہیں کرتی ہوں گی مگر اوپر کے کاموں میں حصہ لیتی ہوں گی۔ یہ میرا خیال ہی نہیں تاریخ سے بھی میرے اس خیال کی تصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے جب خندق کھودنے کا وقت آیا سب لڑکے بھی جمع کر لئے گئے اور تمام مرد خواہ بڑے تھے خواہ بچے، خندق کھودنے یا اُس میں مدد دینے کا کام کرتے تھے، پھر جب دشمن آگیا اور لڑائی شروع ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن تمام لڑکو ں کو جو پندرہ سال سے چھوٹی عمر کے تھے چلے جانے کا حکم دیا اور جو پندرہ سال کے ہو چکے تھے، اُنہیں اجازت دی کہ خواہ ٹھہریں خواہ چلے جائیں۔ ۲۸۰؎
اِس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خندق کھودنے کے وقت مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی اور جنگ کے وقت کم ہو گئی کیونکہ نابالغوں کو واپس چلے جانے کا حکم دے دیا گیا تھا۔ پس جن روایتوں میں تین ہزار کا ذکر آیا ہے وہ خندق کھودنے کے وقت کی تعداد بتاتی ہیں جس میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔ اور جیسا کہ میں نے دوسری جنگوں پر قیاس کر کے نتیجہ نکالا ہے کچھ عورتیں بھی تھیں۔ لیکن بارہ سَو کی تعداد اُس وقت کی ہے جب جنگ شروع ہوگئی اور صرف بالغ مرد رہ گئے۔
اب رہا یہ سوال کہ تیسری روایت جو سات سَو سپاہی بتاتی ہے کیا وہ بھی درست ہے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت ابن اسحق مؤرخ نے بیان کی ہے جو بہت معتبر مؤرخ ہے اور ابن حزم جیسے زبردست عالم نے اِس کی بڑے زور سے تصدیق کی ہے۔ پس اس کے بارہ میں بھی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس کی تصدیق اس طرح بھی ہوتی ہے کہ تاریخ کی مزید چھان بین سے معلوم ہوتا ہے کہ جب جنگ کے دوران میں بنو قریظہ کفّار کے لشکر سے مل گئے اور اُنہوں نے یہ ارادہ کیا کہ مدینہ پر اچانک حملہ کر دیں اور اُن کی نیتوں کا راز فاش ہو گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی اس جہت کی حفاظت بھی ضروری سمجھی جس سمت بنو قریظہ تھے اور جو سمت پہلے اس خیال سے بے حفاظت چھوڑ دی گئی تھی کہ بنو قریظہ ہمارے اتحادی ہیں یہ دشمن کو اِس طرف سے نہ آنے دیں گے۔ چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بنو قریظہ کے غدر کا حال معلوم ہوا تو چونکہ مستورات بنو قریظہ کے اعتبار پر اس علاقہ میں رکھی گئی تھیں جدھر بنو قریظہ کے قلعے تھے اور وہ بغیر حفاظت تھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اب اُن کی حفاظت ضروری سمجھی اور دو لشکر مسلمانوں کے تیار کر کے عورتوں کے ٹھہرنے کے دونوں حصوں پر مقرر فرمائے۔ مسلمہ ابن اسلمؓ کو دو سَو صحابہ دے کر ایک جگہ مقرر کیا اور زید بن حارثہؓ کو تین سَو صحابہ دے کر دوسری جگہ مقرر کیا اور حکم دیا کہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد بلند آواز سے تکبیر کہتے رہا کریں تا معلوم ہوتا رہے کہ عورتیں محفوظ ہیں۔ اِس روایت سے ہماری یہ مشکل کہ سات سَو سپاہی جنگ خندق میں ابن اسحاق نے کیوں بتائے ہیں حل ہو جاتی ہے۔کیونکہ بارہ سَو سپاہیوں میں سے جب پانچ سَو سپاہی عورتوں کی حفاظت کے لئے بھجوا دیئے گئے تو بارہ سَو کا لشکر صرف سات سَو رہ گیا اور اس طرح جنگ خندق کے سپاہیوں کی تعداد کے متعلق جو شدید اختلاف تاریخوں میں پایا جاتا ہے وہ حل ہو گیا۔
خلاصہ یہ کہ اس خطرناک مصیبت کے وقت خندق کی حفاظت کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف سات سَو آدمی تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے خندق کھودی تھی لیکن پھر بھی اتنے بڑے لشکر کو خندق کے پار سے روکنا بھی اتنے تھوڑے آدمیوں کے لئے ناممکن تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی مدد کے بھروسہ پر یہ قلیل لشکر ایمان اور یقین کے ساتھ خندق کے پیچھے دشمن کے جرار لشکر کا انتظار کرنے لگا اور عورتیں اور بچے دو الگ الگ جگہوں پر اکٹھے کر دیئے گئے۔ دشمن جب خندق تک پہنچا تو چونکہ یہ عرب کے لئے ایک بالکل نئی بات تھی اور اس قسم کی لڑائی کے لئے وہ تیار نہ تھے اُنہوں نے خندق کے سامنے اپنے خیمے لگا دئیے اور مدینہ میں داخل ہونے کی تدبیریں سوچنے لگے۔
بنو قریظہ کی غداری
چونکہ مدینہ کا ایک کافی حصہ خندق سے محفوظ تھا اور دوسری طرف کچھ پہاڑی ٹیلے، کچھ پختہ مکانات اور کچھ باغات وغیرہ تھے، اس
لئیفوج یکدم حملہ نہیں کر سکتی تھی۔ پس اُنہوں نے مشورہ کر کے یہ تجویز کی کہ کسی طرح یہود کا تیسرا قبیلہ جو ابھی مدینہ میں باقی تھا اور جس کا نام بنو قریظہ تھا اپنے ساتھ ملا لیا جائے اور اس ذریعہ سے مدینہ تک پہنچنے کا راستہ کھولا جائے۔ چنانچہ مشورہ کے بعد حیی ابن اخطب جو جلاو طن کردہ بنو نضیر کا سردار تھا اور جس کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے سارا عرب اکٹھا ہوکرمدینہ پر حملہ آور ہوا تھا اُسے کفّار کی فوج کے کمانڈر ابوسفیان نے ا س بات پر مقرر کیا کہ جس طرح بھی ہو بنوقریظہ کو اپنے ساتھ شامل کرو، چنانچہ حیی ابن اخطب یہودیوں کے قلعوں کی طرف گیا اور اُس نے بنوقریظہ کے سرداروں سے ملنا چاہا۔ پہلے تو اُنہوں نے ملنے سے انکار کیا لیکن جب اُس نے اُن کو سمجھایا کہ اِس وقت سارا عرب مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے آیا ہے اور یہ بستی سارے عرب کا مقابلہ کسی صورت میں نہیں کر سکتی اِس وقت جو لشکر مسلمانوں کے مقابل پر کھڑا ہے اُس کو لشکر نہیں کہنا چاہئے بلکہ ایک ٹھاٹھیں مارنے والا سمندر کہنا چاہئے تو اِن باتوں سے اُس نے بنو قریظہ کو آخر غداری اور معاہدہ شکنی پر آمادہ کردیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ کفّار کا لشکر سامنے کی طرف سے خندق پار ہونے کی کوشش کرے اور جب وہ خندق پار ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے تو بنوقریظہ مدینہ کی دوسری طرف سے مدینہ کے اُس حصہ پر حملہ کردیں گے جہاں عورتیں اور بچے ہیں جو بنو قریظہ پر اعتبار کر کے بغیر حفاظت کے چھوڑ دیئے گئے تھے اور اس طرح مسلمانوں کی مقابلہ کی طاقت بالکل کچلی جائے گی اور ایک ہی دم میں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے سب مار دئیے جائیں گے۔ یہ یقینی بات ہے کہ اگر اِس تدبیر میں تھوڑی بہت کامیابی بھی کفّار کو ہو جاتی تو مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ حفاظت کی باقی نہیں رہتی تھی۔ بنو قریظہ مسلمانوں کے حلیف تھے اور اگر وہ کھلی جنگ میں شامل نہ بھی ہوتے تب بھی مسلمان یہ امید کرتے تھے کہ اُن کی طرف سے ہو کر مدینہ پر کوئی حملہ نہیں کر سکے گا۔ اسی وجہ سے اُن کی طرف کا حصہ بالکل غیر محفوظ چھوڑ دیا گیا تھا۔ بنو قریظہ اور کفّار نے بھی اس صورت حالات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ جب بنو قریظہ کفّار کے ساتھ مل گئے تو وہ کھلے بندوںکفّار کی مدد نہ کریں تا ایسا نہ ہو کہ مسلمان مدینہ کی اُس طرف کی حفاظت کا بھی کوئی سامان کر لیں جو بنو قویظہ کے علاقہ کے ساتھ ملتی تھی۔ یہ تدبیر نہایت ہی خطرناک تھی۔ مسلمانو ں کو غافل رکھتے ہوئے کسی ایسے وقت میں بنو قریظہ کا دشمن کے ساتھ جا ملنا جبکہ اسلامی فوج پر کفّار کی فوج کا زبردست دھاوا ہو رہاہو مدینہ کی اس طرف کی حفاظت کو جس طرف بنو قریظہ کے قلعے واقعہ تھے بالکل ناممکن بنا دیتا تھا۔ دو طرف سے مسلمانوں پر حملہ کر سکنے کا امکان پیدا ہو جانے کے بعد مکہ کے لشکر نے خندق پر حملہ شروع کیا۔ پہلے چند دن تو اُن کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ خندق سے کس طرح گزریں، لیکن دو چار دن کے بعد اُنہوں نے یہ تدبیر نکالی کہ تیرانداز اونچی جگہوں پر کھڑے ہو کر اُن مسلمان دستوں پر تیر اندازی شروع کر دیتے تھے جو خندق کی حفاظت کے لئے خندق کے ساتھ ساتھ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر بٹھائے گئے تھے۔ جب تیروں کی بوچھاڑ کی وجہ سے مسلمان پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جاتے تو اعلیٰ درجہ کے گھوڑ سوار خندق کو پھاندنے کی کوشش کرتے۔ خیال کیا گیا تھا کہ اِس قسم کے متواتر حملوں کے نتیجہ میں کوئی نہ کوئی جگہ ایسی نکل آئے گی کہ جہاں سے پیدل فوج زیادہ تعداد میں خندق پار ہو سکے گی۔یہ حملے اتنی کثرت کے ساتھ کئے جاتے تھے اور اِس طرح متواتر کئے جاتے تھے کہ بعض دفعہ مسلمانوں کو سانس لینے کا بھی موقع نہیں ملتا تھا۔ چنانچہ ایک دن حملہ اتنا شدید ہو گیا کہ مسلمانوں کی بعض نمازیں وقت پر ادا نہ ہو سکیں جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا صدمہ ہو اکہ آپ نے فرمایا خد اکفّار کو سزا دے اُنہو ںنے ہماری نمازیں ضائع کیں۔۲۸۱؎
گو میں نے یہ واقعہ دشمنوں کے حملوں کی شدت ظاہر کرنے کیلئے بیان کیا ہے، لیکن اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر ایک بہت بڑی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ترین چیز آپ کے لئے خداتعالیٰ کی عبادت تھی جبکہ دشمن چاروں طرف سے مدینہ کو گھیرے ہوئے تھا۔ جبکہ مدینہ کے مرد تو الگ رہے اُن عورتوں اور بچوں کی جانیں بھی خطرہ میں تھیں۔ جب ہر وقت مدینہ کے لوگوں کا دل دھڑک رہا تھا کہ دشمن کسی طرف سے مدینہ کے اندر داخل نہ ہو جائے اُس وقت بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش یہی تھی کہ خدا تعالیٰ کی عبادت اپنے وقت پر عمدگی کے ساتھ ادا ہو جائے۔ مسلمانوں کی عبادت یہودیوں اور عیسائیوں اور ہندوئوں کی طرح ہفتہ میں کسی ایک دن نہیں ہوا کرتی بلکہ مسلمانوں کی عبادت دن رات میں پانچ دفعہ ہوتی ہے۔ ایسے خطرناک وقت میں تو دن میں ایک دفعہ بھی نماز ادا کرنا انسان کے لئے مشکل ہے چہ جائیکہ پانچ وقت اور پھر عمدگی کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی جائے۔ مگر ان خطرناک ایام میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پانچوں نمازیں اپنے وقت پر ادا کرتے تھے اور اگر ایک دن دشمن کے شدید حملہ کی وجہ سے آپ اپنے ربّ کا نام اطمینان اور آرام سے اپنے وقت پر نہ لے سکے تو آپ کو شدید تکلیف پہنچی۔
اُس وقت سامنے سے دشمن حملہ کر رہا تھا اورپیچھے سے بنو قریظہ اس بات کی تاک میں تھے کہ کوئی موقع مل جائے تو بغیر مسلمانوں کے شبہات کو اُبھارنے کے وہ مدینہ کے اندر گھس کر عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیں۔ چنانچہ ایک دن بنو قریظہ نے ایک جاسوس بھیجا تاکہ وہ معلوم کرے کہ عورتیں اور بچے اکیلے ہی ہیں یا کافی تعداد سپاہیوں کی اُن کی حفاظت کے لئے مقرر ہے۔ جس خاص احاطہ میں وہ خاص خاص خاندان جن کو دشمن سے زیادہ خطرہ تھا جمع کر دیئے گئے تھے اُس کے پاس اُس جاسوس نے آکر منڈلانہ اور چاروں طرف دیکھنا شروع کیا کہ مسلمان سپاہی کہیں اِردگرد میں پوشیدہ تو نہیں ہیں۔ وہ ابھی اسی ٹوہ میں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے اُسے دیکھ لیا۔ اتفاقاً اُس وقت صرف ایک ہی مسلمان مرد وہاں موجود تھا اور وہ بھی بیمار تھا۔ حضرت صفیہؓ نے اُسے کہا کہ یہ آدمی دیر سے عورتوں کے علاقہ میں پھر رہا ہے اور جانے کا نام نہیں لیتا اور چاورں طرف دیکھتا پھر تاہے پس یہ یقینا جاسوس ہے تم اس کا مقابلہ کرو ایسا نہ ہو کہ دشمن پورے حالات معلوم کرکے اِدھر حملہ کر دے۔ اُس بیمار صحابی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ تب حضرت صفیہؓ نے خود ایک بڑا بانس لے کر اُس شخص کا مقابلہ کیا اور دوسری عورتوں کی مدد سے اُس کو مارنے میں کا میاب ہو گئیں۔۲۸۲؎ آخر تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ یہودی تھا اور بنو قریظہ کا جاسوس تھا۔ تب تو مسلمان اور بھی زیادہ گھبرا گئے اور سمجھے کہ اب مدینہ کی یہ طرف بھی محفوظ نہیں۔ مگر سامنے کی طرف سے دشمن کا اتنا زور تھا کہ اب وہ اس طرف کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں کر سکتے تھے لیکن باوجود اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی حفاظت کو مقدم سمجھا اور جیساکہ اُوپر لکھا جا چکا ہے بارہ سَو سپاہیوں میں سے پانچ سَو کو عورتوں کی حفاظت کے لئے شہر میں مقرر کر دیا اور خندق کی حفاظت اور اٹھارہ بیس ہزار لشکر کے مقابلہ کے لئے صرف سات سَو سپاہی رہ گئے۔ اِس حالت میں بعض مسلمان گھبرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! حالات نہایت خطرناک ہو گئے ہیں۔ اب بظاہر مدینہ کے بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی، آپ اِس وقت خدا تعالیٰ سے خاص طور پر دعا کریں اور ہمیں بھی کوئی دعا سکھلائیں جس کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کا فضل ہم پر نازل ہو۔ آپ نے فرمایا تم لوگ گھبرائو نہیں تم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرو کہ تمہاری کمزوریوں پر وہ پردہ ڈالے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کرے اور گھبراہٹ کو دور فرمائے۔ اور پھر آپ نے خود بھی اس طرح دعا فرمائی۔
اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتٰبِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِھْزِمِ الْاَحْزَابَ اَللّٰھُمَّ اھْزِمْھُمْ وَزَلْزِلْھُمْ۲۸۳؎ اور اسی طرح یہ دعا فرمائی۔ یَا صَرِیْخَ الْمَکْرُوْبِیْنَ یَاَمُجِیْبَ الْمُضْطَرِّیْنَ اکْشِفَْ ھَمِّیْ وَ غَمِّیْ وَکَرْبِیْ فَاِنَّکَ تَرٰی مَانَزَلَ بِیْ وَ بِاَصْحَابِیْ۲۸۴؎ اے اللہ! جس نے قرآن کریم مجھ پر نازل کیا ہے جو بہت جلدی اپنے بندوں سے حساب لے سکتا ہے یہ گروہ جو جمع ہوکر آئے ہیں اِن کو شکست دے۔ اے اللہ! میں پھر عرض کرتا ہوں کہ تو انہیں شکست دے اور ہمیں اِن پر غلبہ دے اور اُن کے ارادوںکو متزلزل کر دے۔ اے درد مندوں کی دعا سننے والے! اے گھبراہٹ میں مبتلا لوگوں کی پکار کا جواب دینے والے! میرے غم اور میری فکر اور میری گھبراہٹ کو دُور کر کیونکہ تو اِن مصائب کوجانتا ہے جو مجھے اور میرے ساتھیوں کو درپیش ہیں۔
منافقوں اور مؤمنوں کی حالت کا بیان
اِس موقع پر منافق تو اتنے گھبرا گئے کہ قومی حمیت اور اپنے شہر اور اپنی
عورتوں اور بچوں کی حفاظت کا خیال بھی اُن کے دلوں سے نکل گیا۔ مگر چونکہ اپنی قوم کے سامنے وہ ذلیل بھی نہیں ہونا چاہتے تھے اس لئے اُنہو ں نے بہانے بہانے سے لشکر سے فرار کی صورت سوچی۔ چنانچہ قرآن کریم میںآتا ہے۔ ۲۸۵؎ یعنی ایک گروہ اُن میں سے رسول کریم ﷺ کے پا س آیا اور آپ سے اجازت طلب کی کہ اُنہیں محاذِ جنگ سے پیچھے لوٹ آنے کی اجازت دی جائے۔ کیونکہ اُنہوں نے کہا ( اب یہودی بھی مخالف ہو گئے ہیں اور اُس طرف سے مدینہ کے بچائو کا کوئی ذریعہ نہیں) اور ہمارے گھر اُس علاقہ کی طرف سے بے حفاظت کھڑے ہیں( پس ہمیں اجازت دیجئے کہ جا کر اپنے گھروں کی حفاظت کریں) لیکن اُن کا یہ کہنا کہ اُن کے گھر بے حفاظت کھڑے ہیں بالکل غلط ہے۔ وہ بے حفاظت نہیں ہیں (کیونکہ خدا تعالیٰ مدینہ کی حفاظت کیلئے کھڑا ہے) وہ تو صرف ڈر کے مارے میدانِ جنگ سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ اُس وقت مسلمانوں کی جو حالت تھی اُس کا نقشہ قرآن کریم نے یوں کھینچا ہے۔ ۔۲۸۶؎ یعنی یاد تو کرو جب تم پر لشکر چڑھ کے آگیا تمہارے اوپر کی طر ف سے بھی اور نیچے کی طرف سے بھی۔ یعنی نیچے کی طرف سے کفّار اور اُوپر کی طرف سے یہود۔ جب کہ نظریں کج ہونے لگ گئیں اور دل اُچھل اُچھل کر گلے تک آنے لگے اور تم میں سے کئی خد اکی نسبت بدظنیاں کرنے لگ گئے۔ اُس وقت مؤمنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا اور مؤمنوں کو سر سے پیر تک ہلادیا گیا اور یاد کرو جبکہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض تھا اُنہوں نے کہنا شروع کیا ’’ اللہ اور اُس کے رسول نے ہم سے جھوٹے وعدے کئے تھے‘‘ اور یاد کرو جب اُن میں سے ایک گروہ اس حد تک پہنچ گیا کہ اُنہوں نے مؤمنوں سے بھی جا جا کر کہنا شروع کر دیا کہ اب کوئی چوکی یا قلعہ تمہیں بچا نہیں سکتا پس یہاں سے بھاگ جائو۔ اور مؤمنوں کی نسبت فرماتا ہے۔۲۸۷؎
یعنی منافقوں اور کمزور ایمان والوں کے مقابلہ میں مؤمنوں کا یہ حال تھا کہ جب اُنہوں نے دشمن کا یہ لشکر جرار دیکھا تو اُنہوںنے کہا کہ اس لشکر کے متعلق توا للہ اور اس کے رسول نے پہلے سے ہی ہم کو خبر دے چھوڑی تھی۔ اس لشکر کا حملہ تو اللہ اوراس کے رسول کی صداقت کا ثبوت ہے اور یہ لشکر جرار اُن کے ایمان کو ہلا نہ سکا۔ بلکہ ایمان اور طاقت میں مسلمان اور بھی زیادہ ہو گئے۔ مؤمنوں کا تو یہ حال ہے کہ اُنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اُس کو وہ پورے طور پر نبھا رہے ہیں چنانچہ کچھ تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنی جانیں دے کر اپنے مقصد کو حاصل کر لیا اور بعض ایسے ہیں کہ گو اُن کو جانیں دینے کا موقع تو نہیں ملا مگر وہ ہر وقت اس بات کی انتظار میں رہتے ہیں کہ اُن کو خدا کے رستہ میں جان دینے کا موقع ملے تو وہ جان دے دیں اور شروع دن سے اُنہوں نے خدا تعالیٰ سے جو عہد باندھا تھا اُس کو نبھا رہے ہیں۔
اِسلام میں مردہ لاش کا احترام
دشمن جو خندق پر حملہ کر رہا تھا بعض وقت وہ اُس کے پھاندنے میں کامیاب بھی ہو جاتا تھا، چنانچہ
ایک دن کفّار کے بعض بڑے بڑے جرنیل خندق پھاند کر دوسری طرف آنے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن مسلمانوں نے ایسا جان توڑحملہ کیا کہ سوائے واپس جانے کے اُن کے لئے کوئی چارہ نہ رہا۔ چنانچہ اُس وقت خندق پھاندتے ہوئے کفّار کا ایک بہت بڑا رئیس نوفل نامی مارا گیا۔ یہ اتنا بڑا رئیس تھا کہ کفّار نے یہ خیال کیا کہ اگر اس کی لاش کی ہتک ہوئی تو عرب میں ہمارے لئے منہ دکھانے کی کوئی جگہ نہیں رہے گی۔ چنانچہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر آپ اِس کی لاش واپس کر دیں تو وہ دس ہزار درہم آپ کو دینے کے لئے تیار ہیں۔ اُن لوگوں کا تو خیال یہ تھا کہ شاید جس طرح ہم نے مسلمان رئوساء بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے ناک اور کان اُحد کی جنگ میں کاٹ دئیے تھے اِسی طرح شاید آج مسلمان ہمارے اس رئیس کے ناک، کان کاٹ کر ہماری قوم کی بے عزتی کریں گے۔ مگر اسلام کے احکام تو بالکل اَور قسم کے ہیں۔ اسلام لاشوں کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا۔ چنانچہ کفّار کا پیغام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا۔ اِس لاش کو ہم نے کیا کرنا ہے یہ لاش ہمارے کس کام کی ہے کہ اس کے بدلہ ہم تم سے کوئی قیمت لیں۔ اپنی لاش بڑے شوق سے اُٹھا کر لے جائو۔ ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں۔۲۸۸؎
اتحادی فوجوں کے مسلمانوں پر حملے
اُن دنوں جس جوش کے ساتھ کفار حملہ کرتے تھے میوؔر اُس کا اِن الفاظ میں ذکر کرتا ہے۔
’’ دوسرے دن محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) نے دیکھا کہ اتحادی فوجیں متفقہ طور پر اُن پر حملے کرنے کے لئے تیار کھڑی ہیں، اُن کے حملوں کو روکنے کے لئے بہت زیادہ ہوشیار اور ہر وقت چوکس رہنا ضروری تھا۔ کبھی وہ متفقہ حملہ کرتے، کبھی دستوں میں تقسیم ہو کرمختلف چوکیوں پر حملہ کرتے اور جب کسی چوکی کو کمزور پاتے تو اپنی ساری فوج اُس جگہ پر جمع کر لیتے اور بے پناہ تیر ا ندازی کے پردہ میں وہ خندق پار کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یکے بعد دیگرے خالد اور عمرو جیسے مشہور لیڈروں کی ماتحتی میں فوج بہادرانہ حملہ شہر میں داخل ہونے کے لئے کرتی۔ ایک دفعہ تو خود محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا خیمہ دشمن کی زد میں آگیا لیکن مسلمانوں کے فدائیانہ مقابلہ اور تیروں کی بوچھاڑ نے حملہ آوروں کو پیچھے دھکیل دیا۔ یہ حملہ سارا دن جاری رہا اور چونکہ مسلمانوں کی فوج ساری مل کر بمشکل خندق کی حفاظت کر سکتی تھی کوئی آرام کا وقفہ مسلمانوں کو نہ ملا۔ رات پڑ گئی مگر رات کو بھی خالد کے ماتحت دستوں نے لڑائی کو جاری رکھا اور مسلمانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ رات کو بھی اپنی چوکیوں کی حفاظت پورے طور پر کریں۔ لیکن دشمن کی یہ تمام کوششیں بیکار گئیں۔ خندق کو کبھی بھی دشمن کے کافی سپاہی پار نہ کر سکے‘‘۔۲۸۹؎
لیکن باوجود اس کے کہ جنگ دو روز سے ہو رہی تھی سپاہی ایک دوسرے کے ساتھ گتھ جانے کا موقع نہیں پاتے تھے اس لئے چوبیس گھنٹہ کی جنگ میں اتحادیوں کے صرف تین آدمی مارے گئے اور مسلمانوں کے پانچ۔ اس حملہ میں سعد بن معاذؓ اوس قبیلہ کے رئیس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی صحابی مُہلک طور پر زخمی ہوئے۔اِن حملوں کا نتیجہ یہ ہو اکہ ایک جگہ خندق کے کنارے ٹوٹ گئے اور اُس طرف سے حملہ کرنا بہت ممکن ہو گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جرأت اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا یہ حال تھا کہ آپ سردی میں رات کو اُٹھ اُٹھ کر اُس جگہ جاتے اور اُس کا پہرہ دیتے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ پہرہ دیتے ہوئے تھک جاتے اور سردی سے نڈھال ہو جاتے تو واپس آکر تھوڑی دیر میرے ساتھ لحاف میں لیٹ جاتے، مگر جسم کے گرم ہوتے ہی پھر اُس شگاف کی حفاظت کے لئے چلے جاتے۔ اِس طرح متواتر جاگنے سے آپ ایک دن بالکل نڈھال ہوگئے اوررات کے وقت فرمایا کاش! اِس وقت کوئی مخلص مسلمان ہوتا تو میں آرام سے سو جاتا۔ اتنے میں باہر سے سعد بن وقاص کی آواز آئی۔ آپ نے پوچھا کہ کیوں آئے ہو؟ اُنہوں نے کہا آپ کا پہرہ دینے کو۔ آپ نے فرمایا مجھے پہرہ کی ضرورت نہیں تم فلاں جگہ جہاں خندق کا کنارہ ٹوٹ گیا ہے جائو اور اُس کا پہرہ دو تا مسلمان محفوظ رہیں۔ چنانچہ سعدؓ اُس جگہ کا پہرہ دینے چلے گئے اور آپ سو گئے۔۲۹۰؎
(عجیب بات ہے کہ جب آپ شروع شروع میں مدینہ تشریف لائے تھے اور خطرہ بہت بڑھا ہو اتھا تب بھی سعدؓ پہرہ دینے کے لئے تشریف لائے تھے) اِنہی ایام میں آپ نے ایک دن کچھ لوگوں کے اسلحہ کی آواز سُنی اور پوچھا کون ہے؟ تو عباد بن بشیر نے کہا میں ہوں۔ آپ نے فرمایا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ اُنہوں نے کہا ایک جماعت صحابہ کی ہے جو آپ کے خیمہ کا پہرہ دینے کے لئے آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا اِس وقت مشرکین خندق پھاندنے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں جائو اور اُن کا مقابلہ کر و میرے خیمہ کو رہنے دو۔۲۹۱؎
بنو قریظہ کی مشرکوں سے مل کر حملہ کے لئے تیاری اور اُس میں ناکامی
جیسا کہ اُوپر لکھا جا چکاہے یہود نے مدینہ میں چوری چھپے داخل ہونے کی کوشش کی اور اس میں اُن کا جاسوس مارا گیا۔ جب
یہود کو یہ معلوم ہوا کہ اُن کی سازش ظاہر ہوگئی ہے تو اُنہوں نے زیادہ دلیری سے عربوں کی مدد شروع کر دی۔ گو اجتماعی حملہ مدینہ کے پچھواڑے کی طرف سے نہیں کیا کیونکہ اُدھر میدان چھوٹا تھا اور مسلمانوں کی فوجوں کی موجودگی میں بڑا حملہ اُس طرف سے نہیں ہو سکتا تھا لیکن کچھ دن بعد دونوں فریق نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک وقت مقررہ پر یہودیوں اور مشرکوں کے لشکر یکدم مسلمانوں پر حملہ کردیں۔ مگر اُس وقت اللہ تعالیٰ کی تائید ایک عجیب طرح ظاہر ہوئی جس کی تفصیل یہ ہے۔
نعیم نامی ایک شخص غطفان کے قبیلہ کا دل میں مسلمان تھا۔ یہ شخص بھی کفّار کے ساتھ آیا ہوا تھا لیکن اس بات کی انتظار میں تھا کہ اگر مجھے کوئی موقع ملے تو میں مسلمانوں کی مدد کروں۔ اکیلا انسان کر ہی کیا سکتا ہے۔ مگر جب اُس نے دیکھا کہ یہود بھی کفّار سے مل گئے ہیں اور اب بظاہر مسلمانوں کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تو اِن حالات سے وہ اتنا متاثر ہو اکہ اُس نے فیصلہ کر لیا کہ بہرحال مجھے اس فتنہ کے دور کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔ چنانچہ جب یہ فیصلہ ہوا کہ دونوں فریق مل کر ایک دن حملہ کریں تو وہ بنو قریظہ کے پاس گیا اور اُن کے رئوساء سے کہا کہ اگر عربوں کا لشکر بھاگ جائے تو بتائو مسلمان تمہارے ساتھ کیا کریں گے؟ تم مسلمانوں کے معاہدہو اور معاہدہ کر کے اس کے توڑنے کے نتیجہ میں جو سزا تم کو ملے گی اُس کا قیاس کر لو۔ اُن کے دل کچھ ڈرے اور اُنہوں نے پوچھا پھر ہم کیا کریں؟ نعیم نے کہا جب عرب مشترکہ حملہ کے لئے تم سے خواہش کریں تو تم مشرکین سے مطالبہ کرو کہ اپنے ۷۰ آدمی ہمارے پاس یرغمال کے طور پر بھیج دو وہ ہمارے قلعوں کی حفاظت کریںگے اور ہم مدینہ کے پچھواڑے سے اُس پر حملہ کر دیں گے۔ پھر وہ وہاں سے ہٹ کر مشرکین کے سردارو ں کے پاس گیا اور اُن سے کہا کہ یہ یہود تو مدینہ کے رہنے والے ہیں اگر عین موقع پر یہ تم سے غداری کریں تو پھر کیا کرو گے؟ اگر یہ مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے اور اپنے جرم کو معاف کروانے کے لئے تم سے تمہارے آدمی بطور یرغمال مانگیں اور اُن کو مسلمانوں کے حوالے کر دیں تو پھر تم کیا کرو گے؟ تمہیں چاہئے کہ اُن کا امتحان لے لو کہ آیا وہ پکے رہتے ہیں یا نہیں اور جلد ہی اُن کو اپنے ساتھ باقاعدہ حملہ کرنے کی دعوت دو۔ کفّار کے سرداروں نے اس مشورہ کو صحیح سمجھتے ہوئے دوسرے دن یہود کو پیغام بھیجا کہ ہم ایک اجتماعی حملہ کرنا چاہتے ہیں تم بھی اپنی فوجوں سمیت کل حملہ کردو۔ بنوقریظہ نے کہا کہ اوّل تو کل ہمارا سبت کا دن ہے اس لئے ہم اس دن لڑائی نہیں کر سکتے۔ دوسرے ہم مدینہ کے رہنے والے ہیں اور تم باہر کے۔ اگر تم لوگ لڑائی چھوڑ کر چلے جائو تو ہمارا کیا بنے گا۔ اس لئے آپ لوگ ہمیں ۷۰ آدمی یرغمال کے طور پر دیں گے تب ہم لڑائی میں شامل ہوں گے۔ کفّار کے دل میں چونکہ پہلے سے شبہ پیدا ہو چکا تھا اُنہوں نے اُن کے اِس مطالبہ کوپورا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر تمہارا ہمارے ساتھ اتحاد سچا تھا تو اس قسم کے مطالبہ کے کوئی معنی نہیں۔ اِس واقعہ سے اُدھر یہود کے دلوں میں شبہات پیدا ہونے لگے اِدھر کفّار کے دلوںمیں شبہات پیدا ہونے لگے اور جیساکہ قاعدہ ہے جب شبہات دل میں پید اہو جاتے ہیں تو بہادری کی روح بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اِنہی شکوک و شبہات کو ساتھ لئے ہوئے کفّار کا لشکر رات کو آرام کرنے کے لئے اپنے خیموں میں گیا، تو خد اتعالیٰ نے آسمانی نصرت کا ایک اور راستہ کھول دیا۔ رات کو ایک سخت آندھی چلی جس نے قناتوں کے پردے توڑ دئیے۔ چولہوں پر سے ہنڈیاں گرادیں اور بعض قبائل کی آگیں بجھ گئیں۔ مشرکینِ عرب میں ایک رواج تھا کہ وہ ساری رات آگ جلائے رکھتے تھے اور اِس کو وہ نیک شگون سمجھتے تھے۔ جس کی آگ بجھ جاتی تھی وہ خیال کرتاتھا کہ آج کا دن میرے لئے منحوس ہے اور وہ اپنے خیمے اُٹھا کر لڑائی کے میدان سے پیچھے ہٹ جاتا تھا۔ جن قبائل کی آگ بجھی اُنہوں نے اِس رواج کے مطابق اپنے خیمے اُٹھائے اور پیچھے کو چل پڑے تاکہ ایک دن پیچھے انتظار کر کے پھر لشکر میں آشامل ہوں۔ لیکن چونکہ دن کے جھگڑوں کی وجہ سے سردارانِ لشکر کے دل میں شبہات پیدا ہو رہے تھے، جو قبائل پیچھے ہٹے اُن کے اِردگرد کے قبائل نے سمجھا کہ شاید یہود نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر شبخون مار دیا ہے اور ہمارے آس پاس کے قبائل بھاگے جار ہے ہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے بھی جلدی جلدی اپنے ڈیرے سمیٹنے شروع کر دئیے اور میدان سے بھاگنا شروع کیا۔ ابوسفیان اپنے خیمہ میں آرام سے لیٹا تھا کہ اِس واقعہ کی خبر اُسے بھی پہنچی۔ وہ گھبرا کے اپنے بندھے ہوئے اُونٹ پر جا چڑھا اور اُس کو ایڑیاں مارنی شروع کر دی۔ آخر اُس کے دوستوں نے اس کو توجہ دلائی کہ وہ یہ کیا حماقت کر رہا ہے۔ اِس پر اُس کے اُونٹ کی رسّیاں کھولی گئیں اور وہ بھی اپنے ساتھیوںسمیت میدان سے بھاگ گیا۔۲۹۲؎
رات کے آخری ثلث میں وہ میدان جس میں پچیس ہزار کے قریب کفّار کے سپاہی خیمہ زن تھے وہ ایک جنگل کی طرح ویران ہو گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس وقت اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ بتایا کہ تمہارے دشمن کو ہم نے بھگا دیا ہے۔ آپ نے حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے کسی شخص کو بھیجنا چاہا اور اپنے اِردگرد بیٹھے ہوئے صحابہؓ کو آواز دی۔ وہ سردی کے ایام تھے اور مسلمانوں کے پاس کپڑے بھی کافی نہ ہوتے تھے۔ سردی کے مارے زبانیں تک جمی جارہی تھیں۔ بعض صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی اور ہم جواب بھی دینا چاہتے تھے مگر ہم سے بولا نہیں گیا۔ صرف ایک حذیفہؓ تھے جنہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ!کیا کام ہے؟ آپ نے فرمایا تم نہیں مجھے کوئی اَور آدمی چاہئے۔ پھر آپ نے فرمایا کوئی ہے؟ مگر پھر سردی کی شدت کی وجہ سے جو جاگ بھی رہے تھے وہ جواب نہ دے سکے۔ حذیفہؓ نے پھر کہا میں یَارَسُوْلَ اللّٰہ!موجود ہوں۔ آخرآپ نے حذیفہؓ کو یہ کہتے ہوئے بجھوایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے دشمن کو ہم نے بھگا دیا ہے، جائو اور دیکھو کہ دشمن کا کیا حال ہے حذیفہؓ خندق کے پاس گئے اور دیکھا کہ میدان کُلّی طور پر دشمن کے سپاہیوں سے خالی تھا۔ واپس آئے اور کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی اور بتایا کہ دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ صبح مسلمان اپنے خیمے اُکھیڑ کر اپنے اپنے گھروں کی طرف آنے شروع ہوئے۔۲۹۳؎
بنو قریظہ کو اُن کی غداری کی سزا
بیس دنوں کے بعد مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ مگر اب بنو قریظہ کامعاملہ طے ہونے
والا تھا۔ اُن کی غداری ایسی نہیں تھی کہ نظرا نداز کی جاتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آتے ہی اپنے صحابہؓ سے فرمایا گھروں میں آرام نہ کرو بلکہ شام سے پہلے پہلے بنو قریظہ کے قلعوں تک پہنچ جائو اور پھر آپ نے حضرت علیؓ کو بنو قریظہ کے پاس بجھوایا کہ وہ اُن سے پوچھیں کہ اُنہوں نے معاہدہ کے خلاف یہ غداری کیوں کی؟ بجائے اِس کے کہ بنو قریظہ شرمندہ ہوتے یا معافی مانگتے یاکوئی معذرت کرتے اُنہوں نے حضرت علیؓ اور اُن کے ساتھیوں کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کی مستورات کو گالیاں دینے لگے اور کہاہم نہیں جانتے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا چیز ہیں ہمارا اُن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں۔ حضرت علیؓ اُن کا یہ جواب لے کر واپس لوٹے تو اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کے ساتھ یہود کے قلعوں کی طرف جار ہے تھے چونکہ یہود گندی گالیاں دے رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور بیٹیوں کے متعلق بھی ناپاک کلمات بول رہے تھے حضرت علیؓ نے اِس خیال سے کہ آپ کو اُن کلمات کے سننے سے تکلیف ہوگی، عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں ہم لوگ اس لڑائی کے لئے کافی ہیں، آپ واپس تشریف لے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ وہ گالیاں دے رہے ہیں اور تم یہ نہیں چاہتے کہ میرے کان میں وہ گالیاں پڑیں۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا ہاں یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! بات تو یہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا ہوا اگر وہ گالیاں دیتے ہیں، موسیٰ نبی تو اِن کا اپنا تھا اُس کواِس سے بھی زیادہ اِنہوں نے تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ یہ کہتے ہوئے آپ یہود کے قلعوں کی طرف چلے گئے۔ مگر یہود دروازے بند کر کے قلعہ بند ہو گئے اور مسلمانوں کے ساتھ لڑائی شروع کر دی۔ حتی کہ اُن کی عورتیں بھی لڑائی میں شریک ہوئیں۔ چانچہ قلعہ کی دیوار کے نیچے کچھ مسلمان بیٹھے تھے کہ ایک یہودی عورت نے اُوپرسے پتھر پھینک کر ایک مسلمان کو مار دیا لیکن کچھ دن کے محاصرہ کے بعد یہود نے یہ محسوس کر لیا کہ وہ لمبا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ تب اُن کے سرداروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش کی کہ وہ ابو لبابہ انصاری کو جو اُن کے دوست اور اوس قبیلہ کے سردار تھے اُن کے پاس بھجوائیں تاکہ وہ اُن سے مشورہ کر سکیں۔ آپ نے ابولبابہ کو بجھوا دیا۔ ان سے یہود نے یہ مشورہ پوچھا کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس مطالبہ کو کہ فیصلہ میرے سپرد کرتے ہوئے تم ہتھیار پھینک دو، ہم یہ مان لیں؟ ابو لبابہ نے منہ سے تو کہا ہاں! لیکن اپنے گلے پر اِس طرح ہاتھ پھیرا جس طرح قتل کی علامت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت تک اپنا کوئی فیصلہ ظاہر نہیں کیا تھا مگر ابو لبابہ نے اپنے دل میں یہ سمجھتے ہوئے کہ اُ ن کے اِس جرم کی سزا سوائے قتل کے اور کیا ہوگی بغیر سوچے سمجھے اشارہ کے ساتھ اُن سے ایک بات کہہ دی جو آخر اُن کی تباہی کا موجب ہوئی۔ چنانچہ یہود نے کہہ دیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ مان لیتے تو دوسرے یہودی قبائل کی طرح اُن کو زیادہ سے زیادہ یہی سزا دی جاتی کہ اُن کو مدینہ سے جلا وطن کر دیا جاتا، مگر اُن کی بد قسمتی تھی اُنہوںنے کہا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے کے لئے تیار نہیں، بلکہ ہم اپنے حلیف قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذؓ کا فیصلہ مانیں گے۔ جو فیصلہ وہ کریں گے ہمیں منظور ہو گا۔ لیکن اُس وقت یہود میں اختلاف ہو گیا۔ یہود میں سے بعض نے کہا کہ ہماری قوم نے غداری کی ہے اور مسلمانوں کے رویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اُن کا مذہب سچا ہے وہ لوگ اپنا مذہب ترک کر کے اِسلام میں داخل ہو گئے۔ ایک شخص عمرو بن سعدی نے جو اس قوم کے سرداروں میں سے تھا اپنی قوم کو ملامت کی اور کہا کہ تم نے غداری کی ہے کہ معاہدہ توڑا ہے۔ اب یا مسلمان ہوجائو یا جزیہ پرراضی ہو جائو۔ یہودنے کہا نہ مسلمان ہوں گے نہ جزیہ دیں گے کہ اس سے قتل ہونا اچھا ہے۔ پھر اُن سے اُس نے کہا میں تم سے بُری ہوں۔ اور یہ کہہ کر قلعہ سے نکل کر باہر چل دیا۔ جب وہ قلعہ سے باہر نکل رہا تھا تو مسلمانوں کے ایک دستہ نے جس کے سردار محمد بن مسلمہؓ تھے اُسے دیکھ لیا اور اُس سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ اُس نے بتایا کہ میں فلاں ہوں۔ اِس پر محمد بن مسلمہؓ نے فرمایا اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنِیْ اِقَا لََۃَ عَثَرَاتِ الْکِرَامِ۔ ۲۹۴؎ یعنی آپ سلامتی سے چلے جائیے اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی! مجھے شریفوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے نیک عمل سے کبھی محروم نہ کیجیئو۔ یعنی یہ شخص چونکہ اپنے فعل پر اور اپنی قوم کے فعل پر پچھتاتا ہے توہمارا بھی اخلاقی فرض ہے کہ اُسے معاف کر دیں اِس لئے میں نے اسے گرفتار نہیں کیا اور جانے دیا ہے۔ خدا تعالیٰ مجھے ہمیشہ ایسے ہی نیک کاموں کی توفیق بخشتا رہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے محمد بن مسلمہؓ کو سرزنش نہیں کی کہ کیوں اُس یہودی کو چھوڑ دیا بلکہ اُس کے فعل کو سراہا۔
بنو قریظہ کے اپنے مقرر کردہ حَکم سعدؓ کا فیصلہ تورات کے مطابق تھا
یہ اُوپر کے واقعات انفرادی تھے۔ بنو قریظہ بحیثیت قوم اپنی ضد پر قائم رہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حَکم ماننے
سے انکارکرتے ہوئے سعدؓ کے فیصلہ پر اصرار کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُن کے اِس مطالبہ کو مان لیا۔ سعدؓ کو جو جنگ میں زخمی ہو چکے تھے اطلاع دی کہ تمہارا فیصلہ بنو قریظہ تسلیم کرتے ہیں آکر فیصلہ کرو۔ اِس تجویز کا اعلان ہوتے ہی اوس قبیلہ کے لوگ جو بنو قریظہ کے دیر سے حلیف چلے آئے تھے وہ سعدؓ کے پاس دَوڑ کر گئے اور اُنہوں نے اصرار کرنا شروع کیا کہ چونکہ خزرج نے اپنے حلیف یہودیوں کو ہمیشہ سزا سے بچایا ہے آج تم بھی اپنے حلیف قبیلہ کے حق میں فیصلہ دینا۔
سعدؓ زخموں کی وجہ سے سواری پر سوار ہو کر بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے اور ان کی قوم کے افراد اُن کے دائیں بائیں دوڑتے جاتے تھے اور سعدؓ سے اصرار کرتے جاتے تھے کہ دیکھنا بنو قریظہ کے خلاف فیصلہ نہ دینا۔ مگر سعدؓ نے صرف یہی جواب دیا کہ جس کے سپرد فیصلہ کیا جاتا ہے وہ امانتدار ہوتا ہے اُسے دیانت سے فیصلہ کرنا چاہئے میں دیانت سے فیصلہ کروں گا۔ جب سعدؓ یہود کے قلعہ کے پاس پہنچے جہاں ایک طرف بنو قریظہ قلعہ کی دیوار سے کھڑے سعدؓ کا انتظار کر رہے تھے اور دوسری طرف مسلمان بیٹھے تھے، تو سعدؓ نے پہلے اپنی قوم سے پوچھا کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ جو میں فیصلہ کروں گا وہ آپ لوگ قبول کریں گے؟ انہوں نے کہاں ہاں۔ پھر سعدؓنے بنو قریظہ کو مخاطب کر کے کہا کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ جو فیصلہ میں کروں وہ آپ لوگ قبول کریں گے؟ اُنہوں نے کہا ہاں۔ پھر شرم سے دوسری طر ف دیکھتے ہوئے نیچی نگاہوں سے اُس طرف اشارہ کیا جدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے اور کہا اِدھر بیٹھے ہوئے لوگ بھی یہ وعدہ کرتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اس کے بعد سعدؓ نے بائبل کے حکم کے مطابق فیصلہ سنایا۔۲۹۵؎ بائبل میں لکھا ہے:
’’ اور جب تو کسی شہر کے پاس اُس سے لڑنے کے لئے آپہنچے تو پہلے اُس سے صلح کا پیغام کر۔ تب یوں ہو گا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور اور دروازہ تیرے لئے کھول دے تو ساری خلق جو اُس شہرمیں پائی جائے تیری خراج گزار ہو گی اور تیری خدمت کرے گی۔ اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے جنگ کرے تو تو اس کا محاصرہ کر اور جب خد اوند تیرا خدا اُسے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر۔ مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو اور جو کچھ اُس شہر میں ہو اُس کا سارا لوٹ اپنے لئے لے۔ اور تو اپنے دشمنوں کی اُس لوٹ کو جو خد اوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے کھائیو۔ اسی طرح سے تواُن سب شہروں سے جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہروں میں سے نہیں ہیں یہی حال کیجیؤ۔ لیکن اِن قوموں کے شہروں میں جنہیں خدا وند تیرا خدا تیری میراث کر دیتا ہے کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیتا نہ چھوڑیو۔ بلکہ تو اُن کو حرم کیجیؤ۔ حتی اور اموری اور کنعانی اور فزری اور جوی اور یبوسی کو جیساکہ خد اوند تیرے خدا نے تجھے حکم کیا ہے تا کہ وے اپنے سارے کریہہ کاموں کے مطابق جو اُنہوں نے اپنے معبودوں سے کئے تم کو عمل کرنا نہ سکھائیں اور کہ تم خداوند اپنے خدا کے گنہگار ہو جائو‘‘۔۲۹۶؎
بائبل کے اس فیصلہ سے ظاہر ہے کہ اگر یہودی جیت جاتے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہار جاتے تو بائبل کے اس فیصلہ کے مطابق اوّل تو تماممسلمان قتل کر دیئے جاتے۔ مرد بھی اور عورت بھی اور بچے بھی۔ اور جیساکہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں کا یہی ارادہ تھا کہ مردوں ، عورتوں اور بچوں سب کو یکدم قتل کر دیا جائے لیکن اگر وہ اُن سے بڑی سے بڑی رعایت کرتے تب بھی کتاب استثناء کے مذکورہ بالا فیصلہ کے مطابق وہ اُن سے دُور کے ملکوں والی قوموں کا سا سلوک کرتے اور تمام مردوں کو قتل کر دیتے اور عورتوں اور لڑکوں اور سامانوں کو لوٹ لیتے۔ سعدؓ نے جو بنو قریظہ کے حلیف تھے اوراُن کے دوستوں میں سے تھے جب دیکھا کہ یہود نے اسلامی شریعت کے مطابق جو یقینا اُن کی جان کی حفاظت کرتی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا تو انہوں نے وہی فیصلہ یہود کے متعلق کیا جو موسیٰ نے استثناء میں پہلے سے ایسے مواقع کے لئے کر چھوڑا تھا اور اس فیصلہ کی ذمہ داری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یامسلمانوں پر نہیں، بلکہ موسیٰ پر اور تورات پراور اُن یہودیوں پر ہے جنہوں نے غیرقوموں کے ساتھ ہزاروں سال اس طرح معاملہ کیا تھا اور جن کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم کے لئے بلایا گیاتو انہوں نے انکار کر دیااور کہا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں، ہم سعدؓ کی بات مانیں گے۔ جب سعدؓ نے موسٰی ؑ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ دیا تو آج عیسائی دنیا شور مچاتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کیا۔ کیا عیسائی مصنف اِس بات کو نہیں دیکھتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے موقع پر کیوں ظلم نہ کیا؟ سینکڑوں دفعہ دشمن نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم پر اپنے آپ کو چھوڑا ا ور ہر دفعہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو معاف کر دیا۔ یہ ایک ہی موقع ہے کہ دشمن نے اصرار کیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو نہیں مانیں گے بلکہ فلاں دوسرے شخص کے فیصلہ کو مانیں گے اور اُس شخص نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اقرار لے لیا کہ جو میں فیصلہ کروں گا اُسے آپ مانیں گے۔ اس کے بعد اُس نے فیصلہ کیا بلکہ اُس نے فیصلہ نہیں کیا اُس نے موسٰی ؑکا فیصلہ دُہرا دیا جس کی اُمت میں سے ہونے کے یہود مدعی تھے۔ پس اگر کسی نے ظلم کیا تو یہود نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ا گر کسی نے ظلم کیا تو موسٰی ؑنے ظلم کیا جنہوں نے محصور دشمن کے متعلق تورات میں خدا سے حکم پا کر یہی تعلیم دی تھی۔ اگر یہ ظلم تھا تو اِن عیسائی مصنفوں کو چاہئے کہ موسٰی ؑکو ظالم قرار دیں بلکہ موسٰی ؑکے خدا کو ظالم قرار دیں جس نے یہ تعلیم تورات میں دی ہے۔
احزاب کی جنگ کے خاتمہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آج سے مشرک ہم پر حملہ نہیں کریں گے اب اسلام خود جواب دے گا اور ان اقوام پر جنہوں نے ہم پر حملے کئے تھے اب ہم چڑھائی کریں گے۔۲۹۷؎ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ احزاب کی جنگ میں بھلا کفّار کا نقصان ہی کیا ہوا تھا چند آدمی مارے گئے تھے وہ دوسرے سال پھر دوبارہ تیاری کر کے آسکتے تھے۔ بیس ہزار کی جگہ وہ چالیس یا پچاس ہزار کا لشکر بھی لا سکتے تھے۔ بلکہ اگر وہ اور زیادہ انتظام کرتے تو لاکھ ڈیڑھ کا لشکر لانا بھی اُن کے لئے کوئی مشکل نہیں تھا۔ مگر اکیس سال کی متواتر کوشش کے بعد کفّار کے دلوں کو محسوس ہو گیا تھاکہ خدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے۔ اُن کے بت جھوٹے ہیں اور دنیا کا پیدا کرنے والا ایک ہی خد ا ہے۔ اُن کے جسم صحیح سلامت تھے مگر اُن کے دل ٹوٹ چکے تھے۔ بظاہر وہ اپنے بتوں کے آگے سجدہ کرتے ہوئے نظر آتے تھے مگر اُن کے دلوں میں سے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کی آوازیں اُٹھ رہی تھیں۔
مسلمانوں کے غلبہ کا آغاز
اِس جنگ سے فارغ ہونے کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آج سے کفّارِ عرب ہم پر حملہ نہیں کریں گے،یعنی مسلمانوں کا ابتلاء اپنی آخری انتہاء کو پہنچ گیا ہے اور اب اُن کے غلبہ کا زمانہ شروع ہونے والا ہے۔ اِس وقت تک جتنی جنگیں ہوئی تھیں وہ ساری کی ساری ایسی تھیں کہ یا تو کفّار مدینہ پر چڑھ کے آئے تھے یا اُن کے حملوں کی تیاریوں کے روکنے کے لئے مسلمان مدینہ سے باہر نکلے تھے لیکن کبھی بھی مسلمانوں نے خود جنگ کو جاری رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ جنگی قوانین کے لحاظ سے جب ایک لڑائی شروع ہو جاتی ہے تو اُس کا اختتام دو ہی طرح ہوتا ہے یا صلح ہو جاتی ہے یا ایک فریق ہتھیار ڈال دیتا ہے لیکن اِس وقت تک ایک بھی موقع ایسا نہیں آیا جبکہ صلح ہوئی ہو یا کسی فریق نے ہتھیار ڈالے ہوں۔ پس گو پرانے زمانہ کے دستور کے مطابق لڑائیوں میں وقفہ پڑ جاتا تھا لیکن جہاں تک جنگ کے جاری رہنے کا سوال تھا وہ متواتر جاری تھی اور ختم نہ ہوئی تھی اس لئے مسلمانوں کا حق تھا کہ وہ جب بھی چاہتے دشمن پر حملہ کر کے اُن کو مجبور کرتے کہ وہ ہتھیار ڈالیں۔ لیکن مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ جب وقفہ پڑتا تھا تو مسلمان بھی خاموش ہو جاتے تھے۔ شاید اس لئے کہ ممکن ہے کفّار درمیان میں صلح کی طرح ڈالیں اور لڑائی بند ہو جائے۔ لیکن جب ایک لمبے عرصہ تک کفّار کی طرف سے صلح کی تحریک نہ ہوئی اور نہ انہوں نے مسلمانوں کے سامنے ہتھیار ڈالے بلکہ اپنی مخالفت اور جوش میں بڑھتے ہی چلے گئے تو اب وقت آگیا کہ لڑائی کا دو ٹوک فیصلہ کیا جائے یا تو فریقین میں صلح ہو جائے یا دونوں میں سے ایک فریق ہتھیار ڈال دے تاکہ ملک میں امن قائم ہو جائے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احزاب کی جنگ کے بعد فیصلہ کر لیا کہ اب ہم دونوں فیصلوں میں سے ایک فیصلہ کر کے چھوڑیں گے یا تو ہماری اور کفّار کی صلح ہو جائے گی یاہم میںسے کوئی فریق ہتھیار ڈال دے گا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ہتھیار ڈال دینے کی صورت میں کفّار ہی ہتھیار ڈال سکتے تھے کیونکہ اسلام کے غلبہ کے متعلق تو خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر مل چکی تھی اور مکی زندگی میں ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے غلبہ کا اعلان کر چکے تھے۔ باقی رہی صلح تو صلح کے بارے میں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ صلح کی تحریک یا غالب کی طرف سے ہوا کرتی ہے یا مغلوب کی طرف سے۔ مغلوب فریق جب صلح کی درخواست کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیںکہ وہ ملک کا کچھ حصہ یا اپنی آمدن کا کچھ حصہ مستقل طور پر یا عارضی طور پر غالب فریق کو دیا کرے گا یا بعض اَور صورتوں میں اس کی لگائی ہوئی قیود تسلیم کرے گا۔ اور غالب فریق کی طرف سے جب صلح کی تجویز پیش ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم تمہیں بالکل کچلنا نہیں چاہتے۔ اگر تم بعض صورتوں میں ہماری اطاعت یا ہماری ماتحتی قبول کر لو تو ہم تمہاری آزادانہ حیثیت یا نیم آزادانہ حیثیت کو قائم رہنے دیں گے۔ کفّارِ مکہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقابلہ تھا اس میں بار بار کفار کو شکست ہوئی تھی لیکن اس شکست کے محض اتنے معنی تھے کہ اُن کے حملے ناکام رہے تھے۔ حقیقی شکست وہ کہلاتی ہے جبکہ دفاع کی طاقت ٹوٹ جائے۔ حملہ ناکام ہونے کے معنی حقیقی شکست کے نہیں سمجھے جاتے۔ اِس کے معنی صرف اتنے ہوتے ہیںکہ گو حملہ آور قوم کا حملہ ناکام رہا مگر پھر دوبارہ حملہ کر کے وہ اپنے مقصد کو پورا کرلے گی۔ پس جنگی قانون کے لحاظ سے مکہ والے مغلوب نہیں ہوئے تھے بلکہ اُن کی پوزیشن صرف یہ تھی کہ اب تک اُن کی جارحانہ کارروائیاں اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکی تھیں۔ اس کے مقابلہ میں مسلمان جنگی لحاظ سے گو اُن کا دفاع نہیں ٹوٹا تھا مغلوب کہلانے کے مستحق تھے اِس لئے کہ:
اوّل تو وہ بہت چھوٹی اقلیت میںتھے۔ دوم اُنہوں نے اس وقت تک کوئی جارحانہ کارروائی نہیں کی تھی، یعنی کسی حملہ میں خود ابتداء نہیں کی تھی جس سے یہ سمجھا جائے کہ اب وہ اپنے آپ کو کفّار کے اثر سے آزاد سمجھتے ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کی طرف سے صلح کی پیشکش کے صرف یہ معنی ہو سکتے تھے کہ وہ اب دفاع سے تنگ آگئے ہیں اور کچھ دے دلا کر اپنا پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔ ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ان حالات میںاگر مسلمان صلح کی پیشکش کرتے تو اِس کا نتیجہ نہایت ہی خطرناک ہوتا اور یہ امر اُن کی ہستی کے مٹا دینے کے مترادف ہوتا۔ اپنی جارحانہ کارروائیوں میں ناکامی کی وجہ سے کفّارِ عرب میں جو بے دلی پیدا ہو گئی تھی اس صلح کی پیشکش سے وہ فوراً ہی نئی اُمنگوں اور نئی آرزوئوں میں بدل جاتی اور یہ سمجھا جاتا کہ مسلمان باوجود مدینہ کو تباہی سے بچا لینے کے آخری کامیابی سے مایوس ہوچکے تھے۔ پس صلح کی تحریک مسلمانوں کی طرف سے کسی صورت میں بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ا گر کوئی صلح کی تحریک کر سکتا تھا تو یا مکہ والے کر سکتے تھے یا کوئی تیسری ثالث قوم کر سکتی تھی۔ مگر عرب میں کوئی ثالث قوم باقی نہیں رہی تھی۔ ایک طرف مدینہ تھا اور ایک طرف سارا عرب تھا۔ پس عملی طور پر کفّار ہی تھے جو اس تجویز کو پیش کر سکتے تھے۔ مگر اُن کی طرف سے صلح کی کوئی تحریک نہیں ہو رہی تھی۔ یہ حالات اگر سَو سال تک بھی جاری رہتے تو قوانین جنگ کے ماتحت عرب کی خانہ جنگی جاری رہتی۔ پس جبکہ مکہ کے لوگوں کی طرف صلح کی تجویز پیش نہیں ہوئی تھی اور مدینہ کے کفار عرب کی ماتحتی ماننے کے لئے کسی صورت میں تیار نہ تھے تو اب ایک ہی راستہ کھلا رہ جاتا تھا کہ جب مدینہ نے عرب کے متحدہ حملہ کو بیکار کر دیا تو خود مدینہ کے لوگ باہر نکلیں اور کفّارِ عرب کو مجبور کر دیں کہ یا وہ اُن کی ماتحتی قبول کرلیں یا اُن سے صلح کر لیں۔ اور اِسی راستہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا۔ پس گو یہ راستہ بظاہر جنگ کا نظر آتا ہے لیکن درحقیقت صلح کے قیام کے لئے اس کے سوا کوئی راستہ کھلا نہ تھا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ کرتے تو ممکن ہے جنگ سَو سال تک لمبی چلی جاتی جیسا کہ ایسے ہی حالات میں پرانے زمانہ میں جنگیں سَو سَو سال تک جاری رہی ہیں۔ خود عرب کی کئی جنگیں تیس تیس، چالیس چالیس سال تک جاری رہی ہیں۔ اِن جنگوں کی طوالت کی یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کے ختم کرنے کے لئے کوئی ذریعہ اختیار نہیں کیا جاتا تھا اور جیساکہ میں بتا چکا ہوں جنگ کے ختم کرنے کے دو ہی ذرائع ہوا کرتے ہیں یا ایسی جنگ لڑی جائے جو دو ٹوک فیصلہ کر دے اور دونوں فریق میں سے کسی ایک کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دے اور یا باہمی صلح ہو جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیشک ایسا کر سکتے تھے کہ مدینہ میں بیٹھے رہتے اور خود حملہ نہ کرتے۔ لیکن چونکہ کفّارِ عرب جنگ کی طرح ڈال چکے تھے آپ کے خاموش بیٹھنے کے یہ معنی نہ ہوتے کہ جنگ ختم ہو گئی ہے بلکہ اس کے صرف یہ معنی ہوتے کہ جنگ کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھلا رکھا گیا ہے۔ کفّارِ عرب جب چاہتے بغیر کسی اور محرک کے پیدا ہونے کے مدینہ پر حملہ کر دیتے اور اُس وقت تک کے دستور کے مطابق وہ حق پر سمجھے جاتے کیونکہ جنگ میں وقفہ پڑ جانا اُس زمانہ میں جنگ کے ختم ہوجانے کے مترادف نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ وقفہ بھی جنگ ہی میں شمار کیا جاتا تھا۔
بعض لوگوں کے دلو ں میں اِس موقع پر یہ سوال پید اہو سکتا ہے کہ کیا ایک سچے مذہب کے لئے لڑائی کرنا جائز ہے؟
یہودیت اور عیسائیت کی تعلیم دربارہ جنگ
میں اِس جگہ اس سوال کا جواب بھی دے دینا ضروری
سمجھتا ہوں جہاں تک مذاہب کا سوال ہے لڑائی کے بارہ میں مختلف تعلیمیں ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم لڑائی کے بارہ میں اُوپر درج کر آیا ہوں۔ تورات کہتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ بزور کنعان میں گھس جائیں اور اُس جگہ کی قوموں کو شکست دے کر اس علاقہ میں اپنی قوم آباد کریں ۲۹۸؎ مگر باوجود اس کے کہ موسیٰ نے یہ تعلیم دی اور باوجود اس کے کہ یوشع ، دائود اور دوسرے انبیاء نے اِس تعلیم پر متواتر عمل کیا یہودی اورعیسائی اُن کو خدا کا نبی اور تورات کو خدا کی کتاب سمجھتے ہیں۔ موسوی سلسلہ کے آخر میں حضرت مسیحؑ ظاہر ہوئے اُن کی جنگ کے متعلق یہ تعلیم ہے کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے۲۹۹؎ اس سے استنباط کرتے ہوئے عیسائی قوم یہ دعویٰ کرتی ہے کہ مسیح نے لڑائی سے قوموں کو منع کیا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انجیل میں اس تعلیم کے خلاف اور تعلیمیں بھی آئی ہیں۔ مثلاً انجیل میں لکھا ہے:۔
’’ یہ مت سمجھو کہ میں ز مین پر صلح کروانے آیا ہوں، صلح کروانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں‘‘۳۰۰؎
اسی طرح لکھا ہے:۔
’’اُس نے اُنہیں کہا پر اَب جس کے پاس بٹوا ہو لیوے اور اسی طرح جھولی بھی۔ اور جس کے پاس تلوار نہیں اپنے کپڑے بیچ کر تلوار خریدے‘‘۔۳۰۱؎
یہ آخری دو تعلیمیں پہلی تعلیم کے بالکل متضاد ہیں۔ اگر مسیح جنگ کرانے کے لئے آیا تھا تو پھر ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا گال پھیر دینے کے کیا معنی تھے؟ پس یا تو یہ دونوں قسم کی تعلیمیں متضاد ہیں
یا اِن دونوںتعلیموں میں سے کسی ایک کو اس کے ظاہر سے پھرا کر اس کی کوئی تأویل کرنی پڑے گی۔ میں اِس بحث میں نہیں پڑتا کہ ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا گال پھیر دینے کی تعلیم قابلِ عمل ہے یا نہیں۔ میں اس جگہ پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اوّل عیسائی دنیا نے اپنی ساری تاریخ میں جنگ سے دریغ نہیں کیا۔ جب عیسائیت شروع شروع میں روما میں غالب تھی تب بھی اُس نے غیرقوموں سے جنگیں کیں۔ دفاعی ہی نہیں بلکہ جارحا نہ بھی۔ اور اب جبکہ عیسائیت دنیا میں غالب آگئی ہے اب بھی وہ جنگیں کرتی ہے۔ دفاعی ہی نہیں بلکہ جارحانہ بھی۔ صرف فرق یہ ہے کہ جنگ کرنے والوں میں سے جو فریق جیت جاتا ہے اُس کے متعلق کہہ دیا جاتا تھا کہ وہ کرسچن سویلزیشن کا پابند تھا۔ کرسچن سویلزیشن اِس زمانہ میں صرف غالب اور فاتح کے طریق کا نام ہے اور اس لفظ کے حقیقی معنی اب کوئی بھی باقی نہیں رہے۔ جب دوقو میں آپس میں لڑتی ہیں تو ہر قوم اِس بات کی مدعی ہوتی ہے کہ وہ کرسچن سویلزیشن کی تائید کر رہی ہے اور جب کوئی قوم جیت جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس جیتی ہوئی قوم کا طریق کار ہی کرسچن سویلزیشن ہے۔ مگر بہرحال مسیحؑ کے زمانہ سے آج تک عیسائی دنیا جنگ کرتی چلی آرہی ہے اور قرائن بتاتے ہیں کہ جنگ کرتی چلی جائے گی۔ پس جہاں تک مسیحی دنیا کے فیصلہ کا تعلق ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ’’ تم اپنے کپڑے بیچ کر تلوار خریدو‘‘۔’’اورمیں صلح کرانے کے لئے نہیں بلکہ تلوار چلانے کے لئے آیا ہوں‘‘۔ یہ اصل قانون ہے اور ’’ تو ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا بھی پھیر دے‘‘ ۔ یہ قانون یا تو ابتدائی عیسائی دنیا کی کمزوری کے وقت مصلحتاً اختیار کیا گیا تھا یا پھر عیسائی افراد کے باہمی تعلقات کی حد تک یہ قانون محدود ہے۔ حکومتوں اور قوموں پر یہ قانون چسپاں نہیں ہوتا۔ دوسرے اگر یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ مسیحؑ کی اصل تعلیم جنگ کی نہیں تھی بلکہ صلح ہی کی تھی تب بھی اس تعلیم سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جو شخص اس تعلیم کے خلاف عمل کرتا ہے وہ خدا کا برگزیدہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ عیسائی دنیا آج تک موسٰی ؑ اور یوشعؑ اور دائودؑ کو خدا کا برگزیدہ قرار دیتی ہے بلکہ خود عیسائیت کے زمانہ کے بعض قومی ہیرو جنہوں نے اپنی قوم کے لئے جان کو خطرہ میں ڈال کر دشمنوں سے جنگیں کی ہیں مختلف زمانہ کے پوپوں کے فتویٰ کے مطابق آج سینٹ کہلاتے ہیں۔
جنگ کے متعلق اِسلام کی تعلیم
اِسلام اِن دونوں قسم کی تعلیموں کے درمیان درمیان تعلیم دیتا ہے یعنی نہ تو وہ موسٰی ؑ کی طرح کہتا ہے کہ تو
جارحانہ طور پر کسی ملک میں گھس جا اور اُس قوم کو تہہ تبلیغ کر دے اور نہ وہ اِس زمانہ کی بگڑی ہوئی مسیحیت کی طرح ببانگِ بلندیہ کہتا ہے ’’ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تو اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے‘‘۔ مگر اپنے ساتھیوں کے کان میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ تم اپنے کپڑے بیچ کر بھی تلواریں خریدلو۔ بلکہ اسلام وہ تعلیم پیش کرتا ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے او ر جو امن اور صلح کے قیام کے لئے ایک ہی ذریعہ ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تو کسی چیز پر حملہ نہ کر لیکن اگر کوئی شخص تجھ پر حملہ کرے اور اس کا مقابلہ نہ کرنا فتنہ کے بڑھانے کا موجب نظر آئے اور راستی اور امن اُس سے مٹتا ہو تب توا ُس کے حملہ کا جواب دے۔ یہی وہ تعلیم ہے جس سے دنیا میں امن اور صلح قائم ہو سکتی ہے۔ اِس تعلیم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا۔ آپ مکہ میں برابر تکلیفیں اُٹھاتے رہے، لیکن آپ نے لڑائی کی طرح نہ ڈالی۔ مگر جب مدینہ میں آپ ہجرت کر کے تشریف لے گئے اور دشمن نے وہاں بھی آپ کا پیچھا کیا تب خد اتعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ چونکہ دشمن جارحانہ کارروائی کر رہا ہے اور اسلام کو مٹانا چاہتا ہے اس لئے راستی اور صداقت کے قیام کے لئے آپ اس کا مقابلہ کریں۔ قرآن کریم میں جو متفرق احکام اس بارہ میں آئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۳۰۲؎ یعنی اس لئے کہ اِن (مسلمانوں) پر ظلم کیا گیا اور ان مسلمانوں کو جن سے دشمن نے لڑائی جاری کر رکھی ہے، آج جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اللہ یقینا اُن کی مدد پر قادر ہے۔ ہاں ان مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی جاتی ہے جن کواُن کے گھروں سے بغیر کسی جرم کے نکال دیا گیا۔ اُن کا صرف اتناہی جرم تھا (اگر یہ کوئی جرم ہے) کہ وہ یہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور اگر اللہ تعالیٰ بعض ظالم لوگوں کو دوسرے عادل لوگوں کے ذریعہ سے ظلم روکتا نہ رہے تو گرجے اور مناسڑیاں ۳۰۳؎ اور عبادت گاہیں اور مسجدیں جن میں خدا تعالیٰ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے ظالموں کے ہاتھ سے تباہ ہو جائیں (پس دنیا میں مذہب کی آزادی قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ مظلوموں کو اور ایسی قوموں کو جن کے خلاف دشمن پہلے جنگ کا اعلان کر دیتا ہے جنگ کی اجازت دیتا ہے) اور یقینا اللہ تعالیٰ اُن کی مدد کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کرنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یقینا بڑی طاقت والا اور غالب ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اگر دنیا میں طاقت پکڑ جائیں تو خدا تعالیٰ کی عبادتوں کو قائم کریں گے اور غریبوں کی خبر گیری کریں گے اور نیک اور اعلیٰ اخلاق کی دنیا کو تعلیم دیں گے اور بُری باتوں سے دنیا کو روکیں گے اور ہر جھگڑے کا انجام وہی ہوتا ہے جو خد اچاہتا ہے۔
اِن آیات میںجو مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دینے کے لئے نازل ہوئی ہیں بتایا گیا ہے کہ جنگ کی اجازت اسلامی تعلیم کی رو سے اُسی صورت میں ہوتی ہے، جب کوئی قوم دیر تک کسی قوم کے ظلموں کا تختہ مشق بنی رہے اور ظالم قوم اس کے خلاف بِلاوجہ جنگ کا اعلان کر دے اور اس کے دین میں دخل اندازی کرے اور ایسی مظلوم قوم کا فرض ہوتا ہے کہ جب اُسے طاقت ملے تو وہ مذہبی آزادی دے اور اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھے کہ خدا تعالیٰ اُس کو غلبہ بخشے تو وہ تمام مذاہب کی حفاظت کرے اور اُن کی مقدس جگہوں کے ادب اور احترام کا خیال رکھے اور اس غلبہ کو اپنی طاقت اور شوکت کا ذریعہ نہ بنائے بلکہ غریبوں کی خبر گیری، ملک کی حالت کی درستی اور فساد اور شرارت کے مٹانے میں اپنی قوتیں صرف کرے۔ یہ کیسی مختصر اور جامع تعلیم ہے۔ اس میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے اور اگر اب وہ جنگ کریں گے تو وہ مجبوری کی وجہ سے ہو گی ورنہ جارحانہ جنگ اسلام میں منع ہے اور پھر کس طرح شروع میں بھی یہ کہہ دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو غلبہ ضرور ملے گا۔ مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اُن کو اپنے غلبہ کے ایام میں بجائے حکومت سے اپنی جیبیں بھرنے کے اور اپنی حالت سدھارنے کے غرباء کی خبر گیری اور امن کے قیام اور فساد کے دور کرنے اور قوم اور ملک کو ترقی دینے کی کوشش کرنے کو اپنا مقصد بنانا چاہئے۔
(۲) پھر فرماتا ہے ۔۳۰۴؎ یعنی اُن لوگوں سے جو تم سے جنگ کر رہے ہیں تم بھی محض اللہ کی خاطر جس میں تمہارے اپنے نفس کا غصہ اور نفس کی ملونی شامل نہ ہو جنگ کرو اور یاد رکھو کہ جنگ میں بھی کوئی ظالمانہ فعل اختیار مت کرنا کیو نکہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو بہر حال پسند نہیں کرتا۔ اور جہاں کہیں بھی تمہاری اور اُن کی جنگ کے ذریعہ سے مٹھ بھیڑ ہوجائے وہاں تم اُن سے جنگ کرو اور یونہی اِکاّدُ کاّ ملنے والے پر حملہ مت کرو۔ اور چونکہ انہوں نے تمہیں لڑائی کے لئے نکلنے پر مجبور کیا ہے تم بھی اُنہیں اُن کے جواب میں لڑائی کا چیلنج دو اور یاد رکھو کہ قتل اور لڑائی کی نسبت دین کی وجہ سے کسی کو دُکھ میں ڈالنا زیادہ خطرناک گناہ ہے۔ پس تم ایسا طریق نہ اختیار کرو کیونکہ یہ بے دین لوگوں کا کام ہے۔ اور چاہئے کہ تم مسجد حرام کے پاس اُن سے اُس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک وہ جنگ کی ابتدا نہ کریں کیونکہ اس سے حج اور عمرہ کے راستہ میں روک پید ا ہوتی ہے۔ ہاں اگر وہ خود ایسی جنگ کی ابتدا کریں تو پھر تم مجبور ہو اور تمہیں جواب دینے کی اجازت ہے ۔جو لوگ عقل اور انصاف کے احکام کو ردّ کر دیتے ہیں اُن کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر اُنہیں ہوش آجائے اور وہ اس بات سے رُک جائیں تو اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا مہربان ہے۔ اِس لئے تم کو بھی چاہئے کہ ایسی صورت میں اپنے ہاتھوں کو روک لو اور اس خیال سے کہ یہ حملہ میں ابتدا کر چکے ہیں جوابی حملہ نہ کرو۔ اور چونکہ وہ لڑائی شروع کر چکے ہیں تم بھی اُس وقت تک لڑائی کو جاری رکھو جب تک کہ دین میں دخل اندازی کرنے کے طریق کو وہ نہ چھوڑیں اور وہ تسلیم نہ کرلیں کہ دین کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس میں جبر کرنا کسی انسان کے لئے جائز نہیں۔ اگر وہ یہ طریق اختیار کر لیں اور دین میں دخل اندازی سے باز آجائیں تو فوراً لڑائی بند کر دو کیونکہ سزا صرف ظالموں کو دی جاتی ہے۔ اور اگر وہ اس قسم کے ظلم سے باز آجائیں تو پھر اُن سے لڑائی کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔
اِن آیات میں بتایا گیا ہے کہ:۔
اوّل: لڑائی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہونی چاہئے یعنی ذاتی لالچوں، ذاتی حرصوں، ملک کے فتح کرنے کی نیت یا اپنے رسوخ کو بڑھانے کی نیت سے لڑائی نہیں ہونی چاہئے۔
دوم : لڑائی صرف اُسی سے جائز ہے جو پہلے حملہ کرتا ہے۔
سوم: انہی سے تم کو جنگ کرنی جائز ہے جو تم سے لڑتے ہیں یعنی جو لوگ باقاعدہ سپاہی نہیں اور لڑائی میں عملاً حصہ نہیں لیتے اُن کو مارنا یا اُن سے لڑائی کرنا جائز نہیں۔
چہارم: باوجود دشمن کے حملہ میں ابتدا کرنے کے لڑائی کو اُس حد تک محدود رکھنا چاہئے جس حد تک دشمن نے محدود رکھا ہے اور اُسے وسیع کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے نہ علاقہ کے لحاظ سے اور نہ ذرائع جنگ کے لحاظ سے۔
پنجم: جنگ صرف جنگی فوج کے ساتھ ہونی چاہئے یہ نہیں کہ دشمن قوم کے اِکے دُکے افراد کے ساتھ مقابلہ کیا جائے۔
ششم: جنگ میں اس امر کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ مذہبی عبادتوں اور مذہبی فرائض کی ادائیگی میں روکیں پیدا نہ ہوں۔ اگر دشمن کسی ایسی جگہ پر جنگ کی طرح نہ ڈالے جہاں جنگ کرنے سے اُس کی مذہبی عبادتوں میں رخنہ ہوتا ہو تو مسلمانوں کو بھی اُس جگہ جنگ نہیں کرنی چاہئے۔
ہفتم: اگر دشمن خود مذہبی عبادت گاہوں کو لڑائی کا ذریعہ بنائے تو پھر مجبوری ہے ورنہ تم کو ایسا نہ کرنا چاہیے۔ اِس آیت میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ عبادت گاہوں کے اِردگرد بھی لڑائی نہیں ہونی چاہئے کجایہ کہ عبادت گاہوںپر حملہ کیا جائے یا وہ مسمار کی جائیں یا توڑی جائیں۔ ہاں اگر دشمن خود عبادت گاہوں کو لڑائی کا قلعہ بنا لے تو پھر اُن کے نقصان کی ذمہ داری اُس پر ہے اِس نقصان کی ذمہ داری مسلمانوں پر نہیں۔
ہشتم: اگر دشمن مذہبی مقاموں میں لڑائی شروع کرنے کے بعد اُس کے خطرناک نتائج کو سمجھ جائے اور مذہبی مقام سے نکل کر دوسری جگہ کو میدانِ جنگ بنا لے تو مسلمانوں کو اس بہانہ سے اُن کے مذہبی مقاموں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے کہ اس جگہ پر پہلے اُن کے دشمنوں نے لڑائی شروع کی تھی بلکہ فوراً اُن مقامات کے ادب اور احترام کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے حملہ کا رُخ بھی بدل دینا چاہئے۔
نہم: لڑائی اُس وقت تک جاری رکھنی چاہئے جب تک کہ مذہبی دست اندازی ختم ہو جائے اور دین کے معاملہ کو صرف ضمیر کا معاملہ قرار دیا جائے۔ سیاسی معاملوں کی طرح اس میں دخل اندازی نہ کی جائے۔ اگر دشمن اس بات کا اعلان کر دے اور اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو خواہ وہ حملہ میں ابتدا کر چکا ہو اُس کے ساتھ لڑائی نہیں کرنی چاہئے۔
(۳) فرماتا ہے ۔۳۰۵؎ یعنی اے محمد رسول اللہ! دشمن نے جنگیں شروع کیں اور تمہیں خداتعالیٰ کے حکم سے اُن کا جواب دینا پڑا۔ مگر تو اُن میں اعلان کر دے کہ اگر اب بھی وہ لڑائی سے باز آجائیں تو جو کچھ وہ پہلے کر چکے ہیں انہیں معاف کر دیا جائے۔ لیکن اگر وہ لڑائی سے باز نہ آئیں اور بار بار حملے کریں تو پہلے انبیاء کے دشمنوں کے انجام اُن کے سامنے ہیں انجام ان کا بھی وہی ہو گا۔ اور اے مسلمانو! تم اُس وقت جنگ کو جاری رکھو کہ مذہب کی خاطر دُکھ دینا مٹ جائے اور دین کو کلّی طور پر خداتعالیٰ کے سپرد کردیا جائے اور دین کے معاملہ میں دخل اندازی کرنا لوگ چھوڑ دیں۔ پھر اگر یہ لوگ اِن باتوں سے باز آجائیں تو محض اِس وجہ سے اُن سے جنگ نہ کرو کہ وہ ایک غلط دین کے پیرو ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے عمل کو جانتا ہے وہ خود جیسا چاہے گا ان سے معاملہ کرے گا تمہیں اُن کے غلط دین کی وجہ سے ان کے کاموں میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہوسکتی۔ اگر ہمارے اس صلح کے اعلان کے بعد بھی جو لوگ جنگ سے باز نہ آئیں اور لڑائی جاری رکھیں تو خوب سمجھ لو کہ باوجود اِس کے کہ تم تھوڑے ہو تم ہی جیتو گے کیونکہ اللہ تمہارا ساتھی ہے اور خداتعالیٰ سے بہتر ساتھی اور بہتر مدد گار اور کون ہوسکتا ہے۔
یہ آیات قرآن مجید میں جنگ بدر کے ذکر کے بعد آئی ہیں جو کفّارِ عرب اور مسلمانوں کے درمیان سب سے پہلی باقاعدہ جنگ تھی۔ باوجود اس کے کہ کفّارِ عرب نے بِلاوجہ مسلمانوں پر حملہ کیا اور مدینہ کے اِرد گرد فساد مچایا اور باوجود اس کے کہ مسلمان کامیاب ہوئے اور دشمن کے بڑے بڑے سردار مارے گئے قرآن کریم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہی اعلان کروایا ہے کہ اگر اب بھی تم لوگ باز آجاؤ تو ہم لڑائی کو جاری نہیں رکھیں گے۔ ہم تو صرف اتنا چاہتے ہیں کہ جبراً مذہب نہ بدلوائے جائیں اور دین کے معاملہ میں دخل نہ دیا جائے۔
(۴) فرماتا ہے ۳۰۶؎ یعنی اگر کسی وقت بھی کفّار صلح کی طرف جھکیں تو تُو فوراً ان کی بات مان لیجیو اور صلح کر لیجیو اور یہ وہم مت کیجیو کہ شاید وہ دھوکا کررہے ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیو۔ خداتعالیٰ دعاؤں کو سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اور اگر تیرا یہ خیال صحیح ہو کہ وہ دھوکا کرنا چاہتے ہیں اور وہ واقعہ میں تجھے دھوکا دینے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں تو بھی یاد رکھ کہ ان کے دھوکا دینے سے بنتا کیا ہے۔ تجھے تو صرف اللہ کی مدد سے ہی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ اُس کی مدد تیرے لئے کافی ہے۔ گزشتہ زمانہ میں وہی اپنی براہِ راست مدد کے ذریعہ اور مؤمنوں کی مدد کے ذریعہ تیرا ساتھ دیتا رہا ہے۔
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب دشمن صلح کرنے پر آمادہ ہو تو مسلمانوں کو بہر حال اس سے صلح کر لینی چاہئے۔ اگر صلح کے اُصول کو وہ ظاہر میں تسلیم کرتا ہو تو صرف اِس بہا نہ سے صلح کو ردّ نہیں کرنا چاہئے کہ شاید دشمن کی نیت بَد ہو اور بعد میں طاقت پکڑ کے دوبارہ حملہ کرنا چاہتا ہو۔
اِن آیتوں میں درحقیقت صلح حدیبیہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب دشمن صلح کرنا چاہے گا اُس وقت تم اِس عذر سے کہ دشمن نے زیادتی کی ہے یا یہ کہ وہ بعد میں اس معاہدہ کو توڑ دینا چاہتا ہے صلح سے انکار نہ کرنا کیونکہ نیکی کا تقاضا بھی یہی ہے اور تمہارا فائدہ بھی اس میں ہے کہ تم صلح کی پیشکش کو تسلیم کر لو۔
(۵) فرماتا ہے ۳۰۷؎ یعنی اے مومنو! جب تم خد اکی خاطر لڑائی کے لئے باہر نکلو تو اِس بات کی اچھی طرح تحقیقات کر لیا کرو کہ تمہارے دشمن پر حجت تمام ہو چکی ہے اور وہ بہر حال لڑائی پر آمادہ ہے اور اگر کوئی شخص یا جماعت تمہیں کہے کہ میں تو صلح کرتا ہوں تو یہ مت کہو کہ تو دھوکا دیتا ہے اور ہمیں اُمید نہیں کہ ہم تجھ سے امن میں رہیں گے۔ اگر تم ایسا کرو گے تو پھر تم خدا کی راہ میں لڑنے والے نہیں ہو گے بلکہ تم دنیا طلب قرار پائو گے۔ پس ایسا مت کرو کیونکہ جس طرح خدا کے پاس دین ہے اسی طرح خداکے پاس دنیا کا بھی بہت سا سامان ہے۔ تمہیں یادر کھنا چاہئے کہ کسی شخص کا مار دینا اصل مقصود نہیں۔ تمہیں کیا معلوم ہے کہ کل کو وہ ہدایت پا جائے۔ تم بھی تو پہلے دین اسلام سے باہر تھے پھر اللہ تعالیٰ نے احسان کر کے تمہیں اِس دین کے اختیار کرنے کی توفیق دی۔ پس مارنے میں جلدی مت کیا کرو بلکہ حقیقتِ حال کی تحقیق کیا کرو۔ یاد رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب لڑائی شروع ہو جائے تب بھی اس بات کی اچھی طرح تحقیق کرنی چاہئے کہ دشمن کا ارادہ جارحانہ لڑائی کا ہے؟ کیونکہ ممکن ہے کہ دشمن جارحانہ لڑائی کا ارادہ نہ کرتا ہو بلکہ وہ خود کسی خوف کے ماتحت فوجی تیاری کر رہا ہو۔ پس پہلے اچھی طرح تحقیقات کر لیا کرو کہ دشمن کا ارادہ جارحانہ جنگ کا تھا تب اُس کے سامنے مقابلہ کے لئے آئو۔ اور اگر وہ یہ کہے کہ میرا ارادہ تو جنگ کرنے کا نہیں تھا میں تو صرف خوف کی وجہ سے تیاری کر رہا تھا تو تمہیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ نہیں تمہاری جنگی تیاری بتاتی ہے کہ تم ہم پر حملہ کرنا چاہتے تھے ہم کس طرح سمجھیں کہ ہم تم سے مأمون اور محفوظ ہیں بلکہ اُس کی بات کو قبول کر لو اور یہ سمجھو کہ اگر پہلے اُس کا ارادہ بھی تھا تو ممکن ہے بعد میں اس میں تبدیلی پیدا ہو گئی ہو۔ تم خود اس بات کے زندہ گواہ ہو کہ دلوں میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے تم پہلے اسلام کے دشمن تھے مگر اب تم اسلام کے سپاہی ہو۔
(۶) پھر دشمنوں سے عہد کے متعلق فرماتا ہے ۳۰۸؎ یعنی مشرکوں میں سے وہ جنہوں نے تم سے کوئی عہد کیا تھا اور پھر اُنہوں نے اُس عہد کو توڑا نہیں اور تمہارے خلاف تمہارے دشمنوں کی مدد نہیں کی، عہد کی مدت تک تم بھی پابند ہو کہ معاہدہ کو قائم رکھو۔ یہی تقویٰ کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔
(۷) ایسے دشمنوں کے متعلق جو برسر جنگ ہوں لیکن اُن میں سے کوئی شخص اسلام کی حقیقت معلوم کرنا چاہے فرماتا ہے ۳۰۹؎ یعنی اگر برسر جنگ مشرکو ں میں سے کوئی شخص اِس لئے پناہ مانگے کہ وہ تمہارے ملک میں آکر اسلام کی تحقیقات کرنا چاہتا ہے تو اُس کو ضرور پناہ دو اتنے عرصہ تک کہ وہ اچھی طرح اسلام کی تحقیقات کر لے اور قرآن کریم کے مضامین سے واقف ہو جائے۔ پھر اس کو اپنی حفاظت میں اُس مقام تک پہنچا دو جہاں وہ جانا چاہتا ہے اور جسے اپنے لئے امن کا مقام سمجھتا ہے۔
(۸) جنگی قیدیوں کے متعلق فرماتاہے ۔۳۱۰؎ یعنی کسی نبی کی شان کے مطابق یہ بات نہیں کہ وہ اپنے دشمن کے قیدی بنا لے۔ سوائے اس کے کہ باقاعدہ جنگ میںقیدی پکڑے جائیں۔ یعنی یہ رواج جواُس زمانہ تک بلکہ اس کے بعد بھی صدیوں تک دنیا میں قائم رہا ہے کہ اپنے دشمن کے آدمیوں کو بغیر جنگ کے ہی پکڑ کر قید کر لینا جائز سمجھا جاتا تھا اُسے اسلام پسند نہیںکرتا۔ وہی لوگ جنگی قیدی کہلا سکتے ہیں جو میدانِ جنگ میں شامل ہوں اور لڑائی کے بعد قید کئے جائیں۔
(۹) پھر اُن قیدیوں کے متعلق فرماتا ہے ۔۳۱۱؎ یعنی جب جنگی قیدی پکڑے جائیں تو یا تو احسان کر کے اُنہیں چھوڑ دو یااُن کا بدلہ لے کے اُن کو آزاد کر دو۔
(۱۰) اگر کوئی قیدی ایسے ہوں جن کا بدلہ دینے والا کوئی نہ ہو یا اُن کے رشتہ دار اُن کے اموال پر قابض ہونے کیلئے یہ چاہتے ہوں کہ وہ قید ہی رہیں تو اچھاہے تو اُن کے متعلق فرماتا ہے۔۔۳۱۲؎ یعنی تمہارے جنگی قیدیوں میں سے ایسے لوگ جن کو نہ تم احسان کر کے چھوڑ سکتے ہو اور نہ اُن کی قوم نے اُن کا فدیہ دے کر اُنہیں آزاد کروایا ہے ا گر وہ تم سے یہ مطالبہ کریںکہ ہمیں آزاد کر دیا جائے ہم اپنے پیشہ اور ہنر کے ذریعہ سے روپیہ کما کر اپنے حصہکا جرمانہ ادا کر دیں گے تو اگر وہ اس قابل ہیں کہ آزدانہ روزی کما سکیں تو تم ضرور اُنہیں آزاد کر دو بلکہ اُن کی کوشش میں خود بھی حصہ دار بنو اور خدا نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اُس میں سے کچھ روپیہ اُن کے آزاد کرنے میں صرف کر دو یعنی اُن کے حصہ کا جو جنگی خرچ بنتا ہے یا اُس میں سے کچھ مالک چھوڑ دے یا دوسرے مسلمان مل کر اُس قیدی کی مالی امداد کریں اور اُسے آزاد کرائیں۔
یہ وہ حالات ہیں جن میں اسلام جنگ کی اجازت دیتا ہے اور یہ وہ قواعد ہیں جن کے ماتحت اسلام جنگ کی اجازت دیتا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم کی اِن آیات کی روشنی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مزید تعلیمات مسلمانوں کو دیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:۔
۱۔ کسی صورت میں مسلمانوں کو مثلہ کرنے کی اجازت نہیں، یعنی مسلمانوں کو مقتولین جنگ کی ہتک کرنے یا اُن کے اعضاء کاٹنے کی اجازت نہیں ہے۔ ۳۱۳؎
۲۔ مسلمانوں کو کبھی جنگ میں دھوکا بازی نہیں کرنی چاہئے۔ ۳۱۴؎
۳۔ کسی بچے کو نہیں مارنا چاہئے اور نہ کسی عورت کو۔۳۱۵؎
۴۔ پادریوں،پنڈتوں اور دوسرے مذہبی رہنمائوں کو قتل نہیں کرنا چاہئے۔۳۱۶؎
۵۔ بڈھے کو نہیں مارنا چاہئے، بچے کو نہیں مارنا چاہئے، عورت کو نہیں مارنا چاہئے اور ہمیشہ صلح اور احسان کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ ۳۱۷؎
۶۔ جب لڑائی کے لئے مسلمان جائیں تو اپنے دشمنوں کے ملک میں ڈر اور خوف پید انہ کریں اور عوام الناس پر سختی نہ کریں۔۳۱۸؎
۷۔ جب لڑائی کے لئے نکلیں تو ایسی جگہ پر پڑائو نہ ڈالیں کہ لوگوں کے لئے تکلیف کا موجب ہو اور کوچ کے وقت ایسی طرز پر نہ چلیں کہ لوگوں کیلئے رستہ چلنا مشکل ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا سختی سے حکم دیا ہے کہ فرمایا جو شخص اِن احکام کے خلاف کرے گا اُس کی لڑائی اُس کے نفس کے لئے ہو گی خدا کے لئے نہیںہو گی۔۳۱۹؎
۸۔ لڑائی میں دشمن کے منہ پر زخم نہ لگائیں۔
۹۔ لڑائی کے وقت کوشش کرنی چاہئے کہ دشمن کو کم سے کم نقصان پہنچے۔
۱۰۔ جو قیدی پکڑے جائیں اُن میں سے جو قریبی رشتہ دار ہوں اُن کو ایک دوسرے سے جدا نہ کیا جائے۔ ۳۲۰؎
۱۱۔ قیدیوں کے آرا م کا اپنے آرام سے زیادہ خیال رکھا جائے۔۳۲۱؎
۱۲۔ غیر ملکی سفیروں کا ادب اور احترام کیا جائے۔ وہ غلطی بھی کریں تو اُن سے چشم پوشی کی جائے۔۳۲۲؎
۱۳۔ اگر کوئی شخص جنگی قیدی کے ساتھ سختی کر بیٹھے تو اس قیدی کو بِلا معاوضہ آزاد کر دیا جائے۔
۱۴۔ جس شخص کے پاس کوئی جنگی قیدی رکھا جائے وہ اُسے وہی کھلائے جو خود کھائے اور اُسے وہی پہنائے جو خود پہنے۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہی احکام کی روشنی میں مزید یہ حکم جاری فرمایا کہ عمارتوں کو گرائو مت اور پھلدار درختوں کو کاٹو مت۔ ۳۲۳؎
اِن احکام سے پتہ لگ سکتا ہے کہ اسلام نے جنگ کے روکنے کے لئے کیسی تدابیر اختیار کی ہیں اورر سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس عمدگی کے ساتھ اِن تعلیمات کو جامہ پہنایا اور مسلمانوں کو اِن پر عمل کرنے کی تلقین کی۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ نہ موسٰی ؑ کی تعلیم اِس زمانہ میں عدل کی تعلیم کہلا سکتی ہے نہ وہ اِس زمانہ میں قابل عمل ہے اور نہ مسیحؑ کی تعلیم اِس زمانہ میں قابلِ عمل کہلا سکتی ہے اور نہ کبھی عیسائی دنیا نے اِس پر عمل کیا ہے۔ اسلام ہی کی تعلیم ہے جو قابل عمل ہے اور جس پر عمل کر کے دنیا میں امن قائم رکھا جا سکتا ہے۔
بیشک اس زمانہ میں مسٹر گاندھی نے دنیا کے سامنے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ جنگ کے وقت بھی جنگ نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن جس تعلیم کو مسٹر گاندھی پیش کر رہے ہیں اُس پر دنیا میں کبھی عمل نہیں ہوا کہ ہم اُس کی بُرائی اور خوبی کا اندازہ کر سکیں۔ مسٹر گاندھی کی زندگی میں ہی کانگرس کو حکومت مل گئی ہے اورکانگرسی حکومت نے فوجوں کو ہٹایا نہیں بلکہ وہ یہ تجویزیں کر رہی ہے کہ آئی۔ این۔ اے کے وہ افسر جو برطانوی گورنمنٹ نے ہٹا دئیے تھے اُن کو دوبارہ فوج میں ملازم رکھا جائے۔ بلکہ کانگرسی حکومت کے ہندوستان میں قائم ہونے کے سات دن کے اندر وزیرستان کے علاقہ میں نہتے آدمیوں پر ہوائی جہازوں کے ذریعہ سے بم گرائے گئے ہیں۔ خود گاندھی جی تشدد کرنے والوں کی تائید اور اُن کے چھوڑ دینے کے حق میں گورنمنٹ پر ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ گاندھی جی نہ اُن کے پیرو اِس تعلیم پر عمل کر سکتے ہیں اور نہ کوئی ایسی معقول صورت دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں جس سے معلوم ہو کہ قوموں اور ملکوں کی جنگ میں اس تعلیم پر کس طرح کامیاب طور پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ منہ سے اِس تعلیم کا وعظ کرتے ہوئے اُس کے خلاف عمل کرنا بتاتا ہے کہ اِس تعلیم پر عمل نہیں کیا سکتا۔ پس اِس وقت تک دنیا کا تجربہ ہے اور عقل جس حد تک انسان کی راہنمائی کرتی ہے ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی طریقہ صحیح تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
کفار کی طرف سے جنگ خندق کے بعد مسلمانوں پر حملے
احزاب سے واپس لوٹنے کے بعد گوکفار کی ہمتیں ٹوٹ چکی تھیں اور اُن کے حوصلے پست ہو گئے تھے، لیکن اُن کا یہ احساس باقی تھا کہ ہم
اکثریت میں ہیں اور مسلمان تھوڑے ہیں اور وہ سمجھتے تھے کہ جہاں جہاں بھی ہو گا ہم مسلمانوں کو اِکّا دُکّا پکڑ کر مار سکیں گے اور اِس طرح اپنی ذلّت کا بدلہ لے سکیں گے۔ چنانچہ احزاب کی شکست کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مدینہ کے اِردگرد کے قبائل نے مسلمانوں پر چھاپے مارنے شروع کر دئیے۔ چنانچہ فزارہ قوم کے کچھ سواروں نے مدینہ کے قریب چھاپہ مارا اور مسلمانوں کے اُونٹ جو وہاں چر رہے تھے اُن کے چرواہے کو قتل کیا، اُس کی بیوی کو قید کر لیا اور اُونٹوں سمیت بھاگ گئے۔ قیدی عورت تو کسی نہ کسی طرح بھاگ آئی لیکن اُونٹوں کا ایک حصہ لے کر بھاگ جانے میں دشمن کامیاب ہو گیا۔ اس کے ایک مہینہ بعد شمال کی طرف غطفان قبیلہ کے لوگوں نے مسلمانوں کے اُونٹوں کے گلوں کو لوٹنے کی کوشش کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہؓ کو دس سواروں سمیت حالات کے معلوم کرنے اور گلوں کی حفاظت کرنے کے لئے بجھوایا مگر دشمن نے موقع پا کر اُنہیں قتل کر دیا۔ محمد بن مسلمہ کو بھی وہ اپنی طرف سے قتل کر کے پھینک گئے تھے لیکن اصل میں وہ بیہوش تھے دشمن کے چلے جانے کے بعد وہ ہوش میں آئے اور مدینہ پہنچ کر ان حالات کی اطلاع دی اور بتایا کہ میرے سب ساتھی مارے گئے اور صرف میں بچا ہوں۔
کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سفیر جو رومی حکومت کی طرف سے بھجوایا گیا تھا اُس پر جرہم قوم نے حملہ کیا اور اُسے لوٹ لیا۔ اس کے ایک مہینہ بعد بنوفزارہ نے مسلمانوں کے ایک قافلہ پر حملہ کیا اور اسے لوٹ لیا۔ غالباً یہ حملہ کسی مذہبی عداوت کی وجہ سے نہیں تھا کیونکہ بنو فزارہ ڈاکوئوں کا ایک قبیلہ تھا جو ہر قوم کے آدمیوں کو لوٹتے اور قتل کرتے رہتے تھے۔ اُس زمانہ میں خیبر کے یہودی بھی جو جنگ احزاب کا موجب ہوئے تھے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لئے اِدھر اُدھر کے قبائل کو بھڑکاتے رہے اور رومی حکومت کے سرحدی علاقوں کے افسروں اور قبائل کو بھی مسلمانوں کے خلاف جوش دلاتے رہے۔ غرض کفارِ عرب کو مدینہ پر حملہ کرنے کی تو ہمت نہ رہی تھی تاہم وہ یہود کے ساتھ مل کر سارے عرب میں مسلمانوں کے لئے مصیبتوں اور لوٹ مار کے سامان پید اکر رہے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی تک کفار کے ساتھ آخری لڑائی لڑنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا اور آپ اس انتظار میں تھے کہ اگر صلح کے ساتھ یہ خانہ جنگی ختم ہو جائے تو اچھا ہے۔
پندرہ سَو صحابہؓ کے ساتھ آنحضرتﷺکی مکہ کو روانگی
اِس عرصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رئویا دیکھی جس کا قرآن کریم میں ان الفاظ میں ذکر آتا ہے۔
۳۲۴؎ یعنی ضرور تم اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت مسجد حرام میں امن کے ساتھ داخل ہوگے۔ تم میںسے بعضوں کے سر منڈے ہوئے ہوں گے اور بعضوں کے بال کٹے ہوئے ہوں گے (حج کے وقت سر منڈانا اور بال کٹانا ضروری ہوتا ہے) تم کسی سے نہ ڈر رہے ہو گے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے۔ اِس وجہ سے اُس نے اِس خواب کے پورا ہونے سے پہلے ایک اور فتح مقرر کر دی ہے جو خواب والی فتح کا پیش خیمہ ہو گی۔
اِس رئویا میں درحقیقت صلح اور امن کے ساتھ مکہ کو فتح کرنے کی خبر دی گئی تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعبیر یہی سمجھی کہ شاید ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خانہ کعبہ کا طواف کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور چونکہ اِس غلط فہمی سے اس قسم کی بنیاد پڑنے والی تھی اللہ تعالیٰ نے اِس غلطی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ نہ کیا۔ چنانچہ آپؐ نے اپنے صحابہ میں اِس بات کا اعلان کیا اور اُنہیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی تلقین کی۔ مگر فرمایا ہم صرف طواف کی نیت سے جارہے ہیں کسی قسم کا مظاہرہ یا کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو دشمن کی ناراضگی کا موجب ہو۔ چنانچہ آخر فروری۶۲۸ء میں پندرہ سَو زائرین کے ساتھ آپ مکہ کی طرف روانہ ہوئے( ایک سال بعدکل پندرہ سَو آدمیوں کا آپ کے ساتھ جانا بتاتاہے کہ اس سے ایک سال پہلے جنگ احزاب کے موقع پر اس تعداد سے کم ہی سپاہی ہوں گے۔ کیو نکہ ایک سال میں مسلمان بڑھے تھے گھٹے نہ تھے۔ پس جنگ احزاب میں لڑنے والوں کی تعداد جن مؤرخوں نے تین ہزار لکھی ہے یہ غلطی کی ہے۔ درست یہی ہے کہ اُس وقت بارہ سَو سپاہی تھے)حج کے قافلہ کے آگے بیس سوار کچھ فاصلہ پر اس لئے چلتے تھے تاکہ اگر دشمن مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہے تو اُن کو وقت پر اطلاع مل جائے۔ جب مکہ والوں کو آپ کے اِس ارادہ کی اطلاع ہوئی تو باوجود اس کے کہ اُن کا اپنا مذہب بھی یہی تھا کہ طوافِ کعبہ میں کسی کے لئے روک نہیں ڈالنی چاہئے اور باوجود اس کے کہ مسلمانوں نے وضاحت سے اعلان کر دیا تھا کہ وہ صرف اور صرف طوافِ کعبہ کے لئے جار ہے ہیں کسی قسم کی مخالفت یا جھگڑے کے لئے نہیں جار ہے مکہ والوں نے مکہ کو ایک قلعہ کی صورت میں تبدیل کر دیااور اِردگرد کے قبائل کو بھی اپنی مدد کے لئے بلوایا۔ جب آپ مکہ کے قریب پہنچے تو آپ کو یہ اطلاع ملی کہ قریش نے چیتوں کی کھالیں پہن لی ہیں اور اپنی بیویوں اور بچوں کو ساتھ لے لیا ہے اور یہ قسمیں کھا لی ہیں کہ وہ آپ کو گزرنے نہیں دیں گے۔ یہ عرب کا رواج تھا کہ جب قوم موت کا فیصلہ کر لیتی تھی تو اس کے سردار چیتے کی کھالیں پہن لیتے تھے جس کے معنی یہ ہوتے تھے کہ اب عقل کا وقت نہیں رہا، اب دلیری اور جرأت سے ہم جان دے دیں گے۔ اس اطلاع کے ملنے کے تھوڑی دیر بعد ہی مکہ کی فوج کا ہرا ول دستہ مسلمانوں کے سامنے آکھڑا ہوا اب اس مقام سے صرف اسی صورت میں آگے بڑھا جا سکتا تھا کہ تلوار کے زور سے دشمن کو زیر کیا جاتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ فیصلہ کر کے آئے تھے کہ بہر حال ہم نہیں لڑیں گے، آپ نے ایک ہوشیار راہبر کو جو جنگل کے راستوں سے واقف تھا اُسے اِس بات پر مقرر کیا کہ وہ جنگل کے اندر سے مسلمان زائرین کو لے کر مکہ تک پہنچا دے۔ یہ راہبر آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو لے کر حدیبیہ کے مقام پر جو مکہ کے قریب تھا جا پہنچا۔ یہاں آپ کی اُونٹنی کھڑی ہو گئی اور اُس نے آگے چلنے سے انکار کر دیا۔ صحابہؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ کی اُونٹنی تھک گئی ہے آپ اس کی جگہ دوسری اُونٹنی پر بیٹھ جائیں۔ مگر آپ نے فرمایا۔ نہیں نہیں یہ تھکی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہر جائیں اور میں یہیں ٹھہر کر مکہ والوں سے ہر طریقہ سے درخواست کروں گا کہ وہ ہمیں حج کی اجازت دے دیں اور خواہ کوئی شرط بھی وہ کریں میں اُسے منظور کر لوں گا۔ اُس وقت تک مکہ کی فوج مکہ سے دور فاصلہ پر کھڑی تھی اور مسلمانوں کا انتظار کر رہی تھی۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو بغیر مقابلہ کے مکہ میں داخل ہو سکتے تھے۔ لیکن چونکہ آپ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ پہلے آپ یہی کوشش کریں گے کہ مکہ والوں کی اجازت کے ساتھ طواف کریں اور اُسی صورت میں مقابلہ کریں گے کہ مکہ والے خود لڑائی شروع کرکے لڑنے پر مجبور کریں۔ اس لئے باوجود مکہ کی سڑک کے کھلا ہونے کے آپ نے حدیبیہ پر ڈیرہ ڈال دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر کہ آپ حدیبیہ پر ڈیرے ڈالے پڑے ہیں مکہ کے لشکرکو بھی جا پہنچی اور اُس نے جلدی سے پیچھے ہٹ کر مکہ کے قریب صفیں بنا لیں۔ سب سے پہلے بدیل نامی ایک سردار آپ سے بات کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ جب وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا۔ میں تو صرف طواف کرنے کے لئے آیا ہوں۔ ہاں مکہ والے اگر ہمیں مجبور کریں تو ہمیں لڑنا پڑے گا۔ اِس کے بعد مکہ کے کمانڈر ابوسفیان کا داماد عروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے نہایت گستاخا نہ طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر کہا کہ یہ اُوباشوں کا گروہ آپ اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں مکہ والے اِنہیں کسی صورت میں بھی اپنے شہر میں داخل ہونے نہیں دیں گے۔ اِسی طرح یکے بعد دیگرے پیغامبر آتے رہے۔ آخر مکہ والوں نے کہلا بھیجا کہ خواہ کچھ ہو جائے اِس سال تو ہم آپ کو طواف نہیں کرنے دیں گے کیونکہ اس میں ہماری ہتک ہے۔ ہاں اگر آپ اگلے سال آئیں تو ہم آپ کو اجازت دے دیں گے۔ بعض اِ ردگرد کے لوگوں نے مکہ والوں سے اصرار کیا کہ یہ لوگ صرف طواف کے لئے آئے ہیں آپ ان کو کیوں روکتے ہیں مگر مکہ کے لوگ اپنی ضد پر قائم رہے۔ اس پر بیرونی قبائل کے لوگوں نے مکہ والوں سے کہا کہ آپ لوگوں کا یہ طریق بتاتا ہے کہ آپ کو شرارت مدنظر ہے صلح مدنظر نہیں اِس لئے ہم لوگ آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس پر مکہ کے لوگ ڈر گئے اور اُنہوں نے اِس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کی کوشش کریں گے۔
جب اس امر کی اطلاع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے حضرت عثمانؓ کو جو بعد میں آپ کے تیسرے خلیفہ ہوئے مکہ والوں سے بات چیت کرنے کے لئے بھیجا۔ جب حضرت عثمانؓ مکہ پہنچے تو چونکہ مکہ میں اُن کی بڑی وسیع رشتہ داری تھی اُن کے رشتہ دار اُن کے گرد اکٹھے ہوگئے اور اُن سے کہا کہ آپ طواف کر لیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگلے سال آکر طواف کریں۔ مگر عثمانؓ نے کہا کہ میں اپنے آقا کے بغیر طواف نہیں کر سکتا۔ چونکہ رئوسائے مکہ سے آپ کی گفتگو لمبی ہو گئی، مکہ میں بعض لوگوں نے شرارت سے یہ خبر پھیلادی کہ عثمانؓ کوقتل کر دیا گیا ہے اور یہ خبر پھیلتے پھیلتے رسول اللہ صلی علیہ وسلم تک بھی جا پہنچی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو جمع کیا اور فرمایا سفیر کی جان ہر قوم میں محفوظ ہوتی ہے۔ تم نے سنا ہے کہ عثمانؓ کو مکہ والوں نے مار دیا ہے اگر یہ خبر درست نکلی تو ہم بزور مکہ میں داخل ہوں گے (یعنی ہمارا پہلا ارادہ کہ صلح کے ساتھ مکہ میں داخل ہوں گے جن حالات کے ماتحت تھا وہ چونکہ تبدیل ہو جائیں گے اِس لئے ہم اِس ارادہ کے پابند نہ رہیں گے) جو لوگ یہ عہد کرنے کے لئے تیار ہوں کہ اگر ہمیں آگے بڑھنا پڑا تو یا ہم فتح کر کے لوٹیں گے یا ایک ایک کر کے میدان میں مارے جائیں گے وہ اس عہد پر میری بیعت کریں۔ آپ کا یہ اعلان کرنا تھا کہ پندرہ سَو زائر جو آپ کے ساتھ آیا تھا یکدم پندرہ سَو سپاہی کی شکل میں بدل گیا اور دیوانہ وار ایک دوسرے پر پھاندتے ہوئے اُنہو ں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر دوسروں سے پہلے بیعت کرنے کی کوشش کی۔ یہ بیعت تمام اسلامی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور درخت کا عہد نامہ کہلاتی ہے کیونکہ جس وقت یہ بیعت لی گئی اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ جب تک اس بیعت میں شامل ہونے والا آخری آدمی بھی دنیا میں زندہ رہا وہ فخر سے اِس بیعت کا ذکر کیا کرتا تھا۔ کیونکہ پندرہ سَو آدمیوں میں سے ایک شخص نے بھی یہ عہد کرنے سے دریغ نہ کیا تھا کہ اگردشمن نے اسلامی سفیر کو مار دیا ہے تو آج دو صورتوں میں سے ایک ضرور پیدا کر کے چھوڑیں گے۔ یا وہ شام سے پہلے پہلے مکہ کو فتح کر کے چھوڑ یں گے یا شام سے پہلے پہلے میدانِ جنگ میں مارے جائیںگے۔ لیکن ابھی بیعت سے مسلمان فارغ ہی ہوئے تھے کہ حضرت عثمانؓ واپس آگئے اور اُنہوں نے بتایا کہ مکہ والے اِس سال تو عمرہ کی اجازت نہیں دے سکتے مگر آئندہ سال اجازت دینے کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ اِس بارہ میں معاہدہ کرنے کے لئے اُنہوں نے اپنے نمائندے مقرر کر دئیے ہیں۔ حضرت عثمانؓ کے آنے کے تھوڑی دیر بعد مکہ کا ایک رئیس سہیل نامی معاہدہ کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ معاہدہ لکھا گیا۔
شرائط صلح حدیبیہ
’’ خدا کے نام پر یہ شرائط صلح محمد ابن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) اور سہیل ابن عمرو ( قائمقام حکومت مکہ کے درمیان
طے پائی ہیں۔ جنگ دس سال کے لئے بند کی جاتی ہے۔ جو شخص محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ملنا چاہے یا اُن کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہے وہ ایسا کر سکتا ہے۔ اورجو شخص قریش کے ساتھ ملنا چاہے یا معاہدہ کرنا چاہے وہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔ اگر کوئی لڑکا جس کا باپ زندہ ہو یا ابھی چھوٹی عمر کا ہو وہ اپنے باپ یا متولی کی مرضی کے بغیر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جائے توا ُس کے باپ یا متولی کے پاس واپس کر دیا جائے گا لیکن اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھیوں میں سے کوئی قریش کی طرف جائے تو اُسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اس سال مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس چلے جائیں گے لیکن اگلے سال محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اور ا ن کے ساتھی مکہ میں آ سکتے ہیں اور تین دن تک وہاں ٹھہر کر کعبہ کا طواف کر سکتے ہیں اس عرصہ میں قریش شہر سے باہر پہاڑی پر چلے جائیں گے۔ لیکن یہ شرط ہو گی کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اُن کے ساتھی مکہ میں داخل ہوں تو اُن کے پاس کوئی ہتھیار نہ ہو سوائے اُس ہتھیار کے جوہر مسافر اپنے پاس رکھتا ہے یعنی نیام میں ڈالی ہوئی تلوار‘‘۔۳۲۵؎
اِس معاہدہ کے وقت دو عجیب باتیں ہوئیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرائط طے کرنے کے بعد معاہدہ لکھوانا شروع کیا تو آپ نے فرمایا ’’ خدا کے نام سے جو بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے‘‘۔ سہیل نے اس پر اعتراض کیا اور کہا خدا کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ ’’ بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ‘‘ ہم نہیں جانتے کون ہے۔ یہ معاہدہ ہمارے اور آپ کے درمیان ہے اور اس میں دونوں کے مذاہب کا احترام ضروری ہے۔ اس پر آپ نے اُس کی بات قبول کر لی اور صرف اتنا ہی لکھوایا کہ ’’ خد اکے نام پر ہم یہ معاہدہ کرتے ہیں‘‘۔ پھر آپ نے یہ لکھوایا کہ یہ شرائط صلح مکہ والوں اور محمد رسول اللہ کے درمیان ہیں۔ اس پر پھر سہیل نے اعتراض کیا اور کہا کہ اگر ہم آپ کو خدا کا رسول مانتے تو آپ کے ساتھ لڑتے کیوں؟ آپ نے اُس کے اس اعتراض کو بھی قبول کر لیا اور بجائے محمد رسول اللہ کے ’’ محمد بن عبداللہ‘‘ لکھوایا۔ چونکہ آپ مکہ والوں کی ہر بات مانتے چلے جاتے تھے، صحابہؓ کے دل میں بے انتہاء رنج اور افسوس پیدا ہوا اور غصہ سے اُن کا خون کھولنے لگا یہاں تک کہ حضرت عمرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا ہم سچے نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ! پھر اُنہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا آپ کو خدا نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ہم خانہ کعبہ کا طواف کریں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں! اس پر حضرت عمرؓ نے کہا پھر آپ نے یہ معاہدہ آج کیوں کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عمر! خدا تعالیٰ نے مجھے یہ تو فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف امن سے کریں گے مگر یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ ہم اسی سال کریں گے یہ تو میرا اپنا اجتہاد تھا۔ اِسی طرح بعض دوسرے صحابہؓ نے یہ اعتراض کیا کہ یہ اقرار کیوںکر لیا گیا ہے کہ اگر مکہ کے لوگوں میں سے کوئی نوجوان مسلمان ہواتو اس کے باپ یا ولی کی طرف واپس کر دیا جائے گا لیکن جو مسلمان مکہ والوں کی طرف جائے گا اُسے مکہ والے واپس کرنے پر مجبور نہ ہوں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِس میں کون سے حرج کی بات ہے ہر شخص جو مسلمان ہوتا ہے وہ اسلام کو سچا سمجھ کر مسلمان ہوتا ہے رسمی اور رواجی طور پر مسلمان نہیں ہوتا۔ ایسا شخص جہاں بھی رہے گا وہ اسلام کی تبلیغ کرے گا اور اسلام کی اشاعت کا موجب ہو گا لیکن جو شخص اسلام سے مرتد ہو تا ہے ہم نے اُسے اپنے اندر رکھ کر کرنا کیا ہے۔ جو شخص ہمارے مذہب کو جھوٹا سمجھ بیٹھا ہے وہ ہمارے لئے کس فائدہ کا موجب ہو سکتا ہے۔ آپ کا یہ جواب ان غلطی خوردہ مسلمانوں کا بھی جواب ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے۔ اگر اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر اصرار کرتے کہ ہر مرتد واپس کیا جائے تاکہ اُس کو اُس کے جرم کی سزا دی جائے۔ جس وقت یہ معاہدہ لکھ کر ختم ہو ا اور اس پر دستخط کر دئیے گئے۔ اُسی وقت اللہ تعالیٰ نے اس معاہدہ کی صحت کے پرکھنے کا سامان پیدا کر دیا۔ سہیل جو مکہ والوں کی طرف سے معاہدہ کر رہا تھا اس کا اپنا بیٹا رسیوں سے جکڑا ہوا اور زخموں سے چور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر گرا اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں دل سے مسلمان ہوں اور اسلام کی وجہ سے میرا باپ مجھے یہ تکلیفیں دے رہا ہے۔ میرا باپ یہاں آیا تو میں موقع پا کر آپ کے پاس پہنچا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی جواب نہ دیاتھا کہ اس کے باپ نے کہا معاہدہ ہو چکا ہے اور اِس نوجوان کو واپس میرے ساتھ جانا ہوگا۔ ابوجندل کی حالت اُس وقت مسلمانوں کے سامنے تھی وہ اپنے ایک بھائی کو جو اپنے باپ کے ہاتھوں سے اِس قدر ظلم برداشت کر رہا تھا واپس جانا دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اُنہوں نے تلواریں میانوں سے نکال لیں اور اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ وہ مر جائیں گے مگر اپنے بھائی کو اس تکلیف کے مقام پر پھر جانے نہیں دیں گے۔ خود ابوجندل نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یَارَسُوْل اللّٰہ !آپ میری حالت کو دیکھتے ہیں کیا آپ اس بات کو گوارا کریں گے کہ پھر مجھے اِ ن ظالموں کے سپرد کر دیں تاکہ پہلے سے بھی زیادہ مجھ پر ظلم توڑیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کے رسول معاہدے نہیں توڑا کرتے۔ ابوجندل! ہم معاہدہ کرچکے ہیں تم اب صبر سے کام لو اور خدا پر توکل کرو وہ تمہارے لیے اور تمہارے جیسے اور نوجوانوں کے لئے خو دہی بچنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا۔۳۲۶؎
اس معاہدے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ تشریف لے گئے۔ جب آپ مدینہ پہنچے تو مکہ کا ایک اور نوجوان ابوبصیرؓ آپ کے پیچھے پیچھے دَوڑتا ہوا مدینہ پہنچا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بھی معاہدہ کے مطابق واپس جانے پر مجبور کیا مگر راستہ میں اُس کی اپنے پکڑنے والوں سے لڑائی ہو گئی اور اپنے ایک محافظ کو قتل کر کے وہ بھاگ گیا۔ مکہ والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر شکایت کی تو آپ نے فرمایا ہم نے تمہارا آدمی تمہارے حوالے کر دیا تھا ہم اس بات کے ذمہ دار نہیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو ہم اُس کو پکڑ کر دوبارہ تمہارے سپرد کریں۔۳۲۷؎
اس کے تھوڑے دنوں بعد ایک عورت بھاگ کر مدینہ پہنچی۔ اس کے رشتہ داروں نے مدینہ پہنچ کر اُسے واپس بھجوانے کا مطالبہ کیا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاہدہ میں مردوں کی شرط ہے عورتوں کی شرط نہیں اس لئے ہم عورت کو واپس نہیں کریں گے۔۳۲۸؎
بادشاہوں کے نام خطوط
مدینہ تشریف لے آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ کیا کہ آپ اپنی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچائیں
جب آپ نے اپنے اِس ارادہ کا صحابہؓ سے ذکر کیا تو بعض صحابہ نے جو بادشاہی درباروں سے واقف تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! بادشاہ بغیر مہر کے خط نہیں لیتے۔ اِس پر آپ نے ایک مہر بنوائی جس پر’’ محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کھدوائے اور اللہ تعالیٰ کے ادب کے طور پر آپ نے سب سے اوپر ’’ اللہ‘‘ کا لفظ لکھوا دیا۔ نیچے ’’ رسول‘‘ کا اور پھر نیچے ’’محمد ‘‘ کا۔۳۲۹؎
محرم ۶۲۸ء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خط لے کر مختلف صحابہ مختلف ممالک کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان میں سے ایک خط قیصر روما کے نام تھا اور ایک خط ایران کے بادشاہ کی طرف تھا۔ ایک خط مصر کے بادشاہ کی طرف تھا جو قیصر کے ماتحت تھا۔ ایک نجاشی کی طرف تھا جو حبشہ کا بادشاہ تھا۔ اِسی طرح بعض اور بادشاہوں کی طرف آپ نے خطوط لکھے۔
قیصر روم ہرقل کے نام خط
قیصر روما کا خط دحیہ کلبیؓ صحابی کے ہاتھ بھیجا گیا اور آپ نے اُسے ہدایت کی تھی کہ پہلے وہ بصرہ کے گورنر کے
پاس جائے جو نسلاً عرب تھا اور اس کی معرفت قیصر کو خط پہنچائے۔ جب دحیہ کلبیؓ گورنر بصرہ کے پاس خط لے کر پہنچے تو اتفاقاً اُنہی دنوں قیصر شام کے دورہ پر آیا ہوا تھا۔ چنانچہ گورنر بصرہ نے دحیہؓ کو اس کے پاس بجھوا دیا۔ جب دحیہؓ ،گورنر بصرہ کی معرفت قیصر کے پاس پہنچے تو دربار کے افسروں نے اُن سے کہا کہ قیصر کی خدمت میں حاضر ہونے والے ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ قیصر کو سجدہ کرے۔ دحیہؓ نے انکار کیا اور کہا کہ ہم مسلمان کسی انسان کو سجدہ نہیں کرتے چنانچہ بغیر سجدہ کرنے کے آپ اُس کے سامنے گئے اور خط پیش کیا۔ بادشاہ نے ترجمان سے خط پڑھوایا اور پھر حکم دیا کہ کوئی عرب کا قافلہ آیا ہو تو اُن لوگوں کو پیش کرو تاکہ میں ا س شخص کے حالات اُن سے دریافت کروں۔ اتفاقاً ابوسفیان ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ اُس وقت وہاں آیا ہوا تھا۔د ربار کے افسر ابوسفیان کو بادشاہ کی خدمت میں لے گئے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ ابوسفیان کو سب سے آگے کھڑا کیا جائے اور اس کے ساتھیوں کو اس کے پیچھے کھڑا کیا جائے اور ہدایت کی کہ اگر ابوسفیان کسی بات میں جھوٹ بولے تو اس کے ساتھی اس کی فوراً تردید کریں۔ پھر اس نے ابو سفیان سے سوال کیا کہ :۔
سوال: یہ شخص جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور جس کا خط میرے پاس آیا ہے کیا تم اس کو جانتے ہو اس کا خاندان کیسا ہے؟
جواب: ابوسفیان نے کہا۔ وہ اچھے خاندان کا ہے اور میرے رشتہ داروں میں سے ہے۔
سوال: پھر اُس نے پوچھا کیا ایسا دعویٰ عرب میں پہلے بھی کسی شخص نے کیا ہے؟
جواب: تو ابوسفیان نے جواب دیا نہیں۔
سوال: پھر اُس نے پوچھا کیا تم دعویٰ سے پہلے اُس پر جھوٹ کا الزام لگایا کرتے تھے؟
جواب: ابوسفیان نے کہا۔ نہیں۔
سوال: پھر اس نے پوچھا۔ کیا اس کے باپ دادوں میں سے کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟
جواب: ابوسفیان نے کہا۔ نہیں۔
سوال: پھر بادشاہ نے پوچھا۔ اس کی عقل اور اس کی رائے کیسی ہوتی ہے؟
جواب: ابوسفیان نے جواب دیا۔ ہم نے اس کی عقل اور رائے میں کبھی کوئی عیب نہیں دیکھا۔
سوال: پھر قیصر نے پوچھا۔ کیا بڑے بڑے جابر اور قوت والے لوگ اس کی جماعت میں داخل ہوتے ہیں یا غریب اور مسکین لوگ؟
جواب: ابوسفیان نے جواب دیا۔ غریب اور مسکین اور نوجوان لوگ۔
سوال: پھر اس نے پوچھا۔ وہ بڑھتے ہیں یا گھٹتے ہیں؟
جواب: ابو سفیان نے جواب دیا۔ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
سوال: پھر قیصر نے پوچھا۔ کیا اُن میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اُس کے دین کو بُرا س
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
پیش لفظ
اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان اور اُس کی دی ہوئی توفیق سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود (اللہ آپ سے راضی ہو) کی حقائق و معارف سے پُرسلسلۂ تصانیف بنام ’’انوارالعلوم‘‘ کی بیسویںجلد احبابِ جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ وَمَا تَوْفِیْقَنَا اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ
’’انوارالعلوم‘‘ کی بیسویںجلد حضرت مصلح موعود کی ۱۹۴۸ء کی چھ تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے جس میں معرکۃ الآرا تصنیف دیباچہ تفسیر القرآن بھی شامل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوشیارپور میں چلّہ کشی کے دوران آپ کی تضرعات کو پایۂ قبولیت بخشتے ہوئے ایک عظیم الشان پیشگوئی سے نوازا جو اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء میں شائع ہوئی۔ اس پیشگوئی میں ۵۲ علامات کے حامل پسر موعود کا وعدہ دیا گیا۔ جس کے بارہ میں فرمایا گیا کہ ’’وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا، وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا، کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہوگا، قومیں اُس سے برکت پائیں گی، اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا۔‘‘ اِس عظیم الشان پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو ایک فرزندِ دلبند، گرامی ارجمند عطا فرمایا جس کے وجود میں ۵۲ علامات کا شاندار ظہور ہوا اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے خود اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر ۱۹۴۴ء میں اپنے مصلح موعودہونے کا اعلان فرمایا۔
حضرت فضل عمر اپنی تمام عمر علومِ ظاہری و باطنی اور اپنی ذہانت و فطانت کے ذریعہ اقوامِ عالم کی راہنمائی کرتے رہے۔ اپنوں نے بھی فیض پایا اور غیروں نے بھی برکت حاصل کی۔ کلام اللہ کا مرتبہ اِس شان سے ظاہر ہوا کہ اغیار نے بھی کہا کہ مرزا محمود کے پاس قرآن ہے تم اُس کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہو۔ اَلْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ
قوموں کی رستگاری کا عظیم کارنامہ عمر بھر سرانجام دیتے رہے۔ کشمیر کے حقوق اور آزادی کی بات ہو یا مسلمانانِ ہند کی آزادی کا مسئلہ، فلسطینیوں کے حقوق و مسائل کی بات ہو یا عربوں کے حقوق و مسائل کی آپ نے بابانگِ دہل ان کے حق میں آواز اُٹھائی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس سعی جمیلہ کو قبول فرمایا۔
’’انوارالعلوم‘‘ کی بیسویں جلد ۱۹۴۸ء کی چھ تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے۔ یہ وہ دَور ہے جب کہ ہجرتِ پاکستان کا واقعہ ابھی بالکل تازہ تھا اور حضور عارضی طور پر رتن باغ لاہور میں فروکش تھے۔ اسی سال اللہ تعالیٰ نے اولوالعزم خلیفہ کی برکت سے جماعت کو دوسرا مرکز ’’ربوہ‘‘ عطا فرمایا۔ جلسہ سالانہ لاہور کا انعقاد ہوا۔ سیاسی منظر نامے میںحیدر آباد دکن پر قبضہ اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات ہوئی۔ اِن مواقع پر حضور کی تحریرات احمدیو ں اور اہل پاکستان کی راہنمائی کا موجب بنیں۔
حضور کی معرکۃ الآراء تصنیف ’’دیباچہ تفسیر القرآن‘‘ بھی ستمبر ۱۹۴۸ء میں منظر عام پر آئی۔ جس میں ضرورتِ قرآن اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح اور صداقت کا بیّن اظہار فرمایا۔ اور اس سلسلہ میں یورپ کے اعتراضات کے دندان شکن جوابات سپردِ قلم فرمائے۔
احمدیت کیا ہے اور کس غرض کے لیے اس کو قائم کیا گیا؟ اِس بنیادی سوال کا خوبصورت اور مدلل جواب ’’احمدیت کا پیغام‘‘ کتابچہ میں تحریر فرمایا۔ یہ کتابچہ بھی اِس جلد کی زینت ہے۔
۱۹۴۸ء میں ہندوستان کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضور نے جو رُوح پرور اور زندگی بخش پیغام شرکائے جلسہ کے نام ارسال فرمایا اُس کو بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ غرضیکہ جلد ھٰذا جہاں حضور کے تبحر علمی کی آئینہ دار ہے وہاں ۱۹۴۸ء کے معروضی حالات پر بھی روشنی ڈالنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ اِس مواد کو نافع الناس بنائے۔ آمین
اِس موقع پر خاکساراپنے قارئین کرام سے ایک نہایت اہم اور ضروری گزارش کرنا چاہتا ہے۔ ’’انوارالعلوم‘‘ کی اشاعت کا جب منصوبہ شروع کیا گیا تو اُس وقت یہی خیال تھا کہ ۲۰ جلدوں میں جملہ تحریرات و خطابات مدوّن ہو جائیں گے۔ چنانچہ ۱۹۹۵ء میں تین ہزار روپے ایڈوانس بکنگ کی صورت میں سیٹ کی قیمت مقرر ہوئی۔ جسے طباعت اور کاغذ کی گرانی کے پیش نظر ۲۰۰۸ء میں چار ہزار روپے کر دیا گیا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن کو ’’انوارالعلوم‘‘ کی ۲۰ جلدیںشائع کرنے کی توفیق مل چکی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ
اِن کتب کی اشاعت کے دوران اخبارات و رسائل میں سے کافی تعداد میں مزید مواد ملا ہے جو ابتدائی فہرست میں شامل نہ تھا۔ اِسی طرح حضور کا غیر مطبوعہ مواد بھی مل رہا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں نئی صورتِ حال تحریر کی گئی تو حضورانور نے فرمایا:
’’جو مواد میسر ہے سب شائع ہونا چاہیے‘‘۔
چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیر کے اِس ارشاد کے مطابق حضرت مصلح موعود کا جو بھی مواد میسر ہوگا وہ سب انوارالعلوم کی مزید جلدوں میں مدوّن کر کے طبع کیا جائے گا۔ انشاء اللہ
انوارالعلوم کی ۲۰ جلدوں میں ۲۰؍دسمبر ۱۹۴۸ء تک کا مواد شامل کیا گیا ہے۔ ۲۵؍دسمبر ۱۹۴۸ء سے دسمبر ۱۹۶۵ء تک تقریباً پانچ جلدوں کا مواد موجود ہے جس کی ابتدائی ترتیب دے دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مربیان کرام کی آمدو روانگی کے موقع پر حضور کے خطابات نیز طلبہ مدرسہ احمدیہ و ہائی سکول سے خطابات کا مواد علیحدہ سے تقریباً دو جلدوں کا موجود ہے۔ اسی طرح قبل از خلافت تشحیذالاذہان، ریویو آف ریلیجنز اور الفضل کے مضامین اور غیر مطبوعہ مواد کی تین جلدیں بن سکتی ہیں۔ خلافت کے بعد تشحیذ، ریویو اور الفضل کے مضامین و غیر مطبوعہ مواد کی ایک جلد تیار ہو جائے گی۔ انشاء اللہ
قبل ازیں ۲۰ جلدوں کے لیے ایڈوانس بکنگ کی سہولت دی گئی تھی۔ اب مزید ۱۱/۱۰ جلدوں کے لیے بھی یہی سہولت میسر ہوگی لیکن اِس کی حتمی قیمت بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں طے کر لی جائے گی۔
خاکسار اُن تمام احباب جماعت کا شکر گزار ہے جنہوں نے کتب کی خریداری میں ادارہ ھذا سے ہر ممکن تعاون فرمایا۔ خاکسار امید کرتا ہے کہ آئندہ جلدوں کی خریداری کے سلسلہ میں بھی احباب کا تعاون ہمیں حاصل رہے گا تا کہ ہم سیدنا حضرت فضل عمر کے علمی فیضان کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں اور حضرت مصلح موعود کے روح پرور اور ولولہ انگیز خطابات کے ذریعہ ہماری علمی اور روحانی آبیاری ہوتی رہے۔ آپ سب کے تعاون پر خاکسار از حد ممنون ہے۔ جَزَاکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔
اس جِلد کی تیاری کے مختلف مراحل میں حسبِ سابق بہت سے بزرگان اور مربیان کرام نے اِس اہم اور تاریخی کام کی تدوین و اشاعت میں خاکسار کی عملی معاونت فرمائی ہے۔ مکرم مولانا فضل الٰہی صاحب بشیر اور مکرم چوہدری رشید الدین صاحب نے مسودات کی ترتیب و اصلاح اور ابتدائی پروف ریڈنگ کے سلسلہ میں بہت محنت و اخلاص سے خدمات سرانجام دی ہیں۔
مکرم عبدالرشید صاحب اٹھوال، مکرم حبیب اللہ صاحب باجوہ اور مکرم فضل احمد صاحب شاہد مربیان سلسلہ نے پروف ریڈنگ، حوالہ جات کی تلاش، مسودات کی نظر ثانی، اعراب کی درستگی، Re-Checking اور متفرق امور کے سلسلہ میں دلی بشاشت اور لگن سے اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ تعارف کتب مکرم مبشر احمد صاحب خالد مربی سلسلہ کا تحریرکردہ ہے۔ فَجَزَاہُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ۔
خاکسار ان سب احباب کا ممنونِ احسان اور شکرگزار ہے۔ نیز دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ اِن سب دوستوں کے علم و معرفت میں برکت عطا فرمائے، اپنی بے انتہا رحمتوں اور فضلوں سے نوازے اور ہمیں ہمیشہ اپنی ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کرنے اور حضرت مصلح موعود کے علمی فیضان کو احباب جماعت تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
والسلام
خاکسار
ناصر احمد شمس
سیکرٹری فضل عمر فائونڈیشن
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تعارف کتب
یہ انوار العلوم کی بیسویں جلد ہے جو سیدنا حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی کی ۱۹۴۸ء کی چھ مختلف تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے۔
(۱)اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک رہو
سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی جب ۱۹۴۸ء میں پہلی دفعہ کوئٹہ تشریف لے گئے تو مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ نے حضور کے اعزاز میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا۔ اِس موقع پر حضور نے یہ انتہائی ایمان افروز تقریر فرمائی جو پہلی دفعہ مؤرخہ ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۶۱ء کو افادۂ عام کے لیے روزنامہ الفضل میں شائع کی گئی۔ اِس پُر معارف تقریر میں حضور نے متعدد امور کی طرف توجہ دلائی جن میں سے خاص طور پر قرآن کریم کی صحت تلفظ کے ساتھ تلاوت کرنا ہے۔ اسی طرح حضور نے عیسائیوں کے اسلامی تعلیم پر متعدد اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اب عیسائیوں کی نئی نسل آہستہ آہستہ اسلامی تعلیمات کی حکمتوں کو سمجھنے اور ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جس سے ہم سمجھتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب تمام دنیا صداقت اسلام کی قائل ہو جائے گی مگر اس کے ساتھ آپ نے احبابِ جماعت کو یہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’دنیا میں آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گذری جس نے صرف میٹھی میٹھی باتوں سے دنیاکوفتح کر لیا ہو۔ قومیں ہمیشہ مصیبتوں او ر ابتلائوں کی تلواروں کے سایہ تلے بڑھتی او ر ترقی کرتی ہیں اور اُنہیں لوگوں کے اعتراضات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔پس اپنے آپ کو اِس فتح کااہل بنائو۔ جب تک آپ لو گ خدااور اس کے رسول ؐ کے دیوانے نہیں بن جاتے ،جب تک موجودہ فیشن اور رسم و رواج کو کچلنے کے لئے تیار نہیں ہوجاتے اُس وقت تک اسلامی احکام کو ایک غیر مسلم کبھی بھی قبول کرنے کے لئے تیا ر نہیں ہوگا ۔‘‘
(۲) دیباچہ تفسیر القرآن
اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی مصلح موعود میں پسر موعود کی علامت یہ بیان فرمائی تھی کہ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا… کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر ہوگا‘‘۔ حضرت مصلح موعود کے متعلق بیان فرمودہ اِس علامت سے ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ نے خود آپ کا معلّم بننا تھا اور خود آپ کو ظاہری و باطنی علوم سے بہرہ ور کرنا تھا۔چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ کسی علم میں بھی دنیا کا کوئی عالم آپ کا مقابلہ نہ کر سکا اور جس کو بھی آپ سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا وہ اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا کہ واقعی مذکورہ بالا پیشگوئی کا حرف حرف آپ کے وجود میں پورا ہوا۔ بِالخصوص قرآن کریم کے علوم و معارف پر آپ کو ایسی دسترس عطا فرمائی گئی کہ غیر بھی اس کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ چنانچہ پاک و ہند کے ایک مایہ ناز اِنشا پرداز اور اُردو ادب کے مسلّم نقاد علامہ نیاز فتح پوری صاحب نے آپکی شہرۂ آفاق ’’تفسیر کبیر‘‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کی خدمت میں تحریر فرمایا کہ:۔
’’اِس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویۂ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔ آپ کی تبحر علمی، آپ کی وسعت نظر، آپ کی غیرمعمولی فکروفراست، آپ کا حسن استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے‘‘۔
( الفضل ۱۷؍ نومبر ۱۹۶۳ء)
حضرت مصلح موعود کے انتقال پر مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے لکھا کہ:۔
’’علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح، تبیین و ترجمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی بلند و ممتاز مرتبہ ہے‘‘۔(صدقِ جدید لکھنو ۱۸؍ اپریل ۱۹۶۵ء)
حضرت مصلح موعود نے ایک دفعہ خود فرمایا کہ:
’’میں وہ شخص تھا جسے علومِ ظاہری و باطنی میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لیے بھجوایا اور مجھے قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتے تھے‘‘۔(الموعود صفحہ۲۱۰)
ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا کہ:
’’میں نے کوئی امتحان پاس نہیں کیا۔ ہر دفعہ فیل ہی ہوتا رہا ہوں مگر اب میں خدا کے فضل سے کہتا ہوں کہ کسی علم کا مدعی آ جائے اور ایسے علم کا مدعی آ جائے جس کا میں نے نام بھی نہ سنا ہو اور اپنی باتیں میرے سامنے مقابلہ کے طور پر پیش کرے اور میں اُسے لاجواب نہ کر دوں تو جو اُس کا جی چاہے کہے‘‘۔(ملائکۃ اللہ صفحہ۵۳)
پس زیر نظر کتاب ’’دیباچہ تفسیر القرآن‘‘ حضرت مصلح موعود کے مذکورہ بالا دعاوی کا منہ بولتا ثبوت ہے جسے حضور نے ایک قلیل وقت میں تصنیف فرمایا۔ اِس میں یورپ کے نقادین اسلام کے مشہور اعتراضات کے دندان شکن جوابات دیئے گئے ہیں اور ضرورتِ قرآن پر نہایت لطیف رنگ میں بحث کی گئی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس سیرت کے واقعات از ولادت تا وفات ایسے عمدہ اور دلکش پیرایہ میں بیان کیے گئے ہیں جو اپنی نظیر آپ ہیں نیز آپ کے بارہ میں بائبل میں مندرج پیشگوئیاں بھی تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔ اس کے مضامین عالیہ اوربراہین نیرہ مندرجہ ذیل شعر کے مصداق ہیں۔
اَحَادِیْثُ قَدْ صِیْغَتْ فَتُلْھِیْ بِحُسْنِھَا
عَنِ الْوَشْیِ اَوْ شُمَّتْ لَاَغْنَتْ عَنِ الْمِسْکِ
یعنی اس کے مضامین اور عبارتیں ایسے رنگ میں ڈھالی گئی ہیں کہ جو اپنی ذاتی زیبائش اور حسن کی وجہ سے بناؤ سنگھار اور نقش و نگار سے مستغنی کر دیتی ہیں اور اگر اُنہیں سونگھی جانے والی چیز سے تشبیہہ دی جائے تو اس کی خوشبو کستوری سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ یہ کتاب کلام اللہ قرآن کریم کے عالی مرتبت ہونے کو ثابت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اِس معرکۃ الآراء کتاب کو ہمیں پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(۳) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں ہمارے
ہاتھ سے قائم ہوگی
سیدنا حضرت مصلح موعود نے یہ روح پرور تقریر مؤرخہ ۲۰؍ ستمبر ۱۹۴۸ء بروز دوشنبہ ربوہ کے افتتاح کے موقع پر ارشاد فرمائی تھی۔ یہ تقریر شروع کرنے سے پیشتر حضور نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعائیں پڑھیں جو آپ نے مکہ مکرمہ کی بنیاد رکھتے وقت پڑھی تھیں۔ ان دعاؤں کے بعد سب سے پہلے حضور نے ان دعاؤں کے اس موقع پر پڑھنے اور مانگنے کی حکمت اور فلسفہ بیان فرمایا۔ اِس کے بعد آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور مقام و مرتبہ کو دنیا میں ایک دفعہ پھر قائم کر کے دکھانے کا عزم ظاہر فرمایا کیونکہ آپؐ محسن انسانیت ہیں اور فرمایا اگر اِس کام میں ہماری جانیں اور ہمارے بیوی بچوں کی جانیں بھی چلی جائیں تو یہ ہمارے لیے عزت کا موجب ہوگا۔ نیز آپ نے فرمایا کہ اِس وقت جس قدر تحریکیں دنیا میں جاری ہیں وہ ساری کی ساری دُنیوی مقاصد پر مبنی ہیں صرف ایک ہی اہل دین حق کی مذہبی تحریک ہے اور وہ احمدیت ہے۔ یہ وہ تحریک ہے جس میں دنیا کے ہر مذہب، ہر قوم، ہر زبان اور ہر مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والا شامل ہو سکتا ہے۔ پس یہی ایک جماعت ہے جس نے دین حق کے جھنڈے کو بلند رکھنے کا عزم کر رکھا ہے۔ جس کے لیے شہروں کو چھوڑ کر اس بے آب و گیاہ میدان کا انتخاب کیا ہے۔ اِس کے بعد حضور نے ربوہ کی زمین کے انتخاب کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اِس تعلق میں اپنی ایک ۶ سالہ پُرانی رؤیا بیان فرمائی۔ نیز اس کے حصول کے سلسلہ میں ہونیوالی کوششوں کا بھی ذکر فرمایا۔ یہ تقریر الفضل کے سالانہ نمبر ۱۹۶۴ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔
(۴) مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب
حضرت مصلح موعود نے یہ مضمون بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے موقع پر تحریر فرمایا جو مؤرخہ ۲۱؍ ستمبر ۱۹۴۸ء کو روزنامہ الفضل میں شائع ہوا۔
اِس مضمون کا آغار حضور نے اپنی ایک رؤیا سے کیا ہے جس میں آپ کو ابوالہول جیسی ایک چیز دکھائی گئی جس کے دو سَر تھے۔ یہ رؤیا حضور کو ۱۱ اور ۱۲ ستمبر کی درمیانی رات کو دکھائی گئی جبکہ قائد اعظم کی وفات مؤرخہ ۱۱ ؍ستمبر کو رات ۱۰ بجے ہوئی تھی۔ حضور کا سونے کا معمول عموماً رات تقریباً گیارہ بجے کے بعد ہوتا تھا اس لیے یہ یقینی بات ہے کہ یہ رؤیا حضور کو قائد اعظم کی وفات کے بعد رات کو دکھائی گئی۔ مگر سونے سے قبل تک حضور کو قائد اعظم کی وفات کی ابھی اطلاع نہیں ملی تھی۔ پس حضور نے اس رؤیا کی تعبیر یہ فرمائی کہ اِس رؤیا میں جس چیز کی شکل دکھائی گئی اس کے دو سَر تھے جس سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں پر دو مصیبتیں آنے والی ہیں مگر مسلمان ان دونوں مصیبتوں کو برداشت کر جائیں گے۔ ان میں سے ایک مصیبت تو قائد اعظم جیسے ایک عظیم لیڈر کی وفات اور دوسری مصیبت حیدر آباد دکن پر ہندوستانی فوج کا قبضہ تھا۔
اِس مضمون کے آخر پر حضور نے حیدر آباد دکن کی سلطنت کی کچھ تاریخ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حق تو یہ ہے کہ حیدر آباد دکن اپنے حالات کے لحاظ سے انڈین یونین میں ہی شامل ہونا چاہیے تھا جس طرح کہ کشمیر اپنے حالات کے لحاظ سے پاکستان میں شامل ہونا چاہیے لیکن ان واقعات پر کوئی جزع فزع کرنے کی بجائے مسلمانانِ پاکستان اگر مضبوط ارادے ، بلند حوصلہ اور پختہ عزم سے کام لیں تو یقینا پاکستان روز بروز ترقی کرتا چلا جائے گا اور دنیا کی مضبوط ترین طاقتوں میں سے ہو جائے گا۔
(۵) احمدیت کا پیغام
حضرت مصلح موعود نے یہ کتابچہ اکتوبر ۱۹۴۸ء میں تحریر فرمایا۔ اس کتابچہ میں احمدیت سے متعلق اِس بنیادی سوال کہ’’احمدیت کیا ہے اور کس غرض سے اس کو قائم کیا گیا ہے؟‘‘ کا جواب تحریر فرمایا ہے جس میں نہایت ہی آسان پیرایہ میں جماعت احمدیہ کا عقائد کے لحاظ سے تعارف کروایا گیا ہے۔ اِس تعلق میں سب سے پہلے آپ نے مذکورہ بالا سوال کرنیوالوں کو یہ بات سمجھائی ہے کہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے اور نہ ہی احمدیوں کا کوئی الگ کلمہ ہے۔ آپ نے تحریر فرمایا کہ دنیا کے تمام مذاہب میں سے صرف اسلام کو یہ فخر اور اعزاز حاصل ہے کہ اس کا ایک کلمہ ہے۔ اور احمدیت چونکہ حقیقی دین ہونے کی دعویدار ہے اس لیے جماعت احمدیہ کا کلمہ بھی وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔
اِس کے بعد حضور نے جماعت احمدیہ کے متعلق عقائد کے لحاظ سے بعض شکوک کا ازالہ فرمایا جس میں ختم نبوت، ملائکہ اللہ، نجات، احادیث، تقدیر، جہاد جیسے مسائل کے متعلق جماعت احمدیہ کا نقطۂ نظر بیان فرمایا۔
اِسی طرح اِس کتابچہ میں ایک نئی جماعت بنانے کی وجہ اور غرض و غایت بیان فرمائی۔ نیزجماعت احمدیہ کے پروگرام پر روشنی ڈالی اور آخر پر احمدیوں کو دوسری جماعتوں سے علیحدہ رکھنے کی وجہ بیان فرمائی۔
پس یہ کتابچہ جماعت احمدیہ کے تعارف کے لحاظ سے انتہائی لاجواب ہے جسے ہمیں کثرت سے دوسروں کو پڑھانا چاہیے۔
(۶) ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام
حضرت مصلح موعود نے ۱۹۴۸ء کے جلسہ سالانہ ہندوستان کے موقع پر ہندوستان کے احمدیوں کے نام جو پیغام ۲۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو تحریر کر کے ارسال فرمایا اِس پیغام کو اب انوارالعلوم کی اِس جلد نمبر۲۰ میں شامل اشاعت کیا جا رہا ہے۔
اِس پیغام کے آغاز میں حضور نے اس جلسہ سالانہ کے منعقد کرنے پر جماعت احمدیہ بھارت کو ھدیۂ تبریک پیش کیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ جماعتیں صدمات میں سے گذرے بغیر کبھی بڑی جماعتیں نہیں بن سکتیں۔ (حضور کا اس میں دراصل پارٹیشن کی طرف اشارہ تھا) پارٹیشن کے نتیجہ میں جو جماعتی نقصان ہوا اُس کے ذکر کے بعد حضور نے ہندوستان کے احمدیوں کو اُس وقت کے حالات کے پیش نظر اُن کی دمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ:۔
’’پس آپ لوگ اب اپنی نئی ذمہ داریوں کوسمجھتے ہوئے نئے سرے سے اپنے دفاتر کی تنظیم کریں اورہندوستان کی باقی جماعتوں کودوبارہ زندہ کرنے اورزندہ رکھنے کی کوشش کریں ۔صرف یہی نہیں بلکہ ان کو بڑھانے اورپھیلانے کی کوشش کریں۔ وہ تمام اغراض جن کے لئے احمدیہ جماعت قائم کی گئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں لکھی ہوئی موجود ہیں ۔ان اغراض کو سامنے رکھ کر صدر انجمن احمدیہ کی تنظیم کریں اور تمام ہندوستان کی جماعتوں کے ساتھ خط و کتابت کرکے ان کو منظم کریں اورپھیلنے پھولنے میں مدد دیں۔ ‘‘
اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک رہو
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک رہو
(فرمودہ ۷؍اگست ۱۹۴۸ء بمقام کوئٹہ )
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اچھاکام تعریف کے قابل ہوتاہے اور بُراکام مذمت کے قابل ہوتاہے لیکن کبھی کبھی استاد اپنے شاگردوں کادل بڑھانے کیلئے ان کے تھوڑے اور نامکمل کام کو بھی قابلِ تعریف ظاہر کرتاہے اور کبھی و ہ ان کے اندرنیا عز م پیداکر نے کیلئے ان کے اچھے کاموں کو بھی قابلِ اعتراض اورقابلِ تنقید قرار دیتاہے ۔جس کی وجہ سے شاگرداپنے کاموں کی طرف زیادہ توجہ کرنے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں ۔
عرفی یاانوری ان دونوں میں سے کسی ایک کے متعلق مجھے ایک واقعہ یاد ہے۔وہ ذکر کرتاہے کہ میں شعر کہاکرتاتھا اور اصلاح کے لئے استاد کے پاس لے جایا کرتا تھامگر وہ بڑی سختی کے ساتھ ان پر تنقید کیاکرتاتھا ۔اتنی سخت تنقید کہ وہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ وہ کہتاہے کہ مجھے اپنے متعلق احساس پیداہوگیاتھاکہ میں بڑااچھاادیب بن گیاہوں لیکن میں نے متواتر دیکھا کہ میرااستاد برابرجرح کرتاچلاجاتاتھا۔میںنے یہ خیال کرکے کہ یہ جرح نامناسب ہے اورتعصب پر مبنی ہے ایک دفعہ شرارت کر کے پرانی کاپیوں سے کچھ کاغذ اُکھیڑے اور ان کی جِلد بنالی اور خط بدل کرکسی سے چند نظمیں ان پر نقل کرالیں اوراپنے استاد کے پاس لے گیا۔ میں نے کہا مجھے اپنے والد صاحب کی لائبریری میں سے پُرانے شاعروں کے کلام کے یہ اجزاء ملے ہیں ۔انہوں نے وہ نظمیں پڑھنی شروع کی ہی تھیں کہ بے تحاشہ تعریف کرنی شروع کردی کہ یہ بڑااعلیٰ درجہ کاکلام ہے اس نے بہت ہی عمدہ کہا ہے ۔وہ کہتاہے جب میں نے یہ تعریفیں سنیں توکہا استاد جی! بس رہنے دیجئے ۔میں نے دیکھ لیا ہے کہ آپ بِلاوجہ مجھ پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ یہ میرے ہی شعر تھے جو میں پُرانے کاغذوں پر لکھ کر لے آیاہوں اورمیں نے یونہی آزمانے کے لئے یہ کہہ دیاتھا کہ یہ پُرانی نظمیں ہیں ۔ وہ لکھتاہے کہ جب میں نے یہ بات کہی تو میرے استاد کا چہر ہ افسرد ہ ہوگیا اور اس نے کہا میں تو سمجھتاتھا کہ میں اپنے پیچھے ایک ایسا شاگردچھوڑ جائوں گا جس کافارسی زبان میں کو ئی مقابلہ نہیں کرسکے گامگرآج تم نے یہ جرأت کی ہے تواس کی وجہ سے اب تمہاری تمام ترقی ختم ہوگئی ہے ۔میں دشمنی کی وجہ سے تم پر تنقید نہیں کیا کرتا تھا بلکہ اس لئے تنقید کرتاتھاکہ تاتم زیادہ سے زیادہ کو شش کرو اور تمہارے مخفی جوہر زیادہ سے زیادہ ظاہرہوں ۔اگر میں کہہ دیتاکہ تم اچھے شاعر بن گئے ہو توتم مزید محنت نہ کرتے یہ جرح ہی کانتیجہ ہے کہ تم نے خوب زور لگایا اورمحنت سے کام لیا اور اب تم صاحب کمال بن گئے ہو لیکن اب تمہار ی ترقی ختم ہوگئی ہے۔وہ لکھتا ہے کہ واقعہ یہی ہے کہ میں نے پھر اس سے زیا دہ ترقی نہیں کی۔
پس تنقید کئی وجوہ سے ہوتی ہے ۔کبھی کام کرنے والے کی تعریف کی جاتی ہے کہ کم حوصلہ انسان سست نہ ہوجائے اور ہمت نہ ہار بیٹھے اورکبھی سخت تنقید کی جاتی ہے تاباحوصلہ آدمی زیادہ سے زیاد ہ اپنے دماغ پر زور ڈال کراپنے مخفی جوہر کو باہر نکالنے کی کوشش کرے۔یہ کام بہت ہی مشکل ہے۔فطرت کاسمجھنا بہت مشکل ہوتاہے ۔جیسے اس استاد نے غلطی کی اور اتنی سخت تنقید کی کہ جس سے شاگرد مایوس ہوگیا اور آخر اس نے دھوکادیا جس کی وجہ سے وہ آئندہ ترقی حاصل نہ کرسکا ۔پس کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان غلط اندازہ لگاتاہے او رسمجھتا ہے کہ فلاں آدمی بہت بلندحوصلہ ہے ۔اس پر جتنی بھی تنقید کی جائے اتنی ہی وہ محنت کرے گا اوراس کے مخفی جوہر ظاہر ہوں گے لیکن اس کانتیجہ اُلٹ نکلتاہے وہ کم حوصلہ اور کم ہمت ہوتاہے اوراس تنقید کی وجہ سے وہ مایوس ہوجاتاہے اورآئندہ ترقیوںسے محروم ہوجاتاہے ۔ پھر بعض دفعہ ایساہوتاہے کہ انسان سمجھتاہے کہ یہ کم حوصلہ اور کم ہمت ہے اس کی ہمت و حوصلہ بڑھانے کے لئے وہ اس کی تعریف شروع کردیتاہے لیکن وہ کم حوصلہ نہیں ہوتا اگروہ اس پر تنقیدکرتا تواس کے مخفی جوہر ظاہر ہوتے لیکن استاد نے اس کا اندازہ غلط لگایا اورکم حوصلہ سمجھ کر تعریف کردی ۔اس تعریف کی وجہ سے وہ محنت اور مزید جدوجہد نہیں کرتا ۔اس لئے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتااوران اعلیٰ ترقیات سے محروم ہوجاتاہے جن کا حصول اس کے لئے ممکن تھا۔مگر ان خطرات کے درمیان بہرحال ایک تیسراراستہ بھی ہے اوروہ یہ کہ انسان اچھے کام کی تعریف کرے اوربُرے کی مذمت کرے۔ بعض غلطیاںایسی ہوتی ہیں کہ وہ تھوڑی سی کوشش سے درست ہوجاتی ہیں اوراگرانہیں نظر انداز کیاجائے توقومی ترقی رُک جاتی ہے۔
کوئٹہ میں مَیں پہلی دفعہ آیا ہوں۔ اگرچہ یہاں کے خدام میں سے بعض نے قادیان میں تعلیم پائی ہے اوربعض کے ماں باپ بھی وہاں رہتے تھے مگر پھر بھی ان کے کاموںپر مجھے تنقید کااس طرح موقع نہیں ملا جیسے آج ملا ہے۔میں جب سے یہاں آیاہوں میں محسوس کرتاہوںکہ یہاں کے خدام علمی حصے کی طرف بہت کم توجہ کرتے ہیں ۔مثلاً جس خادم نے تلاوت کی ہے اُس نے اِس امر کو ملحو ظ نہیں رکھا کہ قرآن مجید صحیح طور پر پڑھاجائے ۔اگروہ تھوڑی سی اس امر کی کوشش کرتے توبڑی آسانی کے ساتھ صحیح طور پر تلاوت کرسکتے تھے ۔میں نے دیکھا کہ انہوں نے بِالعموم الف کو فتح کے ساتھ اداکیا ہے ۔ان کی تلاوت میں ۵۰یا۶۰فیصدی الف تھے جو انہوں نے فتح کے ساتھ اداکئے ہیں۔ حالانکہ الف اورفتح الگ الگ چیز یں ہیں اوران دونوں میں بہت فرق ہے ۔ اسی طرح انہوں نے مدات کو بِالعموم گرادیا ہے ۔یعنی جہاں دوالف تھے وہاں انہوںنے ایک ہی الف پڑھا ہے اسی طرح اور باتیں بھی تھیں جنکی وجہ سے تلاوت ناقص ہوگئی ۔
میں اس بات کاقائل نہیں کہ کوئی شخص اس بات میں لگارہے کہ قاری کی طرح وہ قراء ت کرسکے لیکن جو کام آسانی کے ساتھ کیاجاسکتاہے اسے کیوں چھوڑاجائے۔ یہ کو شش کر نا کہ ہم قاری کی طرح ہی اداکریں درست نہیں کیونکہ اس کی طاقت ہمیں خدانے نہیں بخشی۔ میری مرحومہ بیوی اُمِّ طاہر بیان کیاکرتی تھیں کہ ان کے والد صاحب کو قرآن مجید کے پڑھنے پڑھانے کابڑاشوق تھا ۔انہوں نے اپنے لڑکوں کو قرآن پڑھانے کے لئے استاد رکھے ہوئے تھے اورلڑکی کو بھی قرآن پڑھنے کے لئے ان کے سپرد کیا ہوا تھا۔ اُمِّ طاہر بتایاکرتی تھیں کہ وہ استاد بہت ماراکرتے تھے اورہماری انگلیوں میں شاخیں ڈال ڈال کر ان کو دباتے تھے مارتے تھے پیٹتے تھے اس لئے کہ ہم ٹھیک طورپر تلفّظ کیوں ادانہیں کرتے ۔ہم پنجابی لوگوں کالہجہ ہی ایساہے کہ ہم عربوں کی طرح عربی کے الفاظ ادانہیں کرسکتے۔
لاہورمیں ایک میاں چٹّو رہاکرتے تھے و ہ بعد میں چکڑالوی ہوگئے ان کے پاس ایک عرب آیااور وہ اُس کو لے کر قادیان پہنچے ان دنوں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید جوعلاقہ خوست کے ایک بہت بڑے بزرگ تھے یہاں تک کہ امیر امان اللہ خاں کے داداحبیب اللہ خاںکی رسم تاجپوشی بھی انہی سے کروائی گئی تھی ،وہ بھی قادیان میں آئے ہوئے تھے ۔وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اورباتیں ہورہی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دوتین دفعہ ض کااستعمال کیا۔ آپ کالہجہ اگرچہ درست تھا لیکن لکھنو کے آدمی جیسے اسے اداکرتے ہیں آپ ویسے ادانہیں کرسکتے تھے دوچار دفعہ آپ نے یہ لفظ استعمال کیا تووہ عرب جو کئی سال سے لکھنؤ میں رہتاتھا اوراردوبولتاتھا اس نے کہا آپ کو کس نے مسیح موعود بنایاہے؟آپ کوتو ض بھی صحیح طور پر اداکرنا نہیں آتا ۔صاحبزادہ صاحب بڑ ے عالم تھے اورآپ کو معلوم تھا کہ اس کی کیاحقیقت ہے ۔وہ غصہ میں آگئے اورا سے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اُٹھایا ۔مولوی عبدالکریم صاحب نے دیکھ لیا ۔ آپ نے اسے چھڑانے کی کو شش کی۔ آپ چو نکہ پٹھان اور طاقتور تھے اور مولوی عبدالکریم صاحب اکیلے اس میں کامیاب نہیں ہوسکتے تھے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کادوسراہاتھ پکڑ لیا کیونکہ آپ کا خیال تھا کہ آپ اسے مار بیٹھیں گے۔ اب دیکھو اس عرب نے یہ کیسی لغوحرکت کی۔ ہر ملک کاالگ الگ لہجہ ہوتاہے ۔
عر ب خودکہتے ہیں کہ ہم ناطقین بِالضاد ۱؎ ہیں،ہندوستانی اسے ادانہیں کرسکتے ۔ ہندوستان میں ض کو قریب ترین اداکرنے والوں میں سے ایک میں ہوںلیکن میں بھی یہ نہیں کہتا کہ میں اسے بالکل صحیح اداکرتاہوں ۔قریب ترین ہی اداکرتاہوں ۔ہندوستانی لوگ اسے دواد یا ضاد پڑھتے ہیں لیکن اس کے مخارج اورہیں پس جب عرب خود کہتاہے کہ ہم ناطقین بِالضاد ہیں اور کوئی اسے صحیح طورپر ادانہیں کرسکتا توپھر اعتراض کی بات ہی کیاہوئی ۔جرمن لوگوں کو لے لو وہ گڈ اور گاڈ کے لفظوں کو ادانہیں کرسکتے ۔وہ یاگڈ کہیں گے یا گوٹھ کہیں گے۔ پس میں یہ تونہیں کہتا کہ ہم ان الفاظ کواداکرنے کااہتمام کریں جن کے اداکرنے کے ہم قابل نہیں یہ تو محض وقت کاضیاع ہے لیکن الف اداکرناہماری طاقت سے باہر نہیں ۔ مد کواداکرنا ہمار ی طاقت سے باہر نہیں۔اگر صحیح طور پر کوشش کی جائے توقرآن کو ہم اپنے لہجہ کے لحاظ سے اچھی طر ح ادا کر سکتے ہیں خصوصاً جبکہ گلا اچھا ہو۔
پھر تلاوت کے بعد جو نظم پڑھی گئی ہے وہ بھی اس دستور کے مطابق کہ عموماً پہلے چند اشعار ٹھیک پڑھے جاتے ہیں اورپھر غلطیاں شروع ہوجاتی ہیں ۔اسی طرح انہوں نے بھی سات آٹھ اشعار توٹھیک پڑھے اوراس کے بعد غلطیاں شروع کردیں جب جلسہ میں کوئی شخص تلاوت کرتا ہے یانظم کے لئے کھڑاہوتاہے تواس چھوٹی سی عبارت کا مجلس میں پڑھ لیناکوئی مشکل امر نہیں ہوتا اوراگروہ خود اسے صحیح طور پر ادانہیں کرسکتا توکسی واقف زبان سے درست کروالینا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہوتا ۔یہ قدرتی بات ہے کہ ایسی صورت میں سننے والے بجائے فائدہ اُٹھانے کے لفظی غلطیوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں اوراس طرح فائدہ سے محروم ہوجاتے ہیںاس لئے میں نصیحت کرتاہوں کہ خدام صحیح طورپر قرآن کریم پڑھنا سیکھیں اوراُردوکی عبارتوں کو بھی صحیح اداکرنے کی کوشش کیاکریں ۔
ایڈریس میں جن کاموںکی طرف اشارہ کیا گیا ہے میں ان سے خوش ہوں کہ انہوں نے ان کاموں کے کرنے کی کو شش کی ہے لیکن میں ان کی توجہ اس طرف پھراناچاہتاہوںکہ جس کام کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں وہ اتنا عظیم الشان ہے کہ اس کے لئے یہ کوششیں کافی نہیں ہوسکتیں۔ مخالف ہمارے مقصد کونہیں سمجھتاتووہ معذور ہے ۔ اگروہ ضد یاناواقفیت کی وجہ سے ہماری مخالفت کرتاہے تو کوئی اعتراض کی بات نہیں وہ تواس پر غور ہی نہیں کرناچاہتایااگر غور کرتاہے تو تعصب کی وجہ سے وہ صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتالیکن اگرہم بھی اپنے مقصد کونہ سمجھیں اورہمارابھی رویہ ایساہی ہو کہ ہم اپنے مقصد کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں توہم پر یقیناً افسوس ہوگا۔ ہمارا دعویٰ ہے او رہم یقین رکھتے ہیں کہ ہمارادعویٰ سچا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نازک حالت کو دیکھ کر حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجااوراس کامقصد یہ ہے کہ آپ کی جماعت کے ذریعہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کو پھر سے دنیا میں قائم کردے ۔ یہ مقصد ہے جس کے لئے ہمیں کھڑاکیاگیا ہے اورجس کی خداتعالیٰ ہم سے امیدکرتاہے اوریہ معمولی چیز نہیں۔ ایک انسان کے لئے ایک انسان کی اصلاح بھی ناممکن ہے مگرہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے۔ اسلام کے ماننے والوں میں سے کتنے ہیں جوخوشی سے ان احکام کو مانتے ہیں اوران پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں۔پھر جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم اسلام کے احکام پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو واقعہ میں عمل کرنے کے لئے تیار ہیں اورپھر جو عمل کرنے کی کو شش بھی کرتے ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو ان پر عمل کرکے صحیح طور پر کامیاب ہوئے ہیں۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہ اسلام کے معنی ہی نہیں سمجھتے ۔ہرآدمی ایسی چیزوں اورعقائد کو جو رسم و رواج میں داخل ہیں الگ کرلیتا ہے اور کہتاہے ان کو الگ کرلو باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے۔کچھ عورتیں پردہ کی قائل نہیں ہیں وہ اس کو الگ کرلیتی ہیں اورکہتی ہیں بھلا اللہ تعالیٰ کو چھوٹے چھوٹے امور میں دخل دینے کی کیاضرورت ہے ۔پردہ کو الگ کردوباقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے ۔ہمارے نوجوان جن کے لئے ڈاڑھی رکھنا مشکل ہے وہ کہہ دیتے ہیں یہ توکوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی، باقی جوکچھ ہے وہ اسلام ہے۔ سُود لینے والا کہہ دیتاہے کہ بینکنگ تو نہایت ضروری چیز ہے اس لئے سُود کو چھو ڑو،باقی جو کچھ ہے اسلام ہے ۔غرض جس حکم کو وہ نہیں مانتا اس کے نزدیک وہ اسلام نہیں،باقی اموراسلام میں داخل ہیں توپھر باقی کیارہ جاتا ہے۔ سُود بھی اسلام میں داخل نہیں، نمازیں بھی اسلام میں داخل نہیں ،ڈاڑھیاں بھی اسلام میں داخل نہیں توپھر کچھ بھی اسلام میں داخل نہیں ۔
مثل مشہور ہے کہ کو ئی بُزدل آدمی تھااسے وہم ہوگیا تھا کہ و ہ بہت بہادر ہے ۔و ہ گو دنے والے کے پاس گیا۔پرانے زمانہ میں یہ رواج تھا کہ پہلوان اور بہادر لوگ اپنے بازوپر اپنے کیریکٹر اوراخلاق کے مطابق نشان کھدوالیتے تھے۔یہ بھی گودنے والے کے پاس گیا۔گودنے والے نے پوچھا تم کیا گُدواناچاہتے ہو؟اس نے کہا میں شیر گدوانا چاہتا ہوں۔ جب وہ شیر گودنے لگا تواس نے سوئی چبھوئی ۔سوئی چبھونے سے درد توہوناہی تھاوہ دلیر توتھا نہیںاس نے کہا یہ کیا کرنے لگے ہو؟ گودنے والے نے کہاشیر گودنے لگاہوں ۔اس نے پوچھا شیر کا کونسا حصہ گودنے لگے ہو؟ اس نے کہا دُم گودنے لگاہوں ۔اس آدمی نے کہا شیر کی دُم اگر کٹ جائے توکیا وہ شیر نہیں رہتا ؟گودنے والے نے کہا شیر تو رہتا ہے ۔کہنے لگا اچھا دُم چھوڑ دو اور دوسرا کام کرو۔اس نے پھر سوئی ماری توو ہ بول اُٹھا۔اب کیا کرنے لگے ہو؟اس نے کہا اب دایاں بازو گودنے لگاہوں ۔اس آدمی نے کہا اگرشیر کالڑائی یامقابلہ کرتے ہوئے دایاں ہاتھ کٹ جائے تو کیاوہ شیر نہیں رہتا؟اس نے کہا شیر تو رہتاہے ۔کہنے لگا پھر اس کو چھوڑو اورآگے چلو۔ اسی طرح وہ بایاں بازو گو دنے لگا توکہا اسے بھی رہنے دو کیا اس کے بغیر شیر نہیں رہتا؟ پھر ٹانگ گودنی چاہی تب بھی اس نے یہی کہا ۔آخر وہ بیٹھ گیا ۔اس آدمی نے پوچھا کام کیوں نہیں کرتے۔ گودنے والے نے کہا اب کچھ نہیں رہ گیا ۔یہی آجکل اسلام کے ساتھ سلوک کیا جاتاہے۔ لوگ اپنی مطلب کی چیزیں الگ کرلیتے ہیں اورکہہ دیتے ہیں کہ باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے۔
ہمارے ناناجان فرمایاکرتے تھے کہ چھوٹی عمر میں میری طبیعت بہت چلبلی تھی ۔آپ میردرد کے نواسے تھے اوردہلی کے رہنے والے تھے ۔وہاں آم بھی ہوتے ہیں۔آپ فرمایا کرتے تھے جب والدہ والد صاحب اور بہن بھائی صبح کے وقت آم چوسنے لگتے تومیں جو آم میٹھاہوتا اس کو کھٹاکھٹاکہہ کر الگ رکھ لیتااورباقی آم ان کے ساتھ مل کرکھالیتا۔جب آم ختم ہوجاتے تو میں کہتا میراتو پیٹ نہیں بھرا۔ اچھا میں یہ کھٹے آم ہی کھالیتاہوںاور سارے آم کھاجاتا۔ایک دن میرے بڑے بھائی جو بعد میں میر درد کے گدی نشین ہوئے انہوں نے کہا میرا بھی پیٹ نہیں بھرامیں بھی آج کھٹے آم چوس لیتاہوں ۔فرماتے تھے میں نے بہتیرا زور لگایا مگر وہ باز نہ آئے۔ آخرانہوںنے آم چوسے اور کہایہ آم تو بڑے میٹھے ہیں تم یو نہی کہتے تھے کہ کھٹے ہیں ۔جس طرح وہ آم چوستے وقت میٹھے آم الگ کرلیتے تھے اور باقی دوسروں کے ساتھ مل کر چو س لیتے تھے اور بعد میں کھٹے کھٹے کہہ کر وہ بھی چوس لیتے تھے یہی حال آجکل کے مسلمانوں کا ہے ۔و ہ لوگ جو کہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ کو نافذ کیاجائے ان کا اگر یہ حال ہوتو ان لوگوںکاکیاحال ہوگا جو اسلام کو جانتے ہی نہیں۔وہ تو پھر ہڈیاں اور بوٹی کچھ بھی نہیں چھوڑیں گے ۔
یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں نے یہ لکھ لکھ کر کتابیں سیاہ کرڈالی ہیں کہ اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کیامصیبت ہے کہ انسان پوراایک مہینہ روزے رکھتا جائے ۔اگر معدہ خراب ہوجائے تب تو ہو کہ ایک آدھ دن کاروزہ رکھ لیامگرمتواتر ایک مہینہ روزہ رکھتے جانا کونسی عقل کی بات ہے ۔پھر یہ کام کازمانہ ہے ،رات اور دن کام کرناہوتاہے اور دن میں کئی شفٹیں ہوتی ہیں اور روزانہ پانچ پانچ نمازوں کا پڑھنا اورپھر امام کے انتظار میں بیٹھے رہنا کونسی عقل کی بات ہے ۔بھلا اس طرح انڈسٹری کیسے چل سکتی ہے ۔یہ زمانہ تجارت کاہے۔ بینکنگ کے علاوہ دوسرے مُلکوں سے ہم ضروری اشیاء کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔تم کہتے ہو بینکنگ اُڑادو۔ اس طرح تومُلک تباہ ہوجائے گا۔پھر تجارت کیسے کی جائے گی ۔اِسی طرح تم کہتے ہو انشورنس کواُڑادو۔انسان جتنا کماتاہے،کھاجاتاہے۔اگراس کواڑادیاجائے تومرنے والا تو مر گیا، یتیم بچوں کے لئے کچھ نہیں رہے گااور اس طرح قو م پر ایک غیر معمولی بار پڑ جائے گا پھرعورتوں کی مددکے بغیر مرد کام نہیں کرسکتا ۔عورتیں مردوں کے دوش بدوش چلتی ہیں اوروہ ان کی عزت کاخیال کرکے ان کے اِکرام کے طور پر بڑی سے بڑی قربانی کرلیتاہے۔ اگر عورتوں کو پردہ میں بٹھادیاجائے توپھر دنیا کاکام کیسے چلے گا۔یہ صفائی کازمانہ ہے صحت ٹھیک ہونی چاہئے ۔ تم کہتے ہو ڈاڑھیاں رکھو اِس سے تو جوئیں پڑ جائیں گی اور میل بڑھ جائے گی، یہ بھی کوئی انسانیت ہے ۔جرمن والے توٹنڈ ہی کروالیتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہم پر انگریز حاکم تھے جس کے نتیجہ میں سروں کے بال محفوظ رہ گئے بلکہ بودے نکل آئے ۔ اگرجرمن حاکم ہوتے تو وہ سر کے بال بھی اُڑادیتے ۔
غرض تمام اسلامی احکام جو اسلام پیش کرتاہے ۔ان پر وہ اعتراض کرتے ہیں مثلاً ایک سے زیادہ شادیاں کرناہے۔وہ کہتے ہیں یہ بھی کوئی انصاف کی بات ہے، مرد کو اگرزیادہ شادیاںکرنے کاحق ہے توعورت کوکیوں نہیں ۔اسی طرح پہلے تو طلاق بھی بُری سمجھی جاتی تھی لیکن آجکل اسے بُرانہیں سمجھاجاتابلکہ ٹائمز آف لندن میں ایک دفعہ میں نے ایک واقعہ پڑھا کہ امریکہ میں ایک عورت تھی جب وہ فوت ہوئی تو وہ ۱۷خاوند کرچکی تھی ۔جن میں سے بارہ خاوند اس کے جنازے پر موجود تھے ۔پھرطلاق کی وجوہات بھی وہاں بہت معمولی ہوتی ہیں۔ ایک عورت نے لکھا کہ میں نے اپنے خاوند سے اس لئے طلاق لی کہ میں نے ایک ناول لکھا اور خاوند سے کہا کہ اس کو شائع کرنے کی اجازت دو۔اس نے کہا میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ میں نے جج سے کہا میں ادبی عورت ہوں اورمیرے کام میں میراخاوند روک بنتاہے اس لئے میں طلاق لیناچاہتی ہوں۔جج نے کہاٹھیک ہے ،اس طرح تو ملک کا ادب خراب ہوجائے گا۔ غرض ساری باتیں ایسی ہی مضحکہ خیز نہیں مگرایک زمانہ ایساگذراہے کہ طلاق پربڑااعتراض کیاجاتاتھا اور طلاق کے بعد شادی کوفحش خیال کیاجاتاتھا۔مگراب وہی مسئلہ ہے جس پر دوسری قومیں بھی عمل کررہی ہیںبلکہ اس میں حدسے زیادہ گذر گئی ہیں ۔پھر قریب کی شادیاں ہیں۔ عیسائی اورہندوبھی اس پر اعتراض کرتے تھے۔ مگراب مسودے تیار ہورہے ہیں کہ اس کی اجازت ہونی چاہئے۔ غرض اب غیر قومیں بھی اسلامی احکام کی فضیلت کو تسلیم کررہی ہیں لیکن اسلام میںکوئی ایک حکم نہیں بلکہ ہزاروں احکام ہیں جن پر عمل کرناضروری ہے ۔بھلاوہ لوگ جو ہروقت سوٹ پہننے کے دِلدادہ ہیں ،آجکل حج کیسے کرسکتے ہیں وہاں اَنْ سلے کپڑے پہننے پڑتے ہیں ان کو یہ لو گ کیسے برداشت کرسکتے ہیںیہ توکہیں گے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ یہ کیا بدتمیزی کی بات ہے۔
غرض یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ ان کو مسلمانوں میں بھی رائج کرنامشکل ہے کجا یہ کہ ان کو یورپین ممالک میں رائج کیاجائے ۔و ہ تو چھوٹی سے چھوٹی باتوںپر بھی اعتراض کردیتے ہیں ۔ ہمارے مبلّغ جب امریکہ میں گئے تو وہ وہاں دیسی لباس پہناکرتے تھے۔ ایک دن دو عورتیں آئیں اور انہوں نے کہا ہم اسلام کے متعلق باتیں سننے آئی ہیں۔ ہمارے مبلّغ شلوار پہنے باہر آگئے ۔وہ کمرے میں داخل ہوئے ہی تھے کہ وہ عورتیں شور مچا کر بھاگیں کہ ہمارے سامنے یہ شخص ننگا آگیاہے،ہماری ہتک ہے ۔مبلّغ نے کہا میں کیسے ننگا ہوں، میں نے تو شلوار پہنی ہوئی ہے لیکن ان کے نزدیک یہ نائٹ ڈریس تھا اوررات کوہی پہناجاتاتھااور ا ن کے نزدیک نائٹ ڈریس میں آدمی ننگاہوتاہے ۔غرض بہت شور ہوا،محلہ والے انہیں مارنے کودَوڑے ۔ اتنے میں کوئی پادری آگئے اورانہوں نے کہا یہ توان کے ملک کا لباس ہے ان کے نزدیک ایسے شخص کو ننگا نہیں کہتے ۔
میں جب انگلینڈ گیا تو میں نے چند گرم پاجامے سلوائے تھے مگروہاں جاکر میں نے فیصلہ کیا کہ میں شلوار ہی پہنوں گا، میں ان کالباس کیوں پہنوں۔ ہمارے جو وہاں مبلّغ تھے وہ باربار کہتے تھے کہ لو گ ہمارے متعلق کیاکہتے ہوں گے ۔ مگر میں نے کہا جب ہمارے ملک میں انگریز جاتاہے تو کیاوہ شلوار پہنتاہے؟ اگروہ شلوار نہیں پہنتا تو میں پتلون کیوں پہنوں ۔وہ کہتے تھے عورتیں آتی ہیں تو بُرامناتی ہیں کیونکہ اس لباس میں وہ آدمی کو ننگا سمجھتی ہیں ۔میں نے کہامیں تو کپڑے پہنے ہوئے ہوں اورمجھے کپڑے نظر آرہے ہیں۔ ایک دن سرڈینی سن راس آئے جولنڈن میں ایک کالج کے پرنسپل تھے ۔ان کے ساتھ دواوربھی پروفیسر تھے۔میں نے کہا۔ سرڈینی سن راس! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں اگرآپ بے تکلفی سے بتائیں۔ انہوں نے کہا پوچھ لیجئے۔میں نے کہا جولباس میں پہنے ہوئے ہوں ،کیا آپ او رآپ کے دوست اسے بُرا تو نہیں مناتے؟ انہوں نے کہا سچ پوچھیں توہم بُرامناتے ہیں۔ میں نے کہا آپ جب ہندوستا ن گئے تھے تو کیاآپ نے شلوارپہنی تھی اور اگرنہیں پہنی تھی تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ انگریز خود تودوسروں کالباس نہیں پہنتے مگریہ حق رکھتے ہیں کہ دوسروں کو اپنا لباس پہننے پرمجبور کردیں۔ کہنے لگے یہ بات اَنْ لاجیکل تو ہے لیکن ہم بُرا ضرور مناتے ہیں۔ پھر میں نے کہا میں ایک اورسوال پوچھناچاہتاہوں کہ آپ بُرا تو مناتے ہیں مگرآپ کس کے کیریکٹر کو مضبوط سمجھتے ہیں؟ آیااس کے کیریکٹر کوجوآپ کی رَومیں بہہ جائے یاجواپنے طریق پر قائم رہے کیونکہ جو اپنے طریق پر قائم رہے وہی بہادر ہے۔کہنے لگے جو اپنے طریق پر قائم رہے وہی بہادر ہے۔میں نے کہا بس مجھے اس تعریف کی ضرورت ہے دوسری کسی بات کی میں پرواہ نہیں کرتا ۔
غرض ہم اسلام کی باتوںکو دوسروں سے نہیں منواسکتے جب تک ہم ان پر عمل کرنے میں رات دن ایک نہ کردیں اور دعائیںکرکے ہمارے ناک نہ رگڑے جائیں اوراپنی کوششوں کو بڑھانہ دیں۔ جب تک ہم دوسروں کی باتوں کو برداشت نہیں کرسکتے اوراپنے اندرایک قسم کی دیوانگی پیدانہیںکرلیتے اُس وقت تک ہم کو ئی عظیم الشان تغیر پیدانہیں کرسکتے ۔آج تک کوئی بھی بڑاکام نہیں ہواجس کے کرنے والے کولوگوںنے پاگل نہ کہاہو۔ جب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا اورایک بڑے مقصد کو لے کر دنیا کے سامنے کھڑے ہوگئے تو کیا کوئی یہ خیال بھی کرسکتاتھا کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے ۔دنیا کے سب لوگ کہتے تھے کہ یہ کام نہیں ہوسکتا یہ توعقل کے خلاف ہے ، بھلااتنا بڑاتغیر دنیا میں کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ ان کے نزدیک آپ نے قوم کی تمام رسوم کو چھوڑ کر ایک نیا طریق اختیار کرلیا تھا ۔ان کے اندر یہ احساس تھا کہ یہ کام نہیں ہوسکتا،اس لئے وہ آپ کو پاگل کہتے تھے لیکن آپ صرف منہ سے ہی نہیں کہتے تھے بلکہ جو کہتے تھے اس کے لئے پوری جدوجہد بھی کرتے تھے ۔جب ان کے کہنے کے بعد بھی آپ رات اور دن جدوجہد میں لگے رہے تو و ہ کہتے یہ شخص پکا پاگل ہے مگرآپ برابر اس کے لئے اپنی زندگی کو لگاتے چلے گئے کیونکہ آپ کو یہ یقین تھا کہ یہ کام آپ کر کے چھوڑیں گے اوراس میںضرور کامیاب ہوں گے۔
توحید کے مسئلہ کو لے لو جس کو آجکل بڑے فخر کے ساتھ تم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہو اور تمہاری گردنیں ان کے سامنے بلندرہتی ہیں۔تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ فطرتی مسئلہ ہے حالانکہ اس مسئلہ کو بھی وہ مجنونانہ خیال سمجھتے تھے۔قرآن میں آتا ہے کہ ۲؎ وہ لوگ یہ خیال بھی نہیںکرسکتے تھے کہ ایک خداہوسکتاہے ،ان کے نزدیک توکئی خداتھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ آپؐ نے سارے خدائوں کو کوٹ کرایک خدابنالیاہے۔ان کے ذہنوں میں ایک خدا کا مسئلہ آتاہی نہیں تھا۔
بھیرہ کے ایک طبیب تھے جن کانام الٰہ دین تھا۔انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی کتب کو پڑھاہواتھا۔وہ آپ کے بہت معتقدتھے لیکن احمدی نہیں ہوئے تھے۔ ان کے پاس ان کا ایک مریض احمدی چلا گیا اور اس نے تبلیغ شروع کردی۔ آپ کے دعویٰ کا انہیں علم تھا وہ اپنے آپ کو بہت بڑاعالم سمجھتے تھے اورحضرت خلیفہ اول جن کے علم و فضل کا ہر ایک اقرار کرتا ہے وہ ان کے متعلق کہاکرتے تھے کہ نورالدین کیاجانتاہے، وہ تو صرف ابتدائی باتیں جانتا ہے۔ جب اس دوست نے انہیں تبلیغ کی توکہنے لگے میاں جانے بھی دو کیا مرزا صاحب کی کتابوں کو تم مجھ سے زیادہ سمجھتے ہو ۔میں آپ کی کتابوں کو جتنا سمجھتاہوں تم نہیں سمجھتے۔ میں نے آپ کی کتابوں کا گہرامطالعہ کیاہواہے۔آپ بڑے عالم ہیں کیاوہ اتنی بڑی بیوقوفی کی بات کہہ سکتے ہیںکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں۔قرآن میں صاف لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔بھلا آپ جیساعالم یہ کہہ سکتاہے کہ وہ زندہ نہیں۔ اصل میں تم نے کتابوں کو غور سے پڑھا نہیں۔مجھے اصل بات کا پتہ ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جب آپ نے براہین احمدیہ لکھی تواس میں اسلام کی صداقت کو اتنے زبردست دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ آپ سے قبل ۱۳۰۰سا ل تک کسی عالم سے ایسانہیں ہو سکا تھا اوروہ ایسے دلائل تھے کہ ان کے سامنے عیسائی اورہندو ٹھہر نہیں سکتے تھے ۔مگرمولویوں کی عقل ماری گئی اوربجا ئے خوش ہونے کے انہوں نے آپ پر کفر کے فتوے لگانے شرو ع کر دیئے۔ مرزاصاحب نے کہا اچھا اب میں تم سے اس کابدلہ لیتاہوں۔ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کاآسمان پر جانا سیدھی سادھی بات ہے لیکن اب میں اس کاانکار کرتاہوں ۔اگر تم میں ہمت ہے توتم اس سیدھی سادھی بات کو ثابت کرکے دکھادو۔پس یہ تو محض ان کی عقل کاامتحان لینے کے لئے مرزاصاحب نے کیا تھا ۔اگریہ سب مولوی آپ سے جاکر معافی مانگ لیں تو آپ اسی قرآن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ ثابت کردیں ۔غرض جس طرح ان کے خیال میں حیاتِ مسیح کامسئلہ ایک ثابت شُدہ مسئلہ تھا اسی طرح مکہ والوں کے نزدیک کئی خدائوں کا ہونا ایک ثابت شُدہ مسئلہ تھا ۔و ہ سمجھتے تھے کہ محمد رسول اللہ نے سب خدائوں کا قیمہ کرکے ایک بنالیا ہے۔ مگرپھر دیکھو آپ نے ان سے یہ مسئلہ منوالیایانہیں۔وہ جو سمجھتے تھے کہ کئی خداہیں ان کا یہ حال ہوگیا۔
جب مکہ فتح ہواتوچند ایسے آدمی تھے جن کو معاف کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب نہ سمجھا ، اوران کے قتل کا حکم صادر کردیا ۔ان میں سے ایک ہندہ ابوسفیا ن کی بیوی بھی تھی۔ یہ وہی عورت ہے جس نے حضرت حمزہؓ کا مثلہ کروایاتھا ۔آپؐ نے مناسب سمجھا کہ اسے اس ظالمانہ فعل اورخلافِ انسانیت حرکت کی سزادی جائے ۔اُس وقت پردہ کاحکم نازل ہوچکا تھا۔جب عورتیںبیعت کے لئے آئیں توہندہ بھی چادر اوڑھ کر ساتھ آگئی اور اُس نے بیعت کرلی۔ جب وہ اس فقرہ پر پہنچی کہ ہم شرک نہیں کریں گی توچونکہ وہ بڑی تیز طبیعت تھی اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! ہم اب بھی شرک کریں گی؟آپؐ اکیلے تھے اور ہم نے پوری طاقت اور قوت کے ساتھ آپ کامقابلہ کیا۔اگرہمارے خداسچے ہوتے توآپ کیوں کامیاب ہوتے۔ وہ بالکل بیکارثابت ہوئے اور ہم ہار گئے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہندہ ہے؟ آپؐ اس کی آواز کوپہچانتے تھے ،آخر رشتہ دار ہی تھی ۔ہندہ نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! اب میں مسلمان ہو چکی ہوں اب آ پ کو مجھے قتل کرنے کا اختیار نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا ہاں اب تم پر کوئی گرفت نہیں ہوسکتی۔۳؎
غرض وہ قوم جو سمجھتی تھی کہ آپ نے سب خدائوں کو کوٹ کر ایک خدابنالیاہے ان میں اتنا تغیر پیداہوگیاکہ ہندہ جیسی عورت نے کہا کہ کیاکوئی کہہ سکتاہے کہ خداایک نہیں۔اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ ایک زمانہ ایساآئے گا جب تمام دنیا صداقت اسلام کی قائل ہوجا ئے گی ۔اب تو یہ حالت ہے کہ ایک مسلمان اپنی عملی کمزوریوں کی وجہ سے دوسروں کے سامنے شرمندہ ہوجاتاہے لیکن ایک دن آئے گا جبکہ یورپین اقوام بھی ان احکام کوتسلیم کریں گی اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ لوگ بادشاہوں کے مذہب کے تابع ہوتے ہیں بے شک کچھ لوگ وہ بھی ہوتے ہیں جو نقال ہواکرتے ہیں ۔جیسے شروع شروع میں مسلمان آئے توہندو بھی فارسی بولنے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔اسی طرح جیساکوئی فیشن ہوجائے لوگ بھی وہی اختیار کرلیتے ہیں ۔اُس وقت ہندوئو ں نے بھی داڑھیاں رکھ لی تھیںمگر جب انگریزوں کازمانہ آیا تو داڑھی منڈوانا شروع کردی۔ چھوٹے کو ٹ پہننے شروع کردیئے ۔
جب اسلام غالب آئے گا توہرانسان ا س بات میں فخر محسوس کرے گاکہ وہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرے لیکن جب تک اسلام غالب نہیں آتا ہمیں بڑی بڑی قربانیاں کرنی پڑیں گی اور اپنے نفسوں کومارناہوگا ۔ جب تک ہم اپنے نفسوں کو مار کر موجودہ رسم و رواج کے خلاف اپنے آپ کو نہیں اُبھاریں گے، دریا کی دھار کے خلاف تیرنے کی کوشش نہیں کریں گے، ملامت کی تلوار کے نیچے، ہنسی اورمذاق کی تلوار کے نیچے، سیاسی لوگوں کے سیاسی اعتراضات کی تلوار کے نیچے ، مذہبی اور فلسفی لوگوں کے اعتراضات کی تلوار کے نیچے اپناسر رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اُس وقت تک اس عظیم الشان مقصد کے پوراکرنے کی ہمیں امید نہیں رکھنی چاہئے۔ دنیا میں آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گذری جس نے صرف میٹھی میٹھی باتوں سے دنیاکوفتح کر لیا ہو۔ قومیں ہمیشہ مصیبتوں او ر ابتلائوں کی تلواروں کے سایہ تلے بڑھتی او ر ترقی کرتی ہیں اور انہیں لوگوں کے اعتراضات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔پس اپنے آپ کو اِس فتح کااہل بنائو۔ جب تک آپ لوگ خدا اور اس کے رسول ؐ کے دیوانے نہیں بن جاتے ،جب تک موجودہ فیشن اور رسم و رواج کو کچلنے کے لئے تیار نہیں ہوجاتے اُس وقت تک اسلامی احکام کو ایک غیر مسلم کبھی بھی قبول کرنے کے لئے تیا ر نہیں ہوگا ۔
انگلینڈ سے مجھے ایک غیر مسلمہ کاخط آیا۔وہ احمدی تو ہوچکی ہے مگر تعلیم ابھی کم ہے۔ وہ ہمارے مبلّغ کے متعلق لکھتی ہے کہ جب میں ان کے لیکچر میں جاتی ہوں تو جو کچھ وہ کہتے ہیں میں سمجھتی ہوں کہ یہ ناممکن ہے، اسے کیسے قبول کیاجاسکتاہے مگر جب میں ان کے جوش اور ان کے چہرہ کی حالت دیکھتی ہو ں تو مجھے یقین ہوجاتاہے اور میرادل تسلی پاجاتاہے کہ آخر یہ ہو کر رہے گا۔ غرض جب لو گ ہمارے عزم کو دیکھ کر ہمارے اندر سنجیدگی اور جو ش دیکھیں گے تو وہ انہیں خود بخود ماننے پر مجبور ہوجائیں گے ۔
پس پہلے اپنے اندر جوش اور سنجیدگی پیداکرنی چاہئے پھر ہم دوسروں کی توجہ کو بھی پھیر سکیں گے اوروہ سمجھ لیں گے کہ اسلام کی باتیں سچی ہیں اوروہ ان پر سچے دل سے غور کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے اورپھر اسلام اُس مقام پر پہنچ جائے گا جس پر آج سے تیرہ سَو سال پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچایاتھا۔
(الفضل ۱۱؍اکتوبر۱۹۶۱ ء)
۱؎ ناطقین بِالضاد: ض بولنے والے
۲؎ ص: ۶
۳؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۹۴ تا۹۶ مطبوعہ بیروت ۱۳۲۰ھ
دیباچہ تفسیر القرآن
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بَاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ۔ھُوَ النَّاصِرُ
دیباچہ
تفسیر القرآن (انگریزی)
اس نئے ترجمہ اور تفسیری نوٹوں کو پیش کرتے ہوئے ہم یہ بتا دینا مناسب سمجھتے ہیں کہ اس کی غرض تجارتی نہیں ہے اورنہ صرف ایک جدید چیز کا پیش کرنا اصل مقصود ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت تک وہ اقوام جو عربی سے ناواقف ہیں ایک نئے ترجمہ کی محتاج ہیں اور ساری دنیا عربی دانوں کو بھی شامل کرتے ہوئے ایک نئے انداز کے تفسیری نوٹوں کی محتاج ہے اس کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں۔
انگریزی نئے ترجمہ اور نئی تفسیر کے لکھنے کی وجوہ
(۱) اِس وقت تک قرآن کریم کے جس قدر انگریزی تراجم غیر مسلموں نے کئے ہیں وہ سب کے سب ایسے
لوگوں نے کئے ہیں جو عربی زبان سے یا تو بالکل
ناواقف تھے یا بہت ہی کم علم عربی زبان کا رکھتے تھے۔ اس وجہ سے قرآن کریم کا ترجمہ کرنا تو الگ رہا وہ اِس کا مفہوم بھی اچھی طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے اور بعض نے تو کسی اور زبان کے ترجمہ سے اپنی زبان میں ترجمہ کر دیا تھا جس کی وجہ سے مفہوم اور بھی حقیقت سے دُور جا پڑا تھا۔
(۲) مزید خرابی اُن تراجم میں یہ تھی کہ اُن کی بنیاد عربی لغت پر نہیں تھی بلکہ تفسیروں پر تھی اور تفسیر ایک شخص کی رائے ہوتی ہے جس کا کوئی حصہ کسی کے نزدیک قابلِ قبول ہوتا ہے اورکوئی حصہ کسی کے نزدیک۔ اور کوئی حصہ مصنف کے سوا کسی کے نزدیک بھی قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ اِس قسم کا ترجمہ ایک رائے کا اظہار تو کہلا سکتا ہے حقیقت کا آئینہ دار نہیں کہلا سکتا۔
اِن نقائص کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضرورت شدید طور پر محسوس ہوتی تھی کہ ایک ایسا ترجمہ قرآن کریم کا غیر عربی دان لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے جو:
(الف) عربی دان افراد کی کوشش اور محنت کا نتیجہ ہو اور:
(ب) جو لغتِ عربی پر مبنی ہو۔ چنانچہ یہ انگریزی ترجمہ جس کے بعد دوسری زبانوں کے تراجم اِنْشَائَ اللّٰہُ جلد شائع کئے جائیں گے انہی دو اصول کے ماتحت شائع کیا جا رہا ہے۔
عربی زبان سے دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنے میں ایک دِقّت
اِس میں کوئی شک نہیں کہ چونکہ عربی زبان ایک فلسفیانہ زبان ہے اور اِس کے تمام الفاظ معیّن حکمتوں کے ماتحت وضع کئے گئے
ہیں اور اس وجہ سے کہ ان کے مادے ابتدائی جذبات و مشاہداتِ انسانی کے اظہار کے لئے بنائے گئے ہیں اس لئے استعمال میںا ن کے معنی بعض دفعہ نہایت وسیع ہی نہیں ہوجاتے بلکہ نہایت گہرے بھی ہو جاتے ہیں۔ دوسری زبانوں میںا ن کا پورا ترجمہ کرنا قریباًنا ممکن ہے اور جب تک کہ تفسیری نوٹوں میںا ن معانی کی وسعت بیان نہ کی جائے صرف ترجمہ پورے مضمون کو ظاہر نہیں کر سکتا۔ اس لئے جو ترجمہ ہم پیش کر رہے ہیں اِن معنوں میں مکمل ترجمہ نہیں کہلا سکتا کہ انگریزی ترجمہ نے عربی عبارت کا پورا مفہوم یا قریباً پورا مفہوم بیان کر دیا ہے بلکہ وہ ترجمہ عربی عبارت کے مختلف مفہوموں سے صرف ایک مفہوم کو ظاہر کرنے والا قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کمی کو پورا کر نے کے لئے ہم نے:
(۱) مختصر نوٹ ترجمہ کے نیچے دئیے ہیں یہ نوٹ اِس وجہ سے کہ ایک مکمل تفسیر نہیں ہیں ان مختلف معانی کو جو ہمارے نزدیک کسی آیت کے ہیں مکمل طور پر تو نہیں ظاہر کرتے مگر کم سے کم ترجمہ کی محدودیت کا کسی قدر ازالہ کر دیتے ہیں۔
(۲) دوسرے پڑھنے والے کوترجمہ میں بصیرت بخشنے کے لئے اور اس کے دل کو اِس بات پر مطمئن کرنے کے لئے کہ جو ترجمہ ہم نے کیا ہے وہ آزاد نہیں ہے بلکہ لغت اور وضع کلام کے مطابق ہے ہم نے ضروری الفاظ کے معانی ایسی کتب لغت سے جو نہ صرف مسلمانوں کے نزدیک بلکہ عربی بولنے والے غیرمذاہب کے لوگوں کے نزدیک بھی مسلّمہ ہیں حاشیہ میں دئیے ہیں تاکہ ایک عربی سے ناواقف آدمی بھی یہ معلوم کر سکے کہ جو ترجمہ ہم نے کیا ہے وہ خواہ کسی دوسرے کے نزدیک قابل قبول نہ ہو، مگر ہے عربی لغت کے عین مطابق۔ اور بغیر کسی قرآنی دلیل کے جس سے معلوم ہو کہ اس جگہ اس لفظ کو ان معنوں میں قرآن کریم نے استعمال نہیں کیا یا بغیر شواہد لغت عربیہ کے اسے ردّ کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں۔
تفسیری نوٹ لکھنے کی وجوہ
ترجمہ کے متعلق اس قدر تشریح کے بعد اب ہم تشریحی نوٹوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی
شک نہیںکہ درجنوںتفسیریں قرآن کریم کی اِس وقت تک لکھی جا چکی ہیں اور شاید ان کی موجودگی میں کسی نئی تفسیر کی ضرورت نہ سمجھی جائے لیکن ان تفسیروںکی موجودگی کے باوجود ہم نے یہ تفسیری نوٹ لکھے ہیں اس کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:۔
(۱) جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے عربی زبان کے الفاظ وسیع معانی رکھتے ہیں لیکن ترجمہ میں صرف ایک ہی معنی کا خیال رکھا جاسکتا ہے اس لئے ضروری تھا کہ نیچے نوٹ دیئے جاتے تاکہ بعض اور اہم معانی پر بھی روشنی پڑجاتی۔
(۲) قرآن کریم کی تمام اہم اور مفصل تفسیریں جو اِس وقت تک لکھی گئی ہیں عربی زبان میں ہیں اور ظاہر ہے کہ جو لوگ قرآن کریم کی عبارت کو نہیں سمجھ سکتے وہ اس کی تفاسیر سے بھی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔
(۳) جو نوٹ تفسیری رنگ میں قرآن کریم کے تراجم کے حواشی میں غیر مسلم مترجموں نے لکھے ہیں وہ:
(الف) مخالفین اسلام کی کتب سے متأثر ہو کر لکھے گئے ہیں۔
(ب) ان لوگوں کوعربی زبان کا یا تو بالکل علم نہ تھا یا بہت ہی کم علم تھا اس وجہ سے معتبر اور مفصل تفسیروں سے وہ فائدہ نہیں اُٹھا سکے۔ چنانچہ مغربی زبانوں میں جس قدر تراجم ہیں ان میں سے کسی ایک کے حواشی میں بھی قرآن کریم کی معتبر اور مفصل تفاسیر میں سے کسی کا بھی حوالہ نہیں آتا، صرف ادنیٰ اور عوام الناس کی دلچسپی کے لئے لکھی ہوئی تفاسیر کا حوالہ آتا ہے اور اگر کسی بڑی تفسیر کا حوالہ ہوتا ہے تو کسی دوسری تفسیر سے نقل کیا ہوا ہوتا ہے خود اس کتاب کو پڑھ کر استفادہ کیا ہوا نہیں ہوتا۔
(۴) کسی علمی کتاب کو سمجھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ نہ صرف اُس زبان کا علم ہو جس میں وہ کتاب لکھی ہوئی ہے، نہ صرف اُن تفاسیر پر عبور ہو جو اُس زبان یا علم کے ماہروں نے لکھی ہیں بلکہ خود اُس کتاب کا بھی اِس قدر گہرا مطالعہ ہو کہ اس کی اپنی اصطلاحات اور محاورات اور ان اصول کا علم حاصل ہو جائے جن کے گرد اُس کی تعلیم کی فروع چکر کھاتی ہیں۔ اگر یہ علم نہ ہو تو تفسیروں کی مدد سے بھی کوئی شخص صحیح ترجمانی نہیں کر سکتا۔ چونکہ یہ درجہ کسی مغربی مترجم یا شارح قرآن کو حاصل نہ تھا اس لئے ان کے نوٹ بعض دفعہ مضحکہ خیز حدتک جا پہنچتے ہیں۔
(۵) ہر زمانہ اپنے ساتھ نئے علوم لاتا ہے۔ ان علوم کی ہر علمی کتاب کی تعلیم ایک نئی تنقید کا شکار ہوتی ہے اور اس کے مطالب یا زیادہ واضح ہو جاتے ہیں یا زیادہ مشکوک ہو جاتے ہیں۔ قرآن کریم بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا۔ پس موجودہ زمانہ کے علوم کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی تفسیر ضروری تھی تا معلوم ہو سکے کہ وہ موجودہ علوم کی روشنی میں اپنی ہادیانہ شان کس حد تک قائم رکھ سکا ہے یا اس کی شان کس حد تک آگے سے بھی زیادہ روشن ہوگئی ہے۔
جب قرآن کریم کی پہلی تفاسیرلکھی گئیں اُس وقت عربی زبان میں مکمل بائبل موجود نہ تھی بلکہ اُس کے جن ٹکڑوں کے تراجم عربی زبان میں ہوئے تھے وہ بھی مفسرین کی دسترس سے باہر تھے اس وجہ سے پرانے مفسرین نے قرآن کریم کے ان مضامین کی طرف جن میں موسوی سلسلہ کی تاریخ کی طرف اشارہ ہے صرف اپنے علم کے مطابق روشنی ڈالی ہے، جو بعض دفعہ نہایت مایوس کن اور بعض دفعہ مضحکہ خیز ہو جاتی ہے۔ مغربی مصنفین ان کی غلطیوں کو قرآن کریم کی طرف منسوب کر کے ہنسی اُڑاتے ہیں حالانکہ ان مفسروں نے جو کچھ لکھا بائبل کو پڑھ کر نہیں لکھابلکہ یہودی اورمسیحی علماء سے پوچھ کر لکھا تھا۔ بعض دفعہ اُن علماء نے بائبل کی بجائے اپنی روایات کی کتب سے انہیں مضمون بتا دئیے اور بعض دفعہ ان کی ناواقفیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان سے تمسخر کیا۔ بیشک ان پر اعتبار کر کے ان مفسرین نے سادگی اور بے احتیاطی کا اظہار کیا لیکن اُس بات سے اُس زمانہ کے یہودی اور مسیحی علماء کی دیانت اور اُن کے تقویٰ پر جو زَد پڑتی ہے وہ بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ پس موجودہ مغربی مصنفین کو قرآن کریم کے مفسرین پر ہنسی اُڑانے کی بجائے خود اپنے آباء کی دیانت پر ماتم کرنا چاہئے۔ اب جبکہ بائبل کے علوم ہر کس و ناکس کے لئے ظاہر ہو گئے ہیں اور عبرانی،لاطینی اوریونانی کتب بھی مسلم علماء کی دسترس میں ہیں اس لیے موقع پیدا ہو گیا ہے کہ نئے رنگ میں ان مضامین پر روشنی ڈالی جائے جو قرآن کریم میں موسوی سلسلہ اور بائبل کے متعلق بیان ہوئے ہیں۔
(۶) پرانے زمانہ میں مختلف مذاہب کے درمیان اعمال کے متعلق تعلیمی برتری کا مقابلہ بہت کم تھا، بلکہ رسم ورواج اور عقائد کی بحث تک علماء کی گفتگو محدود رہتی تھی۔ اس وجہ سے قرآن کریم کی وہ تعلیم جو اخلاقی، تعلیمی، اقتصادی، سیاسی اور تعامل باہمی کے امور کے متعلق تھی زیربحث نہ آتی تھی۔ آج دنیا کی توجہ ان امور کی طرف زیادہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے قرآن کریم کی ایسی تفسیر پیش کی جائے جس میں ان اُمور کے متعلق جو اس کی تعلیم ہے اس پر زیادہ روشنی ڈالی جائے۔
(۷) قرآن کریم چونکہ الہامی کتاب ہے اس میں آئندہ زمانہ کی پیشگوئیاں بھی ہیں۔ جن کے متعلق صحیح روشنی اُسی وقت ڈالی جا سکتی ہے جبکہ وہ پوری ہو چکی ہوں۔ اس لئے بھی ضروری تھا کہ اِس زمانہ میں نئی تفسیر پیش کی جائے جو اِس وقت پوری ہوچکنے والی پیشگوئیوں کو ظاہر کرے۔
(۸) قرآن کریم کی تعلیم سب مذاہب اور فلسفوں پرحاوی ہے اور وہ سب مذاہب کی اچھی تعلیموں پر مشتمل ہونے کے علاوہ ناقص کا نقص بھی ظاہر کرتی ہے اور نا مکمل کو مکمل بھی کرتی ہے۔ ابتدائی زمانۂ اسلام کے مفسرین کو چونکہ ان مذاہب اور ان فلسفوں کا علم نہ تھا وہ ان کے متعلق قرآنی تعلیم کو صحیح طور پر اخذ نہیں کر سکے۔ اب وہ سب پوشیدہ علوم ظاہر ہو چکے ہیں اور قرآن کریم کے وہ حصے جو ان کے متعلق ہیں اس کے عارفوں پر روشن ہو گئے ہیں پس اِس زمانہ میں پرانی تفسیروں کی اِس کمی کو پورا کرنا بھی ایک اہم ضرورت ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وجوہاتِ مندرجہ بالا کی موجودگی میںیہ ترجمہ اور تفسیر جو ہم پیش کر رہے ہیں صرف نا قابل اعتراض ہی نہیںبلکہ ایک اہم ضرورت کو پورا کر رہا ہے، ہم اسے پورا کرکے اپنا حق ادا کر رہے ہیں۔
ہم اُمیدکرتے ہیں کہ جو لوگ ہمارے پیش کردہ ترجمہ اور تفسیر کو غور سے پڑھیں گے اور تعصب سے آزاد ہو کر اِس کا مطالعہ کریں گے وہ اسلام کو ایک نئے زاویہ سے دیکھنے پر مجبور ہوں گے اور اُن پر ثابت ہو جائے گا کہ اسلام نقائص سے پرُ مذہب نہیں جیسا کہ مغربی مصنفوں نے پیش کیا ہے بلکہ وہ روحانی علم کا ایک خوبصورت باغ ہے جس میں سیر کرنے والا ہر قسم کی خوشبو اور ہر قسم کے حسن کے نظارہ سے مستفیض ہوتا ہے اور وہ اُس آسمانی جنت کا ایک مکمل ارضی نقشہ ہے جس کا وعدہ سب مذاہب کے بانی دیتے چلے آئے ہیں۔
قرآن کریم کی ضرورت
آج سے قریباً سَوا تیرہ سَو سال پہلے جب قرآن کریم نازل ہوا دنیا میں اور بھی بہت سے مذاہب اور بہت سی کتابیں
موجود تھیں۔ عرب کے اردگرد عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید دونوں کے ماننے والے پائے جاتے تھے۔ خود بعض عرب بھی عیسائی ہو چکے تھے یا عیسائیت کی طرف رغبت رکھتے تھے۔ اسی طرح بعض عرب یہودیوں کے مذہب میں بھی شامل ہوتے رہتے تھے، چنانچہ مدینہ کا کعب بن اشرف یہودِ مدینہ کا سردار مشہور دشمن اسلام اور اس کا باپ ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ کعب کا باپ طی قبیلہ سے تھا۔ یہود سے اسے ایسی عقیدت ہوئی کہ ابورافع بن ابی حقیق یہودی نے اس سے اپنی لڑکی کی شادی کر دی اوراس یہودی لڑکی کے بطن سے کعب پیدا ہوا۔ ۱؎
مکہ مکرمہ میں علاوہ عیسائی غلاموں کے خود مکہ کے بعض باشندے بھی عیسائیت کی طرف رغبت رکھتے تھے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی حضرت خدیجہؓ کے بھائی ورقہ بن نوفل نہ صرف یہ کہ عیسائی عقائد رکھتے تھے بلکہ انہوں نے کچھ عبرانی بھی سیکھی تھی اور وہ عبرانی اناجیل سے عربی میں ترجمہ کرتے تھے۔ بخاری میں لکھا ہیکَانَ إمْرَأً قَدْ تَنَصَّرَفِی الْجَاھِلِیَّۃِ وَکَانَ یَکْتُبُ کِتَابَ الْعِبْرَانِیِّ فَیَکْتُبُ مِنَ الْاِنْجِیْلِ باِ لْعِبْرَانِیَّۃِ مَاشَائَ اللّٰہُ اَنْ یَکْتُبَ ۲؎ یعنی ورقہ بن نوفل نے جاہلیت میں عیسائیت اختیار کرلی تھی اوروہ عبرانی سے عربی میں اناجیل کا ترجمہ کیا کرتے تھے۔
عرب کے دوسرے کنارے پر ایرانی آ باد تھے اور وہ بھی ایک نبی اور ایک کتاب کے ماننے والے تھے۔ زرتشت نبی کی کتاب ژند اَوِستاگوانسانی دستبرد کا شکار ہو چکی تھی لیکن تاہم لاکھوں انسانوں کا مرجع عقیدت بنی ہوئی تھی اور ایک زبردست حکومت اس کے قانون کی اتباع کی مدعی تھی۔ ہندوستان میں ویدہزاروں سالوں سے لوگوں کی عقیدت کا مرجع بنے ہوئے تھے اور کرشن جی کی گیتا اور بدھ کی تعلیم مزید برآں تھیں۔ چین میں کنفیوشس ازم کا زور تھا اور بدھ مذہب بھی اپنے پائوں پھیلا رہا تھا ان کتابوں اور ان تعلیموں کے ہوتے ہوئے کیا کسی نئی کتاب کی ضرورت تھی؟ یہ ایک سوال ہے جو قرآن کریم کے دیکھتے ہی ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے یا پیدا ہونا چاہئے۔ اس سوال کا جواب کئی رنگ سے دیا جا سکتا ہے۔
اوّل: کیا یہ اختلافِ مذاہب خود اِس بات کی دلیل نہ تھا کہ ان سب مذاہب کو متحد کرنے کے لئے کوئی اور مذہب آنا چاہئے؟
دوم: کیا انسانی دماغ اسی طرح ارتقاء کی منزلوں کو طے کرتا ہوا نہیں جا رہا تھا جس طرح انسانی جسم نے کسی زمانہ میں ارتقاء کی منزلیں طے کی تھیں۔ پھر کیا جس طرح جسم کی ارتقائی منزلیں ایک مقام پر پہنچ کر ایک مستقل صورت اختیار کر گئیں اسی طرح کیا روح اور دماغ کے لئے بھی ضروری نہ تھا کہ وہ ارتقائی منزلیں طے کرتے ہوئے ایک ایسی منزل پر پہنچے جو انسانی پیدائش کا مقصود تھی؟
سوم: کیا پہلی کتب میں کوئی ایسا نقص تو نہیں آگیا تھا جس کی وجہ سے دنیا کو شدید طور پر ایک نئی کتاب کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی اور قرآن کریم اس ضرورت کو پورا کرنے والا تھا؟
چہارم: کیا سابق مذاہب اپنی تعلیم کو حتمی اور آخری قرار دے رہے تھے یا وہ خود بھی ایک ارتقاء کے قائل تھے اور روحانیت کی ترقی کے لئے ایک ایسے نقطہ کی خبر دے رہے تھے جس پر جمع ہو کر بنی نوع انسان کو انسانی پیدائش کا مقصد حاصل کرنا تھا؟
میرے نزدیک ان چاروں سوالوں کا جواب ہی اس سوال کو حل کر دے گا کہ قرآن کریم سے پہلے مختلف کتب اور مختلف مذاہب کی موجودگی میں قرآن کریم کی کیا ضرورت پیش آئی تھی۔ پس میںان چاروں سوالوں کو باری باری لے کر جواب دیتا ہوں۔
پہلا سوال اور اس کا جواب
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ اختلافِ مذاہب خود اس بات کی دلیل نہ تھا کہ ان سب مذاہب کو متحد کرنے
کے لئے کوئی اور مذہب آنا چاہئے؟ ا س کاجواب یہ ہے کہ مذہب اوّل انسان کو خدا تعالیٰ سے ملانے کے لئے آتا ہے اور دوسری غرض ا س کی شفقت علیٰ خلق اللہ کی تکمیل ہوتی ہے۔
اسلام کے سِوا باقی سب مذاہب قومی مذہب تھے یونیورسل نہ تھے
اسلام سے پہلے جتنے بھی مذاہب دنیا میں موجود تھے وہ سب ایک دوسرے سے مختلف بلکہ ایک دوسرے کو ردّ کرنے
والے تھے۔ بائبل دنیا کے خدا کو نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے خدا کو پیش کرتی تھی، چنانچہ اس میں بار بار یہ ذکر آتا ہے کہ:
’’خد اوند بنی اسرائیل کا خد امبارک ہے جس نے تجھے بھیجا ہے کہ تُو آج کے دن میرا استقبال کرے۔‘‘ ۳؎
’’ خداوند بنی اسرائیل کا خد امبارک ہے جس نے آج کے دن ایک آدمی ٹھہرایا کہ میری ہی آنکھوں کے دیکھتے ہوئے تخت پر بیٹھے۔‘‘۴؎
’’ خداوند اسرائیل کا خداوندا بدالا باد مبارک ہو۔‘‘۵؎
’’ خدا وند اسرائیل کا خدا مبارک ہو جس نے اپنے ہاتھ سے وہ کلام کہ جس کو اپنے منہ سے میرے باپ دائود سے کہا تھا پورا کیا۔‘‘ ۶؎
’’ خداوند خدا اسرائیل کا خدا جو اکیلا ہے عجائب کام کرتا ہے۔‘‘ ۷؎
حضرت مسیح ؑبھی اپنے آپ کو صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث قرار دیتے تھے اور دوسری قوموں کے افراد کو دھتکار دیتے تھے۔ چنانچہ انجیل میں لکھا ہے:۔
’’ تب یسوع وہاں سے روانہ ہو کے صوراورصیدا کی اطراف میں گیا اور دیکھو ایک کنعانی عورت وہاں کی سرزمین سے نکل کر اسے پکارتی ہوئی چلی آئی کہ اے خداوند دائود کے بیٹے! مجھ پر رحم کر کہ میری بیٹی ایک دیو کے غلبہ سے بے حال ہے۔ اس نے کچھ جواب نہ دیا۔ تب اس کے شاگردوں نے پا س آکر اس کی منت کی کہ اسے رخصت کر، کیونکہ وہ ہمارے پیچھے چلاتی ہے۔ اس نے جواب میں کہا میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سِوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔ پھر وہ آئی اور سجدہ کر کے کہا۔اے خدا وند! میری مدد کر۔ اس نے جواب دیا کہ مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو پھینک دیویں۔‘‘ ۸؎
اِسی طرح حضرت مسیح نے اپنے حواریوں کو یہ تعلیم دی کہ:۔
’’ وہ چیز جو پاک ہے کتوں کو مت دو اور اپنے موتی سؤروں کے آگے مت پھینکو۔ ایسا نہ ہو کہ وے انہیں پامال کریں اور پھر کر تمہیں پھاڑیں۔‘‘۹؎
ویدوں کے ماننے والوں میں وید اس حد تک ہندوستان کی اونچی ذاتوں کے ساتھ مخصوص کر دیے گئے تھے کہ گوتم جو تمام ہندو قوم اور سناتن دھرم کا تسلیم شدہ شارح قانون ہے لکھتاہے کہ :
’’ شودر اگر وید کو سن لے تو راجہ سیسے اور لاکھ سے اس کے کان بھردے۔ وید منتروں کا اچارن (تلاوت) کرنے پر اُس کی زبان کٹوا دے۔ اور اگر وید کوپڑھ لے تو اس کا جسم ہی کا ٹ دے۔‘‘ ۱۰؎
اسی طرح خود وید میں غیر قوموں کے لئے جو تعلیم موجود ہے وہ نہایت ہی شدید اور سخت ہے۔ رگوید میں ویدک دھرم کے مخالفین کو کتا قرار دیتے ہوئے یہ بددعا کی گئی ہے کہ:
’’ اے آگ دیوتا! تُو ان بُرے کتوں ( مخالفین) کو دُور لے جا کر باندھ دے‘‘۔ ۱۱؎
اتھرو وید میں بھی یہ تعلیم دی گئی ہے کہ غیر ویدک دھرمی لوگوں کوجکڑ کر اُن کے گھروں کو لُوٹ لینا چاہئے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ:۔
’’ اے ویدک دھرمی لوگو تم چیتے جیسے بن کر اپنے مخالفین کو باندھ لو اور پھر ان کے کھانے تک کی چیزیں زبردستی اُٹھا لائو۔ ۱۲؎
اسی طرح ویدوں میں چاند، سورج، آگ، پانی اوراِندر سے یہاں تک کہ گھاس سے بھی یہ دعائیں کی گئی ہیں کہ غیر ویدک دھرمی لوگوں کو تباہ و برباد کردیا جائے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ :
’’ اے آگ! تُو ہمارے مخالفوں کو جلا کر راکھ کر دے۔‘‘ ۱۳؎
’’ اے اِندر! تُو ہمارے مخالفوں کو چیر پھاڑ ڈال اور جو ہم سے نفرت رکھتے ہیں انہیں تتر بتر کر دے۔‘‘۱۴؎
’’ اے مخالفو! تم سر کٹے ہوئے سانپوں کی طرح بے سر اور اندھے ہو جائو اس کے بعد پھر اِندر دیوتا تمہارے چیدہ چیدہ لوگوں کو تباہ کر دے۔‘‘۱۵؎
’’ اے وبھ گھاس! تُو ہمارے مخالفوں کو جلادے اور تباہ کر اور جس طرح تُو پیدا ہوتے وقت زمین کو چیر کر باہر نکل آتا ہے ویسے ہی تُو ہمارے مخالفوں کے سروں کو چیرتا ہوا اوپر کو نکل کر اُن کو تباہ کر کے زمین پر گرا دے۔‘‘ ۱۶؎
پھر ہندو دھرم میں یہ بھی تعلیم موجود ہے کہ غیرویدک دھرمی لوگوں کے ساتھ بات چیت بھی نہ کرو ۔۱۷؎
اگر کوئی ویدوں پر اعتراض کرے تو اُسے ملک سے باہر نکال د ویعنی حبس دوام کی سزا دو۔۱۸؎
کنفیوشس ازم اور زردشت مذہب بھی قومی مذہب تھے۔ اُنہوں نے کبھی بھی دنیا کو اپنا مخاطب نہ سمجھا نہ دنیا کو تبلیغ کرنے کی کوشش کی۔ جس طرح ہندو مذہب کے مطابق ہندوستان خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کا ملک تھا اسی طرح کنفیوشس ازم کے مطابق چین آسمانی بادشاہت کا مظہر تھا اور زرتشتیوں کے نزدیک ایران آسمانی بادشاہت کا مظہر تھا۔ اس اختلاف کے ہوتے ہوئے یا تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا کے پیدا کرنے والے کئی خدا ہیں اور یا یہ ماننا پڑے گا کہ خداتعالیٰ کی وحدانیت کے لئے اس اختلاف کو مٹا دینا ضروری تھا۔
خدا ایک ہے
اب زمانہ اس قدر ترقی کرچکا ہے کہ شاید مجھے اس بات کے متعلق کچھ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ اس دنیا کو پیدا کرنے والا اگر کوئی ہے تو وہ
ایک ہی ہے۔اسرائیلیوں، ہندوئوں، چینیوں اور ایرانیوں کا خدا عربوں، افغانوں، یورپینوں، منگولیوں اور سامی نسل کے لوگوں کے خدا سے کوئی مختلف خدا نہیں۔ اس دنیا میں ایک قانون جاری ہے۔ آسمان سے پاتال تک ایک ہی نظام کی کڑیاں ہمیں نظر آتی ہیں۔ درحقیقت سائنس کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ تمام طبیعاتی اور میکینکل تغیرات ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں اور یاتو بقول مادی علماء کے یہ ساری کائنات ایک قسم کی حرکت کا نتیجہ ہے اور یا پھر اس ساری کائنات کو بنانے والا ایک ہی ہاتھ ہے۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھنے کے بعد یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اسرائیلیوں کا خدا کون ہے اور عربوں کا خدا کون ہے اور ہندوئوں کا خدا کون ہے؟
اور اگر خدا ایک ہے تو پھر یہ مختلف مذاہب کیوں پیدا ہوئے؟ کیا وہ مذاہب صرف بنی نوع انسان کی دماغی اختراع سے تھے اس لئے ہر قوم نے اپنا اپنا خدا تجویز کر لیا؟ اگر نہیں تو پھر اس اختلاف کی وجہ کیا تھی؟ اور کیا پھر اس اختلاف کا ہمیشہ کے لئے جاری رہنا دنیا کے لئے مفید ہو سکتا تھا؟
مختلف ادیان کے انسانی دماغ کی اختراع نہ ہونے کی وجوہ
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا یہ مذاہب بنی نوع انسان کی دماغی اختراع کا نتیجہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں اور
ہرگزنہیں اور اس کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:۔
جو مذاہب دنیا میں قائم ہوگئے ہیں جب ہم ان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو مندرجہ ذیل امور ہمیں نظر آتے ہیں۔
۱۔ تمام مذاہب کے بانی دُنیوی طور پر کمزور اور نادار قسم کے آدمی تھے اور کوئی طاقت ان کو حاصل نہ تھی مگر باوجود اس کے انہوں نے دنیا کے چھوٹے بڑوں کو مخاطب کیا اور وہ اور ان کے اتباع نہایت ادنیٰ حالت سے نکل کر اعلیٰ حالت تک پہنچ گئے۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ کوئی طاقتور ہستی ان کے پیچھے کام کر رہی تھی۔
پاکیزہ زندگی
۲۔ تمام کے تمام بانیانِ مذاہب ایسے ہیں کہ ان کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی ان کے دشمنوں کے نزدیک بھی پاک تھی اب یہ کیونکر خیال کیا جا
سکتاہے کہ ایسے پاکیزہ لوگوں نے جو انسان تک پر جھوٹ نہیں بولتے تھے خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولنا شروع کر دیا۔
یقینا ان کے دعویٰ سے پہلے کی پاکیزہ زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچے تھے۔ قرآن کریم نے خاص طور پرا س دلیل کو لیا ہے اور فرماتا ہے۔۱۹؎ یعنی میں نے اپنی عمر تمہارے اندر گزاری ہے اور تم نے میری زندگی کو دیکھا ہے اور گواہی دی ہے کہ میں جھوٹ بولنے والا نہیں ہوں۔ پھر تم کس طرح سمجھتے ہو کہ آج میں خدا تعالیٰ کی ذات پر افتراء کرنے لگ گیا ہوں۔
اسی طرح فرماتا ہے۔
۲۰؎
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر یہ بہت بڑا فضل اور انعام اور احسان کیا ہے کہ اس نے انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا ہے یہی مضمون ذیل کی آیت میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ ۲۱؎ یعنی تمہاری طرف تمہیں میں سے ایک رسول آیا ہے یعنی کوئی ایسا شخص تمہارے سامنے رسالت کا دعویٰ نہیں کر رہا جس کے حالاتِ زندگی سے تم ناآشنا ہو بلکہ ایسا شخص مدعی ٔ مأموریت ہے جس کے حالات کو تم خوب جانتے ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ اس کی زندگی کیسی پاکیزہ گزری ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اور انبیاء کے متعلق بھی یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ وہ اپنی قوم ہی میں سے مبعوث کئے گئے تھے۔ اور اُس قوم کے لوگ یہ عذر نہیں کر سکتے کہ ہم ان کے حالات سے واقف نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب دوزخی دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو اُن سے کہا جائے گا
۲۲؎ یعنی کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہیں آئے جو تم پر ہماری آیات پڑھا کرتے تھے اور تمہیں اِس دن کے عذاب سے ڈرایا کرتے تھے؟
اسی طرح فرماتا ہے۔
۲۳؎ یعنی اے جنوں اورانسانوں کے گروہ! کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے ایسے رسول نہیں آئے جو تمہیں ہمارے نشانات سے آگاہ کیا کرتے تھے اور اِس دن کے عذاب سے ڈرایا کرتے تھے؟
ایک اور جگہ فرماتا ہے۔
۲۴؎ ہم نے ان لوگوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جس کی تعلیم یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
پھر فرماتا ہے۲۵؎ یعنی قیامت کے دن ہم ہر قوم کے خلاف خود اُنہی میں سے ایک رسول کھڑا کریں گے اس جگہ شہید سے مراد ہر وہ نبی ہے جو کسی قوم کی طرف مبعوث ہوا۔ یعنی قیامت کے دن وہ انبیاء اپنے نمونہ کو پیش کریں گے کہ کلامِ الٰہی نے اُن پر کیا اثر کیا۔ اِس طرح خدا تعالیٰ کفّار کو شرمندہ کر ے گا کہ ہمارا یہ نبی تو اِس کمال کو پہنچ گیا اور تم انکار کر کے تمام ترقیات سے محروم رہ گئے۔ اس جگہ تمام انبیاء کے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ وہ تھے یعنی ہر وہ قوم جس کی طرف وہ مبعوث کئے گئے ان میں سے ہر ایک کو جانتی تھی اور وہ ان لوگوں کی پاکیزگی اور طہارت کی شاہد تھی۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی کئی مقامات پر فرمایا ہے کہ ۲۶؎ ۲۷؎ ۲۸؎ یعنی عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ھود کومبعوث کیا اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو مبعوث کیا اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو مبعوث کیا۔ گویا ھود، صالح اور شعیب سب کے سب اپنی قوم کی نظروں میں ایسا مقام رکھتے تھے کہ وہ ان کے حالاتِ زندگی سے پوری طرح واقف تھے۔
اسی طرح حضرت صالح کے متعلق آتا ہے کہ جب انہوں نے خدا تعالیٰ کے احکام بیان فرمائے تو ان کی قوم نے کہا ۲۹؎ اے صالح! تُو تو اِس دعویٰ سے پہلے ہماری اُمیدوں کا مرکز تھا تُو نے یہ کیا کیا کہ تُو نے ہمیں اُس عبادت سے روک دیا جو ہمارے باپ دادا ایک مدت سے کرتے چلے آرہے تھے۔
اِسی طرح حضرت شعیبؑ کے متعلق اُن کی قوم نے کہا۔
۳۰؎ اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے آبائو اجداد کے طریقوں کو ترک کر دیں یا ہم اپنے اموال کی تقسیم میں تیری ہدایات کی تقلید کریں اور اپنی مرضی چھوڑ دیں۔ تُو تو بڑا حلیم اور رشید تھا تجھے کیا ہوا ہے کہ تُو ایسی غلط تعلیم دینے لگا۔
اِن آیات سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت صالحؑ، حضرت شعیبؑ اور اسی طرح باقی تمام انبیاء کے متعلق قرآن کریم میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ کوئی گمنام آدمی نہ تھے۔ ان کی اقوام ان کی زندگیوں پر شاہد تھیں اور ان کی نیکی، تقویٰ اور عبادت پر گواہ تھیں اور یہ نہیں کہہ سکتی تھیں کہ کسی پوشیدہ حالات والے یا بدکار شخص نے قوم کو لُوٹنے کی تجویز کی ہے۔
بانیانِ مذاہب اور دُنیوی تعلیم
۳۔ تمام کے تمام بانیانِ مذاہب دُنیوی تعلیم کے لحاظ سے قریباً کورے تھے لیکن جو تعلیم اُنہوں
نے لوگوں کی راہنمائی اور ہدایت کیلئے دی ہے وہ نہایت ہی اعلیٰ، مناسب حال اور مناسب زمانہ ہے اور اُس پر چل کر ان کی قوم نے صدیوں تک تہذیب اور شائستگی میں دنیا کی راہنمائی کی ہے۔ یہ کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ جو شخص دُنیوی علوم سے بے بہرہ ہے وہ خداتعالیٰ پر افتراء کر کے یکدم ایسی قدرت حاصل کر لیتا ہے کہ اس کی بتائی ہوئی تعلیم اُس زمانہ کی تعلیمات پر فائق ہو اور ان پر غالب آ جائے، یہ کام تو صرف ایک بالا ہستی کی تائید ہی سے ہو سکتا ہے۔
بانیانِ مذاہب زمانہ کی رَو کے خلاف تعلیم دیتے تھے
۴۔ جس قدر بانیانِ مذاہب گزرے ہیں ان کی تعلیم پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ ہی وہ زمانہ کی رَو کے خلاف رہی ہے۔ اگر ان کی تعلیمیں
زمانہ کی رَو کے مطابق ہوتیں تو کہا جا سکتا تھا کہ وہ اپنی جماعت کے ذہنی ارتقاء کے نمائندے تھے لیکن وہ لوگ تو اپنے زمانہ کی تعلیم کو نہ صرف ردّ کرتے تھے بلکہ اس کے خلاف ایک اور تعلیم بھی پیش کرتے تھے جس کی وجہ سے ملک میں ایک آگ لگ جاتی تھی لیکن باوجود اس کے ان کے مخاطب ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ یہ چیز بھی بتاتی ہے کہ وہ نمائندۂ انسان نہیں تھے بلکہ حقیقی مصلح اور خد اتعالیٰ کے نبی تھے۔
موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ایک خدا کی تعلیم کتنی عجیب چیز تھی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں جبکہ مادیت کچھ یہود کی دنیا پرستی کی وجہ سے اور کچھ رومی حکومت کے غلبہ کی وجہ سے فلسطین پرغالب آرہی تھی روحانیت پر زور دینا اور دنیا طلبی کے خلاف وعظ کرنا اور اُس وقت جبکہ یہود رومی کوڑوں کے نیچے تلملا رہے تھے اور انتقام کے جذبات ان کے دل میں پیدا ہو رہے تھے، انہیں عفواورر حم کی تعلیم دینا کتنی عجیب بات تھی۔ہندوستان میں ایک طرف کرشن ؑ کا لڑائی کی تعلیم دینااور دوسری طرف مادیت سے دل ہٹا کر خداتعالیٰ کے ساتھ لَو لگانے کی تعلیم دینا اُس زمانہ کے حالات کے کیسا خلاف تھا۔ زرتشتی تعلیم بھی جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی تھی ایران جیسے آزاد خیال لوگوں کیلئے کتنی ناقابل قبول تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عرب میں پیدا ہو کر یہودیوں اور عیسائیوں کو دعوت دینا جبکہ مسیحیوں اور یہودیوں کے نزدیک ان کے مذہب کے سوا کہیں اور ہدایت نہیں پائی جاتی تھی اور مکہ والوں کو جوکہ شرک میں ڈوبے ہوئے تھے تو حید کی تعلیم دینا اورجو اپنی نسلی برتری کے خیالات میں مگن تھے انہیں تمام بنی نوع انسان کے برابر ہونے کا پیغام پہنچانا، شراب میں مست اور جوئے میں غرق رہنے والوں کو شراب کی حرمت اور جوئے کی شناعت کی تعلیم دینا بلکہ زندگی کے ہر شعبے کے متعلق رائج الوقت خیالات اور اعمال کی مخالفت کرنا اور اس کی جگہ ایک نئی تعلیم پیش کرنا اور پھر اس میں کامیاب ہو جانا بتاتا ہے کہ آپ پہاڑ کی چوٹی سے پوری شدت کے ساتھ گرنے والے دریا کی مخالف سمت میں تیر کر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے اور یہ کام انسانی طاقت سے باہر ہے۔
بانیانِ مذاہب کے ذریعہ نشانات و معجزات کا ظہور
۵۔ جس قدر بانیانِ مذاہب گزرے ہیں سب کے ہاتھوں سے ایسے نشانات اور معجزات ظاہر ہوئے ہیں جن کا ظہور کسی انسان کے ہاتھو ںسے نہیںہو سکتا۔
سب سے پہلے توان میں سے ہر ایک نے اپنے دعویٰ کے ساتھ ہی یہ خبر بھی دے دی ہے کہ میری تعلیم پھیل کر رہے گی اور اس کے ساتھ ٹکرانے والا خود پاش پاش ہو جائے گا اور باوجود اس کے کہ دُنیوی لحاظ سے وہ بہت کمزور تھے، دُنیوی علوم کے لحاظ سے صفر تھے اور زمانہ کی رَو کے خلاف تعلیم دینے والے تھے اور باوجود اِس کے کہ ان کی شدید ترین مخالفت کی گئی پھر بھی وہ غالب آئے اوران کی بتائی ہوئی خبر پوری ہوئی۔ کون انسان قبل ازوقت ایسی خبر دے سکتا ہے اور پھر کون سی انسانی طاقت اسے پورا کروا سکتی ہے۔
انبیاء کی ترقی اور دنیاوی لیڈروں کی ترقی میں فرق
اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض دوسرے انسانوں نے بھی غیر معمولی ترقیاں کی ہیں مگر یہاں سوال غیرمعمولی ترقی کا نہیں بلکہ سوال اس بات کا ہے کہ
ان لوگوںنے خد اتعالیٰ کی طرف منسوب کر کے اپنی ترقی کا اعلان کیا اوراپنی اخلاقی زندگی اور موت کو اس پیشگوئی کے ساتھ وابستہ کر دیا اور پھر زمانہ کی رَو کے خلاف چلے۔ بیشک نپولین،۳۱؎ ہٹلر،۳۲؎ اور چنگیز خان۳۳؎ نے بھی ادنیٰ حالت سے ترقی کی لیکن وہ زمانہ کی رَو کے خلاف نہ چلے تھے۔ انہوں نے کبھی یہ اعلان نہیں کیا کہ خد اتعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ باوجود مخالفت کے تم جیت جائو گے۔ پھر ان کی کبھی شدید مخالفت نہیں ہوئی کیونکہ جس بات کا وہ اعلان کر رہے تھے ملک کے اکثر افراد خود اس کے خواہشمند تھے۔ ذرائع میں اختلاف ہوتو ہو مگر مقصود میںاختلاف نہیں تھا۔ اگر وہ ہار جاتے یا ہار گئے تو ان کی عظمت میں کوئی فرق نہیں آسکتا۔ باوجود اس کے وہ قوم کے لیڈر بنے رہے اور یہی امید کرتے تھے کہ ہم ہی بنے رہیں مگر ذرا خیال تو کرو کہ اگر موسٰیؑ اور عیسٰیؑ اور کرشن ؑاور زرتشت ؑاور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ناکام رہتے تو کیا وہ آئندہ نسلوں میں قوم کے ہیرو کے طور پر یاد کئے جا سکتے تھے ؟ ان کی اپنی قومیں انہیں دھوکاباز اور دغا باز کہتیں، تاریخیں ان کے ذکر کو نظر انداز کر دیتیں اور وہ ہمیشہ کیلئے بدنامی کے گڑھے میں گر جاتے۔ پس ان کے دعویٰ میںاور نپولین اور ہٹلر وغیرہ کے دعویٰ میں زمین و آسمان کا فرق ہے اوراُن کی کامیابیوں اور ا ِن کی کامیابیوں میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے۔
پھر ذرا ان لوگوں کے انجام کو بھی دیکھو۔ نپولین،ہٹلراورچنگیز خان کو کتنے لوگ عقیدت اور محبت سے یاد کرتے ہیں۔ ہیرو تو وہ ہوتے ہیں جن کا قبضہ قوم کے ایک حصہ کے دماغوں پر بھی ہو لیکن کیا ان کے ہاتھوں اور پائوں اور دلوں پر بھی ان لوگوں کا قبضہ ہے؟ مگر اِن دُنیوی لیڈروں کے مقابلہ پر دینی راہبر ایسے تھے کہ لاکھوں آدمی ہر زمانہ میں ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اُسی طرف آنکھ اُٹھائی ہے جس طرف اُٹھانے کے لئے ان لوگوں نے کہا تھا اور اُسی بات کو سنا ہے جس کے سننے کی ان لوگوں نے اجازت دی تھی اور وہی فقرات اپنی زبان پر لائے ہیںجن فقرات کے بولنے کی ان کی طرف سے ہدایت تھی اور ان کے ہاتھ اور پائوں ان ہی کامو ں کے لئے چلے ہیں جن کاموںمیں حصہ لینے کی اُنہوں نے ترغیب دی تھی۔ کیا دوسرے قومی لیڈروں کے متعلق اِس مثال کا لاکھواں یاکروڑواں حصہ بھی ثابت کیا جا سکتا ہے؟ پس یہ لوگ یقینا خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے اور ان کے لائے ہوئے مذہب یقینا خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے۔
بانیانِ مذاہب کی تعلیم میں اختلاف کی وجہ
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے تو ان کی تعلیمات میں اختلاف کیوں تھا؟ کیا خدا تعالیٰ مختلف تعلیمیں دے سکتا ہے جبکہ کوئی عقلمند انسان بھی
مختلف تعلیمیں نہیں دیا کرتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک ہی قسم کے حالات میں مختلف قسم کی تعلیمیں نہیں دی جاتیں بلکہ مختلف حالات میں مختلف تعلیمیں دینا ہی حکیم،ہستیوں کا کام ہوتا ہے۔ آدم کے زمانہ میں تمام بنی نوع ایک ہی جگہ رہتے تھے اس لئے ان کے لئے ایک ہی قسم کی تعلیم کافی تھی۔ شاید نوح ؑتک بھی یہی حالت تھی مگر میں اس کے متعلق قطعی رائے نہیں رکھتا۔ بائبل کہتی ہے کہ بابل کے زمانہ تک تمام قومیں ایک ہی جگہ پر رہتی تھیں۔ گو بائبل تاریخ کی کتاب نہیں لیکن ایک بات جو اس دعویٰ کی تائید میں مجھے تاریخ سے نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ دنیا کی تمام اقوام میں یہاں تک کہ بعض جزائر کے وحشی قبائل میں بھی طوفا نِ نوح ؑکی خبر ملتی ہے۔ چونکہ ایسا طوفان جو ساری دنیا میں آیا ہو اور پھر ساری دنیا کو اس کے عالمگیر ہونے کا علم بھی ہو، یہ ایک غیر طبعی سادعویٰ ہو گا اس لئے یہی بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ دنیا کے کسی ایک مقام پر یہ طوفان آیا تھا جب کہ دنیا کی آبادی ایک جگہ پر تھی اور اس کے بعد لوگ اِدھراُدھر پھیل گئے۔ پس گو بابل کے زمانہ تک دنیا کا ایک ہونا ثابت نہ ہو مگر نوح ؑکے زمانہ تک تو دنیا کا ایک ہونا ثابت ہوتا ہے ۔
نوح ؑکے زمانہ کے بعد کسی وقت جب بنی نوع انسان متفرق ملکوں میں پھیل گئے اور وہ تعلیم جو نوح ؑنے دی تھی آہستہ آہستہ خراب ہونے لگی تو اِس وجہ سے کہ آمدورفت کے ذرائع محدود تھے اور ایک ملک کے نبی کی آواز دوسری جگہ نہیں پہنچتی تھی خدا تعالیٰ نے مختلف ملکوں میں اپنے نبی بھیجے تاکہ کوئی قوم اُس کی ہدایت سے محروم نہ رہ جائے اور اس سے اختلافِ مذاہب کی بنیاد پڑی۔ چونکہ بنی نوع انسان کی دماغی حالت ابھی تکمیل کو اور علم و عقل اپنے نقطۂ مرکزی کو نہ پہنچے تھے اس لئے ہر ملک اور اُس ملک کی دماغی حالت کے مطابق تعلیمات نازل ہوئیں۔ لیکن جب نسلیں ترقی کرتی گئیں اور غیر ممالک آباد ہونے شروع ہوئے اور آبادیوں کے فاصلے کم ہوتے چلے گئے اور ذرائع آمدورفت میں ترقی ہوتی چلی گئی۔ کشتیوں نے جہازوں کی صورت اور جہازوں نے بادبانی جہازوں کی صورت اختیار کر لی۔ پائوں پر چلنے والوں نے بیلوں پر، پھر اونٹوں، گدھوں، گھوڑوں پر چڑھنا شروع کیا پھر ہاتھیوں پر چڑھنا شروع کیا اور پھر آرام اور سہولت سے سفر کرنے کیلئے بیلوں، گھوڑوں اور گدھوں کو گاڑیوں میں جوتنا شروع کیا اور پھر ان گاڑیوں اور جہازوں نے سڑکوں اور سمندروں کے ذریعہ سے دُور دور تک آمد و رفت کے سلسلہ کو جاری کیا۔
تمام بنی نوع کیلئے ایک کامل دین کا ظہور اور توحید پر زور
الغرض جب انسانی دماغ اِس حد تک پہنچ گیا کہ مختلف حالات کے متوازی تعلیمات کو سمجھ سکے اور موقع مناسب پر ان کااستعمال کر سکے۔ جب
انسان باہمی میل جول کے بعد اس نتیجہ پر پہنچنے کے قابل ہوا کہ سب بنی نوع انسان ایک ہی ہیں اور سب کا پید اکرنے والا ایک خدا ہے اور سب کو ہدایت دینے والا ایک ہادی ہے تب اللہ تعالیٰ نے ریگستانِ عرب کی بستی مکہ میں اپنا وہ آخری پیغام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا جس کی پہلی آیت یہ ہے ۳۴؎ یعنی وہ خدا تعالیٰ تمام تعریفوں کامستحق ہے جو ہر قوم اور ہر ملک کی یکساں ربوبیت کرنے والا ہے اور اس کی ربوبیت کا پہلو کسی ایک قوم یا ا یک ملک کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور جس پیغام کا خاتمہ اِن آیات پر ہوتا ہے ۳۵؎ یعنی توکہہ میں اُس خدا کی پناہ طلب کرتا ہوں جو تمام بنی نوع انسان کا ربّ ہے، جو تمام بنی نوع انسان کا بادشاہ ہے، جو تمام بنی نوع انسان کا معبود ہے، وہ شخص جس پر یہ کلام نازل ہوا وہ شخص یقینا آدمِ ؑثانی تھا جس طرح آدمِ اوّل کے زمانہ میں ایک ہی کلام اور ایک ہی اُمت تھی اِسی طرح اِس کے زمانہ میںبھی ایک ہی کلام اور ایک ہی اُمت ہو گئی۔ پس اگر اِس دنیا کا پیدا کرنے والا خدا ایک ہی ہے اور اگر وہ تمام اقوام اور تمام ممالک کے ساتھ یکساں تعلق رکھتا ہے تو ضروری تھا کہ کسی وقت تمام قومیں اور تمام افراد ایک نقطۂ مرکزی کی طرف جھکتے یا ایک نقطہ پر جمع ہونے کا سامان ان کے لئے پید اکیا جاتا اور اِس ضرورت کو صرف قرآن کریم پورا کرتا ہے۔ قرآن کریم کے بغیر دنیا کی روحانی پیدائش بالکل بیکار ہو جاتی ہے کیونکہ دنیا اگر روحانی طور پر ایک نقطہ پر جمع نہیں ہوتی تو خدا ئے واحدکی واحدا نیت کس طرح ثابت ہو سکتی ہے۔ شروع شروع میں دریائوں کے کئی نالے ہوتے ہیں مگر دریا آخر ایک بڑے وسیع رستہ میں اکٹھا ہو کر بہہ چلتا ہے تب اس کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے۔ موسٰیؑ عیسٰیؑ ، زرتشتؑ، کرشن ؑاور دوسرے انبیاء کی تعلیمات پہاڑی نالے تھے۔ اپنی اپنی جگہ وہ بھی مفید کام کرتے رہے تھے مگر ان نالوں کا ایک دریا میں مل جانا خد اتعالیٰ کی وحدانیت اور بنی نوع انسان کی انتہائی ترقی پر پہنچنے کے لئے نہایت ضروری تھا۔
قرآن مجید کے سواکسی نبی کی تعلیم سب قوموں کیلئے نہ تھی
اگر قرآن اِس غرض کو پورا نہیں کرتا تو کس نبی کی کتاب اِس غرض کو پورا کرتی ہے؟ کیا بائبل اِس غرض کو پورا کرتی ہے جو خدا کو بنی اسرائیل کے ساتھ
مخصوص کر دیتی ہے؟ کیا زرتشت کی کتاب اِس ضرورت کو پورا کرتی ہے جو خدا کے نور کو ایرانیوں کے ساتھ وابستہ کر دیتی ہے؟ کیا وید اُس ضرورت کو پورا کرتے ہیں جو ویدوں کے سننے والے شُودر کے کانوں میں سیسہ پِگھلا کر ڈالنے کا ارشاد کرتے ہیں؟ کیا بدھ اِس ضرورت کو پورا کرتے ہیں جن کا ذہن ہندوستان کی چار دیواری سے باہر کبھی گیا ہی نہیں؟ ہاں! کیا مسیحؑ کی تعلیم اِس غرض کو پورا کرنے والی ہے جو خو دکہتا ہے کہ:
’’ یہ مت خیال کرو کہ میں توراۃ یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے آیا ہوں۔ میں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پوری کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو‘‘۔ ۳۶؎
اور موسٰی ؑ اور گزشتہ نبیوں نے عالمگیرمذہب کے متعلق جو کچھ خیالات ظاہر کئے ہیں وہ میں اوپر لکھ ہی چکا ہوں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیت نے ساری دنیا کو تبلیغ کی ہے مگر یہ تبلیغ مسیحؑ کے ذہن میں تو نہ تھی۔ سوال اِس کا نہیں کہ دنیا کیا کرتی ہے۔ سوال اس بات کا ہے کہ بھیجنے والے خدا کا منشاء کیا تھااور اس منشاء کو مسیح کے سوا کون ظاہر کر سکتا ہے۔ مسیح خود کہتا ہے کہ:۔
’’ میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا‘‘ ۔۳۷؎
اور کہ:
’’ ابن آدم آیا ہے کہ کھوئے ہوئے کو ڈھونڈ کے بچاوے‘‘۔ ۳۸؎
پس مسیحؑ کی تعلیم سوائے بنی اسرائیل کے اور کسی کے لئے نہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مسیحؑ نے دوسری اقوام کی طرف جانے کی بھی ہدایت کی تھی جیسے کہ اُس نے کہا :۔
’’تم جا کر سب قوموں کو شاگرد کرو اور انہیں باپ ، بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو‘‘۔۳۹؎
مگر اس حوالہ سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مسیحؑ نے بنی اسرائیل کے سوا اور قوموں کی طرف بھی جانے کی ہدایت کی تھی درست نہیں۔ کیونکہ مسیح خود کہتا ہے کہ:۔
’’ تم جو میرے پیچھے ہو لئے جب نئی خلقت میں ابن آدم جلال کے تخت پر بیٹھے گا تم بھی بارہ تختوں پر بیٹھو گے اور اسرائیل کے بارہ گروہوں کی عدالت ہوگی‘‘۔۴۰؎
اس آیت سے ظاہر ہے کہ مسیحؑ کی حکومت تا ابد بنی اسرائیل کے بارہ گروہوں پر ہے نہ کہ دوسری قوموں پر۔ اسی طرح مسیحؑ کہتا ہے:۔
’’میں بنی اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا‘‘۔ ۴۱؎
پھر اس نے ہدایت کی طالب عورت کو جو کہ اسرائیلی نہ تھی بلکہ کنعان کی رہنے والی تھی۔ کہا کہ:
’’ مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کے آگے پھینک دیویں‘‘۔ ۴۲؎
پھر وہ کہتا ہے ۔
’’ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا۔ بلکہ پہلے بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جائو‘‘۔۴۳؎
یہ خیال نہ کیا جائے کہ اس جگہ ’’ پہلے ‘‘ کا لفظ ہے اور مطلب یہ ہے کہ پہلے اسرائیلی شہروں میں جائو اور پھر غیر اسرائیلی شہروں میں جانا کیونکہ اس جگہ خالی اسرائیلیوں کے شہروں میں پھرنا مراد نہیں بلکہ اسرائیلیوں کو مسیحی بنانا مراد ہے اورمطلب یہ ہے کہ جب تک اسرائیلی مسیحی نہ ہو جائیں کسی اور قوم کی طرف توجہ نہ کرنا اور خود مسیحؑ نے واضح کر دیا ہے کہ یہ کام مسیح ثانی کی آمد تک پورا نہ ہوگا۔ چنانچہ اس باب کی آیت ۲۳ میں لکھا ہے: ۔
’’ جب وے تمہیں ایک شہر میں ستاویں تو دوسرے میں بھاگ جائو۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم اسرائیل کے سب شہروں میں نہ پھر چکو گے جب تک کہ ابن آدم نہ آئے گا‘‘۔۴۴؎
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت میں بنی اسرائیل کے شہروں میں پھر جانا مراد نہیں کیونکہ یہ کام تو چند مہینوں میں ہو سکتا تھا بلکہ اس سے مراد بنی اسرائیل کا مسیحیت میں داخل ہونا ہے اور مسیحؑ فرماتے ہیں کہ اُن کی آمدِ ثانی تک یہ کام پورا نہیں ہوگا۔ پس مسیحؑ کی آمدِ ثانی تک غیر قوموں کو مخاطب کرنے میں مسیحی لوگ حق بجانب نہیں بلکہ مسیح کی تعلیم کے خلاف چلنے والے ہیں۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری بھی غیر اقوام میں اناجیل کی منادی کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ چند رسولوں کے متعلق لکھا ہے:۔
’’ وے جو اس جو روجفا سے جو کہ استیفن کے سبب برپا ہوئی تتر بتر ہو گئے تھے۔ پھرتے پھرتے فینیکے وکپرس اور انطاکیہ میں پہنچے مگر یہودیوں کے سوا کسی کو کلام نہ سناتے تھے‘‘۔ ۴۵؎
اسی طرح جب حواریوں نے سنا کہ پطرس نے ایک جگہ غیر قوموں میں انجیل کی منادی کی ہے تو وہ سخت ناراض ہوئے اور جب پطرس یروشلم میں آیا تو مختون اُس سے یہ کہہ کر بحث کرنے لگے کہ تو نا مختونوں کے پاس گیا اور اُن کے ساتھ کھایا ۔۴۶؎
پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی شخص بھی نہیں تھا جس نے ساری دنیا کو خطاب کیا ہو اور قرآن سے پہلے کوئی کتاب نہ تھی جس نے ساری دنیا کو مخاطب کرنے کا دعویٰ کیا ہو۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جنہوں نے ساری دنیا کو مخاطب کر کے کہا کہ۴۷؎
یعنی اے لوگو! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پس قرآن کریم کا آنا ان اختلافات کے مٹانے کے لئے جو وقتی اور قومی تعلیموں کی وجہ سے پید ا ہوگئے تھے ضروری تھا۔ اگر قرآن نہ آتا تو دنیا پر یہ بھی ثابت نہ ہوتا کہ دنیا کا پیدا کرنے والاایک خداہے اور نہ یہ ثابت ہوتا کہ دنیا ایک خاص مقصود کو مدنظر رکھ کر پیدا کی گئی ہے۔ پس گزشتہ مذاہب کا اختلاف اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ دنیا کو متحد کرنے والی آخری تعلیم کے رستہ میں روک نہیں بلکہ ان کا وجود ہی ایک ایسی تعلیم کا متقاضی ہے۔
دوسرا سوال اور اُس کا جواب
دوسرا سوال یہ ہے کہ انسانی دماغ اسی طرح
ارتقاء کی منزلوں کوطے کرتے ہوئے نہیں جا رہا
تھا جس طرح انسانی جسم نے کسی زمانہ میںا رتقاء کی منزلیں طے کی تھیں؟ پھر کیا جس طرح جسم کی ارتقائی منزلیں ایک مقام پر پہنچ کر ایک مستقل صورت اختیار کر گئیں اسی طرح کیا روح اور دماغ کیلئے بھی یہ ضروری نہ تھا کہ وہ ارتقائی منزلوں کو طے کرتے ہوئے ایک ایسی منزل پر پہنچتے جو انسانی پیدائش کا مقصود تھی؟
تمدن وتہذیب اور کلچر سے کیا مراد ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مختلف ممالک کی تہذیب اور
تمدن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا پر تہذیب اور تمدن کے کئی دَور آئے ہیں اور بعض اُن میں سے اتنے شاندارگزرے ہیں کہ بادی النظر میں وہ دَور ہمارے موجودہ دَور کے بالکل مشابہہ معلوم ہوتے ہیں۔ اگر مکینیکل ترقی کو الگ کر دیا جائے تو پُرانا دَورِ تمدن موجودہ دَورِ تمدن کے بالکل مشابہہ معلوم ہوتا ہے ۔ اسی طرح پرانا دَورِ تہذیب بھی موجودہ زمانہ کے دَورِ تہذیب کے بہت حد تک مشابہہ نظر آتا ہے۔ مگر زیادہ غور سے دیکھا جائے تو دو فرق ہمیں نمایاں نظر آتے ہیں لیکن پیشتر اِس کے کہ میں ان ا متیازوں کا ذکر کروں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ تمدن یعنی سویلیزیشن اور تہذیب یعنی کلچر سے میری کیا مراد ہے۔ میرے نزدیک تمدن ایک خالص مادی نقطۂ نگاہ ہے۔ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی اعمال میں جو یکسانیت اور سہولت پیدا ہو جاتی ہے وہ میرے نزدیک تمدن کہلاتی ہے۔ انسانی اعمال کے نتیجہ میںجس قسم کی اور جس قدر پیداوار دنیا میںہو اُس کو ایک دوسری جگہ پہنچانے کے لئے نقل و حرکت کے جتنے ذرائع موجود ہوں، مال کو سہولت کے ساتھ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی طرف منتقل کرنے کے لئے جتنی تدبیریں کی گئی ہوں، تعلیم جتنی رائج ہو، صنعت وحرفت جتنی منظم کرلی گئی ہو، سائنس کی طرف قوم میں جتنا میلان پایا جاتا ہو اور مُلک میں امن کے قیام کے لئے جس حد تک فوجی تنظیم کی گئی ہو، یہ چیزیں لازمی طور پر انسان کے اعمال پر اثر ڈالتی ہیں اور ان میں جو ملک ترقی یافتہ ہو اُس کے افراد کی زندگی دوسری اقوام کے افراد کی زندگی سے نمایاں طور پر الگ نظر آتی ہے اورمیرے نزدیک اِسی کو تمدن یا سویلیزیشن کہتے ہیں۔ ایک زراعتی طور پر غیرتعلیم یافتہ ملک کے لوگوں کی غذا یقینا زراعتی طور پر زیادہ ترقی یافتہ ملک کی نسبت مختلف ہوگی۔ زراعتی طور پر ترقی یافتہ ملک طبی طور پر تجویز کردہ اور زبان کے ذائقہ کے مطابق خوراک استعمال کرے گا اور اس کی خوراک میں بہتات ہو گی۔ مگر زراعت میں غیر ترقی یافتہ ملک کے لوگوں کی خوراک میں نہ طبی اصول مدنظر رکھے جا سکیں گے نہ ذائقہ کا سوال مدنظر ہوگا۔ قدرت نے جو غذا ان کے ملک میں پیدا کردی ہے وہ اسی کے کھانے پر مجبور ہوں گے اور اس سے آگے ان کی نگاہ جا ہی نہیں سکے گی۔ اسی طرح ایک صنعت و حرفت میں پیچھے رہ جانے والا ملک صنعت و حرفت میں ترقی کر جانے والے ملک کامقابلہ لباس اور مکان اور مکان کے فرنیچر میں بھی نہیں کر سکتا۔ مکانوں کی حفاظت اور نگہداشت میں بھی نہیں کر سکتا کیونکہ اُس ملک کے پا س اتنے کپڑے نہیں ہوں گے کہ اُس کے ماہر اِس فکر میں لگ جائیں کہ وہ کپڑے کس کس شکل میں استعمال کئے جائیں۔ مختلف کوٹوں کی ساخت اور ان کے استعمال کے مواقع تو الگ رہے ان لوگوں کو تو کپڑے کی کمی کی وجہ سے خود کوٹ کا بھی خیال نہیں آسکتا۔ بلکہ وہ لوگ تو کرتے کو بھی ایک عیاشی سمجھیں گے۔ بکروٹے کے چمڑے کے بوٹ تو الگ رہے اُن لوگوں کے لئے تو بھینس کے صاف شدہ چمڑے کے بوٹوں پر اصرار کرنا بھی ناممکن ہو گا۔ بلکہ ان کے لئے تو جوتی بھی ایک عیاشی کاخیال ہو گی اور وہ یا توننگے پائوں پھرنے کو زندگی کا ایک معمول سمجھیں گے یا بالوں والے چمڑے تسموں کے ساتھ پیر میں باندھ کر یہ خیال کریں گے کہ ہم ایک نعمتِ عظمیٰ کے مالک ہو گئے ہیں۔ چونکہ میں یہ مضمون ضمناً لکھ رہا ہوں اِس کی تفصیلات بیان نہیں کرتا لیکن ایک ادنیٰ تدبر سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ زندگیوں کا یہ فرق محض زراعت، صنعت وحرفت، سائنس اور تعلیم کے فرق کا نتیجہ ہے۔ مگر فرق اتنا بڑا ہے کہ ایک قسم کی زندگی کے عادی لوگ دوسری قسم کی زندگی کے عادی لوگوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا بھی برداشت نہیں کر سکیں گے۔ یہی چیز میرے نزدیک تمدن یعنی سویلیزیشن کہلاتی ہے اور اس کے اختلافات پر دنیا کی صلح اور دنیا کی جنگ کا بہت کچھ انحصار ہے۔ یہی تمدن آخر امپیریل ازم اور خواہش عالمگیری انسان کے دل میں پید ا کرتا ہے۔
دوسری چیز تہذیب یعنی کلچر ہے اِس کو تمدن سے وہی نسبت ہے جو روح کو جسم سے ہے۔ تمدن مادی ترقی کا نتیجہ ہے اور تہذیب دماغی ترقی کا نتیجہ ہے۔ تہذیب یعنی کلچر اُن افکار اور اُن خیالات کا نتیجہ ہے جو کسی قوم میں مذہب یا اخلاق کے اثر کے نیچے پیدا ہوتے ہیں۔ مذہب ایک بنیاد قائم کرتا ہے اور مذہب کے پیرو اُس بنیاد پر ایک عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ خواہ وہ بنیاد رکھنے والے کے خیالات سے کتنے بھی دُور چلے جائیں وہ بنیاد کو چھوڑ نہیں سکتے۔ جس شخص نے عمارت کی بنیاد رکھی ہو اُس کے نقشہ سے عمارت بنوانے والے کے نقشہ کو کتنا بھی اختلاف ہو پھر بھی وہ بنیاد کے کونوں اور زاویوں سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح دنیا میں مختلف مذاہب اور مختلف فلسفوں نے انسانی دماغ کو خاص خاص راستوں پر چلایا ہے اور اس کے نتیجہ میں افکار نے جو صورت اختیار کی ہے وہ اخلاق اور آرٹ کی نقل میں ایسی مخصوص نو عیتیں اختیار کر گئی ہے کہ دیکھنے والا مختلف مذاہب کے سچے پیروئوں کے اصولِ اخلاق اور آرٹ کے ظہور کو جدا جدا صورتوں میں دیکھتا ہے اور یہی چیز کلچر ہے۔
مختلف کلچر بھی قوموں میں اختلاف کاموجب ہیں
کلچر بھی قوموں میں اختلاف کرنے کا موجب ہوتی ہے۔آج دنیا میںدہریت غالب ہے۔ آج دنیا میں وُسعت خیالی کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ مگر باوجود اس کے
ایک عیسائی کہلانے والے دہریہ اور ایک متعصب عیسائی میں جس سہولت کے ساتھ جوڑ اور اتفاق ہو جاتا ہے اس سہولت کے ساتھ اس عیسائی کہلانے والے دہریہ کامسلمان کہلانے والے دہریہ سییا ایک متعصب عیسائی کا ایک متعصب مسلمان سے اتفاق نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ زمانہ کے اختلاف میں پولیٹیکل خیالات کا بھی جو کہ تمدن یعنی سویلیزیشن کا نتیجہ ہیں بہت کچھ دخل ہے مگر کلچر کے اختلاف کا بھی اس سے کم دخل نہیں۔ مسلمان خواہ یورپ کا رہنے والا ہو جب اُسے ایشیائی مسلمان ملتا ہے تو جس طرح اس کے دل کی کلی کھل جاتی ہے اس طرح یورپ کے عیسائی کے ساتھ ملنے سے نہیں کھلتی۔ جس طرح یورپ کے ایک متعصب عیسائی کے دل کی کلی امریکہ کے ایک دہریہ عیسائی کے ساتھ مل کر کھل جاتی ہے اس طرح یورپ کے ایک مسلمان کے ساتھ مل کر نہیں کھلتی۔
کیا اس کی وجہ تعصب مذہب ہے؟ یقینا نہیں۔ کیونکہ اگر تعصب مذہب اس کا باعث ہوتا تو چاہئے تھا کہ یہ تعصب ایک عیسائی کو مسلمان کی نسبت ایک دہریہ کا زیادہ مخالف بناتا لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ پس اصل وجہ یہی ہے کہ ایک عیسائی خواہ وہ دہریہ ہو گیا ہو مگر اُس کی تہذیب یا کلچر عیسائی ہے۔ اس کا فکر تو عیسائیت سے آزاد ہو گیا ہے مگر اُس کی طبیعت اور افعال عیسائیت کی تہذیب سے آزاد نہیں ہوئے۔ کیونکہ نسلوں کا اثر ایک دم مٹایا نہیں جا سکتا۔ ایک آرٹسٹ خواہ دہریہ ہو اس کی تصویریں، اس کی میوزک اور اس کی تعمیر عیسائی کلچر سے جدا نہیں ہو سکتی اور اگر وہ جدا ہو گی تو ایک بھونڈی سی چیز نظر آئے گی جیسے گلاب کے باغ میں کیکر کا درخت لگا دیا جائے۔
اس تشریح کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تمدن اور تہذیب کے دَور کبھی تو الگ الگ آتے ہیں اور کبھی ایک ہی وقت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یعنی کبھی کسی ملک میں تمدنی دَور آیا ہے لیکن تہذیبی دَور نہیں آیااور کبھی تہذیبی دَور آیا ہے اور تمدنی دَور نہیں آیا۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے روم اپنے اقتدار کی حالت میں ایک اچھے تمدن کا نمونہ پیش کرنے والا تھا لیکن اس کی کوئی تہذیب یا کلچر نہیں تھا۔ اُس کا آرٹ اور اُس کا فلسفہ مقررہ ابتدائی اصول کے تابع نہ تھا بلکہ ہر شخص کا ذہن آزاد انہ طور پر کام کر رہا تھا۔ مسیحؑ کے زمانہ میں پہلی چند صدیوں میں عیسائیت نے کوئی تمدن تو دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا لیکن ایک اعلیٰ درجہ کی تہذیب اور کلچر پیش کیا۔ وہ بھی ایک اصول اور ایک خاص دائرہ کے اندر کام کرنے والے لوگ تھے مگر ان کے اصول اور ان کے دائرے مذہب کے تعیّن کردہ تھے۔ لیکن روم کے اصول اور دائرے مادیات کے مقرر کردہ تھے۔ پس ابتدائی روم تمدن کا ایک اعلیٰ نمونہ تھا اور ابتدائی عیسائیت کلچر کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی۔ روم کے دوسرے دَورِ ترقی میںتمدن اور کلچر مل گئے۔ روم نے جب عیسائیت قبول کی تو اس میں تمدن بھی تھااور تہذیب بھی تھی لیکن اس کا تمدن تہذیب کے تابع تھا جیسا کہ آجکل یورپ میں تمدن بھی ہے اور تہذیب بھی ہے مگر بوجہ مادیت کے غلبہ کے اُس کی تہذیب اُس کے تمدن کے تابع ہے۔
تہذیب و تمدن کے مختلف اَدوار
ہم تاریخ عالَم کے ابتدائی دَوروں میں دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں مذہب نے اچھا فلسفہ،
اخلاق اور اچھی تہذیب پیدا کی ہے وہ ہمارے زمانہ کے بہت قریب آگئی ہے اور جہاں جہاں مادیت نے عمدہ تمدن پیدا کیا ہے وہ تمدن ہمارے تمدن کے بہت قریب آگیا ہے، لیکن دو فرق نمایاں نظر آتے ہیں۔ اسلام سے پہلے کا تمدن اور ایک ہی جڑ کی شاخیں نظر نہیں آتیں یا اگر نظر آتی ہیں تو نامکمل صورت میں ۔یہودی مذہب میں بیشک تمدن کو تہذیب کے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی ہے اور تورات نے بہت حد تک سوسائٹی کے نظم و نسق کو اور اس کی مادی ترقی کوبھی مذہب کے دائرہ میں لانے کی کوشش کی ہے مگر بائبل کی یہ کوشش ابتدائی کوشش تو کہلا سکتی ہے کامیاب اور آخری کوشش نہیں کہلا سکتی۔ یہی حال ہندو مذہب اور زرتشتی مذہب کا ہے۔
ایک لچکدار تعلیم کی ضرورت
زندگی کی ہزاروں ضرورتوں کے متعلق قانونِ اخلاق کا وہ لچکدار فلسفہ جو ہر موقع اور ضرورت پر کام آسکے
اِن مذاہب میں مفقود ہے۔ ایک ٹھوس غیر لچکدار تعلیم نا مکمل صورت میں تمدن کے متعلق پائی جاتی ہے لیکن وسیع انسانی دنیا کی غیر لچکدار تعلیم رہنمائی نہیں کر سکتی۔ انسان کو دوسرے حیوانات سے یہی تو امتیاز حاصل ہے کہ سب کے سب انسان بظاہر ایک بھی ہیں اور سب کے سب ایک دوسرے سے جدا بھی ہیں۔ دنیا کی تمام بھینسیں اور تمام شیر اور تمام چیتے اور تمام باز اور تمام مچھلیاں غرض نباتات خواہ از قسم حیوانات ہوں یا جمادات، خواہ حیواناتِ سمندری ہوں یا ہوائی ہوں یا خشکی کے ہوں اُ ن کی شکلیں بھی ایک ہیں اوراُن کے دماغ بھی ایک ہیں۔ اُن کی شکلیں بھی ایک قسم کا قانون چاہتی ہیں اوراُن کے دماغ بھی ایک قسم کا قانون چاہتے ہیں لیکن انسان اس بات میں منفرد ہے۔ تمام انسان ایک قسم کی شکل اور ایک قسم کے اعضاء لے کر پیدا ہوتے ہیں لیکن اُن کے دماغی افکار ایک دوسرے سے اتنے جدا ہوتے ہیں کہ بسااوقات بیوی مشرق میں ہوتی ہے تو خاوند مغرب میں یا باپ مغرب میںہوتا ہے تو بیٹا مشرق میں۔ ایسی ہستیوں کو جمع کرنے کے لئے یقینا ایک لچکدار تعلیم کی ضرورت ہے جو اپنی لچک کے ساتھ اپنے قانون کی شدت کا ازالہ کر دے اور ہر نوعیت کے خیالات کوا یک رسّی میں باندھ دے۔
یہودی اور عیسائی کلچروں کے بعد ایک نئے کلچر کی ضرورت
دنیا میں جوں جوں ترقی ہوتی چلی گئی ہے ہمیں معلوم ہے کہ دنیا اس طرف آنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ موسٰی ؑنے بنی اسرائیل کو ایک مذہب
بھی دیا اور ایک تمدن بھی دیا مگر غیر لچکدار تمدن انسانی فطرت کو تسلی نہ دے سکا۔ جونہی بنی اسرائیل کے دماغوں میں نئے افکار اور نئے خیالات اور نئی اُمنگیں پیدا ہوئیں اور انہوں نے ایک نئے آسمان میں اُڑنا شروع کر دیا، موسٰی ؑ کا تمدن ان سے بہت پیچھے رہ گیا۔ اس تمدن نے نئے زمانہ کے اسرائیلیوں کو اچھا شہری نہیں بنایا بلکہ یا تو باغی بنا دیا یا منافق شہری بنا دیا۔ مسیحؑ نے اس حالت کو دیکھا تو پکار اُٹھا کہ شریعت *** ہے کیونکہ اُس نے دیکھ لیا کہ موسوی شریعت نے غیرلچکدار ہونے کی وجہ سے انسانوں کو یا تو باغی بنا دیا یا منافق بنا دیا۔ مگر یہ اُس وقت نہیں ہوا جب موسٰی ؑدنیا میں آئے تھے بلکہ اُس کے صدیوں بعد ایسا ہوا۔ موسوی تعلیم ایک بچے کا کوٹ تھا جو جوان ہو جانے کی صورت میں بنی اسرائیل کے جسم پر درست نہیں آسکتا تھا۔ مسیحؑ نے ان مضحکہ خیز شکلوں کود یکھا جو تنو مند جوانوں کی شکل میں بچوں کے چھوٹے چھوٹے فراک پہنے پھر رہے تھے اور مسیحؑ کی فطرت نے اس سے بغاوت کی! نہیں بلکہ مسیح کے دل میں خدا کی آواز گونجی کہ۔ دیکھو یہ لوگ اُس حالت سے آگے نکل چکے ہیں جس حالت میںموسوی تعلیم کا وہ نقشہ ان کے لئے کافی ہو سکتا تھا جوبنی اسرائیل کے علماء نے موسٰی ؑ کے زمانہ میں کھینچا تھا۔ اب ان کے لئے ایک نئے کوٹ کی ضرورت ہے مگر اس نے جو علاج ان کے لئے تجویز کیا یا زیادہ درست یہ ہے کہ جو علاج صدیوں بعد کے عیسائیوں نے مسیح کے منہ سے بیان کیا یہ تھا کہ شریعت *** ہے۔ وہ کھانا جو انسان معدہ کی طاقت کو نظر انداز کرکے کھاتا ہے یقینا ایک *** ہوتا ہے۔ مگر اس قول سے بھی زیادہ اور کوئی احمقانہ قول نہیں کہ کھانا *** ہے۔ بچے کا کوٹ بڑے آدمی کے جسم پر یقینا مضحکہ انگیز ہوتا ہے مگر بڑے کا کوٹ بچے کے جسم پر بھی تو مضحکہ انگیز ہوتا ہے۔ ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ بچے کا کوٹ بڑے انسان کے جسم پر مضحکہ انگیز ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیںکہ بڑے آدمی کا کوٹ بچے کے جسم پر مضحکہ انگیز ہے مگر کوٹ کو مضحکہ انگیز تو کوئی بیوقوف ہی کہے گا۔پس میرے نزدیک تو مسیحؑ کی طرف اِس قول کو منسوب کرنا ظلم ہے۔ یقینا مسیحؑ نے یوں کہا ہو گا کہ موسوی تعلیم کی موجودہ تشریح آجکل کے زمانہ کے لوگوں کے لئے *** ہے۔ اگر اس نے ایسا کہا تو بالکل سچ کہا۔مگر مسیحؑ کے اَتباع نے اس فاضلانہ قول کو ایک احمقانہ شکل دے دی۔ مگر بہرحال خواہ مسیح نے وہ کہا جو میں سمجھتا ہوں کہ اُس نے کہا تھا اور خواہ وہ کہا جو عیسائیوں کے علمائے سابق نے غلطی سے سمجھا کہ اُس نے یہ کہا تھا۔ بہرحال یہ تو ثابت ہے کہ انسانی دماغ موسٰی ؑ کے زمانہ سے ترقی کر کے آگے نکل چکاتھا اس کے لئے ایک نئی تعلیم کی ضرورت تھی ایک نئے اصولِ اخلاق کی ضرورت تھی۔ ایک نئے تمدن کی ضرورت تھی اور ایک نئی تہذیب کی ضرورت تھی لیکن جہاں موسوی علماء نے انسان کی گردن میں رسّہ لپیٹ کر اُس کو درخت کے ساتھ باندھ دیا تھا وہاں عیسوی تعلیم نے انسان کو تمام اخلاقی اور مذہبی قیود اور پابندیوں سے آزاد کر کے حیوان بنا دیا۔ موسوی قانون نے یہودی دماغ کو اپنے زمانہ سے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ سوائے اس کے کہ وہ باغی ہو یا منافق ہو اور عیسائی قانون نے انسان کو تمام اخلاقی ذمہ داریوں سے آزاد کر دیا اور اس کے دماغ میں یہ بات ڈال دی کہ خدا کا قانون تیری اصلاح نہیںکر سکتا۔تب انسان نے خدا کے کام کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انسان نے اپنی نجات کے لئے اپنا رستہ آپ تلاش کرنا شروع کر دیا اور دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ وہی مذہب جو نجات کے لئے خدا کی راہنمائی کو ضروری قرار دیتا تھا اس نے اپنی ترقی کے لئے خدا کی راہنمائی کو غیر ضروری قرار دے دیا۔ چونکہ ہمارے سامنے مختلف مذاہب میں سے مکمل کڑی صرف بنی اسرائیل کے مذہب کی ہے اس لئے میں نے اس کی مثال پیش کی ہے کیونکہ مسلسل کڑیوں سے ہی ارتقاء کا مسئلہ نکالا جا سکتا ہے اور اسرائیلی مذہب کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسانی دماغ پرانے زمانہ میں ارتقاء کی منزلیں طے کرتا چلاجارہا تھا۔ اِسی طرح دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسانی دماغ تمدن کے مختلف اَدوار میں سے گزرتا چلا آیا ہے، مگر پھر بھی اخوتِ انسانی کے نقطۂ مرکزی تک وہ کبھی نہیں پہنچ سکا۔ پس یہ دونوں شہادتیں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ جس طرح انسانی جسم نے پیدائش عالم کے ابتدائی دَور میں ارتقاء کی منزلیں طے کی تھیں اسی طرح انسانی دماغ بھی انسانی تاریخ کے ابتدائی اَدوار میں ارتقاء کی منزلیں طے کرتا چلا آیا تھا لیکن اسلام سے پہلے وہ کبھی بھی ارتقاء کی آخری منزل تک نہیں پہنچا۔ اپنی تمدنی ترقیوں کے اَدوار میں وہ کبھی بھی قومی اور نسلی امتیازوں سے بالا نہیں ہوا اورانسانی اخوت کا مسئلہ اُس کے ذہن میں نہیں آیا نہ اپنی تہذیبی ترقی کے اَدوار میں اُس نے شریعت اور قانون کے آخری نقطہ کو پایا۔ موسوی تعلیم نے تمدن اور تہذیب کو جمع کرنے کی کوشش کی مگر ایک عرصہ کے بعد وہ ناکام ہو گئی کیونکہ اس کا فیصلہ اس بارہ میں آخری فیصلہ نہ تھا۔ مسیحؑ نے تبدیلی کرنی چاہی مگر وہ تبدیلی اس بغاوت کے طوفان کے آگے خس و خاشاک کی طرح اُڑ گئی جو اُس وقت انسانوں کے دماغ میں پیدا ہو رہا تھا۔ مسیحؑ کی تعلیم کا صرف یہی حصہ باقی رہ گیا جو انجیل نے اس صورت میں پیش کیا ہے کہ شریعت ایک *** ہے۔ حالانکہ ہر سمجھ دار انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ فقرہ اپنی موجودہ شکل میں خود ایک بہت بڑی *** ہے جس نے انسان کو خد اتعالیٰ سے برگشتہ اور اس کی راہنمائی سے آزاد کر دیاہے۔ پس ابھی مقامِ ارتقاء باقی تھا۔ انسانی تہذیب اور تمدن کے سابق تغیرات اس بات کی طرف اشارہ کررہے تھے کہ تہذیب و تمدن بھی اُسی طرح مسئلہ ارتقاء کے ماتحت ہیں جس طرح انسانی جسم۔ اور ضرور ہے کہ دنیا ایک دن اسی طرح تمدن اور تہذیب کا آخری ارتقائی مقام دیکھے جس طرح انسانی جسم کی پیدائش نے ارتقاء کا آخری مقام دیکھا۔ اور یہ حقیقت اسلام سے پہلے مذاہب کی موجودگی میں بھی ایک اور مذہب کی ضرورت کو تسلیم کرواتی ہے اور اِسی ضرورت کو پورا کرنے کا قرآن کریم مدعی ہے۔
تیسرے سوال کا جواب
تیسرا سوال جس کا مثبت میں جواب ملنے سے قرآن کریم کی ضرورت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے یہ ہے کہ کیا پہلی
کتب میں کوئی ایسا نقص تو نہیں آگیا تھا جس کی وجہ سے ایک نئی کتاب کی ضرورت شدید طور پر دنیا کو محسوس ہورہی تھی اور قرآن کریم اس ضرورت کو پورا کرنے والا تھا؟
سب سے پہلی چیز جو کسی کتاب کو صحیح معنوں میں مفید بنا سکتی ہے اور جس کی بناء پر اُس سے اچھے نتائج کی امید کی جا سکتی ہے وہ اُس کا بیرونی دست برد سے محفوظ ہونا ہے۔ الٰہی کتابوں کو انسانی کتابوں پر یہی فوقیت حاصل ہوتی ہے کہ اگر ہم کسی کتاب کو الٰہی کتاب تسلیم کر لیتے ہیں تو ہمیں اِس بات کی بھی تسلی ہو جاتی ہے کہ اِس کتاب کے ذریعہ سے ہم کسی قسم کی غلطی میں نہیں پڑیں گے کیونکہ خداتعالیٰ کے وجود پرایمان اسی بات پر مشتمل ہے کہ وہ ایسی ہستی ہے جو نور ہی نور ہے اور اس میںظلمت بالکل نہیں، ہدایت ہی ہدایت ہے اور اس میں گمراہی بالکل نہیں۔ اگراللہ تعالیٰ پر ایمان اس یقین پر مشتمل نہ ہو توپھر اس کی کوئی قیمت ہی باقی نہیں رہتی۔ اگر الٰہی کلام بھی غلطیوں سے پرُ ہو سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ انسان اپنی راہنمائی کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کو قبول کرے۔ پس الٰہی کتاب پر ایمان کی بنیاد اس یقین پر ہے کہ وہ غلطیوں سے پاک ہے۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک کتاب الٰہی تو ہو لیکن بعد میں انسانی دست بُرد نے اُس کوخراب کر دیا ہو۔ اگر کسی الٰہی کتاب کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ اس کے اندر انسانوں نے بھی کچھ اپنی طرف سے ملا دیا ہے تو پھر وہ کتاب انسانی ہدایت کے لئے بیکار ہو جائے گی اور اس کو پڑھنے والوں کے دلوں میں اس پر عمل کرنے کے لئے کبھی بھی وہ جوش پیدا نہ ہوگا جو جوش ایسے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے جواس کتاب کو کُلّی طور پر شروع سے آخر تک خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں اور سمجھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
بائبل انسانی دست بُرد سے محفوظ نہیں ہے
جب اس نقطۂ نگاہ سے ہم پہلی کتب کو دیکھتے ہیں تو وہ قطعی
طور پر ہمارے لئے تسلی کا موجب ثابت نہیں ہوتیں۔ عہد نامہ قدیم کے ماننے والے اس کو خداتعالیٰ کی کتاب کہتے ہیں ، مسیحی بھی اسے خدا ئی کتاب قرار دیتے ہیں اور مسلمان بھی اسے خدا ہی کی طرف سے نازل شدہ کتاب قرار دیتے ہیں لیکن خدا کی طرف سے نازل ہونا اور بات ہے اور اُسی صورت میں آج تک موجود ہونا اور بات۔ اور ان دونوں باتوں میں بڑ ابھاری فرق ہے۔ بیشک مذکورہ بالا تینوں قومیں اس بات پر متفق ہیں کہ عہد قدیم کے انبیاء سے خدا بولتا تھا لیکن عقیدۃً یہ تینوں قومیں اس بات پر متفق نہیں کہ موجوہ عہد نامۂ قدیم وہی کلام ہے جوان انبیاء پر نازل ہوا تھا اور نہ بیرونی اور نہ اندرونی شہادت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ موجودہ عہد نامۂ قدیم وہی کلام ہے جو بنی اسرائیل کے انبیاء پر نازل ہوا تھا۔ اسرائیلی تاریخ اس بات پر متفق ہے کہ نبو کدنضر کے زمانہ میں اسرائیلی صحف جلا دئیے گئے تھے اور برباد کر دئیے گئے تھے اور دوبارہ انہیں عزرا نبی نے لکھا۔ چنانچہ عزرا کی نسبت یہودی کتب میں لکھا ہے:۔
’’ شریعت بھلا دی گئی تھی مگر عزرا نے پھر اسے دوبارہ قائم کیا‘‘۔
۴۸؎ ``It was forgotten but Ezra restored it``.
پھر لکھا ہے۔ عزرا نے تورات کو دوبارہ زندہ کیا اور اس میں اشورین حروف داخل کئے۔
``Ezra established the text of pentateuch, introducing ۴۹؎therein the Assyian of square characters``.
اسی طرح لکھا ہے:۔
’’ اس نے تورات کے دوبارہ لکھنے کے وقت مسودے کے بعض لفظوں کی صحت کے متعلق شبہ ظاہر کیا اور ان پر نشان لگا دیئے اور کہا کہ اگر ایلیا نبی اِس عبارت کی تصدیق کر ے تو یہ نشان غلط قرار دئیے جائیں اور اگر ان مشکوک سمجھی ہوئی عبارتوں کو مشکوک قرار دے تو جن الفاظ پر نشان لگا دئیے گئے ہیں اُنہیں آئندہ بائبل سے نکال دیا جائے۔
``He showed his doubts concerning the correctness of some words of the text by placing points over them. Should Elijah, Said he, approve the text, the points will be disregarded, should he disapprove, the doubtful
۵۰؎ words will be removed from the text.``
ا ن عبارات سے ظاہر ہوتا ہے کہ توریت جس شکل میں بھی اُس وقت موجود تھی خواہ وہ عزرا کی لکھی ہوئی تھی خواہ پہلے سے کوئی نسخے موجود تھے وہ مشکوک تھی اور اس کی عبارتوں اور الفاظ کی نسبت قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ خد اتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اُسی طرح محفوظ ہیں جس طرح نازل ہوئے تھے۔ عزرا کی لکھی ہوئی کتاب جو موجودہ بائبلوں میں سے خارج کر دی گئی ہے اور جو درحقیقت موجودہ بائبلوں سے کم قابل اعتبار نہیں ہے اور جسے یونانی کی کتاب عزرا کہا جاتا ہے پہلے زمانے میں عزرا اور نحمیاہ کی کتابوں سے بھی پہلے بائبل میں درج کی جاتی تھی۔ لیکن بعد کو جب اُس وقت کے پوپ نے جیروم سے جو عیسائیوں کا بہت بڑا پادری تھا بائبل کی تدوین کرائی تو اس نے عزرا کو اس بناء پر بائبل میں سے نکال دینے کا فیصلہ کر دیا کہ اس کا عبرانی نسخہ محفوظ نہیں۔ اس کتاب کو بعض مصنف عزرا کی کتاب ثالث قرار دیتے ہیں اور بعض ثانی قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ کتاب بائبل سے نکال دی گئی ہے لیکن پھر بھی اکثر حصہ یہودیوں اور مسیحیوں کا اس کو عزرا کی کتاب قرار دیتا ہے اور اس کتاب کے چودھویں باب میں لکھا ہے:
’’ دیکھو اے خدا میں جائوں گا جیسا کہ تُو نے مجھے حکم دیا تھا اور جو لوگ موجود ہیں میں اُن کو فہمائش کروں گا، لیکن جو لوگ بعد کو پیدا ہوں گے اُن کو کون فہمائش کرے گا۔ اس طرح دنیا تاریکی میں ہے اور جو لوگ اِس میں رہتے ہیں بغیر روشنی کے ہیں کیونکہ تیرا قانون جل گیا۔ پس کوئی نہیں جانتا اُن چیزوں کو جو تُوکرتاہے اور ان کاموں کو جو شروع ہونے والے ہیں لیکن اگر مجھ پر تیری مہربانی ہے تو تُوروح القدس کو مجھ میں بھیج اور میں لکھوں جو کچھ کہ دنیا میں ابتداء سے ہوا ہے اور جو کچھ تیرے قانون میں لکھا تھا تاکہ تیری راہ کو پاویں اور وہ لوگ جو اخیر زمانہ میں ہوں گے زندہ رہیں۔اُس نے مجھ کو یہ جواب دیا کہ جا اپنے راستہ سے لوگوں کو اکٹھا کر اور اُن سے کہہ وہ چالیس دن
تک تجھ کو نہ ڈھونڈیں۔ لیکن دیکھ تُو بہت سے صندوق کے تختے تیار کر اور زاریا، ڈبریا، سلیمیا، ایکانس اور عازیل پانچوں کو جو بہت تیزی سے لکھنے والے ہیں اپنے ساتھ لے اور یہاں آ اور میں تیرے دل میں سمجھ کی شمع روشن کروں گا جو نہ بجھے گی تاوقتیکہ وہ
چیزیں پوری نہ ہوں جو تو لکھنی شروع کرے گا‘‘۔
اِس باب کی آیت ۲۰ تا ۲۵ کے اصل الفاظ انگریزی زبان میں مندرجہ ذیل ہیں:۔
20. Behold, Lord, I will go, as Thou hast commanded me, and reprove the people which are present but they that shall be born afterward, who shall admonish Them? Thus the world is set in darkness, and they That dwell therein
are without light.
21. For Thy Iaw is burnt, therefore no man knoweth the things that are done of the works that shall begin.
22. But if I have found grace before thee. Send the Holy Ghost into me. And I shall write all that hath been done in the world since the beginning, which were written in thy law that men may find Thy Path, and that they
which will live in the latter days may live.
23. And He answered me, saying, Go thy way, gather the people tohether, and say unto them, that they seek thee
not for forty days.
24. But look thou prepare thee many box trees and take with thee, sarea, Dabria, Selemia, Ecanus, and Asiel
these five which are ready to wrirte swiftly.
25. And come hither, and I shall light a candle of understanding in Thine heart which shall not be put out, till the things be performed which thou shalt begin to
۵۱؎write.``
غرض حضرت عزرا اور پانچ زود نویس چالیس روز تک دوسروں سے الگ تھلگ جا بیٹھے اور الہامی تائید سے انہوں نے چالیس دن میں دوسَو چار کتابیں لکھیں۔ چنانچہ اس باب کی چوالیسویں آیت میں لکھا ہے:۔
``44. In forty days they wrote two hundred and four
۵۲؎ books.``.
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ:۔
(الف) عزرا نبی کے وقت میں جو قریباً چارسَو سال قبل مسیح تھا تورات اور دیگر انبیاء کی کتابیں جل گئی تھیں۔
(ب) ان کا نسخہ اُس وقت موجود نہ تھا۔
(ج) عزرا نے دوبارہ وہ کتابیں لکھیں۔
گویا یہ بتایا گیا ہے کہ وہ الہامی تھیں مگر مراد الہامی تائید ہے۔ یہ مراد نہیں کہ ان کا ایک ایک نقطہ الہام تھا۔ کیونکہ یہودی تاریخ بتاتی ہے کہ خود عزرا نے بعض حصوں کے مشکوک ہونے کا اعتراف کیا تھا اور ان کا فیصلہ ایلیا پر اُٹھا رکھا تھا۔ پس موجودہ تورات وہ تورات نہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی بلکہ وہ تورات ہے جو عزرا نے اپنے حافظہ سے لکھی تھی اور جس کے بعض حصوں کے متعلق خود عزرا کو بھی شبہ تھا بلکہ میں توکہتا ہوں کہ یوںسمجھنا چاہئے کہ وہ یہ تورات بھی نہیں ہے جوعزرا نے لکھی تھی کیونکہ عزرا نے ۲۰۴ کتابیں لکھی تھیں مگر ۲۰۴ کتابیں موجودہ بائبل میں ہمیں نہیں ملتیں۔
عزرا کے حافظہ کے متعلق خود مسیحی مصنفوں کو بھی شبہات ہیں۔ چنانچہ ریورنڈ آدم کلارک بائبل کے مشہور مسیحی مفسر اپنی تفسیر مطبوعہ ۱۸۹۱ء کے صفحہ ۱۶۸۱ پر ا۔تواریخ باب ۴ آیت ۷ کے ماتحت لکھتے ہیں:
’’ اِس جگہ غلطی سے عزرا نے بیٹے کی جگہ پوتا لکھ دیا ہے۔ ایسے اختلافوں میں تطبیق بے فائدہ ہے‘‘۔
علمائے یہود کہتے ہیں کہ عزرا کو معلوم نہ تھا کہ بعض بعض کے بیٹے ہیں یا پوتے۔ جب یہودی اور عیسائی علماء کا عزرا کے حافظہ کے متعلق یہ خیال تھا تو یہودی اور عیسائیوں کے عوام الناس اور دوسری اقوام کے لوگ اس پر کیا تسلی پا سکتے ہیں اور جس کتاب کی سند ایسی ہو وہ روحانی معاملات میں کیونکر لوگوں کی تشفی کا موجب ہو سکتی ہے۔
اندرونی شہادت کہ موجودہ تورات اصلی تورات نہیں
اب میں بائبل کی اندورنی شہادت کو لیتا ہوں کہ وہ بھی اِس بات پر دلالت کرتی ہے موجودہ تورات حضرت موسٰی علیہ السلام پر نازل شد ہ کتاب نہیں۔ اس بارہ
میںسب سے اہم اور واضح وہ دلیل ہے جو استثناء باب ۳۴ میں حضرت موسٰیؑ کی وفات کو بیان کرتی ہے۔ اس آیت میں لکھا ہے:
’’ سو خدا وند کا بندہ موسیٰ خدا وند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مر گیا اور اُس نے اُسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا، پر آج کے دن تک کوئی اُس کی قبر کو نہیں جانتا‘‘ ۔۵۳؎
یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ اس کا مضمون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سینکڑوں سال بعد استثناء میں بڑھایا گیا ہے بھلا کون عقلمند یہ تسلیم کر سکتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسٰی ؑ کو الہام میں فرمایا ہو کہ آج تک تمہاری قبر کوئی نہیں جانتا۔ کیا کسی زندہ انسان سے ایسا کلام کیا جا سکتا ہے؟ اور پھر کیا ’’ آج تک ‘‘ کا لفظ اس بارہ میں خود سے کو مخاطب کر کے کہا جا سکتا ہے؟ پھر آیت ۸ میں لکھا ہے:
’’ سو بنی اسرائیل موسٰی کے لئے موآب کے میدانوں میں تیس دن تک رویا کئے
اورا ن کے رونے پیٹنے کے دن موسیٰ کے لئے آخر ہوئے‘‘۔۵۴؎
یہ آیت بھی بتاتی ہے کہ یہ موسیٰ کا کلام نہیں۔ موسیٰ کی کتاب میں بعد میں داخل کیا گیا ہے۔ پھر آیت ۱۰ میں لکھا ہے:
’’ اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ کی مانند کوئی نبی نہیں آیا جس سے خدا وند آمنے سامنے آشنائی کرتا‘‘۔
یہ آیت بھی بتاتی ہے کہ یہ حضرت موسیٰ کا الہام نہیں بلکہ ان کی وفات کے کئی سَو سال بعد کسی نے یہ آیت حضرت موسیٰ کی کتاب میںد اخل کی ہے ممکن ہے وہ عزرا ہی ہوںاور ممکن ہے کوئی اور ہی شخص ہوں۔
دوسری اندرونی دلیل اس بات کی کہ موجودہ تورات حضرت موسیٰ کے بعد لکھی گئی اور اُس میںد وسرے لوگو ں کی تحریریں بھی شامل ہیں یہ ہے کہ پیدائش باب ۱۴ آیت ۱۴ میں لکھا ہے:۔
’’ جب ابرام نے سنا کہ میرا بھائی گرفتار ہوا تو اُس نے اپنے ساتھ سیکھے ہوئے تین سَو اٹھارہ خانہ زادوں کو لے کر دان تک ان کا تعاقب کیا‘‘۔
لیکن قاضیوں باب ۱۸ آیت ۲۷تا۲۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر جس کا نام پیدائش میں ’’دان‘‘ آیا ہے پہلے لیس کہلاتا تھا لیکن موسیٰ کے کوئی ۸۰ سال بعد اس شہر کو فتح کرکے اس کا نام ’’دان‘‘ رکھاگیا۔ چنانچہ لکھا ہے:
’’ وہ میکاہ کی بنوائی ہوئی چیزوں کو اور اس کا ہن کو جو اس کے ہاں تھا لے کر لیس میںا یسے لوگوں کے پاس پہنچے جو امن اور چین سے رہتے تھے اور ان کو تہہ تیغ کیا اور شہر جلا دیا اور بچانے والا کوئی نہ تھا۔ کیونکہ وہ صیدا سے دور تھا اور یہ لوگ کسی سے سروکار نہیں رکھتے تھے اور وہ شہر بیتِ رحوب کے پاس کی وادی میں تھا۔ پھر انہوں نے وہ شہر بنایا اور اس میں رہنے لگے اور اس شہر کا نام اپنے باپ’’ دان‘‘ کے نام پر جو اسرائیل کی اولاد تھادان رکھا۔ لیکن پہلے اس شہر کا نام لیس تھا‘‘۔
پس جو نام حضرت موسٰی ؑکے ۸۰ سال بعد رکھا گیا تھا وہ موسیٰ کی کتاب میں کس طرح آسکتا تھا؟ اس حوالہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ کی کتاب میں ان کی وفات کے بعد دخل اندازی ہوتی رہی اور بعض لوگوں نے اپنے زمانہ کے خیالات اور افکار اس میں داخل کر دیئے۔ یہ تغیرو تبدل صرف موسیٰ کی کتابوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ دوسری کتابوں کا بھی یہی حال ہے۔ چنانچہ یشوع کی کتاب کے باب ۲۴ آیت ۲۹ میں لکھاہے:۔
اور ایسا ہو اکہ بعد ان باتوں کے نون کا بیٹا یشوع خداوند کا بندہ جو ایک سَو دس برس کا بوڑھا تھا رحلت کر گیا۔
اسی طرح ایوب کی کتاب باب ۴۲ آیت ۱۷ میں لکھا ہے۔
’’اورایوب بوڑھا اور عمردراز ہو کے مر گیا‘‘۔
ان حوالوں سے صاف ظاہر ہے کہ یشوع کی کتاب کو یشوع نے نہیںلکھا اور ایوب کی کتاب کو ایوب نے نہیں لکھا بلکہ بعد کے لوگوں نے سنی سنائی باتوں کی بناء پر لکھ دی تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بائبل کے انبیاء نے توالٰہی کلام ایک جگہ جمع کر دیا تھا مگر بعد میں مٹ گیا اور لوگوں نے اپنی یاد سے وہ کلام دوبارہ لکھا اور بہت سی باتیں اپنی طرف سے اس میں داخل کردیں۔
کیا اِس قسم کی کتابیں جو نہ صرف تاریخی شواہد کی بناء پر بلکہ اپنی اندرونی شہادت کی بناء پر بھی مجروح اور غیر یقینی ہیں اور ان میں غلط واقعات بھی بیان ہو گئے ہیں، یہ ثابت نہیں کرتیں کہ دنیا کو موسٰی ؑاور ان کے بعد آنے والے نبیوں کی کتابیں تسلی نہیں دے سکتی تھیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت سے ہاتھ کھینچ لیا اور ایک ایسی کتاب کی امید دنیا کو لگا دی جوہر قسم کی انسانی دستبرد سے پاک اور محفوظ ہو؟ اگر موسٰی ؑاور اس کے بعد آنے والے نبیوں کی کتابوں کے بگاڑ کے بعد بھی خدا تعالیٰ کسی ایسے کلام کی بنیاد نہ رکھتا جو یقینی اور محفوظ ہوتا تو ہمیں ماننا پڑتا کہ خداتعالیٰ کو اپنے بندوں کی ہدایت اور راہنمائی کا کوئی فکر نہیں اوروہ ایمان کے بیج کو یقین اور اطمینان کی زمین میں بونے کی بجائے شک و شبہ اور بے اطمینانی کی زمین میں بونا چاہتا ہے اور اسے اتنا اعتبار بھی بخشنا نہیں چاہتا جتنا کفر کو حاصل ہے لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ امر خدا تعالیٰ کی شان کے شایاں ہے؟ اگر نہیں تو ہمیں یقینا اُس کتاب کی تلاش کرنی پڑے گی جس نے منسوخ، محرف اور مبدل بائبل کی جگہ لی۔
بائبل کی متضاد باتیں
بائبل سے اور بھی ایسی اندورنی شہادتوں کا پتہ لگتا ہے جو اس بات پر روشنی ڈالتی ہیں کہ بائبل اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہیں
ہے ۔مثلاً :
۱۔ تورات کی پہلی کتاب پیدائش میں لکھا ہے۔
’’تب خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت اوراپنی مانند بنا ویں‘‘۔۵۵؎
آگے چل کر لکھا ہے:۔
’’ لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا‘‘۔۵۶؎
ا ب اِن دونوں حوالوں میںتطابق کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ نیک و بد کی پہچان خد اکو بھی نہیں کیونکہ آدم خدا کی مانند تھا اور خدا تعالیٰ کی صفات آدم میں پائی جاتی تھیں اور سب سے بڑی صفت نیک وبد کی پہچان ہی ہے کیونکہ سب صفتیں اس کے ماتحت ہی آتی ہیں۔ اگر آدم کو نیک و بدکی پہچان نہ تھی تو کوئی اچھی صفت بھی بطور خلق کے اس کے اندر نہیں پائی جاتی تھی کیونکہ نیک کام وہی ہوتا ہے جو ارادے اور علم کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کام کے ساتھ ارادہ اور علم نہ ہو وہ نیک نہیں کہلا سکتا۔ جب آدم کو نیک و بد کی پہچان ہی نہ تھی تو آدم اصولِ اخلاق کے ماتحت نہ کسی بدی سے بچنے والا تھا اور نہ کسی نیکی کو بجالانے والا تھا۔ اسی طرح عملی طور پر اسے اچھی اور بُری باتوں کی کوئی تمیز نہ تھی۔ کیا خد اتعالیٰ کا وجود بھی یہودی اور مسیحی مذہب کے مطابق ایسا ہی ہے؟ کیا خداکو اِس بات کا کوئی علم نہیں کہ نیکی کیا چیز ہے اور بدی کیا چیز ہے؟ اگر بدی اور نیکی کا اُس کو علم نہیں تو وہ نبیوں کو کیوں بھیجتا ہے؟ اور کیا خدا کی صفات نیکیوں کو قائم کرنے والی اور بدیوں کو مٹانے والی نہیں ہیں؟اگر اس سوال کو ہم نظر انداز بھی کردیں کہ انسان کی پیدائش کی غرض ہی نیک وبد کی پہچان ہے اور اگر یہ پہچان اسے حاصل نہ ہوتو اس کے وجود کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ پھر یہ دیکھنا چاہئے کہ بغیر نیک وبد کی پہچان کے آدم خدا کی مانند ہو کس طرح گیا۔ اِس پہچان کے بغیر وہ خدا کی مانند ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اگر وہ خدا کی مانند تھا تو یہ غلط ہے کہ اسے کہا گیا کہ تونیک و بد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا۔ اور اگر یہ درست ہے کہ اسے کہا گیا تھا کہ نیک و بدکی پہچان کے درخت سے نہ کھاناتو یہ غلط ہے کہ خد انے اسے اپنی مانند بنایا۔
۲۔ پیدائش باب ۲، آیت ۱۷ میں لکھا ہے:۔
’’ جس دن تو اس نیک و بد کی پہچان کے درخت سے کھا ئے گا توضرور مرے گا‘‘۔
اسی طرح پیدائش باب ۲ آیت ۹میں لکھا ہے:۔
’’ اور باغ کے بیچوں بیچ حیات کے درخت اور نیک و بد کی پہچان کے درخت کو زمین سے لگایا‘‘۔
اس آیت کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں یا تو یہ کہ ایک ہی درخت میں دائمی حیات بخشنے اور نیک وبد کی پہچان دینے کی خاصیت تھی اور یا یہ کہ یہ دو درخت تھے۔ ایک میں حیات بخشنے کی طاقت تھی اور دوسرے میں نیک و بدکی پہچان دینے کی طاقت تھی۔ا گر اِس کے معنی یہ لئے جائیں کہ یہ دو درخت نہیں تھے بلکہ ایک ہی درخت تھا تو پیدائش باب ۲ آیت۱۷ کا حوالہ جو اوپر لکھا جا چکا ہے کہ:
’’ جس دن تو اس سے کھائے گا مر جائے گا‘‘۔
غلط ہو جاتا ہے۔ کیونکہ آیت ۹ تو اُسے حیات کا درخت قرار دیتی ہے موت کا نہیں۔ اور اگر یہ دو الگ الگ درخت تھے تو پھر یہ دونوں آیتیں متضاد ہیں۔ کیونکہ نیک وبد کی پہچان کے درخت سے کھانے سے موت کا آنا لازمی نہ تھا اس لیے کہ اگر آدمؑ حیات کے درخت سے کھا لیتے جیسا کہ بائبل سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوںنے کھایا تو نیک و بد کی پہچان کے درخت سے کھانے کے باوجود اُن پر موت کیونکر آئی؟ اگر ایک درخت کے کھانے سے موت لازماً آنی تھی تو دوسرے درخت کا پھل کھانے سے حیاتِ جاودانی مل جانی تھی۔ ایسے شخص کا معاملہ تو کوئی عقل حل ہی نہیں کر سکتی کہ ایک درخت اسے ہمیشہ کے لئے زندہ رکھنا چاہتا ہے اور دوسرا درخت اُسے مار دینا چاہتا ہے۔
بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدمؑ اور ان کی بیوی نے حیات کے درخت کا پھل کھایا ہے کیونکہ پیدائش باب ۳ آیت ۲،۳ میں لکھا ہے:۔
’’ عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل ہم توکھاتے ہیں مگر اُس درخت کے پھل کو جو باغ کے بیچوں بیچ ہے خدا نے کہا کہ تم اُسے نہ کھانا اور نہ اُسے چھونا ایسا نہ ہو کہ مر جائو‘‘۔
اِن آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوائے نیک وبد پہچان کے درخت کے باقی سب درختوں کا پھل آدمؑ اور اس کی بیوی کھاتے تھے۔ اگر بائبل کی یہ بات درست ہے تو آدمؑ اور اس کی بیوی حیات کے درخت کا پھل بھی کھاتے تھے اور جب وہ حیات کے درخت کا پھل بھی کھاتے تھے تواُن پر موت کس طرح آئی۔ لیکن عجیب بات ہے کہ باب ۳ کی آیت ۲۲ میں لکھا ہے کہ خدا نے فرشتوں سے کہا:۔
’’ ایسا نہ ہو کہ آدم اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کر کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے‘‘۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ آدمؑ نے حیات کے درخت سے کچھ نہ کھایا تھا۔ اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ اِس آیت کا مضمون درست ہے جو بتاتی ہے کہ آدمؑ نے حیات کے درخت سے کچھ نہ کھایا تھا یا اس باب کی آیت ۲ درست ہے جس میں آدم کی بیوی کا قول درج ہے کہ سوائے نیک وبد کی پہچان کے درخت کے باقی سب درختوں کا پھل آدم اور حوا کھاتے تھے۔ اور آیا یہ بات درست ہے کہ نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے سے انسان ضرور مرتا ہے یا یہ بات درست ہے کہ حیات کے درخت کا پھل کھانے سے انسان کبھی نہیں مرتا۔
یہ سب متضاد باتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کلام میںایسی باتیں نہیں آسکتیں۔ یقینا یہ باتیں مختلف مصنّفین نے اپنے اپنے خیالات کے مطابق تورات میں درج کر دیں اور چونکہ اُن مصنّفین کے خیالات متضاد تھے اس لئے اُن کے پیش کردہ نظریے بھی متضاد تھے۔ اور جس کتاب میں متضاد باتیںآجائیں جو ایک ہی وقت میں اورا یک ہی انسان میں کسی صورت میں جمع نہ ہو سکیں اور وہ کتاب ان کو ایک ہی وقت اور ایک ہی انسان میں جمع کرتی ہو تو یقینا وہ خدا کی کتاب تو الگ رہی ایک عقلمند انسان کی کتاب بھی کہلانے کی مستحق نہیں ہو سکتی۔ مگر موسیٰ علیہ السلام یقینا خدا کے نبی تھے اور تورات یقینا خد اکی نازل کردہ کتاب تھی پس یہ اختلاف بعد میں پیدا ہوا۔ نہ اس اختلاف سے خدا تعالیٰ پر کوئی الزام آتا ہے اور نہ موسیٰ پر۔ ہاں یہ ہم ضرور کہیں گے کہ خدا نے جب بائبل کی جگہ ایک اورکتاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو بائبل کی حفاظت سے اُس نے ہاتھ کھینچ لیا اور وہ ایک محفوظ کتاب نہ رہی۔
۳۔ پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۴ میں لکھاہے:۔
’’اور ابراہام نے اُس مقام کا نام ’’ یہوواہ یزی‘‘ رکھا۔‘‘ چنانچہ یہ آج تک کہا جاتا ہے کہ خداوند کے پہاڑ پر دیکھا جائے گا‘‘۔
لیکن خروج باب۲ آیت ۲،۳ میں لکھا ہے۔
’’ پھر خدا نے موسیٰ کو فرمایا اور کہا میں خداوند ہوں ’’ یہوواہ‘‘۔ اور میں نے ابراہام اور اضحاق اور یعقوب پر خدا کے نام سے اپنے تئیںظاہر کیا اور یہوواہ کے نام سے اُن پر ظاہر نہ ہوا۔‘‘
اِن دونوں آیتوں کا تضاد ظاہر ہے۔ کتاب خروج کہتی ہے کہ یہوواہ کے نام سے پہلی بار موسیٰ کو روشناس کیا گیا۔ اس سے پہلے کسی نبی کو خصوصاً ابراہیم ؑ۔ اسحاق ؑاوریعقوبؑ پر خدا تعالیٰ کا یہواہ نام ظاہر نہیں کیا گیا لیکن کتاب پیدائش کہتی ہے کہ ابراہیم ؑپر بھی اس نام کو ظاہر کیا گیا تھا اور اُس نے ایک پہاڑی کا نام ’’ یہوواہ یری‘‘ رکھ دیا تھا۔
۴۔ گنتی باب ۳۳ آیت ۳۸ میںحضرت ہارون کے متعلق لکھا ہے:۔
’’ہارون کاہن خدا وند کے حکم کے مطابق کوہِ طور پر گیا اور اس نے بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کے پیچھے چالیسویں برس کے پانچویں مہینے کی پہلی تاریخ وفات پائی‘‘۔
لیکن استثناء باب ۱۰ آیت ۶ میں لکھا ہے:۔
’’ تب بنی اسرائیل نے بیراث بنی یقعان سے موسیرہ کو کوچ کیا۔ وہاں ہارون کا انتقال ہوا اور وہیں گاڑا گیا‘‘۔
ایک ہی شخص دو جگہ وفات نہیں پا سکتا۔ یقینا یہ دو الگ الگ مؤرخوں کا کام ہے کہ اُنہوں نے بائبل میں اپنی اپنی تحقیق کو خدا تعالیٰ کا الہام قرار دے کر شامل کر دیاہے۔
۵۔ نمبر ۱ سموئیل باب ۱۶ آیت ۱۰ تا ۱۳ سے ظاہر ہے کہ دائود یسی کا آٹھواں بیٹا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے :۔
’’یسی نے اپنے سات بیٹوں کو سموئیل کے سامنے نکالا اور سموئیل نے یسی سے کہا کہ خدا نے ان کو نہیں چنا ہے۔ پھر سموئیل نے یسی سے پوچھا کہ تیرے سب لڑکے یہی ہیں؟ اس نے کہا سب سے چھوٹا ابھی رہ گیا ہے وہ بھیڑ بکریاں چراتا ہے۔ سموئیل نے یسی سے کہا کہ اُسے بُلا بھیج کیونکہ جب تک وہ یہاں نہ آجائے ہم نہیں بیٹھیں گے۔ سو وہ اُسے بُلوا کر اندر لایا۔ وہ سرخ رنگ اور خوبصورت اور حسین تھا اور خداوند نے فرمایا اُٹھ اور اُسے مسح کر کیونکہ وہ یہی ہے۔ تب سموئیل نے تیل کا سینگ لیا اور اسے اس کے بھائیوں کے درمیان مسح کیا اور خداوند کی روح اُس دن سے آگے دائود پر زور سے نازل ہوتی رہی۔ پھر سموئیل اُٹھ کر رامہ کو چلا گیا‘‘۔
مگر نمبر ۱ تواریخ باب ۲ آیت ۱۳ تا ۱۵ میں لکھا ہے کہ دائود یسی کا ساتواں بیٹا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
’’ اور یسی سے اُس کا پلوٹھا الیاب پیدا ہوا اور ابینداب دوسرا اور سمع تیسرا، نینیتل چوتھا، ردی پانچواں، عوضم چھٹا ،دائود ساتواں ‘‘۔
یہ اختلاف بتاتا ہے کہ بائبل میں مختلف مؤرخوں نے اپنے اپنے خیالات داخل کر دئیے ہیں اور یہ موجودہ حالت میں محفوظ آسمانی کتاب نہیں کہلا سکتی۔
۶۔ نمبر ۲ سموئیل باب ۶ آیت ۲۳ میں لکھا ہے:۔
’’ سو سائول کی بیٹی میکل مرتے دم تک بے اولاد رہی۔‘‘
مگر نمبر ۲ سموئیل باب ۲۱ آیت ۸ میں لکھا ہے:۔
’’ اور سائول کی بیٹی میکل کے پانچوں بیٹوں کو جو برزلی محولاتی کے بیٹے عدری ایل سے ہوئے تھے لے کر ان کو جبعونیوں کے حوالے کیا‘‘۔
ایک ہی کتاب میں ایک ہی جگہ اُسے بانجھ قرار دیا گیا ہے اور اُسی کتاب میںد وسری جگہ اس کے پانچ بیٹے قرار دئیے گئے ہیں۔
۷۔ نمبر ۲ تواریخ باب ۲۱ آیت ۱۹،۲۰ میں لکھا ہے کہ یہورام بادشاہ ۳۲ سال کی عمر میں بادشاہ ہوا اور آٹھ برس اُس نے بادشاہت کی اور پھر دو سال بادشاہت سے معزول ہو کرایک سخت بیماری کے اثر سے وفات پا گیا۔
گویا اس کی عمر ۴۲ سال کی تھی۔ لیکن اِسی کتاب کے باب ۲۲ آیت ۱،۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ یروشلم کے باشندوں نے یہورام کے چھوٹے بیٹے اخزیاہ کو اُس کی جگہ بادشاہ بنایاکیونکہ اُس انبوہ نے جو عربوں کے ساتھ چھائونی میں آیا تھا سب بڑے بیٹوں کو قتل کیا تھا سو اخزیاہ بن یہورام یہوواہ کا بادشاہ ہوا۔ اخزیاہ بیالیس برس کی عمر میں بادشاہ ہوا۔
چونکہ اوپر کے حوالہ سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہورام کی عمر اُس کی وفات کے وقت ۴۲ سال کی تھی اس لئے اس دوسرے حوالے کی بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہورام بادشاہ کا سب سے چھوٹا بیٹا اخزیاہ جب اپنے باپ کی وفات پر تخت پر بیٹھا تو اُس کی عمر بھی ۴۲ سال کی تھی۔ گویا وہ اپنے باپ کا ہم عمر تھا اور اس کے بڑے بھائی جن کو عربوں نے یہورام کے خلاف لڑائی میں مار دیا تھا وہ سب اپنے باپ سے بڑے تھے۔ کیا کوئی معقول انسان اس قسم کی لغو باتوں کو تسلیم کر سکتا ہے؟ بیالیس سال کی عمر میں باپ مارا جاتا ہے اور اُس کا سب سے چھوٹا بیٹا اُسی عمر کا اس کے بعد بادشاہ بن جاتا ہے!! یہ باتیں تو ایسی ہیں کہ کسی کمزور سے کمزور عقل والے انسان کی کتاب میں بھی نہیں پائی جاتیں کجا یہ کہ خدا کی نازل کردہ کتاب میں پائی جائیں۔ صاف ظاہر ہے کہ خدا کے الہام میں یہ باتیں نہ تھیں۔ نبیوں کے کلام میں یہ باتیں نہ تھیں۔ کسی ایک آدمی نے بھی یہ باتیں نہیں لکھیں۔ بلکہ کئی آدمیوں نے اپنے اپنے خیالات لکھ دئیے ہیں۔ کسی یہودی مؤرخ کا یہ خیال تھا کہ یہورام بیالیس سال کی عمر میں فوت ہوا اور اُس نے یہ بات لکھ دی۔ کسی دوسرے یہودی مؤرخ کا یہ خیال تھا کہ یہورام جب مرا اُس کی عمر سَو سال تھی اور اُس وقت سب سے چھوٹا بیٹا بیالیس سال کا تھا اُس نے یہ بات درج کردی کہ جب یہورام کا بیٹا تخت پر بیٹھا تو بیالیس سا ل کا تھا۔ اب یہ باتیں بظاہر متضاد نظر آتی ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ جس نے یہورام کو ۴۲ سا ل میں مارا ہے اُس کے خیال میں اخزیاہ کی عمر تخت نشینی کے وقت بیالیس نہیں تھی بلکہ شاید ۱۴،۱۵ سال ہو ۔اور جس شخص نے یہ لکھ دیا کہ اخزیاہ کی عمر تخت نشینی کے وقت ۴۲ سال تھی اُس کی تحقیق میں یہورام کی عمر اُس کی وفات کے وقت ۴۲ سال یقینا نہیں تھی لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایسی کتاب انسان کی روحانیت کو کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے اور وہ کس طرح یقین اور ایمان کے ساتھ اس کے مطالب پر غور کر سکتا ہے۔ اگر تو یہ کہا جاتا کہ تورات مجموعہ ہے لاکھوں یہودیوں کی تحقیقاتوں کا تو پھر بھی اِس کتاب کی کچھ قیمت باقی رہ جاتی۔ لیکن ایک طرف تو اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والاکلام کہا جاتا ہے اور دوسری طرف وہ ہزاروں ہزار افراد کی تحقیقاتوں کا مجموعہ نظر آتا ہے اور اس طرح ایک غلط نام دے دینے کی وجہ سے تھوڑی بہت عظمت جو اِسے حاصل ہو سکتی تھی وہ بھی جاتی رہی ہے۔ بھلا کون کہہ سکتا ہے کہ ایسی کتاب دنیا کی راہنمائی کا موجب ہو سکتی ہے اورکون کہہ سکتا ہے کہ اس کتاب کے بعد کسی اور کتاب کے آنے کی ضرورت نہیں تھی۔
بائبل کے ظالمانہ احکام
پھر صرف متضاد باتیں ہی نہیں ہمیں بائبل میں ظالمانہ احکام بھی نظر آتے ہیںجو ہر گز خدائے رحیم و کریم کی طرف منسوب
نہیں کئے جاسکتے۔ مثلاً:
۱۔ خروج باب۲۱آیت ۲۰،۲۱ میں لکھا ہے:۔
’’اگر کوئی اپنے غلام یا لونڈی کو لاٹھیاں مارے اوروہ مارکھاتی ہوئی مرجائے تو اسے سزا دی جائے۔ لیکن اگر وہ ایک دن یادودن جئے تو اسے سزا نہ دی جائے اس لئے کہ وہ اس کا مال ہے۔‘‘
اس تعلیم میں غلاموں کے لئے کتنی سختی ہے ۔ ایک ظالم اپنے غلام اور اپنی لونڈی کو لاٹھیوں سے مارتا ہے اور اتنا مارتا ہے کہ وہ غلام یا لونڈی ایک دو دن کے بعد مرجائے لیکن بائبل کہتی ہے اب وہ سزا کا مستحق نہیں کیونکہ غلام اور لونڈی اس کا مال ہیں ۔کیا یہ تعلیم اس قابل تھی کہ ہمیشہ کے لئے اسے قائم رکھا جاتا؟ کیا یہ تعلیم ایسی نہ تھی کہ اس کی جگہ پر وہ تعلیم لائی جاتی جو غلام اور لونڈیوں کے دستور مٹانے والی اور مالک کے ہاتھوں کو روکنے والی ہوتی۔ یہ تعلیم اسلام ہی کے ذریعہ دنیا کو حاصل ہوئی چنانچہ اسلام نے جہاں غلامی کو مٹانے کے لئے قانون پاس کئے وہاں یہ اصول بھی مقرر کردیا کہ جو غلام یا لونڈی لوگوں کے ہاتھ میں کسی وجہ سے باقی رہ گئے ہوں ان کو ہرگز مارا پیٹا نہ جائے ۔ احادیث میں آتا ہے ایک دفعہ ابو مسعود انصاریؓ اپنے غلام کو ماررہے تھے کہ اُنہیں پیچھے سے آواز آئی ۔اے مسعود! جس قدر تجھ کو غلام پر مقدرت حاصل ہے اس کے کہیں زیادہ خدا کو تجھ پر مقدرت حاصل ہے ۔ وہ کہتے ہیں میں نے مڑکر دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لارہے تھے اس پر ڈر کے مارے میرے ہاتھ سے کوڑا گر پڑا اور میں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! یہ غلام خدا کے لئے آزاد ہے۔ آپ نے فرمایا اگر تُو اسے آزاد نہ کرتا تو آگ تیرا منہ جھلستی۔ ۵۷؎
اسی طرح ایک اور صحابی فرماتے ہیں ہم سات بھائی تھے اور ہمارے پاس ایک لونڈی تھی۔ ہم میں سے چھوٹے بھائی نے اُس کے منہ پر تھپڑ مارا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس لونڈی کو فوراً آزاد کر دیا جائے کیونکہ جو شخص اپنے غلام یا لونڈی کو مارتا ہے وہ اس کو رکھنے کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔۵۸؎
خودرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا یہ حال تھا کہ جب آپ کی شادی کے موقع پر آپ کی بیوی نے اپنا مال اور غلام آپ کی خدمت میں پیش کر دئیے۔ تو آپ نے فرمایا میں کسی انسان کو اپنا غلام رکھنے کے لئے تیار نہیںہوں۔ یہ کہہ کر آپ نے سب غلام آزاد کر دئیے اور ساری عمر آپ نے کوئی غلام نہیں رکھا۔
۲۔ احبار باب ۲۰ آیت ۲۷ میں لکھا ہے کہ:۔
’’مرد یا عورت جس کا یار دیو ہے یا جادوگر ہے تو دونوں قتل کئے جاویں، چاہئے کہ تم اُن پر پتھرائو کرو اور اُن کا خون اُنہی پر ہووے‘‘۔
اِسی طرح خروج باب ۲۲ آیت ۱۸ میں لکھا ہے کہ:۔
’’ تُو جادوگروں کو جینے مت دے‘‘۔
یہ کیسی خلافِ عقل تعلیم ہے اور پھر ظالمانہ بھی۔ اگر جادوگر سے مراد یہاں ہتھکنڈے دکھانے والے لوگ ہیں تو وہ ایک معصوم پیشہ لوگ ہیں۔ انسان کی مشوش زندگی میں کبھی کبھی ہنسی اور مذاق کا وقت بھی آجاتا ہے۔ اُس وقت یہ لوگ اپنی دیرینہ مشقوں کے ذریعہ سے لوگوں کی توجہات کو زیادہ سنجیدہ مسائل سے اپنے ہتھکنڈوں کی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ اس بے ضرر پیشہ کو قتل کا موجب قرار دینا انصاف کی تعلیم نہیں کہہ سکتے۔ اور اگر جادوگر سے مراد وہ روایتی جادوگر ہیں جو مرد کو بیل اور عورت کو چڑیا بنا دیتے ہیں تو یہ تعلیم نہ صرف احمقانہ ہے بلکہ ظالمانہ بھی۔ کیونکہ ایسے جادوگر نہ کبھی ہوئے اور نہ کبھی ہوں گے اور کسی کی طرف ایسے جادو منسوب کر کے قتل کر دینا ظالمانہ فعل ہے۔
استثناء باب ۷ آیت ۲ میں لکھا ہے:۔
’’ جبکہ خدا وند تیرا خداا نہیں تیرے حوالہ کرے تو تُو اُنہیں ماریو اور حرم کیجیئو نہ تو ان سے کوئی عہدکریو اور نہ ان پر رحم کریو ‘‘۔
ایک مغلوب دشمن کے متعلق یہ کیسی ظالمانہ تعلیم ہے۔ تمام دشمنوں کو قتل کر دینا، ان کے ساتھ کسی قسم کا عہد نہ کرنا اور ہر قسم کے رحم سے انہیں محروم کرد ینا یہ ظلم بادشاہوں کا فعل تو ہو سکتا ہے خدائے رحیم و کریم کی تعلیم نہیں ہوسکتی۔ یقینا یہ تعلیم موسٰی ؑکے بعد آنے والے سفاک یہودیوں کے دماغوں کا اختراع ہے اور موسٰی ؑکی کتاب میں داخل کر کے اُس کو بھی گندہ کر دیا ہے۔
بائبل کی خلاف عقل باتیں
بائبل میں بعض ایسی باتیں ہیں جو بالکل خلافِ عقل ہیں۔ مثلاً :
۱۔ احبار باب ۱۱ آیت۳ میں لکھا ہے ’’خرگوش جگالی کرتا ہے۔‘‘
۲۔ اِسی طرح گنتی باب ۲۲ آیت ۲۸ میں بلعام کی گدھی کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے بلعام سے باتیں کیں۔
۳۔ پیدائش باب ۴۶ آیت ۲۷ ،۲۸ میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر میں آئے تھے تو ۷۰ تھے، لیکن ۲۱۵ سال کے بعد یعنی موسٰی ؑکے زمانہ میں ان کی تعداد اِس قدر بڑھ گئی کہ عورتوں اور بچوں کو نکال کر چھ لاکھ کے قریب پہنچ گئے۔ چنانچہ خروج باب ۱۲ آیت ۳۷ میں لکھا ہے:۔
’’ اور بنی اسرائیل نے رعمیس سے ’’سکات‘‘ تک پیادے سفر کیا۔ ان کے مرد سِوا لڑکوں کے چھ لاکھ کے قریب تھے‘‘۔
اگر مردوں کی تعداد کوملحوظ رکھ کر عورتوں اور بچوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو کل تعداد ۲۵ لاکھ کے قریب پہنچ جاتی ہے مگر یہ سخت مبالغہ اور عقل کے خلاف بات ہے۔ ۲۱۵ سال میں ۷۰ آدمیوںکا ۲۵ لاکھ ہوجانا بالکل عقل کے خلاف بات ہے اور واقعہ کے بھی خلاف ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب مصر سے کنعان کی طرف ہجرت کی اور چالیس سال تک وہ جنگلوں میں پھرے تو کیا ۲۵ لاکھ آدمیوں کا روٹی کا انتظام چالیس پچاس سال تک ان جنگلوں میں ہو سکتا تھا؟ بیشک بعض زمانوں کے متعلق بائبل میں آتا ہے کہ خد اتعالیٰ نے ان کے لئے آسمان سے بٹیر اُتارے اور زمین میں ترنجبین پیدا کر دی لیکن بائبل کے بیان کے مطابق یہ خوراک سارے عرصے کے لئے مہیا نہیں ہوئی تھی۔ پھر دوسرے عرصہ میں اتنے آدمیوں کے لئے خوراک کہاں سے لاتے تھے؟ پھر بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایک چشمہ سے پانی پی لیتے تھے۔ کیا کوئی عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ ایک ایک چشمہ سے ۲۵ لاکھ آدمی پانی سے سیراب ہو سکتا ہے۔ جن علاقوں سے وہ گزرے ان میں ندیاں نہیں ہیں۔ کسی کسی جگہ پر چشمے ملتے ہیں اور چشمہ میں عام طور پر چند محدود فٹ پانی ہوتا ہے کیا اس سے ۲۵ لاکھ آدمی سیراب ہو سکتے ہیں؟ ایسی خلافِ عقل بیان والی بائبل کس طرح بنی نوع انسان کے لئے تسلی کا موجب ہو سکتی ہے۔ بیشک وہ خدا کی طرف سے تھی، بیشک خدا کے نبیوں نے اسے لکھا تھا لیکن وہ مٹ چکی تھی۔ وہ مسخ ہو چکی تھی، وہ انسانی دست بُرد کا شکار ہو چکی تھی، ایسی کتاب کو اُس کے بگڑ جانے کے بعد بھی خدا تعالیٰ کا کلام کہنا دشمنوں کو خدا تعالیٰ پر اعتراض کرنے کا موقع دینا ہے۔ ضروری تھا کہ اس کے بعد ایک اور کتاب آتی جو انسانی دست بُرد سے پاک ہوتی اور ایسی خلافِ عقل باتوں سے محفوظ ہوتی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں قرآن نے اِس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے ۵۹؎ بنی اسرائیل جو فرعون کے ظلم سے ڈر کر بھاگے تھے اُن کی تعداد صرف چند ہزار تھی اور یہی بات صحیح اور درست ہے ورنہ ۲۵ لاکھ یہودی فلسطین کے چھوٹے چھوٹے قبائل سے ڈر کس طرح سکتے تھے۔ فلسطین کی آبادی تو اپنی شان و شوکت کے زمانہ میں بھی ۲۵۔ ۳۰ لاکھ سے نہیں بڑھی۔ آجکل بھی اس کی آبادی ۱۳۔۱۴ لاکھ ہے اور اس میں اور زیادتی کرنے کے خلاف عرب سختی سے احتجاج کر رہے ہیں۔ پرانے زمانہ میں جبکہ خوراک اِدھر اُدھر پہنچانے کے سامان مفقود تھے غیر زرعی علاقوں میں بڑی آبادی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ موسٰی ؑکے وقت میں یقینا سارے فلسطین کی آبادی چند ہزار افراد پر مشتمل ہوگی۔ چنانچہ بنی اسرائیل اور ان کے دشمنوں کی لڑائیوں میں ہمیشہ سینکڑوں اور ہزاروںافراد کا ہی پتہ لگتا ہے۔ اگر موسٰی ؑکے ساتھ ۲۵ لاکھ آدمی فلسطین میں سے آئے تھے تو سفر کا زمانہ تو الگ رہا حکومت کے زمانہ میں بھی خوراک کا انتظام نہ ہو سکتا تھا اور لڑائی کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ یہ لوگ تو اپنے کندھوں کے دھکوں سے ہی ان چند ہزار افراد سے فلسطین کو خالی کر سکتے تھے جو اُن سے پہلے وہاں بس رہے تھے۔
۴۔ اسی طرح تورات میں لکھا ہے:۔
’’ جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ پہاڑ سے اُترنے میں دیری کرتا ہے تو وہ ہارون کے پاس جمع ہوئے اور اسے کہا کہ اُٹھ ہمارے لئے معبود بنا جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ یہ مرد موسیٰ جو ہمیں مصر کے ملک سے نکال لایا ہے ہم نہیں جانتے کہ اسے کیا ہوا۔ ہارون نے انہیں کہا کہ زیور سونے کے جو تمہاری جورئووں اور تمہارے بیٹوں اور تمہاری بیٹیوں کے کانوں میں ہیں توڑ توڑ کے مجھ پاس لائو۔ چنانچہ سب لوگ زیور جو اُن کے پاس تھے توڑ توڑ کرہارون کے پاس لائے اور اس نے ان کے ہاتھوں سے لیا اورایک بچھڑا ڈھال کراس کی صورت چھینی سے درست کی اور انہوں نے کہا کہ اے اسرائیل! یہ تمہارا معبود ہے جو تمہیں مصر کے ملک سے نکال لایا اورجب ہارون نے یہ دیکھا تو اس کے آگے ایک قربا نگاہ بنائی اور ہاورن نے یہ کہہ کر منادی کی کہ کل خداوند کے لئے عید ہے اور وَے صبح کو اُٹھے اور سو ختنی قربانیاں چڑھائیں اور سلامتی کی قربانیاں گزاریں اور لوگ کھانے پینے کو بیٹھے اور کھیلنے کو اُٹھے‘‘۔۶۰؎
لیکن یہ بات کسی انسان کی عقل میں نہیں آسکتی۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جس سے خدا کلام کرے وہ شرک کرنے لگ جائے۔ ایک ہاتھی کودیکھنے والا اسے چوہا نہیں قرار دے سکتا۔ایک سورج کو دیکھنے والا اسے موم کی شمع نہیں قرار دے سکتا۔ایک انسان کو دیکھنے والا اسے مچھر نہیں قرار دے سکتا۔پھریہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خد اکو دیکھنے والا اوراس سے باتیں کرنے والا نبی ایک سونے کے بنے ہوئے بت کو خدا قرار دیدے۔ ہم ایک پاگل سے بھی تو اس قسم کی امید نہیں کر سکتے۔ پھر خدا کے ایک نبی سے اس قسم کی امید کس طرح کر سکتے ہیں۔
دوسرے یہودی تو معذور تھے۔ نہ اُنہوں نے خدا کو دیکھا تھا نہ اس سے باتیں کی تھیں۔ انہوں نے موسیٰ اور ہارون کی باتیں سنی تھیں اوراس پر ایمان لے آئے۔ اِسی طرح ان سے سامری نے جو کچھ کہا اُنہوں نے مان لیا۔ مگر ہارون کو کیا ہو گیا تھا؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جس نے خدا کو دیکھا ہو اور اس سے باتیں کی ہوں وہ سامری کے دھوکے میں آجائے اور خود اپنے ہاتھ سے ایک سونے کا بچھڑا بنا کر اسے خدا قرار دینے لگے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دلوں کے بھید جاننے والے خدا نے اس شخص کو بنی اسرائیل کی اصلاح کیلئے چنا ہو جو موقع پر اتنا بزدل اور کمزور ثابت ہوا ہو؟ ایک عام بادشاہ کی تعریف کرنے والے مؤرخین لکھا کرتے ہیں کہ اس نے اچھے جرنیل چنے اور یہ اس کے کمال کی علامت ہے۔ حالانکہ کوئی بادشاہ اپنے جرنیلوں کے دلوں کو نہیں پڑھ سکتا۔ لیکن بائبل کہتی ہے کہ خدا خدا بھی ہے اور غیب دان بھی ہے اور سب انسانوں سے خواہ وہ بادشاہ ہوں یا غیربادشاہ زیادہ عالم اور زیادہ جاننے والا بھی ہے مگر ساتھ ہی وہ ہم سے یہ منوانا چاہتی ہے کہ ہارون کو خدا نے ایک نبی کے مقام پر کھڑا کیا اور دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا اور اُس سے باتیں کیں اور اپنا وجود اُس پر ظاہر کیا مگر جب سامری نے اس کے آگے شرک کی تعلیم پیش کی تو اس کے ساتھیوں کے کہنے پر اس نے ایک سونے کا بچھڑا بنایا اور لوگوں کے سامنے رکھ دیا اور کہا یہ تمہارا خدا ہے۔ وہ قوم کے ڈر کے مارے خدا کو بھول گیا، اپنے دین کو بھول گیا، اپنی ذمہ داری کو بھول گیا، اپنے علم کو بھول گیا اور جاہلوں اور نادانوں کی طرح ایک بے جان کھلونے کے سامنے اپنے ماتھے کو رگڑنے لگا۔ بائبل میں دست اندازی کرنے والے مصنّف خود بیوقوف ہوں گے لیکن یہ ان کی انتہائی جسارت تھی کہ وہ بعد میں آنے والے لوگوں کو بھی اپنے جیسا بے وقوف سمجھتے تھے۔ یقینا اُن کی دست بُرد کے بعد ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جو تورات کی ان لغویات کا پول کھول دے اور دنیا کو بتا دے کہ ہارونؑ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔ چنانچہ وہ کتاب قرآن کریم کی صورت میں نازل ہوئی اور اس نے یہ اعلان کیا کہ ہارونؑ نے ہرگز شرک نہ کیا تھا بلکہ اس نے اپنی قوم کو شرک سے روکا تھا۔ چنانچہ فرماتاتا ہے۔
۶۱؎ یقینا ہارون نے موسیٰ کے پہاڑ سے واپس آنے سے بھی پہلے بنی اسرائیل سے کہہ دیا تھا کہ اس بچھڑے کے ذریعہ سے تم گمراہی میں مبتلا کر دیئے گئے ہو اور تمہارا ربّ وہ ہے جس نے تمہاری پیدائش سے بھی پہلے تمہاری زندگی کی راحت کے سامان مہیا کر دئیے ہیں (اور یہ بچھڑا تمہاری آنکھوں کے سامنے بنایا گیا ہے) پس میری اتباع کرو اور میرا حکم مانو(اور شرک میں مبتلا نہ ہو) کیا کوئی عقلمند دنیا میں یہ کہہ سکتا ہے کہ موسٰی ؑپر نازل ہونے والی کتاب جب صداقتوں اور سچائیوں کو جھٹلانے لگے اور خلافِ عقل باتیں بیان کرنے لگے تو اُس وقت کسی ایسی کامل کتاب کی ضرورت نہ تھی جو آئے تو موسٰی ؑکے دوہزار سال بعد لیکن سچائیاں اس طرح بیان کرے کہ گویا موسٰی ؑکے وقت میں اور اس کے ساتھ موجود تھی۔
۵۔ پیدائش باب ۱۹ آیت ۲۶ میں لکھا ہے کہ لوط کی بیوی نے لوط کے ساتھ شہر سے بھاگتے ہوئے پیچھے پھر کر دیکھا اور وہ نمک کا کھمبا بن گئی۔ تورات کی یہ بات جنوں اور پریوں کے کسی افسانہ میں مذکورہوتی تو یہ اس کا ٹھیک مقالہ ہوتا۔ مگر خدا کے کلام میں ایسی باتوں کا کیا دخل۔ قرآن کریم نے کس صفائی کے ساتھ حقیقت کو بیان کر دیا ہے فرماتا ہے کَانَتْ مِنَ الْغٰبِریْنَ۔۶۲؎ لوط کی بیوی کھمبا ومبا کوئی نہیں بنی بلکہ اس نے لوط کے ساتھ جانا پسند نہ کیا کیونکہ وہ خدا کی محبت پر اپنے رشتہ داروں کی محبت کو ترجیح دیتی تھی۔ غرض ایسی بیسیوں باتیں ہیں جو ہیں تو موسٰی ؑکے زمانہ کی لیکن تورات اِن کو غلط بیان کرتی ہے۔ مگر قرآن کریم نے دو ہزارسال کے بعد آکر اُن کی اصلاح کی ہے اور ایسی اصلاح کی ہے کہ عقل سلیم اُن کی سچائی تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔
بائبل کی خلافِ اخلاق باتیں
پھر بائبل میں بعض ایسی خلافِ اخلاق باتیں بھی درج ہیں جن کی نسبت کوئی یہ یقین نہیں کر سکتا کہ وہ
خدا تعالیٰ کی طرف سے کہی گئی ہوں یا خدا کے نبیوں نے ایسا کام کیا ہو گا۔
۱۔ پیدائش باب ۹ میں لکھا ہے کہ نوح ؑنے انگور کا ایک باغ لگایا اُس کی مے پی کر نشہ میں آیا اور اپنے ڈیرے کے اندر اپنے آپ کو ننگا کیا اور اس کے بیٹے حام نے اُس کی عریانی کا تماشہ دیکھا اور پھر جا کے اپنے بھائیوںکو خبر دی۔۶۳؎ کیا کوئی عقل مند آدمی اس بات کو باور کر سکتا ہے کہ وہ نوح جس کی نسبت آتا ہے:۔
’’ نوح اپنے قرنوں میںصادق اور کامل تھا اورنوح خدا کے ساتھ چلتا تھا‘‘۔۶۴؎
وہ ننگا ہو کر اپنے بچوں کے سامنے آجائے گا؟ اور کیا یہ بات کوئی عقلمند انسان مان سکتا ہے کہ نوح ننگا ہو اوربُرا بھلاحام کو کہا جائے؟ ایک ننگے پر نظر ڈالنے والا انسان آخر اُس کو ننگا نہیں تو اور کیا دیکھے گا۔ پس حام کا اس میں کیا قصور تھا کہ اُس نے نشہ سے چور اپنے باپ کو دیکھ لیا۔ مگر بائبل کہتی ہے کہ نوح نے کہا:۔
’’ کنعان ملعون ہو‘‘ ۶۵؎
حالانکہ کنعان کا کوئی بھی قصور نہ تھا۔ دیکھنے والا کنعان کا باپ حام تھا۔ حام کے خلاف تو نوح نے ایک لفظ بھی نہیں کہا مگر کنعان پر *** کر دی جس کا کوئی قصور نہ تھا۔ کیا اس لئے کہ حام اُس کا بیٹا تھا اور کنعان اُس کا پوتا تھا؟ پس اِس قسم کے اعمال نہایت ہی اخلاق سوز ہیں اور خداتعالیٰ کے ایک نبی کی طرف ایسی باتیں منسوب کرنا نہایت ہی شرمناک امر ہے۔ ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ باتیں یقینا موسٰی ؑ سے خدا تعالیٰ نے نہیں کہیں نہ موسٰی ؑ نے اپنی کتاب میں لکھی ہیں۔ نبیوں کو چور اور بٹ مار کہنے والے یہودی علماء نے یہ باتیں اپنے گناہوں کو چھپانے کے لئے موسٰی ؑکے کلام میں داخل کردیں اور اس بات کو ضروری بنا دیا کہ پھر خدا تعالیٰ ایک کامل کتاب دنیا میں اُتارے جو اِس قسم کی بیہودہ اور لغو اورمفتریانہ باتوں سے پاک ہو اور وہ قرآن کریم ہے۔
۲۔ پیدائش باب ۱۹ آیت۰ ۳ تا ۳۵ میں لکھا ہے کہ:
’’ لوط اپنی دونوں بیٹیوں سمیت اپنے شہر سے نکل کر ایک غار میں رہنے لگا۔ تب پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ ہمارا باپ بوڑھا ہے اور زمین پر کوئی مرد نہیں ہے جو تمام جہان کے دستور کے موافق ہمارے پاس اندر آوے۔ آئو ہم اپنے باپ کومے پلاویں اور اس سے ہم بستر ہوویں تاکہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں سو اُنہوں نے اُسی رات اپنے باپ کو مے پلائی اور پلوٹھی اندر گئی اور اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی۔ پر اُس نے لیٹتے اور اُٹھتے وقت اُسے نہ پہچانا اور دوسرے روز ایسا ہو اکہ پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ دیکھ کل رات میں اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی آئو آج رات بھی اس کو مے پلاویں اور تُو بھی جا کر اُس سے ہم بستر ہو کہ ہم اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں۔ سو اُس رات بھی اُنہوں نے اپنے باپ کو مے پلائی اور چھوٹی اُٹھ کے اُس سے ہم بستر ہوئی اور اس نے اُٹھتے اور بیٹھے وقت اُسے نہ پہچانا‘‘۔
کیا یہ تعلیم واقعہ کے لحاظ سے ممکن اور اخلاق کے لحاظ سے قابل برداشت ہے؟ مگر تورات خدا تعالیٰ کے ایک نبی کی نسبت ایسی کہانی بیان کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔ لیکن تورات سے مراد اِس جگہ وہ تورات نہیں جو خدا نے موسٰی ؑپر نازل کی تھی بلکہ یہ وہ تورات ہے جو بنی اسرائیل کے علماء نے اُس وقت لکھی جب اُنہیں حضرت لوط کی حقیقی یا نام نہاد اولاد مو آب یا بنی عمون سے اختلاف پیدا ہو گیا تھا اور بنی اسرائیل کا ایمان اتنا کمزور ہو چکا تھا اور دل اتنے سخت ہو چکے تھے کہ اُنہوں نے موآب اور بنی عمون کو ملعون کرنے کے لئے خد ا کے نبی حضرت لوطؑ پر حملہ کیا اور خد اکی کتاب میں ایسی گندی باتیں لکھیں جن کو خدا تعالیٰ کے نبیوں کی نسبت کوئی شخص سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوسکتا۔ کیا عیسائی اور یہودی دنیا خدا کے نبیوں کی نسبت ایسی باتیں سن سکتی ہے؟ اگر سن سکتی ہے تو یہ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ ایک ایسی پاک اور منزہ کتاب خد اتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی جو اِس قسم کے ذہنوں کا علاج کرتی۔
۳۔ تورات میں لکھا ہے اگر کئی بھائی ایک جا رہتے ہوں اور ایک ان میں سے بے اولاد مر جائے، تو اُس مرحوم کی جورو کا بیاہ کسی اجنبی سے نہ کیا جائے بلکہ اس کے شوہر کا بھائی اس سے خلوت کرے اور اُسے اپنی جورو کرلے اور بھاوج کا حق اُسے ادا کرے اور یوں ہو گا کہ اُس کا پلوٹھا جو اس سے پیدا ہو تو اس کے مرحوم بھائی کے نام پر قائم ہو گا تاکہ اس کا نام اسرائیل میں سے مٹ نہ جائے۔ ۶۶؎
اگر کسی اور شخص کی اولاد کے ذریعہ سے کسی شخص کا نام قائم رہ سکتا ہے تو بھائیوں کی اولاد کے ہونے کی صورت میں کیا ضرورت ہے کہ اس کے بھائیوں کے نطفہ سے اس کی بیوی کے ہاں بھی کوئی بیٹا پیدا ہو۔ اگر بھائیوں کابیٹا اس کا بیٹا ہو سکتا ہے تو پھر اس کی بیوی سے بد کاری کروانے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ بائبل یہی کہہ دیتی کہ بھائیوں کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا مرنے والے کی طرف منسوب کر دیا جائے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ چونکہ یہودی علماء نے حضرت لوط پر ایک گندہ الزام لگایا تھا خدا نے ایسی تعلیم ان کے ہاتھوں سے تورات میں لکھوادی تاکہ لوط پر جھوٹا الزام لگانے والے یہودی سارے کے سارے خود اُس گند میں مبتلا ہو جائیں جو کام اُنہوں نے حضرت لوط کی طرف منسوب کیا تھا۔ یقینا عہد نامہ قدیم کی یہ خرابیاں اِس بات کی بیّن دلیل تھیں کہ دنیا کو اِس قسم کی کامل کتاب کی ضرورت تھی جو عیبوں اور نقصوں سے پاک ہو اور وہ کتاب قرآن کریم ہے۔
موجودہ اناجیل کی حالت
میں اوپر بتا چکا ہوں کہ عہد نامہ قدیم ظاہری اور باطنی دونوں طور پر محرف و مبدل ہو چکا ہے اوراس کی تعلیم اور
اس کی روشنی سے کسی انسان کا ہدایت پانا ناممکن ہے۔ اب میں عہد نامہ جدید کو لیتا ہوں۔
(۱) عہد نامہ جدید کا کوئی وجود نہیں ہیجو کتابیں عہد نامہ جدید کے نام سے ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہیں، وہ ہرگز نہ مسیح کے اقوال پر مشتمل ہیں اور نہ ان کے حواریوں کے اصل اقوال پر۔ مسیح یہودی النسل انسان تھے اور ان کے حواری بھی یہودی النسل تھے۔ اس لئے اگر مسیح کا کوئی قول اپنی اصل شکل میں محفوظ ہو سکتاہے تو عبرا نی زبان میں۔ اور اگر ان کے حواریوں کا کوئی قول اپنی شکل میں محفوظ ہو سکتا ہے تو وہ بھی عبرانی زبان میں ہی محفوظ ہو سکتا ہے۔ لیکن انجیل کا کوئی نسخہ پرانی عبرانی زبان میں محفوظ نہیں ہے بلکہ اناجیل تمام کی تمام یونانی زبان میں ہیں۔ عیسائی پادری اس عظیم الشان نقص کو چھپانے کے لئے کہہ دیا کرتے ہیں کہ اُس زمانہ میں لوگوں کی زبان یونانی ہوگئی تھی لیکن کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ قومیں اپنی زبان آسانی سے نہیں چھوڑا کرتیںبلکہ وہ اپنی زبان کو ایسا ہی قیمتی ورثہ سمجھتی ہیں جیسا کہ جائیداد و املاک کو مشرقی یورپ کی درجنوں قومیں روس کے ماتحت تین تین چار چار سَو سال سے چلی آئیں ہیں لیکن اب تک ان کی زبانیں موجود ہیں۔ الجزائر اور مراکش پر فرانس اور سپین کا قبضہ ایک لمبے عرصے سے چلا آیا ہے، مگر باوجود اس کے وہاں کے لوگوں کی زبان عربی ہے۔ ان قوموں کو بھی نظر انداز کر دو خود یہودیوں کو ہی لے لو۔ حضرت مسیحؑ کے زمانہ پر ساڑھے اُنیس سَوسال گزر جانے کے بعد بھی انہوں نے اپنی زبان پوری طرح نہیں چھوڑی۔ا ب بھی یورپ اور امریکہ کے مختلف ممالک کے رہنے والے یہودی یِدِّش (YIDDISH ) زبان بولتے ہیں جو مختلف ممالک کی بگڑی ہوئی یہودی زبان ہے۔ اگر اُنیس سَو سال کی رہائش جو کلی طور پر دوسری اقوام کے ماحول میں گزری ہے وہ بھی یہودیوں کی زبان نہیں مٹا سکی تو ایک قلیل عرصہ کی اطالوی صحبت یہود کی زبان کو کس طرح بدل سکتی ہے؟ یاد رکھنا چاہئے کہ اطالوی حکومت فلسطین میں حضرت مسیحؑ سے صرف چالیس سال پیشتر شروع ہوئی تھی اور یہ اتنا لمبا عرصہ نہیں جس میں کوئی قوم اپنی زبان کو چھوڑ دے۔ لیکن اس کے علاوہ یہ باتیں بھی یاد رکھنے کے قابل ہیں کہ :۔
ا۔ تاریخی قومیں اپنی زبان کو کبھی نہیں چھوڑا کرتیںاور یہودی ایک تاریخی قوم ہے۔
ب۔یہودیوں کا مذہب عبرانی زبان میں تھا اِس لئے اس زبان کو چھوڑنا ان کے لئے بالکل ناممکن تھا۔
ج۔ یہودی لوگ تہذیب و شائستگی کے لحاظ سے اپنے آپ کو اطالوی قوم سے کم نہیں سمجھتے تھے بلکہ بالا سمجھتے تھے اس لئے بھی یہودی اپنی زبان کے چھوڑنے پر تیار نہیں ہو سکتے تھے۔
د۔ یہودی قوم آئندہ کی حکومت کی امیدوار تھی، جو قومیں آئندہ کے متعلق امیدیں کھو بیٹھتی ہیں اُن کادل بھی کمزور ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ وہ اپنی زبان کی حفاظت سے بے پروا ہوجاتی ہیں۔ لیکن حضرت مسیحؑ کے زمانہ میں تو یہودی یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ جلد یہودیوں کا بادشاہ ظاہر ہو گا اور وہ پھر دوبارہ یہودی حکومت قائم کرے گا۔ پس یہ کس طرح ممکن ہو سکتاتھا کہ اُس زمانہ میں وہ اپنی زبان کو ترک کر دیتے۔
ہ۔ اُس زمانہ کے یہودی مصنّفوں کی کتابیں اصل یا بگڑی ہوئی یہودی زبان میں ہیں۔ اگر ان لوگوں کی زبان بدل چکی تھی تو چاہئے تھا کہ اُس صدی یا اُس کے قریب کی لکھی ہوئی کتابیں اصل عبرانی یا بگڑی ہوئی عبرانی زبان کی بجائے کسی اور زبان میں ہوتیں۔
و۔ پرانی اناجیل کے نسخے یونانی زبان میں ملتے ہیں لیکن حضرت مسیحؑ کے وقت میں ابھی تک اطالوی شہنشاہیت دو ٹکڑوں میں تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ اس کا مرکز ابھی روم میں ہی تھا اور رومی زبان اور یونانی زبان میں بہت کچھ فرق ہے اگر اطالوی حکومت کا کوئی اثر یہودیوں کی قوم پر پڑا بھی تھا تو اس کے نتیجہ میں اطالوی الفاظ عبرانی میں داخل ہونے چاہئیں تھے نہ کہ یونانی۔ لیکن اناجیل کے پرانے نسخے یونانی زبان میں پائے جاتے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اناجیل اُس وقت لکھی گئیں جبکہ رومی ایمپائر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی تھی اور اس کے مشرقی مقبوضات یونانی ایمپائر کے حصہ میں آگئے تھے اور یونانی زبان نے بھی عیسائیت اور اس کے لٹریچر پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا تھا۔
ز۔ جتنے فقرے اناجیل میں اپنی اصل شکل میں محفوظ ہیں وہ سب کے سب عبرانی زبان میں ہیں مثلاً ہوشعنا ۶۷؎ ایلی ایلی لما سبقتانی۶۸؎ رِبّی ۶۹؎ تلیشا قومی۷۰؎
ح۔ اعمال باب ۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کے صلیب پر لٹکائے جانے کے بعد تک یہودی لوگ عبرانی زبان میں باتیں کرتے تھے۔ چنانچہ لکھا ہے:ـ۔
’’ تب وے سب روح مقدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں جیسے روح نے انہیں بولنے کی قدرت بخشی بولنے لگے اور خد اترس یہودی ہر ایک قوم میں سے جو آسمان کے تلے ہے یروشلم میں آرہے ہیں۔ سو جب یہ آواز آئی تو بھیڑ لگ گئی اور سب دَنگ ہو گئے کیونکہ ہر ایک نے انہیں اپنی اپنی بولی بولتے سنا اور سب حیران ہوئے اور تعجب کرکے آپس میں کہنے لگے دیکھو کیا یہ سب جو بولتے ہیں جلیلی نہیں! پس کیونکر ہم میں سے اپنے اپنے وطن کی بولی سنتا ہے۔ ہم پار تھی اور میدی اور عیلامی اور رہنے والے مسوپوتا میہ، یہودیہ اور کپدکیہ۔ نپطس اور آسیہ کے فروگیہ اور پمفولیہ۔ مصر اور لیبیاکے اس حصہ کے جو قرینی کے علاقہ میں ہے اور رومی مسافر یہودی اور یہودی مرید۔ کریتی اور عرب کے ہوکے ہم اپنی اپنی زبانوں میںانہیں خدا کی بڑی باتیں بولتے سنتے ہیں اور سب حیران ہوئے اور گھبرا کے ایک دوسرے سے کہنے لگا کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے اَوروں نے ٹھٹھے سے کہا کہ یہ نئی مَے کے نشے میں ہیں ‘‘۔۷۱؎
اِس حوالہ سے ثابت ہے کہ اُس وقت تک فلسطین کے لوگوں کی زبان عبرا نی تھی اور غیرزبانوں کی بولیاں بولنا اُن کے لئے ایک غیر معمولی بات تھی۔ جو نام اوپر گنائے گئے ہیں اِن میں صاف طو پر رومیوں کا ذکر آتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اُس زمانہ میں رومی زبان فلسطین کی زبان نہیں تھی اور اس میں باتیں کرنا لوگوں کے لئے ایک اچنبھے کی بات تھی۔ اس بات سے قطع نظر کر کے کہ یہ واقعہ کس حد تک صحیح ہے اس حوالہ سے اس بات کاتو یقینی طور پر ثبوت مل جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب کے واقعہ کے بعد بھی یہودیوں کی زبان عبرانی ہی تھی۔ غیر زبانیں جاننے والے اُن میں بہت ہی کم پائے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ جب مسیح کے حواریوں نے بعض غیر زبانوں میںباتیں کیں جن میں رومی زبان بھی شامل تھی تو لوگوں نے اُن پر یہ الزام لگا دیا کہ وہ مَے کے نشہ میں بکواس کر رہے ہیں۔ اگر سارے ملک کی زبان رومی یا یونانی ہوتی تو کس طرح ہو سکتا تھا کہ عوام الناس اِن زبانوں کو نہ سمجھ سکتے اور ان کی تقریروں کو بے معنی قرار دے کر انہیں شراب کے نشہ میں مخمور سمجھ لیتے۔
مندرجہ بالا تمام دلائل سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورآپ کے حواریوں کی زبان عبرانی تھی لاطینی یا یونانی نہیں تھی۔ پس جو اناجیل یونانی یا لاطینی میں ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہیں وہ یقینا حضرت مسیحؑ کے بہت عرصہ بعد لکھی گئی ہیں اور اُس زمانہ میں لکھی گئی ہیں جبکہ عیسائیت رومیوں میں پھیل گئی تھی بلکہ رومن شہنشاہیت دو ٹکڑے ہو کر اٹلی اور یونان کی حکومتوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔
اِس قسم کی کتابیں جو سو یا دو سَو سال بعد غیر معلوم مصنفوں نے لکھی تھیں اور زبردستی حضرت مسیح اور ان کے حواریوں کی طرف منسوب کردی گئی تھیں اُن سے انسان کی روحانیت کو کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ ضرور تھا کہ ان کے ہوتے بھی نیا آسمانی صحیفہ نازل ہو جو اِس قسم کی خرابیوں سے پاک ہو اور انسان اِس یقین سے اس پر غور کر سکے کہ یہ پاک اور صاف کلام میرے پیدا کرنے والے کا تھا۔
دوسری دلیل:انجیل میں حضرت مسیح ناصری صاف طور پر بیان فرماتے ہیں کہ میں پُرانی کتابوں کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ قائم کرنے آیا ہوں۔ چنانچہ متی میں لکھا ہے:۔
’’ یہ خیال مت کرو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا ، میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہو ں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیںا یک نقطہ یا ایک شوشہ تورات کا ہر گز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پور انہ ہو‘‘۔۷۲؎
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ناصری کا اصل کام یہودیوں کو دوبارہ موسوی مذہب پر قائم کرنا تھا،مگر انجیل کی موجودہ شکل ہمیں بتاتی ہے کہ موسوی شریعت اس کے ذریعہ سے بالکل منسوخ کر دی گئی ہے یہ امر اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اناجیل درحقیقت وہ نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پیش کی تھیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم یقینا وہی ہو گی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں لائے تھے۔ صرف ایسے امور جو فقیہوں اور فریسیوں نے موسوی شریعت میں اپنی طرف سے داخل کر کے اسے بگاڑ دیا تھا، مٹا دیئے گئے ہوں گے ۔ لیکن انجیل فقیہوں اور فریسیوں کے احکام کو نہیں مٹاتی بلکہ موسٰی ؑعلیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے نبیوں کے احکام کو بھی مٹاتی ہے۔ اس طرح اس کا ایک حصہ اس کے دوسرے حصہ کو باطل قرار دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ جس کتاب کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو باطل قرار دے، وہ کتاب کسی ایک مصنف کی لکھی ہوئی نہیں ہو سکتی یا کسی معقول مصنف کی لکھی ہوئی نہیں ہو سکتی۔ چونکہ کہا جاتا ہے کہ یہ کتابیں حضرت مسیح کے حواریوں کی لکھوائی ہوئی ہیں اس لئے یہ توکہنا مشکل ہے کہ ان کتابوں کے مصنف معقول آدمی نہیں تھے۔ خدا تعالیٰ کے نبیوں کے خاص حواری معقول ہوا کرتے ہیں۔ پس ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ حواریوں نے اصل میں کوئی انجیل نہیں لکھوائی تھی۔ وہ زبانی باتیں کہتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کے شاگردوں کے شاگردوں نے اُن کی زبانی باتوں میں اپنے خیالات مِلا دئیے اور اس طرح وہ اناجیل متضاد باتوں کا مجموعہ بن کر رہ گئیں۔
اناجیل کی تحریف و تبدل کے متعلق عیسائی علماء کے خیالات
اندورنی شہادت پیش کرنے کے بعد اب ہم انجیل کے متعلق بعض عیسائی علماء کے خیالات درج کرتے ہیں۔
(الف) تفسیر ہارن جلد ۴ حصہ دوم باب ۴ مطبوعہ ۱۸۸۲ء میں لکھاہے:۔
’’ کلیسیا کے قد ماء مؤرخین سے اناجیل کی تالیف کے زمانہ کے متعلق جو حالات ہم تک پہنچے ہیں ایسے غیر معیّن اور ابتر ہیں کہ کسی ایک امر معیّن کی طرف نہیں پہنچاتے اور پُرانے قدماء نے اپنے وقت کی گپوں کو سچ سمجھ کر لکھ دیا اور اُن لوگوں نے جو اُن کے بعد ہوئے ادب کر کے ان لوگوں کے لکھے ہوئے کو قبول کر لیا اور یہ روایات سچی اور جھوٹی ایک لکھنے والے سے دوسرے لکھنے والے کو پہنچیں اور مدتِ درازکے گزر جانے کے بعد اُن کی تنقید مُتَعَزَّرْ ہو گئی‘‘۔
(ب) پھر اس جلد میں لکھا ہے کہ :۔
’’ پہلی انجیل ۳۷ یا ۳۸ یا ۴۱ یا ۴۳ یا ۴۸ یا ۶۱،۶۲ یا ۶۴ عیسوی میں اور دوسری انجیل ۵۶ سے ۶۵ تک اور غالباً ۶۰ یا ۶۳ میں اور تیسری انجیل ۵۳ یا ۶۳ میں یا۶۴ میں اور چوتھی انجیل ۶۸ یا ۶۹ یا ۷۰ یا ۹۷ یا ۹۸ عیسوی میں تألیف ہوئیں اور نامۂ عبرانیہ اور نامۂ روم پطرس اور نامۂ دوم سوم یوحنا اور نامۂ یعقوب اور نامۂ یہودا اور مشاہداتِ یوحنا اور نامۂ اوّل یوحنا کے بعض ورس ( یعنی آیات)کا حال تو ایسا ابتر ہے کہ کہنے کے لائق نہیں ان کو تو محض زبردستی سے بِلاسند حواریوں کی طرف منسوب کرتے ہیں اور بہت علماء فرقہ پروٹسٹنٹ نے اِن کتب کا انکار کیا تھا‘‘۔۷۳؎
(ج) کاتھلک ہیرلڈ جلد ۷ مطبوعہ ۱۸۴۴ء صفحہ ۲۰۵ پر لکھاہے:۔
’’ اسٹاڈسن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ یوحنا کی انجیل یقینا بِلاریب مدرسہ اسکندریہ کے کسی طالب علم نے لکھی ہے اور ہارن اپنی تفسیر میں لکھتاہے کہ فرقہ ایلوجین جو دوسری صدی میں تھا اس انجیل ( یوحنا) اور اسی طرح یوحنا کی سب تصنیفات سے انکار کرتاہے‘‘۔
(د) یوسیبس اپنی تاریخ کلیسیاء کی کتاب نمبر ۳ کے باب ۳ میں لکھتا ہے کہ:۔
’’پطرس کا پہلا خط سچا ہے مگر دوسرا خط پطرس کا کبھی پاک کتاب میں شامل نہیں کیا گیا لیکن پڑھا جاتا تھا‘‘۔
(ہ) پھر اِسی کتاب کے پچیسویں باب میں لکھتا ہے کہ:۔
’’ نامۂ یعقوب اور نامۂ یہودا اور نامۂ روم پطرس اور نامۂ دوم سوم یوحنا پر کلام کیا گیا ہے کہ آیا یہ سب انجیل نویسوں نے لکھے ہیں یا دوسرے لوگوں نے جن کے یہی نام تھے‘‘۔۷۴؎
(و) تفسیر بائبل ہارن صاحب جلد ۴ میں لکھا ہے کہ:۔
پہلے اناجیل عبرانی میں تھیںپھر کسی غیر معلوم شخص نے یونانی میں ترجمہ کیا۔
(ز) انسائیکلو پیڈیا ببلیکا میں لکھا ہے:۔
``The NT was written by Christians for Christians: it was moreover written in Greek for Greek speaking Communities, and the style of writting ( with the exeption, possibly, of the Apocalypce) was that of current literary composition. There has been no real break in the continuity of the Greek-speaking church and we find accordingly that few real blunders of writing are met with in the leading types of the extent texts. This state of things has not prevented Variations, but they are not for the most part accidental. And over whelming majority of the various readings of the MSS of the NT were from the very first intentional alterations. The NT in very early times had no canonical authority, and alterations, and additions ۷۵؎were actually made where they seemed improvements.``
یعنی عہد نامہ قدیم عیسائیوں نے عیسائیوں کی خاطر لکھا تھا۔ علاوہ ازیں یہ یونانی میں یونانی بولنے والوں کے لئے لکھا گیا تھا اور طرزِ تحریر اُس وقت کے رائج طرزِ تحریر کے مطابق تھا۔ یونانی بولنے والے گرجا کے تاریخی تسلسل میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس لئے ہمیں تحریر کی کوئی حقیقی غلطی موجودہ نسخوں میں نہیں ملتی۔ گو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اختلافات پائے نہیں جاتے۔ لیکن وہ اختلافات اتفاقی نہیں ہیں بلکہ دیدہ دانستہ پیدا کئے گئے ہیں اور شروع سے ہی بعض مصنفوں نے بِالا رادہ وہ تغیرات عہد نامہ میں پیدا کئے۔ حقیقت یہ ہے کہ عہد نامہ قدیم اپنے ابتدائی زمانہ میں کوئی مذہبی تقدس نہیں رکھتا تھا( یعنی اُسے خدائی کتاب نہیں کہا جاتا تھا) اس لئے جہاں کہیں تبدیلیوں اور زیادتیوں سے مضمون میں اصلاح کی امید کی جاتی تھی وہاں تبدیلیاں اور زیادتیاں دلیری سے کرد ی جاتی تھیں۔
(ح) پھر لکھا ہے:۔
What is certain is that by the middle of fourth century. Latin biblical MSS exhibited a most confusing variety of text caused at least in part by revision from later Greek MSS as well as by modifications of the Latin phraseology. This confusion lasted until all the old latin (or-ante-hieronymain) texts were supplanted by the revised version of jerome (383-400 A.D) which was undertaken at the request of pope Damasus ultimately
۷۶؎became the vulgate of the western Church.
یعنی جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ چوتھی صدی کے درمیان میں بائبل کا لاطینی نسخہ نہایت ہی پراگندہ حالت میں تھا اور یہ مضامین کی پراگندگی یونانی نسخہ سے مقابلہ کی وجہ سے اور لاطینی اصطلاحوں میں تبدیلی کی وجہ سے پید ا ہوگئی تھی اور یہ اختلافات قائم رہے یہاں تک کہ پُرانے لاطینی نسخہ کی جگہ جیروم کا اصلاح شدہ نسخہ جو ۳۸۳ء سے ۴۰۰ء تک کے درمیان زمانہ کے پوپ ڈیمیس کے حکم سے تیار کیا گیا تھا، عیسائیوں میں رائج کیا گیا۔
(ط) اِسی طرح لکھا ہے:۔
`` More important than these external matters are the variations which in course of time crept in the text itself. Many of these variations are mere slips of the eye, ear, memory, or judgment on the part of a copyist, who had no intention to do otherwise than follow what lay before him. But transcribers, and especilally early transcribers, by no means aimed at that minute accuracy which is expected of modern critical editor. Corrections were made in the interests of Grammar or on style. Slight changes were adopted in order to remove difficclties. Additions came in especially from parallel narratives in the gospels, citations from the Old Testament were made more exact or more complete. That all this was done in perfect good Faith and simply because no strict conception of the duty of a copyist existed, is especially clear from the almost entire absence of deliberate falsification of the text in the interest of doctrinal controversy. It may suffice to mention, in addition to what has been already said that glosses or notes originally written on the margin very often ended by being taken into the text, and that the custom of reading thus Scriptured in public worship naturally brought in liturgical additions, such as the doxology of the Lord's prayer while the Commencement of an ecclesiastical lesson torn from its proper context had often to be supplemented by a few explanatory words, which soon
۷۷؎ came to be regarded as part of the original.
اِن بیرونی باتوں کی نسبت زیادہ اہم وہ تبدیلیاں اور وہ اختلافات ہیں جو کہ مرورِ زمانہ کی وجہ سے متن میں شامل ہوگئیں۔ اِن تبدیلیوں میں سے بہت سی نقل نویسوں کی آنکھ، کان اور یادداشت یا فہم کی غلطیوں کی وجہ سے ہوئیں جن کی اپنی نیت سوائے اس کے اور کوئی نہ تھی کہ جو کچھ اُن کے سامنے ہے وہ اُسے من و عن نقل کر دیں۔ لیکن مزید نسخے تیارکرنے والوں اور ان میںسے خاص طور پر ابتدائی لوگوں کا اصلی مقصد یہ نہیں تھا کہ بہت باریک بینی کے ساتھ صحت کا خیال رکھیں جیسا کہ موجودہ زمانہ کے نقادوںسے توقع کی جاتی ہے۔ گرامر اور سلاست عبارت کے پیش نظر بھی ان میں اصلاحات کی گئیں۔ مشکلات کو دُور کرنے کے لیے بعض معمولی تبدیلیاں بھی کی گئیں۔ عہد نامہ قدیم کے اقتباسات لینے میں یہ کوشش کی گئی کہ وہ زیادہ معیّن اور زیادہ اصل صورت اختیار کر لیں۔ یہ کام پوری نیک نیتی کے ساتھ کیا گیا کیونکہ اُس وقت ایک نقل نویس کے فرائض کے متعلق کوئی سخت نظریہ موجود نہیں تھا۔ یہ بات اس سے ظاہر ہے کہ متن میں کوئی دیدہ دانستہ جھوٹ کی آمیزش جو مذہبی عقائد کی بنا پر کی گئی ہے قریباً مفقود نظر آتی ہے۔ مندرجہ بالا امور کے علاوہ اس بات کا ذکر کرنا کافی ہوگا کہ حاشیہ پر درج شدہ نوٹوں کو اکثر متن میں شامل کر دیا جاتا تھا۔ اور اس طرح پبلک دینی اجتماعوں میں مذہبی صحیفوں کو پڑھنے کے رواج نے ایسی زیادتیاں کر دیں جیسا کہ دعائے ربّانی کے نعتیہ اشعار میں۔ اسی طرح بعض دینی اسباق کو اپنے اصل متن سے علیحدہ کیا جاتا تو اس کی ابتداء میں بعض تشریحی الفاظ کا اضافہ کیا جاتا۔ اور یہ تشریحات کچھ عرصہ کے بعد اصل عبارت کا حصہ سمجھی جانے لگیں۔
(ی) اور پھر لکھا ہے:۔
It appears from what we have already seen that a considerable portion of the NT is made up of writing not
۷۸؎ directly apostolic.
جن امور کاہم اِس سے پہلے جائزہ لے چکے ہیں اُن سے ظاہر ہے کہ عہد نامہ جدید کے معتدبہ حصے ایسی تحریروں پر مشتمل ہیں جو براہِ راست رسولوں کی طرف سے نہیں ہیں۔
(ک)
Yest, as a matter of fact,evrey book in the NT with the exception of the four great epistles of St. paul is at present more or less the subject of controversy, and
۷۹؎ interpolations are assented even in these.
پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ عہد نامہ جدید کی ہر کتاب سوائے پولوس رسول کے چار عظیم الشان خطوط کے کم و بیش مابہ النزاع ہے اور بیان کیا جاتا ہے کہ ان میں بھی دخل اندازی کی گئی ہے اور زیادتیاں ہوئی ہیں۔
پھر پُرانے زمانہ کی تحریف و تبدل کو تو جانے دو لطف یہ ہے کہ انجیل میں آج تک بھی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ چنانچہ:۔
۱۔ یوحنا باب ۵ آیت ۲ تا ۵ لکھا تھا :۔
(۱) یروشلم میں بھیڑدروازہ کے پاس ایک حوض ہے جو عبرانی میں بیت حسدا کہلاتاہے۔ اُس کے پانچ اُسارے ہیں۔ ان میں ناتوانوں اور اندھوں اور لنگڑوں اور پژ مردوں کی ایک بڑی بھیڑ پڑی تھی جو پانی کے ہلنے کے منتظر تھے۔ کیونکہ ایک فرشتہ بعضے وقت اُس حوض میں اُترکے پانی کوہلاتا تھا اور پانی کے ہلنے کے بعد جو کوئی کہ پہلے اس میں اُترتا کیسی ہی بیماری میں گرفتار ہو اُس سے چنگا ہو جاتا تھا۔
یہ واقعہ سینکڑوں سال سے انجیل میں لکھا جارہا تھا اور کسی مسیحی کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہوا تھا کہ یہ واقعہ کسی اَور نے انجیل میں داخل کردیا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ نے جب عیسائیت پر یہ اعتراض کیا کہ اگر فلسطین میں ایک ایساحوض موجود تھا جس میں گرنے سے لوگوں کو شفاء ہو جاتی تھی تو گو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اس میں کسی خاص تاریخ میں گرنے سے شفاء ہوتی ہے مگرمسیحؑ نے سمجھ لیا کہ یہ وہم ہے۔ اور اصل بات یہ ہے کہ اس پانی میں نہانے سے شفاء ہوتی ہے۔ پس مسیحؑ نے اس کا پانی مریضوں کو استعمال کرانا شروع کر دیاجس سے اُن کو شفاء ہو نی شروع ہو گئی اور لوگ ان کے معجزات کے قائل ہو گئے۔چنانچہ یوحنا باب ۹ آیت ۱ تا ۷ میں لکھا ہے:۔
’’ پھر اس نے جاتے ہوئے ایک شخص کو جو جنم سے اندھا تھا دیکھا اور اس کے شاگردوں نے اُس سے پوچھا کہ اے ربی! گناہ کس نے کیا؟ اس شخص نے یا اس کے ماں باپ نے کہ یہ اندھا پیدا ہوا۔ یسوع نے جواب دیا نہ تو اس شخص نے گناہ کیا نہ اس کے ماں باپ نے لیکن یوں ہوا کہ خدا کے کام اس میں ظاہر ہوویں۔ ضرور ہے کہ جس نے مجھے بھیجا ہے میں اُس کے کامو ں کو جب تک کہ دن ہے کروں۔ رات آتی ہے اور کوئی اُس وقت کام نہیں کر سکتا۔ جب تک میں جہان میں ہوں جہان کا نور ہوں۔ یہ کہہ کے اس نے زمین پر تھوکا اور تھوک سے مٹی گوندھی اور وہ مٹی اُس اندھے کی آنکھ پر لیپ کی اور اُس سے کہا جااور سلوام کے حوض میں نہا۔ تب وہ جا کے نہایا اور بینا ہو کے آیا‘‘۔
چونکہ اس سے مسیح کے معجزات پر زد پڑتی تھی اس لئے تازہ اُردو بائبل میں سے یہ تالاب کا واقعہ اُڑا دیا گیا ہیجس کے صاف معنی یہ ہیں کہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعتراض سے بچنے کے لئے انجیل بدل دی گئی ہے۔ اگر یہ واقعہ انجیل میں نہیں تھا تو انیس سَو سال سے کس طرح اس میں شامل ہوتا چلا آیا اوراگر یہ واقعہ انجیل میں تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعتراض سے ڈر کر عیسائی دنیا نے اِس کو انجیل میں سے کیوں نکال دیا؟
۲۔ متی باب ۱۹ آیت ۱۶۔۱۷ میں لکھا تھا:۔
’’ اور دیکھو ایک نے آکے اس سے کہا اے نیک استاد میں کونسا نیک کام کروں کہ ہمیشہ کی زندگی پائوں؟ اُس نے اسے کہا۔ تُو کیوں مجھے نیک کہتا ہے۔ نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا‘‘۔
یہ حوالہ اس بات کا ایک بیّن ثبوت تھا کہ حضرت مسیحؑ کے متعلق عیسائیوں کایہ اِدعا کہ وہ معصوم عن الخطاء اور ہر قسم کے گناہوں اور عیوب سے منزہ تھے بالکل باطل اور بے بنیاد ہے۔ا گر وہ گناہوں سے منزہ ہوتے تو محض ایک کے نیک اُستاد کہنے پر وہ جواب میں یہ کیوں کہتے کہ’’ تُو کیوں مجھے نیک کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا‘‘۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کے سامنے اِس حوالہ کو پیش کیا اور انہیں بتایا کہ تم مسیحؑ کی معصومیت کا دعویٰ کس طرح کر سکتے ہو جبکہ مسیح خودا پنی معصومیت کا اعتراف نہیں کرتا بلکہ صرف اتنی سی بات پر کہ ایک شخص نے اسے نیک استاد کہہ کر پکارا وہ کہہ اُٹھا کہ تُو مجھے نیک کیوں کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا۔ یہ اعتراض ایسا زبردست تھا کہ عیسائیوں سے اِس کا جواب بن نہ پڑا اور وہ اِس بات پر مجبور ہوئے کہ اِس آیت کے الفاظ اور اس کے مفہوم کو بالکل بدل ڈالیں ۔ چنانچہ موجودہ اناجیل میں مذکورہ بالا الفاظ کو بدل کر یہ الفاظ درج کر دئیے گئے ہیں:۔
’’اور دیکھو ایک شخص نے پاس آکر کہا اے استاد! میں کونسی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پائوں۔ اُس نے اُس سے کہا تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے نیک تو ایک ہی ہے‘‘۔
’’ تُو کیوں مجھے نیک کہتا ہے‘‘ اور’’ تُو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے‘‘۔ اِن دونوں فقرات میں موجود جو فرق ہے وہ ظاہر ہے۔ ایک حوالہ میں اپنے نیک ہونے سے انکار کیا گیا ہے اور دوسرے حوالہ میںصرف اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ تُو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں سوال کرتا ہے۔ حالانکہ حضرت مسیح دنیا میںآئے ہی اس لئے تھے کہ وہ لوگوں کو نیکی اور ہدایت کی راہ بتائیں۔ا گر وہ نیکی اور ہدایت کی راہ بتانے کیلئے نہیں آئے تھے تو ان کی بعثت کی غرض کیا تھی۔ اُن کو ہمارے عقیدہ کے مطابق خدا تعالیٰ کا نبی کہو یا عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کا بیٹا سمجھودونوں صورتوں میں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ دنیا کو ہدایت اور نیکی کی راہ بتانے کے لئے آئے تھے۔ پس جب وہ آئے ہی اِسی غرض کے لئے تھے کہ لوگوں کو نیکی اور ہدایت کی راہ بتائیں تو وہ یہ کس طرح کہہ سکتے تھے کہ تُو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے پھر اگر ان سے نیکی کی بابت کچھ پوچھنا جرم تھا یا وہ دوسروں کو بتا نہیں سکتے تھے کہ نیکی کی راہ کون سی ہے تو انجیل کے مختلف مقامات پر انہوں نے نیکی کی تعلیم کیوں دی ہے؟ ایک طرف اُن کا لوگوں کو نیکی کی راہ بتانا اور دوسری طرف ان کا اس منصب پر کھڑا ہونا کہ لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کا موجب بنیں، بتا رہا ہے کہ اُن سے یہ سوال نہیں کیا گیا تھا اے استاد! میں کونسی نیکی کروں؟ اور نہ انہوں نے یہ جواب دیا کہ تُو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے بلکہ درحقیقت ان سے وہی سوال کیا گیا تھا جس کا پہلی اناجیل میں ذکر کیاگیا تھا اور جس کا جواب انہو ں نے یہ دیا کہ ’’تُو کیوں مجھے نیک کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا‘‘۔ مگر عیسائیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعتراضات سے ڈر کر اِس آیت کوبدل ڈالا جو ثبوت ہے اس بات کا کہ موجودہ اناجیل میں اب بھی تحریف و تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
۳۔ نمبر۱ یوحنا باب ۵ آیت ۷ میں لکھا تھا:۔
’’ اور گواہی دینے والے تین ہیں۔ روح اور پانی اور خون۔ اور یہ تینوں ایک ہی بات پر متفق ہیں‘‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِس حوالہ کی بناء پر عیسائیوں پر اعتراض کیا کہ تم تو مسیح کو خدا کہتے ہو مگر انجیل یہ بتاتی ہے کہ وہ رحمِ مادر میں نو ماہ تک خون کھاتا رہا اور یوحنا حواری کے قول کے مطابق وہ خود خون تھا۔ جو شخص نوماہ تک رحمِ مادر میں خون کھاتا رہا اور جسے خود خون قرار دیا گیا ہے اُس کو خدا قرار دینا کتنی غیر معقول اور عقل و فہم سے بعید بات ہے۔ یہ حملہ بھی ایسا زبردست تھا کہ عیسائی اِس کی تاب نہ لا سکے اور اُنہوں نے اِس آیت کی بجائے موجودہ اناجیل میں یہ الفاظ لکھ دئیے کہ:۔
’’ تین ہیں جو آسمان پر گواہی دیتے ہیں۔ باپ اور کلام اور روح قدس اور یہ تینوں ایک ہیں‘‘۔
۴۔ مرقس باب ۹ آیت ۱۴تا ۲۹ میں لکھا ہے:۔
’’ اور جب وہ اپنے شاگردوں کے پاس آیا تو دیکھا کہ ان کے چاروں طرف بڑی بھیڑ اور فقیہوں کو ان سے بحث کرتے دیکھا اور فی الفور ساری بھیڑ اُسے دیکھ کر نہایت حیران ہوئی۔ اُس کے پاس دوڑ کے اُسے سلام کیا۔ تب اس نے فقیہوں سے پوچھا تم ان سے کیا بحث کرتے ہو؟ ایک نے اُس بھیڑ میں سے جواب دیا اور کہا اے استاد! میں اپنے بیٹے کو جس میں گونگی روح ہے تیرے پاس لایا ہوں وہ جہاں کہیں اسے پکڑتی ہے پٹک دیتی ہے اور وہ کف بھر لاتا ہے اور اپنے دانت پیستا ہے اور وہ سُوکھ جاتا ہے۔ میں نے شاگردوں سے کہا تھا کہ وہ اسے باہر کر دیں، پر وہ نہ کر سکے۔ اس نے اس کے جواب میں کہا اے بے ایمان قوم! میں کب تک تمہارے ساتھ رہوں میں کب تک تمہاری برداشت کروں اُسے میرے پاس لائو۔ وہ اُسے اس کے پاس لائے اور جب اُس نے اُسے دیکھا فی الفور روح نے اسے اینٹھایا اور وہ زمین پر گرا اور کف بھرکے لَوٹنے لگا۔ تب اُس نے اس کے باپ سے پوچھا کتنی مدت سے یہ اس کو ہوا؟ وہ بولا بچپن سے۔ اور وہ بہت بار اسے آگ میں اور پانی میں ڈالتی تھی تاکہ اسے جان سے مار دے۔ پر اگرتُو کچھ کر سکتا ہے تو ہم پر رحم کر کے ہماری مد د کر۔ یسوع نے اسے کہا اگر تو ایمان لا سکے تو ایماندار کے لئے سب کچھ ہو سکتا ہے۔ تب فی الفور اُس لڑکے کا باپ چلایا اور آنسو بہا کے کہا۔اے خدا وند! میں ایمان لاتا ہوں۔ تومیری بے ایمانی کا چارہ کر۔ جب یسوع نے دیکھا کہ لوگ دور سے جمع ہوتے ہیںتو اس ناپاک روح کو ملامت کر کے اُسے کہا اے گونگی بہری روح! میں تجھے حکم کرتا ہوں اس سے باہر نکل اور اس میں پھر کبھی مت داخل ہو۔ وہ چلا کر اور اُسے بہت اینٹھا کر اُس سے نکل گئی اور وہ مردہ سا ہو گیا ایسا کہ بہتوں نے کہا کہ وہ مر گیا۔ تب یسوع نے اُس کا ہاتھ پکڑ کے اُسے اُٹھایا اور وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور جب وہ گھر میں آیا اُس کے شاگردوں نے خلوت میں اُس سے پوچھا کہ ہم اُسے کیوں نہ نکال سکے؟ اُس نے انہیں کہا کہ یہ جنس سِوا دعا اور روزہ کے کسی اور طرح سے نکل نہیں سکتی‘‘۔
عیسائی اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت مسیحؑ پر ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کے حصول کے لئے کسی عمل صالح کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن اوپر کے حوالہ کی یہ آیت کہ ’’یہ جنس سِوا دُعا اور روزہ کے کسی اور طرح سے نکل نہیں سکتی‘‘ بتاتی تھی کہ دعا اور روزہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے ذرائع میں سے ایک اہم ذریعہ ہیں۔ چونکہ حضرت مسیحؑ کے حواریوں نے اِن ذرائع سے کام نہ لیا اس لئے باوجود اس با ت کے کہ وہ حضرت مسیحؑ پر ایمان لا چکے تھے انجیل کے بیان کے مطابق وہ ایک بد روح کو نہ نکال سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اِس آیت کو پیش کرتے ہوئے عیسائیوں پر اعتراض کیا کہ تمہارا محض اِسی بات پر انحصار رکھنا کہ تم حضر ت مسیحؑ پر ایمان لے آئے ہو اور ہر قسم کے عمل صالح کو باطل قرار دینا درست نہیں۔ حضر ت مسیح تو خود تسلیم کرتے ہیں کہ دعا اور روزہ بھی ضروری چیزیں ہیں اور یہ بھی کہ وہ دعا اور روزہ سے کام لیتے تھے۔ تو جب دعا اور روزہ کی ضرورت ہے تو معلوم ہو اکہ محض حضر ت مسیحؑ پر ایمان انسان کو ہر قسم کی نیکی سے مستفیض اور نجات کا مستحق نہیں بنا سکتا۔ یہ اعتراض ایسا زبردست تھا کہ عیسائی اِس کا کوئی جواب نہ دے سکے اور انہوں نے اپنی خیر اِسی میں سمجھی کہ اِس آیت کو اناجیل میں سے نکال دیں۔ چنانچہ موجودہ اناجیل میں ہمیں یہ آیت کہیں نظر نہیں آتی۔ گویا ایک آیت کو کتاب میںسے خارج کر دیا گیا اور اس طرح ثابت کر دیا گیا کہ انجیل اب تک انسانی دست بُرد کا شکار ہور ہی ہے۔
۵۔متی باب ۱۲ آیت ۳۹،۴۰ میں لکھا تھا کہ ایک موقع پر جب بعض فقیہوں اور فریسوں نے حضرت مسیح سے کہا کہ:۔
’’ اے استاد! ہم تجھ سے ایک نشان چاہتے ہیں‘‘۔
تو حضر ت مسیح نے ان کو جواب دیا کہ :۔
’’ اِس زمانہ کے بد اور حرامکار لوگ نشان ڈھوندتے ہیں پر یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی نشان انہیں دکھایا نہ جائے گا کیونکہ جیسا کہ یونس تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا۔ ویسا ہی انسان کا بیٹا تین دن اور تین رات زمین کے دل میں ہوگا‘‘۔
مذکورہ بالا آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ حضرت مسیح کی اصل پیشگوئی یہ تھی کہ جس طرح یونس نبی تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہے، اسی طرح میں بھی تین دن اور تین رات قبر کے اندر رہوں گا اور یونس نبی سے میری مماثلت ثابت ہو جائے گی۔ مگر اناجیل بتا تی ہیں کہ حضرت مسیح جمعہ کی شام کو قبر میں رکھے گئے۸۰؎ اور جب اتوار کی صبح کو انہیں قبر میں دیکھا گیا تو وہ اس جگہ سے غائب تھے۔۸۱؎ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ صرف ایک دن اور دو رات قبر میں رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ نے عیسائی دنیا سے مطالبہ کیا کہ جب حضرت مسیح کی پیشگوئی یہ تھی کہ لوگوںکو ویساہی نشان دکھایا جائے گا جیسے یونس نبی کے ذریعہ نشان ظاہر ہوا۔ یعنی جیسے یونس نبی تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میںرہا ویسے ہی ابن آد م تین دن اور تین رات قبر میں رہے گا تو وہ تین دن اور تین رات زمین کے اندر کس طرح رہے؟ وہ واقعات جو اناجیل میں بیان کئے گئے ہیں وہ تو اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ جب عیسائیوں نے دیکھا کہ ا ُن کیلئے اِس اعتراض سے بچائو کی کوئی صورت نہیں تو انہوں نے اِس آیت میں تحریف سے کام لیا اور موجود اناجیل میں بجائے تین دن اور تین رات کے ’’ تین رات دن‘‘ کر دیا ۔اِس طرح انہوں نے گو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعتراض سے بچانے کی کوشش کی ہے لیکن درحقیقت انہوں نے اپنے عمل سے ایک دفعہ پھر اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اناجیل میں تحریف و تبدیل ہوتی چلی آئی ہے اور اب بھی عیسائی ضرورت محسوس ہونے پر اِس میں تحریف و تبدیل کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ جب حالات یہ ہیں تو ایسی کتاب کے متعلق یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی رہنمائی کا فرض سر انجام دے سکتی ہے۔ یا کوئی شخص کس طرح اس کی آیات کے متعلق یہ یقینسے کہہ سکتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ جب عیسائی آج بھی اِس کی آیات میں تبدیلی کرنے سے احتراز نہیں کرتے تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ پہلے جو کچھ انہوں نے لکھا تھا وہ خدا تعالیٰ کا کلام تھا۔ پس اناجیل میں تحریف و تبدیل کا متواتر ہوتے چلے آنا ثبوت ہے اِس بات کا کہ موجودہ اناجیل خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور وہ روحانی نقطئہ نگاہ سے بنی نوع انسان کے لئے کسی صحیح راہنمائی کا باعث نہیںہو سکتیں۔
اناجیل میں اختلافات
اناجیل کے اندر جو اختلافات پائے جاتے ہیں وہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ یہ خد اتعالیٰ کی کتاب نہیں۔ یا یہ کہ بعد میں انسانی دست بُرد نے اس کو بالکل بدل ڈالا کیونکہ ایک معقول انسان اپنی لکھی ہوئی کتاب میں اختلافات کو روا نہیں رکھتا تو پھر خدا کی کتاب میں اختلافات کیونکر پائے جا سکتے ہیں۔ ہم ذیل میں مثال کے طور پر نئے عہد نامہ کے چند اختلافات بیان کرتے ہیں۔
۱۔ مسیح کی پیدائش کی نسبت متی باب ۱ آیت ۲۱، ۲۲ اور لوقا باب ۱ آیت ۳۲ ، ۳۳ میں لکھا ہے کہ مسیح عام انسانوں میں سے ہوگا۔ہاں وہ خدا کا بیٹا کہلائے گا۔ لیکن یوحنا کی انجیل میںلکھا ہے کہ مسیح کلمہ ہے جو ہمیشہ سے خدا کے ساتھ تھا اور خود خد اتھا۔ سب چیزیں اسی سے پیدا ہوئیں۔ ۸۲؎
۲۔ متی باب ۳ آیت ۱۳تا ۱۷ مرقس باب۱ آیت ۹ تا ۱۲ لوقا باب ۳ آیت ۲۱۔ ۲۲ اور باب ۴ آیت ۱ میں بتایا گیا ہے کہ مسیح نے یوحنا سے بپتسمہ پایا اور بتپسمہ پاتے ہی وہ اُسی وقت یا اُسی دن اُس کے پاس سے چلا گیا۔ لیکن انجیل یوحنا میں بپتسمہ پانے کا ذکر نہیں اور مسیح کی ملاقات یوحنا سے دو دن تک بتائی گئی ہے۔ ۸۳؎
۳۔ یوحنا باب ۱ آیت ۱۹ تا ۴۴ سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح یوحنا اور اُ ن کے ساتھیوں سے کچھ دن ملاقات کرنے کے بعد سیدھا جلیل چلا گیا۔ لیکن متی باب ۴ آیت ۱ مرقس باب ۱ آیت ۱۲ اور لوقا باب ۴ آیت ۱ میں لکھا ہے کہ مسیح یوحنا سے بتپسمہ پانے کے فوراً بعد شیطان کے ساتھ امتحان دینے کی خاطر جنگل کو گیا اور چالیس دن وہاں رہا۔
۴۔ یوحنا باب ۱ آیت ۳۵ تا ۵۱ میں لکھا ہو اہے کہ یوحنا کی ملاقات کے معاً بعد یوحنا کے شاگرد اندر یاس اور ایک غیر معلوم شاگرد مسیح نے اپنے حواری بنائے اور جلیل کو جاتے ہوئے شمعون، پطرس، نتنائیل کو اُس نے اپنا مرید بنایا۔ لیکن متی بات ۴ آیت ۱۲ تا ۲۲۔ مرقس باب ۱ آیت ۱۲ تا ۲۰۔ لوقاباب ۴ آیت ۱۴، ۱۵ اور لوقا باب ۵ آیت ۱ تا ۱۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ یوحنا کی ملاقات کے بعد چالیس دن جنگل میںرہ کر مسیح نے روزہ رکھا۔ پھر یوحنا کے قید ہونے کی خبر سن کر جلیل گیا۔ وہاں کئی جگہ اور کئی دن اس نے وعظ کئے۔ پھر جلیل کی جھیل کے کنارہ پر جا کر اُس نے شمعون اور پطرس اوراِندریاس اور یوحنا اور یعقوب کو اپنا شاگرد بنایا۔ گویا یوحنا نے اِن لوگوں کے ایمان لانے کی جو جگہ بتائی ہے دوسری اناجیل اُس کے خلاف بتاتی ہیں اور یوحنا نے جو وقت بتایا ہے دوسری اناجیل اُس وقت کے قریباًدو ماہ بعد کا وقت بتاتی ہیں۔
۵۔ یوحنا باب ۴ آیت۳ و آیت ۴۳ تا ۴۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کا وطن یہودیہ تھا اور مسیح اِس خیال سے کہ پیغمبر کی عزت اپنے وطن میں نہیں ہوتی اُسے چھوڑ کر جلیل چلے گئے جہاں کے لوگوں نے اُ ن کی بہت قدر کی۔
لیکن اس کے خلاف متی باب ۱۳ آیت ۵۴ تا ۵۸ ،لوقا باب ۴ آیت ۲۴ اور مرقس باب۶ آیت ۴ میں لکھاہے کہ مسیح کا وطن یہودیہ نہیں تھا بلکہ جلیل تھا۔ جب جلیل میں اِن کی قدر نہ ہوئی تو اُنہوں نے کہا کہ کسی نبی کی قدر اُس کے وطن میں نہیں ہوتی۔
۶۔ یوحنا باب ۳ آیت ۲۲ تا ۲۶ اور یوحنا باب ۴ آیت ا تا۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے یوحنا کی قید سے پہلے ہی اپنی تعلیم بیان کرنی شروع کردی تھی اوربپتسمہ دینا بھی شروع کر دیا تھا۔ لیکن متی باب ۴ آیت ۱۲ تا ۱۷،مرقس باب ۱ آیت ۱۴۔ ۱۵، متی باب ۲۸ آیت ۱۹ اور مرقس باب ۱۶ آیت ۱۵۔۱۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے اپنی تعلیم کی تبلیغ تو یوحنا کے قید ہونے کے بعد شروع کی اور بپتسمہ کاحکم اپنے مرنے سے جی اُٹھنے کے بعد دیا۔ جیسا کہ لکھا ہے:۔
’’پھر وَے گیارہ شاگرد جلیل کے اُس پہاڑ کو جہاں یسوع نے اُنہیں فرمایا تھا گئے اور اُسے دیکھ کر اُنہوں نے اُس کو سجدہ کیا۔ پھر بعضے دبدہ ۸۴؎ میںرہے اور یسوع نے پاس آکر اُن سے کہا کہ آسمان اور زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا اس لئے تم جا کر سب قوموں کو شاگرد کرو اور انہیں باپ اور بیٹے اور روح قدس کے نام سے بپتسمہ دو‘‘۔
۷۔ یوحنا باب ۱۳ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح نے آخری کھانا عید سے ایک روز پہلے کھایا اور عید کے روز وفات پائی۔ لیکن متی باب ۲۶ آیت ۱۷۔ مرقس باب ۱۴ آیت ۱۲ تا ۱۶ ۔ لوقا باب ۲۲ آیت ۷ تا ۱۳۔ متی باب ۲۷ آیت ۵ ۱ تا ۳۱۔مرقس باب ۱۲؍۱۴ اور باب ۱۵ آیت ۶ تا ۲۰ لوقا باب ۲۳ آیت ۱۳ تا ۲۵ اور باب ۲۲ آیت ۱۳ تا۲۷سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے آخری کھانا عید کی شام کوکھایا تھا اور عید سے دوسرے دن صلیب پائی۔
۸۔ یوحنا باب ۱۴آیت ۱۵ تا ۳۱ اور باب ۱۶ آیت ۱ تا ۱۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے بعد فارقلیط یا روح القدس آئیں گے۔ اِس کے دوبارہ زندہ ہو کر واپس آنے کا کہیں صاف طور پر ذکر نہیں۔ لیکن متی باب ۱۷ آیت ۲۳ اور مرقس باب ۹ آیت ۳۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح تو دوبارہ زندہ ہو کر آئے گا لیکن فارقلیط کے دوبارہ آنے کا کوئی ذکر نہیں۔
۹۔ یوحنا کی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے حواریوں میںسے یوحنا اُس کاسب سے بڑا اور پیارا حواری تھا اِس لئے اُس کا نام مسیح کاپیارا ہو گیا تھا۔ دیکھو یوحنا باب ۱۳ آیت ۲۳۔ اور باب ۱۸ آیت ۱۵۔ اور باب ۱۹ آیت ۲۶،۲۷۔ لیکن دوسری انجیلوں سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح کاسب سے پیارا حواری پطرس تھا اور تین شاگرد خاص تھے۔ پطرس۔ یوحنا۔ یعقوب۔ تعجب ہے کہ یوحنا کی انجیل میں یعقوب کا توذکر ہی نہیں کیا گیا اور پطرس اور یوحنا میں سے یوحنا کو زیادہ مقرب قرار دیا گیا ہے حالانکہ دوسری اناجیل پطرس کو زیادہ مقرب قرار دیتی ہیں۔ دیکھو متی باب ۱۷ آیت ۱۔ باب ۲۶ آیت ۳۷۔ مرقس باب ۵ آیت ۳۷۔ باب ۹ آیت ۲۔ باب ۱۳آیت ۳۔ باب ۱۴ آیت ۳۳۔ لوقا باب ۹ آیت ۲۸۔ باب ۲۲ آیت ۳۲۔
۱۰۔ لوقا (باب ۳ آیت۳۳)نے یوسف کو ہیلی کا بیٹا بتایاہے اور متی (باب ۱ آیت ۱۶)نے یوسف کو یعقوب کا بیٹا بتا یا ہے۔
۱۱۔ لوقا (باب ۲ آیت۴)نے مسیح کو دائود کی اولاد ناتھن سے لکھا ہے اور متی نے ناتھن کے بھائی سلیمان بادشاہ کی نسل سے اُسے قراردیا ہے۔۸۵؎
۱۲۔ متی کے نسب نامہ میں یوسف سے ابراہیم تک ۴۱ اشخاص کے نام ہیں اور لوقا کے نسب نامہ میں ۵۶ ۔اور پھر ہر دو شجرہ نسب کے ناموں میں کئی جگہ اختلاف پایا جاتا ہے۔
۱۳۔ لوقا کا خود اپنا کلام بھی مختلف معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی انجیل کے باب ۲۴ آیت ۵۰۔۵۱ میں لکھتے ہیں کہ:۔
’’ مسیح اپنے شاگردوں کے سامنے بیت عنیا میں آسمان پر چلے گئے‘‘۔ لیکن یہی لوقا اپنی تصنیف اعمال میں لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ زیتون کے پہاڑپر ہوا تھا۔
۱۴۔ لوقا اپنی انجیل کے باب ۲۴ آیت ۲۱،۲۹،۳۶ اور ۵۱ میں لکھتے ہیں کہ جس روز مسیح جی اُٹھے تھے اُسی دن یا پہلی رات جو آئی تھی اُس میں آسمان پر چلے گئے۔ لیکن یہی لوقا اعمال باب ۱ آیت ۳ میں لکھتے ہیں کہ وہ جی اٹھنے کے چالیس دن بعد آسمان پر چلے گئے تھے۔
۱۵۔ متی باب ۱۰ آیت ۱۰ میں لکھا ہے کہ مسیح نے اپنے حواریوں سے کہا کہ راستہ کے لئے نہ جھولی دو نہ کرتے نہ جوتیاں نہ لاٹھی لو۔ لیکن مرقس باب ۶ آیت ۸،۹ میں لکھا ہے کہ مسیح نے اپنے حواریوں کو حکم دیا کہ سفر کے لئے سوائے لاٹھی کے کچھ نہ لو۔ پھر لکھا ہے کہ جوتیاں پہنو۔ گویا متی کی روایت کے مطابق تو جوتی سے بھی منع کیا گیا تھا اور لاٹھی سے بھی۔ لیکن مرقس کی روایت کے مطابق لاٹھیاں لینے اور جوتیاں پہننے کاحکم تھا۔
انجیل میں بعض توہمات کا ذکر
انجیل کی تعلیم کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ توہمات سے بھی خالی نہیں۔چنانچہ :۔
ا۔ مرقس باب ۱ آیت ۱۲،۱۳ میں لکھا ہے:
’’ اور روح اسے فی الفور بیابان میں لے گئی اور وہ وہاں بیابان میں چالیس دن تک رہ کے شیطان سے آزمایا گیا اور جنگل کے جانوروں کے ساتھ رہتا تھا اور فرشتے اُس کی خدمت کرتے تھے‘‘۔
یہ واقعات بالکل وہم ہیں اور الٰہی سنت اِن امور کے بالکل خلاف ہے۔ اِس دنیا میں انسان انسانوں کے ساتھ ہی رہتا ہے نہ کہ جانوروں اور شیطانوں یا فرشتوں کے ساتھ۔ کیا کوئی عقلمند یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قانون پہلے اس دنیا کے لئے کچھ اور تھا اورا ب کچھ اور ہو گیا ہے۔ نہ تو اس دنیا میں شیطان کسی کے ساتھ ظاہری طور پر رہتے ہیں نہ فرشتے ظاہری طورپر خدمت کرتے ہیں۔ کشفی طور پر اِن نظاروں کا نظر آنا اور بات ہے۔ ایسے کشفی نظارے نہ صرف پہلے ہوتے تھے بلکہ اب بھی ہوتے ہیں اور میں خود اس معاملہ میں تجربہ رکھتا ہوں۔ لیکن یہ بات نہ پہلے ہوتی تھی نہ اب ہوتی ہے کہ انسان جانوروںمیںرہ رہا ہو بھیڑئیے اور شیر اُس کے اِردگرد بیٹھے ہوئے ہیں شیطان آتا ہے اور اُس کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور خدا کا وہ بندہ اُس کے پیچھے پیچھے پھرتا اور بلاوجہ اُس کے احکام کو مانتا چلا جاتا ہے اور کبھی کبھی اُس سے بغاوت بھی کر دیتا ہے۔اِسی طرح فرشتے آتے ہیں اُس کے لئے روٹی پکاتے ہیں، اس کے لئے ہنڈیا تیار کرتے ہیں، اس کے لئے پانی مہیا کرتے ہیں۔ کہانیوں کی کتابوں میں تو ایسی باتیں آسکتی ہیں لیکن مذہبی کتابوںکا ایسی باتوںسے کیا تعلق۔ اگر نیا عہد نامہ کپلنگ کی’’جنگل بک‘‘ کی طرح ہوتا یا الف لیلیٰ کی مانند ہوتا تو اس قسم کی باتیں قابل اعتراض نہ ہوتیں لیکن نیا عہد نامہ تو لوگوں کی مذہبی اور روحانی رہنمائی کیلئے ہے اِس میں اِس قسم کی کہانیوںکا کیا مطلب؟ ہم مسیح ناصری جیسے نیک اور پاک آدمی کی نسبت کسی صورت میں بھی یہ نہیں مان سکتے کہ اُس نے ایسی باتیں کہی ہوں۔ وہ خدا تعالیٰ کاایک برگزیدہ رسول تھا اور دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے آیا تھا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسا پاکیزہ انسان دنیا کو ایسی باتیں بتاتا جو اُس کو جادۂ اعتدال سے پھرا دیں اوروہم میں مبتلا کردیں۔ پس یہ باتیں یقینا بعد میں داخل کی گئی ہیں اور ان کی ذمہ داری مسیح پر نہیں اور نہ اُس کے حواریوں پر ہے بلکہ بعد میں آنے والے ایسے عیسائیوں پر ہے جن کی روحانیت مر چکی تھی اور جو لوگوں کی واہ وا کو صداقت اور راستی پر ترجیح دیتے تھے۔
(ب) مرقس باب ۵ آیت ۱ تا ۱۴ میں لکھا ہے۔
’’ اور وے دریا کے پار گدرینیو ں کے ملک میں پہنچے اور جونہی وہ کشتی سے اُترے وہیں ایک آدمی جس میں ایک ناپاک روح تھی قبروں سے نکلتے ہوئے اُسے ملا اور وہ قبروں کے درمیان رہا کرتا تھا اور کوئی اُسے زنجیروں سے بھی جکڑ نہ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ بار بار بیڑیوں اور زنجیروں سے جکڑ اگیا تھا۔ لیکن اُس نے زنجیروں کو توڑا اور بیڑیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کئے اور کوئی اُسے قابو میں نہ لا سکا۔ وہ ہمیشہ رات دن پہاڑوں اور قبروں کے بیچ چلایا کرتااور اپنے تئیں پتھروں سے کاٹتا تھا۔ پر جونہی اُس نے یسوع کو دو رسے دیکھا دَوڑا اور اُسے سجدہ کیا اور بُری آواز سے چلا کے کہا۔ اے خدا تعالیٰ کے بیٹے یسوع! مجھے تجھ سے کیا کام ! تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں مجھے نہ ستا۔ کیونکہ اُس نے کہا تھا کہ اے ناپاک روح اِس آدمی سے نکل آ۔پھر اُس سے پوچھا تیرا کیا نام ہے؟ تب اُس نے جواب دیا کہ میرا نام تمن ہے اِس لئے کہ ہم بہت ہیں۔ پھر اُس نے اُس کی بہت منت کی کہ ہمیں اِس سرزمین سے مت نکال اور وہاں پہاڑوں کے نزدیک ایک سؤروں کا غول چرتا تھا۔ سو سب دیووں نے اُس کی منت کر کے کہا کہ ہم کو اِن سؤروں کے درمیان بھیج تاکہ ہم اُن میں بیٹھیں۔ یسوع نے انہیں فی الفور اجازت دی اور وے ناپاک روحیں نکل کر سؤروں میں بیٹھ گئیں اور وہ غول کڑاڑے پر سے دریا میں کودا اور وے قریب دو ہزار کے تھے جو دریا میں ڈوب کر مر گئے اور وے جو سؤروں کوچراتے تھے بھاگے اور شہر اور دیہات میں خبر پہنچائی۔ تب وے اِس ماجرے کو دیکھنے نکلے‘‘۔
اِن آیات میں اِس قدر وہم کی باتیں جمع کر دی گئی ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے۔ اوّل یہ کہ ایک شخص اتنا پاگل اور مضبوط تھا کہ کسی قسم کی زنجیریں اُس کو جکڑ نہیں سکتی تھیں۔ وہ ہر قسم کی زنجیریں توڑدیتا تھا۔ کیاکوئی انسان اِس قسم کا ہو سکتا ہے جو ہر قسم کی زنجیریں توڑ دے؟ ہاں یہ ممکن ہے کہ اُس زمانہ میں لوگوں کو زنجیریں بنانی نہ آتی ہوں اور وہ گھڑیوں کی زنجیروں جیسی کمزور زنجیروں سے لوگوں کو باندھتے ہوں۔
پھر لکھا ہے۔ وہ دیوانہ اپنے تئیں پتھروںسے کاٹتا تھا۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک شخص متواتر سالہا سال سے اپنے آپ کو پتھروں سے کاٹتا تھا اور پھر بھی وہ مرتا نہیں تھا۔
پھر لکھاہے۔ مسیح نے اُس شخص کو کہا کہ اے ناپاک روح! اِس آدمی میںسے نکل آ۔ یہ تو پہاڑی اور جاہل علاقوں کے خیالات ہیں نہ کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ رسول کے خیالات۔ اگر اِس قسم کی بدروحیں لوگوں میں آیا کرتی تھیں تو اب کیوں نہیں آتیں؟ اور کون سے ایسے ذرائع ہیں جن سے ایسی بدروحوں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ جس چیز کو آج ڈاکٹروں نے ’’ نیورس تھی نیا‘‘ یا ہسٹیریا یاجنون قرار دیا ہے اس کو پرانے زمانے کے نااقف لوگ بدروحیں قرارد یتے تھے۔ مگر انجیل یہ بتاتی ہے کہ حضرت مسیح ؑجیسا سنجیدہ اور استباز اور عقلمند انسان بھی ان جاہلوں کی طرح یہ کہتا تھا کہ مجنونوں کے اندر کوئی بدروح داخل ہو جاتی ہے۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ۔ خدا تعالیٰ کے ایک راستباز پر یہ کتنا بڑا الزام ہے۔ اپنی تو ہم پرستی کو دنیا کے ایک عظیم الشان رہنما کی طرف منسوب کر دینا یقینا ایک بہت بڑا ظلم ہے مسیح خود ایسی بات نہیں کر سکتا تھا اور نہ اُس کے حواری ایسی بات کر سکتے تھے۔ یقینا یہ بعد کے جہال کی داخل کی ہوئی بات ہے جنہوں نے انجیل کو اُس کے حقیقی معیار سے نیچے گرادیا۔
پھر آگے چل کر اس وہم کو اور بھی پکا کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مسیح نے بدروح سے اُس کا نام پوچھا تو اُس نے کہا ’’ میرا نام تمن ہے اِس لئے کہ ہم بہت ہیں‘‘۔ گویا ایک روح اتفاقی طور پر پیدا نہیں ہوگئی تھی بلکہ ایک بڑا جتھا روحوں کا اُس وقت پایا جاتا تھا۔
پھر یہ کہا گیا ہے کہ روح نے مسیح کی منتیں کیں کہ اِس سرزمین سے اُس کو نہ نکالیں لیکن جب مسیح نے نہ مانا تو سب دیووں نے اُس کی منت کر کے کہا کہ ہم کو اِن سؤروں کے درمیان بھیج تاکہ ہم اُن پر بیٹھیں۔ اِس پر یسوع نے فی الفور انہیں اجازت دی اور وے ناپاک روحیں نکل کے سؤروں میں بیٹھ گئیں اور وہ غول (یعنی سؤروں کا غول ) کڑاڑے پر سے دریا میں کودا اور وے قریب دو ہزار کے تھے جود ریا میں ڈوب کر مر گئے۔
اِن چند فقروں میں کتنا بڑا وہم اور کتنا ظلم موجود ہے۔ وہم تو یہ ہے کہ بدروحوں نے انسان میںسے نکل کر سؤروں میں جانے کی اجازت مانگی۔ اور ظلم یہ کہ مسیح نے دوسرے لوگوں کے سؤروں پر بد روحوں کو مسلط ہونے کی اجازت دی اور اس طرح ہزاروں روپیہ کا مال لوگوں کا ضائع کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ جب وہ روحیں مسیح سے پوچھے بغیر آدمی کے جسم میں داخل ہو گئی تھیں تو سؤروں میںد اخل ہونے کے لئے انہیں کسی اجازت کی کیا ضرورت تھی؟ دوسرے یہ کہ سؤروں کا گلہ کسی کی ملکیت تھا۔ جنگلی سؤر تو اِس طرح دوہزار کے گلے کی صورت میں شہر کے پاس آکر نہیں پھرا کرتے۔ اتنی تعداد میں شہر کے قریب پھرنے والے سؤر تو کسی کی ملکیت ہوا کرتے ہیں۔ اِس پر سوال ہوتا ہے کہ کسی کی ملکیت کو تباہ کرنے کا مسیح کو کیا حق پہنچتا تھا؟ اگر کوئی کہے کہ خد اکے بیٹے کو سب چیزوں پر ملکیت کا حق حاصل ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خد ا تعالیٰ کو محبت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ا گر خد امحض اپنی ملکیت اعلیٰ سے حق کے طور پر انسان کی ملکیت کو تباہ اور بربادکر سکتا ہے تو پھر کونسا روحانی نظام دنیا میں کام کر رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا ثبوت کیا ہے؟ علاوہ ازیں اِس میں ایک اور عظیم الشان وہم کا بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ سؤروں میں جب یہ روحیں چلی گئیں تو وہ دریا میں کود کر مر گئے یہ عجیب بات ہے کہ وہ بد روحیں ایک انسان میں گئیں تو وہ دریا میں نہ کودا لیکن دو ہزار سؤروں میں گئیں تو وہ دریا میں کود کر مرگئے۔ پس یہ آیات وہم پر دلالت کرتی ہیں اور ظالمانہ مضامین ان کے اندر پائے جاتے ہیں اور کوئی عقلمند انسان جو مسیح کی عظمت کا قائل ہو وہ اِن آیات کو مسیح یا اُن کے حواریوں کی طرف منسوب نہیں کر سکتا۔ لازماً ماننا پڑتا ہے کہ یہ آیات بعد میں بنا کر انجیل میں داخل کی گئی ہیں۔
ج۔ انجیل میں لکھا ہے مسیح مردے زندہ کیا کرتے تھے اورمردے واپس شہر میں آکر داخل ہو جایا کرتے تھے۔ چنانچہ یوحنا باب ۱۱ آیت ۴۳۔۴۴ میں لکھا ہے اور وہ یہ کہہ کر بلند آواز سے چلایا کہ اے لعزر باہر نکل! تب وہ جو مر گیا تھا کفن سے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے نکل آیا اور اُس کا چہرہ گردا گرد رومال سے لپٹا ہوا تھا۔
اسی طرح لکھا ہے۔
’’ دیکھو ہیکل کا پردہ اوپر سے نیچے تک پھٹ گیا اور زمین کانپی اور پتھر تڑک گئے اور قبریں کھل گئیں اور بہت لاشیں پاک لوگوں کی جو آرام میں تھے اُٹھیں اور اُٹھنے کے بعد قبروں سے نکل کر اور مقدس شہر میں جا کر بہتوں کو نظر آئیں‘‘۔۸۶؎
کیا کوئی عقلمند اِن باتوں کو تسلیم کر سکتا ہے؟ اگر مردے پہلے زندہ ہوتے تھے تو اب کیوں نہیں ہوتے؟ اگر کہو کہ یہ مسیح کی علامت تھی تو یہ غلط ہے۔ مسیح کہتے ہیں اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو تو جو نشانات میں نے دکھائے ہیں اُن سے بہتر نشانات تم دکھا سکتے ہو۔ چنانچہ یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۲۔۱۳ میں لکھاہے:۔
’’میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا اور اُن سے بھی بڑے کام کرے گا۔ کیونکہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور جو کچھ تم میرے نام سے مانگو گے وہی کر وںگا تاکہ باپ بیٹے میں جلال پاوے۔ اگر تم میرے نام سے کچھ مانگو گے تو میں وہی کروں گا‘‘۔
مگر کیا اِس پیشگوئی کے مطابق اب بھی عیسائی مردوں کو زندہ کرتے ہیں؟
د۔ متی باب ۱۴ آیت ۲۵ تا ۲۷ میں لکھا:۔
’’ اور رات کے پچھلے پہر یسوع دریا پر چلتاہوا اُن کے پاس آیا۔ جب شاگردوں نے اسے دریا پر چلتے دیکھا وے گھبرا کے کہنے لگے یہ بھوت ہے اور ڈر سے چلائے۔ وہیں یسوع نے انہیں کہا کہ خاطر جمع رکھو میں ہوں۔ مت ڈرو‘‘۔
یہ بھی ایک وہم ہے جس کا انجیل میں ذکر کیا گیا، ورنہ پانی پر کون چل سکتا ہے۔
ہ۔ لوقا باب ۱۱ آیت ۲۴ تا ۲۶ میں لکھا ہے:۔
’’ جب ناپاک روح آد می سے باہر نکلتی ہے تو سوکھی جگہوں میں آرام ڈھونڈتی ہے اور جب نہیں پاتی تو کہتی ہے کہ میں اپنے گھر کو جس سے نکلی ہوں پھر جائوںگی اور یہ کہ اسے جھاڑا ہوا اور آراستہ پاتی ہے تب جاکے اَور سات روحیں جو اُس سے بدتر ہیں اپنے ساتھ لاتی ہے اور وے اس میں داخل ہوکے وہاں بستی ہیں اور اُس آدمی کا پچھلا حال پہلے سے بُرا ہوتا ہے‘‘۔
یہ کیسے وہمی خیالات ہیں۔ اوّل یہ بیان کر نا کہ ناپاک روح آدمی میں سے نکل کر سُوکھی جگہ میں آرام ڈھونڈتی پھرتی ہے اور پھر سات اَور گندی روحیں لے کر واپس آجاتی ہے۔ کیا کوئی عقلمند انسان اِن باتوں کو تسلیم کر سکتا ہے؟ اور کیا اِن باتوں کو حضرت مسیح اور خدا کے کلام کی طرف منسوب کرنا جائز ہو سکتا ہے؟ جھوٹ بہت ہی بُری چیز ہے اوروہم بھی ایک نہایت گندی مرض ہے۔ لیکن جھوٹ اور وہم کو خدا تعالیٰ کے نبیوں اور خدا تعالیٰ کے کلام کی طرف منسوب کرنا تو اور بھی ظالمانہ فعل ہے اور انجیل کے نادان دوستوں نے اِس جرم کا ارتکاب کر کے اُسے دنیا کی ہدایت دینے والی کتابوں سے ہمیشہ کے لئے نکال دیا ہے۔
انجیل کی خلافِ اخلاق باتیں
ا۔ مرقس باب ۱۱ آیت ۱۲ تا ۱۴ میں لکھا ہے:
’’ صبح کو جب وہ بیت عنیاہ سے باہر آئے تو اُس کو بھوک لگی اور دور سے انجیر کا ایک درخت پتوں سے لدا ہوا دیکھ کے وہ گیا کہ شاید اس میں کچھ پاوے۔ جب وہ اُس پاس آیا تو پتوں کے سوا کچھ نہ پایا کیونکہ انجیر کا موسم نہ تھا۔ تب یسوع نے اُس سے خطاب کر کے کہا کہ کوئی تجھ سے پھل نہ کھاوے‘‘۔
اِس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ:۔
(الف) مسیح باوجود یکہ ایک ایسے ملک کے رہنے والے تھے جہاں انجیر کثرت سے ہوتی ہے مگر وہ ایسے ناواقف تھے کہ انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ انجیر کے درخت کو کب پھل لگتا ہے۔
(ب) وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ایسے بد اخلاق تھے کہ بجائے اپنی غلطی پر شر مندہ ہونے کے انہوں نے ایک بے جان درخت کو بد دعا دی اور کہا کہ آئندہ کوئی تجھ سے کبھی پھل نہ کھاوے۔ ہم مسلمان جو مسیح کی خدائی کے قائل نہیں انہیں خد اکا ایک نبی مانتے ہیں ہم بھی تو ان سے ایسی بد تہذیبی کے ارتکاب کو تسلیم نہیں کرسکتے۔ پھر تعجب ہے ان لوگوں پر جو اُن کو خدا کا بیٹا بناتے ہیں اور اخلاق کا بہترین نمونہ قرار دیتے ہیں اور پھر بھی انجیل میں ایسی باتیں ان کے متعلق پڑھتے ہیںاور انہیں برداشت کر لیتے ہیں اور اُن کے دل میں یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ یہ باتیں مسیح نے کبھی نہیں کہی ہو ںگی بلکہ دوسرے لوگوں نے اُن کی طرف منسوب کر دی ہوںگی۔
آجکل کے بعض پادری اس حوالہ کے متعلق کہا کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہودی قوم اب پھل دینے کے ناقابل ہو گی اس لئے آئندہ یہودیوں میں سے کوئی نیک پھل پیدا نہیں ہو گا۔ لیکن کیا کوئی شخص جو علمِ ادب سے ذرا بھی حصہ رکھتا ہو اِس عبارت کے ایسے معنی کر سکتا ہے؟ کیا انجیر کے درخت سے یہودیوں کو تمثیل دینے کیلئے اِس بات کی بھی ضرورت تھی کہ مسیح اُس وقت انجیر کے درخت کے پاس جائے جب اُسے بھوک لگی ہو۔ پھر اُس درخت کے پاس جائے جس میں پتے موجود تھے اور پھر راوی اُس کے متعلق یہ الفاظ بھی کہے کہ مسیح اِس لئے اُس درخت کے پاس گیا تھا کہ شاید اُس میں کچھ پاوے۔مگر جب وہ اس کے پاس پہنچا تو پتوں کے سوا کچھ نہ پایا کیونکہ انجیر کا موسم نہ تھا۔ مسیح کا بھوک لگنے پر درخت کے پاس جانا اورایسے درخت کے پاس جانا جس میں پتے لگے ہوئے تھے اور اس امید کے ساتھ جانا کہ اس سے پھل ملے گا جیسا کہ فقرہ’’ شاید اُس میںکچھ پاوے‘‘ سے ظاہر ہے اور پھر راوی کا یہ کہنا ’’ کیونکہ انجیر کا موسم نہ تھا‘‘ صاف بتاتا ہے کہ کسی تمثیل کے لئے مسیح اُس درخت کے پاس نہیں گیا تھا بلکہ اپنی بھوک کو دُور کرنے کیلئے گیا اور ایسے موسم میں گیا جبکہ ممکن تھا کہ درخت میں پھل لگا ہوا ہوتا۔ مگر ابھی پورا وقت نہیں آیا تھا یا شاید اس درخت میں پھل عام موسم سے ذرا دیر میں لگتا تھا یا شاید اُس کی بیماری کی وجہ سے اس درخت میں پھل ہی نہیں لگتا تھا۔ اس پر مسیح ناراض ہو گیا اور اس درخت پر *** کی۔
کیا درختوں، دریائوں، پہاڑوں اور پتھروں کو *** کرنے والے انسان معقول اور بااخلاق انسان سمجھے جاتے ہیں؟ کیا انجیل میں تبدیلی کرنے والا انسان یہ خیال کرتا تھا کہ مسیح جیسے شریف انسان کو آنے والی دنیا ایسے بُرے اخلاق سے متصف سمجھ لے گی؟ عیسائی تو بیشک اُس کے دھوکا میں آگئے مگر ہم مسلمان یہ باتیں کبھی مسیح کی طرف منسوب نہیں کر سکتے۔ اس لئے نہیں کہ مسیح کی شخصیت دوسرے نبیوں سے نرالی تھی بلکہ اس لئے کہ کسی شریف انسان سے بھی ہم ایسی اُمید نہیں کر سکتے خواہ وہ نبی نہ بھی ہو۔
۲۔ متی باب ۷ آیت ۶ میں لکھا ہے:۔
’’ وہ چیز جو پاک ہے کتوں کو مت دو اور اپنے موتی سؤروں کے آگے نہ پھینکو۔ ایسا نہ ہو کہ وے انہیں پامال کردیں اور پھر کر تمہیں پھاڑیں‘‘۔
یہ چیز جسے پاک اور موتی قرار دیا گیا ہے خدا تعالیٰ کی وحی اور اس کے نشانات ہیں اور کتے اور سؤر سے مراد وہ لوگ ہیں جو اُس وقت تک حضرت مسیح پر ایمان نہ لائے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کے نشانات پاکیزہ چیزوں سے بھی پاک ہیں اور موتیوں سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک چیزیں اور موتی ایسے ہی لوگوں کے لئے آتے ہیں جن کو ایمان نصیب نہیں ہوتا۔ کیا خدا تعالیٰ کے نبی اِن لوگوں کو ایمان دینے کے لئے آتے ہیں جو پہلے سے مؤمن ہوتے ہیں؟ ہم تو دیکھتے ہیں کہ کبھی بھی خدا تعالیٰ کے نبی ایسے زمانہ میں نہیں آئے جب دنیا مؤمن تھی ہمیشہ تاریکی اور ظلمت کے زمانہ میں خدا کے نبی آیا کرتے ہیں اور اُ ن کا کام یہی ہوتا ہے کہ دنیا کے بھولے بھٹکوں کو راہِ ہدایت کی طرف لائیں۔ دنیا کی بھولی ہوئی روحیں اُن کا مقصود ہوتی ہیں اور دنیا کے بھٹکے ہوئے لوگوں کو ہدایت دینا ہی اُن کا مدعا ہوتا ہے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ خدا کا پیارا اُن کو کتا اور سؤر قرار دے، محض اس جرم پر کہ ابھی تک ہدایت اُن پر ظاہر نہیں ہوئی؟ اور کیا خدا کا نبی یہ کہہ سکتا ہے کہ اُن کے آگے خدا کی تعلیمیں پیش نہ کرو کیونکہ وہ اُن کو پائوں تلے روندیں گے؟ا گر خدا تعالیٰ کے نشانات نہ ماننے والے کے سامنے پیش نہ کئے جائیں تو وہ اُن کو قبول کس طرح کریں گے اور دنیا ہدایت کی طرف آئے گی کیونکر؟ پس یہ مسیح پر بہت بڑا الزام ہے کہ جن لوگوں کی ہدایت کے لئے اُسے بھیجا گیا تھا اُنہی کو اُس نے کتے اور سؤر قرار دیا۔کسی شرارت کی وجہ سے نہیں، کسی خاص معاندانہ فعل کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اِس لئے کہ اب تک اُن پر صداقت ظاہر نہ ہوئی تھی۔
اِس کے مقابلہ میں ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلاَّیَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۸۷؎ اے ہمارے رسول! تُو اپنی جان کو ہلاک کر رہا ہے اِس لئے کہ کافر لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔ کیا ہی زمین و آسمان کا فرق ہے اِن دونوں مدعیانِ ہدایت و ارشاد میں کہ ایک تو ایمان نہ لانے والوںکے غم میں اپنی جان کو ہلاک کر رہا ہے اور دوسرا اپنے حواریوں کو حکم دے رہا ہے کہ اِن کتوں اور سؤروں کی پرواہ نہ کرو اور اِن کو خدا تعالیٰ کا کلام مت پہنچائو۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عالی اخلاق کی وجہ سے تمام انبیاء سے بڑھ کر تھے مگر میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ حضرت مسیح اخلاق سے اتنا گرے ہوئے تھے۔ بیشک وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو نہیں پہنچے تھے مگر وہ خدا کے نبی تھے خدا تعالیٰ کی طرف سے اخلاق اور روحانیت سکھانے کے لئے لوگوں کی طرف آئے تھے اور یقینا اُن کا نمونہ لاکھوں کروڑوں لوگوں سے اچھا تھا۔ افسوس ہے اُس شخص پر جس نے ایسی بُری بات مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کی۔ اِس سلسلہ میں اُس کنعانی عورت کا واقعہ بھی نہیں بھلایا جاسکتا جس کاذکر متی باب ۱۵ آیت ۲۱ تا ۲۶ اور مرقس باب ۷ آیت ۲۴ تا ۲۷ میں آتا ہے۔ اُس عورت نے نہایت عاجزی سے مسیح سے عرض کی اور اپنے قومی رواج کے مطابق اُسے سجدہ بھی کیا اور اُس سے صرف اتنا چاہا کہ وہ اُس کو بھی اپنی لائی ہوئی ہدایت سے روشناس کرے۔ مگر مسیح نے بقول انجیل یہ جواب دیا کہ:۔
’’ مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو پھینک دیں‘‘۔
وہ مسکین عورت کس اشتیاق اور تمنا کے ساتھ مسیح کے پاس آئی ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ وہ اُس سے روٹی مانگے، اِس لئے نہیں کہ وہ اُس سے کپڑا مانگے، اس لئے نہیں کہ وہ اُس سے پانی مانگے، وہ صرف اتنا چاہتی تھی کہ اُس کو کوئی ایسا رستہ بتا دیا جائے جس سے وہ اپنے خدا سے مل سکے۔ وہ اُسی چیز کو طلب کرنے آئی تھی جس کے دینے کا مسیح مدعی تھا۔ مگر موجودہ اناجیل کہتی ہیں مسیح نے اُسے دُھتکار دیا۔ ایک طاقتور اور قوی مرد نے ایک کمزور اور مسکین عورت کو منہ در منہ کہہ کر اُس کی تذلیل کی۔ کیا اِس حوالہ سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ مسیح نے اُس کنعانی عورت کی تذلیل نہیں کی بلکہ جنس نسوانی کی تذلیل کر کے اپنی نسبت یہ ثابت کر دیا کہ وہ مسکین عورتوں کا رہنما نہیں ہے اور یہودی نسل کااِس قدر دلدادہ ہے کہ یہودی کنچنیوں سے اپنے پائوں پر عطر ملوانا پسند کرتا ہے لیکن غیر یہودی عورت کو ہدایت دینا پسند نہیں کرتا۔۸۸؎
اگر عیسائی دنیا اِس حوالہ کو تسلیم کرتی ہو تو بیشک کرے مگر میں کبھی مان نہیں سکتا کہ حواریوں نے اُس کی نسبت ایسا کہا ہو۔ میرے نزدیک یہ باتیں بعد کے لوگوں نے اپنے پاس سے بنائی ہیں اور ایسے وقت میں بنائی ہیں جبکہ مسیح کی حقیقی حیثیت لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو چکی تھی۔ اصلی مسیح دنیا سے غائب ہو چکا تھا اور ایک خیالی مسیح اُس زمانہ کے نادان اور دین سے ناواقف لوگ بنا رہے تھے۔
۳۔ یوحنا باب ۲ آیت ۱ تا ۴ میں لکھا ہے:۔
’’ اور تیسرے دن قانائے جلیل میں کسی کا بیاہ ہوا اور یسوع کی ماں وہاںتھی اور یسوع اور اُس کے شاگردوں کی بھی اُس بیاہ میں دعوت تھی اور میَ گھٹ گئی۔ یسوع کی ماں نے اُس سے کہا کہ اُن کے پاس میَ نہ رہی۔ یسوع نے اُس سے کہا ’’ اے عورت مجھے تجھ سے کیا کام‘‘!
اِسی طرح متی باب ۱۲ آیت ۴۷۔ ۴۸ میں لکھا ہے:۔
’’ کسی نے اس سے کہا کہ دیکھ تیری ماں او ر تیرے بھائی باہر کھڑے تجھ سے بات کیا چاہتے ہیں۔ پر اُس نے جواب میں خبر دینے والے سے کہا کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی‘‘۔
یوحنا اور متی کے یہ دونوں حوالے بتاتے ہیں کہ مسیح اس سب سے قوی رشتہ کی بھی پرواہ نہیں کرتا تھا جس کی عزت و احترام ہر شریف انسان کا کام ہے۔ کیا آج مسیحی دنیا میں کوئی شریف انسان ماں سے کہہ سکتا ہے کہ ’’ اے عورت! مجھے تجھ سے کیا کام‘‘ اور کیا آج مسیحی دنیا میں یہ کہہ کر کہ ’’ کون ہے میری ماں اور کون ہیںمیرے بھائی‘‘ شریفوں میں گنا جا سکتا ہے؟ پھر کیا مسیح کی ہی مقدس ذات اِس تمسخر کے لئے باقی رہ گئی تھی کہ انجیل اس کی طرف ایسی بات منسوب کرتی ہے؟ ماں کا ادب تو ادنیٰ قوموں میں بھی پایا جاتا ہے یہ اُن اخلاق میںسے ہے جن کی ذلیل ترین انسانوں سے بھی امید کی جاتی ہے۔ مگر بنی اسرائیل کا وہ آخری تاجدار، موسوی سلسلہ کا وہ آخری ہیرو جو اپنی قوم کو تاریکی اور ظلمت سے نکالنے اور اسے بااخلاق بنانے کے لئے آیا تھا اُس کی نسبت موجودہ اناجیل ہم سے منوانا چاہتی ہیں کہ اُس نے اپنی ماں کے ساتھترش روئی کی اور اُس کے متعلق گستاخانہ رویہ اختیار کیا۔ عیسائی کہتے ہیں وہ خد اکابیٹا تھا، وہ انسان تھاہی نہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ اگر مسیح کی اصل شان خدا کا بیٹا ہوناہی تھی تو وہ مریم کے گھر میں کیوں پیدا ہوا تھا، اگر مریم کے گھر میںپیدا ہونے کی حالت اُس نے اپنے لئے پسند کر لی اور نو مہینہ تک مریم کو اُن تکالیف میں مبتلا رکھا جن تکالیف کو مائیں حمل کے ایام میں برداشت کیا کرتی ہیں، اگر خدا کے بیٹے نے دو سال تک مریم کی چھاتیوں سے دودھ پینے کی تکلیف گوارا کر لی، اگر اُس نے کئی سال اپنی تربیت اور خبر گیری کا بوجھ اُس پر ڈالا تو کیا وہ یہ بھی ذمہ داری اپنے اوپر نہیںلے سکتا تھا کہ اُس عورت کو جسے اُس نے اپنی ماں بننے کا موقع دیا ادب و احترام کے ساتھ یاد کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف مسیحی دنیا کے عذرات ہیں۔ اُن کے دلوں میں مسیح کی اتنی محبت نہیں ہے جتنی کہ انہیں محرف و مبدل انجیلوں کی پچ ۸۹؎ہے کیونکہ وہ انجیلیںاُن کی بنائی ہوئی ہیں اور مسیح خداتعالیٰ کی مقدس مخلوق تھا۔ پس وہ سیدھا رستہ اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں کہ انجیلوں کی غلطی کا اقرار کریں مگر اس بات پر آمادہ ہوجاتے ہیںکہ مسیح کو بدنام ہونے دیں۔ لیکن دنیا کے تمام معقول انسان جنہوں نے مسیح کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے اور اس کی قوتِ قدسیہ کو پہنچاننے کی کوشش کی ہے وہ اِس امر کا اقرار کئے بغیر نہیںرہ سکتے کہ موجودہ اناجیل بگڑی ہوئی ہیں، غلط ہیں اور ایسے امور پر مشتمل ہیں جو روحانیت کے قریب نہیں کرتے بلکہ روحانیت سے دور پھینک دیتے ہیں اور یقینا ان کی اِس حالت کے بعد خدا کی طرف سے ایک نئے الہام کی ضرورت تھی جواِس قسم کی غلطیوں سے پاک ہو اور بنی نوع انسان کو اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ روحانیت کی طرف لے جائے اور وہ کتاب قرآن کریم ہے۔
ویدوں میں تحریف و تبدیل کا ثبوت
تیسرا مذہب جو اپنے ماننے والوں کی تعداد کے لحاظ سے خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے، ہندو مذہب ہے۔ قرآنی تعلیم کے مطابق ہمارا یقین ہے کہ ہندو مذہب کی بنیاد بھی الٰہی الہام کے ذریعہ پڑی ہے اور چونکہ اِس مذہب والوں کے نزدیک وید ہی شرعی کتاب ہے ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ یہی الہام اُس کے نبیوں پر نازل ہوا تھا لیکن اِس کتاب کی موجودہ حالت یہ ہے کہ جن لوگوں پر یہ کتاب نازل ہوئی تھی اُن کے نام تک معلوم نہیں، وید منتروں کے شروع میں بعض لوگوں کے نام درج ہیں لیکن اُن کے متعلق خود ہندو علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ وہ نہیں جن پر الہام ہوا تھا بلکہ ویدوں کے جمع کرنے والے تھے۔ ایسی صورت میں ویدوں کی تاریخی حیثیت کچھ باقی نہیں رہتی۔ ویدوں کے علماء کی ویدوں کے متعلق مندرجہ ذیل رائیں ہیں:
۱۔ پنڈت ویدک منی صاحب اپنی کتاب ’’ وید سروسو‘‘ کے صفحہ ۹۷ پر لکھتے ہیں:۔
’’ حقیقت میں جس قدر بُری حالت اِس اتھرووید کی ہوئی ہے اتنی اور کسی وید کی نہیں ہوئی۔ سائن آچاریہ کے بعد بھی کئی سُو کت اِس میں ملا دئیے گئے ہیں۔ ملانے کا ڈھنگ بہت اچھا سوچا گیا ہے۔ وہ یہ کہ پہلے اُس کے شروع اور آخر میں ’’ اتھ‘‘ (شروع) اور ’’اِتی‘‘ (ختم) لکھ دیا جاتا ہے۔ جب دیکھا کسی نے پوچھا تک نہیں تب شروع آخر میں اتھ اِتی لکھنا بند کر دیا جاتا ہے بس صرف اتنے سے وہ ( یعنی اضافہ) سنہتا(ویدک مجموعہ) میں مل جاتا ہے، جیسے رگوید سنہتا میں بالکھلیتہ سُوکت ملائے جارہے ہیں ویسے ہی اتھرووید کے آخر میں آجکل کنتاپ سُوکت ملائے جار ہے ہیں۔ اگر پوچھا جائے کہ پانچویں انوواک سے لے کر کنتاپ سُوکتوں سمیت جتنے سُوکت اتھروید میں ملائے جار ہے ہیں وہ کہاں سے آئے تو کوئی جواب نہیں ملتا۔ جہالت کا اتنا دور دورہ ہے کہ آخر میں اتھرووید سنہتا سماپتا لکھا ہوا دیکھ کر ہی یہ یقین کر لیا جاتا ہے کہ بس جو کچھ اِس خاتمہ تک چھپا ہو ایا لکھا ہوا ہے وہ سب اتھرو وید سنہتا ہے یہ خیال نہیں کیا جاتا کہ چھاپنے والا یا لکھنے والا کون اور کتنی قابلیت رکھتا ہے۔‘‘
۲۔ پنڈت مہیش چندر پرشادبی۔ اے سنسکرت ساہتیہ کا اتہاس جلد دوم کے صفحہ ۱۶۰ پر لکھتے ہیں:ـ
’’ واجنئی شکل یجر وید سمہتا بالکل نئی طرز پر ہے۔ اِس میں وید اور برہمن بھاگ (حصے) الگ الگ پائے جاتے ہیں۔ اس میں چالیس ادھیائے ہیں۔ مگر لوگوں کا وشواش ہے کہ اِن میں ۱۸۔ اصل ہیں اور باقی بعد میں ملائے گئے ہیں۔ ادھیائے اسے ۱۸ تک کا بھاگ تیئستری سنہتاو کرشن یجر روید کے نظم و نثر سے مطابقت رکھتا ہے۔ اِن ۱۸ ادھیائوں کے ہر ایک لفظ کی تشریح اُس کے براہمن میں ملتی ہے۔ مگر باقی ۱۷ ادھیائوں کے صرف تھوڑے تھوڑے منتروں پر ہی اس میں ٹپنی ( حواشی ) پائی جاتی ہے۔ کاتیائن نے ادھیائے ۲۶ سے ۳۵ تک کو کھل ( ملاوٹ )کے نام سے لکھاہے۔ ادھیائے ۱۹ سے ۲۵ میں بھی یگیہ کے طریقوں کا ذکر ہے۔ یہ تیئستری سنہتا سے نہیں ملتے۔ ۲۶ سے لے کر ۲۹۔ ادھیائوں تک کچھ خاص طور پر انہی یگیوں کے متعلق منتروں کا ذکر ہے جس کے بارہ میں پہلے ادھیائوں میں بیان ہے اور اِس سے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ضرور بعد میں دئیے گئے ہیں‘‘۔
۳۔ پنڈت شانتی دیو شاستری رسالہ گنگا فروری ۱۹۳۱ء صفحہ ۲۳۲ پر لکھتے ہیں:۔
’ـ’ پہلے تو آج تک یہ بھی فیصلہ نہیں ہو اکہ وید چار ہیں یا تین۔ منوسمرتی اور شت پتھ براہمن کی رو سے رگوید، یجروید اور سام وید۔ یہ تین وید ہیں اور واجنئی اپنشد براہمنو اپنشد اور منڈک اپنشد کی روسے چار وید ہیں‘‘۔
۴۔ پنڈت ہردے نر ائن ایم۔ ایس ۔ سی رسالہ گنگا بابت ماہ جنوری ۱۹۳۱ء میںلکھتے ہیں:۔
’’ شونک رشی کے چرن دیوہ وغیرہ تصانیف میں وید منتروں اور اُن کے لفظوں اور حرفوں تک کی جو گنتی دی ہوئی ہے وہ موجودہ ویدوں میں نہیں ملتی۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ویدوں میں کئی منتر ملائے گئے ہیں اور کئی نکالے گئے ہیں‘‘۔
۵۔ پنڈت شانتی ویوشاستری رسالہ گنگا بابت ماہ فروری ۱۹۳۱ء صفحہ ۲۳۱ پر لکھتے ہیں:۔
’’ جس وقت شونک رشی کاچرن دیوہ تصنیف ہوااُ س وقت شاکل سنہتا (رگوید) کے ایک لاکھ ۵۳ ہزار آٹھ سَو چھبیس لفظ، چار لاکھ ۳۲ ہزار حروف اور دس ہزار چھ سَو بائیس منتر تھے مگر آجکل گنتی کرنے پر یہ تعداد نہیں ملتی‘‘۔
۶۔ ڈاکٹر تارا پدچودہری ایم اے۔ پی ۔ا یچ۔ ڈی پروفیسر پٹنہ کالج رسالہ گنگا کے وید نمبر بابت ماہ جنوری ۱۹۳۲ء کے صفحہ ۷۴ پر لکھتے ہیں:۔
’’ ان کے علاوہ (ویدوں میں) ایسے الفاظ بھی ہیں جن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشدھ پاٹھ ( غلط متن) معلوم ہوتا ہے کہ بولنے والوں اور لکھنے والوں کی خامیوں کے باعث کئی قسم کی غلطیاں واقع ہو گئی ہیں‘‘۔
۷۔ پنڈت ویدک منی جی اپنی کتاب وید سروسو کے صفحہ ۱۰۵و۱۰۶ پر لکھتے ہیں:۔
’’ گوپتھ براہمن کا زمانۂ تصنیف عین وہ زمانہ ہے جبکہ یگوں کا عروج تھا۔ اُس زمانہ رگویدی ، یجر ویدی، سام ویدی اور اتھروویدی ایک دوسرے سے اینٹھے ہوئے تھے اور مختلف قسم کے فرائض اور من گھڑت طریقوں سے یگ وغیرہ کرنے میں محو تھے اور ان میں سے جس جس کو رگوید کے جس قدر منتر مطلوب تھے وہ اُس اُس نے اپنے اپنے وید میں شامل کر لئے تھے اور ہر ایک اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا تھا اور دوسروں سے نفرت کرتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ شاکھا بھید ( نسخوں) کے اختلاف کے باعث رگویدی رگویدی سے یجر ویدی یجر ویدی سے۔ سام ویدی سام ویدی سے اور اتھروویدی اتھروویدی سے بھی الگ ہوگیا۔ واشکل سنہتا والا شاکل سنہتا ( یہ رگ وید کے د ومختلف نسخوں کے نام ہیں) مادھنیدن سنہتا والا کانو سنہتا( یہ یجرویدی کے دو مختلف نسخوں کے نام ہیں) کؤتھم سنہتا والا رانائنی سنہتا( یہ سام وید کے دو مختلف نسخوں کے نام ہیں) اور شونک سنہتا والا پیلاد سنہتا ( یہ اتھرو وید کے د ومختلف نسخوں کے نام ہیں) کے پاٹھ ( متن) کو سب سے اعلیٰ اور خالص اور دوسری شاکھا (نسخے) کے متن کو قطعی بُرا اور غلط کہتا تھا۔ آج جو وید کے مختلف نسخوں میں طرح طرح کے اختلافات نظر آتے ہیں یہ اکثر اُسی بُرے زمانہ میں جنم پائے ہوئے ہیں‘‘۔
۸۔ اسی کتاب کے صفحہ ۱۰۸ پر لکھا ہے:۔
’’اِن کے علاوہ براہمن گرنتھوں کا بھی بہت سا حصہ ان ( ویدوں) میں شامل ہے،جو پڑھنے سے فوراً معلوم ہو جاتا ہے۔ اتھر ووید کی بھی یہی حالت ہے۔ ودوانوں (علماء) کو اِس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ دینی کتاب کی ایسی حالت افسوسناک ہے‘‘۔
۹۔ پھر اس کتاب کے صفحہ ۱۰۹ پر لکھا ہے:۔
’’ یہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ اِس وقت اتھرووید کی صرف دو شاکھا سنہتا (مختلف نسخے) ملتے ہیں۔ ایک پیلا د سنہتا اور دوسری شونک سنہتا ۔ دونوں میں پپلاد زیادہ لائق تسلیم ہے، لیکن وہ چھپی نہیں اور نہ ہی اُس پر سائن آچاریہ نے تفسیر کی ہے۔ دوسری شونک سنہتا چھپی ہوئی ملتی ہے جس کے تین ایڈیشن مختلف پریسوں میں چھپے ہوئے ملتے ہیں۔ جن میں دو مول ( صرف متن) اور ایک سائن اچاریہ کی تفسیر کے ساتھ چھپی ہے۔د ونوں مول میںسے ایک ویدک پریس اجمیر کی اور دوسری بمبئی پریس کی چھپی ہوئی ہے۔ اس کا چھاپنے والا سیوک لال ہے۔ تینوں میں سُوکتوں (بابوں) اور منتروں کا اختلاف ہے‘‘۔
بعض آریہ سماجی عالموں نے اِس اختلاف کو مٹانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ اپنی کوششوں میں ناکام رہے ہیں۔ چنانچہ آریہ سماجی عالم پنڈت رگھونندن شرما ساہتیہ بھوشن ویدک سمپتی صفحہ ۵۷۰ و ۵۷۱ پر ا س اختلاف کی اہمیت کو کمزور کرنے کے لئے لکھتے ہیں:۔
’’ جہاں تک ہمیں علم ہے اب تک اِس قسم کا کوئی ایک بھی ثبوت پیش نہیں کیا گیا جس سے معلوم ہو کہ ویدوں میں فلاں جگہ ملاوٹ ہے جس کو آج تک کوئی نہیںجانتا تھا۔ جن مقامات میں ملاوٹ بتائی جاتی ہے وہ بہت دنوں سے ( براہمن گرنتھوں کی تصنیف کے زمانہ سے) سب کو معلوم ہے ۔ وہ ملاوٹیں نہیں بلکہ ایک قسم کے ضمیمے ہیں جو کاتبوں اور پریس والوںکی غفلت کی وجہ سے اصل متن میں گھس کر متن جیسے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ بال کھلیہ سُوکت رگوید میں ( یہ ۱۱ سُوکت یعنی باب ہیں جن میں ۸۰ منتر ہیں) کھل یعنی براہمن بھاگ یجروید میں (یہ بھی کئی باب ہیں آرنیک اور سہانا منی سوکت سام وید میں )( یہ دو باب۶۵ منتر ہیں) اور گنتاپ سُوکت اتھرووید میں ملے ہوئے ہیں ( یہ اکھٹے دس سُوکت یعنی باب ہیں جن میں ۱۵۰ منتر ہیں) اور ان کو سبھی جانتے ہیں اور ان سب کے متعلق مفصل ثبوت بھی موجود ہیں۔ اِن کے علاوہ کچھ مقامات یجروید اور اتھرووید میں اور بھی ہیں جن کا علم ان فقروں اور منتروں کے پڑھنے سے ہو جاتا ہے کہ وہ ملاوٹی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح شاکھائوں ( وید کے مختلف نسخوں) کی گڑبڑ کا سب کو علم ہے…اور شدھ ویدک شاکھائیں موجود ہیں اِس طرح ملاوٹی حصہ کا بھی سب کو علم ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ واجنی ٔ (یجروید کے مروّج نسخہ) کے منتروں کی تعدا د ۱۹۰۰ ہے جن میں شکری کے منتر ملے ہوئے ہیں۔ کیونکہ لکھا ہے …یعنی سَوکم دوہزار منتر واجنی ٔ کے ہیں اور انہی میں شکری کے بھی شامل ہیں۔ جب یہ واجنی ٔ سنہتا ہے تب اِس میں منتر واجنی ٔ کے ہونے چاہئیں شکری کے نہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیںکہ موجودہ واجنی ٔسنہتا کے منتروں کی تعداد ۱۹۷۵ء ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوجاتاہے کہ شکری کے منتر ۱۹۰۰ میں ہی گھسے ہیں اور باقی ۷۵ منتر کہیں باہر سے لا کر جوڑے گئے ہیں‘‘۔
ظاہر ہے کہ یہ بیان ویدوں کو تحریف سے بَری نہیں کرتا بلکہ انہیں تحریف کا اقرار کراتا ہے۔ اِن حوالہ جات سے صاف ظاہر ہے کہ ویدوں کے پُرانے اور جدید علماء سب اِس بات پر متفق ہیں کہ ویدوں میں دوسرے لوگوں کے منتر بھی شامل ہو گئے ہیں۔ یہ کہنا کہ براہمنوں نے دریافت کر لیا تھا کہ فلاں منتر بناوٹی ہے اور فلاں اصلی ، یہ ایک بے معنی چیز ہے۔ اگر وید کے علماء کو یقین ہو گیا ہے کہ فلاںفلاں منتر بناوٹی ہے تو اُن کو نکال کیوں نہیں دیا۔ ان کا ویدوں کے اندر رکھنا بتاتا ہے کہ ویدوں کے علماء کو یقین نہ تھا۔ چنانچہ آریہ سماج کے مصنف نے آخر میں یہی لکھ دیا ہے کہ یجروید کے ۱۹۰۰ منتر اصلی ہیں باقی ۷۵ منتر کہیں باہر سے لا کر جوڑے گئے ہیں۔ اور ان ۱۹۰۰ کے متعلق بھی لکھ دیا ہے کہ ان میں بھی کچھ شکری کے منتر ہیں’’ باقی‘‘ اور’’کچھ‘‘ کے الفاظ بتاتے ہیںکہ حقیقت کسی کو بھی معلوم نہیں۔ ساری بنیادو ہم و قیاس پر رکھی جاتی ہے۔ مگر کیا واہمہ پر رکھی ہوئی بنیاد روحانیت کو کچھ فائدہ پہنچا سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ سے اتھرووید کی اصلیت کے متعلق شبہ پیدا ہوتا چلا آیا ہے اور یجروید اور رگ وید بھی اِسی طرح آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اِدھر کے منتر اُڑا کر کسی نے اُدھر رکھ دئیے ہیں جہاں اِس قدر گڑ بڑ ہو وہاں کوئی شخص قطعی طور پر یہ فیصلہ کس طرحکر سکتا ہے کہ فلاں منتر خد اکی طرف سے ہے اور فلاں منتر لوگوں کا داخل کردہ ہے۔ اور جس کتاب کے متعلق ایسے شک و شبہات پیدا ہو چکے ہوں اُس پر دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کی بنیاد رکھی ہی کب جا سکتی ہے۔ یقینا جب کسی کتاب کی یہ حالت ہو جائے تو اس کے بعد کسی اور کتاب کی ضرورت ہوگی جو انسانی دست بُرد سے پاک اور محفوظ ہو اور جس پر انسان یقین اور قطعیت کے ساتھ اپنے عقیدوں کی بنیاد رکھ سکے اور جس کے متعلق وہ ویسا ہی یقین رکھے جیسے اُسے سورج اور چاند بلکہ اپنے نفس کے وجود پر یقین ہے اور وہ کہہ سکے کہ اس کا لفظ لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں اُس کی رہنمائی میں یقینا خدا تعالیٰ کو پا سکتا ہوں اور ا س ضرورت کو پورا کرنے والی کتاب قرآن کریم ہے۔
ویدوں میں ظالمانہ احکام
۱۔ اتھرووید کانڈ نمبر ۴ سُوکت ۲۲ منتر میں لکھا ہے:۔
’’اے ویدک دھرمی راجائو اور دوسرے ویدک دھرمیو! تم شیرجیسے بن کر رعیتوں کو کھا جائو اور چیتے جیسے بن کر اپنے دشمنوں کو با ندھ کر جکڑ لو۔ اس کے بعد اپنی مخالفت کرنے والوں کے کھانے تک اُٹھا لو۔‘‘
۲۔ سام وید اُتر آرچک پرپھاٹک گیارہ منتر میں لکھا ہے:۔
’’اے مخالف تم سرکٹے ہوئے سانپوں کی طرح بے سر اور اندھے ہوجائو۔ اس کے بعد پھر جو تم میں چیدہ چیدہ ہوں اُن کو اِندر اور آگ دیوتا تباہ کریں‘‘۔
۳۔ سام وید اُتر آرچک ادھیائے اا منتر ۱میں لکھا ہے:۔
’’ اے اِندر دیوتا! ہمارا دیا ہوا سوم رس تجھے خوش اورمتوالا کرے تُو ہمیں دھن و دولت دے اور وید کے دشمنوں کو تباہ اور ہلاک کر‘‘۔
۴۔ سام وید اُتر آرچک ادھیائے ۱۰ منتر۳ میں لکھا ہے:۔
’’ اے اِندر دیوتا تو غیر ویدک دھرمیوں کو کب یوں کچل کر تباہ کرے گا جیسے چھتری دار پھول کو پائوں سے کچل کر تباہ کر دیا جاتا ہے۔ا ے اِندر! تُو کب تک ہماری اِن دعائوں کو سنے گا‘‘۔
۵۔ اتھرووید کانڈ نمبر ۱۹ سُوکت ۲۸ منتر ۴ تا ۱۰ میں لکھا ہے:۔
’’ اے دبھ! تُو ہمارے دشمنوں کے دلوں کو توڑ دے جیسے تُو اُگتے وقت میں زمین کی کھال کو چیرتی ہوئی اُوپر کو نکل آتی ہے ویسے ہی اِن ہمارے دشمنوں کے سروں کو چیر کر اُوپر کو نکل کر اِن کو گرا کر تباہ کر دے‘‘۔
۶۔ اتھرووید کانڈ نمبر ۱۹ سُوکت ۲۹ منتر ۱ تا ۹ میں لکھا ہے:۔
’’ اے دبھ! تو میرے دشمنوں اور مقابلہ کرنے والوں کو چبھ اور میرے دوسرے ہر قسم کے مخالفین کو بھی چبھ جا۔ اے دبھ! میرے دشمنوں اور مقابلہ کرنے والوں کو تباہ کر اور ہمارے مخالفین کو بھی تباہ و برباد کر وغیرہ وغیرہ‘‘۔
۷۔ یجر وید ادھیائے ۲۷ منتر ۲ میں لکھا ہے:۔
’’ا ے آگ ہم براہمن لوگ جو تیرے پجاری ہیں تُو ہمیں عزت و دولت دے مگر ہمارے مخالفوں کو سمجھ نہ دے‘‘۔
۸۔ یجر وید ادھیائے ۱۱ منتر ۸۰ میں لکھا ہے۔
’’ اے آگ دیوتا جو لوگ ہم کو دھن و دولت نہیں دیتے بلکہ ہماری مخالفت کرتے ہیں، تُواُن کو جلا کر راکھ کر دے‘‘۔
ویدوں کے علاوہ دوسری مذہبی کتب میں بھی اِسی قسم کی تعلیم ہے۔ چنانچہ منوسمرتی جو تمام ہندوئوں کے نزدیک ویدوں کی حقیقی تفسیر ہے اُس میں لکھا ہے کہ:۔
’’ویدوں پر اعتراض کرنے والوں کو ملک سے باہر نکال دو۔‘‘۹۰؎
۹۔ ’’جو شودربراہمن کے برابر بیٹھنا چاہے راجہ یا تو اُس کی کمر پر گرم لوہے کے داغ دے، اُسے ملک سے نکال دے یا سرین کٹوا دے‘‘۔
۱۰۔ پھر ادھیائے نمبر ۸ شلوک ۴۱ میں بھی لکھا ہے کہ:۔
’’ براہمن بغیر کسی شک و شبہ کے شودر کا مال ودولت لے لے کیونکہ شودر کا تو اپنا کچھ بھی نہیں بلکہ اُس کا سب کچھ اُس کے مالک براہمن کا ہی ہے‘‘۔
۱۱۔ ادھیائے نمبر ۸شلوک ۴۱۳ میں لکھا ہے:۔
’’ شودر چاہے براہمن کا خریدا ہو اہو یا نہ خریدا ہوا ہو براہمن اُس سے ضرور غلامی کرائے کیونکہ برہما جی نے شودر کو پیدا ہی غلامی کے لئے کیا ہے‘‘۔
۱۲۔ پھرادھیائے نمبر ۸ شلوک ۴۱۴ میں لکھا ہے:۔
’’ شودر آزاد کرنے پر بھی آزاد نہیں ہو سکتا بلکہ غلام ہی رہتا ہے کیونکہ غلامی شودر کی فطرتی چیز ہے وہ بھلا اُس سے علیحدہ ہو سکتی ہے‘‘۔
۱۳۔ پھر ادھیائے نمبر ۸ شلوک ۲۷۲ میں لکھا ہے:۔
’’ اگر شودر فخر کے ساتھ مذہبی مسائل بتانے شروع کر دے تو تیل کو خوب گرم کر کے اُس کے کانوں میں بھر دو‘‘۔
اس تعلیم سے ظاہر ہے کہ ہندو دھرم کے نزدیک سوائے چند مخصوص ذاتوں کے باقی سب لوگ خدا تعالیٰ کے فضل اور اُس کے رحم سے محروم ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہیں جن کے لئے ویدوں کا پڑھنایا سنایا جانا گناہ ہے اور اگر وہ ایسی عبادت سے کام لیں کہ ویدوں کو پڑھیں یا سنیں یا یاد کریں تو اُن کو سخت سے سخت سزا دینی چاہئے حتیٰ کہ اُنہیں قتل تک کر دینا چاہئے۔ یہ تعلیم بتاتی ہے کہ ویدک دھرم صرف چند اقوام کے لئے تھا اور عالمگیر مذہب نہیں تھا۔ برہمنوں، کھتریوں اور ویشوں کے سِوا خدا تعالیٰ کی بہت سی مخلوق دنیا میں اور بھی پائی جاتی ہے۔ یہ قومیں تو صرف ہندوستان کی آبادی کا ایک حصہ ہیں مگر اُن سے کئی گناآبادی اور ہندوستان سے باہر ملتی ہے۔ اِس تعلیم کی موجودگی میں کون کہہ سکتا ہے کہ وہ لوگ کسی صورت میں بھی ہدایت پا سکتے ہیں۔ مگر کیا خدائے رحیم و کریم کا یہ قانون ہو سکتا ہے؟ کیا ممکن ہے کہ وہ دنیا کے ایک حصہ کو ہدایت کے لئے پیدا کر دے اور دوسرے حصہ کو اپنی تقدیر کے ساتھ دوزخی بنادے؟ یقینا یہ تعلیم نہ صرف ظالمانہ ہے بلکہ خدا تعالیٰ پر بھی نہایت گندہ الزام لگانے والی ہے۔ ہمارا خدا وہ مہربان آقا ہے جس کے احسانوں سے دنیا کا کوئی بھی گوشہ خالی نہیں ہے۔ زمین کے اوپر بسنے والی مخلوق اور زمین کے نیچے بسنے والی مخلوق اور ہوائوں میں اُڑنے والی مخلوق ساری کی ساری اپنی قابلیت اور اپنی طاقتوں کے مطابق اُس کے فضلوںاور اُس کے احسانوں کے نیچے پرورش پا رہی ہے۔ا س نے تمام بنی نوع انسان کو ایک قسم کے دماغ اور ایک قسم کے افکار اور ایک قسم کی قوتیں عطا کی ہیں۔ وہ پاکیزہ جذبات جو انسان کو روحانیت کی اعلیٰ فضا میں اُڑا کر لے جاتے ہیںاُن سے ہمیں نہ یورپ کے لوگ محروم نظر آتے ہیں نہ امریکہ کے لوگ محروم نظر آتے ہیں نہ ایشیا کے لوگ محروم نظر آتے ہیں نہ ہندوئوں کے دل اُن سے زیادہ پاک ہیں نہ اُن کی فکریں اُن سے زیادہ بلند ہیں۔ پھر کیسے ہو سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی اکثر مخلوق کو ہدایت سے محروم کرد یتا اور صرف ۶/۱ مخلوق کو ہدایت کا اہل قرار دیتا ۔ یہ تعلیم خود چلا چلا کر کہہ رہی ہے کہ ویدوں کے بعد ایک اور ایسی کتاب کی دنیا کو ضرورت تھی جو ساری دنیا کو خد اتعالیٰ کی ہدایت کے لئے بلائے اور عجمی او ر عربی کوایک صف میں لا کر کھڑا کر دے اور وہ تمام بنی نوع انسان کی ہمددری اور محبت کی تعلیم دینے والی ہو اور ذلیل اور ادنیٰ اقوام اُس کے نزدیک حقیر نہ ہوں بلکہ دوسروں سے زیادہ قابل امداد اور دوسروں سے زیادہ قابل رحم اور دوسروں سے زیادہ قابل ہمدردی ہوں اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے قرآن کریم نازل ہوا تھا۔
ویدوں میں توہمات
وید ایسی تعلیموں سے بھی بھرے ہوئے ہیں جو محض توہمات پر مبنی ہیں۔ مثلاً ویدوں میں عناصر کو دیوتائوں کی صورت میں پیش کیا
گیا ہے۔ آجکل بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف صفاتِ الٰہیہ کے نام ہیں مگر ہم ویدوں میں دیکھتے ہیں کہ آگ جلا کر اُس پر تیل اور دوسری قیمتی چیزیں چھڑکنے کا حکم ہے جیسا کہ رگوید کی دوسری کتاب کے دسویں منتر کے چوتھے شلوک سے ثابت ہوتا ہے اور اِن چیزوں کے چھڑکنے کے متعلق یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ گویا اگنی کی خوراک ہیں۔ا گراگنی وغیرہ صفاتِ الٰہیہ ہیں تو پھر آگ جلا کر اُن پر تیل اور دوسری چیزیں چھڑکنے کے معنی کیا ہوئے؟ اور ان چیزوں کو آگ کی خوراک قرار دینے کے کیا معنی ہوئے؟ اگر یہ صفاتِ الٰہیہ ہیں تو پھر ظاہر میں آگ جلا کر اُن پر تیل وغیرہ چھڑکنامحض ایک وہم ہے اور اگر یہ چیزیں دیوتا تسلیم کی گئی ہیںتو اُن کا دیوتا تسلیم کرنا خود ایک وہم ہے۔ بہرحال کوئی معنی لے لئے جائیں وہم ہی کی تعلیم اس سے نکلتی ہے۔
اِ سی طرح رگوید کی دوسری کتاب کے گیارہویں ادھیائے کے گیارہویں شلوک میں لکھا ہے:
’’ او اِندر! تُو سوم پی اور یہ خوشی دینے والا رس تجھے خوشی پہنچائے‘‘۔
اب اِندریا تو فرشتوں کا نام قرار دیا جا سکتا ہے یاخداتعالیٰ کا۔ اگر یہ خدا تعالیٰ کا نام ہے تب بھی سوم کا رس خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرنا ایک نہایت ہی ادنیٰ قسم کا وہم ہے۔ اور اگر اِندر کسی فرشتے یا اور کسی روح کا نام ہے تب بھی اُس کے آگے سوم کارس پیش کرنا ایک نہایت ہی ادنیٰ وہم ہے کیونکہ خد اتعالیٰ کی ہستی وراء الورا ہے اور اُس کے فرشتے روحانی وجود ہیںاُن کے لئے کسی شربت کے پینے یا پلانے کا خیال کرنا بھی ایک نہایت ہی مضحکہ خیز خیال ہے۔
پھر اِسی ادھیائے کے پندرھویں منتر میںلکھا ہے۔
’’ او اِندر ! تو سوم کا رس پی تاکہ تجھے طاقت اور خوشی آئے‘‘۔
خدا تعالیٰ یا اُس کے فرشتوں کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ سوم کا رس اُن کو طاقت بخشتا ہے یہ بھی کتنا مضحکہ انگیز خیال ہے۔
یہ ایک دومنتر نہیں بلکہ سینکڑوں منترویدں میں ایسے پائے جاتے ہیں جو اس قسم کی وہم والی تعلیمیں پیش کرتے ہیں۔ دیوتائوں کا آسمانوں پر کبھی بادلوں پر سواری کر نا اور کبھی رتھوں پر چڑھنا یہ اور اِسی قسم کے بہت سے خیالات ویدوں میں بھرے ہوئے ہیں۔
ویدوں کی خلافِ اخلاق تعلیم
ویدوں میں بہت سی خلافِ اخلاق تعلیم بھی ہے، لیکن وہ اتنی عریاں ہے کہ تفصیل کے ساتھ بیان
نہیں کی جا سکتی۔ اس میں شہوانی قوتوں اور شہوانی اعضاء کے متعلق ایسی ایسی باتیں بیان کی گئی ہیں کہ جو اس عریانی کے ساتھ طب کی کتابوں میں بھی لکھنی جائز نہیں۔
اِن تمام وجوہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وید جس کے بہت سے حصے اِس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے ہوں گے ا ِن میں انسانوں نے ایسی تعلیمیں ملا دی ہیں کہ جن کی بناء پر اب وہ قابل عمل نہیں رہے اور یقینا اِس خرابی کے بعد جو ویدوں میں آج سے سینکڑوں سال پہلے واقعہ ہو چکی ہے ایک ایسے کلام کی ضرورت تھی جو اِن تمام نقائص سے پاک ہو اوروہ کلام قرآن کریم ہے۔
ویدوں میں تناقض
چونکہ ویدوں میںمختلف زمانوں میں مختلف لوگوں نے دست اندازی کی ہے اِس لئے اُن کے مضامین میں بہت کچھ
تناقض بھی پیدا ہو گیا ہے۔ چنانچہ ہم ذیل میں اس تناقض کی چند مثالیں بیان کرتے ہیں:۔
۱۔ ویدوں میں یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ سورج کو کس نے پیدا کیا ہے؟ اور اِس کا جواب مختلف ویدوں میں دیا گیا ہے۔ چنانچہ رگوید منڈل نمبر ۹ سُوکت ۹۶ منتر نمبر ۵ میں لکھا ہے:
ــ’’سورج کواکیلے سوم دیوتا نے پید ا کیا تھا‘‘۔
لیکن رگوید منڈل نمبر ۸ سُوکت ۳۶ منتر نمبر ۴ میںلکھا ہے:۔
’’سورج کو اکیلے اِندر دیوتا نے پید اکیا تھا‘‘۔
یہ عجیب بات ہے کہ وہی کتاب ایک باب میں تو کہتی ہے کہ سورج کو اکیلے سوم دیوتا نے پید اکیا تھا اور دوسرے باب میں یہ کہتی ہے کہ سورج کو اکیلے اِندر دیوتا نے پید ا کیا تھا، لیکن دوسرے وید تو اور بھی کمال کر دیتے ہیں ۔یجر وید ادھیائے ۱۳ منتر ۱۲ میں لکھاہے :۔
’’ سورج کو اکیلے برہما نے اپنی آنکھ سے پیدا کیا تھا‘‘۔
گویا رگویدتو اکیلے سوم دیوتا اور اکیلے اِندر دیوتا سے سورج کو پید اشدہ قرار دیتا ہے لیکن یجر وید نہ اُسے سوم دیوتا کا پیدا کیا ہوا قرار دیتا ہے نہ اِندر دیوتا کا بلکہ اُسے برہما دیوتا کا پیدا کیا ہو ابتاتا ہے اور بتاتا ہے کہ اُسے برہما نے پیدا بھی اپنی آنکھ سے کیا تھا۔ اتھرو وید اس کے بالکل خلاف ایک اور ہی حقیقت بیان کرتا ہے۔ اِس میں لکھا ہے:۔
’’ سب دیوتائوں نے مل کر سورج کو پیدا کیا تھا‘‘۔۹۱؎
اتھر ووید کی اِس روایت نے حقیقت بالکل ہی بدل دی۔ وہ سورج کو نہ اکیلے سوم دیوتا کا پیدا کیا ہوا قرار دیتا ہے نہ اِندر دیوتا کا نہ بر ہما کا بلکہ وہ سب دیوتائوں کو اُس کی پیدائش میں شریک قرار دیتا ہے۔
۲۔ ویدوںسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج پہلے ز مین پر تھا پھر اُس کو اُٹھا کر آسمان پر لے گئے۔ علمِ ہیئت کے لحاظ سے یہ بات کیسی ہی عجیب کیوں نہ ہو میں اِس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اِس حکایت کی تفصیلات کے متعلق بھی ویدوں میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔کرشن یجر وید تیتری سنگتا میں لکھا ہے:۔
’’ سورج پہلے زمین پر تھا۔ دیوتا اپنی پیٹھوں پر اُسے رکھ کر اُوپر جنت میں لے گئے اور وہیں رکھ دیا‘‘۔
کرشن یجر وید میں لکھا ہے:۔
’’ سورج کو صرف ورن دیوتا ہی زمین سے اُٹھا کر اوپر جنت میں لے گیا تھا‘‘۔
لیکن رگوید منڈل نمبر ۱۰ سُوکت ۱۵۶ منتر ۴ میں لکھا ہے:۔
’’ اکیلے آگ دیوتا نے سورج کو اوپر جنت میں لے جا کررکھا تھا‘‘
اور رگو ید منڈل نمبر ۱۰ منتر ۳ میں لکھا ہے:۔
’’ سورج کو انگرارشی کی اولاد نے اوپر لے جا کر جنت میں رکھا تھا‘‘۔
اتھرو وید کانڈ نمبر ۱۳ سُوکت نمبر۲ منتر نمبر ۲ ۱ میں لکھا ہے:۔
’’ اے سورج! تجھے اوپر جنت میں لے جا کر صرف اکیلے اتری رشی نے اِس لئے رکھا تھا تاکہ تو مہینوں کو بنایا کرے‘‘۔
شکل یجر وید ادھیائے نمبر ۴ منتر ۳۱ میں لکھا ہے:۔
’’ سورج کو اوپر لے جا کر اکیلے ورن دیوتا نے ہی رکھا تھا‘‘۔
قطع نظر اِس کے کہ سورج کو زمین سے اُٹھا کر آسمان پر رکھنے کا عقیدہ کیسا مضحکہ خیز ہے اور بتاتا ہے کہ پرانے زمانہ کے ہندوئوں میں یہ خیال تھا کہ سورج ایک بہت چھوٹی سی چیز ہے اور زمین کے کسی گوشہ میں رکھی جا سکتی ہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ اس مضحکہ انگیز خیال کے مطابق بھی اتنی متضاد روایتیں ہیں کہ وہ تضاد خود اپنی ذات میں مضحکہ انگیز ہو جاتا ہے۔ صرف رگوید کی مختلف فصلوں میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ ایک فصل میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ آگ دیوتا نے سورج کو اُٹھا کر آسمان پر رکھا لیکن اس کتاب کی دوسری فصل میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نہیںبلکہ اِندر دیوتا نے ایسا کیا۔ اور پھر اسی کتاب کے ایک اور منتر میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ کام اِن دونوں ہی نے نہیں کیا تھا بلکہ انگرارشی کی اولاد نے یہ کام کیا تھا۔ اسی طرح یجر وید میں ایک جگہ تو یہ کہا ہے کہ سورج کوتمام دیوتا اپنی پیٹھ پر اُٹھا کر لے گئے لیکن دوسری جگہ یہ لکھا ہے کہ سورج کو اکیلے ورن دیوتا نے زمین سے اُٹھا کر آسمان پر رکھا۔ اتھرو وید اِن سب سے نرالی حکایت بیان کرتا ہے اور اتری رشی کو اس غیرمعمولی شان کے کام کے لئے مخصوص کرتا ہے۔
۳۔ زمین و آسمان کی پیدائش کے متعلق بھی ویدوں نے بعض حقائق بیان کئے ہیں۔ لیکن وہ حقائق بھی ایک دوسرے سے ایسے ہی مختلف ہیں جیسا کہ جنوں اور پریوں کی کہانیاں آپس میں مختلف ہوتی ہیں۔
سام وید پورد آرچک میں لکھا ہے:۔
’’ زمین وآسمان کو اکیلے سوم دیوتا نے پیدا کیا تھا‘‘۔
لیکن رگوید منڈل نمبر۸ سُوکت ۲۶ منتر ۴ میں لکھا ہے:۔
’’ زمین و آسمان کو سوم رس پینے والے اکیلے اِندر دیوتا نے ہی پیدا کیا تھا‘‘۔
مگر اسی رگوید کے منڈل نمبر ۲ سُوکت ۴۰ منتر ۱ میں لکھا ہے:۔
’’ زمین وآسمان کو پوشا دیوتا اور سوم دیوتا دونوں نے مل کر پید اکیا تھا‘‘۔
مگریجر وید کہتا ہے کہ:۔
’’ زمین و آسمان کو اکیلے برہما نے پیدا کیاتھا‘‘۔
منو سمرتی دشت پتھ برہمن میں لکھا ہے:۔
’’ زمین و آسمان کو اکیلے پرجا پتی نے ہی پیدا کیا تھا‘‘۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ منو سمرتی وید نہیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہندو قوم اِس کو ویدوں کی صحیح تفسیر قرار دیتی ہے اصل ویدوں میں بھی زمین وآسمان کی پیدائش کے متعلق کچھ کم اختلاف نہیں تھا کہ منوجی نے اِس اختلاف کو اَور بھی اُبھار دیا۔سام وید سوم دیوتا کو زمین و آسمان کی پیدائش کا موجب قرار دیتا ہے لیکن رگوید ایک جگہ اِندر دیوتا کو اور دوسری جگہ پوشا دیوتا اور سوم دیوتا کو زمین وآسمان کی پیدائش کا موجب قرار دیتا ہے۔ مگر منوجی نے اِن تمام ویدوں کی تشریح کرتے ہوئے سوم اور اِندر اور پوشا اور برہما سب کو پیدائش کائنات سے جواب دے دیا اور پرجا پتی کو ان کا پیدا کرنے والا قرار دے دیا۔
دیوتائوں کی تعداد کے متعلق اختلاف
۴۔ گو ہم مانتے ہیں کہ وید جب بھی نازل ہوئے تھے خدا تعالیٰ کی
طرف سے نازل ہوئے تھے اور یقینا وہ توحید کی تعلیم پر مشتمل تھے مگر موجودہ وید وہ نہیں جو کہ شروع میں رشیوں پر نازل ہوئے تھے۔ ان میںکثرت کے ساتھ شرک کی تعلیم پائی جاتی ہے بلکہ اس کثرت کے ساتھ کہ اس نے توحید کی تعلیم کو دبا لیا ہے۔ چنانچہ اِس بارہ میں بھی جو تعلیم ویدوں میں بیان ہوئی ہے اُس کی ہم چند مثالیں دیتے ہیں:۔
یجروید میں لکھا ہے کہ:۔
’’دیوتا کل ۳۳ ہیں۔ ۱۱زمین میں ۱۱ آسمان اور ۱۱ اُوپر جنت میں‘‘۔
رگوید منڈل نمبر ۳ سُوکت۹ منتر ۹ میں لکھا ہے کل دیوتا ۳۳۴۰ ہیں۔۳۳۴۰ کی تعداد اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ رگوید کے بیان کے مطابق ۳۳۳۹ دیوتائوں نے مل کر آگ دیوتا کو گھی سے سینچا اور اُس کے پاس گئے۔ پس ۳۳۳۹ میں ایک جمع ہوا تو ۳۳۴۰ ہو گئے۔ چنانچہ رگوید منڈل نمبر ۱۰ سُوکت نمبر ۵۲ منتر ۶ میں صاف الفاظ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کل دیوتا ۳۳۴۰ہیں۔
ویدوں میں دیوتائوں کے متعلق اتنا اختلاف حیرت انگیز ہے کہیجر وید میں تو دیوتا ۳۳ قرار دیئے گئے ہیں اور رگوید میں ۳۳۴۰۔ توحید کو چھوڑنا ہی ایک نہایت خطرناک بات تھی مگر جو خیالی دیوتا تجویز کئے گئے ان کی تعداد میں بھی اتنا اختلاف کہ وہ کبھی ۳۳ ہو جاتے ہیں اور کبھی۳۳۴۰۔ یہ اختلاف یقینا انسان کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ بے شک جب وید نازل ہوئے ہوں گے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں گے مگر موجودہ وید ہرگز انسان کی روحانیت کو تسلی نہیں دے سکتے اور اِن کے بعد اور ان کے باوجود بھی ایک ایسی کتاب کی دنیا کو ضرورت تھی جو ہر قسم کی خلافِ اخلاق، متناقض، ظالمانہ اور وہموں سے پُر تعلیموں سے پاک ہو اور یہی کتاب قرآن کریم ہے۔
چوتھا سوال اور اُس کا جواب
چوتھا سوال جو پہلی کتب کی موجودگی میں قرآن کریم کے نزول کی ضرورت کے متعلق روشنی ڈال سکتا ہے یہ ہے کہ کیا سابق مذاہب اپنی تعلیم کو حتمی اور آخری قرار دے رہے تھے؟ یا وہ خود بھی ایک ارتقاء کے قائل تھے؟ اور روحانیت کی ترقی کے لئے ایک ایسے نقطہ کی خبر دے رہے تھے جس پر جمع ہو کر بنی نوع کو انسانی پیدائش کے مقصد کوحاصل کرنا تھا؟
بائبل میں قرآن مجید کے نزول اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے متعلق پیشگوئیاں
اس سوال کے متعلق یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ انبیاء کی ایک مسلسل کڑی جو ہمیں
الٰہی منشاء سے آگاہ کر سکے درحقیقت ہمیں بائبل میں ہی ملتی ہے۔ انبیاء کے حالات کو محفوظ رکھنے میں بائبل نے جو کام کیا وہ قرآن کریم سے پہلے اور کسی کتاب نے نہیں کیا اِس لئے ہم اس سوال کا جواب دینے کیلئے کہ آیا پہلی کتابیں اپنے بعد کسی اور کتاب کی اور پہلے نبی اپنے بعد کسی اور نبی کی خبر دیتے ہیں یا نہیں جو دنیا میں ہدایت اور راستی کی تعلیم کو مکمل کرنے والا اوربنی نوع انسان کی روحانی ترقی کا آخری نقطہ بننے والا تھا، بائبل پر نظر ڈالتے ہیں۔
پہلی پیشگوئی۔ حضرت ابراہیم
کی اولاد سے وعدہ
بائبل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام سے خدا تعالیٰ کے بہت سے وعدے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کسدیوں کے اُور
میںپیدا ہوئے اور وہاں سے اپنے باپ کے ساتھ ہجرت کر کے کنعان کی طرف روانہ ہوئے لیکن اُن کے والد حاران میں آکر ٹھہر گئے۔ اُن کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ حاران سے نکل کر کنعان کوروانہ ہوں اور فرمایا:۔
’’ اور میں تجھے ایک بڑی قوم بنائوں گا اور تجھ کو مبارک اور تیرا نام بڑا کروں گا اور تُو ایک برکت ہو گا اور اُن کو جو تجھے برکت دیتے ہیں برکت دوں گا اور اُس کو جوتجھ پر *** کرتا ہے *** کروں گا اور دنیا کے سب گھرانے تجھ سے برکت پاویں گے‘‘۔ ۹۲؎
اسی طرح لکھا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا:۔
’’ کہ یہ تمام ملک جو تُو اب دیکھتا ہے میں تجھ کو اور تیری نسل کو ہمیشہ کے لئے دوںگا‘‘۔۹۳؎
پھر پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۰ تا ۱۲ میں لکھا ہے:۔
’’ پھر خدا وند کے فرشتے نے اُسے ( یعنی ہاجرہ سے) کہا کہ میں تیری اولاد کو بہت بڑھائوںگاکہ وہ کثرت سے گنی نہ جائے اور خداوند کے فرشتے نے اُسے کہا کہ تُو حاملہ ہے اور ایک بیٹا جنے گی اُس کا نام اسماعیل رکھنا کہ خداو ند نے تیرا دُکھ سن لیا۔ وہ گورخر سا ہو گا اُس کا ہاتھ سب کے اور سب کے ہاتھ اُس کے برخلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بودوباش کرے گا‘‘۔
پھر اسی بائبل میں لکھا ہے:۔
’’ پھر خدا نے ابراہام سے کہا کہ تُو اور تیرے بعد تیری نسل پشت درپشت میرے عہد کو نگاہ رکھیں اور میر اعہد جومیرے اور تمہارے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے جسے تم یاد رکھو سو یہ ہے کہ تم میںسے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیاجائے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کرو اور یہ اُس عہد کا نشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے‘‘۔۹۴؎
پھر لکھا ہے:۔
’’ اور وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہیں ہوا وہی شخص اپنے لوگوں میں سے کٹ جائے کہ اُس نے میرا عہد توڑا‘‘۔۹۵؎
پھر لکھا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ کو بھی ایک بیٹے کی بشارت دی تھی اور فرمایا کہ:۔
’’ میں اُسے برکت دوں گا اور اُس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا یقینا میںاُسے برکت بخشوں گا یقینا میں اُسے برکت دوں گا اوروہ قوموں کی ماں ہو گی اورملکوں کے بادشاہ اُس سے پیدا ہوں گے‘‘۔۹۶؎
پھر سارہ کی اولاد کے متعلق لکھا ہے کہ:۔
’’ میں اُس سے اور بعد اُس کے اُس کی اولاد سے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہے قائم کروںگا‘‘۔۹۷؎
پھر اسماعیل کے متعلق لکھا ہے:۔
’’ اور اسماعیل کے حق میں میَں نے تیری سنی۔ ۹۸؎
اسماعیل کے حق میں حضرت ابراہیم نے یہ دعا کی تھی کہ:۔
’’کاش! کہ اسماعیل تیرے حضور جیتا رہے‘‘۔۹۹؎
’’دیکھ! میں اُسے برکت دوں گا اور اُسے برو مند کروں گا اور اُسے بہت بڑھائوںگا اور اُس سے ۱۲ سردار پیدا ہوںگے اور میں اُسے بڑی قوم بنائوں گالیکن میں اضحاق کو جس کو سرہ دوسرے سال اُسی وقت معین میں جنے گی اپنا عہد قائم کروںگا‘‘۔۱۰۰؎
پھر لکھا ہے:۔
’’ اور اُس لونڈی کے بیٹے سے بھی میں ایک قوم پیدا کروںگا ا س لئے کہ وہ بھی تیری نسل ہے‘‘۔۱۰۱؎
پھر حضرت اسماعیل کے متعلق لکھا ہے۔ خدا نے حضرت ہاجرہ کو الہام کیا کہ:۔
’’ اس لڑکے کی آواز جہاں وہ پڑا ہے خدا نے سنی۔ اُٹھ اور لڑکے کواُٹھا اور اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اُس کو ایک بڑی قوم بنائوں گا‘‘۔۱۰۲؎
پھر لکھا ہے :۔
’’ خد ا ا س لڑکے کے ساتھ تھا اور وہ بڑھا اور بیابان میں رہا کیا اور تیر اَنداز ہو گیا اور وہ فاران کے بیابان میں رہا اور اُس کی ماں نے ملک مصر سے ایک عورت اُس سے بیاہنے کو لی‘‘۔۱۰۳؎
اِن حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے اسمٰعیل اور اسحاق تھے۔ اسمٰعیل بڑے بیٹے تھے اور اسحاق دوسرے بیٹے تھے خدا تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے عہد تھا کہ وہ اُن کی نسل کو بڑھائے گا اور بابرکت کرے گا۔ یہ بابرکت کرنے کے الفاظ حضرت اسحاق ؑ کے متعلق بھی ہیں اور حضرت اسماعیل ؑ کے متعلق بھی ہیں۔ اِسی طرح نسل کے بڑھانے کے الفاظ بھی حضرت اسحاقؑ کے متعلق بھی ہیں اور حضرت اسماعیل ؑ کے متعلق بھی ہیں اوریہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسمٰعیل فاران کے بیابان میں رہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کنعان کی زمین حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کو دے دی گئی تھی اور پھر یہ بھی کہ خدا تعالیٰ کے اس عہد کی علامت یہ ہوگی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نرینہ نسل کا ختنہ کیا جائے گا۔ اِن پیشگوئیوں کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اسحاقؑ کی نسل کو بڑی ترقی نصیب ہوئی اور خد اتعالیٰ نے جو عہد حضرت اسحاقؑ سے باندھا تھا وہ بڑی شان سے پورا ہوا۔ حضرت موسیٰ اور حضرت دائود اور حضرت حزقیل اور حضرت دانی ایل اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام اُن کی نسل سے ظاہر ہوئے اوردنیا کے لئے بڑی رحمت کا موجب ثابت ہوئے۔ کنعان کا ملک دو ہزار سال تک اُن کے قبضہ میں رہا سوائے ایک خفیف وقفہ کے کہ اس وقفہ میں بھی وہ ملک کلی طور پر اُن کے ہاتھ سے نہیں نکلا۔ صرف وہ اس میں کمزور ہو گئے تھے۔ لیکن ساتویں صدی بعد مسیح میں اسحاق کی اولاد اور موسیٰ کی تعلیم پر ظاہری طور پر چلنے والے لوگوں کو کلی طور پر کنعان کے ملک سے دست بردار ہونا پڑا اور اس ملک میں اسمٰعیل کی اولاد سیاسی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی غالب آگئی۔ بنی اسرائیل کا اُس زمانہ میں کنعان سے نکالا جانا صاف بتاتا ہے کہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی معرفت جو وعدہ کیا گیا تھا اب اُس کے مستحق بنی اسرائیل یا اُن کے متعلق خاندان نہیں رہے تھے مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں قیامت تک یہ ملک بنی اسرائیل کے قبضہ میں رکھوں گا اور خدا کی بات جھوٹی نہیں ہو سکتی۔ پس صاف ظاہر ہے کہ قیامت کے معنی ظاہری قیامت کے نہیں بلکہ ایک نئی شریعت کے ظہور کے ہیں جو الہامی اصطلاح میں نیا آسمان اور نئی زمین بنانا کہلاتا ہے اور لازماً قیامت کے برپا ہوئے بغیر نیا آسمان اور نئی زمین نہیں بنائے جا سکتے۔ پس قیامت تک بنواسحاق کے قبضہ کے یہی معنی تھے کہ جب ایک نیا شرعی نبی آئے گا تو اُس وقت یہ ملک بنو اسحاق کے قبضہ میں نہ رہے گا۔ چنانچہ اِس طرف حضرت دائودؑ کے ایک کلام سے اشارہ بھی نکلتا ہے جہاں تورات میں لکھا ہے کہ قیامت تک بنو اسحاق ا س ملک پر قابض رہیں گے وہاں حضرت دائودؑ نے اِس پیشگوئی کو دوسرے الفاظ میں پیش کیا ہے وہ فرماتے ہیں:۔
’’ صادق زمین کے وارث ہوںگے اور ابد تک اُس میں بسیں گے‘‘۔۱۰۴؎
اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنواسحاق کی تباہی کا وقت قریب آرہا تھا۔ا ب نبیوں کا کلام دنیا کی توجہ اِس طرف پھر ارہا تھا کہ اب وہ نسلی وعدہ بدل کر روحانی شکل اختیار کرنے والا ہے اور بنو اسمٰعیل راستباز بن کر ابراہیمی پیشگوئیوں کے وارث بننے والے ہیں اور ایک نیا عہداُن کے ذریعہ سے شروع ہونے والا ہے۔ا گر یہ بات نہیں تو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ماننے والے بنواسمٰعیل کو فلسطین کی زمین میں کیوں غالب کر دیا۔ اُس نے تو صاف طور پر عہد کیا تھا کہ فلسطین کی زمین بنو اسحاق کو دی جائے گی۔ اگر وہ عہد ایک اور قوم کے ذریعہ سے پورا نہیں ہونا تھا تو یہ تبدیلی خدا تعالیٰ نے کس طرح گوارا کی۔ا گر یہ تبدیلی چند سال کے لئے عارضی طور پر ہوتی تو کوئی بات نہ تھی کیونکہ قومی زندگیوں میںاُتار چڑھائو ہو ہی جایا کرتے ہیں لیکن یہ تبدیلی تو اتنی لمبی چلی کہ آج تیرہ سَو سال کے بعد بھی فلسطین کے اکثر حصہ پر مسلمان اور اسمٰعیل کی اولاد قابض ہیں۔ یورپ اور امریکہ زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح اِن حالات کو بدل دیں لیکن اب تک وہ کامیاب نہیں ہوئے اور اگر کوئی کامیابی اُن کو حاصل بھی ہوئی تو وہ عارضی ہو گی یا بنو اسرائیل مسلمان ہو کر نئے عہد کے ذریعہ سے ایک نئی زندگی فلسطین میں پائیں گے اور یا پھر وہ دوبارہ فلسطین میں سے نکال دئیے جائیں گے کیونکہ فلسطین اُن لوگوں کے ہاتھ میں رہے گاجو ابراہیمی عہد کو پورا کرنے والے ہوں گے۔ مسیحی لوگ بھی اپنے آپ کو ابراہیمی عہد کا پورا کرنے والا قرار دیتے ہیں لیکن تعجب ہے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اِس عہد کی علامت ہی یہ ہے کہ وہ قوم ختنہ کروائے گی لیکن عیسائی تو ختنہ سے آزاد ہو چکے ہیں۔ ہاں بنو اسمٰعیل جو تیرہ سَو سال سے فلسطین پر قابض ہیں وہ قرآن کریم کے نازل ہونے سے پہلے بھی ختنہ کرواتیتھے اور اب بھی ختنہ کرواتے ہیں۔ غرض جیساکہ اِن پیشگویوں میں بتایا گیا تھا کہ اسمٰعیل اور اسحاق دونوں کو برکت دی جائے گی وہ پیشگوئیاں پوری ہونی ضروری تھیں۔ بنو اسحاق کو اُن کے وعدہ کے مطابق کنعان کی حکومت دی گئی اور بنو اسمٰعیل کواُن کے وعدہ کے مطابق عرب کی حکومت دی گئی۔ آخر جب بنو اسحاق کی قیامت آگئی تو دائود کی پیشگوئی کے مطابق نسلی لحاظ سے نہیں بلکہ راستباز ہونے کے لحاظ سے کنعان پر غلبہ بنو اسمٰعیل کو دے دیا گیا۔ گویا نسلی وعدہ ابراہیم کے مطابق مسلمانوں کو مکہ اور اس کے اِرد گرد کا علاقہ ملا۔ جس کا دعویٰ قرآن کریم نے سورۃ بقرہ رکوع ۱۵/۱۵ میں کیا ہے اور راستباز ہونے کے لحاظ سے بنو اسحاق کی مذہبی تباہی کے بعد وہ کنعان کے بھی وارث قرار پائے۔
دوسری پیشگوئی۔ حضرت موسیٰ کے بعد ایک شرعی نبی کا ظہور
حضرت موسیٰ علیہ السلام جب خدا تعالیٰ کے حکم سے طور پر گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ:۔
’’خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرے گا‘‘۔۱۰۵؎
پھر لکھا ہے۔
’’ میں اُن کے لئے اُن کے بھائیوں میںسے تجھ سا ایک بنی برپا کروں گا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے فرمائوں گا وہ سب اُن سے کہے گا اور ایسا ہو گا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کاحساب اُس سے لوںگا۔ لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اُسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے‘‘۔۱۰۶؎
اِن آیتوں سے ظاہر ہے کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک نئے صاحبِ شریعت نبی کی پیشگوئی کی گئی تھی جو بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ہو گا۔ صاحبِ شریعت ہونے کی پیشگوئی اِن الفاظ سے نکلتی ہے کہ وہ موسیٰ کی مانند ہو گا اور موسیٰ صاحبِ شریعت نبی تھے۔ دوسری خبر اِس پیشگوئی میںیہ دی گئی ہے کہ سب باتیں جو اُسے کہی جائیں گی وہ لوگوں سے بیان کر دے گا۔ یہ علامت بھی بتاتی ہے وہ صاحبِ شریعت ہو گا کیونکہ صاحبِ شریعت نبی قوم کی بنیاد رکھنے والا ہوتا ہے محض ایک مصلح نہیں ہوتااس لئے اُسے حکم ہوتا ہے کہ وہ اپنی ساری تعلیم لوگوں کے سامنے بیان کرے کیونکہ شریعت کے بغیر قوم کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ مگر جو غیر تشریعی نبی ہوتا ہے وہ چونکہ صرف پہلی کتاب کا شارح ہوتا ہے اُس کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ساری وحی لوگوں کو سنائے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض باتیں اُس کے ذاتی علم کے طور پر اُسے کہی گئی ہوں لیکن ضروری نہ ہو کہ وہ اپنی قوم سے اُن کا ذکر کرے۔ یہ بھی اِن آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ اِس پیشگوئی کا موعود نبی اپنی تعلیم کو خد اتعالیٰ کا نام لے کر دنیا کے سامنے پیش کرے گا اور جو لوگ اُس کی تعلیم کونہ سنیں گے اُن کو سزا دی جائے گی اور وہ خدا کے عذاب کے نیچے آئیں گے۔یہ بھی اِس پیشگوئی میںبتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اِس پیشگوئی سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر اس پیشگوئی کا مستحق ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے گا تو ایسا شخص قتل کر دیا جائے گا۔ا ب پیشگوئی کے اِن تمام اجزاء کو سامنے رکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک اِس پیشگوئی کو پورا کرنے والا نبی دنیا میں کوئی پید ا ہی نہیں ہوا۔ درمیانی انبیاء کا تو ذکر جانے دو، اُن کی تونہ کوئی اُمت موجود ہے نہ کوئی قوم پائی جاتی ہے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں جن کے ماننے والے دنیا میں پائے جاتے ہیں اور جو اُنہیں آخری مصلح قرار دے کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مگر اِس پیشگوئی کو سامنے رکھ کر دیکھو کیا اِس پیشگوئی کی شرائط حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر پوری اُترتی ہیں؟
اوّل: اِس پیشگوئی سے پتہ لگتا ہے کہ وہ صاحبِ شریعت نبی ہو گا۔ کیا عیسیٰ علیہ السلام کوئی شریعت لائے؟ عیسیٰ علیہ السلام نے تو یہ کہا ہے کہ:
’’ یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب کو منسوخ کرنے آیا۔ میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو‘‘۔۱۰۷؎
پھر اُن کے حواریوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ:۔
’’ شریعت کو ایمان سے کچھ نسبت نہیں۔ مسیح نے ہمیں مول لے کر شریعت کی *** سے چھڑایا‘‘۔۱۰۸؎
گویا مسیح خود کسی شریعت کے لانے کے مدعی نہیں اور اُن کے حواری شریعت کو ہی *** قرار دیتے ہیں۔ پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ حضر ت مسیح اور اُن کی قوم اِس پیشگوئی کی مستحق ہو؟
(۲) اِس پیشگوئی میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ آنے والا بنی اسرائیل کے بھائیوں میںسے ہوگا لیکن مسیح تو بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے نہیں تھا بلکہ خود بنی اسرائیل میںسے تھا۔ بعض عیسائی صاحبان ایسے موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ چونکہ اس کا کوئی با پ نہیںتھا اِس لئے وہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے کہلا سکتا ہے۔ لیکن یہ دلیل ہرگزمعقول نہیںکیونکہ بائبل کے الفاظ بتاتے ہیں کہ وہ بھائی بہت ہوں گے اور اُن بہت سے بھائیوں کی نسل میںسے وہ موعود نے ظاہر ہونا تھا۔ کیا عیسیٰ علیہ السلام کی قسم کے لوگ بھی بہت سے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر عیسیٰ علیہ السلام پر یہ پیشگوئی کیونکر چسپاں ہو سکتی ہے؟
علاوہ ازیں بائبل میں تو مسیح کی نسبت لکھا ہے کہ وہ دائود کی نسل میں سے ہوگا۱۰۹؎ اگر بن باپ ہونے کی وجہ سے حضر ت مسیح کو بنی اسرائیل میں سے خارج کر دیا جائے تو پھر وہ دائود کی نسل میں بھی نہیں رہ سکتے اور اس پیشگوئی سے اُنہیں جواب مل جاتا ہے۔
(۳) اِس پیشگوئی میں لکھا ہے کہ میں اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا۔ لیکن انجیل میں تو خدا کا کلام ہمیں کہیں نظر ہی نہیں آتا۔ یا تو اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سوانح ہیں یا اُن کے بعض لیکچر اور یا پھر حواریوں کی باتیں۔
(۴) اِس پیشگوئی میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ موعود ایک نبی ہو گا۔ مگر مسیح کے متعلق تو مسیحی قوم یہ کہتی ہے کہ وہ خد اکا بیٹا تھا نبی نہیں تھا۔ پس جب مسیح نبی ہی نہ تھے تو وہ اس پیشگوئی کے پورا کرنے والے کس طرح ہو سکتے ہیں؟
(۵) اِ س پیشگوئی میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ خدا کا نام لے کر اپنا الہام لوگوں کو سنائے گا مگر اناجیل میں تو کوئی ایک فقرہ بھی ہمیں نہیں ملتا جس میںمسیح نے یہ کہا ہو کہ خدا نے مجھے یہ بات لوگوں کو پہنچانے کا حکم دیا ہے۔
(۶) اِس پیشگوئی میں یہ ذکر ہے۔ ’’ جو کچھ میں اُسے فرمائوں گا وہ سب اُن سے کہے گا اور ساری سچائی کی راہیں اُس کے ذریعہ دنیا پر ظاہر ہوں گی‘‘۔
لیکن مسیح خود کہتا ہے کہ وہ سچائیاں دنیا کو نہیں بتاتے۔ وہ کہتے ہیں:۔
’’ میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے، لیکن جب وہ روحِ حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتائے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی، لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی‘‘۔۱۱۰؎
اِن حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ مسیح علیہ السلام پر یہ پیشگوئی تو پوری نہیں ہوئی اور جب حضرت مسیحؑ پر یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تھی تو اِس کے صاف معنی یہ ہیںکہ مسیح علیہ السلام کے بعد آنے والے ایک ایسے نبی کی پیشگوئی عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید میں موجود تھی جو ساری سچائیوں کو ظاہر کرے گا اور دنیا میں خد اتعالیٰ کے نام کو ہمیشہ کے لئے قائم کرے گا۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ قرآن کریم اس پیشگوئی کو پورا کرنے والا ہے ۔چنانچہ:۔
(۱) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخص تھے جو بنو اسمٰعیل میں پیدا ہوئے جو بنو اسحاق کے بھائی تھے۔
(۲) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخص تھے جنہوں نے موسیٰ کے مانند ہونے کا دعویٰ کیا چنانچہ قرآن میں آتا ہے۔ ۱۱۱؎ ہم نے تمہاری طرف تم میں سے ایک رسول بھیجا جس طرح فرعون کی طرف ہم نے رسول بھیجا تھا۔ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی موسٰی ؑکی طرح نبی ہیں۔
(۳) اِس پیشگوئی میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ آنے والا موعود نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا نہ کہ کوئی اور دعویٰ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا مگر اس کے برخلاف کہا جاتا ہے کہ مسیح نے نبی ہونے کادعویٰ نہیں کیا۔چنانچہ انجیل مرقس میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ
’’ لوگ کیا کہتے ہیں کہ میں کون ہوں؟ اُنہوں نے کہا کہ یوحنا بپتسمہ دینے والا اور بعضے الیاس اوربعضے نبیوں میں سے ایک۔ پھر اُس نے اُنہیں کہا تم کیا کہتے ہو کہ میں کون ہوں؟ پطرس نے جواب میں اُس سے کہا کہ تُو تو مسیح ہے تب اُس نے انہیں تاکید کی کہ میری بابت کسی سے یہ مت کہو‘‘۔۱۱۲؎
اِس آیت میں مسیح نے اپنے متعلق یوحنا یا الیاس یا نبیوں میں سے کوئی نبی ہونے سے انکار کیا ہے۔ لیکن موسیٰ کی پیشگوئی بتاتی ہے کہ وہ جو موسیٰ کے نقشِ قدم پر آنے والا ہے نبی ہو گا۔ پس یقینا یہ پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں ہوتی ہے نہ کہ مسیح پر۔
(۴) اِس پیشگوئی میں کہا گیا تھا کہ میں اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا۔ لیکن ساری انجیلوں میں ہمیں خدا کا کلام کہیں نظر نہیں آتا۔ اِس کے برخلاف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو پیش کیا۔ جو شروع سے لے کر آخر تک خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا نام بھی قرآن کریم میں کلام اللہ رکھا گیا ہے۔۱۱۳؎
(۵) اِس پیشگوئی میں کہا گیا تھا کہ جو کچھ میںاُسے فرمائوں گا وہ سب اُن سے کہے گا۔ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ مسیح نے خود اقرار کیا ہے کہ جو کچھ اُسے کہا گیا تھا وہ سب کا سب لوگوں کو نہیں سناتا تھا لیکن اُس نے یہ پیشگوئی ضرور کی تھی کہ میرے بعد ایک ایسا شخص آئے گا جو سب سچائی کی راہیں لوگوں کو بتائے گا۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا سارا کلام لوگوں کو پہنچاتے ہیں اور کوئی بات جس کی دین کے لئے ضرورت ہے انہوں نے چھوڑی نہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے ۱۱۴؎ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تیرے متعلق یہ پیشگوئی ہے کہ جب تو دنیا میں آئے گا تو ساری سچائیاں دنیا کو سنائے گا۔ اس لئے دنیا خواہ بُرا منائے یا اچھا تو کسی کی پرواہ نہ کر اور جو وحی تجھے کی جاتی ہے وہ ساری کی ساری لوگوں کو سُنا دے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے ۱۱۵؎ میں نے آج اِس کلام کے ذریعہ سے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور ہدایت کی نعمت تمہارے لئے کمال تک پہنچا دی ہے اور امن اور سلامتی کو تمہارا مذہب قرار دے دیا ہے۔ پس محمد رسول اللہ ہی تھے جن کو ساری سچائیاں بتائی گئیں اور جنہوں نے دنیا کو ساری سچائیاں بتادیں اور کوئی ایک سچائی بھی نہیں چھپائی۔ کیونکہ مسیح کے زمانہ کے لوگ ابھی تک ساری سچائیوں کو سننے اور قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوئے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت انسان روحانی ارتقاء کی سب منزلوں کو طے کر چکا تھا اور وقت آگیاتھا کہ ساری سچائیاں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو جائیں اور خد ا تعالیٰ کا رسول وہ ساری سچائیاں لوگوں کو سُنا دے۔
(۶) اِس پیشگوئی میں یہ بتایا گیا تھاکہ خد اتعالیٰ کا کلام جو اُس پر نازل ہو گا وہ خدا کا نام لے کر دنیا کو سنائے گا۔ یہ بات بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہی پوری ہوئی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسے نبی ہیں جن کی الہامی کتاب کا ہر باب اِس آیت سے شروع ہوتا ہے’’ میں اللہ کا نام لے کر یہ باتیں تمہیں سناتا ہوں‘‘۔ پس یہ علامت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ روحانی ارتقاء کی وہ آخری کڑی جس کی موسیٰ نے خبر دی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات تھی۔
(۷) کہا گیا تھا کہ ’’ وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اُسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے‘‘۔۱۱۶؎
اِس آیت میں موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ دنیا کو یہ بتایا گیا تھا کہ جس نبی کی اِس آیت میں خبر دی گئی ہے چو نکہ اُس کے لئے انسان کی روحانی ترقی کی آخری کڑی ہونا مقدر ہے اور اگر کوئی جھوٹا شخص اس عہدے کو اپنی طرف سے فریب سے منسوب کر ے تو اِس سے بڑے خطرات پید اہو سکتے ہیں اس لئے خد ا تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ جو شخص بھی جھوٹے طور پر اس پیشگوئی کو اپنی طرف منسوب کرے گا وہ قتل کیا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہو گا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں اِس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ جب آپ نے دعویٰ کیا آپ اکیلے تھے، آپ نہایت ہی کمزور تھے، دشمن بڑے جتھے والا اور بڑا طاقتور تھا مگر باوجود اِس کے کہ دشمنوں نے اپنا سارا زور لگایا وہ آپ کو قتل نہیں کر سکے۔ باوجود اس کے کہ اُس وقت کی زبردست حکومتیں آپ کے مقابلہ پر آئیں سب پاش پاش ہو گئیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کامیاب اور با مراد انسان کی حیثیت میں فوت ہوئے۔ آپ کی ساری قوم آپ کی وفات سے پہلے آپ پر ایمان لے آئی اور آپ کی وفات کے چند سال بعد ہی آپ کے خلفاء کے ذریعہ سے ساری دنیا میں اسلام پھیل گیا۔ اگر موسیٰ خدا کا راستباز نبی تھا اور اگر استثناء کی یہ پیشگوئی واقعہ میں خدا کی طرف سے تھی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کے مدعی تھے کیا اِس طرح کامیاب و کامران ہو سکتے تھے جیساکہ وہ ہوئے؟ اور کیا آپ کے دشمن آپ کو قتل کرنے میں اس طرح ناکام ہو سکتے تھے جیسا کہ ہوئے؟ یہی نہیں کہ اتفاقی طور پر آپ دشمن کے حملوں سے بچ گئے ہوں بلکہ موسیٰ کی اس پیشگوئی کے مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن کریم نے بڑے زور شور سے عربوں کے سامنے یہ اعلان کر دیا تھا کہ۱۱۷؎ یعنی اللہ تعالیٰ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں کے حملوں سے بچائے گا اور آپ کی جان کی حفاظت کرے گا۔ اسی طرح آپ کے مخالفوں کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن کریم نے یہ فرمادیا تھا کہ۱۱۸؎ خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب کو کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے برگزیدہ رسولوں کے۔ پھر جب وہ کسی کو اپنا رسول بنا کر بھیجتا ہے تو وہ اُس کے آگے اور پیچھے اس کی حفاظت کے سامان کرتا رہتا ہے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اُس نے ایک خاص کام کے لئے بھیجا ہے تو وہ اُنہیں بغیر حفاظت کے نہیں چھوڑے گا اور دشمن کو آپ کے مارنے پر قادر نہیں کرے گا۔
اِ ن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام اتفاقی انجام نہیں تھا بلکہ آپ نے شروع سے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ کو خدا تعالیٰ دشمن کے حملوں سے بچائے گا اور دشمن آپ کے قتل کر نے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ اس طرح آپ نے دنیا کو ہوشیار کر دیا تھا کہ میں استثناء باب ۱۸ آیت ۲۰ کی پیشگوئی کے مطابق قتل نہیں کیا جائوں گا کیونکہ میں جھوٹا نہیں بلکہ حقیقی طور پر موسیٰ کی پیشگوئی کا مصداق ہوں۔
خلاصہ یہ کہ موسیٰ علیہ السلام نے بعثت محمدیہ سے قریباً ۱۹ سَو سال پہلے یہ خبر دی تھی کہ موسوی شریعت الٰہی کلام کا آخری نقطہ نہیں ابھی انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مزید ہدایتوں کی ضرورت ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ آخری زمانہ میں ایک اور مأمور بھیجے گا وہ مأمور دنیا کے سامنے سب سچائیوں کو پیش کرے گا اوروہی انسان کی روحانی ترقی کا آخری نقطہ ہوگا اس پیشگوئی کے مطابق دنیا میں ابھی ایک اور کتاب اور ایک اور نبی کی ضرورت تھی۔ پس قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائبل اور موسیٰ اور عیسیٰ کی بعثت کے بعداگر دنیا کی ہدایت کا دعویٰ کیا تو وہ بالکل حق بجانب اور خدا تعالیٰ کے کلام کو پورا کرنے والے تھے۔ قرآن کریم غیرضروری نہ تھا بلکہ اگر قرآن کریم نہ آتا تو خد اتعالیٰ کی بتائی ہوئی بہت سی باتیں ظہور میں نہ آتیں اور دنیا بد اعتقادی اور شک کے مرض میں مبتلا ہوجاتی۔
تیسری پیشگوئی۔ جبلِ فاران سے دس ہزار قدوسیوں کیساتھ ایک عظیم الشان نبی کا ظہور
استثناء باب ۳۳ میں لکھا ہے۔ ’’ اور اُس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر
طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑسے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا او ر اُس کے دہنے ہاتھ میںایک آتشی شریعت اُن کے لئے تھی‘‘۔۱۱۹؎
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اِس کلام میں اپنے تین جلوے بتائے ہیں۔ ان میں سے پہلا جلوہ سینا سے ظاہر ہوا۔ اِس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تورات میں لکھا ہے:۔
’’ اور خداوند کو ہِ سینا پہاڑ کی چوٹی پر نازل ہوا اور خدا وند نے پہاڑ کی چوٹی پر موسٰی ؑکو بلایا اور موسٰی ؑچڑھ گیا‘‘۱۲۰؎
یہ خدائی جلوہ ظاہر ہوا اور جو جو برکتیں اِس میں پوشیدہ تھیں وہ دنیا پر ظاہر کر کے چلاگیا۔ اس کے بعد دوسرے جلوے کا ذکر کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ وہ شعیر سے طلوع ہو گا۔ شعیر وہ مقام ہے جس کے آس پاس حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات ظاہر ہوئے۔ پس شعیر سے طلوع ہونے کے معنی حضرت مسیح علیہ السلام کے ظہور کے ہیں۔ مسیحی علمائے اناجیل نے نہ معلوم کیوں شعیر کو سینا کا مترادف قرار دیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شعیر فلسطین کا حصہ ہے۔ یہ نام مختلف شکلوں میں بگڑ کر آیا ہے اور یہ نام ایک قوم کا بھی ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے تھی اور بنو آشر کہلاتی تھی اور یہ شمال مغربی فلسطین کے علاقے کا بھی نام ہے۔ پس شعیر سے مراد وہی جلوہ ہے جو خصوصیت کے ساتھ فلسطین میں ظاہر ہونے والا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام تو کنعان پہنچے ہی نہیں اُسی جگہ پر فوت ہو گئے جہاں کنعان کی سرحدیںنظر آتی تھیں اور موسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی ایسا جلوہ ظاہر نہیں ہوا جو اِس قسم کی عظمت والا ہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جلوہ تھا۔ پس شعیر سے طلوع ہونے سے مراد حضرت مسیح کا ظہور ہے جو عین کنعان میں ظاہر ہوئے اور جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے پھر ایک دفعہ دنیا کو اپنی شکل دکھلائی۔
تیسرا جلوہ فاران سے ظاہر ہونا تھا۔ فاران سے مراد وہ پہاڑ ہیں جو مدینہ اور مکہ کے درمیان ہیں۔ چنانچہ عربی جغرافیہ نویس ہمیشہ سے ہی مدینہ اور مکہ کے درمیانی علاقہ کا نام فاران رکھتے چلے آئے ہیں۔ مدینہ اور مکہ کے درمیان ایک پڑائو ہے جس کا نام وادیٔ فاطمہ ہے جب قافلے وہاں سے گزرتے ہیں تو وہاں کے بچے قافلہ والوں کے پاس پھول بیچتے ہیں اور جب اُن سے قافلہ والے پوچھیں کہ یہ پھول تم کہاںسے لائے ہو؟ تو وہ کہتے ہیں مِنْ بَرِیَّۃِ فَارَانَ۔ فاران کے جنگل سے لائے ہیں۔ پس فاران یقینی طور پر عرب اور حجاز کا ہی علاقہ ہے تو رات سے ثابت ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اِسی فاران کے میدان میں رہے تھے۔لکھا ہے:۔
’’ اور خداوند اس لڑکے ( یعنی اسمٰعیل) کے ساتھ تھا اور وہ بڑھا اور بیابان میں رہا کیا او ر تیراندازہوگیا اور وہ فاران کے بیابان میں رہا اور اس کی ماں نے ملک مصر سے ایک عورت اُس سے بیاہنے کو لی‘‘۔ ۱۲۱؎
بائبل فاران کے مقام کوعربوں کے بیان کی نسبت کسی قدر مختلف جگہ پر قرار دیتی ہے اور کنعان کے کناروں پر ہی بتاتی ہے۔ لیکن جنگل اور پہاڑ شہروں کی طرح کسی چھوٹے سے علاقہ میں محدود نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ سینکڑوں اور ہزاروں میل تک پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ پس اگر بائبل کا بیان صحیح تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس کے یہی معنی ہوں گے کہ فاران کے پہاڑ اور اس کا بیابان کنعان کے پاس سے شروع ہوتا ہے۔ اس سے یہ تو ثابت نہ ہو گا کہ وہ ختم بھی وہیں ہو جاتا ہے۔ بائبل تسلیم کرتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک بیٹا اسمٰعیل نامی تھا اور بائبل بتاتی ہے کہ وہ فاران میں رہا۔ اب فاران کے جغرافیہ کے متعلق تو اسمٰعیل کی اولاد کی گواہی ہی تسلیم کی جائے گی کیونکہ وہی فاران کی رہنے والی ہے۔ بنو اسرائیل تو تاریخ اور جغرافیہ میں اتنے کمزور تھے کہ وہ اس رستہ کو بھی صحیح طور پر بیان نہیں کر سکے جس رستہ پر چل کر وہ مصر سے کنعان آئے تھے دوسرے ملکوں کے متعلق اُن کی گواہی کی قیمت ہی کیا ہے۔ دنیا میںایک ہی قوم ہے جو اپنے آپ کو اسمٰعیل کی اولاد کہتی ہے اور وہ قریش ہیںاور وہ عرب میں بستے ہیں اورمکہ مکرمہ اُن کا مرکز ہے۔ اگر عربوں کا یہ دعویٰ غلط ہے تو سوال یہ ہے کہ اِس غلط دعویٰ کے بنانے کی انہیں غرض کیا تھی۔ بنو اسحاق تو اُن کو کوئی عزت دیتے ہی نہیں تھے۔ پھر ایک جنگل میں رہنے والی قوم کو اِس بات کی کیا ضرروت پیش آئی تھی کہ وہ اپنے آپ کو اسمٰعیل کی اولاد قرار دے اور اگر اُس نے جھوٹ بنایا ہی تھا تو اسمٰعیل کی اصل اولاد کہاں گئی؟ بائبل کہتی ہے کہ اسمٰعیل کے ۱۲ بیٹے تھے۔ بائبل کہتی ہے کہ اُن ۱۲ بیٹوں کی نسل آگے بہت پھیلے گی۔ لکھا ہے:۔
’’ اور اس لونڈی کے بیٹے (اسماعیل) سے بھی میں ایک قوم پیدا کروں گا اِس لئے کہ وہ بھی تیری نسل ہے‘‘۔۱۲۲؎
پھر لکھا ہے:۔
’’اُٹھ اور لڑکے (اسماعیل) کو اُٹھا اور اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اُس کو ایک بڑی قوم بناؤں گا۔‘‘ ۱۲۲؎
پھر لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا:۔
’’ اور اسمٰعیل کے حق میں میں نے تیری سنی، دیکھ میں اُسے برکت دوں گا اور اُسے برومند کروںگا اور اُسے بہت بڑھائوں گا اور اس سے ۱۲ سردار پید اہوں گے اور میں اُسے بڑی قوم بنائوں گا‘‘۔ ۱۲۴؎
اِن پیشگویئوں میں بتایا گیا ہے کہ اسمٰعیل کی نسل بہت پھیلے گی اور بڑی بابرکت ہو گی۔ اگر عرب کے لوگوں کا دعویٰ جھوٹا ہے تو پھر بائبل بھی جھوٹی ہے کیونکہ دنیا میں اور کوئی قوم اپنے آپ کو بنو اسمٰعیل نہیں کہتی جس کو پیش کر کے بائبل کی اِن پیشگوئیوں کو سچا ثابت کیا جا سکے اور اگر قریش بنو اسمٰعیل ہیں تو پھر ابراہیم بھی سچا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قریش کو برکت دی اور ابراہیم ؑ کی وہ پیشگوئیاں اُن کے ذریعہ پوری ہوئیں جو بنو اسمٰعیل کے متعلق تھیں۔
تاریخ کا سب سے بڑا ثبوت قومی روایات ہی ہوتی ہیں اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ ایک قوم سینکڑوں سال سے اپنے آپ کو بنو اسمٰعیل کہتی چلی آئی ہے اور اُس کے بیان کو مزید تقویت اِس بات سے یہ حاصل ہوتی ہے کہ دنیا کی اور کوئی قوم اپنے آپ کو بنو اسمٰعیل نہیں کہتی۔ پھر جہاں بائبل مانتی ہے کہ بنو اسمٰعیل فاران میں رہے وہاں عرب کے لوگ بھی مکہ سے لے کر شمالی عرب کی سرحد تک کے علاقہ کو فاران کہتے چلے آرہے ہیں۔ پس یقینا یہی علاقہ فاران تھا جیسا کہ یقینا قریش ہی بنو اسمٰعیل تھے اور فاران سے ظاہر ہونے والا جلوہ عربوں سے ہی ظاہر ہونے والا تھا۔
بنو اسمٰعیل کے عرب میں رہنے کا یہ بھی ثبوت ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ۱۲ بیٹوں کے نام جو بائبل میں آتے ہیں یہ ہیں۔ نبیت۔ قیدار۔ اوبئیل۔ مبسام۔ مشماع۔ دُومہ۔ مسا۔ حدد۔ تیما۔ یطور۔ نفیس۔ قدمہ۔۱۲۵؎
قدیم رواج کے مطابق اِن کی اولادوں کے نام بھی اپنے باپوں پر ہوں گے جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد اپنے باپوں کے نام سے کہلاتی ہے اِسی طرح ملکوں کے نام بھی پُرانے دستور کے مطابق بِالعموم قوموں کے نام پر رکھے جاتے ہیں۔ اِس رواج کو مدنظر رکھتے ہوئے جب ہم دیکھتے ہیںتو سارے عرب میں اِن بیٹوں کی اولاد پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔
پہلا بیٹا نبیت تھا جس کی اولاد جغرافیہ نویسوں کے بیان کے مطابق ۳۰۔ ۳۸ ڈگری عرضِ شمالی اور ۳۶۔ ۳۸ ڈگری طول مشرقی کے درمیان رہی تھی۔ چنانچہ ریورنڈ کاتری بی کاری ایم اے نے اِس کو تسلیم کیا ہے کہ اُن کے نزدیک فلسطین سے لے کر بندر ینبوع تک جو مدینہ منورہ کا بندر ہے یہ قوم پھیلی ہوئی تھی۔
دوسرا بیٹا قیدار تھا۔ اِس کی قوم بھی عربوں میں پائی جاتی ہے۔ قیدار کے معنی ہیں ’’اونٹوں والا‘‘ یہ قبیلہ حجاز اور مدینہ کے درمیان آباد ہے۔ بطلیموس اور پلینی دونوں نے اپنے جغرافیوں میں حجاز کی قوموں کا ذکر کرتے ہوئے کیڈری اور گڈرونائینی قوموں کا ذکر کیا ہے جو صاف طور پر قیدار ہی کا بگڑا ہو اہے تلفظ ہے اور اب تک بعض عرب اپنے آپ کو قیدار کی نسل سے بتاتے ہیں۔
تیسرا بیٹا اوبئیل تھا جو زیفس کے بیان کے مطابق اوبئیل نامی قوم بھی اسی عرب علاقہ میں بستی تھی۔
چوتھا بیٹا مبسام تھا اس کا ثبوت عام جغرافیوں میں کہیں نہیں ملتا لیکن ممکن ہے کہ یہ نام بگڑ گیا ہو اور کسی اَور شکل میں پایا جاتا ہو۔
پانچواں بیٹا مشماع تھا۔ عرب میںاب تک بنو مسماع پائے جاتے ہیں۔
چھٹا بیٹا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا دومہ تھا اور دومہ کا مقام اب تک عرب میں پایاجاتا ہے جس کا ذکر عرب جغرافیہ نویس ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں کہ دومہ اسمٰعیل کا بیٹا تھا جس کے نام پر یہ نام پڑا۔ چنانچہ عرب میں یہ ایک مشہور مقام ہے۔
ساتواں بیٹا مسا تھا۔ اس کے نام پر بھی ایک قوم یمن میں پائی جاتی ہے اور اس کی جائے رہائش کے کھنڈرات وہاں موجود ہیں۔ ریورنڈ کاتری بی کاری نے اپنی کتاب میں اُن کاذکر کیا ہے۔
آٹھواں بیٹا حدد تھا اس کے نام پر یمن کا مشہور شہر حدیدہ بنا ہوا ہے۔
نواں بیٹا تیما تھا۔ نجد سے حجاز تک کا علاقہ تیما کہلاتا ہے اور یہاں یہ قوم بستی ہے بلکہ خلیج فارس تک پھیل گئی ہے۔
دسواں بیٹا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا یطور تھا۔ اِن کا مقام بھی عرب میں معلوم ہوتا ہے اور جدور کے نام سے مشہور ہے جو یطور کا بگڑا ہوا ہے ۔یا عام طور پر ج سے بدل جاتی ہے اور ط اور ت ،د سے بدل جاتے ہیں یس جدور اصل میں یطور ہی ہے۔
گیارہواں بیٹا نفیس تھا اور مسٹر فاسٹر کا بیان ہے جو زیفس اور تورات کی سند کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم بھی بیابانِ عرب میں رہتی تھی۔
بارہواں بیٹا قدمہ تھا۔ اِن کی جائے رہائش بھی یمن میں ثابت ہے۔ مشہور جغرافیہ نویس مسعودی لکھتا ہے کہ مشہور قبیلہ اصحابُ الرس جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی آتا ہے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا اور وہ دو قبیلے تھے ایک کا نام قدمان تھا اور ا یک کا نام یامین تھا۔ بعض جغرافیہ نویس کہتے ہیں کہ دوسرے قبیلے کا نام یامین نہیں بلکہ رعویل تھا۔
ان جغرافیائی اور تاریخی شواہد سے صاف ثابت ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی تمام اولاد عرب میںبستی تھی۔ یہ تمام اولاد چونکہ خانہ کعبہ اور مکہ کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کرتی چلی آئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام مکہ میں ہی آکر بسے تھے اور اس وجہ سے یہی علاقہ عربوں اور تورات کے بیان کے مطابق فاران کا علاقہ ہے۔
یسعیاہ نبی کی پیشگوئی عرب کے متعلق
یسعیاہ نبی کے الہامی کلام کی شہادت بھی اِس بات کی تائید میں ہے کہ بنو اسمٰعیل
عرب میں رہے۔ چنانچہ یسعیاہ باب ۲۱ میں لکھا ہے:
’’ عرب کی بابت الہامی کلام۔ عرب کے صحرا میں تم رات کاٹو گے۔ا ے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کر پیاسے کا استقبال کرنے آئو۔ا ے تیما کی سرزمین کے باشندو! روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو۔ کیونکہ وے تلواروں کے سامنے سے ننگی تلوار سے اور کھینچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا۔ ہنوز ایک برس مزدور کے سے ایک ٹھیک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیر اندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا‘‘۔۱۲۶؎
اِس پیشگوئی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے ایک سال بعد جو جنگ بدر ہوئی تھی اُس کا ذکر کیا گیا ہے۔ اِس سے بنو قیدار یعنی مکہ اور مکہ کے اِردگرد رہنے والے لوگ بہت بُری طرح مسلمانوں سے ہارے اور اُن کی تلواروں اور کمانوں کی تاب نہ لاکر نہایت ذلت سے پسپا ہوئے۔ اِس پیشگوئی کے اوپر صاف لکھا ہے ’’ عرب کی بابت الہامی کلام‘‘ اور اِس میں تیما اور قیدار کو عرب کا علاقہ قرار دیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے الہام کے مطابق ۷۱۴ برس قبل مسیح جو یسعیاہ کا زمانہ تھا اُس وقت حجاز میں اسمٰعیل کی اولاد بس رہی تھی۔
غرض جس نقطۂ نگاہ سے بھی دیکھیں یہ ثابت ہے کہ قریش بنو اسمٰعیل تھے اور فاران بائبل کے مطابق وہی علاقہ ہے جس میں بنو اسمٰعیل رہے۔
حبقوق نبی کی پیشگوئی
پس فاران سے ظاہر ہونے والا جلوہ یقینا جلوۂ محمدی ہی تھا جس کی خبر موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ دی گئی اور اس کی خبر حبقوق نبی
نے مسیح سے ۶۲۶ برس پہلے دی اور کہا:
’’ خدا تیما سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا۔ سلاہ۔ اُس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اُس کی حمد سے معمور ہوئی اور اُس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی۔ اُس کے ہاتھ سے کرنیں نکلیں پر وہاں بھی اُس کی قدرت درپردہ تھی۔ مری اُس کے آگے آگے چلی اور اُس کے قدموں پرآتشی وبا روانہ ہوئی۔ وہ کھڑا ہوا اور اُس نے زمین کو لرزہ دیا۔ اُس نے نگاہ کی اورقوموں کو پراگندہ کر دیا اور قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اُس کے آگے دھنس گئیں۔ اُس کی قدیم راہیں یہی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بپت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے‘‘۔۱۲۷؎
اِس پیشگوئی میں بھی تیما او ر کوہِ فاران سے ایک قدوس کے ظاہر ہونے کا ذکر آتا ہے۔ پس موسیٰ کی پیشگوئی اور حبقوق کی پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ حضر ت مسیحؑ تک انسان اپنے ارتقاء کے آخری نقطہ کو پہنچنے والا نہ تھا بلکہ حضر ت مسیح کے بعد ایک اور جلوۂ الٰہی ظاہر ہونے والا تھا جس کو صرف جمالی جلوہ نہیں ہونا تھا بلکہ اُس کے ساتھ ایک آتشی شریعت کا ہونا بھی لازمی تھا اور جیساکہ ہم اُوپر ثابت کر چکے ہیں کہ تیما کی سرزمین اور کوہِ فاران سے ظاہر ہونے والے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور اُن کی آتشی شریعت قرآن کریم تھی جس نے گناہوں او ر شیطانی کاروبار کو جلا کر رکھ دیا۔ موسیٰ نے کہا جب وہ کوہِ فاران سے ظاہر ہو گا تو اُس کے ساتھ دس ہزار قدوسی آئیں گے۔ وہ کون تھا جو کوہِ فاران سے ظاہر ہوا اور اُس کے ساتھ دس ہزار قدوسی تھے؟ وہ صرف محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جو فاران کی پہاڑیوں پر سے ہوتے ہوئے جب مکہ پر حملہ آور ہوئے تو آپ کے ساتھ دس ہزار آدمی تھا جس پر ساری تاریخیں متفق ہیں۔ کیا مسیح پر یہ پیشگوئی چسپاں ہو سکتی ہے؟ کیا دائود پر یہ پیشگوئیاں چسپاں ہو سکتی ہیں؟ وہ کب فاران سے ظاہر ہوئے اور کب اُن کے ساتھ دس ہزار قدوسی تھے؟ مسیح کے ساتھ توکل ۱۲ حواری تھے جن میں سے ایک نے مسیح کو چند روپے لے کر بیچ دیا اور دوسرے نے اُس پر *** کی۔ باقی رہ گئے دس۔ سو بائبل کہتی ہے کہ وہ دس بھی بھاگ گئے اگر وہ قائم بھی رہتے اور نہ بھاگتے تب بھی دس اور دس ہزار میں بڑا بھاری فرق ہے اور تورات تو کہتی ہے کہ وہ اُس کے ساتھ ہوںگے اور مسیح کے دس آدمیوں کی نسبت انجیل کہتی ہے کہ وہ اُس کا ساتھ چھوڑ گئے۔
اِسی طرح حبقوق میں لکھا ہے’’ زمین اُس کی حمد سے معمور ہوئی‘‘۔ وہ کون ہے جس کا نام محمد تھا اور جس کے دشمن اُسے گالیاں دیتے تو اُس کا نام لے کر اُنہیں گالیاں دینے کی جرأت نہیں ہوتی تھی کیونکہ محمد یعنی تعریف والا کہہ کر وہ اُسے کیا گالی دے سکتے تھے اِس لئے وہ اس کو مذمم کہہ کر گالی دیتے تھے اور جب کبھی آپ کے صحابہ کو گالیاں سن کر جوش آتا تو آپ فرماتے تمہارے لئے جوش کی کوئی وجہ نہیں۔ وہ مجھے تو گالیاں نہیں دیتے وہ تو کسی مذمم کو گالیاں دیتے ہیں۔ پس وہ جس کے نام میں ہی حمد آتی ہے اور جس کی اُمت کی شاعری کا ایک جز و ہی نعت ِمحمد (یعنی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ) ہو گیا ہے کیا اُس کے سوا کوئی اور شخص بھی اس پیشگوئی کا مستحق ہو سکتا ہے؟
پھر لکھا ہے۔’’ مری اُس کے آگے چلی اور اُس کے قدموں پر آتشی وباروانہ ہوئی‘‘۔ یہ پیشگوئی بھی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی صادق آتی ہے کیونکہ آپ کے ذریعہ خد اتعالیٰ نے آپ کے دشمن کو تباہ کیا۔ گو اِس جگہ مری کے الفاظ ہیں جو بیماری پر دلالت کرتے ہیں مگر مراد تباہی اور ہلاکت ہی ہے کیونکہ جس ذریعہ سے بھی موت عام ہو جائے وہ مری اور وبا کہلائے گا۔پھر لکھا ہے۔ ’’ وہ کھڑا ہوا اور اُس نے زمین کو لرزہ دیا۔ اُس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا‘‘۔
یہ پیشگوئی بھی نہ تو موسٰی ؑعلیہ السلام پر صادق آسکتی ہے نہ مسیح علیہ السلام پر۔ موسیٰ علیہ السلام تو اپنے دشمن سے لڑتے ہوئے فوت ہو گئے اور مسیح علیہ السلام کو تو بقول عیسائیوں کے اُن کے دشمنوں نے پھانسی دے دیا۔ جس نے ز مین کو لرزہ دیا اور جس کی نگاہ نے قوموں کو پراگندہ کر دیا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ خود آپ نے دعویٰ فرمایا ہے نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ۱۲۸؎ خدا تعالیٰ نے مجھے رعب عطا فرما کر میری مدد کی ہے میںجہاں جائوں ایک مہینہ کے فاصلہ تک دشمن مجھ سے ڈر جاتا ہے۔
پھر لکھا ہے ’’ قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اُس کے آگے دھنس گئیں‘‘۔
یہ پیشگوئی بھی رسول کریم ﷺکے ذریعہ ہی ثابت ہوئی، کیونکہ آپ کے دشمن آپ کے مقابلہ میں ہلاک و تباہ ہو گئے اور پہاڑ اور پہاڑیوں سے مراد طاقتور دشمن ہی ہوا کرتے ہیں۔
پھر لکھا ہے ’’ میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بپت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے‘‘۔
اِس پیشگوئی سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آنے والا موعود شام سے کسی باہر کے علاقے کا ہو گا اور جب اُس کی فوجیں کیش یا کوشان اور مدائن کے علاقوں کی طرف بڑھیں گی تو اُن علاقوں کی فوجیں اس کی فوجوں کے آگے لرز جائیں گی۔ اس پیشگوئی کے موعود بھی موسیٰ علیہ السلام نہیں ہو سکتے نہ مسیح علیہ السلام ہو سکتے ہیں یہ پیشگوئی بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی صادق آتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپ کی مٹھی بھر فوج آپ کے خلیفہ اوّل حضر ت ابوبکر ؓ کے زمانہ میں فلسطین کی طرف بڑھی تو باوجود اس کے کہ کنعان اُس وقت قیصر روما کے ماتحت تھا اور وہ آدھی دنیا کا بادشاہ تھا مسلمانوں کی مٹھی بھر فوج کے آگے قیصر کی فوجیں اس طرح بھاگیں کہ کیش کے خیموں پر آفت آگئی اور زمین مدیان کے پردے کانپ گئے اور ان علاقوں نے اپنی نجات اس بات میں پائی کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں کے قدموں میں اپنے ہتھیار ڈال دیں۔
چوتھی پیشگوئی۔ ایک محبوب نبی کا دس ہزار آدمیوں کے ساتھ ظہور
حضرت سلیمانؑ فرماتے ہیں:۔
(الف) ’’ میرا محبوب سرخ و سفید ہے۔ دس ہزار آدمیوں کے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے اُس کا سر ایسا ہے جیسا چھو کا سونا۔ اُس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں اور کوّے کی سی کالی ہیں۔ اُس کی آنکھیں اُن کبوتریوں کی مانند ہیں جولب دریا دودھ میں نہا کے تمکنت سے بیٹھتی ہیں۔ اُس کے رخسارے پھولوں کے چمن اور بلسان کی اُبھری ہوئی کیاری کی مانند ہیں۔ اُس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا مُرٹپکتا ہے۔ اُس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے سونے کی کڑیاں جن میںترسیس کے جواہر جڑے گئے۔ اُس کا پیٹ ہاتھی دانت کا سا کام ہے جس پر نیلم سے گل بنے ہوں۔ اُس کے پیر ایسے جیسے سنگِ مر مر کے ستون جو سونے کے پایوں پر کھڑے کئے جاویں۔ اُس کی قامت لبنان کی سی۔ وہ خوبی میں رشک سرو ہے۔ اُس کا منہ شیرینی ہے ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے۔ اے یروشلم کی بیٹیو! یہ میرا پیارا ہے یہ میرا جانی ہے‘‘۔۱۲۹؎
اِس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ ایک نبی پیدا ہونے والا ہے جو دوسرے نبیوں سے افضل ہوگا۔ کیونکہ لکھا ہے:
’’ تیرے محبوب کو دوسرے محبوب کی نسبت سے کیا فضیلت ہے‘‘۔۱۳۰؎
پھر اس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ محبوب دس ہزار آدمیوں کے درمیان جھنڈے کی مانند کھڑا ہو گا۔ چونکہ جھنڈا فوج کی علامت ہے اِس لئے اِس کے معنی یہ ہیں کہ ایک عظیم الشان موقع پر وہ دس ہزار سپاہیوں کی افسری کرے گا۔
پھر لکھا ہے۔ ’’ اُس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا مُر ٹپکتا ہے‘‘۔
مُر ایک گوند ہے جس کا مزہ تلخ لیکن تأثیر نہایت اعلیٰ اور خوشبو نہایت عمدہ ہوتی ہے۔ کیڑوں کے مارنے کے لئے نہایت اعلیٰ سمجھی جاتی ہے اور زخموں کے اند مال میں نہایت ہی مفید ہے۔ کرم کش اَدْوِیہ میں پڑتی ہے اور زخموں کی مرہموں میں ڈالی جاتی ہے۔ اسی طرح خوشبوئوں کے مصالحوں میں بھی اُس کو استعمال کیا جاتا ہے اور عطروں کے بنانے میں بھی کام میں لائی جاتی ہے۔
پھر لکھا ہے:۔
’’ وہ محمدیم ہے‘‘۔ اِس کا ترجمہ انگریزی بائبل میں ALL TOGATHER LOVELY کیا گیا ہے اور اُردو بائبل میں سراپا عشق انگیز کیاگیا ہے۔ یعنی اُسے دیکھ کر انسان اُس سے محبت کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ پیشگوئی واضح طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں ہوتی ہے۔ آپ ہی موسیٰ کی پیشگوئی کے مطابق دس ہزار قدوسیوں کے سردار ہونے کی حیثیت میں فاران کی چوٹیوں پر سے گزر تے ہوئے مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے۔ آپ ہی وہ شخص تھے جن کا کلام صحیح معنوں میں دنیا کے لئے مُر ثابت ہوا ہے اور اس میں انسانی اصلاح کے لئے تمام قواعد بیان کر دئیے گئے ہیں جو بعض قومو ں کے منہ میں کڑوے معلوم ہوتے ہیں گو ہیں وہ کرم کش اور خوشبو دار۔ اور آپ ہی ہیں جن کا نام محمد تھا۔
عیسائی مصنف اِس پیشگوئی سے گھبرا کر کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس موعود کا نام محمدنہیں بلکہ محمدیم لکھاہے۔ لیکن یہ اعتراض ایک بے معنی اعتراض ہے۔ تورات نے تو خدا کو بھی ’’ الوہیم‘‘ لکھا ہے۔ عبرانی زبان کا قاعدہ ہے کہ وہ اعزاز اور اکرام کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کر دیتی ہے۔ اُردو زبان میں بھی ہم دیکھتے ہیںکہ اعزاز کے موقع پر جمع کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اگر ایک اُردولیکچرار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں کوئی لیکچر دے گا تو آخر میں کہے گا یہ ہیں ہمارے محمد۔ حالانکہ اس کی مراد یہ ہو گی کہ گو ہمارا آقا محمد تو ایک ہی شخص ہے لیکن میں آپ کے اعزاز کے طور پر جمع کا لفظ بولتا ہوں۔
(ب) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک اور پیشگوئی غزل الغزلات باب ۴ میں بیان ہوئی ہے۔ اس میں حضرت سلیمان اپنی محبوبہ کو بہن بھی کہتے ہیں اور ساتھ ہی زوجہ بھی کہتے ہیں چنانچہ غزل الغزلات باب ۴ آیت ۹ میں اپنی محبوبہ کی نسبت کہتے ہیں:۔
’’ اے میری بوا میری زوجہ‘‘
پھر آیت ۱۰ میںلکھا ہے:۔
’’ اے میری بہن میری زوجہ‘‘۔
پھر آیت ۱۲ میں لکھا ہے۔
’’ میری بوا میری زوجہ‘‘۔
اِن دونوں الفاظ کا جوڑ بتاتا ہے کہ آنے والا محبوب بنو اسمٰعیل میں سے ہوگا۔ جیسے حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ وہ تیرے بھائیوں میں سے ہوگا۔ چونکہ حضرت سلیمان اس کو ایک معشوق کی صورت میں پیش کر رہے ہیں اِس لئے انہوں نے بجائے بھائی کے بہن کا لفظ استعمال کیا ہے اور ا س میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس کی تعلیم بنو اسحاق کے نبیوں کی طرح صرف اپنی قوم کے لئے نہیں ہوگی بلکہ دوسری اقوام کے لئے بھی اُس کے گھر کا دروازہ کھلا ہو گا جس کی طرف زوجہ کے لفظ سے اشارہ کیا گیا ہے۔اس پیشگوئی میں مؤنث کے صیغوںسے دھوکا نہیں کھانا چاہئے کیونکہ یہ ایک شاعرانہ رنگ کا کلا م ہے چنانچہ اِسی باب کے آخر میں جا کر کہا ہے۔
’’ میرا محبوب اپنے باغیچے میں آوے اور اُس کے لذیذ میوے کھاوے‘‘۔۱۳۱؎
یہاں بجائے مؤنث کے مذکر کا صیغہ استعمال کر دیا گیا ہے۔ یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سِوا کسی اور پر پوری نہیں ہوتی۔ حضرت مسیح بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے نہیں تھے نہ اُن کی تعلیم غیر قوموں کے لئے تھی جیسا کہ پہلے ثابت کیا جا چکا ہے۔
(ج) اِسی طرح غزل الغزلات میں لکھا ہے:۔
’’ میں سیاہ فام جمیلہ ہو ں۔ اے یروشلم کی بیٹیو! قیدار کے خیموں کی مانند، سلیمان کے پردوں کی مانند مجھے مت تاکو کہ میں سیاہ فام ہوں‘‘۔۱۳۲؎
اِس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان نے ایک ایسے نبی کی خبر دی ہے جو جنوب کا رہنے والا ہو گا اور بنو اسحق کی نسبت جو شمال کے رہنے والے تھے اُس کا رنگ کم اُجلا ہو گا یا یوں کہو کہ اُس کی قوم کا رنگ کم اُجلا ہو گا۔ چنانچہ شامیوں اور فلسطینیوں کے رنگ بوجہ شمال میں رہنے کے عربوں کی نسبت زیادہ سفید ہوتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں پیدا ہوئے تھے۔
(د) اِسی باب میں پھر آنے والے موعود کی یہ علامت بتائی گئی ہے کہ :۔
’’ میری ماں کے بیٹے ناخوش تھے۔ انہوں نے مجھ سے تاکستانوں کی نگہبانی کرائی، پر میں نے اپنے تاکستانوں کی جو خاص میرا ہے نگہبانی نہیں کی‘‘۔۱۳۳؎
یہ درحقیقت موعود کی قوم کی طرف اشارہ ہے۔ عرب لوگ کہیں قیصر کی نوکری کرتے تھے اور کہیں ایرانیوں کی نوکریاں کرتے تھے مگر خود اپنے ملک کی ترقی کا اُ ن کو کوئی خیال نہ تھا۔ یہاں تک کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور انہوں نے اُن کے اندر بیداری پیدا کی اور اُن کی روحانی اور علمی اور سیاسی اصلاح کی جس کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ عرب اپنے تاکستانوں کے محافظ ہو گئے بلکہ وہ دنیا بھر کے تاکستانوں کے آزاد محافظ بن گئے۔
(ہ)اسی طرح غزل الغز لات میں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ اسرائیلی سلسلہ کے لوگوں کو چاہئے کہ آنے والے موعود کو خواہ مخواہ اپنی طرف متوجہ نہ کریں ورنہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
’’ اے یروشلم کی بیٹیو! میں غزالوں اور میدان کی ہرنیوں کی قسم تمہیں دیتا ہوں کہ تم میری پیاری کو نہ جگائو اور نہ اُٹھائو جب تک وہ اُٹھنے نہ چاہے‘‘۔۱۳۴؎
یہی مضمون پھر باب ۳ آیت ۵ میں بیان کیا گیا ہے اور یہی مضمون پھر سہ بارہ باب ۸ آیت۴ میں بیان کیا گیا ہے۔ا ِن عبارتوں کا مطلب یہی ہے کہ جب وہ نبی ہو گاتو یہود اور عیسائی بنی اسرائیل کی دو شاخیں اُسے دِق کریں گی اور وہ اُس کو مجبور کریں گی کہ وہ اُن پر حملہ کرے لیکن چونکہ وہ خد تعالیٰ کی طرف سے ہو گا یہود اور عیسائی اُس کے مقابلہ میں کامیاب نہ ہو سکیں گے بلکہ خطرناک شکست کھائیں گے۔ حضرت سلیمانؑ اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہیں کہ دیکھ! اُس کو جگانا نہیں یعنی اُس کو چھیڑ کر اپنی طرف متوجہ نہ کرنا۔ ہاں جب وہ آپ جاگے یعنی جب خداتعالیٰ کی مشیت چاہے کہ وہ تمہارے ملکوں کی طر ف توجہ کرے تو پھر بے شک کرے مگر خود اُس کو نہ چھیڑنا اس لئے کہ جو قوم خود کسی نبی کو چھیڑتی ہے وہ اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنا لیتی ہے جیسا کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھیڑ کر اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنالیا۔ لیکن اگر کوئی قوم نہ چھیڑے تو نبی اُس کی طرف جارحانہ طور پر توجہ نہیں کرتا۔ صرف وعظ و نصیحت سے اُس کو مخاطب کرتا ہے۔ نبی تلوار اُس کے خلاف اُٹھاتے ہیں جو پہلے اُن کے خلاف تلوار اُٹھاتے ہیں اور اُنہی کے خلاف جنگ کرتے ہیں جو خد اکے سچے دین کو مٹانے کے لئے جبرا ور تعدی سے کام لیتے ہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس پر شاہد ہے اور حضرت سلیمان نے اپنی قوم کو اِسی خطرہ سے آگاہ کیا ہے۔
یہ پیشگوئیاں کسی صورت میں بھی حضرت مسیح پر چسپاں نہیں ہو سکتیں۔ نہ تو مسیح فلسطین کے جنوب میںپیدا ہوئے نہ وہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے تھے نہ اُن کو کوئی ایسی طاقت حاصل تھی کہ اُن کو چھیڑنے کی وجہ سے بنو اسرائیل تباہ ہوتے۔ یہ ساری کی ساری پیشگوئیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں ہو سکتی ہیں اور اُنہی کی خبر غزل الغزلات میں دی گئی ہے۔ غزل الغزلات درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے اظہار میں لکھی گئی ہے۔
پانچویں پیشگوئی۔ یسعیاہ نبی نے بھی ایک عظیم الشان نبی کے ظہور کی خبر دی
یسعیاہ کی کتاب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں سے بھری پڑی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ
ایک عظیم الشان نبی اَورآنے والا ہے جو دنیا کیلئے سلامتی اور امن لائے گا لیکن جیسا کہ سنتِ الٰہی ہے پیشگوئیوں میں ایک رنگ اخفاء کا بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ یسعیاہ کی پیشگوئیوں میں بھی یروشلم اور صیہوں وغیرہ کے نام آئے ہیں جس کی وجہ سے مسیحی مصنفوں نے دھوکا کھایا ہے کہ یہ پیشگوئیاں مسیح کے متعلق ہیں۔ حالانکہ یروشلم یا بنو اسرائیل یا صیہوں کے الفاظ اپنی ذات میں تو پیشگوئی کا کوئی حصہ نہیں۔ ا گر پیشگوئی کی تفصیلات مسیح پر چسپاں نہیں ہوتیں تو صرف یروشلم اورصیہو ں کے الفاظ سے کیا دھوکا لگ سکتا ہے۔اس صورت میں ہمیں یہی ماننا پڑے گا کہ یروشلم اور صیہوں اور بنی اسرائیل سے مراد صرف یہ ہے کہ میرے مقدس مقامات اور میری پیاری قوم نہ کہ حقیقی طور پر یروشلم اور صیہوں اور بنی اسرائیل۔
(الف) اس سلسلہ میں سب سے پہلی پیشگوئی میں یسعیاہ باب ۴ سے نقل کرتا ہوں۔ لکھا ہے:۔
’’ اُس دن سات عورتیں ایک مرد کو پکڑکر کہیں گی کہ ہم اپنی روٹی کھائیں گی اور اپنے کپڑے پہنیں گی تُو ہم سب سے صرف اتنا کرکہ ہم تیرے نام کی کہلاویں تاکہ ہماری شرمندگی مٹے۔ اُس دن خداوند کی شان شوکت اور حشمت ہوگی اور زمین کاپھل اُن کے لئے جو بنی اسرائیل میں سے بچ نکلے لذیذ اور خوشنما ہو گا اور ایسا ہوگا کہ ہر ایک جو صیہوں میں چھوٹا ہوا ہو گااور یروشلم میں باقی رہے گا۔ بلکہ ہر ایک جس کا نام یروشلم کے زندوں میں لکھا ہو گا مقدس کہلائے گا‘‘۔۱۳۵؎
اِس پیشگوئی میں اگر صیہوں اور یروشلم کو استعارہ قرار دیا جائے تو جو مفہوم اِس پیشگوئی کا نکلتا ہے وہ سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی پر صادق نہیں آتا۔اِن آیتوں میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنے والے موعود کے ساتھ شوکت اور حشمت ہو گی اور اُس کو دنیا کی غنیمتیں ملیں گی اور اُس کی قوم کے لوگ مقدس کہلائیں گے اور اُس کے زمانہ میں کثرتِ ازدواج کی ضرورت ہوگی۔ کیا یہ باتیں مسیح اور اُس کے حواریوں پر چسپاں ہوتی ہیں؟ کیا مسیح کا زمانہ شوکت اور حشمت والا تھایا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ شوکت اور حشمت والا تھا؟ کیا دنیا کی غنیمتیں مسیح اور اُس کے حواریوں کو ملیں یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے صحابہ کو؟ کیا مسیح کے زمانہ میں کثرتِ ازدواج کی ضرورت پیش آئی یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں؟ مسیح نے تو کثرتِ ازدواج کو ناپسند کیا ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرتِ ازدواج کو مناسب حالات میں جائز بلکہ پسندیدہ کہا ہے۔ آپ ہی کے زمانہ میں لڑائیاں ہوئیں اور لڑائیوں میں جوان آدمی مارے گئے اور عورتیں یا بیوہ ہو گئیں یا جوان عورتوں کے لئے رشتے میسر نہ آئے۔ پس آپ نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ ایسی صورت میں مردوں کا فرض ہے کہ ایک سے زیادہ عورتوںسے شادیاں کریں تاکہ قوم میں بدکاری اور آوارہ گردی پیدا نہ ہو۔
(ب) یسعیاہ نبی اپنی کتاب کے باب ۵ میں پیشگوئی فرماتے ہیں:۔
’’ وہ قوموں کے لئے دُور سے ایک جھنڈا کھڑا کرتا ہے اور اُنہیں زمین کی اشیاء سے سیٹی بجا کے بلاتا ہے اور دیکھ وے دَوڑ کے جلد آتے ہیں۔ کوئی اُن میں نہ تھک جاتا اور نہ پھسل پڑتا ہے۔ وے نہیں اُونگھتے اور نہیںسوتے۔ اُن کا کمر بند کھلتا نہیں ہے اور نہ اُن کی جوتیوں کا تسمہ ٹوٹتا ہے۔اُن کے تیر تیز ہیں اور اُن کی ساری کمانیں کشیدہ ہیں۔ اُن کے گھوڑوں کے سم چقماق کے پتھر کی مانند ٹھہرتے اور اُن کے پہیے گرد باد کی مانند وے شیرنی کی مانند گرجتے ہیں۔ ہاں وے جوان شیروں کی مانند گرجتے ہیں وے غراتے اور شکار پکڑتے اور اُسے بے روک ٹوک لے جاتے ہیں اور کوئی بچانے والا نہیں اور اُس دن اُن پر ایسا شور مچائیں گے جیسا سمندر کا شور ہوتا ہے اور یہ زمین کی طرف تاکیں گے اور کیا دیکھتے ہیں کہ اندھیرا اور تنگ حالی ہے اور روشنی اُس کی بدیو ں سے تاریک ہو جاتی ہے‘‘۔۱۳۶؎
اِس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک زمانہ میں تمام قوموں کے لئے فلسطین سے دُور کسی جگہ پر ایک جھنڈا کھڑا کرے گا اور اس جھنڈے والا دنیا کی مختلف قوموں کو بلائے گا اور وہ جلدی سے دَوڑ کر اُس کے پا س جمع ہو جائیںگی۔ وہ لوگ بڑی بڑی قربانیاں کرنے والے ہوںگے اور غفلت اور سستی سے محفوظ ہوںگے۔اُنہیں لڑائیاں کرنی پڑیں گی۔ اُن کے گھوڑوں کے سموں سے آگ نکلے گی اور جب وہ حملہ کرنے کے لئے چلیں گے تو ہوا میں گرداُڑے گی۔ وہ اپنے شکار پر غالب آجائیں گے اور اُن کے شکار کو کوئی بچانے والا نہیں ہو گا۔ وہ ایسا کیوں کریں گے؟ اس لئے کہ وہ دیکھیں گے کہ ز مین میں تاریکی اور ظلمت پھیلی ہوئی ہے اور لوگ ایک عظیم الشان انقلاب کے محتاج ہیں۔
یہ پیشگوئی کُلّی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ صرف چسپاں ہوتی ہے بلکہ قرآن کریم میں اِس پیشگوئی کے مطابق فلسطین سے دُور یعنی مکہ میں آپ ظاہر ہوئے اور آپ کا جھنڈا مدینہ میں کھڑا کیا گیا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے قرآنی الفاظ میں یہ اعلان کیا۱۳۷؎ اے انسانو! میں تما م لوگوں کی طرف خدا کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ آپ ہی کی آواز پر چاروں طرف سے لوگ دَوڑنے لگ گئے اور جلد جلد آپ کے گرد جمع ہو گئے۔ مسیح کی زندگی میں تو ایک شخص بھی غیرقوموں میں سے اُس پر ایمان نہیں لایا تھا۔ اُس کے سارے کے سارے حواری چالیس پچاس میل کے حلقہ کے اندر رہنے والے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر یمن کے رہنے والے اور نجد کے رہنے والے یہودیوں میں سے بھی اور ایرانیوں میں سے بھی اور عیسائیوں میں سے بھی ایمان لائے اور آپ کے گرد جمع ہو گئے اور اِس پیشگوئی کے مطابق اُنہوں نے ایسی قربانیاں اور اَن تھک کو ششیں کیں کہ دشمن سے دشمن بھی اُن کی قربانیوں کی تعریف کئے بغیر نہیں رہتا اور خدا تعالیٰ نے بھی اپنے کلام میں اُن کی نسبت فرمایا ہے ۱۳۸؎ اُنہوںنے ایسی قربانیاں کیں کہ خد اُن سے راضی ہو گیا اور وہ خدا سے راضی ہو گئے۔ اور پھر قرآن کریم میں اُن کا یوں ذکر بھی آتا ہے کہ ۱۳۹؎ کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنے عہد پورے کر دئیے ہیں اورکچھ وہ ہیں جو اپنے عہد کے پورا کرنے کے انتظار میں ہیں۔ پھر اُن کو جنگیں بھی پیش آئیں اور تیروں اور کمانوں سے اُنہوں نے کام لیا۔اُن کے گھوڑے چقماق کی طرح ہو گئے اور اُن کے پہییٔ گرد باد۱۴۰؎ کی مانند جس کی طرف خود قرآن کریم میں اشارہ کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱۴۱؎ یعنی ہم قسم کھاتے ہیں اُن اسپ سواروں کی جو تیزی سے دشمن پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھتے ہیں ایسی تیزی سے کہ اُن کے گھوڑوں کے ٹاپوں سے آگ نکلنے لگتی ہے اور اُن کے حملہ سے گردو غبار کا ایک طوفان اُٹھ پڑتا ہے اور وہ ایسی شان اور طاقت کے ساتھ اپنے دشمن کی صفوں میں گھس کر اُسے مغلوب کر لیتے ہیں۔ کس طرح لفظ بلفظ اس پیشگوئی کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے۔
پھر یہ جو اِس پیشگوئی میں کہا ہے کہ ’’ وہ زمین کی طرف تاکیں گے اور کیا دیکھتے ہیںکہ اندھیرا اور تنگ حالی ہے اور روشنی اس کی بدلیوں سے تاریک ہو جاتی ہے‘‘۔
اِسی کی طرف قرآن کریم میں اِن الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ۱۴۲؎ تمام دنیا میں خشکی اور تری میں فساد اور خرابی پیدا ہو گئی ہے اور خدا تعالیٰ کے ایک مامور کے ظاہر ہونے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے۔
۱۴۳؎ یہ خدا کا رسول اس لئے آیا ہے کہ دنیا سب کی سب تاریکی میں پڑی ہے اور وہ اس کو تاریکی سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔
(ج) یسعیاہ باب ۸ میں لکھا ہے:۔
’’ ربُّ الافواج جو کہے تم اُس کی تقدیس کرو اور اُس سے ڈرتے رہو اور اس کی ہی دہشت رکھو۔ وہ تمہارے لئے ایک مقدس ہو گا۔ پر اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے ٹکر کا پتھر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان اور یروشلم کے باشندو ں کے لئے پھندا اور دام ہووے گا۔ بہت لوگ اُن سے ٹھوکر کھائیں گے اور گریں گے اورٹوٹ جائیں گے اور دام میں پھنسیں گے اور پکڑے جائیں گے۔ شہادت نامہ بند کر لو اور میرے شاگردوں کے لئے شریعت پر مہر کرو۔ میں بھی خداوند کی راہ دیکھوں گا جو اَب یعقوب کے گھرانے سے اپنا منہ چھپاتا ہے میں اُس کا انتظار کروںگا‘‘۔۱۴۴؎
اِس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ کا ایک مقدس ظاہر ہوگا لیکن وہ بنی اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوگا اور یروشلم کے باشندوں کے لئے پھندا اور دام بنے گا۔ا گر وہ اس کا مقابلہ کریں گے تو وہ شکست کھائیں گے اور پکڑے جائیں گے۔ اُس کے زمانہ میں یہودی شریعت ختم کردی جائے گی اور یعقوب کے گھرانے سے خدا تعالیٰ منہ پھیر لے گا۔
انجیل نویس اس پیشگوئی کے متعلق خاموش ہیں اور شاید وہ اسرائیل کے دونوں گھرانوں سے وہ دو گھرانے مراد لیتے ہیں جن میں سے ایک نے سلیمان کے بیٹے کا ساتھ دیا تھااور دوسرے نے اُن سے بغاوت کر کے الگ حکومت قائم کر لی تھی۔ لیکن یہ درست نہیں ہوسکتا۔ اِس پیشگوئی میں تو یہ بتایاگیا ہے کہ خدا کا ایک مقدس کھڑا ہو گا اور اُس کے زمانہ میں یہ باتیں ہوں گی۔ یا تو اس مقدس سے مراد مسیح ہے اور یا پھر مسیح کے بعد کوئی اور آنے والا شخص ہے۔ کیونکہ یسعیاہ اور مسیح کے درمیان کوئی ایسا باعظمت انسان نہیں گزرا جس کے ساتھ بنو اسرائیل نے ٹکر کھائی ہو۔ صرف حضرت مسیحؑ ہی ایسے تھے جن سے بنوا سرائیل نے ٹکر کھائی۔ مگر کیا مسیح سے ٹکر کھا کر بنو اسرائیل پکڑے گئے یا اُن کے شاگردوں کے لئے شریعت پر مہر کر دی گئی؟ مسیح تو صاف کہتا ہے کہ :۔
’’ یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا ہوں۔ میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو‘‘۔۱۴۵؎
بلکہ مسیح اپنے بعد کے زمانہ کے لئے بھی کہتا ہے کہ:۔
’’ کیا براتی جب تک کہ دولہا اُن کے ساتھ ہے روزہ رکھ سکتے ہیں۔ وے جب تک کہ دولہا اُن کے ساتھ ہے روزہ نہیں رکھ سکتے۔ لیکن وے دن آویں گے جب دولہا اُن سے جدا کیا جائے گا، تب اُنہی دنوں میں وے روزے رکھیںگے‘‘۔۱۴۶؎
اِن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کے فیصلہ کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد بھی آپ کے حواریوں کے لیے موسوی تعلیم پر عمل کرنا لازم ہوگا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو مسیح یہ کہتا کہ میں نے تو ہمیشہ کے لئے روزے منسوخ کر دئیے ہیںمگر وہ خود روز ے رکھتا ہے اور اپنے حواریوں کے متعلق خبر دیتا ہے کہ گو آجکل اِن میں کمزوری پائی جاتی ہے لیکن آئندہ زمانہ میں وہ روزے رکھنے لگ جائیں گے۔
پس شریعت پر مہر کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ شریعت کو بالکل اُڑا دیا گیا بلکہ اس پیشگوئی کے یہی معنی ہیں کہ اُس مقدس کے زمانہ میں موسوی شریعت منسوخ کر دی جائے گی اور ایک نئی شریعت قائم کر دی جائے گی۔ اگر یہ نہ ہوتا تو یہ کیوںکہا جاتا کہ یعقوب کے گھرانے سے خدا اپنا منہ پھیر لے گا۔ کیا مسیح یعقوب کے گھرانے سے نہیں تھا؟ اگر مسیح یعقوب کے گھرانے میں سے نہیں تھا تو وہ دائود کی نسل میں سے نہیں تھا؟ اور اگر وہ دائود کی نسل میں سے نہیں تھا تو پھر مسیح کے متعلق جوپیشگوئیاں ہیں اُن کا بھی وہ مستحق نہیں تھا۔
(د) یسعیاہ باب ۹ میں لکھا ہے:۔
’’ ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا ور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کاندھے پر ہو گی اور وہ اِس نام سے کہلاتا ہے۔ عجیب۔ مشیر۔ خدائے قادر۔ ابدیت کا باپ۔ سلامتی کاشہزادہ۔ اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی۔ وہ دائود کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے لے کر ابد تک بندوبست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا۔ رَبُّ الافواج کی غیوری یہ کرے گی‘‘۔۱۴۷؎
اِس پیشگوئی میں ایک موعود کی خبر دی گئی ہے جو بادشاہ ہو گا اور جس کے پانچ نام ہوں گے (۱) عجیب (۲) مشیر (۳) خدائے قادر (۴) ابدیت کا باپ (۵) سلامتی کا شہزادہ۔ اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی اور وہ دائود کے تخت پر ہمیشہ کے لئے بیٹھے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا۔ اناجیل کے حاشیہنویسوں نے اِس باب کے شروع میں لکھا ہے کہ اِس میں مسیح کی پیدائش کی خبر ہے۔ لیکن اُن علامتوں میں سے جو اِس پیشگوئی میں بیان کی گئی ہیں کوئی ایک بھی تو حضرت مسیحؑ پر صادق نہیں آتی۔ وہ کب بادشاہ ہوئے؟ کب اُن کو عجیب۔ مشیر۔ خدائے قادر۔ ابدیت کا باپ اور سلامتی کا شہزادہ کہا گیا؟ ’’عجیب‘‘ تو شاید اُن کی پیدائش کے لحاظ سے اُن کو کہا بھی جا سکے گو ایسا کہا نہیں گیا کیونکہ جو اُ ن کو نہیں مانتے تھے وہ تو اُن کی پیدائش کو ناجائز قرار دیتے تھے۔ پس وہ اُنہیں’’ عجیب‘‘ نہیں قرار دے سکتے تھے اور جو مانتے تھے وہ اُن کی پیدائش کے متعلق مختلف شبہات میں تھے۔ کوئی انہیں دائود کی اولاد قرارد یتا تھا اور کوئی روح القدس کی۔ دوسرا نام مشیر بتایا گیا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مشیر ہونے کا کبھی موقع نہیں ملا۔ ساری انجیل میں دیکھ لو کسی ایک جگہ بھی انہوں نے اپنی قوم سے مشورہ نہیں لیاا ورنہ انہوں نے اپنی قوم کو کوئی مشورہ دیا۔ پھر وہ مشیر کس طرح کہلائے؟ تیسرا نام خدائے قادر بتلایا گیا ہے۔ مسیح تو ساری عمر ابن اللہ کہلاتے رہے۔ وہ خدائے قادر کس طرح کہلا سکتے تھے؟ اور پھر مسیح تو اناجیل کے بیان کے مطابق پھانسی دے کر مار دیا گیا تھا، ایسا انسان قادر کس طرح کہلا سکتا ہے۔ اناجیل میںصاف آتا ہے کہ جب حضرت مسیح صلیب پر لٹکائے گئے تو یہودیوں نے اُن کو طعنہ دیا کہ اگر تُو خد اکا بیٹا ہے تو صلیب پر سے اُتر آ۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
’’ یوں ہی سردار کا ہنوں نے بھی فقیہوں اور بزرگوں کے ساتھ ٹھٹھا مار کے کہا۔ اِس نے اَوروں کو بچا یا مگر آپ کو نہیں بچا سکتا۔ اگر اسرائیل کا بادشاہ ہے تو اب صلیب پرسے اُتر آوے تو ہم اِس پر ایمان لاویں گے‘‘۔۱۴۸؎
حتی کہ وہ چوربھی حضرت مسیح کے ساتھ صلیب دئیے گئے تھے اُن کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بھی اُسے طعنے مارتے تھے۔۱۴۹؎
پس حضرت مسیحؑ پر یہ حوالہ چسپاں نہیں ہو سکتا کیونکہ اُس کی قدرت نہ کبھی ظاہر ہوئی نہ لوگوں نے اُس کی قدرت کا کبھی اقرار کیا۔ اُس کے دشمن بھی اُس کی قدرتوں کا انکار کیاکرتے تھے اور اُس کے دوست بھی اُس کی قدرتوں کے منکر تھے۔ا گر ایسا نہ ہوتا تو مسیح کے حواری اُس کو چھوڑ کر بھاگ کیوںجاتے؟ جیسا کہ لکھا ہے:۔
’’ تب سب شاگرد اُسے چھوڑ کر بھاگ گئے۔‘‘۱۵۰ ؎
کیا کبھی کوئی شخض قادر کو بھی چھوڑا کرتا ہے؟
چوتھا نام ابدیت کا باپ ہے۔ یہ نام بھی حضر ت مسیحؑ پر چسپاں نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جیسا کہ اوپر ثابت کیا جا چکا ہے وہ خود اپنے بعد ایک مامور کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔
پانچواں نام سلامتی کا شہزادہ ہے۔ یہ نام بھی حضر ت مسیحؑ پر چسپاں نہیں ہو سکتا کیونکہ اُنہیں کبھی بادشاہت نصیب ہی نہیں ہوئی کہ اُن کے ذریعہ سے دنیا کو سلامتی ملی ہو وہ تو خود یہود سے دُکھ پاتے رہے، آخر پکڑے گئے اور صلیب پر لٹکائے گئے۔ پس اُنہیں سلامتی کا شہزادہ کسی صورت میں بھی نہیں کہا جا سکتا۔
پھر لکھا ہے ’’اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی۔‘‘ یہ بات بھی حضرت مسیحؑ میں نہیں پائی جاتی۔ نہ اُن کو سلطنت ملی نہ اُس کا اقبال اور سلامتی انہوں نے دیکھی۔ اِسی طرح لکھا ہے ’’ وہ دائود کے تخت پر اور اُس کی مملکت میں آج سے لے کر ابد تک بندوبست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا‘‘۔ یہ بات بھی حضرت مسیحؑ کو نصیب نہیں ہوئی۔ یہ سب کی سب علامتیں رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی پائی جاتی ہیں۔ آپ کے کندھے پر سلطنت رکھی گئی اور گو آپ نہیں چاہتے تھے کہ آپ بادشاہ ہوں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ آپ بادشاہ بننے پر مجبور ہو گئے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ حضرت مسیحؑ تو باوجود اِس کے کہ اُن کے پاس نہ کوئی حکومت تھی نہ طاقت پھر بھی بادشاہ کہلانے کے شوقین تھے جیسا کہ متی باب ۲۱ میں لکھا ہے:۔
’’ مسیح گدھے پر سوار ہو کر یروشلم میں داخل ہو ا تاکہ جونبی نے کہا تھا پورا ہو کہ صیہوں کی بیٹی سے کہو کہ دیکھ تیرا بادشاہ فروتنی سے گدھی پر بلکہ گدھی کے بچہپر سوار ہو کر تجھ پاس آتا ہے‘‘۔۱۵۱؎
اِسی طرح متی باب ۲۷ آیت ۱۱ میں لکھا ہے:۔
’’ یسوع حاکم کے روبرو کھڑا تھا اور حاکم نے اُس سے پوچھا کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ یسوع نے اُس سے کہا ہاں تُو ٹھیک کہتا ہے‘‘۔
لوقا باب ۲۳ میں لکھاہے:۔
’’ اور ساری جماعت اُٹھ کے اُسے پیلا طوس کے پاس لے گئی اور اس پر نالش کرنی شروع کی کہ اُسے ہم نے قوم کو بہکاتے اور قیصر کو محصول دینے سے منع کرتے اور اپنے تئیں مسیح بادشاہ کہتے پایا۔ تب پیلا طوس نے اُس سے پوچھا کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ اُس نے اُس کے جواب میں کہا وہی ہے جو تُو کہتا ہے‘‘۔۱۵۲؎
یوحنا باب ۱۸ آیت ۳۷ میں لکھا ہے:۔
’’ تب پیلا طوس نے اُسے کہا سو کیا تو بادشاہ ہے؟ یسوع نے جواب دیا کہ جیسا آپ فرماتے ہیں میں بادشاہ ہو ں‘‘۔
لیکن رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم باوجود حکومت اور طاقت حاصل ہونے کے بادشاہ کہلانے سے سخت نفرت رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ قیصرو کسریٰ والا رنگ ہم میں نہیں ہونا چاہئے۔ اُن کو جب خدا تعالیٰ اقتدار بخشتا ہے تو وہ بنی نوع انسان کو غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمیں خدا تعالیٰ نے خدمت خلق کے لئے پیدا کیا ہے۔
پھر لکھاتھا کہ اُس کا نام’’ عجیب ‘‘ہو گا۔ حضر ت مسیح خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہ عجیب نام پانے والا وہ موعود ہے جواُن کے بعد آئے گا۔ چنانچہ انگور ستان کی مثال میں حضرت مسیح کہتے ہیں:۔
’’ ایک مالک نے انگور ستان لگایا اور باغبا نوں کے حوالے کر دیا۔ پھر مالک نے نوکروں کو اُس کا پھل لانے کے لئے باغبانوں کے پاس بھیجا مگر باغبانوں نے باری باری تمام نوکروں کو مارا پیٹا یا پتھرائو کیا۔ اِس کے بعد اور بڑے بڑے نوکر بھیجے گئے مگر اُن کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا۔ پھر اُس نے اپنے بیٹے کو بھیجا مگر بیٹے کو بھی انہوں نے مار ڈالا‘‘۔ ۱۵۳؎
اِس کے بعد مسیح نے لوگوں سے سوال کیا کہ وہ باغبان جنہوں نے یہ معاملہ کیا بتائو ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ لوگوں نے کہا :۔
’’ اِن بدوں کو بُری طرح مار ڈالے گا اور انگور ستان کو اور باغبانوں کو سونپے گا جو اُسے موسم میں میوہ پہنچا ویں۔ یسوع نے انہیں کہا کہ کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راجگیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سِرا ہوا۔ یہ خدا کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب۔ اِس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اُس کو میوہ لادے دی جائے گی۔ جو اُس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا پر جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا‘‘۔۱۵۴؎
اِس تمثیل کے بیان کرتے وقت حضرت مسیحؑ نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ بیٹے کو صلیب دینے کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اور مأمور ظاہر ہو گا جو کونے کا پتھر کہلائے گا اور وہ مسیح اور تمام باقی لوگوں کی نظروں میں عجیب ہوگا۔ پس جب مسیح خود کہتا ہے کہ عجیب وہ شخص کہلائے گا جو بیٹے کو صلیب دئیے جانے کے بعد آئے گا تو یقینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی عجیب ہیں جو مسیح کے صلیب پانے کے بعد ظاہر ہوئے۔
دوسرا نام آنے والے کامشیر رکھا گیا ہے۔ یہ نام بھی صرف رسول کریمﷺپر ہی چسپاں ہوتا ہے کیونکہ آپ ہی تھے جن سے ساری قوم مشورہ لیا کرتی تھی اور جنہوں نے اپنی قوم میں مشورے کا رواج ڈالا اور حکومت کے لئے یہ لازمی قرار دیا کہ وہ باشند گانِ ملک کے مشورہ سے ہر ایک کام کیا کرے۔ رسول کریم ﷺکے مشوروں کا ذکر قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۔۱۵۵؎ اے مؤمنو! جب کبھی تم رسول سے مشورہ لیا کرو تو مشورہ لینے سے پہلے غرباء اور مساکین میں تقسیم کرنے کے لئے کچھ صدقہ پیش کیا کرو۔ یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہو گا لیکن اگر تمہارے پاس کچھ نہ ہو تو پھر اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ اِس صورت میں تم بغیر صدقہ پیش کرنے کے بھی مشورہ لے سکتے ہو۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگ کثرت سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل وقت تو تمام بنی نوع انسان کا ہے بعض لوگ اپنی خاص ضرورتوں کے لئے آپ کے وقت کو نسبتاً زیادہ استعمال نہ کرنے لگ جائیں یہ قانون مقرر کر دیا گیا کہ جو شخص آپ سے مشورہ لے وہ غریبوں اور مسکینوں کے لئے کچھ صدقہ کی رقم بھی بیت المال میں ادا کرے تاکہ آپ کا وقت جو افراد کے کاموں میں لگے اُس کا کچھ نہ کچھ ازالہ اِس صدقہ کے ذریعہ سے ہو جائے۔ جس شخص سے لوگ اِس کثرت سے مشورہ لیا کرتے تھے کہ اُس کے مشورہ کو ایک مستقل ادارہ قرار دے دیا گیا وہی شخص مشیر کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔ پھر اِس لئے بھی آپ مشیر کہلانے کے مستحق ہیںکہ آپ نے حکومت کی بنیاد قومی مشوروں پر رکھی۔ چنانچہ قرآن کریم میں جو آپ پر نازل ہونے والی وحی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱۵۶؎ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ کوئی حکومتی کام نہ کریں جب تک کہ وہ ملک کے نمائندوں سے مشورہ نہ لے لیا کریں۔ اِس کی تشریح میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَاخِلَافَۃَ اِلاَّبِالْمَشْوَرَۃِ۱۵۷؎ اسلامی حکومت مشورہ کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ جو حکومت بھی باشندگانِ ملک کے مشورہ کے بغیر چلائی جائے گی وہ اسلامی نہیں کہلائے گی۔ مگر اس کے مقابلہ میں نہ مسیح نے کوئی مشورہ دنیا کو دیا نہ مشورہ کی اہمیت پر زور دیا۔ پس یقینا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخص تھے جو مشیر کہلاتے تھے اور مشیر کہلاتے ہیں۔
تیسرا نام اُس کا’’خدائے قادر ‘‘ہے۔ تورات کی رو سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ سے مشابہت حاصل تھی چنانچہ خروج باب ۷ آیت ۱ میں لکھا ہے:۔
’’ پھر خدا وند نے موسیٰ سے کہا دیکھ میں نے تجھے فرعون کے لئے خدا سا بنایا‘‘۔
اِسی طرح خروج باب ۴ آیت ۱۶ میں اللہ تعالیٰ حضرت موسٰی ؑکو فرماتا ہے:۔
’’ تُو اُس ( یعنی ہارون) کے لئے خداکی جگہ ہو گا‘‘۔
جس طرح مسیحؑ بائبل کے محاورہ کے مطابق ابن اللہ کہلانے کے مستحق ہیں اِسی طرح بائبل کے لحاظ سے حضرت موسیٰ مظہر خدا تھے۔ پس جب کبھی خدا کے لفظ سے کسی انسان کی طرف اشارہ کیا جائے گا تو اِس سے مراد یا موسیٰ علیہ السلام ہوں گے یا کوئی مثیل موسٰی ؑہو گا۔ اور یہ میں اُوپر بتا آیا ہوں کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد ایک ایسے نبی کے آنے کی خبر دی تھی جو اُن جیسا ہو گا۔۱۵۸؎ اور یہ بھی میں بتا چکا ہوں کہ اس پیشگوئی کی تمام علامتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی ہیں۔ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی خدا یا صحیح لفظوں میں یوں کہو کہ خدا کے مظہر کہلانے کے مستحق تھے۔ چنانچہ آپ کے متعلق قرآن کریم میں بھی آتا ہے ۔۱۵۹؎ جب بدر کے موقع پر تُو نے کنکر اُٹھا کر دشمن کی طرف پھینکے تھے تو اِن کنکروں کو پھینکنے والا تیرا ہاتھ نہیں تھا بلکہ خدا کا ہاتھ تھا۔
اِسی طرح آپ کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے۱۶۰؎ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ کی بیعت کرتے ہیں۔ یعنی توا للہ تعالیٰ کا مظہر ہے۔ پس اِس پیشگوئی کے مطابق اگر کوئی شخص ہو سکتا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات ہو سکتی ہے۔ پھر لفظ قادر بھی آپ ہی کی ذات پر دلالت کرتا ہے کیونکہ آپ ہی تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں ا پنے سارے دشمنوں کو زیر کر لیا اور تمام مخالفتوں اور عداوتوں کا سر کچل دیا۔
چوتھا نام ’’ ابدیت کا باپ‘‘ بتایا گیا ہے۔ یہ علامت بھی آپ پر ہی چسپاں ہوتی ہے کیونکہ آپ ہی ہیں جنہو ں نے یہ دعویٰ کیا کہ آپ کی تعلیم قیامت تک کے لئے ہے اور یہ کہ جس آنے والے مسیح کی خبر دی گئی ہے وہ بھی آپ کی اُمت کا ایک فرد ہو گا کوئی نیا شخص نہیں ہو گا جس کی وجہ سے آپ کی بادشاہت میں کوئی فرق یا اختلال واقعہ ہو جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔۱۶۱؎ یعنی ہم نے تجھے صرف اِس لئے بھیجا ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان کو تُو اس طرح جمع کرے کہ اُن میں سے کوئی طبقہ اور کوئی زمانہ تیری تبلیغ سے باہر نہ رہے اور تُو تمام انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر کے طور پر کام دے۔ لیکن اکثر انسان تیری اِس حیثیت سے واقف نہیں ہیں۔ پھر فرماتا ہے دشمن اعتراض کرتے ہیںکہ یہ وعدہ کہ تُو سب دنیا کی طرف اور ہمیشہ کیلئے ہے کس طرح پورا ہو گا۔ اگر تم سچے ہو تو اس کی دلیل دو۔ اس کا جواب دیتا ہے کہ تُو اُن سے کہہ دے کہ تمہارے لئے ہم ایک مدت مقرر کر چکے ہیں تم نہ اس مدت سے ایک ساعت پیچھے رہ سکتے ہو اور نہ آگے بڑھو گے۔ یعنی وہ وعدہ عین وقت پر پورا ہو جائے گا۔ یہ مدت وہی ہے جس کا ذکر سورہ سجدہ میں کیا گیا ہے۔ سورہ سجدہ میں اللہ فرماتا ہے ۱۶۲؎ اللہ تعالیٰ اسلام کو دنیا میں قائم کرے گا۔ پھر اسلام کا زور رفتہ رفتہ کم ہونا شروع ہو گا اور ایک دن میں جس کی لمبائی ایک ہزار سال کے برابر ہوگی وہ خدا تعالیٰ کی طرف چڑھنا شروع ہو گا اور اس میں کمزوری اور اضمحلال کے آثار پیدا ہو جائیںگے۔ اسلام کی ترقی کا زمانہ قرآن کریم سے بھی اور احادیث سے بھی تین سَوسال کا معلوم ہوتا ہے اِس میں ہزار سال شامل کیا جائے تو یہ زمانہ تیرہ سَو سال کا ہو جاتا ہے۔ پس سورہ سجدہ کی آیت کو ملا کر اِس آیت کے یہ معنی بنتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ کیلئے بشیرو نذیر ہونا اور تمام دنیا کی طرف ہونا تیرہ سَو سال کے بعد کُلّی طور پر ثابت ہو گا۔ اِن آیات میں اِس بات کی خبر دی گئی ہے کہ تیرہ سَو سال پر خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کا نزول ہو گا اور مسیح موعود آپ کی اُمت میں سے ہو گا اور چونکہ تمام انبیاء کا وہی آخری موعود ہے جب وہ آپ کی اُمت میں سے ہوگا تو اِس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ قیامت تک آپ کی شریعت قائم رہنے والی ہے اور آپ کی شریعت کو منسوخ کرنے والا کوئی اور شخص نہیں آئے گا۔ اور چونکہ اُس کے زمانہ میں تبلیغ اِسلام پر خاس طور پر زور دیا جائے گا اور اسلام دنیا میں پھیل جائے گا اِس لئے یہ امر اور بھی مستحکم ہو جائے گا کہ اسلام کو مٹانے والی کوئی طاقت دنیا میں نہیں اور ہر قوم اور ہر علاقہ کے لوگ اُس کے مخاطب ہیں جو آہستہ آہستہ اُس میں شامل ہو جائیں گے۔ پس ’’ابدیت کا باپ‘‘ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سِوا اور کوئی نہیں۔
پانچواں نام آپ کا ’’ سلامتی کا شہزادہ‘‘ رکھا گیا ہے۔ چونکہ شہزادہ بمعنی بادشاہ بھی آتا ہے اِس لئے ہم اس کے یہ معنی کر سکتے ہیں کہ وہ سلامتی کابادشاہ ہو گا۔ یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں ہوتی ہے۔ آپ جس مذہب کے بانی تھے اس کا نام خدا تعالیٰ نے اسلام رکھا تھا یعنی سلامتی۔ پس سلامتی کے شہزادے کے معنی ہوں گے اسلام کا بادشاہ۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اسلام کے بادشاہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ اسلام آپ ہی کی لائی ہوئی تعلیم کا نام ہے۔ اِسلام کے تمام مسائل آپ ہی کی طرف لَوٹتے ہیںا ور آپ ہی کے فیصلہ کے مطابق تمام اِسلامی عالم میں عمل کیاجاتا ہے۔ پس آپ تو سلامتی کے شہزادے ہیں لیکن مسیح سلامتی کا شہزادہ کیونکر کہلا سکتا ہے؟ پھر کسی شخص کو اگر کسی چیز کا شہزادہ کہا جائے تو اِس کے ایک یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ وہ چیز اُس میں کثرت سے پائی جاتی ہے۔ اُس کو نہ حکومت ملی نہ اُس نے عفو اور رأفت سے کام لیا۔ محض منہ سے کہہ دینا کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو، اِس میں تو کوئی خاص فضیلت نہیں عمل اصل چیز ہے اور یہ عمل صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات سے ظاہر ہوا۔ کیسے کیسے مظالم تھے جو مکہ والوں نے آپ پر اور آپ کی جماعت پر کئے۔ کتنے خون تھے جو آپ کے رشتہ داروں اور آپ کے اتباع کے اِن لوگوں نے بہائے۔ شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم سر سے لے کر پیر تک گواہ تھا اُن مظالم کا جو آپ کے دشمنوں نے آپ کے خلاف روا رکھے کیونکہ کبھی آپ پر سنگباری کی گئی، کبھی آپ پر تیر اندازی کی گئی، کبھی آپ کے جسم کو اَور ذرائع سے تکلیف پہنچانے کی کوشش کی گئی، وطن سے آپ کو بے وطن ہونا پڑا اور آپ کے صحابہ کو بھی۔ پھر مائوں نے بچوں کو چھوڑ دیا، خاوندوں نے بیویوں کو چھوڑ دیا، بھائیوں نے بھائیوں کو چھوڑ دیاا ور مسلمان ایک مقہور اور متروک جماعت ہو کر رہ گئے۔ غریب اور کمزور مردو ں کو دو اُونٹوں سے باندھ کر اور متضاد جہتوں کی طرف چلا کر چیر دیا گیا۔ عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے ما رکر اُنہیں مار دیا۔ غلاموں کو ننگا کر کے سخت پتھروں پر سے گھسیٹا۔ جلتی ہوئی ریت پر لٹا کر اُن کے سینوں پر ظالم کودے اور اصرار کیا کہ تم کہو خدا ایک نہیں بلکہ بت بھی خدا کے شریک ہیں۔ جنگ میں مسلمان شہداء کی لاشیں چیر کر اُن کے جگر اور دل نکال کر باہر پھینک دئیے گئے۔ اُن کے ناک اور کان کاٹ دئیے گئے۔ غرض زندوں اورمُردوں، مردوں اور عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں ہر ایک کو دُکھ دیا گیا۔ ہر ایک کی تذلیل کی گئی، ہر ایک کے ساتھ خلافِ انسانیت مظالم کا ارتکاب کیا گیا۔ یہ سب کچھ ہوا مگر جب خدا تعالیٰ کی نصرت نے آخر مسلمانوں کو فتح دی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنے دشمنوں کے سامنے صرف یہ اعلان کیا کہ لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ۱۶۳؎ جب ہمیں خدا نے قوت اور طاقت دی ہے ہم اعلان کرتے ہیں کہ مکہ کے تمام لوگوں کو معاف کیا جاتا ہے اور اُن کے مظالم کی اُنہیں کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ یہی نہیں کہ اُن کو سزا نہیں دی گئی بلکہ اُن کے جذبات کا اتنا احترام کیا گیا کہ جب اسلامی لشکر مکہ میں داخل ہونے کے لئے بڑھ رہا تھا تو ایک اِسلامی جرنیل نے یہ کہہ دیا کہ آج ہم زور سے مکہ میں داخل ہوں گے اوراُن مظالم کا بدلہ لیں گے جو مکہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہؓ پر کئے تھے۔ اِس پر آپؐ نے اُس جرنیل کو معزول کر دیا او رفرمایا اِن باتوں سے مکہ والوں کی دل شکنی ہوتی ہے۔ کیا مسیح کی زندگی میں کوئی بھی ایسا واقعہ ہے؟ کیا مسیح کے حواریوں کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ ہے؟ کیا ساری مسیحی تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ ہے؟ عیسائی بھی شروع میں مظلوم تھے۔ عیسائی بھی شروع میں مغلوب تھے۔ مگر جب اُنہیں حکومت ملی کیا اُنہوں نے اپنے دشمنوں اور اپنے مخالفوں کے ساتھ نرمی اور رحم کا برتائو کیا؟ روما کی تاریخ نکال کر دیکھو اُس کے اَوراق اُن مظالم کی یاد سے سرخ ہو رہے ہیں جو عیسائیوں نے فتح اور غلبہ کے وقت اپنے دشمنوں پر ڈھائے۔ پھر مسیح سلامتی کا شہزادہ کس طرح ہوا؟ اُسے تو کسی کو سلامتی دینے کی توفیق ہی نہیں ملی۔ جب اُس کے اتباع کو توفیق ملی تو اُنہوں نے سلامتی نہیں دی انہوں نے ہلاکت دی۔ اُنہوں نے تباہی دی، اُنہوں نے بربادی دی مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ نے فتح اور غلبہ بخشا اور آپ نے اُن وسیع مظالم کے باوجود جن کے مقابلہ میں وہ مظالم جو یہود نے مسیح پر کئے تھے بالکل زرد اور بے حقیقت ہو جاتے ہیں رحم و عفو اور چشم پوشی سے کام لیا۔ پس آپ ہی سلامتی کے شہزادے تھے اور آپ ہی یسعیاہ کی پیشگوئی کے مصداق تھے۔
ساتویں علامت اُس موعود کی یہ لکھی ہے کہ:۔
’’ اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی‘‘۔
میں بتا چکا ہوں کہ مسیح کو تو حکومت ملی ہی نہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جن کو حکومت ملی اور جن کے صحابہؓ کی زندگیوں میں ہی ساری دنیا پر اسلام قابض ہو گیا اور اس انصاف کے ساتھ انہوں نے حکومت کی کہ نہیں کہہ سکتے اُن کا اقبال بڑا تھا یا اُن کی سلامتی بڑی تھی۔
آٹھویں علامت یہ لکھی ہے کہ:
’’ وہ دائود کے تخت پر اور اُس کی مملکت پر آج سے لے کر ابد تک بندوبست کر ے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا‘‘۔
مسیح، دائود کے تخت پر کب بیٹھے تھے؟ شاید کہا جائے کہ اُن کی بعثت کے تین سَو سال کے بعد جب رومن حکومت عیسائیت میں داخل ہو گئی تو مسیح کو دائود کے تخت پر حکومت مل گئی۔ لیکن یہ معنی درست نہیں ہو سکتے کیونکہ وہاں تو لکھا ہے کہ اُسے وہ حکومت اَبد تک ملے گی لیکن مسیح کی حکومت تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ختم ہو گئی اور مسلمانوں کا قبضہ اُس ملک پر ہو گیا۔ چنانچہ تیرہ سَو سال سے مسلمان اس ملک پر قابض ہیں۔ کیا تین سَو سال کی حکومت اَبد کہلائے گی یا تیرہ سَو سال والی حکومت اَبد کہلائے گی؟ یہ صاف بات ہے کہ تیرہ سَو سال والی حکومت ہی اَبد کہلائے گی۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِس وقت انگریزی حکومت جو عیسائی حکومت ہے اِس ملک پر قابض ہے۔ لیکن خدا کی قدرت ہے کہ انگریزوں کو اس ملک پر بادشاہ ہونے کے لحاظ سے حکومت حاصل نہیں بلکہ مندیٹری پاور (MANDATORY POWER) ہونے کے لحاظ سے تصرف حاصل ہے اور عارضی طور پر تھوڑی مدت کے لئے کسی کا درمیان میں آجانا یہ پیشگوئی کے خلاف ہوتا بھی نہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہت کیسی عدالت اور انصاف والی تھی ،اِس کا ثبوت اِس بات سے ملتا ہے کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں عارضی طور پر اسلامی لشکر رومی لشکر کی کثرت اور اس کے دبائو کی وجہ سے پیچھے ہٹا اور مسلمانوں نے بیت المقدس اور اُس کے ار د گرد کے علاقوں والوں کو بُلا کر اُن کے ٹیکس یہ کہتے ہوئے واپس کئے کہ ٹیکس امن اور حفاظت کی غرض سے ہوتے ہیں چونکہ ہم لوگ اس ملک کو اب چھوڑ رہے ہیں اور ہم آپ کو نہ امن د ے سکتے ہیں نہ آپ کی حفاظت کر سکتے ہیں اِس لئے آپ کا روپیہ آپ کو واپس کیا جاتا ہے ہمارا اِس روپیہ پر کوئی حق نہیں تو تاریخیں بتاتی ہیں کہ اِس بات کو سن کر یروشلم کے باشندے ایسے متأثر ہوئے کہ باوجود اِس کے کہ اُن کے ہم مذہبوں کی فوجیں آگے بڑھ رہی تھیں اور اُن کے مذہب کے مخالف لوگ اُن کے ملک کو خالی کر رہے تھے یروشلم کے باشندے روتے ہوئے شہر سے باہر اسلامی لشکر کو چھوڑنے کے لئے آئے اور ساتھ دعائیں کرتے جا تے تھے کہ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو جلد واپس لائے کہ ہم نے آپ جیسا انصاف اِس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو گا اِس بات کا کہ’’ وہ دائود کے تخت پر اور اُس کی مملکت پر آج سے لے کر اَبد تک بندوبست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا‘‘۔
(ھ) اِسی طرح لکھا ہے:۔
’’ اور خد اوند اپنے تئیں مصریوں پر ظاہر کرے گاا ورا ُس دن مصری خدا وند کو پہچانیں گے اور ذبیحے اور ہدیے گزاریں گے۔ ہاں وے خدا وندکے لئے منتیں مانیں گے اور ادا کریں گے خدا وند تو مصریوں کوبہت دن تک مارا کرے گا، لیکن وہ انہیں چنگا بھی کرے گا اوروے خدا وند کی طر ف رجوع ہوں گے اور وہ اُن کی دعا سنے گا اور انہیں صحت بخشے گا۔ اُس روز سے مصر سے اسور تک ایک شاہراہ ہوگی اور اسوری مصر میں آویں گے اور مصری اسور کو جائیں گے اورمصری اسوریوں کے ساتھ مل کر عبادت کریں گے اُس روز اسرائیل مصر اور اسور کا میراث ہو گا اور زمین کے درمیان برکت کا باعث ٹھہرے گا کہ رَبُّ الافواج اُسے برکت بخشے گا اور فرماوے گا۔ مبارک ہو مصر میری اُمت۔ اسور میرے ہاتھ کی صنعت اور اسرائیل میری میراث‘‘۔۱۶۴؎
اِس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے آپ کو مصریوں پر ظاہر کرے گا اور مصری خدا تعالیٰ کو پہچانیں گے اور وہ ذبیحے اور ہدیے گزاریں گے اورمصر اور شام آپس میں ملا دیئے جائیں گے۔ شامی مصر میں آجائیں گے اور مصری شام میں جائیں گے اورمصری شامیوں کے ساتھ مل کر عبادت کریں گے۔ یہ پیشگوئی بھی بانی اسلام حضر ت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پوری ہوئی۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ کچھ عرصہ کے لئے مصری عیسائی ہو گئے تھے لیکن وہ نہایت ہی قلیل عرصہ تھا۔ اِس کے بعد تیرہ سَو سال سے مصر مسلمان چلا آتا ہے۔ یسعیاہ کی زبان سے خدا کہتا ہے ’’ مبارک ہو مصرمیری اُمت‘‘۔ مصریوں سے پوچھو کہ وہ کس کی اُمت ہیں؟ آیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یا مسیح کی؟
پھر لکھا ہے ’’ مبارک ہو اسور میرے ہاتھ کی صنعت‘‘۔ اسوریوں سے بھی پوچھ کر دیکھ لو کہ وہ آیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہیں یا مسیح کی اُ مت؟
پھر لکھا ہے ’’ مبارک ہوا سرائیل میری میراث‘‘۔
اِن علاقوں میں جا کر دیکھ لو اسرائیل کا علاقہ فلسطین کس کی میراث ہے؟ اِس وقت زور دے کر وہاں یہود کو داخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر یہودی تو مسیح کی اُمت نہیں۔ اِ س پیشگوئی کو تو مسیح پر چسپاں کیا جا رہا ہے اورمسیحی اب بھی وہاں قلیل ہیں اور مسلمان اب بھی زیادہ ہیں۔ اگر یہودی اِس ملک پر قابض بھی ہو گئے تو یہ کہا جائے گا کہ عارضی طور پر مسلمانوں کے غلبہ میں اختلال واقع ہو گیا، مسیح کو تو پھر بھی کچھ فائدہ نہیں ہونے کا۔ خواہ مسلمان فلسطین پر حاکم رہیں خواہ یہودی، مسیح کا دامن تو خالی ہی رہتا ہے اور وہ اِس پیشگوئی کا مستحق کسی صورت میں بھی نہیں ٹھہرتا۔
پھر اس پیشگوئی میں لکھا تھا کہ اسور اور مصر تک ایک شاہراہ ہو گی یعنی یہ ملک آپس میں مل جائیں گے۔ اسوری مصر میں آئیں گے اور مصری اسور کو جائیں گے اور مصری اسوریوں کے ساتھ مل کر عبادت کریں گے۔ کیا یہ مسیح کے ذریعہ سے ہوا؟ عیسائی بے شک مصر پر قابض ہوئے اور اسور پر بھی قابض ہوئے اور ان ملکوں کی کثرت ایک وقت میں عیسائی بھی ہو گئی۔ لیکن کیا کبھی بھی وہ زمانہ آیا ہے جب مذکورہ بالا آیتوں کا مضمون مصر اور اسور کی حالت پر صادق آیا ہو؟ اِن آیتوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِن دونوں ملکوں کی قومیت ایک ہو جائے گی اوراُن کی زبان ایک ہو جائے گی۔ مل کر عبادت کرنے کے بھی یہی معنی ہیں اور ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے کا بھی یہی مطلب ہے۔ ورنہ ہر ملک کے لوگ دوسرے ملک میں آیا جا یا ہی کرتے ہیں۔ پیشگوئی کا مفہوم یہی ہے کہ وہ اتنے متحد ہو جائیں گے کہ اُن کی ایک قوم ہو جائے گی۔ مگر دنیا جانتی ہے کہ عیسائی حکومت کے زمانہ میں کبھی بھی مصر اور اسور ایک نہیں ہوئے۔ روم کے ماتحت بے شک یہ دونوں ملک تھے لیکن ہمیشہ مصر کا انتظام اَور رنگ کا رہا اور اسور کا انتظام اَور رنگ کا رہا۔ مصر میں ایک نیم آزاد بادشاہ حکومت کرتا تھا اور اسور میں ایک گورنر رہتا تھا۔ بلکہ مصر کا کلیسیا اسور کے کلیسیا سے بالکل مختلف تھا۔ مصر میں عیسائیت نے اسکندریہ کے گرجا کے ماتحت ایک نئی شکل اختیار کر لی تھی اور وہ فلسطین اور شامی گرجا کی شکل سے بالکل مختلف تھی۔ پھر مصریوں کی عبادت قبطی زبان میں ہوتی تھی اور شامیوں کی عبادت بگڑی ہوئی مخلوط عبرانی اوریونانی زبان میں۔ ہاں اسلامی زمانہ میں یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ صدیوں تک شام اور مصر ایک حکومت رہے دونوں ملکوں کی زبان ایک ہو گئی اوراب تک ایک ہے۔ جس کی وجہ سے دونوں کی عبادت اکٹھی ہوتی تھی اور اکٹھی ہوتی ہے۔ دونوں ملکوں میں ایک قوم ہونے کا احساس پید اہو گیا۔ شامی علماء مصر میں جاتے تھے اور وہ مصری علماء کی طرح ہی معزز گنے جاتے تھے اور مصری علماء شام میں آتے تھے اور وہ شامی علماء کی طرح ہی معزز گنے جاتے تھے۔ اِس زمانہ میں بھی کہ یورپین سیاست نے اسلامی ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے عرب لیگ میں مصر، شام اور فلسطین دوش بدوش مل کر کام کر رہے ہیں۔ پس یہ پیشگوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پوری ہوئی اور یہ پیشگوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کی قوم کے متعلق ہی تھی۔ مسیح اور کلیسیا کی طرف اِس کو منسوب کرنا صریح ظلم ہے۔
(و) پھر یسعیاہ میں لکھا ہے:۔
’’ تُو ایک نئے نام سے کہلایا جائے گا جو خداوند کا منہ تجھے رکھ دے گا‘‘۔۱۶۵؎
اِسی طرح یسعیاہ باب ۶۵ میں لکھا ہے:۔
’’ اور تم اپنا نام اپنے پیچھے چھوڑو گے جو میرے برگزیدوں پر *** کا باعث ہو گا کیونکہ خد اوند یہوواہ تم کو قتل کرے گا اور اپنے بندوں کو دوسرے نام سے بُلائے گا‘‘۔۱۶۶؎
اِس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ ایک نیا سلسلہ ایک نئے نام سے جاری کیا جائے گا اور اُس نئے نام کو یہ خصوصیت حاصل ہو گی کہ وہ نیا نام اس سلسلہ کے لوگ خود نہیں رکھیں گے بلکہ خد اتعالیٰ اپنے منہ سے اُن کا وہ نام تجویز کرے گا۔ اِس پیشگوئی کو بھی بائبل نویسوں نے کلیسیا پر لگایا ہے حالانکہ مسیحیوں کو کوئی نام خد اتعالیٰ کی طرف سے نہیں ملا۔ ہاں اپنے طور پر مختلف مسیحی فرقوں نے اپنے اپنے نام رکھ لئے ہیں۔ ساری دنیا میں صرف ایک ہی قوم ہے جس کو خد تعالیٰ کی طر ف سے نام ملا ہے اور وہ مسلمان ہیں چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱۶۷؎ خدا تعالیٰ نے ہی تم لوگوں کا نام رکھا ہے پہلے انبیاء کی پیشگوئیوں میں بھی اور اب اس قرآن کریم کے ذریعہ سے بھی۔ دیکھو کس طرح یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کی طرف صاف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہم نے پہلے سے ہی بتا دیا تھا کہ ہم تمہارا نام خود رکھیں گے۔ چنانچہ اب ہم نے خود سلامتی کے شہزادہ کی پیشگوئی کے مطابق تمہارا نام مسلم رکھا ہے۔ یہ پیشگوئی نہایت ہی عجیب اور لطیف ہے۔ تمام دنیا کی تاریخ اِس بات پر شاہد ہے کہ کسی نبی نے اِس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ اُس کی جماعت کا نام الہامی طور پر خدا تعالیٰ نے رکھا ہے۔ لیکن یسعیاہ کہتا ہے کہ پہلے دستوروں کے خلاف ایک نبی آئے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کی جماعت کا نام خاص الہام سے رکھے گا۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اعلان فرماتے ہیں کہ خد اتعالیٰ نے میری اُمت کا نام مسلم اور میرے مذہب کا نام اِسلام رکھا ہے۔
چھٹی پیشگوئی
دانیال نبی کی کتاب کے دوسرے باب میں ایک خواب لکھی ہے جو نبو کدنضر بادشاہ نے دیکھی تھی۔ لیکن وہ اُسے دیکھنے کے بعد بھول گیا۔ تب اُس
نے اپنے وقت کے حکیموں سے خواب اور اُس کی تعبیر دریافت کی۔ باقی لوگ تو نہ بتا سکے دانیال نے خدا تعالیٰ سے دعا کر کے وہ خواب معلوم کر لی اور بادشاہ کے سامنے بیان کی وہ خواب یہ تھی۔
’’ تُو نے اے بادشاہ! نظر کی تھی اور دیکھ ایک بڑی مورت تھی۔ وہ بڑی مورت جس کی رونق بے نہایت تھی تیرے سامنے کھڑی ہوئی اور اُس کی صورت ہیبت ناک تھی۔ اُس مورت کا سرخالص سونے کا تھا۔ اُس کا سینہ اور اُس کے بازو چاندی کے۔ اُس کا شکم اور رانیں تابنے کی تھیں۔ اُس کی ٹانگیں لوہے کی اور اُس کے پائوں کچھ لوہے کے اور کچھ مٹی کے تھے اور تُو اُسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ ایک پتھر بغیر اس کے کوئی ہاتھ سے کاٹ کے نکالے آپ سے آپ نکلا جو اس شکل کے پائوں پر جو لوہے اور مٹی کے تھے لگا اور اُنہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ تب لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کی مانند ہوئے اور ہوا اُنہیں اُڑالے گئی یہاں تک کہ اُن کا پتہ نہ ملا اور وہ پتھر جس نے اُس مورت کو مارا ایک بڑا پہاڑ بن گیا اور تمام زمین کو بھر دیا‘‘۔۱۶۸؎
اِس کی تعبیر دانیال نبی نے جو کی وہ یہ ہے:۔
’’ تُو اے بادشاہ! بادشاہوں کا بادشاہ ہے اس لئے کہ آسمان کے خدا نے تجھے ایک بادشاہت اور توانائی اور قوت اور شوکت بخشی ہے اور جہاں کہیں بنی آدم سکونت کرتے ہیں اُس نے میدان کے چوپائے اور ہوا کے پرندے تیرے قابو میں کر دئیے اور تجھے اُن سبھوں کا حاکم کیا۔ تُو ہی وہ سونے کا سرہے اورتیرے بعد ایک اور سلطنت برپا ہوگی جو تجھ سے چھوٹی ہو گی اور اُس کے بعد ایک اور سلطنت تانبے کی جو تمام زمین پر حکومت کرے گی اور چوتھی سلطنت لوہے کی مانند مضبوط ہوگی اورجس طرح کہ لوہا توڑ ڈالتا ہے اور سب چیزوں پر غالب ہوتا ہے ہاں لوہے کی طرح سے جو سب چیزوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے اُس ہی طرح وہ ٹکڑے ٹکڑے کرے گی اور کچل ڈالے گی اور جو کہ تو نے دیکھا کہ اُس کے پائوں اور اُنگلیاں کچھ تو کمہار کی ماٹی کی اور کچھ لوہے کی تھیں تو اس سلطنت میں تفرقہ ہو گا۔ مگر جیسا کہ تُو نے دیکھا کہ اس میں لوہا گلادے۱۶۹؎ سے ملا ہو ا تھا۔ سو لوہے کی توانائی اُس میں ہوگی اور جیساکہ پائوں کی اُنگلیاں کچھ لوہے کی اور کچھ ماٹی کی تھیں سو وہ سلطنت کچھ قوی کچھ ضعیف ہو گی اور جیسا تُو نے دیکھا کہ لوہا گلاوے سے ملا ہوا ہے وے اپنے انسان کی نسل سے ملاویں گے لیکن جیسا لوہا مٹی سے میل نہیں کھاتا تیسا وے باہم میل نہ کھاویں گے اور اُن بادشاہوں کے ایام میں آسمان کا خد ا ایک سلطنت برپا کرے گا جو تا ابد نیست نہ ہووے گی اور وہ سلطنت دوسری قوم کے قبضہ میں نہ پڑے گی وہ اُن سب مملکتوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی تااَبد قائم رہے گی جیسا کہ تُو نے دیکھا کہ وہ پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے اُس کو پہاڑ سے کاٹ نکالے آپ سے آپ نکلا اور اُس نے لوہے اور تانبے اور مٹی اور چاندی اور سونے کو ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ خد اتعالیٰ نے بادشاہ کو وہ کچھ دکھایا جو آگے کو ہونے والا ہے اور یہ خواب یقینی ہے اور اُس کی تعبیر یقینی‘‘۔۱۷۰؎
اِس تعبیر میں خود حضرت دانیال نے سونے کے سر سے بابل کا بادشاہ مراد لیا ہے۔ چاندی کے سینہ اور چاندی کے بازو سے مراد فارس اور مادہ کی حکومت تھی جو بابل کی بادشاہت کے بعد آئی۔ تانبے کی رانوں سے مراد سکندر کی حکومت تھی جو اُس کے بعد دنیا پر غالب ہوا۔ اور لوہے کی ٹانگوں سے مراد روما کی حکومت تھی جو ایرانی حکومت کے تنزل کے وقت دنیا میں طاقتور ہوئی۔ اِس آخری حکومت کے متعلق لکھا ہے ’’ اُس کے پائوں کچھ لوہے اور کچھ مٹی کے تھے‘‘۔ جس کی تعبیر یہ تھی کہ یہ حکومت ایشیا سے یورپ میں پھیل جائے گی۔ لوہے کی ٹانگوں سے مراد یوروپین حکومت ہے کہ وہ بوجہ ایک قوم اور ایک مذہب ہونے کے زیادہ مضبوط تھی لیکن پائوں مٹی اور لوہے کے مشترک بنے ہوئے تھے۔ لیکن وہ یورپین قوم بعض مشرقی اقوام کو فتح کر کے ایک شہنشاہیت کی صورت اختیار کر لے گی اور جیسا کہ شہنشاہیتوں کا قاعدہ ہے وہ اپنی وسعت اور سامانوں کی فراہمی کے لحاظ سے قوی ہوتی ہیں لیکن غیر قوموں کے اشتراک کی وجہ سے اُن میں ضعف بھی پیدا ہو جاتا ہے وہ حکومت اپنے آخری زمانہ میں بوجہ غیر قوموں کی شمولیت کے کمزوری کی طرف مائل ہو جائے گی۔ اِس کے بعد لکھا ہے:۔
’’ ایک پتھر بغیر اس کے کوئی ہاتھ سے کاٹ کے نکالے آپ سے آپ نکلا جو اُس شکل کے پائوں پر جو لوہے اور مٹی کے تھے لگااور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا تب لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کے مانند ہوئے اور ہوا انہیں اڑا لے گئی یہاں تک کہ اُن کا پتہ نہ ملا اور وہ پتھر جس نے اُس مورت کو مارا ایک بڑا پہاڑ بن گیا اور تمام زمین کو بھر دیا‘‘ـ۔
اِن الفاظ میں محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کی خبر دی گئی ہے۔ آپ کی جماعت کا ٹکرائو پہلے قیصر روما سے اور پھر ایران کی حکومت سے ہوا۔ اور جب قیصر روما سے آپ کی جماعت کا ٹکرائو ہوا اُس وقت وہ سکندر کی وراثت پر بھی قابض تھا اورروما کی وراثت کا بھی وارث تھا اورجب آپ کا ٹکر ائو ایرانی حکومت سے ہوا تو وہ بابل اور فارس اور میدیا دونوں حکومتوں کی قائمقام تھی۔ جب آپ کے صحابہؓ سے ٹکر انے کی وجہ سے یہ دونوں حکومتیں تباہ ہوئیں تو دانیال کے قول کے مطابق لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کی مانند ہو گئے۔ خواب کی ترتیب اور دانیال کی کی ہوئی تعبیر دونوں ہی اِس مضمون کی تائید کرتی ہیں۔ اِس میں کیا شبہ ہے کہ بابل کی جگہ فارس اور میدیا نے لی اور فارس اور میدیا کا زور سکندر نے توڑا اور سکندر کی حکومت کو رومی حکومت کھا گئی جس نے اپنے مشرقی مرکز میں بیٹھ کر ایک زبردست یورپین ایشیائی شہنشاہیت قائم کی۔ اس شہنشاہیت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ہی توڑا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک لشکر لے کر قیصر کی سرحدوں کی طرف تشریف لے گئے تھے لیکن یہ معلوم کرکے کہ قیصر کی فوجوں کی عرب پر حملہ آور ہونے کی خبر قبل از وقت تھی واپس تشریف لے آئے۔ مگر اس کے بعد رومی حکومت کی سرحدوں سے برابر چھیڑ چھاڑ جاری رہی جس کے نتیجہ میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر تیار کر کے اس طرف بھجوایا اور آخر حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میںرومیوں اور مسلمانوں میں باقاعدہ لڑائی چھڑ گئی اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایران اس لڑائی میں شامل ہو گیا اور آپ کی زندگی میں ہی دونوں حکومتیں تباہ اور برباد ہو گئیں اور دُور سرحدوں پر چھوٹی چھوٹی ریاستیں بن کر رہ گئیں۔ اِس پتھر کے متعلق یسعیاہ اور متی میں بھی خبریں دی گئی ہیں۔ چنانچہ یسعیاہ باب ۸ آیت ۱۴ میں ایک آنے والے موعود کے متعلق لکھا ہے:۔
’’ وہ تمہارے لئے ایک مقدس ہو گاپر اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے ٹکر کا پتھر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان ۔‘‘
پھر آیت ۱۵ میں لکھا ہے:۔
’’ بہت سے لوگ اُن سے ٹھوکر کھائیں گے اور گریں گے اور ٹوٹ جائیں گے۔‘‘
اور متی باب ۲۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ موعود جسے پتھر کہا گیا ہے مسیح نہیں بلکہ مسیح کے بعد آنے والا دوسراشخص ہے:۔
اور آیت ۴۴ میں اس کی یہ شان بیان کی گئی ہے کہ:۔
’’ جو اِس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا پر جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا‘‘۔
اِسی طرح زبور باب ۱۱۸ آیت ۴۲ میں لکھا ہے:
’’ وہ پتھر جسے معماروں نے ردّ کیا کونے کا سِرا ہو گیا‘‘۔
متی باب ۲۱ میں بھی اِس پیشگوئی کی طر ف اشارہ کیا گیا ہے اور لکھا ہے:
’’یسوع نے اُنہیں کہا کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راجگیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سِرا ہوا‘‘۔
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اِس پیشگوئی کے متعلق خود حضرت مسیح کا فیصلہ ہے کہ یہ پیشگوئی اُن پر صادق نہیں آتی بلکہ اُس وجود پر صادق آتی ہے جو بیٹے کے صلیب پر لٹکا دینے کے بعد ظاہر ہو گا۔ عیسائی لوگ اپنی خوش فہمی سے اِس سے مراد کلیسیا لیتے ہیں حالانکہ کلیسیا اِس پیشگوئی سے مراد ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ دانیال نبی کی خواب میں رومی حکومت جو کلیسیاکی نمائندہ تھی تانبے کی رانیں اور لوہے کے پائوں قرار دی گئی ہے اور یہ بتایاگیا ہے کہ یہ پتھر بت کے پائوں پر گرے گا یعنی مشرقی رومی حکومت کے آخری حصہ سے اِس کا ٹکرائو ہو گا اور وہ رومی حکومت یعنی کلیسیا کی نمائندہ حکومت کو توڑ دے گا۔ پس اس پیشگوئی سے مراد کلیسیا کسی صورت میں نہیں ہوسکتا۔ مسیح تو مشرقی رومی حکومت سے پہلے آیا تھا اور کلیسیا کا رومی حکومت کو توڑنا کیا معنی! رومی حکومت تو اس کی نمائندہ تھی جس نے رومی حکومت کو توڑا وہی اس پتھر والی پیشگوئی کا موعود تھا۔ پس یہ پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کے سوا اور کسی کے ذریعہ سے پوری نہیں ہوئی۔ پھر جیسا کہ پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ وہ پتھر تمام دنیا میں پھیل جائے گا اور پہاڑ کی طرح بن جائے گا ویسا ہی ہوا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے قیصر وکسرٰی کو شکست دی تو تمام دنیا پر اسلامی حکومت پھیل گئی اور وہ چھوٹا سا پتھر ایک پہاڑ بن کر دنیا پر چھا گیا اور ایک ہزار سال تک دنیا کی قسمت کا فیصلہ مسلمانوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔
انجیل کی پیشگوئیاں
انگورستان کی تمثیل کی پیشگوئی
(الف) متی باب ۲۱ میں حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں:۔
’’ یہ ایک اور تمثیل سنو۔ ایک گھر کامالک تھا جس نے انگورستان لگایا اور اس کے چاروں طرف رَوندھا اور اُس کے بیچ میں کھود کے کولہو گاڑا اور بُرج بنایااور باغبانوں کو سونپ کے آپ پردیس گیا اور جب میوہ کا موسم قریب آیا اُس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں کے پاس بھیجا کہ اُس کا پھل لائیں۔ پر اُن باغبانوں نے اُس کے نوکروں کو پکڑکے ایک کو پیٹا اور ایک کو مارڈالا اور ایک کو پتھرائو کیا۔ پھر اُس نے اَور نوکروں کو جو پہلوں سے بڑھ کر تھے بھیجا۔ اُنہوں نے اُن کے ساتھ بھی ویسا ہی کیا آخر اُس نے اپنے بیٹے کو یہ کہہ کر بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے دبیں گے لیکن باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا تو آپس میں کہنے لگے کہ وارث یہی ہے آئو اِسے مار ڈالیں کہ اس کی میراث ہماری ہو جائے اوراُسے پکڑ کے اور انگورستان کے باہر لے جا کر قتل کیا۔ جب انگورستان کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا؟ وے اسے بولے اِن بدوں کو بُری طرح مار ڈالے گا اور انگورستان کو اَور باغبانوں کو سونپے گا جو اُسے موسم پر میوہ پہنچادیں۔ یسوع نے اُنہیں کہا کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راجگیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سِرا ہوا۔ یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب۔ اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خد اکی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اس کا میوہ لاوے دی جائے گی۔ جو اُس پتھر پر گرے گا چور ہوجائے گا۔ جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا۔ جب سردار کاہنوں اور فریسیوں نے اُس کی یہ تمثیلیں سنیں تو سمجھ گئے کہ ہمارے ہی حق میں کہتا ہے اور اُنہوں نے چاہا کہ اُسے پکڑ لیں پر عوام سے ڈرے کیونکہ وے اُسے نبی جانتے تھے۔۱۷۱؎
اِس پیشگوئی کا پہلے بھی اشارۃًذکر آتا رہا ہے۔ یہ تمثیل جو حضرت مسیحؑ نے بیان فرمائی ہے اس میں آپ نے انبیاء کی تاریخ شروع سے لے کر آخر تک تمثیلاً دُہر ادی ہے۔ جیسا کہ خود انجیل کی عبارت سے ظاہر ہے۔ تاکستان سے مراد دنیا ہے۔ باغبانوں سے مراد بنی نوع انسان ہیں اور مالک کے ٹیکس سے مراد نیکی اور تقویٰ اور خدا کی عبادت کرنا ہے۔ ملازموں سے مراد اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہیں جو یکے بعد دیگرے دنیا میں آتے رہے۔ خدا کے بیٹے سے مراد خود مسیحؑ ہیں جو انبیاء کے ایک لمبے سلسلہ کے بعد دنیا میں ظاہر ہوئے مگر باغبانوں نے اُن کو صلیب پر لٹکا دیا اور اُن کے پیغام کی طرف توجہ نہ کی۔
اِس کے بعد لکھا ہے کہ وہ کونے کا پتھر ظاہر ہو گا جسے راجگیروں نے ناپسند کیا۔ یعنی اسمٰعیل کی اولاد جن کو بنو اسحاق حقارت کی نگاہ سے دیکھتے چلے آئے تھے اُن میں ایک نبی ظاہر ہو گا اور اُسی کو خاتم النبیین ہونے کا فخر حاصل ہوگا۔ اُس کے ذریعہ سے تمام شریعتیں ختم کر دی جائیں گی اور وہ آخری شریعت لانے والا ہو گا۔ بنو اسرائیل کو یہ بات عجیب معلوم ہو گی مگر جیسا کہ حضرت مسیحؑ کہتے ہیں باوجود بنو اسرائیل کے ناپسند کرنے کے خدا اُس اسماعیلی نبی کو بادشاہت دے گا اور خدا کی بادشاہت بنو اسرائیل سے لے لی جائے گی اور اُس کی جگہ یہ باغ اِس دوسری قوم کے سپرد کر دیا جائے گا یعنی اُمتِ محمدیہ کے جو اُس کے میوے لاتی رہے گی یعنی خدا تعالیٰ کی عبادت کو دنیا میں قائم رکھے گی۔ ہر شخص جو انصاف کے ساتھ غور کرنے کا عادی ہو وہ معلوم کر سکتا ہے کہ حضرت مسیحؑ کے بعد ظاہر ہونے والے مدعیوں میں سے کوئی بھی سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس پیشگوئی کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ آخر وہ کون تھا جس سے عیسائیت اور یہودیت ٹکر ائی اور پاش پاش ہو گئی؟ وہ کون تھا جو اِس قوم کے ساتھ تعلق رکھتا تھا جسے بنو اسحاق حقارت کی نگاہ سے دیکھتے چلے آئے تھے؟ وہ کون تھا جس پر وہ گرا اُسے اُس نے چور چور کر دیا اور جو اُس پر گرا وہ بھی چور چور ہو گیا۔ یقینا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سِوا اس پیشگوئی کا مصداق اور کوئی نہیں۔
(ب) متی باب ۲۳ آیت ۳۸، ۳۹ میں لکھا ہے:۔
’’ دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے تم مجھے پھر نہ دیکھو گے۔ جب تک کہو گے مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے ‘‘۔
اِن آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیحؑ اپنی قوم سے عنقریب جدا ہونے والے ہیں اور ان کی قوم پھر اُنہیں نہ دیکھ سکے گی جب تک وہ یہ نہ کہے گی کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے۔
اِس عبارت سے ظاہر ہے کہ مسیح کے چلے جانے کے بعد دو الٰہی مظہر ظاہر ہونے والے ہیں۔ ایک الٰہی ظہور، مسیح کے غائب ہوجانے کے بعد ہو گا اور وہ خدا تعالیٰ کا ظہور کہلائے گا۔ اِس ظہور کے بعد دوبارہ مسیح ظاہر ہوگا۔ لیکن جب تک خد اتعالیٰ کے نام پر ظاہر ہونے والا مظہر پیدا نہ ہو جائے اُس وقت تک مسیح د وبارہ دنیا میں نہیں آسکتا اور لوگ اُسے نہیں دیکھ سکتے۔
میں پہلے یہ ثابت کر چکا ہوں کہ خد اتعالیٰ کے نام پر ظاہر ہونے والے مظہر سے مراد مثیل موسیٰ ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ تھے۔ واقعاتی شہادت کی رو سے بھی اور خود مسیح کی شہادت کی رو سے بھی۔ پس ’’ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے‘‘ سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہے اور اس پیشگوئی میں خبر دی گئی ہے کہ مسیح روحانی ارتقاء کا آخری نقطہ نہیں بلکہ آخری نقطہ وہ ہے جو خدا وند کے نام پر آئے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ خداوند کے نام پر آنے والے مظہر کے بعد پھر مسیح کو دوبارہ آنا ہے اِس لئے مسیح ہی روحانیت کا آخری نقطہ قرار پائے گا۔ تو اِس کا جواب خود حضرت مسیحؑ نے ہی دے دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔’’ اب سے تم مجھے پھر نہ دیکھو گے جب تک کہ کہو گے مبارک ہے وہ جو خدا وند کے نام پر آتا ہے‘‘۔ یعنی مسیح کو دوبارہ دیکھنا اُسی کے لئے ممکن ہوگا جو مثیل موسیٰ پر ایمان لاچکا ہوگا۔ مثیل موسیٰ کا منکر مسیح کو نہیں دیکھ سکے گایعنی اس کو پہچان نہیں سکے گا۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح اپنی دوبارہ آمد کے وقت مثیل موسیٰ کے اتباع میں سے ہوگا۔ پس وہی شخص مسیح پر ایمان لائے گاجو پہلے اُس کے متبوع پر ایمان لاچکا ہوگا۔ پس آنے والا مسیح کوئی علیحدہ وجود نہیں بلکہ مثیل موسیٰ کا ہی ظل اور اس کا بروز ہے اس لئے روحانی منازل کا آخری ارتقائی نقطہ مثیل موسیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔
(ج) انجیل میں لکھا ہے کہ:۔
’’ یوحنا کے پاس لوگ آئے اور اُس سے پوچھا کہ کیا وہ مسیح ہے؟ تو اس نے کہا میں مسیح نہیں ہوں۔ تب انہوں نے اُس سے پوچھا تو اور کون ؟ کیا تُو الیاس ہے؟ اُس نے کہا میں نہیں ہوں ۔ پھر انہوں نے اُس سے پوچھا آیا تُو وہ نبی ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں۔‘‘۱۷۲؎
پھر آگے چل کر لکھا ہے:۔
’’ انہوں نے اُس سے سوال کیا اور کہا کہ اگر تو نہمسیحؑ ہے نہ الیاس اور نہ وہ نبی۔ پس کیوں بپتسمہ دیتا ہے‘‘۔۱۷۳؎
اِن آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح کے وقت یہود میں تین بشارتیں مشہور تھیں۔
اوّل: الیاس دوبارہ دنیا میں آنے والا ہے۔
دوم: مسیح پید ا ہونے والا ہے۔
سوم: وہ نبی یعنی موسیٰ کا موعود نبی آنے والا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تین وجود الگ الگ سمجھے جاتے تھے۔ الیاس الگ وجود تھا۔ مسیح الگ وجود تھا اور ’’ وہ نبی‘‘ الگ وجود تھا۔ حضرت مسیح فرما چکے ہیں کہ یوحنا الیاس ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔
’’ الیاس جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو‘‘۔۱۷۴؎
اور لوقاباب ا آیت ۱۷ سے بھی پتہ لگتا ہے کہ حضرت یوحنا کی پیدائش سے پہلے اُن کے والد حضرت زکریا سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا’’ وہ اس سے آگے الیاس کی طبیعت اور قوت کے ساتھ چلے گا‘‘۔
پھر مرقس باب ۹ آیت ۱۳ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح نے فرمایا:۔
’’ میں تم سے کہتا ہوں الیاس تو آچکا‘‘۔
پھر متی باب ۱۷ آیت ۱۲ میں لکھا ہے:۔
’’ پر میں تم سے کہتا ہوں کہ الیاس تو آچکا۔ لیکن اُنہوں نے اُس کو نہیں پہچانا۔ بلکہ جو چاہا اُس کے ساتھ کیا‘‘۔
اِن تمام حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ الیاس سے مراد اناجیل کی تعلیم کے مطابق یوحنا تھے۔ مسیح کے متعلق تو فیصلہ ہی ہے کہ عہد نامہ جدید والا نبی یسوع ابن مریم ہی مسیح کے نام سے خداتعالیٰ کی طرف سے دنیا میں ظاہر ہوا۔اب رہ گیا ’’ وہ نبی‘‘ نہ یوحنا وہ نبی ہو سکتا ہے نہ مسیح وہ نبی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وہ نبی ایک علیحدہ وجود ہے۔ پھر یہ بھی ثابت ہے کہ وہ نبی مسیح کے زمانہ تک نہیں آیا تھا۔ پس معلوم ہوا کہ وہ موعود جسے بائبل ’’وہ نبی‘‘ کے نام سے یاد کرتی تھی اناجیل کی گواہی کے مطابق مسیح ناصری کے بعد نازل ہونے والا تھا اور مسیح ناصری کے بعد سوائے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی شخص نہیں جس نے ’’ وہ نبی‘‘ ہونے کا دعویٰ کیاہو اور جس پر وہ تمام علامتیں صادق آتی ہوں جو ’’ وہ نبی‘‘ میں پائی جانے والی تھیں جیسا کہ اُوپر ثابت کیا جاچکا ہے۔
(د) اِسی طرح لوقا میں لکھا ہے:۔
’’ اور دیکھو میں اپنے باپ کے اُس موعود کو تم پر بھیجتا ہوں لیکن جب تک عالم بالا کی قوت سے ملبس نہ ہوں یروشلم میں ٹھہرو‘‘۔۱۷۵؎
اِس پیشگوئی سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے بعد ایک اَور موعود ظاہر ہونے والا تھا مگر وہ کون موعود ہے؟ سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آج تک کوئی شخص بھی تو اس پیشگوئی کے پورا کرنے کا مدعی نہیں ہوا۔
(ھ) یوحنا میں لکھا ہے: ۔
’’ لیکن وہ تسلی دینے والا جو روحِ قدس ہے جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھلاوے گا اور سب باتیں جو کچھ کہ میں نے تمہیں کہی ہیں تمہیں یاد دلا دے گا‘‘۔ ۱۷۶؎
یہ پیشگوئی بھی سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی پر صادق نہیں آتی۔ بیشک اِس میں یہ لکھا ہے کہ باپ میرے نام سے اُسے بھیجے گا۔ لیکن نام سے بھیجنے کے یہی معنی ہیں کہ وہ میری تصدیق کرے گا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی تصدیق کی اور آپ کو راست باز قرار دیا اور اعلان فرمایا کہ جو لوگ آپ کو *** کہتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ مسیح خدا کا برگزیدہ اور اس کا رسول ہے۔ اِس جگہ پر یہ صاف لکھا گیا ہے کہ ’’ وہی تمہیں سب چیزیں سکھلا وے گا‘‘ اور استثناء باب ۱۸ کی پیشگوئی میں بھی یہی الفاظ ہیں کہ’’ جو کچھ میں اُسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا‘‘۱۷۷؎ پس اس پیشگوئی میں استثناء باب۱۸ والے نبی ہی کی خبر دی گئی ہے اور یہ پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی صادق آتی ہے جیسا کہ اُوپر لکھا جاچکا ہے اور آپ ہی کا وجود دنیا کو تسلی دینے والا تھا۔
(و) یوحنا باب ۱۶ میں لکھا ہے:۔
’’ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لئے میرا جانا ہی فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو تسلی دینے والا تم پاس نہ آئے گا۔ پر اگر میں جائوں تو میں اُسے تم پاس بھیج دوں گا اور وہ آن کر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے تقصیر وار ٹھہرائے گا۔ گناہ سے اِس لئے کہ وے مجھ پر ایمان نہیں لائے۔ راستی سے اِس لئے کہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے۔ عدالت سے اِس لئے کہ اِس جہان کے سردار پر حکم کیا گیا ہے۔ میری اَور بہت سی باتیں ہیںکہ میں تمہیں کہوں پر اب تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روحِ حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتاوے گی اِ س لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی۔ لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی۔ وہ میری بزرگی کرے گی اِ س لئے کہ وہ میری چیزوں سے پاوے گی اورتمہیں دکھا وے گی‘‘۔۱۷۸؎
اِن آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح کے اُٹھ جانے یعنی مسیح کی وفات کے بعد وہ تسلی دینے والا موعود ظاہر ہو گا۔ وہ دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے تقصیر وار ٹھہرائے گا۔ گناہ سے اِس طرح کہ وہ یہود کو ملامت کرے گا کہ وہ کیوں مسیح پر ایمان نہیں لائے۔ راستی سے اِ س طرح کہ وہ مسیح کی زندگی کا عقیدہ جو غلط طور پر عیسائیوں میں رائج ہو گیا تھا اِس کو دور کرے گا اور دنیا پر ثابت کرے گا کہ دنیا پھر اِس مسیح کو دوبارہ نہیں دیکھے گی جو بنی اسرائیل میں نازل ہوا تھا۔ عدالت سے اِس طرح کہ اُس کے ذریعہ شیطان کو کچل دیا جائے گا۔
پھر یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ روحِ حق جب آئے گی تو وہ ساری سچائی کی راہیں بتائے گی۔ اور یہ بتایا گیا تھا کہ اُس کی الہامی کتاب میں کوئی انسانی کلام نہیں ہو گابلکہ شروع سے لے کر آخر تک خدائی کلام ہی اُس میں ہو گا۔ پھر یہ بتایا گیا تھا کہ وہ آئندہ کی خبریں دے گا اور یہ بھی کہ وہ مسیح کی بزرگی بیان کرے گا اور جو عیب اُس پرلگائے گئے ہیں اُن کو دور کرے گا۔یہ پیشگوئی واضح طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی ہے۔ اِس میں کہا گیا ہے کہ جب تک مسیح آسمان پر نہ جائے، وہ تسلی دلانے والا نہیں آسکتا۔ اعمال باب ۳ آیت ۲۱،۲۲ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے آسمان پر جانے کے اور اس کے دوبارہ نازل ہونے کے درمیان استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کے موعود کو پیدا ہونا ہے پس تسلی دلانے والے سے مراد استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ والا موعود ہی ہے۔
پھر لکھا ہے کہ وہ موعود مسیح کے منکروں کو ملامت کرے گا۔ اِس سے مراد عیسائی تو ہو نہیں سکتے۔کسی شخص کے متبع تو اُس کے دشمنوں کو ملامت کیا ہی کرتے ہیں ۔ یہ علامت بتارہی ہے کہ وہ موعود کسی غیر قوم کا ہوگا اور بظاہر اُس کو مسیح کے ساتھ کوئی نسلی یا مِلّی تعلق نہیں ہوگا مگر اِس وجہ سے کہ وہ راستبازہوگا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا غیر قوم میں سے ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے آپ کو راستبازوں کی عزت کا نگران سمجھے گا اور اُن کی عزّت کی حفاظت کرے گا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسماعیلی نبی تھے۔ عیسائی یا یہودی نہیں تھے۔ مگر باوجود اس کے دیکھو کس طرح اُنہوں نے مسیح کی عزّت کی حفاظت کی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہود کی نسبت فرماتا ہے۔ ۔ ۱۷۹؎ یعنی یہود کے کفرکی وجہ سے اور اُن کے حضرت مریم پر نہایت گندہ الزام لگانے کی وجہ سے اور اُن کے اِس قول کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح ابن مریم کو قتل کردیا ہے جواللہ کا رسول تھا حالانکہ انہوں نے نہ تو اُس کو تلوار سے مارا اور نہ صلیب پر لٹکاکر مارا ۔ صرف اُن کو ایک شبہ پیدا ہوگیا کہ وہ صلیب پر مرگیا ہے مگر یہ صرف شبہ تھا اُنہیں ایسا یقین نہ تھا۔چنانچہ خود اُن کی قوم میں یہ اختلاف چلا آیا ہے اور وہ اس کے بارے میں کسی یقینی بات پر قائم نہیں ۔اُن کو اِس بات کا علم حاصل نہیں بلکہ صرف تخمینی طور پر یہ بات کہتے ہیں اور یہ قطعی بات ہے کہ وہ اُسے مارنے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُس کو صلیب کی *** موت سے بچا کر اپنے مقربوں میں جگہ دی۔ اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ ہراہل کتاب اپنی موت سے پہلے پہلے اس کے متعلق ایمان ظاہر کرتا رہے گاکہ وہ صلیب پر مرگیا ہے ۔ لیکن قیامت کے دن مسیح اُن کے اوپر گواہی دے گا کہ انہوں نے اس پر یہ الزام لگا کر کہ وہ صلیب پر مرگیا ہے افتراء کیا ہے۔ پس یہودیوں کے ان ظلموں کی وجہ سے ہم نے اُن آسمانی نعمتوں سے ان کو محروم کردیا جو پہلے اُن کا حق سمجھی جاتی تھیں۔اِن آیات میں کس طرح حضرت مسیح کے منکروں پر حجت تمام کی گئی ہے۔
دوسری بات یہ فرمائی گئی تھی کہ وہ مسیح کی وفات ثابت کرے گا اور دنیا کو بتا دے گا کہ دنیا پھر اسرائیلی مسیح کو نہیں دیکھے گی۔ یہ کام بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور اس غلط عقیدہ کو باطل کرکے رکھ دیا جو عیسائیوں میں پھیلا ہوا تھا کہ مسیح آسمان پر بیٹھا ہوا ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۱۸۰؎ ان آیات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت مسیح سے سوال کرے گا کہ کیا تُو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو معبود بناؤ؟ حضرت مسیح فرمائیں گے اے ربّ! تیری ذات پاک ہے بھلا میں ایسا کرسکتا تھا کہ وہ بات کہوں جس کا تونے مجھے حق نہیں دیا۔ اگر میں نے ایسا کہا ہوتا تو تیرے علم سے یہ بات چھپ تو نہیں سکتی تھی۔ جوکچھ میرے جی میں ہے تُو جانتا ہے اورجس غرض سے تُو نے یہ سوال کیا ہے میں اُسے نہیں جانتا تُو سب غیبوں کو جاننے والا ہے میں نے تو انہیں وہی بات کہی تھی جس کا تُو نے مجھے حکم دیا تھا ۔ کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی ربّ ہے اور تمہارا بھی ربّ ہے اور جب تک میں اُن میں رہا اُن کا نگران رہا ۔ پھر جب تونے مجھے وفات دے دی تو تُو اُن کا خود نگران تھا اور تو ہرچیز دیکھنے بھالنے والا ہے۔ اگر تُو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تُو انہیں معاف کردے تو تُو بڑا غالب حکمت والا ہے۔
اِن آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور مسیح کی قوم نے اُس وقت اُن کو خدائی کا درجہ دے دیا جب وہ فوت ہوکر اس دنیا سے جاچکے تھے۔ اورجیسا کہ پہلی آیت میں بیان کیا جاچکا ہے دنیا کو یہ بتادیا کہ مسیح کے آسمان پر جانے کے معنے محض یہ ہیں کہ وہ اپنے کام میں کامیاب ہو کر اور باعزت ہوکر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگئے ۔
تیسری خبر یہ دی گئی تھی کہ شیطان اُس کے ذریعہ سے کچل دیا جائے گا۔ تمام نبیوں میں سے محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم ہی ایک ایسے نبی ہیں جنہوں نے شیطان کے کچلنے کے ذرائع کو اختیار کیا اور بنی نوع انسان کی پاکیزگی کے لئے صحیح سامان بہم پہنچائے ۔ مگر اس کی تفصیل کا ابھی وقت نہیں ۔ اس کی تفصیل قرآن شریف کی تفسیر سے ملے گی یا کسی قدر آئندہ اسی دیباچے میں بیان کروں گا۔ مگرا یک موٹی بات تو ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ کسی نبی نے بھی شیطان سے پناہ مانگنے کی دُعا اپنی اُمت کو نہیں سکھائی سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ مسلمان اپنے کاموں میں اُٹھتے بیٹھتے شیطان اور اس کے حملوں سے پناہ مانگتے ہیں ۔ یہ تعلیم گذشتہ انبیاء میں سے کسی کے ہاں نہیں پائی جاتی۔ پس جس قوم کو شیطان کا سرکچلنے کی ہدایت دن اور رات ملتی رہی ہو اور جس کے دل شیطانی حکومت کے توڑنے کا احساس ہر وقت زندہ رکھا جاتا ہو ظاہر ہے کہ وہی شیطان کو مارنے کی اہل سمجھی جائے گی اور اسی قوم کا نبی شیطان کو مارنے والا کہلائے گا۔ یہ تو نہ کبھی پہلے ہوا ہے نہ آئندہ ہوگا کہ شیطانی وسائل اِس دنیا سے بالکل مٹ جائیں کیونکہ اس کے بغیر تو ایمان کی قدر ہی کوئی باقی نہیں رہتی۔ شیطان کے مارنے کے معنے یہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ نیکی دنیا میں قائم کی جائے ۔ کلیسیا تو بہر حال اِس کا مستحق نہیں ہوسکتا کیونکہ اُس نے تو شریعت کو *** قرار دے کر نیکی کا وجود ہی مشتبہ کر دیا ہے۔ اورجو یہ کہا گیا تھا کہ وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتائے گی۔ اِس کی تشریح میں استثناء باب۱۸ کی پیشگوئی کے ماتحت کر آیا ہوں۔ آئندہ کی خبروں کے متعلق جو کہا گیاہے اِس کیلئے صرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جتنی آئندہ کی خبریں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہیں اور کسی نبی نے نہیںدیں۔ اِس پر کچھ روشنی آگے چل کر ڈالی جائے گی یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور یہ جو کہا گیا تھا کہ اُس کا کلام سارے کا سارا کلام اللہ ہو گا یہ بھی ایک ایسی پیشگوئی ہے جس کا اور کوئی مصداق نہیں ہو سکتا۔ عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید کی کوئی بھی تو کتاب نہیں جو انسانی کلام سے خالی ہو، لیکن قرآن کریم وہ کتاب ہے جس میں شروع سے لے کر آخر تک وہی بیان کیا گیا ہے جو خد اتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اَور وں کا تو ذکر کیا خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا بھی ایک لفظ اِس کتاب میں نہیں۔ آخر میں یہ جو کہا گیا تھا کہ ’’ وہ میری بزرگی کر ے گی‘‘ سو یہ بزرگی کرنے والے نبی بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ آپ ہی ہیں جنہوں نے مسیح کو اس الزام سے بچایا کہ وہ صلیبی موت سے مرکر نَعُوْذُ بِاللّٰہ *** ہوا۔ آپ ہی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کو اِس الزام سے بچایا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہ خدائی کا دعویٰ کر کے وہ خدا تعالیٰ سے بیوفائی اور غداری کرتے تھے۔ آپ ہی ہیں جنہوں نے حضرت مسیحؑ کو یہودیوں کے اعتراضات سے نجات دلائی۔ پس اِس پیشگوئی کا مصداق آپؐ کے سوا کوئی نہیں۔
(ز) کتاب اعمال میں لکھا ہے:۔
’’ ضرور ہے کہ آسمان اُسے (یعنی مسیح کو) لئے رہے اُس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر خد انے اپنے سب پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا اپنی حالت پر آویں۔ کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اُٹھاوے گا۔ جو کچھ وہ تمہیں کہے اُس کی سب سنو اور ایسا ہی ہو گا کہ ہر نفس جو اُس نبی کی نہ سنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا۔ بلکہ سب نبیوں نے سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا اِن دنوں کی خبر دی‘‘۔۱۸۱؎
اِن آیات میں حضرت موسیٰ کی کتاب استثناء والی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ آنے والا موعود جب تک ظاہر نہ ہو جائے اُس وقت تک مسیح کی دوبارہ آمد نہیں ہو گی۔ استثناء کی پیشگوئی میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ موعود نئی شریعت لائے گا۔ پس اِس پیشگوئی کو اعمال میں دُہر اکر اِس بات کا اقرار کیا گیا ہے کہ آنے والے موعود کے ذریعہ سے مسیح کی تعلیم منسوخ کر دی جائے گی ورنہ نئی شریعت کے تو کوئی معنی ہی نہیںہو سکتے۔ ایک ہی وقت میں ایک قوم میں دو شریعتیں تو چل نہیں سکتیں۔ پس یہ آنے والا موعود یقینا ارتقاء کا آخری نقطہ ہے۔ جو موسیٰ اور مسیح کی تعلیموں کو منسوخ کرنے والا تھا اور جس کو ایک نئی شریعت دنیا کے سامنے ظاہر کرنی تھی۔ اعمال نے ایک اَور روشنی بھی اِس موعود کے متعلق ڈالی ہے اور وہ یہ کہ سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبی گزرے ہیں اُنہوں نے اِس موعود کی خبر دی ہے۔ موسیٰ کی خبر کا تو پہلے ذکر آچکا ہے اوردائود نبی سموئیل کے بعد ہوئے ہیں۔ اِس لیے اعمال کی آیت ۲۴ کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ سے لے کر تمام انبیاء نے اس آنے والے کی خبر دی ہے۔ پس جب تک یہ نبی دنیا میں ظاہر نہ ہو اُس وقت تک دنیا کی روحانی تعمیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ اور میں پہلے ثابت کر آیا ہوں کہ یہ نبی بائبل کی بتائی ہوئی علامتوں کے مطابق سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کوئی شخص نہیں۔ حاصل یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی تمام انبیاء کا موعود تھا اور آپ کی شریعت ہی تمام انبیاء کی موعود تھی۔ پس یہ اعتراض کسی صورت میں درست نہیں ہو سکتا کہ تورات اور انجیل کی موجودگی یا اَور کتابوں کی موجودگی میں قرآن کریم کی کیا ضرورت ہے۔ جب سابق نبیوں نے قرآن کریم کی ضرورت تسلیم کی ہے اور اس کی پیشگوئی کی ہے تو اُن کی اُمتوں کو کیا حق ہے کہ وہ اِس کی ضرورت سے انکار کریںبلکہ اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ قرآن کریم کی ضرورت سے انکار کریں گی تو اُن کے نبیوں کی صداقت بھی مشتبہ ہوجائے گی اور اِن نبیوں کی پیشگوئیاں جھوٹی ثابت ہو کر وہ موسیٰ کے اس قول کی زد میں آجائیں گی ’’ جب نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور وہ جو اُس نے کہا ہے واقع نہ ہو یا پورا نہ ہو تو وہ بات خداوند نے نہیں کہی اور اس نبی نے گستاخی سے کہی ہے تو اس سے مت ڈر‘‘۔۱۸۲؎
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
یہ مضمون بیان کرنے کے بعد کہ باوجود بہت سی الہامی کتب کے موجود ہونے کے آج سے تیرہ سَو سال پہلے دنیا ایک اَور شریعت اور ایک اَور کتاب کی محتاج تھی میں اِس مضمون کو اختصاراً لیتا ہوں کہ قرآن کریم کس شخص پر نازل ہوا اور کن حالات میں نازل ہوا۔ کیونکہ یہ مضمون بھی قرآن کریم کی اہمیت سمجھنے کے لئے نہایت ممد ہے۔ گو فلسفی مزاج لوگوں کے لئے تو اتنا دیکھنا ہی کافی ہوتا ہے کہ جو مضمون اِن کے سامنے پیش کیا گیا ہے وہ کیا قیمت رکھتا ہے۔ چنانچہ عربی میں مثل ہے اُنْظُرْ اِلٰی مَاقِیْلَ وَلَا تَنْظُرْ اِلٰی مَنْ قَالَ۔ تُو یہ دیکھ کہ جو بات کہی گئی وہ کیا ہے اور اِس بات کی طرف نہ دیکھ کہ اس کا کہنے والا کون ہے۔ مگر دنیا کی اکثریت یہ بھی دیکھنا چاہتی ہے کہ کہنے والا کون ہے۔ اور خصوصاً الہامی کتابوں کے متعلق تو یہ نہایت ضروری ہوتا ہے کہ اِن کتابوں کو پیش کرنے والوں کے یعنی اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے متعلق بھی دنیا کو یہ معلوم ہو کہ اُن کی زندگی کیسی تھی کیونکہ مذہبی قانون صرف حکم سے منوایا نہیں جاتا ہے۔ حکومت نظام کے لئے قائم ہوتی ہے اور اس کا تعلق صرف ظاہر سے ہوتا ہے اِس لئے کسی ملک کی آئینی تنظیم کے لئے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ اُس میں ایک آئین پایا جائے۔ کیونکہ قانون کا منشاء صرف اِس قدر ہوتا ہے کہ لوگوں کا ظاہر قانون کا پابند ہو جائے۔ چنانچہ عدالتوں میں کسی کی نیت بُری ثابت کرنا اُس کو مجرم نہیں بنا دیتا جب تک اُس نیت کے مطابق اُس کے فعل کا صدور بھی اُس سے ثابت نہ ہو مگر مذہبی دنیا میں ظاہر سے بھی زیادہ باطن پر زور دیا جاتا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ظاہر کو ترک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ظاہر ،باطن کی علامت ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ظاہری اصلاح کے ساتھ باطنی اصلاح بھی ہو جائے مگر باطنی اصلاح کے ساتھ ظاہری اصلاح کا ہو جانا لازمی ہے۔ جس طرح یہ نہیں ہو سکتا کہ آگ ہو لیکن اس سے گرمی پیدا نہ ہو، اِسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ دل میں صفائی ہو اور ظاہری اعمال اُس کے مطابق نہ ہوں۔ عارضی کوتاہی یا غفلت اور بات ہے لیکن عام طور پر دل کی صفائی کے مطابق انسان کے اعمال صادر ہوتے ہیں اور دل کی صفائی کا بہترین ذریعہ اچھا نمونہ ہوتا ہے۔ قانون انسان کے دماغ پر اثر ڈالتا ہے لیکن اچھا نمونہ انسا ن کے دل پر اثر ڈالتا ہے۔ قانون کی حکومت فکر پر ہوتی ہے لیکن اچھے نمونہ کی حکومت جذبات پر ہوتی ہے۔ ہم صرف فکر کی اصلاح سے انسان کی روحانی اور جسمانی اصلاح نہیں کر سکتے۔ فکر کا نتیجہ غیر متواتر اعمال کے ذریعہ سے ظاہر ہوتاہے لیکن جذبات کا نتیجہ متواتر اور مسلسل اعمال کے ذریعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ ایک عام خیر خواہ انسان جس رنگ میں اپنے گردو پیش کے لوگوں کی خیر خواہی کرتا ہے اُس کی خیر خواہی کا نمونہ اُس خیر خواہی کے نمونہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو ماں اپنے بچہ کے متعلق دکھاتی ہے۔ اِس لئے کہ جس کا دماغ اخلاقی تعلیم سے متأثر ہو اہے وہ اُس شخص کا مقابلہ نہیں کر سکتا جس کے جذبات اخلاقی تعلیم سے متأتر ہوں۔ ماں کی محبت اپنے بچہ سے اُس کے جذبات کی وجہ سے ہوتی ہے اور ایک فلاسفر کی محبت اپنے ہمسایوں سے دلائلِ عقلیہ کی بناء پر ہوتی ہے۔
انبیاء کے اعمال فکری جذباتی ہوتے ہیں اور لوگوں کے لئے نمونہ
جو اعمال دلائل کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں وہ متواتر اور مسلسل نہیں ہو سکتے کیونکہ بعض دفعہ انسان کی توجہ حقیقت کی
طرف نہیں پھرتی۔ بعض دفعہ اُس کے ارادہ اور عمل کے درمیان ایک لمبی سوچ اور فکر حائل ہو جاتی ہے مگر جو جذبات کے ماتحت لوگوں سے کوئی کام کرتا ہے اُس کے کام فوری ہوتے ہیں اور مسلسل ہوتے ہیں۔ ماں کو اگر کوئی لاکھ دلیل دے کہ تُو اپنے بچہ کے لئے قربانی نہ کر جو کر رہی ہے تو وہ کبھی اُس کی بات نہیں مانے گی اوربچے کی تکلیف کے متعلق وہ سوچنے نہیں بیٹھے گی۔ وہ اندھا دھند اور فوری طور پر اپنے بچہ کی خیر خواہی کے لئے وہ تدابیر اختیار کر نے کو آمادہ ہو جائے گی جو تدابیر اُس کے نزدیک اُس کے بچہ کے فائدہ کے لئے ضروری ہوں گی اور رات اور دن میں کوئی وقت بھی ایسا نہیں ہو گا جب اُس کا دماغ اپنے بچہ کی خیر خواہی سے خالی ہو۔ پس حقیقی اصلاح جبھی ہو سکتی ہے کہ اخلاقِ فاضلہ بنی نوع انسان کے جذبات کا حصہ بنا دئیے جائیں۔ وہ اخلاق کے مطالبات کو فکر کے بعد پورا نہ کریں بلکہ اخلاقی مطالبات کو اپنی ذات میں محسوس کرنے لگیں۔ جذبات کو بعض لوگ بُرا کہتے ہیں لیکن جذبات بُرے ہی نہیں اچھے بھی ہوتے ہیں۔ جذبہ کے اصل معنی تو یہ ہیں کہ ارادہ اور عمل کے درمیان جو فکر کی لمبی دیوار کھڑی ہوتی ہے وہ چھوٹی کر دی جائے یا بالکل اُڑا دی جائے تاکہ انسانی اعمال محدودہوکر نہ رہ جائیں بلکہ جذبات کی وجہ سے وہ سینکڑوں گنے زیادہ ترقی کر جائیں۔ جو شخص خالی فکر سے کام لیتا ہے وہ بہت سا وقت سوچنے اور غور کرنے میں گزار دیتا ہے۔ لیکن جو شخص ایک دفعہ سوچ کر اور غور کر کے ایک سچائی کو معلوم کر لیتا ہے اور ایک نیکی کو پا لیتا ہے پھر وہ اُس سچائی اور نیکی کو اپنے دل کی طرف منتقل کر دیتا ہے اور اسے اپنے جذبات کا حصہ بنا دیتاہے تو وہ اُس نیکی اور سچائی پر عمل کرنے میں اتنا تیز اور پھرتیلا ہوتا ہے کہ وہ شخص جو صرف فکر سے کام لینے کا عادی ہے اُس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔ فکر سے کام لینے والا جتنی دیر میں ایک کام کرے گا جذبات سے کام لینے والا اُتنی دیر میں بیسیوں کام کر جائے گا اور ہم اس جذبات سے کام لینے والے شخص کو وحشی نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ جذبات کا غلام نہیں ہے بلکہ پہلے اُس نے فکر اور غور سے سچائیوں اور نیکیوں کو دریافت کیا اس کے بعد اُس نے اُن سچائیوں اور نیکیوں کو اپنے جذبات کا حصہ بنا لیا۔ پس ایسے شخص کا جذباتی عمل غیرارادی نہیں ہوتا بلکہ ارادہ کے تابع ہوتا ہے۔ صرف اتنی بات ہے کہ یہ اُس کام کو جو ایک دفعہ فکر سے لے چکا ہے بار بار دُہرانا نہیں چاہتا اور ایک ایسا کا م جو پہلے کیا جا چکا ہو اُس کو بغیر ضرورت دُہرانا عقلمندی تو نہیں بیوقوفی کی بات ہے۔ پس یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی اصلاح اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک سچائیاں اور نیکیاں انسان کے جذبات کا جزو نہ بن جائیں۔ جب تک انسان صرف فکر کی اتباع کرے گا وہ دُبْدَھا۱۸۳؎ اور شک اور دیر کا شکار رہے گا۔ جب وہ سچائیوں اور نیکیوں کے اصول کو فکر اور غور سے معلوم کرکے اپنے جذبات کا حصہ بنا لے گا تو دُبْدَھا اور شک اور دیر سے وہ محفوظ ہو جائے گا۔ وہ سچائیوں پر عمل کرے گا اور نیکیاں ظاہر کر ے گا مگر بغیر تردّد کے، بغیر شبہ کے، بغیر دُبْدَھا کے۔ اوریہ چیز جیساکہ میں نے بتایا ہے بغیر اچھے نمونہ کے پیدا نہیں ہو سکتی۔ ہم عقلی دلیل سے اپنے دماغ کو تسلی دیتے ہیں۔ عقلی دلیل محبت کے جذبات کو نہیں اُبھارا کرتی۔ محبت کے جذبات کو قربانی اور ایثار کا نمونہ ہی اُبھارا کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی عبادت کے الفاظ کتنے ہی شاندار ہوں اُن سے وہ سوزو گداز پیدا نہیں ہو سکتا جو ایک انسان کو سوزو گداز سے عبادت کرتے ہوئے دیکھ کر پید اہوتا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ خالی نمونہ بھی ٹھوکر کا موجب ہو جاتا ہے کیونکہ جب تک فکر پاکیزہ نہ ہو جذبات رسم و رواج کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور رسم ورواج عقل اور دانائی کو قتل کر دینے والی چیز یں ہیں۔ پس ایک ہی وقت میں مدلل تعلیم کی بھی ضرورت ہے اور پاک نمونہ کی بھی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آسمانی کتابیں ہمیشہ نبیوں پر نازل ہوتی رہی ہیں۔ خالی کتاب کبھی آسمان سے نہیں پھینکی گئی۔ کتاب انسان کے دماغ کو نور بخشتی ہے اورنمونہ اُس کتاب کے مضمون کو انسان کے دل میں داخل کر دیتا ہے اور اُس کے جذبات کا حصہ بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن میدانوں میں خدا تعالیٰ کے انبیاء کامیاب ہوئے ہیں فلاسفراُن میدانوں میں ہمیشہ ناکام ہوئے ہیں کیونکہ فلاسفر اپنے فلسفوں سے ہمیشہ لوگوں کے دماغوں کی اصلاح کی فکر کرتے ہیں مگر اپنے اچھے نمونہ سے اُن کے دلوں کی اصلاح نہیں کرتے۔ جبکہ انبیاء آسمانی کتابوں کے ذریعہ سے لوگوں کے دماغوں کو بھی نور بخشتے ہیں اور اپنے نمونہ کے ذریعہ سے اُ ن کے دلوں کو بھی پاک کرتے ہیں اوراُن کی ذات میں جو خدا تعالیٰ کے معجزات اور نشانات ظاہر ہوتے ہیں وہ لوگوں کے ایمان اور یقین کو بڑھانے کا موجب ہوتے ہیں۔ اِس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں یہ ضروری ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے کچھ حالات بھی اِس موقع پر بیان کر دئیے جائیں۔
آنحضرت ﷺ کے حالاتِ زندگی
خدا تعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا نشان اور اِسلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان
ثبوت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات جتنے ظاہر ہیں اور کسی نبی کی زندگی کے حالات اتنے ظاہر نہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس تفصیل کے نتیجہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنے اعتراض ہوئے ہیں اتنے اعتراض اور کسی نبی کے وجود پر نہیں ہوئے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان اعتراضوں کے حل ہوجانے کے بعد جس طرح شرح صدر اور جس اخلاص سے ایک انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے محبت کر سکتا ہے اور کسی انسان کی ذات سے اتنی محبت ہرگز نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جن کی زندگیاں پوشیدہ ہوتی ہیں اُن کی محبت میں رخنہ پڑجانے کا احتمال ہمیشہ رہتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو ایک کھلی کتاب تھی۔ دشمن کے اعتراضات حل ہونے کے بعد کوئی ایسا کونہ نہیں رہتا جس پر سے مڑنے کے بعد آپ کی زندگی کے متعلق ایک نیا زاویہ نگاہ ہمارے سامنے آسکتا ہو۔ نہ کوئی تہہ ایسی باقی رہتی ہے جس کے کھولنے کے بعد کسی اور قسم کی حقیقت ہم پر ظاہر ہوتی ہو۔ یہ امر ظاہر ہے کہ ایسے انسان کی زندگی کے حالات قرآن کریم کے دیباچہ میں ضمنی طور پر مختصراً بھی نہیں بیان کئے جا سکتے۔ صرف اُن کی طر ف ایک خفیف سا اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ خفیف اشارہ بھی اِس سے بہتر رہے گا کہ میں اس مضمون کو ہی ترک کردوں کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے آسمانی کتب کو صحیح معنوں میں لوگوں کے دماغوں میں راسخ کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اُس کے ساتھ اعلیٰ نمونہ بھی ہو اور سب سے اعلیٰ نمونہ وہی ہو سکتا ہے جس پر وہ کتاب نازل ہوئی ہو۔ یہ نقطہ باریک اور فلسفیانہ ہے اور بہت سے مذاہب نے تو اِس کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں۔ چنانچہ ہندو مذہب ویدوں کو پیش کرتا ہے مگر ویدوں کے لانے والے رشیوں اور منیوں کی تاریخ کے متعلق بالکل خاموش ہے۔ ہندو مذہب کے علماء اِس کی ضرورت کو آج تک بھی نہیں سمجھ سکے۔ اِسی طرح عیسائی اور یہودی علماء اورپادری بڑی بیباکی سے کہہ دیتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے فلاں نبی میں فلاں نقص تھا اور فلاں نبی میں فلاں نقص تھا۔ وہ یہ بات نہیں سمجھ سکتے کہ جس شخص کو خد اتعالیٰ نے اپنے کلام کے لئے چنا جب وہ کلام اُس کی اصلاح نہیں کر سکا تو کسی دوسرے کی اصلاح کیا کرے گا اور اگر وہ شخص ایسا ہی ناقابل اصلاح تھا تو خد اتعالیٰ نے اُسے چنا کیوں؟ کیا وجہ ہے کہ کسی اور کو نہیں چن لیا؟ آخر خدا تعالیٰ کے لئے کیا مجبوری تھی کہ وہ زبور کے لئے دائود کو چنتا۔ وہ بنی اسرائیل میں سے کسی اور انسان کا انتخاب کر سکتا تھا۔ پس یہ دونوں باتیں غیر معقول ہیں۔ یہ خیال کر لینا کہ خدا تعالیٰ نے جس پر کلام نازل کیا وہ کلام اُس کی اصلاح نہیں کر سکا یا یہ خیال کر لینا کہ خدا تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو چن لیا جو ناقابل اصلاح تھا یہ دونوں باتیں عقل کے بالکل خلاف ہیں۔ مگر بہرحال مختلف مذاہب میں اپنے منبع سے دوری کی وجہ سے اِس قسم کے غلط خیالات پیدا ہو گئے ہیں۔ یا یوں کہو کہ انسانی دماغ کی ترقی کے کامل نہ ہونے کے سبب سے پرانے زمانہ میں اِن چیزوں کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں گیا۔ مگر اِسلام میں شروع سے ہی اس امر کی اہمیت سمجھی گئی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہؓ تیرہ چودہ سال کی عمر میں آپ سے بیاہی گئیں اور کوئی سات سال کا عرصہ آپ کی صحبت میں رہیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو اُن کی عمر۲۱ سال تھی اور وہ پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں لیکن باوجود اِس کے اُن پر یہ فلسفہ روشن تھا۔ ایک دفعہ آپ سے کسی نے سوال کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق تو کچھ فرمائیے تو آپ نے فرمایا کَانَ خُلُقُہٗ کُلُّہُ الْقُرْاٰنُ ۱۸۴؎ یعنی آپ کے اخلاق کا پوچھتے ہو جو کچھ آپ کہا کرتے تھے اُنہی باتوں کا قرآن کریم میں حکم ہے اور قرآن کریم کی لفظی تعلیم آپ کے عمل سے جداگانہ نہیںہے۔ ہر خلق جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اُس پر آپ کا عمل تھا اور ہر عمل جو آپ کرتے تھے اُسی کی قرآن کریم میں تعلیم ہے۔ یہ کیسی لطیف بات ہے ۔ معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اتنے وسیع اور اتنے اعلیٰ تھے کہ ایک نوجوان لڑکی جو تعلیم یافتہ بھی نہیں تھی اُس کی توجہ کو بھی اِس حد تک پھر انے میں کامیاب ہوگئے کہ ہندو، یہودی اور مسیحی فلسفی جس امر کی حقیقت کو نہ سمجھ سکے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس امر کی حقیقت کو پاگئیں اور ایک چھوٹے سے فقرہ میں آپ نے یہ لطیف فلسفہ بیان کردیا کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک راستباز اور مخلص انسان دنیا کو ایک تعلیم دے اور پھر اُس پر عمل نہ کرے یا خود ایک نیکی پر عمل کرے اور دنیا سے اُسے چھپائے اس لئے تمہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق معلوم کرنے کے لئے کسی تاریخ کی ضرورت نہیں ۔ وہ ایک راستباز اور مخلص انسان تھے جو کہتے تھے وہ کرتے تھے اور جوکرتے تھے وہ کہتے تھے۔ ہم نے اُن کو دیکھا اور قرآن کریم کو سمجھ لیا۔ تم جوبعد میں آئے ہو قرآن پڑھو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھ لو۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
محمد ﷺکے ظہور کے وقت عرب کی حالت
بت پرستی
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس زمانہ میں پیدا ہوئے اُس زمانہ کے حالات کو بھی آپ کے حالات کا ایک حصہ ہی سمجھنا چاہئے کیونکہ اِسی پس پردہ کو مدنظر
رکھ کر آپ کی زندگی کے حالات کی حقیقت کو انسان اچھی طرح سمجھ سکتا ہے ۔ آپ مکہ مکرمہ میں پیداہوئے اورآپ کی پیدائش شمسی حساب سے اگست ۵۷۰ء میں بنتی ہے۔ آپ کی پیدائش پر آپ کا نام محمد رکھا گیا جس کے معنے تعریف کئے گئے کے ہیں۔ جب آپ پیدا ہوئے اُس وقت تمام کا تمام عرب سوائے چند مستثنیات کے مشرک تھا ۔ یہ لوگ اپنے آپ کو ابراہیم ؑ کی نسل میں سے قرار دیتے تھے اور یہ بھی مانتے تھے کہ ابراہیم ؑ مشرک نہیں تھے لیکن اِس کے باوجود وہ شرک کرتے تھے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ بعض انسان ترقی کرتے کرتے خداتعالیٰ کے ایسے قریب ہوگئے ہیں کہ اُن کی شفاعت خدا تعالیٰ کی درگاہ میں ضرور قبول کی جاتی ہے اور چونکہ خداتعالیٰ کا وجود بہت بلند شان والا ہے اُس تک پہنچنا ہر ایک انسان کا کام نہیں کامل انسان ہی اُس تک پہنچ سکتے ہیں اس لئے عام انسانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی وسیلہ بنائیں اور اس وسیلہ کے ذریعے سے خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور مدد حاصل کریں ۔ اس عجیب و غریب عقیدہ کی رو سے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو موحّد مانتے ہوئے اپنے لئے شرک کا جواز بھی پیدا کرلیتے تھے۔ ابراہیم ؑبڑا پاکباز تھا۔ وہ خدا کے پاس براہ راست پہنچ سکتا تھا مگر مکہ کے لوگ اس درجہ کے نہیں تھے اس لئے انہیں بعض بڑی ہستیوں کو وسیلہ بنانے کی ضرورت تھی۔ جس غرض کے حصول کے لئے وہ ان ہستیوں کے بُتوں کی عبادت کرتے تھے اور اس طرح بخیالِ خود اُن کو خوش کرکے خداتعالیٰ کے دربار میں اپنا وسیلہ بنالیتے تھے ۔اس عقیدہ میں جو تقائص اور بے جوڑ حصے ہیں اُن کے حل کرنے کی طرف اُن کا ذہن کبھی گیا ہی نہیں تھا کیونکہ کوئی موحّد معلم ان کو نہیں ملا تھا۔ جب شرک کسی قوم میں شروع جاتا ہے تو پھر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ایک سے دوبنتے ہیں اور دوسے تین۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت خانہ کعبہ میں (جو اب مسلمانوں کی مقدس مسجد ہے اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیھما السلام کا بنایا ہوا عبادت خانہ ہے) مؤرخین کے قول کے مطابق تین سَو ساٹھ بُت تھے گویا قمری مہینوں کے لحاظ سے ہردن کے لئے ایک علیحدہ بُت تھا۔ اِن بُتوں کے علاوہ اِرد گرد کے علاقوں کے بڑے بڑے قصبات میں اور بڑی بڑی اقوام کے مراکز میں علیحدہ بُت تھے گویا عرب کا چپہ چپہ شرک میں مبتلا ہورہا تھا۔ عرب لوگوں میں زبان کی تہذیب اور اصلاح کا خیال بہت زیادہ تھا انہوں نے اپنی زبان کو زیادہ سے زیادہ علمی بنانے کی کوشش کی مگر اس کے سوا اُن کے نزدیک علم کے کوئی معنی نہ تھے۔ تاریخ ، جغرافیہ، حساب وغیرہ علوم میں سے کوئی ایک علم بھی وہ نہ جانتے تھے۔ ہاں بوجہ صحراء کی رہائش اور اس میں سفر کرنے کے علم ہیئت کے ماہر تھے۔ سارے عرب میں ایک مدرسہ بھی نہ تھا۔ مکہ مکرمہ میں کہاجاتا ہے کہ صرف چند گنتی کے آدمی پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ اخلاقی لحاظ سے عرب ایک عجیب متضاد قوم تھی ۔ اُن میں بعض نہایت ہی خطرناک گناہ پائے جاتے تھے اور بعض ایسی نیکیاں بھی پائی جاتی تھیں کہ جواُن کی قوم کے معیار کو بہت بلند کردیتی تھیں۔
شراب نوشی اور قمار بازی
عرب شراب کے سخت عادی تھے اور شراب کے نشہ میں بے ہوش ہوجانا یا بکواس کرنے لگنا اُن کے
نزدیک عیب نہیں بلکہ خوبی تھا۔ ایک شریف آدمی کی شرافت کی علامتوں میں سے یہ بھی تھا کہ وہ اپنے دوستوں اور ہمسائیوں کو خوب شراب پلائے ۔امراء کے لئے دن کے پانچ وقتوں میں شراب کی مجلسیں لگانا ضروری تھا ۔جوا اُن کی قومی کھیل تھی مگر اُس کو انہوں نے ایک فن بنالیا تھا۔ وہ جو ا اس لئے نہیں کھیلتے تھے کہ اپنے اموال بڑھائیں بلکہ جوئے کو انہوں نے سخاوت اور بڑائی کا ذریعہ بنایا ہوا تھا۔ مثلاً جوا کھیلنے والوں میں یہ معاہدہ ہوتا تھا کہ جو جیتے وہ جیتے ہوئے مال سے اپنے دوستوں اور اپنی قوم کی دعوتیں کرے۔ جنگوں کے موقع پر جوئے کو ہی روپیہ جمع کرنے کا ذریعہ بنایا جاتا تھا ۔ جنگ کے ایام میں آجکل بھی لاٹری کا رواج بڑھ رہا ہے مگر یورپ اور امریکہ کے لاٹری بازوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس ایجاد کا سہرا عربوں کے سر ہے ۔ جب کبھی جنگ ہوتی تھی تو عرب قبائل آپس میں جوا کھیلتے تھے اور جو جیتتا تھا وہ جنگ کے اکثر اخراجات اُٹھاتا تھا ۔ غرض دنیاکی دوسری آسائشوں اور سہولتوں سے محروم ہونے کا بدلہ عربوں نے شراب اور جوئے سے لیا تھا۔
تجارت
عرب لوگ تاجر تھے اوراُن کے تجارت کے قافلے دور دور تک جاتے تھے ۔ ایبے سینیا سے بھی وہ تجارت کرتے تھے اور شام اور فلسطین سے بھی وہ تجارت
کرتے تھے ہندوستان، سے بھی ان کے تجارتی تعلقات تھے ۔ ان کے امراء ہندوستان کی بنی ہوئی تلواروں کی خاص قدر کرتے تھے ۔ کپڑا زیادہ تریمن اورشام سے آتا تھا۔ یہ تجارتیں عرب کے شہروں کے ہاتھ میں تھیں بقیہ عرب سوائے یمن اور بعض شمالی علاقوں کے بدوی زندگی بسر کرتے تھے۔ نہ اُن کے کوئی شہر تھے نہ اُن کی کوئی بستیاں تھیں۔ صرف قبائل نے ملک کے علاقے تقسیم کر لیے تھے۔ اِن علاقوں میں وہ چکر کھاتے پھرتے تھے۔ جہاں کا پانی ختم ہو جاتا تھا وہاں سے چل پڑتے تھے اور جہاں پانی مل جاتا تھا وہاں ڈیرے ڈال دیتے تھے۔ بھیڑ، بکریاں، اُونٹ اُن کی پونجی ہوتے تھے اُن کی صوف اور اُون سے کپڑے بناتے۔ اُن کی کھالوں سے خیمے تیار کرتے اور جو حصہ بچ جاتا اُسے منڈیوں میں لے جا کر بیچ ڈالتے۔
عرب کے دیگر حالات و عادات و خصائل
سونے چاندی سے وہ نا آشناتو تھے مگر سونا اور چاندی ان
کے لئے ایک نہایت ہی کمیاب جنس تھی۔ حتی کہ اُن کے عوام اور غرباء میں زیورات کوڑیوں اور خوشبودار مصالحوں سے بنائے جاتے تھے۔ لونگوں اور خربوزوں اور ککڑیوں وغیرہ کے بیجوں اور اِسی قسم کی اَور چیزوں سے وہ ہار تیار کر تے اوراُن کی عورتیں یہ ہار پہن کر زیوروں سے مستغنی ہو جاتی تھیں۔ فسق و فجور کثرت سے تھا۔ چوری کم تھی مگر ڈاکہ بے انتہاء تھا۔ ایک دوسرے کو لُوٹ لینا وہ ایک قومی حق سمجھتے تھے مگر اس کے ساتھ ہی قول کی پاسداری جتنی عربوں میں ملتی ہے اتنی اور کسی قوم میں نہیں ملتی۔ اگر کوئی شخص کسی طاقتور آدمی یا قوم کے پاس آکر کہہ دیتا کہ میں تمہاری پناہ میں آگیا ہوں تو اُس شخص یا اُس قوم کے لئے ضروری ہوتا تھا کہ وہ اُس کو پناہ دے۔ اگر وہ قوم اُسے پناہ نہ دے تو سارے عرب میں وہ ذلیل ہو جاتی تھی۔ شاعروں کو بہت بڑا اقتدار حاصل تھا وہ گویا قومی لیڈر سمجھے جاتے تھے۔ لیڈروں کے لئے زبان کی فصاحت اور اگر ہوسکے تو شاعر ہونا نہایت ضروری تھا۔ مہمان نوازی انتہاء درجہ تک پہنچی ہوئی تھی۔ جنگل میں بھولا بھٹکا مسافر اگر کسی قبیلہ میں پہنچ جاتا اور کہتاکہ میں تمہارا مہمان آیا ہوں تو وہ بے دریغ بکرے اور دنبے اور اُونٹ ذبح کر دیتے تھے۔ اُن کے لئے مہمان کی شخصیت میں کوئی دلچسپی نہ تھی، مہمان کا آجانا ہی اُن کے نزدیک قوم کی عزت اور احترام کو بڑھانے والا تھا اور قوم پر فرض ہو جاتا تھا کہ اُس کی عزت کر کے اپنی عزت کو بڑھائے۔ عورتوں کو کوئی حقوق اُس قوم میں حاصل نہیں تھے۔ بعض قبائل میں یہ عزت کی بات سمجھی جاتی تھی کہ باپ اپنی لڑکی کو مار ڈالے۔ مؤرخین یہ بات غلط لکھتے ہیں کہ سارے عرب میں لڑکیوں کو مارنے کا رواج تھا۔ یہ رواج تو طبعی طور پر سارے ملک میں نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر سارے ملک میں یہ رواج جاری ہو جائے تو پھر اُ س ملک کی نسل کس طرح باقی رہ سکتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عرب اور ہندوستان اور دوسرے ممالک میں جہاں جہاں بھی یہ رواج پایا جاتا ہے اِس کی صورت یہ ہوا کرتی ہے کہ بعض خاندان اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر یا بعض خاندان اپنے آپ کو ایسی مجبوریوں میں مبتلا دیکھ کر اُن کی لڑکیوں کے لئے اُن کی شان کے مطابق رشتے نہیں ملیں گے لڑکیوں کو مار دیا کرتے ہیں۔ اِس رواج کی بُرائی اُس کے ظلم میں ہے نہ اِس امر میں کہ ساری قوم میں سے لڑکیاں مٹا دی جاتی ہیں۔ عربوں کی بعض قوموں میں تو لڑکیاں مارنے کا طریقہ یوں رائج تھا کہ وہ لڑکی زندہ دفن کر دیتے تھے اور بعض میں اس طرح کہ وہ اُس کا گلا گھونٹ دیتے تھے اور بعض اَور طریقوں سے ہلاک کر دیتے تھے۔ اصلی ماں کے سوا دوسری مائوں کو عرب لوگ ماں نہیں سمجھتے تھے اور اُن سے شادیاں کرنے میں حرج نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ باپ کے مرنے کے بعد کئی لڑکے اپنی سوتیلی مائوں سے بیاہ کر لیتے تھے۔ کثرتِ ازدواج عام تھی۔ کوئی حد بندی نکاحوں کی نہیں ہوتی تھی۔ ایک سے زیادہ بہنوں سے بھی ایک شخص شادی کر لیتا تھا۔ لڑائی میں سخت ظلم کرتے تھے جہاں بغض بہت زیادہ ہوتا تھا زخمیوں کے پیٹ چاک کر کے اُن کے کلیجے چبا جاتے تھے۔ ناک کان کاٹ دیتے تھے۔ آنکھیں نکال دیتے تھے۔ غلامی کا رواج عام تھا۔ اِردگرد کے کمزور قبائل کے آدمیوں کو پکڑ کے لے آتے تھے اور اُن کو غلام بنا لیتے تھے۔ غلام کو کوئی حقوق حاصل نہیں تھے۔ ہر مالک اپنے غلام سے جو چاہتا سلوک کرتا اُس کے خلاف کوئی گرفت نہ تھی۔ اگر وہ قتل بھی کر دیتا تو اس پر کوئی الزام نہ آتا تھا۔ اگر کسی دوسرے آدمی کے غلام کو مار دیتا تب بھی وہ موت کی سزا سے محفوظ سمجھا جاتا تھا اور مالک کو کچھ معاوضہ دے کر آزادی کر حاصل لیتا تھا۔ لونڈیوں کو اپنی شہوانی ضرورتوں کے پورا کرنے کا ذریعہ بنانا ایک قانونی حق تسلیم کیا جاتا تھا۔ لونڈیوں کی اولادیں بھی آگے غلام ہوتی تھیں اور صاحبِ اولاد لونڈیاں بھی لونڈیاں ہی رہتی تھیں۔ غرض جہاں تک علم و ترقی کا سوال ہے عرب لوگ بہت پیچھے تھے، جہاں تک بین الاقوامی رحم اور حسن سلوک کا سوال ہے عرب کے لوگ بہت پیچھے تھے، جہاں تک صنف نازک کے تعلق کا سوال ہے عرب لوگ دوسری اقوام سے بہت پیچھے تھے۔ مگر بعض شخصی اور بہادرانہ اخلاق اُن میں ضرور پائے جاتے تھے اور اس حد تک پائے جاتے تھے کہ شاید اُس زمانہ کی دوسری قوموں میں اس کی مثال نہیں پائی جاتی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت
اِس ماحول میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش سے
پہلے ہی آپ کے والد جن کا نام عبداللہ تھا فوت ہو گئے تھے اور آپ کو اور آپ کی والدہ حضرت آمنہ کو اُن کے دادا عبدالمطلب نے اپنی کفایت میں لے لیا تھا۔ عرب کے رواج کے مطابق آپ دودھ پلانے کے لئے طائف کے پاس رہنے والی ایک عورت کے سپرد کئے گئے۔ عرب لوگ اپنے بچوں کو دیہاتی عورتوں کے سپرد کر دیا کرتے تھے تا اُن کی زبان صاف ہوجائے اور اُن کی صحت درست ہو۔ آپ کی عمر کے چھٹے سال میں آپ کی والدہ بھی مدینہ سے آتے ہوئے جہاں وہ اپنے ننھیال سے ملنے گئی تھیں مدینہ اور مکہ کے درمیان فوت ہو گئیں اور وہیں دفن ہوئیں اور آپ کو ایک خادمہ اپنے ساتھ مکہ لائی اور دادا کے سپرد کر دیا۔ آپ آٹھویں سال میں تھے کہ آپ کے دادا جو آپ کے نگران تھے وہ بھی فوت ہو گئے اور آپ کے چچا ابو طالب اپنے والد کی وصیت کے مطابق آپ کے نگران ہوئے۔ عرب سے باہر آپ کو دو تین دفعہ جانے کا موقع ملا۔ جن میں سے ایک سفر آپ نے بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ کیا جو کہ تجارت کے لئے شام کی طر ف گئے تھے۔ یہ سفر آپ کا غالباً شام کے جنوب مشرقی تجارتی شہروں تک ہی محدود تھا کیونکہ اس سفر میں بیت المقدس وغیرہ جگہوں میں سے کسی کا ذکر نہیں آتا۔ اس کے بعد آپ جوانی تک مکہ میں ہی مقیم رہے۔
مجلس حلف الفضول میں آپ کی شمولیت
آپ کی طبیعت بچپن سے ہی سوچنے اور فکر کرنے کی طرف
مائل تھی اور لوگوں کی لڑائیوں جھگڑوں میںآپ دخل نہیں دیا کرتے تھے بلکہ لڑائیوں اور فسادوں کے دُور کرانے میں حصہ لیتے تھے چنانچہمکہ اور اِس کے گردو نواح کے قبائل کی لڑائیوں سے تنگ آکر جب مکہ کے کچھ نوجوانوں نے ایک انجمن بنائی جس کی غرض یہ تھی کہ وہ مظلوموں کی مدد کیا کرے گی، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے شوق سے اُس مجلس میں شامل ہوگئے۔ اس مجلس کے ممبروں نے اِن الفاظ میں قسمیں کھائی تھیں کہ:
’’ وہ مظلوموں کی مدد کریں گے اور اُن کے حق اُن کو لے کر دیں گے جب تک کہ سمندر میں ایک قطرہ پانی کا موجود ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکیں گے تو وہ خود اپنے پاس سے مظلوم کا حق ادا کر دیں گے‘‘۔۱۸۵؎
شاید اس قسم پر عمل کرنے کا موقع آپ کے سوا اور کسی کو نہیں ملا۔ جب آپ نے دعویٔ نبوت کیا اور سب سے زیادہ مکہ کے سردار ابوجہل نے آپ کی مخالفت میں حصہ لیا اور لوگوں سے یہ کہنا شروع کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کوئی بات نہ کرے۔ اُن کی کوئی بات نہ مانے۔ ہر ممکن طریق سے اُن کو ذلیل کرے۔ اُس وقت ایک شخص جس نے ابوجہل سے کچھ قرضہ وصول کرنا تھا مکہ میںآیا اور اُس نے ابوجہل سے اپنے قرضہ کا مطالبہ کیا۔ ابوجہل نے اُس کا قرض ادا کر نے سے انکا رکردیا۔ اُس نے مکہ کے بعض لوگوں سے اس امر کی شکایت کی اور بعض نوجوانوں نے شرارت سے اُسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ بتایا کہ اُن کے پاس جائو وہ تمہاری اِس بارہ میں مدد کریں گے۔ اُن کی غرض یہ تھی کہ یا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس مخالفت کے مدنظر جو مکہ والوں کی طرف سے عموماً اور ابوجہل کی طرف سے خصوصاً ہو رہی تھی اُس کی امداد کرنے سے انکار کردیں گے اور اس طرح عربوں میں ذلیل ہو جائیں گے اور قسم توڑنے والے کہلائیں گے یا پھر آپ اس کی مدد کے لئے ابوجہل کے پاس جائیں گے اور وہ آپ کو ذلیل کر کے اپنے گھر سے نکال دے گا۔ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ شخص گیا اور اُس نے ابوجہل کی شکایت کی تو آپ بِلا تأمل اُٹھ کر اس کے ساتھ چل دئیے اور ابوجہل کے دروازہ پر جا کر دستک دی۔ ابوجہل گھر سے باہر نکلا اور دیکھا کہ اُس کا قرض خواہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُس کے دروازہ پر کھڑا ہے۔ آپ نے فوراً اُسے توجہ دلائی کہ اِس شخص کا تم نے فلاں فلاں حق دینا ہے اِس کو ادا کرو اور ابوجہل نے بِلا چون و چرا اُس کا حق اُسے ادا کر دیا۔ جب شہر کے رئوساء نے ابوجہل کو ملامت کی کہ تم ہم سے تو یہ کہا کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ذلیل کرو اور اس سے کوئی تعلق نہ رکھو لیکن تم نے خود اُس کی بات مانی اور اُس کی عزت قائم کی۔ تو ابوجہل نے کہا خد اکی قسم! اگر تم میری جگہ ہوتے تو تم بھی یہی کرتے۔ میں نے دیکھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دائیں اور بائیں مست اُونٹ کھڑے ہیں جو میری گردن مروڑ کر مجھے ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔۱۸۶؎ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی روایت میں کوئی صداقت ہے یا نہیں۔ آیا اُسے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے کوئی نشان دکھایا تھا یا صرف اُس پر حق کا رُعب چھا گیا اور اُس نے یہ دیکھ کر کہ سارے مکہ کا مطعون اور مقہور انسان ایک مظلوم کی حمایت کے جوش میں اکیلا بغیر کسی ظاہری مدد کے مکہ کے سردار کے دروازہ پر کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ اِس شخص کا جو حق تم نے دینا ہے وہ ادا کردو تو حق کے رُعب نے اُس کی شرارت کی روح کو کچل دیا اور اُسے سچائی کے آگے سر جھکانا پڑا۔
حضرت خدیجہؓ سے آنحضرت ﷺکی شادی
جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۲۵ سال کے ہوئے
تو آپ کی نیکی اور آپ کے تقویٰ کی شہرت عام طور پر پھیل چکی تھی لوگ آپ کی طرف انگلیاں اُٹھاتے اور کہتے یہ سچا انسان جا رہا ہے۔ یہ امانت والا انسان جا رہا ہے۔ یہ خبریں مکہ کی ایک مالدار بیوہ کو بھی پہنچیں اور اُس نے آپ کے چچا ابو طالب سے خواہش کی کہ وہ اپنے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کہیں کہ اُس کا تجارتی مال جو شام کے تجارتی قافلہ کے ساتھ جا رہا ہے وہ اُس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے۔ ابو طالب نے آپ سے ذکر کیا اور آپ نے اسے منظور کر لیا۔ اس سفر میں آپ کو بڑی کامیابی ہوئی اور اُمید سے زیادہ نفع کے ساتھ آپ لَوٹے۔ خدیجہؓ نے محسوس کیا کہ یہ نفع صرف منڈیوں کے حالات کی وجہ سے نہیں بلکہ امیر قافلہ کی نیکی اور دیانت کی وجہ سے ہے۔ اُس نے اپنے غلام میسرہ سے جو آپ کے ساتھ تھا آپ کے حالات دریافت کئے اور اُس نے بھی اُس کے خیال کی تائید کی اور بتایا کہ سفر میں جس دیانتداری اور خیر خواہی سے آپ نے کام کیا ہے وہ صرف آپؐ ہی کا حصہ تھا۔ اِس بات کا حضرت خدیجہؓ کی طبیعت پر خاص اثر ہوا۔ باوجود اِس کے کہ وہ اُس وقت چالیس سا ل کی تھیں اور دو دفعہ بیوہ ہو چکی تھیں اُنہوں نے اپنی ایک سہیلی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بجھوایا تا معلوم کرے کہ کیا آپ اُن سے شادی کر نے پر رضا مند ہوں گے؟ وہ سہیلی آپ کے پاس آئی اور اُس نے آپ سے پوچھا کہ آپ شادی کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے کہا میرے پاس کوئی مال نہیں ہے جس سے میں شادی کروں۔ اُس سہیلی نے کہا اگر یہ مشکل دور ہو جائے اور ایک شریف امیر عورت سے آپ کی شادی ہو جائے تو پھر؟ آپ نے فرمایا وہ کون عورت ہے؟ اُس نے کہا خدیجہؓ۔ آپ نے فرمایا میں اُس تک کس طرح پہنچ سکتا ہوں؟ اِس پر اُس سہیلی نے کہا کہ یہ میرے ذمہ رہا۔ آپ نے فرمایا مجھے منظور ہے۔ تب خدیجہؓ نے آپ کے چچا کی معرفت شادی کا فیصلہ پختہ کیا اور آپ کی شادی حضرت خدیجہؓ سے ہوئی۔ ایک غریب و یتیم نوجوان کے لئے دولت کا یہ پہلا دروازہ کھلا، مگر اُس نے اِس دولت کو جس طرح استعمال کیا وہ ساری دنیا کیلئے ایک سبق آموز واقعہ ہے۔
غلاموں کی آزادی اور زیدؓ کا ذکر
آپ کی شادی کے بعد جب حضرت خدیجہؓ نے یہ محسوس کیا کہ آپ کا حساس دل
ایسی زندگی میں کوئی لطف نہیں پائے گا کہ آپ کی بیوی مالدار ہو اور آپ اُس کے محتاج ہوں تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں اپنا مال اور اپنے غلام آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہوں۔ آپ نے کہا خدیجہ! کیا سچ مچ؟ جب اُنہوں نے پھردوبارہ اقرار کیا تو آپ نے فرمایا میرا پہلا کام یہ ہو گا کہ میں غلاموں کو آزاد کردوں۔ چنانچہ آپ نے اُسی وقت حضرت خدیجہ کے غلاموں کو بُلایا اور فرمایا تم سب لوگ آج سے آزاد ہو اور مال کا اکثر حصہ غرباء ہیں تقسیم کر دیا۔ جو غلام آپ نے آزاد کئے اُ ن میں ایک زید نامی غلام بھی تھا۔ وہ دوسرے غلاموں سے زیادہ زیرک اور زیادہ ہوشیار تھا کیونکہ وہ ایک شریف اور معزز خاندان کا لڑکا تھا جسے بچپن میں ڈاکو چرا کر لے گئے تھے اور وہ بکتا بکاتا مکہ میں پہنچا تھا۔ اُس نوجوان نے اپنی زیرکی اور ہوشیاری سے اس بات کو سمجھ لیا کہ آزادی کی نسبت اِس شخص کی غلامی بہت بہتر ہے۔ جب آپ نے غلاموں کو آزاد کیا جن میں زید بھی تھا تو زید نے کہا آپ تو مجھے آزاد کرتے ہیں پر میں آزاد نہیں ہوتا، میں آپ کے ساتھ ہی رہنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ وہ آپ کے ساتھ رہا اور روز بروز آپ کی محبت میں بڑھتا چلا گیا۔ چونکہ وہ ایک مالدار خاندان کا لڑکا تھا اُس کے باپ اور چچا ڈاکوئوں کے پیچھے پیچھے اپنے بچہ کو تلاش کرتے ہوئے نکلے۔ آخراُ نہیں معلوم ہو اکہ اُن کا لڑکا مکہ میں ہے۔ چنانچہ وہ مکہ میں آئے اور پتہ لیتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچے اور آپ سے عرض کیا کہ آپ ہمارے بچہ کو آزاد کر دیں اور جتنا روپیہ چاہیں لے لیں۔ آپ نے فرمایا زید کو تو میں آزاد کر چکا ہو ں وہ بڑی خوشی سے آپ لوگوں کے ساتھ جاسکتا ہے۔ پھر آپ نے زید کو بُلوا کر اُس کے باپ اور چچا سے ملوا دیا۔ جب دونوں فریق مل چکے اور آنسوئوں سے اپنے دل کی بھڑاس نکال چکے تو زید کے باپ نے اُس سے کہا کہ اِس شریف آدمی نے تم کو آزاد کر دیا ہے تمہاری ماں تمہاری یاد میں تڑپ رہی ہے اب تم جلدی چلو اور اُس کے لئے راحت اور تسکین کا موجب بنو۔ زیدنے کہا ماں اور باپ کس کو پیارے نہیں ہوتے میرا دل بھی اِس محبت سے خالی نہیں ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اِس قدر میرے دل میں داخل ہو چکی ہے کہ اس کے بعد میں آپؐ سے جدا نہیں ہو سکتا۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے آپ لوگوں سے مل لیا لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہونا میری طاقت سے باہر ہے۔ زید کے باپ اور چچا نے بہت زور دیا مگر زید نے اُن کے ساتھ جانا منظور نہ کیا۔ زید کی اِس محبت کو دیکھ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ زید آزاد تو پہلے ہی تھا مگر آج سے یہ میرا بیٹا ہے۔۱۸۷؎ اِس نئی صورتِ حالات کو دیکھ کر زید کے باپ اور چچا واپس وطن چلے گئے اور زید ہمیشہ کے لئے مکہ کے ہو گئے۔
غارِ حرا میں خدا کی عبادت کرنا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب تیس سال سے زیادہ ہوئی تو آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کی
عبادت کی رغبت پہلے سے زیادہ جوش مارنے لگی۔ آخر آپ شہر کے لوگوں کی شرارتوں، بدکاریوں اور خرابیوں سے متنفر ہو کر مکہ سے دو تین میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک پتھروں سے بنی ہوئی چھوٹی سی غار میں خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے لگ گئے۔ حضرت خدیجہؓ چند دن کی غذا آپ کے لئے تیار کر دیتیں۔۱۸۸ ؎ آپ وہ لے کر حرا میں چلے جاتے تھے اوراُن دو تین پتھروں کے اندر بیٹھ کر خد اتعالیٰ کی عبادت میں رات اور دن مصروف رہتے تھے۔
پہلی قرآنی وحی
جب آپ چالیس سال کے ہوئے تو ایک دن آپ نے اِسی غار میں ایک کشفی نظارہ دیکھا کہ ایک شخص آپ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ’’پڑھیئے‘‘۔
آپ نے فرمایا میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔ اِس پر اُس نے دوبارہ اورسہ بارہ کہا اور آخر پانچ فقرے اُس نے آپ سے کہلوانے
۔۱۸۹؎ یہ قرآنی ابتدائی وحی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس کا مفہوم یہ ہے کہ تمام دنیا کو اپنے رب کے نام پر جس نے تجھ کو اور کل مخلوق کو پید اکیا ہے پڑھ کر آسمانی پیغام سنا دے۔ وہ خدا جس نے انسان کو ایسے طور پر پیدا کیا ہے کہ اُس کے دل میں خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کی محبت کا بیج پایا جاتا ہے۔ ہاں سب دنیا کو یہ پیغام سنا دے کہ تیرا ربّ جو سب سے زیادہ عزت والا ہے تیرے ساتھ ہوگا۔ وہ جس نے دنیا کو علوم سکھانے کے لئے قلم بنایا ہے اور انسان کو وہ کچھ سکھانے کے لئے آمادہ ہوا ہے جو اِس سے پہلے انسان نہیں جانتا تھا۔
یہ چند الفاظ قرآن کریم کی اُن سب تعلیموں پر حاوی ہیں جو آئندہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی تھی اور دنیا کی اصلاح کا ایک اہم بیج اُن کے اندر پایا جاتا تھا۔ اِن کی تفسیر تو قرآن شریف میں اپنے موقع پر آئے گی اِس موقع پر ان آیتوں کا اِس لئے ذکر کر دیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا یہ ایک اہم واقعہ ہے اور قرآن کریم کے لئے یہ آیات ایک بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ کلام نازل ہوا تو آپ کے دل میں یہ خوف پیدا ہو گیا کہ کیا میں خدا تعالیٰ کی اتنی بڑی ذمہ داری ادا کر سکوں گا؟ کوئی اور ہوتا تو کِبر اور غرور سے اُس کا دماغ پھر جاتا کہ خدائے قادر نے ایک کام میرے سپرد کیا ہے۔ مگر محمدرسول صلی اللہ علیہ وسلم کام جانتے تھے کام پر اِترانا نہیں جانتے تھے۔ آپ اس الہام کے بعد حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے۔ آپ کا چہرہ اُترا ہوا تھا اور گھبراہٹ کے آثار ظاہر تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے پوچھا آخر ہوا کیا؟ آپ نے سارا واقعہ سنایا اور فرمایا میرے جیسا کمزور انسان اِس بوجھ کو کس طرح اُٹھا سکے گا۔ حضرت خدیجہؓ نے کہا کَلاَّ وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ ۱۹۰؎ خدا کی قسم! یہ کلام خدا تعالیٰ نے اِس لئے آپ پر نازل نہیں کیا کہ آپ ناکام اور نامراد ہوں اور خد اآپ کا ساتھ چھوڑ دے۔ خد ا تعالیٰ ایسا کب کر سکتا ہے۔ آپ تو وہ ہیں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں اور بیکس اور بے مددگار لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں۔ وہ اخلاق جو ملک سے مٹ چکے تھے وہ آپ کی ذات کے ذریعہ سے دوبارہ قائم ہورہے ہیں۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور سچی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ کیاایسے انسان کو خد اتعالیٰ ابتلاء میں ڈال سکتا ہے؟ پھر وہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو عیسائی ہو چکے تھے۔ اُنہوں نے جب یہ واقعہ سنا تو بے اختیار بول اُٹھے آپ پر وہی فرشتہ نازل ہوا ہے جو موسیٰ پر نازل ہوا تھا۱۹۱؎ گویا اشتناء باب ۱۸ آیت ۱۸ والی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا۔ جب اِس بات کی خبر زید آپ کے آزاد کردہ غلام کو جو اُس وقت کوئی پچیس تیس سال کے تھے اور علیؓ آپ کے چچا کے بیٹے کو جن کی عمر اُس وقت گیارہ سال کی تھی پہنچی تو دونوں آپ پر فوراً ایمان لائے۔
حضرت ابوبکرؓ کا آنحضرت ﷺپر ایمان لانا
ابوبکرؓ آپ کے بچپن کے دوست جو شہر سے باہر گئے
ہوئے تھے، جب شہر میں داخل ہوئے تو معاً اُن کے کانوں میں یہ آوازیں پڑنی شروع ہوئیں کہ تمہارا دوست دیوانہ ہوگیا ہے، وہ کہتا ہے آسمان سے فرشتے اُتر کر مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔ ابوبکرؓ سیدھے آپ کے دروازہ پر آئے اور دستک دی۔ جب آپ نے دروازہ کھولا تو اُنہوں نے آپ سے حقیقت حال کے متعلق سوال کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچپن کے دوست کو ٹھوکر سے بچانے کے لئے کچھ تشریح کرنی چاہی۔ ابوبکرؓ نے روکا اور کہا کہ مجھے صرف اتنا جواب دیجئے کہ کیا آپ نے یہ اعلان کیا ہے کہ خدا کے فرشتے آپ کے پاس آئے اور اُنہوں نے آپ سے باتیں کیں؟ آپ نے پھر تشریح کرنی چاہی مگر ابوبکرؓ نے قسم دے کر کہا کہ صرف اِس سوال کا جواب دیجئے اور کچھ نہ کہئے۔ جب آپ نے اثبات میں جواب دیا تو ابوبکرؓ نے کہا گواہ رہئے میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور پھر کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ !آپ تو دلائل دے کر میرے ایمان کو کمزور کرنے لگے تھے۔ جس نے آپ کی زندگی کو دیکھا ہو کیا اُسے آپ کی سچائی کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت ہو سکتی ہے؟۱۹۲؎
مؤمنوں کی چھوٹی سی جماعت
یہ ایک چھوٹی سی جماعت تھی جس سے اسلام کی بنیاد پڑی۔ ایک عورت کہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ رہی
تھی، ایک گیارہ سالہ بچہ، ایک جوان آزاد کردہ غلام،بے وطن اور غیروں میں رہنے والا جس کی پشت پر کوئی نہ تھا۔ایک نوجوان دوست اورایک مدعی الہام۔ یہ وہ چھوٹا سا قافلہ تھا جو دنیا میں نور پھیلانے کے لئے کفر و ضلالت کے میدان کی طرف نکلا۔ لوگوں نے جب یہ باتیں سنیں اُنہوں نے قہقہے لگائے۔ باہم دگر چشمکیں کیں اور نظروں ہی نظرو ں میں ایک دوسرے کو جتایا کہ یہ لوگ مجنون ہو گئے ہیں اِن کی باتوں سے متعجب نہ ہو، بلکہ سنو اور مزہ اُٹھائو۔ مگر حق اپنی پوری شان کے ساتھ ظاہر ہونا شروع ہوا ور یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مطابق ’’حکم پر حکم۔ حکم پر حکم۔ قانون پر قانون۔ قانون پر قانون‘‘۔۱۹۳؎ ہوتا گیا۔ ’’تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں‘‘۱۹۴؎ اور ’’اجنبی زبا ن‘‘۱۹۵؎ سے جس سے عرب پہلے نا آشنا تھے، خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ عربوں سے باتیں کرنی شروع کیں۔ نوجوانوں کے دل لرزنے لگے، صداقت کے متلاشیوں کے جسموں پر کپکپی پید اہوئی۔ اُن کی ہنسی، ٹھٹھے اور استہزاء کی آوازوں میں پسندیدگی اور تحسین کے کلمات بھی آہستہ آہستہ بلند ہونے شروع ہوئے۔ غلاموں ، نوجوانوں اور مظلوم عورتوں کا ایک جتھا آپ کے گر دجمع ہونے لگ گیا۔ کیونکہ آپ کی آواز میں عورتیں اپنے حقوق کی حفاظت دیکھ رہی تھیں۔ غلام اپنی آزادی کا اعلان سن رہے تھے اور نوجوان بڑی بڑی اُمیدوں اور ترقیوں کے راستے کھلتے ہوئے محسوس کر رہے تھے۔
رؤسائیمکہ کی مخالفت
جب ہنسی اور ٹھٹھے کی آوازوں میں سے تحسین اور تعریف کی آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہوگئیں، تو مکہ کے رئوساء
گھبرا گئے، حکام کے دل میں خوف پیدا ہونے لگا۔ وہ جمع ہوئے ، اُنہوں نے مشورے کئے، منصوبے باندھے اور ہنسی اور ٹھٹھے کی جگہ ظلم و تعدی اور سختی اور قطع تعلق کی تجاویز کا فیصلہ کیا گیا اور اُن پر عمل ہونا شروع ہوا۔ اب مکہ سنجیدگی سے اسلام کے ساتھ ٹکرانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔اب وہ ’’پاگلانہ‘‘ دعویٰ ایک ترقی کرنے والی حقیقت نظر آرہا تھا ۔مکہ کی سیاست کے لئے خطرہ، مکہ کے مذہب کے لئے خطرہ، مکہ کے تمدن کے لئے خطرہ اور مکہ کے رسم ور واج کے لئے خطرہ دکھائی دے رہا تھا۔ اسلام ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین بناتا ہوا نظر آتا تھا۔ جس نئے آسمان اور زمین کے ہوتے ہوئے عرب کا پُرانا آسمان اور پُرانی زمین قائم نہیں رہ سکتے تھے۔ اب یہ سوال مکہ والوں کے لئے ہنسی کا سوال نہیں رہا تھا اب یہ زندگی اور موت کا سوال تھا۔ اُنہوں نے اسلام کے چیلنج کو قبول کیا اور اُسی روح کے ساتھ قبول کیا جس روح کے ساتھ نبیوں کے دشمن نبیوں کے چیلنج کو قبول کرتے چلے آئے تھے اور وہ دلیل کا جواب دلیل سے نہیں بلکہ تلوار اور تیرکے ساتھ دینے پر آمادہ ہو گئے۔ اسلا م کی خیر خواہی کا جواب ویسے ہی بلند اخلاق کے ذریعہ سے نہیں بلکہ گالی گلوچ اور بد کلامی سے دینے کا اُنہو ں نے فیصلہ کر لیا۔ ایک دفعہ پھر دنیا میں کفر اور اسلام کی لڑائی شروع ہوگئی۔ ایک دفعہ پھر شیطان کے لشکروں نے فرشتوں پر ہلّہ بول دیا۔ بھلا اُن مٹھی بھر آدمیوں کی طاقت ہی کیا تھی کہ مکہ والوں کے سامنے ٹھہر سکیں۔ عورتیں بے شرمانہ طریقوں سے قتل کی گئیں۔مرد ٹانگیں چیر چیر کر مار ڈالے گئے، غلام تپتی ہوئی ریت اور کھردرے پتھروں پر گھسیٹے گئے۔ اِس حد تک کہ اُن کے چمڑے انسانی چمڑوں کی شکلیں بدل کر حیوانی چمڑے بن گئے۔ ایک مدت بعد اسلام کی فتح کے زمانہ میں جب اسلام کا جھنڈا مشرق و مغرب میں لہرا رہا تھا ایک دفعہ ایک ابتدائی نو مسلم غلام خبابؓ کی پیٹھ ننگی ہوئی تو اُن کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اُن کی پیٹھ کا چمڑا انسانوں جیسا نہیں جانوروں جیسا ہے وہ گھبرا گئے اور اُن سے دریافت کیا کہ آپ کو یہ کیا بیماری ہے؟ وہ ہنسے اور کہا بیماری نہیں یہ یاد گار ہے اُس وقت کی جب ہم نو مسلم غلاموں کو عرب کے لوگ مکہ کی گلیوں میں سخت اور کھردرے پتھروں پر گھسیٹا کرتے تھے اور متواتر یہ ظلم ہم پر روا رکھے جاتے تھے اُسی کے نتیجہ میں میری پیٹھ کا چمڑہ یہ شکل اختیار کر گیا ہے۔
مؤمن غلاموں پر کفّارِ مکہ کا ظلم و ستم
یہ غلام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے مختلف اقوام کے تھے اِن
میں حبشی بھی تھے جیسے بلالؓ ، رومی بھی تھے جیسے صہیبؓ۔ پھر اُن میں عیسائی بھی تھے جیسے جبیرؓ اور صہیبؓ۔ اور مشرکین بھی تھے جیسے بلالؓ اور عمارؓ ۔ بلالؓ کو اُس کے مالک تپتی ریت پر لٹا کر اوپر یا تو پتھر رکھ دیتے یا نوجوانوں کو سینہ پر کودنے کے لئے مقرر کر دیتے۔ حبشی النسل بلالؓ اُمیہ بن خلف نامی ایک مکی رئیس کے غلام تھے۔ اُمیہ اُنہیں دوپہر کے وقت گرمی کے موسم میں مکہ سے باہر لے جا کر تپتی ہوئی ریت پر ننگا کر کے لٹا دیتا تھا اور بڑے بڑے گرم پتھر اُن کے سینہ پر رکھ کر کہتا تھا کہ لات اور عزیٰ کی الوہیت کو تسلیم کر اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے علیحدگی کا اظہار کر۔ بلالؓ اُس کے جواب میں کہتے اَحَدٌ اَحَدٌ ۱۹۶؎ یعنی ا للہ ایک ہی ہے اللہ ایک ہی ہے۔بار بار آپ کا یہ جواب سن کر اُمیہ کو اَور غصہ آجاتا اور وہ آپ کے گلے میں رسہ ڈال کر شریر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور کہتا کہ ان کو مکہ کی گلیوں میں پتھروں کے اُوپر سے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں۔ جس کی وجہ سے اُن کا بدن خون سے تربتر ہوجاتا مگر وہ پھر بھی اَحَدٌ اَحَدٌ کہتے چلے جاتے ، یعنی خدا ایک خدایک۔ عرصہ کے بعد جب خد اتعالیٰ نے مسلمانوں کو مدینہ میں امن دیا جب وہ آزادی سے عبادت کرنے کے قابل ہو گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالؓ کو اذان دینے کے لئے مقرر کیا۔ یہ حبشی غلام جب اذان میں اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہ کی بجائے اَسْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہتا تو مدینہ کے لوگ جو اُس کے حالات سے ناواقف تھے ہنسنے لگ جاتے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلالؓ کی اذان پر ہنستے ہوئے پایا تو آپ لوگوں کی طرف مڑے اور کہا تم بلالؓ کی اذان پر ہنستے ہو مگر خد اتعالیٰ عرش پر اُس کی اذان سن کر خوش ہوتا ہے۔ آپ کا اشارہ اِسی طرف تھا کہ تمہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ یہ ’’ش‘‘ نہیں بول سکتا۔ مگر ’’ش‘‘ اور ’’س‘‘ میں کیا رکھا ہے خد اتعالیٰ جانتا ہے کہ جب تپتی ریت پر ننگی پیٹھ کے ساتھ اِس کو لٹا دیا جاتا تھا اور اس کے سینہ پر ظالم اپنی جوتیوں سمیت کودا کرتے تھے اور پوچھتے تھے کہ کیا اب بھی سبق آیا ہے یا نہیں؟ تو یہ اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں اَحَدٌ اَحَدٌ کہہ کر خد اتعالیٰ کی توحید کا اعلان کرتا رہتا تھا اور اپنی وفاداری ، اپنے توحید کے عقیدہ اور اپنے دل کی مضبوطی کا ثبوت دیتا تھا۔ پس اُس کا اَسْھَدُ بہت سے لوگوں کے اَشْھَدُ سے زیادہ قیمتی تھا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اُن پر یہ ظلم دیکھے تو اُن کے مالک کو اُن کی قیمت ادا کر کے اُنہیں آزاد کروا دیا۔ اسی طرح اور بہت سے غلاموں کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے مال سے آزاد کرایا۔ اِ ن غلاموں میں سے صہیبؓ ایک مالدار آدمی تھے۔ یہ تجارت کرتے تھے اور مکہ کے باحیثیت آدمیوں میں سمجھے جاتے تھے مگر باوجود اس کے کہ وہ مالدار بھی تھے اور آزاد بھی ہو چکے تھے قریش اُن کو مار مار کر بیہوش کر دیتے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تو آپ کے بعد صہیبؓ نے بھی چاہا کہ وہ بھی ہجرت کر کے مدینہ چلے جائیں مگر مکہ کے لوگوں نے اُن کو روکا اور کہا کہ جو دولت تم نے مکہ میں کمائی ہے تم اُسے مکہ سے باہر کس طرح لے جا سکتے ہو ہم تمہیں مکہ سے جانے نہیں دیں گے۔ صہیبؓ نے کہا اگر میں یہ سب کی سب دولت چھوڑ دوں تو کیا پھر تم مجھے جانے دو گے؟ وہ اِس بات پر رضا مند ہو گئے اور آپ اپنی ساری دولت مکہ والوں کے سپرد کر کے خالی ہاتھ مدینہ چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ نے فرمایا ۔ صہیبؓ! تمہارا یہ سَودا سب پہلے سَودوں سے نفع مند رہا۔ یعنی پہلے اسباب کے مقابلہ میں تم روپیہ حاصل کیا کرتے تھے مگر اب روپیہ کے مقابلہ میں تم نے ایمان حاصل کیا ہے۔
اِن غلاموں میں اکثر تو ظاہر و باطن میں مستقل رہے، لیکن بعض سے ظاہر میں کمزوریاں بھی ظاہر ہوئیں۔ چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمارؓ نامی غلام کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہ سسکیاں لے رہے تھے اور آنکھیں پونچھ رہے تھے۔ آپ نے پوچھا عمار! کیا معاملہ ہے؟ عمار نے کہا اے اللہ کے رسول! بہت ہی بُرا۔ وہ مجھے مارتے گئے اور دکھ دیتے گئے اور اُس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک میرے منہ سے آپ کے خلاف اور دیوتائوں کی تائید میں کلمات نہیں نکلوا لئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا لیکن تم اپنے دل میں کیا محسوس کر تے تھے؟ عمار نے کہا دل میں تو ایک غیر متزلزل ایمان محسوس کرتا تھا۔ آپ نے فرمایا اگر دل ایمان پر مطمئن تھا تو خدا تعالیٰ تمہاری کمزوری کو معاف کر دے گا۔۱۹۷؎
آپ کے والد یاسرؓ اور آپ کی والدہ سمیہؓ کو بھی کفّار بہت دکھ دیتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جبکہ اُن دونوں کو دکھ دیا جا رہا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس سے گزرے۔ آپ نے اُن دونوں کی تکلیفوں کو دیکھا اور آپ کا دل درد سے بھر آیا۔ آپ اُن سے مخاطب ہو کر بولے صَبْراً اٰلَ یَاسِر فَاِنَّ مَوْعِدَ کُمُ الْجَنَّۃَ۔۱۹۸؎ اے یاسر کے خاندان! صبر سے کام لو۔ خدا نے تمہارے لئے جنت تیار کر چھوڑی ہے ۔ اور یہ پیشگوئی تھوڑے ہی دنوںمیں پوری ہو گئی کیونکہ یاسرؓ مار کھاتے کھاتے مر گئے مگر اِس پر بھی کفّار کو صبر نہ آیا اور اُنہوں نے اُن کی بڑھیا بیوی سمیہؓ پر ظلم جاری رکھے۔ چنانچہ ابوجہل نے ایک دن غصہ میں اُن کی ران پر زور سے نیزہ مارا جو ران کو چیرتا ہوا اُن کے پیٹ میں گھس گیا اور تڑپتے ہوئے اُنہوں نے جان دے دی۔۱۹۹؎
زنبیرہؓ بھی ایک لونڈی تھیں اُن کو ابوجہل نے اتنا مارا کہ اُن کی آنکھیں ضائع ہوگئیں۔۲۰۰؎
ابو فکیہہؓ صفوان بن اُمیہ کے غلام تھے ۔ اُن کو اُن کا مالک اور اُس کا خاندان گرم تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیتا اور بڑے بڑے گر م پتھر اُن کے سینہ پر رکھ دیتا یہاں تک کہ اُن کی زبان باہر نکل آتی۔ یہی حال باقی غلاموں کا بھی تھا۔۲۰۱؎
بیشک یہ ظلم انسانی طاقت سے بالا تھے، مگر جن لوگوں پر یہ ظلم کئے جار ہے تھے وہ ظاہر میں انسان تھے اور باطن میں فرشتے۔ قرآن صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل اور کانوں پر نازل نہیں ہو رہا تھا خد ااُن لوگوں کے دلوں میں بھی بول رہا تھا اور کبھی کوئی مذہب قائم نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ابتدائی ماننے والوں کے دلوں میں سے خد ا کی آواز بلند نہ ہو۔ جب انسانوں نے اُن کو چھوڑ دیا، جب رشتہ داروں نے اُن سے منہ پھیر لیا تو خد اتعالیٰ اُن کے دلوں میں کہتا تھا میں تمہارے ساتھ ہوں، میں تمہارے ساتھ ہوں اور یہ سب ظلم اُن کے لئے راحت ہو جاتے تھے۔ گالیاں دعائیں بن کر لگتی تھیں۔ پتھر مرہم کے قائمقام ہو جاتے تھے مخالفتیں بڑھتی گئیں مگر ایمان بھی ساتھ ہی ترقی کر تا گیا۔ ظلم اپنی انتہاء کو پہنچ گیا مگر اخلاص بھی تمام گزشتہ حدبندیوں سے اُوپر نکل گیا۔
آزاد مسلمانوں پر ظلم
آزاد مسلمانوں پر بھی کچھ کم ظلم نہیں ہوتے تھے۔ اُن کے بزرگ اور خاندانوں کے بڑے لوگ اُنہیں بھی قسم قسم کی تکلیفیں دیتے
تھے۔ حضرت عثمانؓ چالیس سال کی عمر کے قریب کے تھے اور مالدار آدمی تھے مگر باوجود اس کے جب قریش نے مسلمانوں پر ظلم کرنے کا فیصلہ کیا تواُن کے چچا حکم نے اُن کو رسیوں سے باندھ کر خوب پیٹا۔ زبیرؓ بن العوام ایک بہت بڑے بہادر نوجوان تھے۔ اسلام کی فتوحات کے زمانہ میں وہ ایک زبردست جرنیل ثابت ہوئے۔ ان کا چچا بھی اُن کو خوب تکلیفیں دیتا تھا۔ چٹائی میں لپیٹ دیتا تھا اور نیچے سے دُھواں دیتا تھا تاکہ اُن کا سانس رُک جائے اورپھر کہتا تھا کہ کیا اب بھی اسلام سے باز آئو گے یا نہیں؟ مگر وہ اِن تکالیف کو برداشت کرتے اور جواب میں یہی کہتے کہ میں صداقت کو پہچان کر اُس سے انکار نہیں کر سکتا۔
حضرت ابوذرؓ، غفار قبیلہ کے ایک آدمی تھے وہاں اُنہوں نے سنا کہ مکہ میں کسی شخص نے خداتعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ تحقیقات کے لئے مکہ آئے تو مکہ والوں نے اُنہیں ورغلایا اور کہا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تو ہمارا رشتہ دا رہے۔ ہم جانتے ہیںکہ اُس نے ایک دکان کھولی ہے۔ مگر ابوذرؓ اپنے ارادہ سے باز نہ آئے اور کئی تدابیر اختیار کر کے آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعلیم بتائی اور آپ اسلام لے آئے۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی کہ اگر میں کچھ عرصہ تک اپنی قوم کو اپنے اسلام کی خبر نہ دوں توکچھ حرج تو نہیں؟ آپ نے فرمایا اگر چند دن خاموش رہیں تو کوئی حرج نہیں۔ اِس اجازت کے ساتھ وہ اپنے قبیلہ کی طرف واپس چلے اور دل میں فیصلہ کر لیا کہ کچھ عرصہ تک میں اپنے حالات کو درست کر لوں گا تو اپنے اسلام کو ظاہر کروں گا۔ جب وہ مکہ کی گلیوں میں سے گزررہے تھے تو اُنہوں نے دیکھا کہ رئوسائے مکہ اسلام کے خلاف گالی گلوچ کر رہے ہیں۔ کچھ دنوں کے لئے اپنے عقیدہ کو چھپائے رکھنے کا خیال اُن کے دل سے اُسی وقت محو ہوگیا۔ اور بے اختیار ہو کر اُنہوں نے اِس مجلس کے سامنے یہ اعلان کیا اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اُس کے بندے اور رسول ہیں۔ دشمنوں کی اِس مجلس میں اِس آواز کا اُٹھنا تھا کہ سب لوگ ان کو مارنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اتنا مارا کہ وہ بیہوش ہو کر جاپڑے لیکن پھر بھی ظالموں نے اپنے ہاتھ نہ کھینچے اور مارتے ہی چلے گئے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباسؓ جو اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے وہاں آگئے اور اُنہوں نے اِن لوگوں کو سمجھایا کہ ابوذر کے قبیلہ میںسے ہو کر تمہارے غلے کے قافلے آتے ہیں اگر اُس کی قوم کو غصہ آگیا تو مکہ بھوکا مر جائے گا۔ اِس پر اُن لوگوں نے اُن کو چھوڑ دیا۔ا بوذرؓ نے ایک دن آرام کیا اور دوسرے دن پھر اُسی مجلس میں پہنچے۔ وہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف باتیں کرنا روزانہ کا شغل تھا۔ جب یہ خانہ کعبہ میں گئے تو پھر وہی ذکر ہو رہا تھا۔ اُنہوں نے پھر کھڑے ہو کر اپنے عقیدۂ توحید کا اعلان کیا اور پھر اُن لوگوں نے اُن کو مارنا پیٹنا شروع کیا۔ اِسی طرح تین دن ہوتا رہا۔۲۰۲؎ اس کے بعد یہ اپنے قبیلہ کی طرف چلے گئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مظالم
خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بھی محفوظ نہ تھی۔ طرح طرح سے
آپ کو دکھ دیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ آپ عبادت کر رہے تھے کہ آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر لوگوں نے کھینچنا شروع کیا یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ وہاں آگئے اور اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے چھڑایا کہ اے لوگو! کیا تم ایک آدمی کو اس جرم میں قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے خدا میرا آقا ہے۔ ۲۰۳؎
ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ کی پیٹھ پر اُونٹ کی اوجھری لا کر رکھ دی گئی اور اس کے بوجھ سے اُس وقت تک آپ سر نہ اُٹھا سکے جب تک بعض لوگوں نے پہنچ کر اُس اوجھری کو آپ کی پیٹھ سے ہٹایا نہیں۔۲۰۴؎
ایک دفعہ آپ بازار سے گزر رہے تھے تو مکہ کے اوباشوں کی ایک جماعت آپ کے گرد ہو گئی اور رستہ بھر آپ کی گردن پر یہ کہہ کر تھپڑ مارتی چلی گئی کہ لوگو! یہ وہ شخص ہے جو کہتا ہے میں نبی ہوں۔
آپ کے گھرمیں اِردگرد کے گھروں سے متواتر پتھر پھینکے جاتے تھے۔ باورچی خانہ میں گندی چیزیں پھینکی جاتی تھیں۔ جن میں بکروں اور اونٹوں کی انتڑیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔ جب آپ نماز پڑھتے تو آپ پر خاک دھول ڈالی جاتی حتی کہ مجبور ہو کر آپ کو چٹان میں سے نکلے ہوئے ایک پتھر کے نیچے چھپ کر نماز پڑھنی پڑتی تھی۔ مگر یہ مظالم بیکار نہ جار ہے تھے۔ شریف الطبع لوگ اِن کو دیکھتے اور اسلام کی طرف اُن کے دل کھنچے چلے جاتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن خانہ کعبہ کے قریب صفا پہاڑی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو جہل آپ کا سب سے بڑا دشمن اور مکہ کا سردار وہاں سے گزرا اور اُس نے آپ کو گالیاں دینی شروع کیں۔ آپ اُس کی گالیاں سنتے رہے اور کوئی جواب نہ دیااو ر خاموشی سے اُٹھ کر اپنے گھر چلے گئے ۔ آپ کے خاندان کی ایک لونڈی اِس واقعہ کو دیکھ رہی تھی۔ شام کے وقت آپ کے چچا حمزؓہ جو ایک نہایت دلیر اور بہادر آدمی تھے اور جن کی بہادری کی وجہ سے شہر کے لوگ اُن سے خائف تھے شکار کھیل کر جنگل سے واپس آئے اور کندھے کے ساتھ کمان لٹکائے ہوئے نہایت ہی تبختر۲۰۵؎ کے ساتھ اپنے گھر میں داخل ہوئے۔ لونڈی کا دل صبح کے نظارہ سے بے حد متأثر تھا۔ وہ حمزؓہ کو اِس شکل میں دیکھ کر برداشت نہ کرسکی اور انہیں طعنہ دے کر کہا۔ تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو، ہر وقت اسلحہ سے مسلح رہتے ہو۔ مگر کیا تمہیں معلوم ہے کہ صبح ابوجہل نے تمہارے بھتیجے سے کیاکیا؟ حمزؓہ نے پوچھا کیاکیا؟ اُس نے وہ سب واقعہ حمزؓہ کے سامنے بیان کیا۔ حمزہ گو مسلمان نہ تھے مگر دل کے شریف تھے۔ اسلام کی باتیں تو سنی ہوئی تھیں اور یقینا اُن کے دل پر ان کا اثر ہو چکا تھا مگر اپنی آزاد زندگی کی وجہ سے سنجیدگی کے ساتھ اُن پر غور کرنے کا موقع نہیں ملا تھا لیکن اِس واقعہ کو سن کر اُن کی رگِ حمیت جوش میں آگئی ۔آنکھوں پر سے غفلت کا پردہ دُور ہوگیا اورانہیں یوں معلوم ہوا کہ ایک قیمتی چیز ہاتھوں سے نکلی جارہی ہے۔ اُسی وقت گھر سے باہر آئے اور خانہ کعبہ کی طرف گئے جو رؤساء کے مشورے کا مخصوس مقام تھا۔ اپنی کمان کندھے سے اُتاری اور زور سے ابوجہل کو ماری اور کہا سنو ! میں بھی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے مذہب کو اختیار کرتا ہوں۔ تم نے صبح اُسے بِلاوجہ گالیاں دیں اِس لئے کہ وہ آگے سے جواب نہیں دیتا ۔ اگر بہادر ہو تو اَب میری مار کا جواب دو۔ یہ واقعہ ایسا اچانک ہوا کہ ابوجہل بھی گھبراگیا۔ اُس کے ساتھی حمزؓہ سے لڑنے کو اُٹھے لیکن حمزؓہ کی بہادری کا خیال کرکے اور اُن کے قومی جتھا پر نظر کرکے ابو جہل نے خیال کیا کہ اگر لڑائی شروع ہوگئی تو اِس کا نتیجہ نہایت خطرناک نکلے گااِس لئے مصلحت سے کام لے کر اُس نے اپنے ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ چلو جانے دو میں نے واقعہ میں اِس کے بھتیجے کو بہت بُری طرح گالیاں دی تھیں۔۲۰۶؎
پیغامِ اسلام
جب مخالفت تیز ہوگئی اور اِدھر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ؓ نے اصرارسے مکہ والوں کو خداتعالیٰ کا یہ پیغام پہنچانا شروع کیاکہ اس
دنیا کا پیدا کرنے والا خدا ایک ہے،اُس کے سِوا کوئی اور معبود نہیں۔ جس قدر نبی گذرے ہیں سب ہی اُس کی توحید کا اقرار کیا کرتے تھے اور اپنے ہم قوموں کو بھی اِسی تعلیم کی طرف بلایا کرتے تھے۔ تم خدا ئے واحد پر ایمان لاؤ، اِن پتھرکے بتوں کو چھوڑ دو کہ یہ بالکل بے کار ہیں اور ان میں کوئی طاقت نہیں ۔ اے مکہ والو! کیا تم دیکھتے نہیں کہ ان کے سامنے جو نذرو نیاز رکھی جاتی ہے اگر اس پر مکھیوں کا جھرمٹ آ بیٹھے تو وہ ان مکھیوں کو اُڑانے کی بھی طاقت نہیں رکھتے، اگر کوئی اُن پر حملہ کرے تو وہ اپنی حفاظت نہیں کرسکتے، اگر کوئی اُن سے سوال کرے تو وہ جواب نہیں دے سکتے، اگر کوئی ان سے مدد مانگے تو وہ اس کی مدد نہیں کرسکتے ۔ مگر خدائے واحد تو مانگنے والوں کی ضرورت پوری کرتا ہے ۔ سوال کرنے والوں کو جواب دیتا ہے ۔ مدد مانگنے والوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو زیر کرتا ہے اور اپنے عبادت گذار بندوں کو اعلیٰ ترقیات بخشتا ہے ۔ اُس سے روشنی آتی ہے جو اس کے پرستاروں کے دلوں کو منور کردیتی ہے۔ پھر تم کیوں ایسے خدا کو چھوڑ کر بے جان بتوں کے آگے جھکتے ہو اور اپنی عمر ضائع کررہے ہو۔ تم دیکھتے نہیں کہ خدا تعالیٰ کی توحید کو چھوڑ کر تمہارے خیالات بھی گندے اور دل بھی تاریک ہوگئے ہیں۔ تم قسم قسم کی وہمی تعلیموں میں مبتلا ہو۔ حلال وحرام کی تم میں تمیز نہیں رہی۔ اچھے اور بُرے میں تم امتیاز نہیں کرسکتے۔ اپنی ماؤں کی بے حرمتی کرتے ہو، اپنی بہنوں اور بیٹیوں پر ظلم کرتے ہو اور ان کے حق اُنہیں نہیں دیتے۔ اپنی بیویوں سے تمہارا سلوک اچھا نہیں۔ یتامیٰ کے حق مارتے ہو اور بیواؤں سے بُرا سلوک کرتے ہو۔ غریبوں اور کمزوروں پر ظلم کرتے ہو اور دوسروں کے حق مار کر اپنی بڑائی قائم کرنا چاہتے ہو۔ جھوٹ اور فریب سے تم کو عار نہیں۔ چوری اور ڈاکہ سے تم کو نفرت نہیں۔ جوا اور شراب تمہارا شغل ہے ۔ حصولِ علم اور قومی خدمت کی طرف تمہاری توجہ نہیں۔ خدائے واحد کی طرف سے کب تک غافل رہوگے۔ آؤ اور اپنی اصلاح کرو اور ظلم چھوڑ دو۔ ہر حق دار کو اُس کا حق دو۔ خدا نے اگر مال دیا ہے تو ملک و قوم کی خدمت اور کمزوروں اور غریبوں کی ترقی کے لئے اُسے خرچ کرو۔ عورتوںکی عزت کرو اور ان کے حق ادا کرو۔ یتیموں کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھو اور اُن کی خبر گیری کو اعلیٰ درجہ کی نیکی سمجھو۔ بیواؤں کا سہارا بنو ۔ نیکیوں اور تقویٰ کو قائم کرو۔ انصاف اور عدل ہی نہیں بلکہ رحم اور احسان کو اپنا شعار بناؤ ۔ اس دنیا میں تمہارا آنا بیکار نہ جانا چاہئے۔ اچھے آثار اپنے پیچھے چھوڑو، تا دائمی نیکی کا بیج بویا جائے۔ حق لینے میں نہیں بلکہ قربانی اور ایثار میں اصل عزت ہے ۔ پس تم قربانی کرو، خدا کے قریب ہو۔ خدا کے بندوں کے مقابل پر ایثار کا نمونہ دکھاؤ تاخدا تعالیٰ کے ہاں تمہارا حق قائم ہو۔بے شک ہم کمزور ہیں مگر ہماری کمزوری کو نہ دیکھو۔ آسمان پر سچائی کی حکومت کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے عدل کا ترازو رکھا جائے گا اور انصاف اور رحم کی حکومت قائم کی جائے گی جس میں کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ مذہب کے معاملہ میں دخل اندازی نہ کی جائے گی۔ عورتوں اور غلاموں پر جو ظلم ہوتے رہے ہیں وہ مٹا دیئے جائیں گے اور شیطان کی حکومت کی جگہ خدائے واحد کی حکومت قائم کردی جائے گی۔
کفّارِ مکہ کی ابو طالب کے پاس شکایت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا استقلال
جب یہ تعلیمیں بار بار مکہ والوں کو سنائی جانے لگیں اور شریف الطبع لوگوں کی رغبت اسلام کی طرف
بڑھنے لگی تو ایک دن مکہ کے سردار جمع ہو کر آپ کے چچا ابو طالب کے پاس آئے اور اُن سے کہا کہ آپ ہمارے رئیس ہیں اور آپ کی خاطر ہم نے آپ کے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کچھ نہیں کہا۔ اب وقت آگیا ہے کہ آپ کے ساتھ ہم آخری فیصلہ کریں یا تو آپ اُسے سمجھائیں اور اس سے پوچھیں کہ آخر وہ ہم سے چاہتا کیا ہے۔ اگر اُس کی خواہش عزت حاصل کرنے کی ہے تو ہم اسے اپنا سردار بنانے کے لئے تیار ہیں۔ اگر وہ دولت کا خواہش مند ہے تو ہم میں سے ہر شخص اپنے مال کا کچھ حصہ اُس کو دینے کے لئے تیار ہے۔ اگر اُسے شادی کی خواہش ہے تو مکہ کی ہرلڑکی جو اُسے پسند ہو اُس کا نام لے ہم اُس سے اُس کا بیاہ کرانے کے لئے تیا ر ہیں۔ ہم اِس کے بدلہ میں اُس سے کچھ نہیں چاہتے اور کسی بات سے نہیں روکتے۔ ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے بتوں کو بُرا کہنا چھوڑ دے۔ وہ بیشک کہے خدا ایک ہے مگر یہ نہ کہے کہ ہمارے بت بُرے ہیں۔ اگرو ہ اتنی بات مان لے تو ہماری اس سے صلح ہو جائے گی۔ آپ اُسے سمجھائیں اور ہماری تجویز کے قبول کرنے پر آمادہ کریں۔ ورنہ پھر دو باتوں میں سے ایک ہو گی یا آپ کو اپنا بھتیجا چھوڑنا پڑے گا یا آپ کی قوم آپ کی ریاست سے انکار کر کے آپ کو چھوڑ دے گی۔ ابوطالب کے لئے یہ بات نہایت ہی شاق تھی۔ عربوں کے پاس روپیہ پیسہ تو تھوڑا ہی ہوتا تھا ان کی ساری خوشی اُن کی ریاست میں ہوتی تھی۔ رؤساء قوم کے لئے زندہ رہتے تھے اور قوم رئوساء کے لئے زندہ رہتی تھی۔ یہ بات سن کر ابو طالب بیتاب ہو گئے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بُلوایا اور کہا کہ اے میرے بھتیجے! میری قوم میرے پاس آئی ہے اور اس نے مجھے یہ پیغام دیا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر تمہارا بھتیجا ان باتوں میں سے کسی ایک بات پر بھی راضی نہ ہوتو پھر ہماری طرف سے ہر ایک قسم کی پیشکش ہو چکی ہے اگر وہ اس پر بھی اپنے طریقہ سے باز نہیں آتا تو آپ کا کام ہے کہ اسے چھوڑ دیں اوراگر آپ اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں تو پھر ہم لوگ آپ کی ریاست سے انکار کر کے آپ کو چھوڑ دیں گے۔ جب ابو طالب نے یہ بات کی تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اُن کے آنسوئوں کو دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور آپ نے فرمایا اے میرے چچا! میں یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنی قوم کو چھوڑ دیں اور میرا ساتھ دیں۔ آپ بیشک میرا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنی قوم کے ساتھ مل جائیں۔ لیکن مجھے خدائے وحدہ لاشریک کی قسم ہے کہ اگر سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کر کھڑا کر دیںتب بھی میں خد ا تعالیٰ کی توحید کا وعظ کرنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ میں اپنے کام میں لگا رہوں گا جب تک خد ا مجھے موت دے۔ آپ اپنی مصلحت کو خود سوچ لیں۔ یہ ایمان سے پُر اور یہ اخلاص سے بھر ا ہوا جواب ابو طالب کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی تھا۔ اُنہوں نے سمجھ لیا کہ گو مجھے ایمان لانے کی توفیق نہیں ملی لیکن اِس ایمان کا نظارہ دیکھنے کی توفیق ملنا ہی سب دولتوں سے بڑی دولت ہے اور آپ نے کہا اے میرے بھتیجے! جا اور اپنا فرض ادا کرتا رہ۔ قوم اگر مجھے چھوڑنا چاہتی ہے تو بیشک چھوڑ دے میں تجھے نہیں چھوڑ سکتا۔۲۰۷؎
حبشہ کی طرف ہجرت
جب مکہ والوں کا ظلم انتہاء کو پہنچ گیا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے ساتھیوں کو بُلوایا اور فرمایا مغرب کی طرف
سمندر پار ایک زمین ہے جہاں خد اکی عبادت کی وجہ سے ظلم نہیں کیا جاتا۔ مذہب کی تبدیلی کی وجہ سے لوگوں کو قتل نہیں کیا جاتا وہاں ایک منصف بادشاہ ہے، تم لوگ ہجرت کر کے وہاں چلے جائو شاید تمہارے لئے آسانی کی راہ پید اہو جائے۔ کچھ مسلمان مرد اور عورتیں اور بچے آپ کے اس ارشاد پر ایبے سینیا کی طرف چلے گئے۔ ان لوگوں کا مکہ سے نکلنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ مکہ کے لوگ اپنے آپ کو خانہ کعبہ کا متولّی سمجھتے تھے اور مکہ سے باہر چلے جانا ان کے لئے ایک ناقابل برداشت صدمہ تھا۔ وہی شخص یہ بات کہہ سکتا تھا جس کے لئے دنیا میں کوئی اور ٹھکانہ باقی نہ رہے۔ پس ان لوگوں کا نکلنا ایک نہایت ہی دردناک واقعہ تھا۔ پھر نکلنابھی اُن لوگوں کو چوری ہی پڑا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مکہ والوںکو معلوم ہوگیا تو وہ ہمیں نکلنے نہیں دیں گے اور اس وجہ سے وہ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی آخری ملاقات سے بھی محروم جا رہے تھے۔ اُن کے دلوں کی جو حالت تھی سو تھی، اُن کے دیکھنے والے بھی ان کی تکلیف سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ چنانچہ جس وقت یہ قافلہ نکل رہا تھا حضرت عمرؓ جو اُس وقت تک کافر اور اسلام کے شدید دشمن تھے اور مسلمانوں کو تکلیف دینے والوں میں سے چوٹی کے آدمی تھے اتفاقاً اُس قافلہ کے بعض افراد کو مل گئے۔ اُن میں ایک صحابیہ اُمِّ عبداللہ نامی بھی تھیں۔ بندھے ہوئے سامان اور تیار سواریوں کو جب آپ نے دیکھا تو آپ سمجھ گئے کہ یہ لوگ مکہ کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ آپ نے کہا اُمِّ عبداللہ یہ تو ہجرت کے سامان نظر آرہے ہیں۔ اُمِّ عبداللہ کہتی ہیں میںنے جواب میں کہا ہا ں خدا کی قسم! ہم کسی اور ملک میں چلے جائیں گے کیونکہ تم نے ہم کو بہت دکھ دئیے ہیں اور ہم پر بہت ظلم کئے ہیں ہم اُس وقت تک اپنے ملک میں نہیں لوٹیں گے جب تک خد ا تعالیٰ ہمارے لئے کوئی آسانی اور آرام کی صورت نہ پیدا کر دے۔ اُمِّ عبداللہ بیان کرتی ہیں کہ عمر نے جواب میں کہا اچھا خدا تمہارے ساتھ ہو اور میں نے اُن کی آواز میں رقت محسوس کی جو اِس سے پہلے میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ پھر وہ جلدی سے منہ پھیر کر چلے گئے اور میں نے محسوس کیا کہ اِس واقعہ سے ان کی طبیعت نہایت ہی غمگین ہوگئی ہے۔۲۰۸؎
جب اُن لوگوں کے ہجرت کرنے کی مکہ والوں کو خبر ہوئی تو اُنہوں نے ان کا تعاقب کیا اور سمندر تک ان کے پیچھے گئے مگر یہ قافلہ اِن لوگوں کے سمندر تک پہنچنے سے پہلے ہی حبشہ کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔ جب مکہ والوں کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک وفد بادشاہ ِحبشہ کے پاس بھیجا جائے جو اُسے مسلمانوں کے خلاف بھڑکائے اور اُسے تحریک کرے کہ وہ مسلمانوں کو مکہ والوں کے سپرد کردے تاکہ وہ اُنہیں ان کی اِس شوخی کی سزا دیں کہ رئوسائے شہر کے ظلموں کو برداشت نہ کرتے ہوئے وہ مکہ سے کیوں بھاگے تھے۔ اِس وفد میں عمرو بن العاص بھی تھے جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے اور مصر اُنہی کے ہاتھوں فتح ہوا۔ یہ وفد حبشہ گیا اور بادشاہ سے ملا اورامرائے دربار کو اُنہو ں نے خوب اُکسایا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے بادشاہِ حبشہ کے دل کو مضبوط کر دیا اور اُس نے باوجود اِن لوگوں کے اصرار کے اور باوجود درباریوں کے اصرار کے مسلمانوں کو کفّار کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا۔ جب یہ وفد ناکام واپس آیا تو مکہ والوں نے ان مسلمانوں کو بُلانے کے لئے ایک اور تدبیر سوچی اور وہ یہ کہ حبشہ جانے والے بعض قافلوں میں یہ خبر مشہور کر دی کہ مکہ کے سب لوگ مسلمان ہو گئے ہیں۔ جب یہ خبر حبشہ پہنچی تو اکثر مسلمان خوشی سے مکہ کی طرف واپس لوٹے مگر مکہ پہنچ کر اُن کو معلوم ہو اکہ یہ خبر محض شرارتاً مشہور کی گئی تھی اور اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ اس پر کچھ لوگ تو واپس حبشہ چلے گئے اور کچھ مکہ میں ہی ٹھہر گئے۔ اِن مکہ میں ٹھہرنے والوں میں سے عثمان بن مظعونؓ بھی تھے جو مکہ کے ایک بہت بڑے رئیس کے بیٹے تھے۔ اِس دفعہ ان کے باپ کے ایک دوست ولید بن مغیرہ نے ان کو پناہ دی اور وہ امن سے مکہ میں رہنے لگے۔ مگر اس عرصہ میں انہو ں نے دیکھا کہ بعض دوسرے مسلمانوں کو دکھ دئیے جاتے ہیں اور اُنہیں سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی جاتی ہیں۔ چونکہ وہ غیر تمند نوجوان تھے ولید کے پاس گئے اور اُسے کہدیا کہ میں آپ کی پناہ کو واپس کرتا ہوں کیونکہ مجھ سے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ دوسرے مسلمان دکھ اُٹھائیں اور میں آرام میں رہوں۔ چنانچہ ولید نے اعلان کر دیا کہ عثمان اب میری پنا ہ میں نہیں۔ اس کے بعد ایک دن لبید عرب کا مشہور شاعر مکہ کے رئوساء میں بیٹھا اپنے شعر سنا رہا تھا کہ اُس نے ایک مصرع پڑھا
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَامَحَا لَۃَ زَائِلٌ
جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر نعمت آخر مٹ جانے والی ہے۔ عثمان نے کہا یہ غلط ہے جنت کی نعمتیں ہمیشہ قائم رہیںگی۔ لبید ایک بہت بڑا آدمی تھا یہ جواب سن کر جوش میں آگیا اور اُس نے کہا اے قریش کے لوگو! تمہارے مہمان کو تو پہلے اس طرح ذلیل نہیں کیا جا سکتا تھا اب یہ نیا رواج کب سے شروع ہوا ہے؟ اِس پر ایک شخص نے کہا یہ ایک بیوقوف آدمی ہے اِس کی بات کی پرواہ نہ کریں۔ حضرت عثمانؓ نے اپنی بات پر اصرار کیا اور کہا بیوقوفی کی کیا بات ہے جو بات میں نے کہی ہے وہ سچ ہے۔ اس پر ایک شخص نے اُٹھ کر زور سے آپ کے منہ پر گھونسا مارا جس سے آپ کی ایک آنکھ نکل گئی۔ ولید اُس وقت اُس مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ عثمانؓ کے باپ کے ساتھ اُس کی بڑی گہری دوستی تھی۔ اپنے مردہ دوست کے بیٹے کی یہ حالت اُس سے دیکھی نہ گئی۔ مگر مکہ کے رواج کے مطابق جب عثمانؓ اس کی پناہ میں نہیں تھے تو وہ ان کی حمایت بھی نہیں کر سکتا تھا، اس لئے اَور تو کچھ نہ کر سکا نہایت ہی دکھ کے ساتھ عثمانؓ ہی کو مخاطب کر کے بولا! اے میرے بھائی کے بیٹے! خد اکی قسم تیری یہ آنکھ اس صدمہ سے بچ سکتی تھی جبکہ تو ایک زبردست حفاظت میں تھا (یعنی میری پناہ میں تھا) لیکن تو نے خود ہی اس پناہ کو چھوڑ دیا اور یہ دن دیکھا۔ عثمانؓ نے جواب میں کہا جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے میں خود اس کا خواہشمند تھا تم میری پھوٹی ہوئی آنکھ پر ماتم کر رہے ہو حالانکہ میری تندرست آنکھ اس بات کیلئے تڑپ رہی ہے کہ جو میری بہن کے ساتھ ہوا ہے وہی میرے ساتھ کیوں نہیں ہوتا۔ ۲۰۹؎ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ میرے لئے بس ہے۔ اگر وہ تکلیفیں اُٹھا رہے ہیں تو میں کیوں نہ اُٹھاؤں۔ میرے لئے خدا کی حمایت کافی ہے۔
حضرت عمرؓ کا قبولِ اسلام
اِسی زمانہ میں مکہ میں ایک اور واقعہ ظاہر ہوا جس نے مکہ میں آگ لگا دی اور یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ عمرؓ جو بعد
میں اسلام کے دوسرے خلیفہ ہوئے اور جو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں شدید ترین دشمنوں میں سے تھے۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے اُن کے دل میں خیال آیا کہ اِس وقت تک اسلام کے مٹانے کے لئے بہت کچھ کوششیں کی گئی ہیں مگر کامیابی نہیںہوئی کیوں نہ اسلام کے بانی کو قتل کردیا جائے اور اِس فتنہ کو ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے۔ یہ خیال آتے ہی اُنہوں نے تلوار اُٹھائی اور گھر سے نکلے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں چل کھڑے ہوئے ۔ راستہ میں اُن کا کوئی دوست ملا اور اِس حالت میں دیکھ کر کچھ حیران ہوا اور آپ سے سوال کیا کہ عمرؓ ! کہاں جارہے ہو؟ عمرؓ نے کہا میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کرنے کے لئے جارہا ہوں۔ اُس نے کہا کیا تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کرکے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قبیلہ سے محفوظ رہ سکو گے؟ اور ذرا اپنے گھر کی تو خبر لو تمہاری بہن اور تمہارا بہنوئی بھی مسلمان ہوچکے ہیں۔ یہ خبر حضرت عمرؓ کے سر پر بجلی کی طرح گری انہوں نے سوچا میں جو اسلام کا بدترین دشمن ہوں میں جو محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کو مارنے کے لئے جارہا ہوں میری ہی بہن اور میراہی بہنوئی اسلام قبول کرچکے ہیں اگر ایسا ہے تو پہلے مجھے اپنی بہن اور بہنوئی سے نپٹنا چاہئے۔ یہ سوچتے ہوئے وہ اپنی بہن کے گھر کی طرف چلے جب دروازہ پر پہنچے تو انہیں اندر سے خوش الحانی سے کسی کلام کے پڑھنے کی آوازیں آئیں۔ یہ پڑھنے والے خبابؓ جو اُن کی بہن اور اُن کے بہنوئی کو قرآن شریف سکھلا رہے تھے۔ عمرؓ تیزی سے گھر میں داخل ہوئے۔ اُن کے پائوں کی آہٹ سن کر خبابؓ تو کسی کونہ میں چھپ گئے اور اُن کی بہن نے جن کا نام فاطمہؓ تھا قرآن شریف کے وہ اَوراق جو اُس وقت پڑھے جار ہے تھے، چھپا دئیے۔ حضرت عمرؓ کمرہ میں داخل ہوئے تو غصہ سے پوچھا میں نے سنا ہے کہ تم اپنے دین سے پھر گئے ہو؟ اور یہ کہہ کر اپنے بہنوئی پر جو اُن کے چچا زاد بھائی بھی تھے حملہ آور ہوئے۔ فاطمہؓ نے جب دیکھا کہ ان کے بھائی عمرؓ ان کے خاوند پر حملہ کرنے لگے تو وہ دوڑ کر اپنے خاوند کے آگے کھڑی ہو گئیں۔ عمرؓ ہاتھ اُٹھا چکے تھے اُن کا ہاتھ زور سے اُن کے بہنوئی کے منہ کی طرف آرہا تھا اور اب اس ہاتھ کو روکنا اُن کی طاقت سے باہر تھا مگر اب ان کے ہاتھ کے سامنے ان کے بہنوئی کی بجائے ان کی بہن کا چہرہ تھا۔ عمرؓ کا ہاتھ زور سے فاطمہؓکے چہرہ پر گرا اور فاطمہؓ کے ناک سے خون کے تراڑے ۲۱۰؎ بہنے لگے۔ فاطمہؓ نے مار تو کھا لی مگر دلیری سے کہا عمر! یہ بات سچ ہے کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور یاد رکھیئے کہ ہم اِس دین کو نہیں چھوڑ سکتے آپ سے جو کچھ ہو سکتا ہو کر لیں۔ عمرؓ ایک بہادر آدمی تھے ظلم نے اُن کی بہادری کو مٹا نہیں دیا تھا۔ ایک عورت اور پھر اپنی بہن کو اپنے ہی ہاتھ سے زخمی دیکھا تو شرمندگی اور ندامت سے گھڑوں پانی پڑ گیا۔ بہن کے چہرہ سے خون بہہ رہا تھااور عمرؓ کے دل سے اب ان کا غصہ دور ہو چکا تھا۔ اپنی بہن سے معافی مانگنے کی خواہش زور پکڑ رہی تھی اور تو کوئی بہانہ نہ سُوجھا بہن سے بولے اچھا! لائو مجھے وہ کلام تو سنائو جو تم لوگ ابھی پڑھ رہے تھے۔ فاطمہؓ نے کہا میں نہیں دکھائوں گی۔ کیونکہ آپ ان اَوراق کو ضائع کر دو گے۔ عمر نے کہا نہیں بہن میں ایسا نہیں کروں گا۔ فاطمہ نے کہا تم تو نجس ہو پہلے غسل کرو پھر دکھائوں گی عمرؓ ندامت کی شدت کی وجہ سے سب کچھ کرنے کے لیے تیار تھے۔ وہ غسل پر بھی راضی ہو گئے۔ جب غسل کر کے واپس آئے تو فاطمہؓ نے اُن کے ہاتھ میں قرآن کریم کے اَوراق دے دئیے۔ یہ قرآن کریم کے اَوراق سورہ طٰہٰ کی کچھ آیات تھیں۔ جب وہ اسے پڑھتے ہوئے اِس آیت پر پہنچے
۲۱۱؎ یقینا میں ہی اللہ ہوں اور کوئی معبود نہیں صرف میں ہی معبود ہوں۔ پس اے مخاطب! میری عبادت کر اور نماز پڑھ اور اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر میری عبادت کو قائم کر۔ رسمی عبادت نہیں بلکہ میری بزرگی کو دنیا میں قائم کرنے والی عبادت۔ یاد رکھ کہ اِس کلام کو قائم کرنے والی گھڑی آرہی ہے میں اس کے ظاہر کرنے کے سامان پیدا کر رہا ہوں جن کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہر ایک جان کو جیسے جیسے وہ کام کرتی ہے اس کے مطابق بدلہ مل جائے گا۔ حضرت عمرؓ جب اس آیت پر پہنچے تو بے اختیار ان کے منہ سے نکل گیا یہ کیساعجیب اور پاک کلام ہے۔ خبابؓ نے جب یہ الفاظ سنے تو وہ اس جگہ سے جہاں چھپے ہوئے تھے باہر نکل آئے اور کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی دعا کا نتیجہ ہے۔ مجھے خد اکی قسم! میں نے کل ہی آپ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا تھا کہ الٰہی! عمر بن الخطاب یا عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کو اسلام کی طرف ضرور ہدایت بخش۔ عمرؓ کھڑے ہوگئے اورکہا مجھے بتائو کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کہاں ہیں؟ جب آپ کو بتایا گیا کہ آپ دار ارقم میں رہتے ہیں تو آپ اُسی طرح ننگی تلوارلیے ہوئے وہاں پہنچے اور دروازہ پر دستک دی۔ صحابہؓ نے دروازہ کی دراڑوں میںسے دیکھا تو انہیں عمرؓ ننگی تلوار لئے کھڑے نظر آئے۔ وہ ڈرے کہ ایسا نہ ہو دروازہ کھول دیں تو عمرؓ اندر آکر کوئی فساد کریں۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوا کیا ؟دروازہ کھول دو۔ عمرؓ اِسی طرح تلوار لیے اندر داخل ہوئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور فرمایا عمر! کس ارادہ سے آئے ہو؟ عمرؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ !میں مسلمان ہونے آیا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر بلند آواز سے اللّٰہُ اَکْبَرُ کہا یعنی اللہ سب سے بڑا ہے اور آپ کے سب ساتھیوں نے بھی یہی الفاظ زور سے دُہرائے یہاں تک کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اُٹھیں۲۱۲؎ اور تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر مکہ میں آگ کی طرح پھیل گئی اور عمرؓ سے بھی وہی سختی کا برتائو ہونا شروع ہو گیا جو پہلے دوسرے صحابہؓ سے ہوتا تھا۔ مگر وہی عمرؓ جو پہلے مارنے اور قتل کرنے میں مزہ اُٹھایا کرتے تھے اب مار کھانے اور پیٹے جانے میں لذت حاصل کرنے لگے۔ چنانچہ خود عمرؓ کا بیان ہے کہ ایمان لانے کے بعد میں مکہ کی گلیوں میں ماریں ہی کھاتا رہتا تھا۔
مسلمانوں سے مقاطعہ
غرض ظلم اب حد سے باہر ہوتے جار ہے تھے۔ کچھ لوگ مکہ چھوڑ کر چلے گئے تھے اور جو باقی تھے وہ پہلے سے بھی
زیادہ ظلموں کا شکار ہونے لگے تھے مگر ظالموں کے دل ابھی ٹھنڈے نہ ہوئے تھے، جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارے گزشتہ ظلموں سے مسلمانوں کے دل نہیں ٹوٹے۔ ان کے ایمانوں میں تزلزل واقعہ نہیں ہوا بلکہ وہ خدائے واحد کی پرستش میں اور بھی بڑھ گئے اور بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور بتوں سے ان کی نفرت ترقی ہی کرتی چلی جاتی ہے تو انہو ںنے پھر ایک مجلس شوریٰ قائم کی اور فیصلہ کر دیا کہ مسلمانوں کے ساتھ کلی طور پر مقاطعہ کر دیا جائے۔ کوئی شخص سَودا اُن کے پاس فروخت نہ کرے۔ کوئی شخص ان کے ساتھ لین دین نہ کرے۔ اُس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند متبعین اورا ن کے بیوی بچوں سمیت اور اپنے چند ایسے رشتہ داروں کے ساتھ جو باوجود اسلام نہ لانے کے آپ کا ساتھ چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھے ایک الگ مقام میں جو ابوطالب کی ملکیت تھا پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ ان لوگوں کے پاس نہ روپیہ تھا نہ سامان نہ ذخائر جن کی مدد سے وہ جیتے۔ وہ اس تنگی کے زمانہ میں جن حالات میں سے گزرے ہو ں گے ان کا اندازہ لگانا دوسرے انسان کے لئے ممکن نہیں۔ قریباً تین سال تک یہ حالات اسی طرح قائم رہے اور مکہ کے مقاطعہ کے فیصلہ میں کوئی کمزوری پید انہ ہوئی۔ قریباً تین سال کے بعد مکہ کے پانچ شریف آدمیوں کے دل میں اِس ظلم کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی۔ وہ شعب ابی طالب کے دروازہ پر گئے اور محصورین کو آواز دے کر کہا کہ وہ باہر نکلیں اور کہ وہ اس مقاطعہ کے معاہدہ کو توڑنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ ابو طالب جو اس لمبے محاصرہ اور فاقوں کی وجہ سے کمزور ہو رہے تھے باہر آئے اور اپنی قوم کو مخاطب کر کے اُنہیں ملامت کی کہ ان کا یہ لمبا ظلم کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ ان پانچ شریف انسانوں کی بغاوت فوراً بجلی کی طرح شہر میں پھیل گئی۔ فطرتِ انسانی نے پھر سر اُٹھانا شروع کیا۔ نیکی کی روح نے پھر ایک دفعہ سانس لیا اور مکہ کے لوگ اس شیطانی معاہدہ کو توڑنے پر مجبور ہوئے۔۲۱۳؎ معاہدہ تو ختم ہو گیا مگر تین سالہ فاقوں نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔ تھوڑے ہی دنوںمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفا شعار بیوی حضرت خدیجہؓ اس مقاطعہ کے دنوں کی تکلیفوں کے نتیجہ میں فوت ہو گئیں اور اس کے ایک مہینہ بعد ابوطالب بھی اِس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
حضرت خدیجہؓ اور ابو طالب کی وفات کے بعدتبلیغ میں رُکاوٹیں اور آنحضرت ﷺ کا سفر طائف
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحا بہ اب ابوطالب کے
مصالحانہ اثر سے محروم ہوگئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی کی ساتھی حضرت خدیجہؓ بھی آپ سے جد ا ہو گئیں۔ اِن دونوں کی وفات سے طبعی طور پر اُن لوگوں کی ہمدردیاں بھی آپ سے اور آپ کے صحابہؓ سے کم ہوگئیں جو ان کے تعلقات کی وجہ سے ظالموں کو ظلم سے روکتے رہتے تھے۔ ابو طالب کی وفات کے تازہ صدمہ کی وجہ سے اور ابو طالب کی وصیت کی وجہ سے چند دن آپ کے شدید دشمن اور ابو طالب کے چھوٹے بھائی ابو لہب نے آپ کا ساتھ دیا۔لیکن جب مکہ والوں نے اس کے جذبات کو یہ کہہ کر اُبھارا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تو تمام اُن لوگوں کو جو توحید الٰہی کے قائل نہیں مجرم اور قابل سزا سمجھتا ہے تو اپنے آباء کی غیرت کے جوش میں ابولہب نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور عہد کیا کہ وہ آئندہ پہلے سے بھی زیادہ آپ کی مخالفت کرے گا۔ محصوری کی زندگی کی وجہ سے چونکہ تین سال تک لوگ اپنے رشتہ داروں سے جدا رہے تھے اس لئے تعلقات میں ایک سردی پیدا ہو گئی تھی۔ مکہ والے مسلمانوں سے قطع کلا می کے عادی ہو چکے تھے اِس لئے تبلیغ کا میدان محدود ہو گیا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ حالت دیکھی تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ وہ مکہ کی بجائے طائف کے لوگوں کو جا کر اسلام کی دعوت دیں۔ آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ مکہ والوں کی مخالفت نے اِس ارادہ کو اَور بھی مضبوط کر دیا۔ اوّل تو مکہ والے بات سنتے ہی نہیں تھے دوسرے اب انہوں نے یہ طریقہ اختیار کر لیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گلیوں میں چلنے ہی نہ دیتے۔ جب آپ باہر نکلتے آپ کے سر پر مٹی پھینکی جاتی تاکہ آپ لوگوں سے مل ہی نہ سکیں۔ ایک دفعہ اسی حالت میں واپس لوٹے تو آپ کی ایک بیٹی آپ کے سر پر مٹی ہٹاتے ہوئے رونے لگی۔ آپ نے فرمایا او میری بچی! رو نہیں کیونکہ یقینا خدا تمہارے باپ کے ساتھ ہے۔ ۲۱۴؎
آپ تکالیف سے گھبراتے نہ تھے، لیکن مشکل یہ تھی کہ لوگ بات سننے کو تیار نہ تھے۔ جہاں تک تکالیف کا سوال ہے آپ اُن کو ضروری سمجھتے تھے بلکہ آپ کے لئے سب سے زیادہ تکلیف کا دن تو وہ ہوتا تھا جب کو ئی شخص آپ کو تکلیف نہیں دیتا تھا۔ لکھا ہے کہ ایک دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی گلیوں میں تبلیغ کے لئے نکلے مگر اُس دن کسی منصوبہ کے تحت کسی شخص نے آپ سے کلام نہ کیا اور نہ آپ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف دی نہ کسی غلام نے نہ کسی آزاد نے۔ تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صدمہ اور غم سے خاموش لیٹ گئے۔ یہاں تک کہ خد اتعالیٰ نے آپ کو تسلی دی اور فرمایا جائو اور اپنی قوم کو پھر اور پھر اور پھر ہوشیار کرو اور ان کی عدمِ توجہی کی پرواہ نہ کرو۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات گراں نہ گزرتی تھی کہ لوگ آپ کو دکھ دیتے تھے لیکن خدا کا نبی جو دنیا کو ہدایت دینے کے لئے مبعوث ہوا تھا وہ اس بات کو کب برداشت کر سکتا تھا کہ لوگ اُس سے بات ہی نہ کریں اور اس کی بات سننے کے لئے تیار ہی نہ ہوں۔ ایسی بیکار زندگی اس کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی۔ پس آپ نے پختہ فیصلہ کر لیا کہ اب آپ طائف کی طرف جائیں گے اور طائف کے لوگوں کو خد اتعالیٰ کا پیغام پہنچائیں گے اور خداتعالیٰ کے نبیوں کے لیے یہی مقدر ہوتا ہے کہ وہ اِدھر سے اُدھر مختلف قوموں کو مخاطب کرتے پھریں۔ حضرت موسٰی ؑکے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، کبھی وہ آلِ فرعون سے مخاطب ہوا تو کبھی آلِ اسحاق سے اور کبھی مدین کے لوگوں سے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی تبلیغ کے شوق میں کبھی جلیل کے لوگوں، کبھی یردن پار کے لوگوں، کبھی یروشلم کے لوگوں، اور کبھی اور دوسرے لوگوں کو مخاطب کرنا پڑا۔ جب مکہ کے لوگوں نے باتیں سننے سے ہی انکار کر دیا اور یہ فیصلہ کر لیا کہ مارو اور پیٹو مگر بات بالکل نہ سنو، تو آپ نے طائف کی طرف رُخ کیا۔ طائف مکہ سے کوئی ساٹھ میل کے قریب جنوب مشرق کی طرف ایک شہر ہے جو اپنے پھلوں اور اپنی زراعت کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ شہر بت پرستی میں مکہ والوں سے کم نہ تھا۔ خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کے سِوا لاتؔ نامی ایک مشہور بت طائف کی اہمیت کا موجب تھا جس کی زیارت کیلئے عرب کے لوگ دُور دُور سے آتے تھے۔ طائف کے لوگوں کی مکہ سے بہت رشتہ داریاں بھی تھیں اور طائف اور مکہ کے درمیان کی سرسبز مقامات میں مکہ والوں کی جائدادیں بھی تھیں۔ جب آپ طائف پہنچے تو وہاں کے رئوساء آپ سے ملنے کے لئے آنے شروع ہوئے لیکن کوئی شخص حق کو قبول کر نے کے لئے تیار نہ ہوا۔ عوام الناس نے بھی اپنے رئوساء کی اتباع کی اور خدا کے پیغام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا۔ دنیا داروں کی نگاہ میں بے سامان او ربے مدد گار نبی حقیر ہی ہوا کرتا ہے وہ تو اسلحہ اور فوجوں کی آواز سننا جانتے ہیں آپ کی نسبت باتیں تو پہنچ ہی چکی تھیں جب آپ طائف پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ بجائے اس کے کہ آپ کے ساتھ کوئی فوج اور جتھا ہوتا آپ صرف زید ہی کی ہمراہی میں طائف کے مشہور حصوں میں تبلیغ کرتے پھرتے ہیں تو دل کے اندھوں نے اپنے سامنے خد اکا نبی نہیں بلکہ ایک حقیر اور دھتکارا ہوا انسان پایا اور سمجھے کہ شاید اِس کو دکھ دینا اور تکلیف پہنچانا قوم کے رئوساء کی نظروں میں ہم کو معزز کر دے گا۔ وہ ایک دن جمع ہوئے، کتے انہوں نے اپنے ساتھ لئے، لڑکوں کو اُکسایا اور پتھروں سے اپنی جھولیاں بھر لیںاور بیدردی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھرائو کرنا شروع کیا۔ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہر سے دھکیلتے ہوئے باہر لے گئے۔ آپ کے پائوں لہولہان ہوگئے اور زیدؓ آپ کو بچاتے ہوئے سخت زخمی ہوئے مگر ظالموں کا د ل ٹھنڈا نہ ہوا وہ آپ کے پیچھے چلتے گئے اور چلتے گئے جب تک شہر سے کئی میل دُور کی پہاڑیوں تک آپ نہ پہنچ گئے اُنہوں نے آپ کا پیچھا نہ چھوڑا۔جب یہ لوگ آپ کا پیچھا کر رہے تھے تو آپ اِس ڈر سے کہ خدا تعالیٰ کا غضب ان پر نہ بھڑک اُٹھے آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھتے اور نہایت الحاح سے دعا کرتے۔ الٰہی! ا ِن لوگوں کو معاف کرکہ یہ نہیں جانتے کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔۲۱۵؎
زخمی، تھکے ہوئے اور دنیا کے لوگوں کی طرف سے دھتکارے ہوئے آپ ایک انگورستان کے سایہ میں پناہ گزیں ہوئے۔ یہ انگورستان مکہ کے دو سرداروں کا تھا۔ یہ سردار اُس وقت اِس انگورستان میں تھے پُرانے اور شدید دشمن جنہوںنے دس سال تک آپ کی مخالفت میں اپنی زندگی گزاری تھی شاید اُس وقت اِس بات سے متأثر ہو گئے کہ ایک مکہ کے آدمی کو طائف کے لوگوں نے زخمی کیا ہے یا شاید وہ گھڑی ایسی گھڑی تھی جب نیکی کا بیج اُن کے دلوں میں سر اُٹھا رہا تھااُنہوں نے ایک تھال انگوروں کا بھرا اور اپنے غلام عداس کو کہا کہ جائو اور اِن مسافرو ں کو اسے دو۔ عداس نینوا کا رہنے والا ایک عیسائی تھا۔ جب اُس نے یہ انگور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے اور آپ نے یہ کہتے ہوئے اُن انگوروں کو لیا کہ خد اکے نام پر جو بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے میں یہ لیتا ہوں تو عیسائیت کی یاد اُس کے دل میں پھر تازہ ہو گئی۔ اُس نے محسوس کیا کہ اُس کے سامنے خدا کا ایک نبی بیٹھا ہے جو اسرائیلی نبیوں کی سی زبان میں باتیں کرتا ہے۔ اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم کہا ں کے رہنے والے ہو؟ جب اُس نے کہا نینوا کا۔ تو آپ نے فرمایا وہ نیک انسان یونس جو متی کا بیٹا تھا اور نینوا کا باشندہ وہ میری طرح خد اکا ایک نبی تھا۔ پھر آپ نے اُس کو اپنے مذہب کی تبلیغ شروع کی۔ عداس کی حیرانی چند ہی لمحوں میںتعجب سے بدل گئی۔ تعجب ایمان میں تبدیل ہو گیا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ اجنبی غلام آنسوئوں سے بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گیا اور آپ کے سر اور ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دینے لگا۔۲۱۶؎ عداس کی باتوں سے فارغ ہو کر آپ اللہ تعالیٰ کی طرف مخاطب ہوئے اور آپ نے خدا سے یوں دعا مانگی۔
اَللّٰھُمََّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَ ھَوَ انِیْ عَلَی النَّاسِ یَااَرحَمَ الرَّاحِمِیْنَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّیْ اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ اِلٰی بَعِیْدٍ یَتَجَھَّمُنِیْ اَمْ اِلٰی عَدُوٍّمَلَکْتَہٗ اَمْرِیْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ بِکَ عَلَیَّ غَضَبٌفَلاَ اُبَالِیْ وَلٰـکِنْ عَافِیَتُکَ ھِیَ اَوْسَعُ لِیْ۔ اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمٰتُ وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُالدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ مِنْ اَنْ تُنَزِّلَ بِیْ غَضَبَکَ اَوْیَحِلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ لَکَ الْعُقْبٰی حَتّٰی تَرْضٰی وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلاَّبِکَ ۲۱۷؎
یعنی اے میرے ربّ! میں تیرے ہی پاس اپنی کمزوریوں اور اپنے سامانوں کی کمی اور لوگوں کی نظروں میں اپنے حقیر ہونے کی شکایت کرتا ہوں۔ لیکن تو غریبوں اور کمزوروں کا خدا ہے اور تو میرا بھی خد اہے تو مجھے کس کے ہاتھوں میں چھوڑے گا۔ کیا اجنبیوں کے ہاتھوں میں جو مجھے اِدھر اُدھر دھکیلتے پھریں گے یا اُس دشمن کے ہاتھ میں جو میرے وطن میں مجھ پر غالب ہے۔ اگر تیرا غضب مجھ پر نہیں تو مجھے اِن دشمنوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ تیرا رحم میرے ساتھ ہے اور تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسیع ہے۔ میں تیرے چہرہ کی روشنی میں پناہ چاہتا ہوں۔ یہ تیرا ہی کام ہے کہ تو تاریکی کو دنیا سے بھگا دے اور اِس دنیا اور اگلی دنیا میں امن بخشے۔ تیرا غصہ اور تیری غیرت مجھ پر نہ بھڑکیں۔ تو اگر ناراض بھی ہوتا ہے تو اس لئے کہ پھر خوشی کا اظہار کرے اور تیرے سوا کوئی حقیقی طاقت اور کوئی حقیقی پناہ کی جگہ نہیں۔
یہ دعا مانگ کر آپ مکہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن درمیان میں نخلہ نامی مقام پر ٹھہر گئے۔ چند دن وہاں سستا کر پھر آپ مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن عرب کے دستور کے مطابق لڑائی کی وجہ سے مکہ چھوڑدینے کے بعد آپ مکہ کے باشندے نہیں رہے تھے اب مکہ والوں کا اختیار تھا کہ وہ آپ کومکہ میں آنے دیتے یا نہ آتے دیتے اس لئے آپ نے مکہ کے ایک رئیس مطعم بن عدی کو کہلا بھیجا کہ میں مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہوں کیا تم عرب کے دستور کے مطابق مجھے داخلہ کی اجازت دیتے ہو؟ مطعم باوجود شدید دشمن ہونے کے ایک شریف الطبع انسان تھا اُس نے اُسی وقت اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کو ساتھ لیا اور مسلح ہو کر کعبہ کے صحن میں جا کھڑا ہوا اور آپ کو پیغام بھیجا کہ وہ مکہ میں آپ کو آنے کی اجازت دیتا ہے۔ آپ مکہ میں داخل ہوئے کعبہ کا طواف کیا اور مطعم اپنی اولاد اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ تلواریں کھینچے ہوئے آپ کو آپ کے گھر تک پہنچانے کے لئے آیا۔۲۱۸؎ یہ پناہ نہیں تھی کیو نکہ اس کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم ہوتے رہے اور مطعم نے کوئی حفاظت آپ کی نہیں کی بلکہ یہ صرف مکہ میں داخلہ کی قانونی اجازت تھی۔
آپ کے اِس سفر کے متعلق دشمنوں کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ اِس سفر میں آپ نے بے نظیر قربانی اور استقلال کا نمونہ دکھایا ہے۔ سرولیم میور اپنی کتاب ’’لائف آفمحمد‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے طائف کے سفر میں ایک شاندار اور شجاعانہ رنگ پایا جاتا ہے۔ اکیلا آدمی جس کی اپنی قوم نے اُس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھااور اُسے دھتکار دیا خد اکے نام پر بہادری کے ساتھ نینوا کے یوناہ نبی کی طرح ایک بت پرست شہر کو توبہ کی اورخدائی مشن کی دعوت دینے کے لئے نکلا۔ یہ امر اُس کے اِ س ایمان پر کہ وہ اپنے آپ کو کلی طور پر خد اکی طرف سے سمجھتا تھا ایک بہت تیز روشنی ڈالتا ہے‘‘۔۲۱۹؎
مکہ نے پھر ایذاء دہی اور استہزاء کے دروازے کھول دئیے۔ پھر خد اکے نبی کے لئے اُس کا وطن جہنم کا نمونہ بننے لگا۔ مگر اِس پر بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دلیری سے لوگوں کو خدا کی تعلیم پہنچاتے رہے۔ مکہ کے گلی کوچوں میں ’’ خد ا ایک ہے خدا ایک ہے‘‘کی آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ محبت سے، پیار سے، خیر خواہی سے، آپ مکہ والوں کو بت پرستی کے خلاف وعظ کرتے رہے۔ لوگ بھاگتے تھے تو آپ اُن کے پیچھے جاتے تھے۔ لوگ منہ پھیرتے تھے تو آپ پھر بھی باتیں سنائے چلے جاتے تھے۔ صداقت آہستہ آہستہ گھر کر رہی تھی۔ وہ تھوڑے سے مسلمان جو ہجرتِ حبشہ سے بچے ہوئے مکہ میں رہ گئے تھے وہ اندر ہی اندر اپنے رشتہ داروں، دوستوں، ساتھیوں اور ہمسائیوں میں تبلیغ کر رہے تھے۔ بعض کے دل ایمان سے منور ہو جاتے تھے تو عَلَی الْاعْلَان اپنے مذہب کا اظہار کر دیتے تھے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ ماریں کھانے اور تکلیفیں اُٹھانے میں شریک ہو جاتے تھے۔ مگر بہت تھے جنہوں نے روشنی کو دیکھ تو لیاتھا مگر اُس کے قبول کر نے کی توفیق نہیں ملی تھی۔ وہ اُس دن کا انتظار کر رہے تھے جب خداکی بادشاہت زمین پر آئے اور وہ اُس میں داخل ہوں۔
باشند گانِ مدینہ کا قبولِ اسلام
اِسی عرصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بار بار خبر دی جا رہی تھی کہ تمہارے
لئے ہجرت کا وقت آرہا ہے اور آپ پر یہ بھی کھل چکا تھا کہ آپ کی ہجرت کا مقام ایک ایسا شہر ہے جس میں کنویں بھی ہیں اور کھجوروں کے باغ بھی پائے جاتے ہیں۔ پہلے آپ نے یمامہ کی نسبت خیال کیا کہ شاید وہ ہجرت کا مقام ہو گا۲۲۰؎ مگر جلد ہی یہ خیال آپ کے دل سے نکال دیا گیا اور آپ اِس انتطار میں لگ گئے کہ خد اتعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق جو شہر بھی مقدر ہے وہ اپنے آپ کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے لئے پیش کر ے گا۔ اِسی دوران میں حج کا زمانہ آگیا عرب کے چاروں طرف سے لوگ مکہ میں حج کے لئے جمع ہونے شروع ہوئے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عادت کے مطابق جہاں کچھ آدمیوں کو کھڑا دیکھتے تھے اُن کے پاس جا کر اُنہیں توحید کا وعظ سنانے لگ جاتے تھے اور خدا کی بادشاہت کی خوشخبری دیتے تھے اور ظلم اور بدکاری اور فساد اور شرارت سے بچنے کی نصیحت کرتے تھے۔ بعض لوگ آپ کی بات سنتے اور حیرت کا اظہار کر کے جد ا ہو جاتے۔ بعض باتیں سن رہے ہوتے تو مکہ والے آ کر اُن کو وہاں سے ہٹا دیتے تھے۔ بعض جو پہلے سے مکہ والوں کی باتیں سن چکے ہوتے وہ ہنسی اُڑا کر آپ سے جد ا ہو جاتے۔ اسی حالت میں آپ منٰی کی وادی میں پھر رہے تھے کہ چھ سات آدمی جو مدینہ کے باشندے تھے آپ کی نظر پڑے۔ آپ نے اُن سے کہا کہ آپ لوگ کس قبیلہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں؟ اُنہوں نے کہا خزرج قبیلہ کے ساتھ۔ آپ نے کہا وہی قبیلہ جو یہودیوں کا حلیف ہے؟ اُنہوں نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا کیا آپ لوگ تھوڑی دیر بیٹھ کر میری باتیں سنیں گے؟ اُن لوگوں نے چونکہ آپ کا ذکر سنا ہوا تھا اور دل میں آپ کے دعویٰ سے کچھ دلچسپی تھی اُنہوں نے آپ کی بات مان لی اور آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی باتیں سننے لگ گئے۔ آپ نے اُنہیں بتایا کہ خدا کی بادشاہت قریب آرہی ہے، بت اب دنیا سے مٹا دیئے جائیں گے، توحید کو دنیا میں قائم کر دیا جائے گا۔ نیکی اور تقویٰ پھر ایک دفعہ دنیا میں قائم ہو جائیں گے۔ کیا مدینہ کے لوگ اِس عظیم الشان نعمت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟ انہوں نے آپ کی باتیں سنیں اور متأثر ہوئے اور کہا آپ کی تعلیم کو تو ہم قبول کرتے ہیں۔ باقی رہا یہ کہ مدینہ اسلام کو پناہ دینے کے لئے تیار ہے یا نہیں اس کے لئے ہم اپنے وطن جا کر اپنی قوم سے بات کریں گے پھر ہم دوسرے سال اپنی قوم کا فیصلہ آپ کو بتائیں گے۔۲۲۱؎ یہ لوگ واپس گئے اور اُنہوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں میں آپ کی تعلیم کا ذکر کرنا شروع کیا ۔ اُس وقت مدینہ میں دو عرب قبائل اوس اور خزرج بستے تھے اور تین یہودی قبائل یعنی بنو قریظہ اور بنو نضیر اور بنو قینقاع۔اوس اور خزرج کی آپس میں لڑائی تھی۔ بنو قریظہ اور بنو نضیر اوس کے ساتھ اور بنو قینقاع خزرج کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ مدتوں کی لڑائی کے بعد اُن میں یہ احساس پیدا ہو رہا تھا کہ ہمیں آپس میں صلح کر لینی چاہئے۔ آخر باہمی مشورہ سے یہ قرار پایا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول جو خزرج کا سردار تھا اُسے سارا مدینہ اپنا بادشاہ تسلیم کر لے۔ یہودیوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اوس اور خزرج بائبل کی پیشگوئیاں سنتے رہتے تھے۔ جب یہودی اپنی مصیبتوں اور تکلیفوں کا حال بیان کرتے تواُس کے آخر میں یہ بھی کہہ دیا کرتے تھے کہ ایک نبی جو موسیٰ کا مثیل ہو گا ظاہر ہونے والا ہے اُس کا وقت قریب آرہا ہے جب وہ آئے گا ہم پھر ایک دفعہ دنیا پر غالب ہو جائیں گے ،یہود کے دشمن تباہ کر دئیے جائیں گے۔ جب اُن حاجیوں سے مدینہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کو سنا آپ کی سچائی اُن کے دلوں میں گھر کر گئی اور اُنہو ںنے کہا یہ تو وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کی یہودی ہمیں خبر دیا کرتے تھے۔ پس بہت سے نوجوان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی سچائی سے متأثر ہوئے اور یہودیوں سے سنی ہوئی پیشگوئیاں اُن کے ایمان لانے میں مؤید ہوئیں۔ چنانچہ اگلے سال حج کے موقع پر پھر مدینہ کے لوگ آئے۔ بارہ آدمی اِس دفعہ مدینہ سے یہ ارادہ کرکے چلے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہو جائیں گے۔ اِن میں سے دس خزرج قبیلہ کے تھے اور دو اوس کے۔ منٰی میں وہ آپ سے ملے اوراُنہوں نے آپ کے ہاتھ پر اِس بات کا اقرار کیا کہ وہ سوائے خدا کے اور کسی کی پرستش نہیں کریں گے، وہ چوری نہیں کر یں گے، وہ بدکاری نہیں کر یں گے، وہ اپنی لڑکیوں کو قتل نہیں کر یں گے، وہ ایک دوسرے پر جھوٹے الزام نہیں لگائیں گے، نہ وہ خدا کے نبی کی دوسری نیک تعلیمات میں نافرمانی کریں گے۔۲۲۲؎ یہ لوگ واپس آگئے تو اُنہو ں نے اپنی قوم میں اور بھی زیادہ زور سے تبلیغ شروع کر دی۔ مدینہ کے گھروں میں سے بت نکال کر باہر پھینکے جانے لگے۔ بتوں کے آگے سر جھکانے والے لوگ اب گردنیں اُٹھا کر چلنے لگے۔ خد اکے سوا اب لوگوں کے ماتھے کسی کے سامنے جھکنے کے لئے تیار نہ تھے۔ یہودی حیران تھے کہ صدیوں کی دوستی اور صدیوں کی تبلیغ سے جو تبدیلی وہ نہ پیدا کر سکے اسلام نے وہ تبدیلی چند دنوں میں پید اکر دی۔ توحید کا وعظ مدینہ والوں کے دلوں میں گھر کرتا جاتا تھا۔ یکے بعد دیگرے لوگ آتے اور مسلمانوں سے کہتے ہمیں اپنا دین سکھائو۔ لیکن مدینہ کے نو مسلم نہ تو خود اسلام کی تعلیم سے پوری طرح واقف تھے اور نہ اُن کی تعداد اتنی تھی کہ وہ سینکڑوں اور ہزاروں آدمیوں کو اسلام کے متعلق تفصیل سے بتا سکیں اس لئے اُنہو ںنے مکہ میں ایک آدمی بجھوایا اور مبلغ کی درخواست کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعبؓ نامی ایک صحابی کو جو حبشہ کی ہجرت سے واپس آئے تھے مدینہ میں تبلیغ اسلام کے لئے بھجوا یا۔ مصعبؓ مکہ سے باہر پہلا اسلامی مبلغ تھا۔
اسراء
اُنہی ایام میں خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آئندہ کے لئے پھر ایک زبردست بشارت دی۔ آپ کو ایک کشف میں بتایا گیا کہ آپ یروشلم گئے ہیں اور نبیوں نے
آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔۲۲۳؎ یروشلم کی تعبیر مدینہ تھا، جو آئندہ کے لئے خد ائے واحد کی عبادت کا مرکز بننے والا تھا اور آپ کے پیچھے نبیوں کے نماز پڑھنے کی تعبیر یہ تھی کہ مختلف مذاہب کے لوگ آپ کے مذہب میں داخل ہوں گے اورآپ کا مذہب عالمگیر ہو جائے گا۔ یہ وقت مکہ میں مسلمانوں کے لئے نہایت ہی سخت تھا اور تکالیف انتہاء کو پہنچ چکی تھیں۔ اس کشف کا سنانا مکہ والوں کے لئے ہنسی اور استہزاء کا ایک نیا موجب ہو گیا اور اُنہوں نے ہر مجلس میں آپ کے اِس کشف پر ہنسی اُڑانی شروع کی۔ مگر کون جانتا تھا کہ نئے یروشلم کی تعمیر شروع تھی۔ مشرق و مغرب کی قومیں کان دھرے خد اکے آخری نبی کی آواز سننے کے لئے متوجہ کھڑی تھیں۔
رومیوں کے غلبہ کی پیشگوئی
اِنہی ایام میں قیصر اور کسریٰ کے درمیان ایک خطرناک جنگ ہوئی اور کسریٰ کو فتح حاصل ہوئی۔ شام میں ایرانی
فوجیں پھیل گئیں۔ یروشلم تباہ کر دیا گیا۔ حتی کہ ایرانی فوجیں یونان اور ایشائے کوچک تک پہنچ گئیں اور باسفورس کے دہانہ پر ایرانی جرنیلوں نے قسطنطنیہ سے صرف دس میل کے فاصلہ پر اپنے خیمے گاڑ دئیے۔ اِس واقعہ پر مکہ کے لوگوں نے خوشیاں منانی شروع کیں اور کہا خد اکا فیصلہ ظاہر ہو گیا ہے۔ بت پرست ایرانیوں نے اہل کتاب عیسائیوں کو شکست دے دی۔ اُس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو خبر دی گئی کہ۲۲۴؎ یعنی رومی فوجیں عرب کے قریب ممالک میں شکست کھا گئی ہیں لیکن اپنی شکست کے بعد پھر اُن کو فتح حاصل ہو گی چند سال کے اندر اندر۔ خدا ہی کا اختیار دنیا میں پہلے بھی رائج تھا اور آئندہ بھی رائج رہے گا۔ جب وہ فتح کا دن آئے گا اُس وقت مؤمنوں کو بھی خد اکی مدد سے خوشی نصیب ہوگی۔ خدا جن کو چن لیتا ہے اُن کی مدد کرتا ہے وہ بڑی شان والا اور بڑا مہربان ہے۔ یہ اُس خد اکا وعدہ ہے جو اپنے وعدوں کو تبدیل نہیں کرتا۔ لیکن اکثر لوگ خد اکی قدرتوں سے ناواقف ہیں۔ چند ہی سال بعد خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی پوری کر دی۔ ایک طرف رومیوں نے ایرانیوں کو شکست دے کر اپنے ملک کو آزاد کرا لیا اور دوسری طرف جیسا کہ کہا گیا تھا اُنہی ایام میں مسلمانوں کو مکہ کے لوگوں کے خلاف فتوحات حاصل ہونی شروع ہوئیں۔ جبکہ مکہ کے لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ اُنہوں نے لوگوں کو مسلمانوں کی باتیں سننے سے روک کر اور مسلمانوں پر ظلم کرنے پر آمادہ کر کے اسلام کا خاتمہ کر دیا ہے۔ خد اکا کلام متواتر اسلام کی فتوحات کی خبریں دے رہا تھا اور بتا رہاتھا کہ مکہ والوں کی تباہی کی گھڑی قریب سے قریب تر آرہی ہے۔ چنانچہ انہی ایام میں محمد رسول اللہ ﷺ نے بڑے زور سے خدا تعالیٰ کی اس وحی کا اعلان کیا کہ ۲۲۵؎ یعنی مکہ والے کہتے ہیں کہ کیوں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے ربّ کے پاس سے کوئی نشان ہمارے لئے نہیں لاتا۔ کیا پہلے نبیوں کی پیشگوئیاں جو اس کے حق میں ہیں وہ اُن کے لئے کافی نشان نہیں ہے۔ ہم اگر پوری تبلیغ سے پہلے ہی مکہ والوں کو ہلاک کر دیتے تو مکہ والے کہہ سکتے تھے کہ اے ہمارے ربّ! کیوں تو نے ہماری طرف کوئی رسول نہ بھیجا کہ ہم ذلیل اور رُسوا ہونے سے پہلے تیری تعلیموں کے پیچھے چلتے۔ تو کہہ دے ہر شخص کو اپنے وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے پس تم بھی اُس گھڑی کا انتظا رکرو جب حجت تمام ہو جائے گی تب تم یقینا جان لو گے کہ سیدھے راستہ پر اور خدا تعالیٰ کی ہدایت پر کون چل رہا ہے۔
ہر روز خد اکی نئی وحی نازل ہو رہی تھی اور ہرروز وہ اسلام کی ترقی اور کفّار کی تباہی کی خبریں دے رہی تھی۔ مکہ والے ایک طرف اپنی طاقت اور شوکت کو دیکھتے تھے اور دوسری طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی کمزوری کو دیکھتے تھے اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی میں خدا تعالیٰ کی نصرتوں اور مسلمانوں کی کامیابیوں کی خبریں پڑھتے تھے تو حیران ہو کر سوچتے تھے کہ آیا وہ پاگل ہو گئے ہیں یا محمد ’’ رسول اللہ ‘‘ پاگل ہو گیا ہے۔ مکہ والے تو یہ امیدیں کر رہے تھے کہ ہمارے ظلموں اور ہماری تعدّی کی وجہ سے اب مسلمانوں کو مایوس ہو کر ہماری طرف آ جانا چاہئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود بھی اور اُن کے ساتھیوں کو بھی اُن کے دعویٰ میں شبہات پیدا ہو جانے چاہئیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اعلان کر رہے تھے کہ ۲۲۶؎ اے مکہ والو! جن خیالات میں تم پڑے ہوئے ہو وہ درست نہیں۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں اُن چیزوں کی جو تمہیں نظر آرہی ہیں اور اُن کی بھی جو تمہاری نظروں سے ابھی پوشیدہ ہیں کہ یہ قرآن ایک معزز رسول کی زبان سے تم کو سنایا جا رہا ہے یہ کسی شاعر کا کلام نہیں مگر تمہارے دل میں ایمان کم ہی پید ا ہوتا ہے۔ یہ کسی کاہن کی تک بندی نہیں ہے مگر افسوس تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔ یہ سب جہانوں کے پیدا کرنے والے خدا کی طرف سے اُتارا گیا ہے اور ہم جو سب جہانوں کے رب ہیں تم سے کہتے ہیں کہ اگر یہ ایک آیت بھی جھوٹی بنا کر ہماری طرف منسوب کرتا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اُس کی رگِ جان کو کاٹ دیتے اور اگر تم سب لوگ مل کر بھی اُس کو بچانا چاہتے تو تم اُس کو نہ بچا سکتے۔ مگر یہ قرآن تو خدا سے ڈرنے والوں کے لئے ایک نصیحت ہے اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں اِس قرآن کو جھٹلانے والے بھی موجود ہیں مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کی تعلیم اس منکروں کے دلوں میں حسرتیں پیدا کر رہی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ کاش! یہ تعلیم ہمارے پاس ہوتی۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جو باتیں اِس قرآن میں بتائی گئی ہیں وہ لفظاً لفظاً پوری ہو کر رہیں گی۔ پس اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اِن لوگوں کی مخالفتوں کی پرواہ نہ کر اور اپنے عظیم الشان رب کے نام کی بزرگی بیان کرتا چلا جا۔
آخر تیسرا حج بھی آپہنچا اورمدینہ کے حاجیوں کا قافلہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل مکہ میں وار د ہوا۔ مکہ والوں کی مخالفت کی وجہ سے مدینہ کے لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدہ ملنے کی خواہش کی۔ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہن اِدھر منتقل ہو چکا تھا کہ شاید ہجرت مدینہ ہی کی طرف مقدر ہے ۔ آپ نے اپنے معتبر رشتہ داروں سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور انہوں نے آپ کو سمجھانا شروع کیا کہ آپ ایسا نہ کریں۔ مکہ والے دشمن ہی سہی پھر بھی اس میں بڑے بڑے با اثر لوگ آپ کے رشتہ داروں میں سے موجود ہیں نہ معلوم مدینہ میں کیا ہو اور وہاں آپ کے رشتہ دار آپ کی مدد کر سکیں یا نہ کر سکیں۔ مگر چونکہ آپ سمجھ چکے تھے کہ خد ائی فیصلہ یہی ہے آپ نے اپنے رشتہ داروں کی باتیں ردّ کر دیں اور مدینہ جانے کا فیصلہ کر دیا۔
آدھی رات کے بعد پھر وادیٔ عقبہ میںمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کے مسلمان جمع ہوئے۔ اب آپ کے ساتھ آپ کے چچا عباسؓ بھی تھے۔ اِس دفعہ مدینہ کے مسلمانوں کی تعداد ۷۳ تھی۔ اُن میں ۶۲ خزرج قبیلہ کے تھے اور گیارہ اوس کے تھے۲۲۷؎ اور اس قافلہ میں دو عورتیں بھی شامل تھیں جن میں سے ایک بنی نجار قبیلہ کی اُمِّ عمارہؓ بھی تھیں۔ چونکہ مصعبؓ کے ذریعہ سے اِن لوگوں تک اسلام کی تفصیلات پہنچ چکی تھیں یہ لوگ ایمان اور یقین سے پُر تھے، بعد کے واقعات نے ظاہر کر دیا کہ یہ لوگ آئندہ اسلام کا ستون ثابت ہونے والے تھے۔ اُمِّ عمارہؓ جو اُس دن شامل ہوئیں اُنہوں نے اپنی اولاد میں اسلام کی محبت اتنی داخل کردی کہ اُن کا بیٹا خبیبؓ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسیلمہ کذاب کے لشکر کے ہاتھ میں قید ہو گیا تو مسیلمہ نے اُسے بُلا کر پوچھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں؟ خبیبؓ نے کہاں ہاں۔ پھر مسیلمہ نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ خبیبؓ نے کہا نہیں۔اس پر مسیلمہ نے حکم دیا کہ ان کا عضو کاٹ لیا جائے۔ تب مسیلمہ نے پھر اُن سے پوچھا۔ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ خبیبؓ نے کہا ہاں۔ پھر اُس نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ خبیبؓ نے کہا نہیں۔ پھر اُس نے آپ کا ایک دوسرا عضو کاٹنے کا حکم دیا۔ ہر عضو کاٹنے کے بعد وہ سوال کرتا جاتا تھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور خبیب ؓ کہتاتھا کہ نہیں۔ اِسی طرح اس کے سارے اعضاء کاٹے گئے اور آخر میں اِسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اپنے ایمان کا اعلان کرتے ہوئے وہ خدا سے جاملا۔۲۲۸؎
خوداُمِّ عمارہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سی جنگوں میں شامل ہوئیں۔ غرض یہ ایک مخلص اور ایمان والا قافلہ تھا جس کے افراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دولت اور مال مانگنے نہیں آئے تھے بلکہ صرف ایمان طلب کرنے آئے تھے۔ عباسؓ نے اُن کو مخاطب کر کے کہا اے خزرج قبیلہ کے لوگو! یہ میرا عزیز اپنی قوم میں معزز ہے اِس کی قوم کے لوگ خواہ وہ مسلمان ہیں یا نہیں اس کی حفاظت کرتے ہیں لیکن اب اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ تمہارے پاس جائے۔ اے خزرج کے لوگو! اگر یہ تمہارے پاس گیا تو سارا عرب تمہارا مخالف ہو جائے گا۔ا گر تم اپنی ذمہ داری کو سمجھتے اور اُن خطرات کو پہچانتے ہوئے جو تمہیں اِس کے دین کی حفاظت میں پیش آنے والے ہیں اِس کو لے جانا چاہتے ہو تو خوشی سے لے جائو ورنہ اِس ارادہ سے باز آجائو۔ اِس قافلہ کے سردار البراء تھے اُنہوں نے کہا ہم نے آپ کی باتیں سن لیں۔ ہم اپنے ارادہ میں پختہ ہیں ہماری جانیں خدا کے نبی کے قدموں پر نثار ہیں۔ اب فیصلہ اُس کے اختیار میں ہے۔ ہم اُس کا ہر فیصلہ قبول کریں گے۔ اِس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی تعلیم سمجھانی شروع کی اور خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کا وعظ کیا اور اُنہیں کہا کہ اگر وہ اسلام کی حفاظت اپنی بیویوں اور اپنے بچوں کی طرح کرنے کا وعدہ کرتے ہیں تو وہ آپ کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہیں۔۲۲۹؎ آپ اپنی بات ختم کرنے نہ پائے تھے کہ مدینہ کے ۷۲ جاں نثار یک زبان ہوکر چلائے ہاں! ہاں!! اُس وقت جوش میں اُنہیںمکہ والوں کی شرارتوں کا خیال نہ رہا اور اُن کی آوازیں فضاء میں گونج گئیں۔ عباسؓ نے اُنہیں ہوشیا ر کیا اور کہا خاموش ! خاموش! ایسانہ ہو کہ مکہ کے لوگوں کو اِس واقعہ کا علم ہو جائے۔ مگر اب وہ ایمان حاصل کر چکے تھے، اب موت اُن کی نظروں میں حقیر ہو چکی تھی۔ عباسؓ کی بات سن کر اُن کا ایک رئیس بولا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! ہم ڈرتے نہیں، آپ اجازت دیجئے ابھی مکہ والوں سے لڑ کر اُنہوں نے جو ظلم آپ پر کئے ہیں اُ س کا بدلہ لینے کو تیا رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ابھی خداتعالیٰ نے مجھے اُن کے مقابل پر کھڑا ہونے کا حکم نہیں دیا۔ اِس کے بعد مدینہ کے لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور یہ مجلس برخاست ہوئی۔۲۳۰؎
مکہ کے لوگوں کو اِس واقعہ کی بھنک پہنچ گئی اور وہ مدینہ کے سرداروں کے پاس شکایت لے کر گئے۔ لیکن چونکہ عبداللہ بن ابی ابن سلول مدینہ کے قافلہ کا سردار تھا اور اُسے خود اس واقعہ کا علم نہیں تھا اُس نے اُنہیں تسلی دلائی اور کہا کہ اُنہوں نے یونہی کوئی جھوٹی افواہ سن لی ہے ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کیونکہ مدینہ کے لوگ میرے مشورہ کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے۔ مگر وہ کیا سمجھتا تھا کہ اب مدینہ کے لوگوں کے دلوں میں شیطان کی جگہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم ہو چکی تھی۔ اِس کے بعد مدینہ کا قافلہ واپس چلا گیا۔
مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت
اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے ہجرت کی تیاری شروع کی۔ ایک کے
بعد ایک خاندان مکہ سے غائب ہونا شروع ہوا۔ اب وہ لوگ بھی جو خد اتعالیٰ کی بادشاہت کا انتظار کر رہے تھے دلیر ہو گئے۔ بعض دفعہ ایک ہی رات میں مکہ کی ایک پوری گلی کے مکانوں کو تالے لگ جاتے تھے اور صبح کے وقت جب شہر کے لوگ گلی کو خاموش پاتے تو دریافت کرنے پر اُنہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس گلی کے تمام رہنے والے مدینہ کو ہجرت کر گئے ہیں اور اسلام کے اِس گہرے اثر کو دیکھ کر جو اندر ہی اندر مکہ کے لوگوں میں پھیل رہا تھا وہ حیران رہ جاتے تھے۔
آخر مکہ مسلمانوں سے خالی ہوگیا ، صرف چند غلام، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ مکہ میں رہ گئے۔ جب مکہ کے لوگوں نے دیکھا کہ اب شکار ہمارے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے تو رئوساء پھر جمع ہوئے اور مشورے کے بعد اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دینا ہی مناسب ہے۔ خدا تعالیٰ کے خاص تصرف سے آپ کے قتل کی تاریخ آپ کی ہجرت کی تاریخ سے موافق پڑی۔ جب مکہ کے لوگ آپ کے گھر کے سامنے آپ کے قتل کے لئے جمع ہورہے تھے آپ رات کی تاریکی میں ہجرت کے ارادہ سے اپنے گھر سے باہر نکل رہے تھے۔ مکہ کے لوگ ضرور شبہ کرتے ہوں گے کہ اُن کے ارادہ کی خبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مل چکی ہو گی۔ مگر پھر بھی جب آپ اُن کے سامنے سے گزرے تو اُنہوں نے یہی سمجھا کہ یہ کوئی اور شخص ہے اور بجائے آپ پر حملہ کرنے کے سمٹ سمٹ کر آپ سے چھپنے لگ گئے، تاکہ اُن کے ارادوں کی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خبر نہ ہو جائے۔ اِس رات سے پہلے دن ہی آپ کے ساتھ ہجرت کرنے کے لئے ابوبکرؓ کو بھی اطلاع دے دی گئی تھی پس وہ بھی آپ کو مل گئے اور دونوں مل کر تھوڑی دیر میں مکہ سے روانہ ہو گئے اور مکہ سے تین چار میل پر ثور نامی پہاڑی کے سرے پر ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے۔۲۳۱؎ جب مکہ کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے چلے گئے ہیں تواُنہوں نے ایک فوج جمع کی اورآپ کا تعاقب کیا۔ ایک کھوجی اُنہوں نے اپنے ساتھ لیا جو آپ کا کھوج لگاتے ہوئے ثور پہاڑ پر پہنچا۔ وہاں اُس نے اُس غار کے پاس پہنچ کر جہاں آپ ابوبکرؓ کے ساتھ چھپے ہوئے تھے یقین کے ساتھ کہا کہ یا تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اِس غار میں ہے یا آسمان پر چڑھ گیا ہے۔ اُس کے اِس اعلان کو سن کر ابوبکرؓ کا دل بیٹھنے لگا اور اُنہوں نے آہستہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا دشمن سر پر آپہنچا ہے اور اب کوئی دم میں غار میں داخل ہونے والا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَناَ۔۲۳۲؎ ابو بکر! ڈرو نہیں خدا ہم دونوں کے ساتھ ہے۔ا بوبکرؓ نے جواب میں کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں اپنی جان کے لئے نہیں ڈرتا کیونکہ میں تو ایک معمولی انسان ہوں مارا گیا تو ایک آدمی ہی مارا جائے گا یَارَ سُوْلَ اللّٰہ! مجھے تو صرف یہ خوف تھا کہ اگر آپ کی جان کو کوئی گزند پہنچا تو دنیا میں سے روحانیت اور دین کا نام مٹ جائے گا۔ آپ نے فرمایا کوئی پرواہ نہیں یہاں ہم دو ہی نہیں ہیں تیسرا خدا تعالیٰ بھی ہمارے پاس ہے۔ چونکہ اب وقت آپہنچا تھا کہ خداتعالیٰ اسلام کو بڑھائے اور ترقی دے اور مکہ والوں کے لئے مہلت کا وقت ختم ہو چکا تھا خداتعالیٰ نے مکہ والوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور اُ نہوں نے کھوجی سے استہزاء شروع کر دیا اور کہا کیا اُنہوں نے اِس کھلی جگہ پر پناہ لینی تھی؟ یہ کوئی پناہ کی جگہ نہیںہے اور پھر اِس جگہ کثرت سے سانپ بچھو رہتے ہیں یہاں کوئی عقلمند پناہ لے سکتا ہے اور بغیر اس کے کہ غار میں جھانک کر دیکھتے کھوجی سے ہنسی کرتے ہوئے وہ واپس لوٹ گئے۔
دو دن اِسی غار میں انتظار کر نے کے بعد پہلے سے طے کی ہوئی تجویز کے مطابق رات کے وقت غار کے پاس سواریاں پہنچائی گئیں اور دو تیز رفتار اُونٹنیوں پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی روانہ ہوئے۔ ایک اونٹنی پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور رستہ دکھانے والا آدمی سوار ہوا اور دوسری اُونٹنی پر حضرت ابوبکرؓ اور ان کا ملازم عامر بن فہیرہ سوار ہوئے۔ مدینہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ مکہ کی طرف کیا۔ اُس مقدس شہر پر جس میں آپ پیدا ہوئے، جس میں آپ مبعوث ہوئے اور جس میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے زمانہ سے آپ کے آبائواجداد رہتے چلے آئے تھے آپ نے آخری نظرڈالی اور حسرت کے ساتھ شہر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے مکہ کی بستی! تو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔ اُس وقت حضرت ابوبکرؓ نے بھی نہایت افسوس کے ساتھ کہا اِن لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے۔۲۳۳؎
سراقہ کا تعاقب اور اُس کے متعلق آنحضرت ﷺکی ایک پیشگوئی
جب مکہ والے آپ کی تلاش میں ناکا م رہے تو اُنہوں نے اعلان کر دیا کہ جو کوئی محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) یا ابوبکرؓ
کو زندہ یا مُردہ واپس لے آئے گا اُس کو سَو(۱۰۰) اُونٹنی انعام دی جائے گی اوراس اعلان کی خبر مکہ کے اِردگرد کے قبائل کو بجھوا دی گئی۔ چنانچہ سراقہ بن مالک ایک بدوی رئیس اس انعام کے لالچ میں آپ کے پیچھے روانہ ہوا۔ تلاش کرتے کرتے اُس نے مدینہ کی سڑک پر آپ کو جالیا۔ جب اُس نے دو اُونٹنیوں اور ان کے سواروں کو دیکھا اور سمجھ لیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے ساتھی ہیں تو اُس نے اپنا گھوڑا اُن کے پیچھے دَوڑا دیا۔ مگر راستہ میں گھوڑے نے زور سے ٹھوکر کھائی اور سراقہ گر گیا۔ سراقہ بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ اپنا واقعہ خود اس طرح بیان کرتا ہے کہ جب میں گھوڑے سے گرا تو میں نے عربوں کے دستور کے مطابق اپنے تیروں سے فال نکالی اور فال بُری نکلی۔ مگرانعام کے لالچ کی وجہ سے میں پھر گھوڑے پر سوار ہو کر پیچھے دوڑا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وقار کے ساتھ اپنی اُونٹنی پر سوار چلے جا رہے تھے۔ اُنہوں نے مڑ کر مجھے نہیں دیکھا ، لیکن ابوبکرؓ (اِس ڈر سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی گزند نہ پہنچے) بار بار منہ پھیر کر مجھے دیکھتے تھے۔ جب دوسری دفعہ میں اُن کے قریب پہنچا تو پھر میرے گھوڑے نے زور سے ٹھوکر کھائی اور میں گر گیا۔ اِس پر پھر میں نے اپنے تیروں سے فال لی اور فال خراب نکلی۔ میں نے دیکھا کہ ریت میں گھوڑے کے پائوں اتنے دھنس گئے تھے کہ اُن کا نکالنا مشکل ہو رہا تھا۔ تب میں نے سمجھا کہ یہ لوگ خد اکی حفاظت میں ہیں اور میں نے اُنہیں آواز دی کہ ٹھہرو اور میری بات سنو! جب وہ لوگ میرے پاس آئے تومیں نے اُنہیں بتایا کہ میں اِس ارادہ سے یہاں آیا تھا مگر اب میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے اور میں واپس جا رہا ہوں، کیونکہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا جائو، مگر دیکھو کسی کو ہمارے متعلق خبر نہ دینا۔ اُس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ چونکہ یہ شخص سچا معلوم ہوتا ہے اِس لئے ضرور ہے کہ ایک دن کامیاب ہو۔ اِس خیال کے آنے پر میں نے درخواست کی کہ جب آپ کو غلبہ حاصل ہو گا اُس زمانہ کے لئے مجھے کوئی امن کا پروانہ لکھ دیں۔ آپ نے عامر بن فہیرہ حضرت ابوبکر کے خادم کو ارشاد فرمایا کہ اِسے امن کا پروانہ لکھ دیا جائے۔ ۲۳۴؎ چنانچہ اُنہوں نے امن کا پروانہ لکھ دیا۔ جب سراقہ لوٹنے لگا تو معاً اللہ تعالیٰ نے سراقہ کے آئندہ حالات آپؐ پر غیب سے ظاہر فرمادئیے اور اُن کے مطابق آپ نے اُسے فرمایا۔ سراقہ! اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ سراقہ نے حیران ہو کر پوچھا، کسریٰ بن ہرمز شہنشاہِ ایران کے؟ آپ نے فرمایا ہاں! ۲۳۵؎ آپ کی یہ پیشگوئی کوئی سولہ سترہ سال کے بعد جا کر لفظ بلفظ پوری ہوئی۔
سراقہ مسلمان ہو کر مدینہ آگیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے حضرت ابوبکرؓ پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے۔ اسلام کی بڑھتی ہوئی شان کو دیکھ کر ایرانیوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دئیے اور بجائے اسلام کو کچلنے کے خود اسلام کے مقابلہ میں کچلے گئے۔ کسریٰ کا دارالامارۃ اسلامی فوجوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال ہوا اور ایران کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آئے۔ جو مال اُس ایرانی حکومت کا اسلامی فوجوں کے قبضہ میں آیا اُس میں وہ کڑے بھی تھے جو کسریٰ ایرانی دستور کے مطابق تخت پر بیٹھتے وقت پہنا کرتا تھا۔ سراقہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے اِس واقعہ کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت اُسے پیش آیا تھا مسلمانوں کو نہایت فخر کے ساتھ سنایا کرتا تھا اور مسلمان اِس بات سے آگاہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسے مخاطب کر کے فرمایا تھا، سراقہ! اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھ میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ حضرت عمرؓ کے سامنے جب اموالِ غنیمت لا کر رکھے گئے اور اُن میں اُنہو ں نے کسریٰ کے کنگن دیکھے تو سب نقشہ آپ کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ وہ کمزوری اور ضعف کا وقت جب خد اکے رسول کو اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ آنا پڑا تھا، وہ سراقہ اور دوسرے آدمیوں کا آپ کے پیچھے اِس لئے گھوڑے دوڑانا کہ آپ کو مار کر یا زندہ کسی صورت میں بھی مکہ والوں تک پہنچا دیں تو وہ سَو اُونٹوں کے مالک ہو جائیں گے اور اُس وقت آپ کا سراقہ سے کہنا سراقہ اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ کتنی بڑی پیشگوئی تھی کتنا مصفّٰی غیب تھا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے سامنے کسریٰ کے کنگن دیکھے تو خدا کی قدرت اُن کی آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔ اُنہوں نے کہا سراقہ کو بلائو۔ سراقہ بلائے گئے تو حضرت عمرؓ نے اُنہیں حکم دیا کہ وہ کسریٰ کے کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنیں۔ سراقہ نے کہا۔ اے خدا کے رسول کے خلیفہ! سونا پہننا تو مسلمانوں کے لئے منع ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ہاں منع ہے مگر ان موقعوں کے لئے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے ہاتھ میں سونے کے کنگن دکھائے تھے یا تو تم یہ کنگن پہنو گے یا میں تمہیں سزا دوں گا۔ سراقہ کا اعتراض تو محض شریعت کے مسئلہ کی وجہ سے تھا ورنہ وہ خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ سراقہ نے وہ کنگن اپنے ہاتھ میں پہن لئے اور مسلمانوں نے اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
آنحضرت ﷺ کا مدینہ منورہ میں ورود
مکہ سے بھاگ کر نکلنے والا رسول اب دنیا کا بادشاہ تھا، وہ خود اِس
دنیا میں موجود نہیں تھا مگر اُس کے غلام اُس کی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ سراقہ کو رخصت کرنے کے بعد چند منزلیں طے کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچ گئے مدینہ کے لوگ بے صبری سے آپ کا انتظار کر رہے تھے اور اِس سے زیادہ اُن کی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی تھی کہ وہ سورج جو مکہ کے لئے نکلا تھا مدینہ کے لوگوں پر جا طلوع ہوا۔
جب انہیںیہ خبرپہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے غائب ہیں تو وہ اُسی دن سے آپ کی انتظار کر رہے تھے۔ اُن کے وفد روزانہ مدینہ سے باہر کئی میل تک آپ کی تلاش کے لئے نکلتے تھے اور شام کو مایوس ہو کر واپس آجاتے تھے۔ جب آپ مدینہ کے پاس پہنچے تو آپ نے فیصلہ کیا کہ پہلے آپ قبا میں جو مدینہ کے پاس ایک گائوں تھا ٹھہریں۔ ایک یہودی نے آپ کی اُونٹنیوں کو آتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ قافلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور اُس نے آواز دی اے قیلہ کی اولاد! (قیلہ مدینہ والوں کی ایک دادی تھی) تم جس کی انتظار میں تھے آگیا ہے۔ اِس آواز کے پہنچتے ہی مدینہ کا ہر شخص قبا کی طرف دَوڑ پڑا۔ قبا کے باشندے اِس خیال سے کہ خد اکا نبی اُن میں ٹھہرنے کے لئے آیا ہے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔
اِس موقع پر ایک ایسی بات ہوئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی کے کمال پر دلالت کرتی تھی۔ مدینہ کے اکثر لوگ آپ کی شکل سے واقف نہ تھے۔ جب قبا سے باہر آپ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ بھاگتے ہوئے مدینہ سے آپ کی طرف آرہے تھے تو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ سادگی سے بیٹھے ہوئے تھے اُن میں سے نا واقف لوگ حضرت ابوبکرؓ کو دیکھ کر جو عمر میں گو چھوٹے تھے مگر اُن کی ڈاڑھی میں کچھ سفید بال آئے ہوئے تھے اور اسی طرح اُن کا لباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بہتر تھا یہی سمجھتے تھے کہ ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور بڑے ادب سے آپ کی طر ف منہ کر کے بیٹھ جاتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جب یہ بات دیکھی تو سمجھ لیا کہ لوگوں کو غلطی لگ رہی ہے۔ وہ جھٹ چادر پھیلا کر سورج کے سامنے کھڑے ہوگئے اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ !آپ پر دھوپ پڑ رہی ہے میں آپ پر سایہ کرتا ہوں۲۳۶؎ اور اِس لطیف طریق سے اُنہوں نے لوگوں پر اُن کی غلطی کو ظاہر کر دیا۔ قبا میں دس دن رہنے کے بعد مدینہ کے لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ لے گئے۔ جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے مدینہ کے تمام مسلمان کیا مرد کیا عورتیں اور کیا بچے سب گلیوں میں نکلے ہوئے آپ کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ بچے اور عورتیں یہ شعر گا رہے تھے
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوِدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا
مَادَعَا لِلّٰہِ دَاعِ
اَیُّھَا الْمَبْعُوْثُ فِیْنَا
جِئْتَ بِالْاَ مْرِ الْمُطَاعِ۲۳۷؎
یعنی چودھویں رات کا چاند ہم پر وداع کے موڑ سے چڑھا ہے اور جب تک خد اکی طرف بلانے والا دنیا میں کوئی موجود رہے ہم پر اس احسان کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے اور اے وہ جس کو خدا نے ہم میں مبعوث کیا ہے تیرے حکم کی پوری طرح اطاعت کی جائے گی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس جہت سے مدینہ میں داخل ہوئے تھے وہ مشرقی جہت نہیں تھی۔ مگر چودھویں رات کا چاند تو مشرق سے چڑھا کرتا ہے۔ پس مدینہ کے لوگوں کا اشارہ اِس بات کی طرف تھا کہ اصل چاند تو روحانی چاند ہے۔ ہم اِس وقت تک اندھیرے میں تھے اب ہمارے لئے چاند چڑھا ہے اور چاند بھی اُس جہت سے چڑھا ہے جدھر سے وہ چڑھا نہیں کرتا۔ یہ پیر کا دن تھا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے اور پیر ہی کے دن آپ غارِ ثور سے نکلے تھے اور یہ عجیب بات ہے کہ پیر ہی کے دن مکہ آپ کے ہاتھ پر فتح ہوا۔
جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ آپ اُس کے گھر میں ٹھہریں۔ جس جس گلی میں سے آپ کی اُونٹنی گزرتی تھی اُس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ!یہ ہمارا گھر ہے اور یہ ہمارا مال ہے اور یہ ہماری جانیںہیں جو آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہیں یَارَسُوْلَ اللّٰہ! اور ہم آپ کی حفاظت کرنے کے قابل ہیں آپ ہمارے ہی پاس ٹھہریں۔ بعض لوگ جوش میں آگے بڑھتے اور آپ کی اُونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تاکہ آپ کو اپنے گھر میں اُتروا لیں۔ مگر آپ ہر ایک شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اُونٹنی کو چھوڑ دو یہ آج خد اتعالیٰ کی طرف سے مأمور ہے یہ وہیں کھڑی ہو گی جہاں خدا تعالیٰ کا منشاء ہو گا۔ آخر مدینہ کے ایک سرے پر بنو نجار کے یتیموں کی ایک زمین کے پاس جا کر اُونٹنی ٹھہر گئی۔ آپ نے فرمایا خد اتعالیٰ کا یہی منشاء معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہریں۔۲۳۸؎ پھر فرمایا یہ زمین کس کی ہے؟ زمین کچھ یتیموں کی تھی اُن کا ولی آگے بڑھا اور اُس نے کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! یہ فلاں فلاں یتیم کی زمین ہے اور آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے آپ نے فرمایا ہم کسی کا مال مفت نہیں لے سکتے۔ آخر اُس کی قیمت مقرر کی گئی اور آپ نے اس جگہ پر مسجد اور اپنے مکانات بنانے کا فیصلہ کیا۔۲۳۹؎
حضرت ابو ایوبؓ انصاری کے مکان پر قیام
اِس کے بعد آپ نے فرمایا سب سے قریب گھر کس کا
ہے؟ ابو ایوبؓ انصاری آگے بڑھے اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میرا گھر سب سے قریب ہے اور آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے۔ آپ نے فرمایا گھر جائو اور ہمارے لئے کوئی کمرہ تیار کرو۔ ابوایوبؓ کا مکان دو منزلہ تھا اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اُوپر کی منزل تجویز کی مگر آپ نے اِس خیال سے کہ ملنے والوں کو تکلیف ہو گی نچلی منزل پسند فرمائی۔
انصار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے جو شدید محبت پیدا ہو گئی تھی، اُس کا مظاہرہ اِس موقع پر بھی ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر حضر ت ابوایوبؓ مان تو گئے کہ آپ نچلی منزل میں ٹھہریں، لیکن ساری رات میاں بیوی اس خیال سے جاگتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے نیچے سو رہے ہیں پھر وہ کس طرح اِس بے ادبی کے مرتکب ہو سکتے ہیں کہ وہ چھت کے اوپر سوئیں۔ رات کو ایک برتن پانی کا گر گیا تو اِس خیال سے کہ چھت کے نیچے پانی نہ ٹپک پڑے حضرت ایوبؓ نے دَوڑ کر اپنا لحاف اُس پانی پر ڈال کر پانی کی رطوبت کو خشک کیا۔ صبح کے وقت پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارے حالات عرض کئے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر جانا منظور فرما لیا۔ حضرت ابوایوبؓ روزانہ کھانا تیار کرتے اور آپ کے پاس بجھواتے پھر جو آپ کا بچا ہو اکھانا آتا وہ سارا گھر کھاتا۔ کچھ دنوں کے بعد اصرار کے ساتھ باقی انصار نے بھی مہمان نوازی میں اپنا حصہ طلب کیا اور جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے گھر کا انتظام نہ ہو گیا باری باری مدینہ کے مسلمان آپ کے گھر میں کھانا پہنچاتے رہے۔۲۴۰؎
حضرت اَنسؓ خادم آنحضرت ﷺکی شہادت
مدینہ کی ایک بیوہ عورت کا ایک ہی لڑکا اَنسؓ نامی
تھا۔ اُس کی عمر آٹھ سال تھی وہ اُسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائیں اور کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میرے اِس لڑکے کو اپنی خدمت کے لئے قبول فرمائیں۔ وہ عورت اپنی محبت کی وجہ سے اپنے لڑکے کو قربانی کے لئے پیش کر رہی تھی لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ اُس کا لڑکا قربانی کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کی زندگی کے لئے قبول کیا گیا۔
اَنسؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اِسلام کے بہت بڑے عالم ہوئے اور آہستہ آہستہ بہت بڑے مالدار ہو گئے۔ اُنہوں نے ایک سَوسال سے زیادہ عمر پائی اور اِسلامی بادشاہت میں بہت عزت کی نگاہ کے ساتھ دیکھے جاتے تھے۔ اَنسؓ کا بیان ہے کہ میں نے چھوٹی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل کیا اور آپ کی زندگی تک آپ کے ساتھ رہا کبھی آپ نے مجھ سے سختی کے ساتھ بات نہیں کی، کبھی جھڑکی نہیں دی، کبھی کسی ایسے کام کیلئے نہیں کہا جو میری طاقت سے باہر ہو۔۲۴۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامِ مدینہ کے ایام میں صرف اَنسؓ سے خدمت لینے کا موقع ملا اور اَنسؓ کی شہادت اِس بارہ میں آپ کے اخلاق پر نہایت تیز روشنی ڈالنے والی ہے۔
مکہ سے اہل وعیال کو بُلوانا مسجد نبوی کی بنیاد رکھنا
کچھ عرصہ کے بعد آپ نے اپنے آزاد کردہ
غلام زیدؓ کو مکہ میںبھجوایا کہ وہ آپ کے اہل وعیال کو لے آئے۔ چونکہ مکہ والے اِس اچانک ہجرت کی وجہ سے کچھ گھبراگئے تھے اِس لئے کچھ عرصہ تک مظالم کا سلسلہ بند رہا اور اسی گھبراہٹ کی وجہ سے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے خاندان کے مکہ چھوڑنے میں مزاحم نہیں ہوئے اور یہ لوگ خیریت سے مدینہ پہنچ گئے۔ اِس عرصہ میں جو زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدی تھی سب سے پہلے وہاں آپ نے مسجد کی بنیاد رکھی۲۴۲؎ اور اس کے بعد اپنے لئے اور اپنے ساتھیوں کے لئے مکان بنوائے جس پر کوئی سات مہینے کا عرصہ لگا۔
مدینہ کے مشرک قبائل کا اِسلام میں داخل ہونا
مدینہ میں آپ کے داخلہ کے بعد چندہی دن میں
مدینہ کے مشرک قبائل میں سے اکثر لوگ مسلمان ہو گئے، جو دل سے مسلمان نہ ہوئے تھے وہ ظاہری طور پر مسلمانوں میں شامل ہوگئے اور اس طرح پہلی دفعہ مسلمانوں میں منافقوں کی ایک جماعت قائم ہوئی جو بعد کے زمانہ میں کچھ تو سچے طور پر ایمان لے آئی اور کچھ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف منصوبے اور سازشیں کرتی رہی۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ظاہر میں بھی اِسلام نہ لائے مگر یہ لوگ مدینہ میں اِسلام کی شوکت کو برداشت نہ کر سکے اور مدینہ سے ہجرت کر کے مکہ چلے گئے۔ اس طرح مدینہ دنیا کا پہلا شہرتھا جس میں خالصتہً خدائے واحد کی عبادت قائم کی گئی۔ یقینا اُس وقت دنیا کے پردہ پر اس شہر کے سوا اور کوئی شہریا گائوں خالصتہً خدائے واحد کی عبادت کرنے والا نہیں تھا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ کتنی بڑی خوشی اور اُن کے ساتھیوں کی نگاہوں میں یہ کتنی عظیم الشان کامیابی تھی کہ مکہ سے ہجرت کرنے کے چند دنوں بعد ہی خد اتعالیٰ نے اُن کے ذریعہ سے ایک شہر کو پورے طور پر خدائے قادر کا پرستار بنا دیا جس میں اور کسی بت کی پوجا نہیں کی جاتی تھی، نہ ظاہری بت کی نہ باطنی بت کی لیکن اس تبدیلی سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ مسلمانوں کے لئے اب امن آگیا تھا۔ مدینہ میں عربوں میںسے بھی ایک جماعت منافقوں کی ایسی موجود تھی جو آپ کی جان کی دشمن تھی اور یہود بھی ریشہ دوانیاں کر رہے تھے۔ چنانچہ اِس خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے آپ خود بھی چوکس رہتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو بھی چوکس رہنے کی تاکید کرتے تھے۔ شروع میں بعض دن ایسے بھی آئے کہ آ پ کو رات بھر جاگنا پڑا۔ ایک دفعہ ایسی ہی حالت میں جب آپ کو جاگتے رہنے سے تھکان محسوس ہوئی تو آپ نے فرمایا اِس وقت کوئی مخلص آدمی پہرہ دیتا تو میں سو جاتا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی آپ نے پوچھا کون ہے؟ تو آواز آئی یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں سعد بن وقاص ہوں جو آپ کا پہرہ دینے کے لئے آیا ہوں۔۲۴۳؎ اِس پر آپ نے آرام فرمایا۔ انصار کو خود بھی یہ محسوس ہو رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ کی رہائش ہم پر بہت بڑی ذمہ واری ڈالتی ہے اور یہ کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دشمنوں کے حملوں سے محفوظ نہیں چنانچہ انہوںنے باہمی فیصلہ کر کے مختلف قبائل کی باریاں مقرر کر دیں۔ ہر قبیلہ کے کچھ لوگ باری باری آپ کے گھر کا پہرہ دیتے تھے۔
غرض مکی زندگی اور مدنی زندگی میں اگر کوئی فرق تھا تو صرف یہ کہ اب مسلمان خدا کے نام پر قائم کی ہوئی مسجد میں بغیر دوسرے لوگوں کی دخل اندازی کے پانچوں وقت نمازیں پڑھ سکتے تھے۔
مکہ والوں کی مسلمانوں کو دوبارہ دُکھ دینے کی تدبیریں
دو تین مہینے گزرنے کے بعد مکہ کے لوگوں کی پریشانی دُور ہوئی اور اُنہوں نے نئے سرے سے مسلمانوں کو دکھ دینے کی تدابیر سوچنی شروع
کیں۔ مگر مشورہ کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ صرف مکہ اور گرد و نواح میں مسلمانوں کو تکلیف دینا اُنہیں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں کر سکتا۔ وہ اِسلام کو تبھی مٹا سکتے ہیں جب مدینہ سے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکلوا دیں۔چنانچہ یہ مشورہ کرکے مکہ کے لوگوں نے عبداللہ ابن ابی بن سلول کے نام جس کی نسبت پہلے بتایا جا چکا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے مدینہ والوں نے اُسے اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا خط لکھا اور اسے توجہ دلائی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ جانے کی وجہ سے مکہ کے لوگوں کو بہت صدمہ ہوا ہے۔ مدینہ کے لوگوں کو چاہئے نہیں تھا کہ وہ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو پناہ دیتے۔ اِس کے آخر میں یہ الفاظ تھے’’ اِنَّکُمْ اٰوَیْتُمْ صَاحِبَنَا وَاِنَّا نُقْسِمُ بِاللّٰہِ لَتُقَاتِلَنَّہٗ اَوْتُخْرِجَنَّہٗ اَوْلَنُسَیِّرَنَّ اِلَیْکُمْ بِاَجْمَعِنَا حَتّٰی نَقْتُلَ مُقَاتِلَتَکُمْ وَنَسْتَبِیْحَ نِسَائَ کُمْ۔‘‘ ۲۴۴؎ یعنی اب جبکہ تم لوگوں نے ہمارے آدمی( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنے گھروں میں پناہ دی ہے ہم خد اتعالیٰ کی قسم کھا کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ یاتو تم مدینہ کے لوگ اس کے ساتھ لڑائی کر و یا اُسے اپنے شہر سے نکال دو نہیں تو ہم سب کے سب مل کر مدینہ پر حملہ کریں گے اور مدینہ کے تمام قابل جنگ آدمیوں کو قتل کر دیںگے اورعورتوں کو لونڈیاں بنا لیں گے۔ اِس خط کے ملنے پر عبداللہ ابن ابی بن سلول کی نیت کچھ خراب ہو ئی اور اُس نے دوسرے منافقوں سے مشورہ کیا کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے یہاںر ہنے دیا تو ہمارے لئے خطرات کا دروازہ کھل جائے گا اِس لئے چاہئے کہ ہم آپ کے ساتھ لڑائی کریں اور مکہ والوں کو خوش کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع مل گئی اور آپ عبداللہ ابن ابی بن سلول کے پاس گئے اور اُسے سمجھایا کہ تمہارا یہ فعل خود تمہارے لئے ہی مضر ہو گا۔ کیونکہ تم جانتے ہو کہ مدینہ کے بہت سے لوگ مسلمان ہو چکے ہیں اور اِسلام کے لئے جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں اگر تم ایساکرو گے تو وہ لوگ یقینا مہاجرین کے ساتھ ہوں گے اور تم لوگ اِس لڑائی کو شروع کر کے بالکل تباہ ہو جائو گے۔ عبداللہ ابن ابی بن سلول پر اپنی غلطی کھل گئی اور وہ اِس ارادہ سے باز آگیا۔
انصار و مہاجرین میں مؤاخات
اِنہی ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور تدبیر اِسلام کی مضبوطی کے لئے اختیار
کی اور وہ یہ کہ آپ نے تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور دو دو آدمیوں کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا۔اِس مؤاخات یعنی بھائی چارے کا انصار نے ایسی خوشدلی سے استقبال کیا کہ ہر انصاری اپنے بھائی کو اپنے گھر پر لے گیا اور اپنی جائیداد اُس کے سامنے پیش کردی کہ اُسے نصف نصف بانٹ لیا جائے۔ ایک انصاری نے تو یہاں تک حد کر دی کہ اپنے مہاجر بھائی سے اصرار کیا کہ میں اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں تم اُس سے شادی کر لو۔۲۴۵؎ مگر مہاجرین نے اُ ن کے اِس اخلاص کا شکریہ ادا کر کے اُن کی جائیدادوں میں سے حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ مگر پھر بھی انصار مصر رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! جب یہ مہاجرین ہمارے بھائی ہو گئے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہمارے مال میں حصہ دار نہ ہوں۔ ہاں چونکہ یہ زمیندارہ سے واقف نہیں اور تاجر پیشہ لوگ ہیں اگر یہ ہماری زمینوں سے حصہ نہیں لیتے تو پھر ہماری زمینوں کی جو آمدنیاں ہوں اِس میں ضرور ان کو حصہ دار بنایا جائے۔ مہاجرین نے اِس پر بھی اُن کے ساتھ حصہ دار بننا پسند نہ کیا اور اپنے آبائی پیشہ تجارت میں لگ گئے اور تھوڑے ہی دنوں میں اُ ن میں سے کئی مالدار ہو گئے۔ مگر انصار اِس حصہ بٹانے پر اتنے مصر تھے کہ بعض انصار جو فوت ہوئے اُن کی اولادوں نے عرب کے دستور کے مطابق اپنے مہاجر بھائیوں کو مرنے والے کی جائیداد میں سے حصہ دیا اور کئی سال تک اس پر عمل ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ قرآن کریم میں اِس عمل کی منسوخی کا ارشاد نازل ہوا۔
مہاجرین و انصار اور یہود کے مابین معاہدہ
علاوہ مسلمانوں کو بھائی بھائی بنانے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اہل مدینہ کے درمیان ایک معاہدہ کرایا۔ آپ نے یہودیوں اور عربوں کے سرداروں کو جمع کیا اور فرمایا۔
پہلے یہاں صرف دو گروہ تھے مگر اب تین گروہ ہو گئے ہیں۔ یعنی پہلے تو صرف یہود اور مدینہ کے عرب یہاں بستے تھے مگر اب یہود، مدینہ کے عرب اور مکہ کے مہاجر تین گروہ ہو گئے ہیں۔ اِس لئے چاہئے کہ آپس میںایک صلح نامہ قائم ہوجائے۔ چنانچہ آپس کے سمجھوتے کے ساتھ ایک معاہدہ لکھا گیا اس معاہدہ کے الفاظ یہ ہیں:۔
’’ معاہدہ مابین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،مؤمنوں اور اُن تمام لوگوں کے جو اُن سے بخوشی مل جائیں۔
مہاجرین سے اگر کوئی قتل ہو جائے تو وہ اُس کے خون کا ذمہ دار خود ہوں گے اور اپنے قیدیوں کو خود چھڑائیں گے اورمدینہ کے مختلف مسلمان قبائل بھی اسی طرح اِن امور میں اپنے قبائل کے ذمہ دار ہوں گے۔ جو شخص بغاوت پھیلائے یا دشمنی پیدا کرے اور نظام میں تفرقہ ڈالے تمام معاہدین اُس کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے۔ خواہ وہ اُن کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی کافر مسلمان کے ہاتھ سے لڑائی میں مارا جائے تو اُس کے مسلمان رشتہ دار مسلمان سے بدلہ نہیں لیں گے اور نہ کسی مسلمان کے مقابلہ میں ایسے کافر کی مدد کریں گے۔ جو کوئی یہودی ہمارے ساتھ مل جائے اس کی ہم سب مدد کریں گے۔ یہودیوں کو کسی قسم کی تکلیف نہیں دی جائے گی نہ کسی دشمن کی اُن کے خلاف مدد کی جائے گی۔ کوئی غیر مؤمن مکہ کے لوگوں کو اپنے گھر میں پناہ نہیں دے گا نہ اُن کی جائداد اپنے پاس امانت رکھے گا اورنہ کافروں اور مؤمنوں کی لڑائی میں کسی قسم کی دخل اندازی کرے گا۔ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو ناجائز طور پر مار دے تو تمام مسلمان اُس کے خلاف متحدہ کوشش کریں گے۔ اگر ایک مشرک دشمن مدینہ پر حملہ کرے تو یہودی مسلمانوں کا ساتھ دیں گے اور بحصۂ رسدی خرچ برداشت کریں گے۔ یہودی قبائل جو مدینہ کے مختلف قبائل کے ساتھ معاہدہ کر چکے ہیں اُن کے حقوق مسلمانوں کے سے حقوق ہوں گے۔ یہودی اپنے مذہب پر قائم رہیں گے اور مسلمان اپنے مذہب پر قائم رہیںگے۔ جو حقوق یہودیوں کو ملیں گے وہی ان کے اتباع کو بھی ملیں گے۔ مدینہ کے لوگوں میں سے کوئی شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی لڑائی شروع نہیں کرسکے گا لیکن اِس شرط کے ماتحت کوئی شخص اُس کے جائز انتقام سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ یہودی اپنی تنظیم میں سے اپنے اخراجات خود برداشت کریں گے اور مسلمان اپنے اخراجات خود برداشت کریں گے لیکن لڑائی کی صورت میں وہ دونوں مل کر کام کریںگے۔ مدینہ اُن تمام لوگوں کے لئے جو اس معاہدہ میں شامل ہوتے ہیں ایک محترم جگہ ہوگی۔ جو اجنبی کہ شہر کے لوگوں کی حمایت میں آجائیں اُن کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا جو اصل باشد گانِ شہر کے ساتھ ہوگا۔ لیکن مدینہ کے لوگو ںکو یہ اجازت نہ ہو گی کہ کسی عورت کو اُس کے رشتہ داروں کی مرضی کے بغیر اپنے گھروں میں رکھیں۔ جھگڑے اور فساد خدا اور اُس کے رسول کے پاس فیصلہ کے لئے پیش کئے جائیں گے۔ مکہ والوں اور اُن کے حلیف قبائل کے ساتھ اِس معاہدہ میں شامل ہونے والے کوئی معاہدہ نہیں کریں گے، کیونکہ اِس معاہدہ میں شامل ہونے والے مدینہ کے دشمنوں کے خلاف اِس معاہدہ کے ذریعہ سے اتفاق کر چکے ہیں۔ جس طرح جنگ علیحدہ نہیں کی جاسکے گی اِسی طرح صلح بھی علیحدہ نہیں کی جا سکے گی۔ لیکن کسی کو مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ لڑائی میں شامل ہو۔ ہاں اگر کوئی شخص ظلم کا کوئی فعل کرے گا تو وہ سزا کا مستحق ہو گا۔ یقینا خدا نیکوں اور دینداروں کا محافظ ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) خد ا کے رسول ہیں‘‘۔۲۴۶؎
یہ معاہدہ کا خلاصہ ہے۔ اِس معاہدہ میں بار بار اِس بات پر زور دیا گیا تھا کہ دیانتداری اور صفائی کوہاتھ سے نہیں چھوڑا جائے گا اور ظالم اپنے ظلم کا خود ذمہ دار ہو گا۔ اِس معاہدہ سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ یہودیوں کے ساتھ اور مدینہ کے اُن باشندوں کے ساتھ جو اِسلام میں شامل نہ ہوں محبت، پیار اور ہمدردی کا سلوک کیا جائے گا اور انہیں بھائیوں کی طرح رکھا جائے گا۔ پس بعد میں یہود کے ساتھ جس قدر جھگڑے پید اہوئے اُن کی ذمہ داری خالصۃً یہود پر تھی۔
اہل مکہ کی طرف سے از سر نو شرارتوں کا آغاز
جیساکہ بتایا جاچکا ہے کہ دو تین مہینہ کے بعد
مکہ والوں کی پریشانی جب دور ہوئی تو اُنہوںنے پھر سے اِسلام کے خلاف ایک نیا محاذ قائم کیا۔ چنانچہ انہی ایام میں مدینہ کے ایک رئیس سعد بن معاذ جو اوس قبیلہ کے سردار تھے بیت اللہ کا طواف کرنے کے لئے مکہ گئے تو ابوجہل نے اُن کو دیکھ کر بڑے غصہ سے کہا کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ اُس مرتد ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو پناہ دینے کے بعد تم لوگ امن کے ساتھ کعبہ کا طواف کر سکو گے اور تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم اُس کی حفاظت اور امداد کی طاقت رکھتے ہو۔ خدا کی قسم! اگر اِس وقت تیرے ساتھ ابوصفوان نہ ہوتا تو تُو اپنے گھر والوں کے پاس بچ کر نہ جا سکتا۔سعد بن معاذ نے کہا۔ وَاللّٰہِ! اگر تم نے ہمیں کعبہ سے روکا تو یاد رکھو پھر تمہیں بھی تمہارے شامی راستہ پرامن نہیں مل سکے گا۔ اُنہی دنوں میں ولید بن مغیرہ مکہ کا ایک بہت بڑا رئیس بیمار ہوا اور اُس نے محسوس کیا کہ اُس کی موت قریب ہے۔ ایک دن مکہ کے بڑے بڑے رئیس اُس کے پاس بیٹھے تھے تو وہ بے اختیار ہو کر رونے لگ گیا۔ مکہ کے رئوساء حیران ہوئے اور اُس سے پوچھا کہ آخر آپ روتے کیوں ہیں؟ ولید نے کہا کیا تم سمجھتے ہو کہ میں موت کے ڈر سے روتا ہوں وَاللّٰہِ! ایسا ہر گز نہیں، مجھے تو یہ غم ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین پھیل جائے اور مکہ بھی اِس کے قبضہ میں چلا جائے۔ ابوسفیان نے جواب میں کہا۔ اِس بات کا غم نہ کرو جب تک ہم زندہ ہیں ایسا نہیں ہوگا ہم اِس بات کے ضامن ہیں ۔
اِن تمام واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ مکہ کے لوگوں کے مظالم میں جو وقفہ ہوا تھا وہ عارضی تھا۔ دوبارہ قوم کو اُکسایا جا ررہا تھا۔ مرنے والے رئوساء موت کے بستر پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی قسمیں لے رہے تھے۔ مدینہ کے لوگوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑائی پر آمادہ کیا جار ہا تھا اوراُن کے انکار پر دھمکیاں دی جار ہی تھیں کہ مکہ والے اور اُن کے حلیف قبائل لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کریں گے او رمدینہ کے مردوں کو ماردیں گے اورعورتوں کو غلام بنا لیں گے۔
آنحضرت ﷺ کی مدافعانہ تدابیر
پس اِن حالات میں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں خاموش بیٹھے رہتے
اور مدینہکی حفاظت کا کوئی سامان نہ کرتے تو یقینا آپ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عاید ہوتی۔ پس آپ نے چھوٹے چھوٹے وفدوں کی صورت میں اپنے صحابہ کو مکہ کے اِردگرد بجھوانا شروع کیا تاکہ مکہ والوں کی کارروائیوں کا آپ کو علم ہوتا رہے۔بعض دفعہ اِن لوگوں کی مکہ کے قافلوں یا مکہ کی بعض جماعتوں سے مٹھ بھیڑ بھی ہوجاتی اور ایک دوسرے کو دیکھ لینے کے بعد لڑائی تک بھی نوبت پہنچ جاتی۔ مسیحی مصنف لکھتے ہیں کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چھیڑ چھاڑ تھی۔ کیا مکہ میں تیرہ سال تک جو مسلمانوں پر ظلم کیا گیا اور مدینہ کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرنے کی جو کوشش کی گئی اور پھر مدینہ پر حملہ کرنے کی جو دھمکیاں دی گئیں، اِن واقعات کی موجودگی میں آپ کا خبردار رہنے کے لئے وفود بھجوانا کیا چھیڑ چھاڑ کہلا سکتا ہے؟ کونسا دنیا کا قانون ہے جو مکہ کے تیرہ سال کے مظالم کے بعد بھی مسلمانوں اور اہل مکہ میں لڑائی چھیڑنے کے لئے کسی مزید وجہ کی ضرورت سمجھتا ہو۔ آج مغربی ممالک اپنے آپ کو بہت ہی مہذب سمجھتے ہیں۔ جو کچھ مکہ میں ہوا کیا اُن سے نصف واقعات پر بھی کوئی قوم لڑے تو کوئی شخص اُسے مجرم قرار دے سکتا ہے؟ کیا اگر کوئی حکومت کسی دوسرے ملک کے لوگوں کو ایک جماعت کے قتل کرنے یا اپنے ملک سے نکال دینے پر مجبور کرے تو اُس جماعت کو حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اُس سے لڑائی کا اعلان کرے؟ پس مدینہ میں اِسلامی حکومت کے قیام کے بعد کسی نئی وجہ کے پیدا ہونے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مکی زندگی کے واقعات مسلمانوں کو پورا حق دیتے تھے کہ وہ مکہ والوں سے جنگ کا اعلان کر دیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔ اُنہوں نے صبر کیا اور صرف دشمنوں کی شرارتوں کا پتہ لگاتے رہنے کی حد تک اپنی کوششیں محدود رکھیں۔ مگر جب مکہ والوں نے خود مدینہ کے عربوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا، مسلمانوں کو حج کرنے سے روک دیا اور اُن کے ان قافلے نے جو شام میں تجارت کے لئے جاتے تھے انہوں نے اپنے اصل راستے کو چھوڑ کر مدینہ کے اِردگرد کے قبائل میں سے ہو کر گزرنا اور ان کو مدینہ والوں کے خلاف اُکسانا شروع کیا تو مدینہ کی حفاظت کے لئے مسلمانوں کا بھی فرض تھا کہ وہ اس لڑائی کے چیلنج کو جو مکہ والے متواتر چودہ سال سے انہیں دے رہے تھے قبول لیتے اور دنیا کے کسی شخص کو حق حاصل نہیں کہ وہ چیلنج کے قبول کرنے پر اعتراض کرے۔
مدینہ میں اِسلامی حکومت کی بنیاد
جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیرونی حالات کی خبرگیری کر رہے تھے وہاں آپ مدینہ
کی اصلاح سے بھی غافل نہیں تھے۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ مدینہ کے مشرک اکثر اخلاص کے ساتھ اور بعض منافقت کے ساتھ مسلمان ہو چکے تھے اِس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسلامی طریق حکومت کو اُن میں قائم کرنا شروع کیا۔ پہلے عرب کے دستور کے مطابق لوگ لڑ بھڑ کر اپنے حقوق کا فیصلہ کرلیا کرتے تھے۔ اب باقاعدہ قاضی مقرر کئے گئے جن کے فیصلہ کے بغیر کوئی شخص اپنا حق دوسرے سے حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ پہلے مدینہ کے لوگوں کو علم کی طرف توجہ نہیں تھی اب اِس بات کا انتظام کیا گیا کہ پڑھے لکھے لوگ اَن پڑھوں کو پڑھانا شروع کریں۔ ظلم، تعدی اور بے انصافی روک دی گئی۔ عورتوں کے حقوق کو قائم کیا گیا۔ شریعت کے مطابق تمام مالداروں پر ٹیکس مقرر کئے گئے جو غرباء پر خرچ کئے جاتے تھے اور شہر کی عام حالت کی ترقی کے لئے بھی استعمال کئے جاتے تھے۔ مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کی گئی۔ لاوارثوں کے لئے باقاعدہ تعلیموں کا انتظام کیا گیا۔ لین دین میں تحریر اور معاہدہ کی پابندیاں مقرر کی گئیں۔ غلاموں پر سختی کو سختی سے روکا جانے لگا۔ صفائی اور حفظانِ صحت کے اصول پر زور دیا جانے لگا۔ مردم شماری کی ابتدا کی گئی۔ گلیوں اور سڑکوں کے چوڑا کرنے کے احکام جاری کئے گئے۔ سڑکوں کی صفائی کے متعلق احکام جاری کئے گئے۔ غرض عائلی اور شہری زندگی کے تمام اصول مدوّن کئے گئے اوراُن کو باقاعدگی سے جاری کرنے کے لئے تدابیر اختیار کی گئیں اور عرب پہلی دفعہ منظم اور مہذب سوسائٹی کے اصول سے روشناس ہوئے۔
اِدھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے لئے ایک ایسا قانون پیش کر رہے تھے جو نہ صرف اُس زمانہ کے لئے بلکہ ہمیشہ کیلئے اور نہ صرف اُن کے لئے بلکہ دنیا کی دوسری اقوام کیلئے بھی عزت، شرف، امن اور ترقی کا موجب تھا۔ اُدھر مکہ کے لوگ اِسلام کے خلاف باقاعدہ جنگ کی تیاریاں کرنے میں مشغول تھے جس کا نتیجہ بدر کی جنگ کی صورت میں ظاہر ہوا۔
قریش کے تجارتی قافلہ کی آمد اور غزوہ بدر
ہجرت کے تیرھویں مہینے میںشام سے ایک تجارتی قافلہ ابو سفیان کی سرگردگی میں آ رہا تھا کہ اُس کی حفاظت کے بہانہ سے مکہ والوں نے ایک زبردست لشکر مدینہ کی طرف
لے جانے کا فیصلہ کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اِس کی اطلاع مل گئی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ پر وحی ہوئی۔ اب وقت آگیا ہے کہ دشمن کے ظلم کا اُس کے اپنے ہتھیار کے ساتھ جواب دیا جائے۔ چنانچہ آپ مدینہ کے چند ساتھیوں کو لے کر نکلے۔ جب آپ مدینہ سے نکلے ہیں اُس وقت تک یہ ظاہر نہ تھا کہ آیا مقابلہ قافلہ والوں سے ہو گا یا اصل لشکر سے، اِس لئے تین سَو آدمی آپؐ کے ساتھ مدینہ سے نکلے۔
یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قافلہ سے مراد مال سے لدے ہوئے اُونٹ تھے بلکہ مکہ والے اِن قافلوں کے ساتھ ایک مضبوط فوجی جتھہ بھجوایا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ اِن قافلوں کے ذریعہ سے مسلمانوں کو مرعوب بھی کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اِس قافلہ سے پہلے دو قافلوں کا ذکر تاریخ میں آتا ہے کہ اُن میں سے ایک کی حفاظت پر دو سَو سپاہی مقرر تھا اور دوسرے کی حفاظت پر تین سَو سپاہی مقررتھا۔ پس اِن حالات میں مسیحی مصنفوں کا یہ لکھنا کہ تین سَو سپاہی لے کر آپ مکہ کے ایک نہتے قافلہ کو لوٹنے کے لئے نکلے تھے محض دھوکا دہی کے لئے ہے۔ یہ قافلہ چونکہ بہت بڑا تھا اِس لئے پہلے قافلوں کے حفاظتی دستوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا چاہئے کہ اُس کے ساتھ چار پانچ سَو سوار ضرور موجود ہو گا۔ اتنے بڑے حفاظتی دستہ کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے اگر اِسلامی لشکر جو صرف تین سَو آدمیوں پر مشتمل تھا اور جن کے پاس پورا سازو سامان بھی نہ تھا نکلا تو اُسے لوٹ کا نام دینا محض تعصب، ضد اور بے انصافی ہی کہلا سکتا ہے۔ اگر صرف اس قافلہ کا سوال ہوتاتب بھی اُس سے لڑائی جنگ ہی کہلاتی اور جنگ بھی مدافعانہ جنگ کیونکہ مدینہ کا لشکر کمزور تھا اور صرف اِسی فتنہ کو دور کرنے کے لئے نکلا تھا جس کی اِردگرد کے قبائل کو شرارت پر اُکسا کر مکہ کے قافلے بنیاد رکھ رہے تھے۔ مگر جیساکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ الٰہی منشاء بھی تھا کہ قافلہ سے نہیں بلکہ اصل مکی لشکر سے مقابلہ ہو اور صرف مسلمانوں کے اخلاص اور اُن کے ایمان کو ظاہر کرنے کے لئے پہلے سے اِس امر کا اظہار نہ کیا گیا۔ جب مسلمان بغیر پوری تیاری کے مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے تو کچھ دور جا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ پر ظاہر کیا کہ الٰہی منشاء یہی ہے کہ مکہ کے اصل لشکر سے مقابلہ ہو۔ لشکر کے متعلق مکہ سے جو خبریں آچکی تھیں اُن سے معلوم ہوتا تھا کہ لشکر کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے اور پھر وہ سب کے سب تجربہ کار سپاہی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آنے والے لوگ صرف ۳۱۳ تھے اور اُن میں سے بھی بہت سے ایسے تھے جو لڑائی کے فن سے ناواقف تھے۔ پھر سامانِ جنگ بھی اُن کے پاس پورا نہ تھا۔ اکثر یا توپیدل تھے یا اُونٹوں پرسوار تھے۔ گھوڑا صرف ایک تھا۔ اِس چھوٹے سے لشکر کے ساتھ جو بے سروسامان بھی تھا ایک تجربہ کار دشمن کا مقابلہ جو تعداد میں اُن سے تگنے سے بھی زیادہ تھا نہایت ہی خطرناک بات تھی اس لئے آپ نے نہ چاہا کہ کوئی شخص اُس کی مرضی کے خلاف جنگ پر مجبور کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ اب قافلہ کا کوئی سوال نہیں صرف فوج ہی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ وہ اِس بارہ میں آپ کو مشورہ دیں۔ ایک کے بعد دوسرامہاجر کھڑا ہوا اور اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اگر دشمن ہمارے گھروں پر چڑھ کر آیا ہے تو ہم اُس سے ڈرتے نہیں ہم اُس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ہر ایک کا جواب سن کر آپ یہی فرماتے چلے جاتے مجھے اور مشورہ دو مجھے اور مشورہ دو۔ مدینہ کے لوگ اُس وقت تک خاموش تھے اِس لئے کہ حملہ آورفوج مہاجرین کی رشتہ دار تھی۔ وہ ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ اُن کی بات سے مہاجرین کا دل دُکھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری سردار کھڑے ہوئے اور عرض کیا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ!مشورہ توآپ کومل رہا ہے مگر پھر بھی جو آپ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپ کی مراد ہم باشندگانِ مدینہ سے ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں! اُس سردار نے جواب میں کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب کر رہے ہیں کہ آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہمارے اور آپ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں آپ پر اور مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے لیکن اب اِس وقت آپ مدینہ سے باہر تشریف لے آئے ہیں اور شاید وہ معاہدہ اِن حالات کے ماتحت قائم نہیں رہتا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! جس وقت وہ معاہدہ ہوا تھا اُس وقت تک ہم پر آپ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہیں ہوئی تھی لیکن اب جبکہ ہم پر آپ کا مرتبہ اور آپ کی شان پورے طور پر ظاہر ہو چکی ہے یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اب اُس معاہدہ کا کوئی سوال نہیں۔ ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح آپ سے یہ نہیں کہیں گے اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَاِنَّا ھٰھُنَاقَا عِدُوْنَتو اور تیرا ربّ جائو اور دشمن سے جنگ کرتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں، بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اوربائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اوریَا رَسُوْلَ اللّٰہ! دشمن جو آپ کو نقصان پہنچانے کیلئے آیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں پر سے گزرتا ہوا نہ جائے۔۲۴۷؎ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!جنگ تو ایک معمولی بات ہے، یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمندر ہے آپ ہمیں حکم دیجئے کہ سمند رمیں اپنے گھوڑے ڈال دو اورہم بِلا دریغ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے۔ ۲۴۸؎
یہ وہ فدائیت اور اخلاص کا نمونہ تھا جس کی مثال کوئی سابق نبی پیش نہیں کر سکتا۔ موسیٰ کے ساتھیوں کا حوالہ تو اُن لوگوں نے خود ہی دے دیا تھا حضرت مسیح کے حواریوں نے دشمن کے مقابلہ میں جو نمونہ دکھایا انجیل اِس پر گواہ ہے۔ ایک نے تو چند روپوں پر اپنے اُستاد کو بیچ دیا۔ دوسرے نے اُس پر *** کی اور باقی دس اُ س کو چھوڑ کر اِدھر سے اُدھر بھاگ گئے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ساتھی صرف ڈیڑھ سال کی صحبت کے بعد ایمان میں اتنے پختہ ہو گئے کہ وہ اُن کے کہنے پر سمندر میں کودنے کے لئے بھی تیار تھے۔
یہ مشورہ محض اِس غرض سے تھا تاکہ جو لوگ ایمان کے کمزور ہوں اُن کو واپس جانے کی اجازت دے دی جائے لیکن جب مہاجرین و انصار نے ایک دوسرے سے بڑھ کر اخلاص اور ایمان کا نمونہ دکھایا اور دونوں فریق نے اِ س بات پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ خد اکے وعدوں کے باوجود تعداد میں دشمن سے ایک تہائی ہونے کے اور باوجود سامانوں کے لحاظ سے دشمنوں سے کئی گنا کم ہونے کے بے غیرتی دکھاتے ہوئے جنگ سے پیٹھ نہیں دکھائیں گے بلکہ خد اتعالیٰ کے دین کی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدانِ جنگ میں خوشی سے جان دے دیں گے۔ تو آپ آگے بڑھے۔ جب آپ بدر کے مقام پر پہنچے تو ایک صحابی کے مشورہ سے دشمن کے قریب جا کر بدر کے چشمہ پر اِسلامی لشکر اُتار دیا گیا۔ لیکن اِس طرح گو پانی پر تو قبضہ ہو گیا مگر وہ میدان جو مسلمانوں کے حصہ میں آیا بوجہ ریتلا ہونے کے جنگی حرکات کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہوا اور صحابہ گھبرا گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات دعا کرتے رہے اور بار بار خدا تعالیٰ سے یہ عرض کرتے تھے کہ اے میرے ربّ!ساری دنیا کے پردہ پر صرف یہی لوگ تیری عبادت کرنے والے ہیں۔ اے میرے رب! اگر یہ لوگ آج اِس لڑائی میں مارے گئے تو تیرا نام لینے والا اس دنیا میں کون باقی رہے گا۔۲۴۹؎
اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعائوں کو سنا اور رات کو بارش ہو گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس میدان میں وہ مسلمان تھے بوجہ ریتلا ہونے کے بارش کی وجہ سے جم گیا اور وہ میدان جو کفّار کے قبضہ میں تھا بوجہ چکنی مٹی کا ہونے کے بارش کی وجہ سے نہایت پھسلواں ہو گیا۔ شاید کفّارِ مکہ نے باوجود اُس میدان میں مسلمانوں سے پہلے پہنچ جانے کے اِس لئے اُس میدان کو چنا تھا کہ پختہ مٹی کی وجہ سے اُس میں جنگی حرکات بڑی آسانی کے ساتھ ہو سکتی تھیں اور سامنے کا ریتلا میدان اِس لئے چھوڑ دیا تھا کہ مسلمان وہاں ڈیرہ لگائیں گے اورجنگی حرکات کرتے وقت اُن کے پائوں ریت میں دھنس دھنس جائیں گے مگر خدا تعالیٰ نے راتوں رات پانسہ پلٹ دیا۔ ریتلا میدان ایک جما ہوا پختہ میدان ہو گیا اور پختہ میدان پھسلویں زمین بن گیا۔ رات کو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دی اور بتایا کہ تمہارے فلاں فلاں دشمن مارے جائیں گے اور فلاں فلاں جگہ پر مارے جائیں گے۔ چنانچہ جنگ میں ایسا ہی ہوا اور وہ دشمن اُن ہی جگہوں پر جو آپ نے بتائی تھیں مارے گئے۔ جب فوج ایک دوسرے کے مقابلہ میں صف آراء ہوئی اُس وقت جو اخلاص کا نمونہ صحابہؓ نے دکھایا اُس پر مندرجہ ذیل مثال سے خوب روشنی پڑتی ہے۔
اِسلامی لشکر میں جو چند تجربہ کار جرنیل تھے، اُن میں سے ایک حضرت عبدالرحمن بن عوف بھی تھے جو مکہ کے سرداروں میں سے تھے۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ آج مجھ پر بہت سی ذمہ داری عاید ہوتی ہے اور اس خیال سے میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے دائیں بائیں مدینہ کے دو نوجوان لڑکے ہیں تب میرا دل سینہ میں بیٹھ گیا اور میں نے کہا بہادر جرنیل لڑنے کے لئے اِس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ اُس کا دایاں اور بایاں پہلو مضبوط ہو، تاکہ وہ دشمن کی صفوں میں دلیری سے گھس سکے، لیکن میرے گرد مدینہ کے ناتجربہ کار لڑکے ہیں میں آج اپنے فن کا مظاہرہ کس طرح کر سکوں گا۔ ابھی یہ خیال میرے دل میں گزرا ہی تھا کہ میرے ایک پہلو میں کھڑے ہوئے لڑکے نے میری پسلی میں کہنی ماری۔ جب میں اس کی طرف متوجہ ہوا تو اُس نے میرے کان میں کہا چچا! ہم نے سنا ہے کہ ابوجہل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبہت دُکھ دیا کرتا تھا، چچا! میرا دل چاہتا ہے کہ میں آج اُس کے ساتھ مقابلہ کروں آپ مجھے بتائیں وہ کون ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ابھی میں جواب دینے نہیں پایا تھا کہ میرے دوسرے پہلو میں دوسرے ساتھی نے کہنی ماری اور جب میں اُس کی طرف متوجہ ہوا تو اُس نے بھی آہستہ سے وہی سوال مجھ سے کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اُن کی اِس دلیری پر حیران رہ گیاکیونکہ باوجود تجربہ کار سپاہی ہونے کے میںبھی یہ خیال نہیں کرتا تھا کہ لشکر کے کمانڈر پر اکیلا جا کر حملہ کر سکتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں میں نے اُن کے اِس سوال پر اُنگلی اُٹھائی اور کہا وہ شخص جو سر سے پیر تک مسلح ہے اور دشمن کی صفوں کے پیچھے کھڑا ہے اور جس کے آگے دو تجربہ کار جرنیل ننگی تلواریں لئے کھڑے ہیں وہی ابوجہل ہے۔وہ کہتے ہیں ابھی میری اُنگلی نیچے نہیں گری تھی کہ وہ دونوں لڑکے جس طرح عقاب چڑیا پر حملہ کرتا ہے اس طرح چیختے ہوئے کفّار کی صفوں میں گھس گئے۔ اُن کا یہ حملہ ایسا اچانک اور ایسا خلافِ توقع تھا کہ کسی شخص کی تلوار اُن کے خلاف نہ اُٹھ سکی اور وہ تیر کی سی تیزی کے ساتھ ابوجہل تک جا پہنچے۔ اُس کے پہرہ داروں نے اُن پر وار کئے، ایک کا وار خالی گیا اور دوسرے کے وار سے ایک نوجوان کا ہاتھ کٹ گیا۔ لیکن دونوں میں سے کسی نے کوئی پرواہ نہ کی اورصرف ابوجہل کی طرف متوجہ ہوئے اور اُس پر اِس زور سے جا کر حملہ کیا کہ وہ زمین پر گر گیا اور پھر اُنہوںنے اُسے نہایت شدید زخمی کر دیا۔۲۵۰؎ مگر بوجہ تلوار چلانے کا فن نہ جاننے کے اُسے قتل نہ کر سکے۔
اِس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ مظالم جو مکہ کے لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے رہے تھے وہ قریب سے دیکھنے والوں کو کتنے بھیانک نظر آتے تھے۔ اب بھی اِن مظالم کو تاریخ میں پڑھ کر ایک شریف آدمی کا دل دھڑکنے لگتا ہے اوررونگٹے کھڑے ہو جا تے ہیں۔ مگر مدینہ کے لوگ تو اُن لوگوں کے منہ سے ان مظالم کی داستانیں سنتے تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے وہ مظالم ہوتے دیکھے۔ ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس اور صلح جو یا نہ زندگی کو دیکھتے تھے دوسری طرف مکہ والوں کے انسانیت سوز مظالم کے واقعات سنتے تھے تو اُن کے دل اِس حسرت سے بھر جاتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنی صلح جوئی اور پُرعافیت مزاج کی وجہ سے ان لوگوں کا جواب نہیں دیا کاش! وہ ہمارے سامنے آجائیں تو ہم انہیں بتائیں کہ اگر اُن کے ظلموںکا جواب نہیں دیا گیا تو اِس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مسلمان کمزور تھے بلکہ اِس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کو خد اتعالیٰ کی طرف سے اُن کا جواب دینے کی اجازت نہیں تھی۔ مسلمانوں کے دلوں کی کیفیت کا اندازہ اِس سے بھی ہو سکتا ہے کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ابوجہل نے ایک بدوی سردار کو اِس بات کے لئے بھیجا کہ وہ اندازہ کرے کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے۔ جب وہ واپس لوٹا تو اُس نے بتایا کہ مسلمان تین سَوا تین سَو کے قریب ہوں گے۔ اِس پر ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا اب مسلمان ہم سے بچ کر کہاں جاتے ہیں۔ مگر اُس شخص نے کہا۔ا ے مکہ والو! میری نصیحت تم کو یہی ہے کہ تم اِن لوگوں سے نہ لڑو کیونکہ میں نے جتنے آدمی مسلمانوں کے دیکھے ہیں اُن کو دیکھ کر مجھ پر یہی اثر ہوا ہے کہ اُونٹوں پر آدمی سوار نہیں موتیں سوار ہیں۲۵۱؎ یعنی اُن میں سے ہر شخص مرنے کیلئے اِس میدان میں آیا ہے زندہ واپس جانے کے لئے نہیں آیا۔ اور جو شخص موت کو اپنے لئے آسان کر لیتا ہے اور موت سے ملنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اُس کا مقابلہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہوا کرتی۔
ایک عظیم الشان پیشگوئی کا پورا ہونا
جب جنگ شروع ہونے کا وقت آیا۔ رسول کریم ﷺاُس جگہ سے جہاں آپ
بیٹھ کر دعا کر رہے تھے باہر تشریف لائے اور فرمایاسَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔۲۵۲؎ دشمنوں کا لشکر شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر میدان چھوڑ جائے گا۔ یہ الفاظ جو آپ نے فرمائے یہ قرآن کریم کی ایک پیشگوئی تھی جو مکہ میں ہی اس جنگ کے متعلق قرآن کریم میں نازل ہوئی تھی۔ مکہ میں جب مسلمان کفّار کے ظلموں کا تختۂ مشق ہو رہے تھے اور اِدھر اُدھر ہجرت کر کے جا رہے تھے خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی یہ آیات نازل فرمائیں۲۵۳؎ یعنی اے مکہ والو! فرعون کی طرف بھی اِنذار کی باتیں آئی تھیں، لیکن اُنہوں نے ہماری تمام آیتوں کا انکار کیا پس ہم نے اُن کو اس طرح پکڑ لیا جیسے ایک طاقتور غالب ہستی پکڑا کرتی ہے۔ ( اے مکہ والو!) بتائو کیا تمہارے کفّار اُن (کفّار) سے اچھے ہیں یا تمہارے لئے پہلی کتابوں میں حفاظت کا کوئی وعدہ آچکا ہے؟ وہ کہتے ہیں ہم تو ایک بڑی طاقت ہیں جو دشمنوں سے ہارتی نہیں بلکہ دشمنوں سے بدلے لیا کرتی ہے ( وہ یہ باتیں کرتے رہیں) اُن کے جتھے عنقریب اکٹھے ہوں گے اور پھر اُنہیں شکست ملے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے، بلکہ اُن کی تباہی کی گھڑی کا خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے اور یہ تباہی کی گھڑی بڑی ہلاکت والی اور بڑی کڑوی ہو گی اُس دن مجرم پریشانی اور عذاب میں مبتلا ہوں گے اور اپنے مونہوں کے بل گھسیٹ کر اُن کو آگ کے گڑھوں میں ڈال دیا جائے گا اور کہا جائے گا اب پڑے عذاب چکھو۔
یہ آیتیں سورہ قمر کی ہیں اور سورہ قمر تمام اِسلامی رواتیوں کے مطابق مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ مسلمان علماء بھی اس سورۃ کو پانچویں سے دسویں سال بعد دعویٰ نبوت قرار دیتے ہیں۔ یعنی ہجرت سے کم سے کم تین سال پہلے یہ نازل ہوئی تھی بلکہ غالباً آٹھ سال پہلے۔ یورپین محقق بھی اِس کی تصدیق کرتے ہیں۔ چنانچہ نولڈ کے اس سورۃ کو دعویٰ نبوت کے پانچ سال بعد کی قرار دیتا ہے۔ ریورنڈ ویری لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک نولڈ کے نے اِس سورۃ کے نزول کا وقت کسی قدر پہلے قرار دے دیا ہے۔ وہ اپنا اندازہ یہ بتاتے ہیں کہ چھٹے یا ساتویں سال ہجرت سے پہلے یہ نازل ہوئی۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اُن کے نزدیک یہ سورۃ چھٹے یا ساتویں سال بعد دعویٔ نبوت کی ہے۔ بہرحال مسلمانوں کے دشمنوں نے بھی اِس سورۃ کو ہجرت سے کئی سال پہلے کا قرار دیا ہے۔ اُس زمانہ میں کس صفائی کے ساتھ اس جنگ کی خبر دی گئی تھی اور کفّار کا انجام بتا دیا گیا تھا اور پھر کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی جنگ شروع ہونے سے پہلے اِن آیات کو پڑھ کر مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ خدا کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے۔
غرض چونکہ وہ وقت آگیا تھا جس کی خبر یسعیاہ نبی نے قبل از وقت دے چھوڑی تھی ۲۵۴؎ اور جس کی خبر قرآن کریم نے دوبارہ جنگ شروع ہونے سے چھ یا آٹھ سال پہلے دی تھی اِس لئے باوجود اِس کے کہ مسلمان اِس جنگ کے لئے تیار نہ تھے اور باوجود اِس کے کہ کفّار کو بھی اُن کے بعض ساتھیوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ لڑائی نہیں کرنی چاہئے۔ لڑائی ہو گئی اور ۳۱۳ آدمی جن میں سے اکثر ناتجربہ کار اور سب ہی بے سامان تھے کفّار کے تجربہ کار لشکر کے مقابلہ میں جس کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی کھڑے ہو گئے۔ جنگ ہوئی اور چند ہی گھنٹوں کے اندر عرب کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔ یسعیاہ کی پیشگوئی کے مطابق قیدار کی حشمت جاتی رہی اور مکہ کی فوج کچھ لاشیں اور کچھ قیدی پیچھے چھوڑ کر سر پر پائوں رکھ کر مکہ کی طرف بھاگ پڑی۔ جو قیدی پکڑے گئے اُن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباسؓ بھی تھے جو ہمیشہ آپ کا ساتھ دیا کرتے تھے، اُنہیں مجبور کر کے مکہ والے اپنے ساتھ لڑائی کے لئے لے آئے تھے۔ اِسی طرح قیدیوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بیٹی کے خاوند ابوالعاص بھی تھے۔ مارے جانے والوں میں ابوجہل مکہ کی فوج کا کمانڈر اور اِسلام کا سب سے بڑا دشمن بھی شامل تھا۔
بدر کے قیدی
اِس فتح پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوش بھی تھے کہ وہ پیشگوئیاں جو متواتر چودہ سال سے آپ کے ذریعہ سے شائع کی جا رہی تھیں اور وہ پیشگوئیاں جو
پہلے انبیاء اِس دن کے متعلق کر چکے تھے پوری ہو گئیں، لیکن مکہ کے مخالفوں کاعبرتناک انجام بھی آپ کی نظروں کے سامنے تھا۔ آپ کی جگہ پر کوئی اور شخص ہوتا تو خوشی سے اُچھلتا اور کودتا لیکن جب آپ کے سامنے سے مکہ کے قیدی رسیوں میں بندھے ہوئے گزرے تو آپ اور آپ کے باوفا ساتھی ابوبکرؓ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے۔ اُس وقت حضرت عمرؓ جو بعد میں آپ کے دوسرے خلیفہ ہوئے سامنے سے آئے تو اُنہیں حیرت ہوئی کہ اِس فتح اور خوشی کے وقت میں آپ کیوں رو رہے ہیں اورانہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! مجھے بھی بتائیے کہ اِس وقت رونے کا کیا باعث ہے؟ اگر وہ بات میرے لئے بھی رونے کاموجب ہے تو میں بھی روئوں گا، نہیں تو کم سے کم میں آپ کے غم میں شریک ہونے کے لئے رونی صورت ہی بنا لوں گا۔ آپ نے فرمایا دیکھتے نہیں خد ا تعالیٰ کی نافرمانی سے آج مکہ والوں کی کیا حالت ہو رہی ہے۔۲۵۵؎
آپ کے انصاف اور آپ کی عدالت کا جس کی خبر یسعیاہ نے بار بار اپنی پیشگوئیوں میں دی ہے اِس موقع پر ایک لطیف ثبوت ملا۔ مدینہ کی طرف واپس آتے ہوئے رات کو جب آپ سونے کے لئے لیٹے تو صحابہؓ نے دیکھا کہ آپ کو نیند نہیں آتی۔ آخر اُنہوں نے سوچ کر یہ نتیجہ نکالا کہ آپ کے چچا عباس ؓ چونکہ رسیوں میں جکڑ ے ہونے کی وجہ سے سو نہیں سکتے اور اُ ن کے کراہنے کی آوازیں آتی ہیں اِس لئے اُن کی تکلیف کا خیال کر کے آپ کو نیند نہیں آتی۔ اُنہوں نے آپس میں مشورہ کر کے حضرت عباسؓ کے بندھنوں کو ڈھیلا کر دیا۔حضرت عباسؓ سو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نیند آگئی۔ تھوڑی دیر کے بعد یکدم گھبرا کے آپ کی آنکھ کھلی اور آپ نے پوچھا عباسؓ خاموش کیوں ہیں؟ اُن کے کراہنے کی آوازاب کیو ں نہیں آتی؟ آپ کے دل میں یہ وہم پید اہو ا کہ شاید تکلیف کی وجہ سے بیہوش ہو گئے۔ صحابہؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ہم نے آپ کی تکلیف کو دیکھ کر اُن کے بندھن ڈھیلے کر دئیے ہیں۔ آپ نے فرمایا نہیں!نہیں!! یہ بے انصافی نہیں ہو نی چاہئے۔ جس طرح عباسؓ میرا رشتہ دار ہے دوسرے قیدی بھی تو دوسروں کے رشتہ دار ہیں یا تو سب قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کر دو تاکہ وہ آرام سے سو جائیں اور یا پھر عباسؓ کے بندھن بھی کس دو۔ صحابہؓ نے آپ کی بات سن کر سب قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کر دئیے اور حفاظت کی ساری ذمہ داری اپنے سر پر لے لی۔۲۵۶؎ جو لوگ قید ہوئے تھے اُن میں سے جو پڑھنا جانتے تھے آپ نے اُن کا صرف یہی فدیہ مقرر کیا کہ وہ مدینہ کے دس دس لڑکوں کو پڑھنا سکھا دیں۔ بعض جن کا فدیہ دینے والا کوئی نہیں تھا اُن کو یونہی آزاد کر دیا۔ وہ امراء جو فدیہ دے سکتے تھے اُن سے مناسب فدیہ لے کر اُن کو چھوڑ دیا اور اس طرح اِس پرانی رسم کو کہ قیدیوں کو غلام بنا کر رکھا جاتا تھا آپ نے ختم کر دیا۔
جنگ اُحد
کفّار کے لشکر نے میدان سے بھاگتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اگلے سال ہم دوبارہ مدینہ پر حملہ کریں گے اوراپنی شکست کا مسلمانوں سے بدلہ لیں گے
چنانچہ ایک سال کے بعد وہ پھر پوری تیاری کر کے مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔مکہ والوں کے غصہ کا یہ حال تھا کہ بدر کی جنگ کے بعد اُنہوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ کسی شخص کو اپنے مردوں پر رونے کی اجازت نہیں اور جو تجارتی قافلے آئیںگے اُن کی آمد آئندہ جنگ کے لئے محفوظ رکھی جائے گی۔ چنانچہ بڑی تیاری کے بعد تین ہزار سپاہیوں سے زیادہ تعداد اس کا ایک لشکر ابوسفیان کی قیادت میں مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے مشورہ لیا کہ آیا ہم کو شہر میں ٹھہر کر مقابلہ کرنا چاہئے یا باہر نکل کر۔ آپ کا اپنا خیال یہی تھا کہ دشمن کو حملہ کرنے دیا جائے تاکہ جنگ کی ابتداء کا بھی وہی ذمہ دار ہو اور مسلمان اپنے گھروں میں بیٹھ کر اُس کا مقابلہ آسانی سے کر سکیں، لیکن وہ نوجوان مسلمان جن کو بدر کی جنگ میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا تھا اور جن کے دلوں میں حسرت رہی تھی کہ کاش! ہم کو بھی خدا کی راہ میں شہید ہونے کا موقع ملتا اُنہوں نے اصرار کیا کہ ہمیں شہادت سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ نے اُن کی بات مان لی۔
مشورہ لیتے وقت آپ نے اپنی ایک خواب بھی سنائی۔ فرمایا خواب میں مَیں نے چند گائیں دیکھی ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ میری تلوار کا سرا ٹوٹ گیا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ گائیں ذبح کی جارہی ہیں اور پھر یہ کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط اور محفوظ زِرہ کے اندر ڈالا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ میں ایک مینڈھے کی پیٹھ پر سوار ہوں۔ صحابہؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ نے اِن خوابوں کی کیا تعبیر فرمائی؟ آپ نے فرمایا گائے کے ذبح ہونے کی تعبیر یہ ہے کہ میرے بعض صحابہؓ شہید ہوں گے اور تلوار کا سرا ٹوٹنے سے مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ میرے عزیزوں میں سے کوئی اہم وجود شہید ہو گا یا شاید مجھے ہی اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے اور زرّہ کے اندر ہاتھ ڈالنے کی تعبیر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارا مدینہ میں ٹھہرنا زیادہ مناسب ہے اور مینڈھے پر سوار ہونے والے خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ کفّار کے لشکر کے سردار پر ہم غالب آئیںگے یعنی وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے مار ا جائے گا۔۲۵۷؎
گو اس خواب میںمسلمانوں پر یہ واضح کردیا گیا تھا کہ اُن کا مدینہ میں رہنا زیادہ اچھا ہے مگر چونکہ خواب کی تعبیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تھی، الہامی نہیں تھی آپ نے اکثریت کی رائے کو تسلیم کر لیا اور لڑائی کے لئے باہر جانے کا فیصلہ کر دیا۔ جب آپ باہر نکلے تو نوجوانوں کو اپنے دلوںمیں ندامت محسوس ہوئی اوراُنہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! جو آپ کا مشورہ ہے وہی صحیح ہے ہمیں مدینہ میں ٹھہر کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا خد اکا نبی جب زرہ پہن لیتا ہے تو اُتارا نہیں کرتا اب خواہ کچھ ہو ہم آگے ہی جائیں گے۔ اگر تم نے صبر سے کام لیا تو خدا کی نصرت تم کو مل جائے گی۔ ۲۵۸؎ یہ کہہ کر آپ ایک ہزار لشکر کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور تھوڑے فاصلہ پر جا کر رات بسر کرنے کے لئے ڈیرہ لگا دیا۔ آپ کا ہمیشہ طریق تھا کہ آپ دشمن کے پاس پہنچ کر اپنے لشکر کو کچھ دیر آرام کرنے کاموقع دیا کرتے تھے تاکہ وہ اپنا سامان وغیرہ تیار کر لیں۔ صبح کی نماز کے وقت جب آپ نکلے تو آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ یہودی بھی اپنے معاہد قبیلوں کی مدد کے بہانہ سے آئے ہیں۔ چونکہ یہود کی ریشہ دوانیوں کا آپ کو علم ہو چکا تھا آپ نے فرمایا کہ اِن لوگوں کو واپس کر دیا جائے۔ اِس پر عبداللہ بن ابی بن سلول جو منافقوں کا رئیس تھا وہ بھی اپنے تین سَو ساتھیوںکو لے کر یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ گیا کہ اب یہ لڑائی نہیں رہی۔۲۵۹؎ یہ تو ہلاکت کے منہ میں جانا ہے کیونکہ خود اپنے مدد گاروں کو لڑائی سے روکا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہو ا کہ مسلمان صرف سات سَو رہ گئے جو تعداد میں کفّار کی تعداد سے چوتھے حصہ سے بھی کم تھے اور سامانوں کے لحاظ سے اور بھی کمزور۔ کیونکہ کفّار میں سات سَو زِرہ پوش تھا اور مسلمانوں میں صر ف ایک زِرہ پوش ۔اور کفّار میں دو سَو گھوڑ سوا رتھا مگر مسلمانوں کے پا س دو گھوڑے تھے۔ آخر آپ اُحد پر پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے ایک پہاڑی درہ کی حفاظت کے لئے پچاس سپاہی مقررکئے اور سپاہیوں کے افسر کو تاکید کی کہ وہ درہ اتنا ضروری ہے کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم اِس جگہ سے نہ ہلنا۔۲۶۰؎ اِس کے بعد آپ بقیہ ساڑھے چھ سَو آدمی لے کر دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلے جو اَب دشمن کی تعداد سے قریباً پانچواں حصہ تھے۔ لڑائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے تھوڑی ہی دیر میں ساڑھے چھ سَو مسلمانوں کے مقابلہ میں تین ہزار مکہ کا تجربہ کار سپاہی سر پر پائوں رکھ کر بھاگا۔
فتح مبدَّل بہ شکست
مسلمانوں نے اُن کا تعاقب شروع کیا، تو ان لوگوں نے جو پشت کے درّہ کی حفاظت کے لئے کھڑے تھے اُنہوں نے اپنے افسر
سے کہا اب تو دشمن کو شکست ہو چکی ہے اب ہمیں بھی جہاد کاثواب لینے دیا جائے۔ افسر نے اُن کواِس بات سے روکا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد دلائی مگر اُنہوں نے کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا صرف تاکید کے لئے فرمایاتھا ورنہ آپ کی مراد یہ تو نہیں ہو سکتی تھی کہ دشمن بھاگ بھی جائے تو یہاں کھڑے رہو۔ یہ کہہ کر اُنہوں نے درہ چھوڑ دیا اور میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ بھاگتے ہوئے لشکر میں سے خالد بن ولید کی جو بعد میں اِسلام کے بڑے بھاری جرنیل ثابت ہوئے نظر خالی درّہ پر پڑی جہاں صرف چند آدمی اپنے افسر کے ساتھ کھڑے تھے۔ خالدؓ نے کفّار کے لشکر کے دوسرے جرنیل عمرو ابن العاص کو آواز دی اور کہا۔ ذرا پیچھے پہاڑی درّہ پر نگاہ ڈالو۔ عمرو بن العاص نے جب درہ پر نگاہ ڈالی تو سمجھا کہ عمر کا بہترین موقع مجھے حاصل ہو رہا ہے دونوں جرنیلوں نے اپنے بھاگتے ہوئے دوستوں کوسنبھالا اور اِسلامی لشکر کا بازو کاٹتے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گئے۔ چند مسلمان جو وہاں درّہ کی حفاظت کے لئے کھڑے رہ گئے تھے، اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوئے پشت پر سے اِسلامی لشکر پر آ پڑے۔ اُن کے فاتحانہ نعروں کو سن کر سامنے کا بھاگتا ہوا بقیہ لشکر بھی میدان جنگ کی طرف لوٹ پڑا۔ یہ حملہ ایسا اچانک ہوا اور کافروں کا تعاقب کرنے کی وجہ سے مسلمان اتنے پھیل چکے تھے کہ کوئی باقاعدہ اِسلامی لشکر اُن لوگوں کے مقابلہ میں نہیں تھا۔ اکیلا اکیلا سپاہی میدان میں نظر آر ہا تھا، جن میں سے بعض کو اُن لوگوں نے مار دیا۔ باقی اِس حیرت میں کہ یہ ہو کیا گیا ہے پیچھے کی طرف دوڑے۔ چند صحابہؓ دوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے، جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ تیس تھی۔۲۶۱؎ کفّار نے شدت کے ساتھ اُس مقام پر حملہ کیا جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے۔ یکے بعد دیگرے صحابہؓ آپ کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جانے لگے۔ علاوہ شمشیر زنوں کے تیر انداز اُونچے ٹیلوں پر کھڑے ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بے تحاشہ تیر مارتے تھے۔ اُس وقت طلحہؓ جو قریش میں سے تھے اور مکہ کے مہاجرین میں شامل تھے یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن سب کے سب تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی طرف پھینک رہا ہے اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے کھڑا کر دیا۔ تیر کے بعد تیر جو نشانہ پر گرتا تھا وہ طلحہؓ کے ہاتھ پر گرتا تھا، مگر جانباز اور وفادار صحابیؓ اپنے ہاتھ کو کوئی حرکت نہیں دیتا تھا۔ اِس طرح تیر پڑتے گئے اور طلحہؓ کا ہاتھ زخموں کی شدت کی وجہ سے بالکل بیکار ہو گیا اور صرف ایک ہی ہاتھ اُن کا باقی رہ گیا۔ سالہا سال بعد اِسلام کی چوتھی خلافت کے زمانہ میں جب مسلمانوں میں خانہ جنگی واقع ہوئی تو کسی دشمن نے طعنہ کے طور پر طلحہؓکو کہا۔ ٹنڈا۔ اِس پر ایک دوسرے صحابیؓ نے کہا ہاں ٹنڈا ہی ہے مگر کیسا مبارک ٹنڈا ہے۔ تمہیں معلوم ہے طلحہؓ کا یہ ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی حفاظت میں ٹنڈا ہوا تھا۔ اُحد کی جنگ کے بعد کسی شخص نے طلحہؓ سے پوچھا کہ جب تیر آپ کے ہاتھ پر گرتے تھے تو کیا آپ کو درد نہیں ہوتی تھی اور کیا آپ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی؟ طلحہؓ نے جواب دیا۔ درد بھی ہوتی تھی اور اُف بھی نکلنا چاہتی تھی، لیکن میں اُف کرتا نہیں تھا تا ایسا نہ ہو کہ اُف کرتے وقت میرا ہاتھ ہل جائے اور تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر آگرے۔
مگر یہ چند لوگ کب تک اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ لشکر کفّار کا ایک گروہ آگے بڑھا اور اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد کے سپاہیوں کو دھکیل کر پیچھے کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تن تنہا پہاڑ کی طرح وہاں کھڑے تھے کہ زور سے ایک پتھر آپ کے خود پر لگا اور خود کے کیل آپ کے سر پر گھس گئے اور آپ بیہوش ہو کر اُن صحابہؓ کی لاشوں پر جاپڑے جو آپ کے اِردگرد لڑتے ہوئے شہید ہو چکے تھے۲۶۲؎ اس کے بعد کچھ اور صحابہؓ آپ کے جسم کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے اوراُن کی لاشیں آپ کے جسم پر جا گریں۔ کفّار نے آپ کے جسم کو لاشوں کے نیچے دبا ہوا دیکھ کر سمجھا کہ آپ مارے جا چکے ہیں۔ چنانچہ مکہ کا لشکر اپنی صفوں کو درست کرنے کے لئے پیچھے ہٹ گیا۔ جو صحابہؓ آپ کے گرد کھڑے تھے اور جن کو کفّار کے لشکر کا ریلا دھکیل کر پیچھے لے گیاتھا اُن میں حضرت عمرؓ بھی تھے۔ جب آپ نے دیکھا کہ میدان سب لڑنے والوں سے صاف ہو چکا ہے تو آپ کو یقین ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں اور وہ شخص جس نے بعد میں ایک ہی وقت میں قیصر اور کسریٰ کا مقابلہ بڑی دلیری سے کیا اور اُس کا دل کبھی نہ گھبرایا اور کبھی نہ ڈرا وہ ایک پتھر پر بیٹھ کر بچوں کی طرح رونے لگ گیا۔ اِتنے میں مالکؓ نامی ایک صحابی جو اِسلامی لشکر کی فتح کے وقت پیچھے ہٹ گئے تھے کیونکہ اُنہیں فاقہ تھا اور را ت سے اُنہوں نے کچھ نہیں کھایا تھا جب فتح ہو گئی تو وہ چند کھجوریں لے کر پیچھے کی طرف چلے گئے تاکہ اُنہیں کھا کر اپنی بھوک کا علاج کریں۔ وہ فتح کی خوشی میں ٹہل رہے تھے کہ ٹہلتے ٹہلتے حضرت عمرؓ تک جا پہنچے اور عمرؓ کو روتے ہوئے دیکھ کر نہایت ہی حیران ہوئے اور حیرت سے پوچھا۔ عمر! آ پ کو کیا ہوا؟ اِسلام کی فتح پر آپ کو خوش ہونا چاہئے یا رونا چاہئے؟ عمرؓ نے جواب میں کہا مالک ! شاید تم فتح کے معاً بعد پیچھے ہٹ آئے تھے تمہیں معلوم نہیں کہ لشکر کفّار پہاڑی کے دامن سے چکر کاٹ کر اِسلامی لشکر پر حملہ آوار ہوا اور چونکہ مسلما ن پر اگندہ ہو چکے تھے اُن کا مقابلہ کوئی نہ کر سکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ سمیت اُن کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوئے اور مقابلہ کرتے کرتے شہید ہو گئے۔ مالکؓ نے کہا عمرؓ!! اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو آپ یہاں بیٹھے کیوں رو رہے ہیں؟ جس دنیا میں ہمارا محبوب گیا ہے ہمیں بھی تو وہاں جانا چاہئے۔ یہ کہا اور وہ آخری کجھور جو آپ کے ہاتھ میں تھی جسے آپ منہ میں ڈالنے ہی والے تھے اُسے یہ کہتے ہوئے زمین پر پھینک دیا کہ اے کجھور! مالک اور جنت کے درمیان تیرے سِوا اور کونسی چیز روک ہے۔ یہ کہا اور تلوار لے کر دشمن کے لشکر میں گھس گئے۔ تین ہزار آدمی کے مقابلہ میں ایک آدمی کر ہی کیا سکتا تھا مگر خد ائے واحد کی پرستا رروح ایک بھی بہتوں پر بھاری ہوتی ہے۔ مالکؓ اِس بے جگری سے لڑے کہ دشمن حیران ہو گیا۔ مگر آخر زخمی ہوئے پھر گرے اور گر کر بھی دشمن کے سپاہیوں پر حملہ کرتے رہے جس کے نتیجہ میں کفّارِ مکہ نے اِس وحشت سے آپ پر حملہ کیا کہ جنگ کے بعد آپ کی لاش کے ۷۰ ٹکڑے ملے حتی کہ آپ کی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی۔ آخر ایک اُنگلی سے آپ کی بہن نے پہچان کر بتایا کہ یہ میرے بھائی مالک کی لاش ہے۔۲۶۳؎
وہ صحابہؓ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد تھے اور جو کفّار کے ریلے کی وجہ سے پیچھے دھکیل دئیے گئے تھے کفّار کے پیچھے ہٹتے ہی وہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے۔ آپ کے جسم مبارک کو اُنہوں نے اُٹھایا اور ایک صحابی عبیدہ بن الجراحؓ نے اپنے دانتوں سے آپ کے سر میں گھسی ہوئی کیل کو زور سے نکالا جس سے اُن کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آگیااور صحابہؓ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دیئے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہو جائیں۔ بھاگا ہو الشکر پھر جمع ہونا شروع ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے۔ جب دامنِ کوہ میں بچا کھچا لشکر کھڑا تھا تو ابوسفیان نے بڑے زور سے آواز دی اور کہا ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کی بات کا جواب نہ دیاتا ایسا نہ ہو دشمن حقیقت حال سے واقف ہوکر حملہ کرد ے اور زخمی مسلمان پھر دوبارہ دشمن کے حملہ کا شکار ہو جائیں۔ جب اِسلامی لشکر سے اِس بات کا کوئی جواب نہ ملا تو ابو سفیان کو یقین ہو گیا کہ اُس کا خیال درست ہے اور اس نے بڑے زور سے آواز دے کر کہا ہم نے ابو بکرؓ کو بھی مار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ کو بھی حکم فرمایا کہ کوئی جواب نہ دیں۔ پھر ابو سفیان نے آواز دی ہم نے عمرؓ کو بھی مار دیا۔ تب عمرؓ جو بہت جوشیلے آدمی تھے اُنہوں نے اُس کے جواب میں یہ کہنا چاہا کہ ہم لوگ خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور تمہارے مقابلہ کے لئے تیار ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ مسلمانوں کو تکلیف میں مت ڈالو اور خاموش رہو۔ اب کفّار کو یقین ہو گیا کہ اِسلام کے بانی کو بھی اور اُن کے دائیں بائیں بازو کو بھی ہم نے مار دیا ہے۔ اِس پر ابوسفیان اور اُس کے ساتھیوں نے خوشی سے نعرہ لگایا اُعْلُ ھُبَل۔ اُعْلُ ھُبَل۔ ہمارے معزز بت ہبل کی شان بلند ہو کہ اُس نے آج اِسلام کا خاتمہ کر دیا ہے۔ وہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنی موت کے اعلان پر، ابوبکرؓ کی موت کے اعلان پر اور عمرؓ کی موت کے اعلان پر خاموشی کی نصیحت فرما رہے تھے تا ایسا نہ ہو کہ زخمی مسلمانوں پر پھر کفّار کا لشکرلوٹ کر حملہ کر دے اور مٹھی بھر مسلمان اُس کے ہاتھوں شہید ہو جائیں۔ اب جبکہ خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہوا اور شرک کا نعرہ میدان میں ماراگیا تو آپ کی روح بے تاب ہوگئی اور آپ نے نہایت جوش سے صحابہؓ کی طر ف دیکھ کر فرمایا تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے؟ صحابہ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!ہم کیا کہیں؟ فرمایا کہو اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ۔ اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ۔۲۶۴؎ تم جھوٹ بولتے ہو کہ ہبل کی شان بلند ہوئی۔ اللّٰہ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْک ہی معزز ہے اوراُس کی شان بالا ہے۔ اوراس طرح آپ نے اپنے زندہ ہونے کی خبر دشمنوں تک پہنچا دی۔ اِس دلیرانہ اور بہادرانہ جواب کا اثر کفّار کے لشکر پر اتنا گہرا پڑ اکہ باوجود اِس کے کہ اُن کی اُمیدیں اس جواب سے خاک میں مل گئیں اور باوجود اس کے کہ اُن کے سامنے مٹھی بھر زخمی مسلمان کھڑے ہوئے تھے جن پر حملہ کر کے اُن کو مار دینا مادی قوانین کے لحاظ سے بالکل ممکن تھا وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہ کر سکے اور جس قدر فتح اُن کو نصیب ہوئی تھی اُسی کی خوشیاں مناتے ہوئے مکہ کو واپس چلے گئے۔
اُحد کی جنگ میں بظاہر فتح کے بعد ایک شکست کا پہلو پیدا ہوا مگر یہ جنگ درحقیقت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان تھا۔ اِس جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسلمانوں کو پہلے کامیابی نصیب ہوئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے عزیز چچا حمزہؓ لڑائی میں مارے گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق شروع حملہ میں کفّار کے لشکر کا علمبردار مارا گیا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق خود آپ بھی زخمی ہوئے اور بہت سے صحابہ شہید ہوئے۔ اِس کے علاوہ مسلمانوں کو ایسے اخلاص اور ایمان کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا جس کی مثال تاریخ میں اور کہیںنہیںملتی۔
چند واقعات تو اِس اخلاص اور ایمان کے مظاہرہ کے پہلے بیان ہو چکے ہیں ایک اور واقعہ بھی بیان کر نے کے قابل ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے صحابہؓ کے دلوں میں کتنا پختہ ایمان پیدا کر دیا تھا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ صحابہ کی معیت میں پہاڑ کے دامن کی طرف چلے گئے اور دشمن پیچھے ہٹ گیا تو آپ نے بعض صحابہ کو اِس بات پر مأمور فرمایاکہ وہ میدان میں جائیں اور زخمیوں کی خبر لیں۔ ایک صحابی میدان میں تلاش کرتے کرتے ایک زخمی انصاری کے پاس پہنچے۔ دیکھا تو اُن کی حالت خطرناک تھی اور وہ جان توڑ رہے تھے۔ یہ صحابی اُن کے پاس پہنچے اور اُنہیں اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ کہا اُنہوں نے کانپتا ہوا ہاتھ مصافحہ کے لئے اُٹھایا اوراُن کا ہاتھ پکڑ کر کہا میں انتظارکر رہا تھا کہ کوئی ساتھی مجھے مل جائے۔ اُنہوں نے اِس صحابی سے پوچھا کہ آپ کی حالت توخطرناک معلوم ہوتی ہے کیا کوئی پیغام ہے جو آپ اپنے رشتہ دار کو دینا چاہتے ہیں؟ اُس مرنے والے صحابیؓ نے کہا ہاں! ہاں! میری طرف سے میرے رشتہ داروں کو سلام کہنا اوراُنہیں کہناکہ میں تومر رہا ہوں مگر اپنے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک مقدس امانت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تم میںچھوڑے جا رہا ہوں۔ اے میرے بھائیو اور رشتہ دارو! وہ خدا کاسچا رسول ہے میں اُمید کرتا ہوں کہ تم اس کی حفاظت میں اپنی جانیں دینے سے دریغ نہیں کرو گے اور میری اس وصیت کو یا د رکھو گے۔۲۶۵؎
مرنے والے انسان کے دل میں ہزاروں پیغام اپنے رشتہ داروں کو پہنچانے کے لئے پیدا ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اتنے بے نفس ہو چکے تھے کہ نہ اُنہیں اپنے بیٹے یاد تھے، نہ بیویاں یا د تھیں، نہ مال یا د تھا، نہ جائدادیں یاد تھیں اُنہیں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی یا درہتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ دنیا کی نجات اِس شخص کے ساتھ ہے۔ ہمارے مرنے کے بعدا گر ساری اولادیں زندہ رہیں تو وہ کوئی بڑا کام نہیں کر سکتیں، لیکن اگر اِس نجات دہندہ کی حفاظت میں اُنہوں نے اپنی جانیں دے دیں تو گو ہمارے اپنے خاندان مٹ جائیں گے مگر دنیا زندہ ہوجائے گی۔ شیطان کے پنجہ میں پھنسا ہوا ا نسان پھر نجات پا جائے گا اورہمارے خاندانوں کی زندگی سے ہزاروں گنے زیادہ قیمتی بنو آدم کی زندگی اور نجات ہے۔
بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمیوں اور شہدا ء کو جمع کیا، زخمیوں کی مرہم پٹی کی گئی اور شہداء کے دفنانے کا انتظام کیا گیا۔ اُس وقت آپ کو معلوم ہوا کہ ظالم کفّارِ مکہ نے بعض مسلمان شہداء کے ناک کان بھی کاٹ دئیے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ جن کے ناک کان کاٹے گئے ہیں اُن میں خود آپ کے چچا حمزہؓ بھی تھے۔ آپ کو یہ نظارہ دیکھ کر افسوس ہوا اور آپ نے فرمایا کفّار نے خود اپنے عمل سے اپنے لئے اُس بدلہ کو جائز بنا دیا ہے جس کو ہم ناجائز سمجھتے تھے۔ مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس وقت آپ کو وحی ہوئی کہ کفّار جو کچھ کرتے ہیں اُن کوکرنے دو تم رحم اور انصاف کادامن ہمیشہ تھامے رکھو۔۲۶۶؎
جنگ اُحد سے واپسی اور
اہل مدینہ کے جذباتِ فدائیت
جب اِسلامی لشکر واپس مدینہ کی طرف لوٹا تو اُس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت اور اِسلامی لشکر کی پراگندگی کی
خبر مدینہ پہنچ چکی تھی۔ مدینہ کی عورتیں اور بچے دیوانہ وار اُحدکی طرف دَوڑے جا رہے تھے۔ اکثر کو تو راستہ میں خبر مل گئی اور وہ رُک گئے، مگر بنو دینار قبیلہ کی ایک عورت دیوانہ وار آگے بڑھتے ہوئے اُحد تک جا پہنچی۔ جب وہ دیوانہ وار اُحد کے میدان کی طرف جار ہی تھی اُس عورت کا خاوند اور بھائی اور باپ اُحد میں مارے گئے تھے اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔ جب اُسے اُس کے باپ کے مارے جانے کی خبر دی گئی تو اُس نے کہا مجھے بتائو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ چونکہ خبر دینے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مطمئن تھے وہ باری باری اُسے اس کے بھائی اور خاوند اور بیٹے کی موت کی خبر دیتے چلے گئے مگر وہ یہی کہتی چلی جاتی تھی ’’مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم‘‘۔ ارے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا؟ بظاہر یہ فقرہ غلط معلوم ہوتا ہے اور اسی وجہ سے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اُس کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہوا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فقرہ غلط نہیں بلکہ عورتوں کے محاورہ کے مطابق بالکل درست ہے۔ عورت کے جذبات بہت تیز ہوتے ہیں اور وہ بسااوقات مُردوں کو زندہ سمجھ کر کلام کرتی ہے۔ جیسے بعض عورتوں کے خاوند یا بیٹے مر جاتے ہیں تو اُ ن کی موت پر اُن سے مخاطب ہو کر وہ اِس قسم کی باتیں کرتی رہتی ہیں کہ مجھے کس پر چھوڑ چلے ہو؟ یا بیٹا! اس بڑھاپے میں مجھ سے کیوں منہ موڑ لیا؟ یہ شدتِ غم میں فطرتِ انسا نی کا ایک نہایت لطیف مظاہرہ ہوتا ہے۔ اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبرسن کر اُس عورت کا حال ہوا۔ وہ آپ کو فوت شدہ ماننے کے لئے تیار نہ تھی اور دوسری طر ف اِس خبر کی تردید بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس لئے شدت ِغم میں یہ کہتی جاتی تھی ارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کیا۔ یعنی ایسا وفادار انسان ہم کو یہ صدمہ پہنچانے پر کیونکر راضی ہو گیا۔
جب لوگوں نے دیکھا کہ اُسے اپنے باپ، بھائی اور خاوند کی کوئی پرواہ نہیں تو وہ اس کے سچے جذبات کو سمجھ گئے اور اُنہوں نے کہا۔ فلانے کی اماں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو جس طرح تو چاہتی ہے خدا کے فضل سے خیریت سے ہیں۔ اس پر اُس نے کہامجھے دکھائو وہ کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا۔ آگے چلی جائو وہ آگے کھڑے ہیں۔ وہ عورت دوڑ کر آپ تک پہنچی اور آپ کے دامن کو پکڑ کر بولی یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جب آپ سلامت ہیں تو کوئی مرے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔۲۶۷؎
مردوں نے جنگ میں وہ نمونہ ایمان کا دکھایا اور عورتوں نے یہ نمونہ اخلاص کا دکھایا، جس کی مثال میں نے ابھی بیان کی ہے۔ عیسائی دنیا مریم مگد لینی اور اس کی ساتھی عورتوں کی اِس بہادری پر خوش ہے کہ وہ مسیح کی قبر پر صبح کے وقت دشمنو ں سے چھپ کر پہنچی تھیں۔ میں اُن سے کہتا ہوںآئو اور ذرا میرے محبوب کے مخلصوں اور فدائیوں کو دیکھو کہ کن حالتوں میں اُنہوں نے اُس کا ساتھ دیا اور کن حالتوں میں اُنہوں نے توحید کے جھنڈے کو بلند کیا۔
اِس قسم کی فدائیت کی ایک اور مثال بھی تاریخوں میں ملتی ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہدا ء کو دفن کر کے مدینہ واپس گئے تو پھر عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کیلئے نکل آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُونٹنی کی باگ سعد بن معاذؓ مدینہ کے رئیس نے پکڑی ہوئی تھی اور فخر سے آگے آگے دوڑے جاتے تھے شاید دنیا کو یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیریت سے اپنے گھر واپس لے آئے۔ شہر کے پاس اُنہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی آتی ہوئی ملی۔ اُحد میں اُس کا ایک بیٹا عمرو بن معاذؓ بھی مارا گیا۔ اُسے دیکھ کر سعد بن معاذؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ااُمّی۔ اے اللہ کے رسول! میری ماں آرہی ہے۔ آپ نے فرمایا خد ا تعالیٰ کی برکتوں کے ساتھ آئے۔ بڑھیا آگے بڑھی اور اپنی کمزور پھٹی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل نظر آجائے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ پہچان لیا اور خوش ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مائی! مجھے تمہارے بیٹے کی شہادت پر تم سے ہمدردی ہے۔ اِس پر نیک عورت نے کہا۔ حضور! جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا تو سمجھو کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔ ’’ مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔‘‘۲۶۸؎ کیا عجیب محاورہ ہے۔ محبت کے کتنے گہرے جذبات پر دلالت کرتاہے غم انسان کو کھا جاتا ہے۔ وہ عورت جس کے بڑھاپے میں اُس کا عصائے پیری ٹوٹ گیا کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیںتو میں اس غم کو کھا جائو ں گی۔ میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہوگی بلکہ یہ خیال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اُس نے جان دی میری قوت کے بڑھانے کا موجب ہو گا۔ اے انصار! میری جان تم پر فدا ہو تم کتنا ثواب لے گئے۔
بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے مدینہ پہنچے۔ گو اِس لڑائی میں بہت سے مسلمان مار ے بھی گئے اور بہت سے زخمی بھی ہوئے لیکن پھر بھی اُحد کی جنگ شکست نہیں کہلا سکتی۔ جو واقعات میں نے اُوپر بیان کئے ہیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک بہت بڑی فتح تھی ایسی فتح کہ قیامت تک مسلمان اس کو یاد کر کے اپنے ایمان کو بڑھا سکتے ہیں اور بڑھاتے رہیں گے۔ مدینہ پہنچ کر آپ نے پھر اپنا اصل کام یعنی تربیت اور تعلیم اور اصلاحِ نفس کاشروع کر دیا۔ مگر آپ یہ کام سہولت اور آسانی سے نہیں کر سکے۔ اُحد کے واقعہ کے بعد یہود میںاور بھی دلیری پیدا ہو گئی اور منافقوں نے اور بھی سر اُٹھانا شروع کر دیا اور وہ سمجھے کہ شاید اِسلام کو مٹا دینا انسانی طاقت کے اند رکی بات ہے۔ چنانچہ یہودیوں نے طرح طرح سے آپ کوتکلیفیں دینی شروع کر دیں ۔گندے شعر بنا کر اُن میں آپ کی اور آپ کے خاندان کی ہتک کی جاتی تھی۔ ایک دفعہ آپ کو کسی جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لئے یہودیوں کے قلعہ میں جانا پڑا تو اُنہوں نے ایک تجویز کی کہ جہاں آپ بیٹھے تھے اُس کے اُوپر سے ایک بڑی سِل گرا کر آپ شہید کر دیئے جائیں مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو وقت پر بتا دیا اور آپ وہا ں سے بغیر کچھ کہنے کے چلے آئے۲۶۹؎۔ بعد میں یہودں نے اپنے قصور کو تسلیم کر لیا ۔
مسلمان عورتوں کی بازاروں میں بیحرمتی کی جاتی تھی۔ایک دفعہ اس جھگڑے میں ایک مسلمان بھی مارا گیا۔ایک دفعہ ایک مسلمان لڑکی کا سر یہود نے پتھر وں سے مار مار کر کچل دیا اور وہ تڑپ تڑپ کر مرگئی۔اِن اسباب کی وجہ سے یہودیوں کے ساتھ بھی مسلمانوں کو جنگ کرنا پڑی۔ مگر عرب اور یہود کے دستور کے مطابق مسلمانوں نے اُن کو مارا نہیں،بلکہ صرف مدینہ سے چلے جانے کی شرط پر اُنہیں چھوڑ دیا ۔چنانچہ اُن دونوں قبیلوں میں سے ایک تو شام کی طرف ہجرت کر گیا اور دوسرے کا کچھ حصہ شام کو چلا گیا اور کچھ مدینہ سے شمال کی طرف خیبر نامی ایک شہر کی طرف ۔ یہ شہر عرب میں یہود کا مرکز تھا اور زبر دستقلعوں پر مشتمل تھا۔
شراب نوشی کی ممانعت کاحکم اوراُس کابے نظیر اثر
جنگ اُحد اور اس کے بعد کی جنگ کے وقفہ کے درمیان دنیا نے اِسلام کے اس اثر کی جو اس کا اپنے پیروؤں پر تھا ایک بیّن مثال دیکھی ۔ ہماری مراد
امتناعِ شراب سے ہے۔اِسلام سے پہلے اہلِ عرب کی حالت کو بیان کرتے ہوئے ہم نے بتلایا تھاکہ اہلِ عرب عادی شراب خور تھے۔ ہر معزز عرب خاندان میں دن میں پانچ دفعہ شراب پی جاتی تھی اور شراب کے نشہ میں مدہوش ہو جانا اُن کے لئے معمولی بات تھی اور اس میں وہ ذرا بھی شرم محسوس نہ کرتے تھے بلکہ وہ اس کو ایک اچھا کام سمجھتے تھے۔جب کوئی مہمان آتا تو گھر کی مالکہ کا فرض ہوتا کہ وہ شراب کا دَور جاری کرتی۔اِس قسم کے لوگوں سے ایسی تباہ کن عادت کو چھڑانا کوئی آسان بات نہ تھی۔مگر ہجرت کے چوتھے سال آنحضرت ﷺپر حکم نازل ہوا ہے کہ شراب حرام کی جاتی ہے ۔ اس حکم کا اعلان ہوتے ہی مسلمانوں نے شراب پینا بالکل ترک کردیا۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے۔کہ جب شراب کی حرمت کا الہام نازل ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو بلایا اور حکم دیا کے اس نئے حکم کا اعلان مدینہ کی گلیوں میں کر دو۔ایک انصاری کے گھر میں جو مدینہ کا مسلمان تھا اُس وقت شراب کی مجلس ہو رہی تھی بہت سے لوگ مدعو تھے اور شراب کا دَور چل رہا تھا۔ایک بڑا مٹکا خالی ہو چکا تھااور ایک دوسرا مٹکا شروع کیا جانے والا تھا۔لوگ مدہوش ہو چکے تھے اور بہت سے اور مدہوش ہونے کے قریب تھے۔ اس حالت میں اُنہوں نے سنا کہ کوئی شخص اعلان کر رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت شراب پینا منع فرمادیا ہے۔ اُن میں سے ایک شخص اُٹھا اور بولا یہ تو شراب کے امتناع کا حکم معلوم ہوتا ہے۔ ٹھہرو معلو م کر لیں۔اتنے میں ایک اور شخص اُٹھا اور اُس نے مٹکے کو جو شراب سے بھرا ہوا تھااپنی لاٹھی مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کہا پہلے حکم کی تعمیل کرو اور پھر دریافت کرو ۔یہ کافی ہے کہ ہم نے ایسا اعلان سن لیا اور یہ مناسب نہیں کہ ہم شراب پیتے جائیں اور تحقیقات کریں بلکہ ہمارا فرض یہ ہے کہ شراب کو گلیوں میں بہہ جانے دیںاور پھر اعلان کے متعلق تحقیقات کریں۔۲۷۰؎
اس مسلمان کا خیال درست تھا ، کیونکہ اگر شراب کا پیا جانا ممنوع قرار دیا جا چکا تھاتو اس کے بعد اگر وہ شراب پینا جاری رکھتے تو ایک جرم کے مرتکب ہوتے اور اگر شراب پینا ممنوع نہیں قرار دیا گیا تھاتو شراب کا بہا دینا اِتنا بڑا نقصان نہ تھا کہ اُسے برداشت نہ کیا جا سکتا۔اس اعلان کے بعد شراب نوشی مسلمانوں سے بالکل دور ہو گئی۔اس انقلابِ عظیم کو برپا کرنے کے لئے کوئی خاص کوشش اور مجاہدہ کی ضرورت نہیں پڑی ۔ایسے مسلمان جنہوں نے اِس حکم کو سُنا اور جو فوری تعمیل اِس کی ہوئی اُس کو دیکھا،ستّر اسّی سال تک زندہ رہے مگر اُن میں سے ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جس نے اس حکم کے بعد اس کی خلاف ورزی کی ہو ،اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے تو وہ ایسے شخص کے متعلق ہے جس نے براہِ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ نہ کیا تھا۔
جب ہم اس کا مقابلہ امریکہ کی تحریک امتناعِ شراب سے کرتے ہیں اور ان کو ششوں کو دیکھتے ہیں جو اس حکم کو نافذ کر نے کے لئے کی گئیںیا جو سالہا سال تک یورپ میں کی گئیں،تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ ایک صورت میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محض ایک اعلان کافی تھا کہ اس تمدّنی عیب کو عرب کے لوگوں سے معدوم کردے۔مگر دوسری صورت میں امتناعِ شراب کے لئے قوانین بنائے گئے۔پولیس، فوج اور ٹیکس کے محکموں کے کارکنوں نے مل کر شراب نوشی کی *** کو دور کرنے کے لئے متحدہ طور پر کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے اور انہیں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا پڑا۔ شراب نوشی کی جیت رہی اور شراب نوشی کو دُور نہ کی جا سکی ۔ ہمارے اِس زمانہ کو ایک ترقی کا زمانہ کہتے ہیں مگر جب اس کا مقابلہ ابتدائے اِسلام کے زمانہ سے کرتے ہیں تو ہم حیران ہو جاتے ہیںکہ ان دونوں میں سے ترقی کا زمانہ کونسا ہے ۔ہمارا یہ زمانہ یا اِسلام کا وہ زمانہ جس نے اس قدر بڑا تمدّنی انقلاب پیدا کر دیا؟
غزوہ اُحد کے بعد کفّار قبائل کے ناپاک منصوبے
اُحد کا واقعہ ایسی بات نہ تھی کہ آسانی سے
بھولا جا سکتا ۔ مکّہ والوں نے خیال کیا تھا کہ یہ اُن کی اسلام کے خلاف پہلی فتح ہے اُنہوں نے اس کی خبر تمام عرب میں شائع کی اور عرب کے قبائل کو اِسلام کے خلاف بھڑکانے اور یہ یقین دلانے کا ذریعہ بنایا کہ مسلمان نا قابلِ تسخیر نہیں ہیں۔ اور اگر وہ ترقی کرتے رہے ہیں تو اس کی وجہ اُن کی طاقت نہیںتھی بلکہ عرب قبائل کی بے توجہی تھی ۔عرب متحدہ کوشش کریں تو مسلمانوں پر غالب آ جانا کوئی مشکل امر نہیں ۔ اِس پروپیگنڈا کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے خلاف مخالفت زور پکڑتی گئی اور دیگر قبائل نے مسلمانوں کو تکلیف دینے میں مکہ والوں سے بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لینا شروع کیا۔بعض نے کھلم کھلا حملے شروع کر دئیے اور بعض نے خفیہ طور پر اُن کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔
ہجرت کے چوتھے سال عرب کے دو قبائل عضل اور قارۃ نے اپنے نمائندے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج کر عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اِسلام کی طرف مائل ہیں اور درخواست کی کہ کچھ آدمی جو تعلیم اِسلام سے پوری طرح سے واقف ہوں،بھیج دئیے جائیں تاکہ وہ اُن کے درمیان رہ کر اُن کو اِس نئے مذہب کی تعلیم دیں۔دراصل یہ ایک سازش تھی جو اِسلام کے پکے دشمن بنولحیان نے کی تھی اور ان کا مقصد یہ تھا کہ جب یہ نمائندے مسلمانوں کو لے کر آئیں گے تو وہ اُن کو قتل کر کے اپنے رئیس سفیان بن خالد کا بدلہ لیں گے۔چنانچہ اُنہوں نے عضل اور قارۃ کے نمائندوں کو اِس غرض سے کہ وہ چند مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے آئیں، انعام کے بڑے بڑے وعدے دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تھا۔ جب عضل اور قارۃ کے لوگوں نے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر درخواست کی تو آپ نے اُن کی بات پر اعتبار کر کے دس مسلمانوں کو اُن کے ساتھ کر دیا کہ ان کو اِسلام کے عقائد اور اصولوں کی تعلیم دیں ۔ جب یہ جماعت بنولحیان کے علاقہ میں پہنچی تو عضل اور قارۃ کے لوگوں نے بنولحیان کو اطلاع بھجوادی ور اُن کو کہلا بھیجا کہ مسلمانوں کو یاتوگرفتار کر لیں یا موت کے گھاٹ اُتار دیں۔ اِس ناپاک منصوبے کے ماتحت بنولحیان کے دو سَو مسلح آدمی مسلمانو ں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور آخر مقامِ رجیع میں اُن کو آگھیرا۔دس مسلمانوں اور دو سَو دشمنوں کے درمیان لڑائی ہوئی۔ مسلمانوں کے دل نورِ ایمان سے پُر تھے اور دشمن اِس سے تہی تھے۔دس مسلمان ایک ٹیلہ پر چڑھ گئے اور دو سَو آدمیوں کو دعوتِ مبارزت دی۔دشمن نے ایک فریب کر کے اُن کو گرفتار کرنا چاہااور اُن سے کہا کہ اگر تم نیچے اُتر آئو توتمہیں کچھ نہ کہا جائے گا،مگر مسلمانوں کے امیر نے کہا کہ ہم کافروں کے عہدوپیمان کو خوب دیکھ چکے ہیں۔اس کے بعد اُنہوں نے آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر کہا اے خدا! تو ہماری حالت کو دیکھ رہا ہے اپنے رسول کو ہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے۔جب کفّار نے دیکھا کہ مسلمانوں کی اِس چھوٹی سی جماعت پر اُن کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا تو انہوں نے اُن پر حملہ کر دیا اور مسلمان بغیر خوفِ شکست کے لڑتے چلے گئے،یہاں تک کہ دس میں سے سات شہید ہو گئے۔باقی تین جو بچ رہے تھے اُن کو کفّار نے پھروعدہ دیاکہ ہم تمہاری جانیں بچا لیں گے بشرطیکہ تم ٹیلے سے نیچے اُتر آئو۔ لیکن جب وہ کفّار کے وعدہ پر اعتبار کرکے نیچے اُتر آئے تو کفار نے اُنہیں اپنی کمانوں کی تانتوں سے جکڑ کر باندھ لیا۔اِس پر اُن میں سے ایک نے کہا کہ یہ پہلی خلاف ورزی ہے جو تم اپنے عہد کی کر رہے ہواللہ ہی جانتا ہے کہ تم اِس کے بعد کیا کرو گے۔یہ کہہ کر اُس نے اُن کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔کفّارنے اُس کو مارنا اور گھسیٹنا شروع کر دیا۔مگر آخر اُس کے مقابلے اور استقلال سے اِس قدر مایوس ہو گئے کہ اُنہوں نے اُس کو وہیں قتل کر دیا۔باقی دو کو وہ ساتھ لے گئے اور بطور غلاموں کے قریش مکہ کے پاس فروخت کر دیا۲۷۱؎ ان میں سے ایک کا نام خبیبؓ تھااور دوسرے کا زید۔خبیبؓ کا خریدار اپنے باپ کا بدلہ لینے کے لئے جسے خبیبؓ نے جنگِ بدر میں قتل کیا تھاخبیب کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ایک دن خبیب ؓ نے اپنی ضرورت کے لئے اُسترا مانگا۔اُسترا خبیبؓ کے ہاتھ میں تھا کہ گھر والوں کا ایک بچہ کھیلتے ہوئے اُس کے پاس چلا گیا۔خبیب ؓ نے اِس کو اُٹھا کر اپنی ران پر بیٹھا لیا۔بچے کی ماں نے جب یہ دیکھا تو دہشت زدہ ہو گئی اور اُسے یقین ہوگیا کہ اب خبیبؓ بچے کو قتل کر دے گاکیونکہ وہ خبیبؓ کو چند دنوں میں قتل کرنے والے تھے۔ اُس وقت اُسترا اُس کے ہاتھ میں تھا اوربچہ اُس کے اتنا قریب تھاکہ وہ اُسے نقصان پہنچا سکتا تھا۔ خبیبؓ نے اُس کے چہرے سے پریشانی کو بھانپ لیا اور کہا کہ کیا تم خیال کرتی ہو کہ میں تمہارے بچے کو قتل کردونگا؟ یہ خیال کبھی دل میں نہ لائو میں ایسا بُرا فعل نہیں کر سکتا۔ مسلمان دھوکا باز نہیں ہوتے۔ وہ عورت خبیبؓ کے اِس دیانتدارانہ اور صحیح طریق عمل سے بہت متأثر ہوئی۔ اِس بات کو اُس نے ہمیشہ یاد رکھا اور ہمیشہ کہا کرتی تھی کہ میں نے خبیبؓ سا قیدی کوئی نہیں دیکھا۔ آخر کار مکّہ والے خبیبؓ کو ایک کھلے میدان میں لے گئے تا اُس کو قتل کر کے جشن منائیں۔ جب اُن کے قتل کا وقت آن پہنچاتو خبیبؓ نے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ قریش نے اُن کی یہ بات مان لی اور خبیبؓ نے سب کے سامنے اِس دنیا میں آخری بار اپنے اللہ کی عبادت کی۔ جب وہ نماز ختم کر چکے تو اُنہوں نے کہا کہ میں اپنی نماز جاری رکھنا چاہتا تھامگر اس خیال سے ختم کر دی ہے کہ کہیں تم یہ نہ سمجھو کہ میں مرنے سے ڈرتا ہوں۔پھر آرام سے اپنا سر قاتل کے سامنے رکھ دیااور ایسا کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے:
وَلَسْتُ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا
عَلٰی اَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ
وَذٰلِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِلٰہِ وَاِنْ یَّشَأْ
یُبَارِکُ عَلٰی اَوصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعٖ۲۷۲؎
یعنی جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے پرواہ نہیں ہے کہ میں کس پہلو پر قتل ہو کر گروں۔یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے۔اور اگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا۔
خبیبؓ نے ابھی یہ شعر ختم نہ کیے تھے کہ جلاد کی تلوار اُن کی گردن پر پڑی اور اُن کا سر خاک پر آگرا۔ جو لوگ یہ جشن منانے کے لئے جمع ہوئے تھے اُن میں ایک شخص سعید بن عامر بھی تھاجو بعد میں مسلمان ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ جب کبھی خبیبؓ کے قتل کا ذکر سعید کے سامنے ہوتا تو اس کو غش آجایا کرتا۔۲۷۳؎
دوسرا قیدی زید بھی قتل کرنے کے لئے باہر لے جایا گیا۔اِس تماشہ کو دیکھنے والوں میں ابوسفیان رئیس مکہ بھی تھا۔وہ زید کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ محمدؐ تمہاری جگہ پر ہواور تم اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہو؟زیدؓ نے بڑے غصہ سے جواب دیا کہ ابوسفیان!تم کیا کہتے ہو؟ خدا کی قسم! میرے لئے مرنا اِس سے بہتر ہے کہ آنحضرتﷺ کے پائوں کو مدینہ کی گلیوں میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے۔اِس فدائیت سے ابوسفیان متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکااور اُس نے حیرت سے زید کی طرف دیکھااور فوراً ہی دبی زبان میں کہاکہ خدا گواہ ہے کہ جس طرح محمدؐکے ساتھ محمدؐ کے ساتھی محبت کرتے ہیں میں نے نہیں دیکھاکہ کوئی اور شخص کسی سے محبت کرتا ہو۔۲۷۴؎
۷۰ حفاظِ قرآن کے قتل کا حادثہ
انہی ایام کے قریب قریب نجد کے کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے
تااُن کے ساتھ چند مسلمانوں کو بھیج دیا جائے تاکہ وہ اُن کو اِسلام سکھلائیں۔آنحضرتﷺ نے اُن کا اعتبارنہ کیا۔مگر ابوبراء نے جو اُس وقت مدینہ میں تھے کہاکہ میں اس قبیلہ کی طرف سے ضمانتی بنتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین دلایا کہ وہ کوئی شرارت نہیں کریں گے۔ اِس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷۰ مسلمانوں کو جو حافظ قرآن تھے اِس کام کے لئے انتخاب کیا۔جب یہ جماعت بئر معونہ پرپہنچی تو اُن میں سے ایک شخص حرام بن ملحان قبیلہ عامر کے رئیس کے پاس گیا جو ابوبراء کا بھتیجا تھاتاکہ اُس کو اِسلام کا پیغام دے۔بظاہر قبیلہ والوں نے حرام کا اچھی طرح استقبال کیا مگر جس وقت وہ رئیس کے سامنے تقریر کر رہے تھے تو ایک آدمی چھپ کر پیچھے سے آیااوراُن پر نیزہ سے حملہ کیا۔حرامؓ وہیں مارے گئے۔جب نیزہ اُن کے گلے سے پار ہوا تو وہ یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ یعنی اللہ اکبر۔کعبہ کے ربّ کی قسم !میں اپنی مراد کو پہنچ گیا۔۲۷۵؎
اِس دھوکا بازی سے حرامؓ کے قتل کرنے کے بعد قبیلہ کے سرداروں نے اہلِ قبیلہ کو جوش دلایاکہ باقی جماعت معلّمین پر بھی حملہ کریں۔مگر قبیلہ والوں نے کہا کہ ہمارے رئیس ابوبراء نے ضامن بننا منظور کیا ہے ہم اِس جماعت پر حملہ نہیں کر سکتے۔اس پر قبیلہ کے سرداروں نے اُن دو قبیلوںکی مددکے ساتھ جو مسلمان معلّمین کو لانے کے لئے گئے تھے،جماعت معلّمین پر حملہ کر دیا۔ اُن کا یہ کہنا کہ ہم وعظ کرنے اور اِسلام سکھانے آئے ہیں لڑنے نہیں آئے بالکل کارگر نہ ہوا اور کفار نے مسلمانوں کوقتل کرنا شروع کردیا۔آخر تین آدمیوں کے سِوا باقی سب شہید ہوگئے۔ اس جماعت میں سے ایک آدمی لنگڑا تھااور لڑائی ہونے سے پہلے پہاڑی پر چڑھ گیا تھااور دو اُونٹ چرانے جنگل کو گئے ہوئے تھے۔ واپسی پر اُنہوں نے دیکھا کہ اُن کے چھیاسٹھ ساتھی میدان میں مرے پڑے ہیں۔ دونوںنے آپس میں مشورہ کیا۔ ایک نے کہاکہ ہمیں چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اِس حادثہ کی اطلاع دیں۔ دسرے نے کہا جہاں ہماری جماعت کا سردار جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا امیر مقرر کیا تھاقتل کیا گیاہے میں اُس جگہ کو چھوڑ نہیں سکتا۔یہ کہتے ہوئے وہ تن تنہا کفّار پر حملہ آور ہوااور لڑتا ہوا مارا گیا۔دوسرے کو گرفتار کر لیا گیامگر بعد میں ایک قسم کی بناء پر جو قبیلہ کے ایک سردار نے کھائی تھی وہ چھوڑدیا گیا۔ قتل ہونے والوں میں عامربن فہیرہ بھی تھے جو حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام تھے۔اُن کا قاتل ایک شخص جبار بن سلمٰی تھاجو بعد میں مسلمان ہو گیا۔جبار کہا کرتا تھا کہ عامر کا قتل ہی میرے مسلمان ہونے کا موجب ہواتھا۔جبار کہتا ہے کہ جب میں جبار کو قتل کرنے لگاتو میں نے عامر کو یہ کہتے سنا فُزْتُ وَاللّٰہِخدا کی قسم! میں نے اپنی مراد کو پالیا۔اس کے بعد میں نے ایک شخص سے پوچھا۔جب مسلمان کو موت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ ایسی باتیں کیوں کرتا ہے؟ اُس شخص نے جواب دیا کہ مسلمان اللہ کی راہ میں موت کو نعمت اور فتح سمجھتا ہے۔جبار پر اِس جواب کا ایسا اثر ہواکہ اُس نے اِسلام کا باقاعدہ مطالعہ شروع کر دیا اور بِالآخر مسلمان ہو گیا۔۲۷۶؎
ان دو اندوہناک واقعات کی خبر جس میں قریباً ۸۰ مسلمان ایک شرارت آمیز سازش کے نتیجے میں شہید ہو گئے تھے فوراً مدینہ پہنچ گئی۔ مقتولین کوئی معمولی آدمی نہ تھے بلکہ حفّاظِ قرآن تھے۔ وہ کسی جرم کے مرتکب نہیں ہوئے تھے، نہ اُنہوں نے کسی کو دُکھ دیا تھا۔ وہ کسی جنگ میں بھی شریک نہیں تھے بلکہ اللہ اور مذہب کا جھوٹا واسطہ دیکر وہ دھوکے سے دشمن کے تصرف میں دے دیئے گئے تھے۔اِن واقعات سے بِلا شک و شبہ ثابت ہوتا ہے کہ کفّار کو اِسلام سے سخت دشمنی تھی۔اس کے بِالمقابل اِسلام کے حق میں مسلمانوں کا جوش بھی نہایت گہرا اور پائدار تھا۔
غزوہ بنی مصطلق
جنگِ اُحد کے بعد مکّہ میں سخت قحط پڑا۔مکّہ والوں کو جو دشمنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی اور جو تدابیر وہ آپ کے برخلاف لوگوں کے
درمیان نفرت پھیلانے کی ملک بھر میں کر رہے تھے،بالکل نظر انداز کر کے آنحضرت ﷺنے اِس سخت مصیبت کے وقت میں مکّہ کے غرباء کی امداد کے لئے ایک رقم جمع کی،مگر اِس خیرخواہی کا بھی اہلِ مکہ پر کچھ اثر نہ ہوااور اُن کی دشمنی میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ وہ دشمنی میں اَور بھی بڑھ گئے۔ ایسے قبائل بھی جو پہلے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کرتے تھے دشمن بن گئے۔ اِن قبائل میں سے ایک قبیلہ بنی مصطلق تھا۔ اُن کے تعلقات مسلمانوں کے ساتھ اچھے تھے مگراب اُنہوں نے مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری شروع کر دی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کی تیاری کا علم ہوا تو آپ نے حقیقت حال دریافت کرنے کے لئے کچھ آدمی بھیجے۔ جنہوں نے واپس آکر اُن اطلاعات کی تصدیق کی۔ اِس پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ خود جا کر اس نئے حملہ کا مقابلہ کریں۔ چنانچہ آپ نے ایک فوج تیار کی اور اُسے لے کر بنو مصطلق کی طرف گئے۔ جب مسلمانوں کی فوج کا دشمن سے مقابلہ ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوشش کی کہ دشمن بغیر لڑائی کے پیچھے ہٹ جانے پر آمادہ ہوجائے مگر اُنہوں نے انکار کیا۔ اِس پر جنگ ہوئی اور چند گھنٹوں کے اندر دشمن کو شکست ہو گئی۔
چونکہ کفّارِ مکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے تھے اور جو قبائل دوست تھے وہ بھی دشمن بن رہے تھے، اس لئے اُن منافقین نے بھی جو مسلمانوں کے درمیان موجود تھے اِس موقع پر یہ جرأت کی کہ وہ مسلمانوں کی طرف سے ہو کر جنگ میں حصہ لیں۔ غالباً اُن کا خیال تھا کہ اس طرح اُنہیں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا موقع مل سکے گا مگر بنو مصطلق کے ساتھ جو لڑائی ہوئی وہ چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی اِس لئے اِس لڑائی کے دوران میں منافقین کو کوئی شرارت کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ بنو مصطلق کے قصبہ میں کچھ دن قیام فرمائیں۔ آپ کے قیام کے دوران میں ایک مکہ کے رہنے والے مسلمان کا ایک مدینہ کے رہنے والے مسلمان سے کنویں سے پانی نکالنے کے متعلق جھگڑا ہو گیا۔ اتفاق سے یہ مکہ والا آدمی ایک آزاد شدہ غلام تھا اُس نے مدینہ والے شخص کو مارا۔ جس پر اُس نے اہل مدینہ کو جنہیں انصار کہتے تھے پکارا اور مکہ والے نے مہاجرین کو پکارا۔ اِس طرح جوش پھیل گیا۔ کسی نے یہ دریافت کرنے کی کوشش نہ کی کہ اصل واقعہ کیا ہے۔ دونوں طرف کے جوان آدمیوں نے تلواریں نکال لیں۔ عبداللہ بن ابی بن سلول سمجھا کہ ایسا موقع خدا نے مہیا کر دیاہے۔ اُس نے چاہا کہ آگ پر تیل ڈالے اور اہل مدینہ کو مخاطب کر کے کہا کہ اِن مہاجرین پر تمہاری مہربانی حد سے بڑھ گئی ہے اور تمہارے نیک سلوک سے اُن کے سر پھر گئے ہیں اور یہ دن بدن تمہارے سرپر چڑھتے جاتے ہیں۔ قریب تھا کہ اِس تقریر کا وہی اثر ہو ا ہوتاجو عبداللہ چاہتا تھا اور جھگڑا شدت پکڑ جاتا مگر ایسا نہ ہوا۔ عبداللہ نے اپنی شر انگیز تقریر کا اندازہ لگانے میں غلطی کی تھی اور یہ سمجھتے ہوئے کہ انصار پر اس کا اثر ہو گیا ہے، اُس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم مدینہ میں واپس پہنچ لیں پھر جو معزز ترین انسان ہے وہ ذلیل ترین انسان کو باہر نکال دے گا۔ معزز ترین انسان سے اُس کی مراد وہ خود تھا اور ارذل ترین سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ)۔ جو نہی یہ بات اُس کے منہ سے نکلی مؤمنوں پر اُس کی حقیقت کھل گئی اور انہوں نے کہا کہ یہ معمولی بات نہیں بلکہ یہ شیطان کا قول ہے جو ہمیں گمراہ کرنے آیا ہے۔ ایک جوان آدمی اُٹھا اور اپنے چچا کے ذریعے اُس نے یہ خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دی۔ آپ نے عبداللہ بن ابی بن سلول اور اُس کے دوستوں کو بلایا اور پوچھا کیا بات ہوئی ہے؟ عبداللہ نے اور اس کے دوستوں نے بالکل انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ واقعہ جو ہمارے ذمہ لگایا گیا ہے ہوا ہی نہیں۔ آپ نے کچھ نہ کہا۔ لیکن سچی بات پھیلنی شروع ہو گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد عبداللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے عبداللہ نے بھی یہ بات سنی۔ وہ فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا ۔ اے اللہ کے نبی! میرے باپ نے آپ کی ہتک کی ہے اُس کی سزا موت ہے اگر آپ یہی فیصلہ کریں تو میں پسند کرتا ہوںکہ آپ مجھے حکم دیں کہ میں اپنے باپ کو قتل کروں۔ اگر آپ کسی اور کو حکم دیں گے اور میرا باپ اُس کے ہاتھوں مارا جائے گا تو ہو سکتا ہے کہ میں اُس آدمی کو قتل کر کے اپنے باپ کا بدلہ لوں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے لوں۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میرا ہر گز ارادہ نہیں میں تمہارے والد کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا سلوک کروں گا۔ جب عبداللہ نے اپنے باپ کی بیوفائی اور درشت کلامی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نرمی اور مہربانی سے مقابلہ کیا تو اس کا ایمان اور بڑھ گیا اور اپنے باپ کے خلاف اُس کا غصہ بھی اُسی نسبت سے ترقی کر گیا۔ جب لشکرمدینہ کے قریب پہنچا تو اس نے آگے بڑھ کر اپنے باپ کا راستہ روک لیا اور کہا میں تم کو مدینہ کے اندر داخل نہیں ہونے دوں گاتا وقتیکہ تم وہ الفاظ واپس نہ لے لوجو تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف استعمال کئے ہیں۔ جس منہ سے یہ بات نکلی ہے کہ خد اکا نبی ذلیل ہے اور تم معزز ہو اُسی منہ سے تم کو یہ بات کہنی ہو گی کہ خد اکا نبی معزز ہے اور تم ذلیل ہو۔ جب تک تم یہ نہ کہو میں تمہیں ہرگز آگے نہ جانے دوں گا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول حیران اور خوفزدہ ہو گیا اور کہنے لگا اے میرے بیٹے! میں تمہارے ساتھ اتفاق کرتا ہوں، محمد معزز ہے اور میں ذلیل ہوں۔ نوجوان عبداللہ نے اس پر اپنے باپ کو چھوڑ دیا۔ ۲۷۷؎
مدینہ پر سارے عرب کی چڑھائی
غزوہ خندق
اس سے پہلے یہود کے دو قبیلوں کا ذکر کیا جا چکا ہے جو لڑائی، فساد،قتل اور قتل کرنے کے منصوبوں کی وجہ سے مدینہ سے جلاوطن کر دیئے گئے تھے۔ ان
میں سے بنو نضیر کا کچھ حصہ تو شام کی طرف ہجرت کر گیا تھا اور کچھ حصہ مدینہ سے شمال کی طرف خیبر نامی ایک شہر کی طرف ہجرت کر گیا تھا۔ خیبر عرب میں یہود کا ایک بہت بڑا مرکز تھا اورایک قلعہ بند شہر تھا۔ یہاں جا کر بنو نضیر نے مسلمانوں کے خلاف عربوں میں جوش پھیلانا شروع کیا۔ مکہ والے تو پہلے ہی مخالف تھے، کسی مزید انگیخت کے محتاج نہ تھے۔ اسی طرح غطفان نامی نجد کا قبیلہ جو عرب کے قبیلوں میں بہت بڑی حیثیت رکھتا تھا وہ بھی مکہ والوں کی دوستی میں اِسلام کی دشمنی پر آمادہ رہتا تھا۔ اب یہود نے قریش اور غطفان کو جوش دلانے کے علاوہ بنو سلیم اور بنواسد دو اَور زبردست قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف اُکسانا شروع کیا اور اسی طرح بنوسعد نامی قبیلہ جو یہود کا حلیف تھا اُس کو بھی کفّارِ مکہ کاساتھ دینے کے لئے تیا رکیا۔ ایک لمبی تیاری کے بعد عرب کے تمام زبردست قبائل کے ایک اتحادِ عام کی بنیاد رکھ دی گئی جس میں مکہ کے لوگ بھی شامل تھے۔ مکہ کے اِردگرد کے قبائل بھی تھے اور نجد اور مدینہ سے شمال کی طرف کے علاقوں کے قبائل بھی شامل تھے اور یہود بھی شامل تھے۔ اِن سب قبائل نے مل کر مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لئے ایک زبردست لشکر تیار کیا۔ یہ ماہ شوال ۵ہجری آخر فروری و مارچ ۶۲۷ء کا واقعہ ہے۔۲۷۸؎ مختلف مؤرخوں نے اس لشکر کا اندازہ دس ہزار سے چوبیس ہزار تک لگایا ہے۔لیکن ظاہر ہے کہ تمام عرب کے اجتماع کا نتیجہ صرف دس ہزار سپاہی نہیں ہو سکتا یقینا چوبیس ہزار والا اندازہ زیادہ صحیح ہے اور اگر اور کچھ نہیں تو یہ لشکر اٹھارہ بیس ہزار کا تو ضرور ہوگا۔ مدینہ ایک معمولی قصبہ تھا اِس قصبہ کے خلاف سارے عرب کی چڑھائی کوئی معمولی نہیں تھی۔ مدینہ کے مرد جمع کر کے (جن میں بوڑھے، جوان اور بچے بھی شامل ہوں) صرف تین ہزار آدمی نکل سکتے تھے اس کے برخلاف دشمن کی فوج بیس اور چوبیس ہزار کے درمیان تھی اور پھر وہ سب کے سب فوجی آدمی تھے۔ جوان اور لڑنے کے قابل تھے۔ کیونکہ جب شہر میں رہ کر حفاظت کا سوال پیدا ہوتاہے تو اس میں بچے اور بوڑھے بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ مگر جب دُور دراز مقام پر لشکر چڑھائی کر کے جاتا ہے تو اُس میں صرف جوان اور مضبوط آدمی ہوتے ہیں۔ پس یہ بات یقینی ہے کہ کفّار کے لشکر میں بیس ہزار یا پچیس ہزار جتنے بھی آدمی تھے وہ سب کے سب مضبوط ، جوان اور تجربہ کار سپاہی تھے۔ لیکن مدینہ کے کل مردوں کی تعداد بچوں اور اپاہچوں کو ملا کر بمشکل تین ہزار ہوتی تھی۔ ظاہر ہے کہ ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر مدینہ کے لشکر کی تعداد تین ہزار سمجھی جائے تو دشمن کی تعداد چالیس ہزار سمجھنی چاہئے اور اگر دشمن کے لشکر کی تعداد بیس ہزار سمجھی جائے تو مدینہ کے سپاہیوں کی تعداد صرف ڈیڑھ ہزار فرض کرنی چاہئے۔ جب اِس لشکر کے جمع ہونے اور حملہ کی تیاریوں کی خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے صحابہ کو جمع کر کے مشورہ کیا کہ اس موقع پر کیا کرنا چاہئے۔ صحابہ میں سلمانؓ فارسی سے جو سب سے پہلے فارسی مسلمان تھے دریافت فرمایا کہ تمہارے ملک میں ایسے موقع پر کیا کیا کرتے ہیں؟ تو اُنہوںنے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! جب شہر بے حفاظت ہو اور سپاہی تھوڑے ہوں تو ہمارے ملک کے لوگ خندق کھود کر اُس کے اندر محصور ہوجایا کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی یہ تجویز پسند فرمائی۔ مدینہ کے ایک طرف ٹیلے تھے دوسری طرف ایسے محلے تھے جن کے مکانات ایک دوسرے سے پیوستہ تھے اور دشمن صرف چند گلیوں میں سے ہو کر آسکتا تھا۔ تیسری طرف کچھ مکانات تھے اور کچھ باغات اور کچھ فاصلہ پر یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے قلعے تھے۔ یہ قبیلہ چونکہ مسلمانوں سے اتحاد کا معاہدہ کر چکاتھا اِس لیے یہ سمت بھی محفوظ سمجھ لی گئی تھی۔ چوتھی طرف کھلا میدان تھا اور اس طرف سے زیادہ خطرہ ہو سکتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ اِس کھلے میدان کی طرف خندق بنا دی جائے تاکہ دشمن اچانک شہر میں داخل نہ ہو سکے۔ چنانچہ آپ نے دس دس گز کا حصہ کھولنے کیلئے دس دس آدمیوں کے سپرد کر دیا اور اس طرح قریباً ایک میل لمبی خندق کھدوائی۔ جب خندق کھودی جارہی تھی تو زمین میں سے ایک ایسا پتھر نکلا جو کسی طرح لوگوں سے ٹوٹتا نہیں تھا۔ صحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس بات کی خبر دی تو آپ وہاں خود تشریف لے گئے۔ اپنے ہاتھ میں کدال پکڑا اور زور سے اُس پتھر پر مارا۔ کدال کے پڑنے سے اس پتھر میں سے روشنی نکلی اور آپ نے فرمایا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ پھر دوبارہ آپ نے کدال مارا تو پھر روشنی نکلی پھر آپ نے فرمایا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ پھر آپ نے تیسری دفعہ کدال مارا اور پھر پتھر سے روشنی نکلی اور ساتھ ہی پتھر ٹوٹ گیا۔اس موقع پر پھر آپ نے فرمایا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ صحابہؓ نے آپ سے پوچھا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ نے تین دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرُکیوں فرمایا؟ آپ نے فرمایا پتھر پر کدال پڑنے سے تین دفعہ جو روشنی نکلی تو تینوں دفعہ خدا نے مجھے اسلا م کی آئندہ ترقیات کا نقشہ دکھایا۔ پہلی دفعہ کی روشنی میں مملکت قیصر کے شام کے محلات دکھائے گئے اور اُس کی کنجیاں مجھے دی گئیں، دوسری دفعہ کی روشنی میں مدائن کے سفید محلات مجھے دکھائے گئے اورمملکت فارس کی کنجیاں مجھے دی گئیں، تیسری دفعہ کی روشنی میں صنعاء کے دروازے مجھے دکھائے گئے اور مملکت یمن کی کنجیاں مجھے دی گئیں۔۲۷۹؎ پس تم خد اکے وعدوں پر یقین رکھو دشمن تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
یہ تھوڑے سے آدمی اتنی لمبی خندق فوجی اصول کے مطابق تو نہیں کھود سکتے تھے۔ پس یہ خندق اتنا ہی فائدہ دے سکتی تھی کہ دشمن اچانک اندر نہ گھس آئے ورنہ اس خندق سے پار ہونا دشمن کیلئے نا ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ آئندہ جو واقعات بیان ہوں گے اُن سے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے کہ دشمن نے بھی مدینہ کے حالات کو مدنظر رکھ کر اُسی طرف سے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔ چنانچہ دشمن کا لشکر جرار اسی طرف سے مدینہ میں داخل ہونے کیلئے آگے بڑھا۔ رسول کریم ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے بھی کچھ لوگوں کو شہر کے دوسرے حصوں کی حفاظت کیلئے مقرر کر دیا اور بقیہ آدمیوں کو ساتھ لے کر جو بارہ سَو کے قریب تھے خندق کی حفاظت کیلئے تشریف لے گئے۔
غزوہ خندق کے وقت اِسلامی لشکر کی اصل تعداد کیا تھی؟
اِس موقع پر مسلمانوں کے لشکر کی تعداد کے بارہ میں مؤرخین میں سخت اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے اس لشکر کی تعداد تین ہزار لکھی ہے بعض نے
بارہ تیرہ سَو اور بعض نے سات سَو۔ یہ اتنا بڑا اختلاف ہے کہ اس کی تأویل بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہے اور مؤرخین اسے حل نہیں کر سکے۔ لیکن میں نے اس کی حقیقت کو پالیا ہے اور وہ یہ کہ تینوں قسم کی روایتیں درست ہیں۔ یہ بتایا جا چکاہے کہ جنگ اُحد میں منافقین کے واپس آجانے کے بعد مسلمانوں کا لشکر صرف سات سَو افراد پر مشتمل تھا۔ جنگ احزاب اس کے صرف دو سال کے بعد ہوئی ہے اور اس عرصہ میں کوئی بڑا قبیلہ اِسلام لا کر مدینہ میں آکر نہیں بسا۔ پس سات سَو آدمیوں کا یکدم تین ہزار ہو جانا قرین قیاس نہیں۔ دوسری طرف یہ امر بھی قرین قیاس نہیں کہ اُحد کے دو سال بعد تک باوجود اِسلام کی ترقی کے قابلِ جنگ مسلمان اتنے ہی رہے جتنے اُحد کے وقت تھے۔ پس اِن دونوں تنقیدوں کے بعد وہ روایت ہی درست معلوم ہوتی ہے کہ لڑنے کے قابل مسلمان جنگ احزاب کے وقت کوئی بارہ سَو تھے۔ اب رہا یہ سوال کہ پھر کسی نے تین ہزار اور کسی نے سات سَو کیوں لکھا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دو روایتیں الگ الگ حالتوں اور نظریوں کے ماتحت بیان کی گئی ہیں۔ جنگ احزاب کے تین حصے تھے ایک حصہ اس کا وہ تھا جب ابھی دشمن مدینہ کے سامنے نہ آیا تھا اور خندق کھودی جار ہی تھی۔ اس کام میں کم سے کم مٹی ڈھونے کی خدمت بچے بھی کر سکتے تھے اور بعض عورتیں بھی اس کام میں مدد دے سکتی تھیں۔ پس جب تک خندق کھودنے کاکام رہا مسلمان لشکر کی تعداد تین ہزار تھی مگر اِس میںبچے بھی شامل تھے اورصحابیہ عورتوں کے جوش کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اِس تعداد میں کچھ عورتیں بھی شامل ہوں گی جو خندق کھودنے کا کام تو نہیں کرتی ہوں گی مگر اوپر کے کاموں میں حصہ لیتی ہوں گی۔ یہ میرا خیال ہی نہیں تاریخ سے بھی میرے اس خیال کی تصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے جب خندق کھودنے کا وقت آیا سب لڑکے بھی جمع کر لئے گئے اور تمام مرد خواہ بڑے تھے خواہ بچے، خندق کھودنے یا اُس میں مدد دینے کا کام کرتے تھے، پھر جب دشمن آگیا اور لڑائی شروع ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن تمام لڑکو ں کو جو پندرہ سال سے چھوٹی عمر کے تھے چلے جانے کا حکم دیا اور جو پندرہ سال کے ہو چکے تھے، اُنہیں اجازت دی کہ خواہ ٹھہریں خواہ چلے جائیں۔ ۲۸۰؎
اِس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خندق کھودنے کے وقت مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی اور جنگ کے وقت کم ہو گئی کیونکہ نابالغوں کو واپس چلے جانے کا حکم دے دیا گیا تھا۔ پس جن روایتوں میں تین ہزار کا ذکر آیا ہے وہ خندق کھودنے کے وقت کی تعداد بتاتی ہیں جس میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔ اور جیسا کہ میں نے دوسری جنگوں پر قیاس کر کے نتیجہ نکالا ہے کچھ عورتیں بھی تھیں۔ لیکن بارہ سَو کی تعداد اُس وقت کی ہے جب جنگ شروع ہوگئی اور صرف بالغ مرد رہ گئے۔
اب رہا یہ سوال کہ تیسری روایت جو سات سَو سپاہی بتاتی ہے کیا وہ بھی درست ہے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت ابن اسحق مؤرخ نے بیان کی ہے جو بہت معتبر مؤرخ ہے اور ابن حزم جیسے زبردست عالم نے اِس کی بڑے زور سے تصدیق کی ہے۔ پس اس کے بارہ میں بھی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس کی تصدیق اس طرح بھی ہوتی ہے کہ تاریخ کی مزید چھان بین سے معلوم ہوتا ہے کہ جب جنگ کے دوران میں بنو قریظہ کفّار کے لشکر سے مل گئے اور اُنہوں نے یہ ارادہ کیا کہ مدینہ پر اچانک حملہ کر دیں اور اُن کی نیتوں کا راز فاش ہو گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی اس جہت کی حفاظت بھی ضروری سمجھی جس سمت بنو قریظہ تھے اور جو سمت پہلے اس خیال سے بے حفاظت چھوڑ دی گئی تھی کہ بنو قریظہ ہمارے اتحادی ہیں یہ دشمن کو اِس طرف سے نہ آنے دیں گے۔ چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بنو قریظہ کے غدر کا حال معلوم ہوا تو چونکہ مستورات بنو قریظہ کے اعتبار پر اس علاقہ میں رکھی گئی تھیں جدھر بنو قریظہ کے قلعے تھے اور وہ بغیر حفاظت تھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اب اُن کی حفاظت ضروری سمجھی اور دو لشکر مسلمانوں کے تیار کر کے عورتوں کے ٹھہرنے کے دونوں حصوں پر مقرر فرمائے۔ مسلمہ ابن اسلمؓ کو دو سَو صحابہ دے کر ایک جگہ مقرر کیا اور زید بن حارثہؓ کو تین سَو صحابہ دے کر دوسری جگہ مقرر کیا اور حکم دیا کہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد بلند آواز سے تکبیر کہتے رہا کریں تا معلوم ہوتا رہے کہ عورتیں محفوظ ہیں۔ اِس روایت سے ہماری یہ مشکل کہ سات سَو سپاہی جنگ خندق میں ابن اسحاق نے کیوں بتائے ہیں حل ہو جاتی ہے۔کیونکہ بارہ سَو سپاہیوں میں سے جب پانچ سَو سپاہی عورتوں کی حفاظت کے لئے بھجوا دیئے گئے تو بارہ سَو کا لشکر صرف سات سَو رہ گیا اور اس طرح جنگ خندق کے سپاہیوں کی تعداد کے متعلق جو شدید اختلاف تاریخوں میں پایا جاتا ہے وہ حل ہو گیا۔
خلاصہ یہ کہ اس خطرناک مصیبت کے وقت خندق کی حفاظت کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف سات سَو آدمی تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے خندق کھودی تھی لیکن پھر بھی اتنے بڑے لشکر کو خندق کے پار سے روکنا بھی اتنے تھوڑے آدمیوں کے لئے ناممکن تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی مدد کے بھروسہ پر یہ قلیل لشکر ایمان اور یقین کے ساتھ خندق کے پیچھے دشمن کے جرار لشکر کا انتظار کرنے لگا اور عورتیں اور بچے دو الگ الگ جگہوں پر اکٹھے کر دیئے گئے۔ دشمن جب خندق تک پہنچا تو چونکہ یہ عرب کے لئے ایک بالکل نئی بات تھی اور اس قسم کی لڑائی کے لئے وہ تیار نہ تھے اُنہوں نے خندق کے سامنے اپنے خیمے لگا دئیے اور مدینہ میں داخل ہونے کی تدبیریں سوچنے لگے۔
بنو قریظہ کی غداری
چونکہ مدینہ کا ایک کافی حصہ خندق سے محفوظ تھا اور دوسری طرف کچھ پہاڑی ٹیلے، کچھ پختہ مکانات اور کچھ باغات وغیرہ تھے، اس
لئیفوج یکدم حملہ نہیں کر سکتی تھی۔ پس اُنہوں نے مشورہ کر کے یہ تجویز کی کہ کسی طرح یہود کا تیسرا قبیلہ جو ابھی مدینہ میں باقی تھا اور جس کا نام بنو قریظہ تھا اپنے ساتھ ملا لیا جائے اور اس ذریعہ سے مدینہ تک پہنچنے کا راستہ کھولا جائے۔ چنانچہ مشورہ کے بعد حیی ابن اخطب جو جلاو طن کردہ بنو نضیر کا سردار تھا اور جس کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے سارا عرب اکٹھا ہوکرمدینہ پر حملہ آور ہوا تھا اُسے کفّار کی فوج کے کمانڈر ابوسفیان نے ا س بات پر مقرر کیا کہ جس طرح بھی ہو بنوقریظہ کو اپنے ساتھ شامل کرو، چنانچہ حیی ابن اخطب یہودیوں کے قلعوں کی طرف گیا اور اُس نے بنوقریظہ کے سرداروں سے ملنا چاہا۔ پہلے تو اُنہوں نے ملنے سے انکار کیا لیکن جب اُس نے اُن کو سمجھایا کہ اِس وقت سارا عرب مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے آیا ہے اور یہ بستی سارے عرب کا مقابلہ کسی صورت میں نہیں کر سکتی اِس وقت جو لشکر مسلمانوں کے مقابل پر کھڑا ہے اُس کو لشکر نہیں کہنا چاہئے بلکہ ایک ٹھاٹھیں مارنے والا سمندر کہنا چاہئے تو اِن باتوں سے اُس نے بنو قریظہ کو آخر غداری اور معاہدہ شکنی پر آمادہ کردیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ کفّار کا لشکر سامنے کی طرف سے خندق پار ہونے کی کوشش کرے اور جب وہ خندق پار ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے تو بنوقریظہ مدینہ کی دوسری طرف سے مدینہ کے اُس حصہ پر حملہ کردیں گے جہاں عورتیں اور بچے ہیں جو بنو قریظہ پر اعتبار کر کے بغیر حفاظت کے چھوڑ دیئے گئے تھے اور اس طرح مسلمانوں کی مقابلہ کی طاقت بالکل کچلی جائے گی اور ایک ہی دم میں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے سب مار دئیے جائیں گے۔ یہ یقینی بات ہے کہ اگر اِس تدبیر میں تھوڑی بہت کامیابی بھی کفّار کو ہو جاتی تو مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ حفاظت کی باقی نہیں رہتی تھی۔ بنو قریظہ مسلمانوں کے حلیف تھے اور اگر وہ کھلی جنگ میں شامل نہ بھی ہوتے تب بھی مسلمان یہ امید کرتے تھے کہ اُن کی طرف سے ہو کر مدینہ پر کوئی حملہ نہیں کر سکے گا۔ اسی وجہ سے اُن کی طرف کا حصہ بالکل غیر محفوظ چھوڑ دیا گیا تھا۔ بنو قریظہ اور کفّار نے بھی اس صورت حالات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ جب بنو قریظہ کفّار کے ساتھ مل گئے تو وہ کھلے بندوںکفّار کی مدد نہ کریں تا ایسا نہ ہو کہ مسلمان مدینہ کی اُس طرف کی حفاظت کا بھی کوئی سامان کر لیں جو بنو قویظہ کے علاقہ کے ساتھ ملتی تھی۔ یہ تدبیر نہایت ہی خطرناک تھی۔ مسلمانو ں کو غافل رکھتے ہوئے کسی ایسے وقت میں بنو قریظہ کا دشمن کے ساتھ جا ملنا جبکہ اسلامی فوج پر کفّار کی فوج کا زبردست دھاوا ہو رہاہو مدینہ کی اس طرف کی حفاظت کو جس طرف بنو قریظہ کے قلعے واقعہ تھے بالکل ناممکن بنا دیتا تھا۔ دو طرف سے مسلمانوں پر حملہ کر سکنے کا امکان پیدا ہو جانے کے بعد مکہ کے لشکر نے خندق پر حملہ شروع کیا۔ پہلے چند دن تو اُن کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ خندق سے کس طرح گزریں، لیکن دو چار دن کے بعد اُنہوں نے یہ تدبیر نکالی کہ تیرانداز اونچی جگہوں پر کھڑے ہو کر اُن مسلمان دستوں پر تیر اندازی شروع کر دیتے تھے جو خندق کی حفاظت کے لئے خندق کے ساتھ ساتھ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر بٹھائے گئے تھے۔ جب تیروں کی بوچھاڑ کی وجہ سے مسلمان پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جاتے تو اعلیٰ درجہ کے گھوڑ سوار خندق کو پھاندنے کی کوشش کرتے۔ خیال کیا گیا تھا کہ اِس قسم کے متواتر حملوں کے نتیجہ میں کوئی نہ کوئی جگہ ایسی نکل آئے گی کہ جہاں سے پیدل فوج زیادہ تعداد میں خندق پار ہو سکے گی۔یہ حملے اتنی کثرت کے ساتھ کئے جاتے تھے اور اِس طرح متواتر کئے جاتے تھے کہ بعض دفعہ مسلمانوں کو سانس لینے کا بھی موقع نہیں ملتا تھا۔ چنانچہ ایک دن حملہ اتنا شدید ہو گیا کہ مسلمانوں کی بعض نمازیں وقت پر ادا نہ ہو سکیں جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا صدمہ ہو اکہ آپ نے فرمایا خد اکفّار کو سزا دے اُنہو ںنے ہماری نمازیں ضائع کیں۔۲۸۱؎
گو میں نے یہ واقعہ دشمنوں کے حملوں کی شدت ظاہر کرنے کیلئے بیان کیا ہے، لیکن اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر ایک بہت بڑی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ترین چیز آپ کے لئے خداتعالیٰ کی عبادت تھی جبکہ دشمن چاروں طرف سے مدینہ کو گھیرے ہوئے تھا۔ جبکہ مدینہ کے مرد تو الگ رہے اُن عورتوں اور بچوں کی جانیں بھی خطرہ میں تھیں۔ جب ہر وقت مدینہ کے لوگوں کا دل دھڑک رہا تھا کہ دشمن کسی طرف سے مدینہ کے اندر داخل نہ ہو جائے اُس وقت بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش یہی تھی کہ خدا تعالیٰ کی عبادت اپنے وقت پر عمدگی کے ساتھ ادا ہو جائے۔ مسلمانوں کی عبادت یہودیوں اور عیسائیوں اور ہندوئوں کی طرح ہفتہ میں کسی ایک دن نہیں ہوا کرتی بلکہ مسلمانوں کی عبادت دن رات میں پانچ دفعہ ہوتی ہے۔ ایسے خطرناک وقت میں تو دن میں ایک دفعہ بھی نماز ادا کرنا انسان کے لئے مشکل ہے چہ جائیکہ پانچ وقت اور پھر عمدگی کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی جائے۔ مگر ان خطرناک ایام میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پانچوں نمازیں اپنے وقت پر ادا کرتے تھے اور اگر ایک دن دشمن کے شدید حملہ کی وجہ سے آپ اپنے ربّ کا نام اطمینان اور آرام سے اپنے وقت پر نہ لے سکے تو آپ کو شدید تکلیف پہنچی۔
اُس وقت سامنے سے دشمن حملہ کر رہا تھا اورپیچھے سے بنو قریظہ اس بات کی تاک میں تھے کہ کوئی موقع مل جائے تو بغیر مسلمانوں کے شبہات کو اُبھارنے کے وہ مدینہ کے اندر گھس کر عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیں۔ چنانچہ ایک دن بنو قریظہ نے ایک جاسوس بھیجا تاکہ وہ معلوم کرے کہ عورتیں اور بچے اکیلے ہی ہیں یا کافی تعداد سپاہیوں کی اُن کی حفاظت کے لئے مقرر ہے۔ جس خاص احاطہ میں وہ خاص خاص خاندان جن کو دشمن سے زیادہ خطرہ تھا جمع کر دیئے گئے تھے اُس کے پاس اُس جاسوس نے آکر منڈلانہ اور چاروں طرف دیکھنا شروع کیا کہ مسلمان سپاہی کہیں اِردگرد میں پوشیدہ تو نہیں ہیں۔ وہ ابھی اسی ٹوہ میں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے اُسے دیکھ لیا۔ اتفاقاً اُس وقت صرف ایک ہی مسلمان مرد وہاں موجود تھا اور وہ بھی بیمار تھا۔ حضرت صفیہؓ نے اُسے کہا کہ یہ آدمی دیر سے عورتوں کے علاقہ میں پھر رہا ہے اور جانے کا نام نہیں لیتا اور چاورں طرف دیکھتا پھر تاہے پس یہ یقینا جاسوس ہے تم اس کا مقابلہ کرو ایسا نہ ہو کہ دشمن پورے حالات معلوم کرکے اِدھر حملہ کر دے۔ اُس بیمار صحابی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ تب حضرت صفیہؓ نے خود ایک بڑا بانس لے کر اُس شخص کا مقابلہ کیا اور دوسری عورتوں کی مدد سے اُس کو مارنے میں کا میاب ہو گئیں۔۲۸۲؎ آخر تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ یہودی تھا اور بنو قریظہ کا جاسوس تھا۔ تب تو مسلمان اور بھی زیادہ گھبرا گئے اور سمجھے کہ اب مدینہ کی یہ طرف بھی محفوظ نہیں۔ مگر سامنے کی طرف سے دشمن کا اتنا زور تھا کہ اب وہ اس طرف کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں کر سکتے تھے لیکن باوجود اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی حفاظت کو مقدم سمجھا اور جیساکہ اُوپر لکھا جا چکا ہے بارہ سَو سپاہیوں میں سے پانچ سَو کو عورتوں کی حفاظت کے لئے شہر میں مقرر کر دیا اور خندق کی حفاظت اور اٹھارہ بیس ہزار لشکر کے مقابلہ کے لئے صرف سات سَو سپاہی رہ گئے۔ اِس حالت میں بعض مسلمان گھبرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! حالات نہایت خطرناک ہو گئے ہیں۔ اب بظاہر مدینہ کے بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی، آپ اِس وقت خدا تعالیٰ سے خاص طور پر دعا کریں اور ہمیں بھی کوئی دعا سکھلائیں جس کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کا فضل ہم پر نازل ہو۔ آپ نے فرمایا تم لوگ گھبرائو نہیں تم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرو کہ تمہاری کمزوریوں پر وہ پردہ ڈالے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کرے اور گھبراہٹ کو دور فرمائے۔ اور پھر آپ نے خود بھی اس طرح دعا فرمائی۔
اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتٰبِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِھْزِمِ الْاَحْزَابَ اَللّٰھُمَّ اھْزِمْھُمْ وَزَلْزِلْھُمْ۲۸۳؎ اور اسی طرح یہ دعا فرمائی۔ یَا صَرِیْخَ الْمَکْرُوْبِیْنَ یَاَمُجِیْبَ الْمُضْطَرِّیْنَ اکْشِفَْ ھَمِّیْ وَ غَمِّیْ وَکَرْبِیْ فَاِنَّکَ تَرٰی مَانَزَلَ بِیْ وَ بِاَصْحَابِیْ۲۸۴؎ اے اللہ! جس نے قرآن کریم مجھ پر نازل کیا ہے جو بہت جلدی اپنے بندوں سے حساب لے سکتا ہے یہ گروہ جو جمع ہوکر آئے ہیں اِن کو شکست دے۔ اے اللہ! میں پھر عرض کرتا ہوں کہ تو انہیں شکست دے اور ہمیں اِن پر غلبہ دے اور اُن کے ارادوںکو متزلزل کر دے۔ اے درد مندوں کی دعا سننے والے! اے گھبراہٹ میں مبتلا لوگوں کی پکار کا جواب دینے والے! میرے غم اور میری فکر اور میری گھبراہٹ کو دُور کر کیونکہ تو اِن مصائب کوجانتا ہے جو مجھے اور میرے ساتھیوں کو درپیش ہیں۔
منافقوں اور مؤمنوں کی حالت کا بیان
اِس موقع پر منافق تو اتنے گھبرا گئے کہ قومی حمیت اور اپنے شہر اور اپنی
عورتوں اور بچوں کی حفاظت کا خیال بھی اُن کے دلوں سے نکل گیا۔ مگر چونکہ اپنی قوم کے سامنے وہ ذلیل بھی نہیں ہونا چاہتے تھے اس لئے اُنہو ں نے بہانے بہانے سے لشکر سے فرار کی صورت سوچی۔ چنانچہ قرآن کریم میںآتا ہے۔ ۲۸۵؎ یعنی ایک گروہ اُن میں سے رسول کریم ﷺ کے پا س آیا اور آپ سے اجازت طلب کی کہ اُنہیں محاذِ جنگ سے پیچھے لوٹ آنے کی اجازت دی جائے۔ کیونکہ اُنہوں نے کہا ( اب یہودی بھی مخالف ہو گئے ہیں اور اُس طرف سے مدینہ کے بچائو کا کوئی ذریعہ نہیں) اور ہمارے گھر اُس علاقہ کی طرف سے بے حفاظت کھڑے ہیں( پس ہمیں اجازت دیجئے کہ جا کر اپنے گھروں کی حفاظت کریں) لیکن اُن کا یہ کہنا کہ اُن کے گھر بے حفاظت کھڑے ہیں بالکل غلط ہے۔ وہ بے حفاظت نہیں ہیں (کیونکہ خدا تعالیٰ مدینہ کی حفاظت کیلئے کھڑا ہے) وہ تو صرف ڈر کے مارے میدانِ جنگ سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ اُس وقت مسلمانوں کی جو حالت تھی اُس کا نقشہ قرآن کریم نے یوں کھینچا ہے۔ ۔۲۸۶؎ یعنی یاد تو کرو جب تم پر لشکر چڑھ کے آگیا تمہارے اوپر کی طر ف سے بھی اور نیچے کی طرف سے بھی۔ یعنی نیچے کی طرف سے کفّار اور اُوپر کی طرف سے یہود۔ جب کہ نظریں کج ہونے لگ گئیں اور دل اُچھل اُچھل کر گلے تک آنے لگے اور تم میں سے کئی خد اکی نسبت بدظنیاں کرنے لگ گئے۔ اُس وقت مؤمنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا اور مؤمنوں کو سر سے پیر تک ہلادیا گیا اور یاد کرو جبکہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض تھا اُنہوں نے کہنا شروع کیا ’’ اللہ اور اُس کے رسول نے ہم سے جھوٹے وعدے کئے تھے‘‘ اور یاد کرو جب اُن میں سے ایک گروہ اس حد تک پہنچ گیا کہ اُنہوں نے مؤمنوں سے بھی جا جا کر کہنا شروع کر دیا کہ اب کوئی چوکی یا قلعہ تمہیں بچا نہیں سکتا پس یہاں سے بھاگ جائو۔ اور مؤمنوں کی نسبت فرماتا ہے۔۲۸۷؎
یعنی منافقوں اور کمزور ایمان والوں کے مقابلہ میں مؤمنوں کا یہ حال تھا کہ جب اُنہوں نے دشمن کا یہ لشکر جرار دیکھا تو اُنہوںنے کہا کہ اس لشکر کے متعلق توا للہ اور اس کے رسول نے پہلے سے ہی ہم کو خبر دے چھوڑی تھی۔ اس لشکر کا حملہ تو اللہ اوراس کے رسول کی صداقت کا ثبوت ہے اور یہ لشکر جرار اُن کے ایمان کو ہلا نہ سکا۔ بلکہ ایمان اور طاقت میں مسلمان اور بھی زیادہ ہو گئے۔ مؤمنوں کا تو یہ حال ہے کہ اُنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اُس کو وہ پورے طور پر نبھا رہے ہیں چنانچہ کچھ تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنی جانیں دے کر اپنے مقصد کو حاصل کر لیا اور بعض ایسے ہیں کہ گو اُن کو جانیں دینے کا موقع تو نہیں ملا مگر وہ ہر وقت اس بات کی انتظار میں رہتے ہیں کہ اُن کو خدا کے رستہ میں جان دینے کا موقع ملے تو وہ جان دے دیں اور شروع دن سے اُنہوں نے خدا تعالیٰ سے جو عہد باندھا تھا اُس کو نبھا رہے ہیں۔
اِسلام میں مردہ لاش کا احترام
دشمن جو خندق پر حملہ کر رہا تھا بعض وقت وہ اُس کے پھاندنے میں کامیاب بھی ہو جاتا تھا، چنانچہ
ایک دن کفّار کے بعض بڑے بڑے جرنیل خندق پھاند کر دوسری طرف آنے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن مسلمانوں نے ایسا جان توڑحملہ کیا کہ سوائے واپس جانے کے اُن کے لئے کوئی چارہ نہ رہا۔ چنانچہ اُس وقت خندق پھاندتے ہوئے کفّار کا ایک بہت بڑا رئیس نوفل نامی مارا گیا۔ یہ اتنا بڑا رئیس تھا کہ کفّار نے یہ خیال کیا کہ اگر اس کی لاش کی ہتک ہوئی تو عرب میں ہمارے لئے منہ دکھانے کی کوئی جگہ نہیں رہے گی۔ چنانچہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر آپ اِس کی لاش واپس کر دیں تو وہ دس ہزار درہم آپ کو دینے کے لئے تیار ہیں۔ اُن لوگوں کا تو خیال یہ تھا کہ شاید جس طرح ہم نے مسلمان رئوساء بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے ناک اور کان اُحد کی جنگ میں کاٹ دئیے تھے اِسی طرح شاید آج مسلمان ہمارے اس رئیس کے ناک، کان کاٹ کر ہماری قوم کی بے عزتی کریں گے۔ مگر اسلام کے احکام تو بالکل اَور قسم کے ہیں۔ اسلام لاشوں کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا۔ چنانچہ کفّار کا پیغام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا۔ اِس لاش کو ہم نے کیا کرنا ہے یہ لاش ہمارے کس کام کی ہے کہ اس کے بدلہ ہم تم سے کوئی قیمت لیں۔ اپنی لاش بڑے شوق سے اُٹھا کر لے جائو۔ ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں۔۲۸۸؎
اتحادی فوجوں کے مسلمانوں پر حملے
اُن دنوں جس جوش کے ساتھ کفار حملہ کرتے تھے میوؔر اُس کا اِن الفاظ میں ذکر کرتا ہے۔
’’ دوسرے دن محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) نے دیکھا کہ اتحادی فوجیں متفقہ طور پر اُن پر حملے کرنے کے لئے تیار کھڑی ہیں، اُن کے حملوں کو روکنے کے لئے بہت زیادہ ہوشیار اور ہر وقت چوکس رہنا ضروری تھا۔ کبھی وہ متفقہ حملہ کرتے، کبھی دستوں میں تقسیم ہو کرمختلف چوکیوں پر حملہ کرتے اور جب کسی چوکی کو کمزور پاتے تو اپنی ساری فوج اُس جگہ پر جمع کر لیتے اور بے پناہ تیر ا ندازی کے پردہ میں وہ خندق پار کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یکے بعد دیگرے خالد اور عمرو جیسے مشہور لیڈروں کی ماتحتی میں فوج بہادرانہ حملہ شہر میں داخل ہونے کے لئے کرتی۔ ایک دفعہ تو خود محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا خیمہ دشمن کی زد میں آگیا لیکن مسلمانوں کے فدائیانہ مقابلہ اور تیروں کی بوچھاڑ نے حملہ آوروں کو پیچھے دھکیل دیا۔ یہ حملہ سارا دن جاری رہا اور چونکہ مسلمانوں کی فوج ساری مل کر بمشکل خندق کی حفاظت کر سکتی تھی کوئی آرام کا وقفہ مسلمانوں کو نہ ملا۔ رات پڑ گئی مگر رات کو بھی خالد کے ماتحت دستوں نے لڑائی کو جاری رکھا اور مسلمانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ رات کو بھی اپنی چوکیوں کی حفاظت پورے طور پر کریں۔ لیکن دشمن کی یہ تمام کوششیں بیکار گئیں۔ خندق کو کبھی بھی دشمن کے کافی سپاہی پار نہ کر سکے‘‘۔۲۸۹؎
لیکن باوجود اس کے کہ جنگ دو روز سے ہو رہی تھی سپاہی ایک دوسرے کے ساتھ گتھ جانے کا موقع نہیں پاتے تھے اس لئے چوبیس گھنٹہ کی جنگ میں اتحادیوں کے صرف تین آدمی مارے گئے اور مسلمانوں کے پانچ۔ اس حملہ میں سعد بن معاذؓ اوس قبیلہ کے رئیس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی صحابی مُہلک طور پر زخمی ہوئے۔اِن حملوں کا نتیجہ یہ ہو اکہ ایک جگہ خندق کے کنارے ٹوٹ گئے اور اُس طرف سے حملہ کرنا بہت ممکن ہو گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جرأت اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا یہ حال تھا کہ آپ سردی میں رات کو اُٹھ اُٹھ کر اُس جگہ جاتے اور اُس کا پہرہ دیتے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ پہرہ دیتے ہوئے تھک جاتے اور سردی سے نڈھال ہو جاتے تو واپس آکر تھوڑی دیر میرے ساتھ لحاف میں لیٹ جاتے، مگر جسم کے گرم ہوتے ہی پھر اُس شگاف کی حفاظت کے لئے چلے جاتے۔ اِس طرح متواتر جاگنے سے آپ ایک دن بالکل نڈھال ہوگئے اوررات کے وقت فرمایا کاش! اِس وقت کوئی مخلص مسلمان ہوتا تو میں آرام سے سو جاتا۔ اتنے میں باہر سے سعد بن وقاص کی آواز آئی۔ آپ نے پوچھا کہ کیوں آئے ہو؟ اُنہوں نے کہا آپ کا پہرہ دینے کو۔ آپ نے فرمایا مجھے پہرہ کی ضرورت نہیں تم فلاں جگہ جہاں خندق کا کنارہ ٹوٹ گیا ہے جائو اور اُس کا پہرہ دو تا مسلمان محفوظ رہیں۔ چنانچہ سعدؓ اُس جگہ کا پہرہ دینے چلے گئے اور آپ سو گئے۔۲۹۰؎
(عجیب بات ہے کہ جب آپ شروع شروع میں مدینہ تشریف لائے تھے اور خطرہ بہت بڑھا ہو اتھا تب بھی سعدؓ پہرہ دینے کے لئے تشریف لائے تھے) اِنہی ایام میں آپ نے ایک دن کچھ لوگوں کے اسلحہ کی آواز سُنی اور پوچھا کون ہے؟ تو عباد بن بشیر نے کہا میں ہوں۔ آپ نے فرمایا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ اُنہوں نے کہا ایک جماعت صحابہ کی ہے جو آپ کے خیمہ کا پہرہ دینے کے لئے آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا اِس وقت مشرکین خندق پھاندنے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں جائو اور اُن کا مقابلہ کر و میرے خیمہ کو رہنے دو۔۲۹۱؎
بنو قریظہ کی مشرکوں سے مل کر حملہ کے لئے تیاری اور اُس میں ناکامی
جیسا کہ اُوپر لکھا جا چکاہے یہود نے مدینہ میں چوری چھپے داخل ہونے کی کوشش کی اور اس میں اُن کا جاسوس مارا گیا۔ جب
یہود کو یہ معلوم ہوا کہ اُن کی سازش ظاہر ہوگئی ہے تو اُنہوں نے زیادہ دلیری سے عربوں کی مدد شروع کر دی۔ گو اجتماعی حملہ مدینہ کے پچھواڑے کی طرف سے نہیں کیا کیونکہ اُدھر میدان چھوٹا تھا اور مسلمانوں کی فوجوں کی موجودگی میں بڑا حملہ اُس طرف سے نہیں ہو سکتا تھا لیکن کچھ دن بعد دونوں فریق نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک وقت مقررہ پر یہودیوں اور مشرکوں کے لشکر یکدم مسلمانوں پر حملہ کردیں۔ مگر اُس وقت اللہ تعالیٰ کی تائید ایک عجیب طرح ظاہر ہوئی جس کی تفصیل یہ ہے۔
نعیم نامی ایک شخص غطفان کے قبیلہ کا دل میں مسلمان تھا۔ یہ شخص بھی کفّار کے ساتھ آیا ہوا تھا لیکن اس بات کی انتظار میں تھا کہ اگر مجھے کوئی موقع ملے تو میں مسلمانوں کی مدد کروں۔ اکیلا انسان کر ہی کیا سکتا ہے۔ مگر جب اُس نے دیکھا کہ یہود بھی کفّار سے مل گئے ہیں اور اب بظاہر مسلمانوں کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تو اِن حالات سے وہ اتنا متاثر ہو اکہ اُس نے فیصلہ کر لیا کہ بہرحال مجھے اس فتنہ کے دور کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔ چنانچہ جب یہ فیصلہ ہوا کہ دونوں فریق مل کر ایک دن حملہ کریں تو وہ بنو قریظہ کے پاس گیا اور اُن کے رئوساء سے کہا کہ اگر عربوں کا لشکر بھاگ جائے تو بتائو مسلمان تمہارے ساتھ کیا کریں گے؟ تم مسلمانوں کے معاہدہو اور معاہدہ کر کے اس کے توڑنے کے نتیجہ میں جو سزا تم کو ملے گی اُس کا قیاس کر لو۔ اُن کے دل کچھ ڈرے اور اُنہوں نے پوچھا پھر ہم کیا کریں؟ نعیم نے کہا جب عرب مشترکہ حملہ کے لئے تم سے خواہش کریں تو تم مشرکین سے مطالبہ کرو کہ اپنے ۷۰ آدمی ہمارے پاس یرغمال کے طور پر بھیج دو وہ ہمارے قلعوں کی حفاظت کریںگے اور ہم مدینہ کے پچھواڑے سے اُس پر حملہ کر دیں گے۔ پھر وہ وہاں سے ہٹ کر مشرکین کے سردارو ں کے پاس گیا اور اُن سے کہا کہ یہ یہود تو مدینہ کے رہنے والے ہیں اگر عین موقع پر یہ تم سے غداری کریں تو پھر کیا کرو گے؟ اگر یہ مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے اور اپنے جرم کو معاف کروانے کے لئے تم سے تمہارے آدمی بطور یرغمال مانگیں اور اُن کو مسلمانوں کے حوالے کر دیں تو پھر تم کیا کرو گے؟ تمہیں چاہئے کہ اُن کا امتحان لے لو کہ آیا وہ پکے رہتے ہیں یا نہیں اور جلد ہی اُن کو اپنے ساتھ باقاعدہ حملہ کرنے کی دعوت دو۔ کفّار کے سرداروں نے اس مشورہ کو صحیح سمجھتے ہوئے دوسرے دن یہود کو پیغام بھیجا کہ ہم ایک اجتماعی حملہ کرنا چاہتے ہیں تم بھی اپنی فوجوں سمیت کل حملہ کردو۔ بنوقریظہ نے کہا کہ اوّل تو کل ہمارا سبت کا دن ہے اس لئے ہم اس دن لڑائی نہیں کر سکتے۔ دوسرے ہم مدینہ کے رہنے والے ہیں اور تم باہر کے۔ اگر تم لوگ لڑائی چھوڑ کر چلے جائو تو ہمارا کیا بنے گا۔ اس لئے آپ لوگ ہمیں ۷۰ آدمی یرغمال کے طور پر دیں گے تب ہم لڑائی میں شامل ہوں گے۔ کفّار کے دل میں چونکہ پہلے سے شبہ پیدا ہو چکا تھا اُنہوں نے اُن کے اِس مطالبہ کوپورا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر تمہارا ہمارے ساتھ اتحاد سچا تھا تو اس قسم کے مطالبہ کے کوئی معنی نہیں۔ اِس واقعہ سے اُدھر یہود کے دلوں میں شبہات پیدا ہونے لگے اِدھر کفّار کے دلوںمیں شبہات پیدا ہونے لگے اور جیساکہ قاعدہ ہے جب شبہات دل میں پید اہو جاتے ہیں تو بہادری کی روح بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اِنہی شکوک و شبہات کو ساتھ لئے ہوئے کفّار کا لشکر رات کو آرام کرنے کے لئے اپنے خیموں میں گیا، تو خد اتعالیٰ نے آسمانی نصرت کا ایک اور راستہ کھول دیا۔ رات کو ایک سخت آندھی چلی جس نے قناتوں کے پردے توڑ دئیے۔ چولہوں پر سے ہنڈیاں گرادیں اور بعض قبائل کی آگیں بجھ گئیں۔ مشرکینِ عرب میں ایک رواج تھا کہ وہ ساری رات آگ جلائے رکھتے تھے اور اِس کو وہ نیک شگون سمجھتے تھے۔ جس کی آگ بجھ جاتی تھی وہ خیال کرتاتھا کہ آج کا دن میرے لئے منحوس ہے اور وہ اپنے خیمے اُٹھا کر لڑائی کے میدان سے پیچھے ہٹ جاتا تھا۔ جن قبائل کی آگ بجھی اُنہوں نے اِس رواج کے مطابق اپنے خیمے اُٹھائے اور پیچھے کو چل پڑے تاکہ ایک دن پیچھے انتظار کر کے پھر لشکر میں آشامل ہوں۔ لیکن چونکہ دن کے جھگڑوں کی وجہ سے سردارانِ لشکر کے دل میں شبہات پیدا ہو رہے تھے، جو قبائل پیچھے ہٹے اُن کے اِردگرد کے قبائل نے سمجھا کہ شاید یہود نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر شبخون مار دیا ہے اور ہمارے آس پاس کے قبائل بھاگے جار ہے ہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے بھی جلدی جلدی اپنے ڈیرے سمیٹنے شروع کر دئیے اور میدان سے بھاگنا شروع کیا۔ ابوسفیان اپنے خیمہ میں آرام سے لیٹا تھا کہ اِس واقعہ کی خبر اُسے بھی پہنچی۔ وہ گھبرا کے اپنے بندھے ہوئے اُونٹ پر جا چڑھا اور اُس کو ایڑیاں مارنی شروع کر دی۔ آخر اُس کے دوستوں نے اس کو توجہ دلائی کہ وہ یہ کیا حماقت کر رہا ہے۔ اِس پر اُس کے اُونٹ کی رسّیاں کھولی گئیں اور وہ بھی اپنے ساتھیوںسمیت میدان سے بھاگ گیا۔۲۹۲؎
رات کے آخری ثلث میں وہ میدان جس میں پچیس ہزار کے قریب کفّار کے سپاہی خیمہ زن تھے وہ ایک جنگل کی طرح ویران ہو گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس وقت اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ بتایا کہ تمہارے دشمن کو ہم نے بھگا دیا ہے۔ آپ نے حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے کسی شخص کو بھیجنا چاہا اور اپنے اِردگرد بیٹھے ہوئے صحابہؓ کو آواز دی۔ وہ سردی کے ایام تھے اور مسلمانوں کے پاس کپڑے بھی کافی نہ ہوتے تھے۔ سردی کے مارے زبانیں تک جمی جارہی تھیں۔ بعض صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی اور ہم جواب بھی دینا چاہتے تھے مگر ہم سے بولا نہیں گیا۔ صرف ایک حذیفہؓ تھے جنہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ!کیا کام ہے؟ آپ نے فرمایا تم نہیں مجھے کوئی اَور آدمی چاہئے۔ پھر آپ نے فرمایا کوئی ہے؟ مگر پھر سردی کی شدت کی وجہ سے جو جاگ بھی رہے تھے وہ جواب نہ دے سکے۔ حذیفہؓ نے پھر کہا میں یَارَسُوْلَ اللّٰہ!موجود ہوں۔ آخرآپ نے حذیفہؓ کو یہ کہتے ہوئے بجھوایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے دشمن کو ہم نے بھگا دیا ہے، جائو اور دیکھو کہ دشمن کا کیا حال ہے حذیفہؓ خندق کے پاس گئے اور دیکھا کہ میدان کُلّی طور پر دشمن کے سپاہیوں سے خالی تھا۔ واپس آئے اور کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی اور بتایا کہ دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ صبح مسلمان اپنے خیمے اُکھیڑ کر اپنے اپنے گھروں کی طرف آنے شروع ہوئے۔۲۹۳؎
بنو قریظہ کو اُن کی غداری کی سزا
بیس دنوں کے بعد مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ مگر اب بنو قریظہ کامعاملہ طے ہونے
والا تھا۔ اُن کی غداری ایسی نہیں تھی کہ نظرا نداز کی جاتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آتے ہی اپنے صحابہؓ سے فرمایا گھروں میں آرام نہ کرو بلکہ شام سے پہلے پہلے بنو قریظہ کے قلعوں تک پہنچ جائو اور پھر آپ نے حضرت علیؓ کو بنو قریظہ کے پاس بجھوایا کہ وہ اُن سے پوچھیں کہ اُنہوں نے معاہدہ کے خلاف یہ غداری کیوں کی؟ بجائے اِس کے کہ بنو قریظہ شرمندہ ہوتے یا معافی مانگتے یاکوئی معذرت کرتے اُنہوں نے حضرت علیؓ اور اُن کے ساتھیوں کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کی مستورات کو گالیاں دینے لگے اور کہاہم نہیں جانتے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا چیز ہیں ہمارا اُن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں۔ حضرت علیؓ اُن کا یہ جواب لے کر واپس لوٹے تو اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کے ساتھ یہود کے قلعوں کی طرف جار ہے تھے چونکہ یہود گندی گالیاں دے رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور بیٹیوں کے متعلق بھی ناپاک کلمات بول رہے تھے حضرت علیؓ نے اِس خیال سے کہ آپ کو اُن کلمات کے سننے سے تکلیف ہوگی، عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں ہم لوگ اس لڑائی کے لئے کافی ہیں، آپ واپس تشریف لے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ وہ گالیاں دے رہے ہیں اور تم یہ نہیں چاہتے کہ میرے کان میں وہ گالیاں پڑیں۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا ہاں یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! بات تو یہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا ہوا اگر وہ گالیاں دیتے ہیں، موسیٰ نبی تو اِن کا اپنا تھا اُس کواِس سے بھی زیادہ اِنہوں نے تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ یہ کہتے ہوئے آپ یہود کے قلعوں کی طرف چلے گئے۔ مگر یہود دروازے بند کر کے قلعہ بند ہو گئے اور مسلمانوں کے ساتھ لڑائی شروع کر دی۔ حتی کہ اُن کی عورتیں بھی لڑائی میں شریک ہوئیں۔ چانچہ قلعہ کی دیوار کے نیچے کچھ مسلمان بیٹھے تھے کہ ایک یہودی عورت نے اُوپرسے پتھر پھینک کر ایک مسلمان کو مار دیا لیکن کچھ دن کے محاصرہ کے بعد یہود نے یہ محسوس کر لیا کہ وہ لمبا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ تب اُن کے سرداروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش کی کہ وہ ابو لبابہ انصاری کو جو اُن کے دوست اور اوس قبیلہ کے سردار تھے اُن کے پاس بھجوائیں تاکہ وہ اُن سے مشورہ کر سکیں۔ آپ نے ابولبابہ کو بجھوا دیا۔ ان سے یہود نے یہ مشورہ پوچھا کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس مطالبہ کو کہ فیصلہ میرے سپرد کرتے ہوئے تم ہتھیار پھینک دو، ہم یہ مان لیں؟ ابو لبابہ نے منہ سے تو کہا ہاں! لیکن اپنے گلے پر اِس طرح ہاتھ پھیرا جس طرح قتل کی علامت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت تک اپنا کوئی فیصلہ ظاہر نہیں کیا تھا مگر ابو لبابہ نے اپنے دل میں یہ سمجھتے ہوئے کہ اُ ن کے اِس جرم کی سزا سوائے قتل کے اور کیا ہوگی بغیر سوچے سمجھے اشارہ کے ساتھ اُن سے ایک بات کہہ دی جو آخر اُن کی تباہی کا موجب ہوئی۔ چنانچہ یہود نے کہہ دیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ مان لیتے تو دوسرے یہودی قبائل کی طرح اُن کو زیادہ سے زیادہ یہی سزا دی جاتی کہ اُن کو مدینہ سے جلا وطن کر دیا جاتا، مگر اُن کی بد قسمتی تھی اُنہوںنے کہا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے کے لئے تیار نہیں، بلکہ ہم اپنے حلیف قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذؓ کا فیصلہ مانیں گے۔ جو فیصلہ وہ کریں گے ہمیں منظور ہو گا۔ لیکن اُس وقت یہود میں اختلاف ہو گیا۔ یہود میں سے بعض نے کہا کہ ہماری قوم نے غداری کی ہے اور مسلمانوں کے رویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اُن کا مذہب سچا ہے وہ لوگ اپنا مذہب ترک کر کے اِسلام میں داخل ہو گئے۔ ایک شخص عمرو بن سعدی نے جو اس قوم کے سرداروں میں سے تھا اپنی قوم کو ملامت کی اور کہا کہ تم نے غداری کی ہے کہ معاہدہ توڑا ہے۔ اب یا مسلمان ہوجائو یا جزیہ پرراضی ہو جائو۔ یہودنے کہا نہ مسلمان ہوں گے نہ جزیہ دیں گے کہ اس سے قتل ہونا اچھا ہے۔ پھر اُن سے اُس نے کہا میں تم سے بُری ہوں۔ اور یہ کہہ کر قلعہ سے نکل کر باہر چل دیا۔ جب وہ قلعہ سے باہر نکل رہا تھا تو مسلمانوں کے ایک دستہ نے جس کے سردار محمد بن مسلمہؓ تھے اُسے دیکھ لیا اور اُس سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ اُس نے بتایا کہ میں فلاں ہوں۔ اِس پر محمد بن مسلمہؓ نے فرمایا اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنِیْ اِقَا لََۃَ عَثَرَاتِ الْکِرَامِ۔ ۲۹۴؎ یعنی آپ سلامتی سے چلے جائیے اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی! مجھے شریفوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے نیک عمل سے کبھی محروم نہ کیجیئو۔ یعنی یہ شخص چونکہ اپنے فعل پر اور اپنی قوم کے فعل پر پچھتاتا ہے توہمارا بھی اخلاقی فرض ہے کہ اُسے معاف کر دیں اِس لئے میں نے اسے گرفتار نہیں کیا اور جانے دیا ہے۔ خدا تعالیٰ مجھے ہمیشہ ایسے ہی نیک کاموں کی توفیق بخشتا رہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے محمد بن مسلمہؓ کو سرزنش نہیں کی کہ کیوں اُس یہودی کو چھوڑ دیا بلکہ اُس کے فعل کو سراہا۔
بنو قریظہ کے اپنے مقرر کردہ حَکم سعدؓ کا فیصلہ تورات کے مطابق تھا
یہ اُوپر کے واقعات انفرادی تھے۔ بنو قریظہ بحیثیت قوم اپنی ضد پر قائم رہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حَکم ماننے
سے انکارکرتے ہوئے سعدؓ کے فیصلہ پر اصرار کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُن کے اِس مطالبہ کو مان لیا۔ سعدؓ کو جو جنگ میں زخمی ہو چکے تھے اطلاع دی کہ تمہارا فیصلہ بنو قریظہ تسلیم کرتے ہیں آکر فیصلہ کرو۔ اِس تجویز کا اعلان ہوتے ہی اوس قبیلہ کے لوگ جو بنو قریظہ کے دیر سے حلیف چلے آئے تھے وہ سعدؓ کے پاس دَوڑ کر گئے اور اُنہوں نے اصرار کرنا شروع کیا کہ چونکہ خزرج نے اپنے حلیف یہودیوں کو ہمیشہ سزا سے بچایا ہے آج تم بھی اپنے حلیف قبیلہ کے حق میں فیصلہ دینا۔
سعدؓ زخموں کی وجہ سے سواری پر سوار ہو کر بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے اور ان کی قوم کے افراد اُن کے دائیں بائیں دوڑتے جاتے تھے اور سعدؓ سے اصرار کرتے جاتے تھے کہ دیکھنا بنو قریظہ کے خلاف فیصلہ نہ دینا۔ مگر سعدؓ نے صرف یہی جواب دیا کہ جس کے سپرد فیصلہ کیا جاتا ہے وہ امانتدار ہوتا ہے اُسے دیانت سے فیصلہ کرنا چاہئے میں دیانت سے فیصلہ کروں گا۔ جب سعدؓ یہود کے قلعہ کے پاس پہنچے جہاں ایک طرف بنو قریظہ قلعہ کی دیوار سے کھڑے سعدؓ کا انتظار کر رہے تھے اور دوسری طرف مسلمان بیٹھے تھے، تو سعدؓ نے پہلے اپنی قوم سے پوچھا کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ جو میں فیصلہ کروں گا وہ آپ لوگ قبول کریں گے؟ انہوں نے کہاں ہاں۔ پھر سعدؓنے بنو قریظہ کو مخاطب کر کے کہا کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ جو فیصلہ میں کروں وہ آپ لوگ قبول کریں گے؟ اُنہوں نے کہا ہاں۔ پھر شرم سے دوسری طر ف دیکھتے ہوئے نیچی نگاہوں سے اُس طرف اشارہ کیا جدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے اور کہا اِدھر بیٹھے ہوئے لوگ بھی یہ وعدہ کرتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اس کے بعد سعدؓ نے بائبل کے حکم کے مطابق فیصلہ سنایا۔۲۹۵؎ بائبل میں لکھا ہے:
’’ اور جب تو کسی شہر کے پاس اُس سے لڑنے کے لئے آپہنچے تو پہلے اُس سے صلح کا پیغام کر۔ تب یوں ہو گا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور اور دروازہ تیرے لئے کھول دے تو ساری خلق جو اُس شہرمیں پائی جائے تیری خراج گزار ہو گی اور تیری خدمت کرے گی۔ اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے جنگ کرے تو تو اس کا محاصرہ کر اور جب خد اوند تیرا خدا اُسے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر۔ مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو اور جو کچھ اُس شہر میں ہو اُس کا سارا لوٹ اپنے لئے لے۔ اور تو اپنے دشمنوں کی اُس لوٹ کو جو خد اوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے کھائیو۔ اسی طرح سے تواُن سب شہروں سے جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہروں میں سے نہیں ہیں یہی حال کیجیؤ۔ لیکن اِن قوموں کے شہروں میں جنہیں خدا وند تیرا خدا تیری میراث کر دیتا ہے کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیتا نہ چھوڑیو۔ بلکہ تو اُن کو حرم کیجیؤ۔ حتی اور اموری اور کنعانی اور فزری اور جوی اور یبوسی کو جیساکہ خد اوند تیرے خدا نے تجھے حکم کیا ہے تا کہ وے اپنے سارے کریہہ کاموں کے مطابق جو اُنہوں نے اپنے معبودوں سے کئے تم کو عمل کرنا نہ سکھائیں اور کہ تم خداوند اپنے خدا کے گنہگار ہو جائو‘‘۔۲۹۶؎
بائبل کے اس فیصلہ سے ظاہر ہے کہ اگر یہودی جیت جاتے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہار جاتے تو بائبل کے اس فیصلہ کے مطابق اوّل تو تماممسلمان قتل کر دیئے جاتے۔ مرد بھی اور عورت بھی اور بچے بھی۔ اور جیساکہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں کا یہی ارادہ تھا کہ مردوں ، عورتوں اور بچوں سب کو یکدم قتل کر دیا جائے لیکن اگر وہ اُن سے بڑی سے بڑی رعایت کرتے تب بھی کتاب استثناء کے مذکورہ بالا فیصلہ کے مطابق وہ اُن سے دُور کے ملکوں والی قوموں کا سا سلوک کرتے اور تمام مردوں کو قتل کر دیتے اور عورتوں اور لڑکوں اور سامانوں کو لوٹ لیتے۔ سعدؓ نے جو بنو قریظہ کے حلیف تھے اوراُن کے دوستوں میں سے تھے جب دیکھا کہ یہود نے اسلامی شریعت کے مطابق جو یقینا اُن کی جان کی حفاظت کرتی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا تو انہوں نے وہی فیصلہ یہود کے متعلق کیا جو موسیٰ نے استثناء میں پہلے سے ایسے مواقع کے لئے کر چھوڑا تھا اور اس فیصلہ کی ذمہ داری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یامسلمانوں پر نہیں، بلکہ موسیٰ پر اور تورات پراور اُن یہودیوں پر ہے جنہوں نے غیرقوموں کے ساتھ ہزاروں سال اس طرح معاملہ کیا تھا اور جن کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم کے لئے بلایا گیاتو انہوں نے انکار کر دیااور کہا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں، ہم سعدؓ کی بات مانیں گے۔ جب سعدؓ نے موسٰی ؑ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ دیا تو آج عیسائی دنیا شور مچاتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کیا۔ کیا عیسائی مصنف اِس بات کو نہیں دیکھتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے موقع پر کیوں ظلم نہ کیا؟ سینکڑوں دفعہ دشمن نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم پر اپنے آپ کو چھوڑا ا ور ہر دفعہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو معاف کر دیا۔ یہ ایک ہی موقع ہے کہ دشمن نے اصرار کیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو نہیں مانیں گے بلکہ فلاں دوسرے شخص کے فیصلہ کو مانیں گے اور اُس شخص نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اقرار لے لیا کہ جو میں فیصلہ کروں گا اُسے آپ مانیں گے۔ اس کے بعد اُس نے فیصلہ کیا بلکہ اُس نے فیصلہ نہیں کیا اُس نے موسٰی ؑکا فیصلہ دُہرا دیا جس کی اُمت میں سے ہونے کے یہود مدعی تھے۔ پس اگر کسی نے ظلم کیا تو یہود نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ا گر کسی نے ظلم کیا تو موسٰی ؑنے ظلم کیا جنہوں نے محصور دشمن کے متعلق تورات میں خدا سے حکم پا کر یہی تعلیم دی تھی۔ اگر یہ ظلم تھا تو اِن عیسائی مصنفوں کو چاہئے کہ موسٰی ؑکو ظالم قرار دیں بلکہ موسٰی ؑکے خدا کو ظالم قرار دیں جس نے یہ تعلیم تورات میں دی ہے۔
احزاب کی جنگ کے خاتمہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آج سے مشرک ہم پر حملہ نہیں کریں گے اب اسلام خود جواب دے گا اور ان اقوام پر جنہوں نے ہم پر حملے کئے تھے اب ہم چڑھائی کریں گے۔۲۹۷؎ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ احزاب کی جنگ میں بھلا کفّار کا نقصان ہی کیا ہوا تھا چند آدمی مارے گئے تھے وہ دوسرے سال پھر دوبارہ تیاری کر کے آسکتے تھے۔ بیس ہزار کی جگہ وہ چالیس یا پچاس ہزار کا لشکر بھی لا سکتے تھے۔ بلکہ اگر وہ اور زیادہ انتظام کرتے تو لاکھ ڈیڑھ کا لشکر لانا بھی اُن کے لئے کوئی مشکل نہیں تھا۔ مگر اکیس سال کی متواتر کوشش کے بعد کفّار کے دلوں کو محسوس ہو گیا تھاکہ خدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے۔ اُن کے بت جھوٹے ہیں اور دنیا کا پیدا کرنے والا ایک ہی خد ا ہے۔ اُن کے جسم صحیح سلامت تھے مگر اُن کے دل ٹوٹ چکے تھے۔ بظاہر وہ اپنے بتوں کے آگے سجدہ کرتے ہوئے نظر آتے تھے مگر اُن کے دلوں میں سے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کی آوازیں اُٹھ رہی تھیں۔
مسلمانوں کے غلبہ کا آغاز
اِس جنگ سے فارغ ہونے کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آج سے کفّارِ عرب ہم پر حملہ نہیں کریں گے،یعنی مسلمانوں کا ابتلاء اپنی آخری انتہاء کو پہنچ گیا ہے اور اب اُن کے غلبہ کا زمانہ شروع ہونے والا ہے۔ اِس وقت تک جتنی جنگیں ہوئی تھیں وہ ساری کی ساری ایسی تھیں کہ یا تو کفّار مدینہ پر چڑھ کے آئے تھے یا اُن کے حملوں کی تیاریوں کے روکنے کے لئے مسلمان مدینہ سے باہر نکلے تھے لیکن کبھی بھی مسلمانوں نے خود جنگ کو جاری رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ جنگی قوانین کے لحاظ سے جب ایک لڑائی شروع ہو جاتی ہے تو اُس کا اختتام دو ہی طرح ہوتا ہے یا صلح ہو جاتی ہے یا ایک فریق ہتھیار ڈال دیتا ہے لیکن اِس وقت تک ایک بھی موقع ایسا نہیں آیا جبکہ صلح ہوئی ہو یا کسی فریق نے ہتھیار ڈالے ہوں۔ پس گو پرانے زمانہ کے دستور کے مطابق لڑائیوں میں وقفہ پڑ جاتا تھا لیکن جہاں تک جنگ کے جاری رہنے کا سوال تھا وہ متواتر جاری تھی اور ختم نہ ہوئی تھی اس لئے مسلمانوں کا حق تھا کہ وہ جب بھی چاہتے دشمن پر حملہ کر کے اُن کو مجبور کرتے کہ وہ ہتھیار ڈالیں۔ لیکن مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ جب وقفہ پڑتا تھا تو مسلمان بھی خاموش ہو جاتے تھے۔ شاید اس لئے کہ ممکن ہے کفّار درمیان میں صلح کی طرح ڈالیں اور لڑائی بند ہو جائے۔ لیکن جب ایک لمبے عرصہ تک کفّار کی طرف سے صلح کی تحریک نہ ہوئی اور نہ انہوں نے مسلمانوں کے سامنے ہتھیار ڈالے بلکہ اپنی مخالفت اور جوش میں بڑھتے ہی چلے گئے تو اب وقت آگیا کہ لڑائی کا دو ٹوک فیصلہ کیا جائے یا تو فریقین میں صلح ہو جائے یا دونوں میں سے ایک فریق ہتھیار ڈال دے تاکہ ملک میں امن قائم ہو جائے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احزاب کی جنگ کے بعد فیصلہ کر لیا کہ اب ہم دونوں فیصلوں میں سے ایک فیصلہ کر کے چھوڑیں گے یا تو ہماری اور کفّار کی صلح ہو جائے گی یاہم میںسے کوئی فریق ہتھیار ڈال دے گا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ہتھیار ڈال دینے کی صورت میں کفّار ہی ہتھیار ڈال سکتے تھے کیونکہ اسلام کے غلبہ کے متعلق تو خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر مل چکی تھی اور مکی زندگی میں ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے غلبہ کا اعلان کر چکے تھے۔ باقی رہی صلح تو صلح کے بارے میں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ صلح کی تحریک یا غالب کی طرف سے ہوا کرتی ہے یا مغلوب کی طرف سے۔ مغلوب فریق جب صلح کی درخواست کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیںکہ وہ ملک کا کچھ حصہ یا اپنی آمدن کا کچھ حصہ مستقل طور پر یا عارضی طور پر غالب فریق کو دیا کرے گا یا بعض اَور صورتوں میں اس کی لگائی ہوئی قیود تسلیم کرے گا۔ اور غالب فریق کی طرف سے جب صلح کی تجویز پیش ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم تمہیں بالکل کچلنا نہیں چاہتے۔ اگر تم بعض صورتوں میں ہماری اطاعت یا ہماری ماتحتی قبول کر لو تو ہم تمہاری آزادانہ حیثیت یا نیم آزادانہ حیثیت کو قائم رہنے دیں گے۔ کفّارِ مکہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقابلہ تھا اس میں بار بار کفار کو شکست ہوئی تھی لیکن اس شکست کے محض اتنے معنی تھے کہ اُن کے حملے ناکام رہے تھے۔ حقیقی شکست وہ کہلاتی ہے جبکہ دفاع کی طاقت ٹوٹ جائے۔ حملہ ناکام ہونے کے معنی حقیقی شکست کے نہیں سمجھے جاتے۔ اِس کے معنی صرف اتنے ہوتے ہیںکہ گو حملہ آور قوم کا حملہ ناکام رہا مگر پھر دوبارہ حملہ کر کے وہ اپنے مقصد کو پورا کرلے گی۔ پس جنگی قانون کے لحاظ سے مکہ والے مغلوب نہیں ہوئے تھے بلکہ اُن کی پوزیشن صرف یہ تھی کہ اب تک اُن کی جارحانہ کارروائیاں اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکی تھیں۔ اس کے مقابلہ میں مسلمان جنگی لحاظ سے گو اُن کا دفاع نہیں ٹوٹا تھا مغلوب کہلانے کے مستحق تھے اِس لئے کہ:
اوّل تو وہ بہت چھوٹی اقلیت میںتھے۔ دوم اُنہوں نے اس وقت تک کوئی جارحانہ کارروائی نہیں کی تھی، یعنی کسی حملہ میں خود ابتداء نہیں کی تھی جس سے یہ سمجھا جائے کہ اب وہ اپنے آپ کو کفّار کے اثر سے آزاد سمجھتے ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کی طرف سے صلح کی پیشکش کے صرف یہ معنی ہو سکتے تھے کہ وہ اب دفاع سے تنگ آگئے ہیں اور کچھ دے دلا کر اپنا پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔ ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ان حالات میںاگر مسلمان صلح کی پیشکش کرتے تو اِس کا نتیجہ نہایت ہی خطرناک ہوتا اور یہ امر اُن کی ہستی کے مٹا دینے کے مترادف ہوتا۔ اپنی جارحانہ کارروائیوں میں ناکامی کی وجہ سے کفّارِ عرب میں جو بے دلی پیدا ہو گئی تھی اس صلح کی پیشکش سے وہ فوراً ہی نئی اُمنگوں اور نئی آرزوئوں میں بدل جاتی اور یہ سمجھا جاتا کہ مسلمان باوجود مدینہ کو تباہی سے بچا لینے کے آخری کامیابی سے مایوس ہوچکے تھے۔ پس صلح کی تحریک مسلمانوں کی طرف سے کسی صورت میں بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ا گر کوئی صلح کی تحریک کر سکتا تھا تو یا مکہ والے کر سکتے تھے یا کوئی تیسری ثالث قوم کر سکتی تھی۔ مگر عرب میں کوئی ثالث قوم باقی نہیں رہی تھی۔ ایک طرف مدینہ تھا اور ایک طرف سارا عرب تھا۔ پس عملی طور پر کفّار ہی تھے جو اس تجویز کو پیش کر سکتے تھے۔ مگر اُن کی طرف سے صلح کی کوئی تحریک نہیں ہو رہی تھی۔ یہ حالات اگر سَو سال تک بھی جاری رہتے تو قوانین جنگ کے ماتحت عرب کی خانہ جنگی جاری رہتی۔ پس جبکہ مکہ کے لوگوں کی طرف صلح کی تجویز پیش نہیں ہوئی تھی اور مدینہ کے کفار عرب کی ماتحتی ماننے کے لئے کسی صورت میں تیار نہ تھے تو اب ایک ہی راستہ کھلا رہ جاتا تھا کہ جب مدینہ نے عرب کے متحدہ حملہ کو بیکار کر دیا تو خود مدینہ کے لوگ باہر نکلیں اور کفّارِ عرب کو مجبور کر دیں کہ یا وہ اُن کی ماتحتی قبول کرلیں یا اُن سے صلح کر لیں۔ اور اِسی راستہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا۔ پس گو یہ راستہ بظاہر جنگ کا نظر آتا ہے لیکن درحقیقت صلح کے قیام کے لئے اس کے سوا کوئی راستہ کھلا نہ تھا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ کرتے تو ممکن ہے جنگ سَو سال تک لمبی چلی جاتی جیسا کہ ایسے ہی حالات میں پرانے زمانہ میں جنگیں سَو سَو سال تک جاری رہی ہیں۔ خود عرب کی کئی جنگیں تیس تیس، چالیس چالیس سال تک جاری رہی ہیں۔ اِن جنگوں کی طوالت کی یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کے ختم کرنے کے لئے کوئی ذریعہ اختیار نہیں کیا جاتا تھا اور جیساکہ میں بتا چکا ہوں جنگ کے ختم کرنے کے دو ہی ذرائع ہوا کرتے ہیں یا ایسی جنگ لڑی جائے جو دو ٹوک فیصلہ کر دے اور دونوں فریق میں سے کسی ایک کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دے اور یا باہمی صلح ہو جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیشک ایسا کر سکتے تھے کہ مدینہ میں بیٹھے رہتے اور خود حملہ نہ کرتے۔ لیکن چونکہ کفّارِ عرب جنگ کی طرح ڈال چکے تھے آپ کے خاموش بیٹھنے کے یہ معنی نہ ہوتے کہ جنگ ختم ہو گئی ہے بلکہ اس کے صرف یہ معنی ہوتے کہ جنگ کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھلا رکھا گیا ہے۔ کفّارِ عرب جب چاہتے بغیر کسی اور محرک کے پیدا ہونے کے مدینہ پر حملہ کر دیتے اور اُس وقت تک کے دستور کے مطابق وہ حق پر سمجھے جاتے کیونکہ جنگ میں وقفہ پڑ جانا اُس زمانہ میں جنگ کے ختم ہوجانے کے مترادف نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ وقفہ بھی جنگ ہی میں شمار کیا جاتا تھا۔
بعض لوگوں کے دلو ں میں اِس موقع پر یہ سوال پید اہو سکتا ہے کہ کیا ایک سچے مذہب کے لئے لڑائی کرنا جائز ہے؟
یہودیت اور عیسائیت کی تعلیم دربارہ جنگ
میں اِس جگہ اس سوال کا جواب بھی دے دینا ضروری
سمجھتا ہوں جہاں تک مذاہب کا سوال ہے لڑائی کے بارہ میں مختلف تعلیمیں ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم لڑائی کے بارہ میں اُوپر درج کر آیا ہوں۔ تورات کہتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ بزور کنعان میں گھس جائیں اور اُس جگہ کی قوموں کو شکست دے کر اس علاقہ میں اپنی قوم آباد کریں ۲۹۸؎ مگر باوجود اس کے کہ موسیٰ نے یہ تعلیم دی اور باوجود اس کے کہ یوشع ، دائود اور دوسرے انبیاء نے اِس تعلیم پر متواتر عمل کیا یہودی اورعیسائی اُن کو خدا کا نبی اور تورات کو خدا کی کتاب سمجھتے ہیں۔ موسوی سلسلہ کے آخر میں حضرت مسیحؑ ظاہر ہوئے اُن کی جنگ کے متعلق یہ تعلیم ہے کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے۲۹۹؎ اس سے استنباط کرتے ہوئے عیسائی قوم یہ دعویٰ کرتی ہے کہ مسیح نے لڑائی سے قوموں کو منع کیا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انجیل میں اس تعلیم کے خلاف اور تعلیمیں بھی آئی ہیں۔ مثلاً انجیل میں لکھا ہے:۔
’’ یہ مت سمجھو کہ میں ز مین پر صلح کروانے آیا ہوں، صلح کروانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں‘‘۳۰۰؎
اسی طرح لکھا ہے:۔
’’اُس نے اُنہیں کہا پر اَب جس کے پاس بٹوا ہو لیوے اور اسی طرح جھولی بھی۔ اور جس کے پاس تلوار نہیں اپنے کپڑے بیچ کر تلوار خریدے‘‘۔۳۰۱؎
یہ آخری دو تعلیمیں پہلی تعلیم کے بالکل متضاد ہیں۔ اگر مسیح جنگ کرانے کے لئے آیا تھا تو پھر ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا گال پھیر دینے کے کیا معنی تھے؟ پس یا تو یہ دونوں قسم کی تعلیمیں متضاد ہیں
یا اِن دونوںتعلیموں میں سے کسی ایک کو اس کے ظاہر سے پھرا کر اس کی کوئی تأویل کرنی پڑے گی۔ میں اِس بحث میں نہیں پڑتا کہ ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا گال پھیر دینے کی تعلیم قابلِ عمل ہے یا نہیں۔ میں اس جگہ پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اوّل عیسائی دنیا نے اپنی ساری تاریخ میں جنگ سے دریغ نہیں کیا۔ جب عیسائیت شروع شروع میں روما میں غالب تھی تب بھی اُس نے غیرقوموں سے جنگیں کیں۔ دفاعی ہی نہیں بلکہ جارحا نہ بھی۔ اور اب جبکہ عیسائیت دنیا میں غالب آگئی ہے اب بھی وہ جنگیں کرتی ہے۔ دفاعی ہی نہیں بلکہ جارحانہ بھی۔ صرف فرق یہ ہے کہ جنگ کرنے والوں میں سے جو فریق جیت جاتا ہے اُس کے متعلق کہہ دیا جاتا تھا کہ وہ کرسچن سویلزیشن کا پابند تھا۔ کرسچن سویلزیشن اِس زمانہ میں صرف غالب اور فاتح کے طریق کا نام ہے اور اس لفظ کے حقیقی معنی اب کوئی بھی باقی نہیں رہے۔ جب دوقو میں آپس میں لڑتی ہیں تو ہر قوم اِس بات کی مدعی ہوتی ہے کہ وہ کرسچن سویلزیشن کی تائید کر رہی ہے اور جب کوئی قوم جیت جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس جیتی ہوئی قوم کا طریق کار ہی کرسچن سویلزیشن ہے۔ مگر بہرحال مسیحؑ کے زمانہ سے آج تک عیسائی دنیا جنگ کرتی چلی آرہی ہے اور قرائن بتاتے ہیں کہ جنگ کرتی چلی جائے گی۔ پس جہاں تک مسیحی دنیا کے فیصلہ کا تعلق ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ’’ تم اپنے کپڑے بیچ کر تلوار خریدو‘‘۔’’اورمیں صلح کرانے کے لئے نہیں بلکہ تلوار چلانے کے لئے آیا ہوں‘‘۔ یہ اصل قانون ہے اور ’’ تو ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا بھی پھیر دے‘‘ ۔ یہ قانون یا تو ابتدائی عیسائی دنیا کی کمزوری کے وقت مصلحتاً اختیار کیا گیا تھا یا پھر عیسائی افراد کے باہمی تعلقات کی حد تک یہ قانون محدود ہے۔ حکومتوں اور قوموں پر یہ قانون چسپاں نہیں ہوتا۔ دوسرے اگر یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ مسیحؑ کی اصل تعلیم جنگ کی نہیں تھی بلکہ صلح ہی کی تھی تب بھی اس تعلیم سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جو شخص اس تعلیم کے خلاف عمل کرتا ہے وہ خدا کا برگزیدہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ عیسائی دنیا آج تک موسٰی ؑ اور یوشعؑ اور دائودؑ کو خدا کا برگزیدہ قرار دیتی ہے بلکہ خود عیسائیت کے زمانہ کے بعض قومی ہیرو جنہوں نے اپنی قوم کے لئے جان کو خطرہ میں ڈال کر دشمنوں سے جنگیں کی ہیں مختلف زمانہ کے پوپوں کے فتویٰ کے مطابق آج سینٹ کہلاتے ہیں۔
جنگ کے متعلق اِسلام کی تعلیم
اِسلام اِن دونوں قسم کی تعلیموں کے درمیان درمیان تعلیم دیتا ہے یعنی نہ تو وہ موسٰی ؑ کی طرح کہتا ہے کہ تو
جارحانہ طور پر کسی ملک میں گھس جا اور اُس قوم کو تہہ تبلیغ کر دے اور نہ وہ اِس زمانہ کی بگڑی ہوئی مسیحیت کی طرح ببانگِ بلندیہ کہتا ہے ’’ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تو اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے‘‘۔ مگر اپنے ساتھیوں کے کان میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ تم اپنے کپڑے بیچ کر بھی تلواریں خریدلو۔ بلکہ اسلام وہ تعلیم پیش کرتا ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے او ر جو امن اور صلح کے قیام کے لئے ایک ہی ذریعہ ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تو کسی چیز پر حملہ نہ کر لیکن اگر کوئی شخص تجھ پر حملہ کرے اور اس کا مقابلہ نہ کرنا فتنہ کے بڑھانے کا موجب نظر آئے اور راستی اور امن اُس سے مٹتا ہو تب توا ُس کے حملہ کا جواب دے۔ یہی وہ تعلیم ہے جس سے دنیا میں امن اور صلح قائم ہو سکتی ہے۔ اِس تعلیم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا۔ آپ مکہ میں برابر تکلیفیں اُٹھاتے رہے، لیکن آپ نے لڑائی کی طرح نہ ڈالی۔ مگر جب مدینہ میں آپ ہجرت کر کے تشریف لے گئے اور دشمن نے وہاں بھی آپ کا پیچھا کیا تب خد اتعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ چونکہ دشمن جارحانہ کارروائی کر رہا ہے اور اسلام کو مٹانا چاہتا ہے اس لئے راستی اور صداقت کے قیام کے لئے آپ اس کا مقابلہ کریں۔ قرآن کریم میں جو متفرق احکام اس بارہ میں آئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۳۰۲؎ یعنی اس لئے کہ اِن (مسلمانوں) پر ظلم کیا گیا اور ان مسلمانوں کو جن سے دشمن نے لڑائی جاری کر رکھی ہے، آج جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اللہ یقینا اُن کی مدد پر قادر ہے۔ ہاں ان مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی جاتی ہے جن کواُن کے گھروں سے بغیر کسی جرم کے نکال دیا گیا۔ اُن کا صرف اتناہی جرم تھا (اگر یہ کوئی جرم ہے) کہ وہ یہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور اگر اللہ تعالیٰ بعض ظالم لوگوں کو دوسرے عادل لوگوں کے ذریعہ سے ظلم روکتا نہ رہے تو گرجے اور مناسڑیاں ۳۰۳؎ اور عبادت گاہیں اور مسجدیں جن میں خدا تعالیٰ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے ظالموں کے ہاتھ سے تباہ ہو جائیں (پس دنیا میں مذہب کی آزادی قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ مظلوموں کو اور ایسی قوموں کو جن کے خلاف دشمن پہلے جنگ کا اعلان کر دیتا ہے جنگ کی اجازت دیتا ہے) اور یقینا اللہ تعالیٰ اُن کی مدد کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کرنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یقینا بڑی طاقت والا اور غالب ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اگر دنیا میں طاقت پکڑ جائیں تو خدا تعالیٰ کی عبادتوں کو قائم کریں گے اور غریبوں کی خبر گیری کریں گے اور نیک اور اعلیٰ اخلاق کی دنیا کو تعلیم دیں گے اور بُری باتوں سے دنیا کو روکیں گے اور ہر جھگڑے کا انجام وہی ہوتا ہے جو خد اچاہتا ہے۔
اِن آیات میںجو مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دینے کے لئے نازل ہوئی ہیں بتایا گیا ہے کہ جنگ کی اجازت اسلامی تعلیم کی رو سے اُسی صورت میں ہوتی ہے، جب کوئی قوم دیر تک کسی قوم کے ظلموں کا تختہ مشق بنی رہے اور ظالم قوم اس کے خلاف بِلاوجہ جنگ کا اعلان کر دے اور اس کے دین میں دخل اندازی کرے اور ایسی مظلوم قوم کا فرض ہوتا ہے کہ جب اُسے طاقت ملے تو وہ مذہبی آزادی دے اور اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھے کہ خدا تعالیٰ اُس کو غلبہ بخشے تو وہ تمام مذاہب کی حفاظت کرے اور اُن کی مقدس جگہوں کے ادب اور احترام کا خیال رکھے اور اس غلبہ کو اپنی طاقت اور شوکت کا ذریعہ نہ بنائے بلکہ غریبوں کی خبر گیری، ملک کی حالت کی درستی اور فساد اور شرارت کے مٹانے میں اپنی قوتیں صرف کرے۔ یہ کیسی مختصر اور جامع تعلیم ہے۔ اس میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے اور اگر اب وہ جنگ کریں گے تو وہ مجبوری کی وجہ سے ہو گی ورنہ جارحانہ جنگ اسلام میں منع ہے اور پھر کس طرح شروع میں بھی یہ کہہ دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو غلبہ ضرور ملے گا۔ مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اُن کو اپنے غلبہ کے ایام میں بجائے حکومت سے اپنی جیبیں بھرنے کے اور اپنی حالت سدھارنے کے غرباء کی خبر گیری اور امن کے قیام اور فساد کے دور کرنے اور قوم اور ملک کو ترقی دینے کی کوشش کرنے کو اپنا مقصد بنانا چاہئے۔
(۲) پھر فرماتا ہے ۔۳۰۴؎ یعنی اُن لوگوں سے جو تم سے جنگ کر رہے ہیں تم بھی محض اللہ کی خاطر جس میں تمہارے اپنے نفس کا غصہ اور نفس کی ملونی شامل نہ ہو جنگ کرو اور یاد رکھو کہ جنگ میں بھی کوئی ظالمانہ فعل اختیار مت کرنا کیو نکہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو بہر حال پسند نہیں کرتا۔ اور جہاں کہیں بھی تمہاری اور اُن کی جنگ کے ذریعہ سے مٹھ بھیڑ ہوجائے وہاں تم اُن سے جنگ کرو اور یونہی اِکاّدُ کاّ ملنے والے پر حملہ مت کرو۔ اور چونکہ انہوں نے تمہیں لڑائی کے لئے نکلنے پر مجبور کیا ہے تم بھی اُنہیں اُن کے جواب میں لڑائی کا چیلنج دو اور یاد رکھو کہ قتل اور لڑائی کی نسبت دین کی وجہ سے کسی کو دُکھ میں ڈالنا زیادہ خطرناک گناہ ہے۔ پس تم ایسا طریق نہ اختیار کرو کیونکہ یہ بے دین لوگوں کا کام ہے۔ اور چاہئے کہ تم مسجد حرام کے پاس اُن سے اُس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک وہ جنگ کی ابتدا نہ کریں کیونکہ اس سے حج اور عمرہ کے راستہ میں روک پید ا ہوتی ہے۔ ہاں اگر وہ خود ایسی جنگ کی ابتدا کریں تو پھر تم مجبور ہو اور تمہیں جواب دینے کی اجازت ہے ۔جو لوگ عقل اور انصاف کے احکام کو ردّ کر دیتے ہیں اُن کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر اُنہیں ہوش آجائے اور وہ اس بات سے رُک جائیں تو اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا مہربان ہے۔ اِس لئے تم کو بھی چاہئے کہ ایسی صورت میں اپنے ہاتھوں کو روک لو اور اس خیال سے کہ یہ حملہ میں ابتدا کر چکے ہیں جوابی حملہ نہ کرو۔ اور چونکہ وہ لڑائی شروع کر چکے ہیں تم بھی اُس وقت تک لڑائی کو جاری رکھو جب تک کہ دین میں دخل اندازی کرنے کے طریق کو وہ نہ چھوڑیں اور وہ تسلیم نہ کرلیں کہ دین کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس میں جبر کرنا کسی انسان کے لئے جائز نہیں۔ اگر وہ یہ طریق اختیار کر لیں اور دین میں دخل اندازی سے باز آجائیں تو فوراً لڑائی بند کر دو کیونکہ سزا صرف ظالموں کو دی جاتی ہے۔ اور اگر وہ اس قسم کے ظلم سے باز آجائیں تو پھر اُن سے لڑائی کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔
اِن آیات میں بتایا گیا ہے کہ:۔
اوّل: لڑائی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہونی چاہئے یعنی ذاتی لالچوں، ذاتی حرصوں، ملک کے فتح کرنے کی نیت یا اپنے رسوخ کو بڑھانے کی نیت سے لڑائی نہیں ہونی چاہئے۔
دوم : لڑائی صرف اُسی سے جائز ہے جو پہلے حملہ کرتا ہے۔
سوم: انہی سے تم کو جنگ کرنی جائز ہے جو تم سے لڑتے ہیں یعنی جو لوگ باقاعدہ سپاہی نہیں اور لڑائی میں عملاً حصہ نہیں لیتے اُن کو مارنا یا اُن سے لڑائی کرنا جائز نہیں۔
چہارم: باوجود دشمن کے حملہ میں ابتدا کرنے کے لڑائی کو اُس حد تک محدود رکھنا چاہئے جس حد تک دشمن نے محدود رکھا ہے اور اُسے وسیع کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے نہ علاقہ کے لحاظ سے اور نہ ذرائع جنگ کے لحاظ سے۔
پنجم: جنگ صرف جنگی فوج کے ساتھ ہونی چاہئے یہ نہیں کہ دشمن قوم کے اِکے دُکے افراد کے ساتھ مقابلہ کیا جائے۔
ششم: جنگ میں اس امر کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ مذہبی عبادتوں اور مذہبی فرائض کی ادائیگی میں روکیں پیدا نہ ہوں۔ اگر دشمن کسی ایسی جگہ پر جنگ کی طرح نہ ڈالے جہاں جنگ کرنے سے اُس کی مذہبی عبادتوں میں رخنہ ہوتا ہو تو مسلمانوں کو بھی اُس جگہ جنگ نہیں کرنی چاہئے۔
ہفتم: اگر دشمن خود مذہبی عبادت گاہوں کو لڑائی کا ذریعہ بنائے تو پھر مجبوری ہے ورنہ تم کو ایسا نہ کرنا چاہیے۔ اِس آیت میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ عبادت گاہوں کے اِردگرد بھی لڑائی نہیں ہونی چاہئے کجایہ کہ عبادت گاہوںپر حملہ کیا جائے یا وہ مسمار کی جائیں یا توڑی جائیں۔ ہاں اگر دشمن خود عبادت گاہوں کو لڑائی کا قلعہ بنا لے تو پھر اُن کے نقصان کی ذمہ داری اُس پر ہے اِس نقصان کی ذمہ داری مسلمانوں پر نہیں۔
ہشتم: اگر دشمن مذہبی مقاموں میں لڑائی شروع کرنے کے بعد اُس کے خطرناک نتائج کو سمجھ جائے اور مذہبی مقام سے نکل کر دوسری جگہ کو میدانِ جنگ بنا لے تو مسلمانوں کو اس بہانہ سے اُن کے مذہبی مقاموں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے کہ اس جگہ پر پہلے اُن کے دشمنوں نے لڑائی شروع کی تھی بلکہ فوراً اُن مقامات کے ادب اور احترام کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے حملہ کا رُخ بھی بدل دینا چاہئے۔
نہم: لڑائی اُس وقت تک جاری رکھنی چاہئے جب تک کہ مذہبی دست اندازی ختم ہو جائے اور دین کے معاملہ کو صرف ضمیر کا معاملہ قرار دیا جائے۔ سیاسی معاملوں کی طرح اس میں دخل اندازی نہ کی جائے۔ اگر دشمن اس بات کا اعلان کر دے اور اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو خواہ وہ حملہ میں ابتدا کر چکا ہو اُس کے ساتھ لڑائی نہیں کرنی چاہئے۔
(۳) فرماتا ہے ۔۳۰۵؎ یعنی اے محمد رسول اللہ! دشمن نے جنگیں شروع کیں اور تمہیں خداتعالیٰ کے حکم سے اُن کا جواب دینا پڑا۔ مگر تو اُن میں اعلان کر دے کہ اگر اب بھی وہ لڑائی سے باز آجائیں تو جو کچھ وہ پہلے کر چکے ہیں انہیں معاف کر دیا جائے۔ لیکن اگر وہ لڑائی سے باز نہ آئیں اور بار بار حملے کریں تو پہلے انبیاء کے دشمنوں کے انجام اُن کے سامنے ہیں انجام ان کا بھی وہی ہو گا۔ اور اے مسلمانو! تم اُس وقت جنگ کو جاری رکھو کہ مذہب کی خاطر دُکھ دینا مٹ جائے اور دین کو کلّی طور پر خداتعالیٰ کے سپرد کردیا جائے اور دین کے معاملہ میں دخل اندازی کرنا لوگ چھوڑ دیں۔ پھر اگر یہ لوگ اِن باتوں سے باز آجائیں تو محض اِس وجہ سے اُن سے جنگ نہ کرو کہ وہ ایک غلط دین کے پیرو ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے عمل کو جانتا ہے وہ خود جیسا چاہے گا ان سے معاملہ کرے گا تمہیں اُن کے غلط دین کی وجہ سے ان کے کاموں میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہوسکتی۔ اگر ہمارے اس صلح کے اعلان کے بعد بھی جو لوگ جنگ سے باز نہ آئیں اور لڑائی جاری رکھیں تو خوب سمجھ لو کہ باوجود اِس کے کہ تم تھوڑے ہو تم ہی جیتو گے کیونکہ اللہ تمہارا ساتھی ہے اور خداتعالیٰ سے بہتر ساتھی اور بہتر مدد گار اور کون ہوسکتا ہے۔
یہ آیات قرآن مجید میں جنگ بدر کے ذکر کے بعد آئی ہیں جو کفّارِ عرب اور مسلمانوں کے درمیان سب سے پہلی باقاعدہ جنگ تھی۔ باوجود اس کے کہ کفّارِ عرب نے بِلاوجہ مسلمانوں پر حملہ کیا اور مدینہ کے اِرد گرد فساد مچایا اور باوجود اس کے کہ مسلمان کامیاب ہوئے اور دشمن کے بڑے بڑے سردار مارے گئے قرآن کریم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہی اعلان کروایا ہے کہ اگر اب بھی تم لوگ باز آجاؤ تو ہم لڑائی کو جاری نہیں رکھیں گے۔ ہم تو صرف اتنا چاہتے ہیں کہ جبراً مذہب نہ بدلوائے جائیں اور دین کے معاملہ میں دخل نہ دیا جائے۔
(۴) فرماتا ہے ۳۰۶؎ یعنی اگر کسی وقت بھی کفّار صلح کی طرف جھکیں تو تُو فوراً ان کی بات مان لیجیو اور صلح کر لیجیو اور یہ وہم مت کیجیو کہ شاید وہ دھوکا کررہے ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیو۔ خداتعالیٰ دعاؤں کو سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اور اگر تیرا یہ خیال صحیح ہو کہ وہ دھوکا کرنا چاہتے ہیں اور وہ واقعہ میں تجھے دھوکا دینے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں تو بھی یاد رکھ کہ ان کے دھوکا دینے سے بنتا کیا ہے۔ تجھے تو صرف اللہ کی مدد سے ہی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ اُس کی مدد تیرے لئے کافی ہے۔ گزشتہ زمانہ میں وہی اپنی براہِ راست مدد کے ذریعہ اور مؤمنوں کی مدد کے ذریعہ تیرا ساتھ دیتا رہا ہے۔
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب دشمن صلح کرنے پر آمادہ ہو تو مسلمانوں کو بہر حال اس سے صلح کر لینی چاہئے۔ اگر صلح کے اُصول کو وہ ظاہر میں تسلیم کرتا ہو تو صرف اِس بہا نہ سے صلح کو ردّ نہیں کرنا چاہئے کہ شاید دشمن کی نیت بَد ہو اور بعد میں طاقت پکڑ کے دوبارہ حملہ کرنا چاہتا ہو۔
اِن آیتوں میں درحقیقت صلح حدیبیہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب دشمن صلح کرنا چاہے گا اُس وقت تم اِس عذر سے کہ دشمن نے زیادتی کی ہے یا یہ کہ وہ بعد میں اس معاہدہ کو توڑ دینا چاہتا ہے صلح سے انکار نہ کرنا کیونکہ نیکی کا تقاضا بھی یہی ہے اور تمہارا فائدہ بھی اس میں ہے کہ تم صلح کی پیشکش کو تسلیم کر لو۔
(۵) فرماتا ہے ۳۰۷؎ یعنی اے مومنو! جب تم خد اکی خاطر لڑائی کے لئے باہر نکلو تو اِس بات کی اچھی طرح تحقیقات کر لیا کرو کہ تمہارے دشمن پر حجت تمام ہو چکی ہے اور وہ بہر حال لڑائی پر آمادہ ہے اور اگر کوئی شخص یا جماعت تمہیں کہے کہ میں تو صلح کرتا ہوں تو یہ مت کہو کہ تو دھوکا دیتا ہے اور ہمیں اُمید نہیں کہ ہم تجھ سے امن میں رہیں گے۔ اگر تم ایسا کرو گے تو پھر تم خدا کی راہ میں لڑنے والے نہیں ہو گے بلکہ تم دنیا طلب قرار پائو گے۔ پس ایسا مت کرو کیونکہ جس طرح خدا کے پاس دین ہے اسی طرح خداکے پاس دنیا کا بھی بہت سا سامان ہے۔ تمہیں یادر کھنا چاہئے کہ کسی شخص کا مار دینا اصل مقصود نہیں۔ تمہیں کیا معلوم ہے کہ کل کو وہ ہدایت پا جائے۔ تم بھی تو پہلے دین اسلام سے باہر تھے پھر اللہ تعالیٰ نے احسان کر کے تمہیں اِس دین کے اختیار کرنے کی توفیق دی۔ پس مارنے میں جلدی مت کیا کرو بلکہ حقیقتِ حال کی تحقیق کیا کرو۔ یاد رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب لڑائی شروع ہو جائے تب بھی اس بات کی اچھی طرح تحقیق کرنی چاہئے کہ دشمن کا ارادہ جارحانہ لڑائی کا ہے؟ کیونکہ ممکن ہے کہ دشمن جارحانہ لڑائی کا ارادہ نہ کرتا ہو بلکہ وہ خود کسی خوف کے ماتحت فوجی تیاری کر رہا ہو۔ پس پہلے اچھی طرح تحقیقات کر لیا کرو کہ دشمن کا ارادہ جارحانہ جنگ کا تھا تب اُس کے سامنے مقابلہ کے لئے آئو۔ اور اگر وہ یہ کہے کہ میرا ارادہ تو جنگ کرنے کا نہیں تھا میں تو صرف خوف کی وجہ سے تیاری کر رہا تھا تو تمہیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ نہیں تمہاری جنگی تیاری بتاتی ہے کہ تم ہم پر حملہ کرنا چاہتے تھے ہم کس طرح سمجھیں کہ ہم تم سے مأمون اور محفوظ ہیں بلکہ اُس کی بات کو قبول کر لو اور یہ سمجھو کہ اگر پہلے اُس کا ارادہ بھی تھا تو ممکن ہے بعد میں اس میں تبدیلی پیدا ہو گئی ہو۔ تم خود اس بات کے زندہ گواہ ہو کہ دلوں میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے تم پہلے اسلام کے دشمن تھے مگر اب تم اسلام کے سپاہی ہو۔
(۶) پھر دشمنوں سے عہد کے متعلق فرماتا ہے ۳۰۸؎ یعنی مشرکوں میں سے وہ جنہوں نے تم سے کوئی عہد کیا تھا اور پھر اُنہوں نے اُس عہد کو توڑا نہیں اور تمہارے خلاف تمہارے دشمنوں کی مدد نہیں کی، عہد کی مدت تک تم بھی پابند ہو کہ معاہدہ کو قائم رکھو۔ یہی تقویٰ کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔
(۷) ایسے دشمنوں کے متعلق جو برسر جنگ ہوں لیکن اُن میں سے کوئی شخص اسلام کی حقیقت معلوم کرنا چاہے فرماتا ہے ۳۰۹؎ یعنی اگر برسر جنگ مشرکو ں میں سے کوئی شخص اِس لئے پناہ مانگے کہ وہ تمہارے ملک میں آکر اسلام کی تحقیقات کرنا چاہتا ہے تو اُس کو ضرور پناہ دو اتنے عرصہ تک کہ وہ اچھی طرح اسلام کی تحقیقات کر لے اور قرآن کریم کے مضامین سے واقف ہو جائے۔ پھر اس کو اپنی حفاظت میں اُس مقام تک پہنچا دو جہاں وہ جانا چاہتا ہے اور جسے اپنے لئے امن کا مقام سمجھتا ہے۔
(۸) جنگی قیدیوں کے متعلق فرماتاہے ۔۳۱۰؎ یعنی کسی نبی کی شان کے مطابق یہ بات نہیں کہ وہ اپنے دشمن کے قیدی بنا لے۔ سوائے اس کے کہ باقاعدہ جنگ میںقیدی پکڑے جائیں۔ یعنی یہ رواج جواُس زمانہ تک بلکہ اس کے بعد بھی صدیوں تک دنیا میں قائم رہا ہے کہ اپنے دشمن کے آدمیوں کو بغیر جنگ کے ہی پکڑ کر قید کر لینا جائز سمجھا جاتا تھا اُسے اسلام پسند نہیںکرتا۔ وہی لوگ جنگی قیدی کہلا سکتے ہیں جو میدانِ جنگ میں شامل ہوں اور لڑائی کے بعد قید کئے جائیں۔
(۹) پھر اُن قیدیوں کے متعلق فرماتا ہے ۔۳۱۱؎ یعنی جب جنگی قیدی پکڑے جائیں تو یا تو احسان کر کے اُنہیں چھوڑ دو یااُن کا بدلہ لے کے اُن کو آزاد کر دو۔
(۱۰) اگر کوئی قیدی ایسے ہوں جن کا بدلہ دینے والا کوئی نہ ہو یا اُن کے رشتہ دار اُن کے اموال پر قابض ہونے کیلئے یہ چاہتے ہوں کہ وہ قید ہی رہیں تو اچھاہے تو اُن کے متعلق فرماتا ہے۔۔۳۱۲؎ یعنی تمہارے جنگی قیدیوں میں سے ایسے لوگ جن کو نہ تم احسان کر کے چھوڑ سکتے ہو اور نہ اُن کی قوم نے اُن کا فدیہ دے کر اُنہیں آزاد کروایا ہے ا گر وہ تم سے یہ مطالبہ کریںکہ ہمیں آزاد کر دیا جائے ہم اپنے پیشہ اور ہنر کے ذریعہ سے روپیہ کما کر اپنے حصہکا جرمانہ ادا کر دیں گے تو اگر وہ اس قابل ہیں کہ آزدانہ روزی کما سکیں تو تم ضرور اُنہیں آزاد کر دو بلکہ اُن کی کوشش میں خود بھی حصہ دار بنو اور خدا نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اُس میں سے کچھ روپیہ اُن کے آزاد کرنے میں صرف کر دو یعنی اُن کے حصہ کا جو جنگی خرچ بنتا ہے یا اُس میں سے کچھ مالک چھوڑ دے یا دوسرے مسلمان مل کر اُس قیدی کی مالی امداد کریں اور اُسے آزاد کرائیں۔
یہ وہ حالات ہیں جن میں اسلام جنگ کی اجازت دیتا ہے اور یہ وہ قواعد ہیں جن کے ماتحت اسلام جنگ کی اجازت دیتا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم کی اِن آیات کی روشنی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مزید تعلیمات مسلمانوں کو دیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:۔
۱۔ کسی صورت میں مسلمانوں کو مثلہ کرنے کی اجازت نہیں، یعنی مسلمانوں کو مقتولین جنگ کی ہتک کرنے یا اُن کے اعضاء کاٹنے کی اجازت نہیں ہے۔ ۳۱۳؎
۲۔ مسلمانوں کو کبھی جنگ میں دھوکا بازی نہیں کرنی چاہئے۔ ۳۱۴؎
۳۔ کسی بچے کو نہیں مارنا چاہئے اور نہ کسی عورت کو۔۳۱۵؎
۴۔ پادریوں،پنڈتوں اور دوسرے مذہبی رہنمائوں کو قتل نہیں کرنا چاہئے۔۳۱۶؎
۵۔ بڈھے کو نہیں مارنا چاہئے، بچے کو نہیں مارنا چاہئے، عورت کو نہیں مارنا چاہئے اور ہمیشہ صلح اور احسان کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ ۳۱۷؎
۶۔ جب لڑائی کے لئے مسلمان جائیں تو اپنے دشمنوں کے ملک میں ڈر اور خوف پید انہ کریں اور عوام الناس پر سختی نہ کریں۔۳۱۸؎
۷۔ جب لڑائی کے لئے نکلیں تو ایسی جگہ پر پڑائو نہ ڈالیں کہ لوگوں کے لئے تکلیف کا موجب ہو اور کوچ کے وقت ایسی طرز پر نہ چلیں کہ لوگوں کیلئے رستہ چلنا مشکل ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا سختی سے حکم دیا ہے کہ فرمایا جو شخص اِن احکام کے خلاف کرے گا اُس کی لڑائی اُس کے نفس کے لئے ہو گی خدا کے لئے نہیںہو گی۔۳۱۹؎
۸۔ لڑائی میں دشمن کے منہ پر زخم نہ لگائیں۔
۹۔ لڑائی کے وقت کوشش کرنی چاہئے کہ دشمن کو کم سے کم نقصان پہنچے۔
۱۰۔ جو قیدی پکڑے جائیں اُن میں سے جو قریبی رشتہ دار ہوں اُن کو ایک دوسرے سے جدا نہ کیا جائے۔ ۳۲۰؎
۱۱۔ قیدیوں کے آرا م کا اپنے آرام سے زیادہ خیال رکھا جائے۔۳۲۱؎
۱۲۔ غیر ملکی سفیروں کا ادب اور احترام کیا جائے۔ وہ غلطی بھی کریں تو اُن سے چشم پوشی کی جائے۔۳۲۲؎
۱۳۔ اگر کوئی شخص جنگی قیدی کے ساتھ سختی کر بیٹھے تو اس قیدی کو بِلا معاوضہ آزاد کر دیا جائے۔
۱۴۔ جس شخص کے پاس کوئی جنگی قیدی رکھا جائے وہ اُسے وہی کھلائے جو خود کھائے اور اُسے وہی پہنائے جو خود پہنے۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہی احکام کی روشنی میں مزید یہ حکم جاری فرمایا کہ عمارتوں کو گرائو مت اور پھلدار درختوں کو کاٹو مت۔ ۳۲۳؎
اِن احکام سے پتہ لگ سکتا ہے کہ اسلام نے جنگ کے روکنے کے لئے کیسی تدابیر اختیار کی ہیں اورر سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس عمدگی کے ساتھ اِن تعلیمات کو جامہ پہنایا اور مسلمانوں کو اِن پر عمل کرنے کی تلقین کی۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ نہ موسٰی ؑ کی تعلیم اِس زمانہ میں عدل کی تعلیم کہلا سکتی ہے نہ وہ اِس زمانہ میں قابل عمل ہے اور نہ مسیحؑ کی تعلیم اِس زمانہ میں قابلِ عمل کہلا سکتی ہے اور نہ کبھی عیسائی دنیا نے اِس پر عمل کیا ہے۔ اسلام ہی کی تعلیم ہے جو قابل عمل ہے اور جس پر عمل کر کے دنیا میں امن قائم رکھا جا سکتا ہے۔
بیشک اس زمانہ میں مسٹر گاندھی نے دنیا کے سامنے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ جنگ کے وقت بھی جنگ نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن جس تعلیم کو مسٹر گاندھی پیش کر رہے ہیں اُس پر دنیا میں کبھی عمل نہیں ہوا کہ ہم اُس کی بُرائی اور خوبی کا اندازہ کر سکیں۔ مسٹر گاندھی کی زندگی میں ہی کانگرس کو حکومت مل گئی ہے اورکانگرسی حکومت نے فوجوں کو ہٹایا نہیں بلکہ وہ یہ تجویزیں کر رہی ہے کہ آئی۔ این۔ اے کے وہ افسر جو برطانوی گورنمنٹ نے ہٹا دئیے تھے اُن کو دوبارہ فوج میں ملازم رکھا جائے۔ بلکہ کانگرسی حکومت کے ہندوستان میں قائم ہونے کے سات دن کے اندر وزیرستان کے علاقہ میں نہتے آدمیوں پر ہوائی جہازوں کے ذریعہ سے بم گرائے گئے ہیں۔ خود گاندھی جی تشدد کرنے والوں کی تائید اور اُن کے چھوڑ دینے کے حق میں گورنمنٹ پر ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ گاندھی جی نہ اُن کے پیرو اِس تعلیم پر عمل کر سکتے ہیں اور نہ کوئی ایسی معقول صورت دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں جس سے معلوم ہو کہ قوموں اور ملکوں کی جنگ میں اس تعلیم پر کس طرح کامیاب طور پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ منہ سے اِس تعلیم کا وعظ کرتے ہوئے اُس کے خلاف عمل کرنا بتاتا ہے کہ اِس تعلیم پر عمل نہیں کیا سکتا۔ پس اِس وقت تک دنیا کا تجربہ ہے اور عقل جس حد تک انسان کی راہنمائی کرتی ہے ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی طریقہ صحیح تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
کفار کی طرف سے جنگ خندق کے بعد مسلمانوں پر حملے
احزاب سے واپس لوٹنے کے بعد گوکفار کی ہمتیں ٹوٹ چکی تھیں اور اُن کے حوصلے پست ہو گئے تھے، لیکن اُن کا یہ احساس باقی تھا کہ ہم
اکثریت میں ہیں اور مسلمان تھوڑے ہیں اور وہ سمجھتے تھے کہ جہاں جہاں بھی ہو گا ہم مسلمانوں کو اِکّا دُکّا پکڑ کر مار سکیں گے اور اِس طرح اپنی ذلّت کا بدلہ لے سکیں گے۔ چنانچہ احزاب کی شکست کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مدینہ کے اِردگرد کے قبائل نے مسلمانوں پر چھاپے مارنے شروع کر دئیے۔ چنانچہ فزارہ قوم کے کچھ سواروں نے مدینہ کے قریب چھاپہ مارا اور مسلمانوں کے اُونٹ جو وہاں چر رہے تھے اُن کے چرواہے کو قتل کیا، اُس کی بیوی کو قید کر لیا اور اُونٹوں سمیت بھاگ گئے۔ قیدی عورت تو کسی نہ کسی طرح بھاگ آئی لیکن اُونٹوں کا ایک حصہ لے کر بھاگ جانے میں دشمن کامیاب ہو گیا۔ اس کے ایک مہینہ بعد شمال کی طرف غطفان قبیلہ کے لوگوں نے مسلمانوں کے اُونٹوں کے گلوں کو لوٹنے کی کوشش کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہؓ کو دس سواروں سمیت حالات کے معلوم کرنے اور گلوں کی حفاظت کرنے کے لئے بجھوایا مگر دشمن نے موقع پا کر اُنہیں قتل کر دیا۔ محمد بن مسلمہ کو بھی وہ اپنی طرف سے قتل کر کے پھینک گئے تھے لیکن اصل میں وہ بیہوش تھے دشمن کے چلے جانے کے بعد وہ ہوش میں آئے اور مدینہ پہنچ کر ان حالات کی اطلاع دی اور بتایا کہ میرے سب ساتھی مارے گئے اور صرف میں بچا ہوں۔
کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سفیر جو رومی حکومت کی طرف سے بھجوایا گیا تھا اُس پر جرہم قوم نے حملہ کیا اور اُسے لوٹ لیا۔ اس کے ایک مہینہ بعد بنوفزارہ نے مسلمانوں کے ایک قافلہ پر حملہ کیا اور اسے لوٹ لیا۔ غالباً یہ حملہ کسی مذہبی عداوت کی وجہ سے نہیں تھا کیونکہ بنو فزارہ ڈاکوئوں کا ایک قبیلہ تھا جو ہر قوم کے آدمیوں کو لوٹتے اور قتل کرتے رہتے تھے۔ اُس زمانہ میں خیبر کے یہودی بھی جو جنگ احزاب کا موجب ہوئے تھے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لئے اِدھر اُدھر کے قبائل کو بھڑکاتے رہے اور رومی حکومت کے سرحدی علاقوں کے افسروں اور قبائل کو بھی مسلمانوں کے خلاف جوش دلاتے رہے۔ غرض کفارِ عرب کو مدینہ پر حملہ کرنے کی تو ہمت نہ رہی تھی تاہم وہ یہود کے ساتھ مل کر سارے عرب میں مسلمانوں کے لئے مصیبتوں اور لوٹ مار کے سامان پید اکر رہے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی تک کفار کے ساتھ آخری لڑائی لڑنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا اور آپ اس انتظار میں تھے کہ اگر صلح کے ساتھ یہ خانہ جنگی ختم ہو جائے تو اچھا ہے۔
پندرہ سَو صحابہؓ کے ساتھ آنحضرتﷺکی مکہ کو روانگی
اِس عرصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رئویا دیکھی جس کا قرآن کریم میں ان الفاظ میں ذکر آتا ہے۔
۳۲۴؎ یعنی ضرور تم اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت مسجد حرام میں امن کے ساتھ داخل ہوگے۔ تم میںسے بعضوں کے سر منڈے ہوئے ہوں گے اور بعضوں کے بال کٹے ہوئے ہوں گے (حج کے وقت سر منڈانا اور بال کٹانا ضروری ہوتا ہے) تم کسی سے نہ ڈر رہے ہو گے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے۔ اِس وجہ سے اُس نے اِس خواب کے پورا ہونے سے پہلے ایک اور فتح مقرر کر دی ہے جو خواب والی فتح کا پیش خیمہ ہو گی۔
اِس رئویا میں درحقیقت صلح اور امن کے ساتھ مکہ کو فتح کرنے کی خبر دی گئی تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعبیر یہی سمجھی کہ شاید ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خانہ کعبہ کا طواف کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور چونکہ اِس غلط فہمی سے اس قسم کی بنیاد پڑنے والی تھی اللہ تعالیٰ نے اِس غلطی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ نہ کیا۔ چنانچہ آپؐ نے اپنے صحابہ میں اِس بات کا اعلان کیا اور اُنہیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی تلقین کی۔ مگر فرمایا ہم صرف طواف کی نیت سے جارہے ہیں کسی قسم کا مظاہرہ یا کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو دشمن کی ناراضگی کا موجب ہو۔ چنانچہ آخر فروری۶۲۸ء میں پندرہ سَو زائرین کے ساتھ آپ مکہ کی طرف روانہ ہوئے( ایک سال بعدکل پندرہ سَو آدمیوں کا آپ کے ساتھ جانا بتاتاہے کہ اس سے ایک سال پہلے جنگ احزاب کے موقع پر اس تعداد سے کم ہی سپاہی ہوں گے۔ کیو نکہ ایک سال میں مسلمان بڑھے تھے گھٹے نہ تھے۔ پس جنگ احزاب میں لڑنے والوں کی تعداد جن مؤرخوں نے تین ہزار لکھی ہے یہ غلطی کی ہے۔ درست یہی ہے کہ اُس وقت بارہ سَو سپاہی تھے)حج کے قافلہ کے آگے بیس سوار کچھ فاصلہ پر اس لئے چلتے تھے تاکہ اگر دشمن مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہے تو اُن کو وقت پر اطلاع مل جائے۔ جب مکہ والوں کو آپ کے اِس ارادہ کی اطلاع ہوئی تو باوجود اس کے کہ اُن کا اپنا مذہب بھی یہی تھا کہ طوافِ کعبہ میں کسی کے لئے روک نہیں ڈالنی چاہئے اور باوجود اس کے کہ مسلمانوں نے وضاحت سے اعلان کر دیا تھا کہ وہ صرف اور صرف طوافِ کعبہ کے لئے جار ہے ہیں کسی قسم کی مخالفت یا جھگڑے کے لئے نہیں جار ہے مکہ والوں نے مکہ کو ایک قلعہ کی صورت میں تبدیل کر دیااور اِردگرد کے قبائل کو بھی اپنی مدد کے لئے بلوایا۔ جب آپ مکہ کے قریب پہنچے تو آپ کو یہ اطلاع ملی کہ قریش نے چیتوں کی کھالیں پہن لی ہیں اور اپنی بیویوں اور بچوں کو ساتھ لے لیا ہے اور یہ قسمیں کھا لی ہیں کہ وہ آپ کو گزرنے نہیں دیں گے۔ یہ عرب کا رواج تھا کہ جب قوم موت کا فیصلہ کر لیتی تھی تو اس کے سردار چیتے کی کھالیں پہن لیتے تھے جس کے معنی یہ ہوتے تھے کہ اب عقل کا وقت نہیں رہا، اب دلیری اور جرأت سے ہم جان دے دیں گے۔ اس اطلاع کے ملنے کے تھوڑی دیر بعد ہی مکہ کی فوج کا ہرا ول دستہ مسلمانوں کے سامنے آکھڑا ہوا اب اس مقام سے صرف اسی صورت میں آگے بڑھا جا سکتا تھا کہ تلوار کے زور سے دشمن کو زیر کیا جاتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ فیصلہ کر کے آئے تھے کہ بہر حال ہم نہیں لڑیں گے، آپ نے ایک ہوشیار راہبر کو جو جنگل کے راستوں سے واقف تھا اُسے اِس بات پر مقرر کیا کہ وہ جنگل کے اندر سے مسلمان زائرین کو لے کر مکہ تک پہنچا دے۔ یہ راہبر آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو لے کر حدیبیہ کے مقام پر جو مکہ کے قریب تھا جا پہنچا۔ یہاں آپ کی اُونٹنی کھڑی ہو گئی اور اُس نے آگے چلنے سے انکار کر دیا۔ صحابہؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ کی اُونٹنی تھک گئی ہے آپ اس کی جگہ دوسری اُونٹنی پر بیٹھ جائیں۔ مگر آپ نے فرمایا۔ نہیں نہیں یہ تھکی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہر جائیں اور میں یہیں ٹھہر کر مکہ والوں سے ہر طریقہ سے درخواست کروں گا کہ وہ ہمیں حج کی اجازت دے دیں اور خواہ کوئی شرط بھی وہ کریں میں اُسے منظور کر لوں گا۔ اُس وقت تک مکہ کی فوج مکہ سے دور فاصلہ پر کھڑی تھی اور مسلمانوں کا انتظار کر رہی تھی۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو بغیر مقابلہ کے مکہ میں داخل ہو سکتے تھے۔ لیکن چونکہ آپ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ پہلے آپ یہی کوشش کریں گے کہ مکہ والوں کی اجازت کے ساتھ طواف کریں اور اُسی صورت میں مقابلہ کریں گے کہ مکہ والے خود لڑائی شروع کرکے لڑنے پر مجبور کریں۔ اس لئے باوجود مکہ کی سڑک کے کھلا ہونے کے آپ نے حدیبیہ پر ڈیرہ ڈال دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر کہ آپ حدیبیہ پر ڈیرے ڈالے پڑے ہیں مکہ کے لشکرکو بھی جا پہنچی اور اُس نے جلدی سے پیچھے ہٹ کر مکہ کے قریب صفیں بنا لیں۔ سب سے پہلے بدیل نامی ایک سردار آپ سے بات کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ جب وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا۔ میں تو صرف طواف کرنے کے لئے آیا ہوں۔ ہاں مکہ والے اگر ہمیں مجبور کریں تو ہمیں لڑنا پڑے گا۔ اِس کے بعد مکہ کے کمانڈر ابوسفیان کا داماد عروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے نہایت گستاخا نہ طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر کہا کہ یہ اُوباشوں کا گروہ آپ اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں مکہ والے اِنہیں کسی صورت میں بھی اپنے شہر میں داخل ہونے نہیں دیں گے۔ اِسی طرح یکے بعد دیگرے پیغامبر آتے رہے۔ آخر مکہ والوں نے کہلا بھیجا کہ خواہ کچھ ہو جائے اِس سال تو ہم آپ کو طواف نہیں کرنے دیں گے کیونکہ اس میں ہماری ہتک ہے۔ ہاں اگر آپ اگلے سال آئیں تو ہم آپ کو اجازت دے دیں گے۔ بعض اِ ردگرد کے لوگوں نے مکہ والوں سے اصرار کیا کہ یہ لوگ صرف طواف کے لئے آئے ہیں آپ ان کو کیوں روکتے ہیں مگر مکہ کے لوگ اپنی ضد پر قائم رہے۔ اس پر بیرونی قبائل کے لوگوں نے مکہ والوں سے کہا کہ آپ لوگوں کا یہ طریق بتاتا ہے کہ آپ کو شرارت مدنظر ہے صلح مدنظر نہیں اِس لئے ہم لوگ آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس پر مکہ کے لوگ ڈر گئے اور اُنہوں نے اِس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کی کوشش کریں گے۔
جب اس امر کی اطلاع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے حضرت عثمانؓ کو جو بعد میں آپ کے تیسرے خلیفہ ہوئے مکہ والوں سے بات چیت کرنے کے لئے بھیجا۔ جب حضرت عثمانؓ مکہ پہنچے تو چونکہ مکہ میں اُن کی بڑی وسیع رشتہ داری تھی اُن کے رشتہ دار اُن کے گرد اکٹھے ہوگئے اور اُن سے کہا کہ آپ طواف کر لیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگلے سال آکر طواف کریں۔ مگر عثمانؓ نے کہا کہ میں اپنے آقا کے بغیر طواف نہیں کر سکتا۔ چونکہ رئوسائے مکہ سے آپ کی گفتگو لمبی ہو گئی، مکہ میں بعض لوگوں نے شرارت سے یہ خبر پھیلادی کہ عثمانؓ کوقتل کر دیا گیا ہے اور یہ خبر پھیلتے پھیلتے رسول اللہ صلی علیہ وسلم تک بھی جا پہنچی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو جمع کیا اور فرمایا سفیر کی جان ہر قوم میں محفوظ ہوتی ہے۔ تم نے سنا ہے کہ عثمانؓ کو مکہ والوں نے مار دیا ہے اگر یہ خبر درست نکلی تو ہم بزور مکہ میں داخل ہوں گے (یعنی ہمارا پہلا ارادہ کہ صلح کے ساتھ مکہ میں داخل ہوں گے جن حالات کے ماتحت تھا وہ چونکہ تبدیل ہو جائیں گے اِس لئے ہم اِس ارادہ کے پابند نہ رہیں گے) جو لوگ یہ عہد کرنے کے لئے تیار ہوں کہ اگر ہمیں آگے بڑھنا پڑا تو یا ہم فتح کر کے لوٹیں گے یا ایک ایک کر کے میدان میں مارے جائیں گے وہ اس عہد پر میری بیعت کریں۔ آپ کا یہ اعلان کرنا تھا کہ پندرہ سَو زائر جو آپ کے ساتھ آیا تھا یکدم پندرہ سَو سپاہی کی شکل میں بدل گیا اور دیوانہ وار ایک دوسرے پر پھاندتے ہوئے اُنہو ں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر دوسروں سے پہلے بیعت کرنے کی کوشش کی۔ یہ بیعت تمام اسلامی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور درخت کا عہد نامہ کہلاتی ہے کیونکہ جس وقت یہ بیعت لی گئی اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ جب تک اس بیعت میں شامل ہونے والا آخری آدمی بھی دنیا میں زندہ رہا وہ فخر سے اِس بیعت کا ذکر کیا کرتا تھا۔ کیونکہ پندرہ سَو آدمیوں میں سے ایک شخص نے بھی یہ عہد کرنے سے دریغ نہ کیا تھا کہ اگردشمن نے اسلامی سفیر کو مار دیا ہے تو آج دو صورتوں میں سے ایک ضرور پیدا کر کے چھوڑیں گے۔ یا وہ شام سے پہلے پہلے مکہ کو فتح کر کے چھوڑ یں گے یا شام سے پہلے پہلے میدانِ جنگ میں مارے جائیںگے۔ لیکن ابھی بیعت سے مسلمان فارغ ہی ہوئے تھے کہ حضرت عثمانؓ واپس آگئے اور اُنہوں نے بتایا کہ مکہ والے اِس سال تو عمرہ کی اجازت نہیں دے سکتے مگر آئندہ سال اجازت دینے کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ اِس بارہ میں معاہدہ کرنے کے لئے اُنہوں نے اپنے نمائندے مقرر کر دئیے ہیں۔ حضرت عثمانؓ کے آنے کے تھوڑی دیر بعد مکہ کا ایک رئیس سہیل نامی معاہدہ کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ معاہدہ لکھا گیا۔
شرائط صلح حدیبیہ
’’ خدا کے نام پر یہ شرائط صلح محمد ابن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) اور سہیل ابن عمرو ( قائمقام حکومت مکہ کے درمیان
طے پائی ہیں۔ جنگ دس سال کے لئے بند کی جاتی ہے۔ جو شخص محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ملنا چاہے یا اُن کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہے وہ ایسا کر سکتا ہے۔ اورجو شخص قریش کے ساتھ ملنا چاہے یا معاہدہ کرنا چاہے وہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔ اگر کوئی لڑکا جس کا باپ زندہ ہو یا ابھی چھوٹی عمر کا ہو وہ اپنے باپ یا متولی کی مرضی کے بغیر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جائے توا ُس کے باپ یا متولی کے پاس واپس کر دیا جائے گا لیکن اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھیوں میں سے کوئی قریش کی طرف جائے تو اُسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اس سال مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس چلے جائیں گے لیکن اگلے سال محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اور ا ن کے ساتھی مکہ میں آ سکتے ہیں اور تین دن تک وہاں ٹھہر کر کعبہ کا طواف کر سکتے ہیں اس عرصہ میں قریش شہر سے باہر پہاڑی پر چلے جائیں گے۔ لیکن یہ شرط ہو گی کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اُن کے ساتھی مکہ میں داخل ہوں تو اُن کے پاس کوئی ہتھیار نہ ہو سوائے اُس ہتھیار کے جوہر مسافر اپنے پاس رکھتا ہے یعنی نیام میں ڈالی ہوئی تلوار‘‘۔۳۲۵؎
اِس معاہدہ کے وقت دو عجیب باتیں ہوئیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرائط طے کرنے کے بعد معاہدہ لکھوانا شروع کیا تو آپ نے فرمایا ’’ خدا کے نام سے جو بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے‘‘۔ سہیل نے اس پر اعتراض کیا اور کہا خدا کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ ’’ بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ‘‘ ہم نہیں جانتے کون ہے۔ یہ معاہدہ ہمارے اور آپ کے درمیان ہے اور اس میں دونوں کے مذاہب کا احترام ضروری ہے۔ اس پر آپ نے اُس کی بات قبول کر لی اور صرف اتنا ہی لکھوایا کہ ’’ خد اکے نام پر ہم یہ معاہدہ کرتے ہیں‘‘۔ پھر آپ نے یہ لکھوایا کہ یہ شرائط صلح مکہ والوں اور محمد رسول اللہ کے درمیان ہیں۔ اس پر پھر سہیل نے اعتراض کیا اور کہا کہ اگر ہم آپ کو خدا کا رسول مانتے تو آپ کے ساتھ لڑتے کیوں؟ آپ نے اُس کے اس اعتراض کو بھی قبول کر لیا اور بجائے محمد رسول اللہ کے ’’ محمد بن عبداللہ‘‘ لکھوایا۔ چونکہ آپ مکہ والوں کی ہر بات مانتے چلے جاتے تھے، صحابہؓ کے دل میں بے انتہاء رنج اور افسوس پیدا ہوا اور غصہ سے اُن کا خون کھولنے لگا یہاں تک کہ حضرت عمرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا ہم سچے نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ! پھر اُنہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا آپ کو خدا نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ہم خانہ کعبہ کا طواف کریں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں! اس پر حضرت عمرؓ نے کہا پھر آپ نے یہ معاہدہ آج کیوں کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عمر! خدا تعالیٰ نے مجھے یہ تو فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف امن سے کریں گے مگر یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ ہم اسی سال کریں گے یہ تو میرا اپنا اجتہاد تھا۔ اِسی طرح بعض دوسرے صحابہؓ نے یہ اعتراض کیا کہ یہ اقرار کیوںکر لیا گیا ہے کہ اگر مکہ کے لوگوں میں سے کوئی نوجوان مسلمان ہواتو اس کے باپ یا ولی کی طرف واپس کر دیا جائے گا لیکن جو مسلمان مکہ والوں کی طرف جائے گا اُسے مکہ والے واپس کرنے پر مجبور نہ ہوں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِس میں کون سے حرج کی بات ہے ہر شخص جو مسلمان ہوتا ہے وہ اسلام کو سچا سمجھ کر مسلمان ہوتا ہے رسمی اور رواجی طور پر مسلمان نہیں ہوتا۔ ایسا شخص جہاں بھی رہے گا وہ اسلام کی تبلیغ کرے گا اور اسلام کی اشاعت کا موجب ہو گا لیکن جو شخص اسلام سے مرتد ہو تا ہے ہم نے اُسے اپنے اندر رکھ کر کرنا کیا ہے۔ جو شخص ہمارے مذہب کو جھوٹا سمجھ بیٹھا ہے وہ ہمارے لئے کس فائدہ کا موجب ہو سکتا ہے۔ آپ کا یہ جواب ان غلطی خوردہ مسلمانوں کا بھی جواب ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے۔ اگر اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر اصرار کرتے کہ ہر مرتد واپس کیا جائے تاکہ اُس کو اُس کے جرم کی سزا دی جائے۔ جس وقت یہ معاہدہ لکھ کر ختم ہو ا اور اس پر دستخط کر دئیے گئے۔ اُسی وقت اللہ تعالیٰ نے اس معاہدہ کی صحت کے پرکھنے کا سامان پیدا کر دیا۔ سہیل جو مکہ والوں کی طرف سے معاہدہ کر رہا تھا اس کا اپنا بیٹا رسیوں سے جکڑا ہوا اور زخموں سے چور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر گرا اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں دل سے مسلمان ہوں اور اسلام کی وجہ سے میرا باپ مجھے یہ تکلیفیں دے رہا ہے۔ میرا باپ یہاں آیا تو میں موقع پا کر آپ کے پاس پہنچا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی جواب نہ دیاتھا کہ اس کے باپ نے کہا معاہدہ ہو چکا ہے اور اِس نوجوان کو واپس میرے ساتھ جانا ہوگا۔ ابوجندل کی حالت اُس وقت مسلمانوں کے سامنے تھی وہ اپنے ایک بھائی کو جو اپنے باپ کے ہاتھوں سے اِس قدر ظلم برداشت کر رہا تھا واپس جانا دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اُنہوں نے تلواریں میانوں سے نکال لیں اور اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ وہ مر جائیں گے مگر اپنے بھائی کو اس تکلیف کے مقام پر پھر جانے نہیں دیں گے۔ خود ابوجندل نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یَارَسُوْل اللّٰہ !آپ میری حالت کو دیکھتے ہیں کیا آپ اس بات کو گوارا کریں گے کہ پھر مجھے اِ ن ظالموں کے سپرد کر دیں تاکہ پہلے سے بھی زیادہ مجھ پر ظلم توڑیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کے رسول معاہدے نہیں توڑا کرتے۔ ابوجندل! ہم معاہدہ کرچکے ہیں تم اب صبر سے کام لو اور خدا پر توکل کرو وہ تمہارے لیے اور تمہارے جیسے اور نوجوانوں کے لئے خو دہی بچنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا۔۳۲۶؎
اس معاہدے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ تشریف لے گئے۔ جب آپ مدینہ پہنچے تو مکہ کا ایک اور نوجوان ابوبصیرؓ آپ کے پیچھے پیچھے دَوڑتا ہوا مدینہ پہنچا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بھی معاہدہ کے مطابق واپس جانے پر مجبور کیا مگر راستہ میں اُس کی اپنے پکڑنے والوں سے لڑائی ہو گئی اور اپنے ایک محافظ کو قتل کر کے وہ بھاگ گیا۔ مکہ والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر شکایت کی تو آپ نے فرمایا ہم نے تمہارا آدمی تمہارے حوالے کر دیا تھا ہم اس بات کے ذمہ دار نہیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو ہم اُس کو پکڑ کر دوبارہ تمہارے سپرد کریں۔۳۲۷؎
اس کے تھوڑے دنوں بعد ایک عورت بھاگ کر مدینہ پہنچی۔ اس کے رشتہ داروں نے مدینہ پہنچ کر اُسے واپس بھجوانے کا مطالبہ کیا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاہدہ میں مردوں کی شرط ہے عورتوں کی شرط نہیں اس لئے ہم عورت کو واپس نہیں کریں گے۔۳۲۸؎
بادشاہوں کے نام خطوط
مدینہ تشریف لے آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ کیا کہ آپ اپنی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچائیں
جب آپ نے اپنے اِس ارادہ کا صحابہؓ سے ذکر کیا تو بعض صحابہ نے جو بادشاہی درباروں سے واقف تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! بادشاہ بغیر مہر کے خط نہیں لیتے۔ اِس پر آپ نے ایک مہر بنوائی جس پر’’ محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کھدوائے اور اللہ تعالیٰ کے ادب کے طور پر آپ نے سب سے اوپر ’’ اللہ‘‘ کا لفظ لکھوا دیا۔ نیچے ’’ رسول‘‘ کا اور پھر نیچے ’’محمد ‘‘ کا۔۳۲۹؎
محرم ۶۲۸ء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خط لے کر مختلف صحابہ مختلف ممالک کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان میں سے ایک خط قیصر روما کے نام تھا اور ایک خط ایران کے بادشاہ کی طرف تھا۔ ایک خط مصر کے بادشاہ کی طرف تھا جو قیصر کے ماتحت تھا۔ ایک نجاشی کی طرف تھا جو حبشہ کا بادشاہ تھا۔ اِسی طرح بعض اور بادشاہوں کی طرف آپ نے خطوط لکھے۔
قیصر روم ہرقل کے نام خط
قیصر روما کا خط دحیہ کلبیؓ صحابی کے ہاتھ بھیجا گیا اور آپ نے اُسے ہدایت کی تھی کہ پہلے وہ بصرہ کے گورنر کے
پاس جائے جو نسلاً عرب تھا اور اس کی معرفت قیصر کو خط پہنچائے۔ جب دحیہ کلبیؓ گورنر بصرہ کے پاس خط لے کر پہنچے تو اتفاقاً اُنہی دنوں قیصر شام کے دورہ پر آیا ہوا تھا۔ چنانچہ گورنر بصرہ نے دحیہؓ کو اس کے پاس بجھوا دیا۔ جب دحیہؓ ،گورنر بصرہ کی معرفت قیصر کے پاس پہنچے تو دربار کے افسروں نے اُن سے کہا کہ قیصر کی خدمت میں حاضر ہونے والے ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ قیصر کو سجدہ کرے۔ دحیہؓ نے انکار کیا اور کہا کہ ہم مسلمان کسی انسان کو سجدہ نہیں کرتے چنانچہ بغیر سجدہ کرنے کے آپ اُس کے سامنے گئے اور خط پیش کیا۔ بادشاہ نے ترجمان سے خط پڑھوایا اور پھر حکم دیا کہ کوئی عرب کا قافلہ آیا ہو تو اُن لوگوں کو پیش کرو تاکہ میں ا س شخص کے حالات اُن سے دریافت کروں۔ اتفاقاً ابوسفیان ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ اُس وقت وہاں آیا ہوا تھا۔د ربار کے افسر ابوسفیان کو بادشاہ کی خدمت میں لے گئے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ ابوسفیان کو سب سے آگے کھڑا کیا جائے اور اس کے ساتھیوں کو اس کے پیچھے کھڑا کیا جائے اور ہدایت کی کہ اگر ابوسفیان کسی بات میں جھوٹ بولے تو اس کے ساتھی اس کی فوراً تردید کریں۔ پھر اس نے ابو سفیان سے سوال کیا کہ :۔
سوال: یہ شخص جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور جس کا خط میرے پاس آیا ہے کیا تم اس کو جانتے ہو اس کا خاندان کیسا ہے؟
جواب: ابوسفیان نے کہا۔ وہ اچھے خاندان کا ہے اور میرے رشتہ داروں میں سے ہے۔
سوال: پھر اُس نے پوچھا کیا ایسا دعویٰ عرب میں پہلے بھی کسی شخص نے کیا ہے؟
جواب: تو ابوسفیان نے جواب دیا نہیں۔
سوال: پھر اُس نے پوچھا کیا تم دعویٰ سے پہلے اُس پر جھوٹ کا الزام لگایا کرتے تھے؟
جواب: ابوسفیان نے کہا۔ نہیں۔
سوال: پھر اس نے پوچھا۔ کیا اس کے باپ دادوں میں سے کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟
جواب: ابوسفیان نے کہا۔ نہیں۔
سوال: پھر بادشاہ نے پوچھا۔ اس کی عقل اور اس کی رائے کیسی ہوتی ہے؟
جواب: ابوسفیان نے جواب دیا۔ ہم نے اس کی عقل اور رائے میں کبھی کوئی عیب نہیں دیکھا۔
سوال: پھر قیصر نے پوچھا۔ کیا بڑے بڑے جابر اور قوت والے لوگ اس کی جماعت میں داخل ہوتے ہیں یا غریب اور مسکین لوگ؟
جواب: ابوسفیان نے جواب دیا۔ غریب اور مسکین اور نوجوان لوگ۔
سوال: پھر اس نے پوچھا۔ وہ بڑھتے ہیں یا گھٹتے ہیں؟
جواب: ابو سفیان نے جواب دیا۔ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
سوال: پھر قیصر نے پوچھا۔ کیا اُن میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اُس کے دین کو بُرا س