انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 25
سیر روحانی (8)
(28 دسمبر 1954ء)
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سیر روحانی (8)
(فرمودہ 28دسمبر 1954ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ''سیر روحانی'' کے اہم موضوع پر تقریر کرنے سے قبل حضور نے احباب جماعت کو بعض ضروری امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:-
‘‘کل کی تقریر ایسی حالت میں ہوئی کہ جیسا کہ میں نے بتایا تھا علاوہ سینہ میں درد، نزلہ کی شکایت اور بخار کی شکایت کے کمر کی درد بھی تھی جس کی وجہ سے بہت سے مضامین ذہن میں سے نکل گئے اور جو اصل مضمون آخر میں تھا جو کہ مقصود تھا تقریر کا وہ بھی بیان نہیں ہو سکا۔ تمہید میں سے بھی صرف تھوڑا سا حصہ مضمون کا بیان ہو سکا ہے۔ اس تکلیف کی وجہ سے کئی باتیں جن کے بیان کرنے کی کئی لوگوں نے خواہش کی تھی یا مختلف اداروں نے اپنے آپ کو متعارف کرانے کی خواہش کی تھی وہ میرے ذہن سے نکل گئے۔ اس لئے ان باتوں کو میں آج بیان کرتا ہوں۔
مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ معائنہ کے نتائج
ایک تو خدام الاحمدیہ کا سالانہ فیصلہ ہے کہ
کونسی مجلس اچھی رہی۔ علاوہ خدام الاحمدیہ کی رپورٹوں کے مجلس خدام الاحمدیہ نے انسپکٹر بھجوا کر مختلف انجمنوں کے کام دیکھے اور اس پر ایک فیصلہ کیا۔ ان کی رائے یہ ہے کہ کراچی کو 72 ¾/100 نمبر ملے ہیں اور لاہور کو 71 ½/100 اور راولپنڈی کو 66 ½/100اور گوکھووال کو 48/100اور خانیوال کو 44/100۔یہ گویا پانچ جماعتیں اس ترتیب کے ساتھ آئیں۔ اوّل کراچی، دوم لاہور، سوم راولپنڈی، چہارم گوکھووال اور پنجم خانیوال۔ قاعدہ کی رو سے جو جماعت اوّل رہے اس کو لوائے خدام الاحمدیہ اس سال کے لئے ملنا چاہئے۔ مجلس کی سفارش ہے کہ لاہور کی جماعت نے چونکہ اس دفعہ غیر معمولی کام کیا ہے اس لئے اس سال لاہور کی جماعت کو باوجود دوم رہنے کے لواء دے دیا جائے اور کراچی کی جماعت چونکہ پہلے سے ہی اچھاکام کرتی چلی آ رہی ہے اس لئے اس کو نہ دیا جائے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لاہور کی جماعت خدام الاحمدیہ نے اس سال بہت عمدہ کام کیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک نیم مُردہ سی جماعت تھی جس میں زندگی کی روح پھونک دی گئی اور اس خدمت کا سہرا اُن کے قائد محمد سعید اور ان کے چار پانچ مددگاروں پر ہے جنہوں نے محنت کے ساتھ ان کا ساتھ دیا اور اس مجلس کی تنظیم میں ان کا ہاتھ بٹایا۔ پچھلے سیلاب کے موقع پر انہوں نے غیر معمولی طور پر کام کیا اور پھر غیر معمولی طور پر اس کو دنیا کے سامنے روشناس بھی کرایا۔ پس اس لحاظ سے وہ خاص طور پر تعریف کے قابل ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہم اگر نمبر بدل ڈالنے کی رسم ڈال دیں گے تو اس سے بجائے حوصلہ بڑھنے کے اعتراض پیدا ہو گا۔ ہمیں ان کے اچھے کام کی مختلف مواقع پر تعریف کردینی چاہئے لیکن ساتھ ہی ہم کو یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہیئے کہ جو اوّل نمبر پر ہے اُس کو اوّل نمبر ہی دیا جائے تا کہ آئندہ دوسرے کسی موقع پر کسی کی جنبہ داری یا کسی کی ناجائز تائید کا سامان پیدا نہ ہو۔ پس میں باوجود مجلس کی سفارش کے یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ لواء حسبِ قاعدہ جماعت کراچی کو دیا جائے۔لیکن ساتھ اس کے میں لاہور کی جماعت کی تعریف بھی تمام دوستوں کے سامنے کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ ہرجماعت ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کی شناخت بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ تسابق اختیار کرتے ہیں اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش یقیناً ہر قوم کے معیار کو اتنا بلند لے جاتی ہے کہ اس کا انسان قیاس بھی نہیں کر سکتا۔ جب کبھی نیکی دنیا سے مفقود ہو جائے یا جب کبھی نیکی میں آگے بڑھنے کی روح مفقود ہو جائے اُس وقت قوم یا مرنا شروع ہو جاتی ہے یا گرنا شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن جب تک تسابق کی روح کسی قوم میں قائم ہو اُس وقت تک خواہ وہ کتنی بھی ذلت میں پہنچی ہوئی ہو اور کتنی بھی گری ہوئی ہو پھر بھی چمک دکھلاتی چلی جاتی ہے اور اس کے لئے موقع ہوتا ہے کہ وہ آگے بڑھے۔
ہمارے قریب کے بزرگان میں سے ایسے زمانہ میں جب مسلمانوں پر ایک قسم کے تنزل کی حالت آ گئی تھی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ تسابق کی وجہ سے ان لوگوں کے واقعات کو سن کر انسان کے دل میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے۔سید اسماعیل صاحب شہید جو تیرھویں صدی میں گزرے ہیں شاہ ولی اللہ صاحب کے وہ نواسے تھے اور سید احمد صاحب بریلوی کے مرید تھے۔ سید احمد صاحب بریلوی سکھوں سے جہاد کرنے کے لئے پشاور کی طرف گئے ہوئے تھے یہ کسی کام کے لئے دلّی آئے ہوے تھے تاکہ اپنے اقرباء سے مشورہ کریں۔ زیادہ تر ان کاکام یہ ہوتا تھا کہ شاہ اسحٰق صاحب جو شاہ ولی اللہ شاہ صاحب کے پوتے تھے اُن سے مشورہ کر کے سید صاحب تک ان کی رائے پہنچا دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ دہلی سے واپس جا رہے تھے جب کیمل پور کے مقام پر پہنچے تو کسی نے ذکر کیا کہ اس دریا کو یہاں سے کوئی شخص تیر کر نہیں گزر سکتا۔ اس زمانہ میں صرف فلاں سکھ ہے جو گزر سکتا ہے مسلمانوں میں سے کوئی اس کا مقابلہ کرنے والا نہیں۔ وہ جارہے تھے جہاد کے لئے، جارہے تھے اپنے پِیر کی مدد کے لئے۔ وہیں ٹھہر گئے کہ اچھا ایک سکھ ایسا کام کرتا ہے کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں کر سکتا۔ اب جب تک میں اس دریا کو پار نہیں کر لوں گا میں یہاں سے نہیں ہلوں گا چنانچہ وہاں تیرنے کی مشق شروع کی۔ چارپانچ مہینوں میں اتنے مشّاق ہوئے کہ تیر کر پار گزرے اور پار گزر کر بتا دیا کہ سکھ ہی نہیں ہیں اچھے کام کرنے والے مسلمان بھی جب چاہیں اُن سے بہتر کام کر سکتے ہیں۔ تو دیکھو یہ ایک تسابق کی روح تھی اور اِسی تسابق کی روح کو جب بھی ہم اپنے سامنے لاتے ہیں تو ہماری روحوں میں ایک بالیدگی پیدا ہو جاتی ہے اور ہمارے دلوں میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے اور ہمارے دماغوں میں عزم پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم اب مخالف یا مدِمقابل یا رقیب سے کسی صورت میں دبیں گے نہیں۔
پس خدام کی جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ کوشش کریں کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہمیں مدِ نظر رکھنا چاہیئے کہ جو ہم نے قانون بنایا ہے اُس کو کسی چھوٹی سی وجہ سے نہ توڑیں۔ انہوں نے اچھا کام کیا ہے ہم نے اس کو کئی جگہ بیان کیا ہے اور تعریف کر دی ہے۔ میرے کئی خطبوں میں ذکر آ گیا مَیں اب بھی ان کی تعریف کر رہا ہوں، خدام کے جلسہ میں بھی ان کی تعریف کی۔ اتنی تعریفوں کے بعد انہیں یہ کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم کراچی کا لواء ان کے حوالے کر دیں۔ جہاں انہوں نے اتنا قدم بڑھایا ہے کہ ایک سست جماعت سے ایک زندہ جماعت بنے ہیں وہاں اگر وہ کوشش کریں اور کراچی کے نوجوانوں والی خدمات پیش کریں تو لواء بھی لے سکتے ہیں۔ میں کراچی کے خدام کی ساری باتیں بیان نہیں کر سکتا لیکن درحقیقت انہوں نے جو قربانی کی ہے ابھی تک لاہور کی قربانی اُس کو پہنچتی نہیں۔ تو اگر وہ کوشش کریں تو مجلس کی کراچی والوں سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے اور لاہور والوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ وہ یقیناً لاہور ہو یا گوجرانوالہ یا سیالکوٹ ہو جو جماعت بھی آگے نکلے گی وہ اُس کو لواء دیں گے۔ (الفضل 11جنوری1955ء)
اسکے بعد حضور نے بعض جماعتوں اور افراد کی طرف سے آنے والی تاریں پڑھ کر سُنائیں اور پھر فرمایا:-
‘‘اس کے بعد میں کل کی باتوں سے جو چند تحریکیں لوگوں نے کرنے کے لئے کہا تھا اُن کو پیش کرتا ہوں۔
سلسلہ کے اخبارات
ہمارے سلسلہ کے اخبارات میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر ایک خصوصیت رکھتا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جماعت
کے لوگوں میں اخباروں کے پڑھنے کا چرچا اور رواج ذرا کم ہے۔ اس کی وجہ سے جو ان کی شہرت ہونی چاہیئے اور جو ان کا فائدہ ہونا چاہیئے وہ پوری طرح نہیں پہنچتا۔
الفضل
سب سے مقدّم چیز تو ''الفضل'' ہے۔ الفضل روزانہ اخبار ہے اور الفضل ہی ایک ایسا اخبار ہے جس کے ذریعہ سے ساری جماعتوں تک آواز پہنچتی ہے
لیکن متواتر ہم کو آجکل یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ کئی جماعتیں ایسی ہیں کہ ساری جماعت میں ایک الفضل بھی نہیں پہنچ رہا حالانکہ چھوٹی جماعتیں آپس میں چندہ کر کے اور آپس میں مل کر ایک ایک اخبار خرید سکتی ہیں۔ درحقیقت دو ہی چیزیں ہیں جو قوم کی ترقی پر دلالت کرتی ہیں ایک اخبار اور ایک ریلوے کا سفر یا لاری کا سفر۔ جو قوم سفر زیادہ کرتی ہے وہ ضرور کامیاب ہو تی ہے اور جس قوم میں اخبار زیادہ چلتے ہیں وہ ضرور کامیاب ہوتی ہے۔ کیونکہ اخبار پڑھنے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اس شخص کی روح نِچلی1 نہیں بیٹھ سکتی۔ اس کے اندر ایک اضطراب پایا جاتا ہے۔ اخبار کیا کرتا ہے؟ وہ ہر روز ہم کو ایک نئی خبر دیتا ہے۔ جس دن اخبار نہیں آتا تو لوگ جس طرح افیون نہیں کھائی ہوتی گھبرائے پھرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمیں دنیا کے انقلاب کا پتہ نہیں لگتا۔ اور جو شخص انقلاب کی جستجو کرتا ہے درحقیقت اس کے اندر بھی ایک انقلابی مادہ پایا جاتا ہے۔ تو قوم کی ترقی کا اگر کسی شخص نے اندازہ لگانا ہو تو وہ دو چیزیں دیکھ لے کہ وہ قوم کتنا سفر کرتی ہے اور اخبار کے ساتھ اس کو کتنی دلچسپی ہے۔
میں جب فلسطین میں گیا تو اُس وقت یہودی سارے ملک کی آبادی کا دسواں حصہ تھے اور دسواں حصہ عیسائی تھے اور اسّی فیصدی مسلمان تھے لیکن ریلوں میں مَیں نے سفر کر کے دیکھا تو یہودی ہوتا تھا قریباً ستّر فیصدی اور عیسائی ہوتا تھا کوئی پندرہ بیس فیصدی اور مسلمان ہوتا تھا دس فیصدی ۔ میرے پاس ایک سفر میں ایک یہودی آیا وہ ریلوے کا افسر تھا۔ میں تو اُس کا واقف نہیں تھا نہ پہلے کبھی ملا۔ معلوم ہوتا ہے یہودیوں نے ہماری بھی ٹوہ رکھی تھی۔ وہ آیا اور اس نے کہا کہ میں نے آپ سے ملنا ہے۔ وہیں کمرہ میں آ کر بیٹھ گیا۔ کہنے لگا کہ میں ریلوے کا افسر ہوں اور شام وغیرہ جاتے وقت بارڈر کی نگرانی میرے سپرد ہے۔ میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہو۔ کہنے لگا میں یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے کیوں مخالف ہیں؟ میں نے کہا تمہیں کس نے بتایا ہے کہ میں مخالف ہوں؟ کہنے لگا میں سن رہا ہوں کہ آپ ہمارے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ میں نے کہا میں مخالفت کروں یا کچھ کروں (اُس وقت میں نے یہی بات کہی کہ) میری مخالفت تم جانے دو میں نے یہاں تو یہ نظارہ دیکھا ہے چنانچہ ریل پر دیکھ لو ابھی چلو اس وقت اگلے اسٹیشن پر (اُس وقت گاڑی چل چکی تھی) جب اگلا اسٹیشن آئے گا اُس وقت دیکھ لینا کہ ریل میں ستّر فیصدی یہودی بیٹھا ہؤا ہے، پندرہ بیس فیصدی عیسائی بیٹھا ہؤا ہے باقی دس فیصدی اسّی فیصدی کا نمائندہ بیٹھا ہؤا ہے۔ تو میں مخالفت کروں یا کوئی کرے جب تک مسلمان اپنا نظریہ نہیں بدلیں گے، اپنے حالات نہیں بدلیں گے، اپنا طریقہ نہیں بدلیں گے جیتنا تم نے ہی ہے انہوں نے تو جیتنا نہیں۔ گھبراتے کس بات سے ہو؟ اور پھر یہی ہؤا۔ آخر اُس قوم میں جو باہر نکلتی ہے اور بھاگی پھرتی ہے کوئی نہ کوئی بے کلی کی وجہ ہوتی ہے یونہی تو نہیں لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل کھڑے ہوتے۔ ان کے اندر ایک جوش ہوتا ہے، ایک ارج (URGE) ہوتی ہے پیچھے سے کہ چلو چلو چلو۔ اور وہ چلو چلو کی ارج (URGE) کے ماتحت چل پڑتے ہیں اور پھر ان کا بچہ بڑا ہر ایک اس میں کام کرتا ہے۔
امریکنوں کو دیکھ لو ساری دنیا کا سفر کرتے پھریں گے۔ پہلے انگلستان والے کرتے تھے اور اب ان میں کمی آ گئی ہے اب امریکن ہیں کہ ساری دنیا میں گھومتے پھرتے ہیں۔ کسی زمانہ میں عرب میں یہ رواج تھا بلکہ اب بھی یہ بات حجاز کے لوگوں میں کسی قدر پائی جاتی ہے، اب بھی وہ دنیا کے سارے اسلامی ملکوں کے باشندوں سے زیادہ غیرملکوں میں پھرتے ہوئے نظر آ جائیں گے۔ کیونکہ وہ دھکّا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا اور گاڑی چلائی تھی وہ گاڑی اب بھی رینگتی چلی جاتی ہے۔ چودہ پندرہ سو سال ہو گئے مگر اس گاڑی کی حرکت ساکن نہیں ہوئی۔ تو اخبار ایک دلیل ہوتا ہے اِس بات کی کہ قوم کے اندر کتنی بیداری ہے، کتنا اضطراب ہے اور انقلاب کی کتنی خواہش ہے۔ اگر کوئی قوم اخباروں کی طرف توجہ نہیں کرتی تو یقیناً وہ اپنی ترقی کی پوری طرح خواہش نہیں رکھتی۔ پس مَیں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ پورے زور سے الفضل کو پھیلانے کی کوشش کریں۔
بدر
ہندوستان کے لئے ہمارا اخبار ''بدر'' ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک اس نے پوری ترقی نہیں کی۔ ہمارے قادیان کے دوست جب گھبراتے ہیں تو مجھے لکھ دیتے
ہیں کہ جماعت پاکستان کو ''بدر''کے لئے توجہ دلائی جائے۔حالانکہ یہاں کے لئے ''الفضل'' ہے۔ہندوستا ن کے احمدیوں کے لئے ''بدر ''ہے۔اگر پاکستان کے احمدیوں کے خریدنے سے ''بدر'' نے چلنا ہے تو ''بدر'' نے کوئی انقلاب ہندوستان میں پیدا نہیں کرنا۔ وہ تبھی کوئی انقلاب مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کرے گا جب ہندوستان کے مسلمانوں تک اسے پہنچایا جائے۔انقلاب سے میری مراد کوئی سیاسی انقلاب نہیں کیونکہ وہ ہمارا کام نہیں۔انقلاب سے مراد ہے روحانی انقلاب، مذہبی انقلاب۔ تو میں ان کی اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ میں پاکستا ن کے احمدیوں کو کہوں کہ تم ضرور ''بدر'' کو خریدو اور پھیلاؤ۔ اگر پاکستان کے لوگوں کے خریدنے پر بدر آگیا تو پھر بدر کا بند ہونا ایسا معیوب نہیں سمجھا جائے گا۔ہندوستان میں بھی خداتعالیٰ کے فضل سے ہزارہا احمدی ہے۔میر ے خیال میں اب بھی بیس پچیس ہزار تو ہو گا ان کو کوشش کرنی چاہیے کہ ہندوستان کے لوگوں میں اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مقبول بنائیں اورپھر دوسرے لوگوں میں بھی مقبول بنائیں۔ اگر وہ اچھے اچھے مضمون لکھیں اورایسے لکھیں جن سے مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو،ان میں مذہبی رجحان پیدا ہو،نیکی پیدا ہو تو دوسرے مسلمان بھی اسے خریدیں گے۔ بلکہ میں نے تو دیکھا ہے کہ ہندوؤں میں بھی یہ شوق پایا جاتا ہے اور ہندو بھی خریدتے ہیں۔دلوں میں تحریک جس وقت پیدا ہوتی ہے لوگ خریدنے لگ جاتے ہیں۔ ا لفضل جب میں نے جاری کیا تھا اُس وقت یہ پہلے ہفت روزہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اسے اِس طرح چلانے کی توفیق دی کہ باوجود اِس کے کہ ہماری سخت مخالفت تھی اور لوگ کہتے تھے یہ نہیں چلے گا۔ ابھی پانچ سات ہفتے ہی گزرے تھے کہ مجھے سندھ سے ایک غیر احمدی کی چٹھی آئی۔ کسی نے اُسے مل کر تحریک کی کہ تم خریدار ہو جاؤ اور وہ خریدار ہوگیا۔ کسی وقت ڈاک میں اُس کا اخبار لیٹ ہو گیا تو اُس کی مجھے چٹھی آئی کہ میں نوجوان آدمی ہوں، میں نے ''الفضل'' خریدنا شرو ع کیا ہے اورمجھے جو اس سے محبت اورپیار ہے اس کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ تین ہفتے ہوئے میری شادی ہوئی ہے اور مجھے اپنی بیوی بہت پیاری ہے۔مگر اس دفعہ اخبار نہیں پہنچااور میں یہ سوچتا رہا ہوں کہ اگر میری بیوی مرجاتی تو مجھے زیادہ صدمہ ہو تا یا الفضل نہیں پہنچاتو اس سے زیادہ صدمہ ہؤا ہے۔ تم اس سے اندازہ لگا سکتے ہو کہ کس قدر اُس کو لگاؤ تھا ۔یہ توایک عام آدمی تھا۔ کہہ دو گے کہ شاید اُس کو زیادہ واقفیت نہیں ہوگی مگر اب ملک کے ایک چوٹی کے آدمی کا واقعہ سن لو۔ابوالکلام صاحب آزاد اُنہی دنوں میں قید ہوئے۔ اُن کے پاس یہ اخبار جاتا تھا۔ اُن کے سیکرٹری کی مجھے چٹھی آئی کہ ابو الکلام صاحب آزاد کو گورنمنٹ نے نظر بند کر دیا ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ ہم آپ کو ایک اخبار کی اجازت دیتے ہیں تو انہو ں نے صرف ''الفضل'' کی اجازت مانگی ہے اور کہا ہے کہ ''الفضل'' مجھے باقاعدہ ملتا رہے۔ تو اَب دیکھو دوسرے لوگوں کے اوپراِس کا کس قدر اثر تھا۔دوسرے لوگوں پر اُس وقت اثرہوسکتا تھا تو آج بھی ہو سکتا ہے۔ تم اس کو زیادہ عمدہ بنانے کی کوشش کرو گے تو لوگوں میں آپ ہی آپ وہ مقبو ل ہونا شروع ہوجائے گا۔ تو بدرکے متعلق میں تحریک تو کرتا ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نہ خریدو۔ اگر کوئی شخص خریدنا چاہتا ہے اور ہندستان کے حالات معلوم کرنا چاہتاہے اور قادیان کے حالات معلوم کرنا چاہتا ہے تو بے شک خریدے مگرمیں اُس زور سے جیسے الفضل کی تحریک کرتا ہوں اِس کی نہیں کرتا ۔ اس لئے کہ میرے نزدیک اس کا مقام ہندوستان ہے۔ اگر ہم لوگ اس کو روپیہ دے کرکھڑاکرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی کہ وہ ہندوستان میں اس کو مقبول بنائیں۔
ریویو آف ریلیجنز
تیسری چیز ہمارے ہاں ریویو ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یادگار ہے۔ اِس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
زمانہ کا پرچہ اور ایسا پرچہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود حصہ لیا تھا اور اس میں مضمون لکھے تھے سوائے ریویو کے جماعت میں اورکوئی نہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش تھی کہ دس ہزار پرچہ کم سے کم شائع ہولیکن اِس وقت تک صرف ایک ہزار شائع ہوتا ہے اور وہ ہزار پرچہ بھی جماعت کا ممنونِ احسان نہیں۔ہزار پرچہ کی قیمت تحریک جدید دیتی ہے اور پھر اس کو عیسائی علاقوں میں یادوسرے علاقوں میں مُفت شائع کیا جاتا ہے۔ جو خریدارجماعت کی طرف سے ملا ہے (اگرکوئی خریدار آجاتا ہے تو تحریک اس کو بھی دے دیتی ہے)اس کے متعلق جومیرے پاس رپورٹ آئی تھی وہ شاید دو سو یا ڈیڑھ سو کے قریب خریدار تھے۔باقی سارے کے سارے وہ ہیں جن کو جماعت کی طرف سے مفت تقسیم کیا جاتاہے۔ یہ امریکہ میں جاتا ہے، انگلینڈمیں جاتا ہے، جرمنی میں جاتاہے ۔اِسی طرح مختلف ممالک میں جاتاہے۔یہ فلپائن سے جو بیعت آئی ہے غالباًیہ بھی اِسی طرح آئی ہے۔ ہم نے فلپائن وغیرہ میں بھی پرچے بھجوانے شروع کئے تھے۔ تویہ پہلی بیعت غالباً اِسی ریویوکی اشا عت کی وجہ سے ہوئی ہے۔ تو ریویوآف ریلیجنزکی طرف بھی جماعت کو توجہ ہونی چاہیے۔اب ہماری جماعت اِتنی ہے کہ دس ہزار پرچہ شائع ہوجاناکوئی بڑی بات نہیں۔اِس کی دس روپے قیمت ہے۔دس ہزار کے دس روپیہ قیمت ہوئی تو ایک لاکھ روپیہ ہوگیا۔ تم سالانہ چندوں میں اٹھارہ بیس لاکھ اپنی خوشی سے دیتے ہو۔ اب اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اِس خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایک لاکھ روپیہ سالانہ دے کر اس کو بیچنا شروع کریں تو یقیناً دو چار سال میں ہی پچیس، تیس، چالیس ہزار وہ اپنی آمد خود پیدا کر لے گا۔ اور یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے بلکہ ممکن ہے اس سے بھی لاگت کم ہو جائے کیونکہ پرچہ جب زیادہ چھپے تو اُس کی لاگت کم ہو جاتی ہے۔ اِس وقت اِس کی لاگت دس روپے ہے۔ اگر یہ دس ہزار چھپے تو میں سمجھتا ہوں کہ آٹھ سات روپے ہو جائے گی اور ستّر پچھتر ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہو گا۔ اور یہ دس ہزار پرچہ دنیا کی تمام لائبریریوں میں جانا شروع کرے تو میں سمجھتا ہوں کہ سال دوسال کے اندر تہلکہ پڑ جائے گا۔
فرقان
چوتھا پرچہ ‘‘فرقان’’ ہے۔ فرقان میں اس امر کو مدنظر رکھا جاتاہے کہ علمی مضامین اس کے اندر آئیں اور جماعت اسلامی والے جو نئی نئی باتیں
پیش کرتے ہیں یا ''طلوعِ اسلام''والے پیش کرتے ہیں یااہلِ قرآن یا بہائی پیش کرتے ہیں اُن کا جواب دیا جائے۔ گو یا جتنی نئی مذہبی تحریکیں ہیں اُن نئی مذہبی تحریکوں کے جواب کے لئے یہ رسالہ خصوصیت سے وقف ہے۔ دوسرے اخبار یا رسالے ایسا نہیں کر سکتے۔ الفضل یہ نہیں کر سکتا کیونکہ الفضل روزانہ اخبار ہے۔ روزانہ اخبار ان باتوں میں نہیں پڑ سکتا۔ ریویو بھی اس کو نہیں لے سکتا کیونکہ ریویو غیرملکوں میں جانے والا رسالہ ہے۔ اس کا اصل کام اسلامی نقطہ نظر سے لوگوں کو روشناس کرانا ہے اور چونکہ غیر ملکوں میں اس نے جانا ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس میں جماعت اسلامی پر بحث کریں یا طلوعِ اسلام پر بحث کریں۔ امریکہ کو یا جاپان کو یا سوئٹزرلینڈ کو یا آسٹریلیا کو یانیوزی لینڈ کو یا انگلینڈ کو'' طلوعِ اسلام'' والوں سے یا جماعت اسلامی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ ان کی کوئی حقیقت ہی نہیں جانتے ۔وہ ہمیں جانتے ہیں یااسلام کے نام کو جانتے ہیں اِس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ اُن لوگوں کے سامنے خواہ مخواہ اِن کے مضامین کو لانے کی کیا ضرورت ہے اِس لئے ریویو بھی ہمارے اس کام نہیں آ سکتا۔ پھر یہ ایک ایسا پرچہ ہے جو اردو میں نکلتا ہے اور اِس میں اِس قسم کے مضامین نکلنے سے یقیناً فائدہ ہوتا ہے کیونکہ یہ مضامین زیادہ تر پاکستان میں زیرِ بحث آتے ہیں اور پاکستان میں ایسے لوگ ہیں جن کو ان سے دلچسپی ہے۔
خالد
علاوہ اِس کے خدام الاحمدیہ کا پرچہ ''خالد'' ہے۔وہ ایک خاص جماعت کا پرچہ ہے۔ میں ساری جماعت کو تو نہیں کہتا۔ اِس جماعت کو کہتا ہوں کہ تم اپنے اندر
بیداری پیدا کرنے کے لئے اور اپنے مرکز سے یعنی خدام کے مرکزی دفتر سے وابستگی رکھنے کے لئے ''خالد'' کی اشاعت اپنے حلقہ میں وسیع کرنے کی کوشش کرو۔
دُنیوی اخبار
پھر ہر جماعت کے لئے کوئی نہ کوئی دنیوی اخبار بھی چاہئے۔ میں نے پچھلی دفعہ بھی کہا تھا کہ بعض اخبار ایسے ہیں جو ہمارے ساتھ انصاف
کا معاملہ کرتے ہیں،بعض ایسے ہیں کہ جن کے ذریعہ سے ہمارا نقطہ نگاہ پہنچ جاتا ہے۔ وہ گو ہمارے ساتھ شامل نہیں ہیں لیکن ہمارے میانہ روی کے جو خیالات ہیں ان سے وہ متفق ہیں۔ اسی طرح بعض اخبارات ایسے ہیں کہ جن کے ساتھ ایسے لوگوں کا تعلق ہے کہ جو ہمارے خیالات سے بالکل متفق ہیں گو وہ دنیوی اخبار ہیں۔ تو ہمیں چاہئے کہ بہرحال ایسے اخبار خریدیں۔ کیونکہ اگر ہم ان کو نہ خریدیں گے، دشمن کے اخباروں کو خریدیں گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم دشمن کو پیسہ دیتے ہیں کہ وہ ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرے مثلاً ایک شخص نے دنیوی اخبار خریدنا ہے وہ اگر ''سِول'' خریدے ''ملت'' خریدے ''المصلح'' خریدے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کے پیسہ کے ذریعہ ایسے خیالات کی اشاعت ہو گی جن میں میانہ روی پائی جائے گی، جن میں امن پسندی پائی جائے گی، جن میں حکومت کے ساتھ تعاون پایا جائے گا۔ لیکن اگر وہ ''تسنیم'' خریدنا شروع کر دیں یا اور ایسے ہی اخبار خریدنے شروع کر دیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس روپیہ کے ساتھ گورنمنٹ کے خلاف مضمون لکھے جائیں گے، اسلامی جمہوریت کے خلاف مضمون لکھے جائیں گے، جماعت احمدیہ کے خلاف مضمون لکھے جائیں گے۔ تو کیا فائدہ ہے ایسے پرچہ کو روپیہ دینے کا جس کے ذریعہ سے ہمارا ملک کمزور ہو، ہماری حکومت کمزور ہو، ہم خود کمزور ہوں۔ یہ تو اوّل درجہ کی حماقت ہے۔ اگر کوئی احمدی ایسا کرتا ہے اور وہ کہتا ہے مجھے وہ پرچہ زیادہ دلچسپ نظر آتا ہے تو ہم بھی اُس کو یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہمیں بھی تمہاری حماقت بڑی دلچسپ نظر آتی ہے۔ تمہاری مثال بالکل وہی ہے جیسا کہ چیتا اپنی زبان چاٹ چاٹ کر کھا گیا تھا۔ تم زبان کے چسکے لیتے رہو اور اپنی موت کے وارنٹ پر دستخط کرتے رہو۔ تم اگر ایسے احمق ہو گئے ہو تو تمہاری نجات کا کون ذمہ دار ہو سکتا ہے تم تو اپنی ہلاکت کو آپ چاہتے ہو۔
المصلح خریدیں
پس جو دنیوی اخبار لینا چاہیں اور لازماً لینے پڑتے ہیں اس کے لئے میں دوستوں کو کہوں گا کہ جس علاقہ میں ''المصلح'' جاتا ہے وہ
''المصلح'' خریدیں۔مثلاً سندھ کا علاقہ ہے، اِسی طرح ملتان تک کا علاقہ ہے ان کو چاہیئے کہ اس کی خریداری کریں۔ وہ نہایت عمدگی سے خبریں دیتے ہیں۔ کبھی کبھی کمزوری بھی آ جاتی ہے کیونکہ وہ زیادہ منظم اخبار نہیں ہے۔ نہ اتنی طاقت والا ہے کہ اس کے بہت سارے ایڈیٹر ہوں۔ لیکن عام طور پر میں نے دیکھا ہے کہ وہ خبروں میں قریباً ادھر کے اخبارات کے برابر برابر پہنچ جاتا ہے اور کراچی اور حیدر آباد اور کوئٹہ وغیرہ میں تو یقیناً وہ ''سِول'' اور ''الفضل'' وغیرہ سے بہت پہلے خبریں دے گا۔ اِسی طرح ''سِول'' ہے ''ملت'' ہے ''لاہور'' ہے جو ہفتہ واری ہے۔ جنہوں نے ہفتہ واری خریدنا ہو وہ خواہ مخواہ ایسا پرچہ کیوں خریدیں جو حکومت اور ملت سے ٹکراتا ہو۔ ایسا پرچہ کیوں نہ خریدیں جو ملت سے بھی نہیں ٹکراتا، حکومت سے بھی نہیں ٹکراتا اور ہمارے ساتھ بھی نہیں ٹکراتا۔ اِسی طرح لاہور اور پنجاب میں ڈیلی پرچہ اگر کسی نے خریدنا ہی ہے تو کیوں نہ وہ ''سول'' اور ''ملت'' خریدے جس کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں۔
ہماری پالیسی
آخر ہماری پالیسی یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ اس کی بھی یہی پالیسی ہے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے ۔ ہماری
پالیسی یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے افتراق کو دور کیا جائے اور ان کو ٹکڑے ہونے سے روکا جائے ۔ یہی پالیسی ''ملت'' اور ''سِول'' کی بھی ہے۔ اگر وہ ہماری اس پالیسی کے ساتھ متفق ہیں۔ چاہے وہ ہماری جماعت کے نہیں، چاہے وہ ہمارے ساتھ اتفاق نہیں رکھتے لیکن اگر اُن کا زاویہ نگاہ ہمارے ساتھ اِس وقت متفق ہو گیا ہے (کل کو مخالف ہو جائیں گے تو پھر دیکھا جائے گا) تو ہم کیوں نہ دوسروں کے مقابل پر ان کو ترجیح دیں۔ میں سارے اخبار نہیں پڑھتا اَور بھی کئی اخبار ہوں گے جو کہ اِس طرح ہمارے ساتھ متفق ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شیعوں کے اخبار ہوں۔ میں نے ایک شیعہ کا اخبار ایک دو دفعہ پڑھا ہے وہ بھی بڑا معقول پالیسی کا تھا اور اُس میں بھی اتحاد اور اتفاق اور ملک میں امن قائم کرنے والے مضامین تھے۔ تو یہ مَیں مثالیں دیتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ تمہارے علم میں کوئی اَور اخبار ہو جو کہ ملک کے لئے مفید ہو، ہمارے لئے بھی مفید ہو مُضِر نہ ہو اور ہماری خواہ مخواہ مخالفت نہ کرتا ہو۔ پس ایسے اخباروں کو خریدو تا کہ روپیہ اُن لوگوں کی جیبوں میں جائے جو تمہارا گلا کاٹنے کی فکر میں نہ ہوں۔'' (الفضل 12جنوری 1955ء)
کوئی جماعت بغیر مرکز کے نہیں ہو سکتی
''ایک بات میں کل یہ کہنی چاہتا تھا کہ جماعت اَور باتوں
میں تو بڑی بڑی ہوشیاریاں دکھاتی ہے اور بڑی اپنی عقل مندی پر فخر کرتی ہے اور اپنے کام کو لوگوں کے سامنے پیش کرتی ہے لیکن کبھی جماعت نے یہ بھی غور کیا کہ جماعت کے معنی ہوتے ہیں مرکز کے۔ کوئی جماعت بغیر مرکز کے نہیں ہو سکتی۔ اور مرکز کے معنی ہوتے ہیں وہ کارکن جو اس کو چلا رہے ہیں۔ میں نے مدت سے آپ لوگوں کو توجہ دلائی ہے۔ کبھی آپ نے دیکھا بھی کہ آپ کا مرکز ہے کیا؟ مرکزِ جماعت دو حصوں میں تقسیم ہے۔
ظاہری اور قانونی طور پر ایک مذہبی حصہ ہے اس کا ہیڈ خلیفہ ہے۔ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ تم میں سے کسی کی رائے خلافت کے کام کے متعلق کیا ہو۔ پر یہ میں ضرور کہہ سکتا ہوں کہ میں اس کا دفاع کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔ اور دوسرا حصہ اس کا انتظامی ہے۔ اس کا تعلق صدر انجمن احمدیہ سے ہے اور وہ مجموعہ ہے کچھ ناظروں کا۔ اگر وہ ناظر کسی کام کے ہوں تو کام چلتا رہے گا۔ اگر وہ ناظر کسی کام کے نہ ہوں تو وہ کام خراب ہو جائے گا۔میں یہ غلطی دیکھتا ہوں جماعت میں کہ وہی پرانی پیرپرستی اب تک چلی آرہی ہے۔ ہم نے پیر پرستی کو دور بھی کیا، لوگوں کو آزاد بھی کیا مگر پھر بھی وہ ایسی حاوی ہے کہ وہ جو پیر پرست نہیں وہ اُن پر بھی حاوی ہے اور جو پیر پرست ہیں وہ ان پر بھی حاوی ہے۔ پیر پرستوں پر تو ایسی حاوی ہے کہ لوگ مجھے ملنے آتے ہیں، سلام کرتے ہیں تو کئی سامنے سر جھکا دیتے ہیں۔ وہ بیچارے تو سجدہ نہیں سمجھتے لیکن سر جھکا دیتے ہیں۔ اور پیرپرستی پیرپرستی کے مخالفوں پر بھی اتنی حاوی ہے کہ کئی لوگ آتے ہیں وہ بیچارے ہاتھ پکڑ کر اس کو چومنا چاہتے ہیں تو پاس بیٹھا ہؤا آدمی کہتا ہے نہیں نہیں سجدہ منع ہے۔ اُس کے دماغ پر پیر پرستی اِتنی حاوی ہوتی ہے کہ سجدہ ملاقات کرنے والے کے وہم میں بھی نہیں ہوتا اور یہ صاحب یونہی ہاتھ بڑھا کر کہتے ہیں کہ نہیں نہیں یہ منع ہے حالانکہ وہ ممنوع کام کر ہی نہیں رہا ہوتا۔
رسماً دعا کیلئے کہنا
اِسی طرح یہ عادت پڑ گئی ہے کہ جو شخص دوسرے کو ملتا ہے کہتا ہے جی دعا کریں اور درحقیقت اُس کے دل میں دعا کا جوش
اتنا ہوتا ہی نہیں نہ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ دعا کریں۔ یہ رواج اتنا ہو گیا ہے کہ کئی غیراحمدی جن کی کبھی میں نے شکل بھی نہیں دیکھی۔ فرض کرو وہ کبھی ملنے آئے اور بات شروع ہو گئی۔ انہوں نے کہا پہلے مَیں یہ ہوتا تھا۔ فرض کرو وہ ای۔اے ۔ سی تھا۔ جب وہ مجھے کبھی ملا تھا یا میں نے سنا تھا تو میں نے کہا سنا ہے آپ ڈپٹی کمشنر ہو گئے ہیں۔ کہیں گے ہاں آپ کی دعا کے طفیل ڈپٹی کمشنر ہو گئے ہیں۔ بندہ خدا! نہ تم نے میری شکل دیکھی، نہ میں نے تمہارا نام سنا، نہ میں نے کبھی تمہارے لئے دعا کی، میری دعا کے طفیل تم کہاں ڈپٹی کمشنر بن گئے۔ تو صرف عادت پڑی ہوئی ہے۔ کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا اور کہہ دیتے ہیں دعا کریں اور کہہ دیتے ہیں آپ کی دعا کے طفیل یہ ہؤا۔ حالانکہ نہ دعا اُس نے کروائی نہ اِس نے کی صرف ایسا کہنا ایک عادت ہے۔
تو عادت کے طور پر بعض خیالات لوگوں پر غالب آ جاتے ہیں اور وہ ان کے ماتحت چلتے ہیں۔ مثلاً کوئی بزرگ ہوں وہ کہیں گے سب کچھ تمہارے ہی اختیار میں ہے۔ کوئی معاملہ ہو احمدی میرے پاس آ جائیں گے اور مجھ سے وہ کام کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ مثلاً آئیں گے اور کہیں گے میرا لڑکا داخل ہونا ہے۔ میں جواب دوں گا کہ ہیڈماسٹر سے کہیں مگر وہ جھٹ بولیں گے نہیں جی آپ کے اختیار میں ہے۔ آپ نے ہی جو کرنا ہے کرنا ہے۔ گویا ہیڈ ماسٹر بھی مَیں ہوں۔ اِسی طرح کوئی کلرک ہے تو میرے پاس آ جاتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کیا ہے؟ کہتا ہے نظارت سے کہیں مجھے کلرک لے لیں۔ میں جواب دیتاہوں آپ انجمن سے کہیں وہ تمہارا انٹرویو کرے گی پھر وہ مختلف امیدواروں میں سے کسی کا انتخاب کرے گی۔ مگر اُس کا اصرار ہو گا کہ حضور! حکم دے دیں سب کچھ آپ کا ہے۔ انجمن کے ساتھ کوئی مالی جھگڑا ہو تو اُن کو میں کہتا ہوں جاؤ ناظروں سے فیصلہ کرو۔ کہیں گے نہیں جی سب چیز آپ کے ہاتھ میں ہے ناظروں کا کیا تعلق ہے۔ غرض وہ سارے کے سارے کاموں میں مجھے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ گویا قادر الکُل ہے۔ شاید خدا تعالیٰ کو بھی اتنا قادر نہیں سمجھتے جتنا وہ مجھے سمجھتے ہیں اور یہ ہٹ آج تک قائم ہے۔ کہہ کہہ کر تھک گئے۔ میاں یہ معاملات جن کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اُسی سے جا کر کہو لیکن وہ بھی کہیں گے کہ خلیفہ ہی سب کچھ کرے اور پھر یہ مرض بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پہلے تویہ کہتے تھے کہ بچوں کا نام خلیفہ سے رکھوانا ہے۔ ہم ان کے بھرّے2 میں آ گئے اور نام رکھنے شروع کر دیئے۔ پھر انہوں نے آگے قدم اٹھایا اور اذان دلوانے، نکاح پڑھوانے، بسم اللہ کروانے کی خواہش کی۔ کوئی ایک دو ہوں تو انسان یہ کام کرے درجنوں اور سینکڑوں کی اِس خواہش کو کس طرح پورا کرے۔ اِس کے بعد اَور ترقی ہوئی تو یہ درخواست شروع ہوئی کہ مکان کا نام رکھ دیں، دکان کا نام رکھ دیں۔ پھر اس سے ترقی کی اور سکول کالج والوں نے ہر کھیل میں شمولیت کی درخواست شروع کر دی کہ برکت ہو گی۔ ہر دعوتِ ولیمہ اور دعوتِ خوشی میں مدعو کرنا شروع کر دیا۔ کوئی نہیں سوچتا کہ ایک خلیفہ تو یہ سارے کام بھی نہیں کر سکتا۔ سلسلہ کے متعلق کام تو الگ رہے، تصانیف اور دفتری کام تو الگ رہے مگر کہتے چلے جاؤ کوئی اِس بات کو نہیں مانتا۔ یہ عادت دور ہونی چاہئے۔ آپ لوگوں کو اپنے دماغوں کی تربیت کرنی چاہیئے۔ ایک آدمی ایک آدمی کا ہی کام کر سکتا ہے۔ یہ بے شک ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی میں کام کی قابلیت دوسروں سے زیادہ ہو۔ تم اس سے یہ امید تو کر سکتے ہو کہ وہ عام آدمی سے زیادہ کام کر سکتا ہے مگر یہ نہیں کہ ایک آدمی سے انسانی طاقت سے زیادہ کام کی امید کرو۔ اِس سے زیادہ اگر آپ لوگ امید کریں گے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ یا آپ کو ٹھوکر لگے گی یا وہ مرے گا۔ جس کے سر پر اتنا بوجھ ڈالو گے جس کو وہ اٹھا نہیں سکتا وہ آخر ختم ہو جائے گا اور یا یہ ہے کہ آپ کو ٹھوکر لگے گی۔ ہر شخص اگر آ کر بیٹھ جائے کہ یہ میرا کام ہو جائے، یہ میرا کام ہو جائے تو نتیجہ اِس کا یہی نکلے گا کہ وہ ایک دن گرے گا اور ختم ہو جائے گا۔ تو یہ امید مت کریں کہ آپ کے دنیوی انتظام بھی خلیفہ کرے اور آپ کے دینی انتظام بھی خلیفہ کرے۔ دنیوی کاموں کے لئے آپ کو بہرحال انجمن پر انحصار کرنا پڑے گا۔ یہ بے شک ٹھیک ہے کہ وہ خلیفہ کے تابع ہیں۔
جب لوگوں نے اعتراض کیا ہم نے کہا نہیں انجمن خلیفہ کے تابع ہے پس یہ ٹھیک ہے کہ وہ خلیفہ کے تابع ہیں لیکن اِس لحاظ سے وہ تابع ہیں کہ آپ لوگ جو چندہ دیتے ہیں میرے مرید ہیں۔ ورنہ مَیں انجمن کا ممبر نہیں۔ مجھے انجمن پر قانونی کوئی اختیار نہیں۔ پر مجھ سے ڈر کر اگر انجمن میری بات مانتی ہے تو باپ کی بیٹے مانا ہی کرتے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر اُنہوں نے میری بات نہ مانی (یعنی مَیں جب دخل دوں اور وہ نہ مانیں) تو میں اپنے مریدوں سے کہوں گا کہ ان کو چندہ نہ دو۔ دیکھو تو اُسی دن انجمن سیدھی ہو جاتی ہے کہ نہیں۔ لیکن جہاں تک انتظام اور قانون کا سوال ہے میرا کوئی دخل نہیں۔ وہ انہی کو کرنا پڑے گا۔ اور یہ جو بات ہے کہ میں کہوں چندہ روک دو یہ تو کسی اہم بات پر کروں گا۔ یہ تو نہیں کہ فلاں کلرک کی ترقی نہیں کی چندہ روک دو۔ لوگ مجھے کیا سمجھیں گے۔ آخر وہ ایسا ہی کام ہو گا جس کو میں دنیا کے سامنے دھڑلّے سے پیش کر سکوں کہ یہ اسلام کو تباہ کرنے لگے تھے اس لئے میں نے روک دیا۔ ورنہ اگر لوگوں کو یہ نظر آئے گا کہ نہایت ہی ذلیل اور حقیر بات کے اوپر میں نے اُنہیں دھمکی دی ہے اور میں نے ان کو کہا ہے کہ مَیں اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ چندہ نہ دو تو سارے مجھے بےوقوف سمجھیں گے اور ان کے ساتھ ہمدردی کریں گے۔
قانونی سوال
تو جہاں تک قانونی سوال ہے اور جہاں تک دنیوی اختیارات کا سوال ہے انجمن نے کام کرنا ہے۔ اگر انجمن صحیح ہاتھوں میں نہیں ہو گی تو
آپ کا کام یقیناً خراب ہو گا۔ لیکن اِس وقت انجمن کے عہدے دیکھو۔ ناظر اعلیٰ، پنشنر۔ ناظر امورعامہ، پنشنر ۔ناظر تعلیم ، پنشنر ۔ناظر دعوۃ و تبلیغ، پنشنر ۔ ناظر بیت المال، پنشنر ۔ ناظر امور خارجہ، پنشنر ۔
یہ تمہارے چھ عہدے ہیں اور چھ پر ہی پنشنر ہیں۔ ایک عہدے کو تو ابھی انہوں نے تنگ آ کر چھوڑا ہے۔ خانصاحب یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کام کرنے کا ان کے اندر جوش تھا۔ فالج ان کی ایک سائیڈ پر گرا ہؤا ہے۔ اب دوسرے ہاتھ پر بھی ہؤا ہے دو آدمیوں کے سہارے اُن کو پکڑے پکڑے کرسی پر آ کر بیٹھتے تھے اور اِسی طرح جاتے تھے۔ بھلا اِس طرح کوئی کام ہو سکتا ہے؟ مجھ سے ملنے آتے تھے تو ان کی اس تکلیف کو دیکھ کر مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تھی اور میں ہمیشہ انہیں کہتا کہ آپ نیچے آکر اطلاع دے دیا کریں بلکہ بہتر ہے اپنے نائب کو میرے پاس بھیج دیا کریں مگر وہ اپنے شوق میں آجاتے تھے۔ لیکن مجھے ان سے بات کرنا ایک مصیبت معلوم ہوتا تھا۔ دل میں خیال آتا تھا کہ کتنی تکلیف اٹھا کر یہ کام کرتے ہیں۔ تم کہو گے کیوں رکھا ہؤا ہے ایسے آدمی کو؟ میں پوچھوں گا کہ کون سے آدمی تم نے مجھے دیئے ہیں کہ میں اُن کو رکھتا؟ آخر یہ تو نہیں کہ میں نے مٹی سے آدمی بنانے ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کی طرح ان کے ناک میں پھونکنا ہے تو وہ زندہ ہو کر آدمی بن جائیں گے۔ بہرحال عیسیٰ علیہ السلام خدا کے نبی تھے۔ ان کے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے کہ چمگادڑ بناتے تھے۔ تو چمگادڑوں نے تو نظارتیں کرنی نہیں۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام والی خیالی اور وہمی طاقت بھی مجھے مل جائے تو میں چمگادڑ ہی بناؤں گا آدمی نہیں بناؤں گا اور چمگادڑوں نے تمہارا کیا کام کرنا ہے۔ آدمی تو تم ہی نے دینے ہیں لیکن یہاں تو یہ حالت ہے کہ
ہر کسے در کارِ خود بادینِ احمد کارنیست
ہرشخص یہی کہتا ہے کہ میں باہر جاؤں گا اور ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ شاید اگلا پرائم منسٹر مَیں نے ہی یہاں ہونا ہے یا اگلا گورنر جنرل میں نے ہی ہونا ہے۔ یا شاید بعض لوگ دل میں یہ غصہ رکھتے ہوں کہ ہمارے گورنر جنرل استعفیٰ کیوں نہیں دیتے تا کہ میرا موقع آئے، ہمارا پرائم منسٹر الگ کیوں نہیں ہوتا کہ کبھی آگے آؤں۔ چاہے وہ ساری عمر ہیڈکلرک بننے کے بھی قابل نہ رہا ہو لیکن امید یہی وہ کرتا ہے کہ میں ملک کا وزیر اعظم بنوں گا اور میں ملک کا گورنر جنرل بنوں گا اور میں کمانڈر اِنچیف بنوں گا۔ اور اگر میں یہاں گیا تو زیادہ سے زیادہ مجھے تین چار سو مل جائے گا یہ کون سی بات ہے۔ اور اگر اس طرح نوجوان پیچھے ہٹیں گے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ کبھی تمہاری جماعت کی تنظیم ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ بڈھے کب تک کام چلائیں گے۔ پھر اگر بڈھوں نے ہی آنا ہے تو یہ بڈھے جائیں گے تو ایک اَور بڈھا آ جائے گا۔ ممکن ہے ساٹھ سال والے کو ہم نکالیں تو چھیاسٹھ سال والا آ جائے۔ چھیاسٹھ والا نکالیں تو ستّر والا آ جائے۔ ستّر والا نکالیں تو اسّی والا آ جائے۔ پھر یہ ہو کہ روزانہ بازار میں اعلان کیا جاتا ہے کہ ناظر صاحب نے دفتر جانا ہے ذرا چار آدمی چارپائی اٹھانے کے لئے چاہئیں۔ انہوں نے دفتر جا کر کام کرنا ہے۔ جب تک نوجوان آگے نہیں آئیں گے یہ کام کس طرح ہو گا۔ یہی حال وکالتوں کا ہے۔ وکالتوں میں ذرا حالت نسبتاً اچھی ہے۔ وکیل الاعلیٰ پنشنر ہیں۔ وکیل المال بھی پنشنر ہیں لیکن باقی وکالتیں نوجوانوں کے ہاتھ میں ہیں۔ لیکن اب وہاں بھی دقّت ہو رہی ہے کہ وقف کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ جلسہ پر بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ یہ تو حضور ہی کا بچہ ہے ہم نے وقف کیا ہے۔ مگر میں کیا خوش ہوتا جتنے وقف شدہ بچے میرے سامنے پیش ہوئے چار چار سال کے تھے۔ توکون پچیس سال تک زندہ رہے اور ان کا انتظار کرے کہ یہ آ کر کام سنبھالیں گے۔ پچیس سال کے بعد تو وہ کام کے قابل ہوں گے پھر کم سے کم بیس سال ان کو تجربہ کے لئے چاہییں۔ آدمی پنتالیس سال میں ہی جا کر مکمل بن سکتا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے۔
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
ان لوگوں کے وکیل بننے کے قابل ہو نے تک کس نے زندہ رہنا ہے اور کس نے اِن کا کام دیکھنا ہے۔ تو جماعت کو چاہیئے کہ اِس طرف توجہ کرے۔ ایک تو یہ کہ وہ اپنے اندر احساس پیدا کرے۔ اب تک کبھی جماعت نے احساس نہیں کیا کہ آخر ہم اتنا روپیہ جو خرچ کرتے ہیں ان سے پوچھیں تو سہی کہ یہ کام کیا کرتے ہیں۔ کام سوائے خط و کتابت کے اور کوئی نہیں ہوتا۔ ابھی میں نے اختر صاحب کو رکھا ہے ایک نیا نام ان کے لئے تجویز کیا گیا ہے۔ دیکھئے وہ بیل منڈھے چڑھتی ہے کہ نہیں۔ ناظر الدیوان ان کا عُہدہ مقرر کیا گیا ہے یعنی وہ ناظروں کے کام کو چیک کریں گے۔ ان کو میں نے کہا ذرا معائنہ کرو اور دیکھو کہ نظارت امور عامہ کیوں بنائی گئی تھی؟ اور آیا جس غرض کے لئے امور عامہ کی نظارت بنائی گئی تھی اس کا کوئی کام انہوں نے کیا؟ نظارت اعلیٰ کیوں بنائی گئی تھی؟
نظارت اعلیٰ کے فرائض میں سے ہے کہ ساری نظارتوں کو چیک کرے اور ہر تیسرے مہینے ہر نظارت کا وہ معائنہ کرے۔ لیکن واقع یہ ہے ہر تیسرے مہینے چیک کرنا تو بڑی بات ہے ہر سال میں بھی اگر ثابت ہو جائے، ہر دو سال کے بعد بھی ثابت ہو جائے، ہر پانچ سال کے بعد بھی ثابت ہو جائے، ہر دس سال کے بعد بھی ثابت ہو جائے تو سجدۂ شکر بجالاؤ۔ کیونکہ میرا علم یہ ہے کہ پچھلے چالیس سال میں انہوں نے کبھی کوئی معائنہ نہیں کیا۔ جہاں افسروں کا یہ حال ہو کہ وہ معائنہ ہی نہیں کرتے اپنے ماتحت دفتروں کا، تو ماتحت دفتر کہہ دیتے ہیں ''تور اشنان سو موراشنان''۔ وہ اگلے کو کہہ دیتا ہے۔ ''تور اشنان سو موراشنان''۔ آخر ہوتے ہوتے کلرکوں تک بات آ جاتی ہے۔ باقی سارے کے سارے افیون کھا کر سوتے ہیں اور تم بڑے خوش ہو کہ ہم نے خلیفہ جو مان لیا ہے۔ بس جو خلیفہ مان لیا اب وہی کرے۔
خلیفہ انسان ہے آخر کیا چیز ہے۔ کون سی صورت ہے اس کے لئے کہ وہ ہر ایک معاملہ میں دخل دے اور ہر ایک معاملہ میں سوچے۔ پھر دوسرے یہ کہ اس کا دخل دینا مناسب بھی نہیں۔ ہر دنیوی کام میں اگر وہ دخل دینے لگ جائے تو پھر قوم میں جو تربیت اور تنظیم پیدا ہو تی ہے وہ ختم ہو جائے۔ کیونکہ ہم یہ تو امید نہیں کر سکتے ہیں کہ ہمیشہ ہی تم کو ایسے خلفاء ملتے رہیں گے جو تنظیمی قابلیت بھی اپنے اندر رکھتے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک وقت میں محض مذہبی حیثیت کا آدمی تمہیں مل جائے کیونکہ یہی اُس کا اصل کام ہے تو پھر اگر تم نے ایک عہدہ دار پر انحصار رکھنا ہے اور عہدہ دار بھی ایسا جس کو ہٹانے کا بھی تم کو اختیار نہیں تو پھر تو تمہارا بیڑا غرق ہؤا کیونکہ ایسے آدمی پر تم نے کام کا انحصار رکھا جس کو تم ہٹا سکتے نہیں اور یہ کام اس کا ہے نہیں اور سمجھ تم یہ رہے ہو کہ وہ کرے اور وہ کر سکتا نہیں۔ تو پھر اس سے زیادہ تمہاری تباہی کی یقینی خبر اور کیا ہو گی۔ پس نوجوانوں کو چاہیئے کہ وہ ادھر آنے کی کوشش کریں اور کم سے کم جب تک نئے نہ آئیں اُس وقت تک پنشنر ہی آتے رہیں۔ پچپن سال پر پنشن مل جاتی ہے اور چا ر پانچ سال سلسلہ کی خدمت کر لیں۔
ایک بات مَیں بھول گیا تھا۔ وہ اختر صاحب نے شکر ہے یاد دلا دی۔ یہ بات میں نے اُن کے ذمہ لگائی تھی اور اُن کو کہا تھا کہ تقریرکے وقت یاد دلا دیں۔ شکر ہے انہوں نے تقریر ختم ہونے سے پہلے یاد دلا دیا۔ انہوں نے جب سنا کہ مَیں ناظر الدیوان ہوں تو انہوں نے خیال کیا کہ یہ کام مجھے کر دینا چاہیئے۔ میں نے پچھلے سال تحریک کی تھی کہ لوگ اپنی زائد آمد پیدا کر کے سلسلہ کے لئے دیں تا کہ ان پر بھی بوجھ نہ ہو اور سلسلہ کی مشکلات جو تبلیغِ اسلام کی ہیں وہ دور ہوں اور ان میں امداد ملے۔ ایک دوست عبد العزیز صاحب مغل پورہ گنج کے ہیں۔ انہوں نے تیس روپے کل مجھے دیئے ہیں اور کہا ہے کہ یہ میں نے آپ کے اُس کہنے کے مطابق زائد کام کر کے آمد پیدا کی ہے جو میں چندہ کے طور پر پیش کرتا ہوں۔
ایک اور دوست نے اسی طرح کہا ہے کہ آپ نے زائد کام کر کے آمد پیدا کرنے کے لئے کہا تھا۔ میں نے اس کے لئے زائد کام کیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے 95 روپے ملے ہیں۔ وہ 95 روپے مَیں سلسلہ کی خدمت کے لئے اور اس کی اشاعت کے لئے پیش کرتا ہوں۔ میں نے چونکہ خواب میں دیکھا تھا کہ میں آپ کو خود دے رہا ہوں اس لئے میں یہ رقم پیش کرتا ہوں۔ محمد خان ولد چودھری نواب خان صاحب منصور آباد ضلع تھرپاکر۔
جلسہ میں کوئی چالیس ہزار آدمی بیٹھا تھا۔ اس میں سے چلو دو کو تو توفیق مل گئی ممکن ہے بعض اور نے بھی روپے بھیجے ہوں لیکن مشکل یہ ہے کہ میں زیادہ ملامت بھی نہیں کر سکتا۔ میں سارا سال یہی سوچتا رہا ہوں لیکن مجھے کوئی زائد کام کرنا سمجھ میں نہیں آیا۔ کئی کئی طریق سوچے۔ کبھی یہ سوچا کہ کوئی دوائی اپنے ہاتھ سے کوٹ کاٹ کے بنائیں اور اس کا اشتہار دے دیں۔ کبھی کوئی اَور تجویز سوچی بہرحال اب تک کسی چیز پر تسلی نہیں ہوئی مگر میں ابھی سوچ رہا ہوں کہ کوئی نہ کوئی کام ایسا کروں جس سے زائد آمد پیدا ہو۔
اب میں حسبِ دستور سابق ایک علمی مضمون جس کو پہلے سے میں نے شروع کیا ہؤا ہے اُس کا ایک حصہ آج بیان کرتا ہوں۔ یہ میرا ‘‘سیرِ روحانی’’ کا مضمون ہے۔ اس کے تین لیکچر شائع ہو گئے ہیں اور آپ لوگوں میں سے بعض نے وہ کتاب خریدی ہو گی اور دیکھ لی ہو گی۔ دوسری جلد اس کی انشاء اللہ اگلے سال میں شائع ہو جائے گی۔ ہاں یہ بھی میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ قرآن شریف کی انگریزی تفسیر کا اگلا حصہ چَھپ رہا ہے۔ اس کا خلاصہ مضمون نکال کر میں ان کو ترجمہ کرنے کے لئے دے رہا ہوں۔ اور غالباً اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے گا تو میں اگلے سال کے شروع میں اس کو ختم کردوں گا پھر وہ میرے پہلے نوٹ نکال کر نوٹ لکھ دیں گے اور اگلے سال انشاء اللہ تعالیٰ تیسری جلد اس کی شائع ہو جائے گی۔اردو کی جلد بھی جو آخری سپارہ کی باقی ہے انشاء اللہ تعالیٰ شروع سال میں شائع ہو جائے گی''۔ (الفضل 16جنوری 1955ء )
عالَمِ روحانی کے دفاتر
''1938ء کے سفرِ حیدر آباد اور دہلی میں مَیں نے جو تاریخی مقامات دیکھے اُن میں مسلمان بادشاہوں کے دفاتربھی شامل تھے مجھے بعض عمارتیں دکھائی گئیں اور کہا گیا کہ یہ قلعہ کے شاہی دفاتر ہیں۔
دُنیوی دفاتر کا نظام اور اُس کی غرض و غایت
اِن دفاتر پر ایک سیکرٹری اوروزیر مقرر
ہوتا تھا۔ باہر کے تمام صوبیدار اور ان کے ماتحت افسر اور قاضی وغیرہ بادشاہ کے پاس اپنی رپورٹیں بھجواتے تھے اور اس دفتر میں اُن کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ بادشاہ کو جب ضرورت پیش آتی تھی وہ ریکارڈ اُس کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور وہ اُن سے فائدہ اُٹھاکر اپنے احکام جاری کرتا تھا۔ مثلاً جس قدر بڑے بڑے چور، ڈاکو اور فریبی تھے اُن کے متعلق ڈائریاں جاتی تھیں کہ فلاں شخص مشہور چور ہے، فلاں شخص مشہور ڈاکو ہے، فلاں شخص مشہورمُفسد ہے، فلاں شخص بڑاخائن ہے، فلاں شخص بڑا جعلساز ہے، اور جب اُن کو پکڑا جاتا تھا تو اُن ڈائریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بادشاہ اُن کے متعلق کوئی فیصلہ کرتا تھا اور وہ ڈائریاں وہاں ریکارڈ کے طور پر رکھی جاتی تھیں۔
اِسی طرح جب وہاں سے نیچے احکام جاری ہوتے تھے کہ مثلاً فلاں ڈاکو کی مزید نگرانی کرو اور اُس کے متعلق مزید ثبوت بہم پہنچاؤ یا اُس کو فلاں سزا دے دو یا کسی کے اچھے کام کی ڈائری آئی تو حُکم گیا کہ اس کی حوصلہ افزائی کرو یا اس کو فلاں انعام دے دو تو یہ ریکارڈ بھی وہاں رکھے جاتے تھے اور ان میں یہ درج کیا جاتا تھا کہ فلاں فلاں کے نام یہ حکم نافذ کیا گیا ہے۔
رعایا کی سزاؤں اور ترقیات کے احکام کا اندراج
غرض ان دفاتر میں لوگوں کے
اعمالنامے ہوتے تھے اِن اعمالناموں پر بادشاہ جو کارروائی کرتا تھا وہ ریکارڈ ہوتی تھی، جو سزائیں دیتا تھا اُن کے احکام درج ہوتے تھے۔ اِسی طرح جو سزاؤں کی تجویز نچلے افسر کرتے تھے وہ درج ہوتی تھی اور جو انعامات کی سفارشیں نیچے سے آتی تھیں وہ ریکارڈ ہوتی تھیں۔ پھر اُن سفارشات کے مطابق بادشاہ کے جو احکام جاری ہوتے تھے کہ مثلاً اس کو بیس ایکڑ زمین دے دو، اس کو ایک گاؤں دے دو، اس کو دس گاؤں دے دو، یہ سارے احکام اس میں درج ہوتے تھے۔
اِسی طرح جو ترقیات کے احکام جاتے تھے یا خطابوں کے احکام جاتے تھے کہ اِس کو فلاں خطاب دیا جاتا ہے، اُس کو فلاں خطاب دیا جاتا ہے وہ ان دفاتر میں لکھے جاتے تھے۔
غرض مُجرموں کی ڈائریاں اور مخلصوں کے کارنامے یہ سارے کے سارے وہاں جمع ہوتے تھے اورجب کسی شخص کو سزا دینے کا سوال پیداہوتا تھا تو اس کے پچھلے اعمالنامے دیکھ لئے جاتے تھے کہ یہ کس سزا کا مستحق ہے۔ بعض دفعہ فعل ایک ہی ہوتا ہے لیکن ایک شخص اس کام کا عادی ہوتا ہے اور دوسرے شخص سے اتفاقی طور پر وہ فعل سرزد ہو جاتا ہے۔ جس سے اتفاقی حادثہ ہو جاتا ہے اس کو تو تھوڑی سزا دی جاتی ہے اور جو عادی مجرم ہوتا ہے اُس کو اس کے پچھلے جرائم کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ سزا دی جاتی ہے۔
دُنیوی حکومتوں میں مجرموں
کے لئے گریز کی متعدد راہیں
مگر مَیں نے دیکھا کہ یہ دفاتر جوبادشاہوں نے بنائے تھے اِن میں گریز کی بھی بڑی بڑی راہیں تھیں۔ اوّل تو یہ لوگ چوری چُھپے
کام کرتے تھے مثلاً ایک شخص قتل کرتا تھا یا چوری کرتا تھا اور ظاہر میں وہ بڑا شریف آدمی نظر آتا تھا۔ اب جو ڈائری نویس تھا اُس کو اِس کے حالات معلوم ہونے بڑے مشکل تھے پس اخفاء سے کام لینے کی وجہ سے وہ اپنے جرائم پر پردہ ڈال دیتا تھا۔ اِسی طرح میں نے دیکھا کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ بات تو اُن کی ظاہر ہو گئی لیکن مبالغہ کے ساتھ ظاہر ہوئی۔ انہوں نے مکھی ماری اور بن گیا کہ ہاتھی مارا ہے۔ اور پھر وہی رپورٹ اوپر چلی گئی کہ فلاں شخص سے یہ یہ جرائم ہوئے ہیں۔ اور بعض لوگوں کو مَیں نے دیکھا کہ وہ رشوتیں دے کر اچھے اچھے کام لکھوا دیتے تھے کہ ہم نے فلاں کام کیا ہے، فلاں کام کیا ہے لیکن اُن کے اِن کاموں کی کوئی خاص قدر نہیں ہوتی تھی۔ سوائے اِس کے کہ بادشاہ کے دربار میں بڑی شُہرت ہوتی تھی کہ اس نے فلاں کام کیا ہے۔
عالَمِ روحانی کے ڈائری نویس
اور ان کا اعلیٰ درجہ کا نظام
اس کے مقابل پر مَیں نے قرآنی دفتردیکھا تو اس میں مَیں نے یہ پایا کہ تھا تو وہ بھی اِسی شکل میں منظّم لیکن وہ ایسی صورت میں تھا
کہ اُس میں کسی قسم کی بناوٹ یا کسی قسم کی غلط فہمی یا کسی قسم کا دھوکا یا کسی قسم کی سازش نہیں ہو سکتی تھی۔ چنانچہ قرآنی دفتر میں بھی مَیں نے دیکھا کہ وہاں ڈائریوں کا انتظام ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی تھا کہ وہاں جھوٹ کی آلائش بالکل نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ قرآن کریم میں لکھا ہؤا تھا وَ اِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ۔كِرَامًا كَاتِبِيْنَ۔ يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ۔3 یعنی تم پر ہماری طرف سے ڈائری نویس مقرر ہیں لیکن وہ ڈائری نویس حافظؔ ہیں۔ یعنی ان کا یہی کام نہیں کہ تمہارے جرائم لکھیں بلکہ یہ کام بھی اُن کے سپرد کیا گیا ہے کہ تمہیں جرائم کرنے سے روکیں۔ اُن کا یہی کام نہیں کہ تمہارے اچھے کاموں کا ریکارڈ کریں بلکہ یہ بھی کام ہے کہ تمہیں اچھے کاموں میں زیادہ کامیاب ہونے میں مدد دیں۔ كِرَامًا اور پھر یہ ڈائری نویس جو ہم نے مقرر کئے ہیں بڑے اعلیٰ درجہ کے اور اعلیٰ پایہ کے لوگ ہیں جو ہر قسم کی رشوت خوری سے بالا ہیں، سازش سے بالا ہیں، جھوٹ سے بالا ہیں، کَاتِبِیْنَ اور بڑے محتاط ہیں۔ وہ یہ نہیں کرتے کہ اپنے حافظہ میں بات رکھیں بلکہ جیسے آجکل سٹینو ہوتا ہے وہ سٹینو کی طرح ساتھ ساتھ لکھتے چلے جاتے ہیں اور اِس لکھنے کی وجہ سے اُن کی بات میں غلطی کا امکان نہیں ہوتا۔ يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اُس کو وہ جانتے بھی ہیں۔
دُنیوی اور روحانی ڈائری نویسوں میں امتیاز
غرض قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہمارے سلسلہء روحانیہ
میں بھی ڈائری نویس ہیں لیکن وہ عام ڈائری نویسوں کی طرح جیسا کہ دنیوی حکومتوں میں ہوتا ہے غریب نہیں ہوتے، چھوٹی تنخواہوں والے نہیں ہوتے کہ اُن کو رشوت خوری کی ضرورت ہو بلکہ اعلیٰ پایہ کے لوگ ہوتے ہیں وہ اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کو نہ کوئی خوشامد سے منا سکتا ہے، نہ رشوت دے سکتا ہے، نہ کسی کی کوئی دشمنی اس بات کا موجب ہو سکتی ہے کہ وہ غلط رپورٹ کریں بلکہ اُن کی ہر ایک رپورٹ اور ہر ایک کام سچ کے ساتھ ہوتا ہے اور باوجود اِس کے کہ وہ بڑے دیانتدار ہیں، بڑے سچّے ہیں، بڑے راستباز ہیں، وہ اتنے محتاط ہیں کہ صرف اپنے حافظہ پر بات نہیں رکھتے جو بڑا مکمل حافظہ ہے بلکہ وہ ساتھ ساتھ لکھتے بھی چلے جاتے ہیں گویا اس احتیاط کو وہ دوگنی کر لیتے ہیں۔
دنیا میں ڈائریاں لکھنے کا غلط طریق
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیوی ڈائری نویس کئی قسم کی غلطیاں کر
جاتے ہیں کیونکہ وہ ہر وقت ساتھ نہیں رہتے۔ مثلاً تمام گورنمنٹیں پولیس مقرر کرتی ہیں مگر جتنی بڑی سے بڑی منظم گورنمنٹیں ہیں وہ اتنے ڈائری نویس مقرر نہیں کر سکتیں کہ ہر آدمی کے ساتھ ساتھ ڈائری نویس پھرے۔ اگر ملک کے سپاہیوں کی تعداد دیکھی جائے اور ادھر آدمیوں کی تعداد دیکھی جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ اگر ایک کروڑ آدمی ہے تو شاید پولیس تین چار ہزار ہو اور وہ تین چار ہزار بھی سارے ڈائری نویس ہی نہیں ہونگے بلکہ اُن میں سے اکثر وہ ہونگے جن کا کوئی اَور کام مقرر ہوگا۔ مثلاً یہ کہ رستوں کی حفاظت کرنی ہے یا انہیں کسی جگہ پر ریزرو رکھا ہؤا ہوگا۔ کوئی جھگڑا یا فساد ہؤا تو وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ سٹینو اور ڈائریاں لکھنے والے میرے خیال میں سارے صوبہ میں جس کی دوتین کروڑ آبادی ہو دو تین سَو ہی نکلیں گے۔ اب اگر دو تین کروڑ کی آبادی میں ایک کروڑ پر سَو آدمی ہے۔ یا فرض کر لو ایک کروڑ پر ہزار بھی آدمی ہے تب بھی دس ہزار آدمیوں پر ایک ہؤا۔ اور دس ہزار آدمی پر جو ایک شخص مقرر ہے وہ ہر ایک کا نامۂ اعمال نہیں لکھ سکتا نہ وہ ہر ایک آدمی کے عمل کی تحقیقات کر سکتا ہے۔ لازمی بات ہے کہ کچھ لوگ تو یونہی ان کی نظروں سے چُھپ جائیں گے اور جو لوگ اُن کی نظروں کے نیچے آئیں گے اُن سب کے متعلق بھی وہ صحیح تحقیقات نہیں کر سکتے۔ کچھ کے متعلق تو وہ صحیح تحقیقات کریں گے اور کچھ کے متعلق وہ سُنی سُنائی باتوں پر ہی کفایت کر لیں گے۔ اعتبار ہوگا کہ فلاں آدمی بڑا سچا ہے، اُس نے کہا ہے تو ٹھیک ہی بات ہوگی اس لئے وہ مجبور ہوتے ہیں کہ جو بات اُن تک پہنچے اُس پر اعتبار کر لیں۔
مختلف حکومتوں کا طریقِ کار
دنیا کی تمام گورنمنٹوں میں امریکہ میں بھی، انگلینڈ میں بھی، یورپ میں بھی، ایشیا میں بھی
غرض سارے ملکوں میں دیکھاجاتا ہے اُن کی کتابوں کو ہم پڑھتے ہیں تو اُن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا عام قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ کسی گاؤں میں گئے اور پوچھا کہ یہاں کون کون آدمی رہتے ہیں؟ کوئی نمبردار مل گیا تو اُس سے پوچھا کہ یہاں کونسا اچھا آدمی ہے کونسا بُرا ہے اور اُس کی کیا شُہرت ہے؟ اب ممکن ہے وہ شخص چند آدمیوں کا دشمن ہو اور ممکن ہے کہ چند آدمیوں کا دوست ہو۔ ہم نے دیکھا ہے ایک آدمی سے پوچھو تو وہ کچھ آدمیوں کی تعریف کر دیتا ہے اور دوسرے آدمیوں سے پوچھو تو وہ اُن کی مذمت کر دیتے ہیں۔ غرض اِس طرح کی باتیں سُن کر لازماً وہ مجبور ہوتا ہے کہ اُن باتوں کو لے اور دوسروں کو پہنچا دے۔ اِسی طرح ہم نے دیکھا ہے بعض دفعہ عورتوں سے پوچھ لیتے ہیں، ملازموں سے پوچھ لیتے ہیں، ہمسایوں سے پوچھ لیتے ہیں اور اس طرح اپنی ڈائری مکمل کرلیتے ہیں۔ اس میں بہت سی باتیں سچی بھی ہوتی ہیں اور بہت سی باتیں غلط بھی ہوتی ہیں۔
روحانی ڈائری نویس يَعْلَمُوْنَ مَاتَفْعَلُوْنَ کا مصداق ہوتے ہیں!
لیکن اللہ تعالیٰ فرماتاہے يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ہم نے جو یہ ڈائری نویس مقرر کئے ہیں یہ کسی سے پوچھ کر نہیں لکھتے بلکہ
يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ جو کچھ تم کرتے ہو وہاں تک اُن کو اپروچ (APPROACH)حاصل ہے اُن کو پہنچ حاصل ہے اور تم جو بھی کام کرتے ہو اُن کی نظر کے نیچے ہوتا ہے۔ پس وہ اپنی دیکھی ہوئی بات لکھتے ہیں کسی سے پوچھ کر نہیں لکھتے۔ اس لئے نہ تو لالچ کی وجہ سے کوئی نوکرجھوٹ بول سکتا ہے، نہ بیوقوفی کی وجہ سے کوئی بچہ غلط خبر دے سکتا ہے، نہ دشمنی کی وجہ سے کوئی ہمسایہ فریب کر سکتا ہے اُن کی اپنی دیکھی ہوئی بات ہوتی ہے جو صحیح ہوتی ہے۔
ایک عرائض نویس کا لطیفہ
ہم نے دیکھا ہے دُنیوی ڈائریوں میں بعض دفعہ ایسی ایسی غلطی ہو جاتی ہے کہ لطیفے بن جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے گورداسپور میں ایک صاحب عرائض نویس ہؤا کرتے تھے۔ مَیں بھی اُن سے ملا ہوں۔ اُن کے اندر یہ عادت تھی کہ جب کوئی شخص اُن سے ملتا اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ کر مصافحہ کرتا تو وہ اُس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور بجائے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنے کے ایڑی پر کھڑے ہو کر اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ کہنا شروع کر دیتے۔ یوں آدمی نمازی اور دیندار تھے۔ ان کے متعلق یہ لطیفہ مشہور ہؤا کہ ایک دفعہ اتفاقاً ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے کچھ مسلیں غائب ہو گئیں۔ کوئی صاحبِ غرض ہوگا یا کوئی شرارتی ہوگا یا کسی نے افسر کو دُکھ پہنچانا ہوگا اب تحقیقات کے لئے پولیس کو مقرر کیا گیا کہ پتہ لو مسلیں کہاں گئیں؟ انہوں نے تحقیقات کر کے خبر دی کہ ہم نے پتہ لے لیا ہے اگر گورنمنٹ اجازت دے تو ہم اس پر کارروائی کریں۔ چنانچہ ڈپٹی کمشنر نے یا جو بھی مجسٹریٹ مقرر تھا اُس نے اجازت دے دی اور وہی شخص جو مصافحہ کرتے ہوئے اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ کہا کرتا تھا پولیس نے اُس کے گھر پر چھاپا مارا اور بہت سے کاغذات اُٹھا کر لے گئی اور سمجھا کہ مسلیں پکڑی گئیں۔ چنانچہ انہوں نے فوراً وہ مسلیں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں پہنچا دیں کیونکہ انہیں فوری کام کرنے کا حکم تھا اُن کو دیکھنے کا بھی موقع نہیں ملا کہ ان کاغذات میں ہے کیا، سیدھے ڈپٹی کمشنر کے دفتر پہنچے۔ اب جو اُس نے مسلیں اٹھائیں تو ایک کے اوپر لکھا ہوا تھا ''نمک کی مسل'' ایک کے اوپر لکھا ہؤا تھا ''مرچ کی مسل'' ایک پر لکھا ہؤا تھا '' ہلدی کی مسل''۔ ایک پر لکھا ہؤا تھا ''آٹے کی مسل''۔ ایک پر لکھا ہؤا تھا ''شکر کی مسل''۔ اب سب حیران کہ شکر اور آٹے کی مسلوں سے کیا مطلب ہے؟ آخر کھول کر دیکھا تو پتہ لگا کہ وہ بیچارہ خبطی تو تھا ہی، روز جب عدالت میں کام کرتا تھا تو دیکھتا تھا کہ مجسٹریٹ بیٹھا ہؤا ہے اور کہتا ہے اہلمد! مسل پیش کرے اور پھر ایک مسل آجاتی۔ اُس کو بھی شوق آتا مگر وہ حیثیت تو تھی نہیں، دل میں خواہش ہوتی کہ کاش! میں ڈپٹی کمشنر ہوتا اور میرے سامنے مسلیں پیش ہوتیں۔ یا میں ای۔اے۔سی ہوتا تو میرے سامنے مسلیں پیش ہوتیں۔ آخر انہوں نے گھر جا کر اپنی بیوی کو حُکم دیا کہ آئندہ مَیں گھر کا خرچ نہیں دونگا جب تک ہر ایک چیز کی مسل نہ بناؤ اور پھر وہ مسل میرے سامنے پیش کیا کرو۔ اب نمک خرچ ہو چکا ہے، بیوی کہتی ہے کہ نمک چاہئے۔ اور وہ کہتے ہیں نہیں، پہلے مسل پیش کرو۔ اس کے لئے رات کا وقت مقرر تھا۔ چنانچہ نو بجے تک جب انہوں نے سمجھنا کہ ہمسائے سو گئے ہیں تو انہوں نے بیٹھ جانا اور بیوی کو کہنا کہ اچھا اہلمدہ! نمک کی مسل پیش کرو۔ اب اس نے نمک کی مسل پیش کرنی اور انہوں نے اس میں لکھنا کہ دو آنے کا نمک آیا تھا جو فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک چلا ہے۔ اس کے بعد ''حضور والا مدار! اَور منظوری دیں۔'' اور پھر اُس نے لکھنا کہ نمک کے لئے دو آنے کی اَور منظوری دی جاتی ہے۔ غرض وہ سارے کا سارا اُس بیچارے کے گھر کا بہی کھاتہ تھا جو درحقیقت اُس کا ایک تمسخر تھا۔ اب بات کیا ہوئی؟ بات یہ ہوئی کہ پولیس آخر انسان ہے اُس کو غیب کا علم تو ہے نہیں وہ یہی کرتے ہیں کہ اِدھر اُدھر سے کنسوئیاں4 لیتے ہیں کہ کسی طرح بات کا پتہ چلے۔ وہ سارے شہر میں جوپھرے تو ہمسایوں نے کہا کہ اس کے گھر سے رات کو مِسل مِسل کی آواز آیا کرتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اُس کو پکڑ لیا۔ پہلے ایک ہمسایہ نے گواہی دی، پھر دوسرے نے دی، پھر تیسرے نے دی۔ غرض کئی گواہ مل گئے جنہوں نے تصدیق کی کہ روزانہ آدھی رات ہوتی ہے یا دس گیارہ بجتے ہیں تو یہاں سے آواز آنی شروع ہوتی ہے کہ مِسل مِسل! پس مسلیں اسی کے گھر میں ہیں۔ چنانچہ چھاپہ مارا گیا اور اندر سے نمک اور مرچ اور ہلدی کی مسلیں نکل آئیں تو اس طرح غلطیاں لگ سکتی ہیں۔ بہرحال انہوں نے تدبیر اور کوشش سے بات دریافت کرنی ہوتی ہے ان کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔ لیکن قرآن کریم کے جو ڈائری نویس ہیں اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ وہ اِردگِرد کنسوئیاں لے کر پتہ نہیں لگاتے بلکہ ہر واقعہ کے اوپر کھڑے ہوتے ہیں اور ان کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ بات یوں ہوئی ہے۔
ایک سابق گورنر پنجاب کا وائسرائے کے نام خط
اِسی طرح میرے ساتھ
ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔جب میں 1924ء میں انگلستان گیا تو وہاں سے واپسی پر بمبئی گورنمنٹ کے ایک افسر نے ایک چِٹھی کی نقل مجھے بھیجی۔ وہ چِٹھی گورنر پنجاب کی تھی اور تھی وائسرائے کے نام۔ اُس کو مختلف صوبوں میں سرکلیٹ (CIRCULATE) کیا گیا تھا کیونکہ بڑے بڑے اہم معاملات کو سرکلیٹ کیا جاتا ہے۔ وہ چِٹھی اُس نے میرے پاس بھیجی کہ یہ آپ کی دلچسپی کا موجب ہوگی اِسے آپ بھی پڑھ لیں۔ اُس چِٹھی کو میں نے پڑھا تو حیران رہ گیا۔ اُس چِٹھی میں گورنر پنجاب سر میلکم ہیلی ( جو بعد میں لارڈ بن گئے) وائسرائے کو لکھ رہے تھے کہ مجھے آپ کی طرف سے چِٹھی پہنچی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ امام جماعت احمدیہ جو انگلینڈ گئے تھے تو وہاں اُن کے تعلقات سوویٹ یونین کے بڑے بڑے افسروں سے تھے اور وہ اُن سے مل کر مشورے کرتے تھے اس لئے اُن کی نگرانی کی جائے اور دیکھا جائے کہ اُن کو سوویٹ یونین کے لوگوں سے کیا دلچسپی ہے اور سوویٹ یونین کا اُن کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اگر میں امام جماعت احمدیہ کا ذاتی واقف نہ ہوتا تو انگلستان کی سی آئی ڈی کی رپورٹ پر میں یقیناً اعتبار کرتا اور میں اس کو بڑی اہمیت دیتا لیکن میں ان کا ذاتی طور پر واقف ہوں وہ ایک مذہبی آدمی ہیں اور امن پسند آدمی ہیں۔ وہ سوویٹ یونین یا اس کے منصوبوں کے ساتھ دُور کا بھی تعلق نہیں رکھتے اس لئے اپنے ذاتی علم کی بناء پر مَیں آپ کو لکھتا ہوں کہ اس میں کسی کارروائی کی ضرورت نہیں۔ یہ غلط رپورٹ ہے اور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ آگے انہوں نے خود لکھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن کو بغیر علم کے بعض سوویٹ یونین کے بڑے بڑے آدمی ملے ہیں۔ ہمارے آدمیوں کو چونکہ پتہ تھا کہ وہ سوویٹ یونین کے آدمی ہیں اس لئے انہوں نے سمجھا کہ اس میں کوئی بات ہوگی اور ان کو پتہ نہیں تھا۔ ان کو ملنے والے آکر ملے تو انہوں نے ملاقات کر لی اور ا س لئے کہ باقی لوگ بھی غلطی میں مبتلاء نہ رہیں وائسرائے نے وہ چِٹھی گورنر بمبئی کو بھیجی۔شاید اَوروں کو بھی بھیجی ہوگی بہرحال ان کے ایک افسر نے مجھے اس کی نقل بھجوائی کہ چونکہ اس سے آپ کی بریّت ہوتی ہے مَیں آپ کو اطلاع دیتا ہوں۔
سفرِ انگلستان سے واپسی پر جہاز کے چیف انجینئر سے ملاقات
اب میں نے سوچا کہ کیا واقعہ ہے تو مجھے یاد آیا کہ جب ہم جہاز سے واپس آرہے تھے تو جہاز کا جو چیف انجینئر تھا اُس کی طرف
سے مجھے پیغام ملا کہ مَیں آپ کو جہاز کا انجن وغیرہ دِکھانا چاہتا ہوں اور یہ کہ جہاز کس طرح چلائے جاتے ہیں؟ (بڑے بڑے جہازوں کے جو انجینئر ہوتے ہیں وہ بڑے رینک کے ہوتے ہیں بلکہ اُن کے کپتان بھی کرنیل رینک کے ہوتے ہیں۔ یہ پیغام جو مجھے ملا جہازکے چیف انجینئر کی طرف سے تھا) مَیں نے اُس کو کہلا بھیجا کہ مَیں تو ایک مذہبی آدمی ہوں، میرا اِن باتوں سے کیا واسطہ ہے؟ میں نے سمجھا کہ شاید یہ مجھے کوئی راجہ مہاراجہ سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ یہ کبھی میرے کام آئیں گے تو خواہ مخواہ جو یہ تکلیف اُٹھائیگا تو اس کا کیا فائدہ ہوگا بعد میں اس کو مایوسی ہوگی پس میں کیوں اس کو مایوس کروں۔ چنانچہ میں نے کہا میں تو ایک فقیر آدمی ہوں، مذہبی امام ہوں مجھے ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے آپ کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں؟ اُس نے پھر یہی کہا کہ ٹھیک ہے آپ مذہبی آدمی ہیں لیکن میری یہ خواہش ہے آپ مجھے ممنون کریں اور ضرور جہاز دیکھیں۔ چنانچہ میں گیا۔ اُس نے بڑا انتظام کیا ہؤا تھا اور سارے انجینئر جو اُس کے ماتحت تھے اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے تھے۔ ایک ایک پُرزہ اُس نے دکھایا اور بتایا کہ یوں جہاز چلتا ہے، اِس اِس طرح پاور پیدا ہوتی ہے اور اِس طرح وہ اُسے آگے کھینچتی ہے۔ غرض سارا جہاز اُس نے دکھایا۔ خیر ہم نے جہاز دیکھ لیا۔ میرے ساتھ بعض اَور ساتھی بھی تھے جب ہم باہر نکلے تو میرے ساتھیوں میں سے ایک دوست نے مجھے کہا کہ انجینئر صاحب نے الگ ہو کر مجھے کہا ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ پرائیویٹ طور پر میرے کمرہ میں چل کر ذرا دو پیالی چائے میرے ساتھ پی لیں۔ مَیں نے پھر انکارکیا اور کہا اِن کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے خواہ مخواہ کیوں ان کی مہمانی قبول کروں؟ مگر انہوں نے کہا بہت اصرار کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ مجھ پر بڑا احسان ہوگا آپ چائے پی لیں خیر وہ اکیلا ہی مجھے لے گیا اور باقی ساتھیوں کو ہم نے باہر چھوڑ دیا ہم کمرہ میں بیٹھے اور اُس نے چائے پلائی۔
چیف انجینئر کی غلط فہمی
چائے پلانے کے بعد کہنے لگا میری ایک عرض بھی ہے ۔میں نے کہا فرمایئے۔ میں سمجھ گیا کہ اس کو کوئی
کام ہی تھا۔ کہنے لگا میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ انگلینڈ کیوں گئے تھے؟ میں نے کہا مَیں انگلینڈ یہ دیکھنے کے لئے گیا تھا کہ اسلام کی ترقی کے لئے وہاں کیا کیا مواقع ہیں اور ہمارا مشن تبلیغ میں کس حد تک کامیاب اور کن اسباب کے ساتھ کامیاب ہو سکتا ہے؟ ہنس کر کہنے لگا یہ تو ہوئیں لوگوں سے کرنیوالی باتیں اصل وجہ مجھے بتایئے۔ میں نے کہا لوگوں سے اور تمہارے ساتھ باتیں کرنے میں کیا فرق ہے؟ تم بھی لوگ ہو اَور لوگ بھی لوگ ہیں اس میں میرے لئے فرق کرنے کی کیا وجہ ہے؟ کہنے لگا نہیں نہیں۔ آپ مجھ پر اعتبار کریں میں کسی کو نہیں بتاتا۔ میں نے کہا میری بات ہی ایسی کوئی نہیں جو کسی کو بتانے والی نہ ہو تم نے بتانا کیا ہے؟ اِس پر اُس نے پھر اصرار کیا کہ سچی بات مجھے بتا دیں۔ اس کے مقابل پر جب پھر مَیں نے اصرار کیا اور کہا کہ سوائے اِس بات کے اور کچھ بھی نہیں کہ مَیں تبلیغی میدان کے لئے راستہ کھولنے کے لئے گیا تھا اور یہ دیکھنے کے لئے گیا تھا کہ اسلام کی تبلیغ اِن ملکوں میں کس طرح ہو سکتی ہے تو پھر اُس نے بڑے افسوس سے کہا کہ مَیں کس طرح آپ کو یقین دلاؤں کہ میں کون آدمی ہوں۔
میکسیملین سے اپنے
رشتہ داری تعلقات کا اظہار
پھر کہنے لگا، آپ نے میکسیملین5 (MAXIMILIAN) کا نام سنا ہؤا ہے؟ میں نے کہا ہاں میں نے سنا ہؤا ہے وہ آسٹریلیا
کا ایک شہزادہ تھا۔ میکسیکو میں فساد ہونے پر یورپ کی حکومتوں نے تجویز کی کہ اِس ملک میں اگر ہم کسی کو بادشاہ مقرر کر دیں تو اس ملک کے فسادات دُور ہو جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نےمیکسیملین کے متعلق جو آسٹریلیا کے شاہی خاندان کا ایک شہزادہ تھا اور بڑا سمجھدار اور عقلمند سمجھا جاتا تھا تجویز کیا کہ اس کو میکسیکو کا بادشاہ بنا دیا جائے۔ یہ جاکر انتظام کر لے گا۔ اُس وقت میکسیکو میں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا تھا۔ اُس نے جاتے وقت اپنے اُن درباریوں میں سے جو شاہی درباری تھے ایک بڑا ہی قابلِ اعتبار آدمی ساتھ لے جانے کے لئے چُنا اور کہا کہ یہ میرا نائب ہوگا اور میری مدد کرے گا۔ غرض وہ میکسیکو میں گیا اور امریکہ، انگلینڈ اور فرانس وغیرہ کے دباؤ ڈالنے سے وہاں اس کی بادشاہت قائم کر دی گئی اور اُس نے کام شروع کر دیا لیکن امریکہ کے لوگ بادشاہوں کے عادی نہیں تھے۔ تھوڑے ہی دنوں میں وہاں بغاوت شروع ہو گئی اور بڑوں اور چھوٹوں سب نے مل کر کہا کہ ہم تو اِس بادشاہ کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور وہ سارے کے سارے مقابل میں اُٹھ کھڑے ہوئے آخر اُس کو ملک سے بھاگنا پڑا۔ جب وہ وہاں سے بھاگا تو سارے اُس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ سوائے اُس درباری کے جس کو اُس نے اپنے ساتھ رکھا تھا۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ اُس نے ایسے ایسے مصائب جِھیلے اور ایسی ایسی مصیبتیں اُٹھائیں کہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن بڑی بڑی سخت تکلیفوں اور جان جوکھوں میں بھی اُس نے اُس کا ساتھ نہ چھوڑا۔ کہنے لگاآپ نے اُس کا حال پڑھا ہے؟ میں نے کہا میں نام تو نہیں جانتا پر یہ میں نے پڑھا ہے کہ اُس کا ایک ساتھی اُس کے ساتھ گیا تھا اور وہ بڑا وفادار تھا۔ کہنے لگا مَیں اُس کا پوتا ہوں۔ اب آپ سمجھ لیجئے کہ آپ مجھ پر کتنا اعتبار کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا اعتبار تو جتنا چاہو کرالو پر بات ہی کوئی نہیں میں کیا کروں۔
چیف انجینئر کی مضحکہ خیز پیشکش
کہنے لگا خیر پھر آپ نہیں کرتے تو میں تو کم از کم اپنی طرف سے پیشکش کر دیتا
ہوں اور وہ یہ ہےکہ آپ گئے تو تھے انگریزوں کے خلاف منصوبہ کرنے کے لئے لیکن مشکل آپ کو یہ پیش آئے گی کہ آپ اپنے مبلّغوں کو ہدایات کس طرح بھیجیں کیونکہ خط تو سنسرہو جاتے ہیں اور اگر وہ پکڑے جائیں تو آپ کی ساری سکیم فیل ہو جاتی ہے اس لئے مَیں آپ کو یہ تجویز بتاتا ہوں کہ جب آپ نے ہدایتیں لکھ کر اپنے مبلّغ کو بھیجنی ہوں تو میرا جہاز ہمیشہ فرانس جاتا رہتا ہے۔ میرے ذریعہ آپ اُسے ہدایت بھیجیں اُدھر اپنے مبلغ کو لکھ دیں کہ جہاز پر آکر مجھ سے وہ لفافہ لے جائے۔ اِسی طرح اُس نے آپ کو جو مخفی پیغام بھیجنا ہو وہ مجھے دے دے میں آپ کو پہنچا دیا کروں گا۔ پھر کہنے لگا آپ کو یہ خیال پیدا ہو گا کہ وہ مجھ تک کس طرح پہنچے اور مَیں اُس کو کس طرح دوں؟ اِس پر کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ اس کے لئے میں آپ کو ایک تجویز بتاتاہوں۔ چنانچہ اُس نے اپنا ایک کارڈ نکالا۔ یہ وزٹنگ کارڈ کہلاتے ہیں جو یورپین لوگ ملتے وقت ایک دوسرے کو دکھاتے ہیں۔ اِس پر اُس شخص کا نام لکھا ہؤا ہوتا ہے اور اُس کا عہدہ وغیرہ درج ہوتا ہے جب کسی کو ملنا ہوتا ہے تو وہ کارڈ اندر بھجوا دیتے ہیں کہ فلاں افسر ملنے آیا ہے۔ غرض اُس نے اپنا وزٹنگ کارڈ نکالا اور اُس کو بیچ میں سے پکڑ کر دو ٹکڑے کر دیا۔ جب کارڈ کو دو ٹکڑے کیا جائے تو ہر کارڈ الگ شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کوئی 1/1000 انچ اِدھر سے پھٹتا ہے کوئی 1/1000 انچ اُدھر سے پھٹتا ہے۔ کوئی ذرا اِدھر سے نیچا ہو جاتا ہے کوئی اُدھر سے نیچا ہو جاتا ہے اِس طرح تھوڑا بہت فرق ضرور ہو جاتا ہے اور دونوں حصوں کو ملانے سے فوراً پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ کارڈاسی کا حصہ ہے کسی دوسرے کارڈ کے ساتھ وہ نہیں لگ سکتا۔ غرض اس کارڈ کو پھاڑ کر وہ کہنے لگا میں آپ کو اطلاع دونگا کہ میں فلاں تاریخ کوبمبئی پہنچ جاؤں گا آپ کا آدمی آئیگا اور وہ میرا نام لے کر کہے گا کہ فلاں چیف انجینئر صاحب ہیں؟ میں کہوں گا ہاں میں ہوں۔ پھر وہ میرے پاس آئے گا اور آکر مجھے کہے گا آپ کو امام جماعت احمدیہ نے خط بھیجا ہے۔ میں کہوں گا میں امام جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں۔ وہ کون ہیں میں تو بالکل اُن کا واقف نہیں۔ وہ کہے گا نہیں آپ اُن کے واقف ہیں۔ چنانچہ ایک کارڈ جو آپ نے براہ راست میرے پاس بھیجا ہوگا اس کا دوسرا ٹکڑا وہ اپنی جیب سے نکال کر کہے گا۔ یہ لیجئے میں اپنی جیب میں سے کارڈ نکال کر ملاؤنگا جب وہ مل جائیں گے تو میں کہوں گا۔ ہاں ہاں میں جانتا ہوں کیا لائے ہو میرے لئے ؟ پھر وہ لفافہ مجھے دے دیگا۔ اِدھر آپ ایک دوسرا کارڈ کاٹ کر میرے پاس بھیجدیں گے اور ایک اپنے انگلستان کے مبلغ کو بھیج دیں گے۔ جب میں فرانس یا اٹلی پہنچوں گا تو اُس کو خبر دونگا کہ ہمارا جہاز پہنچ گیا ہے یا فلاں تاریخ کو پہنچ جائے گا۔ اور اُس کو آپ کی طرف سے ہدایت ہوگی کہ فلاں جہاز پر پہنچ جانا۔ وہ وہاں آئیگا اور آکر کہے گا کہ اس جہاز کا جو چیف انجینئر ہے وہ ہے؟ لوگ بتائیں گے کہ ہے۔ اس کے بعد میں جاؤنگا اور پوچھوں گا کون صاحب ہیں؟ وہ کہیں گے میں جماعت احمدیہ کا مبلغ ہوں اور انگلینڈ سے آیا ہوں۔ میں کہوں گا مَیں جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں نہ کسی مبلغ کو جانتا ہوں۔ تم میرے پاس کیوں آئے ہو؟ وہ کہے گا مجھے امام جماعت احمدیہ نے بھیجا ہے میں کہوں گا مَیں امام جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں۔ اِس کے بعد وہ اپنی جیب میں سے کارڈ نکالے گا اور کہے گاکہ یہ کارڈ لیں۔ میں اپنی جیب سے کارڈ نکالوں گا اور دونوں کو ملاؤں گا۔ اگر وہ مل گئے تو میں کہوں گا ہاں ہاں یہ لفافہ تمہارے لئے ہے۔ اِس طرح آپ کی خط و کتابت بڑی آسانی سے ہو جائے گی۔ میں نے کہا میں آپ کی اِس پیشکش کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کی اِس خیر خواہی کا ممنون ہوں۔ مگر افسوس ہے کہ میں یہ کام ہی نہیں کرتا تو اس سے کس طرح فائدہ اُٹھاؤں۔ کہنے لگا پھر سوچ لیجیئے۔ جب آپ کو ضرورت ہو میں حاضر ہوں۔
پولیس والوں کی قیاسی رپورٹیں
اِس واقعہ سے مجھے خیال آیا کہ شاید وہی سوویٹ یونین کا نمائندہ ہو اور انہوں
نے سمجھا ہو کہ شاید یہ جماعت بھی اِس قسم کے کام کرتی ہے ہم اسے اپنے ساتھ ملا لیں۔ بہرحال یہ ایک چٹھی تھی جو آئی۔ اِس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ ڈائری نویس اپنی ڈائریاں کس طرح مرتب کیا کرتے ہیں۔ یہ لکھنے والے بددیانت نہیں تھے، جھوٹے نہیں تھے ہمارے ساتھ ان کی کوئی دشمنی نہیں تھی۔ بھلا انگلستان کے لوگوں کو یا فرانس کے لوگوں کو ہمارے ساتھ کیا دشمنی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے محض قیاس کیا اور ایک شخص جس کے متعلق وہ جانتے تھے کہ وہ سوویٹ یونین کا بڑا آدمی ہے لیکن ہمیں پتہ نہیں تھا۔ وہ ہمیں ملنے آیا ہم نے سمجھا کہ ایک عام آدمی ہم سے مل رہا ہے اور انہوں نے فوراً نوٹ کیا کہ سوویٹ یونین کا کوئی نمائندہ ان سے ملا ہے اور اس کے اوپر انہوں نے قیاس کر لیا کہ اُن کے ساتھ اِن کے تعلقات قائم ہیں۔
اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ ڈائریوں میں کس طرح غلط فہمیاں ہو جاتی ہیں۔ لیکن قرآنی دفتر کے ڈائری نویس کسی سے سن کر ڈائری نہیں لکھتے بلکہ جیساکہ میں نے بتایا ہے اُس کی حقیقت سے آپ واقف ہو کر لکھتے ہیں۔
ڈائری نویسوں کی دھوکا دہی
پھر ڈائری نویسوں میں سے بعض ایجنٹ پرووکیٹیئر (AGENT PROVOCATEUR)
ہوتے ہیں یعنی اُن کو خدمت کا اور اپنی حکومت میں مشہور ہونے کا اور صلہ پانے کا شوق ہوتا ہے اور وہ جان بوجھ کر ایسی باتیں کرتے ہیں تاکہ اگلے کے منہ سے کچھ نکل جائے اور وہ اسے بالا افسروں تک پہنچا سکیں۔ مثلاً مجلس لگی ہوئی ہے اور لوگ بالکل ناتجربہ کار اور سیدھے سادے بیٹھے ہیں۔ ایک آدمی نے درمیان میں جان بوجھ کر بات شروع کر دی کہ گورنمنٹ بڑے ظلم کر رہی ہے۔ اب ایک ناواقف شخص نے بھی کسی پر سختی کا ذکر سُنا ہؤا تھا تو اُس نے بھی کہہ دیا کہ ہاں جی میں نے بھی فلاں واقعہ سنا ہے۔ اُس نے جھٹ ڈائری لکھ لی کہ فلاں شخص کہہ رہا تھا کہ گورنمنٹ بڑا ظلم کر رہی ہے حالانکہ اس کا محرّک وہ آپ بنا تھا۔ ایسے لوگوں کو انگریزی میں ایجنٹ پرووکیٹیئر (AGENT PROVOCATEUR) کہتے ہیں۔ یعنی دوسروں کو اُ کسا کر وہ ان کے منہ سے ایسی باتیں نکلوا دیتے ہیں جو قابلِ گرفت ہوتی ہیں۔ جب میرٹھ کیس ہؤا جس میں وائسرائے کے مارنے کی تجویز کی گئی تھی تو اس میں ایک پولیس افسر نے سارا کیس بنایا کہ فلاں کانگرسی کی سازش تھی، فلاں کانگرسی کی سازش تھی لیکن اتفاقاً جب ساری مسل بالکل تیار ہو گئی تو کسی اَور جُرم میں ایک آدمی پکڑا گیا اور اُس نے اقرار کر لیا۔ اُس وقت پتہ لگا کہ وہ سارے ہی اَور لوگ تھے اور یہ سب کی سب جھوٹی کہانی بنائی گئی تھی۔ تب جاکر یہ حقیقت کھلی اور پھر اُس شخص کو سزا بھی ملی۔
سفرِ حج کا ایک واقعہ
میں جب 1912ء میں حج کے لئے گیا تو وہاں بھی ہمارے ساتھ ایساہی واقعہ پیش آیا۔ میرے ساتھ پانچ آدمی اَور
بھی ہم سفر تھے۔ان میں سے تین بڑی عمر کے تھے اور وہ تینوں ہی بیرسٹری کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک ہندو تھا جو اَب ہندوستان چلا گیا ہے دو مسلمان تھے جن میں سے ایک فوت ہو چکا ہے اور ایک ملتان میں بیرسٹری کر رہا ہے۔ یہ تینوں روزانہ میرے ساتھ مذہبی اور سیاسی گفتگو کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کانگرس کے ساتھ ملنا چاہئے مسلمانوں کی بہتری اور بھلائی اِسی میں ہے۔ غرض خوب بحثیں ہوتی رہتی تھیں۔ جب ہمارا جہاز عدن پہنچا تو ہم اُتر کے عدن کی سیر کےلئے چلے گئے۔ میں بھی تھا اور وہ تینوں بیرسٹر بھی تھے اور وہ دو لڑکے بھی تھے جن میں سے ایک اِس وقت ایجوکیشن کا ڈائریکٹر ہے اُس وقت وہ بچہ تھا۔ بہرحال ہم سارے وہاں گئے۔ جس وقت ہم شہر میں داخل ہونے لگے تو ایک آدمی بالکل سادہ لباس میں ہمارے پاس آیا۔ اُس وقت ہم پنجابی میں باتیں کر رہے تھے اُس نے دیکھ لیا کہ پنجابی ہیں۔ چنانچہ آتے ہی کہنے لگا ''آگئے ساڈے لالہ لاجپت رائے جی دے وطن دے خوش قسمت لوگ آگئے'' اُس نے اتنا فقرہ ہی کہا تھا کہ انہوں نے اُس کو نہایت غلیظ گالیاں دینی شروع کر دیں۔ مجھے بڑی بدتہذیبی معلوم ہوئی کہ اِس بیچارے نے کہا ہے کہ تم وہاں سے آئے ہو اور انہوں نے گالیاں دینی شروع کر دی ہیں۔ خیر اُس وقت تو میں چُپ رہا جب ہم واپس آئے تو میں نے کہا کہ آپ لوگوں نے کوئی اچھے اخلاق نہیں دکھائے۔کوئی مسافر آدمی تھا، پنجابی دیکھ کر اُسے شوق آیا کہ وہ بھی پنجابی میں باتیں کرے اور اُس نے آپ کو کہہ دیا کہ لالہ لاجپت رائے کے وطن کے لوگ آئے ہیں تو اِس میں حرج کیا ہؤا؟ وہ کہنے لگے آپ نہیں جانتے یہ پولیس مین تھا اور اُس کی غرض یہ تھی کہ ہم لالہ لاجپت رائے کی کچھ تعریف کریں اور یہ ہمارے خلاف ڈائری دے۔ اب پتہ نہیں یہ سچ تھا یا جھوٹ یا ان کے دل پر ایک وہم سوار تھا اور اس کی وجہ سے انہوں نے یہ کہا۔ بہرحال دنیا میں یہ کارروائیاں ہوتی ہیں۔
دیانتدار ڈائری نویسوں کو اپنی
ڈائری کی تصدیق میں مشکلات
پھر میں نے یہ بھی سوچا کہ ان بادشاہوں کے دربار میں سچی ڈائریاں بھی جاتی تھیں۔ آخر سارے پولیس مین تو جھوٹے نہیں
ہوتے ۔ بیچ میں جھوٹے بھی ہوتے ہیں اور سچے بھی ہوتے ہیں۔بلکہ دنیا کی ہر قوم میں جھوٹے اورسچے ہوتے ہیں تو بعض بیچارے بڑی دیانت داری سے ڈائری لکھتے تھے لیکن ان کی تصدیق مشکل ہو جاتی تھی۔ مثلاً وہ کہتا تھا کہ میں نے فلاں جگہ پرکان رکھ کے سنا تو اندر فلاں فلاں آدمی یہ باتیں کر رہے تھے۔ یا مَیں ریل کے ڈبہ میں بیٹھا تھا تو فلاں فلاں یہ باتیں کر رہے تھے۔ اب ہم کس طرح یقین لائیں کہ اُس نے سچ لکھا ہے۔چاہے ایک ایک لفظ اُس نے سچ لکھا ہو۔ عام طور پر ڈائری نویس کو یہ رعایت ہوتی ہے کہ کہتے ہیں یہ آفیشل ورشن ہے۔ آفیشل ورشن غلط نہیں ہوسکتا۔ مگر یہ دھینگامُشتی ہے پبلک ہر آفیشل ورشن کو غلط کہتی ہے۔ جب تنقید بڑھ جاتی ہے اور حکومت کے خلاف اعتراضات ملک میں زیادہ ہو جاتے ہیں تو پھر حکومت قرآن ہاتھ میں لے کر بھی کوئی بات کرے توملک والے کہتے ہیں ہم نہیں مانیں گے یہ غلط اور جھوٹ ہے۔ بیچارہ پولیس والا وضو کرکے اور نماز پڑھ کے ڈائری لکھے اور خدا کی قسم کھائے کہ ایک لفظ بھی میں جھوٹ نہیں بولوں گا تو پھربھی جب لوگ اس ڈائری کو پڑھیں گے تو کہیں گے جھوٹ ہے اور ملک میں اس کے خلاف زبردست پروپیگنڈا شروع ہو جاتاہے اور پھر جمہوری حکومتوں میں چونکہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں پولیس بیچاری یہ بھی ڈرتی ہے کہ کل کو یہی آگے آگئے تو ہمارے لئے مصیبت ہو جائے گی۔ مگر فرماتا ہے کہ یہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے ڈائری نویس مقرر ہوتے ہیں ان کے لئے یہ خطرہ نہیں ہوتا۔
مجرموں کے انکار پر پولیس کا جھوٹے گواہ تیار کرنا
سیدھی بات ہے کہ ڈائری عام طور پر
مُجرموں کی لکھی جاتی ہے اور مُجرم جو جُرم کرتا ہے وہ لوگوں کو دکھا کر تو کرتا نہیں، چوری چُھپے کرتا ہے اور چوری میں اتفاقاً ہی کوئی شخص دیکھ سکتا ہے، یہ تو نہیں کہ سارا ملک دیکھے گا یا سارا گاؤں دیکھے گا۔ اب فرض کرو اتفاقاً کوئی پولیس مین وہاں آگیا اور اُس نے وہ بات دیکھ لی اور اُس نے رپورٹ کی کہ ایسا واقعہ ہؤا ہے تو اب لازماً جب وہ شخص پکڑا جائے گا تو کہے گا بالکل جھوٹ ہے اس کو تو میرے ساتھ فلاں دشمنی تھی اِس لئے میرے ساتھ اِس نے یہ سلوک کیا ہے میں نے تو یہ کام کیا ہی نہیں۔ اب اس کے لئے سوائے اِس کے کہ کوئی اَور ایسے گواہ پیش کر دیئے جائیں یا بنا لئے جائیں جن سے یہ واقعہ ثابت ہو اَور کوئی صورت ہی نہیں۔ چنانچہ دنیا میں یہی ہوتاہے واقعہ سچا ہوتا ہے اور اس کے لئے گواہ جھوٹے بنائے جاتے ہیں تاکہ اُس واقعہ کو ثابت کیا جائے۔ اتفاقاً ایسے بھی واقعات ہوتے ہیں جن میں گواہ بھی سچے مل جاتے ہیں اور واقعات بھی سچے مل جاتے ہیں اور ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں کہ واقعہ بھی جھوٹا ہوتا ہے اور گواہ بھی جھوٹے ہوتے ہیں بہرحال دونوں قسم کے کیس ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی گواہ بھی جھوٹے اور واقعہ بھی جھوٹا، کبھی واقعہ سچا اور گواہ جھوٹے، کبھی واقعہ بھی سچا اور گواہ بھی سچے۔ مگر الٰہی سلسلہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ہمارے جو ڈائری نویس ہیں ان میں یہ بات بالکل نہیں پائی جاتی۔
عالَمِ روحانی میں مُجرم کے لئے
انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی
یہ درست ہے کہ جس وقت اس کے سامنے گواہ پیش کئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ انہوں نے تمہارا واقعہ لکھا
ہے تو مُجرم لازماً یہ کہے گاکہ صاحب! یہ غلط ہے۔جیسے اِس دنیا میں مجسٹریٹ کے سامنے جب پولیس ایک کیس پیش کرتی ہے تو مُجرم کہتا ہے حضور! یہ بالکل غلط ہے، پولیس والے میرے دشمن ہیں اور انہوں نے خواہ مخواہ مجھ پر کیس چلا دیا ہے میں نے تو کوئی فعل کیا ہی نہیں۔ اس کے نتیجہ میں جج بھی شبہ میں پڑ جاتا ہے اور وہ بھی یہ دیکھتا ہے کہ آیا پولیس سچی ہے یا یہ سچا ہے۔ اور ادھر پبلک بھی شبہ میں پڑ جاتی ہے بلکہ پبلک کو عام ہمدردی لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے، پولیس کے ساتھ نہیں ہوتی۔ چنانچہ پبلک بھی اور اخبار والے بھی طنز شروع کر دیتے ہیں کہ یونہی آدمی کو دَھر گھسیٹا ہے، نہ اس نے جُرم کیا نہ کچھ کیا یونہی اس کو دَھر لیا گیا ہے۔ فرماتا ہے یہ امکان ہمارے ڈائری نویسوں کے خلاف بھی ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے يَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْۤا اَيْنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۔ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ۔6 جب قیامت کے دن ہمارے سامنے وہ لوگ پیش ہونگے تو ہم مشرکوں سے کہیں گے کہ وہ کہاں ہیں جن کو تم میرا شریک قرار دیا کرتے تھے؟ تو فرماتا ہے وہ ایک ہی جواب دیں گے، جیسے ہمیشہ مُجرم جواب دیتے آئے ہیں کہ وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ۔ اے ہمارے رب! تیرے سامنے ہم نے جھوٹ بولنا ہے؟تو ہمارا خدا ہم تیرے بندے، تیرے سامنے تو ہم جھوٹ نہیں بول سکتے۔ مُجرم ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے ہیں کہ حضور کے سامنے جھوٹ بولنا ہے؟ آپ کے سامنے تو ہم نے جھوٹ نہیں بولنا۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم کبھی شرک کے قریب بھی نہیں گئے، ہم نے کبھی شرک کیا ہی نہیں، یہ سب جھوٹ ہے اور یہ ڈائریاں یونہی جھوٹی لکھتے رہے ہیں۔ اب یہ سمجھ لو کہ جس طرح یہاں پولیس سچی ڈائری دے اور مجسٹریٹ کے سامنے یہ سوال آجائے کہ پولیس جھوٹی ہے تو وہ بیچارے گھبرا جاتے ہیں کہ اب ہم کس طرح ثابت کریں۔ اسی طرح وہ ڈائری نویس بھی لازماً گھبرائیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے تو اتنی محنت کرکے سچے سچے واقعات لکھے تھے اب انہوں نے اللہ میاں کے سامنے آکر کہہ دیا کہ صاحب! ہم نے آپ کے سامنے تو جھوٹ نہیں بولنا واقعہ یہ ہے کہ ہم نے کوئی شرک نہیں کیا۔ اور ملزم یہ سمجھ لے گاکہ بس میرے اِس حربہ کے ساتھ شکار ہو گیا۔ یا تو اللہ تعالیٰ اِس عذر کو قبول کر لے گااور اگر سزا دیگا تو باقی سارے لوگ یہی کہیں گے کہ اس بے چارے کو یونہی جھوٹی سزا صرف ڈائری نویسوں کے کہنے پر مل گئی ہے ورنہ یہ مُجرم کوئی نہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارے ہاں کیا انتظام ہے۔
مجرموں کے خلاف ان کے
کانوں، آنکھوں اورجلد کی شہادت
ہمارے ہاں یہ انتظام ہے کہ حَتّٰۤى اِذَا مَا جَآءُوْهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَ اَبْصَارُهُمْ وَ جُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا
يَعْمَلُوْنَ7دنیا میں آج سے پہلے ڈائری نویس کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ ڈائری نویس ڈائری لکھتا تھا اور مجرم جا کر کہہ دیتے تھے کہ جھوٹی ہے۔
موجودہ زمانہ میں ریکارڈر کی ایجاد
اب اِس زمانہ میں ہزاروں سال یا جیالوجی (GEOLOGY) والوں
کے بیان کے مطابق کروڑوں اربوں سال کے بعد وہ آلہ ایجاد ہؤا ہے جس کو ریکارڈر کہتے ہیں۔ طریق یہ ہے کہ اُس کو کمرے میں چُھپا کر کہیں رکھ دیا جاتا ہے اور پولیس کا کوئی نمائندہ یا پولیس کا افسر بھیس بدلے ہوئے اُس مُجرم سے باتیں شروع کر دیتا ہے اور وہ اِس ریکارڈر میں سب لکھی جاتی ہیں۔ مثلاً اُس گفتگو میں وہ اُس کا ساتھی بن جاتا ہے اور کہتا ہے ارے میاں! تم چوری کرتے ہو تو مجھے بھی کچھ دو۔ میں بھی غریب آدمی ہوں، میرا بھی کوئی حصہ رکھو اور مجھے بھی کچھ دلاؤ۔ اِس پر وہ فخر کرنا شروع کر تاہے کہ ہاں ہاں میں نے فلاں جگہ چوری کی اور اس میں یہ مال لیا۔ فلاں جگہ چوری کی اور اس میں یہ مال لیا۔ آؤ تم ہماری پارٹی میں شامل ہو جاؤ بڑی دولت آتی ہے اور خوب آسانی سے مال کمائے جاتے ہیں۔ اب ہمارا ارادہ فلاں جگہ ڈاکہ مارنے کا ہے وہاں سے ہمیں اُمید ہے کہ دس لاکھ پونڈ ملے گا، تمہیں بھی دو چار سو پونڈ حصہ مل جائے گا۔ اب یہ ساری باتیں وہاں ریکارڈ ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے جاکر رپورٹ کی اور وہ پکڑے گئے۔ جب عدالت میں پہنچے تو اُس نے حسب عادت یہ کہہ دیا کہ صاحب! یہ جھوٹ ہے۔ اس کے ساتھ میری دشمنی ہے۔ یہ مجھ سے دس پونڈ رشوت مانگ رہا تھا میں نے نہیں دی اس لئے اس نے میرے خلاف یہ جھوٹی رپورٹ کر دی۔ مجسٹریٹ نے کہا لاؤ ثبوت۔ اُس نے کہا یہ ریکارڈر ہے۔ چنانچہ ریکارڈر پیش کیا گیا، اس میں مُجرم کی آواز بند ہے، اُس کا لہجہ پہچانا جاتا ہے، اُس کی آواز پہچانی جاتی ہے، اُس میں یہ سارا ذکر آتاہے کہ میں نے فلاں جگہ چوری کی، میں نے فلاں جگہ چوری کی، اب فلاں جگہ چوری کرونگا۔ غرض جو اُس نے ڈائری لکھی تھی وہ ساری کی ساری اس میں ریکارڈ ہوتی ہے۔
ریکارڈر کے استعمال میں کئی قسم کی دِقتیں
لیکن یہ ریکارڈر بہت شاذ استعمال ہوتا ہے کیونکہ
ایک تو اس کے لئے جگہ تلاش کرنی پڑتی ہے اور اسے دوسروں سے چُھپانا پڑتا ہے۔ پھر اس جگہ پر جانے کے لئے ملزم کو راضی کرنا پڑتا ہے۔ جو چور واقف کار ہوتے ہیں وہ جانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم توہوٹل کے کمرہ میں جا کر نہیں بیٹھتے جو بات کرنی ہے میدان میں کرو اور میدان میں ریکارڈر رکھانہیں جا سکتا۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ جو زیادہ واقف ہوتے ہیں وہ ایسی مفلڈوائس(MUFFLED VOICE) سے یعنی آواز کو اِس طرح دبا کر بولتے ہیں کہ ریکارڈ ہی نہ ہو۔ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ شخص کمرہ میں ریکارڈر لایا ہے اس لئے وہ آہستگی سے اس طرح باتیں کریں گے کہ ریکارڈ نہ ہوں اور پھر جیسا کہ ان کی تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ کبھی وہ ایسا کرتے ہیں کہ جس کمرہ میں وہ ملاقات مقرر کرتے ہیں اس میں وہ پہلے اپنا ساتھی بھیج دیتے ہیں کہ ذرا تلاشی لے آنا اس میں کہیں ریکارڈر تو نہیں رکھا ہؤا۔ اگر ریکارڈر ہوتا ہے تو عین موقع پر وہ بہانہ بنا کرکھسک جاتے ہیں۔ کہہ دیا کہ اوہو! مجھے ضروری کام پیش آگیا ہے پھر بات کریں گے اور ان کی ساری محنت برباد ہو جاتی ہے۔
خدائی ڈکٹوفون
پس اوّل تو ہر جگہ ریکارڈر رکھا نہیں جا سکتا پھر ریکارڈر رکھا بھی جائے تو اس سے بچنے کی صورت ہو جاتی ہے مگر یہاں فرماتا ہے
کہ تمہارا ڈکٹوفون (DICTAPHONE) تو دنیا میں کئی لاکھ سال کے بعد کہیں ایجاد ہوگا اور ہمارا شروع سے ہی ڈکٹوفون موجود ہے۔ چنانچہ جس وقت فرشتے ڈائری پیش کریں گے اللہ تعالیٰ مجرم سے کہے گا دیکھو! تم نے یہ یہ گناہ کیا ہے۔ وہ کہے گا حضور! بالکل جھوٹ۔ یہ ڈائری نویس تو بڑے کذاب ہوتے ہیں انہوں نے سارا جھوٹ لکھا ہے ۔نہ میں نے کبھی چوری کی نہ میں نے کبھی جھوٹ بولا۔ حضور ساری عمر سچ بولتے گزر گئی، ساری عمر لوگوں کا مال ان کو پہنچاتے ہوئے گزر گئی، شرک کے قریب نہیں گئے، میں تو *** ڈالتاہوں سارے بتوں پر، میں نے کب شرک کیا یہ تو جھوٹ بولتے ہیں۔
کفار پر اتمامِ حُجّت
اللہ تعالیٰ کہے گا اچھا لاؤ ریکارڈر۔ ہم نے اپنے پاس ریکارڈر بھی رکھا ہؤا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے حَتّٰۤى اِذَا مَا جَآءُوْهَا
شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ۔فرمائے گا، ٹھہرو! دوزخ میں داخل کرنے سے پہلے ہم اتمامِ حُجّت کر دیں۔ اے کانو! بتاؤ تم کیا گواہی دیتے ہو؟ اِس پر فرشتوں نے الزام لگایا ہے کہ اس نے غیبت سُنی تھی، تم کیا کہتے ہو؟
کانوں کی گواہی
اس پر یکدم وہ الٰہی روحانی سُوئی کان کے پَردوں پر رکھی گئی اور کان میں سے آواز آنی شروع ہوئی کہ فلاں دن فلاں شخص کی
اِس نے غیبت کی تھی اور کہا تھا کہ وہ بڑا بے ایمان ہے، بدمعاش ہے، جھوٹا ہے، فریبی ہے۔ فلاں وقت، فلاں گھڑی ، فلاں دن اور فلاں سال اس کے سامنے فلاں شخص نے آکر یہ کہا تھا کہ خدا ایک نہیں ہے خدا کے شریک بھی ہیں۔ اور اس نے کہا تھا کہ آپ ٹھیک فرماتے ہیں اور یہ بات ہم نے سُنی۔ اِسی طرح یہ ساری باتیں کہ فلاں کو گالیاں دی گئیں اور اس نے سُنیں، فلاں کی چغلی کی گئی اور اس نے سنی، فلاں پر جھوٹا اتہام لگایا گیا اور اس نے سنا، فلاں شرک کیا گیا اور اس نے سنا، نبیوں کو گالی دی گئی اور اس نے سنی۔ غرض جتنا ریکارڈ روزانہ کا تھا وہ سارے کا سارا اس کے کان سنا دیں گے۔
آنکھوں کی گواہی
پھر فرمایا، وَ اَبْصَارُهُمْ ۔ پھر ہم اُن کی آنکھوں پر ریکارڈ کی سُوئی رکھ دیں گے اور کہیں گے۔ بولو۔ وہ کہیں گی حضور!
فلاں دن فلاں عورت جا رہی تھی اِس نے اُس کو تاکا، فلاں دن فلاں شخص کو اِس نے بڑے غصے سے دیکھا اور کہا میں اِس کو مار کے چھوڑوں گا۔ فلاں دن فلاں کام اِس نے کیا۔ غرض تمام کا تمام آنکھوں کا ریکارڈ پیش ہونا شروع ہو جائے گا۔
جلد کی گواہی
پھر فرمایا اچھا بعض اور بھی لذّت کے ذرائع ہیں۔ وَ جُلُوْدُهُمْ ذرا اس کے چمڑے سے گواہی مانگو۔ چنانچہ چمڑے پر ریکارڈ رکھا گیا۔
اب چمڑا بولا کہ فلاں دن فلاں اچھی اور خوبصورت چیز تھی یا ملائم جسم والی عورت تھی اِس نے اُسے چُھؤا۔ فلاں دن فلاں کا ایک بڑا نرم کوٹ تھا اِس نے اُسے چُھؤا اور کہا مَیں یہ چُراؤں گا۔ غرض چُھونے کے ساتھ جتنے جرائم وابستہ تھے وہ سارے کے سارے اُس نے گنانے شروع کر دیئے اور بتایا کہ اِس اِس طرح اِس نے کیا ہے۔
عمر بھر کا کچا چٹھا8سامنے آجائے گا
غرض وہ سارے نظارے جو ناجائز تھے تصویروں کی صورت میں
سامنے آنے لگ گئے۔ وہ ساری باتیں جو ناجائز تھیں بیان کر دی گئیں کہ اس نے سُنی تھیں اور وہ لذتِ لمس جس کا حاصل کرنا اِس کے لئے ناجائز تھا وہ بھی اِس کے سامنے بیان کر دیا گیا۔ غرض عمر بھر کا کچا چٹھا سامنے آگیا۔
اِسی طرح فرماتا ہے يَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَيْدِيْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ9اُس دن ہم کچھ اَور بھی گواہیاں لیں گے۔
زبانوں کی گواہی
يَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ ۔ اُس دن ان کی زبانیں بھی گواہی دیں گی۔ زبان پر ریکارڈ کی سُوئی رکھ دی جائیگی اور زبان بولنا
شروع کرے گی کہ فلاں دن اس نے خدا کو گالی دی، فلاں دن نبیوں کو گالی دی، فلاں دن اپنے ہمسائے کو گالی دی۔ فلاں دن بیوی کو گالی دی، فلاں دن بیٹے کو گالی دی، فلاں دن فلاں کو گالی دی۔ فلاں دن حرام کا مال چکھا اور فلاں دن اس نے فلاں کام کیا یہ سارے کا سارا ریکارڈ زبان بیان کرنا شروع کر دیگی۔
ہاتھوں کی گواہی
وَ اَيْدِيْهِمْ ۔ پھر ہاتھوں پر سُوئی رکھی جائیگی اور ہاتھ بولنا شروع کریں گے کہ فلاں دن فلاں کو مارا، فلاں دن فلاں کو مارا۔
فلاں دن اُن کا یوں مال اُٹھایا غرض یہ سارے کام ہاتھ بیان کریں گے۔
پاؤں کی گواہی
وَ اَرْجُلُهُمْ ۔ پھر پیر بیان کرنے شروع کر دیں گے کہ فلاں دن رات کے وقت فلاں کے گھر سیندھ لگانے کے لئے یا فلاں مال
اُٹھانے کے لئے یا اُس کو قتل کرنے کے لئے یا اَور کوئی نقصان پہنچانے کے لئے گیا۔
غرض کانوں آنکھوں اورچمڑوں کے علاوہ زبانیں اور ہاتھ اور پاؤں بھی اپنے اپنے حصہ کے ریکارڈ سنائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے
کہتے ہیں ''گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے'' جب اپنے ہاتھ گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ یہ کچھ کیا تھا، اپنے
پَیر گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ یہ کچھ کیا تھا، اپنی آنکھیں گواہی دے رہی ہیں کہ ہم نے یہ کچھ کیا تھا، اپنے کان گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ کچھ سنا تھا، اپنی زبان گواہی دے رہی ہے کہ ہم نے یہ کچھ کہا تھا اور یہ کچھ چکھا تھا تو اب وہ بیچارے پولیس مین کو کس طرح کہیں گے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ جو کچھ پولیس مین نے کہا تھا جب آنکھوں نے بھی اُس کے ساتھ گواہی دی، جب کانوں اور ہاتھوں وغیرہ نے بھی اس کے ساتھ گواہی دی تو ڈائری نویس کی جان میں جان آگئی اور اُس نے کہا کہ کروڑوں آدمیوں کے سامنے مجھے جُھوٹا بنایا گیا تھا اب میری براء ت ہو گئی کہ اپنے ہاتھوں اور اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں نے بھی اس کی گواہی دے دی اور میں شرمندہ اور ذلیل ہونے سے بچ گیا۔
دیکھو یہ ڈائری کتنی مکمل ڈائری ہے اِس کے مقابل میں دنیا کی ڈائری کے جو انتظامات ہیں وہ کتنے ناقص ہیں۔ قرآن کی ڈائری سُبْحَانَ اللّٰہِ! ایسی ڈائری پر تو کوئی شبہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔
گواہی میں دماغ کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟
یہاں کوئی شخص یہ کہہ سکتاہے کہ دماغ کو کیوں
شامل نہیں کیا گیا حالانکہ بہت سے گناہ تو دماغ سے ہوتے ہیں، ہاتھ پاؤں وغیرہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اور پھر بسا اوقات دماغی گناہ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے کرنے کا ہاتھ پاؤں کو موقع نہیں ملتا۔ تو اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی حکومت میں یہ قانون ہے کہ جو چیز دماغ میں آتی ہے لیکن اُس پر عمل نہیں کیا جاتا وہ بدی نہیں گِنی جاتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی بدی کا خیال کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تو اُس کے نامۂ اعمال میں وہ ایک نیکی کی صورت میں لکھی جاتی ہے۔10 پس دماغ کو اس لئے شامل نہیں کیا کہ اگر تو ہاتھ دماغ کے مطابق عمل کر چکے ہیں تو ہاتھ کی بات بیان ہو چکی، اگر زبان دماغ کے مطابق عمل کر چکی ہے تو زبان کی بات بیان ہو چکی، اگر دماغ نے یہ کہا تھا کہ بدی کی بات سنو تو کان بیان کر چکے کہ اس نے فلاں بات سنی تھی، اگر دماغ نے کہا تھا کہ چوری کرو تو پَیروں نے بتا دیا کہ وہ فلاں کے گھر میں چوری کے لئے گئے تھے لیکن اگر دماغ میں ایک بات آئی اور ہاتھ پاؤں سے اُس نے عمل نہیں کروایا تو پھر اسلامی اصول کے ماتحت اس کے نام ایک نیکی لکھی جائے گی کہ اس کے دل میں بُرا خیال بھی آیا لیکن پھر بھی اِس نے اُس پر عمل نہیں کیا۔ تو چونکہ وہ ایک نیکی لکھی گئی اس لئے اس کو اس کی شرمندگی والی باتوں میں بیان نہیں کیا جائے گاکیونکہ ایک طرف خداکا اس کو نیکی قرار دینا اور دوسری طرف اس کو باعثِ فضیحت بنانا یہ خدا کے انصاف کے خلاف ہے۔ اگر تو وہ اس کو بدی قرار دیتا تو پھر بیشک اس کو فضیحت کی جگہ پر استعمال کر سکتا تھا لیکن اس نے تو خود فیصلہ کر دیا کہ دماغ کے خیال کو نیکی تصور کیا جائے گااور جب نیکی تصور ہوگی تو اب اُس کو فضیحت کا ذریعہ نہیں بنایا جاسکتا تھا۔ پس معلوم ہؤا کہ ہماری روحانی ڈائری میں بڑے سے بڑے مُجرم کو بھی کچھ پردہ پوشی کا حق دے کر اُس کی عزت کی حفاظت کی جائیگی۔
ریکارڈ کی غرض محض مُجرموں پر اتمامِ حُجّت
ہوگی ورنہ عالِمُ الْغیب خدا سب کچھ جانتاہے
یہ دفتر کتنا مکمل اور کتنا شاندار ہے مگر اسی پر بس نہیں۔ اس طرح
تمام قسم کی حُجّت پوری کرنے کے بعد فرمایا کہ دیکھو میاں یہ خیال نہ کر لینا کہ ڈائری نویس کی ڈائری کے مطابق تمہیں مُجرم بنا دیا جاتا ہے، یہ نہ سمجھ لینا کہ اس ریکارڈ کے مطابق تمہیں مُجرم قرار دیا جاتا ہے، ہم تو تمہیں مذہب کے ذریعہ یہ کہا کرتے تھے کہ ہم عَالِمُ الْغیب ہیں پھر ہم کو عَالِمُ الْغیب ہونے کے لحاظ سے اس ڈائری کی کیا ضرورت تھی اور اس ریکارڈ کی کیا حاجت تھی ہم تو سب کچھ جانتے تھے۔ اس کی ضرورت محض اس لئے تھی کہ تم پر حُجّت ہو جائے ورنہ ہمیں فرشتوں کو ڈائری لکھنے پر مقرر کرنیکی ضرورت نہیں تھی، ہمیں کسی ریکارڈ کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمیں یہ ضرورت تھی کہ یہ تمہارے سامنے پیش ہوں اور تمہیں پتہ لگ جائے کہ ہم بِلا وجہ سزا نہیں دیتے بلکہ پوری طرح حُجّت قائم کرکے دیتے ہیں چنانچہ فرماتا ہے۔ اِنَّهٗ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَ مَا يَخْفٰى11 اللہ تعالیٰ تمام باتیں جو ظاہر ہیں اور مخفی ہیں ان کو جانتا ہے۔ اس کو نہ کسی فرشتہ کے ریکارڈ کی ضرورت ہے نہ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ کی ضرورت ہے نہ ہاتھ پاؤں کی گواہی کی ضرورت ہے اس کے علم میں ساری باتیں ہیں۔
پھر فرماتا ہے اَلَاۤ اِنَّهُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ لِيَسْتَخْفُوْا مِنْهُ١ؕ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَهُمْ١ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَ مَا يُعْلِنُوْنَ12اے لوگو! سُن لو کہ مشرک اور اللہ تعالیٰ کے مخالف لوگ اپنے سینوں کو مروڑتے ہیں تاکہ اُس سے مخفی ہو جائیں۔ یہاں محاورہ کے طور پر سینہ مروڑنا استعمال ہؤا ہے۔ کیونکہ جب کسی چیز کو چکر دیتے ہیں تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کے پیچھے کچھ چُھپ جائے۔ لیکن جو دل کی بات ہو اس کے لئے ظاہری سینہ نہیں مروڑا جاتا۔ پس اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن کے نتیجہ میں اُن کے دلوں کے رازظاہر نہ ہو جائیں۔ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَهُمْ١ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَ مَا يُعْلِنُوْنَ۔ سنو!جب یہ اپنے اوپر کپڑا اوڑھتے ہیں (عربی زبان میں اِسْتَغْشٰی ثَوْبَہٗ یا اِسْتَغْشٰی بِثَوْبِہٖ دونوں استعمال ہوتے ہیں۔ اور اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ایسی طرز پر کپڑا لیا جس سے آواز دب جائے۔ یہ لفظ عام کپڑا اوڑھنے کے لئے نہیں بولا جاتا بلکہ آواز کے دبانے کے لئے بولا جاتا ہے۔ پس يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَهُمْکے معنے یہ ہیں کہ جس وقت وہ اپنے کپڑے اس طرح اوڑھتے ہیں کہ آواز دب کے باہر نہ نکلے) تو وہ جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے۔
مفسّروں کی ایک غلط فہمی
اس محاورہ کی وجہ سے مفسّرین کو غلطی لگی ہے اور انہوں نے اس آیت کے ماتحت بعض ایسی
روایتیں درج کر دی ہیں جنہیں پڑھ کر ہنسی آجاتی ہے۔ بیشک منافق بڑا گندہ ہوتا ہے اور منافق بے وقوف بھی ہوتا ہے لیکن وہ حرکت جو مفسّرین ان کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ تو بہت ہی چھوٹے بچوں والی ہے۔ کہتے ہیں منافق لوگ اللہ تعالیٰ سے چُھپانے کے لئے لحاف اوڑھ کر اس کے اندر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف باتیں کیا کرتے تھے۔ حالانکہ اگر اس کے یہ معنے کئے جائیں تو یہ بچوں کا کھیل بن جاتا ہے۔ درحقیقت یہ محاورہ ہے اور ''کپڑے اوڑھتے ہیں'' کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسی تدبیریں کرتے ہیں کہ کسی طرح ان کے دل کی بے ایمانی لوگوں پر ظاہر نہ ہو جائے۔
مُجرم اپنے اعمال بھول جائیں گے مگر
خداتعالیٰ کے علم میں سب کچھ ہوگا
بہرحال فرماتا ہے کہ ہمیں کسی ڈائری نویس کی ضرورت نہیں، کسی ریکارڈ کی ضرورت نہیں ہم
تو آپ سب کچھ جانتے ہیں۔چنانچہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس دلیل کو بھی لے گا۔ فرماتا ہے يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا١ؕ اَحْصٰىهُ اللّٰهُ وَ نَسُوْهُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ13جب قیامت کے دن ان سب کو اکٹھا کیا جائے گاتو اللہ تعالیٰ علاوہ ان ڈائریوں کے اور علاوہ اس ریکارڈ کے فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا فرمائے گا ہمیں آپ بھی پتہ تھا، لو اب سن لو ہم تمہیں سناتے ہیں۔ چنانچہ وہ اُن کے سارے اعمالنامے انہیں سنانے شروع کر دیگا۔ اَحْصٰىهُ اللّٰهُ وَ نَسُوْهُ اور جب وہ بیان کرے گا تو پتہ لگے گاکہ اُن کے اعمال خدا کو تو یاد تھے مگر وہ آپ بُھول گئے تھے کہ ہمارے یہ یہ اعمال ہیں۔ گویا سب کچھ کرنے کے باوجود اُن کو پتہ نہیں تھا کہ ہم نے کیا کام کئے ہیں۔ جب خدا نے سنائے تو انہیں پتہ لگ گیا کہ تفصیل کیا ہے۔ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ اور اللہ تعالیٰ تو ہر چیزکا نگران اور گواہ ہے۔ فرشتوں کی اُس کو ضرورت نہیں صرف لوگوں پر حُجّت قائم کرنے کے لئے اُن کی ضرورت ہے۔
ملائکہ کی ضرورت کے متعلق ایک لطیف نکتہ
اِس جگہ اُس سوال کا جواب بھی آگیا جو
بعض لوگ کیا کرتے ہیں کہ جب خدا عَالِمُ الْغَیب ہے تو فرشتوں کی کیا ضرورت ہے؟ فرماتاہے فرشتوں کی تمہارے لئے ضرورت ہے اُس کے لئے ضرورت نہیں۔ چنانچہ جب وہ قاضی القضاۃ ان مجرموں کو کچا چٹھا سنانا شروع کرے گا تو ان پر یہ راز کھلے گا کہ وہ اپنے ہزاروں اعمال بُھول گئے تھے اب اس بیان سے بُھولی ہوئی باتیں انہیں پھر یاد آنی شروع ہونگی۔
خداتعالیٰ کے علمِ ازلی کی شہادت
اس کے بعد فرماتا ہے کہ اُن ڈائریوں کے علاوہ جو فرشتوں نے لکھ رکھی ہیں
اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہم نے جو کچھ تم کو بتایا ہے اس کے علاوہ بھی ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمارا کیسا علم ہے۔ اب تک تو ہم نے یہ بتایا ہے کہ تم نے جب کام کئے تھے تو ہم دیکھ رہے تھے اور ہم کو سب کچھ پتہ تھا فرشتوں کی ہمیں ضرورت نہیں تھی۔ مگر اب ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ جب تم نے یہ کام کئے بھی نہیں تھے تب بھی ہم نے ازل سے ہی تمہارے یہ کام لکھے ہوئے تھے اس لئے ہمیں تمہارے فعل کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارا علمِ ازلی بتا رہا تھا کہ تم نے کَل کو یہ فعل کرنا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْهِ وَ يَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّ لَا كَبِيْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا١ۚ وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا١ؕ وَ لَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا14 اور جس دن خدا کے ازلی علم کی کتاب پیش کی جائیگی اور کہا جائے گاکہ دیکھو! تم تو اَب پیدا ہوئے اور تم سے اب عمل سرزد ہوئے اور خدا کے علم میں آئے لیکن خدا کو ازلی طور پر بھی ہمیشہ سے اس کا علم تھا۔ اور اس نے پہلے سے تمہارا یہ حساب لکھا ہؤا تھا کہ فلاں پیدا ہوگا، فلاں چوری کرے گا اور فلاں نیک ہوگا۔ یہ علمِ ازلی خدا ان کے سامنے رکھے گا اور اُن سے کہے گاکہ دیکھ لو یہ ہمارا آج کا علم نہیں بلکہ ہمیں ہمیشہ سے یہ علم تھا پس ہمیں کسی فرشتہ کی ضرورت نہیں۔ فرشتے نے تو اُس دن معلوم کیا جس دن تم نے وہ فعل کیا اور ہمارے حاضر علم میں یہ اُس دن بات آئی جس دن تم نے وہ فعل کیا مگر ہمارے ازلی علم میں یہ اربوں ارب سال پہلے سے موجود تھی اور ہمیں پتہ تھا کہ تم نے یہ کام کرنا ہے۔ اُس وقت مُجرم اُس کو دیکھ کر ڈر رہے ہونگے اور وہ کہیں گے یَا وَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ ۔ ارے !ہم تومر گئے۔ یَا وَيْلَتَنَا ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں۔ میری ماں مرے۔ ہماری زبان کے اس محاورہ کے مقابلہ میں عربی زبان کا محاورہ ہے یَا وَيْلَتَنَا ۔ ارے ہلاکت میرے اوپر آکر پڑ گئی مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّ لَا كَبِيْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا۔ یہ قسمت اور اعمالنامہ کی کیسی کتاب ہے کہ نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتی ہے نہ بڑی چھوڑتی ہے۔ ساری کی ساری اس میں موجود ہیں۔ وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۔ اور جس طرح وہ قدیم سے موجود تھا اسی طرح وہ حال میں بھی اُسے دیکھیں گے۔ وہ خدا کے سامنے لاکھوں سال کے بعد یا سینکڑوں اور ہزاروں سال کے بعد پیش ہونگے مگر وہ دیکھیں گے کہ اُس میں سب کچھ پہلے سے لکھا ہؤا موجود ہے۔ وَ لَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا اور خدا تعالیٰ اپنے پاس سے کوئی سزا نہیں دیگا بلکہ اُن کے جُرموں کے مطابق انہیں سزا دیگا۔
عالَمِ روحانی میں ہر جُرم کے لئے
دس گواہ پیش کئے جائیں گے
گویا اس دفتر میں چار گواہیاں ہوگئیں۔ ایک تو فرشتوں کی ڈائری پیش کی گئی۔ ایک ہاتھ، پاؤں، آنکھ، کان، زبان اور
جلد کا ریکارڈ پیش ہؤا۔تیسرے خدا نے کہا میں خود بھی دیکھ رہا تھا مجھے فرشتوں کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ چوتھے پُرانا ازل کا چِٹھا پیش ہؤا اور انہیں کہا گیا کہ یہ تو ہمیشہ سے علمِ الٰہی میں موجود تھاچنانچہ دیکھ لو یہ لکھا ہؤا ہے۔
ہماری شریعت نے اس دنیا میں بڑے سے بڑے گناہ کی چار گواہیاں مقرر کی ہیں مثلاً زنا ہے اس کے لئے لکھا ہے کہ چار گواہ ہوں۔ باقی گواہیوں میں سے بعض دو دو سے ہوجاتی ہیں اور بعض جگہ ایک گواہ سے بھی گواہی ہو جاتی ہے۔ مگر خدا کے سامنے اتنا انصاف کیا جائے گاکہ وہ چار گواہ ایسے پیش کئے جائیں گے جو نہایت معتبر ہونگے۔ اوّل فرشتوں کی گواہی جو ایک نہیں بلکہ دو ہونگے گویا اس ایک گواہی میں دو گواہیاں آگئیں،پھر ریکارڈ آگیا اس ریکارڈ میں بھی چھ گواہ ہیں آنکھ ، کان، زبان، جلد، ہاتھ اور پاؤں یہ چھ گواہ ہونگے جن کی گواہی ہوگی۔ گویا آٹھ گواہ ہو گئے۔ پھر خدا نواں گواہ اور دسواں علمِ ازلی۔ غرض دس گواہوں کے ساتھ وہاں چھوٹے سے چھوٹے جُرم کی سزا دی جائیگی حالانکہ اس دنیا میں دو دو گواہ اور وہ بھی جو آٹھ آٹھ آنے لے کر قرآن اُٹھا لیتے ہیں، اُن کی گواہیوں پر فیصلہ ہو جاتا ہے۔
دُنیا میں آٹھ آنہ کے گواہوں پر مقدمات کا فیصلہ
ہمارے بڑے بھائی مرزا
سلطان احمد صاحب جو بعدمیں احمدی ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو اُن کا نوکری کرنا پسند نہیں تھا لیکن ان کو نوکری کا شوق تھا۔ چنانچہ وہ نوکر ہوئے اور آخر ڈپٹی کمشنر ہو کر ریٹائر ہوئے۔ اُن دِنوں نارتھ ویسٹرن پراونس اور پنجاب یہ دونوں صوبے اکٹھے ہوتے تھے۔ اور وہ کیمل پور یا میانوالی کے علاقہ میں یا شاید ڈیرہ غازیخان میں ای۔اے۔سی تھے۔ وہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص جو میرا دوست اور مجھ سے بہت ملنے والا تھا اُس کا میرے پاس کوئی مقدمہ تھا۔ مَیں نے اُس کی دَورے میں پیشی رکھی اور جہاں ہم تھے اُس سے وہ جگہ کوئی پچاس ساٹھ میل پر جاکے آئی۔ چونکہ وہ میرا بے تکلّف دوست تھا میرے پاس آیا اورکہنے لگا مرزا صاحب! مجھے آپ پر بڑا اعتبار تھا کیونکہ آپ دوست تھے لیکن خیر یوں تو آپ نے انصاف ہی کرنا ہے مگر کم سے کم مَیں آپ سے یہ تو امید کرتاتھاکہ آپ مجھے خراب تو نہ کریں گے۔ اب آپ نے پچاس میل پر جاکے گواہی رکھی ہے میں یہاں سے گواہ کس طرح لے کے جاؤنگا۔ میرا خرچ الگ ہوگا اور پھرممکن ہے گواہ انکار کر دیں اور کہیں کہ ہم نہیں جاتے پھر میرے پاس کیا چارہ ہے؟ کہنے لگے میں نے اُس کو کہا کہ میں تو تمہیں عقلمند سمجھ کے تمہارے ساتھ دوستی کرتا تھا تم توبڑے بیوقوف نکلے۔ کہنے لگا کیوں؟ میں نے کہا تم بھی مسلمان اور گواہ بھی مسلمان۔ تم کو پتہ نہیں کہ آٹھ آٹھ آنے میں گواہ مل سکتا ہے۔ پھر یہاں سے گواہ لے جانے کا کیا سوال ہے؟ خیر وہ اُٹھ کر چلا گیا۔ کہنے لگے جب ہم وہاں پہنچے تو پچاس مِیل پر جہاں کوئی شخص نہ اُس کی شکل جاننے والا اورنہ اِس واقعہ کا علم رکھنے والا تھا وہاں گواہ آگئے جنہوں نے قرآن اُٹھایا ہؤا تھا اور انہوں نے آکر کہا۔ خداکی قسم! ہمارے ہاتھ میں قرآن ہے اور ہم سچ بولتے ہیں کہ یہ واقعہ ہؤا ہے۔ کہنے لگے واقعہ کے متعلق تو مجھے پتہ ہی تھاکہ سچا ہے پر یہ بھی پتہ تھا کہ یہ گواہ سارے کے سارے جھوٹے ہیں بہرحال میں نے اُس کے حق میں ڈگری دے دی اور پھر میں نے اُس کو کہا کہ میاں! اس میں تجھ کو گھبراہٹ کس بات کی تھی۔ آٹھ آٹھ آنے لے کر تو مسلمان گواہی دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ تو دیکھو اسلامی سزا کتنی کامل تحقیقات کے بعد ہوتی ہے کہ جس میں کوئی شائبہ بھی کسی قسم کے شبہ کا پیدانہیں ہوتا۔
مسئلۂ تقدیر اور قسمت
شاید کسی کے دل میں خیال آئے کہ میں نے جو کتاب ازلی کا ذکرکیا ہے تو اس سے معلوم ہؤا کہ تقدیر اور قسمت
کا مسئلہ اُسی شکل میں ٹھیک ہے جس طرح عوام الناس سمجھتے ہیں مگر یہ غلط ہے۔ قرآن تقدیر اور قسمت کا مسئلہ اُس طرح بیان نہیں کرتا جس طرح کہ عام مسلمان اپنی ناواقفیت سے سمجھتے ہیں بلکہ قرآن کریم کے نزدیک تقدیر اور قسمت کے محض یہ معنے ہیں کہ ہر انسان کے لئے ایک قانون مقرر کر دیا گیا ہے کہ اگر وہ ایسا کام کرے گا تواس کا یہ نتیجہ نکلے گا۔ مثلاً اگرمرچیں کھائے گا تو زبان جلے گی، اگر تُرشی کھائے گا تو نزلہ ہو جائے گااور گلا خراب ہو جائے گا، اگر کوئی سخت چیز کھا لے گاتو پیٹ میں درد ہو جائے گایہ تقدیر اور قسمت ہے۔ یہ تقدیر اور قسمت نہیں کہ فلاں شخص ضرور ایک دن سخت چیز کھائے گا اورپیٹ میں درد ہو جائے گا۔ یہ جھوٹ ہے۔ خدا ایسا نہیں کرتا۔ قرآن اِس سے بھراپڑا ہے کہ یہ باتیں غلط ہیں۔ پس یہ جو ہمیشہ سے لکھا ہؤا ہونا ہے اس کا تقدیر اور قسمت سے کوئی تعلق نہیں اس لئے کہ تقدیر اور قسمت تب بنتی ہے جب خداکے لکھے ہوئے کے ماتحت انسان کام کرے۔ اگر یہ ضروری ہو کہ جو کچھ خدا نے لکھاہے اُسی کے مطابق اس کو کام کرنا چاہئے تو پھر یہ جبر ہو گیااور تقدیر اور قسمت ٹھیک ہو گئی لیکن جو قرآن سے تقدیر ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا اس بات میں بندے کے تابع ہوتاہے اورجو اس بندے نے کام کرنا ہوتاہے خدا اُسے لکھ لیتا ہے۔ تقدیر اور قسمت تو تب ہوتی جب خدا مجبور کرتا اور یہ بندہ خدا کے جبر سے وہ کام کرتا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ بندہ وہ کام کرتا ہے اور خدا ا س کے جبرکے ماتحت وہی بات لکھتاہے جو اُس نے کرنی ہے۔ اس لئے یہ تو تم کہہ سکتے ہو کہ لکھنے کے بارہ میں خدا پر وہ تقدیر حاوی ہے جو انسانوں پر قیاس کی جاتی ہے۔ یہ تم نہیں کہہ سکتے کہ بندوں کی قسمت میں خدا نے جبر کرکے کوئی اعمال لکھے ہوئے ہیں۔
عالَمِ روحانی میں مُجرموں کے فیصلہ کی نقول
پھر اس دنیا میں قاعدہ ہے کہ لوگ ریکارڈ کی
کاپی مانگتے ہیں۔ انہیں خیال ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو دکھائیں گے اور غور کریں گے کہ یہ سزا ٹھیک ملی ہے یا نہیں ؟اس غرض کے لئے لوگ ریکارڈ اور فیصلہ کی کاپی مانگتے ہیں اور اس کے بڑے فائدے ہوتے ہیں مگر اس دنیا کی گورنمنٹوں نے یہ طریق رکھا ہؤا ہے کہ وہ پیسے لے کر ریکارڈ دیتی ہیں۔ جب کوئی نقل لینے آتاہے تو کہتے ہیں پیسے داخل کراؤ مثلاً پندرہ روپے یا بیس روپے یا پچیس روپے۔ نقل نویسوں نے حرف گِنے اورکہہ دیا کہ اتنے روپے داخل کرو تو ریکارڈ مل جائے گا۔ پھر کہا کہ اگر جلدی نقل لینی ہے تو ڈبل یا تین گُنا فیس دو۔ میں نے دیکھا کہ آیا وہاں بھی کوئی نقل ملتی ہے یا نہیں ؟اور آیا اُن کو تسلی ہوگی کہ گھر جاکر آرام سے بیٹھ کر دیکھیں گے کہ سزا ٹھیک ملی ہے ؟جب میں نے غورکیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ وہاں بھی نقلیں ملیں گی چنانچہ فرماتا ہے وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ١ۙ۬ فَيَقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِيَهْۚ۔وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِيَهْۚ۔يٰلَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ۔ 15 یعنی یہاں تو کچھ دِنوں کے بعدنقل ملتی ہے یا اگر جلدی لینی ہو تووہ بھی تین چار دن میں ملتی ہے اور اس کے لئے کئی گُنے زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے مگر وہاں اِدھر فیصلہ ہوگا اور اُدھر اگر وہ مُجرم ہے تو اُس کے بائیں ہاتھ میں مُفت نقل پکڑا دی جائے گی اور کہا جائے گاکہ یہ تمہارے اعمالنامہ اور فیصلہ کی نقل ہے اور یہ نقل مُفت ملے گی کوئی پیسہ نہیں دینا پڑے گا۔
فیصلہ کی نقل دینے کا فائدہ
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ریکارڈ کی نقل دینے کا زائد فائدہ کیا ہے؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ
اس کا فائدہ یہ ہے کہ سزا ملنے پر انسان کم سے کم اپنی کانشنس کو تسلی دیتا ہے کہ میرا جُرم اتنا نہیں جتنا مجھے مجرم بنایا گیا ہے لیکن جب وہ ریکارڈ پڑ ھے گا تو اُسے معلوم ہوگا کہ جُرم سے کم ہی سزا ملی ہے زیادہ نہیں۔ اُس وقت وہ کہے گا يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِيَهْ۔کاش ! یہ کتاب مجھے نہ دی جاتی تاکہ کم سے کم میری کانشنس تو تسلی پاتی کہ شاید میرے گناہ کچھ زیادہ سمجھ لئے گئے ہیں ورنہ میں اتنا مُجرم نہیں مگر اس سے تو پتہ لگتا ہے کہ گناہ زیادہ ہیں اور سزا کم ہے ۔ وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ اور مجھے یہ نہ پتہ لگتا کہ میرا حساب کیا ہے کیونکہ حساب زیادہ بنتا ہے۔ حساب بنتا ہے دو سَو سال کی قید اور سزا دی ہے ایک سَو پچاس کی۔ میری کانشنس(CONSCIENCE) اُلٹا مجھے مجرم بناتی ہے کہ میں نے جُرم بھی کئے، غداریاں بھی کیں، فریب بھی کئے پھر بھی سزا مجھے کم ملی۔ مجھے پتہ نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے تو میری کانشنس کو کچھ تسلی رہتی۔
نیک لوگوں کو بھی فیصلہ کی نقلیں دی جائیں گی
اِسی طرح فرماتا ہے کہ جو نیک کام کرنے
والے ہیں اُن کو بھی ڈائریوں اور اُن کے فیصلہ کی نقل دی جائے گی چنانچہ فرماتا ہے فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ١ۙ فَيَقُوْلُ هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْۚ۔اِنِّيْ ظَنَنْتُ اَنِّيْ مُلٰقٍ حِسَابِيَهْ۔16 یعنی جو نیک لوگ ہونگے اُن کو بھی فوراً کاپی دیدی جائیگی لیکن اُن کے دائیں ہاتھوں میں کاپی دی جائے گی اور جب وہ اُس کو پڑھیں گے تو اُس میں اُن کے اعمالنامہ کو ایسا خوبصورت کرکے دکھایا ہوگا اور وہ ایسے اچھے ٹائپ پر لکھا ہوگا کہ کہیں گے هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْ۔ ارے بھائی! ادھر آنا ذرا پڑھو تو سہی یہ کیا لکھا ہؤا ہے۔ جب کسی شخص کو کوئی انعام ملتا ہے تو وہ لازمی طور پر دوسرے لوگوں کو بھی اُس میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ پس هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْمیں نقشہ کھینچ دیا گیا ہے کہ وہ فخر کرکے لوگوں کو بلائے گا اور کہے گاآؤ میاں! آؤ! ذرا دیکھو میرے اعمال کیا ہیں۔ اِنِّيْ ظَنَنْتُ اَنِّيْ مُلٰقٍ حِسَابِيَهْ ۔مجھے تو پہلے سے ہی یہ امید تھی کہ اللہ تعالیٰ کسی کا حق نہیں مارتا۔ میں نے جو نیک کام کئے ہیں مجھے ان کا ضرور بدلہ ملے گا، سو اُمیدوں سے بڑھ کر ملا۔
دُنیوی حکومتوں کے نظام میں مختلف نقائص
دیکھو دفاتر اور ڈائریوں کا ایسا مکمل اور بے اعتراض
نظام دنیا کی مہذب سے مہذب حکومت میں بھی نہیں ہوتا۔ دُنیوی حکومتوں نے تو حال میں یہ ڈائری نویسی کے انتظام شروع کئے ہیں۔ چنانچہ ڈائری نویسی کے انتظام کا کوئی ہزار پندرہ سَو سال سے پتہ لگتا ہے اس سے پہلے نہیں بلکہ صرف ہزار سال کے قریب ہی عرصہ ہؤا ہے۔ لیکن قرآنی حکومت نے تیرہ سَو سال پہلے اس کا مکمل نقشہ کھینچا ہے کہ ڈائری ہونی چاہئے، ڈائری نویس کی صداقت کا ثبوت ہونا چاہئے اور مجسٹریٹ کو پتہ ہونا چاہئے کہ سچائی کیا ہے؟ یہ تین چیزیں جمع ہوں تب سزا کے متعلق یہ تسلی ہو سکتی ہے کہ سزا ٹھیک ہے۔ ہمارے ہاں اوّل تو ڈائری نویس جھوٹا بھی ہوتا ہے اور سچا بھی ہوتاہے۔ پھر اس کی تصدیق کرنے والے کوئی نہیں ہوتے بلکہ بنائے جاتے ہیں۔ تیسرے مجسٹریٹ بیچارے کو کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا۔
حضرت امام ابو حنیفہؒ کا
قاضیُ القضاۃ بننے سے انکار
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو بادشاہ نے قاضیُ القضاۃ مقرر کیا تو انہوں نے اس عہدہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا میں
قاضیُ القضاۃ نہیں بنتا۔ بادشاہ خفاہو گیا اور اس نے کہا میں اس کو سزا دونگا کیونکہ انہوں نے ہتک کی ہے۔ مگر چونکہ لوگوں میں خبر مشہور ہو چکی تھی اس لئے ان کے دوست دُور دُور سے انہیں مبارک باد دینے کے لئے پہنچے کہ آپ قاضیُ القضاۃ مقرر ہو گئے ہیں۔ لیکن جب شہر میں پہنچے تو پتہ لگا کہ آپ نے تو انکار کر دیا ہے۔ بہرحال وہ آپ کے پاس آئے اورکہا ہم تو مبارکباد دینے کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے کہا تم کس بات کی مبارک باد دینے کے لئے آئے تھے؟ وہ کہنے لگے اتنی بڑی حکومت کا آپ کو قاضیُ القضاۃ مقرر کیا گیا ہے کیا ہم مبارکباد نہ دیں؟ انہوں نے کہا تم بڑے بیوقوف ہو، میں کیا کرونگا؟ میں عدالت میں جاکر بیٹھوں گا اور دو آدمی میرے سامنے پیش ہونگے۔ ایک کہے گا اِس نے میرا سَو روپیہ دینا ہے دوسرا کہے گامیں نے کوئی نہیں دینا۔ اب وہ دونوں آپس میں جھگڑ رہے ہونگے، یہ کہے گادینا ہے وہ کہے گانہیں دینا اورمیں بیچ میں بیٹھا ہونگا کیونکہ مجھے حکومت نے مقرر کیا ہے کہ فیصلہ کرو اِس نے دینا ہے یا نہیں دینا۔ وہ جو کہتا ہے اِس نے سَو روپیہ دینا ہے اُس کو پتہ ہے کہ اُس نے دینا ہے یا نہیں دینا۔ اور جو کہتا ہے میں نے نہیں دینا اُس کو بھی پتہ ہے کہ میں نے دینا ہے یا نہیں دینا۔ اور میں جو جج بن کر بیٹھاہونگا مجھے پتہ ہی نہیں ہوگا کہ اِس نے دینا ہے یا نہیں دینا۔ پس سب سے زیادہ قابلِ رحم حالت تو میری ہوگی کہ مدعی کو بھی سچائی کا پتہ ہے اور مدعا علیہ کو بھی سچائی کا پتہ ہے اور میں جو قاضی بن کے بیٹھاہوں جس کے سپرد سب سے اہم کام ہے اُس کو نہیں پتہ کہ حقیقت کیا ہے؟ تومیں کس طرح یہ بوجھ اُٹھا سکتاہوں۔ تو یہ بھی ایک بڑا مشکل سوال ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی قضاء میں دیکھو کتنا زبردست نظام رکھا گیا ہے کہ ہم ڈائری بھی پیش کریں گے، لکھنے والے عینی گواہ بھی لائیں گے اور پھر عینی گواہوں کے علاوہ اپنی زبان اور اپنے کانوں اور اپنے ہاتھ پاؤں کا ریکارڈ لائیں گے تاکہ وہ انکار نہ کر سکیں اور اس کے بعد ہم جو فیصلہ کرنے والے ہیں اُنہیں بتائیں گے کہ ہم بھی وہاں بیٹھے دیکھ رہے تھے اس لئے اس فیصلہ کو کوئی غلط نہیں کہہ سکتا۔
حکومتیں روحانی نظام کی اب تک نقل بھی نہیں کر سکیں
مگر اتنے بڑے زبردست نظام
کو دیکھ کر بھی حکومتیں اسکی نقل نہیں کر سکیں۔ حکومتوں نے ڈائریاں بھی بنائی ہیں، اب ریکارڈر بھی نکال لئے ہیں مگر وہ ریکارڈر کروڑوں مقدموں میں سے کسی ایک میں استعمال ہوتا ہے ہر جگہ نہیں ہو سکتا۔ غرض اتنے نظام کو دیکھنے کے بعد بھی دنیا ایسا نظام نہیں بنا سکی اور ابھی دنیا کہہ رہی ہے کہ قرآن کی ہم کو ضرورت نہیں ہے۔ تیرہ سَو سال سے یہ اعلیٰ درجہ کا نظامِ حکومت قرآن بیان کرتا ہے اور تیرہ سَو سال سے اس کو تفصیل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، تیرہ سَو سال سے مہذب دنیا کی حکومتیں اِس کو دیکھتی ہیں اور اس کی نقل کرنیکی کوشش کرتی ہیں مگر تیرہ سَو سال کے عرصہ میں اس کی مکمل نقل نہیں کر سکیں۔ اگر وہ ڈائریاں لکھنی شروع کرتی ہیں تو ان کو سچے ڈائری نویس نہیں ملتے۔ اگر ڈائری نویس کی تصدیق کا ثبوت ملتاہے تو پہلے تو اُن کو اِس کا پتہ ہی نہیں تھا اب ریکارڈر نکالا تو وہ ریکارڈر کو ہر جگہ استعمال نہیں کر سکتے۔ اور اگر ریکارڈر ہو بھی تو پھربھی جج کو صحیح پتہ نہیں لگ سکتا اورکوئی ایسا جج اُن کو نہیں مل سکتا جس کو پتہ ہو کہ واقعہ کیا ہے۔ وہ محض قیاسی باتیں کرتا ہے۔ چنانچہ ہزاروں دفعہ ایسا ہؤا ہے کہ جج نے ایک فیصلہ کیا ہے اور بعد میں معلوم ہؤا ہے کہ وہ فیصلہ غلط تھا۔ ہم نے انگلستان کے بعض فیصلے پڑھے ہیں جن میں یہ ذکر آتا ہے کہ بعض جج پاگل ہو گئے کیونکہ پندرہ بیس سال کے بعد ان کو بعض ایسے واقعات معلوم ہوئے کہ جس شخص کو انہوں نے پھانسی دی تھی وہ بالکل مُجرم نہیں تھا اور وہ اس صدمہ کے مارے کہ ہم نے اتنا ظلم کیا ہے پاگل ہو گئے۔ لیکن قرآن کا جج دیکھو اُس کے پاس ڈائریوں کا کتنا بڑا نظام ہے اور پھر کس یقین کے ساتھ وہ کہتاہے کہ نہیں اصل حقیقت یہ ہے۔
مخلص اور پارسا اور توبۃ النصوح
کرنے والوں کو ایک خدشہ
ایک اَور بات بھی یہاں قابلِ غور ہے اور وہ یہ کہ اس نظام کا ذکرسُن کر (جیسے تم میں سے بھی جو ہوشیار آدمی ہونگے اُن
کے دل میں بھی خیال آیا ہوگا)مخلص اور پارسا اور توبۃ النصوح کرنے والوں کے دل بھی ڈر جائیں گے اور وہ کہیں گے کہ آٹے کے ساتھ گھُن بھی پِسنے لگا ہے۔ مجرم تو خیر مجرم تھے ہی لیکن مَیں جو توبہ کرنے والا ہوں یا مَیں جس نے ساری عمر کوشش کرکے نیکیاں کی ہیں میرے اعمال کا بھی تو کوئی نہ کوئی حصہ ایسا ہے جس کے متعلق مَیں نہیں چاہتا کہ لوگوں کے سامنے ظاہر ہو۔ اگر یہی ذلّت اور فضیحت ہونی ہے تو میں تو صاف مر گیا۔ ابوجہل تو ڈوبے گا ساتھ اس کے کئی صحابہؓ کے اعمال جو چُھپانے والے ہونگے وہ بھی ظاہر ہو جائیں گے۔ اس طرح دوسرے نیک لوگوں کے بھی ظاہر ہو جائیں گے۔ ہمارے ہاں مشہور ہے کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کا قریب ترین جو شاگرد تھا وہ پہلے ڈاکو اور چور ہوتا تھا۔ اب وہ بزرگ صاحب پیش ہوئے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور اسلام کی خدمت کرنے والے ہیں اور ریکارڈ شروع ہؤا کہ انہوں نے فلاں جگہ چوری کی، فلاں جگہ ڈاکہ مارا تو ذلّت تو ہوگی۔ اب ایسا شخص ملنا سوائے چند افراد کے بہت مشکل ہے کہ جس کی زندگی کا کوئی حصہ بھی ایسا نہ ہو جس کو ریکارڈ پر نہ لایا جا سکے۔ اگر اس دفتر میں ایک ایک عمل اور ایک ایک خیال چار چار ریکارڈوں میں موجود ہے تو کافر تو ذلیل ہونگے ہی مؤمن کو بھی جنت ہز ار رُسوائی کے بعد ہی ملے گی۔ پھر اس کا مزہ کیا آئیگا؟ تائب کہے گاکہ توبہ تو منظور ہو گئی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِمگر کلنک کا ٹیکا تو ماتھے کو لگ ہی گیا۔
ریکارڈر آپ ہی نہیں بجتا بلکہ
مالک جب بجاتا ہے تب بجتا ہے
مگر اس دفتر ریکارڈ میں جب ہم نے قاعدے دیکھے اور غور کیا کہ اچھا اس کے لئے کیا سامان موجود ہے؟ تو معلوم ہؤا کہ
اُس نے اِس خدشہ کا بھی علاج کیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ایسی کوئی بات پیش ہی نہ ہو کیونکہ ہم نے جب ریکارڈ دیکھا تو قانون یہ نکلا کہ وَ قَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا١ؕ قَالُوْۤا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْۤ اَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَّ هُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ17 جب اُن کے ہاتھوں نے اور پیروں نے گواہیاں دینی شروع کیں تو انہوں نے کہا ارے کمبختو! تم تو ہمارا حصہ تھے۔ اے کان! تُو میرا تھا، اے آنکھ! تُو میری تھی، اے زبان! تُو میری تھی، اے جِلد! تُو میری تھی، اے ہاتھ! تم میرے تھے، اے پاؤں! تم میرے تھے کمبختو! تمہی نے میرا بیڑا غرق کرنا تھا کہ یہ باتیں کرنی شروع کر دیں۔
صِرف جِلد کا انتخاب اُس کے نمائندہ
ہونے کی حیثیت سے کیا گیا ہے
اِس جگہ اللہ تعالیٰ نے ان اعضاء کے صرف ایک نمائندہ یعنی جِلد کو لے لیا ہے کیونکہ جِلد ان سب
چیزوں کو ڈھانپتی ہے۔جِلد کان پر بھی ہوتی ہے،جِلد زبان پر بھی ہوتی ہے، جِلد آنکھوں پر بھی ہوتی ہے،جِلد پیروں پر بھی ہوتی ہے،جِلد ہاتھوں پر بھی ہوتی ہے۔ پس چونکہ جِلد نمائندہ ہے تمام اعضاء کا اس لئے یہاں صرف جِلد کا لفظ رکھا گیا ہے۔ بہرحال جب وہ یہ کہیں گے تو ان اعضاء کا نمائندہ آگے سے یہ جواب دیگا کہ بھئی! ہم کوئی اپنے اختیار سے بولے ہیں؟ یہ ریکارڈر آپ ہی نہیں بجا کرتے بلکہ مالک جب سُوئی رکھتا ہے اور اس کو بجانا چاہتا ہے تب بجتے ہیں۔ اُس نے جب سُوئی رکھ دی تو ہم کیا کریں پھر تو ہم نے بجنا تھا۔
عالَمِ روحانی کا ایک اور خوشکن قانون
اس سے ایک شخص کے دل کو کم از کم اتنی تسلی ہو گئی کہ ریکارڈر
نے آپ ہی نہیں بجنا، بجانے والا بجوائے گا تو بجے گا۔اب دیکھیئے بجوانے والا بجواتا ہے یا نہیں اور کوئی عزت رہ جاتی ہے کہ نہیں؟ سو اس کے متعلق قاعدہ دیکھا تو یہ قاعدہ نکلا کہ يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ١ؕ وَ مَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ يَعْمَلْ صَالِحًا يُّكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّاٰتِهٖ وَ يُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ18 جس دن ہم ان سب لوگوں کو جمع کریں گے اور وہ دن ایسا ہوگا جب ایک دوسرے پر اُس کی غلطیوں کا الزام لگایا جائے گا(تغابن کے معنے ہیں وہ کہے گااِس نے فساد کئے ہیں یہ کہے گا اُس نے کئے ہیں) تو اُس دن اچھی طرح جانچ پڑتال ہوگی۔ پھر کیا ہوگا؟ وَ مَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ يَعْمَلْ صَالِحًا جو ایمان لانیوالا ہوگا اور عملِ نیک کرنے والا ہوگا اُس نے کچھ بدیاں تو کی ہونگی، کچھ غلطیاں اُس سے بھی صادر ہوئی ہونگی، کچھ کمزوریاں اُس سے بھی ہوئی ہونگی مگر يُّكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّاٰتِهٖ ہم کہیں گے اُس تمام جگہ پر جہاں بُرے کام درج ہیں چیپیاں لگا دو تاکہ انہیں کوئی نہ دیکھے۔ لغت میں لکھا ہے کہ التَّکْفِیْرُ سَتْرُہٗ وَ تَغْتِیْتُہٗ حَتّٰی یَصِیْرَ بِمَنْزِلَۃِ مَالَمْ یُعْمَلْ 19 کہ تکفیر کے معنے ہوتے ہیں ڈھانپ دینا اور اُس پر پردہ ڈال دینا ایسی صورت میں کہ یہ پتہ لگانا ناممکن ہو جائے کہ اس نے فلاں کام کیا تھا۔ تو يُّكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّاٰتِهٖ اللہ تعالیٰ فوراً حکم دیگا کہ یہاں چیپیاں لگا دی جائیں تاکہ یہ یہ جگہ سامنے آئے تو پتہ ہی نہ لگے کہ اس نے یہ کام کیا تھا۔ اِس طرح بتایا گیا کہ صرف امکان ہی نہیں ہے بلکہ وقوعہ بھی یہی ہوگا کہ مؤمن اور نیک عمل کرنے والے اور تائب کی غلطیوں پر چیپیاں لگا کر انہیں چُھپا دیا جائے گا اور کسی کو پتہ نہیں لگے گا کہ اِس نے کوئی گناہ کیا ہے۔
اگر مؤمن کی غلطیوں پر پردہ نہ ڈالا جاتاتو
وہ اپنے اعمالنامہ پر فخر کس طرح کر سکتا
اگر چیپیاں نہ لگی ہوتیں تو مؤمن کیوں کہتا کہ هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْ آؤ ذرا میرا
اعمالنامہ پڑھو۔ اگر پڑھاتا تو ساتھ بدیاں بھی نکل آتیں اور اگر اعمالنامہ میں بدیاں بھی لکھی ہوئی ہوتیں تو چاہے اُسے جنت ہی ملی ہوتی وہ اُسے اپنی بغل میں دبا لیتا اور کہتا مجھے جنت ملی ہے مجھے انعام ملا ہے۔ اگر کوئی کہتا ذرا کتاب دکھانا تو جواب دیتا نہیں نہیں! میں پھر دکھاؤنگا ۔ کیونکہ وہ ڈرتا کہ دیکھے گا تو بیچ میں بدیاں بھی نکل آئیں گی۔ مگر چونکہ بدیوں پر چیپیاں لگی ہوئی ہونگی اس لئے وہ کہے گا هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْ ارے میاں! آؤ اورمیری کتاب دیکھو میرے اندر کوئی عیب نہیں ہے۔
اعلیٰ درجہ کے مومنوں کی بدیاں
بھی نیکیوں میں بدل دی جائیں گی
اِس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کچھ لوگوں کی غلطیوں کو چُھپا دیا جائے گا وہاں کچھ ایسے بھی
اعلیٰ درجہ کے لوگ ہونگے کہ اُن کی محبت اور قربانی اور توبہ کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ صرف اُن کی بدیوں کو چُھپائے گا ہی نہیں بلکہ اُنکی بدی کی جگہ نیکی لکھ دیگا۔ چنانچہ فرماتا ہے يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ20 کچھ ایسے مؤمن ہونگے کہ اُن کے اعلیٰ درجہ کو دیکھ کر، اُن کے تقویٰ کو دیکھ کر، اُن کی توبہ کو دیکھ کر، اُن کی دیانت کو دیکھ کر گو غلطیاں بھی انہوں نے کیں، گناہ بھی اُن سے سرزد ہوئے، کمزوریاں بھی اُن سے ہوئیں مگر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہے گایہ میرا بندہ ہے ہم نے اِس کی سزا معاف کر دی ہے اور اس کو معاف کرکے اس کے قُرب کا فیصلہ کیا ہے اس لئے یہاں نیکی لکھ دو۔ چنانچہ جب وہ کتاب پڑھے گا تو جو ادنیٰ درجہ کا مؤمن ہوگا اُس کے اعمالنامہ پر تو چیپیاں لگی ہوئی ہونگی اور اُس کے گناہ کو چُھپایا ہؤا ہوگا۔ اور جو اعلیٰ درجہ کا مؤمن ہوگا اُس کے اعمالنامہ میں وہاں اُس کاکوئی کارنامہ لکھا ہؤا ہوگا۔ مثلاً وہی کام جو پہلا تھا اُس کو بڑھا کر اپنے انعام کے ساتھ اس میں شامل کیا ہوگا۔ گویا اُس کا اعمال نامہ ایک نئی شکل میں ہوگا۔ اِس کی مثال سمجھنے کے لئے یاد رکھنا چاہئے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ گویا جھوٹ کے ساتھ کام لیاجائے گا لیکن یہ جھوٹ نہیں ہوگا۔ میں اس کی ایک مثال دے دیتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ کس طرز پر کام لیا جائے گا۔
حضرت معاویہؓ کی ایک
نماز ضائع ہونے کا واقعہ
آثار میں پُرانے زمانہ کا ایک واقعہ لکھا ہے آجکل تو یہ ہوتا ہے کہ کوئی بڑا آدمی مسجد میں نماز پڑھنے چلا جائے تو سارے شہر میں دُھوم پڑ جاتی ہے کہ آج
فلاں صاحب جمعہ کی نماز کے لئے آئے تھے لیکن پُرانے زمانہ میں اِس کے اُلٹ ہوتا تھا۔ پُرانے زمانہ میں امراء خود نماز پڑھاتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے تھے۔ آپ کے بعد آپ کے خلفاء پڑھاتے تھے اور اس کے بعد جو دُنیوی خلفاء آئے وہ بھی خودنماز پڑھاتے تھے۔ حضرت معاویہؓ کے زمانہ میں خود حضرت معاویہؓ مسجد میں جاکر نماز پڑھاتے تھے۔ ایک دن ایسا ہؤا
کہ کوئی کام کرتے کرتے زیادہ دیر ہو گئی یا کچھ طبیعت خراب تھی نمازکے وقت آواز دینے والے نے آواز دی کہ نماز کھڑی ہو گئی ہے (یہ پرانی سنّت ہے کہ امام کو گھر پر جاکے مؤذن اطلاع دیتا ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے) مگر اُن کی آنکھ نہ کھلی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ وقت جا رہا ہے نماز پڑھا دی۔ جب اُن کی آنکھ کھلی تومعلوم ہؤا کہ نماز ہوچکی ہے۔ اِس پر اُن کو اتنا صدمہ ہؤا کہ سارا دن روتے رہے اور استغفار کرتے رہے اور دعائیں کرتے رہے کہ یا اللہ! میں نے کیا خطا کی تھی اور کیا گناہ کیا تھا کہ اس کے نتیجہ میں آج نماز باجماعت رہ گئی اور میں مسلمانوں کی امامت نہیں کرا سکا۔ دوسرے دن انہوں نے صبح کے قریب ایک کشفی نظارہ دیکھا کہ گویا شیطان آیا ہے اور وہ آکر اُن کو ہلاتا ہے کہ میاں! اُٹھ نماز پڑھ، میاں! اُٹھ نماز پڑھ۔ وہ پہلے تو گھبرائے اور سمجھا کہ کوئی کمرہ کے اندر آگیا ہے کیونکہ خواب میں بھی انسان ایسی چیزوں سے گھبراتا ہے جن سے اُسے گھبرانے کی عادت ہوتی ہے مگر جب انہوں نے پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ میں شیطان ہوں۔ انہوں نے کہا تم شیطان ہو اور مجھے نماز کے لئے جگا رہے ہو؟ کہنے لگا ہاں! میں نماز کے لئے جگا رہا ہوں۔ کَل مَیں نے تمہاری نماز ضائع کرا دی تھی اور ایسے حالات پیدا کر دیئے تھے کہ تم سوتے رہو اور آنکھ نہ کھلے مگر اِس پر تم اتنا روئے اور تم نے اِتنی توبہ کی کہ خداتعالیٰ نے فرشتوں کو حُکم دیا کہ اس کی نماز جو رہ گئی ہے اس کے بدلہ میں دس نیکیوں کا ثواب لکھ دو کیونکہ یہ بہت رویا ہے۔ میں نے کہا میں تو ایک نیکی سے محروم کر رہا تھا اور اس کو دس نیکیاں مل گئیں آج اِسے جگا دو کہ 9 نیکیاں تو بچیں۔ یہ طریقہ ہے بدیوں کی جگہ نیکیاں لکھنے کا۔ یعنی انسان کے دل میں جو ندامت اور توبہ اور انابت پیدا ہوتی ہے اُس کا ثواب اتنا مقرر کر دیا جاتا ہے کہ وہ ان بدیوں کی جگہ کو ڈھانپ لیتا ہے اور اس کی جگہ نیکی بن جاتا ہے۔
بدیوں کو نیکیوں میں بدلنے کی ایک اَور مثال
اِسی طرح ایک دوسری مثال حدیث
میں آتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ لوگوں سے معاملہ کریگا تو ایک وقت ایک مجرم کو نکالا جائے گا۔ اُس کے بڑے جُرم ہونگے مگر اُس کے دل میں کوئی ایسی نیکی ہوگی کہ جس کی وجہ سے خداتعالیٰ کہے گا کہ میں نے اس کو ضرور بخشنا ہے۔ چنانچہ وہ خداتعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا وہ ڈر رہا ہوگا کہ مجھے سزا ملے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے دل میں فیصلہ کر چکا ہوگا کہ اِس کی فلاں نیکی کی وجہ سے میں نے اسے بخشنا ہے۔ مثلاً ممکن ہے اُس کے دل میں محبتِ رسولؐ بڑی ہو یا اللہ تعالیٰ کی بڑی محبت ہو لیکن اعمال میں کمزور ہو۔ یا غریبوں کی اُس نے بڑی خبر گیری کی ہو یا اور کوئی ایسی نیکی ہو جو اتنی نمایاں ہو گئی ہو کہ اللہ تعالیٰ سمجھتا ہو چاہے اس نے کتنے گناہ کئے ہوں مَیں نے اس کو بخش دینا ہے۔ تو جب وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اللہ تعالیٰ کہے گا دیکھو میاں !تم نے فلاں بدی کی۔ وہ کہے گا ہاں حضور مجھ سے ایسا ہو گیا۔ فرمائے گا اچھا فرشتو! اس کے بدلہ میں اس کے دس ثواب لکھ دو۔ پھر پوچھے گا تم نے فلاں بدی کی تھی؟ وہ کہے گا جی حضور کی تھی۔ فرمائے گا اچھا اس کے دس ثواب لکھ دو۔ تو چونکہ اُس کے لئے بخشش کسی ایسی نیکی کی وجہ سے جو اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی مقدر تھی خداتعالیٰ اُس کے گناہ گنانے شروع کر دیگا اور فرمائے گا کہ ان کے بدلہ میں نیکیاں لکھتے چلے جاؤ۔ لیکن اس کے بڑے بڑے گناہ نہیں گنائے گا تاکہ وہ شرمندہ نہ ہو۔ جب اللہ تعالیٰ ختم کر بیٹھے گا تو وہ اپنے دل میں سوچے گا کہ میرے فلاں فلاں گناہ بھی موجود تھے اگر چھوٹے چھوٹے گناہوں کی دس دس نیکیاں ملی ہیں تو ان کی تو سَو سَو ملنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ تو اس کی پردہ پوشی کے لئے ایسا کریگا لیکن جب وہ خاموش ہوگا تو بندہ کہے گاحضور! آپ تو بھول ہی گئے میں نے فلاں گناہ بھی کیا تھا اور فلاں میں نے قتل کیا تھا اُس کو تو آپ نے بیان ہی نہیں کیا۔ اِسی طرح فلاں ڈاکہ آپ نے بیان نہیں کِیا یہ تو چھوٹی چھوٹی باتیں بیان کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہنس پڑے گا کہ دیکھو میرا بندہ میرے عفو پر اتنا دلیر ہو گیا ہے کہ اب یہ اپنے گناہ آپ گناتا ہے 21 تو یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ اس کے معنے اِسی طرز کے ہیں کہ کوئی نہ کوئی نیکی اس کے دل میں ہوتی ہے اور وہ اتنے مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ اُس نیکی کے مقام کی وجہ سے بدی کو نیکی کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ یہی اس کے معنے ہیں۔ اور اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کی اعلیٰ توبہ کی وجہ سے اُن کی دلداری کے لئے اور ان کے دلوں کو تسکین دینے کے لئے اُن کے گناہوں کو بھی نیکی کے ثواب میں بدل دیتا ہے۔
روحانی انعامات کو کوئی شخص
چھیننے کی طاقت نہیں رکھتا
پھر اس سے اوپر میں نے دیکھا کہ اس دفتر میں جن لوگوں کے لئے انعام مقرر ہوئے تھے انہیں کوئی چھین نہیں سکتا تھا۔ برخلاف دُنیوی
انعاموں کے کہ یہاں ایک بادشاہ دیتا ہے اور دوسرا چھین لیتا ہے بلکہ بعض دفعہ وہ بادشاہ آپ ہی چھین لیتا ہے۔
ایک جرنیل کی معزولی دیکھ کر حضرت شبلی ؒ
کا رونا اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنا
تاریخ میں قصہ آتا ہے کہ حضرت شبلی علیہ الرحمۃ جو حضرت جنید بغدادی ؒ کے
شاگرد تھے پہلے وہ بڑے ظالم ہوتے تھے۔ امیر آدمی تھے اور ایک صوبہ کے گورنرتھے انہوں نے اپنی گورنری کے زمانہ میں بڑے بڑے ظلم کئے تھے۔ اُس زمانہ میں عباسی بادشاہ کے خلاف ایران میں کوئی بغاوت ہوئی کئی جرنیل بھجوائے گئے مگر انہوں نے شکست کھائی اور وہ دشمن کو مغلوب نہ کر سکے۔ آخر بادشاہ نے ایک جرنیل کو چُنا جو بہت دلیرتھا اور اُس کو کہا کہ تم جاؤ اور جاکر دشمن کو شکست دو یہ کام تم سے ہوگا۔ وہ گیا اور چھ مہینے سال اُس نے بڑی بڑی مصیبتیں اُٹھائیں، تکلیفیں جِھیلیں اور آخر ہمت کرکے اُس نے دشمن کو شکست دی اور وہ علاقہ بادشاہ کے لئے فتح کیا۔ واپس آیا تو بادشاہ نے ایک بڑا دربار اُس کے اعزاز میں منعقد کیا اور کہا کہ اس کو خلعت دیاجائے۔ چنانچہ وہ دربار میں آیا اور اُس کو خلعت پہنایا گیا۔ پُرانے زمانہ میں یہی طریق رائج تھا جیسے آجکل خطاب وغیرہ دیتے ہیں تو دربار لگتے ہیں اِسی طرح دربار لگایا گیا۔ اتفاقاً شبلی ؒ بھی اُن دنوں اپنے کام کی کوئی رپورٹ دینے آئے ہوئے تھے چنانچہ وہ بھی دربار میں بُلائے گئے۔ سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور اوپر وہ جرنیل بیٹھا ہؤا تھا کہ بادشاہ نے پہلے اُس کی تعریف میں کچھ کلمات کہے، اس کے بعد کہا کہ اس کو خلعت پہنایا جائے۔ چنانچہ اسے ایک طرف کمرہ میں لے گئے اور اُس کو خلعت پہنایا گیا۔ بدقسمتی سے وہ اُسی دن سفر سے آیا تھا کہیں سفر میں اُسے ہوا لگی یا کچھ اَور ہؤا جس کی وجہ سے اُس کو شدید نزلہ ہو گیا اور گھر سے چلتے وقت وہ رومال لانا بھول گیا۔ جب بادشاہ کے سامنے آیا تو یکدم اُسے چِھینک آئی اور چِھینک سے رینٹھ نکل کے ہونٹوں پر آگئی۔ اب اگر وہ رینٹھ کے ساتھ بادشاہ کے سامنے کھڑا رہتا ہے تو بادشاہ خفا ہو تا ہے اور اگر پونچھتا ہے تو رومال نہیں۔ اُس نے اِدھر اُدھر نظر بچا کے اُسی خلعت کا ایک پہلو لیا اور ناک پونچھ لیا۔ بادشاہ نے دیکھ لیا اُسے سخت غصہ چڑھا اور کہنے لگا۔ ہم نے تمہارا اتنا اعزاز کیا، تمہیں خلعت دی اور تمہیں اتنا نوازا اور تم نے اتنی تحقیر کی ہے کہ اس کے ساتھ ناک پُونچھتے ہو۔ فوراً یہ خلعت اُتار لیا جائے اور اس کو جرنیلی سے موقوف کیا جائے۔ خیر وہ بیچارہ تو کیا کر سکتا تھا خلعت اُتارنے لگے تو شبلیؒ نے دربار میں چیخیں مارنی شروع کر دیں کہ ہائے مَیں مر گیا۔ بادشاہ حیران ہؤا کہ یہ خواہ مخواہ کیوں شور مچا رہا ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے کہا تم کو کیا ہؤا؟ ہم اس پر خفا ہوئے ہیں تم کیوں خواہ مخواہ رو رہے ہو؟ اُس نے کہا بادشاہ سلامت! مَیں نہیں روؤنگا تو کون روئے گا۔ اِس شخص نے سال بھر ہر صبح سے شام تک اپنی بیوی کو بیوہ کیا، سال بھر میں ہر صبح سے شام تک اِس نے اپنے بچوںکو یتیم کیا، محض آپ کی خوشنودی کے لئے۔ اور بارہ مہینے اس نے اپنے آپ کو قتل و غارت اور خون کے آگے ہدف بنایا صرف اس لئے کہ آپ کی رضا حاصل ہو جائے۔ اور جب اتنی قربانی کے بعد یہ آیا اور آپ نے اِس کو دس ہزار یا بیس ہزار کا خلعت بھی دے دیا اور اس قربانی کے مقابلہ میں بلکہ اس کی ایک دن کی قربانی کے مقابلہ میں بھی تو یہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا مگر آپ نے اس پر اتنے غصے کا اظہار کیا کہ اس نے میرے خلعت کی ہتک کی ہے اور اس سے ناک پونچھ لیا ہے اور اس قدر ناراض ہو گئے کہ کہا اس کو نکال دو، یہ بڑا خبیث اور بے ایمان ہے۔ تو حضور! یہ کان، ناک، آنکھ یہ جسم کی خلعت جو خدا نے مجھے پہنائی ہے مَیں روز آپ کی خاطر اِس کو گندہ اور ناپاک کرتا ہوں۔ مجھے قیامت کے دن خدا کیا کہے گاکہ کمبخت! تُو نے یہ خلعت کیوں گندہ کیا تھا۔ پس مَیں نہ روؤں تو اَور کون روئے؟ وہ اُسی وقت اُٹھے استعفٰے پیش کیا اور چلے گئے ۔22
بیعت کے لئے حضرت جنید ؒ کی شرط
پھرانہوں نے علماء کی مجلس میں جانا شروع کیا اور کہا میرے لئے
دُعا کریں کہ مجھے توبہ نصیب ہو۔اُن کے ظلم بڑے مشہور تھے اور بڑی غارت اور تباہی انہوں نے مچائی ہوئی تھی۔ جس عالم کے پاس بھی جائیں وہ کہے میاں! تمہاری توبہ قبول نہیں ہو سکتی۔ تمہاری توبہ بھلا خدا کب قبول کر سکتا ہے۔ تم نے تو اتنے ظلم کئے ہیں کہ جنکی کوئی حد ہی نہیں۔ وہ مایوس ہوتے ہوئے بیسیوں علماء کے پاس گئے مگر ہر ایک نے یہی جواب دیا۔ آخر کسی نے کہا کہ جنیدؒ بغدادی بڑے صوفی ہیں اور بڑے خدا پرست اور بڑے رحم دل ہیں اُن کے پاس جاؤ تو شاید وہ تمہاری توبہ قبول کر لیں۔ چنانچہ وہ اُن کے پاس گئے اور جاکر کہا کہ مَیں شبلی ہوں۔ میں اس طرح علماء کے پاس گیا تھا مگر سب نے انکار کیا۔ اب میں آپ کے پاس آیا ہوں آپ میرے لئے دُعا کریں اور توبہ قبول کریں۔ حضرت جنیدؒ نے کہا کہ ہاں خداتعالیٰ سب کے گناہوں کو معاف کرتا ہے پر کچھ تمہیں بھی اپنی توبہ کے آثار دکھانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا مَیں دکھانے کے لئے تیار ہوں۔ آپ جو حُکم دینا چاہیں دیں۔ فرمایا جاؤ اُس صوبہ میں جہاں تم گورنر مقرر تھے اور پھر جس شہر میں تم مقرر تھے اور جہاں روز تم سزائیں دیا کرتے تھے، کوڑے لگوایا کرتے تھے، نالشیں کیا کرتے تھے، گھروں پر قبضہ کیا کرتے تھے، مردوں کو قید کیا کرتے تھے ، عورتوں کو بے عزت کیا کرتے تھے۔ اُس شہر میں جاؤ اور ہر گھرپر دستک دو اور ہر گھر کے آدمیوں کو باہر بُلا کے کہو کہ میں مجرم کی حیثیت میں تمہارے سامنے پیش ہوں جو چاہو مجھے سزا دے دو مگر خدا کے لئے مجھے معاف کر دو۔ ایک ایک گھر میں جاؤ اور معافی لو۔ جب تم سارا شہر پھر لو گے تو پھرمیرے پاس آنا مَیں تمہاری بیعت لے لونگا۔ شبلیؒ نے کہا مجھے منظور ہے۔
شبلیؒ کا گھر گھر جا کر لوگوں
سے معافی حاصل کرنا
چنانچہ وہ وہاں گئے اور ایک سِرے سے لے کر دستک دینی شروع کی۔ لوگوں نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے کہامَیں شبلی ہوں۔ پہلے تو وہ
سمجھیں کہ کوئی فقیر ہوگا یونہی بات کرتا ہے مگر باہر نکل کے دیکھنا تو انہیں معلوم ہونا کہ گورنر صاحب کھڑے ہیں۔ انہوں نے فوراً کہنا کہ حضور ! کس طرح تشریف لائے ہیں؟ وہ کہتے حضور حضورکچھ نہیں مَیں معافی مانگنے آیا ہوں۔ میں نے تم لوگوں پر بڑے ظلم کئے ہیں مجھے خدا کے لئے معاف کر دو۔ پہلے تو لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ مذاق ہو رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہنا نہیں صاحب! آپ تو ہمارے بڑے آدمی ہیں۔ وہ کہتے بڑے کوئی نہیں میں نے استعفیٰ دے دیا ہے اب میں معافی مانگنے آیا ہوں کیونکہ میری نجات تمہاری معافی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ بڑے اصرار کے بعد آخر ان لوگوں کو یقین آجانا کہ یہ بات ٹھیک ہے اور انہوں نے کہہ دینا اچھا ہم نے معاف کر دیا۔ لیکن انسانی دل کو خداتعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ جب اس کو یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ اب نیکی آچکی ہے تو پھر وہ برداشت نہیں کر سکتا۔ ابھی پانچ سات گھر ہی شبلی گزرے تھے کہ شہر میں خبر مشہور ہو گئی کہ گورنر آج اِس طرح پھر رہا ہے۔ اب بجائے اس کے کہ شبلی جا کے دستک دیتے اِدھر وہ گھر پر پہنچتے اور اُدھر گھر والے روتے ہوئے باہر آجاتے اورکہتے ہمیں آپ شرمندہ نہ کریں، ہم نے معاف کیا اور ہم نے اپنے دل سے بات بالکل نکال دی۔ شام تک سارے شہر میں معافیاں ہو گئیں اور بجائے اِس کے کہ وہ مجرم کے طور پر جاتے اُن کا اعزاز ہونا شروع ہو گیا۔ اِس کے بعد واپس گئے۔ حضرت جنیدؒ نے اُن کی بیعت لی، اُن کی توبہ قبول کی اور پھر وہ خودبھی ایک بڑے بزرگ بن گئے۔ 23
دُنیوی خلعتوں اور جاگیروں کی ناپائیداری
تو دیکھو خلعت ہوتے ہیں لیکن دُنیوی بادشاہوں کے
خلعت کبھی آپ ہی چھن جاتے ہیں اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ اولادوں سے چھن جاتے ہیں۔ مثلاً پٹھانوں کے وقت کی جاگیریں مغلوں نے چھین لیں۔ مغلوں کے وقت کی جاگیریں جن کے پاس تھیں اُس وقت وہ بڑے اکڑ اکڑ کر پھرتے تھے مگر انگریز آئے تو انگریزوں نے چھین لیں۔ پھر انگریزوں نے جاگیریں دیں تو اب پاکستان اور ہندوستان والے چھین رہے ہیں۔ تو کچھ مدت کے لئے وہ انعام رہتے ہیں اور اس کے بعد وہ جاگیر چھن جاتی ہے۔ مگر یہ وہ حکومت تھی اور یہ وہ دفتر تھے کہ میں نے دیکھا کہ اس میں جو جاگیریں ملتی تھیں اُن کے ساتھ بتا دیا جاتا تھا کہ یہ کتنے عرصہ کے لئے جاگیر ہے، کسی کوکہا جاتا تھا کہ یہ ہمیشہ کے لئے ہے، کسی کو کہا جاتا تھا کہ یہ ہمیشہ کیلئے ہے پر یہ یہ وقفے پڑ جائیں گے، کسی کو کہا جاتا تھا کہ عارضی ہے جب تک ٹھیک رہو گے ملے گی۔ گویا یہ خدمت کی جاگیر ہے جب تک خدمت کرو گے ملے گی جب خدمت نہ کرو گے چھین لی جائے گی۔
روحانی جاگیرداروں کے
متعلق عالَمِ روحانی کا قانون
چنانچہ میں نے دیکھا کہ اس میں جاگیرداروں کے متعلق یہ قانون تھا کہ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ24 ہم جو
جاگیر دینگے اگرتو وہ شخص جس کو جاگیر دی گئی ہوگی اپنی زندگی بھر وفاداری کو قائم رکھے گا تو وہ جاگیر اَبَدالآباد تک اُس کے نام لکھی جائیگی اور اُس سے چھینی نہیں جائیگی۔
مسلمانوں کو خداتعالیٰ کی
عطا کردہ ایک مقدس جاگیر
یہ تو اُخروی انعام ہے۔ اِس دنیا کے انعام میں بھی میں نے یہی قانون دیکھا۔ اُخروی انعام کے متعلق تو مجھے غیر مسلم لوگ کہیں گے کہ
میاں! یہ تو منہ کی باتیں ہیں اگلا جہان کس نے دیکھا ہے۔ تم یہ بتاؤ اور اس بات کا ثبوت دو کہ یہاں بھی مل جاتی ہے؟ تم اپنے دربار کی یہاں کوئی ایسی جائداد بتاؤ جو مستقل طور پر مل گئی ہو اور پھر کسی نے چھینی نہ ہو۔ تو میں نے دیکھا کہ اس بارہ میں قرآن کریم سے یہ ثبوت نکلا کہ اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِيْنَۚ۔فِيْهِ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِيْمَ١ۚ۬ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ۔25
اِس جاگیر کے ساتھ تعلق
رکھنے والی سات اَور جاگیریں
فرماتا ہے ایک جاگیر ہم نے دنیا کےکچھ لوگوں کو بخشی اور ہم نے کہا ہمارے نام پر ایک گھر بناؤ اس کے ساتھ ہم تم کو جاگیر دینگے۔
تو سب سے پہلے جو گھر خداتعالیٰ کے نام پر لوگوں کے فائدہ کے لئے بنایا گیا وہ مکہ میں بنا۔ مُبَارَکًا ہم نے کہا اس گھر کو ہمیشہ برکت دی جائے گی۔ وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِيْنَ اور یہ گھر ہمیشہ ہی دنیا کے لئے دین اور تقویٰ اور طہارت میں راہنمائی کا موجب رہیگا۔ یہ دو جاگیریں ہو گئیں۔فِيْهِ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ تیسری جاگیر یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے نشاناتِ الٰہیہ ظاہر ہوتے رہیں گے۔ مَقَامُ اِبرٰھِیْمَ چوتھی جاگیر یہ ہے کہ جو لوگ اس جگہ آئیں گے وہ ابراہیمی درجے پاتے رہیں گے۔ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا اور پانچویں جاگیر یہ ہوگی کہ اُس کے اندر امن لکھ دیا جائے گا یعنی جو شخص اس جاگیر میں آئے گا اُس کو امن مِل جائیگا۔١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ چھٹی جاگیر یہ ہوگی کہ لوگوں کے دلوں میں ہم تحریک کرتے رہیں گے کہ وہ اس کا ادب کریں اور آکر اس کی زیارت کرتے رہیں۔١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ اور ساتویں جاگیر یہ ہوگی کہ جو شخص اس سے منہ موڑے گا ہم اس سے تعلق نہیں رکھیں گے۔
دیکھو! یہ سات جاگیریں ملتی ہیں کہ:-
(1) اس مقام کو ہمیشہ کے لئے برکت والا بنایا جاتا ہے۔
(2) یہ مقام دین اور تقویٰ میں لوگوں کی راہنمائی کا موجب ہوگا۔
(3) اس مقام سے نشاناتِ الٰہیہ ظاہر ہوتے رہیں گے۔
(4) جو لوگ اس سے تعلق رکھیں گے وہ ابراہیمی درجے حاصل کر یں گے۔
(5) جو شخص اس کے اندر داخل ہوگا اُسے امن حاصل ہو جائے گا۔
(6) اور پھر یہ کہ اس کی طرف لوگوں کو دُور دُور سے کھینچ کر لایا جائے گاتاکہ وہ اس کی زیارت کریں۔
(7) اور جو اس سے منہ موڑے گا خدا تعالیٰ اُس سے منہ موڑ لے گا۔ یعنی اس کے مخالف بھی ہمیشہ رہیں گے لیکن اُن کا تعلق اللہ تعالیٰ سے نہیں ہوگا۔
ہر زمانہ میں یہ مقدس جاگیر
دشمن کے حملہ سے محفوظ رہی
اب دیکھو کس طرح ہر زمانہ میں یہ نشان پورا ہوتا رہا۔ دنیا کی جاگیروں کے لینے والے تو بڑے بڑے جتھے رکھتے تھے مگر پھر
بھی وہ ناکام رہے اوران کی جاگیریں ضبط ہو گئیں لیکن یہاں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں تھا معمولی حیثیت تھی۔ کوئی طاقت نہیں ،کوئی قوت نہیں ،کوئی سامان نہیں صرف یہ اعلان ہے کہ یہ شاہی جاگیر ہے لیکن پھر بھی وہ جاگیر محفوظ رہی۔
یمن کے گورنر کا بیت اللہ پر حملہ
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے چودہ سَو سال پہلے یمن میں ایک
گورنر تھا۔اُس نے ایک گِرجا بنایا اور کہا کہ مَیں اس کو عرب کے سارے لوگوں کے لئے عزت کی جگہ بناؤں گا مگر وہ آباد نہ ہؤا۔ آخر اُس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ گِرجا آباد کیوں نہیں ہوتا؟ انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ عرب میں ایک پُرانا مکان ہے بیت اللہ یا خانہ کعبہ اُس کو کہتے ہیں اُس کی سارے عرب عزت کرتے ہیں جب تک وہ نہیں ٹوٹے گا لوگوں نے اِس کی طرف توجہ نہیں کرنی۔ پہلے اُس کو توڑ لو پھر کوئی تجویز ہوگی۔ اُس نے کہا بہت اچھا۔ چنانچہ اُس نے لشکر لیا اور چل پڑا۔ چلتے چلتے طائف کے مقام پر پہنچے۔ وہاں کے لوگوں کی مکہ والوں سے مخالفت تھی کیونکہ وہ مکہ کے مقابلہ میں طائف کاجو بڑا بُت تھا اُس کے متعلق سمجھتے تھے کہ اس کو زیادہ عزت دینی چاہئے۔ اُس نے اُن کو رشوت وغیرہ دی اور اِس طرح اُن کے دلوں میں جو اپنی قوم کا ڈر تھا وہ اُتارا اور انہیں کہا کہ ہم کو مکہ پہنچاؤ۔ وہ تیار ہو گئے۔ جب لشکر مکہ کے قریب پہنچا تو جیسا کہ پُرانے زمانہ میں قاعدہ تھا ایک منزل پر پہنچ کر وہاں سے انہوں نے مکہ والوں کو نوٹس دیا کہ ہتھیار پھینک دو ورنہ تم پر حملہ کر دیا جائے گا۔ اُس وقت جو مہذب حکومتیں تھیں وہ اِسی طرح کیا کرتی تھیں۔ چنانچہ اسلام میں بھی یہی طریق رائج ہے۔ جب یہ حُکم پہنچا تو مکہ کے لوگ گھبرا گئے۔ انہوں نے کہا اتنا بڑا لشکر آیا ہے جو دس یا بیس یا پچاس ہزار کا ہے اور مکہ میں سپاہی پانچ سات سَو ہیں ان کا ہم کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں ۔پھر ان کے ساتھ ہاتھی اور دوسری قسم کے سامان تھے، اِسی طرح منجنیقیں وغیرہ تھیں۔ انہوں نے بہت منتیں سماجتیں کیں، بادشاہ کے آگے ہاتھ جوڑے مگر اُس نے کہا مَیں نہیں مانتا، تم اپنا کوئی وفد بھیجو۔ مَیں یہ تو فیصلہ کر چکا ہوں کہ اِس گھر کو گِرا دونگا لیکن تمہارے لئے کوئی گزارہ مقرر کر دونگا کیونکہ تمہیں اِس کے چڑھاووں سے آمدن ہوتی تھی یا اِس کی زیارت کرنے کے لئے جو لوگ آتے تھے اُن سے آمدن ہوتی تھی۔ پس مَیں تمہارے لئے کوئی جائداد مقررکر دونگا اور تمہارا اس پر گزارہ ہو جائے گا مگر میں یہ نہیں مان سکتا کہ اِس گھرکو نہ گراؤں یہ گھر تو مَیں نے گِرا کر رہنا ہے۔ چنانچہ وہ واپس گئے اور انہوں نے جاکے کہا کہ بادشاہ تو اس بات پرمُصِر ہے کہ اِس گھر کو میں ضرور گِراؤں گا اب کوئی وفد بھیجا جائے۔ چنانچہ انہوں نے ایک وفد بھیجا جس کا سردار حضرت عبدالمطلب کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے چُنا گیا۔ لوگوں نے اُن سے کہا کہ آپ جائیے اور کوشش کیجیئے کہ کسی طرح یہ گھربچ جائے۔
حضرت عبدالمطلب اور ابرہہ کی ملاقات
یہ وہاں پہنچے تو بادشاہ نے اُن کو بُلایا اور ان سے پہلے اِدھر اُدھر
کی باتیں کیں۔ملک کی سیاست کے متعلق باتیں کیں، ملک کی اقتصادی حالت کے متعلق باتیں کیں، قومیت کے متعلق باتیں کیں۔ حضرت عبدالمطلب بڑے سمجھدار اور دانا تھے انہوں نے جو جواب دیئے بادشاہ اُن سے بہت متأثر ہؤا اور اُس نے کہا یہ تو بڑا سمجھدار آدمی ہے۔ خوش ہو کے اُس نے کہا کہ مَیں تو آپ سے مل کر بہت ہی خوش ہؤا ہوں مجھے توقع نہیں تھی کہ مکہ میں ایسے عقلمند بھی موجود ہیں۔ آپ کوئی انعام مجھ سے مانگیں مَیں دینے کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا میرے دو سَو اونٹ آپ کے سپاہی پکڑ لائے ہیں وہ مجھے واپس کر دیں۔ بادشاہ کو غصہ چڑھ گیا اور اُس نے کہا دو سَو اونٹ کی حیثیت کیا ہے میں تمہارا مذہبی مکان گِرانے کے لئے آیاہوں۔ مَیں مانتا یا نہ مانتا تمہاری عقل سے میں یہ امید کرتا تھا کہ تم کہو گے یہ میرا مذہبی مقدس مقام ہے اِس کو چھوڑ دو۔ مگر بجائے اِس کے کہ تم مکہ کی سفارش کرتے، خانہ کعبہ کی سفارش کرتے کہ اِس کو چھوڑ دو تم نے اپنے دو سو اونٹوں کو یاد رکھا، میرے دل میں سے تو تمہاری ساری عزت جاتی رہی ہے۔ حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا کہ بادشاہ تم جو چاہو نتیجہ نکال لو۔ باقی میں تو سمجھتا ہوں اور یہی مَیں نے آپ کو بتایا ہے کہ دو سَو اونٹ میرے ہیں۔ بھلا کیا حیثیت ہے دو سَو اونٹ کی؟ مگر مجھے اِن کی فکر ہے کہ کسی طرح مجھے مل جائیں اور میں اُن کی حفاظت چاہتا ہوں۔ تو اگر یہ اللہ کا گھر ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو اِس کی اتنی فکر نہیں ہوگی جتنی مجھے دو سَو اونٹ کی ہے؟اِس جواب سے وہ ایسا متأثر ہؤا کہ اُس نے اُن کے اونٹوں کی واپسی کا حکم دے دیا مگر بیتُ اللہ پر حملہ کرنے کا ارادہ اُس نے ترک نہ کیا۔ خیر وہ واپس آگئے اور انہوں نے ساری قوم کو کہدیا کہ پہاڑ پر چڑھ جاؤ اور مکہ کو خالی کر دو۔ لوگوں نے کہا۔ مکہ ہمارا مقدس مقام ہے۔ کیا اِس مقدس مقام کو ہم خالی کر دیں؟ انہوں نے کہا میاں !تمہارا مکان نہیں خدا کا مکان ہے۔ تمہیں اس کا درد ہے تو خدا کو اِس کا درد کیوں نہیں ہوگا۔ جس کا یہ گھر ہے وہ آپ اس کی حفاظت کریگا۔ تم چھوڑو اِس کو اور باہر چلو، اللہ تعالیٰ اس کی آپ حفاظت کریگا۔ اگر ہماری طاقت ہوتی تو ہم لڑتے لیکن ہم میں طاقت نہیں ہے۔ اب یہ خدا ہی کی طاقت ہے کہ وہ اس حملہ کو روکے۔ چنانچہ انہوں نے سب کو شہر سے نکالا اور پہاڑ پر چڑھ گئے۔ 26
ابرہہ کے لشکر کی تباہی
مگر وہاں ایک دن انتظار کیا،دو دن انتظار کیا ،تین دن انتظار کیا جو اُس نے نوٹس دیا تھا کہ تین دن کے اندر
مَیں حملہ کرونگا وہ تین دن گزر گئے اور کوئی بھی نہ آیا۔ پھر چوتھا دن گزرا، پانچواں دن گزرا۔ حیران ہو گئے کہ کیا بات ہے۔ آیا اُس نے معاف کر دیا ہے یا کوئی اور بات ہوئی ہے۔ آخر آدمی بھیجے گئے وہاں جو گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ میدانوںمیں لاشیں ہی لاشیں پڑی ہوئی ہیں اور کوئی لشکر نظر نہیں آتا۔ پتہ لیا تو طائف والوں نے بتایا کہ اُن میں بے تحاشا چیچک پھیلی۔ وہ حبشی فوجیں تھیں اور حبشیوں میں چیچک پھیلتی ہے تو بالکل سیلاب کی طرح آتی ہے۔ خصوصاً اُس زمانہ میں تو بیماریوں کے علاج ہی کوئی نہیں ہوتے تھے۔ دیکھا کہ تمام میدان لاشوں سے اٹا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بادشاہ کو بھی چیچک ہوئی اور لوگ اُس کو ڈولی میں ڈال کر یمن کی طرف لے گئے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی حفاظت کی اور وہ جائداد پھر محفوظ کی محفوظ رہ گئی۔
اِس مقدس جاگیر کو چھیننے کی
کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا
یہ وہ جائداد ہے جسکے مقابلہ میں دنیا کی کوئی اور جائداد پیش نہیں کی جا سکتی۔ وہ حکومتیں بدل گئیں جن کے سپرد جائداد کی گئی تھی،
ابراہیم ؑ چلاگیا، اسمٰعیل ؑ چلا گیا، وہ جن کو یہ جائداد دی گئی تھی ختم ہو گئے نئی حکومتیں اور نئی بادشاہتیں آگئیں۔یمن کا عیسائی بادشاہ اس ملک پر قابض ہوکے آگیا لیکن اِس جائداد کے متعلق اُس نے فرمایا کہ خبردار! اگر اُس کو چھیڑا تو ہم فوراً سیدھا کر دیں گے اور جب وہ باز نہ آیا تو اُس کو سیدھا کر دیا۔ چنانچہ اِسی کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِؕ۔ اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِيْ تَضْلِيْلٍ۔27 پتہ ہے اُن لوگوں کے ساتھ ہم نے کیا کِیا؟ اُن کے بڑے بڑے بُرے ارادے تھے پر مَیں نے اُن کے ارادوں کوکُچل کر رکھ دیا اور اپنی جاگیر کو محفوظ رکھا کیونکہ ہم نے کہا مَیں خدا اِس جاگیر کا دینے والا ہوں کوئی انسان اِس کو چھین نہیں سکتا۔
گزشتہ جنگِ عظیم میں اٹلی کا
ناپاک ارادہ اور اُس کی ناکامی
پھر اِس کے بعد اسلام کی حکومت رہی۔ خانہ کعبہ کی حفاظت کرنے والے لوگ موجود رہے لیکن جب پچھلی جنگ آئی تو
پھر ایسی حکومتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے یہ بدارادہ کیا کہ ترکوں کو اُس وقت تک شکست نہیں دی جاسکتی جب تک کہ مکہ کونہ لیا جائے۔ چنانچہ اٹلی نے یہ ارادہ ظاہر کیا مگر انگریزوں اور دوسری قوموں نے اُس کو کہا کہ اِس کی ہم ہرگز اجازت نہیں دینگے کیونکہ اگر تم نے ایسا کیا تو ساری اسلامی دنیا ہمارے خلاف ہو جائیگی اور یہ جنگ جیتنی ہمارے لئے مشکل ہو جائیگی چنانچہ خداتعالیٰ نے پھر ایسے سامان کر دیئے کہ مکہ محفوظ کا محفوظ رہا۔
بیتُ اللہ کی تقدیس اور اُس کی
عظمت کا زمانۂ قدیم سے اعتراف
یہ جاگیر اتنی پُرانی ہے کہ یونان کے مؤرخ حضرت مسیح ؑکی پیدائش سے پہلے لکھتے ہیں کہ تاریخ کا جب سے پتہ لگتا ہے
یہ مقام عرب میں مقدس چلا آرہا ہے اور لوگ اِس کی زیارت کو جاتے ہیں۔ تاریخ کہیں نہیں بتاتی کہ یہ کب سے بنا ہے؟ اِتنی پُرانی جاگیر تو دنیا میں الگ رہی اِس کا سواں حصہ بھی پُرانی جاگیر دنیا میں کوئی نہیں جو محفوظ ہو۔ ساری کی ساری جائدادیں ضبط کر لی گئیں، تباہ ہو گئیں مگر یہ جاگیر اُسی طرح کھڑی ہے۔
ایک اَور روحانی جاگیر جو خداتعالیٰ
کے نیک بندوں کو دی گئی
پھر اِسی دفتر سے ایک جاگیر جاری ہوئی۔ فرماتا ہے وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا
عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ۔28 ہم نے زبور میں اپنا کلام اور اپنی حکمتیں اور اپنی نصائح لکھنے کے بعد یہ لکھا کہ فلسطین کی زمین کے ہمیشہ میرے نیک بندے وارث ہوتے رہیں گے۔
یہ کتنا شاندار وعدہ تھا اورکس شان سے پورا ہؤا۔ اِس وعدے کی تفصیل یہ ہے سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا۔ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَ اَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِيْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا۔29
پھر تھوڑی دیر کے بعد فرماتا ہےفَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا۔عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ١ۚ وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا١ۘ وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا۔30
ارضِ مقدس کے متعلق
بعض شرائط اور قیود کا ذکر
فرمایا ہم نے ایک اَور بھی جاگیر دی تھی اور اُس کے ساتھ کچھ شرطیں لگائی تھیں اور وہ یہ کہ فلسطین خدا کے نیک بندوں کو ملے گا۔ چونکہ
پہلے یہود کو اِس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا، اس لئے ان کو یہ جاگیر ملے گی لیکن یہ شرطیں ہیں کہ:-
1- کچھ عرصہ کے بعد ہم یہ جاگیر تم سے چھین لیں گے۔ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍہم اپنے حکم کے ساتھ ایک قوم کو مقرر کریں گے جو بڑی فوجی طاقت رکھتی ہوگی۔ فَجَاسُوْا خِلٰلَ وہ فلسطین کے تمام شہروں میں گھس جائیگی اور تمہاری حکومت کو توڑ دیگی۔ گویا یہ جاگیر تمہارے پاس سے کچھ دنوں کے لئے ہم چھین لیں گے۔ پس یہ شرطی بات ہے۔ ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ مگر کچھ مدت کے بعدہم پھر یہ جاگیر تم کو واپس دے دینگے اور تمہاری طاقت اور قوت قائم کر دینگے وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِيْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا اور ہم تم کو مال دینگے اور بیٹے دینگے اور تمہیں بہت زیادہ تعداد میں بڑھا دینگے اور طاقتور بنا دینگے اور پھر یہ جائداد تمہارے پاس واپس آجائے گی۔١ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا لیکن پھر ایک وقت کے بعد ہم دوبارہ یہ جاگیر تم سے چھین لیں گے۔ جب وہ دوسرا وعدہ آئے گا یعنی وَعْدُ الْاٰخِرَةِ آئے گا لِيَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ تاکہ وہ لوگ جن کو عارضی طور پر ہم یہ جاگیر دینے والے ہیں وہ تمہارے منہ خوب کالے کریں۔ وَ لِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ پہلی دفعہ بھی جب ہم نے جاگیر تم سے چھینی تھی تو اُس وقت بھی تمہاری عبادت گاہ کو اور تمہارے خانہ کعبہ کو دشمن نے برباد کیا تھا اِس دفعہ بھی یہ دشمن گھسے گا اور تمہارے خانہ کعبہ کو برباد کریگا۔ وَّ لِيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا اور جس جس علاقہ میں جائے گااُسے تباہ کرتا چلا جائے گا۔ گویا دوبارہ ہم پھر یہ جاگیر لے لیں گے۔ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ مگر پھر ہم یہ فیصلہ کریں گے کہ یہ جاگیر واپس آئے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری طرف آئے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم کرے گا یعنی اس بدنامی کو دور کر دیگا، یہ نہیں کہ پھر وہ یہودیوں کے ہاتھ میں آجائے۔ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا اور اگر تم اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو پھر ہم یہ جائداد تم سے چھین لیں گے اور یہ پھر ایک اور قوم کے پاس جائے گی۔ وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا اور جہنم کو ہم تمہارے لئے قید خانہ بنا دیں گے یعنی پھر تم اس ملک میں واپس نہیں آؤ گے۔
اب دیکھو اِس جگہ اتنے وعدے کئے گئے ہیں۔
بابلیوں کا فلسطین پر قبضہ
اوّل یہ جاگیر کچھ عرصہ تمہارے پاس رہے گی مگر اس کے بعد بابلیوں کی معرفت یہ جاگیر چھینی جائے
گی۔ چنانچہ بابلی فوجیں آئیں اور انہوں نے عبادت گاہیں بھی تباہ کیں، شہر بھی تباہ کئے اور ملک پر قبضہ کیا اور قریباً ایک سَو سال حکومت کی۔ اس کے بعد وہ حکومت بدل گئی اور پھر یہودی اپنے ملک پر قابض ہو گئے۔
رومیوں کا فلسطین پر قبضہ
پھر مسیح ؑکے بعد رومی لوگوں نے پھر اِس ملک پر حملہ کیا اور اس کو تباہ اور برباد کیا۔ اِسی طرح مسجد
کو تباہ کیا اور اُس کےاندر سؤر کی قربانی کی اور اس پر ان کا قبضہ رہا لیکن آخر رومی بادشاہ عیسائی ہو گیا۔ اس لئے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ یہودیوں کو یہ جاگیر واپس کی جائیگی۔ پہلی جگہ تو فرمایا ہے کہ واپس کی جائیگی یعنی وہاں سے واپس ہو کر یہودیوں کو ملے گی۔ مگر دوسری جگہ یہ نہیں فرمایا کہ واپس کی جائیگی بلکہ یہ فرمایا ہے کہ پھر ہم تم پر رحم کریں گے یعنی تمہاری وہ بے عزتی دُور ہو جائے گی۔ چنانچہ جب رومی بادشاہ عیسائی ہو گیا تو پھر وہ موسیٰ ؑ کو بھی ماننے لگ گیا، داؤد ؑ کو بھی ماننے لگ گیا، اِسی طرح باقی انبیاء جس قدر تھے اُن کو بھی ماننے لگ گیا۔ تھا وہ عیسیٰ کو ماننے والا لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی چونکہ موسوی سلسلہ میں سے تھے، عیسائی بادشاہت یہودی نبیوں کا بھی ادب کرتی تھی، تورات کا بھی ادب کرتی تھی بلکہ تورات کو اپنی مقدس کتاب سمجھتی تھی گویا خدا کا رحم ہو گیا گو یہودیوں کے ہاتھ میں حکومت نہیں آئی بلکہ عیسائیوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔
مسلمانوں کے فلسطین پر قبضہ کی پیشگوئی
مگر فرماتا ہے کہ اس کے بعد وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا اگرتم لوگ
پِھر بِگڑے تو ہم تمہارے ہاتھ سے یہ بادشاہت نکال لیں گے۔ اب تم میں عیسائی بھی شامل ہو گئے کیونکہ وہ بھی یہودیوں کا ایک گروہ تھے اور بتایا کہ اگر تم نے پھر کوئی شرارت کی تو پھر ہم تمہارے ہاتھ سے یہ بادشاہت نکال لیں گے۔ پھر مسلمان آجائیں گے اور اُن کے قبضہ میں یہ جاگیر چلی جائیگی اور وہ عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ بنیں گے اور تمہارے لئے پھر جہنم بن جائے گایعنی تم ہمیشہ کُڑھتے ہی رہنا۔ غرض اس جاگیر کے ساتھ یہ شرطیں لگائی گئیں کہ :-
(1) یہ جاگیر چھین کر ایک اَور قوم کو دے دی جائیگی۔
(2) کچھ عرصہ کے بعد پھر یہ جاگیر تم کو واپس مل جائیگی۔
(3) کچھ عرصہ کے بعد پھر تم سے چھین لی جائیگی۔
(4) پھر یہ جاگیر تمہاری قوم کے پاس واپس آجائیگی مگر تمہارے اپنے ہاتھ میں نہیں آئے گی موسوی سلسلہ کے ماننے والوں یعنی عیسائیوں کے ہاتھ میں آجائیگی۔
(5) مگر تم پھرشرارت کرو گے تو پھر اُن سے بھی چھین لی جائیگی اور ایک اَور قوم کو دے دی جائے گی یعنی مسلمانوں کو۔
مسلمانوں کی نگاہ میں عبادت گاہوں کا احترام
مگر اس جگہ یہ نہیں فرمایا کہ وہ مسجد میں
داخل ہو کر اُس کی ہتک کریں گے۔ دیکھو! پہلے دو مقامات پر فرمایا کہ وہ مسجد میں جاکر اُس کی ہتک کریں گے مگر یہ تیسری دفعہ جو عذاب آنا ہے اور جس میں اُن کے ہاتھ سے یہ جاگیر لی جانی ہے اس کے متعلق یہ نہیں فرماتا کہ وہ مسجد کی ہتک کریں گے اس لئے کہ مسلمانوں کے نزدیک بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کے تمام ماتحت انبیاء مقدس تھے، ان کی جگہیں بھی مقدس تھیں اس لئے مسلمان اُن کی مسجدوں میں بھی وہ خرابی نہیں کر سکتے تھے جو بابلیوں اور رومیوں نے کی۔
یورپین مؤرخین کی تعصّب آلود ذہنیت
یہ عجیب لطیفہ اور قوموں کی ناشکری کی مثال ہے کہ
بابلیوں نے یہودیوں کے ملک کو تباہ کیا اور ان کی مسجد کو ذلیل کیا۔ یورپین مصنف کتابیں لکھتے ہیں تو بابلیوں کو کوئی گالی نہیں دیتا، کوئی ان کو بُرا نہیں کہتا، کوئی ان پر الزام نہیں لگاتا۔ رومیوں نے اس ملک کو لیا اور اِس مسجد میں خنزیر کی قربانیاں کیں۔ عیسائی رومی تاریخ پر کتابیں لکھتے ہیں۔ مثلاً گبن نے ‘‘دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر ’’(The Decline and Fall of the Roman Empire) لکھی ہے مگر جتنی کتابوں کو دیکھ لو وہ کہتے ہیں رومن ایمپائر جیسی اچھی ایمپائر کوئی نہیں حالانکہ انہوں نے اُن کی مسجد کو گندہ کیا مگر وہ قوم جس نے اُن کی مسجد کو گندہ نہیں کیا اُس کو گالیاں دی جاتی ہیں۔
حضرت عمر ؓ کے روادارانہ سلوک
کا ایک ایمان افروز نمونہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فلسطین فتح ہؤا اور جس وقت آپ یروشلم گئے تو یروشلم کے پادریوں نے
باہر نکل کر شہر کی کنجیاں آپ کے حوالے کیں اور کہا کہ آپ اب ہمارے بادشاہ ہیں آپ مسجد میں آکے دو نفل پڑھ لیں تاکہ آپ کو تسلی ہو جائے کہ آپ نے ہماری مقدس جگہ میں جو آپ کی بھی مقدس جگہ ہے نماز پڑھ لی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہامَیں تمہاری مسجد میں داخل ہو کر اِس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ میں ان کا خلیفہ ہوں،کَل کو یہ مسلمان اِس مسجد کوچھین لیں گے اور کہیں گے یہ ہماری مقدس جگہ ہے اس لئے میں باہر ہی نماز پڑھوں گا تاکہ تمہاری مسجد نہ چھینی جائے31پس ایک تو وہ تھے جنہوں نے وہاں خنزیر کی قربانی کی اور یورپ کا منہ اُن کی تعریفیں کرتے ہوئے خشک ہوتا ہے اور ایک وہ تھا جس نے مسجد میں دو نفل پڑھنے سے بھی انکار کیاکہ کہیں مسلمان کسی وقت یہ مسجد نہ چھین لیں اور اِس کو رات دن گالیاں دی جاتی ہیں۔ کتنی ناشکرگزار اور بے حیا قوم ہے۔
یہودیوں کی بجائے مسلمانوں
کو فلسطین کیوں دیا گیا ؟
اب مسلمانوں کے پاس فلسطین آجانے کے بعدسوال ہو سکتا ہے کہ وہ یہودیوں کے پاس تو نہ رہا، موسوی سلسلہ کے پاس بھی نہ
رہا، یہ کیا ّمُعِمہ ہے؟ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ اعتراض اصل میں نہیں پڑتا اس لئے کہ بعض دفعہ جھگڑا ہوتا ہے وارث آجاتے ہیں تو سچے وارث کہتے ہیں ہم ان کے وارث ہیں۔ یہی صورت اس جگہ واقع ہوئی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ خدا جاگیر دینے والا تھا۔ خدا تعالیٰ کے سامنے مقدمہ پیش ہؤا کہ موسیٰ ؑ اور داؤد ؑ کے وارث یہ مسلمان ہیں یا موسیٰ ؑ اور داؤد ؑ کے وارث یہودی اور عیسائی ہیں؟ تو کورٹ نے ڈگری دی کہ اب موسیٰ ؑ اور داؤد ؑ کے وارث مسلمان ہیں چنانچہ ڈگری سے ان کو ورثہ مل گیا۔ جاگیر قائم ہے مگر جو اس کے وارث قرار دیئے گئے تھے ان کو مل گئی۔
یہود کی فلسطین میں دوبارہ واپسی کی پیشگوئی
پھر آگے چل کر فرماتا ہے فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ
جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا۔32پھراس کے بعد ایک اَوروقت آئیگا کہ یہودیوں کو دنیا سے اکٹھا کرکے فلسطین میں لا کر بسا دیا جائیگا۔ وہ اب وقت آیا ہے جبکہ یہودی اس جگہ پر آئے ہوئے ہیں۔ لوگ ڈرتے ہیں اور مسلمان بھی اعتراض کرتے ہیں، چنانچہ کراچی اور لاہور میں مختلف جگہوں پر مجھ پر مسلمانوں نے اعتراض کیا کہ یہ تو وعدہ تھا کہ یہ سرزمین مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے گی۔ میں نے کہا کہاں وعدہ تھا؟ قرآن میں تو لکھا ہے کہ پھر یہودی بسائے جائیں گے۔ کہنے لگے اچھا جی! یہ تو ہم نے کبھی نہیں سنا۔ میں نے کہا تمہیں قرآن پڑھانے والا کوئی ہے ہی نہیں تم نے سُننا کہاں سے ہے۔ میری تفسیر پڑھو اُس میں لکھا ہؤا موجود ہے۔ تو یہ جو وعدہ تھا کہ پھر یہودی آجائیں گے قرآن میں لکھا ہؤا موجود ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل میں یہ موجود ہے کہ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا ۔ جب آخری زمانہ کا وعدہ آئیگا تو پھر ہم تم کو اکٹھا کرکے اس جگہ پر لے آئیں گے۔
بہائیوں کا لغو اعتراض
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہود کے آنے کی وجہ سے اسلام منسوخ ہو گیا۔ گویا اُن کے نزدیک اسلام کے
منسوخ ہونے کی یہ علامت ہے کیونکہ عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ نے اس پر قبضہ کرنا تھا۔ جب مسلمان وہاں سے نکا ل دیئے گئے تو معلوم ہؤا کہ مسلمان عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ نہیں رہے۔ یہ اعتراض زیادہ تر بہائی قوم کرتی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہی پیشگوئی تورات میں موجودہے، یہی پیشگوئی قرآن میں موجود ہے اور اسی پیشگوئی کے ہوتے ہوئے اس جاگیر کو بابلیوں نے سَو سال رکھا تو اُس وقت یہودی مذہب بہائیوں کے نزدیک منسوخ نہیں ہؤا۔ ٹائیٹس کے زمانہ سے لیکرسَو دو سَو سال تک بلکہ تین سَو سال تک فلسطین روم کے مشرکوں کے ماتحت رہا۔ وہ عیسائیوں کے قبضہ میں نہیں تھا، یہودیوں کے قبضہ میں نہیں تھا، مسجد میں سؤر کی قربانی کی جاتی تھی تب بھی وہ پیشگوئی غلط نہیں ہوئی لیکن یہودیوں کے آنے پر پانچ سال کے اندر اسلام منسوخ ہو گیا کیسی پاگل پن والی اور دشمنی کی بات ہے۔
یہودیت اور عیسائیت کو بہائی
کیوں منسوخ قرار نہیں دیتے؟
اگر واقع میں کسی غیر قوم کے اندر آجانے سے کوئی پیشگوئی غلط ہو جاتی ہے اور عارضی قبضہ بھی مستقل قبضہ کہلاتا ہے تو تم نے سَو
سال پیچھے ایک دفعہ قبضہ دیکھا ہے۔تین سَو سال دوسری دفعہ کافروں کا قبضہ دیکھا ہے، اُس وقت کی یہودیت کو تم منسوخ نہیں کہتے اُس وقت کی عیسائیت کو تم منسوخ نہیں کہتے لیکن اسلام کے ساتھ تمہاری عداوت اتنی ہے کہ پانچ سال کے بعد ہی تم اِس کو اسلام کی منسوخی کی علامت قرار دیتے ہو۔ جب اتنا قبضہ ہو جائے جتنا کہ عیسائیت کے زمانہ میں یہ اُن کے ہاتھ سے نکلی رہی تھی اور فلسطین غیر عیسائیوں کے قبضہ میں رہا تھا یا غیر یہودیوں کے قبضہ میں رہا تھا تب تو کسی کا حق بھی ہو سکتا ہے کہ کہے لوجی! اسلام کے ہاتھ سے یہ جاگیر نکل گئی لیکن جب تک اتنا قبضہ چھوڑ اِس کا سواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہوا، ساٹھواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہوا، پچاسواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہؤا تو اِس پر یہ اعتراض کرنا محض عداوت نہیں تو اور کیا ظاہر کرتا ہے۔
بہائیوں کی اپنی لامرکزیّت
پھر عجیب بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے بہائی ہیں جن کا اپنا وہی حال ہے جیسے ہمارے
ہاں مثل مشہور ہے کہ نہ آگا نہ پیچھا۔وہ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ مکہ اس کے پاس ہے مدینہ اس کے پاس ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں، ''چھاج بولے تو بولے چھلنی کیا بولے جس میں سَو سوراخ''۔ تمہارا کیا حق ہے کہ تم اسلام پر اعتراض کرو۔ تمہارے پاس تو ایک چپّہ زمین بھی نہیں جس کو تم اپنا مرکز قرار دے سکو۔ اسلام کا تو مکہ بھی موجود ہے اور مدینہ بھی موجود ہے۔ وہ تو ایک زائد جاگیر تھی، وہ جاگیر اگر عارضی طور پر چلی گئی تو پھر کیا ہؤا۔ اس کے مقابلہ میں 1870ء سے بہائیت کا آغاز ہؤا اور اب 1954ء ہو گیا ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ اُن کے مذہب کو قائم ہوئے چوراسی سال ہو گئے اور چوراسی سال میں ایک گاؤں بھی تو انہوں نے مقدس نہیں بنایا۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں حکومت حاصل نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس بھی تو حکومت نہیں، ہم نے تو چند سال میں ربوہ بنا لیا۔ پہلے قادیان بنا ہؤا تھا اب ربوہ بنا ہؤا ہے۔ یہاں ہم آتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، اکٹھے رہتے ہیں، یہ بھی توبتائیں کہ دنیا میں ان کا کوئی مرکز ہے یا دنیا میں کسی جگہ پر وہ اکٹھے ہوتے ہیں؟ لیکن اسلام پر صرف پانچ سال کے قبضہ کی وجہ سے اُن کے بُغض نکلتے ہیں اور کہتے ہیں اسلام ختم ہو گیا اور اپنی یہ حالت ہے کہ عکہ کو مرکز قرار دیا ہؤا ہے اورکہتے ہیں کہ حدیثوں میں بھی پیشگوئیاں تھیں کہ عکہ اُن کے پاس ہوگا اور تورات میں بھی پیشگوئیاں تھیں مگر اب عکہ میں بہائیوں کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ پھر اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں اور کئی بیوقوف ہیں جو ان کے اعتراضوں سے مرعوب ہو جاتے ہیں مگر اس کا موقع کسی دوسرے لیکچر میں آئیگا، آج میں اس کو بیان نہیں کر سکتا۔
فلسطین پر یہود کا عارضی قبضہ
اسلام کی صداقت کا ثبوت ہے
غرض بابلیوں کے آنے اور رومیوں کے عارضی طور پر وہاں آجانے کو جس کا عرصہ ایک دفعہ ایک سَو سال اور دوسری دفعہ
قریباً تین سَو سال کا تھا اگر اس کو موسیٰ ؑ اور داؤد ؑ کے پیغام کے منسوخ ہونے کی علامت قرار نہیں دیا گیا تو اس وقت یہود کا عارضی طور پر قبضہ جس پر صرف پانچ سال گزرے ہیں اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ یہ تو اس کے صادق ہونے کی علامت ہے۔ کیونکہ جب اس نے خود یہ پیشگوئی کی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ مسلمانوں کو نکالا جائے گااور یہودی واپس آئیں گے تو یہودیوں کا واپس آنا اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت نہیں اسلام کے سچا ہونے کی علامت ہے۔ کیونکہ جو کچھ قرآن نے کہا تھا وہ پورا ہو گیا۔ باقی رہا یہ کہ پھر عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ کے ہاتھ میں کس طرح رہا؟
یہود فلسطین سے نکالے جائیں گے
سو اِس کا جواب یہ ہے کہ عارضی طور پر قبضہ پہلے بھی دو دفعہ نکل چکا ہے
اور عارضی طور پر اب بھی نکلا ہے۔ اور جب ہم کہتے ہیں ''عارضی طور پر'' تو لازماً اس کے معنے یہ ہیں کہ پھر مسلمان فلسطین میں جائیں گے اور بادشاہ ہونگے۔ لازماً اِس کے یہ معنے ہیں کہ پِھر یہودی وہاں سے نکالے جائیں گے اور لازماً اس کے یہ معنے ہیں کہ یہ سارا نظام جس کو یُو۔این۔او کی مدد سے اور امریکہ کی مدد سے قائم کیا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دے گا کہ وہ اِس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں اور پھر اس جگہ پر لاکرمسلمانوں کو بسائیں۔
احادیث میں یہود کی تباہی کی پیشگوئی
دیکھو حدیثوں میں بھی یہ پیشگوئی آتی ہے، حدیثوں میں یہ ذکر ہے
کہ فلسطین کے علاقہ میں اسلامی لشکر آئیگا اور یہودی اس سے بھاگ کر پتھروں کے پیچھے چُھپ جائیں گے۔ اور جب ایک مسلمان سپاہی پتھرکے پاس سے گزرے گا تو وہ پتھرکہے گا اے مسلمان خدا کے سپاہی! میرے پیچھے ایک یہودی کافر چُھپا ہؤا ہے اس کو مار۔33 جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تھی اُس وقت کسی یہودی کا فلسطین میں نام ونشان بھی نہیں تھا۔ پس اِس حدیث سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ میں یہودی اس ملک پر قابض ہو نگے مگر پھرخدا مسلمانوں کو غلبہ دیگا اور اسلامی لشکر اس ملک میں داخل ہونگے اور یہودیوں کو چُن چُن کر چٹانوں کے پیچھے ماریں گے۔
فلسطین مستقل طور پر خداتعالیٰ کے
صالح بندوں کے ہاتھ میں رہے گا
پس عارضی مَیں اس لئے کہتا ہوں کہ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ کا حکم موجود ہے۔
مستقل طور پر تو فلسطین عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ کے ہاتھ میں رہنی ہے۔ سو خداتعالیٰ کے عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ لازماً اس ملک میں جائیں گے۔ نہ امریکہ کے ایٹم بم کچھ کر سکتے ہیں، نہ ایچ بم کچھ کر سکتے ہیں، نہ روس کی مدد کچھ کر سکتی ہے۔ یہ خدا کی تقدیر ہے یہ تو ہو کر رہنی ہے چاہے دنیا کتنا زور لگا لے۔
وَعْدُالْاٰخِرَۃِ کے متعلق ایک اعتراض کا جواب
اس جگہ پر ایک اعتراض کیا جا سکتا
ہے اوروہ اعتراض یہ ہے کہ یہاں وَعْدُ الْاٰخِرَةِ فرمایا ہے اور تم یہ کہتے ہو کہ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ سے مراد آخری زمانہ ہے مگر سورۃ بنی اسرائیل کی وہ پہلی آیتیں جو تم نے پڑھی تھیں وہاں بھی تو ایک وَعْدُ الْاٰخِرَةِ کا ذکر ہے جس میں رومیوں کے حملہ کا ذکر ہے تو کیوں نہ یہ سمجھا جائے کہ یہ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا رومیوں کے حملہ کے متعلق ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ وہ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ نہیں ہو سکتا اس لئے کہ اس صورت میں وَعْدُ الْاٰخِرَةِ کو عذاب کا قائم مقام قرار دیاہے اور اس صورت میں وَعْدُ الْاٰخِرَةِ کو انعام کا قائم مقام قرار دیا ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ عذاب کی پیشگوئی کو انعام سمجھ لیا جائے۔ اُس جگہ تو فرمایا ہے کہ جب آخرت کا وہ وعدہ آئیگا تو تم کو تباہ کر دیا جائے گااور اِس آیت میں یہ ذکر ہے کہ جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو پھر تم کو اس ملک میں لا کر بسا دیا جائے گا۔ اِس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ وَعْدُ الْاٰخِرَةِاَور ہے اور وہ وَعْدُ الْاٰخِرَةِاَور ہے۔ وہاں وَعْدُ الْاٰخِرَةِ سے مراد ہے موسوی سلسلہ کی پیشگوئی کی آخری کڑی۔ اور یہاں وَعْدُ الْاٰخِرَةِ سے مراد ہے آخری زمانہ یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی پیشگوئی۔ پس یہ الفاظ گو ملتے ہیں لیکن دونوں کی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ یہ اَور وعدہ ہے اور وہ اَور وعدہ ہے۔ وہ وعدہ عذاب کا ہے اور یہ وعدہ انعام کا ہے اور انعام کا قائم مقام عذاب کا وعدہ نہیں ہو سکتا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ ''تمہاری موت آئیگی'' اور دوسری دفعہ کہے ''تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہوگا'' تو اب کوئی شخص یہ کہے کہ ''تمہاری موت آئیگی'' کے یہی معنے ہیں کہ ''بیٹا پیدا ہوگا'' تو یہ حماقت کی بات ہوگی کیونکہ اس میں انعام کا وعدہ کیا ہے اور وہاں عذاب کا وعدہ ہے۔'' (الناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ۔ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
''اب میں دعا کرکے جلسہ کو ختم کروں گا۔کچھ تاریں ہیں،وہ میں دعا سے پہلے سنا دیتا ہوں۔''
تاریں سنانے کے بعد فرمایا: -
''پہلے بھی میں دعا کے لئے کہہ چکا ہوں اب احباب سب مل کر دعا کرلیں۔ میں بوجہ کمزوری صحت کے زیادہ نہیں بول سکتا۔ یوں بھی اب میرا گلا کچھ بیٹھ رہا ہے بہر حال اب جلسہ ختم ہے اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے پھر ایک سال ہم کو اکٹھا ہونے کا موقع دے دیا۔ اب سب دوست مل کر دعا کر لیں ۔ اس کے بعد اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہونے کی اجازت ہو گی۔ مگر یہ اب کہ فیصلہ کریں کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ اخلاقی حالت میں تغیر پیدا کرنا اپنے ذمہ لگا لے اور یہ عہد کر لے کہ میں نے یہ ضرور قربانی کرنی ہے۔ کوئی سچ پر ہی قائم ہو جائے، کوئی پردے پر ہی قائم ہو جائے، کوئی تعلیم پر ہی قائم ہو جائے۔ غرض کوئی نہ کوئی چیز عملی طور پر لے لے جس سے کہ ہم دنیا کے سامنے نمونہ پیش کر سکیں اور کہہ سکیں کہ ہماری جماعت اِس چیز کو قائم کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہے۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ ساری نیکیاں کسی میں موجود ہوں۔ چاہے ایک ہی نیکی نمونہ کے طو رپر ہو۔ چاہے سچ ہی کسی میں پورے طور پر آ جائے تو وہی بڑا اثر پیدا کر لیتا ہے بعد میں دوسری نیکیوں کی باری باری توفیق مل جائے گی۔
ہمارے ایک احمدی ہیں میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ ان کا خاندان چور تھا اب تو وہ پنشن لے کر بھی آ گئے ہیں۔ چنیوٹ کے پاس ہی رہنے والے ہیں۔ جب احمدی ہوئے تو انہوں نے بُری باتوں کو چھوڑ دیا اور سچ بولنے لگ گئے۔ جب ان کے بھائیوں نے یا باپ نے بھینس وغیرہ چُرا کر لائی یا جانور لائے تو لوگوں نے آ کر کہنا کہ تم لائے ہو کیونکہ وہ مشہور چور تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو نہیں لائے۔ قسمیں کھانی، قرآن کھانا اور یہ ان کے نزدیک بالکل آسان بات تھی۔ آخر انہوں نے کہنا ہم نہیں مانتے ہاں یہ لڑکا گواہی دے دیوے تو پھر ہم مان لیں گے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ احمدی ہو گیا ہے جھوٹ نہیں بولتا۔ انہوں نے کہنا کہ اس کافر کی گواہی کیا لینی ہے یہ تو کافر ہے اِس کی کیا گواہی ہے۔ انہوں نے کہنا نہیں اِسی کا فر کی گواہی ماننی ہے۔ ہے تو یہ کافر پر بولتا سچ ہے۔ جو کچھ یہ کہہ دے گا وہ مانیں گے۔ اب اس کو انہوں نے الگ لے جانا اور جا کر کہنا کہ دیکھو! تم نے کہنا ہے ''نہیں لائے بھینس'' اُس نے کہنا لائے تو ہو، وہاں کھڑی ہے بھینس۔ وہ کہتے کمبخت! تجھے ہم کہہ رہے ہیں ہم نہیں لائے یہ تم نے کہنا ہے۔ وہ کہتا کہ میں کس طرح کہوں جب بھینس وہاں کھڑی ہے۔ انہوں نے کہنا ہم بھائیوں کی خاطر تم جھوٹ نہیں بولو گے؟ اس نے کہنا کہ جھوٹ تو میں نہیں بولوں گابولوں گا تو سچ ہی۔ انہوں نے خوب کُوٹنا اور کُوٹ کاٹ کے سمجھنا کہ اب اِس کو اچھا سبق آ گیا ہے چنانچہ اسے پکڑ کر اُن کے سامنے لے جانا۔ انہوں نے بھی دیکھ لینا کہ خوب کُوٹا ہؤا ہے۔ انہوں نے پوچھنا کہ کیوں بھئی بھینس لائے ہیں؟ وہ کہتا جی ہاں لائے ہیں وہاں کھڑی ہوئی ہے۔ پھر انہوں نے کہنا تجھے اتنا مارا تھا مگر پھر بھی تجھے سبق نہیں آیا۔ وہ کہتا جب وہ کھڑی ہوئی ہے تو میں کیا کرتا۔ اب دیکھو وہ اسے کافر کہتے تھے لیکن ساتھ ہی اُسے سچ بولنے میں ایک نمونہ بھی سمجھتے تھے۔
اِس طرح کسی ایک خُلق کو لے لو اور اس میں اپنے آپ کو اتنا نمایاں ثابت کرو کہ سارا محلہ، سارا دفتر، سارا علاقہ کہے کہ یہ اِس بات میں سچا ہے۔ ہمارے کئی بزرگ گزرے ہیں ان کا تاریخی طور پر واقعہ آتا ہے کہ باپ مثلاً بزاز تھا اور وہ کپڑا جوبیچنے لگا تو بیٹا کہنے لگا ابا کیا کر رہے ہیں؟ اس میں تو فلاں جگہ پر داغ پڑا ہؤا ہے۔ اب وہ گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں کہ کیا کہہ رہا ہے لیکن اس نے پھر یہی کہنا کہ نہیں نہیں داغ میں نے آپ دیکھا تھا۔ اِس کا اثر یہ تھا کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ بیٹا جو بات کرے گا وہ ٹھیک ہو گی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ اِسی طرح ہے۔ ان کے اندر فطرتِ صحیحہ پائی جاتی تھی۔ باپ تو ان کے فوت ہو چکے تھے۔ چچا تھے جو اُن کو پالتے تھے۔ وہ بت خانہ کے افسر بھی تھے اور بت بھی بنا بنا کر بیچا کرتے تھے اور لوگ ان سے بت لینے آتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی انہوں نے دکان پر بٹھا دیا کہ یہ لڑکا ذرا تجارت کاواقف ہو جائے۔ وہ اپنے چچیرے بھائیوں کے ساتھ دکان پر بیٹھنے لگ گئے۔ ایک دن کوئی بڈھا آیا اور اس نے آ کر کہا کہ میں نے ایک بت لینا ہے۔ کوئی ستّر اسّی سال کا بڈھا تھا لڑکوں نے جو دکان پر بیٹھے ہوئے تھے کہا کہ آپ چن لیجئے کون سا پسند ہے۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھ کے اوپر ایک بت رکھا ہؤا تھا اُس کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگا مجھے یہ پسند ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک قہقہہ مارا۔ اس نے کہا تم کیوں ہنسے؟ وہ کہنے لگے کل میرے سامنے ایک آدمی بت بنا کے لایا تھا جو کل کا بنا ہؤا ہے۔ تم اتنے بڑے بڈھے اِس کے آگے سجدہ کرو گے؟ اُس نے جھٹ بُت پھینک دیا اور چل پڑا۔ بھائیوں نے خوب کُوٹا اور کہا کہ تم نے خواہ مخواہ ہمارا گاہک خراب کر دیا ہے۔ تو ایک نیکی بھی اگر انسان کے اندر آ جائے تو وہ اُس کو نمایاں کر کے لے جاتی ہے۔
پس یہ سننے کی عادت اب چھوڑو۔ کسی ایک چیز کو لے لو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کیا لے لو کسی ایک چیز کو لو اور پھر اس میں تم مشہور ہو جاؤ۔ جیسے بمبئی کے لوگ کہتے ہیں فلاں باٹلی والا ہے اِسی طرح تمہارا ایک نام ہو جائے کہ فلاں سچ والا ہے، فلاں دیانت والا ہے، فلاں ہمدردی والا ہے۔ بس تمہارا ایک نام پڑ جائے پھر دیکھو کہ لوگوں پر اِس کا کیسا اثر ہوتا ہے اور خود تمہیں کتنی دلیری پیدا ہو جاتی ہے کہ چلو میں ہمدردی والا بن گیا، دیانت والا بھی بن جاؤں۔ سچ والا بن گیا ہوں، انصاف والا بھی بن جاؤں۔ تو کوئی نہ کوئی چیز اپنے اندر پیدا کر لو تا کہ لوگوں کے لئے یہ نمونہ ہو جائے اور ہمارے اندر ایسی اخلاقی طاقت پیدا ہو جائے کہ دنیا پر ہماری اخلاقی برتری اور ہماری نیکی کی فوقیت ثابت ہو جائے۔
پھر دعا کرو جیسا کہ میں نے کہا تھا اِس وقت سارے ہی اسلامی ممالک اِلَّامَاشَاءَ اللہُبہت خطرے کی حالت میں ہیں۔ کہیں اندرونی خطرے ہیں کہیں بیرونی خطرے ہیں، کہیں دباؤ ہیں کہیں لالچیں ہیں، کہیں حرصیں ہیں، کہیں ڈراوا ہے، کہیں دھمکیاں ہیں۔ تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اِتنی مدت کی غلامی کے بعد اب اس نے جو مسلمانوں کو آزاد کیا ہے تو اَب بخشنے پر آیا ہے تو پھر پوری ہی بخشش دے بجائے اس کے کہ ادھوری چیز دے۔ خصوصاً پاکستان کی طاقت اور آزادی کے لئے دعا کرو اور اپنی وفا کا کامل نمونہ دکھاؤ تا تمہاری وفا کو دیکھ کر دوسرے بھی باوفا ہو جائیں۔
پھر سب سے بڑا غلام اور سب سے زیادہ مصیبت زدہ تو اسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ وہ اس غلام کو بھی آزادی بخشے اور اس کی بھی وہی عزت قائم کر دے جو پہلے زمانہ میں تھی۔ یہ جو شاہی تخت کا مستحق تھا آج وہ آفتابہ اٹھائے ہوئے امیروں کے ہاتھ دھلوا رہا ہے۔ خداتعالیٰ اس کو بھی اس غلامی سے آزاد کرے اور پھر تختِ شاہی پر بٹھائے تا کہ ہم لوگ بھی سرخرو ہوں اور ہماری بھی عزت دنیا میں قائم ہو ۔ ہماری عزت تو اسلام سے ہی ہے۔ اگر اسلام کی عزت نہیں تو ہماری کوئی عزت نہیں۔ ایسی عزت سے *** بہتر ہے جو اسلام کے نقصان کے بعد ہم کو حاصل ہو۔ پھر جو تمہارے باہر کے بھائی ہیں اور مبلّغ ہیں ان کے لئے دعائیں کرو، ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے بھی دعائیں کرو۔ ہندوستان کے مسلمان بھی بڑی مشکلات میں ہیں۔ بے شک وہ ایک دنیوی حکومت کہلاتی ہے لیکن پھر بھی اکثریت مسلمانوں کے ساتھ پوری طرح انصاف نہیں کر رہی۔ ان کے لئے بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور ان میں سے بھی کشمیر کے مسلمانوں کے لئے خاص طور پر دعا کرو کہ وہ ان کا حامی اور ان کا محافظ ہو۔ پھر جو اپنے مبلغ ہیں ان کے لئے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کے کام میں برکت دے۔ اپنے لئے دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں دین کی خدمت کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ وعدے کرنے کی توفیق دے اور اچھے سے اچھے طور پر پورا کرنے کی توفیق دے تا کہ ہمارے تمام کام خوش اسلوبی سے طے ہوں اور ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہو کر جائیں۔ جن لوگوں نے اِس وقت خدمت کی ہے حفاظت کے کام کی یا لنگر کے کام کی یا کھانا پہنچانے کے کام کی۔ یہ سارے کے سارے جو خدمت کرنے والے ہیں درحقیقت اللہ کے لئے انہوں نے کام کیا ہے اس لئے وہ مستحق ہیں کہ ہم ان کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانی کو قبول کرے اور اعلیٰ سے اعلیٰ انعام ان کو دے۔ اور پھر یہ بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے بڑھانے کے سامان پیدا کرے، لوگوں کے دلوں سے بُغض اور نفرت دور کرے اور ہمیں وہ طریقے بتائے کہ جن کے ذریعہ سے ہم زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف کھینچ کر لائیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کرنے والی جماعت بڑھتی چلی جائے اور اس کے لئے قربانی کرنے والے ترقی کرتے چلے جائیں اور ہمارے ملک کے لوگوں میں ہماری نسبت جو بدظنیاں ہیں وہ دور ہوں اور جو ہماری نیکیاں ہیں وہ ان کے سامنے آئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے، اللہ تعالیٰ ہم کو نیک کام کرنے کی توفیق دے اور اُن کو نیک کاموں کو نیک دیکھنے کی توفیق دے۔ پس آؤ ہم دعا کریں۔ دعا کے بعد ہم رخصت ہوں گے اور اللہ تعالیٰ جب چاہے گا پھر
ملیں گے۔ '' (الفضل 25جنوری 1955ء)
1 نچلی: نِچلی نہ بیٹھنا: ایک حالت پر قائم نہ رہنا۔ کچھ نہ کچھ کیے رکھنا
2 بھرّے: بھرّا : ترغیب ۔ تحریک۔ تحریص۔ دھوکا۔ فریب
3 الانفطار: 11تا 13
4 کنسوئیاں : چھُپ کر کسی کی باتیں سننا
5 میکسی میلین (MAXIMILIAN) (1832ء – 1867ء)
FERDINAND MAXIMILIAN JOSEPH آسٹریا کے صدر مقام ویانا میں آسٹریا کے شہزادہ FRANZ KARL کے گھر پیدا ہوا۔ 22 سال کی عمر میں آسٹرین نیوی کو کمانڈ کیا۔ 1857ء میں میکسی میلین کو وائس کنگ (VICE KING) کے طور پر مقرر کیا گیا۔ 1863ء میں فرانس کے نپولین III اور میکسیکوکی شاہی حکومت کے بعض ممبران کی مدد سے میکسیکو کا حکمران بنا۔ جہاں اسے بہت مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ اسے گرفتار کر لیا گیا اور 1867ء میں قتل کر دیا گیا۔ (Wikipedia, the free Encyclopedia)
6 الانعام : 23 ، 24 7 حٰم السجدۃ : 21
8 کچا چِٹھا : صحیح صحیح حال۔ کُل کیفیت
9 النور : 25
10 بخاری کتاب الرّقاق باب مَنْ ھَمَّ بِحَسَنَۃٍ اَوْ بِسَیِّـئَۃٍ
11 الاعلٰی : 8 12 ھود : 6 13 المجادلۃ : 7
14 الکھف : 50 15 الحاقّۃ : 26 تا 28 16 الحاقّۃ : 20 ،21
17 حٰم السجدۃ : 22 18 التغابن : 10
19 المفردات فی غریب القرآن۔ لامام راغب اصفہانی صفحہ 454 مطبوعہ بیروت 2002ء
20 الفرقان : 71
21 مسلم کتاب الایمان باب اَدْنٰی اَھل الجنۃ منزلۃً فِیْھا
22 ،23 تذکرۃ الاولیاء صفحہ 343تا 345۔ از فرید الدین عطار۔ مطبوعہ 1990ء لاہور
24 حٰم السجدۃ : 9 25 اٰل عمران : 97 ،98
26 سیرت ابن ھشام جلد ١ صفحہ 81 مطبوعہ مصر 1295ء
27 الفیل : 2 ،3 28 الانبیاء : 106 29 بنی اسراء یل : 6 ،7
30 بنی اسراء یل : 8 ،9
31
32 بنی اسراء یل : 105
33 مسلم کتاب الفتن باب لَا تقوم السّاعَۃُ حَتّٰی یمر الرجل بقَبْرِ الرَّجل (الخ)
منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات
(1956ء-7-23 تا 1956ء -11-27)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں مولوی محمدصدیق صاحب شاہد مربی سلسلہ راولپنڈی کی طرف سے ایک رپورٹ موصول ہوئی۔ وہ رپورٹ اور اُس پر حضور نے جو پیغام احبابِ جماعت کے نام ارسال فرمایا وہ درج ذیل ہے:
(1)مولوی محمد صدیق صاحب شاہد کا خط
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سیّدنا و امامنا حضرت ...........خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
مکرم چیمہ صاحب افسر حفاظت نے مجھے کہا ہے کہ حضور اقدس کی خدمت میں لکھوں کہ راولپنڈی میں اﷲ رکھا کو تم نے کس کے کہنے پر رکھا تھا؟ عرض ہے کہ گزشتہ رمضان کے مہینہ کی بات ہے کہ انجمن احمدیہ راولپنڈی میں اﷲ رکھا آیا اور مہمان خانہ میں رہنے کے لئے کہا۔ میں نے جواب دیا کہ تم کو قادیان سے نکالا گیا تھا اس لئے اس جگہ نہیں رہ سکتے۔ اس پر کہنے لگا کہ مجھے معافی مل چکی ہے۔
(1) خصوصیت سے حضرت میاں بشیر احمد صاحب کا نام لیا کہ انہوں نے بھی مجھے ایک چٹھی امراء کے نام لکھ کر دی تھی لیکن اس وقت میرے پاس نہیں ہے۔
(2) علاوہ اس کے اَور بھی خاندان کے افراد کی چٹھیاں میرے پاس ہیں۔ ایک خط میاں عبدالوہاب صاحب عمر کا مجھے دکھایا جس میں محبت بھرے الفاظ میں اﷲ رکھا سے تعلقات کا اظہار کیا گیا تھا کہ ہم تو بھائیوں کی طرح ہیں اور امّی جان تم کو بیٹوں کی طرح سمجھتی تھیں۔ یہ خط میں نے خود پڑھا تھا اور اس سے میری تسلی ہو گئی اور میں نے اس کو احمدی خیال کر کے مہمان خانے میں رہنے کی اجازت دے دی۔
(3) راولپنڈی میں میرے پاس تین دن رہنے کے بعد کہنے لگا کہ مولوی علی محمد صاحب اجمیری (سیکرٹری رُشدو اصلاح) میرے اپنے آدمی ہیں اس لئے میں وہاں جاتا ہوں۔ وہاں کئی دن رہا اور اس دوران میں ملتا رہا اور مختلف احمدیوں خصوصاً کرنل محمود صاحب کے گھر سے کھانا بھی کھاتا رہا۔
(4) چند دنوں کے بعد اپنا تھوڑا سا سامان میرے پاس چھو ڑ کر کہنے لگا کہ میں اگلی جماعتوں کا دورہ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کہہ کر کیمل پور، پشاور، مردان، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور بالاکوٹ تک قریباً ڈیڑھ مہینہ پھرتا رہا اور اب راولپنڈی اپنا سامان لینے کے لئے واپس آیا۔ چونکہ خاکسار مری تھا اس لئے اس جگہ آ گیا اور آج ہی راولپنڈی واپس گیا ہے اور جاتے ہوئے مندرجہ ذیل پتہ دے گیا ہے۔ نسبت روڈ نمبر 44 بر مکان غلام رسول 35 لاہور۔ اور کہہ گیا کہ راولپنڈی سے ہو کر ربوہ جاؤں گا اور وہاں چند دن رہنے کے بعد لاہور جاؤں گا۔
خدا بہتر جانتا ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے سچ اور صحیح لکھا ہے اور میں نے کسی چیز کو چھپایا نہیں ہے اور میں نے اﷲ رکھا سے یہ سلو ک محض اس لئے کیا کہ وہ احمدی ہے اور باقی افرادِ جماعت بلکہ مکرم امیر صاحب راولپنڈی کو بھی ملتا رہاہے۔ ان میں سے کسی نے بھی مجھے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کو اپنے پاس مت رکھو۔
نوٹ: لاہور میں وہ اکثر جودھامل بلڈنگ میں مکرم عبدالوہاب صاحب عمر اور حافظ اعظم صاحب کے پاس رہتا ہے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ میرے تعلقات حافظ مختار احمد صاحب اور مولوی خورشید احمد منیر مربی لاہور اور قاضی محمد یوسف صاحب پراونشل امیر سرحد کے ساتھ گہرے ہیں۔
والسلام
حضور کا ادنیٰ غلام
دستخط محمد صدیق شاہد مربی۔مری
1956ء-7-23 ’’
(الفضل 25 جولائی 1956ء)
حضرت مصلح موعود کا انقلاب آفریں پیغام مؤرخہ 1956ء-7-23
''اﷲ رکھا وہ شخص ہے جس نے قادیان کی جماعت کے بیان کے مطابق قادیان میں فساد مچایا تھا اور بقول ان کے قادیان کے درویشوں کو تباہ کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ اور جب قادیان کی انجمن نے اس کو وہاں سے نکالا تو ان کے بیان کے مطابق اس نے بھارتی پولیس اور سکھوں اور ہندوؤں سے جوڑ ملایا اور قادیان کے درویشوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ جتنا وہ اس کو قادیان سے نکالنے کی کوشش کرتے رہے اُتنا ہی یہ بھارتی پولیس کی مدد سے قادیان میں رہنے کی کوشش کرتا رہا۔ کوہاٹ کی جماعت کے نمائندوں نے ابھی دو دن ہوئے مجھے بتایا کہ یہ شخص کوہاٹ آیاتھا اور وہاں اس نے ہم سے کہا تھا کہ جب خلیفۃ المسیح الثانی مر جائیں گے تو اگر جماعت نے مرزا ناصر احمد کو خلیفہ بنایا تو میں ان کی بیعت نہیں کروں گا۔ ہم نے جواباً کہا کہ مرزا ناصر احمد کی خلافت کا سوال نہیں تُو ہمارے زندہ خلیفہ کی موت کا متمنّی ہے اس لئے تُو ہمارے نزدیک خبیث آدمی ہے، یہاں سے چلا جا۔ ہم تجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔ مولوی محمد صدیق صاحب نے جو اس کا بتایا ہؤا پتہ لکھا ہے کوہاٹ کی جماعت نے دفتر کو بتایا کہ اسی جگہ کے رہنے والے چند نام نہاد احمدیوں کا اس نے نام لیا اور کہا کہ انہوں نے مجھے کرایہ دے کر جماعتوں کے دورے کے لئے بھجوایا ہے۔ مولوی محمد صدیق صاحب کے بیان سے ظاہر ہے کہ وہ مزید دوروں کے لئے پھر رہا ہے۔ چودھری فضل احمد صاحب جو نواب محمد دین صاحب مرحوم کے رشتہ کے بھائی ہیں اور نہایت مخلص اور نیک آدمی ہیں اُنہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے بھی ایک دن روک کر کھڑا ہو گیا تھا اور کہتا تھا میں مُلک بھر میں پھر رہا ہوں۔ مربی راولپنڈی کے بیان کے مطابق میاں عبدالوہاب صاحب نے اس کو ایک خط دیا تھا جس میں لکھا تھا کہ تم ہمارے بھائیوں کی طرح ہو اور ہماری والدہ بھی تم سے بہت محبت کرتی تھیں۔ اگر ایسا کوئی خط تھا تو یہ بیان بالکل جھوٹ اور افترا ہے کیونکہ میاں عبدالوہاب کی والدہ اس شخص کو جانتی بھی نہ تھیں کیونکہ وہ ربوہ میں رہتی تھیں اور یہ شخص قادیان میں تھا اور جماعت کی پریشانی کا موجب بن رہا تھا۔ نیز وہ تو وفات سے قبل ذیابیطس کے شدید حملہ کی وجہ سے نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑی رہتی تھیں اور ان کی اولاد ان کو پوچھتی تک نہ تھی اور میں ان کو ماہوار رقم محاسب کے ذریعہ سے علاوہ انجمن کے حضرت خلیفہ اوّل کی محبت اور ادب کی وجہ سے دیا کرتا تھا۔ بلکہ جب میں بیمار ہؤا اور یورپ گیا تو ان کی نواسیوں کو تاکید کر گیا تھا کہ ان کی خدمت کے لئے نوکر رکھو جو خرچ ہو گا میں ادا کروں گا۔بہرحال ایک طرف تو جماعت مجھے یہ خط لکھتی ہے کہ ہم آپ کی زندگی کے لئے رات دن دعائیں کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک شخص کا خط مجھے آج ملا کہ میں تیس سال سے آپ کی زندگی کے لئے دعا کر رہا ہوں۔ دوسری طرف جماعت اس شخص کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے جو میری موت کا متمنّی ہے۔ آخر یہ منافقت کیوں ہے؟ کیا میاں عبدالوہاب کا بھائی ہونا محض اس وجہ سے ہے کہ وہ شخص میری موت کا متمنّی ہے؟ کوئی تعجب نہیں کہ وہ مری میں صرف اس نیت سے آیا ہو کہ مجھ پر حملہ کرے۔ جماعت کے دوستوں نے مجھے بتایا ہے کہ جب ہم نے اس کو گھر سے نکالا کہ یہ پرائیویٹ گھر ہے تمہیں اس میں آنے کا کوئی حق نہیں تو اس نے باہر سڑک پر کھڑے ہو کر شور مچانا شروع کر دیا تاکہ اردگرد کے غیر احمدیوں کی ہمدردی حاصل کرے۔ اب جماعت خود ہی فیصلہ کرے کہ میری موت کا متمنّی آپ کا بھائی ہے یا آپ کا دشمن۔ آپ کو دو ٹوک فیصلہ کرنا ہو گا اور یہ بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ جو اس کے دوست ہیں وہ بھی آپ کے دوست ہیں یا دشمن۔ اگر آپ نے فوراً دو ٹوک فیصلہ نہ کیا تو مجھے آپ کی بیعت کے متعلق دوٹوک فیصلہ کرنا پڑے گا۔ اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد جس جماعت اور جماعت کے افراد کی طرف سے اس دشمنِ احمدیت اور اس کے ساتھیوں کے متعلق براءت کی چِٹھیاں مجھے نہ ملیں تو میں ان کے خط پھاڑ کر پھینک دیا کروں گا اور ان کی درخواستِ دعا پر توجہ نہ کروں گا۔ یہ کتنی بے شرمی ہے کہ ایک طرف میری موت کے متمنّی اور اس کے ساتھیوں کو اپنا دوست سمجھنا اور دوسری طرف مجھ سے دعاؤں کی درخواست کرنا۔
مہربانی کر کے یہ لوگ جن کا نام مولوی صدیق صاحب کے بیان میں ہے یعنی قاضی محمد یوسف صاحب امیر سرحد، حافظ مختار احمد صاحب اور مولوی خورشید احمد صاحب منیر مربی لاہور وہ بھی بتائیں کہ ان کا اس شخص کے ساتھ کیا تعلق ہے یا اس نے اپنے ساتھیوں کی عادت کے مطابق افترا سے کام لیا ہے۔ جن لوگوں کا نام اس شہادت میں آیا ہے ان کے متعلق میرے پاس مزید شہادتیں پہنچ چکی ہیں۔ عنقریب میں ان کو مکمل کر کے شائع کروں گا اور اگر ان لوگوں کی طرف سے چھیڑ خانی جاری رہی تو میں غور کروں گا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ اور میں جماعت کی بھی نگرانی کروں گا کہ وہ اﷲ رکھا اور اس کی قماش کے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔
جماعت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ تذکرہ میں پسرِ موعود کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات شائع ہوئے ہیں ان الہامات کے خاص خاص حصّے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پرائیویٹ طور پر حضرت خلیفہ اوّل کو کیوں لکھے؟ آخر مستقبل سے کچھ تو اس کا تعلق تھا۔ کیوں نہ حضرت صاحب نے سب باتیں سبز اشتہار میں لکھ دیں اور کیا وجہ ہے کہ پیر منظور محمد صاحب موجد قاعدہ یسّرنا القرآن نے جو حضرت خلیفہ اوّل کے سالے بھی تھے جب حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی میں پسرِ موعود پر ایک رسالہ لکھا تو اس پر حضرت خلیفہ اوّل نے یوں ریویو کیا کہ میں اس مضمون سے متفق ہوں۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ مَیں مرزا محمود احمد کا بچپن سے کتنا ادب کرتا ہوں۔ اس تبصرہ کی بھی کوئی حکمت تھی۔ اس کی کاپیاں اب تک موجود ہیں اور غالباً حضرت خلیفہ اوّل کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ریویو کا چربہ بھی اب تک موجود ہے''۔
مرزا محمود احمد
(خلیفۃ المسیح الثانی)
1956ء23-7- ''
(الفضل 25 جولائی 1956ء)
(2)مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے پہلے سالانہ اجتماع کے لئے پیغام مؤرخہ 1956ء-7-24
‘‘خیبر لاج مری (1956ء24-7-)
خدام الاحمدیہ کراچی
عزیزان ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ۔
آپ کے افسران نے مجھ سے خدام الاحمدیہ کراچی کے جلسہ کے لئے پیغام مانگا ہے۔میں اِس کے سوا پیغام کیا دے سکتا ہوں کہ 1914ء میں جب میں خلیفہ ہؤا اور جب میری صرف 26سال عمر تھی خدام الاحمدیہ کی بنیاد ابھی نہیں پڑی تھی مگر ہر احمدی نوجوان اپنے آپ کو خادمِ احمدیت سمجھتا تھا ۔مجھے یاد ہے کہ جس دن انتخابِ خلافت ہونا تھا مولوی محمدعلی صاحب کی طرف سے ایک ٹریکٹ شائع ہؤا کہ خلیفہ نہیں ہونا چاہئے صدر انجمن احمدیہ ہی حاکم ہونی چاہئے۔اُس وقت چند نوجوان نے مل کر ایک مضمون لکھا اور اُس کی دستی کاپیاں کیں۔ اُس کا مضمون یہ تھا کہ ہم سب احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت فیصلہ کر چکے ہیں کہ جماعت کا ایک خلیفہ ہونا چاہئے، اس فیصلہ پر ہم قائم ہیں اور تا زندگی قائم رہیں گے اور خلیفہ کا انتخاب ضرور کرا کے چھوڑیں گے۔ سکول کے درجنوں طالبعلم پیدل اور سائیکلوں پر چڑھ کے بٹالہ کی سڑک پر چلے گئے اور ہر نَو وارد مہمان کو دکھا کر اُس سے درخواست کی کہ اگر آپ اِس سے متفق ہیں تو اِس پر دستخط کر دیں۔ جماعت احمدیہ میں خلافت کی بنیاد کا وہ پہلاد ن تھا اور اس بنیاد کی اینٹیں رکھنے والے سکول کے لڑکے تھے۔ مولوی صدر الدین صاحب اُس وقت ہیڈ ماسٹر تھے اُن کو پتہ لگا تو وہ بھی بٹالہ کی سڑک پر چلے گئے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ سکول کا ایک لڑکا نو وارد مہمانوں کو وہ مضمون پڑھوا کر دستخط کروا رہا ہے۔ انہوں نے وہ کاغذ اُس سے چھین کر پھاڑ دیا اور کہا چلے جاؤ۔ وہ لڑکا مومن تھا اُس نے کہا مولوی صاحب! آپ ہیڈ ماسٹر ہیں اور مجھے مار بھی سکتے ہیں مگر یہ مذہبی سوال ہے میں اپنے عقیدہ کو آپ کی خاطر نہیں چھوڑ سکتا۔ فوراً جھک کر وہ کاغذ اٹھایا اور اُسی وقت پنسل سے اُس کی نقل کرنی شروع کر دی اور مولوی صاحب کے سامنے ہی دوسرے مہمانوں سے اُس پر دستخط کروانے شروع کر دیئے۔
اِس پر بیالیس سال گزر گئے میں اُس وقت جوان تھا اور اب 68 سال کی عمر کا ہوں اور فالج کی بیماری کا شکار ہوں۔ اُس وقت آپ لوگوں کی گردنیں پیغامیوں کے ہاتھ میں تھیں اور خزانے میں صرف اٹھارہ آنے کے پیسے تھے۔ میں نے خالی خزانہ کو لے کر احمدیت کی خاطر اُن لوگوں سے لڑائی کی جو کہ اُس وقت جماعت کے حاکم تھے اور جن کے پاس روپیہ تھا لیکن خدا تعالیٰ نے میری مدد کی اور جماعت کے نوجوانوں کو خدمت کرنے کی توفیق دی۔ ہم کمزور جیت گئے اور طاقتور دشمن ہار گیا۔ آج ہم ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور جن لوگوں کو ایک تفسیر پر ناز تھا اُن کے مقابلہ میں اتنی بڑی تفسیر ہمارے پاس ہے کہ اُن کی تفسیر اِس کا تیسرا حصہ بھی نہیں۔ جو ایک انگریزی ترجمہ پیش کرتے تھے اُس کے مقابلہ میں ہم چھ زبانوں کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ لیکن ناشکری کا بُرا حال ہو کہ وہی شخص جس کو پیغامی ستّرا بہّترا قرار دے کر معزول کرنے کا فتویٰ دیتے تھے اور جس کے آگے اور دائیں اور بائیں لڑ کر میں نے اُس کی خلافت کو مضبوط کیا اُس سے تعلق رکھنے والے چند بے دین نوجوان جماعتوں میں آدمی بھجوا رہے ہیں کہ خلیفہ بڈھا ہو گیا ہے اسے معزول کرنا چاہئے۔ اگر واقع میں مَیں کام کے قابل نہیں ہوں تو آپ لوگ آسانی کے ساتھ ایک دوسرے قابل آدمی کو خلیفہ مقرر کر سکتے ہیں اور اُس سے تفسیرِ قرآن لکھوا سکتے ہیں۔ میری تفسیریں مجھے واپس کر دیجئے اور اپنے روپے لے لیجئے۔ اور مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر یا اور جس تفسیر کو آپ پسند کریں اُسے پڑھا کریں۔ اور جو نئی تفسیر میری چھپ رہی ہے اُس کو بھی نہ چُھوئیں۔ یہ اوّل درجہ کی بے حیائی ہے کہ ایک شخص کی تفسیروں اور قرآن کو دنیا کے سامنے پیش کر کے تعریفیں اور شہرت حاصل کرنی اور اُسی کو نکمّا اور ناکارہ قرار دینا۔ مجھے آج ہی اللہ تعالیٰ نے الہام سے سمجھایا کہ''آؤ ہم مدینہ والا معاہدہ کریں''۔ یعنی جماعت سے پھر کہو کہ یا تم مجھے چھوڑ دو اور میری تصنیفات سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔ نہیں تو میرے ساتھ وفاداری کا ویسا ہی معاہدہ کرو جیسا کہ مدینہ کے لوگوں نے مکہ کی عقبیٰ جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کیا تھا اور پھر بدر کی جنگ میں کہا تھا یَا رَسُوْلَ اللہِ! یہ نہ سمجھیں کہ خطرہ کے وقت میں ہم موسیٰؑ کی قوم کی طرح آپ سے کہیں گے کہ جا تُو اور تیرا خدا لڑتے پھرو ہم یہیں بیٹھے ہیں۔ یَا رَسُوْلَ اللہِ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے، بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن اُس وقت تک آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا آگے نہ آئے1 سو گو میرا حافظ خدا ہے اور اُس کے دیئے ہوئے علم سے آج بھی مَیں ساری دنیا پر غالب ہوں لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنی جماعت کا امتحان لے اور اس سے کہہ دے کہ ''آؤ ہم مدینہ والا معاہدہ کریں'' سو تم میں سے جو شخص خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم کھا کر معاہدہ کرتا ہے کہ وہ اپنے آخری سانس تک وفاداری دکھائے گا۔ وہ آگے بڑھے۔ وہ میرے ساتھ ہے اور میں اور میرا خدا اُس کے ساتھ ہے۔ لیکن جو شخص دنیوی خیالات کی وجہ سے اور مخالفوں کے پروپیگنڈا کی وجہ سے بزدلی دکھانا چاہتا ہے اُس کو میرا آخری سلام۔ میں کمزور اور بوڑھا ہوں لیکن میرا خدا کمزور اور بوڑھا نہیں۔ وہ اپنی قہری تلوار سے ان لوگوں کو تباہ کر دے گا جو کہ اِس منافقانہ پروپیگنڈا کا شکار ہوں گے۔ اِس پروپیگنڈا کا کچھ ذکر الفضل میں چھاپ دیا گیا ہے چاہئے کہ قائد خدام اس مضمون کو بھی پڑھ کر سنا دیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کا حافظ و ناصر ہو۔ پہلے بھی اس کی مدد مجھے حاصل تھی اب بھی اس کی مدد مجھے حاصل رہے گی۔ میں یہ پیغام صرف اِس لئے آپ کو بھجوا رہا ہوں تا کہ آپ لوگ تباہی سے بچ جائیں۔ ورنہ حقیقتاً میں آپ کی مدد کا محتاج نہیں۔ ایک ایک مرتد کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ ہزاروں آدمی مجھے دے گا اور مجھے توفیق بخشے گا کہ میرے ذریعہ سے پھر سے جماعت جواں سال ہو جائے۔ آپ میں سے ہر مخلص کے لئے دعا اور کمزور کے لئے رخصتی سلام۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء24-7-’’
(الفضل 4/ اگست 1956ء)
(3)خلیفہ خدا تعالیٰ بنایا کرتا ہےپیغام مؤرخہ 1956ء-7-25
ایک اور شہادت جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ منافق پیغامیوں کے ایجنٹ ہیں۔
‘‘ذیل میں ایک اَور شہادت ظہور القمر صاحب ولد ہری داس کی جو ہندوؤں سے مسلمان ہوئے ہیں شائع کی جاتی ہے جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ منافق پارٹی پیغامیوں کی ایجنٹ ہے۔ ظہور القمر صاحب تحریر فرماتے ہیں۔ ''میں مسمّی ظہور القمر ولد ہری داس متعلم جامعۃ المبشرین ربوہ حال مسجد احمدیہ گُلڈنہ مری حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ تقریباً دس روز ہوئے ایک شخص جس نے اپنا نام اللہ رکھا سابق درویش قادیان بتایا مسجداحمدیہ گُلڈنہ میں آیا اور کہا کہ میں مولوی محمد صدیق مربی راولپنڈی کو ملنے آیا ہوں۔ میرا سامان راولپنڈی میں ان کے مکان پر ہے اور میں نے ان سے مکان کی چابی لینی ہے۔ اس کے بعد وہ مولوی محمد صدیق صاحب کو ملا اور انہوں نے اسے مسجد احمدیہ گُلڈنہ میں ٹھہرایا اور بستر وغیرہ بھی دیا۔ اور اس کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا مولوی محمد صدیق صاحب اسے اپنے ساتھ کھانا بھی کھلاتے رہے (مولوی محمد صدیق صاحب نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ چونکہ اس شخص نے ان سے کہا تھا کہ بڑے بڑے احمدی مجھ سے بڑی محبت کرتے ہیں اور میاں عبدالوہاب صاحب کا خط دکھایا تھا کہ آپ ہمیں بھائیوں کی طرح عزیز ہیں اور یہ بھی کہا تھا کہ میاں بشیر احمد صاحب کا خط بھی میرے پاس ہے۔ گو انہوں نے امرائے جماعت کو لکھا ہے کہ اس شخص کو معافی مل چکی ہے اب جماعت اس کے ساتھ تعاون کرے اور اس کی مدد کرے مگر یہ بھی کہا تھا کہ وہ خط اس وقت میرے ساتھ نہیں ہے۔ پس میں نے اس شخص پر حسن ظنی کی اور اس کو مخلص احمدی سمجھا اور یقین کیا کہ اس کو معافی مل چکی ہے) پھر ظہور القمر لکھتے ہیں کہ''میں عید الاضحی سے ایک روز قبل خیبر لاج میں آیا اور منشی فتح دین صاحب سے دریافت کیا کہ عید کی نماز کب ہو گی اور کون پڑھائے گا؟ منشی صاحب نے بتایا کہ ساڑھے آٹھ بجے ہو گی اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پڑھائیں گے، باہر صحن میں درخت کے ساتھ اعلان بھی لگا ہؤا ہے لہٰذا میں نے واپس جا کر سب دوستوں کو جو مسجد میں تھے نماز کے وقت کی اطلاع دی۔ اِسی ضمن میں اللہ رکھا مذکور کو بھی بتایا کہ کل نماز ساڑھے آٹھ بجے ہو گی اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نماز پڑھائیں گے تو اس نے جواب دیا کہ''میں ایسوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا'' دوسرے روز مولوی محمدصدیق صاحب اسے زبردستی خیبر لاج لائے اور اسے اپنے ہمراہ نماز کی ادائیگی کے لئے کہا۔ اللہ رکھا کہتا تھا کہ میں پیغامیوں کی مسجد میں نماز پڑھوں گا۔ نیز وہ جتنے روز یہاں رہا پیغامیوں کا لٹریچر تقسیم کرتا رہا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کی خط و کتابت مولوی صدر دین صاحب سے ہے اور ہر روز وہ کہا کرتا تھا کہ میں نے انہیں آج خط لکھا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ ابتدائی دنوں میں پیغامیوں کی مسجد میں رہتا رہا ہے اور میاں محمد صاحب لائلپوری جو کچھ عرصہ پیغامیوں کے امیر رہے ہیں اور گزشتہ دنوں مری میں تھے ان کے گھر جا کر کھانا کھاتا رہا ہے۔ اور اس نے مجھے کہا کہ انہوں نے مجھے اجازت دے رکھی ہے کہ جب چاہو میرے گھر آ جایا کرو۔ میں رات کے گیارہ بجے تک مکان کا دروازہ کھُلا رکھا کروں گا۔ جس روز محمد شریف صاحب اشرف سے اللہ رکھا کا جھگڑا ہؤا تھا اُس دن رات کو جب وہ مسجد میں آیا تو اس نے کہا یہ میری پیشگوئی ہے کہ جس طرح پہلے خلافت کا جھگڑا ہؤا تھا اب پھر ہونے والا ہے آپ ایک ڈیڑھ سال میں دیکھ لیں گے''۔
(دستخط ظہور القمر 1956ء-7-25)
اس شہادت کو پڑھ کر دوستوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب سازش پیغامیوں کی ہے اور اللہ رکھا انہی کا آدمی ہے۔ وہ مولوی صدر دین غیر مبائع منکر نبوت مسیح موعود کے پیچھے نماز جائز سمجھتا ہے لیکن مرزا ناصر احمد جو حضرت مسیح موعود کا پوتا ہے اور ان کی نبوت کا قائل ہے اس کے پیچھے نماز جائز نہیں سمجھتا۔ اور پیشگوئی کرتا ہے کہ ایک دو سال میں پھر خلافت کا جھگڑا شروع ہو جائے گا۔
موت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے مگر یہ فقرہ بتاتا ہے کہ یہ جماعت ایک دو سال میں مجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ تبھی اسے یقین ہے کہ ایک دو سال میں تیسری خلافت کا سوال پیدا ہو جائے گا اور ہم لوگ خلافت کے مٹانے کو کھڑے ہوجائیں گے اور جماعت کو خلافت قائم کرنے سے روک دیں گے۔ خلافت نہ خلیفہ اول کی تھی نہ پیغامیوں کی۔ نہ وہ پہلی دفعہ خلافت کے مٹانے میں کامیاب ہوسکے نہ اب کامیاب ہوں گے۔ اُس وقت بھی حضرت خلیفہ اول کے خاندان کے چند افراد پیغامیوں کے ساتھ مل کر خلافت کو مٹانے کے لئے کوشاں تھے ۔مجھے خود ایک دفعہ میاں عبدالوہاب کی والدہ نے کہا تھا ہمیں قادیان میں رہنے سے کیا فائدہ۔ میرے پاس لاہور سے وفد آیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ اگر حضرت خلیفہ اول کے بیٹے عبدالحی کو خلیفہ بنادیا جاتا توہم اس کی بیعت کرلیتے مگر یہ مر زا محمود احمد کہاں سے آ گیا ہم اس کی بیعت نہیں کرسکتے ۔ وہی جوش پھر پیدا ہؤا ۔عبدالحی تو فوت ہو چکا اب شاید کوئی اَور لڑکا ذہن میں ہوگا جس کو خلیفہ بنانے کی تجویز ہوگی ۔ خلیفہ خداتعالیٰ بنایا کرتا ہے۔ اگرساری دنیا مل کر خلافت کو توڑنا چاہے اور کسی ایسے شخص کوخلیفہ بنا نا چاہے جس پر خدا راضی نہیں تو وہ ہزار خلیفہ اوّل کی اولادہو اُس سے نوحؑ کے بیٹوں کا سا سلوک ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ اس کو اور اسکے سارے خاندان کو اس طرح پیس ڈالے گا جس طرح چکّی میں دانے پیس ڈالے جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے نوحؑ جیسے نبی کی اولاد کی پروا نہیں کی نہ معلوم یہ لوگ خلیفہ اوّل کو کیا سمجھے بیٹھے ہیں۔ آخر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام تھے اور ان کے طفیل خلیفہ اوّل بنے تھے۔ ان کی عزت قیامت تک محض مسیح موعود ؑ کی غلامی میں ہے۔ بے شک وہ بہت بڑے آدمی تھے مگر مسیح موعودؑ کے غلا م ہو کر نہ کہ ان کے مقابل میں کھڑے ہو کر۔ قیامت تک اگر ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غلام قرار دیا جائے گا تو ان کا نام روشن رہے گا۔ لیکن اگر اس کے خلاف کسی نے کرنے کی جرأت کی تو وہ دیکھے گا کہ خدا تعالیٰ کا غضب اس پر بھڑکے گا اور اس کو ملیا میٹ کر دیا جائے گا۔ یہ خدا کی بات ہے جو پوری ہو کر رہے گی۔ یہ لوگ تو سال ڈیڑھ سال میں مجھے مارنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن آسمانوں کا خدا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ فرماتا ہے ‘‘سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح (یعنی کلام) ڈالیں گے’’ 2 میرے الہاموں کا زبردست طور پر پورا ہونا جماعت پچاس سال سے دیکھ رہی ہے اور جس کو شبہ ہو اَب بھی اس کے سامنے مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اخباروں میں چھپی ہوئی کشوف و رؤیا کے ذریعہ سے بھی اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب جیسے آدمیوں کی شہادت سے بھی۔
پھر خدا نے آپؑ سے فرمایا:-
‘‘وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا3 (یہ شہرت کس نے پائی؟) اور قومیں اس سے برکت پائیں گی4 (قوموں نے برکت کس سے پائی؟) پھر فرمایا:۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا5۔
پس میری موت کو خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور فرماتا ہے کہ جب وہ اپنا کام کر لے گا اور اسلام کو دنیا کے کناروں تک پہنچا لے گا تب میں اُس کو موت دوں گا۔ پس اِس قسم کے چُوہے محض لاف زنی کر رہے ہیں۔ ایک شخص نے مجھ پر چاقو سے حملہ کیا تھا مگر اُس وقت بھی خدا نے مجھے بچایا۔ پھر جماعت کی خدمت کرتے مجھ پر فالج کا حملہ ہؤا اور یورپ کے سب ڈاکٹروں نے یک زبان کہا کہ آپ کا اِس طرح جلدی سے اچھا ہو جانا معجزہ تھا۔ پھر فرمایا تیری نسل بہت ہو گی (جس پیشگوئی کے مطابق ناصر احمد پیدا ہؤا) پھر فرمایا اور میں تیری ذرّیت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا۔ مگر عبدالوہاب کے اس پیارے بھائی کے نزدیک اس پیشگوئی کے مصداق ناصر احمد کے پیچھے نماز پڑھنی ناجائز ہے مگر مولوی صدر دین کے پیچھے پڑھنی جائز ہے۔ پس خود ہی سمجھ لو کہ اس فتنہ کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ اور آیا یہ فتنہ میرے خلاف ہے یا مسیح موعودؑ کے خلاف۔ مسیح موعود فوت ہو چکے ہیں۔ جب وہ زندہ تھے تب بھی ان کو تم پر کوئی اختیار نہیں تھا۔ قرآن مجید میں خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے کہ تُو داروغہ نہیں۔6 اب بھی تم آزاد ہو چاہو تو لاکھوں کی تعداد میں مرتد ہو جاؤ۔ خدا تعالیٰ مٹی کے نیچے دبے ہوئے مسیح موعودؑ کی پھر بھی مددکرے گا اور ان لوگوں کو جو آپ کے خادموں کی طرف منسوب ہو کر آپ کے مشن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ذلیل وخوار کرے گا۔ تمہارا اختیار ہے خواہ مسیح موعود اور ان کی وحی کو قبول کرو یا مرتدوں کو اور منافقوں کو قبول کرو۔ میں اس اختیار کو تم سے نہیں چھین سکتا۔ مگر خدا کی تلوار کو بھی اس کے ہاتھ سے نہیں چھین سکتا۔
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء25-7- ’’
(الفضل 28 جولائی 1956ء)
(4)ضروری اعلان
‘‘جن کے خط فتنۂ منافقت کے بارہ میں پہنچ رہے ہیں وہ محفوظ رکھے جا رہے ہیں۔ میں سب دوستوں کو اجمالی طور پر جَزَاکَ اللہ کہتا ہوں۔ اور دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کی نسلوں کو ایمان پر قائم رکھے اور احمدیت کا خادم بنائے رکھے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ربوہ پہنچ کر ایک عام اعلان کے ذریعہ سب دوستوں کا ذکر کر دیا جائے گا۔’’
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء-7-26
(الفضل 29 جولائی 1956ء)
(5)احباب کے نام پیغام
‘‘برادران ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
جو نئے بیانات منافقت کا بھانڈا پھوٹنے کے سلسلہ میں احباب اوپر پڑھ چکے ہیں اب میں اسی سلسلہ میں کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ ان بیانات کو پڑھ کر آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ساری جماعت میں سے مومنانہ دلیری صرف حاجی نصیر الحق صاحب نے دکھائی ہے۔ ان کے بعد کسی قدر دلیری چودھری اسد اللہ خاں صاحب نے دکھائی ہے۔ گو ان سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ میں نے تو اپنے بعد صدر انجمن احمدیہ کا پریذیڈنٹ اَور شخص کو بنایا تھا انہوں نے مندرجہ بالا بیانات امیر جماعت ربوہ کو بھجوا دیئے حالانکہ یا وہ میرے پاس آنا چاہیئے تھے یا پریذیڈنٹ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے پاس جانے چاہیئے تھے۔ میاں بشیر احمد صاحب کا رویہ بھی نہایت بزدلانہ ہے۔ انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک واقعات کو دبائے رکھا اور ایسے لوگوں کے کام سپرد کیا جو خود ملوث تھے۔ شاید میاں بشیر احمد صاحب اس بات سے ڈرگئے کہ عبد الوہاب صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ خلیفۃ المسیح الثانی کو معزول کر کے میاں بشیر احمد صاحب یا چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو خلیفہ بنا دینا چاہئے وہ زیادہ موزوں ہیں۔ انہوں نے سمجھا ہو گا کہ اگر یہ رپورٹیں میں نے بھجوا دیں تو سمجھا جائے گا کہ میں بھی عبدالوہاب صاحب کی سازش میں شریک ہوں تبھی انہوں نے مجھے خلیفہ بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ واقعات کو دبانے کی یہ کوئی وجہ نہیں تھی۔ کسی فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
آں راکہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک است
بھائی تُو اپنا معاملہ صاف رکھ پھر تجھے کسی کے محاسبہ کا کیا ڈر ہو سکتا ہے۔ پس اپنا معاملہ صاف ہوتے ہوئے انہیں یہ کیوں ڈر پیدا ہؤا کہ مجھے عبد الوہاب کے ساتھ سازش میں شریک سمجھا جائے گا۔
ان بیانات میں جو چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کا ذکر آتا ہے اس کو دل مانتا نہیں کیونکہ ان کی ساری زندگی بڑے اخلاص سے گزری ہے لیکن ممکن ہے حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کی محبت کا جوش عارضی طور پر ان کے دل پر غالب آ گیا ہو اور انہوں نے یہ غیرمومنانہ طریق اختیار کیا ہو کہ جس شخص نے مومنانہ دلیری سے صحیح حالات لکھ دیئے اس پر خفاء ہوئے ہوں۔ بہرحال ایک لمبے تجربہ کے بعد جو میں نے ان کے متعلق رائے قائم کی ہے میں اس کو بدل نہیں سکتا اور اس وقت کا انتظار کرتا ہوں جب کہ وہ اپنے فعل کی تشریح لکھ کر مجھے بھیجیں۔
اسی سلسلہ میں مَیں جماعت کو یہ بھی اطلاع دیتاہوں کہ امیر جماعت احمدیہ لاہور کی تحقیقاتوں کے نتیجہ میں دشمنوں کے کیمپوں میں کھلبلی مچ گئی ہے اور انہوں نے چاروں طرف دوڑ دھوپ شروع کر دی ہے چنانچہ آج صبح ہی مری میں حافظ محمد اعظم کو دیکھا گیا جو جودھامل بلڈنگ میں رہتا ہے اور جس کا نام مختلف رپورٹوں میں آ چکا ہے۔ جب اس سے بعض احباب نے پوچھا کہ آپ یہاں کہاں؟ توا س نے کہا سید بہاول شاہ صاحب قائدانصار لاہور نے میرے خلاف بغاوت کی رپورٹ کر دی ہے اس لئے میں مرزا ناصر احمد صاحب سے مدد لینے کے لئے آیا ہوں لیکن بجائے مرزا ناصر احمد کی طرف جانے کے وہ سیدھا اس طرف گیا جہاں ہمارے غیر ملکی طالبعلم رہتے ہیں۔ کچھ دن پہلے مولوی صدر دین صاحب امیر پیغامیان بھی یہاں آئے ہوئے تھے۔
1948ء میں جب چینی طالبعلم آئے تھے تو ان کو پیغامی ایجنٹوں نے ورغلایا تھا اور اپنے گھر لے گئے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حافظ اعظم کے ساتھیوں نے جو درحقیقت پیغامیوں کے درینہ ایجنٹ ہیں ان کو غیر ملکی طالبعلموں کو بہکانے کے لئے بھیجا تھا۔ مربی مقامی نے اس کو مقامی مسجدا ور مقامی مہمان خانہ سے فوراً نکال دیا اور اکثر غیر ملکی طالبعلموں نے اس سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ پس جماعت سمجھ لے کہ مفسدوں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ اب مومنوں کو بھی اپنے دفاع اور فتنہ کے مٹانے کی طرف کوشش کرنی چاہئے تا کہ وہ عمارت جو پچاس سال میں اپنا خون بہا کر ہم نے کھڑی کی تھی اس میں کوئی رخنہ پیدا نہ ہو۔ ’’
(الفضل 28 جولائی 1956ء)
(6)حضرت عثمانؓ کے وقت میں ذرا سی غفلت نے اتحادِ اسلام کو برباد کر دیا تھا
‘‘ بعض کمزور طبع احمدی کہتے ہیں کہ کیا چھوٹی سی بات کو بڑھا دیا گیا ہے۔ لاہور کا ہرشخص جانتا ہے کہ عبدالوہاب فاتر العقل ہے پھر ایسے شخص کی بات پر اتنے مضامین اور اتنے شور کی ضرورت کیا تھی۔ حضرت عثمانؓ کے وقت میں جن لوگوں نے شور کیا تھا ان کے متعلق بھی صحابہؓ یہی کہتے تھے کہ ایسے زٹیل آدمیوں کی بات کی پروا کیوں کی جاتی ہے۔ حال ہی میں مری پر عیسائیوں نے حملہ کیا تھا اور ایک یہ اعتراض کیا تھا کہ تبوک کے موقع پر تمہارے رسول ہزاروں آدمیوں کو لے کر جلتی دھوپ میں اور بغیر سامان کے سینکڑوں میل چلے گئے جب وہاں گئے تو معلوم ہؤا کہ معاملہ کچھ بھی نہیں۔ کوئی رومی لشکر وہاں جمع نہیں تھے اگر وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے تو اتنی بڑی غلطی انہوں نے کیوں کی۔ کیوں نہ خدا تعالیٰ نے ان کو بتایا کہ یہ خبر جو رومی لشکر جمع ہونے کی آئی ہے غلط ہے تبوک کا واقعہ یوں ہے کہ پہلے ایک عیسائی پادری مکہ میں آیا اور مکہ سے اس نے مدینہ کے منافقوں سے ساز باز کیا اور ان کو تجویز بتائی کہ اس کے رہنے اور تبلیغ کرنے کے لئے وہاں ایک نئی مسجد بنائیں چنانچہ انہوں نے قبا نامی گاؤں میں ایک نئی مسجد بنا دی۔ وہ شخص چھپ کر وہاں آیا اور ان کو یہ کہہ کے روم کی طرف چلا گیا کہ میں رومی حکومت کو اکساتا ہوں تم ادھر یہ مشہور کر دو کہ رومی لشکر سرحدوں پر جمع ہو گیا ہے۔ جب محمد رسول اللہ اسلامی لشکر سمیت اس طرف جائیں گے اوروہاں کسی کو نہ پائیں گے اور سخت مایوس ہو کر لوٹیں گے تو تم مدینہ میں مشہور کر دینا کہ یہ دیکھو مسلمانوں کا رسول۔ بات کچھ بھی نہ تھی مگر اس نے اس کو اتنی اہمیت دے دی مگر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی تائید کی اور صرف تین آدمی جو سینکڑوں کے لشکر میں سے پیچھے رہ گئے تھے ان کو سخت ملامت کی اور ان میں سے ایک کابائیکاٹ کر دیا حالانکہ جب رومی لشکر تھا ہی نہیں تو تین چھوڑ کر تین ہزار آدمی بھی نہ جاتا تو اسلام کا کیا نقصان تھا۔ قرآن کو تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ یہ پیچھے رہنے والے بڑے عقلمند تھے اور جو لوگ اپنی فصلیں تباہ کر کے گرمی میں محمد رسول اللہ کے ساتھ گئے وہ بڑے احمق تھے۔ اس واقعہ میں ہم کو یہ بتایا گیا ہے کہ واقعہ خواہ کچھ بھی نہ ہو اگر مسلمان کو پتہ لگ جائے کہ منافق دین کے لئے کوئی خطرہ ظاہر کر رہے ہیں تو ساری امت مسلمہ کو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا ہو جانا چاہئے اور جو کوئی اس میں سستی کرے گا وہ مسلمانوں میں سے نہیں سمجھا جائے گا اور مسلمانوں کو اس سے مقاطعہ کرنا ہو گا۔ اب تبوک کے واقعہ کو دیکھو جو قرآنِ کریم میں تفصیل کے ساتھ بیان ہے اور دیکھو کہ احمدیوں میں سے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اتنی چھوٹی سی بات کو اتنا کیوں بڑھایا جا رہا ہے اور کیا ان کے ساتھ بولنا چالنا احمدیوں کے لئے جائز ہے۔ اگر وہ احمدی کہلا سکتے ہیں اور ان کے ساتھ بولنا چالنا جائز ہے تو پھر قرآن اور محمد رسول اللہ نے تبوک کے موقع پر غلطی کی ہے جس وقت کہ معاملہ چھوٹا ہی نہیں تھا بلکہ تھا ہی نہیں اور پھر وہ لوگ بتائیں کہ حضرت عثمانؓ کے وقت میں شرارت کرنے والے لوگوں کو حقیر قرار دینے والے لوگ کیا بعد میں اسلام کو جوڑ سکے۔ اگر وہ اس وقت منافقوں کا مقابلہ کرتے تو نہ ان کا کوئی نقصان تھا نہ اسلام کا کوئی نقصان تھا مگر اس وقت کی غفلت نے اسلام کو بھی تباہ کر دیا اور اتحادِ اسلام کو بھی برباد کر دیا۔
وَالسَّلَام
خاکسار
مرزا محمود احمد
1956ء-7-28 ’’
(الفضل 30 جولائی 1956ء)
(7)ضروری اعلان
‘‘سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت کے مطابق تحریر ہے:۔
‘‘ کرنل محمود صاحب کا بھی رپورٹوں میں نام آیا ہے۔ ان کا کوئی تعلق اللہ رکھا سے نہیں۔ حسب عادت دھوکا دے کر ان کے گھر رہا۔ مگر ان کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایک قادیان کا درویش ان کے گھر بھجوا دیا۔ اور اس نے ان کو سارا حال اس کا بتا دیا۔ جس پر انہوں نے اس کو نکال دیا۔ کوئی دوست کرنل صاحب پر بدظنّی نہ کریں۔’’
(الفضل 30 جولائی 1956ء)
(8)نافقین کے حالیہ فتنہ کے متعلق تازہ پیغام احباب جماعت کے نام مطبوعہ 1956ء-7-29
‘‘احباب کرام! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ۔
پہلے چار قسطیں اِس فتنہ کے متعلق جس کا مرکز لاہور ہے لکھی جا چکی ہیں۔ اب اسی سلسلہ میں پانچویں قسط جماعت کی اطلاع کے لئے لکھی جاتی ہے۔ اِس میں بعض نہایت ضروری امور ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ اس فتنہ کے پیچھے پیغامی ہیں۔ مولوی محمد صدیق صاحب شاہد مربی راولپنڈی لکھتے ہیں کہ:۔
'' پہلے میں نے اس لئے مختصر بیان دیا تھا کہ چیمہ صاحب نے مجھ سے صرف یہ کہا تھا کہ راولپنڈی میں اللہ رکھا آپ سے کس ذریعہ سے ملا تھا اس لئے میں نے سمجھا کہ غالباً صرف راولپنڈی کے متعلق جواب لکھنا ہے مری کے متعلق نہیں۔ اب میں اس کی مری کے متعلق کارروائیاں بھی لکھتا ہوں کیونکہ آپ کی باتوں سے مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ سارے حالات چاہئیں صرف راولپنڈی کے نہیں۔ اب میں نے اللہ رکھا کی مری میں مکمل کارروائیوں کی تحقیق کر لی ہے اور تمام امور کو حضرت اقدس کی اطلاع کے لئے تحریر کر رہا ہوں۔
1۔ وہ منحوس شخص مری میں قریباً دس دن رہا۔ جن میں سے چار دن مسجد احمدیہ گُلڈنہ میں رہا۔ اور تحقیق سے معلوم ہؤا ہے کہ باقی ایام میں وہ پیغامیوں کی مسجد میں رہا ہے۔ ان کے مسجد کے خادم، امام اور مبلغ کے ساتھ اس کی دوستی تھی اور یہ بات بھی پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ وہ خبیث اپنے آپ کو احمدی کہتا ہؤا پیغامیوں کا لٹریچر تقسیم کرتا رہا ہے۔ ایک بات ایسی بھی معلوم ہوئی ہے جس سے اس پارٹی کے سرغنہ کا پتہ لگتا ہے۔ وہ یہ کہ جتنے دن وہ مری میں رہا ہے مولوی صدر دین سے لڑتا جھگڑتا رہا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو منافق، بے عمل اور جاسوس کہتے رہے ہیں۔ اِس سلسلہ میں ایک رقعہ بھی ملا ہے جس میں اللہ رکھا نے مولوی صدر دین سے ان کا مشن اور گزشتہ زندگی کا حال پوچھا ہے۔ اِس ساری کارروائی سے اتنا ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ منافق اللہ رکھا، میاں محمد صاحب (لائلپوری سابق پریذیڈنٹ انجمن پیغامیاں) کی پارٹی کا آدمی ہے اور اُس کے اشارہ پر ناچ رہا ہے۔ حضور کے ربوہ جانے کے بعد خیبر لاج میں عید الاضحیٰ کے متعلق ایک واقعہ بھی ہؤا ہے جس سے اللہ رکھا کی منافقت کا پتہ لگتا ہے۔ وہ یہ کہ مسجد احمدیہ میں ہم سب کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ مرزا ناصراحمد صاحب عید کی نماز پڑھائیں گے۔ اِس پر اللہ رکھا نے کہا میں میاں ناصر کے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا کیونکہ رتن باغ میں ایک دفعہ میں اُن سے لڑ چکا ہوں۔ اس لئے میں تو پیغامیوں کی مسجد میں نماز پڑھوں گا۔ اِس پر میں نے کہا اگر تم نے میاں صاحب کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی تو ابھی ہماری مسجد سے نکلو اور آج سے ہمارا تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ اِس پر وہ منافق نماز عید پڑھنے کے لئے تیار ہو گیا جس پر اس کی منافقت پر پھر پردہ پڑ گیا۔ اِس واقعہ کے متعلق پنڈت ظہورالقمرصاحب کی شہادت شائع ہو چکی ہے۔ ایک بات جو سب سے زیادہ اہم معلوم ہوئی ہے اور جس سے واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ اس منافق کے پیچھے پیغامی گروہ کا ضرور ہاتھ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ کوہاٹ کی طرح اس منافق نے مری میں بھی چند احمدیوں کے سامنے مری سے جاتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اب تو لاہوریوں کی نظر خلیفہ اوّل کی اولاد پر زیادہ پڑتی ہے اور وہ میاں عبد المنان صاحب کی زیادہ تعریف کر رہے ہیں اور ان کے نزدیک وہ زیادہ قابل ہیں۔ ہمارے خلیفہ کی زندگی میں پیغامی گروہ کا اِس قسم کا پروپیگنڈا ان کی سازشوں کا پتہ دیتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی سے لوگوں کے ذہنوں کو زہرآلود کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اِس فتنہ پرداز شخص کے گروہ سے ہماری جماعت کو محفوظ رکھے۔ آخری دن اللہ رکھا منافق نے ایک مجلس میں خیبر لاج سے نکالے جانے پر یہ الفاظ بھی کہے کہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں مجھے دھتکارنے والوں پر عذاب اور تباہی آ جائے گی۔ جس طرح 1953ء میں ہؤا تھا اُسی طرح ہو گا اور مجھے کوئی بھی حضرت صاحب کی ملاقات سے نہ روک سکے گا۔
ظہور القمر صاحب نے بتایا ہے کہ اُس نے میرے سامنے ڈیڑھ سال کے اندر اندر آنے والی تباہی کو خلافت کے متعلق قرار دیا تھا۔ آخر میں مَیں حضور سے دوبارہ عرض کروں گا کہ چونکہ منافق اللہ رکھا کئی جماعتوں مثلاً لاہور، سیالکوٹ، جہلم، گجرات، کیمبلپور، کوہاٹ، پشاور، مردان، ایبٹ آباد، مانسہرہ، چنار اور بالاکوٹ تک دورہ کرتا رہا ہے۔ اس لیے ہر جماعت سے اِس منافق کے متعلق دریافت کر لیا جائے کہ ممکن ہے اِس طریق سے اِس فتنہ کا سراغ اور زیادہ واضح طور پر ہمارے سامنے آ جائے۔
(محمد صدیق شاہد)
افسوس ہے کہ سوائے کوہاٹ اور لاہور کے کسی جماعت نے اس شخص کے متعلق رپورٹ نہیں دی۔ نہ سیالکوٹ نے، نہ جہلم نے، نہ گجرات نے، نہ کیمبل پور نے، نہ پشاور نے، نہ مردان نے، نہ ایبٹ آباد نے، نہ مانسہرہ نے، نہ بالاکوٹ نے، اِس سے شبہ پڑتا ہے کہ ان جماعتوں میں بعض منافق لوگ موجود ہیں جن تک یہ شخص پہنچا ہے اور جنہوں نے اس کی کاروائیوں کو مرکز سے چھپایا ہے۔ گجرات کے امیر عبد الرحمن صاحب خادم کو یقیناً اس کا علم ہوناچاہئے تھا کیونکہ اِس شخص کو کوہاٹ کرایہ دے کر بھجوانے والوں میں دو اِن کے اپنے بھائی شامل تھے اور تیسرا ان کے بہنوئی راجہ علی محمد صاحب کا لڑکا تھا۔ سیالکوٹ کی جماعت کو اس سے یہی ہمدردی ہو سکتی تھی کہ یہ شخص سیالکوٹ کا رہنے والا ہے۔ پس امیر جماعت سیالکوٹ کی خاموشی افسوسناک ہے۔ (اب سیالکوٹ سے خلیفہ عبد الرحیم صاحب کا خط باوجود بیماری کے آ گیا ہے) اس کا ہزارہ کا دورہ کرنا بالکل واضح ہے کیونکہ اس کے دوستوں میں سے ایک شخص کے پاس ہزارہ کا ایک منافق احمدی نوکر ہے اور غالباً وہ خط دے کر اس کو ہزارہ بجھوا رہا ہے مگر جماعت کو تو چاہئے تھا وہ ہوشیار رہتی۔
اللہ رکھا نے جو مولوی صدر دین صاحب کے نام رقعہ لکھا تھا اس کی نقل ذیل میں درج ہے اور وہ اصل ہمارے پاس ہے۔
مرزا محمود احمد
مکرمی و محترمی مولوی صدر دین صاحب
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
گزارش ہے کہ آپ سے جو ملاقات ہوئی وہ ابد ابد تک یاد رہے گی (یعنی یہ پیغامی جماعت کے ایجنٹ اُس وقت تک قائم رہیں گے جب تک خدا قائم رہے گا۔ گویا خداتعالیٰ کا وجود اور ان کا وجود ایک ہے) چاہیئے تو یہ تھا کہ میں پہل کرتا مگر میں آپ کی بندہ نوازی کا مشکور ہوں۔ آنحضور نے دریافت فرمایا تھا کہ بندہ کا مشن کیا ہے؟ سو مؤدبانہ عرض ہے کہ بندہ تو مری میں سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ7 کے ماتحت رسول اللہ کے اسوۂ حسنہ کے مطابق تبلیغِ اسلام کی خاطر آیا ہے۔ (گویا جماعت احمدیہ میں انتشار پھیلانا اور پیغامیوں کی ا یجنٹی کرنا ہی اس شخص کے نزدیک تبلیغِ اسلام ہے) آپ کی کرم نوازی ہو گی اگر آپ اِس بارہ میں یدِ طولیٰ رکھتے ہوں تو رہنمائی فرمائیں۔ اللہ! دھڑے بندی کو چھوڑ کر کچھ ایمان کی تو کہیے۔ ویسے آپ خوب جانتے ہیں۔ لَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِہٖ 8 (یعنی انبیاء کی طرح اس کی زندگی بھی دنیا کے سامنے کھلے ورق کی طرح ہے۔ اور تمام پاکستان یا ساری جماعت احمدیہ اس کے ہر فعل کو جانتی ہے اور اس کو پتہ ہے کہ محمد رسول اللہ ؐ کی طرح یہ شخص صادق اور امین ہے) القصہ مختصر کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ آپ اپنے مشن کی وضاحت کریں تو بندہ معلوم کرلے کہ آپ کتنے پانی میں ہیں۔ (یعنی میاں محمد لائل پوری کی پالیسی سے آپ کو کتنا اتفاق ہے یا جماعت احمدیہ میں فتنہ ڈلوانے کے لئے آپ کتنی رقم مجھے یا میرے ساتھیوں کو دے سکتے ہیں)
خادمِ دین
اللہ رکھا درویش
حال مری’’
(الفضل 29 جولائی 1956ء)
(9)منافقوں کی مزید پردہ دری
‘‘احباب جماعت احمدیہ!
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
آج ایک خط میری بیوی اُمِّ متین کے نام آیا جس کا لکھنے والا اپنے آپ کو عورت ظاہر کرتا ہے۔ لیکن ربوہ کے لوگوں سے واقف ضرور ہے۔ کیونکہ اس نے پتہ پر ‘‘آپامریم صدیقہ و مہر آپا’’ لکھا ہے۔ اس اپنے آپ کو عورت ظاہر کرنے والے مرد نے جولائی 1929ء کے ‘‘مباہلہ’’ کے پرچہ کا ایک کٹنگ بھی بھیجا ہے۔ خط لکھنے والے کا خط اتنا خراب ہے۔ اور اس نے بگاڑ کر پنسل سے اس طرح لکھا ہے کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ مباہلہ اخبار وہی ہے جو کسی زمانہ میں جھوٹے خط بنا کر اپنے اخبار میں شائع کرتا رہتا تھا۔ اور ان خطوں پر لکھا ہوتا تھا ایک معصوم عورت کا خط۔ لیکن ہر خط گمنام ہوتا تھا اور اوپر لکھا ہوتا تھا نقل مطابق اصل اور اندر اکثر خطوں میں یہ ہوتا تھا کہ مَیں مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ گمنام شخص سے مباہلہ کون کر سکتا ہے۔ یہ فقرہ اس لئے بڑھایا جاتا تھا کہ احمق لوگ اس سے متاثر ہو جائیں۔ اس بات کو بھی ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ دُنیا کی وہ کونسی عورت ہے جو 27 سالہ پہلے مباہلہ کے کٹنگ کو محفوظ رکھے گی۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ بدبخت جو مباہلہ والوں کی پارٹی میں شامل تھے۔ یا تو انہوں نے یہ کٹنگ چھپا رکھے تھے کہ کسی وقت ان کو شائع کریں گے، یا آج پھر مباہلہ والوں کے دوست مباہلہ والوں سے ان کے پرانے اخباروں کے کٹنگ لے کر جماعت میں پھیلا رہے ہیں۔ اس سے جماعت سمجھ سکتی ہے کہ موجودہ فتنہ کے پیچھے وہی پرانے سانپ ہیں جنہوں نے ایک وقت احمدیت پر حملہ کیا تھا۔ ہمارے ایک دوست نے عراق سے لکھا تھا کہ مباہلہ کے پرچے پیغام بلڈنگ سے اشاعت کے لئے عراق بھیجے جاتے ہیں۔ پس یہ ایک مزید ثبوت پیغامیوں کی شراکت کا ہے۔ ہمارے ایک دوست جو اُس وقت آیادان کمپنی میں نوکر تھے اور بھیرہ کے رہنے والے ہیں۔ ان کا ایک لڑکا ایسٹ پاکستان میں نوکر ہوتا تھا۔ ان سے یہ اطلاع ہم کو ملی تھی۔ ان کے نام میں گُل کا لفظ بھی آتا تھا۔ اِس وقت مجھے نام بھول گیا۔ اگر ان کو یہ واقعہ یاد ہو تو ایک دفعہ مجھے پھر لکھیں جب ایک پیغامی لیڈر نے مجھے یہ کہا تھا کہ ہم نے کوئی ایسا پروپیگنڈا عراق میں نہیں کیا۔ تو ان کے ایک رشتہ دار نے یہ کہا تھا کہ یہ جھوٹ ہے۔ میرے پاس اس پیغامی لیڈر نے ان الزامات کی تصدیق لکھ کر بھیجی ہے۔ یہ صاحب کسی وقت کراچی میں رہتے تھے۔
مرزا محمود احمد
29-7-56 ’’
(الفضل 31 جولائی 1956ء)
(10)منافقین کی سازش کے متعلق تازہ پیغامات
تم میں سے ہر ایک کو ہوشیار ہونا چاہئے
‘‘تحقیق سے ثابت ہو گیا ہے کہ اللہ رکھا نے میاں بشیر احمد صاحب پر جھوٹ بولا وہ چٹھی جو یہ میاں بشیر احمد صاحب کی بتاتا ہے وہ ہمیں مل گئی ہے اور اس میں اپنے کسی ماتحت کو یہ حکم دیا گیا کہ سفارشی خط دینا بالکل غلط ہے یہ تمہارا اپنا کام ہے کہ تم احمدیوں پر اپنا اچھا اثر پیدا کرو خلیفۃ المسیح کو اس بارہ میں تنگ کرنا درست نہیں۔ اس سے ثابت ہے کہ حسبِ دستور اس کذاب نے ہر معاملہ میں جھوٹ بولا ہے اسی طرح اس معاملہ میں بھی جھوٹ بولا ہے۔ نہ میاں بشیر احمد صاحب کو یہ اختیار تھا کہ بغیر میرے پوچھے پوری معافی دیتے نہ انہوں نے ایسا کیا بلکہ اس شخص نے ایسے ہی دجل سے کام لیا جیسا کہ حضرت عثمانؓ کے قتل کے مرتکب مسلمانوں کو دھوکا دیا کرتے تھے۔ کبھی کہتے تھے کہ علیؓ ہمارے ساتھ ہیں کبھی دوسرے صحابہ کا نام لیتے تھے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں کم از کم اتنا ثابت ہو گیا کہ اس فتنہ کے بانی اچھی طرح حضرت عثمان کے قاتلوں کی سکیم کا مطالعہ کر رہے ہیں اور ان کی سکیم پر چلنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی احمدی ان لوگوں سے دھوکا کھاتا ہے تو وہ یقیناً احمدی نہیں اگر شیطان جبرائیل کے بھیس میں بھی آئے تو مومن اس سے دھوکا نہیں کھا سکتا۔ پس تم میں سے ہر شخص کو ایسا ہی ہوشیار ہونا چاہئے کہ کوئی شخص اپنی نسل کے سلسلہ کو خواہ کہیں تک پہنچاتا ہو اور کوئی شخص خواہ کتنے ہی بڑے آدمی کو اپنا مؤیّد قرار دیتا ہو۔ آپ اس پر *** ڈالیں۔ اور اپنے گھر سے نکال دیں۔ اورساری جماعت کو اس سے ہوشیار کر دیں۔ ایک دفعہ جماعت پیغامی فتنہ کا مقابلہ کر چکی ہے کوئی وجہ نہیں کہ اب اس سے دو سو گنے زیادہ ہو کر پیغامی فتنہ کا مقابلہ نہ کیا جا سکے۔
مرزا محمود احمد’’
میاں عبد الوہاب صاحب کا خط میرے نام اور اس کا جواب
نقل خط میاں عبدالوہاب صاحب
‘‘نہایت ہی پیارے آقا! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
الفضل میں اللہ رکھا کے متعلق ایک مضمون پڑھا۔ اس سلسلہ میں بدقسمتی سے میرا نام بھی آ گیا ہے اور حضورنے عاجز پر اظہارِ ناراضگی بھی فرمایا ہے جس سے صدمہ ہؤا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اس سلسلہ میں ایک چِٹھی بذریعہ عام ڈاک خدمتِ عالی میں بھیج چکا ہوں، معاملہ کی نزاکت کے پیش نظر اس کی نقل بذریعہ رجسٹری بھیج رہا ہوں۔
اِس سلسلہ میں ایک صورت یہ بھی ہو سکتی تھی کہ میں خاموش ہو جاتا اور اس معاملہ کو خدا تعالیٰ کے سپر دکر دیتا مگر چونکہ آپ میرے پیارے امام اور آقا ہیں اور مجھے آپ سے بچپن سے دلی اُنس رہا ہے یقین رکھتا ہوں کہ آپ بھی اِس تعلق کو جانتے ہیں اِس لئے اللہ رکھا کے نام اس خط کی حقیقت خدمتِ عالی میں لکھتا ہوں۔
اللہ رکھا کے نام یہ خط غالباً حضرت اماں جی کی تعزیت کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ اللہ رکھا حضرت میر محمداسحق صاحب کی زندگی میں قادیان آیا تھا اور دار الشیوخ میں ملازم تھا۔ بعض دفعہ اماں جی کے گھر کا کام بھی کرتا اور اماں جی اس کو روٹی بھی دیا کرتی تھیں۔ جس طرح سب احمدیوں کے ساتھ ان کا بیٹوں جیسا سلوک تھا اللہ رکھا کے ساتھ بھی تھا۔ یہ کبھی بیمار ہوتا تو میں اس کا علاج بھی کرتا۔ اگر آپ الفضل میں مضمون لکھنے سے پہلے اور میرا ذکر کرنے سے پہلے مجھ سے دریافت کرلیتے تو شاید اِس قدر غلط فہمی پیدا نہ ہوتی۔ میرے علم میں اللہ رکھا کو قادیان میں حماقتوں کی معافی مل چکی تھی اس لئے تعزیت کے خط کا جواب دیتے وقت قطعاً میرے ذہن میں نہیں آ سکتا تھا کہ اس کو خط کا جواب نہ لکھنا چاہیئے۔ حَاشَاوَکَلَّا میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ نہیں آیا کہ میں کسی ایسے شخص کو خط لکھ رہا ہوں جو حضور کا بد خواہ ہے۔ اللہ رکھا کے متعلق کوہاٹ کی جماعت نے جو بات کہی ہے وہ تو بہت بعد کی ہے۔ نہ میں نے یہ بات اس سے سنی نہ مجھے علم تھا کہ آپ کے خیالات اس کے متعلق یہ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اللہ رکھا نے میرے خط کا ناجائز استعمال کیا ہے۔
ہمارا تو فرض ہے کہ آپ کو خوش رکھیں خصوصاً ایسے وقت میں جب کہ آپ بیمار بھی ہیں۔ ایسے حالات میں نادانستہ میرا ایک خط آپ کے لئے تکلیف کا باعث بنا جس سے طبعاً مجھے بھی اذیت پہنچی۔ میں نے بچپن میں فیصلہ کیا تھا کہ اپنی قسمت آپ کے ساتھ وابستہ رکھوں گا۔ پھر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے علاوہ حضرت خلیفہ اوّل کا منشاء بھی یہ تھا کہ اُن کے بعد آپ جماعت کے امام ہوں۔ میں ان سے زیادہ عالم ہوں نہ عارف۔ دینی نہ دنیوی نقطہ نگاہ سے کوئی با ت میرے ذہن میں آ ہی نہیں سکتی۔ آپ کے ہاتھ سے ساری عمر میٹھی کاشیں کھائیں ہیں کوئی وجہ نہیں کہ ایک کڑوی کاش کھانے سے انکارکروں۔ آپ کی پہلی مہربانیوں کو بھی انعام ہی سمجھتا رہا ہوں اور آپ کی اِس تحریر کو بھی انعام ہی سمجھوں گا۔ شاید اِس سے نفس کے گناہوں کی تلافی ہو جائے۔ شکر گزار ہوں گا اگر حضور میری یہ تحریر شائع کر دیں۔ دعا بھی کریں اللہ تعالیٰ مجھے تا موت خلافت کے دامن سے وابستہ رہنے کی توفیق دے۔
آپ کا عبد الوہاب ’’
جواب
‘‘میاں عبد الوہاب صاحب!
آپ کا خط ملا ساری بحثیں الفضل میں آر ہی ہیں۔ مجھے آپ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بیسیوں احمدیوں کی حلفیہ شہادتیں جو عنقریب شائع ہو جائیں گی ان کے بعد پوچھنے کا سوال نہیں رہتا۔ خصوصاً جبکہ 1926ء،1927ء میں مدرسہ احمدیہ کے لڑکوں نے آپ کا اور آپ کے ایک مولوی دوست کا خط پکڑ کر مجھے بھجوا دیا تھا جو زاہد کے نام تھا اور جس میں لکھا ہؤا تھا کہ تمہاری مخالفت مرزا محمود سے ہے۔ ان کے متعلق جو چاہو مقابلہ میں لکھو مگر ہمارے اور ہمارے دوستوں کے متعلق کچھ نہ لکھو۔ اور اُس خط کے ساتھ ایک اَور شخص کا خط بھی تھا جو آپ کے ایک دوست نے ایک عورت کے نام لکھا تھا اور جس کے واپس لینے کے لئے آپ اور وہ مولوی صاحب مقبرہ بہشتی جانے والی سڑک پر پیپل کے درخت کے نیچے کھڑے ہوئے ایک لڑکے کے ذریعہ سے زاہد سے خط وکتابت کر رہے تھے اور یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ لڑکا مخلص احمدی ہے۔ وہ لڑکا وہ خط لے کر سیدھا میرے پاس پہنچا جس میں آپ دونوں اور تیسرے دوست کے خطوط بھی تھے اور زاہد کا وعدہ بھی تھا کہ اس دوست کو ہم بدنام نہیں کریں گے۔
اب ان واقعات کے بعد جب کہ میں نے حضرت خلیفہ اوّل کی محبت کی وجہ سے اتنی مدّت چھپائے رکھا مجھے تحقیقات کی کیا ضرورت تھی۔ اِس کے علاوہ اَور بھی بہت سے ثبوت ہیں جو منصۂ ظہور پر آ جائیں گے۔ قادیان کی باتیں قادیان کے ساتھ ختم نہیں ہوں گئیں۔ کچھ اِدھر آ پہنچی ہیں، کچھ پہنچ جائیں گی۔ لاہور کی باتیں تو مزید برآں ہیں۔
آپ جو کام کر رہے ہیں اگر خلیفہ اوّل زندہ ہوتے تو اس سے بھی بڑھ کر آپ سے سلوک کرتے جو میں کر رہا ہوں۔ اُن کی تو یہ کہتے ہوئے زبان خشک ہوتی تھی کہ ''میاں! میں تمہارا عاشق ہوں اور میں مرزا صاحب کا ادنیٰ خادم ہوں''۔ جب وہ آپ لوگوں کی یہ کارروائیاں دیکھتے تو اِس کے سوا کیا کر سکتے تھے کہ آپ پر ابدی *** ڈالتے۔ آخر وہ نیک انسان تھے۔ کیا ان کو نظر نہیں آتا تھا اور اب پرانے ریکارڈ دیکھ کر جماعت کو نظر نہیں آئے گا کہ جب ان کے لئے غیرت دکھانے والے اپنی ماؤں کے گُھٹنے کے ساتھ لگے ہوئے ‘‘ایں ایں’’ کر رہے تھے اُس وقت میں ہی تھا جو تن من دھن کے ساتھ غیر مبائعین کے ساتھ اُن کی خاطر لڑ رہا تھا جنہوں نے اُن کی زندگی میں ہی ظاہر اور پوشیدہ ان کی مخالفت شروع کر دی تھی۔ اور جیسا کہ حوالوں سے ثابت ہے کہ کہتے تھے کہ مولوی صاحب سترے بہترے ہو گئے ہیں، اب ان کی عقل ماری گئی ہے اب ان کو معزول کر دینا چاہئے۔ یہ سب باتیں نیّر صاحب مرحوم نے سنیں جبکہ پیغامی مقبرہ بہشتی میں گئے ہوئے تھے۔ نیّر صاحب فوت ہو چکے ہیں لیکن اَور کئی لوگ زندہ ہیں اور اُس زمانے کے لٹریچر میں بھی کہیں کہیں یہ حوالے مل جاتے ہیں۔ مجھے تو خدا تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا تھا جیسا کہ الفضل میں وہ خواب چھپ چکی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حفاظت کے لئے میرے بچوں کو اپنی جانیں دینی پڑیں گی۔ میرے لئے اِس سے بڑھ کر کوئی سعادت نہیں ہو سکتی خواہ یہ جانیں دینا لفظی ہو یا معنوی۔
مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام نے اسماعیل قرار دیا ہے9 اور بائیبل میں لکھا ہے کہ اُس کے بھائیوں کی تلوار اُس کے مقابلہ میں کھنچی رہے گی10۔ پہلے اسماعیلؑ کاتو مجھے معلوم نہیں لیکن میں اپنے متعلق جانتا ہوں کہ جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کا سوال پیدا ہؤا جیسا کہ لاہوریوں کے کیس میں ہؤا تھا تو میری تلوار بھی تمام دنیا کے مقابلہ میں کھنچی رہے گی اور عزیز ترین وجودوں کو بھی معنوی طور پر ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے میں دریغ نہیں کروں گا۔ کیونکہ ظاہری تلوار چلانے سے ہم کو اور حضرت مسیح موعودؑ کو روکا گیا ہے اور ہمیں بشدت تعلیم دی گئی ہے خواہ تمہیں کتنی ہی تکلیف دی جائے کسی دشمن کا جسمانی مقابلہ نہ کرنا۔ ہاں دعاؤں اور تدبیروں سے اُن کے گند ظاہر کرنے کی جتنی کوشش کر سکتے ہو کرو۔
مجھے تو خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ کاروائیاں کروائیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام تھا جس کو حضرت (اماں جان) نہیں سمجھی تھیں اور گھبرا گئی تھیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے لکھ کر اُن کے ہاتھ حضرت خلیفہ اوّل کے پاس بھجوایا تھا اور حضرت خلیفہ اوّل نے ان کو تسلی دی تھی کہ یہ الہام آپ کے لئے بُرا نہیں ہے۔ اُس الہام کا مضمون یہ تھا کہ جب تک حضرت خلیفہ اوّل اور اُن کی بیوی زندہ رہیں گے اُن کی اولاد سے نیک سلوک کیا جاتا رہے گا لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ ان کو ایسا پکڑے گا کہ ان سے پہلے کسی کو نہیں پکڑا ہو گا۔ کیایہ تعجب کی بات نہیں کہ پچھلے 42 سال میں ہزاروں موقعے آپ کو مخالفت کے ملے لیکن اماں جی کی وفات تک کبھی بھی ننگے ہو کر آپ کو مقابلہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن جونہی وہ فوت ہوئیں خدائی الہام پورا ہونے لگ گیا۔ اور اگر خداس کی مشیت ہوئی تو اَور بھی پورا ہو گا۔ آپ نے لکھا ہے کہ آپ کے ہاتھوں سے ساری عمر میٹھی میٹھی قاشیں کھائی ہیں ایک کڑوی بھی سہی۔ میں اِس کے جواب میں کہتا ہوں کہ آپ کے ہاتھ سے گزشتہ تیس سال میں بہت سی خنجریں اپنے سینہ میں کھائی ہیں مگر اب چونکہ مسیح موعود علیہ السلام کے کلام اور سلسلہ احمدیہ کی حفاظت اور وقار کاسوال تھا مجھے بھی جواب دینا پڑا۔ اگر وہ کڑوا لگتا ہے تو اپنے آپ کو ملامت کریں یا موت کے بعد حضرت خلیفہ اوّل کی زبان سے ملامت سن لیں۔ ’’
عبد الوہاب صاحب کا خط اللہ رکھا کے نام
میاں عبد الوہاب صاحب کا خط جو انہوں نے اللہ رکھا کے نام لکھا تھا شائع کیا جاتا ہے۔
‘‘برادرم! وَ عَلَیْکُمُ اَلسَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللہِ
گرامی نامہ مشتمل بر تعزیت ملا۔ جَزَاکُمُ اللہُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ۔ آپ کے ساتھ تو ہم لوگوں کا بھائیوں کا تعلق ہے۔ اس لئے آپ کو صدمہ لازمی تھا۔ اس قسم کے حادثات زندگی کی بنیادوں کو ہِلا دینے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی خاص مدد کرے۔ آپ کا خط بہت تسلی آمیز ہے۔ آپ بعافیت ہوں گے۔ کوہ مری ضرور دیکھئے۔
آپ کا بھائی
عبد الوہاب عمر
1956ء-4-13’’
اِس خط کی عبارت سے ظاہر ہے کہ اصل غرض کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ یہ خط 13/اپریل 1956ء کا ہے اور اماں جی جولائی کے آخر یا اگست کے شروع میں فوت ہوئیں۔ اِس بات کو کون مان سکتا ہے کہ اللہ رکھا جیسا زٹیل11 آدمی جس کے سپرد کوئی اہم کام نہیں۔ سوائے اِس کے کہ بعض گھرانوں میں چپڑاسی یا باورچی کا کام کرتا ہے۔ اس نے باوجود اس عشق و محبت کے جو اُسے حضرت خلیفہ اوّل کے خاندان سے تھی اماں جی جو جولائی یا اگست میں فوت ہوئی تھیں اُن کی تعزیت کا خط مولوی عبد الوہاب کو مارچ کے آخر یا اپریل کے شروع میں لکھا اور مولوی عبد الوہاب صاحب نے اُس کا جواب 13/اپریل کو دیا اور تعزیت کے مضمون سے بالکل بے تعلق خط کے آخر میں یہ بھی لکھ گئے کہ ‘‘کوہ مری ضرور دیکھئے’’۔
احباب کو معلوم ہے کہ 24/اپریل کو میں مری آیا تھا لیکن اس سے پہلے دس یا گیارہ اپریل کو میں نے عبد الرحیم احمد اپنے نام نہاد داماد کو کوٹھی تلاش کرنے کے لئے مری بھیجا تھا اور اُس نے 12/اپریل کے قریب ربوہ پہنچ کر کوٹھی کی اطلاع دی تھی جسے ہم نے پسند کر لیا تھا اور عبد الرحیم احمد میاں عبد المنان کا یارِ غار ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس سے سن کر اپنے بھائی کو اطلاع دے دی کہ خلیفۃ المسیح مری جانے والے ہیں اور عبدالوہاب کوفوراً یاد آگیا کہ 9 مہینے پہلے آئے ہوئے تعزیت کے خط کا جواب اللہ رکھا کوفوراً دینا چاہیے۔ اور یہ بات بھی اُن کے دماغ میں آگئی کہ یہ بھی لکھ دیا جائے کہ ‘‘کوہ مری ضرور دیکھئے’’ کیونکہ اُس وقت میرے مری آنے کا فیصلہ ہوگیا تھا اور پہاڑوں پر چونکہ عام طور صحت کےلئے لوگ باہر جاتے ہیں اور پہر ہ کا انتظام پورا نہیں ہوسکتا اس لئے اللہ رکھا کو تعزیت کے خط کے جواب میں تاکید کردی کہ ‘‘کوہ مری ضرور دیکھئے’’۔ اتنے مہینوں کے بعد تعزیت کاجواب دینا اور اُس وقت دینا جبکہ میرے مری جانے کا فیصلہ ہوچکا تھا ۔ خط کے آخر میں یہ بے جوڑ فقرہ لکھ دینا ایک عجیب اتفاق ہے جس کے معنی ہرعقلمند سمجھ سکتا ہے ۔اول تو تعزیت کے جواب میں مری دیکھنے کا ذکر ہی عجیب ہے پھر ''ضرور'' اَور بھی عجیب ہے۔ اور پھر اُس وقت یہ تحریک جب میں مری آ رہا تھا اور بھی زیادہ عجیب ہے ۔
مرزا محمود احمد’’
منافقت کی سکیم کے متعلق مزید شہادتیں
بیان چودھری بشارت احمد صاحب ولد چودھری محمدشریف صاحب چک98 شمالی سرگودھا حال اے جی آفس لاہور
‘‘میں مندرجہ ذیل بیان خداتعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر لکھوا رہا ہوں اور اس کے متعلق پوری ذمہ داری لیتا ہوں ۔غلام رسول 35میرا واقف ہے اورمیرے ساتھ تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں (قادیان سے آنے کے بعد کچھ عرصہ تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں بھی رہا ہے )اور سرگودھا گورنمٹ کالج میں پڑھتا رہا ہے میرے لاہور آنے کے بعد آج سے تقریباً دو ہفتے پہلے مجھے کرایہ پر سائیکل لینے کی ضرورت پیش آئی چونکہ لاہور میں میرا کوئی واقف نہیں تھا ۔اسلئے غلام رسول 35 کے پاس گیا ۔ اُس وقت اس مکان یعنی 43نسبت روڈمیں مندرجہ ذیل لوگ موجود تھے ۔
1۔مرزامحمد حیات تاثیر سابق لائبیریرین حضور اقدس (یہ شخص گجرات کا رہنے والا ہے اور پچھلے کئی سال میں کئی بار گجرات کے احمدیوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ شخص جھوٹے طور پر اپنے آپ کو مرزا لکھتا ہے ورنہ اس کا خاندان قبروں کامجاور ہے مجھے اس امر کی تحقیقات کرنے کا موقع نہیں ملا ورنہ حقیقت کھل جاتی)۔
2۔غلام رسول نمبر35
3۔ اللہ رکھا
غلام رسول نمبر 35 نے اللہ رکھا سے پوچھا کہ وہ اتنے عرصہ میں کہاں کہاں گیا اور یہاں سے جا کر تم نے کوئی خط نہیں لکھا۔ اللہ رکھانے جواب میں کہا کہ میں نے تو تمہیں بھی اور حمید ڈاڈھے کو بھی خطوط لکھے ہیں لیکن تم نے جواب ہی کوئی نہیں دیا۔ اس کے بعد اس نے بتایا کہ وہ سرحد کی تمام جماعتوں میں پھرا۔ اس کے پاس ایک نوٹ بک پاکٹ سائز کی تھی جس میں ان افراد اور جماعتوں کے پتہ جات لکھے ہوئے تھے جن سے وہ مل کر آیا تھا۔ مجھے اس وقت وہ پتہ جات یاد نہیں آ رہے (ہمیں ایک اور آدمی کے ذریعہ وہ معلوم ہوگئے ہیں) اس کے بعد غلام رسول 35 نے اللہ رکھا سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ حضرت صاحب کی بیماری دور نہیں ہو رہی اور ان کے بعد کس شخص کی بیعت کی جائے۔ اللہ رکھا نے جواب میں کہا کہ میں نے متعدد بار میاں بشیر احمد صاحب کو خطوط لکھے ہیں کہ تم تینوں بھائی مل کر کچھ صدقہ دو تب تم صحت یاب ہو سکتے ہو۔ رقم غالباً 3500 کہی گئی تھی (غالباً مراد یہ ہے کہ3500 اللہ رکھا کو دو ورنہ انہی دنوں میں میں قریباً سات سو ایکڑ نہری زمین انجمن کو دے چکا ہوں۔ جس کی کم سے کم قیمت بھی ایک لاکھ چالیس ہزار بنتی ہے) اور میاں بشیر احمد کو یہ بھی لکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی وفات ہو گئی تو ہم آپ کی بیعت کریں گے میاں ناصر احمد صاحب کی بیعت کرنے کے لئے ہم ہرگز تیار نہیں اور اب تک مجھے اس کا کوئی جواب موصول نہیں ہؤا۔
ناصر احمد کے خلیفہ ہونے کا کوئی سوال نہیں۔ خلیفے خدا بنایا کرتا ہے۔ جب اس نے مجھے خلیفہ بنایا تھا تو جماعت کے بڑے بڑے آدمیوں کی گردنیں پکڑوا کر میری بیعت کروا دی تھی۔ جن میں ایک میرے نانا دوسرے میرے ماموں ایک میری والدہ ایک میری نانی ایک میری تائی اور ایک میرے بڑے بھائی بھی شامل تھے۔ اگر خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ ناصر احمد خلیفہ ہو تو ایک میاں بشیر کیا ہزار میاں بشیر کو بھی اس کی بیعت کرنی پڑے گی اور غلام رسول جیسے ہزاروں آدمیوں کے سروں پر جوتیاں مار کر خدا ان سے بیعت کروائے گا لیکن ایک خلیفہ کی زندگی میں کسی دوسرے خلیفہ کا خواہ وہ پسندیدہ ہو یا ناپسندیدہ نام لینا خلافِ اسلام یا بے شرمی ہے۔ صرف خلیفہ ہی اپنی زندگی میں دوسرے خلیفہ کو خلافت کے لئے نامزد کر سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت خلیفہ اوّل نے 1910ء میں مجھے نامزد کیا تھا مگر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور وہ بیماری سے بچ گئے اور خدا تعالیٰ نے جماعتِ احمدیہ کے فیصلہ سے مجھے خلیفہ بنوایا۔ اگر خدانخواستہ اُس وقت حضرت خلیفہ اوّل فوت ہو جاتے تو ان کی اولاد بڑ مارتی کہ یہ خلافت ہمارے باپ کی دی ہوئی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس *** سے بچا لیا اور سورۃ نور کے حکم کے مطابق مجھے خود خلیفہ چنا اور بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ میں خدا تعالیٰ کا بنایا ہؤا خلیفہ ہوں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق کہ میرے خلیفوں میں سے کوئی خلیفہ دمشق جائے گا۔ میں ایک دفعہ نہیں دو دفعہ اپنی خلافت کے زمانہ میں دمشق گیا ہوں اور اب میں دلیری سے کہہ سکتا ہوں کہ میں کسی انسان کی دی ہوئی خلافت پر خواہ وہ کتنا بڑا انسان کیوں نہ ہو *** بھیجتا ہوں۔ یا تو محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کی تردید کرنی ہو گی جنہوں نے کہا کہ مسیح دمشق جائے گا یا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تردید کرنی ہو گی۔ جنہوں نے یہ لکھا ہے کہ اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ میرے خلیفوں میں سے کوئی خلیفہ دمشق جائے گا۔
اللہ رکھا کی اس بات کو سن کر کہ میں نے میاں بشیر احمد صاحب کو لکھا ہے کہ ہم تو موجودہ خلیفہ کے مرنے پر آپ کی بیعت کریں گے۔ غلام رسول 35 نے کہانہیں ہم تو میاں عبد المنان صاحب عمر کی بیعت کریں گے۔ (اگر عبدالمنان بھی اس سازش میں شریک ہے تو تم یاد رکھو کہ عبد المنان اور اس کی اولاد قیامت تک خلافت کو حاصل نہیں کرے گی خواہ کروڑوں غلام رسول ان کے لئے کوشش کرتے ہوئے اور ان کے لئے دعائیں کرتے ہوئے مر جائیں اور اپنے پیر گھسا دیں اور اپنی ناک رگڑ دیں) پھر غلام رسول نے کہا کہ وہ دو سال کے بعد اتنی طاقت پکڑ جائے گا کہ ربوہ آ کر ناصر احمد کو بازو سے پکڑ کر ربوہ سے نکال دے گا۔ (دو سال کے بعد کی بات تو خدا ہی جانتا ہے یہی بڑ عبداللہ ابن ابی ابن سلول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ماری تھی اور جب اس کا ہی بیٹا اس کے سامنے تلوار لے کر کھڑا ہو گیا تو اس نے کہا میں مدینہ کا سب سے ذلیل انسان ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے سب سے معزز انسان ہیں12 اس کا دعویٰ کرنا تو کّذاب ہونے کی علامت ہے وہ اب ربوہ آ کر دکھا دے بلکہ اپنے گاؤں جا کر دکھا دے مگر ایسی باتیں تو حیا دار لوگوں سے کہی جاتی ہیں بے حیا لوگوں پر ایسی باتوں کا کیا اثر ہوتا ہے۔ وہ پھر یہی کہہ دے گا کہ یہ طاقت تو مجھے دو سال کے بعد حاصل ہو گی جیسا کہ مسیلمہ نے کہا تھا کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے بعد وارث نہ بنایا تو میری فوج حملہ کرکے مدینہ کو تباہ کر دے گی۔13 اب وہ مسیلمہ خبیث کہاں ہے کہ ہم اس سے پوچھیں اور یا دو سال بعد غلام رسول بے دین کہا ہو گا جو ہم اس سے پوچھیں گے)۔ چودھری بشارت احمدصاحب کہتے ہیں کہ اس کے بعد حیات تاثیر نے جو اپنے آپ کو مرزا کہتا ہے یہ بھی کہا کہ اگر حمید ڈاڈھے سے خطوط کا جواب چاہتے ہو تو اس کو اس قسم کے خطوط لکھا کرو کہ میاں ناصر احمد کو مارنے اور میاں بشیر احمد کے متعلق جو سکیم تھی وہ کہاں تک کامیاب ہے۔ اس پر وہ فوراً تڑپ کر جواب دے گا (دیکھئے ان خبیثوں کو جو ایک طرف تو اپنے خیال میں اپنی طاقت کے بڑھانے کے لئے میاں بشیر احمد کو خلافت کا لالچ دے رہے ہیں۔ دوسری طرف ان کے قتل کرنے کے منصوبے بھی کر رہے ہیں۔ کیا ایسے لوگ ایماندار یا انسان کہلا سکتے ہیں؟ یہ خبیث اورا ن کے ساتھی منافقوں کی طرح تمنائیں کرتے رہیں گے لیکن سوائے ناکامی اور نامرادی کے ان کو کچھ نصیب نہیں ہو گا۔ آسمان پر خدا تعالیٰ کی تلوار کھچ چکی ہے۔ اب ان لوگوں سے دوستی کا اظہار کرنے والے لوگ خواہ کسی خاندان سے تعلق رکھتے ہوں اپنے آپ کو بچا کر دیکھیں۔ خداتعالیٰ ان کو دنیا کے ہر گوشہ میں پکڑے گا اور ان کو ان کی بے ایمانی کی سزا دے گا) مرزا محمود احمد’’
ڈاکٹر شاہ نواز خانصاحب کا خط
‘‘سیّدی و مطاعی میرے پیارے آقا (اَبِیْ وَ اُمِّیْ فِدَاکَ) سَلَّمَکُمُ اﷲ۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
الفضل مورخہ 25/جولائی میں آج حضور کا پیغام جماعت کے نام پڑھا۔ جس سے دل کو سخت رنج و غم ہؤا۔ خصوصاً اس بات کے تصور سے کہ حضور کی بیماری کی حالت میں بھی منافقین حضور کو دکھ دینے والی باتیں اور حرکتیں کر رہے ہیں۔ اس کے متعلق حضور نے جماعت اور افراد سے دو ٹوک فیصلہ طلب فرمایا ہے۔ سو عاجز اس کا جواب اوّلین فرصت میں دے رہا ہے (کہ دیر لگانا نفاق کی علامت ہو گی)
(2) پس عرض ہے کہ میں بمع اپنی بیوی اور بچوں کے ایسے شخص کو جو (نَعُوْذُبِاللّٰہِ) حضور کی موت کا متمنی ہے۔ خدا اور رسول اور سلسلہ احمدیہ کا دشمن جانتا ہوں (کیونکہ حضور کی زندگی سے ہی اسلام کی نشاۃ ثانیہ وابستہ ہے) اور ایسے بدبخت پر *** کرتا ہوں اور اس سے براءت کا اظہار کرتا ہوں۔ کاش ایسے ملعون کو اس کی ماں نہ جنتی تو اس کے لئے بہتر تھا۔ اس کے ساتھ ہی میں ان تمام لوگوں کو بھی (جن کے متعلق شہادت مل چکی ہے کہ وہ اس دشمن سلسلہ کے بھائی یا معاون ہیں) جماعت کا دشمن بدخواہ اور بدبخت جانتا ہوں۔ خواہ اس گروہ میں کوئی بظاہر بزرگ ہو۔ معزز عہدہ دار جماعت ہو یا کسی ولی اللہ یا خلیفہ کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کو توبہ کی توفیق دے تا عاقبت خراب نہ ہو۔
(3) خلفاء راشدین کے زمانہ کے حالات کا علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ فتنوں کا ظہور حضرت عثمانؓ کے وقت میں نمایاں طور پر ہؤا تھا گو اس کا آغاز حضرت عمرؓ کے وقت میں ہو چکا تھا مگر وہ دبا ہؤا تھا اور اس وقت بھی حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹے عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے ہی حضرت عثمانؓ کی شہادت میں نمایاں حصہ لیا تھا اور اس کی بہن بھی بانی اسلام کے نکاح میں تھی۔ اسی طرح اب بھی ہو رہا ہے جیسا کہ عاجز نے تین سال ہوئے عرض کیا تھا کہ حضور کازمانہ خلافت چونکہ بفضل خدا بہت لمبا ہو گا اس لئے حضرت عمر ؓ، عثمانؓ اور علیؓ تینوں کے زمانہ کے واقعات حضور کے وجود باجود میں دہرائے جائیں گے جن کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ حضور کی خلافت کا عمریؓ زمانہ حضور پر قاتلانہ حملہ کے ساتھ ختم ہو گیا مگر دشمن کا بیٹا ناکام رہا۔ اب عثمانی دور شروع ہے جس میں اب اندرونی حملہ کی کوشش ہو گی اور اس میں بھی کسی خلیفہ کا بیٹا نمایاں حصہ لے گا (وَاللہُ اَعْلَمُ) بس ہمارا یہ فرض ہے کہ جماعت کو ان فتنوں کے اسباب اور ان کے ازالہ کی طرف توجہ دلاتے رہیں جس کے لئے ہر دوست کو حضور کا لیکچر ''اسلام میں اختلافات کا آغاز'' زیر مطالعہ رکھنا ہو گا۔ (تا وہ دھوکا نہ کھا سکے)اور ہر طرح چوکس رہنا ہو گا۔ وَاللہُ الْمُوَفِّقُ۔
(4)۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو بعض امور مصلح موعود کے متعلق حضرت خلیفہ اوّل کو الگ لکھے تھے اس میں بھی حکمت یہی تھی کہ ان کی اولاد پر حجت تمام ہو۔ ان کو غالباً تاریخ خلفاء کی روشنی میں یا کشفی طور پر معلوم ہو گیا ہو گا کہ کسی زمانہ میں ان کا کوئی بیٹا (یاپوتا) مصلح موعود کی خلافت کو ختم کرنے کا متمنی ہو گا۔ پس تبصرہ کی حکمت تدبر کرنے والوں پر واضح ہے۔
(5)۔ عاجز کو معلوم ہے کہ اگر یہ خط شائع ہؤا تو دشمنِ احمدیت اور ان کے دوست ضرور ہمارے مخالف ہو جائیں گے مگر مجھے اس کی پروا نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ وہ مجھے اور میری اولاد کو مارنے کی کوشش کریں گے مگر یہ تو ہماری بہت سعادت ہو گی یعنی شہادت جس کی تمنا ہر مسلمان کو ہونی چاہئے۔
(6)۔ آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا اور میری اولاد کا خاتمہ ایمان بالخلافت اور اہل بیعت کی محبت، خدمت اور حفاظت پر کرے جو دعا عاجز پندرہ سال سے کر رہا ہے آمین ۔
والسلام
خاکسار
خادم ڈاکٹر شاہ نواز خاں
جناح کالونی لائلپور
1956ء-7-25 ’’
خط پر تبصرہ
‘‘یہ بالکل درست ہے کہ حضرت عثمانؓ پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں میں حضرت ابوبکرؓ خلیفہ اوّل کا بیٹا بھی شامل تھا مگر اس کا نام عبد الرحمن نہیں تھا جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے۔ عبد الرحمن ایک نہایت نیک صحابی تھے۔ وہ دیر سے اسلام لایا تھا۔ بدر کے وقت تک مسلمان نہیں ہؤا تھا مگر بعد میں جب اسلام لایا تو نہایت اعلیٰ درجہ کا نمونہ اس نے دکھایا۔ حضرت ابوبکرؓ کے جس بیٹے نے حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کے ساتھ تعاون کیا وہ اور ماں سے تھا اور حضرت عثمانؓ پر جب اس نے حملہ کیا تو حضرت عثمانؓ نے اس سے کہا کہ اگر اس جگہ پر تیرا باپ (یعنی ابوبکرؓ) ہوتا تو یہ جرأت کبھی نہ کرتا۔ تب اس کی ایمانی رگ پھڑک اٹھی اور وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گیا۔ تاریخ اسلام نے کبھی اس کے ابوبکرؓ کا بیٹا ہونے کا لحاظ نہیں کیا مگر ڈاکٹر صاحب کو یہ غلطی لگی ہے کہ ایسے ہی واقعات اب ظہور میں آئیں گے۔ میں صرف خلیفہ ہی نہیں بلکہ پسرِ موعود بھی ہوں۔ میرے ساتھ معاملات الہام کے مطابق ہوں گے نہ کہ تاریخ کے مطابق۔ گو ممکن ہے آپس میں تھوڑی بہت مشابہت باقی رہے۔ میرے دل میں بھی کبھی کبھی یہ خیال آتا رہا ہے کہ میری خلافت کے لمبا ہونے کی وجہ سے بعض بے دین نوجوان یہ خیال کریں کہ ہمیں اور ہمارے خاندانوں کو اس شخص کی عمر کی لمبائی نے اس عہدہ سے محروم کر دیا مگر میں جانتا ہوں کہ ان لوگوں کو آسمانی *** تو ملے گی لیکن خدائی عزت نہیں ملے گی۔
مرزا محمود احمد ’’
(الفضل 30 جولائی 1956ء)
(11)مختلف جماعتوں کے پاس جو معلومات ہوں وہ ہمیں مہیا کر دیں
‘‘منافقوں کے متعلق بعض نہایت ہی اہم راز اور ظاہر ہوئے ہیں جن میں سے بعض راولپنڈی کی جماعت نے مہیا کئے ہیں، بعض ربوہ کی جماعت نے، بعض لاہور کی جماعت نے جَزَاھُمُ اللہُ خَیْرًا تھوڑے دنوں میں ترتیب دے کر شائع کئے جائیں گے۔
پیغامیوں کے متعلق نہایت معتبر رپورٹ ملی ہے کہ مقابلہ کی تیاریاں کر رہے ہیں جس کا نام وہ حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کی محبت رکھیں گے مگر ہمارے پاس ان کا پرانا لٹریچر موجود ہے۔ وہ اس طرح صرف ہمیں یہ موقع مہیا کر کے دیں گے کہ حضرت خلیفہ اوّل کو گالیاں دینے والے ان کی اولاد کے دوست ہیں۔ پس وہ حملہ کریں ہم خوشی سے اس کا خوش آمدید کریں گے۔ وہ صرف اپنا گند ظاہر کرنے کا ایک اور موقع ہم کو دیں گے اور کچھ نہیں۔ آخر دنیا اس بات سے ناواقف نہیں کہ مولوی محمد علی صاحب مرحوم نے جن کے ذریعہ سے یہ جماعت بنی ہے یہ وصیت کی تھی کہ ایک خاص شخص ان کے جنازہ میں شامل نہ ہو۔ پس وہ بے شک آئیں اور حملہ کریں اور سو دفعہ حملہ کریں۔ ہمارے پاس بھی وہ سامان موجود ہے جس سے اِنْشَاءَ اللہُان کے پول کُھل جائیں گے۔اس عرصہ میں مختلف جماعتوں کے پاس جو معلومات ہوں وہ ہمیں مہیا کر دیں۔ والسلام
خاکسار
مرزا محمد احمد
1956ء-7-30
(الفضل یکم اگست 1956ء)
(12) منافقین کی کذب بیَانی کا ایک مزید ثبوت
برقی پیغام از مری مؤرخہ 1956ء-7-30
‘‘ مرزا بشیر احمد صاحب تار دیتےہیں کہ اللہ رکھا یا اس کے ساتھیوں کی طرف سے ان کو کوئی خط موصول نہیں ہؤا تھا کہ جس میں ان لوگوں نے ان کو خلافت کی پیشکش کی ہو۔ ان لوگوں نے سراسر افترا سے کام لیا ہے۔
یہ اِن لوگوں کی کذب بیانی کا ایک مزید ثبوت ہے۔’’
(خلیفۃ المسیح)
(الفضل یکم اگست 1956ء)
(13)میاں عبد الواسع عمر صاحب کے نام
‘‘میاں عبدالواسع عمر صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب سے رخصت ہو کر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں آئے اور حضرت مصلح موعود کی خدمت میں عریضہ بھیجا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ میرے علم کے مطابق خاندان حضرت خلیفہ اوّل کا کوئی فرد موجودہ فتنہ و سازش میں شریک نہیں۔ حضرت مصلح موعود کی طرف سے اس کے جواب میں انہیں حسبِ ذیل مکتوب موصول ہوا۔
‘‘عزیزم عبد الواسع صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ
آپ کا خط ملا۔ کوئی فیصلہ آپ کے بیان پر نہیں کیا گیا۔ اس لیے یہ کہنا کہ ہم نے کوئی ایسی بات نہیں سُنی اِس سے کوئی فائدہ نہیں۔ آپ کی گواہی NEGATIVE ہے اور NEGATIVE گواہی کوئی گواہی نہیں ہوتی۔ میرے پاس حلفیہ گواہیاں چند لوگوں کی موجود ہیں جن کو عنقریب شائع کیا جائے گا۔ جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مولوی عبد المنان صاحب نے اُن کو کہا کہ خلافت کا ڈنڈا میرے ہاتھ میں آنے دو پھر میں اس خاندان کو سیدھا کر دوں گا۔ پھر میں خود حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ آپ کی دادی نے مجھ سے کہا تھا کہ پیغامی وفد میرے پاس آیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ اگر عبد الحی کو خلیفہ بنا دیا جاتا تو ہم مان لیتے یہ محمود کہاں سے آیا ہے۔ میں نے اُن سے کہا کہ اگر آپ کو کوئی عزت ملتی ہے تو شوق سے لے لیں میں نے آپ کو یہاں قید کر کے تو نہیں رکھا ہوا۔ آپ کے نانا نے مجھے چٹھی لکھی اور آپ کی والدہ کی بنگالی چٹھی اس میں ڈال کر مجھے بھیجی جس کا خلاصہ انہوں نے یہ لکھا کہ آپ نے تو اپنی طرف سے میرے ساتھ نیکی کی تھی مگر آپ نے میرا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ اِس گھرمیں ہر وقت خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برائیاں اور خلافت سے بغاوت کی باتیں ہوتی ہیں۔ خاندان بہادر ابو الہاشم خان نے لکھا کہ میں نے تو دین میں ترقی کےلئے یہ رشتہ کیا تھا مگر افسوس کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا۔ میری اور دوسرے دوستوں کی گواہیاں POSITIVE ہیں اور آپ کی گواہی NEGATIVE۔ اب بتائیے کہ میں آپ کی دادی کی گواہی کو مانوں، آپ کے نانا کی گواہی کو مانوں جو POSITIVE تھیں یا NEGATIVE گواہی مانوں، آپ تعلیم یافتہ ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ POSITIVE کے مقابلہ میںNEGATIVE مانی نہیں جاتی۔
کل ہی ایک پروفیسر کی گواہی ملی ہے کہ چند لوگوں کی مجلس میں مجھے جانے کا موقع ملا۔ وہ یہ باتیں کرتے تھے کہ مسیح موعودؑ کا تو ذکر الفضل میں بار بار ہوتا ہے خلیفہ اوّل کا نہیں ہوتا اور خلیفہ ثانی کا فوٹو چھپا اور خلیفہ اوّل کا فوٹو نہیں چھپا۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے مامور تھے اور حضرت خلیفہ اوّل ان کے ادنیٰ خادم تھے دونوں میں مقابلہ کا کوئی سوال ہی نہیں۔ سارے یورپ اور امریکہ میں یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ یا ان کی تعلیم کا ذکر ہوتا ہے نہ کسی جگہ پر خلیفہ اوّل کے دعویٰ کا ذکر ہوتا ہے نہ ان کی تعلیم کا ۔ پس الفضل جو کچھ کر رہا ہے وہی کر رہا ہے جس کا خدا تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے اور مخالف دنیا بھی جس طرف متوجہ ہے۔ باقی رہی میری تصویر تو اِس کی دلیل موجود تھی۔ میں خطرناک بیماری کے بعد یورپ سے واپس آیا تھا۔ اگر حضرت خلیفہ اوّل بھی دوبارہ زندہ ہو کر آ جاتے تو اُن کی تصویر مجھ سے اونچی شائع کی جاتی۔ دوسرے یہ کہ الفضل میرے ذاتی روپے سے جاری ہوا اور 1920ء تک میں نے اِس کو چلا کے اِس کی خریداری بڑھائی۔ جب چل گیا اور ایک بڑا اخبار بن گیا تو میں نے مفت بغیر معاوضہ کے وہ انجمن کو تحفہ دے دیا۔ پس چونکہ وہ میری ملکیت تھا لازماً یورپ سے واپسی پر اس کے عملہ کو میری تصویر شائع کرنے کا خیال پیدا ہوا اور حضرت خلیفہ اوّل کی تصویر شائع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا۔ کیونکہ حضرت خلیفہ اوّل نے اِس پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا تھا۔
آپ سے ملنے میں مجھے کوئی عذر نہیں۔ آپ کے دادا اور نانا دونوں سے میرے تعلقات تھے لیکن اِس جواب کو پڑھ کر اگر آپ سمجھیں کہ آپ کا ملنا مفید ہو سکتا ہے تو بے شک ملیں۔
مرزا محمود احمد
1956ء-8-3 ’’
اِس مکتوب پر انہوں نے حضور کی خدمت میں نہایت ادب و عقیدت کے ساتھ شکریہ کا خط لکھا اور عرض کیا۔
‘‘اِس وقت میں خود ایک جذباتی ہیجان میں مبتلا ہوں اور ایک کرب اور اضطرار میں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ آپ سے مل کر میں آپ کو کیا کہوں۔ میں گھبراہٹ اور بے چینی میں ربوہ آیا تھا اور اِسی اضطرار میں واپس جا رہا ہوں۔’’
(تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 67 تا 69)
(14)عبد الوہاب صاحب کے متعلق ڈاکٹر عبد القدوس صاحب کی ایک شہادت
‘‘ برادران: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
حضرت خلیفہ اوّل کی ناخلف اولاد اب حضرت خلیفہ اوّل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بڑائی دینے کے لئے سازش پکڑ رہی ہے چنانچہ ڈاکٹر عبد القدوس صاحب نواب شاہ سندھ جو میاں عبد السلام صاحب مرحوم کے ساتھ زمین کے ٹھیکہ میں شریک رہے ہیں لکھتے ہیں کہ 1954ء میں جو قافلہ قادیان گیا میں بھی اس میں شامل ہونے کے لئے لاہور آیا۔ وہاں صبح کی نماز کے بعد جس میں میاں عبد الوہاب شریک نہیں ہوئے وہ مختلف جگہوں سے آئے ہوئے لوگوں کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے اس طرح بولے جیسے درس دیتے ہیں اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیا ملنے کی دعا کی تھی جس سے سکونِ قلب حاصل نہیں ہوتا لیکن حضرت خلیفہ اوّل نے اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کیا (لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک الہامی دعا ہے جو وفات کے قریب ہوئی جس میں خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا
سپردم بَتُو مایہء خویش را
تُو دانی حسابِ کم و بیش را 14
یعنی اے خدا! میں اپنی ساری پونچی تیرے سپرد کر تا ہوں تو آگے اس میں کمی بیشی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل کے متعلق کہیں ثابت نہیں کہ انہوں نے اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کیا تھا ان کی وصیت میں تو یہ لکھا ہے کہ میری اولاد کی تعلیم کا انتظام جماعت کرے اور میری لائبریری بیچ کر ان کا خرچ پورا کیا جائے۔ اس کے مقابل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولا دپر ایک پیسہ خرچ کرنے کی جماعت کو نصیحت نہیں کی اور عملاً بھی حضرت خلیفہ اوّل کے خاندان پر اس سے بہت زیادہ خرچ کرنا پڑا ہے جتنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد پر کرنا پڑا۔ علاوہ ازیں میں ایک لاکھ چالیس ہزار کی زمین صدر انجمن احمدیہ کو اس وقت تک دے چکا ہوں اور اس کے علاوہ بیس تیس ہزار پچھلے سالوں میں چندہ کے طور پر دیا ہے اور ایک لاکھ تیس ہزار چندہ تحریکِ جدید میں دے چکا ہوں۔ ان رقموں کو ملا لیا جائے تو جماعت نے جو رقم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان پر خرچ کی ہے یہ رقم اس سے چالیس پچاس گنے زیادہ ہے اور پھر حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد جبکہ دنیوی کاموں میں مشغول تھی اُس وقت میں قرآن کریم کی تفسیریں لکھ لکھ کر جماعت کو دے رہا تھا اور اکثر حصوں کی طباعت کا خرچ بھی اپنے پاس سے دے رہا تھا۔ یہ وہ (دنیا) ہے جو اس ناخلف بیٹے کے قول کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کے لئے مانگی تھی اور اولاد کو خدا کے سپرد کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت خلیفہ اوّل کا خاندان جماعت کے روپے پر پلتا رہا اور دنیا کے کاموں میں مشغول رہا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بڑا بیٹا جماعت سے ایک پیسہ لئے بغیر اس کے اندر قرآنِ کریم کے خزانے لُٹاتا رہا۔ یہ فرق ہے آقا کی دعا کا اور غلام کی دعا کا۔ جس کو خدا تعالیٰ نے کہا کہ دنیا میں بہت سے تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اونچا رہا15 اور جس کو خدا تعالیٰ نے کہا ''کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز اور آپ کا شاگرد ہے16 اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہا جری اللہ فی حلل الانبیاء17 اللہ کا بہادر تمام نبیوں کے لباس میں اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہا ''دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا مگر خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا18 اور جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدم سے لے کر آخر تک تمام انبیاء اس کی خبر دیتے آئے ہیں19۔ اس کی نظر تو اتنی کوتاہ تھی کہ اس نے اپنی اولاد کے لئے صرف دنیا کی دعا کی۔ جس سے تسکینِ قلب حاصل نہیں ہوتی لیکن اس کا شاگرد جس کا منہ غلامی کا دعویٰ کرتے کرتے خشک ہوتا تھا اس بلند پایہ کا تھا اور خدا تعالیٰ کا ایسا مقرب تھا کہ اس نے اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کیا۔ یہی وہ سازش ہے جو حضرت خلیفہ اوّل کی وفات سے پیغامیوں نے شروع کی تھی چنانچہ مرزا خدا بخش نے اپنی کتاب عسلِ مصفیٰ میں لکھا تھا کہ ''بے مثل تھا وہ شاگرد (یعنی خلیفہ اوّل) جو تقویٰ اور طہارت میں اپنے استاد (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) سے بھی بڑھ گیا (لَعْنَت اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ) چنانچہ اس کے انعام میں پیغامیوں نے اس کو نوکر رکھ لیا اور اس کی کتاب عسلِ مصفیٰ خوب بکوائی اور گو اس نے عبدالوہاب کی طرح فوراً معافی مانگنی شروع کر دی مگر نفاق کا معاف کرنا ایک خطرناک غلطی ہوتی ہے چنانچہ باوجود اس کے کہ اس نے کتاب میں کچھ اصلاح کی۔ میں نے اس کو معاف نہیں کیا اور جماعت نے بھی اس کی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ باقی رہا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی اولاد کے متعلق کہا ''دے اس کو عمر ودولت کر دور ہر اندھیرا''20 اس حضرت خلیفہ اوّل کے جاہل بیٹے کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آیا کہ کر دور ہر اندھیرا ایک بڑی دینی دعا ہے اور سورۃ الناس کا خلاصہ ہے اور چاہئے تھا کہ اس دعا کی وجہ سے میاں عبدالوہاب اور ان کے ساتھی اپنے انجام سے ڈر جاتے جس کی خبر اس دعا میں دی گئی تھی۔ ذیل میں کچھ اور دعائیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شائع کی جاتی ہیں ان کو پڑھ کر دوست دیکھ لیں کہ آیا حضرت مسیح موعود نے اپنی اولاد کے لئے دنیا مانگی ہے یا دین مانگا ہے اور میاں عبدالوہاب صاحب اپنے دعویٰ میں راست باز ہیں یا کذاب۔
کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین و دولت
کر ان کی خود حفاظت ہو ان پہ تیری رحمت
دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
تو ہے ہمارا رہبر تیرا نہیں ہے ہم سر
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
شیطان سے دور رکھیو اپنے حضور رکھیو
جان پُرز نور رکھیو دل پُر سرور رکھیو
ان پہ میں تیرے قربان رحمت ضرور رکھیو
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
کر فضل سب پر یکسر رحمت سے کر معطر
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
یہ تینوں تیرے بندے رکھیو نہ ا ن کو گندے
کر دور ان سے یارب دنیا کے سارے پھندے
چنگے رہیں ہمیشہ کریو نہ ان کو مندے
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
یہ فضل کر کے ہویں نیکو گہر یہ سارے
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اے میرے جاں کے جانی اے شاہِ دو جہانی
کر ایسی مہربانی ان کا نہ ہوے ثانی
دے بخت جاودانی اور فیضِ آسمانی
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اے واحد یگانہ اے خالقِ زمانہ
میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ
تیرے سپرد تینوں دیں کے قمر بنانا
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
(میاں عبد الوہاب صاحب کے نزدیک یہ دنیا کی دعا ہے اور حضرت خلیفہ اوّل نے اپنی اولاد کے متعلق اس سے بالا دعا مانگی تھی)
اب ذیل میں ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب کی گواہی لفظ بلفظ شائع کی جارہی ہے اس سلسلہ میں اور بھی گواہیاں ملی ہیں جو بعد میں شائع کی جائیں گی۔ والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
1956ء-8-5’’
نقل خط ڈاکٹر عبد القدوس صاحب
‘‘بحضور سیدنا و امامنا حضرت……… خلیفة المسیح المصلح الموعود ایدکم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
سیدی حسبِ ارشاد پریذیڈنٹ صاحب جماعت احمدیہ نواب شاہ مولوی عبدالوہاب صاحب کے متعلق ایک شہادت ارسال خدمت ہے جو کہ عاجز نے ان کے سامنے زبانی بیان کی تھی۔
سیدی عرض ہے کہ عاجز دسمبر 1954ء کے قافلہ کے ساتھ جو کہ جلسہ سالانہ قادیان جانے والا تھا بندہ لاہور جودھامل بلڈنگ گیا۔ رات جودھامل بلڈنگ میں گزاری۔ صبح نماز فجر باجماعت پڑھنے کے بعد بیٹھے تھے کہ مولوی عبدالوہاب صاحب آ گئے اور پوچھا کہ جماعت ہو گئی ہے۔ بتانے پر کہ جماعت ہو چکی ہے۔ انہوں نے خود اکیلے ہی نماز پڑھ لی۔ اور وہیں بیٹھ گئے۔ اس جگہ مختلف علاقہ جات سے آئے ہوئے دوسرے احمدی احباب بھی بیٹھے تھے مولوی عبدالوہاب صاحب کہنے لگے (جیسے کہ درس دیا جاتا ہے) کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیاوی ترقیات کے لئے دعا فرمائی۔ جیسے ‘‘دے ان کو عمر و دولت’’ لیکن حضرت خلیفہ اولؓ نے اپنی اولاد کے لئے دنیا کے لئے دعا نہیں فرمائی بلکہ خدا کے سپرد کر دیا۔ اب دیکھیں کہ حضور کی اولاد دنیا کے پیچھے لگ کر پریشانیوں تکلیفوں میں مبتلا ہے۔ کیونکہ دنیا کے پیچھے لگ کر انسان سکون قلب حاصل نہیں کر سکتا (اغلباً اس میں حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کا بھی نام لیا تھا)
اِسی قسم کی اَور باتیں بھی انہوں نے کہی تھیں۔ جو کہ مشکوک ہونے کی وجہ سے درج کرنے سے قاصر ہوں۔ لیکن تمام گفتگو کا جو مفہوم تھا وہ وہی تھا جو کہ خاکسار نے اوپر درج کر دیا۔ مندرجہ بالا مفہوم کے متعلق میں اپنے پالنے والے خدا کو حاضر و ناظر جان کر حلف اٹھاتا ہوں کہ وہ بالکل وہی نکلتا ہے جو عاجز نے اوپر تحریر کر دیا ہے۔ والسلام
حضور کا تازیست فرمانبردار رہنے والا خادم
عاجز عبدالقدوس احمدی
نواب شاہ
(سابق) سندھ1956ء-7-30 ’’
(الفضل 8؍اگست 1956ء)
(15) عبد المنان صاحب پسر مولوی محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم کا ایک خط اور اسکے متعلق حضور کا اظہارِ ناپسندیدگی
عبد المنان صاحب کا خط
‘‘بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ
بحضور آقائی حضرت اقدس ......... خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
گزارش خدمت ہے کہ حضور (ایدہ اللہ تعالیٰ) کا پیغام 25 جولائی 1956ء کے الفضل کے شمارے میں پڑھ کر از حد رنج و صدمہ ہوا کہ ایک شریر النفس اور فتنہ پرداز شخص اللہ رکھا نے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے اور حضور (ایدہ اللہ) کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی اور کوشش کی۔ اور حضور کے بیماری کے ایام میں جبکہ حضور کو مکمل آرام کی ضرورت ہے پریشانی اور بے آرامی میں ڈال کر دکھ اور تکلیف پہنچائی ہے۔ حضور کا یہ پیغام پڑھ کر میرے گھر کے تمام افراد میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور سبھی اس کمینے شخص پر لعنتیں بھیجنے لگے جس نے ہمارے پیارے آقا کے متعلق اتنے خطرناک منصوبے تیار کر رکھے تھے۔ خاکسار اور خاکسار کے اہل و عیال حضور پر مکمل اعتماد و ایمان رکھتے ہیں اور اپنی ہر لحظہ وفاداری کا یقین دلاتے ہیں۔ مزید برآں اگرچہ وہ خدا تعالیٰ کے عذاب کی گرفت سے بچ نہیں سکتا لیکن ہم بھی حضور کے خفیف سے خفیف اشارے پر ایسے لوگوں کا قلع قمع کرنے کے لیے اپنی زندگیوں کی قربانی دینے سے ذرہ بھر دریغ نہ کریں گے۔ (انشاء اللہ تعالیٰ) خاکسار خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہے کہ اس خبیث اور شریر النفس اور فتنہ پرداز شخص اللہ رکھا سے اور اس کے تمام ساتھیوں سے جن کا ذکر آ چکا ہے یا جو پوشیدہ ہیں خاکسار اور خاکسار کے بیوی بچوں کا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اور ہم ان لوگوں سے شدید نفرت کرتے ہیں، ان کی حرکات کی مذمت کرتے اور ان کو *** سمجھتے ہیں۔
خاکسار اور خاکسار کے بیوی بچے اس امر پر مکمل یقین و ایمان رکھتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ خلیفہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والے مصلح موعود ہیں۔ آپ کے عہد خلافت میں جماعت نے ایک عظیم الشان ترقی کی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ حضور ایدہ اللہ نے نہ صرف احمدیت کے پیغام کو ہی دنیا کے کناروں تک پہنچایا ہے بلکہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں اس پیغام کو شاندار کامیابی کے ساتھ ہمیشہ قائم رہنے والے وجود میں قائم کر دیا ہے۔ اور اس پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کی آخری اور مکمل فتح دنیا پر آپ کے مبارک وجود یقین رکھتے ہین کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کی آخری اور مکمل فتح دنیا پر آپ کے مبارک وجود سے ہی کرائے گا۔ اور اس کے علاوہ یہ اظہار کئے بغیر بھی طبیعت نہیں رُکتی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک برحق و سچے نبی کے پوتے اور ایک ایسے مصلح موعود کے فرزند ہیں جس کی ذہانت فراست کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ اور یہ کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو یہی ذہانت و فراست خاندانی ورثہ میں قدرتی طور پر ملنے کے علاوہ آپ خود بھی زندگی کے ہر پہلو میں بہت تجربہ کار اور دینی و دنیوی علوم سے خوب بہرہ ور ہیں۔ اگر حضور انہیں ہماری قیادت کے لئے مقرر فرمائیں تو ہمارے لئے اس سے بڑھ کر زیادہ فخر و خوشی کی کونسی بات ہو سکتی ہے۔ حضرت صاحبزادہ میاں ناصر احمد صاحب تو خدا کے فضل و کرم سے ایک بڑی ہستی و شخصیت ہیں۔ اگر حضور جماعت میں سے کسی معمولی سے معمولی شخص کو بھی ہماری قیادت کے لئے مقرر فرمائیں گے تو ہمارے سر ایسے شخص کی وفاداری میں ہمیشہ جھکے رہیں گے۔ حضور خاکسار کے یہ دلی جذبات ہیں جو حضور تک پہنچا کر فخر محسوس کر رہا ہوں۔
خاکسار اور خاکسار کے اہل و عیال حضور کی صحت و درازی عمر کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور ہر وقت دست بدعا ہیں کہ حضور کا بابرکت سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ ہمیش رہے اور اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام خاندان پر ہمیشہ اپنے فضلوں اور رحمتوں کی بارشیں برساتا رہے اٰمین۔
طالب دعا
حضور کے ادنیٰ ترین خادموں کا خادم
عبد المنان عفی عنہ پسر حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم و مغفور
چمبڑ براستہ ٹنڈوالہ یار ضلع حیدر آباد(سابق سندھ)
مؤرخہ 3 اگست 1956ء’’
نقل ارشاد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ
‘‘بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مکرم عبد المنان صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
آپ کی چٹھی سیدنا حضرت ....... ایدہ اللہ تعالیٰ کے ملاحظہ اقدس میں آئی۔ حضور نے فرمایا مجھے ایسی باتیں پسند نہیں۔ آپ کی بہن اور بڑا بھائی تو یقیناً مخلص ہے۔ لیکن آپ اپنے باپ کو بے عزت کر رہے ہیں۔ میرے پاس متواتر خطوط پہنچے کہ آپ 43 نمبر والے مکان میں رہنے والوں کے فتنہ میں شامل ہیں بلکہ غالباً اُن کی تجارت میں بھی شامل ہیں۔ آپ کا یہ فقرہ لکھنا کہ میاں ناصر کو قیادت کے لئے مقرر کر دیں یہ ہی نفاق کی علامت ہے۔ خلیفہ کے لئے تو جائز ہے کہ خلیفہ مقرر کر دے مگر کسی اَور کے لئے جائز نہیں ۔ اگر ناصر احمد بھی ایسا خیال کرے تو وہ بے ایمان ہو جائے گا۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ اللہ رکھا کے مشابہہ ہے۔ پس آپ نے اپنے خط سے ظاہر کر دیا کہ آپ کے خیالات اللہ رکھا سے ملتے ہیں۔
دستخط پرائیویٹ سیکرٹری
1956ء7/8/ ’’
(الفضل 10؍ اگست 1956ء)
خط کے جواب کی مزید تشریح
‘‘برادران! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
عبد المنان پسر محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم نے اپنے اُس خط میں جو میرے نام لکھا ہے اور جس کا جواب الفضل میں شائع ہو چکا ہے اپنے خط میں یہ فقرہ لکھا ہے ‘‘مزید برآں اگرچہ وہ (یعنی اللہ رکھا) خدا تعالیٰ کے عذاب کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ مگر ہم بھی حضور کے خفیف سے خفیف اشارے پر ایسے لوگوں کا قلع قمع کرنے کے لئے اپنی زندگیوں کی قربانی دینے سے ذرہ بھر دریغ نہیں کریں گے۔’’
یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ عبد المنان نے دیدہ دانستہ اپنے ساتھیوں کی امداد کے لئے یہ گھناؤنا اور خبیثانہ فقرہ لکھا ہے۔ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں جنہوں نے ہمیں امن کی تعلیم دی ہے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے روکا ہے۔ مگر یہ شخص معلوم ہوتا ہے کہ ابوجہل کے چیلوں میں سے ہے تبھی آمادگی ظاہر کرتا ہے کہ آپ ادنیٰ سا اشارہ کریں تو میں خون ریزی کرنے کے لئے تیار ہوں۔ یہ شخص ربوہ میں ناپسندیدہ حرکات کرتا رہا ہے۔ اُن حرکات کو تو اس نے سلسلہ کے کارکنوں کے احکام کے مطابق نہ چھوڑا لیکن حرام کام کرنے کے لئے یہ صرف ایک اشارہ کا محتاج ہے۔ اس کا باپ اس سے زیادہ مخلص تھا۔ یہ بتائے کہ سلسلہ کے اشاروں پر اس کے باپ نے کتنے خون کئے تھے؟ اگر اس کا باپ اس نیکی سے محروم مر گیا تو کیا یہ شخص اپنے باپ سے زیادہ نیکی کا مدّعی ہے؟
میری طرف منسوب کر کے پرائیویٹ سیکرٹری کا جو جواب چھپا ہے وہ اپنی ذات میں واضح تھا اُس میں صاف لکھا ہے کہ ‘‘ مجھے ایسی باتیں پسند نہیں۔ آپ کی بہن اور بڑا بھائی تو یقیناًَ مخلص ہیں۔ لیکن آپ اپنے باپ کو بے عزت کر رہے ہیں۔’’ میرا یہ لکھنا کہ مجھے ایسی باتیں پسند نہیں ہر عقلمند کے لئے کافی تھا۔ لیکن چونکہ بعض لوگ سادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اور ممکن ہے کہ عبد المنان کی شرارت آمیز تحریر کو نہ سمجھ سکیں اس لئے الفضل کا وہ جواب پڑھ کر جو پرائیویٹ سیکرٹری نے دیا ہے میں نے اوپر کی مزید تشریح لکھ دی ہے تا کہ لوگوں کو پتہ لگ جائے کہ عبدالمنان درحقیقت منافقوں کا آلۂ کار ہے اور سلسلہ احمدیہ کو جس کا خادم ساری عمر اس کا باپ رہا بدنام کرنا چاہتا ہے۔ اگر وہ زندہ ہوتا تو یقیناً اپنے اس بیٹے پر *** بھیجتا جو خوں ریز وحشیوں کے قدم بقدم چلنے کا مدعی ہے۔
(الفضل 12 اگست 1956ء)
(16) احباب جماعت کے نام
‘‘برادران! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
پچھلے دنوں الفضل میں حاجی نصیر الحق صاحب کی گواہیوں کے سلسلہ میں یہ شائع ہؤا تھا کہ گویا اُن کی گواہیاں چودھری اسد اللہ خان صاحب کو تو مل گئی تھیں لیکن انہوں نے میاں بشیر احمد صاحب کے پاس بھجوا دی تھیں جنہوں نے اُن کو یہ جواب دیا کہ میں نے عبد الوہاب کو سمجھانے کے لئے میاں عبد المنان کو بھجوایا ہے۔ اِن بیانات سے یہ اثر پڑا تھا کہ گویا میاں بشیر احمد صاحب انکار کرتے ہیں کہ مجھے چودھری اسداللہ خاں صاحب کی تحریر نہیں ملی۔ میاں بشیر احمد صاحب کا خط نکال کر دیکھا گیا ہے اس میں یہ درج نہیں کہ چودھری سد اللہ خان نے وہ گواہیاں مجھے نہیں بھجوائیں۔ بلکہ یہ درج ہے کہ میں نے چودھری اسد اللہ خاں کو ہرگز یہ نہیں کہا کہ میں نے مولوی عبد النان کو میاں عبدالوہاب کے سمجھانے کے لئے بھیجا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ایسا کہہ ہی کس طرح سکتا تھا جبکہ میں مولوی عبد المنان کی اندرونی حالت جانتا تھا۔ چنانچہ ان کا اصل فقرہ درج ذیل ہے ‘‘اور حالاتِ معلومہ کے ہوتے ہوئے میں یہ الفاظ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔’’ ‘‘جو کچھ مجھے یاد ہے میں نے ان سے یہ کہا تھا کہ مولوی عبد الوہاب کو بیہودہ بکواس کی عادت ہے مگر میں تو صرف ربوہ کا امیر ہوں اور شائد میں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت صاحب کے ارشاد کے ماتحت یہ معاملہ صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یا پھر اس کا تعلق آپ سے ہے جو لاہور کے امیر ہیں۔’’
مرزا عبد الحق صاحب امیر جماعت ہائے ویسٹ پاکستان فرماتے ہیں کہ انہیں بھی یہ مسودہ میاں بشیر احمد صاحب نے پڑھنے کو دیا تھا۔ پس جہاں تک مسودہ پہنچنے کا سوال ہے یہ بات گواہیوں سے ثابت ہے ۔ ہاں یہ بات مَابِہِ النِّزَاع رہ جاتی ہے کہ میاں بشیر احمد صاحب نے چودھری اسد اللہ خان صاحب سے کیا کہا تھا جو کچھ بھی کہا ہو خدا تعالیٰ پردہ دری پر آ گیا تھا اور میری بیماری کے بڑھنے کے ڈر سے جو بات مجھ سے چھپائی گئی تھی خدا تعالیٰ نے جیسا کہ اُس کی عادت ہے ساری جماعت کے سامنے اسے کھول کر رکھ دیا۔
خاکسار
مرزا محمود احمد’’
(الفضل 22؍ اگست 1956ء)
(17) تازہ پیغام
‘‘بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
برادران! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
فتنہ پرداز لوگ عزیزم چودھری ظفر اللہ خان صاحب پر اور ان کے خاندان پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر چودھری صاحب کی خصوصاً اور ان کے خاندان کی عموماً خدمات ایسی شاندار ہیں کہ مجھے یا کسی اَور کو اس بارے میں لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن ہر احمدی چونکہ نہ چودھری صاحب سے پوری طرح واقف ہے نہ ان کے خاندان سے اور چونکہ ایک مخلص دوست نے کراچی سے لکھا ہے کہ چودھری صاحب کے بارے میں جلدی اعلان ہو جانا چاہیئے تھا دیر ہو جانے کی وجہ سے بعض لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لئے میں عزیزم چودھری صاحب کا خط بادلِ نخواستہ الفضل میں شائع کرتا ہوں۔ بادلِ نخواستہ اس لئے کہ چودھری صاحب اور ان کے والد صاحب مرحوم کی قربانیاں خلافت کے بارے میں ایسی ہیں کہ ان کی براءت کا اعلان خواہ اُنہی کی قلم سے ہی ہو مجھ پر گراں گزرتا تھا لیکن دشمن چونکہ اوچھے ہتھیاروں پر اُتر آیا ہے اور جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں اس لئے میں چودھری صاحب کا خط الفضل میں شائع کرواتا ہوں۔ جن لوگوں کے دل میں منافقوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے چودھری صاحب کے بارے میں کوئی شک یا تردّد پیدا ہؤا تھا وہ استغفار کریں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ چودھری صاحب کا یہ شکوہ بجا ہے کہ کیوں نہ میں نے عہدِ وفاداری کے طلب کرتے ہی خود اپنی طرف سے لکھ دیا کہ چودھری صاحب کے پوچھے بغیر ہی اُن کی وفاداری کا اعلان کرتا ہوں۔ بے شک اُن کا حق یہی تھا کہ میں اُن کی طرف سے ایسا اعلان کر دیتا۔ لیکن منافق دشمن اِس پر پراپیگنڈا کرتا کہ دیکھو چودھری صاحب اتنی دُور بیٹھے ہیں پھر بھی یہ شخص جھوٹ بول کر اُن کے منہ میں الفاظ ڈال رہا ہے اور ہم لوگ اس جھوٹ کا جواب دینے کی مشکل میں مبتلا ہو جاتے۔ چودھری صاحب دُور بیٹھے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ اِس وقت جس دشمن سے ہمارا واسطہ پڑا ہے وہ کتنا جھوٹا ہے۔ ہزاروں ہزار آدمیوں کی طرف سے وفاداری کا اعلان ہو رہا ہے مگر نوائے وقت پاکستان یہی لکھے جا رہا ہے کہ ہمیں معتبر ذرائع سے خبر ملی ہے کہ مرزا محمود کی جماعت زیادہ سے زیادہ متحد ہوتی جا رہی ہے کہ ان کے خلاف عدمِ اعتماد کا ووٹ پیش کرے۔ پس چودھری صاحب کا اپنا خط چھپنا ہی مناسب تھا۔ اِس خط سے جتنے دشمن کے دانت کھٹّے ہوں گے میرے اعلان سے اُتنے کھٹّے نہ ہوتے۔ بلکہ وہ یہ شور مچاتا کہ اپنے پاس سے بنا کر جھوٹے اعلان کر رہے ہیں۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء-8-22’’
(الفضل 26؍ اگست 1956ء)
نقل خط چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب
‘‘بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ہیگ 11؍ اگست 1956ء
سیدنا و امامنا۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
یہاں الفضل کے پرچے ہوائی ڈاک سے ہفتہ میں ایک بار پہنچتے ہیں۔ ابھی ابھی 31 جولائی لغائت 5؍اگست کے پرچے ملے۔ 4؍اگست کے پرچہ میں حضور کا اعلان پڑھا۔ اُس کے پڑھنے پر یہ خاکسار گذارش کرتا ہے۔
‘‘ اندریں دیں آمدہ از مادریم و اندریں از دار دنیا بگزریم’’ انشاء اللہ
باون سال ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک چہرہ پر نظر پڑنے کی خوش نصیبی کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و رحم اور ذرہ نوازی سے یہ حقیقت ایک بچے کے دل میں راسخ کر دی کہ یہ چہرہ راستباز پہلوان کا چہرہ ہے۔ پھر جذبات کے ساتھ دلائل ، براہین ، بینات کا سلسلہ شامل ہو گیا اور جاری ہے۔ حضور کا وجود یومِ پیدائش بلکہ اُس سے بھی قبل سے اِس سلسلہ کا ایک اہم جزو ہے۔ خاکسار کو یاد ہے کہ 1914ء میں لندن میں جس دن وہ ڈاک ملی جس میں اختلاف کے متعلق مواد آیا تھا تو وہی دن ڈاک کے واپس جانے کا تھا۔ پس اتنا معلوم ہونے پر کہ اختلاف کیا ہے خاکسار نے بیعت کا خط لکھ کر ڈاک میں ڈال دیا اور باقی حصہ ڈاک بعد میں پڑھا جاتا رہا۔ اُس دن سے آج تک پھر محض اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم اور ذرہ نوازی سے باوجود اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں اور غفلتوں کے وہ عہد جو اُس دن باندھا تھا مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا آیات اور بینات، انعامات اور نوازشات نے اس تعلق کو وہ رنگ دے دیا ہےکہ خود دل جو اس کی لذات سے تو متواتر بہرہ ور ہوتا ہے اس کی حقیقت کی تہہ کو نہیں پہنچ پاتا چہ جائیکہ قلم اُسے احاطۂ تحریر میں لا سکے۔ اب جو عہد حضور نے طلب فرمایا ہے دل و جان اُس کے مصدق ہیں۔ جو کچھ پہلے حوالہ کر چکے ہیں وہ اب بھی حوالہ ہے۔ ظاہری فاصلہ ہونے کی وجہ سے خاکسار یہ التجا کرنے پر مجبور ہے کہ ایسے اعلان کے ساتھ حضور یہ اعلان بھی فرما دیا کریں کہ ہم اپنے فلاں دور اُفتادہ غلام کی طرف سے اِس پر لبیک کا اعلان کرتے ہیں تا یہ خاکسار کسی موقع پر ثواب میں پیچھے نہ رہ جائے۔ حضور کو اِس درجہ حسن ظن رہے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اپنی کمال ستاری اور ذرہ نوازی سے خاتمہ بالخیر کی ہوس کو جو ہر مومن کی آخری ہوس ہوتی ہے پورا کرتے ہوئے فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ۔کی بشارت کے ساتھ اپنے ہاں طلب فرمائے گا۔ یا ابی انت و امی
طالب دعا
خاکسار
حضور کا غلام
دستخط ظفر اللہ خاں’’
(الفضل 26؍ اگست 1956ء)
(18) مکرم چودھری محمد عبد اللہ خان صاحب امیر کراچی اور مکرم محمد اقبال شاہ صاحب آف نیروبی مشرقی افریقہ کے اخلاص بھرے خطوط ملنے پر جواب
‘‘جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان و اخلاص میں برکت بخشے ۔ ایمان کا مقام یہی ہے ۔ میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہیں۔ایک وہ جو مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اوّل کی وجہ سے داخل ہوئے ہیں ، ایک وہ طبقہ جو تعلیم یافتہ ہے اور اس لئے ہماری جماعت میں داخل ہوا ہے کہ یہ منظّم جماعت ہے ۔ ان کی وجہ سے سکول اور کالج کھولے جائیں۔ ایک وہ جو میرے الہام اور میری صداقتوں کو دیکھ کر ایمان لائے ہیں۔ میں پہلی دو قسموں پر اعتبار نہیں کرتا، یہ ہر وقت مرتد ہو سکتے ہیں۔ میں صرف اُن کو احمدی سمجھتا ہوں جو تیسرے گروہ میں شامل ہیں۔’’
(الفضل 26؍ اگست 1956ء)
(19) ایک تازہ رؤیا
‘‘ یہ خواب 31؍اگست اور یکم ستمبر کی درمیانی رات کو دیکھی گئی۔
میں نے دیکھا کہ اماں جی بھی اس دنیا میں آئی ہوئی ہیں اور فرشتے سارے جوّمیں وہ آیتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں جو قرآن شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لئے آئی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ سے نکل جائیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑائی کریں گے۔ لیکن قرآن کریم منافقوں سے فرماتا ہے کہ نہ تم یہودیوں کے ساتھ مل کر مدینہ سے نکلو گے اور نہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑو گے۔ یہ دونوں جھوٹے وعدے ہیں اور صرف یہودیوں کو انگیخت کرنے کے لئے اور فساد پر آمادہ کرنے کے لئے ہیں۔ اس آخری حصہ پر فرشتے زیادہ زور دیتے ہیں۔’’
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء-9-1 ’’
(الفضل 7 ستمبر1956ء)
(20) ایک تازہ رؤیا
‘‘ یہ رؤیا یکم اور 2 ستمبر 1956ء کی درمیانی رات کی ہے۔
میں نے خواب میں دیکھا جیسے کوئی غیر مرئی وجود مجھے کہتا ہے (اغلباً فرشتہ ہی ہو گا) کہ اللہ تعالیٰ جو وقفہ وقفہ کے بعد جماعت میں فتنہ پیدا ہونے دیتا ہے تو اِس سے اُس کی یہ غرض ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ جماعت کس طرح آپ کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔ یا جب آپ کسی خاص طرف مڑیں تو وہ کس سرعت سے آپ کے ساتھ مڑتی ہے۔ یا جب آپ اپنی منزلِ مقصود کی طرف جائیں تو وہ کس طرح اسی منزلِ مقصود کو اختیار کر لیتی ہے۔ جب وہ فرشتہ یہ کہہ رہا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے جلا ہوں کی ایک لمبی تانی آئی جو بالکل سیدھی تھی اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ صراطِ مستقیم کی مثال ہے جس کی طرف آپ کو خدا لے جا رہا ہے اور ہر فتنہ کے موقع پر وہ دیکھتا ہے کہ کیا جماعت بھی اسی صراطِ مستقیم کی طرف جا رہی ہے یا نہیں۔
تانی دکھانے سے یہ بھی مراد ہے کہ کس طرح نازک تاگے آپس میں باندھے جا کر مضبوط کپڑے کی صورت اختیار کر لیتے ہیں یہی حالت جماعت کی ہوتی ہے۔ جب تک ایک امام کا رشتہ اُسے باندھے رکھتا ہے وہ مضبوط رہتی ہے اور قوم کے ننگ ڈھانکتی رہتی ہے لیکن امام کا رشتہ اس میں سے نکال لیا جائے تو ایک چھوٹا بچہ بھی اُسے توڑ سکتا ہے اور وہ تباہ ہو کر دنیا کی یاد سے مٹا دی جاتی ہے۔ فَتَدَبَّرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَارِ
نوٹ: کچھ عرصہ سے میں نے اپنی خوابیں چھپوانی بند کر دی تھیں ۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ میرا خیال اِدھر پھر گیا تھا کہ رؤیا کو باقاعدہ چھپوانا ماموروں کا کام ہے لیکن اب اس فتنے میں بہت سی پرانی رؤیا نکلیں جو اَب شائع کی جائیں گی جن میں تفصیل کے ساتھ موجودہ فتنہ کو بیان کیا گیا ہے۔ممکن ہے درمیانی عرصہ کی خوابیں بھی شائع ہو جاتیں تو اَور کئی رؤیا جماعت کے جماعت کے ایمان کے بڑھانے کا موجب ثابت ہوتیں۔ پس میں نے مناسب سمجھا کہ مامور کی نقل کے طور پر نہیں بلکہ جماعت کے ایمان کو زیادہ کرنے اور ان میں بھی تعلق باللہ پیدا کرنے کی خواہش کی غرض سے بعض اہم خوابیں یا کشوف شائع ہوتے رہنے چاہئیں۔ دوسرے دوستوں کو بھی چاہیئے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کو خواب دکھائے یا الہام سے نوازے تو وہ بھی اطلاع دیتے رہا کریں تا کہ جن کو خواب یا الہام نہیں ہوتے وہ بھی دعاؤں اور درود کے ذریعہ سے اس انعام کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ جن خوانوں کو میں تعبیر کے لحاظ سے اہم سمجھوں گا الفضل میں شائع کرنے کے لئے دے دوں گا۔ مگر دوستوں کو اصرار نہیں ہونا چاہیئے کہ اُن کی خواب ضرور شائع ہو۔ کیونکہ خواب اور الہام کے ضرور شائع کرنے کا حکم صرف مامور کو ہوتا ہے بلکہ مامور کو بھی بعض خوابوں اور الہاموں کے شائع کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ وہ وحی جس کو ہر صورت میں شائع کرنے کا حکم ہوتا ہے وحیِ متلُوْ ہوتی ہے اور ایسی وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی۔ اب ہمارے ایمان اور علم کے مطابق قیامت تک کسی انسان پر ایسی وحی نازل نہیں ہو گی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی کسی نبی پر ایسی وحی نازل نہیں ہوئی اور اِسی وجہ سے آپؐ سے پہلے نبیوں کی وحی کے محفوظ رکھنے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ نہیں کیا۔ یہ کمال صرف قرآن کو حاصل ہے اور اسی کو قیامت تک حاصل رہے گا۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء-9-3 ’’
(الفضل 5 ستمبر1956ء)
(21) روزنامہ سفینہ کی ایک افترا کا جواب
‘‘ سفینہ لاہور مؤرخہ 5 ستمبر نے لکھا ہے مرزا صاحب نے اپنے خطبہ میں فتنہ میں حصہ لینے والوں کو گھٹیا قسم کے لوگ کہا ہے۔ نیز کہا ہے کہ ان میں کوئی عالم اور صاحب رؤیا نہیں۔ اس کے بعد پوچھا ہے کہ مرزا صاحب بتائیں کہ مندرجہ ذیل عالم نہیں ہیں؟ عبدالمنان عمر ایم۔ اے مولوی فاضل، علی محمد اجمیری مولوی فاضل، ملک عبدالرحمٰن خادم بی ۔اے ۔ایل ۔ ایل ۔ بی۔ محمد صالح نور مولوی فاضل۔ محمد حیات تاثیر مولوی فاضل ۔ نیز مولوی محمد علی صاحب ایم ۔اے ۔ایل ۔ایل ۔بی عالم اور صاحب کشف نہیں تھے؟
جس خطبہ کا حوالہ دیا گیا ہے اُس میں لکھا ہے کہ جو شخص کسی خواب کے ذریعہ سے یا آسمانی دلائل کے ذریعہ سے مجھ پر ایمان لایا ہے اگر وہ اس فتنہ میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ خود اپنے آپ کو کذّاب کہتا ہے۔ اُسے ہر شخص کہے گا کہ اے بیوقوف! اگر صداقت وہی ہے جس کا تُو اَب اظہار کر رہا ہے تو تُو نے اپنی خواب کیوں شائع کرائی تھی؟ اس کے بعد فتنہ کرنے والوں کے متعلق لکھا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ اِس وقت تک جن لوگوں نے اِس فتنہ میں حصہ لیا ہے وہ نہایت ذلیل اور گھٹیا قسم کے ہیں ایک بھی ایسی مثال نہیں پائی جاتی کہ جماعت کے صاحبِ علم اور تقویٰ اور صاحبِ کشوف لوگوں میں سے کوئی شخص فتنہ میں مبتلا ہوا ہو۔ سارے کے سارے خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں۔ صرف بعض ادنیٰ قسم کے لوگ تھے جنہوں نے کہا کہ حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد ایسا کہہ رہی ہے ہم کیا کریں۔ میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ 42 سال تک جو تم نے میری بیعت کئے رکھی تھی تو کیا تم نے مجھے حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کی وجہ سے مانا تھا؟ اِس مضمون کو پڑھ کر ہرعقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ایڈیٹر ‘‘سفینہ’’ نے جو اپنی لسٹ میں مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے کا نام شامل کیا ہے وہ ہوش و حواس میں نہیں کیا۔ خطبہ میں ذکر تو موجودہ فتنہ کا تھا جو حضرت خلیہ اوّل کی اولاد کی وجہ سے ہو رہا ہے اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے ایل ایل بی اِس فتنہ سے چار سال پہلے فوت ہو چکے ہیں۔ چار سال پہلے فوت ہونے والے شخص کا ذکر اس فتنہ کے سلسلہ میں ایڈیٹر سفینہ کے سوا کون کر سکتا ہے۔ 31؍ اگست والے خطبہ میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ جن لوگوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ وہ ہیں جو علم روحانی اور تقویٰ رکھتے ہیں اور صاحبِ کشوف ہیں اور پھر بھی اس فتنہ میں شامل ہیں۔ اور کہا گیا ہے کہ ایسا کوئی شخص نہیں۔ ایڈیٹر ‘‘سفینہ’’ نے جو مولوی عبدالمنان عمر ایم اے کا نام لکھا ہے تو کس وجہ سے؟ کیا وہ ان کی کوئی کشف بتا سکتا ہے جو انہوں نے کسی کتاب یا اخبار میں شائع کی ہو۔ اور کچھ عرصہ کے بعد وہ پوری ہو گئی ہو۔ ایم اے اور مولوی فاضل ہونا تو اس بات کی علامت نہیں کہ اُن کو علم روحانی اور تقویٰ حاصل ہے اور وہ صاحبِ کشف ہیں۔ اگر ایم اے اور مولوی فاضل ہونا اس بات کی دلیل ہوتا تو حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ ، اور حضرت علی کو تو جواب مل جاتا۔ بلکہ عیسائی لوگ تو یہ بھی کہتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (نعوذ باللہ) صاحبِ کشف اور الہام نہیں تھے کیونکہ سفینہ کے ایڈیٹر کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق نہ وہ ایم اے تھے نہ مولوی فاضل۔ یہی جواب علی محمد اجمیری کے متعلق ہے اور یہی جواب محمد صالح نور اور محمد حیات تاثیر کے متعلق ہے۔ محمد صالح نور اور محمد حیات بے شک مولوی فاضل ہیں لیکن وہ دونوں مبایعین احمدیوں کے خرچ سے مولوی فاضل ہوئے ہیں اور پھر دونوں میں سے کسی کو صاحبِ کشف ہونے کا دعویٰ نہیں۔ اگر ہے تو سفینہ کا ایڈیٹر ان کے کشف اور خواب شائع کرے جو انہوں نے دو تین سال پہلے اخبار یا کتابوں میں چھپوائے ہوں اور پھر پورے ہوئے ہوں۔ اِسی طرح مولوی علی محمد اجمیری کے بھی کشف شائع کریں۔
باقی رہے ملک عبد الرحمٰن صاحب خادم تو وہ ان لوگوں کے مخالف ہیں ان کانام میرے مخالفوں میں لکھنا محض شرارت ہے۔ غرض مولوی محمد علی صاحب کا نام لکھنا جو اِس فتنہ سے چار سال پہلے فوت ہو چکے تھے اور ملک عبد الرحمٰن صاحب خادم کا نام لکھنا جو میرے وفادار مرید ہیں اوّل درجہ کی بددیانتی اور خباثت ہے۔ اگر سفینہ کے ایڈیٹر کو سچائی کا کوئی بھی احساس ہے تو وہ یہ ثابت کرے کہ مولوی محمد علی صاحب اِس فتنہ کے وقت زندہ تھے اور ملک عبد الرحمٰن صاحب خادم کا بیان شائع کرے کہ وہ میرے مخالف تھے۔ اور مولوی عبد المنان اور مولوی اجمیری اور صالح نور اور محمد حیات تاثیر کی وہ کشوف شائع کرے جو انہوں نے آج سے چند مہینے یا چند سال پہلے شائع کئے ہوں اور وہ پورے ہو گئے ہوں۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو ہمارا جواب اس کو یہ ہے کہ لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔
اِس مضمون کے لکھنے کے بعد ملک عبد الرحمٰن صاحب خادم کا اپنا خط بھی ملا جو شائع کیا جا رہا ہے اور جو ایڈیٹر سفینہ کے جھوٹ کا ایک بیّن ثبوت ہے۔
مرزا محمود احمد
1956ء-9-8’’
(الفضل11ستمبر1956ء)
(22) مولوی علی محمد صاحب اجمیری کے خط کا جواب
‘‘ مولوی علی محمد صاحب اجمیری
آپ کا خط ملا۔ آپ نے میری اس بات کی تردید کی ہے کہ مرزا بشیر احمد صاحب کے متعلق اللہ تعالیٰ کے الہام ہیں وہ ان کو بچا لیں گے۔ اور لکھا ہے۔ میاں منّان کے متعلق آپ نے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔ حالانکہ یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ میں نے جو الفاظ عبد المنان کے متعلق استعمال کئے ہیں وہی عبد الوہاب کے متعلق کئے ہیں۔ اور لکھا ہے کہ میاں عبدالوہاب اور عبد المنان پارتی ناکام و نامراد رہے گی، خدا جس کو چاہے گا خلیفہ بنائے گا۔ اور یہ خلیفہ گر دونوں جہاں کی ناراضگی خدا تعالیٰ کی طرف سے حاصلہ کریں گے۔ کیا یہ سخت لفظ ہیں کہ عبد الوہاب اور عبد المنان پارٹی ناکام و نامراد رہے گی اور خدا جس کو چاہے گا خلیفہ بنائے گا؟
آپ نے لکھا ہے یہ دونوں کسی کی زبان نہیں پکڑ سکتے۔ گویا آپ کے نزدیک پارٹی تو ہے مگر یہ اس میں شامل نہیں ۔ میں نے بھی تو یہی لکھا تھا کہ عبدالوہاب اور عبدالمنان پارٹی ناکام رہے گی۔ گویا آپ کے نزدیک اگر پارٹی عبد المنان کا نام لے تو خدا کی نصرت اسے حاصل ہو گی، شاید کسی اور کا نام لے تو تباہ ہو جائے گی۔ گویا آپ کے نزدیک خداکا الہام اور آپ کا علم برابر ہیں۔ آپ نے دونوں باتوں کا ایک نتیجہ نکالا ہے۔ میں نے تو یہ لکھا تھا کہ چونکہ میاں بشیر احمد صاحب کے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اس لئے وہ بچ جائیں گے جس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کو علم تھا کہ میاں بشیر ایسی حرکت نہیں کریں گے۔ ورنہ ان کے متعلق بشارتوں کے الہام ہی کیوں بھیجتا۔ مگر آپ عالم الغیب نہیں۔ آپ منّان کے متعلق جو کچھ کہتے ہیں وہ اپنے علم کی بناء پر کہتے ہیں اور اپنے علم اور خدا کے علم کو برابر قرار دیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ ان کا علم بھی خدا تعالیٰ کے علم کے برابر نہیں۔ پس خدا تعالیٰ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو بھی اپنے علم کے مقابلہ میں کم قرار دیتا ہے مگر آپ اپنے علم کو خدا تعالیٰ کے علم کے برابر سمجھتے ہیں اور یہ دہریت کی علامت ہے۔ اگر یہ حالت جاری رہی تو آپ ایک دن دہریت پر پہنچ کر رہیں گے۔
میں آپ کو جانتا ہوں لیکن باوجود اِس کے میں آپ کی باتوں کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ کیونکہ آپ نے اُس شخص کا نام نہیں لکھا جس نے آپ کو یہ کہا تھا کہ پیپل کے نیچے کھڑے ہونے والے آدمیوں میں سے ایک آپ تھے جب تک آپ اُس شخص کا نام نہ بتائیں اور میں اُس سے پوچھ نہ لوں میں آپ کو کذّاب سمجھتا ہوں۔ قرآن کریم فرماتا ہے اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْۤا۔22
یہ ٹھیک ہے کہ یہ 27، 28 سال کا پرانا واقعہ ہے مگر آپ کا حافظہ مجھ سے زیادہ کمزور ہے۔ آپ نے لکھاہے کہ عبد الوہاب اس میں شامل نہیں تھے لیکن میرے پاس خود میاں زاہد سے سننے والے ایک شخص کی شہادت موجود ہے کہ مجھ سے انہوں نے کہا کہ عبد الوہاب ہماری سازش میں شامل تھا۔ مگر وہ اس لئے بچ گیا کہ وہ خلیفہ اوّل کا بیٹا تھا اور ہم غریب مارے گئے۔ ایک شہادت میرے پاس آ چکی ہے اور ایک دوسری شہادت کے متعلق خبر ہے کہ وہ بھی انشاء اللہ آ جائے گی۔ آپ تو یہ سمجھتے تھے کہ آپ کا اور وہاب کا خط میاں زاہد کے پاس گیا ہے لیکن وہ خدا تعالیٰ نے میرے پاس پہنچا دیا تھا۔ میاں زاہد نے اُس پر جو جواب لکھا تھا وہ خط لے جانے والے نے مجھے دے دیا تھا۔
خدا تعالیٰ نے وہ گواہ بھی مہیّا کر دیئے ہیں جنہوں نے یہ گواہی دی ہے کہ 1915ء میں یا اس کے قریب میاں عبد السلام اور میاں عبد المنان شملہ آئے۔ چونکہ ہم لوگ خلافت اور نبوت کے جھگڑے کی وجہ سے ہی احمدی ہوئے تھے، تازہ تازہ جوش تھا، آنکھیں کھلی رکھتے تھے مولوی عبدالسلام بھی مولوی محمد علی سے ملے اور میاں منّان عید کے دن اُن کی گود میں بیٹھے اور اُن سے نذرانہ وصول کیا۔ مولوی عمر دین شملوی نے جب مولوی عبد السلام کو طعنہ دیا کہ آپ کا بھائی نذرانہ لے کر آیا ہے اور آپ ملاقات کر کے آئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ کو ہمارے ذاتی تعلقات میں دخل دینے کا کیا حق ہے۔ یعنی جو لوگ اس ناخلف اولاد کے باپ کی مخالفت کرتے تھے اور اس کو مرتد اور ظالم قرار دیتے تھے اُن سے دوستی اور محبت رکھنے پر کیوں اعتراض کیا۔
آخر میں آپ نے مصری صاحب کو اپنی براءت میں پیش کیا ہے۔ مصری صاحب تو خود پیغامیوں میں بیٹھے ہیں میں اُن کی گواہی کس طرح مان سکتا ہوں۔ نہ میں نے اُن کو کمیشن مقرر کیا اور نہ اُن کے بری کرنے سے آپ بری ہو جاتے ہیں۔ یہ جو آپ نے لکھا ہے کہ اُس وقت آپ کی غلط فہمی دُور ہو گئی تھی یہ بھی جھوٹ ہے۔ میری غلط فہمی کبھی دُور نہیں ہوئی۔ میں آپ کو اس عرصہ میں ایمان کا کمزور ہی سمجھتا رہا ہوں۔ اس معاملہ کا دوبارہ ذکر نہ کرنا میری حیاء کی علامت ہے آپ کے ایمان کی علامت نہیں۔ میں نے تو عبدالمنّان ، عبدالوہاب اور عبدالسلام کی باتوں کا بھی دوبارہ ذکر نہیں کیا۔ نہ امّاں جی کی باتوں کا دوبارہ ذکرکیا۔ چنانچہ اِسی وجہ سے بعض لوگوں نے پچھلےدنوں مجھ سے کہا (غالباً شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور نے) کہ آپ 25 سال سے ان لوگوں کو معاف کرتے آئے ہیں، اب بھی خاموشی اختیار کر لیں۔ تو میں نے کہا یہ جو کچھ ہو رہا ہے 25سال کی معافی کا تو نتیجہ ہے، اگر میں آج سے 25سال پہلے ان لوگوں کی شرارتوں کو ظاہر کر دیتا تو آج یہ جماعت سے الگ ہو چکے ہوتے اور پیغامیوں کی گود میں بیٹھے ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ایسے گواہ بھی بھجوائے ہیں جو اپنے اپنے علاقہ میں راستباز اور ثقہ مانے جاتے ہیں اور جو بتاتے ہیں کہ ہم سے خود مولوی حبیب الرحمٰن احراری کے باپ نے شملہ میں ذکر کیا کہ مولوی عبد الوہاب ہمارے ایجنٹ ہیں اور ہم نے ان کو مرزائیوں کی خبریں لانے پر مقرر کیا ہوا ہے وہ چودھری افضل حق پریذیڈنٹ جماعت احرار سے بھی لمبی لمبی ملاقاتیں کرتے ہیں۔
مجھے کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ میرے لئے میاں زاہد کی گواہی اور اپنا حافظہ کافی ہے۔
آپ نے جو کچھ سید مسعود احمد کی گواہی کی تردید میں لکھا ہے اس بارہ میں آپ کچھ واقعات بھول گئے۔ میں نے جو کچھ کہا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبتِ الٰہی کے بارہ میں کہا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے ذکر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہمارے لئے سب سے مقدم ہے۔ عیسائی تو خدا پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن میں حیض اور لواطت کا ذکر ہے۔ایسی علمی کتاب جس کے پڑھنے کا عورتوں اور لڑکیوں کو بھی حکم ہے اس میں ایسا ذکر آنا بہت نامناسب ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے ان معترضین کی بات نہیں مانی۔ میں بھی آپ کی بات کو کوئی وقعت نہیں دیتا۔
سید مسعود آپ کے روحانی باپ کا بیٹا ہے آپ اعلان کر دیں کہ وہ جھوٹا اور کذّاب ہے وہ خود جواب دے لے گا۔ مجھے اِس جھگڑے میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میر محمد اسحٰق فوت ہو چکے ہیں اور منّان زندہ ہے ۔ میر محمد اسحٰق کی زندگی میں آپ اُن کی جُوتیاں چاٹا کرتے تھے۔
میاں عطاء اللہ صاحب کے متعلق جو آپ نے لکھا ہے وہ جھوٹ ہے۔ آپ کی غرض ہے کہ میں ان کو بھی منافق سمجھوں۔ یہی کوشش آپ کے برادر مخلص اللہ رکھا نے بھی کوہستان میں کی ہے۔ انگریزی کی ایک مثل ہے ‘‘Cat is out of bag’’ یعنی بلّی تھیلے سے باہر آ گئی۔ اِسی پر آپ نے عمل کیا ہے اور اپنے خط سے ظاہر کر دیا ہے کہ اخباروں میں ایسی باتیں لکھنے والے کے پیچھے کون ہے۔
آپ نے لکھا ہے کہ ان باتوں کی جانچ کے لئے ایک کمشن مقرر کر دیں۔ میں خلیفہ ہوں آپ خلیفہ نہیں ہیں۔ جو احمدی کمیشن کے حق میں ہیں آپ اُن کو اور منّان کو لے کر الگ ہو جائیں اور اپنی الگ خلافت قائم کر لیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کے خلاف کیا کیا اعلان کئے ہیں؟ مگر بتائیں کہ انہوں نے کتنے کمشن مقرر کئے تھے؟ موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام نے کتنے کمشن مقرر کئے تھے؟ کم سے کم عبدالمنان کے والد کو تو آپ مانتے ہیں؟ انہوں نے کتنے کمشن مقرر کئے تھے۔ پیغامی اُن کے خلاف یہی شور مچاتے تھے کہ آپ یونہی سنی سنائی باتیں ہمارے متعلق مان لیتے ہیں، تحقیقات نہیں کرتے۔ کچھ عرصہ سے غیر احمدی اخباروں میں بھی کمشن کا سوال شروع ہے مگر جن لوگوں کے کہنے پر وہ یہ بات لکھتے ہیں اُن کے نام نہیں لکھتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان اخباروں کی تاریں بھی کسی ایسے ہی خیالات والے ہاتھ میں ہیں۔ آپ خواہ کتنا ہی شور مچائیں جماعت کبھی کمیشن کے معاملہ میں آپ سے متفق نہیں ہو گی۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ خوارج نے بھی حضرت علیؓ کے سامنے کمشن کا سوال پیش کیا تھا۔ اور بعد میں اِسی بناء پر حضرت علی ؓ سے بغاوت کی تھی۔ اگر آپ یہ باتیں بھول گئے ہوں تو اسلامی تاریخ کے یہ اَوراق پھر پڑھ لیں۔ اس کمشن کے مقرر کرنے پر جو اُن کی اپنی درخواست پر مقرر ہوا تھا انہوں نے حضرت علیؓ پر نعوذ باللہ کفر کا فتویٰ لگایا تھا۔ اگر آپ کبھی اپنے دوست پیغامیوں کے پاس لاہور جائیں تو اُن کی لائبریری میں تاریخ طبری اور تاریخ ابن زبیر مل جائیں گی اُس سے آپ کا حافظہ تیز ہو جائے گا۔ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھ پر کامل اعتماد رکھتی ہے۔ نہ وہ کسی حکومت کے حکم سے میری بیعت میں داخل ہوئی اور نہ اسے میری بیعت سے نکلنے سے میں روک سکتا ہوں۔ جب تک اُس کا ایمان قائم ہے وہ میرے ساتھ رہے گی اور کسی مولوی یا اخبار کے کہنے پر کمشن کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ وہ جانتی ہے کہ اگر ہمیں خلیفہ پر اعتبار نہ رہا تو ہم اِسے چھوڑ دیں گے۔ پھر کمشن کے مطالبہ کے معنے کیا ہوئے۔
مرزا محمود احمد
1956ء-9-8 ’’
(الفضل13ستمبر1956ء)
(23) چاہیئے کہ خلیفہ اپنے بیٹے کو خلافت کے لئے نامزد نہ کرے
‘‘ خاکسار نے حضرت ....... خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی 1914ء کی تقریر ‘‘ برکات خلافت’’ کے مندرجہ ذیل فقرات بغرض تشریح پیش کئے تھے:۔
‘‘وہ نادان جو کہتا ہے کہ گدی بن گئی ہے اُس کو مَیں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں تو یہ جائز ہی نہیں سمجھتا کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ ہو۔ ہاں اگر خدا تعالیٰ چاہے مامور کر دے تو یہ الگ بات ہے اور حضرت عمرؓ کی طرح میرا بھی یہی عقیدہ ہے کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ نہیں ہونا چاہیئے’’۔ (صفحہ 22)
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل کلمات تحریر فرمائے ہیں (خاکسار ابو العطاء جالندھری)
‘‘ یعنی باپ کو بیٹے کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں کرنا چاہئے جس طرح حضرت عمرؓ نے منع فرمایا 23 کیونکہ جو پانچ آدمی انہوں نے خود نامزد کئے تھے نہ کہ جماعت نے اُن میں اُن کا بیٹا بھی تھا۔ اس لئے آپ نے فرمایا اسے مشورہ میں شامل کرو خلیفہ مت بنانا۔ پس معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک باپ اپنے بعد بیٹے کو خلیفہ نامزد نہیں کر سکتا۔ مگر حضرت علیؓ نے اس کے خلاف کیا اور اپنے بعد حضرت حسنؓ کو خلیفہ نامزد کیا24۔ میرا رجحان حضرت علیؓ کی بجائے حضرت عمرؓ کے فیصلہ کی طرف ہے خود حضرت حسنؓ بھی مجھ سے متفق نظر آتے ہیں کیونکہ انہوں نے بعد میں حضرت معاویہ کے حق میں دست برداری دے دی۔اگر وہ یہ سمجھتے کہ باپ، بیٹے کو اپنے بعد خلیفہ بنا سکتا ہے تو کبھی دست بردار نہ ہوتے کیونکہ خلافتِ حقّہ کا چھوڑنا ارشادِ نبویؐ کے مطابق منع ہے۔ مگر حضرت علیؓ نے بھی غلطی نہیں کی۔ اُس وقت حالات نہایت نازک تھے۔ کیونکہ خوارج نے بغاوت کی ہوئی تھی اور دوسری طرف معاویہ اپنے لشکروں سمیت کھڑے تھے۔ انہوں نے ایک چھوٹی سی تبدیلی کو بڑے فساد پر ترجیح دی کیونکہ حضرت حسنؓ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلم کی پیشگوئیاں موجود تھیں۔ ممکن ہے حضرت علیؓ نے اَور احتیاطیں بھی کی ہوں جن سے جمہور مسلمانوں کے حق کو محفوظ کر دیا ہو۔ گو وہ مجھے اِس وقت یاد نہیں۔
مرزا محمود احمد
1956ء-9-8 ’’
(الفضل15ستمبر1956ء)
(24) ہفت روزہ ‘‘چٹان’’ کا ایک ادارتی نوٹ
‘‘ اتفاقاً ایک پرچہ ‘‘چٹان’’ کا دفتر نے بھجوایا ہے۔ ممکن ہے انہوں نے خریدا ہو یا کسی دوست نے بھجوایا ہو۔ اس کے صفحہ5 پر ایک مضمون ہے جس کا عنوان ہے ‘‘الفضل کی خدمت میں’’ اس میں لکھا ہے کہ بعض قادیانی حضرات نے گمنام خطوط لکھنے شروع کئے ہیں جن میں دشنام دہی کا ایسا اسلوب اختیار کیا گیا ہے جو خلیفۃ المسیح اپنے لئے سننے کو تیار نہ ہوں گے۔ گمنام خط خواہ قادیانی بھیجے یا حنفی یا وہابی یا مودودی یا شیعہ یا نیچری یا اہلِ قرآن بُرا ہوتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب تمہیں کوئی خبر آئے تو خبر لانے والے شخص کے حالات کو دریافت کر لیا کرو25 اور گمنام خط لکھنے والے کے حالات دریافت نہیں کئے جا سکتے۔ پس ایسا شخص چاہتا ہے کہ مکتوب الیہ قرآن کریم کے حکم کی نافرمانی کرے اور گویا اباحت پھیلاتا ہے۔ پس مجھے ‘‘چٹان’’ کے ایڈیٹر صاحب سے اس بات میں پوری ہمدردی ہے کہ ان کے نام بعض لوگ بغیر اپنا نام ظاہر کرنے کے ایسے خط بھیجتے ہیں جن میں گالیاں ہوتی ہیں۔ حقیقتاً تو اگر اُن خطوں میں ایڈیٹر صاحب چٹان کی تعریف بھی ہو تو بوجہ ان خطوں کے گمنام ہونے کے اُن کے لکھنے والا خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم ہے اور اسے اپنے گناہ سے توبہ کرنی چاہیئے ورنہ وہ خدا تعالیٰ سے سزا پائے گا۔ مگر مجھے ایک بات پر تعجب ضرور ہے کہ باوجود ان خطوں کے گمنام ہونے کے ایڈیٹر صاحب چٹان کو یہ کیونکر معلوم ہو گیا کہ وہ قادیانیوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض ‘‘قادیانیت’’ کے دشمن لوگوں نے ایڈیٹرصاحب چٹان کو غصہ دلانے کے لئے ایسے گمنام خط لکھے ہوں۔ جب یہ بات ممکن ہے اور جب وہ خط گمنام بھی ہیں تو تقویٰ کا طریق یہی تھا کہ ایڈیٹر صاحب چٹان اُن خطوں کو تو پھاڑ کر ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیتے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ اے خدا! مسلمانوں پر رحم کر خواہ وہ کسی فرقہ کے ہوں کہ وہ ایسی گندی باتوں سے بچا کریں۔
ایک بات ایڈیٹر صاحب چٹان نے ایسی لکھی ہے کہ مجھے اس کی تائید کرنی پڑتی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ الفضل نے معاصر نوائے وقت کے ساتھ ہم پر بھی یہ الزام چسپاں کیا ہے کہ ہم کسی کے روپے سے احمدی منافقین کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ لکھ کر وہ لکھتے ہیں لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ میرے نزدیک جب تک کوئی معیّن ثبوت نہ ہو کسی مقابل کے متعلق ایسی بات لکھنا تقویٰ کے خلاف ہے۔ ہمارے متعلق ہمیشہ غیر احمدی کہتے رہے ہیں کہ انگریزوں سے روپیہ لے کر انہوں نے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور ہم ہمیشہ اسے بُرا مناتے رہے ہیں۔ وہی طریقہ اپنے مخالف کے متعلق استعمال کرنا نہایت معیوب اور بُرا ہے۔ یا تو ایڈیٹر الفضل کے پاس ایسا ثبوت موجود ہو جس کی بناء پر وہ اپنے بیوی بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کے حکم کے مطابق قسم کھا کر چٹان پر یہ الزام لگا سکے کہ اُس نے کسی سے روپے کھائے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ ہمارا مخالف ہے یا پھر اسے چٹان کے دعویٰ کو قبول کرنا چاہیئے اور مومنوں کی طرح معذرت کرنی چاہیئے کہ ہم نے بعض افواہوں یا قیاسوں کی بناء پر الزام لگایا ورنہ ہم اس الزام پر لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ نہیں کہہ سکتے۔قرآن کو اونچا کرنے کے لئے اپنا سر نیچا کر لینا بڑی عزت کی بات ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ سچا احمدی وہ ہے جو سچا ہو کر جھوٹا بنے26۔ اِس کے یہ معنے نہیں کہ وہ سچ بولے اور کہے کہ میں نے جھوٹ بولا تھا۔ بلکہ یہ معنے ہیں کہ اگر وہ کوئی ایسی بات کہے جسے وہ سچا سمجھتا تھا مگر قرآن کریم اُسے ایسا کہنے کی اجازت نہ دیتا ہو تو فوراً معذرت کرے اور اپنے مخاصم کی بات کو تسلیم کر لے۔ایڈیٹر صاحب الفضل اِس بات سے نہ ڈریں کہ بعض دوسرے لوگ اِس سے اُن کے سر چڑھ جائیں گے کیونکہ قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ اگر تُو ہمارے حکم کے مطابق فروتنی دکھائے گا تو ہم خود تیری طرف سے ہو کر لڑیں گے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ایڈیٹر صاحب الفضل کی لڑائی سے خدا تعالیٰ کی لڑائی زیادہ سخت ہے۔27
آخر میں مَیں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ایڈیٹر صاحب چٹان نے جہاں ایڈیٹر صاحب الفضل کو نصیحت کی ہے وہاں میرے متعلق بھی لکھا ہے کہ جو باتیں آپ اپنے لئے پسند نہیں کرتے وہ دوسروں کے متعلق مت لکھیئے یا لکھوائیے حالانکہ ایڈیٹر صاحب چٹان نے جس دلیری سے الفضل کے الزام کے مقابلہ میں لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کہا ہے اس فقرہ کے متعلق وہ لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ نہیں کہہ سکتے اور نہ میں ان سے اس کا مطالبہ کرتا ہوں کیونکہ اس نوٹ کے لکھتے وقت ان کا دل دُکھا ہوا تھا اور ایسی حالت میں بعض دفعہ انسان پورا موازنہ نہیں کر سکتا۔
مرزا محمود احمد
1956ء-9-19 ’’
(الفضل22ستمبر1956ء)
(25) جماعت احمدیہ لاہور کی طرف سے ایک ریزولیوشن پر ارشاد
‘‘ ایسا ہی ایک ریزولیوشن جماعت ربوہ نے بھی پاس کرکے بھیجا ہے وہ میں بعد میں بھجوا دوں گا۔ اُس میں اَور ناموں کا ذکر ہے۔ چونکہ ہر جگہ کی جماعت مبایعین کو یہ حق ہے کہ اگر اپنے علاقہ میں رہنے والے کسی احمدی کی نسبت یہ شک کریں کہ وہ جماعت مبایعین جیسے خیالات نہیں رکھتا تو اس کے متعلق یہ ریزولیوشن پاس کر دیں کہ وہ ہماری جماعت کا ممبر نہیں سمجھا جائے گا تا کہ آئندہ اُس کے ذریعہ سے اٹھایا ہوا فتنہ اُس جماعت کی طرف منسوب نہ ہو اور وہ اُس جماعت کا ممبر ہونے کی حیثیت سے احمدیہ جماعت کے کسی عہدہ کے حصول کے لئے کوشش کرنے کا راستہ تلاش نہ کرے۔ پس میں جماعت احمدیہ لاہور اور ربوہ کو ان کے ریزولیوشنوں کے حق ہونے کی وجہ سے اُن کے ریزولیوشنوں کی تصدیق کرتا ہوں۔’’
(الفضل2؍اکتوبر1956ء)
(26) محترم چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب کا خط اور
اس پر تبصرہ
‘‘چودھری ظفراللہ خان صاحب کا ایک ضروری خط ذیل میں درج کیا جاتا ہے اِس خط سے دو اہم امور کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ ایک امر وہ پروپیگنڈا ہے جو مولوی عبدالمنان صاحب کے ساتھی جماعت میں کر رہے ہیں کہ گویا مولوی عبدالمنان کی علمی تحقیقاتوں اور کارروائیوں کا شُہرہ امریکہ تک پہنچا جس پر امریکہ نے اُن کو اپنے ملک میں تقریر کی دعوت دی اور پتا لگ جاتا ہے کہ یہ دعوت چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی سفارش پر ہوئی تھی نہ کہ ان کی عالمی شہرت کی وجہ سے۔ جیسا کہ تھوڑے دنوں میں تحقیقی طور پر ثابت ہو جائے گا مولوی عبد المنان صاحب کی مسند احمد کی تبویب نہ کوئی نیا کارنامہ ہے نہ کوئی علمی تحقیق ہے۔ یہ کام کوئی چالیس سال سے مسلمانوں میں ہو رہا ہے اور مصر اور ہندوستان کے علماء اس میں لگے ہوئے ہیں۔ بلکہ بعض کتابوں سے پتا لگتا ہے کہ بعض لوگ اس کو مکمل بھی کر چکے ہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ محنت کا کام ہے جیسے ڈکشنری میں سے لفظ نکالنے کا کام محنت کا کام ہوتا ہے۔ مگر علمی وسعت وسعتِ نظر کا کام نہیں۔ مدرسہ احمدیہ کے بعض پرانے اساتذہ کہتے ہیں کہ جب مولوی عبدالمنان صاحب سکول میں انجمن کے تنخواہ دار ملازم تھے تو خود بھی اپنا وقت اِس کام پر صَرف کرتے تھے اور بعض طلباء سے بھی مدد لیتے تھے وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ بہرحال کوئی نہ کوئی دوست کچھ دنوں تک اس مسئلہ پر تفصیلی اور مکمل روشنی ڈال دیں گے۔ مصر کے ایک عالم نے اس کتاب کی تبویب کی چودہ جلدیں شائع کی ہیں جو کہتے ہیں کراچی اور لاہور میں مل سکتی ہیں گو شبہ ہے کہ ابھی کچھ جلدیں شائع ہونی باقی ہیں۔ ان جلدوں میں سے بہت سی ہمارے جامعۃ المبشرین کی لائبریری میں موجود ہیں۔ اور کچھ جلدیں قادیان کے زمانہ سے میری لائبریری میں موجود تھیں جو اَب یہاں آ گئی ہیں۔ بے شک حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایسی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی تھی۔ یہ جلدیں غالباً مرزا ناصر احمد کی ولایت سے واپسی پر میں نے اُس کے ذریعہ سے مصر سے منگوائی تھیں۔
اِس خط سے اس شبہ کا بھی ازالہ ہو جاتا ہے جو بعض دوستوں نے اپنے خطوں میں ظاہر کیا ہے جو یہ ہے کہ مولوی عبدالمنان کو امریکہ بھجوا کر چودھری ظفراللہ خان صاحب نے فتنہ کا دروازہ کھولا اور اُن کے دوستوں کو جھوٹے پروپیگنڈا کا موقع دیا۔ مگر جیسا کہ چودھری ظفراللہ خان صاحب کے خط سے ظاہر ہے انہوں نے موجودہ حالات کے علم سے پہلے یہ کوشش کی تھی اور اِس خیال سے کی تھی کہ حضرت خلیفہ اول کے بیٹوں میں سے ایک ہی بیٹے کو کچھ علمی شغف ہے وہ علمی مجالس میں آ جائے تو اس طرح شاید سلسلہ کو بھی کچھ فائدہ پہنچ جائے گا۔ چونکہ مولوی عبدالمنان تحریک جدید کے ایک عہدے پر مقرر تھے اس لئے چودھری صاحب کا یہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ یا ان کے گہرے دوست کوئی بات سلسلہ کے خلاف کریں گے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ چودھری غلام رسول نمبر35 کی قسم کے لوگ اخباروں میں ان کو حضرت مولانا عبدالمنان کر کے لکھیں گے۔ چودھری صاحب نے مولوی عبدالمنان وکیل التصنیف کی سفارش کی تھی۔ انہوں نے حضرت مولانا عبدالمنان کی سفارش نہیں کی تھی۔ اس لئے ان پر الزام لگانا درست نہیں۔ اور جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ اُن کی نیت کو دیکھنا چاہیئے جو ظاہر ہے عمل کو نہیں دیکھنا چاہیئے۔ہاں جو لوگ واقعات کے ظاہر ہو جانے کے بعد بھی ایسے لوگوں میں گُھستے ہیں وہ اپنے عمل سے اِس بات کا ثبوت دے دیتے ہیں کہ اُن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ وَ سَيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْۤا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ 28
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
محترم چودھری ظفراللہ خان صاحب کا خط
‘‘بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ہیگ 7 ستمبر1956ء
سیدنا و امامنا۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
حضور کے ارشاد کے ماتحت پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے خاکسار کو محترمہ عائشہ صاحبہ (جنہیں خاکسار تو ذاتی طور پر نہیں جانتا) کے خط کی نقل ارسال کی ہے جو محترمہ مذکورہ نے حضور کی خدمت اقدس میں لکھا ہے۔ ان بچوں نے اگر ایسی کوئی بھی بات کہی ہے تو بہت دکھ دینے والی بات ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ خاکسار نے مکرمی مولوی عبد المنان عمر صاحب کے امریکہ جانے کے متعلق جو کوشش کی اس میں خاکسار کی نیت اپنے علم کے مطابق سلسلہ کے ایک عالم اور مخلص خادم کے لئے ایک موقع بہم پہنچانا تھا جس سے وہ خود بھی فائدہ اٹھا سکیں اور سلسلہ کی خدمت کا اس کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ موقع فراہم کر سکیں۔ خاکسار کا ان کے متعلق بوجہ ان کے سلسلہ میں وکیل کے عہدہ پر فائز ہونے، بوجہ حضرت خلیۃ المسیح الاوّل کا فرزند ہونے اور بوجہ اس کے کہ اپنے بھائیوں میں صرف اکیلے وہی علمی مذاق رکھتے ہیں اور علم کا اکتساب کر سکتے ہیں یہی اندازہ اور یہی حُسنِ ظن تھا جو خاکسار نے لکھا ہے۔ اُن امور کا جو ان کے چھوٹے بھائی کے متعلق بعد میں ظاہر ہوئے ہیں یا جن کا ذکر محترمہ عائشہ صاحبہ کے خط میں ہے خاکسار کو نہ علم تھا نہ اندازہ۔ ممکن ہے مکرمی مولوی عبدالمنان عمر صاحب بھی ان امور میں ملوث ہوں۔ خاکسار کو اِس کا بھی کوئی علم اس سے زائد نہیں جو ارشاد حضور نے کوہ مری سے ارسال کردہ اپنے والا نامے میں فرمایا تھا بوجہ مرکز سے باہر ہونے کے موجودہ فتنہ کے متعلق خاکسار کا علم اُنہی امور تک محدود ہے جو الفضل میں شائع ہوئے ہیں۔ ان امور کی تفتیش حضور کے ہاتھ میں اور حضور کے ارشاد کے ماتحت اور حضور کی ہدایات کے مطابق حضور کے خدام کے ہاتھوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے حضور کی ذات مبارک اور سلسلہ عالیہ کو ہر قسم کے خطرہ، پریشانی اور ابتلاء سے محفوظ رکھے۔ اٰمین۔ جو امر حضور کے نزدیک پایۂ ثبوت کو پہنچ جائے اُس کے مطابق حضور کے خدام کا عمل پیرا ہونا بھی عین سعادت اور تقاضائے عہدِ اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ لیکن جب تک کسی امر کا انکشاف نہیں ہوا تھا اور کوئی ایسی بات ظہور میں نہ آئی تھی اُس وقت تک جن خدام کا عمل حُسنِ ظن کے مطابق رہا وہ اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ کے حکم کے تابع تھا۔ وَاِلَّا صدق و اخلاص اور اطاعت و وفا کا عہد وہیں ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اور اسی کی عطا کردہ توفیق سے انشاء اللہ پورا ہوتا جائے گا۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے حضور کو جلد صحت کاملہ عطا فرمائے اور اپنے مبارک ارادوں کی تکمیل کی توفیق عطا فرماتا جائے۔ اور ہم سب خدام کو اُن برکات سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونے کی توفیق عطا فرمائے جن کے نزول کا حضور کا وجود باجود ذریعہ ہے اور جو حضور کی ذات مبارک کے ساتھ وابستہ ہیں اور حضور کو ہر پریشانی اور حزن سے محفوظ رکھے۔ اٰمین۔
والسلام
طالب دعا
خاکسار
ظفر اللہ خان’’
(الفضل3؍اکتوبر1956ء)
(27) ضروری اعلان
‘‘ مجھے فتنہ کے ایّام میں کئی احمدی خریدارانِ الفضل کی طرف سے چٹھیاں آئی ہیں کہ جس الفضل میں کوئی خاص مضمون فتنہ کے متعلق ہوتا ہے وہ ہم کو نہیں ملتا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی آدمی منافقوں میں سے الفضل کے عملہ میں ہے۔ آج ایک یقینی ثبوت مل گیا ہے۔ ایک احمدی دوست نے خط کے ذریعہ توجہ دلائی ہے کہ میرے پاس میاں محمد صاحب کا ٹریکٹ پہنچا ہے جس پر وہ پتہ تھا جو معروف نہیں اور صرف الفضل کو میں نے دیا ہوا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خریدارانِ الفضل کے پتوں پر میاں محمد صاحب کے ایجنٹوں کا دخل ہے۔ بعض باتیں میں نے بیچ میں چھوڑ دی ہیں کیونکہ ان سے اُس شخص کا بھی پتہ لگ سکتا تھا جس کا یہ کام ہے ۔ مجھے افسوس ہے کہ اُس شخص کے دفتر میں لانے میں ایڈیٹر صاحب الفضل تنویر کا دخل ہے اور ان کی اپنی حیثیت بھی مشکوک ہو جاتی ہے۔ گو ابھی میں ان پر شبہ نہیں کرتا کیونکہ فی الحال اس شخص کا یقینی پتہ لگ گیا ہے جو یہ کام کر رہا ہے۔ مہربانی کر کے وہ دوست جو الفضل کے خریدار ہیں اور جن کا کبھی کوئی تعلق پیغامیوں سے نہیں رہا لیکن اُن کو میاں محمد صاحب کی چٹھی پہنچی ہے یا جن کو منافقوں کے متعلق مضامین نہیں ملے یا دیر سے ملے ہیں وہ تفصیل سے سارے حالات مجھے لکھیں تا کہ اصل مجرم کے پکڑنے میں اَور زیادہ آسانی ہو جائے۔
مرزا محمود احمد ’’
(الفضل10؍اکتوبر1956ء)
(28) ضروری اعلان
‘‘ راجہ علی محمد صاحب نے ایک دفعہ مجھے لکھا تھا کہ میرے پسر رازی میں کوئی سلسلہ سے انحراف کی بُو نہیں پائی جاتی۔ مگر میں ان کی اطلاع کے لئے شائع کرتا ہوں کہ بشیر رازی کی اپنی تحریر کی رو سے جو میرے پاس موجود ہے بشیر رازی اب احمدیہ جماعت میں نہیں ہے۔ اس نے مجھے لکھا:۔
‘‘میں آپ کی خلافت سے بتمام انشراح صدر عدم وابستگی کا اعلان کرتا ہوں۔’’
ڈسکہ اور لاہور کی جماعتیں جہاں وہ رہتا ہے اور گجرات کی جماعت جہاں کا وہ باشندہ ہے اور راجہ علی محمد صاحب جن کا وہ بیٹا ہے اور ملک عبد الرحمٰن صاحب خادم جن کا وہ رشتہ دار ہے مطلع رہیں کہ بشیر رازی اپنے بیان کے مطابق احمدیہ جماعت کے افراد میں سے آئندہ نہیں ہے ۔ ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے کہ ایسے آدمی کو نکالنے کی ہمیں ضرورت پیش نہیں آئی وہ خود ہی نکل گیا۔ آئندہ رازی اور اُس کے دوستوں کو غلام رسول نمبر35 یا منان کی جماعت میں داخل ہونا مبارک ہو یا خدا کی تقدیر کے مطابق نامبارک ہو۔’’
(الفضل18؍اکتوبر1956ء)
(29) ایک اہم مکتوب بنام شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور
‘‘ مکرمی شیخ صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ
آپ کو میرا خط مل گیا ہو گا کہ آپ کو منان سے ملنے کی اجازت ہے۔ اب میں ایک غلط فہمی دور کر دینا چاہتا ہوں۔ چونکہ منان صاحب ایک مہینہ سے زائد ہوا کہ امریکہ سے واپس آ چکے ہیں اور اِس عرصہ میں میاں بشیر احمد صاحب کیونکہ اُن کو لکھ چکے ہیں کہ کون کونسے امور کی صفائی اُن کے ذمہ ہے مگر باوجود اِس کے انہوں نے صفائی نہیں کی اور انجمن کے رجسٹرات اِس پر گواہ ہیں کہ وہ سلسلہ کے جس جس کام پر مقرر ہوئے ہیں اُس کی بہت سی رقوم ابھی تک قابلِ تشریح ہیں اور بہت سی رقوم پر میاں عبدالمنان کے دستخط اب تک موجود ہیں اور میاں غلام غوث صاحب جمونی اور چودھری انور حسین صاحب شیخوپورہ کی معیّن گواہیاں موجود ہیں کہ انہوں نے خلافت کی امیدواری کا اظہار کر دیا اور یہ کہا کہ خلیفہ ثانی، ناصر احمد کو اپنا ولی عہد بنا رہے ہیں۔ اِن حالات کے بعد وہ توبہ بھی کریں اور ہمیں اُن کی توبہ کے الفاظ سے اتفاق بھی ہو تو بھی اُنہیں اِس طرح ہرگز نہیں معاف کیا جا سکتا کہ آئندہ وہ کسی جماعت کے ممبر ہو سکیں یا جماعت کے کسی عہدہ پر فائز ہو سکیں۔ اِس وقت کہ عشاء کے بعد کا وقت ہے میجر عارف الزمان لاہور سے آئے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ میاں منان باقاعدہ مولوی صدر دین سے مل رہے ہیں اور ایک دن تو ملاقات رات کے دو بجے تک رہی اور لاہور کے کسی وکیل فضل علی غنی اور امیر احمد قدوائی سے قانونی مشورے لے رہیں ہیں۔ غالباً یہ امیر احمد قدوائی وہی ہے جس کی آپ نے ایک دفعہ میرے ساتھ دعوت کی تھی کیونکہ وہ بھی وکیل اور قدوائی کہلاتا تھا۔ یہ حالات میری اوپر کی رائے کو اَور بھی پکا کرتے ہیں۔ رجسٹرات اور میاں عبدالمنان کے دستخط ہمارے پاس موجود ہیں۔ شیخ محمد احمد صاحب گو آپ کے پائے کے وکیل تو نہیں مگر بڑے پائے کے وکیل ہیں انہوں نے سب کاغذات دیکھے ہیں اور یہ قطعی رائے دی ہے کہ گو بعض معاملات میں انجمن کے بعض افسروں کی سہل انگاری کی وجہ سے وہ فوجداری مقدمہ سے تو بچ گئے ہیں مگر رجسٹرات میں اُن کے اپنے دستخطوں سے اتنا مواد موجود ہے کہ دنیا کے سامنے اُن کی امانت کو مخدوش کرنے کے لیے کافی سے زیادہ ہے۔ بعض واقعات میں کل کے خط میں لکھ چکا ہوں۔ بہرحال میں نے آپ کو اِس لیے وقت پر اطلاع دے دی ہے تا کہ آپ غلطی سے کوئی PROPOSAL بنا کر نہ بھجوا دیں اور پھر اس کے ردّ کرنے کی وجہ سے آپ کی دل شکنی نہ ہو۔ بہرحال سلسلہ کے مفاد اور امانت اور دیانت کو حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد پر مقدم رکھا جائے گا اور صرف اِتنی رعایت اُن کے ساتھ ہو سکتی ہے کہ وہ دلیری کے ساتھ پیغامِ صلح کے افتراء کو ظاہر کریں اور اِسی طرح اپنے دوستوں اور غیر احمدی اخباروں کے افترا کو ۔ تو جماعت سے اخراج میں نرمی کر دی جائے۔ منان میں تو اتنا بھی ایمان نہیں پایا جاتا کہ وہ اجمیری کے اس جھوٹ کی تردید کرتا کہ میں نے کبھی وکلاء کے کمیشن مقرر کرنے کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ اس نے اس بات کا اظہار کیا کہ غلام رسول 35 جو میری خلافت کا پروپیگنڈا کر رہا ہے اس کو میں نے 1950ء، 1951ء میں سلسلہ کے روپے میں سے پچاس روپے دیئے تھے اور اِس طرح کچھ رقم اجمیری کو دی تھی اور اس کے لیے ناصر احمد کی دشمنی کی یہ وجہ ہے کہ ناصر احمد نے یہ ساری بے ضابطگیاں انجمن کے سامنے رکھی تھیں۔
مرزا محمود احمد
1956ء-10-19 ’’
(تاریخِ احمدیت جلد 19 صفحہ 119، 120)
(30)فیض الرحمن صاحب فیضی کے متعلق مشروط معافی کا اعلان
‘‘ ملک فیض الرحمن صاحب فیضی نے اپنے بھائی ملک عبد الرحمن صاحب خادم اور اپنے بہنوئی راجہ علی محمد صاحب کی موجودگی میں اپنے لئے معافی طلب کی اور خادم صاحب نے کہا کہ اِس دفعہ آپ معاف کر دیں، آئندہ ان کے خلاف کوئی شکایت نہیں پیدا ہو گی۔ اِس پر میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں انہیں مشروط معافی دے دوں گا اور وہ شرطیں یہ ہیں۔
1۔ وہ الفضل میں اپنے اُن رشتہ داروں سے براءت کا اظہار کریں جو مخالفت کر رہے ہیں جیسے ملک عزیز الرحمن اور بشیر رازی ۔
2۔ اِسی طرح اُن دوسرے لوگوں سے جو فتنہ پیدا کر رہے ہیں مگر معافی صرف اِس بات کی ہو گی کہ میں اپنے دل میں ان سے خفگی دور کر دوں گا اور آئندہ ان کو خادم صاحب اپنی والدہ صاحبہ، اپنی بڑی ہمشیرہ صاحبہ اور راجہ علی محمد صاحب سے نیز اپنے خسر اور ساس سے ملنے کی اجازت ہو گی۔ لیکن معافی کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ ان ریزولیوشنوں کو منسوخ کر دیا گیا ہے جو صدر انجمن احمدیہ لاہور، انجمن ربوہ اور دیگر جماعتوں نے پاس کئے ہیں۔ وہ سعد بن عبادہؓ کی طرح اگر ان کوتوفیق ملے احمدیہ مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن اپنے مذکورہ بالا رشتے داروں کے سوا عام احمدیوں سے ان کو میل جول کی اجازت نہیں ہو گی۔ سوائے اِس کے کہ ایک لمبے تجربہ کے بعد ریزولیوشنوں کا کوئی اَور حصہ بھی ان کے متعلق منسوخ کر دیا جائے۔ خادم صاحب نے مجھے کہا کہ شاید فیضی صاحب کے بھائیوں نے کوئی بات کہی ہو گی جس کے متعلق مرزا منظور احمد صاحب سمجھے کہ فیضی صاحب نے کہی ہو گی۔ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں مرزا منظور احمد صاحب اور طاہر احمد کے بیان کو سچا سمجھتا ہوں۔ اگر خادم صاحب کی اِس بات کو تسلیم کیا جائے کہ اُن کو غلط فہمی ہوئی ہے تو یہ اصول بھی آئندہ کے لئے تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر کوئی شہادت ایسی ملے جس میں شہادت دہندہ کسی ایک شخص کے متعلق خیال کرتا ہو کہ اُس نے سلسلہ کی ہتک کی ہے تو خادم صاحب کے اوپر کے استدلال کے مطابق خاندان کے دوسرے افراد کے متعلق بھی جو اس مجلس میں شامل ہوں یہ فیصلہ کیا جائے کہ وہ بھی اِس فتنہ میں شامل ہیں کیونکہ غلط فہمی دونوں طرف لگ سکتی ہے۔ کیونکہ جس طرح مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے متعلق یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ فلاں نہیں فلاں نے بات کی ہو گی۔اِ سی طرح یہ غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے کہ جس کے متعلق شبہ ہو کہ اُس نے بات کی ہے اُس نے نہیں باقیوں نے کی ہو گی۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء-10-29 ’’
(الفضل 31 /اکتوبر 1956ء)
(31) چودھری عبداللطیف صاحب کے متعلق مشروط معافی کا اعلان
‘‘آج مؤرخہ 20 نومبر 1956ء برادرم خان بہادر چودھری نعمت خان صاحب اپنے لڑکے چودھری عبداللطیف صاحب کے ساتھ ملنے کے لئے آئے اور فرمایا کہ وہ لڑکا پوری طرح توبہ کرنا چاہتا ہے اسے ملنے کا موقع دیا جائے۔ چنانچہ میں نے اُن کے سامنے اُن کے بیٹے چودھری عبداللطیف صاحب کو بلا لیا اور خان بہادر صاحب سے کہہ دیا کہ جہاں تک میری دلی رنجش دُور ہونے کا سوال ہے میں چودھری عبداللطیف کو اس شرط پر معاف کرنے کو تیار ہوں کہ آئندہ اس کے مکان واقع نسبت روڈ پر وہ فتنہ پرداز لوگ نہ آئیں جن کا نام اخبار میں چھپ چکا ہے۔ خان بہادر صاحب نے یقین دلایا کہ ایسا نہیں ہو گا اور چودھری عبد اللطیف نے بھی یقین دلایا کہ میں ذمہ لیتا ہوں کہ وہ آئندہ اس جگہ پر نہیں آئیں گے۔ اور میں نے اس کو کہہ دیا کہ جماعت لاہور اس کی نگرانی کرے گی اور اگر پھر اس نے ان لوگوں سے تعلق رکھا یا اپنے مکان پر آنے دیا جو درحقیقت خان بہادر چودھری نعمت خان صاحب کا مکان ہے تو پھر اس کی معافی کو منسوخ کر دیا جائے گا۔ اُس نے اِسے تسلیم کیا۔میں نے یہ بھی کہہ دیا کہ جماعت لاہور کا ریزولیوشن اس کے متعلق اُسی طرح قائم رہے گاجیسا کہ فیض الرحمٰن صاحب فیضی کے متعلق ہے۔ اِن سب باتوں کے بعد اُس نے مجھے یقین دلایا کہ آئندہ وہ نیک چلنی اور صحیح طریقہ اختیار کرے گا۔ نہ سلسلہ کے دشمنوں سے کسی قسم کے تعلقات رکھے گا اور نہ اپنے مکان پر جو کہ درحقیقت اُن کے والد کا مکان ہے اُن کو آنے دے گا۔ اس لئے یہ بات الفضل میں شائع کی جاتی ہے کہ میں نے چودھری عبداللطیف صاحب کو مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ معاف کر دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس کو اپنی توبہ پر قائم رہنے کی توفیق دے کہ اس کے والد نہایت مخلص ہیں اور نہایت تندہی سے سلسلہ کے کاموں میں اپنی پنشن سے پہلے بھی اور بعد میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں اپنی اولاد کی طرف سے ٹھنڈی کرے اور اولاد کو مخلص احمدی بننے کی توفیق دے۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
(خلیفۃ المسیح الثانی)
1956ء-11-20 ’’
(الفضل22 نومبر1956ء)
(32) مولوی مصباح الدین صاحب کے متعلق معافی کا اعلان
‘‘ مولوی مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلینڈ سے چند سال ہوئے ایک غلطی ہوئی تھی اور انہوں نے ایک خط میں چند نامناسب الفاظ لکھ دیئے تھے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ سب گناہوں کو معاف کرتا ہے اور اب وہ اپنی غلطی پر پشیمانی ظاہر کرتے ہیں اس لئے میں نے ان کو معاف کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کے اور ان کی اولادوں کے ایمانوں کو مضبوط کرے۔ چونکہ نظام سلسلہ کے خلاف موجودہ شرارت میں وہ شامل نہیں، گو ایک دفعہ جھوٹے طور پر ایک معاند اخبار نے ان کا نام لکھ دیا تھا اس لئے میں کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ ان کو معاف نہ کر دوں۔ آئندہ کا معاملہ خدا تعالیٰ کے سپرد ہے۔ ان کا ایک بیٹا سخت بیمار ہے اور موجودہ فتنہ کے موقع پر اُس نے ایک دفعہ بہت مومنانہ غیرت کا اظہار کیا تھا۔ دوست اس کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے شفا دے۔
مرزا محمود احمد
1956ء-11-22 ’’
(الفضل24 نومبر1956ء)
(33)مولوی عبد المنان کے متعلق اخراج از جماعت احمدیہ کا اعلان
‘‘ مولوی عبدالمنان جب امریکہ میں تھے تو اُن کے بعض ساتھیوں نے یہ کہا تھا کہ خلیفہ ثانی کی وفات کے بعد وہ خلیفہ ہوں گے۔ اور پھر ‘‘پیغام صلح’’ نے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی تائید شروع کر دی تھی۔ جس سے پتا لگتا تھا کہ پیغامیوں کے ساتھ ان کی پارٹی کا جوڑ ہے۔ اور‘‘پیغام صلح’’ نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا کہ گویا میں نے نعوذ باللہ حضرت خلیفہ اول کی ہتک کی ہے۔ میں نے مولوی عبدالمنان کے متعلق کوئی قدم اس لئے نہ اٹھایا کہ وہ باہر ہیں۔ جب وہ واپس آئیں اور ان کو اِن باتوں کی تردید کا موقع ملے۔ تو پھر ان کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ جب وہ واپس آئے تو انہوں نے ایک مبہم سا معافی نامہ لکھ کر بھجوا دیا۔ میں نے وہ میاں بشیر احمد صاحب کو دیا کہ وہ اس پر جرح کریں۔ مگر میاں بشیر احمد صاحب کے خطوں کے جواب سے انہوں نے گریز کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد ایک مضمون جو ظاہراً معافی نامہ تھا لیکن اس میں ‘‘پیغام صلح’’ کے اس الزام کی کوئی تردید نہیں تھی کہ خلیفہ ثانی یا جماعت احمدیہ نے حضرت خلیفہ اوّل کی گستاخی کی ہے۔ انہوں نے ‘‘پیغام صلح’’ میں شائع کرایا۔ یہ بیان ایسا تھا کہ جماعت کے بہت سے آدمیوں نے لکھا کہ اس بیان کا ہر فقرہ وہ ہے جس کے نیچے ہر پیغامی دستخط کر سکتا ہے۔ اس لئے اس بیان کو جماعت نے قبول نہ کیا۔
اِس دوران میں چودھری محمد حسین چیمہ ایڈووکیٹ نے ایک مضمون ‘‘پیغام صلح’’ میں لکھا جس میں یہ بھی لکھا گیا کہ مرزا محمود کی خلافت کی مخالفت کرنے والوں کو دلیری اور استقلال سے ان کا مقابلہ کرنا چاہیئے اور ڈرنا نہیں چاہیئے۔ ہمارا روپیہ اور ہماری تنظیم اور ہماری سٹیج ان کی تائید میں ہے۔ مولوی عبدالمنان اور مولوی عبدالوہاب نے اس مضمون کی بھی جو جماعت احمدیہ کی سخت ہتک کرنے والا تھا کوئی تردید نہ کی۔ اس کے بعد مولوی عبدالمنان نے بجائے اس کے کہ تمام ضروری تردیدوں کے ساتھ معافی نامہ میرے پاس بھیجتے ایک بظاہر معافی نامہ لیکن درحقیقت اقرارِ جُرم سلسلہ احمدیہ کے شدید مخالف روزنامہ ‘‘کوہستان’’ میں چھپوا دیا۔ جس کا ہیڈنگ یہ تھا کہ ‘‘قادیانی خلافت سے دستبرداری’’ یہ دوسرے لفظوں میں اقرار تھا اِس بات کا کہ عبدالمنان صاحب ‘‘قادیانی خلافت’’ کے امیدوار ہیں کیونکہ جو شخص امیدوار نہیں وہ دستبردار کس طرح ہو سکتا ہے۔ مگر بہر حال یہ مضمون جیسا بھی تھا میرے پاس نہیں بھیجا گیا بلکہ ‘‘کوہستان’’ میں چھپوایا گیا۔ اور ایک دفعہ نہیں دو دفعہ۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے کے لئے ایک تدبیر نکالی جا رہی ہے۔ پس میں مولوی عبدالمنان کو اِس وجہ سے کہ وجہِ شکوہ مجھے پیدا ہوئی تھی لیکن انہوں نے اس کے جواب میں ایک ملمع سازی کا مضمون ‘‘کوہستان’’ میں چھپوا دیا جو احمدیت کا دشمن ہے اور میرے پاس صحیح طور پر کوئی معافی نامہ نہیں بھجوایا، پس میں مولوی عبدالمنان کوجو یا تو اپنا مضمون ‘‘پیغام صلح’’ میں چھپواتے ہیں جو جماعتِ مبایعین کا سخت دشمن اخبار ہے یا ‘‘کوہستان’’ میں چھپواتے ہیں جو سلسلہ احمدیہ کا شدید دشمن ہے۔ اور پھر چودھری محمد حسین چیمہ کے شدید دلآزار مضمون کی تردید نہیں کرتے اور اپنی خاموشی سے اُس کی اِس دعوت کو منظور کرتے ہیں کہ شاباش! خلافت ثانیہ کی مخالفت کرتے رہو، ہمارا روپیہ اور ہمارا پلیٹ فارم اور ہماری تنظیم تمہارے ساتھ ہے۔ تم خلافتِ محمودیہ کی مخالفت کرتے رہو اور اس کے پردے چاک کر دو۔ جماعت احمدیہ سے خارج کرتا ہوں۔ اِسی طرح مذکورہ بالا الزامات کی بناء پر میاں عبدالوہاب کو بھی۔ پس آج سے وہ جماعت احمدیہ کا حصہ نہیں ہیں اور اس سے خارج ہیں۔
مجھے کچھ عرصہ سے برابر جماعت کے خطوط موصول ہو رہے تھے کہ یہ لوگ جب جماعت سے عملاً خارج ہو رہے ہیں تو ان کو جماعت سے خارج کرنے کا اعلان کیوں نہیں کیا جاتا؟ مگر میں پہلے اس لئے رُکا رہا کہ شاید وہ صحیح طور پر معافی مانگ لیں اور الزاموں کا ازالہ کر دیں۔ مگر ان لوگوں نے نہ مجھ سے معافی مانگی نہ ان الزامات کا ازالہ کیا جو ان پر لگائے گئے تھے۔ پس اب میں زیادہ انتظار کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا اور مولوی عبدالمنان اور میاں عبدالوہاب دونوں کو جماعت احمدیہ سے خارج کرتا ہوں۔
تمام جماعتیں اِس بات کو نوٹ کر لیں۔ اگر وہ صحیح طور پر براہ راست مجھ سے رجسٹری باخد رسید معافی طلب کریں گے نہ کہ کسی پیغامی یا غیر احمدی اخبار میں مضمون چھپوا کر، تو اِس پر غور کیا جائے گا۔ سر ِدست ان کو جماعت سے خارج کیا جاتا ہے۔ بعض اَور لوگ بھی ان کے ہمنوا ہیں مگر ان کے متعلق مجھے اعلان کرنے کی ضرورت نہیں۔ امور عامہ ان کے متعلق ساری باتوں پر غورکر رہا ہے۔ وہ جب کسی نتیجہ پر پہنچے گا خود اعلان کر دے گا۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفة المسیح الثانی
1956ء-11-27 ’’
(الفضل 29 نومبر 1956ء)
1 سیرت ابن ہشام جلد اوّل صفحہ 675۔ بقیۃ الطریق الی بدر۔ دمشق 2005ء (مفہوماً)
2 تذکرہ صفحہ 109 تا 111 ایڈیشن چہارم 2004ء
3 تذکرہ صفحہ 111 ایڈیشن چہارم 2004ء
4 تذکرہ صفحہ 111 ایڈیشن چہارم 2004ء
5 تذکرہ صفحہ 111 ایڈیشن چہارم 2004ء
6 لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ(الغاشیۃ:23)
7 الانعام:12
8 یونس:17
9 تذکرہ صفحہ 507 ایڈیشن چہارم 2004ء (دَوْحَۃَ اِسْمَاعِیْل)
10 پیدائش باب 12 آیت 16
11 زٹیل: نکمّا، جو کسی کام نہ آ سکے، گھٹیا (اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 11 صفحہ 56 کراچی 1990ء)
12 السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 306۔ مصر 1935ء زیر عنوان غزوۃ بنی المصطلق۔
13 صحیح البخاری کتاب المطاقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔ (مفہوماً)
14 تذکرہ صفحہ 673 ایڈیشن چہارم 2004ء
15 تذکرہ صفحہ 282ایڈیشن چہارم 2004ء میں ‘‘آسمان سے کئی تخت اترے مگر سب سے اونچا تیرا تخت بچھایا گیا۔’’ کے الفاظ ہیں۔
16 هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ....... (الجمعۃ:3، 4)
17 تذکرہ صفحہ 63 ایڈیشن چہارم 2004ء
18 تذکرہ صفحہ 80 ایڈیشن چہارم 2004ء میں ‘‘……… سچائی ظاہر کر دے گا’’ کے الفاظ ہیں۔
19 صحیح البخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال۔ میں تمام انبیاء کے کانے دجّال سے ڈرانے کا ذکرہے۔
20 درثمین اُردو صفحہ 37 ۔ زیر عنوان ‘‘محمود کی آمین’’۔
21 درثمین اُردو صفحہ 36، 37 ۔ زیر عنوان ‘‘محمود کی آمین’’۔
22 الحجرات :7
23 تاریخ ابن اثیر جلد 3 صفحہ 165 ۔ مطبوعہ بیروت 1987ء
24 تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 157۔ بیروت لبنان 2012ء (مفہوماً)
25 اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْۤا (الحجرات:7)
26 کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن 2008ء
27 حضور کی ہدایت کی تعمیل میں ایڈیٹر الفضل کی طرف سے الفضل 22 ستمبر 1956ء صفحہ 8 پر معذرت شائع کی گئی کہ ‘‘ہم تمام متعلقہ اخبارات سے اظہارِ افسوس کرتے ہیں اور خلوصِ دل سے معذرت خواہ ہیں’’۔
28 الشعراء :228
مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے
سالانہ اجتماع 1956ءمیں خطابات
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ایمان شیشہ سے بھی زیادہ نازک چیز ہے۔ تمہیں اس کی حفاظت کے لئے اپنے اندر ایمانی غیرت پیدا کرنی چاہیئے
افتتاحی خطاب
(فرمودہ 19/اکتوبر 1956ء بمقام ربوہ)
سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:-
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا١ؕ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ١ۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ١ۖۚ وَ مَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُ١ؕ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ۔1
ا س کے بعد فرمایا:-
‘‘ قرآن کریم کی یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اس دَور کے متعلق جو آجکل ہم پر گزر رہا ہے اﷲ تعالیٰ نے ایک ایسی تعلیم دی ہے جو ہماری جماعت کو ہروقت مدّنظر رکھنی چاہئے۔ بے شک ہماری جماعت کے دوستوں نے موجودہ فتنہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اپنے عہدِ وفا داری کو تازہ کیا ہے اور ہر جگہ کی جماعت نے وفاداری کا عہد مجھے بھجوایا ہے مگر قرآن کریم کی اس آیت میں وفاداری کے عہد کے علاوہ کچھ اَور باتیں بھی بیان کی گئی ہیں یا یوں کہو کہ وفاداری کی صحیح تعریف بیان کی گئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خالی منہ سے کہہ دینا کہ مَیں وفادارہوں کافی نہیں بلکہ اس مثبت کے مقابلہ میں ایک منفی کی بھی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ اے مومنو! اگر تمہاری وفاداری کا عہد سچا ہے تو تمہیں جس طرح وفاداری کرنی ہو گی اسی طرح ایک بات نہیں بھی کرنی ہو گی۔ جب تک یہ کرنا اور نہ کرنا دونوں جمع نہ ہو جائیں تم مومن نہیں ہو سکتے۔ کرنا تو یہ ہے کہ تم نے وفادار رہنا ہے لیکن اس کی علامت ایک نہ کرنے والا کام ہے۔ خالی منہ سے کہہ دینا کہ میں وفادار ہوں کوئی چیز نہیں۔ اگر تم واقع میں وفادار ہو تو تمہیں ایک اَور کام بھی کرنا ہو گا یا یوں کہو کہ تمہیں ایک کام سے بچنا پڑے گا اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ تمہارے ہم خیال نہیں وہ تم سے الگ ہیں ان سے تمہیں مخفی تعلق اور دوستی ترک کرنی پڑے گی۔ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا اگر تم ہماری یہ بات نہیں مانو گے تو وہ تمہارے اندر فتنہ اور فساد پیدا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے اور تمہارے وفاداری کے عہد خاک میں مل جائیں گے۔ تمہارا عزم اور تمہارا دعوٰی مٹی میں مل جائے گا اور وہ کچھ بھی نہیں رہے گا جب تک کہ تم ہماری اس ہدایت کو نہیں مانو گے۔ یعنی وہ لوگ جو تم سے الگ ہیں اور تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرتے ہیں تم ان سے قطعی طور پر کسی قسم کی دوستی اور تعلق نہ رکھو۔
ایک شخص جو میرا نام نہاد رشتہ دار کہلاتا ہے وہ یہاں آیا اور ایک منافق کو ملنے گیا۔ جب اس کو ایک افسر سلسلہ نے توجہ دلائی کہ وہ ایک منافق سے ملنے گیا تھا تو اس نے کہا کہ صدرانجمن احمدیہ نے کب حکم دیا تھا کہ اس شخص سے نہ ملا جائے۔ اس افسر نے کہا کہ تم یہ بتاؤ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو کس نے حکم دیا تھا کہ پنڈت لیکھرام کے سلام کا جواب نہ دیا جائے؟ اگر تمہارے لئے کسی حکم کی ضرورت تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پنڈت لیکھرام کے سلام کا جواب نہ دینے اور اپنا منہ پرے کر لینے کا کس نے حکم دیا تھا؟ جو محرک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دماغ میں پیدا ہوا تھا وہ تمہارے اندر کیوں نہ پیدا ہوا۔ چونکہ اس شخص کے اندر منافقت گھُسی ہوئی تھی اس لئے اس نے جواب میں کہا کہ یہ کس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شخص لیکھرام کے مقام تک پہنچ گیا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم نے صرف اتنا کہا ہے کہ لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ یہ نہیں کہا کہ لَاتَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِنْ لیکھرام وَ مِثْلِہٖ کہ تم لیکھرام اور اس جیسے لوگوں سے نہ ملو بلکہ فرمایا ہے کہ جو لوگ اپنے عمل سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ تمہارے ساتھ نہیں چاہے وہ لیکھرام کے مقام تک پہنچے ہوں یا نہ پہنچے ہوں تم ان سے بِطَانَۃً یعنی دوستی اور مخفی تعلق نہ رکھو۔ وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ میں نے تو اس شخص کے ساتھ دوستی نہیں کی مگر بِطَانَۃً کے معنے صرف دوستی کے نہیں بلکہ مخفی تعلق کے بھی ہیں اور وہ شخص اس منافق سے چوری چھپے ملا تھا۔ اب اس کے قول کے مطابق اس کی اس منافق سے دوستی ہو یا نہ ہو یہ بات تو ظاہر ہو گئی کہ اس نے اس سے مخفی تعلق رکھا۔ پھر جب اسے سمجھایا گیا تو اس نے بہانہ بنایا اور کہا کہ اس منافق کو لیکھرام کا درجہ کس نے دیا ہے۔ اسے یہ خیال نہ آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پنڈت لیکھرام کو سلام کا جواب نہ دیتے وقت جس آیت پر عمل کیا تھا وہ یہی آیت تھی جو میں نے تلاوت کی ہے۔ اس میں لیکھرام یا اس جیسے لوگوں کا ذکر نہیں بلکہ صرف یہ ذکر ہے کہ ایسے لوگ جو تمہارے اندر اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہیں تم ان سے کوئی تعلق نہ رکھو۔
پس یا تو اسے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ جس شخص سے وہ ملا تھا وہ جماعت کے اندر اختلاف اور فساد پیدا کرنے والا نہیں۔ اور اگر اس شخص نے واقع میں جماعت کے اندر اختلاف اور فساد پیدا کیا ہے تو اس کا یہ کہنا کہ اسے لیکھرام کا درجہ کس نے دیا ہےاس بات کی دلیل ہے کہ وہ خود احمدیت پر ایسا ایمان نہیں رکھتا۔ بہر حال قرآن کریم میں خداتعالیٰ نے وفاداری کے عہد کی ایک علامت بتائی ہے اور اس علامت کے پورا کئے بغیر وفاداری کے عہد کی کوئی قیمت نہیں۔ تم ان جماعتوں سے آئے ہو جنہوں نے وفاداری کے عہد بھجوائے ہیں لیکن اگر تم اس عہد کے باوجود کسی منافق سے تعلق رکھتے ہو اور اس سے علیحدگی میں ملتے ہو تو وہ ‘‘بِطَانَۃً’’ کے پنجے میں آ جاتا ہے کیونکہ وہ منافق اور اس کی پارٹی کے لوگ جماعت میں فتنہ اور فساد پیدا کرتے ہیں۔ اگر تم ان سے مخفی طور پر تعلق رکھتے ہو تو تمہارا عہدِ وفاداری اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتا جتنی حیثیت گدھے کا پاخانہ رکھتا ہے۔گدھے کے پاخانہ کی تو کوئی قیمت ہو سکتی ہے کیونکہ وہ روڑی کے طور پر کام آ سکتا ہے لیکن تمہارا عہدِ وفاداری خدا تعالیٰ کے نزدیک روڑی کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتا اور وہ اسے قبول نہیں کرے گا۔
پس یاد رکھو کہ ایمان شیشہ سے بھی زیادہ نازک چیز ہے اور اس کی حفاظت کے لئے غیرت کی ضرورت ہے۔ جس شخص کے اندر ایمانی غیرت نہیں وہ منہ سے بے شک کہتا رہے کہ میں وفادار ہوں لیکن اس کے اس عہدِ وفاداری کی کوئی قیمت نہیں۔ مثلاً اِس وقت تمہارے اندر ایک شخص بیٹھا ہوا ہے وہ سمجھتا ہے کہ ہمیں اس کی منافقت کا پتہ نہیں۔ وہ ہمیشہ مجھے لکھا کرتا ہے کہ آپ مجھ سے کیوں خفا ہیں۔ میں نے تو کوئی قابلِ اعتراض فعل نہیں کیا۔ حالانکہ ہم نے اس کا ایک خط پکڑا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ خلیفہ جماعت کا لاکھوں روپیہ کھا گیا ہے اور لاکھوں روپیہ اس نے اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کو کھلایا ہے ۔۔۔۔اس نے سمجھا کہ میرے خط کو کون پہچانے گا۔ اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ آجکل ایسی ایجادیں نکل آئی ہیں کہ بغیر نام کے خطوط بھی پہچانے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ ایک ماہر جو یورپ سے تحریر پہچاننے کی بڑی اعلیٰ درجہ کی تعلیم حاصل کر کے آیا ہے ہم نے وہ خط اسے بھیج دیا اور چونکہ ہمیں شبہ تھا کہ اس تحریر کا لکھنے والا وہی شخص ہے اس لئے ایک تحریر اسے بغیر بتائے اس سے لکھوالی اور وہ بھی اس خط کے ساتھ بھیج دی۔ اس نے علومِ جدیدہ کے مطابق خط پہچاننے کی پینتیس جگہیں بتائی ہیں جو ماہرین نے بڑا غور کرنے کے بعد نکالی ہیں اور انہوں نے بتایا ہے کہ لکھنے والا خواہ کتنی کوشش کرے کہ اس کا خط بدل جائے یہ پینتیس جگہیں نہیں بدلتیں۔ چنانچہ اس نے دونوں تحریروں کو ملا کر دیکھا اور کہا کہ لکھنے والے کی تحریر میں پینتیس کی پینتیس دلیلیں موجود ہیں اس لئے یہ دونوں تحریریں سو فیصدی ایک ہی شخص کی لکھی ہوئی ہیں اور وہ شخص بار بار مجھے لکھتا ہے کہ آپ خواہ مخواہ مجھ سے ناراض ہیں۔ میں نے کیا قصور کیا ہے؟ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ اس بے وقوف کو کیا پتہ ہے کہ اس کی دونوں تحریریں ہم نے ایک ماہرِفن کو دکھائی ہیں اور ماہرِ فن نے بڑے غور کے بعد جن پینتیس جگہوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ کبھی نہیں بدلتیں وہ اس کی تحریر میں نہیں بدلیں وہ شخص غالباً اب بھی یہاں بیٹھا ہو گا اور غالباً کل یا پرسوں مجھے پھر لکھے گا کہ میں تو بڑا وفادار ہوں آپ خواہ مخواہ مجھ پر بدظنی کررہے ہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا حالانکہ اس نے ایک بے نام خط لکھا اور وہ خط جب ماہرِ فن کو دکھایا گیا اور اس کی ایک اور تحریر اس کے ساتھ بھیجی گئی جو اس سے لکھوائی گئی تھی تو اس ماہرِ فن نے کہا کہ یہ دونوں تحریریں اسی شخص کی ہیں۔ پس خالی عہد کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک کہ اس کے ساتھ انسان ان باتوں کو بھی مدنظر نہ رکھے جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وہ نہ کی جائیں۔
عبد المنان کو ہی دیکھ لو جب وہ امریکہ سے واپس آیا تو میں نے مری میں خطبہ پڑھا اور اس میں مَیں نے وضاحت کر دی کہ اتنے امور ہیں وہ ان کی صفائی کر دے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ وہ یہاں تین ہفتے بیٹھا رہا لیکن اس کو اپنی صفائی پیش کرنے کی توفیق نہ ملی۔ صرف اتنا لکھ دیا کہ میں تو آپ کا وفادار ہوں۔ ہم نے کہا ہم نے تجھ سے وفاداری کا عہد کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ہمیں معلوم ہے کہ پیغامی تمہارے باپ کو غاصب کا خطاب دیتے تھے۔ وہ انہیں جماعت کا مال کھانے والا اور حرام خور قرار دیتے تھے تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ میں ان پیغامیوں کو جانتا ہوں یہ میرے باپ کو گالیاں دیتے تھے یہ آپ کو غاصب اور منافق کہتے تھے۔ میں ان کو قطعی اور یقینی طور پر باطل پر سمجھتا ہوں۔ مگر اس بات کا اعلان کرنے کی اسے توفیق نہ ملی۔ پھر اس نے لکھا کہ میں تو خلافتِ حقہ کا قائل ہوں۔ اسے یہ جواب دیا گیا کہ اس کے تو پیغامی بھی قائل ہیں۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ ہم خلافتِ حقہ کے قائل ہیں لیکن ان کے نزدیک خلافتِ حقہ اُس نبی کے بعد ہوتی ہے جو بادشاہ بھی ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ بادشاہ بھی تھے اس لئے ان کے نزدیک آپ کے بعد خلافتِ حقہ جاری ہوئی اور حضرت ابوبکرؓ ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ خلیفہ ہوئے لیکن مرزا صاحب چونکہ بادشاہ نہیں تھے اس لئے آپ کے بعد وہ خلافت تسلیم نہیں کرتے۔ پس یہ بات تو پیغامی بھی کہتے ہیں کہ وہ خلافتِ حقہ کے قائل ہیں۔ تم اگر واقعی جماعت احمدیہ میں خلافتِ حقہ کے قائل ہو تو پھر یہ کیوں نہیں لکھتے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے بعد خلافت کو تسلیم کرتا ہوں اور جو آپ کے بعد خلافت کے قائل نہیں انہیں *** سمجھتا ہوں۔ پھر تم یہ کیوں نہیں لکھتے کہ خلافتِ حقہ صرف اسی نبی کے بعد نہیں ہے جسے نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی مل جائے بلکہ اگر کوئی نبی غیربادشاہ ہو تب بھی اس کے بعد خلافتِ حقہ قائم ہوتی ہے۔ تمہارا صرف یہ لکھنا کہ میں خلافتِ حقہ کا قائل ہوں ہمارے مطالبہ کو پورا نہیں کرتا ممکن ہے۔ تمہاری مراد خلافتِ حقہ سے یہ ہو کہ جب میں خلیفہ بنوں گا تو میری خلافت خلافتِ حقہ ہو گی۔ یا خلافتِ حقہ سے تمہاری یہ مراد ہو کہ میں تو اپنے باپ حضرت خلیفة المسیح الاول کی خلافت کا قائل ہوں۔ یا تمہاری یہ مراد ہو کہ میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی خلافت کا قائل ہوں۔ بہر حال عبد المنان کو امریکہ سے واپس آنے کے بعد تین ہفتہ تک ان امور کی صفائی پیش کرنے کی توفیق نہ ملی اس کی وجہ یہی تھی کہ اگر وہ لکھ دیتا کہ پیغامی لوگ میرے باپ کو غاصب، منافق اور جماعت کا مال کھانے والے کہتے رہے ہیں، میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں تو پیغامی اس سےناراض ہو جاتے۔ اور اس نے یہ امیدیں لگائی ہوئی تھیں کہ وہ ان کی مدد سے خلیفہ بن جائے گا۔ اور اگر وہ لکھ دیتا کہ جن لوگوں نے خلافت ثانیہ کا انکار کیا ہے میں انہیں *** سمجھتا ہوں تو اس کے وہ دوست جو اس کی خلافت کا پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں اس سے قطع تعلق کر جاتے۔ اور وہ ان سے قطع تعلقی پسند نہیں کرتا تھا اس لئے اس نے ایسا جواب دیا جسے پیغام صلح نے بڑے شوق سے شائع کر دیا۔ اگر وہ بیان خلافت ثانیہ کی تائید میں ہوتا تو پیغام صلح اسے کیوں شائع کرتا۔ اس نے بھلا گزشتہ 42 سال میں کبھی میری تائید کی ہے؟ انہوں نے سمجھا کہ اس نے جو مضمون لکھا ہے وہ ہمارے ہی خیالات کا آئینہ دار ہے اس لئے اسے شائع کرنے میں کیا حرج ہے۔ چنانچہ جماعت کے بڑے لوگ جو سمجھدار ہیں وہ تو الگ رہے مجھے کالج کے ایک سٹوڈنٹ نے لکھا کہ پہلے تو ہم سمجھتے تھے کہ شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے لیکن ایک دن مَیں مسجد میں بیٹھا ہؤا تھا کہ مجھے پتہ لگا کہ پیغامِ صلح میں میاں عبدالمنان کا کوئی پیغام چھپا ہے تو میں نے ایک دوست سے کہا۔ میاں! ذرا ایک پرچہ لانا۔ چنانچہ وہ ایک پرچہ لے آیا۔ میں نے وہ بیان پڑھا اور اسے پڑھتے ہی کہا کہ کوئی پیغامی ایسا نہیں جو یہ بات نہ کہدے۔ یہ تردید تو نہیں اور نہ ہی میاں عبدالمنان نے یہ بیان شائع کر کے اپنی بریت کی ہے۔ اس پر ہر ایک پیغامی دستخط کر سکتا ہے کیونکہ اس کا ہر فقرہ پیچ دار طور پر لکھا ہؤا ہے اور اسے پڑھ کر ہر پیغامی اور خلافت کا مخالف یہ کہے گا کہ میرا بھی یہی خیال ہے۔
غرض قرآن کریم نے واضح کر دیا ہے کہ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا۔ اے مومنو! جو لوگ تمہارے اندر اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہیں تم ان سے خفیہ میل جول نہ رکھو۔ اب دیکھو یہاں دوستی کا ذکر نہیں بلکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے تم ان سے بِطَانَة نہ رکھو اور بِطَانَة کے معنے محض تعلق ہوتے ہیں۔اب اگر کوئی ان لوگوں کو گھر میں چھُپ کر مِل لے اور بعد میں کہدے کہ آپ نے یا صدر انجمن احمدیہ نے کب منع کیا تھا کہ انہیں نہیں ملنا تو یہ درست نہیں ہو گا۔ ہم کہیں گے کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے اندر بھی تو غیرت رکھی ہے پھر ہمارے منع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہیں خود اپنی غیرت کا اظہار کرنا چاہئے۔ اگر تم ہمارے منع کرنے کا انتظار کرتے ہو تو اس کے یہ معنے ہیں کہ تمہیں خود قرآن کریم پر عمل کرنے کا احساس نہیں۔
دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب لیکھرام نے سلام کیا تو آپ نے یہ نہیں کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دینے سے کب منع فرمایا ہے بلکہ آپ نے سمجھا کہ بے شک اس آیت میں لیکھرام کا ذکر نہیں لیکن خداتعالیٰ نے لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا تو فرما دیا ہے کہ تم ایسے لوگوں سے تعلق نہ رکھو جو تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ پس گو اس آیت میں لیکھرام کا ذکر نہیں لیکن اس کی صفات تو بیان کر دی گئی ہیں۔ انہی صفات سے میں نے اسے پہچان لیا ہے۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من انداز قدت را مے شناسم2
کہ اے شخص! تُو چاہے کس رنگ کا کپڑا پہن کر آ جائے میں کسی دھوکا میں نہیں آؤں گا کیونکہ میں تیرا قد پہچانتا ہوں۔ حضرت مرزا صاحب نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اے لیکھرام! تُو چاہے کوئی شکل بنا کر آ جائے۔ قرآن کریم نے تیری صفت بیان کر دی ہے اس لئے میں تجھے تیری صفت سے پہچانتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا کہ تمہارے دشمن وہ ہیں جو قوم میں فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اس لیے قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق میں نے تم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا۔ میں بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم نوجوان ہو اور آئندہ سلسلہ کا بوجھ تم پر پڑنے والا ہے تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہر چیز کی بعض علامتیں ہوتی ہیں اسلئے خالی منہ سے ایک لفظ دُہرا دینا کافی نہیں بلکہ ان علامات کو دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہی عجیب نکتہ بیان فرما دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آتاکہ ایک شخص ساری رات بیوی سے محبت کا اظہار کرتا ہے مگر دن چڑھے تو اس سے لڑنے لگ جاتا ہے3۔ اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بیان فرمایا ہے کہ اگر میاں کو اپنی بیوی سے واقعی محبت ہے تو وہ دن کے وقت اس سے کیوں محبت نہیں کرتا۔ اسی طرح جو شخص کسی جلسہ میں وفاداری کا اعلان کر دیتا ہے اور مخفی طور پر ان لوگوں سے ملتا ہے جو جماعت میں تفرقہ اور فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں تو یہ کوئی وفاداری نہیں۔ کیونکہ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ جو لوگ تمہارے ہم مذہب نہیں ان سے کوئی تعلق نہ رکھو غیر مذاہب والوں سے تعلق رکھنا منع نہیں ۔
حضرت ابن عباسؓ کے متعلق آتا ہے کہ آپ جب بازار سے گزرتے تو یہودیوں کو بھی سلام کرتے۔ اس لئے یہاں مِّنْ دُوْنِكُمْ کی یہ تشریح کی گئی ہے کہ تم ان لوگوں سے الگ رہو جو لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًاکے مصداق ہیں یعنی وہ تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی غیرمذاہب والا تمہارے اندر فتنہ اور فساد پیدا نہیں کرنا چاہتا تو وہ شخص مِّنْ دُوْنِكُمْ میں شامل نہیں۔ اگر تم اس سے مل لیتے ہو یا دوستانہ تعلق رکھتے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ایسا شخص جو تمہاری جماعت میں فتنہ اور فساد پیدا کرنا چاہتا ہے اس سے تعلق رکھنا خدا تعالیٰ نے ممنوع قرار دیا ہے۔
پھر آگے فرماتا ہے تم کہہ سکتے ہو کہ اس کی کیا دلیل ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْکچھ باتیں ان کے منہ سے نکل چکی ہیں۔ وَ مَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُان پر قیاس کر کے دیکھ لو کہ جو کچھ ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ کیا ہے۔ کہتے ہیں ایک چاول دیکھ کر ساری دیگ پہچانی جا سکتی ہے اسی طرح یہاں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً ایک منافق نے بقول اپنے بھائی کے کہا کہ خلیفہ اب بڈھا اور پاگل ہو گیا ہے اب انہیں دو تین معاون دے دینے چاہئیں۔ اور ہمیں جوشہادت ملی ہے اس کے مطابق اس نے کہا کہ اب خلیفہ کو معزول کر دینا چاہئے۔ اس فقرہ سے ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس کے پیچھے بغض کا ایک سمندر موجزن تھا۔ جس شخص کا اپنا باپ جب اُس نے بیعت کی تھی اس عمر سے زیادہ تھا جس عمر کو میں 42 سال کی خدمت کے بعد پہنچا ہوں۔ وہ اگر کہتا ہے کہ خلیفہ بڈھا ہو گیا ہے اسے اب معزول کر دینا چاہئے تو یہ شدید بغض کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے ورنہ اس کے منہ سے یہ فقرہ نہ نکلتا۔ شدید بغض انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اگر اس میں ذرا بھی عقل ہوتی تو وہ سمجھ سکتا تھا کہ میں یہ فقرہ منہ سے نکال کر اپنے باپ کو گالی دے رہا ہوں۔ جیسے انسان بعض اوقات غصہ میں آکر یا پاگل پن کی وجہ سے اپنے بیٹے کو حرام زادہ کہہ دیتا ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ وہ یہ لفظ کہہ کر اپنی بیوی کو اور اپنے آپ کو گالی دے رہا ہے۔ اسی طرح اس نوجوان کی عقل ماری گئی اور اس نے وہ بات کہی جس کی وجہ سے اس کے باپ پر حملہ ہوتا تھا۔ دنیا میں کوئی شخص جان بوجھ کر اپنے باپ کو گالی نہیں دیتا۔ ہاں بغض اور غصہ کی وجہ سے ایسا کر لیتا ہے اور یہ خیال نہیں کرتا کہ وہ اپنے باپ کو گالی دے رہا ہے۔ اس نوجوان کی مجھ سے کوئی لڑائی نہیں تھی اور نہ ہی میں اس کے سامنے موجود تھا کہ وہ غصّہ میں آکر یہ بات کہہ دیتا۔ ہاں اس کے دل میں بغض اتنا بڑھ گیا تھا کہ اس کی وجہ سے اس نے وہ بات کہی جس کی وجہ سے اس کے باپ پر بھی حملہ ہوتا تھا۔ قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْکہ ان کے منہ سے بُغض کی بعض باتیں نکلی ہیں ان سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ وَ مَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُجو کچھ ان کے سینوں میں ہے وہ اس سے بہت بڑا ہے۔ کیونکہ ہر انسان کوشش کرتا ہے کہ اس کے دل کے بغض کا علم کسی اور کو نہ ہو۔ اس لئے جو کچھ اس کے دل میں ہے وہ اس سے بہت بڑا ہے جو ظاہر ہو چکا ہے۔
غرض خداتعالیٰ نے اس آیت میں جماعتی نظام کی مضبوطی کے لئے ایک اہم نصیحت بیان فرمائی ہے تمہیں یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے اور اس کے مطابق اپنے طریق کو بدلنا چاہئے ورنہ احمدیت آئندہ تمہارے ہاتھوں میں محفوظ نہیں ہو سکتی۔ تم ایک بہادر سپاہی کی طرح بنو۔ایسا سپاہی جو اپنی جان، اپنا مال، اپنی عزت اور اپنے خون کا ہر قطرہ احمدیت اور خلافت کی خاطر قربان کر دے اور کبھی بھی خلافتِ احمدیہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے دے جو پیغامیوں یا احراریوں وغیرہ کے زیر اثر ہوں۔ جس طرح خداتعالیٰ نے بائیبل میں کہا تھا کہ سانپ کا سر ہمیشہ کُچلا جائے گا اسی طرح تمہیں بھی اپنی ساری عمر فتنہ وفساد کے سانپ کے سر پر ایڑی رکھنی ہو گی اور دنیا کے کسی گوشہ میں بھی اسے پنپنے کی اجازت نہیں دینی ہو گی۔ اگر تم ایسا کرو گے تو قرآن کریم کہتا ہے خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور خدا تعالیٰ سے زیادہ سچا اور کوئی نہیں۔ دیکھو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد جماعت کو کس قدر مدد دی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصوٰۃ والسلام کی زندگی میں جو آخری جلسہ سالانہ ہؤا اس میں چھ سات سو آدمی تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے عہد خلافت کے آخری جلسہ سالانہ پر گیارہ بارہ سو احمدی آئے تھے۔ لیکن اب ہمارے معمولی جلسوں پر بھی دو، اڑھائی ہزار احمدی آ جاتے ہیں اور جلسہ سالانہ پر تو ساٹھ ستّر ہزار لوگ آتے ہیں۔اس سے تم اندازہ کر لو کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنی طاقت دی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں لنگر خانہ پر پندرہ سو روپیہ ماہوار خرچ آجاتا تو آپ کو فکر پڑ جاتی اور فرماتے۔ لنگر خانہ کا خرچ اس قدر بڑھ گیا ہے اب اتنا روپیہ کہاں سے آئے گا۔ گویا جس شخص نے جماعت کی بنیاد رکھی تھی وہ کسی زمانہ میں پندرہ سو ماہوار کے اخراجات پر گھبراتا تھا۔لیکن اب تمہارا صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ بارہ تیرہ لاکھ کا ہوتا ہے اور صرف ضیافت پر پینتیس چھتیس ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہو جاتا ہے۔ پندرہ سو روپیہ ماہوار خرچ کے معنے یہ ہیں کہ سال میں صرف اٹھارہ ہزار روپیہ خرچ ہوتا تھا لیکن اب صرف جامعۃ المبشرین اور طلباء کے وظائف وغیرہ کے سالانہ اخراجات چھیاسٹھ ہزار روپے ہوتے ہیں۔ گویا ساڑھے پانچ ہزار روپیہ ماہوار۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا رکھتے ہیں۔ وہ مامور من اللہ تھے اور اس لئے آئے تھے کہ دنیا کو ہدایت کی طرف لائیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا کے کونہ کونہ میں قائم کریں اور مسلمانوں کی غفلتوں اور سُستیوں کو دور کر کے انہیں اسلامی رنگ میں رنگین کریں۔ لیکن ان کی زندگی میں جماعتی اخراجات پندرہ سو روپیہ پر پہنچتے ہیں تو گھبرا جاتے ہیں اور خیال فرماتے ہیں کہ یہ اخراجات کہاں سے مہیا ہوں گے۔ لیکن اِس وقت ہم جو آپکی جوتیاں جھاڑنے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں صرف ایک درسگاہ یعنی جامعۃ المبشرین پر ساڑھے پانچ ہزار روپے ماہوار خرچ کر رہے ہیں۔ اسی طرح مرکزی دفاتر اور بیرونی مشنوں کو ملا لیا جائے تو ماہوار خرچ ستّر اسّی ہزار روپیہ بن جاتا ہے۔ گویا آپ کے زمانہ میں جو خرچ پانچ سات سال میں ہوتا تھا وہ ہم ایک سال میں کرتے ہیں اور پھر بڑی آسانی سے کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ خلافت کی ہی برکت ہے کہ تبلیغِ اسلام کا وہ کام جو اس وقت دنیا میں اور کوئی جماعت نہیں کر رہی صرف جماعت احمدیہ کر رہی ہے ۔
مصر کا ایک اخبار الفتح ہے۔ وہ ہماری جماعت کا سخت مخالف ہے مگر اس نے ایک دفعہ لکھا کہ جماعتِ احمدیہ کو بے شک ہم اسلام کا دشمن خیال کرتے ہیں لیکن اِس وقت وہ تبلیغِ اسلام کا جو کام کر رہی ہے گزشتہ تیرہ سو سال میں وہ کام بڑے بڑے اسلامی بادشاہوں کو بھی کرنے کی توفیق نہیں ملی۔ جماعت کا یہ کارنامہ محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل اور تمہارے ایمانوں کی وجہ سے ہے۔ آپ کی پیشگوئیاں تھیں اور تمہارا ایمان تھا۔ جب یہ دونوں مل گئے تو خدا تعالیٰ کی برکتیں نازل ہونی شروع ہوئیں اور جماعت نے وہ کام کیا جس کی توفیق مخالف ترین اخبار الفتح کے قول کے مطابق کسی بڑے سے بڑے اسلامی بادشاہ کو بھی آج تک نہیں مل سکی۔ اب تم روزانہ پڑھتے ہو کہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھ رہی ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تم اور بھی ترقی کرو گے اور اُس وقت تمہارا چندہ بیس پچیس لاکھ سالانہ نہیں ہو گا بلکہ کروڑ، دو کروڑ، پانچ کروڑ، دس کروڑ، بیس کروڑ، پچاس کروڑ، ارب، کھرب، پدم بلکہ اس سے بھی بڑھ جائے گا۔ اور پھر تم دنیا کے چَپّہ چَپّہ میں اپنے مبلغ رکھ سکو گے۔ انفرادی لحاظ سے تُم اُس وقت بھی غریب ہو گے لیکن اپنے فرض کے ادا کرنے کی وجہ سے ایک قوم ہونے کے لحاظ سے تم امریکہ سے بھی زیادہ مالدار ہو گے۔ دنیا میں ہر جگہ تمہارے مبلغ ہوں گے۔ اور جتنے تمہارے مبلغ ہوں گے اتنے افسر دنیا کی کسی بڑی سے بڑی قوم کے بھی نہیں ہونگے۔ امریکہ کی فوج کے بھی اتنے افسر نہیں ہوں گے جتنے تمہارے مبلغ ہوں گے اور یہ محض تمہارے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ہو گا۔
اگر تم اپنے ایمان کو قائم رکھو گے تو تم اُس دن کو دیکھ لو گے۔ تمہارےباپ دادوں نے وہ دن دیکھا جب 1914ء میں پیغامیوں نے ہماری مخالفت کی۔ جب میں خلیفہ ہؤا تو خزانہ میں صرف 17 روپے تھے۔ انہوں نے خیال کیا کہ اب قادیان تباہ ہو جائے گا لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت دی کہ اب ہم اپنے کسی طالب علم کو سترہ روپے ماہوار وظیفہ بھی دیتے ہیں تو وہ وظیفہ کم ہونے کی شکایت کرتا ہے۔
پیغامیوں کے خلاف پہلا اشتہار شائع کرنے کے لئے میرے پاس روپیہ نہیں تھا۔ میر ناصر نواب صاحب جو ہمارے نانا تھے انہیں پتہ لگا۔ وہ دارالضعفاء کے لئے چندہ جمع کیا کرتے تھے۔ ان کے پاس اس چندہ کا کچھ روپیہ تھا۔ وہ دو اڑھائی سو روپیہ میرے پاس لے آئے اور کہنے لگے اس سے اشتہار چھاپ لیں پھر خدا دے گا تو یہ رقم واپس کر دیں۔ پھر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور آمد آنی شروع ہوئی۔ اور اب یہ حالت ہے کہ پچھلے بیس سال کی تحریک جدید میں تین لاکھ ستّر ہزار روپیہ چندہ میں نے دیا ہے۔ کجا یہ کہ ایک اشتہار شائع کرنے کے لئے میرے پاس دو اڑھائی سو روپیہ بھی نہیں تھا اور کجا یہ کہ خدا تعالیٰ نے میری اِس قسم کی امداد کی اور زمیندارہ میں اس قدر برکت دی کہ میں نے لاکھوں روپیہ بطور چندہ جماعت کو دیا۔
پھر مجھے یاد ہے کہ جب ہم نے پہلا پارہ شائع کرنا چاہا تو میرے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ ہمارے خاندان کے افراد اپنے روپیہ سے اسے شائع کر دیں لیکن روپیہ پاس نہیں تھا۔ اُس وقت تک ہماری زمینداری کا کوئی انتظام نہیں تھا۔میں نے اپنے مختار کو بلایا اور کہا ہم قرآن کریم چھپوانا چاہتے ہیں لیکن روپیہ پاس نہیں۔ وہ کہنے لگا آپ کو کس قدر روپے کی ضرورت ہے؟ میں نے کہا کہتے ہیں کہ پہلی جلد تین ہزار روپے میں چھپے گی۔ اس نے کہا میں روپیہ لا دیتا ہوں آپ صرف اس قدر اجازت دے دیں کہ میں کچھ زمین مکانوں کے لئے فروخت کر دوں۔ میں نے کہا اجازت ہے۔ ظہر کی نماز کے بعد میں نے اس سے بات کی اور عصر کی اذان ہوئی تو اس نے ایک پوٹلی میرے سامنے لا کر رکھ دی اور کہا یہ لیں روپیہ۔ میں نے کہا۔ ہیں! قادیان والوں کے ہاں اتنا روپیہ ہے۔ وہ کہنے لگا اگر آپ تیس ہزار روپیہ بھی چاہیں تو میں آپ کو لا دیتا ہوں۔ لوگ مکانات بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس زمین نہیں اگر انہیں زمین دے دی جائے تو روپیہ حاصل کرنا مشکل نہیں۔ میں نے کہا خیر اِس وقت ہمیں اسی قدر روپیہ کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اُس وقت ہم نے قرآن کریم کا پہلا پارہ شائع کر دیا۔
پھر میں نے الفضل جاری کیا تو اس وقت بھی میرے پاس روپیہ نہیں تھا۔ حکیم محمد عمر صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے میں آپ کو کچھ خریدار لا کر دیتا ہوں۔ اور تھوڑی دیر میں وہ ایک پوٹلی روپوں کی میرے پاس لے آئے۔ غرض ہم نے پیسوں سے کام شروع کیا اور آج ہمارا لاکھوں کا بجٹ ہے اور ہماری انجمن کی جائیداد کروڑوں کی ہے۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ میں خود گزشتہ بیس سال کی تحریک جدید میں تین لاکھ ستّر ہزار روپیہ چندہ دے چکا ہوں ۔ اسی طرح ایک لاکھ پچاس ہزار روپیہ میں نے صدرانجمن احمدیہ کو دیا ہے اور اتنی ہی جائیداد اسےدی ہے۔ گویا تین لاکھ روپیہ صدرانجمن احمدیہ کو دیا ہے اور تین لاکھ ستّر ہزار روپیہ تحریک جدید کو دیا ہے اس لئے جب کوئی شخص اعتراض کرتا ہے کہ میں نے جماعت کا روپیہ کھا لیا ہے تو مجھے غصّہ نہیں آتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حسابی بات ہے جب انجمن کے رجسٹر سامنے آجائیں گے تو یہ شخص آپ ہی ذلیل ہو جائے گا۔
بہر حال اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں آپ سب کو اپنی ذمّہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ ان کو یاد رکھو اور اپنی جگہوں پر واپس جا کر اپنے بھائیوں اور دوستوں کو بھی سمجھاؤ کہ زبانی طور پر وفاداری کا عہد کرنے کے کوئی معنی نہیں۔ اگر تم واقعی وفادار ہو تو تمہیں منافقوں کا مقابلہ کرنا چاہئے اور ان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا چاہئے۔ کیونکہ انہوں نے لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًاوالی بات پوری کر دی ہے اور وہ جماعت میں فتنہ اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کریم کی ہدایت یہی ہے کہ ان سے مخفی طور پر اور الگ ہو کر بات نہ کی جائے اور اس پر تمہیں عمل کرنا چاہئے تا کہ تم شیطانی حملوں سے محفوظ ہو جاؤ۔ ورنہ تم جانتے ہو کہ شیطان حضرت حوّا کی معرفت جنّت میں گھس گیا تھا اور جو شیطان حضرت حوّا کی معرفت جنت میں گھس گیا تھا وہ جماعت احمدیہ میں کیوں نہیں گھس سکتا۔ ہاں اگر تم کو حضرت آدم والا قصّہ یاد رہے تو تم اس سے بچ سکتے ہو۔ بائبل کھول کر پڑھو تمہیں معلوم ہو گا کہ شیطان نے دوست اور خیر خواہ بن کر ہی حضرت آدمؑ اور حوّا کو ورغلایا تھا۔ اِسی طرح یہ لوگ بھی دوست اور ظاہر میں خیر خواہ بن کر تمہیں خراب کر سکتے ہیں لیکن اگر تم قرآنی ہدایت پر عمل کرو تو تم محفوظ ہو جاؤ گے اور شیطان خواہ کسی بھیس میں بھی آئے تم اس کے قبضہ میں نہیں آؤ گے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو ہمیشہ خلافت کا خدمت گزار رکھے اور تمہارے ذریعہ احمدیہ خلافت قیامت تک محفوظ چلی جائے۔ اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت ہوتی رہے۔ اور تم اور تمہاری نسلیں قیامت تک اس کا جھنڈا اونچا رکھیں۔ اور کبھی بھی وہ وقت نہ آئے کہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں تمہارا یا تمہاری نسلوں کا حصہ نہ ہو۔ بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تمہارا اور تمہاری نسلوں کا اس میں حصہ ہو۔ اور جس طرح پہلے زمانہ میں خلافت کے دشمن ناکام ہوتے چلے آئے ہیں تم بھی جلدہی سالوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں ان کو ناکام ہوتا دیکھ لو ۔’’
اس کے بعد حضور نے عہد دہرایا اور دعا کروائی۔ دعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے ارشار فرمایا کہ :۔
‘‘واپس جانے سے پہلے میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت موجودہ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے میں نے جماعت کے فتنہ پردازوں کا ذکر کیا ہے لیکن اس موقع کے زیادہ مناسبِ حال آج کا خطبہ جمعہ تھا جس میں مَیں نے خدمتِ خلق پر زور دیا ہے۔ خدام الاحمدیہ نے پچھلے دنوں ایسا شاندار کام کیا تھا کہ بڑے بڑے مخالفوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان کی یہ خدمت بے نظیر ہے۔ تم اس خدمت کو جاری رکھو اور اپنی نیک شہرت کو مدہم نہ ہونے دو۔ جب بھی ملک اور قوم پر کوئی مصیبت آئے سب سے آگے خدمت کرنے والے خدام الاحمدیہ کو ہونا چاہئے۔ یہاں تک کہ سلسلہ کا شدید سے شدید دشمن بھی یہ مان لے کہ درحقیقت یہی لوگ ملک کے سچّے خادم ہیں، یہی لوگ غریبوں کے ہمدرد ہیں، یہی لوگ مسکینوں اور بیواؤں کے کام آنے والے ہیں۔ یہی لوگ مصیبت زدوں کی مصیبت کو دور کرنے والے ہیں۔ تم اتنی خدمت کرو کہ شدید سے شدید دشمن بھی تمہارا گہرا دوست بن جائے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ایسا سلوک کرو کہ تمہارا دشمن بھی دوست بن جائے۔ یہی خدام الاحمدیہ کو کرنا چاہئے۔ اگر تمہارے کاموں کی وجہ سے تمہارے علاقہ کے لوگ تمہارے بھی اورتمہارے احمدی بھائیوں کے بھی دوست بن گئے ہیں، تمہارے کاموں کی قدر کرنے لگ گئے ہیں اور تم کو اپنا سچا خادم سمجھتے ہیں اور اپنا مددگار سمجھتے ہیں تو تم سچے خادم ہو۔ اور اگر تم یہ روح پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو تمہیں ہمیشہ استغفار کرنا چاہئے کہ تمہارے کاموں میں کوئی کمی رہ گئی ہے جس کی وجہ سے تم لوگوں کے دلوں میں اثر پیدا نہیں کر سکے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اورآپ کی مدد کرے۔’’
(الفضل 24؍ اپریل 1957ء)
خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں جماعت احمدیہ کو
خلافت کی برکات سے نوازا ہے
اختتامی خطاب
(فرمودہ 21/اکتوبر 1956ء برموقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ مقام ربوہ)
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''اس دفعہ مختلف وجوہات کی بناء پر جماعت احمدیہ کی مختلف مرکزی انجمنوں نے قریب قریب عرصہ میں اپنے سالانہ اجتماع منعقد کئے ہیں جس کی وجہ سے مجھ پر زیادہ بوجھ پڑ گیا ہے۔ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات سے تین چار سال پہلے جلسہ سالانہ پر میں آپ کی تقاریر سنتا رہا ہوں آپ کی وفات کے وقت میری عمر19سال کی تھی اور اس سے چارپانچ سال قبل میری عمر قریباً14سال کی تھی اس لئے میں آپ کی مجالس میں جاتا اور تقاریر سنتا تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر عام طور پر پچاس منٹ یا ایک گھنٹہ کی ہوتی تھی اور وفات سے پانچ سال پہلے آپ کی عمر قریباً اتنی ہی تھی جتنی اِس وقت میری ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی کسی مشیّت کے ماتحت مجھ پر ایک خطرناک بیماری کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے میں اب لمبی تقاریر نہیں کرسکتا۔ پہلے میں جلسہ سالانہ کے موقع پر پانچ پانچ چھ چھ گھنٹہ کی تقاریر کرلیتا تھا مگر اس بیماری کے اثر کی وجہ سے مجھے جلدی ضعف محسوس ہونے لگتا ہے۔آج لجنہ اماء اللہ کا اجتماع بھی تھا وہاں بھی میں نے تقریر کی۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ کئی سال سے آپ کی عورتوں میں کوئی تقریر نہیں ہوئی اس لئے آپ اس موقع پر عورتوں میں بھی تقریر کریں۔ چنانچہ میں نے تقریر کرنی منظور کرلی اور صبح وہاں میری تقریر تھی۔اس وقت تمہاری باری آگئی ہے۔چار پانچ دن کے بعد انصار اللہ کی باری آجائے گی پھر جلسہ سالانہ آجائے گا۔اُس موقع پر بھی مجھے تقاریر کرنی ہوں گی۔ پھر ان کاموں کے علاوہ تفسیرکا اہم کام بھی ہے جو میں کر رہا ہوں۔اس کی وجہ سے نہ صرف مجھے کوفت محسوس ہورہی ہے بلکہ طبیعت پر بڑا بوجھ محسوس ہورہا ہے۔اس لئے اگرچہ میری خواہش تھی کہ اس موقع پر میں لمبی تقریر کروں مگر میں زیادہ لمبی تقریر نہیں کرسکتا۔اب پیشتر اِس کے کہ میں اپنی تقریرشروع کروں آپ سب کھڑے ہوجائیں تاکہ عہد دہرایا جائے۔’’
حضور کے اس ارشاد پر تمام خدام کھڑے ہوگئے اور حضور نے عہد دُہرایا۔ عہد دہرانے کے بعد حضور نے فرمایا:
‘‘ آج میں قرآن کریم کی ایک آیت کے متعلق کچھ زیادہ تفصیل سے بیان کرنا چاہتا تھا مگر اِس وقت میں محسوس کرتا ہو کہ میں اس تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کرسکتا کیونکہ کل میں نے خطبہ جمعہ بھی پڑھا اور پھر آپ کے اجتماع میں بھی تقریر کی ۔اسی طرح آج صبح لجنہ اماء اللہ کے اجتماع میں بھی مجھے تقریر کرنی پڑی جس کی وجہ سے مجھے اس وقت کوفت محسوس ہورہی ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ4 یعنی ہم تم میں سے مومن اور ایمان بِالخلافت رکھنے والوں اور اس کے مطابق عمل کرنے والوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ ان کو ہم ضرور اُسی طرح خلیفہ بنائیں گے جس طرح کہ پہلی قوموں یعنی یہود و نصاریٰ میں سے بنائے ہیں۔ اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ خلافت ایک عہد ہے پیشگوئی نہیں، اور عہد مشروط ہوتا ہے لیکن پیشگوئی کے لئے ضروری نہیں کہ وہ مشروط ہو۔پیشگوئی مشروط ہو تو وہ مشروط رہتی ہے اور اگر مشروط نہ ہو لیکن اس میں کسی انعام کا وعدہ ہو تو وہ ضرور پوری ہوجاتی ہے۔یہاں وعدہ کا لفظ بھی موجود ہے اوراس کے ساتھ شرط بھی مذکور ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم نے خود اس وعدہ کی تشریح کردی ہے کہ ہمارا یہ وعدہ کہ ہم تم میں سے مومنوں اور اعمالِ صالحہ بجالانے والوں کو اسی طرح خلیفہ بنائیں گے جیسے ہم نے ان سے پہلے یہود و نصاریٰ میں خلیفہ بنائے ضروری نہیں کہ پورا ہو۔ہاں اگر تم بعض باتوں پر عمل کروگے تو ہمارا یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا۔پہلی شرط اس کی یہ بیان فرماتا ہے کہ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ تمہیں خلافت پر ایمان رکھنا ہوگا۔ چونکہ آگے خلافت کا ذکر آتا ہے اس لئے یہاں ایمان کاتعلق اس سے سمجھا جائے گا۔وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ پھر تمہیں نیک اعمال بجا لانے ہوں گے۔اب کسی چیز پر ایمان لانے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اسے پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ مثلاً کسی شخص کو اس بات پر ایمان ہو کہ میں بادشاہ بننے والا ہوں یا اسے ایمان ہو کہ میں کسی بڑے عہدہ پر پہنچنے والا ہوں تو وہ اس کے لئے مناسب کوشش بھی کرتا ہے۔ اگرایک طالب علم یہ سمجھے کہ وہ ایم۔اے کا امتحان پاس کرے تو اس کے لئے موقع ہے کہ وہ سی۔پی۔ایس پاس کرے یا پراونشل سروس میں ای۔اے۔سی بن جائے یا اسسٹنٹ کمشنر بن جائے توپھر وہ ا سکے مطابق محنت بھی کرتا ہے۔ لیکن اگر اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ان عہدوں کے حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا تو وہ ان کے لئے کوشش اور محنت بھی نہیں کرتا۔اِسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو اس بات پر یقین ہو کہ وہ خلافت کے ذریعہ ہی ترقی کرسکتے ہیں اور پھر وہ اس کی شان کے مطابق کام بھی کریں تو ہمارا وعدہ ہے کہ ہم انہیں خلیفہ بنائیں گے۔ لیکن اگر انہیں یقین نہ ہو کہ ان کی ترقی خلافت کے ساتھ وابستہ ہے اور وہ اس کے مطابق عمل بھی نہ کرتے ہوں تو ہمارا ان سے کوئی وعدہ نہیں۔ چنانچہ دیکھ لو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت ہوئی اور پھر کیسی شاندار ہوئی۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓخلیفہ ہوئے۔اُس وقت انصار نے چاہا کہ ایک خلیفہ ہم میں سے ہو اور ایک خلیفہ مہاجرین میں سے ہو۔ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور بعض اور صحابہؓ فوراً اُس جگہ تشریف لے گئے جہاں انصارؓجمع تھے اور آپ نے انہیں بتایا کہ دیکھو!دو خلیفوں والی بات غلط ہے، تفرقہ سے اسلام ترقی نہیں کرے گا۔خلیفہ بہرحال ایک ہی ہوگا۔ اگر تم تفرقہ کروگے تو تمہارا شیرازہ بکھر جائے گا، تمہاری عزتیں ختم ہوجائیں گی اور عرب تمہیں تِکّا بوٹی کر ڈالیں گے تم یہ بات نہ کرو۔ بعض انصار نے آپ کے مقابل پر دلائل پیش کرنے شروع کئے۔حضرت عمرؓ فرماتے ہیں میں نے خیال کیا کہ حضرت ابوبکرؓ کو تو بولنا نہیں آتا میں انصار کے سامنے تقریر کرو گا۔لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے تقریر کی تو آپ نے وہ سارے دلائل بیان کردئیے جو میرے ذہن میں تھے اور پھر اس سے بھی زیادہ دلائل بیان کئے ۔میں نے یہ دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ آج یہ بڈھا مجھ سے بڑھ گیا ہے آخر اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ خود انصار میں سے بعض لوگ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا حضرت ابوبکرؓ جو کچھ فرمارہے ہیں وہ ٹھیک ہے مکہ والوں کے سوا عرب کسی اَو رکی اطاعت نہیں کریں گے۔پھر ایک انصاری نے جذباتی طور پر کہا اے میری قوم!ا للہ تعالیٰ نے اس ملک میں اپنا ایک رسول مبعوث فرمایا، اس کے اپنے رشتہ داروں نے اسے شہر سے نکال دیا تو ہم نے اُسے اپنے گھروں میں جگہ دی اور خداتعالیٰ نے اس کے طفیل ہمیں عزت دی۔ ہم مدینہ والے گمنام تھے، ذلیل تھے مگر اس رسول کی وجہ سے ہم معزز اور مشہور ہوگئے۔ اب تم اس چیز کو جس نے ہمیں معزز بنایا کافی سمجھو اور زیادہ لالچ نہ کرو ایسانہ ہو کہ ہمیں اس کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچے۔ اُس وقت حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ دیکھو! خلافت کو قائم کرنا ضروری ہے باقی تم جس کو چاہو خلیفہ بنالو مجھے خلیفہ بننے کی کوئی خواہش نہیں۔آپ نے فرمایا یہ ابوعبیدہؓ ہیں ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امین الامت کا خطاب عطا فرمایا ہے تم ان کی بیعت کرلو۔ پھر عمرؓ ہیں یہ اسلام کے لئے ایک ننگی تلوار ہیں تم ان کی بیعت کرلو۔حضرت عمرؓ نے فرمایا ابوبکرؓ! اب باتیں ختم کیجئے ہاتھ بڑھائیے اور ہماری بیت لیجئے۔حضرت ابوبکرؓ کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ نے جرأت پیدا کردی اور آپ نے بیعت لے لی۔
بعینہٖ یہی واقعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات کے بعد میرے ساتھ پیش آیا۔جب میں نے کہا میں اس قابل نہیں کہ خلیفہ بنوں نہ میری تعلیم ایسی ہے اور نہ تجربہ تو اُس وقت بارہ چودہ سَو احمدی جو جمع تھے انہوں نے شور مچا دیا کہ ہم آپ کے سوا او رکسی کی بیعت کرنا نہیں چاہتے۔ مجھے اُس وقت بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں تھے۔میں نے کہا مجھے تو بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں میں بیعت کیسے لوں۔ اس پر ایک دوست کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ مجھے بیعت کے الفاظ یاد ہیں میں بیعت کے الفاظ بولتا جاتا ہوں اور آپ دُہراتے جائیں۔ چنانچہ وہ دوست بیعت کے الفاظ بولتے گئے اور میں انہیں دُہراتا گیا اور اس طرح میں نے بیعت لی گویا پہلے دن کی بیعت دراصل کسی اَور کی تھی میں تو صرف بیعت کے الفاظ دُہراتا جاتا تھا بعد میں مَیں نے بیعت کے الفاظ یاد کئے۔ غرض اِس وقت وہی حال ہوا جو اُس وقت ہوا تھا جب حضرت ابوبکرؓ خلیفہ منتخب ہوئے تھے۔میں نے دیکھا کہ لوگ بیعت کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔مولوی محمد علی صاحب ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا دوستو! غور کرلو اور میری ایک بات سن لو۔ مجھے معلوم نہ ہوا کہ لوگوں نے انہیں کیا جواب دیا ہے کیونکہ اُس وقت بہت شور تھا بعد میں پتہ لگا کہ لوگوں نے انہیں کہا۔ہم آپ کی بات نہیں سنتے۔ چنانچہ وہ مجلس سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔اس کے بعد لوگ ہجوم کرکے بیعت کے لئے بڑھے اور ایک گھنٹہ کے اندر اندر جماعت کا شیرازہ قائم ہوگیا۔ اُس وقت جس طرح میرے ذہن میں خلافت کاکوئی خیال نہیں تھا۔اِسی طرح یہ بھی خیال نہیں تھا کہ خلافت کے ساتھ ساتھ کونسی مشکلات مجھ پر ٹوٹ پڑیں گی۔ بعد میں پتہ لگا کہ پانچ چھ سو روپے ماہوار تو سکول کے اساتذہ کی تنخواہ ہے اور پھر کئی سو کا قرضہ ہے لیکن خزانہ میں صرف17روپے ہیں۔ گویا اُس مجلس سے نکلنے کے بعد محسوس ہوا کہ ایک بڑی مشکل ہمارے سامنے ہے۔جماعت کے سارے مالدار تو دوسری پارٹی کے ساتھ چلے گئے ہیں اور جماعت کی کوئی آمدنی نہیں پھر یہ کام کیسے چلیں گے۔ لیکن بعد میں خدا تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش ہوئی تو بگڑی سنور گئی۔ 1914ء میں تو میرا یہ خیال تھا کہ خزانہ میں صرف17روپے ہیں اور اساتذہ کی تنخواہوں کے علاوہ کئی سو روپیہ کا قرضہ ہے جو دینا ہے۔لیکن1920ء میں جماعت کی یہ حالت تھی کہ جب میں نے اعلان کیا کہ ہم برلن میں مسجد بنائیں گے اس کیلئے ایک لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے توجماعتوں کی عورتوں نے ایک ماہ کے اندر اندر یہ روپیہ اکٹھا کردیا۔ انہوں نے اپنے زیور اتار اتار کردے دیئے کہ انہیں بیچ کر روپیہ اکٹھا کرلیا جائے۔آج میں نے عورتوں کے اجتماع میں اس واقعہ کا ذکر کیا تو میری بیوی نے بتایا کہ مجھے تو اُسوقت پورا ہوش نہیں تھامیں ابھی بچی تھی اور مجھے سلسلہ کی ضرورتوں کا احساس نہیں تھا لیکن میری اماں کہا کرتی ہیں کہ جب حضورنے چندہ کی تحریک کی تو میری ساس نے (جو سید ولی اللہ شاہ صاحب کی والدہ تھیں اور میری بھی ساس تھیں)اپنی تمام بیٹیوں اور بہوؤں کو اکٹھا کیا اور کہا تم سب اپنے زیور اِس جگہ رکھ دو۔ پھر انہوں نے ان زیورات کو بیچ کر مسجد برلن کے لئے چندہ دے دیا۔اِس قسم کا جماعت میں ایک ہی واقعہ نہیں بلکہ سینکڑوں گھروں میں ایسا ہوا کہ عورتوں نے اپنی بیٹیوں اور بہوؤں کے زیورات اتروا لئے اور انہیں فروخت کرکے مسجد برلن کے لئے دے دیا۔ غرض ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ جمع ہوگیا۔اب دوسال ہوئے میں نے ہالینڈ میں مسجد بنانے کی تحریک کی لیکن اب تک اس فنڈ میں صرف اسّی ہزار روپے جمع ہوئے ہیں حالانکہ اِس وقت جماعت کی عورتوں کی تعداد اُس وقت کی عورتوں سے بیسیوں گُنا زیادہ ہے۔اُس وقت عورتوں میں اتنا جوش تھا کہ انہوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ جمع کردیا۔ تو درحقیقت یہ جماعت کا ایمان ہی تھا جس کا اللہ تعالیٰ نے نمونہ دکھایا اور اُس نے بتایا کہ میں سلسلہ کو مدد دینے والا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ الہاماً فرمایا تھا کہ اگر ساری دنیا بھی تجھ سے منہ موڑے تو میں آسمان سے اُتار ہوسکتا ہوں اور زمین سے نکال سکتا ہوں۔ تو حقیقت یہ ہے کہ ہم نے خلافت حقہ کی برکات اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کی ہیں۔ہم ایک پیسہ کے بھی مالک نہیں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے جماعت دی، جس نے چندے دئے اور سلسلہ کے کام اب تک چلتے گئے اور چل رہے ہیں اور اب تو جماعت خداتعالیٰ کے فضل سے پہلے سے کئی گناہ زیادہ ہے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں نے دینی ضرورتوں کے لئے خدا تعالیٰ سے کہا کہ اے اللہ! تُو مجھے ایک لاکھ روپیہ دے دے تو سلسلے کے کاموں کو چلاؤں۔ لیکن اب کل ہی میں حساب کررہا تھا کہ میں نے خود چھ لاکھ ستّر ہزار روپیہ سلسلہ کو بطور چندہ دیا ہے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ میں کتنا بیوقوف تھا کہ خداتعالیٰ سے سلسلہ کی ضرورتوں کے لئے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا۔ مجھے تو اُس سے ایک ارب روپیہ مانگنا چاہئے تھا۔مانگنے والا خداتعالیٰ کا خلیفہ ہو اور جس سے مانگا جائے وہ خود خدا کی ذات ہو تو پھر ایک لاکھ روپیہ مانگنے کے کیا معنے ہیں۔مجھے تویہ دعا کرنی چاہئے تھی کہ اے خدا! تُو مجھے ایک ارب روپیہ دے، ایک کھرب روپیہ دے یاایک پدم روپیہ دے۔میں نے بتایا ہے کہ اگرچہ میں نے خداتعالیٰ سے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا لیکن خداتعالیٰ نے اتنا فضل کیا کہ صرف میں نے پچھلے سالوں میں چھ لاکھ ستّر ہزار روپیہ سلسلہ کو چندہ کے طور پر دیا ہے۔بے شک وہ روپیہ سارا نقدی کی صورت میں نہ تھا کچھ زمین تھی جو میں نے سلسلہ کو دی مگر وہ زمین بھی خدا تعالیٰ نے ہی دی تھی۔میرے پاس تو زمین نہیں تھی ہم تو اپنی ساری زمین قادیان چھوڑآئے تھے۔اپنے باغات او رمکانات بھی قادیان چھوڑ آئے تھے۔قادیان میں میری جائیداد کافی تھی مگر اس کے باوجودمیں نے سلسلہ کو اتناروپیہ نہیں دیا تھا جتنا قادیان سے نکلنے کے بعددیا۔
1947ء میں ہم قادیان سے آئے ہیں اور تحریک جدید1934ء میں شروع ہوئی تھی۔گویا اُس وقت تحریک جدید کو جاری ہوئے بارہ سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور اس بارہ سال کے عرصہ میں میرا تحریک جدید کا چندہ قریباً چھ ہزار روپیہ تھا لیکن بعد کے دس سال ملا کر چندہ تحریک جدیددو لاکھ بیس ہزار روپیہ بن جاتا ہے۔اس کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی زمین میں نے تحریک جدید کو دی ہے۔ یہ زمین مجھے چودھری ظفراللہ خان صاحب نے بطور نذرانہ دی تھی۔میں نے خیال کیا کہ اتنا بڑا نذرانہ اپنے پاس رکھنا درست نہیں چنانچہ میں نے وہ ساری زمین سلسلہ کو دے دی۔اس طرح تین لاکھ ستّر ہزار روپیہ میں نے صرف تحریک جدید کوادا کیا۔ اسی طرح خلافت جوبلی کے موقع پر چودھری ظفراللہ خاں صاحب کی تحریک پر جب جماعت نے مجھے روپیہ پیش کیا تو میرمحمد اسحاق صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے اپنی اولاد کے متعلق جو دعائیں کی ہیں ان میں یہ دعابھی ہے کہ :
دے اِس کو عمر و دولت کر دُور ہر اندھیرا
پس اِس روپیہ کے ذریعہ آپ کی یہ دعا پوری ہوگی۔اس طرح یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگی کہ:
''وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اوردولت ہوگا'' 5
اس پر میں نے کہا کہ میں یہ روپیہ تو لے لیتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ میں یہ روپیہ سلسلہ کے کاموں پر ہی صَرف کروں گا۔ چنانچہ میں نے وہ روپیہ تو لے لیا لیکن میں نے اسے اپنی ذات پر نہیں بلکہ سلسلہ کے کاموں پر خرچ کیا اور صدر انجمن احمدیہ کو دے دیا۔ اب میں نے ہیمبرگ کی مسجد کے لئے تحریک کی ہے کہ جماعت کے دوست اس کے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپیہ دیں لیکن اگر اللہ تعالیٰ ہمیں مال دے تو ہمارے سلسلہ میں تو یہ ہونا چاہیئے کہ ہمارا ایک ایک آدمی ایک ایک مسجد بنادے۔ خود مجھے خیال آتا ہے کہ اگر خداتعالیٰ مجھے کشائش عطافرمائے تو میں بھی اپنی طرف سے ایک مسجد بنادوں اور کوئی تعجب نہیں کہ خداتعالیٰ مجھے اپنی زندگی میں ہی اس بات کی توفیق دے دے اور میں کسی نہ کسی یورپین ملک میں اپنی طرف سے ایک مسجد بنادوں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے دینے پر منحصر ہے۔انسان کی اپنی کوشش سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ہم لوگ زمیندار ہیں اور ہمارے ملک میں زمیندارہ کی بہت ناقدری ہے یعنی یہاں لائلپور اور سرگودھا کے اضلاع کی زمینوں میں بڑی سے بڑی آمدن ایک سوروپیہ فی ایکڑ ہے حالانکہ یورپین ممالک میں فی ایکڑ آمد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ میں جب یورپ گیا تو میں وہاں زمینوں کی آمد نیں پوچھنی شروع کیں مجھے معلوم ہوا کہ اٹلی میں فی ایکٹر آمد چار سو روپیہ ہے اور ہالینڈ میں فی ایکڑ آمدتین ہزار روپیہ ہے۔ پھر میں نے میاں محمد ممتاز صاحب دولتانہ کا بیان پڑھا۔وہ جاپان گئے تھے اور وہاں انہوں نے زمین کی آمدنوں کا جائزہ لیا تھا۔انہوں نے بیان کیا تھا کہ جاپان میں فی ایکڑآمد چھ ہزار روپے ہے۔اس کے یہ معنے ہوئے کہ اگر میری ایک سو ایکڑ زمین بھی ہو۔حالانکہ وہ اس سے بہت زیادہ ہے اور اس سے ہالینڈ والی آمد ہو تو تین لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد ہوجاتی ہے اور اگر جاپان والی آمد ہو تو بڑی آسانی کے ساتھ ایک نہیں کئی مساجد مَیں اکیلاتعمیر کراسکتا ہوں۔
میرا یہ طریق ہے کہ میں اپنی ذات پر زیادہ روپیہ خرچ نہیں کرتا اور نہ اپنے خاندان پر خرچ کرتا ہوں بلکہ جو کچھ میرے پاس آتا ہے اس میں سے کچھ رقم اپنے معمولی اخراجات کے لئے رکھنے کے بعد سلسلہ کے لئے دے دیتا ہوں۔خرچ کرنے کو تو لوگ دس دس کروڑ روپیہ بھی کرلیتے ہیں لیکن مجھے جب بھی خداتعالیٰ نے دیا ہے میں نے وہ خداتعالیٰ کے رستے میں ہی دیدیا ہے۔ بیشک میرے بیوی بچے مانگتے رہیں میں انہیں نہیں دیتا۔ میں انہیں کہتا ہوں کہ تمہیں وہی گزارے دوں گا جن سے تمہارے معمولی اخراجات چل سکیں۔زمانہ کے حالات کے مطابق میں بعض اوقات انہیں زیادہ بھی دے دیتا ہوں مثلاً اگر وہ ثابت کردیں کہ اس وقت گھی مہنگا ہوگیا ہے، ایندھن کی قیمت چڑھ گئی ہے یا دھوبی وغیرہ کا خرچ بڑھ گیا ہے تو میں اس کے لحاظ سے زیادہ بھی دے دیتا ہوں لیکن اس طرح نہیں کہ ساری کی ساری آمدن ان کے حوالہ کردوں کہ جہاں جی چاہیں خرچ کرلیں۔ غرض میں گھر کے معمولی گزارہ کے لئے اخراجات رکھنے کے بعد جو کچھ بچتا ہے وہ سلسلہ کو دے دیتا ہوں۔ اگر اللہ تعالےٰ فضل کرے اور کسی وقت وہ ہمارے ملک والوں کو عقل اور سمجھ دے دے اور ہماری آمدنیں بڑھ جائیں تو سال میں ایک مسجد چھوڑ دو دومساجد بھی ہم بنوا سکتے ہیں اور یہ سب خلافت ہی کی برکت ہے۔
میں جب نیانیا خلیفہ ہوا تو مجھے الہام ہوا کہ ''مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی رحمتیں یا برکتیں نازل ہوتی ہیں۔'' اس دفعہ میں نے یہ الہام لکھ کر قادیان والوں کو بھجوایا او ران کو توجہ دلائی کہ تم اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرو اور دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ وہ برکتیں تم پر ہمیشہ نازل کرتا رہے۔اب خلافت کی برکات سے اس علاقہ والوں کو بھی حصہ ملنا شروع ہوگیا ہے چنانچہ اس علاقہ میں کسی زمانہ میں صرف چند احمدی تھے مگر اب ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔ اور ہمیں امید ہے کہ اگر خداتعالیٰ چاہے تو وہ ایک دوسال میں پندرہ بیس ہزار ہوجائیں گے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک دفعہ میں نے خداتعالیٰ سے ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا لیکن اب میں خدا تعالیٰ سے اربوں مانگا کرتا ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اُس وقت ایک لاکھ روپیہ مانگ کر غلطی کی ۔اِس وقت اگر یورپین اور دوسرے اہم ممالک کا شمار کیا جائے اور ان مقامات کا جائزہ لیا جائے جہاں مسجدوں کی ضرورت ہے تو ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب بن جاتی ہے۔اور اگر ان ڈیڑھ سو مقامات پر ایک ایک مسجد بھی بنائی جائے اور ہرایک مسجد پر ایک ایک لاکھ روپیہ خرچ کیا جائے تو ان پر ڈیڑھ کروڑ روپیہ خرچ ہوجائے گا اور پھر بھی صرف مشہور ممالک میں ایک ایک مسجد بنے گی۔ پھر ایک ایک لاکھ روپیہ سے ہمارا کیا بنتا ہے۔ ہمارا صرف مبلغوں کا سالانہ خرچ سوا لاکھ روپیہ کے قریب بنتا ہے۔ اور اگر اس خرچ کو بھی شامل کیا جائے جو بیرونی جماعتیں کرتی ہیں تو یہ خرچ ڈیڑھ دو لاکھ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے۔غرض میں نے اُس سے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا مگر اُس نے مجھے اس سے بہت زیادہ دیا۔ اب ہماری صدرانجمن احمدیہ کا سالانہ بجٹ تیرہ لاکھ روپیہ کا ہے اور اگر تحریک جدید کے سالانہ بجٹ کوبھی ملالیا جائے تو ہمارا سالانہ بجٹ بائیس تیئیس لاکھ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے۔ پس اگر خدا تعالیٰ میری اس بیوقوفی کی دعا کو قبول کرلیتا تو ہمارا سارا کام ختم ہوجاتا مگر اللہ تعالیٰ نے کہا ہم تیری اس دعاکو قبول نہیں کرتے جس میں تُو نے ایک لاکھ روپیہ مانگا ہے۔ ہم تجھے اس سے بہت زیادہ دیں گے تاکہ سلسلہ کے کام چل سکیں۔اب اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو دیکھ کر کہ میں نے ایک لاکھ مانگا تھا مگر اس نے بائیس لاکھ سالانہ دیا۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں ایک کروڑ مانگتا توبائیسکروڑ سالانہ ملتا۔ایک ارب مانگتا توبائیس ارب سالانہ ملتا۔ایک کھرب مانگتا توبائیس کھرب سالانہ ملتا اور اگر ایک پدم مانگتا توبائیس پدم سالانہ ملتا۔ اور اس طرح ہماری جماعت کی آمد امریکہ اور انگلینڈ دونوں کی مجموعی آمد سے بھی بڑھ جاتی۔پس خلافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہت سی برکات وابستہ کی ہوئی ہیں۔ تم ابھی بچے ہو تم اپنے باپ دادوں سے پوچھو کہ قادیان کی حیثیت جو شروع زمانہ خلافت میں تھی وہ کیاتھی اور پھر قادیان کو اللہ تعالےٰ نے کس قدر ترقی بخشی تھی۔
جب میں خلیفہ ہوا تو پیغامیوں نے اس خیال سے کہ جماعت کے لوگ خلافت کو کسی طرح چھوڑ نہیں سکتے یہ تجویز کی کہ کوئی اَور خلیفہ بنا لیا جائے۔ اُن دنوں ضلع سیالکوٹ کے ایک دوست میر عابد علی صاحب تھے۔وہ صوفی منش آدمی تھے لیکن بعد میں پاگل ہوگئے تھے۔ ایک دفعہ اُنہیں خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جو خدا تعالیٰ نے وعدے کئے تھے وہ میرے ساتھ بھی ہیں اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ نے فرمایا تھا کہ قادیان میں طاعون نہیں آئے گی۔اس لئے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے برابر ہوں تو خدا تعالیٰ کا یہی وعدہ میرے ساتھ بھی ہے۔میرے گاؤں میں بھی طاعون نہیں آئے گی۔ چنانچہ جب طاعون کی وبا پھوٹی تو انہوں نے اپنے اس خیال کے مطابق اپنے مریدوں سے جو تعداد میں پانچ سات سے زیادہ نہیں تھے کہا کہ وہ اپنے گھر چھوڑ کراُن کے پاس آجائیں۔ چنانچہ وہ اُن کے پاس آگئے۔ لیکن بعد میں اُنہیں خود طاعون ہوگئی۔اُن کے مریدوں نے کہا کہ چلو اَب جنگل میں چلیں۔ لیکن اُنہوں نے کہا جنگل میں جانے کی ضرورت نہیں طاعون مجھ پراثر نہیں کریگی۔ آخر جب مریدوں نے دیکھا کہ وہ پاگل ہوگئے ہیں تو وہ انہیں ہسپتال میں لے گئے اور وہ اسی جگہ طاعون سے فوت ہوگئے۔ بہرحال جب بیعتِ خلافت ہوئی تو پیغامیوں نے سمجھا میر عابد علی صاحب چونکہ صوفی منش آدمی ہیں اور عبادت گزار ہیں اس لئے الوصیت کے مطابق چالیس آدمیوں کا ان کی بیعت میں آجانا کوئی مشکل امر نہیں۔ چنانچہ مولوی صدر دین صاحب اور بعض دوسرے لوگ رات کو ان کے پاس گئے اور کہا آپ اس بات کے لئے تیار ہوجائیں چنانچہ وہ اس بات پر آمادہ ہوگئے۔اُس وقت مولوی محمد علی صاحب نے دیانتداری سے کام لیا۔وہ جب اس مجلس سے واپس آگئے جس میں جماعت نے مجھے خلیفہ منتخب کیا تھا تو ان لوگوں نے ان سے کہاکہ آپ نے بڑی بیوقوفی کی۔ آپ اگر مجلس میں اعلان کردیتے کہ میری بیعت کرلو تو چونکہ مرزا محمود احمد صاحب یہ کہہ چکے تھے کہ میں خلیفہ بننا نہیں چاہتالوگوں نے آپ کی بیعت کرلینی تھی اور ان کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی آپ کی بیعت کرلیتے۔ انہوں نے کہا میں یہ کام کیسے کرسکتا تھا۔ میں تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ خلافت کی کوئی ضرورت نہیں۔ بہرحال جب ان لوگوں نے دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب خلیفہ بننے کے لئے تیار نہیں تو انہوں نے جیسا کہ میں نے بتایا ہے میر عابد علی صاحب کو بیعت لینے کے لئے آمادہ کیا اور اس کے بعد وہ ہری کین لے کر ساری رات قادیان میں دوہزار احمدیوں کے ڈیروں پر پھرتے رہے۔ لیکن انہیں چالیس آدمی بھی سید عابد علی شاہ صاحب کی بیعت کرنے والے نہ ملے۔ اُس وقت کے احمدیوں کاایمان اِس قدر پختہ تھا کہ غریب سے غریب احمدی بھی کروڑوں روپیہ پر تھوکنے کے لئے تیار نہیں تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ جماعت میں فتنہ اور تفرقہ پھیلے۔ جب انہیں میر عابد علی صاحب کی بیعت کے لئے چالیس آدمی بھی نہ ملے تو وہ مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافتِ حقہ کی وجہ سے کئی معجزات دکھائے ہیں۔
تم دیکھ لو1934ء میں مجلسِ احرار نے جماعت پر کس طرح حملہ کیاتھا لیکن وہ اس حملہ میں کس طرح ناکام ہوئے۔انہوں نے منہ کی کھائی۔ پھر1947ء میں قادیان میں کیسا خطرناک وقت آیا لیکن ہم نہ صرف احمدیوں کو بحفاظت نکال لائے بلکہ انہیں لاریوں میں سوار کرکے پاکستان لے آئے۔دوسرے لوگ جوپیدل آئے تھے اُن میں سے اکثر مارے گئے لیکن قادیان کے رہنے والوں کا بال تک بیکا نہیں ہوا۔اب بھی کچھ دن ہوئے مجھے ایک آدمی ملا۔اُس نے مجھے بتایا کہ آپ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ میری اجازت کے بغیرکوئی شخص قادیان سے نہ نکلے ۔چنانچہ ہم نے توآپ کے حکم کی تعمیل کی اور وہاں ٹھہرے رہے لیکن میرے ایک رشتہ دار گھبرا کر ایک قافلہ کے ساتھ پیدل آگئے او رراستہ میں ہی مارے گئے۔ہم جو وہاں بیٹھے رہے لاریوں میں سوار ہوکر حفاظت سے پاکستان آگئے۔ اُس وقت اکثر ایسا ہوا کہ پیدل قافلے پاکستان کی طرف آئے اور جب وہ بارڈر کراس کرنے لگے تو سکھوں نے اُنہیں آلیا اور وہ مارے گئے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ پیدل قافلہ قادیان سے نکلتے ہی سکھوں کے ہاتھوں مارا گیا اور اگر وہاں سے محفوظ نکل آیا تو بٹالہ آکر یافتح گڑھ چوڑیاں کے پاس مارا گیا۔ لیکن وہ میری ہدایت کے مطابق قادیان میں بیٹھے رہے اور میری اجازت کا انتظار کرتے رہے۔وہ سلامتی کے ساتھ لاریوں میں سوار ہوکر لاہور آئے۔ غرض ہر میدان میں خداتعالیٰ نے جماعت کو خلافت کی برکات سے نوازا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت انہیں یاد رکھے۔ مگر بڑی مصیبت یہ ہے کہ لوگ انہیں یاد نہیں رکھتے۔
پچھلے مہینہ میں ہی میں نے ایک رؤیا دیکھا تھا کہ کوئی غیر مرئی وجود مجھے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو وقفہ وقفہ کے بعد جماعت میں فتنہ پیدا ہونے دیتا ہے تو اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ جماعت کس طرح آپ کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔ یاجب آپ کسی خاص طرف مڑیں تو کس سُرعت کے ساتھ آپ کے ساتھ مڑتی ہے۔ یا جب آپ اپنی منزل مقصود کی طرف جائیں تو وہ کس طرح اسی منزل مقصود کو اختیار کرلیتی ہے۔''
اب دیکھو یہ فتنہ بھی جماعت کے لئے ایک آزمائش تھی لیکن بعض لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے کہ اس میں حصہ لینے والے حضرت خلیفہ اول کے لڑکے ہیں۔ اُنہوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بھی آپ کا انکار کیا تھا اور اس انکار کی وجہ سے وہ عذابِ الٰہی سے بچ نہیں سکا۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد کے اس فتنہ میں ملوث ہونے کی وجہ سے ہمیں کس بات کا خوف ہے۔ اگر وہ فتنہ میں ملوث ہیں تو خدا تعالیٰ ان کی کوئی پروا نہیں کرے گا۔ شروع شروع میں جب فتنہ اٹھا تو چند دنوں تک بعض دوستوں کے گھبراہٹ کے خطوط آئے اور انہوں نے لکھا کہ ایک چھوٹی سی بات کو بڑا بنادیا گیا ہے۔اللہ رکھا کی بھلا حیثیت ہی کیا ہے۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد ساری جماعت اپنے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ان لوگوں سے نفرت کرنے لگ گئی اور مجھے خطوط آنے شروع ہوئے کہ آپ کے اَور بھی بہت سے کارنامے ہیں مگر اس بڑھاپے کی عمر میں اور ضعف کی حالت میں جو یہ کارنامہ آپ نے سرانجام دیا ہے یہ اپنی شان میں دوسرے کارناموں سے بڑھ گیا ہے۔آپ نے بڑی جرأت او رہمت کے ساتھ ان لوگوں کو ننگا کردیا ہے جو بڑے بڑے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور سلسلہ کو نقصان پہنچانے کے دَرپے تھے۔اِس طرح آپ نے جماعت کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچالیا ہے۔
مری میں مجھے ایک غیر احمدی کرنیل ملے انہوں نے کہا کہ جو واقعات1953ء میں احمدیوں پر گزرے تھے وہ اب پھر ان پر گزرنے والے ہیں۔ اس لئے آپ ابھی سے تیاری کرلیں۔ اور میں آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ1953ء میں تو پولیس اور ملٹری نے آپ کی حفاظت کی تھی لیکن اب وہ آپ کی حفاظت نہیں کرے گی کیونکہ اُس وقت جو واقعات پیش آئے تھے ان کی وجہ سے وہ ڈر گئی ہے۔جب وہ خاموش ہوئے تو میں نے کہا۔کرنل صاحب! پچھلی دفعہ میں نے کون سا تیر مارا تھا جو اَب ماروں گا۔پچھلی دفعہ بھی خداتعالیٰ نے ہی جماعت کی حفاظت کے سامان کئے تھے اور اب بھی وہی اس کی حفاظت کرے گا۔ جب میرا خدا زندہ ہے تومجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔میری اس بات کا کرنل صاحب پر گہرا اثر ہوا چنانچہ جب میں ان کے پاس سے اُٹھا اور دہلیز سے باہر نکلنے لگا تو وہ کہنے لگے فیتھ از بلائنڈ(Faith is blind)یعنی یقین اور ایمان اندھا ہوتا ہے۔ وہ خطرات کی پروا نہیں کرتا۔جب کسی شخص میں ایمان پایا جاتا ہو تو اُسے آگے آنے والے مصائب کا کوئی فکر نہیں ہوتا۔ جب منافقین کا فتنہ اٹھا تو انہی کرنل صاحب نے ایک احمدی افسر کو جو اُن کے قریب ہی رہتے تھے بلایا اور کہا کہ میری طرف سے مرزا صاحب کو کہہ دینا کہ آپ نے یہ کیا کیا ہےاللہ رکھا کی بھلا حیثیت ہی کیا تھی۔ اس مضمون سے اُسے بلاضرورت شُہرت مل جائے گی۔ میں نے اس احمدی دوست کو خط لکھا کہ میری طرف سے کرنل صاحب کو کہہ دینا کہ آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ جماعت پر1953ء والے واقعات دوبارہ آنے والے ہیں، آپ ابھی سے تیاری کرلیں۔اب جبکہ میں نے اس بارہ میں کارروائی کی ہے تو آپ نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ آپ خواہ مخواہ فتنہ کو ہوا دے رہے ہیں۔ جب میں دوبارہ مری گیا تو میں نے اس احمدی دوست سے پوچھا کہ کیامیرا خط آپ کو مل گیا تھا اور آپ نے کرنل صاحب کو میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟انہوں نے کہا ہاں میں نے پیغام دے دیا تھا اور انہوں نے بتایا تھا کہ اب میری تسلی ہوگئی ہے۔ شروع میں مَیں یہی سمجھتا تھا کہ یہ معمولی بات ہے لیکن اب جبکہ پیغامی اور غیر احمدی دونوں فتنہ پردازوں کے ساتھ مل گئے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ عقلمندی اورکوئی نہیں تھی کہ آپ نے وقت پر اس فتنہ کو بھانپ لیا اورشرارت کو بے نقاب کردیا۔
غرض خداتعالیٰ ہر فتنہ اور مصیبت کے وقت جماعت کی خود حفاظت فرماتا ہے چنانچہ فتنہ تو اَب کھڑا کیا گیا ہے لیکن خداتعالےٰ نے1950ء میں ہی کوئٹہ کے مقام پر مجھے بتادیا تھا کہ بعض ایسے لوگوں کی طرف سے فتنہ اٹھایا جانے والا ہے جن کی رشتہ داری میری بیویوں کی طرف سے ہے۔ چنانچہ دیکھ لو عبدالوہاب میری ایک بیوی کی طرف سے رشتہ دار ہے۔میری اس سے جدّی رشتہ داری نہیں۔
پھر میری ایک خواب جنوری1935ء میں الفضل میں شائع ہوچکی ہے اس میں بتایا گیا تھا کہ میں کسی پہاڑ پر ہوں کہ خلافت کے خلاف جماعت میں ایک فتنہ پیدا ہوا ہے چنانچہ جب موجودہ فتنہ ظاہر ہوا اُس وقت مَیں مری میں ہی تھا۔
پھراس خواب میں مَیں نے سیالکوٹ کے لوگوں کو دیکھا جو موقع کی نزاکت سمجھ کر جمع ہوگئے تھے اور اِن کے ساتھ کچھ اُن لوگوں کو بھی دیکھا جو باغی تھے۔یہ خواب بڑے شاندار طور پر پوری ہوئی۔ چنانچہ اللہ رکھا سیالکوٹ کا ہی رہنے والا ہے۔جب میں نے اس کے متعلق الفضل میں مضمون لکھا تو خود اس کے حقیقی بھائیوں نے مجھے لکھا کہ پہلے تو ہمارا یہ خیال تھا کہ شایداس پر ظلم ہورہا ہے۔ لیکن اب ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ وہ پیغامی ہے۔ اس نے ہمیں جوخطوط لکھے ہیں وہ پیغامیوں کے پتہ سے لکھے ہیں۔ پس ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ہم خلافت سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں۔اب دیکھ لو1934ء میں مجھے اس فتنہ کا خیال کیسے آسکتا تھا۔پھر1950ء والی خواب بھی مجھے یاد نہیں تھی۔ 1950ء میں مَیں جب سندھ سے کوئٹہ گیا تو اپنی ایک لڑکی کو جو بیمار تھی ساتھ لے گیا۔اُس نے اَب مجھے یاد کرایا کہ1950ء میں آپ نے ایک خواب دیکھی تھی جس میں یہ ذکر تھاکہ آپ کے رشتہ داروں میں سے کسی نے خلافت کے خلاف فتنہ اٹھایا ہے۔ مَیں نے مولوی محمد یعقوب صاحب کو وہ خواب تلاش کرنے پر مقرر کیا۔چنانچہ وہ الفضل سے خواب تلاش کرکے لے آئے۔ اب دیکھو خداتعالیٰ نے کتنی دیر پہلے مجھے اس فتنہ سے آگاہ کردیا تھا اور پھر کس طرح یہ خواب حیرت انگیز رنگ میں پورا ہوا۔
ہماری جماعت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئیے کہ منافقت کی جڑ کو کاٹنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اگر اس کی جڑ کو نہ کاٹاجائے تو وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جماعت سے جو وعدہ فرمایا ہے اس کے پورا ہونے میں شیطان کئی قسم کی رکاوٹیں حائل کرسکتا ہے۔دیکھو خداتعالیٰ کا یہ کتنا شانداروعدہ تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پورا ہوا۔حضرت ابوبکرؓ کی خلافت صرف اڑھائی سال کی تھی لیکن اس عرصہ میں خداتعالیٰ نے جو تائید ونصرت کے نظارے دکھائے وہ کتنے ایمان افزا تھے۔حضرت ابوبکرؓ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے ایک ادنیٰ غلام تھے لیکن انہوں نے اپنے زمانۂ خلافت میں رومی فوجوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ آخر اڑھائی سال کے عرصہ میں لاکھوں مسلمان تو نہیں ہو گئے تھے۔اُس وقت قریباً قریباً وہی مسلمان تھے جورسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے تھے۔ لیکن خلافت کی برکات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں میں وہ شان اور اُمنگ اورجرأت پیدا کی کہ انہوں نے اپنے مقابل پر بعض اوقات دو دو ہزار گنا زیادہ تعداد کے لشکر کو بُری طرح شکست کھانے پر مجبور کردیا۔اس کے بعد حضرت عمرؓ کا زمانہ آیا توآپ نے ایک طرف رومی سلطنت کو شکست دی تو دوسری طرف ایمان کی طاقت کو ہمیشہ کے لئے ختم کرکے رکھ دیا۔ پھر حضرت عثمانؓ کی خلافت کا دور آیا۔اس دور میں اسلامی فوج نے آذربائیجان تک کا علاقہ فتح کرلیا اور پھر بعض مسلمان افغانستان اور ہندوستان آئے اور بعض افریقہ چلے گئے اور ان ممالک میں انہوں نے اسلام کی اشاعت کی۔ یہ سب خلافت کی ہی برکات تھیں۔ یہ برکات کیسے ختم ہوئیں؟یہ اِسی لئے ختم ہوئیں کہ حضرت عثمانؓ کے آخری زمانۂ خلافت میں مسلمانوں کا ایمان بالخلافت کمزور ہو گیا اور انہوں نے خلافت کو قائم رکھنے کے لئے صحیح کوشش او رجدوجہد کو ترک کردیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے بھی وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ کا وعدہ واپس لے لیا۔ لیکن عیسائیوں میں دیکھ لو 1900 سال سے برابر خلافت چلی آرہی ہے اور آئندہ بھی اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے۔ آخر یہ تفاوت کیوں ہے؟ اور کیوں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی خلافت30سال کے عرصہ میں ختم ہوگئی؟ اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں نے خلافت کی قدر نہ کی اور اس کی خاطر قربانی کرنے سے انہوں نے دریغ کیا۔ جب باغیوں نے حضرت عثمانؓ پر حملہ کیا توآپ نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا کہ اے لوگو! میں وہی کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کیا کرتے تھے میں نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ لیکن تم فتنہ پرداز لوگوں کو اپنے گھروں میں آنے دیتے ہو اور ان سے باتیں کرتے ہو۔ اس سے یہ لوگ دلیر ہوگئے ہیں۔ لیکن تمہاری اس غفلت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خلافت کی برکات ختم ہوجائیں گی اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا۔اب دیکھ لو وہی ہوا جو حضرت عثمانؓ نے فرمایا تھا۔حضرت عثمانؓ کاشہید ہونا تھا کہ مسلمان بکھر گئے اور آج تک وہ جمع نہیں ہوئے۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ جب روم کے بادشاہ نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ میں اختلاف دیکھا تو اس نے چاہا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے ایک لشکر بھیجے۔ اُس وقت رومی سلطنت کی ایسی ہی طاقت تھی جیسی اِس وقت امریکہ کی ہے۔اُس کی لشکر کشی کا ارادہ دیکھ کر ایک پادری نے جو بڑا ہوشیار تھا کہا بادشاہ سلامت! آپ میری بات سن لیں اور لشکر کَشی کرنے سے اجتناب کریں۔ یہ لوگ اگرچہ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن آپ کے مقابلہ میں متحد ہوجائیں گے او رباہمی اختلافات کو بھول جائیں گے۔پھر اس نے کہا آپ دو کتّے منگوائیں اورانہیں ایک عرصہ تک بھوکا رکھیں پھر ان کے آگے گوشت ڈال دیں۔وہ آپس میں لڑنے لگ جائیں گے۔ اگرآپ انہی کُتوں پر شیر چھوڑ دیں تووہ دونوں اپنے اختلافات کو بھول کر شیر پر جھپٹ پڑیں گے۔اِس مثال سے اس نے یہ بتایا کہ تُو چاہتا ہے کہ اِس وقت حضرت علیؓ اور معاویہؓ کے اختلاف سے فائدہ اٹھالے لیکن میں یہ بتادیتاہوں کہ جب بھی کسی بیرونی دشمن سے لڑنے کا سوال پیدا ہو گا یہ دونوں اپنے باہمی اختلافات کو بھول جائیں گے اور دشمن کے مقابلہ میں متحد ہوجائیں گے۔ اور ہؤا بھی یہی۔جب حضرت معاویہؓ کو روم کے بادشاہ کے ارادہ کا علم ہوا توآپ نے اسے پیغام بھیجا کہ تُو چاہتا ہے کہ ہمارے اختلاف سے فائدہ اٹھاکر مسلمانوں پر حملہ کرے۔ لیکن میں تمہیں بتادینا چاہتا ہوں کہ میری حضرت علیؓ کے ساتھ بے شک لڑائی ہے لیکن اگر تمہارا لشکر حملہ آور ہوا تو حضرت علیؓ کی طرف سے اس لشکر کا مقابلہ کرنے کے لئے جوسب سے پہلاجرنیل نکلے گا وہ مَیں ہوں گا6۔ اَب دیکھ لو حضرت معاویہؓ حضرت علیؓ سے اختلاف رکھتے تھے لیکن اس اختلاف کے باوجود انہوں نے رومی بادشاہ کو ایسا جواب دیا جو اس کی امیدوں پر پانی پھیرنے والا تھا۔
لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد کا یہ حال ہے کہ انہیں اتنی بھی توفیق نہ ملی کہ پیغامیوں سے کہتے کہ تم تو ساری عمر ہمارے باپ کو گالیاں دیتے رہے ہو۔پھر ہمارا تم سے کیا تعلق ہے۔انہیں وہ گالیاں بھول گئیں جوان کے باپ کو دی گئی تھیں اور چُپ کرکے بیٹھے رہے۔ انہوں نے ان کی تردید نہ کی اور تردید بھی انہوں نے اسلئے نہ کی کہ اگر ہم نے ایسا کیاتو شاید پیغامی ہماری تائید نہ کریں۔ حالانکہ اگران کے اندر ایمان ہوتا تو یہ لوگ کہتے ہمارا لوگوں سے کیا تعلق ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وہ تقاریر موجود ہیں جن میں آپ نے بیان فرمایا ہے کہ یہ لوگ مجھے خلافت سے دستبردار کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ کون ہیں مجھے دستبردارکرنے والے! مجھے خداتعالیٰ نے خلیفہ بنایاہے اس لئے وہی خلافت کی حفاظت کرے گا۔ اگر یہ لوگ میری بات نہیں سنتے تو اپنے باپ کی بات تو سن لیتے۔وہ کہتا ہے کہ مجھے خداتعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اب کسی شخص یا جماعت کی طاقت نہیں کہ وہ مجھے معزول کرسکے۔اسی طرح میں بھی کہتا ہوں کہ مجھے خداتعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے پھریہ لوگ مجھے معزول کیسے کرسکتے ہیں۔خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک جماعت کو پکڑ کر میرے ہاتھ پر جمع کردیا تھا اور اُس وقت جمع کردیا تھا جب تمام بڑے بڑے احمدی میرے مخالف ہوگئے تھے اور کہتے تھے کہ اب خلافت ایک بچے کے ہاتھ میں آگئی ہے۔اس لئے جماعت آج نہیں تو کل تباہ ہوجائے گی۔ لیکن اُسی بچہ نے42سال تک پیغامیوں کا مقابلہ کرکے جماعت کو جس مقام تک پہنچایا وہ تمہارے سامنے ہے۔ شروع میں ان لوگوں نے کہا تھا کہ98فیصدی احمدی ہمارے ساتھ ہیں۔ لیکن اب وہ دکھائیں کہ جماعت کا 98فیصدی جو اُن کے ساتھ تھا کہاں ہے؟کیا وہ98فیصدی احمدی ملتان میں ہیں؟ لاہور میں ہیں؟ پشاور میں ہیں؟ کراچی میں ہیں؟ آخر وہ کہاں ہیں؟ کہیں بھی دیکھ لیا جائے۔ان کے ساتھ جماعت کے دوفیصدی بھی نہیں نکلیں گے۔
مولوی نورالحق صاحب انور مبلغ امریکہ کی الفضل میں چٹھی چَھپی ہے کہ عبدالمنان نے ان سے ذکر کیا کہ پشاور سے بہت سے پیغامی انہیں ملنے کے لئے آئے ہیں اور وہ ان کا بہت ادب اور احترام کرتے ہیں۔ لیکن کچھ دن ہوئے امیر جماعت احمدیہ پشاور یہاں آئے۔ میں نے انہیں کہا کہ میاں محمد صاحب کی کھلی چِٹھی کا جواب چَھپا ہے آپ وہ کیوں نہیں خریدتے؟ تو انہوں نے کہا پشاور میں دو سے زیادہ پیغامی نہیں ہیں۔ لیکن ان کے مقابل پروہاں ہماری دومساجد بن چکی ہیں اور خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت وہاں کثرت سے پھیل رہی ہے۔ پیغامیوں کا وہاں یہ حال ہے کہ شروع شروع میں وہاں احمدیت کے لیڈر پیغامی ہی تھے۔ لیکن اب بقول امیر صاحب جماعت احمدیہ پشاور وہاں دو پیغامی ہیں۔
پس میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد کس لالچ میں آگئی ہے۔ کیا صرف ایک مضمون کا پیغامِ صلح میں چھپ جانا ان کے لئے لالچ کا موجب ہوگیا؟ اگر یہی ہوا ہے تو یہ کتنی ذلیل بات ہے۔ اگر پاکستان کی حکومت یہ کہہ دیتی کہ ہم حضرت خلیفہ اول کی اولاد کو مشرقی پاکستان کا صوبہ دے دیتے ہیں یا وہ کہتے کہ انہیں مغربی پاکستان دے دیتے ہیں تب تو ہم سمجھ لیتے کہ انہوں نے اس لالچ کی وجہ سے جماعت میں تفرقہ اور فساد پیدا کرنا منظور کرلیا ہے۔ لیکن یہاں تو یہ لالچ بھی نہیں۔حضرت خلیفہ اول ایک مولوی کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ اس نے ایک شادی شدہ لڑکی کا نکاح کسی دوسرے مرد سے پڑھ دیا۔لوگ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے پاس آئے اور کہنے لگے فلاں مولوی جو آپ سے ملنے آیاکرتا ہے اس نے فلاں شادی شدہ لڑکی کا نکاح فلاں مرد سے پڑھ دیا ہے۔مجھے اس سے بڑی حیرت ہوئی اور میں نے کہا کہ اگر وہ مولوی صاحب مجھے ملنے آئے تو میں ان سے ضرور دریافت کروں گاکہ کیا بات ہے۔ چنانچہ جب وہ مولوی صاحب مجھے ملنے کے لئے آئے تو میں نے ان سے ذکر کیا کہ آپ کے متعلق میں نے فلاں بات سنی ہے۔میرا دل تو نہیں مانتا لیکن چونکہ یہ بات ایک معتبر شخص نے بیان کی ہے اس لئے میں اس کا ذکر آپ سے کررہاہوں۔ کیا یہ بات درست ہے کہ آپ نے ایک شادی شدہ عورت کا ایک اَور مرد سے نکاح کردیا ہے؟وہ کہنے لگا مولوی صاحب! تحقیقات سے پہلے بات کرنی درست نہیں ہوتی۔آپ پہلے مجھ سے پوچھ تو لیں کہ کیا بات ہوئی۔میں نے کہا اسی لئے تو میں نے اس بات کا آپ سے ذکر کیا ہے۔ اس پر وہ کہنے لگا بے شک یہ درست ہے کہ میں نے ایک شادی شدہ عورت کا دوسری جگہ نکاح پڑھ دیا ہے لیکن مولوی صاحب! جب انہوں نے میرے ہاتھ پر چڑیا جتنا روپیہ رکھ دیا تو پھر میں کیا کرتا۔پس اگر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد کو حکومتِ پاکستان یہ لالچ دے دیتی کہ مشرقی پاکستان یا مغربی پاکستان تمہیں دے دیا جائے گا تو ہم سمجھ لیتے کہ یہ مثال ان پر صادق آجاتی ہے۔جس طرح اس مولوی نے روپیہ دیکھ کر خلافِ شریعت نکاح پر نکاح پڑھ دیا تھا اِنہوں نے بھی لالچ کی وجہ سے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہاں تو چڑیا چھوڑ انہیں کسی نے مُردہ مچھر بھی نہیں دیا۔ حالانکہ یہ اولاد اس عظیم الشان باپ کی ہے جو اس قدر حوصلہ کا مالک تھا کہ ایک دفعہ جب آپ قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مجھے آپ کے متعلق الہام ہوا ہے کہ اگر آپ اپنے وطن گئے تو اپنی عزت کھو بیٹھیں گے۔اس پر آپ نے وطن واپس جانے کا نام تک نہ لیا۔اُس وقت آپ اپنے وطن بھیرہ میں ایک شاندار مکان بنا رہے تھے۔جب میں بھیرہ گیا تو میں نے بھی یہ مکان دیکھاتھا۔اس میں آپ ایک شاندار ہال بنوارہے تھے تاکہ اس میں بیٹھ کر درس دیں اور مَطبْ بھی کیا کریں۔ موجودہ زمانہ کے لحاظ سے تو وہ مکان زیادہ حیثیت کا نہ تھا لیکن جس زمانہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے یہ قربانی کی تھی اُس وقت جماعت کے پاس زیادہ مال نہیں تھا۔ اُس وقت اِس جیسا مکان بنانا بھی ہر شخص کاکام نہیں تھا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے بعدآپ نے واپس جاکر اس مکان کو دیکھا تک نہیں۔بعض دوستوں نے کہا بھی کہ آپ ایک دفعہ جاکر مکان تو دیکھ آئیں لیکن آپ نے فرمایا کہ مَیں نے اسے خداتعالیٰ کے لئے چھوڑ دیا ہے۔اب اسے دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے عظیم الشان باپ کی اولاد ایک مُردہ مچھر سے بھی حقیر چیز پر آگری۔
پھر دیکھو حضرت خلیفۃ المسیح الاول تو اس شان کے انسان تھے کہ وہ اپنا عظیم الشان مکان چھوڑ کر قادیان آگئے لیکن آپ کے پوتے کہتے ہیں کہ قادیا ن میں ہمارے داداکی بڑی جائیداد تھی جو ساری کی ساری مرزا صاحب کی اولاد نے سنبھال لی ہے۔ حالانکہ جماعت کے لاکھوں آدمی قادیان میں جاتے رہے ہیں اور ہزاروں وہاں رہے ہیں۔ اَب بھی کئی لوگ قادیان گئے ہیں انہیں پتہ ہے کہ وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا صرف ایک کچا مکان تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی بڑی جائیداد تھی مگر وہ جائیداد مادی نہیں بلکہ روحانی تھی جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور ہراحمدی کے دل میں آپ کا ادب واحترام پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر آپ کی اولاد خلافت کے مقابلہ میں کھڑی ہوگی تو ہرمخلص احمدی انہیں نفرت سے پرے پھینک دے گا اور ان کی ذرّہ بھر بھی پروا نہیں کرے گا۔
آخر میں خدام کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خلافت کی برکات کو یاد رکھیں۔ اورکسی چیزکو یاد رکھنے کے لئے پرانی قوموں کا یہ دستور ہے کہ وہ سال میں اس کے لئے خاص طور پر ایک دن مناتی ہیں۔ مثلاً شیعوں کو دیکھ لو وہ سال میں ایک دفعہ تعزیہ نکالتے ہیں تا قوم کو شہادتِ حسینؓ کا واقعہ یادرہے۔اِسی طرح میں بھی خدام کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سال میں ایک دن خلافت ڈے کے طور پر منایا کریں۔اس میں وہ خلافت کے قیام پر خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کریں اور اپنی پرانی تاریخ کو دہرایا کریں۔پرانے اخبارات کا ملنا تو مشکل ہے لیکن الفضل نے پچھلے دنوں ساری تاریخ کو ازسرنو بیان کردیا ہے۔اس میں وہ گالیاں بھی آگئی ہیں جو پیغامی لوگ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کو دیا کرتے تھے۔ اور خلافت کی تائیدمیں حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے جو دعوے کئے ہیں وہ بھی نقل کردئیے گئے ہیں۔ تم اس موقع پر اخبارات سے یہ حوالے پڑھ کرسناؤ۔ اگر سال میں ایک دفعہ خلافت ڈے منا لیا جایا کرے تو ہر سال چھوٹی عمر کے بچوں کو پرانے واقعات یاد ہوجایا کریں گے۔ پھر تم یہ جلسے قیامت تک کرتے چلے جاؤتاجماعت میں خلافت کا ادب او راس کی اہمیت قائم رہے۔
حضرت مسیح علیہ السلام کی خلافت1900سال سے برابر قائم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو درجہ میں ان سے بڑے ہیں خدا کرے ان کی خلافت دس ہزار سال تک قائم رہے۔مگر یہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ تم سال میں ایک دن اس غرض کے لئے خاص طورپر منانے کی کوشش کرو۔میں مرکز کو بھی ہدایت کرتا ہوں کہ وہ بھی ہر سال سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کی طرح خلافت ڈے منایا کرے اور ہرسال یہ بتایا کرے کہ جلسہ میں ان مضامین پر تقاریر کی جائیں۔ الفضل سے مضامین پڑھ کر نوجوانوں کو بتایا جائے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے خلافتِ احمدیہ کی تائید میں کیا کچھ فرمایا ہے اور پیغامیوں نے اس کے ردّ میں کیا کچھ لکھا ہے۔اِسی طرح وہ رؤیا وکشوف بیان کئے جایا کریں جو وقت سے پہلے خداتعالیٰ نے مجھے دکھائے اور جن کو پورا کرکے خداتعالیٰ نے ثابت کردیا کہ اس کی برکات اَب بھی خلافت سے وابستہ ہیں۔
پھر جیسا کہ میں نے مری میں ایک خطبہ جمعہ میں بیان کیا تھا تم درود کثرت سے پڑھا کرو، تسبیح کثرت سے کیا کرو،دعائیں کثرت سے کیا کرو تاخدا تمہیں رؤیا اور کشوف دکھائے۔ پرانے احمدی جنہیں رؤیا کشوف ہوتے تھے اب کم ہورہے ہیں۔میں نے دیکھا تھا کہ خطبہ کے تھوڑے ہی دن بعد مجھے خطوط آنے شروع ہوئے کہ آپ کی ہدایت کے مطابق ہم نے درود پڑھنا شروع کیا،تسبیح پڑھنی شروع کی اوردعاؤں پر زور دیا تو ہمیں خداتعالیٰ نے رؤیا وکشوف سے نوازا۔اُن دنوں ڈاک میں اکثر چٹھیاں اس مضمون کی آیا کرتی تھیں اور انہیں پڑھ کر لُطف آیا کرتا تھا۔ اب ان چِٹھیوں کا سلسلہ کم ہوگیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ درود پڑھنے، تسبیح کرنے اور دعائیں کرنے کی عادت پھر کم ہوگئی ہے۔
یاد رکھو کہ خداتعالیٰ سے بات کرنا معمولی اَمر نہیں۔خداتعالیٰ سے بات کرنا بڑے ایمان کی بات ہے اگر کہیں صدر پاکستان سکندر مرزا آجائیں اور تمہیں پتہ لگ جائے کہ تم میں سے ہرایک کو ان سے ملاقات کا موقع مل جائے گا تو تمہیں کتنی خوشی ہو اور تم کتنے شوق سے ان کی ملاقات کے لئے جاؤ۔ پھر اللہ تعالیٰ جو کائنات عالم کا مالک ہے۔محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا بھیجنے والا ہے۔اس کے متعلق اگر تمہیں معلوم ہو کہ وہ ہرایک سے مل سکتا ہے تو کتنی بدقسمتی ہوگی کہ اس سے ملنے کی کوشش نہ کی جائے۔ پس تم خدا تعالیٰ سے عاجزانہ دعائیں کرو اور کہو اے خدا! ہم تیرے کمزور بندے ہیں تُو ہمیں طاقت دے، تُو ہمیں سچ دکھا اور تُو ہم سے کلام کرتا کہ ہمارے دلوں کو اطمینان میسر ہو۔پھر جب کہ میں نے بارہا بتایا ہے میری بیماری دعاؤں سے تعلق رکھتی ہے۔اس لئے تم یہ بھی دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے کام والی زندگی عطا فرمائے اور مجھے دنیا میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کرنے کی توفیق دے۔دیکھو میرا ہر کام تمہاری طرف ہی منسوب ہوتا ہے۔ اگر دنیا میں اسلام کی اشاعت ہو توتم ہی فخر کروگے کہ ہم امریکہ میں اسلام کی اشاعت کررہے ہیں، سوئٹزر لینڈ میں اسلام کی اشاعت کررہے ہیں،جرمنی میں اسلام کی اشاعت کررہے ہیں، انگلستان میں اسلام کی اشاعت کررہے ہیں، ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کررہے ہیں گویا جو میرا کام ہوگا وہ تمہارا کام ہوگا۔ اور تم ہرمجلس میں یہ کہہ سکوگے کہ ہم نے فلاں کام کیا ہے۔پس تم دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں کام کو اچھی طرح نبھا سکوں اور پھر وہ اس میں برکت دے اور اسلام کے دشمنوں کے دلوں کو کھولے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت اِس وقت دنیامیں سب سے زیادہ مظلوم انسان ہیں۔ پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ آپ کی شان کو بلند کرے اور اندھوں کی آنکھیں کھولے تاکہ وہ آپ کی شان اورعظمت کو پہچانیں۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے ۔دنیا میں ایک ہی خدا اور ایک ہی رسول رہ جائے اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔’’
(الفضل یکم مئی 1957ء)
1 آل عمران : 119
2 النور: 56
3 سنن ابن ماجہ ابواب النکاح بابُ ضرب النِّساءِ
4 النور: 56
5 تذکرہ صفحہ 139۔ ایڈیشن چہارم
6 البدایۃ و النھایۃ جلد8 صفحہ 126 ۔ مطبوعہ بیروت 2001ء
قرونِ اُولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ اپنےسامنے رکھو
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
قرونِ اُولی کی مسلمان خواتین کا نمونہ اپنے سامنے رکھو
(فرمودہ 21/اکتوبر 1956ء بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ بمقام ربوہ)
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
اسلام میں عورت کا مقام
‘‘اسلامی تعلیم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں دیگر مذاہب کی نسبت عورت
کے درجہ کوبہت بلند کیا گیا ہے۔ گو موجودہ زمانہ میں مغربیت کے اثر کے ماتحت خود مسلمانوں نے عورت کے درجہ کو کم کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اوربعض باتوں میں انہوں نے غلط اندازے بھی لگائے ہیں مثلاً کہا جاتا ہے کہ پردہ میں عورت کو صحیح تعلیم نہیں دی جاسکتی حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کے اندر ہی دین سیکھا تھا اور پردہ کے اندر ہی رہ کر وہ دین کی اتنی ماہر ہوگئی تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم آدھا دین عائشہ سے سیکھو1۔گویا سارے مرد مل کر آدھا دین سکھا سکتے ہیں اور حضرت عائشہؓ اکیلی آدھا دین سکھا سکتی ہیں حالانکہ حضرت عائشہؓ پردہ کیا کرتی تھیں اور آپ نے جو دین سیکھا تھا وہ پردہ کے اندررہ کر ہی سیکھا تھا۔ پھر عورتوں نے اسلامی جنگوں میں وہ وہ کام کئے ہیں جو بے پردہ یورپین عورتیں آج بھی نہیں کر رہیں۔حضرت ابوبکرؓکے زمانہ میں حضرت ضرارؓ جوایک بہادر صحابی تھے،غفلت کی وجہ سے رومیوں کی قید میں آگئے اور رومی انہیں پکڑ کر کئی میل تک ساتھ لے گئے۔ان کی بہن خولہؓ کواس کا پتہ لگا تو وہ اپنے بھائی کی زرہ او رسامانِ جنگ لے کر گھوڑے پر سوار ہوکر اُن کے پیچھے گئیں اور دشمن سے اپنے بھائی کو چھڑا لانے میں کامیاب ہوگئیں2 اُس وقت رُومی سلطنت طاقت وقوت کے لحاظ سے ایسی ہی تھی جیسی آجکل انگریزوں کی حکومت ہے مگر اس کی فوج ایک صحابی کو قید کرکے لے گئی تو اُن کی بہن اکیلی ہی باہر نکلی اور کئی میل تک رُومی سپاہیوں کے پیچھے چلی گئی اور پھر بڑی کامیابی سے اپنے بھائی کو اُن کی قید سے چُھڑا لائی اور مسلمانوں کو اِس بات کا اُس وقت پتہ لگا جب وہ اپنے بھائی کو واپس لے آئی۔
پھر ایک اَور واقعہ بھی ہے جس سے عورتوں کی بہادری کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت سعدؓبن ابی وقاص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص صحابہؓ میں سے تھے۔ حضرت عمرؓنے اُنہیں اپنے زمانۂ خلافت میں ایرانی فوج کے مقابلہ میں اسلامی فوج کا کمانڈر بنایا تھا۔ اتفاقاً اُنہیں ران پر ایک پھوڑا نکل آیاجسے ہمارے ہاں گھمبیر کہتے ہیں اور وہ لمبے عرصہ تک چلتا چلا گیا۔بہتیرا علاج کیا گیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آخر انہوں نے خیال کیا کہ اگر میں چارپائی پر پڑا رہا اور فوج نے دیکھا کہ میں جو اس کا کمانڈر ہوں،ساتھ نہیں،تو وہ بددِل ہوجائے گی چنانچہ انہوں نے ایک درخت پر عرشہ بنوایا جیسے ہمارے ہاں لوگ باغات کی حفاظت کے لئے بنا لیتے ہیں۔آپ اس عرشہ میں آدمیوں کی مدد سے بیٹھ جاتے تا مسلمان فوج اُنہیں دیکھتی رہے اور اسے خیال رہے کہ اس کا کمانڈر ان کے ساتھ ہے۔ انہی دنوں آپ کو اطلاع ملی کہ ایک عرب سردار نے شراب پی ہے۔شراب اگرچہ اسلام میں حرام تھی مگر عرب لوگ اس کے بہت عادی تھے اور اگر اس کی عادت پڑ جائے تو جلدی چُھٹتی نہیں ۔ ابھی اُن کے اسلام لانے پر دوتین سال کا ہی عرصہ گزرا تھا اور دوتین سال کے عرصہ میں اس کی عادت نہیں جاتی۔ بہرحال حضرت سعد بن ابی وقاص کو جب اس مسلمان عرب سردار کے متعلق اطلاع ملی کہ اس نے شراب پی ہے تو آپ نے اُسے قید کردیا۔ان دنوں باقاعدہ قید خانے نہیں ہوتے تھے۔جس شخص کو قید کرنا مقصود ہوتا اُسے کسی کمرہ میں بند کردیا جاتا اور اس پر پہرہ مقرر کردیا جاتا۔ چنانچہ اس مسلمان عرب سردار کو بھی ایک کمرہ میں بند کردیا گیا اور دروازہ پر پہرہ لگادیا گیا۔
وہ سال تاریخِ اسلام میں مصیبت کا سال کہلاتا ہے کیونکہ مسلمانوں کا جنگ میں بہت نقصان ہوا تھا۔ایک جگہ پراسلامی لشکر کے گھوڑے دشمن کے ہاتھیوں سے بھاگے۔پاس ہی ایک چھوٹا سا دریا تھا،گھوڑے اُس میں کُودے اورعرب چونکہ تیرنا نہیں جانتے تھے اس لئے سینکڑوں مسلمان ڈوب کر مرگئے۔اِس لئے اُس سال کو مصیبت کا سال کہتے ہیں۔بہرحال وہ مسلمان عرب سردار کمرہ میں قید تھا۔جب مسلمان سپاہی جنگ سے واپس آتے اور اس کے کمرہ کے قریب بیٹھ کر یہ ذکر کرتے کہ جنگ میں مسلمانوں کا بڑا نقصان ہوا ہے تو وہ کڑھتااوراس بات پر اظہارِ افسوس کرتا کہ وہ اس موقع پر جنگ میں حصہ نہیں لے سکا۔بے شک اس میں یہ کمزوری تھی کہ اُس نے شراب پی لی لیکن وہ تھا بڑابہادر، اس کے اندر جوش پایا جاتا تھا۔ جنگ میں مسلمانوں کے نقصانات کا ذکر سُن کر وہ کمرہ میں اس طرح ٹہلنے لگ جاتا جیسے پنجرہ میں شیرٹہلتا ہے۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ شعر پڑھتا جن کا مطلب یہ تھا کہ آج ہی موقع تھا کہ تُو اسلام کو بچاتا اوراپنی بہادری کے جوہر دکھاتا مگر تُو قید ہے۔
حضرت سعدؓ کی بیوی بڑی بہادر عورت تھیں وہ ایک دن اس کے کمرہ کے پاس سے گزریں تو انہوں نے یہ شعر سُن لئے۔ انہوں نے دیکھا کہ وہاں پہرہ نہیں ہے وہ دروازہ کے پاس گئیں اور اُس قیدی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔تجھے پتہ ہے کہ سعدؓ نے تجھے قید کیا ہؤا ہے،اگر اُسے پتہ لگ گیا کہ میں نے تجھے قید سے آزاد کردیا ہے تو مجھے چھوڑے گا نہیں۔لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ میں تجھے قیدسے آزاد کردوں تاکہ تُواپنی خواہش کے مطابق اسلام کے کام آسکے۔اُس نے کہا آپ جب لڑائی ہو مجھے چھوڑ دیا کریں میں وعدہ کرتا ہوں کہ لڑائی کے بعد میں فوراً واپس آکر اس کمرہ میں داخل ہوجایاکروں گا۔ اُس عورت کے دل میں بھی اسلام کا درد تھا اور اس کی حفاظت کے لئے جوش پایا جاتا تھا۔اِس لئے اُس نے اس شخص کو قید سے نکال دیا۔ چنانچہ وہ لڑائی میں شامل ہوا اور ایسی بے جگری سے لڑا کہ اس کی بہادری کی وجہ سے اسلامی لشکر بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ گیا۔سعدؓ نے اُسے پہچان لیا اور بعد میں کہا کہ آج کی لڑائی میں وہ شخص موجود تھا جسے میں نے شراب پینے کی وجہ سے قید کیا ہوا تھا گو اُس نے چہرے پر نقاب ڈالی ہوئی تھی مگر میں اس کے حملہ کے اندازاو رقد کو پہچانتا ہوں میں اُس شخص کو تلاش کروں گا جس نے اُسے قیدسے نکالا ہے اور اُسے سخت سزا دُوں گا۔جب حضرت سعدؓ نے یہ الفاظ کہے تو اُن کی بیوی کو غصہ آگیا اور اُس نے کہا،تجھے شرم نہیں آتی کہ آپ تُو درخت پر عرشہ بناکر اس پر بیٹھا ہوا ہے او راس شخص کو تُونے قید کیا ہوا ہے جو دشمن کی فوج میں بے دریغ گھس جاتا ہے او راپنی جان کی پروا نہیں کرتا۔میں نے اُس شخص کو قید سے چُھڑایا تھا تم جو چاہو کرلو۔3
غرض عورتوں نے اسلام میں بڑے بڑے کام کئے ہیں۔ لیکن یہ صرف اسلام کی ہی بات نہیں اِسلام سے پہلے مذاہب کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ گواُن مذاہب نے عورتوں کو اُن کے حقوق نہیں دئیے مگر انہوں نے اپنے مذہبوں کے لئے بڑے بڑے کام کئے ہیں۔ مثلاً سب سے پرانا نبی ہندوستان کا کرشنؑ ہے۔ تم نے شاید سنا ہوگا کہ کرشنؑ کی گوپیاں ہوتی تھیں جواُن کے اردگرد رہتی تھیں۔ہندو تصویریں بناتے ہیں تو کرشن جی کو ایک بچے کی شکل میں دکھاتے ہیں اور پرانے قصوں کے متعلق یہ قاعدہ ہے کہ وہ قصّہ کو مزیدار بنانے کے لئے شکلیں بدلتے رہتے ہیں۔بہرحال کرشن جیؑ کے متعلق جو تصویریں عام طور پر ملتی ہیں اُن میں یہ دکھایا جاتاہے کہ کرشن جی درخت پر چڑھے ہوئے ہیں اوراس درخت کے اردگرد عورتیں کھڑی ہوئی ہیں۔ انہوں نے ہاتھ میں مکھن اٹھایا ہوا ہے۔کرشن جی درخت سے نیچے اُترتے ہیں اور اُن سے مکھن چھین کر لے جاتے ہیں۔درحقیقت تصویری زبان میں اس میں ایک بھاری حکمت بیان کی گئی تھی اور وہ حکمت یہ ہے کہ کسی مذہبی قوم کا مکھن اس کے نومسلم ہوتے ہیں۔ جس طرح دودھ کو بلونے سے مکھن بنتا ہے اِسی طرح جب انسانی دماغ کو بلوایا جائے او رسچ اس کے اندر ڈالا جائے تو اس کے نتیجہ میں وہ صداقت کو قبول کرلیتا ہے او رپھر یہ مکھن نبی کے ہاتھ میں جاتا ہے او روہ اسے اپنی جماعت میں داخل کرلیتا ہے۔ پس ان تصویروں میں بتایا گیا ہے کہ کرشن جیؑ کے وقت میں عورتیں تبلیغ کیا کرتی تھیں اور پھر جولوگ صداقت کو قبول کرلیتے تھے انہیں ساتھ لے کر وہ کرشن جیؑ کے پاس آتیں اور وہ انہیں اپنی جماعت میں داخل کرلیتے۔ گو ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ عورتوں کو کرشن جی کا مُرید بناتی تھیں یا مردوں کو بناتی تھیں۔ مگر ان تصویروں سے پتہ لگتا ہے کہ اس زمانہ کی عورتیں اتنی قربانی کرنے والی تھیں کہ وہ رات دن کرشن جی کا پیغام دنیا کو پہنچاتی رہتی تھیں او را سکے نتیجہ میں جو لوگ ایمان لے آتے تھے انہیں ساتھ لیکر کرشن جیؑ کے پاس آتی تھیں اور وہ انہیں اپنی جماعت میں داخل کرلیتے تھے۔غرض حضرت کرشنؑ کے زمانہ میں بھی عورتوں نے مذہب کے لئے بڑی قربانیاں کی ہیں۔
پھر ہم اُن نبیوں کی طرف آتے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے۔اسلام کا مرکز مکہ مکرمہ ہے او رمسلمانوں کی واحد مسجد جو سب سے پُرانی ہے وہ خانہ کعبہ ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے۔ا س کے بننے کا جو ذکر آتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی حضرت ہاجرہ کا بڑا حصہ ہے۔حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری بیوی تھیں سارہ پہلی بیوی تھیں۔ سارہ، ہاجرہ سے کسی بات پر جھگڑپڑیں تو انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ اگر ہاجرہ اس گھر میں رہیں تو میرااُن سے نباہ نہیں ہوسکے گا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ جھگڑا دیکھ کر سخت صدمہ ہوا اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی کہ یا اللہ! میرے گھر کا امن بربادہورہا ہے،میری پہلی بیوی دوسری بیوی کی موجودگی میں میرے گھر میں رہنے سے انکار کررہی ہے اور تُو نے اس کی اولاد سے بڑے وعدے کئے ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے کہا جیسے تیری پہلی بیوی سارہ کہتی ہے اُس میں تیرے خاندان کی بھلائی ہے۔ تُو ہاجرہ او راس کے بیٹے اسماعیل کو جنگل میں چھوڑ آ 4 چنانچہ آپ حضرت ہاجرہ اور اُس کے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کو لے کر (اسلامی روایات کے مطابق)مکّہ کی طرف گئے۔وہاں پہنچ کر آپ نے ایک تھیلی کھجوروں کی او رایک مشکیزہ پانی کا اُن کے پاس رکھا او رخود واپس آگئے۔ابھی وہاں زمزم کا چشمہ نہیں نکلا تھا ا ور اس بے آب وگیاہ وادی میں پانی کا نام ونشان تک نہ تھا۔قافلے بھی پیاس کی وجہ سے وہاں سخت تکلیف اُٹھاتے تھے۔حضرت ہاجرہ نے جب دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس بیابان میں اُنہیں او ران کے اکلوتے بیٹے کو چھوڑ کر واپس جارہے ہیں تو وہ آپ کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہنے لگیں ابراہیم! تُو مجھے اور میرے بچے کو یہاں کس لئے چھوڑ چلے ہو جہاں نہ کھانے کو کچھ ملتا ہے اور نہ پینے کے لئے پانی ہے۔ تم ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجوریں ہمیں دے چلے ہو یہ بھلا کتنے دن جائیں گی اس کے بعد ہم کیا کرینگے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس نظارہ کی وجہ سے کہ آپ اپنا بڑا اور اکلوتابیٹا جو بڑھاپے میں پیدا ہوا تھاجبکہ آپ کی عمر سو سال کی تھی بیابان میں چھوڑ کر جارہے ہیں،رقّت آگئی۔آپ نے سمجھا کہ اگر میں نے ہاجرہ کو زبان سے جواب دیا تو میری آواز بھرّا جائے گی اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں گے اس لئے آپ نے آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھادیا جس کا مطلب یہ تھاکہ ہاجرہ!میں تجھے اور تیرے بیٹے کو کسی سگندلی کی وجہ سے یہاں نہیں چھوڑ رہا بلکہ مجھے ایسا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔حضرت ہاجرہ نے آپ کی بات کوسمجھ لیا او رکہا اِذًا لَّا یُضَیِّعُنَا۔5 اگر آپ ہمیں خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت یہاں چھوڑ چلے ہیں تو ہمیں کوئی فِکر نہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ یہ کہہ کر حضرت ہاجرہ اس جگہ واپس آگئیں جہاں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو لٹایا ہوا تھا اور ایک دفعہ بھی پیچھے مُڑکر اپنے خاوند کا منہ نہیں دیکھا۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام درد او رغم کی وجہ سے بار بار مُڑ مُڑ کر دیکھتے جاتے تھے۔گویا حضرت ہاجرہ نے جو صبر کا نمونہ دکھایا وہ حضرت ابراہیمؑ کے نمونہ سے بڑھ کر تھا۔آپ تو بار بار مُڑ مُڑ کر دیکھتے تھے لیکن حضرت ہاجرہ نے ایک دفعہ بھی مُڑ کر نہ دیکھا اور کہا اگر خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ہمیں یہاں چھوڑ دیا جائے تو وہ خود ہماری حفاظت کرے گا ہمیں کیا پروا ہے۔ چنانچہ آپ وہاں رہیں اور پھر اسی جگہ اللہ تعالیٰ نے پانی کا چشمہ جاری کردیا۔پانی کا چشمہ نکل آنے کی وجہ سے قافلے آپ کی اجازت سے وہاں ٹھہرتے اور چشمہ کا پانی استعمال کرتے۔بعد میں ایک قبیلہ وہاں آباد ہوگیا اور اس نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو اپنا سردار بنا لیا۔ پھر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان نبی پیدا ہوا۔
مسلمان عورتوں کی قُربانیاں
تو دیکھوحضرت ابراہیم علیہ السّلام کے زمانہ میں بھی عورتوں نے مذہب کی
خاطر بڑی قربانیا کی ہیں۔کرشنؑ کے زمانہ میں بھی تبلیغ کا اہم کام کیا ہے اور اسلام کے ابتدائی دَور میں بھی عورتوں نے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دئیے ہیں او ربعد میں بھی عورت کا حصہ بڑھتا چلا گیا۔دیکھو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپؐ کی سب سے پہلے امداد جس نے کی وہ ایک عورت ہی تھی۔اسلام کی تبلیغ کے لئے سب سے پہلے روپے کی ضرورت تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی پیسہ نہ تھا۔اُس وقت حضرت خدیجہؓ نے اپنی تمام دولت آپؐ کے سپرد کردی او رکہا آپ جس طرح چاہیں اُسے استعمال کریں۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی نوجوان دین کے لئے زندگی وقف کرتا ہے تو اُسے کوئی شخص اپنی لڑکی دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ ماں باپ کہتے ہیں ہم اپنی لڑکی اُسے نہیں دیں گے،ہماری لڑکی کھائے گی کہاں سے ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بچپن ہی سے واقفِ زندگی تھے او رآپ کے پاس کوئی روپیہ بھی نہیں تھا۔ حضرت خدیجہؓ جو ایک بڑی مالدار خاتون تھیں،بیوہ تھیں،ان سے کسی سہیلی نے کہا،تم شادی کیوں نہیں کرلیتیں۔ انہوں نے کہا،کس سے کروں؟اگر کوئی دیانتدار آدمی مِل جائے تو شادی کرلُوں۔اِس نے کہا،محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)سے بڑھ کر دیانتدار اور کون ہے۔تم نے خود اس کی دیانت کو دیکھ لیا ہے۔حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو شام کی طرف تجارتی مال دے کر بھیجا تھا اور اس سفر میں آپؐ کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔حضرت خدیجہؓ نے محسوس کیا تھا کہ یہ نفع منڈیوں کے حالا ت کی وجہ سے نہیں بلکہ امیرِ قافلہ کی نیکی اور دیانت کی وجہ سے ہے۔آپ کے غلام مَیسرہ نے بھی آپ کے اس خیال کی تائید کی تھی۔بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ کی دیانتداری کا حضرت خدیجہؓ پر بڑا اثر تھا۔جب اُس نے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کرنے کی تحریک کی تو آپ نے فرمایا اگر وہ راضی ہوجائیں تو میں اُن سے شادی کرلوں گی۔اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر25سال کی تھی اور حضرت خدیجہؓ کی عمر40سال کی تھی گویا آپ حضرت خدیجہؓ سے15سال چھوٹے تھے۔حضرت خدیجہؓ کی اس سہیلی نے جس نے شادی کی تحریک کی تھی کہا اگر آپ اجازت دیں تو میں اس بارہ میں کسی سے بات کروں۔ حضرت خدیجہؓ نے کہا میں راضی ہوں او رمیری طرف سے تمہیں اس بارہ میں بات کرنے کی اجازت ہے۔ چنانچہ وہ عورت حضرت خدیجہؓ کے رشتہ داروں کے پاس گئی۔انہوں نے کہا اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) راضی ہوجائے تو ہمیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں۔ پھر وہ عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اُس نے دریافت کیا کہ آپؐ شادی کیوں نہیں کرتے؟آپؐ نے فرمایا میرے پاس کوئی مال نہیں ہے جس سے میں شادی کروں۔اُس نے کہا اگر یہ مشکل دور ہوجائے تو پھر۔آپؐ نے فرمایا وہ کون عورت ہے؟اس نے کہاخدیجہؓ۔آپؐ نے فرمایا میں اُس تک کس طرح پہنچ سکتا ہوں؟اس نے کہا یہ میرے ذمّہ رہا۔آپؐ نے فرمایا مجھے منظور ہے۔ تب حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کے چچا کی معرفت شادی کا پختہ فیصلہ کرلیا اور آپ کی شادی حضرت خدیجہؓ سے ہوگئی۔6
شادی کے بعد جب حضرت خدیجہؓ نے محسوس کیا کہ آپ کا حسّاس دل ایسی زندگی میں کوئی خاص لُطف نہیں پائے گا کہ آپؐ کی بیوی مالدار ہو اورآپؐ ا س کے محتاج ہوں تو انہوں نے ارادہ کرلیا کہ وہ اپنی تمام دولت آپؐ کی خدمت میں پیش کردیں گی تا کہ جب او رجیسے آپؐ چاہیں اُسے خرچ کرسکیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا۔میرے چچا کے بیٹے!(اُس وقت آپؐ ابھی رسالت کے منصب پر فائز نہیں ہوئے تھے اور عرب میں قاعدہ ہے جب بیویاں اپنے خاوند کو مخاطب کرتی ہیں تو چچا کا بیٹا کہا کرتی ہیں)میں اپنا سارا مال اور غلام آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہوں۔آپ میری دلجوئی کریں او رمیری اس پیشکش کو قبول فرمالیں۔آپؐ نے فرمایا خدیجہ!منہ سے بات کہہ دینا آسان ہوتا ہے مگر بعد میں اس پر قائم رہنا مشکل ہوتاہے۔تمہیں پتہ ہے میں غلامی کا سخت مخالف ہوں اور تمہارے غلام ہیں اگر تم نے وہ سارے غلام میرے سپرد کر دیئے تو مَیں اُنہیں فوراً آزاد کر دوں گا۔ اُس زمانہ میں بڑی جائیداد غلام ہی ہوتی تھی۔ آپ نے فرمایا خدیجہ! اگر میں نے تمہارے سب غلاموں کو آزاد کر دیا تو تم خفا تو نہیں ہوگی اور اپنے عہد پر قائم رہوگی؟ حضرت خدیجہؓ نے فرمایا آپ جس طرح چاہیں کریں مجھے کوئی اعتراض نہیں میں آپ کی خوشی میں ہی اپنی خوشی محسوس کرتی ہوں۔ چنانچہ آپؐ نے خانہ کعبہ میں لوگوں کو جمع کیااور اعلان کیا کہ اے لوگو!گواہ رہو آج خدیجہؓ نے اپنا سارا مال مجھے دے دیا ہے اور مجھے اختیار دیا ہے کہ میں جیسے چاہوں استعمال کروں۔سو آج میں نے اس کے سب غلام آزاد کردئیے ہیں اب وہ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں۔ گویا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مشن کے لئے روپیہ کی ضرورت تھی تو اُس وقت وہ روپیہ ایک عورت نے ہی آپؐ کو مہیا کیا۔
پھر آپؐ کو عبادت کا شوق ہوا تو آپؐ شہر سے تین چار میل دُور ایک پہاڑی کی چوٹی پر پتھروں کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سے غار میں جسے حرا کہتے ہیں عبادت کے لئے تشریف لے جاتے۔حضرت خدیجہؓ آپؐ کو تین چار دن کے لئے کھانا دے دیتیں جو ستوؤں اور کھجوروں پر مشتمل ہوتا تھا7 جب وہ ختم ہوجاتا تو آپ واپس آتے او رحضرت خدیجہؓ پھر تین چار دن تک کی خوراک دے دیتیں او رآپ حرا میں واپس تشریف لے جاتے۔
پھر جب آپؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ بہت گھبرائے۔آپؐ نے خیال کیا کہ انسان چاہے کتنی بھی کوشش کرے خداتعالیٰ کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی خداتعالیٰ کے حق کو ادا نہ کرسکوں او راس طرح اس کی ناراضگی کا مورد بنوں۔آپؐ حضرت خدیجہؓ کے پاس آگئے اور فرمایا۔خدیجہ!آج جبریلؑ آیا ہے اور اُس نے مجھے خداتعالیٰ کا یہ حکم دیا ہے کہ جاؤ اور ساری دُنیا کو خُدائے واحد کی تبلیغ کرو لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہوجائے۔اس بات کو سنتے ہی فوراً حضرت خدیجہؓ نے کہا میرے چچا کے بیٹے!آپ گھبراتے کیوں ہیں۔کَلَّا وَاللہِ لَایُخْزِیْکَ اللہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَ تَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَ تَقْرِی الضَّیْفَ وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ 8 خدا کی قسم!یہ کلام خداتعالیٰ نے اس لئے آپ پر نازل نہیں کیا کہ آپ ناکام ونامراد ہوں اور خداتعالیٰ آپ کو رُسوا کردے خداتعالیٰ ایسا کب کرسکتا ہے۔آپ تو وہ ہیں کہ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں اور بے یارومددگار لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں اور وہ اخلاق جو مُلک سے مِٹ چکے ہیں وہ آپ کی ذات کے ذریعہ دُنیا میں دوبارہ قائم ہورہے ہیں۔مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور سچی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ کیاایسے انسان کو خدا تعالیٰ کسی ابتلاء میں ڈال سکتا ہے؟اس نے اگر آپ پر کلام نازل کیا ہے تو اس لئے نہیں کہ آپ کو کسی دُکھ میں ڈالے بلکہ اس لئے نازل کیا ہے کہ وہ آپ کی عزّت بڑھائے۔
پھر سب سے پہلے جو آپؐ کے دعویٰ پر ایمان لائیں وہ حضرت خدیجہؓ ہی تھیں۔ گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی بھی ایک عورت ہی تھی۔مؤرخین نے اس بات پر بڑی بحث کی ہے کہ سب سے پہلے کون مسلمان ہوا۔ بعض نے کہا ہے کہ سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہؓ تھیں بعض نے حضرت ابوبکرؓ کو پہلا مسلمان قرار دیا ہے اور شیعہ حضرت علیؓ کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے ایمان لائے۔ محققین نے لکھا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ ایمان لائیں۔جواں سال مردوں میں سے حضرت ابوبکرؓ سب سے پہلے ایمان لائے۔بچوں میں سے حضرت علیؓ کو سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوئی اور غلاموں میں سے حضرت زیدؓ پہلے ایمان لائے۔ بہرحال اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں پہلا مالی بوجھ اُٹھانے والی ایک عورت ہی تھی جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس قدر خدمت کی کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ان کی خدمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کی محبت وفات کے بعد بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جوش مارتی رہی۔جب بھی کوئی بات ہوتی آپ فرماتے خدیجہؓ نے یوں کہا تھا، خدیجہؓ یوں کیا کرتی تھی۔ او راس کی وجہ سے آپؐ کی نوجوان بیویاں چِڑ جایا کرتی تھیں مثلاً حضرت عائشہؓ جوان تھیں اور پھر آپؐ کی خدمت بھی کرتی تھیں۔جب بات بات پر آپؐ حضرت خدیجہؓ کاذکر فرماتے تو وہ بعض دفعہ چِڑ جایا کرتیں۔ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے کہا یا رسول اللہ!آپ کوکیا ہوگیا ہے!خدیجہؓ کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو جوان اورخدمت کرنے والی بیویاں دی ہیں مگرپھر بھی آپ ہر وقت اُسی بُڑھیا کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ!تجھے معلوم نہیں خدیجہؓ نے میرا ساتھ کس وفاداری کے ساتھ دیا تھا۔ ہر مصیبت میں اس نے میرا ساتھ دیا اور ہر مشکل کے وقت اس نے میرے لئے قربانی کی، کیا میں اُسے بھول سکتا ہوں؟تمہارا مقام اپنی جگہ ہے اور خدیجہؓ کا مقام اپنی جگہ ہے۔اس نے میری اُس وقت خدمت کی جب ساری دنیا مجھے چھوڑ چکی تھی۔وہ میرے دشمنوں کے مقابلہ میں میرے ساتھ پہاڑ بن کر کھڑی رہی۔9
پھر حضرت خدیجہؓ کی خدمات کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قدر اثر تھا کہ ایک دفعہ ان کی بہن ملنے کے لئے آئیں۔اُن کی آواز حضرت خدیجہؓ کی آواز سے ملتی تھی۔ان کی آواز جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں پڑی تو آپؐ کو یوں معلوم ہوا کہ گویا حضرت خدیجہؓ آگئی ہیں۔ تاریخ میں آتا ہے کہ آپؐ اس کی آواز سُن کر بے قرار ہوگئے او راس بے کلی کی حالت میں فرمانے لگے۔ہائے میری خدیجہؓ!ہائے میری خدیجہؓ! یعنی میری خدیجہ کہاں سے آگئی!لوگوں نے کہا یا رسول اللہ!خدیجہؓ کو تو فوت ہوئے کئی سال گزر چکے ہیں یہ اُن کی بہن ہے۔10 اب دیکھ لو!حضرت خدیجہؓ کی وفات کے پندرہ سولہ سال بعد بھی ان کی آواز کے ساتھ ملتی جلتی آواز سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بے تاب ہوکر ہائے میری خدیجہ! کہہ اُٹھنا اس بات کی کتنی واضح دلیل ہے کہ ان کی خدمات کا آپؐ کے دل پر گہرا اثر تھا او روہ لمباعرصہ گزر جانے کے باوجود بھی آپؐ کے دل سے محو نہیں ہوا تھا۔ تو اسلا م کی ابتداء میں بھی عورتوں نے ہی زیادہ خدمات کی ہیں۔
جب آپؐ نے دعویٰ نبوت کیا تو سارے مکہ والے آپؐ کے مخالف ہوگئے۔اس وقت اگر آپؐ کو کہیں پناہ ملتی تھی تو آپؐ کی پھوپھی کی لڑکی اُمِّ ہانی کے گھر میں ملتی تھی۔پُرانے صحابہ کہا کرتے تھے کہ ہم اُمّ ہانی کے گھر جاکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین سیکھا کرتے تھے۔ غرض پہلی ہستی جس نے آپؐ کی مالی خدمت کی اور غارِ حرا میں عبادت کے زمانہ میں آپؐ کو کھانا وغیرہ باقاعدگی سے پہنچایا وہ ایک عورت ہی تھی اور دعویٰ نبوّت کے بعد جب سارا مکّہ آپؐ کا مخالف ہوگیا تھا تو جس نے آپؐ کو پناہ دی وہ عورت ہی تھی۔
پھر تیسرا نازک ترین وقت آپؐ کی زندگی میں وہ آیا جب عرب کے تمام قبائل نے متحد ہوکر ایک بڑا لشکر مدینہ پر چڑھائی کے لئے بھیجا۔اس وقت مدینہ کے بعض یہودی قبائل بھی جو بظاہر مسلمانوں کے حلیف تھے دشمن کے ساتھ مل گئے تھے اس وقت بھی ایک عورت ہی تھی جس نے ہمت سے کام لیا اور دشمن کے حملہ کو ناکام کردیا۔جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس موقع پر مدینہ کے یہودی بھی مُشرکینِ مکّہ کے ساتھ مِل گئے تھے اور باہر سے بیس سے چوبیس ہزار کے درمیان تعداد میں دشمن کا لشکر حملہآور ہورہاتھا۔ اس کے مقابلہ میں جو مسلمان تھے اُن کی تعداد صرف بارہ سو تھی۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہودیوں کی غدّاری کا علم ہوا تو چونکہ مستورات ان یہودیوں کے اعتبار پر اُس علاقہ کی طرف رکھی گئی تھیں جدھر یہودی قبائل کے قلعے تھے اور اب وہ بغیر حفاظت کے تھیں اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت ضروری سمجھی اور بارہ سو کے قریب لشکر میں سے پانچ سو سپاہیوں کو عورتوں کی حفاظت کے لئے مقرر فرمادیا لیکن اس سے پہلے تمام عورتیں غیر محفوظ تھیں۔ایک دن دشمن نے شدید حملہ کیا جس کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہؓ اطمینان سے نماز بھی نہ پڑھ سکے۔دشمن سامنے سے حملہ کررہا تھا اور یہودی اس بات کی تاڑ میں تھے کہ کوئی موقع مل جائے تو بغیر مسلمانوں کے شبہات کو اُبھارنے کے وہ مدینہ کے اندر گھس کر مسلمان عورتوں اور بچوں کو قتل کردیں۔ چنانچہ ایک دن یہودیوں نے ایک جاسوس بھیجا تا کہ وہ معلوم کرے کہ عورتیں اور بچے اکیلے ہی ہیں یا خاصی تعداد سپاہیوں کی اُن کی حفاظت کے لئے مقرر ہے۔ جس خاص احاطہ میں خاص خاص خاندانوں کو جن کو دشمن سے زیادہ خطرہ تھا جمع کردیا گیا تھااس کے پاس اس جاسوس نے منڈلانا شروع کردیا اور چاروں طرف دیکھنا شروع کیاکہ آیا مسلمان سپاہی اردگرد کہیں پوشیدہ تو نہیں۔وہ اس تاڑ میں ہی تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے اُسے دیکھ لیا۔ اتفاقاً اُس وقت ایک ہی مسلمان وہاں تھا جو بیمار اور کمزور دل تھا۔ حضرت صفیہؓ نے اُسے کہا کہ یہ آدمی دیر سے عورتوں کے علاقہ میں پھر رہا ہے اور چاروں طرف دیکھتا پھرتا ہے یہ یقیناً جاسوس ہے، تم اس کا مقابلہ کرو۔ لیکن اس کمزور دل اور بیمار صحابی نے مقابلہ کرنے سے انکار کردیا اور کہا مجھے ڈر آتا ہے۔ تب حضرت صفیہؓ نے خود ایک چوب اتاری اور اس جاسوس کی نظر بچاکر اس زور سے اُسے ماری کہ وہ بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ جب وہ یہودی بیہوش ہوکر گرا تو وہ ننگا ہوگیا۔حضرت صفیہؓ نے اس صحابی سے کہا اب ذرا اس پر کپڑا تو ڈال دو لیکن اس صحابی کا دل بہت کمزور تھا وہ پھر بھی کہنے لگا مجھے ڈرآتا ہے کہ کہیں یہ شخص زندہ ہی نہ ہو اور مجھے مار نہ دے۔ آخرکار حضرت صفیہؓ نے ہی جُرأت کی۔ آپ اپنی آنکھوں پر کپڑا ڈال کر ایک طرف سے گئیں اور اُس یہودی پر کپڑا ڈالا اور اس کے بعد اس کی مشکیں کَس دیں۔11
پھر جب جنگِ اُحد کے موقع پر دشمن کا ایک ریلا آیا اور مسلمان لشکر کے پاؤں اُکھڑ گئے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے دُور تک دھکیل دئیے گئے اور صرف چند مسلمان آپؐ کے پاس رہ گئے اُس وقت دشمن کی طرف سے کچھ پتھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خَود پر لگے جس کی وجہ سے خَودکاکیل آپؐ کی پیشانی میں گھس گیا اور آپ بیہوش ہوکر مسلمانوں کی لاشوں پر گر پڑے۔اس کے بعد بعض اَور مسلمانوں کی لاشیں آپؐ کے جسمِ مبارک پر گریں او رمسلمانوں نے سمجھا کہ آپؐ شہید ہوگئے ہیں۔12اُس وقت بھی مسلمان عورتیں ہی تھیں جنہوں نے اپنی وفاداری کا ایسا ثبوت پیش کیا کہ جس کی مثال دنیا میں ملنی مشکل ہے۔
اُحد کا میدان مدینہ سے آٹھ نو میل کے فاصلہ پر تھا۔ جب مدینہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر پہنچی تو عورتیں بے تحاشا روتی اور بلبلاتی ہوئی شہر سے باہر نِکل آئیں اور میدانِ جنگ کی طرف دوڑ پڑیں۔ اکثر عورتوں کو رستہ میں آپؐ کی سلامتی کی خبر مل گئی اور وہ وہیں ٹھہر گئیں مگر ایک عورت دیوانہ وار اُحد تک جا پہنچی۔اس عورت کا خاوند ،بھائی اور باپ اُحد میں مارے گئے تھے اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔ جب وہ مسلمان لشکر کے قریب پہنچی تو اس نے ایک صحابی سے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟چونکہ خبر دینے والا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مطمئن تھا اس لئے اس نے اُس عورت سے کہا۔ بی بی! افسوس ہے کہ تمہارا باپ اس جنگ میں مارا گیا ہے۔اس پر اُس عورت نے کہا تم عجیب ہو۔میں تو پوچھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟اور تم یہ خبر دیتے ہو کہ تیرا باپ مارا گیا ہے۔ اِس پر اُس صحابی نے کہا بی بی!مجھے افسوس ہے کہ تیرا خاوند بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے۔ اِس پر عورت نے پھر کہا میں نے تم سے اپنے خاوند کے متعلق دریافت نہیں کیا میں تو یہ پوچھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاکیا حال ہے؟ اِس پر اُس صحابی نے اُسے پھر کہا۔بی بی!مجھے افسوس ہے کہ تیرا بھائی بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے۔ اُس عورت نے بڑے جوش سے کہا میں نے تم سے اپنے بھائی کے متعلق دریافت نہیں کیا۔میں تو تم سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پُوچھ رہی ہوں تم یہ بتاؤ کہ آپؐ کا کیا حال ہے؟جب لوگوں نے دیکھا کہ اُسے اپنے باپ،بھائی اور خاوند کی موت کی کوئی پروا نہیں،وہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت دریافت کرنا چاہتی ہے تو وہ اس کے سچے جذبات کو سمجھ گئے اور انہوں نے کہا۔بی بی!رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خیریت سے ہیں۔اس پر اُس نے کہا۔مجھے بتاؤ وہ کہاں ہیں؟اور پھر دوڑتی ہوئی اُس طرف گئی جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے اور وہاں پہنچ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہوکر آپؐ کا دامن پکڑ کر کہنے لگی۔یارسول اللہ!میری ماں اور باپ آپ پر قربان ہوں جب آپ سلامت ہیں تو کوئی مرے مجھے کیا پروا ہے مجھے تو صرف آپ کی زندگی کی ضرورت تھی اگر آپ زندہ ہیں تومجھے کسی اَور کی وفات کا فکر نہیں۔13
اب دیکھو اس عورت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر عشق تھا۔ لوگ اُسے یکے بعد دیگرے باپ،بھائی اور خاوند کی وفات کی خبر دیتے چلے گئے لیکن وہ جواب میں ہر دفعہ یہی کہتی چلی گئی کہ مجھے بتاؤ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟غرض یہ بھی ایک عورت ہی تھی جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر عشق کا مظاہرہ کیا۔
پھر اسی قسم کی فدائیت کی ایک اور مثال بھی تاریخوں میں ملتی ہے ۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے میدان سے واپس تشریف لائے تو مدینہ کی عورتیں او ربچے شہر سے باہر استقبال کے لئے نکل آئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ ایک پُرانے اور بہادر انصاری صحابی سعدؓ بن معاذ نے پکڑی ہوئی تھی اور وہ فخر سے آگے آگے چلے آرہے تھے۔شہر کے پاس انہیں اپنی بُڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہوچکی تھی آتی ہوئی ملی۔ اُحد میں اس کا ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔اس بُڑھیا کی آنکھوں میں موتیا بند اُتر رہا تھا اور اس کی نظر کمزور ہو چکی تھی۔وہ عورتوں کے آگے کھڑی ہوگئی اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگی اور معلوم کرنے لگی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ سعدؓبن معاذ نے سمجھا کہ میری ماں کو اپنے بیٹے کے شہید ہونے کی خبر ملے گی تو اُسے صدمہ ہوگا۔اس لئے انہوں نے چاہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے حوصلہ دلائیں او رتسلّی دیں۔ اس لئے جونہی اُن کی نظر اپنی والدہ پر پڑی انہوں نے کہا،یا رسو ل اللہ میری ماں! یارسولَ اللہ میری ماں! آپؐ نے فرمایا۔بی بی! بڑا افسوس ہے کہ تیرا ایک لڑکا اس جنگ میں شہید ہوگیا ہے۔بڑھیا کی نظر کمزور تھی اس لئے وہ آپؐ کے چہرہ کو نہ دیکھ سکی۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھتی رہی آخر کار اس کی نظر آپؐ کے چہرہ پر ٹِک گئی۔وہ آپؐ کے قریب آئی اور کہنے لگی یارسول اللہ!جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا ہے تو آپ سمجھیں کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھالیا۔14
اب دیکھو وہ عورت جس کے بڑھاپے میں عصائے پیری ٹوٹ گیا تھا۔کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو میں اس غم کو بھون کر کھا جاؤں گی۔ میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہوگی بلکہ یہ خیال کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اورآپؐ کی حفاظت کے سلسلہ میں میرے بیٹے نے اپنی جان دی ہے میری قوت کو بڑھانے کا موجب ہوگا۔ تو دیکھو عورتوں کی یہ عظیم الشّان قربانی تھی جس سے اسلام دُنیا میں پھیلا۔
اِس زمانہ میں بھی دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ عورتوں کی قربانیاں دین کی خاطر کم نہیں ہیں۔1920ء میں میں نے جب مسجد برلن کے لئے چندہ کی تحریک کی تو جماعت کی عورتوں نے جو اُس وقت تعداد میں اتنی بھی نہیں تھیں جتنی تم یہاں بیٹھی ہو۔اپنے زیور اتار اتار کر رکھ دئیے اور کہا انہیں بیچ کر رقم حاصل کرلیں او رمسجد فنڈ میں دے دیں۔٭
غرض اُس وقت کی عورتوں نے اس قدر قربانی کی تھی کہ انہوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ مسجد کے لئے جمع کردیا او راس چیز کا غیروں پر گہرا اثر ہوا۔وہ جب بھی احمدیوں سے ملتے تو اس چیز کا ذکر کرتے او رکہتے کہ ہم پر اس چیز کا بہت اثر ہے۔اب تم اُن سے بہت زیادہ ہو۔ اگر تم میں وہی ایمان پیدا ہوجائے جو 1920ء کی عورتوں کے اندر تھا تو تم ایک لاکھ نہیں پانچ لاکھ روپیہ ایک ماہ میں جمع کرسکتی ہو لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ایمان پیدا کیا جائے۔
جب تقسیمِ مُلک ہوئی اور ہم ہجرت کرکے پاکستان آئے تو جالندھر کی ایک احمدی عورت مجھے ملنے کے لئے آئی۔رتن باغ میں ہم مقیم تھے وہیں وہ آکر ملی اور اپنا زیور نکال کر کہنے لگی کہ حضور! میرا یہ زیور چندہ میں دے دیں۔ میں نے کہا بی بی!عورتوں کو زیور کا بہت خیال ہوتا ہے تمہارے سارے زیور سکھوں نے لُوٹ لئے ہیں یہی ایک زیور تمہارے پاس بچا ہے تم اسے اپنے پاس رکھو۔اِس پر اُس نے کہا حضور!جب میں ہندوستان سے چلی تھی تو میں نے عہد کیا تھا کہ اگر میں امن سے لاہور پہنچ گئی تو میں اپنا یہ زیور چندہ میں دے دُوں گی۔ اگر سکھ باقی زیورات کے ساتھ یہ زیور بھی چھین کر لے جاتے تو میں کیا کرسکتی تھی۔اب میں بہرحال یہ زیور چندہ میں دُوں گی۔آپ مجھے اسے اپنے پاس رکھنے پر مجبور نہ کریں۔ چنانچہ اس عورت نے اپنا زیور چندہ میں دے دیا۔
٭ اس تقریر کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ جب میں نے یہ تحریک کی تھی تو اُمِّ طاہر کی والدہ زندہ تھی۔انہوں نے اُسی وقت اپنی بیٹیوں او ربہوؤں کو بلایا اور کہا کہ سب زیور اُتار کر رکھ دو میں یہ سب زیور مسجد برلن میں چندہ کے طور پر دُوں گی چنانچہ وہ سب زیور بیچ کرمسجد برلن کے چندہ میں دے دیا گیا۔
اب بھی وہ عورت زندہ ہے۔ مشرقی پنجاب سے جو عورتیں پاکستان آئی تھیں ان میں سے ہزاروں ایسی ملیں گی جو لُٹی لٹائی پاکستان پہنچی ہیں۔کئی جگہوں پر تو سکھوں نے اُن سے زیور اوردوسری چیزیں چھین لیں اور بعض جگہوں پر خود انہوں نے ڈر کے مارے اپنے زیور اور نقدی پھینک دی تاکہ اُن کے لالچ سے سِکھ ان پر حملہ آور نہ ہوں اوروہ امن سے پاکستان پہنچ جائیں۔مگر اس عورت کا صرف ایک ہی زیور بچا او روہ بھی اس نے اسلام کی خدمت کے لئے پیش کردیا۔
غرض اسلام میں عورتوں نے ہمیشہ سے قربانیاں کی ہیں اور اب بھی کرتی چلی جاتی ہیں اور اگلے جہان میں بھی اسلام نے عورتوں کے درجہ کو بلند کیا ہے۔ چنانچہ اسلام کہتا ہے کہ جو عورت مومن ہو،نمازوں کی پابند ہو،زکوٰۃ دیتی ہو،ہم اُسے جنّت میں اونچے مقام پر رکھیں گے۔عیسائی کہتے ہیں کہ اسلام میں عورت کی رُوح کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ میں جب یورپ گیا تو مجھ پر بھی ایک عیسائی نے یہی اعتراض کیا میں نے اُسے جواب دیا کہ یہ الزام بالکل غلط ہے اسلام عوت کے حقوق کو کلّی طور پر تسلیم کرتا ہے بلکہ اُس نے روحانی اور اُخروی انعامات میں بھی عورت کو برابر کا شریک قرار دیا ہے۔اِس پر اُس نے شرمندہ ہوتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ حقیقت یہی ہےکہ اسلام پر جو الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ عورت میں رُوح کا قائل نہیں ،غلط ہے۔
پس اسلام کی تاریخ ہی نہیں دوسرے مذاہب کی تاریخ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ عورتوں نے مذہب کی بہت بڑی خدمت کی ہے اورعورتیں وہ تمام کام کرسکتی ہیں جو مرد کرسکتے ہیں۔وہ تبلیغ بھی کرسکتی ہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ جب لڑائی کا موقع آیا تو وہ لڑائی بھی کرتی رہی ہیں۔
جب قادیان میں ہندوؤں او رسکھوں نے حملہ کیاتو شہر کے باہر کے ایک محلہ میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیاگیا او ران کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی۔اس عورت نے مردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا۔ان عورتوں کے متعلق یہ خبریں آئی تھیں کہ جب سِکھ اور ہندو حملہ کرتے تو وہ عورتیں ان دیواروں پر چڑھ جاتیں جو حفاظت کی غرض سے بنائی گئی تھیں اور ان سکھوں او رہندوؤں کو جو تلواروں اور بندوقوں سے اُن پر حملہ آور ہوتے تھے بھگا دیتی تھیں۔ اورسب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی اور اُن کی سردار بنائی گئی تھی۔ اب بھی وہ عورت زندہ ہے لیکن اب وہ بُڑھیا اور ضعیف ہوچکی ہے وہ عورتوں کو سکھاتی تھی کہ اِس اِس طرح لڑنا چاہئیے او رلڑائی میں ان کی کمان کرتی تھی۔
غرض کوئی کام بھی ایسا نہیں جو عورت نہیں کرسکتی۔ وہ تبلیغ بھی کرسکتی ہے، وہ پڑھا بھی سکتی ہے ،وہ لڑائی میں بھی شامل ہوسکتی ہے او راگر مال اور جان کی قربانی کا سوال ہو تو وہ ان کی قربانی بھی کرسکتی ہے او ربعض کام وہ مردوں سے بھی لے سکتی ہے۔مرد بعض دفعہ کمزوری دکھا جاتے ہیں اُس وقت جو غیرت عورت دکھاتی ہے وہ کوئی اور نہیں دکھا سکتا۔
چند دن ہوئے میرے پاس ایک لڑکا آیا۔وہ جالندھر کارہنے والا تھا اور اس کا نانا وہاں پیر تھا او راحمدیت کا سخت مخالف تھا۔ وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مَیں فلاں کا نواسہ ہوں۔ میں نے کہا میں تمہارے نانا کو جانتاہوں او رمجھے یاد ہے کہ تمہاری ماں قادیان میں مجھے ملنے آیا کرتی تھی۔اُس نے کہا یہ بات درست ہے۔اب وہ فوت ہوچکی ہیں اور قادیان میں بہشتی مقبرہ میں دفن ہیں۔ میں نے کہا اب تم کس طرح یہاں آئے ہو؟ اس نے کہا میں ابھی بچہ ہی تھا کہ میری ماں میرے کان میں ہمیشہ یہ بات ڈالتی تھی کہ بیٹا!میں نے دین کی خدمت کے لئے تمہیں وقف کرنا ہے۔ چنانچہ امریکن وفد جو پاکستان آیا تھا اس کے ذریعہ میں نے سِل کے ٹیکے کاکام سیکھا اور اب میں ایک اچھے سرکاری عہدہ پر ہوں مگر میرے دل میں ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ میری والدہ کی یہ خواہش تھی کہ میں اپنی زندگی خدمتِ دین کے لئے وقف کردوں۔ میں نے اس بات کا اپنے باپ سے بھی ذکر کیا تو انہوں نے کہا میں تمہاری والدہ کی خواہش میں روک نہیں بننا چاہتا تم بڑی خوشی سے دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرو۔اب میں یہاں آیا ہوں کہ حضور میرا وقف قبول فرمائیں او رمجھے کسی دینی خدمت پر لگائیں۔اَب دیکھو وہ عورت قادیان میں بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئی اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ1946ء میں یا اس سے پہلے فوت ہوئی ہوگی اور اب اس کی وفات پر دس بارہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن اس نے بچپن سے ہی اپنے بیٹے کے کان میں جو بات ڈالی تھی وہ اَب بھی اس کے دل ودماغ سے نہیں نکلی۔وہ چھوٹا سا تھا جب اس نے اپنے بیٹے کے کان میں یہ بات ڈالنی شروع کی کہ میں نے تمہیں دین کی خاطر وقف کرنا ہے۔ بعد میں وہ جوان ہوا، گریجوایٹ بنا اور پھر اس نے سِل کا امریکن ڈاکٹروں سے علاج سیکھا اور اس کے بعد ایک اعلیٰ سرکاری عہدہ پر فائز ہوا۔ لیکن اس کے ذہن سے یہ بات نہ نکلی کہ اس کی ماں کی یہ خواہش تھی کہ اس نے دین کی خا طر اپنی زندگی وقف کرنی ہے۔ غرض عورت نہ صرف خود قربانی کرسکتی ہے بلکہ مردوں کو بھی دین کی خدمت کے لئے تیار کرسکتی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی بات ہے ایک دفعہ اسلامی لشکر کا مقابلہ عیسائی لشکر سے ہوا۔عیسائی لشکر زیادہ طاقتور تھا اور اسلامی لشکر کمزور تھا۔اس لئے وہ مقابلہ کی تاب نہ لاسکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان سپاہیوں کی سواریاں پیچھے کی طرف بھاگیں۔ اس اسلامی لشکر کے کمانڈر یزید بن ابُوسفیان تھے۔او راُن کے باپ ابُوسفیان بھی ان کے ساتھ تھے وہ بھی پیچھے کی طرف بھاگے۔ فوج کے پیچھے عورتیں تھیں اور اُن عورتوں میں ابُوسفیان کی بیوی ہندہ بھی تھی جواسلام لانے سے پہلے اسلام کی اتنی دشمن تھی کہ ایک دفعہ جب جنگ میں حضرت حمزہؓ شہید ہوئے تو اُس نے اُن کا کلیجہ نکالنے والے کے لئے انعام مقرر کیا۔ہندہ نے جب دیکھا کہ اسلامی لشکر کے پاؤں اُکھڑ چکے ہیں اور مسلمان سپاہی پیچھے کی طرف بھاگے آرہے ہیں تو اس نے عورتوں کو جمع کیا اور کہا تمہارے مردوں نے اسلام سے غداری کی ہے او روہ دشمن کے آگے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔اب تمہارا کام ہے کہ تم انہیں روکو۔عورتوں نے کہا ہمارے پاس تو کوئی ہتھیار نہیں ہم انہیں کیسے روک سکتی ہیں۔ ہندہ نے کہاخیمے توڑ دو اور بانس نکال لو اورجو سپاہی پیچھے آئے اس کی اونٹنی یا گھوڑے کو بانس مار مار کر پیچھے موڑدو۔او رکہو بے حیاؤ واپس جاؤ دشمن سے لڑو۔ اگر تم ایسا نہیں کرسکتے تو ہم عورتیں دشمن کا مقابلہ کریں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب اسلامی لشکر عورتوں کے قریب پہنچا تو انہوں نے خیموں کے بانس نکال لئے اور اُن کی سواریوں کے مونہوں پر مارنے لگیں۔ ہندہ نے بھی ایک بانس ہاتھ میں لیا اور ابوسفیان کی سواری کو مارا اور کہا بے حیا! جب مشرکینِ مکہ اسلام کے مقابلہ کے لئے جاتے تھے تو اُن کے لشکر کا کمانڈر ہوا کرتا تھا۔اب مسلمان ہونے کے بعد تجھے اسلام کی خاطر لڑنا پڑا ہے تو پیچھے بھاگ آیا ہے۔اسی طرح اس نے اپنے بیٹے کی سواری کو بھی بانس مارا اور اُسے بھی پیٹھ دکھانے پر ملامت کی۔ابوسفیان کی غیرت نے بھی جوش مارا اور اس نے اپنے بیٹے یزید سے کہا بیٹا! واپس چلو! عیسائیوں کا لشکر ہم سے بہت طاقتور ہے مگر اُن کے ہاتھوں مارا جانا برداشت کیا جاسکتا ہے لیکن اِن عورتوں کے ڈنڈے نہیں کھائے جاسکتے۔ چنانچہ اسلامی لشکر واپس گیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُسے فتح دیدی۔
مردوں کو قربانی پر آمادہ کرو
پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے مردوں سے کام لینا بھی عورتوں کو آتا ہے۔ وہ
انہیں تحریک کرکے قربانی کے لئے آمادہ کرسکتی ہیں اور اس کی ہمارے ہاں بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔عورتوں نے اپنے مردوں کو تحریک کی اور انہوں نے قربانیاں کیں۔ آخر دیکھ لو ہمارے کئی مبلغ ایسے ہیں جو دس دس پندرہ پندرہ سال تک بیرونی ممالک میں فریضۂ تبلیغ ادا کرتے رہے اور وہ اپنی نئی بیاہی ہوئی بیویوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔ان عورتوں کے اَب بال سفید ہوچکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے خاوندوں کو کبھی یہ طعنہ نہیں دیا کہ وہ انہیں شادی کے معاً بعد چھوڑ کر لمبے عرصہ کے لئے باہر چلے گئے تھے۔ ہمارے ایک مبلّغ مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں۔ وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے تھے۔ اُن کے واقعات سُن کر بھی انسان کو رقّت آجاتی ہے۔ ایک دن اُن کا بیٹا گھر آیا اور اپنی والدہ سے کہنے لگا۔امّاں!ابّا کسے کہتے ہیں ؟سکول میں سارے بچے اَبّا اَبّا کہتے ہیں۔ہمیں پتہ نہیں کہ ہمارا ابّا کہاں گیا ہے؟کیونکہ وہ بچے ابھی تین تین چار چار سال کے ہی تھے کہ شمس صاحب یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے اور جب وہ واپس آئے تو وہ بچے 17،17،18،18سال کے ہوچکے تھے۔ اب دیکھ لو یہ اُن کی بیوی کی ہمّت کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ ایک لمبے عرصہ تک تبلیغ کاکام کرتے رہے۔ اگر وہ انہیں اپنی درد بھری کہانیاں لکھتی رہتی تو وہ یا تو خود بھاگ آتے یا سلسلہ کو مجبور کرتے کہ انہیں بلا لیا جائے۔
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض عورتوں نے اس بارہ میں کمزوری بھی دکھائی ہے۔ان کے خاوندوں کو باہر گئے ابھی دوسال ہی ہوئے تھے کہ انہوں نے دفتر کو لکھنا شروع کیا کہ یا تو ہمارے خاوندوں کو واپس بُلا دو یا ہم انہیں لکھیں گی کہ وہ کام چھوڑ کر آجائیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ساری عورتیں کمزور ہوتی ہیں۔ اگر بعض عورتیں کمزور ہوتی ہیں تو بعض مرد بھی کمزور ہوتے ہیں۔ کمزوری دکھانے میں عورتیں منفرد نہیں بلکہ مردوں میں سے بھی ایک حصّہ کمزوری دکھا جاتا ہے۔غرض کمزوری کو دیکھو تو مرد اورعورت دونوں برابر ہیں اور اگر قوت کو دیکھو تو مرد اور عورت دونوں برابر ہیں۔ عشق اور قربانی کو دیکھو تو دونوں برابر ہیں۔غیرت کو دیکھو تو دونوں برابر ہیں۔غرض کسی کام کو دیکھوجس ہمّت سے اُسے مرد کرسکتے ہیں اُسی ہمت سے اُسے عورتیں بھی کرسکتی ہیں۔اس لئے عورت اپنے فرض کو پہچانے او روہ مضبوطی سے اپنے ایمان پرقائم رہے توکسی کی طاقت نہیں کہ وہ احمدیت کوکوئی نقصان پہنچا سکے۔ یہی بات دیکھ لو کہ اگر موجودہ منافقوں کی بیویاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی عورتوں جیسا نمونہ دکھاتیں تو کیا اُن کو منافقت دکھانے کی جُرأت ہوسکتی تھی؟
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگ کے لئے باہر تشریف لے گئے ایک صحابی اُس وقت موجود نہیں تھے انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لئے باہر بھیجا ہوا تھا۔وہ مدینہ آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ساتھ لے کر لڑائی کے باہر جاچکے ہیں۔وہ ایک لمبا عرصہ باہر رہے تھے انہیں اپنی بیوی سے جو نوجوان اور خوبصورت تھی بہت محبت تھی۔ انہوں نے چاہا کہ گھر جاکر اس سے پیار کرلیں چنانچہ وہ گھرآئے۔ان کی بیوی کوئی کام کررہی تھی۔ وہ آگے بڑھے اور اُسے پیار کرنا چاہا اُس نے انہیں دیکھتے ہی دھکّا دے کر پیچھے پھینک دیا او رکہنے لگی تجھے شرم نہیں آتی خداتعالیٰ کا رسول تو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رُومی حکومت سے لڑنے کے لئے گیا ہوا ہے اور تجھے اپنی بیوی سے پیار سُوجھ رہا ہے۔اس صحابی کو بیوی کے اس فقرہ سے سخت چوٹ لگی وہ اُسی وقت گھوڑے پر سوار ہوگئے اور جدھر اسلامی لشکر گیا تھا اُدھر روانہ ہوگئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے۔ اگر اِن منافقوں کی بیویاں بھی اسی قسم کا اخلاص دکھاتیں تو اُن کے مردوں کو منافقت دکھانے کی جُرأت ہی نہیں ہوسکتی تھی۔
ایک منافق کا سالا یہاں آیا تھا۔ میں نے اُسے کہا تھا تم میاں بشیر احمد صاحب کے پاس جاؤ اور اُن سے پُوچھ لو کہ ہم نے ان لوگوں کو کِس کِس طرح سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ وہ میاں بشیر احمد صاحب کے پاس گیا اور انہوں نے اُسے تفصیل کے ساتھ تمام باتیں سمجھائیں۔ بعد میں اس نے بتایا کہ مَیں اپنی بہن کے پاس گیا تھا۔ میں اُسے کہہ آیا ہوں کہ ہمارا باپ مرگیا تو ہم نے اُسے کونسا بچا لیا تھا اِسی طرح اگر تیرے خاوند نے توبہ نہ کی اوراس نے معافی نہ مانگی تو ہم تجھے بھی مُردہ سمجھ لیں گے۔ لیکن اگر تُو اپنے خاوند سے قطع تعلق کر لے تو میرا گھر تیرا گھر ہے۔ تُو میرے پاس آ جائے تو میں تیرا سارا بوجھ اُٹھا لوں گا۔ لیکن اگر تُو اپنے خاوند سے قطع تعلق نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی رہے تو پھر میں تیرا منہ بھی نہیں دیکھوں گا۔ غرض ایسے رشتہ دار بھی موجود ہیں جنہوں نے دین کی خاطر اپنے رشتہ داروں سے بے تعلقی کا اظہار کیا مگر وہ عورتیں بھی ہیں جو منافقت میں اپنے خاوندوں کے ساتھ ہیں بلکہ وہ خیال کرتی ہیں کہ اگر اُن کے خاوند منافقت میں کچھ اَور ترقی کرلیں تو شاید انہیں فائدہ پہنچ جائے۔
غرض اسلام کا کوئی پہلو لے لو اس میں عورت مرد سے پیچھے نہیں۔ تم اپنے دلوں سے اس خیال کو دُور کردو جو بعض بیوقوف مردوں نے ڈالاہے کہ عورت بڑی مظلوم ہے۔ تم مظلوم نہیں ہو بلکہ خدا تعالیٰ نے تمہیں وہ حکومت بخشی ہے جس کے مقابلہ میں دُنیا کی کوئی حکومت نہیں ٹھہر سکتی۔پاکستان کی حکومت کو دیکھ لو کئی لوگ ایسے ہیں جو اُسے گالیاں دیتے ہیں مگر بیوی کی حکومت کو کوئی گالی نہیں دیتا۔ اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ تُو اپنی بیوی سے محبت او رپیار نہ کرتو وہ کہے گا تُو بڑا خبیث ہے ،تُو میرے گھر میں فتنہ ڈالناچاہتا ہے میں تیری بات نہیں مان سکتا۔ لیکن اگر اس شخص کے سامنے کوئی پاکستان کے کسی عُہدیدار کے متعلق کہے کہ وہ بڑا گندہ ہے تو شاید وہ ا سکی تصدیق کرنے لگ جائے۔ غرض کوئی شخص اپنی بیوی کی حکومت کے خلافت کوئی بات نہیں سن سکتا۔
پس تمہیں خداتعالیٰ نے بڑا اچھا موقع دیا ہے آج تم ویسی ہی خدمات کرسکتی ہو جیسی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیات نے کیں۔ تم ویسی ہی خدمات کرسکتی ہو جیسی حضرت ہاجرہ نے کیں، تم ویسی ہی خدمات کرسکتی ہو جیسی کرشنؑ علیہ السلام کی گوپیوں نے کیں، تم ویسی ہی خدمات کرسکتی ہو جیسی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم نے کیں۔حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حالات سے بھی پتہ لگتا ہے کہ اُن کی زیادہ تر خدمت عورتوں نے ہی کی ہے۔جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مخالفت بڑھ گئی تو انجیل میں آتا ہے کہ ایک عورت آپ کے پاس آئی اور اُس نے بڑا قیمتی عطر آپ کے پَیروں پر ڈالا اور پھر اُس نے اپنے بال کھولے اور ان بالوں سے آپ کے پاؤں پونچھنے شروع کئے15 لوگوں نے کہا یہ کتنی بے وقوف عورت ہے اس نے عطر ضائع کیا ہے۔ اس عطر کی قیمت سے کئی غریب پل سکتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تم اس عورت کو کیوں دِق کرتے ہو۔اس نے تو میرے ساتھ بھلائی کی ہے کیونکہ غرباء تو ہمیشہ تمہارے پاس رہیں گے لیکن میں تمہارے پاس ہمیشہ نہیں رہوں گا16
پھر جب آپ کو صلیب پر چڑھایا گیا تو آپ کے پاس آپ کی والدہ حضرت مریم کے علاوہ تین چار اَور عورتیں بھی تھیں17 عیسائی کتب میں اس واقعہ کی جو تصاویر دی گئی ہیں اُن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم نے تو بہت ضبط سے کام لیا ہے اور اُن کی آنکھ میں آنسو نہیں لیکن دوسری عورتوں کی آنکھوں سے آنسو ڈھلک رہے ہیں۔ پھر انجیل میں آتا ہے کہ جب تین دن کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام قبر سے نکالے گئے تو سب سے پہلے عورتیں ہی ان کے پاس آئیں،مرد نہیں آئے18 پھر جب آپ پھانسی کی سزا سے بچ کر اِدھر اُدھر چُھپتے پھِرتے تھے تو تاریخ میں آتا ہے کہ ہر جگہ جہاں آپ پہنچتے عورتیں وہاں پہنچ جاتیں اور آپ سے دین کی باتیں سیکھتیں۔مرد ڈر کے مارے آپ کے قریب نہیں آتے تھے19 گویا انجیل سے بھی پتہ لگتا ہے کہ ابتدائے عیسائیت میں عورتوں کی قربانی مردوں سے زیادہ تھی۔ جب مرد حکومت کی گرفت سے ڈر گئے تو عورتیں نہیں ڈریں وہ ہر جگہ پولیس اور فوج کے پہرہ کو چیرتی ہوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچ جاتیں او رآپ کے قدموں میں بیٹھ کر دین کی تعلیم حاصل کرتیں۔
غرض ہر مذہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ عورتوں نے بڑا کام کیا ہے۔میں نے بتایا ہے کہ برلن کی مسجد کی تحریک ہوئی تو اُس وقت کی احمدی عورتوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ جمع کردیا۔ اب تم ہیگ کی مسجد کے لئے کوشش کررہی ہو مگر افسوس کہ تم اُتنی کوشش نہیں کررہیں جتنی1920ء میں برلن کی مسجد کے لئے عورتوں نے کی تھی۔ حالانکہ اِس وقت تم اُن سے پندرہ بیس گنا زیادہ ہو۔انہوں نے اُس وقت ایک لاکھ روپیہ دے دیا تھا مگر تم نے ابھی ستّر ہزار روپیہ جمع کیا ہے اور پھر اُن کے جمع کردہ چندہ سے برلن میں جو زمین خریدی گئی تھی وہ جب بیچی گئی تو پچاس ہزار روپیہ اصل قیمت سے زیادہ ملا اور اس روپیہ سے لنڈن کی مسجد بن گئی۔ گویا لنڈن کی مسجد بھی انہیں عورتوں کے روپیہ سے بنی ہے۔ برلن میں مسجدتعمیر نہیں کی جاسکی تھی کیونکہ جرمن حکومت نے بعض ایسی شرائط لگادی تھیں جن کی وجہ سے مسجد کی تعمیر پر بہت زیادہ روپیہ خرچ آتا تھا۔اس لئے ہم نے وہاں مسجد کے لئے جو جگہ خرید کی تھی اُسے بیچ دیا اور جو روپیہ بچا اس سے لنڈن کی مسجد بنائی گئی۔ گویا برلن کی مسجد کے لئے بھی عورتوں نے چندہ دیا،لنڈن کی مسجد بھی انہی کے روپیہ سے بنی اور ہیگ کی مسجدکے لئے بھی عورتیں ہی روپیہ جمع کررہی ہیں۔ مرد ابھی تک ہیمبرگ کی مسجد کے لئے بھی روپیہ جمع نہیں کرسکے۔ او راس کی وجہ یہ ہے کہ عورت گو بظاہر کمزور نظرآتی ہے مگرجب وہ قربانی پر آجائے تو مرد سے زیادہ قربانی کرتی ہے۔دیکھ لو ماں جتنی قربانی اپنے بچے کے لئے کرتی ہے اس قدر قربانی مرد نہیں کرسکتا۔
مَیں نے بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک عورت کے بچہ کو عقاب اُٹھا کر لے گیا اور عقاب نے اس بچہ کو ایک پہاڑی کی چوٹی پر رکھ دیا۔وہ پہاڑی ایسی سیدھی تھی کہ اُس پر کوئی چڑھ نہیں سکتا تھا لیکن ماں نے جب دیکھا کہ عقاب نے اس کا بچہ اس پہاڑی کی چوٹی پررکھ دیا ہے تو وہ پاگلوں کی طرح اس پہاڑی پر چڑھ گئی اور اُسے پتہ بھی نہ لگا کہ وہ پہاڑی اُونچی او رسیدھی تھی او راس پر چڑھنا مشکل ہے۔ پہاڑی پر جاکر اُس نے بچہ کو پیار کیا اور اُسے دودھ پلایا۔ پھر جب نیچے اُترنے لگی تو ڈری او رشور مچانے لگی۔اس پر اِردگرد کے لوگ آئے انہوں نے رسّے ڈال ڈال کر اور کیلے گاڑ گاڑ کر بڑی مشکل سے اُسے پہاڑی سے نیچے اُتارا۔ لیکن جس وقت اس کا بچہ خطرہ میں تھا اُسے کوئی ہوش نہیں تھی اور وہ بڑی آسانی کے ساتھ اس پہاڑی پر چڑھ گئی۔ تو اگرعورت کی محبت واقع میں جوش میں آجائے تو وہ بڑی قربانی کرلیتی ہے۔ بچہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ایک ایسا مادّہ پیدا کیا ہے جو مردکے اندر نہیں پایا جاتا جب وہ مادّہ جوش میں آجائے تو عورت بڑی سے بڑی قربانی کرلیتی ہے۔ اصل چیز تو وہ مادّہ ہے۔ اگر مادّہ موجود ہوتو پھر قربانی کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک شخص کی جیب میں پانچ روپے ہوں تو وہ ان پانچ روپوں سے تمباکو بھی خرید سکتا ہے، اورانہیں خداتعالیٰ کے رستہ میں بھی دے سکتا ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورت کوقربانی کا جو مادّہ دیا ہے اس کو وہ بچہ کے لئے بھی استعمال کرسکتی ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر بھی استعمال کرسکتی ہے۔ جس طرح وہ شخص جس کی جیب میں روپے موجود ہوں وہ اس سے ضروریاتِ زندگی بھی خرید سکتا ہے اور خداتعالیٰ کی راہ میں بھی خرچ کرسکتا ہے۔اسی طرح عورت کے اندر قربانی کا مادہ موجود ہے وہ اُسے بچہ کے لئے بھی خرچ کرسکتی ہے اور خداتعالیٰ کی خاطر بھی خرچ کرسکتی ہے۔ جب وہ جوش میں آجائے تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو اسے قربانی کرنے سے روک سکے۔وہ بچوں کی اعلیٰ پرورش کرتی ہیں،ان کی تربیت کرتی ہیں اور ضرورت پڑے تو مردوں کو غیرت دلاتی اور انہیں قربانی کے لئے تیار کرتی ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ1917ء میں ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری قادیان آئے اوروہاں ایک بڑا جلسہ ہوا۔پانچ چھ ہزار غیر احمدی وہاں جمع ہوا۔اُس وقت قادیان میں احمدی بہت تھوڑے تھے اور شہر کی آبادی بہت کم تھی۔1947ء میں جب ہم قادیان سے نکلے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں سترہ اٹھارہ ہزار احمدی تھے لیکن اُس وقت ہزار بارہ سو کے قریب تھے اور ان کے مقابلے میں چھ سات ہزار غیر احمدی جمع ہوگئے تھے۔ انہوں نے رستے روک لئے تھے اور چلنا پھرنا مشکل ہوگیا تھا۔اس لئے مولوی ثناء اللہ صاحب نے خیال کیا کہ انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا اور انہوں نے اپنی تقریر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سخت بُرا بھلا کہا۔قادیان کے قریب کے ایک گاؤں بھینی ہے وہاں کی ایک احمدی عورت ان کے جلسہ گاہ کے قریب کھڑی تھی۔مولوی ثناء اللہ صاحب نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دیں اور تمام احمدی مرد بیٹھے رہے تو اس نے مولوی صاحب کو پنچابی میں گالی دے کر کہا۔‘‘تیرے دادے داڑھی ہگیا تُوں حضرت صاحب نوں گالیاں دیناایں’’۔اِس پر غیراحمدی جوش میں آگئے اور اس عورت کو مارنے کے لئے اُٹھے۔بعض احمدی اسے بچانے لگے تو دوسرے احمدیوں نے کہا۔ایسا نہ کرو،حضرت صاحب نے احمدیوں کو فساد سے منع کیا ہوا ہے۔مجھے پتہ لگا تو میں اُن پر خفا ہوا اور میں نے کہا یہاں تو ایک عورت کی عزت کا سوال تھا۔اس سے تمہیں کس نے روکا تھا۔ تمہیں شرم نہ آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دی گئیں تو تم مردوں میں سے کسی کو بھی غیرت نہ آئی لیکن اس عورت کو غیرت آئی اور اس نے اس بات کی ذرہ بھی پروا نہ کی کہ غیراحمدی کتنی تعداد میں جمع ہیں اور وہ اسے ماریں گے۔اس نے اُسی وقت کھڑے ہوکر مولوی ثناء اللہ صاحب کو کہا ‘‘تیرے دادے داڑھی ہگیا تُوں حضرت صاحب نوں گالیاں دینا ایں’’۔تمہیں تو اس عورت کو بچانے کے لئے اپنی جانیں قربان کردینی چاہییں تھیں۔ او ر اگر تم ایسا کرتے تو میں بہت خوش ہوتا۔اب دیکھو وہ بھی ایک عورت تھی جس نے اس موقع پر بہادری دکھائی۔اُس وقت ہزار بارہ سو آدمی بھی ڈرتے تھے کہ اگر انہیں کچھ کہا تو غیر احمدی انہیں ماریں گے۔لیکن وہ کھڑی ہوگئی اور اس نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو روک دیا۔اُس نے اس بات کی پروا نہ کی کہ سارے کا سارا مجمع اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کی جان ضائع ہوجائے گی۔
اپنی طاقتوں کو صحیح رنگ میں استعمال کرو
غرض اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو ہرقسم کی قربانی کی توفیق دی ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنی طاقتوں کو سمجھو اور انہیں استعمال کرو۔ اگر تم اپنی طاقتوں کو سمجھو اور انہیں استعمال کرنا
سیکھ لو تو تمہارے مقابلہ پر بڑی سے بڑی طاقت بھی نہیں ٹھہر سکتی۔ بلکہ مرد بھی تم سے طاقت حاصل کریں گے۔ گویا تمہاری مثال دیاسلائی کی سی ہوگی اور مرد کی مثال تیل کے پیپے کی سی۔جب تم دیا سلائی سے آگ لگاؤ گی تو وہی مرد جو بزدلی کی وجہ سے کونہ میں کھڑا ہوگا جوش میں آجائے گااور جس طرح آگ کی وجہ سے تیل بھڑک اُٹھتا ہے تمہارے غیرت دلانے سے وہ بھی بھڑک اٹھے گااور پھر کسی روک او رمصیبت کی پروا نہیں کرے گا اور قربانی کرتا چلا جائے گا۔
میں جب بچہ تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے ایک ہوائی بندوق خرید کر دی تھی اور ہم اس سے جانوروں کا شکار کیا کرتے تھے۔ایک دن ہم شکار کرنے کے لئے باہر گئے تو ایک سکھ لڑکا میرے پاس آیا۔اُن دنوں اردگرد کے دیہات میں بڑی مخالفت تھی اور وہاں شکار کے لئے جانا مناسب نہیں تھا لیکن اس لڑکے کو بھی شکار کا شوق تھا۔وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا ہمارے گاؤں چلیں وہاں بہت فاختائیں ہیں۔ہم ان کا شکار کریں گے۔چنانچہ میں اس کے ساتھ اس کے گاؤں چلا گیا۔ وہاں وہ سکھ لڑکا میرے آگے آگے چلتا تھا اور مجھے بتاتا تھا کہ وہ فاختہ بیٹھی ہے اس کو مارو۔ اتنے میں ایک سکھ عورت باہر نکلی اور اس لڑکے کو مخاطب کرکے کہنے لگی۔‘‘تینوں شرم نہیں آندی’’ کہ ‘‘تُو مُسلیاں کولوں جیو ہتیا کرانداایں’’ یعنی تمہیں شرم نہیں آئی کہ مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے کر جانور مرواتے ہو۔ اس عورت کا یہ کہنا تھا کہ وہ سکھ لڑکا کھڑا ہوگیااور بڑے غصے سے کہنے لگا،تم کون ہوتے ہو یوں شکارکرنے والے! حالانکہ وہ خود ہمیں وہاں لے گیا تھا۔ اب دیکھو وہ لڑکا صر ف اس عورت کی بات کی وجہ سے ہمارے مقابلہ پر کھڑا ہوگیا اور اس نے اس بات کی ذرہ پروا نہ کی کہ وہ خود ہمیں ساتھ لے گیا ہے۔
پس عورت کی آواز میں ایک جوش ہوتا ہے اور مرد میں اُس کے لئے جذبۂ احترام اور ادب ہوتا ہے، چاہے کوئی مرد کتنا بُرا ہو، جُوں ہی اس کے کان میں عورت کی آواز پڑتی ہے وہ کھڑا ہوجاتا ہے۔
جب بغداد میں خلافت بہت کمزور ہوگئی اور مسلمانوں کی طاقت ٹوٹ گئی تو اُس وقت عیسائیوں نے فلسطین میں اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔ وہاں ایک عورت باہر نکلی تو عیسائیوں نے اس کی بے عزتی کی۔ اسے علم نہیں تھا کہ مسلمانوں کی بادشاہت تباہ ہوچکی ہے۔اس نے اونچی آواز سے کہا یا اَمیرَ المومنین!اے امیر المومنین! میری مدد کو پہنچو۔اُس وقت امیر المومنین کی یہ حالت تھی کہ وہ دوسری طاقت کا ایک قیدی تھا اورسوائے دربار کے اس کی کہیں حکومت نہیں تھی۔ لیکن اس عورت کو اس بات کا کوئی علم نہیں تھا۔اُس نے سنا ہوا تھا کہ امیر المومنین کی ہی حکومت ہوتی ہے۔ اتفاقاً اس کے پاس سے ایک قافلہ گزر رہا تھا جو تجارت کے لئے اس طرف گیا تھا۔انہوں نے اس عورت کی آواز کو سنا۔جب وہ قافلہ بغداد پہنچا تو لوگ جمع ہوگئے او رانہوں نے قافلہ والوں سے کہا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ۔اس پر انہوں نے کہا کہ ہم فلسطین میں سے آرہے تھے کہ عیسائیوں نے ایک مسلمان عورت کو قید کر لیا او راس کی بے عزتی کی تو اس نے بلند آواز میں کہا یَااَمیرَالمؤمنین!مَیں امیر المومنین کو اپنی مدد کے لئے پکارتی ہوں۔ وہ بیچاری اتنا بھی نہیں جانتی تھی کہ امیر المومنین کی کوئی حیثیت نہیں وہ خود ایک قیدی ہے اورسوائے دربار کے اس کی کہیں بھی حکومت نہیں۔اس مجمع میں خلیفہ کا ایک درباری بھی کھڑا تھا۔اس نے یہ واقعہ دربار میں بیان کیا اور کہا اِس اِس طرح ایک قافلہ فلسطین سے آیا ہے اور اس نے بتایاہے کہ راستہ میں انہوں نے دیکھا کہ ایک مسلمان عورت کوعیسائیوں نے قید کرلیا ہے اور اس کی بے عزتی کی ہے اور اس عورت نے اپنی مدد کے لئے امیر المومنین کوپکارا ہے۔فلسطین بغدادسے تقریباً ایک ہزار میل کے فاصلے پر ہے مگر اس عورت کی آواز خلیفہ کے کان میں پڑی جو خود ایک قیدی کی حیثیت میں تھاتو وہ ننگے پاؤں باہر نکل کھڑا ہوا اورکہنے لگا۔خدا کی قسم! جب تک میں اس عورت کو عیسائیوں کے قبضہ سے چھڑاؤں گا نہیں میں جوتا نہیں پہنوں گا اور باہر نکل کر اس نے فوج کو جمع کرنا شروع کیا۔ وہ نواب جو خلافت سے بغاوت کر رہے تھے جب انہیں پتہ لگا تو وہ بھی اپنی فوج لے کر آگئے اور خلیفہ کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔اس طرح ایک بڑا لشکر جمع ہوگیا جس نے فلسطین کی عیسائی حکومت کو شکست دی او راس عورت کو آزاد کروایا گیا۔
پس عورت گو کمزور ہے مگر مردوں کے اندر اس کے لئے ادب اوراحترام پایا جاتا ہے کیونکہ ہر مرد عورت کا ہی بچہ ہے اور اپنی ماں کے ادب اور احترام کی وجہ سے ہر عورت کو اپنی ماں کی جگہ سمجھتا ہے۔جب وہ دیکھتاہے کہ اسے اس کی ماں پکار رہی ہے تو وہ فوراً بھاگ پڑتا ہے۔پس اگر احمدی عورتیں قربانی کریں اور اپنے اندر دین کی خدمت کا جذبہ پیدا کریں تو چونکہ تمہاری آواز میں ایک درد ہے،ایک سوز اور گداز ہے تم دنیا کے گوشہ گوشہ میں آگ لگا دو گی اور گو بظاہر اشاعتِ دین کا کام مرد کررہے ہوں گے لیکن حقیقت میں تم ہی یہ کام کروا رہی ہوگی۔ پس اگر تم کمرِ ہمت باندھ لو او ردین کی خاطر ہر قربانی کرنے کے لئے آمادہ ہوجاؤ تو میں تمہیں یقین دلاتاہوں کہ ابھی تم میں سے بہت سی عورتیں زندہ ہوں گی کہ اسلام غالب آجائے گا اور تم اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو گی اور آخرت میں بھی اس کے انعامات کی وارث ہو گی اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گی کہ عیسائیت شکست کھا گئی اور اسلام فتح پاگیا ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی ٹوٹ چکی ہے او ررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہی قائم ہوچکی ہے۔پس یہ کام تمہارے اپنے اختیار میں ہے اور اگر تم چاہو تو تم یہ کام بڑی آسانی سے کرسکتی ہو ۔
میں دعا کرتا ہوں کہ تم سچے طور پر اسلام کی خدمت کی توفیق پاؤ او رہمیشہ اللہ تعالیٰ
کی رضا اوراس کی خوشنودی کو حاصل کرنے والی بنو۔ (''مصباح''بابت ماہ جنوری1957ء)
1 النہایہ فی غریب الاثر۔ لابن اثیر۔ جلد 1 صفحہ330 ۔ مطبوعہ بیروت 2001ء
2 فتوح الشام جلد اوّل صفحہ27، 28
3 تاریخ ابن اثیر جلد 2 صفحہ 475 ، 476 مطبوعہ بیروت 1965ء
4 پیدائش باب21آیت 9 تا 12
5 بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب یزفُّون
6 السیرۃ الحلبیۃ الجزء الاول صفحہ 163 مطبوعہ مصر 1932ء
7 بخاری کتاب بدء الوحی باب کَیْفَ کَانَ بَدْء الوحی اِلیٰ رَسُولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
8 بخاری کتاب بدء الوحی باب کَیْفَ کَانَ بَدْء الوحی اِلیٰ رَسُولِ اللہ(الخ)
9 بخاری کتاب مناقب الانصار باب تذویج النَّبِّی صلی اللہ علیہ وسلم خدیجۃ (الخ)
10 بخاری کتاب مناقب الانصار باب تذویج النَّبِّی صلی اللہ علیہ وسلم خدیجۃ (الخ)
11 سیرت ابن ہشام جلد3 صفحہ 239 مطبوعہ مصر 1936ء
12 سیرت ابن ہشام جلد3 صفحہ 84 تا 88 مطبوعہ مصر 1936ء
13 سیرت ابن ہشام جلد3 صفحہ 105 مطبوعہ مصر 1936ء
14 السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 267، 268 مطبوعہ مصر 1935ء
15 متی باب26آیت6تا13
16 متی باب26آیت6تا13
17 مرقس باب15آیت40
18 مرقس باب16۔ آیت 1 تا 6 کا خلاصہ
19 یوحنا باب20آیت1 تا 18 کا مفہوم
مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع 1956ءمیں خطابات
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اگر تم حقیقی انصار اللہ بن جاؤ اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرلو تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی رہے گی۔
افتتاحی خطاب
(فرمودہ 26/اکتوبر 1956ء برموقع دوسرا سالانہ اجتماع انصار اللہ بمقام ربوہ)
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدحضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت کی:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيّٖنَ۠ مَنْ اَنْصَارِيْۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ1
اس کے بعد فرمایا:
‘‘آپ لوگوں کانام انصاراللہ رکھاگیاہے یہ نام قرآنی تاریخ میں بھی دو دفعہ آیا ہے اور احمدیت کی تاریخ میں بھی دو دفعہ آیا ہے۔ قرآنی تاریخ میں ایک دفعہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں۔چنانچہ جب آپ نے فرمایا مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہِ تو آپ کے حواریوں نے کہا نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ کہ ہم اللہ تعالیٰ کے انصار ہیں۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے متعلق فرماتا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ مہاجرین کا تھا اور ایک گروہ انصار کاتھا۔ گویایہ نام قرآنی تاریخ میں دودفعہ آیاہے۔ ایک جگہ پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق آیا ہے اور ایک جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے ایک حصہ کو انصار کہاگیا ہے۔جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی انصار اللہ کا دو جگہ ذکر آتا ہے۔ ایک دفعہ جب حضرت خلیفہ اوّل کی پیغامیوں نے مخالفت کی تو میں نے انصار اللہ کی ایک جماعت قائم کی اور دوسری دفعہ جب جماعت کے بچوں، نوجوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کی تنظیم کی گئی تو چالیس سال سے اوپر کے مردوں کی جماعت کانام انصاراللہ رکھا گیا۔ گویا جس طرح قرآن کریم میں دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ہے اِسی طرح جماعت احمدیہ میں بھی دو زمانوں میں دو جماعتوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا۔پہلے جن لوگوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا اُن میں سے اکثر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ تھے کیونکہ یہ جماعت 1913، 1914ء میں بنائی گئی تھی اور اُس وقت اکثر صحابہ زندہ تھے اور اس جماعت میں بھی اکثر وہی شامل تھے ۔اِسی طرح قرآن کریم میں بھی جن انصار کا ذکر آتا ہے ان میں زیادہ تر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ شامل تھے۔ دوسری دفعہ جماعت احمدیہ میں آپ لوگوں کا نام اسی طرح انصار اللہ رکھا گیاہے جس طرح قرآن کریم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ادنیٰ نبی حضرت مسیح ناصریؑ کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا ہے۔آپ لوگوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کم ہیں اور زیادہ حصہ اُن لوگوں کا ہے جنہوں نے میری بیعت کی ہے۔اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام والی بات بھی پوری ہوگئی۔ یعنی جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا تھا اسی طرح مثیلِ مسیح موعود کے ساتھیوں کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے۔ گویا قرآنی تاریخ میں بھی دو زمانوں میں دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا اور جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا۔خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہؓ اب بھی زندہ ہیں مگر اَب اُن کی تعداد بہت تھوڑی رہ گئی ہے۔صحابی اُس شخص کو بھی کہتے ہیں جو نبی کی زندگی میں اس کے سامنے آگیا ہو۔ گویا زیادہ تر یہ لفظ انہی لوگوں پر اطلاق پاتا ہےجنہوں نے نبی کی صحبت سے فائدہ اٹھایا ہو اور اس کی باتیں سنی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام 1908ء میں فوت ہوئے ہیں ۔اس لئے وہ شخص بھی آپ کا صحابی کہلا سکتا ہے جس نے خواہ آپ کی صحبت سے فائدہ نہ اٹھایا ہولیکن آپ کے زمانہ میں پیدا ہوا ہواور اس کا باپ اسے اٹھا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے لے گیا ہو۔ لیکن یہ ادنیٰ درجہ کا صحابی ہوگا۔اعلیٰ درجہ کا صحابی وہی ہے جس نے آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں اور جن لوگوں نے آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں۔ ان کی تعداد اب بہت کم رہ گئی ہے۔اب صرف تین چار آدمی ہی ایسے رہ گئے ہیں جن کے متعلق مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنی ہیں۔ممکن ہے اگر زیادہ تلاش کیا جائے تو ان کی تعداد تیس چالیس تک پہنچ جائے ۔اَب ہماری جماعت لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں اگر ایسے تیس چالیس صحابہ بھی ہوں تب بھی یہ تعداد بہت کم ہے۔ اِس وقت جماعت میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جنہوں نے ایسے شخص کی بیعت کی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا متبع تھا اور ان کانام اسی طرح انصار اللہ رکھا گیا تھاجس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا تھا۔حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَوْکَانَ مُوْسیٰ وَعِیْسیٰ حَیَّیْنِ لَمَا وَسِعَھُمَا اِلَّا اتِّبَاعِیْ2 اگر موسیٰ اور عیسیٰ علیہ السلام میرے زمانہ میں زندہ ہوتے تو وہ میرے متبع ہوتے۔ غرض اِس وقت جماعت کے انصاراللہ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک متبع اور مثیل کے ذریعہ اسلام کی خد مت کا موقع ملا اور وہ آپ لوگ ہیں۔ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آپ لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ جس طرح ان کے حواریوں کو انصاراللہ کہا گیا تھا اُسی طرح مثیلِ مسیح موعود کے ساتھیوں کو انصاراللہ کہا گیا ہے۔ پھر آپ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے انصارکی بات بھی پائی جاتی ہے۔ یعنی جس طرح انصار اللہ میں وہی لوگ شامل تھے جو آپ کے صحابہؓ تھے اسی طر ح آپ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ شامل ہیں۔ گویا آپ لوگوں میں دونوں مثالیں پائی جاتی ہیں۔آپ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ کے صحابہ بھی ہیں جنہیں انصار اللہ کہا جاتا ہے جیسے محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو انصار کہا گیا۔ پھر جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنا متبع قرار دیا ہے اور ان کے صحابہ کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے اسی طر ح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک متبع کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے ۔شاید بعض لوگ یہ سمجھیں کہ یہ درجہ کم ہے لیکن اگر چالیس سال اَور گزر گئے تو اُس زمانہ کے لوگ تمھارے زمانہ کے لوگوں کو بھی تلاش کریں گئے اور اگر چالیس سال اَور گزر گئے تو اُس زمانہ کے لوگ تمھارے ملنے والوں کو تلاش کریں گے۔ اسلامی تاریخ میں صحابہؓ کے ملنے والوں کو تابعی کہا گیا ہے کیونکہ وہ صحابہ ؓ کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوگئے تھے۔ اور ایک تبع تابعی کا درجہ ہے یعنی وہ لوگ جو تابعین کے ذریعہ صحابہؓ کے قریب ہوئے اور آگے صحابہؓ کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئے ۔اِس طرح تین درجے بن گئے ایک صحابی دوسرے تابعی اور تیسرے تبع تابعی۔صحابی وہ جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپؑ کی باتیں سنیں۔تابعی وہ جنہوں نے آپ سے باتیں سننے والوں کو دیکھا اور تبع تابعی وہ جنہوں نے آپ سے باتیں سُننے والوں کے دیکھنے والوں کو دیکھا۔دنیوی عاشق تو بہت کم حوصلہ ہوتے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے :
تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
مگر مسلمانوں کی محبتِ رسول دیکھو۔ جب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ فوت ہوئے تو انہوں نے آپ ؑ سے قریب ہونے کے لئے تابعی کادرجہ نکال لیا اور جب تابعی ختم ہوگئے تو انہوں نے تبع تابعین کا درجہ نکال لیا۔اس شاعر نے تو کہا تھا کہ:۔
تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
مگر یہاں یہ صورت ہوگئی کہ تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں اور پھر ان کے چاہنے والوں کو بھی چاہوں اور پھر تیرہ سو سال تک برابر چاہتا چلا جاؤں۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ:۔
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
بلکہ انہوں کہا یا رسول اللہ! ہم آپ ؐکے چاہنے والوں کو چاہتے ہیں۔ چاہے وہ صحابی ہوں، تابعی ہوں،تبع تابعی ہوں یا تبع تبع تابعی۔ اوران کے بعد یہ سلسلہ خواہ کہا ں تک چلا جائے ہم کو وہ سب لوگ پیارے لگتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ ہم کسی نہ کسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوجاتے ہیں۔
محدثین کو اس بات پر بڑا فخر ہوتا تھا کہ وہ تھوڑی سی سندات سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ میں گیارہ بارہ راویوں کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جاپہنچتا ہوں ۔آپ کو بعض ایسے اساتذہ مل گئے تھے جو آپ کو گیارہ بارہ راویوں کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیتے تھے اور آپ اس بات پر بڑا فخر کیا کرتے تھے۔
اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع نے آپ کی صحابیت کو بارہ تیرہ درجوں تک پہنچا دیا ہے اوراس پر فخر کیا ہے تو آپ لوگ یا صحابی ہیں یا تابعی ہیں۔ ابھی تبع تابعین کا وقت نہیں آیا۔ اِن دونوں درجوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عزت بخشی ہے۔ اس عزت میں کچھ اَور لوگ بھی شریک ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انصار کا ذکر فرمایا ہے اورپھر ان کی قربانیاں بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند تھیں۔ چنانچہ جب ہم انصار کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ایسی قربانیاں کی ہیں کہ اگر آپ لوگ جو انصار اللہ ہیں ان کے نقشِ قدم پر چلیں تو یقیناً اسلام اور احمدیت دور دور تک پھیل جائے اور اتنی طاقت پکڑ لے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کے مقابلہ پر ٹھہر نہ سکے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو شہر کی تمام عورتیں اور بچے باہر نکل آئے۔ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے جاتے ہوئے خوشی سے گاتے چلے جاتے تھے کہ :
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّۃِ الْوِدَاعِ 3
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس جہت سے مدینہ میں داخل ہوئے وہ وہی جہت تھی جہاں سے قافلے اپنے رشتہ داروں سے رخصت ہوا کرتے تھے۔اس لئے انہوں نے اس موڑ کا نام ثنیۃ الوداع رکھا ہوا تھایعنی وہ موڑ جہاں سے قافلے رخصت ہوتے ہیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس موڑ سے مدینہ میں داخل ہوئے تو مدینہ کی عورتوں اور بچوں نے یہ گاتے ہوئے آپ ؐ کا استقبال کیا کہ
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّۃِ الْوِدَاعِ
یعنی ہم لوگ کتنے خوش قسمت ہیں کہ جس موڑ سے مدینہ کے رہنے والے اپنے رشتہ داروں کو رخصت کیا کرتے تھے اس موڑ سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے بدر یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظاہر کردیا ہے۔ پس ہمیں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل ہے اس لئے کہ وہ تو اس جگہ جاکر اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو رخصت کرتے ہیں لیکن ہم نے وہاں جاکر سب سے زیادہ محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وصول کیا ہے۔
پھر ان لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھیرا ڈال لیا اور ان میں سے ہر شخص کی خواہش تھی کہ آپ ؐ اس کے گھر میں ٹھہریں۔ جس جس گلی میں سے آپ ؐ کی اونٹنی گزرتی تھی اُس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے یَا رَسُوْلَ اللہِ! یہ ہمارا گھر ہے جو آپؐ کی خدمت کے لئے حاضر ہے یَا رَسُوْلَ اللہِ آپ ہمارے پاس ہی ٹھہریں۔بعض لوگ جو ش میں آگے بڑھتے اور آپ ؐ کی اونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تاکہ آپ ؐ کو اپنے گھر میں اُتروالیں مگر آپ ؐ ہر شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو ۔یہ آج خدا تعالیٰ کی طرف سے مامورہے یہ وہیں کھڑی ہوگی جہاں خدا تعالیٰ کا منشاء ہوگا4 آخر وہ ایک جگہ پر کھڑی ہوگئی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے قریب گھر کِس کا ہے؟حضرت ابو ایوب انصاری ؓنے فرمایا یا رسول اللہ! میرا گھر سب سے قریب ہے اور آپؐ کی خدمت کے لئے حاضر ہے ۔حضرت ابو ایوب ؓ کا مکان دو منزلہ تھا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اوپر کی منزل تجویز کی مگر آپ ؐ نے اس خیال سے کہ ملنے والوں کو تکلیف ہوگی نچلی منزل کو پسند فرمایا۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر مان تو گئے کہ آپ نچلی منزل میں ٹھہریں لیکن ساری رات میاں بیوی اِس خیال سے جاگتے رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نیچے سو رہے ہیں پھر وہ کس طرح اس بے ادبی کے مرتکب ہو سکتے ہیں کہ وہ چھت کے اوپر سوئیں۔ اتفاقا اُسی رات ان سے پانی کا ایک برتن گر گیا ۔حضرت ایوب انصاریؓ نے دوڑ کر اپنا لحاف اُس پانی پر ڈال کر پانی کی رطوبت کوخشک کیا تاکہ چھت کے نیچے پانی نہ ٹپک پڑے۔ صبح کے وقت وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورسارے حالات عرض کئے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوپر کی منز ل پر رہنے میں راضی ہوگئے۔5
اب دیکھو یہ اس عشق کی ایک ادنیٰ سی مثال ہے جو صحابہؓ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا ۔پھر یہ واقعہ کتنا شاندارہے کہ جب جنگِ اُحد ختم ہوئی اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہؓ کو اس بات پر مامور فرمایا کہ وہ میدانِ جنگ میں جائیں اور زخمیوں کی خبر لیں۔ ایک صحابی ؓ میدان میں تلاش کرتے کرتے ایک زخمی انصاری کے پاس پہنچے دیکھا کہ ان کی حالت نازک ہے اور وہ جان توڑ رہے ہیں۔ اس نے زخمی انصاری سے ہمدردی کا اظہار کرنا شروع کیا۔ انہوں نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ مصافحہ کے لئے آگے بڑھایا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا مَیں انتظار کررہا تھا کہ کوئی بھائی مجھے مل جائے ۔انہوں نے اس صحابیؓ سے پوچھا کہ آپ کی حالت خطرناک معلوم ہوتی ہے اور بچنے کی امید نہیں کیا کوئی پیغام ہے جو آپ اپنے رشتہ داروں کو دینا چاہتے ہیں؟ اس مرنے والے صحابیؓ نے کہا ہاں ہاں! میری طرف سے میرے رشتہ داروں کو سلام کہنا اور انہیں کہنا کہ مَیں تو مر رہا ہوں مگر میں اپنے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک مقدس امانت ‘‘محمد’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑے جا رہا ہوں۔ میں جب تک زندہ رہا اس نعمت کی اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر بھی حفاظت کرتا رہا لیکن اب اے میرے بھائیواور رشتہ دارو! میں اَب مر رہا ہوں اور خدا تعالیٰ کی یہ مقدس امانت تم میں چھوڑرہا ہوں۔ میں آپ سب کو اس کی حفاظت کی نصیحت کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اگر آپ سب کو اس کی حفاظت کے سلسلہ میں اپنی جانیں بھی دینی پڑیں تو آپ اس سے دریغ نہیں کریں گے اور میری اس آخری وصیت کو یاد رکھیں گے مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے اندر ایمان موجود ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ سب کو محبت ہے اس لئے تم ضرور آپؐ کے وجود کی حفاظت کے لئے ہر ممکن قربانی کرو گے اور اس کے لئے اپنی جانوں کی بھی پروا نہیں کرو گے۔6
اب دیکھو ایک شخص مر رہا ہے اسے اپنی زندگی کے متعلق یقین نہیں۔ وہ مرتے وقت اپنے بیوی بچوں کو سلام نہیں بھیجتا انہیں کوئی نصیحت نہیں کرتا بلکہ وہ اگر کوئی پیغام بھیجتا ہے تو یہی کہ اے میری قوم کے لوگو! تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرنا ۔ہم جب تک زندہ رہے اس فرض کو نبھاتے رہے اب آپؐ کی حفاظت آپ لوگوں کے ذمہ ہے۔ آپ کو اس کے رستہ میں اپنی جانوں کی قربانی بھی پیش کرنی پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں۔ میری تم سے یہی آخری خواہش ہے اور مرتے وقت میں تمہیں اس کی نصیحت کرتا ہوں۔ یہ تھا وہ عشق ومحبت جو صحابہؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا۔
پھر جب آپ بدر کی جنگ کے لئے مدینہ سے صحابہؓ سمیت باہر نکلے تو آپؐ نے نہ چاہا کہ کسی شخص کو اس کی مرضی کے خلاف جنگ پر مجبور کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ وہ اس بارہ میں آپؐ کو مشورہ دیں کہ فوج کا مقابلہ کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ ایک کے بعد دوسرامہاجرکھڑا ہوا اور اس نے کہا یا رسول اللہؐ! اگر دشمن ہمارے گھروں پر چڑھ آیا ہے تو ہم اس سے ڈرتے نہیں ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں آپ ہر ایک کا جواب سن کر یہی فرماتے چلے جاتے کہ مجھے اور مشورہ دو مجھے اور مشورہ دو۔ مدینہ کے لوگ اس وقت تک خاموش تھے اس لئے کہ حملہ آور فوج مہاجرین کے رشتہ دار تھی وہ ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ ان کی بات سے مہاجرین کا دل دُکھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ مجھے مشورہ دو تو ایک انصاریؓ سردار کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مشورہ تو آپؐ کو مل رہا ہے مگر پھر بھی جو آپؐ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپؐ کی مراد ہم انصار سے ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ اس سردار نے جواب میں کہا یَا رَسُولَ اللہ!شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب فرما رہے ہیں کہ آپؐ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہمارے اور آپؐ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں آپؐ پر اور مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپؐ کی حفاظت کریں گے مدینہ سے باہر نکل کر ہم دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن اس وقت آپؐ مدینہ سے باہر تشریف لے آئے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یہ درست ہے۔ اس نے کہا یا رسول اللہؐ !جس وقت وہ معاہدہ ہوا تھا اُس وقت تک ہم پر آپؐ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہیں ہوئی تھی لیکن اب ہم پر آپؐ کا مرتبہ اور آپؐ کی شان پورے طور پر ظاہر ہو چکی ہے اس لئے یا رسول اللہ! اب اُس معاہدہ کا کوئی سوال ہی نہیں ہم موسیٰ ؑ کے ساتھیوں کی طرح آپؐ کو یہ نہیں کہیں گے اذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ7 کہ تُو اور تیرا رب جاؤ اور دشمن سے جنگ کرتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اورآگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور یارسول اللہؐ! دشمن جو آپؐ کو نقصان پہنچانے کے لئے آیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔ پھر اس نے کہا یا رسول اللہؐ! جنگ تو ایک معمولی بات ہے یہاں سے تھوڑے فاصلے پر سمندر ہے(بدر سے چند منزلوں کے فاصلہ پر سمندر تھااور عرب تیرنا نہیں جانتے تھے اس لئے پانی سے بہت ڈرتے تھے ) آپ ہمیں سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دینے کا حکم دیجئے۔ہم بِلا چون و چرا اس میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے۔8 یہ وہ فدائیت اور اخلاص کا نمونہ تھا جس کی مثال کسی سابق نبی کے ماننے والوں میں نہیں ملتی۔ اس مشورہ کے بعد آپؐ نے دشمن سے لڑائی کرنے کا حکم دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کو نمایاں فتح عطا فرمائی۔
حضرت مسیح ناصریؑ کے انصار کی وہ شان نہیں تھی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار کی تھی۔ لیکن پھر بھی وہ اِس وقت تک آپ کی خلافت کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور یہ ان کی ایک بہت بڑی خوبی ہے۔مگر تم میں سے بعض لوگ پیغامیوں کی مدد کے لالچ میں آ گئے اور انہوں نے خلافت کو مٹانے کی کوششیں شروع کر دیں۔اور زیادہ تر افسوس یہ ہے کہ ان لوگوں میں اس عظیم الشان باپ کی اولاد بھی شامل ہے جس کو ہم بڑی قدر اور عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وفات پر 42 سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر میں ہر قربانی کے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔ تحریک جدید1934ء سے شروع ہے اور اب 1956ء ہے۔ گویا اِس پر 22 سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ شاید حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد خود بھی اس میں حصہ نہ لیتی ہو لیکن میں ہر سال آپ کی طرف سے اس میں چندہ دیتا ہوں تا کہ آپ کی روح کو بھی اس کا ثواب پہنچے۔ پھر جب میں حج پر گیا تو اُس وقت بھی میں نے آپ کی طرف سے قربانی کی تھی اور اب تک ہر عید کے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا چلا آیا ہوں۔غرض ہمارے دل میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی بڑی قدر اور عظمت ہے لیکن آپ کی اولاد نے جو نمونہ دکھایا وہ تمہارے سامنے ہے۔ اس کے مقابلہ میں تم حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کو دیکھو کہ وہ آج تک آپ کی خلافت کو سنبھالے چلے آتے ہیں۔ ہم تو اس مسیحؑ کے صحابہ اور انصار ہیں جس کو مسیح ناصریؑ پر فضیلت دی گئی ہے۔ مگر ہم جو افضل باپ کے روحانی بیٹے ہیں ہم میں سے بعض لوگ چند روپوں کے لالچ میں آ گئے۔ شاید اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ مماثلت بھی پوری ہونی تھی کہ جیسے آپ کے ایک حواری یہودا اسکریوطی نے رومیوں سے تیس روپے لے کر آپ کو بیچ دیا تھا9 اُسی طرح اِس مسیحؑ کی جماعت میں بھی بعض ایسے لوگ پیدا ہونے تھے جنہوں نے پیغامیوں سے مدد لے کر جماعت میں فتنہ کھڑا کرنا تھا۔ لیکن ہمیں عیسائیوں کے صرف عیب ہی نہیں دیکھنے چاہئیں بلکہ ان کی خوبیاں بھی دیکھنی چاہئیں۔ جہاں اُن میں ہمیں یہ عیب نظر آتا ہے کہ ان میں سے ایک نے تیس روپے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام کو بیچ دیا وہاں ان میں یہ خوبی بھی پائی جاتی ہے کہ آج تک جب کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر دو ہزار سال کے قریب عرصہ گزر چکا ہے وہ آپ کی خلافت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ آج جب میں نے اس بات پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اِس چیز کا وعدہ بھی حواریوں نے کیا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب کہا مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہ کہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں میری کون مدد کرے گا؟ تو حواریوں نے کہا نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ ہم خدا تعالیٰ کے رستہ میں آپ کی مدد کریں گے۔ انہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ پس اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم وہ انصارہیں جن کو خدا تعالیٰ کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ اس لئے جب تک خدا تعالیٰ زندہ ہے اُس وقت تک ہم بھی اس کی مدد کرتے رہیں گے۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات پر قریباً دو ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن عیسائی لوگ برابر عیسائیت کی تبلیغ کرتے چلے جا رہے ہیں اور اب تک ان میں خلافت قائم چلی آتی ہے۔ اب بھی ہماری زیادہ تر ٹکر عیسائیوں سے ہی ہو رہی ہے جو مسیح علیہ السلام کے متبع اور ان کے ماننے والے ہیں اور جن کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال رکھتے ہوئے فرمایاکہ خدا تعالیٰ کے سارے نبی اِس فتنہ کی خبر دیتے چلے آئے ہیں۔غرض وہ مسیح ناصریؑ جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ان پر فضیلت عطا فرمائی ہے ان کے انصار نے اتنا جذبہ اخلاص دکھایا کہ انہوں نے دو ہزار سال تک آپ کی خلافت کو مٹنے نہیں دیا۔ کیونکہ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اگر مسیح علیہ السلام کی خلافت مِٹی تو مسیح علیہ السلام کا خود اپنا نام بھی دنیا سے مٹ جائے گا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شروع عیسائیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ایک حواری نے آپ کو تیس روپے کے بدلہ میں دشمنوں کے ہاتھ بیچ دیا تھا لیکن اب عیسائیت میں وہ لوگ پائے جاتے ہیں جو مسیحیت کی اشاعت اورحضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا منوانے کے لئے کروڑوں کروڑ روپیہ دیتے ہیں۔ اِسی طرح اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ نے اپنے زمانہ میں بڑی قربانی کی ہے۔ لیکن آپ کی وفات پر ابھی صرف 48سال ہی ہوئے ہیں کہ جماعت میں سے بعض ڈانواں ڈول ہونے لگے ہیں اور پیغامیوں سے چند روپے لے کر ایمان کو بیچنے لگے ہیں حالانکہ ان میں سے بعض پر سلسلہ نے ہزارہا روپے خرچ کئے ہیں۔ مَیں پچھلے حسابات نکلوارہا ہوں اور میں نے دفتروالوں سے کہا ہے کہ وہ بتائیں کہ صدر انجمن احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کی کتنی خدمت کی ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے خاندان کی کتنی خدمت کی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فوت ہوئے 48سال ہو چکے ہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وفات پر 42سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فاصلہ زیادہ ہے اور پھر آپ کی اولاد بھی زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود میں نے حسابات نکلوائے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے خاندان کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان پرکم خرچ کیا ہے۔ لیکن پھر بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد میں یہ لالچ پید ا ہوئی کہ خلافت بھی سنبھالویہ ہمارے باپ کا حق تھا جو ہمیں ملنا چاہیے تھا۔ چنانچہ سندھ سے ایک آدمی نے مجھے لکھا کہ یہاں میاں عبدالمنان کے بھانجے مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کا ایک پروردہ شخص بشیر احمد آیا اور اس نے کہا کہ خلافت تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا مال تھا اور ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد کو ملنا چاہئیے تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد نے اسے غصب کرلیا ۔اب ہم سب نے مل کریہ کوشش کرنی ہے کہ اس حق کو دوبارہ حاصل کریں۔ پھر میں نے میاں عبدالسلام صاحب کی پہلی بیوی کے سوتیلے بھائی کا ایک خط پڑھا جس میں اس نے اپنے سوتیلے ماموں کو لکھا کہ مجھے افسوس ہے کہ مشرقی بنگال کی جماعت نے ایک ریزولیوشن پاس کرکے اس فتنہ سے نفرت کااظہار کیا ہے۔ ہمیں تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا۔ ہمارے لئے تو موقع تھا کہ ہم کوشش کرکے اپنے خاندان کی وجاہت کو دوبارہ قائم کرتے ۔یہ ویسی ہی نامعقول حرکت ہے جیسی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر لاہور کے بعض مخالفین نے کی تھی۔ انہوں نے آپ کے نقلی جنازے نکالے اور آپ کی وفات پر خوشی کے شادیانے بجائے ۔وہ تو دشمن تھے لیکن یہ لوگ احمدی کہلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنے خاندان کی وجاہت کو قائم کرنا چاہیے۔ حالانکہ حضرت خلیفہ اول کو جو عزت اور درجہ ملا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل ملا ہے۔ اب جو چیز آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل ملی تھی وہ ان لوگوں کے نزدیک ان کے خاندان کی جائیداد بن گئی۔ یہ وہی فقرہ ہے جو پرانے زمانہ میں ان لڑکوں کی والدہ نے مجھے کہا کہ پیغامی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خلافت تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی تھی۔ اگر آپ کی وفات کے بعد آپ کے کسی بیٹے کو خلیفہ بنالیا جاتا تو ہم اس کی بیعت کرلیتے مگر مرزا صاحب کا خلافت سے کیا تعلق تھا کہ آپ کے بیٹے کو خلیفہ بنا لیا گیا۔ اُس وقت میری بھی جوانی تھی ۔میں نے انہیں کہا کہ آپ کے لیے رستہ کھلا ہے، تانگے چلتے ہیں (اُن دنوں قادیان میں ریل نہیں آئی تھی )آپ چاہیں تو لاہور چلی جائیں میں آپ کو نہیں روکتا۔ وہاں جاکر آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ وہ آپ کی کیا امداد کرتے ہیں ۔وہاں تو مولوی محمد علی صاحب کو بھی خلافت نہیں ملی۔ انہیں صرف امارت ملی تھی اور امارت بھی ایسی کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہیں وصیت کرنی پڑی کہ فلاں فلاں شخص ان کے جنازے پر نہ آئے ۔ان کی اپنی تحریر موجود ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مولوی صدرالدین صاحب، شیخ عبدالرحمن صاحب مصری اور ڈاکٹر غلام محمد صاحب میرے خلاف پروپیگنڈا میں اپنی پوری قوت خرچ کررہے ہیں اور انہوں نے تنکے کو پہاڑبنا کر جماعت میں فتنہ پیدا کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ اوران لوگوں نے مولوی محمد علی صاحب پر طرح طرح کے الزامات لگائے۔ یہاں تک کہ آپ نے احمدیت سے انکار کردیا ہے اور انجمن کا مال غصب کرلیا ہے ۔اَب بتاؤ جب وہ شخص جو اس جماعت کا بانی تھا اسے یہ کہنا پڑا کہ جماعت کے بڑے بڑے آدمی مجھ پر الزام لگاتے ہیں اور مجھے مرتد اور جماعت کا مال غصب کرنے والا قرار دیتے ہیں تو اگر وہاں دودھ پینے والے چھوکرے چلے جاتے تو انہیں کیا ملتا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا تھا کہ انہیں پانچ پانچ روپے کے وظیفے دے کر کسی سکول میں داخل کردیا جاتا۔ مگر ہم نے تو ان کی تعلیم پر بڑا روپیہ خرچ کیا اور اس قابل بنایا کہ یہ بڑے آدمی کہلا سکیں۔ لیکن انہوں نے یہ کیا کہ جس جماعت نے انہیں پڑھایا تھا اُسی کو تباہ کرنے کے لئے حملہ کردیا ۔اِس سے بڑھ کر اور کیا قساوت ِ قلبی ہوگی کہ جن غریبوں نے انہیں پیسے دے کر اس مقام پر پہنچایا یہ لوگ انہی کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگ جائیں۔جماعت میں ایسے ایسے غریب ہیں کہ جن کی غربت کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا مگر وہ لوگ چندہ دیتے ہیں۔
ایک دفعہ قادیان میں ایک غریب احمدی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ امراء کے ہاں دعوتیں کھاتے ہیں۔ ایک دفعہ آپ میرے گھر بھی تشریف لائیں اور میری دعوت کو قبول فرمائیں۔ میں نے کہا تم بہت غریب ہو میں نہیں چاہتا کہ دعوت کی وجہ سے تم پر کوئی بوجھ پڑے ۔اُس نے کہامیں غریب ہوں تو کیا ہوا آپ میری دعوت ضرور قبول کریں۔ میں نے پھر بھی انکارکیا مگر وہ میرے پیچھے پڑگیا۔ چنانچہ ایک دن میں اس کے گھر گیا تاکہ اس کی دلجوئی ہوجائے۔ مجھے یاد نہیں اس نے چائے کی دعوت کی تھی یا کھانا کھلایا تھا۔ مگر جب میں اس کے گھر سے نکلا تو گلی میں ایک احمدی دوست عبدالعزیز صاحب کھڑے تھے وہ پسرور ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور مخلص احمدی تھے۔ لیکن انہیں اعتراض کرنے کی عادت تھی۔ میں نے انہیں دیکھا تو میرا دل بیٹھ گیااورمیں نے خیال کیا کہ اب یہ دوست مجھ پر ضرور اعتراض کریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا ۔حضور! آپ ایسے غریبوں کی دعوت بھی قبول کرلیتے ہیں؟ میں نے کہا عبدالعزیز صاحب میرے لئے دونوں طرح مصیبت ہے۔ اگر میں انکار کروں تو غریب کہتا ہے۔ مَیں غریب ہوں اس لئے میری دعوت نہیں کھاتے۔ اوراگر میں اس کی دعوت منظور کرلوں تو آپ لوگ کہتے ہیں کہ غریب کی دعوت کیوں مان لی۔ اب دیکھو اس شخص نے مجھے خود دعوت پر بلایا تھا ۔میں نے بارہا انکار کیا لیکن وہ میرے پیچھے اس طرح پڑا کہ میں مجبور ہوگیا کہ اس کی دعوت مان لوں لیکن دوسرے دوست کو اس پر اعتراض پیدا ہوا۔ غرض جماعت میں ایسے ایسے غریب بھی ہیں کہ ان کے ہاں کھانا کھانے پر بھی دوسروں کو اعتراض پیدا ہوتا ہے ۔ایسی غریب جماعت نے ان لڑکوں کی خدمت کرنے اور انہیں پڑھانے پر ایک لاکھ روپیہ سے زیادہ خرچ کیا۔ میاں عبدالسلام کو وکیل بنایا، عبدالمنان کو ایم اے کروایا، عبدالوہاب کو بھی تعلیم دلائی، اسے وظیفہ دیا، لاہور بھیجا اورہوسٹل میں داخل کروایا۔ مگر اسے خود تعلیم کا شوق نہیں تھا اس لئے وہ زیادہ تعلیم حاصل نہ کرسکا۔ لیکن پھر بھی جماعت نے اسے پڑھانے میں کوئی کوتاہی نہ کی، بعد میں مَیں نے معقول گزارہ دے کراسے دہلی بھجوایا اورکہا کہ تمہارے باپ کا پیشہ طب تھا تم بھی طب پڑھ لو۔ چنانچہ اُسے حکیم اجمل خاں صاحب کے کالج میں طب پڑھائی گئی۔ گو اس نے وہاں بھی وہی حرکت کی کہ پڑھائی کی طرف توجہ نہ کی اور فیل ہوا۔ لیکن اس نے اتنی عقلمندی کی کہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے گیا چنانچہ بیوی پاس ہوگئی اور امتحان میں اول آئی۔ اب سلسلہ کے اس روپیہ کی وجہ سے جواس پر خرچ کیا گیا وہ اپنا گزارہ کررہا ہے اوراس نے اپنے دواخانہ کا نام دواخانہ نورالدین رکھا ہواہے۔ حالانکہ دراصل وہ دواخانہ سلسلہ احمدیہ ہے، کیونکہ سلسلہ احمدیہ کے روپیہ سے ہی وہ اس حد تک پہنچا ہے کہ دواخانہ کو جاری رکھ سکے۔اب وہ لکھتا ہے کہ میری بیوی جو گولڈ میڈلسٹ ہے وہ علاج کرتی ہے۔ وہ یہ کیوں نہیں لکھتا کہ میری بیوی جس کو سلسلہ احمدیہ نے خرچ دے کر پڑھایا ہے علاج کرتی ہے۔ غرض چاہے تعلیم کو لیا جائے، طب کو لیا جائے، یا کسی اَور پیشہ کو لیا جائے یہ لوگ سلسلہ کی مدد کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑے ہی نہیں ہوسکتے تھے۔ مگر اس ساری کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب یہ لوگ سلسلہ احمدیہ کو ہی تباہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر سلسلہ احمدیہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے جسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا۔ یہ سلسلہ ایک چٹان ہے جو اِس پر گرے گا وہ پاش پاش ہو جائے گا اور جو اس کو مٹانا چاہے گا وہ خود مٹ جائے گا۔ اور کوئی شخص بھی خواہ اس کی پشت پناہ احراری ہوں یا پیغامی ہوں اس کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو گا۔اس کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کرنے والے ذلیل اور خوار ہوں گے اور قیامت تک ذلت اور رسوائی میں مبتلا رہیں گے ۔اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عزت اور رفعت دیتا چلا جائے گا اور تمام دنیا میں آپ کا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ پھیلتا چلا جائے گا۔ اور جب آپ کے ذریعہ ہی اسلام بڑھے گا تو لازمی طور پر جو لوگ آپ کے ذریعہ اسلام قبول کریں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے وہ آپ پر بھی ایمان لائیں گے۔ لیکن اس سلسلہ کی تباہی کا ارادہ کرنے والے ابھی زندہ ہی ہوں گے کہ ان کی عزتیں ان کی آنکھوں کے سامنے خاک میں مل جائیں گی۔ اور پیغامیوں نے جو ان سے مدد کا وعدہ کیا ہے وہ وعدہ بھی خاک میں مل جائے گا۔مولوی محمد علی صاحب سے ان لوگوں نے جو وعدہ کیا تھا کیا وہ پورا ہوا؟ ان کا انجام آپ لوگوں کے سامنے ہے۔ اَب ان لوگوں کا انجام مولوی محمد علی صاحب سے بھی بد تر ہو گا۔ اس لئے کہ جب انہوں نے سلسلہ سے علیحدگی اختیار کی تھی اورا نجمن اشاعتِ اسلام کی بنیاد رکھی تھی تو انہوں نے سلسلہ احمدیہ کی ایک عرصہ کی خدمت کے بعد ایسا کیا تھا۔ انہیں دنیا کی خدمت کا موقع ملا تھا۔ رسالہ ریویوآف ریلیجنز دنیا میں بہت مقبول ہوا اور وہ اس کے ایڈیٹرتھے۔ پھر انہوں نے اپنے خرچ سے پڑھائی کی تھی۔ لیکن ان لوگوں نے اپنے یا اپنے باپ کے پیسے سے پڑھائی نہیں کی بلکہ غریب لوگوں کے پیسے سے کی جو بعض دفعہ رات کو فاقہ سے سوتے ہیں اوراس سارے احسان کے بعد انہوں نے یہ کیا کہ وہ سلسلہ احمدیہ کو تباہ کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔
یاد رکھو! تمہارا نام انصاراللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے مدد گار۔ گویا تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ازلی اور ابدی ہے اس لئے تم کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ابدیت کے مظہر ہو جاؤ۔ تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لئے قائم رکھتے چلے جاؤ اور کوشش کرو کہ یہ کام نسلاً بَعْدَ نسلٍ چلتا چلا جاوے۔ اور اس کے دو ذریعے ہو سکتے ہیں ۔ایک ذریعہ تو یہ کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی جائے اور اس میں خلافت کی محبت قائم کی جائے۔اس لئے میں نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی تھی اور خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ اطفال اور خدام آپ لوگوں کے ہی بچے ہیں۔ اگر اطفال الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی تو خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی۔ اور اگر خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی تو اگلی نسل انصاراللہ کی اعلیٰ ہو گی۔ میں نے سیڑھیاں بنا دی ہیں آگے کام کرنا تمہارا کام ہے۔ پہلی سیڑھی اطفال الاحمدیہ ہے۔ دوسری سیڑھی خدام الاحمدیہ ہے، تیسری سیڑھی انصارللہ ہے اور چوتھی سیڑھی خدا تعالیٰ ہے۔ اب تم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرو اور دوسری طرف خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگو تو یہ چاروں سیڑھیاں مکمل ہو جائیں گی۔ اگر تمہارے اطفال اور خدام ٹھیک ہو جائیں اور پھر تم بھی دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لو تو پھر تمہارے لئے عرش سے نیچے کوئی جگہ نہیں۔ اور جو عرش پر چلا جائے وہ بالکل محفوظ ہو جاتا ہے۔ دنیا حملہ کرنے کی کوشش کرے تو وہ زیادہ سے زیادہ سو دو سو فٹ پر حملہ کر سکتی ہے، وہ عرش پر حملہ نہیں کر سکتی۔ پس اگر تم اپنی اصلاح کر لو گے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو گے تو تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو جائے گا۔ اور اگر تم حقیقی انصار اللہ بن جاؤ اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لو تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی طور پر رہے گی اور وہ عیسائیت کی خلافت سے بھی لمبی چلے گی ۔عیسائیوں کی تعداد تو تمام کوششوں کے بعد مسلمانوں سے قریباً دُگنی ہوئی ہے مگر تمہارے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ پیشگوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری تعداد کو اتنا بڑھا دے گا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دوسرے تمام مذاہب ہندو ازم، بدھ مت، عیسائیت اور شنٹوازم وغیرہ کے پَیرو تمہارے مقابلہ میں بالکل ادنیٰ اقوام کی طرح رہ جائیں گے یعنی ان کی تعداد تمہارے مقابلہ میں ویسی ہی بے حقیقت ہو گی جیسے آج کل ادنیٰ اقوام کی دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں ہے۔ وہ دن جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے یقیناً آئے گا۔ لیکن جب آئے گا تو اسی ذریعہ سے آئے گا کہ خلافت کو قائم رکھا جائے،تبلیغِ اسلام کو قائم رکھا جائے، تحریک جدید کو مضبوط کیا جائے، اشاعتِ اسلام کے لئے جماعت میں شغف زیادہ ہو اور دنیا کے کسی کونہ کو بھی بغیر مبلغ کے نہ چھوڑا جائے۔
مجھے بیرونی ممالک سے کثرت سے چِٹھیاں آ رہی ہیں کہ مبلغ بھیجے جائیں ۔اس لئے ہمیں تبلیغ کے کام کو بہر حال وسیع کرنا پڑے گا اور اتنا وسیع کرنا پڑے گا کہ موجودہ کام اس کے مقابلہ میں لاکھواں حصہ بھی نہ رہے۔ میں نے بتایا ہے کہ خلافت کی وجہ سے رومن کیتھولک اس قدر مضبوط ہوگئے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے پڑھا کہ ان کے 54لاکھ مبلغ ہیں۔ ان سے اپنا مقابلہ کرو اورخیال کرو کہ تم سو ڈیڑھ سو مبلغوں کے اخراجات پر ہی گھبرانے لگ جاتے ہو۔ اگر تم ا ن سے تین چار گنے زیادہ طاقت وربننا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ تمہارا دو کروڑ مبلغ ہو۔ لیکن اب یہ حالت ہے کہ ہمارے سب مبلغ ملالئے جائیں تو ان کی تعداد دو سو کے قریب بنتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عیسائیوں کو مسلمان کرلیں، بُدھوں کو مسلمان کرلیں، شنٹو ازم والوں کو مسلمان کرلیں، کنفیوشس ازم کے پیروؤں کو مسلمان کرلیں تو اس کے لئے دو کروڑمبلغوں کی ضرورت ہے۔ اور ان مبلغوں کو پیدا کرنا اورپھر ان سے کام لینا بغیر خلافت کے نہیں ہوسکتا۔
ہمارے ملک میں ایک کہانی مشہور ہے کہ ایک بادشاہ جب مرنے لگا تو اس نے اپنے تمام بیٹوں کو بلایا اور انہیں کہا ایک جھاڑو لاؤ۔ وہ ایک جھاڑو لے آئے ۔اس نے اس کا ایک ایک تنکا انہیں دیا اور کہا اسے توڑو اورانہوں نے اسے فوراًتوڑ دیا۔ پھر اس نے سارا جھاڑو انہیں دیا کہ اب اسے توڑو۔انہوں نے باری باری پورا ضرور لگایا مگر وہ جھاڑو اُن سے نہ ٹوٹا ۔اِس پر اُس نے کہا میرے بیٹو!دیکھو میں نے تمہیں ایک ایک تنکا دیا تو تم نے اسے بڑی آسانی سے توڑدیا لیکن جب سارا جھاڑو تمہیں دیا تو باوجود اس کے تم نے پورا زور لگایا وہ تم سے نہ ٹوٹا۔ اِسی طرح اگر تم میرے مرنے کے بعد بکھر گئے تو ہر شخص تمہیں تباہ کرسکے گا۔ لیکن اگر تم متحد رہے تو تم ایک مضبوط سوٹے کی طرح بن جاؤ گے ۔جسے دنیا کی کوئی طاقت توڑ نہیں سکے گی ۔اسی طرح اگر تم نے خلافت کے نظام کو توڑ دیا تو تمہاری کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی اور تمہیں دشمن کھا جائے گا۔ لیکن اگرتم نے خلافت کو قائم رکھا تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں تباہ نہیں کرسکے گی۔
تم دیکھ لو ہماری جماعت کتنی غریب ہے لیکن خلافت کی وجہ سے اسے بڑی حیثیت حاصل ہے اور اس نے وہ کام کیا ہے جو دنیا کے دوسرے مسلمان نہیں کرسکے۔ مصر کا ایک اخبار الفتح ہے جو سلسلہ کا شدید مخالف ہے اس میں ایک دفعہ کسی نے مضمون لکھا کہ گزشتہ 1300سال میں مسلمانوں میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں مگر انہوں نے اسلام کی وہ خدمت نہیں کی جو اس غریب جماعت نے کی ہے اور یہ چیز ہر جگہ نظر آتی ہے۔یورپ والے بھی اسے مانتے ہیں اور ہمارے مبلغوں کا بڑا اعزاز کرتے ہیں اور انہیں اپنی دعوتوں اور دوسری تقریبوں میں بلاتے ہیں۔ اسرائیلیوں کو ہم سے شدید مخالفت ہے مگر پچھلے دنوں جب ہمارا مبلغ واپس آیا تو اسے وہاں کے صدر کی چٹھی ملی کہ جب آپ واپس جائیں تو مجھے مل کرجائیں۔ اور جب وہ اسے ملنے کے لئے گئے تو ان کا بڑا اعزاز کیا گیا اور اس موقع پر ان کے فوٹو لیے گئے اور پھر ان فوٹوؤں کو حکومتِ اسرائیل نے تمام مسلمان ممالک میں چھپوایا ۔انہوں نے ان فوٹوؤں کو مصر میں بھی چھپوایا ،عرب ممالک میں بھی چھپوایا ،افریقہ میں بھی چھپوایا اور ہندوستان میں بھی ان کی اشاعت کی۔جب چودھری ظفراللہ خاں صاحب شام گئے تو وہاں کے صدر نے انہیں کہا کہ کیا آپ کی اسرائیل سے صلح ہوگئی ہے؟انہوں نے اسے بتایا کہ ہماری اسرائیل سے کوئی صلح نہیں ہوئی بلکہ ہم اس کے شدید مخالف ہیں ۔غرض وہ اسرائیل جو عرب ممالک سے صلح نہیں کرتا اُس نے دیکھا کہ احمدیوں کی طاقت ہے اس لئے ان سے صلح رکھنی ہمارے لئے مفید ہوگی۔وہ سمجھتا ہے کہ ان لوگوں سے خواہ مخواہ ٹکر نہیں لینی چاہیے۔ گو اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی کیونکہ احمدی اسرائیل کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ میں خنجر سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اسرائیل مدینہ کے بہت قریب ہے۔ وہ اگر ہمارے مبلغ کو اپنے ملک کا بادشاہ بھی بنا لیں تب بھی ہماری دلی خواہش یہی ہوگی کہ ہمارا بَس چلے تو اسرئیل کو سمندر میں ڈبودیں اور فلسطین کو ان سے پاک کرکے مسلمانوں کے حوالہ کردیں۔ بہرحال ان کی یہ خواہش توکبھی پوری نہیں ہوگی لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جماعت اگرچہ چھوٹی ہے لیکن متحد ہونے کی وجہ سے اسے ایک طاقت حاصل ہے ۔اس طاقت سے ہمیں خواہ مخواہ ٹکر نہیں لینی چاہیے۔ چنانچہ وہ ہم سے ڈرتے ہیں۔پاکستان میں ہمارے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی کوئی طاقت نہیں، انہیں اقلیت قرار دے دینا چاہیے حالانکہ یہاں ہماری تعداد لاکھوں کی ہے لیکن اسرائیل میں ہماری تعداد چند سوکی ہے۔پھر بھی وہ چاہتے ہیں کہ ہماری دلجوئی کی جائے اور یہ محض خلافت کی ہی برکت ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ چاہے ہمارے ملک میں چند سواحمدی ہیں اگر وہ ایک ہاتھ پر جمع ہیں اگر انہوں نے آواز اٹھائی تو ان کی آواز صرف فلسطین میں ہی نہیں رہے گی بلکہ ان کی آواز شام میں بھی اٹھے گی، عراق میں بھی اٹھے گی ،مصر میں بھی اٹھے گی،ہالینڈ میں بھی اٹھے گی،فرانس میں بھی اٹھے گی،سپین میں بھی اٹھے گی،انگلستان میں بھی اٹھے گی،سکنڈے نیویا میں بھی اٹھے گی،سوئٹزرلینڈ میں بھی اٹھے گی،امریکہ میں بھی اٹھے گی،انڈونیشیا میں بھی اٹھے گی۔ یہ لوگ تمام ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اگر ان سے بُرا سلوک کیا گیا تو تمام ممالک میں اسرائیل بدنام ہوجائے گا اس لئے ان سے بگاڑ مفید نہیں ہوگا۔یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے مبلغ کا اعزاز کرتے ہیں۔
اسی طرح جب تقسیمِ ملک ہوئی تو ہمارے مبلغوں نے تمام ممالک میں ہندوستان کے خلاف پراپیگنڈا کیا۔ اُس وقت لنڈن میں چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام تھے انہیں پنڈت نہرو نے لکھا کہ آپ لوگوں نے تمام دنیا میں ہمیں اس قدر بدنام کردیا ہے کہ ہم کسی ملک کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ اب دیکھ لو پنڈت نہرو باقی تمام مسلمانوں سے نہیں ڈرے انہیں ڈرمحسوس ہواتو صرف احمدیوں سے اور اس کی وجہ محض ایک مقصد پر جمع ہونا تھی۔ اور یہ طاقت اور قوت جماعت کو کس طرح نصیب ہوئی؟ یہ صرف خلافت ہی کی برکت تھی جس نے احمدیوں کو ایک نظام میں پرودیااور اس کے نتیجہ میں انہیں طاقت حاصل ہوگئی۔میرے سامنے اِس وقت چودھری غلام حسین صاحب بیٹھے ہیں جو مخلص احمدی ہیں اور صحابی ہیں یہ اپنی آواز کو امریکہ کس طرح پہنچا سکتے ہیں،یہ اپنی آواز کو انگلینڈ کیسے پہنچاسکتے ہیں،یہ اپنی آواز کو فرانس،جرمنی اور سپین کیسے پہنچا سکتے ہیں، یہ بے شک جو شیلے احمدی ہیں مگر یہ اپنی آواز دوسرے ملک میں اپنے دوسرے احمدی بھائیوں کے ساتھ مل کر ہی پہنچا سکتے ہیں ورنہ نہیں۔اِسی مل کر کام کرنے سے اسرائیل کو ڈر پیدا ہوا اور اسی مل کر کام کرنے سے ہی پاکستان کے مولوی ڈرے اور انہوں نے ملک کے ہر کونہ میں یہ جھوٹا پراپیگنڈ ا شروع کردیا کہ احمدیوں نے ملک کے سب کلیدی عہدے سنبھال لئے ہیں انہیں اقلیت قرار دیا جائے اور ان عہدوں سے انہیں ہٹادیا جائے۔ حالانکہ کلیدی عہدے اُنہی کے پاس ہیں ہمارے پاس نہیں۔ یہ سب طاقت خلافت کی وجہ سے ہے۔ خلافت کی وجہ سے ہی ہم اکٹھے رہے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔
اب اس فتنہ کو دیکھو جو 1953ء کے بعد جماعت میں اٹھا ۔اس میں سارے احراری فتنہ پردازوں کے ساتھ ہیں۔ تمہیں یاد ہے کہ1934ء میں بھی احراری اپنا سارا زور لگا چکے ہیں اوربری طرح ناکام ہوئے ہیں اوراس دفعہ بھی وہ ضرور ناکام ہوں گے۔ اس دفعہ اگر انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد ان کے ساتھ ہے اس لئے وہ جیت جائیں گے تو انہیں جان لینا چاہیے کہ جماعت کے اندر اتنا ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کے مقابلہ میں خواہ کوئی اٹھے جماعت احمدیہ اس کا کبھی ساتھ نہیں دے گی۔ کیونکہ انہوں نے دلائل اور معجزات کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے ۔ان میں سے ہر شخص نے اپنے اپنے طور پر تحقیقات کی ہے۔ کوئی گوجرانوالہ میں تھا، کوئی گجرات میں تھا، کوئی شیخوپورہ میں تھا، وہاں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں پہنچیں اور آپؑ کے دلائل نقل کرکے بھجوائے گئے تو وہ لوگ ایمان لے آئے۔ پھر ایک دھاگا میں پروئے جانے کی وجہ سے انہیں طاقت حاصل ہوگئی ۔اب دیکھ لو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہی طاقت تھی کہ آپ نے اعلان فرمادیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں ۔بس حضرت مسیح علیہ السلام کی موت سے ساری عیسائیت مر گئی۔ اب یہ کتنا صاف مسئلہ تھا مگر کسی اَور مولوی کو نظر نہ آیا ۔سارے علماء کتابیں پڑھتے رہے لیکن ان میں سے کسی کو یہ مسئلہ نہ سُوجھا اور وہ حیران تھے کہ عیسائیت کا مقابلہ کیسے کریں ۔حضرت مرزا صاحب نے آکر عیسائیت کے زور کو توڑدیا اور وفاتِ مسیح کا ایسا مسئلہ بیان کیا کہ ایک طرف مولویوں کا زور ٹوٹ گیا تو دوسری طرف عیسائی ختم ہوگئے۔
بھیرہ میں ایک غیراحمدی حکیم الہٰ دین صاحب ہوتے تھے۔وہ اپنے آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الاول سے بھی بڑا حکیم سمجھتے تھے۔ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک صحابی حکیم فضل دین صاحب انہیں ملنے کے لئے گئے اور انہوں نے چاہا کہ وہ انہیں احمدیت کی تبلیغ کریں ۔حکیم الہٰ دین صاحب بڑے رُعب والے شخص تھے وہ جوش میں آگئے اور کہنے لگے تُو کل کا بچہ ہے اور مجھے تبلیغ کرنے آیا ہے؟ تُو احمدیت کو کیا سمجھتا ہے؟ میں اسے خوب سمجھتا ہوں ۔حضرت مرزا صاحب نے اپنی مشہور کتاب براہین احمدیہ لکھی جس سے اسلام تمام مذاہب پر غالب ثابت ہوتا تھا مگر مولویوں نے آپ پر کفرکا فتویٰ لگا دیا۔حضرت مرزا صاحب کو غصہ آیا اور انہوں نے کہا اچھا تم بڑے عالم بنے پھرتے ہو،میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قرآن کریم سے فوت شدہ ثابت کردیتا ہوں تم اسے زندہ ثابت کرکے دکھاؤ۔ گویا آپ نے یہ مسئلہ ان مولویوں کو ذلیل کرنے کے لئے بیان کیا تھا ورنہ درحقیقت آپ کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود ہیں۔ پھر حکیم صاحب نے ایک گندی گالی دے کرکہا کہ مولوی لوگ پور ا زور لگا چکے ہیں مگر حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ میں ناکام رہے ہیں۔اس کا اب ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ ہے کہ سب مل کر حضرت مرزا صاحب کے پاس جائیں اور کہیں ہم آپ کو سب سے بڑا عالم تسلیم کرتے ہیں ۔ہم ہارے اور آپ جیتے۔ اور اپنی پگڑیاں ان کے پاؤں پر رکھ دیں اور درخواست کریں کہ اب آپ ہی قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت کردیں۔ہم تو پھنس گئے ہیں۔ اب معافی چاہتے ہیں اور آپ کو اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں۔ اگر مولوی لوگ ایسا کریں تو دیکھ لینا حضرت مرزا صاحب نے قرآن کریم میں سے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ ثابت کردینا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وہ عظمت دی ہے کہ آپ ؑ کے مقابلہ میں اور کوئی نہیں ٹھہرسکتا۔ چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہوکیونکہ اگر وہ جماعت میں بڑا ہے تو آپ کی غلامی کی وجہ سے بڑا ہے۔ آپ کی غلامی سے باہر نکل کر اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔
مجھے یاد ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب چشمہ معرفت لکھی تو کسی مسئلہ کے متعلق آپ کو خیال پیدا ہوا کہ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی بھی کوئی کتاب پڑھ لیں اور دیکھیں کہ انہوں نے اس کے متعلق کیا لکھا ہے۔ آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا محمود! ذرا مولوی صاحب کی کتاب تصدیق براہین احمدیہ لاؤ اور مجھے سناؤ۔ چنانچہ میں وہ کتاب لایا اور آپ نے نصف گھنٹہ تک کتاب سنی اس کے بعد فرمایا اس کو واپس رکھ آؤ اس کی ضرورت نہیں۔ اب تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب چشمہ معرفت کو بھی پڑھواور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی کتاب تصدیق براہین احمدیہ کوبھی دیکھو اور پھر سوچو کہ کیا اِن دونوں میں کوئی نسبت ہے اور کیا آپ نے کوئی نکتہ بھی اس کتاب سے اخذ کیا ہے؟حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی اس کتاب میں پیدائشِ عالَم اور حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق ایسے مسائل بیان فرمائے ہیں کہ ساری دنیا سردھنتی ہے اور تسلیم کرتی ہے لاینحل عُقدے تھے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حل کردیا ہے۔ یہ سب برکت جو ہمیں ملی ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل ملی ہے۔اب آپ لوگوں کا کام ہے کہ اپنی ساری زندگی آپ کے لائے ہوئے پیغام کی خدمت میں لگا دیں اور کوشش کریں کہ آپ کے بعد آپ کی اولاد پھر اس کی اولاد اور پھر اس کی اولاد بلکہ آپ کی آئندہ ہزاروں سال تک کی نسلیں اس کی خدمت میں لگی رہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خلافت کو قائم رکھیں۔
مجھ پر یہ بہتان لگایا گیا ہے کہ گویا میں اپنے بعد اپنے کسی بیٹے کو خلیفہ بنانا چاہتا ہوں۔یہ بالکل غلط ہے۔ اگر میرا کوئی بیٹا ایسا خیال بھی دل میں لائے گا تو وہ اُسی وقت احمدیت سے نکل جائے گا۔ بلکہ میں جماعت سے کہتا ہوں کہ وہ دعائیں کرے کہ خدا تعالیٰ میری اولاد کو اس قسم کے وسوسوں سے پاک رکھے۔ایسا نہ ہو کہ اس پروپیگنڈا کی وجہ سے میرے کسی کمزور بچے کے دل میں خلافت کا خیال پیدا ہوجائے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام تھے۔میں سمجھتا ہوں کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو آقا تھے اگر ان کی اولاد میں بھی کسی وقت یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ خلافت کو حاصل کریں تو وہ بھی تباہ ہو جائے گی کیونکہ یہ چیز خدا تعالیٰ نے اپنے قبضے میں رکھی ہوئی ہے۔ اور جو خدا تعالیٰ کے مال کو اپنے قبضہ میں لینا چاہتا ہے وہ چاہے کسی نبی کی اولاد ہو یا کسی خلیفہ کی وہ تباہ و برباد ہوجائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے گھر میں چوری نہیں ہوسکتی۔ چوری تو ادنیٰ لوگوں کے گھروں میں ہوتی ہے۔ اورقرآن کریم کہتا ہے وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ 10مومنوں سے خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جیسے اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا۔ گویا خلافت خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اور اُس نے خود دینی ہے۔ جو اسے لینا چاہتا ہے چاہے وہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیٹا ہو یا حضرت مسیح اول کا ، وہ یقیناً سزا پائے گا۔ پس یہ مت سمجھو کہ یہ فتنہ جماعت کو کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن پھر بھی تمہارا یہ فرض ہے کہ تم اس کا مقابلہ کرو اورسلسلہ احمدیہ کو اس سے بچاؤ۔
دیکھو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیاتھا کہ وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ11 وہ آپؐ کو لوگوں کے حملوں سے بچائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ سے زیادہ سچا اورکس کا وعدہ ہو سکتاہے مگر کیا صحابہؓ نے کبھی آپ کی حفاظت کا خیال چھوڑا؟ بلکہ صحابہؓ نے ہر موقع پر آپ کی حفاظت کی۔ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر سے باہر ہتھیاروں کی آواز سنی تو آپ باہر نکلے اور دریافت کیا کہ یہ کیسی آواز ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم انصار ہیں چونکہ اردگرد دشمن جمع ہیں اس لئے ہم ہتھیار لگا کر آپ کا پہرہ دینے آئے ہیں۔ اِسی طرح جنگ احزاب میں جب دشمن حملہ کرتا تھا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کی طرف جاتا تھا ۔آپ کے ساتھ اُس وقت صرف سات سو صحابہ تھے کیونکہ پانچ سو صحابہؓ کو آپ نے عورتوں کی حفاظت کے لئے مقرر کردیا تھا اور دشمن کی تعداد اُس وقت سولہ ہزار سے زیادہ تھی لیکن اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ہوئی اور دشمن ناکام و نامراد رہا ۔میور جیسا دشمنِ اسلام لکھتا ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح اور کفار کے شکست کھانے کی یہ وجہ تھی کہ کفار نے مسلمانوں کی اس محبت کا، جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سےتھی غلط اندازہ لگایا تھا۔ وہ خندق سے گزر کر سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کا رخ کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے مسلمان مرد عورتیں اور بچے سب مل کر اُن پر حملہ کرتے اور ایسا دیوانہ وار مقابلہ کرتے کہ کفار کو بھاگ جانے پر مجبور کردیتے۔وہ کہتا ہے کہ اگرکفار یہ غلطی نہ کرتے اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کی بجائے کسی اورجہت میں حملہ کرتے تو وہ کامیاب ہوتے۔ لیکن وہ سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کا رُخ کرتے تھے اور مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت محبت تھی۔ وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ دشمن آپ کی ذات پر حملہ آور ہو اس لئے وہ بے جگر ی سے حملہ کرتے اور کفار کا منہ توڑ دیتے۔ ان کے اندر شیر کی سی طاقت پیدا ہوجاتی تھی اور وہ اپنی جان کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔ یہ وہ سچی محبت تھی جو صحابہؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی۔
آپ لوگ بھی ان جیسی محبت اپنے اندر پیدا کریں۔ جب آپ نے انصار کا نام قبول کیا ہے تو ان جیسی محبت بھی پیدا کریں۔ آپ کے نام کی نسبت خدا تعالیٰ سے ہے اور خدا تعالیٰ ہمیشہ رہنے والا ہے۔اس لئے تمہیں بھی چاہیئے کہ خلافت کے ساتھ ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھیں اور ہمیشہ دین کی خدمت میں لگے رہو۔ کیونکہ اگر خلافت قائم رہے گی تو اس کو انصار کی بھی ضرورت ہوگی خدام کی بھی ضرورت ہوگی اور اطفال کی بھی ضرورت ہو گی ورنہ اکیلا آدمی کوئی کام نہیں کرسکتا، اکیلا نبی بھی کوئی کام نہیں کرسکتا۔ دیکھو حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حواری دیئے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کی جماعت دی۔اِسی طرح اگر خلافت قائم رہے گی تو ضروری ہے کہ اطفال الاحمدیہ، خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ بھی قائم رہیں۔ اور جب یہ ساری تنظیمیں قائم رہیں گی تو خلافت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم رہے گی۔ کیونکہ جب دنیا دیکھے گی کہ جماعت کے لاکھوں لاکھ آدمی خلافت کے لئے جان دینے پر تیار ہیں تو جیسا کہ میور کے قول کے مطابق جنگِ احزاب کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ پر حملہ کرنے کی وجہ سے حملہ آور بھاگ جانے پر مجبور ہوجاتے تھے اُسی طرح دشمن اِدھر رخ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا ۔وہ سمجھے گا کہ اس کے لئے لاکھوں اطفال، خدام اور انصار جانیں دینے کے لئے تیار ہیں اس لئے اگر اس نے حملہ کیا تو وہ تباہ وبرباد ہوجائے گا ۔غرض دشمن کسی رنگ میں بھی آئے جماعت اس سے دھوکا نہیں کھائے گی۔ کسی شاعر نے کہا ہے ۔
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من اندازِ قدت را مے شناسم
کہ تُو کسی رنگ کا کپڑا پہن کر آجائے، تُو کوئی بھیس بد ل لے میں تیرے دھوکا میں نہیں آسکتا کیونکہ میں تیرا قد پہچانتا ہوں ۔اِسی طرح چاہے خلافت کا دشمن حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی اولاد کی شکل میں آئے اور چاہے وہ کسی بڑے اور مقرب صحابی کی اولاد کی شکل میں آئے ایک مخلص آدمی اُسے دیکھ کر یہی کہے گا کہ
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من اندازِ قدت را مے شناسم
یعنی تُو کسی رنگ میں بھی آاور کسی بھیس میں آ میں تیرے دھوکا میں نہیں آسکتا کیونکہ میں تیری چال اور قد کو پہچانتا ہوں۔ تُو چاہے مولوی محمد علی صاحب کا جُبّہ پہن لے، چاہے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کا جُبّہ پہن لے یاحضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کا جُبّہ پہن لے میں تمہیں پہچان لوں گا اور تیرے دھوکا میں نہیں آؤ نگا۔
مجھے راولپنڈی کے ایک خادم نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ شروع شروع میں اللہ رکھا میرے پاس آیا اور کہنے لگاکہ مری کے امیر کے نام مجھے ایک تعارفی خط لکھ دو ۔میں نے کہا میں کیوں لکھوں؟ مری جاکر پوچھ لو کہ وہاں کی جماعت کا کون امیر ہے۔ مجھے اُس وقت فوراً خیال آیا کہ یہ کوئی منافق ہے۔ چنانچہ میں نے لَاحَوْلَ پڑھنا شروع کر دیا اور آدھ گھنٹے تک پڑھتارہا اور سمجھا کہ شاید مجھ میں بھی کوئی نقص ہے جس کی وجہ سے یہ منافق میرے پاس آیا ہے۔ تو احمدی عقل مند ہوتے ہیں۔ وہ منافقوں کے فریب میں نہیں آتے۔ کوئی کمزور احمدی ان کے فریب میں آجائے تو اور بات ہے ورنہ اکثر احمدی انہیں خوب جانتے ہیں۔
اَب انہوں نے لاہور میں اشتہارات چھاپنے شروع کئے ہیں۔ جب مجھے بعض لوگوں نے یہ اطلاع دی تو میں نے کہا گھبرا ؤ نہیں پیسے ختم ہوجائیں گے تو خود بخود اشتہارات بند ہوجائیں گے۔ مجھے لاہور سے ایک دوست نے لکھا کہ اب ان لوگوں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ وہ اخباروں میں شور مچائیں اور اشتہارات شائع کریں۔ وہ دوست نہایت مخلص ہیں اور منافقین کا بڑے جوش سے مقابلہ کررہے ہیں مگر منافق اُسے کذاب کا خطاب دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص یونہی ہمارے متعلق خبریں اڑاتا رہتا ہے۔ لیکن ہم اسے جھوٹا کیونکر کہیں۔ اِدھر ہمارے پاس یہ خبر پہنچی کہ ان لوگوں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ اشتہارات شائع کئے جائیں اور اُدھر لاہور کی جماعت نے ہمیں ایک اشتہار بھیج دیا جو ان منافقین نے شائع کیا تھا اور جب بات پوری ہوگئی تو ہم نے سمجھ لیا کہ اس دوست نے جو خبر بھیجی تھی وہ سچی ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو حقیقی انصار بنائے چونکہ تمھاری نسبت اس کے نام سے ہے اس لئے جس طرح وہ ہمیشہ زندہ رہے گا اسی طرح وہ آپ لوگو ں کی تنظیم کو بھی تاقیامت زندہ رکھے اور جماعت میں خلافت بھی قائم رہے اور خلافت کی سپاہ بھی قائم رہے۔ لیکن ہماری فوج تلواروں والی نہیں۔اِن انصار میں سے تو بعض ایسے ضعیف ہیں کہ ان سے ایک ڈنڈا بھی نہیں اٹھایا جاسکتا لیکن پھر بھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوج ہیں اور ان کی وجہ سے احمدیت پھیلی ہے اور امید ہے کہ آئندہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ اَور زیادہ پھیلے گی۔ اور اگر جماعت زیادہ مضبوط ہوجائے تو اس کا بوجھ بھی انشاء اللہ ہلکا ہوجائے گا ورنہ انفرادی طورپر کچھ دیر کے بعد آدمی تھک جاتا ہے۔ پس تم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں احمدیت کی اشاعت کی کوشش کرو اور انہیں تبلیغ کرو تاکہ اگلے سال ہماری جماعت موجودہ تعدادسے دُگنی ہوجائے اور تحریک جدید میں حصہ لینے والے دُگنا چندہ دیں۔ اور پھر اپنی دعاؤں اور نیکی اور تقویٰ کے ساتھ نوجوانوں پر اثر ڈالوتاکہ وہ بھی دعائیں کرنے لگ جائیں اور صاحبِ کشوف و رؤیا ہوجائیں۔ جس جماعت میں صاحبِ کشوف و رؤیا زیادہ ہوجاتے ہیں وہ جماعت مضبوط ہوجاتی ہے کیونکہ انسان کی دلیل سے اتنی تسلی نہیں ہوتی جتنی تسلی کشف اور رؤیا سے ہوتی ہے اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔’’
(الفضل 21، 24 مارچ 1957ء)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
احمدیت کی اشاعت اور نظام خلافت کی حفاظت کے لئے
انصار اللہ کو اپنا عہد ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے
اختتامی خطاب
(فرمودہ27/ اکتوبر1956ء برموقع سالانہ اجتماع انصار اللہ مرکزیہ مقام ربوہ)
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘ میں تقریر شروع کرنے سے پہلے انصار اللہ کا عہد دُہراتا ہوں سب دوست کھڑے ہوجائیں اور میرے ساتھ ساتھ عہد دُہراتے جائیں۔’’
حضور کے اس ارشاد پر سب دوست کھڑے ہوگئے اور حضور نے مندرجہ ذیل عہد دُہرایا۔
''اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ اسلام اور احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظامِ خلافت کی حفاظت کے لئے انشاء اللہ آخر دم تک جدو جہد کرتا رہوں گااور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہوں گا۔ نیز میں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا۔''
اسکے بعد فرمایا:۔
‘‘ کل کی تقریر کے بعد کھانے میں کچھ بدپرہیزی ہوگئی جس کی وجہ سے اسہال آنے شروع ہوگئے اور پھر رات بھر اسہال آتے رہے جس کی وجہ سے میں اس وقت بہت زیادہ کمزوری محسوس کررہا ہوں لیکن چونکہ احباب باہر سے تشریف لائے ہوئے ہیں اِس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ یہاں آکر جو کچھ بھی کہہ سکوں بیان کردوں۔
میں نے کل اپنی تقریر میں کہا تھا کہ آپ کا نام انصار اللہ ہے یعنی نہ صرف آپ انصار ہیں بلکہ آپ انصار اللہ ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار۔اللہ تعالیٰ کو تو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں لیکن اس کی نسبت کی وضاحت سے یہ بتایا گیا ہے کہ آپ ہمیشہ اس عہد پر قائم رہیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اس پر موت نہیں آتی اس لئے آپ کے عہد پر کبھی موت نہیں آنی چاہیے۔ چونکہ موت سے کوئی انسان بچ نہیں سکتا اس لئے انصار اللہ کے معنے یہ ہوں گے کہ جب تک آپ زندہ رہیں گے اس عہد پر قائم رہیں گے اور اگر آپ مرگئے تو آپ کی اولاد اس عہد کو قائم رکھے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہدمیں یہ بات رکھی گئی ہے کہ ''میں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا’’ اور اگر اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں کو اس بات کی توفیق دے دے تو پھر کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں یہ توفیق مل جائے کہ ہم عیسائیوں سے بھی زیادہ عرصہ تک خلافت کو قائم رکھ سکیں۔خلافت کو زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ تنظیمِ سلسلہ ایسی مضبوط رہے کہ تبلیغِ احمدیت اور تبلیغِ اسلام دنیا کے گوشہ گوشہ میں ہوتی رہے جو بغیر خلافت کے نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ کوئی ایک آدمی اس بات کی توفیق نہیں رکھتا کہ وہ ہالینڈ ،انگلینڈ ،جرمنی، سپین،فرانس،سکنڈے نیویا،سوئٹزرلینڈاور دوسرے ممالک میں مشنری بھیج سکے۔ یہ کام تبھی ہوسکتا ہے جب ایک تنظیم ہواور کوئی ایسا شخص ہو جس کے ہاتھ پر ساری جماعت جمع ہو اور وہ آنہ آنہ، دو دو آنہ، چار چار آنہ، روپیہ دو روپیہ، جماعت کے ہر فرد سے وصول کرتا رہے۔ اور اس دو دوآنہ، چار چار آنہ اور روپیہ، دو دو روپیہ سے اتنی رقم جمع ہوجائے کہ ساری دنیا میں تبلیغ ہوسکے۔ دیکھو عیسائیوں کی تعداد ہم سے زیادہ ہے۔ وہ اس وقت ساٹھ کروڑ کے قریب ہیں۔ پوپ جو عیسائی خلیفہ ہے اُس نے اِس وقت یہ انتظام کیا ہوا ہے کہ ہر عیسائی سال میں ایک ایک آنہ بطور چندہ دیتا ہے اور اس کو عیسائی پوپ کا آنہ(Pope's Penny)کہتے ہیں اور اس طرح وہ پونے چار کروڑ روپیہ جمع کرلیتے ہیں۔ لیکن آپ لوگ باوجود اس کے کہ اتنا بوجھ اٹھاتے ہیں کہ کوئی اپنی ماہوار تنخواہ کا چھ فیصدی چندہ دیتا ہے اور کوئی دس فیصدی چندہ دیتا ہے اور پھر بارہ ماہ متواتر دیتا ہے آپ کا چندہ پندرہ بیس لاکھ بنتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری تعداد عیسائیوں سے بہت تھوڑی ہے۔ اگر ہمارے پاس پونے چار کروڑ روپیہ ہوجائے تو شاید ہم دوسال میں عیسائیت کی دھجیاں بکھیر دیں۔اس تھوڑے سے چندہ سے بھی ہم وہ کام کرتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ گئی ہے۔ چنانچہ عیسائیوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے جن کے اقتباسات الفضل میں بھی چھپتے رہتے ہیں کہ احمدیوں نے ہمارا ناطقہ بند کردیا ہے۔ جہاں بھی ہم جاتے ہیں احمدیت کی تعلیم کی وجہ سے لوگ ہماری طرف توجہ نہیں کرتے۔ اور نہ صرف نئے لوگ عیسائیت میں داخل نہیں ہوتے بلکہ ہم سے نکل نکل کر لوگ مسلمان ہورہے ہیں ۔نائیجریا اور گولڈ کوسٹ کے متعلق تو یہ رپورٹ آئی ہے کہ وہاں جو لوگ احمدی ہوئے ہیں ان میں سے زیادہ تر تعداد عیسائیوں سے آئی ہے۔ سیرالیون اور لائبیریا سے بھی رپورٹ آئی ہے کہ عیسائی لوگ کثرت سے احمدیت کی طرف متوجہ ہورہے ہیں اور سلسلہ میں داخل ہورہے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں لوگ زیادہ تر مسلمانوں سے آئے ہیں کیونکہ یہاں مسلمان زیادہ ہیں اور عیسائی کم ہیں لیکن وہاں چونکہ عیسائی زیادہ ہیں اس لئے زیادہ تر احمدی عیسائیوں سے ہی ہوئے ہیں۔ چنانچہ مغربی افریقہ میں احمدیت کی ترقی کے متعلق گولڈ کوسٹ یونیورسٹی کالج کے پروفیسر جے سی ولیم سن نے اپنی ایک کتاب''مسیحؑ یامحمد'' میں لکھا ہے کہ ''اشانٹی گولڈکوسٹ کے جنوبی حصوں میں عیسائیت آجکل ترقی کررہی ہے لیکن جنوب کے بعض حصوں میں خصوصاً ساحل کے ساتھ ساتھ احمدیہ جماعت کو عظیم فتوحات حاصل ہورہی ہیں۔ یہ خوش کن توقع کہ گولڈ کوسٹ جلد ہی عیسائی بن جائے گا اب معرضِ خطر میں ہے اور یہ خطرہ ہمارے خیال کی وسعتوں سے کہیں زیادہ عظیم ہے کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی خاصی تعداد احمدیت کی طرف کھنچی چلی جارہی ہے اور یقیناً(یہ صورت)عیسائیت کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے۔''
پھر جو لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں ان کے اخلاص کی یہ حالت ہے کہ سیرالیون کے مشن نے لکھا کہ یہاں ایک عیسائی سردار تھا جس کو یہاں چیف کے نام سے پکارا جاتا ہے درحقیقت ان کی حیثیت ہمارے ملک کے ذیلداروں کی سی ہوتی ہے مگر وہاں کی گورنمنٹ نے ان چیفس کو بہت زیادہ اختیارات دے رکھے ہیں۔ ان کے پاس مقدمات جاتے ہیں اور گورنمنٹ نے ایک خاص حد تک ان کو سزا دینے کا بھی اختیار دیا ہوا ہے۔ وہاں ملک کے رواج کے مطابق چیف کو خدا تعالیٰ کا قائم مقام سمجھا جاتا ہے اس لئے ان کے ہاں ہماری طرح خداتعالیٰ کی قسم کھانے کا رواج نہیں بلکہ وہاں یہ رواج ہے کہ جب کسی سے قَسم لینی ہو تو چیف کھڑا ہوجاتا ہے اور اپنا سٹول جس پر وہ بیٹھتا ہے سامنے رکھ دیتا ہے اور مدعی یا اس کا نمائندہ اُس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا ہے۔اور کہتا ہے کہ مجھے چیف کے اس سٹول کی قسم کہ میں نے فلاں بات کی ہے یا نہیں کی اور اس کی بات مان لی جاتی ہے۔ہمارے احمدیوں نے چیف کے سٹول پر ہاتھ رکھ کر اس کی قسم کھانے سے انکار کرنا شروع کردیا اور کہا یہ شرک ہے ہم تو خدا تعالیٰ کی قسم کھائیں گے لیکن چیف نے کہا میں تو خدا تعالیٰ کی قسم نہیں مانتا۔ہمارے باپ دادا سے یہ رواج چلا آرہا ہے کہ اس سٹول کی قسم کھائی جاتی ہے اس لئے میں اس سٹول کی قَسم لوں گا۔ لیکن احمدیوں نے ایسی قسم کھانے سے انکار کردیا۔ چنانچہ وہاں ایک کے بعد دوسرے احمدی کو سزا ملنی شروع ہوئی لیکن احمدی سٹول کی قسم کھانے سے برابر انکار کرتے گئے۔آخر گورنمنٹ ڈر گئی اور اس نے کہا آخر تم کتنے احمدیوں کو جیل میں بند کرو گے، احمدیت تو اس علاقہ میں پھیل رہی ہے اوراس کے ماننے والوں کی تعداد روزبروز زیادہ ہورہی ہے۔ چنانچہ تنگ آکر گورنمنٹ نے چیفس کو حکم دے دیا کہ اگر کسی مقدمہ میں کسی احمدی سے قَسم لینے کی ضرورت پڑے تو اسے چیف کے سٹول کی قسم نہ دی جائے بلکہ اسے خداتعالیٰ کی قسم دی جائے کیونکہ یہ لوگ خداتعالیٰ کے سواکسی اور کی قَسم نہیں کھا سکتے۔ تو دیکھو وہاں احمدیت نے کایا پلٹ دی ہے۔
سیرالیون میں ہمارا ایک اخبار چھپتا ہے ا س کے متعلق ہمارے مبلغ نے لکھا کہ چونکہ ہمارے پاس کوئی پریس نہیں تھا اس لئے عیسائیوں کے پریس میں وہ اخبار چھپنا شروع ہوا۔ دوچارپرچوں تک تو وہ برداشت کرتے چلے گئے لیکن جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو پادریوں کا ایک وفد اُس پریس کے مالک کے پاس گیا اور انہوں نے کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اپنے پریس میں ایک احمدی اخبار شائع کررہے ہو جس نے عیسائیوں کی جڑوں پر تبر رکھا ہوا ہے۔ چنانچہ اسے غیرت آئی اور اس نے کہہ دیا کہ آئندہ میں تمہارا اخبار اپنے پریس میں نہیں چھاپوں گا کیونکہ پادری بُرا مناتے ہیں۔ چنانچہ اخبار چھپنا بند ہوگیا۔ تو عیسائیوں کو اس سے بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے ہمیں جواب دینے کے علاوہ اپنے اخبار میں بھی ایک نوٹ لکھا کہ ہم نے تو احمدیوں کا اخبارچھاپنا بند کردیا ہے۔اب ہم دیکھیں گے کہ اسلام کا خدا ان کے لئے کیا سامان پیدا کرتا ہے۔ یعنی پہلے ان کا اخبار ہمارے پریس میں چھپ جایا کرتا تھا اب چونکہ ہم نے انکار کردیا ہے اور ان کے پاس اپنا کوئی پریس نہیں ا س لئے ہم دیکھیں گے کہ یہ جو مسیحؑ کے مقابلہ میں اپنا خدا پیش کیا کرتے ہیں،اس کی کیا طاقت ہے۔ اگر اس میں کوئی قدرت ہے تو وہ ان کے لئے خود سامان پیدا کرے۔ وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ جب میں نے یہ پڑھا تو میرے دل کو سخت تکلیف محسوس ہوئی۔ میں نے اپنی جماعت کو تحریک کی کہ وہ چندہ کرکے اتنی رقم جمع کردیں کہ ہم اپنا پریس خرید سکیں۔اس سلسلہ میں مَیں نے لاری کا ٹکٹ لیا اور پونے تین سو میل پر ایک احمدی کے پاس گیا تا کہ اسے تحریک کروں کہ وہ اس کام میں حصہ لے۔ میں اُس کی طرف جارہا تھا کہ خداتعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی اس کا گاؤں آٹھ میل پَرے تھا کہ وہ مجھے ایک دوسری لاری میں بیٹھا ہوا نظر آ گیا اور اس نے بھی مجھے دیکھ لیا۔وہ مجھے دیکھتے ہی لاری سے اُتر پڑا اور کہنے لگا آپ کس طرح تشریف لائے ہیں؟ میں نے کہا اس طرح ایک عیسائی اخبار نے لکھا ہے کہ ہم نے تو ان کا اخبار چھاپنا بند کردیا ہے اگر مسیحؑ کے مقابلہ میں ان کے خدا میں بھی کوئی طاقت ہے تو وہ کوئی معجزہ دکھادے۔ وہ کہنے لگا آپ یہیں بیٹھیں میں ابھی گاؤں سے ہوکر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی اس نے پانچ سو پونڈ لاکر مجھے دے دیئے۔پانچ سو پونڈ وہ اس سے پہلے دے چکا تھا گویا تیرہ ہزار روپیہ کے قریب اس نے رقم دے دی او رکہا میری خواہش ہے کہ آپ پریس کا جلدی انتظام کریں تاکہ ہم عیسائیوں کو جواب دے سکیں کہ اگر تم نے ہمارا اخبار چھاپنے سے انکار کردیا تھا تو اب ہمارے خدا نے بھی ہمیں اپنا پریس دے دیا ہے۔ جماعت کے دوسرے دوستوں نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا ہے اور اِس وقت تک1800پونڈ سے زیادہ رقم جمع ہوچکی ہے اور انگلینڈ میں ایک احمدی دوست کے ذریعہ پریس کے لئے آرڈر دے دیا گیا ہے۔
یہ شخص جس کے پاس ہمارا مبلغ گیا کسی زمانہ میں احمدیت کا شدید مخالف ہوا کرتا تھا۔ اتنا سخت مخالف کہ ایک دفعہ کوئی احمدی اس کے ساتھ دریا کے کنارے جارہا تھا کہ اس احمدی نے اسے تبلیغ شروع کردی۔وہ دریا کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ دیکھو یہ دریا اِدھر سے اُدھر بہہ رہا ہے اگر یہ دریا یک دم اپنا رُخ بدل لے اور نیچے سے اوپر کی طرف اُلٹا بہنا شروع کردے تو یہ ممکن ہے لیکن میرا احمدی ہونا ناممکن ہے۔ مگر کچھ دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ کوئی بڑا عالم فاضل نہیں بلکہ ایک لوکل افریقن احمدی اس سے ملا اور چند دن اس سے باتیں کیں تو وہ احمدی ہوگیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی مدد کی اور اس کی مالی حالت پہلے سے بہت اچھی ہوگئی۔ اب دیکھ لو ان لوگوں کے اندر جو اسلام اور احمدیت کے لئے غیرت پیدا ہوئی ہے وہ محض احمدیت کی برکت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر الزام لگاتی تھی کہ آپ عیسائیت کے ایجنٹ ہیں مگر خداتعالیٰ نے ثابت کردیا کہ آپ عیسائیت کے ایجنٹ نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے ایجنٹ ہیں۔ اگر آپ مخالفوں کے قول کے مطابق عیسائیت کے ایجنٹ تھے تو عیسائیوں کو مسلمان بنانے کے کیا معنی؟ اگر آپ عیسائیوں کے ایجنٹ ہوتے تو آپ مسلمانوں کو عیسائی بناتے نہ کہ عیسائیوں کو مسلمان۔ کیونکہ کوئی شخص اپنے دشمن کی تائید کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ جو شخص عیسائیت کی جڑوں پر تَبر رکھتا ہے عیسائی لوگ اس کی مدد کیوں کریں گے۔
حضرت مسیح ناصریؑ سے بھی بالکل اِسی طرح کا واقعہ ہوا تھا۔ آپ پر یہودیوں نے الزام لگایا کہ انہیں بَعل بُت سکھاتا ہے۔ اس پر حضرت مسیح علیہ السلام نے انہیں جواب دیا کہ میں تو بَعل بُت کے خلاف تعلیم دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ایک خدا کی پرستش کرو پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ بَعل مجھے سکھاتا ہے اور میری تائید کرتا ہے۔ اب دیکھو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کتنا بڑا نشان ہے کہ آپؑ کی زندگی میں تو مخالف کہتے رہے کہ آپ ؑعیسائیت کے ایجنٹ ہیں لیکن آپؑ کی وفات کے بعد آپ کے ماننے والی غریب جماعت کو اس نے یہ توفیق دی کہ وہ عیسائیت کو شکست دے۔ اُس نے چندے دئیے اور تبلیغ کا جال پھیلا دیا گیا۔ اگر وہ چندے نہ دیتے اور ہمارے مبلغ دنیا کے مختلف ممالک میں نہ جاتے تو یہ لوگ جو احمدیت میں داخل ہوئے ہیں کہاں سے آتے اور عیسائیت کا ناطقہ کیسے بند ہوتا ۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے انہی چندوں کی وجہ سے یہ حالت ہوگئی کہ اب عیسائیوں کو ایک ملک کے متعلق یہ کہنا پڑا ہے کہ یہ خوش کن امید کہ یہ ملک عیسائی ہوجائیگا پوری نہیں ہوسکتی۔اب غالباً اسلام جیتے گا اور عیسائیت شکست کھائے گی کیونکہ اب عیسائیت کی جگہ اس ملک میں اسلام ترقی کررہا ہے۔احمدی جماعت کی طرف سے سکول جاری ہورہے ہیں، کالج قائم کئے جارہے ہیں، مساجد تعمیر ہورہی ہیں چنانچہ گولڈکوسٹ کے علاقہ میں کماسی مقام پر ہمارا سیکنڈری سکول قائم ہے۔ کہتے تو اسے کالج ہیں لیکن وہاں صرف ایف اے تک تعلیم دی جاتی ہے۔ کئی کئی میل سے لوگ اپنے بچے اس کالج میں بھیجتے ہیں۔ان لوگوں کو دین پڑھنے کااتنا شوق ہے کہ پچھلے سال ایک لڑکا یہاں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آیا۔اس کے متعلق وہاں کے مبلغ نے لکھا کہ اس کی والدہ میرے پاس آئی اور اس نے مجھے دو سو پونڈ کی رقم دی اور کہا میرے اس بچے کو ربوہ بھیجنے کا انتظام کریں تاکہ یہ وہاں تعلیم حاصل کرے۔ مبلغ نے کہا بی بی! تُو بیوہ عورت ہے اتنا بوجھ کیوں اٹھاتی ہے،یہ رقم تیرے کام آئے گی۔ شاید تو خیال کرتی ہو کہ ربوہ میں تیرا لڑکا بی اے یاایم اے ہوجائے گا وہاں تو لوگ دینیات پڑھاتے ہیں۔اس پر وہ عورت کہنے لگی میں تو اپنے لڑکے کو ربوہ بھیجتی ہی اس لئے ہوں کہ وہ وہاں جاکر دین کی تعلیم حاصل کرے، آپ اسے وہاں بھیجئے خرچ میں دوں گی۔ چنانچہ وہ لڑکا یہاں تعلیم حاصل کررہا ہے۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد واپس اپنے ملک جائے گا تو وہاں کا مبلغ بن جائے گا۔
اسی طرح ایسٹ افریقہ سے امری عبیدی آئے تھے۔ وہ عیسائیوں میں سے احمدی ہوئے ہیں۔حبشیوں کے متعلق کہاجاتا ہے کہ وہ کم عقل ہوتے ہیں لیکن وہ شخص اتنا ذہین ہے کہ اس نے اس بات کو غلط ثابت کردیا ہے۔ کراچی میں پچھلے دنوں نوجوانوں کی ایک انجمن کی کانفرنس ہوئی تھی۔اس میں انہوں نے ہمیں نہیں بلایا تھا لیکن ہم نے خودبعض لڑکے وہاں بھیج دیئے تھے ان میں سے ایک امری عبیدی بھی تھے۔بعد میں وہاں سے رپورٹ آئی کہ وہ ہر بات میں امری عبیدی سے مشورہ لیتے تھے اور اس کو آگے کرتے تھے۔ گویا وہ تو ہمیں بلاتے بھی نہیں تھے لیکن جب ہمارے نوجوان وہاں گئے تو وہ ہربات میں ہمارے اس نوجوان سے مشورہ کرتے تھے اور اسے آگے کرتے تھے۔ اب وہ واپس پہنچ گئے ہیں اور ان کی طرف سے چٹھی آئی ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے انہوں نے تبلیغ کا کام شروع کردیا ہے ۔خدا تعالیٰ وہ دن جلد لائے کہ جب یہ ساری قوم احمدیت کو قبول کرلے۔ تو یہ جو کچھ ہورہا ہے محض نظام کی برکت کی وجہ سے ہورہا ہے اور اس نظام کا ہی دوسرا نام خلافت ہے۔خلافت کوئی علیحدہ چیز نہیں بلکہ خلافت نام ہے نظام کا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب الوصیت میں فرماتے ہیں کہ:
''اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلاوے سو اَب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی سنت کو ترک کردیوے۔اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہوجائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ او روہ دوسری قدرت آ نہیں سکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن جب میں جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا۔'' 12
اب دیکھو قدرتِ ثانیہ کسی انجمن کا نام نہیں۔قدرتِ ثانیہ خلافت اور نظام کا نام ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں تو کچھ مدت تک تمہارے اندر رہ سکتا ہوں۔ مگر یہ قدرتِ ثانیہ دائمی ہوگی او راس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ او رقیامت تک نہ کوئی نبی رہ سکتا ہے اور نہ کوئی خلیفہ رہ سکتا ہے۔ ہاں خلافت قیامت تک رہ سکتی ہے، نظام قیامت تک رہ سکتا ہے۔پس یہاں قدرتِ ثانیہ سے خلافت ہی مراد ہے کیونکہ خلیفہ تو فوت ہوجاتا ہے لیکن خلافت قیامت تک جاسکتی ہے۔ اگر جماعت ایک خلیفہ کے بعد دوسرا خلیفہ مانتی چلی جائے اور قیامت تک مانتی چلی جائے توایک عیسائیت کیا ہزاروں عیسائیتیں بھی احمدیوں کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتیں۔ کیونکہ ہمارے پاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیا ہوا دلائل وبراہین کا وہ ذخیرہ ہے جو کسی اَورقوم کے پاس نہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ آپ اسلام کو ساری دنیا پر غالب کردیں۔اب وہ زمانہ جب اسلام تمام دنیا پر غالب ہوگاکسی ایک آدمی کی کوشش سے نہیں آسکتا بلکہ اس کے لئے ایک لمبے زمانہ تک لاکھوں آدمیوں کی جدو جہد کی ضرورت ہے ۔پس یہ کام صرف خلافت کے ذریعہ ہی پورا ہوسکتا ہے لیکن اس کا سارا کریڈٹ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کو ملے گا جن کے دیئے ہوئے ہتھیار ہم استعمال کرتے ہیں۔ باقی باتیں محض خوشہ چینی ہیں جیسے کوئی شخص کسی باغ میں چلا جائے اور اس کے پھل کھالے تو وہ پھلوں کا مزہ تو اٹھا لے گا لیکن اصل مزہ اٹھانا اس کا ہے جس نے وہ باغ لگایا۔
لطیفہ مشہورہے کہ کوئی شخص سِل کے عارضہ سے بیمار ہوگیا۔اس نے بہتیرا علاج کرایا مگر اسے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ جب ڈاکٹروں نے اسے لاعلاج قرار دے دیا تو وہ اپنے وطن واپس آگیا۔ وہ شخص وزیر آباد کے قریب سڑک پر جارہا تھا کہ اُسے ایک پہلوان ملا جو متکبرانہ طور پر سڑک پر چل رہا تھا۔ اس نے اس عام دستور کے مطابق کہ پہلوان اپنا سر منڈا لیتے ہیں تاکہ کُشتی میں ان کا مدِّمقابل ان کے بال نہ پکڑے اپنے بال منڈائے ہوئے تھے۔اس بیمار شخص کی حالت بہت کمزور تھی لیکن اس پہلوان کو دیکھ کر اسے شرارت سُوجھی اور اس نے آہستہ سے جاکر اس کے سر پر ٹھینگامارا۔ اس پر اُس پہلوان کو غصّہ آگیا اور اس نے سمجھاکہ اس شخص نے میری ہتک کی ہے۔ چنانچہ اس نے اسے ٹھڈوں سے خوب مارا۔ جب وہ اسے ٹھڈے مارہا تھا تووہ کہتا جاتا تھا کہ تُو جتنے ٹھڈے چاہے مارلے جتنا مزہ مجھے اس ٹھینگا مارنے میں آیا ہے تجھے ٹھڈوں سے نہیں آسکتا۔ اِسی طرح جو مزہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دلائل میں آیا ہے وہ عیسائیت کواپنی طاقت کے زمانہ میں بھی نہیں آیا۔
دیکھ لو عیسائی ہم پر حاکم تھے اور ہم کمزور اور ماتحت رعایا تھے۔ ہمارے پاس نہ تلوار تھی اورنہ کوئی مادی طاقت۔ لیکن خدا تعالیٰ کاایک پہلوان آیا اور اس نے ہمیں وہ دلائل دیئے کہ جن سے اب ہم پر امریکہ انگلینڈ اور دوسرے سب ممالک کو شکست دے رہے ہیں۔یہ جوٹھینگے کا مزہ ہے وہ ان کے ٹھڈوں میں نہیں تو یہ برکت جو خداتعالیٰ نے ہمیں دی ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل دی ہے۔ اور جوں جوں ہمارے مبلغ کام کریں گے اور احمدیت ترقی کرے گی ہمیں اَور زیادہ برکت ملے گی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تیرے ذریعہ اسلام کو دنیا پر غالب کروں گا۔ اب جو شخص بھی اسلام کی تبلیغ کے لئے باہر نکلتا ہے اور جو شخص بھی تبلیغ کے لئے ایک پیسہ بھی دیتا ہے در حقیقت اپنے دائرہ میں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے اور جو وعدے خداتعالیٰ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تھے وہ اپنے درجہ اور مقام کے لحاظ سے اس کے ساتھ بھی ہوں گے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو فوت ہوگئے اور قرآن کریم ایک کتاب ہے جو بولتی نہیں۔ اب جو مبلغ ہیں وہی بولیں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد ایک رنگ میں آپ کے نائب ہوں گے۔ پس جوں جوں وہ امریکہ، انگلستان اور دوسرے ممالک میں تبلیغ کریں گے اور اسلام بڑھے گا خلافتِ محمدیہ ظلی طور پر خداتعالیٰ انہیں دیتا چلاجائے گا۔ لیکن ان کی وہاں خلافت قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں مرکز میں بھی خلافت قائم ہو جو تمام احمدیوں کو اکٹھا رکھے اور انہیں خرچ بھجوائے تاکہ وہ اپنی اپنی جگہ کام کرسکیں۔ پھر جوں جوں چندے بڑھتے جائیں تبلیغ کے نظام کو وسیع کرتے چلے جائیں۔ میں نے کل بتایا تھا عیسائی خلافت نے52لاکھ مبلغ تبلیغ کے لئے تیار کیا ہوا ہے اور اس کے مقابلہ میں ہماری طرف سے صرف سَو ڈیڑھ سو مبلغ ہے۔ جس دن مسیحِ محمدی کو52لاکھ مبلغ مل گئے اُس دن بھاگتے ہوئے عیسائیت کورستہ نہیں ملے گا کیونکہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہ دلائل اور براہین دئے ہیں جو عیسائیت کے پاس نہیں۔ مثلاً لنڈن میں ایک جلسہ ہوا۔اس میں ہمارے مبلغوں نے تقاریر کیں اور بتایا کہ مسیح ناصری فوت ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مسیح ناصری صلیب سے بچ کر کشمیر کی طرف چلے گئے تھے اور وہیں انہوں نے وفات پائی ہے اور اب تک ان کی قبر سری نگر میں پائی جاتی ہے۔ اِس پرایک پادری کھڑا ہوااور اس نے کہا کہ اگر مسیح فوت ہوگئے ہیں تو ہماری عیسائیت مرگئی۔ آگے وہ کشمیرچلے گئے یاکسی اَور جگہ اس کاکوئی سوال نہیں۔ یہ تو ایک علمی سوال ہے جو اُٹھایا گیا ہے ان کا وفات پاجانا ہی عیسائیت کے ختم ہوجانے کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ ہم حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا مانتے ہیں اور اگر وہ مرگئے ہیں تو وہ خدا نہ رہے اور اس طرح عیسائیت بھی باقی نہ رہی۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کو ایسے ایسے معرفت کے نکتے دیئے ہیں جن کا مقابلہ عیسائیت کے بس کی بات نہیں۔ 1300سال سے مسلمان اس دھوکا میں مبتلا چلے آتے تھے کہ مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر ہیں اور اس کی وجہ سے عیسائیت کو مدد مل رہی تھی۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کی وفات ثابت کرکے عیسائیت کو ختم کر دیا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں
مسلمانوں پہ تب ادبار آیا
کہ جب تعلیمِ قرآن کو بُھلایا
رسولِ حق کو مٹی میں سُلایا
مسیحاؑ کو فلک پر ہے بٹھایا13
عیسائی ہمیشہ کہتا تھا کہ میرا مسیحؑ آسمان پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیٹھا ہے اور تمہارا رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) زمین میں دفن ہے لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک ہی جھٹکا سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر چڑھا دیا اور مسیح ناصری کو زمین میں دفن کردیا۔ یہی چیز تھی جس نے احمدیت کو عیسائیت پر غلبہ دیا ہے۔ جس وقت تک یہ تعلیم موجود ہے اور انشاء اللہ یہ قیامت تک رہے گی دنیا میں عیسائیت پنپ نہیں سکتی۔ عیسائیت کو یہی فخر تھا کہ مسلمان کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام زندہ ہیں اور اس سے ان کے دعویٰ کی تائید ہوتی تھی لیکن اب تو انہیں بھی سمجھ آگئی ہے اور وہ اس عقیدہ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
میں جب مری گیا تو وہاں عیسائی مشن میں ہمارا مبلغ اور میرا یک بیٹا عیسائیوں کوتبلیغ کرنے کے لئے جاتے تھے۔جب ہمارے مقابلہ میں ان کا پہلو کمزور ہوگیا تو انہوں نے لاہورسے کچھ دیسی مشنری بلائے اور مشنریوں نے آکر چالاکیاں شروع کردیں اور مسلمانوں کو یہ کہہ کر بھڑکانا شروع کیا کہ مرزا صاحب تو مسیح علیہ السلام سے بڑا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔اس طرح انہوں نے غیر از جماعت مسلمانوں کو ہمارے خلاف جوش دلانا چاہا مگر وہ روزانہ تبلیغ کے بعد سمجھ چکے تھے کہ احمدی جو کچھ کررہے ہیں وہ ٹھیک ہے، اس سے اسلام کی فضیلت عیسائیت پر ثابت کی جاسکتی ہے۔ اس لئے جب عیسائیوں نے احمدیت کے خلاف شور مچانا شروع کیا تو انہوں نے کہا تمہیں اس سے کیا واسطہ مرزا صاحب اپنے آپ کو حضرت مسیح علیہ السلام سے افضل سمجھتے ہیں یا نہیں۔ یہ تو ہمارے گھر کا جھگڑا ہے تم ان اعتراضات کا جواب دو جو عیسائیت پر ہوتے ہیں اور اپنے عقائد کی حقانیت کو ثابت کرو۔یہ لوگ ہماری طرف سے نمائندے ہیں جو تمہارے ساتھ بحث کررہے ہیں۔ جو یہ بات کریں گے وہ ہماری طرف سے ہی سمجھی جائے گی۔غرض مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیش کردہ دلائل او ربراہین کو سمجھ چکے ہیں اور جوں جوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پھیلتی جائے گی عیسائیت مغلوب ہوتی جائے گی۔
دوسرا پہلو روحانیت کا ہے۔ عیسائیوں کی سیاست کا پہلو تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے مسئلہ سے ختم ہوگیا۔ مذہبی پہلو میں یہ نقص تھا کہ علماء نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ قرآن کریم کی بعض آیات منسوخ ہیں اس کی وجہ سے مسلمانوں کا قرآن کریم پر ایمان کامل نہیں رہا تھا۔ ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ جس قرآن میں ایک آیت بھی منسوخ ہے مجھے اس کا کیا اعتبار ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مشکل کو بھی دور کردیا اور فیصلہ کردیا کہ قرآن کریم کی ہر آیت قابلِ عمل ہے۔بِسمِ اللہِ کی ‘‘ب’’ سے لے کر وَالنَّاسِ کے ‘‘س’’ تک کوئی حصہ بھی ایسا نہیں جو قابلِ عمل نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں نے تفسیر کبیر لکھی تو لوگ اسے پڑھ کر حیران ہوگئے اور کہنے لگے کہ پہلے علماء نے تو وہ باتیں نہیں لکھیں جو آپ نے لکھی ہیں۔ مجھے کئی غیر احمدیوں کی چٹھیاں آئیں کہ ہم نے تفسیر کبیر کو پڑھا ہے اس میں قرآن کریم کے اتنے معارف لکھے گئے ہیں کہ حد نہیں رہی۔ ضلع ملتان کے ایک غیر احمدی دوست ایک احمدی سے تفسیر کبیر پڑھنے کے لئے لے گئے اور اُسے پڑھنے کے بعد انہوں نے کہا ہمیں وہ سمندر دیکھنا چاہیے جہاں سے یہ تفسیر نکلی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ سمندر کہاں سے آ گیا۔ یہ محض اس نکتہ کی وجہ سے آیا ہے کہ قرآن کریم کی ہر آیت قابلِ عمل ہے۔
مفسرین کو جس آیت کی سمجھ نہ آئی اسے انہوں نے منسوخ قرار دے دیا لیکن ہم چونکہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کی ہرآیت قابلِ عمل ہے اس لئے ہم ہر آیت پر فکر کرتے ہیں۔ اور غوروفکر کے بعد اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور اور برکت کی وجہ سے اس کو حل کرلیتے ہیں اور اس کی ایسی لطیف تفسیر کرتے ہیں جو1300سال میں کسی عالم نے نہیں کی۔گزشتہ علماء نے اگر بعض آیتوں کی تفسیر نہیں لکھی تو اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ قرآن کریم میں بعض آیات منسوخ بھی ہیں۔اس لئے جب کوئی مشکل آیت آجاتی وہ اس پر غور نہیں کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر بعد میں پتہ لگ گیا کہ یہ آیت منسوخ ہے تو ساری محنت اکارت چلی جائے گی۔ لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت بھی منسوخ نہیں اس لئے ہم ہر آیت پر غور کرتے ہیں او راس کی صحیح تشریح تلاش کرنے میں ہمت نہیں ہارتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارا ایمان بالقرآن روز بروز ترقی کرتا جاتا ہے۔
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کسی پرانے بزرگ کا ذکر سنایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس بزرگ سے کسی نے درخواست کی کہ قرآن کریم کی تفسیر سنائیے۔ تو وہ کہنے لگے یہ قرآن تو سارا ابوجہل کے لئے نازل ہوا ہے۔ ابو بکرؓ کے لئے نازل ہوتا تو اس کی ‘‘ب’’ ہی کافی تھی کیونکہ ب کے معنے ساتھ کے ہیں اور ابوبکرؓ کے لئے یہ کافی تھا کہ انہیں کہہ دیا جاتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھی بن جائیں۔ باقی ابوجہل نہیں مانتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سارا قرآن اس کے لئے نازل کیا ہے ورنہ ابوبکرؓ کے لئے اتنے بڑے قرآن کی ضرورت نہیں تھی۔ تو حقیقت یہی ہے کہ قرآن کریم کے معارف اور حقائق سکھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے اندر ایک نئی روح پھونک دی ہے۔آپ نے بتایا کہ قرآن کریم میں کوئی آیت منسوخ نہیں اور تم قرآن کے جتنے حصے پر عمل کرو گے اُتنے ہی تم خدا تعالیٰ کے قریب ہوجاؤ گے اور عملی طور پردیکھا جائے تو قرآن کریم کسی فلسفہ کی کتاب نہیں بلکہ یہ ایک آسمانی کتاب ہے۔ اس کی ایک ایک آیت پر عمل کرو گے تو تم ولی اللہ بن جاؤگے اور خدا تعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی اور جب خداتعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی توتمام آفات اور مصائب تمہیں اپنی نظروں میں ہیچ نظر آنے لگ جائیں گے۔
گزشتہ تیرہ سو سال کے عرصہ میں جس نے بھی قرآن کریم پر سچے دل سے عمل کیا ہے اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ اس کے شاملِ حال رہی ہے اور مصائب اور مشکلات کے ہجوم میں وہ اس کی تائیدات کا مشاہدہ کرتا رہا ہے۔
ایک بزرگ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ان کی بیوی ان کے ایک دوست کے پاس گئی جو خود بھی بڑے بزرگ اور عالم تھے اور کہنے لگی آپ اپنے دوست کو سمجھائیں وہ کوئی کام نہیں کرتے۔ اس بزرگ نے کہا بہت اچھا میں ان کے پاس جاؤں گا اور انہیں سمجھاؤں گا کہ وہ کوئی کام کریں۔ چنانچہ وہ وہاں گئے اور کہنے لگے دیکھو بھائی! مجھے پتہ لگا ہے کہ آپ کوئی کام نہیں کرتے حالانکہ آپ عالم ہیں اور دوسرے لوگوں کو پڑھا کر بھی آپ اپنی روزی کما سکتے ہیں۔ انہوں نے جواب میں کہا بھائی! میرے دل میں آپ کی بڑی قدر ہے لیکن مجھے افسوس ہوا کہ آپ نے ایسامشورہ کیوں دیا ہے۔رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہےکہ تم کسی کی مہمان نوازی کو رَدّ نہ کرو اور میں تو خداتعالیٰ کا مہمان ہوں پھر میں خدا تعالیٰ کی مہمان نوازی کو کیوں کر رَدّ کروں۔ اگر میں اس کی مہمان نوازی کو رَدّ کروں تو وہ خفا ہوجائے گا۔دوسرے بزرگ بھی ہوشیار تھے انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان نوازی صرف تین دن کی ہوتی ہے۔اس کے بعد صدقہ ہوتا ہے۔14 آپ کو خداتعالیٰ کے مہمان بنے بیس سال ہوگئے ہیں پھر کیا ابھی مہمان نوازی ختم نہیں ہوئی؟ وہ بھی ہوشیار تھے کہنے لگے کیا قرآن کریم نے نہیں فرمایا کہ خداتعالیٰ کاایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے15 گویا قرآن کریم کی روسے تو میں تین ہزار سال تک خداتعالیٰ کا مہمان رہو ں گا اور اُسی کادیا کھاؤں گا۔
تو حقیقت یہی ہے کہ جو خداتعالیٰ کا ہوجاتا ہے وہ اس کے لئے روزی کے مختلف رستے کھول دیتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس نے انسان کے اندر روحانیت پیدا کرنے کے لئے فرمایا ہے کہ تم میرے حضور دعائیں کیا کرو کیونکہ جب کوئی انسان عجز اور انکسار کے ساتھ دعائیں کرتا ہے تو اس کے دل میں محبتِ الٰہی بڑھتی ہے۔ بیشک ظاہری کَسب بھی ایک ضروری چیز ہے لیکن دعائیں بھی روحانیت پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔مومن کَسب تو کرتا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ درحقیقت مجھے دیتا خدا تعالیٰ ہی ہے۔ یہ کبھی نہیں سمجھتا کہ جو کچھ مجھے ملا ہے وہ میری محنت کا نتیجہ ملا ہے۔ لیکن ایک مالدار کافر یہ سمجھتا ہے کہ مجھے جو کچھ ملا ہے میرے ذاتی علم اور ذہانت اور محنت کی وجہ سے ملا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں صاف لکھا ہے کہ جب قارون سے کہا گیا یہ دولت تمہیں خداتعالیٰ نے دی ہے تو اس نے کہا کہ اِنَّمَاۤ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِيْ 16 کہ میری یہ دولت مجھے میرے علم کی وجہ سے ملی ہے۔ تواسلام کمائی سے منع نہیں کرتا لیکن وہ کہتا ہے تم خواہ کتنی محنت کرو یہ یقین رکھو کہ اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے۔ مثلاً کوئی لوہار ہے تو وہ جتنی چاہے محنت کرے لیکن جو بھی کمائے اس کے متعلق یہ خیال نہ کرے کہ وہ اسے لوہارے کی وجہ سے ملا ہے بلکہ سمجھے کہ یہ سب کچھ اسے خدا نے دیا ہے۔ آخر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ ایک شخص سارا سال لوہارے کاکام سیکھتا ہے لیکن وہ سیکھ نہیں سکتا۔ پھر ایسا بھی تو ہوتاہے کہ ایک کاریگر ہوتا ہے لیکن اسے کوئی کام نہیں ملتا۔ پھر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ روپیہ مل جائے تو رستہ میں کوئی ڈاکو اس کا سارا روپیہ چھین لے۔ پھر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ گھر کما کر روپیہ لے آئے لیکن گھر میں آتے ہی پیٹ میں درد اٹھے اور وہ جانبر ہی نہ ہوسکے۔ پھر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اسے ایسی جِلدی بیماری پیدا ہوجائے کہ وہ کپڑا نہ پہن سکے۔ تو جو کچھ ہوتا ہےاللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔ اگر کوئی انسان اپنی محنت سے بھی روزی کمائے تب بھی اسے جو کچھ ملتا ہے خداتعالیٰ کی طرف سے ہی ملتا ہے۔یہ چیز ایسی ہے کہ اگر انسان اس پر غور کرے تو اسے معلوم ہوسکتا ہے کہ اسے جو کچھ ملا ہے خداتعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی وجہ سے ملا ہے۔ اور خداتعالیٰ سے تعلق قرآن کریم سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ ہمیں حضرت مرزا صاحب نے بتایا ہے۔اصل سبق تو محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا لیکن اسے مسلمان بھول گئے تھے۔حضرت مرزا صاحب نے آکر اسے دوبارہ تازہ کیا اور کہا کہ قرآن پر عمل کرو اور دعائیں کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ اور سمجھو کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ تمہیں خدا تعالیٰ نے ہی دیا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاایک شعر ہے کہ
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے17
یعنی تمام نیکیاں تقویٰ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر تقویٰ باقی رہے تو ایسے انسان کو کوئی چیز ضائع نہیں کرسکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دوسرے بزرگوں کی مثالیں موجود ہیں کہ کبھی مومن خداتعالیٰ کے فضل سے مصائب اور آفات سے نہیں ڈرتے۔
مثلاً حضرت نظام الدین صاحبؒ اولیاء کے متعلق مشہور ہے کہ آپ کے معاصرین نے آپ کے خلاف بادشاہ کے کان بھرے اور وہ آپ سے بدظن ہوگیا او رآپ کو سزا دینے پر تیار ہوگیا۔ لیکن اس نے کہا میں ابھی جنگ کے لئے باہر جارہا ہوں واپس آؤں گا تو انہیں سزا دوں گا ۔جب وہ واپس آرہاتھا تو حضرت نظام الدین اولیاء کے مرید آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے بادشاہ واپس آرہا ہے،آپ کوئی سفارش اس کے پاس پہنچائیں تاکہ وہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے فرمایا ‘‘ہنوز دلی دوراست’’ ابھی دلی بہت دور ہے۔جب وہ دلّی کے اَور قریب آگیا تو مریدوں نے پھر کہا حضور! اب تو بادشاہ بالکل قریب آگیا ہے اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ صبح دِلّی میں داخل ہوجائے گا۔حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے پھر فرمایا کہ ‘‘ہنوز دلّی دوراست’’ ابھی دِلّی بہت دور ہے۔ چنانچہ مرید خاموش ہوکر واپس چلے گئے۔رات کو بادشاہ کے بیٹے نے شہر کے باہر والے محل پرایک بہت بڑا جشن کیا۔ ہزاروں لوگ اس جشن میں شرکت کے لئے آئے اور وہ محل کی چھتوں پر چڑھ گئے۔ چھت کا کچھ حصہ بوسیدہ تھا اس لئے وہ اس بوجھ کو برداشت نہ کرسکا اور گر پڑا ۔بادشاہ اوراس کے ساتھی چھت کے نیچے بیٹھے تھے اس لئے وہ اس کے نیچے ہی دب گئے اور مرگئے۔ چنانچہ صبح بجائے اِس کے کہ بادشاہ شہر میں داخل ہوتا اُس کی لاش شہر میں لائی گئی۔حضرت نظام الدین صاحبؒ نے مریدوں سے فرمایا دیکھو! میں نے نہیں کہا تھا کہ ‘‘ہنوزدلّی دوراست’’ کہ ابھی دلّی بہت دور ہے۔
پھر تین سال ہوئے اس قسم کا ایک واقعہ آپ لوگوں نے بھی دیکھا ہے۔اُس وقت احمدیوں کو لاریوں اور گاڑیوں سے کھینچ کھینچ کر اُتارا جاتا تھا اور انہیں مارا پیٹا جاتا تھا۔اُس وقت میں نے اعلان کیا کہ گھبراؤ نہیں میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑا چلا آرہا ہے۔ چنانچہ تم نے دیکھا کہ تین دن کے اندر اندر نقشہ بدل گیا۔لوگ اُس وقت کہہ رہے تھے کہ اب احمدیوں کا پاکستان میں کوئی ٹھکانہ نہیں، ہر طرف ان میں جوش بھر ہوا تھا اور نعرے لگ رہے تھے کہ احمدیوں کو قتل کردو۔ اُس وقت میں نے کہا کہ میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑا آرہا ہے، وہ مجھ میں ہے وہ میرے پاس ہے۔ پھر دیکھو میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑ کر آیا یا نہیں؟ اَب سارے مولوی تسلیم کررہے ہیں کہ وہ اپنے مطالبات کے تسلیم کرانے میں ناکام رہے ہیں۔
اَب بھی جماعت میں منافقین نے فتنہ پیدا کیا تو گجرات کے ایک آدمی نے مجھے کہا کہ مجھ سے ایک منافق نے ذکر کیا کہ ہم سے غلطی ہوگئی کہ ہم نے خلافت کا سوال بہت پہلے اُٹھا دیا۔اَب ہمیں احمدیوں کے پاس جانے کا کوئی موقع نہیں ملتا۔جہاں ہم جاتے ہیں دُھتکار دئیے جاتے ہیں۔ اگر ہم چُپ رہتے اورخاموشی سے کام کرتے تو ہم ہر ایک احمدی کے پاس جاسکتے تھے اور اسے اپنی بات سنا سکتے تھے۔ لیکن اب ہمیں یہ کرنے کی جرأت نہیں جس کی وجہ سے ہماری ساری سکیم فیل ہوگئی ہے۔
پھر دیکھو میں بیماری کی وجہ سے لمبا عرصہ باہر رہا تھا او ران منافقین کے لئے موقع تھاکہ وہ میری غیر حاضری میں شور مچاتے لیکن خدا تعالی ٰنے انہیں دبائے رکھا۔ اور جب میں واپس آیا تو اس نے ایک بیوقوف کے منہ سے یہ بات نکلوادی کہ ہم دوسال کے اندر اند رخلافت کو ختم کردیں گے۔میں نے اس کے بیان کوشائع کرایا۔ اس پر کئی لوگوں نے اعتراض کیا کہ یونہی ایک بے وقوف کی بات کو بڑھا دیا گیا ہے اِس سے اُسے شہرت اور اہمیت حاصل ہوجائیگی لیکن اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ یہ لوگ ننگے ہوگئے۔ چنانچہ ایک دوست نے مجھے خط لکھا کہ آپ نے اپنی بیالیس سالہ خلافت میں بڑے بڑے عظیم الشان کارنامے کئے ہیں لیکن اب جو آپ نے کام کیا ہے اور جماعت کو وقت پر فتنے سے آگاہ کردیا ہے اور اسے بیدار کردیا ہے مجھے یقین ہے کہ اِس سے بڑا آپ کا اور کوئی کارنامہ نہیں۔ آج ہمیں سب منافقوں کا پتہ لگ گیا ہے اور آج ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے شیطان کو مار دیا ہے اور اسے نئے نئے طریقوں سے جماعت کے اندر فتنہ پیدا کرنے سے روک دیا ہے۔ آپ کے اس بات کو شائع کردینے سے جماعت کے اندر ایک نئی روح او رنئی اُمنگ پیدا ہوگئی ہے اور اب ہر احمدی خلافت کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ اگر آپ وقت پر اعلان نہ کرتے،آپ لحاظ کرجاتے اور چُپ کرجاتے تو یہ فتنہ بہت بڑھ جاتا۔آپ نے بہت بڑے بڑے کام کئے ہیں،تبلیغِ اسلام کاکام کیا ہے، غیر ممالک میں مساجد بنائی ہیں مگر مجھے یقین ہے کہ آپ کا موجودہ فتنہ کو دبا لینا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے آپ نے جماعت کو محفوظ کردیاہے اور جماعت کے اندر ایک نئی بیداری اور جوش پیدا ہوگیا ہے۔ پہلے یہ بات نہیں تھی۔ پہلے جماعت کے اندر سستی پائی جاتی تھی اور ہم سمجھتے تھے کہ ہم بالکل محفوظ ہیں۔ اگر یہ فتنہ یکدم پھیل جاتا تو جماعت غفلت میں بیٹھی رہتی اور فتنہ پرداز اُسے نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے لیکن آپ نے اُدھر فتنہ پیدا ہوا اور اِدھر اعلان شائع کرکے جماعت کو وقت پر بیدار کردیا چنانچہ اب وہ اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر طرح تیار ہے۔ اگر آپ وقت پر جماعت کو بیدار نہ کردیتے تو ان لوگوں نے جماعت کو پیغامیوں کی جھولی میں ڈال دینا تھا اور وہ ساری کوشش جو آپؑ کی نبوت اور ماموریت کی سچائی کے لئے 42سال تک کی گئی تھی ضائع ہوجانی تھی۔ مگر خداتعالیٰ نے آپ کو وقت پر ہوشیار کردیا اور باوجود اس کے کہ وہ بات جو بظاہر چھوٹی نظر آتی تھی اور بعض احمدی بھی خیال کرتے تھے کہ یہ معمولی بات ہےآپ نے اُس کے ضرر کو نمایاں کرکے دکھایا اور اِس طرح تمام احمدی دنیا سمجھ گئی کہ کیا بات ہے اور وہ اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوگئی۔ چنانچہ دنیا کے سب ممالک سے جہاں جہاں ہماری جماعتیں قائم ہیں مثلاً امریکہ سے، افریقہ سے، دمشق سے، انڈونیشیا سے اور دوسرے تمام ممالک سے مجھے چِٹھیاں آرہی ہیں کہ ہم خلافت سے سچے دل کے ساتھ وابستہ ہیں اور جن لوگوں نے اس فتنہ کو اٹھایا ہے اُنہیں منافق خیال کرتے ہیں۔اَب وہ ہم میں شامل ہوکر کوئی رُتبہ اور فضیلت حاصل نہیں کرسکتے۔اَب دیکھو یہ ساری چیزیں خداتعالیٰ کے نشان کے طور پر ہیں۔ اگر اس فتنہ کا مجھے وقت پر علم نہ ہوتا تو شاید وہ شان پیدا نہ ہوتی جو اَب ہے۔ مگر اَب جماعت کے اندر وہی بیداری پیدا ہوگئی ہے جو1914ء میں پیدا ہوئی تھی۔آپ لوگ اُس وقت جوان تھے اور اَب بُڈھے ہوچکے ہیں لیکن اِس وقت نوجوانوں والا عزم آپ کے اندر دوبارہ پیدا ہوگیا ہے۔ اور پھر جوانوں کے اندر بھی عزم پیدا ہوچکا ہے اور جماعت کا ہر فرد اس بات کے لئے تیار ہے کہ وہ خلافت کے لئے اپنی جان دے دے گا لیکن اسے کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گا۔ اور جب کوئی شخص خداتعالیٰ کے دین کی تائید اور نصرت کے لئے عزم کرلیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کی مدد کرتے ہیں۔
میں نے پچھلے ماہ خواب میں دیکھا تھا کہ وہ آیتیں پڑھ پڑھ کرسنا رہے ہیں جو قرآن شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لئے آئی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ سے نکل جائیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑائی کریں گے۔ لیکن قرآن کریم منافقوں سے فرماتا ہے کہ نہ تم یہودیوں کے ساتھ مل کر مدینہ سے نکلو گے اور نہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑو گے۔ یہ دونوں جھوٹے دعوے ہیں اور صرف یہودیوں کو انگیخت کرنے کے لئے اور فساد پر آمادہ کرنے کے لئے ہیں۔
اَب دیکھو! وہی کچھ ہورہا ہے جو خداتعالیٰ نے مجھے رؤیا میں بتایا تھا۔ ایک طرف یہ منافق معافی مانگتے ہیں اور پھر اخبار میں شائع کرا دیتے ہیں کہ ہم نے تومعافی نہیں مانگی تھی۔ اگر انہوں نے واقع میں کوئی معافی نہیں مانگی تھی تو غیر احمدی اخبارات نے یہ کیوں لکھا تھا کہ دیکھو کتنا ظلم ہورہا ہے ان لوگوں کی معافی مانگتے مانگتے ناکیں بھی رگڑی گئی ہیں لیکن انہیں معافی نہیں ملتی۔ اگر وہ بعد میں معافی کا انکار نہ کرتے تو جماعت کے کئی کمزور لوگ کہتے کہ جب یہ معافی مانگتے ہیں تو انہیں معاف کردیا جائے۔ لیکن انہوں نے پہلے خودمعافی مانگی پھر ڈر گئے اور سمجھا کہ کہیں غیراحمدی یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ اَب ڈر گئے ہیں اور اس طرح ان کی مدد سے محروم نہ ہوجائیں اس لئے انہوں نے پھر لکھ دیا کہ ہم نے تو معافی نہیں مانگی۔ مگر اس جھوٹ کے نتیجہ میں وہی مثال ان پر صادق آئے گی جو کسی لڑکے کے متعلق مشہور ہے کہ وہ بھیڑیں چرایا کرتا تھا۔ ایک دن اُسے گاؤں والوں سے مذاق سُوجھا تو اس نے پہاڑی پر چڑھ کر شور مچادیا کہ شیر آیا،شیر آیا۔گاؤں کے لوگ لاٹھیاں لے کر اُس کی مدد کے لئے آئے لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو وہاں شیر وغیرہ کوئی نہیں تھا۔لڑکے نے انہیں بتایا کہ اُس نے ان سے یونہی مذاق کیا تھا۔دوسرے دن وہ بھیڑیں چرا رہا تھا تو واقع میں شیر آ گیا اور لڑکے نے پہاڑی پر چڑھ کر شور مچایا کہ شیرآیا، شیر آیا۔لیکن گاؤں سے اس کی مدد کے لئے کوئی نہ آیا۔ انہوں نے سمجھا کہ لڑکا کل کی طرح آج بھی مذاق کررہا ہوگا۔ چنانچہ شیر نے اسے پھاڑکر کھالیا۔اسی طرح جب غیراحمدیوں کو محسوس ہوا کہ یہ لوگ جھوٹ بولنے کے عادی ہیں تو وہ ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور یہ لوگ اپنی آنکھوں سے اپنی ناکامی کا مشاہدہ کریں گے۔
آج ہی مجھے میرے نائی نے ایک لطیفہ سنایا۔اُس نے بتایا کہ میں میاں عبدالمنان صاحب کی حجامت بنانے گیا تو انہوں نے کہا کیا تم ڈر گئے تھے کہ حجامت بنانے نہ آئے یا تمہیں کسی نے روکا تھا؟میں نے کہا مجھے تو کوئی ڈر نہیں اور نہ کسی نے مجھے روکا ہے۔ حجامت بنانا تو انسانی حق ہے۔اس سے مجھے کوئی نہیں روکتا۔اس لئے میں آگیا ہوں۔ پھر میں نے کہا میاں صاحب! میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں کہ پشاور سے ایک احمدی قادیان میں آیا اوروہ میاں شریف احمدصاحب سے ملنے کے لئے ان کے مکان پر گیا۔ اتفاقاً میں بھی اُس وقت حجامت بنانے کے لئے ان کے دروازہ پر کھڑا تھا۔ہمیں معلوم ہؤا کہ میاں صاحب اُس وقت سو رہے ہیں۔اِس پر میں نے کہا کہ میں تو حجامت بنانے کے لئے آیاہوں انہیں اطلاع دے دی جائے لیکن وہ دوست مجھے بڑے اصرار سے کہنے لگے کہ ان کی نیند خراب نہ کریں۔لیکن میں نے نہ مانا اور میاں صاحب کو اطلاع بھجوا دی۔ جس پر انہوں نے مجھے بھی اور اس دوست کو بھی اندر بُلالیا۔ وہاں ایک چارپائی پڑی ہوئی تھی میں نے انہیں کہاکہ اس پر بیٹھ جائیے۔ کہنے لگے میں نہیں بیٹھتا۔ میں نے سمجھا کہ شاید یہ چارپائی پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے اس لئے میں ان کے لئے کرسی اٹھا لایا لیکن وہ کرسی پر بھی نہ بیٹھے اور دروزہ کے سامنے جہاں جُوتیاں رکھی جاتی ہیں وہاں پائیدان پر جاکر بیٹھ گئے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟میں نے چارپائی دی لیکن آپ نہ بیٹھے پھر کرسی دی تب بھی آپ نہ بیٹھے اورایک ایسی جگہ جاکر بیٹھ گئے جہاں بوٹ وغیرہ رکھے جاتے ہیں۔ کہنے لگے مَیں تمہیں ایک قصہ سناؤں۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا صحابی ہوں۔ میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ملنے کے لئے آیا۔آپؑ مسجد مبارک میں بیٹھے تھے اور دروازہ کے پاس جوتیاں پڑی تھیں۔ ایک آدمی سیدھے سادے کپڑوں والا آ گیا اور آکر جوتیوں میں بیٹھ گیا۔میں نے سمجھایہ کوئی جوتی چور ہے۔ چنانچہ میں نے اپنی جوتیوں کی نگرانی شروع کردی کہ کہیں وہ لے کر بھاگ نہ جائے۔ کہنے لگے اس کے کچھ عرصہ بعدحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوگئے اور میں نے سنا کہ آپؑ کی جگہ اَور شخص خلیفہ بن گیا ہے۔ اس پر میں بیعت کرنے کے لئے آیا۔ جب میں نے بیعت کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ وہی شخص تھا جس کو میں نے اپنی بیوقوفی سے جُوتی چور سمجھا تھا یعنی حضرت خلیفہ اول۔ اور میں اپنے دل میں سخت شرمندہ ہوا۔آپ کی عادت تھی کہ آپ جوتیوں میں آکر بیٹھ جاتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام آواز دیتے تو آپ ذرا آگے آجاتے۔ پھر جب کہتے مولوی نور الدین صاحب نہیں آئے؟ تو پھر کچھ اَور آگے آجاتے۔ اس طرح بار بار کہنے کے بعد کہیں وہ آگے آتے تھے۔ یہ قصہ سنا کر میں نے انہیں کہامیاں! آپ کے باپ نے جوتیوں میں بیٹھ بیٹھ کے خلافت لی تھی لیکن تم زور سے لینا چاہتے ہو۔ اس طرح کام نہیں بنے گا۔ تم اپنے باپ کی طرح جوتیوں میں بیٹھو اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو۔اس پر وہ چُپ کر گیا اور میری اس بات کا اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
ہم نے خود حضرت خلیفہ اول کو دیکھا ہے۔ آپ مجلس میں بڑی مسکنت سے بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مجلس میں شادیوں کا ذکر ہورہا تھا، ڈپٹی محمد شریف صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی ہیں سناتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول اکڑوں بیٹھے ہوئے تھے یعنی آپ نے اپنے گھٹنے اٹھائے ہوئے تھے اور سرجُھکا کر گھٹنوں میں رکھا ہؤا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مولوی صاحب! جماعت کے بڑھنے کا ایک ذریعہ کثرتِ اولاد بھی ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ اگر جماعت کے دوست ایک سے زیادہ شادیاں کریں تو اِس سے بھی جماعت بڑھ سکتی ہے۔ حضرت خلیفہ اول نے گھٹنوں پر سے سر اٹھایا اور فرمایا حضور! میں تو آپ کا حکم ماننے کے لئے تیار ہوں لیکن اس عمر میں مجھے کوئی شخص اپنی لڑکی دینے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہنس پڑے۔ تو دیکھو یہ انکسار اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ادب تھا جس کی وجہ سے انہیں یہ رُتبہ ملا۔ اَب باوجود اس کے کہ آپ کی اولاد نے جماعت میں فتنہ پیدا کیا ہے لیکن اب بھی جماعت آپ کا احترام کرنے پرمجبور ہے اور آپ کے لئے دعائیں کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں اس انکسار اور محبت کی جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تھی وہ عظمت ڈالی ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ کے بیٹوں نے مخالفت کی ہے پھر بھی ان کے باپ کی محبت ہمارے دلوں سے نہیں جاتی، پھر بھی ہم انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلندکرے کیونکہ انہوں نے اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا جب ساری دنیا آپ کی مخالف تھی۔
اِسی طرح آج کل ضلع جھنگ کے بعض نئے احمدی ہوئے ہیں۔ اُن میں سے ایک مولوی عزیز الرحمن صاحب ہیں جو عربی کے بڑے عالم ہیں اور ان کا ایک عربی قصیدہ الفضل میں بھی چَھپ چکا ہے۔ ان کے والد جو اپنے بیٹے کی طرح عالم نہیں وہ یہاں آئے۔ وہ کہیں جارہے تھے تو کسی نے میاں عبدالمنان کو آتا دیکھ کر انہیں بتایا کہ وہ میاں عبدالمنان ہیں۔اِس پر وہ دوڑتے ہوئے اس کے پاس پہنچے اور کہنے لگے میاں تیرے باپ کواس در سے خلافت ملی تھی۔ اَب تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تُو بھاگ رہا ہے پھر پنجابی میں کہاکہ جا اور جاکر معافی مانگ۔ عبدالمنان نے کہا باباجی! میں نے تو معافی مانگی تھی۔ وہ کہنے لگے اس طرح نہیں تُو جاکر ان کی دہلیز پربیٹھ جااور وہاں سے ہِل نہیں۔ تجھے دھکّے مارکر بھی وہاں سے نکالنا چاہیں تُو اُس وقت تک نہ اُٹھ جب تک تجھے معافی نہ مل جائے مگر عبدالمنان نے اس نو احمدی کی بات بھی نہ مانی۔ پھر میں نے بھی مری میں خطبہ دیا اور معافی کا طریق بتایا لیکن اُس نے نہ تو اس طریق پر عمل کیا جو میں نے خطبہ میں بیان کیا تھا اور نہ اس طریق پر عمل کیا جو اس نئے احمدی نے اسے بتایا تھا۔ اور اخباروں میں شور مچایا جارہا ہے۔ بے شک وہ اور اس کے ساتھی اخباروں میں جتنا چاہیں شور مچالیں وہ اتنا شور تو نہیں مچا سکتے جتنا1953ء میں جماعت کے خلاف مچایا گیا تھا۔ مگر جو خدا 1953ء میں میری مدد کے لئے دوڑا ہؤا آیا تھا وہ خدا اَب بُڈھا نہیں ہوگیا کہ وہ1953ء میں دَوڑ سکتا تھا اور اب نہیں دَوڑ سکتا۔ بلکہ وہ اُس وقت بھی دوڑ سکتا تھااور اب بھی دوڑ سکتا ہے اور قیامت تک دوڑ سکے گا۔ جب بھی کوئی شخص احمدیت کو کچلنے کے لئے آگے آئے گا میرا خدا دوڑتا ہوا آجائے گا۔ اور جو شخص احمدیت کو مٹانے کے لئے نیزہ مارنے کی کوشش کرے گا میرا خدا اپنی چھاتی اس کے سامنے کردے گا۔ اور تم یہ جانتے ہی ہو کہ میرے خدا کو نیزہ نہیں لگتا۔ جو شخص میرے خدا کے سینہ میں نیزہ مارنے کی کوشش کرے گا وہ نیزہ اُلٹ کر خود اس کے اپنے سینہ میں جالگے گا اور جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے ایمان کی وجہ سے محفوظ رہتی چلی جائے گی۔ ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ آپ لوگ اپنے ایمان کو قائم رکھیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول سنایا کرتے تھے جب میں بھوپال میں پڑھا کرتا تھا تو وہاں ایک بزرگ تھے جنہیں میں اکثرملنے جایا کرتاتھا۔نیک آدمی تھے اور مجھ پر انہیں اعتماد تھا۔ ایک دن کچھ وقفہ کے بعد میں انہیں ملنے کے لئے گیا تو کہنے لگے میاں! تم سے ہم محبت کرتے ہیں۔ جانتے ہو کیوں محبت کرتے ہیں؟ ہم اس لئے تم سے محبت کرتے ہیں کہ کبھی کبھی تم آجاتے ہو تو خداتعالیٰ کی باتیں کرلیتے ہیں۔اس کے بعد پھر دنیا کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں لیکن تم بھی کچھ عرصہ سے میرے پاس نہیں آئے۔ تم نے کبھی قصاب کی دُکان دیکھی ہے؟میں نے کہا ہاں دیکھی ہے۔اُس بزرگ نے کہا تم نے دیکھا نہیں کہ قصاب کچھ دیر گوشت کاٹنے کے بعد دو چھریوں کو آپس میں رگڑ لیتا ہے۔ پتہ ہے وہ کیوں اس طرح کرتا ہے؟ وہ اس لئے ایسا کرتا ہے کہ گوشت کاٹتے کاٹتے چُھری پر چربی جم جاتی ہے۔ اور وہ کند ہوجاتی ہے جب وہ اسے دوسری چُھری سے رگڑتا ہے تو چربی صاف ہوجاتی ہے۔اِسی طرح جب تم یہاں آتے ہو تو میں تم سے خداتعالیٰ کی باتیں کرتا ہوں اور تم بھی مجھ سے خداتعالیٰ کی باتیں کرتے ہو۔اس طرح وہ چربی جو دنیوی باتوں کی وجہ سے جم جاتی ہے دور ہوجاتی ہے اس لئے ناغہ نہ کیا کرو۔یہاں آتے رہا کرو۔
آپ لوگ بھی اپنے بیوی بچوں کو خداتعالیٰ کی باتیں سناتے رہا کریں اور اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتے رہا کریں تاکہ خدا تعالیٰ ہمارے دلوں میں ہمیشہ ہمیش رہے۔ اور اس کی محبت ہمارے دل میں اتنی تیز ہوجائے کہ نہ صرف ہم اس کے عاشق ہوں بلکہ وہ بھی ہمارا عاشق ہو۔ اور یاد رکھو کہ کوئی شخص اپنے محبوب کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔ اگر تم خداتعالیٰ کے محبوب ہوجاؤ گے تو خداتعالیٰ بھی تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا۔ بلکہ ابھی دشمن اپنے گھر سے نہیں نکلا ہوگا کہ تم دیکھو گے کہ خداتعالیٰ عرش سے بھی نیچے اترآیا ہے اور وہ خود تمہارے گھروں کا پہرہ دے گا۔
دیکھو! رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت کی بعض دشمن منصوبہ کرکے ننگی تلواریں لئے کھڑے تھے مگر آپ سامنے سے نکل گئے۔ بعد میں لوگوں نے ان سے کہا کہ تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو مگر تمہارے سامنے سے محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)گزر گئے اور تم سے کچھ نہ ہوسکا۔وہ کہنے لگے خدا کی قسم! وہ ہمیں نظر ہی نہیں آیا۔ پس اگر خداتعالیٰ تمہارے ساتھ ہوگا تو دشمن تمہارے گھر پر آئے گا تو تم اُن کو نظر نہیں آؤ گے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بہت بڑے انسان تھے ہم نے اپنی جماعت میں بھی اس قسم کے نظارے دیکھے ہیں۔
مولوی عبدالرحمن صاحب کشمیر کے ایک مخلص احمدی تھے۔میں نے انہیں مبلغ بنا کر وہاں رکھاہوا تھا۔ وہ مسلمانوں میں اثر رکھتے تھے اور ان کی تنظیم کرتے تھے ۔اس لئے ان پر ریاست جموں کی گورنمنٹ نے بعض الزامات عاید کردئیے اور کہا کہ فلاں موقع پر جو چوری ہوئی ہے وہ انہی کی وجہ سے ہوئی ہے اور ان کے متعلق وارنٹ فوجداری جاری کردئیے۔ ایک دن وہ کشمیر میں میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے ان کے کان میں کہا کہ باہر پولیس کھڑی ہے۔وہ اٹھے اور رومال ڈال کر پولیس کے سامنے سے گزرگئے۔ میں نے بعد میں کسی سے پوچھا کہ مولوی صاحب کا کیا بنا ہے؟ تو دوستوں نے مجھے بتایا کہ وہ پولیس کے سامنے سے گزر گئے اور کسی کو نظر نہیں آئے۔پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی شان تھی۔مولوی عبدالرحمن صاحب صحابی بھی نہیں تھے تابعی تھے ان کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہو اکہ پولیس وارنٹ لے کر کھڑی تھی لیکن وہ سامنے سے گزر گئے اور جب پولیس سے پوچھا گیا کہ تم نے انہیں پکڑا کیوں نہیں؟ تو کہنے لگے ہم نے انہیں دیکھا ہی نہیں۔
تو جب تک خداتعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق رہے گا۔خداتعالیٰ کا تعلق بھی ہمارے ساتھ رہے گااوراللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی غیرت ہمارے لئے دکھاتا رہے گااور کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ ہماری طرف ترچھی آنکھوں سے دیکھے۔ کیونکہ خداتعالیٰ کے فرشتے فوراً آگے بڑھیں گے اور ہمارے اور اُس کے درمیان حائل ہوجائیں گے۔ اور وہ مدد ہمیں حاصل ہوگی جس کو دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ بھی ترستے ہیں۔اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ
ہواور تمہاری مدد کرے۔’’ (الفضل 26، 27 مارچ 1957ء)
1 الصف : 15
2 الیواقیت و الجواہر جلد 2 صفحہ 342 مطبوعہ بیروت لبنان 1997ء
3 السیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ 74 مطبوعہ بیروت لبنان 2002ء
4 سیرت ابن ہشام جلد2 صفحہ 140 مطبوعہ مصر 1936ء
5 سیرت ابن ہشام جلد2 صفحہ 144 مطبوعہ مصر 1936ء (مفہوماً)
6 سیرت ابن ہشام جلد3 صفحہ 100، 101 مطبوعہ مصر 1936ء
7 المائدہ : 25
8 سیرت ابن ہشام جلد2 صفحہ 267 مطبوعہ مصر 1936ء
9 متی باب 26 آیت 14 تا 16 و آیت 47 تا 50
10 النور :56
11 المائدہ : 68
12 رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305
13 درثمین اُردو صفحہ 51 مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی مطبوعہ 1962ء
14 بخاری کتاب الادب باب اِکْرَامُ الضَّیْفِ وَ خِدْ مَتِہٖ (الخ)
15 اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (الحج :48)
16 القصص : 79
17 درثمین اردو صفحہ 42 زیر عنوان ‘‘ بشیر احمد ، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین’’۔ مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی۔ 1962ء
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء
تم خدا کے ہاتھ کا لگایا ہؤا پودا ہو۔ تم بڑھتے چلے جاؤ گے
یہاں تک کہ زمین کے چاروں طرف پھیل جاؤ گے
(فرمودہ26دسمبر1956ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘ اللہ تعالیٰ کابے حدوحساب شکریہ ہے کہ اس سال پھر اس نے ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لئے غور کرنے اور قربانی کرنے کا موقع دیا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کا مزید احسان یہ ہے کہ اس دوران میں بعض ایسے حالات پیش آئے کہ دشمن نے خوب خوشیاں منائیں اور بغلیں بجائیں کہ اَب احمدیت کا خاتمہ ہوجائے گا،اَب احمدیت کی دیواروں کے نیچے سے خود اس کی گندی نالیوں نے اس کی دیواروں کے گرانے کے سامان پیدا کردئیے ہیں اور احمدیت کی حفاظتی دیواریں احمدیت کی اپنی نالیوں کی وجہ سے گر جائیں گی۔ اوراخباروں نے باقاعدہ شور مچایا کہ خلیفہ ثانی کی جماعت اب اُس سے بغاوت کررہی ہے۔اَب وہ اخبارنویس کہاں ہیں؟ وہ ذرا دیکھیں کہ یہ بغاوت کررہے ہیں یا عقیدت کا اظہار کررہے ہیں؟ اگر دشمنوں میں ذرا بھی تخمِ دیانت ہے اور جھوٹ کے گند پر منہ مارنے سے ان کوذرابھی شرم آتی ہے، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بھی ان کو نسبت حاصل ہے، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کی بھی اتباع کی ان کو توفیق ہے تو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ وہ جماعت آگے سے بہت زیادہ قربانی کرنے پر آمادہ ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ والا جذبہ ان کے اندر موجود ہے جوکہ اُحد کے موقع پر انہوں نے دکھایا تھا۔اُحد کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی اور ابوسفیان نے خوشی کے نعرے لگائے اور کہا کہاں ہے محمدؐ؟مطلب اُس کا یہ تھا کہ آپؐ فوت ہوگئے ہیں اگر زندہ ہوں گے تو یہ بولیں گے اور پھر ہم دوبارہ لوٹ کر حملہ کردیں گے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ خاموش رہو۔ پھر انہوں نے کہا کہاں ہے ابوبکرؓ؟ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا اور وہ چُپ رہے۔ پھر اُس نے کہاکہاں ہے عمرؓ؟حضرت عمرؓ کھڑے ہوگئے اور کہاکہ عمرؓ تیرا سر توڑنے کے لئے موجود ہے مگرچونکہ دشمن اُس وقت بڑے جتھے میں تھا اور اسلامی لشکر کے پاؤں اُکھڑ گئے تھے اور بظاہر اُسے ایک شکست نصیب ہوئی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو بھی منع کردیا۔ فرمایا! اَب بھی جواب نہ دیں۔1
ہماری جماعت بھی آج اُحد کے رنگ میں یہاں موجود ہے اور ابوسفیان کے مثیلوں کو اور ابوجہل کے چیلوں کو کہہ رہی ہے کہ ہم تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔دشمن یہ خیال کرتا ہے کہ تم ایک کمزور جماعت ہو۔ دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس جتھا ہے۔ دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے پاس طاقت ہے۔دشمن یہ سمجھتا ہے کہ جب وہ حملہ کرے گا توتم ایک چڑیا کی طرح اس کے قابو میں آجاؤ گے۔ مگر وہ یہ نہیں دیکھتا کہ آسمان سے خدا سب قِسم کی حفاظت کے سامان لے کر اُتر رہا ہے۔اور وہ ان جتھوں کو توڑ دے گا۔وہ ان جماعتوں کو کچل ڈالے گا۔وہ ان تمام نظاموں کو جو خدائی سلسلہ کے مخالف کھڑے ہیں پارہ پارہ کردے گااور ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ اور ایسا ذلیل کرے گا کہ سات پُشت تک ان کی اولادیں ان پر *** کریں گی۔
پس ہم اپنے خدا کاشکریہ ادا کرتے ہیں کہ جس نے ہمیں اس کا نام بلند کرنے اور اس کے سلسلہ کی عظمت قائم کرنے کے لئے پھر اس جگہ پر جمع ہونے کی توفیق دی اور دشمن کا منہ کالا کرنے کی ہم کو ہمت بخشی۔ اور کیاعورتیں اور کیا بچے اور کیا مرد آج مرکزِ احمدیت میں لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے داخل ہورہے ہیں۔ اور وہ دشمن جو یہ کہتا تھا کہ احمدیت پارہ پارہ ہوگئی اللہ تعالیٰ نے اُس کو ذلیل کردیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے یہی امید ہے اوراس کے وعدوں پر ہم کواعتبارِ کامل ہے کہ قیامت تک یہی جماعت دشمنانِ احمدیت کوکچلتی چلی جائے گی اور قیامت تک جماعت اپنا سر اونچا رکھے گی اور احمدیت پر جانثار ہونے کے لئے اپنے آپ کوکھڑا کرے گی اور دشمن ہمیشہ ان کے مقابلہ میں خائب وخاسر رہے گا۔یہ موجودہ جماعت بھی اور ان کی اولادیں بھی اوراولادوں کی اولادیں بھی قیامت تک احمدیت اور اسلام کے جھنڈے کو بالا رکھیں گی۔ اور جس طرح ابوسفیان نے جب کہا کہ لَنَا العُزّیٰ وَلَاعُزّیٰ لَکُمْ اے مسلمانو! ہمارے لئے عُزیٰ بت ہے جو ہمارے ساتھ ہے تمہارے ساتھ کوئی نہیں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَب جواب کیوں نہیں دیتے۔پہلے تم جب آدمیوں کا نام لیا جارہا تھا توجواب دینے کے لئے تیار تھے اَب خدا کی بے عزتی کی جاتی ہے اب کیوں نہیں جواب دیتے۔ تو صحابہؓ نے کہایارسول اللہؐ! کیا کہیں؟فرمایا زور سے کہو لَنَا مَوْلیٰ وَلاَ مَوْلیٰ لَکُمْ2 خدا ہمارے ساتھ ہے تمہارے ساتھ کوئی خدا نہیں۔ تو قیامت تک انشاء اللہ احمدیوں کی نسل اس کے محض فضل اور کرم سے باوجود ہماری کوتاہیوں اور غفلتوں کے کہ ہم اپنی اولادوں کی صحیح تربیت نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دےگا کہ وہ احمدیت او راسلام کا جھنڈا اونچا رکھیں گے اور تمام عیسائی دنیا اور تمام غیر مذاہب کو پُکار کرکہیں گے کہ لَنَا مَوْلیٰ وَلاَ مَوْلیٰ لَکُمْ خدا ہمارے ساتھ ہے اورتمہارے ساتھ کوئی خدا نہیں ہے۔
اَب میں بیٹھنے کے بعد دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کوعظیم الشان برکات کا موجب بنائے اور قیامت تک اس سے بہت بڑے بڑے اجتماع کرنے کی ہم کو توفیق عطا فرمائے جن میں ہم خداتعالیٰ کا نام بلند کریں، جن میں ہم اسلام کی سچی تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اور دشمنانِ احمدیت ان اجتماؤں کو دیکھ کر اپنے اندر شرمندہ بھی ہوں اور افسردہ بھی ہوں تاکہ ان کو نظر آئے کہ خدا ان لوگوں کے ساتھ ہے جن کو ہم نے سمجھا تھا کہ 1953ء میں مار ڈالا تھا وہ1956ء میں اس سے بھی زیادہ زور آور ہے، اور اگلے سالوںمیں اس سے بھی زیادہ طاقتور ہوں گے۔ چنانچہ دیکھ لومیں سات آٹھ دن سے کہہ رہا تھا کہ میں بیالیس سال زمانۂ خلافت میں دیکھتا آیا ہوں کہ جب کبھی دشمن نے حملہ کیا تو خدا نے ہماری مدد کی اور خداتعالیٰ نے ہمیں اوراونچا کیا۔ پس اَب جب کہ دشمن نے کہاہے کہ احمدیت کمزور ہوگئی ہے اور احمدیوں میں بغاوت ہوگئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ احمدیوں کے اخلاص میں اَور بھی ترقی بخشے گااور وہ زیادہ زور سے آئیں گے۔ تو میں نے بار بار منتظمین کو توجہ دلائی مگرباوجود اس کے انہوں نے اپنی طرف سے تو کوشش کی مگر پھر بھی خداکے اندازے کو نہ پہنچے اور آج رات بارہ بجے وہ حالت تھی کہ عورتوں کی رہائش گاہ میں تِل رکھنےکی جگہ نہ تھی اور عورتیں سردی میں بچے لئے پھر تی تھیں کہ کوئی جگہ ہمیں نہیں مل رہی۔ اور رپورٹ سے پتہ لگتا ہے کہ پچھلے سال سے اس دفعہ ڈیوڑھے آدمی اِس وقت تک آچکے ہیں۔پچھلے سال رات کے کھانے پراُنیس ہزار اور کچھ سَو تھے اور اِس سال رات کے کھانے پرستائیس ہزار سے زیادہ تھے۔ گویا ڈیوڑھے کے قریب تعداد تھی یا ڈیوڑھے سے بھی کچھ زیادہ تھی۔یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے اور یہ فضل اور احسان جب تک آپ لوگوں کے دلوں میں ایمان قائم رہے گا اللہ تعالیٰ اسے بڑھاتا چلا جائے گا۔تم خدا کا لگایا ہوا پودا ہو، تم بڑھتے چلے جاؤ گے اور پھیلتے چلے جاؤ گے اور جیسا کہ وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے تمہاری جڑیں زمین میں مضبوط ہوتی جائیں گی اور تمہاری شاخیں آسمان میں پھیلتی چلی جائیں گی۔یہاں تک کہ تم میں لگنے والے پھلوں کوجبریل آسمان پر بیٹھا ہواکھائے گااور اس کے ماتحت فرشتے بھی آسمان پر سے کھائیں گے اور خدا تعالیٰ عرش پر تعریف کرے گا کہ میرا لگایا ہوا پوداکتنا شاندار نکلا ہے۔اِدھر زمین میں اس کی جڑیں پھیل گئی ہیں اور اُدھر آسمان میں میرے عرش کے پاس اس کی شاخیں ہل رہی ہیںاَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِي السَّمَآءِ 3اِس کی جڑیں زمین میں پھیلی ہوئی ہوں گی اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں گی۔ تو اِدھر تو تم خداتعالیٰ کے فضل سے زمین میں اس طرح پھیلو گے کہ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ایک دن وہ آئے گا کہ دنیا میں میرے ماننے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے گی اور دوسرے لوگ جس طرح چھوٹی قومیں تھوڑی تھوڑی ہوتی ہیں۔اِس طرح وہ بھی چھوٹی قومیں بن کر رہ جائیں گے۔ اور فَرْعُهَا فِي السَّمَآءِ کے معنی یہ ہیں کہ تم صرف زمین میں پھیلو گے ہی نہیں بلکہ ذکرِ الٰہی اتنا بلند کرو گے کہ آسمان کے فرشتے اس کو سن کر ناچنے لگ جائیں گے اور خوش ہوں گے کہ ہمارے خدا کا ذکر زمین پر بھی اُسی طرح ہونے لگ گیا ہے جس طرح کہ ہم آسمان پر کرتے ہیں۔ تب آسمان پر بھی فرشتے ہوں گے اور زمین پر بھی فرشتے ہوں گے۔ آسمان کے فرشتوں کا نام جبریل اور اسرافیل وغیرہ ہوگا اور زمین کے فرشتوں کا نام احمدی ہوگا کیونکہ وہ زمین کو بھی خدا کے ذکر سے بھر دیں گے جس طرح کہ آسمان کو فرشتوں نے خدا کے ذکر سے بھرا ہوا ہے۔ پس یہ تو ہونے والا ہے اور ہوکر رہے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ایمانوں کو سلامت رکھیں اور اپنی اولادوں کے دلوں میں ایمان پختہ کرتے چلے جائیں۔ اگر اس تربیت کے کام کو ہم جاری رکھیں تو یقیناً دنیا میں اسلام اور احمدیت کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ یہ عیسائی حکومتیں جو آج ناز اور نخرے کے ساتھ اپنے سر اٹھا اٹھا کر چل رہی ہیں اور چھاتیاں نکال نکال کر چل رہی ہیں یہ اسلام کے آگے سر جھکائیں گی۔ اور یہی لنگوٹی پوش احمدی اور دھوتی پوش احمدی جو یہاں بیٹھے ہیں ان کے آگے امریکہ کے کروڑ پتی آکر سرجھکائیں گے اور کہیں گے کہ ہم ادب سے تم کو سلام کرتے ہیں کہ تم ہمارے روحانی باپ ہو۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جو نہ صرف ہمارا باپ تھا بلکہ ہمارے خدا کے بیٹے مسیحؑ کا بھی باپ تھا تم اُس کے فرزند ہو اور ہم تمہارے بیٹے ہیں۔پس تم نے ہمیں اپنے باپ سے اور ہمارے خدا کے بیٹے کے باپ سے روشناس کرایا ہے اس لئے تم ہم کو خاندانِ الوہیت میں واپس لانے والے ہو۔ تم ہم آوارہ گردوں کو پھر گھر پہنچانے والے ہو۔اس لئے ہم تمہارے آگے سرجھکاتے ہیں اور تم سے برکتیں چاہتے ہیں کیونکہ تمہاے ذریعہ سے اسلام ہم تک پہنچا ہے۔ سو یہ دن آنے والے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ۔
میں اپنی اس مختصرسی تقریر کے ختم کرنے سے پہلے عورتوں کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ رات کو ان کو تکلیف پہنچی ہے اور بعض ان میں سے شکوہ بھی کرنے لگیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان کو شکوہ کا حق نہیں تھا شکوہ کا حق ہمارا تھا۔ ہمارا حق تھا کہ ہم خدا سے کہتے کہ الٰہی! ہم اپنا فرض ادا نہیں کرسکے تُو ہم کو معاف کر۔ ان کو شکایت کا حق نہیں تھا ان کو تو خوش ہونا چاہئیے تھا کہ اللہ میاں تیرے کتنے احسان ہیں پھر تُو ہمیں اتنا لایاکہ جماعت کا مرکز ہمارے ٹھہرانے کا انتظام نہیں کرسکا۔ تو یہ تو جماعت کی ترقی کی علامت ہے۔ان کو اس پر خوش ہونا چاہئیے تھا۔ ہمیں رونا چاہیے تھا کہ ہم خدا تعالےٰ کے فضلوں کا اندازہ نہیں لگا سکے اور ہم نے جو اندازہ لگایا تھا وہ غلط ہوگیا۔ ان کو ہنسنا چاہئیے تھا کہ دیکھو خداتعالیٰ ہمیں اتنی تعداد میں لایا ہے کہ یہ مرکز والے باوجود ساری کوششوں کے ہماراانتظام کرنے سے محروم رہ گئے۔ اور ہمارے افسروں کو چاہئیے تھا کہ وہ روتے کہ باوجود خداتعالیٰ کے فضلوں کے بار بار دیکھنے کے پھر بھی ہم اس کا اندازہ لگانے سے قاصر رہے اورپھر بھی خدا کے مہمانوں کو ہم آرام نہیں پہنچا سکے۔ میں سات آٹھ دن سے برابر کہہ رہا تھا کہ دیکھو خداتعالیٰ کی غیرت اِس وقت بھڑکی ہوئی ہے۔ باغیوں کی بغاوت کی وجہ سے خداتعالیٰ عرش پر غصہ سے بھرا ہوا بیٹھا ہے او روہ ضرور ان کو نمونہ دکھائے گا اور نشان دکھائے گا اس لئے تیار ہوجاؤ کہ خدا تعالیٰ اَب برکت کے دروازے کھولنے والا ہے اور ہزاروں ہزار آدمی پچھلے سال سے زائد آئے گا۔ چنانچہ اِس وقت تک بھی قریباً نوہزار آدمی زیادہ آچکا ہے۔ اب اگلے دنوں میں اَور بھی امید ہے ابھی تو ستائیس کی تاریخ کو لوگ زیادہ آیا کرتے ہیں۔ پس ستائیس بھی ہے، اٹھائیس بھی ہے۔ او رپھر ابھی کیا ہے پھر جن کو خداتعالیٰ زندہ رکھے گا اگلا سال بھی ہے جبکہ اس سے بھی زیادہ لوگ آئیں گے۔ اور ہر دفعہ دشمن روسیاہ ہوگا اور ہر دفعہ دشمن شرمندہ ہوگا کہ جس جماعت کو ہم مارنا چاہتے تھے وہ پھر زندہ ہوکر نکل رہی ہے۔پس ایک طرف تو میں منتظمین کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ پورے زور سے خداتعالیٰ کے فضلوں کا اندازہ کرکے ایسا انتظام کیا کریں کہ آئندہ مہمانوں کو تکلیف نہ ہو اور مہمانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ایک دن تکلیف بھی ہو تو وہ اس بات پر خوش ہوا کریں کہ دیکھو ہمارا خدا کتنا شاندار ہے کہ دشمن کی مخالفت کے باوجود ہم کو بڑھا رہا ہے۔پس اگر تکلیف ہو تو تمہیں اَلْحَمْد کرنی چاہئیے اور خدا تعالیٰ کے ذکر میں بڑھنا چاہئیے۔ اور جو منتظم ہیں ان کو شرمندہ ہونا چاہئیے او ران کو خدا تعالیٰ سے عاجزانہ معافی مانگنی چاہئیے کیونکہ ان کا قصور ہے اورتمہارے لئے برکتوں اور رحمتوں کی علامت ہے۔
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کُل سات سَو آدمی آئے تھے۔اب ایک ایک بلاک میں کئی کئی ہزار بیٹھا ہے۔ اُس وقت آپؑ کی زندگی کا آخری سال تھا اور کُل سات سو آدمی جلسہ پر آیا اور انتظام اتنا خراب ہوا کہ رات کے تین بجے تک کھانا نہ مل سکا اور آپؑ کو الہام ہوا کہ یَآ اَیُّھَاالنَّبِیُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَر4 اے نبی! بُھوکے اور پریشان حال کو کھانا کھلاؤ۔ چنانچہ صبح معلوم ہوا کہ مہمان تین بجے رات تک لنگرخانہ کے سامنے کھڑے رہے اور ان کو کھانا نہیں ملا۔ پھر آپ نے نئے سرے سے فرمایا کہ دیگیں چڑھاؤ اور ان کو کھانا کھلاؤ۔ تو دیکھو سات سو آدمیوں کی یہ حالت ہوئی مگر ان سات سو آدمیوں کا یہ حال تھا کہ جب آپؑ سیر کے لئے نکلے تو سات سو آدمی ساتھ تھا، ہجوم بہت تھا، آنے والے بے چاروں نے کبھی یہ نظارہ تو دیکھا نہ تھا، باہر تو دوسو آدمی بھی لوگوں کو کسی روحانی بزرگ کے گرد جاتا ہوا نظر نہ آتا تھا۔میلوں میں بے شک جاتے ہیں لیکن روحانی نظاروں میں نہیں جاتے۔ اس لئے اُن کے لئے عجیب چیز تھی، لوگ دھکّے کھارہے تھے۔حضرت صاحب ایک قدم چلتے تھے تو ٹھوکر کھا کر آپؑ کے پیر سے جوتی نکل جاتی تھی۔ پھر کوئی احمدی ٹھہرا لیتا کہ حضور! جوتی پہن لیجئے اور آپؑ کے پیر میں جوتی ڈال دیتا۔ پھر آپؑ چلتے تو پھر کسی کا ٹھڈا لگتا او رجوتی پَرے جاپڑتی۔ پھر وہ کہتا کہ حضور! ٹھہر جائیے جوتی پہنادوں۔اسی طرح ہورہا تھا تو ایک زمیندار دوست نے دوسرے زمیندار دوست سے پوچھا ‘‘او تُوں مسیح موعود دا دست پنجہ لے لیا ہے’’ یعنی کیا تُو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مصافحہ کرلیا ہے؟ وہ کہنے لگا ‘‘ایتھے دست پنجہ لین دا کیہڑا ویلا ہے،نیڑے کوئی نہیں ہون دیندا’’ یعنی یہ مصافحہ کرنے کا کونسا موقع ہے یہاں تو کوئی قریب بھی نہیں آنے دیتا۔ اس پر وہ جو عاشق زمیندار تھا وہ اس کو دیکھ کر کہنے لگا تجھے یہ موقع پھر کب نصیب ہوگا۔ بے شک تیرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں پھر بھی لوگوں کے درمیان میں سے گزر جا اور مصافحہ کرآ۔
تو کُجا وہ وقت ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کُجا یہ وقت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔اب ہماری کم سے کم پچاس یا سو یا اس سے بھی زیادہ جماعت موجود ہے جس میں ہزار سے زیادہ آدمی ہیں قریباًستّر اسّی ہزار یا لاکھ تو صرف سیالکوٹ میں موجود ہے۔ کوئی بیس ہزار کے قریب لائل پور میں ہے۔ اسی طرح جھنگ اور سرگودھا کے علاقے جو ملتے ہیں ان میں بھی جماعت بیس ہزار کے قریب جا پہنچی ہے۔ کیونکہ صرف ربوہ کی ہی اب گیارہ بارہ ہزار آبادی ہو گئی ہے۔ یہ کوردیہہ5 جس کی تصویر اَب بھی اپنے ایمان بڑھانے کے لئے دفتروں میں جاکر دیکھ لیا کرو محض ایک جنگل تھا اور تین چار خیمے لگے ہوئے تھے۔اس میں ہم آکے بَسے۔ ابھی ساری دنیا اُجڑی پھر رہی ہے اور خدا نے ہم کو ایک مستقل وطن دے دیا ہے۔ ہم اِس جگہ پر اکٹھے ہوئے اور تین سال کے اندر اندر پکی عمارتیں بن گئی ہیں۔آج سے پانچ چھ سال پہلے جب جلسہ ہوا تھا تو اُس وقت ہم کچے مکانوں میں رہتے تھے۔ پھر اس کے بعد تمام کوٹھیاں ہی کوٹھیاں کراچی اور لاہور کی طرح کی بن گئی ہیں اور یہ ساری عمارتیں اتنی جلدی بن گئی ہیں کہ سارے پاکستان میں اتنی جلدی کسی جگہ پر نہیں بنیں۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ سو دعائیں کرو اللہ تعالیٰ سے کہ وہ اپنے فضل کو بڑھاتا چلاجائے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اس فضل کا مستحق بنائے۔
پھر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک دوست نے آج مصافحہ کرتے وقت اِس خیال سے کہ سارے احمدی مل رہے ہیں مجھے بھی احمدی نہ سمجھ لیں کہا کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ میں غیراحمدی ہوں۔مجھے دل میں ہنسی آئی کہ ہم میں تو خدا نے وہ کشش رکھی ہے کہ ہمارے ہاتھ جس کے جسم کو چُھو جائیں ناممکن ہے کہ وہ اور اس کی اولادیں غیر احمدی رہ جائیں۔میں نے دل میں کہا کہ آج تو یہ بے چارہ کچھ شرمندہ ہے کہ اتنے احمدیوں میں مَیں ایک غیراحمدی آیا ہوں اور کسی دن اِس کا سارے کا سارا خاندان احمدی بن کے آئے گا اور کہے گا حضور! ہمارے خاندان کا ایک ہزار آدمی احمدی ہے۔
اسی طرح مجھے ملاقاتوں میں آج ایک دوست نے بتایا کہ ایک دوست تشریف لائے ہوئے ہیں جو اپنی قوم میں رئیس ہیں احمدیت کی بہت سی کتب بھی انہوں نے پڑھی ہیں۔ لیکن ان کے دل میں یہ شبہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزوں کی تعریف کی ہے۔ میں مختصر طور پران کو بتانا چاہتا ہوں کہ پہلی تعریف تو قرآن نے کروائی ہے۔ انگریز آخر فرعون سے تو بدتر نہیں لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب خداتعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا تو فرمایااے موسیٰ ؑاور اس کے بھائی ہارونؑ! تم دونوں فرعون کے پاس جانا تو فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا 6۔دونوں اس کے ساتھ بڑے ادب اور احترام کے ساتھ باتیں کرنا۔ تو یہ تو قرآن کا سبق ہے۔ اگر مرزا صاحب اس پر عمل نہ کرتے تو پھر آپ لوگ کہتے کہ مرزا صاحب نے قرآن کی تعلیم پر عمل نہیں کیا۔ اب جو قرآن کی تعلیم پر عمل کیا ہے تو آپ لوگ کہتے ہیں کہ ایسا کیوں کیا ہے۔ پھر دوسرا اعتراض آپ لوگ یہ کرتے کہ حضرت مسیح ناصریؑ کے سامنے ایک روپیہ پیش کیاگیا اور لوگوں نے کہا کہ قیصر ہم سے ٹیکس وصول کرنا چاہتا ہے کیا ہم دیں یا نہ دیں؟ گاندھی جی نے تحریک کی تھی کہ گورنمنٹ کو ٹیکس نہ دو۔انہوں نے بھی یہی چالاکی کی او رحضرت عیسٰی علیہ السلام کے پاس آئے او ران کو کہا کہ قیصر ہم سے ٹیکس مانگتا ہے دیں کہ نہ دیں؟ انہوں نے کہا کہ وہ کون سا روپیہ تم سے مانگتا ہے؟انہوں نے روپیہ دکھایا؟ اُس پر قیصر کی تصویر تھی۔حضرت عیسٰی علیہ السلام نے کہا جو قیصر کا ہے وہ قیصرکو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو۔7 اس طرح اُن کو جواب دیا اور ٹلا دیا۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگریزوں کو بُرا کہتے تو پھر آپ کے علماء کہتے کہ یہ اچھا مسیح ہے کہ مسیحؑ نے تو یہ کہا تھا کہ جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو۔ اور یہ اس کے خلاف کررہا ہے۔ پھر یہ کہ قرآن میں عیسائیوں کی تعریف آئی ہے پہلے ان آیتوں کو کیوں نہیں نکالتے۔ مرزا صاحب پر غصہ ہے قرآن پر غصہ کیوں نہیں آتا۔ قرآن میں عیسائیوں کی تعریف آئی ہے کہ ان کے دل روحانیت سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کی آنکھوں سے خدا کی محبت میں آنسو بہتے ہیں۔ پھر انگریزوں نے کعبہ پر حملہ کبھی نہیں کیا مگر حبشہ کی حکومت نے مکہ پر حملہ کیاتھا جس کو سورہ فیل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ8 یہ اصحاب الفیل حبشہ کے گورنر کے سپاہی تھے وہاں اس وقت ابرہہ گورنر تھا اس ابرہہ نے لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ کیا تھا لیکن باوجود اس کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے صحابہؓ کو بلایا اور کہا کہ تم کو اَب مکہ میں بڑی تکلیفیں ہیں تم کیوں نہیں اس ملک میں چلے جاتے جو ایک عادل اور نیک بادشاکا ملک ہے۔ انہوں نے کہا یارسول اللہؐ! کون سا ؟فرمایا حبشہ تو حبشہ کا بادشاہ وہ تھا جس کے وائسرائے نے کعبہ پر حملہ کیا تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کو عادل اور نیک کہا۔ اگر تم کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بے شک اس کو عادل اور نیک کہا تھا پر آخر میں وہ مسلمان ہوگیا تھا گو پہلے عیسائی تھا تو مَیں ان کو جواب دیتا ہوں کہ انشاء اللہ انگریز بھی مسلمان ہوجائیں گے۔ احمدی مبلغ اس لئے باہر نکلے ہوئے ہیں کہ انگریزوں اور امریکنوں اور دوسرے لوگوں کو مسلمان بنائیں۔آپ لوگ اعتراض کرنا جانتے ہیں۔آپ یہ اعتراض کررہے ہیں کہ مسیح موعودؑ نے انگریزوں کی تعریف کیوں کی۔ اور احمدی مبلغ انگریزوں اور یورپین لوگوں کے منہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر درود بھجوا رہے ہیں۔
مجھے یاد ہے کوئی1920ء کی بات ہے ایک دوست نے ایک انگریز نَومسلم کے متعلق مجھے لکھا کہ اُس نے کہا مجھے اسلام سے اتنی عداوت تھی کہ مَیں جب رات کو سوتا تھا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو گالیاں دے کر سوتا تھا مگر اب کسی رات مجھے نیند نہیں آتی جب تک میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر درود نہ بھیج لوں۔ تو اب بتاؤ کہ وہ قابلِ قدر ہے جس کی قوم دنیا میں جارہی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر درود بھجوارہی ہے یا وہ گاندھی قابلِ قدر ہے جس کے چیلے آج چار کروڑ مسلمانوں کو ہندوستان میں دُکھ دے رہے ہیں۔ دیکھو کس کی پالیسی ٹھیک نکلی جنہوں نے انگریزوں کا مقابلہ کیا تھا وہ گاندھی اور اس کے چیلے تھے وہ تو آج بھی ہندوؤں کی تعریف کررہے ہیں اور ہندو ان کو مار رہے ہیں لیکن مسیح موعودؑ جس کوکہا جاتا ہے کہ اس نے انگریزوں کی تعریف کی اس کے چیلے ہر جگہ پر مسیحؑ کی ابنیت او رخدائی کا بطلان کررہے ہیں اور عیسائیوں کو مسلمان کررہے ہیں۔
مجھے یاد ہے مَیں بچہ تھا سیالکوٹ میں جلسہ ہوا جس میں حضرت صاحب کی تقریر ہوئی۔ بڑا ہجوم کرکے مسلمان آئے اور انہوں نے کہا کہ پتھر پھینکو اور ان کو خوب مارو۔اُس وقت مسٹر بیٹی ایک انگریز ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا بعد میں وہ شاید لاہور میں سپرنٹنڈنٹ پولیس ہوگیا تھا، وہ بھی انتظام کے لئے آیا ہوا تھا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقریر شروع کی اور لوگوں نے پتھربرسانے شروع کئے تو اس کو غصہ آگیا۔ وہ جگہ جہاں جلسہ ہورہا تھا سرائے تھی، اُس کی ایک بڑی سی دیوار تھی۔اُس دیوارپر وہ کُود کر چڑھ گیا اور کہنے لگا اے مسلمانو! بے غیر تو! بے حیاؤ! تمہیں شرم نہیں آتی وہ تو ہمارے خدا کو مار رہا ہے تم کیوں اس کے خلاف ہو؟ غصہ تو مجھے آنا چاہئیے تھا جس کے خدا کو وہ مارہا ہے تمہیں تو خوش ہونا چاہئیے تھا کہ انگریزوں کے خدا کو اس نے ماردیا ہے لیکن بجائے اس کے تم اس پر پتھر پھینک رہے ہو اور میں اس کی حفاظت کے لئے آیا ہوں۔
تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزوں کی خوشامد کرکے کیا لیا؟ انگریزوں کے خدا کو تو ماردیا مسلمانوں نے اس خدا کو آسمان پر چڑھایا تھا۔مرزا صاحبؑ نے آسمان سے اتار کے کشمیر میں دفن کردیا اور ابھی کہتے ہیں کہ انگریزوں کی خوشامد کی۔ دیکھو جو بچے کو خوش کرنا چاہے تو وہ اس کے باپ کی تعریف کرتا ہے۔ اگر واقع میں آپ انگریزوں کی خوشامد کرنا چاہتے تو عیسیٰؑ کی تعریف کرتے مگر انہوں نے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جو جھوٹی عزت عیسائیوں نے بنالی تھی اُس کی دھجیاں بکھیر دیں اور مسلمانوں نے فتویٰ لگایا کہ یہ عیسیٰؑ کی ہتک کرتا ہے۔ عجیب متضاد خیال ہیں۔ ایک طرف یہ الزام کہ عیسائیوں کی خوشامدکرتے ہیں اور دوسری طرف علماء کا یہ الزام کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک کرتا ہے۔ اَب دونوں میں سے کس کو سچا مانیں۔اُن کو سچا مانیں جو کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک کرتا ہے یا اِن کو سچا مانیں جو کہتے ہیں کہ عیسائیوں کی خوشامد کرتا ہے۔ وہ خوشامد کیا تھی؟ یہی تھی کہ اُن کی ملکہ کو اسلام کی تبلیغ کی۔ اورپھر آپ نے عربی میں ایک قصیدہ شائع کیا اور اس میں دعاکرتے ہوئے لکھا کہ اے خدا! اِن عیسائیوں کی دیواریں گرادے، ان کے قلعے گرادے، ان کی گڑھیاں9 گرا دے اور ان کے اوپر آسمان سے وہ عذاب مسلط کر کہ ان کے درودیوار ہل جائیں۔ اگر یہ تعریف ہوتی ہے تو تم بھی ذرا کسی مولوی کو کہو کہ وہ اَب یہی اعلان کرے جب کہ پاکستان کی گورنمنٹ ہے لیکن کسی کو جرأت نہیں۔ صرف ان باتوں کو لیتے ہیں جن باتوں کو سمجھنے کی قابلیت نہیں اور ان باتوں کو نہیں لیتے جو تعریف کی مستحق تھیں۔ آخر کسی قوم کی تعریف کیا اس طرح ہوسکتی ہے؟ کیا یہ بھی کوئی تعریف ہوتی ہے کہ خدایا! ان پر غضب نازل کر۔ خدایا! ان کے قلعوں کی دیواریں توڑ دے۔اے خدا! ان پر ایسی قوم کو حاکم بنادے جو ان کو ذلیل اور رسوا کردے۔ تو انہوں نے تو انگریزی حکومت کے تباہ ہونے کی دعا کی ہے انگریزوں کی تعریف کرنے کے کیا معنے ہوئے۔ اگر انگریزوں کی تعریف کی ہے تو اس طرح کی ہے جس طرح نجاشی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی تھی۔جس طرح مکہ کے بعض سرداروں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی تھی لیکن نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی اعتراض کرتا ہے اور نہ مسیح ناصری پر اعتراض کرتا ہے جس نے قیصر کی تعریف کی۔ بس لے دے کے ایک مرزا صاحب کی جان رہ گئی ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی اسلام کی خدمت میں صَرف کردی۔ بس ان کی زبانیں اس پر چل جاتی ہیں اس لئے کہ احمدی تھوڑے ہیں۔ مگر یہ تھوڑے نہیں رہیں گے یہ بڑھیں گے اور پھلیں گے اور اُس وقت تم کو نظر آئے گا کہ تم تھوڑے ہو اور احمدی زیادہ ہیں۔
اس کے بعد میں دعا کروں گا۔ آج کل اپنی بیماری کی وجہ سے میرے دل پر اتنا اثر ہے کہ جب کوئی جنازہ آتا ہے یا مسجد میں جنازہ پڑھاتا ہوں تواس جنازہ میں اپنے آپ کو بھی اورپیچھے جو لوگ کھڑے ہوتے ہیں اُن کو بھی شامل کرلیتا ہوں اور پھر ساری جماعت کو شامل کرتا ہوں۔ مُردوں کو بھی اور زندوں کو بھی کہ کبھی تو وہ مریں گے ہی اور کہتا ہوں کہ اے خدا! سب مُردوں کو بھی بخش اور ہم زندوں کو بھی بخش دے کہ ہم بھی کسی دن مرکے تیرے سامنے حاضر ہونے والے ہیں۔ تُو مجھ کو اور میرے پیچھے جو جنازہ پڑھ رہے ہیں ان کو بھی اور وہ ساری جماعت جو سارے پاکستان یا ہندوستان یا ہندوستان سے باہر پھیلی ہوئی ہے اور امریکہ اور یورپ میں پھیلی ہوئی ہے اُن سب کو معاف کر اور ان سب کے لئے اپنے فرشتوں کو حکم دے کہ جب وہ مریں تو وہ ان کے استقبال کے لئے آئیں او ران کو عزت کے ساتھ تیری جنت میں داخل کریں۔ اور کوئی وقت ایسا نہ آئے جب وہ گھبرائیں۔ ہر لخطہ اور ہر سیکنڈ تُو ان کے ساتھ رہیو اور مرنے کے وقت جو اکیلا ہونے او رتنہائی کا وقت آتا ہے وہ ان پر کبھی نہ آئے بلکہ ہمیشہ وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح یہ کہتے رہیں کہ اِنَّ اللہ معنا10۔خدا ہمارے ساتھ ہے ہم اکیلے کوئی نہیں۔ ہمارے بیوی بچے اگر چُھٹ گئے ہیں تو بیوی بچوں میں کیا طاقت تھی خدا ہم کو مل گیا ہے اور وہ ہمارے ساتھ ہے اور ہمارا سب سے زیادہ قریبی او رسب سے زیادہ ہمارامحبوب ہے۔ تو ہمیشہ ہر جنازہ میں مَیں ساری جماعت کو شامل کرلیتا ہوں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ایک دفعہ جنازہ پڑھایا تو فرمایا آج ساری جماعت جو پیچھے جنازہ پڑھ رہی تھی میں نے ان سب کا بھی جنازہ پڑھ دیا ہے۔ تو میں نے اس سنت کو دیکھ کر کہا کہ اَب تو جماعت بڑی پھیل گئی ہے اب تو اتنی جماعت نہیں رہی جو پیچھے کھڑی ہوتی۔وہ زمانہ تو ایسا تھا کہ تھوڑے احمدی تھے اس لئے اب مجھے چاہئیے کہ دنیا میں جہاں جہاں بھی احمدی ہیں اُن ساروں کو جنازہ میں شامل کرلیا کروں تاکہ جب بھی وہ مریں یہ جنازہ کی دعائیں ان کے کام آئیں اور اللہ تعالیٰ ان کا مدد گار ہو اور اگلے جہان میں ان کو سُکھ اور چین نصیب ہو اوراس دنیا میں ان کی اولاد دین کی خدمت کرنے والی ہو اور دنیا میں چاروں طرف پھیل کر اسلام کی روشنی کو پھیلائے۔
کل کی تقریر کے متعلق میں نے یہ تجویز کی ہے او رآئندہ کے لئے بھی انشاء اللہ اِس پر عمل کیا جائے گا کہ ایسی تقریروں کا امتحان لیا جائے گا اور ان پر انعام مقرر ہوا کرے گا۔ سو چونکہ تقریردیر سے چَھپتی ہے اس لئے میری یہ تجویز ہے کہ تقریر سے پہلے تمام دوست عام طور پر اور احمدی دوست خصوصاً پنسل او رکاغذ لیتے آئیں او رنوٹ کرلیں تاکہ جب وہ گھر جائیں تو ان کو چَھپنے کا انتظار نہ کرنا پڑے بلکہ اپنے نوٹوں کی مدد سے اسے یاد کرلیں اور جب امتحان ہو تو اس کا امتحان دیں۔جب وہ امتحان دیں گے تو جوان میں سے فرسٹ نکلے گا اس کوایک کتاب تذکرہ کی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں کی کتاب ہے اور ایک تفسیر کی جلد انعام دیں گے۔ اور جو سیکنڈ نکلے گا اس کو ایک تفسیر کی جلد اورایک سیر روحانی کی جلد دیں گے۔ اِسی طرح جو تھرڈ نکلے گا اس کو یا کوئی تفسیرکی جلد یا صرف سیر روحانی کی جلد دی جائیگی۔ اس طرح ہر سال الگ الگ انعام مقرر ہوتے چلے جائیں گے۔اس سال میں نے یہ اعلان کردیا ہے جو دوست لکھنا چاہتے ہیں وہ کل اپنے ساتھ پنسل اور کاغذ لے آئیں اور مختصر نوٹ لکھ لیں تاکہ ان کویاد کرسکیں او رجب جنوری یا فروری میں امتحان لیا جائے تو اُس وقت وہ صحیح طور پر جواب دے سکیں اور ان کو انتظار نہ کرنا پڑے کہ تقریر چھپے گی تو ہم امتحان دیں گے او رمضمون ان کے ذہن نشین ہوتا چلا جائے گا۔
جب پہلے زمانہ میں قادیان میں مَیں نے یہ کہا تھا تو دوست لکھا کرتے تھے۔ رات کے وقت جلسہ گاہ میں عجیب نظارہ ہوتا تھا۔ چاروں طرف دوست اپنے ساتھیوں کو موم بتیاں پکڑا دیتے تھے اور ان کی روشنی میں بیٹھے ہوئے نوٹ لکھتے تھے۔ اب تو خداتعالیٰ کے فضل سے بجلی کی روشنی بھی آگئی ہے۔اول تو میں بیمار ہوں لمبی تقریر نہیں کرسکتا لیکن اگر رات بھی ہوگئی تو بجلی کی روشنی میں دوست نوٹ لکھ سکتے ہیں۔ پھر فروری، مارچ میں جب امتحان ہوگا تو اُس وقت ان کو اس کا جواب دینا ہوگا۔
قادیان میں جلسہ سالانہ کے بعد جب لوگ جاتے تھے تو مجھے کئی دوستوں نے سنایا کہ ہم گھروں میں جاکر اپنی جماعتوں کو وہ تقریریں سناتے تھے تو اس طرح جماعتوں کو بڑی جلدی تقریریں پہنچ جاتی تھیں۔اَب بھی میں چاہتا ہوں کہ وہ طریق جاری ہوجائے تاکہ جب آپ لوگ جائیں تو اپنے گھروں میں ان نوٹوں کے ذریعہ سے وہ تقریر سنائیں اور کہیں کہ یہ تقریر ہم سن کے آئے ہیں۔چاہے ہم نے ساری نہیں لکھی پر جتنی لکھی ہے وہ تم سن لو۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کتاب پیچھے پہنچے گی اور تقریر پہلے پہنچ جائے گی۔ اور ان لوگوں کو بھی زیادہ سے زیادہ واقفیت ان خیالات سے ہوتی جائے گی جو اُن کا امام اِس وقت اُن تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اور پھر انعام کی جو عزت ہے اور سلسلہ کی کتابوں میں جو برکت ہے وہ بھی ان کو نصیب ہوجائے گی۔
اَب میں دعا کردیتا ہوں۔ باہر سے مختلف مشنوں کی تاریں آئی ہوئی ہیں۔ امریکہ سے بھی، یورپ سے بھی اور مشرقی ایشیا سے بھی۔ اِسی طرح انڈونیشیا اور سنگا پور وغیرہ سب جگہ سے تاریں آئی ہیں۔اور بورنیو سے بھی تار آئی ہے کہ ہمیں بھی دعاؤں میں یاد رکھا جائے۔ہندوستان سے بھی تاریں آئی ہیں اس لئے اپنے ہندوستان کے دوستوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھو۔انڈونیشیا کی جماعت کو بھی یاد رکھو او رافریقہ کی جماعتوں کو بھی جو مل کر پاکستان کے دوسرے نمبر پر بن جاتی ہیں کیونکہ کئی ممالک ہیں اگر ان کی ساری جماعتیں جمع کی جائیں تو غالباًپاکستان سے دوسرے نمبر پر ہوں۔تیسرے نمبر پر انڈونیشیا ہے اور چوتھے نمبر پر یورپ او رامریکہ کی جماعتیں اور مڈل ایسٹ کی جماعتیں مل کر بنتی ہیں۔ ان سب جماعتوں کی طرف سے تاریں آئی ہیں سو سب کے لئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور نصرت کرے۔ اور اس جلسہ میں بوجہ دوری کے جو شامل نہیں ہوسکے خداتعالیٰ اس جلسہ کی برکات اُن کو بھی دے۔ اور اللہ تعالیٰ رات کو جو اپنے فرشتے تم پر اتارے وہ اُن پر بھی اتارے او راللہ تعالیٰ کی حفاظت میں وہ آجائیں اوردن دونی اور رات چوگنی ترقی کا نظارہ دیکھیں۔ اور خدا کرے کہ جو ہمارے ملک میں جماعت ہے اس سے بھی ہزاروں گنا زیادہ وہاں جماعتیں ہوں۔اور ہماری جماعت جو یہاں ہے وہ اتنی بڑھ جائے کہ ہندوستان اور پاکستان کے چَپّہ چَپّہ پر پھیل جائے اور اس طرح اُن ممالک میں بھی جماعتیں پھیل جائیں۔ انڈونیشیا سے تارآئی ہے کہ ہمارا جلسہ سماٹرا میں قرار پایا تھا مگر سماٹرا میں بغاوت ہوگئی ہے اور وہاں کے فوجی گورنر نے حکومت خود سنبھال لی ہے۔اس لئے ہمیں جلسہ ملتوی کرنا پڑا بلکہ حالات ایسے خطرناک تھے کہ تار میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہم جہاز میں اس وقت سماٹرا جانے کے لئے سوار تھے اس وقت تک ہم سب خیریت سے ہیں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو آئندہ بھی خیریت سے رکھے۔ سو ان کے لئے بھی جو آئے ہیں۔ اور ان بھائیوں کیلئے بھی جو نہیں آئے یا نہیں آسکے۔ اور اپنی مستورات کے لئے بھی کہ جن کو بچوں کی وجہ سے رات کو زیادہ تکلیف پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو اَور بھی مضبوط کرے اور یہ تکلیف بجائے ان کے لئے ٹھوکر کا موجب ہونے کے ان کے ایمان میں زیادتی کا موجب ہو اور اللہ تعالیٰ اس جلسہ کے بعد ہم کو اتنی جلدی مزید ترقی بخشے کہ لاکھوں لاکھ لوگ احمدیت میں داخل ہوں۔ اور وہ دن آجائے کہ دشمن کو احمدیوں کی طرف غرور کے ساتھ انگل اٹھانے کا موقع نہ ملے بلکہ وہ استعجاب اور حیرت کے ساتھ احمدی جماعت کی ترقی کو دیکھے۔ اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم زیادہ ہوں تو ہمارے دل میں بھی تکبر پیدا نہ ہو۔ ہم یہ خیال نہ کریں کہ ہم زیادہ اور طاقتور ہیں بلکہ ہم یہ سمجھیں کہ ہم کوزیادہ جھکنے کا حکم ہے، زیادہ خدمت کا حکم ہے اور چپے چپے پر دنیا کے ہر غریب اور امیر کی ہم خدمت کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچا مومن بنائے۔صرف ظاہری مومن نہ بنائے۔ اور جتنا جتنا ہم بڑھتے جائیں اتنا ہی ہمارا سر خدا تعالیٰ کے آگے اور اس کے بندوں کی خدمت کے لئے جُھکتا چلا جائے۔
ایک کشمیر کے دوست کہتے ہیں کہ کشمیر کیلئے بھی دعا کرو کہ کشمیر پر خدا تعالیٰ فضل کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ پہلا آدم آیا اور شیطان نے اسے جنت سے نکال دیا اَب دوسرا آدم آیا ہے تاکہ لوگوں کو پھر جنت میں داخل کرے11 تو پہلا مسیحؑ کشمیر میں دفن ہوا تھا اَب دعا کرو کہ دوسرا مسیحؑ کشمیر میں زندہ ہو۔آمین’’
دعا کے بعد فرمایا:۔
‘‘اب میں جاتا ہوں پیچھے جلسہ شروع ہوگا۔دوست دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے کام کی توفیق دے۔ اس سردی میں میری طبیعت پچھلے سال سے بھی بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جو مضمون میں نے انتخاب کئے وہ اتنے لمبے ہوگئے کہ ان کی لمبائی کا خیال کرکے بھی دل کو گھبراہٹ ہوتی ہے۔ آخر دوستوں نے کہا کہ اپنے نفس پر جبر کرکے آپ صرف نوٹ پڑھ کر سنا دیں۔ پس دوست دعا کریں کہ دو دن جوباقی ہیں اور اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ مجھے ایسی صحت عطا کرے کہ میں اپنے خیالات کو اچھی طرح آپ لوگوں کے سامنے ادا کرسکوں۔ اور آپ لوگوں کو توفیق دے کہ آپ ان خیالات کو قبول کرسکیں او ران پر عمل کرسکیں۔ او رخداتعالیٰ کوئی بات میرے منہ سے ایسی نہ نکلوائے جو سچی نہ ہو۔ اور جب ہر سچ وہ نکلوائے تو کوئی بات ایسی نہ نکلوائے جو آپ کے دل میں جاکر نہ بیٹھ جائے اور فرشتے اس کو آپ کے دلوں میں مستحکم طور پر قائم نہ کر دیں۔ اور پھر ہر سچی بات جو میرے منہ سے نکلوائے اس سچ پر عمل کرنے کی ہمیشہ
ہمیش جماعت کو توفیق عطا فرمائے۔’’ (الفضل 17 مارچ 1957ء)
1 صحیح بخاری کتاب الجہاد و السیر باب یُکْرَہٗ مِنَ التَّنَازُعِ وَ الْاِخْتِلَافِ فِی الْحرب و عقوبۃ مَن عَصیٰ اِمَامَہٗ
2 صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر باب یُکْرَہٗ مِنَ التَّنَازُعِ وَالْاِخْتِلَافِ………… میں ‘‘ اَللہُ مَوْلَانَا وَ لَا مَوْلیٰ لکُمْ ’’ کے الفاظ ہیں۔
3 ابراہیم : 25
4 تذکرہ صفحہ 746۔ ایڈیشن چہارم
5 کور دیہہ/دِہ : پس ماندہ گاؤں ، کم آباد اور معمولی درجہ کا گاؤں، شہر سے دور اور بے رونق ۔ اجاڑ گاؤں جو روشنیوں سے محروم ہو۔ (اردو لغت تاریخی اصول پر۔ جلد15 صفحہ 338 اردو لغت بورڈ کراچی جون 1994ء)
6 طٰہٰ : 45
7 متی باب 22 آیت 22
8 الفیل : 2
9 گڑھیاں (گڑھی) گڑھ کی تصغیر : چھوٹا قلعہ ۔ کوٹلہ (اردو لغت تاریخی اصول پر جلد16 صفحہ 65۔ اردو لُغت بورڈ کراچی جون 1994ء)
10 التوبۃ : 40
11 صحیح بخاری کتاب المناقب بابُ عَلَامَاتِ النُّبُوَّۃِ فِی الْاِسْلَام
خلافت حقہ اسلامیہ
اور نظامِ آسمانی کی مخالفت
اور اُس کا پس منظر
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خلافتِ حقّہ اسلامیہ اور نظامِ آسمانی کی مخالفت
اور اُس کا پس منظر
(فرمودہ27دسمبر1956ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘آج کی تقریر عام طورپر عام مسائل پر ہوا کرتی تھی لیکن اس دفعہ فتنہ کی وجہ سے مجھے اس تقریر کے لئے بھی ایک ایسا موضوع چُننا پڑا جو اِس زمانہ میں جماعت احمدیہ کے لئے اس وجہ سے کہ اس کا تعلق خلافتِ احمدیہ سے ہے اور جماعت احمدیہ میں جولوگ شامل نہیں ان کے لئے اسلئے کہ اِس میں ایک اسلامی موضوع بیان ہوا ہے نہایت اہمیت رکھنے والا ہے۔ اور دوسرے اس لئے بھی میں نے اسے چُنا ہے کہ اگر وہ ہمارے اندر فتنہ پیدا ہونے سے خوش ہوتے ہیں تو اَور بھی خوش ہو جائیں او رساری تفصیل اُن کو معلوم ہوجائے۔لیکن اس کی تفصیلات اتنی ہوگئی ہیں کہ میں حیران ہوں کہ اس مضمون کو کس طرح بیان کروں۔ بعض دوستوں نے مشورہ دیا ہے کہ اس کے بعض حصوں میں مَیں صرف نوٹ پڑھ کر سنادوں۔پہلے میری عادت تھی کہ باریک نوٹ چھوٹے کاغذ پر آٹھ یا بارہ صفحے کے لکھے ہوئے ہوتے تھے،حد سے حد سولہ صفحے کے،بعض بہت لمبی لمبی پانچ پانچ چھ چھ گھنٹہ کی تقریریں ہوئیں تو ان میں چوبیس صفحہ کے بھی نوٹ ہوتے تھے،لیکن وہ ایسے صفحے ہوتے ہیں کہ ایک فل سکیپ سائز کے کاغذ کے آٹھ صفحے بنتے ہیں۔مگر اس دفعہ یہ نوٹ بہت لمبے ہوگئے ہیں۔دوستوں نے مشورہ دیا ہے کہ میں وہ نوٹ ہی پڑھ کرسنادوں،گو بعض دوسروں نے کہا ہے کہ آپ پڑھ کر سنا ہی نہیں سکتے،جب پڑھ کے سنانے لگیں گے تو کچھ نہ کچھ اپنی باتیں شروع کردیں گے اس طرح تقریر لمبی ہوجائیگی۔گو یہ ہوسکتا ہے کہ بعض حصے جو رہ جائیں اُن کو بعد میں شائع کردیا جائے مگر مناسب یہی ہے کہ احباب جو جمع ہوئے ہیں اُن تک مضمون میری زبان سے پہنچ جائے۔اس لئے جہاں بھی ایسا موقع آیا کہ مجھے معلوم ہوا کہ مضمون لمباہو رہا ہے تو میں صرف نوٹ پڑھ کے سنا دوں گا تاکہ اِس جلسہ میں یہ تقریر ختم ہوجائے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ 1
اس آیت کے متعلق تمام پچھلے مفسّرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت خلافتِ اسلامیہ کے متعلق ہے۔اِسی طرح صحابۂ کرام (رَضْوَانُ اللہ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنَ) اور کئی خلفاء راشدین بھی اس کے متعلق گواہی دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنی کتابوں میں اس آیت کو پیش کیا ہے او ربتایا ہے کہ یہ آیت خلافتِ اسلامیہ کے متعلق ہے۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اے خلافتِ حقّہ اسلامیہ پر ایمان رکھنے والے مومنو!(چونکہ یہاں خلافت کا ذکر ہے اس لئے اٰمَنُوْا میں ایمان لانے سے مراد ایمان بالخلافت ہی ہوسکتا ہے۔پس یہ آیت مبائعین کے متعلق ہے، غیرمبائعین کے متعلق نہیں کیونکہ وہ خلافت پر ایمان نہیں رکھتے)اے خلافتِ حقّہ اسلامیہ کوقائم رکھنے اور اس کے حصول کے لئے کوشش کرنے والو!تم سے اللہ ایک وعدہ کرتا ہے او روہ یہ ہے کہ ہم تم میں سے زمین میں اُسی طرح خلفاء بناتے رہیں گے جس طرح تم سے پہلے لوگوں کو خلفاء بنایا۔ اور ہم اُن کے لئے اِسی دین کو جاری کریں گے جو ہم نے اُنکے لئے پسند کیا ہے۔ یعنی جو ایمان او رعقیدہ ان کا ہے وہی خدا کو پسندیدہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اسی عقیدہ او رطریق کو دنیا میں جاری رکھے گا۔ اور اگر اُن پر کوئی خوف آیا تو ہم اس کو تبدیل کرکے امن کی حالت لے آئیں گے۔لیکن ہم بھی اُن سے اُمید کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ توحید کو دنیا میں قائم کریں گے او رشرک نہیں کریں گے۔ یعنی مشرک مذاہب کی تردید کرتے رہیں گے اور اسلام کی توحیدِ حقّہ کی اشاعت کرتے رہیں گے۔
خلافت کے قائم ہونے کے بعد خلافت پر ایمان لانے والے لوگوں نے خلافت کو ضائع کردیا توفرماتا ہے مجھ پر الزام نہیں ہوگا۔اس لئے کہ میں نے ایک وعدہ کیا ہے اورشرطیہ وعدہ کیا ہے۔اس خلافت کے ضائع ہونے پر الزام تم پر ہو گا۔ میں اگر پیشگوئی کرتا تو مجھ پر الزام ہوتا کہ میری پیشگوئی جھوٹی نکلی۔مگر میں نے پیشگوئی نہیں کی بلکہ میں نے تم سے وعدہ کیا ہے اور شرطیہ وعدہ کیا ہے کہ اگر تم مومن بالخلافۃ ہو گے اور اس کے مطابق عمل کروگے تو پھرمیں خلافت کو تم میں قائم رکھوں گا۔پس اگر خلافت تمہارے ہاتھوں سے نکل گئی تو یاد رکھو کہ تم مومن بالخلافۃ نہیں رہو گے کافر بالخلافۃ ہوجاؤ گے۔ اور نہ صرف خلفاء کی اطاعت سے نکل جاؤ گے بلکہ میری اطاعت سے بھی نکل جاؤ گے اور میرے بھی باغی بن جاؤ گے۔
خلافتِ حقّہ اسلامیہ کے عنوان کی وجہ
میں نے اس مضمون کا ہیڈنگ ''خلافتِ حقّہ اسلامیہ'' اس لئے رکھا ہے کہ جس طرح موسوی زمانہ میں خلافتِ موسویہ یہودیہ دو حصوں میں تقسیم تھی ایک دَور
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لے کرحضرت عیسٰی السلام تک تھا اور ایک دَور حضرت عیسٰی علیہ السلام سے لے کر آج تک چلا آرہا ہے۔اِسی طرح اسلام میں بھی خلافت کے دو دَور ہیں،ایک دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شروع ہوا اور اُس کی ظاہری شکل حضرت علیؓ پر ختم ہوگئی۔اور دوسرا دَور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اوّل سے شروع ہوا۔اور اگر آپ لوگوں میں ایمان اور عملِ صالح قائم رہا او رخلافت سے وابستگی پختہ رہی تو انشاء اللہ یہ دَور قیامت تک قائم رہے گا۔
جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کی تشریح میں مَیں ثابت کر چکا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایمان بالخلافۃ قائم رہا اور خلافت کے قیام کے لئے تمہاری کوشش جاری رہی تو میرا وعدہ ہے کہ تم میں سے(یعنی مومنوں میں سے اور تمہاری جماعت میں سے)میں خلیفہ بناتا رہوں گا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے متعلق احادیث میں تصریح فرمائی ہے۔آپ فرماتے ہیں''مَاکَانَتْ نُبُوَّۃٌ قَطُّ اِلَّا تَبِعَتْھَا خِلَافَۃٌ۔''2 کہ ہرنبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے او رمیرے بعد بھی خلافت ہوگی۔ اس کے بعد ظالم حکومت ہوگی۔پھر جابر حکومت ہوگی یعنی غیر قومیں آکر مسلمانوں پر حکومت کریں گی جو زبردستی مسلمانوں سے حکومت چھین لیں گی۔اس کے بعد فرماتے ہیں کہ پھر خلافت عَلٰی منھاج النّبوّۃ ہوگی۔ یعنی جیسے نبیوں کے بعد خلافت ہوتی ہے ویسی ہی خلافت پھر جاری کردی جائیگی۔3
نبیوں کے بعدخلافت کا ذکر قرآن کریم میں دو جگہ آتا ہے۔ایک تو یہ ذکر ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے بعد خداتعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خلافت اس طرح دی کہ کچھ ان میں سے موسیٰ علیہ السلام کے تابع نبی بنائے اورکچھ اُن میں سے بادشاہ بنائے4۔اب نبی اور بادشاہ بنانا تو خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے ہمارے اختیار میں نہیں۔لیکن جو تیسرا امر خلافت کا ہے اور اس حیثیت سے کہ خدا تعالیٰ بندوں سے کام لیتا ہے ہمارے اختیار میں ہے۔ چنانچہ عیسائی اس کے لئے انتخاب کرتے ہیں اور اپنے میں سے ایک شخص کو بڑا مذہبی لیڈر بنا لیتے ہیں جس کانام وہ پوپ رکھتے ہیں۔گوپوپ اور پوپ کے متبعین ا ب خراب ہوگئے ہیں مگر اس سے یہ خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ پھر اُن سے مشابہت کیوں دی؟ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْجس طرح پہلے لوگوں کو میں نے خلیفہ بنایا تھا اسی طرح میں تمہیں خلیفہ بناؤ ں گا۔یعنی جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ میں خلافت قائم کی گئی تھی اُسی طرح تمہارے اندر بھی اس حصہ میں جو موسوی سلسلہ کے مشابہہ ہوگا میں خلافت قائم کروں گا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت براہ راست چلے گی۔ پھر جب مسیح موعودؑ آجائے گا تو جس طرح مسیح ناصریؑ کے سلسلہ میں خلافت چلائی گئی تھی اُسی طرح تمہارے اندر بھی چلاؤں گا۔مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ موسیٰ کے سلسلہ میں مسیحؑ آیا اور محمدی سلسلہ میں بھی مسیح آیا مگر محمدی سِلسلہ کا مسیح پہلے مسیح سے افضل ہے اس لئے وہ غلطیاں جو انہوں نے کیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسیح محمدؐی کی جماعت نہیں کرے گی۔انہوں نے خدا کو بُھلادیا اور خداتعالیٰ کو بُھلا کر ایک کمزور انسان کو خدا کا بیٹا بناکرا ُسے پوجنے لگ گئے۔مگر محمدی مسیحؑ نے اپنی جماعت کو شرک کے خلاف بڑی شدت سے تعلیم دی۔بلکہ خود قرآن کریم نے کہہ دیا ہے کہ اگر تم خلافت حاصل کرنا چاہتے ہوتو پھر شرک کبھی نہ کرنا اور میری خالص عبادت کو ہمیشہ قائم رکھنا جیسا کہ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا میں اشارہ کیا گیاہے۔
پس اگر جماعت اس کو قائم رکھے گی تبھی وہ انعام پائے گی۔اور اس کی صورت یہ بن گئی ہے کہ قرآنِ کریم نے بھی شرک کے خلافت اتنی تعلیم دی کہ جس کا ہزارواں حصہ بھی انجیل میں نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی شرک کے خلاف اتنی تعلیم دی ہے جو حضرت مسیحؑ ناصری کی موجود تعلیم میں نہیں پائی جاتی۔پھر آپ کے الہاموں میں بھی یہ تعلیم پائی جاتی ہے۔چنانچہ آپ کا الہام ہےخُذُوا التَّوْحِیْدَ اَلتَّوْحِیْدَ یَا اَبْنَاءَ الْفَارِسِ5
اے مسیح موعود اور اُس کی ذرّیت!توحید کو ہمیشہ قائم رکھو۔ سو اِس سلسلہ میں خدا تعالیٰ نے توحید پر اتنا زور دیا ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے اور قرآنی تعلیم پرغور کرتے ہوئے یہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالےٰ اپنے فضل سے توحیدِ کامل احمدیوں میں قائم رکھے گا۔اور اس کے نتیجہ میں خلافت بھی ان کے اندر قائم رہے گی اور وہ خلافت بھی اسلام کی خدمت گذار ہوگی۔حضرت مسیحؑ ناصری کی خلافت کی طرح وہ خود اس کے اپنے مذہب کو توڑنے والی نہیں ہوگی۔
جماعت احمدیہ میں خلافت قائم رہنے کی بشارت
میں نے بتایا ہے کہ جس طرح قرآن کریم نے کہا ہے کہ خلیفے ہوں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ میرے بعد خلیفے ہوں گے۔
پھر مُلْکًا عَاضًا ہوگا۔پھر ملک جبریّہ ہوگا۔اور اُس کے بعد خَلَافَۃٌ علٰی مِنْھَاجِ النَّبُوَّۃِ ہوگی ۔اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنّت میں الوصیت میں تحریر فرمایا ہے کہ
''اے عزیزو!جب کہ قدیم سے سنّت اللہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلاوے۔سو اَب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کردیوے۔اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہوجائیں۔کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کاسلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔''6
یعنی اگر تم سیدھے رستہ پر چلتے رہو گے تو خدا کا مجھ سے وعدہ ہے کہ جو دوسری قدرت یعنی خلافت تمہارے اندر آوے گی وہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگی۔
عیسائیوں کو دیکھو گو جھوٹی خلافت ہی سہی 1900 سال سے وہ اس کو لئے چلے آرہے ہیں۔مگر مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کو ابھی 48 سال ہوئے تو کئی بلّیاں چھیچھڑوں کی خوابیں دیکھنے لگیں اور خلافت کو توڑنے کی فکر میں لگ گئیں۔
پھر فرماتے ہیں کہ:-
''تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہوکر دُعائیں کرتے رہو۔''7
سو تم کو بھی چاہئیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے ماتحت دعائیں کرتے رہو کہ اے اللہ!ہم کو مومن بالخلافت رکھیئو اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دیجیئو۔اورہمیں ہمیشہ اس بات کا مستحق رکھیئو کہ ہم میں سے خلیفے بنتے رہیں۔اور قیامت تک یہ سِلسلہ جاری رہے تاکہ ہم ایک جھنڈے کے نیچے کھڑے ہوکر اور ایک صف میں کھڑے ہوکر اسلام کی جنگیں ساری دنیا سے لڑتے رہیں اور پھر ساری دنیاکوفتح کرکے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں گرادیں۔کیونکہ یہی ہمارے قیام اور مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض ہے۔
قدرتِ ثانیہ سے مُراد خلافت ہے
یہ جو میں نے''قدرت ثانیہ''کے معنے خلافت کے کئے ہیں یہ ہمارے ہی نہیں بلکہ غیر مبائعین نے بھی اس کو تسلیم کیا ہوا ہے۔چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب لکھتے ہیں:۔
''حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیۃ کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صدرانجمن احمدیہ موجودہ قادیان واقرباء حضرت مسیح موعودؑ بہ اجازت حضرت (اماں جان) کُل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اُس وقت بارہ سو تھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سَلَّمَہٗ کو آپؑ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا۔اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی...... یہ خط بطور اطلاع کُل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے۔''الخ8
یہ خط ہے جو انہوں نے شائع کیا۔اس میں مولوی محمد علی صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب وغیرہ کا بھی انہوں نے ذکر کیا ہے کہ معتمدین میں سے وہ اس موقع پر موجود تھے۔اور انہوں نے حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت کی۔سو ان لوگوں نے اس زمانہ میں یہ تسلیم کرلیا کہ یہ جو''قدرت ثانیہ''کی پیشگوئی تھی یہ''خلافت'' کے متعلق تھی کیونکہ الوصیۃ میں سوائے اس کے اور کوئی ذکر نہیں کہ تم''قدرت ثانیہ'' کے لئے دعائیں کرتے رہو۔ اور خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ مطابق حکم الوصیۃ ہم نے بیعت کی۔پس خواجہ صاحب کااپنا اقرار موجود ہے کہ الوصیۃ میں جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ ''خلافت''کے متعلق تھی اور''قدرت ثانیہ'' سے مراد''خلافت'' ہی ہے۔پس حضرت خلیفہ اوّل کے ہاتھ پر خواجہ کمال الدین صاحب،مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں کا بیعت کرنا اور اسی طرح میرا اور تمام خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیعت کرنا اِس بات کا ثبوت ہے کہ تمام جماعت احمدیہ نے بالاتفاق خلافتِ احمدیہ کااقرار کرلیا۔پھر حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اوّل کے تمام خاندان اور جماعت احمدیہ کے ننانوے فیصدی افراد کا میرے ہاتھ پر بیعت کرلینا اس بات کا مزید ثبوت ہوا کہ جماعت احمدیہ اس بات پر متفق ہے کہ''خلافت احمدیہ'' کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
آئندہ انتخابِ خلافت کے متعلق طریق کار
چونکہ اِس وقت حضرت خلیفہ اوّل کے خاندان میں سے بعض نے اور اُن کے دوستوں نے خلافتِ احمدیہ کا سوال پھر اُٹھایا ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا
کہ اس مضمون کے متعلق پھر کچھ روشنی ڈالوں اور جماعت کے سامنے ایسی تجاویز پیش کروں جن سے خلافت احمدیہ شرارتوں سے محفوظ ہوجائے۔
میں نے اس سے پہلے جماعت کے دوستوں کے مشورہ کے بعد یہ فیصلہ کیاتھا کہ خلیفۂ وقت کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ کی مجلس شوریٰ دوسرا خلیفہ چنے ۔مگرموجودہ فتنہ نے بتادیا ہے کہ یہ طریق درست نہیں۔کیونکہ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ ہم خلیفہ ثانی کے مرنے کے بعد بیعت میاں عبدالمنان کی کریں گے اَور کسی کی نہیں کریں گے۔اس سے پتہ لگا کہ ان لوگوں نے یہ سمجھا کہ صرف دو تین آدمی ہی اگر کسی کی بیعت کرلیں تو وہ خلیفہ ہوجاتا ہے۔اور پھر اس سے یہ بھی پتہ لگا کہ جماعت میں خلفشار پیدا ہوسکتا ہے۔چاہے وہ خلفشار پیدا کرنے والا غلام رسول نمبر35 جیسا آدمی ہو اور خواہ وہ ڈاہڈا جیسا گمنام آدمی ہی ہو۔وہ دعویٰ تو یہی کریں گے کہ خلیفہ چُنا گیا ہے۔سوجماعت احمدیہ میں پریشانی پیدا ہوگی۔اس لئے وہ پرانا طریق جو طُولِ عمل والا ہے میں اس کو منسوخ کرتا ہوں اور اس کی بجائے میں اس سے زیادہ قریبی طریقہ پیش کرتا ہوں۔
بیشک ہمارا دعویٰ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔مگر اس کے باوجود تاریخ کی اس شہادت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلیفے شہید بھی ہوسکتے ہیں۔جس طرح حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ شہید ہوئے۔ اور خلافت ختم بھی کی جاسکتی ہے جس طرح حضرت حسنؓ کے بعد خلافت ختم ہوگئی۔جو آیت میں نے اِس وقت پڑھی ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں خلافت قائم رکھنے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ مشروط ہے کیونکہ مندرجہ بالا آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلافت پر ایمان لانے والوں اور اس کے قیام کے لئے مناسب حال عمل کرنے والے لوگوں سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ ان میں خلافت کو قائم رکھے گا۔پس خلافت کا ہونا ایک انعام ہے پیشگوئی نہیں۔ اگر پیشگوئی ہوتا تو حضرت امام حسنؓ کے بعد خلافت کا ختم ہونا نعوذ باللہ قرآن کریم کو جھوٹا قرار دیتا۔لیکن چونکہ قرآن کریم نے اس کو ایک مشروط انعام قرار دیا ہے۔اس لئے اب ہم یہ کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت امام حسنؓ کے زمانہ میں عام مسلمان کامل مومن نہیں رہے تھے اور خلافت کے قائم رکھنے کے لئے صحیح کوشش انہوں نے چھوڑ دی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس انعام کو واپس لے لیا اور باوجود خلافت کے ختم ہو جانے کے قرآن سچا رہا جھوٹا نہیں ہوا۔وہی صورت اب بھی ہوگی۔اگر جماعت احمدیہ خلافت کے ایمان پر قائم رہی اور اس کے قیام کے لئے صحیح جدو جہد کرتی رہی تو اس میں بھی قیامت تک خلافت قائم رہے گی۔جس طرح عیسائیوں میں پوپ کی شکل میں اب تک قائم ہے گو وہ بگڑ گئی ہے میں نے بتا دیا ہے کہ اس کے بگڑنے کا احمدیت پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا۔مگر بہرحال اس فساد سے اتنا پتہ لگ جاتا ہے کہ شیطان ابھی مایوس نہیں ہوا۔پہلے تو شیطان نے پیغامیوں کی جماعت بنائی۔لیکن بیالیس سال کے انتظار کے بعد اس باسی کڑھی میں پھر اُبال آیااور وہ بھی لگے مولوی عبدالمنان اور عبدالوہاب کی تائید میں مضمون لکھنے اور ان میں سے ایک شخص محمد حسن چیمہ نے بھی ایک مضمون شائع کیا ہے کہ ہمارا نظام اور ہمارا سٹیج اور ہماری جماعت تمہاری مدد کے لئے تیار ہے۔ شاباش! ہمت کرکے کھڑے رہو۔مرزا محمود سے دبنا نہیں۔اس کی خلافت کے پردے چاک کرکے رکھ دو۔ہماری مدد تمہارے ساتھ ہے۔کوئی اس سے پوچھے کہ تم نے مولوی محمد علی صاحب کو کیا مدد دے لی تھی۔آخر مولوی محمد علی صاحب بھی تو تمہارے لیڈر تھے۔ خواجہ کمال الدین صاحب بھی لیڈر تھے اُن کی تم نے کیا مدد کر لی تھی جو آج عبدالمنان اور عبدالوہاب کی کرلوگے۔پس یہ باتیں محض ڈھکوسلے ہیں۔ان سے صرف ہم کو ہوشیار کیا گیا ہے۔خداتعالیٰ نے بتایا ہے کہ مطمئن نہ ہوجانا اور یہ نہ سمجھنا کہ خدا تعالیٰ چونکہ خلافت قائم کیا کرتا ہے اس لئے کوئی ڈر کی بات نہیں ہے تمہارے زمانہ میں بھی فتنے کھڑے ہورہے ہیں اور اسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی فتنے کھڑے ہوئے تھے۔اس لئے خلافت کو ایسی طرز پر چلاؤ جو زیادہ آسان ہو۔اور کوئی ایک دو لفنگے اُٹھ کر اَور کسی کے ہاتھ پر بیعت کرکے یہ نہ کہہ دیں کہ چلو خلیفہ مقرر ہوگیا ہے۔
پس اسلامی طریق پر جو کہ میں آگے بیان کروں گا آئندہ خلافت کے لئے میں یہ قاعدہ منسوخ کرتا ہوں کہ شوریٰ انتخاب کرے۔ بلکہ میں یہ قاعدہ مقرر کرتا ہوں کہ آئندہ جب کبھی خلافت کے انتخاب کا وقت آئے تو صدر انجمن احمدیہ کے ناظر اور ممبر اور تحریک جدید کے وکلاء اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے زندہ افراد اور اب نظر ثانی کرتے وقت مَیں یہ بات بھی بعض دوستوں کے مشورہ سے زائد کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ بھی جن کو فوراً بعد تحقیقات صدر انجمن احمدیہ کو چاہیئے کہ صحابیت کا سرٹیفکیٹ دے دے اور جامعۃ المبشرین کے پرنسپل اور جامعہ احمدیہ کا پرنسپل اور مفتی سلسلہ احمدیہ اور تمام جماعتہائے پنجاب اور سندھ کے ضلعوں کے امیر او رمغربی پاکستان او رکراچی کاامیراور مشرقی پاکستان کا امیر مل کر اس کا انتخاب کریں۔
اسی طرح نظر ثانی کرتے وقت میں یہ امر بھی بڑھاتا ہوں کہ ایسے سابق امراء جو دو دفعہ کسی ضلع کے امیرے رہے ہوں۔گو انتخاب کے وقت بوجہ معذوری کے امیرنہ رہے ہوں وہ بھی اس لِسٹ میں شامل کئے جائیں۔اِسی طرح ایسے تمام مبلّغ جو ایک سال تک غیر ملک میں کام کرآئے ہیں۔اور بعد میں سلسلہ کی طرف سے اُن پر کوئی الزام نہ آیاہو۔ایسے مبلغوں کی لسٹ شائع کرنا مجلس تحریک کا کام ہوگا۔اِسی طرح ایسے مبلّغ جنہوں نے پاکستان کے کسی ضلع یا صوبہ میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم سے کم ایک سال کام کیا ہو۔ان کی فہرست بنانا صدرا نجمن احمدیہ کے ذمہ ہوگا۔
مگر شرط یہ ہوگی کہ اگر وہ موقع پر پہنچ جائیں۔سیکرٹری شوریٰ تمام ملک میں اطلاع دے دے کہ فوراً پہنچ جاؤ۔اس کے بعد جو نہ پہنچے اس کا اپنا قصور ہوگا اور اس کی غیر حاضری خلافت کے انتخاب پر اثر انداز نہیں ہوگی۔نہ یہ عذر سُنا جائے گا کہ وقت پر اطلاع شائع نہیں ہوئی۔یہ ان کا اپنا کام ہے کہ وہ پہنچیں۔سیکرٹری شوریٰ کاکام اُن کو لانا نہیں ہے۔اس کا کام صرف یہ ہوگا کہ وہ ایک اعلان کردے۔اور اگر سیکرٹری شوریٰ کہے کہ میں نے اعلان کردیا تھا تو وہ انتخاب جائز سمجھا جائے گا۔ان لوگوں کا یہ کہہ دینا یا ان میں سے کسی کا یہ کہہ دینا کہ مجھے اطلاع نہیں پہنچ سکی اس کی کوئی وقعت نہیں ہوگی نہ قانوناً نہ شرعاً۔یہ سب لوگ مل کر جوفیصلہ کریں گے وہ تمام جماعت کے لئے قابلِ قبول ہوگا۔اور جماعت میں سے جو شخص اس کی مخالفت کرے گا وہ باغی ہوگا۔اور جب بھی انتخابِ خلافت کا وقت آئے اور مقررہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چُنا جائے میں اُس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چنا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوگا۔او رجو بھی اس کے مقابل میں کھڑا ہوگا وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو ذلیل کیاجائے گااور تباہ کیا جائے گا کیونکہ ایسا خلیفہ صرف اس لئے کھڑا ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورا کرے کہ خلافت اسلامیہ ہمیشہ قائم رہے۔پس چونکہ وہ قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں کو پورا کرنے کے لئے کھڑا ہوگا اس لئے اُسے ڈرنا نہیں چاہئیے۔
جب مجھے خلیفہ چنا گیا تھا تو سلسلہ کے بڑے بڑے لیڈر سارے مخالف ہوگئے تھے اور خزانہ میں کل اٹھارہ آنے تھے۔اب تم بتاؤ اٹھارہ آنے میں ہم تم کو ایک ناشتہ بھی دے سکتے ہیں؟پھر خداتعالیٰ تم کو کھینچ کر لے آیا۔اور یا تو یہ حالت تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر صرف بارہ سو آدمی جمع ہوئے تھے اور یا آج کی رپورٹ یہ ہے کہ ربوہ کے آدمیوں کو ملاکر اس وقت جلسہ مردانہ اور زنانہ میں پچپن ہزارتعداد ہے۔آج رات کو تینتالیس ہزار مہمانوں کو کھاناکھِلایا گیا ہے۔بارہ ہزار ربوہ والے ملالئے جائیں تو پچپن ہزار ہوجاتا ہے۔پس عورتوں اور مردوں کو ملاکر اس وقت ہماری تعداد پچپن ہزار ہے۔اُس وقت بارہ سو تھی۔یہ پچپن ہزار کہاں سے آئے؟خدا ہی لایا۔پس میں ایسے شخص کوجس کو خداتعالیٰ خلیفۂ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خداتعالیٰ پر ایمان لاکر کھڑا ہوجائے گا تو منّان، وہاب اور پیغامی کیا چیز ہیں اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائیں گی جماعت احمدیہ کو حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔جماعت احمدیہ کو خداکی خلافت سے تعلق ہے۔ اوروہ خدا کی خلافت کے آگے اور پیچھے لڑے گی اور دنیا میں کسی شریر کو جو کہ خلافت کے خلاف ہے خلافت کے قریب بھی نہیں آنے دے گی۔
اب یہ دیکھ لو۔ابھی تم نے گواہیاں سن لی ہیں کہ عبدالوہاب احراریوں کو مل کر قادیان کی خبریں سنایا کرتا تھا اور پھر تم نے یہ بھی سن لیا ہے کہ کس طرح پیغامیوں کے ساتھ ان لوگوں کے تعلقات ہیں۔سواگر خدانخواستہ ان لوگوں کی تدبیر کامیاب ہوجائے تو اس کے معنے یہ تھے کہ بیالیس سال کی لڑائی کے بعد تم لوگ احراریوں اور پیغامیوں کے نیچے آجاتے۔تم بظاہر اس کو چھوٹی بات سمجھتے ہو لیکن یہ چھوٹی بات نہیں۔یہ ایک بہت بڑی بات ہے۔اگر خدانخواستہ ان کی سکیم کامیاب ہوجاتی تو جماعت احمدیہ مبائعین ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی۔اور اس کے لیڈر ہوتے مولوی صدرالدین اور عبدالرحمن مصری۔اور ان کے لیڈر ہوتے مولوی داؤد غزنوی اور عطاء اللہ شاہ بخاری۔ اب تم بتاؤ کہ مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری اور داؤد غزنوی اگر تمہارے لیڈر ہوجائیں تو تمہارا دنیا میں کوئی ٹھکانہ رہ جائے؟تمہارا ٹھکانہ تو تبھی رہتا ہے جب مبائعین میں سے خلیفہ ہواور قرآن مجید نے شرط لگائی ہے مِنْکُمْ کی۔یعنی وہ مبائعین میں سے ہونا چاہیئے۔اس پر کسی غیر مبائع یا احراری کا اثر نہیں ہونا چاہئیے۔اگر غیر مبائع کا اور احراری کا اثر ہو تو پھر وہ نہ مِنْکُمْ ہوسکتاہے نہ خلیفہ ہوسکتا ہے۔
پس ایک تو میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ جب بھی وہ وقت آئے آخر انسان کے لئے کوئی دن آنا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ابھی میں نے حوالہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنی موت کی خبر دی اور فرمایا پریشان نہ ہو کیونکہ خداتعالیٰ دوسری قدرت ظاہر کرنا چاہتا ہے۔سو دوسری قدرت کا اگر تیسرا مظہر وہ ظاہر کرنا چاہے تو اُس کوکون روک سکتا ہے۔ہرانسان نے آخر مرنا ہے مگر میں نے بتایا ہے کہ شیطان نے بتادیا ہے کہ ابھی اس کا سر نہیں کچلا گیا۔وہ ابھی تمہارے اندر داخل ہونے کی اُمید رکھتا ہے''پیغامِ صلح'' کی تائید اور محمد حسن چیمہ کا مضمون بتاتا ہے کہ ابھی مارے ہوئے سانپ کی دُم ہل رہی ہے۔پس اُس کو مایوس کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ یہ نہ رکھا جائے کہ ملتان اور کراچی اور حیدر آباداور کوئٹہ اور پشاور سب جگہ کے نمائندے جو پانچ سو کی تعداد سے زیادہ ہوتے ہیں وہ آئیں تو انتخاب ہو۔ بلکہ صرف ناظروں اور وکیلوں اور مقررہ اشخاص کے مشورہ کے ساتھ اگر وہ حاضر ہوں خلیفہ کا انتخاب ہوگا۔ جس کے بعد جماعت میں اعلان کردیا جائے گا اور جماعت اس شخص کی بیعت کرے گی۔ اس طرح وہ حکم بھی پورا ہوجائے گا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور وہ حکم بھی پورا ہوجائے گا کہ وہ ایسا مومنوں کے ہاتھ سے کرتا ہے۔درحقیقت خلافت کوئی ڈنڈے کے ساتھ تو ہوتی نہیں۔مرضی سے ہوتی ہے۔اگر تم لوگ ایک شخص کو دیکھو کہ وہ خلافِ قانون خلیفہ بن گیا ہے اور اس کے ساتھ نہ ہوتو آپ ہی اس کو نہ آمدن ہوگی نہ کام کرسکے گا ختم ہوجائے گا۔اسی لئے یہ کہا گیا ہے کہ خداتعالیٰ نے یہ چیز اپنے اختیار میں رکھی ہے لیکن بندوں کے توسّط سے رکھی ہے۔ اگر صحیح انتخاب نہیں ہوگا تو تم لوگ کہو گے کہ ہم تو نہیں مانتے۔جو انتخاب کا طریق مقرر ہوا تھا اس پر عمل نہیں ہوا۔تو پھر وہ آپ ہی ہٹ جائے گا۔اور اگر خدا نے اُسے خلیفہ بنایا تو تم فوراً اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوجاؤ گے جس طرح1914ء میں رائے بدلنے پر مجبور ہوگئے تھے۔اور جوق درجوق دوڑتے ہوئے اُس کے پاس آؤ گے اور اس کی بیعتیں کرو گے۔مجھے صرف اتنا خیال ہے کہ شیطان کے لئے دروازہ نہ کھلا رہے۔اس وقت شیطان نے حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹوں کو چُنا ہے جس طرح آدم کے وقت میں اُس نے درختِ حیات کو چُنا تھا۔اُس وقت بھی شیطان نے کہا تھا کہ آدم!میں تمہاری بھلائی کرنا چاہتا ہوں۔میں تم کو اس درخت سے کھانے کو کہتا ہوں کہ جس کے بعد تم کو وہ بادشاہت ملے گی جو کبھی خراب نہیں ہوگی۔اور ایسی زندگی ملے گی جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔سو اب بھی لوگوں کو شیطان نے اسی طرح دھوکا دیا ہے کہ لوجی!حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹوں کو ہم پیش کرتے ہیں۔گو آدم کو دھوکا لگنے کی وجہ موجود تھی تمہارے پاس کوئی وجہ نہیں۔ کیونکہ حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیٹوں کو تباہ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں۔کیونکہ ان کا دعویٰ یہی ہے کہ یہ اپنے خاندان میں خلافت رکھنا چاہتے ہیں۔خلافت تو خدا اور جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں ہے۔اگر خدا اور جماعت احمدیہ خاندانِ بنو فارس میں خلافت رکھنے کا فیصلہ کریں تو یہ حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹے کون ہیں جو اِس میں دخل دیں۔خلافت تو بہرحال خداتعالیٰ اور جماعت احمدیہ کے اختیار میں ہے۔اور خدا اگر ساری جماعت کو اس طرف لے آئے گا تو پھر کسی کی طاقت نہیں کہ کھڑا ہوسکے۔پس میں نے یہ رستہ بتا دیا ہے۔لیکن میں نے ایک کمیٹی بھی بنائی ہے جو عیسائی طریقۂ انتخاب پر غور کرے گی کیونکہ قرآن شریف نے فرمایا ہے کہ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ جس طرح اس نے پہلوں کو خلیفہ بنایا تھا اُسی طرح تم کو بنائے گا۔ سو میں نے کہاعیسائی جس طرح انتخاب کرتے ہیں اس کو بھی معلوم کرو۔ ہم نے اس کو دیکھا ہے۔گو پوری طرح تحقیق نہیں ہوئی وہ بہت سادہ طریق ہے۔اس میں جو بڑے بڑے علماء ہیں ان کی ایک چھوٹی سی تعداد پوپ کاانتخاب کرتی ہے اور باقی عیسائی دنیا اُسے قبول کرلیتی ہے۔لیکن اس کمیٹی کی رپورٹ سے پہلے ہی میں نے چند قواعد تجویز کردئیے ہیں جو اِس سال کی مجلس شوریٰ کے سامنے پیش کردئے جائیں گے تاکہ کسی شرارتی کیلئے شرارت کا موقع نہ رہے۔یہ قواعد چونکہ ایک ریزولیوشن کی صورت میں مجلس شوریٰ کے سامنے علیحدہ پیش ہوں گے اس لئے اس ریزولیوشن کے شائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے پُرانے علماء کی کتابیں پڑھیں تو اُن میں بھی یہی لکھا ہواپایا ہے کہ تمام صحابہؓ اور خلفاءؓ اور بڑے بڑے ممتاز فقیہہ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ خلافت ہوتی تو اجماع کے ساتھ ہے لیکن یہ وہ اجماع ہوتا ہے کہ یَتَیَسَّرَ اِجْتِمَاعُھُمْ 9جن ارباب حل وعقدکا جمع ہوناآسان ہو۔یہ مُراد نہیں کہ اِتنا بڑااجتماع ہوجائے کہ جمع ہی نہ ہوسکے اورخلافت ہی ختم ہوجائے بلکہ ایسے لوگوں کا اجتماع ہوگا جن کا جمع ہونا آسان ہو۔سو میں نے ایسا ہی اجماع بنادیا ہے جن کا جمع ہونا آسان ہے۔ اوراگر ان میں سے کوئی نہ پہنچے تو میں نے کہا ہے کہ اس کی غلطی سمجھی جائے گی۔انتخاب بہرحال تسلیم کیاجائے گا۔اور ہماری جماعت اس انتخاب کے پیچھے چلے گی۔مگر جماعت کو میں یہ حکم نہیں دیتا بلکہ اسلام کابتایا ہوا طریقہ بیان کردیتا ہوں تاکہ وہ گمراہی سے بچ جائیں۔
ہاں جہاں میں نے خلیفہ کی تجویز بتائی ہے وہاں یہ بھی شریعت کا حکم ہے کہ جس شخص کے متعلق کوئی پروپیگنڈا کیاجائے وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا یا جن لوگوں کے متعلق پروپیگنڈا کیاجائے وہ خلیفہ نہیں ہوسکتے۔یاجس کو خود تمنا ہو۔رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کو وہ مقام نہ دیا جائے تو حضرت خلیفہ اوّل کی موجودہ اولاد بلکہ بعض پوتوں تک نے چونکہ پروپیگنڈا میں حصہ لیا ہے اس لئے حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹوں یااُن کے پوتوں کا نام ایسے انتخاب میں ہرگز نہیں آسکے گا۔ایک تو اس لئے کہ انہوں نے پروپیگنڈا کیا ہے اور دوسرے اس لئے کہ اس بناء پر اُن کو جماعت سے خارج کیا گیا ہے۔پھرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خواب بھی بتاتی ہے کہ اس خاندان میں صرف ایک ہی پھانک خلافت کی جانی ہے۔اور''پیغام صلح''نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ اس سے مراد خلافت کی پھانک ہے10۔پس میں نفی کرتا ہوں حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کی اور ان کے پوتوں تک کی یا تمام ایسے لوگوں کی جن کی تائید میں پیغامی یااحراری ہوں یا جن کو جماعتِ مبائعین سے خارج کیاگیاہو۔اور اثبات کرتا ہوں مِنْکُمْ کے تحت آنے والوں کا یعنی جو خلافت کے قائل ہوں۔ چاہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جسمانی ذرّیت ہوں یا روحانی ذرّیت ہوں۔تمام علماء سِلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعودؑ کی روحانی ذرّیت ہیں اور جسمانی ذرّیت تو ظاہر ہی ہوتی ہے انکا نام خاص طور پر لینے کی ضرورت نہیں۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے بیٹوں کو خلیفہ بنانا چاہتا ہے۔اب روحانی ذرّیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دس لاکھ ہے اور جسمانی ذرّیت میں سے اس وقت صرف تین فرد زندہ ہیں ایک داماد کو شامل کیا جائے تو چار بن جاتے ہیں۔اتنی بڑی جماعت کیلئے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اِن میں سے کوئی خلیفہ ہو۔اس کا نام اگر یہ رکھا جائے کہ میں اپنے فلاں بیٹے کو کرنا چاہتا ہوں تو ایسے قائل سے بڑا گدھا اور کون ہوسکتاہے۔میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذرّیت جسمانی کے چار افراد اور دس لاکھ اِس وقت تک کی روحانی ذرّیت کو خلافت کا مستحق قرار دیتا ہوں(جو ممکن ہے میرے مرنے تک دس کروڑ ہوجائے)سو جوشخص کہتا ہے کہ اس دس کروڑ میں سے جو خلافت پر ایمان رکھتے ہوں کسی کو خلیفہ چُن لو اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اپنے کسی بیٹے کو خلیفہ بنانا چاہتا ہے نہایت احمقانہ دعویٰ ہے۔میں صرف یہ شرط کرتا ہوں کہ مِنْکُمْ کے الفاظ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کوئی خلیفہ چُنا جائے۔اور چونکہ حضرت خلیفہ اوّل کی نسل نے ثابت کردیا ہے کہ وہ پیغامیوں کے ساتھ ہیں اور پیغامی ان کے ساتھ ہیں اور احراری بھی ان کے ساتھ ہیں اور غزنوی خاندان جو کہ سلسلہ کے ابتدائی دشمنوں میں سے ہے اُنکے ساتھ ہے اس لئے وہ مِنْکُمْ نہیں رہے۔اِن میں سے کسی کا خلیفہ بننے کے لئے نام نہیں لیا جائے گا۔اور یہ کہہ دینا کہ ان میں سے خلیفہ نہیں ہوسکتا یہ اس بات کے خلاف نہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب خلیفہ خدا بناتا ہے تو اِن کے منہ سے وہ باتیں جو خلافت کے خلاف ہیں کہلوائیں کس نے؟اگر خدا چاہتا کہ وہ خلیفہ بنیں تو اُن کے منہ سے یہ باتیں کیوں کہلواتا؟اگرخدا چاہتا کہ وہ خلیفہ بنیں تو اُن کی یہ باتیں مجھ تک کیوں پہنچا دیتا؟جماعت تک کیوں پہنچا دیتا؟یہ باتیں خدا کے اختیار میں ہیں اس لئے ان کے نہ ہونے سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے۔ اور جماعت احمدیہ مبائعین میں سے کسی کا خلیفہ ہونا بھی بتاتا ہے کہ خدا خلیفہ بناتا ہے۔دونوں باتیں یہی ثابت کرتی ہیں کہ خدا ہی خلیفہ بناتا ہے۔بہرحال جو بھی خلیفہ ہوگا وہ مِنْکُمْ ہوگا۔یعنی وہ خلافت احمدیہ کا قائل ہوگا اور جماعت مبائعین میں سے نکالا ہوا نہیں ہوگا۔اور میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ جو بھی خلیفہ چُنا جائے وہ کھڑے ہوکر یہ قسم کھائے کہ میں خلافتِ احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں خلافت احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لئے پوری کوشش کروں گا۔اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کیلئے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا۔اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا۔اوراگر میں بدنیتی سے کہہ رہا ہوں یا اگر میں دانستہ ایسا کرنے میں کوتاہی کروں تو خدا کی مجھ پر *** ہو۔جب وہ یہ قسم کھا لے گا تو پھر اس کی بیعت کی جائے گی اِس سے پہلے نہیں کی جائے گی۔اِسی طرح منتخب کرنے والی جماعت میں سے ہر شخص حلفیہ اعلان کرے کہ میں خلافت احمدیہ کا قائل ہوں اورکسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دوں گا جو جماعت مبائعین میں سے خارج ہو یا اس کا تعلق غیر مبائعین یا غیر احمدیوں سے ثابت ہو۔غرض پہلے مقررہ اُشخاص اس کا انتخاب کریں گے۔اس کے بعد وہ یہ قسم کھائے گا کہ میں خلافتِ احمدیہ حقّہ پرایمان رکھتا ہوں اور میں ان کو جو خلافتِ احمدیہ کے خلاف ہیں۔جیسے پیغامی یا احراری وغیرہ باطل پر سمجھتا ہوں۔
اب اِن لوگوں کودیکھ لو۔ان کے لئے کس طرح موقع تھا۔ میں نے مری میں خطبہ پڑھا اور اس میں کہا کہ صراطِ مستقیم پر چلنے سے سب باتیں حل ہوجاتی ہیں۔یہ لوگ بھی صراط مستقیم پر چلیں۔ اور اس کا طریق یہ ہے کہ پیغامی میرے متعلق کہتے ہیں کہ یہ حضرت خلیفہ اوّل کی ہتک کررہا ہے۔یہ اعلان کردیں کہ پیغامی جھوٹے ہیں۔ہمارا پچھلا بیس سالہ تجربہ ہے کہ پیغامی ہتک کرتے چلے آئے ہیں۔اور مبائعین نہیں کرتے رہے۔مبائعین صرف دفاع کرتے رہے ہیں۔مگر باوجود اس کے ان کو توفیق نہیں ملی اوریوں معافی نامے چھاپ رہے ہیں۔ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ اعلان کیا تو ہمارا اڈہ جو غیر مبائعین کا ہے اور ہمارا اڈہ جو احراریوں کاہے وہ ٹوٹ جائے گا۔سو اگر اڈہ بنانے کی فکر نہ ہوتی تو کیوں نہ یہ اعلان کرتے۔مگر یہ اعلان کبھی نہیں کیا۔چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے مجھے سنایا کہ عبدالمنان نے اُن سے کہا ہم اس لئے لکھ کر نہیں بھیجتے کہ پھر جرح ہوگی کہ یہ لفظ کیوں نہیں لکھا،وہ لفظ کیوں نہیں لکھا۔حالانکہ اگر دیانتداری ہے تو بیشک جرح ہوحرج کیا ہے۔جو شخص حق کے اظہار میں جرح سے ڈرتا ہے تو اس کے صاف معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ حق کو چھپانا چاہتاہے اور حق کے قائم ہونے کے مخالف ہے۔
غرض جب تک شوریٰ میں معاملہ پیش ہونے کے بعد میں اَور فیصلہ نہ کروں اوپر کا فیصلہ جاری رہے گا۔
تمہیں خوشی ہو کہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت چلی تھی واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ تمہارے اندر بھی اُسی طرح چلے گی۔مثلاً حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓخلیفہ ہوئے۔میرا نام عمرؓ نہیں بلکہ محمود ہے مگر خدا کے الہام میں میرا نام فضل عمر رکھا گیا اور اُس نے مجھے دوسرا خلیفہ بنادیا۔جس کے معنے یہ تھے کہ یہ خدائی فعل تھا۔خداچاہتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خلافت بالکل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی خلافت کی طرح ہو۔میں جب خلیفہ ہوا ہوں تو ہزارہ سے ایک شخص آیا۔اُس نے کہا کہ میں نے خواب دیکھی تھی کہ میں حضرت عمرؓ کی بیعت کررہا ہوں تو جب میں آیا تو آپ کی شکل مجھے نظر آئی۔اور دوسرے میں نے حضرت عمرؓ کوخواب میں دیکھا کہ اُن کے بائیں طرف سر پر ایک داغ تھا۔میں جب انتظار کرتا ہوا کھڑا رہا آپ نے سر کھجلایا اور پگڑی اُٹھائی تو دیکھا کہ وہ داغ موجود تھا۔اِس لئے میں آپ کی بیعت کرتا ہوں۔پھر ہم نے تاریخیں نکالیں تو تاریخوں میں بھی مل گیا کہ حضرت عمرؓ کو بائیں طرف خارش ہوئی تھی اور سر میں داغ پڑگیا تھا۔ سو نام کی تشبیہ بھی ہوگئی او رشکل کی تشبیہ بھی ہوگئی۔ مگرایک تشبیہ نئی نکلی ہے۔وہ میں تمہیں بتا تا ہوں اس سے تم خوش ہوجاؤ گے وہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓنے جب اپنی عمر کا آخری حج کیا تو اُس وقت آپ کو یہ اطلاع ملی کہ کسی نے کہاہے حضرت ابوبکرؓ کی خلافت تو اچانک ہوگئی تھی یعنی حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ نے آپ کی بیعت کرلی تھی۔پس صرف ایک یا دو بیعت کرلیں تو کافی ہوجاتا ہے اور وہ شخص خلیفہ ہو جاتا ہے اور ہمیں خدا کی قسم! اگر حضرت عمرؓ فوت ہوگئے تو ہم صرف فلاں شخص کی بیعت کریں گے اور کسی کی نہیں کریں گے۔11 جس طرح غلام رسول 35 اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ خلیفۂ ثانی فوت ہوگئے تو ہم صرف عبدالمنان کی بیعت کریں گے۔دیکھو تو بھی حضرت عمرؓ سے مشابہت ہوگئی۔ حضرت عمرؓکے زمانہ میں بھی ایک شخص نے قسم کھائی تھی کہ ہم اَور کسی کی بیعت نہیں کریں گے فلاں شخص کی کریں گے۔اِس وقت بھی غلام رسول35 اور اس کے بعض ساتھیوں نے یہی کہا ہے۔جب حضرت عمرؓ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے یہ نہیں کیاجیسے مولوی علی محمد اجمیری نے شائع کیاتھا کہ آپ پانچ وکیلوں کا ایک کمیشن مقرر کریں جو تحقیقات کرے کہ بات کون سی سچی ہے۔حضرت عمرؓ نے ایک وکیل کا بھی کمیشن مقرر نہیں کیا اور کہا میں کھڑے ہوکر اس کی تردید کروں گا۔بڑے بڑے صحابہؓ اُن کے پاس پہنچے اور انہوں نے کہا حضور! یہ حج کا وقت ہے اور چاروں طرف سے لوگ آئے ہوئے ہیں۔ان میں بہت سے جاہل بھی ہیں۔ان کے سامنے اگر آپ بیان کریں گے تو نہ معلوم کیا کیا باتیں باہر مشہور کریں گے۔جب مدینہ میں جائیں تو پھر بیان کریں۔چنانچہ جب حضرت عمرؓحج سے واپس آئے تو مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر کھڑے ہوگئے اور کھڑے ہوکر کہا کہ اے لوگو!مجھے خبر ملی ہے کہ تم میں سے کسی نے کہا ہے کہ ابوبکرؓ کی بیعت تو ایک اچانک واقعہ تھا اب اگر عمر مرجائے تو ہم سوائے فلاں شخص کے کسی کی بیعت نہیں کریں گے۔ پس کان کھول کر سن لو کہ جس نے یہ کہا تھا کہ ابوبکرؓ کی بیعت اچانک ہوگئی تھی اُس نے ٹھیک کہاہے۔لیکن خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو اس جلد بازی کے فعل کے نتیجہ سے بچا لیا۔اور یہ بھی یاد رکھو کہ تم میں سے کوئی شخص ابو بکرؓ کی مانند نہیں جس کی طرف لوگ دُور دُور سے دین اور روحانیت سیکھنے کیلئے آتے تھے۔پس اس وہم میں نہ پڑو کہ ایک دو آدمیوں کی بیعت سے بیعت ہوجاتی ہے اور آدمی خلیفہ بن جاتا ہے۔کیونکہ اگر جمہور مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی شخص نے کسی کی بیعت کی تو نہ بیعت کرنے والے کی بیعت ہوگی اور نہ وہ شخص جس کی بیعت کی گئی ہے وہ خلیفہ ہوجائے گا بلکہ دونوں اس بات کا خطرہ محسوس کریں گے کہ سب مسلمان مل کر ان کا مقابلہ کریں اور ان کا کیا کرایا اکارت ہوجائے گا12۔حالانکہ ابوبکرؓ کی بیعت صرف اِس خطرہ سے کی گئی تھی کہ مہاجرین اورانصار میں فتنہ پیدا نہ ہوجائے۔مگر اس کو خداتعالیٰ نے قائم کردیا۔پس وہ خدا کا فعل تھا۔نہ کہ اس سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ کوئی ایک دو شخص مل کر کسی کو خلیفہ بنا سکتے ہیں۔
پھر علامہ رشید رضا نے احادیث اور اقوال فقہاء سے اپنی کتاب''الخلافہ'' میں لکھا ہے کہ خلیفہ وہی ہوتا ہے جس کومسلمان مشورہ سے اور کثرت رائے سے مقرر کریں۔مگر آگے چل کر وہ علّامہ سعدالدین تفتازانی مصنف شرح''المقاصد''اور علّامہ نووی وغیرہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت کا جمع ہونا وقت پر مشکل ہوتا ہے۔پس اگر جماعت کے چند بڑے آدمی جن کا جماعت میں رسوخ ہوکسی آدمی کی خلافت کا فیصلہ کریں اور لوگ اُس کے پیچھے چل پڑیں توایسے لوگوں کا اجتماع سمجھا جائے گا اور سب مسلمانوں کااجتماع سمجھا جائے گا اور یہ ضروری نہیں ہوگا کہ دنیا کے سب مسلمان اکٹھے ہوں اور پھر فیصلہ کریں13۔اِسی بناء پر میں نے خلافت کے متعلق مذکورہ بالا قاعدہ بنایا ہے جس پر پچھلے علماء بھی متفق ہیں۔محدثین بھی اور خلفاء بھی متفق ہیں۔پس وہ فیصلہ میرا نہیں بلکہ خلفائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے او رصحابہ کرامؓ کا ہے اور تمام علمائے اُمت کا ہے جن میں حنفی، شافعی، وہابی سب شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑے آدمی سے مراد یہ ہے کہ جو بڑے بڑے کاموں پر مقرر ہوں جیسے ہمارے ناظر ہیں اور وکیل ہیں۔ اور قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی مومنوں کی جماعت کو مخاطب کیاگیا ہے وہاں مراد ایسے ہی لوگوں کی جماعت ہے۔نہ کہ ہر فردِ بشر۔یہ علّامہ رشید کا قول ہے کہ وہاں بھی یہ مراد نہیں کہ ہر فردِ بشر بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کے بڑے بڑے آدمی14 پس صحابہؓ،احادیثِ رسول اور فقہائے امت اس بات پر متفق ہیں کہ خلافت مسلمانوں کے اتفاق سے ہوتی ہے مگر یہ نہیں کہ ہر مسلمان کے اتفاق سے بلکہ ان مسلمانوں کے اتفاق سے جو مسلمانوں میں بڑا عہدہ رکھتے ہوں یا رسوخ رکھتے ہوں اور اگر ان لوگوں کے سوا چند اوباش مل کر کسی کی بیعت کرلیں تو نہ وہ لوگ مبائع کہلائیں گے اور نہ جس کی بیعت کی گئی ہے وہ خلیفہ کہلائے گا۔15
اَب خلافتِ حقّہ اسلامیہ کے متعلق میں قرآنی اور احادیثی تعلیم بھی بتا چکا ہوں اور وہ قواعد بھی بیان کرچکا ہوں جو آئندہ سلسلہ میں خلافت کے انتخاب کیلئے جاری ہونگے۔چونکہ انسانی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔نہ معلوم میں اُس وقت تک رہوں یا نہ رہوں اس لئے میں نے اوپر کا قاعدہ تجویز کردیا ہے تاکہ جماعت فتنوں سے محفوظ رہے۔’’
(ناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
دوسرے حصۂ تقریر ‘‘نظام آسمانی کی مخالفت اور اُس کا پسِ منظر’’ بیان کرنے سے قبل متفرق امور کی بابت حضور نے فرمایا:-
متفرق امور
‘‘تقریر سے پہلے میں چند باتیں تمہیدی طور پر سلسلہ کے کام کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ایک بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
کل میں نے کہاتھا کہ تقریر کا امتحان لیا جائے گا۔میرے پاس بعض لڑکیوں کی طرف سے یہ شکایت پہنچی ہے کہ سننے والے مردوں میں تو علماء بھی ہوں گے ہمارا ان کے ساتھ کیا مقابلہ ہے اس لئے آپ مختلف گروپ مقرر کریں۔ چنانچہ ان کی یہ بات مجھے ٹھیک معلوم ہوئی۔اس لئے اَب میں نئے گروپ یہ مقررکرتا ہوں کہ چار امتحان ہوں گے۔ایک25سال سے نیچے کی عمر والے مردوں کا اور ایک 25سال سے اوپر والے مردوں کا۔ اِسی طرح ایک پچیس سال سے نیچے عمر والی لڑکیوں کا اور ایک25سال سے اوپر عمر والی عورتوں کا۔اس طرح کوئی شکایت نہیں رہے گی اور ہر عمر اور طبقہ کے آدمی اپنے اپنے میدان میں آسکیں گے اور ہر ایک کو اس میں تین انعام ملیں گے۔ گویا اس طرح12انعام ہوجائیں گے۔چھ عورتوں کے ہوجائیں گے اور چھ مردوں کے ہوجائیں گے۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عام طور پر ہمارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک جدید میں صرف پانچ سات مبلغ کام کررہے ہیں اِس لئے جماعت والے سمجھتے نہیں کہ یہ لاکھوں لاکھ چندہ ہم سے کیوں مانگا جاتا ہے۔میں نے آج مبلغین کی لسٹ بنوائی ہے۔ دیکھو انگلستان میں دو مبلغ کام کررہے ہیں، سوئٹزرلینڈ میں ایک مبلغ کام کررہا ہے۔ جرمنی میں دو مبلغ کام کررہے ہیں۔ہالینڈ میں دو مبلغ کام کررہے ہیں۔ سکنڈے نیویا میں ایک کام کررہا ہے۔ سپین میں ایک کام کررہا ہے۔ امریکہ میں پانچ کام کررہے ہیں جن میں سے ایک جرمن بھی ہے۔ٹرینیڈاڈ میں ایک کام کررہا ہے۔گریناڈا جو ٹرینیڈاڈ کے پاس ایک جزیرہ ہے اس میں ایک مبلغ ہے جو انگریز ہے۔سیر الیون میں8مبلغ کام کررہے ہیں جن میں پاکستانی پانچ ہیں اور مقامی تین ہیں۔گولڈ کوسٹ میں78مبلغ کام کررہے ہیں۔جن میں سے پاکستانی پانچ ہیں اور مقامی73ہیں۔نائیجیریا میں6مبلغ کام کررہے ہیں۔مشرقی افریقہ میں20مبلغ کام کررہے ہیں جن میں پاکستانی7ہیں اور مقامی13ہیں۔ شام میں ایک کام کررہا ہے۔مصر میں ایک پاکستانی ہے۔اسرائیل میں ایک پاکستانی ہے۔ماریشس میں دو پاکستانی ہیں مقامی ایک ہے۔لبنان میں ایک پاکستانی ہے۔سیلون میں دو مبلغ ہیں جن میں سے ایک پاکستانی ہے اورایک مقامی ہے۔برما میں ایک پاکستانی ہے۔سنگاپور میں تین مبلغ ہیں جن میں سے پاکستانی دو ہیں اور مقامی ایک ہے۔برٹش نارتھ بورنیو میں دو مبلغ کام کررہے ہیں جو دونوں پاکستانی ہیں۔انڈونیشیا میں دس مبلغ کام کررہے ہیں جن میں سے چار پاکستانی ہیں اورمقامی چھ ہیں۔مسقط میں ایک ہے جو پاکستانی ہے۔لائبیریا میں ایک ہے جو پاکستانی ہے۔ڈچ گی آنا میں ایک ہے جو پاکستانی ہے۔یہ سارے155ہیں۔
اِن میں وہ مبلغین شامل نہیں جو باہر کام کرتے تھے لیکن اِس وقت چھٹی پر ہیں ایسے مبلغین کی تعداد23ہے۔ان ساروں کو ملا کر یہ لسٹ178کی بن جاتی ہے۔ آپ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ پانچ چھ آدمی ہیں اور باہر تنگ سے تنگ اور ادنیٰ سے ادنیٰ گزارہ بھی20پونڈ ماہوار میں ہوتا ہے۔اگردس پونڈ بھی فرض کرلیں تو178مبلغین کا خرچ1780پونڈ بن جاتا ہے اور اگر 20پونڈ خرچ ہوتو3560پونڈ بن جاتا ہے۔ مشنوں کے کرائے اور ان کے دَوروں کے اخراجات اور لٹریچر کی اشاعت یہ ساری رقم مل کر کم سے کم بارہ ہزار پونڈ بن جاتی ہے۔ اور پھر مرکزی اخراجات علیحدہ ہیں اور آنے جانے کے کرائے الگ ہیں۔ یہ سارا خرچ ملاکر قریباً بیس ہزار پونڈ بنتا ہے اور بیس ہزار پونڈ تین لاکھ روپیہ کے قریب بن جاتا ہے۔ اورپھر قرآن مجید کی اشاعت ہے اور دوسری اشاعتیں ہیں یہ ساری ملکر پانچ ، چھ لاکھ روپیہ سالانہ کا خرچ بن جاتا ہے۔آپ لوگ خیال کرلیتے ہیں پانچ ، چھ مبلغ ہیں۔ پانچ ، چھ مبلغ نہیں بلکہ ہمارے مبلغ خدا کے فضل سے178ہیں جو اِس وقت کام کررہے ہیں اور ابھی بہت سے مبلغ تیار ہور ہے ہیں۔ اگر یہ نئے مبلغ باہر ملکوں میں گئے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے پانچ سات سو مبلغ کام کرنے والے ہوجائیں گے اورابھی انڈیا کے مبلغ ہم نے نہیں لئے۔یہ سارے ملا کر ایک بہت بڑی تعداد بن جاتی ہے۔
اس سال سلسلہ نے مگبورکا میں جو سیرالیون میں ایک جگہ ہے ایک شاندار مسجد تعمیر کی ہے جس پر پانچ سو پاؤنڈ خرچ ہوچکا ہے یعنی سات ہزار روپیہ۔ اور ابھی تین سو پاؤنڈ اَور خرچ ہوگا اور اس طرح دس ہزار روپیہ خرچ ہوجائے گا۔
مشرقی افریقہ میں دارالسلام میں ایک عالیشان مسجد تعمیر ہورہی ہے اور دارالتبلیغ تعمیر ہورہا ہے۔انڈونیشیا میں پاڈانگ میں ایک مسجد تیار ہورہی ہے جس پر اڑھائی تین لاکھ روپیہ خرچ کا اندازہ ہے۔اِسی طرح جاوا، سماٹرا،سولاویسی16 (سیلبس)میں چار نئی مساجد قائم کی گئی ہیں۔جرمنی میں ہیمبرگ مقام میں مسجد کے لئے زمین خریدی جاچکی ہے پلان کی منظوری آجائے تو کام شروع ہوجائے گا۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی گورنمنٹ ہم کو ایکسچینج دے ابھی تک انہوں نے منظور نہیں کیا۔جب وہ منظور ہوجائے گا تو وہ کام بھی شروع ہوجائے گا اِس مسجد پر ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے قریب خرچ ہوگا(جس میں سے چوبیس ہزار جمع ہوچکا ہے)سوالاکھ کے قریب ابھی اور روپیہ چاہئیے۔
عورتوں نے ہالینڈ کی مسجد کا چندہ اپنے ذمہ لیا تھا مگر اس پر بجائے ایک لاکھ کے جو میرا اندازہ تھا ایک لاکھ چوہتّر ہزار روپیہ خرچ ہوا۔اٹھہتّرہزار اُن کی طرف سے چندہ آیا تھا گویا ابھی چھیانوے ہزار باقی ہے۔ پس عورتوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ وہ چھیانوے ہزار روپیہ جلد جمع کریں تاکہ مسجد ہالینڈ ان کی ہوجائے۔
مسجد ہالینڈ کا نقشہ بن کر آگیا ہے جس میں بجلی بھی لگی ہوئی ہے اور مسجد خوب نظر آ جاتی ہے۔لجنہ اماء اللہ نے اس کا بھی چندہ رکھا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ دو آنے کا ٹکٹ ضرور لیں۔زیادہ کی توفیق ہو تو زیاہ کا ٹکٹ لے کر مسجد دیکھ لیں جس کا نقشہ بن کر آیا ہے اور انہوں نے اس کے اندر بجلی کا بھی انتظام کیا ہوا ہے۔ بجلی سے اندر روشنی ہوجاتی ہے اور پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ کیسی شاندار مسجد ہے۔ مگر ہمارے پروفیسرٹلٹاک جو جرمنی کے ایک پروفیسر ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہیمبرگ کی مسجد کا جو ہمارے ذہن میں نقشہ ہے وہ ہالینڈ کی مسجد سے زیادہ شاندار ہو گا۔
نئے مشن بھی ہم خدا کے فضل سے کھول رہے ہیں اور ان کے ساتھ مبلغ بھی بڑھیں گے۔ مثلاً مشرقی افریقہ سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ جنوبی روڈیشیا(یہ افریقہ کے ساحل پر ایک بہت بڑا علاقہ ہے)اور نیا سالینڈ اوربلجین کانگو17 میں ہمارے سواحیلی اخبار اور سواحیلی ترجمہ قرآن مجید بھجوائے گئے تھے وہاں لوگ بکثرت احمدیت کی طرف مائل ہورہے ہیں اور بلجین کانگو کے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ وہاں سینکڑوں احمدی ہوچکے ہیں اور ان ملکوں کے لوگوں نے مبلغین کا مطالبہ کیاہے۔
فلپائن جو امریکہ کے ماتحت ایک علاقہ ہے اور نہایت اہم ہے پہلے یہاں مسلمان آبادی تھی سارا علاقہ مسلمان تھا اور ترکوں اور عربوں کے ماتحت تھا (اب آزاد ہوچکا ہے)سپین نے اس کو فتح کیا اور جس طرح سپین نے اپنے ملک سے مسلمانوں کو نکال دیاتھا اسی طرح فلپائن پر حملہ کرکے اس نے اس کو فتح کیا اور تلوار کے نیچے گردنیں رکھ کرسب سے اقرار کروایا کہ ہم مسلمان نہیں عیسائی ہیں۔ تمہاری غیرت کا تقاضا تھا کہ تم وہاں جاؤ۔سپین کے متعلق بھی تمہاری غیرت کا تقاضا تھا۔ ہم نے وہاں مبلغ بھجوایا لیکن پاکستانی گورنمنٹ زور دے رہی ہے کہ اس مبلغ کو واپس بُلا لو کیونکہ سپینش گورنمنٹ کہتی ہے کہ ہم یہاں تبلیغ کی اجازت نہیں دے سکتے۔ حالانکہ ان کو چاہئیے تھا کہ وہ سپین گورنمنٹ کو کہتے کہ تم کو یہ کوئی حق نہیں کہ تم ہمارے مبلغ کو نکالو۔ہمارے ملک میں بیسیوں عیسائی مبلغ ہیں اگرتم اسے نکالوگے تو ہم بھی تمہارے مبلغوں کو نکال دیں گے۔ لیکن بجائے اس کے انہوں نے مغربی پاکستان کی گورنمنٹ کو لکھا اور مغربی پاکستان کی گورنمنٹ نے مجھے لکھا کہ اس مبلغ کو واپس بلالو۔سپینش گورنمنٹ پسند نہیں کرتی۔ اِدھر فلپائن کے جو لوگ ہیں وہ بھی چونکہ نئے عیسائی ہیں پہلے مسلمان تھے۔ان میں بھی تعصب زیادہ ہے۔ان کے ہاں بڑی کوشش کی گئی کہ کسی طرح وہاں مبلغ جائے لیکن وہاں سے اجازت نہیں مل سکی۔ جب کبھی ویزا کے لئے کوشش کی جاتی ہے وہ انکار کردیتے ہیں۔ مگر ہمارا خدا حکومتوں سے بڑا خدا ہے۔ فلپائن گورنمنٹ یا امریکی گورنمنٹ اگر وہاں جانے سے روکے گی تو بنتا کیا ہے۔اللہ نے ایسا سامان کردیا کہ پچھلے سال جاپان میں ایک مذہبی انجمن بنی۔اُس نے مجھے چِٹھی لکھی کہ اپنا کوئی مبلغ بھجوائیں۔ میں نے خلیل ناصر صاحب جو واشنگٹن کے مبلغ ہیں ان کو وہاں بھجوادیا۔وہ وہاں گئے تو وہاں سے ان کو موقع لگا کہ وہ واپسی میں کچھ دیر فلپائن ٹھہر جائیں۔جب وہ فلپائن ٹھہرے تو فلپائن کے کئی لوگ اُن سے آکر ملے اور انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ابھی بعض جگہوں پر اسلام کا نام باقی ہے اور مسلمان جنگلوں میں رہتے ہیں۔آپ ہمارے ہاں مبلغ بھیجیں تو ہم آپ کی مدد کریں گے اور اسلام پھیلائیں گے۔ انہوں نے مجھے لکھا ہم نے کوشش شروع کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔گورنمنٹ ویزا دینے سے انکار کرتی رہی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے سامان کیا۔ وہ لوگ جو خلیل ناصر صاحب سے ملے تھے ان میں سے ایک پر اثر بہت زیادہ ہوگیا تھا۔اُس نے خط لکھا کہ میں زندگی وقف کرکے اسلام پھیلانا چاہتاہوں اور ربوہ آنا چاہتا ہوں کیاآپ میرے لئے انتظام کریں گے؟ہم نے اس کو فوراً لکھ دیا کہ بڑی خوشی سے آؤ یہ تو ہماری دلی خواہش ہے چنانچہ جس ملک میں سے تلوار کے زور سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کو نکالا گیا تھا ہم اس ملک کو دلائل کے ذریعہ سے پھرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی گود میں لاکر دم لیں گے۔
وہ جس نے ہمیں لکھا تھا اس کوکوئی مشکل پیش آئی اس لئے وہ تو نہ آسکا مگر اس کے ذریعہ ایک اَور احمدی ہوا۔وہ احمدی کسی فرم میں ملازم تھا۔وہ وہاں سے بورنیو آ گیا۔ وہاں ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب جو خان صاحب فرزند علی صاحب کے بیٹے ہیں اور مفت تبلیغ کررہے ہیں، ڈاکٹری بھی کرتے ہیں اور تبلیغ بھی کرتے ہیں ان سے ملا اور وہاں اس نے اسلام سیکھنا شروع کیا۔اَب اُس کا خط آیا ہے کہ میں بڑی کوشش کررہا ہوں کہ فرم مجھے چھوڑدے تو میں آجاؤں۔ پھر اس کے کہنے پر کچھ اَور لٹریچر فلپائن بھیجا گیا۔ پہلے وہاں سے سولہ بیعتیں آئی تھیں۔اس ضمن میں ایک کالج کے ایک سٹوڈنٹ نے وہاں کے مسلمانوں کی جو انجمن تھی اسے تبلیغ شروع کردی۔ ان میں سے کسی کو لٹریچر پسند آگیااور اس نے آگے تبلیغ شروع کردی۔پہلے سولہ بیعتوں کی اطلاع آئی تھی ا س کے بعد ستائیس بیعتیں آئیں گویا43ہوگئیں۔اس کے بعد پھر اٹھارہ بیعتیں آئیں۔یہ سارے مل کر61ہوگئے۔ اور اب اطلاع آئی ہے کہ اَور لوگ بھی تیار ہیں۔ بلکہ انہوں نے لکھا ہے کہ جتنے کالج کے لڑکے ہیں یہ سارے مسلمان ہوجائیں گے اور احمدی بن جائیں گے۔ تو فلپائن گورنمنٹ نے ہمارا راستہ روکا تھا لیکن خدا نے کھول دیا ہے اور جہاں ایک مسلمان کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی وہاں61آدمی بیعت کرچکا ہے اور کالج کے باقی سٹوڈنٹ کہتے ہیں کہ ہمیں جلدی بیعت فارم بھیجو۔ ابھی انہوں نے100بیعت فارم کے متعلق لکھا ہے کہ جلدی بھیجو سب لڑکے تیارہورہے ہیں۔اب جس ملک کے کالج کے لڑکے مسلمان ہوجائیں گے سیدھی بات ہے کہ وہ بڑے بڑے عہدوں پر مقرر ہوں گے اور جہاں جائیں گے اسلام کی تبلیغ کریں گے کیونکہ اسلام چیزہی ایسی ہے کہ جو ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیتا ہے پھر وہ چُپ نہیں رہ سکتا۔
میرے دوست پروفیسر ٹلٹاک اِس وقت یہاں بیٹھے ہیں جب مَیں بیماری میں علاج کرانے کے لئے گیا تو ہیمبرگ میں بھی گیامولوی عبداللطیف صاحب جو ہمارے مبلغ ہیں وہ ان کو لائے اور کہنے لگے یہ پروفیسر ٹلٹاک ہیں ان کو اسلام کا بڑا شغف ہے۔یہ کیل (KEELE) میں یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔آپ کا ذکر سن کر کیل سے آئے ہیں مگر کہتے ہیں میں نے الگ بات کرنی ہے۔میں نے کہا بڑی خوشی سے الگ بلالو اَور لوگ چلے جائیں۔ چنانچہ وہ آگئے انہوں نے تھوڑی دیر بات کی اور پھر کہنے لگے میں نے بیعت کرنی ہے۔ میں نے کہابہت اچھا کرلیجئے۔ میں نے پوچھا کہ اسلام سمجھ لیا ہے؟ کہنے لگے ہاں میں نے سمجھ لیا ہے۔ مگر کسی کو پتہ نہ لگے میں بڑا مشہور آدمی ہوں۔ میں نے کہابہت اچھی بات ہے۔ہمیں آپ کو مشہور کرنے کا کیا شوق ہے۔آپ کی خدا سے صلح ہوگئی کافی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد پاس کے کمرہ میں کچھ جرمن دوست نماز پڑھنے کے لئے آئے تھے۔میں نماز پڑھانے کے لئے اُس کمرہ میں گیا۔ جب نماز پڑھ کے میں نے سلام پھیرا تو دیکھا کہ صف کے آخر میں وہ پروفیسرٹلٹاک بیٹھے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ میرا کسی کو پتہ نہ لگے۔میں نے مولوی عبداللطیف صاحب سے کہاکہ پروفیسرصاحب سے ذرا پوچھو کہ آپ تو کہتے تھے کہ میرے اسلام کا کسی کو پتہ نہ لگے اور آپ تو سارے جرمنوں کے سامنے نماز پڑھ رہے ہیں تو اب تو پتہ لگ گیا۔ کہنے لگے میں نے پوچھا تھا۔ یہ کہنے لگے میں نے سمجھا کہ یہاں ان کے آنے کا کیا واسطہ تھا،خدا انہیں میری خاطر لایا ہے تو اب خلیفہ کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع جو خدا نے مجھے میسر کیا ہے یہ ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے چنانچہ نماز پڑھ لی۔ اب یاتو وہ وہاں کہتے تھے کہ میرا اسلام ظاہر نہ ہو اور یا یہاں آکے بیٹھے ہوئے ہیں۔’’
اِس موقع پر دوستوں نے حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ پروفیسر ٹلٹاک صاحب انہیں دکھلا دیئے جائیں۔ چنانچہ پروفیسر صاحب سٹیج پر تشریف لے آئے اور حضور نے فرمایا:
‘‘ یہ پروفیسر ٹلٹاک صاحب ہیں جو جرمنی سے آپ لوگوں کو دیکھنے آئے ہیں اور آپ ان کو دیکھنے آئے ہیں۔
دوسری خوشخبری یہ ہے کہ پروفیسر ٹلٹاک صاحب یہ خبر لائے ہیں کہ جرمنی میں چار شہروں میں جماعتیں قائم ہوگئی ہیں۔ایک بیعت پیچھے الفضل میں شائع ہوئی ہے تازہ اطلاع یہ آئی ہے کہ اس نَو مسلم کی بیوی نے بھی بیعت کرلی ہے۔سب سے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ پیغامیوں نے منافقین کو کہا تھاکہ ہمارا سٹیج تمہارے لئے ہے۔ہماری تنظیم تمہارے لئے ہے۔آج ہی جس وقت مَیں چلنے لگا ہوں تو مولوی عبداللطیف صاحب کی چِٹھی پہنچی کہ ایک جرمن جو پیغامیوں کے ذریعہ سے مسلمان ہؤا تھا وہ میرے پاس آیا اور میں نے اس کو تبلیغ کی اور وہ بیعت کا خط آپ کو بھجوا رہا ہے تو اُن کی وہ تنظیم خدا نے ہمیں دے دی۔جس طرح ابوجہل کا بیٹا عکرمہؓ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل گیا تھا۔اِسی طرح پیغامیوں کا کیاہوا نَومسلم ہمیں مل چکا ہے۔آج ہی اس کے بیعت کا خط آگیا ہے۔
وکالتِ تبشیر نے کہا ہے کہ باہرسے متواتر لٹریچر کی مانگ آرہی ہے۔میں نے عزیزم داؤد احمد کو جسے انگریزی کا اچھا شوق ہے ولایت میں کچھ عرصہ پڑھنے کے لئے رکھا تھا اور وہ انگریزی پڑھ کے آیا ہے۔میں نے تحریک کوکہا کہ اس کو ترجمہ پر لگادو تو انہوں نے کہا ہمارے پاس گنجائش نہیں ہے۔ گویا اِدھر تو لوگ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کے لئے ہمیں لٹریچر چاہئیے اور اُدھر وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس گنجائش نہیں یہ کیا؟تم فاقے رہ جاتے اور لٹریچر شائع کرتے۔یہ وکالت والوں کی غلطی ہے وہ بجٹ کو صحیح طور پر تقسیم نہیں کرتے۔ اگر صحیح طور پر تقسیم کریں تو ہمارے پاس بڑی گنجائش ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم ساری دنیا کو لٹریچر سے بھر سکتے ہیں۔
تازہ رپورٹ سے پتہ لگتا ہے کہ پیغامی جو کچھ یہاں کرتے رہے ہیں وہ دوسرے ملکوں میں بھی انہوں نے کرنا شروع کردیا ہے۔رشید ہمارا مبلغ ڈچ گی آنا میں گیا۔ وہاں بھی پیغامیوں کا زور تھا پہلے اطلاع آئی تھی کہ دو سوپیغامیوں نے بیعت کرلی ہے اور وہ احمدی ہوگئے ہیں۔اَب پَرسوں تَرسوں دوسری اطلاع آئی ہے کہ دوسو نہیں چار سو تک تعداد پہنچ چکی ہے۔ اَب اس کے بعد رشید صاحب کی اطلاع آئی ہے کہ ایک اَور خاندان احمدی ہورہا ہے جس کے آٹھ افراد ہیں۔ اِسی طرح انہوں نے لکھا ہے کہ عبدالعزیزجمن بخش جو ہمارے ہاں تعلیم پارہے ہیں اور ڈچ گی آنا کے ہیں اُن کا بہنوئی سخت متعصب پیغامی ہے۔اس نے ایک عورت کو بہت سی لالچ دی اور بہت سا روپیہ دیا کہ اس مبلغ کی دعوت کر اور زہر ملاکر اس کو مار دے لیکن حُسنِ اتفاق ہے خدااس کا محافظ تھا،اس کی باتیں اپنی بیوی سے کرتے ہوئے اُس کی ہمسائی نے سن لیں۔اُس ہمسائی نے ایک دوسری ہمسائی کو بتادیا۔اس کا خاوند بھی احمدی تھا اُس نے آکر اِس کو بتادیا کہ یہ آپ کے خلاف کارروائی ہورہی ہے۔ سارے علاقہ میں بات پھیل گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ غیر احمدی بھی تُھوتُھو کر رہے ہیں کہ تم لوگ اپنے مبلّغوں کو مرواتے ہو۔ پس دعائیں کرتے رہا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مبلغین کی حفاظت فرمائے۔ایک ایک آدمی ہم بیس بیس سال میں تیار کرتے ہیں اگر یہ زہر دے کر مار دیں تو ہماری بیس سال کی محنت ضائع ہوجاتی ہے۔اللہ تعالیٰ ان کاحافظ وناصر ہو اور جہاں وہ جائیں اُن کے ہاتھوں پر ہزاروں لاکھوں آدمی اسلام قبول کریں۔
پھر میں احباب کو اِدھر توجہ دلاتا ہوں کہ میں نے پچھلے سال بھی کہا تھا کہ ریویوآف ریلیجنز کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش تھی کہ دس ہزار اس کی اشاعت ہونی چاہئیے۔اَب سنا ہے کہ تیرہسَو کی اشاعت ہوئی ہے مگر کُجا دس ہزار اور کُجا تیرہسَو ، مَیں سمجھتا ہوں کہ بجائے تحریک کرنے کے ہمیں اب عملی قدم اٹھانا چاہئیے اس لئے میں ایڈیٹر صاحب ریویو کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فی الحال تیرہسَو کی بجائے تین ہزار تین سو چھپوانا شروع کردینگے۔اگلے سال تک ہم کوشش کریں گے کہ دس ہزار ہوجائے۔ سو تین ہزار تین سو چھپوانا شروع کردیں اور قیمت گرا دیں۔ جو ہندوستانی انگریزی ریویوخریدیں ان کو دوروپیہ میں وہ دیدیا کریں اور جوغیر ملکی خریدیں ان سے صرف ڈاک کا خرچ لے لیا کریں۔اگلے سال ہم اس کو دس ہزار کردیں گے۔ اس طرح دوہزار پرچہ بڑھے گا۔اس کے لئے کچھ تو ہندوستانی خریداروں سے قیمت آجائے گی کچھ باہر والے خریداروں سے قیمت آجائے گی۔باقی زیادہ چَھپنے کی وجہ سے قریباً بارہ ہزار کا خرچ رہ جائے گا۔تحریک جدید او رانجمن کو میں مجبور کروں گا کہ وہ چھ ہزار دیں اور چھ ہزار جماعت سے چندہ کی تحریک کروں گا۔ہماری جماعتیں اَب خدا کے فضل سے اتنی بڑھی ہوئی ہیں کہ افریقہ کے جو نئے حبشی ہیں اُن میں سے ایک شخص نے پندرہ سو پاؤنڈ مسجد کے لئے دے دیا یعنی بیس ہزار روپیہ۔ حالانکہ وہ شخص ایسا تھا جو پہلے کہتا تھا کہ دریا رُخ بدل لے تو بدل لے مگر میں نہیں مسلمان ہونے کا۔ وہ شخص مسلمان ہوتا ہے اور اپنی خوشی سے پندرہ سو پاؤنڈ یعنی بیس ہزار روپیہ لاکر دے دیتا ہے اُس ملک میں تولوگ غریب ہیں۔ہماری جماعت میں یہاں بڑے بڑے امیر ہیں ان سے چھ ہزار یا دس ہزار یا بیس ہزار سالانہ لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ خواہش پوری کرنا کہ ریویو کی دس ہزار اشاعت ہوجائے کون سا مشکل امر ہے۔ پس اس سال وہ تین ہزار اشاعت کر دیں۔ اگلے چھ مہینے تک ہم اسے چھ ہزار کرنے کی کوشش کرینگے۔ لیکن وہ ایک مینیجر مقرر کریں جو قیمتیں وصول کرے۔اس سے پہلے ان سے غفلت ہوتی رہی ہے اور قیمتیں صحیح نہیں وصول ہوئیں۔اگلے جلسہ سالانہ تک ہم انشاء اللہ دس ہزار شائع کریں گے۔ کچھ لوگوں سے قیمت وصول کریں گے، کچھ جماعت سے وصول کریں گے، کچھ صدر انجمن احمدیہ اور تحریک سے وصول کریں گے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کو ہم اگلے سال خدا چاہے تو ضرور پورا کردیں گے۔ اِس سال اِس خواہش میں قدم بڑھانے کے لئے ہم تیسرا حصہ ادا کرتے ہیں اور چھ مہینہ تک ہم انشاء اللہ نصف سے زیادہ کردیں گے اور خدا تعالیٰ زندہ رکھے اور توفیق دے تو اگلے سال انشاء للہ ہم دس ہزار کی خواہش پوری کردیں گے۔ اور کوشش کریں گے کہ اس سے اگلے سال حضرت صاحب کی خواہش سے دُگنی تعداد ہوجائے یعنی بیس ہزار ہوجائے۔ اس طرح بڑھاتے بڑھاتے ہمارا پروگرام یہ ہوگاکہ حضرت صاحب نے دس ہزار کہا تھا ہم لاکھ تک اِس کی خریداری پہنچا دیں۔’’
اِس موقع پر حضور نے اعلان فرمایا کہ:۔
‘‘محمد صدیق صاحب کلکتہ والے لکھتے ہیں کہ رسالہ ریویو انگریزی کے لئے یک صد رسالہ کا چندہ مبلغ دوصد روپیہ مَیں اپنی طرف سے دینے کا وعدہ کرتا ہوں۔ خداتعالیٰ نے ان کوتوفیق دی ہے۔انشاء اللہ ثواب ہوگا۔میری نیت بھی چندہ دینے کی ہے اور انشاء اللہ اِس سے زیادہ ہی دونگا۔
پھر قرآن شریف کے ترجمہ کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اُردو کا ترجمہ تیار ہوگیا ہے۔اورایک جِلد تفسیر کی بھی تیار ہوگئی ہے جس کا پانچ سو صفحہ انشاء اللہ شوریٰ تک چَھپ جائیگا۔تفسیر لمبی ہوگئی ہے میں نے چھوٹی رکھنے کا فیصلہ کیاتھا لیکن غالباً سورۃ طٰہٰیاسورۃ انبیاء تک پانچ سو صفحے پورے ہوجائیں گے۔
الشرکة الاسلامیہ والے کہتے ہیں کہ ہم نے کتابیں چھاپی ہیں۔ضرورت الامام، رازِ حقیقت،نشانِ آسمانی،آسمانی فیصلہ، کشف الغطاء، دافع البلاء،ستارہ قیصریہ اس کی سفارش کرو حالانکہ مَیں تو اس کو بے شرمی سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی لکھی ہوئی کتاب ہو او رمیں سفارش کروں۔ کیا کسی غلام کے منہ سے یہ زیب دیتا ہے کہ اپنے آقاکی کتاب کی سفارش کرے۔ اور کرے بھی ان کے پاس جو اپنے آپ کوفدائی کہتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو لکھا ہے کہ جس شخص نے میری کتابیں کم سے کم تین دفعہ نہیں پڑھیں میں نہیں سمجھتا کہ وہ احمدی ہے18۔ تو اب ہماری جماعت تو دس لاکھ ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ پس تین دفعہ اگر وہ کتابیں پڑھیں بلکہ ایک ایک کتاب بھی خریدیں اور تین سال وہی پڑھ لیں تو پھر آگے اولاد بھی ہوتی ہے تب بھی دس لاکھ کتاب لگ جاتی ہے۔ لیکن انہوں نے جن کتابوں کی لسٹ مجھے دی ہے وہ ساری کی ساری شاید کوئی بیس ہزار ہیں تو ایسی کتابوں کے لئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی لکھی ہوئی ہیں جن کی صدیوں تک اَور نظیر نہیں ملے گی یہ کہنا کہ مَیں سفارش کروں یہ ان کی اپنی کمزوری ہے۔ کیوں نہیں وہ جماعت کو کہتے۔ جماعت تو اپنی جانیں حضرت صاحب پر قربان کرنے کے لئے تیار ہے مگر صحیح طور پر کام نہیں کیاجاتا۔ یامین صاحب تو اپنا کیلنڈر بیچ لیتے ہیں مگر ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں بھی نہیں بیچی جاتیں۔
اِسی طرح ریسرچ والوں نے کہا ہے کہ ان کی مصنوعات کے متعلق یاددہانی کرائی جائے۔ لوگوں کو چاہئیے کہ جو جماعت کی طرف سے چیزیں بنتی ہیں اُن کو زیادہ لیا کریں۔ اخلاص تو یہ ہوتا ہے کہ چودھری ظفراللہ خاں صاحب کے والد صاحب نے مجھے سنایا کہ میں سارا سال اپنے کپڑوں کے متعلق کوشش کرتا رہتا ہوں کہ نہ بنواؤں اور جب قادیان آتا ہوں تو سید احمد نور کی دُکان سے خریدتا ہوں۔ گومہنگا ہوتا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ ایک مہاجر کا گزارہ چل جائے گا میراکیا حرج ہے۔ تو دیکھو مخلص آدمی تو ایسا کرتا ہے۔ چودھری صاحب نے بتایا ہے کہ وہ بنواتے بھی مرزا مہتاب بیگ صاحب سے تھے جو قادیان میں درزی تھے او راحمدی مہاجر تھے۔ تو دیکھو مخلص لوگ تو ایسا کرتے ہیں کہ باہر کے شہر میں کپڑے سستے ملتے ہیں لیکن خریدتے نہیں۔ کہتے تھے قادیان جائیں گے تو ایک مہاجر سے خریدیں گے اور بنوائیں گے بھی ایک مہاجر سے۔ تو اگر ہماری جماعت کے لوگ توجہ کریں کہ سلسلہ کی طرف سے جو چیزیں بنتی ہیں اُن کو خریدیں تو بڑی ترقی ہوسکتی ہے۔ مثلاً شائنو بوٹ پالش ہے جس کی تعریف اتنی کثرت سے ہورہی ہے کہ باٹاکمپنی نے بھی پچیس ہزار ڈبیہ کا آرڈر دیا ہے حالانکہ وہ کروڑ پتی کمپنی ہے۔ پھر نائٹ لائٹ ہے جو بڑی قیمتی چیز ہے۔ کف ایکس ہے۔''سن شائن گرائپ واٹر''ہے۔ڈاکٹروں کو بھی چاہئیے کہ لے جائیں اور تجربہ کریں۔ اور اگر مفید ہیں تو سرٹیفکیٹ دیں۔ جھوٹے سرٹیفکیٹ ہم نہیں مانگتے سچے سرٹیفکیٹ مانگتے ہیں۔پھر ‘‘سٹرولیکس فروٹ سالٹ’’ ہے۔ ''بامیکس''سردرد کی دوا ہے۔ تو اگر جماعت کے لوگ سلسلہ کی مصنوعات کی طرف توجہ کریں تو یقیناً تھوڑے دنوں میں باہر ملکوں میں پھیل سکتی ہیں۔ سفارش تو لغو سی چیز ہے میں تو ان کو کہا کرتا ہوں کہ تم اچھی طرح اشتہارنہیں دیتے ورنہ مجھے قادیان میں ایسی دکانیں معلوم ہیں کہ ایک شخص سے حضرت خلیفہ اول نے چھ پیسے میں دکان نکلوائی لیکن جب وہ قادیان سے نکلا ہے تو اس کے گھر کی قیمت بیس ہزار تھی اور ہزاروں ہزار کی اس کی دُکان تھی۔ اور ایسے بھی دوست مجھے ربوہ میں معلوم ہیں کہ جنہوں نے چھ ہزار سے کام شروع کیا تھا اور اِس وقت پختہ مکانات ان کے پاس ہیں اور دوائیں وغیرہ ملا کر ان کا کوئی پینتیس چالیس ہزار کا سرمایہ ہے۔ تو جو دیانتداری سے کام کرے خداتعالیٰ اُس کو برکت دیتا ہے۔ پس سفارش کرنے کا کیا فائدہ ہے۔
اِسی طرح تشحیذ الاذہان ایک نیا رسالہ نکلنے والا ہے او ربھی بعض رسالے ہیں۔''المصلح''کراچی والے نکالتے ہیں۔ میں کہتا ہوں مجھ سے نہ کہلواؤ ایسے اعلیٰ کام کرو اور ان کی ایسی شکل بناؤ کہ لوگ آپ ہی لیں۔ کسی شخص نے کہا ہے
صورت بہ بین حالت مپرس
ارے میاں! اس کا حال کیا پوچھتے ہو،اس کی شکل دیکھ لو۔ توتم بھی اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ تمہارے رسالے دیکھ کر لوگ خودبخود خریدیں۔ یہ کہناکہ اس کو میری سفارش سے لوگ خریدیں یہ غلط ہے۔ میں اگر حضرت صاحبؑ کے رسالہ کی سفارش کرتا ہوں تو ثواب کے لئے ورنہ میں ریویو کی بھی سفارش نہ کرتا کیونکہ ریویو کی سفارش کرنا تمہاری ہتک ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ مجھے تو حضرت صاحبؑ کے قول کا پاس ہے تمہیں نہیں۔ میں یہ ہتک نہیں کرنا چاہتا۔ میں صرف اس لئے کہہ دیتا ہوں کہ مجھے ثواب مل جائے۔’’
اس موقع پر حضور نے ڈچ گی آنا سے آئی ہوئی وہ تصویر دک
سیر روحانی (8)
(28 دسمبر 1954ء)
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سیر روحانی (8)
(فرمودہ 28دسمبر 1954ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ''سیر روحانی'' کے اہم موضوع پر تقریر کرنے سے قبل حضور نے احباب جماعت کو بعض ضروری امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:-
‘‘کل کی تقریر ایسی حالت میں ہوئی کہ جیسا کہ میں نے بتایا تھا علاوہ سینہ میں درد، نزلہ کی شکایت اور بخار کی شکایت کے کمر کی درد بھی تھی جس کی وجہ سے بہت سے مضامین ذہن میں سے نکل گئے اور جو اصل مضمون آخر میں تھا جو کہ مقصود تھا تقریر کا وہ بھی بیان نہیں ہو سکا۔ تمہید میں سے بھی صرف تھوڑا سا حصہ مضمون کا بیان ہو سکا ہے۔ اس تکلیف کی وجہ سے کئی باتیں جن کے بیان کرنے کی کئی لوگوں نے خواہش کی تھی یا مختلف اداروں نے اپنے آپ کو متعارف کرانے کی خواہش کی تھی وہ میرے ذہن سے نکل گئے۔ اس لئے ان باتوں کو میں آج بیان کرتا ہوں۔
مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ معائنہ کے نتائج
ایک تو خدام الاحمدیہ کا سالانہ فیصلہ ہے کہ
کونسی مجلس اچھی رہی۔ علاوہ خدام الاحمدیہ کی رپورٹوں کے مجلس خدام الاحمدیہ نے انسپکٹر بھجوا کر مختلف انجمنوں کے کام دیکھے اور اس پر ایک فیصلہ کیا۔ ان کی رائے یہ ہے کہ کراچی کو 72 ¾/100 نمبر ملے ہیں اور لاہور کو 71 ½/100 اور راولپنڈی کو 66 ½/100اور گوکھووال کو 48/100اور خانیوال کو 44/100۔یہ گویا پانچ جماعتیں اس ترتیب کے ساتھ آئیں۔ اوّل کراچی، دوم لاہور، سوم راولپنڈی، چہارم گوکھووال اور پنجم خانیوال۔ قاعدہ کی رو سے جو جماعت اوّل رہے اس کو لوائے خدام الاحمدیہ اس سال کے لئے ملنا چاہئے۔ مجلس کی سفارش ہے کہ لاہور کی جماعت نے چونکہ اس دفعہ غیر معمولی کام کیا ہے اس لئے اس سال لاہور کی جماعت کو باوجود دوم رہنے کے لواء دے دیا جائے اور کراچی کی جماعت چونکہ پہلے سے ہی اچھاکام کرتی چلی آ رہی ہے اس لئے اس کو نہ دیا جائے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لاہور کی جماعت خدام الاحمدیہ نے اس سال بہت عمدہ کام کیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک نیم مُردہ سی جماعت تھی جس میں زندگی کی روح پھونک دی گئی اور اس خدمت کا سہرا اُن کے قائد محمد سعید اور ان کے چار پانچ مددگاروں پر ہے جنہوں نے محنت کے ساتھ ان کا ساتھ دیا اور اس مجلس کی تنظیم میں ان کا ہاتھ بٹایا۔ پچھلے سیلاب کے موقع پر انہوں نے غیر معمولی طور پر کام کیا اور پھر غیر معمولی طور پر اس کو دنیا کے سامنے روشناس بھی کرایا۔ پس اس لحاظ سے وہ خاص طور پر تعریف کے قابل ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہم اگر نمبر بدل ڈالنے کی رسم ڈال دیں گے تو اس سے بجائے حوصلہ بڑھنے کے اعتراض پیدا ہو گا۔ ہمیں ان کے اچھے کام کی مختلف مواقع پر تعریف کردینی چاہئے لیکن ساتھ ہی ہم کو یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہیئے کہ جو اوّل نمبر پر ہے اُس کو اوّل نمبر ہی دیا جائے تا کہ آئندہ دوسرے کسی موقع پر کسی کی جنبہ داری یا کسی کی ناجائز تائید کا سامان پیدا نہ ہو۔ پس میں باوجود مجلس کی سفارش کے یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ لواء حسبِ قاعدہ جماعت کراچی کو دیا جائے۔لیکن ساتھ اس کے میں لاہور کی جماعت کی تعریف بھی تمام دوستوں کے سامنے کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ ہرجماعت ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کی شناخت بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ تسابق اختیار کرتے ہیں اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش یقیناً ہر قوم کے معیار کو اتنا بلند لے جاتی ہے کہ اس کا انسان قیاس بھی نہیں کر سکتا۔ جب کبھی نیکی دنیا سے مفقود ہو جائے یا جب کبھی نیکی میں آگے بڑھنے کی روح مفقود ہو جائے اُس وقت قوم یا مرنا شروع ہو جاتی ہے یا گرنا شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن جب تک تسابق کی روح کسی قوم میں قائم ہو اُس وقت تک خواہ وہ کتنی بھی ذلت میں پہنچی ہوئی ہو اور کتنی بھی گری ہوئی ہو پھر بھی چمک دکھلاتی چلی جاتی ہے اور اس کے لئے موقع ہوتا ہے کہ وہ آگے بڑھے۔
ہمارے قریب کے بزرگان میں سے ایسے زمانہ میں جب مسلمانوں پر ایک قسم کے تنزل کی حالت آ گئی تھی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ تسابق کی وجہ سے ان لوگوں کے واقعات کو سن کر انسان کے دل میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے۔سید اسماعیل صاحب شہید جو تیرھویں صدی میں گزرے ہیں شاہ ولی اللہ صاحب کے وہ نواسے تھے اور سید احمد صاحب بریلوی کے مرید تھے۔ سید احمد صاحب بریلوی سکھوں سے جہاد کرنے کے لئے پشاور کی طرف گئے ہوئے تھے یہ کسی کام کے لئے دلّی آئے ہوے تھے تاکہ اپنے اقرباء سے مشورہ کریں۔ زیادہ تر ان کاکام یہ ہوتا تھا کہ شاہ اسحٰق صاحب جو شاہ ولی اللہ شاہ صاحب کے پوتے تھے اُن سے مشورہ کر کے سید صاحب تک ان کی رائے پہنچا دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ دہلی سے واپس جا رہے تھے جب کیمل پور کے مقام پر پہنچے تو کسی نے ذکر کیا کہ اس دریا کو یہاں سے کوئی شخص تیر کر نہیں گزر سکتا۔ اس زمانہ میں صرف فلاں سکھ ہے جو گزر سکتا ہے مسلمانوں میں سے کوئی اس کا مقابلہ کرنے والا نہیں۔ وہ جارہے تھے جہاد کے لئے، جارہے تھے اپنے پِیر کی مدد کے لئے۔ وہیں ٹھہر گئے کہ اچھا ایک سکھ ایسا کام کرتا ہے کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں کر سکتا۔ اب جب تک میں اس دریا کو پار نہیں کر لوں گا میں یہاں سے نہیں ہلوں گا چنانچہ وہاں تیرنے کی مشق شروع کی۔ چارپانچ مہینوں میں اتنے مشّاق ہوئے کہ تیر کر پار گزرے اور پار گزر کر بتا دیا کہ سکھ ہی نہیں ہیں اچھے کام کرنے والے مسلمان بھی جب چاہیں اُن سے بہتر کام کر سکتے ہیں۔ تو دیکھو یہ ایک تسابق کی روح تھی اور اِسی تسابق کی روح کو جب بھی ہم اپنے سامنے لاتے ہیں تو ہماری روحوں میں ایک بالیدگی پیدا ہو جاتی ہے اور ہمارے دلوں میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے اور ہمارے دماغوں میں عزم پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم اب مخالف یا مدِمقابل یا رقیب سے کسی صورت میں دبیں گے نہیں۔
پس خدام کی جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ کوشش کریں کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہمیں مدِ نظر رکھنا چاہیئے کہ جو ہم نے قانون بنایا ہے اُس کو کسی چھوٹی سی وجہ سے نہ توڑیں۔ انہوں نے اچھا کام کیا ہے ہم نے اس کو کئی جگہ بیان کیا ہے اور تعریف کر دی ہے۔ میرے کئی خطبوں میں ذکر آ گیا مَیں اب بھی ان کی تعریف کر رہا ہوں، خدام کے جلسہ میں بھی ان کی تعریف کی۔ اتنی تعریفوں کے بعد انہیں یہ کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم کراچی کا لواء ان کے حوالے کر دیں۔ جہاں انہوں نے اتنا قدم بڑھایا ہے کہ ایک سست جماعت سے ایک زندہ جماعت بنے ہیں وہاں اگر وہ کوشش کریں اور کراچی کے نوجوانوں والی خدمات پیش کریں تو لواء بھی لے سکتے ہیں۔ میں کراچی کے خدام کی ساری باتیں بیان نہیں کر سکتا لیکن درحقیقت انہوں نے جو قربانی کی ہے ابھی تک لاہور کی قربانی اُس کو پہنچتی نہیں۔ تو اگر وہ کوشش کریں تو مجلس کی کراچی والوں سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے اور لاہور والوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ وہ یقیناً لاہور ہو یا گوجرانوالہ یا سیالکوٹ ہو جو جماعت بھی آگے نکلے گی وہ اُس کو لواء دیں گے۔ (الفضل 11جنوری1955ء)
اسکے بعد حضور نے بعض جماعتوں اور افراد کی طرف سے آنے والی تاریں پڑھ کر سُنائیں اور پھر فرمایا:-
‘‘اس کے بعد میں کل کی باتوں سے جو چند تحریکیں لوگوں نے کرنے کے لئے کہا تھا اُن کو پیش کرتا ہوں۔
سلسلہ کے اخبارات
ہمارے سلسلہ کے اخبارات میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر ایک خصوصیت رکھتا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جماعت
کے لوگوں میں اخباروں کے پڑھنے کا چرچا اور رواج ذرا کم ہے۔ اس کی وجہ سے جو ان کی شہرت ہونی چاہیئے اور جو ان کا فائدہ ہونا چاہیئے وہ پوری طرح نہیں پہنچتا۔
الفضل
سب سے مقدّم چیز تو ''الفضل'' ہے۔ الفضل روزانہ اخبار ہے اور الفضل ہی ایک ایسا اخبار ہے جس کے ذریعہ سے ساری جماعتوں تک آواز پہنچتی ہے
لیکن متواتر ہم کو آجکل یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ کئی جماعتیں ایسی ہیں کہ ساری جماعت میں ایک الفضل بھی نہیں پہنچ رہا حالانکہ چھوٹی جماعتیں آپس میں چندہ کر کے اور آپس میں مل کر ایک ایک اخبار خرید سکتی ہیں۔ درحقیقت دو ہی چیزیں ہیں جو قوم کی ترقی پر دلالت کرتی ہیں ایک اخبار اور ایک ریلوے کا سفر یا لاری کا سفر۔ جو قوم سفر زیادہ کرتی ہے وہ ضرور کامیاب ہو تی ہے اور جس قوم میں اخبار زیادہ چلتے ہیں وہ ضرور کامیاب ہوتی ہے۔ کیونکہ اخبار پڑھنے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اس شخص کی روح نِچلی1 نہیں بیٹھ سکتی۔ اس کے اندر ایک اضطراب پایا جاتا ہے۔ اخبار کیا کرتا ہے؟ وہ ہر روز ہم کو ایک نئی خبر دیتا ہے۔ جس دن اخبار نہیں آتا تو لوگ جس طرح افیون نہیں کھائی ہوتی گھبرائے پھرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمیں دنیا کے انقلاب کا پتہ نہیں لگتا۔ اور جو شخص انقلاب کی جستجو کرتا ہے درحقیقت اس کے اندر بھی ایک انقلابی مادہ پایا جاتا ہے۔ تو قوم کی ترقی کا اگر کسی شخص نے اندازہ لگانا ہو تو وہ دو چیزیں دیکھ لے کہ وہ قوم کتنا سفر کرتی ہے اور اخبار کے ساتھ اس کو کتنی دلچسپی ہے۔
میں جب فلسطین میں گیا تو اُس وقت یہودی سارے ملک کی آبادی کا دسواں حصہ تھے اور دسواں حصہ عیسائی تھے اور اسّی فیصدی مسلمان تھے لیکن ریلوں میں مَیں نے سفر کر کے دیکھا تو یہودی ہوتا تھا قریباً ستّر فیصدی اور عیسائی ہوتا تھا کوئی پندرہ بیس فیصدی اور مسلمان ہوتا تھا دس فیصدی ۔ میرے پاس ایک سفر میں ایک یہودی آیا وہ ریلوے کا افسر تھا۔ میں تو اُس کا واقف نہیں تھا نہ پہلے کبھی ملا۔ معلوم ہوتا ہے یہودیوں نے ہماری بھی ٹوہ رکھی تھی۔ وہ آیا اور اس نے کہا کہ میں نے آپ سے ملنا ہے۔ وہیں کمرہ میں آ کر بیٹھ گیا۔ کہنے لگا کہ میں ریلوے کا افسر ہوں اور شام وغیرہ جاتے وقت بارڈر کی نگرانی میرے سپرد ہے۔ میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہو۔ کہنے لگا میں یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے کیوں مخالف ہیں؟ میں نے کہا تمہیں کس نے بتایا ہے کہ میں مخالف ہوں؟ کہنے لگا میں سن رہا ہوں کہ آپ ہمارے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ میں نے کہا میں مخالفت کروں یا کچھ کروں (اُس وقت میں نے یہی بات کہی کہ) میری مخالفت تم جانے دو میں نے یہاں تو یہ نظارہ دیکھا ہے چنانچہ ریل پر دیکھ لو ابھی چلو اس وقت اگلے اسٹیشن پر (اُس وقت گاڑی چل چکی تھی) جب اگلا اسٹیشن آئے گا اُس وقت دیکھ لینا کہ ریل میں ستّر فیصدی یہودی بیٹھا ہؤا ہے، پندرہ بیس فیصدی عیسائی بیٹھا ہؤا ہے باقی دس فیصدی اسّی فیصدی کا نمائندہ بیٹھا ہؤا ہے۔ تو میں مخالفت کروں یا کوئی کرے جب تک مسلمان اپنا نظریہ نہیں بدلیں گے، اپنے حالات نہیں بدلیں گے، اپنا طریقہ نہیں بدلیں گے جیتنا تم نے ہی ہے انہوں نے تو جیتنا نہیں۔ گھبراتے کس بات سے ہو؟ اور پھر یہی ہؤا۔ آخر اُس قوم میں جو باہر نکلتی ہے اور بھاگی پھرتی ہے کوئی نہ کوئی بے کلی کی وجہ ہوتی ہے یونہی تو نہیں لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل کھڑے ہوتے۔ ان کے اندر ایک جوش ہوتا ہے، ایک ارج (URGE) ہوتی ہے پیچھے سے کہ چلو چلو چلو۔ اور وہ چلو چلو کی ارج (URGE) کے ماتحت چل پڑتے ہیں اور پھر ان کا بچہ بڑا ہر ایک اس میں کام کرتا ہے۔
امریکنوں کو دیکھ لو ساری دنیا کا سفر کرتے پھریں گے۔ پہلے انگلستان والے کرتے تھے اور اب ان میں کمی آ گئی ہے اب امریکن ہیں کہ ساری دنیا میں گھومتے پھرتے ہیں۔ کسی زمانہ میں عرب میں یہ رواج تھا بلکہ اب بھی یہ بات حجاز کے لوگوں میں کسی قدر پائی جاتی ہے، اب بھی وہ دنیا کے سارے اسلامی ملکوں کے باشندوں سے زیادہ غیرملکوں میں پھرتے ہوئے نظر آ جائیں گے۔ کیونکہ وہ دھکّا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا اور گاڑی چلائی تھی وہ گاڑی اب بھی رینگتی چلی جاتی ہے۔ چودہ پندرہ سو سال ہو گئے مگر اس گاڑی کی حرکت ساکن نہیں ہوئی۔ تو اخبار ایک دلیل ہوتا ہے اِس بات کی کہ قوم کے اندر کتنی بیداری ہے، کتنا اضطراب ہے اور انقلاب کی کتنی خواہش ہے۔ اگر کوئی قوم اخباروں کی طرف توجہ نہیں کرتی تو یقیناً وہ اپنی ترقی کی پوری طرح خواہش نہیں رکھتی۔ پس مَیں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ پورے زور سے الفضل کو پھیلانے کی کوشش کریں۔
بدر
ہندوستان کے لئے ہمارا اخبار ''بدر'' ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک اس نے پوری ترقی نہیں کی۔ ہمارے قادیان کے دوست جب گھبراتے ہیں تو مجھے لکھ دیتے
ہیں کہ جماعت پاکستان کو ''بدر''کے لئے توجہ دلائی جائے۔حالانکہ یہاں کے لئے ''الفضل'' ہے۔ہندوستا ن کے احمدیوں کے لئے ''بدر ''ہے۔اگر پاکستان کے احمدیوں کے خریدنے سے ''بدر'' نے چلنا ہے تو ''بدر'' نے کوئی انقلاب ہندوستان میں پیدا نہیں کرنا۔ وہ تبھی کوئی انقلاب مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کرے گا جب ہندوستان کے مسلمانوں تک اسے پہنچایا جائے۔انقلاب سے میری مراد کوئی سیاسی انقلاب نہیں کیونکہ وہ ہمارا کام نہیں۔انقلاب سے مراد ہے روحانی انقلاب، مذہبی انقلاب۔ تو میں ان کی اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ میں پاکستا ن کے احمدیوں کو کہوں کہ تم ضرور ''بدر'' کو خریدو اور پھیلاؤ۔ اگر پاکستان کے لوگوں کے خریدنے پر بدر آگیا تو پھر بدر کا بند ہونا ایسا معیوب نہیں سمجھا جائے گا۔ہندوستان میں بھی خداتعالیٰ کے فضل سے ہزارہا احمدی ہے۔میر ے خیال میں اب بھی بیس پچیس ہزار تو ہو گا ان کو کوشش کرنی چاہیے کہ ہندوستان کے لوگوں میں اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مقبول بنائیں اورپھر دوسرے لوگوں میں بھی مقبول بنائیں۔ اگر وہ اچھے اچھے مضمون لکھیں اورایسے لکھیں جن سے مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو،ان میں مذہبی رجحان پیدا ہو،نیکی پیدا ہو تو دوسرے مسلمان بھی اسے خریدیں گے۔ بلکہ میں نے تو دیکھا ہے کہ ہندوؤں میں بھی یہ شوق پایا جاتا ہے اور ہندو بھی خریدتے ہیں۔دلوں میں تحریک جس وقت پیدا ہوتی ہے لوگ خریدنے لگ جاتے ہیں۔ ا لفضل جب میں نے جاری کیا تھا اُس وقت یہ پہلے ہفت روزہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اسے اِس طرح چلانے کی توفیق دی کہ باوجود اِس کے کہ ہماری سخت مخالفت تھی اور لوگ کہتے تھے یہ نہیں چلے گا۔ ابھی پانچ سات ہفتے ہی گزرے تھے کہ مجھے سندھ سے ایک غیر احمدی کی چٹھی آئی۔ کسی نے اُسے مل کر تحریک کی کہ تم خریدار ہو جاؤ اور وہ خریدار ہوگیا۔ کسی وقت ڈاک میں اُس کا اخبار لیٹ ہو گیا تو اُس کی مجھے چٹھی آئی کہ میں نوجوان آدمی ہوں، میں نے ''الفضل'' خریدنا شرو ع کیا ہے اورمجھے جو اس سے محبت اورپیار ہے اس کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ تین ہفتے ہوئے میری شادی ہوئی ہے اور مجھے اپنی بیوی بہت پیاری ہے۔مگر اس دفعہ اخبار نہیں پہنچااور میں یہ سوچتا رہا ہوں کہ اگر میری بیوی مرجاتی تو مجھے زیادہ صدمہ ہو تا یا الفضل نہیں پہنچاتو اس سے زیادہ صدمہ ہؤا ہے۔ تم اس سے اندازہ لگا سکتے ہو کہ کس قدر اُس کو لگاؤ تھا ۔یہ توایک عام آدمی تھا۔ کہہ دو گے کہ شاید اُس کو زیادہ واقفیت نہیں ہوگی مگر اب ملک کے ایک چوٹی کے آدمی کا واقعہ سن لو۔ابوالکلام صاحب آزاد اُنہی دنوں میں قید ہوئے۔ اُن کے پاس یہ اخبار جاتا تھا۔ اُن کے سیکرٹری کی مجھے چٹھی آئی کہ ابو الکلام صاحب آزاد کو گورنمنٹ نے نظر بند کر دیا ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ ہم آپ کو ایک اخبار کی اجازت دیتے ہیں تو انہو ں نے صرف ''الفضل'' کی اجازت مانگی ہے اور کہا ہے کہ ''الفضل'' مجھے باقاعدہ ملتا رہے۔ تو اَب دیکھو دوسرے لوگوں کے اوپراِس کا کس قدر اثر تھا۔دوسرے لوگوں پر اُس وقت اثرہوسکتا تھا تو آج بھی ہو سکتا ہے۔ تم اس کو زیادہ عمدہ بنانے کی کوشش کرو گے تو لوگوں میں آپ ہی آپ وہ مقبو ل ہونا شروع ہوجائے گا۔ تو بدرکے متعلق میں تحریک تو کرتا ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نہ خریدو۔ اگر کوئی شخص خریدنا چاہتا ہے اور ہندستان کے حالات معلوم کرنا چاہتاہے اور قادیان کے حالات معلوم کرنا چاہتا ہے تو بے شک خریدے مگرمیں اُس زور سے جیسے الفضل کی تحریک کرتا ہوں اِس کی نہیں کرتا ۔ اس لئے کہ میرے نزدیک اس کا مقام ہندوستان ہے۔ اگر ہم لوگ اس کو روپیہ دے کرکھڑاکرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی کہ وہ ہندوستان میں اس کو مقبول بنائیں۔
ریویو آف ریلیجنز
تیسری چیز ہمارے ہاں ریویو ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یادگار ہے۔ اِس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
زمانہ کا پرچہ اور ایسا پرچہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود حصہ لیا تھا اور اس میں مضمون لکھے تھے سوائے ریویو کے جماعت میں اورکوئی نہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش تھی کہ دس ہزار پرچہ کم سے کم شائع ہولیکن اِس وقت تک صرف ایک ہزار شائع ہوتا ہے اور وہ ہزار پرچہ بھی جماعت کا ممنونِ احسان نہیں۔ہزار پرچہ کی قیمت تحریک جدید دیتی ہے اور پھر اس کو عیسائی علاقوں میں یادوسرے علاقوں میں مُفت شائع کیا جاتا ہے۔ جو خریدارجماعت کی طرف سے ملا ہے (اگرکوئی خریدار آجاتا ہے تو تحریک اس کو بھی دے دیتی ہے)اس کے متعلق جومیرے پاس رپورٹ آئی تھی وہ شاید دو سو یا ڈیڑھ سو کے قریب خریدار تھے۔باقی سارے کے سارے وہ ہیں جن کو جماعت کی طرف سے مفت تقسیم کیا جاتاہے۔ یہ امریکہ میں جاتا ہے، انگلینڈمیں جاتا ہے، جرمنی میں جاتاہے ۔اِسی طرح مختلف ممالک میں جاتاہے۔یہ فلپائن سے جو بیعت آئی ہے غالباًیہ بھی اِسی طرح آئی ہے۔ ہم نے فلپائن وغیرہ میں بھی پرچے بھجوانے شروع کئے تھے۔ تویہ پہلی بیعت غالباً اِسی ریویوکی اشا عت کی وجہ سے ہوئی ہے۔ تو ریویوآف ریلیجنزکی طرف بھی جماعت کو توجہ ہونی چاہیے۔اب ہماری جماعت اِتنی ہے کہ دس ہزار پرچہ شائع ہوجاناکوئی بڑی بات نہیں۔اِس کی دس روپے قیمت ہے۔دس ہزار کے دس روپیہ قیمت ہوئی تو ایک لاکھ روپیہ ہوگیا۔ تم سالانہ چندوں میں اٹھارہ بیس لاکھ اپنی خوشی سے دیتے ہو۔ اب اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اِس خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایک لاکھ روپیہ سالانہ دے کر اس کو بیچنا شروع کریں تو یقیناً دو چار سال میں ہی پچیس، تیس، چالیس ہزار وہ اپنی آمد خود پیدا کر لے گا۔ اور یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے بلکہ ممکن ہے اس سے بھی لاگت کم ہو جائے کیونکہ پرچہ جب زیادہ چھپے تو اُس کی لاگت کم ہو جاتی ہے۔ اِس وقت اِس کی لاگت دس روپے ہے۔ اگر یہ دس ہزار چھپے تو میں سمجھتا ہوں کہ آٹھ سات روپے ہو جائے گی اور ستّر پچھتر ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہو گا۔ اور یہ دس ہزار پرچہ دنیا کی تمام لائبریریوں میں جانا شروع کرے تو میں سمجھتا ہوں کہ سال دوسال کے اندر تہلکہ پڑ جائے گا۔
فرقان
چوتھا پرچہ ‘‘فرقان’’ ہے۔ فرقان میں اس امر کو مدنظر رکھا جاتاہے کہ علمی مضامین اس کے اندر آئیں اور جماعت اسلامی والے جو نئی نئی باتیں
پیش کرتے ہیں یا ''طلوعِ اسلام''والے پیش کرتے ہیں یااہلِ قرآن یا بہائی پیش کرتے ہیں اُن کا جواب دیا جائے۔ گو یا جتنی نئی مذہبی تحریکیں ہیں اُن نئی مذہبی تحریکوں کے جواب کے لئے یہ رسالہ خصوصیت سے وقف ہے۔ دوسرے اخبار یا رسالے ایسا نہیں کر سکتے۔ الفضل یہ نہیں کر سکتا کیونکہ الفضل روزانہ اخبار ہے۔ روزانہ اخبار ان باتوں میں نہیں پڑ سکتا۔ ریویو بھی اس کو نہیں لے سکتا کیونکہ ریویو غیرملکوں میں جانے والا رسالہ ہے۔ اس کا اصل کام اسلامی نقطہ نظر سے لوگوں کو روشناس کرانا ہے اور چونکہ غیر ملکوں میں اس نے جانا ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس میں جماعت اسلامی پر بحث کریں یا طلوعِ اسلام پر بحث کریں۔ امریکہ کو یا جاپان کو یا سوئٹزرلینڈ کو یا آسٹریلیا کو یانیوزی لینڈ کو یا انگلینڈ کو'' طلوعِ اسلام'' والوں سے یا جماعت اسلامی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ ان کی کوئی حقیقت ہی نہیں جانتے ۔وہ ہمیں جانتے ہیں یااسلام کے نام کو جانتے ہیں اِس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ اُن لوگوں کے سامنے خواہ مخواہ اِن کے مضامین کو لانے کی کیا ضرورت ہے اِس لئے ریویو بھی ہمارے اس کام نہیں آ سکتا۔ پھر یہ ایک ایسا پرچہ ہے جو اردو میں نکلتا ہے اور اِس میں اِس قسم کے مضامین نکلنے سے یقیناً فائدہ ہوتا ہے کیونکہ یہ مضامین زیادہ تر پاکستان میں زیرِ بحث آتے ہیں اور پاکستان میں ایسے لوگ ہیں جن کو ان سے دلچسپی ہے۔
خالد
علاوہ اِس کے خدام الاحمدیہ کا پرچہ ''خالد'' ہے۔وہ ایک خاص جماعت کا پرچہ ہے۔ میں ساری جماعت کو تو نہیں کہتا۔ اِس جماعت کو کہتا ہوں کہ تم اپنے اندر
بیداری پیدا کرنے کے لئے اور اپنے مرکز سے یعنی خدام کے مرکزی دفتر سے وابستگی رکھنے کے لئے ''خالد'' کی اشاعت اپنے حلقہ میں وسیع کرنے کی کوشش کرو۔
دُنیوی اخبار
پھر ہر جماعت کے لئے کوئی نہ کوئی دنیوی اخبار بھی چاہئے۔ میں نے پچھلی دفعہ بھی کہا تھا کہ بعض اخبار ایسے ہیں جو ہمارے ساتھ انصاف
کا معاملہ کرتے ہیں،بعض ایسے ہیں کہ جن کے ذریعہ سے ہمارا نقطہ نگاہ پہنچ جاتا ہے۔ وہ گو ہمارے ساتھ شامل نہیں ہیں لیکن ہمارے میانہ روی کے جو خیالات ہیں ان سے وہ متفق ہیں۔ اسی طرح بعض اخبارات ایسے ہیں کہ جن کے ساتھ ایسے لوگوں کا تعلق ہے کہ جو ہمارے خیالات سے بالکل متفق ہیں گو وہ دنیوی اخبار ہیں۔ تو ہمیں چاہئے کہ بہرحال ایسے اخبار خریدیں۔ کیونکہ اگر ہم ان کو نہ خریدیں گے، دشمن کے اخباروں کو خریدیں گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم دشمن کو پیسہ دیتے ہیں کہ وہ ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرے مثلاً ایک شخص نے دنیوی اخبار خریدنا ہے وہ اگر ''سِول'' خریدے ''ملت'' خریدے ''المصلح'' خریدے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کے پیسہ کے ذریعہ ایسے خیالات کی اشاعت ہو گی جن میں میانہ روی پائی جائے گی، جن میں امن پسندی پائی جائے گی، جن میں حکومت کے ساتھ تعاون پایا جائے گا۔ لیکن اگر وہ ''تسنیم'' خریدنا شروع کر دیں یا اور ایسے ہی اخبار خریدنے شروع کر دیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس روپیہ کے ساتھ گورنمنٹ کے خلاف مضمون لکھے جائیں گے، اسلامی جمہوریت کے خلاف مضمون لکھے جائیں گے، جماعت احمدیہ کے خلاف مضمون لکھے جائیں گے۔ تو کیا فائدہ ہے ایسے پرچہ کو روپیہ دینے کا جس کے ذریعہ سے ہمارا ملک کمزور ہو، ہماری حکومت کمزور ہو، ہم خود کمزور ہوں۔ یہ تو اوّل درجہ کی حماقت ہے۔ اگر کوئی احمدی ایسا کرتا ہے اور وہ کہتا ہے مجھے وہ پرچہ زیادہ دلچسپ نظر آتا ہے تو ہم بھی اُس کو یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہمیں بھی تمہاری حماقت بڑی دلچسپ نظر آتی ہے۔ تمہاری مثال بالکل وہی ہے جیسا کہ چیتا اپنی زبان چاٹ چاٹ کر کھا گیا تھا۔ تم زبان کے چسکے لیتے رہو اور اپنی موت کے وارنٹ پر دستخط کرتے رہو۔ تم اگر ایسے احمق ہو گئے ہو تو تمہاری نجات کا کون ذمہ دار ہو سکتا ہے تم تو اپنی ہلاکت کو آپ چاہتے ہو۔
المصلح خریدیں
پس جو دنیوی اخبار لینا چاہیں اور لازماً لینے پڑتے ہیں اس کے لئے میں دوستوں کو کہوں گا کہ جس علاقہ میں ''المصلح'' جاتا ہے وہ
''المصلح'' خریدیں۔مثلاً سندھ کا علاقہ ہے، اِسی طرح ملتان تک کا علاقہ ہے ان کو چاہیئے کہ اس کی خریداری کریں۔ وہ نہایت عمدگی سے خبریں دیتے ہیں۔ کبھی کبھی کمزوری بھی آ جاتی ہے کیونکہ وہ زیادہ منظم اخبار نہیں ہے۔ نہ اتنی طاقت والا ہے کہ اس کے بہت سارے ایڈیٹر ہوں۔ لیکن عام طور پر میں نے دیکھا ہے کہ وہ خبروں میں قریباً ادھر کے اخبارات کے برابر برابر پہنچ جاتا ہے اور کراچی اور حیدر آباد اور کوئٹہ وغیرہ میں تو یقیناً وہ ''سِول'' اور ''الفضل'' وغیرہ سے بہت پہلے خبریں دے گا۔ اِسی طرح ''سِول'' ہے ''ملت'' ہے ''لاہور'' ہے جو ہفتہ واری ہے۔ جنہوں نے ہفتہ واری خریدنا ہو وہ خواہ مخواہ ایسا پرچہ کیوں خریدیں جو حکومت اور ملت سے ٹکراتا ہو۔ ایسا پرچہ کیوں نہ خریدیں جو ملت سے بھی نہیں ٹکراتا، حکومت سے بھی نہیں ٹکراتا اور ہمارے ساتھ بھی نہیں ٹکراتا۔ اِسی طرح لاہور اور پنجاب میں ڈیلی پرچہ اگر کسی نے خریدنا ہی ہے تو کیوں نہ وہ ''سول'' اور ''ملت'' خریدے جس کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں۔
ہماری پالیسی
آخر ہماری پالیسی یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ اس کی بھی یہی پالیسی ہے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے ۔ ہماری
پالیسی یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے افتراق کو دور کیا جائے اور ان کو ٹکڑے ہونے سے روکا جائے ۔ یہی پالیسی ''ملت'' اور ''سِول'' کی بھی ہے۔ اگر وہ ہماری اس پالیسی کے ساتھ متفق ہیں۔ چاہے وہ ہماری جماعت کے نہیں، چاہے وہ ہمارے ساتھ اتفاق نہیں رکھتے لیکن اگر اُن کا زاویہ نگاہ ہمارے ساتھ اِس وقت متفق ہو گیا ہے (کل کو مخالف ہو جائیں گے تو پھر دیکھا جائے گا) تو ہم کیوں نہ دوسروں کے مقابل پر ان کو ترجیح دیں۔ میں سارے اخبار نہیں پڑھتا اَور بھی کئی اخبار ہوں گے جو کہ اِس طرح ہمارے ساتھ متفق ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شیعوں کے اخبار ہوں۔ میں نے ایک شیعہ کا اخبار ایک دو دفعہ پڑھا ہے وہ بھی بڑا معقول پالیسی کا تھا اور اُس میں بھی اتحاد اور اتفاق اور ملک میں امن قائم کرنے والے مضامین تھے۔ تو یہ مَیں مثالیں دیتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ تمہارے علم میں کوئی اَور اخبار ہو جو کہ ملک کے لئے مفید ہو، ہمارے لئے بھی مفید ہو مُضِر نہ ہو اور ہماری خواہ مخواہ مخالفت نہ کرتا ہو۔ پس ایسے اخباروں کو خریدو تا کہ روپیہ اُن لوگوں کی جیبوں میں جائے جو تمہارا گلا کاٹنے کی فکر میں نہ ہوں۔'' (الفضل 12جنوری 1955ء)
کوئی جماعت بغیر مرکز کے نہیں ہو سکتی
''ایک بات میں کل یہ کہنی چاہتا تھا کہ جماعت اَور باتوں
میں تو بڑی بڑی ہوشیاریاں دکھاتی ہے اور بڑی اپنی عقل مندی پر فخر کرتی ہے اور اپنے کام کو لوگوں کے سامنے پیش کرتی ہے لیکن کبھی جماعت نے یہ بھی غور کیا کہ جماعت کے معنی ہوتے ہیں مرکز کے۔ کوئی جماعت بغیر مرکز کے نہیں ہو سکتی۔ اور مرکز کے معنی ہوتے ہیں وہ کارکن جو اس کو چلا رہے ہیں۔ میں نے مدت سے آپ لوگوں کو توجہ دلائی ہے۔ کبھی آپ نے دیکھا بھی کہ آپ کا مرکز ہے کیا؟ مرکزِ جماعت دو حصوں میں تقسیم ہے۔
ظاہری اور قانونی طور پر ایک مذہبی حصہ ہے اس کا ہیڈ خلیفہ ہے۔ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ تم میں سے کسی کی رائے خلافت کے کام کے متعلق کیا ہو۔ پر یہ میں ضرور کہہ سکتا ہوں کہ میں اس کا دفاع کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔ اور دوسرا حصہ اس کا انتظامی ہے۔ اس کا تعلق صدر انجمن احمدیہ سے ہے اور وہ مجموعہ ہے کچھ ناظروں کا۔ اگر وہ ناظر کسی کام کے ہوں تو کام چلتا رہے گا۔ اگر وہ ناظر کسی کام کے نہ ہوں تو وہ کام خراب ہو جائے گا۔میں یہ غلطی دیکھتا ہوں جماعت میں کہ وہی پرانی پیرپرستی اب تک چلی آرہی ہے۔ ہم نے پیر پرستی کو دور بھی کیا، لوگوں کو آزاد بھی کیا مگر پھر بھی وہ ایسی حاوی ہے کہ وہ جو پیر پرست نہیں وہ اُن پر بھی حاوی ہے اور جو پیر پرست ہیں وہ ان پر بھی حاوی ہے۔ پیر پرستوں پر تو ایسی حاوی ہے کہ لوگ مجھے ملنے آتے ہیں، سلام کرتے ہیں تو کئی سامنے سر جھکا دیتے ہیں۔ وہ بیچارے تو سجدہ نہیں سمجھتے لیکن سر جھکا دیتے ہیں۔ اور پیرپرستی پیرپرستی کے مخالفوں پر بھی اتنی حاوی ہے کہ کئی لوگ آتے ہیں وہ بیچارے ہاتھ پکڑ کر اس کو چومنا چاہتے ہیں تو پاس بیٹھا ہؤا آدمی کہتا ہے نہیں نہیں سجدہ منع ہے۔ اُس کے دماغ پر پیر پرستی اِتنی حاوی ہوتی ہے کہ سجدہ ملاقات کرنے والے کے وہم میں بھی نہیں ہوتا اور یہ صاحب یونہی ہاتھ بڑھا کر کہتے ہیں کہ نہیں نہیں یہ منع ہے حالانکہ وہ ممنوع کام کر ہی نہیں رہا ہوتا۔
رسماً دعا کیلئے کہنا
اِسی طرح یہ عادت پڑ گئی ہے کہ جو شخص دوسرے کو ملتا ہے کہتا ہے جی دعا کریں اور درحقیقت اُس کے دل میں دعا کا جوش
اتنا ہوتا ہی نہیں نہ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ دعا کریں۔ یہ رواج اتنا ہو گیا ہے کہ کئی غیراحمدی جن کی کبھی میں نے شکل بھی نہیں دیکھی۔ فرض کرو وہ کبھی ملنے آئے اور بات شروع ہو گئی۔ انہوں نے کہا پہلے مَیں یہ ہوتا تھا۔ فرض کرو وہ ای۔اے ۔ سی تھا۔ جب وہ مجھے کبھی ملا تھا یا میں نے سنا تھا تو میں نے کہا سنا ہے آپ ڈپٹی کمشنر ہو گئے ہیں۔ کہیں گے ہاں آپ کی دعا کے طفیل ڈپٹی کمشنر ہو گئے ہیں۔ بندہ خدا! نہ تم نے میری شکل دیکھی، نہ میں نے تمہارا نام سنا، نہ میں نے کبھی تمہارے لئے دعا کی، میری دعا کے طفیل تم کہاں ڈپٹی کمشنر بن گئے۔ تو صرف عادت پڑی ہوئی ہے۔ کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا اور کہہ دیتے ہیں دعا کریں اور کہہ دیتے ہیں آپ کی دعا کے طفیل یہ ہؤا۔ حالانکہ نہ دعا اُس نے کروائی نہ اِس نے کی صرف ایسا کہنا ایک عادت ہے۔
تو عادت کے طور پر بعض خیالات لوگوں پر غالب آ جاتے ہیں اور وہ ان کے ماتحت چلتے ہیں۔ مثلاً کوئی بزرگ ہوں وہ کہیں گے سب کچھ تمہارے ہی اختیار میں ہے۔ کوئی معاملہ ہو احمدی میرے پاس آ جائیں گے اور مجھ سے وہ کام کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ مثلاً آئیں گے اور کہیں گے میرا لڑکا داخل ہونا ہے۔ میں جواب دوں گا کہ ہیڈماسٹر سے کہیں مگر وہ جھٹ بولیں گے نہیں جی آپ کے اختیار میں ہے۔ آپ نے ہی جو کرنا ہے کرنا ہے۔ گویا ہیڈ ماسٹر بھی مَیں ہوں۔ اِسی طرح کوئی کلرک ہے تو میرے پاس آ جاتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کیا ہے؟ کہتا ہے نظارت سے کہیں مجھے کلرک لے لیں۔ میں جواب دیتاہوں آپ انجمن سے کہیں وہ تمہارا انٹرویو کرے گی پھر وہ مختلف امیدواروں میں سے کسی کا انتخاب کرے گی۔ مگر اُس کا اصرار ہو گا کہ حضور! حکم دے دیں سب کچھ آپ کا ہے۔ انجمن کے ساتھ کوئی مالی جھگڑا ہو تو اُن کو میں کہتا ہوں جاؤ ناظروں سے فیصلہ کرو۔ کہیں گے نہیں جی سب چیز آپ کے ہاتھ میں ہے ناظروں کا کیا تعلق ہے۔ غرض وہ سارے کے سارے کاموں میں مجھے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ گویا قادر الکُل ہے۔ شاید خدا تعالیٰ کو بھی اتنا قادر نہیں سمجھتے جتنا وہ مجھے سمجھتے ہیں اور یہ ہٹ آج تک قائم ہے۔ کہہ کہہ کر تھک گئے۔ میاں یہ معاملات جن کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اُسی سے جا کر کہو لیکن وہ بھی کہیں گے کہ خلیفہ ہی سب کچھ کرے اور پھر یہ مرض بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پہلے تویہ کہتے تھے کہ بچوں کا نام خلیفہ سے رکھوانا ہے۔ ہم ان کے بھرّے2 میں آ گئے اور نام رکھنے شروع کر دیئے۔ پھر انہوں نے آگے قدم اٹھایا اور اذان دلوانے، نکاح پڑھوانے، بسم اللہ کروانے کی خواہش کی۔ کوئی ایک دو ہوں تو انسان یہ کام کرے درجنوں اور سینکڑوں کی اِس خواہش کو کس طرح پورا کرے۔ اِس کے بعد اَور ترقی ہوئی تو یہ درخواست شروع ہوئی کہ مکان کا نام رکھ دیں، دکان کا نام رکھ دیں۔ پھر اس سے ترقی کی اور سکول کالج والوں نے ہر کھیل میں شمولیت کی درخواست شروع کر دی کہ برکت ہو گی۔ ہر دعوتِ ولیمہ اور دعوتِ خوشی میں مدعو کرنا شروع کر دیا۔ کوئی نہیں سوچتا کہ ایک خلیفہ تو یہ سارے کام بھی نہیں کر سکتا۔ سلسلہ کے متعلق کام تو الگ رہے، تصانیف اور دفتری کام تو الگ رہے مگر کہتے چلے جاؤ کوئی اِس بات کو نہیں مانتا۔ یہ عادت دور ہونی چاہئے۔ آپ لوگوں کو اپنے دماغوں کی تربیت کرنی چاہیئے۔ ایک آدمی ایک آدمی کا ہی کام کر سکتا ہے۔ یہ بے شک ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی میں کام کی قابلیت دوسروں سے زیادہ ہو۔ تم اس سے یہ امید تو کر سکتے ہو کہ وہ عام آدمی سے زیادہ کام کر سکتا ہے مگر یہ نہیں کہ ایک آدمی سے انسانی طاقت سے زیادہ کام کی امید کرو۔ اِس سے زیادہ اگر آپ لوگ امید کریں گے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ یا آپ کو ٹھوکر لگے گی یا وہ مرے گا۔ جس کے سر پر اتنا بوجھ ڈالو گے جس کو وہ اٹھا نہیں سکتا وہ آخر ختم ہو جائے گا اور یا یہ ہے کہ آپ کو ٹھوکر لگے گی۔ ہر شخص اگر آ کر بیٹھ جائے کہ یہ میرا کام ہو جائے، یہ میرا کام ہو جائے تو نتیجہ اِس کا یہی نکلے گا کہ وہ ایک دن گرے گا اور ختم ہو جائے گا۔ تو یہ امید مت کریں کہ آپ کے دنیوی انتظام بھی خلیفہ کرے اور آپ کے دینی انتظام بھی خلیفہ کرے۔ دنیوی کاموں کے لئے آپ کو بہرحال انجمن پر انحصار کرنا پڑے گا۔ یہ بے شک ٹھیک ہے کہ وہ خلیفہ کے تابع ہیں۔
جب لوگوں نے اعتراض کیا ہم نے کہا نہیں انجمن خلیفہ کے تابع ہے پس یہ ٹھیک ہے کہ وہ خلیفہ کے تابع ہیں لیکن اِس لحاظ سے وہ تابع ہیں کہ آپ لوگ جو چندہ دیتے ہیں میرے مرید ہیں۔ ورنہ مَیں انجمن کا ممبر نہیں۔ مجھے انجمن پر قانونی کوئی اختیار نہیں۔ پر مجھ سے ڈر کر اگر انجمن میری بات مانتی ہے تو باپ کی بیٹے مانا ہی کرتے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر اُنہوں نے میری بات نہ مانی (یعنی مَیں جب دخل دوں اور وہ نہ مانیں) تو میں اپنے مریدوں سے کہوں گا کہ ان کو چندہ نہ دو۔ دیکھو تو اُسی دن انجمن سیدھی ہو جاتی ہے کہ نہیں۔ لیکن جہاں تک انتظام اور قانون کا سوال ہے میرا کوئی دخل نہیں۔ وہ انہی کو کرنا پڑے گا۔ اور یہ جو بات ہے کہ میں کہوں چندہ روک دو یہ تو کسی اہم بات پر کروں گا۔ یہ تو نہیں کہ فلاں کلرک کی ترقی نہیں کی چندہ روک دو۔ لوگ مجھے کیا سمجھیں گے۔ آخر وہ ایسا ہی کام ہو گا جس کو میں دنیا کے سامنے دھڑلّے سے پیش کر سکوں کہ یہ اسلام کو تباہ کرنے لگے تھے اس لئے میں نے روک دیا۔ ورنہ اگر لوگوں کو یہ نظر آئے گا کہ نہایت ہی ذلیل اور حقیر بات کے اوپر میں نے اُنہیں دھمکی دی ہے اور میں نے ان کو کہا ہے کہ مَیں اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ چندہ نہ دو تو سارے مجھے بےوقوف سمجھیں گے اور ان کے ساتھ ہمدردی کریں گے۔
قانونی سوال
تو جہاں تک قانونی سوال ہے اور جہاں تک دنیوی اختیارات کا سوال ہے انجمن نے کام کرنا ہے۔ اگر انجمن صحیح ہاتھوں میں نہیں ہو گی تو
آپ کا کام یقیناً خراب ہو گا۔ لیکن اِس وقت انجمن کے عہدے دیکھو۔ ناظر اعلیٰ، پنشنر۔ ناظر امورعامہ، پنشنر ۔ناظر تعلیم ، پنشنر ۔ناظر دعوۃ و تبلیغ، پنشنر ۔ ناظر بیت المال، پنشنر ۔ ناظر امور خارجہ، پنشنر ۔
یہ تمہارے چھ عہدے ہیں اور چھ پر ہی پنشنر ہیں۔ ایک عہدے کو تو ابھی انہوں نے تنگ آ کر چھوڑا ہے۔ خانصاحب یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کام کرنے کا ان کے اندر جوش تھا۔ فالج ان کی ایک سائیڈ پر گرا ہؤا ہے۔ اب دوسرے ہاتھ پر بھی ہؤا ہے دو آدمیوں کے سہارے اُن کو پکڑے پکڑے کرسی پر آ کر بیٹھتے تھے اور اِسی طرح جاتے تھے۔ بھلا اِس طرح کوئی کام ہو سکتا ہے؟ مجھ سے ملنے آتے تھے تو ان کی اس تکلیف کو دیکھ کر مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تھی اور میں ہمیشہ انہیں کہتا کہ آپ نیچے آکر اطلاع دے دیا کریں بلکہ بہتر ہے اپنے نائب کو میرے پاس بھیج دیا کریں مگر وہ اپنے شوق میں آجاتے تھے۔ لیکن مجھے ان سے بات کرنا ایک مصیبت معلوم ہوتا تھا۔ دل میں خیال آتا تھا کہ کتنی تکلیف اٹھا کر یہ کام کرتے ہیں۔ تم کہو گے کیوں رکھا ہؤا ہے ایسے آدمی کو؟ میں پوچھوں گا کہ کون سے آدمی تم نے مجھے دیئے ہیں کہ میں اُن کو رکھتا؟ آخر یہ تو نہیں کہ میں نے مٹی سے آدمی بنانے ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کی طرح ان کے ناک میں پھونکنا ہے تو وہ زندہ ہو کر آدمی بن جائیں گے۔ بہرحال عیسیٰ علیہ السلام خدا کے نبی تھے۔ ان کے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے کہ چمگادڑ بناتے تھے۔ تو چمگادڑوں نے تو نظارتیں کرنی نہیں۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام والی خیالی اور وہمی طاقت بھی مجھے مل جائے تو میں چمگادڑ ہی بناؤں گا آدمی نہیں بناؤں گا اور چمگادڑوں نے تمہارا کیا کام کرنا ہے۔ آدمی تو تم ہی نے دینے ہیں لیکن یہاں تو یہ حالت ہے کہ
ہر کسے در کارِ خود بادینِ احمد کارنیست
ہرشخص یہی کہتا ہے کہ میں باہر جاؤں گا اور ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ شاید اگلا پرائم منسٹر مَیں نے ہی یہاں ہونا ہے یا اگلا گورنر جنرل میں نے ہی ہونا ہے۔ یا شاید بعض لوگ دل میں یہ غصہ رکھتے ہوں کہ ہمارے گورنر جنرل استعفیٰ کیوں نہیں دیتے تا کہ میرا موقع آئے، ہمارا پرائم منسٹر الگ کیوں نہیں ہوتا کہ کبھی آگے آؤں۔ چاہے وہ ساری عمر ہیڈکلرک بننے کے بھی قابل نہ رہا ہو لیکن امید یہی وہ کرتا ہے کہ میں ملک کا وزیر اعظم بنوں گا اور میں ملک کا گورنر جنرل بنوں گا اور میں کمانڈر اِنچیف بنوں گا۔ اور اگر میں یہاں گیا تو زیادہ سے زیادہ مجھے تین چار سو مل جائے گا یہ کون سی بات ہے۔ اور اگر اس طرح نوجوان پیچھے ہٹیں گے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ کبھی تمہاری جماعت کی تنظیم ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ بڈھے کب تک کام چلائیں گے۔ پھر اگر بڈھوں نے ہی آنا ہے تو یہ بڈھے جائیں گے تو ایک اَور بڈھا آ جائے گا۔ ممکن ہے ساٹھ سال والے کو ہم نکالیں تو چھیاسٹھ سال والا آ جائے۔ چھیاسٹھ والا نکالیں تو ستّر والا آ جائے۔ ستّر والا نکالیں تو اسّی والا آ جائے۔ پھر یہ ہو کہ روزانہ بازار میں اعلان کیا جاتا ہے کہ ناظر صاحب نے دفتر جانا ہے ذرا چار آدمی چارپائی اٹھانے کے لئے چاہئیں۔ انہوں نے دفتر جا کر کام کرنا ہے۔ جب تک نوجوان آگے نہیں آئیں گے یہ کام کس طرح ہو گا۔ یہی حال وکالتوں کا ہے۔ وکالتوں میں ذرا حالت نسبتاً اچھی ہے۔ وکیل الاعلیٰ پنشنر ہیں۔ وکیل المال بھی پنشنر ہیں لیکن باقی وکالتیں نوجوانوں کے ہاتھ میں ہیں۔ لیکن اب وہاں بھی دقّت ہو رہی ہے کہ وقف کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ جلسہ پر بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ یہ تو حضور ہی کا بچہ ہے ہم نے وقف کیا ہے۔ مگر میں کیا خوش ہوتا جتنے وقف شدہ بچے میرے سامنے پیش ہوئے چار چار سال کے تھے۔ توکون پچیس سال تک زندہ رہے اور ان کا انتظار کرے کہ یہ آ کر کام سنبھالیں گے۔ پچیس سال کے بعد تو وہ کام کے قابل ہوں گے پھر کم سے کم بیس سال ان کو تجربہ کے لئے چاہییں۔ آدمی پنتالیس سال میں ہی جا کر مکمل بن سکتا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے۔
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
ان لوگوں کے وکیل بننے کے قابل ہو نے تک کس نے زندہ رہنا ہے اور کس نے اِن کا کام دیکھنا ہے۔ تو جماعت کو چاہیئے کہ اِس طرف توجہ کرے۔ ایک تو یہ کہ وہ اپنے اندر احساس پیدا کرے۔ اب تک کبھی جماعت نے احساس نہیں کیا کہ آخر ہم اتنا روپیہ جو خرچ کرتے ہیں ان سے پوچھیں تو سہی کہ یہ کام کیا کرتے ہیں۔ کام سوائے خط و کتابت کے اور کوئی نہیں ہوتا۔ ابھی میں نے اختر صاحب کو رکھا ہے ایک نیا نام ان کے لئے تجویز کیا گیا ہے۔ دیکھئے وہ بیل منڈھے چڑھتی ہے کہ نہیں۔ ناظر الدیوان ان کا عُہدہ مقرر کیا گیا ہے یعنی وہ ناظروں کے کام کو چیک کریں گے۔ ان کو میں نے کہا ذرا معائنہ کرو اور دیکھو کہ نظارت امور عامہ کیوں بنائی گئی تھی؟ اور آیا جس غرض کے لئے امور عامہ کی نظارت بنائی گئی تھی اس کا کوئی کام انہوں نے کیا؟ نظارت اعلیٰ کیوں بنائی گئی تھی؟
نظارت اعلیٰ کے فرائض میں سے ہے کہ ساری نظارتوں کو چیک کرے اور ہر تیسرے مہینے ہر نظارت کا وہ معائنہ کرے۔ لیکن واقع یہ ہے ہر تیسرے مہینے چیک کرنا تو بڑی بات ہے ہر سال میں بھی اگر ثابت ہو جائے، ہر دو سال کے بعد بھی ثابت ہو جائے، ہر پانچ سال کے بعد بھی ثابت ہو جائے، ہر دس سال کے بعد بھی ثابت ہو جائے تو سجدۂ شکر بجالاؤ۔ کیونکہ میرا علم یہ ہے کہ پچھلے چالیس سال میں انہوں نے کبھی کوئی معائنہ نہیں کیا۔ جہاں افسروں کا یہ حال ہو کہ وہ معائنہ ہی نہیں کرتے اپنے ماتحت دفتروں کا، تو ماتحت دفتر کہہ دیتے ہیں ''تور اشنان سو موراشنان''۔ وہ اگلے کو کہہ دیتا ہے۔ ''تور اشنان سو موراشنان''۔ آخر ہوتے ہوتے کلرکوں تک بات آ جاتی ہے۔ باقی سارے کے سارے افیون کھا کر سوتے ہیں اور تم بڑے خوش ہو کہ ہم نے خلیفہ جو مان لیا ہے۔ بس جو خلیفہ مان لیا اب وہی کرے۔
خلیفہ انسان ہے آخر کیا چیز ہے۔ کون سی صورت ہے اس کے لئے کہ وہ ہر ایک معاملہ میں دخل دے اور ہر ایک معاملہ میں سوچے۔ پھر دوسرے یہ کہ اس کا دخل دینا مناسب بھی نہیں۔ ہر دنیوی کام میں اگر وہ دخل دینے لگ جائے تو پھر قوم میں جو تربیت اور تنظیم پیدا ہو تی ہے وہ ختم ہو جائے۔ کیونکہ ہم یہ تو امید نہیں کر سکتے ہیں کہ ہمیشہ ہی تم کو ایسے خلفاء ملتے رہیں گے جو تنظیمی قابلیت بھی اپنے اندر رکھتے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک وقت میں محض مذہبی حیثیت کا آدمی تمہیں مل جائے کیونکہ یہی اُس کا اصل کام ہے تو پھر اگر تم نے ایک عہدہ دار پر انحصار رکھنا ہے اور عہدہ دار بھی ایسا جس کو ہٹانے کا بھی تم کو اختیار نہیں تو پھر تو تمہارا بیڑا غرق ہؤا کیونکہ ایسے آدمی پر تم نے کام کا انحصار رکھا جس کو تم ہٹا سکتے نہیں اور یہ کام اس کا ہے نہیں اور سمجھ تم یہ رہے ہو کہ وہ کرے اور وہ کر سکتا نہیں۔ تو پھر اس سے زیادہ تمہاری تباہی کی یقینی خبر اور کیا ہو گی۔ پس نوجوانوں کو چاہیئے کہ وہ ادھر آنے کی کوشش کریں اور کم سے کم جب تک نئے نہ آئیں اُس وقت تک پنشنر ہی آتے رہیں۔ پچپن سال پر پنشن مل جاتی ہے اور چا ر پانچ سال سلسلہ کی خدمت کر لیں۔
ایک بات مَیں بھول گیا تھا۔ وہ اختر صاحب نے شکر ہے یاد دلا دی۔ یہ بات میں نے اُن کے ذمہ لگائی تھی اور اُن کو کہا تھا کہ تقریرکے وقت یاد دلا دیں۔ شکر ہے انہوں نے تقریر ختم ہونے سے پہلے یاد دلا دیا۔ انہوں نے جب سنا کہ مَیں ناظر الدیوان ہوں تو انہوں نے خیال کیا کہ یہ کام مجھے کر دینا چاہیئے۔ میں نے پچھلے سال تحریک کی تھی کہ لوگ اپنی زائد آمد پیدا کر کے سلسلہ کے لئے دیں تا کہ ان پر بھی بوجھ نہ ہو اور سلسلہ کی مشکلات جو تبلیغِ اسلام کی ہیں وہ دور ہوں اور ان میں امداد ملے۔ ایک دوست عبد العزیز صاحب مغل پورہ گنج کے ہیں۔ انہوں نے تیس روپے کل مجھے دیئے ہیں اور کہا ہے کہ یہ میں نے آپ کے اُس کہنے کے مطابق زائد کام کر کے آمد پیدا کی ہے جو میں چندہ کے طور پر پیش کرتا ہوں۔
ایک اور دوست نے اسی طرح کہا ہے کہ آپ نے زائد کام کر کے آمد پیدا کرنے کے لئے کہا تھا۔ میں نے اس کے لئے زائد کام کیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے 95 روپے ملے ہیں۔ وہ 95 روپے مَیں سلسلہ کی خدمت کے لئے اور اس کی اشاعت کے لئے پیش کرتا ہوں۔ میں نے چونکہ خواب میں دیکھا تھا کہ میں آپ کو خود دے رہا ہوں اس لئے میں یہ رقم پیش کرتا ہوں۔ محمد خان ولد چودھری نواب خان صاحب منصور آباد ضلع تھرپاکر۔
جلسہ میں کوئی چالیس ہزار آدمی بیٹھا تھا۔ اس میں سے چلو دو کو تو توفیق مل گئی ممکن ہے بعض اور نے بھی روپے بھیجے ہوں لیکن مشکل یہ ہے کہ میں زیادہ ملامت بھی نہیں کر سکتا۔ میں سارا سال یہی سوچتا رہا ہوں لیکن مجھے کوئی زائد کام کرنا سمجھ میں نہیں آیا۔ کئی کئی طریق سوچے۔ کبھی یہ سوچا کہ کوئی دوائی اپنے ہاتھ سے کوٹ کاٹ کے بنائیں اور اس کا اشتہار دے دیں۔ کبھی کوئی اَور تجویز سوچی بہرحال اب تک کسی چیز پر تسلی نہیں ہوئی مگر میں ابھی سوچ رہا ہوں کہ کوئی نہ کوئی کام ایسا کروں جس سے زائد آمد پیدا ہو۔
اب میں حسبِ دستور سابق ایک علمی مضمون جس کو پہلے سے میں نے شروع کیا ہؤا ہے اُس کا ایک حصہ آج بیان کرتا ہوں۔ یہ میرا ‘‘سیرِ روحانی’’ کا مضمون ہے۔ اس کے تین لیکچر شائع ہو گئے ہیں اور آپ لوگوں میں سے بعض نے وہ کتاب خریدی ہو گی اور دیکھ لی ہو گی۔ دوسری جلد اس کی انشاء اللہ اگلے سال میں شائع ہو جائے گی۔ ہاں یہ بھی میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ قرآن شریف کی انگریزی تفسیر کا اگلا حصہ چَھپ رہا ہے۔ اس کا خلاصہ مضمون نکال کر میں ان کو ترجمہ کرنے کے لئے دے رہا ہوں۔ اور غالباً اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے گا تو میں اگلے سال کے شروع میں اس کو ختم کردوں گا پھر وہ میرے پہلے نوٹ نکال کر نوٹ لکھ دیں گے اور اگلے سال انشاء اللہ تعالیٰ تیسری جلد اس کی شائع ہو جائے گی۔اردو کی جلد بھی جو آخری سپارہ کی باقی ہے انشاء اللہ تعالیٰ شروع سال میں شائع ہو جائے گی''۔ (الفضل 16جنوری 1955ء )
عالَمِ روحانی کے دفاتر
''1938ء کے سفرِ حیدر آباد اور دہلی میں مَیں نے جو تاریخی مقامات دیکھے اُن میں مسلمان بادشاہوں کے دفاتربھی شامل تھے مجھے بعض عمارتیں دکھائی گئیں اور کہا گیا کہ یہ قلعہ کے شاہی دفاتر ہیں۔
دُنیوی دفاتر کا نظام اور اُس کی غرض و غایت
اِن دفاتر پر ایک سیکرٹری اوروزیر مقرر
ہوتا تھا۔ باہر کے تمام صوبیدار اور ان کے ماتحت افسر اور قاضی وغیرہ بادشاہ کے پاس اپنی رپورٹیں بھجواتے تھے اور اس دفتر میں اُن کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ بادشاہ کو جب ضرورت پیش آتی تھی وہ ریکارڈ اُس کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور وہ اُن سے فائدہ اُٹھاکر اپنے احکام جاری کرتا تھا۔ مثلاً جس قدر بڑے بڑے چور، ڈاکو اور فریبی تھے اُن کے متعلق ڈائریاں جاتی تھیں کہ فلاں شخص مشہور چور ہے، فلاں شخص مشہور ڈاکو ہے، فلاں شخص مشہورمُفسد ہے، فلاں شخص بڑاخائن ہے، فلاں شخص بڑا جعلساز ہے، اور جب اُن کو پکڑا جاتا تھا تو اُن ڈائریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بادشاہ اُن کے متعلق کوئی فیصلہ کرتا تھا اور وہ ڈائریاں وہاں ریکارڈ کے طور پر رکھی جاتی تھیں۔
اِسی طرح جب وہاں سے نیچے احکام جاری ہوتے تھے کہ مثلاً فلاں ڈاکو کی مزید نگرانی کرو اور اُس کے متعلق مزید ثبوت بہم پہنچاؤ یا اُس کو فلاں سزا دے دو یا کسی کے اچھے کام کی ڈائری آئی تو حُکم گیا کہ اس کی حوصلہ افزائی کرو یا اس کو فلاں انعام دے دو تو یہ ریکارڈ بھی وہاں رکھے جاتے تھے اور ان میں یہ درج کیا جاتا تھا کہ فلاں فلاں کے نام یہ حکم نافذ کیا گیا ہے۔
رعایا کی سزاؤں اور ترقیات کے احکام کا اندراج
غرض ان دفاتر میں لوگوں کے
اعمالنامے ہوتے تھے اِن اعمالناموں پر بادشاہ جو کارروائی کرتا تھا وہ ریکارڈ ہوتی تھی، جو سزائیں دیتا تھا اُن کے احکام درج ہوتے تھے۔ اِسی طرح جو سزاؤں کی تجویز نچلے افسر کرتے تھے وہ درج ہوتی تھی اور جو انعامات کی سفارشیں نیچے سے آتی تھیں وہ ریکارڈ ہوتی تھیں۔ پھر اُن سفارشات کے مطابق بادشاہ کے جو احکام جاری ہوتے تھے کہ مثلاً اس کو بیس ایکڑ زمین دے دو، اس کو ایک گاؤں دے دو، اس کو دس گاؤں دے دو، یہ سارے احکام اس میں درج ہوتے تھے۔
اِسی طرح جو ترقیات کے احکام جاتے تھے یا خطابوں کے احکام جاتے تھے کہ اِس کو فلاں خطاب دیا جاتا ہے، اُس کو فلاں خطاب دیا جاتا ہے وہ ان دفاتر میں لکھے جاتے تھے۔
غرض مُجرموں کی ڈائریاں اور مخلصوں کے کارنامے یہ سارے کے سارے وہاں جمع ہوتے تھے اورجب کسی شخص کو سزا دینے کا سوال پیداہوتا تھا تو اس کے پچھلے اعمالنامے دیکھ لئے جاتے تھے کہ یہ کس سزا کا مستحق ہے۔ بعض دفعہ فعل ایک ہی ہوتا ہے لیکن ایک شخص اس کام کا عادی ہوتا ہے اور دوسرے شخص سے اتفاقی طور پر وہ فعل سرزد ہو جاتا ہے۔ جس سے اتفاقی حادثہ ہو جاتا ہے اس کو تو تھوڑی سزا دی جاتی ہے اور جو عادی مجرم ہوتا ہے اُس کو اس کے پچھلے جرائم کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ سزا دی جاتی ہے۔
دُنیوی حکومتوں میں مجرموں
کے لئے گریز کی متعدد راہیں
مگر مَیں نے دیکھا کہ یہ دفاتر جوبادشاہوں نے بنائے تھے اِن میں گریز کی بھی بڑی بڑی راہیں تھیں۔ اوّل تو یہ لوگ چوری چُھپے
کام کرتے تھے مثلاً ایک شخص قتل کرتا تھا یا چوری کرتا تھا اور ظاہر میں وہ بڑا شریف آدمی نظر آتا تھا۔ اب جو ڈائری نویس تھا اُس کو اِس کے حالات معلوم ہونے بڑے مشکل تھے پس اخفاء سے کام لینے کی وجہ سے وہ اپنے جرائم پر پردہ ڈال دیتا تھا۔ اِسی طرح میں نے دیکھا کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ بات تو اُن کی ظاہر ہو گئی لیکن مبالغہ کے ساتھ ظاہر ہوئی۔ انہوں نے مکھی ماری اور بن گیا کہ ہاتھی مارا ہے۔ اور پھر وہی رپورٹ اوپر چلی گئی کہ فلاں شخص سے یہ یہ جرائم ہوئے ہیں۔ اور بعض لوگوں کو مَیں نے دیکھا کہ وہ رشوتیں دے کر اچھے اچھے کام لکھوا دیتے تھے کہ ہم نے فلاں کام کیا ہے، فلاں کام کیا ہے لیکن اُن کے اِن کاموں کی کوئی خاص قدر نہیں ہوتی تھی۔ سوائے اِس کے کہ بادشاہ کے دربار میں بڑی شُہرت ہوتی تھی کہ اس نے فلاں کام کیا ہے۔
عالَمِ روحانی کے ڈائری نویس
اور ان کا اعلیٰ درجہ کا نظام
اس کے مقابل پر مَیں نے قرآنی دفتردیکھا تو اس میں مَیں نے یہ پایا کہ تھا تو وہ بھی اِسی شکل میں منظّم لیکن وہ ایسی صورت میں تھا
کہ اُس میں کسی قسم کی بناوٹ یا کسی قسم کی غلط فہمی یا کسی قسم کا دھوکا یا کسی قسم کی سازش نہیں ہو سکتی تھی۔ چنانچہ قرآنی دفتر میں بھی مَیں نے دیکھا کہ وہاں ڈائریوں کا انتظام ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی تھا کہ وہاں جھوٹ کی آلائش بالکل نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ قرآن کریم میں لکھا ہؤا تھا وَ اِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ۔كِرَامًا كَاتِبِيْنَ۔ يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ۔3 یعنی تم پر ہماری طرف سے ڈائری نویس مقرر ہیں لیکن وہ ڈائری نویس حافظؔ ہیں۔ یعنی ان کا یہی کام نہیں کہ تمہارے جرائم لکھیں بلکہ یہ کام بھی اُن کے سپرد کیا گیا ہے کہ تمہیں جرائم کرنے سے روکیں۔ اُن کا یہی کام نہیں کہ تمہارے اچھے کاموں کا ریکارڈ کریں بلکہ یہ بھی کام ہے کہ تمہیں اچھے کاموں میں زیادہ کامیاب ہونے میں مدد دیں۔ كِرَامًا اور پھر یہ ڈائری نویس جو ہم نے مقرر کئے ہیں بڑے اعلیٰ درجہ کے اور اعلیٰ پایہ کے لوگ ہیں جو ہر قسم کی رشوت خوری سے بالا ہیں، سازش سے بالا ہیں، جھوٹ سے بالا ہیں، کَاتِبِیْنَ اور بڑے محتاط ہیں۔ وہ یہ نہیں کرتے کہ اپنے حافظہ میں بات رکھیں بلکہ جیسے آجکل سٹینو ہوتا ہے وہ سٹینو کی طرح ساتھ ساتھ لکھتے چلے جاتے ہیں اور اِس لکھنے کی وجہ سے اُن کی بات میں غلطی کا امکان نہیں ہوتا۔ يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اُس کو وہ جانتے بھی ہیں۔
دُنیوی اور روحانی ڈائری نویسوں میں امتیاز
غرض قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہمارے سلسلہء روحانیہ
میں بھی ڈائری نویس ہیں لیکن وہ عام ڈائری نویسوں کی طرح جیسا کہ دنیوی حکومتوں میں ہوتا ہے غریب نہیں ہوتے، چھوٹی تنخواہوں والے نہیں ہوتے کہ اُن کو رشوت خوری کی ضرورت ہو بلکہ اعلیٰ پایہ کے لوگ ہوتے ہیں وہ اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کو نہ کوئی خوشامد سے منا سکتا ہے، نہ رشوت دے سکتا ہے، نہ کسی کی کوئی دشمنی اس بات کا موجب ہو سکتی ہے کہ وہ غلط رپورٹ کریں بلکہ اُن کی ہر ایک رپورٹ اور ہر ایک کام سچ کے ساتھ ہوتا ہے اور باوجود اِس کے کہ وہ بڑے دیانتدار ہیں، بڑے سچّے ہیں، بڑے راستباز ہیں، وہ اتنے محتاط ہیں کہ صرف اپنے حافظہ پر بات نہیں رکھتے جو بڑا مکمل حافظہ ہے بلکہ وہ ساتھ ساتھ لکھتے بھی چلے جاتے ہیں گویا اس احتیاط کو وہ دوگنی کر لیتے ہیں۔
دنیا میں ڈائریاں لکھنے کا غلط طریق
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیوی ڈائری نویس کئی قسم کی غلطیاں کر
جاتے ہیں کیونکہ وہ ہر وقت ساتھ نہیں رہتے۔ مثلاً تمام گورنمنٹیں پولیس مقرر کرتی ہیں مگر جتنی بڑی سے بڑی منظم گورنمنٹیں ہیں وہ اتنے ڈائری نویس مقرر نہیں کر سکتیں کہ ہر آدمی کے ساتھ ساتھ ڈائری نویس پھرے۔ اگر ملک کے سپاہیوں کی تعداد دیکھی جائے اور ادھر آدمیوں کی تعداد دیکھی جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ اگر ایک کروڑ آدمی ہے تو شاید پولیس تین چار ہزار ہو اور وہ تین چار ہزار بھی سارے ڈائری نویس ہی نہیں ہونگے بلکہ اُن میں سے اکثر وہ ہونگے جن کا کوئی اَور کام مقرر ہوگا۔ مثلاً یہ کہ رستوں کی حفاظت کرنی ہے یا انہیں کسی جگہ پر ریزرو رکھا ہؤا ہوگا۔ کوئی جھگڑا یا فساد ہؤا تو وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ سٹینو اور ڈائریاں لکھنے والے میرے خیال میں سارے صوبہ میں جس کی دوتین کروڑ آبادی ہو دو تین سَو ہی نکلیں گے۔ اب اگر دو تین کروڑ کی آبادی میں ایک کروڑ پر سَو آدمی ہے۔ یا فرض کر لو ایک کروڑ پر ہزار بھی آدمی ہے تب بھی دس ہزار آدمیوں پر ایک ہؤا۔ اور دس ہزار آدمی پر جو ایک شخص مقرر ہے وہ ہر ایک کا نامۂ اعمال نہیں لکھ سکتا نہ وہ ہر ایک آدمی کے عمل کی تحقیقات کر سکتا ہے۔ لازمی بات ہے کہ کچھ لوگ تو یونہی ان کی نظروں سے چُھپ جائیں گے اور جو لوگ اُن کی نظروں کے نیچے آئیں گے اُن سب کے متعلق بھی وہ صحیح تحقیقات نہیں کر سکتے۔ کچھ کے متعلق تو وہ صحیح تحقیقات کریں گے اور کچھ کے متعلق وہ سُنی سُنائی باتوں پر ہی کفایت کر لیں گے۔ اعتبار ہوگا کہ فلاں آدمی بڑا سچا ہے، اُس نے کہا ہے تو ٹھیک ہی بات ہوگی اس لئے وہ مجبور ہوتے ہیں کہ جو بات اُن تک پہنچے اُس پر اعتبار کر لیں۔
مختلف حکومتوں کا طریقِ کار
دنیا کی تمام گورنمنٹوں میں امریکہ میں بھی، انگلینڈ میں بھی، یورپ میں بھی، ایشیا میں بھی
غرض سارے ملکوں میں دیکھاجاتا ہے اُن کی کتابوں کو ہم پڑھتے ہیں تو اُن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا عام قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ کسی گاؤں میں گئے اور پوچھا کہ یہاں کون کون آدمی رہتے ہیں؟ کوئی نمبردار مل گیا تو اُس سے پوچھا کہ یہاں کونسا اچھا آدمی ہے کونسا بُرا ہے اور اُس کی کیا شُہرت ہے؟ اب ممکن ہے وہ شخص چند آدمیوں کا دشمن ہو اور ممکن ہے کہ چند آدمیوں کا دوست ہو۔ ہم نے دیکھا ہے ایک آدمی سے پوچھو تو وہ کچھ آدمیوں کی تعریف کر دیتا ہے اور دوسرے آدمیوں سے پوچھو تو وہ اُن کی مذمت کر دیتے ہیں۔ غرض اِس طرح کی باتیں سُن کر لازماً وہ مجبور ہوتا ہے کہ اُن باتوں کو لے اور دوسروں کو پہنچا دے۔ اِسی طرح ہم نے دیکھا ہے بعض دفعہ عورتوں سے پوچھ لیتے ہیں، ملازموں سے پوچھ لیتے ہیں، ہمسایوں سے پوچھ لیتے ہیں اور اس طرح اپنی ڈائری مکمل کرلیتے ہیں۔ اس میں بہت سی باتیں سچی بھی ہوتی ہیں اور بہت سی باتیں غلط بھی ہوتی ہیں۔
روحانی ڈائری نویس يَعْلَمُوْنَ مَاتَفْعَلُوْنَ کا مصداق ہوتے ہیں!
لیکن اللہ تعالیٰ فرماتاہے يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ہم نے جو یہ ڈائری نویس مقرر کئے ہیں یہ کسی سے پوچھ کر نہیں لکھتے بلکہ
يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ جو کچھ تم کرتے ہو وہاں تک اُن کو اپروچ (APPROACH)حاصل ہے اُن کو پہنچ حاصل ہے اور تم جو بھی کام کرتے ہو اُن کی نظر کے نیچے ہوتا ہے۔ پس وہ اپنی دیکھی ہوئی بات لکھتے ہیں کسی سے پوچھ کر نہیں لکھتے۔ اس لئے نہ تو لالچ کی وجہ سے کوئی نوکرجھوٹ بول سکتا ہے، نہ بیوقوفی کی وجہ سے کوئی بچہ غلط خبر دے سکتا ہے، نہ دشمنی کی وجہ سے کوئی ہمسایہ فریب کر سکتا ہے اُن کی اپنی دیکھی ہوئی بات ہوتی ہے جو صحیح ہوتی ہے۔
ایک عرائض نویس کا لطیفہ
ہم نے دیکھا ہے دُنیوی ڈائریوں میں بعض دفعہ ایسی ایسی غلطی ہو جاتی ہے کہ لطیفے بن جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے گورداسپور میں ایک صاحب عرائض نویس ہؤا کرتے تھے۔ مَیں بھی اُن سے ملا ہوں۔ اُن کے اندر یہ عادت تھی کہ جب کوئی شخص اُن سے ملتا اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ کر مصافحہ کرتا تو وہ اُس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور بجائے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنے کے ایڑی پر کھڑے ہو کر اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ کہنا شروع کر دیتے۔ یوں آدمی نمازی اور دیندار تھے۔ ان کے متعلق یہ لطیفہ مشہور ہؤا کہ ایک دفعہ اتفاقاً ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے کچھ مسلیں غائب ہو گئیں۔ کوئی صاحبِ غرض ہوگا یا کوئی شرارتی ہوگا یا کسی نے افسر کو دُکھ پہنچانا ہوگا اب تحقیقات کے لئے پولیس کو مقرر کیا گیا کہ پتہ لو مسلیں کہاں گئیں؟ انہوں نے تحقیقات کر کے خبر دی کہ ہم نے پتہ لے لیا ہے اگر گورنمنٹ اجازت دے تو ہم اس پر کارروائی کریں۔ چنانچہ ڈپٹی کمشنر نے یا جو بھی مجسٹریٹ مقرر تھا اُس نے اجازت دے دی اور وہی شخص جو مصافحہ کرتے ہوئے اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ کہا کرتا تھا پولیس نے اُس کے گھر پر چھاپا مارا اور بہت سے کاغذات اُٹھا کر لے گئی اور سمجھا کہ مسلیں پکڑی گئیں۔ چنانچہ انہوں نے فوراً وہ مسلیں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں پہنچا دیں کیونکہ انہیں فوری کام کرنے کا حکم تھا اُن کو دیکھنے کا بھی موقع نہیں ملا کہ ان کاغذات میں ہے کیا، سیدھے ڈپٹی کمشنر کے دفتر پہنچے۔ اب جو اُس نے مسلیں اٹھائیں تو ایک کے اوپر لکھا ہوا تھا ''نمک کی مسل'' ایک کے اوپر لکھا ہؤا تھا ''مرچ کی مسل'' ایک پر لکھا ہؤا تھا '' ہلدی کی مسل''۔ ایک پر لکھا ہؤا تھا ''آٹے کی مسل''۔ ایک پر لکھا ہؤا تھا ''شکر کی مسل''۔ اب سب حیران کہ شکر اور آٹے کی مسلوں سے کیا مطلب ہے؟ آخر کھول کر دیکھا تو پتہ لگا کہ وہ بیچارہ خبطی تو تھا ہی، روز جب عدالت میں کام کرتا تھا تو دیکھتا تھا کہ مجسٹریٹ بیٹھا ہؤا ہے اور کہتا ہے اہلمد! مسل پیش کرے اور پھر ایک مسل آجاتی۔ اُس کو بھی شوق آتا مگر وہ حیثیت تو تھی نہیں، دل میں خواہش ہوتی کہ کاش! میں ڈپٹی کمشنر ہوتا اور میرے سامنے مسلیں پیش ہوتیں۔ یا میں ای۔اے۔سی ہوتا تو میرے سامنے مسلیں پیش ہوتیں۔ آخر انہوں نے گھر جا کر اپنی بیوی کو حُکم دیا کہ آئندہ مَیں گھر کا خرچ نہیں دونگا جب تک ہر ایک چیز کی مسل نہ بناؤ اور پھر وہ مسل میرے سامنے پیش کیا کرو۔ اب نمک خرچ ہو چکا ہے، بیوی کہتی ہے کہ نمک چاہئے۔ اور وہ کہتے ہیں نہیں، پہلے مسل پیش کرو۔ اس کے لئے رات کا وقت مقرر تھا۔ چنانچہ نو بجے تک جب انہوں نے سمجھنا کہ ہمسائے سو گئے ہیں تو انہوں نے بیٹھ جانا اور بیوی کو کہنا کہ اچھا اہلمدہ! نمک کی مسل پیش کرو۔ اب اس نے نمک کی مسل پیش کرنی اور انہوں نے اس میں لکھنا کہ دو آنے کا نمک آیا تھا جو فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک چلا ہے۔ اس کے بعد ''حضور والا مدار! اَور منظوری دیں۔'' اور پھر اُس نے لکھنا کہ نمک کے لئے دو آنے کی اَور منظوری دی جاتی ہے۔ غرض وہ سارے کا سارا اُس بیچارے کے گھر کا بہی کھاتہ تھا جو درحقیقت اُس کا ایک تمسخر تھا۔ اب بات کیا ہوئی؟ بات یہ ہوئی کہ پولیس آخر انسان ہے اُس کو غیب کا علم تو ہے نہیں وہ یہی کرتے ہیں کہ اِدھر اُدھر سے کنسوئیاں4 لیتے ہیں کہ کسی طرح بات کا پتہ چلے۔ وہ سارے شہر میں جوپھرے تو ہمسایوں نے کہا کہ اس کے گھر سے رات کو مِسل مِسل کی آواز آیا کرتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اُس کو پکڑ لیا۔ پہلے ایک ہمسایہ نے گواہی دی، پھر دوسرے نے دی، پھر تیسرے نے دی۔ غرض کئی گواہ مل گئے جنہوں نے تصدیق کی کہ روزانہ آدھی رات ہوتی ہے یا دس گیارہ بجتے ہیں تو یہاں سے آواز آنی شروع ہوتی ہے کہ مِسل مِسل! پس مسلیں اسی کے گھر میں ہیں۔ چنانچہ چھاپہ مارا گیا اور اندر سے نمک اور مرچ اور ہلدی کی مسلیں نکل آئیں تو اس طرح غلطیاں لگ سکتی ہیں۔ بہرحال انہوں نے تدبیر اور کوشش سے بات دریافت کرنی ہوتی ہے ان کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔ لیکن قرآن کریم کے جو ڈائری نویس ہیں اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ وہ اِردگِرد کنسوئیاں لے کر پتہ نہیں لگاتے بلکہ ہر واقعہ کے اوپر کھڑے ہوتے ہیں اور ان کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ بات یوں ہوئی ہے۔
ایک سابق گورنر پنجاب کا وائسرائے کے نام خط
اِسی طرح میرے ساتھ
ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔جب میں 1924ء میں انگلستان گیا تو وہاں سے واپسی پر بمبئی گورنمنٹ کے ایک افسر نے ایک چِٹھی کی نقل مجھے بھیجی۔ وہ چِٹھی گورنر پنجاب کی تھی اور تھی وائسرائے کے نام۔ اُس کو مختلف صوبوں میں سرکلیٹ (CIRCULATE) کیا گیا تھا کیونکہ بڑے بڑے اہم معاملات کو سرکلیٹ کیا جاتا ہے۔ وہ چِٹھی اُس نے میرے پاس بھیجی کہ یہ آپ کی دلچسپی کا موجب ہوگی اِسے آپ بھی پڑھ لیں۔ اُس چِٹھی کو میں نے پڑھا تو حیران رہ گیا۔ اُس چِٹھی میں گورنر پنجاب سر میلکم ہیلی ( جو بعد میں لارڈ بن گئے) وائسرائے کو لکھ رہے تھے کہ مجھے آپ کی طرف سے چِٹھی پہنچی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ امام جماعت احمدیہ جو انگلینڈ گئے تھے تو وہاں اُن کے تعلقات سوویٹ یونین کے بڑے بڑے افسروں سے تھے اور وہ اُن سے مل کر مشورے کرتے تھے اس لئے اُن کی نگرانی کی جائے اور دیکھا جائے کہ اُن کو سوویٹ یونین کے لوگوں سے کیا دلچسپی ہے اور سوویٹ یونین کا اُن کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اگر میں امام جماعت احمدیہ کا ذاتی واقف نہ ہوتا تو انگلستان کی سی آئی ڈی کی رپورٹ پر میں یقیناً اعتبار کرتا اور میں اس کو بڑی اہمیت دیتا لیکن میں ان کا ذاتی طور پر واقف ہوں وہ ایک مذہبی آدمی ہیں اور امن پسند آدمی ہیں۔ وہ سوویٹ یونین یا اس کے منصوبوں کے ساتھ دُور کا بھی تعلق نہیں رکھتے اس لئے اپنے ذاتی علم کی بناء پر مَیں آپ کو لکھتا ہوں کہ اس میں کسی کارروائی کی ضرورت نہیں۔ یہ غلط رپورٹ ہے اور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ آگے انہوں نے خود لکھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن کو بغیر علم کے بعض سوویٹ یونین کے بڑے بڑے آدمی ملے ہیں۔ ہمارے آدمیوں کو چونکہ پتہ تھا کہ وہ سوویٹ یونین کے آدمی ہیں اس لئے انہوں نے سمجھا کہ اس میں کوئی بات ہوگی اور ان کو پتہ نہیں تھا۔ ان کو ملنے والے آکر ملے تو انہوں نے ملاقات کر لی اور ا س لئے کہ باقی لوگ بھی غلطی میں مبتلاء نہ رہیں وائسرائے نے وہ چِٹھی گورنر بمبئی کو بھیجی۔شاید اَوروں کو بھی بھیجی ہوگی بہرحال ان کے ایک افسر نے مجھے اس کی نقل بھجوائی کہ چونکہ اس سے آپ کی بریّت ہوتی ہے مَیں آپ کو اطلاع دیتا ہوں۔
سفرِ انگلستان سے واپسی پر جہاز کے چیف انجینئر سے ملاقات
اب میں نے سوچا کہ کیا واقعہ ہے تو مجھے یاد آیا کہ جب ہم جہاز سے واپس آرہے تھے تو جہاز کا جو چیف انجینئر تھا اُس کی طرف
سے مجھے پیغام ملا کہ مَیں آپ کو جہاز کا انجن وغیرہ دِکھانا چاہتا ہوں اور یہ کہ جہاز کس طرح چلائے جاتے ہیں؟ (بڑے بڑے جہازوں کے جو انجینئر ہوتے ہیں وہ بڑے رینک کے ہوتے ہیں بلکہ اُن کے کپتان بھی کرنیل رینک کے ہوتے ہیں۔ یہ پیغام جو مجھے ملا جہازکے چیف انجینئر کی طرف سے تھا) مَیں نے اُس کو کہلا بھیجا کہ مَیں تو ایک مذہبی آدمی ہوں، میرا اِن باتوں سے کیا واسطہ ہے؟ میں نے سمجھا کہ شاید یہ مجھے کوئی راجہ مہاراجہ سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ یہ کبھی میرے کام آئیں گے تو خواہ مخواہ جو یہ تکلیف اُٹھائیگا تو اس کا کیا فائدہ ہوگا بعد میں اس کو مایوسی ہوگی پس میں کیوں اس کو مایوس کروں۔ چنانچہ میں نے کہا میں تو ایک فقیر آدمی ہوں، مذہبی امام ہوں مجھے ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے آپ کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں؟ اُس نے پھر یہی کہا کہ ٹھیک ہے آپ مذہبی آدمی ہیں لیکن میری یہ خواہش ہے آپ مجھے ممنون کریں اور ضرور جہاز دیکھیں۔ چنانچہ میں گیا۔ اُس نے بڑا انتظام کیا ہؤا تھا اور سارے انجینئر جو اُس کے ماتحت تھے اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے تھے۔ ایک ایک پُرزہ اُس نے دکھایا اور بتایا کہ یوں جہاز چلتا ہے، اِس اِس طرح پاور پیدا ہوتی ہے اور اِس طرح وہ اُسے آگے کھینچتی ہے۔ غرض سارا جہاز اُس نے دکھایا۔ خیر ہم نے جہاز دیکھ لیا۔ میرے ساتھ بعض اَور ساتھی بھی تھے جب ہم باہر نکلے تو میرے ساتھیوں میں سے ایک دوست نے مجھے کہا کہ انجینئر صاحب نے الگ ہو کر مجھے کہا ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ پرائیویٹ طور پر میرے کمرہ میں چل کر ذرا دو پیالی چائے میرے ساتھ پی لیں۔ مَیں نے پھر انکارکیا اور کہا اِن کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے خواہ مخواہ کیوں ان کی مہمانی قبول کروں؟ مگر انہوں نے کہا بہت اصرار کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ مجھ پر بڑا احسان ہوگا آپ چائے پی لیں خیر وہ اکیلا ہی مجھے لے گیا اور باقی ساتھیوں کو ہم نے باہر چھوڑ دیا ہم کمرہ میں بیٹھے اور اُس نے چائے پلائی۔
چیف انجینئر کی غلط فہمی
چائے پلانے کے بعد کہنے لگا میری ایک عرض بھی ہے ۔میں نے کہا فرمایئے۔ میں سمجھ گیا کہ اس کو کوئی
کام ہی تھا۔ کہنے لگا میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ انگلینڈ کیوں گئے تھے؟ میں نے کہا مَیں انگلینڈ یہ دیکھنے کے لئے گیا تھا کہ اسلام کی ترقی کے لئے وہاں کیا کیا مواقع ہیں اور ہمارا مشن تبلیغ میں کس حد تک کامیاب اور کن اسباب کے ساتھ کامیاب ہو سکتا ہے؟ ہنس کر کہنے لگا یہ تو ہوئیں لوگوں سے کرنیوالی باتیں اصل وجہ مجھے بتایئے۔ میں نے کہا لوگوں سے اور تمہارے ساتھ باتیں کرنے میں کیا فرق ہے؟ تم بھی لوگ ہو اَور لوگ بھی لوگ ہیں اس میں میرے لئے فرق کرنے کی کیا وجہ ہے؟ کہنے لگا نہیں نہیں۔ آپ مجھ پر اعتبار کریں میں کسی کو نہیں بتاتا۔ میں نے کہا میری بات ہی ایسی کوئی نہیں جو کسی کو بتانے والی نہ ہو تم نے بتانا کیا ہے؟ اِس پر اُس نے پھر اصرار کیا کہ سچی بات مجھے بتا دیں۔ اس کے مقابل پر جب پھر مَیں نے اصرار کیا اور کہا کہ سوائے اِس بات کے اور کچھ بھی نہیں کہ مَیں تبلیغی میدان کے لئے راستہ کھولنے کے لئے گیا تھا اور یہ دیکھنے کے لئے گیا تھا کہ اسلام کی تبلیغ اِن ملکوں میں کس طرح ہو سکتی ہے تو پھر اُس نے بڑے افسوس سے کہا کہ مَیں کس طرح آپ کو یقین دلاؤں کہ میں کون آدمی ہوں۔
میکسیملین سے اپنے
رشتہ داری تعلقات کا اظہار
پھر کہنے لگا، آپ نے میکسیملین5 (MAXIMILIAN) کا نام سنا ہؤا ہے؟ میں نے کہا ہاں میں نے سنا ہؤا ہے وہ آسٹریلیا
کا ایک شہزادہ تھا۔ میکسیکو میں فساد ہونے پر یورپ کی حکومتوں نے تجویز کی کہ اِس ملک میں اگر ہم کسی کو بادشاہ مقرر کر دیں تو اس ملک کے فسادات دُور ہو جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نےمیکسیملین کے متعلق جو آسٹریلیا کے شاہی خاندان کا ایک شہزادہ تھا اور بڑا سمجھدار اور عقلمند سمجھا جاتا تھا تجویز کیا کہ اس کو میکسیکو کا بادشاہ بنا دیا جائے۔ یہ جاکر انتظام کر لے گا۔ اُس وقت میکسیکو میں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا تھا۔ اُس نے جاتے وقت اپنے اُن درباریوں میں سے جو شاہی درباری تھے ایک بڑا ہی قابلِ اعتبار آدمی ساتھ لے جانے کے لئے چُنا اور کہا کہ یہ میرا نائب ہوگا اور میری مدد کرے گا۔ غرض وہ میکسیکو میں گیا اور امریکہ، انگلینڈ اور فرانس وغیرہ کے دباؤ ڈالنے سے وہاں اس کی بادشاہت قائم کر دی گئی اور اُس نے کام شروع کر دیا لیکن امریکہ کے لوگ بادشاہوں کے عادی نہیں تھے۔ تھوڑے ہی دنوں میں وہاں بغاوت شروع ہو گئی اور بڑوں اور چھوٹوں سب نے مل کر کہا کہ ہم تو اِس بادشاہ کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور وہ سارے کے سارے مقابل میں اُٹھ کھڑے ہوئے آخر اُس کو ملک سے بھاگنا پڑا۔ جب وہ وہاں سے بھاگا تو سارے اُس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ سوائے اُس درباری کے جس کو اُس نے اپنے ساتھ رکھا تھا۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ اُس نے ایسے ایسے مصائب جِھیلے اور ایسی ایسی مصیبتیں اُٹھائیں کہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن بڑی بڑی سخت تکلیفوں اور جان جوکھوں میں بھی اُس نے اُس کا ساتھ نہ چھوڑا۔ کہنے لگاآپ نے اُس کا حال پڑھا ہے؟ میں نے کہا میں نام تو نہیں جانتا پر یہ میں نے پڑھا ہے کہ اُس کا ایک ساتھی اُس کے ساتھ گیا تھا اور وہ بڑا وفادار تھا۔ کہنے لگا مَیں اُس کا پوتا ہوں۔ اب آپ سمجھ لیجئے کہ آپ مجھ پر کتنا اعتبار کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا اعتبار تو جتنا چاہو کرالو پر بات ہی کوئی نہیں میں کیا کروں۔
چیف انجینئر کی مضحکہ خیز پیشکش
کہنے لگا خیر پھر آپ نہیں کرتے تو میں تو کم از کم اپنی طرف سے پیشکش کر دیتا
ہوں اور وہ یہ ہےکہ آپ گئے تو تھے انگریزوں کے خلاف منصوبہ کرنے کے لئے لیکن مشکل آپ کو یہ پیش آئے گی کہ آپ اپنے مبلّغوں کو ہدایات کس طرح بھیجیں کیونکہ خط تو سنسرہو جاتے ہیں اور اگر وہ پکڑے جائیں تو آپ کی ساری سکیم فیل ہو جاتی ہے اس لئے مَیں آپ کو یہ تجویز بتاتا ہوں کہ جب آپ نے ہدایتیں لکھ کر اپنے مبلّغ کو بھیجنی ہوں تو میرا جہاز ہمیشہ فرانس جاتا رہتا ہے۔ میرے ذریعہ آپ اُسے ہدایت بھیجیں اُدھر اپنے مبلغ کو لکھ دیں کہ جہاز پر آکر مجھ سے وہ لفافہ لے جائے۔ اِسی طرح اُس نے آپ کو جو مخفی پیغام بھیجنا ہو وہ مجھے دے دے میں آپ کو پہنچا دیا کروں گا۔ پھر کہنے لگا آپ کو یہ خیال پیدا ہو گا کہ وہ مجھ تک کس طرح پہنچے اور مَیں اُس کو کس طرح دوں؟ اِس پر کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ اس کے لئے میں آپ کو ایک تجویز بتاتاہوں۔ چنانچہ اُس نے اپنا ایک کارڈ نکالا۔ یہ وزٹنگ کارڈ کہلاتے ہیں جو یورپین لوگ ملتے وقت ایک دوسرے کو دکھاتے ہیں۔ اِس پر اُس شخص کا نام لکھا ہؤا ہوتا ہے اور اُس کا عہدہ وغیرہ درج ہوتا ہے جب کسی کو ملنا ہوتا ہے تو وہ کارڈ اندر بھجوا دیتے ہیں کہ فلاں افسر ملنے آیا ہے۔ غرض اُس نے اپنا وزٹنگ کارڈ نکالا اور اُس کو بیچ میں سے پکڑ کر دو ٹکڑے کر دیا۔ جب کارڈ کو دو ٹکڑے کیا جائے تو ہر کارڈ الگ شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کوئی 1/1000 انچ اِدھر سے پھٹتا ہے کوئی 1/1000 انچ اُدھر سے پھٹتا ہے۔ کوئی ذرا اِدھر سے نیچا ہو جاتا ہے کوئی اُدھر سے نیچا ہو جاتا ہے اِس طرح تھوڑا بہت فرق ضرور ہو جاتا ہے اور دونوں حصوں کو ملانے سے فوراً پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ کارڈاسی کا حصہ ہے کسی دوسرے کارڈ کے ساتھ وہ نہیں لگ سکتا۔ غرض اس کارڈ کو پھاڑ کر وہ کہنے لگا میں آپ کو اطلاع دونگا کہ میں فلاں تاریخ کوبمبئی پہنچ جاؤں گا آپ کا آدمی آئیگا اور وہ میرا نام لے کر کہے گا کہ فلاں چیف انجینئر صاحب ہیں؟ میں کہوں گا ہاں میں ہوں۔ پھر وہ میرے پاس آئے گا اور آکر مجھے کہے گا آپ کو امام جماعت احمدیہ نے خط بھیجا ہے۔ میں کہوں گا میں امام جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں۔ وہ کون ہیں میں تو بالکل اُن کا واقف نہیں۔ وہ کہے گا نہیں آپ اُن کے واقف ہیں۔ چنانچہ ایک کارڈ جو آپ نے براہ راست میرے پاس بھیجا ہوگا اس کا دوسرا ٹکڑا وہ اپنی جیب سے نکال کر کہے گا۔ یہ لیجئے میں اپنی جیب میں سے کارڈ نکال کر ملاؤنگا جب وہ مل جائیں گے تو میں کہوں گا۔ ہاں ہاں میں جانتا ہوں کیا لائے ہو میرے لئے ؟ پھر وہ لفافہ مجھے دے دیگا۔ اِدھر آپ ایک دوسرا کارڈ کاٹ کر میرے پاس بھیجدیں گے اور ایک اپنے انگلستان کے مبلغ کو بھیج دیں گے۔ جب میں فرانس یا اٹلی پہنچوں گا تو اُس کو خبر دونگا کہ ہمارا جہاز پہنچ گیا ہے یا فلاں تاریخ کو پہنچ جائے گا۔ اور اُس کو آپ کی طرف سے ہدایت ہوگی کہ فلاں جہاز پر پہنچ جانا۔ وہ وہاں آئیگا اور آکر کہے گا کہ اس جہاز کا جو چیف انجینئر ہے وہ ہے؟ لوگ بتائیں گے کہ ہے۔ اس کے بعد میں جاؤنگا اور پوچھوں گا کون صاحب ہیں؟ وہ کہیں گے میں جماعت احمدیہ کا مبلغ ہوں اور انگلینڈ سے آیا ہوں۔ میں کہوں گا مَیں جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں نہ کسی مبلغ کو جانتا ہوں۔ تم میرے پاس کیوں آئے ہو؟ وہ کہے گا مجھے امام جماعت احمدیہ نے بھیجا ہے میں کہوں گا مَیں امام جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں۔ اِس کے بعد وہ اپنی جیب میں سے کارڈ نکالے گا اور کہے گاکہ یہ کارڈ لیں۔ میں اپنی جیب سے کارڈ نکالوں گا اور دونوں کو ملاؤں گا۔ اگر وہ مل گئے تو میں کہوں گا ہاں ہاں یہ لفافہ تمہارے لئے ہے۔ اِس طرح آپ کی خط و کتابت بڑی آسانی سے ہو جائے گی۔ میں نے کہا میں آپ کی اِس پیشکش کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کی اِس خیر خواہی کا ممنون ہوں۔ مگر افسوس ہے کہ میں یہ کام ہی نہیں کرتا تو اس سے کس طرح فائدہ اُٹھاؤں۔ کہنے لگا پھر سوچ لیجیئے۔ جب آپ کو ضرورت ہو میں حاضر ہوں۔
پولیس والوں کی قیاسی رپورٹیں
اِس واقعہ سے مجھے خیال آیا کہ شاید وہی سوویٹ یونین کا نمائندہ ہو اور انہوں
نے سمجھا ہو کہ شاید یہ جماعت بھی اِس قسم کے کام کرتی ہے ہم اسے اپنے ساتھ ملا لیں۔ بہرحال یہ ایک چٹھی تھی جو آئی۔ اِس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ ڈائری نویس اپنی ڈائریاں کس طرح مرتب کیا کرتے ہیں۔ یہ لکھنے والے بددیانت نہیں تھے، جھوٹے نہیں تھے ہمارے ساتھ ان کی کوئی دشمنی نہیں تھی۔ بھلا انگلستان کے لوگوں کو یا فرانس کے لوگوں کو ہمارے ساتھ کیا دشمنی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے محض قیاس کیا اور ایک شخص جس کے متعلق وہ جانتے تھے کہ وہ سوویٹ یونین کا بڑا آدمی ہے لیکن ہمیں پتہ نہیں تھا۔ وہ ہمیں ملنے آیا ہم نے سمجھا کہ ایک عام آدمی ہم سے مل رہا ہے اور انہوں نے فوراً نوٹ کیا کہ سوویٹ یونین کا کوئی نمائندہ ان سے ملا ہے اور اس کے اوپر انہوں نے قیاس کر لیا کہ اُن کے ساتھ اِن کے تعلقات قائم ہیں۔
اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ ڈائریوں میں کس طرح غلط فہمیاں ہو جاتی ہیں۔ لیکن قرآنی دفتر کے ڈائری نویس کسی سے سن کر ڈائری نہیں لکھتے بلکہ جیساکہ میں نے بتایا ہے اُس کی حقیقت سے آپ واقف ہو کر لکھتے ہیں۔
ڈائری نویسوں کی دھوکا دہی
پھر ڈائری نویسوں میں سے بعض ایجنٹ پرووکیٹیئر (AGENT PROVOCATEUR)
ہوتے ہیں یعنی اُن کو خدمت کا اور اپنی حکومت میں مشہور ہونے کا اور صلہ پانے کا شوق ہوتا ہے اور وہ جان بوجھ کر ایسی باتیں کرتے ہیں تاکہ اگلے کے منہ سے کچھ نکل جائے اور وہ اسے بالا افسروں تک پہنچا سکیں۔ مثلاً مجلس لگی ہوئی ہے اور لوگ بالکل ناتجربہ کار اور سیدھے سادے بیٹھے ہیں۔ ایک آدمی نے درمیان میں جان بوجھ کر بات شروع کر دی کہ گورنمنٹ بڑے ظلم کر رہی ہے۔ اب ایک ناواقف شخص نے بھی کسی پر سختی کا ذکر سُنا ہؤا تھا تو اُس نے بھی کہہ دیا کہ ہاں جی میں نے بھی فلاں واقعہ سنا ہے۔ اُس نے جھٹ ڈائری لکھ لی کہ فلاں شخص کہہ رہا تھا کہ گورنمنٹ بڑا ظلم کر رہی ہے حالانکہ اس کا محرّک وہ آپ بنا تھا۔ ایسے لوگوں کو انگریزی میں ایجنٹ پرووکیٹیئر (AGENT PROVOCATEUR) کہتے ہیں۔ یعنی دوسروں کو اُ کسا کر وہ ان کے منہ سے ایسی باتیں نکلوا دیتے ہیں جو قابلِ گرفت ہوتی ہیں۔ جب میرٹھ کیس ہؤا جس میں وائسرائے کے مارنے کی تجویز کی گئی تھی تو اس میں ایک پولیس افسر نے سارا کیس بنایا کہ فلاں کانگرسی کی سازش تھی، فلاں کانگرسی کی سازش تھی لیکن اتفاقاً جب ساری مسل بالکل تیار ہو گئی تو کسی اَور جُرم میں ایک آدمی پکڑا گیا اور اُس نے اقرار کر لیا۔ اُس وقت پتہ لگا کہ وہ سارے ہی اَور لوگ تھے اور یہ سب کی سب جھوٹی کہانی بنائی گئی تھی۔ تب جاکر یہ حقیقت کھلی اور پھر اُس شخص کو سزا بھی ملی۔
سفرِ حج کا ایک واقعہ
میں جب 1912ء میں حج کے لئے گیا تو وہاں بھی ہمارے ساتھ ایساہی واقعہ پیش آیا۔ میرے ساتھ پانچ آدمی اَور
بھی ہم سفر تھے۔ان میں سے تین بڑی عمر کے تھے اور وہ تینوں ہی بیرسٹری کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک ہندو تھا جو اَب ہندوستان چلا گیا ہے دو مسلمان تھے جن میں سے ایک فوت ہو چکا ہے اور ایک ملتان میں بیرسٹری کر رہا ہے۔ یہ تینوں روزانہ میرے ساتھ مذہبی اور سیاسی گفتگو کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کانگرس کے ساتھ ملنا چاہئے مسلمانوں کی بہتری اور بھلائی اِسی میں ہے۔ غرض خوب بحثیں ہوتی رہتی تھیں۔ جب ہمارا جہاز عدن پہنچا تو ہم اُتر کے عدن کی سیر کےلئے چلے گئے۔ میں بھی تھا اور وہ تینوں بیرسٹر بھی تھے اور وہ دو لڑکے بھی تھے جن میں سے ایک اِس وقت ایجوکیشن کا ڈائریکٹر ہے اُس وقت وہ بچہ تھا۔ بہرحال ہم سارے وہاں گئے۔ جس وقت ہم شہر میں داخل ہونے لگے تو ایک آدمی بالکل سادہ لباس میں ہمارے پاس آیا۔ اُس وقت ہم پنجابی میں باتیں کر رہے تھے اُس نے دیکھ لیا کہ پنجابی ہیں۔ چنانچہ آتے ہی کہنے لگا ''آگئے ساڈے لالہ لاجپت رائے جی دے وطن دے خوش قسمت لوگ آگئے'' اُس نے اتنا فقرہ ہی کہا تھا کہ انہوں نے اُس کو نہایت غلیظ گالیاں دینی شروع کر دیں۔ مجھے بڑی بدتہذیبی معلوم ہوئی کہ اِس بیچارے نے کہا ہے کہ تم وہاں سے آئے ہو اور انہوں نے گالیاں دینی شروع کر دی ہیں۔ خیر اُس وقت تو میں چُپ رہا جب ہم واپس آئے تو میں نے کہا کہ آپ لوگوں نے کوئی اچھے اخلاق نہیں دکھائے۔کوئی مسافر آدمی تھا، پنجابی دیکھ کر اُسے شوق آیا کہ وہ بھی پنجابی میں باتیں کرے اور اُس نے آپ کو کہہ دیا کہ لالہ لاجپت رائے کے وطن کے لوگ آئے ہیں تو اِس میں حرج کیا ہؤا؟ وہ کہنے لگے آپ نہیں جانتے یہ پولیس مین تھا اور اُس کی غرض یہ تھی کہ ہم لالہ لاجپت رائے کی کچھ تعریف کریں اور یہ ہمارے خلاف ڈائری دے۔ اب پتہ نہیں یہ سچ تھا یا جھوٹ یا ان کے دل پر ایک وہم سوار تھا اور اس کی وجہ سے انہوں نے یہ کہا۔ بہرحال دنیا میں یہ کارروائیاں ہوتی ہیں۔
دیانتدار ڈائری نویسوں کو اپنی
ڈائری کی تصدیق میں مشکلات
پھر میں نے یہ بھی سوچا کہ ان بادشاہوں کے دربار میں سچی ڈائریاں بھی جاتی تھیں۔ آخر سارے پولیس مین تو جھوٹے نہیں
ہوتے ۔ بیچ میں جھوٹے بھی ہوتے ہیں اور سچے بھی ہوتے ہیں۔بلکہ دنیا کی ہر قوم میں جھوٹے اورسچے ہوتے ہیں تو بعض بیچارے بڑی دیانت داری سے ڈائری لکھتے تھے لیکن ان کی تصدیق مشکل ہو جاتی تھی۔ مثلاً وہ کہتا تھا کہ میں نے فلاں جگہ پرکان رکھ کے سنا تو اندر فلاں فلاں آدمی یہ باتیں کر رہے تھے۔ یا مَیں ریل کے ڈبہ میں بیٹھا تھا تو فلاں فلاں یہ باتیں کر رہے تھے۔ اب ہم کس طرح یقین لائیں کہ اُس نے سچ لکھا ہے۔چاہے ایک ایک لفظ اُس نے سچ لکھا ہو۔ عام طور پر ڈائری نویس کو یہ رعایت ہوتی ہے کہ کہتے ہیں یہ آفیشل ورشن ہے۔ آفیشل ورشن غلط نہیں ہوسکتا۔ مگر یہ دھینگامُشتی ہے پبلک ہر آفیشل ورشن کو غلط کہتی ہے۔ جب تنقید بڑھ جاتی ہے اور حکومت کے خلاف اعتراضات ملک میں زیادہ ہو جاتے ہیں تو پھر حکومت قرآن ہاتھ میں لے کر بھی کوئی بات کرے توملک والے کہتے ہیں ہم نہیں مانیں گے یہ غلط اور جھوٹ ہے۔ بیچارہ پولیس والا وضو کرکے اور نماز پڑھ کے ڈائری لکھے اور خدا کی قسم کھائے کہ ایک لفظ بھی میں جھوٹ نہیں بولوں گا تو پھربھی جب لوگ اس ڈائری کو پڑھیں گے تو کہیں گے جھوٹ ہے اور ملک میں اس کے خلاف زبردست پروپیگنڈا شروع ہو جاتاہے اور پھر جمہوری حکومتوں میں چونکہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں پولیس بیچاری یہ بھی ڈرتی ہے کہ کل کو یہی آگے آگئے تو ہمارے لئے مصیبت ہو جائے گی۔ مگر فرماتا ہے کہ یہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے ڈائری نویس مقرر ہوتے ہیں ان کے لئے یہ خطرہ نہیں ہوتا۔
مجرموں کے انکار پر پولیس کا جھوٹے گواہ تیار کرنا
سیدھی بات ہے کہ ڈائری عام طور پر
مُجرموں کی لکھی جاتی ہے اور مُجرم جو جُرم کرتا ہے وہ لوگوں کو دکھا کر تو کرتا نہیں، چوری چُھپے کرتا ہے اور چوری میں اتفاقاً ہی کوئی شخص دیکھ سکتا ہے، یہ تو نہیں کہ سارا ملک دیکھے گا یا سارا گاؤں دیکھے گا۔ اب فرض کرو اتفاقاً کوئی پولیس مین وہاں آگیا اور اُس نے وہ بات دیکھ لی اور اُس نے رپورٹ کی کہ ایسا واقعہ ہؤا ہے تو اب لازماً جب وہ شخص پکڑا جائے گا تو کہے گا بالکل جھوٹ ہے اس کو تو میرے ساتھ فلاں دشمنی تھی اِس لئے میرے ساتھ اِس نے یہ سلوک کیا ہے میں نے تو یہ کام کیا ہی نہیں۔ اب اس کے لئے سوائے اِس کے کہ کوئی اَور ایسے گواہ پیش کر دیئے جائیں یا بنا لئے جائیں جن سے یہ واقعہ ثابت ہو اَور کوئی صورت ہی نہیں۔ چنانچہ دنیا میں یہی ہوتاہے واقعہ سچا ہوتا ہے اور اس کے لئے گواہ جھوٹے بنائے جاتے ہیں تاکہ اُس واقعہ کو ثابت کیا جائے۔ اتفاقاً ایسے بھی واقعات ہوتے ہیں جن میں گواہ بھی سچے مل جاتے ہیں اور واقعات بھی سچے مل جاتے ہیں اور ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں کہ واقعہ بھی جھوٹا ہوتا ہے اور گواہ بھی جھوٹے ہوتے ہیں بہرحال دونوں قسم کے کیس ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی گواہ بھی جھوٹے اور واقعہ بھی جھوٹا، کبھی واقعہ سچا اور گواہ جھوٹے، کبھی واقعہ بھی سچا اور گواہ بھی سچے۔ مگر الٰہی سلسلہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ہمارے جو ڈائری نویس ہیں ان میں یہ بات بالکل نہیں پائی جاتی۔
عالَمِ روحانی میں مُجرم کے لئے
انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی
یہ درست ہے کہ جس وقت اس کے سامنے گواہ پیش کئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ انہوں نے تمہارا واقعہ لکھا
ہے تو مُجرم لازماً یہ کہے گاکہ صاحب! یہ غلط ہے۔جیسے اِس دنیا میں مجسٹریٹ کے سامنے جب پولیس ایک کیس پیش کرتی ہے تو مُجرم کہتا ہے حضور! یہ بالکل غلط ہے، پولیس والے میرے دشمن ہیں اور انہوں نے خواہ مخواہ مجھ پر کیس چلا دیا ہے میں نے تو کوئی فعل کیا ہی نہیں۔ اس کے نتیجہ میں جج بھی شبہ میں پڑ جاتا ہے اور وہ بھی یہ دیکھتا ہے کہ آیا پولیس سچی ہے یا یہ سچا ہے۔ اور ادھر پبلک بھی شبہ میں پڑ جاتی ہے بلکہ پبلک کو عام ہمدردی لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے، پولیس کے ساتھ نہیں ہوتی۔ چنانچہ پبلک بھی اور اخبار والے بھی طنز شروع کر دیتے ہیں کہ یونہی آدمی کو دَھر گھسیٹا ہے، نہ اس نے جُرم کیا نہ کچھ کیا یونہی اس کو دَھر لیا گیا ہے۔ فرماتا ہے یہ امکان ہمارے ڈائری نویسوں کے خلاف بھی ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے يَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْۤا اَيْنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۔ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ۔6 جب قیامت کے دن ہمارے سامنے وہ لوگ پیش ہونگے تو ہم مشرکوں سے کہیں گے کہ وہ کہاں ہیں جن کو تم میرا شریک قرار دیا کرتے تھے؟ تو فرماتا ہے وہ ایک ہی جواب دیں گے، جیسے ہمیشہ مُجرم جواب دیتے آئے ہیں کہ وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ۔ اے ہمارے رب! تیرے سامنے ہم نے جھوٹ بولنا ہے؟تو ہمارا خدا ہم تیرے بندے، تیرے سامنے تو ہم جھوٹ نہیں بول سکتے۔ مُجرم ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے ہیں کہ حضور کے سامنے جھوٹ بولنا ہے؟ آپ کے سامنے تو ہم نے جھوٹ نہیں بولنا۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم کبھی شرک کے قریب بھی نہیں گئے، ہم نے کبھی شرک کیا ہی نہیں، یہ سب جھوٹ ہے اور یہ ڈائریاں یونہی جھوٹی لکھتے رہے ہیں۔ اب یہ سمجھ لو کہ جس طرح یہاں پولیس سچی ڈائری دے اور مجسٹریٹ کے سامنے یہ سوال آجائے کہ پولیس جھوٹی ہے تو وہ بیچارے گھبرا جاتے ہیں کہ اب ہم کس طرح ثابت کریں۔ اسی طرح وہ ڈائری نویس بھی لازماً گھبرائیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے تو اتنی محنت کرکے سچے سچے واقعات لکھے تھے اب انہوں نے اللہ میاں کے سامنے آکر کہہ دیا کہ صاحب! ہم نے آپ کے سامنے تو جھوٹ نہیں بولنا واقعہ یہ ہے کہ ہم نے کوئی شرک نہیں کیا۔ اور ملزم یہ سمجھ لے گاکہ بس میرے اِس حربہ کے ساتھ شکار ہو گیا۔ یا تو اللہ تعالیٰ اِس عذر کو قبول کر لے گااور اگر سزا دیگا تو باقی سارے لوگ یہی کہیں گے کہ اس بے چارے کو یونہی جھوٹی سزا صرف ڈائری نویسوں کے کہنے پر مل گئی ہے ورنہ یہ مُجرم کوئی نہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارے ہاں کیا انتظام ہے۔
مجرموں کے خلاف ان کے
کانوں، آنکھوں اورجلد کی شہادت
ہمارے ہاں یہ انتظام ہے کہ حَتّٰۤى اِذَا مَا جَآءُوْهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَ اَبْصَارُهُمْ وَ جُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا
يَعْمَلُوْنَ7دنیا میں آج سے پہلے ڈائری نویس کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ ڈائری نویس ڈائری لکھتا تھا اور مجرم جا کر کہہ دیتے تھے کہ جھوٹی ہے۔
موجودہ زمانہ میں ریکارڈر کی ایجاد
اب اِس زمانہ میں ہزاروں سال یا جیالوجی (GEOLOGY) والوں
کے بیان کے مطابق کروڑوں اربوں سال کے بعد وہ آلہ ایجاد ہؤا ہے جس کو ریکارڈر کہتے ہیں۔ طریق یہ ہے کہ اُس کو کمرے میں چُھپا کر کہیں رکھ دیا جاتا ہے اور پولیس کا کوئی نمائندہ یا پولیس کا افسر بھیس بدلے ہوئے اُس مُجرم سے باتیں شروع کر دیتا ہے اور وہ اِس ریکارڈر میں سب لکھی جاتی ہیں۔ مثلاً اُس گفتگو میں وہ اُس کا ساتھی بن جاتا ہے اور کہتا ہے ارے میاں! تم چوری کرتے ہو تو مجھے بھی کچھ دو۔ میں بھی غریب آدمی ہوں، میرا بھی کوئی حصہ رکھو اور مجھے بھی کچھ دلاؤ۔ اِس پر وہ فخر کرنا شروع کر تاہے کہ ہاں ہاں میں نے فلاں جگہ چوری کی اور اس میں یہ مال لیا۔ فلاں جگہ چوری کی اور اس میں یہ مال لیا۔ آؤ تم ہماری پارٹی میں شامل ہو جاؤ بڑی دولت آتی ہے اور خوب آسانی سے مال کمائے جاتے ہیں۔ اب ہمارا ارادہ فلاں جگہ ڈاکہ مارنے کا ہے وہاں سے ہمیں اُمید ہے کہ دس لاکھ پونڈ ملے گا، تمہیں بھی دو چار سو پونڈ حصہ مل جائے گا۔ اب یہ ساری باتیں وہاں ریکارڈ ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے جاکر رپورٹ کی اور وہ پکڑے گئے۔ جب عدالت میں پہنچے تو اُس نے حسب عادت یہ کہہ دیا کہ صاحب! یہ جھوٹ ہے۔ اس کے ساتھ میری دشمنی ہے۔ یہ مجھ سے دس پونڈ رشوت مانگ رہا تھا میں نے نہیں دی اس لئے اس نے میرے خلاف یہ جھوٹی رپورٹ کر دی۔ مجسٹریٹ نے کہا لاؤ ثبوت۔ اُس نے کہا یہ ریکارڈر ہے۔ چنانچہ ریکارڈر پیش کیا گیا، اس میں مُجرم کی آواز بند ہے، اُس کا لہجہ پہچانا جاتا ہے، اُس کی آواز پہچانی جاتی ہے، اُس میں یہ سارا ذکر آتاہے کہ میں نے فلاں جگہ چوری کی، میں نے فلاں جگہ چوری کی، اب فلاں جگہ چوری کرونگا۔ غرض جو اُس نے ڈائری لکھی تھی وہ ساری کی ساری اس میں ریکارڈ ہوتی ہے۔
ریکارڈر کے استعمال میں کئی قسم کی دِقتیں
لیکن یہ ریکارڈر بہت شاذ استعمال ہوتا ہے کیونکہ
ایک تو اس کے لئے جگہ تلاش کرنی پڑتی ہے اور اسے دوسروں سے چُھپانا پڑتا ہے۔ پھر اس جگہ پر جانے کے لئے ملزم کو راضی کرنا پڑتا ہے۔ جو چور واقف کار ہوتے ہیں وہ جانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم توہوٹل کے کمرہ میں جا کر نہیں بیٹھتے جو بات کرنی ہے میدان میں کرو اور میدان میں ریکارڈر رکھانہیں جا سکتا۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ جو زیادہ واقف ہوتے ہیں وہ ایسی مفلڈوائس(MUFFLED VOICE) سے یعنی آواز کو اِس طرح دبا کر بولتے ہیں کہ ریکارڈ ہی نہ ہو۔ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ شخص کمرہ میں ریکارڈر لایا ہے اس لئے وہ آہستگی سے اس طرح باتیں کریں گے کہ ریکارڈ نہ ہوں اور پھر جیسا کہ ان کی تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ کبھی وہ ایسا کرتے ہیں کہ جس کمرہ میں وہ ملاقات مقرر کرتے ہیں اس میں وہ پہلے اپنا ساتھی بھیج دیتے ہیں کہ ذرا تلاشی لے آنا اس میں کہیں ریکارڈر تو نہیں رکھا ہؤا۔ اگر ریکارڈر ہوتا ہے تو عین موقع پر وہ بہانہ بنا کرکھسک جاتے ہیں۔ کہہ دیا کہ اوہو! مجھے ضروری کام پیش آگیا ہے پھر بات کریں گے اور ان کی ساری محنت برباد ہو جاتی ہے۔
خدائی ڈکٹوفون
پس اوّل تو ہر جگہ ریکارڈر رکھا نہیں جا سکتا پھر ریکارڈر رکھا بھی جائے تو اس سے بچنے کی صورت ہو جاتی ہے مگر یہاں فرماتا ہے
کہ تمہارا ڈکٹوفون (DICTAPHONE) تو دنیا میں کئی لاکھ سال کے بعد کہیں ایجاد ہوگا اور ہمارا شروع سے ہی ڈکٹوفون موجود ہے۔ چنانچہ جس وقت فرشتے ڈائری پیش کریں گے اللہ تعالیٰ مجرم سے کہے گا دیکھو! تم نے یہ یہ گناہ کیا ہے۔ وہ کہے گا حضور! بالکل جھوٹ۔ یہ ڈائری نویس تو بڑے کذاب ہوتے ہیں انہوں نے سارا جھوٹ لکھا ہے ۔نہ میں نے کبھی چوری کی نہ میں نے کبھی جھوٹ بولا۔ حضور ساری عمر سچ بولتے گزر گئی، ساری عمر لوگوں کا مال ان کو پہنچاتے ہوئے گزر گئی، شرک کے قریب نہیں گئے، میں تو *** ڈالتاہوں سارے بتوں پر، میں نے کب شرک کیا یہ تو جھوٹ بولتے ہیں۔
کفار پر اتمامِ حُجّت
اللہ تعالیٰ کہے گا اچھا لاؤ ریکارڈر۔ ہم نے اپنے پاس ریکارڈر بھی رکھا ہؤا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے حَتّٰۤى اِذَا مَا جَآءُوْهَا
شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ۔فرمائے گا، ٹھہرو! دوزخ میں داخل کرنے سے پہلے ہم اتمامِ حُجّت کر دیں۔ اے کانو! بتاؤ تم کیا گواہی دیتے ہو؟ اِس پر فرشتوں نے الزام لگایا ہے کہ اس نے غیبت سُنی تھی، تم کیا کہتے ہو؟
کانوں کی گواہی
اس پر یکدم وہ الٰہی روحانی سُوئی کان کے پَردوں پر رکھی گئی اور کان میں سے آواز آنی شروع ہوئی کہ فلاں دن فلاں شخص کی
اِس نے غیبت کی تھی اور کہا تھا کہ وہ بڑا بے ایمان ہے، بدمعاش ہے، جھوٹا ہے، فریبی ہے۔ فلاں وقت، فلاں گھڑی ، فلاں دن اور فلاں سال اس کے سامنے فلاں شخص نے آکر یہ کہا تھا کہ خدا ایک نہیں ہے خدا کے شریک بھی ہیں۔ اور اس نے کہا تھا کہ آپ ٹھیک فرماتے ہیں اور یہ بات ہم نے سُنی۔ اِسی طرح یہ ساری باتیں کہ فلاں کو گالیاں دی گئیں اور اس نے سُنیں، فلاں کی چغلی کی گئی اور اس نے سنی، فلاں پر جھوٹا اتہام لگایا گیا اور اس نے سنا، فلاں شرک کیا گیا اور اس نے سنا، نبیوں کو گالی دی گئی اور اس نے سنی۔ غرض جتنا ریکارڈ روزانہ کا تھا وہ سارے کا سارا اس کے کان سنا دیں گے۔
آنکھوں کی گواہی
پھر فرمایا، وَ اَبْصَارُهُمْ ۔ پھر ہم اُن کی آنکھوں پر ریکارڈ کی سُوئی رکھ دیں گے اور کہیں گے۔ بولو۔ وہ کہیں گی حضور!
فلاں دن فلاں عورت جا رہی تھی اِس نے اُس کو تاکا، فلاں دن فلاں شخص کو اِس نے بڑے غصے سے دیکھا اور کہا میں اِس کو مار کے چھوڑوں گا۔ فلاں دن فلاں کام اِس نے کیا۔ غرض تمام کا تمام آنکھوں کا ریکارڈ پیش ہونا شروع ہو جائے گا۔
جلد کی گواہی
پھر فرمایا اچھا بعض اور بھی لذّت کے ذرائع ہیں۔ وَ جُلُوْدُهُمْ ذرا اس کے چمڑے سے گواہی مانگو۔ چنانچہ چمڑے پر ریکارڈ رکھا گیا۔
اب چمڑا بولا کہ فلاں دن فلاں اچھی اور خوبصورت چیز تھی یا ملائم جسم والی عورت تھی اِس نے اُسے چُھؤا۔ فلاں دن فلاں کا ایک بڑا نرم کوٹ تھا اِس نے اُسے چُھؤا اور کہا مَیں یہ چُراؤں گا۔ غرض چُھونے کے ساتھ جتنے جرائم وابستہ تھے وہ سارے کے سارے اُس نے گنانے شروع کر دیئے اور بتایا کہ اِس اِس طرح اِس نے کیا ہے۔
عمر بھر کا کچا چٹھا8سامنے آجائے گا
غرض وہ سارے نظارے جو ناجائز تھے تصویروں کی صورت میں
سامنے آنے لگ گئے۔ وہ ساری باتیں جو ناجائز تھیں بیان کر دی گئیں کہ اس نے سُنی تھیں اور وہ لذتِ لمس جس کا حاصل کرنا اِس کے لئے ناجائز تھا وہ بھی اِس کے سامنے بیان کر دیا گیا۔ غرض عمر بھر کا کچا چٹھا سامنے آگیا۔
اِسی طرح فرماتا ہے يَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَيْدِيْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ9اُس دن ہم کچھ اَور بھی گواہیاں لیں گے۔
زبانوں کی گواہی
يَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ ۔ اُس دن ان کی زبانیں بھی گواہی دیں گی۔ زبان پر ریکارڈ کی سُوئی رکھ دی جائیگی اور زبان بولنا
شروع کرے گی کہ فلاں دن اس نے خدا کو گالی دی، فلاں دن نبیوں کو گالی دی، فلاں دن اپنے ہمسائے کو گالی دی۔ فلاں دن بیوی کو گالی دی، فلاں دن بیٹے کو گالی دی، فلاں دن فلاں کو گالی دی۔ فلاں دن حرام کا مال چکھا اور فلاں دن اس نے فلاں کام کیا یہ سارے کا سارا ریکارڈ زبان بیان کرنا شروع کر دیگی۔
ہاتھوں کی گواہی
وَ اَيْدِيْهِمْ ۔ پھر ہاتھوں پر سُوئی رکھی جائیگی اور ہاتھ بولنا شروع کریں گے کہ فلاں دن فلاں کو مارا، فلاں دن فلاں کو مارا۔
فلاں دن اُن کا یوں مال اُٹھایا غرض یہ سارے کام ہاتھ بیان کریں گے۔
پاؤں کی گواہی
وَ اَرْجُلُهُمْ ۔ پھر پیر بیان کرنے شروع کر دیں گے کہ فلاں دن رات کے وقت فلاں کے گھر سیندھ لگانے کے لئے یا فلاں مال
اُٹھانے کے لئے یا اُس کو قتل کرنے کے لئے یا اَور کوئی نقصان پہنچانے کے لئے گیا۔
غرض کانوں آنکھوں اورچمڑوں کے علاوہ زبانیں اور ہاتھ اور پاؤں بھی اپنے اپنے حصہ کے ریکارڈ سنائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے
کہتے ہیں ''گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے'' جب اپنے ہاتھ گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ یہ کچھ کیا تھا، اپنے
پَیر گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ یہ کچھ کیا تھا، اپنی آنکھیں گواہی دے رہی ہیں کہ ہم نے یہ کچھ کیا تھا، اپنے کان گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ کچھ سنا تھا، اپنی زبان گواہی دے رہی ہے کہ ہم نے یہ کچھ کہا تھا اور یہ کچھ چکھا تھا تو اب وہ بیچارے پولیس مین کو کس طرح کہیں گے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ جو کچھ پولیس مین نے کہا تھا جب آنکھوں نے بھی اُس کے ساتھ گواہی دی، جب کانوں اور ہاتھوں وغیرہ نے بھی اس کے ساتھ گواہی دی تو ڈائری نویس کی جان میں جان آگئی اور اُس نے کہا کہ کروڑوں آدمیوں کے سامنے مجھے جُھوٹا بنایا گیا تھا اب میری براء ت ہو گئی کہ اپنے ہاتھوں اور اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں نے بھی اس کی گواہی دے دی اور میں شرمندہ اور ذلیل ہونے سے بچ گیا۔
دیکھو یہ ڈائری کتنی مکمل ڈائری ہے اِس کے مقابل میں دنیا کی ڈائری کے جو انتظامات ہیں وہ کتنے ناقص ہیں۔ قرآن کی ڈائری سُبْحَانَ اللّٰہِ! ایسی ڈائری پر تو کوئی شبہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔
گواہی میں دماغ کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟
یہاں کوئی شخص یہ کہہ سکتاہے کہ دماغ کو کیوں
شامل نہیں کیا گیا حالانکہ بہت سے گناہ تو دماغ سے ہوتے ہیں، ہاتھ پاؤں وغیرہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اور پھر بسا اوقات دماغی گناہ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے کرنے کا ہاتھ پاؤں کو موقع نہیں ملتا۔ تو اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی حکومت میں یہ قانون ہے کہ جو چیز دماغ میں آتی ہے لیکن اُس پر عمل نہیں کیا جاتا وہ بدی نہیں گِنی جاتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی بدی کا خیال کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تو اُس کے نامۂ اعمال میں وہ ایک نیکی کی صورت میں لکھی جاتی ہے۔10 پس دماغ کو اس لئے شامل نہیں کیا کہ اگر تو ہاتھ دماغ کے مطابق عمل کر چکے ہیں تو ہاتھ کی بات بیان ہو چکی، اگر زبان دماغ کے مطابق عمل کر چکی ہے تو زبان کی بات بیان ہو چکی، اگر دماغ نے یہ کہا تھا کہ بدی کی بات سنو تو کان بیان کر چکے کہ اس نے فلاں بات سنی تھی، اگر دماغ نے کہا تھا کہ چوری کرو تو پَیروں نے بتا دیا کہ وہ فلاں کے گھر میں چوری کے لئے گئے تھے لیکن اگر دماغ میں ایک بات آئی اور ہاتھ پاؤں سے اُس نے عمل نہیں کروایا تو پھر اسلامی اصول کے ماتحت اس کے نام ایک نیکی لکھی جائے گی کہ اس کے دل میں بُرا خیال بھی آیا لیکن پھر بھی اِس نے اُس پر عمل نہیں کیا۔ تو چونکہ وہ ایک نیکی لکھی گئی اس لئے اس کو اس کی شرمندگی والی باتوں میں بیان نہیں کیا جائے گاکیونکہ ایک طرف خداکا اس کو نیکی قرار دینا اور دوسری طرف اس کو باعثِ فضیحت بنانا یہ خدا کے انصاف کے خلاف ہے۔ اگر تو وہ اس کو بدی قرار دیتا تو پھر بیشک اس کو فضیحت کی جگہ پر استعمال کر سکتا تھا لیکن اس نے تو خود فیصلہ کر دیا کہ دماغ کے خیال کو نیکی تصور کیا جائے گااور جب نیکی تصور ہوگی تو اب اُس کو فضیحت کا ذریعہ نہیں بنایا جاسکتا تھا۔ پس معلوم ہؤا کہ ہماری روحانی ڈائری میں بڑے سے بڑے مُجرم کو بھی کچھ پردہ پوشی کا حق دے کر اُس کی عزت کی حفاظت کی جائیگی۔
ریکارڈ کی غرض محض مُجرموں پر اتمامِ حُجّت
ہوگی ورنہ عالِمُ الْغیب خدا سب کچھ جانتاہے
یہ دفتر کتنا مکمل اور کتنا شاندار ہے مگر اسی پر بس نہیں۔ اس طرح
تمام قسم کی حُجّت پوری کرنے کے بعد فرمایا کہ دیکھو میاں یہ خیال نہ کر لینا کہ ڈائری نویس کی ڈائری کے مطابق تمہیں مُجرم بنا دیا جاتا ہے، یہ نہ سمجھ لینا کہ اس ریکارڈ کے مطابق تمہیں مُجرم قرار دیا جاتا ہے، ہم تو تمہیں مذہب کے ذریعہ یہ کہا کرتے تھے کہ ہم عَالِمُ الْغیب ہیں پھر ہم کو عَالِمُ الْغیب ہونے کے لحاظ سے اس ڈائری کی کیا ضرورت تھی اور اس ریکارڈ کی کیا حاجت تھی ہم تو سب کچھ جانتے تھے۔ اس کی ضرورت محض اس لئے تھی کہ تم پر حُجّت ہو جائے ورنہ ہمیں فرشتوں کو ڈائری لکھنے پر مقرر کرنیکی ضرورت نہیں تھی، ہمیں کسی ریکارڈ کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمیں یہ ضرورت تھی کہ یہ تمہارے سامنے پیش ہوں اور تمہیں پتہ لگ جائے کہ ہم بِلا وجہ سزا نہیں دیتے بلکہ پوری طرح حُجّت قائم کرکے دیتے ہیں چنانچہ فرماتا ہے۔ اِنَّهٗ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَ مَا يَخْفٰى11 اللہ تعالیٰ تمام باتیں جو ظاہر ہیں اور مخفی ہیں ان کو جانتا ہے۔ اس کو نہ کسی فرشتہ کے ریکارڈ کی ضرورت ہے نہ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ کی ضرورت ہے نہ ہاتھ پاؤں کی گواہی کی ضرورت ہے اس کے علم میں ساری باتیں ہیں۔
پھر فرماتا ہے اَلَاۤ اِنَّهُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ لِيَسْتَخْفُوْا مِنْهُ١ؕ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَهُمْ١ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَ مَا يُعْلِنُوْنَ12اے لوگو! سُن لو کہ مشرک اور اللہ تعالیٰ کے مخالف لوگ اپنے سینوں کو مروڑتے ہیں تاکہ اُس سے مخفی ہو جائیں۔ یہاں محاورہ کے طور پر سینہ مروڑنا استعمال ہؤا ہے۔ کیونکہ جب کسی چیز کو چکر دیتے ہیں تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کے پیچھے کچھ چُھپ جائے۔ لیکن جو دل کی بات ہو اس کے لئے ظاہری سینہ نہیں مروڑا جاتا۔ پس اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن کے نتیجہ میں اُن کے دلوں کے رازظاہر نہ ہو جائیں۔ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَهُمْ١ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَ مَا يُعْلِنُوْنَ۔ سنو!جب یہ اپنے اوپر کپڑا اوڑھتے ہیں (عربی زبان میں اِسْتَغْشٰی ثَوْبَہٗ یا اِسْتَغْشٰی بِثَوْبِہٖ دونوں استعمال ہوتے ہیں۔ اور اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ایسی طرز پر کپڑا لیا جس سے آواز دب جائے۔ یہ لفظ عام کپڑا اوڑھنے کے لئے نہیں بولا جاتا بلکہ آواز کے دبانے کے لئے بولا جاتا ہے۔ پس يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَهُمْکے معنے یہ ہیں کہ جس وقت وہ اپنے کپڑے اس طرح اوڑھتے ہیں کہ آواز دب کے باہر نہ نکلے) تو وہ جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے۔
مفسّروں کی ایک غلط فہمی
اس محاورہ کی وجہ سے مفسّرین کو غلطی لگی ہے اور انہوں نے اس آیت کے ماتحت بعض ایسی
روایتیں درج کر دی ہیں جنہیں پڑھ کر ہنسی آجاتی ہے۔ بیشک منافق بڑا گندہ ہوتا ہے اور منافق بے وقوف بھی ہوتا ہے لیکن وہ حرکت جو مفسّرین ان کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ تو بہت ہی چھوٹے بچوں والی ہے۔ کہتے ہیں منافق لوگ اللہ تعالیٰ سے چُھپانے کے لئے لحاف اوڑھ کر اس کے اندر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف باتیں کیا کرتے تھے۔ حالانکہ اگر اس کے یہ معنے کئے جائیں تو یہ بچوں کا کھیل بن جاتا ہے۔ درحقیقت یہ محاورہ ہے اور ''کپڑے اوڑھتے ہیں'' کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسی تدبیریں کرتے ہیں کہ کسی طرح ان کے دل کی بے ایمانی لوگوں پر ظاہر نہ ہو جائے۔
مُجرم اپنے اعمال بھول جائیں گے مگر
خداتعالیٰ کے علم میں سب کچھ ہوگا
بہرحال فرماتا ہے کہ ہمیں کسی ڈائری نویس کی ضرورت نہیں، کسی ریکارڈ کی ضرورت نہیں ہم
تو آپ سب کچھ جانتے ہیں۔چنانچہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس دلیل کو بھی لے گا۔ فرماتا ہے يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا١ؕ اَحْصٰىهُ اللّٰهُ وَ نَسُوْهُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ13جب قیامت کے دن ان سب کو اکٹھا کیا جائے گاتو اللہ تعالیٰ علاوہ ان ڈائریوں کے اور علاوہ اس ریکارڈ کے فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا فرمائے گا ہمیں آپ بھی پتہ تھا، لو اب سن لو ہم تمہیں سناتے ہیں۔ چنانچہ وہ اُن کے سارے اعمالنامے انہیں سنانے شروع کر دیگا۔ اَحْصٰىهُ اللّٰهُ وَ نَسُوْهُ اور جب وہ بیان کرے گا تو پتہ لگے گاکہ اُن کے اعمال خدا کو تو یاد تھے مگر وہ آپ بُھول گئے تھے کہ ہمارے یہ یہ اعمال ہیں۔ گویا سب کچھ کرنے کے باوجود اُن کو پتہ نہیں تھا کہ ہم نے کیا کام کئے ہیں۔ جب خدا نے سنائے تو انہیں پتہ لگ گیا کہ تفصیل کیا ہے۔ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ اور اللہ تعالیٰ تو ہر چیزکا نگران اور گواہ ہے۔ فرشتوں کی اُس کو ضرورت نہیں صرف لوگوں پر حُجّت قائم کرنے کے لئے اُن کی ضرورت ہے۔
ملائکہ کی ضرورت کے متعلق ایک لطیف نکتہ
اِس جگہ اُس سوال کا جواب بھی آگیا جو
بعض لوگ کیا کرتے ہیں کہ جب خدا عَالِمُ الْغَیب ہے تو فرشتوں کی کیا ضرورت ہے؟ فرماتاہے فرشتوں کی تمہارے لئے ضرورت ہے اُس کے لئے ضرورت نہیں۔ چنانچہ جب وہ قاضی القضاۃ ان مجرموں کو کچا چٹھا سنانا شروع کرے گا تو ان پر یہ راز کھلے گا کہ وہ اپنے ہزاروں اعمال بُھول گئے تھے اب اس بیان سے بُھولی ہوئی باتیں انہیں پھر یاد آنی شروع ہونگی۔
خداتعالیٰ کے علمِ ازلی کی شہادت
اس کے بعد فرماتا ہے کہ اُن ڈائریوں کے علاوہ جو فرشتوں نے لکھ رکھی ہیں
اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہم نے جو کچھ تم کو بتایا ہے اس کے علاوہ بھی ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمارا کیسا علم ہے۔ اب تک تو ہم نے یہ بتایا ہے کہ تم نے جب کام کئے تھے تو ہم دیکھ رہے تھے اور ہم کو سب کچھ پتہ تھا فرشتوں کی ہمیں ضرورت نہیں تھی۔ مگر اب ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ جب تم نے یہ کام کئے بھی نہیں تھے تب بھی ہم نے ازل سے ہی تمہارے یہ کام لکھے ہوئے تھے اس لئے ہمیں تمہارے فعل کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارا علمِ ازلی بتا رہا تھا کہ تم نے کَل کو یہ فعل کرنا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْهِ وَ يَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّ لَا كَبِيْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا١ۚ وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا١ؕ وَ لَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا14 اور جس دن خدا کے ازلی علم کی کتاب پیش کی جائیگی اور کہا جائے گاکہ دیکھو! تم تو اَب پیدا ہوئے اور تم سے اب عمل سرزد ہوئے اور خدا کے علم میں آئے لیکن خدا کو ازلی طور پر بھی ہمیشہ سے اس کا علم تھا۔ اور اس نے پہلے سے تمہارا یہ حساب لکھا ہؤا تھا کہ فلاں پیدا ہوگا، فلاں چوری کرے گا اور فلاں نیک ہوگا۔ یہ علمِ ازلی خدا ان کے سامنے رکھے گا اور اُن سے کہے گاکہ دیکھ لو یہ ہمارا آج کا علم نہیں بلکہ ہمیں ہمیشہ سے یہ علم تھا پس ہمیں کسی فرشتہ کی ضرورت نہیں۔ فرشتے نے تو اُس دن معلوم کیا جس دن تم نے وہ فعل کیا اور ہمارے حاضر علم میں یہ اُس دن بات آئی جس دن تم نے وہ فعل کیا مگر ہمارے ازلی علم میں یہ اربوں ارب سال پہلے سے موجود تھی اور ہمیں پتہ تھا کہ تم نے یہ کام کرنا ہے۔ اُس وقت مُجرم اُس کو دیکھ کر ڈر رہے ہونگے اور وہ کہیں گے یَا وَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ ۔ ارے !ہم تومر گئے۔ یَا وَيْلَتَنَا ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں۔ میری ماں مرے۔ ہماری زبان کے اس محاورہ کے مقابلہ میں عربی زبان کا محاورہ ہے یَا وَيْلَتَنَا ۔ ارے ہلاکت میرے اوپر آکر پڑ گئی مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّ لَا كَبِيْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا۔ یہ قسمت اور اعمالنامہ کی کیسی کتاب ہے کہ نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتی ہے نہ بڑی چھوڑتی ہے۔ ساری کی ساری اس میں موجود ہیں۔ وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۔ اور جس طرح وہ قدیم سے موجود تھا اسی طرح وہ حال میں بھی اُسے دیکھیں گے۔ وہ خدا کے سامنے لاکھوں سال کے بعد یا سینکڑوں اور ہزاروں سال کے بعد پیش ہونگے مگر وہ دیکھیں گے کہ اُس میں سب کچھ پہلے سے لکھا ہؤا موجود ہے۔ وَ لَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا اور خدا تعالیٰ اپنے پاس سے کوئی سزا نہیں دیگا بلکہ اُن کے جُرموں کے مطابق انہیں سزا دیگا۔
عالَمِ روحانی میں ہر جُرم کے لئے
دس گواہ پیش کئے جائیں گے
گویا اس دفتر میں چار گواہیاں ہوگئیں۔ ایک تو فرشتوں کی ڈائری پیش کی گئی۔ ایک ہاتھ، پاؤں، آنکھ، کان، زبان اور
جلد کا ریکارڈ پیش ہؤا۔تیسرے خدا نے کہا میں خود بھی دیکھ رہا تھا مجھے فرشتوں کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ چوتھے پُرانا ازل کا چِٹھا پیش ہؤا اور انہیں کہا گیا کہ یہ تو ہمیشہ سے علمِ الٰہی میں موجود تھاچنانچہ دیکھ لو یہ لکھا ہؤا ہے۔
ہماری شریعت نے اس دنیا میں بڑے سے بڑے گناہ کی چار گواہیاں مقرر کی ہیں مثلاً زنا ہے اس کے لئے لکھا ہے کہ چار گواہ ہوں۔ باقی گواہیوں میں سے بعض دو دو سے ہوجاتی ہیں اور بعض جگہ ایک گواہ سے بھی گواہی ہو جاتی ہے۔ مگر خدا کے سامنے اتنا انصاف کیا جائے گاکہ وہ چار گواہ ایسے پیش کئے جائیں گے جو نہایت معتبر ہونگے۔ اوّل فرشتوں کی گواہی جو ایک نہیں بلکہ دو ہونگے گویا اس ایک گواہی میں دو گواہیاں آگئیں،پھر ریکارڈ آگیا اس ریکارڈ میں بھی چھ گواہ ہیں آنکھ ، کان، زبان، جلد، ہاتھ اور پاؤں یہ چھ گواہ ہونگے جن کی گواہی ہوگی۔ گویا آٹھ گواہ ہو گئے۔ پھر خدا نواں گواہ اور دسواں علمِ ازلی۔ غرض دس گواہوں کے ساتھ وہاں چھوٹے سے چھوٹے جُرم کی سزا دی جائیگی حالانکہ اس دنیا میں دو دو گواہ اور وہ بھی جو آٹھ آٹھ آنے لے کر قرآن اُٹھا لیتے ہیں، اُن کی گواہیوں پر فیصلہ ہو جاتا ہے۔
دُنیا میں آٹھ آنہ کے گواہوں پر مقدمات کا فیصلہ
ہمارے بڑے بھائی مرزا
سلطان احمد صاحب جو بعدمیں احمدی ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو اُن کا نوکری کرنا پسند نہیں تھا لیکن ان کو نوکری کا شوق تھا۔ چنانچہ وہ نوکر ہوئے اور آخر ڈپٹی کمشنر ہو کر ریٹائر ہوئے۔ اُن دِنوں نارتھ ویسٹرن پراونس اور پنجاب یہ دونوں صوبے اکٹھے ہوتے تھے۔ اور وہ کیمل پور یا میانوالی کے علاقہ میں یا شاید ڈیرہ غازیخان میں ای۔اے۔سی تھے۔ وہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص جو میرا دوست اور مجھ سے بہت ملنے والا تھا اُس کا میرے پاس کوئی مقدمہ تھا۔ مَیں نے اُس کی دَورے میں پیشی رکھی اور جہاں ہم تھے اُس سے وہ جگہ کوئی پچاس ساٹھ میل پر جاکے آئی۔ چونکہ وہ میرا بے تکلّف دوست تھا میرے پاس آیا اورکہنے لگا مرزا صاحب! مجھے آپ پر بڑا اعتبار تھا کیونکہ آپ دوست تھے لیکن خیر یوں تو آپ نے انصاف ہی کرنا ہے مگر کم سے کم مَیں آپ سے یہ تو امید کرتاتھاکہ آپ مجھے خراب تو نہ کریں گے۔ اب آپ نے پچاس میل پر جاکے گواہی رکھی ہے میں یہاں سے گواہ کس طرح لے کے جاؤنگا۔ میرا خرچ الگ ہوگا اور پھرممکن ہے گواہ انکار کر دیں اور کہیں کہ ہم نہیں جاتے پھر میرے پاس کیا چارہ ہے؟ کہنے لگے میں نے اُس کو کہا کہ میں تو تمہیں عقلمند سمجھ کے تمہارے ساتھ دوستی کرتا تھا تم توبڑے بیوقوف نکلے۔ کہنے لگا کیوں؟ میں نے کہا تم بھی مسلمان اور گواہ بھی مسلمان۔ تم کو پتہ نہیں کہ آٹھ آٹھ آنے میں گواہ مل سکتا ہے۔ پھر یہاں سے گواہ لے جانے کا کیا سوال ہے؟ خیر وہ اُٹھ کر چلا گیا۔ کہنے لگے جب ہم وہاں پہنچے تو پچاس مِیل پر جہاں کوئی شخص نہ اُس کی شکل جاننے والا اورنہ اِس واقعہ کا علم رکھنے والا تھا وہاں گواہ آگئے جنہوں نے قرآن اُٹھایا ہؤا تھا اور انہوں نے آکر کہا۔ خداکی قسم! ہمارے ہاتھ میں قرآن ہے اور ہم سچ بولتے ہیں کہ یہ واقعہ ہؤا ہے۔ کہنے لگے واقعہ کے متعلق تو مجھے پتہ ہی تھاکہ سچا ہے پر یہ بھی پتہ تھا کہ یہ گواہ سارے کے سارے جھوٹے ہیں بہرحال میں نے اُس کے حق میں ڈگری دے دی اور پھر میں نے اُس کو کہا کہ میاں! اس میں تجھ کو گھبراہٹ کس بات کی تھی۔ آٹھ آٹھ آنے لے کر تو مسلمان گواہی دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ تو دیکھو اسلامی سزا کتنی کامل تحقیقات کے بعد ہوتی ہے کہ جس میں کوئی شائبہ بھی کسی قسم کے شبہ کا پیدانہیں ہوتا۔
مسئلۂ تقدیر اور قسمت
شاید کسی کے دل میں خیال آئے کہ میں نے جو کتاب ازلی کا ذکرکیا ہے تو اس سے معلوم ہؤا کہ تقدیر اور قسمت
کا مسئلہ اُسی شکل میں ٹھیک ہے جس طرح عوام الناس سمجھتے ہیں مگر یہ غلط ہے۔ قرآن تقدیر اور قسمت کا مسئلہ اُس طرح بیان نہیں کرتا جس طرح کہ عام مسلمان اپنی ناواقفیت سے سمجھتے ہیں بلکہ قرآن کریم کے نزدیک تقدیر اور قسمت کے محض یہ معنے ہیں کہ ہر انسان کے لئے ایک قانون مقرر کر دیا گیا ہے کہ اگر وہ ایسا کام کرے گا تواس کا یہ نتیجہ نکلے گا۔ مثلاً اگرمرچیں کھائے گا تو زبان جلے گی، اگر تُرشی کھائے گا تو نزلہ ہو جائے گااور گلا خراب ہو جائے گا، اگر کوئی سخت چیز کھا لے گاتو پیٹ میں درد ہو جائے گایہ تقدیر اور قسمت ہے۔ یہ تقدیر اور قسمت نہیں کہ فلاں شخص ضرور ایک دن سخت چیز کھائے گا اورپیٹ میں درد ہو جائے گا۔ یہ جھوٹ ہے۔ خدا ایسا نہیں کرتا۔ قرآن اِس سے بھراپڑا ہے کہ یہ باتیں غلط ہیں۔ پس یہ جو ہمیشہ سے لکھا ہؤا ہونا ہے اس کا تقدیر اور قسمت سے کوئی تعلق نہیں اس لئے کہ تقدیر اور قسمت تب بنتی ہے جب خداکے لکھے ہوئے کے ماتحت انسان کام کرے۔ اگر یہ ضروری ہو کہ جو کچھ خدا نے لکھاہے اُسی کے مطابق اس کو کام کرنا چاہئے تو پھر یہ جبر ہو گیااور تقدیر اور قسمت ٹھیک ہو گئی لیکن جو قرآن سے تقدیر ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا اس بات میں بندے کے تابع ہوتاہے اورجو اس بندے نے کام کرنا ہوتاہے خدا اُسے لکھ لیتا ہے۔ تقدیر اور قسمت تو تب ہوتی جب خدا مجبور کرتا اور یہ بندہ خدا کے جبر سے وہ کام کرتا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ بندہ وہ کام کرتا ہے اور خدا ا س کے جبرکے ماتحت وہی بات لکھتاہے جو اُس نے کرنی ہے۔ اس لئے یہ تو تم کہہ سکتے ہو کہ لکھنے کے بارہ میں خدا پر وہ تقدیر حاوی ہے جو انسانوں پر قیاس کی جاتی ہے۔ یہ تم نہیں کہہ سکتے کہ بندوں کی قسمت میں خدا نے جبر کرکے کوئی اعمال لکھے ہوئے ہیں۔
عالَمِ روحانی میں مُجرموں کے فیصلہ کی نقول
پھر اس دنیا میں قاعدہ ہے کہ لوگ ریکارڈ کی
کاپی مانگتے ہیں۔ انہیں خیال ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو دکھائیں گے اور غور کریں گے کہ یہ سزا ٹھیک ملی ہے یا نہیں ؟اس غرض کے لئے لوگ ریکارڈ اور فیصلہ کی کاپی مانگتے ہیں اور اس کے بڑے فائدے ہوتے ہیں مگر اس دنیا کی گورنمنٹوں نے یہ طریق رکھا ہؤا ہے کہ وہ پیسے لے کر ریکارڈ دیتی ہیں۔ جب کوئی نقل لینے آتاہے تو کہتے ہیں پیسے داخل کراؤ مثلاً پندرہ روپے یا بیس روپے یا پچیس روپے۔ نقل نویسوں نے حرف گِنے اورکہہ دیا کہ اتنے روپے داخل کرو تو ریکارڈ مل جائے گا۔ پھر کہا کہ اگر جلدی نقل لینی ہے تو ڈبل یا تین گُنا فیس دو۔ میں نے دیکھا کہ آیا وہاں بھی کوئی نقل ملتی ہے یا نہیں ؟اور آیا اُن کو تسلی ہوگی کہ گھر جاکر آرام سے بیٹھ کر دیکھیں گے کہ سزا ٹھیک ملی ہے ؟جب میں نے غورکیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ وہاں بھی نقلیں ملیں گی چنانچہ فرماتا ہے وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ١ۙ۬ فَيَقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِيَهْۚ۔وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِيَهْۚ۔يٰلَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ۔ 15 یعنی یہاں تو کچھ دِنوں کے بعدنقل ملتی ہے یا اگر جلدی لینی ہو تووہ بھی تین چار دن میں ملتی ہے اور اس کے لئے کئی گُنے زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے مگر وہاں اِدھر فیصلہ ہوگا اور اُدھر اگر وہ مُجرم ہے تو اُس کے بائیں ہاتھ میں مُفت نقل پکڑا دی جائے گی اور کہا جائے گاکہ یہ تمہارے اعمالنامہ اور فیصلہ کی نقل ہے اور یہ نقل مُفت ملے گی کوئی پیسہ نہیں دینا پڑے گا۔
فیصلہ کی نقل دینے کا فائدہ
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ریکارڈ کی نقل دینے کا زائد فائدہ کیا ہے؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ
اس کا فائدہ یہ ہے کہ سزا ملنے پر انسان کم سے کم اپنی کانشنس کو تسلی دیتا ہے کہ میرا جُرم اتنا نہیں جتنا مجھے مجرم بنایا گیا ہے لیکن جب وہ ریکارڈ پڑ ھے گا تو اُسے معلوم ہوگا کہ جُرم سے کم ہی سزا ملی ہے زیادہ نہیں۔ اُس وقت وہ کہے گا يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِيَهْ۔کاش ! یہ کتاب مجھے نہ دی جاتی تاکہ کم سے کم میری کانشنس تو تسلی پاتی کہ شاید میرے گناہ کچھ زیادہ سمجھ لئے گئے ہیں ورنہ میں اتنا مُجرم نہیں مگر اس سے تو پتہ لگتا ہے کہ گناہ زیادہ ہیں اور سزا کم ہے ۔ وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ اور مجھے یہ نہ پتہ لگتا کہ میرا حساب کیا ہے کیونکہ حساب زیادہ بنتا ہے۔ حساب بنتا ہے دو سَو سال کی قید اور سزا دی ہے ایک سَو پچاس کی۔ میری کانشنس(CONSCIENCE) اُلٹا مجھے مجرم بناتی ہے کہ میں نے جُرم بھی کئے، غداریاں بھی کیں، فریب بھی کئے پھر بھی سزا مجھے کم ملی۔ مجھے پتہ نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے تو میری کانشنس کو کچھ تسلی رہتی۔
نیک لوگوں کو بھی فیصلہ کی نقلیں دی جائیں گی
اِسی طرح فرماتا ہے کہ جو نیک کام کرنے
والے ہیں اُن کو بھی ڈائریوں اور اُن کے فیصلہ کی نقل دی جائے گی چنانچہ فرماتا ہے فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ١ۙ فَيَقُوْلُ هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْۚ۔اِنِّيْ ظَنَنْتُ اَنِّيْ مُلٰقٍ حِسَابِيَهْ۔16 یعنی جو نیک لوگ ہونگے اُن کو بھی فوراً کاپی دیدی جائیگی لیکن اُن کے دائیں ہاتھوں میں کاپی دی جائے گی اور جب وہ اُس کو پڑھیں گے تو اُس میں اُن کے اعمالنامہ کو ایسا خوبصورت کرکے دکھایا ہوگا اور وہ ایسے اچھے ٹائپ پر لکھا ہوگا کہ کہیں گے هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْ۔ ارے بھائی! ادھر آنا ذرا پڑھو تو سہی یہ کیا لکھا ہؤا ہے۔ جب کسی شخص کو کوئی انعام ملتا ہے تو وہ لازمی طور پر دوسرے لوگوں کو بھی اُس میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ پس هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْمیں نقشہ کھینچ دیا گیا ہے کہ وہ فخر کرکے لوگوں کو بلائے گا اور کہے گاآؤ میاں! آؤ! ذرا دیکھو میرے اعمال کیا ہیں۔ اِنِّيْ ظَنَنْتُ اَنِّيْ مُلٰقٍ حِسَابِيَهْ ۔مجھے تو پہلے سے ہی یہ امید تھی کہ اللہ تعالیٰ کسی کا حق نہیں مارتا۔ میں نے جو نیک کام کئے ہیں مجھے ان کا ضرور بدلہ ملے گا، سو اُمیدوں سے بڑھ کر ملا۔
دُنیوی حکومتوں کے نظام میں مختلف نقائص
دیکھو دفاتر اور ڈائریوں کا ایسا مکمل اور بے اعتراض
نظام دنیا کی مہذب سے مہذب حکومت میں بھی نہیں ہوتا۔ دُنیوی حکومتوں نے تو حال میں یہ ڈائری نویسی کے انتظام شروع کئے ہیں۔ چنانچہ ڈائری نویسی کے انتظام کا کوئی ہزار پندرہ سَو سال سے پتہ لگتا ہے اس سے پہلے نہیں بلکہ صرف ہزار سال کے قریب ہی عرصہ ہؤا ہے۔ لیکن قرآنی حکومت نے تیرہ سَو سال پہلے اس کا مکمل نقشہ کھینچا ہے کہ ڈائری ہونی چاہئے، ڈائری نویس کی صداقت کا ثبوت ہونا چاہئے اور مجسٹریٹ کو پتہ ہونا چاہئے کہ سچائی کیا ہے؟ یہ تین چیزیں جمع ہوں تب سزا کے متعلق یہ تسلی ہو سکتی ہے کہ سزا ٹھیک ہے۔ ہمارے ہاں اوّل تو ڈائری نویس جھوٹا بھی ہوتا ہے اور سچا بھی ہوتاہے۔ پھر اس کی تصدیق کرنے والے کوئی نہیں ہوتے بلکہ بنائے جاتے ہیں۔ تیسرے مجسٹریٹ بیچارے کو کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا۔
حضرت امام ابو حنیفہؒ کا
قاضیُ القضاۃ بننے سے انکار
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو بادشاہ نے قاضیُ القضاۃ مقرر کیا تو انہوں نے اس عہدہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا میں
قاضیُ القضاۃ نہیں بنتا۔ بادشاہ خفاہو گیا اور اس نے کہا میں اس کو سزا دونگا کیونکہ انہوں نے ہتک کی ہے۔ مگر چونکہ لوگوں میں خبر مشہور ہو چکی تھی اس لئے ان کے دوست دُور دُور سے انہیں مبارک باد دینے کے لئے پہنچے کہ آپ قاضیُ القضاۃ مقرر ہو گئے ہیں۔ لیکن جب شہر میں پہنچے تو پتہ لگا کہ آپ نے تو انکار کر دیا ہے۔ بہرحال وہ آپ کے پاس آئے اورکہا ہم تو مبارکباد دینے کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے کہا تم کس بات کی مبارک باد دینے کے لئے آئے تھے؟ وہ کہنے لگے اتنی بڑی حکومت کا آپ کو قاضیُ القضاۃ مقرر کیا گیا ہے کیا ہم مبارکباد نہ دیں؟ انہوں نے کہا تم بڑے بیوقوف ہو، میں کیا کرونگا؟ میں عدالت میں جاکر بیٹھوں گا اور دو آدمی میرے سامنے پیش ہونگے۔ ایک کہے گا اِس نے میرا سَو روپیہ دینا ہے دوسرا کہے گامیں نے کوئی نہیں دینا۔ اب وہ دونوں آپس میں جھگڑ رہے ہونگے، یہ کہے گادینا ہے وہ کہے گانہیں دینا اورمیں بیچ میں بیٹھا ہونگا کیونکہ مجھے حکومت نے مقرر کیا ہے کہ فیصلہ کرو اِس نے دینا ہے یا نہیں دینا۔ وہ جو کہتا ہے اِس نے سَو روپیہ دینا ہے اُس کو پتہ ہے کہ اُس نے دینا ہے یا نہیں دینا۔ اور جو کہتا ہے میں نے نہیں دینا اُس کو بھی پتہ ہے کہ میں نے دینا ہے یا نہیں دینا۔ اور میں جو جج بن کر بیٹھاہونگا مجھے پتہ ہی نہیں ہوگا کہ اِس نے دینا ہے یا نہیں دینا۔ پس سب سے زیادہ قابلِ رحم حالت تو میری ہوگی کہ مدعی کو بھی سچائی کا پتہ ہے اور مدعا علیہ کو بھی سچائی کا پتہ ہے اور میں جو قاضی بن کے بیٹھاہوں جس کے سپرد سب سے اہم کام ہے اُس کو نہیں پتہ کہ حقیقت کیا ہے؟ تومیں کس طرح یہ بوجھ اُٹھا سکتاہوں۔ تو یہ بھی ایک بڑا مشکل سوال ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی قضاء میں دیکھو کتنا زبردست نظام رکھا گیا ہے کہ ہم ڈائری بھی پیش کریں گے، لکھنے والے عینی گواہ بھی لائیں گے اور پھر عینی گواہوں کے علاوہ اپنی زبان اور اپنے کانوں اور اپنے ہاتھ پاؤں کا ریکارڈ لائیں گے تاکہ وہ انکار نہ کر سکیں اور اس کے بعد ہم جو فیصلہ کرنے والے ہیں اُنہیں بتائیں گے کہ ہم بھی وہاں بیٹھے دیکھ رہے تھے اس لئے اس فیصلہ کو کوئی غلط نہیں کہہ سکتا۔
حکومتیں روحانی نظام کی اب تک نقل بھی نہیں کر سکیں
مگر اتنے بڑے زبردست نظام
کو دیکھ کر بھی حکومتیں اسکی نقل نہیں کر سکیں۔ حکومتوں نے ڈائریاں بھی بنائی ہیں، اب ریکارڈر بھی نکال لئے ہیں مگر وہ ریکارڈر کروڑوں مقدموں میں سے کسی ایک میں استعمال ہوتا ہے ہر جگہ نہیں ہو سکتا۔ غرض اتنے نظام کو دیکھنے کے بعد بھی دنیا ایسا نظام نہیں بنا سکی اور ابھی دنیا کہہ رہی ہے کہ قرآن کی ہم کو ضرورت نہیں ہے۔ تیرہ سَو سال سے یہ اعلیٰ درجہ کا نظامِ حکومت قرآن بیان کرتا ہے اور تیرہ سَو سال سے اس کو تفصیل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، تیرہ سَو سال سے مہذب دنیا کی حکومتیں اِس کو دیکھتی ہیں اور اس کی نقل کرنیکی کوشش کرتی ہیں مگر تیرہ سَو سال کے عرصہ میں اس کی مکمل نقل نہیں کر سکیں۔ اگر وہ ڈائریاں لکھنی شروع کرتی ہیں تو ان کو سچے ڈائری نویس نہیں ملتے۔ اگر ڈائری نویس کی تصدیق کا ثبوت ملتاہے تو پہلے تو اُن کو اِس کا پتہ ہی نہیں تھا اب ریکارڈر نکالا تو وہ ریکارڈر کو ہر جگہ استعمال نہیں کر سکتے۔ اور اگر ریکارڈر ہو بھی تو پھربھی جج کو صحیح پتہ نہیں لگ سکتا اورکوئی ایسا جج اُن کو نہیں مل سکتا جس کو پتہ ہو کہ واقعہ کیا ہے۔ وہ محض قیاسی باتیں کرتا ہے۔ چنانچہ ہزاروں دفعہ ایسا ہؤا ہے کہ جج نے ایک فیصلہ کیا ہے اور بعد میں معلوم ہؤا ہے کہ وہ فیصلہ غلط تھا۔ ہم نے انگلستان کے بعض فیصلے پڑھے ہیں جن میں یہ ذکر آتا ہے کہ بعض جج پاگل ہو گئے کیونکہ پندرہ بیس سال کے بعد ان کو بعض ایسے واقعات معلوم ہوئے کہ جس شخص کو انہوں نے پھانسی دی تھی وہ بالکل مُجرم نہیں تھا اور وہ اس صدمہ کے مارے کہ ہم نے اتنا ظلم کیا ہے پاگل ہو گئے۔ لیکن قرآن کا جج دیکھو اُس کے پاس ڈائریوں کا کتنا بڑا نظام ہے اور پھر کس یقین کے ساتھ وہ کہتاہے کہ نہیں اصل حقیقت یہ ہے۔
مخلص اور پارسا اور توبۃ النصوح
کرنے والوں کو ایک خدشہ
ایک اَور بات بھی یہاں قابلِ غور ہے اور وہ یہ کہ اس نظام کا ذکرسُن کر (جیسے تم میں سے بھی جو ہوشیار آدمی ہونگے اُن
کے دل میں بھی خیال آیا ہوگا)مخلص اور پارسا اور توبۃ النصوح کرنے والوں کے دل بھی ڈر جائیں گے اور وہ کہیں گے کہ آٹے کے ساتھ گھُن بھی پِسنے لگا ہے۔ مجرم تو خیر مجرم تھے ہی لیکن مَیں جو توبہ کرنے والا ہوں یا مَیں جس نے ساری عمر کوشش کرکے نیکیاں کی ہیں میرے اعمال کا بھی تو کوئی نہ کوئی حصہ ایسا ہے جس کے متعلق مَیں نہیں چاہتا کہ لوگوں کے سامنے ظاہر ہو۔ اگر یہی ذلّت اور فضیحت ہونی ہے تو میں تو صاف مر گیا۔ ابوجہل تو ڈوبے گا ساتھ اس کے کئی صحابہؓ کے اعمال جو چُھپانے والے ہونگے وہ بھی ظاہر ہو جائیں گے۔ اس طرح دوسرے نیک لوگوں کے بھی ظاہر ہو جائیں گے۔ ہمارے ہاں مشہور ہے کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کا قریب ترین جو شاگرد تھا وہ پہلے ڈاکو اور چور ہوتا تھا۔ اب وہ بزرگ صاحب پیش ہوئے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور اسلام کی خدمت کرنے والے ہیں اور ریکارڈ شروع ہؤا کہ انہوں نے فلاں جگہ چوری کی، فلاں جگہ ڈاکہ مارا تو ذلّت تو ہوگی۔ اب ایسا شخص ملنا سوائے چند افراد کے بہت مشکل ہے کہ جس کی زندگی کا کوئی حصہ بھی ایسا نہ ہو جس کو ریکارڈ پر نہ لایا جا سکے۔ اگر اس دفتر میں ایک ایک عمل اور ایک ایک خیال چار چار ریکارڈوں میں موجود ہے تو کافر تو ذلیل ہونگے ہی مؤمن کو بھی جنت ہز ار رُسوائی کے بعد ہی ملے گی۔ پھر اس کا مزہ کیا آئیگا؟ تائب کہے گاکہ توبہ تو منظور ہو گئی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِمگر کلنک کا ٹیکا تو ماتھے کو لگ ہی گیا۔
ریکارڈر آپ ہی نہیں بجتا بلکہ
مالک جب بجاتا ہے تب بجتا ہے
مگر اس دفتر ریکارڈ میں جب ہم نے قاعدے دیکھے اور غور کیا کہ اچھا اس کے لئے کیا سامان موجود ہے؟ تو معلوم ہؤا کہ
اُس نے اِس خدشہ کا بھی علاج کیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ایسی کوئی بات پیش ہی نہ ہو کیونکہ ہم نے جب ریکارڈ دیکھا تو قانون یہ نکلا کہ وَ قَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا١ؕ قَالُوْۤا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْۤ اَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَّ هُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ17 جب اُن کے ہاتھوں نے اور پیروں نے گواہیاں دینی شروع کیں تو انہوں نے کہا ارے کمبختو! تم تو ہمارا حصہ تھے۔ اے کان! تُو میرا تھا، اے آنکھ! تُو میری تھی، اے زبان! تُو میری تھی، اے جِلد! تُو میری تھی، اے ہاتھ! تم میرے تھے، اے پاؤں! تم میرے تھے کمبختو! تمہی نے میرا بیڑا غرق کرنا تھا کہ یہ باتیں کرنی شروع کر دیں۔
صِرف جِلد کا انتخاب اُس کے نمائندہ
ہونے کی حیثیت سے کیا گیا ہے
اِس جگہ اللہ تعالیٰ نے ان اعضاء کے صرف ایک نمائندہ یعنی جِلد کو لے لیا ہے کیونکہ جِلد ان سب
چیزوں کو ڈھانپتی ہے۔جِلد کان پر بھی ہوتی ہے،جِلد زبان پر بھی ہوتی ہے، جِلد آنکھوں پر بھی ہوتی ہے،جِلد پیروں پر بھی ہوتی ہے،جِلد ہاتھوں پر بھی ہوتی ہے۔ پس چونکہ جِلد نمائندہ ہے تمام اعضاء کا اس لئے یہاں صرف جِلد کا لفظ رکھا گیا ہے۔ بہرحال جب وہ یہ کہیں گے تو ان اعضاء کا نمائندہ آگے سے یہ جواب دیگا کہ بھئی! ہم کوئی اپنے اختیار سے بولے ہیں؟ یہ ریکارڈر آپ ہی نہیں بجا کرتے بلکہ مالک جب سُوئی رکھتا ہے اور اس کو بجانا چاہتا ہے تب بجتے ہیں۔ اُس نے جب سُوئی رکھ دی تو ہم کیا کریں پھر تو ہم نے بجنا تھا۔
عالَمِ روحانی کا ایک اور خوشکن قانون
اس سے ایک شخص کے دل کو کم از کم اتنی تسلی ہو گئی کہ ریکارڈر
نے آپ ہی نہیں بجنا، بجانے والا بجوائے گا تو بجے گا۔اب دیکھیئے بجوانے والا بجواتا ہے یا نہیں اور کوئی عزت رہ جاتی ہے کہ نہیں؟ سو اس کے متعلق قاعدہ دیکھا تو یہ قاعدہ نکلا کہ يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ١ؕ وَ مَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ يَعْمَلْ صَالِحًا يُّكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّاٰتِهٖ وَ يُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ18 جس دن ہم ان سب لوگوں کو جمع کریں گے اور وہ دن ایسا ہوگا جب ایک دوسرے پر اُس کی غلطیوں کا الزام لگایا جائے گا(تغابن کے معنے ہیں وہ کہے گااِس نے فساد کئے ہیں یہ کہے گا اُس نے کئے ہیں) تو اُس دن اچھی طرح جانچ پڑتال ہوگی۔ پھر کیا ہوگا؟ وَ مَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ يَعْمَلْ صَالِحًا جو ایمان لانیوالا ہوگا اور عملِ نیک کرنے والا ہوگا اُس نے کچھ بدیاں تو کی ہونگی، کچھ غلطیاں اُس سے بھی صادر ہوئی ہونگی، کچھ کمزوریاں اُس سے بھی ہوئی ہونگی مگر يُّكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّاٰتِهٖ ہم کہیں گے اُس تمام جگہ پر جہاں بُرے کام درج ہیں چیپیاں لگا دو تاکہ انہیں کوئی نہ دیکھے۔ لغت میں لکھا ہے کہ التَّکْفِیْرُ سَتْرُہٗ وَ تَغْتِیْتُہٗ حَتّٰی یَصِیْرَ بِمَنْزِلَۃِ مَالَمْ یُعْمَلْ 19 کہ تکفیر کے معنے ہوتے ہیں ڈھانپ دینا اور اُس پر پردہ ڈال دینا ایسی صورت میں کہ یہ پتہ لگانا ناممکن ہو جائے کہ اس نے فلاں کام کیا تھا۔ تو يُّكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّاٰتِهٖ اللہ تعالیٰ فوراً حکم دیگا کہ یہاں چیپیاں لگا دی جائیں تاکہ یہ یہ جگہ سامنے آئے تو پتہ ہی نہ لگے کہ اس نے یہ کام کیا تھا۔ اِس طرح بتایا گیا کہ صرف امکان ہی نہیں ہے بلکہ وقوعہ بھی یہی ہوگا کہ مؤمن اور نیک عمل کرنے والے اور تائب کی غلطیوں پر چیپیاں لگا کر انہیں چُھپا دیا جائے گا اور کسی کو پتہ نہیں لگے گا کہ اِس نے کوئی گناہ کیا ہے۔
اگر مؤمن کی غلطیوں پر پردہ نہ ڈالا جاتاتو
وہ اپنے اعمالنامہ پر فخر کس طرح کر سکتا
اگر چیپیاں نہ لگی ہوتیں تو مؤمن کیوں کہتا کہ هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْ آؤ ذرا میرا
اعمالنامہ پڑھو۔ اگر پڑھاتا تو ساتھ بدیاں بھی نکل آتیں اور اگر اعمالنامہ میں بدیاں بھی لکھی ہوئی ہوتیں تو چاہے اُسے جنت ہی ملی ہوتی وہ اُسے اپنی بغل میں دبا لیتا اور کہتا مجھے جنت ملی ہے مجھے انعام ملا ہے۔ اگر کوئی کہتا ذرا کتاب دکھانا تو جواب دیتا نہیں نہیں! میں پھر دکھاؤنگا ۔ کیونکہ وہ ڈرتا کہ دیکھے گا تو بیچ میں بدیاں بھی نکل آئیں گی۔ مگر چونکہ بدیوں پر چیپیاں لگی ہوئی ہونگی اس لئے وہ کہے گا هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْ ارے میاں! آؤ اورمیری کتاب دیکھو میرے اندر کوئی عیب نہیں ہے۔
اعلیٰ درجہ کے مومنوں کی بدیاں
بھی نیکیوں میں بدل دی جائیں گی
اِس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کچھ لوگوں کی غلطیوں کو چُھپا دیا جائے گا وہاں کچھ ایسے بھی
اعلیٰ درجہ کے لوگ ہونگے کہ اُن کی محبت اور قربانی اور توبہ کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ صرف اُن کی بدیوں کو چُھپائے گا ہی نہیں بلکہ اُنکی بدی کی جگہ نیکی لکھ دیگا۔ چنانچہ فرماتا ہے يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ20 کچھ ایسے مؤمن ہونگے کہ اُن کے اعلیٰ درجہ کو دیکھ کر، اُن کے تقویٰ کو دیکھ کر، اُن کی توبہ کو دیکھ کر، اُن کی دیانت کو دیکھ کر گو غلطیاں بھی انہوں نے کیں، گناہ بھی اُن سے سرزد ہوئے، کمزوریاں بھی اُن سے ہوئیں مگر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہے گایہ میرا بندہ ہے ہم نے اِس کی سزا معاف کر دی ہے اور اس کو معاف کرکے اس کے قُرب کا فیصلہ کیا ہے اس لئے یہاں نیکی لکھ دو۔ چنانچہ جب وہ کتاب پڑھے گا تو جو ادنیٰ درجہ کا مؤمن ہوگا اُس کے اعمالنامہ پر تو چیپیاں لگی ہوئی ہونگی اور اُس کے گناہ کو چُھپایا ہؤا ہوگا۔ اور جو اعلیٰ درجہ کا مؤمن ہوگا اُس کے اعمالنامہ میں وہاں اُس کاکوئی کارنامہ لکھا ہؤا ہوگا۔ مثلاً وہی کام جو پہلا تھا اُس کو بڑھا کر اپنے انعام کے ساتھ اس میں شامل کیا ہوگا۔ گویا اُس کا اعمال نامہ ایک نئی شکل میں ہوگا۔ اِس کی مثال سمجھنے کے لئے یاد رکھنا چاہئے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ گویا جھوٹ کے ساتھ کام لیاجائے گا لیکن یہ جھوٹ نہیں ہوگا۔ میں اس کی ایک مثال دے دیتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ کس طرز پر کام لیا جائے گا۔
حضرت معاویہؓ کی ایک
نماز ضائع ہونے کا واقعہ
آثار میں پُرانے زمانہ کا ایک واقعہ لکھا ہے آجکل تو یہ ہوتا ہے کہ کوئی بڑا آدمی مسجد میں نماز پڑھنے چلا جائے تو سارے شہر میں دُھوم پڑ جاتی ہے کہ آج
فلاں صاحب جمعہ کی نماز کے لئے آئے تھے لیکن پُرانے زمانہ میں اِس کے اُلٹ ہوتا تھا۔ پُرانے زمانہ میں امراء خود نماز پڑھاتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے تھے۔ آپ کے بعد آپ کے خلفاء پڑھاتے تھے اور اس کے بعد جو دُنیوی خلفاء آئے وہ بھی خودنماز پڑھاتے تھے۔ حضرت معاویہؓ کے زمانہ میں خود حضرت معاویہؓ مسجد میں جاکر نماز پڑھاتے تھے۔ ایک دن ایسا ہؤا
کہ کوئی کام کرتے کرتے زیادہ دیر ہو گئی یا کچھ طبیعت خراب تھی نمازکے وقت آواز دینے والے نے آواز دی کہ نماز کھڑی ہو گئی ہے (یہ پرانی سنّت ہے کہ امام کو گھر پر جاکے مؤذن اطلاع دیتا ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے) مگر اُن کی آنکھ نہ کھلی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ وقت جا رہا ہے نماز پڑھا دی۔ جب اُن کی آنکھ کھلی تومعلوم ہؤا کہ نماز ہوچکی ہے۔ اِس پر اُن کو اتنا صدمہ ہؤا کہ سارا دن روتے رہے اور استغفار کرتے رہے اور دعائیں کرتے رہے کہ یا اللہ! میں نے کیا خطا کی تھی اور کیا گناہ کیا تھا کہ اس کے نتیجہ میں آج نماز باجماعت رہ گئی اور میں مسلمانوں کی امامت نہیں کرا سکا۔ دوسرے دن انہوں نے صبح کے قریب ایک کشفی نظارہ دیکھا کہ گویا شیطان آیا ہے اور وہ آکر اُن کو ہلاتا ہے کہ میاں! اُٹھ نماز پڑھ، میاں! اُٹھ نماز پڑھ۔ وہ پہلے تو گھبرائے اور سمجھا کہ کوئی کمرہ کے اندر آگیا ہے کیونکہ خواب میں بھی انسان ایسی چیزوں سے گھبراتا ہے جن سے اُسے گھبرانے کی عادت ہوتی ہے مگر جب انہوں نے پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ میں شیطان ہوں۔ انہوں نے کہا تم شیطان ہو اور مجھے نماز کے لئے جگا رہے ہو؟ کہنے لگا ہاں! میں نماز کے لئے جگا رہا ہوں۔ کَل مَیں نے تمہاری نماز ضائع کرا دی تھی اور ایسے حالات پیدا کر دیئے تھے کہ تم سوتے رہو اور آنکھ نہ کھلے مگر اِس پر تم اتنا روئے اور تم نے اِتنی توبہ کی کہ خداتعالیٰ نے فرشتوں کو حُکم دیا کہ اس کی نماز جو رہ گئی ہے اس کے بدلہ میں دس نیکیوں کا ثواب لکھ دو کیونکہ یہ بہت رویا ہے۔ میں نے کہا میں تو ایک نیکی سے محروم کر رہا تھا اور اس کو دس نیکیاں مل گئیں آج اِسے جگا دو کہ 9 نیکیاں تو بچیں۔ یہ طریقہ ہے بدیوں کی جگہ نیکیاں لکھنے کا۔ یعنی انسان کے دل میں جو ندامت اور توبہ اور انابت پیدا ہوتی ہے اُس کا ثواب اتنا مقرر کر دیا جاتا ہے کہ وہ ان بدیوں کی جگہ کو ڈھانپ لیتا ہے اور اس کی جگہ نیکی بن جاتا ہے۔
بدیوں کو نیکیوں میں بدلنے کی ایک اَور مثال
اِسی طرح ایک دوسری مثال حدیث
میں آتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ لوگوں سے معاملہ کریگا تو ایک وقت ایک مجرم کو نکالا جائے گا۔ اُس کے بڑے جُرم ہونگے مگر اُس کے دل میں کوئی ایسی نیکی ہوگی کہ جس کی وجہ سے خداتعالیٰ کہے گا کہ میں نے اس کو ضرور بخشنا ہے۔ چنانچہ وہ خداتعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا وہ ڈر رہا ہوگا کہ مجھے سزا ملے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے دل میں فیصلہ کر چکا ہوگا کہ اِس کی فلاں نیکی کی وجہ سے میں نے اسے بخشنا ہے۔ مثلاً ممکن ہے اُس کے دل میں محبتِ رسولؐ بڑی ہو یا اللہ تعالیٰ کی بڑی محبت ہو لیکن اعمال میں کمزور ہو۔ یا غریبوں کی اُس نے بڑی خبر گیری کی ہو یا اور کوئی ایسی نیکی ہو جو اتنی نمایاں ہو گئی ہو کہ اللہ تعالیٰ سمجھتا ہو چاہے اس نے کتنے گناہ کئے ہوں مَیں نے اس کو بخش دینا ہے۔ تو جب وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اللہ تعالیٰ کہے گا دیکھو میاں !تم نے فلاں بدی کی۔ وہ کہے گا ہاں حضور مجھ سے ایسا ہو گیا۔ فرمائے گا اچھا فرشتو! اس کے بدلہ میں اس کے دس ثواب لکھ دو۔ پھر پوچھے گا تم نے فلاں بدی کی تھی؟ وہ کہے گا جی حضور کی تھی۔ فرمائے گا اچھا اس کے دس ثواب لکھ دو۔ تو چونکہ اُس کے لئے بخشش کسی ایسی نیکی کی وجہ سے جو اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی مقدر تھی خداتعالیٰ اُس کے گناہ گنانے شروع کر دیگا اور فرمائے گا کہ ان کے بدلہ میں نیکیاں لکھتے چلے جاؤ۔ لیکن اس کے بڑے بڑے گناہ نہیں گنائے گا تاکہ وہ شرمندہ نہ ہو۔ جب اللہ تعالیٰ ختم کر بیٹھے گا تو وہ اپنے دل میں سوچے گا کہ میرے فلاں فلاں گناہ بھی موجود تھے اگر چھوٹے چھوٹے گناہوں کی دس دس نیکیاں ملی ہیں تو ان کی تو سَو سَو ملنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ تو اس کی پردہ پوشی کے لئے ایسا کریگا لیکن جب وہ خاموش ہوگا تو بندہ کہے گاحضور! آپ تو بھول ہی گئے میں نے فلاں گناہ بھی کیا تھا اور فلاں میں نے قتل کیا تھا اُس کو تو آپ نے بیان ہی نہیں کیا۔ اِسی طرح فلاں ڈاکہ آپ نے بیان نہیں کِیا یہ تو چھوٹی چھوٹی باتیں بیان کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہنس پڑے گا کہ دیکھو میرا بندہ میرے عفو پر اتنا دلیر ہو گیا ہے کہ اب یہ اپنے گناہ آپ گناتا ہے 21 تو یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ اس کے معنے اِسی طرز کے ہیں کہ کوئی نہ کوئی نیکی اس کے دل میں ہوتی ہے اور وہ اتنے مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ اُس نیکی کے مقام کی وجہ سے بدی کو نیکی کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ یہی اس کے معنے ہیں۔ اور اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کی اعلیٰ توبہ کی وجہ سے اُن کی دلداری کے لئے اور ان کے دلوں کو تسکین دینے کے لئے اُن کے گناہوں کو بھی نیکی کے ثواب میں بدل دیتا ہے۔
روحانی انعامات کو کوئی شخص
چھیننے کی طاقت نہیں رکھتا
پھر اس سے اوپر میں نے دیکھا کہ اس دفتر میں جن لوگوں کے لئے انعام مقرر ہوئے تھے انہیں کوئی چھین نہیں سکتا تھا۔ برخلاف دُنیوی
انعاموں کے کہ یہاں ایک بادشاہ دیتا ہے اور دوسرا چھین لیتا ہے بلکہ بعض دفعہ وہ بادشاہ آپ ہی چھین لیتا ہے۔
ایک جرنیل کی معزولی دیکھ کر حضرت شبلی ؒ
کا رونا اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنا
تاریخ میں قصہ آتا ہے کہ حضرت شبلی علیہ الرحمۃ جو حضرت جنید بغدادی ؒ کے
شاگرد تھے پہلے وہ بڑے ظالم ہوتے تھے۔ امیر آدمی تھے اور ایک صوبہ کے گورنرتھے انہوں نے اپنی گورنری کے زمانہ میں بڑے بڑے ظلم کئے تھے۔ اُس زمانہ میں عباسی بادشاہ کے خلاف ایران میں کوئی بغاوت ہوئی کئی جرنیل بھجوائے گئے مگر انہوں نے شکست کھائی اور وہ دشمن کو مغلوب نہ کر سکے۔ آخر بادشاہ نے ایک جرنیل کو چُنا جو بہت دلیرتھا اور اُس کو کہا کہ تم جاؤ اور جاکر دشمن کو شکست دو یہ کام تم سے ہوگا۔ وہ گیا اور چھ مہینے سال اُس نے بڑی بڑی مصیبتیں اُٹھائیں، تکلیفیں جِھیلیں اور آخر ہمت کرکے اُس نے دشمن کو شکست دی اور وہ علاقہ بادشاہ کے لئے فتح کیا۔ واپس آیا تو بادشاہ نے ایک بڑا دربار اُس کے اعزاز میں منعقد کیا اور کہا کہ اس کو خلعت دیاجائے۔ چنانچہ وہ دربار میں آیا اور اُس کو خلعت پہنایا گیا۔ پُرانے زمانہ میں یہی طریق رائج تھا جیسے آجکل خطاب وغیرہ دیتے ہیں تو دربار لگتے ہیں اِسی طرح دربار لگایا گیا۔ اتفاقاً شبلی ؒ بھی اُن دنوں اپنے کام کی کوئی رپورٹ دینے آئے ہوئے تھے چنانچہ وہ بھی دربار میں بُلائے گئے۔ سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور اوپر وہ جرنیل بیٹھا ہؤا تھا کہ بادشاہ نے پہلے اُس کی تعریف میں کچھ کلمات کہے، اس کے بعد کہا کہ اس کو خلعت پہنایا جائے۔ چنانچہ اسے ایک طرف کمرہ میں لے گئے اور اُس کو خلعت پہنایا گیا۔ بدقسمتی سے وہ اُسی دن سفر سے آیا تھا کہیں سفر میں اُسے ہوا لگی یا کچھ اَور ہؤا جس کی وجہ سے اُس کو شدید نزلہ ہو گیا اور گھر سے چلتے وقت وہ رومال لانا بھول گیا۔ جب بادشاہ کے سامنے آیا تو یکدم اُسے چِھینک آئی اور چِھینک سے رینٹھ نکل کے ہونٹوں پر آگئی۔ اب اگر وہ رینٹھ کے ساتھ بادشاہ کے سامنے کھڑا رہتا ہے تو بادشاہ خفا ہو تا ہے اور اگر پونچھتا ہے تو رومال نہیں۔ اُس نے اِدھر اُدھر نظر بچا کے اُسی خلعت کا ایک پہلو لیا اور ناک پونچھ لیا۔ بادشاہ نے دیکھ لیا اُسے سخت غصہ چڑھا اور کہنے لگا۔ ہم نے تمہارا اتنا اعزاز کیا، تمہیں خلعت دی اور تمہیں اتنا نوازا اور تم نے اتنی تحقیر کی ہے کہ اس کے ساتھ ناک پُونچھتے ہو۔ فوراً یہ خلعت اُتار لیا جائے اور اس کو جرنیلی سے موقوف کیا جائے۔ خیر وہ بیچارہ تو کیا کر سکتا تھا خلعت اُتارنے لگے تو شبلیؒ نے دربار میں چیخیں مارنی شروع کر دیں کہ ہائے مَیں مر گیا۔ بادشاہ حیران ہؤا کہ یہ خواہ مخواہ کیوں شور مچا رہا ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے کہا تم کو کیا ہؤا؟ ہم اس پر خفا ہوئے ہیں تم کیوں خواہ مخواہ رو رہے ہو؟ اُس نے کہا بادشاہ سلامت! مَیں نہیں روؤنگا تو کون روئے گا۔ اِس شخص نے سال بھر ہر صبح سے شام تک اپنی بیوی کو بیوہ کیا، سال بھر میں ہر صبح سے شام تک اِس نے اپنے بچوںکو یتیم کیا، محض آپ کی خوشنودی کے لئے۔ اور بارہ مہینے اس نے اپنے آپ کو قتل و غارت اور خون کے آگے ہدف بنایا صرف اس لئے کہ آپ کی رضا حاصل ہو جائے۔ اور جب اتنی قربانی کے بعد یہ آیا اور آپ نے اِس کو دس ہزار یا بیس ہزار کا خلعت بھی دے دیا اور اس قربانی کے مقابلہ میں بلکہ اس کی ایک دن کی قربانی کے مقابلہ میں بھی تو یہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا مگر آپ نے اس پر اتنے غصے کا اظہار کیا کہ اس نے میرے خلعت کی ہتک کی ہے اور اس سے ناک پونچھ لیا ہے اور اس قدر ناراض ہو گئے کہ کہا اس کو نکال دو، یہ بڑا خبیث اور بے ایمان ہے۔ تو حضور! یہ کان، ناک، آنکھ یہ جسم کی خلعت جو خدا نے مجھے پہنائی ہے مَیں روز آپ کی خاطر اِس کو گندہ اور ناپاک کرتا ہوں۔ مجھے قیامت کے دن خدا کیا کہے گاکہ کمبخت! تُو نے یہ خلعت کیوں گندہ کیا تھا۔ پس مَیں نہ روؤں تو اَور کون روئے؟ وہ اُسی وقت اُٹھے استعفٰے پیش کیا اور چلے گئے ۔22
بیعت کے لئے حضرت جنید ؒ کی شرط
پھرانہوں نے علماء کی مجلس میں جانا شروع کیا اور کہا میرے لئے
دُعا کریں کہ مجھے توبہ نصیب ہو۔اُن کے ظلم بڑے مشہور تھے اور بڑی غارت اور تباہی انہوں نے مچائی ہوئی تھی۔ جس عالم کے پاس بھی جائیں وہ کہے میاں! تمہاری توبہ قبول نہیں ہو سکتی۔ تمہاری توبہ بھلا خدا کب قبول کر سکتا ہے۔ تم نے تو اتنے ظلم کئے ہیں کہ جنکی کوئی حد ہی نہیں۔ وہ مایوس ہوتے ہوئے بیسیوں علماء کے پاس گئے مگر ہر ایک نے یہی جواب دیا۔ آخر کسی نے کہا کہ جنیدؒ بغدادی بڑے صوفی ہیں اور بڑے خدا پرست اور بڑے رحم دل ہیں اُن کے پاس جاؤ تو شاید وہ تمہاری توبہ قبول کر لیں۔ چنانچہ وہ اُن کے پاس گئے اور جاکر کہا کہ مَیں شبلی ہوں۔ میں اس طرح علماء کے پاس گیا تھا مگر سب نے انکار کیا۔ اب میں آپ کے پاس آیا ہوں آپ میرے لئے دُعا کریں اور توبہ قبول کریں۔ حضرت جنیدؒ نے کہا کہ ہاں خداتعالیٰ سب کے گناہوں کو معاف کرتا ہے پر کچھ تمہیں بھی اپنی توبہ کے آثار دکھانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا مَیں دکھانے کے لئے تیار ہوں۔ آپ جو حُکم دینا چاہیں دیں۔ فرمایا جاؤ اُس صوبہ میں جہاں تم گورنر مقرر تھے اور پھر جس شہر میں تم مقرر تھے اور جہاں روز تم سزائیں دیا کرتے تھے، کوڑے لگوایا کرتے تھے، نالشیں کیا کرتے تھے، گھروں پر قبضہ کیا کرتے تھے، مردوں کو قید کیا کرتے تھے ، عورتوں کو بے عزت کیا کرتے تھے۔ اُس شہر میں جاؤ اور ہر گھرپر دستک دو اور ہر گھر کے آدمیوں کو باہر بُلا کے کہو کہ میں مجرم کی حیثیت میں تمہارے سامنے پیش ہوں جو چاہو مجھے سزا دے دو مگر خدا کے لئے مجھے معاف کر دو۔ ایک ایک گھر میں جاؤ اور معافی لو۔ جب تم سارا شہر پھر لو گے تو پھرمیرے پاس آنا مَیں تمہاری بیعت لے لونگا۔ شبلیؒ نے کہا مجھے منظور ہے۔
شبلیؒ کا گھر گھر جا کر لوگوں
سے معافی حاصل کرنا
چنانچہ وہ وہاں گئے اور ایک سِرے سے لے کر دستک دینی شروع کی۔ لوگوں نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے کہامَیں شبلی ہوں۔ پہلے تو وہ
سمجھیں کہ کوئی فقیر ہوگا یونہی بات کرتا ہے مگر باہر نکل کے دیکھنا تو انہیں معلوم ہونا کہ گورنر صاحب کھڑے ہیں۔ انہوں نے فوراً کہنا کہ حضور ! کس طرح تشریف لائے ہیں؟ وہ کہتے حضور حضورکچھ نہیں مَیں معافی مانگنے آیا ہوں۔ میں نے تم لوگوں پر بڑے ظلم کئے ہیں مجھے خدا کے لئے معاف کر دو۔ پہلے تو لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ مذاق ہو رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہنا نہیں صاحب! آپ تو ہمارے بڑے آدمی ہیں۔ وہ کہتے بڑے کوئی نہیں میں نے استعفیٰ دے دیا ہے اب میں معافی مانگنے آیا ہوں کیونکہ میری نجات تمہاری معافی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ بڑے اصرار کے بعد آخر ان لوگوں کو یقین آجانا کہ یہ بات ٹھیک ہے اور انہوں نے کہہ دینا اچھا ہم نے معاف کر دیا۔ لیکن انسانی دل کو خداتعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ جب اس کو یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ اب نیکی آچکی ہے تو پھر وہ برداشت نہیں کر سکتا۔ ابھی پانچ سات گھر ہی شبلی گزرے تھے کہ شہر میں خبر مشہور ہو گئی کہ گورنر آج اِس طرح پھر رہا ہے۔ اب بجائے اس کے کہ شبلی جا کے دستک دیتے اِدھر وہ گھر پر پہنچتے اور اُدھر گھر والے روتے ہوئے باہر آجاتے اورکہتے ہمیں آپ شرمندہ نہ کریں، ہم نے معاف کیا اور ہم نے اپنے دل سے بات بالکل نکال دی۔ شام تک سارے شہر میں معافیاں ہو گئیں اور بجائے اِس کے کہ وہ مجرم کے طور پر جاتے اُن کا اعزاز ہونا شروع ہو گیا۔ اِس کے بعد واپس گئے۔ حضرت جنیدؒ نے اُن کی بیعت لی، اُن کی توبہ قبول کی اور پھر وہ خودبھی ایک بڑے بزرگ بن گئے۔ 23
دُنیوی خلعتوں اور جاگیروں کی ناپائیداری
تو دیکھو خلعت ہوتے ہیں لیکن دُنیوی بادشاہوں کے
خلعت کبھی آپ ہی چھن جاتے ہیں اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ اولادوں سے چھن جاتے ہیں۔ مثلاً پٹھانوں کے وقت کی جاگیریں مغلوں نے چھین لیں۔ مغلوں کے وقت کی جاگیریں جن کے پاس تھیں اُس وقت وہ بڑے اکڑ اکڑ کر پھرتے تھے مگر انگریز آئے تو انگریزوں نے چھین لیں۔ پھر انگریزوں نے جاگیریں دیں تو اب پاکستان اور ہندوستان والے چھین رہے ہیں۔ تو کچھ مدت کے لئے وہ انعام رہتے ہیں اور اس کے بعد وہ جاگیر چھن جاتی ہے۔ مگر یہ وہ حکومت تھی اور یہ وہ دفتر تھے کہ میں نے دیکھا کہ اس میں جو جاگیریں ملتی تھیں اُن کے ساتھ بتا دیا جاتا تھا کہ یہ کتنے عرصہ کے لئے جاگیر ہے، کسی کوکہا جاتا تھا کہ یہ ہمیشہ کے لئے ہے، کسی کو کہا جاتا تھا کہ یہ ہمیشہ کیلئے ہے پر یہ یہ وقفے پڑ جائیں گے، کسی کو کہا جاتا تھا کہ عارضی ہے جب تک ٹھیک رہو گے ملے گی۔ گویا یہ خدمت کی جاگیر ہے جب تک خدمت کرو گے ملے گی جب خدمت نہ کرو گے چھین لی جائے گی۔
روحانی جاگیرداروں کے
متعلق عالَمِ روحانی کا قانون
چنانچہ میں نے دیکھا کہ اس میں جاگیرداروں کے متعلق یہ قانون تھا کہ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ24 ہم جو
جاگیر دینگے اگرتو وہ شخص جس کو جاگیر دی گئی ہوگی اپنی زندگی بھر وفاداری کو قائم رکھے گا تو وہ جاگیر اَبَدالآباد تک اُس کے نام لکھی جائیگی اور اُس سے چھینی نہیں جائیگی۔
مسلمانوں کو خداتعالیٰ کی
عطا کردہ ایک مقدس جاگیر
یہ تو اُخروی انعام ہے۔ اِس دنیا کے انعام میں بھی میں نے یہی قانون دیکھا۔ اُخروی انعام کے متعلق تو مجھے غیر مسلم لوگ کہیں گے کہ
میاں! یہ تو منہ کی باتیں ہیں اگلا جہان کس نے دیکھا ہے۔ تم یہ بتاؤ اور اس بات کا ثبوت دو کہ یہاں بھی مل جاتی ہے؟ تم اپنے دربار کی یہاں کوئی ایسی جائداد بتاؤ جو مستقل طور پر مل گئی ہو اور پھر کسی نے چھینی نہ ہو۔ تو میں نے دیکھا کہ اس بارہ میں قرآن کریم سے یہ ثبوت نکلا کہ اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِيْنَۚ۔فِيْهِ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِيْمَ١ۚ۬ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ۔25
اِس جاگیر کے ساتھ تعلق
رکھنے والی سات اَور جاگیریں
فرماتا ہے ایک جاگیر ہم نے دنیا کےکچھ لوگوں کو بخشی اور ہم نے کہا ہمارے نام پر ایک گھر بناؤ اس کے ساتھ ہم تم کو جاگیر دینگے۔
تو سب سے پہلے جو گھر خداتعالیٰ کے نام پر لوگوں کے فائدہ کے لئے بنایا گیا وہ مکہ میں بنا۔ مُبَارَکًا ہم نے کہا اس گھر کو ہمیشہ برکت دی جائے گی۔ وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِيْنَ اور یہ گھر ہمیشہ ہی دنیا کے لئے دین اور تقویٰ اور طہارت میں راہنمائی کا موجب رہیگا۔ یہ دو جاگیریں ہو گئیں۔فِيْهِ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ تیسری جاگیر یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے نشاناتِ الٰہیہ ظاہر ہوتے رہیں گے۔ مَقَامُ اِبرٰھِیْمَ چوتھی جاگیر یہ ہے کہ جو لوگ اس جگہ آئیں گے وہ ابراہیمی درجے پاتے رہیں گے۔ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا اور پانچویں جاگیر یہ ہوگی کہ اُس کے اندر امن لکھ دیا جائے گا یعنی جو شخص اس جاگیر میں آئے گا اُس کو امن مِل جائیگا۔١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ چھٹی جاگیر یہ ہوگی کہ لوگوں کے دلوں میں ہم تحریک کرتے رہیں گے کہ وہ اس کا ادب کریں اور آکر اس کی زیارت کرتے رہیں۔١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ اور ساتویں جاگیر یہ ہوگی کہ جو شخص اس سے منہ موڑے گا ہم اس سے تعلق نہیں رکھیں گے۔
دیکھو! یہ سات جاگیریں ملتی ہیں کہ:-
(1) اس مقام کو ہمیشہ کے لئے برکت والا بنایا جاتا ہے۔
(2) یہ مقام دین اور تقویٰ میں لوگوں کی راہنمائی کا موجب ہوگا۔
(3) اس مقام سے نشاناتِ الٰہیہ ظاہر ہوتے رہیں گے۔
(4) جو لوگ اس سے تعلق رکھیں گے وہ ابراہیمی درجے حاصل کر یں گے۔
(5) جو شخص اس کے اندر داخل ہوگا اُسے امن حاصل ہو جائے گا۔
(6) اور پھر یہ کہ اس کی طرف لوگوں کو دُور دُور سے کھینچ کر لایا جائے گاتاکہ وہ اس کی زیارت کریں۔
(7) اور جو اس سے منہ موڑے گا خدا تعالیٰ اُس سے منہ موڑ لے گا۔ یعنی اس کے مخالف بھی ہمیشہ رہیں گے لیکن اُن کا تعلق اللہ تعالیٰ سے نہیں ہوگا۔
ہر زمانہ میں یہ مقدس جاگیر
دشمن کے حملہ سے محفوظ رہی
اب دیکھو کس طرح ہر زمانہ میں یہ نشان پورا ہوتا رہا۔ دنیا کی جاگیروں کے لینے والے تو بڑے بڑے جتھے رکھتے تھے مگر پھر
بھی وہ ناکام رہے اوران کی جاگیریں ضبط ہو گئیں لیکن یہاں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں تھا معمولی حیثیت تھی۔ کوئی طاقت نہیں ،کوئی قوت نہیں ،کوئی سامان نہیں صرف یہ اعلان ہے کہ یہ شاہی جاگیر ہے لیکن پھر بھی وہ جاگیر محفوظ رہی۔
یمن کے گورنر کا بیت اللہ پر حملہ
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے چودہ سَو سال پہلے یمن میں ایک
گورنر تھا۔اُس نے ایک گِرجا بنایا اور کہا کہ مَیں اس کو عرب کے سارے لوگوں کے لئے عزت کی جگہ بناؤں گا مگر وہ آباد نہ ہؤا۔ آخر اُس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ گِرجا آباد کیوں نہیں ہوتا؟ انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ عرب میں ایک پُرانا مکان ہے بیت اللہ یا خانہ کعبہ اُس کو کہتے ہیں اُس کی سارے عرب عزت کرتے ہیں جب تک وہ نہیں ٹوٹے گا لوگوں نے اِس کی طرف توجہ نہیں کرنی۔ پہلے اُس کو توڑ لو پھر کوئی تجویز ہوگی۔ اُس نے کہا بہت اچھا۔ چنانچہ اُس نے لشکر لیا اور چل پڑا۔ چلتے چلتے طائف کے مقام پر پہنچے۔ وہاں کے لوگوں کی مکہ والوں سے مخالفت تھی کیونکہ وہ مکہ کے مقابلہ میں طائف کاجو بڑا بُت تھا اُس کے متعلق سمجھتے تھے کہ اس کو زیادہ عزت دینی چاہئے۔ اُس نے اُن کو رشوت وغیرہ دی اور اِس طرح اُن کے دلوں میں جو اپنی قوم کا ڈر تھا وہ اُتارا اور انہیں کہا کہ ہم کو مکہ پہنچاؤ۔ وہ تیار ہو گئے۔ جب لشکر مکہ کے قریب پہنچا تو جیسا کہ پُرانے زمانہ میں قاعدہ تھا ایک منزل پر پہنچ کر وہاں سے انہوں نے مکہ والوں کو نوٹس دیا کہ ہتھیار پھینک دو ورنہ تم پر حملہ کر دیا جائے گا۔ اُس وقت جو مہذب حکومتیں تھیں وہ اِسی طرح کیا کرتی تھیں۔ چنانچہ اسلام میں بھی یہی طریق رائج ہے۔ جب یہ حُکم پہنچا تو مکہ کے لوگ گھبرا گئے۔ انہوں نے کہا اتنا بڑا لشکر آیا ہے جو دس یا بیس یا پچاس ہزار کا ہے اور مکہ میں سپاہی پانچ سات سَو ہیں ان کا ہم کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں ۔پھر ان کے ساتھ ہاتھی اور دوسری قسم کے سامان تھے، اِسی طرح منجنیقیں وغیرہ تھیں۔ انہوں نے بہت منتیں سماجتیں کیں، بادشاہ کے آگے ہاتھ جوڑے مگر اُس نے کہا مَیں نہیں مانتا، تم اپنا کوئی وفد بھیجو۔ مَیں یہ تو فیصلہ کر چکا ہوں کہ اِس گھر کو گِرا دونگا لیکن تمہارے لئے کوئی گزارہ مقرر کر دونگا کیونکہ تمہیں اِس کے چڑھاووں سے آمدن ہوتی تھی یا اِس کی زیارت کرنے کے لئے جو لوگ آتے تھے اُن سے آمدن ہوتی تھی۔ پس مَیں تمہارے لئے کوئی جائداد مقررکر دونگا اور تمہارا اس پر گزارہ ہو جائے گا مگر میں یہ نہیں مان سکتا کہ اِس گھرکو نہ گراؤں یہ گھر تو مَیں نے گِرا کر رہنا ہے۔ چنانچہ وہ واپس گئے اور انہوں نے جاکے کہا کہ بادشاہ تو اس بات پرمُصِر ہے کہ اِس گھر کو میں ضرور گِراؤں گا اب کوئی وفد بھیجا جائے۔ چنانچہ انہوں نے ایک وفد بھیجا جس کا سردار حضرت عبدالمطلب کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے چُنا گیا۔ لوگوں نے اُن سے کہا کہ آپ جائیے اور کوشش کیجیئے کہ کسی طرح یہ گھربچ جائے۔
حضرت عبدالمطلب اور ابرہہ کی ملاقات
یہ وہاں پہنچے تو بادشاہ نے اُن کو بُلایا اور ان سے پہلے اِدھر اُدھر
کی باتیں کیں۔ملک کی سیاست کے متعلق باتیں کیں، ملک کی اقتصادی حالت کے متعلق باتیں کیں، قومیت کے متعلق باتیں کیں۔ حضرت عبدالمطلب بڑے سمجھدار اور دانا تھے انہوں نے جو جواب دیئے بادشاہ اُن سے بہت متأثر ہؤا اور اُس نے کہا یہ تو بڑا سمجھدار آدمی ہے۔ خوش ہو کے اُس نے کہا کہ مَیں تو آپ سے مل کر بہت ہی خوش ہؤا ہوں مجھے توقع نہیں تھی کہ مکہ میں ایسے عقلمند بھی موجود ہیں۔ آپ کوئی انعام مجھ سے مانگیں مَیں دینے کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا میرے دو سَو اونٹ آپ کے سپاہی پکڑ لائے ہیں وہ مجھے واپس کر دیں۔ بادشاہ کو غصہ چڑھ گیا اور اُس نے کہا دو سَو اونٹ کی حیثیت کیا ہے میں تمہارا مذہبی مکان گِرانے کے لئے آیاہوں۔ مَیں مانتا یا نہ مانتا تمہاری عقل سے میں یہ امید کرتا تھا کہ تم کہو گے یہ میرا مذہبی مقدس مقام ہے اِس کو چھوڑ دو۔ مگر بجائے اِس کے کہ تم مکہ کی سفارش کرتے، خانہ کعبہ کی سفارش کرتے کہ اِس کو چھوڑ دو تم نے اپنے دو سو اونٹوں کو یاد رکھا، میرے دل میں سے تو تمہاری ساری عزت جاتی رہی ہے۔ حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا کہ بادشاہ تم جو چاہو نتیجہ نکال لو۔ باقی میں تو سمجھتا ہوں اور یہی مَیں نے آپ کو بتایا ہے کہ دو سَو اونٹ میرے ہیں۔ بھلا کیا حیثیت ہے دو سَو اونٹ کی؟ مگر مجھے اِن کی فکر ہے کہ کسی طرح مجھے مل جائیں اور میں اُن کی حفاظت چاہتا ہوں۔ تو اگر یہ اللہ کا گھر ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو اِس کی اتنی فکر نہیں ہوگی جتنی مجھے دو سَو اونٹ کی ہے؟اِس جواب سے وہ ایسا متأثر ہؤا کہ اُس نے اُن کے اونٹوں کی واپسی کا حکم دے دیا مگر بیتُ اللہ پر حملہ کرنے کا ارادہ اُس نے ترک نہ کیا۔ خیر وہ واپس آگئے اور انہوں نے ساری قوم کو کہدیا کہ پہاڑ پر چڑھ جاؤ اور مکہ کو خالی کر دو۔ لوگوں نے کہا۔ مکہ ہمارا مقدس مقام ہے۔ کیا اِس مقدس مقام کو ہم خالی کر دیں؟ انہوں نے کہا میاں !تمہارا مکان نہیں خدا کا مکان ہے۔ تمہیں اس کا درد ہے تو خدا کو اِس کا درد کیوں نہیں ہوگا۔ جس کا یہ گھر ہے وہ آپ اس کی حفاظت کریگا۔ تم چھوڑو اِس کو اور باہر چلو، اللہ تعالیٰ اس کی آپ حفاظت کریگا۔ اگر ہماری طاقت ہوتی تو ہم لڑتے لیکن ہم میں طاقت نہیں ہے۔ اب یہ خدا ہی کی طاقت ہے کہ وہ اس حملہ کو روکے۔ چنانچہ انہوں نے سب کو شہر سے نکالا اور پہاڑ پر چڑھ گئے۔ 26
ابرہہ کے لشکر کی تباہی
مگر وہاں ایک دن انتظار کیا،دو دن انتظار کیا ،تین دن انتظار کیا جو اُس نے نوٹس دیا تھا کہ تین دن کے اندر
مَیں حملہ کرونگا وہ تین دن گزر گئے اور کوئی بھی نہ آیا۔ پھر چوتھا دن گزرا، پانچواں دن گزرا۔ حیران ہو گئے کہ کیا بات ہے۔ آیا اُس نے معاف کر دیا ہے یا کوئی اور بات ہوئی ہے۔ آخر آدمی بھیجے گئے وہاں جو گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ میدانوںمیں لاشیں ہی لاشیں پڑی ہوئی ہیں اور کوئی لشکر نظر نہیں آتا۔ پتہ لیا تو طائف والوں نے بتایا کہ اُن میں بے تحاشا چیچک پھیلی۔ وہ حبشی فوجیں تھیں اور حبشیوں میں چیچک پھیلتی ہے تو بالکل سیلاب کی طرح آتی ہے۔ خصوصاً اُس زمانہ میں تو بیماریوں کے علاج ہی کوئی نہیں ہوتے تھے۔ دیکھا کہ تمام میدان لاشوں سے اٹا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بادشاہ کو بھی چیچک ہوئی اور لوگ اُس کو ڈولی میں ڈال کر یمن کی طرف لے گئے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی حفاظت کی اور وہ جائداد پھر محفوظ کی محفوظ رہ گئی۔
اِس مقدس جاگیر کو چھیننے کی
کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا
یہ وہ جائداد ہے جسکے مقابلہ میں دنیا کی کوئی اور جائداد پیش نہیں کی جا سکتی۔ وہ حکومتیں بدل گئیں جن کے سپرد جائداد کی گئی تھی،
ابراہیم ؑ چلاگیا، اسمٰعیل ؑ چلا گیا، وہ جن کو یہ جائداد دی گئی تھی ختم ہو گئے نئی حکومتیں اور نئی بادشاہتیں آگئیں۔یمن کا عیسائی بادشاہ اس ملک پر قابض ہوکے آگیا لیکن اِس جائداد کے متعلق اُس نے فرمایا کہ خبردار! اگر اُس کو چھیڑا تو ہم فوراً سیدھا کر دیں گے اور جب وہ باز نہ آیا تو اُس کو سیدھا کر دیا۔ چنانچہ اِسی کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِؕ۔ اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِيْ تَضْلِيْلٍ۔27 پتہ ہے اُن لوگوں کے ساتھ ہم نے کیا کِیا؟ اُن کے بڑے بڑے بُرے ارادے تھے پر مَیں نے اُن کے ارادوں کوکُچل کر رکھ دیا اور اپنی جاگیر کو محفوظ رکھا کیونکہ ہم نے کہا مَیں خدا اِس جاگیر کا دینے والا ہوں کوئی انسان اِس کو چھین نہیں سکتا۔
گزشتہ جنگِ عظیم میں اٹلی کا
ناپاک ارادہ اور اُس کی ناکامی
پھر اِس کے بعد اسلام کی حکومت رہی۔ خانہ کعبہ کی حفاظت کرنے والے لوگ موجود رہے لیکن جب پچھلی جنگ آئی تو
پھر ایسی حکومتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے یہ بدارادہ کیا کہ ترکوں کو اُس وقت تک شکست نہیں دی جاسکتی جب تک کہ مکہ کونہ لیا جائے۔ چنانچہ اٹلی نے یہ ارادہ ظاہر کیا مگر انگریزوں اور دوسری قوموں نے اُس کو کہا کہ اِس کی ہم ہرگز اجازت نہیں دینگے کیونکہ اگر تم نے ایسا کیا تو ساری اسلامی دنیا ہمارے خلاف ہو جائیگی اور یہ جنگ جیتنی ہمارے لئے مشکل ہو جائیگی چنانچہ خداتعالیٰ نے پھر ایسے سامان کر دیئے کہ مکہ محفوظ کا محفوظ رہا۔
بیتُ اللہ کی تقدیس اور اُس کی
عظمت کا زمانۂ قدیم سے اعتراف
یہ جاگیر اتنی پُرانی ہے کہ یونان کے مؤرخ حضرت مسیح ؑکی پیدائش سے پہلے لکھتے ہیں کہ تاریخ کا جب سے پتہ لگتا ہے
یہ مقام عرب میں مقدس چلا آرہا ہے اور لوگ اِس کی زیارت کو جاتے ہیں۔ تاریخ کہیں نہیں بتاتی کہ یہ کب سے بنا ہے؟ اِتنی پُرانی جاگیر تو دنیا میں الگ رہی اِس کا سواں حصہ بھی پُرانی جاگیر دنیا میں کوئی نہیں جو محفوظ ہو۔ ساری کی ساری جائدادیں ضبط کر لی گئیں، تباہ ہو گئیں مگر یہ جاگیر اُسی طرح کھڑی ہے۔
ایک اَور روحانی جاگیر جو خداتعالیٰ
کے نیک بندوں کو دی گئی
پھر اِسی دفتر سے ایک جاگیر جاری ہوئی۔ فرماتا ہے وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا
عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ۔28 ہم نے زبور میں اپنا کلام اور اپنی حکمتیں اور اپنی نصائح لکھنے کے بعد یہ لکھا کہ فلسطین کی زمین کے ہمیشہ میرے نیک بندے وارث ہوتے رہیں گے۔
یہ کتنا شاندار وعدہ تھا اورکس شان سے پورا ہؤا۔ اِس وعدے کی تفصیل یہ ہے سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا۔ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَ اَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِيْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا۔29
پھر تھوڑی دیر کے بعد فرماتا ہےفَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا۔عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ١ۚ وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا١ۘ وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا۔30
ارضِ مقدس کے متعلق
بعض شرائط اور قیود کا ذکر
فرمایا ہم نے ایک اَور بھی جاگیر دی تھی اور اُس کے ساتھ کچھ شرطیں لگائی تھیں اور وہ یہ کہ فلسطین خدا کے نیک بندوں کو ملے گا۔ چونکہ
پہلے یہود کو اِس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا، اس لئے ان کو یہ جاگیر ملے گی لیکن یہ شرطیں ہیں کہ:-
1- کچھ عرصہ کے بعد ہم یہ جاگیر تم سے چھین لیں گے۔ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍہم اپنے حکم کے ساتھ ایک قوم کو مقرر کریں گے جو بڑی فوجی طاقت رکھتی ہوگی۔ فَجَاسُوْا خِلٰلَ وہ فلسطین کے تمام شہروں میں گھس جائیگی اور تمہاری حکومت کو توڑ دیگی۔ گویا یہ جاگیر تمہارے پاس سے کچھ دنوں کے لئے ہم چھین لیں گے۔ پس یہ شرطی بات ہے۔ ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ مگر کچھ مدت کے بعدہم پھر یہ جاگیر تم کو واپس دے دینگے اور تمہاری طاقت اور قوت قائم کر دینگے وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِيْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا اور ہم تم کو مال دینگے اور بیٹے دینگے اور تمہیں بہت زیادہ تعداد میں بڑھا دینگے اور طاقتور بنا دینگے اور پھر یہ جائداد تمہارے پاس واپس آجائے گی۔١ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا لیکن پھر ایک وقت کے بعد ہم دوبارہ یہ جاگیر تم سے چھین لیں گے۔ جب وہ دوسرا وعدہ آئے گا یعنی وَعْدُ الْاٰخِرَةِ آئے گا لِيَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ تاکہ وہ لوگ جن کو عارضی طور پر ہم یہ جاگیر دینے والے ہیں وہ تمہارے منہ خوب کالے کریں۔ وَ لِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ پہلی دفعہ بھی جب ہم نے جاگیر تم سے چھینی تھی تو اُس وقت بھی تمہاری عبادت گاہ کو اور تمہارے خانہ کعبہ کو دشمن نے برباد کیا تھا اِس دفعہ بھی یہ دشمن گھسے گا اور تمہارے خانہ کعبہ کو برباد کریگا۔ وَّ لِيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا اور جس جس علاقہ میں جائے گااُسے تباہ کرتا چلا جائے گا۔ گویا دوبارہ ہم پھر یہ جاگیر لے لیں گے۔ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ مگر پھر ہم یہ فیصلہ کریں گے کہ یہ جاگیر واپس آئے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری طرف آئے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم کرے گا یعنی اس بدنامی کو دور کر دیگا، یہ نہیں کہ پھر وہ یہودیوں کے ہاتھ میں آجائے۔ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا اور اگر تم اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو پھر ہم یہ جائداد تم سے چھین لیں گے اور یہ پھر ایک اور قوم کے پاس جائے گی۔ وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا اور جہنم کو ہم تمہارے لئے قید خانہ بنا دیں گے یعنی پھر تم اس ملک میں واپس نہیں آؤ گے۔
اب دیکھو اِس جگہ اتنے وعدے کئے گئے ہیں۔
بابلیوں کا فلسطین پر قبضہ
اوّل یہ جاگیر کچھ عرصہ تمہارے پاس رہے گی مگر اس کے بعد بابلیوں کی معرفت یہ جاگیر چھینی جائے
گی۔ چنانچہ بابلی فوجیں آئیں اور انہوں نے عبادت گاہیں بھی تباہ کیں، شہر بھی تباہ کئے اور ملک پر قبضہ کیا اور قریباً ایک سَو سال حکومت کی۔ اس کے بعد وہ حکومت بدل گئی اور پھر یہودی اپنے ملک پر قابض ہو گئے۔
رومیوں کا فلسطین پر قبضہ
پھر مسیح ؑکے بعد رومی لوگوں نے پھر اِس ملک پر حملہ کیا اور اس کو تباہ اور برباد کیا۔ اِسی طرح مسجد
کو تباہ کیا اور اُس کےاندر سؤر کی قربانی کی اور اس پر ان کا قبضہ رہا لیکن آخر رومی بادشاہ عیسائی ہو گیا۔ اس لئے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ یہودیوں کو یہ جاگیر واپس کی جائیگی۔ پہلی جگہ تو فرمایا ہے کہ واپس کی جائیگی یعنی وہاں سے واپس ہو کر یہودیوں کو ملے گی۔ مگر دوسری جگہ یہ نہیں فرمایا کہ واپس کی جائیگی بلکہ یہ فرمایا ہے کہ پھر ہم تم پر رحم کریں گے یعنی تمہاری وہ بے عزتی دُور ہو جائے گی۔ چنانچہ جب رومی بادشاہ عیسائی ہو گیا تو پھر وہ موسیٰ ؑ کو بھی ماننے لگ گیا، داؤد ؑ کو بھی ماننے لگ گیا، اِسی طرح باقی انبیاء جس قدر تھے اُن کو بھی ماننے لگ گیا۔ تھا وہ عیسیٰ کو ماننے والا لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی چونکہ موسوی سلسلہ میں سے تھے، عیسائی بادشاہت یہودی نبیوں کا بھی ادب کرتی تھی، تورات کا بھی ادب کرتی تھی بلکہ تورات کو اپنی مقدس کتاب سمجھتی تھی گویا خدا کا رحم ہو گیا گو یہودیوں کے ہاتھ میں حکومت نہیں آئی بلکہ عیسائیوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔
مسلمانوں کے فلسطین پر قبضہ کی پیشگوئی
مگر فرماتا ہے کہ اس کے بعد وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا اگرتم لوگ
پِھر بِگڑے تو ہم تمہارے ہاتھ سے یہ بادشاہت نکال لیں گے۔ اب تم میں عیسائی بھی شامل ہو گئے کیونکہ وہ بھی یہودیوں کا ایک گروہ تھے اور بتایا کہ اگر تم نے پھر کوئی شرارت کی تو پھر ہم تمہارے ہاتھ سے یہ بادشاہت نکال لیں گے۔ پھر مسلمان آجائیں گے اور اُن کے قبضہ میں یہ جاگیر چلی جائیگی اور وہ عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ بنیں گے اور تمہارے لئے پھر جہنم بن جائے گایعنی تم ہمیشہ کُڑھتے ہی رہنا۔ غرض اس جاگیر کے ساتھ یہ شرطیں لگائی گئیں کہ :-
(1) یہ جاگیر چھین کر ایک اَور قوم کو دے دی جائیگی۔
(2) کچھ عرصہ کے بعد پھر یہ جاگیر تم کو واپس مل جائیگی۔
(3) کچھ عرصہ کے بعد پھر تم سے چھین لی جائیگی۔
(4) پھر یہ جاگیر تمہاری قوم کے پاس واپس آجائیگی مگر تمہارے اپنے ہاتھ میں نہیں آئے گی موسوی سلسلہ کے ماننے والوں یعنی عیسائیوں کے ہاتھ میں آجائیگی۔
(5) مگر تم پھرشرارت کرو گے تو پھر اُن سے بھی چھین لی جائیگی اور ایک اَور قوم کو دے دی جائے گی یعنی مسلمانوں کو۔
مسلمانوں کی نگاہ میں عبادت گاہوں کا احترام
مگر اس جگہ یہ نہیں فرمایا کہ وہ مسجد میں
داخل ہو کر اُس کی ہتک کریں گے۔ دیکھو! پہلے دو مقامات پر فرمایا کہ وہ مسجد میں جاکر اُس کی ہتک کریں گے مگر یہ تیسری دفعہ جو عذاب آنا ہے اور جس میں اُن کے ہاتھ سے یہ جاگیر لی جانی ہے اس کے متعلق یہ نہیں فرماتا کہ وہ مسجد کی ہتک کریں گے اس لئے کہ مسلمانوں کے نزدیک بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کے تمام ماتحت انبیاء مقدس تھے، ان کی جگہیں بھی مقدس تھیں اس لئے مسلمان اُن کی مسجدوں میں بھی وہ خرابی نہیں کر سکتے تھے جو بابلیوں اور رومیوں نے کی۔
یورپین مؤرخین کی تعصّب آلود ذہنیت
یہ عجیب لطیفہ اور قوموں کی ناشکری کی مثال ہے کہ
بابلیوں نے یہودیوں کے ملک کو تباہ کیا اور ان کی مسجد کو ذلیل کیا۔ یورپین مصنف کتابیں لکھتے ہیں تو بابلیوں کو کوئی گالی نہیں دیتا، کوئی ان کو بُرا نہیں کہتا، کوئی ان پر الزام نہیں لگاتا۔ رومیوں نے اس ملک کو لیا اور اِس مسجد میں خنزیر کی قربانیاں کیں۔ عیسائی رومی تاریخ پر کتابیں لکھتے ہیں۔ مثلاً گبن نے ‘‘دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر ’’(The Decline and Fall of the Roman Empire) لکھی ہے مگر جتنی کتابوں کو دیکھ لو وہ کہتے ہیں رومن ایمپائر جیسی اچھی ایمپائر کوئی نہیں حالانکہ انہوں نے اُن کی مسجد کو گندہ کیا مگر وہ قوم جس نے اُن کی مسجد کو گندہ نہیں کیا اُس کو گالیاں دی جاتی ہیں۔
حضرت عمر ؓ کے روادارانہ سلوک
کا ایک ایمان افروز نمونہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فلسطین فتح ہؤا اور جس وقت آپ یروشلم گئے تو یروشلم کے پادریوں نے
باہر نکل کر شہر کی کنجیاں آپ کے حوالے کیں اور کہا کہ آپ اب ہمارے بادشاہ ہیں آپ مسجد میں آکے دو نفل پڑھ لیں تاکہ آپ کو تسلی ہو جائے کہ آپ نے ہماری مقدس جگہ میں جو آپ کی بھی مقدس جگہ ہے نماز پڑھ لی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہامَیں تمہاری مسجد میں داخل ہو کر اِس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ میں ان کا خلیفہ ہوں،کَل کو یہ مسلمان اِس مسجد کوچھین لیں گے اور کہیں گے یہ ہماری مقدس جگہ ہے اس لئے میں باہر ہی نماز پڑھوں گا تاکہ تمہاری مسجد نہ چھینی جائے31پس ایک تو وہ تھے جنہوں نے وہاں خنزیر کی قربانی کی اور یورپ کا منہ اُن کی تعریفیں کرتے ہوئے خشک ہوتا ہے اور ایک وہ تھا جس نے مسجد میں دو نفل پڑھنے سے بھی انکار کیاکہ کہیں مسلمان کسی وقت یہ مسجد نہ چھین لیں اور اِس کو رات دن گالیاں دی جاتی ہیں۔ کتنی ناشکرگزار اور بے حیا قوم ہے۔
یہودیوں کی بجائے مسلمانوں
کو فلسطین کیوں دیا گیا ؟
اب مسلمانوں کے پاس فلسطین آجانے کے بعدسوال ہو سکتا ہے کہ وہ یہودیوں کے پاس تو نہ رہا، موسوی سلسلہ کے پاس بھی نہ
رہا، یہ کیا ّمُعِمہ ہے؟ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ اعتراض اصل میں نہیں پڑتا اس لئے کہ بعض دفعہ جھگڑا ہوتا ہے وارث آجاتے ہیں تو سچے وارث کہتے ہیں ہم ان کے وارث ہیں۔ یہی صورت اس جگہ واقع ہوئی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ خدا جاگیر دینے والا تھا۔ خدا تعالیٰ کے سامنے مقدمہ پیش ہؤا کہ موسیٰ ؑ اور داؤد ؑ کے وارث یہ مسلمان ہیں یا موسیٰ ؑ اور داؤد ؑ کے وارث یہودی اور عیسائی ہیں؟ تو کورٹ نے ڈگری دی کہ اب موسیٰ ؑ اور داؤد ؑ کے وارث مسلمان ہیں چنانچہ ڈگری سے ان کو ورثہ مل گیا۔ جاگیر قائم ہے مگر جو اس کے وارث قرار دیئے گئے تھے ان کو مل گئی۔
یہود کی فلسطین میں دوبارہ واپسی کی پیشگوئی
پھر آگے چل کر فرماتا ہے فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ
جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا۔32پھراس کے بعد ایک اَوروقت آئیگا کہ یہودیوں کو دنیا سے اکٹھا کرکے فلسطین میں لا کر بسا دیا جائیگا۔ وہ اب وقت آیا ہے جبکہ یہودی اس جگہ پر آئے ہوئے ہیں۔ لوگ ڈرتے ہیں اور مسلمان بھی اعتراض کرتے ہیں، چنانچہ کراچی اور لاہور میں مختلف جگہوں پر مجھ پر مسلمانوں نے اعتراض کیا کہ یہ تو وعدہ تھا کہ یہ سرزمین مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے گی۔ میں نے کہا کہاں وعدہ تھا؟ قرآن میں تو لکھا ہے کہ پھر یہودی بسائے جائیں گے۔ کہنے لگے اچھا جی! یہ تو ہم نے کبھی نہیں سنا۔ میں نے کہا تمہیں قرآن پڑھانے والا کوئی ہے ہی نہیں تم نے سُننا کہاں سے ہے۔ میری تفسیر پڑھو اُس میں لکھا ہؤا موجود ہے۔ تو یہ جو وعدہ تھا کہ پھر یہودی آجائیں گے قرآن میں لکھا ہؤا موجود ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل میں یہ موجود ہے کہ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا ۔ جب آخری زمانہ کا وعدہ آئیگا تو پھر ہم تم کو اکٹھا کرکے اس جگہ پر لے آئیں گے۔
بہائیوں کا لغو اعتراض
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہود کے آنے کی وجہ سے اسلام منسوخ ہو گیا۔ گویا اُن کے نزدیک اسلام کے
منسوخ ہونے کی یہ علامت ہے کیونکہ عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ نے اس پر قبضہ کرنا تھا۔ جب مسلمان وہاں سے نکا ل دیئے گئے تو معلوم ہؤا کہ مسلمان عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ نہیں رہے۔ یہ اعتراض زیادہ تر بہائی قوم کرتی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہی پیشگوئی تورات میں موجودہے، یہی پیشگوئی قرآن میں موجود ہے اور اسی پیشگوئی کے ہوتے ہوئے اس جاگیر کو بابلیوں نے سَو سال رکھا تو اُس وقت یہودی مذہب بہائیوں کے نزدیک منسوخ نہیں ہؤا۔ ٹائیٹس کے زمانہ سے لیکرسَو دو سَو سال تک بلکہ تین سَو سال تک فلسطین روم کے مشرکوں کے ماتحت رہا۔ وہ عیسائیوں کے قبضہ میں نہیں تھا، یہودیوں کے قبضہ میں نہیں تھا، مسجد میں سؤر کی قربانی کی جاتی تھی تب بھی وہ پیشگوئی غلط نہیں ہوئی لیکن یہودیوں کے آنے پر پانچ سال کے اندر اسلام منسوخ ہو گیا کیسی پاگل پن والی اور دشمنی کی بات ہے۔
یہودیت اور عیسائیت کو بہائی
کیوں منسوخ قرار نہیں دیتے؟
اگر واقع میں کسی غیر قوم کے اندر آجانے سے کوئی پیشگوئی غلط ہو جاتی ہے اور عارضی قبضہ بھی مستقل قبضہ کہلاتا ہے تو تم نے سَو
سال پیچھے ایک دفعہ قبضہ دیکھا ہے۔تین سَو سال دوسری دفعہ کافروں کا قبضہ دیکھا ہے، اُس وقت کی یہودیت کو تم منسوخ نہیں کہتے اُس وقت کی عیسائیت کو تم منسوخ نہیں کہتے لیکن اسلام کے ساتھ تمہاری عداوت اتنی ہے کہ پانچ سال کے بعد ہی تم اِس کو اسلام کی منسوخی کی علامت قرار دیتے ہو۔ جب اتنا قبضہ ہو جائے جتنا کہ عیسائیت کے زمانہ میں یہ اُن کے ہاتھ سے نکلی رہی تھی اور فلسطین غیر عیسائیوں کے قبضہ میں رہا تھا یا غیر یہودیوں کے قبضہ میں رہا تھا تب تو کسی کا حق بھی ہو سکتا ہے کہ کہے لوجی! اسلام کے ہاتھ سے یہ جاگیر نکل گئی لیکن جب تک اتنا قبضہ چھوڑ اِس کا سواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہوا، ساٹھواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہوا، پچاسواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہؤا تو اِس پر یہ اعتراض کرنا محض عداوت نہیں تو اور کیا ظاہر کرتا ہے۔
بہائیوں کی اپنی لامرکزیّت
پھر عجیب بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے بہائی ہیں جن کا اپنا وہی حال ہے جیسے ہمارے
ہاں مثل مشہور ہے کہ نہ آگا نہ پیچھا۔وہ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ مکہ اس کے پاس ہے مدینہ اس کے پاس ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں، ''چھاج بولے تو بولے چھلنی کیا بولے جس میں سَو سوراخ''۔ تمہارا کیا حق ہے کہ تم اسلام پر اعتراض کرو۔ تمہارے پاس تو ایک چپّہ زمین بھی نہیں جس کو تم اپنا مرکز قرار دے سکو۔ اسلام کا تو مکہ بھی موجود ہے اور مدینہ بھی موجود ہے۔ وہ تو ایک زائد جاگیر تھی، وہ جاگیر اگر عارضی طور پر چلی گئی تو پھر کیا ہؤا۔ اس کے مقابلہ میں 1870ء سے بہائیت کا آغاز ہؤا اور اب 1954ء ہو گیا ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ اُن کے مذہب کو قائم ہوئے چوراسی سال ہو گئے اور چوراسی سال میں ایک گاؤں بھی تو انہوں نے مقدس نہیں بنایا۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں حکومت حاصل نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس بھی تو حکومت نہیں، ہم نے تو چند سال میں ربوہ بنا لیا۔ پہلے قادیان بنا ہؤا تھا اب ربوہ بنا ہؤا ہے۔ یہاں ہم آتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، اکٹھے رہتے ہیں، یہ بھی توبتائیں کہ دنیا میں ان کا کوئی مرکز ہے یا دنیا میں کسی جگہ پر وہ اکٹھے ہوتے ہیں؟ لیکن اسلام پر صرف پانچ سال کے قبضہ کی وجہ سے اُن کے بُغض نکلتے ہیں اور کہتے ہیں اسلام ختم ہو گیا اور اپنی یہ حالت ہے کہ عکہ کو مرکز قرار دیا ہؤا ہے اورکہتے ہیں کہ حدیثوں میں بھی پیشگوئیاں تھیں کہ عکہ اُن کے پاس ہوگا اور تورات میں بھی پیشگوئیاں تھیں مگر اب عکہ میں بہائیوں کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ پھر اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں اور کئی بیوقوف ہیں جو ان کے اعتراضوں سے مرعوب ہو جاتے ہیں مگر اس کا موقع کسی دوسرے لیکچر میں آئیگا، آج میں اس کو بیان نہیں کر سکتا۔
فلسطین پر یہود کا عارضی قبضہ
اسلام کی صداقت کا ثبوت ہے
غرض بابلیوں کے آنے اور رومیوں کے عارضی طور پر وہاں آجانے کو جس کا عرصہ ایک دفعہ ایک سَو سال اور دوسری دفعہ
قریباً تین سَو سال کا تھا اگر اس کو موسیٰ ؑ اور داؤد ؑ کے پیغام کے منسوخ ہونے کی علامت قرار نہیں دیا گیا تو اس وقت یہود کا عارضی طور پر قبضہ جس پر صرف پانچ سال گزرے ہیں اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ یہ تو اس کے صادق ہونے کی علامت ہے۔ کیونکہ جب اس نے خود یہ پیشگوئی کی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ مسلمانوں کو نکالا جائے گااور یہودی واپس آئیں گے تو یہودیوں کا واپس آنا اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت نہیں اسلام کے سچا ہونے کی علامت ہے۔ کیونکہ جو کچھ قرآن نے کہا تھا وہ پورا ہو گیا۔ باقی رہا یہ کہ پھر عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ کے ہاتھ میں کس طرح رہا؟
یہود فلسطین سے نکالے جائیں گے
سو اِس کا جواب یہ ہے کہ عارضی طور پر قبضہ پہلے بھی دو دفعہ نکل چکا ہے
اور عارضی طور پر اب بھی نکلا ہے۔ اور جب ہم کہتے ہیں ''عارضی طور پر'' تو لازماً اس کے معنے یہ ہیں کہ پھر مسلمان فلسطین میں جائیں گے اور بادشاہ ہونگے۔ لازماً اِس کے یہ معنے ہیں کہ پِھر یہودی وہاں سے نکالے جائیں گے اور لازماً اس کے یہ معنے ہیں کہ یہ سارا نظام جس کو یُو۔این۔او کی مدد سے اور امریکہ کی مدد سے قائم کیا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دے گا کہ وہ اِس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں اور پھر اس جگہ پر لاکرمسلمانوں کو بسائیں۔
احادیث میں یہود کی تباہی کی پیشگوئی
دیکھو حدیثوں میں بھی یہ پیشگوئی آتی ہے، حدیثوں میں یہ ذکر ہے
کہ فلسطین کے علاقہ میں اسلامی لشکر آئیگا اور یہودی اس سے بھاگ کر پتھروں کے پیچھے چُھپ جائیں گے۔ اور جب ایک مسلمان سپاہی پتھرکے پاس سے گزرے گا تو وہ پتھرکہے گا اے مسلمان خدا کے سپاہی! میرے پیچھے ایک یہودی کافر چُھپا ہؤا ہے اس کو مار۔33 جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تھی اُس وقت کسی یہودی کا فلسطین میں نام ونشان بھی نہیں تھا۔ پس اِس حدیث سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ میں یہودی اس ملک پر قابض ہو نگے مگر پھرخدا مسلمانوں کو غلبہ دیگا اور اسلامی لشکر اس ملک میں داخل ہونگے اور یہودیوں کو چُن چُن کر چٹانوں کے پیچھے ماریں گے۔
فلسطین مستقل طور پر خداتعالیٰ کے
صالح بندوں کے ہاتھ میں رہے گا
پس عارضی مَیں اس لئے کہتا ہوں کہ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ کا حکم موجود ہے۔
مستقل طور پر تو فلسطین عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ کے ہاتھ میں رہنی ہے۔ سو خداتعالیٰ کے عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ لازماً اس ملک میں جائیں گے۔ نہ امریکہ کے ایٹم بم کچھ کر سکتے ہیں، نہ ایچ بم کچھ کر سکتے ہیں، نہ روس کی مدد کچھ کر سکتی ہے۔ یہ خدا کی تقدیر ہے یہ تو ہو کر رہنی ہے چاہے دنیا کتنا زور لگا لے۔
وَعْدُالْاٰخِرَۃِ کے متعلق ایک اعتراض کا جواب
اس جگہ پر ایک اعتراض کیا جا سکتا
ہے اوروہ اعتراض یہ ہے کہ یہاں وَعْدُ الْاٰخِرَةِ فرمایا ہے اور تم یہ کہتے ہو کہ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ سے مراد آخری زمانہ ہے مگر سورۃ بنی اسرائیل کی وہ پہلی آیتیں جو تم نے پڑھی تھیں وہاں بھی تو ایک وَعْدُ الْاٰخِرَةِ کا ذکر ہے جس میں رومیوں کے حملہ کا ذکر ہے تو کیوں نہ یہ سمجھا جائے کہ یہ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا رومیوں کے حملہ کے متعلق ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ وہ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ نہیں ہو سکتا اس لئے کہ اس صورت میں وَعْدُ الْاٰخِرَةِ کو عذاب کا قائم مقام قرار دیاہے اور اس صورت میں وَعْدُ الْاٰخِرَةِ کو انعام کا قائم مقام قرار دیا ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ عذاب کی پیشگوئی کو انعام سمجھ لیا جائے۔ اُس جگہ تو فرمایا ہے کہ جب آخرت کا وہ وعدہ آئیگا تو تم کو تباہ کر دیا جائے گااور اِس آیت میں یہ ذکر ہے کہ جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو پھر تم کو اس ملک میں لا کر بسا دیا جائے گا۔ اِس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ وَعْدُ الْاٰخِرَةِاَور ہے اور وہ وَعْدُ الْاٰخِرَةِاَور ہے۔ وہاں وَعْدُ الْاٰخِرَةِ سے مراد ہے موسوی سلسلہ کی پیشگوئی کی آخری کڑی۔ اور یہاں وَعْدُ الْاٰخِرَةِ سے مراد ہے آخری زمانہ یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی پیشگوئی۔ پس یہ الفاظ گو ملتے ہیں لیکن دونوں کی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ یہ اَور وعدہ ہے اور وہ اَور وعدہ ہے۔ وہ وعدہ عذاب کا ہے اور یہ وعدہ انعام کا ہے اور انعام کا قائم مقام عذاب کا وعدہ نہیں ہو سکتا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ ''تمہاری موت آئیگی'' اور دوسری دفعہ کہے ''تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہوگا'' تو اب کوئی شخص یہ کہے کہ ''تمہاری موت آئیگی'' کے یہی معنے ہیں کہ ''بیٹا پیدا ہوگا'' تو یہ حماقت کی بات ہوگی کیونکہ اس میں انعام کا وعدہ کیا ہے اور وہاں عذاب کا وعدہ ہے۔'' (الناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ۔ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
''اب میں دعا کرکے جلسہ کو ختم کروں گا۔کچھ تاریں ہیں،وہ میں دعا سے پہلے سنا دیتا ہوں۔''
تاریں سنانے کے بعد فرمایا: -
''پہلے بھی میں دعا کے لئے کہہ چکا ہوں اب احباب سب مل کر دعا کرلیں۔ میں بوجہ کمزوری صحت کے زیادہ نہیں بول سکتا۔ یوں بھی اب میرا گلا کچھ بیٹھ رہا ہے بہر حال اب جلسہ ختم ہے اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے پھر ایک سال ہم کو اکٹھا ہونے کا موقع دے دیا۔ اب سب دوست مل کر دعا کر لیں ۔ اس کے بعد اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہونے کی اجازت ہو گی۔ مگر یہ اب کہ فیصلہ کریں کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ اخلاقی حالت میں تغیر پیدا کرنا اپنے ذمہ لگا لے اور یہ عہد کر لے کہ میں نے یہ ضرور قربانی کرنی ہے۔ کوئی سچ پر ہی قائم ہو جائے، کوئی پردے پر ہی قائم ہو جائے، کوئی تعلیم پر ہی قائم ہو جائے۔ غرض کوئی نہ کوئی چیز عملی طور پر لے لے جس سے کہ ہم دنیا کے سامنے نمونہ پیش کر سکیں اور کہہ سکیں کہ ہماری جماعت اِس چیز کو قائم کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہے۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ ساری نیکیاں کسی میں موجود ہوں۔ چاہے ایک ہی نیکی نمونہ کے طو رپر ہو۔ چاہے سچ ہی کسی میں پورے طور پر آ جائے تو وہی بڑا اثر پیدا کر لیتا ہے بعد میں دوسری نیکیوں کی باری باری توفیق مل جائے گی۔
ہمارے ایک احمدی ہیں میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ ان کا خاندان چور تھا اب تو وہ پنشن لے کر بھی آ گئے ہیں۔ چنیوٹ کے پاس ہی رہنے والے ہیں۔ جب احمدی ہوئے تو انہوں نے بُری باتوں کو چھوڑ دیا اور سچ بولنے لگ گئے۔ جب ان کے بھائیوں نے یا باپ نے بھینس وغیرہ چُرا کر لائی یا جانور لائے تو لوگوں نے آ کر کہنا کہ تم لائے ہو کیونکہ وہ مشہور چور تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو نہیں لائے۔ قسمیں کھانی، قرآن کھانا اور یہ ان کے نزدیک بالکل آسان بات تھی۔ آخر انہوں نے کہنا ہم نہیں مانتے ہاں یہ لڑکا گواہی دے دیوے تو پھر ہم مان لیں گے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ احمدی ہو گیا ہے جھوٹ نہیں بولتا۔ انہوں نے کہنا کہ اس کافر کی گواہی کیا لینی ہے یہ تو کافر ہے اِس کی کیا گواہی ہے۔ انہوں نے کہنا نہیں اِسی کا فر کی گواہی ماننی ہے۔ ہے تو یہ کافر پر بولتا سچ ہے۔ جو کچھ یہ کہہ دے گا وہ مانیں گے۔ اب اس کو انہوں نے الگ لے جانا اور جا کر کہنا کہ دیکھو! تم نے کہنا ہے ''نہیں لائے بھینس'' اُس نے کہنا لائے تو ہو، وہاں کھڑی ہے بھینس۔ وہ کہتے کمبخت! تجھے ہم کہہ رہے ہیں ہم نہیں لائے یہ تم نے کہنا ہے۔ وہ کہتا کہ میں کس طرح کہوں جب بھینس وہاں کھڑی ہے۔ انہوں نے کہنا ہم بھائیوں کی خاطر تم جھوٹ نہیں بولو گے؟ اس نے کہنا کہ جھوٹ تو میں نہیں بولوں گابولوں گا تو سچ ہی۔ انہوں نے خوب کُوٹنا اور کُوٹ کاٹ کے سمجھنا کہ اب اِس کو اچھا سبق آ گیا ہے چنانچہ اسے پکڑ کر اُن کے سامنے لے جانا۔ انہوں نے بھی دیکھ لینا کہ خوب کُوٹا ہؤا ہے۔ انہوں نے پوچھنا کہ کیوں بھئی بھینس لائے ہیں؟ وہ کہتا جی ہاں لائے ہیں وہاں کھڑی ہوئی ہے۔ پھر انہوں نے کہنا تجھے اتنا مارا تھا مگر پھر بھی تجھے سبق نہیں آیا۔ وہ کہتا جب وہ کھڑی ہوئی ہے تو میں کیا کرتا۔ اب دیکھو وہ اسے کافر کہتے تھے لیکن ساتھ ہی اُسے سچ بولنے میں ایک نمونہ بھی سمجھتے تھے۔
اِس طرح کسی ایک خُلق کو لے لو اور اس میں اپنے آپ کو اتنا نمایاں ثابت کرو کہ سارا محلہ، سارا دفتر، سارا علاقہ کہے کہ یہ اِس بات میں سچا ہے۔ ہمارے کئی بزرگ گزرے ہیں ان کا تاریخی طور پر واقعہ آتا ہے کہ باپ مثلاً بزاز تھا اور وہ کپڑا جوبیچنے لگا تو بیٹا کہنے لگا ابا کیا کر رہے ہیں؟ اس میں تو فلاں جگہ پر داغ پڑا ہؤا ہے۔ اب وہ گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں کہ کیا کہہ رہا ہے لیکن اس نے پھر یہی کہنا کہ نہیں نہیں داغ میں نے آپ دیکھا تھا۔ اِس کا اثر یہ تھا کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ بیٹا جو بات کرے گا وہ ٹھیک ہو گی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ اِسی طرح ہے۔ ان کے اندر فطرتِ صحیحہ پائی جاتی تھی۔ باپ تو ان کے فوت ہو چکے تھے۔ چچا تھے جو اُن کو پالتے تھے۔ وہ بت خانہ کے افسر بھی تھے اور بت بھی بنا بنا کر بیچا کرتے تھے اور لوگ ان سے بت لینے آتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی انہوں نے دکان پر بٹھا دیا کہ یہ لڑکا ذرا تجارت کاواقف ہو جائے۔ وہ اپنے چچیرے بھائیوں کے ساتھ دکان پر بیٹھنے لگ گئے۔ ایک دن کوئی بڈھا آیا اور اس نے آ کر کہا کہ میں نے ایک بت لینا ہے۔ کوئی ستّر اسّی سال کا بڈھا تھا لڑکوں نے جو دکان پر بیٹھے ہوئے تھے کہا کہ آپ چن لیجئے کون سا پسند ہے۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھ کے اوپر ایک بت رکھا ہؤا تھا اُس کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگا مجھے یہ پسند ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک قہقہہ مارا۔ اس نے کہا تم کیوں ہنسے؟ وہ کہنے لگے کل میرے سامنے ایک آدمی بت بنا کے لایا تھا جو کل کا بنا ہؤا ہے۔ تم اتنے بڑے بڈھے اِس کے آگے سجدہ کرو گے؟ اُس نے جھٹ بُت پھینک دیا اور چل پڑا۔ بھائیوں نے خوب کُوٹا اور کہا کہ تم نے خواہ مخواہ ہمارا گاہک خراب کر دیا ہے۔ تو ایک نیکی بھی اگر انسان کے اندر آ جائے تو وہ اُس کو نمایاں کر کے لے جاتی ہے۔
پس یہ سننے کی عادت اب چھوڑو۔ کسی ایک چیز کو لے لو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کیا لے لو کسی ایک چیز کو لو اور پھر اس میں تم مشہور ہو جاؤ۔ جیسے بمبئی کے لوگ کہتے ہیں فلاں باٹلی والا ہے اِسی طرح تمہارا ایک نام ہو جائے کہ فلاں سچ والا ہے، فلاں دیانت والا ہے، فلاں ہمدردی والا ہے۔ بس تمہارا ایک نام پڑ جائے پھر دیکھو کہ لوگوں پر اِس کا کیسا اثر ہوتا ہے اور خود تمہیں کتنی دلیری پیدا ہو جاتی ہے کہ چلو میں ہمدردی والا بن گیا، دیانت والا بھی بن جاؤں۔ سچ والا بن گیا ہوں، انصاف والا بھی بن جاؤں۔ تو کوئی نہ کوئی چیز اپنے اندر پیدا کر لو تا کہ لوگوں کے لئے یہ نمونہ ہو جائے اور ہمارے اندر ایسی اخلاقی طاقت پیدا ہو جائے کہ دنیا پر ہماری اخلاقی برتری اور ہماری نیکی کی فوقیت ثابت ہو جائے۔
پھر دعا کرو جیسا کہ میں نے کہا تھا اِس وقت سارے ہی اسلامی ممالک اِلَّامَاشَاءَ اللہُبہت خطرے کی حالت میں ہیں۔ کہیں اندرونی خطرے ہیں کہیں بیرونی خطرے ہیں، کہیں دباؤ ہیں کہیں لالچیں ہیں، کہیں حرصیں ہیں، کہیں ڈراوا ہے، کہیں دھمکیاں ہیں۔ تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اِتنی مدت کی غلامی کے بعد اب اس نے جو مسلمانوں کو آزاد کیا ہے تو اَب بخشنے پر آیا ہے تو پھر پوری ہی بخشش دے بجائے اس کے کہ ادھوری چیز دے۔ خصوصاً پاکستان کی طاقت اور آزادی کے لئے دعا کرو اور اپنی وفا کا کامل نمونہ دکھاؤ تا تمہاری وفا کو دیکھ کر دوسرے بھی باوفا ہو جائیں۔
پھر سب سے بڑا غلام اور سب سے زیادہ مصیبت زدہ تو اسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ وہ اس غلام کو بھی آزادی بخشے اور اس کی بھی وہی عزت قائم کر دے جو پہلے زمانہ میں تھی۔ یہ جو شاہی تخت کا مستحق تھا آج وہ آفتابہ اٹھائے ہوئے امیروں کے ہاتھ دھلوا رہا ہے۔ خداتعالیٰ اس کو بھی اس غلامی سے آزاد کرے اور پھر تختِ شاہی پر بٹھائے تا کہ ہم لوگ بھی سرخرو ہوں اور ہماری بھی عزت دنیا میں قائم ہو ۔ ہماری عزت تو اسلام سے ہی ہے۔ اگر اسلام کی عزت نہیں تو ہماری کوئی عزت نہیں۔ ایسی عزت سے *** بہتر ہے جو اسلام کے نقصان کے بعد ہم کو حاصل ہو۔ پھر جو تمہارے باہر کے بھائی ہیں اور مبلّغ ہیں ان کے لئے دعائیں کرو، ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے بھی دعائیں کرو۔ ہندوستان کے مسلمان بھی بڑی مشکلات میں ہیں۔ بے شک وہ ایک دنیوی حکومت کہلاتی ہے لیکن پھر بھی اکثریت مسلمانوں کے ساتھ پوری طرح انصاف نہیں کر رہی۔ ان کے لئے بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور ان میں سے بھی کشمیر کے مسلمانوں کے لئے خاص طور پر دعا کرو کہ وہ ان کا حامی اور ان کا محافظ ہو۔ پھر جو اپنے مبلغ ہیں ان کے لئے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کے کام میں برکت دے۔ اپنے لئے دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں دین کی خدمت کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ وعدے کرنے کی توفیق دے اور اچھے سے اچھے طور پر پورا کرنے کی توفیق دے تا کہ ہمارے تمام کام خوش اسلوبی سے طے ہوں اور ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہو کر جائیں۔ جن لوگوں نے اِس وقت خدمت کی ہے حفاظت کے کام کی یا لنگر کے کام کی یا کھانا پہنچانے کے کام کی۔ یہ سارے کے سارے جو خدمت کرنے والے ہیں درحقیقت اللہ کے لئے انہوں نے کام کیا ہے اس لئے وہ مستحق ہیں کہ ہم ان کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانی کو قبول کرے اور اعلیٰ سے اعلیٰ انعام ان کو دے۔ اور پھر یہ بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے بڑھانے کے سامان پیدا کرے، لوگوں کے دلوں سے بُغض اور نفرت دور کرے اور ہمیں وہ طریقے بتائے کہ جن کے ذریعہ سے ہم زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف کھینچ کر لائیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کرنے والی جماعت بڑھتی چلی جائے اور اس کے لئے قربانی کرنے والے ترقی کرتے چلے جائیں اور ہمارے ملک کے لوگوں میں ہماری نسبت جو بدظنیاں ہیں وہ دور ہوں اور جو ہماری نیکیاں ہیں وہ ان کے سامنے آئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے، اللہ تعالیٰ ہم کو نیک کام کرنے کی توفیق دے اور اُن کو نیک کاموں کو نیک دیکھنے کی توفیق دے۔ پس آؤ ہم دعا کریں۔ دعا کے بعد ہم رخصت ہوں گے اور اللہ تعالیٰ جب چاہے گا پھر
ملیں گے۔ '' (الفضل 25جنوری 1955ء)
1 نچلی: نِچلی نہ بیٹھنا: ایک حالت پر قائم نہ رہنا۔ کچھ نہ کچھ کیے رکھنا
2 بھرّے: بھرّا : ترغیب ۔ تحریک۔ تحریص۔ دھوکا۔ فریب
3 الانفطار: 11تا 13
4 کنسوئیاں : چھُپ کر کسی کی باتیں سننا
5 میکسی میلین (MAXIMILIAN) (1832ء – 1867ء)
FERDINAND MAXIMILIAN JOSEPH آسٹریا کے صدر مقام ویانا میں آسٹریا کے شہزادہ FRANZ KARL کے گھر پیدا ہوا۔ 22 سال کی عمر میں آسٹرین نیوی کو کمانڈ کیا۔ 1857ء میں میکسی میلین کو وائس کنگ (VICE KING) کے طور پر مقرر کیا گیا۔ 1863ء میں فرانس کے نپولین III اور میکسیکوکی شاہی حکومت کے بعض ممبران کی مدد سے میکسیکو کا حکمران بنا۔ جہاں اسے بہت مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ اسے گرفتار کر لیا گیا اور 1867ء میں قتل کر دیا گیا۔ (Wikipedia, the free Encyclopedia)
6 الانعام : 23 ، 24 7 حٰم السجدۃ : 21
8 کچا چِٹھا : صحیح صحیح حال۔ کُل کیفیت
9 النور : 25
10 بخاری کتاب الرّقاق باب مَنْ ھَمَّ بِحَسَنَۃٍ اَوْ بِسَیِّـئَۃٍ
11 الاعلٰی : 8 12 ھود : 6 13 المجادلۃ : 7
14 الکھف : 50 15 الحاقّۃ : 26 تا 28 16 الحاقّۃ : 20 ،21
17 حٰم السجدۃ : 22 18 التغابن : 10
19 المفردات فی غریب القرآن۔ لامام راغب اصفہانی صفحہ 454 مطبوعہ بیروت 2002ء
20 الفرقان : 71
21 مسلم کتاب الایمان باب اَدْنٰی اَھل الجنۃ منزلۃً فِیْھا
22 ،23 تذکرۃ الاولیاء صفحہ 343تا 345۔ از فرید الدین عطار۔ مطبوعہ 1990ء لاہور
24 حٰم السجدۃ : 9 25 اٰل عمران : 97 ،98
26 سیرت ابن ھشام جلد ١ صفحہ 81 مطبوعہ مصر 1295ء
27 الفیل : 2 ،3 28 الانبیاء : 106 29 بنی اسراء یل : 6 ،7
30 بنی اسراء یل : 8 ،9
31
32 بنی اسراء یل : 105
33 مسلم کتاب الفتن باب لَا تقوم السّاعَۃُ حَتّٰی یمر الرجل بقَبْرِ الرَّجل (الخ)
منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات
(1956ء-7-23 تا 1956ء -11-27)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں مولوی محمدصدیق صاحب شاہد مربی سلسلہ راولپنڈی کی طرف سے ایک رپورٹ موصول ہوئی۔ وہ رپورٹ اور اُس پر حضور نے جو پیغام احبابِ جماعت کے نام ارسال فرمایا وہ درج ذیل ہے:
(1)مولوی محمد صدیق صاحب شاہد کا خط
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سیّدنا و امامنا حضرت ...........خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
مکرم چیمہ صاحب افسر حفاظت نے مجھے کہا ہے کہ حضور اقدس کی خدمت میں لکھوں کہ راولپنڈی میں اﷲ رکھا کو تم نے کس کے کہنے پر رکھا تھا؟ عرض ہے کہ گزشتہ رمضان کے مہینہ کی بات ہے کہ انجمن احمدیہ راولپنڈی میں اﷲ رکھا آیا اور مہمان خانہ میں رہنے کے لئے کہا۔ میں نے جواب دیا کہ تم کو قادیان سے نکالا گیا تھا اس لئے اس جگہ نہیں رہ سکتے۔ اس پر کہنے لگا کہ مجھے معافی مل چکی ہے۔
(1) خصوصیت سے حضرت میاں بشیر احمد صاحب کا نام لیا کہ انہوں نے بھی مجھے ایک چٹھی امراء کے نام لکھ کر دی تھی لیکن اس وقت میرے پاس نہیں ہے۔
(2) علاوہ اس کے اَور بھی خاندان کے افراد کی چٹھیاں میرے پاس ہیں۔ ایک خط میاں عبدالوہاب صاحب عمر کا مجھے دکھایا جس میں محبت بھرے الفاظ میں اﷲ رکھا سے تعلقات کا اظہار کیا گیا تھا کہ ہم تو بھائیوں کی طرح ہیں اور امّی جان تم کو بیٹوں کی طرح سمجھتی تھیں۔ یہ خط میں نے خود پڑھا تھا اور اس سے میری تسلی ہو گئی اور میں نے اس کو احمدی خیال کر کے مہمان خانے میں رہنے کی اجازت دے دی۔
(3) راولپنڈی میں میرے پاس تین دن رہنے کے بعد کہنے لگا کہ مولوی علی محمد صاحب اجمیری (سیکرٹری رُشدو اصلاح) میرے اپنے آدمی ہیں اس لئے میں وہاں جاتا ہوں۔ وہاں کئی دن رہا اور اس دوران میں ملتا رہا اور مختلف احمدیوں خصوصاً کرنل محمود صاحب کے گھر سے کھانا بھی کھاتا رہا۔
(4) چند دنوں کے بعد اپنا تھوڑا سا سامان میرے پاس چھو ڑ کر کہنے لگا کہ میں اگلی جماعتوں کا دورہ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کہہ کر کیمل پور، پشاور، مردان، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور بالاکوٹ تک قریباً ڈیڑھ مہینہ پھرتا رہا اور اب راولپنڈی اپنا سامان لینے کے لئے واپس آیا۔ چونکہ خاکسار مری تھا اس لئے اس جگہ آ گیا اور آج ہی راولپنڈی واپس گیا ہے اور جاتے ہوئے مندرجہ ذیل پتہ دے گیا ہے۔ نسبت روڈ نمبر 44 بر مکان غلام رسول 35 لاہور۔ اور کہہ گیا کہ راولپنڈی سے ہو کر ربوہ جاؤں گا اور وہاں چند دن رہنے کے بعد لاہور جاؤں گا۔
خدا بہتر جانتا ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے سچ اور صحیح لکھا ہے اور میں نے کسی چیز کو چھپایا نہیں ہے اور میں نے اﷲ رکھا سے یہ سلو ک محض اس لئے کیا کہ وہ احمدی ہے اور باقی افرادِ جماعت بلکہ مکرم امیر صاحب راولپنڈی کو بھی ملتا رہاہے۔ ان میں سے کسی نے بھی مجھے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کو اپنے پاس مت رکھو۔
نوٹ: لاہور میں وہ اکثر جودھامل بلڈنگ میں مکرم عبدالوہاب صاحب عمر اور حافظ اعظم صاحب کے پاس رہتا ہے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ میرے تعلقات حافظ مختار احمد صاحب اور مولوی خورشید احمد منیر مربی لاہور اور قاضی محمد یوسف صاحب پراونشل امیر سرحد کے ساتھ گہرے ہیں۔
والسلام
حضور کا ادنیٰ غلام
دستخط محمد صدیق شاہد مربی۔مری
1956ء-7-23 ’’
(الفضل 25 جولائی 1956ء)
حضرت مصلح موعود کا انقلاب آفریں پیغام مؤرخہ 1956ء-7-23
''اﷲ رکھا وہ شخص ہے جس نے قادیان کی جماعت کے بیان کے مطابق قادیان میں فساد مچایا تھا اور بقول ان کے قادیان کے درویشوں کو تباہ کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ اور جب قادیان کی انجمن نے اس کو وہاں سے نکالا تو ان کے بیان کے مطابق اس نے بھارتی پولیس اور سکھوں اور ہندوؤں سے جوڑ ملایا اور قادیان کے درویشوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ جتنا وہ اس کو قادیان سے نکالنے کی کوشش کرتے رہے اُتنا ہی یہ بھارتی پولیس کی مدد سے قادیان میں رہنے کی کوشش کرتا رہا۔ کوہاٹ کی جماعت کے نمائندوں نے ابھی دو دن ہوئے مجھے بتایا کہ یہ شخص کوہاٹ آیاتھا اور وہاں اس نے ہم سے کہا تھا کہ جب خلیفۃ المسیح الثانی مر جائیں گے تو اگر جماعت نے مرزا ناصر احمد کو خلیفہ بنایا تو میں ان کی بیعت نہیں کروں گا۔ ہم نے جواباً کہا کہ مرزا ناصر احمد کی خلافت کا سوال نہیں تُو ہمارے زندہ خلیفہ کی موت کا متمنّی ہے اس لئے تُو ہمارے نزدیک خبیث آدمی ہے، یہاں سے چلا جا۔ ہم تجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔ مولوی محمد صدیق صاحب نے جو اس کا بتایا ہؤا پتہ لکھا ہے کوہاٹ کی جماعت نے دفتر کو بتایا کہ اسی جگہ کے رہنے والے چند نام نہاد احمدیوں کا اس نے نام لیا اور کہا کہ انہوں نے مجھے کرایہ دے کر جماعتوں کے دورے کے لئے بھجوایا ہے۔ مولوی محمد صدیق صاحب کے بیان سے ظاہر ہے کہ وہ مزید دوروں کے لئے پھر رہا ہے۔ چودھری فضل احمد صاحب جو نواب محمد دین صاحب مرحوم کے رشتہ کے بھائی ہیں اور نہایت مخلص اور نیک آدمی ہیں اُنہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے بھی ایک دن روک کر کھڑا ہو گیا تھا اور کہتا تھا میں مُلک بھر میں پھر رہا ہوں۔ مربی راولپنڈی کے بیان کے مطابق میاں عبدالوہاب صاحب نے اس کو ایک خط دیا تھا جس میں لکھا تھا کہ تم ہمارے بھائیوں کی طرح ہو اور ہماری والدہ بھی تم سے بہت محبت کرتی تھیں۔ اگر ایسا کوئی خط تھا تو یہ بیان بالکل جھوٹ اور افترا ہے کیونکہ میاں عبدالوہاب کی والدہ اس شخص کو جانتی بھی نہ تھیں کیونکہ وہ ربوہ میں رہتی تھیں اور یہ شخص قادیان میں تھا اور جماعت کی پریشانی کا موجب بن رہا تھا۔ نیز وہ تو وفات سے قبل ذیابیطس کے شدید حملہ کی وجہ سے نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑی رہتی تھیں اور ان کی اولاد ان کو پوچھتی تک نہ تھی اور میں ان کو ماہوار رقم محاسب کے ذریعہ سے علاوہ انجمن کے حضرت خلیفہ اوّل کی محبت اور ادب کی وجہ سے دیا کرتا تھا۔ بلکہ جب میں بیمار ہؤا اور یورپ گیا تو ان کی نواسیوں کو تاکید کر گیا تھا کہ ان کی خدمت کے لئے نوکر رکھو جو خرچ ہو گا میں ادا کروں گا۔بہرحال ایک طرف تو جماعت مجھے یہ خط لکھتی ہے کہ ہم آپ کی زندگی کے لئے رات دن دعائیں کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک شخص کا خط مجھے آج ملا کہ میں تیس سال سے آپ کی زندگی کے لئے دعا کر رہا ہوں۔ دوسری طرف جماعت اس شخص کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے جو میری موت کا متمنّی ہے۔ آخر یہ منافقت کیوں ہے؟ کیا میاں عبدالوہاب کا بھائی ہونا محض اس وجہ سے ہے کہ وہ شخص میری موت کا متمنّی ہے؟ کوئی تعجب نہیں کہ وہ مری میں صرف اس نیت سے آیا ہو کہ مجھ پر حملہ کرے۔ جماعت کے دوستوں نے مجھے بتایا ہے کہ جب ہم نے اس کو گھر سے نکالا کہ یہ پرائیویٹ گھر ہے تمہیں اس میں آنے کا کوئی حق نہیں تو اس نے باہر سڑک پر کھڑے ہو کر شور مچانا شروع کر دیا تاکہ اردگرد کے غیر احمدیوں کی ہمدردی حاصل کرے۔ اب جماعت خود ہی فیصلہ کرے کہ میری موت کا متمنّی آپ کا بھائی ہے یا آپ کا دشمن۔ آپ کو دو ٹوک فیصلہ کرنا ہو گا اور یہ بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ جو اس کے دوست ہیں وہ بھی آپ کے دوست ہیں یا دشمن۔ اگر آپ نے فوراً دو ٹوک فیصلہ نہ کیا تو مجھے آپ کی بیعت کے متعلق دوٹوک فیصلہ کرنا پڑے گا۔ اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد جس جماعت اور جماعت کے افراد کی طرف سے اس دشمنِ احمدیت اور اس کے ساتھیوں کے متعلق براءت کی چِٹھیاں مجھے نہ ملیں تو میں ان کے خط پھاڑ کر پھینک دیا کروں گا اور ان کی درخواستِ دعا پر توجہ نہ کروں گا۔ یہ کتنی بے شرمی ہے کہ ایک طرف میری موت کے متمنّی اور اس کے ساتھیوں کو اپنا دوست سمجھنا اور دوسری طرف مجھ سے دعاؤں کی درخواست کرنا۔
مہربانی کر کے یہ لوگ جن کا نام مولوی صدیق صاحب کے بیان میں ہے یعنی قاضی محمد یوسف صاحب امیر سرحد، حافظ مختار احمد صاحب اور مولوی خورشید احمد صاحب منیر مربی لاہور وہ بھی بتائیں کہ ان کا اس شخص کے ساتھ کیا تعلق ہے یا اس نے اپنے ساتھیوں کی عادت کے مطابق افترا سے کام لیا ہے۔ جن لوگوں کا نام اس شہادت میں آیا ہے ان کے متعلق میرے پاس مزید شہادتیں پہنچ چکی ہیں۔ عنقریب میں ان کو مکمل کر کے شائع کروں گا اور اگر ان لوگوں کی طرف سے چھیڑ خانی جاری رہی تو میں غور کروں گا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ اور میں جماعت کی بھی نگرانی کروں گا کہ وہ اﷲ رکھا اور اس کی قماش کے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔
جماعت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ تذکرہ میں پسرِ موعود کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات شائع ہوئے ہیں ان الہامات کے خاص خاص حصّے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پرائیویٹ طور پر حضرت خلیفہ اوّل کو کیوں لکھے؟ آخر مستقبل سے کچھ تو اس کا تعلق تھا۔ کیوں نہ حضرت صاحب نے سب باتیں سبز اشتہار میں لکھ دیں اور کیا وجہ ہے کہ پیر منظور محمد صاحب موجد قاعدہ یسّرنا القرآن نے جو حضرت خلیفہ اوّل کے سالے بھی تھے جب حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی میں پسرِ موعود پر ایک رسالہ لکھا تو اس پر حضرت خلیفہ اوّل نے یوں ریویو کیا کہ میں اس مضمون سے متفق ہوں۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ مَیں مرزا محمود احمد کا بچپن سے کتنا ادب کرتا ہوں۔ اس تبصرہ کی بھی کوئی حکمت تھی۔ اس کی کاپیاں اب تک موجود ہیں اور غالباً حضرت خلیفہ اوّل کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ریویو کا چربہ بھی اب تک موجود ہے''۔
مرزا محمود احمد
(خلیفۃ المسیح الثانی)
1956ء23-7- ''
(الفضل 25 جولائی 1956ء)
(2)مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے پہلے سالانہ اجتماع کے لئے پیغام مؤرخہ 1956ء-7-24
‘‘خیبر لاج مری (1956ء24-7-)
خدام الاحمدیہ کراچی
عزیزان ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ۔
آپ کے افسران نے مجھ سے خدام الاحمدیہ کراچی کے جلسہ کے لئے پیغام مانگا ہے۔میں اِس کے سوا پیغام کیا دے سکتا ہوں کہ 1914ء میں جب میں خلیفہ ہؤا اور جب میری صرف 26سال عمر تھی خدام الاحمدیہ کی بنیاد ابھی نہیں پڑی تھی مگر ہر احمدی نوجوان اپنے آپ کو خادمِ احمدیت سمجھتا تھا ۔مجھے یاد ہے کہ جس دن انتخابِ خلافت ہونا تھا مولوی محمدعلی صاحب کی طرف سے ایک ٹریکٹ شائع ہؤا کہ خلیفہ نہیں ہونا چاہئے صدر انجمن احمدیہ ہی حاکم ہونی چاہئے۔اُس وقت چند نوجوان نے مل کر ایک مضمون لکھا اور اُس کی دستی کاپیاں کیں۔ اُس کا مضمون یہ تھا کہ ہم سب احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت فیصلہ کر چکے ہیں کہ جماعت کا ایک خلیفہ ہونا چاہئے، اس فیصلہ پر ہم قائم ہیں اور تا زندگی قائم رہیں گے اور خلیفہ کا انتخاب ضرور کرا کے چھوڑیں گے۔ سکول کے درجنوں طالبعلم پیدل اور سائیکلوں پر چڑھ کے بٹالہ کی سڑک پر چلے گئے اور ہر نَو وارد مہمان کو دکھا کر اُس سے درخواست کی کہ اگر آپ اِس سے متفق ہیں تو اِس پر دستخط کر دیں۔ جماعت احمدیہ میں خلافت کی بنیاد کا وہ پہلاد ن تھا اور اس بنیاد کی اینٹیں رکھنے والے سکول کے لڑکے تھے۔ مولوی صدر الدین صاحب اُس وقت ہیڈ ماسٹر تھے اُن کو پتہ لگا تو وہ بھی بٹالہ کی سڑک پر چلے گئے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ سکول کا ایک لڑکا نو وارد مہمانوں کو وہ مضمون پڑھوا کر دستخط کروا رہا ہے۔ انہوں نے وہ کاغذ اُس سے چھین کر پھاڑ دیا اور کہا چلے جاؤ۔ وہ لڑکا مومن تھا اُس نے کہا مولوی صاحب! آپ ہیڈ ماسٹر ہیں اور مجھے مار بھی سکتے ہیں مگر یہ مذہبی سوال ہے میں اپنے عقیدہ کو آپ کی خاطر نہیں چھوڑ سکتا۔ فوراً جھک کر وہ کاغذ اٹھایا اور اُسی وقت پنسل سے اُس کی نقل کرنی شروع کر دی اور مولوی صاحب کے سامنے ہی دوسرے مہمانوں سے اُس پر دستخط کروانے شروع کر دیئے۔
اِس پر بیالیس سال گزر گئے میں اُس وقت جوان تھا اور اب 68 سال کی عمر کا ہوں اور فالج کی بیماری کا شکار ہوں۔ اُس وقت آپ لوگوں کی گردنیں پیغامیوں کے ہاتھ میں تھیں اور خزانے میں صرف اٹھارہ آنے کے پیسے تھے۔ میں نے خالی خزانہ کو لے کر احمدیت کی خاطر اُن لوگوں سے لڑائی کی جو کہ اُس وقت جماعت کے حاکم تھے اور جن کے پاس روپیہ تھا لیکن خدا تعالیٰ نے میری مدد کی اور جماعت کے نوجوانوں کو خدمت کرنے کی توفیق دی۔ ہم کمزور جیت گئے اور طاقتور دشمن ہار گیا۔ آج ہم ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور جن لوگوں کو ایک تفسیر پر ناز تھا اُن کے مقابلہ میں اتنی بڑی تفسیر ہمارے پاس ہے کہ اُن کی تفسیر اِس کا تیسرا حصہ بھی نہیں۔ جو ایک انگریزی ترجمہ پیش کرتے تھے اُس کے مقابلہ میں ہم چھ زبانوں کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ لیکن ناشکری کا بُرا حال ہو کہ وہی شخص جس کو پیغامی ستّرا بہّترا قرار دے کر معزول کرنے کا فتویٰ دیتے تھے اور جس کے آگے اور دائیں اور بائیں لڑ کر میں نے اُس کی خلافت کو مضبوط کیا اُس سے تعلق رکھنے والے چند بے دین نوجوان جماعتوں میں آدمی بھجوا رہے ہیں کہ خلیفہ بڈھا ہو گیا ہے اسے معزول کرنا چاہئے۔ اگر واقع میں مَیں کام کے قابل نہیں ہوں تو آپ لوگ آسانی کے ساتھ ایک دوسرے قابل آدمی کو خلیفہ مقرر کر سکتے ہیں اور اُس سے تفسیرِ قرآن لکھوا سکتے ہیں۔ میری تفسیریں مجھے واپس کر دیجئے اور اپنے روپے لے لیجئے۔ اور مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر یا اور جس تفسیر کو آپ پسند کریں اُسے پڑھا کریں۔ اور جو نئی تفسیر میری چھپ رہی ہے اُس کو بھی نہ چُھوئیں۔ یہ اوّل درجہ کی بے حیائی ہے کہ ایک شخص کی تفسیروں اور قرآن کو دنیا کے سامنے پیش کر کے تعریفیں اور شہرت حاصل کرنی اور اُسی کو نکمّا اور ناکارہ قرار دینا۔ مجھے آج ہی اللہ تعالیٰ نے الہام سے سمجھایا کہ''آؤ ہم مدینہ والا معاہدہ کریں''۔ یعنی جماعت سے پھر کہو کہ یا تم مجھے چھوڑ دو اور میری تصنیفات سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔ نہیں تو میرے ساتھ وفاداری کا ویسا ہی معاہدہ کرو جیسا کہ مدینہ کے لوگوں نے مکہ کی عقبیٰ جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کیا تھا اور پھر بدر کی جنگ میں کہا تھا یَا رَسُوْلَ اللہِ! یہ نہ سمجھیں کہ خطرہ کے وقت میں ہم موسیٰؑ کی قوم کی طرح آپ سے کہیں گے کہ جا تُو اور تیرا خدا لڑتے پھرو ہم یہیں بیٹھے ہیں۔ یَا رَسُوْلَ اللہِ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے، بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن اُس وقت تک آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا آگے نہ آئے1 سو گو میرا حافظ خدا ہے اور اُس کے دیئے ہوئے علم سے آج بھی مَیں ساری دنیا پر غالب ہوں لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنی جماعت کا امتحان لے اور اس سے کہہ دے کہ ''آؤ ہم مدینہ والا معاہدہ کریں'' سو تم میں سے جو شخص خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم کھا کر معاہدہ کرتا ہے کہ وہ اپنے آخری سانس تک وفاداری دکھائے گا۔ وہ آگے بڑھے۔ وہ میرے ساتھ ہے اور میں اور میرا خدا اُس کے ساتھ ہے۔ لیکن جو شخص دنیوی خیالات کی وجہ سے اور مخالفوں کے پروپیگنڈا کی وجہ سے بزدلی دکھانا چاہتا ہے اُس کو میرا آخری سلام۔ میں کمزور اور بوڑھا ہوں لیکن میرا خدا کمزور اور بوڑھا نہیں۔ وہ اپنی قہری تلوار سے ان لوگوں کو تباہ کر دے گا جو کہ اِس منافقانہ پروپیگنڈا کا شکار ہوں گے۔ اِس پروپیگنڈا کا کچھ ذکر الفضل میں چھاپ دیا گیا ہے چاہئے کہ قائد خدام اس مضمون کو بھی پڑھ کر سنا دیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کا حافظ و ناصر ہو۔ پہلے بھی اس کی مدد مجھے حاصل تھی اب بھی اس کی مدد مجھے حاصل رہے گی۔ میں یہ پیغام صرف اِس لئے آپ کو بھجوا رہا ہوں تا کہ آپ لوگ تباہی سے بچ جائیں۔ ورنہ حقیقتاً میں آپ کی مدد کا محتاج نہیں۔ ایک ایک مرتد کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ ہزاروں آدمی مجھے دے گا اور مجھے توفیق بخشے گا کہ میرے ذریعہ سے پھر سے جماعت جواں سال ہو جائے۔ آپ میں سے ہر مخلص کے لئے دعا اور کمزور کے لئے رخصتی سلام۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء24-7-’’
(الفضل 4/ اگست 1956ء)
(3)خلیفہ خدا تعالیٰ بنایا کرتا ہےپیغام مؤرخہ 1956ء-7-25
ایک اور شہادت جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ منافق پیغامیوں کے ایجنٹ ہیں۔
‘‘ذیل میں ایک اَور شہادت ظہور القمر صاحب ولد ہری داس کی جو ہندوؤں سے مسلمان ہوئے ہیں شائع کی جاتی ہے جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ منافق پارٹی پیغامیوں کی ایجنٹ ہے۔ ظہور القمر صاحب تحریر فرماتے ہیں۔ ''میں مسمّی ظہور القمر ولد ہری داس متعلم جامعۃ المبشرین ربوہ حال مسجد احمدیہ گُلڈنہ مری حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ تقریباً دس روز ہوئے ایک شخص جس نے اپنا نام اللہ رکھا سابق درویش قادیان بتایا مسجداحمدیہ گُلڈنہ میں آیا اور کہا کہ میں مولوی محمد صدیق مربی راولپنڈی کو ملنے آیا ہوں۔ میرا سامان راولپنڈی میں ان کے مکان پر ہے اور میں نے ان سے مکان کی چابی لینی ہے۔ اس کے بعد وہ مولوی محمد صدیق صاحب کو ملا اور انہوں نے اسے مسجد احمدیہ گُلڈنہ میں ٹھہرایا اور بستر وغیرہ بھی دیا۔ اور اس کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا مولوی محمد صدیق صاحب اسے اپنے ساتھ کھانا بھی کھلاتے رہے (مولوی محمد صدیق صاحب نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ چونکہ اس شخص نے ان سے کہا تھا کہ بڑے بڑے احمدی مجھ سے بڑی محبت کرتے ہیں اور میاں عبدالوہاب صاحب کا خط دکھایا تھا کہ آپ ہمیں بھائیوں کی طرح عزیز ہیں اور یہ بھی کہا تھا کہ میاں بشیر احمد صاحب کا خط بھی میرے پاس ہے۔ گو انہوں نے امرائے جماعت کو لکھا ہے کہ اس شخص کو معافی مل چکی ہے اب جماعت اس کے ساتھ تعاون کرے اور اس کی مدد کرے مگر یہ بھی کہا تھا کہ وہ خط اس وقت میرے ساتھ نہیں ہے۔ پس میں نے اس شخص پر حسن ظنی کی اور اس کو مخلص احمدی سمجھا اور یقین کیا کہ اس کو معافی مل چکی ہے) پھر ظہور القمر لکھتے ہیں کہ''میں عید الاضحی سے ایک روز قبل خیبر لاج میں آیا اور منشی فتح دین صاحب سے دریافت کیا کہ عید کی نماز کب ہو گی اور کون پڑھائے گا؟ منشی صاحب نے بتایا کہ ساڑھے آٹھ بجے ہو گی اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پڑھائیں گے، باہر صحن میں درخت کے ساتھ اعلان بھی لگا ہؤا ہے لہٰذا میں نے واپس جا کر سب دوستوں کو جو مسجد میں تھے نماز کے وقت کی اطلاع دی۔ اِسی ضمن میں اللہ رکھا مذکور کو بھی بتایا کہ کل نماز ساڑھے آٹھ بجے ہو گی اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نماز پڑھائیں گے تو اس نے جواب دیا کہ''میں ایسوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا'' دوسرے روز مولوی محمدصدیق صاحب اسے زبردستی خیبر لاج لائے اور اسے اپنے ہمراہ نماز کی ادائیگی کے لئے کہا۔ اللہ رکھا کہتا تھا کہ میں پیغامیوں کی مسجد میں نماز پڑھوں گا۔ نیز وہ جتنے روز یہاں رہا پیغامیوں کا لٹریچر تقسیم کرتا رہا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کی خط و کتابت مولوی صدر دین صاحب سے ہے اور ہر روز وہ کہا کرتا تھا کہ میں نے انہیں آج خط لکھا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ ابتدائی دنوں میں پیغامیوں کی مسجد میں رہتا رہا ہے اور میاں محمد صاحب لائلپوری جو کچھ عرصہ پیغامیوں کے امیر رہے ہیں اور گزشتہ دنوں مری میں تھے ان کے گھر جا کر کھانا کھاتا رہا ہے۔ اور اس نے مجھے کہا کہ انہوں نے مجھے اجازت دے رکھی ہے کہ جب چاہو میرے گھر آ جایا کرو۔ میں رات کے گیارہ بجے تک مکان کا دروازہ کھُلا رکھا کروں گا۔ جس روز محمد شریف صاحب اشرف سے اللہ رکھا کا جھگڑا ہؤا تھا اُس دن رات کو جب وہ مسجد میں آیا تو اس نے کہا یہ میری پیشگوئی ہے کہ جس طرح پہلے خلافت کا جھگڑا ہؤا تھا اب پھر ہونے والا ہے آپ ایک ڈیڑھ سال میں دیکھ لیں گے''۔
(دستخط ظہور القمر 1956ء-7-25)
اس شہادت کو پڑھ کر دوستوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب سازش پیغامیوں کی ہے اور اللہ رکھا انہی کا آدمی ہے۔ وہ مولوی صدر دین غیر مبائع منکر نبوت مسیح موعود کے پیچھے نماز جائز سمجھتا ہے لیکن مرزا ناصر احمد جو حضرت مسیح موعود کا پوتا ہے اور ان کی نبوت کا قائل ہے اس کے پیچھے نماز جائز نہیں سمجھتا۔ اور پیشگوئی کرتا ہے کہ ایک دو سال میں پھر خلافت کا جھگڑا شروع ہو جائے گا۔
موت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے مگر یہ فقرہ بتاتا ہے کہ یہ جماعت ایک دو سال میں مجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ تبھی اسے یقین ہے کہ ایک دو سال میں تیسری خلافت کا سوال پیدا ہو جائے گا اور ہم لوگ خلافت کے مٹانے کو کھڑے ہوجائیں گے اور جماعت کو خلافت قائم کرنے سے روک دیں گے۔ خلافت نہ خلیفہ اول کی تھی نہ پیغامیوں کی۔ نہ وہ پہلی دفعہ خلافت کے مٹانے میں کامیاب ہوسکے نہ اب کامیاب ہوں گے۔ اُس وقت بھی حضرت خلیفہ اول کے خاندان کے چند افراد پیغامیوں کے ساتھ مل کر خلافت کو مٹانے کے لئے کوشاں تھے ۔مجھے خود ایک دفعہ میاں عبدالوہاب کی والدہ نے کہا تھا ہمیں قادیان میں رہنے سے کیا فائدہ۔ میرے پاس لاہور سے وفد آیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ اگر حضرت خلیفہ اول کے بیٹے عبدالحی کو خلیفہ بنادیا جاتا توہم اس کی بیعت کرلیتے مگر یہ مر زا محمود احمد کہاں سے آ گیا ہم اس کی بیعت نہیں کرسکتے ۔ وہی جوش پھر پیدا ہؤا ۔عبدالحی تو فوت ہو چکا اب شاید کوئی اَور لڑکا ذہن میں ہوگا جس کو خلیفہ بنانے کی تجویز ہوگی ۔ خلیفہ خداتعالیٰ بنایا کرتا ہے۔ اگرساری دنیا مل کر خلافت کو توڑنا چاہے اور کسی ایسے شخص کوخلیفہ بنا نا چاہے جس پر خدا راضی نہیں تو وہ ہزار خلیفہ اوّل کی اولادہو اُس سے نوحؑ کے بیٹوں کا سا سلوک ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ اس کو اور اسکے سارے خاندان کو اس طرح پیس ڈالے گا جس طرح چکّی میں دانے پیس ڈالے جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے نوحؑ جیسے نبی کی اولاد کی پروا نہیں کی نہ معلوم یہ لوگ خلیفہ اوّل کو کیا سمجھے بیٹھے ہیں۔ آخر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام تھے اور ان کے طفیل خلیفہ اوّل بنے تھے۔ ان کی عزت قیامت تک محض مسیح موعود ؑ کی غلامی میں ہے۔ بے شک وہ بہت بڑے آدمی تھے مگر مسیح موعودؑ کے غلا م ہو کر نہ کہ ان کے مقابل میں کھڑے ہو کر۔ قیامت تک اگر ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غلام قرار دیا جائے گا تو ان کا نام روشن رہے گا۔ لیکن اگر اس کے خلاف کسی نے کرنے کی جرأت کی تو وہ دیکھے گا کہ خدا تعالیٰ کا غضب اس پر بھڑکے گا اور اس کو ملیا میٹ کر دیا جائے گا۔ یہ خدا کی بات ہے جو پوری ہو کر رہے گی۔ یہ لوگ تو سال ڈیڑھ سال میں مجھے مارنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن آسمانوں کا خدا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ فرماتا ہے ‘‘سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح (یعنی کلام) ڈالیں گے’’ 2 میرے الہاموں کا زبردست طور پر پورا ہونا جماعت پچاس سال سے دیکھ رہی ہے اور جس کو شبہ ہو اَب بھی اس کے سامنے مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اخباروں میں چھپی ہوئی کشوف و رؤیا کے ذریعہ سے بھی اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب جیسے آدمیوں کی شہادت سے بھی۔
پھر خدا نے آپؑ سے فرمایا:-
‘‘وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا3 (یہ شہرت کس نے پائی؟) اور قومیں اس سے برکت پائیں گی4 (قوموں نے برکت کس سے پائی؟) پھر فرمایا:۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا5۔
پس میری موت کو خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور فرماتا ہے کہ جب وہ اپنا کام کر لے گا اور اسلام کو دنیا کے کناروں تک پہنچا لے گا تب میں اُس کو موت دوں گا۔ پس اِس قسم کے چُوہے محض لاف زنی کر رہے ہیں۔ ایک شخص نے مجھ پر چاقو سے حملہ کیا تھا مگر اُس وقت بھی خدا نے مجھے بچایا۔ پھر جماعت کی خدمت کرتے مجھ پر فالج کا حملہ ہؤا اور یورپ کے سب ڈاکٹروں نے یک زبان کہا کہ آپ کا اِس طرح جلدی سے اچھا ہو جانا معجزہ تھا۔ پھر فرمایا تیری نسل بہت ہو گی (جس پیشگوئی کے مطابق ناصر احمد پیدا ہؤا) پھر فرمایا اور میں تیری ذرّیت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا۔ مگر عبدالوہاب کے اس پیارے بھائی کے نزدیک اس پیشگوئی کے مصداق ناصر احمد کے پیچھے نماز پڑھنی ناجائز ہے مگر مولوی صدر دین کے پیچھے پڑھنی جائز ہے۔ پس خود ہی سمجھ لو کہ اس فتنہ کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ اور آیا یہ فتنہ میرے خلاف ہے یا مسیح موعودؑ کے خلاف۔ مسیح موعود فوت ہو چکے ہیں۔ جب وہ زندہ تھے تب بھی ان کو تم پر کوئی اختیار نہیں تھا۔ قرآن مجید میں خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے کہ تُو داروغہ نہیں۔6 اب بھی تم آزاد ہو چاہو تو لاکھوں کی تعداد میں مرتد ہو جاؤ۔ خدا تعالیٰ مٹی کے نیچے دبے ہوئے مسیح موعودؑ کی پھر بھی مددکرے گا اور ان لوگوں کو جو آپ کے خادموں کی طرف منسوب ہو کر آپ کے مشن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ذلیل وخوار کرے گا۔ تمہارا اختیار ہے خواہ مسیح موعود اور ان کی وحی کو قبول کرو یا مرتدوں کو اور منافقوں کو قبول کرو۔ میں اس اختیار کو تم سے نہیں چھین سکتا۔ مگر خدا کی تلوار کو بھی اس کے ہاتھ سے نہیں چھین سکتا۔
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء25-7- ’’
(الفضل 28 جولائی 1956ء)
(4)ضروری اعلان
‘‘جن کے خط فتنۂ منافقت کے بارہ میں پہنچ رہے ہیں وہ محفوظ رکھے جا رہے ہیں۔ میں سب دوستوں کو اجمالی طور پر جَزَاکَ اللہ کہتا ہوں۔ اور دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کی نسلوں کو ایمان پر قائم رکھے اور احمدیت کا خادم بنائے رکھے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ربوہ پہنچ کر ایک عام اعلان کے ذریعہ سب دوستوں کا ذکر کر دیا جائے گا۔’’
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء-7-26
(الفضل 29 جولائی 1956ء)
(5)احباب کے نام پیغام
‘‘برادران ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
جو نئے بیانات منافقت کا بھانڈا پھوٹنے کے سلسلہ میں احباب اوپر پڑھ چکے ہیں اب میں اسی سلسلہ میں کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ ان بیانات کو پڑھ کر آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ساری جماعت میں سے مومنانہ دلیری صرف حاجی نصیر الحق صاحب نے دکھائی ہے۔ ان کے بعد کسی قدر دلیری چودھری اسد اللہ خاں صاحب نے دکھائی ہے۔ گو ان سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ میں نے تو اپنے بعد صدر انجمن احمدیہ کا پریذیڈنٹ اَور شخص کو بنایا تھا انہوں نے مندرجہ بالا بیانات امیر جماعت ربوہ کو بھجوا دیئے حالانکہ یا وہ میرے پاس آنا چاہیئے تھے یا پریذیڈنٹ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے پاس جانے چاہیئے تھے۔ میاں بشیر احمد صاحب کا رویہ بھی نہایت بزدلانہ ہے۔ انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک واقعات کو دبائے رکھا اور ایسے لوگوں کے کام سپرد کیا جو خود ملوث تھے۔ شاید میاں بشیر احمد صاحب اس بات سے ڈرگئے کہ عبد الوہاب صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ خلیفۃ المسیح الثانی کو معزول کر کے میاں بشیر احمد صاحب یا چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو خلیفہ بنا دینا چاہئے وہ زیادہ موزوں ہیں۔ انہوں نے سمجھا ہو گا کہ اگر یہ رپورٹیں میں نے بھجوا دیں تو سمجھا جائے گا کہ میں بھی عبدالوہاب صاحب کی سازش میں شریک ہوں تبھی انہوں نے مجھے خلیفہ بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ واقعات کو دبانے کی یہ کوئی وجہ نہیں تھی۔ کسی فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
آں راکہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک است
بھائی تُو اپنا معاملہ صاف رکھ پھر تجھے کسی کے محاسبہ کا کیا ڈر ہو سکتا ہے۔ پس اپنا معاملہ صاف ہوتے ہوئے انہیں یہ کیوں ڈر پیدا ہؤا کہ مجھے عبد الوہاب کے ساتھ سازش میں شریک سمجھا جائے گا۔
ان بیانات میں جو چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کا ذکر آتا ہے اس کو دل مانتا نہیں کیونکہ ان کی ساری زندگی بڑے اخلاص سے گزری ہے لیکن ممکن ہے حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کی محبت کا جوش عارضی طور پر ان کے دل پر غالب آ گیا ہو اور انہوں نے یہ غیرمومنانہ طریق اختیار کیا ہو کہ جس شخص نے مومنانہ دلیری سے صحیح حالات لکھ دیئے اس پر خفاء ہوئے ہوں۔ بہرحال ایک لمبے تجربہ کے بعد جو میں نے ان کے متعلق رائے قائم کی ہے میں اس کو بدل نہیں سکتا اور اس وقت کا انتظار کرتا ہوں جب کہ وہ اپنے فعل کی تشریح لکھ کر مجھے بھیجیں۔
اسی سلسلہ میں مَیں جماعت کو یہ بھی اطلاع دیتاہوں کہ امیر جماعت احمدیہ لاہور کی تحقیقاتوں کے نتیجہ میں دشمنوں کے کیمپوں میں کھلبلی مچ گئی ہے اور انہوں نے چاروں طرف دوڑ دھوپ شروع کر دی ہے چنانچہ آج صبح ہی مری میں حافظ محمد اعظم کو دیکھا گیا جو جودھامل بلڈنگ میں رہتا ہے اور جس کا نام مختلف رپورٹوں میں آ چکا ہے۔ جب اس سے بعض احباب نے پوچھا کہ آپ یہاں کہاں؟ توا س نے کہا سید بہاول شاہ صاحب قائدانصار لاہور نے میرے خلاف بغاوت کی رپورٹ کر دی ہے اس لئے میں مرزا ناصر احمد صاحب سے مدد لینے کے لئے آیا ہوں لیکن بجائے مرزا ناصر احمد کی طرف جانے کے وہ سیدھا اس طرف گیا جہاں ہمارے غیر ملکی طالبعلم رہتے ہیں۔ کچھ دن پہلے مولوی صدر دین صاحب امیر پیغامیان بھی یہاں آئے ہوئے تھے۔
1948ء میں جب چینی طالبعلم آئے تھے تو ان کو پیغامی ایجنٹوں نے ورغلایا تھا اور اپنے گھر لے گئے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حافظ اعظم کے ساتھیوں نے جو درحقیقت پیغامیوں کے درینہ ایجنٹ ہیں ان کو غیر ملکی طالبعلموں کو بہکانے کے لئے بھیجا تھا۔ مربی مقامی نے اس کو مقامی مسجدا ور مقامی مہمان خانہ سے فوراً نکال دیا اور اکثر غیر ملکی طالبعلموں نے اس سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ پس جماعت سمجھ لے کہ مفسدوں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ اب مومنوں کو بھی اپنے دفاع اور فتنہ کے مٹانے کی طرف کوشش کرنی چاہئے تا کہ وہ عمارت جو پچاس سال میں اپنا خون بہا کر ہم نے کھڑی کی تھی اس میں کوئی رخنہ پیدا نہ ہو۔ ’’
(الفضل 28 جولائی 1956ء)
(6)حضرت عثمانؓ کے وقت میں ذرا سی غفلت نے اتحادِ اسلام کو برباد کر دیا تھا
‘‘ بعض کمزور طبع احمدی کہتے ہیں کہ کیا چھوٹی سی بات کو بڑھا دیا گیا ہے۔ لاہور کا ہرشخص جانتا ہے کہ عبدالوہاب فاتر العقل ہے پھر ایسے شخص کی بات پر اتنے مضامین اور اتنے شور کی ضرورت کیا تھی۔ حضرت عثمانؓ کے وقت میں جن لوگوں نے شور کیا تھا ان کے متعلق بھی صحابہؓ یہی کہتے تھے کہ ایسے زٹیل آدمیوں کی بات کی پروا کیوں کی جاتی ہے۔ حال ہی میں مری پر عیسائیوں نے حملہ کیا تھا اور ایک یہ اعتراض کیا تھا کہ تبوک کے موقع پر تمہارے رسول ہزاروں آدمیوں کو لے کر جلتی دھوپ میں اور بغیر سامان کے سینکڑوں میل چلے گئے جب وہاں گئے تو معلوم ہؤا کہ معاملہ کچھ بھی نہیں۔ کوئی رومی لشکر وہاں جمع نہیں تھے اگر وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے تو اتنی بڑی غلطی انہوں نے کیوں کی۔ کیوں نہ خدا تعالیٰ نے ان کو بتایا کہ یہ خبر جو رومی لشکر جمع ہونے کی آئی ہے غلط ہے تبوک کا واقعہ یوں ہے کہ پہلے ایک عیسائی پادری مکہ میں آیا اور مکہ سے اس نے مدینہ کے منافقوں سے ساز باز کیا اور ان کو تجویز بتائی کہ اس کے رہنے اور تبلیغ کرنے کے لئے وہاں ایک نئی مسجد بنائیں چنانچہ انہوں نے قبا نامی گاؤں میں ایک نئی مسجد بنا دی۔ وہ شخص چھپ کر وہاں آیا اور ان کو یہ کہہ کے روم کی طرف چلا گیا کہ میں رومی حکومت کو اکساتا ہوں تم ادھر یہ مشہور کر دو کہ رومی لشکر سرحدوں پر جمع ہو گیا ہے۔ جب محمد رسول اللہ اسلامی لشکر سمیت اس طرف جائیں گے اوروہاں کسی کو نہ پائیں گے اور سخت مایوس ہو کر لوٹیں گے تو تم مدینہ میں مشہور کر دینا کہ یہ دیکھو مسلمانوں کا رسول۔ بات کچھ بھی نہ تھی مگر اس نے اس کو اتنی اہمیت دے دی مگر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی تائید کی اور صرف تین آدمی جو سینکڑوں کے لشکر میں سے پیچھے رہ گئے تھے ان کو سخت ملامت کی اور ان میں سے ایک کابائیکاٹ کر دیا حالانکہ جب رومی لشکر تھا ہی نہیں تو تین چھوڑ کر تین ہزار آدمی بھی نہ جاتا تو اسلام کا کیا نقصان تھا۔ قرآن کو تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ یہ پیچھے رہنے والے بڑے عقلمند تھے اور جو لوگ اپنی فصلیں تباہ کر کے گرمی میں محمد رسول اللہ کے ساتھ گئے وہ بڑے احمق تھے۔ اس واقعہ میں ہم کو یہ بتایا گیا ہے کہ واقعہ خواہ کچھ بھی نہ ہو اگر مسلمان کو پتہ لگ جائے کہ منافق دین کے لئے کوئی خطرہ ظاہر کر رہے ہیں تو ساری امت مسلمہ کو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا ہو جانا چاہئے اور جو کوئی اس میں سستی کرے گا وہ مسلمانوں میں سے نہیں سمجھا جائے گا اور مسلمانوں کو اس سے مقاطعہ کرنا ہو گا۔ اب تبوک کے واقعہ کو دیکھو جو قرآنِ کریم میں تفصیل کے ساتھ بیان ہے اور دیکھو کہ احمدیوں میں سے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اتنی چھوٹی سی بات کو اتنا کیوں بڑھایا جا رہا ہے اور کیا ان کے ساتھ بولنا چالنا احمدیوں کے لئے جائز ہے۔ اگر وہ احمدی کہلا سکتے ہیں اور ان کے ساتھ بولنا چالنا جائز ہے تو پھر قرآن اور محمد رسول اللہ نے تبوک کے موقع پر غلطی کی ہے جس وقت کہ معاملہ چھوٹا ہی نہیں تھا بلکہ تھا ہی نہیں اور پھر وہ لوگ بتائیں کہ حضرت عثمانؓ کے وقت میں شرارت کرنے والے لوگوں کو حقیر قرار دینے والے لوگ کیا بعد میں اسلام کو جوڑ سکے۔ اگر وہ اس وقت منافقوں کا مقابلہ کرتے تو نہ ان کا کوئی نقصان تھا نہ اسلام کا کوئی نقصان تھا مگر اس وقت کی غفلت نے اسلام کو بھی تباہ کر دیا اور اتحادِ اسلام کو بھی برباد کر دیا۔
وَالسَّلَام
خاکسار
مرزا محمود احمد
1956ء-7-28 ’’
(الفضل 30 جولائی 1956ء)
(7)ضروری اعلان
‘‘سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت کے مطابق تحریر ہے:۔
‘‘ کرنل محمود صاحب کا بھی رپورٹوں میں نام آیا ہے۔ ان کا کوئی تعلق اللہ رکھا سے نہیں۔ حسب عادت دھوکا دے کر ان کے گھر رہا۔ مگر ان کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایک قادیان کا درویش ان کے گھر بھجوا دیا۔ اور اس نے ان کو سارا حال اس کا بتا دیا۔ جس پر انہوں نے اس کو نکال دیا۔ کوئی دوست کرنل صاحب پر بدظنّی نہ کریں۔’’
(الفضل 30 جولائی 1956ء)
(8)نافقین کے حالیہ فتنہ کے متعلق تازہ پیغام احباب جماعت کے نام مطبوعہ 1956ء-7-29
‘‘احباب کرام! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ۔
پہلے چار قسطیں اِس فتنہ کے متعلق جس کا مرکز لاہور ہے لکھی جا چکی ہیں۔ اب اسی سلسلہ میں پانچویں قسط جماعت کی اطلاع کے لئے لکھی جاتی ہے۔ اِس میں بعض نہایت ضروری امور ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ اس فتنہ کے پیچھے پیغامی ہیں۔ مولوی محمد صدیق صاحب شاہد مربی راولپنڈی لکھتے ہیں کہ:۔
'' پہلے میں نے اس لئے مختصر بیان دیا تھا کہ چیمہ صاحب نے مجھ سے صرف یہ کہا تھا کہ راولپنڈی میں اللہ رکھا آپ سے کس ذریعہ سے ملا تھا اس لئے میں نے سمجھا کہ غالباً صرف راولپنڈی کے متعلق جواب لکھنا ہے مری کے متعلق نہیں۔ اب میں اس کی مری کے متعلق کارروائیاں بھی لکھتا ہوں کیونکہ آپ کی باتوں سے مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ سارے حالات چاہئیں صرف راولپنڈی کے نہیں۔ اب میں نے اللہ رکھا کی مری میں مکمل کارروائیوں کی تحقیق کر لی ہے اور تمام امور کو حضرت اقدس کی اطلاع کے لئے تحریر کر رہا ہوں۔
1۔ وہ منحوس شخص مری میں قریباً دس دن رہا۔ جن میں سے چار دن مسجد احمدیہ گُلڈنہ میں رہا۔ اور تحقیق سے معلوم ہؤا ہے کہ باقی ایام میں وہ پیغامیوں کی مسجد میں رہا ہے۔ ان کے مسجد کے خادم، امام اور مبلغ کے ساتھ اس کی دوستی تھی اور یہ بات بھی پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ وہ خبیث اپنے آپ کو احمدی کہتا ہؤا پیغامیوں کا لٹریچر تقسیم کرتا رہا ہے۔ ایک بات ایسی بھی معلوم ہوئی ہے جس سے اس پارٹی کے سرغنہ کا پتہ لگتا ہے۔ وہ یہ کہ جتنے دن وہ مری میں رہا ہے مولوی صدر دین سے لڑتا جھگڑتا رہا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو منافق، بے عمل اور جاسوس کہتے رہے ہیں۔ اِس سلسلہ میں ایک رقعہ بھی ملا ہے جس میں اللہ رکھا نے مولوی صدر دین سے ان کا مشن اور گزشتہ زندگی کا حال پوچھا ہے۔ اِس ساری کارروائی سے اتنا ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ منافق اللہ رکھا، میاں محمد صاحب (لائلپوری سابق پریذیڈنٹ انجمن پیغامیاں) کی پارٹی کا آدمی ہے اور اُس کے اشارہ پر ناچ رہا ہے۔ حضور کے ربوہ جانے کے بعد خیبر لاج میں عید الاضحیٰ کے متعلق ایک واقعہ بھی ہؤا ہے جس سے اللہ رکھا کی منافقت کا پتہ لگتا ہے۔ وہ یہ کہ مسجد احمدیہ میں ہم سب کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ مرزا ناصراحمد صاحب عید کی نماز پڑھائیں گے۔ اِس پر اللہ رکھا نے کہا میں میاں ناصر کے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا کیونکہ رتن باغ میں ایک دفعہ میں اُن سے لڑ چکا ہوں۔ اس لئے میں تو پیغامیوں کی مسجد میں نماز پڑھوں گا۔ اِس پر میں نے کہا اگر تم نے میاں صاحب کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی تو ابھی ہماری مسجد سے نکلو اور آج سے ہمارا تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ اِس پر وہ منافق نماز عید پڑھنے کے لئے تیار ہو گیا جس پر اس کی منافقت پر پھر پردہ پڑ گیا۔ اِس واقعہ کے متعلق پنڈت ظہورالقمرصاحب کی شہادت شائع ہو چکی ہے۔ ایک بات جو سب سے زیادہ اہم معلوم ہوئی ہے اور جس سے واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ اس منافق کے پیچھے پیغامی گروہ کا ضرور ہاتھ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ کوہاٹ کی طرح اس منافق نے مری میں بھی چند احمدیوں کے سامنے مری سے جاتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اب تو لاہوریوں کی نظر خلیفہ اوّل کی اولاد پر زیادہ پڑتی ہے اور وہ میاں عبد المنان صاحب کی زیادہ تعریف کر رہے ہیں اور ان کے نزدیک وہ زیادہ قابل ہیں۔ ہمارے خلیفہ کی زندگی میں پیغامی گروہ کا اِس قسم کا پروپیگنڈا ان کی سازشوں کا پتہ دیتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی سے لوگوں کے ذہنوں کو زہرآلود کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اِس فتنہ پرداز شخص کے گروہ سے ہماری جماعت کو محفوظ رکھے۔ آخری دن اللہ رکھا منافق نے ایک مجلس میں خیبر لاج سے نکالے جانے پر یہ الفاظ بھی کہے کہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں مجھے دھتکارنے والوں پر عذاب اور تباہی آ جائے گی۔ جس طرح 1953ء میں ہؤا تھا اُسی طرح ہو گا اور مجھے کوئی بھی حضرت صاحب کی ملاقات سے نہ روک سکے گا۔
ظہور القمر صاحب نے بتایا ہے کہ اُس نے میرے سامنے ڈیڑھ سال کے اندر اندر آنے والی تباہی کو خلافت کے متعلق قرار دیا تھا۔ آخر میں مَیں حضور سے دوبارہ عرض کروں گا کہ چونکہ منافق اللہ رکھا کئی جماعتوں مثلاً لاہور، سیالکوٹ، جہلم، گجرات، کیمبلپور، کوہاٹ، پشاور، مردان، ایبٹ آباد، مانسہرہ، چنار اور بالاکوٹ تک دورہ کرتا رہا ہے۔ اس لیے ہر جماعت سے اِس منافق کے متعلق دریافت کر لیا جائے کہ ممکن ہے اِس طریق سے اِس فتنہ کا سراغ اور زیادہ واضح طور پر ہمارے سامنے آ جائے۔
(محمد صدیق شاہد)
افسوس ہے کہ سوائے کوہاٹ اور لاہور کے کسی جماعت نے اس شخص کے متعلق رپورٹ نہیں دی۔ نہ سیالکوٹ نے، نہ جہلم نے، نہ گجرات نے، نہ کیمبل پور نے، نہ پشاور نے، نہ مردان نے، نہ ایبٹ آباد نے، نہ مانسہرہ نے، نہ بالاکوٹ نے، اِس سے شبہ پڑتا ہے کہ ان جماعتوں میں بعض منافق لوگ موجود ہیں جن تک یہ شخص پہنچا ہے اور جنہوں نے اس کی کاروائیوں کو مرکز سے چھپایا ہے۔ گجرات کے امیر عبد الرحمن صاحب خادم کو یقیناً اس کا علم ہوناچاہئے تھا کیونکہ اِس شخص کو کوہاٹ کرایہ دے کر بھجوانے والوں میں دو اِن کے اپنے بھائی شامل تھے اور تیسرا ان کے بہنوئی راجہ علی محمد صاحب کا لڑکا تھا۔ سیالکوٹ کی جماعت کو اس سے یہی ہمدردی ہو سکتی تھی کہ یہ شخص سیالکوٹ کا رہنے والا ہے۔ پس امیر جماعت سیالکوٹ کی خاموشی افسوسناک ہے۔ (اب سیالکوٹ سے خلیفہ عبد الرحیم صاحب کا خط باوجود بیماری کے آ گیا ہے) اس کا ہزارہ کا دورہ کرنا بالکل واضح ہے کیونکہ اس کے دوستوں میں سے ایک شخص کے پاس ہزارہ کا ایک منافق احمدی نوکر ہے اور غالباً وہ خط دے کر اس کو ہزارہ بجھوا رہا ہے مگر جماعت کو تو چاہئے تھا وہ ہوشیار رہتی۔
اللہ رکھا نے جو مولوی صدر دین صاحب کے نام رقعہ لکھا تھا اس کی نقل ذیل میں درج ہے اور وہ اصل ہمارے پاس ہے۔
مرزا محمود احمد
مکرمی و محترمی مولوی صدر دین صاحب
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
گزارش ہے کہ آپ سے جو ملاقات ہوئی وہ ابد ابد تک یاد رہے گی (یعنی یہ پیغامی جماعت کے ایجنٹ اُس وقت تک قائم رہیں گے جب تک خدا قائم رہے گا۔ گویا خداتعالیٰ کا وجود اور ان کا وجود ایک ہے) چاہیئے تو یہ تھا کہ میں پہل کرتا مگر میں آپ کی بندہ نوازی کا مشکور ہوں۔ آنحضور نے دریافت فرمایا تھا کہ بندہ کا مشن کیا ہے؟ سو مؤدبانہ عرض ہے کہ بندہ تو مری میں سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ7 کے ماتحت رسول اللہ کے اسوۂ حسنہ کے مطابق تبلیغِ اسلام کی خاطر آیا ہے۔ (گویا جماعت احمدیہ میں انتشار پھیلانا اور پیغامیوں کی ا یجنٹی کرنا ہی اس شخص کے نزدیک تبلیغِ اسلام ہے) آپ کی کرم نوازی ہو گی اگر آپ اِس بارہ میں یدِ طولیٰ رکھتے ہوں تو رہنمائی فرمائیں۔ اللہ! دھڑے بندی کو چھوڑ کر کچھ ایمان کی تو کہیے۔ ویسے آپ خوب جانتے ہیں۔ لَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِہٖ 8 (یعنی انبیاء کی طرح اس کی زندگی بھی دنیا کے سامنے کھلے ورق کی طرح ہے۔ اور تمام پاکستان یا ساری جماعت احمدیہ اس کے ہر فعل کو جانتی ہے اور اس کو پتہ ہے کہ محمد رسول اللہ ؐ کی طرح یہ شخص صادق اور امین ہے) القصہ مختصر کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ آپ اپنے مشن کی وضاحت کریں تو بندہ معلوم کرلے کہ آپ کتنے پانی میں ہیں۔ (یعنی میاں محمد لائل پوری کی پالیسی سے آپ کو کتنا اتفاق ہے یا جماعت احمدیہ میں فتنہ ڈلوانے کے لئے آپ کتنی رقم مجھے یا میرے ساتھیوں کو دے سکتے ہیں)
خادمِ دین
اللہ رکھا درویش
حال مری’’
(الفضل 29 جولائی 1956ء)
(9)منافقوں کی مزید پردہ دری
‘‘احباب جماعت احمدیہ!
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
آج ایک خط میری بیوی اُمِّ متین کے نام آیا جس کا لکھنے والا اپنے آپ کو عورت ظاہر کرتا ہے۔ لیکن ربوہ کے لوگوں سے واقف ضرور ہے۔ کیونکہ اس نے پتہ پر ‘‘آپامریم صدیقہ و مہر آپا’’ لکھا ہے۔ اس اپنے آپ کو عورت ظاہر کرنے والے مرد نے جولائی 1929ء کے ‘‘مباہلہ’’ کے پرچہ کا ایک کٹنگ بھی بھیجا ہے۔ خط لکھنے والے کا خط اتنا خراب ہے۔ اور اس نے بگاڑ کر پنسل سے اس طرح لکھا ہے کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ مباہلہ اخبار وہی ہے جو کسی زمانہ میں جھوٹے خط بنا کر اپنے اخبار میں شائع کرتا رہتا تھا۔ اور ان خطوں پر لکھا ہوتا تھا ایک معصوم عورت کا خط۔ لیکن ہر خط گمنام ہوتا تھا اور اوپر لکھا ہوتا تھا نقل مطابق اصل اور اندر اکثر خطوں میں یہ ہوتا تھا کہ مَیں مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ گمنام شخص سے مباہلہ کون کر سکتا ہے۔ یہ فقرہ اس لئے بڑھایا جاتا تھا کہ احمق لوگ اس سے متاثر ہو جائیں۔ اس بات کو بھی ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ دُنیا کی وہ کونسی عورت ہے جو 27 سالہ پہلے مباہلہ کے کٹنگ کو محفوظ رکھے گی۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ بدبخت جو مباہلہ والوں کی پارٹی میں شامل تھے۔ یا تو انہوں نے یہ کٹنگ چھپا رکھے تھے کہ کسی وقت ان کو شائع کریں گے، یا آج پھر مباہلہ والوں کے دوست مباہلہ والوں سے ان کے پرانے اخباروں کے کٹنگ لے کر جماعت میں پھیلا رہے ہیں۔ اس سے جماعت سمجھ سکتی ہے کہ موجودہ فتنہ کے پیچھے وہی پرانے سانپ ہیں جنہوں نے ایک وقت احمدیت پر حملہ کیا تھا۔ ہمارے ایک دوست نے عراق سے لکھا تھا کہ مباہلہ کے پرچے پیغام بلڈنگ سے اشاعت کے لئے عراق بھیجے جاتے ہیں۔ پس یہ ایک مزید ثبوت پیغامیوں کی شراکت کا ہے۔ ہمارے ایک دوست جو اُس وقت آیادان کمپنی میں نوکر تھے اور بھیرہ کے رہنے والے ہیں۔ ان کا ایک لڑکا ایسٹ پاکستان میں نوکر ہوتا تھا۔ ان سے یہ اطلاع ہم کو ملی تھی۔ ان کے نام میں گُل کا لفظ بھی آتا تھا۔ اِس وقت مجھے نام بھول گیا۔ اگر ان کو یہ واقعہ یاد ہو تو ایک دفعہ مجھے پھر لکھیں جب ایک پیغامی لیڈر نے مجھے یہ کہا تھا کہ ہم نے کوئی ایسا پروپیگنڈا عراق میں نہیں کیا۔ تو ان کے ایک رشتہ دار نے یہ کہا تھا کہ یہ جھوٹ ہے۔ میرے پاس اس پیغامی لیڈر نے ان الزامات کی تصدیق لکھ کر بھیجی ہے۔ یہ صاحب کسی وقت کراچی میں رہتے تھے۔
مرزا محمود احمد
29-7-56 ’’
(الفضل 31 جولائی 1956ء)
(10)منافقین کی سازش کے متعلق تازہ پیغامات
تم میں سے ہر ایک کو ہوشیار ہونا چاہئے
‘‘تحقیق سے ثابت ہو گیا ہے کہ اللہ رکھا نے میاں بشیر احمد صاحب پر جھوٹ بولا وہ چٹھی جو یہ میاں بشیر احمد صاحب کی بتاتا ہے وہ ہمیں مل گئی ہے اور اس میں اپنے کسی ماتحت کو یہ حکم دیا گیا کہ سفارشی خط دینا بالکل غلط ہے یہ تمہارا اپنا کام ہے کہ تم احمدیوں پر اپنا اچھا اثر پیدا کرو خلیفۃ المسیح کو اس بارہ میں تنگ کرنا درست نہیں۔ اس سے ثابت ہے کہ حسبِ دستور اس کذاب نے ہر معاملہ میں جھوٹ بولا ہے اسی طرح اس معاملہ میں بھی جھوٹ بولا ہے۔ نہ میاں بشیر احمد صاحب کو یہ اختیار تھا کہ بغیر میرے پوچھے پوری معافی دیتے نہ انہوں نے ایسا کیا بلکہ اس شخص نے ایسے ہی دجل سے کام لیا جیسا کہ حضرت عثمانؓ کے قتل کے مرتکب مسلمانوں کو دھوکا دیا کرتے تھے۔ کبھی کہتے تھے کہ علیؓ ہمارے ساتھ ہیں کبھی دوسرے صحابہ کا نام لیتے تھے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں کم از کم اتنا ثابت ہو گیا کہ اس فتنہ کے بانی اچھی طرح حضرت عثمان کے قاتلوں کی سکیم کا مطالعہ کر رہے ہیں اور ان کی سکیم پر چلنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی احمدی ان لوگوں سے دھوکا کھاتا ہے تو وہ یقیناً احمدی نہیں اگر شیطان جبرائیل کے بھیس میں بھی آئے تو مومن اس سے دھوکا نہیں کھا سکتا۔ پس تم میں سے ہر شخص کو ایسا ہی ہوشیار ہونا چاہئے کہ کوئی شخص اپنی نسل کے سلسلہ کو خواہ کہیں تک پہنچاتا ہو اور کوئی شخص خواہ کتنے ہی بڑے آدمی کو اپنا مؤیّد قرار دیتا ہو۔ آپ اس پر *** ڈالیں۔ اور اپنے گھر سے نکال دیں۔ اورساری جماعت کو اس سے ہوشیار کر دیں۔ ایک دفعہ جماعت پیغامی فتنہ کا مقابلہ کر چکی ہے کوئی وجہ نہیں کہ اب اس سے دو سو گنے زیادہ ہو کر پیغامی فتنہ کا مقابلہ نہ کیا جا سکے۔
مرزا محمود احمد’’
میاں عبد الوہاب صاحب کا خط میرے نام اور اس کا جواب
نقل خط میاں عبدالوہاب صاحب
‘‘نہایت ہی پیارے آقا! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
الفضل میں اللہ رکھا کے متعلق ایک مضمون پڑھا۔ اس سلسلہ میں بدقسمتی سے میرا نام بھی آ گیا ہے اور حضورنے عاجز پر اظہارِ ناراضگی بھی فرمایا ہے جس سے صدمہ ہؤا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اس سلسلہ میں ایک چِٹھی بذریعہ عام ڈاک خدمتِ عالی میں بھیج چکا ہوں، معاملہ کی نزاکت کے پیش نظر اس کی نقل بذریعہ رجسٹری بھیج رہا ہوں۔
اِس سلسلہ میں ایک صورت یہ بھی ہو سکتی تھی کہ میں خاموش ہو جاتا اور اس معاملہ کو خدا تعالیٰ کے سپر دکر دیتا مگر چونکہ آپ میرے پیارے امام اور آقا ہیں اور مجھے آپ سے بچپن سے دلی اُنس رہا ہے یقین رکھتا ہوں کہ آپ بھی اِس تعلق کو جانتے ہیں اِس لئے اللہ رکھا کے نام اس خط کی حقیقت خدمتِ عالی میں لکھتا ہوں۔
اللہ رکھا کے نام یہ خط غالباً حضرت اماں جی کی تعزیت کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ اللہ رکھا حضرت میر محمداسحق صاحب کی زندگی میں قادیان آیا تھا اور دار الشیوخ میں ملازم تھا۔ بعض دفعہ اماں جی کے گھر کا کام بھی کرتا اور اماں جی اس کو روٹی بھی دیا کرتی تھیں۔ جس طرح سب احمدیوں کے ساتھ ان کا بیٹوں جیسا سلوک تھا اللہ رکھا کے ساتھ بھی تھا۔ یہ کبھی بیمار ہوتا تو میں اس کا علاج بھی کرتا۔ اگر آپ الفضل میں مضمون لکھنے سے پہلے اور میرا ذکر کرنے سے پہلے مجھ سے دریافت کرلیتے تو شاید اِس قدر غلط فہمی پیدا نہ ہوتی۔ میرے علم میں اللہ رکھا کو قادیان میں حماقتوں کی معافی مل چکی تھی اس لئے تعزیت کے خط کا جواب دیتے وقت قطعاً میرے ذہن میں نہیں آ سکتا تھا کہ اس کو خط کا جواب نہ لکھنا چاہیئے۔ حَاشَاوَکَلَّا میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ نہیں آیا کہ میں کسی ایسے شخص کو خط لکھ رہا ہوں جو حضور کا بد خواہ ہے۔ اللہ رکھا کے متعلق کوہاٹ کی جماعت نے جو بات کہی ہے وہ تو بہت بعد کی ہے۔ نہ میں نے یہ بات اس سے سنی نہ مجھے علم تھا کہ آپ کے خیالات اس کے متعلق یہ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اللہ رکھا نے میرے خط کا ناجائز استعمال کیا ہے۔
ہمارا تو فرض ہے کہ آپ کو خوش رکھیں خصوصاً ایسے وقت میں جب کہ آپ بیمار بھی ہیں۔ ایسے حالات میں نادانستہ میرا ایک خط آپ کے لئے تکلیف کا باعث بنا جس سے طبعاً مجھے بھی اذیت پہنچی۔ میں نے بچپن میں فیصلہ کیا تھا کہ اپنی قسمت آپ کے ساتھ وابستہ رکھوں گا۔ پھر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے علاوہ حضرت خلیفہ اوّل کا منشاء بھی یہ تھا کہ اُن کے بعد آپ جماعت کے امام ہوں۔ میں ان سے زیادہ عالم ہوں نہ عارف۔ دینی نہ دنیوی نقطہ نگاہ سے کوئی با ت میرے ذہن میں آ ہی نہیں سکتی۔ آپ کے ہاتھ سے ساری عمر میٹھی کاشیں کھائیں ہیں کوئی وجہ نہیں کہ ایک کڑوی کاش کھانے سے انکارکروں۔ آپ کی پہلی مہربانیوں کو بھی انعام ہی سمجھتا رہا ہوں اور آپ کی اِس تحریر کو بھی انعام ہی سمجھوں گا۔ شاید اِس سے نفس کے گناہوں کی تلافی ہو جائے۔ شکر گزار ہوں گا اگر حضور میری یہ تحریر شائع کر دیں۔ دعا بھی کریں اللہ تعالیٰ مجھے تا موت خلافت کے دامن سے وابستہ رہنے کی توفیق دے۔
آپ کا عبد الوہاب ’’
جواب
‘‘میاں عبد الوہاب صاحب!
آپ کا خط ملا ساری بحثیں الفضل میں آر ہی ہیں۔ مجھے آپ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بیسیوں احمدیوں کی حلفیہ شہادتیں جو عنقریب شائع ہو جائیں گی ان کے بعد پوچھنے کا سوال نہیں رہتا۔ خصوصاً جبکہ 1926ء،1927ء میں مدرسہ احمدیہ کے لڑکوں نے آپ کا اور آپ کے ایک مولوی دوست کا خط پکڑ کر مجھے بھجوا دیا تھا جو زاہد کے نام تھا اور جس میں لکھا ہؤا تھا کہ تمہاری مخالفت مرزا محمود سے ہے۔ ان کے متعلق جو چاہو مقابلہ میں لکھو مگر ہمارے اور ہمارے دوستوں کے متعلق کچھ نہ لکھو۔ اور اُس خط کے ساتھ ایک اَور شخص کا خط بھی تھا جو آپ کے ایک دوست نے ایک عورت کے نام لکھا تھا اور جس کے واپس لینے کے لئے آپ اور وہ مولوی صاحب مقبرہ بہشتی جانے والی سڑک پر پیپل کے درخت کے نیچے کھڑے ہوئے ایک لڑکے کے ذریعہ سے زاہد سے خط وکتابت کر رہے تھے اور یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ لڑکا مخلص احمدی ہے۔ وہ لڑکا وہ خط لے کر سیدھا میرے پاس پہنچا جس میں آپ دونوں اور تیسرے دوست کے خطوط بھی تھے اور زاہد کا وعدہ بھی تھا کہ اس دوست کو ہم بدنام نہیں کریں گے۔
اب ان واقعات کے بعد جب کہ میں نے حضرت خلیفہ اوّل کی محبت کی وجہ سے اتنی مدّت چھپائے رکھا مجھے تحقیقات کی کیا ضرورت تھی۔ اِس کے علاوہ اَور بھی بہت سے ثبوت ہیں جو منصۂ ظہور پر آ جائیں گے۔ قادیان کی باتیں قادیان کے ساتھ ختم نہیں ہوں گئیں۔ کچھ اِدھر آ پہنچی ہیں، کچھ پہنچ جائیں گی۔ لاہور کی باتیں تو مزید برآں ہیں۔
آپ جو کام کر رہے ہیں اگر خلیفہ اوّل زندہ ہوتے تو اس سے بھی بڑھ کر آپ سے سلوک کرتے جو میں کر رہا ہوں۔ اُن کی تو یہ کہتے ہوئے زبان خشک ہوتی تھی کہ ''میاں! میں تمہارا عاشق ہوں اور میں مرزا صاحب کا ادنیٰ خادم ہوں''۔ جب وہ آپ لوگوں کی یہ کارروائیاں دیکھتے تو اِس کے سوا کیا کر سکتے تھے کہ آپ پر ابدی *** ڈالتے۔ آخر وہ نیک انسان تھے۔ کیا ان کو نظر نہیں آتا تھا اور اب پرانے ریکارڈ دیکھ کر جماعت کو نظر نہیں آئے گا کہ جب ان کے لئے غیرت دکھانے والے اپنی ماؤں کے گُھٹنے کے ساتھ لگے ہوئے ‘‘ایں ایں’’ کر رہے تھے اُس وقت میں ہی تھا جو تن من دھن کے ساتھ غیر مبائعین کے ساتھ اُن کی خاطر لڑ رہا تھا جنہوں نے اُن کی زندگی میں ہی ظاہر اور پوشیدہ ان کی مخالفت شروع کر دی تھی۔ اور جیسا کہ حوالوں سے ثابت ہے کہ کہتے تھے کہ مولوی صاحب سترے بہترے ہو گئے ہیں، اب ان کی عقل ماری گئی ہے اب ان کو معزول کر دینا چاہئے۔ یہ سب باتیں نیّر صاحب مرحوم نے سنیں جبکہ پیغامی مقبرہ بہشتی میں گئے ہوئے تھے۔ نیّر صاحب فوت ہو چکے ہیں لیکن اَور کئی لوگ زندہ ہیں اور اُس زمانے کے لٹریچر میں بھی کہیں کہیں یہ حوالے مل جاتے ہیں۔ مجھے تو خدا تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا تھا جیسا کہ الفضل میں وہ خواب چھپ چکی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حفاظت کے لئے میرے بچوں کو اپنی جانیں دینی پڑیں گی۔ میرے لئے اِس سے بڑھ کر کوئی سعادت نہیں ہو سکتی خواہ یہ جانیں دینا لفظی ہو یا معنوی۔
مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام نے اسماعیل قرار دیا ہے9 اور بائیبل میں لکھا ہے کہ اُس کے بھائیوں کی تلوار اُس کے مقابلہ میں کھنچی رہے گی10۔ پہلے اسماعیلؑ کاتو مجھے معلوم نہیں لیکن میں اپنے متعلق جانتا ہوں کہ جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کا سوال پیدا ہؤا جیسا کہ لاہوریوں کے کیس میں ہؤا تھا تو میری تلوار بھی تمام دنیا کے مقابلہ میں کھنچی رہے گی اور عزیز ترین وجودوں کو بھی معنوی طور پر ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے میں دریغ نہیں کروں گا۔ کیونکہ ظاہری تلوار چلانے سے ہم کو اور حضرت مسیح موعودؑ کو روکا گیا ہے اور ہمیں بشدت تعلیم دی گئی ہے خواہ تمہیں کتنی ہی تکلیف دی جائے کسی دشمن کا جسمانی مقابلہ نہ کرنا۔ ہاں دعاؤں اور تدبیروں سے اُن کے گند ظاہر کرنے کی جتنی کوشش کر سکتے ہو کرو۔
مجھے تو خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ کاروائیاں کروائیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام تھا جس کو حضرت (اماں جان) نہیں سمجھی تھیں اور گھبرا گئی تھیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے لکھ کر اُن کے ہاتھ حضرت خلیفہ اوّل کے پاس بھجوایا تھا اور حضرت خلیفہ اوّل نے ان کو تسلی دی تھی کہ یہ الہام آپ کے لئے بُرا نہیں ہے۔ اُس الہام کا مضمون یہ تھا کہ جب تک حضرت خلیفہ اوّل اور اُن کی بیوی زندہ رہیں گے اُن کی اولاد سے نیک سلوک کیا جاتا رہے گا لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ ان کو ایسا پکڑے گا کہ ان سے پہلے کسی کو نہیں پکڑا ہو گا۔ کیایہ تعجب کی بات نہیں کہ پچھلے 42 سال میں ہزاروں موقعے آپ کو مخالفت کے ملے لیکن اماں جی کی وفات تک کبھی بھی ننگے ہو کر آپ کو مقابلہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن جونہی وہ فوت ہوئیں خدائی الہام پورا ہونے لگ گیا۔ اور اگر خداس کی مشیت ہوئی تو اَور بھی پورا ہو گا۔ آپ نے لکھا ہے کہ آپ کے ہاتھوں سے ساری عمر میٹھی میٹھی قاشیں کھائی ہیں ایک کڑوی بھی سہی۔ میں اِس کے جواب میں کہتا ہوں کہ آپ کے ہاتھ سے گزشتہ تیس سال میں بہت سی خنجریں اپنے سینہ میں کھائی ہیں مگر اب چونکہ مسیح موعود علیہ السلام کے کلام اور سلسلہ احمدیہ کی حفاظت اور وقار کاسوال تھا مجھے بھی جواب دینا پڑا۔ اگر وہ کڑوا لگتا ہے تو اپنے آپ کو ملامت کریں یا موت کے بعد حضرت خلیفہ اوّل کی زبان سے ملامت سن لیں۔ ’’
عبد الوہاب صاحب کا خط اللہ رکھا کے نام
میاں عبد الوہاب صاحب کا خط جو انہوں نے اللہ رکھا کے نام لکھا تھا شائع کیا جاتا ہے۔
‘‘برادرم! وَ عَلَیْکُمُ اَلسَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللہِ
گرامی نامہ مشتمل بر تعزیت ملا۔ جَزَاکُمُ اللہُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ۔ آپ کے ساتھ تو ہم لوگوں کا بھائیوں کا تعلق ہے۔ اس لئے آپ کو صدمہ لازمی تھا۔ اس قسم کے حادثات زندگی کی بنیادوں کو ہِلا دینے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی خاص مدد کرے۔ آپ کا خط بہت تسلی آمیز ہے۔ آپ بعافیت ہوں گے۔ کوہ مری ضرور دیکھئے۔
آپ کا بھائی
عبد الوہاب عمر
1956ء-4-13’’
اِس خط کی عبارت سے ظاہر ہے کہ اصل غرض کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ یہ خط 13/اپریل 1956ء کا ہے اور اماں جی جولائی کے آخر یا اگست کے شروع میں فوت ہوئیں۔ اِس بات کو کون مان سکتا ہے کہ اللہ رکھا جیسا زٹیل11 آدمی جس کے سپرد کوئی اہم کام نہیں۔ سوائے اِس کے کہ بعض گھرانوں میں چپڑاسی یا باورچی کا کام کرتا ہے۔ اس نے باوجود اس عشق و محبت کے جو اُسے حضرت خلیفہ اوّل کے خاندان سے تھی اماں جی جو جولائی یا اگست میں فوت ہوئی تھیں اُن کی تعزیت کا خط مولوی عبد الوہاب کو مارچ کے آخر یا اپریل کے شروع میں لکھا اور مولوی عبد الوہاب صاحب نے اُس کا جواب 13/اپریل کو دیا اور تعزیت کے مضمون سے بالکل بے تعلق خط کے آخر میں یہ بھی لکھ گئے کہ ‘‘کوہ مری ضرور دیکھئے’’۔
احباب کو معلوم ہے کہ 24/اپریل کو میں مری آیا تھا لیکن اس سے پہلے دس یا گیارہ اپریل کو میں نے عبد الرحیم احمد اپنے نام نہاد داماد کو کوٹھی تلاش کرنے کے لئے مری بھیجا تھا اور اُس نے 12/اپریل کے قریب ربوہ پہنچ کر کوٹھی کی اطلاع دی تھی جسے ہم نے پسند کر لیا تھا اور عبد الرحیم احمد میاں عبد المنان کا یارِ غار ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس سے سن کر اپنے بھائی کو اطلاع دے دی کہ خلیفۃ المسیح مری جانے والے ہیں اور عبدالوہاب کوفوراً یاد آگیا کہ 9 مہینے پہلے آئے ہوئے تعزیت کے خط کا جواب اللہ رکھا کوفوراً دینا چاہیے۔ اور یہ بات بھی اُن کے دماغ میں آگئی کہ یہ بھی لکھ دیا جائے کہ ‘‘کوہ مری ضرور دیکھئے’’ کیونکہ اُس وقت میرے مری آنے کا فیصلہ ہوگیا تھا اور پہاڑوں پر چونکہ عام طور صحت کےلئے لوگ باہر جاتے ہیں اور پہر ہ کا انتظام پورا نہیں ہوسکتا اس لئے اللہ رکھا کو تعزیت کے خط کے جواب میں تاکید کردی کہ ‘‘کوہ مری ضرور دیکھئے’’۔ اتنے مہینوں کے بعد تعزیت کاجواب دینا اور اُس وقت دینا جبکہ میرے مری جانے کا فیصلہ ہوچکا تھا ۔ خط کے آخر میں یہ بے جوڑ فقرہ لکھ دینا ایک عجیب اتفاق ہے جس کے معنی ہرعقلمند سمجھ سکتا ہے ۔اول تو تعزیت کے جواب میں مری دیکھنے کا ذکر ہی عجیب ہے پھر ''ضرور'' اَور بھی عجیب ہے۔ اور پھر اُس وقت یہ تحریک جب میں مری آ رہا تھا اور بھی زیادہ عجیب ہے ۔
مرزا محمود احمد’’
منافقت کی سکیم کے متعلق مزید شہادتیں
بیان چودھری بشارت احمد صاحب ولد چودھری محمدشریف صاحب چک98 شمالی سرگودھا حال اے جی آفس لاہور
‘‘میں مندرجہ ذیل بیان خداتعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر لکھوا رہا ہوں اور اس کے متعلق پوری ذمہ داری لیتا ہوں ۔غلام رسول 35میرا واقف ہے اورمیرے ساتھ تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں (قادیان سے آنے کے بعد کچھ عرصہ تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں بھی رہا ہے )اور سرگودھا گورنمٹ کالج میں پڑھتا رہا ہے میرے لاہور آنے کے بعد آج سے تقریباً دو ہفتے پہلے مجھے کرایہ پر سائیکل لینے کی ضرورت پیش آئی چونکہ لاہور میں میرا کوئی واقف نہیں تھا ۔اسلئے غلام رسول 35 کے پاس گیا ۔ اُس وقت اس مکان یعنی 43نسبت روڈمیں مندرجہ ذیل لوگ موجود تھے ۔
1۔مرزامحمد حیات تاثیر سابق لائبیریرین حضور اقدس (یہ شخص گجرات کا رہنے والا ہے اور پچھلے کئی سال میں کئی بار گجرات کے احمدیوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ شخص جھوٹے طور پر اپنے آپ کو مرزا لکھتا ہے ورنہ اس کا خاندان قبروں کامجاور ہے مجھے اس امر کی تحقیقات کرنے کا موقع نہیں ملا ورنہ حقیقت کھل جاتی)۔
2۔غلام رسول نمبر35
3۔ اللہ رکھا
غلام رسول نمبر 35 نے اللہ رکھا سے پوچھا کہ وہ اتنے عرصہ میں کہاں کہاں گیا اور یہاں سے جا کر تم نے کوئی خط نہیں لکھا۔ اللہ رکھانے جواب میں کہا کہ میں نے تو تمہیں بھی اور حمید ڈاڈھے کو بھی خطوط لکھے ہیں لیکن تم نے جواب ہی کوئی نہیں دیا۔ اس کے بعد اس نے بتایا کہ وہ سرحد کی تمام جماعتوں میں پھرا۔ اس کے پاس ایک نوٹ بک پاکٹ سائز کی تھی جس میں ان افراد اور جماعتوں کے پتہ جات لکھے ہوئے تھے جن سے وہ مل کر آیا تھا۔ مجھے اس وقت وہ پتہ جات یاد نہیں آ رہے (ہمیں ایک اور آدمی کے ذریعہ وہ معلوم ہوگئے ہیں) اس کے بعد غلام رسول 35 نے اللہ رکھا سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ حضرت صاحب کی بیماری دور نہیں ہو رہی اور ان کے بعد کس شخص کی بیعت کی جائے۔ اللہ رکھا نے جواب میں کہا کہ میں نے متعدد بار میاں بشیر احمد صاحب کو خطوط لکھے ہیں کہ تم تینوں بھائی مل کر کچھ صدقہ دو تب تم صحت یاب ہو سکتے ہو۔ رقم غالباً 3500 کہی گئی تھی (غالباً مراد یہ ہے کہ3500 اللہ رکھا کو دو ورنہ انہی دنوں میں میں قریباً سات سو ایکڑ نہری زمین انجمن کو دے چکا ہوں۔ جس کی کم سے کم قیمت بھی ایک لاکھ چالیس ہزار بنتی ہے) اور میاں بشیر احمد کو یہ بھی لکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی وفات ہو گئی تو ہم آپ کی بیعت کریں گے میاں ناصر احمد صاحب کی بیعت کرنے کے لئے ہم ہرگز تیار نہیں اور اب تک مجھے اس کا کوئی جواب موصول نہیں ہؤا۔
ناصر احمد کے خلیفہ ہونے کا کوئی سوال نہیں۔ خلیفے خدا بنایا کرتا ہے۔ جب اس نے مجھے خلیفہ بنایا تھا تو جماعت کے بڑے بڑے آدمیوں کی گردنیں پکڑوا کر میری بیعت کروا دی تھی۔ جن میں ایک میرے نانا دوسرے میرے ماموں ایک میری والدہ ایک میری نانی ایک میری تائی اور ایک میرے بڑے بھائی بھی شامل تھے۔ اگر خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ ناصر احمد خلیفہ ہو تو ایک میاں بشیر کیا ہزار میاں بشیر کو بھی اس کی بیعت کرنی پڑے گی اور غلام رسول جیسے ہزاروں آدمیوں کے سروں پر جوتیاں مار کر خدا ان سے بیعت کروائے گا لیکن ایک خلیفہ کی زندگی میں کسی دوسرے خلیفہ کا خواہ وہ پسندیدہ ہو یا ناپسندیدہ نام لینا خلافِ اسلام یا بے شرمی ہے۔ صرف خلیفہ ہی اپنی زندگی میں دوسرے خلیفہ کو خلافت کے لئے نامزد کر سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت خلیفہ اوّل نے 1910ء میں مجھے نامزد کیا تھا مگر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور وہ بیماری سے بچ گئے اور خدا تعالیٰ نے جماعتِ احمدیہ کے فیصلہ سے مجھے خلیفہ بنوایا۔ اگر خدانخواستہ اُس وقت حضرت خلیفہ اوّل فوت ہو جاتے تو ان کی اولاد بڑ مارتی کہ یہ خلافت ہمارے باپ کی دی ہوئی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس *** سے بچا لیا اور سورۃ نور کے حکم کے مطابق مجھے خود خلیفہ چنا اور بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ میں خدا تعالیٰ کا بنایا ہؤا خلیفہ ہوں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق کہ میرے خلیفوں میں سے کوئی خلیفہ دمشق جائے گا۔ میں ایک دفعہ نہیں دو دفعہ اپنی خلافت کے زمانہ میں دمشق گیا ہوں اور اب میں دلیری سے کہہ سکتا ہوں کہ میں کسی انسان کی دی ہوئی خلافت پر خواہ وہ کتنا بڑا انسان کیوں نہ ہو *** بھیجتا ہوں۔ یا تو محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کی تردید کرنی ہو گی جنہوں نے کہا کہ مسیح دمشق جائے گا یا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تردید کرنی ہو گی۔ جنہوں نے یہ لکھا ہے کہ اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ میرے خلیفوں میں سے کوئی خلیفہ دمشق جائے گا۔
اللہ رکھا کی اس بات کو سن کر کہ میں نے میاں بشیر احمد صاحب کو لکھا ہے کہ ہم تو موجودہ خلیفہ کے مرنے پر آپ کی بیعت کریں گے۔ غلام رسول 35 نے کہانہیں ہم تو میاں عبد المنان صاحب عمر کی بیعت کریں گے۔ (اگر عبدالمنان بھی اس سازش میں شریک ہے تو تم یاد رکھو کہ عبد المنان اور اس کی اولاد قیامت تک خلافت کو حاصل نہیں کرے گی خواہ کروڑوں غلام رسول ان کے لئے کوشش کرتے ہوئے اور ان کے لئے دعائیں کرتے ہوئے مر جائیں اور اپنے پیر گھسا دیں اور اپنی ناک رگڑ دیں) پھر غلام رسول نے کہا کہ وہ دو سال کے بعد اتنی طاقت پکڑ جائے گا کہ ربوہ آ کر ناصر احمد کو بازو سے پکڑ کر ربوہ سے نکال دے گا۔ (دو سال کے بعد کی بات تو خدا ہی جانتا ہے یہی بڑ عبداللہ ابن ابی ابن سلول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ماری تھی اور جب اس کا ہی بیٹا اس کے سامنے تلوار لے کر کھڑا ہو گیا تو اس نے کہا میں مدینہ کا سب سے ذلیل انسان ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے سب سے معزز انسان ہیں12 اس کا دعویٰ کرنا تو کّذاب ہونے کی علامت ہے وہ اب ربوہ آ کر دکھا دے بلکہ اپنے گاؤں جا کر دکھا دے مگر ایسی باتیں تو حیا دار لوگوں سے کہی جاتی ہیں بے حیا لوگوں پر ایسی باتوں کا کیا اثر ہوتا ہے۔ وہ پھر یہی کہہ دے گا کہ یہ طاقت تو مجھے دو سال کے بعد حاصل ہو گی جیسا کہ مسیلمہ نے کہا تھا کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے بعد وارث نہ بنایا تو میری فوج حملہ کرکے مدینہ کو تباہ کر دے گی۔13 اب وہ مسیلمہ خبیث کہاں ہے کہ ہم اس سے پوچھیں اور یا دو سال بعد غلام رسول بے دین کہا ہو گا جو ہم اس سے پوچھیں گے)۔ چودھری بشارت احمدصاحب کہتے ہیں کہ اس کے بعد حیات تاثیر نے جو اپنے آپ کو مرزا کہتا ہے یہ بھی کہا کہ اگر حمید ڈاڈھے سے خطوط کا جواب چاہتے ہو تو اس کو اس قسم کے خطوط لکھا کرو کہ میاں ناصر احمد کو مارنے اور میاں بشیر احمد کے متعلق جو سکیم تھی وہ کہاں تک کامیاب ہے۔ اس پر وہ فوراً تڑپ کر جواب دے گا (دیکھئے ان خبیثوں کو جو ایک طرف تو اپنے خیال میں اپنی طاقت کے بڑھانے کے لئے میاں بشیر احمد کو خلافت کا لالچ دے رہے ہیں۔ دوسری طرف ان کے قتل کرنے کے منصوبے بھی کر رہے ہیں۔ کیا ایسے لوگ ایماندار یا انسان کہلا سکتے ہیں؟ یہ خبیث اورا ن کے ساتھی منافقوں کی طرح تمنائیں کرتے رہیں گے لیکن سوائے ناکامی اور نامرادی کے ان کو کچھ نصیب نہیں ہو گا۔ آسمان پر خدا تعالیٰ کی تلوار کھچ چکی ہے۔ اب ان لوگوں سے دوستی کا اظہار کرنے والے لوگ خواہ کسی خاندان سے تعلق رکھتے ہوں اپنے آپ کو بچا کر دیکھیں۔ خداتعالیٰ ان کو دنیا کے ہر گوشہ میں پکڑے گا اور ان کو ان کی بے ایمانی کی سزا دے گا) مرزا محمود احمد’’
ڈاکٹر شاہ نواز خانصاحب کا خط
‘‘سیّدی و مطاعی میرے پیارے آقا (اَبِیْ وَ اُمِّیْ فِدَاکَ) سَلَّمَکُمُ اﷲ۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
الفضل مورخہ 25/جولائی میں آج حضور کا پیغام جماعت کے نام پڑھا۔ جس سے دل کو سخت رنج و غم ہؤا۔ خصوصاً اس بات کے تصور سے کہ حضور کی بیماری کی حالت میں بھی منافقین حضور کو دکھ دینے والی باتیں اور حرکتیں کر رہے ہیں۔ اس کے متعلق حضور نے جماعت اور افراد سے دو ٹوک فیصلہ طلب فرمایا ہے۔ سو عاجز اس کا جواب اوّلین فرصت میں دے رہا ہے (کہ دیر لگانا نفاق کی علامت ہو گی)
(2) پس عرض ہے کہ میں بمع اپنی بیوی اور بچوں کے ایسے شخص کو جو (نَعُوْذُبِاللّٰہِ) حضور کی موت کا متمنی ہے۔ خدا اور رسول اور سلسلہ احمدیہ کا دشمن جانتا ہوں (کیونکہ حضور کی زندگی سے ہی اسلام کی نشاۃ ثانیہ وابستہ ہے) اور ایسے بدبخت پر *** کرتا ہوں اور اس سے براءت کا اظہار کرتا ہوں۔ کاش ایسے ملعون کو اس کی ماں نہ جنتی تو اس کے لئے بہتر تھا۔ اس کے ساتھ ہی میں ان تمام لوگوں کو بھی (جن کے متعلق شہادت مل چکی ہے کہ وہ اس دشمن سلسلہ کے بھائی یا معاون ہیں) جماعت کا دشمن بدخواہ اور بدبخت جانتا ہوں۔ خواہ اس گروہ میں کوئی بظاہر بزرگ ہو۔ معزز عہدہ دار جماعت ہو یا کسی ولی اللہ یا خلیفہ کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کو توبہ کی توفیق دے تا عاقبت خراب نہ ہو۔
(3) خلفاء راشدین کے زمانہ کے حالات کا علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ فتنوں کا ظہور حضرت عثمانؓ کے وقت میں نمایاں طور پر ہؤا تھا گو اس کا آغاز حضرت عمرؓ کے وقت میں ہو چکا تھا مگر وہ دبا ہؤا تھا اور اس وقت بھی حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹے عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے ہی حضرت عثمانؓ کی شہادت میں نمایاں حصہ لیا تھا اور اس کی بہن بھی بانی اسلام کے نکاح میں تھی۔ اسی طرح اب بھی ہو رہا ہے جیسا کہ عاجز نے تین سال ہوئے عرض کیا تھا کہ حضور کازمانہ خلافت چونکہ بفضل خدا بہت لمبا ہو گا اس لئے حضرت عمر ؓ، عثمانؓ اور علیؓ تینوں کے زمانہ کے واقعات حضور کے وجود باجود میں دہرائے جائیں گے جن کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ حضور کی خلافت کا عمریؓ زمانہ حضور پر قاتلانہ حملہ کے ساتھ ختم ہو گیا مگر دشمن کا بیٹا ناکام رہا۔ اب عثمانی دور شروع ہے جس میں اب اندرونی حملہ کی کوشش ہو گی اور اس میں بھی کسی خلیفہ کا بیٹا نمایاں حصہ لے گا (وَاللہُ اَعْلَمُ) بس ہمارا یہ فرض ہے کہ جماعت کو ان فتنوں کے اسباب اور ان کے ازالہ کی طرف توجہ دلاتے رہیں جس کے لئے ہر دوست کو حضور کا لیکچر ''اسلام میں اختلافات کا آغاز'' زیر مطالعہ رکھنا ہو گا۔ (تا وہ دھوکا نہ کھا سکے)اور ہر طرح چوکس رہنا ہو گا۔ وَاللہُ الْمُوَفِّقُ۔
(4)۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو بعض امور مصلح موعود کے متعلق حضرت خلیفہ اوّل کو الگ لکھے تھے اس میں بھی حکمت یہی تھی کہ ان کی اولاد پر حجت تمام ہو۔ ان کو غالباً تاریخ خلفاء کی روشنی میں یا کشفی طور پر معلوم ہو گیا ہو گا کہ کسی زمانہ میں ان کا کوئی بیٹا (یاپوتا) مصلح موعود کی خلافت کو ختم کرنے کا متمنی ہو گا۔ پس تبصرہ کی حکمت تدبر کرنے والوں پر واضح ہے۔
(5)۔ عاجز کو معلوم ہے کہ اگر یہ خط شائع ہؤا تو دشمنِ احمدیت اور ان کے دوست ضرور ہمارے مخالف ہو جائیں گے مگر مجھے اس کی پروا نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ وہ مجھے اور میری اولاد کو مارنے کی کوشش کریں گے مگر یہ تو ہماری بہت سعادت ہو گی یعنی شہادت جس کی تمنا ہر مسلمان کو ہونی چاہئے۔
(6)۔ آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا اور میری اولاد کا خاتمہ ایمان بالخلافت اور اہل بیعت کی محبت، خدمت اور حفاظت پر کرے جو دعا عاجز پندرہ سال سے کر رہا ہے آمین ۔
والسلام
خاکسار
خادم ڈاکٹر شاہ نواز خاں
جناح کالونی لائلپور
1956ء-7-25 ’’
خط پر تبصرہ
‘‘یہ بالکل درست ہے کہ حضرت عثمانؓ پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں میں حضرت ابوبکرؓ خلیفہ اوّل کا بیٹا بھی شامل تھا مگر اس کا نام عبد الرحمن نہیں تھا جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے۔ عبد الرحمن ایک نہایت نیک صحابی تھے۔ وہ دیر سے اسلام لایا تھا۔ بدر کے وقت تک مسلمان نہیں ہؤا تھا مگر بعد میں جب اسلام لایا تو نہایت اعلیٰ درجہ کا نمونہ اس نے دکھایا۔ حضرت ابوبکرؓ کے جس بیٹے نے حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کے ساتھ تعاون کیا وہ اور ماں سے تھا اور حضرت عثمانؓ پر جب اس نے حملہ کیا تو حضرت عثمانؓ نے اس سے کہا کہ اگر اس جگہ پر تیرا باپ (یعنی ابوبکرؓ) ہوتا تو یہ جرأت کبھی نہ کرتا۔ تب اس کی ایمانی رگ پھڑک اٹھی اور وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گیا۔ تاریخ اسلام نے کبھی اس کے ابوبکرؓ کا بیٹا ہونے کا لحاظ نہیں کیا مگر ڈاکٹر صاحب کو یہ غلطی لگی ہے کہ ایسے ہی واقعات اب ظہور میں آئیں گے۔ میں صرف خلیفہ ہی نہیں بلکہ پسرِ موعود بھی ہوں۔ میرے ساتھ معاملات الہام کے مطابق ہوں گے نہ کہ تاریخ کے مطابق۔ گو ممکن ہے آپس میں تھوڑی بہت مشابہت باقی رہے۔ میرے دل میں بھی کبھی کبھی یہ خیال آتا رہا ہے کہ میری خلافت کے لمبا ہونے کی وجہ سے بعض بے دین نوجوان یہ خیال کریں کہ ہمیں اور ہمارے خاندانوں کو اس شخص کی عمر کی لمبائی نے اس عہدہ سے محروم کر دیا مگر میں جانتا ہوں کہ ان لوگوں کو آسمانی *** تو ملے گی لیکن خدائی عزت نہیں ملے گی۔
مرزا محمود احمد ’’
(الفضل 30 جولائی 1956ء)
(11)مختلف جماعتوں کے پاس جو معلومات ہوں وہ ہمیں مہیا کر دیں
‘‘منافقوں کے متعلق بعض نہایت ہی اہم راز اور ظاہر ہوئے ہیں جن میں سے بعض راولپنڈی کی جماعت نے مہیا کئے ہیں، بعض ربوہ کی جماعت نے، بعض لاہور کی جماعت نے جَزَاھُمُ اللہُ خَیْرًا تھوڑے دنوں میں ترتیب دے کر شائع کئے جائیں گے۔
پیغامیوں کے متعلق نہایت معتبر رپورٹ ملی ہے کہ مقابلہ کی تیاریاں کر رہے ہیں جس کا نام وہ حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کی محبت رکھیں گے مگر ہمارے پاس ان کا پرانا لٹریچر موجود ہے۔ وہ اس طرح صرف ہمیں یہ موقع مہیا کر کے دیں گے کہ حضرت خلیفہ اوّل کو گالیاں دینے والے ان کی اولاد کے دوست ہیں۔ پس وہ حملہ کریں ہم خوشی سے اس کا خوش آمدید کریں گے۔ وہ صرف اپنا گند ظاہر کرنے کا ایک اور موقع ہم کو دیں گے اور کچھ نہیں۔ آخر دنیا اس بات سے ناواقف نہیں کہ مولوی محمد علی صاحب مرحوم نے جن کے ذریعہ سے یہ جماعت بنی ہے یہ وصیت کی تھی کہ ایک خاص شخص ان کے جنازہ میں شامل نہ ہو۔ پس وہ بے شک آئیں اور حملہ کریں اور سو دفعہ حملہ کریں۔ ہمارے پاس بھی وہ سامان موجود ہے جس سے اِنْشَاءَ اللہُان کے پول کُھل جائیں گے۔اس عرصہ میں مختلف جماعتوں کے پاس جو معلومات ہوں وہ ہمیں مہیا کر دیں۔ والسلام
خاکسار
مرزا محمد احمد
1956ء-7-30
(الفضل یکم اگست 1956ء)
(12) منافقین کی کذب بیَانی کا ایک مزید ثبوت
برقی پیغام از مری مؤرخہ 1956ء-7-30
‘‘ مرزا بشیر احمد صاحب تار دیتےہیں کہ اللہ رکھا یا اس کے ساتھیوں کی طرف سے ان کو کوئی خط موصول نہیں ہؤا تھا کہ جس میں ان لوگوں نے ان کو خلافت کی پیشکش کی ہو۔ ان لوگوں نے سراسر افترا سے کام لیا ہے۔
یہ اِن لوگوں کی کذب بیانی کا ایک مزید ثبوت ہے۔’’
(خلیفۃ المسیح)
(الفضل یکم اگست 1956ء)
(13)میاں عبد الواسع عمر صاحب کے نام
‘‘میاں عبدالواسع عمر صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب سے رخصت ہو کر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں آئے اور حضرت مصلح موعود کی خدمت میں عریضہ بھیجا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ میرے علم کے مطابق خاندان حضرت خلیفہ اوّل کا کوئی فرد موجودہ فتنہ و سازش میں شریک نہیں۔ حضرت مصلح موعود کی طرف سے اس کے جواب میں انہیں حسبِ ذیل مکتوب موصول ہوا۔
‘‘عزیزم عبد الواسع صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ
آپ کا خط ملا۔ کوئی فیصلہ آپ کے بیان پر نہیں کیا گیا۔ اس لیے یہ کہنا کہ ہم نے کوئی ایسی بات نہیں سُنی اِس سے کوئی فائدہ نہیں۔ آپ کی گواہی NEGATIVE ہے اور NEGATIVE گواہی کوئی گواہی نہیں ہوتی۔ میرے پاس حلفیہ گواہیاں چند لوگوں کی موجود ہیں جن کو عنقریب شائع کیا جائے گا۔ جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مولوی عبد المنان صاحب نے اُن کو کہا کہ خلافت کا ڈنڈا میرے ہاتھ میں آنے دو پھر میں اس خاندان کو سیدھا کر دوں گا۔ پھر میں خود حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ آپ کی دادی نے مجھ سے کہا تھا کہ پیغامی وفد میرے پاس آیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ اگر عبد الحی کو خلیفہ بنا دیا جاتا تو ہم مان لیتے یہ محمود کہاں سے آیا ہے۔ میں نے اُن سے کہا کہ اگر آپ کو کوئی عزت ملتی ہے تو شوق سے لے لیں میں نے آپ کو یہاں قید کر کے تو نہیں رکھا ہوا۔ آپ کے نانا نے مجھے چٹھی لکھی اور آپ کی والدہ کی بنگالی چٹھی اس میں ڈال کر مجھے بھیجی جس کا خلاصہ انہوں نے یہ لکھا کہ آپ نے تو اپنی طرف سے میرے ساتھ نیکی کی تھی مگر آپ نے میرا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ اِس گھرمیں ہر وقت خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برائیاں اور خلافت سے بغاوت کی باتیں ہوتی ہیں۔ خاندان بہادر ابو الہاشم خان نے لکھا کہ میں نے تو دین میں ترقی کےلئے یہ رشتہ کیا تھا مگر افسوس کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا۔ میری اور دوسرے دوستوں کی گواہیاں POSITIVE ہیں اور آپ کی گواہی NEGATIVE۔ اب بتائیے کہ میں آپ کی دادی کی گواہی کو مانوں، آپ کے نانا کی گواہی کو مانوں جو POSITIVE تھیں یا NEGATIVE گواہی مانوں، آپ تعلیم یافتہ ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ POSITIVE کے مقابلہ میںNEGATIVE مانی نہیں جاتی۔
کل ہی ایک پروفیسر کی گواہی ملی ہے کہ چند لوگوں کی مجلس میں مجھے جانے کا موقع ملا۔ وہ یہ باتیں کرتے تھے کہ مسیح موعودؑ کا تو ذکر الفضل میں بار بار ہوتا ہے خلیفہ اوّل کا نہیں ہوتا اور خلیفہ ثانی کا فوٹو چھپا اور خلیفہ اوّل کا فوٹو نہیں چھپا۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے مامور تھے اور حضرت خلیفہ اوّل ان کے ادنیٰ خادم تھے دونوں میں مقابلہ کا کوئی سوال ہی نہیں۔ سارے یورپ اور امریکہ میں یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ یا ان کی تعلیم کا ذکر ہوتا ہے نہ کسی جگہ پر خلیفہ اوّل کے دعویٰ کا ذکر ہوتا ہے نہ ان کی تعلیم کا ۔ پس الفضل جو کچھ کر رہا ہے وہی کر رہا ہے جس کا خدا تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے اور مخالف دنیا بھی جس طرف متوجہ ہے۔ باقی رہی میری تصویر تو اِس کی دلیل موجود تھی۔ میں خطرناک بیماری کے بعد یورپ سے واپس آیا تھا۔ اگر حضرت خلیفہ اوّل بھی دوبارہ زندہ ہو کر آ جاتے تو اُن کی تصویر مجھ سے اونچی شائع کی جاتی۔ دوسرے یہ کہ الفضل میرے ذاتی روپے سے جاری ہوا اور 1920ء تک میں نے اِس کو چلا کے اِس کی خریداری بڑھائی۔ جب چل گیا اور ایک بڑا اخبار بن گیا تو میں نے مفت بغیر معاوضہ کے وہ انجمن کو تحفہ دے دیا۔ پس چونکہ وہ میری ملکیت تھا لازماً یورپ سے واپسی پر اس کے عملہ کو میری تصویر شائع کرنے کا خیال پیدا ہوا اور حضرت خلیفہ اوّل کی تصویر شائع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا۔ کیونکہ حضرت خلیفہ اوّل نے اِس پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا تھا۔
آپ سے ملنے میں مجھے کوئی عذر نہیں۔ آپ کے دادا اور نانا دونوں سے میرے تعلقات تھے لیکن اِس جواب کو پڑھ کر اگر آپ سمجھیں کہ آپ کا ملنا مفید ہو سکتا ہے تو بے شک ملیں۔
مرزا محمود احمد
1956ء-8-3 ’’
اِس مکتوب پر انہوں نے حضور کی خدمت میں نہایت ادب و عقیدت کے ساتھ شکریہ کا خط لکھا اور عرض کیا۔
‘‘اِس وقت میں خود ایک جذباتی ہیجان میں مبتلا ہوں اور ایک کرب اور اضطرار میں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ آپ سے مل کر میں آپ کو کیا کہوں۔ میں گھبراہٹ اور بے چینی میں ربوہ آیا تھا اور اِسی اضطرار میں واپس جا رہا ہوں۔’’
(تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 67 تا 69)
(14)عبد الوہاب صاحب کے متعلق ڈاکٹر عبد القدوس صاحب کی ایک شہادت
‘‘ برادران: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
حضرت خلیفہ اوّل کی ناخلف اولاد اب حضرت خلیفہ اوّل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بڑائی دینے کے لئے سازش پکڑ رہی ہے چنانچہ ڈاکٹر عبد القدوس صاحب نواب شاہ سندھ جو میاں عبد السلام صاحب مرحوم کے ساتھ زمین کے ٹھیکہ میں شریک رہے ہیں لکھتے ہیں کہ 1954ء میں جو قافلہ قادیان گیا میں بھی اس میں شامل ہونے کے لئے لاہور آیا۔ وہاں صبح کی نماز کے بعد جس میں میاں عبد الوہاب شریک نہیں ہوئے وہ مختلف جگہوں سے آئے ہوئے لوگوں کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے اس طرح بولے جیسے درس دیتے ہیں اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیا ملنے کی دعا کی تھی جس سے سکونِ قلب حاصل نہیں ہوتا لیکن حضرت خلیفہ اوّل نے اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کیا (لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک الہامی دعا ہے جو وفات کے قریب ہوئی جس میں خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا
سپردم بَتُو مایہء خویش را
تُو دانی حسابِ کم و بیش را 14
یعنی اے خدا! میں اپنی ساری پونچی تیرے سپرد کر تا ہوں تو آگے اس میں کمی بیشی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل کے متعلق کہیں ثابت نہیں کہ انہوں نے اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کیا تھا ان کی وصیت میں تو یہ لکھا ہے کہ میری اولاد کی تعلیم کا انتظام جماعت کرے اور میری لائبریری بیچ کر ان کا خرچ پورا کیا جائے۔ اس کے مقابل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولا دپر ایک پیسہ خرچ کرنے کی جماعت کو نصیحت نہیں کی اور عملاً بھی حضرت خلیفہ اوّل کے خاندان پر اس سے بہت زیادہ خرچ کرنا پڑا ہے جتنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد پر کرنا پڑا۔ علاوہ ازیں میں ایک لاکھ چالیس ہزار کی زمین صدر انجمن احمدیہ کو اس وقت تک دے چکا ہوں اور اس کے علاوہ بیس تیس ہزار پچھلے سالوں میں چندہ کے طور پر دیا ہے اور ایک لاکھ تیس ہزار چندہ تحریکِ جدید میں دے چکا ہوں۔ ان رقموں کو ملا لیا جائے تو جماعت نے جو رقم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان پر خرچ کی ہے یہ رقم اس سے چالیس پچاس گنے زیادہ ہے اور پھر حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد جبکہ دنیوی کاموں میں مشغول تھی اُس وقت میں قرآن کریم کی تفسیریں لکھ لکھ کر جماعت کو دے رہا تھا اور اکثر حصوں کی طباعت کا خرچ بھی اپنے پاس سے دے رہا تھا۔ یہ وہ (دنیا) ہے جو اس ناخلف بیٹے کے قول کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کے لئے مانگی تھی اور اولاد کو خدا کے سپرد کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت خلیفہ اوّل کا خاندان جماعت کے روپے پر پلتا رہا اور دنیا کے کاموں میں مشغول رہا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بڑا بیٹا جماعت سے ایک پیسہ لئے بغیر اس کے اندر قرآنِ کریم کے خزانے لُٹاتا رہا۔ یہ فرق ہے آقا کی دعا کا اور غلام کی دعا کا۔ جس کو خدا تعالیٰ نے کہا کہ دنیا میں بہت سے تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اونچا رہا15 اور جس کو خدا تعالیٰ نے کہا ''کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز اور آپ کا شاگرد ہے16 اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہا جری اللہ فی حلل الانبیاء17 اللہ کا بہادر تمام نبیوں کے لباس میں اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہا ''دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا مگر خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا18 اور جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدم سے لے کر آخر تک تمام انبیاء اس کی خبر دیتے آئے ہیں19۔ اس کی نظر تو اتنی کوتاہ تھی کہ اس نے اپنی اولاد کے لئے صرف دنیا کی دعا کی۔ جس سے تسکینِ قلب حاصل نہیں ہوتی لیکن اس کا شاگرد جس کا منہ غلامی کا دعویٰ کرتے کرتے خشک ہوتا تھا اس بلند پایہ کا تھا اور خدا تعالیٰ کا ایسا مقرب تھا کہ اس نے اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کیا۔ یہی وہ سازش ہے جو حضرت خلیفہ اوّل کی وفات سے پیغامیوں نے شروع کی تھی چنانچہ مرزا خدا بخش نے اپنی کتاب عسلِ مصفیٰ میں لکھا تھا کہ ''بے مثل تھا وہ شاگرد (یعنی خلیفہ اوّل) جو تقویٰ اور طہارت میں اپنے استاد (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) سے بھی بڑھ گیا (لَعْنَت اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ) چنانچہ اس کے انعام میں پیغامیوں نے اس کو نوکر رکھ لیا اور اس کی کتاب عسلِ مصفیٰ خوب بکوائی اور گو اس نے عبدالوہاب کی طرح فوراً معافی مانگنی شروع کر دی مگر نفاق کا معاف کرنا ایک خطرناک غلطی ہوتی ہے چنانچہ باوجود اس کے کہ اس نے کتاب میں کچھ اصلاح کی۔ میں نے اس کو معاف نہیں کیا اور جماعت نے بھی اس کی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ باقی رہا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی اولاد کے متعلق کہا ''دے اس کو عمر ودولت کر دور ہر اندھیرا''20 اس حضرت خلیفہ اوّل کے جاہل بیٹے کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آیا کہ کر دور ہر اندھیرا ایک بڑی دینی دعا ہے اور سورۃ الناس کا خلاصہ ہے اور چاہئے تھا کہ اس دعا کی وجہ سے میاں عبدالوہاب اور ان کے ساتھی اپنے انجام سے ڈر جاتے جس کی خبر اس دعا میں دی گئی تھی۔ ذیل میں کچھ اور دعائیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شائع کی جاتی ہیں ان کو پڑھ کر دوست دیکھ لیں کہ آیا حضرت مسیح موعود نے اپنی اولاد کے لئے دنیا مانگی ہے یا دین مانگا ہے اور میاں عبدالوہاب صاحب اپنے دعویٰ میں راست باز ہیں یا کذاب۔
کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین و دولت
کر ان کی خود حفاظت ہو ان پہ تیری رحمت
دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
تو ہے ہمارا رہبر تیرا نہیں ہے ہم سر
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
شیطان سے دور رکھیو اپنے حضور رکھیو
جان پُرز نور رکھیو دل پُر سرور رکھیو
ان پہ میں تیرے قربان رحمت ضرور رکھیو
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
کر فضل سب پر یکسر رحمت سے کر معطر
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
یہ تینوں تیرے بندے رکھیو نہ ا ن کو گندے
کر دور ان سے یارب دنیا کے سارے پھندے
چنگے رہیں ہمیشہ کریو نہ ان کو مندے
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
یہ فضل کر کے ہویں نیکو گہر یہ سارے
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اے میرے جاں کے جانی اے شاہِ دو جہانی
کر ایسی مہربانی ان کا نہ ہوے ثانی
دے بخت جاودانی اور فیضِ آسمانی
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اے واحد یگانہ اے خالقِ زمانہ
میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ
تیرے سپرد تینوں دیں کے قمر بنانا
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
(میاں عبد الوہاب صاحب کے نزدیک یہ دنیا کی دعا ہے اور حضرت خلیفہ اوّل نے اپنی اولاد کے متعلق اس سے بالا دعا مانگی تھی)
اب ذیل میں ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب کی گواہی لفظ بلفظ شائع کی جارہی ہے اس سلسلہ میں اور بھی گواہیاں ملی ہیں جو بعد میں شائع کی جائیں گی۔ والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
1956ء-8-5’’
نقل خط ڈاکٹر عبد القدوس صاحب
‘‘بحضور سیدنا و امامنا حضرت……… خلیفة المسیح المصلح الموعود ایدکم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
سیدی حسبِ ارشاد پریذیڈنٹ صاحب جماعت احمدیہ نواب شاہ مولوی عبدالوہاب صاحب کے متعلق ایک شہادت ارسال خدمت ہے جو کہ عاجز نے ان کے سامنے زبانی بیان کی تھی۔
سیدی عرض ہے کہ عاجز دسمبر 1954ء کے قافلہ کے ساتھ جو کہ جلسہ سالانہ قادیان جانے والا تھا بندہ لاہور جودھامل بلڈنگ گیا۔ رات جودھامل بلڈنگ میں گزاری۔ صبح نماز فجر باجماعت پڑھنے کے بعد بیٹھے تھے کہ مولوی عبدالوہاب صاحب آ گئے اور پوچھا کہ جماعت ہو گئی ہے۔ بتانے پر کہ جماعت ہو چکی ہے۔ انہوں نے خود اکیلے ہی نماز پڑھ لی۔ اور وہیں بیٹھ گئے۔ اس جگہ مختلف علاقہ جات سے آئے ہوئے دوسرے احمدی احباب بھی بیٹھے تھے مولوی عبدالوہاب صاحب کہنے لگے (جیسے کہ درس دیا جاتا ہے) کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیاوی ترقیات کے لئے دعا فرمائی۔ جیسے ‘‘دے ان کو عمر و دولت’’ لیکن حضرت خلیفہ اولؓ نے اپنی اولاد کے لئے دنیا کے لئے دعا نہیں فرمائی بلکہ خدا کے سپرد کر دیا۔ اب دیکھیں کہ حضور کی اولاد دنیا کے پیچھے لگ کر پریشانیوں تکلیفوں میں مبتلا ہے۔ کیونکہ دنیا کے پیچھے لگ کر انسان سکون قلب حاصل نہیں کر سکتا (اغلباً اس میں حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کا بھی نام لیا تھا)
اِسی قسم کی اَور باتیں بھی انہوں نے کہی تھیں۔ جو کہ مشکوک ہونے کی وجہ سے درج کرنے سے قاصر ہوں۔ لیکن تمام گفتگو کا جو مفہوم تھا وہ وہی تھا جو کہ خاکسار نے اوپر درج کر دیا۔ مندرجہ بالا مفہوم کے متعلق میں اپنے پالنے والے خدا کو حاضر و ناظر جان کر حلف اٹھاتا ہوں کہ وہ بالکل وہی نکلتا ہے جو عاجز نے اوپر تحریر کر دیا ہے۔ والسلام
حضور کا تازیست فرمانبردار رہنے والا خادم
عاجز عبدالقدوس احمدی
نواب شاہ
(سابق) سندھ1956ء-7-30 ’’
(الفضل 8؍اگست 1956ء)
(15) عبد المنان صاحب پسر مولوی محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم کا ایک خط اور اسکے متعلق حضور کا اظہارِ ناپسندیدگی
عبد المنان صاحب کا خط
‘‘بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ
بحضور آقائی حضرت اقدس ......... خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
گزارش خدمت ہے کہ حضور (ایدہ اللہ تعالیٰ) کا پیغام 25 جولائی 1956ء کے الفضل کے شمارے میں پڑھ کر از حد رنج و صدمہ ہوا کہ ایک شریر النفس اور فتنہ پرداز شخص اللہ رکھا نے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے اور حضور (ایدہ اللہ) کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی اور کوشش کی۔ اور حضور کے بیماری کے ایام میں جبکہ حضور کو مکمل آرام کی ضرورت ہے پریشانی اور بے آرامی میں ڈال کر دکھ اور تکلیف پہنچائی ہے۔ حضور کا یہ پیغام پڑھ کر میرے گھر کے تمام افراد میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور سبھی اس کمینے شخص پر لعنتیں بھیجنے لگے جس نے ہمارے پیارے آقا کے متعلق اتنے خطرناک منصوبے تیار کر رکھے تھے۔ خاکسار اور خاکسار کے اہل و عیال حضور پر مکمل اعتماد و ایمان رکھتے ہیں اور اپنی ہر لحظہ وفاداری کا یقین دلاتے ہیں۔ مزید برآں اگرچہ وہ خدا تعالیٰ کے عذاب کی گرفت سے بچ نہیں سکتا لیکن ہم بھی حضور کے خفیف سے خفیف اشارے پر ایسے لوگوں کا قلع قمع کرنے کے لیے اپنی زندگیوں کی قربانی دینے سے ذرہ بھر دریغ نہ کریں گے۔ (انشاء اللہ تعالیٰ) خاکسار خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہے کہ اس خبیث اور شریر النفس اور فتنہ پرداز شخص اللہ رکھا سے اور اس کے تمام ساتھیوں سے جن کا ذکر آ چکا ہے یا جو پوشیدہ ہیں خاکسار اور خاکسار کے بیوی بچوں کا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اور ہم ان لوگوں سے شدید نفرت کرتے ہیں، ان کی حرکات کی مذمت کرتے اور ان کو *** سمجھتے ہیں۔
خاکسار اور خاکسار کے بیوی بچے اس امر پر مکمل یقین و ایمان رکھتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ خلیفہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والے مصلح موعود ہیں۔ آپ کے عہد خلافت میں جماعت نے ایک عظیم الشان ترقی کی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ حضور ایدہ اللہ نے نہ صرف احمدیت کے پیغام کو ہی دنیا کے کناروں تک پہنچایا ہے بلکہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں اس پیغام کو شاندار کامیابی کے ساتھ ہمیشہ قائم رہنے والے وجود میں قائم کر دیا ہے۔ اور اس پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کی آخری اور مکمل فتح دنیا پر آپ کے مبارک وجود یقین رکھتے ہین کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کی آخری اور مکمل فتح دنیا پر آپ کے مبارک وجود سے ہی کرائے گا۔ اور اس کے علاوہ یہ اظہار کئے بغیر بھی طبیعت نہیں رُکتی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک برحق و سچے نبی کے پوتے اور ایک ایسے مصلح موعود کے فرزند ہیں جس کی ذہانت فراست کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ اور یہ کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو یہی ذہانت و فراست خاندانی ورثہ میں قدرتی طور پر ملنے کے علاوہ آپ خود بھی زندگی کے ہر پہلو میں بہت تجربہ کار اور دینی و دنیوی علوم سے خوب بہرہ ور ہیں۔ اگر حضور انہیں ہماری قیادت کے لئے مقرر فرمائیں تو ہمارے لئے اس سے بڑھ کر زیادہ فخر و خوشی کی کونسی بات ہو سکتی ہے۔ حضرت صاحبزادہ میاں ناصر احمد صاحب تو خدا کے فضل و کرم سے ایک بڑی ہستی و شخصیت ہیں۔ اگر حضور جماعت میں سے کسی معمولی سے معمولی شخص کو بھی ہماری قیادت کے لئے مقرر فرمائیں گے تو ہمارے سر ایسے شخص کی وفاداری میں ہمیشہ جھکے رہیں گے۔ حضور خاکسار کے یہ دلی جذبات ہیں جو حضور تک پہنچا کر فخر محسوس کر رہا ہوں۔
خاکسار اور خاکسار کے اہل و عیال حضور کی صحت و درازی عمر کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور ہر وقت دست بدعا ہیں کہ حضور کا بابرکت سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ ہمیش رہے اور اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام خاندان پر ہمیشہ اپنے فضلوں اور رحمتوں کی بارشیں برساتا رہے اٰمین۔
طالب دعا
حضور کے ادنیٰ ترین خادموں کا خادم
عبد المنان عفی عنہ پسر حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم و مغفور
چمبڑ براستہ ٹنڈوالہ یار ضلع حیدر آباد(سابق سندھ)
مؤرخہ 3 اگست 1956ء’’
نقل ارشاد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ
‘‘بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مکرم عبد المنان صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
آپ کی چٹھی سیدنا حضرت ....... ایدہ اللہ تعالیٰ کے ملاحظہ اقدس میں آئی۔ حضور نے فرمایا مجھے ایسی باتیں پسند نہیں۔ آپ کی بہن اور بڑا بھائی تو یقیناً مخلص ہے۔ لیکن آپ اپنے باپ کو بے عزت کر رہے ہیں۔ میرے پاس متواتر خطوط پہنچے کہ آپ 43 نمبر والے مکان میں رہنے والوں کے فتنہ میں شامل ہیں بلکہ غالباً اُن کی تجارت میں بھی شامل ہیں۔ آپ کا یہ فقرہ لکھنا کہ میاں ناصر کو قیادت کے لئے مقرر کر دیں یہ ہی نفاق کی علامت ہے۔ خلیفہ کے لئے تو جائز ہے کہ خلیفہ مقرر کر دے مگر کسی اَور کے لئے جائز نہیں ۔ اگر ناصر احمد بھی ایسا خیال کرے تو وہ بے ایمان ہو جائے گا۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ اللہ رکھا کے مشابہہ ہے۔ پس آپ نے اپنے خط سے ظاہر کر دیا کہ آپ کے خیالات اللہ رکھا سے ملتے ہیں۔
دستخط پرائیویٹ سیکرٹری
1956ء7/8/ ’’
(الفضل 10؍ اگست 1956ء)
خط کے جواب کی مزید تشریح
‘‘برادران! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
عبد المنان پسر محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم نے اپنے اُس خط میں جو میرے نام لکھا ہے اور جس کا جواب الفضل میں شائع ہو چکا ہے اپنے خط میں یہ فقرہ لکھا ہے ‘‘مزید برآں اگرچہ وہ (یعنی اللہ رکھا) خدا تعالیٰ کے عذاب کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ مگر ہم بھی حضور کے خفیف سے خفیف اشارے پر ایسے لوگوں کا قلع قمع کرنے کے لئے اپنی زندگیوں کی قربانی دینے سے ذرہ بھر دریغ نہیں کریں گے۔’’
یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ عبد المنان نے دیدہ دانستہ اپنے ساتھیوں کی امداد کے لئے یہ گھناؤنا اور خبیثانہ فقرہ لکھا ہے۔ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں جنہوں نے ہمیں امن کی تعلیم دی ہے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے روکا ہے۔ مگر یہ شخص معلوم ہوتا ہے کہ ابوجہل کے چیلوں میں سے ہے تبھی آمادگی ظاہر کرتا ہے کہ آپ ادنیٰ سا اشارہ کریں تو میں خون ریزی کرنے کے لئے تیار ہوں۔ یہ شخص ربوہ میں ناپسندیدہ حرکات کرتا رہا ہے۔ اُن حرکات کو تو اس نے سلسلہ کے کارکنوں کے احکام کے مطابق نہ چھوڑا لیکن حرام کام کرنے کے لئے یہ صرف ایک اشارہ کا محتاج ہے۔ اس کا باپ اس سے زیادہ مخلص تھا۔ یہ بتائے کہ سلسلہ کے اشاروں پر اس کے باپ نے کتنے خون کئے تھے؟ اگر اس کا باپ اس نیکی سے محروم مر گیا تو کیا یہ شخص اپنے باپ سے زیادہ نیکی کا مدّعی ہے؟
میری طرف منسوب کر کے پرائیویٹ سیکرٹری کا جو جواب چھپا ہے وہ اپنی ذات میں واضح تھا اُس میں صاف لکھا ہے کہ ‘‘ مجھے ایسی باتیں پسند نہیں۔ آپ کی بہن اور بڑا بھائی تو یقیناًَ مخلص ہیں۔ لیکن آپ اپنے باپ کو بے عزت کر رہے ہیں۔’’ میرا یہ لکھنا کہ مجھے ایسی باتیں پسند نہیں ہر عقلمند کے لئے کافی تھا۔ لیکن چونکہ بعض لوگ سادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اور ممکن ہے کہ عبد المنان کی شرارت آمیز تحریر کو نہ سمجھ سکیں اس لئے الفضل کا وہ جواب پڑھ کر جو پرائیویٹ سیکرٹری نے دیا ہے میں نے اوپر کی مزید تشریح لکھ دی ہے تا کہ لوگوں کو پتہ لگ جائے کہ عبدالمنان درحقیقت منافقوں کا آلۂ کار ہے اور سلسلہ احمدیہ کو جس کا خادم ساری عمر اس کا باپ رہا بدنام کرنا چاہتا ہے۔ اگر وہ زندہ ہوتا تو یقیناً اپنے اس بیٹے پر *** بھیجتا جو خوں ریز وحشیوں کے قدم بقدم چلنے کا مدعی ہے۔
(الفضل 12 اگست 1956ء)
(16) احباب جماعت کے نام
‘‘برادران! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
پچھلے دنوں الفضل میں حاجی نصیر الحق صاحب کی گواہیوں کے سلسلہ میں یہ شائع ہؤا تھا کہ گویا اُن کی گواہیاں چودھری اسد اللہ خان صاحب کو تو مل گئی تھیں لیکن انہوں نے میاں بشیر احمد صاحب کے پاس بھجوا دی تھیں جنہوں نے اُن کو یہ جواب دیا کہ میں نے عبد الوہاب کو سمجھانے کے لئے میاں عبد المنان کو بھجوایا ہے۔ اِن بیانات سے یہ اثر پڑا تھا کہ گویا میاں بشیر احمد صاحب انکار کرتے ہیں کہ مجھے چودھری اسداللہ خاں صاحب کی تحریر نہیں ملی۔ میاں بشیر احمد صاحب کا خط نکال کر دیکھا گیا ہے اس میں یہ درج نہیں کہ چودھری سد اللہ خان نے وہ گواہیاں مجھے نہیں بھجوائیں۔ بلکہ یہ درج ہے کہ میں نے چودھری اسد اللہ خاں کو ہرگز یہ نہیں کہا کہ میں نے مولوی عبد النان کو میاں عبدالوہاب کے سمجھانے کے لئے بھیجا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ایسا کہہ ہی کس طرح سکتا تھا جبکہ میں مولوی عبد المنان کی اندرونی حالت جانتا تھا۔ چنانچہ ان کا اصل فقرہ درج ذیل ہے ‘‘اور حالاتِ معلومہ کے ہوتے ہوئے میں یہ الفاظ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔’’ ‘‘جو کچھ مجھے یاد ہے میں نے ان سے یہ کہا تھا کہ مولوی عبد الوہاب کو بیہودہ بکواس کی عادت ہے مگر میں تو صرف ربوہ کا امیر ہوں اور شائد میں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت صاحب کے ارشاد کے ماتحت یہ معاملہ صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یا پھر اس کا تعلق آپ سے ہے جو لاہور کے امیر ہیں۔’’
مرزا عبد الحق صاحب امیر جماعت ہائے ویسٹ پاکستان فرماتے ہیں کہ انہیں بھی یہ مسودہ میاں بشیر احمد صاحب نے پڑھنے کو دیا تھا۔ پس جہاں تک مسودہ پہنچنے کا سوال ہے یہ بات گواہیوں سے ثابت ہے ۔ ہاں یہ بات مَابِہِ النِّزَاع رہ جاتی ہے کہ میاں بشیر احمد صاحب نے چودھری اسد اللہ خان صاحب سے کیا کہا تھا جو کچھ بھی کہا ہو خدا تعالیٰ پردہ دری پر آ گیا تھا اور میری بیماری کے بڑھنے کے ڈر سے جو بات مجھ سے چھپائی گئی تھی خدا تعالیٰ نے جیسا کہ اُس کی عادت ہے ساری جماعت کے سامنے اسے کھول کر رکھ دیا۔
خاکسار
مرزا محمود احمد’’
(الفضل 22؍ اگست 1956ء)
(17) تازہ پیغام
‘‘بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
برادران! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
فتنہ پرداز لوگ عزیزم چودھری ظفر اللہ خان صاحب پر اور ان کے خاندان پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر چودھری صاحب کی خصوصاً اور ان کے خاندان کی عموماً خدمات ایسی شاندار ہیں کہ مجھے یا کسی اَور کو اس بارے میں لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن ہر احمدی چونکہ نہ چودھری صاحب سے پوری طرح واقف ہے نہ ان کے خاندان سے اور چونکہ ایک مخلص دوست نے کراچی سے لکھا ہے کہ چودھری صاحب کے بارے میں جلدی اعلان ہو جانا چاہیئے تھا دیر ہو جانے کی وجہ سے بعض لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لئے میں عزیزم چودھری صاحب کا خط بادلِ نخواستہ الفضل میں شائع کرتا ہوں۔ بادلِ نخواستہ اس لئے کہ چودھری صاحب اور ان کے والد صاحب مرحوم کی قربانیاں خلافت کے بارے میں ایسی ہیں کہ ان کی براءت کا اعلان خواہ اُنہی کی قلم سے ہی ہو مجھ پر گراں گزرتا تھا لیکن دشمن چونکہ اوچھے ہتھیاروں پر اُتر آیا ہے اور جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں اس لئے میں چودھری صاحب کا خط الفضل میں شائع کرواتا ہوں۔ جن لوگوں کے دل میں منافقوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے چودھری صاحب کے بارے میں کوئی شک یا تردّد پیدا ہؤا تھا وہ استغفار کریں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ چودھری صاحب کا یہ شکوہ بجا ہے کہ کیوں نہ میں نے عہدِ وفاداری کے طلب کرتے ہی خود اپنی طرف سے لکھ دیا کہ چودھری صاحب کے پوچھے بغیر ہی اُن کی وفاداری کا اعلان کرتا ہوں۔ بے شک اُن کا حق یہی تھا کہ میں اُن کی طرف سے ایسا اعلان کر دیتا۔ لیکن منافق دشمن اِس پر پراپیگنڈا کرتا کہ دیکھو چودھری صاحب اتنی دُور بیٹھے ہیں پھر بھی یہ شخص جھوٹ بول کر اُن کے منہ میں الفاظ ڈال رہا ہے اور ہم لوگ اس جھوٹ کا جواب دینے کی مشکل میں مبتلا ہو جاتے۔ چودھری صاحب دُور بیٹھے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ اِس وقت جس دشمن سے ہمارا واسطہ پڑا ہے وہ کتنا جھوٹا ہے۔ ہزاروں ہزار آدمیوں کی طرف سے وفاداری کا اعلان ہو رہا ہے مگر نوائے وقت پاکستان یہی لکھے جا رہا ہے کہ ہمیں معتبر ذرائع سے خبر ملی ہے کہ مرزا محمود کی جماعت زیادہ سے زیادہ متحد ہوتی جا رہی ہے کہ ان کے خلاف عدمِ اعتماد کا ووٹ پیش کرے۔ پس چودھری صاحب کا اپنا خط چھپنا ہی مناسب تھا۔ اِس خط سے جتنے دشمن کے دانت کھٹّے ہوں گے میرے اعلان سے اُتنے کھٹّے نہ ہوتے۔ بلکہ وہ یہ شور مچاتا کہ اپنے پاس سے بنا کر جھوٹے اعلان کر رہے ہیں۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء-8-22’’
(الفضل 26؍ اگست 1956ء)
نقل خط چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب
‘‘بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ہیگ 11؍ اگست 1956ء
سیدنا و امامنا۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
یہاں الفضل کے پرچے ہوائی ڈاک سے ہفتہ میں ایک بار پہنچتے ہیں۔ ابھی ابھی 31 جولائی لغائت 5؍اگست کے پرچے ملے۔ 4؍اگست کے پرچہ میں حضور کا اعلان پڑھا۔ اُس کے پڑھنے پر یہ خاکسار گذارش کرتا ہے۔
‘‘ اندریں دیں آمدہ از مادریم و اندریں از دار دنیا بگزریم’’ انشاء اللہ
باون سال ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک چہرہ پر نظر پڑنے کی خوش نصیبی کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و رحم اور ذرہ نوازی سے یہ حقیقت ایک بچے کے دل میں راسخ کر دی کہ یہ چہرہ راستباز پہلوان کا چہرہ ہے۔ پھر جذبات کے ساتھ دلائل ، براہین ، بینات کا سلسلہ شامل ہو گیا اور جاری ہے۔ حضور کا وجود یومِ پیدائش بلکہ اُس سے بھی قبل سے اِس سلسلہ کا ایک اہم جزو ہے۔ خاکسار کو یاد ہے کہ 1914ء میں لندن میں جس دن وہ ڈاک ملی جس میں اختلاف کے متعلق مواد آیا تھا تو وہی دن ڈاک کے واپس جانے کا تھا۔ پس اتنا معلوم ہونے پر کہ اختلاف کیا ہے خاکسار نے بیعت کا خط لکھ کر ڈاک میں ڈال دیا اور باقی حصہ ڈاک بعد میں پڑھا جاتا رہا۔ اُس دن سے آج تک پھر محض اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم اور ذرہ نوازی سے باوجود اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں اور غفلتوں کے وہ عہد جو اُس دن باندھا تھا مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا آیات اور بینات، انعامات اور نوازشات نے اس تعلق کو وہ رنگ دے دیا ہےکہ خود دل جو اس کی لذات سے تو متواتر بہرہ ور ہوتا ہے اس کی حقیقت کی تہہ کو نہیں پہنچ پاتا چہ جائیکہ قلم اُسے احاطۂ تحریر میں لا سکے۔ اب جو عہد حضور نے طلب فرمایا ہے دل و جان اُس کے مصدق ہیں۔ جو کچھ پہلے حوالہ کر چکے ہیں وہ اب بھی حوالہ ہے۔ ظاہری فاصلہ ہونے کی وجہ سے خاکسار یہ التجا کرنے پر مجبور ہے کہ ایسے اعلان کے ساتھ حضور یہ اعلان بھی فرما دیا کریں کہ ہم اپنے فلاں دور اُفتادہ غلام کی طرف سے اِس پر لبیک کا اعلان کرتے ہیں تا یہ خاکسار کسی موقع پر ثواب میں پیچھے نہ رہ جائے۔ حضور کو اِس درجہ حسن ظن رہے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اپنی کمال ستاری اور ذرہ نوازی سے خاتمہ بالخیر کی ہوس کو جو ہر مومن کی آخری ہوس ہوتی ہے پورا کرتے ہوئے فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ۔کی بشارت کے ساتھ اپنے ہاں طلب فرمائے گا۔ یا ابی انت و امی
طالب دعا
خاکسار
حضور کا غلام
دستخط ظفر اللہ خاں’’
(الفضل 26؍ اگست 1956ء)
(18) مکرم چودھری محمد عبد اللہ خان صاحب امیر کراچی اور مکرم محمد اقبال شاہ صاحب آف نیروبی مشرقی افریقہ کے اخلاص بھرے خطوط ملنے پر جواب
‘‘جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان و اخلاص میں برکت بخشے ۔ ایمان کا مقام یہی ہے ۔ میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہیں۔ایک وہ جو مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اوّل کی وجہ سے داخل ہوئے ہیں ، ایک وہ طبقہ جو تعلیم یافتہ ہے اور اس لئے ہماری جماعت میں داخل ہوا ہے کہ یہ منظّم جماعت ہے ۔ ان کی وجہ سے سکول اور کالج کھولے جائیں۔ ایک وہ جو میرے الہام اور میری صداقتوں کو دیکھ کر ایمان لائے ہیں۔ میں پہلی دو قسموں پر اعتبار نہیں کرتا، یہ ہر وقت مرتد ہو سکتے ہیں۔ میں صرف اُن کو احمدی سمجھتا ہوں جو تیسرے گروہ میں شامل ہیں۔’’
(الفضل 26؍ اگست 1956ء)
(19) ایک تازہ رؤیا
‘‘ یہ خواب 31؍اگست اور یکم ستمبر کی درمیانی رات کو دیکھی گئی۔
میں نے دیکھا کہ اماں جی بھی اس دنیا میں آئی ہوئی ہیں اور فرشتے سارے جوّمیں وہ آیتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں جو قرآن شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لئے آئی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ سے نکل جائیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑائی کریں گے۔ لیکن قرآن کریم منافقوں سے فرماتا ہے کہ نہ تم یہودیوں کے ساتھ مل کر مدینہ سے نکلو گے اور نہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑو گے۔ یہ دونوں جھوٹے وعدے ہیں اور صرف یہودیوں کو انگیخت کرنے کے لئے اور فساد پر آمادہ کرنے کے لئے ہیں۔ اس آخری حصہ پر فرشتے زیادہ زور دیتے ہیں۔’’
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء-9-1 ’’
(الفضل 7 ستمبر1956ء)
(20) ایک تازہ رؤیا
‘‘ یہ رؤیا یکم اور 2 ستمبر 1956ء کی درمیانی رات کی ہے۔
میں نے خواب میں دیکھا جیسے کوئی غیر مرئی وجود مجھے کہتا ہے (اغلباً فرشتہ ہی ہو گا) کہ اللہ تعالیٰ جو وقفہ وقفہ کے بعد جماعت میں فتنہ پیدا ہونے دیتا ہے تو اِس سے اُس کی یہ غرض ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ جماعت کس طرح آپ کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔ یا جب آپ کسی خاص طرف مڑیں تو وہ کس سرعت سے آپ کے ساتھ مڑتی ہے۔ یا جب آپ اپنی منزلِ مقصود کی طرف جائیں تو وہ کس طرح اسی منزلِ مقصود کو اختیار کر لیتی ہے۔ جب وہ فرشتہ یہ کہہ رہا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے جلا ہوں کی ایک لمبی تانی آئی جو بالکل سیدھی تھی اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ صراطِ مستقیم کی مثال ہے جس کی طرف آپ کو خدا لے جا رہا ہے اور ہر فتنہ کے موقع پر وہ دیکھتا ہے کہ کیا جماعت بھی اسی صراطِ مستقیم کی طرف جا رہی ہے یا نہیں۔
تانی دکھانے سے یہ بھی مراد ہے کہ کس طرح نازک تاگے آپس میں باندھے جا کر مضبوط کپڑے کی صورت اختیار کر لیتے ہیں یہی حالت جماعت کی ہوتی ہے۔ جب تک ایک امام کا رشتہ اُسے باندھے رکھتا ہے وہ مضبوط رہتی ہے اور قوم کے ننگ ڈھانکتی رہتی ہے لیکن امام کا رشتہ اس میں سے نکال لیا جائے تو ایک چھوٹا بچہ بھی اُسے توڑ سکتا ہے اور وہ تباہ ہو کر دنیا کی یاد سے مٹا دی جاتی ہے۔ فَتَدَبَّرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَارِ
نوٹ: کچھ عرصہ سے میں نے اپنی خوابیں چھپوانی بند کر دی تھیں ۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ میرا خیال اِدھر پھر گیا تھا کہ رؤیا کو باقاعدہ چھپوانا ماموروں کا کام ہے لیکن اب اس فتنے میں بہت سی پرانی رؤیا نکلیں جو اَب شائع کی جائیں گی جن میں تفصیل کے ساتھ موجودہ فتنہ کو بیان کیا گیا ہے۔ممکن ہے درمیانی عرصہ کی خوابیں بھی شائع ہو جاتیں تو اَور کئی رؤیا جماعت کے جماعت کے ایمان کے بڑھانے کا موجب ثابت ہوتیں۔ پس میں نے مناسب سمجھا کہ مامور کی نقل کے طور پر نہیں بلکہ جماعت کے ایمان کو زیادہ کرنے اور ان میں بھی تعلق باللہ پیدا کرنے کی خواہش کی غرض سے بعض اہم خوابیں یا کشوف شائع ہوتے رہنے چاہئیں۔ دوسرے دوستوں کو بھی چاہیئے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کو خواب دکھائے یا الہام سے نوازے تو وہ بھی اطلاع دیتے رہا کریں تا کہ جن کو خواب یا الہام نہیں ہوتے وہ بھی دعاؤں اور درود کے ذریعہ سے اس انعام کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ جن خوانوں کو میں تعبیر کے لحاظ سے اہم سمجھوں گا الفضل میں شائع کرنے کے لئے دے دوں گا۔ مگر دوستوں کو اصرار نہیں ہونا چاہیئے کہ اُن کی خواب ضرور شائع ہو۔ کیونکہ خواب اور الہام کے ضرور شائع کرنے کا حکم صرف مامور کو ہوتا ہے بلکہ مامور کو بھی بعض خوابوں اور الہاموں کے شائع کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ وہ وحی جس کو ہر صورت میں شائع کرنے کا حکم ہوتا ہے وحیِ متلُوْ ہوتی ہے اور ایسی وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی۔ اب ہمارے ایمان اور علم کے مطابق قیامت تک کسی انسان پر ایسی وحی نازل نہیں ہو گی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی کسی نبی پر ایسی وحی نازل نہیں ہوئی اور اِسی وجہ سے آپؐ سے پہلے نبیوں کی وحی کے محفوظ رکھنے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ نہیں کیا۔ یہ کمال صرف قرآن کو حاصل ہے اور اسی کو قیامت تک حاصل رہے گا۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء-9-3 ’’
(الفضل 5 ستمبر1956ء)
(21) روزنامہ سفینہ کی ایک افترا کا جواب
‘‘ سفینہ لاہور مؤرخہ 5 ستمبر نے لکھا ہے مرزا صاحب نے اپنے خطبہ میں فتنہ میں حصہ لینے والوں کو گھٹیا قسم کے لوگ کہا ہے۔ نیز کہا ہے کہ ان میں کوئی عالم اور صاحب رؤیا نہیں۔ اس کے بعد پوچھا ہے کہ مرزا صاحب بتائیں کہ مندرجہ ذیل عالم نہیں ہیں؟ عبدالمنان عمر ایم۔ اے مولوی فاضل، علی محمد اجمیری مولوی فاضل، ملک عبدالرحمٰن خادم بی ۔اے ۔ایل ۔ ایل ۔ بی۔ محمد صالح نور مولوی فاضل۔ محمد حیات تاثیر مولوی فاضل ۔ نیز مولوی محمد علی صاحب ایم ۔اے ۔ایل ۔ایل ۔بی عالم اور صاحب کشف نہیں تھے؟
جس خطبہ کا حوالہ دیا گیا ہے اُس میں لکھا ہے کہ جو شخص کسی خواب کے ذریعہ سے یا آسمانی دلائل کے ذریعہ سے مجھ پر ایمان لایا ہے اگر وہ اس فتنہ میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ خود اپنے آپ کو کذّاب کہتا ہے۔ اُسے ہر شخص کہے گا کہ اے بیوقوف! اگر صداقت وہی ہے جس کا تُو اَب اظہار کر رہا ہے تو تُو نے اپنی خواب کیوں شائع کرائی تھی؟ اس کے بعد فتنہ کرنے والوں کے متعلق لکھا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ اِس وقت تک جن لوگوں نے اِس فتنہ میں حصہ لیا ہے وہ نہایت ذلیل اور گھٹیا قسم کے ہیں ایک بھی ایسی مثال نہیں پائی جاتی کہ جماعت کے صاحبِ علم اور تقویٰ اور صاحبِ کشوف لوگوں میں سے کوئی شخص فتنہ میں مبتلا ہوا ہو۔ سارے کے سارے خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں۔ صرف بعض ادنیٰ قسم کے لوگ تھے جنہوں نے کہا کہ حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد ایسا کہہ رہی ہے ہم کیا کریں۔ میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ 42 سال تک جو تم نے میری بیعت کئے رکھی تھی تو کیا تم نے مجھے حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کی وجہ سے مانا تھا؟ اِس مضمون کو پڑھ کر ہرعقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ایڈیٹر ‘‘سفینہ’’ نے جو اپنی لسٹ میں مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے کا نام شامل کیا ہے وہ ہوش و حواس میں نہیں کیا۔ خطبہ میں ذکر تو موجودہ فتنہ کا تھا جو حضرت خلیہ اوّل کی اولاد کی وجہ سے ہو رہا ہے اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے ایل ایل بی اِس فتنہ سے چار سال پہلے فوت ہو چکے ہیں۔ چار سال پہلے فوت ہونے والے شخص کا ذکر اس فتنہ کے سلسلہ میں ایڈیٹر سفینہ کے سوا کون کر سکتا ہے۔ 31؍ اگست والے خطبہ میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ جن لوگوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ وہ ہیں جو علم روحانی اور تقویٰ رکھتے ہیں اور صاحبِ کشوف ہیں اور پھر بھی اس فتنہ میں شامل ہیں۔ اور کہا گیا ہے کہ ایسا کوئی شخص نہیں۔ ایڈیٹر ‘‘سفینہ’’ نے جو مولوی عبدالمنان عمر ایم اے کا نام لکھا ہے تو کس وجہ سے؟ کیا وہ ان کی کوئی کشف بتا سکتا ہے جو انہوں نے کسی کتاب یا اخبار میں شائع کی ہو۔ اور کچھ عرصہ کے بعد وہ پوری ہو گئی ہو۔ ایم اے اور مولوی فاضل ہونا تو اس بات کی علامت نہیں کہ اُن کو علم روحانی اور تقویٰ حاصل ہے اور وہ صاحبِ کشف ہیں۔ اگر ایم اے اور مولوی فاضل ہونا اس بات کی دلیل ہوتا تو حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ ، اور حضرت علی کو تو جواب مل جاتا۔ بلکہ عیسائی لوگ تو یہ بھی کہتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (نعوذ باللہ) صاحبِ کشف اور الہام نہیں تھے کیونکہ سفینہ کے ایڈیٹر کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق نہ وہ ایم اے تھے نہ مولوی فاضل۔ یہی جواب علی محمد اجمیری کے متعلق ہے اور یہی جواب محمد صالح نور اور محمد حیات تاثیر کے متعلق ہے۔ محمد صالح نور اور محمد حیات بے شک مولوی فاضل ہیں لیکن وہ دونوں مبایعین احمدیوں کے خرچ سے مولوی فاضل ہوئے ہیں اور پھر دونوں میں سے کسی کو صاحبِ کشف ہونے کا دعویٰ نہیں۔ اگر ہے تو سفینہ کا ایڈیٹر ان کے کشف اور خواب شائع کرے جو انہوں نے دو تین سال پہلے اخبار یا کتابوں میں چھپوائے ہوں اور پھر پورے ہوئے ہوں۔ اِسی طرح مولوی علی محمد اجمیری کے بھی کشف شائع کریں۔
باقی رہے ملک عبد الرحمٰن صاحب خادم تو وہ ان لوگوں کے مخالف ہیں ان کانام میرے مخالفوں میں لکھنا محض شرارت ہے۔ غرض مولوی محمد علی صاحب کا نام لکھنا جو اِس فتنہ سے چار سال پہلے فوت ہو چکے تھے اور ملک عبد الرحمٰن صاحب خادم کا نام لکھنا جو میرے وفادار مرید ہیں اوّل درجہ کی بددیانتی اور خباثت ہے۔ اگر سفینہ کے ایڈیٹر کو سچائی کا کوئی بھی احساس ہے تو وہ یہ ثابت کرے کہ مولوی محمد علی صاحب اِس فتنہ کے وقت زندہ تھے اور ملک عبد الرحمٰن صاحب خادم کا بیان شائع کرے کہ وہ میرے مخالف تھے۔ اور مولوی عبد المنان اور مولوی اجمیری اور صالح نور اور محمد حیات تاثیر کی وہ کشوف شائع کرے جو انہوں نے آج سے چند مہینے یا چند سال پہلے شائع کئے ہوں اور وہ پورے ہو گئے ہوں۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو ہمارا جواب اس کو یہ ہے کہ لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔
اِس مضمون کے لکھنے کے بعد ملک عبد الرحمٰن صاحب خادم کا اپنا خط بھی ملا جو شائع کیا جا رہا ہے اور جو ایڈیٹر سفینہ کے جھوٹ کا ایک بیّن ثبوت ہے۔
مرزا محمود احمد
1956ء-9-8’’
(الفضل11ستمبر1956ء)
(22) مولوی علی محمد صاحب اجمیری کے خط کا جواب
‘‘ مولوی علی محمد صاحب اجمیری
آپ کا خط ملا۔ آپ نے میری اس بات کی تردید کی ہے کہ مرزا بشیر احمد صاحب کے متعلق اللہ تعالیٰ کے الہام ہیں وہ ان کو بچا لیں گے۔ اور لکھا ہے۔ میاں منّان کے متعلق آپ نے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔ حالانکہ یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ میں نے جو الفاظ عبد المنان کے متعلق استعمال کئے ہیں وہی عبد الوہاب کے متعلق کئے ہیں۔ اور لکھا ہے کہ میاں عبدالوہاب اور عبد المنان پارتی ناکام و نامراد رہے گی، خدا جس کو چاہے گا خلیفہ بنائے گا۔ اور یہ خلیفہ گر دونوں جہاں کی ناراضگی خدا تعالیٰ کی طرف سے حاصلہ کریں گے۔ کیا یہ سخت لفظ ہیں کہ عبد الوہاب اور عبد المنان پارٹی ناکام و نامراد رہے گی اور خدا جس کو چاہے گا خلیفہ بنائے گا؟
آپ نے لکھا ہے یہ دونوں کسی کی زبان نہیں پکڑ سکتے۔ گویا آپ کے نزدیک پارٹی تو ہے مگر یہ اس میں شامل نہیں ۔ میں نے بھی تو یہی لکھا تھا کہ عبدالوہاب اور عبدالمنان پارٹی ناکام رہے گی۔ گویا آپ کے نزدیک اگر پارٹی عبد المنان کا نام لے تو خدا کی نصرت اسے حاصل ہو گی، شاید کسی اور کا نام لے تو تباہ ہو جائے گی۔ گویا آپ کے نزدیک خداکا الہام اور آپ کا علم برابر ہیں۔ آپ نے دونوں باتوں کا ایک نتیجہ نکالا ہے۔ میں نے تو یہ لکھا تھا کہ چونکہ میاں بشیر احمد صاحب کے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اس لئے وہ بچ جائیں گے جس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کو علم تھا کہ میاں بشیر ایسی حرکت نہیں کریں گے۔ ورنہ ان کے متعلق بشارتوں کے الہام ہی کیوں بھیجتا۔ مگر آپ عالم الغیب نہیں۔ آپ منّان کے متعلق جو کچھ کہتے ہیں وہ اپنے علم کی بناء پر کہتے ہیں اور اپنے علم اور خدا کے علم کو برابر قرار دیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ ان کا علم بھی خدا تعالیٰ کے علم کے برابر نہیں۔ پس خدا تعالیٰ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو بھی اپنے علم کے مقابلہ میں کم قرار دیتا ہے مگر آپ اپنے علم کو خدا تعالیٰ کے علم کے برابر سمجھتے ہیں اور یہ دہریت کی علامت ہے۔ اگر یہ حالت جاری رہی تو آپ ایک دن دہریت پر پہنچ کر رہیں گے۔
میں آپ کو جانتا ہوں لیکن باوجود اِس کے میں آپ کی باتوں کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ کیونکہ آپ نے اُس شخص کا نام نہیں لکھا جس نے آپ کو یہ کہا تھا کہ پیپل کے نیچے کھڑے ہونے والے آدمیوں میں سے ایک آپ تھے جب تک آپ اُس شخص کا نام نہ بتائیں اور میں اُس سے پوچھ نہ لوں میں آپ کو کذّاب سمجھتا ہوں۔ قرآن کریم فرماتا ہے اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْۤا۔22
یہ ٹھیک ہے کہ یہ 27، 28 سال کا پرانا واقعہ ہے مگر آپ کا حافظہ مجھ سے زیادہ کمزور ہے۔ آپ نے لکھاہے کہ عبد الوہاب اس میں شامل نہیں تھے لیکن میرے پاس خود میاں زاہد سے سننے والے ایک شخص کی شہادت موجود ہے کہ مجھ سے انہوں نے کہا کہ عبد الوہاب ہماری سازش میں شامل تھا۔ مگر وہ اس لئے بچ گیا کہ وہ خلیفہ اوّل کا بیٹا تھا اور ہم غریب مارے گئے۔ ایک شہادت میرے پاس آ چکی ہے اور ایک دوسری شہادت کے متعلق خبر ہے کہ وہ بھی انشاء اللہ آ جائے گی۔ آپ تو یہ سمجھتے تھے کہ آپ کا اور وہاب کا خط میاں زاہد کے پاس گیا ہے لیکن وہ خدا تعالیٰ نے میرے پاس پہنچا دیا تھا۔ میاں زاہد نے اُس پر جو جواب لکھا تھا وہ خط لے جانے والے نے مجھے دے دیا تھا۔
خدا تعالیٰ نے وہ گواہ بھی مہیّا کر دیئے ہیں جنہوں نے یہ گواہی دی ہے کہ 1915ء میں یا اس کے قریب میاں عبد السلام اور میاں عبد المنان شملہ آئے۔ چونکہ ہم لوگ خلافت اور نبوت کے جھگڑے کی وجہ سے ہی احمدی ہوئے تھے، تازہ تازہ جوش تھا، آنکھیں کھلی رکھتے تھے مولوی عبدالسلام بھی مولوی محمد علی سے ملے اور میاں منّان عید کے دن اُن کی گود میں بیٹھے اور اُن سے نذرانہ وصول کیا۔ مولوی عمر دین شملوی نے جب مولوی عبد السلام کو طعنہ دیا کہ آپ کا بھائی نذرانہ لے کر آیا ہے اور آپ ملاقات کر کے آئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ کو ہمارے ذاتی تعلقات میں دخل دینے کا کیا حق ہے۔ یعنی جو لوگ اس ناخلف اولاد کے باپ کی مخالفت کرتے تھے اور اس کو مرتد اور ظالم قرار دیتے تھے اُن سے دوستی اور محبت رکھنے پر کیوں اعتراض کیا۔
آخر میں آپ نے مصری صاحب کو اپنی براءت میں پیش کیا ہے۔ مصری صاحب تو خود پیغامیوں میں بیٹھے ہیں میں اُن کی گواہی کس طرح مان سکتا ہوں۔ نہ میں نے اُن کو کمیشن مقرر کیا اور نہ اُن کے بری کرنے سے آپ بری ہو جاتے ہیں۔ یہ جو آپ نے لکھا ہے کہ اُس وقت آپ کی غلط فہمی دُور ہو گئی تھی یہ بھی جھوٹ ہے۔ میری غلط فہمی کبھی دُور نہیں ہوئی۔ میں آپ کو اس عرصہ میں ایمان کا کمزور ہی سمجھتا رہا ہوں۔ اس معاملہ کا دوبارہ ذکر نہ کرنا میری حیاء کی علامت ہے آپ کے ایمان کی علامت نہیں۔ میں نے تو عبدالمنّان ، عبدالوہاب اور عبدالسلام کی باتوں کا بھی دوبارہ ذکر نہیں کیا۔ نہ امّاں جی کی باتوں کا دوبارہ ذکرکیا۔ چنانچہ اِسی وجہ سے بعض لوگوں نے پچھلےدنوں مجھ سے کہا (غالباً شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور نے) کہ آپ 25 سال سے ان لوگوں کو معاف کرتے آئے ہیں، اب بھی خاموشی اختیار کر لیں۔ تو میں نے کہا یہ جو کچھ ہو رہا ہے 25سال کی معافی کا تو نتیجہ ہے، اگر میں آج سے 25سال پہلے ان لوگوں کی شرارتوں کو ظاہر کر دیتا تو آج یہ جماعت سے الگ ہو چکے ہوتے اور پیغامیوں کی گود میں بیٹھے ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ایسے گواہ بھی بھجوائے ہیں جو اپنے اپنے علاقہ میں راستباز اور ثقہ مانے جاتے ہیں اور جو بتاتے ہیں کہ ہم سے خود مولوی حبیب الرحمٰن احراری کے باپ نے شملہ میں ذکر کیا کہ مولوی عبد الوہاب ہمارے ایجنٹ ہیں اور ہم نے ان کو مرزائیوں کی خبریں لانے پر مقرر کیا ہوا ہے وہ چودھری افضل حق پریذیڈنٹ جماعت احرار سے بھی لمبی لمبی ملاقاتیں کرتے ہیں۔
مجھے کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ میرے لئے میاں زاہد کی گواہی اور اپنا حافظہ کافی ہے۔
آپ نے جو کچھ سید مسعود احمد کی گواہی کی تردید میں لکھا ہے اس بارہ میں آپ کچھ واقعات بھول گئے۔ میں نے جو کچھ کہا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبتِ الٰہی کے بارہ میں کہا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے ذکر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہمارے لئے سب سے مقدم ہے۔ عیسائی تو خدا پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن میں حیض اور لواطت کا ذکر ہے۔ایسی علمی کتاب جس کے پڑھنے کا عورتوں اور لڑکیوں کو بھی حکم ہے اس میں ایسا ذکر آنا بہت نامناسب ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے ان معترضین کی بات نہیں مانی۔ میں بھی آپ کی بات کو کوئی وقعت نہیں دیتا۔
سید مسعود آپ کے روحانی باپ کا بیٹا ہے آپ اعلان کر دیں کہ وہ جھوٹا اور کذّاب ہے وہ خود جواب دے لے گا۔ مجھے اِس جھگڑے میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میر محمد اسحٰق فوت ہو چکے ہیں اور منّان زندہ ہے ۔ میر محمد اسحٰق کی زندگی میں آپ اُن کی جُوتیاں چاٹا کرتے تھے۔
میاں عطاء اللہ صاحب کے متعلق جو آپ نے لکھا ہے وہ جھوٹ ہے۔ آپ کی غرض ہے کہ میں ان کو بھی منافق سمجھوں۔ یہی کوشش آپ کے برادر مخلص اللہ رکھا نے بھی کوہستان میں کی ہے۔ انگریزی کی ایک مثل ہے ‘‘Cat is out of bag’’ یعنی بلّی تھیلے سے باہر آ گئی۔ اِسی پر آپ نے عمل کیا ہے اور اپنے خط سے ظاہر کر دیا ہے کہ اخباروں میں ایسی باتیں لکھنے والے کے پیچھے کون ہے۔
آپ نے لکھا ہے کہ ان باتوں کی جانچ کے لئے ایک کمشن مقرر کر دیں۔ میں خلیفہ ہوں آپ خلیفہ نہیں ہیں۔ جو احمدی کمیشن کے حق میں ہیں آپ اُن کو اور منّان کو لے کر الگ ہو جائیں اور اپنی الگ خلافت قائم کر لیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کے خلاف کیا کیا اعلان کئے ہیں؟ مگر بتائیں کہ انہوں نے کتنے کمشن مقرر کئے تھے؟ موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام نے کتنے کمشن مقرر کئے تھے؟ کم سے کم عبدالمنان کے والد کو تو آپ مانتے ہیں؟ انہوں نے کتنے کمشن مقرر کئے تھے۔ پیغامی اُن کے خلاف یہی شور مچاتے تھے کہ آپ یونہی سنی سنائی باتیں ہمارے متعلق مان لیتے ہیں، تحقیقات نہیں کرتے۔ کچھ عرصہ سے غیر احمدی اخباروں میں بھی کمشن کا سوال شروع ہے مگر جن لوگوں کے کہنے پر وہ یہ بات لکھتے ہیں اُن کے نام نہیں لکھتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان اخباروں کی تاریں بھی کسی ایسے ہی خیالات والے ہاتھ میں ہیں۔ آپ خواہ کتنا ہی شور مچائیں جماعت کبھی کمیشن کے معاملہ میں آپ سے متفق نہیں ہو گی۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ خوارج نے بھی حضرت علیؓ کے سامنے کمشن کا سوال پیش کیا تھا۔ اور بعد میں اِسی بناء پر حضرت علی ؓ سے بغاوت کی تھی۔ اگر آپ یہ باتیں بھول گئے ہوں تو اسلامی تاریخ کے یہ اَوراق پھر پڑھ لیں۔ اس کمشن کے مقرر کرنے پر جو اُن کی اپنی درخواست پر مقرر ہوا تھا انہوں نے حضرت علیؓ پر نعوذ باللہ کفر کا فتویٰ لگایا تھا۔ اگر آپ کبھی اپنے دوست پیغامیوں کے پاس لاہور جائیں تو اُن کی لائبریری میں تاریخ طبری اور تاریخ ابن زبیر مل جائیں گی اُس سے آپ کا حافظہ تیز ہو جائے گا۔ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھ پر کامل اعتماد رکھتی ہے۔ نہ وہ کسی حکومت کے حکم سے میری بیعت میں داخل ہوئی اور نہ اسے میری بیعت سے نکلنے سے میں روک سکتا ہوں۔ جب تک اُس کا ایمان قائم ہے وہ میرے ساتھ رہے گی اور کسی مولوی یا اخبار کے کہنے پر کمشن کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ وہ جانتی ہے کہ اگر ہمیں خلیفہ پر اعتبار نہ رہا تو ہم اِسے چھوڑ دیں گے۔ پھر کمشن کے مطالبہ کے معنے کیا ہوئے۔
مرزا محمود احمد
1956ء-9-8 ’’
(الفضل13ستمبر1956ء)
(23) چاہیئے کہ خلیفہ اپنے بیٹے کو خلافت کے لئے نامزد نہ کرے
‘‘ خاکسار نے حضرت ....... خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی 1914ء کی تقریر ‘‘ برکات خلافت’’ کے مندرجہ ذیل فقرات بغرض تشریح پیش کئے تھے:۔
‘‘وہ نادان جو کہتا ہے کہ گدی بن گئی ہے اُس کو مَیں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں تو یہ جائز ہی نہیں سمجھتا کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ ہو۔ ہاں اگر خدا تعالیٰ چاہے مامور کر دے تو یہ الگ بات ہے اور حضرت عمرؓ کی طرح میرا بھی یہی عقیدہ ہے کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ نہیں ہونا چاہیئے’’۔ (صفحہ 22)
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل کلمات تحریر فرمائے ہیں (خاکسار ابو العطاء جالندھری)
‘‘ یعنی باپ کو بیٹے کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں کرنا چاہئے جس طرح حضرت عمرؓ نے منع فرمایا 23 کیونکہ جو پانچ آدمی انہوں نے خود نامزد کئے تھے نہ کہ جماعت نے اُن میں اُن کا بیٹا بھی تھا۔ اس لئے آپ نے فرمایا اسے مشورہ میں شامل کرو خلیفہ مت بنانا۔ پس معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک باپ اپنے بعد بیٹے کو خلیفہ نامزد نہیں کر سکتا۔ مگر حضرت علیؓ نے اس کے خلاف کیا اور اپنے بعد حضرت حسنؓ کو خلیفہ نامزد کیا24۔ میرا رجحان حضرت علیؓ کی بجائے حضرت عمرؓ کے فیصلہ کی طرف ہے خود حضرت حسنؓ بھی مجھ سے متفق نظر آتے ہیں کیونکہ انہوں نے بعد میں حضرت معاویہ کے حق میں دست برداری دے دی۔اگر وہ یہ سمجھتے کہ باپ، بیٹے کو اپنے بعد خلیفہ بنا سکتا ہے تو کبھی دست بردار نہ ہوتے کیونکہ خلافتِ حقّہ کا چھوڑنا ارشادِ نبویؐ کے مطابق منع ہے۔ مگر حضرت علیؓ نے بھی غلطی نہیں کی۔ اُس وقت حالات نہایت نازک تھے۔ کیونکہ خوارج نے بغاوت کی ہوئی تھی اور دوسری طرف معاویہ اپنے لشکروں سمیت کھڑے تھے۔ انہوں نے ایک چھوٹی سی تبدیلی کو بڑے فساد پر ترجیح دی کیونکہ حضرت حسنؓ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلم کی پیشگوئیاں موجود تھیں۔ ممکن ہے حضرت علیؓ نے اَور احتیاطیں بھی کی ہوں جن سے جمہور مسلمانوں کے حق کو محفوظ کر دیا ہو۔ گو وہ مجھے اِس وقت یاد نہیں۔
مرزا محمود احمد
1956ء-9-8 ’’
(الفضل15ستمبر1956ء)
(24) ہفت روزہ ‘‘چٹان’’ کا ایک ادارتی نوٹ
‘‘ اتفاقاً ایک پرچہ ‘‘چٹان’’ کا دفتر نے بھجوایا ہے۔ ممکن ہے انہوں نے خریدا ہو یا کسی دوست نے بھجوایا ہو۔ اس کے صفحہ5 پر ایک مضمون ہے جس کا عنوان ہے ‘‘الفضل کی خدمت میں’’ اس میں لکھا ہے کہ بعض قادیانی حضرات نے گمنام خطوط لکھنے شروع کئے ہیں جن میں دشنام دہی کا ایسا اسلوب اختیار کیا گیا ہے جو خلیفۃ المسیح اپنے لئے سننے کو تیار نہ ہوں گے۔ گمنام خط خواہ قادیانی بھیجے یا حنفی یا وہابی یا مودودی یا شیعہ یا نیچری یا اہلِ قرآن بُرا ہوتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب تمہیں کوئی خبر آئے تو خبر لانے والے شخص کے حالات کو دریافت کر لیا کرو25 اور گمنام خط لکھنے والے کے حالات دریافت نہیں کئے جا سکتے۔ پس ایسا شخص چاہتا ہے کہ مکتوب الیہ قرآن کریم کے حکم کی نافرمانی کرے اور گویا اباحت پھیلاتا ہے۔ پس مجھے ‘‘چٹان’’ کے ایڈیٹر صاحب سے اس بات میں پوری ہمدردی ہے کہ ان کے نام بعض لوگ بغیر اپنا نام ظاہر کرنے کے ایسے خط بھیجتے ہیں جن میں گالیاں ہوتی ہیں۔ حقیقتاً تو اگر اُن خطوں میں ایڈیٹر صاحب چٹان کی تعریف بھی ہو تو بوجہ ان خطوں کے گمنام ہونے کے اُن کے لکھنے والا خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم ہے اور اسے اپنے گناہ سے توبہ کرنی چاہیئے ورنہ وہ خدا تعالیٰ سے سزا پائے گا۔ مگر مجھے ایک بات پر تعجب ضرور ہے کہ باوجود ان خطوں کے گمنام ہونے کے ایڈیٹر صاحب چٹان کو یہ کیونکر معلوم ہو گیا کہ وہ قادیانیوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض ‘‘قادیانیت’’ کے دشمن لوگوں نے ایڈیٹرصاحب چٹان کو غصہ دلانے کے لئے ایسے گمنام خط لکھے ہوں۔ جب یہ بات ممکن ہے اور جب وہ خط گمنام بھی ہیں تو تقویٰ کا طریق یہی تھا کہ ایڈیٹر صاحب چٹان اُن خطوں کو تو پھاڑ کر ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیتے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ اے خدا! مسلمانوں پر رحم کر خواہ وہ کسی فرقہ کے ہوں کہ وہ ایسی گندی باتوں سے بچا کریں۔
ایک بات ایڈیٹر صاحب چٹان نے ایسی لکھی ہے کہ مجھے اس کی تائید کرنی پڑتی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ الفضل نے معاصر نوائے وقت کے ساتھ ہم پر بھی یہ الزام چسپاں کیا ہے کہ ہم کسی کے روپے سے احمدی منافقین کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ لکھ کر وہ لکھتے ہیں لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ میرے نزدیک جب تک کوئی معیّن ثبوت نہ ہو کسی مقابل کے متعلق ایسی بات لکھنا تقویٰ کے خلاف ہے۔ ہمارے متعلق ہمیشہ غیر احمدی کہتے رہے ہیں کہ انگریزوں سے روپیہ لے کر انہوں نے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور ہم ہمیشہ اسے بُرا مناتے رہے ہیں۔ وہی طریقہ اپنے مخالف کے متعلق استعمال کرنا نہایت معیوب اور بُرا ہے۔ یا تو ایڈیٹر الفضل کے پاس ایسا ثبوت موجود ہو جس کی بناء پر وہ اپنے بیوی بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کے حکم کے مطابق قسم کھا کر چٹان پر یہ الزام لگا سکے کہ اُس نے کسی سے روپے کھائے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ ہمارا مخالف ہے یا پھر اسے چٹان کے دعویٰ کو قبول کرنا چاہیئے اور مومنوں کی طرح معذرت کرنی چاہیئے کہ ہم نے بعض افواہوں یا قیاسوں کی بناء پر الزام لگایا ورنہ ہم اس الزام پر لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ نہیں کہہ سکتے۔قرآن کو اونچا کرنے کے لئے اپنا سر نیچا کر لینا بڑی عزت کی بات ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ سچا احمدی وہ ہے جو سچا ہو کر جھوٹا بنے26۔ اِس کے یہ معنے نہیں کہ وہ سچ بولے اور کہے کہ میں نے جھوٹ بولا تھا۔ بلکہ یہ معنے ہیں کہ اگر وہ کوئی ایسی بات کہے جسے وہ سچا سمجھتا تھا مگر قرآن کریم اُسے ایسا کہنے کی اجازت نہ دیتا ہو تو فوراً معذرت کرے اور اپنے مخاصم کی بات کو تسلیم کر لے۔ایڈیٹر صاحب الفضل اِس بات سے نہ ڈریں کہ بعض دوسرے لوگ اِس سے اُن کے سر چڑھ جائیں گے کیونکہ قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ اگر تُو ہمارے حکم کے مطابق فروتنی دکھائے گا تو ہم خود تیری طرف سے ہو کر لڑیں گے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ایڈیٹر صاحب الفضل کی لڑائی سے خدا تعالیٰ کی لڑائی زیادہ سخت ہے۔27
آخر میں مَیں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ایڈیٹر صاحب چٹان نے جہاں ایڈیٹر صاحب الفضل کو نصیحت کی ہے وہاں میرے متعلق بھی لکھا ہے کہ جو باتیں آپ اپنے لئے پسند نہیں کرتے وہ دوسروں کے متعلق مت لکھیئے یا لکھوائیے حالانکہ ایڈیٹر صاحب چٹان نے جس دلیری سے الفضل کے الزام کے مقابلہ میں لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کہا ہے اس فقرہ کے متعلق وہ لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ نہیں کہہ سکتے اور نہ میں ان سے اس کا مطالبہ کرتا ہوں کیونکہ اس نوٹ کے لکھتے وقت ان کا دل دُکھا ہوا تھا اور ایسی حالت میں بعض دفعہ انسان پورا موازنہ نہیں کر سکتا۔
مرزا محمود احمد
1956ء-9-19 ’’
(الفضل22ستمبر1956ء)
(25) جماعت احمدیہ لاہور کی طرف سے ایک ریزولیوشن پر ارشاد
‘‘ ایسا ہی ایک ریزولیوشن جماعت ربوہ نے بھی پاس کرکے بھیجا ہے وہ میں بعد میں بھجوا دوں گا۔ اُس میں اَور ناموں کا ذکر ہے۔ چونکہ ہر جگہ کی جماعت مبایعین کو یہ حق ہے کہ اگر اپنے علاقہ میں رہنے والے کسی احمدی کی نسبت یہ شک کریں کہ وہ جماعت مبایعین جیسے خیالات نہیں رکھتا تو اس کے متعلق یہ ریزولیوشن پاس کر دیں کہ وہ ہماری جماعت کا ممبر نہیں سمجھا جائے گا تا کہ آئندہ اُس کے ذریعہ سے اٹھایا ہوا فتنہ اُس جماعت کی طرف منسوب نہ ہو اور وہ اُس جماعت کا ممبر ہونے کی حیثیت سے احمدیہ جماعت کے کسی عہدہ کے حصول کے لئے کوشش کرنے کا راستہ تلاش نہ کرے۔ پس میں جماعت احمدیہ لاہور اور ربوہ کو ان کے ریزولیوشنوں کے حق ہونے کی وجہ سے اُن کے ریزولیوشنوں کی تصدیق کرتا ہوں۔’’
(الفضل2؍اکتوبر1956ء)
(26) محترم چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب کا خط اور
اس پر تبصرہ
‘‘چودھری ظفراللہ خان صاحب کا ایک ضروری خط ذیل میں درج کیا جاتا ہے اِس خط سے دو اہم امور کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ ایک امر وہ پروپیگنڈا ہے جو مولوی عبدالمنان صاحب کے ساتھی جماعت میں کر رہے ہیں کہ گویا مولوی عبدالمنان کی علمی تحقیقاتوں اور کارروائیوں کا شُہرہ امریکہ تک پہنچا جس پر امریکہ نے اُن کو اپنے ملک میں تقریر کی دعوت دی اور پتا لگ جاتا ہے کہ یہ دعوت چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی سفارش پر ہوئی تھی نہ کہ ان کی عالمی شہرت کی وجہ سے۔ جیسا کہ تھوڑے دنوں میں تحقیقی طور پر ثابت ہو جائے گا مولوی عبد المنان صاحب کی مسند احمد کی تبویب نہ کوئی نیا کارنامہ ہے نہ کوئی علمی تحقیق ہے۔ یہ کام کوئی چالیس سال سے مسلمانوں میں ہو رہا ہے اور مصر اور ہندوستان کے علماء اس میں لگے ہوئے ہیں۔ بلکہ بعض کتابوں سے پتا لگتا ہے کہ بعض لوگ اس کو مکمل بھی کر چکے ہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ محنت کا کام ہے جیسے ڈکشنری میں سے لفظ نکالنے کا کام محنت کا کام ہوتا ہے۔ مگر علمی وسعت وسعتِ نظر کا کام نہیں۔ مدرسہ احمدیہ کے بعض پرانے اساتذہ کہتے ہیں کہ جب مولوی عبدالمنان صاحب سکول میں انجمن کے تنخواہ دار ملازم تھے تو خود بھی اپنا وقت اِس کام پر صَرف کرتے تھے اور بعض طلباء سے بھی مدد لیتے تھے وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ بہرحال کوئی نہ کوئی دوست کچھ دنوں تک اس مسئلہ پر تفصیلی اور مکمل روشنی ڈال دیں گے۔ مصر کے ایک عالم نے اس کتاب کی تبویب کی چودہ جلدیں شائع کی ہیں جو کہتے ہیں کراچی اور لاہور میں مل سکتی ہیں گو شبہ ہے کہ ابھی کچھ جلدیں شائع ہونی باقی ہیں۔ ان جلدوں میں سے بہت سی ہمارے جامعۃ المبشرین کی لائبریری میں موجود ہیں۔ اور کچھ جلدیں قادیان کے زمانہ سے میری لائبریری میں موجود تھیں جو اَب یہاں آ گئی ہیں۔ بے شک حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایسی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی تھی۔ یہ جلدیں غالباً مرزا ناصر احمد کی ولایت سے واپسی پر میں نے اُس کے ذریعہ سے مصر سے منگوائی تھیں۔
اِس خط سے اس شبہ کا بھی ازالہ ہو جاتا ہے جو بعض دوستوں نے اپنے خطوں میں ظاہر کیا ہے جو یہ ہے کہ مولوی عبدالمنان کو امریکہ بھجوا کر چودھری ظفراللہ خان صاحب نے فتنہ کا دروازہ کھولا اور اُن کے دوستوں کو جھوٹے پروپیگنڈا کا موقع دیا۔ مگر جیسا کہ چودھری ظفراللہ خان صاحب کے خط سے ظاہر ہے انہوں نے موجودہ حالات کے علم سے پہلے یہ کوشش کی تھی اور اِس خیال سے کی تھی کہ حضرت خلیفہ اول کے بیٹوں میں سے ایک ہی بیٹے کو کچھ علمی شغف ہے وہ علمی مجالس میں آ جائے تو اس طرح شاید سلسلہ کو بھی کچھ فائدہ پہنچ جائے گا۔ چونکہ مولوی عبدالمنان تحریک جدید کے ایک عہدے پر مقرر تھے اس لئے چودھری صاحب کا یہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ یا ان کے گہرے دوست کوئی بات سلسلہ کے خلاف کریں گے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ چودھری غلام رسول نمبر35 کی قسم کے لوگ اخباروں میں ان کو حضرت مولانا عبدالمنان کر کے لکھیں گے۔ چودھری صاحب نے مولوی عبدالمنان وکیل التصنیف کی سفارش کی تھی۔ انہوں نے حضرت مولانا عبدالمنان کی سفارش نہیں کی تھی۔ اس لئے ان پر الزام لگانا درست نہیں۔ اور جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ اُن کی نیت کو دیکھنا چاہیئے جو ظاہر ہے عمل کو نہیں دیکھنا چاہیئے۔ہاں جو لوگ واقعات کے ظاہر ہو جانے کے بعد بھی ایسے لوگوں میں گُھستے ہیں وہ اپنے عمل سے اِس بات کا ثبوت دے دیتے ہیں کہ اُن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ وَ سَيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْۤا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ 28
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
محترم چودھری ظفراللہ خان صاحب کا خط
‘‘بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ہیگ 7 ستمبر1956ء
سیدنا و امامنا۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
حضور کے ارشاد کے ماتحت پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے خاکسار کو محترمہ عائشہ صاحبہ (جنہیں خاکسار تو ذاتی طور پر نہیں جانتا) کے خط کی نقل ارسال کی ہے جو محترمہ مذکورہ نے حضور کی خدمت اقدس میں لکھا ہے۔ ان بچوں نے اگر ایسی کوئی بھی بات کہی ہے تو بہت دکھ دینے والی بات ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ خاکسار نے مکرمی مولوی عبد المنان عمر صاحب کے امریکہ جانے کے متعلق جو کوشش کی اس میں خاکسار کی نیت اپنے علم کے مطابق سلسلہ کے ایک عالم اور مخلص خادم کے لئے ایک موقع بہم پہنچانا تھا جس سے وہ خود بھی فائدہ اٹھا سکیں اور سلسلہ کی خدمت کا اس کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ موقع فراہم کر سکیں۔ خاکسار کا ان کے متعلق بوجہ ان کے سلسلہ میں وکیل کے عہدہ پر فائز ہونے، بوجہ حضرت خلیۃ المسیح الاوّل کا فرزند ہونے اور بوجہ اس کے کہ اپنے بھائیوں میں صرف اکیلے وہی علمی مذاق رکھتے ہیں اور علم کا اکتساب کر سکتے ہیں یہی اندازہ اور یہی حُسنِ ظن تھا جو خاکسار نے لکھا ہے۔ اُن امور کا جو ان کے چھوٹے بھائی کے متعلق بعد میں ظاہر ہوئے ہیں یا جن کا ذکر محترمہ عائشہ صاحبہ کے خط میں ہے خاکسار کو نہ علم تھا نہ اندازہ۔ ممکن ہے مکرمی مولوی عبدالمنان عمر صاحب بھی ان امور میں ملوث ہوں۔ خاکسار کو اِس کا بھی کوئی علم اس سے زائد نہیں جو ارشاد حضور نے کوہ مری سے ارسال کردہ اپنے والا نامے میں فرمایا تھا بوجہ مرکز سے باہر ہونے کے موجودہ فتنہ کے متعلق خاکسار کا علم اُنہی امور تک محدود ہے جو الفضل میں شائع ہوئے ہیں۔ ان امور کی تفتیش حضور کے ہاتھ میں اور حضور کے ارشاد کے ماتحت اور حضور کی ہدایات کے مطابق حضور کے خدام کے ہاتھوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے حضور کی ذات مبارک اور سلسلہ عالیہ کو ہر قسم کے خطرہ، پریشانی اور ابتلاء سے محفوظ رکھے۔ اٰمین۔ جو امر حضور کے نزدیک پایۂ ثبوت کو پہنچ جائے اُس کے مطابق حضور کے خدام کا عمل پیرا ہونا بھی عین سعادت اور تقاضائے عہدِ اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ لیکن جب تک کسی امر کا انکشاف نہیں ہوا تھا اور کوئی ایسی بات ظہور میں نہ آئی تھی اُس وقت تک جن خدام کا عمل حُسنِ ظن کے مطابق رہا وہ اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ کے حکم کے تابع تھا۔ وَاِلَّا صدق و اخلاص اور اطاعت و وفا کا عہد وہیں ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اور اسی کی عطا کردہ توفیق سے انشاء اللہ پورا ہوتا جائے گا۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے حضور کو جلد صحت کاملہ عطا فرمائے اور اپنے مبارک ارادوں کی تکمیل کی توفیق عطا فرماتا جائے۔ اور ہم سب خدام کو اُن برکات سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونے کی توفیق عطا فرمائے جن کے نزول کا حضور کا وجود باجود ذریعہ ہے اور جو حضور کی ذات مبارک کے ساتھ وابستہ ہیں اور حضور کو ہر پریشانی اور حزن سے محفوظ رکھے۔ اٰمین۔
والسلام
طالب دعا
خاکسار
ظفر اللہ خان’’
(الفضل3؍اکتوبر1956ء)
(27) ضروری اعلان
‘‘ مجھے فتنہ کے ایّام میں کئی احمدی خریدارانِ الفضل کی طرف سے چٹھیاں آئی ہیں کہ جس الفضل میں کوئی خاص مضمون فتنہ کے متعلق ہوتا ہے وہ ہم کو نہیں ملتا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی آدمی منافقوں میں سے الفضل کے عملہ میں ہے۔ آج ایک یقینی ثبوت مل گیا ہے۔ ایک احمدی دوست نے خط کے ذریعہ توجہ دلائی ہے کہ میرے پاس میاں محمد صاحب کا ٹریکٹ پہنچا ہے جس پر وہ پتہ تھا جو معروف نہیں اور صرف الفضل کو میں نے دیا ہوا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خریدارانِ الفضل کے پتوں پر میاں محمد صاحب کے ایجنٹوں کا دخل ہے۔ بعض باتیں میں نے بیچ میں چھوڑ دی ہیں کیونکہ ان سے اُس شخص کا بھی پتہ لگ سکتا تھا جس کا یہ کام ہے ۔ مجھے افسوس ہے کہ اُس شخص کے دفتر میں لانے میں ایڈیٹر صاحب الفضل تنویر کا دخل ہے اور ان کی اپنی حیثیت بھی مشکوک ہو جاتی ہے۔ گو ابھی میں ان پر شبہ نہیں کرتا کیونکہ فی الحال اس شخص کا یقینی پتہ لگ گیا ہے جو یہ کام کر رہا ہے۔ مہربانی کر کے وہ دوست جو الفضل کے خریدار ہیں اور جن کا کبھی کوئی تعلق پیغامیوں سے نہیں رہا لیکن اُن کو میاں محمد صاحب کی چٹھی پہنچی ہے یا جن کو منافقوں کے متعلق مضامین نہیں ملے یا دیر سے ملے ہیں وہ تفصیل سے سارے حالات مجھے لکھیں تا کہ اصل مجرم کے پکڑنے میں اَور زیادہ آسانی ہو جائے۔
مرزا محمود احمد ’’
(الفضل10؍اکتوبر1956ء)
(28) ضروری اعلان
‘‘ راجہ علی محمد صاحب نے ایک دفعہ مجھے لکھا تھا کہ میرے پسر رازی میں کوئی سلسلہ سے انحراف کی بُو نہیں پائی جاتی۔ مگر میں ان کی اطلاع کے لئے شائع کرتا ہوں کہ بشیر رازی کی اپنی تحریر کی رو سے جو میرے پاس موجود ہے بشیر رازی اب احمدیہ جماعت میں نہیں ہے۔ اس نے مجھے لکھا:۔
‘‘میں آپ کی خلافت سے بتمام انشراح صدر عدم وابستگی کا اعلان کرتا ہوں۔’’
ڈسکہ اور لاہور کی جماعتیں جہاں وہ رہتا ہے اور گجرات کی جماعت جہاں کا وہ باشندہ ہے اور راجہ علی محمد صاحب جن کا وہ بیٹا ہے اور ملک عبد الرحمٰن صاحب خادم جن کا وہ رشتہ دار ہے مطلع رہیں کہ بشیر رازی اپنے بیان کے مطابق احمدیہ جماعت کے افراد میں سے آئندہ نہیں ہے ۔ ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے کہ ایسے آدمی کو نکالنے کی ہمیں ضرورت پیش نہیں آئی وہ خود ہی نکل گیا۔ آئندہ رازی اور اُس کے دوستوں کو غلام رسول نمبر35 یا منان کی جماعت میں داخل ہونا مبارک ہو یا خدا کی تقدیر کے مطابق نامبارک ہو۔’’
(الفضل18؍اکتوبر1956ء)
(29) ایک اہم مکتوب بنام شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور
‘‘ مکرمی شیخ صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ
آپ کو میرا خط مل گیا ہو گا کہ آپ کو منان سے ملنے کی اجازت ہے۔ اب میں ایک غلط فہمی دور کر دینا چاہتا ہوں۔ چونکہ منان صاحب ایک مہینہ سے زائد ہوا کہ امریکہ سے واپس آ چکے ہیں اور اِس عرصہ میں میاں بشیر احمد صاحب کیونکہ اُن کو لکھ چکے ہیں کہ کون کونسے امور کی صفائی اُن کے ذمہ ہے مگر باوجود اِس کے انہوں نے صفائی نہیں کی اور انجمن کے رجسٹرات اِس پر گواہ ہیں کہ وہ سلسلہ کے جس جس کام پر مقرر ہوئے ہیں اُس کی بہت سی رقوم ابھی تک قابلِ تشریح ہیں اور بہت سی رقوم پر میاں عبدالمنان کے دستخط اب تک موجود ہیں اور میاں غلام غوث صاحب جمونی اور چودھری انور حسین صاحب شیخوپورہ کی معیّن گواہیاں موجود ہیں کہ انہوں نے خلافت کی امیدواری کا اظہار کر دیا اور یہ کہا کہ خلیفہ ثانی، ناصر احمد کو اپنا ولی عہد بنا رہے ہیں۔ اِن حالات کے بعد وہ توبہ بھی کریں اور ہمیں اُن کی توبہ کے الفاظ سے اتفاق بھی ہو تو بھی اُنہیں اِس طرح ہرگز نہیں معاف کیا جا سکتا کہ آئندہ وہ کسی جماعت کے ممبر ہو سکیں یا جماعت کے کسی عہدہ پر فائز ہو سکیں۔ اِس وقت کہ عشاء کے بعد کا وقت ہے میجر عارف الزمان لاہور سے آئے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ میاں منان باقاعدہ مولوی صدر دین سے مل رہے ہیں اور ایک دن تو ملاقات رات کے دو بجے تک رہی اور لاہور کے کسی وکیل فضل علی غنی اور امیر احمد قدوائی سے قانونی مشورے لے رہیں ہیں۔ غالباً یہ امیر احمد قدوائی وہی ہے جس کی آپ نے ایک دفعہ میرے ساتھ دعوت کی تھی کیونکہ وہ بھی وکیل اور قدوائی کہلاتا تھا۔ یہ حالات میری اوپر کی رائے کو اَور بھی پکا کرتے ہیں۔ رجسٹرات اور میاں عبدالمنان کے دستخط ہمارے پاس موجود ہیں۔ شیخ محمد احمد صاحب گو آپ کے پائے کے وکیل تو نہیں مگر بڑے پائے کے وکیل ہیں انہوں نے سب کاغذات دیکھے ہیں اور یہ قطعی رائے دی ہے کہ گو بعض معاملات میں انجمن کے بعض افسروں کی سہل انگاری کی وجہ سے وہ فوجداری مقدمہ سے تو بچ گئے ہیں مگر رجسٹرات میں اُن کے اپنے دستخطوں سے اتنا مواد موجود ہے کہ دنیا کے سامنے اُن کی امانت کو مخدوش کرنے کے لیے کافی سے زیادہ ہے۔ بعض واقعات میں کل کے خط میں لکھ چکا ہوں۔ بہرحال میں نے آپ کو اِس لیے وقت پر اطلاع دے دی ہے تا کہ آپ غلطی سے کوئی PROPOSAL بنا کر نہ بھجوا دیں اور پھر اس کے ردّ کرنے کی وجہ سے آپ کی دل شکنی نہ ہو۔ بہرحال سلسلہ کے مفاد اور امانت اور دیانت کو حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد پر مقدم رکھا جائے گا اور صرف اِتنی رعایت اُن کے ساتھ ہو سکتی ہے کہ وہ دلیری کے ساتھ پیغامِ صلح کے افتراء کو ظاہر کریں اور اِسی طرح اپنے دوستوں اور غیر احمدی اخباروں کے افترا کو ۔ تو جماعت سے اخراج میں نرمی کر دی جائے۔ منان میں تو اتنا بھی ایمان نہیں پایا جاتا کہ وہ اجمیری کے اس جھوٹ کی تردید کرتا کہ میں نے کبھی وکلاء کے کمیشن مقرر کرنے کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ اس نے اس بات کا اظہار کیا کہ غلام رسول 35 جو میری خلافت کا پروپیگنڈا کر رہا ہے اس کو میں نے 1950ء، 1951ء میں سلسلہ کے روپے میں سے پچاس روپے دیئے تھے اور اِس طرح کچھ رقم اجمیری کو دی تھی اور اس کے لیے ناصر احمد کی دشمنی کی یہ وجہ ہے کہ ناصر احمد نے یہ ساری بے ضابطگیاں انجمن کے سامنے رکھی تھیں۔
مرزا محمود احمد
1956ء-10-19 ’’
(تاریخِ احمدیت جلد 19 صفحہ 119، 120)
(30)فیض الرحمن صاحب فیضی کے متعلق مشروط معافی کا اعلان
‘‘ ملک فیض الرحمن صاحب فیضی نے اپنے بھائی ملک عبد الرحمن صاحب خادم اور اپنے بہنوئی راجہ علی محمد صاحب کی موجودگی میں اپنے لئے معافی طلب کی اور خادم صاحب نے کہا کہ اِس دفعہ آپ معاف کر دیں، آئندہ ان کے خلاف کوئی شکایت نہیں پیدا ہو گی۔ اِس پر میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں انہیں مشروط معافی دے دوں گا اور وہ شرطیں یہ ہیں۔
1۔ وہ الفضل میں اپنے اُن رشتہ داروں سے براءت کا اظہار کریں جو مخالفت کر رہے ہیں جیسے ملک عزیز الرحمن اور بشیر رازی ۔
2۔ اِسی طرح اُن دوسرے لوگوں سے جو فتنہ پیدا کر رہے ہیں مگر معافی صرف اِس بات کی ہو گی کہ میں اپنے دل میں ان سے خفگی دور کر دوں گا اور آئندہ ان کو خادم صاحب اپنی والدہ صاحبہ، اپنی بڑی ہمشیرہ صاحبہ اور راجہ علی محمد صاحب سے نیز اپنے خسر اور ساس سے ملنے کی اجازت ہو گی۔ لیکن معافی کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ ان ریزولیوشنوں کو منسوخ کر دیا گیا ہے جو صدر انجمن احمدیہ لاہور، انجمن ربوہ اور دیگر جماعتوں نے پاس کئے ہیں۔ وہ سعد بن عبادہؓ کی طرح اگر ان کوتوفیق ملے احمدیہ مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن اپنے مذکورہ بالا رشتے داروں کے سوا عام احمدیوں سے ان کو میل جول کی اجازت نہیں ہو گی۔ سوائے اِس کے کہ ایک لمبے تجربہ کے بعد ریزولیوشنوں کا کوئی اَور حصہ بھی ان کے متعلق منسوخ کر دیا جائے۔ خادم صاحب نے مجھے کہا کہ شاید فیضی صاحب کے بھائیوں نے کوئی بات کہی ہو گی جس کے متعلق مرزا منظور احمد صاحب سمجھے کہ فیضی صاحب نے کہی ہو گی۔ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں مرزا منظور احمد صاحب اور طاہر احمد کے بیان کو سچا سمجھتا ہوں۔ اگر خادم صاحب کی اِس بات کو تسلیم کیا جائے کہ اُن کو غلط فہمی ہوئی ہے تو یہ اصول بھی آئندہ کے لئے تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر کوئی شہادت ایسی ملے جس میں شہادت دہندہ کسی ایک شخص کے متعلق خیال کرتا ہو کہ اُس نے سلسلہ کی ہتک کی ہے تو خادم صاحب کے اوپر کے استدلال کے مطابق خاندان کے دوسرے افراد کے متعلق بھی جو اس مجلس میں شامل ہوں یہ فیصلہ کیا جائے کہ وہ بھی اِس فتنہ میں شامل ہیں کیونکہ غلط فہمی دونوں طرف لگ سکتی ہے۔ کیونکہ جس طرح مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے متعلق یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ فلاں نہیں فلاں نے بات کی ہو گی۔اِ سی طرح یہ غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے کہ جس کے متعلق شبہ ہو کہ اُس نے بات کی ہے اُس نے نہیں باقیوں نے کی ہو گی۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء-10-29 ’’
(الفضل 31 /اکتوبر 1956ء)
(31) چودھری عبداللطیف صاحب کے متعلق مشروط معافی کا اعلان
‘‘آج مؤرخہ 20 نومبر 1956ء برادرم خان بہادر چودھری نعمت خان صاحب اپنے لڑکے چودھری عبداللطیف صاحب کے ساتھ ملنے کے لئے آئے اور فرمایا کہ وہ لڑکا پوری طرح توبہ کرنا چاہتا ہے اسے ملنے کا موقع دیا جائے۔ چنانچہ میں نے اُن کے سامنے اُن کے بیٹے چودھری عبداللطیف صاحب کو بلا لیا اور خان بہادر صاحب سے کہہ دیا کہ جہاں تک میری دلی رنجش دُور ہونے کا سوال ہے میں چودھری عبداللطیف کو اس شرط پر معاف کرنے کو تیار ہوں کہ آئندہ اس کے مکان واقع نسبت روڈ پر وہ فتنہ پرداز لوگ نہ آئیں جن کا نام اخبار میں چھپ چکا ہے۔ خان بہادر صاحب نے یقین دلایا کہ ایسا نہیں ہو گا اور چودھری عبد اللطیف نے بھی یقین دلایا کہ میں ذمہ لیتا ہوں کہ وہ آئندہ اس جگہ پر نہیں آئیں گے۔ اور میں نے اس کو کہہ دیا کہ جماعت لاہور اس کی نگرانی کرے گی اور اگر پھر اس نے ان لوگوں سے تعلق رکھا یا اپنے مکان پر آنے دیا جو درحقیقت خان بہادر چودھری نعمت خان صاحب کا مکان ہے تو پھر اس کی معافی کو منسوخ کر دیا جائے گا۔ اُس نے اِسے تسلیم کیا۔میں نے یہ بھی کہہ دیا کہ جماعت لاہور کا ریزولیوشن اس کے متعلق اُسی طرح قائم رہے گاجیسا کہ فیض الرحمٰن صاحب فیضی کے متعلق ہے۔ اِن سب باتوں کے بعد اُس نے مجھے یقین دلایا کہ آئندہ وہ نیک چلنی اور صحیح طریقہ اختیار کرے گا۔ نہ سلسلہ کے دشمنوں سے کسی قسم کے تعلقات رکھے گا اور نہ اپنے مکان پر جو کہ درحقیقت اُن کے والد کا مکان ہے اُن کو آنے دے گا۔ اس لئے یہ بات الفضل میں شائع کی جاتی ہے کہ میں نے چودھری عبداللطیف صاحب کو مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ معاف کر دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس کو اپنی توبہ پر قائم رہنے کی توفیق دے کہ اس کے والد نہایت مخلص ہیں اور نہایت تندہی سے سلسلہ کے کاموں میں اپنی پنشن سے پہلے بھی اور بعد میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں اپنی اولاد کی طرف سے ٹھنڈی کرے اور اولاد کو مخلص احمدی بننے کی توفیق دے۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
(خلیفۃ المسیح الثانی)
1956ء-11-20 ’’
(الفضل22 نومبر1956ء)
(32) مولوی مصباح الدین صاحب کے متعلق معافی کا اعلان
‘‘ مولوی مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلینڈ سے چند سال ہوئے ایک غلطی ہوئی تھی اور انہوں نے ایک خط میں چند نامناسب الفاظ لکھ دیئے تھے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ سب گناہوں کو معاف کرتا ہے اور اب وہ اپنی غلطی پر پشیمانی ظاہر کرتے ہیں اس لئے میں نے ان کو معاف کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کے اور ان کی اولادوں کے ایمانوں کو مضبوط کرے۔ چونکہ نظام سلسلہ کے خلاف موجودہ شرارت میں وہ شامل نہیں، گو ایک دفعہ جھوٹے طور پر ایک معاند اخبار نے ان کا نام لکھ دیا تھا اس لئے میں کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ ان کو معاف نہ کر دوں۔ آئندہ کا معاملہ خدا تعالیٰ کے سپرد ہے۔ ان کا ایک بیٹا سخت بیمار ہے اور موجودہ فتنہ کے موقع پر اُس نے ایک دفعہ بہت مومنانہ غیرت کا اظہار کیا تھا۔ دوست اس کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے شفا دے۔
مرزا محمود احمد
1956ء-11-22 ’’
(الفضل24 نومبر1956ء)
(33)مولوی عبد المنان کے متعلق اخراج از جماعت احمدیہ کا اعلان
‘‘ مولوی عبدالمنان جب امریکہ میں تھے تو اُن کے بعض ساتھیوں نے یہ کہا تھا کہ خلیفہ ثانی کی وفات کے بعد وہ خلیفہ ہوں گے۔ اور پھر ‘‘پیغام صلح’’ نے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی تائید شروع کر دی تھی۔ جس سے پتا لگتا تھا کہ پیغامیوں کے ساتھ ان کی پارٹی کا جوڑ ہے۔ اور‘‘پیغام صلح’’ نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا کہ گویا میں نے نعوذ باللہ حضرت خلیفہ اول کی ہتک کی ہے۔ میں نے مولوی عبدالمنان کے متعلق کوئی قدم اس لئے نہ اٹھایا کہ وہ باہر ہیں۔ جب وہ واپس آئیں اور ان کو اِن باتوں کی تردید کا موقع ملے۔ تو پھر ان کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ جب وہ واپس آئے تو انہوں نے ایک مبہم سا معافی نامہ لکھ کر بھجوا دیا۔ میں نے وہ میاں بشیر احمد صاحب کو دیا کہ وہ اس پر جرح کریں۔ مگر میاں بشیر احمد صاحب کے خطوں کے جواب سے انہوں نے گریز کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد ایک مضمون جو ظاہراً معافی نامہ تھا لیکن اس میں ‘‘پیغام صلح’’ کے اس الزام کی کوئی تردید نہیں تھی کہ خلیفہ ثانی یا جماعت احمدیہ نے حضرت خلیفہ اوّل کی گستاخی کی ہے۔ انہوں نے ‘‘پیغام صلح’’ میں شائع کرایا۔ یہ بیان ایسا تھا کہ جماعت کے بہت سے آدمیوں نے لکھا کہ اس بیان کا ہر فقرہ وہ ہے جس کے نیچے ہر پیغامی دستخط کر سکتا ہے۔ اس لئے اس بیان کو جماعت نے قبول نہ کیا۔
اِس دوران میں چودھری محمد حسین چیمہ ایڈووکیٹ نے ایک مضمون ‘‘پیغام صلح’’ میں لکھا جس میں یہ بھی لکھا گیا کہ مرزا محمود کی خلافت کی مخالفت کرنے والوں کو دلیری اور استقلال سے ان کا مقابلہ کرنا چاہیئے اور ڈرنا نہیں چاہیئے۔ ہمارا روپیہ اور ہماری تنظیم اور ہماری سٹیج ان کی تائید میں ہے۔ مولوی عبدالمنان اور مولوی عبدالوہاب نے اس مضمون کی بھی جو جماعت احمدیہ کی سخت ہتک کرنے والا تھا کوئی تردید نہ کی۔ اس کے بعد مولوی عبدالمنان نے بجائے اس کے کہ تمام ضروری تردیدوں کے ساتھ معافی نامہ میرے پاس بھیجتے ایک بظاہر معافی نامہ لیکن درحقیقت اقرارِ جُرم سلسلہ احمدیہ کے شدید مخالف روزنامہ ‘‘کوہستان’’ میں چھپوا دیا۔ جس کا ہیڈنگ یہ تھا کہ ‘‘قادیانی خلافت سے دستبرداری’’ یہ دوسرے لفظوں میں اقرار تھا اِس بات کا کہ عبدالمنان صاحب ‘‘قادیانی خلافت’’ کے امیدوار ہیں کیونکہ جو شخص امیدوار نہیں وہ دستبردار کس طرح ہو سکتا ہے۔ مگر بہر حال یہ مضمون جیسا بھی تھا میرے پاس نہیں بھیجا گیا بلکہ ‘‘کوہستان’’ میں چھپوایا گیا۔ اور ایک دفعہ نہیں دو دفعہ۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے کے لئے ایک تدبیر نکالی جا رہی ہے۔ پس میں مولوی عبدالمنان کو اِس وجہ سے کہ وجہِ شکوہ مجھے پیدا ہوئی تھی لیکن انہوں نے اس کے جواب میں ایک ملمع سازی کا مضمون ‘‘کوہستان’’ میں چھپوا دیا جو احمدیت کا دشمن ہے اور میرے پاس صحیح طور پر کوئی معافی نامہ نہیں بھجوایا، پس میں مولوی عبدالمنان کوجو یا تو اپنا مضمون ‘‘پیغام صلح’’ میں چھپواتے ہیں جو جماعتِ مبایعین کا سخت دشمن اخبار ہے یا ‘‘کوہستان’’ میں چھپواتے ہیں جو سلسلہ احمدیہ کا شدید دشمن ہے۔ اور پھر چودھری محمد حسین چیمہ کے شدید دلآزار مضمون کی تردید نہیں کرتے اور اپنی خاموشی سے اُس کی اِس دعوت کو منظور کرتے ہیں کہ شاباش! خلافت ثانیہ کی مخالفت کرتے رہو، ہمارا روپیہ اور ہمارا پلیٹ فارم اور ہماری تنظیم تمہارے ساتھ ہے۔ تم خلافتِ محمودیہ کی مخالفت کرتے رہو اور اس کے پردے چاک کر دو۔ جماعت احمدیہ سے خارج کرتا ہوں۔ اِسی طرح مذکورہ بالا الزامات کی بناء پر میاں عبدالوہاب کو بھی۔ پس آج سے وہ جماعت احمدیہ کا حصہ نہیں ہیں اور اس سے خارج ہیں۔
مجھے کچھ عرصہ سے برابر جماعت کے خطوط موصول ہو رہے تھے کہ یہ لوگ جب جماعت سے عملاً خارج ہو رہے ہیں تو ان کو جماعت سے خارج کرنے کا اعلان کیوں نہیں کیا جاتا؟ مگر میں پہلے اس لئے رُکا رہا کہ شاید وہ صحیح طور پر معافی مانگ لیں اور الزاموں کا ازالہ کر دیں۔ مگر ان لوگوں نے نہ مجھ سے معافی مانگی نہ ان الزامات کا ازالہ کیا جو ان پر لگائے گئے تھے۔ پس اب میں زیادہ انتظار کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا اور مولوی عبدالمنان اور میاں عبدالوہاب دونوں کو جماعت احمدیہ سے خارج کرتا ہوں۔
تمام جماعتیں اِس بات کو نوٹ کر لیں۔ اگر وہ صحیح طور پر براہ راست مجھ سے رجسٹری باخد رسید معافی طلب کریں گے نہ کہ کسی پیغامی یا غیر احمدی اخبار میں مضمون چھپوا کر، تو اِس پر غور کیا جائے گا۔ سر ِدست ان کو جماعت سے خارج کیا جاتا ہے۔ بعض اَور لوگ بھی ان کے ہمنوا ہیں مگر ان کے متعلق مجھے اعلان کرنے کی ضرورت نہیں۔ امور عامہ ان کے متعلق ساری باتوں پر غورکر رہا ہے۔ وہ جب کسی نتیجہ پر پہنچے گا خود اعلان کر دے گا۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفة المسیح الثانی
1956ء-11-27 ’’
(الفضل 29 نومبر 1956ء)
1 سیرت ابن ہشام جلد اوّل صفحہ 675۔ بقیۃ الطریق الی بدر۔ دمشق 2005ء (مفہوماً)
2 تذکرہ صفحہ 109 تا 111 ایڈیشن چہارم 2004ء
3 تذکرہ صفحہ 111 ایڈیشن چہارم 2004ء
4 تذکرہ صفحہ 111 ایڈیشن چہارم 2004ء
5 تذکرہ صفحہ 111 ایڈیشن چہارم 2004ء
6 لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ(الغاشیۃ:23)
7 الانعام:12
8 یونس:17
9 تذکرہ صفحہ 507 ایڈیشن چہارم 2004ء (دَوْحَۃَ اِسْمَاعِیْل)
10 پیدائش باب 12 آیت 16
11 زٹیل: نکمّا، جو کسی کام نہ آ سکے، گھٹیا (اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 11 صفحہ 56 کراچی 1990ء)
12 السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 306۔ مصر 1935ء زیر عنوان غزوۃ بنی المصطلق۔
13 صحیح البخاری کتاب المطاقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔ (مفہوماً)
14 تذکرہ صفحہ 673 ایڈیشن چہارم 2004ء
15 تذکرہ صفحہ 282ایڈیشن چہارم 2004ء میں ‘‘آسمان سے کئی تخت اترے مگر سب سے اونچا تیرا تخت بچھایا گیا۔’’ کے الفاظ ہیں۔
16 هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ....... (الجمعۃ:3، 4)
17 تذکرہ صفحہ 63 ایڈیشن چہارم 2004ء
18 تذکرہ صفحہ 80 ایڈیشن چہارم 2004ء میں ‘‘……… سچائی ظاہر کر دے گا’’ کے الفاظ ہیں۔
19 صحیح البخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال۔ میں تمام انبیاء کے کانے دجّال سے ڈرانے کا ذکرہے۔
20 درثمین اُردو صفحہ 37 ۔ زیر عنوان ‘‘محمود کی آمین’’۔
21 درثمین اُردو صفحہ 36، 37 ۔ زیر عنوان ‘‘محمود کی آمین’’۔
22 الحجرات :7
23 تاریخ ابن اثیر جلد 3 صفحہ 165 ۔ مطبوعہ بیروت 1987ء
24 تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 157۔ بیروت لبنان 2012ء (مفہوماً)
25 اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْۤا (الحجرات:7)
26 کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن 2008ء
27 حضور کی ہدایت کی تعمیل میں ایڈیٹر الفضل کی طرف سے الفضل 22 ستمبر 1956ء صفحہ 8 پر معذرت شائع کی گئی کہ ‘‘ہم تمام متعلقہ اخبارات سے اظہارِ افسوس کرتے ہیں اور خلوصِ دل سے معذرت خواہ ہیں’’۔
28 الشعراء :228
مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے
سالانہ اجتماع 1956ءمیں خطابات
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ایمان شیشہ سے بھی زیادہ نازک چیز ہے۔ تمہیں اس کی حفاظت کے لئے اپنے اندر ایمانی غیرت پیدا کرنی چاہیئے
افتتاحی خطاب
(فرمودہ 19/اکتوبر 1956ء بمقام ربوہ)
سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:-
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا١ؕ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ١ۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ١ۖۚ وَ مَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُ١ؕ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ۔1
ا س کے بعد فرمایا:-
‘‘ قرآن کریم کی یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اس دَور کے متعلق جو آجکل ہم پر گزر رہا ہے اﷲ تعالیٰ نے ایک ایسی تعلیم دی ہے جو ہماری جماعت کو ہروقت مدّنظر رکھنی چاہئے۔ بے شک ہماری جماعت کے دوستوں نے موجودہ فتنہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اپنے عہدِ وفا داری کو تازہ کیا ہے اور ہر جگہ کی جماعت نے وفاداری کا عہد مجھے بھجوایا ہے مگر قرآن کریم کی اس آیت میں وفاداری کے عہد کے علاوہ کچھ اَور باتیں بھی بیان کی گئی ہیں یا یوں کہو کہ وفاداری کی صحیح تعریف بیان کی گئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خالی منہ سے کہہ دینا کہ مَیں وفادارہوں کافی نہیں بلکہ اس مثبت کے مقابلہ میں ایک منفی کی بھی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ اے مومنو! اگر تمہاری وفاداری کا عہد سچا ہے تو تمہیں جس طرح وفاداری کرنی ہو گی اسی طرح ایک بات نہیں بھی کرنی ہو گی۔ جب تک یہ کرنا اور نہ کرنا دونوں جمع نہ ہو جائیں تم مومن نہیں ہو سکتے۔ کرنا تو یہ ہے کہ تم نے وفادار رہنا ہے لیکن اس کی علامت ایک نہ کرنے والا کام ہے۔ خالی منہ سے کہہ دینا کہ میں وفادار ہوں کوئی چیز نہیں۔ اگر تم واقع میں وفادار ہو تو تمہیں ایک اَور کام بھی کرنا ہو گا یا یوں کہو کہ تمہیں ایک کام سے بچنا پڑے گا اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ تمہارے ہم خیال نہیں وہ تم سے الگ ہیں ان سے تمہیں مخفی تعلق اور دوستی ترک کرنی پڑے گی۔ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا اگر تم ہماری یہ بات نہیں مانو گے تو وہ تمہارے اندر فتنہ اور فساد پیدا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے اور تمہارے وفاداری کے عہد خاک میں مل جائیں گے۔ تمہارا عزم اور تمہارا دعوٰی مٹی میں مل جائے گا اور وہ کچھ بھی نہیں رہے گا جب تک کہ تم ہماری اس ہدایت کو نہیں مانو گے۔ یعنی وہ لوگ جو تم سے الگ ہیں اور تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرتے ہیں تم ان سے قطعی طور پر کسی قسم کی دوستی اور تعلق نہ رکھو۔
ایک شخص جو میرا نام نہاد رشتہ دار کہلاتا ہے وہ یہاں آیا اور ایک منافق کو ملنے گیا۔ جب اس کو ایک افسر سلسلہ نے توجہ دلائی کہ وہ ایک منافق سے ملنے گیا تھا تو اس نے کہا کہ صدرانجمن احمدیہ نے کب حکم دیا تھا کہ اس شخص سے نہ ملا جائے۔ اس افسر نے کہا کہ تم یہ بتاؤ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو کس نے حکم دیا تھا کہ پنڈت لیکھرام کے سلام کا جواب نہ دیا جائے؟ اگر تمہارے لئے کسی حکم کی ضرورت تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پنڈت لیکھرام کے سلام کا جواب نہ دینے اور اپنا منہ پرے کر لینے کا کس نے حکم دیا تھا؟ جو محرک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دماغ میں پیدا ہوا تھا وہ تمہارے اندر کیوں نہ پیدا ہوا۔ چونکہ اس شخص کے اندر منافقت گھُسی ہوئی تھی اس لئے اس نے جواب میں کہا کہ یہ کس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شخص لیکھرام کے مقام تک پہنچ گیا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم نے صرف اتنا کہا ہے کہ لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ یہ نہیں کہا کہ لَاتَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِنْ لیکھرام وَ مِثْلِہٖ کہ تم لیکھرام اور اس جیسے لوگوں سے نہ ملو بلکہ فرمایا ہے کہ جو لوگ اپنے عمل سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ تمہارے ساتھ نہیں چاہے وہ لیکھرام کے مقام تک پہنچے ہوں یا نہ پہنچے ہوں تم ان سے بِطَانَۃً یعنی دوستی اور مخفی تعلق نہ رکھو۔ وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ میں نے تو اس شخص کے ساتھ دوستی نہیں کی مگر بِطَانَۃً کے معنے صرف دوستی کے نہیں بلکہ مخفی تعلق کے بھی ہیں اور وہ شخص اس منافق سے چوری چھپے ملا تھا۔ اب اس کے قول کے مطابق اس کی اس منافق سے دوستی ہو یا نہ ہو یہ بات تو ظاہر ہو گئی کہ اس نے اس سے مخفی تعلق رکھا۔ پھر جب اسے سمجھایا گیا تو اس نے بہانہ بنایا اور کہا کہ اس منافق کو لیکھرام کا درجہ کس نے دیا ہے۔ اسے یہ خیال نہ آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پنڈت لیکھرام کو سلام کا جواب نہ دیتے وقت جس آیت پر عمل کیا تھا وہ یہی آیت تھی جو میں نے تلاوت کی ہے۔ اس میں لیکھرام یا اس جیسے لوگوں کا ذکر نہیں بلکہ صرف یہ ذکر ہے کہ ایسے لوگ جو تمہارے اندر اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہیں تم ان سے کوئی تعلق نہ رکھو۔
پس یا تو اسے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ جس شخص سے وہ ملا تھا وہ جماعت کے اندر اختلاف اور فساد پیدا کرنے والا نہیں۔ اور اگر اس شخص نے واقع میں جماعت کے اندر اختلاف اور فساد پیدا کیا ہے تو اس کا یہ کہنا کہ اسے لیکھرام کا درجہ کس نے دیا ہےاس بات کی دلیل ہے کہ وہ خود احمدیت پر ایسا ایمان نہیں رکھتا۔ بہر حال قرآن کریم میں خداتعالیٰ نے وفاداری کے عہد کی ایک علامت بتائی ہے اور اس علامت کے پورا کئے بغیر وفاداری کے عہد کی کوئی قیمت نہیں۔ تم ان جماعتوں سے آئے ہو جنہوں نے وفاداری کے عہد بھجوائے ہیں لیکن اگر تم اس عہد کے باوجود کسی منافق سے تعلق رکھتے ہو اور اس سے علیحدگی میں ملتے ہو تو وہ ‘‘بِطَانَۃً’’ کے پنجے میں آ جاتا ہے کیونکہ وہ منافق اور اس کی پارٹی کے لوگ جماعت میں فتنہ اور فساد پیدا کرتے ہیں۔ اگر تم ان سے مخفی طور پر تعلق رکھتے ہو تو تمہارا عہدِ وفاداری اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتا جتنی حیثیت گدھے کا پاخانہ رکھتا ہے۔گدھے کے پاخانہ کی تو کوئی قیمت ہو سکتی ہے کیونکہ وہ روڑی کے طور پر کام آ سکتا ہے لیکن تمہارا عہدِ وفاداری خدا تعالیٰ کے نزدیک روڑی کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتا اور وہ اسے قبول نہیں کرے گا۔
پس یاد رکھو کہ ایمان شیشہ سے بھی زیادہ نازک چیز ہے اور اس کی حفاظت کے لئے غیرت کی ضرورت ہے۔ جس شخص کے اندر ایمانی غیرت نہیں وہ منہ سے بے شک کہتا رہے کہ میں وفادار ہوں لیکن اس کے اس عہدِ وفاداری کی کوئی قیمت نہیں۔ مثلاً اِس وقت تمہارے اندر ایک شخص بیٹھا ہوا ہے وہ سمجھتا ہے کہ ہمیں اس کی منافقت کا پتہ نہیں۔ وہ ہمیشہ مجھے لکھا کرتا ہے کہ آپ مجھ سے کیوں خفا ہیں۔ میں نے تو کوئی قابلِ اعتراض فعل نہیں کیا۔ حالانکہ ہم نے اس کا ایک خط پکڑا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ خلیفہ جماعت کا لاکھوں روپیہ کھا گیا ہے اور لاکھوں روپیہ اس نے اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کو کھلایا ہے ۔۔۔۔اس نے سمجھا کہ میرے خط کو کون پہچانے گا۔ اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ آجکل ایسی ایجادیں نکل آئی ہیں کہ بغیر نام کے خطوط بھی پہچانے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ ایک ماہر جو یورپ سے تحریر پہچاننے کی بڑی اعلیٰ درجہ کی تعلیم حاصل کر کے آیا ہے ہم نے وہ خط اسے بھیج دیا اور چونکہ ہمیں شبہ تھا کہ اس تحریر کا لکھنے والا وہی شخص ہے اس لئے ایک تحریر اسے بغیر بتائے اس سے لکھوالی اور وہ بھی اس خط کے ساتھ بھیج دی۔ اس نے علومِ جدیدہ کے مطابق خط پہچاننے کی پینتیس جگہیں بتائی ہیں جو ماہرین نے بڑا غور کرنے کے بعد نکالی ہیں اور انہوں نے بتایا ہے کہ لکھنے والا خواہ کتنی کوشش کرے کہ اس کا خط بدل جائے یہ پینتیس جگہیں نہیں بدلتیں۔ چنانچہ اس نے دونوں تحریروں کو ملا کر دیکھا اور کہا کہ لکھنے والے کی تحریر میں پینتیس کی پینتیس دلیلیں موجود ہیں اس لئے یہ دونوں تحریریں سو فیصدی ایک ہی شخص کی لکھی ہوئی ہیں اور وہ شخص بار بار مجھے لکھتا ہے کہ آپ خواہ مخواہ مجھ سے ناراض ہیں۔ میں نے کیا قصور کیا ہے؟ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ اس بے وقوف کو کیا پتہ ہے کہ اس کی دونوں تحریریں ہم نے ایک ماہرِفن کو دکھائی ہیں اور ماہرِ فن نے بڑے غور کے بعد جن پینتیس جگہوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ کبھی نہیں بدلتیں وہ اس کی تحریر میں نہیں بدلیں وہ شخص غالباً اب بھی یہاں بیٹھا ہو گا اور غالباً کل یا پرسوں مجھے پھر لکھے گا کہ میں تو بڑا وفادار ہوں آپ خواہ مخواہ مجھ پر بدظنی کررہے ہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا حالانکہ اس نے ایک بے نام خط لکھا اور وہ خط جب ماہرِ فن کو دکھایا گیا اور اس کی ایک اور تحریر اس کے ساتھ بھیجی گئی جو اس سے لکھوائی گئی تھی تو اس ماہرِ فن نے کہا کہ یہ دونوں تحریریں اسی شخص کی ہیں۔ پس خالی عہد کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک کہ اس کے ساتھ انسان ان باتوں کو بھی مدنظر نہ رکھے جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وہ نہ کی جائیں۔
عبد المنان کو ہی دیکھ لو جب وہ امریکہ سے واپس آیا تو میں نے مری میں خطبہ پڑھا اور اس میں مَیں نے وضاحت کر دی کہ اتنے امور ہیں وہ ان کی صفائی کر دے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ وہ یہاں تین ہفتے بیٹھا رہا لیکن اس کو اپنی صفائی پیش کرنے کی توفیق نہ ملی۔ صرف اتنا لکھ دیا کہ میں تو آپ کا وفادار ہوں۔ ہم نے کہا ہم نے تجھ سے وفاداری کا عہد کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ہمیں معلوم ہے کہ پیغامی تمہارے باپ کو غاصب کا خطاب دیتے تھے۔ وہ انہیں جماعت کا مال کھانے والا اور حرام خور قرار دیتے تھے تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ میں ان پیغامیوں کو جانتا ہوں یہ میرے باپ کو گالیاں دیتے تھے یہ آپ کو غاصب اور منافق کہتے تھے۔ میں ان کو قطعی اور یقینی طور پر باطل پر سمجھتا ہوں۔ مگر اس بات کا اعلان کرنے کی اسے توفیق نہ ملی۔ پھر اس نے لکھا کہ میں تو خلافتِ حقہ کا قائل ہوں۔ اسے یہ جواب دیا گیا کہ اس کے تو پیغامی بھی قائل ہیں۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ ہم خلافتِ حقہ کے قائل ہیں لیکن ان کے نزدیک خلافتِ حقہ اُس نبی کے بعد ہوتی ہے جو بادشاہ بھی ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ بادشاہ بھی تھے اس لئے ان کے نزدیک آپ کے بعد خلافتِ حقہ جاری ہوئی اور حضرت ابوبکرؓ ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ خلیفہ ہوئے لیکن مرزا صاحب چونکہ بادشاہ نہیں تھے اس لئے آپ کے بعد وہ خلافت تسلیم نہیں کرتے۔ پس یہ بات تو پیغامی بھی کہتے ہیں کہ وہ خلافتِ حقہ کے قائل ہیں۔ تم اگر واقعی جماعت احمدیہ میں خلافتِ حقہ کے قائل ہو تو پھر یہ کیوں نہیں لکھتے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے بعد خلافت کو تسلیم کرتا ہوں اور جو آپ کے بعد خلافت کے قائل نہیں انہیں *** سمجھتا ہوں۔ پھر تم یہ کیوں نہیں لکھتے کہ خلافتِ حقہ صرف اسی نبی کے بعد نہیں ہے جسے نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی مل جائے بلکہ اگر کوئی نبی غیربادشاہ ہو تب بھی اس کے بعد خلافتِ حقہ قائم ہوتی ہے۔ تمہارا صرف یہ لکھنا کہ میں خلافتِ حقہ کا قائل ہوں ہمارے مطالبہ کو پورا نہیں کرتا ممکن ہے۔ تمہاری مراد خلافتِ حقہ سے یہ ہو کہ جب میں خلیفہ بنوں گا تو میری خلافت خلافتِ حقہ ہو گی۔ یا خلافتِ حقہ سے تمہاری یہ مراد ہو کہ میں تو اپنے باپ حضرت خلیفة المسیح الاول کی خلافت کا قائل ہوں۔ یا تمہاری یہ مراد ہو کہ میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی خلافت کا قائل ہوں۔ بہر حال عبد المنان کو امریکہ سے واپس آنے کے بعد تین ہفتہ تک ان امور کی صفائی پیش کرنے کی توفیق نہ ملی اس کی وجہ یہی تھی کہ اگر وہ لکھ دیتا کہ پیغامی لوگ میرے باپ کو غاصب، منافق اور جماعت کا مال کھانے والے کہتے رہے ہیں، میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں تو پیغامی اس سےناراض ہو جاتے۔ اور اس نے یہ امیدیں لگائی ہوئی تھیں کہ وہ ان کی مدد سے خلیفہ بن جائے گا۔ اور اگر وہ لکھ دیتا کہ جن لوگوں نے خلافت ثانیہ کا انکار کیا ہے میں انہیں *** سمجھتا ہوں تو اس کے وہ دوست جو اس کی خلافت کا پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں اس سے قطع تعلق کر جاتے۔ اور وہ ان سے قطع تعلقی پسند نہیں کرتا تھا اس لئے اس نے ایسا جواب دیا جسے پیغام صلح نے بڑے شوق سے شائع کر دیا۔ اگر وہ بیان خلافت ثانیہ کی تائید میں ہوتا تو پیغام صلح اسے کیوں شائع کرتا۔ اس نے بھلا گزشتہ 42 سال میں کبھی میری تائید کی ہے؟ انہوں نے سمجھا کہ اس نے جو مضمون لکھا ہے وہ ہمارے ہی خیالات کا آئینہ دار ہے اس لئے اسے شائع کرنے میں کیا حرج ہے۔ چنانچہ جماعت کے بڑے لوگ جو سمجھدار ہیں وہ تو الگ رہے مجھے کالج کے ایک سٹوڈنٹ نے لکھا کہ پہلے تو ہم سمجھتے تھے کہ شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے لیکن ایک دن مَیں مسجد میں بیٹھا ہؤا تھا کہ مجھے پتہ لگا کہ پیغامِ صلح میں میاں عبدالمنان کا کوئی پیغام چھپا ہے تو میں نے ایک دوست سے کہا۔ میاں! ذرا ایک پرچہ لانا۔ چنانچہ وہ ایک پرچہ لے آیا۔ میں نے وہ بیان پڑھا اور اسے پڑھتے ہی کہا کہ کوئی پیغامی ایسا نہیں جو یہ بات نہ کہدے۔ یہ تردید تو نہیں اور نہ ہی میاں عبدالمنان نے یہ بیان شائع کر کے اپنی بریت کی ہے۔ اس پر ہر ایک پیغامی دستخط کر سکتا ہے کیونکہ اس کا ہر فقرہ پیچ دار طور پر لکھا ہؤا ہے اور اسے پڑھ کر ہر پیغامی اور خلافت کا مخالف یہ کہے گا کہ میرا بھی یہی خیال ہے۔
غرض قرآن کریم نے واضح کر دیا ہے کہ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا۔ اے مومنو! جو لوگ تمہارے اندر اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہیں تم ان سے خفیہ میل جول نہ رکھو۔ اب دیکھو یہاں دوستی کا ذکر نہیں بلکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے تم ان سے بِطَانَة نہ رکھو اور بِطَانَة کے معنے محض تعلق ہوتے ہیں۔اب اگر کوئی ان لوگوں کو گھر میں چھُپ کر مِل لے اور بعد میں کہدے کہ آپ نے یا صدر انجمن احمدیہ نے کب منع کیا تھا کہ انہیں نہیں ملنا تو یہ درست نہیں ہو گا۔ ہم کہیں گے کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے اندر بھی تو غیرت رکھی ہے پھر ہمارے منع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہیں خود اپنی غیرت کا اظہار کرنا چاہئے۔ اگر تم ہمارے منع کرنے کا انتظار کرتے ہو تو اس کے یہ معنے ہیں کہ تمہیں خود قرآن کریم پر عمل کرنے کا احساس نہیں۔
دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب لیکھرام نے سلام کیا تو آپ نے یہ نہیں کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دینے سے کب منع فرمایا ہے بلکہ آپ نے سمجھا کہ بے شک اس آیت میں لیکھرام کا ذکر نہیں لیکن خداتعالیٰ نے لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا تو فرما دیا ہے کہ تم ایسے لوگوں سے تعلق نہ رکھو جو تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ پس گو اس آیت میں لیکھرام کا ذکر نہیں لیکن اس کی صفات تو بیان کر دی گئی ہیں۔ انہی صفات سے میں نے اسے پہچان لیا ہے۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من انداز قدت را مے شناسم2
کہ اے شخص! تُو چاہے کس رنگ کا کپڑا پہن کر آ جائے میں کسی دھوکا میں نہیں آؤں گا کیونکہ میں تیرا قد پہچانتا ہوں۔ حضرت مرزا صاحب نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اے لیکھرام! تُو چاہے کوئی شکل بنا کر آ جائے۔ قرآن کریم نے تیری صفت بیان کر دی ہے اس لئے میں تجھے تیری صفت سے پہچانتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا کہ تمہارے دشمن وہ ہیں جو قوم میں فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اس لیے قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق میں نے تم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا۔ میں بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم نوجوان ہو اور آئندہ سلسلہ کا بوجھ تم پر پڑنے والا ہے تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہر چیز کی بعض علامتیں ہوتی ہیں اسلئے خالی منہ سے ایک لفظ دُہرا دینا کافی نہیں بلکہ ان علامات کو دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہی عجیب نکتہ بیان فرما دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آتاکہ ایک شخص ساری رات بیوی سے محبت کا اظہار کرتا ہے مگر دن چڑھے تو اس سے لڑنے لگ جاتا ہے3۔ اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بیان فرمایا ہے کہ اگر میاں کو اپنی بیوی سے واقعی محبت ہے تو وہ دن کے وقت اس سے کیوں محبت نہیں کرتا۔ اسی طرح جو شخص کسی جلسہ میں وفاداری کا اعلان کر دیتا ہے اور مخفی طور پر ان لوگوں سے ملتا ہے جو جماعت میں تفرقہ اور فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں تو یہ کوئی وفاداری نہیں۔ کیونکہ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ جو لوگ تمہارے ہم مذہب نہیں ان سے کوئی تعلق نہ رکھو غیر مذاہب والوں سے تعلق رکھنا منع نہیں ۔
حضرت ابن عباسؓ کے متعلق آتا ہے کہ آپ جب بازار سے گزرتے تو یہودیوں کو بھی سلام کرتے۔ اس لئے یہاں مِّنْ دُوْنِكُمْ کی یہ تشریح کی گئی ہے کہ تم ان لوگوں سے الگ رہو جو لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًاکے مصداق ہیں یعنی وہ تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی غیرمذاہب والا تمہارے اندر فتنہ اور فساد پیدا نہیں کرنا چاہتا تو وہ شخص مِّنْ دُوْنِكُمْ میں شامل نہیں۔ اگر تم اس سے مل لیتے ہو یا دوستانہ تعلق رکھتے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ایسا شخص جو تمہاری جماعت میں فتنہ اور فساد پیدا کرنا چاہتا ہے اس سے تعلق رکھنا خدا تعالیٰ نے ممنوع قرار دیا ہے۔
پھر آگے فرماتا ہے تم کہہ سکتے ہو کہ اس کی کیا دلیل ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْکچھ باتیں ان کے منہ سے نکل چکی ہیں۔ وَ مَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُان پر قیاس کر کے دیکھ لو کہ جو کچھ ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ کیا ہے۔ کہتے ہیں ایک چاول دیکھ کر ساری دیگ پہچانی جا سکتی ہے اسی طرح یہاں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً ایک منافق نے بقول اپنے بھائی کے کہا کہ خلیفہ اب بڈھا اور پاگل ہو گیا ہے اب انہیں دو تین معاون دے دینے چاہئیں۔ اور ہمیں جوشہادت ملی ہے اس کے مطابق اس نے کہا کہ اب خلیفہ کو معزول کر دینا چاہئے۔ اس فقرہ سے ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس کے پیچھے بغض کا ایک سمندر موجزن تھا۔ جس شخص کا اپنا باپ جب اُس نے بیعت کی تھی اس عمر سے زیادہ تھا جس عمر کو میں 42 سال کی خدمت کے بعد پہنچا ہوں۔ وہ اگر کہتا ہے کہ خلیفہ بڈھا ہو گیا ہے اسے اب معزول کر دینا چاہئے تو یہ شدید بغض کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے ورنہ اس کے منہ سے یہ فقرہ نہ نکلتا۔ شدید بغض انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اگر اس میں ذرا بھی عقل ہوتی تو وہ سمجھ سکتا تھا کہ میں یہ فقرہ منہ سے نکال کر اپنے باپ کو گالی دے رہا ہوں۔ جیسے انسان بعض اوقات غصہ میں آکر یا پاگل پن کی وجہ سے اپنے بیٹے کو حرام زادہ کہہ دیتا ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ وہ یہ لفظ کہہ کر اپنی بیوی کو اور اپنے آپ کو گالی دے رہا ہے۔ اسی طرح اس نوجوان کی عقل ماری گئی اور اس نے وہ بات کہی جس کی وجہ سے اس کے باپ پر حملہ ہوتا تھا۔ دنیا میں کوئی شخص جان بوجھ کر اپنے باپ کو گالی نہیں دیتا۔ ہاں بغض اور غصہ کی وجہ سے ایسا کر لیتا ہے اور یہ خیال نہیں کرتا کہ وہ اپنے باپ کو گالی دے رہا ہے۔ اس نوجوان کی مجھ سے کوئی لڑائی نہیں تھی اور نہ ہی میں اس کے سامنے موجود تھا کہ وہ غصّہ میں آکر یہ بات کہہ دیتا۔ ہاں اس کے دل میں بغض اتنا بڑھ گیا تھا کہ اس کی وجہ سے اس نے وہ بات کہی جس کی وجہ سے اس کے باپ پر بھی حملہ ہوتا تھا۔ قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْکہ ان کے منہ سے بُغض کی بعض باتیں نکلی ہیں ان سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ وَ مَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُجو کچھ ان کے سینوں میں ہے وہ اس سے بہت بڑا ہے۔ کیونکہ ہر انسان کوشش کرتا ہے کہ اس کے دل کے بغض کا علم کسی اور کو نہ ہو۔ اس لئے جو کچھ اس کے دل میں ہے وہ اس سے بہت بڑا ہے جو ظاہر ہو چکا ہے۔
غرض خداتعالیٰ نے اس آیت میں جماعتی نظام کی مضبوطی کے لئے ایک اہم نصیحت بیان فرمائی ہے تمہیں یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے اور اس کے مطابق اپنے طریق کو بدلنا چاہئے ورنہ احمدیت آئندہ تمہارے ہاتھوں میں محفوظ نہیں ہو سکتی۔ تم ایک بہادر سپاہی کی طرح بنو۔ایسا سپاہی جو اپنی جان، اپنا مال، اپنی عزت اور اپنے خون کا ہر قطرہ احمدیت اور خلافت کی خاطر قربان کر دے اور کبھی بھی خلافتِ احمدیہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے دے جو پیغامیوں یا احراریوں وغیرہ کے زیر اثر ہوں۔ جس طرح خداتعالیٰ نے بائیبل میں کہا تھا کہ سانپ کا سر ہمیشہ کُچلا جائے گا اسی طرح تمہیں بھی اپنی ساری عمر فتنہ وفساد کے سانپ کے سر پر ایڑی رکھنی ہو گی اور دنیا کے کسی گوشہ میں بھی اسے پنپنے کی اجازت نہیں دینی ہو گی۔ اگر تم ایسا کرو گے تو قرآن کریم کہتا ہے خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور خدا تعالیٰ سے زیادہ سچا اور کوئی نہیں۔ دیکھو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد جماعت کو کس قدر مدد دی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصوٰۃ والسلام کی زندگی میں جو آخری جلسہ سالانہ ہؤا اس میں چھ سات سو آدمی تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے عہد خلافت کے آخری جلسہ سالانہ پر گیارہ بارہ سو احمدی آئے تھے۔ لیکن اب ہمارے معمولی جلسوں پر بھی دو، اڑھائی ہزار احمدی آ جاتے ہیں اور جلسہ سالانہ پر تو ساٹھ ستّر ہزار لوگ آتے ہیں۔اس سے تم اندازہ کر لو کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنی طاقت دی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں لنگر خانہ پر پندرہ سو روپیہ ماہوار خرچ آجاتا تو آپ کو فکر پڑ جاتی اور فرماتے۔ لنگر خانہ کا خرچ اس قدر بڑھ گیا ہے اب اتنا روپیہ کہاں سے آئے گا۔ گویا جس شخص نے جماعت کی بنیاد رکھی تھی وہ کسی زمانہ میں پندرہ سو ماہوار کے اخراجات پر گھبراتا تھا۔لیکن اب تمہارا صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ بارہ تیرہ لاکھ کا ہوتا ہے اور صرف ضیافت پر پینتیس چھتیس ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہو جاتا ہے۔ پندرہ سو روپیہ ماہوار خرچ کے معنے یہ ہیں کہ سال میں صرف اٹھارہ ہزار روپیہ خرچ ہوتا تھا لیکن اب صرف جامعۃ المبشرین اور طلباء کے وظائف وغیرہ کے سالانہ اخراجات چھیاسٹھ ہزار روپے ہوتے ہیں۔ گویا ساڑھے پانچ ہزار روپیہ ماہوار۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا رکھتے ہیں۔ وہ مامور من اللہ تھے اور اس لئے آئے تھے کہ دنیا کو ہدایت کی طرف لائیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا کے کونہ کونہ میں قائم کریں اور مسلمانوں کی غفلتوں اور سُستیوں کو دور کر کے انہیں اسلامی رنگ میں رنگین کریں۔ لیکن ان کی زندگی میں جماعتی اخراجات پندرہ سو روپیہ پر پہنچتے ہیں تو گھبرا جاتے ہیں اور خیال فرماتے ہیں کہ یہ اخراجات کہاں سے مہیا ہوں گے۔ لیکن اِس وقت ہم جو آپکی جوتیاں جھاڑنے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں صرف ایک درسگاہ یعنی جامعۃ المبشرین پر ساڑھے پانچ ہزار روپے ماہوار خرچ کر رہے ہیں۔ اسی طرح مرکزی دفاتر اور بیرونی مشنوں کو ملا لیا جائے تو ماہوار خرچ ستّر اسّی ہزار روپیہ بن جاتا ہے۔ گویا آپ کے زمانہ میں جو خرچ پانچ سات سال میں ہوتا تھا وہ ہم ایک سال میں کرتے ہیں اور پھر بڑی آسانی سے کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ خلافت کی ہی برکت ہے کہ تبلیغِ اسلام کا وہ کام جو اس وقت دنیا میں اور کوئی جماعت نہیں کر رہی صرف جماعت احمدیہ کر رہی ہے ۔
مصر کا ایک اخبار الفتح ہے۔ وہ ہماری جماعت کا سخت مخالف ہے مگر اس نے ایک دفعہ لکھا کہ جماعتِ احمدیہ کو بے شک ہم اسلام کا دشمن خیال کرتے ہیں لیکن اِس وقت وہ تبلیغِ اسلام کا جو کام کر رہی ہے گزشتہ تیرہ سو سال میں وہ کام بڑے بڑے اسلامی بادشاہوں کو بھی کرنے کی توفیق نہیں ملی۔ جماعت کا یہ کارنامہ محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل اور تمہارے ایمانوں کی وجہ سے ہے۔ آپ کی پیشگوئیاں تھیں اور تمہارا ایمان تھا۔ جب یہ دونوں مل گئے تو خدا تعالیٰ کی برکتیں نازل ہونی شروع ہوئیں اور جماعت نے وہ کام کیا جس کی توفیق مخالف ترین اخبار الفتح کے قول کے مطابق کسی بڑے سے بڑے اسلامی بادشاہ کو بھی آج تک نہیں مل سکی۔ اب تم روزانہ پڑھتے ہو کہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھ رہی ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تم اور بھی ترقی کرو گے اور اُس وقت تمہارا چندہ بیس پچیس لاکھ سالانہ نہیں ہو گا بلکہ کروڑ، دو کروڑ، پانچ کروڑ، دس کروڑ، بیس کروڑ، پچاس کروڑ، ارب، کھرب، پدم بلکہ اس سے بھی بڑھ جائے گا۔ اور پھر تم دنیا کے چَپّہ چَپّہ میں اپنے مبلغ رکھ سکو گے۔ انفرادی لحاظ سے تُم اُس وقت بھی غریب ہو گے لیکن اپنے فرض کے ادا کرنے کی وجہ سے ایک قوم ہونے کے لحاظ سے تم امریکہ سے بھی زیادہ مالدار ہو گے۔ دنیا میں ہر جگہ تمہارے مبلغ ہوں گے۔ اور جتنے تمہارے مبلغ ہوں گے اتنے افسر دنیا کی کسی بڑی سے بڑی قوم کے بھی نہیں ہونگے۔ امریکہ کی فوج کے بھی اتنے افسر نہیں ہوں گے جتنے تمہارے مبلغ ہوں گے اور یہ محض تمہارے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ہو گا۔
اگر تم اپنے ایمان کو قائم رکھو گے تو تم اُس دن کو دیکھ لو گے۔ تمہارےباپ دادوں نے وہ دن دیکھا جب 1914ء میں پیغامیوں نے ہماری مخالفت کی۔ جب میں خلیفہ ہؤا تو خزانہ میں صرف 17 روپے تھے۔ انہوں نے خیال کیا کہ اب قادیان تباہ ہو جائے گا لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت دی کہ اب ہم اپنے کسی طالب علم کو سترہ روپے ماہوار وظیفہ بھی دیتے ہیں تو وہ وظیفہ کم ہونے کی شکایت کرتا ہے۔
پیغامیوں کے خلاف پہلا اشتہار شائع کرنے کے لئے میرے پاس روپیہ نہیں تھا۔ میر ناصر نواب صاحب جو ہمارے نانا تھے انہیں پتہ لگا۔ وہ دارالضعفاء کے لئے چندہ جمع کیا کرتے تھے۔ ان کے پاس اس چندہ کا کچھ روپیہ تھا۔ وہ دو اڑھائی سو روپیہ میرے پاس لے آئے اور کہنے لگے اس سے اشتہار چھاپ لیں پھر خدا دے گا تو یہ رقم واپس کر دیں۔ پھر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور آمد آنی شروع ہوئی۔ اور اب یہ حالت ہے کہ پچھلے بیس سال کی تحریک جدید میں تین لاکھ ستّر ہزار روپیہ چندہ میں نے دیا ہے۔ کجا یہ کہ ایک اشتہار شائع کرنے کے لئے میرے پاس دو اڑھائی سو روپیہ بھی نہیں تھا اور کجا یہ کہ خدا تعالیٰ نے میری اِس قسم کی امداد کی اور زمیندارہ میں اس قدر برکت دی کہ میں نے لاکھوں روپیہ بطور چندہ جماعت کو دیا۔
پھر مجھے یاد ہے کہ جب ہم نے پہلا پارہ شائع کرنا چاہا تو میرے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ ہمارے خاندان کے افراد اپنے روپیہ سے اسے شائع کر دیں لیکن روپیہ پاس نہیں تھا۔ اُس وقت تک ہماری زمینداری کا کوئی انتظام نہیں تھا۔میں نے اپنے مختار کو بلایا اور کہا ہم قرآن کریم چھپوانا چاہتے ہیں لیکن روپیہ پاس نہیں۔ وہ کہنے لگا آپ کو کس قدر روپے کی ضرورت ہے؟ میں نے کہا کہتے ہیں کہ پہلی جلد تین ہزار روپے میں چھپے گی۔ اس نے کہا میں روپیہ لا دیتا ہوں آپ صرف اس قدر اجازت دے دیں کہ میں کچھ زمین مکانوں کے لئے فروخت کر دوں۔ میں نے کہا اجازت ہے۔ ظہر کی نماز کے بعد میں نے اس سے بات کی اور عصر کی اذان ہوئی تو اس نے ایک پوٹلی میرے سامنے لا کر رکھ دی اور کہا یہ لیں روپیہ۔ میں نے کہا۔ ہیں! قادیان والوں کے ہاں اتنا روپیہ ہے۔ وہ کہنے لگا اگر آپ تیس ہزار روپیہ بھی چاہیں تو میں آپ کو لا دیتا ہوں۔ لوگ مکانات بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس زمین نہیں اگر انہیں زمین دے دی جائے تو روپیہ حاصل کرنا مشکل نہیں۔ میں نے کہا خیر اِس وقت ہمیں اسی قدر روپیہ کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اُس وقت ہم نے قرآن کریم کا پہلا پارہ شائع کر دیا۔
پھر میں نے الفضل جاری کیا تو اس وقت بھی میرے پاس روپیہ نہیں تھا۔ حکیم محمد عمر صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے میں آپ کو کچھ خریدار لا کر دیتا ہوں۔ اور تھوڑی دیر میں وہ ایک پوٹلی روپوں کی میرے پاس لے آئے۔ غرض ہم نے پیسوں سے کام شروع کیا اور آج ہمارا لاکھوں کا بجٹ ہے اور ہماری انجمن کی جائیداد کروڑوں کی ہے۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ میں خود گزشتہ بیس سال کی تحریک جدید میں تین لاکھ ستّر ہزار روپیہ چندہ دے چکا ہوں ۔ اسی طرح ایک لاکھ پچاس ہزار روپیہ میں نے صدرانجمن احمدیہ کو دیا ہے اور اتنی ہی جائیداد اسےدی ہے۔ گویا تین لاکھ روپیہ صدرانجمن احمدیہ کو دیا ہے اور تین لاکھ ستّر ہزار روپیہ تحریک جدید کو دیا ہے اس لئے جب کوئی شخص اعتراض کرتا ہے کہ میں نے جماعت کا روپیہ کھا لیا ہے تو مجھے غصّہ نہیں آتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حسابی بات ہے جب انجمن کے رجسٹر سامنے آجائیں گے تو یہ شخص آپ ہی ذلیل ہو جائے گا۔
بہر حال اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں آپ سب کو اپنی ذمّہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ ان کو یاد رکھو اور اپنی جگہوں پر واپس جا کر اپنے بھائیوں اور دوستوں کو بھی سمجھاؤ کہ زبانی طور پر وفاداری کا عہد کرنے کے کوئی معنی نہیں۔ اگر تم واقعی وفادار ہو تو تمہیں منافقوں کا مقابلہ کرنا چاہئے اور ان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا چاہئے۔ کیونکہ انہوں نے لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًاوالی بات پوری کر دی ہے اور وہ جماعت میں فتنہ اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کریم کی ہدایت یہی ہے کہ ان سے مخفی طور پر اور الگ ہو کر بات نہ کی جائے اور اس پر تمہیں عمل کرنا چاہئے تا کہ تم شیطانی حملوں سے محفوظ ہو جاؤ۔ ورنہ تم جانتے ہو کہ شیطان حضرت حوّا کی معرفت جنّت میں گھس گیا تھا اور جو شیطان حضرت حوّا کی معرفت جنت میں گھس گیا تھا وہ جماعت احمدیہ میں کیوں نہیں گھس سکتا۔ ہاں اگر تم کو حضرت آدم والا قصّہ یاد رہے تو تم اس سے بچ سکتے ہو۔ بائبل کھول کر پڑھو تمہیں معلوم ہو گا کہ شیطان نے دوست اور خیر خواہ بن کر ہی حضرت آدمؑ اور حوّا کو ورغلایا تھا۔ اِسی طرح یہ لوگ بھی دوست اور ظاہر میں خیر خواہ بن کر تمہیں خراب کر سکتے ہیں لیکن اگر تم قرآنی ہدایت پر عمل کرو تو تم محفوظ ہو جاؤ گے اور شیطان خواہ کسی بھیس میں بھی آئے تم اس کے قبضہ میں نہیں آؤ گے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو ہمیشہ خلافت کا خدمت گزار رکھے اور تمہارے ذریعہ احمدیہ خلافت قیامت تک محفوظ چلی جائے۔ اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت ہوتی رہے۔ اور تم اور تمہاری نسلیں قیامت تک اس کا جھنڈا اونچا رکھیں۔ اور کبھی بھی وہ وقت نہ آئے کہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں تمہارا یا تمہاری نسلوں کا حصہ نہ ہو۔ بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تمہارا اور تمہاری نسلوں کا اس میں حصہ ہو۔ اور جس طرح پہلے زمانہ میں خلافت کے دشمن ناکام ہوتے چلے آئے ہیں تم بھی جلدہی سالوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں ان کو ناکام ہوتا دیکھ لو ۔’’
اس کے بعد حضور نے عہد دہرایا اور دعا کروائی۔ دعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے ارشار فرمایا کہ :۔
‘‘واپس جانے سے پہلے میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت موجودہ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے میں نے جماعت کے فتنہ پردازوں کا ذکر کیا ہے لیکن اس موقع کے زیادہ مناسبِ حال آج کا خطبہ جمعہ تھا جس میں مَیں نے خدمتِ خلق پر زور دیا ہے۔ خدام الاحمدیہ نے پچھلے دنوں ایسا شاندار کام کیا تھا کہ بڑے بڑے مخالفوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان کی یہ خدمت بے نظیر ہے۔ تم اس خدمت کو جاری رکھو اور اپنی نیک شہرت کو مدہم نہ ہونے دو۔ جب بھی ملک اور قوم پر کوئی مصیبت آئے سب سے آگے خدمت کرنے والے خدام الاحمدیہ کو ہونا چاہئے۔ یہاں تک کہ سلسلہ کا شدید سے شدید دشمن بھی یہ مان لے کہ درحقیقت یہی لوگ ملک کے سچّے خادم ہیں، یہی لوگ غریبوں کے ہمدرد ہیں، یہی لوگ مسکینوں اور بیواؤں کے کام آنے والے ہیں۔ یہی لوگ مصیبت زدوں کی مصیبت کو دور کرنے والے ہیں۔ تم اتنی خدمت کرو کہ شدید سے شدید دشمن بھی تمہارا گہرا دوست بن جائے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ایسا سلوک کرو کہ تمہارا دشمن بھی دوست بن جائے۔ یہی خدام الاحمدیہ کو کرنا چاہئے۔ اگر تمہارے کاموں کی وجہ سے تمہارے علاقہ کے لوگ تمہارے بھی اورتمہارے احمدی بھائیوں کے بھی دوست بن گئے ہیں، تمہارے کاموں کی قدر کرنے لگ گئے ہیں اور تم کو اپنا سچا خادم سمجھتے ہیں اور اپنا مددگار سمجھتے ہیں تو تم سچے خادم ہو۔ اور اگر تم یہ روح پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو تمہیں ہمیشہ استغفار کرنا چاہئے کہ تمہارے کاموں میں کوئی کمی رہ گئی ہے جس کی وجہ سے تم لوگوں کے دلوں میں اثر پیدا نہیں کر سکے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اورآپ کی مدد کرے۔’’
(الفضل 24؍ اپریل 1957ء)
خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں جماعت احمدیہ کو
خلافت کی برکات سے نوازا ہے
اختتامی خطاب
(فرمودہ 21/اکتوبر 1956ء برموقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ مقام ربوہ)
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''اس دفعہ مختلف وجوہات کی بناء پر جماعت احمدیہ کی مختلف مرکزی انجمنوں نے قریب قریب عرصہ میں اپنے سالانہ اجتماع منعقد کئے ہیں جس کی وجہ سے مجھ پر زیادہ بوجھ پڑ گیا ہے۔ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات سے تین چار سال پہلے جلسہ سالانہ پر میں آپ کی تقاریر سنتا رہا ہوں آپ کی وفات کے وقت میری عمر19سال کی تھی اور اس سے چارپانچ سال قبل میری عمر قریباً14سال کی تھی اس لئے میں آپ کی مجالس میں جاتا اور تقاریر سنتا تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر عام طور پر پچاس منٹ یا ایک گھنٹہ کی ہوتی تھی اور وفات سے پانچ سال پہلے آپ کی عمر قریباً اتنی ہی تھی جتنی اِس وقت میری ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی کسی مشیّت کے ماتحت مجھ پر ایک خطرناک بیماری کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے میں اب لمبی تقاریر نہیں کرسکتا۔ پہلے میں جلسہ سالانہ کے موقع پر پانچ پانچ چھ چھ گھنٹہ کی تقاریر کرلیتا تھا مگر اس بیماری کے اثر کی وجہ سے مجھے جلدی ضعف محسوس ہونے لگتا ہے۔آج لجنہ اماء اللہ کا اجتماع بھی تھا وہاں بھی میں نے تقریر کی۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ کئی سال سے آپ کی عورتوں میں کوئی تقریر نہیں ہوئی اس لئے آپ اس موقع پر عورتوں میں بھی تقریر کریں۔ چنانچہ میں نے تقریر کرنی منظور کرلی اور صبح وہاں میری تقریر تھی۔اس وقت تمہاری باری آگئی ہے۔چار پانچ دن کے بعد انصار اللہ کی باری آجائے گی پھر جلسہ سالانہ آجائے گا۔اُس موقع پر بھی مجھے تقاریر کرنی ہوں گی۔ پھر ان کاموں کے علاوہ تفسیرکا اہم کام بھی ہے جو میں کر رہا ہوں۔اس کی وجہ سے نہ صرف مجھے کوفت محسوس ہورہی ہے بلکہ طبیعت پر بڑا بوجھ محسوس ہورہا ہے۔اس لئے اگرچہ میری خواہش تھی کہ اس موقع پر میں لمبی تقریر کروں مگر میں زیادہ لمبی تقریر نہیں کرسکتا۔اب پیشتر اِس کے کہ میں اپنی تقریرشروع کروں آپ سب کھڑے ہوجائیں تاکہ عہد دہرایا جائے۔’’
حضور کے اس ارشاد پر تمام خدام کھڑے ہوگئے اور حضور نے عہد دُہرایا۔ عہد دہرانے کے بعد حضور نے فرمایا:
‘‘ آج میں قرآن کریم کی ایک آیت کے متعلق کچھ زیادہ تفصیل سے بیان کرنا چاہتا تھا مگر اِس وقت میں محسوس کرتا ہو کہ میں اس تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کرسکتا کیونکہ کل میں نے خطبہ جمعہ بھی پڑھا اور پھر آپ کے اجتماع میں بھی تقریر کی ۔اسی طرح آج صبح لجنہ اماء اللہ کے اجتماع میں بھی مجھے تقریر کرنی پڑی جس کی وجہ سے مجھے اس وقت کوفت محسوس ہورہی ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ4 یعنی ہم تم میں سے مومن اور ایمان بِالخلافت رکھنے والوں اور اس کے مطابق عمل کرنے والوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ ان کو ہم ضرور اُسی طرح خلیفہ بنائیں گے جس طرح کہ پہلی قوموں یعنی یہود و نصاریٰ میں سے بنائے ہیں۔ اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ خلافت ایک عہد ہے پیشگوئی نہیں، اور عہد مشروط ہوتا ہے لیکن پیشگوئی کے لئے ضروری نہیں کہ وہ مشروط ہو۔پیشگوئی مشروط ہو تو وہ مشروط رہتی ہے اور اگر مشروط نہ ہو لیکن اس میں کسی انعام کا وعدہ ہو تو وہ ضرور پوری ہوجاتی ہے۔یہاں وعدہ کا لفظ بھی موجود ہے اوراس کے ساتھ شرط بھی مذکور ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم نے خود اس وعدہ کی تشریح کردی ہے کہ ہمارا یہ وعدہ کہ ہم تم میں سے مومنوں اور اعمالِ صالحہ بجالانے والوں کو اسی طرح خلیفہ بنائیں گے جیسے ہم نے ان سے پہلے یہود و نصاریٰ میں خلیفہ بنائے ضروری نہیں کہ پورا ہو۔ہاں اگر تم بعض باتوں پر عمل کروگے تو ہمارا یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا۔پہلی شرط اس کی یہ بیان فرماتا ہے کہ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ تمہیں خلافت پر ایمان رکھنا ہوگا۔ چونکہ آگے خلافت کا ذکر آتا ہے اس لئے یہاں ایمان کاتعلق اس سے سمجھا جائے گا۔وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ پھر تمہیں نیک اعمال بجا لانے ہوں گے۔اب کسی چیز پر ایمان لانے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اسے پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ مثلاً کسی شخص کو اس بات پر ایمان ہو کہ میں بادشاہ بننے والا ہوں یا اسے ایمان ہو کہ میں کسی بڑے عہدہ پر پہنچنے والا ہوں تو وہ اس کے لئے مناسب کوشش بھی کرتا ہے۔ اگرایک طالب علم یہ سمجھے کہ وہ ایم۔اے کا امتحان پاس کرے تو اس کے لئے موقع ہے کہ وہ سی۔پی۔ایس پاس کرے یا پراونشل سروس میں ای۔اے۔سی بن جائے یا اسسٹنٹ کمشنر بن جائے توپھر وہ ا سکے مطابق محنت بھی کرتا ہے۔ لیکن اگر اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ان عہدوں کے حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا تو وہ ان کے لئے کوشش اور محنت بھی نہیں کرتا۔اِسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو اس بات پر یقین ہو کہ وہ خلافت کے ذریعہ ہی ترقی کرسکتے ہیں اور پھر وہ اس کی شان کے مطابق کام بھی کریں تو ہمارا وعدہ ہے کہ ہم انہیں خلیفہ بنائیں گے۔ لیکن اگر انہیں یقین نہ ہو کہ ان کی ترقی خلافت کے ساتھ وابستہ ہے اور وہ اس کے مطابق عمل بھی نہ کرتے ہوں تو ہمارا ان سے کوئی وعدہ نہیں۔ چنانچہ دیکھ لو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت ہوئی اور پھر کیسی شاندار ہوئی۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓخلیفہ ہوئے۔اُس وقت انصار نے چاہا کہ ایک خلیفہ ہم میں سے ہو اور ایک خلیفہ مہاجرین میں سے ہو۔ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور بعض اور صحابہؓ فوراً اُس جگہ تشریف لے گئے جہاں انصارؓجمع تھے اور آپ نے انہیں بتایا کہ دیکھو!دو خلیفوں والی بات غلط ہے، تفرقہ سے اسلام ترقی نہیں کرے گا۔خلیفہ بہرحال ایک ہی ہوگا۔ اگر تم تفرقہ کروگے تو تمہارا شیرازہ بکھر جائے گا، تمہاری عزتیں ختم ہوجائیں گی اور عرب تمہیں تِکّا بوٹی کر ڈالیں گے تم یہ بات نہ کرو۔ بعض انصار نے آپ کے مقابل پر دلائل پیش کرنے شروع کئے۔حضرت عمرؓ فرماتے ہیں میں نے خیال کیا کہ حضرت ابوبکرؓ کو تو بولنا نہیں آتا میں انصار کے سامنے تقریر کرو گا۔لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے تقریر کی تو آپ نے وہ سارے دلائل بیان کردئیے جو میرے ذہن میں تھے اور پھر اس سے بھی زیادہ دلائل بیان کئے ۔میں نے یہ دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ آج یہ بڈھا مجھ سے بڑھ گیا ہے آخر اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ خود انصار میں سے بعض لوگ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا حضرت ابوبکرؓ جو کچھ فرمارہے ہیں وہ ٹھیک ہے مکہ والوں کے سوا عرب کسی اَو رکی اطاعت نہیں کریں گے۔پھر ایک انصاری نے جذباتی طور پر کہا اے میری قوم!ا للہ تعالیٰ نے اس ملک میں اپنا ایک رسول مبعوث فرمایا، اس کے اپنے رشتہ داروں نے اسے شہر سے نکال دیا تو ہم نے اُسے اپنے گھروں میں جگہ دی اور خداتعالیٰ نے اس کے طفیل ہمیں عزت دی۔ ہم مدینہ والے گمنام تھے، ذلیل تھے مگر اس رسول کی وجہ سے ہم معزز اور مشہور ہوگئے۔ اب تم اس چیز کو جس نے ہمیں معزز بنایا کافی سمجھو اور زیادہ لالچ نہ کرو ایسانہ ہو کہ ہمیں اس کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچے۔ اُس وقت حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ دیکھو! خلافت کو قائم کرنا ضروری ہے باقی تم جس کو چاہو خلیفہ بنالو مجھے خلیفہ بننے کی کوئی خواہش نہیں۔آپ نے فرمایا یہ ابوعبیدہؓ ہیں ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امین الامت کا خطاب عطا فرمایا ہے تم ان کی بیعت کرلو۔ پھر عمرؓ ہیں یہ اسلام کے لئے ایک ننگی تلوار ہیں تم ان کی بیعت کرلو۔حضرت عمرؓ نے فرمایا ابوبکرؓ! اب باتیں ختم کیجئے ہاتھ بڑھائیے اور ہماری بیت لیجئے۔حضرت ابوبکرؓ کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ نے جرأت پیدا کردی اور آپ نے بیعت لے لی۔
بعینہٖ یہی واقعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات کے بعد میرے ساتھ پیش آیا۔جب میں نے کہا میں اس قابل نہیں کہ خلیفہ بنوں نہ میری تعلیم ایسی ہے اور نہ تجربہ تو اُس وقت بارہ چودہ سَو احمدی جو جمع تھے انہوں نے شور مچا دیا کہ ہم آپ کے سوا او رکسی کی بیعت کرنا نہیں چاہتے۔ مجھے اُس وقت بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں تھے۔میں نے کہا مجھے تو بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں میں بیعت کیسے لوں۔ اس پر ایک دوست کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ مجھے بیعت کے الفاظ یاد ہیں میں بیعت کے الفاظ بولتا جاتا ہوں اور آپ دُہراتے جائیں۔ چنانچہ وہ دوست بیعت کے الفاظ بولتے گئے اور میں انہیں دُہراتا گیا اور اس طرح میں نے بیعت لی گویا پہلے دن کی بیعت دراصل کسی اَور کی تھی میں تو صرف بیعت کے الفاظ دُہراتا جاتا تھا بعد میں مَیں نے بیعت کے الفاظ یاد کئے۔ غرض اِس وقت وہی حال ہوا جو اُس وقت ہوا تھا جب حضرت ابوبکرؓ خلیفہ منتخب ہوئے تھے۔میں نے دیکھا کہ لوگ بیعت کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔مولوی محمد علی صاحب ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا دوستو! غور کرلو اور میری ایک بات سن لو۔ مجھے معلوم نہ ہوا کہ لوگوں نے انہیں کیا جواب دیا ہے کیونکہ اُس وقت بہت شور تھا بعد میں پتہ لگا کہ لوگوں نے انہیں کہا۔ہم آپ کی بات نہیں سنتے۔ چنانچہ وہ مجلس سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔اس کے بعد لوگ ہجوم کرکے بیعت کے لئے بڑھے اور ایک گھنٹہ کے اندر اندر جماعت کا شیرازہ قائم ہوگیا۔ اُس وقت جس طرح میرے ذہن میں خلافت کاکوئی خیال نہیں تھا۔اِسی طرح یہ بھی خیال نہیں تھا کہ خلافت کے ساتھ ساتھ کونسی مشکلات مجھ پر ٹوٹ پڑیں گی۔ بعد میں پتہ لگا کہ پانچ چھ سو روپے ماہوار تو سکول کے اساتذہ کی تنخواہ ہے اور پھر کئی سو کا قرضہ ہے لیکن خزانہ میں صرف17روپے ہیں۔ گویا اُس مجلس سے نکلنے کے بعد محسوس ہوا کہ ایک بڑی مشکل ہمارے سامنے ہے۔جماعت کے سارے مالدار تو دوسری پارٹی کے ساتھ چلے گئے ہیں اور جماعت کی کوئی آمدنی نہیں پھر یہ کام کیسے چلیں گے۔ لیکن بعد میں خدا تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش ہوئی تو بگڑی سنور گئی۔ 1914ء میں تو میرا یہ خیال تھا کہ خزانہ میں صرف17روپے ہیں اور اساتذہ کی تنخواہوں کے علاوہ کئی سو روپیہ کا قرضہ ہے جو دینا ہے۔لیکن1920ء میں جماعت کی یہ حالت تھی کہ جب میں نے اعلان کیا کہ ہم برلن میں مسجد بنائیں گے اس کیلئے ایک لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے توجماعتوں کی عورتوں نے ایک ماہ کے اندر اندر یہ روپیہ اکٹھا کردیا۔ انہوں نے اپنے زیور اتار اتار کردے دیئے کہ انہیں بیچ کر روپیہ اکٹھا کرلیا جائے۔آج میں نے عورتوں کے اجتماع میں اس واقعہ کا ذکر کیا تو میری بیوی نے بتایا کہ مجھے تو اُسوقت پورا ہوش نہیں تھامیں ابھی بچی تھی اور مجھے سلسلہ کی ضرورتوں کا احساس نہیں تھا لیکن میری اماں کہا کرتی ہیں کہ جب حضورنے چندہ کی تحریک کی تو میری ساس نے (جو سید ولی اللہ شاہ صاحب کی والدہ تھیں اور میری بھی ساس تھیں)اپنی تمام بیٹیوں اور بہوؤں کو اکٹھا کیا اور کہا تم سب اپنے زیور اِس جگہ رکھ دو۔ پھر انہوں نے ان زیورات کو بیچ کر مسجد برلن کے لئے چندہ دے دیا۔اِس قسم کا جماعت میں ایک ہی واقعہ نہیں بلکہ سینکڑوں گھروں میں ایسا ہوا کہ عورتوں نے اپنی بیٹیوں اور بہوؤں کے زیورات اتروا لئے اور انہیں فروخت کرکے مسجد برلن کے لئے دے دیا۔ غرض ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ جمع ہوگیا۔اب دوسال ہوئے میں نے ہالینڈ میں مسجد بنانے کی تحریک کی لیکن اب تک اس فنڈ میں صرف اسّی ہزار روپے جمع ہوئے ہیں حالانکہ اِس وقت جماعت کی عورتوں کی تعداد اُس وقت کی عورتوں سے بیسیوں گُنا زیادہ ہے۔اُس وقت عورتوں میں اتنا جوش تھا کہ انہوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ جمع کردیا۔ تو درحقیقت یہ جماعت کا ایمان ہی تھا جس کا اللہ تعالیٰ نے نمونہ دکھایا اور اُس نے بتایا کہ میں سلسلہ کو مدد دینے والا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ الہاماً فرمایا تھا کہ اگر ساری دنیا بھی تجھ سے منہ موڑے تو میں آسمان سے اُتار ہوسکتا ہوں اور زمین سے نکال سکتا ہوں۔ تو حقیقت یہ ہے کہ ہم نے خلافت حقہ کی برکات اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کی ہیں۔ہم ایک پیسہ کے بھی مالک نہیں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے جماعت دی، جس نے چندے دئے اور سلسلہ کے کام اب تک چلتے گئے اور چل رہے ہیں اور اب تو جماعت خداتعالیٰ کے فضل سے پہلے سے کئی گناہ زیادہ ہے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں نے دینی ضرورتوں کے لئے خدا تعالیٰ سے کہا کہ اے اللہ! تُو مجھے ایک لاکھ روپیہ دے دے تو سلسلے کے کاموں کو چلاؤں۔ لیکن اب کل ہی میں حساب کررہا تھا کہ میں نے خود چھ لاکھ ستّر ہزار روپیہ سلسلہ کو بطور چندہ دیا ہے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ میں کتنا بیوقوف تھا کہ خداتعالیٰ سے سلسلہ کی ضرورتوں کے لئے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا۔ مجھے تو اُس سے ایک ارب روپیہ مانگنا چاہئے تھا۔مانگنے والا خداتعالیٰ کا خلیفہ ہو اور جس سے مانگا جائے وہ خود خدا کی ذات ہو تو پھر ایک لاکھ روپیہ مانگنے کے کیا معنے ہیں۔مجھے تویہ دعا کرنی چاہئے تھی کہ اے خدا! تُو مجھے ایک ارب روپیہ دے، ایک کھرب روپیہ دے یاایک پدم روپیہ دے۔میں نے بتایا ہے کہ اگرچہ میں نے خداتعالیٰ سے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا لیکن خداتعالیٰ نے اتنا فضل کیا کہ صرف میں نے پچھلے سالوں میں چھ لاکھ ستّر ہزار روپیہ سلسلہ کو چندہ کے طور پر دیا ہے۔بے شک وہ روپیہ سارا نقدی کی صورت میں نہ تھا کچھ زمین تھی جو میں نے سلسلہ کو دی مگر وہ زمین بھی خدا تعالیٰ نے ہی دی تھی۔میرے پاس تو زمین نہیں تھی ہم تو اپنی ساری زمین قادیان چھوڑآئے تھے۔اپنے باغات او رمکانات بھی قادیان چھوڑ آئے تھے۔قادیان میں میری جائیداد کافی تھی مگر اس کے باوجودمیں نے سلسلہ کو اتناروپیہ نہیں دیا تھا جتنا قادیان سے نکلنے کے بعددیا۔
1947ء میں ہم قادیان سے آئے ہیں اور تحریک جدید1934ء میں شروع ہوئی تھی۔گویا اُس وقت تحریک جدید کو جاری ہوئے بارہ سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور اس بارہ سال کے عرصہ میں میرا تحریک جدید کا چندہ قریباً چھ ہزار روپیہ تھا لیکن بعد کے دس سال ملا کر چندہ تحریک جدیددو لاکھ بیس ہزار روپیہ بن جاتا ہے۔اس کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی زمین میں نے تحریک جدید کو دی ہے۔ یہ زمین مجھے چودھری ظفراللہ خان صاحب نے بطور نذرانہ دی تھی۔میں نے خیال کیا کہ اتنا بڑا نذرانہ اپنے پاس رکھنا درست نہیں چنانچہ میں نے وہ ساری زمین سلسلہ کو دے دی۔اس طرح تین لاکھ ستّر ہزار روپیہ میں نے صرف تحریک جدید کوادا کیا۔ اسی طرح خلافت جوبلی کے موقع پر چودھری ظفراللہ خاں صاحب کی تحریک پر جب جماعت نے مجھے روپیہ پیش کیا تو میرمحمد اسحاق صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے اپنی اولاد کے متعلق جو دعائیں کی ہیں ان میں یہ دعابھی ہے کہ :
دے اِس کو عمر و دولت کر دُور ہر اندھیرا
پس اِس روپیہ کے ذریعہ آپ کی یہ دعا پوری ہوگی۔اس طرح یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگی کہ:
''وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اوردولت ہوگا'' 5
اس پر میں نے کہا کہ میں یہ روپیہ تو لے لیتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ میں یہ روپیہ سلسلہ کے کاموں پر ہی صَرف کروں گا۔ چنانچہ میں نے وہ روپیہ تو لے لیا لیکن میں نے اسے اپنی ذات پر نہیں بلکہ سلسلہ کے کاموں پر خرچ کیا اور صدر انجمن احمدیہ کو دے دیا۔ اب میں نے ہیمبرگ کی مسجد کے لئے تحریک کی ہے کہ جماعت کے دوست اس کے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپیہ دیں لیکن اگر اللہ تعالیٰ ہمیں مال دے تو ہمارے سلسلہ میں تو یہ ہونا چاہیئے کہ ہمارا ایک ایک آدمی ایک ایک مسجد بنادے۔ خود مجھے خیال آتا ہے کہ اگر خداتعالیٰ مجھے کشائش عطافرمائے تو میں بھی اپنی طرف سے ایک مسجد بنادوں اور کوئی تعجب نہیں کہ خداتعالیٰ مجھے اپنی زندگی میں ہی اس بات کی توفیق دے دے اور میں کسی نہ کسی یورپین ملک میں اپنی طرف سے ایک مسجد بنادوں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے دینے پر منحصر ہے۔انسان کی اپنی کوشش سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ہم لوگ زمیندار ہیں اور ہمارے ملک میں زمیندارہ کی بہت ناقدری ہے یعنی یہاں لائلپور اور سرگودھا کے اضلاع کی زمینوں میں بڑی سے بڑی آمدن ایک سوروپیہ فی ایکڑ ہے حالانکہ یورپین ممالک میں فی ایکڑ آمد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ میں جب یورپ گیا تو میں وہاں زمینوں کی آمد نیں پوچھنی شروع کیں مجھے معلوم ہوا کہ اٹلی میں فی ایکٹر آمد چار سو روپیہ ہے اور ہالینڈ میں فی ایکڑ آمدتین ہزار روپیہ ہے۔ پھر میں نے میاں محمد ممتاز صاحب دولتانہ کا بیان پڑھا۔وہ جاپان گئے تھے اور وہاں انہوں نے زمین کی آمدنوں کا جائزہ لیا تھا۔انہوں نے بیان کیا تھا کہ جاپان میں فی ایکڑآمد چھ ہزار روپے ہے۔اس کے یہ معنے ہوئے کہ اگر میری ایک سو ایکڑ زمین بھی ہو۔حالانکہ وہ اس سے بہت زیادہ ہے اور اس سے ہالینڈ والی آمد ہو تو تین لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد ہوجاتی ہے اور اگر جاپان والی آمد ہو تو بڑی آسانی کے ساتھ ایک نہیں کئی مساجد مَیں اکیلاتعمیر کراسکتا ہوں۔
میرا یہ طریق ہے کہ میں اپنی ذات پر زیادہ روپیہ خرچ نہیں کرتا اور نہ اپنے خاندان پر خرچ کرتا ہوں بلکہ جو کچھ میرے پاس آتا ہے اس میں سے کچھ رقم اپنے معمولی اخراجات کے لئے رکھنے کے بعد سلسلہ کے لئے دے دیتا ہوں۔خرچ کرنے کو تو لوگ دس دس کروڑ روپیہ بھی کرلیتے ہیں لیکن مجھے جب بھی خداتعالیٰ نے دیا ہے میں نے وہ خداتعالیٰ کے رستے میں ہی دیدیا ہے۔ بیشک میرے بیوی بچے مانگتے رہیں میں انہیں نہیں دیتا۔ میں انہیں کہتا ہوں کہ تمہیں وہی گزارے دوں گا جن سے تمہارے معمولی اخراجات چل سکیں۔زمانہ کے حالات کے مطابق میں بعض اوقات انہیں زیادہ بھی دے دیتا ہوں مثلاً اگر وہ ثابت کردیں کہ اس وقت گھی مہنگا ہوگیا ہے، ایندھن کی قیمت چڑھ گئی ہے یا دھوبی وغیرہ کا خرچ بڑھ گیا ہے تو میں اس کے لحاظ سے زیادہ بھی دے دیتا ہوں لیکن اس طرح نہیں کہ ساری کی ساری آمدن ان کے حوالہ کردوں کہ جہاں جی چاہیں خرچ کرلیں۔ غرض میں گھر کے معمولی گزارہ کے لئے اخراجات رکھنے کے بعد جو کچھ بچتا ہے وہ سلسلہ کو دے دیتا ہوں۔ اگر اللہ تعالےٰ فضل کرے اور کسی وقت وہ ہمارے ملک والوں کو عقل اور سمجھ دے دے اور ہماری آمدنیں بڑھ جائیں تو سال میں ایک مسجد چھوڑ دو دومساجد بھی ہم بنوا سکتے ہیں اور یہ سب خلافت ہی کی برکت ہے۔
میں جب نیانیا خلیفہ ہوا تو مجھے الہام ہوا کہ ''مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی رحمتیں یا برکتیں نازل ہوتی ہیں۔'' اس دفعہ میں نے یہ الہام لکھ کر قادیان والوں کو بھجوایا او ران کو توجہ دلائی کہ تم اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرو اور دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ وہ برکتیں تم پر ہمیشہ نازل کرتا رہے۔اب خلافت کی برکات سے اس علاقہ والوں کو بھی حصہ ملنا شروع ہوگیا ہے چنانچہ اس علاقہ میں کسی زمانہ میں صرف چند احمدی تھے مگر اب ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔ اور ہمیں امید ہے کہ اگر خداتعالیٰ چاہے تو وہ ایک دوسال میں پندرہ بیس ہزار ہوجائیں گے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک دفعہ میں نے خداتعالیٰ سے ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا لیکن اب میں خدا تعالیٰ سے اربوں مانگا کرتا ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اُس وقت ایک لاکھ روپیہ مانگ کر غلطی کی ۔اِس وقت اگر یورپین اور دوسرے اہم ممالک کا شمار کیا جائے اور ان مقامات کا جائزہ لیا جائے جہاں مسجدوں کی ضرورت ہے تو ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب بن جاتی ہے۔اور اگر ان ڈیڑھ سو مقامات پر ایک ایک مسجد بھی بنائی جائے اور ہرایک مسجد پر ایک ایک لاکھ روپیہ خرچ کیا جائے تو ان پر ڈیڑھ کروڑ روپیہ خرچ ہوجائے گا اور پھر بھی صرف مشہور ممالک میں ایک ایک مسجد بنے گی۔ پھر ایک ایک لاکھ روپیہ سے ہمارا کیا بنتا ہے۔ ہمارا صرف مبلغوں کا سالانہ خرچ سوا لاکھ روپیہ کے قریب بنتا ہے۔ اور اگر اس خرچ کو بھی شامل کیا جائے جو بیرونی جماعتیں کرتی ہیں تو یہ خرچ ڈیڑھ دو لاکھ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے۔غرض میں نے اُس سے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا مگر اُس نے مجھے اس سے بہت زیادہ دیا۔ اب ہماری صدرانجمن احمدیہ کا سالانہ بجٹ تیرہ لاکھ روپیہ کا ہے اور اگر تحریک جدید کے سالانہ بجٹ کوبھی ملالیا جائے تو ہمارا سالانہ بجٹ بائیس تیئیس لاکھ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے۔ پس اگر خدا تعالیٰ میری اس بیوقوفی کی دعا کو قبول کرلیتا تو ہمارا سارا کام ختم ہوجاتا مگر اللہ تعالیٰ نے کہا ہم تیری اس دعاکو قبول نہیں کرتے جس میں تُو نے ایک لاکھ روپیہ مانگا ہے۔ ہم تجھے اس سے بہت زیادہ دیں گے تاکہ سلسلہ کے کام چل سکیں۔اب اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو دیکھ کر کہ میں نے ایک لاکھ مانگا تھا مگر اس نے بائیس لاکھ سالانہ دیا۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں ایک کروڑ مانگتا توبائیسکروڑ سالانہ ملتا۔ایک ارب مانگتا توبائیس ارب سالانہ ملتا۔ایک کھرب مانگتا توبائیس کھرب سالانہ ملتا اور اگر ایک پدم مانگتا توبائیس پدم سالانہ ملتا۔ اور اس طرح ہماری جماعت کی آمد امریکہ اور انگلینڈ دونوں کی مجموعی آمد سے بھی بڑھ جاتی۔پس خلافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہت سی برکات وابستہ کی ہوئی ہیں۔ تم ابھی بچے ہو تم اپنے باپ دادوں سے پوچھو کہ قادیان کی حیثیت جو شروع زمانہ خلافت میں تھی وہ کیاتھی اور پھر قادیان کو اللہ تعالےٰ نے کس قدر ترقی بخشی تھی۔
جب میں خلیفہ ہوا تو پیغامیوں نے اس خیال سے کہ جماعت کے لوگ خلافت کو کسی طرح چھوڑ نہیں سکتے یہ تجویز کی کہ کوئی اَور خلیفہ بنا لیا جائے۔ اُن دنوں ضلع سیالکوٹ کے ایک دوست میر عابد علی صاحب تھے۔وہ صوفی منش آدمی تھے لیکن بعد میں پاگل ہوگئے تھے۔ ایک دفعہ اُنہیں خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جو خدا تعالیٰ نے وعدے کئے تھے وہ میرے ساتھ بھی ہیں اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ نے فرمایا تھا کہ قادیان میں طاعون نہیں آئے گی۔اس لئے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے برابر ہوں تو خدا تعالیٰ کا یہی وعدہ میرے ساتھ بھی ہے۔میرے گاؤں میں بھی طاعون نہیں آئے گی۔ چنانچہ جب طاعون کی وبا پھوٹی تو انہوں نے اپنے اس خیال کے مطابق اپنے مریدوں سے جو تعداد میں پانچ سات سے زیادہ نہیں تھے کہا کہ وہ اپنے گھر چھوڑ کراُن کے پاس آجائیں۔ چنانچہ وہ اُن کے پاس آگئے۔ لیکن بعد میں اُنہیں خود طاعون ہوگئی۔اُن کے مریدوں نے کہا کہ چلو اَب جنگل میں چلیں۔ لیکن اُنہوں نے کہا جنگل میں جانے کی ضرورت نہیں طاعون مجھ پراثر نہیں کریگی۔ آخر جب مریدوں نے دیکھا کہ وہ پاگل ہوگئے ہیں تو وہ انہیں ہسپتال میں لے گئے اور وہ اسی جگہ طاعون سے فوت ہوگئے۔ بہرحال جب بیعتِ خلافت ہوئی تو پیغامیوں نے سمجھا میر عابد علی صاحب چونکہ صوفی منش آدمی ہیں اور عبادت گزار ہیں اس لئے الوصیت کے مطابق چالیس آدمیوں کا ان کی بیعت میں آجانا کوئی مشکل امر نہیں۔ چنانچہ مولوی صدر دین صاحب اور بعض دوسرے لوگ رات کو ان کے پاس گئے اور کہا آپ اس بات کے لئے تیار ہوجائیں چنانچہ وہ اس بات پر آمادہ ہوگئے۔اُس وقت مولوی محمد علی صاحب نے دیانتداری سے کام لیا۔وہ جب اس مجلس سے واپس آگئے جس میں جماعت نے مجھے خلیفہ منتخب کیا تھا تو ان لوگوں نے ان سے کہاکہ آپ نے بڑی بیوقوفی کی۔ آپ اگر مجلس میں اعلان کردیتے کہ میری بیعت کرلو تو چونکہ مرزا محمود احمد صاحب یہ کہہ چکے تھے کہ میں خلیفہ بننا نہیں چاہتالوگوں نے آپ کی بیعت کرلینی تھی اور ان کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی آپ کی بیعت کرلیتے۔ انہوں نے کہا میں یہ کام کیسے کرسکتا تھا۔ میں تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ خلافت کی کوئی ضرورت نہیں۔ بہرحال جب ان لوگوں نے دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب خلیفہ بننے کے لئے تیار نہیں تو انہوں نے جیسا کہ میں نے بتایا ہے میر عابد علی صاحب کو بیعت لینے کے لئے آمادہ کیا اور اس کے بعد وہ ہری کین لے کر ساری رات قادیان میں دوہزار احمدیوں کے ڈیروں پر پھرتے رہے۔ لیکن انہیں چالیس آدمی بھی سید عابد علی شاہ صاحب کی بیعت کرنے والے نہ ملے۔ اُس وقت کے احمدیوں کاایمان اِس قدر پختہ تھا کہ غریب سے غریب احمدی بھی کروڑوں روپیہ پر تھوکنے کے لئے تیار نہیں تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ جماعت میں فتنہ اور تفرقہ پھیلے۔ جب انہیں میر عابد علی صاحب کی بیعت کے لئے چالیس آدمی بھی نہ ملے تو وہ مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافتِ حقہ کی وجہ سے کئی معجزات دکھائے ہیں۔
تم دیکھ لو1934ء میں مجلسِ احرار نے جماعت پر کس طرح حملہ کیاتھا لیکن وہ اس حملہ میں کس طرح ناکام ہوئے۔انہوں نے منہ کی کھائی۔ پھر1947ء میں قادیان میں کیسا خطرناک وقت آیا لیکن ہم نہ صرف احمدیوں کو بحفاظت نکال لائے بلکہ انہیں لاریوں میں سوار کرکے پاکستان لے آئے۔دوسرے لوگ جوپیدل آئے تھے اُن میں سے اکثر مارے گئے لیکن قادیان کے رہنے والوں کا بال تک بیکا نہیں ہوا۔اب بھی کچھ دن ہوئے مجھے ایک آدمی ملا۔اُس نے مجھے بتایا کہ آپ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ میری اجازت کے بغیرکوئی شخص قادیان سے نہ نکلے ۔چنانچہ ہم نے توآپ کے حکم کی تعمیل کی اور وہاں ٹھہرے رہے لیکن میرے ایک رشتہ دار گھبرا کر ایک قافلہ کے ساتھ پیدل آگئے او رراستہ میں ہی مارے گئے۔ہم جو وہاں بیٹھے رہے لاریوں میں سوار ہوکر حفاظت سے پاکستان آگئے۔ اُس وقت اکثر ایسا ہوا کہ پیدل قافلے پاکستان کی طرف آئے اور جب وہ بارڈر کراس کرنے لگے تو سکھوں نے اُنہیں آلیا اور وہ مارے گئے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ پیدل قافلہ قادیان سے نکلتے ہی سکھوں کے ہاتھوں مارا گیا اور اگر وہاں سے محفوظ نکل آیا تو بٹالہ آکر یافتح گڑھ چوڑیاں کے پاس مارا گیا۔ لیکن وہ میری ہدایت کے مطابق قادیان میں بیٹھے رہے اور میری اجازت کا انتظار کرتے رہے۔وہ سلامتی کے ساتھ لاریوں میں سوار ہوکر لاہور آئے۔ غرض ہر میدان میں خداتعالیٰ نے جماعت کو خلافت کی برکات سے نوازا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت انہیں یاد رکھے۔ مگر بڑی مصیبت یہ ہے کہ لوگ انہیں یاد نہیں رکھتے۔
پچھلے مہینہ میں ہی میں نے ایک رؤیا دیکھا تھا کہ کوئی غیر مرئی وجود مجھے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو وقفہ وقفہ کے بعد جماعت میں فتنہ پیدا ہونے دیتا ہے تو اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ جماعت کس طرح آپ کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔ یاجب آپ کسی خاص طرف مڑیں تو کس سُرعت کے ساتھ آپ کے ساتھ مڑتی ہے۔ یا جب آپ اپنی منزل مقصود کی طرف جائیں تو وہ کس طرح اسی منزل مقصود کو اختیار کرلیتی ہے۔''
اب دیکھو یہ فتنہ بھی جماعت کے لئے ایک آزمائش تھی لیکن بعض لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے کہ اس میں حصہ لینے والے حضرت خلیفہ اول کے لڑکے ہیں۔ اُنہوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بھی آپ کا انکار کیا تھا اور اس انکار کی وجہ سے وہ عذابِ الٰہی سے بچ نہیں سکا۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد کے اس فتنہ میں ملوث ہونے کی وجہ سے ہمیں کس بات کا خوف ہے۔ اگر وہ فتنہ میں ملوث ہیں تو خدا تعالیٰ ان کی کوئی پروا نہیں کرے گا۔ شروع شروع میں جب فتنہ اٹھا تو چند دنوں تک بعض دوستوں کے گھبراہٹ کے خطوط آئے اور انہوں نے لکھا کہ ایک چھوٹی سی بات کو بڑا بنادیا گیا ہے۔اللہ رکھا کی بھلا حیثیت ہی کیا ہے۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد ساری جماعت اپنے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ان لوگوں سے نفرت کرنے لگ گئی اور مجھے خطوط آنے شروع ہوئے کہ آپ کے اَور بھی بہت سے کارنامے ہیں مگر اس بڑھاپے کی عمر میں اور ضعف کی حالت میں جو یہ کارنامہ آپ نے سرانجام دیا ہے یہ اپنی شان میں دوسرے کارناموں سے بڑھ گیا ہے۔آپ نے بڑی جرأت او رہمت کے ساتھ ان لوگوں کو ننگا کردیا ہے جو بڑے بڑے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور سلسلہ کو نقصان پہنچانے کے دَرپے تھے۔اِس طرح آپ نے جماعت کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچالیا ہے۔
مری میں مجھے ایک غیر احمدی کرنیل ملے انہوں نے کہا کہ جو واقعات1953ء میں احمدیوں پر گزرے تھے وہ اب پھر ان پر گزرنے والے ہیں۔ اس لئے آپ ابھی سے تیاری کرلیں۔ اور میں آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ1953ء میں تو پولیس اور ملٹری نے آپ کی حفاظت کی تھی لیکن اب وہ آپ کی حفاظت نہیں کرے گی کیونکہ اُس وقت جو واقعات پیش آئے تھے ان کی وجہ سے وہ ڈر گئی ہے۔جب وہ خاموش ہوئے تو میں نے کہا۔کرنل صاحب! پچھلی دفعہ میں نے کون سا تیر مارا تھا جو اَب ماروں گا۔پچھلی دفعہ بھی خداتعالیٰ نے ہی جماعت کی حفاظت کے سامان کئے تھے اور اب بھی وہی اس کی حفاظت کرے گا۔ جب میرا خدا زندہ ہے تومجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔میری اس بات کا کرنل صاحب پر گہرا اثر ہوا چنانچہ جب میں ان کے پاس سے اُٹھا اور دہلیز سے باہر نکلنے لگا تو وہ کہنے لگے فیتھ از بلائنڈ(Faith is blind)یعنی یقین اور ایمان اندھا ہوتا ہے۔ وہ خطرات کی پروا نہیں کرتا۔جب کسی شخص میں ایمان پایا جاتا ہو تو اُسے آگے آنے والے مصائب کا کوئی فکر نہیں ہوتا۔ جب منافقین کا فتنہ اٹھا تو انہی کرنل صاحب نے ایک احمدی افسر کو جو اُن کے قریب ہی رہتے تھے بلایا اور کہا کہ میری طرف سے مرزا صاحب کو کہہ دینا کہ آپ نے یہ کیا کیا ہےاللہ رکھا کی بھلا حیثیت ہی کیا تھی۔ اس مضمون سے اُسے بلاضرورت شُہرت مل جائے گی۔ میں نے اس احمدی دوست کو خط لکھا کہ میری طرف سے کرنل صاحب کو کہہ دینا کہ آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ جماعت پر1953ء والے واقعات دوبارہ آنے والے ہیں، آپ ابھی سے تیاری کرلیں۔اب جبکہ میں نے اس بارہ میں کارروائی کی ہے تو آپ نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ آپ خواہ مخواہ فتنہ کو ہوا دے رہے ہیں۔ جب میں دوبارہ مری گیا تو میں نے اس احمدی دوست سے پوچھا کہ کیامیرا خط آپ کو مل گیا تھا اور آپ نے کرنل صاحب کو میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟انہوں نے کہا ہاں میں نے پیغام دے دیا تھا اور انہوں نے بتایا تھا کہ اب میری تسلی ہوگئی ہے۔ شروع میں مَیں یہی سمجھتا تھا کہ یہ معمولی بات ہے لیکن اب جبکہ پیغامی اور غیر احمدی دونوں فتنہ پردازوں کے ساتھ مل گئے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ عقلمندی اورکوئی نہیں تھی کہ آپ نے وقت پر اس فتنہ کو بھانپ لیا اورشرارت کو بے نقاب کردیا۔
غرض خداتعالیٰ ہر فتنہ اور مصیبت کے وقت جماعت کی خود حفاظت فرماتا ہے چنانچہ فتنہ تو اَب کھڑا کیا گیا ہے لیکن خداتعالےٰ نے1950ء میں ہی کوئٹہ کے مقام پر مجھے بتادیا تھا کہ بعض ایسے لوگوں کی طرف سے فتنہ اٹھایا جانے والا ہے جن کی رشتہ داری میری بیویوں کی طرف سے ہے۔ چنانچہ دیکھ لو عبدالوہاب میری ایک بیوی کی طرف سے رشتہ دار ہے۔میری اس سے جدّی رشتہ داری نہیں۔
پھر میری ایک خواب جنوری1935ء میں الفضل میں شائع ہوچکی ہے اس میں بتایا گیا تھا کہ میں کسی پہاڑ پر ہوں کہ خلافت کے خلاف جماعت میں ایک فتنہ پیدا ہوا ہے چنانچہ جب موجودہ فتنہ ظاہر ہوا اُس وقت مَیں مری میں ہی تھا۔
پھراس خواب میں مَیں نے سیالکوٹ کے لوگوں کو دیکھا جو موقع کی نزاکت سمجھ کر جمع ہوگئے تھے اور اِن کے ساتھ کچھ اُن لوگوں کو بھی دیکھا جو باغی تھے۔یہ خواب بڑے شاندار طور پر پوری ہوئی۔ چنانچہ اللہ رکھا سیالکوٹ کا ہی رہنے والا ہے۔جب میں نے اس کے متعلق الفضل میں مضمون لکھا تو خود اس کے حقیقی بھائیوں نے مجھے لکھا کہ پہلے تو ہمارا یہ خیال تھا کہ شایداس پر ظلم ہورہا ہے۔ لیکن اب ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ وہ پیغامی ہے۔ اس نے ہمیں جوخطوط لکھے ہیں وہ پیغامیوں کے پتہ سے لکھے ہیں۔ پس ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ہم خلافت سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں۔اب دیکھ لو1934ء میں مجھے اس فتنہ کا خیال کیسے آسکتا تھا۔پھر1950ء والی خواب بھی مجھے یاد نہیں تھی۔ 1950ء میں مَیں جب سندھ سے کوئٹہ گیا تو اپنی ایک لڑکی کو جو بیمار تھی ساتھ لے گیا۔اُس نے اَب مجھے یاد کرایا کہ1950ء میں آپ نے ایک خواب دیکھی تھی جس میں یہ ذکر تھاکہ آپ کے رشتہ داروں میں سے کسی نے خلافت کے خلاف فتنہ اٹھایا ہے۔ مَیں نے مولوی محمد یعقوب صاحب کو وہ خواب تلاش کرنے پر مقرر کیا۔چنانچہ وہ الفضل سے خواب تلاش کرکے لے آئے۔ اب دیکھو خداتعالیٰ نے کتنی دیر پہلے مجھے اس فتنہ سے آگاہ کردیا تھا اور پھر کس طرح یہ خواب حیرت انگیز رنگ میں پورا ہوا۔
ہماری جماعت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئیے کہ منافقت کی جڑ کو کاٹنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اگر اس کی جڑ کو نہ کاٹاجائے تو وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جماعت سے جو وعدہ فرمایا ہے اس کے پورا ہونے میں شیطان کئی قسم کی رکاوٹیں حائل کرسکتا ہے۔دیکھو خداتعالیٰ کا یہ کتنا شانداروعدہ تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پورا ہوا۔حضرت ابوبکرؓ کی خلافت صرف اڑھائی سال کی تھی لیکن اس عرصہ میں خداتعالیٰ نے جو تائید ونصرت کے نظارے دکھائے وہ کتنے ایمان افزا تھے۔حضرت ابوبکرؓ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے ایک ادنیٰ غلام تھے لیکن انہوں نے اپنے زمانۂ خلافت میں رومی فوجوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ آخر اڑھائی سال کے عرصہ میں لاکھوں مسلمان تو نہیں ہو گئے تھے۔اُس وقت قریباً قریباً وہی مسلمان تھے جورسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے تھے۔ لیکن خلافت کی برکات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں میں وہ شان اور اُمنگ اورجرأت پیدا کی کہ انہوں نے اپنے مقابل پر بعض اوقات دو دو ہزار گنا زیادہ تعداد کے لشکر کو بُری طرح شکست کھانے پر مجبور کردیا۔اس کے بعد حضرت عمرؓ کا زمانہ آیا توآپ نے ایک طرف رومی سلطنت کو شکست دی تو دوسری طرف ایمان کی طاقت کو ہمیشہ کے لئے ختم کرکے رکھ دیا۔ پھر حضرت عثمانؓ کی خلافت کا دور آیا۔اس دور میں اسلامی فوج نے آذربائیجان تک کا علاقہ فتح کرلیا اور پھر بعض مسلمان افغانستان اور ہندوستان آئے اور بعض افریقہ چلے گئے اور ان ممالک میں انہوں نے اسلام کی اشاعت کی۔ یہ سب خلافت کی ہی برکات تھیں۔ یہ برکات کیسے ختم ہوئیں؟یہ اِسی لئے ختم ہوئیں کہ حضرت عثمانؓ کے آخری زمانۂ خلافت میں مسلمانوں کا ایمان بالخلافت کمزور ہو گیا اور انہوں نے خلافت کو قائم رکھنے کے لئے صحیح کوشش او رجدوجہد کو ترک کردیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے بھی وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ کا وعدہ واپس لے لیا۔ لیکن عیسائیوں میں دیکھ لو 1900 سال سے برابر خلافت چلی آرہی ہے اور آئندہ بھی اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے۔ آخر یہ تفاوت کیوں ہے؟ اور کیوں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی خلافت30سال کے عرصہ میں ختم ہوگئی؟ اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں نے خلافت کی قدر نہ کی اور اس کی خاطر قربانی کرنے سے انہوں نے دریغ کیا۔ جب باغیوں نے حضرت عثمانؓ پر حملہ کیا توآپ نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا کہ اے لوگو! میں وہی کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کیا کرتے تھے میں نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ لیکن تم فتنہ پرداز لوگوں کو اپنے گھروں میں آنے دیتے ہو اور ان سے باتیں کرتے ہو۔ اس سے یہ لوگ دلیر ہوگئے ہیں۔ لیکن تمہاری اس غفلت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خلافت کی برکات ختم ہوجائیں گی اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا۔اب دیکھ لو وہی ہوا جو حضرت عثمانؓ نے فرمایا تھا۔حضرت عثمانؓ کاشہید ہونا تھا کہ مسلمان بکھر گئے اور آج تک وہ جمع نہیں ہوئے۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ جب روم کے بادشاہ نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ میں اختلاف دیکھا تو اس نے چاہا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے ایک لشکر بھیجے۔ اُس وقت رومی سلطنت کی ایسی ہی طاقت تھی جیسی اِس وقت امریکہ کی ہے۔اُس کی لشکر کشی کا ارادہ دیکھ کر ایک پادری نے جو بڑا ہوشیار تھا کہا بادشاہ سلامت! آپ میری بات سن لیں اور لشکر کَشی کرنے سے اجتناب کریں۔ یہ لوگ اگرچہ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن آپ کے مقابلہ میں متحد ہوجائیں گے او رباہمی اختلافات کو بھول جائیں گے۔پھر اس نے کہا آپ دو کتّے منگوائیں اورانہیں ایک عرصہ تک بھوکا رکھیں پھر ان کے آگے گوشت ڈال دیں۔وہ آپس میں لڑنے لگ جائیں گے۔ اگرآپ انہی کُتوں پر شیر چھوڑ دیں تووہ دونوں اپنے اختلافات کو بھول کر شیر پر جھپٹ پڑیں گے۔اِس مثال سے اس نے یہ بتایا کہ تُو چاہتا ہے کہ اِس وقت حضرت علیؓ اور معاویہؓ کے اختلاف سے فائدہ اٹھالے لیکن میں یہ بتادیتاہوں کہ جب بھی کسی بیرونی دشمن سے لڑنے کا سوال پیدا ہو گا یہ دونوں اپنے باہمی اختلافات کو بھول جائیں گے اور دشمن کے مقابلہ میں متحد ہوجائیں گے۔ اور ہؤا بھی یہی۔جب حضرت معاویہؓ کو روم کے بادشاہ کے ارادہ کا علم ہوا توآپ نے اسے پیغام بھیجا کہ تُو چاہتا ہے کہ ہمارے اختلاف سے فائدہ اٹھاکر مسلمانوں پر حملہ کرے۔ لیکن میں تمہیں بتادینا چاہتا ہوں کہ میری حضرت علیؓ کے ساتھ بے شک لڑائی ہے لیکن اگر تمہارا لشکر حملہ آور ہوا تو حضرت علیؓ کی طرف سے اس لشکر کا مقابلہ کرنے کے لئے جوسب سے پہلاجرنیل نکلے گا وہ مَیں ہوں گا6۔ اَب دیکھ لو حضرت معاویہؓ حضرت علیؓ سے اختلاف رکھتے تھے لیکن اس اختلاف کے باوجود انہوں نے رومی بادشاہ کو ایسا جواب دیا جو اس کی امیدوں پر پانی پھیرنے والا تھا۔
لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد کا یہ حال ہے کہ انہیں اتنی بھی توفیق نہ ملی کہ پیغامیوں سے کہتے کہ تم تو ساری عمر ہمارے باپ کو گالیاں دیتے رہے ہو۔پھر ہمارا تم سے کیا تعلق ہے۔انہیں وہ گالیاں بھول گئیں جوان کے باپ کو دی گئی تھیں اور چُپ کرکے بیٹھے رہے۔ انہوں نے ان کی تردید نہ کی اور تردید بھی انہوں نے اسلئے نہ کی کہ اگر ہم نے ایسا کیاتو شاید پیغامی ہماری تائید نہ کریں۔ حالانکہ اگران کے اندر ایمان ہوتا تو یہ لوگ کہتے ہمارا لوگوں سے کیا تعلق ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وہ تقاریر موجود ہیں جن میں آپ نے بیان فرمایا ہے کہ یہ لوگ مجھے خلافت سے دستبردار کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ کون ہیں مجھے دستبردارکرنے والے! مجھے خداتعالیٰ نے خلیفہ بنایاہے اس لئے وہی خلافت کی حفاظت کرے گا۔ اگر یہ لوگ میری بات نہیں سنتے تو اپنے باپ کی بات تو سن لیتے۔وہ کہتا ہے کہ مجھے خداتعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اب کسی شخص یا جماعت کی طاقت نہیں کہ وہ مجھے معزول کرسکے۔اسی طرح میں بھی کہتا ہوں کہ مجھے خداتعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے پھریہ لوگ مجھے معزول کیسے کرسکتے ہیں۔خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک جماعت کو پکڑ کر میرے ہاتھ پر جمع کردیا تھا اور اُس وقت جمع کردیا تھا جب تمام بڑے بڑے احمدی میرے مخالف ہوگئے تھے اور کہتے تھے کہ اب خلافت ایک بچے کے ہاتھ میں آگئی ہے۔اس لئے جماعت آج نہیں تو کل تباہ ہوجائے گی۔ لیکن اُسی بچہ نے42سال تک پیغامیوں کا مقابلہ کرکے جماعت کو جس مقام تک پہنچایا وہ تمہارے سامنے ہے۔ شروع میں ان لوگوں نے کہا تھا کہ98فیصدی احمدی ہمارے ساتھ ہیں۔ لیکن اب وہ دکھائیں کہ جماعت کا 98فیصدی جو اُن کے ساتھ تھا کہاں ہے؟کیا وہ98فیصدی احمدی ملتان میں ہیں؟ لاہور میں ہیں؟ پشاور میں ہیں؟ کراچی میں ہیں؟ آخر وہ کہاں ہیں؟ کہیں بھی دیکھ لیا جائے۔ان کے ساتھ جماعت کے دوفیصدی بھی نہیں نکلیں گے۔
مولوی نورالحق صاحب انور مبلغ امریکہ کی الفضل میں چٹھی چَھپی ہے کہ عبدالمنان نے ان سے ذکر کیا کہ پشاور سے بہت سے پیغامی انہیں ملنے کے لئے آئے ہیں اور وہ ان کا بہت ادب اور احترام کرتے ہیں۔ لیکن کچھ دن ہوئے امیر جماعت احمدیہ پشاور یہاں آئے۔ میں نے انہیں کہا کہ میاں محمد صاحب کی کھلی چِٹھی کا جواب چَھپا ہے آپ وہ کیوں نہیں خریدتے؟ تو انہوں نے کہا پشاور میں دو سے زیادہ پیغامی نہیں ہیں۔ لیکن ان کے مقابل پروہاں ہماری دومساجد بن چکی ہیں اور خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت وہاں کثرت سے پھیل رہی ہے۔ پیغامیوں کا وہاں یہ حال ہے کہ شروع شروع میں وہاں احمدیت کے لیڈر پیغامی ہی تھے۔ لیکن اب بقول امیر صاحب جماعت احمدیہ پشاور وہاں دو پیغامی ہیں۔
پس میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد کس لالچ میں آگئی ہے۔ کیا صرف ایک مضمون کا پیغامِ صلح میں چھپ جانا ان کے لئے لالچ کا موجب ہوگیا؟ اگر یہی ہوا ہے تو یہ کتنی ذلیل بات ہے۔ اگر پاکستان کی حکومت یہ کہہ دیتی کہ ہم حضرت خلیفہ اول کی اولاد کو مشرقی پاکستان کا صوبہ دے دیتے ہیں یا وہ کہتے کہ انہیں مغربی پاکستان دے دیتے ہیں تب تو ہم سمجھ لیتے کہ انہوں نے اس لالچ کی وجہ سے جماعت میں تفرقہ اور فساد پیدا کرنا منظور کرلیا ہے۔ لیکن یہاں تو یہ لالچ بھی نہیں۔حضرت خلیفہ اول ایک مولوی کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ اس نے ایک شادی شدہ لڑکی کا نکاح کسی دوسرے مرد سے پڑھ دیا۔لوگ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے پاس آئے اور کہنے لگے فلاں مولوی جو آپ سے ملنے آیاکرتا ہے اس نے فلاں شادی شدہ لڑکی کا نکاح فلاں مرد سے پڑھ دیا ہے۔مجھے اس سے بڑی حیرت ہوئی اور میں نے کہا کہ اگر وہ مولوی صاحب مجھے ملنے آئے تو میں ان سے ضرور دریافت کروں گاکہ کیا بات ہے۔ چنانچہ جب وہ مولوی صاحب مجھے ملنے کے لئے آئے تو میں نے ان سے ذکر کیا کہ آپ کے متعلق میں نے فلاں بات سنی ہے۔میرا دل تو نہیں مانتا لیکن چونکہ یہ بات ایک معتبر شخص نے بیان کی ہے اس لئے میں اس کا ذکر آپ سے کررہاہوں۔ کیا یہ بات درست ہے کہ آپ نے ایک شادی شدہ عورت کا ایک اَور مرد سے نکاح کردیا ہے؟وہ کہنے لگا مولوی صاحب! تحقیقات سے پہلے بات کرنی درست نہیں ہوتی۔آپ پہلے مجھ سے پوچھ تو لیں کہ کیا بات ہوئی۔میں نے کہا اسی لئے تو میں نے اس بات کا آپ سے ذکر کیا ہے۔ اس پر وہ کہنے لگا بے شک یہ درست ہے کہ میں نے ایک شادی شدہ عورت کا دوسری جگہ نکاح پڑھ دیا ہے لیکن مولوی صاحب! جب انہوں نے میرے ہاتھ پر چڑیا جتنا روپیہ رکھ دیا تو پھر میں کیا کرتا۔پس اگر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد کو حکومتِ پاکستان یہ لالچ دے دیتی کہ مشرقی پاکستان یا مغربی پاکستان تمہیں دے دیا جائے گا تو ہم سمجھ لیتے کہ یہ مثال ان پر صادق آجاتی ہے۔جس طرح اس مولوی نے روپیہ دیکھ کر خلافِ شریعت نکاح پر نکاح پڑھ دیا تھا اِنہوں نے بھی لالچ کی وجہ سے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہاں تو چڑیا چھوڑ انہیں کسی نے مُردہ مچھر بھی نہیں دیا۔ حالانکہ یہ اولاد اس عظیم الشان باپ کی ہے جو اس قدر حوصلہ کا مالک تھا کہ ایک دفعہ جب آپ قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مجھے آپ کے متعلق الہام ہوا ہے کہ اگر آپ اپنے وطن گئے تو اپنی عزت کھو بیٹھیں گے۔اس پر آپ نے وطن واپس جانے کا نام تک نہ لیا۔اُس وقت آپ اپنے وطن بھیرہ میں ایک شاندار مکان بنا رہے تھے۔جب میں بھیرہ گیا تو میں نے بھی یہ مکان دیکھاتھا۔اس میں آپ ایک شاندار ہال بنوارہے تھے تاکہ اس میں بیٹھ کر درس دیں اور مَطبْ بھی کیا کریں۔ موجودہ زمانہ کے لحاظ سے تو وہ مکان زیادہ حیثیت کا نہ تھا لیکن جس زمانہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے یہ قربانی کی تھی اُس وقت جماعت کے پاس زیادہ مال نہیں تھا۔ اُس وقت اِس جیسا مکان بنانا بھی ہر شخص کاکام نہیں تھا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے بعدآپ نے واپس جاکر اس مکان کو دیکھا تک نہیں۔بعض دوستوں نے کہا بھی کہ آپ ایک دفعہ جاکر مکان تو دیکھ آئیں لیکن آپ نے فرمایا کہ مَیں نے اسے خداتعالیٰ کے لئے چھوڑ دیا ہے۔اب اسے دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے عظیم الشان باپ کی اولاد ایک مُردہ مچھر سے بھی حقیر چیز پر آگری۔
پھر دیکھو حضرت خلیفۃ المسیح الاول تو اس شان کے انسان تھے کہ وہ اپنا عظیم الشان مکان چھوڑ کر قادیان آگئے لیکن آپ کے پوتے کہتے ہیں کہ قادیا ن میں ہمارے داداکی بڑی جائیداد تھی جو ساری کی ساری مرزا صاحب کی اولاد نے سنبھال لی ہے۔ حالانکہ جماعت کے لاکھوں آدمی قادیان میں جاتے رہے ہیں اور ہزاروں وہاں رہے ہیں۔ اَب بھی کئی لوگ قادیان گئے ہیں انہیں پتہ ہے کہ وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا صرف ایک کچا مکان تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی بڑی جائیداد تھی مگر وہ جائیداد مادی نہیں بلکہ روحانی تھی جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور ہراحمدی کے دل میں آپ کا ادب واحترام پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر آپ کی اولاد خلافت کے مقابلہ میں کھڑی ہوگی تو ہرمخلص احمدی انہیں نفرت سے پرے پھینک دے گا اور ان کی ذرّہ بھر بھی پروا نہیں کرے گا۔
آخر میں خدام کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خلافت کی برکات کو یاد رکھیں۔ اورکسی چیزکو یاد رکھنے کے لئے پرانی قوموں کا یہ دستور ہے کہ وہ سال میں اس کے لئے خاص طور پر ایک دن مناتی ہیں۔ مثلاً شیعوں کو دیکھ لو وہ سال میں ایک دفعہ تعزیہ نکالتے ہیں تا قوم کو شہادتِ حسینؓ کا واقعہ یادرہے۔اِسی طرح میں بھی خدام کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سال میں ایک دن خلافت ڈے کے طور پر منایا کریں۔اس میں وہ خلافت کے قیام پر خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کریں اور اپنی پرانی تاریخ کو دہرایا کریں۔پرانے اخبارات کا ملنا تو مشکل ہے لیکن الفضل نے پچھلے دنوں ساری تاریخ کو ازسرنو بیان کردیا ہے۔اس میں وہ گالیاں بھی آگئی ہیں جو پیغامی لوگ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کو دیا کرتے تھے۔ اور خلافت کی تائیدمیں حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے جو دعوے کئے ہیں وہ بھی نقل کردئیے گئے ہیں۔ تم اس موقع پر اخبارات سے یہ حوالے پڑھ کرسناؤ۔ اگر سال میں ایک دفعہ خلافت ڈے منا لیا جایا کرے تو ہر سال چھوٹی عمر کے بچوں کو پرانے واقعات یاد ہوجایا کریں گے۔ پھر تم یہ جلسے قیامت تک کرتے چلے جاؤتاجماعت میں خلافت کا ادب او راس کی اہمیت قائم رہے۔
حضرت مسیح علیہ السلام کی خلافت1900سال سے برابر قائم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو درجہ میں ان سے بڑے ہیں خدا کرے ان کی خلافت دس ہزار سال تک قائم رہے۔مگر یہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ تم سال میں ایک دن اس غرض کے لئے خاص طورپر منانے کی کوشش کرو۔میں مرکز کو بھی ہدایت کرتا ہوں کہ وہ بھی ہر سال سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کی طرح خلافت ڈے منایا کرے اور ہرسال یہ بتایا کرے کہ جلسہ میں ان مضامین پر تقاریر کی جائیں۔ الفضل سے مضامین پڑھ کر نوجوانوں کو بتایا جائے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے خلافتِ احمدیہ کی تائید میں کیا کچھ فرمایا ہے اور پیغامیوں نے اس کے ردّ میں کیا کچھ لکھا ہے۔اِسی طرح وہ رؤیا وکشوف بیان کئے جایا کریں جو وقت سے پہلے خداتعالیٰ نے مجھے دکھائے اور جن کو پورا کرکے خداتعالیٰ نے ثابت کردیا کہ اس کی برکات اَب بھی خلافت سے وابستہ ہیں۔
پھر جیسا کہ میں نے مری میں ایک خطبہ جمعہ میں بیان کیا تھا تم درود کثرت سے پڑھا کرو، تسبیح کثرت سے کیا کرو،دعائیں کثرت سے کیا کرو تاخدا تمہیں رؤیا اور کشوف دکھائے۔ پرانے احمدی جنہیں رؤیا کشوف ہوتے تھے اب کم ہورہے ہیں۔میں نے دیکھا تھا کہ خطبہ کے تھوڑے ہی دن بعد مجھے خطوط آنے شروع ہوئے کہ آپ کی ہدایت کے مطابق ہم نے درود پڑھنا شروع کیا،تسبیح پڑھنی شروع کی اوردعاؤں پر زور دیا تو ہمیں خداتعالیٰ نے رؤیا وکشوف سے نوازا۔اُن دنوں ڈاک میں اکثر چٹھیاں اس مضمون کی آیا کرتی تھیں اور انہیں پڑھ کر لُطف آیا کرتا تھا۔ اب ان چِٹھیوں کا سلسلہ کم ہوگیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ درود پڑھنے، تسبیح کرنے اور دعائیں کرنے کی عادت پھر کم ہوگئی ہے۔
یاد رکھو کہ خداتعالیٰ سے بات کرنا معمولی اَمر نہیں۔خداتعالیٰ سے بات کرنا بڑے ایمان کی بات ہے اگر کہیں صدر پاکستان سکندر مرزا آجائیں اور تمہیں پتہ لگ جائے کہ تم میں سے ہرایک کو ان سے ملاقات کا موقع مل جائے گا تو تمہیں کتنی خوشی ہو اور تم کتنے شوق سے ان کی ملاقات کے لئے جاؤ۔ پھر اللہ تعالیٰ جو کائنات عالم کا مالک ہے۔محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا بھیجنے والا ہے۔اس کے متعلق اگر تمہیں معلوم ہو کہ وہ ہرایک سے مل سکتا ہے تو کتنی بدقسمتی ہوگی کہ اس سے ملنے کی کوشش نہ کی جائے۔ پس تم خدا تعالیٰ سے عاجزانہ دعائیں کرو اور کہو اے خدا! ہم تیرے کمزور بندے ہیں تُو ہمیں طاقت دے، تُو ہمیں سچ دکھا اور تُو ہم سے کلام کرتا کہ ہمارے دلوں کو اطمینان میسر ہو۔پھر جب کہ میں نے بارہا بتایا ہے میری بیماری دعاؤں سے تعلق رکھتی ہے۔اس لئے تم یہ بھی دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے کام والی زندگی عطا فرمائے اور مجھے دنیا میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کرنے کی توفیق دے۔دیکھو میرا ہر کام تمہاری طرف ہی منسوب ہوتا ہے۔ اگر دنیا میں اسلام کی اشاعت ہو توتم ہی فخر کروگے کہ ہم امریکہ میں اسلام کی اشاعت کررہے ہیں، سوئٹزر لینڈ میں اسلام کی اشاعت کررہے ہیں،جرمنی میں اسلام کی اشاعت کررہے ہیں، انگلستان میں اسلام کی اشاعت کررہے ہیں، ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کررہے ہیں گویا جو میرا کام ہوگا وہ تمہارا کام ہوگا۔ اور تم ہرمجلس میں یہ کہہ سکوگے کہ ہم نے فلاں کام کیا ہے۔پس تم دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں کام کو اچھی طرح نبھا سکوں اور پھر وہ اس میں برکت دے اور اسلام کے دشمنوں کے دلوں کو کھولے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت اِس وقت دنیامیں سب سے زیادہ مظلوم انسان ہیں۔ پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ آپ کی شان کو بلند کرے اور اندھوں کی آنکھیں کھولے تاکہ وہ آپ کی شان اورعظمت کو پہچانیں۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے ۔دنیا میں ایک ہی خدا اور ایک ہی رسول رہ جائے اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔’’
(الفضل یکم مئی 1957ء)
1 آل عمران : 119
2 النور: 56
3 سنن ابن ماجہ ابواب النکاح بابُ ضرب النِّساءِ
4 النور: 56
5 تذکرہ صفحہ 139۔ ایڈیشن چہارم
6 البدایۃ و النھایۃ جلد8 صفحہ 126 ۔ مطبوعہ بیروت 2001ء
قرونِ اُولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ اپنےسامنے رکھو
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
قرونِ اُولی کی مسلمان خواتین کا نمونہ اپنے سامنے رکھو
(فرمودہ 21/اکتوبر 1956ء بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ بمقام ربوہ)
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
اسلام میں عورت کا مقام
‘‘اسلامی تعلیم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں دیگر مذاہب کی نسبت عورت
کے درجہ کوبہت بلند کیا گیا ہے۔ گو موجودہ زمانہ میں مغربیت کے اثر کے ماتحت خود مسلمانوں نے عورت کے درجہ کو کم کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اوربعض باتوں میں انہوں نے غلط اندازے بھی لگائے ہیں مثلاً کہا جاتا ہے کہ پردہ میں عورت کو صحیح تعلیم نہیں دی جاسکتی حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کے اندر ہی دین سیکھا تھا اور پردہ کے اندر ہی رہ کر وہ دین کی اتنی ماہر ہوگئی تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم آدھا دین عائشہ سے سیکھو1۔گویا سارے مرد مل کر آدھا دین سکھا سکتے ہیں اور حضرت عائشہؓ اکیلی آدھا دین سکھا سکتی ہیں حالانکہ حضرت عائشہؓ پردہ کیا کرتی تھیں اور آپ نے جو دین سیکھا تھا وہ پردہ کے اندررہ کر ہی سیکھا تھا۔ پھر عورتوں نے اسلامی جنگوں میں وہ وہ کام کئے ہیں جو بے پردہ یورپین عورتیں آج بھی نہیں کر رہیں۔حضرت ابوبکرؓکے زمانہ میں حضرت ضرارؓ جوایک بہادر صحابی تھے،غفلت کی وجہ سے رومیوں کی قید میں آگئے اور رومی انہیں پکڑ کر کئی میل تک ساتھ لے گئے۔ان کی بہن خولہؓ کواس کا پتہ لگا تو وہ اپنے بھائی کی زرہ او رسامانِ جنگ لے کر گھوڑے پر سوار ہوکر اُن کے پیچھے گئیں اور دشمن سے اپنے بھائی کو چھڑا لانے میں کامیاب ہوگئیں2 اُس وقت رُومی سلطنت طاقت وقوت کے لحاظ سے ایسی ہی تھی جیسی آجکل انگریزوں کی حکومت ہے مگر اس کی فوج ایک صحابی کو قید کرکے لے گئی تو اُن کی بہن اکیلی ہی باہر نکلی اور کئی میل تک رُومی سپاہیوں کے پیچھے چلی گئی اور پھر بڑی کامیابی سے اپنے بھائی کو اُن کی قید سے چُھڑا لائی اور مسلمانوں کو اِس بات کا اُس وقت پتہ لگا جب وہ اپنے بھائی کو واپس لے آئی۔
پھر ایک اَور واقعہ بھی ہے جس سے عورتوں کی بہادری کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت سعدؓبن ابی وقاص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص صحابہؓ میں سے تھے۔ حضرت عمرؓنے اُنہیں اپنے زمانۂ خلافت میں ایرانی فوج کے مقابلہ میں اسلامی فوج کا کمانڈر بنایا تھا۔ اتفاقاً اُنہیں ران پر ایک پھوڑا نکل آیاجسے ہمارے ہاں گھمبیر کہتے ہیں اور وہ لمبے عرصہ تک چلتا چلا گیا۔بہتیرا علاج کیا گیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آخر انہوں نے خیال کیا کہ اگر میں چارپائی پر پڑا رہا اور فوج نے دیکھا کہ میں جو اس کا کمانڈر ہوں،ساتھ نہیں،تو وہ بددِل ہوجائے گی چنانچہ انہوں نے ایک درخت پر عرشہ بنوایا جیسے ہمارے ہاں لوگ باغات کی حفاظت کے لئے بنا لیتے ہیں۔آپ اس عرشہ میں آدمیوں کی مدد سے بیٹھ جاتے تا مسلمان فوج اُنہیں دیکھتی رہے اور اسے خیال رہے کہ اس کا کمانڈر ان کے ساتھ ہے۔ انہی دنوں آپ کو اطلاع ملی کہ ایک عرب سردار نے شراب پی ہے۔شراب اگرچہ اسلام میں حرام تھی مگر عرب لوگ اس کے بہت عادی تھے اور اگر اس کی عادت پڑ جائے تو جلدی چُھٹتی نہیں ۔ ابھی اُن کے اسلام لانے پر دوتین سال کا ہی عرصہ گزرا تھا اور دوتین سال کے عرصہ میں اس کی عادت نہیں جاتی۔ بہرحال حضرت سعد بن ابی وقاص کو جب اس مسلمان عرب سردار کے متعلق اطلاع ملی کہ اس نے شراب پی ہے تو آپ نے اُسے قید کردیا۔ان دنوں باقاعدہ قید خانے نہیں ہوتے تھے۔جس شخص کو قید کرنا مقصود ہوتا اُسے کسی کمرہ میں بند کردیا جاتا اور اس پر پہرہ مقرر کردیا جاتا۔ چنانچہ اس مسلمان عرب سردار کو بھی ایک کمرہ میں بند کردیا گیا اور دروازہ پر پہرہ لگادیا گیا۔
وہ سال تاریخِ اسلام میں مصیبت کا سال کہلاتا ہے کیونکہ مسلمانوں کا جنگ میں بہت نقصان ہوا تھا۔ایک جگہ پراسلامی لشکر کے گھوڑے دشمن کے ہاتھیوں سے بھاگے۔پاس ہی ایک چھوٹا سا دریا تھا،گھوڑے اُس میں کُودے اورعرب چونکہ تیرنا نہیں جانتے تھے اس لئے سینکڑوں مسلمان ڈوب کر مرگئے۔اِس لئے اُس سال کو مصیبت کا سال کہتے ہیں۔بہرحال وہ مسلمان عرب سردار کمرہ میں قید تھا۔جب مسلمان سپاہی جنگ سے واپس آتے اور اس کے کمرہ کے قریب بیٹھ کر یہ ذکر کرتے کہ جنگ میں مسلمانوں کا بڑا نقصان ہوا ہے تو وہ کڑھتااوراس بات پر اظہارِ افسوس کرتا کہ وہ اس موقع پر جنگ میں حصہ نہیں لے سکا۔بے شک اس میں یہ کمزوری تھی کہ اُس نے شراب پی لی لیکن وہ تھا بڑابہادر، اس کے اندر جوش پایا جاتا تھا۔ جنگ میں مسلمانوں کے نقصانات کا ذکر سُن کر وہ کمرہ میں اس طرح ٹہلنے لگ جاتا جیسے پنجرہ میں شیرٹہلتا ہے۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ شعر پڑھتا جن کا مطلب یہ تھا کہ آج ہی موقع تھا کہ تُو اسلام کو بچاتا اوراپنی بہادری کے جوہر دکھاتا مگر تُو قید ہے۔
حضرت سعدؓ کی بیوی بڑی بہادر عورت تھیں وہ ایک دن اس کے کمرہ کے پاس سے گزریں تو انہوں نے یہ شعر سُن لئے۔ انہوں نے دیکھا کہ وہاں پہرہ نہیں ہے وہ دروازہ کے پاس گئیں اور اُس قیدی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔تجھے پتہ ہے کہ سعدؓ نے تجھے قید کیا ہؤا ہے،اگر اُسے پتہ لگ گیا کہ میں نے تجھے قید سے آزاد کردیا ہے تو مجھے چھوڑے گا نہیں۔لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ میں تجھے قیدسے آزاد کردوں تاکہ تُواپنی خواہش کے مطابق اسلام کے کام آسکے۔اُس نے کہا آپ جب لڑائی ہو مجھے چھوڑ دیا کریں میں وعدہ کرتا ہوں کہ لڑائی کے بعد میں فوراً واپس آکر اس کمرہ میں داخل ہوجایاکروں گا۔ اُس عورت کے دل میں بھی اسلام کا درد تھا اور اس کی حفاظت کے لئے جوش پایا جاتا تھا۔اِس لئے اُس نے اس شخص کو قید سے نکال دیا۔ چنانچہ وہ لڑائی میں شامل ہوا اور ایسی بے جگری سے لڑا کہ اس کی بہادری کی وجہ سے اسلامی لشکر بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ گیا۔سعدؓ نے اُسے پہچان لیا اور بعد میں کہا کہ آج کی لڑائی میں وہ شخص موجود تھا جسے میں نے شراب پینے کی وجہ سے قید کیا ہوا تھا گو اُس نے چہرے پر نقاب ڈالی ہوئی تھی مگر میں اس کے حملہ کے اندازاو رقد کو پہچانتا ہوں میں اُس شخص کو تلاش کروں گا جس نے اُسے قیدسے نکالا ہے اور اُسے سخت سزا دُوں گا۔جب حضرت سعدؓ نے یہ الفاظ کہے تو اُن کی بیوی کو غصہ آگیا اور اُس نے کہا،تجھے شرم نہیں آتی کہ آپ تُو درخت پر عرشہ بناکر اس پر بیٹھا ہوا ہے او راس شخص کو تُونے قید کیا ہوا ہے جو دشمن کی فوج میں بے دریغ گھس جاتا ہے او راپنی جان کی پروا نہیں کرتا۔میں نے اُس شخص کو قید سے چُھڑایا تھا تم جو چاہو کرلو۔3
غرض عورتوں نے اسلام میں بڑے بڑے کام کئے ہیں۔ لیکن یہ صرف اسلام کی ہی بات نہیں اِسلام سے پہلے مذاہب کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ گواُن مذاہب نے عورتوں کو اُن کے حقوق نہیں دئیے مگر انہوں نے اپنے مذہبوں کے لئے بڑے بڑے کام کئے ہیں۔ مثلاً سب سے پرانا نبی ہندوستان کا کرشنؑ ہے۔ تم نے شاید سنا ہوگا کہ کرشنؑ کی گوپیاں ہوتی تھیں جواُن کے اردگرد رہتی تھیں۔ہندو تصویریں بناتے ہیں تو کرشن جی کو ایک بچے کی شکل میں دکھاتے ہیں اور پرانے قصوں کے متعلق یہ قاعدہ ہے کہ وہ قصّہ کو مزیدار بنانے کے لئے شکلیں بدلتے رہتے ہیں۔بہرحال کرشن جیؑ کے متعلق جو تصویریں عام طور پر ملتی ہیں اُن میں یہ دکھایا جاتاہے کہ کرشن جی درخت پر چڑھے ہوئے ہیں اوراس درخت کے اردگرد عورتیں کھڑی ہوئی ہیں۔ انہوں نے ہاتھ میں مکھن اٹھایا ہوا ہے۔کرشن جی درخت سے نیچے اُترتے ہیں اور اُن سے مکھن چھین کر لے جاتے ہیں۔درحقیقت تصویری زبان میں اس میں ایک بھاری حکمت بیان کی گئی تھی اور وہ حکمت یہ ہے کہ کسی مذہبی قوم کا مکھن اس کے نومسلم ہوتے ہیں۔ جس طرح دودھ کو بلونے سے مکھن بنتا ہے اِسی طرح جب انسانی دماغ کو بلوایا جائے او رسچ اس کے اندر ڈالا جائے تو اس کے نتیجہ میں وہ صداقت کو قبول کرلیتا ہے او رپھر یہ مکھن نبی کے ہاتھ میں جاتا ہے او روہ اسے اپنی جماعت میں داخل کرلیتا ہے۔ پس ان تصویروں میں بتایا گیا ہے کہ کرشن جیؑ کے وقت میں عورتیں تبلیغ کیا کرتی تھیں اور پھر جولوگ صداقت کو قبول کرلیتے تھے انہیں ساتھ لے کر وہ کرشن جیؑ کے پاس آتیں اور وہ انہیں اپنی جماعت میں داخل کرلیتے۔ گو ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ عورتوں کو کرشن جی کا مُرید بناتی تھیں یا مردوں کو بناتی تھیں۔ مگر ان تصویروں سے پتہ لگتا ہے کہ اس زمانہ کی عورتیں اتنی قربانی کرنے والی تھیں کہ وہ رات دن کرشن جی کا پیغام دنیا کو پہنچاتی رہتی تھیں او را سکے نتیجہ میں جو لوگ ایمان لے آتے تھے انہیں ساتھ لیکر کرشن جیؑ کے پاس آتی تھیں اور وہ انہیں اپنی جماعت میں داخل کرلیتے تھے۔غرض حضرت کرشنؑ کے زمانہ میں بھی عورتوں نے مذہب کے لئے بڑی قربانیاں کی ہیں۔
پھر ہم اُن نبیوں کی طرف آتے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے۔اسلام کا مرکز مکہ مکرمہ ہے او رمسلمانوں کی واحد مسجد جو سب سے پُرانی ہے وہ خانہ کعبہ ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے۔ا س کے بننے کا جو ذکر آتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی حضرت ہاجرہ کا بڑا حصہ ہے۔حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری بیوی تھیں سارہ پہلی بیوی تھیں۔ سارہ، ہاجرہ سے کسی بات پر جھگڑپڑیں تو انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ اگر ہاجرہ اس گھر میں رہیں تو میرااُن سے نباہ نہیں ہوسکے گا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ جھگڑا دیکھ کر سخت صدمہ ہوا اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی کہ یا اللہ! میرے گھر کا امن بربادہورہا ہے،میری پہلی بیوی دوسری بیوی کی موجودگی میں میرے گھر میں رہنے سے انکار کررہی ہے اور تُو نے اس کی اولاد سے بڑے وعدے کئے ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے کہا جیسے تیری پہلی بیوی سارہ کہتی ہے اُس میں تیرے خاندان کی بھلائی ہے۔ تُو ہاجرہ او راس کے بیٹے اسماعیل کو جنگل میں چھوڑ آ 4 چنانچہ آپ حضرت ہاجرہ اور اُس کے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کو لے کر (اسلامی روایات کے مطابق)مکّہ کی طرف گئے۔وہاں پہنچ کر آپ نے ایک تھیلی کھجوروں کی او رایک مشکیزہ پانی کا اُن کے پاس رکھا او رخود واپس آگئے۔ابھی وہاں زمزم کا چشمہ نہیں نکلا تھا ا ور اس بے آب وگیاہ وادی میں پانی کا نام ونشان تک نہ تھا۔قافلے بھی پیاس کی وجہ سے وہاں سخت تکلیف اُٹھاتے تھے۔حضرت ہاجرہ نے جب دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس بیابان میں اُنہیں او ران کے اکلوتے بیٹے کو چھوڑ کر واپس جارہے ہیں تو وہ آپ کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہنے لگیں ابراہیم! تُو مجھے اور میرے بچے کو یہاں کس لئے چھوڑ چلے ہو جہاں نہ کھانے کو کچھ ملتا ہے اور نہ پینے کے لئے پانی ہے۔ تم ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجوریں ہمیں دے چلے ہو یہ بھلا کتنے دن جائیں گی اس کے بعد ہم کیا کرینگے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس نظارہ کی وجہ سے کہ آپ اپنا بڑا اور اکلوتابیٹا جو بڑھاپے میں پیدا ہوا تھاجبکہ آپ کی عمر سو سال کی تھی بیابان میں چھوڑ کر جارہے ہیں،رقّت آگئی۔آپ نے سمجھا کہ اگر میں نے ہاجرہ کو زبان سے جواب دیا تو میری آواز بھرّا جائے گی اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں گے اس لئے آپ نے آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھادیا جس کا مطلب یہ تھاکہ ہاجرہ!میں تجھے اور تیرے بیٹے کو کسی سگندلی کی وجہ سے یہاں نہیں چھوڑ رہا بلکہ مجھے ایسا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔حضرت ہاجرہ نے آپ کی بات کوسمجھ لیا او رکہا اِذًا لَّا یُضَیِّعُنَا۔5 اگر آپ ہمیں خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت یہاں چھوڑ چلے ہیں تو ہمیں کوئی فِکر نہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ یہ کہہ کر حضرت ہاجرہ اس جگہ واپس آگئیں جہاں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو لٹایا ہوا تھا اور ایک دفعہ بھی پیچھے مُڑکر اپنے خاوند کا منہ نہیں دیکھا۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام درد او رغم کی وجہ سے بار بار مُڑ مُڑ کر دیکھتے جاتے تھے۔گویا حضرت ہاجرہ نے جو صبر کا نمونہ دکھایا وہ حضرت ابراہیمؑ کے نمونہ سے بڑھ کر تھا۔آپ تو بار بار مُڑ مُڑ کر دیکھتے تھے لیکن حضرت ہاجرہ نے ایک دفعہ بھی مُڑ کر نہ دیکھا اور کہا اگر خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ہمیں یہاں چھوڑ دیا جائے تو وہ خود ہماری حفاظت کرے گا ہمیں کیا پروا ہے۔ چنانچہ آپ وہاں رہیں اور پھر اسی جگہ اللہ تعالیٰ نے پانی کا چشمہ جاری کردیا۔پانی کا چشمہ نکل آنے کی وجہ سے قافلے آپ کی اجازت سے وہاں ٹھہرتے اور چشمہ کا پانی استعمال کرتے۔بعد میں ایک قبیلہ وہاں آباد ہوگیا اور اس نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو اپنا سردار بنا لیا۔ پھر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان نبی پیدا ہوا۔
مسلمان عورتوں کی قُربانیاں
تو دیکھوحضرت ابراہیم علیہ السّلام کے زمانہ میں بھی عورتوں نے مذہب کی
خاطر بڑی قربانیا کی ہیں۔کرشنؑ کے زمانہ میں بھی تبلیغ کا اہم کام کیا ہے اور اسلام کے ابتدائی دَور میں بھی عورتوں نے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دئیے ہیں او ربعد میں بھی عورت کا حصہ بڑھتا چلا گیا۔دیکھو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپؐ کی سب سے پہلے امداد جس نے کی وہ ایک عورت ہی تھی۔اسلام کی تبلیغ کے لئے سب سے پہلے روپے کی ضرورت تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی پیسہ نہ تھا۔اُس وقت حضرت خدیجہؓ نے اپنی تمام دولت آپؐ کے سپرد کردی او رکہا آپ جس طرح چاہیں اُسے استعمال کریں۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی نوجوان دین کے لئے زندگی وقف کرتا ہے تو اُسے کوئی شخص اپنی لڑکی دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ ماں باپ کہتے ہیں ہم اپنی لڑکی اُسے نہیں دیں گے،ہماری لڑکی کھائے گی کہاں سے ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بچپن ہی سے واقفِ زندگی تھے او رآپ کے پاس کوئی روپیہ بھی نہیں تھا۔ حضرت خدیجہؓ جو ایک بڑی مالدار خاتون تھیں،بیوہ تھیں،ان سے کسی سہیلی نے کہا،تم شادی کیوں نہیں کرلیتیں۔ انہوں نے کہا،کس سے کروں؟اگر کوئی دیانتدار آدمی مِل جائے تو شادی کرلُوں۔اِس نے کہا،محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)سے بڑھ کر دیانتدار اور کون ہے۔تم نے خود اس کی دیانت کو دیکھ لیا ہے۔حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو شام کی طرف تجارتی مال دے کر بھیجا تھا اور اس سفر میں آپؐ کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔حضرت خدیجہؓ نے محسوس کیا تھا کہ یہ نفع منڈیوں کے حالا ت کی وجہ سے نہیں بلکہ امیرِ قافلہ کی نیکی اور دیانت کی وجہ سے ہے۔آپ کے غلام مَیسرہ نے بھی آپ کے اس خیال کی تائید کی تھی۔بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ کی دیانتداری کا حضرت خدیجہؓ پر بڑا اثر تھا۔جب اُس نے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کرنے کی تحریک کی تو آپ نے فرمایا اگر وہ راضی ہوجائیں تو میں اُن سے شادی کرلوں گی۔اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر25سال کی تھی اور حضرت خدیجہؓ کی عمر40سال کی تھی گویا آپ حضرت خدیجہؓ سے15سال چھوٹے تھے۔حضرت خدیجہؓ کی اس سہیلی نے جس نے شادی کی تحریک کی تھی کہا اگر آپ اجازت دیں تو میں اس بارہ میں کسی سے بات کروں۔ حضرت خدیجہؓ نے کہا میں راضی ہوں او رمیری طرف سے تمہیں اس بارہ میں بات کرنے کی اجازت ہے۔ چنانچہ وہ عورت حضرت خدیجہؓ کے رشتہ داروں کے پاس گئی۔انہوں نے کہا اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) راضی ہوجائے تو ہمیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں۔ پھر وہ عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اُس نے دریافت کیا کہ آپؐ شادی کیوں نہیں کرتے؟آپؐ نے فرمایا میرے پاس کوئی مال نہیں ہے جس سے میں شادی کروں۔اُس نے کہا اگر یہ مشکل دور ہوجائے تو پھر۔آپؐ نے فرمایا وہ کون عورت ہے؟اس نے کہاخدیجہؓ۔آپؐ نے فرمایا میں اُس تک کس طرح پہنچ سکتا ہوں؟اس نے کہا یہ میرے ذمّہ رہا۔آپؐ نے فرمایا مجھے منظور ہے۔ تب حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کے چچا کی معرفت شادی کا پختہ فیصلہ کرلیا اور آپ کی شادی حضرت خدیجہؓ سے ہوگئی۔6
شادی کے بعد جب حضرت خدیجہؓ نے محسوس کیا کہ آپ کا حسّاس دل ایسی زندگی میں کوئی خاص لُطف نہیں پائے گا کہ آپؐ کی بیوی مالدار ہو اورآپؐ ا س کے محتاج ہوں تو انہوں نے ارادہ کرلیا کہ وہ اپنی تمام دولت آپؐ کی خدمت میں پیش کردیں گی تا کہ جب او رجیسے آپؐ چاہیں اُسے خرچ کرسکیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا۔میرے چچا کے بیٹے!(اُس وقت آپؐ ابھی رسالت کے منصب پر فائز نہیں ہوئے تھے اور عرب میں قاعدہ ہے جب بیویاں اپنے خاوند کو مخاطب کرتی ہیں تو چچا کا بیٹا کہا کرتی ہیں)میں اپنا سارا مال اور غلام آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہوں۔آپ میری دلجوئی کریں او رمیری اس پیشکش کو قبول فرمالیں۔آپؐ نے فرمایا خدیجہ!منہ سے بات کہہ دینا آسان ہوتا ہے مگر بعد میں اس پر قائم رہنا مشکل ہوتاہے۔تمہیں پتہ ہے میں غلامی کا سخت مخالف ہوں اور تمہارے غلام ہیں اگر تم نے وہ سارے غلام میرے سپرد کر دیئے تو مَیں اُنہیں فوراً آزاد کر دوں گا۔ اُس زمانہ میں بڑی جائیداد غلام ہی ہوتی تھی۔ آپ نے فرمایا خدیجہ! اگر میں نے تمہارے سب غلاموں کو آزاد کر دیا تو تم خفا تو نہیں ہوگی اور اپنے عہد پر قائم رہوگی؟ حضرت خدیجہؓ نے فرمایا آپ جس طرح چاہیں کریں مجھے کوئی اعتراض نہیں میں آپ کی خوشی میں ہی اپنی خوشی محسوس کرتی ہوں۔ چنانچہ آپؐ نے خانہ کعبہ میں لوگوں کو جمع کیااور اعلان کیا کہ اے لوگو!گواہ رہو آج خدیجہؓ نے اپنا سارا مال مجھے دے دیا ہے اور مجھے اختیار دیا ہے کہ میں جیسے چاہوں استعمال کروں۔سو آج میں نے اس کے سب غلام آزاد کردئیے ہیں اب وہ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں۔ گویا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مشن کے لئے روپیہ کی ضرورت تھی تو اُس وقت وہ روپیہ ایک عورت نے ہی آپؐ کو مہیا کیا۔
پھر آپؐ کو عبادت کا شوق ہوا تو آپؐ شہر سے تین چار میل دُور ایک پہاڑی کی چوٹی پر پتھروں کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سے غار میں جسے حرا کہتے ہیں عبادت کے لئے تشریف لے جاتے۔حضرت خدیجہؓ آپؐ کو تین چار دن کے لئے کھانا دے دیتیں جو ستوؤں اور کھجوروں پر مشتمل ہوتا تھا7 جب وہ ختم ہوجاتا تو آپ واپس آتے او رحضرت خدیجہؓ پھر تین چار دن تک کی خوراک دے دیتیں او رآپ حرا میں واپس تشریف لے جاتے۔
پھر جب آپؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ بہت گھبرائے۔آپؐ نے خیال کیا کہ انسان چاہے کتنی بھی کوشش کرے خداتعالیٰ کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی خداتعالیٰ کے حق کو ادا نہ کرسکوں او راس طرح اس کی ناراضگی کا مورد بنوں۔آپؐ حضرت خدیجہؓ کے پاس آگئے اور فرمایا۔خدیجہ!آج جبریلؑ آیا ہے اور اُس نے مجھے خداتعالیٰ کا یہ حکم دیا ہے کہ جاؤ اور ساری دُنیا کو خُدائے واحد کی تبلیغ کرو لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہوجائے۔اس بات کو سنتے ہی فوراً حضرت خدیجہؓ نے کہا میرے چچا کے بیٹے!آپ گھبراتے کیوں ہیں۔کَلَّا وَاللہِ لَایُخْزِیْکَ اللہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَ تَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَ تَقْرِی الضَّیْفَ وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ 8 خدا کی قسم!یہ کلام خداتعالیٰ نے اس لئے آپ پر نازل نہیں کیا کہ آپ ناکام ونامراد ہوں اور خداتعالیٰ آپ کو رُسوا کردے خداتعالیٰ ایسا کب کرسکتا ہے۔آپ تو وہ ہیں کہ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں اور بے یارومددگار لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں اور وہ اخلاق جو مُلک سے مِٹ چکے ہیں وہ آپ کی ذات کے ذریعہ دُنیا میں دوبارہ قائم ہورہے ہیں۔مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور سچی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ کیاایسے انسان کو خدا تعالیٰ کسی ابتلاء میں ڈال سکتا ہے؟اس نے اگر آپ پر کلام نازل کیا ہے تو اس لئے نہیں کہ آپ کو کسی دُکھ میں ڈالے بلکہ اس لئے نازل کیا ہے کہ وہ آپ کی عزّت بڑھائے۔
پھر سب سے پہلے جو آپؐ کے دعویٰ پر ایمان لائیں وہ حضرت خدیجہؓ ہی تھیں۔ گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی بھی ایک عورت ہی تھی۔مؤرخین نے اس بات پر بڑی بحث کی ہے کہ سب سے پہلے کون مسلمان ہوا۔ بعض نے کہا ہے کہ سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہؓ تھیں بعض نے حضرت ابوبکرؓ کو پہلا مسلمان قرار دیا ہے اور شیعہ حضرت علیؓ کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے ایمان لائے۔ محققین نے لکھا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ ایمان لائیں۔جواں سال مردوں میں سے حضرت ابوبکرؓ سب سے پہلے ایمان لائے۔بچوں میں سے حضرت علیؓ کو سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوئی اور غلاموں میں سے حضرت زیدؓ پہلے ایمان لائے۔ بہرحال اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں پہلا مالی بوجھ اُٹھانے والی ایک عورت ہی تھی جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس قدر خدمت کی کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ان کی خدمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کی محبت وفات کے بعد بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جوش مارتی رہی۔جب بھی کوئی بات ہوتی آپ فرماتے خدیجہؓ نے یوں کہا تھا، خدیجہؓ یوں کیا کرتی تھی۔ او راس کی وجہ سے آپؐ کی نوجوان بیویاں چِڑ جایا کرتی تھیں مثلاً حضرت عائشہؓ جوان تھیں اور پھر آپؐ کی خدمت بھی کرتی تھیں۔جب بات بات پر آپؐ حضرت خدیجہؓ کاذکر فرماتے تو وہ بعض دفعہ چِڑ جایا کرتیں۔ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے کہا یا رسول اللہ!آپ کوکیا ہوگیا ہے!خدیجہؓ کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو جوان اورخدمت کرنے والی بیویاں دی ہیں مگرپھر بھی آپ ہر وقت اُسی بُڑھیا کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ!تجھے معلوم نہیں خدیجہؓ نے میرا ساتھ کس وفاداری کے ساتھ دیا تھا۔ ہر مصیبت میں اس نے میرا ساتھ دیا اور ہر مشکل کے وقت اس نے میرے لئے قربانی کی، کیا میں اُسے بھول سکتا ہوں؟تمہارا مقام اپنی جگہ ہے اور خدیجہؓ کا مقام اپنی جگہ ہے۔اس نے میری اُس وقت خدمت کی جب ساری دنیا مجھے چھوڑ چکی تھی۔وہ میرے دشمنوں کے مقابلہ میں میرے ساتھ پہاڑ بن کر کھڑی رہی۔9
پھر حضرت خدیجہؓ کی خدمات کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قدر اثر تھا کہ ایک دفعہ ان کی بہن ملنے کے لئے آئیں۔اُن کی آواز حضرت خدیجہؓ کی آواز سے ملتی تھی۔ان کی آواز جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں پڑی تو آپؐ کو یوں معلوم ہوا کہ گویا حضرت خدیجہؓ آگئی ہیں۔ تاریخ میں آتا ہے کہ آپؐ اس کی آواز سُن کر بے قرار ہوگئے او راس بے کلی کی حالت میں فرمانے لگے۔ہائے میری خدیجہؓ!ہائے میری خدیجہؓ! یعنی میری خدیجہ کہاں سے آگئی!لوگوں نے کہا یا رسول اللہ!خدیجہؓ کو تو فوت ہوئے کئی سال گزر چکے ہیں یہ اُن کی بہن ہے۔10 اب دیکھ لو!حضرت خدیجہؓ کی وفات کے پندرہ سولہ سال بعد بھی ان کی آواز کے ساتھ ملتی جلتی آواز سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بے تاب ہوکر ہائے میری خدیجہ! کہہ اُٹھنا اس بات کی کتنی واضح دلیل ہے کہ ان کی خدمات کا آپؐ کے دل پر گہرا اثر تھا او روہ لمباعرصہ گزر جانے کے باوجود بھی آپؐ کے دل سے محو نہیں ہوا تھا۔ تو اسلا م کی ابتداء میں بھی عورتوں نے ہی زیادہ خدمات کی ہیں۔
جب آپؐ نے دعویٰ نبوت کیا تو سارے مکہ والے آپؐ کے مخالف ہوگئے۔اس وقت اگر آپؐ کو کہیں پناہ ملتی تھی تو آپؐ کی پھوپھی کی لڑکی اُمِّ ہانی کے گھر میں ملتی تھی۔پُرانے صحابہ کہا کرتے تھے کہ ہم اُمّ ہانی کے گھر جاکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین سیکھا کرتے تھے۔ غرض پہلی ہستی جس نے آپؐ کی مالی خدمت کی اور غارِ حرا میں عبادت کے زمانہ میں آپؐ کو کھانا وغیرہ باقاعدگی سے پہنچایا وہ ایک عورت ہی تھی اور دعویٰ نبوّت کے بعد جب سارا مکّہ آپؐ کا مخالف ہوگیا تھا تو جس نے آپؐ کو پناہ دی وہ عورت ہی تھی۔
پھر تیسرا نازک ترین وقت آپؐ کی زندگی میں وہ آیا جب عرب کے تمام قبائل نے متحد ہوکر ایک بڑا لشکر مدینہ پر چڑھائی کے لئے بھیجا۔اس وقت مدینہ کے بعض یہودی قبائل بھی جو بظاہر مسلمانوں کے حلیف تھے دشمن کے ساتھ مل گئے تھے اس وقت بھی ایک عورت ہی تھی جس نے ہمت سے کام لیا اور دشمن کے حملہ کو ناکام کردیا۔جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس موقع پر مدینہ کے یہودی بھی مُشرکینِ مکّہ کے ساتھ مِل گئے تھے اور باہر سے بیس سے چوبیس ہزار کے درمیان تعداد میں دشمن کا لشکر حملہآور ہورہاتھا۔ اس کے مقابلہ میں جو مسلمان تھے اُن کی تعداد صرف بارہ سو تھی۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہودیوں کی غدّاری کا علم ہوا تو چونکہ مستورات ان یہودیوں کے اعتبار پر اُس علاقہ کی طرف رکھی گئی تھیں جدھر یہودی قبائل کے قلعے تھے اور اب وہ بغیر حفاظت کے تھیں اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت ضروری سمجھی اور بارہ سو کے قریب لشکر میں سے پانچ سو سپاہیوں کو عورتوں کی حفاظت کے لئے مقرر فرمادیا لیکن اس سے پہلے تمام عورتیں غیر محفوظ تھیں۔ایک دن دشمن نے شدید حملہ کیا جس کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہؓ اطمینان سے نماز بھی نہ پڑھ سکے۔دشمن سامنے سے حملہ کررہا تھا اور یہودی اس بات کی تاڑ میں تھے کہ کوئی موقع مل جائے تو بغیر مسلمانوں کے شبہات کو اُبھارنے کے وہ مدینہ کے اندر گھس کر مسلمان عورتوں اور بچوں کو قتل کردیں۔ چنانچہ ایک دن یہودیوں نے ایک جاسوس بھیجا تا کہ وہ معلوم کرے کہ عورتیں اور بچے اکیلے ہی ہیں یا خاصی تعداد سپاہیوں کی اُن کی حفاظت کے لئے مقرر ہے۔ جس خاص احاطہ میں خاص خاص خاندانوں کو جن کو دشمن سے زیادہ خطرہ تھا جمع کردیا گیا تھااس کے پاس اس جاسوس نے منڈلانا شروع کردیا اور چاروں طرف دیکھنا شروع کیاکہ آیا مسلمان سپاہی اردگرد کہیں پوشیدہ تو نہیں۔وہ اس تاڑ میں ہی تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے اُسے دیکھ لیا۔ اتفاقاً اُس وقت ایک ہی مسلمان وہاں تھا جو بیمار اور کمزور دل تھا۔ حضرت صفیہؓ نے اُسے کہا کہ یہ آدمی دیر سے عورتوں کے علاقہ میں پھر رہا ہے اور چاروں طرف دیکھتا پھرتا ہے یہ یقیناً جاسوس ہے، تم اس کا مقابلہ کرو۔ لیکن اس کمزور دل اور بیمار صحابی نے مقابلہ کرنے سے انکار کردیا اور کہا مجھے ڈر آتا ہے۔ تب حضرت صفیہؓ نے خود ایک چوب اتاری اور اس جاسوس کی نظر بچاکر اس زور سے اُسے ماری کہ وہ بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ جب وہ یہودی بیہوش ہوکر گرا تو وہ ننگا ہوگیا۔حضرت صفیہؓ نے اس صحابی سے کہا اب ذرا اس پر کپڑا تو ڈال دو لیکن اس صحابی کا دل بہت کمزور تھا وہ پھر بھی کہنے لگا مجھے ڈرآتا ہے کہ کہیں یہ شخص زندہ ہی نہ ہو اور مجھے مار نہ دے۔ آخرکار حضرت صفیہؓ نے ہی جُرأت کی۔ آپ اپنی آنکھوں پر کپڑا ڈال کر ایک طرف سے گئیں اور اُس یہودی پر کپڑا ڈالا اور اس کے بعد اس کی مشکیں کَس دیں۔11
پھر جب جنگِ اُحد کے موقع پر دشمن کا ایک ریلا آیا اور مسلمان لشکر کے پاؤں اُکھڑ گئے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے دُور تک دھکیل دئیے گئے اور صرف چند مسلمان آپؐ کے پاس رہ گئے اُس وقت دشمن کی طرف سے کچھ پتھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خَود پر لگے جس کی وجہ سے خَودکاکیل آپؐ کی پیشانی میں گھس گیا اور آپ بیہوش ہوکر مسلمانوں کی لاشوں پر گر پڑے۔اس کے بعد بعض اَور مسلمانوں کی لاشیں آپؐ کے جسمِ مبارک پر گریں او رمسلمانوں نے سمجھا کہ آپؐ شہید ہوگئے ہیں۔12اُس وقت بھی مسلمان عورتیں ہی تھیں جنہوں نے اپنی وفاداری کا ایسا ثبوت پیش کیا کہ جس کی مثال دنیا میں ملنی مشکل ہے۔
اُحد کا میدان مدینہ سے آٹھ نو میل کے فاصلہ پر تھا۔ جب مدینہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر پہنچی تو عورتیں بے تحاشا روتی اور بلبلاتی ہوئی شہر سے باہر نِکل آئیں اور میدانِ جنگ کی طرف دوڑ پڑیں۔ اکثر عورتوں کو رستہ میں آپؐ کی سلامتی کی خبر مل گئی اور وہ وہیں ٹھہر گئیں مگر ایک عورت دیوانہ وار اُحد تک جا پہنچی۔اس عورت کا خاوند ،بھائی اور باپ اُحد میں مارے گئے تھے اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔ جب وہ مسلمان لشکر کے قریب پہنچی تو اس نے ایک صحابی سے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟چونکہ خبر دینے والا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مطمئن تھا اس لئے اس نے اُس عورت سے کہا۔ بی بی! افسوس ہے کہ تمہارا باپ اس جنگ میں مارا گیا ہے۔اس پر اُس عورت نے کہا تم عجیب ہو۔میں تو پوچھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟اور تم یہ خبر دیتے ہو کہ تیرا باپ مارا گیا ہے۔ اِس پر اُس صحابی نے کہا بی بی!مجھے افسوس ہے کہ تیرا خاوند بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے۔ اِس پر عورت نے پھر کہا میں نے تم سے اپنے خاوند کے متعلق دریافت نہیں کیا میں تو یہ پوچھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاکیا حال ہے؟ اِس پر اُس صحابی نے اُسے پھر کہا۔بی بی!مجھے افسوس ہے کہ تیرا بھائی بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے۔ اُس عورت نے بڑے جوش سے کہا میں نے تم سے اپنے بھائی کے متعلق دریافت نہیں کیا۔میں تو تم سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پُوچھ رہی ہوں تم یہ بتاؤ کہ آپؐ کا کیا حال ہے؟جب لوگوں نے دیکھا کہ اُسے اپنے باپ،بھائی اور خاوند کی موت کی کوئی پروا نہیں،وہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت دریافت کرنا چاہتی ہے تو وہ اس کے سچے جذبات کو سمجھ گئے اور انہوں نے کہا۔بی بی!رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خیریت سے ہیں۔اس پر اُس نے کہا۔مجھے بتاؤ وہ کہاں ہیں؟اور پھر دوڑتی ہوئی اُس طرف گئی جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے اور وہاں پہنچ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہوکر آپؐ کا دامن پکڑ کر کہنے لگی۔یارسول اللہ!میری ماں اور باپ آپ پر قربان ہوں جب آپ سلامت ہیں تو کوئی مرے مجھے کیا پروا ہے مجھے تو صرف آپ کی زندگی کی ضرورت تھی اگر آپ زندہ ہیں تومجھے کسی اَور کی وفات کا فکر نہیں۔13
اب دیکھو اس عورت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر عشق تھا۔ لوگ اُسے یکے بعد دیگرے باپ،بھائی اور خاوند کی وفات کی خبر دیتے چلے گئے لیکن وہ جواب میں ہر دفعہ یہی کہتی چلی گئی کہ مجھے بتاؤ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟غرض یہ بھی ایک عورت ہی تھی جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر عشق کا مظاہرہ کیا۔
پھر اسی قسم کی فدائیت کی ایک اور مثال بھی تاریخوں میں ملتی ہے ۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے میدان سے واپس تشریف لائے تو مدینہ کی عورتیں او ربچے شہر سے باہر استقبال کے لئے نکل آئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ ایک پُرانے اور بہادر انصاری صحابی سعدؓ بن معاذ نے پکڑی ہوئی تھی اور وہ فخر سے آگے آگے چلے آرہے تھے۔شہر کے پاس انہیں اپنی بُڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہوچکی تھی آتی ہوئی ملی۔ اُحد میں اس کا ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔اس بُڑھیا کی آنکھوں میں موتیا بند اُتر رہا تھا اور اس کی نظر کمزور ہو چکی تھی۔وہ عورتوں کے آگے کھڑی ہوگئی اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگی اور معلوم کرنے لگی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ سعدؓبن معاذ نے سمجھا کہ میری ماں کو اپنے بیٹے کے شہید ہونے کی خبر ملے گی تو اُسے صدمہ ہوگا۔اس لئے انہوں نے چاہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے حوصلہ دلائیں او رتسلّی دیں۔ اس لئے جونہی اُن کی نظر اپنی والدہ پر پڑی انہوں نے کہا،یا رسو ل اللہ میری ماں! یارسولَ اللہ میری ماں! آپؐ نے فرمایا۔بی بی! بڑا افسوس ہے کہ تیرا ایک لڑکا اس جنگ میں شہید ہوگیا ہے۔بڑھیا کی نظر کمزور تھی اس لئے وہ آپؐ کے چہرہ کو نہ دیکھ سکی۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھتی رہی آخر کار اس کی نظر آپؐ کے چہرہ پر ٹِک گئی۔وہ آپؐ کے قریب آئی اور کہنے لگی یارسول اللہ!جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا ہے تو آپ سمجھیں کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھالیا۔14
اب دیکھو وہ عورت جس کے بڑھاپے میں عصائے پیری ٹوٹ گیا تھا۔کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو میں اس غم کو بھون کر کھا جاؤں گی۔ میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہوگی بلکہ یہ خیال کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اورآپؐ کی حفاظت کے سلسلہ میں میرے بیٹے نے اپنی جان دی ہے میری قوت کو بڑھانے کا موجب ہوگا۔ تو دیکھو عورتوں کی یہ عظیم الشّان قربانی تھی جس سے اسلام دُنیا میں پھیلا۔
اِس زمانہ میں بھی دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ عورتوں کی قربانیاں دین کی خاطر کم نہیں ہیں۔1920ء میں میں نے جب مسجد برلن کے لئے چندہ کی تحریک کی تو جماعت کی عورتوں نے جو اُس وقت تعداد میں اتنی بھی نہیں تھیں جتنی تم یہاں بیٹھی ہو۔اپنے زیور اتار اتار کر رکھ دئیے اور کہا انہیں بیچ کر رقم حاصل کرلیں او رمسجد فنڈ میں دے دیں۔٭
غرض اُس وقت کی عورتوں نے اس قدر قربانی کی تھی کہ انہوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ مسجد کے لئے جمع کردیا او راس چیز کا غیروں پر گہرا اثر ہوا۔وہ جب بھی احمدیوں سے ملتے تو اس چیز کا ذکر کرتے او رکہتے کہ ہم پر اس چیز کا بہت اثر ہے۔اب تم اُن سے بہت زیادہ ہو۔ اگر تم میں وہی ایمان پیدا ہوجائے جو 1920ء کی عورتوں کے اندر تھا تو تم ایک لاکھ نہیں پانچ لاکھ روپیہ ایک ماہ میں جمع کرسکتی ہو لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ایمان پیدا کیا جائے۔
جب تقسیمِ مُلک ہوئی اور ہم ہجرت کرکے پاکستان آئے تو جالندھر کی ایک احمدی عورت مجھے ملنے کے لئے آئی۔رتن باغ میں ہم مقیم تھے وہیں وہ آکر ملی اور اپنا زیور نکال کر کہنے لگی کہ حضور! میرا یہ زیور چندہ میں دے دیں۔ میں نے کہا بی بی!عورتوں کو زیور کا بہت خیال ہوتا ہے تمہارے سارے زیور سکھوں نے لُوٹ لئے ہیں یہی ایک زیور تمہارے پاس بچا ہے تم اسے اپنے پاس رکھو۔اِس پر اُس نے کہا حضور!جب میں ہندوستان سے چلی تھی تو میں نے عہد کیا تھا کہ اگر میں امن سے لاہور پہنچ گئی تو میں اپنا یہ زیور چندہ میں دے دُوں گی۔ اگر سکھ باقی زیورات کے ساتھ یہ زیور بھی چھین کر لے جاتے تو میں کیا کرسکتی تھی۔اب میں بہرحال یہ زیور چندہ میں دُوں گی۔آپ مجھے اسے اپنے پاس رکھنے پر مجبور نہ کریں۔ چنانچہ اس عورت نے اپنا زیور چندہ میں دے دیا۔
٭ اس تقریر کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ جب میں نے یہ تحریک کی تھی تو اُمِّ طاہر کی والدہ زندہ تھی۔انہوں نے اُسی وقت اپنی بیٹیوں او ربہوؤں کو بلایا اور کہا کہ سب زیور اُتار کر رکھ دو میں یہ سب زیور مسجد برلن میں چندہ کے طور پر دُوں گی چنانچہ وہ سب زیور بیچ کرمسجد برلن کے چندہ میں دے دیا گیا۔
اب بھی وہ عورت زندہ ہے۔ مشرقی پنجاب سے جو عورتیں پاکستان آئی تھیں ان میں سے ہزاروں ایسی ملیں گی جو لُٹی لٹائی پاکستان پہنچی ہیں۔کئی جگہوں پر تو سکھوں نے اُن سے زیور اوردوسری چیزیں چھین لیں اور بعض جگہوں پر خود انہوں نے ڈر کے مارے اپنے زیور اور نقدی پھینک دی تاکہ اُن کے لالچ سے سِکھ ان پر حملہ آور نہ ہوں اوروہ امن سے پاکستان پہنچ جائیں۔مگر اس عورت کا صرف ایک ہی زیور بچا او روہ بھی اس نے اسلام کی خدمت کے لئے پیش کردیا۔
غرض اسلام میں عورتوں نے ہمیشہ سے قربانیاں کی ہیں اور اب بھی کرتی چلی جاتی ہیں اور اگلے جہان میں بھی اسلام نے عورتوں کے درجہ کو بلند کیا ہے۔ چنانچہ اسلام کہتا ہے کہ جو عورت مومن ہو،نمازوں کی پابند ہو،زکوٰۃ دیتی ہو،ہم اُسے جنّت میں اونچے مقام پر رکھیں گے۔عیسائی کہتے ہیں کہ اسلام میں عورت کی رُوح کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ میں جب یورپ گیا تو مجھ پر بھی ایک عیسائی نے یہی اعتراض کیا میں نے اُسے جواب دیا کہ یہ الزام بالکل غلط ہے اسلام عوت کے حقوق کو کلّی طور پر تسلیم کرتا ہے بلکہ اُس نے روحانی اور اُخروی انعامات میں بھی عورت کو برابر کا شریک قرار دیا ہے۔اِس پر اُس نے شرمندہ ہوتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ حقیقت یہی ہےکہ اسلام پر جو الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ عورت میں رُوح کا قائل نہیں ،غلط ہے۔
پس اسلام کی تاریخ ہی نہیں دوسرے مذاہب کی تاریخ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ عورتوں نے مذہب کی بہت بڑی خدمت کی ہے اورعورتیں وہ تمام کام کرسکتی ہیں جو مرد کرسکتے ہیں۔وہ تبلیغ بھی کرسکتی ہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ جب لڑائی کا موقع آیا تو وہ لڑائی بھی کرتی رہی ہیں۔
جب قادیان میں ہندوؤں او رسکھوں نے حملہ کیاتو شہر کے باہر کے ایک محلہ میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیاگیا او ران کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی۔اس عورت نے مردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا۔ان عورتوں کے متعلق یہ خبریں آئی تھیں کہ جب سِکھ اور ہندو حملہ کرتے تو وہ عورتیں ان دیواروں پر چڑھ جاتیں جو حفاظت کی غرض سے بنائی گئی تھیں اور ان سکھوں او رہندوؤں کو جو تلواروں اور بندوقوں سے اُن پر حملہ آور ہوتے تھے بھگا دیتی تھیں۔ اورسب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی اور اُن کی سردار بنائی گئی تھی۔ اب بھی وہ عورت زندہ ہے لیکن اب وہ بُڑھیا اور ضعیف ہوچکی ہے وہ عورتوں کو سکھاتی تھی کہ اِس اِس طرح لڑنا چاہئیے او رلڑائی میں ان کی کمان کرتی تھی۔
غرض کوئی کام بھی ایسا نہیں جو عورت نہیں کرسکتی۔ وہ تبلیغ بھی کرسکتی ہے، وہ پڑھا بھی سکتی ہے ،وہ لڑائی میں بھی شامل ہوسکتی ہے او راگر مال اور جان کی قربانی کا سوال ہو تو وہ ان کی قربانی بھی کرسکتی ہے او ربعض کام وہ مردوں سے بھی لے سکتی ہے۔مرد بعض دفعہ کمزوری دکھا جاتے ہیں اُس وقت جو غیرت عورت دکھاتی ہے وہ کوئی اور نہیں دکھا سکتا۔
چند دن ہوئے میرے پاس ایک لڑکا آیا۔وہ جالندھر کارہنے والا تھا اور اس کا نانا وہاں پیر تھا او راحمدیت کا سخت مخالف تھا۔ وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مَیں فلاں کا نواسہ ہوں۔ میں نے کہا میں تمہارے نانا کو جانتاہوں او رمجھے یاد ہے کہ تمہاری ماں قادیان میں مجھے ملنے آیا کرتی تھی۔اُس نے کہا یہ بات درست ہے۔اب وہ فوت ہوچکی ہیں اور قادیان میں بہشتی مقبرہ میں دفن ہیں۔ میں نے کہا اب تم کس طرح یہاں آئے ہو؟ اس نے کہا میں ابھی بچہ ہی تھا کہ میری ماں میرے کان میں ہمیشہ یہ بات ڈالتی تھی کہ بیٹا!میں نے دین کی خدمت کے لئے تمہیں وقف کرنا ہے۔ چنانچہ امریکن وفد جو پاکستان آیا تھا اس کے ذریعہ میں نے سِل کے ٹیکے کاکام سیکھا اور اب میں ایک اچھے سرکاری عہدہ پر ہوں مگر میرے دل میں ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ میری والدہ کی یہ خواہش تھی کہ میں اپنی زندگی خدمتِ دین کے لئے وقف کردوں۔ میں نے اس بات کا اپنے باپ سے بھی ذکر کیا تو انہوں نے کہا میں تمہاری والدہ کی خواہش میں روک نہیں بننا چاہتا تم بڑی خوشی سے دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرو۔اب میں یہاں آیا ہوں کہ حضور میرا وقف قبول فرمائیں او رمجھے کسی دینی خدمت پر لگائیں۔اَب دیکھو وہ عورت قادیان میں بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئی اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ1946ء میں یا اس سے پہلے فوت ہوئی ہوگی اور اب اس کی وفات پر دس بارہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن اس نے بچپن سے ہی اپنے بیٹے کے کان میں جو بات ڈالی تھی وہ اَب بھی اس کے دل ودماغ سے نہیں نکلی۔وہ چھوٹا سا تھا جب اس نے اپنے بیٹے کے کان میں یہ بات ڈالنی شروع کی کہ میں نے تمہیں دین کی خاطر وقف کرنا ہے۔ بعد میں وہ جوان ہوا، گریجوایٹ بنا اور پھر اس نے سِل کا امریکن ڈاکٹروں سے علاج سیکھا اور اس کے بعد ایک اعلیٰ سرکاری عہدہ پر فائز ہوا۔ لیکن اس کے ذہن سے یہ بات نہ نکلی کہ اس کی ماں کی یہ خواہش تھی کہ اس نے دین کی خا طر اپنی زندگی وقف کرنی ہے۔ غرض عورت نہ صرف خود قربانی کرسکتی ہے بلکہ مردوں کو بھی دین کی خدمت کے لئے تیار کرسکتی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی بات ہے ایک دفعہ اسلامی لشکر کا مقابلہ عیسائی لشکر سے ہوا۔عیسائی لشکر زیادہ طاقتور تھا اور اسلامی لشکر کمزور تھا۔اس لئے وہ مقابلہ کی تاب نہ لاسکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان سپاہیوں کی سواریاں پیچھے کی طرف بھاگیں۔ اس اسلامی لشکر کے کمانڈر یزید بن ابُوسفیان تھے۔او راُن کے باپ ابُوسفیان بھی ان کے ساتھ تھے وہ بھی پیچھے کی طرف بھاگے۔ فوج کے پیچھے عورتیں تھیں اور اُن عورتوں میں ابُوسفیان کی بیوی ہندہ بھی تھی جواسلام لانے سے پہلے اسلام کی اتنی دشمن تھی کہ ایک دفعہ جب جنگ میں حضرت حمزہؓ شہید ہوئے تو اُس نے اُن کا کلیجہ نکالنے والے کے لئے انعام مقرر کیا۔ہندہ نے جب دیکھا کہ اسلامی لشکر کے پاؤں اُکھڑ چکے ہیں اور مسلمان سپاہی پیچھے کی طرف بھاگے آرہے ہیں تو اس نے عورتوں کو جمع کیا اور کہا تمہارے مردوں نے اسلام سے غداری کی ہے او روہ دشمن کے آگے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔اب تمہارا کام ہے کہ تم انہیں روکو۔عورتوں نے کہا ہمارے پاس تو کوئی ہتھیار نہیں ہم انہیں کیسے روک سکتی ہیں۔ ہندہ نے کہاخیمے توڑ دو اور بانس نکال لو اورجو سپاہی پیچھے آئے اس کی اونٹنی یا گھوڑے کو بانس مار مار کر پیچھے موڑدو۔او رکہو بے حیاؤ واپس جاؤ دشمن سے لڑو۔ اگر تم ایسا نہیں کرسکتے تو ہم عورتیں دشمن کا مقابلہ کریں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب اسلامی لشکر عورتوں کے قریب پہنچا تو انہوں نے خیموں کے بانس نکال لئے اور اُن کی سواریوں کے مونہوں پر مارنے لگیں۔ ہندہ نے بھی ایک بانس ہاتھ میں لیا اور ابوسفیان کی سواری کو مارا اور کہا بے حیا! جب مشرکینِ مکہ اسلام کے مقابلہ کے لئے جاتے تھے تو اُن کے لشکر کا کمانڈر ہوا کرتا تھا۔اب مسلمان ہونے کے بعد تجھے اسلام کی خاطر لڑنا پڑا ہے تو پیچھے بھاگ آیا ہے۔اسی طرح اس نے اپنے بیٹے کی سواری کو بھی بانس مارا اور اُسے بھی پیٹھ دکھانے پر ملامت کی۔ابوسفیان کی غیرت نے بھی جوش مارا اور اس نے اپنے بیٹے یزید سے کہا بیٹا! واپس چلو! عیسائیوں کا لشکر ہم سے بہت طاقتور ہے مگر اُن کے ہاتھوں مارا جانا برداشت کیا جاسکتا ہے لیکن اِن عورتوں کے ڈنڈے نہیں کھائے جاسکتے۔ چنانچہ اسلامی لشکر واپس گیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُسے فتح دیدی۔
مردوں کو قربانی پر آمادہ کرو
پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے مردوں سے کام لینا بھی عورتوں کو آتا ہے۔ وہ
انہیں تحریک کرکے قربانی کے لئے آمادہ کرسکتی ہیں اور اس کی ہمارے ہاں بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔عورتوں نے اپنے مردوں کو تحریک کی اور انہوں نے قربانیاں کیں۔ آخر دیکھ لو ہمارے کئی مبلغ ایسے ہیں جو دس دس پندرہ پندرہ سال تک بیرونی ممالک میں فریضۂ تبلیغ ادا کرتے رہے اور وہ اپنی نئی بیاہی ہوئی بیویوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔ان عورتوں کے اَب بال سفید ہوچکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے خاوندوں کو کبھی یہ طعنہ نہیں دیا کہ وہ انہیں شادی کے معاً بعد چھوڑ کر لمبے عرصہ کے لئے باہر چلے گئے تھے۔ ہمارے ایک مبلّغ مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں۔ وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے تھے۔ اُن کے واقعات سُن کر بھی انسان کو رقّت آجاتی ہے۔ ایک دن اُن کا بیٹا گھر آیا اور اپنی والدہ سے کہنے لگا۔امّاں!ابّا کسے کہتے ہیں ؟سکول میں سارے بچے اَبّا اَبّا کہتے ہیں۔ہمیں پتہ نہیں کہ ہمارا ابّا کہاں گیا ہے؟کیونکہ وہ بچے ابھی تین تین چار چار سال کے ہی تھے کہ شمس صاحب یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے اور جب وہ واپس آئے تو وہ بچے 17،17،18،18سال کے ہوچکے تھے۔ اب دیکھ لو یہ اُن کی بیوی کی ہمّت کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ ایک لمبے عرصہ تک تبلیغ کاکام کرتے رہے۔ اگر وہ انہیں اپنی درد بھری کہانیاں لکھتی رہتی تو وہ یا تو خود بھاگ آتے یا سلسلہ کو مجبور کرتے کہ انہیں بلا لیا جائے۔
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض عورتوں نے اس بارہ میں کمزوری بھی دکھائی ہے۔ان کے خاوندوں کو باہر گئے ابھی دوسال ہی ہوئے تھے کہ انہوں نے دفتر کو لکھنا شروع کیا کہ یا تو ہمارے خاوندوں کو واپس بُلا دو یا ہم انہیں لکھیں گی کہ وہ کام چھوڑ کر آجائیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ساری عورتیں کمزور ہوتی ہیں۔ اگر بعض عورتیں کمزور ہوتی ہیں تو بعض مرد بھی کمزور ہوتے ہیں۔ کمزوری دکھانے میں عورتیں منفرد نہیں بلکہ مردوں میں سے بھی ایک حصّہ کمزوری دکھا جاتا ہے۔غرض کمزوری کو دیکھو تو مرد اورعورت دونوں برابر ہیں اور اگر قوت کو دیکھو تو مرد اور عورت دونوں برابر ہیں۔ عشق اور قربانی کو دیکھو تو دونوں برابر ہیں۔غیرت کو دیکھو تو دونوں برابر ہیں۔غرض کسی کام کو دیکھوجس ہمّت سے اُسے مرد کرسکتے ہیں اُسی ہمت سے اُسے عورتیں بھی کرسکتی ہیں۔اس لئے عورت اپنے فرض کو پہچانے او روہ مضبوطی سے اپنے ایمان پرقائم رہے توکسی کی طاقت نہیں کہ وہ احمدیت کوکوئی نقصان پہنچا سکے۔ یہی بات دیکھ لو کہ اگر موجودہ منافقوں کی بیویاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی عورتوں جیسا نمونہ دکھاتیں تو کیا اُن کو منافقت دکھانے کی جُرأت ہوسکتی تھی؟
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگ کے لئے باہر تشریف لے گئے ایک صحابی اُس وقت موجود نہیں تھے انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لئے باہر بھیجا ہوا تھا۔وہ مدینہ آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ساتھ لے کر لڑائی کے باہر جاچکے ہیں۔وہ ایک لمبا عرصہ باہر رہے تھے انہیں اپنی بیوی سے جو نوجوان اور خوبصورت تھی بہت محبت تھی۔ انہوں نے چاہا کہ گھر جاکر اس سے پیار کرلیں چنانچہ وہ گھرآئے۔ان کی بیوی کوئی کام کررہی تھی۔ وہ آگے بڑھے اور اُسے پیار کرنا چاہا اُس نے انہیں دیکھتے ہی دھکّا دے کر پیچھے پھینک دیا او رکہنے لگی تجھے شرم نہیں آتی خداتعالیٰ کا رسول تو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رُومی حکومت سے لڑنے کے لئے گیا ہوا ہے اور تجھے اپنی بیوی سے پیار سُوجھ رہا ہے۔اس صحابی کو بیوی کے اس فقرہ سے سخت چوٹ لگی وہ اُسی وقت گھوڑے پر سوار ہوگئے اور جدھر اسلامی لشکر گیا تھا اُدھر روانہ ہوگئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے۔ اگر اِن منافقوں کی بیویاں بھی اسی قسم کا اخلاص دکھاتیں تو اُن کے مردوں کو منافقت دکھانے کی جُرأت ہی نہیں ہوسکتی تھی۔
ایک منافق کا سالا یہاں آیا تھا۔ میں نے اُسے کہا تھا تم میاں بشیر احمد صاحب کے پاس جاؤ اور اُن سے پُوچھ لو کہ ہم نے ان لوگوں کو کِس کِس طرح سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ وہ میاں بشیر احمد صاحب کے پاس گیا اور انہوں نے اُسے تفصیل کے ساتھ تمام باتیں سمجھائیں۔ بعد میں اس نے بتایا کہ مَیں اپنی بہن کے پاس گیا تھا۔ میں اُسے کہہ آیا ہوں کہ ہمارا باپ مرگیا تو ہم نے اُسے کونسا بچا لیا تھا اِسی طرح اگر تیرے خاوند نے توبہ نہ کی اوراس نے معافی نہ مانگی تو ہم تجھے بھی مُردہ سمجھ لیں گے۔ لیکن اگر تُو اپنے خاوند سے قطع تعلق کر لے تو میرا گھر تیرا گھر ہے۔ تُو میرے پاس آ جائے تو میں تیرا سارا بوجھ اُٹھا لوں گا۔ لیکن اگر تُو اپنے خاوند سے قطع تعلق نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی رہے تو پھر میں تیرا منہ بھی نہیں دیکھوں گا۔ غرض ایسے رشتہ دار بھی موجود ہیں جنہوں نے دین کی خاطر اپنے رشتہ داروں سے بے تعلقی کا اظہار کیا مگر وہ عورتیں بھی ہیں جو منافقت میں اپنے خاوندوں کے ساتھ ہیں بلکہ وہ خیال کرتی ہیں کہ اگر اُن کے خاوند منافقت میں کچھ اَور ترقی کرلیں تو شاید انہیں فائدہ پہنچ جائے۔
غرض اسلام کا کوئی پہلو لے لو اس میں عورت مرد سے پیچھے نہیں۔ تم اپنے دلوں سے اس خیال کو دُور کردو جو بعض بیوقوف مردوں نے ڈالاہے کہ عورت بڑی مظلوم ہے۔ تم مظلوم نہیں ہو بلکہ خدا تعالیٰ نے تمہیں وہ حکومت بخشی ہے جس کے مقابلہ میں دُنیا کی کوئی حکومت نہیں ٹھہر سکتی۔پاکستان کی حکومت کو دیکھ لو کئی لوگ ایسے ہیں جو اُسے گالیاں دیتے ہیں مگر بیوی کی حکومت کو کوئی گالی نہیں دیتا۔ اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ تُو اپنی بیوی سے محبت او رپیار نہ کرتو وہ کہے گا تُو بڑا خبیث ہے ،تُو میرے گھر میں فتنہ ڈالناچاہتا ہے میں تیری بات نہیں مان سکتا۔ لیکن اگر اس شخص کے سامنے کوئی پاکستان کے کسی عُہدیدار کے متعلق کہے کہ وہ بڑا گندہ ہے تو شاید وہ ا سکی تصدیق کرنے لگ جائے۔ غرض کوئی شخص اپنی بیوی کی حکومت کے خلافت کوئی بات نہیں سن سکتا۔
پس تمہیں خداتعالیٰ نے بڑا اچھا موقع دیا ہے آج تم ویسی ہی خدمات کرسکتی ہو جیسی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیات نے کیں۔ تم ویسی ہی خدمات کرسکتی ہو جیسی حضرت ہاجرہ نے کیں، تم ویسی ہی خدمات کرسکتی ہو جیسی کرشنؑ علیہ السلام کی گوپیوں نے کیں، تم ویسی ہی خدمات کرسکتی ہو جیسی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم نے کیں۔حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حالات سے بھی پتہ لگتا ہے کہ اُن کی زیادہ تر خدمت عورتوں نے ہی کی ہے۔جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مخالفت بڑھ گئی تو انجیل میں آتا ہے کہ ایک عورت آپ کے پاس آئی اور اُس نے بڑا قیمتی عطر آپ کے پَیروں پر ڈالا اور پھر اُس نے اپنے بال کھولے اور ان بالوں سے آپ کے پاؤں پونچھنے شروع کئے15 لوگوں نے کہا یہ کتنی بے وقوف عورت ہے اس نے عطر ضائع کیا ہے۔ اس عطر کی قیمت سے کئی غریب پل سکتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تم اس عورت کو کیوں دِق کرتے ہو۔اس نے تو میرے ساتھ بھلائی کی ہے کیونکہ غرباء تو ہمیشہ تمہارے پاس رہیں گے لیکن میں تمہارے پاس ہمیشہ نہیں رہوں گا16
پھر جب آپ کو صلیب پر چڑھایا گیا تو آپ کے پاس آپ کی والدہ حضرت مریم کے علاوہ تین چار اَور عورتیں بھی تھیں17 عیسائی کتب میں اس واقعہ کی جو تصاویر دی گئی ہیں اُن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم نے تو بہت ضبط سے کام لیا ہے اور اُن کی آنکھ میں آنسو نہیں لیکن دوسری عورتوں کی آنکھوں سے آنسو ڈھلک رہے ہیں۔ پھر انجیل میں آتا ہے کہ جب تین دن کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام قبر سے نکالے گئے تو سب سے پہلے عورتیں ہی ان کے پاس آئیں،مرد نہیں آئے18 پھر جب آپ پھانسی کی سزا سے بچ کر اِدھر اُدھر چُھپتے پھِرتے تھے تو تاریخ میں آتا ہے کہ ہر جگہ جہاں آپ پہنچتے عورتیں وہاں پہنچ جاتیں اور آپ سے دین کی باتیں سیکھتیں۔مرد ڈر کے مارے آپ کے قریب نہیں آتے تھے19 گویا انجیل سے بھی پتہ لگتا ہے کہ ابتدائے عیسائیت میں عورتوں کی قربانی مردوں سے زیادہ تھی۔ جب مرد حکومت کی گرفت سے ڈر گئے تو عورتیں نہیں ڈریں وہ ہر جگہ پولیس اور فوج کے پہرہ کو چیرتی ہوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچ جاتیں او رآپ کے قدموں میں بیٹھ کر دین کی تعلیم حاصل کرتیں۔
غرض ہر مذہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ عورتوں نے بڑا کام کیا ہے۔میں نے بتایا ہے کہ برلن کی مسجد کی تحریک ہوئی تو اُس وقت کی احمدی عورتوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ جمع کردیا۔ اب تم ہیگ کی مسجد کے لئے کوشش کررہی ہو مگر افسوس کہ تم اُتنی کوشش نہیں کررہیں جتنی1920ء میں برلن کی مسجد کے لئے عورتوں نے کی تھی۔ حالانکہ اِس وقت تم اُن سے پندرہ بیس گنا زیادہ ہو۔انہوں نے اُس وقت ایک لاکھ روپیہ دے دیا تھا مگر تم نے ابھی ستّر ہزار روپیہ جمع کیا ہے اور پھر اُن کے جمع کردہ چندہ سے برلن میں جو زمین خریدی گئی تھی وہ جب بیچی گئی تو پچاس ہزار روپیہ اصل قیمت سے زیادہ ملا اور اس روپیہ سے لنڈن کی مسجد بن گئی۔ گویا لنڈن کی مسجد بھی انہیں عورتوں کے روپیہ سے بنی ہے۔ برلن میں مسجدتعمیر نہیں کی جاسکی تھی کیونکہ جرمن حکومت نے بعض ایسی شرائط لگادی تھیں جن کی وجہ سے مسجد کی تعمیر پر بہت زیادہ روپیہ خرچ آتا تھا۔اس لئے ہم نے وہاں مسجد کے لئے جو جگہ خرید کی تھی اُسے بیچ دیا اور جو روپیہ بچا اس سے لنڈن کی مسجد بنائی گئی۔ گویا برلن کی مسجد کے لئے بھی عورتوں نے چندہ دیا،لنڈن کی مسجد بھی انہی کے روپیہ سے بنی اور ہیگ کی مسجدکے لئے بھی عورتیں ہی روپیہ جمع کررہی ہیں۔ مرد ابھی تک ہیمبرگ کی مسجد کے لئے بھی روپیہ جمع نہیں کرسکے۔ او راس کی وجہ یہ ہے کہ عورت گو بظاہر کمزور نظرآتی ہے مگرجب وہ قربانی پر آجائے تو مرد سے زیادہ قربانی کرتی ہے۔دیکھ لو ماں جتنی قربانی اپنے بچے کے لئے کرتی ہے اس قدر قربانی مرد نہیں کرسکتا۔
مَیں نے بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک عورت کے بچہ کو عقاب اُٹھا کر لے گیا اور عقاب نے اس بچہ کو ایک پہاڑی کی چوٹی پر رکھ دیا۔وہ پہاڑی ایسی سیدھی تھی کہ اُس پر کوئی چڑھ نہیں سکتا تھا لیکن ماں نے جب دیکھا کہ عقاب نے اس کا بچہ اس پہاڑی کی چوٹی پررکھ دیا ہے تو وہ پاگلوں کی طرح اس پہاڑی پر چڑھ گئی اور اُسے پتہ بھی نہ لگا کہ وہ پہاڑی اُونچی او رسیدھی تھی او راس پر چڑھنا مشکل ہے۔ پہاڑی پر جاکر اُس نے بچہ کو پیار کیا اور اُسے دودھ پلایا۔ پھر جب نیچے اُترنے لگی تو ڈری او رشور مچانے لگی۔اس پر اِردگرد کے لوگ آئے انہوں نے رسّے ڈال ڈال کر اور کیلے گاڑ گاڑ کر بڑی مشکل سے اُسے پہاڑی سے نیچے اُتارا۔ لیکن جس وقت اس کا بچہ خطرہ میں تھا اُسے کوئی ہوش نہیں تھی اور وہ بڑی آسانی کے ساتھ اس پہاڑی پر چڑھ گئی۔ تو اگرعورت کی محبت واقع میں جوش میں آجائے تو وہ بڑی قربانی کرلیتی ہے۔ بچہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ایک ایسا مادّہ پیدا کیا ہے جو مردکے اندر نہیں پایا جاتا جب وہ مادّہ جوش میں آجائے تو عورت بڑی سے بڑی قربانی کرلیتی ہے۔ اصل چیز تو وہ مادّہ ہے۔ اگر مادّہ موجود ہوتو پھر قربانی کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک شخص کی جیب میں پانچ روپے ہوں تو وہ ان پانچ روپوں سے تمباکو بھی خرید سکتا ہے، اورانہیں خداتعالیٰ کے رستہ میں بھی دے سکتا ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورت کوقربانی کا جو مادّہ دیا ہے اس کو وہ بچہ کے لئے بھی استعمال کرسکتی ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر بھی استعمال کرسکتی ہے۔ جس طرح وہ شخص جس کی جیب میں روپے موجود ہوں وہ اس سے ضروریاتِ زندگی بھی خرید سکتا ہے اور خداتعالیٰ کی راہ میں بھی خرچ کرسکتا ہے۔اسی طرح عورت کے اندر قربانی کا مادہ موجود ہے وہ اُسے بچہ کے لئے بھی خرچ کرسکتی ہے اور خداتعالیٰ کی خاطر بھی خرچ کرسکتی ہے۔ جب وہ جوش میں آجائے تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو اسے قربانی کرنے سے روک سکے۔وہ بچوں کی اعلیٰ پرورش کرتی ہیں،ان کی تربیت کرتی ہیں اور ضرورت پڑے تو مردوں کو غیرت دلاتی اور انہیں قربانی کے لئے تیار کرتی ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ1917ء میں ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری قادیان آئے اوروہاں ایک بڑا جلسہ ہوا۔پانچ چھ ہزار غیر احمدی وہاں جمع ہوا۔اُس وقت قادیان میں احمدی بہت تھوڑے تھے اور شہر کی آبادی بہت کم تھی۔1947ء میں جب ہم قادیان سے نکلے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں سترہ اٹھارہ ہزار احمدی تھے لیکن اُس وقت ہزار بارہ سو کے قریب تھے اور ان کے مقابلے میں چھ سات ہزار غیر احمدی جمع ہوگئے تھے۔ انہوں نے رستے روک لئے تھے اور چلنا پھرنا مشکل ہوگیا تھا۔اس لئے مولوی ثناء اللہ صاحب نے خیال کیا کہ انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا اور انہوں نے اپنی تقریر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سخت بُرا بھلا کہا۔قادیان کے قریب کے ایک گاؤں بھینی ہے وہاں کی ایک احمدی عورت ان کے جلسہ گاہ کے قریب کھڑی تھی۔مولوی ثناء اللہ صاحب نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دیں اور تمام احمدی مرد بیٹھے رہے تو اس نے مولوی صاحب کو پنچابی میں گالی دے کر کہا۔‘‘تیرے دادے داڑھی ہگیا تُوں حضرت صاحب نوں گالیاں دیناایں’’۔اِس پر غیراحمدی جوش میں آگئے اور اس عورت کو مارنے کے لئے اُٹھے۔بعض احمدی اسے بچانے لگے تو دوسرے احمدیوں نے کہا۔ایسا نہ کرو،حضرت صاحب نے احمدیوں کو فساد سے منع کیا ہوا ہے۔مجھے پتہ لگا تو میں اُن پر خفا ہوا اور میں نے کہا یہاں تو ایک عورت کی عزت کا سوال تھا۔اس سے تمہیں کس نے روکا تھا۔ تمہیں شرم نہ آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دی گئیں تو تم مردوں میں سے کسی کو بھی غیرت نہ آئی لیکن اس عورت کو غیرت آئی اور اس نے اس بات کی ذرہ بھی پروا نہ کی کہ غیراحمدی کتنی تعداد میں جمع ہیں اور وہ اسے ماریں گے۔اس نے اُسی وقت کھڑے ہوکر مولوی ثناء اللہ صاحب کو کہا ‘‘تیرے دادے داڑھی ہگیا تُوں حضرت صاحب نوں گالیاں دینا ایں’’۔تمہیں تو اس عورت کو بچانے کے لئے اپنی جانیں قربان کردینی چاہییں تھیں۔ او ر اگر تم ایسا کرتے تو میں بہت خوش ہوتا۔اب دیکھو وہ بھی ایک عورت تھی جس نے اس موقع پر بہادری دکھائی۔اُس وقت ہزار بارہ سو آدمی بھی ڈرتے تھے کہ اگر انہیں کچھ کہا تو غیر احمدی انہیں ماریں گے۔لیکن وہ کھڑی ہوگئی اور اس نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو روک دیا۔اُس نے اس بات کی پروا نہ کی کہ سارے کا سارا مجمع اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کی جان ضائع ہوجائے گی۔
اپنی طاقتوں کو صحیح رنگ میں استعمال کرو
غرض اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو ہرقسم کی قربانی کی توفیق دی ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنی طاقتوں کو سمجھو اور انہیں استعمال کرو۔ اگر تم اپنی طاقتوں کو سمجھو اور انہیں استعمال کرنا
سیکھ لو تو تمہارے مقابلہ پر بڑی سے بڑی طاقت بھی نہیں ٹھہر سکتی۔ بلکہ مرد بھی تم سے طاقت حاصل کریں گے۔ گویا تمہاری مثال دیاسلائی کی سی ہوگی اور مرد کی مثال تیل کے پیپے کی سی۔جب تم دیا سلائی سے آگ لگاؤ گی تو وہی مرد جو بزدلی کی وجہ سے کونہ میں کھڑا ہوگا جوش میں آجائے گااور جس طرح آگ کی وجہ سے تیل بھڑک اُٹھتا ہے تمہارے غیرت دلانے سے وہ بھی بھڑک اٹھے گااور پھر کسی روک او رمصیبت کی پروا نہیں کرے گا اور قربانی کرتا چلا جائے گا۔
میں جب بچہ تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے ایک ہوائی بندوق خرید کر دی تھی اور ہم اس سے جانوروں کا شکار کیا کرتے تھے۔ایک دن ہم شکار کرنے کے لئے باہر گئے تو ایک سکھ لڑکا میرے پاس آیا۔اُن دنوں اردگرد کے دیہات میں بڑی مخالفت تھی اور وہاں شکار کے لئے جانا مناسب نہیں تھا لیکن اس لڑکے کو بھی شکار کا شوق تھا۔وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا ہمارے گاؤں چلیں وہاں بہت فاختائیں ہیں۔ہم ان کا شکار کریں گے۔چنانچہ میں اس کے ساتھ اس کے گاؤں چلا گیا۔ وہاں وہ سکھ لڑکا میرے آگے آگے چلتا تھا اور مجھے بتاتا تھا کہ وہ فاختہ بیٹھی ہے اس کو مارو۔ اتنے میں ایک سکھ عورت باہر نکلی اور اس لڑکے کو مخاطب کرکے کہنے لگی۔‘‘تینوں شرم نہیں آندی’’ کہ ‘‘تُو مُسلیاں کولوں جیو ہتیا کرانداایں’’ یعنی تمہیں شرم نہیں آئی کہ مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے کر جانور مرواتے ہو۔ اس عورت کا یہ کہنا تھا کہ وہ سکھ لڑکا کھڑا ہوگیااور بڑے غصے سے کہنے لگا،تم کون ہوتے ہو یوں شکارکرنے والے! حالانکہ وہ خود ہمیں وہاں لے گیا تھا۔ اب دیکھو وہ لڑکا صر ف اس عورت کی بات کی وجہ سے ہمارے مقابلہ پر کھڑا ہوگیا اور اس نے اس بات کی ذرہ پروا نہ کی کہ وہ خود ہمیں ساتھ لے گیا ہے۔
پس عورت کی آواز میں ایک جوش ہوتا ہے اور مرد میں اُس کے لئے جذبۂ احترام اور ادب ہوتا ہے، چاہے کوئی مرد کتنا بُرا ہو، جُوں ہی اس کے کان میں عورت کی آواز پڑتی ہے وہ کھڑا ہوجاتا ہے۔
جب بغداد میں خلافت بہت کمزور ہوگئی اور مسلمانوں کی طاقت ٹوٹ گئی تو اُس وقت عیسائیوں نے فلسطین میں اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔ وہاں ایک عورت باہر نکلی تو عیسائیوں نے اس کی بے عزتی کی۔ اسے علم نہیں تھا کہ مسلمانوں کی بادشاہت تباہ ہوچکی ہے۔اس نے اونچی آواز سے کہا یا اَمیرَ المومنین!اے امیر المومنین! میری مدد کو پہنچو۔اُس وقت امیر المومنین کی یہ حالت تھی کہ وہ دوسری طاقت کا ایک قیدی تھا اورسوائے دربار کے اس کی کہیں حکومت نہیں تھی۔ لیکن اس عورت کو اس بات کا کوئی علم نہیں تھا۔اُس نے سنا ہوا تھا کہ امیر المومنین کی ہی حکومت ہوتی ہے۔ اتفاقاً اس کے پاس سے ایک قافلہ گزر رہا تھا جو تجارت کے لئے اس طرف گیا تھا۔انہوں نے اس عورت کی آواز کو سنا۔جب وہ قافلہ بغداد پہنچا تو لوگ جمع ہوگئے او رانہوں نے قافلہ والوں سے کہا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ۔اس پر انہوں نے کہا کہ ہم فلسطین میں سے آرہے تھے کہ عیسائیوں نے ایک مسلمان عورت کو قید کر لیا او راس کی بے عزتی کی تو اس نے بلند آواز میں کہا یَااَمیرَالمؤمنین!مَیں امیر المومنین کو اپنی مدد کے لئے پکارتی ہوں۔ وہ بیچاری اتنا بھی نہیں جانتی تھی کہ امیر المومنین کی کوئی حیثیت نہیں وہ خود ایک قیدی ہے اورسوائے دربار کے اس کی کہیں بھی حکومت نہیں۔اس مجمع میں خلیفہ کا ایک درباری بھی کھڑا تھا۔اس نے یہ واقعہ دربار میں بیان کیا اور کہا اِس اِس طرح ایک قافلہ فلسطین سے آیا ہے اور اس نے بتایاہے کہ راستہ میں انہوں نے دیکھا کہ ایک مسلمان عورت کوعیسائیوں نے قید کرلیا ہے اور اس کی بے عزتی کی ہے اور اس عورت نے اپنی مدد کے لئے امیر المومنین کوپکارا ہے۔فلسطین بغدادسے تقریباً ایک ہزار میل کے فاصلے پر ہے مگر اس عورت کی آواز خلیفہ کے کان میں پڑی جو خود ایک قیدی کی حیثیت میں تھاتو وہ ننگے پاؤں باہر نکل کھڑا ہوا اورکہنے لگا۔خدا کی قسم! جب تک میں اس عورت کو عیسائیوں کے قبضہ سے چھڑاؤں گا نہیں میں جوتا نہیں پہنوں گا اور باہر نکل کر اس نے فوج کو جمع کرنا شروع کیا۔ وہ نواب جو خلافت سے بغاوت کر رہے تھے جب انہیں پتہ لگا تو وہ بھی اپنی فوج لے کر آگئے اور خلیفہ کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔اس طرح ایک بڑا لشکر جمع ہوگیا جس نے فلسطین کی عیسائی حکومت کو شکست دی او راس عورت کو آزاد کروایا گیا۔
پس عورت گو کمزور ہے مگر مردوں کے اندر اس کے لئے ادب اوراحترام پایا جاتا ہے کیونکہ ہر مرد عورت کا ہی بچہ ہے اور اپنی ماں کے ادب اور احترام کی وجہ سے ہر عورت کو اپنی ماں کی جگہ سمجھتا ہے۔جب وہ دیکھتاہے کہ اسے اس کی ماں پکار رہی ہے تو وہ فوراً بھاگ پڑتا ہے۔پس اگر احمدی عورتیں قربانی کریں اور اپنے اندر دین کی خدمت کا جذبہ پیدا کریں تو چونکہ تمہاری آواز میں ایک درد ہے،ایک سوز اور گداز ہے تم دنیا کے گوشہ گوشہ میں آگ لگا دو گی اور گو بظاہر اشاعتِ دین کا کام مرد کررہے ہوں گے لیکن حقیقت میں تم ہی یہ کام کروا رہی ہوگی۔ پس اگر تم کمرِ ہمت باندھ لو او ردین کی خاطر ہر قربانی کرنے کے لئے آمادہ ہوجاؤ تو میں تمہیں یقین دلاتاہوں کہ ابھی تم میں سے بہت سی عورتیں زندہ ہوں گی کہ اسلام غالب آجائے گا اور تم اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو گی اور آخرت میں بھی اس کے انعامات کی وارث ہو گی اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گی کہ عیسائیت شکست کھا گئی اور اسلام فتح پاگیا ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی ٹوٹ چکی ہے او ررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہی قائم ہوچکی ہے۔پس یہ کام تمہارے اپنے اختیار میں ہے اور اگر تم چاہو تو تم یہ کام بڑی آسانی سے کرسکتی ہو ۔
میں دعا کرتا ہوں کہ تم سچے طور پر اسلام کی خدمت کی توفیق پاؤ او رہمیشہ اللہ تعالیٰ
کی رضا اوراس کی خوشنودی کو حاصل کرنے والی بنو۔ (''مصباح''بابت ماہ جنوری1957ء)
1 النہایہ فی غریب الاثر۔ لابن اثیر۔ جلد 1 صفحہ330 ۔ مطبوعہ بیروت 2001ء
2 فتوح الشام جلد اوّل صفحہ27، 28
3 تاریخ ابن اثیر جلد 2 صفحہ 475 ، 476 مطبوعہ بیروت 1965ء
4 پیدائش باب21آیت 9 تا 12
5 بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب یزفُّون
6 السیرۃ الحلبیۃ الجزء الاول صفحہ 163 مطبوعہ مصر 1932ء
7 بخاری کتاب بدء الوحی باب کَیْفَ کَانَ بَدْء الوحی اِلیٰ رَسُولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
8 بخاری کتاب بدء الوحی باب کَیْفَ کَانَ بَدْء الوحی اِلیٰ رَسُولِ اللہ(الخ)
9 بخاری کتاب مناقب الانصار باب تذویج النَّبِّی صلی اللہ علیہ وسلم خدیجۃ (الخ)
10 بخاری کتاب مناقب الانصار باب تذویج النَّبِّی صلی اللہ علیہ وسلم خدیجۃ (الخ)
11 سیرت ابن ہشام جلد3 صفحہ 239 مطبوعہ مصر 1936ء
12 سیرت ابن ہشام جلد3 صفحہ 84 تا 88 مطبوعہ مصر 1936ء
13 سیرت ابن ہشام جلد3 صفحہ 105 مطبوعہ مصر 1936ء
14 السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 267، 268 مطبوعہ مصر 1935ء
15 متی باب26آیت6تا13
16 متی باب26آیت6تا13
17 مرقس باب15آیت40
18 مرقس باب16۔ آیت 1 تا 6 کا خلاصہ
19 یوحنا باب20آیت1 تا 18 کا مفہوم
مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع 1956ءمیں خطابات
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اگر تم حقیقی انصار اللہ بن جاؤ اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرلو تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی رہے گی۔
افتتاحی خطاب
(فرمودہ 26/اکتوبر 1956ء برموقع دوسرا سالانہ اجتماع انصار اللہ بمقام ربوہ)
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدحضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت کی:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيّٖنَ۠ مَنْ اَنْصَارِيْۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ1
اس کے بعد فرمایا:
‘‘آپ لوگوں کانام انصاراللہ رکھاگیاہے یہ نام قرآنی تاریخ میں بھی دو دفعہ آیا ہے اور احمدیت کی تاریخ میں بھی دو دفعہ آیا ہے۔ قرآنی تاریخ میں ایک دفعہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں۔چنانچہ جب آپ نے فرمایا مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہِ تو آپ کے حواریوں نے کہا نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ کہ ہم اللہ تعالیٰ کے انصار ہیں۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے متعلق فرماتا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ مہاجرین کا تھا اور ایک گروہ انصار کاتھا۔ گویایہ نام قرآنی تاریخ میں دودفعہ آیاہے۔ ایک جگہ پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق آیا ہے اور ایک جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے ایک حصہ کو انصار کہاگیا ہے۔جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی انصار اللہ کا دو جگہ ذکر آتا ہے۔ ایک دفعہ جب حضرت خلیفہ اوّل کی پیغامیوں نے مخالفت کی تو میں نے انصار اللہ کی ایک جماعت قائم کی اور دوسری دفعہ جب جماعت کے بچوں، نوجوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کی تنظیم کی گئی تو چالیس سال سے اوپر کے مردوں کی جماعت کانام انصاراللہ رکھا گیا۔ گویا جس طرح قرآن کریم میں دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ہے اِسی طرح جماعت احمدیہ میں بھی دو زمانوں میں دو جماعتوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا۔پہلے جن لوگوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا اُن میں سے اکثر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ تھے کیونکہ یہ جماعت 1913، 1914ء میں بنائی گئی تھی اور اُس وقت اکثر صحابہ زندہ تھے اور اس جماعت میں بھی اکثر وہی شامل تھے ۔اِسی طرح قرآن کریم میں بھی جن انصار کا ذکر آتا ہے ان میں زیادہ تر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ شامل تھے۔ دوسری دفعہ جماعت احمدیہ میں آپ لوگوں کا نام اسی طرح انصار اللہ رکھا گیاہے جس طرح قرآن کریم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ادنیٰ نبی حضرت مسیح ناصریؑ کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا ہے۔آپ لوگوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کم ہیں اور زیادہ حصہ اُن لوگوں کا ہے جنہوں نے میری بیعت کی ہے۔اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام والی بات بھی پوری ہوگئی۔ یعنی جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا تھا اسی طرح مثیلِ مسیح موعود کے ساتھیوں کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے۔ گویا قرآنی تاریخ میں بھی دو زمانوں میں دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا اور جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا۔خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہؓ اب بھی زندہ ہیں مگر اَب اُن کی تعداد بہت تھوڑی رہ گئی ہے۔صحابی اُس شخص کو بھی کہتے ہیں جو نبی کی زندگی میں اس کے سامنے آگیا ہو۔ گویا زیادہ تر یہ لفظ انہی لوگوں پر اطلاق پاتا ہےجنہوں نے نبی کی صحبت سے فائدہ اٹھایا ہو اور اس کی باتیں سنی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام 1908ء میں فوت ہوئے ہیں ۔اس لئے وہ شخص بھی آپ کا صحابی کہلا سکتا ہے جس نے خواہ آپ کی صحبت سے فائدہ نہ اٹھایا ہولیکن آپ کے زمانہ میں پیدا ہوا ہواور اس کا باپ اسے اٹھا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے لے گیا ہو۔ لیکن یہ ادنیٰ درجہ کا صحابی ہوگا۔اعلیٰ درجہ کا صحابی وہی ہے جس نے آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں اور جن لوگوں نے آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں۔ ان کی تعداد اب بہت کم رہ گئی ہے۔اب صرف تین چار آدمی ہی ایسے رہ گئے ہیں جن کے متعلق مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنی ہیں۔ممکن ہے اگر زیادہ تلاش کیا جائے تو ان کی تعداد تیس چالیس تک پہنچ جائے ۔اَب ہماری جماعت لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں اگر ایسے تیس چالیس صحابہ بھی ہوں تب بھی یہ تعداد بہت کم ہے۔ اِس وقت جماعت میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جنہوں نے ایسے شخص کی بیعت کی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا متبع تھا اور ان کانام اسی طرح انصار اللہ رکھا گیا تھاجس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا تھا۔حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَوْکَانَ مُوْسیٰ وَعِیْسیٰ حَیَّیْنِ لَمَا وَسِعَھُمَا اِلَّا اتِّبَاعِیْ2 اگر موسیٰ اور عیسیٰ علیہ السلام میرے زمانہ میں زندہ ہوتے تو وہ میرے متبع ہوتے۔ غرض اِس وقت جماعت کے انصاراللہ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک متبع اور مثیل کے ذریعہ اسلام کی خد مت کا موقع ملا اور وہ آپ لوگ ہیں۔ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آپ لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ جس طرح ان کے حواریوں کو انصاراللہ کہا گیا تھا اُسی طرح مثیلِ مسیح موعود کے ساتھیوں کو انصاراللہ کہا گیا ہے۔ پھر آپ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے انصارکی بات بھی پائی جاتی ہے۔ یعنی جس طرح انصار اللہ میں وہی لوگ شامل تھے جو آپ کے صحابہؓ تھے اسی طر ح آپ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ شامل ہیں۔ گویا آپ لوگوں میں دونوں مثالیں پائی جاتی ہیں۔آپ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ کے صحابہ بھی ہیں جنہیں انصار اللہ کہا جاتا ہے جیسے محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو انصار کہا گیا۔ پھر جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنا متبع قرار دیا ہے اور ان کے صحابہ کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے اسی طر ح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک متبع کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے ۔شاید بعض لوگ یہ سمجھیں کہ یہ درجہ کم ہے لیکن اگر چالیس سال اَور گزر گئے تو اُس زمانہ کے لوگ تمھارے زمانہ کے لوگوں کو بھی تلاش کریں گئے اور اگر چالیس سال اَور گزر گئے تو اُس زمانہ کے لوگ تمھارے ملنے والوں کو تلاش کریں گے۔ اسلامی تاریخ میں صحابہؓ کے ملنے والوں کو تابعی کہا گیا ہے کیونکہ وہ صحابہ ؓ کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوگئے تھے۔ اور ایک تبع تابعی کا درجہ ہے یعنی وہ لوگ جو تابعین کے ذریعہ صحابہؓ کے قریب ہوئے اور آگے صحابہؓ کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئے ۔اِس طرح تین درجے بن گئے ایک صحابی دوسرے تابعی اور تیسرے تبع تابعی۔صحابی وہ جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپؑ کی باتیں سنیں۔تابعی وہ جنہوں نے آپ سے باتیں سننے والوں کو دیکھا اور تبع تابعی وہ جنہوں نے آپ سے باتیں سُننے والوں کے دیکھنے والوں کو دیکھا۔دنیوی عاشق تو بہت کم حوصلہ ہوتے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے :
تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
مگر مسلمانوں کی محبتِ رسول دیکھو۔ جب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ فوت ہوئے تو انہوں نے آپ ؑ سے قریب ہونے کے لئے تابعی کادرجہ نکال لیا اور جب تابعی ختم ہوگئے تو انہوں نے تبع تابعین کا درجہ نکال لیا۔اس شاعر نے تو کہا تھا کہ:۔
تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
مگر یہاں یہ صورت ہوگئی کہ تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں اور پھر ان کے چاہنے والوں کو بھی چاہوں اور پھر تیرہ سو سال تک برابر چاہتا چلا جاؤں۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ:۔
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
بلکہ انہوں کہا یا رسول اللہ! ہم آپ ؐکے چاہنے والوں کو چاہتے ہیں۔ چاہے وہ صحابی ہوں، تابعی ہوں،تبع تابعی ہوں یا تبع تبع تابعی۔ اوران کے بعد یہ سلسلہ خواہ کہا ں تک چلا جائے ہم کو وہ سب لوگ پیارے لگتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ ہم کسی نہ کسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوجاتے ہیں۔
محدثین کو اس بات پر بڑا فخر ہوتا تھا کہ وہ تھوڑی سی سندات سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ میں گیارہ بارہ راویوں کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جاپہنچتا ہوں ۔آپ کو بعض ایسے اساتذہ مل گئے تھے جو آپ کو گیارہ بارہ راویوں کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیتے تھے اور آپ اس بات پر بڑا فخر کیا کرتے تھے۔
اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع نے آپ کی صحابیت کو بارہ تیرہ درجوں تک پہنچا دیا ہے اوراس پر فخر کیا ہے تو آپ لوگ یا صحابی ہیں یا تابعی ہیں۔ ابھی تبع تابعین کا وقت نہیں آیا۔ اِن دونوں درجوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عزت بخشی ہے۔ اس عزت میں کچھ اَور لوگ بھی شریک ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انصار کا ذکر فرمایا ہے اورپھر ان کی قربانیاں بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند تھیں۔ چنانچہ جب ہم انصار کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ایسی قربانیاں کی ہیں کہ اگر آپ لوگ جو انصار اللہ ہیں ان کے نقشِ قدم پر چلیں تو یقیناً اسلام اور احمدیت دور دور تک پھیل جائے اور اتنی طاقت پکڑ لے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کے مقابلہ پر ٹھہر نہ سکے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو شہر کی تمام عورتیں اور بچے باہر نکل آئے۔ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے جاتے ہوئے خوشی سے گاتے چلے جاتے تھے کہ :
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّۃِ الْوِدَاعِ 3
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس جہت سے مدینہ میں داخل ہوئے وہ وہی جہت تھی جہاں سے قافلے اپنے رشتہ داروں سے رخصت ہوا کرتے تھے۔اس لئے انہوں نے اس موڑ کا نام ثنیۃ الوداع رکھا ہوا تھایعنی وہ موڑ جہاں سے قافلے رخصت ہوتے ہیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس موڑ سے مدینہ میں داخل ہوئے تو مدینہ کی عورتوں اور بچوں نے یہ گاتے ہوئے آپ ؐ کا استقبال کیا کہ
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّۃِ الْوِدَاعِ
یعنی ہم لوگ کتنے خوش قسمت ہیں کہ جس موڑ سے مدینہ کے رہنے والے اپنے رشتہ داروں کو رخصت کیا کرتے تھے اس موڑ سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے بدر یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظاہر کردیا ہے۔ پس ہمیں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل ہے اس لئے کہ وہ تو اس جگہ جاکر اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو رخصت کرتے ہیں لیکن ہم نے وہاں جاکر سب سے زیادہ محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وصول کیا ہے۔
پھر ان لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھیرا ڈال لیا اور ان میں سے ہر شخص کی خواہش تھی کہ آپ ؐ اس کے گھر میں ٹھہریں۔ جس جس گلی میں سے آپ ؐ کی اونٹنی گزرتی تھی اُس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے یَا رَسُوْلَ اللہِ! یہ ہمارا گھر ہے جو آپؐ کی خدمت کے لئے حاضر ہے یَا رَسُوْلَ اللہِ آپ ہمارے پاس ہی ٹھہریں۔بعض لوگ جو ش میں آگے بڑھتے اور آپ ؐ کی اونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تاکہ آپ ؐ کو اپنے گھر میں اُتروالیں مگر آپ ؐ ہر شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو ۔یہ آج خدا تعالیٰ کی طرف سے مامورہے یہ وہیں کھڑی ہوگی جہاں خدا تعالیٰ کا منشاء ہوگا4 آخر وہ ایک جگہ پر کھڑی ہوگئی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے قریب گھر کِس کا ہے؟حضرت ابو ایوب انصاری ؓنے فرمایا یا رسول اللہ! میرا گھر سب سے قریب ہے اور آپؐ کی خدمت کے لئے حاضر ہے ۔حضرت ابو ایوب ؓ کا مکان دو منزلہ تھا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اوپر کی منزل تجویز کی مگر آپ ؐ نے اس خیال سے کہ ملنے والوں کو تکلیف ہوگی نچلی منزل کو پسند فرمایا۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر مان تو گئے کہ آپ نچلی منزل میں ٹھہریں لیکن ساری رات میاں بیوی اِس خیال سے جاگتے رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نیچے سو رہے ہیں پھر وہ کس طرح اس بے ادبی کے مرتکب ہو سکتے ہیں کہ وہ چھت کے اوپر سوئیں۔ اتفاقا اُسی رات ان سے پانی کا ایک برتن گر گیا ۔حضرت ایوب انصاریؓ نے دوڑ کر اپنا لحاف اُس پانی پر ڈال کر پانی کی رطوبت کوخشک کیا تاکہ چھت کے نیچے پانی نہ ٹپک پڑے۔ صبح کے وقت وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورسارے حالات عرض کئے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوپر کی منز ل پر رہنے میں راضی ہوگئے۔5
اب دیکھو یہ اس عشق کی ایک ادنیٰ سی مثال ہے جو صحابہؓ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا ۔پھر یہ واقعہ کتنا شاندارہے کہ جب جنگِ اُحد ختم ہوئی اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہؓ کو اس بات پر مامور فرمایا کہ وہ میدانِ جنگ میں جائیں اور زخمیوں کی خبر لیں۔ ایک صحابی ؓ میدان میں تلاش کرتے کرتے ایک زخمی انصاری کے پاس پہنچے دیکھا کہ ان کی حالت نازک ہے اور وہ جان توڑ رہے ہیں۔ اس نے زخمی انصاری سے ہمدردی کا اظہار کرنا شروع کیا۔ انہوں نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ مصافحہ کے لئے آگے بڑھایا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا مَیں انتظار کررہا تھا کہ کوئی بھائی مجھے مل جائے ۔انہوں نے اس صحابیؓ سے پوچھا کہ آپ کی حالت خطرناک معلوم ہوتی ہے اور بچنے کی امید نہیں کیا کوئی پیغام ہے جو آپ اپنے رشتہ داروں کو دینا چاہتے ہیں؟ اس مرنے والے صحابیؓ نے کہا ہاں ہاں! میری طرف سے میرے رشتہ داروں کو سلام کہنا اور انہیں کہنا کہ مَیں تو مر رہا ہوں مگر میں اپنے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک مقدس امانت ‘‘محمد’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑے جا رہا ہوں۔ میں جب تک زندہ رہا اس نعمت کی اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر بھی حفاظت کرتا رہا لیکن اب اے میرے بھائیواور رشتہ دارو! میں اَب مر رہا ہوں اور خدا تعالیٰ کی یہ مقدس امانت تم میں چھوڑرہا ہوں۔ میں آپ سب کو اس کی حفاظت کی نصیحت کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اگر آپ سب کو اس کی حفاظت کے سلسلہ میں اپنی جانیں بھی دینی پڑیں تو آپ اس سے دریغ نہیں کریں گے اور میری اس آخری وصیت کو یاد رکھیں گے مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے اندر ایمان موجود ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ سب کو محبت ہے اس لئے تم ضرور آپؐ کے وجود کی حفاظت کے لئے ہر ممکن قربانی کرو گے اور اس کے لئے اپنی جانوں کی بھی پروا نہیں کرو گے۔6
اب دیکھو ایک شخص مر رہا ہے اسے اپنی زندگی کے متعلق یقین نہیں۔ وہ مرتے وقت اپنے بیوی بچوں کو سلام نہیں بھیجتا انہیں کوئی نصیحت نہیں کرتا بلکہ وہ اگر کوئی پیغام بھیجتا ہے تو یہی کہ اے میری قوم کے لوگو! تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرنا ۔ہم جب تک زندہ رہے اس فرض کو نبھاتے رہے اب آپؐ کی حفاظت آپ لوگوں کے ذمہ ہے۔ آپ کو اس کے رستہ میں اپنی جانوں کی قربانی بھی پیش کرنی پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں۔ میری تم سے یہی آخری خواہش ہے اور مرتے وقت میں تمہیں اس کی نصیحت کرتا ہوں۔ یہ تھا وہ عشق ومحبت جو صحابہؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا۔
پھر جب آپ بدر کی جنگ کے لئے مدینہ سے صحابہؓ سمیت باہر نکلے تو آپؐ نے نہ چاہا کہ کسی شخص کو اس کی مرضی کے خلاف جنگ پر مجبور کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ وہ اس بارہ میں آپؐ کو مشورہ دیں کہ فوج کا مقابلہ کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ ایک کے بعد دوسرامہاجرکھڑا ہوا اور اس نے کہا یا رسول اللہؐ! اگر دشمن ہمارے گھروں پر چڑھ آیا ہے تو ہم اس سے ڈرتے نہیں ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں آپ ہر ایک کا جواب سن کر یہی فرماتے چلے جاتے کہ مجھے اور مشورہ دو مجھے اور مشورہ دو۔ مدینہ کے لوگ اس وقت تک خاموش تھے اس لئے کہ حملہ آور فوج مہاجرین کے رشتہ دار تھی وہ ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ ان کی بات سے مہاجرین کا دل دُکھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ مجھے مشورہ دو تو ایک انصاریؓ سردار کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مشورہ تو آپؐ کو مل رہا ہے مگر پھر بھی جو آپؐ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپؐ کی مراد ہم انصار سے ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ اس سردار نے جواب میں کہا یَا رَسُولَ اللہ!شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب فرما رہے ہیں کہ آپؐ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہمارے اور آپؐ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں آپؐ پر اور مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپؐ کی حفاظت کریں گے مدینہ سے باہر نکل کر ہم دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن اس وقت آپؐ مدینہ سے باہر تشریف لے آئے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یہ درست ہے۔ اس نے کہا یا رسول اللہؐ !جس وقت وہ معاہدہ ہوا تھا اُس وقت تک ہم پر آپؐ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہیں ہوئی تھی لیکن اب ہم پر آپؐ کا مرتبہ اور آپؐ کی شان پورے طور پر ظاہر ہو چکی ہے اس لئے یا رسول اللہ! اب اُس معاہدہ کا کوئی سوال ہی نہیں ہم موسیٰ ؑ کے ساتھیوں کی طرح آپؐ کو یہ نہیں کہیں گے اذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ7 کہ تُو اور تیرا رب جاؤ اور دشمن سے جنگ کرتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اورآگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور یارسول اللہؐ! دشمن جو آپؐ کو نقصان پہنچانے کے لئے آیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔ پھر اس نے کہا یا رسول اللہؐ! جنگ تو ایک معمولی بات ہے یہاں سے تھوڑے فاصلے پر سمندر ہے(بدر سے چند منزلوں کے فاصلہ پر سمندر تھااور عرب تیرنا نہیں جانتے تھے اس لئے پانی سے بہت ڈرتے تھے ) آپ ہمیں سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دینے کا حکم دیجئے۔ہم بِلا چون و چرا اس میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے۔8 یہ وہ فدائیت اور اخلاص کا نمونہ تھا جس کی مثال کسی سابق نبی کے ماننے والوں میں نہیں ملتی۔ اس مشورہ کے بعد آپؐ نے دشمن سے لڑائی کرنے کا حکم دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کو نمایاں فتح عطا فرمائی۔
حضرت مسیح ناصریؑ کے انصار کی وہ شان نہیں تھی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار کی تھی۔ لیکن پھر بھی وہ اِس وقت تک آپ کی خلافت کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور یہ ان کی ایک بہت بڑی خوبی ہے۔مگر تم میں سے بعض لوگ پیغامیوں کی مدد کے لالچ میں آ گئے اور انہوں نے خلافت کو مٹانے کی کوششیں شروع کر دیں۔اور زیادہ تر افسوس یہ ہے کہ ان لوگوں میں اس عظیم الشان باپ کی اولاد بھی شامل ہے جس کو ہم بڑی قدر اور عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وفات پر 42 سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر میں ہر قربانی کے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔ تحریک جدید1934ء سے شروع ہے اور اب 1956ء ہے۔ گویا اِس پر 22 سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ شاید حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد خود بھی اس میں حصہ نہ لیتی ہو لیکن میں ہر سال آپ کی طرف سے اس میں چندہ دیتا ہوں تا کہ آپ کی روح کو بھی اس کا ثواب پہنچے۔ پھر جب میں حج پر گیا تو اُس وقت بھی میں نے آپ کی طرف سے قربانی کی تھی اور اب تک ہر عید کے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا چلا آیا ہوں۔غرض ہمارے دل میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی بڑی قدر اور عظمت ہے لیکن آپ کی اولاد نے جو نمونہ دکھایا وہ تمہارے سامنے ہے۔ اس کے مقابلہ میں تم حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کو دیکھو کہ وہ آج تک آپ کی خلافت کو سنبھالے چلے آتے ہیں۔ ہم تو اس مسیحؑ کے صحابہ اور انصار ہیں جس کو مسیح ناصریؑ پر فضیلت دی گئی ہے۔ مگر ہم جو افضل باپ کے روحانی بیٹے ہیں ہم میں سے بعض لوگ چند روپوں کے لالچ میں آ گئے۔ شاید اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ مماثلت بھی پوری ہونی تھی کہ جیسے آپ کے ایک حواری یہودا اسکریوطی نے رومیوں سے تیس روپے لے کر آپ کو بیچ دیا تھا9 اُسی طرح اِس مسیحؑ کی جماعت میں بھی بعض ایسے لوگ پیدا ہونے تھے جنہوں نے پیغامیوں سے مدد لے کر جماعت میں فتنہ کھڑا کرنا تھا۔ لیکن ہمیں عیسائیوں کے صرف عیب ہی نہیں دیکھنے چاہئیں بلکہ ان کی خوبیاں بھی دیکھنی چاہئیں۔ جہاں اُن میں ہمیں یہ عیب نظر آتا ہے کہ ان میں سے ایک نے تیس روپے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام کو بیچ دیا وہاں ان میں یہ خوبی بھی پائی جاتی ہے کہ آج تک جب کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر دو ہزار سال کے قریب عرصہ گزر چکا ہے وہ آپ کی خلافت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ آج جب میں نے اس بات پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اِس چیز کا وعدہ بھی حواریوں نے کیا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب کہا مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہ کہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں میری کون مدد کرے گا؟ تو حواریوں نے کہا نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ ہم خدا تعالیٰ کے رستہ میں آپ کی مدد کریں گے۔ انہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ پس اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم وہ انصارہیں جن کو خدا تعالیٰ کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ اس لئے جب تک خدا تعالیٰ زندہ ہے اُس وقت تک ہم بھی اس کی مدد کرتے رہیں گے۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات پر قریباً دو ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن عیسائی لوگ برابر عیسائیت کی تبلیغ کرتے چلے جا رہے ہیں اور اب تک ان میں خلافت قائم چلی آتی ہے۔ اب بھی ہماری زیادہ تر ٹکر عیسائیوں سے ہی ہو رہی ہے جو مسیح علیہ السلام کے متبع اور ان کے ماننے والے ہیں اور جن کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال رکھتے ہوئے فرمایاکہ خدا تعالیٰ کے سارے نبی اِس فتنہ کی خبر دیتے چلے آئے ہیں۔غرض وہ مسیح ناصریؑ جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ان پر فضیلت عطا فرمائی ہے ان کے انصار نے اتنا جذبہ اخلاص دکھایا کہ انہوں نے دو ہزار سال تک آپ کی خلافت کو مٹنے نہیں دیا۔ کیونکہ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اگر مسیح علیہ السلام کی خلافت مِٹی تو مسیح علیہ السلام کا خود اپنا نام بھی دنیا سے مٹ جائے گا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شروع عیسائیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ایک حواری نے آپ کو تیس روپے کے بدلہ میں دشمنوں کے ہاتھ بیچ دیا تھا لیکن اب عیسائیت میں وہ لوگ پائے جاتے ہیں جو مسیحیت کی اشاعت اورحضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا منوانے کے لئے کروڑوں کروڑ روپیہ دیتے ہیں۔ اِسی طرح اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ نے اپنے زمانہ میں بڑی قربانی کی ہے۔ لیکن آپ کی وفات پر ابھی صرف 48سال ہی ہوئے ہیں کہ جماعت میں سے بعض ڈانواں ڈول ہونے لگے ہیں اور پیغامیوں سے چند روپے لے کر ایمان کو بیچنے لگے ہیں حالانکہ ان میں سے بعض پر سلسلہ نے ہزارہا روپے خرچ کئے ہیں۔ مَیں پچھلے حسابات نکلوارہا ہوں اور میں نے دفتروالوں سے کہا ہے کہ وہ بتائیں کہ صدر انجمن احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کی کتنی خدمت کی ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے خاندان کی کتنی خدمت کی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فوت ہوئے 48سال ہو چکے ہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وفات پر 42سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فاصلہ زیادہ ہے اور پھر آپ کی اولاد بھی زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود میں نے حسابات نکلوائے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے خاندان کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان پرکم خرچ کیا ہے۔ لیکن پھر بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد میں یہ لالچ پید ا ہوئی کہ خلافت بھی سنبھالویہ ہمارے باپ کا حق تھا جو ہمیں ملنا چاہیے تھا۔ چنانچہ سندھ سے ایک آدمی نے مجھے لکھا کہ یہاں میاں عبدالمنان کے بھانجے مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کا ایک پروردہ شخص بشیر احمد آیا اور اس نے کہا کہ خلافت تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا مال تھا اور ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد کو ملنا چاہئیے تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد نے اسے غصب کرلیا ۔اب ہم سب نے مل کریہ کوشش کرنی ہے کہ اس حق کو دوبارہ حاصل کریں۔ پھر میں نے میاں عبدالسلام صاحب کی پہلی بیوی کے سوتیلے بھائی کا ایک خط پڑھا جس میں اس نے اپنے سوتیلے ماموں کو لکھا کہ مجھے افسوس ہے کہ مشرقی بنگال کی جماعت نے ایک ریزولیوشن پاس کرکے اس فتنہ سے نفرت کااظہار کیا ہے۔ ہمیں تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا۔ ہمارے لئے تو موقع تھا کہ ہم کوشش کرکے اپنے خاندان کی وجاہت کو دوبارہ قائم کرتے ۔یہ ویسی ہی نامعقول حرکت ہے جیسی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر لاہور کے بعض مخالفین نے کی تھی۔ انہوں نے آپ کے نقلی جنازے نکالے اور آپ کی وفات پر خوشی کے شادیانے بجائے ۔وہ تو دشمن تھے لیکن یہ لوگ احمدی کہلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنے خاندان کی وجاہت کو قائم کرنا چاہیے۔ حالانکہ حضرت خلیفہ اول کو جو عزت اور درجہ ملا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل ملا ہے۔ اب جو چیز آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل ملی تھی وہ ان لوگوں کے نزدیک ان کے خاندان کی جائیداد بن گئی۔ یہ وہی فقرہ ہے جو پرانے زمانہ میں ان لڑکوں کی والدہ نے مجھے کہا کہ پیغامی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خلافت تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی تھی۔ اگر آپ کی وفات کے بعد آپ کے کسی بیٹے کو خلیفہ بنالیا جاتا تو ہم اس کی بیعت کرلیتے مگر مرزا صاحب کا خلافت سے کیا تعلق تھا کہ آپ کے بیٹے کو خلیفہ بنا لیا گیا۔ اُس وقت میری بھی جوانی تھی ۔میں نے انہیں کہا کہ آپ کے لیے رستہ کھلا ہے، تانگے چلتے ہیں (اُن دنوں قادیان میں ریل نہیں آئی تھی )آپ چاہیں تو لاہور چلی جائیں میں آپ کو نہیں روکتا۔ وہاں جاکر آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ وہ آپ کی کیا امداد کرتے ہیں ۔وہاں تو مولوی محمد علی صاحب کو بھی خلافت نہیں ملی۔ انہیں صرف امارت ملی تھی اور امارت بھی ایسی کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہیں وصیت کرنی پڑی کہ فلاں فلاں شخص ان کے جنازے پر نہ آئے ۔ان کی اپنی تحریر موجود ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مولوی صدرالدین صاحب، شیخ عبدالرحمن صاحب مصری اور ڈاکٹر غلام محمد صاحب میرے خلاف پروپیگنڈا میں اپنی پوری قوت خرچ کررہے ہیں اور انہوں نے تنکے کو پہاڑبنا کر جماعت میں فتنہ پیدا کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ اوران لوگوں نے مولوی محمد علی صاحب پر طرح طرح کے الزامات لگائے۔ یہاں تک کہ آپ نے احمدیت سے انکار کردیا ہے اور انجمن کا مال غصب کرلیا ہے ۔اَب بتاؤ جب وہ شخص جو اس جماعت کا بانی تھا اسے یہ کہنا پڑا کہ جماعت کے بڑے بڑے آدمی مجھ پر الزام لگاتے ہیں اور مجھے مرتد اور جماعت کا مال غصب کرنے والا قرار دیتے ہیں تو اگر وہاں دودھ پینے والے چھوکرے چلے جاتے تو انہیں کیا ملتا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا تھا کہ انہیں پانچ پانچ روپے کے وظیفے دے کر کسی سکول میں داخل کردیا جاتا۔ مگر ہم نے تو ان کی تعلیم پر بڑا روپیہ خرچ کیا اور اس قابل بنایا کہ یہ بڑے آدمی کہلا سکیں۔ لیکن انہوں نے یہ کیا کہ جس جماعت نے انہیں پڑھایا تھا اُسی کو تباہ کرنے کے لئے حملہ کردیا ۔اِس سے بڑھ کر اور کیا قساوت ِ قلبی ہوگی کہ جن غریبوں نے انہیں پیسے دے کر اس مقام پر پہنچایا یہ لوگ انہی کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگ جائیں۔جماعت میں ایسے ایسے غریب ہیں کہ جن کی غربت کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا مگر وہ لوگ چندہ دیتے ہیں۔
ایک دفعہ قادیان میں ایک غریب احمدی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ امراء کے ہاں دعوتیں کھاتے ہیں۔ ایک دفعہ آپ میرے گھر بھی تشریف لائیں اور میری دعوت کو قبول فرمائیں۔ میں نے کہا تم بہت غریب ہو میں نہیں چاہتا کہ دعوت کی وجہ سے تم پر کوئی بوجھ پڑے ۔اُس نے کہامیں غریب ہوں تو کیا ہوا آپ میری دعوت ضرور قبول کریں۔ میں نے پھر بھی انکارکیا مگر وہ میرے پیچھے پڑگیا۔ چنانچہ ایک دن میں اس کے گھر گیا تاکہ اس کی دلجوئی ہوجائے۔ مجھے یاد نہیں اس نے چائے کی دعوت کی تھی یا کھانا کھلایا تھا۔ مگر جب میں اس کے گھر سے نکلا تو گلی میں ایک احمدی دوست عبدالعزیز صاحب کھڑے تھے وہ پسرور ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور مخلص احمدی تھے۔ لیکن انہیں اعتراض کرنے کی عادت تھی۔ میں نے انہیں دیکھا تو میرا دل بیٹھ گیااورمیں نے خیال کیا کہ اب یہ دوست مجھ پر ضرور اعتراض کریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا ۔حضور! آپ ایسے غریبوں کی دعوت بھی قبول کرلیتے ہیں؟ میں نے کہا عبدالعزیز صاحب میرے لئے دونوں طرح مصیبت ہے۔ اگر میں انکار کروں تو غریب کہتا ہے۔ مَیں غریب ہوں اس لئے میری دعوت نہیں کھاتے۔ اوراگر میں اس کی دعوت منظور کرلوں تو آپ لوگ کہتے ہیں کہ غریب کی دعوت کیوں مان لی۔ اب دیکھو اس شخص نے مجھے خود دعوت پر بلایا تھا ۔میں نے بارہا انکار کیا لیکن وہ میرے پیچھے اس طرح پڑا کہ میں مجبور ہوگیا کہ اس کی دعوت مان لوں لیکن دوسرے دوست کو اس پر اعتراض پیدا ہوا۔ غرض جماعت میں ایسے ایسے غریب بھی ہیں کہ ان کے ہاں کھانا کھانے پر بھی دوسروں کو اعتراض پیدا ہوتا ہے ۔ایسی غریب جماعت نے ان لڑکوں کی خدمت کرنے اور انہیں پڑھانے پر ایک لاکھ روپیہ سے زیادہ خرچ کیا۔ میاں عبدالسلام کو وکیل بنایا، عبدالمنان کو ایم اے کروایا، عبدالوہاب کو بھی تعلیم دلائی، اسے وظیفہ دیا، لاہور بھیجا اورہوسٹل میں داخل کروایا۔ مگر اسے خود تعلیم کا شوق نہیں تھا اس لئے وہ زیادہ تعلیم حاصل نہ کرسکا۔ لیکن پھر بھی جماعت نے اسے پڑھانے میں کوئی کوتاہی نہ کی، بعد میں مَیں نے معقول گزارہ دے کراسے دہلی بھجوایا اورکہا کہ تمہارے باپ کا پیشہ طب تھا تم بھی طب پڑھ لو۔ چنانچہ اُسے حکیم اجمل خاں صاحب کے کالج میں طب پڑھائی گئی۔ گو اس نے وہاں بھی وہی حرکت کی کہ پڑھائی کی طرف توجہ نہ کی اور فیل ہوا۔ لیکن اس نے اتنی عقلمندی کی کہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے گیا چنانچہ بیوی پاس ہوگئی اور امتحان میں اول آئی۔ اب سلسلہ کے اس روپیہ کی وجہ سے جواس پر خرچ کیا گیا وہ اپنا گزارہ کررہا ہے اوراس نے اپنے دواخانہ کا نام دواخانہ نورالدین رکھا ہواہے۔ حالانکہ دراصل وہ دواخانہ سلسلہ احمدیہ ہے، کیونکہ سلسلہ احمدیہ کے روپیہ سے ہی وہ اس حد تک پہنچا ہے کہ دواخانہ کو جاری رکھ سکے۔اب وہ لکھتا ہے کہ میری بیوی جو گولڈ میڈلسٹ ہے وہ علاج کرتی ہے۔ وہ یہ کیوں نہیں لکھتا کہ میری بیوی جس کو سلسلہ احمدیہ نے خرچ دے کر پڑھایا ہے علاج کرتی ہے۔ غرض چاہے تعلیم کو لیا جائے، طب کو لیا جائے، یا کسی اَور پیشہ کو لیا جائے یہ لوگ سلسلہ کی مدد کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑے ہی نہیں ہوسکتے تھے۔ مگر اس ساری کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب یہ لوگ سلسلہ احمدیہ کو ہی تباہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر سلسلہ احمدیہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے جسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا۔ یہ سلسلہ ایک چٹان ہے جو اِس پر گرے گا وہ پاش پاش ہو جائے گا اور جو اس کو مٹانا چاہے گا وہ خود مٹ جائے گا۔ اور کوئی شخص بھی خواہ اس کی پشت پناہ احراری ہوں یا پیغامی ہوں اس کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو گا۔اس کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کرنے والے ذلیل اور خوار ہوں گے اور قیامت تک ذلت اور رسوائی میں مبتلا رہیں گے ۔اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عزت اور رفعت دیتا چلا جائے گا اور تمام دنیا میں آپ کا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ پھیلتا چلا جائے گا۔ اور جب آپ کے ذریعہ ہی اسلام بڑھے گا تو لازمی طور پر جو لوگ آپ کے ذریعہ اسلام قبول کریں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے وہ آپ پر بھی ایمان لائیں گے۔ لیکن اس سلسلہ کی تباہی کا ارادہ کرنے والے ابھی زندہ ہی ہوں گے کہ ان کی عزتیں ان کی آنکھوں کے سامنے خاک میں مل جائیں گی۔ اور پیغامیوں نے جو ان سے مدد کا وعدہ کیا ہے وہ وعدہ بھی خاک میں مل جائے گا۔مولوی محمد علی صاحب سے ان لوگوں نے جو وعدہ کیا تھا کیا وہ پورا ہوا؟ ان کا انجام آپ لوگوں کے سامنے ہے۔ اَب ان لوگوں کا انجام مولوی محمد علی صاحب سے بھی بد تر ہو گا۔ اس لئے کہ جب انہوں نے سلسلہ سے علیحدگی اختیار کی تھی اورا نجمن اشاعتِ اسلام کی بنیاد رکھی تھی تو انہوں نے سلسلہ احمدیہ کی ایک عرصہ کی خدمت کے بعد ایسا کیا تھا۔ انہیں دنیا کی خدمت کا موقع ملا تھا۔ رسالہ ریویوآف ریلیجنز دنیا میں بہت مقبول ہوا اور وہ اس کے ایڈیٹرتھے۔ پھر انہوں نے اپنے خرچ سے پڑھائی کی تھی۔ لیکن ان لوگوں نے اپنے یا اپنے باپ کے پیسے سے پڑھائی نہیں کی بلکہ غریب لوگوں کے پیسے سے کی جو بعض دفعہ رات کو فاقہ سے سوتے ہیں اوراس سارے احسان کے بعد انہوں نے یہ کیا کہ وہ سلسلہ احمدیہ کو تباہ کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔
یاد رکھو! تمہارا نام انصاراللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے مدد گار۔ گویا تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ازلی اور ابدی ہے اس لئے تم کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ابدیت کے مظہر ہو جاؤ۔ تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لئے قائم رکھتے چلے جاؤ اور کوشش کرو کہ یہ کام نسلاً بَعْدَ نسلٍ چلتا چلا جاوے۔ اور اس کے دو ذریعے ہو سکتے ہیں ۔ایک ذریعہ تو یہ کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی جائے اور اس میں خلافت کی محبت قائم کی جائے۔اس لئے میں نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی تھی اور خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ اطفال اور خدام آپ لوگوں کے ہی بچے ہیں۔ اگر اطفال الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی تو خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی۔ اور اگر خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی تو اگلی نسل انصاراللہ کی اعلیٰ ہو گی۔ میں نے سیڑھیاں بنا دی ہیں آگے کام کرنا تمہارا کام ہے۔ پہلی سیڑھی اطفال الاحمدیہ ہے۔ دوسری سیڑھی خدام الاحمدیہ ہے، تیسری سیڑھی انصارللہ ہے اور چوتھی سیڑھی خدا تعالیٰ ہے۔ اب تم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرو اور دوسری طرف خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگو تو یہ چاروں سیڑھیاں مکمل ہو جائیں گی۔ اگر تمہارے اطفال اور خدام ٹھیک ہو جائیں اور پھر تم بھی دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لو تو پھر تمہارے لئے عرش سے نیچے کوئی جگہ نہیں۔ اور جو عرش پر چلا جائے وہ بالکل محفوظ ہو جاتا ہے۔ دنیا حملہ کرنے کی کوشش کرے تو وہ زیادہ سے زیادہ سو دو سو فٹ پر حملہ کر سکتی ہے، وہ عرش پر حملہ نہیں کر سکتی۔ پس اگر تم اپنی اصلاح کر لو گے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو گے تو تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو جائے گا۔ اور اگر تم حقیقی انصار اللہ بن جاؤ اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لو تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی طور پر رہے گی اور وہ عیسائیت کی خلافت سے بھی لمبی چلے گی ۔عیسائیوں کی تعداد تو تمام کوششوں کے بعد مسلمانوں سے قریباً دُگنی ہوئی ہے مگر تمہارے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ پیشگوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری تعداد کو اتنا بڑھا دے گا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دوسرے تمام مذاہب ہندو ازم، بدھ مت، عیسائیت اور شنٹوازم وغیرہ کے پَیرو تمہارے مقابلہ میں بالکل ادنیٰ اقوام کی طرح رہ جائیں گے یعنی ان کی تعداد تمہارے مقابلہ میں ویسی ہی بے حقیقت ہو گی جیسے آج کل ادنیٰ اقوام کی دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں ہے۔ وہ دن جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے یقیناً آئے گا۔ لیکن جب آئے گا تو اسی ذریعہ سے آئے گا کہ خلافت کو قائم رکھا جائے،تبلیغِ اسلام کو قائم رکھا جائے، تحریک جدید کو مضبوط کیا جائے، اشاعتِ اسلام کے لئے جماعت میں شغف زیادہ ہو اور دنیا کے کسی کونہ کو بھی بغیر مبلغ کے نہ چھوڑا جائے۔
مجھے بیرونی ممالک سے کثرت سے چِٹھیاں آ رہی ہیں کہ مبلغ بھیجے جائیں ۔اس لئے ہمیں تبلیغ کے کام کو بہر حال وسیع کرنا پڑے گا اور اتنا وسیع کرنا پڑے گا کہ موجودہ کام اس کے مقابلہ میں لاکھواں حصہ بھی نہ رہے۔ میں نے بتایا ہے کہ خلافت کی وجہ سے رومن کیتھولک اس قدر مضبوط ہوگئے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے پڑھا کہ ان کے 54لاکھ مبلغ ہیں۔ ان سے اپنا مقابلہ کرو اورخیال کرو کہ تم سو ڈیڑھ سو مبلغوں کے اخراجات پر ہی گھبرانے لگ جاتے ہو۔ اگر تم ا ن سے تین چار گنے زیادہ طاقت وربننا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ تمہارا دو کروڑ مبلغ ہو۔ لیکن اب یہ حالت ہے کہ ہمارے سب مبلغ ملالئے جائیں تو ان کی تعداد دو سو کے قریب بنتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عیسائیوں کو مسلمان کرلیں، بُدھوں کو مسلمان کرلیں، شنٹو ازم والوں کو مسلمان کرلیں، کنفیوشس ازم کے پیروؤں کو مسلمان کرلیں تو اس کے لئے دو کروڑمبلغوں کی ضرورت ہے۔ اور ان مبلغوں کو پیدا کرنا اورپھر ان سے کام لینا بغیر خلافت کے نہیں ہوسکتا۔
ہمارے ملک میں ایک کہانی مشہور ہے کہ ایک بادشاہ جب مرنے لگا تو اس نے اپنے تمام بیٹوں کو بلایا اور انہیں کہا ایک جھاڑو لاؤ۔ وہ ایک جھاڑو لے آئے ۔اس نے اس کا ایک ایک تنکا انہیں دیا اور کہا اسے توڑو اورانہوں نے اسے فوراًتوڑ دیا۔ پھر اس نے سارا جھاڑو انہیں دیا کہ اب اسے توڑو۔انہوں نے باری باری پورا ضرور لگایا مگر وہ جھاڑو اُن سے نہ ٹوٹا ۔اِس پر اُس نے کہا میرے بیٹو!دیکھو میں نے تمہیں ایک ایک تنکا دیا تو تم نے اسے بڑی آسانی سے توڑدیا لیکن جب سارا جھاڑو تمہیں دیا تو باوجود اس کے تم نے پورا زور لگایا وہ تم سے نہ ٹوٹا۔ اِسی طرح اگر تم میرے مرنے کے بعد بکھر گئے تو ہر شخص تمہیں تباہ کرسکے گا۔ لیکن اگر تم متحد رہے تو تم ایک مضبوط سوٹے کی طرح بن جاؤ گے ۔جسے دنیا کی کوئی طاقت توڑ نہیں سکے گی ۔اسی طرح اگر تم نے خلافت کے نظام کو توڑ دیا تو تمہاری کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی اور تمہیں دشمن کھا جائے گا۔ لیکن اگرتم نے خلافت کو قائم رکھا تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں تباہ نہیں کرسکے گی۔
تم دیکھ لو ہماری جماعت کتنی غریب ہے لیکن خلافت کی وجہ سے اسے بڑی حیثیت حاصل ہے اور اس نے وہ کام کیا ہے جو دنیا کے دوسرے مسلمان نہیں کرسکے۔ مصر کا ایک اخبار الفتح ہے جو سلسلہ کا شدید مخالف ہے اس میں ایک دفعہ کسی نے مضمون لکھا کہ گزشتہ 1300سال میں مسلمانوں میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں مگر انہوں نے اسلام کی وہ خدمت نہیں کی جو اس غریب جماعت نے کی ہے اور یہ چیز ہر جگہ نظر آتی ہے۔یورپ والے بھی اسے مانتے ہیں اور ہمارے مبلغوں کا بڑا اعزاز کرتے ہیں اور انہیں اپنی دعوتوں اور دوسری تقریبوں میں بلاتے ہیں۔ اسرائیلیوں کو ہم سے شدید مخالفت ہے مگر پچھلے دنوں جب ہمارا مبلغ واپس آیا تو اسے وہاں کے صدر کی چٹھی ملی کہ جب آپ واپس جائیں تو مجھے مل کرجائیں۔ اور جب وہ اسے ملنے کے لئے گئے تو ان کا بڑا اعزاز کیا گیا اور اس موقع پر ان کے فوٹو لیے گئے اور پھر ان فوٹوؤں کو حکومتِ اسرائیل نے تمام مسلمان ممالک میں چھپوایا ۔انہوں نے ان فوٹوؤں کو مصر میں بھی چھپوایا ،عرب ممالک میں بھی چھپوایا ،افریقہ میں بھی چھپوایا اور ہندوستان میں بھی ان کی اشاعت کی۔جب چودھری ظفراللہ خاں صاحب شام گئے تو وہاں کے صدر نے انہیں کہا کہ کیا آپ کی اسرائیل سے صلح ہوگئی ہے؟انہوں نے اسے بتایا کہ ہماری اسرائیل سے کوئی صلح نہیں ہوئی بلکہ ہم اس کے شدید مخالف ہیں ۔غرض وہ اسرائیل جو عرب ممالک سے صلح نہیں کرتا اُس نے دیکھا کہ احمدیوں کی طاقت ہے اس لئے ان سے صلح رکھنی ہمارے لئے مفید ہوگی۔وہ سمجھتا ہے کہ ان لوگوں سے خواہ مخواہ ٹکر نہیں لینی چاہیے۔ گو اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی کیونکہ احمدی اسرائیل کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ میں خنجر سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اسرائیل مدینہ کے بہت قریب ہے۔ وہ اگر ہمارے مبلغ کو اپنے ملک کا بادشاہ بھی بنا لیں تب بھی ہماری دلی خواہش یہی ہوگی کہ ہمارا بَس چلے تو اسرئیل کو سمندر میں ڈبودیں اور فلسطین کو ان سے پاک کرکے مسلمانوں کے حوالہ کردیں۔ بہرحال ان کی یہ خواہش توکبھی پوری نہیں ہوگی لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جماعت اگرچہ چھوٹی ہے لیکن متحد ہونے کی وجہ سے اسے ایک طاقت حاصل ہے ۔اس طاقت سے ہمیں خواہ مخواہ ٹکر نہیں لینی چاہیے۔ چنانچہ وہ ہم سے ڈرتے ہیں۔پاکستان میں ہمارے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی کوئی طاقت نہیں، انہیں اقلیت قرار دے دینا چاہیے حالانکہ یہاں ہماری تعداد لاکھوں کی ہے لیکن اسرائیل میں ہماری تعداد چند سوکی ہے۔پھر بھی وہ چاہتے ہیں کہ ہماری دلجوئی کی جائے اور یہ محض خلافت کی ہی برکت ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ چاہے ہمارے ملک میں چند سواحمدی ہیں اگر وہ ایک ہاتھ پر جمع ہیں اگر انہوں نے آواز اٹھائی تو ان کی آواز صرف فلسطین میں ہی نہیں رہے گی بلکہ ان کی آواز شام میں بھی اٹھے گی، عراق میں بھی اٹھے گی ،مصر میں بھی اٹھے گی،ہالینڈ میں بھی اٹھے گی،فرانس میں بھی اٹھے گی،سپین میں بھی اٹھے گی،انگلستان میں بھی اٹھے گی،سکنڈے نیویا میں بھی اٹھے گی،سوئٹزرلینڈ میں بھی اٹھے گی،امریکہ میں بھی اٹھے گی،انڈونیشیا میں بھی اٹھے گی۔ یہ لوگ تمام ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اگر ان سے بُرا سلوک کیا گیا تو تمام ممالک میں اسرائیل بدنام ہوجائے گا اس لئے ان سے بگاڑ مفید نہیں ہوگا۔یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے مبلغ کا اعزاز کرتے ہیں۔
اسی طرح جب تقسیمِ ملک ہوئی تو ہمارے مبلغوں نے تمام ممالک میں ہندوستان کے خلاف پراپیگنڈا کیا۔ اُس وقت لنڈن میں چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام تھے انہیں پنڈت نہرو نے لکھا کہ آپ لوگوں نے تمام دنیا میں ہمیں اس قدر بدنام کردیا ہے کہ ہم کسی ملک کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ اب دیکھ لو پنڈت نہرو باقی تمام مسلمانوں سے نہیں ڈرے انہیں ڈرمحسوس ہواتو صرف احمدیوں سے اور اس کی وجہ محض ایک مقصد پر جمع ہونا تھی۔ اور یہ طاقت اور قوت جماعت کو کس طرح نصیب ہوئی؟ یہ صرف خلافت ہی کی برکت تھی جس نے احمدیوں کو ایک نظام میں پرودیااور اس کے نتیجہ میں انہیں طاقت حاصل ہوگئی۔میرے سامنے اِس وقت چودھری غلام حسین صاحب بیٹھے ہیں جو مخلص احمدی ہیں اور صحابی ہیں یہ اپنی آواز کو امریکہ کس طرح پہنچا سکتے ہیں،یہ اپنی آواز کو انگلینڈ کیسے پہنچاسکتے ہیں،یہ اپنی آواز کو فرانس،جرمنی اور سپین کیسے پہنچا سکتے ہیں، یہ بے شک جو شیلے احمدی ہیں مگر یہ اپنی آواز دوسرے ملک میں اپنے دوسرے احمدی بھائیوں کے ساتھ مل کر ہی پہنچا سکتے ہیں ورنہ نہیں۔اِسی مل کر کام کرنے سے اسرائیل کو ڈر پیدا ہوا اور اسی مل کر کام کرنے سے ہی پاکستان کے مولوی ڈرے اور انہوں نے ملک کے ہر کونہ میں یہ جھوٹا پراپیگنڈ ا شروع کردیا کہ احمدیوں نے ملک کے سب کلیدی عہدے سنبھال لئے ہیں انہیں اقلیت قرار دیا جائے اور ان عہدوں سے انہیں ہٹادیا جائے۔ حالانکہ کلیدی عہدے اُنہی کے پاس ہیں ہمارے پاس نہیں۔ یہ سب طاقت خلافت کی وجہ سے ہے۔ خلافت کی وجہ سے ہی ہم اکٹھے رہے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔
اب اس فتنہ کو دیکھو جو 1953ء کے بعد جماعت میں اٹھا ۔اس میں سارے احراری فتنہ پردازوں کے ساتھ ہیں۔ تمہیں یاد ہے کہ1934ء میں بھی احراری اپنا سارا زور لگا چکے ہیں اوربری طرح ناکام ہوئے ہیں اوراس دفعہ بھی وہ ضرور ناکام ہوں گے۔ اس دفعہ اگر انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد ان کے ساتھ ہے اس لئے وہ جیت جائیں گے تو انہیں جان لینا چاہیے کہ جماعت کے اندر اتنا ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کے مقابلہ میں خواہ کوئی اٹھے جماعت احمدیہ اس کا کبھی ساتھ نہیں دے گی۔ کیونکہ انہوں نے دلائل اور معجزات کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے ۔ان میں سے ہر شخص نے اپنے اپنے طور پر تحقیقات کی ہے۔ کوئی گوجرانوالہ میں تھا، کوئی گجرات میں تھا، کوئی شیخوپورہ میں تھا، وہاں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں پہنچیں اور آپؑ کے دلائل نقل کرکے بھجوائے گئے تو وہ لوگ ایمان لے آئے۔ پھر ایک دھاگا میں پروئے جانے کی وجہ سے انہیں طاقت حاصل ہوگئی ۔اب دیکھ لو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہی طاقت تھی کہ آپ نے اعلان فرمادیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں ۔بس حضرت مسیح علیہ السلام کی موت سے ساری عیسائیت مر گئی۔ اب یہ کتنا صاف مسئلہ تھا مگر کسی اَور مولوی کو نظر نہ آیا ۔سارے علماء کتابیں پڑھتے رہے لیکن ان میں سے کسی کو یہ مسئلہ نہ سُوجھا اور وہ حیران تھے کہ عیسائیت کا مقابلہ کیسے کریں ۔حضرت مرزا صاحب نے آکر عیسائیت کے زور کو توڑدیا اور وفاتِ مسیح کا ایسا مسئلہ بیان کیا کہ ایک طرف مولویوں کا زور ٹوٹ گیا تو دوسری طرف عیسائی ختم ہوگئے۔
بھیرہ میں ایک غیراحمدی حکیم الہٰ دین صاحب ہوتے تھے۔وہ اپنے آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الاول سے بھی بڑا حکیم سمجھتے تھے۔ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک صحابی حکیم فضل دین صاحب انہیں ملنے کے لئے گئے اور انہوں نے چاہا کہ وہ انہیں احمدیت کی تبلیغ کریں ۔حکیم الہٰ دین صاحب بڑے رُعب والے شخص تھے وہ جوش میں آگئے اور کہنے لگے تُو کل کا بچہ ہے اور مجھے تبلیغ کرنے آیا ہے؟ تُو احمدیت کو کیا سمجھتا ہے؟ میں اسے خوب سمجھتا ہوں ۔حضرت مرزا صاحب نے اپنی مشہور کتاب براہین احمدیہ لکھی جس سے اسلام تمام مذاہب پر غالب ثابت ہوتا تھا مگر مولویوں نے آپ پر کفرکا فتویٰ لگا دیا۔حضرت مرزا صاحب کو غصہ آیا اور انہوں نے کہا اچھا تم بڑے عالم بنے پھرتے ہو،میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قرآن کریم سے فوت شدہ ثابت کردیتا ہوں تم اسے زندہ ثابت کرکے دکھاؤ۔ گویا آپ نے یہ مسئلہ ان مولویوں کو ذلیل کرنے کے لئے بیان کیا تھا ورنہ درحقیقت آپ کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود ہیں۔ پھر حکیم صاحب نے ایک گندی گالی دے کرکہا کہ مولوی لوگ پور ا زور لگا چکے ہیں مگر حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ میں ناکام رہے ہیں۔اس کا اب ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ ہے کہ سب مل کر حضرت مرزا صاحب کے پاس جائیں اور کہیں ہم آپ کو سب سے بڑا عالم تسلیم کرتے ہیں ۔ہم ہارے اور آپ جیتے۔ اور اپنی پگڑیاں ان کے پاؤں پر رکھ دیں اور درخواست کریں کہ اب آپ ہی قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت کردیں۔ہم تو پھنس گئے ہیں۔ اب معافی چاہتے ہیں اور آپ کو اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں۔ اگر مولوی لوگ ایسا کریں تو دیکھ لینا حضرت مرزا صاحب نے قرآن کریم میں سے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ ثابت کردینا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وہ عظمت دی ہے کہ آپ ؑ کے مقابلہ میں اور کوئی نہیں ٹھہرسکتا۔ چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہوکیونکہ اگر وہ جماعت میں بڑا ہے تو آپ کی غلامی کی وجہ سے بڑا ہے۔ آپ کی غلامی سے باہر نکل کر اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔
مجھے یاد ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب چشمہ معرفت لکھی تو کسی مسئلہ کے متعلق آپ کو خیال پیدا ہوا کہ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی بھی کوئی کتاب پڑھ لیں اور دیکھیں کہ انہوں نے اس کے متعلق کیا لکھا ہے۔ آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا محمود! ذرا مولوی صاحب کی کتاب تصدیق براہین احمدیہ لاؤ اور مجھے سناؤ۔ چنانچہ میں وہ کتاب لایا اور آپ نے نصف گھنٹہ تک کتاب سنی اس کے بعد فرمایا اس کو واپس رکھ آؤ اس کی ضرورت نہیں۔ اب تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب چشمہ معرفت کو بھی پڑھواور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی کتاب تصدیق براہین احمدیہ کوبھی دیکھو اور پھر سوچو کہ کیا اِن دونوں میں کوئی نسبت ہے اور کیا آپ نے کوئی نکتہ بھی اس کتاب سے اخذ کیا ہے؟حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی اس کتاب میں پیدائشِ عالَم اور حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق ایسے مسائل بیان فرمائے ہیں کہ ساری دنیا سردھنتی ہے اور تسلیم کرتی ہے لاینحل عُقدے تھے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حل کردیا ہے۔ یہ سب برکت جو ہمیں ملی ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل ملی ہے۔اب آپ لوگوں کا کام ہے کہ اپنی ساری زندگی آپ کے لائے ہوئے پیغام کی خدمت میں لگا دیں اور کوشش کریں کہ آپ کے بعد آپ کی اولاد پھر اس کی اولاد اور پھر اس کی اولاد بلکہ آپ کی آئندہ ہزاروں سال تک کی نسلیں اس کی خدمت میں لگی رہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خلافت کو قائم رکھیں۔
مجھ پر یہ بہتان لگایا گیا ہے کہ گویا میں اپنے بعد اپنے کسی بیٹے کو خلیفہ بنانا چاہتا ہوں۔یہ بالکل غلط ہے۔ اگر میرا کوئی بیٹا ایسا خیال بھی دل میں لائے گا تو وہ اُسی وقت احمدیت سے نکل جائے گا۔ بلکہ میں جماعت سے کہتا ہوں کہ وہ دعائیں کرے کہ خدا تعالیٰ میری اولاد کو اس قسم کے وسوسوں سے پاک رکھے۔ایسا نہ ہو کہ اس پروپیگنڈا کی وجہ سے میرے کسی کمزور بچے کے دل میں خلافت کا خیال پیدا ہوجائے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام تھے۔میں سمجھتا ہوں کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو آقا تھے اگر ان کی اولاد میں بھی کسی وقت یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ خلافت کو حاصل کریں تو وہ بھی تباہ ہو جائے گی کیونکہ یہ چیز خدا تعالیٰ نے اپنے قبضے میں رکھی ہوئی ہے۔ اور جو خدا تعالیٰ کے مال کو اپنے قبضہ میں لینا چاہتا ہے وہ چاہے کسی نبی کی اولاد ہو یا کسی خلیفہ کی وہ تباہ و برباد ہوجائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے گھر میں چوری نہیں ہوسکتی۔ چوری تو ادنیٰ لوگوں کے گھروں میں ہوتی ہے۔ اورقرآن کریم کہتا ہے وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ 10مومنوں سے خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جیسے اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا۔ گویا خلافت خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اور اُس نے خود دینی ہے۔ جو اسے لینا چاہتا ہے چاہے وہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیٹا ہو یا حضرت مسیح اول کا ، وہ یقیناً سزا پائے گا۔ پس یہ مت سمجھو کہ یہ فتنہ جماعت کو کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن پھر بھی تمہارا یہ فرض ہے کہ تم اس کا مقابلہ کرو اورسلسلہ احمدیہ کو اس سے بچاؤ۔
دیکھو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیاتھا کہ وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ11 وہ آپؐ کو لوگوں کے حملوں سے بچائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ سے زیادہ سچا اورکس کا وعدہ ہو سکتاہے مگر کیا صحابہؓ نے کبھی آپ کی حفاظت کا خیال چھوڑا؟ بلکہ صحابہؓ نے ہر موقع پر آپ کی حفاظت کی۔ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر سے باہر ہتھیاروں کی آواز سنی تو آپ باہر نکلے اور دریافت کیا کہ یہ کیسی آواز ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم انصار ہیں چونکہ اردگرد دشمن جمع ہیں اس لئے ہم ہتھیار لگا کر آپ کا پہرہ دینے آئے ہیں۔ اِسی طرح جنگ احزاب میں جب دشمن حملہ کرتا تھا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کی طرف جاتا تھا ۔آپ کے ساتھ اُس وقت صرف سات سو صحابہ تھے کیونکہ پانچ سو صحابہؓ کو آپ نے عورتوں کی حفاظت کے لئے مقرر کردیا تھا اور دشمن کی تعداد اُس وقت سولہ ہزار سے زیادہ تھی لیکن اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ہوئی اور دشمن ناکام و نامراد رہا ۔میور جیسا دشمنِ اسلام لکھتا ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح اور کفار کے شکست کھانے کی یہ وجہ تھی کہ کفار نے مسلمانوں کی اس محبت کا، جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سےتھی غلط اندازہ لگایا تھا۔ وہ خندق سے گزر کر سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کا رخ کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے مسلمان مرد عورتیں اور بچے سب مل کر اُن پر حملہ کرتے اور ایسا دیوانہ وار مقابلہ کرتے کہ کفار کو بھاگ جانے پر مجبور کردیتے۔وہ کہتا ہے کہ اگرکفار یہ غلطی نہ کرتے اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کی بجائے کسی اورجہت میں حملہ کرتے تو وہ کامیاب ہوتے۔ لیکن وہ سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کا رُخ کرتے تھے اور مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت محبت تھی۔ وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ دشمن آپ کی ذات پر حملہ آور ہو اس لئے وہ بے جگر ی سے حملہ کرتے اور کفار کا منہ توڑ دیتے۔ ان کے اندر شیر کی سی طاقت پیدا ہوجاتی تھی اور وہ اپنی جان کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔ یہ وہ سچی محبت تھی جو صحابہؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی۔
آپ لوگ بھی ان جیسی محبت اپنے اندر پیدا کریں۔ جب آپ نے انصار کا نام قبول کیا ہے تو ان جیسی محبت بھی پیدا کریں۔ آپ کے نام کی نسبت خدا تعالیٰ سے ہے اور خدا تعالیٰ ہمیشہ رہنے والا ہے۔اس لئے تمہیں بھی چاہیئے کہ خلافت کے ساتھ ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھیں اور ہمیشہ دین کی خدمت میں لگے رہو۔ کیونکہ اگر خلافت قائم رہے گی تو اس کو انصار کی بھی ضرورت ہوگی خدام کی بھی ضرورت ہوگی اور اطفال کی بھی ضرورت ہو گی ورنہ اکیلا آدمی کوئی کام نہیں کرسکتا، اکیلا نبی بھی کوئی کام نہیں کرسکتا۔ دیکھو حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حواری دیئے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کی جماعت دی۔اِسی طرح اگر خلافت قائم رہے گی تو ضروری ہے کہ اطفال الاحمدیہ، خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ بھی قائم رہیں۔ اور جب یہ ساری تنظیمیں قائم رہیں گی تو خلافت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم رہے گی۔ کیونکہ جب دنیا دیکھے گی کہ جماعت کے لاکھوں لاکھ آدمی خلافت کے لئے جان دینے پر تیار ہیں تو جیسا کہ میور کے قول کے مطابق جنگِ احزاب کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ پر حملہ کرنے کی وجہ سے حملہ آور بھاگ جانے پر مجبور ہوجاتے تھے اُسی طرح دشمن اِدھر رخ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا ۔وہ سمجھے گا کہ اس کے لئے لاکھوں اطفال، خدام اور انصار جانیں دینے کے لئے تیار ہیں اس لئے اگر اس نے حملہ کیا تو وہ تباہ وبرباد ہوجائے گا ۔غرض دشمن کسی رنگ میں بھی آئے جماعت اس سے دھوکا نہیں کھائے گی۔ کسی شاعر نے کہا ہے ۔
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من اندازِ قدت را مے شناسم
کہ تُو کسی رنگ کا کپڑا پہن کر آجائے، تُو کوئی بھیس بد ل لے میں تیرے دھوکا میں نہیں آسکتا کیونکہ میں تیرا قد پہچانتا ہوں ۔اِسی طرح چاہے خلافت کا دشمن حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی اولاد کی شکل میں آئے اور چاہے وہ کسی بڑے اور مقرب صحابی کی اولاد کی شکل میں آئے ایک مخلص آدمی اُسے دیکھ کر یہی کہے گا کہ
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من اندازِ قدت را مے شناسم
یعنی تُو کسی رنگ میں بھی آاور کسی بھیس میں آ میں تیرے دھوکا میں نہیں آسکتا کیونکہ میں تیری چال اور قد کو پہچانتا ہوں۔ تُو چاہے مولوی محمد علی صاحب کا جُبّہ پہن لے، چاہے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کا جُبّہ پہن لے یاحضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کا جُبّہ پہن لے میں تمہیں پہچان لوں گا اور تیرے دھوکا میں نہیں آؤ نگا۔
مجھے راولپنڈی کے ایک خادم نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ شروع شروع میں اللہ رکھا میرے پاس آیا اور کہنے لگاکہ مری کے امیر کے نام مجھے ایک تعارفی خط لکھ دو ۔میں نے کہا میں کیوں لکھوں؟ مری جاکر پوچھ لو کہ وہاں کی جماعت کا کون امیر ہے۔ مجھے اُس وقت فوراً خیال آیا کہ یہ کوئی منافق ہے۔ چنانچہ میں نے لَاحَوْلَ پڑھنا شروع کر دیا اور آدھ گھنٹے تک پڑھتارہا اور سمجھا کہ شاید مجھ میں بھی کوئی نقص ہے جس کی وجہ سے یہ منافق میرے پاس آیا ہے۔ تو احمدی عقل مند ہوتے ہیں۔ وہ منافقوں کے فریب میں نہیں آتے۔ کوئی کمزور احمدی ان کے فریب میں آجائے تو اور بات ہے ورنہ اکثر احمدی انہیں خوب جانتے ہیں۔
اَب انہوں نے لاہور میں اشتہارات چھاپنے شروع کئے ہیں۔ جب مجھے بعض لوگوں نے یہ اطلاع دی تو میں نے کہا گھبرا ؤ نہیں پیسے ختم ہوجائیں گے تو خود بخود اشتہارات بند ہوجائیں گے۔ مجھے لاہور سے ایک دوست نے لکھا کہ اب ان لوگوں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ وہ اخباروں میں شور مچائیں اور اشتہارات شائع کریں۔ وہ دوست نہایت مخلص ہیں اور منافقین کا بڑے جوش سے مقابلہ کررہے ہیں مگر منافق اُسے کذاب کا خطاب دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص یونہی ہمارے متعلق خبریں اڑاتا رہتا ہے۔ لیکن ہم اسے جھوٹا کیونکر کہیں۔ اِدھر ہمارے پاس یہ خبر پہنچی کہ ان لوگوں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ اشتہارات شائع کئے جائیں اور اُدھر لاہور کی جماعت نے ہمیں ایک اشتہار بھیج دیا جو ان منافقین نے شائع کیا تھا اور جب بات پوری ہوگئی تو ہم نے سمجھ لیا کہ اس دوست نے جو خبر بھیجی تھی وہ سچی ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو حقیقی انصار بنائے چونکہ تمھاری نسبت اس کے نام سے ہے اس لئے جس طرح وہ ہمیشہ زندہ رہے گا اسی طرح وہ آپ لوگو ں کی تنظیم کو بھی تاقیامت زندہ رکھے اور جماعت میں خلافت بھی قائم رہے اور خلافت کی سپاہ بھی قائم رہے۔ لیکن ہماری فوج تلواروں والی نہیں۔اِن انصار میں سے تو بعض ایسے ضعیف ہیں کہ ان سے ایک ڈنڈا بھی نہیں اٹھایا جاسکتا لیکن پھر بھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوج ہیں اور ان کی وجہ سے احمدیت پھیلی ہے اور امید ہے کہ آئندہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ اَور زیادہ پھیلے گی۔ اور اگر جماعت زیادہ مضبوط ہوجائے تو اس کا بوجھ بھی انشاء اللہ ہلکا ہوجائے گا ورنہ انفرادی طورپر کچھ دیر کے بعد آدمی تھک جاتا ہے۔ پس تم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں احمدیت کی اشاعت کی کوشش کرو اور انہیں تبلیغ کرو تاکہ اگلے سال ہماری جماعت موجودہ تعدادسے دُگنی ہوجائے اور تحریک جدید میں حصہ لینے والے دُگنا چندہ دیں۔ اور پھر اپنی دعاؤں اور نیکی اور تقویٰ کے ساتھ نوجوانوں پر اثر ڈالوتاکہ وہ بھی دعائیں کرنے لگ جائیں اور صاحبِ کشوف و رؤیا ہوجائیں۔ جس جماعت میں صاحبِ کشوف و رؤیا زیادہ ہوجاتے ہیں وہ جماعت مضبوط ہوجاتی ہے کیونکہ انسان کی دلیل سے اتنی تسلی نہیں ہوتی جتنی تسلی کشف اور رؤیا سے ہوتی ہے اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔’’
(الفضل 21، 24 مارچ 1957ء)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
احمدیت کی اشاعت اور نظام خلافت کی حفاظت کے لئے
انصار اللہ کو اپنا عہد ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے
اختتامی خطاب
(فرمودہ27/ اکتوبر1956ء برموقع سالانہ اجتماع انصار اللہ مرکزیہ مقام ربوہ)
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘ میں تقریر شروع کرنے سے پہلے انصار اللہ کا عہد دُہراتا ہوں سب دوست کھڑے ہوجائیں اور میرے ساتھ ساتھ عہد دُہراتے جائیں۔’’
حضور کے اس ارشاد پر سب دوست کھڑے ہوگئے اور حضور نے مندرجہ ذیل عہد دُہرایا۔
''اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ اسلام اور احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظامِ خلافت کی حفاظت کے لئے انشاء اللہ آخر دم تک جدو جہد کرتا رہوں گااور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہوں گا۔ نیز میں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا۔''
اسکے بعد فرمایا:۔
‘‘ کل کی تقریر کے بعد کھانے میں کچھ بدپرہیزی ہوگئی جس کی وجہ سے اسہال آنے شروع ہوگئے اور پھر رات بھر اسہال آتے رہے جس کی وجہ سے میں اس وقت بہت زیادہ کمزوری محسوس کررہا ہوں لیکن چونکہ احباب باہر سے تشریف لائے ہوئے ہیں اِس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ یہاں آکر جو کچھ بھی کہہ سکوں بیان کردوں۔
میں نے کل اپنی تقریر میں کہا تھا کہ آپ کا نام انصار اللہ ہے یعنی نہ صرف آپ انصار ہیں بلکہ آپ انصار اللہ ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار۔اللہ تعالیٰ کو تو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں لیکن اس کی نسبت کی وضاحت سے یہ بتایا گیا ہے کہ آپ ہمیشہ اس عہد پر قائم رہیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اس پر موت نہیں آتی اس لئے آپ کے عہد پر کبھی موت نہیں آنی چاہیے۔ چونکہ موت سے کوئی انسان بچ نہیں سکتا اس لئے انصار اللہ کے معنے یہ ہوں گے کہ جب تک آپ زندہ رہیں گے اس عہد پر قائم رہیں گے اور اگر آپ مرگئے تو آپ کی اولاد اس عہد کو قائم رکھے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہدمیں یہ بات رکھی گئی ہے کہ ''میں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا’’ اور اگر اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں کو اس بات کی توفیق دے دے تو پھر کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں یہ توفیق مل جائے کہ ہم عیسائیوں سے بھی زیادہ عرصہ تک خلافت کو قائم رکھ سکیں۔خلافت کو زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ تنظیمِ سلسلہ ایسی مضبوط رہے کہ تبلیغِ احمدیت اور تبلیغِ اسلام دنیا کے گوشہ گوشہ میں ہوتی رہے جو بغیر خلافت کے نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ کوئی ایک آدمی اس بات کی توفیق نہیں رکھتا کہ وہ ہالینڈ ،انگلینڈ ،جرمنی، سپین،فرانس،سکنڈے نیویا،سوئٹزرلینڈاور دوسرے ممالک میں مشنری بھیج سکے۔ یہ کام تبھی ہوسکتا ہے جب ایک تنظیم ہواور کوئی ایسا شخص ہو جس کے ہاتھ پر ساری جماعت جمع ہو اور وہ آنہ آنہ، دو دو آنہ، چار چار آنہ، روپیہ دو روپیہ، جماعت کے ہر فرد سے وصول کرتا رہے۔ اور اس دو دوآنہ، چار چار آنہ اور روپیہ، دو دو روپیہ سے اتنی رقم جمع ہوجائے کہ ساری دنیا میں تبلیغ ہوسکے۔ دیکھو عیسائیوں کی تعداد ہم سے زیادہ ہے۔ وہ اس وقت ساٹھ کروڑ کے قریب ہیں۔ پوپ جو عیسائی خلیفہ ہے اُس نے اِس وقت یہ انتظام کیا ہوا ہے کہ ہر عیسائی سال میں ایک ایک آنہ بطور چندہ دیتا ہے اور اس کو عیسائی پوپ کا آنہ(Pope's Penny)کہتے ہیں اور اس طرح وہ پونے چار کروڑ روپیہ جمع کرلیتے ہیں۔ لیکن آپ لوگ باوجود اس کے کہ اتنا بوجھ اٹھاتے ہیں کہ کوئی اپنی ماہوار تنخواہ کا چھ فیصدی چندہ دیتا ہے اور کوئی دس فیصدی چندہ دیتا ہے اور پھر بارہ ماہ متواتر دیتا ہے آپ کا چندہ پندرہ بیس لاکھ بنتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری تعداد عیسائیوں سے بہت تھوڑی ہے۔ اگر ہمارے پاس پونے چار کروڑ روپیہ ہوجائے تو شاید ہم دوسال میں عیسائیت کی دھجیاں بکھیر دیں۔اس تھوڑے سے چندہ سے بھی ہم وہ کام کرتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ گئی ہے۔ چنانچہ عیسائیوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے جن کے اقتباسات الفضل میں بھی چھپتے رہتے ہیں کہ احمدیوں نے ہمارا ناطقہ بند کردیا ہے۔ جہاں بھی ہم جاتے ہیں احمدیت کی تعلیم کی وجہ سے لوگ ہماری طرف توجہ نہیں کرتے۔ اور نہ صرف نئے لوگ عیسائیت میں داخل نہیں ہوتے بلکہ ہم سے نکل نکل کر لوگ مسلمان ہورہے ہیں ۔نائیجریا اور گولڈ کوسٹ کے متعلق تو یہ رپورٹ آئی ہے کہ وہاں جو لوگ احمدی ہوئے ہیں ان میں سے زیادہ تر تعداد عیسائیوں سے آئی ہے۔ سیرالیون اور لائبیریا سے بھی رپورٹ آئی ہے کہ عیسائی لوگ کثرت سے احمدیت کی طرف متوجہ ہورہے ہیں اور سلسلہ میں داخل ہورہے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں لوگ زیادہ تر مسلمانوں سے آئے ہیں کیونکہ یہاں مسلمان زیادہ ہیں اور عیسائی کم ہیں لیکن وہاں چونکہ عیسائی زیادہ ہیں اس لئے زیادہ تر احمدی عیسائیوں سے ہی ہوئے ہیں۔ چنانچہ مغربی افریقہ میں احمدیت کی ترقی کے متعلق گولڈ کوسٹ یونیورسٹی کالج کے پروفیسر جے سی ولیم سن نے اپنی ایک کتاب''مسیحؑ یامحمد'' میں لکھا ہے کہ ''اشانٹی گولڈکوسٹ کے جنوبی حصوں میں عیسائیت آجکل ترقی کررہی ہے لیکن جنوب کے بعض حصوں میں خصوصاً ساحل کے ساتھ ساتھ احمدیہ جماعت کو عظیم فتوحات حاصل ہورہی ہیں۔ یہ خوش کن توقع کہ گولڈ کوسٹ جلد ہی عیسائی بن جائے گا اب معرضِ خطر میں ہے اور یہ خطرہ ہمارے خیال کی وسعتوں سے کہیں زیادہ عظیم ہے کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی خاصی تعداد احمدیت کی طرف کھنچی چلی جارہی ہے اور یقیناً(یہ صورت)عیسائیت کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے۔''
پھر جو لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں ان کے اخلاص کی یہ حالت ہے کہ سیرالیون کے مشن نے لکھا کہ یہاں ایک عیسائی سردار تھا جس کو یہاں چیف کے نام سے پکارا جاتا ہے درحقیقت ان کی حیثیت ہمارے ملک کے ذیلداروں کی سی ہوتی ہے مگر وہاں کی گورنمنٹ نے ان چیفس کو بہت زیادہ اختیارات دے رکھے ہیں۔ ان کے پاس مقدمات جاتے ہیں اور گورنمنٹ نے ایک خاص حد تک ان کو سزا دینے کا بھی اختیار دیا ہوا ہے۔ وہاں ملک کے رواج کے مطابق چیف کو خدا تعالیٰ کا قائم مقام سمجھا جاتا ہے اس لئے ان کے ہاں ہماری طرح خداتعالیٰ کی قسم کھانے کا رواج نہیں بلکہ وہاں یہ رواج ہے کہ جب کسی سے قَسم لینی ہو تو چیف کھڑا ہوجاتا ہے اور اپنا سٹول جس پر وہ بیٹھتا ہے سامنے رکھ دیتا ہے اور مدعی یا اس کا نمائندہ اُس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا ہے۔اور کہتا ہے کہ مجھے چیف کے اس سٹول کی قسم کہ میں نے فلاں بات کی ہے یا نہیں کی اور اس کی بات مان لی جاتی ہے۔ہمارے احمدیوں نے چیف کے سٹول پر ہاتھ رکھ کر اس کی قسم کھانے سے انکار کرنا شروع کردیا اور کہا یہ شرک ہے ہم تو خدا تعالیٰ کی قسم کھائیں گے لیکن چیف نے کہا میں تو خدا تعالیٰ کی قسم نہیں مانتا۔ہمارے باپ دادا سے یہ رواج چلا آرہا ہے کہ اس سٹول کی قسم کھائی جاتی ہے اس لئے میں اس سٹول کی قَسم لوں گا۔ لیکن احمدیوں نے ایسی قسم کھانے سے انکار کردیا۔ چنانچہ وہاں ایک کے بعد دوسرے احمدی کو سزا ملنی شروع ہوئی لیکن احمدی سٹول کی قسم کھانے سے برابر انکار کرتے گئے۔آخر گورنمنٹ ڈر گئی اور اس نے کہا آخر تم کتنے احمدیوں کو جیل میں بند کرو گے، احمدیت تو اس علاقہ میں پھیل رہی ہے اوراس کے ماننے والوں کی تعداد روزبروز زیادہ ہورہی ہے۔ چنانچہ تنگ آکر گورنمنٹ نے چیفس کو حکم دے دیا کہ اگر کسی مقدمہ میں کسی احمدی سے قَسم لینے کی ضرورت پڑے تو اسے چیف کے سٹول کی قسم نہ دی جائے بلکہ اسے خداتعالیٰ کی قسم دی جائے کیونکہ یہ لوگ خداتعالیٰ کے سواکسی اور کی قَسم نہیں کھا سکتے۔ تو دیکھو وہاں احمدیت نے کایا پلٹ دی ہے۔
سیرالیون میں ہمارا ایک اخبار چھپتا ہے ا س کے متعلق ہمارے مبلغ نے لکھا کہ چونکہ ہمارے پاس کوئی پریس نہیں تھا اس لئے عیسائیوں کے پریس میں وہ اخبار چھپنا شروع ہوا۔ دوچارپرچوں تک تو وہ برداشت کرتے چلے گئے لیکن جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو پادریوں کا ایک وفد اُس پریس کے مالک کے پاس گیا اور انہوں نے کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اپنے پریس میں ایک احمدی اخبار شائع کررہے ہو جس نے عیسائیوں کی جڑوں پر تبر رکھا ہوا ہے۔ چنانچہ اسے غیرت آئی اور اس نے کہہ دیا کہ آئندہ میں تمہارا اخبار اپنے پریس میں نہیں چھاپوں گا کیونکہ پادری بُرا مناتے ہیں۔ چنانچہ اخبار چھپنا بند ہوگیا۔ تو عیسائیوں کو اس سے بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے ہمیں جواب دینے کے علاوہ اپنے اخبار میں بھی ایک نوٹ لکھا کہ ہم نے تو احمدیوں کا اخبارچھاپنا بند کردیا ہے۔اب ہم دیکھیں گے کہ اسلام کا خدا ان کے لئے کیا سامان پیدا کرتا ہے۔ یعنی پہلے ان کا اخبار ہمارے پریس میں چھپ جایا کرتا تھا اب چونکہ ہم نے انکار کردیا ہے اور ان کے پاس اپنا کوئی پریس نہیں ا س لئے ہم دیکھیں گے کہ یہ جو مسیحؑ کے مقابلہ میں اپنا خدا پیش کیا کرتے ہیں،اس کی کیا طاقت ہے۔ اگر اس میں کوئی قدرت ہے تو وہ ان کے لئے خود سامان پیدا کرے۔ وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ جب میں نے یہ پڑھا تو میرے دل کو سخت تکلیف محسوس ہوئی۔ میں نے اپنی جماعت کو تحریک کی کہ وہ چندہ کرکے اتنی رقم جمع کردیں کہ ہم اپنا پریس خرید سکیں۔اس سلسلہ میں مَیں نے لاری کا ٹکٹ لیا اور پونے تین سو میل پر ایک احمدی کے پاس گیا تا کہ اسے تحریک کروں کہ وہ اس کام میں حصہ لے۔ میں اُس کی طرف جارہا تھا کہ خداتعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی اس کا گاؤں آٹھ میل پَرے تھا کہ وہ مجھے ایک دوسری لاری میں بیٹھا ہوا نظر آ گیا اور اس نے بھی مجھے دیکھ لیا۔وہ مجھے دیکھتے ہی لاری سے اُتر پڑا اور کہنے لگا آپ کس طرح تشریف لائے ہیں؟ میں نے کہا اس طرح ایک عیسائی اخبار نے لکھا ہے کہ ہم نے تو ان کا اخبار چھاپنا بند کردیا ہے اگر مسیحؑ کے مقابلہ میں ان کے خدا میں بھی کوئی طاقت ہے تو وہ کوئی معجزہ دکھادے۔ وہ کہنے لگا آپ یہیں بیٹھیں میں ابھی گاؤں سے ہوکر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی اس نے پانچ سو پونڈ لاکر مجھے دے دیئے۔پانچ سو پونڈ وہ اس سے پہلے دے چکا تھا گویا تیرہ ہزار روپیہ کے قریب اس نے رقم دے دی او رکہا میری خواہش ہے کہ آپ پریس کا جلدی انتظام کریں تاکہ ہم عیسائیوں کو جواب دے سکیں کہ اگر تم نے ہمارا اخبار چھاپنے سے انکار کردیا تھا تو اب ہمارے خدا نے بھی ہمیں اپنا پریس دے دیا ہے۔ جماعت کے دوسرے دوستوں نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا ہے اور اِس وقت تک1800پونڈ سے زیادہ رقم جمع ہوچکی ہے اور انگلینڈ میں ایک احمدی دوست کے ذریعہ پریس کے لئے آرڈر دے دیا گیا ہے۔
یہ شخص جس کے پاس ہمارا مبلغ گیا کسی زمانہ میں احمدیت کا شدید مخالف ہوا کرتا تھا۔ اتنا سخت مخالف کہ ایک دفعہ کوئی احمدی اس کے ساتھ دریا کے کنارے جارہا تھا کہ اس احمدی نے اسے تبلیغ شروع کردی۔وہ دریا کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ دیکھو یہ دریا اِدھر سے اُدھر بہہ رہا ہے اگر یہ دریا یک دم اپنا رُخ بدل لے اور نیچے سے اوپر کی طرف اُلٹا بہنا شروع کردے تو یہ ممکن ہے لیکن میرا احمدی ہونا ناممکن ہے۔ مگر کچھ دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ کوئی بڑا عالم فاضل نہیں بلکہ ایک لوکل افریقن احمدی اس سے ملا اور چند دن اس سے باتیں کیں تو وہ احمدی ہوگیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی مدد کی اور اس کی مالی حالت پہلے سے بہت اچھی ہوگئی۔ اب دیکھ لو ان لوگوں کے اندر جو اسلام اور احمدیت کے لئے غیرت پیدا ہوئی ہے وہ محض احمدیت کی برکت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر الزام لگاتی تھی کہ آپ عیسائیت کے ایجنٹ ہیں مگر خداتعالیٰ نے ثابت کردیا کہ آپ عیسائیت کے ایجنٹ نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے ایجنٹ ہیں۔ اگر آپ مخالفوں کے قول کے مطابق عیسائیت کے ایجنٹ تھے تو عیسائیوں کو مسلمان بنانے کے کیا معنی؟ اگر آپ عیسائیوں کے ایجنٹ ہوتے تو آپ مسلمانوں کو عیسائی بناتے نہ کہ عیسائیوں کو مسلمان۔ کیونکہ کوئی شخص اپنے دشمن کی تائید کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ جو شخص عیسائیت کی جڑوں پر تَبر رکھتا ہے عیسائی لوگ اس کی مدد کیوں کریں گے۔
حضرت مسیح ناصریؑ سے بھی بالکل اِسی طرح کا واقعہ ہوا تھا۔ آپ پر یہودیوں نے الزام لگایا کہ انہیں بَعل بُت سکھاتا ہے۔ اس پر حضرت مسیح علیہ السلام نے انہیں جواب دیا کہ میں تو بَعل بُت کے خلاف تعلیم دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ایک خدا کی پرستش کرو پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ بَعل مجھے سکھاتا ہے اور میری تائید کرتا ہے۔ اب دیکھو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کتنا بڑا نشان ہے کہ آپؑ کی زندگی میں تو مخالف کہتے رہے کہ آپ ؑعیسائیت کے ایجنٹ ہیں لیکن آپؑ کی وفات کے بعد آپ کے ماننے والی غریب جماعت کو اس نے یہ توفیق دی کہ وہ عیسائیت کو شکست دے۔ اُس نے چندے دئیے اور تبلیغ کا جال پھیلا دیا گیا۔ اگر وہ چندے نہ دیتے اور ہمارے مبلغ دنیا کے مختلف ممالک میں نہ جاتے تو یہ لوگ جو احمدیت میں داخل ہوئے ہیں کہاں سے آتے اور عیسائیت کا ناطقہ کیسے بند ہوتا ۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے انہی چندوں کی وجہ سے یہ حالت ہوگئی کہ اب عیسائیوں کو ایک ملک کے متعلق یہ کہنا پڑا ہے کہ یہ خوش کن امید کہ یہ ملک عیسائی ہوجائیگا پوری نہیں ہوسکتی۔اب غالباً اسلام جیتے گا اور عیسائیت شکست کھائے گی کیونکہ اب عیسائیت کی جگہ اس ملک میں اسلام ترقی کررہا ہے۔احمدی جماعت کی طرف سے سکول جاری ہورہے ہیں، کالج قائم کئے جارہے ہیں، مساجد تعمیر ہورہی ہیں چنانچہ گولڈکوسٹ کے علاقہ میں کماسی مقام پر ہمارا سیکنڈری سکول قائم ہے۔ کہتے تو اسے کالج ہیں لیکن وہاں صرف ایف اے تک تعلیم دی جاتی ہے۔ کئی کئی میل سے لوگ اپنے بچے اس کالج میں بھیجتے ہیں۔ان لوگوں کو دین پڑھنے کااتنا شوق ہے کہ پچھلے سال ایک لڑکا یہاں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آیا۔اس کے متعلق وہاں کے مبلغ نے لکھا کہ اس کی والدہ میرے پاس آئی اور اس نے مجھے دو سو پونڈ کی رقم دی اور کہا میرے اس بچے کو ربوہ بھیجنے کا انتظام کریں تاکہ یہ وہاں تعلیم حاصل کرے۔ مبلغ نے کہا بی بی! تُو بیوہ عورت ہے اتنا بوجھ کیوں اٹھاتی ہے،یہ رقم تیرے کام آئے گی۔ شاید تو خیال کرتی ہو کہ ربوہ میں تیرا لڑکا بی اے یاایم اے ہوجائے گا وہاں تو لوگ دینیات پڑھاتے ہیں۔اس پر وہ عورت کہنے لگی میں تو اپنے لڑکے کو ربوہ بھیجتی ہی اس لئے ہوں کہ وہ وہاں جاکر دین کی تعلیم حاصل کرے، آپ اسے وہاں بھیجئے خرچ میں دوں گی۔ چنانچہ وہ لڑکا یہاں تعلیم حاصل کررہا ہے۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد واپس اپنے ملک جائے گا تو وہاں کا مبلغ بن جائے گا۔
اسی طرح ایسٹ افریقہ سے امری عبیدی آئے تھے۔ وہ عیسائیوں میں سے احمدی ہوئے ہیں۔حبشیوں کے متعلق کہاجاتا ہے کہ وہ کم عقل ہوتے ہیں لیکن وہ شخص اتنا ذہین ہے کہ اس نے اس بات کو غلط ثابت کردیا ہے۔ کراچی میں پچھلے دنوں نوجوانوں کی ایک انجمن کی کانفرنس ہوئی تھی۔اس میں انہوں نے ہمیں نہیں بلایا تھا لیکن ہم نے خودبعض لڑکے وہاں بھیج دیئے تھے ان میں سے ایک امری عبیدی بھی تھے۔بعد میں وہاں سے رپورٹ آئی کہ وہ ہر بات میں امری عبیدی سے مشورہ لیتے تھے اور اس کو آگے کرتے تھے۔ گویا وہ تو ہمیں بلاتے بھی نہیں تھے لیکن جب ہمارے نوجوان وہاں گئے تو وہ ہربات میں ہمارے اس نوجوان سے مشورہ کرتے تھے اور اسے آگے کرتے تھے۔ اب وہ واپس پہنچ گئے ہیں اور ان کی طرف سے چٹھی آئی ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے انہوں نے تبلیغ کا کام شروع کردیا ہے ۔خدا تعالیٰ وہ دن جلد لائے کہ جب یہ ساری قوم احمدیت کو قبول کرلے۔ تو یہ جو کچھ ہورہا ہے محض نظام کی برکت کی وجہ سے ہورہا ہے اور اس نظام کا ہی دوسرا نام خلافت ہے۔خلافت کوئی علیحدہ چیز نہیں بلکہ خلافت نام ہے نظام کا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب الوصیت میں فرماتے ہیں کہ:
''اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلاوے سو اَب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی سنت کو ترک کردیوے۔اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہوجائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ او روہ دوسری قدرت آ نہیں سکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن جب میں جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا۔'' 12
اب دیکھو قدرتِ ثانیہ کسی انجمن کا نام نہیں۔قدرتِ ثانیہ خلافت اور نظام کا نام ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں تو کچھ مدت تک تمہارے اندر رہ سکتا ہوں۔ مگر یہ قدرتِ ثانیہ دائمی ہوگی او راس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ او رقیامت تک نہ کوئی نبی رہ سکتا ہے اور نہ کوئی خلیفہ رہ سکتا ہے۔ ہاں خلافت قیامت تک رہ سکتی ہے، نظام قیامت تک رہ سکتا ہے۔پس یہاں قدرتِ ثانیہ سے خلافت ہی مراد ہے کیونکہ خلیفہ تو فوت ہوجاتا ہے لیکن خلافت قیامت تک جاسکتی ہے۔ اگر جماعت ایک خلیفہ کے بعد دوسرا خلیفہ مانتی چلی جائے اور قیامت تک مانتی چلی جائے توایک عیسائیت کیا ہزاروں عیسائیتیں بھی احمدیوں کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتیں۔ کیونکہ ہمارے پاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیا ہوا دلائل وبراہین کا وہ ذخیرہ ہے جو کسی اَورقوم کے پاس نہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ آپ اسلام کو ساری دنیا پر غالب کردیں۔اب وہ زمانہ جب اسلام تمام دنیا پر غالب ہوگاکسی ایک آدمی کی کوشش سے نہیں آسکتا بلکہ اس کے لئے ایک لمبے زمانہ تک لاکھوں آدمیوں کی جدو جہد کی ضرورت ہے ۔پس یہ کام صرف خلافت کے ذریعہ ہی پورا ہوسکتا ہے لیکن اس کا سارا کریڈٹ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کو ملے گا جن کے دیئے ہوئے ہتھیار ہم استعمال کرتے ہیں۔ باقی باتیں محض خوشہ چینی ہیں جیسے کوئی شخص کسی باغ میں چلا جائے اور اس کے پھل کھالے تو وہ پھلوں کا مزہ تو اٹھا لے گا لیکن اصل مزہ اٹھانا اس کا ہے جس نے وہ باغ لگایا۔
لطیفہ مشہورہے کہ کوئی شخص سِل کے عارضہ سے بیمار ہوگیا۔اس نے بہتیرا علاج کرایا مگر اسے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ جب ڈاکٹروں نے اسے لاعلاج قرار دے دیا تو وہ اپنے وطن واپس آگیا۔ وہ شخص وزیر آباد کے قریب سڑک پر جارہا تھا کہ اُسے ایک پہلوان ملا جو متکبرانہ طور پر سڑک پر چل رہا تھا۔ اس نے اس عام دستور کے مطابق کہ پہلوان اپنا سر منڈا لیتے ہیں تاکہ کُشتی میں ان کا مدِّمقابل ان کے بال نہ پکڑے اپنے بال منڈائے ہوئے تھے۔اس بیمار شخص کی حالت بہت کمزور تھی لیکن اس پہلوان کو دیکھ کر اسے شرارت سُوجھی اور اس نے آہستہ سے جاکر اس کے سر پر ٹھینگامارا۔ اس پر اُس پہلوان کو غصّہ آگیا اور اس نے سمجھاکہ اس شخص نے میری ہتک کی ہے۔ چنانچہ اس نے اسے ٹھڈوں سے خوب مارا۔ جب وہ اسے ٹھڈے مارہا تھا تووہ کہتا جاتا تھا کہ تُو جتنے ٹھڈے چاہے مارلے جتنا مزہ مجھے اس ٹھینگا مارنے میں آیا ہے تجھے ٹھڈوں سے نہیں آسکتا۔ اِسی طرح جو مزہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دلائل میں آیا ہے وہ عیسائیت کواپنی طاقت کے زمانہ میں بھی نہیں آیا۔
دیکھ لو عیسائی ہم پر حاکم تھے اور ہم کمزور اور ماتحت رعایا تھے۔ ہمارے پاس نہ تلوار تھی اورنہ کوئی مادی طاقت۔ لیکن خدا تعالیٰ کاایک پہلوان آیا اور اس نے ہمیں وہ دلائل دیئے کہ جن سے اب ہم پر امریکہ انگلینڈ اور دوسرے سب ممالک کو شکست دے رہے ہیں۔یہ جوٹھینگے کا مزہ ہے وہ ان کے ٹھڈوں میں نہیں تو یہ برکت جو خداتعالیٰ نے ہمیں دی ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل دی ہے۔ اور جوں جوں ہمارے مبلغ کام کریں گے اور احمدیت ترقی کرے گی ہمیں اَور زیادہ برکت ملے گی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تیرے ذریعہ اسلام کو دنیا پر غالب کروں گا۔ اب جو شخص بھی اسلام کی تبلیغ کے لئے باہر نکلتا ہے اور جو شخص بھی تبلیغ کے لئے ایک پیسہ بھی دیتا ہے در حقیقت اپنے دائرہ میں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے اور جو وعدے خداتعالیٰ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تھے وہ اپنے درجہ اور مقام کے لحاظ سے اس کے ساتھ بھی ہوں گے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو فوت ہوگئے اور قرآن کریم ایک کتاب ہے جو بولتی نہیں۔ اب جو مبلغ ہیں وہی بولیں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد ایک رنگ میں آپ کے نائب ہوں گے۔ پس جوں جوں وہ امریکہ، انگلستان اور دوسرے ممالک میں تبلیغ کریں گے اور اسلام بڑھے گا خلافتِ محمدیہ ظلی طور پر خداتعالیٰ انہیں دیتا چلاجائے گا۔ لیکن ان کی وہاں خلافت قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں مرکز میں بھی خلافت قائم ہو جو تمام احمدیوں کو اکٹھا رکھے اور انہیں خرچ بھجوائے تاکہ وہ اپنی اپنی جگہ کام کرسکیں۔ پھر جوں جوں چندے بڑھتے جائیں تبلیغ کے نظام کو وسیع کرتے چلے جائیں۔ میں نے کل بتایا تھا عیسائی خلافت نے52لاکھ مبلغ تبلیغ کے لئے تیار کیا ہوا ہے اور اس کے مقابلہ میں ہماری طرف سے صرف سَو ڈیڑھ سو مبلغ ہے۔ جس دن مسیحِ محمدی کو52لاکھ مبلغ مل گئے اُس دن بھاگتے ہوئے عیسائیت کورستہ نہیں ملے گا کیونکہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہ دلائل اور براہین دئے ہیں جو عیسائیت کے پاس نہیں۔ مثلاً لنڈن میں ایک جلسہ ہوا۔اس میں ہمارے مبلغوں نے تقاریر کیں اور بتایا کہ مسیح ناصری فوت ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مسیح ناصری صلیب سے بچ کر کشمیر کی طرف چلے گئے تھے اور وہیں انہوں نے وفات پائی ہے اور اب تک ان کی قبر سری نگر میں پائی جاتی ہے۔ اِس پرایک پادری کھڑا ہوااور اس نے کہا کہ اگر مسیح فوت ہوگئے ہیں تو ہماری عیسائیت مرگئی۔ آگے وہ کشمیرچلے گئے یاکسی اَور جگہ اس کاکوئی سوال نہیں۔ یہ تو ایک علمی سوال ہے جو اُٹھایا گیا ہے ان کا وفات پاجانا ہی عیسائیت کے ختم ہوجانے کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ ہم حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا مانتے ہیں اور اگر وہ مرگئے ہیں تو وہ خدا نہ رہے اور اس طرح عیسائیت بھی باقی نہ رہی۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کو ایسے ایسے معرفت کے نکتے دیئے ہیں جن کا مقابلہ عیسائیت کے بس کی بات نہیں۔ 1300سال سے مسلمان اس دھوکا میں مبتلا چلے آتے تھے کہ مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر ہیں اور اس کی وجہ سے عیسائیت کو مدد مل رہی تھی۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کی وفات ثابت کرکے عیسائیت کو ختم کر دیا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں
مسلمانوں پہ تب ادبار آیا
کہ جب تعلیمِ قرآن کو بُھلایا
رسولِ حق کو مٹی میں سُلایا
مسیحاؑ کو فلک پر ہے بٹھایا13
عیسائی ہمیشہ کہتا تھا کہ میرا مسیحؑ آسمان پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیٹھا ہے اور تمہارا رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) زمین میں دفن ہے لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک ہی جھٹکا سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر چڑھا دیا اور مسیح ناصری کو زمین میں دفن کردیا۔ یہی چیز تھی جس نے احمدیت کو عیسائیت پر غلبہ دیا ہے۔ جس وقت تک یہ تعلیم موجود ہے اور انشاء اللہ یہ قیامت تک رہے گی دنیا میں عیسائیت پنپ نہیں سکتی۔ عیسائیت کو یہی فخر تھا کہ مسلمان کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام زندہ ہیں اور اس سے ان کے دعویٰ کی تائید ہوتی تھی لیکن اب تو انہیں بھی سمجھ آگئی ہے اور وہ اس عقیدہ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
میں جب مری گیا تو وہاں عیسائی مشن میں ہمارا مبلغ اور میرا یک بیٹا عیسائیوں کوتبلیغ کرنے کے لئے جاتے تھے۔جب ہمارے مقابلہ میں ان کا پہلو کمزور ہوگیا تو انہوں نے لاہورسے کچھ دیسی مشنری بلائے اور مشنریوں نے آکر چالاکیاں شروع کردیں اور مسلمانوں کو یہ کہہ کر بھڑکانا شروع کیا کہ مرزا صاحب تو مسیح علیہ السلام سے بڑا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔اس طرح انہوں نے غیر از جماعت مسلمانوں کو ہمارے خلاف جوش دلانا چاہا مگر وہ روزانہ تبلیغ کے بعد سمجھ چکے تھے کہ احمدی جو کچھ کررہے ہیں وہ ٹھیک ہے، اس سے اسلام کی فضیلت عیسائیت پر ثابت کی جاسکتی ہے۔ اس لئے جب عیسائیوں نے احمدیت کے خلاف شور مچانا شروع کیا تو انہوں نے کہا تمہیں اس سے کیا واسطہ مرزا صاحب اپنے آپ کو حضرت مسیح علیہ السلام سے افضل سمجھتے ہیں یا نہیں۔ یہ تو ہمارے گھر کا جھگڑا ہے تم ان اعتراضات کا جواب دو جو عیسائیت پر ہوتے ہیں اور اپنے عقائد کی حقانیت کو ثابت کرو۔یہ لوگ ہماری طرف سے نمائندے ہیں جو تمہارے ساتھ بحث کررہے ہیں۔ جو یہ بات کریں گے وہ ہماری طرف سے ہی سمجھی جائے گی۔غرض مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیش کردہ دلائل او ربراہین کو سمجھ چکے ہیں اور جوں جوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پھیلتی جائے گی عیسائیت مغلوب ہوتی جائے گی۔
دوسرا پہلو روحانیت کا ہے۔ عیسائیوں کی سیاست کا پہلو تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے مسئلہ سے ختم ہوگیا۔ مذہبی پہلو میں یہ نقص تھا کہ علماء نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ قرآن کریم کی بعض آیات منسوخ ہیں اس کی وجہ سے مسلمانوں کا قرآن کریم پر ایمان کامل نہیں رہا تھا۔ ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ جس قرآن میں ایک آیت بھی منسوخ ہے مجھے اس کا کیا اعتبار ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مشکل کو بھی دور کردیا اور فیصلہ کردیا کہ قرآن کریم کی ہر آیت قابلِ عمل ہے۔بِسمِ اللہِ کی ‘‘ب’’ سے لے کر وَالنَّاسِ کے ‘‘س’’ تک کوئی حصہ بھی ایسا نہیں جو قابلِ عمل نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں نے تفسیر کبیر لکھی تو لوگ اسے پڑھ کر حیران ہوگئے اور کہنے لگے کہ پہلے علماء نے تو وہ باتیں نہیں لکھیں جو آپ نے لکھی ہیں۔ مجھے کئی غیر احمدیوں کی چٹھیاں آئیں کہ ہم نے تفسیر کبیر کو پڑھا ہے اس میں قرآن کریم کے اتنے معارف لکھے گئے ہیں کہ حد نہیں رہی۔ ضلع ملتان کے ایک غیر احمدی دوست ایک احمدی سے تفسیر کبیر پڑھنے کے لئے لے گئے اور اُسے پڑھنے کے بعد انہوں نے کہا ہمیں وہ سمندر دیکھنا چاہیے جہاں سے یہ تفسیر نکلی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ سمندر کہاں سے آ گیا۔ یہ محض اس نکتہ کی وجہ سے آیا ہے کہ قرآن کریم کی ہر آیت قابلِ عمل ہے۔
مفسرین کو جس آیت کی سمجھ نہ آئی اسے انہوں نے منسوخ قرار دے دیا لیکن ہم چونکہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کی ہرآیت قابلِ عمل ہے اس لئے ہم ہر آیت پر فکر کرتے ہیں۔ اور غوروفکر کے بعد اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور اور برکت کی وجہ سے اس کو حل کرلیتے ہیں اور اس کی ایسی لطیف تفسیر کرتے ہیں جو1300سال میں کسی عالم نے نہیں کی۔گزشتہ علماء نے اگر بعض آیتوں کی تفسیر نہیں لکھی تو اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ قرآن کریم میں بعض آیات منسوخ بھی ہیں۔اس لئے جب کوئی مشکل آیت آجاتی وہ اس پر غور نہیں کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر بعد میں پتہ لگ گیا کہ یہ آیت منسوخ ہے تو ساری محنت اکارت چلی جائے گی۔ لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت بھی منسوخ نہیں اس لئے ہم ہر آیت پر غور کرتے ہیں او راس کی صحیح تشریح تلاش کرنے میں ہمت نہیں ہارتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارا ایمان بالقرآن روز بروز ترقی کرتا جاتا ہے۔
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کسی پرانے بزرگ کا ذکر سنایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس بزرگ سے کسی نے درخواست کی کہ قرآن کریم کی تفسیر سنائیے۔ تو وہ کہنے لگے یہ قرآن تو سارا ابوجہل کے لئے نازل ہوا ہے۔ ابو بکرؓ کے لئے نازل ہوتا تو اس کی ‘‘ب’’ ہی کافی تھی کیونکہ ب کے معنے ساتھ کے ہیں اور ابوبکرؓ کے لئے یہ کافی تھا کہ انہیں کہہ دیا جاتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھی بن جائیں۔ باقی ابوجہل نہیں مانتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سارا قرآن اس کے لئے نازل کیا ہے ورنہ ابوبکرؓ کے لئے اتنے بڑے قرآن کی ضرورت نہیں تھی۔ تو حقیقت یہی ہے کہ قرآن کریم کے معارف اور حقائق سکھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے اندر ایک نئی روح پھونک دی ہے۔آپ نے بتایا کہ قرآن کریم میں کوئی آیت منسوخ نہیں اور تم قرآن کے جتنے حصے پر عمل کرو گے اُتنے ہی تم خدا تعالیٰ کے قریب ہوجاؤ گے اور عملی طور پردیکھا جائے تو قرآن کریم کسی فلسفہ کی کتاب نہیں بلکہ یہ ایک آسمانی کتاب ہے۔ اس کی ایک ایک آیت پر عمل کرو گے تو تم ولی اللہ بن جاؤگے اور خدا تعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی اور جب خداتعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی توتمام آفات اور مصائب تمہیں اپنی نظروں میں ہیچ نظر آنے لگ جائیں گے۔
گزشتہ تیرہ سو سال کے عرصہ میں جس نے بھی قرآن کریم پر سچے دل سے عمل کیا ہے اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ اس کے شاملِ حال رہی ہے اور مصائب اور مشکلات کے ہجوم میں وہ اس کی تائیدات کا مشاہدہ کرتا رہا ہے۔
ایک بزرگ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ان کی بیوی ان کے ایک دوست کے پاس گئی جو خود بھی بڑے بزرگ اور عالم تھے اور کہنے لگی آپ اپنے دوست کو سمجھائیں وہ کوئی کام نہیں کرتے۔ اس بزرگ نے کہا بہت اچھا میں ان کے پاس جاؤں گا اور انہیں سمجھاؤں گا کہ وہ کوئی کام کریں۔ چنانچہ وہ وہاں گئے اور کہنے لگے دیکھو بھائی! مجھے پتہ لگا ہے کہ آپ کوئی کام نہیں کرتے حالانکہ آپ عالم ہیں اور دوسرے لوگوں کو پڑھا کر بھی آپ اپنی روزی کما سکتے ہیں۔ انہوں نے جواب میں کہا بھائی! میرے دل میں آپ کی بڑی قدر ہے لیکن مجھے افسوس ہوا کہ آپ نے ایسامشورہ کیوں دیا ہے۔رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہےکہ تم کسی کی مہمان نوازی کو رَدّ نہ کرو اور میں تو خداتعالیٰ کا مہمان ہوں پھر میں خدا تعالیٰ کی مہمان نوازی کو کیوں کر رَدّ کروں۔ اگر میں اس کی مہمان نوازی کو رَدّ کروں تو وہ خفا ہوجائے گا۔دوسرے بزرگ بھی ہوشیار تھے انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان نوازی صرف تین دن کی ہوتی ہے۔اس کے بعد صدقہ ہوتا ہے۔14 آپ کو خداتعالیٰ کے مہمان بنے بیس سال ہوگئے ہیں پھر کیا ابھی مہمان نوازی ختم نہیں ہوئی؟ وہ بھی ہوشیار تھے کہنے لگے کیا قرآن کریم نے نہیں فرمایا کہ خداتعالیٰ کاایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے15 گویا قرآن کریم کی روسے تو میں تین ہزار سال تک خداتعالیٰ کا مہمان رہو ں گا اور اُسی کادیا کھاؤں گا۔
تو حقیقت یہی ہے کہ جو خداتعالیٰ کا ہوجاتا ہے وہ اس کے لئے روزی کے مختلف رستے کھول دیتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس نے انسان کے اندر روحانیت پیدا کرنے کے لئے فرمایا ہے کہ تم میرے حضور دعائیں کیا کرو کیونکہ جب کوئی انسان عجز اور انکسار کے ساتھ دعائیں کرتا ہے تو اس کے دل میں محبتِ الٰہی بڑھتی ہے۔ بیشک ظاہری کَسب بھی ایک ضروری چیز ہے لیکن دعائیں بھی روحانیت پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔مومن کَسب تو کرتا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ درحقیقت مجھے دیتا خدا تعالیٰ ہی ہے۔ یہ کبھی نہیں سمجھتا کہ جو کچھ مجھے ملا ہے وہ میری محنت کا نتیجہ ملا ہے۔ لیکن ایک مالدار کافر یہ سمجھتا ہے کہ مجھے جو کچھ ملا ہے میرے ذاتی علم اور ذہانت اور محنت کی وجہ سے ملا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں صاف لکھا ہے کہ جب قارون سے کہا گیا یہ دولت تمہیں خداتعالیٰ نے دی ہے تو اس نے کہا کہ اِنَّمَاۤ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِيْ 16 کہ میری یہ دولت مجھے میرے علم کی وجہ سے ملی ہے۔ تواسلام کمائی سے منع نہیں کرتا لیکن وہ کہتا ہے تم خواہ کتنی محنت کرو یہ یقین رکھو کہ اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے۔ مثلاً کوئی لوہار ہے تو وہ جتنی چاہے محنت کرے لیکن جو بھی کمائے اس کے متعلق یہ خیال نہ کرے کہ وہ اسے لوہارے کی وجہ سے ملا ہے بلکہ سمجھے کہ یہ سب کچھ اسے خدا نے دیا ہے۔ آخر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ ایک شخص سارا سال لوہارے کاکام سیکھتا ہے لیکن وہ سیکھ نہیں سکتا۔ پھر ایسا بھی تو ہوتاہے کہ ایک کاریگر ہوتا ہے لیکن اسے کوئی کام نہیں ملتا۔ پھر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ روپیہ مل جائے تو رستہ میں کوئی ڈاکو اس کا سارا روپیہ چھین لے۔ پھر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ گھر کما کر روپیہ لے آئے لیکن گھر میں آتے ہی پیٹ میں درد اٹھے اور وہ جانبر ہی نہ ہوسکے۔ پھر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اسے ایسی جِلدی بیماری پیدا ہوجائے کہ وہ کپڑا نہ پہن سکے۔ تو جو کچھ ہوتا ہےاللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔ اگر کوئی انسان اپنی محنت سے بھی روزی کمائے تب بھی اسے جو کچھ ملتا ہے خداتعالیٰ کی طرف سے ہی ملتا ہے۔یہ چیز ایسی ہے کہ اگر انسان اس پر غور کرے تو اسے معلوم ہوسکتا ہے کہ اسے جو کچھ ملا ہے خداتعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی وجہ سے ملا ہے۔ اور خداتعالیٰ سے تعلق قرآن کریم سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ ہمیں حضرت مرزا صاحب نے بتایا ہے۔اصل سبق تو محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا لیکن اسے مسلمان بھول گئے تھے۔حضرت مرزا صاحب نے آکر اسے دوبارہ تازہ کیا اور کہا کہ قرآن پر عمل کرو اور دعائیں کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ اور سمجھو کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ تمہیں خدا تعالیٰ نے ہی دیا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاایک شعر ہے کہ
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے17
یعنی تمام نیکیاں تقویٰ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر تقویٰ باقی رہے تو ایسے انسان کو کوئی چیز ضائع نہیں کرسکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دوسرے بزرگوں کی مثالیں موجود ہیں کہ کبھی مومن خداتعالیٰ کے فضل سے مصائب اور آفات سے نہیں ڈرتے۔
مثلاً حضرت نظام الدین صاحبؒ اولیاء کے متعلق مشہور ہے کہ آپ کے معاصرین نے آپ کے خلاف بادشاہ کے کان بھرے اور وہ آپ سے بدظن ہوگیا او رآپ کو سزا دینے پر تیار ہوگیا۔ لیکن اس نے کہا میں ابھی جنگ کے لئے باہر جارہا ہوں واپس آؤں گا تو انہیں سزا دوں گا ۔جب وہ واپس آرہاتھا تو حضرت نظام الدین اولیاء کے مرید آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے بادشاہ واپس آرہا ہے،آپ کوئی سفارش اس کے پاس پہنچائیں تاکہ وہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے فرمایا ‘‘ہنوز دلی دوراست’’ ابھی دلی بہت دور ہے۔جب وہ دلّی کے اَور قریب آگیا تو مریدوں نے پھر کہا حضور! اب تو بادشاہ بالکل قریب آگیا ہے اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ صبح دِلّی میں داخل ہوجائے گا۔حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے پھر فرمایا کہ ‘‘ہنوز دلّی دوراست’’ ابھی دِلّی بہت دور ہے۔ چنانچہ مرید خاموش ہوکر واپس چلے گئے۔رات کو بادشاہ کے بیٹے نے شہر کے باہر والے محل پرایک بہت بڑا جشن کیا۔ ہزاروں لوگ اس جشن میں شرکت کے لئے آئے اور وہ محل کی چھتوں پر چڑھ گئے۔ چھت کا کچھ حصہ بوسیدہ تھا اس لئے وہ اس بوجھ کو برداشت نہ کرسکا اور گر پڑا ۔بادشاہ اوراس کے ساتھی چھت کے نیچے بیٹھے تھے اس لئے وہ اس کے نیچے ہی دب گئے اور مرگئے۔ چنانچہ صبح بجائے اِس کے کہ بادشاہ شہر میں داخل ہوتا اُس کی لاش شہر میں لائی گئی۔حضرت نظام الدین صاحبؒ نے مریدوں سے فرمایا دیکھو! میں نے نہیں کہا تھا کہ ‘‘ہنوزدلّی دوراست’’ کہ ابھی دلّی بہت دور ہے۔
پھر تین سال ہوئے اس قسم کا ایک واقعہ آپ لوگوں نے بھی دیکھا ہے۔اُس وقت احمدیوں کو لاریوں اور گاڑیوں سے کھینچ کھینچ کر اُتارا جاتا تھا اور انہیں مارا پیٹا جاتا تھا۔اُس وقت میں نے اعلان کیا کہ گھبراؤ نہیں میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑا چلا آرہا ہے۔ چنانچہ تم نے دیکھا کہ تین دن کے اندر اندر نقشہ بدل گیا۔لوگ اُس وقت کہہ رہے تھے کہ اب احمدیوں کا پاکستان میں کوئی ٹھکانہ نہیں، ہر طرف ان میں جوش بھر ہوا تھا اور نعرے لگ رہے تھے کہ احمدیوں کو قتل کردو۔ اُس وقت میں نے کہا کہ میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑا آرہا ہے، وہ مجھ میں ہے وہ میرے پاس ہے۔ پھر دیکھو میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑ کر آیا یا نہیں؟ اَب سارے مولوی تسلیم کررہے ہیں کہ وہ اپنے مطالبات کے تسلیم کرانے میں ناکام رہے ہیں۔
اَب بھی جماعت میں منافقین نے فتنہ پیدا کیا تو گجرات کے ایک آدمی نے مجھے کہا کہ مجھ سے ایک منافق نے ذکر کیا کہ ہم سے غلطی ہوگئی کہ ہم نے خلافت کا سوال بہت پہلے اُٹھا دیا۔اَب ہمیں احمدیوں کے پاس جانے کا کوئی موقع نہیں ملتا۔جہاں ہم جاتے ہیں دُھتکار دئیے جاتے ہیں۔ اگر ہم چُپ رہتے اورخاموشی سے کام کرتے تو ہم ہر ایک احمدی کے پاس جاسکتے تھے اور اسے اپنی بات سنا سکتے تھے۔ لیکن اب ہمیں یہ کرنے کی جرأت نہیں جس کی وجہ سے ہماری ساری سکیم فیل ہوگئی ہے۔
پھر دیکھو میں بیماری کی وجہ سے لمبا عرصہ باہر رہا تھا او ران منافقین کے لئے موقع تھاکہ وہ میری غیر حاضری میں شور مچاتے لیکن خدا تعالی ٰنے انہیں دبائے رکھا۔ اور جب میں واپس آیا تو اس نے ایک بیوقوف کے منہ سے یہ بات نکلوادی کہ ہم دوسال کے اندر اند رخلافت کو ختم کردیں گے۔میں نے اس کے بیان کوشائع کرایا۔ اس پر کئی لوگوں نے اعتراض کیا کہ یونہی ایک بے وقوف کی بات کو بڑھا دیا گیا ہے اِس سے اُسے شہرت اور اہمیت حاصل ہوجائیگی لیکن اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ یہ لوگ ننگے ہوگئے۔ چنانچہ ایک دوست نے مجھے خط لکھا کہ آپ نے اپنی بیالیس سالہ خلافت میں بڑے بڑے عظیم الشان کارنامے کئے ہیں لیکن اب جو آپ نے کام کیا ہے اور جماعت کو وقت پر فتنے سے آگاہ کردیا ہے اور اسے بیدار کردیا ہے مجھے یقین ہے کہ اِس سے بڑا آپ کا اور کوئی کارنامہ نہیں۔ آج ہمیں سب منافقوں کا پتہ لگ گیا ہے اور آج ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے شیطان کو مار دیا ہے اور اسے نئے نئے طریقوں سے جماعت کے اندر فتنہ پیدا کرنے سے روک دیا ہے۔ آپ کے اس بات کو شائع کردینے سے جماعت کے اندر ایک نئی روح او رنئی اُمنگ پیدا ہوگئی ہے اور اب ہر احمدی خلافت کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ اگر آپ وقت پر اعلان نہ کرتے،آپ لحاظ کرجاتے اور چُپ کرجاتے تو یہ فتنہ بہت بڑھ جاتا۔آپ نے بہت بڑے بڑے کام کئے ہیں،تبلیغِ اسلام کاکام کیا ہے، غیر ممالک میں مساجد بنائی ہیں مگر مجھے یقین ہے کہ آپ کا موجودہ فتنہ کو دبا لینا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے آپ نے جماعت کو محفوظ کردیاہے اور جماعت کے اندر ایک نئی بیداری اور جوش پیدا ہوگیا ہے۔ پہلے یہ بات نہیں تھی۔ پہلے جماعت کے اندر سستی پائی جاتی تھی اور ہم سمجھتے تھے کہ ہم بالکل محفوظ ہیں۔ اگر یہ فتنہ یکدم پھیل جاتا تو جماعت غفلت میں بیٹھی رہتی اور فتنہ پرداز اُسے نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے لیکن آپ نے اُدھر فتنہ پیدا ہوا اور اِدھر اعلان شائع کرکے جماعت کو وقت پر بیدار کردیا چنانچہ اب وہ اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر طرح تیار ہے۔ اگر آپ وقت پر جماعت کو بیدار نہ کردیتے تو ان لوگوں نے جماعت کو پیغامیوں کی جھولی میں ڈال دینا تھا اور وہ ساری کوشش جو آپؑ کی نبوت اور ماموریت کی سچائی کے لئے 42سال تک کی گئی تھی ضائع ہوجانی تھی۔ مگر خداتعالیٰ نے آپ کو وقت پر ہوشیار کردیا اور باوجود اس کے کہ وہ بات جو بظاہر چھوٹی نظر آتی تھی اور بعض احمدی بھی خیال کرتے تھے کہ یہ معمولی بات ہےآپ نے اُس کے ضرر کو نمایاں کرکے دکھایا اور اِس طرح تمام احمدی دنیا سمجھ گئی کہ کیا بات ہے اور وہ اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوگئی۔ چنانچہ دنیا کے سب ممالک سے جہاں جہاں ہماری جماعتیں قائم ہیں مثلاً امریکہ سے، افریقہ سے، دمشق سے، انڈونیشیا سے اور دوسرے تمام ممالک سے مجھے چِٹھیاں آرہی ہیں کہ ہم خلافت سے سچے دل کے ساتھ وابستہ ہیں اور جن لوگوں نے اس فتنہ کو اٹھایا ہے اُنہیں منافق خیال کرتے ہیں۔اَب وہ ہم میں شامل ہوکر کوئی رُتبہ اور فضیلت حاصل نہیں کرسکتے۔اَب دیکھو یہ ساری چیزیں خداتعالیٰ کے نشان کے طور پر ہیں۔ اگر اس فتنہ کا مجھے وقت پر علم نہ ہوتا تو شاید وہ شان پیدا نہ ہوتی جو اَب ہے۔ مگر اَب جماعت کے اندر وہی بیداری پیدا ہوگئی ہے جو1914ء میں پیدا ہوئی تھی۔آپ لوگ اُس وقت جوان تھے اور اَب بُڈھے ہوچکے ہیں لیکن اِس وقت نوجوانوں والا عزم آپ کے اندر دوبارہ پیدا ہوگیا ہے۔ اور پھر جوانوں کے اندر بھی عزم پیدا ہوچکا ہے اور جماعت کا ہر فرد اس بات کے لئے تیار ہے کہ وہ خلافت کے لئے اپنی جان دے دے گا لیکن اسے کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گا۔ اور جب کوئی شخص خداتعالیٰ کے دین کی تائید اور نصرت کے لئے عزم کرلیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کی مدد کرتے ہیں۔
میں نے پچھلے ماہ خواب میں دیکھا تھا کہ وہ آیتیں پڑھ پڑھ کرسنا رہے ہیں جو قرآن شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لئے آئی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ سے نکل جائیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑائی کریں گے۔ لیکن قرآن کریم منافقوں سے فرماتا ہے کہ نہ تم یہودیوں کے ساتھ مل کر مدینہ سے نکلو گے اور نہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑو گے۔ یہ دونوں جھوٹے دعوے ہیں اور صرف یہودیوں کو انگیخت کرنے کے لئے اور فساد پر آمادہ کرنے کے لئے ہیں۔
اَب دیکھو! وہی کچھ ہورہا ہے جو خداتعالیٰ نے مجھے رؤیا میں بتایا تھا۔ ایک طرف یہ منافق معافی مانگتے ہیں اور پھر اخبار میں شائع کرا دیتے ہیں کہ ہم نے تومعافی نہیں مانگی تھی۔ اگر انہوں نے واقع میں کوئی معافی نہیں مانگی تھی تو غیر احمدی اخبارات نے یہ کیوں لکھا تھا کہ دیکھو کتنا ظلم ہورہا ہے ان لوگوں کی معافی مانگتے مانگتے ناکیں بھی رگڑی گئی ہیں لیکن انہیں معافی نہیں ملتی۔ اگر وہ بعد میں معافی کا انکار نہ کرتے تو جماعت کے کئی کمزور لوگ کہتے کہ جب یہ معافی مانگتے ہیں تو انہیں معاف کردیا جائے۔ لیکن انہوں نے پہلے خودمعافی مانگی پھر ڈر گئے اور سمجھا کہ کہیں غیراحمدی یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ اَب ڈر گئے ہیں اور اس طرح ان کی مدد سے محروم نہ ہوجائیں اس لئے انہوں نے پھر لکھ دیا کہ ہم نے تو معافی نہیں مانگی۔ مگر اس جھوٹ کے نتیجہ میں وہی مثال ان پر صادق آئے گی جو کسی لڑکے کے متعلق مشہور ہے کہ وہ بھیڑیں چرایا کرتا تھا۔ ایک دن اُسے گاؤں والوں سے مذاق سُوجھا تو اس نے پہاڑی پر چڑھ کر شور مچادیا کہ شیر آیا،شیر آیا۔گاؤں کے لوگ لاٹھیاں لے کر اُس کی مدد کے لئے آئے لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو وہاں شیر وغیرہ کوئی نہیں تھا۔لڑکے نے انہیں بتایا کہ اُس نے ان سے یونہی مذاق کیا تھا۔دوسرے دن وہ بھیڑیں چرا رہا تھا تو واقع میں شیر آ گیا اور لڑکے نے پہاڑی پر چڑھ کر شور مچایا کہ شیرآیا، شیر آیا۔لیکن گاؤں سے اس کی مدد کے لئے کوئی نہ آیا۔ انہوں نے سمجھا کہ لڑکا کل کی طرح آج بھی مذاق کررہا ہوگا۔ چنانچہ شیر نے اسے پھاڑکر کھالیا۔اسی طرح جب غیراحمدیوں کو محسوس ہوا کہ یہ لوگ جھوٹ بولنے کے عادی ہیں تو وہ ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور یہ لوگ اپنی آنکھوں سے اپنی ناکامی کا مشاہدہ کریں گے۔
آج ہی مجھے میرے نائی نے ایک لطیفہ سنایا۔اُس نے بتایا کہ میں میاں عبدالمنان صاحب کی حجامت بنانے گیا تو انہوں نے کہا کیا تم ڈر گئے تھے کہ حجامت بنانے نہ آئے یا تمہیں کسی نے روکا تھا؟میں نے کہا مجھے تو کوئی ڈر نہیں اور نہ کسی نے مجھے روکا ہے۔ حجامت بنانا تو انسانی حق ہے۔اس سے مجھے کوئی نہیں روکتا۔اس لئے میں آگیا ہوں۔ پھر میں نے کہا میاں صاحب! میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں کہ پشاور سے ایک احمدی قادیان میں آیا اوروہ میاں شریف احمدصاحب سے ملنے کے لئے ان کے مکان پر گیا۔ اتفاقاً میں بھی اُس وقت حجامت بنانے کے لئے ان کے دروازہ پر کھڑا تھا۔ہمیں معلوم ہؤا کہ میاں صاحب اُس وقت سو رہے ہیں۔اِس پر میں نے کہا کہ میں تو حجامت بنانے کے لئے آیاہوں انہیں اطلاع دے دی جائے لیکن وہ دوست مجھے بڑے اصرار سے کہنے لگے کہ ان کی نیند خراب نہ کریں۔لیکن میں نے نہ مانا اور میاں صاحب کو اطلاع بھجوا دی۔ جس پر انہوں نے مجھے بھی اور اس دوست کو بھی اندر بُلالیا۔ وہاں ایک چارپائی پڑی ہوئی تھی میں نے انہیں کہاکہ اس پر بیٹھ جائیے۔ کہنے لگے میں نہیں بیٹھتا۔ میں نے سمجھا کہ شاید یہ چارپائی پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے اس لئے میں ان کے لئے کرسی اٹھا لایا لیکن وہ کرسی پر بھی نہ بیٹھے اور دروزہ کے سامنے جہاں جُوتیاں رکھی جاتی ہیں وہاں پائیدان پر جاکر بیٹھ گئے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟میں نے چارپائی دی لیکن آپ نہ بیٹھے پھر کرسی دی تب بھی آپ نہ بیٹھے اورایک ایسی جگہ جاکر بیٹھ گئے جہاں بوٹ وغیرہ رکھے جاتے ہیں۔ کہنے لگے مَیں تمہیں ایک قصہ سناؤں۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا صحابی ہوں۔ میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ملنے کے لئے آیا۔آپؑ مسجد مبارک میں بیٹھے تھے اور دروازہ کے پاس جوتیاں پڑی تھیں۔ ایک آدمی سیدھے سادے کپڑوں والا آ گیا اور آکر جوتیوں میں بیٹھ گیا۔میں نے سمجھایہ کوئی جوتی چور ہے۔ چنانچہ میں نے اپنی جوتیوں کی نگرانی شروع کردی کہ کہیں وہ لے کر بھاگ نہ جائے۔ کہنے لگے اس کے کچھ عرصہ بعدحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوگئے اور میں نے سنا کہ آپؑ کی جگہ اَور شخص خلیفہ بن گیا ہے۔ اس پر میں بیعت کرنے کے لئے آیا۔ جب میں نے بیعت کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ وہی شخص تھا جس کو میں نے اپنی بیوقوفی سے جُوتی چور سمجھا تھا یعنی حضرت خلیفہ اول۔ اور میں اپنے دل میں سخت شرمندہ ہوا۔آپ کی عادت تھی کہ آپ جوتیوں میں آکر بیٹھ جاتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام آواز دیتے تو آپ ذرا آگے آجاتے۔ پھر جب کہتے مولوی نور الدین صاحب نہیں آئے؟ تو پھر کچھ اَور آگے آجاتے۔ اس طرح بار بار کہنے کے بعد کہیں وہ آگے آتے تھے۔ یہ قصہ سنا کر میں نے انہیں کہامیاں! آپ کے باپ نے جوتیوں میں بیٹھ بیٹھ کے خلافت لی تھی لیکن تم زور سے لینا چاہتے ہو۔ اس طرح کام نہیں بنے گا۔ تم اپنے باپ کی طرح جوتیوں میں بیٹھو اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو۔اس پر وہ چُپ کر گیا اور میری اس بات کا اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
ہم نے خود حضرت خلیفہ اول کو دیکھا ہے۔ آپ مجلس میں بڑی مسکنت سے بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مجلس میں شادیوں کا ذکر ہورہا تھا، ڈپٹی محمد شریف صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی ہیں سناتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول اکڑوں بیٹھے ہوئے تھے یعنی آپ نے اپنے گھٹنے اٹھائے ہوئے تھے اور سرجُھکا کر گھٹنوں میں رکھا ہؤا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مولوی صاحب! جماعت کے بڑھنے کا ایک ذریعہ کثرتِ اولاد بھی ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ اگر جماعت کے دوست ایک سے زیادہ شادیاں کریں تو اِس سے بھی جماعت بڑھ سکتی ہے۔ حضرت خلیفہ اول نے گھٹنوں پر سے سر اٹھایا اور فرمایا حضور! میں تو آپ کا حکم ماننے کے لئے تیار ہوں لیکن اس عمر میں مجھے کوئی شخص اپنی لڑکی دینے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہنس پڑے۔ تو دیکھو یہ انکسار اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ادب تھا جس کی وجہ سے انہیں یہ رُتبہ ملا۔ اَب باوجود اس کے کہ آپ کی اولاد نے جماعت میں فتنہ پیدا کیا ہے لیکن اب بھی جماعت آپ کا احترام کرنے پرمجبور ہے اور آپ کے لئے دعائیں کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں اس انکسار اور محبت کی جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تھی وہ عظمت ڈالی ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ کے بیٹوں نے مخالفت کی ہے پھر بھی ان کے باپ کی محبت ہمارے دلوں سے نہیں جاتی، پھر بھی ہم انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلندکرے کیونکہ انہوں نے اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا جب ساری دنیا آپ کی مخالف تھی۔
اِسی طرح آج کل ضلع جھنگ کے بعض نئے احمدی ہوئے ہیں۔ اُن میں سے ایک مولوی عزیز الرحمن صاحب ہیں جو عربی کے بڑے عالم ہیں اور ان کا ایک عربی قصیدہ الفضل میں بھی چَھپ چکا ہے۔ ان کے والد جو اپنے بیٹے کی طرح عالم نہیں وہ یہاں آئے۔ وہ کہیں جارہے تھے تو کسی نے میاں عبدالمنان کو آتا دیکھ کر انہیں بتایا کہ وہ میاں عبدالمنان ہیں۔اِس پر وہ دوڑتے ہوئے اس کے پاس پہنچے اور کہنے لگے میاں تیرے باپ کواس در سے خلافت ملی تھی۔ اَب تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تُو بھاگ رہا ہے پھر پنجابی میں کہاکہ جا اور جاکر معافی مانگ۔ عبدالمنان نے کہا باباجی! میں نے تو معافی مانگی تھی۔ وہ کہنے لگے اس طرح نہیں تُو جاکر ان کی دہلیز پربیٹھ جااور وہاں سے ہِل نہیں۔ تجھے دھکّے مارکر بھی وہاں سے نکالنا چاہیں تُو اُس وقت تک نہ اُٹھ جب تک تجھے معافی نہ مل جائے مگر عبدالمنان نے اس نو احمدی کی بات بھی نہ مانی۔ پھر میں نے بھی مری میں خطبہ دیا اور معافی کا طریق بتایا لیکن اُس نے نہ تو اس طریق پر عمل کیا جو میں نے خطبہ میں بیان کیا تھا اور نہ اس طریق پر عمل کیا جو اس نئے احمدی نے اسے بتایا تھا۔ اور اخباروں میں شور مچایا جارہا ہے۔ بے شک وہ اور اس کے ساتھی اخباروں میں جتنا چاہیں شور مچالیں وہ اتنا شور تو نہیں مچا سکتے جتنا1953ء میں جماعت کے خلاف مچایا گیا تھا۔ مگر جو خدا 1953ء میں میری مدد کے لئے دوڑا ہؤا آیا تھا وہ خدا اَب بُڈھا نہیں ہوگیا کہ وہ1953ء میں دَوڑ سکتا تھا اور اب نہیں دَوڑ سکتا۔ بلکہ وہ اُس وقت بھی دوڑ سکتا تھااور اب بھی دوڑ سکتا ہے اور قیامت تک دوڑ سکے گا۔ جب بھی کوئی شخص احمدیت کو کچلنے کے لئے آگے آئے گا میرا خدا دوڑتا ہوا آجائے گا۔ اور جو شخص احمدیت کو مٹانے کے لئے نیزہ مارنے کی کوشش کرے گا میرا خدا اپنی چھاتی اس کے سامنے کردے گا۔ اور تم یہ جانتے ہی ہو کہ میرے خدا کو نیزہ نہیں لگتا۔ جو شخص میرے خدا کے سینہ میں نیزہ مارنے کی کوشش کرے گا وہ نیزہ اُلٹ کر خود اس کے اپنے سینہ میں جالگے گا اور جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے ایمان کی وجہ سے محفوظ رہتی چلی جائے گی۔ ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ آپ لوگ اپنے ایمان کو قائم رکھیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول سنایا کرتے تھے جب میں بھوپال میں پڑھا کرتا تھا تو وہاں ایک بزرگ تھے جنہیں میں اکثرملنے جایا کرتاتھا۔نیک آدمی تھے اور مجھ پر انہیں اعتماد تھا۔ ایک دن کچھ وقفہ کے بعد میں انہیں ملنے کے لئے گیا تو کہنے لگے میاں! تم سے ہم محبت کرتے ہیں۔ جانتے ہو کیوں محبت کرتے ہیں؟ ہم اس لئے تم سے محبت کرتے ہیں کہ کبھی کبھی تم آجاتے ہو تو خداتعالیٰ کی باتیں کرلیتے ہیں۔اس کے بعد پھر دنیا کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں لیکن تم بھی کچھ عرصہ سے میرے پاس نہیں آئے۔ تم نے کبھی قصاب کی دُکان دیکھی ہے؟میں نے کہا ہاں دیکھی ہے۔اُس بزرگ نے کہا تم نے دیکھا نہیں کہ قصاب کچھ دیر گوشت کاٹنے کے بعد دو چھریوں کو آپس میں رگڑ لیتا ہے۔ پتہ ہے وہ کیوں اس طرح کرتا ہے؟ وہ اس لئے ایسا کرتا ہے کہ گوشت کاٹتے کاٹتے چُھری پر چربی جم جاتی ہے۔ اور وہ کند ہوجاتی ہے جب وہ اسے دوسری چُھری سے رگڑتا ہے تو چربی صاف ہوجاتی ہے۔اِسی طرح جب تم یہاں آتے ہو تو میں تم سے خداتعالیٰ کی باتیں کرتا ہوں اور تم بھی مجھ سے خداتعالیٰ کی باتیں کرتے ہو۔اس طرح وہ چربی جو دنیوی باتوں کی وجہ سے جم جاتی ہے دور ہوجاتی ہے اس لئے ناغہ نہ کیا کرو۔یہاں آتے رہا کرو۔
آپ لوگ بھی اپنے بیوی بچوں کو خداتعالیٰ کی باتیں سناتے رہا کریں اور اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتے رہا کریں تاکہ خدا تعالیٰ ہمارے دلوں میں ہمیشہ ہمیش رہے۔ اور اس کی محبت ہمارے دل میں اتنی تیز ہوجائے کہ نہ صرف ہم اس کے عاشق ہوں بلکہ وہ بھی ہمارا عاشق ہو۔ اور یاد رکھو کہ کوئی شخص اپنے محبوب کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔ اگر تم خداتعالیٰ کے محبوب ہوجاؤ گے تو خداتعالیٰ بھی تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا۔ بلکہ ابھی دشمن اپنے گھر سے نہیں نکلا ہوگا کہ تم دیکھو گے کہ خداتعالیٰ عرش سے بھی نیچے اترآیا ہے اور وہ خود تمہارے گھروں کا پہرہ دے گا۔
دیکھو! رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت کی بعض دشمن منصوبہ کرکے ننگی تلواریں لئے کھڑے تھے مگر آپ سامنے سے نکل گئے۔ بعد میں لوگوں نے ان سے کہا کہ تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو مگر تمہارے سامنے سے محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)گزر گئے اور تم سے کچھ نہ ہوسکا۔وہ کہنے لگے خدا کی قسم! وہ ہمیں نظر ہی نہیں آیا۔ پس اگر خداتعالیٰ تمہارے ساتھ ہوگا تو دشمن تمہارے گھر پر آئے گا تو تم اُن کو نظر نہیں آؤ گے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بہت بڑے انسان تھے ہم نے اپنی جماعت میں بھی اس قسم کے نظارے دیکھے ہیں۔
مولوی عبدالرحمن صاحب کشمیر کے ایک مخلص احمدی تھے۔میں نے انہیں مبلغ بنا کر وہاں رکھاہوا تھا۔ وہ مسلمانوں میں اثر رکھتے تھے اور ان کی تنظیم کرتے تھے ۔اس لئے ان پر ریاست جموں کی گورنمنٹ نے بعض الزامات عاید کردئیے اور کہا کہ فلاں موقع پر جو چوری ہوئی ہے وہ انہی کی وجہ سے ہوئی ہے اور ان کے متعلق وارنٹ فوجداری جاری کردئیے۔ ایک دن وہ کشمیر میں میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے ان کے کان میں کہا کہ باہر پولیس کھڑی ہے۔وہ اٹھے اور رومال ڈال کر پولیس کے سامنے سے گزرگئے۔ میں نے بعد میں کسی سے پوچھا کہ مولوی صاحب کا کیا بنا ہے؟ تو دوستوں نے مجھے بتایا کہ وہ پولیس کے سامنے سے گزر گئے اور کسی کو نظر نہیں آئے۔پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی شان تھی۔مولوی عبدالرحمن صاحب صحابی بھی نہیں تھے تابعی تھے ان کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہو اکہ پولیس وارنٹ لے کر کھڑی تھی لیکن وہ سامنے سے گزر گئے اور جب پولیس سے پوچھا گیا کہ تم نے انہیں پکڑا کیوں نہیں؟ تو کہنے لگے ہم نے انہیں دیکھا ہی نہیں۔
تو جب تک خداتعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق رہے گا۔خداتعالیٰ کا تعلق بھی ہمارے ساتھ رہے گااوراللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی غیرت ہمارے لئے دکھاتا رہے گااور کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ ہماری طرف ترچھی آنکھوں سے دیکھے۔ کیونکہ خداتعالیٰ کے فرشتے فوراً آگے بڑھیں گے اور ہمارے اور اُس کے درمیان حائل ہوجائیں گے۔ اور وہ مدد ہمیں حاصل ہوگی جس کو دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ بھی ترستے ہیں۔اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ
ہواور تمہاری مدد کرے۔’’ (الفضل 26، 27 مارچ 1957ء)
1 الصف : 15
2 الیواقیت و الجواہر جلد 2 صفحہ 342 مطبوعہ بیروت لبنان 1997ء
3 السیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ 74 مطبوعہ بیروت لبنان 2002ء
4 سیرت ابن ہشام جلد2 صفحہ 140 مطبوعہ مصر 1936ء
5 سیرت ابن ہشام جلد2 صفحہ 144 مطبوعہ مصر 1936ء (مفہوماً)
6 سیرت ابن ہشام جلد3 صفحہ 100، 101 مطبوعہ مصر 1936ء
7 المائدہ : 25
8 سیرت ابن ہشام جلد2 صفحہ 267 مطبوعہ مصر 1936ء
9 متی باب 26 آیت 14 تا 16 و آیت 47 تا 50
10 النور :56
11 المائدہ : 68
12 رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305
13 درثمین اُردو صفحہ 51 مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی مطبوعہ 1962ء
14 بخاری کتاب الادب باب اِکْرَامُ الضَّیْفِ وَ خِدْ مَتِہٖ (الخ)
15 اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (الحج :48)
16 القصص : 79
17 درثمین اردو صفحہ 42 زیر عنوان ‘‘ بشیر احمد ، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین’’۔ مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی۔ 1962ء
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء
تم خدا کے ہاتھ کا لگایا ہؤا پودا ہو۔ تم بڑھتے چلے جاؤ گے
یہاں تک کہ زمین کے چاروں طرف پھیل جاؤ گے
(فرمودہ26دسمبر1956ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘ اللہ تعالیٰ کابے حدوحساب شکریہ ہے کہ اس سال پھر اس نے ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لئے غور کرنے اور قربانی کرنے کا موقع دیا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کا مزید احسان یہ ہے کہ اس دوران میں بعض ایسے حالات پیش آئے کہ دشمن نے خوب خوشیاں منائیں اور بغلیں بجائیں کہ اَب احمدیت کا خاتمہ ہوجائے گا،اَب احمدیت کی دیواروں کے نیچے سے خود اس کی گندی نالیوں نے اس کی دیواروں کے گرانے کے سامان پیدا کردئیے ہیں اور احمدیت کی حفاظتی دیواریں احمدیت کی اپنی نالیوں کی وجہ سے گر جائیں گی۔ اوراخباروں نے باقاعدہ شور مچایا کہ خلیفہ ثانی کی جماعت اب اُس سے بغاوت کررہی ہے۔اَب وہ اخبارنویس کہاں ہیں؟ وہ ذرا دیکھیں کہ یہ بغاوت کررہے ہیں یا عقیدت کا اظہار کررہے ہیں؟ اگر دشمنوں میں ذرا بھی تخمِ دیانت ہے اور جھوٹ کے گند پر منہ مارنے سے ان کوذرابھی شرم آتی ہے، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بھی ان کو نسبت حاصل ہے، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کی بھی اتباع کی ان کو توفیق ہے تو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ وہ جماعت آگے سے بہت زیادہ قربانی کرنے پر آمادہ ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ والا جذبہ ان کے اندر موجود ہے جوکہ اُحد کے موقع پر انہوں نے دکھایا تھا۔اُحد کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی اور ابوسفیان نے خوشی کے نعرے لگائے اور کہا کہاں ہے محمدؐ؟مطلب اُس کا یہ تھا کہ آپؐ فوت ہوگئے ہیں اگر زندہ ہوں گے تو یہ بولیں گے اور پھر ہم دوبارہ لوٹ کر حملہ کردیں گے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ خاموش رہو۔ پھر انہوں نے کہا کہاں ہے ابوبکرؓ؟ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا اور وہ چُپ رہے۔ پھر اُس نے کہاکہاں ہے عمرؓ؟حضرت عمرؓ کھڑے ہوگئے اور کہاکہ عمرؓ تیرا سر توڑنے کے لئے موجود ہے مگرچونکہ دشمن اُس وقت بڑے جتھے میں تھا اور اسلامی لشکر کے پاؤں اُکھڑ گئے تھے اور بظاہر اُسے ایک شکست نصیب ہوئی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو بھی منع کردیا۔ فرمایا! اَب بھی جواب نہ دیں۔1
ہماری جماعت بھی آج اُحد کے رنگ میں یہاں موجود ہے اور ابوسفیان کے مثیلوں کو اور ابوجہل کے چیلوں کو کہہ رہی ہے کہ ہم تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔دشمن یہ خیال کرتا ہے کہ تم ایک کمزور جماعت ہو۔ دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس جتھا ہے۔ دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے پاس طاقت ہے۔دشمن یہ سمجھتا ہے کہ جب وہ حملہ کرے گا توتم ایک چڑیا کی طرح اس کے قابو میں آجاؤ گے۔ مگر وہ یہ نہیں دیکھتا کہ آسمان سے خدا سب قِسم کی حفاظت کے سامان لے کر اُتر رہا ہے۔اور وہ ان جتھوں کو توڑ دے گا۔وہ ان جماعتوں کو کچل ڈالے گا۔وہ ان تمام نظاموں کو جو خدائی سلسلہ کے مخالف کھڑے ہیں پارہ پارہ کردے گااور ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ اور ایسا ذلیل کرے گا کہ سات پُشت تک ان کی اولادیں ان پر *** کریں گی۔
پس ہم اپنے خدا کاشکریہ ادا کرتے ہیں کہ جس نے ہمیں اس کا نام بلند کرنے اور اس کے سلسلہ کی عظمت قائم کرنے کے لئے پھر اس جگہ پر جمع ہونے کی توفیق دی اور دشمن کا منہ کالا کرنے کی ہم کو ہمت بخشی۔ اور کیاعورتیں اور کیا بچے اور کیا مرد آج مرکزِ احمدیت میں لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے داخل ہورہے ہیں۔ اور وہ دشمن جو یہ کہتا تھا کہ احمدیت پارہ پارہ ہوگئی اللہ تعالیٰ نے اُس کو ذلیل کردیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے یہی امید ہے اوراس کے وعدوں پر ہم کواعتبارِ کامل ہے کہ قیامت تک یہی جماعت دشمنانِ احمدیت کوکچلتی چلی جائے گی اور قیامت تک جماعت اپنا سر اونچا رکھے گی اور احمدیت پر جانثار ہونے کے لئے اپنے آپ کوکھڑا کرے گی اور دشمن ہمیشہ ان کے مقابلہ میں خائب وخاسر رہے گا۔یہ موجودہ جماعت بھی اور ان کی اولادیں بھی اوراولادوں کی اولادیں بھی قیامت تک احمدیت اور اسلام کے جھنڈے کو بالا رکھیں گی۔ اور جس طرح ابوسفیان نے جب کہا کہ لَنَا العُزّیٰ وَلَاعُزّیٰ لَکُمْ اے مسلمانو! ہمارے لئے عُزیٰ بت ہے جو ہمارے ساتھ ہے تمہارے ساتھ کوئی نہیں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَب جواب کیوں نہیں دیتے۔پہلے تم جب آدمیوں کا نام لیا جارہا تھا توجواب دینے کے لئے تیار تھے اَب خدا کی بے عزتی کی جاتی ہے اب کیوں نہیں جواب دیتے۔ تو صحابہؓ نے کہایارسول اللہؐ! کیا کہیں؟فرمایا زور سے کہو لَنَا مَوْلیٰ وَلاَ مَوْلیٰ لَکُمْ2 خدا ہمارے ساتھ ہے تمہارے ساتھ کوئی خدا نہیں۔ تو قیامت تک انشاء اللہ احمدیوں کی نسل اس کے محض فضل اور کرم سے باوجود ہماری کوتاہیوں اور غفلتوں کے کہ ہم اپنی اولادوں کی صحیح تربیت نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دےگا کہ وہ احمدیت او راسلام کا جھنڈا اونچا رکھیں گے اور تمام عیسائی دنیا اور تمام غیر مذاہب کو پُکار کرکہیں گے کہ لَنَا مَوْلیٰ وَلاَ مَوْلیٰ لَکُمْ خدا ہمارے ساتھ ہے اورتمہارے ساتھ کوئی خدا نہیں ہے۔
اَب میں بیٹھنے کے بعد دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کوعظیم الشان برکات کا موجب بنائے اور قیامت تک اس سے بہت بڑے بڑے اجتماع کرنے کی ہم کو توفیق عطا فرمائے جن میں ہم خداتعالیٰ کا نام بلند کریں، جن میں ہم اسلام کی سچی تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اور دشمنانِ احمدیت ان اجتماؤں کو دیکھ کر اپنے اندر شرمندہ بھی ہوں اور افسردہ بھی ہوں تاکہ ان کو نظر آئے کہ خدا ان لوگوں کے ساتھ ہے جن کو ہم نے سمجھا تھا کہ 1953ء میں مار ڈالا تھا وہ1956ء میں اس سے بھی زیادہ زور آور ہے، اور اگلے سالوںمیں اس سے بھی زیادہ طاقتور ہوں گے۔ چنانچہ دیکھ لومیں سات آٹھ دن سے کہہ رہا تھا کہ میں بیالیس سال زمانۂ خلافت میں دیکھتا آیا ہوں کہ جب کبھی دشمن نے حملہ کیا تو خدا نے ہماری مدد کی اور خداتعالیٰ نے ہمیں اوراونچا کیا۔ پس اَب جب کہ دشمن نے کہاہے کہ احمدیت کمزور ہوگئی ہے اور احمدیوں میں بغاوت ہوگئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ احمدیوں کے اخلاص میں اَور بھی ترقی بخشے گااور وہ زیادہ زور سے آئیں گے۔ تو میں نے بار بار منتظمین کو توجہ دلائی مگرباوجود اس کے انہوں نے اپنی طرف سے تو کوشش کی مگر پھر بھی خداکے اندازے کو نہ پہنچے اور آج رات بارہ بجے وہ حالت تھی کہ عورتوں کی رہائش گاہ میں تِل رکھنےکی جگہ نہ تھی اور عورتیں سردی میں بچے لئے پھر تی تھیں کہ کوئی جگہ ہمیں نہیں مل رہی۔ اور رپورٹ سے پتہ لگتا ہے کہ پچھلے سال سے اس دفعہ ڈیوڑھے آدمی اِس وقت تک آچکے ہیں۔پچھلے سال رات کے کھانے پراُنیس ہزار اور کچھ سَو تھے اور اِس سال رات کے کھانے پرستائیس ہزار سے زیادہ تھے۔ گویا ڈیوڑھے کے قریب تعداد تھی یا ڈیوڑھے سے بھی کچھ زیادہ تھی۔یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے اور یہ فضل اور احسان جب تک آپ لوگوں کے دلوں میں ایمان قائم رہے گا اللہ تعالیٰ اسے بڑھاتا چلا جائے گا۔تم خدا کا لگایا ہوا پودا ہو، تم بڑھتے چلے جاؤ گے اور پھیلتے چلے جاؤ گے اور جیسا کہ وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے تمہاری جڑیں زمین میں مضبوط ہوتی جائیں گی اور تمہاری شاخیں آسمان میں پھیلتی چلی جائیں گی۔یہاں تک کہ تم میں لگنے والے پھلوں کوجبریل آسمان پر بیٹھا ہواکھائے گااور اس کے ماتحت فرشتے بھی آسمان پر سے کھائیں گے اور خدا تعالیٰ عرش پر تعریف کرے گا کہ میرا لگایا ہوا پوداکتنا شاندار نکلا ہے۔اِدھر زمین میں اس کی جڑیں پھیل گئی ہیں اور اُدھر آسمان میں میرے عرش کے پاس اس کی شاخیں ہل رہی ہیںاَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِي السَّمَآءِ 3اِس کی جڑیں زمین میں پھیلی ہوئی ہوں گی اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں گی۔ تو اِدھر تو تم خداتعالیٰ کے فضل سے زمین میں اس طرح پھیلو گے کہ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ایک دن وہ آئے گا کہ دنیا میں میرے ماننے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے گی اور دوسرے لوگ جس طرح چھوٹی قومیں تھوڑی تھوڑی ہوتی ہیں۔اِس طرح وہ بھی چھوٹی قومیں بن کر رہ جائیں گے۔ اور فَرْعُهَا فِي السَّمَآءِ کے معنی یہ ہیں کہ تم صرف زمین میں پھیلو گے ہی نہیں بلکہ ذکرِ الٰہی اتنا بلند کرو گے کہ آسمان کے فرشتے اس کو سن کر ناچنے لگ جائیں گے اور خوش ہوں گے کہ ہمارے خدا کا ذکر زمین پر بھی اُسی طرح ہونے لگ گیا ہے جس طرح کہ ہم آسمان پر کرتے ہیں۔ تب آسمان پر بھی فرشتے ہوں گے اور زمین پر بھی فرشتے ہوں گے۔ آسمان کے فرشتوں کا نام جبریل اور اسرافیل وغیرہ ہوگا اور زمین کے فرشتوں کا نام احمدی ہوگا کیونکہ وہ زمین کو بھی خدا کے ذکر سے بھر دیں گے جس طرح کہ آسمان کو فرشتوں نے خدا کے ذکر سے بھرا ہوا ہے۔ پس یہ تو ہونے والا ہے اور ہوکر رہے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ایمانوں کو سلامت رکھیں اور اپنی اولادوں کے دلوں میں ایمان پختہ کرتے چلے جائیں۔ اگر اس تربیت کے کام کو ہم جاری رکھیں تو یقیناً دنیا میں اسلام اور احمدیت کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ یہ عیسائی حکومتیں جو آج ناز اور نخرے کے ساتھ اپنے سر اٹھا اٹھا کر چل رہی ہیں اور چھاتیاں نکال نکال کر چل رہی ہیں یہ اسلام کے آگے سر جھکائیں گی۔ اور یہی لنگوٹی پوش احمدی اور دھوتی پوش احمدی جو یہاں بیٹھے ہیں ان کے آگے امریکہ کے کروڑ پتی آکر سرجھکائیں گے اور کہیں گے کہ ہم ادب سے تم کو سلام کرتے ہیں کہ تم ہمارے روحانی باپ ہو۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جو نہ صرف ہمارا باپ تھا بلکہ ہمارے خدا کے بیٹے مسیحؑ کا بھی باپ تھا تم اُس کے فرزند ہو اور ہم تمہارے بیٹے ہیں۔پس تم نے ہمیں اپنے باپ سے اور ہمارے خدا کے بیٹے کے باپ سے روشناس کرایا ہے اس لئے تم ہم کو خاندانِ الوہیت میں واپس لانے والے ہو۔ تم ہم آوارہ گردوں کو پھر گھر پہنچانے والے ہو۔اس لئے ہم تمہارے آگے سرجھکاتے ہیں اور تم سے برکتیں چاہتے ہیں کیونکہ تمہاے ذریعہ سے اسلام ہم تک پہنچا ہے۔ سو یہ دن آنے والے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ۔
میں اپنی اس مختصرسی تقریر کے ختم کرنے سے پہلے عورتوں کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ رات کو ان کو تکلیف پہنچی ہے اور بعض ان میں سے شکوہ بھی کرنے لگیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان کو شکوہ کا حق نہیں تھا شکوہ کا حق ہمارا تھا۔ ہمارا حق تھا کہ ہم خدا سے کہتے کہ الٰہی! ہم اپنا فرض ادا نہیں کرسکے تُو ہم کو معاف کر۔ ان کو شکایت کا حق نہیں تھا ان کو تو خوش ہونا چاہئیے تھا کہ اللہ میاں تیرے کتنے احسان ہیں پھر تُو ہمیں اتنا لایاکہ جماعت کا مرکز ہمارے ٹھہرانے کا انتظام نہیں کرسکا۔ تو یہ تو جماعت کی ترقی کی علامت ہے۔ان کو اس پر خوش ہونا چاہئیے تھا۔ ہمیں رونا چاہیے تھا کہ ہم خدا تعالےٰ کے فضلوں کا اندازہ نہیں لگا سکے اور ہم نے جو اندازہ لگایا تھا وہ غلط ہوگیا۔ ان کو ہنسنا چاہئیے تھا کہ دیکھو خداتعالیٰ ہمیں اتنی تعداد میں لایا ہے کہ یہ مرکز والے باوجود ساری کوششوں کے ہماراانتظام کرنے سے محروم رہ گئے۔ اور ہمارے افسروں کو چاہئیے تھا کہ وہ روتے کہ باوجود خداتعالیٰ کے فضلوں کے بار بار دیکھنے کے پھر بھی ہم اس کا اندازہ لگانے سے قاصر رہے اورپھر بھی خدا کے مہمانوں کو ہم آرام نہیں پہنچا سکے۔ میں سات آٹھ دن سے برابر کہہ رہا تھا کہ دیکھو خداتعالیٰ کی غیرت اِس وقت بھڑکی ہوئی ہے۔ باغیوں کی بغاوت کی وجہ سے خداتعالیٰ عرش پر غصہ سے بھرا ہوا بیٹھا ہے او روہ ضرور ان کو نمونہ دکھائے گا اور نشان دکھائے گا اس لئے تیار ہوجاؤ کہ خدا تعالیٰ اَب برکت کے دروازے کھولنے والا ہے اور ہزاروں ہزار آدمی پچھلے سال سے زائد آئے گا۔ چنانچہ اِس وقت تک بھی قریباً نوہزار آدمی زیادہ آچکا ہے۔ اب اگلے دنوں میں اَور بھی امید ہے ابھی تو ستائیس کی تاریخ کو لوگ زیادہ آیا کرتے ہیں۔ پس ستائیس بھی ہے، اٹھائیس بھی ہے۔ او رپھر ابھی کیا ہے پھر جن کو خداتعالیٰ زندہ رکھے گا اگلا سال بھی ہے جبکہ اس سے بھی زیادہ لوگ آئیں گے۔ اور ہر دفعہ دشمن روسیاہ ہوگا اور ہر دفعہ دشمن شرمندہ ہوگا کہ جس جماعت کو ہم مارنا چاہتے تھے وہ پھر زندہ ہوکر نکل رہی ہے۔پس ایک طرف تو میں منتظمین کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ پورے زور سے خداتعالیٰ کے فضلوں کا اندازہ کرکے ایسا انتظام کیا کریں کہ آئندہ مہمانوں کو تکلیف نہ ہو اور مہمانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ایک دن تکلیف بھی ہو تو وہ اس بات پر خوش ہوا کریں کہ دیکھو ہمارا خدا کتنا شاندار ہے کہ دشمن کی مخالفت کے باوجود ہم کو بڑھا رہا ہے۔پس اگر تکلیف ہو تو تمہیں اَلْحَمْد کرنی چاہئیے اور خدا تعالیٰ کے ذکر میں بڑھنا چاہئیے۔ اور جو منتظم ہیں ان کو شرمندہ ہونا چاہئیے او ران کو خدا تعالیٰ سے عاجزانہ معافی مانگنی چاہئیے کیونکہ ان کا قصور ہے اورتمہارے لئے برکتوں اور رحمتوں کی علامت ہے۔
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کُل سات سَو آدمی آئے تھے۔اب ایک ایک بلاک میں کئی کئی ہزار بیٹھا ہے۔ اُس وقت آپؑ کی زندگی کا آخری سال تھا اور کُل سات سو آدمی جلسہ پر آیا اور انتظام اتنا خراب ہوا کہ رات کے تین بجے تک کھانا نہ مل سکا اور آپؑ کو الہام ہوا کہ یَآ اَیُّھَاالنَّبِیُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَر4 اے نبی! بُھوکے اور پریشان حال کو کھانا کھلاؤ۔ چنانچہ صبح معلوم ہوا کہ مہمان تین بجے رات تک لنگرخانہ کے سامنے کھڑے رہے اور ان کو کھانا نہیں ملا۔ پھر آپ نے نئے سرے سے فرمایا کہ دیگیں چڑھاؤ اور ان کو کھانا کھلاؤ۔ تو دیکھو سات سو آدمیوں کی یہ حالت ہوئی مگر ان سات سو آدمیوں کا یہ حال تھا کہ جب آپؑ سیر کے لئے نکلے تو سات سو آدمی ساتھ تھا، ہجوم بہت تھا، آنے والے بے چاروں نے کبھی یہ نظارہ تو دیکھا نہ تھا، باہر تو دوسو آدمی بھی لوگوں کو کسی روحانی بزرگ کے گرد جاتا ہوا نظر نہ آتا تھا۔میلوں میں بے شک جاتے ہیں لیکن روحانی نظاروں میں نہیں جاتے۔ اس لئے اُن کے لئے عجیب چیز تھی، لوگ دھکّے کھارہے تھے۔حضرت صاحب ایک قدم چلتے تھے تو ٹھوکر کھا کر آپؑ کے پیر سے جوتی نکل جاتی تھی۔ پھر کوئی احمدی ٹھہرا لیتا کہ حضور! جوتی پہن لیجئے اور آپؑ کے پیر میں جوتی ڈال دیتا۔ پھر آپؑ چلتے تو پھر کسی کا ٹھڈا لگتا او رجوتی پَرے جاپڑتی۔ پھر وہ کہتا کہ حضور! ٹھہر جائیے جوتی پہنادوں۔اسی طرح ہورہا تھا تو ایک زمیندار دوست نے دوسرے زمیندار دوست سے پوچھا ‘‘او تُوں مسیح موعود دا دست پنجہ لے لیا ہے’’ یعنی کیا تُو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مصافحہ کرلیا ہے؟ وہ کہنے لگا ‘‘ایتھے دست پنجہ لین دا کیہڑا ویلا ہے،نیڑے کوئی نہیں ہون دیندا’’ یعنی یہ مصافحہ کرنے کا کونسا موقع ہے یہاں تو کوئی قریب بھی نہیں آنے دیتا۔ اس پر وہ جو عاشق زمیندار تھا وہ اس کو دیکھ کر کہنے لگا تجھے یہ موقع پھر کب نصیب ہوگا۔ بے شک تیرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں پھر بھی لوگوں کے درمیان میں سے گزر جا اور مصافحہ کرآ۔
تو کُجا وہ وقت ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کُجا یہ وقت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔اب ہماری کم سے کم پچاس یا سو یا اس سے بھی زیادہ جماعت موجود ہے جس میں ہزار سے زیادہ آدمی ہیں قریباًستّر اسّی ہزار یا لاکھ تو صرف سیالکوٹ میں موجود ہے۔ کوئی بیس ہزار کے قریب لائل پور میں ہے۔ اسی طرح جھنگ اور سرگودھا کے علاقے جو ملتے ہیں ان میں بھی جماعت بیس ہزار کے قریب جا پہنچی ہے۔ کیونکہ صرف ربوہ کی ہی اب گیارہ بارہ ہزار آبادی ہو گئی ہے۔ یہ کوردیہہ5 جس کی تصویر اَب بھی اپنے ایمان بڑھانے کے لئے دفتروں میں جاکر دیکھ لیا کرو محض ایک جنگل تھا اور تین چار خیمے لگے ہوئے تھے۔اس میں ہم آکے بَسے۔ ابھی ساری دنیا اُجڑی پھر رہی ہے اور خدا نے ہم کو ایک مستقل وطن دے دیا ہے۔ ہم اِس جگہ پر اکٹھے ہوئے اور تین سال کے اندر اندر پکی عمارتیں بن گئی ہیں۔آج سے پانچ چھ سال پہلے جب جلسہ ہوا تھا تو اُس وقت ہم کچے مکانوں میں رہتے تھے۔ پھر اس کے بعد تمام کوٹھیاں ہی کوٹھیاں کراچی اور لاہور کی طرح کی بن گئی ہیں اور یہ ساری عمارتیں اتنی جلدی بن گئی ہیں کہ سارے پاکستان میں اتنی جلدی کسی جگہ پر نہیں بنیں۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ سو دعائیں کرو اللہ تعالیٰ سے کہ وہ اپنے فضل کو بڑھاتا چلاجائے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اس فضل کا مستحق بنائے۔
پھر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک دوست نے آج مصافحہ کرتے وقت اِس خیال سے کہ سارے احمدی مل رہے ہیں مجھے بھی احمدی نہ سمجھ لیں کہا کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ میں غیراحمدی ہوں۔مجھے دل میں ہنسی آئی کہ ہم میں تو خدا نے وہ کشش رکھی ہے کہ ہمارے ہاتھ جس کے جسم کو چُھو جائیں ناممکن ہے کہ وہ اور اس کی اولادیں غیر احمدی رہ جائیں۔میں نے دل میں کہا کہ آج تو یہ بے چارہ کچھ شرمندہ ہے کہ اتنے احمدیوں میں مَیں ایک غیراحمدی آیا ہوں اور کسی دن اِس کا سارے کا سارا خاندان احمدی بن کے آئے گا اور کہے گا حضور! ہمارے خاندان کا ایک ہزار آدمی احمدی ہے۔
اسی طرح مجھے ملاقاتوں میں آج ایک دوست نے بتایا کہ ایک دوست تشریف لائے ہوئے ہیں جو اپنی قوم میں رئیس ہیں احمدیت کی بہت سی کتب بھی انہوں نے پڑھی ہیں۔ لیکن ان کے دل میں یہ شبہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزوں کی تعریف کی ہے۔ میں مختصر طور پران کو بتانا چاہتا ہوں کہ پہلی تعریف تو قرآن نے کروائی ہے۔ انگریز آخر فرعون سے تو بدتر نہیں لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب خداتعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا تو فرمایااے موسیٰ ؑاور اس کے بھائی ہارونؑ! تم دونوں فرعون کے پاس جانا تو فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا 6۔دونوں اس کے ساتھ بڑے ادب اور احترام کے ساتھ باتیں کرنا۔ تو یہ تو قرآن کا سبق ہے۔ اگر مرزا صاحب اس پر عمل نہ کرتے تو پھر آپ لوگ کہتے کہ مرزا صاحب نے قرآن کی تعلیم پر عمل نہیں کیا۔ اب جو قرآن کی تعلیم پر عمل کیا ہے تو آپ لوگ کہتے ہیں کہ ایسا کیوں کیا ہے۔ پھر دوسرا اعتراض آپ لوگ یہ کرتے کہ حضرت مسیح ناصریؑ کے سامنے ایک روپیہ پیش کیاگیا اور لوگوں نے کہا کہ قیصر ہم سے ٹیکس وصول کرنا چاہتا ہے کیا ہم دیں یا نہ دیں؟ گاندھی جی نے تحریک کی تھی کہ گورنمنٹ کو ٹیکس نہ دو۔انہوں نے بھی یہی چالاکی کی او رحضرت عیسٰی علیہ السلام کے پاس آئے او ران کو کہا کہ قیصر ہم سے ٹیکس مانگتا ہے دیں کہ نہ دیں؟ انہوں نے کہا کہ وہ کون سا روپیہ تم سے مانگتا ہے؟انہوں نے روپیہ دکھایا؟ اُس پر قیصر کی تصویر تھی۔حضرت عیسٰی علیہ السلام نے کہا جو قیصر کا ہے وہ قیصرکو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو۔7 اس طرح اُن کو جواب دیا اور ٹلا دیا۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگریزوں کو بُرا کہتے تو پھر آپ کے علماء کہتے کہ یہ اچھا مسیح ہے کہ مسیحؑ نے تو یہ کہا تھا کہ جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو۔ اور یہ اس کے خلاف کررہا ہے۔ پھر یہ کہ قرآن میں عیسائیوں کی تعریف آئی ہے پہلے ان آیتوں کو کیوں نہیں نکالتے۔ مرزا صاحب پر غصہ ہے قرآن پر غصہ کیوں نہیں آتا۔ قرآن میں عیسائیوں کی تعریف آئی ہے کہ ان کے دل روحانیت سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کی آنکھوں سے خدا کی محبت میں آنسو بہتے ہیں۔ پھر انگریزوں نے کعبہ پر حملہ کبھی نہیں کیا مگر حبشہ کی حکومت نے مکہ پر حملہ کیاتھا جس کو سورہ فیل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ8 یہ اصحاب الفیل حبشہ کے گورنر کے سپاہی تھے وہاں اس وقت ابرہہ گورنر تھا اس ابرہہ نے لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ کیا تھا لیکن باوجود اس کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے صحابہؓ کو بلایا اور کہا کہ تم کو اَب مکہ میں بڑی تکلیفیں ہیں تم کیوں نہیں اس ملک میں چلے جاتے جو ایک عادل اور نیک بادشاکا ملک ہے۔ انہوں نے کہا یارسول اللہؐ! کون سا ؟فرمایا حبشہ تو حبشہ کا بادشاہ وہ تھا جس کے وائسرائے نے کعبہ پر حملہ کیا تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کو عادل اور نیک کہا۔ اگر تم کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بے شک اس کو عادل اور نیک کہا تھا پر آخر میں وہ مسلمان ہوگیا تھا گو پہلے عیسائی تھا تو مَیں ان کو جواب دیتا ہوں کہ انشاء اللہ انگریز بھی مسلمان ہوجائیں گے۔ احمدی مبلغ اس لئے باہر نکلے ہوئے ہیں کہ انگریزوں اور امریکنوں اور دوسرے لوگوں کو مسلمان بنائیں۔آپ لوگ اعتراض کرنا جانتے ہیں۔آپ یہ اعتراض کررہے ہیں کہ مسیح موعودؑ نے انگریزوں کی تعریف کیوں کی۔ اور احمدی مبلغ انگریزوں اور یورپین لوگوں کے منہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر درود بھجوا رہے ہیں۔
مجھے یاد ہے کوئی1920ء کی بات ہے ایک دوست نے ایک انگریز نَومسلم کے متعلق مجھے لکھا کہ اُس نے کہا مجھے اسلام سے اتنی عداوت تھی کہ مَیں جب رات کو سوتا تھا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو گالیاں دے کر سوتا تھا مگر اب کسی رات مجھے نیند نہیں آتی جب تک میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر درود نہ بھیج لوں۔ تو اب بتاؤ کہ وہ قابلِ قدر ہے جس کی قوم دنیا میں جارہی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر درود بھجوارہی ہے یا وہ گاندھی قابلِ قدر ہے جس کے چیلے آج چار کروڑ مسلمانوں کو ہندوستان میں دُکھ دے رہے ہیں۔ دیکھو کس کی پالیسی ٹھیک نکلی جنہوں نے انگریزوں کا مقابلہ کیا تھا وہ گاندھی اور اس کے چیلے تھے وہ تو آج بھی ہندوؤں کی تعریف کررہے ہیں اور ہندو ان کو مار رہے ہیں لیکن مسیح موعودؑ جس کوکہا جاتا ہے کہ اس نے انگریزوں کی تعریف کی اس کے چیلے ہر جگہ پر مسیحؑ کی ابنیت او رخدائی کا بطلان کررہے ہیں اور عیسائیوں کو مسلمان کررہے ہیں۔
مجھے یاد ہے مَیں بچہ تھا سیالکوٹ میں جلسہ ہوا جس میں حضرت صاحب کی تقریر ہوئی۔ بڑا ہجوم کرکے مسلمان آئے اور انہوں نے کہا کہ پتھر پھینکو اور ان کو خوب مارو۔اُس وقت مسٹر بیٹی ایک انگریز ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا بعد میں وہ شاید لاہور میں سپرنٹنڈنٹ پولیس ہوگیا تھا، وہ بھی انتظام کے لئے آیا ہوا تھا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقریر شروع کی اور لوگوں نے پتھربرسانے شروع کئے تو اس کو غصہ آگیا۔ وہ جگہ جہاں جلسہ ہورہا تھا سرائے تھی، اُس کی ایک بڑی سی دیوار تھی۔اُس دیوارپر وہ کُود کر چڑھ گیا اور کہنے لگا اے مسلمانو! بے غیر تو! بے حیاؤ! تمہیں شرم نہیں آتی وہ تو ہمارے خدا کو مار رہا ہے تم کیوں اس کے خلاف ہو؟ غصہ تو مجھے آنا چاہئیے تھا جس کے خدا کو وہ مارہا ہے تمہیں تو خوش ہونا چاہئیے تھا کہ انگریزوں کے خدا کو اس نے ماردیا ہے لیکن بجائے اس کے تم اس پر پتھر پھینک رہے ہو اور میں اس کی حفاظت کے لئے آیا ہوں۔
تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزوں کی خوشامد کرکے کیا لیا؟ انگریزوں کے خدا کو تو ماردیا مسلمانوں نے اس خدا کو آسمان پر چڑھایا تھا۔مرزا صاحبؑ نے آسمان سے اتار کے کشمیر میں دفن کردیا اور ابھی کہتے ہیں کہ انگریزوں کی خوشامد کی۔ دیکھو جو بچے کو خوش کرنا چاہے تو وہ اس کے باپ کی تعریف کرتا ہے۔ اگر واقع میں آپ انگریزوں کی خوشامد کرنا چاہتے تو عیسیٰؑ کی تعریف کرتے مگر انہوں نے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جو جھوٹی عزت عیسائیوں نے بنالی تھی اُس کی دھجیاں بکھیر دیں اور مسلمانوں نے فتویٰ لگایا کہ یہ عیسیٰؑ کی ہتک کرتا ہے۔ عجیب متضاد خیال ہیں۔ ایک طرف یہ الزام کہ عیسائیوں کی خوشامدکرتے ہیں اور دوسری طرف علماء کا یہ الزام کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک کرتا ہے۔ اَب دونوں میں سے کس کو سچا مانیں۔اُن کو سچا مانیں جو کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک کرتا ہے یا اِن کو سچا مانیں جو کہتے ہیں کہ عیسائیوں کی خوشامد کرتا ہے۔ وہ خوشامد کیا تھی؟ یہی تھی کہ اُن کی ملکہ کو اسلام کی تبلیغ کی۔ اورپھر آپ نے عربی میں ایک قصیدہ شائع کیا اور اس میں دعاکرتے ہوئے لکھا کہ اے خدا! اِن عیسائیوں کی دیواریں گرادے، ان کے قلعے گرادے، ان کی گڑھیاں9 گرا دے اور ان کے اوپر آسمان سے وہ عذاب مسلط کر کہ ان کے درودیوار ہل جائیں۔ اگر یہ تعریف ہوتی ہے تو تم بھی ذرا کسی مولوی کو کہو کہ وہ اَب یہی اعلان کرے جب کہ پاکستان کی گورنمنٹ ہے لیکن کسی کو جرأت نہیں۔ صرف ان باتوں کو لیتے ہیں جن باتوں کو سمجھنے کی قابلیت نہیں اور ان باتوں کو نہیں لیتے جو تعریف کی مستحق تھیں۔ آخر کسی قوم کی تعریف کیا اس طرح ہوسکتی ہے؟ کیا یہ بھی کوئی تعریف ہوتی ہے کہ خدایا! ان پر غضب نازل کر۔ خدایا! ان کے قلعوں کی دیواریں توڑ دے۔اے خدا! ان پر ایسی قوم کو حاکم بنادے جو ان کو ذلیل اور رسوا کردے۔ تو انہوں نے تو انگریزی حکومت کے تباہ ہونے کی دعا کی ہے انگریزوں کی تعریف کرنے کے کیا معنے ہوئے۔ اگر انگریزوں کی تعریف کی ہے تو اس طرح کی ہے جس طرح نجاشی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی تھی۔جس طرح مکہ کے بعض سرداروں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی تھی لیکن نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی اعتراض کرتا ہے اور نہ مسیح ناصری پر اعتراض کرتا ہے جس نے قیصر کی تعریف کی۔ بس لے دے کے ایک مرزا صاحب کی جان رہ گئی ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی اسلام کی خدمت میں صَرف کردی۔ بس ان کی زبانیں اس پر چل جاتی ہیں اس لئے کہ احمدی تھوڑے ہیں۔ مگر یہ تھوڑے نہیں رہیں گے یہ بڑھیں گے اور پھلیں گے اور اُس وقت تم کو نظر آئے گا کہ تم تھوڑے ہو اور احمدی زیادہ ہیں۔
اس کے بعد میں دعا کروں گا۔ آج کل اپنی بیماری کی وجہ سے میرے دل پر اتنا اثر ہے کہ جب کوئی جنازہ آتا ہے یا مسجد میں جنازہ پڑھاتا ہوں تواس جنازہ میں اپنے آپ کو بھی اورپیچھے جو لوگ کھڑے ہوتے ہیں اُن کو بھی شامل کرلیتا ہوں اور پھر ساری جماعت کو شامل کرتا ہوں۔ مُردوں کو بھی اور زندوں کو بھی کہ کبھی تو وہ مریں گے ہی اور کہتا ہوں کہ اے خدا! سب مُردوں کو بھی بخش اور ہم زندوں کو بھی بخش دے کہ ہم بھی کسی دن مرکے تیرے سامنے حاضر ہونے والے ہیں۔ تُو مجھ کو اور میرے پیچھے جو جنازہ پڑھ رہے ہیں ان کو بھی اور وہ ساری جماعت جو سارے پاکستان یا ہندوستان یا ہندوستان سے باہر پھیلی ہوئی ہے اور امریکہ اور یورپ میں پھیلی ہوئی ہے اُن سب کو معاف کر اور ان سب کے لئے اپنے فرشتوں کو حکم دے کہ جب وہ مریں تو وہ ان کے استقبال کے لئے آئیں او ران کو عزت کے ساتھ تیری جنت میں داخل کریں۔ اور کوئی وقت ایسا نہ آئے جب وہ گھبرائیں۔ ہر لخطہ اور ہر سیکنڈ تُو ان کے ساتھ رہیو اور مرنے کے وقت جو اکیلا ہونے او رتنہائی کا وقت آتا ہے وہ ان پر کبھی نہ آئے بلکہ ہمیشہ وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح یہ کہتے رہیں کہ اِنَّ اللہ معنا10۔خدا ہمارے ساتھ ہے ہم اکیلے کوئی نہیں۔ ہمارے بیوی بچے اگر چُھٹ گئے ہیں تو بیوی بچوں میں کیا طاقت تھی خدا ہم کو مل گیا ہے اور وہ ہمارے ساتھ ہے اور ہمارا سب سے زیادہ قریبی او رسب سے زیادہ ہمارامحبوب ہے۔ تو ہمیشہ ہر جنازہ میں مَیں ساری جماعت کو شامل کرلیتا ہوں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ایک دفعہ جنازہ پڑھایا تو فرمایا آج ساری جماعت جو پیچھے جنازہ پڑھ رہی تھی میں نے ان سب کا بھی جنازہ پڑھ دیا ہے۔ تو میں نے اس سنت کو دیکھ کر کہا کہ اَب تو جماعت بڑی پھیل گئی ہے اب تو اتنی جماعت نہیں رہی جو پیچھے کھڑی ہوتی۔وہ زمانہ تو ایسا تھا کہ تھوڑے احمدی تھے اس لئے اب مجھے چاہئیے کہ دنیا میں جہاں جہاں بھی احمدی ہیں اُن ساروں کو جنازہ میں شامل کرلیا کروں تاکہ جب بھی وہ مریں یہ جنازہ کی دعائیں ان کے کام آئیں اور اللہ تعالیٰ ان کا مدد گار ہو اور اگلے جہان میں ان کو سُکھ اور چین نصیب ہو اوراس دنیا میں ان کی اولاد دین کی خدمت کرنے والی ہو اور دنیا میں چاروں طرف پھیل کر اسلام کی روشنی کو پھیلائے۔
کل کی تقریر کے متعلق میں نے یہ تجویز کی ہے او رآئندہ کے لئے بھی انشاء اللہ اِس پر عمل کیا جائے گا کہ ایسی تقریروں کا امتحان لیا جائے گا اور ان پر انعام مقرر ہوا کرے گا۔ سو چونکہ تقریردیر سے چَھپتی ہے اس لئے میری یہ تجویز ہے کہ تقریر سے پہلے تمام دوست عام طور پر اور احمدی دوست خصوصاً پنسل او رکاغذ لیتے آئیں او رنوٹ کرلیں تاکہ جب وہ گھر جائیں تو ان کو چَھپنے کا انتظار نہ کرنا پڑے بلکہ اپنے نوٹوں کی مدد سے اسے یاد کرلیں اور جب امتحان ہو تو اس کا امتحان دیں۔جب وہ امتحان دیں گے تو جوان میں سے فرسٹ نکلے گا اس کوایک کتاب تذکرہ کی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں کی کتاب ہے اور ایک تفسیر کی جلد انعام دیں گے۔ اور جو سیکنڈ نکلے گا اس کو ایک تفسیر کی جلد اورایک سیر روحانی کی جلد دیں گے۔ اِسی طرح جو تھرڈ نکلے گا اس کو یا کوئی تفسیرکی جلد یا صرف سیر روحانی کی جلد دی جائیگی۔ اس طرح ہر سال الگ الگ انعام مقرر ہوتے چلے جائیں گے۔اس سال میں نے یہ اعلان کردیا ہے جو دوست لکھنا چاہتے ہیں وہ کل اپنے ساتھ پنسل اور کاغذ لے آئیں اور مختصر نوٹ لکھ لیں تاکہ ان کویاد کرسکیں او رجب جنوری یا فروری میں امتحان لیا جائے تو اُس وقت وہ صحیح طور پر جواب دے سکیں اور ان کو انتظار نہ کرنا پڑے کہ تقریر چھپے گی تو ہم امتحان دیں گے او رمضمون ان کے ذہن نشین ہوتا چلا جائے گا۔
جب پہلے زمانہ میں قادیان میں مَیں نے یہ کہا تھا تو دوست لکھا کرتے تھے۔ رات کے وقت جلسہ گاہ میں عجیب نظارہ ہوتا تھا۔ چاروں طرف دوست اپنے ساتھیوں کو موم بتیاں پکڑا دیتے تھے اور ان کی روشنی میں بیٹھے ہوئے نوٹ لکھتے تھے۔ اب تو خداتعالیٰ کے فضل سے بجلی کی روشنی بھی آگئی ہے۔اول تو میں بیمار ہوں لمبی تقریر نہیں کرسکتا لیکن اگر رات بھی ہوگئی تو بجلی کی روشنی میں دوست نوٹ لکھ سکتے ہیں۔ پھر فروری، مارچ میں جب امتحان ہوگا تو اُس وقت ان کو اس کا جواب دینا ہوگا۔
قادیان میں جلسہ سالانہ کے بعد جب لوگ جاتے تھے تو مجھے کئی دوستوں نے سنایا کہ ہم گھروں میں جاکر اپنی جماعتوں کو وہ تقریریں سناتے تھے تو اس طرح جماعتوں کو بڑی جلدی تقریریں پہنچ جاتی تھیں۔اَب بھی میں چاہتا ہوں کہ وہ طریق جاری ہوجائے تاکہ جب آپ لوگ جائیں تو اپنے گھروں میں ان نوٹوں کے ذریعہ سے وہ تقریر سنائیں اور کہیں کہ یہ تقریر ہم سن کے آئے ہیں۔چاہے ہم نے ساری نہیں لکھی پر جتنی لکھی ہے وہ تم سن لو۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کتاب پیچھے پہنچے گی اور تقریر پہلے پہنچ جائے گی۔ اور ان لوگوں کو بھی زیادہ سے زیادہ واقفیت ان خیالات سے ہوتی جائے گی جو اُن کا امام اِس وقت اُن تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اور پھر انعام کی جو عزت ہے اور سلسلہ کی کتابوں میں جو برکت ہے وہ بھی ان کو نصیب ہوجائے گی۔
اَب میں دعا کردیتا ہوں۔ باہر سے مختلف مشنوں کی تاریں آئی ہوئی ہیں۔ امریکہ سے بھی، یورپ سے بھی اور مشرقی ایشیا سے بھی۔ اِسی طرح انڈونیشیا اور سنگا پور وغیرہ سب جگہ سے تاریں آئی ہیں۔اور بورنیو سے بھی تار آئی ہے کہ ہمیں بھی دعاؤں میں یاد رکھا جائے۔ہندوستان سے بھی تاریں آئی ہیں اس لئے اپنے ہندوستان کے دوستوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھو۔انڈونیشیا کی جماعت کو بھی یاد رکھو او رافریقہ کی جماعتوں کو بھی جو مل کر پاکستان کے دوسرے نمبر پر بن جاتی ہیں کیونکہ کئی ممالک ہیں اگر ان کی ساری جماعتیں جمع کی جائیں تو غالباًپاکستان سے دوسرے نمبر پر ہوں۔تیسرے نمبر پر انڈونیشیا ہے اور چوتھے نمبر پر یورپ او رامریکہ کی جماعتیں اور مڈل ایسٹ کی جماعتیں مل کر بنتی ہیں۔ ان سب جماعتوں کی طرف سے تاریں آئی ہیں سو سب کے لئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور نصرت کرے۔ اور اس جلسہ میں بوجہ دوری کے جو شامل نہیں ہوسکے خداتعالیٰ اس جلسہ کی برکات اُن کو بھی دے۔ اور اللہ تعالیٰ رات کو جو اپنے فرشتے تم پر اتارے وہ اُن پر بھی اتارے او راللہ تعالیٰ کی حفاظت میں وہ آجائیں اوردن دونی اور رات چوگنی ترقی کا نظارہ دیکھیں۔ اور خدا کرے کہ جو ہمارے ملک میں جماعت ہے اس سے بھی ہزاروں گنا زیادہ وہاں جماعتیں ہوں۔اور ہماری جماعت جو یہاں ہے وہ اتنی بڑھ جائے کہ ہندوستان اور پاکستان کے چَپّہ چَپّہ پر پھیل جائے اور اس طرح اُن ممالک میں بھی جماعتیں پھیل جائیں۔ انڈونیشیا سے تارآئی ہے کہ ہمارا جلسہ سماٹرا میں قرار پایا تھا مگر سماٹرا میں بغاوت ہوگئی ہے اور وہاں کے فوجی گورنر نے حکومت خود سنبھال لی ہے۔اس لئے ہمیں جلسہ ملتوی کرنا پڑا بلکہ حالات ایسے خطرناک تھے کہ تار میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہم جہاز میں اس وقت سماٹرا جانے کے لئے سوار تھے اس وقت تک ہم سب خیریت سے ہیں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو آئندہ بھی خیریت سے رکھے۔ سو ان کے لئے بھی جو آئے ہیں۔ اور ان بھائیوں کیلئے بھی جو نہیں آئے یا نہیں آسکے۔ اور اپنی مستورات کے لئے بھی کہ جن کو بچوں کی وجہ سے رات کو زیادہ تکلیف پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو اَور بھی مضبوط کرے اور یہ تکلیف بجائے ان کے لئے ٹھوکر کا موجب ہونے کے ان کے ایمان میں زیادتی کا موجب ہو اور اللہ تعالیٰ اس جلسہ کے بعد ہم کو اتنی جلدی مزید ترقی بخشے کہ لاکھوں لاکھ لوگ احمدیت میں داخل ہوں۔ اور وہ دن آجائے کہ دشمن کو احمدیوں کی طرف غرور کے ساتھ انگل اٹھانے کا موقع نہ ملے بلکہ وہ استعجاب اور حیرت کے ساتھ احمدی جماعت کی ترقی کو دیکھے۔ اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم زیادہ ہوں تو ہمارے دل میں بھی تکبر پیدا نہ ہو۔ ہم یہ خیال نہ کریں کہ ہم زیادہ اور طاقتور ہیں بلکہ ہم یہ سمجھیں کہ ہم کوزیادہ جھکنے کا حکم ہے، زیادہ خدمت کا حکم ہے اور چپے چپے پر دنیا کے ہر غریب اور امیر کی ہم خدمت کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچا مومن بنائے۔صرف ظاہری مومن نہ بنائے۔ اور جتنا جتنا ہم بڑھتے جائیں اتنا ہی ہمارا سر خدا تعالیٰ کے آگے اور اس کے بندوں کی خدمت کے لئے جُھکتا چلا جائے۔
ایک کشمیر کے دوست کہتے ہیں کہ کشمیر کیلئے بھی دعا کرو کہ کشمیر پر خدا تعالیٰ فضل کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ پہلا آدم آیا اور شیطان نے اسے جنت سے نکال دیا اَب دوسرا آدم آیا ہے تاکہ لوگوں کو پھر جنت میں داخل کرے11 تو پہلا مسیحؑ کشمیر میں دفن ہوا تھا اَب دعا کرو کہ دوسرا مسیحؑ کشمیر میں زندہ ہو۔آمین’’
دعا کے بعد فرمایا:۔
‘‘اب میں جاتا ہوں پیچھے جلسہ شروع ہوگا۔دوست دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے کام کی توفیق دے۔ اس سردی میں میری طبیعت پچھلے سال سے بھی بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جو مضمون میں نے انتخاب کئے وہ اتنے لمبے ہوگئے کہ ان کی لمبائی کا خیال کرکے بھی دل کو گھبراہٹ ہوتی ہے۔ آخر دوستوں نے کہا کہ اپنے نفس پر جبر کرکے آپ صرف نوٹ پڑھ کر سنا دیں۔ پس دوست دعا کریں کہ دو دن جوباقی ہیں اور اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ مجھے ایسی صحت عطا کرے کہ میں اپنے خیالات کو اچھی طرح آپ لوگوں کے سامنے ادا کرسکوں۔ اور آپ لوگوں کو توفیق دے کہ آپ ان خیالات کو قبول کرسکیں او ران پر عمل کرسکیں۔ او رخداتعالیٰ کوئی بات میرے منہ سے ایسی نہ نکلوائے جو سچی نہ ہو۔ اور جب ہر سچ وہ نکلوائے تو کوئی بات ایسی نہ نکلوائے جو آپ کے دل میں جاکر نہ بیٹھ جائے اور فرشتے اس کو آپ کے دلوں میں مستحکم طور پر قائم نہ کر دیں۔ اور پھر ہر سچی بات جو میرے منہ سے نکلوائے اس سچ پر عمل کرنے کی ہمیشہ
ہمیش جماعت کو توفیق عطا فرمائے۔’’ (الفضل 17 مارچ 1957ء)
1 صحیح بخاری کتاب الجہاد و السیر باب یُکْرَہٗ مِنَ التَّنَازُعِ وَ الْاِخْتِلَافِ فِی الْحرب و عقوبۃ مَن عَصیٰ اِمَامَہٗ
2 صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر باب یُکْرَہٗ مِنَ التَّنَازُعِ وَالْاِخْتِلَافِ………… میں ‘‘ اَللہُ مَوْلَانَا وَ لَا مَوْلیٰ لکُمْ ’’ کے الفاظ ہیں۔
3 ابراہیم : 25
4 تذکرہ صفحہ 746۔ ایڈیشن چہارم
5 کور دیہہ/دِہ : پس ماندہ گاؤں ، کم آباد اور معمولی درجہ کا گاؤں، شہر سے دور اور بے رونق ۔ اجاڑ گاؤں جو روشنیوں سے محروم ہو۔ (اردو لغت تاریخی اصول پر۔ جلد15 صفحہ 338 اردو لغت بورڈ کراچی جون 1994ء)
6 طٰہٰ : 45
7 متی باب 22 آیت 22
8 الفیل : 2
9 گڑھیاں (گڑھی) گڑھ کی تصغیر : چھوٹا قلعہ ۔ کوٹلہ (اردو لغت تاریخی اصول پر جلد16 صفحہ 65۔ اردو لُغت بورڈ کراچی جون 1994ء)
10 التوبۃ : 40
11 صحیح بخاری کتاب المناقب بابُ عَلَامَاتِ النُّبُوَّۃِ فِی الْاِسْلَام
خلافت حقہ اسلامیہ
اور نظامِ آسمانی کی مخالفت
اور اُس کا پس منظر
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خلافتِ حقّہ اسلامیہ اور نظامِ آسمانی کی مخالفت
اور اُس کا پس منظر
(فرمودہ27دسمبر1956ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘آج کی تقریر عام طورپر عام مسائل پر ہوا کرتی تھی لیکن اس دفعہ فتنہ کی وجہ سے مجھے اس تقریر کے لئے بھی ایک ایسا موضوع چُننا پڑا جو اِس زمانہ میں جماعت احمدیہ کے لئے اس وجہ سے کہ اس کا تعلق خلافتِ احمدیہ سے ہے اور جماعت احمدیہ میں جولوگ شامل نہیں ان کے لئے اسلئے کہ اِس میں ایک اسلامی موضوع بیان ہوا ہے نہایت اہمیت رکھنے والا ہے۔ اور دوسرے اس لئے بھی میں نے اسے چُنا ہے کہ اگر وہ ہمارے اندر فتنہ پیدا ہونے سے خوش ہوتے ہیں تو اَور بھی خوش ہو جائیں او رساری تفصیل اُن کو معلوم ہوجائے۔لیکن اس کی تفصیلات اتنی ہوگئی ہیں کہ میں حیران ہوں کہ اس مضمون کو کس طرح بیان کروں۔ بعض دوستوں نے مشورہ دیا ہے کہ اس کے بعض حصوں میں مَیں صرف نوٹ پڑھ کر سنادوں۔پہلے میری عادت تھی کہ باریک نوٹ چھوٹے کاغذ پر آٹھ یا بارہ صفحے کے لکھے ہوئے ہوتے تھے،حد سے حد سولہ صفحے کے،بعض بہت لمبی لمبی پانچ پانچ چھ چھ گھنٹہ کی تقریریں ہوئیں تو ان میں چوبیس صفحہ کے بھی نوٹ ہوتے تھے،لیکن وہ ایسے صفحے ہوتے ہیں کہ ایک فل سکیپ سائز کے کاغذ کے آٹھ صفحے بنتے ہیں۔مگر اس دفعہ یہ نوٹ بہت لمبے ہوگئے ہیں۔دوستوں نے مشورہ دیا ہے کہ میں وہ نوٹ ہی پڑھ کرسنادوں،گو بعض دوسروں نے کہا ہے کہ آپ پڑھ کر سنا ہی نہیں سکتے،جب پڑھ کے سنانے لگیں گے تو کچھ نہ کچھ اپنی باتیں شروع کردیں گے اس طرح تقریر لمبی ہوجائیگی۔گو یہ ہوسکتا ہے کہ بعض حصے جو رہ جائیں اُن کو بعد میں شائع کردیا جائے مگر مناسب یہی ہے کہ احباب جو جمع ہوئے ہیں اُن تک مضمون میری زبان سے پہنچ جائے۔اس لئے جہاں بھی ایسا موقع آیا کہ مجھے معلوم ہوا کہ مضمون لمباہو رہا ہے تو میں صرف نوٹ پڑھ کے سنا دوں گا تاکہ اِس جلسہ میں یہ تقریر ختم ہوجائے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ 1
اس آیت کے متعلق تمام پچھلے مفسّرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت خلافتِ اسلامیہ کے متعلق ہے۔اِسی طرح صحابۂ کرام (رَضْوَانُ اللہ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنَ) اور کئی خلفاء راشدین بھی اس کے متعلق گواہی دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنی کتابوں میں اس آیت کو پیش کیا ہے او ربتایا ہے کہ یہ آیت خلافتِ اسلامیہ کے متعلق ہے۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اے خلافتِ حقّہ اسلامیہ پر ایمان رکھنے والے مومنو!(چونکہ یہاں خلافت کا ذکر ہے اس لئے اٰمَنُوْا میں ایمان لانے سے مراد ایمان بالخلافت ہی ہوسکتا ہے۔پس یہ آیت مبائعین کے متعلق ہے، غیرمبائعین کے متعلق نہیں کیونکہ وہ خلافت پر ایمان نہیں رکھتے)اے خلافتِ حقّہ اسلامیہ کوقائم رکھنے اور اس کے حصول کے لئے کوشش کرنے والو!تم سے اللہ ایک وعدہ کرتا ہے او روہ یہ ہے کہ ہم تم میں سے زمین میں اُسی طرح خلفاء بناتے رہیں گے جس طرح تم سے پہلے لوگوں کو خلفاء بنایا۔ اور ہم اُن کے لئے اِسی دین کو جاری کریں گے جو ہم نے اُنکے لئے پسند کیا ہے۔ یعنی جو ایمان او رعقیدہ ان کا ہے وہی خدا کو پسندیدہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اسی عقیدہ او رطریق کو دنیا میں جاری رکھے گا۔ اور اگر اُن پر کوئی خوف آیا تو ہم اس کو تبدیل کرکے امن کی حالت لے آئیں گے۔لیکن ہم بھی اُن سے اُمید کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ توحید کو دنیا میں قائم کریں گے او رشرک نہیں کریں گے۔ یعنی مشرک مذاہب کی تردید کرتے رہیں گے اور اسلام کی توحیدِ حقّہ کی اشاعت کرتے رہیں گے۔
خلافت کے قائم ہونے کے بعد خلافت پر ایمان لانے والے لوگوں نے خلافت کو ضائع کردیا توفرماتا ہے مجھ پر الزام نہیں ہوگا۔اس لئے کہ میں نے ایک وعدہ کیا ہے اورشرطیہ وعدہ کیا ہے۔اس خلافت کے ضائع ہونے پر الزام تم پر ہو گا۔ میں اگر پیشگوئی کرتا تو مجھ پر الزام ہوتا کہ میری پیشگوئی جھوٹی نکلی۔مگر میں نے پیشگوئی نہیں کی بلکہ میں نے تم سے وعدہ کیا ہے اور شرطیہ وعدہ کیا ہے کہ اگر تم مومن بالخلافۃ ہو گے اور اس کے مطابق عمل کروگے تو پھرمیں خلافت کو تم میں قائم رکھوں گا۔پس اگر خلافت تمہارے ہاتھوں سے نکل گئی تو یاد رکھو کہ تم مومن بالخلافۃ نہیں رہو گے کافر بالخلافۃ ہوجاؤ گے۔ اور نہ صرف خلفاء کی اطاعت سے نکل جاؤ گے بلکہ میری اطاعت سے بھی نکل جاؤ گے اور میرے بھی باغی بن جاؤ گے۔
خلافتِ حقّہ اسلامیہ کے عنوان کی وجہ
میں نے اس مضمون کا ہیڈنگ ''خلافتِ حقّہ اسلامیہ'' اس لئے رکھا ہے کہ جس طرح موسوی زمانہ میں خلافتِ موسویہ یہودیہ دو حصوں میں تقسیم تھی ایک دَور
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لے کرحضرت عیسٰی السلام تک تھا اور ایک دَور حضرت عیسٰی علیہ السلام سے لے کر آج تک چلا آرہا ہے۔اِسی طرح اسلام میں بھی خلافت کے دو دَور ہیں،ایک دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شروع ہوا اور اُس کی ظاہری شکل حضرت علیؓ پر ختم ہوگئی۔اور دوسرا دَور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اوّل سے شروع ہوا۔اور اگر آپ لوگوں میں ایمان اور عملِ صالح قائم رہا او رخلافت سے وابستگی پختہ رہی تو انشاء اللہ یہ دَور قیامت تک قائم رہے گا۔
جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کی تشریح میں مَیں ثابت کر چکا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایمان بالخلافۃ قائم رہا اور خلافت کے قیام کے لئے تمہاری کوشش جاری رہی تو میرا وعدہ ہے کہ تم میں سے(یعنی مومنوں میں سے اور تمہاری جماعت میں سے)میں خلیفہ بناتا رہوں گا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے متعلق احادیث میں تصریح فرمائی ہے۔آپ فرماتے ہیں''مَاکَانَتْ نُبُوَّۃٌ قَطُّ اِلَّا تَبِعَتْھَا خِلَافَۃٌ۔''2 کہ ہرنبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے او رمیرے بعد بھی خلافت ہوگی۔ اس کے بعد ظالم حکومت ہوگی۔پھر جابر حکومت ہوگی یعنی غیر قومیں آکر مسلمانوں پر حکومت کریں گی جو زبردستی مسلمانوں سے حکومت چھین لیں گی۔اس کے بعد فرماتے ہیں کہ پھر خلافت عَلٰی منھاج النّبوّۃ ہوگی۔ یعنی جیسے نبیوں کے بعد خلافت ہوتی ہے ویسی ہی خلافت پھر جاری کردی جائیگی۔3
نبیوں کے بعدخلافت کا ذکر قرآن کریم میں دو جگہ آتا ہے۔ایک تو یہ ذکر ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے بعد خداتعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خلافت اس طرح دی کہ کچھ ان میں سے موسیٰ علیہ السلام کے تابع نبی بنائے اورکچھ اُن میں سے بادشاہ بنائے4۔اب نبی اور بادشاہ بنانا تو خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے ہمارے اختیار میں نہیں۔لیکن جو تیسرا امر خلافت کا ہے اور اس حیثیت سے کہ خدا تعالیٰ بندوں سے کام لیتا ہے ہمارے اختیار میں ہے۔ چنانچہ عیسائی اس کے لئے انتخاب کرتے ہیں اور اپنے میں سے ایک شخص کو بڑا مذہبی لیڈر بنا لیتے ہیں جس کانام وہ پوپ رکھتے ہیں۔گوپوپ اور پوپ کے متبعین ا ب خراب ہوگئے ہیں مگر اس سے یہ خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ پھر اُن سے مشابہت کیوں دی؟ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْجس طرح پہلے لوگوں کو میں نے خلیفہ بنایا تھا اسی طرح میں تمہیں خلیفہ بناؤ ں گا۔یعنی جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ میں خلافت قائم کی گئی تھی اُسی طرح تمہارے اندر بھی اس حصہ میں جو موسوی سلسلہ کے مشابہہ ہوگا میں خلافت قائم کروں گا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت براہ راست چلے گی۔ پھر جب مسیح موعودؑ آجائے گا تو جس طرح مسیح ناصریؑ کے سلسلہ میں خلافت چلائی گئی تھی اُسی طرح تمہارے اندر بھی چلاؤں گا۔مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ موسیٰ کے سلسلہ میں مسیحؑ آیا اور محمدی سلسلہ میں بھی مسیح آیا مگر محمدی سِلسلہ کا مسیح پہلے مسیح سے افضل ہے اس لئے وہ غلطیاں جو انہوں نے کیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسیح محمدؐی کی جماعت نہیں کرے گی۔انہوں نے خدا کو بُھلادیا اور خداتعالیٰ کو بُھلا کر ایک کمزور انسان کو خدا کا بیٹا بناکرا ُسے پوجنے لگ گئے۔مگر محمدی مسیحؑ نے اپنی جماعت کو شرک کے خلاف بڑی شدت سے تعلیم دی۔بلکہ خود قرآن کریم نے کہہ دیا ہے کہ اگر تم خلافت حاصل کرنا چاہتے ہوتو پھر شرک کبھی نہ کرنا اور میری خالص عبادت کو ہمیشہ قائم رکھنا جیسا کہ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا میں اشارہ کیا گیاہے۔
پس اگر جماعت اس کو قائم رکھے گی تبھی وہ انعام پائے گی۔اور اس کی صورت یہ بن گئی ہے کہ قرآنِ کریم نے بھی شرک کے خلافت اتنی تعلیم دی کہ جس کا ہزارواں حصہ بھی انجیل میں نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی شرک کے خلاف اتنی تعلیم دی ہے جو حضرت مسیحؑ ناصری کی موجود تعلیم میں نہیں پائی جاتی۔پھر آپ کے الہاموں میں بھی یہ تعلیم پائی جاتی ہے۔چنانچہ آپ کا الہام ہےخُذُوا التَّوْحِیْدَ اَلتَّوْحِیْدَ یَا اَبْنَاءَ الْفَارِسِ5
اے مسیح موعود اور اُس کی ذرّیت!توحید کو ہمیشہ قائم رکھو۔ سو اِس سلسلہ میں خدا تعالیٰ نے توحید پر اتنا زور دیا ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے اور قرآنی تعلیم پرغور کرتے ہوئے یہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالےٰ اپنے فضل سے توحیدِ کامل احمدیوں میں قائم رکھے گا۔اور اس کے نتیجہ میں خلافت بھی ان کے اندر قائم رہے گی اور وہ خلافت بھی اسلام کی خدمت گذار ہوگی۔حضرت مسیحؑ ناصری کی خلافت کی طرح وہ خود اس کے اپنے مذہب کو توڑنے والی نہیں ہوگی۔
جماعت احمدیہ میں خلافت قائم رہنے کی بشارت
میں نے بتایا ہے کہ جس طرح قرآن کریم نے کہا ہے کہ خلیفے ہوں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ میرے بعد خلیفے ہوں گے۔
پھر مُلْکًا عَاضًا ہوگا۔پھر ملک جبریّہ ہوگا۔اور اُس کے بعد خَلَافَۃٌ علٰی مِنْھَاجِ النَّبُوَّۃِ ہوگی ۔اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنّت میں الوصیت میں تحریر فرمایا ہے کہ
''اے عزیزو!جب کہ قدیم سے سنّت اللہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلاوے۔سو اَب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کردیوے۔اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہوجائیں۔کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کاسلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔''6
یعنی اگر تم سیدھے رستہ پر چلتے رہو گے تو خدا کا مجھ سے وعدہ ہے کہ جو دوسری قدرت یعنی خلافت تمہارے اندر آوے گی وہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگی۔
عیسائیوں کو دیکھو گو جھوٹی خلافت ہی سہی 1900 سال سے وہ اس کو لئے چلے آرہے ہیں۔مگر مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کو ابھی 48 سال ہوئے تو کئی بلّیاں چھیچھڑوں کی خوابیں دیکھنے لگیں اور خلافت کو توڑنے کی فکر میں لگ گئیں۔
پھر فرماتے ہیں کہ:-
''تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہوکر دُعائیں کرتے رہو۔''7
سو تم کو بھی چاہئیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے ماتحت دعائیں کرتے رہو کہ اے اللہ!ہم کو مومن بالخلافت رکھیئو اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دیجیئو۔اورہمیں ہمیشہ اس بات کا مستحق رکھیئو کہ ہم میں سے خلیفے بنتے رہیں۔اور قیامت تک یہ سِلسلہ جاری رہے تاکہ ہم ایک جھنڈے کے نیچے کھڑے ہوکر اور ایک صف میں کھڑے ہوکر اسلام کی جنگیں ساری دنیا سے لڑتے رہیں اور پھر ساری دنیاکوفتح کرکے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں گرادیں۔کیونکہ یہی ہمارے قیام اور مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض ہے۔
قدرتِ ثانیہ سے مُراد خلافت ہے
یہ جو میں نے''قدرت ثانیہ''کے معنے خلافت کے کئے ہیں یہ ہمارے ہی نہیں بلکہ غیر مبائعین نے بھی اس کو تسلیم کیا ہوا ہے۔چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب لکھتے ہیں:۔
''حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیۃ کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صدرانجمن احمدیہ موجودہ قادیان واقرباء حضرت مسیح موعودؑ بہ اجازت حضرت (اماں جان) کُل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اُس وقت بارہ سو تھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سَلَّمَہٗ کو آپؑ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا۔اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی...... یہ خط بطور اطلاع کُل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے۔''الخ8
یہ خط ہے جو انہوں نے شائع کیا۔اس میں مولوی محمد علی صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب وغیرہ کا بھی انہوں نے ذکر کیا ہے کہ معتمدین میں سے وہ اس موقع پر موجود تھے۔اور انہوں نے حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت کی۔سو ان لوگوں نے اس زمانہ میں یہ تسلیم کرلیا کہ یہ جو''قدرت ثانیہ''کی پیشگوئی تھی یہ''خلافت'' کے متعلق تھی کیونکہ الوصیۃ میں سوائے اس کے اور کوئی ذکر نہیں کہ تم''قدرت ثانیہ'' کے لئے دعائیں کرتے رہو۔ اور خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ مطابق حکم الوصیۃ ہم نے بیعت کی۔پس خواجہ صاحب کااپنا اقرار موجود ہے کہ الوصیۃ میں جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ ''خلافت''کے متعلق تھی اور''قدرت ثانیہ'' سے مراد''خلافت'' ہی ہے۔پس حضرت خلیفہ اوّل کے ہاتھ پر خواجہ کمال الدین صاحب،مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں کا بیعت کرنا اور اسی طرح میرا اور تمام خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیعت کرنا اِس بات کا ثبوت ہے کہ تمام جماعت احمدیہ نے بالاتفاق خلافتِ احمدیہ کااقرار کرلیا۔پھر حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اوّل کے تمام خاندان اور جماعت احمدیہ کے ننانوے فیصدی افراد کا میرے ہاتھ پر بیعت کرلینا اس بات کا مزید ثبوت ہوا کہ جماعت احمدیہ اس بات پر متفق ہے کہ''خلافت احمدیہ'' کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
آئندہ انتخابِ خلافت کے متعلق طریق کار
چونکہ اِس وقت حضرت خلیفہ اوّل کے خاندان میں سے بعض نے اور اُن کے دوستوں نے خلافتِ احمدیہ کا سوال پھر اُٹھایا ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا
کہ اس مضمون کے متعلق پھر کچھ روشنی ڈالوں اور جماعت کے سامنے ایسی تجاویز پیش کروں جن سے خلافت احمدیہ شرارتوں سے محفوظ ہوجائے۔
میں نے اس سے پہلے جماعت کے دوستوں کے مشورہ کے بعد یہ فیصلہ کیاتھا کہ خلیفۂ وقت کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ کی مجلس شوریٰ دوسرا خلیفہ چنے ۔مگرموجودہ فتنہ نے بتادیا ہے کہ یہ طریق درست نہیں۔کیونکہ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ ہم خلیفہ ثانی کے مرنے کے بعد بیعت میاں عبدالمنان کی کریں گے اَور کسی کی نہیں کریں گے۔اس سے پتہ لگا کہ ان لوگوں نے یہ سمجھا کہ صرف دو تین آدمی ہی اگر کسی کی بیعت کرلیں تو وہ خلیفہ ہوجاتا ہے۔اور پھر اس سے یہ بھی پتہ لگا کہ جماعت میں خلفشار پیدا ہوسکتا ہے۔چاہے وہ خلفشار پیدا کرنے والا غلام رسول نمبر35 جیسا آدمی ہو اور خواہ وہ ڈاہڈا جیسا گمنام آدمی ہی ہو۔وہ دعویٰ تو یہی کریں گے کہ خلیفہ چُنا گیا ہے۔سوجماعت احمدیہ میں پریشانی پیدا ہوگی۔اس لئے وہ پرانا طریق جو طُولِ عمل والا ہے میں اس کو منسوخ کرتا ہوں اور اس کی بجائے میں اس سے زیادہ قریبی طریقہ پیش کرتا ہوں۔
بیشک ہمارا دعویٰ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔مگر اس کے باوجود تاریخ کی اس شہادت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلیفے شہید بھی ہوسکتے ہیں۔جس طرح حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ شہید ہوئے۔ اور خلافت ختم بھی کی جاسکتی ہے جس طرح حضرت حسنؓ کے بعد خلافت ختم ہوگئی۔جو آیت میں نے اِس وقت پڑھی ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں خلافت قائم رکھنے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ مشروط ہے کیونکہ مندرجہ بالا آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلافت پر ایمان لانے والوں اور اس کے قیام کے لئے مناسب حال عمل کرنے والے لوگوں سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ ان میں خلافت کو قائم رکھے گا۔پس خلافت کا ہونا ایک انعام ہے پیشگوئی نہیں۔ اگر پیشگوئی ہوتا تو حضرت امام حسنؓ کے بعد خلافت کا ختم ہونا نعوذ باللہ قرآن کریم کو جھوٹا قرار دیتا۔لیکن چونکہ قرآن کریم نے اس کو ایک مشروط انعام قرار دیا ہے۔اس لئے اب ہم یہ کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت امام حسنؓ کے زمانہ میں عام مسلمان کامل مومن نہیں رہے تھے اور خلافت کے قائم رکھنے کے لئے صحیح کوشش انہوں نے چھوڑ دی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس انعام کو واپس لے لیا اور باوجود خلافت کے ختم ہو جانے کے قرآن سچا رہا جھوٹا نہیں ہوا۔وہی صورت اب بھی ہوگی۔اگر جماعت احمدیہ خلافت کے ایمان پر قائم رہی اور اس کے قیام کے لئے صحیح جدو جہد کرتی رہی تو اس میں بھی قیامت تک خلافت قائم رہے گی۔جس طرح عیسائیوں میں پوپ کی شکل میں اب تک قائم ہے گو وہ بگڑ گئی ہے میں نے بتا دیا ہے کہ اس کے بگڑنے کا احمدیت پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا۔مگر بہرحال اس فساد سے اتنا پتہ لگ جاتا ہے کہ شیطان ابھی مایوس نہیں ہوا۔پہلے تو شیطان نے پیغامیوں کی جماعت بنائی۔لیکن بیالیس سال کے انتظار کے بعد اس باسی کڑھی میں پھر اُبال آیااور وہ بھی لگے مولوی عبدالمنان اور عبدالوہاب کی تائید میں مضمون لکھنے اور ان میں سے ایک شخص محمد حسن چیمہ نے بھی ایک مضمون شائع کیا ہے کہ ہمارا نظام اور ہمارا سٹیج اور ہماری جماعت تمہاری مدد کے لئے تیار ہے۔ شاباش! ہمت کرکے کھڑے رہو۔مرزا محمود سے دبنا نہیں۔اس کی خلافت کے پردے چاک کرکے رکھ دو۔ہماری مدد تمہارے ساتھ ہے۔کوئی اس سے پوچھے کہ تم نے مولوی محمد علی صاحب کو کیا مدد دے لی تھی۔آخر مولوی محمد علی صاحب بھی تو تمہارے لیڈر تھے۔ خواجہ کمال الدین صاحب بھی لیڈر تھے اُن کی تم نے کیا مدد کر لی تھی جو آج عبدالمنان اور عبدالوہاب کی کرلوگے۔پس یہ باتیں محض ڈھکوسلے ہیں۔ان سے صرف ہم کو ہوشیار کیا گیا ہے۔خداتعالیٰ نے بتایا ہے کہ مطمئن نہ ہوجانا اور یہ نہ سمجھنا کہ خدا تعالیٰ چونکہ خلافت قائم کیا کرتا ہے اس لئے کوئی ڈر کی بات نہیں ہے تمہارے زمانہ میں بھی فتنے کھڑے ہورہے ہیں اور اسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی فتنے کھڑے ہوئے تھے۔اس لئے خلافت کو ایسی طرز پر چلاؤ جو زیادہ آسان ہو۔اور کوئی ایک دو لفنگے اُٹھ کر اَور کسی کے ہاتھ پر بیعت کرکے یہ نہ کہہ دیں کہ چلو خلیفہ مقرر ہوگیا ہے۔
پس اسلامی طریق پر جو کہ میں آگے بیان کروں گا آئندہ خلافت کے لئے میں یہ قاعدہ منسوخ کرتا ہوں کہ شوریٰ انتخاب کرے۔ بلکہ میں یہ قاعدہ مقرر کرتا ہوں کہ آئندہ جب کبھی خلافت کے انتخاب کا وقت آئے تو صدر انجمن احمدیہ کے ناظر اور ممبر اور تحریک جدید کے وکلاء اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے زندہ افراد اور اب نظر ثانی کرتے وقت مَیں یہ بات بھی بعض دوستوں کے مشورہ سے زائد کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ بھی جن کو فوراً بعد تحقیقات صدر انجمن احمدیہ کو چاہیئے کہ صحابیت کا سرٹیفکیٹ دے دے اور جامعۃ المبشرین کے پرنسپل اور جامعہ احمدیہ کا پرنسپل اور مفتی سلسلہ احمدیہ اور تمام جماعتہائے پنجاب اور سندھ کے ضلعوں کے امیر او رمغربی پاکستان او رکراچی کاامیراور مشرقی پاکستان کا امیر مل کر اس کا انتخاب کریں۔
اسی طرح نظر ثانی کرتے وقت میں یہ امر بھی بڑھاتا ہوں کہ ایسے سابق امراء جو دو دفعہ کسی ضلع کے امیرے رہے ہوں۔گو انتخاب کے وقت بوجہ معذوری کے امیرنہ رہے ہوں وہ بھی اس لِسٹ میں شامل کئے جائیں۔اِسی طرح ایسے تمام مبلّغ جو ایک سال تک غیر ملک میں کام کرآئے ہیں۔اور بعد میں سلسلہ کی طرف سے اُن پر کوئی الزام نہ آیاہو۔ایسے مبلغوں کی لسٹ شائع کرنا مجلس تحریک کا کام ہوگا۔اِسی طرح ایسے مبلّغ جنہوں نے پاکستان کے کسی ضلع یا صوبہ میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم سے کم ایک سال کام کیا ہو۔ان کی فہرست بنانا صدرا نجمن احمدیہ کے ذمہ ہوگا۔
مگر شرط یہ ہوگی کہ اگر وہ موقع پر پہنچ جائیں۔سیکرٹری شوریٰ تمام ملک میں اطلاع دے دے کہ فوراً پہنچ جاؤ۔اس کے بعد جو نہ پہنچے اس کا اپنا قصور ہوگا اور اس کی غیر حاضری خلافت کے انتخاب پر اثر انداز نہیں ہوگی۔نہ یہ عذر سُنا جائے گا کہ وقت پر اطلاع شائع نہیں ہوئی۔یہ ان کا اپنا کام ہے کہ وہ پہنچیں۔سیکرٹری شوریٰ کاکام اُن کو لانا نہیں ہے۔اس کا کام صرف یہ ہوگا کہ وہ ایک اعلان کردے۔اور اگر سیکرٹری شوریٰ کہے کہ میں نے اعلان کردیا تھا تو وہ انتخاب جائز سمجھا جائے گا۔ان لوگوں کا یہ کہہ دینا یا ان میں سے کسی کا یہ کہہ دینا کہ مجھے اطلاع نہیں پہنچ سکی اس کی کوئی وقعت نہیں ہوگی نہ قانوناً نہ شرعاً۔یہ سب لوگ مل کر جوفیصلہ کریں گے وہ تمام جماعت کے لئے قابلِ قبول ہوگا۔اور جماعت میں سے جو شخص اس کی مخالفت کرے گا وہ باغی ہوگا۔اور جب بھی انتخابِ خلافت کا وقت آئے اور مقررہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چُنا جائے میں اُس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چنا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوگا۔او رجو بھی اس کے مقابل میں کھڑا ہوگا وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو ذلیل کیاجائے گااور تباہ کیا جائے گا کیونکہ ایسا خلیفہ صرف اس لئے کھڑا ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورا کرے کہ خلافت اسلامیہ ہمیشہ قائم رہے۔پس چونکہ وہ قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں کو پورا کرنے کے لئے کھڑا ہوگا اس لئے اُسے ڈرنا نہیں چاہئیے۔
جب مجھے خلیفہ چنا گیا تھا تو سلسلہ کے بڑے بڑے لیڈر سارے مخالف ہوگئے تھے اور خزانہ میں کل اٹھارہ آنے تھے۔اب تم بتاؤ اٹھارہ آنے میں ہم تم کو ایک ناشتہ بھی دے سکتے ہیں؟پھر خداتعالیٰ تم کو کھینچ کر لے آیا۔اور یا تو یہ حالت تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر صرف بارہ سو آدمی جمع ہوئے تھے اور یا آج کی رپورٹ یہ ہے کہ ربوہ کے آدمیوں کو ملاکر اس وقت جلسہ مردانہ اور زنانہ میں پچپن ہزارتعداد ہے۔آج رات کو تینتالیس ہزار مہمانوں کو کھاناکھِلایا گیا ہے۔بارہ ہزار ربوہ والے ملالئے جائیں تو پچپن ہزار ہوجاتا ہے۔پس عورتوں اور مردوں کو ملاکر اس وقت ہماری تعداد پچپن ہزار ہے۔اُس وقت بارہ سو تھی۔یہ پچپن ہزار کہاں سے آئے؟خدا ہی لایا۔پس میں ایسے شخص کوجس کو خداتعالیٰ خلیفۂ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خداتعالیٰ پر ایمان لاکر کھڑا ہوجائے گا تو منّان، وہاب اور پیغامی کیا چیز ہیں اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائیں گی جماعت احمدیہ کو حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔جماعت احمدیہ کو خداکی خلافت سے تعلق ہے۔ اوروہ خدا کی خلافت کے آگے اور پیچھے لڑے گی اور دنیا میں کسی شریر کو جو کہ خلافت کے خلاف ہے خلافت کے قریب بھی نہیں آنے دے گی۔
اب یہ دیکھ لو۔ابھی تم نے گواہیاں سن لی ہیں کہ عبدالوہاب احراریوں کو مل کر قادیان کی خبریں سنایا کرتا تھا اور پھر تم نے یہ بھی سن لیا ہے کہ کس طرح پیغامیوں کے ساتھ ان لوگوں کے تعلقات ہیں۔سواگر خدانخواستہ ان لوگوں کی تدبیر کامیاب ہوجائے تو اس کے معنے یہ تھے کہ بیالیس سال کی لڑائی کے بعد تم لوگ احراریوں اور پیغامیوں کے نیچے آجاتے۔تم بظاہر اس کو چھوٹی بات سمجھتے ہو لیکن یہ چھوٹی بات نہیں۔یہ ایک بہت بڑی بات ہے۔اگر خدانخواستہ ان کی سکیم کامیاب ہوجاتی تو جماعت احمدیہ مبائعین ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی۔اور اس کے لیڈر ہوتے مولوی صدرالدین اور عبدالرحمن مصری۔اور ان کے لیڈر ہوتے مولوی داؤد غزنوی اور عطاء اللہ شاہ بخاری۔ اب تم بتاؤ کہ مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری اور داؤد غزنوی اگر تمہارے لیڈر ہوجائیں تو تمہارا دنیا میں کوئی ٹھکانہ رہ جائے؟تمہارا ٹھکانہ تو تبھی رہتا ہے جب مبائعین میں سے خلیفہ ہواور قرآن مجید نے شرط لگائی ہے مِنْکُمْ کی۔یعنی وہ مبائعین میں سے ہونا چاہیئے۔اس پر کسی غیر مبائع یا احراری کا اثر نہیں ہونا چاہئیے۔اگر غیر مبائع کا اور احراری کا اثر ہو تو پھر وہ نہ مِنْکُمْ ہوسکتاہے نہ خلیفہ ہوسکتا ہے۔
پس ایک تو میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ جب بھی وہ وقت آئے آخر انسان کے لئے کوئی دن آنا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ابھی میں نے حوالہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنی موت کی خبر دی اور فرمایا پریشان نہ ہو کیونکہ خداتعالیٰ دوسری قدرت ظاہر کرنا چاہتا ہے۔سو دوسری قدرت کا اگر تیسرا مظہر وہ ظاہر کرنا چاہے تو اُس کوکون روک سکتا ہے۔ہرانسان نے آخر مرنا ہے مگر میں نے بتایا ہے کہ شیطان نے بتادیا ہے کہ ابھی اس کا سر نہیں کچلا گیا۔وہ ابھی تمہارے اندر داخل ہونے کی اُمید رکھتا ہے''پیغامِ صلح'' کی تائید اور محمد حسن چیمہ کا مضمون بتاتا ہے کہ ابھی مارے ہوئے سانپ کی دُم ہل رہی ہے۔پس اُس کو مایوس کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ یہ نہ رکھا جائے کہ ملتان اور کراچی اور حیدر آباداور کوئٹہ اور پشاور سب جگہ کے نمائندے جو پانچ سو کی تعداد سے زیادہ ہوتے ہیں وہ آئیں تو انتخاب ہو۔ بلکہ صرف ناظروں اور وکیلوں اور مقررہ اشخاص کے مشورہ کے ساتھ اگر وہ حاضر ہوں خلیفہ کا انتخاب ہوگا۔ جس کے بعد جماعت میں اعلان کردیا جائے گا اور جماعت اس شخص کی بیعت کرے گی۔ اس طرح وہ حکم بھی پورا ہوجائے گا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور وہ حکم بھی پورا ہوجائے گا کہ وہ ایسا مومنوں کے ہاتھ سے کرتا ہے۔درحقیقت خلافت کوئی ڈنڈے کے ساتھ تو ہوتی نہیں۔مرضی سے ہوتی ہے۔اگر تم لوگ ایک شخص کو دیکھو کہ وہ خلافِ قانون خلیفہ بن گیا ہے اور اس کے ساتھ نہ ہوتو آپ ہی اس کو نہ آمدن ہوگی نہ کام کرسکے گا ختم ہوجائے گا۔اسی لئے یہ کہا گیا ہے کہ خداتعالیٰ نے یہ چیز اپنے اختیار میں رکھی ہے لیکن بندوں کے توسّط سے رکھی ہے۔ اگر صحیح انتخاب نہیں ہوگا تو تم لوگ کہو گے کہ ہم تو نہیں مانتے۔جو انتخاب کا طریق مقرر ہوا تھا اس پر عمل نہیں ہوا۔تو پھر وہ آپ ہی ہٹ جائے گا۔اور اگر خدا نے اُسے خلیفہ بنایا تو تم فوراً اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوجاؤ گے جس طرح1914ء میں رائے بدلنے پر مجبور ہوگئے تھے۔اور جوق درجوق دوڑتے ہوئے اُس کے پاس آؤ گے اور اس کی بیعتیں کرو گے۔مجھے صرف اتنا خیال ہے کہ شیطان کے لئے دروازہ نہ کھلا رہے۔اس وقت شیطان نے حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹوں کو چُنا ہے جس طرح آدم کے وقت میں اُس نے درختِ حیات کو چُنا تھا۔اُس وقت بھی شیطان نے کہا تھا کہ آدم!میں تمہاری بھلائی کرنا چاہتا ہوں۔میں تم کو اس درخت سے کھانے کو کہتا ہوں کہ جس کے بعد تم کو وہ بادشاہت ملے گی جو کبھی خراب نہیں ہوگی۔اور ایسی زندگی ملے گی جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔سو اب بھی لوگوں کو شیطان نے اسی طرح دھوکا دیا ہے کہ لوجی!حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹوں کو ہم پیش کرتے ہیں۔گو آدم کو دھوکا لگنے کی وجہ موجود تھی تمہارے پاس کوئی وجہ نہیں۔ کیونکہ حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیٹوں کو تباہ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں۔کیونکہ ان کا دعویٰ یہی ہے کہ یہ اپنے خاندان میں خلافت رکھنا چاہتے ہیں۔خلافت تو خدا اور جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں ہے۔اگر خدا اور جماعت احمدیہ خاندانِ بنو فارس میں خلافت رکھنے کا فیصلہ کریں تو یہ حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹے کون ہیں جو اِس میں دخل دیں۔خلافت تو بہرحال خداتعالیٰ اور جماعت احمدیہ کے اختیار میں ہے۔اور خدا اگر ساری جماعت کو اس طرف لے آئے گا تو پھر کسی کی طاقت نہیں کہ کھڑا ہوسکے۔پس میں نے یہ رستہ بتا دیا ہے۔لیکن میں نے ایک کمیٹی بھی بنائی ہے جو عیسائی طریقۂ انتخاب پر غور کرے گی کیونکہ قرآن شریف نے فرمایا ہے کہ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ جس طرح اس نے پہلوں کو خلیفہ بنایا تھا اُسی طرح تم کو بنائے گا۔ سو میں نے کہاعیسائی جس طرح انتخاب کرتے ہیں اس کو بھی معلوم کرو۔ ہم نے اس کو دیکھا ہے۔گو پوری طرح تحقیق نہیں ہوئی وہ بہت سادہ طریق ہے۔اس میں جو بڑے بڑے علماء ہیں ان کی ایک چھوٹی سی تعداد پوپ کاانتخاب کرتی ہے اور باقی عیسائی دنیا اُسے قبول کرلیتی ہے۔لیکن اس کمیٹی کی رپورٹ سے پہلے ہی میں نے چند قواعد تجویز کردئیے ہیں جو اِس سال کی مجلس شوریٰ کے سامنے پیش کردئے جائیں گے تاکہ کسی شرارتی کیلئے شرارت کا موقع نہ رہے۔یہ قواعد چونکہ ایک ریزولیوشن کی صورت میں مجلس شوریٰ کے سامنے علیحدہ پیش ہوں گے اس لئے اس ریزولیوشن کے شائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے پُرانے علماء کی کتابیں پڑھیں تو اُن میں بھی یہی لکھا ہواپایا ہے کہ تمام صحابہؓ اور خلفاءؓ اور بڑے بڑے ممتاز فقیہہ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ خلافت ہوتی تو اجماع کے ساتھ ہے لیکن یہ وہ اجماع ہوتا ہے کہ یَتَیَسَّرَ اِجْتِمَاعُھُمْ 9جن ارباب حل وعقدکا جمع ہوناآسان ہو۔یہ مُراد نہیں کہ اِتنا بڑااجتماع ہوجائے کہ جمع ہی نہ ہوسکے اورخلافت ہی ختم ہوجائے بلکہ ایسے لوگوں کا اجتماع ہوگا جن کا جمع ہونا آسان ہو۔سو میں نے ایسا ہی اجماع بنادیا ہے جن کا جمع ہونا آسان ہے۔ اوراگر ان میں سے کوئی نہ پہنچے تو میں نے کہا ہے کہ اس کی غلطی سمجھی جائے گی۔انتخاب بہرحال تسلیم کیاجائے گا۔اور ہماری جماعت اس انتخاب کے پیچھے چلے گی۔مگر جماعت کو میں یہ حکم نہیں دیتا بلکہ اسلام کابتایا ہوا طریقہ بیان کردیتا ہوں تاکہ وہ گمراہی سے بچ جائیں۔
ہاں جہاں میں نے خلیفہ کی تجویز بتائی ہے وہاں یہ بھی شریعت کا حکم ہے کہ جس شخص کے متعلق کوئی پروپیگنڈا کیاجائے وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا یا جن لوگوں کے متعلق پروپیگنڈا کیاجائے وہ خلیفہ نہیں ہوسکتے۔یاجس کو خود تمنا ہو۔رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کو وہ مقام نہ دیا جائے تو حضرت خلیفہ اوّل کی موجودہ اولاد بلکہ بعض پوتوں تک نے چونکہ پروپیگنڈا میں حصہ لیا ہے اس لئے حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹوں یااُن کے پوتوں کا نام ایسے انتخاب میں ہرگز نہیں آسکے گا۔ایک تو اس لئے کہ انہوں نے پروپیگنڈا کیا ہے اور دوسرے اس لئے کہ اس بناء پر اُن کو جماعت سے خارج کیا گیا ہے۔پھرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خواب بھی بتاتی ہے کہ اس خاندان میں صرف ایک ہی پھانک خلافت کی جانی ہے۔اور''پیغام صلح''نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ اس سے مراد خلافت کی پھانک ہے10۔پس میں نفی کرتا ہوں حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کی اور ان کے پوتوں تک کی یا تمام ایسے لوگوں کی جن کی تائید میں پیغامی یااحراری ہوں یا جن کو جماعتِ مبائعین سے خارج کیاگیاہو۔اور اثبات کرتا ہوں مِنْکُمْ کے تحت آنے والوں کا یعنی جو خلافت کے قائل ہوں۔ چاہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جسمانی ذرّیت ہوں یا روحانی ذرّیت ہوں۔تمام علماء سِلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعودؑ کی روحانی ذرّیت ہیں اور جسمانی ذرّیت تو ظاہر ہی ہوتی ہے انکا نام خاص طور پر لینے کی ضرورت نہیں۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے بیٹوں کو خلیفہ بنانا چاہتا ہے۔اب روحانی ذرّیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دس لاکھ ہے اور جسمانی ذرّیت میں سے اس وقت صرف تین فرد زندہ ہیں ایک داماد کو شامل کیا جائے تو چار بن جاتے ہیں۔اتنی بڑی جماعت کیلئے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اِن میں سے کوئی خلیفہ ہو۔اس کا نام اگر یہ رکھا جائے کہ میں اپنے فلاں بیٹے کو کرنا چاہتا ہوں تو ایسے قائل سے بڑا گدھا اور کون ہوسکتاہے۔میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذرّیت جسمانی کے چار افراد اور دس لاکھ اِس وقت تک کی روحانی ذرّیت کو خلافت کا مستحق قرار دیتا ہوں(جو ممکن ہے میرے مرنے تک دس کروڑ ہوجائے)سو جوشخص کہتا ہے کہ اس دس کروڑ میں سے جو خلافت پر ایمان رکھتے ہوں کسی کو خلیفہ چُن لو اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اپنے کسی بیٹے کو خلیفہ بنانا چاہتا ہے نہایت احمقانہ دعویٰ ہے۔میں صرف یہ شرط کرتا ہوں کہ مِنْکُمْ کے الفاظ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کوئی خلیفہ چُنا جائے۔اور چونکہ حضرت خلیفہ اوّل کی نسل نے ثابت کردیا ہے کہ وہ پیغامیوں کے ساتھ ہیں اور پیغامی ان کے ساتھ ہیں اور احراری بھی ان کے ساتھ ہیں اور غزنوی خاندان جو کہ سلسلہ کے ابتدائی دشمنوں میں سے ہے اُنکے ساتھ ہے اس لئے وہ مِنْکُمْ نہیں رہے۔اِن میں سے کسی کا خلیفہ بننے کے لئے نام نہیں لیا جائے گا۔اور یہ کہہ دینا کہ ان میں سے خلیفہ نہیں ہوسکتا یہ اس بات کے خلاف نہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب خلیفہ خدا بناتا ہے تو اِن کے منہ سے وہ باتیں جو خلافت کے خلاف ہیں کہلوائیں کس نے؟اگر خدا چاہتا کہ وہ خلیفہ بنیں تو اُن کے منہ سے یہ باتیں کیوں کہلواتا؟اگرخدا چاہتا کہ وہ خلیفہ بنیں تو اُن کی یہ باتیں مجھ تک کیوں پہنچا دیتا؟جماعت تک کیوں پہنچا دیتا؟یہ باتیں خدا کے اختیار میں ہیں اس لئے ان کے نہ ہونے سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے۔ اور جماعت احمدیہ مبائعین میں سے کسی کا خلیفہ ہونا بھی بتاتا ہے کہ خدا خلیفہ بناتا ہے۔دونوں باتیں یہی ثابت کرتی ہیں کہ خدا ہی خلیفہ بناتا ہے۔بہرحال جو بھی خلیفہ ہوگا وہ مِنْکُمْ ہوگا۔یعنی وہ خلافت احمدیہ کا قائل ہوگا اور جماعت مبائعین میں سے نکالا ہوا نہیں ہوگا۔اور میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ جو بھی خلیفہ چُنا جائے وہ کھڑے ہوکر یہ قسم کھائے کہ میں خلافتِ احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں خلافت احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لئے پوری کوشش کروں گا۔اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کیلئے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا۔اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا۔اوراگر میں بدنیتی سے کہہ رہا ہوں یا اگر میں دانستہ ایسا کرنے میں کوتاہی کروں تو خدا کی مجھ پر *** ہو۔جب وہ یہ قسم کھا لے گا تو پھر اس کی بیعت کی جائے گی اِس سے پہلے نہیں کی جائے گی۔اِسی طرح منتخب کرنے والی جماعت میں سے ہر شخص حلفیہ اعلان کرے کہ میں خلافت احمدیہ کا قائل ہوں اورکسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دوں گا جو جماعت مبائعین میں سے خارج ہو یا اس کا تعلق غیر مبائعین یا غیر احمدیوں سے ثابت ہو۔غرض پہلے مقررہ اُشخاص اس کا انتخاب کریں گے۔اس کے بعد وہ یہ قسم کھائے گا کہ میں خلافتِ احمدیہ حقّہ پرایمان رکھتا ہوں اور میں ان کو جو خلافتِ احمدیہ کے خلاف ہیں۔جیسے پیغامی یا احراری وغیرہ باطل پر سمجھتا ہوں۔
اب اِن لوگوں کودیکھ لو۔ان کے لئے کس طرح موقع تھا۔ میں نے مری میں خطبہ پڑھا اور اس میں کہا کہ صراطِ مستقیم پر چلنے سے سب باتیں حل ہوجاتی ہیں۔یہ لوگ بھی صراط مستقیم پر چلیں۔ اور اس کا طریق یہ ہے کہ پیغامی میرے متعلق کہتے ہیں کہ یہ حضرت خلیفہ اوّل کی ہتک کررہا ہے۔یہ اعلان کردیں کہ پیغامی جھوٹے ہیں۔ہمارا پچھلا بیس سالہ تجربہ ہے کہ پیغامی ہتک کرتے چلے آئے ہیں۔اور مبائعین نہیں کرتے رہے۔مبائعین صرف دفاع کرتے رہے ہیں۔مگر باوجود اس کے ان کو توفیق نہیں ملی اوریوں معافی نامے چھاپ رہے ہیں۔ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ اعلان کیا تو ہمارا اڈہ جو غیر مبائعین کا ہے اور ہمارا اڈہ جو احراریوں کاہے وہ ٹوٹ جائے گا۔سو اگر اڈہ بنانے کی فکر نہ ہوتی تو کیوں نہ یہ اعلان کرتے۔مگر یہ اعلان کبھی نہیں کیا۔چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے مجھے سنایا کہ عبدالمنان نے اُن سے کہا ہم اس لئے لکھ کر نہیں بھیجتے کہ پھر جرح ہوگی کہ یہ لفظ کیوں نہیں لکھا،وہ لفظ کیوں نہیں لکھا۔حالانکہ اگر دیانتداری ہے تو بیشک جرح ہوحرج کیا ہے۔جو شخص حق کے اظہار میں جرح سے ڈرتا ہے تو اس کے صاف معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ حق کو چھپانا چاہتاہے اور حق کے قائم ہونے کے مخالف ہے۔
غرض جب تک شوریٰ میں معاملہ پیش ہونے کے بعد میں اَور فیصلہ نہ کروں اوپر کا فیصلہ جاری رہے گا۔
تمہیں خوشی ہو کہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت چلی تھی واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ تمہارے اندر بھی اُسی طرح چلے گی۔مثلاً حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓخلیفہ ہوئے۔میرا نام عمرؓ نہیں بلکہ محمود ہے مگر خدا کے الہام میں میرا نام فضل عمر رکھا گیا اور اُس نے مجھے دوسرا خلیفہ بنادیا۔جس کے معنے یہ تھے کہ یہ خدائی فعل تھا۔خداچاہتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خلافت بالکل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی خلافت کی طرح ہو۔میں جب خلیفہ ہوا ہوں تو ہزارہ سے ایک شخص آیا۔اُس نے کہا کہ میں نے خواب دیکھی تھی کہ میں حضرت عمرؓ کی بیعت کررہا ہوں تو جب میں آیا تو آپ کی شکل مجھے نظر آئی۔اور دوسرے میں نے حضرت عمرؓ کوخواب میں دیکھا کہ اُن کے بائیں طرف سر پر ایک داغ تھا۔میں جب انتظار کرتا ہوا کھڑا رہا آپ نے سر کھجلایا اور پگڑی اُٹھائی تو دیکھا کہ وہ داغ موجود تھا۔اِس لئے میں آپ کی بیعت کرتا ہوں۔پھر ہم نے تاریخیں نکالیں تو تاریخوں میں بھی مل گیا کہ حضرت عمرؓ کو بائیں طرف خارش ہوئی تھی اور سر میں داغ پڑگیا تھا۔ سو نام کی تشبیہ بھی ہوگئی او رشکل کی تشبیہ بھی ہوگئی۔ مگرایک تشبیہ نئی نکلی ہے۔وہ میں تمہیں بتا تا ہوں اس سے تم خوش ہوجاؤ گے وہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓنے جب اپنی عمر کا آخری حج کیا تو اُس وقت آپ کو یہ اطلاع ملی کہ کسی نے کہاہے حضرت ابوبکرؓ کی خلافت تو اچانک ہوگئی تھی یعنی حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ نے آپ کی بیعت کرلی تھی۔پس صرف ایک یا دو بیعت کرلیں تو کافی ہوجاتا ہے اور وہ شخص خلیفہ ہو جاتا ہے اور ہمیں خدا کی قسم! اگر حضرت عمرؓ فوت ہوگئے تو ہم صرف فلاں شخص کی بیعت کریں گے اور کسی کی نہیں کریں گے۔11 جس طرح غلام رسول 35 اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ خلیفۂ ثانی فوت ہوگئے تو ہم صرف عبدالمنان کی بیعت کریں گے۔دیکھو تو بھی حضرت عمرؓ سے مشابہت ہوگئی۔ حضرت عمرؓکے زمانہ میں بھی ایک شخص نے قسم کھائی تھی کہ ہم اَور کسی کی بیعت نہیں کریں گے فلاں شخص کی کریں گے۔اِس وقت بھی غلام رسول35 اور اس کے بعض ساتھیوں نے یہی کہا ہے۔جب حضرت عمرؓ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے یہ نہیں کیاجیسے مولوی علی محمد اجمیری نے شائع کیاتھا کہ آپ پانچ وکیلوں کا ایک کمیشن مقرر کریں جو تحقیقات کرے کہ بات کون سی سچی ہے۔حضرت عمرؓ نے ایک وکیل کا بھی کمیشن مقرر نہیں کیا اور کہا میں کھڑے ہوکر اس کی تردید کروں گا۔بڑے بڑے صحابہؓ اُن کے پاس پہنچے اور انہوں نے کہا حضور! یہ حج کا وقت ہے اور چاروں طرف سے لوگ آئے ہوئے ہیں۔ان میں بہت سے جاہل بھی ہیں۔ان کے سامنے اگر آپ بیان کریں گے تو نہ معلوم کیا کیا باتیں باہر مشہور کریں گے۔جب مدینہ میں جائیں تو پھر بیان کریں۔چنانچہ جب حضرت عمرؓحج سے واپس آئے تو مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر کھڑے ہوگئے اور کھڑے ہوکر کہا کہ اے لوگو!مجھے خبر ملی ہے کہ تم میں سے کسی نے کہا ہے کہ ابوبکرؓ کی بیعت تو ایک اچانک واقعہ تھا اب اگر عمر مرجائے تو ہم سوائے فلاں شخص کے کسی کی بیعت نہیں کریں گے۔ پس کان کھول کر سن لو کہ جس نے یہ کہا تھا کہ ابوبکرؓ کی بیعت اچانک ہوگئی تھی اُس نے ٹھیک کہاہے۔لیکن خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو اس جلد بازی کے فعل کے نتیجہ سے بچا لیا۔اور یہ بھی یاد رکھو کہ تم میں سے کوئی شخص ابو بکرؓ کی مانند نہیں جس کی طرف لوگ دُور دُور سے دین اور روحانیت سیکھنے کیلئے آتے تھے۔پس اس وہم میں نہ پڑو کہ ایک دو آدمیوں کی بیعت سے بیعت ہوجاتی ہے اور آدمی خلیفہ بن جاتا ہے۔کیونکہ اگر جمہور مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی شخص نے کسی کی بیعت کی تو نہ بیعت کرنے والے کی بیعت ہوگی اور نہ وہ شخص جس کی بیعت کی گئی ہے وہ خلیفہ ہوجائے گا بلکہ دونوں اس بات کا خطرہ محسوس کریں گے کہ سب مسلمان مل کر ان کا مقابلہ کریں اور ان کا کیا کرایا اکارت ہوجائے گا12۔حالانکہ ابوبکرؓ کی بیعت صرف اِس خطرہ سے کی گئی تھی کہ مہاجرین اورانصار میں فتنہ پیدا نہ ہوجائے۔مگر اس کو خداتعالیٰ نے قائم کردیا۔پس وہ خدا کا فعل تھا۔نہ کہ اس سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ کوئی ایک دو شخص مل کر کسی کو خلیفہ بنا سکتے ہیں۔
پھر علامہ رشید رضا نے احادیث اور اقوال فقہاء سے اپنی کتاب''الخلافہ'' میں لکھا ہے کہ خلیفہ وہی ہوتا ہے جس کومسلمان مشورہ سے اور کثرت رائے سے مقرر کریں۔مگر آگے چل کر وہ علّامہ سعدالدین تفتازانی مصنف شرح''المقاصد''اور علّامہ نووی وغیرہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت کا جمع ہونا وقت پر مشکل ہوتا ہے۔پس اگر جماعت کے چند بڑے آدمی جن کا جماعت میں رسوخ ہوکسی آدمی کی خلافت کا فیصلہ کریں اور لوگ اُس کے پیچھے چل پڑیں توایسے لوگوں کا اجتماع سمجھا جائے گا اور سب مسلمانوں کااجتماع سمجھا جائے گا اور یہ ضروری نہیں ہوگا کہ دنیا کے سب مسلمان اکٹھے ہوں اور پھر فیصلہ کریں13۔اِسی بناء پر میں نے خلافت کے متعلق مذکورہ بالا قاعدہ بنایا ہے جس پر پچھلے علماء بھی متفق ہیں۔محدثین بھی اور خلفاء بھی متفق ہیں۔پس وہ فیصلہ میرا نہیں بلکہ خلفائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے او رصحابہ کرامؓ کا ہے اور تمام علمائے اُمت کا ہے جن میں حنفی، شافعی، وہابی سب شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑے آدمی سے مراد یہ ہے کہ جو بڑے بڑے کاموں پر مقرر ہوں جیسے ہمارے ناظر ہیں اور وکیل ہیں۔ اور قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی مومنوں کی جماعت کو مخاطب کیاگیا ہے وہاں مراد ایسے ہی لوگوں کی جماعت ہے۔نہ کہ ہر فردِ بشر۔یہ علّامہ رشید کا قول ہے کہ وہاں بھی یہ مراد نہیں کہ ہر فردِ بشر بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کے بڑے بڑے آدمی14 پس صحابہؓ،احادیثِ رسول اور فقہائے امت اس بات پر متفق ہیں کہ خلافت مسلمانوں کے اتفاق سے ہوتی ہے مگر یہ نہیں کہ ہر مسلمان کے اتفاق سے بلکہ ان مسلمانوں کے اتفاق سے جو مسلمانوں میں بڑا عہدہ رکھتے ہوں یا رسوخ رکھتے ہوں اور اگر ان لوگوں کے سوا چند اوباش مل کر کسی کی بیعت کرلیں تو نہ وہ لوگ مبائع کہلائیں گے اور نہ جس کی بیعت کی گئی ہے وہ خلیفہ کہلائے گا۔15
اَب خلافتِ حقّہ اسلامیہ کے متعلق میں قرآنی اور احادیثی تعلیم بھی بتا چکا ہوں اور وہ قواعد بھی بیان کرچکا ہوں جو آئندہ سلسلہ میں خلافت کے انتخاب کیلئے جاری ہونگے۔چونکہ انسانی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔نہ معلوم میں اُس وقت تک رہوں یا نہ رہوں اس لئے میں نے اوپر کا قاعدہ تجویز کردیا ہے تاکہ جماعت فتنوں سے محفوظ رہے۔’’
(ناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
دوسرے حصۂ تقریر ‘‘نظام آسمانی کی مخالفت اور اُس کا پسِ منظر’’ بیان کرنے سے قبل متفرق امور کی بابت حضور نے فرمایا:-
متفرق امور
‘‘تقریر سے پہلے میں چند باتیں تمہیدی طور پر سلسلہ کے کام کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ایک بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
کل میں نے کہاتھا کہ تقریر کا امتحان لیا جائے گا۔میرے پاس بعض لڑکیوں کی طرف سے یہ شکایت پہنچی ہے کہ سننے والے مردوں میں تو علماء بھی ہوں گے ہمارا ان کے ساتھ کیا مقابلہ ہے اس لئے آپ مختلف گروپ مقرر کریں۔ چنانچہ ان کی یہ بات مجھے ٹھیک معلوم ہوئی۔اس لئے اَب میں نئے گروپ یہ مقررکرتا ہوں کہ چار امتحان ہوں گے۔ایک25سال سے نیچے کی عمر والے مردوں کا اور ایک 25سال سے اوپر والے مردوں کا۔ اِسی طرح ایک پچیس سال سے نیچے عمر والی لڑکیوں کا اور ایک25سال سے اوپر عمر والی عورتوں کا۔اس طرح کوئی شکایت نہیں رہے گی اور ہر عمر اور طبقہ کے آدمی اپنے اپنے میدان میں آسکیں گے اور ہر ایک کو اس میں تین انعام ملیں گے۔ گویا اس طرح12انعام ہوجائیں گے۔چھ عورتوں کے ہوجائیں گے اور چھ مردوں کے ہوجائیں گے۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عام طور پر ہمارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک جدید میں صرف پانچ سات مبلغ کام کررہے ہیں اِس لئے جماعت والے سمجھتے نہیں کہ یہ لاکھوں لاکھ چندہ ہم سے کیوں مانگا جاتا ہے۔میں نے آج مبلغین کی لسٹ بنوائی ہے۔ دیکھو انگلستان میں دو مبلغ کام کررہے ہیں، سوئٹزرلینڈ میں ایک مبلغ کام کررہا ہے۔ جرمنی میں دو مبلغ کام کررہے ہیں۔ہالینڈ میں دو مبلغ کام کررہے ہیں۔ سکنڈے نیویا میں ایک کام کررہا ہے۔ سپین میں ایک کام کررہا ہے۔ امریکہ میں پانچ کام کررہے ہیں جن میں سے ایک جرمن بھی ہے۔ٹرینیڈاڈ میں ایک کام کررہا ہے۔گریناڈا جو ٹرینیڈاڈ کے پاس ایک جزیرہ ہے اس میں ایک مبلغ ہے جو انگریز ہے۔سیر الیون میں8مبلغ کام کررہے ہیں جن میں پاکستانی پانچ ہیں اور مقامی تین ہیں۔گولڈ کوسٹ میں78مبلغ کام کررہے ہیں۔جن میں سے پاکستانی پانچ ہیں اور مقامی73ہیں۔نائیجیریا میں6مبلغ کام کررہے ہیں۔مشرقی افریقہ میں20مبلغ کام کررہے ہیں جن میں پاکستانی7ہیں اور مقامی13ہیں۔ شام میں ایک کام کررہا ہے۔مصر میں ایک پاکستانی ہے۔اسرائیل میں ایک پاکستانی ہے۔ماریشس میں دو پاکستانی ہیں مقامی ایک ہے۔لبنان میں ایک پاکستانی ہے۔سیلون میں دو مبلغ ہیں جن میں سے ایک پاکستانی ہے اورایک مقامی ہے۔برما میں ایک پاکستانی ہے۔سنگاپور میں تین مبلغ ہیں جن میں سے پاکستانی دو ہیں اور مقامی ایک ہے۔برٹش نارتھ بورنیو میں دو مبلغ کام کررہے ہیں جو دونوں پاکستانی ہیں۔انڈونیشیا میں دس مبلغ کام کررہے ہیں جن میں سے چار پاکستانی ہیں اورمقامی چھ ہیں۔مسقط میں ایک ہے جو پاکستانی ہے۔لائبیریا میں ایک ہے جو پاکستانی ہے۔ڈچ گی آنا میں ایک ہے جو پاکستانی ہے۔یہ سارے155ہیں۔
اِن میں وہ مبلغین شامل نہیں جو باہر کام کرتے تھے لیکن اِس وقت چھٹی پر ہیں ایسے مبلغین کی تعداد23ہے۔ان ساروں کو ملا کر یہ لسٹ178کی بن جاتی ہے۔ آپ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ پانچ چھ آدمی ہیں اور باہر تنگ سے تنگ اور ادنیٰ سے ادنیٰ گزارہ بھی20پونڈ ماہوار میں ہوتا ہے۔اگردس پونڈ بھی فرض کرلیں تو178مبلغین کا خرچ1780پونڈ بن جاتا ہے اور اگر 20پونڈ خرچ ہوتو3560پونڈ بن جاتا ہے۔ مشنوں کے کرائے اور ان کے دَوروں کے اخراجات اور لٹریچر کی اشاعت یہ ساری رقم مل کر کم سے کم بارہ ہزار پونڈ بن جاتی ہے۔ اور پھر مرکزی اخراجات علیحدہ ہیں اور آنے جانے کے کرائے الگ ہیں۔ یہ سارا خرچ ملاکر قریباً بیس ہزار پونڈ بنتا ہے اور بیس ہزار پونڈ تین لاکھ روپیہ کے قریب بن جاتا ہے۔ اورپھر قرآن مجید کی اشاعت ہے اور دوسری اشاعتیں ہیں یہ ساری ملکر پانچ ، چھ لاکھ روپیہ سالانہ کا خرچ بن جاتا ہے۔آپ لوگ خیال کرلیتے ہیں پانچ ، چھ مبلغ ہیں۔ پانچ ، چھ مبلغ نہیں بلکہ ہمارے مبلغ خدا کے فضل سے178ہیں جو اِس وقت کام کررہے ہیں اور ابھی بہت سے مبلغ تیار ہور ہے ہیں۔ اگر یہ نئے مبلغ باہر ملکوں میں گئے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے پانچ سات سو مبلغ کام کرنے والے ہوجائیں گے اورابھی انڈیا کے مبلغ ہم نے نہیں لئے۔یہ سارے ملا کر ایک بہت بڑی تعداد بن جاتی ہے۔
اس سال سلسلہ نے مگبورکا میں جو سیرالیون میں ایک جگہ ہے ایک شاندار مسجد تعمیر کی ہے جس پر پانچ سو پاؤنڈ خرچ ہوچکا ہے یعنی سات ہزار روپیہ۔ اور ابھی تین سو پاؤنڈ اَور خرچ ہوگا اور اس طرح دس ہزار روپیہ خرچ ہوجائے گا۔
مشرقی افریقہ میں دارالسلام میں ایک عالیشان مسجد تعمیر ہورہی ہے اور دارالتبلیغ تعمیر ہورہا ہے۔انڈونیشیا میں پاڈانگ میں ایک مسجد تیار ہورہی ہے جس پر اڑھائی تین لاکھ روپیہ خرچ کا اندازہ ہے۔اِسی طرح جاوا، سماٹرا،سولاویسی16 (سیلبس)میں چار نئی مساجد قائم کی گئی ہیں۔جرمنی میں ہیمبرگ مقام میں مسجد کے لئے زمین خریدی جاچکی ہے پلان کی منظوری آجائے تو کام شروع ہوجائے گا۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی گورنمنٹ ہم کو ایکسچینج دے ابھی تک انہوں نے منظور نہیں کیا۔جب وہ منظور ہوجائے گا تو وہ کام بھی شروع ہوجائے گا اِس مسجد پر ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے قریب خرچ ہوگا(جس میں سے چوبیس ہزار جمع ہوچکا ہے)سوالاکھ کے قریب ابھی اور روپیہ چاہئیے۔
عورتوں نے ہالینڈ کی مسجد کا چندہ اپنے ذمہ لیا تھا مگر اس پر بجائے ایک لاکھ کے جو میرا اندازہ تھا ایک لاکھ چوہتّر ہزار روپیہ خرچ ہوا۔اٹھہتّرہزار اُن کی طرف سے چندہ آیا تھا گویا ابھی چھیانوے ہزار باقی ہے۔ پس عورتوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ وہ چھیانوے ہزار روپیہ جلد جمع کریں تاکہ مسجد ہالینڈ ان کی ہوجائے۔
مسجد ہالینڈ کا نقشہ بن کر آگیا ہے جس میں بجلی بھی لگی ہوئی ہے اور مسجد خوب نظر آ جاتی ہے۔لجنہ اماء اللہ نے اس کا بھی چندہ رکھا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ دو آنے کا ٹکٹ ضرور لیں۔زیادہ کی توفیق ہو تو زیاہ کا ٹکٹ لے کر مسجد دیکھ لیں جس کا نقشہ بن کر آیا ہے اور انہوں نے اس کے اندر بجلی کا بھی انتظام کیا ہوا ہے۔ بجلی سے اندر روشنی ہوجاتی ہے اور پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ کیسی شاندار مسجد ہے۔ مگر ہمارے پروفیسرٹلٹاک جو جرمنی کے ایک پروفیسر ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہیمبرگ کی مسجد کا جو ہمارے ذہن میں نقشہ ہے وہ ہالینڈ کی مسجد سے زیادہ شاندار ہو گا۔
نئے مشن بھی ہم خدا کے فضل سے کھول رہے ہیں اور ان کے ساتھ مبلغ بھی بڑھیں گے۔ مثلاً مشرقی افریقہ سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ جنوبی روڈیشیا(یہ افریقہ کے ساحل پر ایک بہت بڑا علاقہ ہے)اور نیا سالینڈ اوربلجین کانگو17 میں ہمارے سواحیلی اخبار اور سواحیلی ترجمہ قرآن مجید بھجوائے گئے تھے وہاں لوگ بکثرت احمدیت کی طرف مائل ہورہے ہیں اور بلجین کانگو کے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ وہاں سینکڑوں احمدی ہوچکے ہیں اور ان ملکوں کے لوگوں نے مبلغین کا مطالبہ کیاہے۔
فلپائن جو امریکہ کے ماتحت ایک علاقہ ہے اور نہایت اہم ہے پہلے یہاں مسلمان آبادی تھی سارا علاقہ مسلمان تھا اور ترکوں اور عربوں کے ماتحت تھا (اب آزاد ہوچکا ہے)سپین نے اس کو فتح کیا اور جس طرح سپین نے اپنے ملک سے مسلمانوں کو نکال دیاتھا اسی طرح فلپائن پر حملہ کرکے اس نے اس کو فتح کیا اور تلوار کے نیچے گردنیں رکھ کرسب سے اقرار کروایا کہ ہم مسلمان نہیں عیسائی ہیں۔ تمہاری غیرت کا تقاضا تھا کہ تم وہاں جاؤ۔سپین کے متعلق بھی تمہاری غیرت کا تقاضا تھا۔ ہم نے وہاں مبلغ بھجوایا لیکن پاکستانی گورنمنٹ زور دے رہی ہے کہ اس مبلغ کو واپس بُلا لو کیونکہ سپینش گورنمنٹ کہتی ہے کہ ہم یہاں تبلیغ کی اجازت نہیں دے سکتے۔ حالانکہ ان کو چاہئیے تھا کہ وہ سپین گورنمنٹ کو کہتے کہ تم کو یہ کوئی حق نہیں کہ تم ہمارے مبلغ کو نکالو۔ہمارے ملک میں بیسیوں عیسائی مبلغ ہیں اگرتم اسے نکالوگے تو ہم بھی تمہارے مبلغوں کو نکال دیں گے۔ لیکن بجائے اس کے انہوں نے مغربی پاکستان کی گورنمنٹ کو لکھا اور مغربی پاکستان کی گورنمنٹ نے مجھے لکھا کہ اس مبلغ کو واپس بلالو۔سپینش گورنمنٹ پسند نہیں کرتی۔ اِدھر فلپائن کے جو لوگ ہیں وہ بھی چونکہ نئے عیسائی ہیں پہلے مسلمان تھے۔ان میں بھی تعصب زیادہ ہے۔ان کے ہاں بڑی کوشش کی گئی کہ کسی طرح وہاں مبلغ جائے لیکن وہاں سے اجازت نہیں مل سکی۔ جب کبھی ویزا کے لئے کوشش کی جاتی ہے وہ انکار کردیتے ہیں۔ مگر ہمارا خدا حکومتوں سے بڑا خدا ہے۔ فلپائن گورنمنٹ یا امریکی گورنمنٹ اگر وہاں جانے سے روکے گی تو بنتا کیا ہے۔اللہ نے ایسا سامان کردیا کہ پچھلے سال جاپان میں ایک مذہبی انجمن بنی۔اُس نے مجھے چِٹھی لکھی کہ اپنا کوئی مبلغ بھجوائیں۔ میں نے خلیل ناصر صاحب جو واشنگٹن کے مبلغ ہیں ان کو وہاں بھجوادیا۔وہ وہاں گئے تو وہاں سے ان کو موقع لگا کہ وہ واپسی میں کچھ دیر فلپائن ٹھہر جائیں۔جب وہ فلپائن ٹھہرے تو فلپائن کے کئی لوگ اُن سے آکر ملے اور انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ابھی بعض جگہوں پر اسلام کا نام باقی ہے اور مسلمان جنگلوں میں رہتے ہیں۔آپ ہمارے ہاں مبلغ بھیجیں تو ہم آپ کی مدد کریں گے اور اسلام پھیلائیں گے۔ انہوں نے مجھے لکھا ہم نے کوشش شروع کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔گورنمنٹ ویزا دینے سے انکار کرتی رہی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے سامان کیا۔ وہ لوگ جو خلیل ناصر صاحب سے ملے تھے ان میں سے ایک پر اثر بہت زیادہ ہوگیا تھا۔اُس نے خط لکھا کہ میں زندگی وقف کرکے اسلام پھیلانا چاہتاہوں اور ربوہ آنا چاہتا ہوں کیاآپ میرے لئے انتظام کریں گے؟ہم نے اس کو فوراً لکھ دیا کہ بڑی خوشی سے آؤ یہ تو ہماری دلی خواہش ہے چنانچہ جس ملک میں سے تلوار کے زور سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کو نکالا گیا تھا ہم اس ملک کو دلائل کے ذریعہ سے پھرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی گود میں لاکر دم لیں گے۔
وہ جس نے ہمیں لکھا تھا اس کوکوئی مشکل پیش آئی اس لئے وہ تو نہ آسکا مگر اس کے ذریعہ ایک اَور احمدی ہوا۔وہ احمدی کسی فرم میں ملازم تھا۔وہ وہاں سے بورنیو آ گیا۔ وہاں ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب جو خان صاحب فرزند علی صاحب کے بیٹے ہیں اور مفت تبلیغ کررہے ہیں، ڈاکٹری بھی کرتے ہیں اور تبلیغ بھی کرتے ہیں ان سے ملا اور وہاں اس نے اسلام سیکھنا شروع کیا۔اَب اُس کا خط آیا ہے کہ میں بڑی کوشش کررہا ہوں کہ فرم مجھے چھوڑدے تو میں آجاؤں۔ پھر اس کے کہنے پر کچھ اَور لٹریچر فلپائن بھیجا گیا۔ پہلے وہاں سے سولہ بیعتیں آئی تھیں۔اس ضمن میں ایک کالج کے ایک سٹوڈنٹ نے وہاں کے مسلمانوں کی جو انجمن تھی اسے تبلیغ شروع کردی۔ ان میں سے کسی کو لٹریچر پسند آگیااور اس نے آگے تبلیغ شروع کردی۔پہلے سولہ بیعتوں کی اطلاع آئی تھی ا س کے بعد ستائیس بیعتیں آئیں گویا43ہوگئیں۔اس کے بعد پھر اٹھارہ بیعتیں آئیں۔یہ سارے مل کر61ہوگئے۔ اور اب اطلاع آئی ہے کہ اَور لوگ بھی تیار ہیں۔ بلکہ انہوں نے لکھا ہے کہ جتنے کالج کے لڑکے ہیں یہ سارے مسلمان ہوجائیں گے اور احمدی بن جائیں گے۔ تو فلپائن گورنمنٹ نے ہمارا راستہ روکا تھا لیکن خدا نے کھول دیا ہے اور جہاں ایک مسلمان کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی وہاں61آدمی بیعت کرچکا ہے اور کالج کے باقی سٹوڈنٹ کہتے ہیں کہ ہمیں جلدی بیعت فارم بھیجو۔ ابھی انہوں نے100بیعت فارم کے متعلق لکھا ہے کہ جلدی بھیجو سب لڑکے تیارہورہے ہیں۔اب جس ملک کے کالج کے لڑکے مسلمان ہوجائیں گے سیدھی بات ہے کہ وہ بڑے بڑے عہدوں پر مقرر ہوں گے اور جہاں جائیں گے اسلام کی تبلیغ کریں گے کیونکہ اسلام چیزہی ایسی ہے کہ جو ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیتا ہے پھر وہ چُپ نہیں رہ سکتا۔
میرے دوست پروفیسر ٹلٹاک اِس وقت یہاں بیٹھے ہیں جب مَیں بیماری میں علاج کرانے کے لئے گیا تو ہیمبرگ میں بھی گیامولوی عبداللطیف صاحب جو ہمارے مبلغ ہیں وہ ان کو لائے اور کہنے لگے یہ پروفیسر ٹلٹاک ہیں ان کو اسلام کا بڑا شغف ہے۔یہ کیل (KEELE) میں یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔آپ کا ذکر سن کر کیل سے آئے ہیں مگر کہتے ہیں میں نے الگ بات کرنی ہے۔میں نے کہا بڑی خوشی سے الگ بلالو اَور لوگ چلے جائیں۔ چنانچہ وہ آگئے انہوں نے تھوڑی دیر بات کی اور پھر کہنے لگے میں نے بیعت کرنی ہے۔ میں نے کہابہت اچھا کرلیجئے۔ میں نے پوچھا کہ اسلام سمجھ لیا ہے؟ کہنے لگے ہاں میں نے سمجھ لیا ہے۔ مگر کسی کو پتہ نہ لگے میں بڑا مشہور آدمی ہوں۔ میں نے کہابہت اچھی بات ہے۔ہمیں آپ کو مشہور کرنے کا کیا شوق ہے۔آپ کی خدا سے صلح ہوگئی کافی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد پاس کے کمرہ میں کچھ جرمن دوست نماز پڑھنے کے لئے آئے تھے۔میں نماز پڑھانے کے لئے اُس کمرہ میں گیا۔ جب نماز پڑھ کے میں نے سلام پھیرا تو دیکھا کہ صف کے آخر میں وہ پروفیسرٹلٹاک بیٹھے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ میرا کسی کو پتہ نہ لگے۔میں نے مولوی عبداللطیف صاحب سے کہاکہ پروفیسرصاحب سے ذرا پوچھو کہ آپ تو کہتے تھے کہ میرے اسلام کا کسی کو پتہ نہ لگے اور آپ تو سارے جرمنوں کے سامنے نماز پڑھ رہے ہیں تو اب تو پتہ لگ گیا۔ کہنے لگے میں نے پوچھا تھا۔ یہ کہنے لگے میں نے سمجھا کہ یہاں ان کے آنے کا کیا واسطہ تھا،خدا انہیں میری خاطر لایا ہے تو اب خلیفہ کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع جو خدا نے مجھے میسر کیا ہے یہ ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے چنانچہ نماز پڑھ لی۔ اب یاتو وہ وہاں کہتے تھے کہ میرا اسلام ظاہر نہ ہو اور یا یہاں آکے بیٹھے ہوئے ہیں۔’’
اِس موقع پر دوستوں نے حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ پروفیسر ٹلٹاک صاحب انہیں دکھلا دیئے جائیں۔ چنانچہ پروفیسر صاحب سٹیج پر تشریف لے آئے اور حضور نے فرمایا:
‘‘ یہ پروفیسر ٹلٹاک صاحب ہیں جو جرمنی سے آپ لوگوں کو دیکھنے آئے ہیں اور آپ ان کو دیکھنے آئے ہیں۔
دوسری خوشخبری یہ ہے کہ پروفیسر ٹلٹاک صاحب یہ خبر لائے ہیں کہ جرمنی میں چار شہروں میں جماعتیں قائم ہوگئی ہیں۔ایک بیعت پیچھے الفضل میں شائع ہوئی ہے تازہ اطلاع یہ آئی ہے کہ اس نَو مسلم کی بیوی نے بھی بیعت کرلی ہے۔سب سے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ پیغامیوں نے منافقین کو کہا تھاکہ ہمارا سٹیج تمہارے لئے ہے۔ہماری تنظیم تمہارے لئے ہے۔آج ہی جس وقت مَیں چلنے لگا ہوں تو مولوی عبداللطیف صاحب کی چِٹھی پہنچی کہ ایک جرمن جو پیغامیوں کے ذریعہ سے مسلمان ہؤا تھا وہ میرے پاس آیا اور میں نے اس کو تبلیغ کی اور وہ بیعت کا خط آپ کو بھجوا رہا ہے تو اُن کی وہ تنظیم خدا نے ہمیں دے دی۔جس طرح ابوجہل کا بیٹا عکرمہؓ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل گیا تھا۔اِسی طرح پیغامیوں کا کیاہوا نَومسلم ہمیں مل چکا ہے۔آج ہی اس کے بیعت کا خط آگیا ہے۔
وکالتِ تبشیر نے کہا ہے کہ باہرسے متواتر لٹریچر کی مانگ آرہی ہے۔میں نے عزیزم داؤد احمد کو جسے انگریزی کا اچھا شوق ہے ولایت میں کچھ عرصہ پڑھنے کے لئے رکھا تھا اور وہ انگریزی پڑھ کے آیا ہے۔میں نے تحریک کوکہا کہ اس کو ترجمہ پر لگادو تو انہوں نے کہا ہمارے پاس گنجائش نہیں ہے۔ گویا اِدھر تو لوگ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کے لئے ہمیں لٹریچر چاہئیے اور اُدھر وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس گنجائش نہیں یہ کیا؟تم فاقے رہ جاتے اور لٹریچر شائع کرتے۔یہ وکالت والوں کی غلطی ہے وہ بجٹ کو صحیح طور پر تقسیم نہیں کرتے۔ اگر صحیح طور پر تقسیم کریں تو ہمارے پاس بڑی گنجائش ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم ساری دنیا کو لٹریچر سے بھر سکتے ہیں۔
تازہ رپورٹ سے پتہ لگتا ہے کہ پیغامی جو کچھ یہاں کرتے رہے ہیں وہ دوسرے ملکوں میں بھی انہوں نے کرنا شروع کردیا ہے۔رشید ہمارا مبلغ ڈچ گی آنا میں گیا۔ وہاں بھی پیغامیوں کا زور تھا پہلے اطلاع آئی تھی کہ دو سوپیغامیوں نے بیعت کرلی ہے اور وہ احمدی ہوگئے ہیں۔اَب پَرسوں تَرسوں دوسری اطلاع آئی ہے کہ دوسو نہیں چار سو تک تعداد پہنچ چکی ہے۔ اَب اس کے بعد رشید صاحب کی اطلاع آئی ہے کہ ایک اَور خاندان احمدی ہورہا ہے جس کے آٹھ افراد ہیں۔ اِسی طرح انہوں نے لکھا ہے کہ عبدالعزیزجمن بخش جو ہمارے ہاں تعلیم پارہے ہیں اور ڈچ گی آنا کے ہیں اُن کا بہنوئی سخت متعصب پیغامی ہے۔اس نے ایک عورت کو بہت سی لالچ دی اور بہت سا روپیہ دیا کہ اس مبلغ کی دعوت کر اور زہر ملاکر اس کو مار دے لیکن حُسنِ اتفاق ہے خدااس کا محافظ تھا،اس کی باتیں اپنی بیوی سے کرتے ہوئے اُس کی ہمسائی نے سن لیں۔اُس ہمسائی نے ایک دوسری ہمسائی کو بتادیا۔اس کا خاوند بھی احمدی تھا اُس نے آکر اِس کو بتادیا کہ یہ آپ کے خلاف کارروائی ہورہی ہے۔ سارے علاقہ میں بات پھیل گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ غیر احمدی بھی تُھوتُھو کر رہے ہیں کہ تم لوگ اپنے مبلّغوں کو مرواتے ہو۔ پس دعائیں کرتے رہا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مبلغین کی حفاظت فرمائے۔ایک ایک آدمی ہم بیس بیس سال میں تیار کرتے ہیں اگر یہ زہر دے کر مار دیں تو ہماری بیس سال کی محنت ضائع ہوجاتی ہے۔اللہ تعالیٰ ان کاحافظ وناصر ہو اور جہاں وہ جائیں اُن کے ہاتھوں پر ہزاروں لاکھوں آدمی اسلام قبول کریں۔
پھر میں احباب کو اِدھر توجہ دلاتا ہوں کہ میں نے پچھلے سال بھی کہا تھا کہ ریویوآف ریلیجنز کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش تھی کہ دس ہزار اس کی اشاعت ہونی چاہئیے۔اَب سنا ہے کہ تیرہسَو کی اشاعت ہوئی ہے مگر کُجا دس ہزار اور کُجا تیرہسَو ، مَیں سمجھتا ہوں کہ بجائے تحریک کرنے کے ہمیں اب عملی قدم اٹھانا چاہئیے اس لئے میں ایڈیٹر صاحب ریویو کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فی الحال تیرہسَو کی بجائے تین ہزار تین سو چھپوانا شروع کردینگے۔اگلے سال تک ہم کوشش کریں گے کہ دس ہزار ہوجائے۔ سو تین ہزار تین سو چھپوانا شروع کردیں اور قیمت گرا دیں۔ جو ہندوستانی انگریزی ریویوخریدیں ان کو دوروپیہ میں وہ دیدیا کریں اور جوغیر ملکی خریدیں ان سے صرف ڈاک کا خرچ لے لیا کریں۔اگلے سال ہم اس کو دس ہزار کردیں گے۔ اس طرح دوہزار پرچہ بڑھے گا۔اس کے لئے کچھ تو ہندوستانی خریداروں سے قیمت آجائے گی کچھ باہر والے خریداروں سے قیمت آجائے گی۔باقی زیادہ چَھپنے کی وجہ سے قریباً بارہ ہزار کا خرچ رہ جائے گا۔تحریک جدید او رانجمن کو میں مجبور کروں گا کہ وہ چھ ہزار دیں اور چھ ہزار جماعت سے چندہ کی تحریک کروں گا۔ہماری جماعتیں اَب خدا کے فضل سے اتنی بڑھی ہوئی ہیں کہ افریقہ کے جو نئے حبشی ہیں اُن میں سے ایک شخص نے پندرہ سو پاؤنڈ مسجد کے لئے دے دیا یعنی بیس ہزار روپیہ۔ حالانکہ وہ شخص ایسا تھا جو پہلے کہتا تھا کہ دریا رُخ بدل لے تو بدل لے مگر میں نہیں مسلمان ہونے کا۔ وہ شخص مسلمان ہوتا ہے اور اپنی خوشی سے پندرہ سو پاؤنڈ یعنی بیس ہزار روپیہ لاکر دے دیتا ہے اُس ملک میں تولوگ غریب ہیں۔ہماری جماعت میں یہاں بڑے بڑے امیر ہیں ان سے چھ ہزار یا دس ہزار یا بیس ہزار سالانہ لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ خواہش پوری کرنا کہ ریویو کی دس ہزار اشاعت ہوجائے کون سا مشکل امر ہے۔ پس اس سال وہ تین ہزار اشاعت کر دیں۔ اگلے چھ مہینے تک ہم اسے چھ ہزار کرنے کی کوشش کرینگے۔ لیکن وہ ایک مینیجر مقرر کریں جو قیمتیں وصول کرے۔اس سے پہلے ان سے غفلت ہوتی رہی ہے اور قیمتیں صحیح نہیں وصول ہوئیں۔اگلے جلسہ سالانہ تک ہم انشاء اللہ دس ہزار شائع کریں گے۔ کچھ لوگوں سے قیمت وصول کریں گے، کچھ جماعت سے وصول کریں گے، کچھ صدر انجمن احمدیہ اور تحریک سے وصول کریں گے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کو ہم اگلے سال خدا چاہے تو ضرور پورا کردیں گے۔ اِس سال اِس خواہش میں قدم بڑھانے کے لئے ہم تیسرا حصہ ادا کرتے ہیں اور چھ مہینہ تک ہم انشاء اللہ نصف سے زیادہ کردیں گے اور خدا تعالیٰ زندہ رکھے اور توفیق دے تو اگلے سال انشاء للہ ہم دس ہزار کی خواہش پوری کردیں گے۔ اور کوشش کریں گے کہ اس سے اگلے سال حضرت صاحب کی خواہش سے دُگنی تعداد ہوجائے یعنی بیس ہزار ہوجائے۔ اس طرح بڑھاتے بڑھاتے ہمارا پروگرام یہ ہوگاکہ حضرت صاحب نے دس ہزار کہا تھا ہم لاکھ تک اِس کی خریداری پہنچا دیں۔’’
اِس موقع پر حضور نے اعلان فرمایا کہ:۔
‘‘محمد صدیق صاحب کلکتہ والے لکھتے ہیں کہ رسالہ ریویو انگریزی کے لئے یک صد رسالہ کا چندہ مبلغ دوصد روپیہ مَیں اپنی طرف سے دینے کا وعدہ کرتا ہوں۔ خداتعالیٰ نے ان کوتوفیق دی ہے۔انشاء اللہ ثواب ہوگا۔میری نیت بھی چندہ دینے کی ہے اور انشاء اللہ اِس سے زیادہ ہی دونگا۔
پھر قرآن شریف کے ترجمہ کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اُردو کا ترجمہ تیار ہوگیا ہے۔اورایک جِلد تفسیر کی بھی تیار ہوگئی ہے جس کا پانچ سو صفحہ انشاء اللہ شوریٰ تک چَھپ جائیگا۔تفسیر لمبی ہوگئی ہے میں نے چھوٹی رکھنے کا فیصلہ کیاتھا لیکن غالباً سورۃ طٰہٰیاسورۃ انبیاء تک پانچ سو صفحے پورے ہوجائیں گے۔
الشرکة الاسلامیہ والے کہتے ہیں کہ ہم نے کتابیں چھاپی ہیں۔ضرورت الامام، رازِ حقیقت،نشانِ آسمانی،آسمانی فیصلہ، کشف الغطاء، دافع البلاء،ستارہ قیصریہ اس کی سفارش کرو حالانکہ مَیں تو اس کو بے شرمی سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی لکھی ہوئی کتاب ہو او رمیں سفارش کروں۔ کیا کسی غلام کے منہ سے یہ زیب دیتا ہے کہ اپنے آقاکی کتاب کی سفارش کرے۔ اور کرے بھی ان کے پاس جو اپنے آپ کوفدائی کہتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو لکھا ہے کہ جس شخص نے میری کتابیں کم سے کم تین دفعہ نہیں پڑھیں میں نہیں سمجھتا کہ وہ احمدی ہے18۔ تو اب ہماری جماعت تو دس لاکھ ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ پس تین دفعہ اگر وہ کتابیں پڑھیں بلکہ ایک ایک کتاب بھی خریدیں اور تین سال وہی پڑھ لیں تو پھر آگے اولاد بھی ہوتی ہے تب بھی دس لاکھ کتاب لگ جاتی ہے۔ لیکن انہوں نے جن کتابوں کی لسٹ مجھے دی ہے وہ ساری کی ساری شاید کوئی بیس ہزار ہیں تو ایسی کتابوں کے لئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی لکھی ہوئی ہیں جن کی صدیوں تک اَور نظیر نہیں ملے گی یہ کہنا کہ مَیں سفارش کروں یہ ان کی اپنی کمزوری ہے۔ کیوں نہیں وہ جماعت کو کہتے۔ جماعت تو اپنی جانیں حضرت صاحب پر قربان کرنے کے لئے تیار ہے مگر صحیح طور پر کام نہیں کیاجاتا۔ یامین صاحب تو اپنا کیلنڈر بیچ لیتے ہیں مگر ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں بھی نہیں بیچی جاتیں۔
اِسی طرح ریسرچ والوں نے کہا ہے کہ ان کی مصنوعات کے متعلق یاددہانی کرائی جائے۔ لوگوں کو چاہئیے کہ جو جماعت کی طرف سے چیزیں بنتی ہیں اُن کو زیادہ لیا کریں۔ اخلاص تو یہ ہوتا ہے کہ چودھری ظفراللہ خاں صاحب کے والد صاحب نے مجھے سنایا کہ میں سارا سال اپنے کپڑوں کے متعلق کوشش کرتا رہتا ہوں کہ نہ بنواؤں اور جب قادیان آتا ہوں تو سید احمد نور کی دُکان سے خریدتا ہوں۔ گومہنگا ہوتا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ ایک مہاجر کا گزارہ چل جائے گا میراکیا حرج ہے۔ تو دیکھو مخلص آدمی تو ایسا کرتا ہے۔ چودھری صاحب نے بتایا ہے کہ وہ بنواتے بھی مرزا مہتاب بیگ صاحب سے تھے جو قادیان میں درزی تھے او راحمدی مہاجر تھے۔ تو دیکھو مخلص لوگ تو ایسا کرتے ہیں کہ باہر کے شہر میں کپڑے سستے ملتے ہیں لیکن خریدتے نہیں۔ کہتے تھے قادیان جائیں گے تو ایک مہاجر سے خریدیں گے اور بنوائیں گے بھی ایک مہاجر سے۔ تو اگر ہماری جماعت کے لوگ توجہ کریں کہ سلسلہ کی طرف سے جو چیزیں بنتی ہیں اُن کو خریدیں تو بڑی ترقی ہوسکتی ہے۔ مثلاً شائنو بوٹ پالش ہے جس کی تعریف اتنی کثرت سے ہورہی ہے کہ باٹاکمپنی نے بھی پچیس ہزار ڈبیہ کا آرڈر دیا ہے حالانکہ وہ کروڑ پتی کمپنی ہے۔ پھر نائٹ لائٹ ہے جو بڑی قیمتی چیز ہے۔ کف ایکس ہے۔''سن شائن گرائپ واٹر''ہے۔ڈاکٹروں کو بھی چاہئیے کہ لے جائیں اور تجربہ کریں۔ اور اگر مفید ہیں تو سرٹیفکیٹ دیں۔ جھوٹے سرٹیفکیٹ ہم نہیں مانگتے سچے سرٹیفکیٹ مانگتے ہیں۔پھر ‘‘سٹرولیکس فروٹ سالٹ’’ ہے۔ ''بامیکس''سردرد کی دوا ہے۔ تو اگر جماعت کے لوگ سلسلہ کی مصنوعات کی طرف توجہ کریں تو یقیناً تھوڑے دنوں میں باہر ملکوں میں پھیل سکتی ہیں۔ سفارش تو لغو سی چیز ہے میں تو ان کو کہا کرتا ہوں کہ تم اچھی طرح اشتہارنہیں دیتے ورنہ مجھے قادیان میں ایسی دکانیں معلوم ہیں کہ ایک شخص سے حضرت خلیفہ اول نے چھ پیسے میں دکان نکلوائی لیکن جب وہ قادیان سے نکلا ہے تو اس کے گھر کی قیمت بیس ہزار تھی اور ہزاروں ہزار کی اس کی دُکان تھی۔ اور ایسے بھی دوست مجھے ربوہ میں معلوم ہیں کہ جنہوں نے چھ ہزار سے کام شروع کیا تھا اور اِس وقت پختہ مکانات ان کے پاس ہیں اور دوائیں وغیرہ ملا کر ان کا کوئی پینتیس چالیس ہزار کا سرمایہ ہے۔ تو جو دیانتداری سے کام کرے خداتعالیٰ اُس کو برکت دیتا ہے۔ پس سفارش کرنے کا کیا فائدہ ہے۔
اِسی طرح تشحیذ الاذہان ایک نیا رسالہ نکلنے والا ہے او ربھی بعض رسالے ہیں۔''المصلح''کراچی والے نکالتے ہیں۔ میں کہتا ہوں مجھ سے نہ کہلواؤ ایسے اعلیٰ کام کرو اور ان کی ایسی شکل بناؤ کہ لوگ آپ ہی لیں۔ کسی شخص نے کہا ہے
صورت بہ بین حالت مپرس
ارے میاں! اس کا حال کیا پوچھتے ہو،اس کی شکل دیکھ لو۔ توتم بھی اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ تمہارے رسالے دیکھ کر لوگ خودبخود خریدیں۔ یہ کہناکہ اس کو میری سفارش سے لوگ خریدیں یہ غلط ہے۔ میں اگر حضرت صاحبؑ کے رسالہ کی سفارش کرتا ہوں تو ثواب کے لئے ورنہ میں ریویو کی بھی سفارش نہ کرتا کیونکہ ریویو کی سفارش کرنا تمہاری ہتک ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ مجھے تو حضرت صاحبؑ کے قول کا پاس ہے تمہیں نہیں۔ میں یہ ہتک نہیں کرنا چاہتا۔ میں صرف اس لئے کہہ دیتا ہوں کہ مجھے ثواب مل جائے۔’’
اس موقع پر حضور نے ڈچ گی آنا سے آئی ہوئی وہ تصویر دک