• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تاریخ احمدیت ۔ جلد 1 ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تاریخ احمدیت ۔ جلد 1 ۔ یونی کوڈ

باب دوم
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
خاندانی حالات
بانی سلسلہ احمدیہ جری اللہ فی حلل الانبیاء حضرت اقدس مرزاغلام احمد قادیانی مسیح موعود مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مشہور ایرانی قوم برلاس کے درخشندہ گوہر تھے اور آپ کا خاندان ایک شاہی خاندان تھا۔ جس کے فارسی قالب کو دست قدرت کی طرف سے اپنی نہاں در نہاں مصلحتوں سے ترکی، چینی اور فاطمی خون کا لطیف امتزاج بخشا گیا تھا۔ ۱
حضرت کا خاندان گو مغلیہ خاندان کہلاتا ہے مکر آپ پر الہاماً یہ انکشاف کیا گیا ۲کہ آپ دراصل فارسی النسل ہیں اور حدیث نبوی ’’لو کان الایمان معلقا بالثریا لنالہ رجل اور جال من ھولاء‘‘ ۳کے مصداق! یہ عجیب تصرف الٰہی ہے کہ اگرچہ حضور کی زندگی میں اس دعویٰ کا کوئی تاریخی ثبوت مہیانہیں ہو سکا۔ مگر آپ کے انتقال پر ربع صدی گزرنے کے بعد متعدد ایسے انکشافات ہوئے ۴کہ آپ کا فارسی الاصل ہونا تاریخ کی روشنی میں بھی بالکل نمایاں ہوگیا ۔ اس تحقیق میں گو ابھی مزید تحقیق و تفتیش کی کافی گنجائش ہے لیکن بہر حال موجودہ صورت میں بھی اصولی طور پر پانچ نقطہ ہائے نگاہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فارسی النسل ہونا بالبداہت ثابت ہے۔
اول:۔ کتاب ’’پنجاب کا رواج زمیندارہ ‘‘(مطبوعہ ۱۸۳۹ء) میں لکھاہے کہ قادیان کا مغل برلاس خاندان زمیندارہ رواج کا نہیں بلکہ اسلامی شریعت کا پابند ہے ۔‘‘ اسی طرح بندوبست مال ۱۸۶۵ء کے کاغذات سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کا جو شجرہ نسب منسلک ہے اس میں ( حضرت ) مرزا غلام مرتضیٰ و مرزا غلام جیلانی و مرزا غلام محی الدین کے دستخطوں سے یہ نوٹ درج ہے کہ :۔
’’عرصہ چودہ پشت کا گذرا کہ مرزا ہادی بیگ قوم مغل گوت برلاس مورث اعلیٰ مالکان دیہہ۔۔۔۵یہ دستاویزات بتاتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاندان برلاس کی نسل سے ہے۔ ۶اور برلاس قوم کے متعلق ہیرلڈلیم (HaroldLamb)ایسے مغربی محقق کی رائے یہ ہے کہ ’’وہ ایشیا کے سطح مرتفع کی ۔۔ ایک قوم تھی جسے گذشتہ زمانے میں متھین کہتے تھے اور بعض ترک بھی بولتے تھے۔ مغلوں کے ساتھ وہ شمالی میدانوں سے آئے تھے اور اس زرخیر پہاڑی ملک میں آباد ہوگئے۔‘‘۷
اور انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا میں لکھاہے ۔ تمام میتھین قوم ایرانی الاصل تھی۔
‏''The Emtire Community Being of Iranian Originy''
۸پس جب متھین لوگ ایرانی تھے تو برلاس قوم کا ایرانی ہونا بھی خود بخود ثابت ہوگیا۔ برلاس قوم کے ایرانی ہونے کا علم الالسنہ کی رو سے ایک بھاری ثبوت یہ ملا ہے کہ جہاں قدیم منگولی اور ترکی لغات میں برلاس کا لفظ قریباً ناپید ہے وہاں فارسی لغات میں یہ لفظ بکثرت موجود ہے بلکہ عجیب تر بات یہ ہے کہ فارسی لغات نویسوں نے برلاس کے وہی معنی بتائے ہیں جن پر ’’فارسی ‘‘ کا عربی لفظ التزامی رنگ میں مستعمل ہے یعنی شجاع با لنسب ۔ ۹اس ضمن میں چند فارسی لغات نویسوں کے نام یہ ہیں ۔ آئی آئی پی ڈسمینز۱۰(I.I.P Desmaisons)ایف سٹین گاس (F. Stein gaos)شیخ ابو الفضل وغیرہ ۱۱
دوم:۔ دوسرا نقطہ نگاہ جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مرد فارس ہونا پایا ثبوت تک پہنچتا ہے یہ ہے کہ ہیرلڈیم ۱۲(Harold Lamb) اے ویمبرے ۱۳(A. Vambery)ایچ۔ جی ریورٹی ۱۴(H. G. Raverty)اور سر پر سی سائیکس ۱۵(Sir Percy Sykes)اور دوسرے مغربی مورخین نے تسلیم کیا ہے کہ امیر تیمور برلاس قبیلہ سے تعلق رکھتاتھا اور اس کا باپ اس قبیلے کا رئیس تھا۔ ۱۶اسی طرح ’’تزک تیموری ‘‘(Memoris of Tamur)میں تیمور کے باپ کی یہ دعا بھی لکھی ہے کہ خدایا مجھے ایسا فرزند عطا کر جو قبیلہ برلاس کی عزت و شہرت کو دوبالا کر نے والا ہو۔ ‘‘
یہ معلوم کرلینے کے بعد کہ صاحبقران تیمور برلاس خاندان ہی کا ایک فرد تھا (بلکہ جیسا کہ اس کے شجرہ نسب سے ثابت ہے وہ ایروم جی برلاس کی چھٹی پشت میں تھا اور حاجی برلاس مورث اعلیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حقیقی بھتیجا تھا) اب تیمور کے خاندانی کوائف پر باریک نگاہ ڈالی جائے تو وہ نسلا خالص ایرانی معلوم ہوتاہے ۔ یہ صحیح ہے کہ تیمور کے بعض سوانح نگاروں نے ’’مغل ‘‘لفظ کو نا واجب وسعت دیتے ہوئے اسے رشتہ کے اعتبار سے چنگیز خاں سے ملا دیا ہے ۔ لیکن بالا خر خود مورخین ہی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ یہ صریحاً جھوٹ بلکہ مفروضہ داستان ہے ۱۷ جو مدت ہوئی باطل قرار دی جاچکی ہے ۔ بلکہ انہیں یہ بھی مسلم ہے کہ چودھویں صدی میں تیمور کی فتوحات کے بعد اس کے خوشامدیوں نے تیموری شجرہ نسب کو چنگیز خاں سے منسلک کرنے کی کوشش شروع کردی تھی ابن الیاس نے تاریخ رشیدی کے ترجمے کی تمہید میں لکھاہے ’’لفظ مغل ‘‘کے معنی غلط سمجھے گئے ہیں اور بعض وقتوں میں اس قدرو سیع کر لئے گئے ہیں کہ بہت سی قومیں جو دراصل ترکی النسل ہیں مغل ہی سمجھ لی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ جو دراصل مغل نہیں تھے وہ بھی مغل ہی مشہور ہوگئے پہلے پہل چنگیز خاں اور اس کے جانشینوں کے زمانے میں اس کا رواج نظر آتاہے ۔ بعد ازاں ہندوستان میں چغتائیوں کے عروج کے زمانے میں جو عام طور پر مغل کہلاتے ہیں ۱۸‘‘ تیمور کے مغل خاندان سے نہ ہونے کی ایک زبردست شہادت یہ بھی ہے کہ تیمور نے جب مختلف قبائل کو تمغے دینے چاہے اور ان کے نام لئے تو برلاس کو مغل قبیلے سے الگ بیان کیاہے۔ ۱۹
یہی نہیں تاریخ سے اس کا مغلوں کے خلاف یورش کرنا بھی ثابت ہے چنانچہ ’’تاریخ اقوام عالم ‘‘ میں لکھاہے ’’تیمور۔۔۔۔ برلاس خاندان کا سردار تھا۔ تیمور نے گھڑ سوار ترکوں کا ایک لشکر جرار منظم کیا اور ترکستان کے چغتائی مغلوں کو اپنا مطیع بنانے کے بعد اس نے دشت قیچاق پر چڑھائی کی جس کے شمالی اضلاع میں اردوئے زریں والے مغل خان حکومت کر رہے تھے۔ مغلوں کا اردوئے زریں شمال کی طرف پسپا ہوگیا۔ تیمور نے ان کا تعاقب کیا۔ ان کے مرکز سرائے کو تاراج کیا اور دریائے والگا کے بالائی حصوں میں پہنچ کر انہیں شکست دی۔ تیموری لشکرروس کی سرزمین کو پامال کرتاہوا ماسکو کے قریب سے گذرا۔ تیمور نے اس شہر سے تعرض نہ کیا کیونکہ وہ چنگیز خانی مغلوں کی طرح شہروں کو بلا وجہ تاراج کرنے کے حق میں نہ تھا۔ ‘‘۲۰
بہرحال تیمور کو چنگیزی نسل سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے چنانچہ اس بارے میں محققین کی چند آراء یہ ہیں:
(۱) ’’سکرائن ‘‘(SKrine)اور ’’راس ‘‘(Ross) لکھتے ہیں۔ ’’تیمور کے پہلے مورخین اس کا شجرہ نسب چنگیزخاں کے ساتھ ملانے پر خاص خوشی کا اظہار کرتے تھے لیکن یہ محض ایک فسانہ ہے جس کا بھانڈا مدت سے چورا ہے میں پھوٹ چکا ہے ۔ ‘‘۲۱
(۲) میلکم کا کہنا ہے کہ ’’تیمور کے خوشامدی مورخوں نے اس کا نسب مغل بادشاہ کے ساتھ ملادیا ہے ۔‘‘۲۲
تیمور کو چنگیزی نسل سے منسلک کرنے والوں کے برعکس ایک گروہ لی آن کیہم (Lean Cahum)اور اے ویمبرے (A. Vambery)سرڈی راس (Sir D. Ross)بلکہ سکرائن بھی شامل ہیں جو تیمور کو ترک قرار دینے پر مصرہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ گروہ بھی پہلے اسی قسم کی غلطی کا شکار ہوا ہے جس کا ارتکاب پہلا گروہ کر چکا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک فریق نے ’’مغل ‘‘ کے دائرہ میں کھینچ تان کی ہے اور دوسرے نے ’’ترک ‘‘ میں ۔ جس کا لازمی اور طبعی نتیجہ یہ برآمد ہواکہ تیمور کی شخصیت ہی نہیں خود برلاس نسل کی ہیت و صورت ہی ’’مغل ‘‘ اور ترک ‘‘پردوں میں پوشیدہ ہوگئی ہے ۔ بایں ہمہ یہ حقائق چھپائے چھپ نہیں سکتے ۔ کہ تیمور کے سکوں، ہتھیاروں اور مہروں کے نشان اور تیمور کے شاہی محل کی طرز میں قدیم ایرانی روایات بالکل نمایاں تھیں ۔کلاو یجو (Clavijo)جو تیمور کے دربار میں ہنری سوم (Henry. 111)کی طرف سے بطور سفیر بھیجا گیا تھا تیمور کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتاہے ’’وہ ہتھیار جو امیر تیمور بیگ لگاتاہے وہ تین دائروں میں ہیں ۔ انگریزی حرف او(o)کی طرح اور ان کی شکل اس طرح کی ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ دنیا کی تین اطراف کا مالک ہے ۔ تیمور کا حکم تھا کہ یہ نشان سکوں پر بھی لگایا جاوے اور ہر ایک چیز پر جو اس کے پاس تھی۔ امیر نے اپنی مہروں پر بھی یہ نشان لگانے کا حکم دے رکھا ہے اور اس کا یہ بھی حکم ہے کہ تمام وہ لوگ جو سلطنت تیموریہ کے باجگزار ہیں اپنے اپنے ملک کے سکوں پر یہ نشان لگاویں‘‘۔ ویمبرے (Vambery)اس مخصوص نشان کو قدیم ایرانی نشان تسلیم کرتے ہوئے لکھتاہے :
’’تیمور کے اپنے ہتھیار تین حلقوں میں تھے جن پر راستی کا ماٹو تھا۔ یعنی انصاف ہی طاقت ہے۔ یہ نشان اس کی طاقت کے اظہار کے لئے تھا جو شمال ، جنوب اور مغرب تین دائروں پر مشتمل تھے۔ مگر گمان غالب یہی ہے کہ وہ قدیم ایران کے ہتھیاروں کے نشانات سے مستعار لئے گئے ہیں کیونکہ حلقے جو طاقت اور اتحاد کا نشان سمجھے گئے ہیں وہ ساسانی بادشاہوں کے مقبروں پر بھی دیکھے جاتے ہیں۔ ‘‘۲۳
ویمبرے نے یہ بھی انکشاف کیاہے کہ :۔
’’ـــــ۔۔۔۔۔۔۔محل دس سال سے ایرانی معماروں کے ہاتھ سے تیار ہو رہا تھا ۔ انہوں نے اپنی قومی طرز عمارت کو یہاں تک ملحوظ رکھا کہ سورج اور شیر ببر کے بازو عمارت کی پیشانی پر ڈال دیئے اور اس طرح تورانی فاتح کے محل پر شاہاں ایران کے نشان بنا دیئے ۔ ‘‘۲۴
تیمور کا قدیم ایران کے نشان کو ( جو کوئی وجہ نہیں کہ قومی نشان نہ ہو) یوں سختی سے قائم کرنا اور اپنی باجگزار ریاستوں تک کو اس کی پابندی کا حکم دینا اس کے فارسی النسل ہونے کا واضح ثبوت ہے اور پھر تورانی فاتح کے محل پر شاہان ایران کا شاہی نشان تو صاف واضح کر رہا ہے کہ تیمور اور اس کا قبیلہ برلاس ایرانی عظمتوں کی یادگار تھے اور وہ جہاں جہاں گئے مقبروں سے محلات تک ایرانی نشان کے قیام واحیاء کی تڑپ لے کر گئے۔ ورنہ اگر یہ ایرانی خون کے کرشمے نہیں تھے تو تیمور کی قومی حمیت و غیرت نے کیسے گوارا کر لیا کہ وہ ایک مفتوح قوم کے مٹے ہوئے نقوش کو از سر نو اجاگر کرنے کی منظم تحریک اٹھائے اور ایرانی نشان جو فقط ساسانی مقابر کی زینت بن کر رہ گیا تھا ایک زندہ اور قومی نشان کی شکل میں اس کے پورے نظام ریاست پر لہرا جائے۔ پس تیمور نہ صرف خالص ایرانی النسل انسان ثابت ہوتاہے بلکہ اپنی قومی شوکت ور فعت کا بہت بڑا دلدادہ بھی۔ لہٰذا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا برلاس قوم کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے فارسی النسل ہونا قطعی اور یقینی امر ہے۔
سوم :۔ مورخین بالاتفاق یہ تسلیم کرتے ہیں کہ چھٹی صدی ہجری میں برلاس قبیلہ سمرقند اور کش کے علاقہ میں آباد تھا۔ چنانچہ تزک تیموری (Memoirs of Tamur)میں لکھا ہے کہ قراچار نے ( جو اپنی قوم میں پہلا فرد تھا جس نے اسلام قبول کیا) کش کے میدانوں کو اپنے قبیلہ برلاس کے لئے مقرر کر دیا تھا ۔ ۲۵
ویمبرے لکھتاہے کہ برلاس قبیلے کے لوگوں نے کش اور نخشب میں اپنی ایک خود مختار ریاست قائم کر لی تھی۔ ۲۶اور مارخم صاف کہتاہے کہ تیمور کے جد امجد قراچار نے قبیلہ برلاس کو سمرقند کے قریب کش کے اردگرد حکومت دے دی تھی۔ ۲۷تاریخ رشیدی کے ترجمہ انگریزی میں ہے کہ علاقہ کش اپنے ماتحت علاقوں سمیت امیر قراچار کے ماتحت تھا۔ ۲۸( یہ ظفر نامہ کے حوالہ سے لکھا گیا ہے ) غرض کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ چھٹی صدی عیسوی میں کش اور سمر قند کے علاقوں میں برلاس قوم آباد تھی۔
یہ کش اور سمر قند کا علاقہ قدیم زمانے سے ایرانی نسل کی آماجگاہ تھا۔ پرانے زمانے میں سوغدیانہ یا سغد ( Sadiana) کہلاتاتھا۔ ۲۹قدیم ایرانی سلطنت اشامی نیٹن کا ایک صوبہ تھا جس کی بنیاد ایک معزز ایرانی سردار اشامینی نے ڈالی تھی۔ اور سائرس اور دارااسی سے تعلق رکھتے تھے۔ سمرقند اس صوبے کا دارالخلافہ تھا اور سمر قند کے متعلق ای شولر(E. schuyler) اپنی کتاب ترکستان میں لکھتاہے کہ مقام روایت کے مطابق اس کی بنیاد افراسیاب نے رکھی ۔ اصلی نام سمرقند ایرانی معلوم ہوتاہے اور یہ کہ اس کی تمام بڑی بڑی عمارتیں ایرانی معماروں یا ان کے شاگردوں کی بنائی ہوئی ہیں۔ ( کیونکہ کتبوں سے یہی ظاہر ہے ) ۳۰ یہی نہیں خود سغدی قوم کے متعلق انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں لکھاہے کہ یہ لوگ ایک ایرانی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ امر بھی پایہ ثبوت تک پہنچ چکا ہے کہ قدیم اصطلاح کے مطابق ماوراء النہر کے آگے بھی ایرانی بستیاں آباد تھیں۔ چنانچہ تاریخ کی اس قطعی شہادت کی تائید میں چند محققوں کی آراء یہ ہیں:
۱۔ بحیرہ خرز کے میدان میں رہنے والی وحشی قوموں کے حملے سے بہت پیشتر ایرانی لوگ ماوراء النہر میں بودوباش رکھتے تھے۔ ۳۱
۲۔ اے ویمبرے:۔
’’وراء النہر کے اکثر باشندے ایرانی تھے۔ اور عرب ، سامانی ، سلجوق اور خوارزم بادشاہوں کے زمانے میں بخارا، فرغانہ اور خوارزم کی عام زبان فارسی تھی۔ ‘‘
یہ بات کہ دریائے جیحوں کے دوسری طرف کے ممالک میں قدیم زمانے میں خالص ایرانی نسل کے لوگ آباد تھے ۔ ایرانیوں کے نہایت قدیم یاد گار دندی داد سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔۳۲
۳۔ زیپلیکا ایم ۔ اے:۔’’ تازک جو سمر قند اور فرغنہ کے علاقوں میں رہتے ہیں وہ خالس ایرانیوں کی اولاد تھے۔‘‘۳۳
۴۔ گب’’ ۷۲۰ عیسوی تک عرب حملہ آوروں کا مقابلہ ( مادراء النہر کے ) مقامی بادشاہ ہی کرتے رہے اور ان کی فوجیں قریباً سب کی سب ایرانی سپاہیوں پر مشتمل ہوتی تھیں۔‘‘۳۴
یہ اقتباسات بتاتے ہیں کہ ماوراء النہر کے علاقوں تک ایرانی نسل پھیلی ہوئی تھی۔ اب ذرا گہری تحقیق کی جائے تو ان علاقوں سے آگے بھی ایرانی لوگ بستے نظر آتے ہیں ۔ چنانچہ ای شولر (E. schuyler)لکھتاہے۔
’’ایرانی لوگ امواور سرکے درمیانی علاقے کے رہنے والے ہی نہیں تھے جسے قدیم زمانے میں ماوراء النہر کہتے تھے۔ بلکہ دریائے سرپر دائیں کنارے قوقند اور کاشغر میں بھی آباد تھے۔ فردوسی نے اپنے شاہنامنے میں پہلی دفعہ ایران اور توران کے درمیان دریائے اموکو حد فاصل قرار دیا ہے لیکن پروفیسر گری گوریف نے ساف لکھاہے کہ یہ اصطلاحیں جغرافیائی معنوں میں استعمال کی گئی ہیں نہ کہ علم الانساب کی رو سے ۔ اور ایران اور توران کے درمیان جو جنگ تھی وہ دو مختلف قوموں کے درمیان نہ تھی بلکہ ایک ہی نسل کے دو قبائل کے درمیان تھی ۔ بعد کے زمانے میں توران کے معنی ترک کے ہوگئے اور یہ لفظ تمام ترکی نسل کے لوگوں کے لئے عام طور پر بولا جانے لگا بلکہ ہر ایک قوم کے لئے اور اس چیز کے لئے جس کی اصل زبان دانوں اور علم الانساب کے ماہروں کو معلوم نہ ہوسکتی تھی۔ ‘‘۳۵
پروفیسر ایچ اے آر۔ گب نے بھی اسی نظریئے کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’دریائے جیحوں روایتی سرحد ہے تاریخی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ساسانیوں کے زمانے سے جس کا مورخین نے ذکر کیا ہے اور فردوسی کی نظم شاہنانے کی رو سے دریائے جیحوں ایران اور توران کے درمیان سرحد قرار پائی ۔ مگر فتوحات کے زمانوں میں سغد اور دریائے جیحوں کی وادی کے رہنے والوں نے ایرانی زبان اور ایرانی اداروں کو قائم رکھا اور وہ حقیقت میں ایرانی ہی رہے۔ ‘‘۳۶
ایرانی نسل ماورا ء النہر کے علاوہ موجودہ ترکستان میں بھی آباد تھی چنانچہ M.A.Czaplekaلکھتی ہے۔
’’اگرچہ ہم پہلی صدی عیسوی میں بھی جنوبی روس میں ترکوں کا نام سنتے ہیں مگر وہ صرف چوتھی صدی میں ترکستان میں آباد ہوئے تھے اور اسی لئے یہ ملک اس نام سے مشہور ہوا ہے حالانکہ اس سے پہلے اس کا نام ایران تھا اور اسے ایرکستان بھی کہتے تھے یعنی ایرانیوں کا ملک۔ اور مغرب میں اس کی حد موجودہ ایران تک پھیلی ہوئی تھی۔‘‘۳۷
ان تفصیلات سے واضح ہے کہ ایرانی نسل ماوراء النہر کے علاقے ہی میں نہیں ترکستان تک بھی پہنچ گئی تھی بلکہ ابتداء میں ترکستان ایران ہی کا ایک حصہ تھا اور سمر قند اور بخارا تو بالخصوص برلاس قوم کا مسکن تھے۔ پس اگر یہ ثابت ہوجائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اب وجد سمر قند و بخارا کے رہنے والے تھے تو حضور کا فارسی النسل ہونا مسلمہ حقیقت بن جاتی ہے۔ اس بارے میں تاریخی حقائق ایک کھلے ورق کی حیثیت میں بتارہے ہیں کہ حضور کے مورث اعلیٰ سمر قند سے ہندوستان میں ہجرت کرکے فروکش ہوئے تھے۔ چنانچہ ’’تذکرہ رؤسا ء پنجاب میں (جسے سرلیبل گریفن ۳۸نے تالیف کرنا شروع کیا اور مسٹر میسی اور مسٹر کریک نے پایہ تکمیل تک پہنچایا) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے متعلق ایک نوٹ لکھاہے :
’’شہنشاہ بابر کے عہد حکومت کے آخری سال یعنی ۱۵۳۰ء میں ایک مغل ہادی بیگ باشندہ سمر قند اپنے وطن کو چھوڑ کر پنجاب میں آیا اور ضلع گورداسپور میں پودو باش اختیار کی۔‘‘
اس کے علاوہ بعض غیراز جماعت اور غیر مسلم سوانح نگاروں نے حضور کے مورث اعلیٰ مرزا ہادی بیگ کا سمر قند سے ضلع گورداسپورمیں فروکش ہونا تسلیم کیاہے مثلا پادری ایچ ڈی گرس وولڈ فورمین کرسچن کالج لاہور لکھتے ہیں:
’’مرزا صاحب مغلوں کی نسل سے ہیں۔ آپ کے بزرگ علاقہ سمر قند ملک ترکستان سے بابر بادشاہ کے عہد میں پنجاب میں آئے تھے۔‘‘
چہارم :۔ ظفر نامہ مولانا شرف الدین یزدی ۔ انساب الترک ۔ ابو الغازی خاں۔ الانساب مغل روضۃ الضبط ۔ حبیب السیر ، اکبر نامہ ، منتخب اللباب ،خامی خان وغیرہ تواریخ میں بالا تفاق یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ صاحبقران تیمور کا شجرہ نسب حضرت نوحؑ کے فرزند حضرت یافث سے ملتاہے ۔۳۹اور حضرت یافث کے متعلق مشہور فارسی لغات’’غیاث اللغات‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’شیخ ابن حجر شارح صحیح بخاری گفتہ است کہ فارسی منسوب بفارس بن غامور ابن یافث بن نوح علیہ السلام ‘‘ یعنی صحیح بخاری کے شارح حضرت شیخ ابن حجر فرماتے ہیں کہ فارس حضرت نوح کے پوتے اور حضرت یافث کے بیٹے فارس کی طرف منسوب ہے۔ ۴۰
پنجم :علم الاقوام کے ماہرین (مثلاً ای ریکلس (E. Reclus)جارج رالن سن (George Rawlin Son)۴۲اور اے سی ہیڈن۴۳(A.C. Haddon)وغیرہ نے مصری، کلدانی ، آشوری ، فینقی ، ایرانی ، یونانی اور رومی مشہور تاریخی قوموں کے قدیم حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے بالا تفاق تسلیم کیا ہے کہ چوڑی پیشانی ، لمبی اور گھنی ڈاڑھی ، بلند ناک ، گول ٹھوڑی ، چہرہ بیضوی اور سنجیدہ ، بال گھنے اور بکثرت ، جلد سفید گلابی یا تابنے کے رنگ کی مانند ایرانی نسل کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ دوسری طرف انہوں نے چینی ، جاپانی ، منگولی تبتی اور ترکستانی نسل کے متعلق لکھاہے کہ اس کا رنگ اور چمڑا زرد آنکھیں چھوٹی اور دھنسی ہوئی اور بال سخت ہوتے ہیں۔ یہ نسل ایشیا کے شمال و مشرق میں کوہ قاف سے چین و جاپان تک پھیلی ہوئی ہے۔ ۴۴اس تحقیق کی روشنی میں جب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے خاندان کی جسمانی ساخت، شکل و شباہت اور چہرے مہرے کو دیکھا جائے تو صاف نظر آتاہے کہ یہاں منگولی یا ترکی صفات ہر گز موجود نہیں۔ مگر ایرانی نسل کے تمام تر اوقاف آپ میں بدردجہ اتم پائے جاتے ہیں۔
پس جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فارسی النسل ہونا نیر النہار کی طرح ظاہر و باہر ہو جاتاہے ۔ چنانچہ مشہور اہل حدیث مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں ۔ ’’مولف براہین احمدیہ قریشی نہیں فارسی الاصل ہے۔ ‘‘۴۵
مندرجہ بالا تحقیقات سے اس سربستہ راز پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ حضور کا خاندان ایرانی النسل ہونے کے باوجود کس طرح چینی اور ترکی خون سے مرکب ہوا۔ کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ آپ کے جد امجد قراچار نے جو ایروم جی برلاس کے پوتے تھے چغتائی خان کی لڑکی سے شادی کی تھی اور اس طرح ترکی چینی خون کی آپ کے خاندان میں آمیزش ہوئی ۔ اس پہلو کے سمجھنے کے لئے قبیلہ برلاس کے شجرہ نسب پر فقط ایک نگاہ ڈالنا کافی ہے۔
ایروم جی برلاس
سوغوچیجن
قراچارنویاں
ایجل خان
امیر ایلنگراخاں
امیر برکل ۴۶،۴۷
حاجی برلاس مورث اعلیٰ طراغائے
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام امیر تیمور صاحبقران
سمرقند سے پنجاب تک :۔
جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے ۔ قراچار نے قبیلہ برلاس کو کش کے علاقہ میں آباد کر دیا تھا۔ لیکن جب تیمور کا اقتدار بڑھا تو اس کے چچا حاجی برلاس کش سے بے دخل ہو کر خراسان میں پنا ہ لینے پر مجبور ہوئے اور یہیں فوت ہوئے ۔ ۴۸بعد کو خود تیمور نے خراسان کی ریاست زیر نگین لانے کے بعد حاجی برلاس ہی کے خاندان کو بطور جاگیر سونپ دی اور اس طرح یہ شاہی خاندان خراسان ہی میں مقیم ہوگیا۔ یہاں تک کہ اس خاندان کے ایک مقتدر بزرگ مرزا ہادی بیگ نے اپنے افراد خاندان سمیت خراسان کو خیر باد کہہ دی اور اپنے آبائی وطن کش میں دوبارہ بودو باش اختیار کرلی جہاں قومی تفرقہ اور خصوصیت کے نتیجے میں ملک میں ایسے انقلابات ہوئے کہ آپ اس سر زمین کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور اپنے خاندان اور توابع اور خدام کے دو سو افراد پر مشتمل ایک قافلہ لے کر کش سے پنجاب کی سرحد میں داخل ہوگئے ۔ یہ تاریخی ہجرت ۱۵۳۰ء مطابق ۹۳۸ھ میں ہوئی جبکہ ہندوستان میں تیمور کا پوتا اور سلطنت مغلیہ کا پہلا تاجدار ظہیر الدین محمد بابر گھاگر اکی لڑائی میں آخری فتح حاصل کرنے کے بعد اپنی زندگی کے آخری دن گذار رہا تھا۔ ۴۹اور بزم تصوف و ارشاد میں حضرت شیح عبدالقادر ۵۰ ثانی رحمۃ اللہ ۔ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ۵۱ حضرت شیخ بہائو الدین جون پوریؒ۵۲، حضرت سلطان جلال الدین ؒ۵۳، حضرت شیخ جمال قدس سرہ ۵۴، حضرت شیخ زین الدین ؒ ۵۵اور حضرت شیخ محمد غوث ۵۶گو الیاری شطاری رحمۃ اللہ علیہم اجمعین ایسے اکابر صوفی اور خدارسیدہ بزرگ رونق افروز تھے۔
بعض مورخین نے لکھاہے کہ :
’’سلطان بابر نے ۱۵۲۶ء میں پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی سلطان ہند کو شکست دی اور دہلی میں سلطنت مغلیہ کی بنیاد رکھی۔۔۔۔سلطان محمد بابر کے ساتھ بھی بہت سے چغتائی سردار واردہند ہوئے ۔ چنانچہ ہند میں مرزایان چغتائیہ کی تعداد مغلان برلاس سے زیادہ ہوگئی۔ اور تاحال زیادہ ہے ۔۔۔۔۔چغتائی وہ مغل ہیں جو چنگیز کے بیٹے چغتائی خاں کی اولاد سے ہیں اور ان کے اجداد امیر تیمور اور سلطان محمد بابر کی افواج کے ذریعہ وارد ہند ہوئے اور یہیں مقیم ہوگئے۔ اور برلاس خاص شاہان مغلیہ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اولاد امیر تیمور گورگانی سے ہیں۔۔۔۔اور امیر تیمور کے خروج کے بعد ان کے اجداد خئن ، تاشقند اور بلخ کے حاکم تھے اور اس واسطے سے یہ تیموری اور بابری لشکروں کے ساتھ وارد ہند ہو کر یہاں سکونت پذیر ہوگئے۔ ‘‘۵۷
پنجاب میں ایک مثالی اسلامی ریاست کا قیام اور قادیان کی تاسیس :۔
حضرت مرزا ہادی بیگ نہ صرف ایک شاہی خاندان کے چشم و چراغ تھے بلکہ خود بابر سے انہیں خاندانی قرابت حاصل تھی۔ آپ کے یہاں قدم رنجہ فرماتے ہی پنجاب کی قسمت جاگ اٹھی اور ماجھا کے علاقہ میں نہ صرف ایک نئی بستی ابھرآئی بلکہ ایک مثالی اسلامی ریاست کا قیام بھی معرض عمل میں آگیا۔ جو ۱۵۳۰ء (مطابق ۹۳۸ھ)سے ۱۸۰۲ء (مطابق ۱۲۱۷ھ) تک کم و بیش پونے دو سو سال تک قائم رہی اور پھر سکھو ں کی برچھا گردی کا شکار ہوگئی ۔ یہ عظیم الشان ریاست آخر میں ۸۴۔ ۸۵دیہات میں محدو د ہوگئی۔ لیکن اس وقت بھی اس کی سالانہ آمدنی آٹھ لاکھ تھی۔ جیسالہ ’’شمشیر خالصہ‘‘ میں لکھاہے کہ :
’’۱۸۶۳ء بکرمی میں اس کا چچا تاراسنگھ مرگیا ۵۸ تو اس کے بیٹے دیوان سنگھ نے جودھ سنگھ سے لڑکر اپنی جائیداد علیحدہ کرلی اور تعلقہ قادیان کے ۸۴ دیہات پر جن کی آمدنی آٹھ لاکھ روپیہ سالانہ تھی قابض ہوگیا۔‘‘۵۹
حضرت مرزا ہادی بیگ کے وصال کے بعد :۔
حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب کے وصال کے بعد ان کے خاندان کی شاہانہ عظمت اور جلال و تمکنت میں اضافہ ہوتارہا۔ یہاں تک کہ جب ان کی نویں پشت میں حضرت مرزا فیض محمد صاحب پیدا ہوئے تو ان کے عہد اقتدار میں قادیان کی ریاست کے مغلیہ سلطنت سے اور بھی گہرے تعلقات و روابط قائم ہوگئے ۔ چنانچہ ۱۷۱۶ء میں محمد فرخ سیر غازی شہنشاہ ہندوستان کی طرف سے انہیں ہفت ہزاری امراء کی سلک میں منسلک کرکے عضد الدولہ کا عظیم الشان ، قابل فخر اور ممتاز خطاب دیا گیا ۔ ۶۰تاریخ سے ثابت ہے کہ ہفت ہزاری منصب شاہان مغلیہ کے زمانہ میں بہت دقیع و رفیع سمجھا جاتاتھا۔ اور ہفت ہزاری امراء میں منسلک کرنے کے یہ معنی تھے کہ وہ اپنی ریاست میں سات ہزار جوانوں کی فوج رکھ سکتے ہیں جو اس زمانہ میں ایک بڑی جنگی طاقت سمجھی جاتی تھی۔
حضرت مرزا گل محمد صاحب کا دور اقتدار :۔
حضرت مرزا فیض محمد صاحب کے وصال کے بعد حضرت مرزا گل محمد صاحب ایسے ولی اور پارسا حکمران اور اعلیٰ درجہ کے جرنیل جانشین ہوئے اس وقت غالباً عالمگیر ثانی کا دور اقتدار شروع تھا۔ دہلی کی مغلیہ حکومت کی جڑیں خانہ جنگیوں اور چند درچند اسباب و وجودہ سے کھوکھلی ہوچکی تھیں اور مغل شہزادے آپس میں قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئے تھے۔ لیکن تاریخی ریکارڈ سے ثابت ہے کہ عالمگیر ثانی (۱۷۵۴ء۔۱۷۵۹ء) اس کے جانشین شاہ عالم ثانی (۱۷۵۹ء۔ ۱۸۰۶ء)کے قادیان کی ریاست اور حضرت مرزا گل محمد صاحب سے گہرے مراسم قائم تھے۔ اور سلطنت مغلیہ کے یہ تاجدار انہیں خط و کتابت میں ’’نجابت وصالی پناہ عالیجاہ۔ رفیع جائیگاہ۔ اخلاص وعقیدت دستگاہ اور عمدۃ الاماثل والا فرمان‘‘ایسے عظیم القاب سے مخاطب کیا کرتے تھے۔ ۶۱
قادیان کی اسلامی ریاست سلطنت مغلیہ کے زوال کے باوجود پورے عروج پر تھی۔ اور اگر تقدیر الٰہی مخالف نہ ہوتی تو عین ممکن تھا کہ سکھوں اور مرہٹوں کا سیلاب رک جاتا اور ہندوستان کے شمال میں آپ ایک زبردست اسلامی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔ حضرت مرزا گل محمد صاحب رضی اللہ عنہٗ اور ان سے قبل ان کے والد مرزا فیض محمد صاحب ؓ ‘فرخ سیر‘محمد شاہ‘ شام عالم ثانی اور عالمگیر ثانی چاروں بادشاہوں کو برابر توجہ دلاتے رہے کہ پنجاب میں سکھ شورش کے جو شرارے پوری شدت سے اٹھ رہے ہیں اس میں تنہا ہم ہی لڑ رہے ہیں مگر ہمارے پاس اتنی طاقت نہیں کہ اس فتنے کا کامیاب مقابلہ کرسکیں۔ اس لئے ہماری امداد کے لئے جلد مرکزی فوج روانہ کی جائے۔ مگر افسوس ان چاروں نے اس بروقت انتباہ کو ناقابل التفات سمجھا۔ البتہ سکھوں کے خلاف اس ریاست کی اسلامی خدمات کا خلوص دل سے اقرار کرتے ہوئے یہ وعدہ ضرور کرتے رہے کہ شاباش تم خوب مقابلہ کررہے ہو ہم بھی آنے کا ارادہ کررہے ہیں ۔مگر ان میں سے کسی کو پنجاب آنے اور سکھوں کے بڑھتے ہوئے اثرو اقتدار کے خلاف نبرد آزما ہونے کی توفیق نہ مل سکی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سکھا شاہی پورے پنجاب پر مسلط ہوگئی اور خود مغل شہزادوں کی سہل انگاری سے پنجاب کا خطہ اسلامی حکومت کی آغوش سے نکل کر سکھ حکومت کے زیر نگیں ہوگیا۔
حضرت مرزا گل محمد صاحبؓ ہی کے زمانہ میں سلطنت مغلیہ کا ایک وزیر مملکت غیاث الدولہ قادیان میں آیا تو وہ ان کے مجاہدانہ عزائم ،ناقابل تسخیر ولولوں ، مدبرانہ طریق، استقلال اورحیرت انگیز قوت تدبر اور پروقار دربار کو دیکھ کر حیران وششدررہ گیا اورچشم پرآب ہوکر کہنے لگا کہ ’’اگر مجھے پہلے خبر ہوتی کہ اس جنگل میں خاندان مغلیہ میں سے ایسا مرد موجود ہے جس میں صفات ضروریہ سلطنت کے پائے جاتے ہیں تو میں اسلامی سلطنت کے محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کرتا کہ ایام کسل اورنالیاقتی اوربدوصفی ملوک چغتائیہ میں اسی کو تخت دہلی پر بٹھایا جائے‘‘ لیکن اب پانی حد سے بڑھ چکا تھا ۔اس لئے سلطنت مغلیہ کی بساط سیاست الٹ گئی اور ۱۸۰۳ء؁ میں انگریز مرہٹوں کو دلی سے نکال کر خود مسئلہ اقتدار پر بیٹھ گئے ۔اورپہلے تو شاہ عالم ثانی (۱۸۵۹۔۱۸۰۶ء؁ ) اور اکبر شاہ ثانی (۱۸۰۶۔۱۸۳۷ء؁) انگریزوں کے وظیفہ خوار بنے اور پھر سلطنت مغلیہ کے آخری تاجدار بہادر شاہ ثانی (۱۸۳۷۔۱۸۵۷) کے ہاتھوں سلطنت مغلیہ کا چراغ ہمیشہ کے لئے گل ہوگیا۔
حضرت مرزا گل محمد صاحبؒ تخمیناً ۱۸۰۰ء؁ میں انتقال فرماگئے۔ (۶۲،۶۳) آپ کے انتقال کے بعد عین اس زمانہ میں جبکہ دہلی کا تخت عملاً مغل شہزادوں سے نکل کر انگریزوں کی طرف منتقل ہورہا تھا ۔قادیان کی اسلامی ریاست سکھ اقتدار کے زیر نگیں ہوگئی ۔عمدۃ التواریخ میں لکھا ہے کہ ’’دیواسنگھ پسرتاراسنگھ ملک کو تاخت وتاراج کرتا تھا یہاں تک کہ اس نے تعلقہ قادیان مغلاں کو جہاں(مرزا) عطا محمد پسرمرزا گل محمد مقیم تھے زبردستی لے لیا اور مغلوں کو اپنے گھروں سے نکلال دیا‘‘(۶۴)
حضرت مرزا گل محمد صاحب کے جانشین مرزا عطا محمد صاحب اپنے خاندان سمیت کپور تھلہ کی ریاست میں بمقام بیگو وال پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوگئے۔ یہ ۱۸۰۲ء؁ یا ۱۸۰۳ء؁ کا حادثہ ہے جبکہ ریاست راجہ فتح سنگھ کے قبضہ میں تھی ۔ راجہ فتح سنگھ نے مرزا عطا محمد صاحب کو دوگائوں کی پیشکش کی لیکن انہوںنے صاف انکار کرتے ہوئے کہاکہ اگر ہم نے یہ گائوں لے لئے تو پھر یہیں رہ پڑیں گے اور اس طرح اولاد کی ہمت پست ہوجائے گی اوراپنی خاندانی روایات قائم رکھنے کا خیال ان کے دل سے اس طرح جاتا رہے گا۔ (۶۵) تخمیناً ۱۸۱۴ء؁ میں دور جلا وطنی کی گیارہ سالہ سختیاں اور مصائب جھیلنے اوردکھ اٹھانے کے بعد وہ بالاآخر کپور تھلہ ہی میں انتقال فرماگئے ۔(۶۶)اوریہ خاندان بظاہر بالکل بے سہارا رہ گیا۔ اوریہ ناگفتہ بہ حالت کم وبیش بیس برس تک قائم رہی ۔ لیکن اب چونکہ امام الزمان کی ولادت کا وقت آرہا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے قادیان کی واپسی کا از خود غیبی سامان کردیا۔ اوروہ اس طرح کہ ۱۸۳۴ء؁ ۔۱۸۳۵ء؁ میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے حضرت مرزا عطا محمد صاحب کے فرزند اوربانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کو قادیان کی ریاست کے پانچ گائوں واپس کردیئے جو چودہ سال تک اس شاہی خاندان کے پاس رہے ۔پھر جب ۲۹۔مارچ ۱۸۴۹ء؁ کو پنجاب کا سلطنت انگریزی سے الحاق عمل میں آگیا تو جہاں اکثر وبیشتر سکھ خاندانوں کے حقوق واعزاز بدستور قائم رکھے گئے(۶۷،۶۸) بلکہ بعض کوقیمتی جاگیروں سے نوازا گیا ۔ وہاں بعض ’’باغی ‘‘ سرداروں (۶۹) کی جاگیروں کے ساتھ قادیان کی جاگیر بھی چھن گئی ۔ اور اشک شوئی کے لئے سات سوروپیہ کی پنشن منظور کردی گئی۔ کیونکہ شورش کے ایام میں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؓ نے فرنگی حکومت کا ساتھ دینے سے صاف انکار کردیا تھا اس موقعہ پر سکھ وزیر نے بھاگو وال کے ایک وزیر کے ذریعہ سے انہیں پیغام بھی بھیجا کہ انگریز طاقت ور ہیں ان سے صلح کرلو خواہ مخواہ آدمی نہ مروائو ۔ مگر انہوںنے حکومت وقت سے بے وفائی گوارا نہ کی۔ (۷۰) اورمعتوب ہوگئے ۔ اس کے بعد جب انگریزی حکومت باقاعدہ قائم ہوگئی تو انہوں نے اسلامی تعلیم کے مطابق حکومت وقت سے وفاداری کا اعلیٰ نمونہ دکھایا بایں ہمہ بڑے بڑے مقدمات کے بعد انہیں بمشکل قادیان کی زمین کا کچھ حصہ واپس مل سکا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خود نوشت خاندانی حالات:۔
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ’’کتاب البریہ‘‘ میں قادیان کی اسلامی ریاست اوراپنے خاندانی حالات کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے جسے یہاں نقل کرنا ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں :۔
’’ہماری قوم مغل برلاس ہے اورمیرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جو اب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمرقند سے آئے تھے اوران کے ساتھ قریباً دو سوآدمی ان کے توابع اورخدام اوراہل وعیال میں سے تھے اور وہ ایک معزز رئیس کی حیثیت سے اس ملک میں داخل ہوئے اور اس قصبہ کی جگہ جو اس وقت ایک جنگل پڑا ہوا تھا جو لاہور سے تخمیناً پچاس کو س بگوشہ شمال مشرق واقع ہے فروکش ہوگئے۔(۷۱)جس کو انہوںنے آباد کرکے اس کانام اسلام پور رکھا جو پیچھے اسلام پور قاضی ماجھی کے نام سے مشہور ہوا۔ اور رفتہ رفتہ اسلام پور کا لفظ لوگوں کو بھول گیا اور قاضی ماجھی کی جگہ پر قاضی رہا اور پھر آخر قادی بنا اور پھر اس سے بگڑ کر قادیان بن گیا اور قاضی ماجھی کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ علاقہ جس کا طولانی حصہ قریباً ساٹھ کوس ہے۔ ان دنوں میں سب کا سب ماجھہ کہلاتاتھا ۔ غالباً اس وجہ سے اس کانام ماجھہ تھا کہ اس ملک میں بھینسیں بکثرت ہوتی تھیں اور ماجھہ زبان ہندی میں بھینس کو کہتے ہیں۔ اور چونکہ ہمارے بزرگوں کو علاوہ دیہات جاگیرداری کے اس تمام علاقہ کی حکومت بھی ملی تھی۔ اس لئے قاضی کے نام سے مشہور ہوئے۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کیوں اور کس وجہ سے ہمارے بزرگ سمرقند سے اس ملک میں آئے۔ مگر کاغذات سے یہ پتہ چلتاہے کہ اس ملک میں بھی وہ معزز امراء اور خاندان والیان ملک میں سے تھے اور انہیں کسی قومی خصوصیت اور تفرقہ کی وجہ سے اس ملک کو چھوڑنا پڑا تھا۔ پھر اس ملک میں سے تھے اور انہیں کسی قومی خصومت اور تفرقہ کی وجہ سے اس ملک کو چھوڑنا پڑا تھا۔ پھر اس ملک میں آکر بادشاہ وقت کی طرف سے بہت سے دیہات بطور جاگیران کو ملے ۔ چنانچہ اس نواح میں ایک مستقل ریاست ان کی ہوگئی۔
سکھوں کے ابتدائی زمانہ میں میرے پردادا صاحب مرزا گل محمد ایک نامور اور مشہور رئیس اس نواح کے تھے جن کے پاس اس وقت ۸۵گائوں تھے اور بہت سے گائوں سکھوں کے متواتر حملوں کی وجہ سے ان کے قبضہ سے نکل گئے۔ تاہم ان کی جوانمردی اور فیاضی کی یہ حالت تھی کہ اس قدر قلیل میں سے بھی کئی گائوں انہوں نے مروت کے طور پر بعض تفرقہ زدہ مسلمان رئیسوں کو دے دیئے تھے جو اب تک ان کے پاس ہیں۔ غرض وہ اس طوائف الموکی کے زمانہ میں اپنے نواح میں ایک خود مختار رئیس تھے۔ ہمیشہ قریب پانچ سو آدمی کے یعنی کبھی کم اور کبھی زیادہ ان کے دسترخوان پر روٹی کھاتے تھے اور ایک سو کے قریب علماء اور صلحاء اور حافظ قرآن شریف کے ان کے پاس رہتے تھے ۔ جن کے کافی وظیفے مقرر تھے ۔ اور ان کے دربار میں اکثر قال اللہ اور قال الرسول کا ذکر بہت ہوتا تھا اور تمام ملازمین اور متعلقین میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو تارک نماز ہو۔ یہاں تک کہ چکی پیسنے والی عورتیں بھی پنج وقہ نماز اور تہجد پڑھتی تھیں۔ اور گردو نواح کے معزز مسلمان جو اکثر افغان تھے قادیان کو جو اس وقت اسلام پور کہلاتا تھا، مکہ کہتے تھے ۔ کیونکہ اس پر آسوب زمانہ میں ہر ایک مسلمان کے لئے یہ قصبہ مبارکہ پناہ کی جگہ تھی۔ اور دوسری اکثر جگہ میں کفر اور فسق اور ظلم نظر آتا تھا اور قادیان میں اسلام اور تقویٰ اور طہارت اور عدالت کی خوشبو آتی تھی۔ میں نے خود اس زمانہ سے قریب زمانہ پانے والوں کو دیکھاہے کہ وہ اس قدر قادیان کی عمدہ حالت بیان کرتے تھے کہ گویا وہ اس زمانہ میں ایک باغ تھا جس میں حامیان دین اور صلحاء اور علماء اور نہایت شریف اور جوانمرد آدمیوں کے صدہا پودے پائے جاتے تھے اور اس نواح میں یہ واقعات نہایت مشہور ہیں کہ مرزا گل محمد صاحب مرحوم مشائخ وقت کے بزرگ لوگوں میں اور صاحب خوارق اور کرامات تھے۔ جن کی صحبت میں رہنے کے لئے بہت سے اہل اللہ اور صلحاء اور فضلاء قادیان میں جمع ہوگئے تھے۔ اور عجیب تریہ کہ کئی کرامات ان کی ایسی مشہور میں جن کی نسبت ایک گروہ کثیر مخالفان دین کا بھی گواہی دیتارہا ہے ۔ غرض وہ علاوہ ریاست اور امارت کے اپنی دیانت اور تقویٰ اور مردانہ ہمت اور اولوالعزمی اور حمایت دین اور ہمدردی مسلمانوں کی صفت میں نہایت مشہور تھے۔ اور ان کی مجلس میں بیٹھنے والے سب کے سب متقی اور نیک چلن اور اسلامی غیرت رکھنے والے اور فسق و فجور سے دور رہنے والے اور بہادر اور بارعب آدمی تھے۔ چنانچہ میں نے کئی دفعہ اپنے والد صاحب مرحوم سے سنا ہے کہ اس زمانہ میں ایک وزیرِ سلطنت مغلیہ کا قادیان میں آیا جو غیاث الدولہ کے نام سے مشہور تھا اور اس نے مرزا گل محمد صاحب کے مدبرانہ طریق اور بیدار مغزی اور ہمت اور اولوالعزمی اور استقلال اور عقل اور فہم اور حمایت اسلام اور جوش نصرت دین اور تقویٰ اور طہارت اور دربار کے وقار کو دیکھا اور ان کے مختصر دربار کو عقلمند اور نیک چلن اور بہادر مردوں سے پرپایا۔ تب وہ چشم پر آب ہوکر بولا کہ اگر مجھے پہلے خبر ہوتی کہ اس جنگل میں خاندان مغلیہ میں سے ایسا مرد موجود ہے جس میں صفات ضرور یہ سلطنت کے پائے جاتے ہیں تو میں اسلامی سلطنت کے محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کرتا کہ ایام کسل اور نالیاقتی اور بدوصفی ملوک چغتائیہ میں اسی کو تخت دہلی پر بٹھایا جائے۔
اس جگہ اس بات کا لکھنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا کہ میرے دادا صاحب موصوف یعنی مرزا گل محمد نے ہچکی کی بیماری سے جس کے ساتھ اور عوارض بھی تھے وفات پائی تھی۔ بیماری کے غلبہ کے وقت اطباء نے اتفاق کرکے کہا کہ اس مرض کے لئے اگر چند روز شراب کو استعمال کرایا جائے تو غالباً اس سے فائدہ ہوگا مگر جرات نہیں رکھتے تھے کہ ان کی خدمت میں عرض کریں۔ آخر بعض نے ان میں سے ایک نرم تقریر میں عرض کر دیا۔ تب انہوں نے کہا کہ اگر خدا تعالیٰ کو شفادینا منظور ہو تو اس کی پیدا کردہ اور بہت سی دوائیں ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ اس پلید چیز کو استعمال کروں اور میں خدا کی قضاء و قدر پر راضی ہوں ۔ آخر چند روز کے بعد اسی مرض سے انتقال فرماگئے۔ موت تو مقدر تھی مگر یہ ان کا طریق تقویٰ ہمیشہ کے لئے یادگار رہا کہ موت کو شراب پر اختیار کر لیا۔ موت سے بچنے کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کرتا لیکن انہوں نے معصیت کرنے سے موت کو بہتر سمجھا۔ افسوس ان نوابوں اور امیروںاور رئیسوں کی حالت پر کہ اس چند روزہ زندگی میں اپنے خدا اور اس کے احکام سے بکلی لاپرواہ ہو کر اور خدا تعالیٰ سے سارے علاقے توڑ کر دل کھول کر ارتکاب معصیت کرتے ہیں اور شراب کو پانی کی طرح پیتے ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کو نہایت پلید اور ناپاک کرکے اور عمر طبعی سے بھی محروم رہ کر اور بعض ہولناک عوارض میں مبتلا ہوکر جلد تر مرجاتے ہیں اور آئندہ نسلوں کے لئے نہایت خبیث نمونہ چھوڑ جاتے ہیں۔ (صفحہ ۱۴۴تا ۱۵۴حاشیہ طبع اول )
حضرت اقدس ؑ ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں:
’’ مرزا صاحب مرحوم ایک مرد اولی العزم اور متقی اور غایت درجہ کے بیدار مغز اور اول درجہ کے بہادر تھے۔ اگر اس وقت مشیت الٰہی مسلمانوں کے مخالف نہ ہوتی تو بہت امید تھی کہ ایسا بہادر اور اولی العزم آدمی سکھوں کی بلند شورش سے پنجاب کا دامن پاک کرکے ایک وسیع سلطنت اسلام کی اس میں قائم کر دیتا۔ جس حالت میں رنجیت سنگھ نے باوجود اپنی تھوڑی سی پدری ملکیت کے جو صرف نو گائوں تھے تھوڑے ہی عرصہ میں اس قدر پیر پھیلائے تھے جو پشاور سے لدھیانہ تک خالصہ ہی خالصہ نظر آتا تھا اور ہر جگہ ٹڈیوں کی طرح سکھوں کی ہی فوجیں دکھائی دیتی تھیں۔ تو کیاایسے شخص کے لئے یہ فتوحات قیاس سے بعید تھیں؟جس کی گمشدہ ملکیت میں سے ابھی چوراسی یا پچاسی گائوں باقی تھے اور ہزار کے قریب فوج کی جمعیت بھی تھی۔ اور اپنی ذاتی شجاعت میں ایسے مشہور تھے کہ اس وقت کی شہادتوں سے بہ بداہت ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک میں ان کا کوئی نظیر نہ تھا۔ لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے یہی چاہا تھا کہ مسلمانوں پر ان کی بے شمار غفلتوں کی وجہ سے تنبیہہ نازل ہو اس لئے مرزا صاحب مرحوم اس ملک کے مسلمانوں کی ہمدردی میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اور مرزا صاحب مرحوم کے حالات عجیبہ میں سے ایک یہ ہے کہ مخالفین مذہب بھی ان کی نسبت ولایت کا گمان رکھتے تھے ۔ اور ان کے بعض خارق عادت امور عام طور پر دلوں میں نقش ہوگئے تھے۔ یہ بات شاذو نادر ہوتی ہے کہ کوئی مذہبی مخالف اپنے دشمن کی کرامات کا قائل ہو۔ لیکن اس راقم نے مرزا صاحب مرحوم کے بعض خوارق عادات ان سکھوں کے منہ سے سنے ہیں جن کے باپ دادا مخالف گروہ میں شامل ہوکر لڑتے تھے ۔ اکثر آدمیوں کا بیان ہے کہ بسا اوقات مرزا صاحب مرحوم صرف اکیلے ہزار ہزار آدمی کے مقابل پر میدان جنگ میں نکل کر ان پر فتح پا لیتے تھے اور کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ ان کے نزدیک آسکے۔ اور ہر چند جان توڑ کر دشمن کا لشکر کوشش کرتاتھا کہ توپوں اور بندوقوں کی گولیوں سے ان کو ماردیں مگر کوئی گولی یا گولہ ان پر کار گر نہیں ہوتا تھا یہ کرامت ان کی صدہا موافقین اور مخالفین بلکہ سکھوں کے منہ سے سنی گئی ہے ۔ جنہوں نے اپنے لڑنے والے باپ دادوں سے سندا بیان کی تھی۔ لیکن میرے نزدیک یہ کچھ تعجب کی بات نہیں۔ اکثر لوگ زمانہ دراز تک جنگی فوجوں میں نوکر رہ کر بہت سا حصہ اپنی عمر کا لڑائیوں میں بسر کرتے ہیں اور قدرت حق سے کبھی ایک خفیف سا زخم بھی تلوار یا بندوق کا ان کے بدن کو نہیں پہنچتا۔ سو یہ کرامت اگر معقولی طور پر بیان کی جائے کہ خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل سے دشمنوں کے حملوں سے ان کو بچاتا رہا ۔ تو کچھ حرج کی بات نہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ مرزا صاحب مرحوم دن کے وقت ایک پر ہیبت بہادر اور رات کے وقت ایک باکمال عابد تھے اور معمورالاوقات اور متشرع تھے۔ ‘‘)۷۲
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب میرے پردادا صاحب فوت ہوئے تو بجائے ان کے میرے دادا صاحب یعنی مرزا عطا محمد صاحب فرزند رشید ان کے گدی نشین ہوئے۔ ان کے وقت میں خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے لڑائی میں سکھ غالب آئے۔ دادا صاحب مرحوم نے اپنی ریاست کی حفاظت کے لئے بہت تدبیریں کیں مگر جبکہ قضاء وقدران کے ارادہ کے موافق نہ تھی اس لئے ناکام رہے اور کوئی تدبیر پیش نہ گئی اور روز بروز سکھ لوگ ہماری ریاست کے دیہات پر قبضہ کرتے گئے۔ یہاں تک دادا صاحب مرحوم کے پاس ایک قادیان رہ گئی اور قادیان اس وقت ایک قلعہ کی صورت پر قصبہ تھا۔ ۷۳اس کے چاربرج تھے اور برجوں میں فوج کے آدمی رہتے تھے۔ اور چند توپیں تھیں اور فصیل بائیس فٹ کے قریب اونچی اور اسی قدر چوڑی تھی کہ تین چھکڑے آسانی سے ایک دوسرے کے مقابل اس پر جاسکتے تھے۔ اور ایسا ہوا کہ ایک گروہ سکھوں کا جورام گڑھیہ کہلاتا تھا اول فریب کی راہ سے اجازت لے کر قادیان میں داخل ہوا اور پھر قبضہ کر لیا۔ اس وقت ہمارے بزرگوں پر بڑی تباہی آئی اور اسرائیلی قوم کی طرح وہ اسیروں کی مانند پکڑے گئے اور ان کے مال و متاع سب لوٹی گئی۔ کئی مسجدیں اور عمدہ عمدہ مکانات مسمار کئے گئے ۔ اور جہالت اور تعصب سے باغوں کو کاٹ دیا گیا۔ اور بعض مسجدیں جن میں اب تک ایک مسجد سکھوں کے قبضہ میںہے دھرم سالہ یعنی سکھوں کا معبد بنایا گیا ۔ اس دن ہمارے بزرگوں کا ایک کتب خانہ بھی جلایا گیا جس میں پانچ سو نسخہ قرآن شریف کا قلمی تھا جو نہایت بے ادبی سے جلایا گیا۔ اور آخر سکھوں نے کچھ سوچ کر ہمارے بزرگوں کو نکل جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ تمام مردو زن چھکڑوں میں بٹھا کر نکالے گئے ۷۴اور وہ پنجاب کی ایک ریاست میں پناہ گزین ہوئے۔ ۷۵تھوڑے عرصہ کے بعد انہی دشمنوں کے منصوبے سے میرے دادا صاحب کو زہردی گئی۔ پھر رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ قادیان میں واپس آئے اور مرزا صاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے دیہات میں سے پانچ گائوں واپس ملے۔ کیونکہ اس عرصہ میں رنجیت سنگھ نے دوسری اکثر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر ایک بڑی ریاست اپنی بنالی تھی سو ہمارے تمام دیہات بھی رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگئے تھے اور لاہور سے پشاور تک اور دوسری طرف لدھیانہ تک اس کی ملک داری کا سلسلہ پھیل گیا تھا غرض ہماری پرانی ریاست خاک میں مل کر آخر پانچ گائوں ہاتھ میں رہ گئے۔ پھر بھی بلحاظ پرانے خاندان کے میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ اس نواح میں مشہور رئیس تھے۔ گورنر جنرل کے دربار میں بزمرہ کرسی نشین رئیسوں کے ہمیشہ بلائے جاتے تھے۔ ۱۸۵۷ء میں انہوں نے سرکار انگریزی کی خدمت گزاری میں پچاس گھوڑے معہ پچاس سواروں کے اپنی گرہ سے خرید کر دئیے تھے اور آئندہ گورنمنٹ کو اس قسم کی مدد کا عند الضرورت وعدہ بھی دیا اور سرکار انگریزی کے حکام وقت سے بجا آوری خدمات عمدہ عمدہ چٹھیات خوشنودی مزاج ان کو ملی تھیں چنانچہ سرلیپل گریفن صاحب نے بھی اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں ان کا تذکرہ کیا ہے غرض وہ حکام کی نظر میں بہت ہر دلعزیز تھے۔ اور بسااوقات ان کی دلجوئی کے لئے حکام وقت ڈپٹی کمشنران کے مکان پر ان کی ملاقات کرتے تھے۔ ‘‘۷۶
سرلیپل گریفن اور کرنل میسی کی شہادت
سرلیپل گریفن اور کرنل میسی نے ( جن کی طرف مندرجہ بالا سطور میں اشارہ ہے) اپنی مشہور و معروف انگریزی کتاب ’’پنجاب چیفس ‘‘یا چیفس اینڈ فیمیلیز آف نوٹ ان دی پنجاب ‘‘ میں حضرت اقدسؑ کے خاندانی حالات پر ایک نوٹ لکھا ہے جس کا مستند ترجمہ درج ذیل ہے۔ ۷۷ (اس نوٹ سے بالخصوص اس حقیقت پر نمایاں روشنی پڑتی ہے کہ پنجاب کے الحاق کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کی جاگیر ’’باغی سرداروں ‘‘ کے ساتھ ضبط کر لی گئی تھی اور حضور کا خاندان اس وقت تک ملکی حکومت کا خیر خواہ رہا جب تک کہ پورا ملک برطانوی اقتدار کے زیر نگیں نہیں آگیا)
’’شہنشاہ بابر کے عہد حکومت میں آخری سال یعنی ۱۵۳۰ء میں ایک مغل مسمی ہادی بیگ باشندہ سمرقند اپنے وطن کو چھوڑ کر پنجاب میں آیا اور ضلع گورداسپور میں بودو باش اختیار کی یہ کسی قدر لکھا پڑھا آدمی تھا اور قادیان کے گردو نواح کے ستر مواضعات کا قاضی یا مجسٹریٹ مقرر کیا گیا۔ ۷۸کہتے ہیں کہ قادیان اس نے آباد کیا۔ اور اس کا نام اسلام پور قاضی رکھا جو بدلتے بدلتے قادیان ہوگیا ۷۹۔ کئی پشتوں تک یہ خاندان شاہی عہد حکومت میں معزز عہدوں پر ممتاز رہا۔ اور محض سکھوں کے عروج کے زمانہ میں یہ افلاس کی حالت میں ہوگیا تھا۔ گل محمد اور اس کا بیٹا عطا محمد رام گڑھیہ اور کنہیا مسلوں سے جن کے قبضہ میں قادیان کے گردو نواح کا علاقہ تھا ہمیشہ لڑتے رہے اور آخر کار اپنی تمام جاگیر کو کھوکر عطا محمد بیگووال میں سردار فتح سنگھ اہلووالیہ کی پناہ میں چلا گیا اور بارہ سال تک امن وامان سے زندگی بسر کی۔ اس کی وفات پر رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی تمام جاگیر پر قابض ہوگیا تھا غلام مرتضیٰ کو قادیان واپس بلالیا۔ ۸۰اور اس کی جدی جاگیرکا ایک بہت بڑا حصہ اسے واپس دے دیا۔ اس پر غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہوا اور کشمیر کی سرحداور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات انجام دیں۔ نونہال سنگھ شیر سنگھ اور دربار لاہور کے دوردورے میں غلام مرتضیٰ ہمیشہ فوجی خدمت پر مامور رہا۔ ۱۸۴۱ء میں یہ جرنیل و نچورا کے ساتھ منڈی اور کلو کی طرف بھیجا گیا اور ۱۸۴۳ء میں ایک پیادہ فوج کا کمیدان بنا کر پشاور روانہ کیا گیا۔ ہزارہ کے مفسدہ میں اس نے کارہائے نمایاں کئے اور جب ۱۸۴۸ء کی بغاوت ہوئی تو یہ اپنی سرکار کا نمک حلال رہا اور اس کی طرف سے لڑا۔ اس موقعہ پر اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اچھی خدمات کیں۔ جب بھائی مہاراج سنگھ اپنی فوج لئے دیوان مولراج کی امداد کے لئے ملتان کی طرف جا رہا تھا۔ تو غلام محی الدین اور دوسرے جاگیر داران لنگرخاں ساہیوال اور صاحب خانہ ٹوانہ نے مسلمانوں کو بھڑکایا اور مصر صاحبدیال کی فوج کے ساتھ باغیوں سے مقابلہ کیا اور ان کو شکست فاش دی۔ ان کو سوائے دریائے چناب کے کسی اور طرف بھاگنے کا راستہ نہ تھا جہاں چھ سو سے زیادہ آدمی ڈوب کر مرگئے ۔
الحاق کے موقعہ پر اس خاندان کی جاگیر ضبط ہوگئی۔ مگر سات سو روپیہ کی ایک پنشن غلام مرتضیٰ اور اس کے بھائیوں کو عطا کی گئی اور قادیان اور اس کے گردو نواح کے مواضعات پر ان کے حقوق مالکانہ رہے۔ اس خاندان نے غدر ۱۸۵۷ء کے دوران میں بہت اچھی خدمات کیں غلام مرتضیٰ نے بہت سے آدمی بھرتی کئے اور اس کا بیٹا غلام قادر جنرل نکلسن صاحب بہادر کی فوج میں اس وقت تھا جبکہ افسر موصوف نے تریموگھاٹ پر نمبر ۴۶مینٹو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے تہ تیغ کیا۔ جنرل نکلسن صاحب بہادر نے غلام قادر کو ایک سنددی جس میں یہ لکھاہے کہ ۱۸۵۷ء میں خاندان قادیان ضلع گورداسپور کے تمام دوسرے خاندانوں سے زیادہ نمک حلال رہا۔
غلام مرتضیٰ جو ایک لائق حکیم تھا ۱۸۷۶ء میں فوت ہوا اور اس کا بیٹا غلام قادر اس کا جانشین ہوا۔ غلام قادر حکام مقامی کی امداد کے لئے ہمیشہ تیار رہتاتھا۔ اور اس کے پاس ان افسران کے جن کا انتظامی امور سے تعلق تھا بہت سے سرٹیفکیٹ تھے۔ یہ کچھ عرصے تک گورداسپور میں دفتر ضلع کا سپرنٹنڈنٹ رہا۔ اس کا اکلوتا بیٹا کم سنی میں فوت ہوگیا اور اس نے اپنے بھتیجے سلطان احمد کو متنبی کر لیا جو غلام قادر کی وفات یعنی ۱۸۸۳ء سے خاندان کا بزرگ خیال کیا جاتاتھا۔ مرزا سلطان احمد نے نائب تحصیلداری سے گورنمنٹ کی ملازمت شروع کی اور اکسٹرااسسٹنٹ کمشنر کے عہدہ تک ترقی پائی۔ یہ قادیاں کا نمبردار بھی تھا۔ مگر اس نمبرداری کا کام بجائے اس کے اس کا چچا نظام الدین کرتاتھا جو غلام محی الدین کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ مرزا سلطان احمد کو خان بہادر کا خطاب اور ضلع منٹگمری میں پانچ مربعہ جات اراضی عطا ہوئے اور ۱۹۳۰ء میں اس کا انتقام ہوگیا۔ اس کا سب سے بڑا لڑکا مرزا عزیز احمد ایم اے اب خاندان کا سر کردہ اور پنجاب میں اکسٹرااسسٹنٹ کمشنر ہے۔ خان بہادر مرزا سلطان احمد کا چھوٹا بیٹا رشید احمد ایک اولوالعزم زمیندار ہے اور اس نے سندھ میں اراضی کا بہت بڑا رقبہ لے لیا ہے نظام الدین کا بھائی امام الدین جس کا انتقال ۱۹۰۴ء میں ہوا دہلی کے محاصرہ کے وقت ہاڈسن صاحب کے رسالہ میں رسالدار تھا اور اس کا باپ غلام محی الدین تحصیلدار تھا۔ ‘‘۸۱
سرلیپل گریفن نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذاتی حالات بھی بیان کئے ہیں ۔ چنانچہ لکھتاہے :
’’یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ غلام احمد جو مرزا غلام مرتضیٰ کا چھوٹا بیٹا ہے مسلمانوں کے ایک مشہور مذہبی فرقہ احمدیہ کا بانی ہوا۔ یہ شخص ۱۸۳۷ء میں پیدا ہوا۔ ۸۲اور اس کو تعلیم نہایت اچھی ملی۔ ۱۸۹۱ء میں اس نے بموجب اسلام مہدی یا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ چونکہ یہ عالم اور منطقی تھا اس لئے دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے لوگ اس کے معتقد ہوگئے اور اب احمدیہ جماعت کی تعداد پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں تین لاکھ کے قریب بیان کی جاتی ہے۔ مرزا عربی ، فارسی اور اردو کی بہت سی کتابوں کا مصنف تھا۔ جن میں اس نے جہاد کے مسئلہ کی تردید کی ۔ اور یہ گمان کیا جاتاہے کہ ان کتابوں نے مسلمانوں پر اچھا اثر کیاہے۔ مدت تک یہ بڑی مصیبت میں رہا۔ کیونکہ مخالفین مذہب سے اس کے اکثر مباحثے اور مقدمے رہے۔ لیکن اپنی وفات سے پہلے جو ۱۹۰۸ء میں ہوئی اس نے ایک رتبہ حاصل کر لیا کہ وہ لوگ بھی جو اس کے خیالات کے مخالف تھے اس کی عزت کرنے لگے۔ اس فرقہ کا صدرمقام قادیان ہے جہاں انجمن احمدیہ نے ایک بہت بڑا سکول کھولا ہے اور چھاپہ خانہ بھی ہے جس کے ذریعہ سے اس فرقہ کے متعلق خبروں کا اعلان کیا جاتاہے ۔ مرزا غلام احمد کا خلیفہ ایک مشہور حکیم مولوی نورالدین ہے جو چند سال مہاراجہ کشمیر کی ملازمت میں رہا ہے ۔
اس خاندان کے سالم موضع قادیان پر جو ایک بڑا موضع ہے حقوق مالکانہ ہیں اور نیز تین ملحقہ مواضعات پر بشرح پانچ فی صدی حقوق تعلقہ داری حاصل ہیں‘‘۔۸۳
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کا بیان ہے ۔
’’میںنے حضرت مسیح موعودؑ سے ان کی ( مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب۔ ناقل ) تعریف سنی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھاہے کہ مہاراجہ صاحب نے ہی یہ گائوں واپس کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے شک مہاراجہ صاحب نے یہ گائو ں واپس کیا لیکن ہمارے خاندان نے بھی ہمیشہ ان کے خاندان سے وفاداری کی۔ جب انگریزوں سے لڑائیاں ہوئیں تو بعض بڑے بڑے سکھ سرداروں نے روپے لے لے کر علاقے انگریزوں کے حوالہ کر دیئے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں ان کی جاگیریں موجود ہیں۔ یہاں سے پندرہ بیس میل کے فاصلہ پر سکھوں کا ایک گائوں بھاگووال ہے وہاں سکھ سردار ہیں ۔ مگر وہ بھی انگریزوں سے مل گئے تھے تو اس وقت بڑے بڑے سکھ خاندانوں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا مگر ہمارے دادا صاحب نے کہا کہ میں نے اس خاندان کا نمک کھایا ہے اس سے غداری نہیں کر سکتا۔ کیا وجہ ہے کہ سکھ زمینداروں کی جاگیریں تو قائم ہیں مگر ہماری چھین لی گئی۔ اسی غصہ میں انگریزوں نے ہماری جائیداد چھین لی تھی کہ ہمارے دادا صاحب نے سکھوں کے خلاف ان کا ساتھ نہ دیا تھا۔ تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ مہاراجہ صاحب نے سات گائوں واپس کئے تھے پھر وہ کہاں گئے؟ وہ اسی وجہ سے انگریزوں نے ضبط کر لئے کہ ہمارے دادا صاحب نے ان کا ساتھ نہ دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم نے مہاراجہ صاحب کی نوکری کی ہے ان کے خاندان کی غداری نہیں کر سکتے بھاگووال کے ایک اسی پچاسی سالہ بوڑھے سکھ کپتان نے مجھے سنایا کہ میرے دادا سناتے تھے کہ ان کوخود سکھ حکومت کے وزیر نے بلاکر کہا کہ انگریز طاقتور ہیں ان کے ساتھ صلح کر لو خواہ مخواہ اپنے آدمی مت مروائو۔ مگر ہمارے دادا صاحب نے مہاراجہ صاحب کے خاندان سے بے وفائی نہ کی اور اسی وجہ سے انگریزوں نے ہماری جائیداد ضبط کر لی بعد میں جو کچھ ملا مقدمات سے ملا۔ مگر کیا ملا۔ قادیان کی کچھ زمین دے دی گئی۔ باقی بھینی ۔ لننگل اور کھارا کا مالکان اعلیٰ قرار دے دیا گیا مگر یہ ملکیت اعلیٰ سوائے کاغذ چاٹنے کے کیاہے ؟ یہ برائے نام ملکیت ہے جو اشک شوئی کے طور پر دی گئی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے دادا صاحب نے غداری پسند نہ کی۔۔۔۔۔تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ جب ملتان کے صوبہ نے بغاوت کی تو ہمارے تایا صاحب نے ٹوانوں کے ساتھ مل کر اسے فرو کیا تھا اور اس وقت سے ٹوانوں اور نون خاندان کے ساتھ ہمارے تعلقات چلے آتے ہیں پس جہاں تک شرافت کا سوال ہے ہمارے خاندان نے سکھ حکومت سے نہایت دیانتداری کا برتائو کیا اور اس کی سزا کے طور پر انگریزوں نے ہماری جائیداد ضبط کرلی ورنہ سری گوبند پور کے پاس اب تک ایک گائوں موجود ہے جس کا نام ہی مغلاں ہے اور وہاں تک ہماری حکومت کی سرحد تھی اور اس علاقہ کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں تک ہماری حکومت تھی اور یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ سے پہلے کی بات ہے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ غیر مطبوعہ ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)





باب سوم
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی ولادت مبارک پاکیزہ
بچپن اور دور تعلیم
(۱۸۳۵ء ۔۱۸۵۳ء)
بانی سلسلہ احمدیہ سیدنا حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت چراغ بی بی کے بطن مبارک سے ۱۴۔ شوال ۱۲۵۰ھ بمطابق ۱۳۔ فروری (۱)۱۸۳۵ء( بروز جمعہ طلوع فجر کے بعد) قادیان ضلع گورداسپور (بھارت ) میں پیدا ہوئے۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طرح آپ کی پیدائش میں بھی ندرت اور معجزانہ (۲) رنگ تھا۔ کیونکہ آپ عالم اسلام کے مشہور صوفی حضرت محی الدین ابن عربیؒ کی ایک پیشگوئی کے مطابق توام (۳) پیدا ہوئے تھے۔ آپ پانچ بہن بھائی تھے۔ سب سے بڑی آپ کی ہمشیرہ حضرت مراد بیگم ؓ تھیں جو مرزا محمد بیگ کے عقد زوجیت میں آئیں اور بڑی عابدہ اور صاحب رؤیا و کشف خاتون تھیں۔ ان سے چھوٹے مرزا غلام قادر صاحب مرحوم تھے۔ ان سے چھوٹے آپ کے ایک اور بھائی تھے جو بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔ ان سے چھوٹی حضورؑ کے ساتھ توام پیدا ہونے والی بہن تھیں جن کا نام جنت تھااور جو بہت جلد فوت ہوگئیں۔ حضرت اقدسؑ کے بھائی بہنوں میں قریباً دو دو سال کا تفاوت تھا۔ (۴)
حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت سے تین برس پیشتر مجدد صدی سیزدہم حضرت سید احمد بریلویؒ اور اسمٰعیل شہید بالا کوٹ میں جام شہادت نوش فرما چکے تھے(۵) اور آپ کی ولادت کے وقت عیسائیت کا سیلاب جو ۲۲۔ جون ۱۸۱۳ء سے اشاعت تبلیغ کے اجازت نامے کے بعد ( پنجاب کے سوا) پورے ہندوستان کو محیط ہو رہا تھا۔ پنجاب کے کناروں تک آپہنچاتھا چنانچہ ٹھیک ۱۸۳۵ء میں ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈولیم بنٹنگ کی رائے اور برطانوی سکیم کے عین مطابق پادری جے سی لوری نے انگریزی مملکت کی سرحد پر لدھیانہ میں پنجاب کا پہلا عیسائی مشن قائم کیا۔ جہاں برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ کیپٹن ویڈ (Captain Wade)نے پہلے سے ایک عیسائی سکول قائم کر رکھا تھا۔ (۶) پس کیا ہی عجیب خدا ئی تصرف ہے کہ جونہی جے سی لوری ’’باب لد‘‘ یعنی لدھیانہ تک پہنچے خدا تعالیٰ نے کا سر صلیب پیدا کر دیا۔ ادھر زہر پیدا ہوئی اور ادھر اس کا تریاق نمودار ہوگیا۔ پنجاب میں جہاں حضورؑ کی پیدائش ہوئی مہاراجہ رنجیت سنگھ بر سر اقتدار تھا۔ (۷)جس نے ۱۸۰۶ء میں بھنگی مسل کے سرداروں سے امرت سر پر قبضہ کرکے مہاراجہ کا لقب اختیار کر لیا۔ اور پھر قصور ، جموں، کا نگڑہ ، اٹک ، جھنگ ، ملتان، ہزارہ، بنوں اور پشاور تک کے علاقے زیر نگیں کر لئے۔ ۱۸۱۶۔ ۱۸۱۷ء میں رام گڑھیوں کو شکست دے کر قادیان کی ریاست بھی اپنی عملداری میں شامل کر لی۔ لیکن حضرت بانی کی پیدائش سے چند ماہ قبل حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو قادیان کے اردگرد کے پانچ گائوں ان کی خاندانی ریاست میں سے انہیں واپس کر دیئے۔ اس طرح چند ماہ قبل آپ کے خاندانی مصائب و مشکلات کے دور کو فراخی اور کشائش میں بدل ڈالا اور آپ کی پیدائش خاندان کے لئے مادی اعتبار سے بھی باعث صد برکت ثابت ہوئی۔ چنانچہ حضرت اقدسؑ کی والدہ ماجدہ آپ کو مخاطب کرتے ہوئے اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ ہمارے خاندان کے مصیبت کے دن تیری ولادت کے ساتھ پھر گئے اور فراخی میسر آگئی ۔ اور اسی لئے وہ آپ کی پیدائش کو نہایت مبارک سمجھتی تھیں۔ (۸)
حضرت کا پاکیزہ بچپن
حضرت اقدس علیہ السلام کا بچپن ملکی ماحول کی بے شمار آلودگیوں کے باوجود معجزانہ طور پر نہایت درجہ پاکیزہ اور مقدس تھا۔ آپ کو کم سنی میں قادیان اور اس کے مضافات کے علاوہ اپنے ننہال ایمہ ضلع ہوشیار پور میں بھی کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا۔ (۹)مگر آپ جہاں بھی تشریف لے گئے دوسرے تمام بچوں سے ممتاز پائے گئے ۔ متانت، سنجیدگی ، تنہا پسندی اور گہرے غورو فکر کی قوت ابتداء ہی سے قدرت نے آپ کو ودیعت کر رکھی تھی اور آپ بچپن ہی سے ایک نرالی دنیا کے فرد نظر آتے تھے۔ موضع بہادر حسین ضلع گورداسپور کے ایک سربرآوردہ شخص کی گواہی ہے کہ ایک مرتبہ آپ اپنے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ ان کے گائوں آئے تھے یہ گائوں ان کی جاگیر تھا۔ ’’مرزا غلام قادر صاحب ہمارے ساتھ کھیلتے اور جو جو کھیلیں ہم کرتے وہ بھی کرتے مگر مرزا غلام احمد صاحبؑ نہ لڑکوں کے ساتھ کھیلتے اور نہ شوخی وغیرہ کی باتیں کرتے بلکہ چپ چاپ بیٹھے رہتے ۔‘‘ (۱۰) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک ہم عمر ہندہ کی شہادت ہے کہ ’’ میں نے بچپن سے مرزا غلام احمد کو دیکھا ہے ( علیہ السلام ) میں اور وہ ہم عمر ہیں اور قادیان میرا آنا جانا ہمیشہ رہتا ہے اور اب بھی دیکھتاہوں جیسی عمدہ عادات اب ہیں ایسی نیک خصلتیں اور عادات پہلے تھیں اب بھی وہی ہیں۔ سچا، امانت دار اور نیک۔ میں تو یہ سمجھتاہوں کہ پر میشور مرزا صاحب کی شکل اختیار کرکے زمین پر اتر آیا ہے اور پر میشور اپنے جلوے دکھا رہا ہے ۔‘‘ (۱۱)
حضرت اقدسؑ اپنے عہد طفولیت کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ایک دفعہ آپ بچپن میں گائوں سے باہر ایک کنوئیں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوئی جو گھر سے لانی تھی۔ اس وقت آپ کے پاس ایک شخص بکریاں چرا رہا تھا۔ آپ نے اس سے کہا کہ مجھے یہ چیز لا دو۔ اس نے کہا میاں! میری بکریاں کون دیکھے گا؟ آپ نے کہا تم جائو میں ان کی حفاظت کروں گا اور چرائوں گا۔ چنانچہ آپ نے اس کی بکریوں کی نگرانی کی اور اس طرح خدا تعالیٰ نے نبیوں کی سنت آپ سے پوری کرادی۔ (۱۲)
اٹھارہویں صدی کی ہلاکت آفرینیوں نے دنیا میں الحادو دہریت اور فسق و فجور کا ایک تند و تیز سیلاب بہا رکھا تھا اور بڑے بڑے متدین خاندان اس کی زد میں آچکے تھے بلکہ خود آپ کے خاندان میں بے دینی کی ایک روچل نکلی تھی۔ لیکن حضرت کے قلب صافی میں ابتداء ہی سے خدا تعالیٰ کی عبادت اور اس سے محبت کے جذبات موجزن تھے اور دنیا کی کوئی دلکشی اور رنگینی آپ کے اس والہانہ عشق میں حائل نہیں ہو سکی۔
ایک معمر ہندو جاٹ کی شہادت
ایک معمر ہندو جاٹ کی ( جس نے آپ کو گود میں کھلایا بھی ہے) شہادت ہے کہ :
’’جب سے اس ( مراد حضرت مسیح پاک۔ ناقل) نے ہوش سنبھالا ہے بڑا ہی نیک رہا۔ دنیا کے کسی کام میں نہیں لگا۔ بچوں کی طرح کھیل کود میں مشغول نہیں ہوا۔ شرارت ، فساد، جھوٹ ، گالی کبھی اس میں نہیں۔ ہم اور ہمارے ہم عمر اس کو سست اور سادہ لوح اور بے عقل سمجھا کرتے تھے کہ یہ کس طرح گھر بسائے گا۔ سوائے الگ مکان میں رہنے کے اور کچھ کام ہی نہیں تھا۔ نہ کسی کو مارا نہ آپ مار کھائی نہ کسی کو برا کہا نہ آپ کو کہلوایا۔ ایک عجیب پاک زندگی تھی مگر ہماری نظروں میں اچھی نہیں تھی۔ نہ کہیں آنا نہ جانا۔ نہ کسی سے سوائے معمولی بات کے بات کرنا۔ اگر ہم نے کبھی کوئی بات کہی کہ میاں دنیا میں کیا ہو رہا ہے تم بھی ایسے رہو۔ اور کچھ نہیں تو کھیل تماشہ کے طور پر ہی باہر آیا کرو تو کچھ نہ کہتے ہنس کے چپ ہو رہتے ۔ تم عقل پکڑو کھائو کمائو کچھ تو کیا کرو۔ یہ سن کر خاموش ہو رہتے آپ کے والد مجھے کہتے۔ نمبردار ! غلام احمد کو بلالائو اسے کچھ سمجھا دیں گے ۔ میں جاتابلالاتا۔ والد کا حکم سن کر اسی وقت آجاتے اور چپ چاپ بیٹھ جاتے اور نیچی نگاہ رکھتے ۔ آپ کے والد فرماتے بیٹا غلام احمد ! ہمیں تمہارا بڑا فکر اور اندیشہ رہتاہے تم کیا کرکے کھائو (گے) اس طرح زندگی تم کب تک گذاروگے۔ تم روزگار کرو کب تک دلہن بنے رہو گے۔ خورونوش کا فکر چاہئے ۔ دیکھو دنیا کماتی کھاتی پیتی ہے کام کاج کرتی ہے تمہارا بیاہ ہوگا بیوی آوے (گی) بالک بچے ہوں گے وہ کھانے پینے پہننے کے لئے طلب کریں گے ان کا تعہد تمہارے ذمہ ہوگا۔ اس حالت میں تو تمہارا بیان کرتے ہوئے ڈر لگتاہے ۔ کچھ ہوش کرو۔ اس غفلت اور اس سادگی کو چھوڑ دو۔ میں کب تک بیٹھا رہوں گا۔ بڑے بڑے انگریزوں، افسروں ، حاکموں سے میری ملاقات ہے وہ ہمارا لحاظ کرتے ہیں۔ میں تم کو چٹھی لکھ دیتاہوں تم تیار ہو جائو یا کہو تو میں خود جا کر سفارش کروں ۔ تو مرزا غلام احمد ؑ کچھ جواب نہ دیتے ۔ وہ بار بار اسی طرح کہتے ۔ آخر جواب دیتے تو یہ دیتے کہ ابا بھلا بتائو تو سہی کہ جو افسروں کے افسر اور مالک الملک احکم الحاکمین کا ملازم ہو اور اپنے رب العالمین کا فرمانبردار ہو۔ اس کو کسی کی ملازمت کی کیا پرواہے ۔ ویسے میں آپ کے حکم سے بھی باہر نہیں۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب یہ جواب سن کر خاموش ہو جاتے اور فرماتے اچھا بیٹا جائو۔ اپنا خلوت خانہ سنبھالو۔ جب یہ چلے جاتے تو ہم سے کہتے کہ یہ میرا بیٹا ملاں ہی رہے گا۔ میں اس کے واسطے کوئی مسجد ہی تلاش کردوں جو دس بیس من دانے ہی کمالیتا مگر میں کیا کروں یہ تو ملا گری کے بھی کام کا نہیں۔ ہمارے بعد یہ کس طرح زندگی بسر کرے گا۔ ہے تو یہ نیک صالح مگر اب زمانہ ایسوں کا نہیں چالاک آدمیوں کا ہے پھر آبدیدہ ہو کر کہتے کہ جو حال پاکیزہ غلام احمد ؑ کا ہے وہ ہمارا کہاں ہے۔ یہ شخص زمینی نہیں آسمانی (ہے) یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے ۔‘‘۱۳
حضرت اقدسؑ کو شروع سے نماز کے ساتھ گہرا تعلق اور ایک فطری لگائو تھا جو عمر کے آخر تک گویا ایک نشہ کی صورت میں آپ کے دل و دماغ پر طاری رہی۔ تحریک احمدیت کے پہلے مورخ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے آپ کے ابتدائی سوانح میں یہ عجیب واقعہ درج کیاہے کہ جب آپ کی عمر نہایت چھوٹی تھی تو اس وقت آپ اپنی ہم سن لڑکی سے (جو بعد کو آپ سے بیاہی گئی) فرمایا کرتے تھے کہ ’’نا مرادے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے۔‘‘۱۴یہ فقرہ بظاہر نہایت مختصر ہے مگر اس سے عشق الٰہی کی ان لہروں کا پتہ چلتاہے جو مافوق العادت رنگ میں شروع سے آپ کے وجود پر نازل ہو رہی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے انہی فطری رجحانات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک مقام پر لکھا ہے کہ :
اَلْمَسْجِدُ مَکَانِیْ وَالصَّالِحُوْنَ اِخْوَانِیْ وَذِکْرُ اللّٰہِ مَالِیْ وَخَلْقُ اللّٰۃِ عَیَالِیْ
فرماتے ہیں کہ اوائل ہی سے مسجد میرا مکان ، صالحین میرے بھائی ، یاد الٰہی میری دولت ہے اور مخلوق خدا میرا عیال اور خاندان ہے۔ ۱۵
حضور کی یہ پاکیزہ فطرت اور خدا نما عادات و خصائل ہی کا نتیجہ تھا کہ جس نے بھی بصیرت کی نگاہ سے دیکھا آپ کا والہ و شیدا ہوگیا ۔ میاں محمد یاسین صاحب احمدی ٹیچر بلوچستان کی روایت ہے کہ ’’مجھے مولوی برہان الدین صاحب ؓ نے بتایا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مولوی غلام رسول صاحب قلعہ میاں سنگھ کے پاس گئے اور اس وقت حضور ابھی بچہ ہی تھے۔ اس مجلس میں کچھ باتیں ہورہیں تھیں۔ باتوں باتوں میں مولوی غلام رسول صاحب نے جو ولی اللہ و صاحب کرامات تھے فرمایا کہ اگر اس زمانہ میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے۔ انہوں نے یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہی ۔ مولوی برہان الدین صاحب کہتے ہیں کہ میں خود اس مجلس میں موجود تھا۔ مکر م مولوی غلام محمد صاحب سکنہ بیگووالہ ضلع سیالکوٹ نے بتایا کہ میں نے یہ بات اپنے والد محمد قاسم صاحب سے اسی طرح سنی تھی۔ ‘‘۱۶،۱۷
حضرت مسیح موعود ؑ دورِ تعلیم میں
’’النبی الامی ‘‘ کا قابل فخر خطاب ایک لاکھ جوبیس ہزار انبیاء میں سے تنہا آنحضرت ﷺ کو عطا ہوا اور باقی انبیاء کو بچپن میں کچھ نہ کچھ دنیاوی تعلیم حاصل کرنا پڑی۔ اس خدائی دستور کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی ابتدائی عمر میں تین اساتذہ سے چند ابتدائی علوم پڑھنے کا موقعہ ملا۔ سکھا شاہی کے جس زمانہ میں آپ پیدا ہوئے۔ ہر طرف جہالت کی تاریکی مسلط تھی اور عوام ہی نہیں رؤسا ء بھی علم کے نور سے محروم تھے۔ چنانچہ یہ بات مشہور ہے کہ خطوط مدت تک یونہی بغیر پڑھے رکھے رہتے اور ایک عرصہ کی محنت ، مشقت اور تلاش کے بعد ان کے مضمون سے آگاہی ہو سکتی۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے اصلاح خلق کا ایک بہت بڑا کام لینا تھا اس لئے اس نے آپ کے والد بزرگوار کے دل میں آپ کی تعلیم کا خاص شوق پیدا کر دیا۔ چنانچہ انہوں نے دینی تفکرات اور اقتصادی مشکلات کے باوجودمناسب حال ابتدائی تعلیم دلانے میں گہری دلچسپی لی چنانچہ حضور اپنے ذاتی سوانح میں لکھتے ہیں:
’’بچپن کے زمانے میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی جوان معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا۔ جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا۔ اور جب میری عمر تقریباً دس برس کی ہوئی تو ایک عربی جوان مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگ آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے۔ اور میںنے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے۔ اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہواتو ایک مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کانام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا۔ اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔ اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔‘‘۱۸
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پہلے استاد فضل الٰہی صاحب قادیان کے باشندے اور حنفی المذہب تھے۔ دوسرے استاد مولوی فضل احمد صاحب فیروز والہ ضلع گوجرانوالہ کے رہنے والے اور اہلحدیث تھے۔ مولوی مبارک علی صاحب جو ابتداء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوئے اور پھر غیر مبایعین کی رو میں بہہ گئے، آپ ہی کے بیٹے تھے۔ اور تیسرے استاد مولوی گل علی شاہ صاحب بٹالہ کے رہنے والے اور مذہبا شیعہ تھے۔ ۱۹ حضور کے زمانہ طالب علمی میں قادیان کا وہ کچا دیوان خانہ جس میں بعد کو حضرت نواب محمد علی خان صاحب ؓ کے مکانات تعمیر ہوئے پرائیویٹ درسگاہ تھی جہاں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؓ کی بدولت نہ صرف آپ کے فرزندہی اساتذہ سے تعلیم حاصل کرتے تھے بلکہ گائوں کے دوسرے بچوں کو بھی استفادہ کی کھلی اجازت تھی۔ بچوں کی شوخی، ہنسی مذاق اور چلبلاپن مشہور ہے اور یہ درسگاہ بھی ان باتوں سے خالی نہ تھی۔ لیکن آپ کوہ وقار تھے اور متانت و سنجیدگی کی مجسم تصویر!! دوسرے بچے جو طفیلی رنگ میں استفادہ کرتے تھے اپنے اساتذہ کا مذاق اڑاتے مگر آپ ان کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ۔ وہ تعلیمی اوقات میں تفریح اور دل لگی کا سامان پیدا کرتے اور آپ اپنا سبق یاد کرنے میں مستغرق رہتے ۔ آپ کا معمول یہ تھا کہ اپنا سبق ہمیشہ خود پڑھتے اور دو یا تین دفعہ دہرالینے کے بعد بالا خانہ میں تشریف لے جاتے اور وہاں تنہائی میں پوری یکسوئی سے یاد کرتے ۔ اگر کچھ بھول جاتا تو نیچے آکر اپنے استاد سے براہ راست پوچھتے اور پھر اوپر چلے جاتے۔ آپ کی عادت مبارک میں بالخصوص یہ امر بھی داخل تھاکہ اگر کوئی بچہ اپنا سبق بھول جاتاتو آپ اسے یاد کرا دینے میں کبھی تامل نہ فرماتے ۔۲۰ ان دنوں میں عام طور پر کشتی، کبڈی اور مگدراور مونگری اٹھانے کے کھیل مروج تھے اور بیٹر بازی اور مرغ بازی کی وبا عام تھی۔ مگر آپ بالطبع ان سب فضولیات سے متنفر اور قطعی طور پر بیزار تھے۔ ’’ تاہم اعتدال کے ساتھ اور مناسب حد تک آپ ورزش اور تفریح میں حصہ لیتے تھے۔ آپ نے بچپن میں تیرنا سیکھا تھا اور کبھی کبھی قادیان کے کچے تالابوں میں تیرا کرتے تھے۔ اسی طرح اوائل عمر میں گھوڑے کی سواری بھی سیکھی تھی اور اس فن میں اچھے ماہر تھے۔ مگر آپ کی زیادہ ورزش پیدل چلنا تھا جو آخر عمر تک قائم رہی۔ آپ کئی کئی میل تک سیر کے لئے جایا کرتے تھے اور خوب تیز چلا کرتے تھے۔ ‘‘ ۲۱یہ تو محض صحت کی درستی کی غرض سے تھا ورنہ ابتداء ہی سے آپ کی مرغوب خاطر اگر کوئی چیز تھی تو وہ مسجد اور قرآن شریف ۔ مسجدہی میں عموماً ٹہلتے رہتے ۔ اور ٹہلنے کا اس قدر شوق تھا اور محو ہوکر اتنا ٹہلتے کہ جس زمین پر ٹہلتے وہ دب دب کر باقی زمین سے متمیّز ہو جاتی ۔ (۲۲)
مولوی فضل الٰہی صاحب اور مولوی فضل احمد صاحب تو آخر ملازمت تک قادیان ہی میں مقیم رہے اور سلسلہ تعلیم یہیں جاری رہا۔ مگر مولوی گل علی شاہ صاحب قادیان میں مختصر قیام کے بعد بٹالہ میں چلے آئے ۔ اس لئے حضور انور کو بھی کچھ عرصہ کے لئے بغرض تعلیم بٹالہ میں فروکش ہونا پڑا۔ بٹالہ میں حضور کے خاندان کی دکانیں اور ایک بہت بڑی حویلی تھی( جو بعد میں مقدمات کے نتیجہ میں فروخت ہوگئی)(۲۳)حضور نے اسی بڑی حویلی میں قیام فرمایا۔ ان دنوں آپ کے ہم مکتبوں میں مشہور اہل حدیث مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور لالہ بھیم سین بھی شامل تھے جنہیں آپ کی خدا نما شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا اور وہ ہزار جان سے آپ کے فریفتہ ہوگئے۔ آپ کا ذکرالٰہی میں استغراق ، شب بیداری ، امارت میں فقیرانہ شان ، نورانیت سے معمور چہرہ اور عشق رسالت میں ڈھلی ہوئی معصومیت ان کے قلب و نظر کا گم گشتہ فردوس تھے۔ لالہ بھیم سین (۲۴) اور ان کے فرزند لالہ کنور سین کو اپنی زندگی کے آخری سانس تک حضرت اقدسؑ سے بے حدالفت و عقیدت رہی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے براہین احمدیہ کی اشاعت پر اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ۷میں ہم مکتبی کے انہی ایام کی یاد میں لکھا۔’’مولف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدرہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے ۔ مولف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے ( جب ہم قطبی و شرح ملا پڑھتے تھے) ہمارے ہم مکتب ۔ اس زمانہ سے آج تک ہم میں ان میں خط و کتابت و ملاقات و مراسلات برابر جاری رہی ہے۔ اس لئے ہمارا یہ کہنا کہ ہم ان کے حالات و خیالات سے بہت واقف ہیں مبالغہ قرار نہ دیئے جانے کے قابل ہے۔ ‘‘
اپنے اس لمبے اور ذاتی تعارف کی بناء پر مولوی صاحب نے بڑی تحدی کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کی جلالت مرتبت کا بایں الفاظ اقرار کیا کہ :
’’اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے۔ ‘‘ (۲۵)حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دلربا شخصیت اور تقدس کے انہی گہرے نقوش کا اثر تھا کہ مولوی صاحب دلی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب واپس بٹالہ آئے تو اگرچہ ایک عالم کی حیثیت سے ہندوستان بھر میں مشہور ہوگئے اور ہر جگہ ان کا طوطی بولنے لگا۔ مگر اس وقت بھی ان کی حضور سے عقیدت کایہ عالم تھاکہ حضور کا جوتا آپ کے سامنے سیدھا کرکے رکھتے اور اپنے ہاتھ سے آپ کا وضو کرانا موجب سعادت قرار دیتے تھے (۲۶)
چنانچہ حضرت میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی کا چشم دید واقعہ ہے کہ :
’’دعویٰ سے پہلے ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے مکان واقعہ بٹالہ پر تشریف فرماتھے ۔ میں بھی خدمت اقدس میں حاضر تھا۔ کھانے کا وقت ہوا تو مولوی صاحب خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ دھلانے کے لئے آگے بڑھے۔ حضور نے ہر چند فرمایا کہ مولوی صاحب آپ نہ دھلائیں مگر مولوی صاحب نے باصرار حضور کے ہاتھ دھلائے اور اس خدمت کو اپنے لئے باعث فخر سمجھا۔ ‘‘۲۷
دعویٰ مسیحیت کے بعد جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے بلکہ اول المکذبین بن کر آپ کے خلاف پہلا اور منظم محاذ قائم کر لیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہندوستان بھر کے تمام علماء کو چیلنج دیا کہ وہ آپ کی دعویٰ سے قبل کی زندگی کے کسی گوشہ کو داغ دار ثابت کر دکھائیں۔ اس زبردست تحدی نے مولوی محمد حسین بٹالوی اور ان کے ہم خیال علماء اور سجادہ نشینوں پر سکوت مرگ طاری کر دیا اور وہ حضور کی بے لوث زندگی پر انگشت نمائی کرنے سے سراسر قاصر رہے۔
یہ تو آپ کے ہم مکتبوں کا تاثر تھا ورنہ زمانہ طالب علمی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فہم و فراست اور تقویٰ شعاری اور علم لدنی کا بعض مواقع پر آپ کے اساتذہ کو بھی معترف ہونا پڑا۔ چنانچہ ایک دفعہ دوران تعلیم میں حضور کے ایک استاد مولوی فضل احمد صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے خواب دیکھا تھا کہ ایک مکان ہے جو دھواں دھار ہے یعنی اس کے اندر باہر سب دھواں ہو رہا ہے اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس کے اندر آنحضرت ﷺ ہیں اور چاروں طرف سے عیسائیوں نے اس (مکان ) کا محاصرہ کیاہواہے ۔ استاد نے یہ بھی بتایا کہ ہم میں سے کسی کو اس کی تعبیر نہیں آئی۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ ’’اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ شخص عیسائی ہو جائے گا کیونکہ انبیاء کا وجود آئینہ کی طرح ہوتاہے۔ پس اس نے جو آپ ؐ کو دیکھا ہے تو گویا اپنی حالت کے عکس کو دیکھا۔‘‘ حضور کا یہ جواب سن کر آپ کے وہ استاد بہت متعجب بھی ہوئے اور خوش بھی ۔ اور کہنے لگے کہ ’’کاش! ہم اس کی تعبیر جانتے اور اسے وقت پر سمجھاتے تو وہ شاید ارتداد سے بچ جاتا۔‘‘ ۲۸
آنحضرتﷺ کی زیارت :۔
دور تعلیم کا اہم ترین واقعہ یہ ہے کہ ۲۹ کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آغاز جوانی میں بذریعہ رویاء سرتاج مدینہ نور دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے رخ انور کی زیارت کا شرف نصیب ہوا۔ اس زیارت کے بعد جب تک زندہ رہے عشق رسولؐ میں فنا رہے اور گو بعد میں آپ نے کشفی رنگ میں اپنے آقا فداہ ابی و امی کی متعدد بار بیداری میں ملاقات بھی کی۔ اور کئی حدیثوں کی تصدیق بھی آپ سے براہ راست کی ۳۰ لیکن اس زیارت میں رسول خدا محمد عربی ﷺ کے نورانی مکھڑے نے آپ کو کچھ ایسا مستانہ بنا دیا کہ آپ ہمیشہ کے لئے حضور کے تیز نگاہ سے گھائل ہوگئے۔ آپ نے اپنی پوری دنیا بھلا دی مگر یہ عظیم الشان محمدی جلوہ فراموش نہیں کر سکے۔ دربار رسالت کی اس ابتدائی حاضری کا دلکش اور وجد آفرین نقشہ کھینچتے ہوئے حضور آئینہ کمالات اسلام اور براہین احمدیہ حصہ سوم میں تحریر فرماتے ہیں ۔ (آئینہ کمالات اسلام کی اصل عبارت عربی کی ہے جس کا ترجمہ درج کیا گیا ہے )
’’اوائل ایام جو انی میں ایک رات میں نے (رویا میں ) دیکھاکہ میں ایک عالی شان مکان میں ہوں جو نہایت پاک اور صاف ہے اور اس میں آنحضرتﷺ کا ذکر اور چرچا ہو رہا ہے ۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ حضور ؐ کہاں تشریف فرما ہیں ۔ انہوں نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ چنانچہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اس کے اندر چلا گیا۔ اور جب میں حضور کی خدمت میں پہنچا تو حضور بہت خوش ہوئے اور آپ نے مجھے بہتر طور پر میرے سلام کا جواب دیا۔ آپ کا حسن وجمال اور ملاحت اور آپ کی پر شفقت و پر محبت نگاہ مجھے اب تک یاد ہے اور وہ مجھے کبھی بھول نہیں سکتی۔ آپ کی محبت نے مجھے فریفتہ کر لیا۔ اور آپ کے حسین و جمیل چہرہ نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اس وقت آپ نے مجھے فرمایا اے احمد تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا چیز ہے؟ جب میں نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے اور وہ مجھے اپنی ہی تصنیف معلوم ہوئی۔ میں نے عرض کیا حضور یہ میری ایک تصنیف ہے ۔ ‘‘ ۳۱
’’آنحضرت ﷺ ۳۲نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تونے اس کتاب کا کیا نام رکھاہے ۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کتاب کا میںنے قطبی نام رکھاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ غرض آنحضرتؐ نے وہ کتاب مجھ سے لے لی اور جب وہ کتاب حضرت مقدس نبی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوشرنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدر تربوز تھا۔ آنحضرت ؐ نے جب اس میوہ کو تقسیم کرنے کے لئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا۔ تب ایک مردہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا آنحضرت ؐکے معجزہ سے زندہ ہو کر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرتؐ کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرتؐ بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے ۔
پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت ﷺ نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے سے زندہ ہوا۔ اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں۔ اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی اور اس نے وہیں کھالی۔ پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھا چکا تو ‘‘ ۳۳ میںنے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ کی کرسی اونچی ہوگئی ہے حتی کہ چھت کے قریب جا پہنچی ہے اور میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ کا چہرہ مبارک ایسا چمکنے لگا کہ گویا اس پر سورج اور چاند کی شعاعیں پڑ رہی ہیں اور میں ذوق اور وجد کے ساتھ آپ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ رہا تھا اور میرے آنسو بہہ رہے تھے۔ پھر میں بیدار ہوگیا اور اس وقت بھی میں کافی رو رہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ وہ مردہ شخص اسلام ہے اور اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کے روحانی فیوض کے ذریعہ سے اسے اب میرے ہاتھ پر زندہ کرے گا۔ اللّٰھم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌمَجِیْدٌ۳۴
( ۱۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کی تعبین کے سلسلہ میں حضرت مرزا بشیر احمد ؓ صاحب تحریر فرماتے ہیں ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تاریخ پیدائش اور عمر بوقت وفات کا سوال ایک عرصے سے زیر غور چلا آتاہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تصریح فرمائی ہے کہ حضور کی تاریخ پیدائش معین صورت میں محفوظ نہیں ہے۔ اور آپ کی عمر کا صحیح اندازہ معلوم نہیں ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۹۳) کیونکہ آپ کی پیدائش سکھوں کی حکومت کے زمانہ میں ہوئی تھی ۔ جبکہ پیدائشوں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتاتھا۔ البتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بعض ایسے امو ربیان فرمائے ہیں جن سے ایک حد تک آپ ؑ کی عمر کی تعبین کی جاتی رہی ہے۔ ان اندازوں میں سے بعض اندازوں کے لحاظ سے آپؑ کی پیدائش کا سال ۱۸۴۰ء بنتاہے اور بعض کے لحاظ سے ۱۸۳۱ء تک پہنچتاہے۔ اور اسی لئے یہ سوال ابھی تک زیر بحث چلا آیا ہے کہ صحیح تاریخ پیدائش کیا ہے ؟
میں نے اس معاملہ میں کئی جہت سے غور کیاہے ۔ اور اپنے اندازوں کو سیرۃ المہدی کے مختلف حصوں میں بیان کیا ہے ۔ لیکن حق یہ ہے کہ گومجھے یہ خیال غالب رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش کا سال ۱۸۳۶ء عیسوی یا اس کے قریب قریب ہے۔ مگر ابھی تک کوئی معین تاریخ معلوم نہیں کی جا سکی تھی ۔ لیکن اب بعض حوالے اور بعض روایات ایسی ملی ہیں۔ جن سے یقینی طور پر معین تاریخ کا پتہ لگ گیا ہے ۔ جو بروز جمعہ ۱۴۔ شوال ۱۲۵۰ ہجری مطابق ۱۳ ۔ فروری ۱۸۳۵ء عیسوی مطابق یکم پھاگن ۱۸۹۱بکرمی ہے ۔ اس تعبین کی وجوہ یہ ہیں:
۱۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تعبین اور تصریح کے ساتھ لکھاہے جس میں کسی غلطی یا غلط فہمی کی گنجائش نہیں۔ کہ میری پیدائش جمعہ کے دن چاند کی چودھویں تاریخ کو ہوئی تھی( دیکھو تحفہ گولڑویہ بار اول صفحہ ۱۱۰ حاشیہ) ۲۔ ایک زبانی روایت کے ذریعہ جو مجھے مکرمی مفتی محمد صادق صاحب کے واسطہ سے پہنچی ہے ۔ اور جو مفتی صاحب موصوف نے اپنے پاس لکھ کر محفوظ کی ہوئی ہے معلوم ہوتاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا تھا۔ کہ ہندی مہینوں کے لحاظ سے میری پیدائش پھاگن کے مہینہ میں ہوئی تھی۔ ۳۔ مندرجہ بالا تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دوسرے متعدد بیانات سے بھی قریب ترین مطابقت رکھتی ہے۔ مثلاً یہ کہ آپ ٹھیک ۱۲۹۰ھ میں شرف مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہوئے تھے ( حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۹) اور اس وقت آپ کی عمر چالیس سال کی تھی۔( تریاق القلوب صفحہ ۶۸) وغیرہ وغیرہ ۔
میں نے گزشتہ جنتریوں کا بغور مطالعہ کیا ہے ۔ اور دوسروں سے بھی کرایا ہے۔ تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ پھاگن کے مہینے میں جمعہ کا دن اور چاند کی چودھویں تاریخ کس کس سن میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس تحقیق سے یہی ثابت ہوا ہے ۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تاریخ پیدائش ۱۴۔ شوال ۱۲۵۰ہجری مطابق ۱۳۔ فروری ۱۸۳۵ء عیسوی ہے جیساکہ نقشہ ذیل سے ظاہر ہوگا۔
تاریخ اور سن عیسوی
تاریخ چاند معہ سن ہجری
دن
تاریخ ہندی مہینہ معہ سن بکرمی
۴۔ فروری ۱۸۳۱ء
۱۷۔ فروری ۱۸۳۲ء
۸۔ فروری ۱۸۳۳ء
۲۸۔فروری ۱۸۳۴ء
۱۳۔فروری ۱۸۳۵ء
۵۔ فروری ۱۸۳۶ء
۲۴۔ فروری ۱۸۳۷ء
۹۔ فروری ۱۸۳۸ء
یکم فروری ۱۸۳۹ء
۲۱۔ فروری ۱۸۴۰ء
۲۰۔ شعبان ۱۲۴۶ہجری
۱۴۔ رمضان ۱۲۴۷ہجری
۱۷؍۱۲۴۸ہجری
۱۸۔ شوال ۱۲۴۹ہجری
۱۴شوال ۱۲۵۰ہجری
۱۷۔ شوال ۱۲۵۱ہجری
۱۸۔ ذیقعدہ ۱۲۵۲ہجری
۲۰۔ ذیقعدہ ۱۲۵۳ہجری
۱۵۔ ذیقعدہ ۱۲۵۴ہجری
۱۶۔ ذی الحج ۱۲۵۵ہجری
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
۷پھاگن ۱۸۸۷بکرم
یکم پھاگن ۱۸۸۸بکرم
۴۔پھاگن ۱۸۸۹بکرم
۵۔پھاگن ۱۸۹۰بکرم
یکم ۔پھاگن ۱۸۸۹۱بکرم
۳۔ پھاگن ۱۸۹۲بکرم
۴۔ پھاگن ۱۸۹۳بکرم
۷۔ پھاگن ۱۸۹۴بکرم
۳۔ پھاگن ۱۸۹۵بکرم
۴۔ پھاگن ۱۸۶۶بکرم

(توفیقات الہامیہ مصری و تقویم عمری ہندی )
اس نقشہ کی رو سے ۱۸۳۲ء عیسوی کی تاریخ بھی درست سمجھی جا سکتی ہے مگر دوسرے قرائن سے جن میں سے بعض اوپر بیان ہو چکے ہیں اور بعض آگے بیان کئے جائیں گے ۔ صحیح یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش ۱۸۳۵ء عیسوی میں ہوئی تھی۔ پس ۱۳۔ فروری ۱۸۳۵ء عیسوی مطابق ۱۴۔ شوال ۱۲۵۰ہجری بروز جمعہ والی تاریخ صحیح قرار پاتی ہے اور اس حساب کی رو سے وفات کے وقت جو ۲۴۔ ربیع الثانی ۱۳۲۶ء ہجری ( اخبار الحکم ضمیمہ مورخہ ۲۸۔ مئی ۱۹۰۸ء ) میں ہوئی۔ آپ کی عمر پورے ۷۵سال ۶ماہ اور دس دن بنتی ہے ۔ میں امید کرتاہوں کہ اب جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش کی تاریخ معین طور پر معلوم ہوگئی ہے ۔ ہمارے احباب اپنی تحریرو تقریر میں ہمیشہ اسی تاریخ کو بیان کیا کریں گے ۔ تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تاریخ پیدائش کے متعلق کوئی ابہام اور اشتباہ کی صورت نہ رہے۔ اور ہم لوگ اس بارے میں ایک معین بنیاد پر قائم ہو جائیں۔
اس نوٹ کے ختم کرنے سے قبل یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک الہام میں یہ بتایا گیا تھا کہ آپؑ کی عمر اسی یا اس سے پانچ چار کم یا پانچ چار زیادہ ہوگی( حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۶) اگر اس الہام الٰہی کے لفظی معنی لئے جائیں تو آپ کی عمر پچھتّر ۷۵ چھہتر یا اسی یا چوراسی ۔ پچاسی سال کی ہونی چاہئے بلکہ اگر اس الہام کے معنی کرنے میں زیادہ لفظی پابندی اختیار کی جائے تو آپ کی عمر پورے ساڑھے پچھتّر سال بنتی ہے ۔ اسی ضمن میںیہ باتبھی قابل نوٹ ہے کہ ایک دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی پیدائش کے متعلق بحث کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت آدم سے لے کر ہزار ششم میں سے ابھی گیارہ سال باقی رہتے تھے۔ کہ میری ولادت ہوئی اور اسی جگہ یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ابجد کے حساب کے مطابق سورۃ والعصر کے اعداد سے آنحضرت ﷺ کا زمانہ نکلتا ہے جو شمار کے لحاظ سے ۴۷۳۹سال بنتاہے (دیکھو تحفہ گولڑویہ صفحہ ۹۴۹۳،۹۵ حاشیہ) یہ زمانہ اصولاً ہجرت تک شمار ہونا چاہئے۔ کیونکہ ہجرت سے نئے دور کا آغاز ہوتاہے ۔ اب اگر یہ حساب نکالا جائے ۔تو اس کی رو سے بھی آپ کی پیدائش کا سال ۱۲۵۰ھ بنتاہے ۔ کیونکہ ۶۰۰۰ میں سے ۱۱نکالنے سے ۵۹۸۹ رہنے ہیں اور ۵۹۸۹میں سے ۴۷۳۹ منہا کرنے سے ۱۲۵۰ بنتے ہیں۔ گویا اس جہت سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش کے متعلق مندرجہ بالا حساب صحیح قرار پاتاہے ۔ (مطبوعہ ’’ الفضل ‘‘قادیان ۱۱۔ اگست ۱۹۳۶ء صفحہ ۳)
۲۔ فصوص الحکم صفحہ ۳۶ترجمہ مولانا الفاضل محمد مبارک علی مطبوعہ ۱۳۰۸ھ ))





باب پنجم
مقدمات کی پیروی اور دنیاوی علائق میں
راست گفتاری ، منکسر المزاجی اور تعلق باللہ
(۱۸۵۴تا ۱۸۶۳)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی عمر کی پندرھویں منزل میں ابھی قدم رکھا ہی تھا کہ ملتان ، چیلیانوالہ اور گجرات کی فیصلہ کن جنگوں کے بعد سکھ حکومت کو شکست فاش ہوئی اور ۲۹۔ مارچ ۱۸۴۹ء کو پنجاب کا علاقہ بھی انگریزی حدود مملکت میں شامل کر لیا گیا۔ سکھ مہاراجہ دلیپ سنگھ کو ۵۰ ہزار پائونڈ پینشن دے کر انگلستان روانہ کر دیا گیا اور پنجاب کے ان رؤسا کی جاگیریں ضبط کر لی گئیں جنہوں نے انتقال حکومت کے وقت غیر ملکی حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ جیساکہ ابتداء میں ذکر آچکا ہے ان رؤسا میں چونکہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؓ اور آپ کے بھائی بھی تھے اس لئے ان کی جاگیر بھی جو قادیان کی مثالی ریاست کے آثار باقیہ سے تھی ضبط کر لی گئی اور اشک شوئی کے طورپر فقط سات سو روپے کی سالانہ پنشن انہیں دی جانی منظور کی گئی جو ظاہر ہے کہ ان کے گذشتہ شاہانہ ٹھاٹ باٹ کے لحاظ سے چنداں کوئی حیثیت نہ رکھتی تھی۔
حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کو قادیان کی بستی سے اپنے بزرگوں کی مقدس یادگار ہونے کی وجہ سے نہایت درجہ عقیدت تھی اور آپ اکثر اس کا اظہار فرماتے اور اکثر کہتے کہ قادیان کی ملکیت مجھے ایک ریاست سے اچھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت انگریزی کی طرف سے بے دخلی کے اعلان پر آپ نے انگریزی عدالتوں تک پہنچنے کا فیصلہ کرکے مقدمات کا ایک وسیع سلسلہ شروع کر دیا۔ جس میں آپ نے کشمیر میں ملازمت اور بعد کے عرصہ میں جمع کی ہوئی ستر ہزار کے قریب رقم پانی کی طرح بہادی ۔ حالانکہ اس زمانے میں اس قدر مصارف سے سوگنے بڑی جائیداد از سر نو خرید کی جا سکتی تھی۔ بایں ہمہ بڑی زبردست جدو جہد کے بعد انہیں بمشکل قادیان کی زمین کے ایک حصہ پر عمل دخل ملا۔ اور اس کے ماحول میں بھینی ، ننگل اور کھارا کے دیہات کی ملکیت کے رسمی حقوق واپسی ہوئے جو ۱۹۴۷ء کے ہنگامہ ہجرت تک بدستور قائم رہے۔ البتہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؓ کے انتقال کے بعد مرزا غلام قادر صاحب کے زمانے میں قادیان کی جائیداد کا ایک بڑا حصہ مرزا اعظم بیگ صاحب لاہوری کے خاندان کی طرف منتقل ہوگیا جو بالا خر پینتیس برس کی کشمکش کے بعد آپ ہی کے خاندان کی طرف واپس آگیا۔ (۱)
مقدمات شروع ہوئے تو حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم نے اپنے بیٹوں کو بھی اس میں شامل کرنا چاہا۔ حضرت اقدس کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم اپنے دنیا دارانہ رنگ کی وجہ سے مقدمات کی پیروی میں گہری دلچسپی لینے لگے مگر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فطری طور پر ان امور سے کوئی علاقہ ہی نہ تھا۔ آپ کے والد اور بڑے بھائی کو جس قدر انہماک اور شفف ان دنیاوی مشاغل میں تھا آپ اسی قدر ان سے متنفر تھے اور یہ جاننے کے باوجود متنفر تھے کہ ان مقدمات کے نتیجے میں اگر کامیابی ہوئی تو بالا خر خود آپ ایک بہت بڑی جائیداد پر قابض ہوں گے تاہم ضروری تھا کہ جب خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے آپ اپنی زندگی وقف کئے ہوئے تھے تو اس کی ہدایت کے مطابق اپنے والد کے حکم کے کی بھی تعمیل کریں خواہ آپ کی طبیعت اس سے کس درجہ کراہت رکھتی ہو۔ چنانچہ آپ کو مقدمات سے ( جو آپکے لئے ایک ابتلائے عظیم اور آزمائش کا ایک سنگین مرحلہ تھے )کم و بیش سترہ سال الجھنا پڑا۔ (۲)حضور فرماتے ہیں :۔
’’ میرے والد صاحب اپنے بعض آبائو اجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے انہوں نے انہی مقدمات میں بھی لگایا اور ایک زمانہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان بے ہودہ جھگڑوں میں ضائع ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگادیا۔ میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا۔ اس لئے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ بنا رہتاتھا۔ ان کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ پر تھی مگر وہ چاہتے تھے کہ دنیا داروں کی طرح مجھے روبہ خلق بناویں اور میری طبیعت اس طریق سے سخت بیزار تھی۔ ایک مرتبہ ایک صاحب کمشنر نے قادیان میں آنا چاہا۔ میرے والد صاحب نے بار بار مجھ کو کہا کہ ان کی پیشوائی کے لئے دو تین کوس جانا چاہئے ۔ مگر میری طبیعت نے نہایت کراہت کی اور میں بیمار بھی تھا اس لئے نہ جاسکا ۔ پس یہ امر بھی ان کی ناراضگی کا موجب ہوا۔ اور وہ چاہتے تھے کہ میں دنیوی امو رمیں ہر دم غرق رہوں جو مجھ سے نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر تاہم میں خیال کرتاہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتاتھا اور وہ مجھے دلی یقین سے بر بالوالدین جانتے تھے اور بسا اوقات کہا کرتے تھے کہ میں صرف ترحم کے طور پر اپنے اس بیٹے کو دنیا کے امور کی طرف توجہ دلاتاہوں ورنہ میں جانتاہوں کہ جس طرف اس کی توجہ ہے یعنی دین کی طرف۔ صحیح اور سچ بات یہی ہے ۔ ہم تو اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں۔ ‘‘(۳)
لیکن چونکہ ان کی ساری عمر دنیا داری کے معاملات میں بسر ہوئی تھی اس لئے افسوس کا پہلو ہی غالب رہتااور آپ کے مستقبل کے متعلق ہمیشہ تشویش میں رہتے ۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے والد صاحب مرحوم اکثر اوقات افسوس کا اظہار کرتے تھے کہ ’’ میر اایک بچہ تو لائق ہے مگر دوسرا لڑکا نالائق ہے ۔ کوئی کام نہ اسے آتا ہے اور نہ وہ کرتاہے ۔ مجھے فکر ہے کہ میرے مرنے کے بعد یہ کھائے گا کہاں سے۔ ‘‘ اور بعض دفعہ افسردہ ہو کر کہتے تھے کہ ’’یہ اپنے بھائی کا دست نگر رہے گا۔‘‘(۴)
مقدمات کے لئے تیاری اور سفر:۔
یہ مقدمات جو قادیان کی جائیداد کے حقوق ، مقامی زمینداروں کے لگان میں اضافہ یا درختوں کی کٹائی وغیرہ کے متعلق ہوتے تھے۔ آپ ان کے لئے بڑی محنت اور عرق ریزی سے ہر ممکن تیاری کرتے ۔ ہر مقدمہ کے متعلق ضروری کاغذات اور شواہد کا خلاصہ ضبط تحریر میں لاتے اور مشمولہ کاغذات کی نقول محفوظ رکھنے کا خاص اہتمام فرماتے تاعند الضرورت مقدمہ کے سمجھنے یا سمجھانے میں آسانی ہو۔ حضرت مسیح موعود ؑ کو اس سلسلے میں بٹالہ ، گورداسپور ، ڈلہوزی ، امرت سر اور لاہور تک کے متعدد سفر اختیار کرنا پڑے۔ بالخصوص ڈلہوزی تک تو آپ کو ایک مرتبہ یکہ میں اور اکثر مرتبہ پاپیادہ سفر بھی کرنا پڑا۔ ان دنوں میدانی سفر کی سہولتیں بھی میسر نہ تھیں اور یہ تو پہاڑوں کا دشوار گزار راستہ تھا جس کے طے کرنے میں یقینا غیر معمولی بہادری ، ہمت اور جفاکشی درکار تھی اور جسے آپ نے مسکراتے ہوئے چہرے سے محض رضاء الٰہی کی خاطر اختیار کیا۔
مقدمات میں آپ کی امتیازی خصوصیات :۔
مقدمات میں ہر قسم کا مکرو فریب ، دغابازی اور چالبازی روا رکھی جاتی ہے اور فریق مخالف کو شکست دینے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جاتا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقدمات کی پیروی کا اندازہی بالکل جدا، بالکل نرالا اور بالکل انوکھاتھا۔ آپ کو ہار جیت سے تو کوئی تعلق ہی نہیں تھا صرف اطاعت والد کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی رضاء مقصود تھی۔ ان دنوں آپ کا یہ اکثر معمول تھا کہ جس صبح کو مقدمہ پر جانا ہوتا آپ اس سے قبل عشاء کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کرنے کے بعد فرماتے ’’ مجھ کو مقدمہ کی تاریخ پر جانا ہے میں والد صاحب کے حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتا۔ دعا کرو کہ اس مقدمہ میں حق حق ہو جائے اور مجھے مخلصی ملے۔ میں نہیں کہتاکہ میرے حق میں ہو اللہ تعالیٰ خوب جانتاہے کہ حق کیاہے پس جو اس کے علم میں حق ہے اس کی تائید اور فتح ہو‘‘ اس کے بعد حضور خود بھی دیر تک مصروف دعا رہتے اور حاضرین بھی (۵) ایک ہندو مدرس پنڈت دیوی رام کا ( جو ۲۱ ۔جنوری ۱۸۷۵ء کو قادیان آئے اور چار سال تک مقیم رہے ) بیان ہے کہ ’’ جب کسی تاریخ مقدمہ پر جانا ہوتا تو آپ کے والد صاحب آپ کو مختار نامہ دے دیا کرتے تھے اور مرزا صاحب بہ تعمیل تابعداری فوراً بخوشی چلے جاتے تھے۔ مرزا صاحب اپنے والد صاحب کے کامل فرمانبردار تھے ۔ مقدمہ پر لاچاری امر میں جاتے تھے ۔ ‘‘(۶) ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ لاہو رچیف کورٹ میں ایک مقدمہ دائر تھا اور آپ لاہور میں اس کی پیروی کی غرض سے سید محمد علی شاہ صاحب محکمہ جنگلات کے ہاں فروکش تھے۔ شاہ صاحب کا ملازم آپ کے لئے چیف کورٹ میں ہی کھانا لے جایا کرتا تھا۔ ایک دن نوکر کھانے لئے واپس آیا اور انہیں اطلاع دی آپ نے فرمایا ۔ کہ گھر پر ہی آکر کھاتا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ خوش اور بشاش گھر پہنچے تو شاہ صاحب نے پوچھا کہ آج آپ اتنے خوش کیوں ہیں کیا فیصلہ ہوا؟ فرمایا مقدمہ تو خارج ہوگیا ہے مگر خدا تعالیٰ کا شکر ہے آئندہ اس کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ شاہ صاحب کو تو اس خبر سے سخت تکلیف ہوئی مگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نہ صرف حزن و ملال کے چنداں کوئی آثار نہیں تھے بلکہ آپ بہت خوش تھے اور بار بار فرماتے تھے کہ مقدمہ کے ہارنے کا کیا غم ہے ۔ !!(۷)
آپ کے دور (۸) مقدمات کی تین خصوصیات بالکل نمایاں تھیں۔ اول راست گفتاری دوم منکسر المزاجی تواضع اور حسن خلق سوم تعلق باللہ ۔
مقدمات میں راست گفتاری :۔
آپ نے جن مقدمات کی پیروی کی وہ زیادہ تر پیچیدہ نہیں ہوتے تھے اور دروغ گوئی سے ان کو کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا کیونکہ پٹواری کی شہادت کافی ہوتی تھی اور سرکاری کاغذات پر فیصلہ ہو جاتا تھا (۹) تاہم ان مقدمات میں متعدد مرحلے ایسے آجاتے تھے جن میں کوئی دوسرا شخص ہوتا تو اس کے قدم ڈگمگا جاتے ۔ مگر آپ نے کمال جرات اور بہادر ی سے ہر موقعہ پر دنیوی مصلحتوں کو پایہ استحقار سے ٹھکرادیا۔ اکثر دفعہ اپنے والد کی خفگی کا نشانہ بھی بنے اور شماتت اعداء کے چرکے بھی برداشت کئے۔ مگر گوارا نہیں کیا تو راست گفتاری کو چھوڑنا گوارانہیں کیا۔
ایک دفعہ جبکہ حضرت اقدس کی عمر پچیس تیس برس کی تھی آپ کے والد بزرگوار کا اپنے موروثیوں سے درخت کاٹنے پر ایک تنازعہ ہوگیا۔ آپ کے والد بزرگوار کا نظریہ یہ تھا کہ زمین کے مالک ہونے کی حیثیت سے درخت بھی ہماری ملکیت ہیں اس لئے انہوںنے موروثیوں پر دعویٰ دائر کر دیا اور حضور کو مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور بھیجا۔ آپ کے ہمراہ دو گواہ بھی تھے حضرت اقدس جب نہر سے گذر کر پتھنا نوالہ گائوں پہنچے تو راستے میں ذراسستانے کے لئے بیٹھ گئے اور ساتھیوں کو مخاطب کرکے فرمایا ۔ ابا جان یونہی زبردستی کرتے ہیں درخت کھیتی کی طرح ہوتے ہیں یہ غریب لوگ اگر کاٹ لیا کریں تو کیا حرج ہے۔ بہر حال میں تو عدالت میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مطلقاً یہ ہمارے ہی ہیں۔ ہاں ہمارا حصہ ہو سکتے ہیں۔ موروثیوں کو بھی آپ پر بے حد اعتماد تھا۔ چنانچہ جب مجسٹریٹ نے موروثیوں سے اصل معاملہ پوچھا تو انہوں نے بلا تامل جواب دیا کہ خود مرزا صاحب سے دریافت کر لیں۔ چنانچہ مجسٹریٹ نے حضور نے پوچھا حضور نے فرمایا کہ میرے نزدیک درخت کھیتی کی طرح ہیں جس طرح کھیتی میں ہمارا حصہ ہے۔ ویسے ہی درختوں میں بھی ہے ۔ چنانچہ آپ کے اس بیان پر مجسٹریٹ نے موروثیوں کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس کے بعد جب حضور واپس قادیان تشریف لائے تو حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے آپ کے ساتھ جانے والوں میں سے ایک ساتھی سے پوچھا کہ کیا فیصلہ ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ میں تو باہر تھا مرزا صاحب اندر گئے تھے ان سے معلوم ہوگا۔ اس پر حضرت صاحب کو بلایا گیا۔ حضور نے سارا واقعہ بلا کم و کاست بیان کر دیا جسے سن کر آپ کے والد بزرگوار سخت برہم ہوئے اور ’’ملاں ملاں ‘‘ کہہ کر کوسنے لگے اور کہاکہ گھرسے نکل جائو اور گھروالوں سے تاکید اً کہا کہ ان کو کھانا ہرگز نہ دو۔ حضور دو تین دن تو قادیان ہی میں رہے اور آپ کی والدہ صاحبہ محترمہؓ آپ کو کھانا بھیجواتی رہیں لیکن بعد کو آپ کے والد صاحب کی مزید ناراضگی کی وجہ سے قادیان سے بٹالہ چلے گئے جہاں کوئی دو ماہ تک ’’ پناہ گزین ‘‘ رہنا پڑا۔ اور پھر بیمار ہونے پر والد صاحب مرحوم نے حضور کو واپس بلالیا۔ (۱۰)
دو اور حیرت انگیز مثالیں :۔
یہاں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلم سے دو اور مثالیں بھی درج کرنا ضروری ہیں جو اگرچہ براہ راست اس زمانہ سے تعلق نہیں رکھتیں۔ مگر آپ کے مقدمات میں آپ کے معمول پر گہری روشنی ڈالتی ہیں۔ حضورؑ ’’آئینہ کمالات اسلام ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
میرے بیٹے سلطان احمد نے ایک ہندو پر بدیں بنیاد نالش کی کہ اس نے ہماری زمین پر مکان بنالیا ہے اور مسماری مکان کا دعویٰ تھا اور ترتیب مقدمہ میں ایک امر خلاف واقعہ تھا ۔ جس کے ثبوت سے وہ مقدمہ ڈسمس ہونے کے لائق ٹھہرتا تھا اور مقدمہ کے ڈسمس ہونے کی حالت میں نہ صرف سلطان احمد کو بلکہ مجھ کو بھی نقصان تلف ملکیت اٹھانا پڑتا تھا۔ تب فریق مخالف نے موقعہ پاکر میری گواہی لکھادی اور میں بٹالہ میں گیا اور بابو فتح دین صاحب سب پوسٹ ماسٹر کے مکان پر جو تحصیل بٹالہ کے پاس ہے جا ٹھہرا۔ اور مقدمہ ایک ہندو منصف کے پاس تھا جس کا اب نام یاد نہیں رہا مگر ایک پائوں سے وہ لنگڑا بھی تھا۔ اس وقت سلطان احمد کا وکیل میرے پاس آیا کہ اب وقت پیشی مقدمہ ہے آپ کیا اظہار دیں گے ۔میں نے کہا کہ وہ اظہاردوں گا جو واقعی امر ہے اور سچ ہے۔ تب اس نے کہا کہ پھر آپ کے کچہری جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ میں جاتاہوں تا مقدمہ سے دست بردار ہو جائوں ۔ سووہ مقدمہ میں نے اپنے ہاتھوں سے محض رعایت صدق کی وجہ سے آپ خراب کیا اور راست گوئی کو اِبْتِغَائً لِمَرَضَاتِ اللّٰہِ مقدم رکھ کر مالی نقصان کو ہیچ سمجھا۔‘‘ (۱۱)
دوسری مثال :۔
حضور خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی روایت ہے کہ :
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلما کی بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے کہ خاندانی جائیداد کے متعلق ایک مقدمہ تھا اس مکان کے چبوترے کے متعلق جس میں اب صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں۔ اس چبوترہ کی زمین دراصل ہمارے خاندان کی تھی مگر اس پر دیرینہ قبضۃ اس گھر کے مالکوں کا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بڑے بھائی صاحب نے اس کے حاصل کرنے کے لئے مقدمہ چلایا اور جیسا کہ دنیاداروں کا قاعدہ ہے کہ جب زمین وغیرہ کے متعلق کوئی مقدمہ ہواور وہ اپنا حق اس پر سمجھتے ہوں تو اس کے حاصل کرنے کے لئے جھوٹی سچی گواہیاں دلائیں۔ اس پر اس گھر کے مالکوں نے یہ امر پیش کر دیا کہ ہمیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ان کے چھوٹے بھائی صاحب کو بلا کر گواہی لی جائے۔ اور جو وہ کہہ دیں ہمیں منظور ہوگا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بطور گواہ عدالت میں پیش ہوئے اور جب آپ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ان لوگوں کو اس رستہ سے آتے جاتے اور اس پر بیٹھتے عرصہ سے دیکھ رہے ہیں ۔ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں!! اس پر عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا آپ کے بڑے بھائی صاحب نے اسے اپنی ذلت محسوس کیا اور بہت ناراض ہوئے مگر آپ نے فرمایا کہ جب امر واقعہ یہ ہے تو میں کس طرح انکار کر سکتاہوں؟ ‘‘(۱۲)
منکسر المزاجی اور حسن خلق کے نادر اور بے مثال نمونے :۔
ان مقدمات میں حضور کی منکسر المزاجی ، درویشانہ طبع اور حسن خلق کے متعدد اور بے مثال نمونے ظاہر ہوئے۔ جس نے آپ کے ساتھ ہم رکاب ہونے والوں کو بے حد متاثر کیا اور وہ آپ کے وجود میں اخلاق محمدی ؐ کا جلوہ دیکھ کر انگشت بدنداں ہو جاتے تھے۔
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کہا کرتے تھے کہ’’ والد صاحب نے اپنی عمر ایک مغل کے طور پر نہیں گذاری بلکہ فقیر کے طور پر گذاری ۔‘‘(۱۳) یہ فقرہ جو آپ کی پوری زندگی کی مختصر مگر جامع تصویر ہے ، آپ کے زمانہ مقدمات پر بھی پوری شان سے حاوی ہے ۔ قادیان کے کنہیا لعل صراف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت مرزا صاحب کو بٹالہ جانا تھا۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ ایک یکہ کرادیا جائے۔ حضور جب نہر پر پہنچے تو آپ کو یاد آیا کہ کوئی چیز گھر میں رہ گئی ہے یکہ والے کو وہاں چھوڑا اور خود پیدل واپس تشریف لائے۔ یکہ والے کو پل پر اور سواریاں مل گئیں اور وہ بٹالہ روانہ ہوگیا اور مرزا صاحب غالباً پیدل ہی بٹالہ گئے۔ تو میں نے یکہ والے کو بلا کر پیٹا اور کہا کہ کم بخت اگر مرزا نظام دین ہوتے تو خواہ تجھے تین دن وہاں بیٹھنا پڑتا تو بیٹھتا۔ لیکن چونکہ وہ نیک اور درویش طبع آدمی ہے اس لئے تو ان کو چھوڑ کر چلا گیا۔ جب مرزا صاحب کو اس کا علم ہوا تو آپ نے مجھے بلا کر فرمایا کہ تم اس سے معافی مانگو تم نے کیوں اسے مارا۔ وہ مزدور آدمی تھا وہ میری خاطر کیسے بیٹھا رہتااسے مزدوری مل گئی اورچلا گیا۔ میں نے کہا حضرت میں اسے ماروں گا اس نے کیوں ایسا کیا۔ لیکن حضرت اقدسؑ بار بار یہی فرماتے رہے۔ نہیں اس سے معافی طلب کرو۔ ‘‘(۱۴)
حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معمول تھا کہ جب مقدمات کے لئے قادیان سے روانہ ہوتے تو اپنے ساتھ اصطبل میں سے سواری کے لئے گھوڑا بھی لے لیتے ۔ ان سفروں میں آپ کے ہمراہ ان دنوں آپ کے قدیم خدام میں سے مرزا اسماعیل بیگ صاحب( ساکن قادیان ) یا مرزا دین محمد صاحب (۱۵) (ساکن لنگروال) یا میاں غفارا یکہ بان ہوتے تھے۔ جنہیں آپ گائوں سے نکل کر سوار کر لیتے اور پھر نصف راستہ حضور سوار ہوتے اور نصف راستہ وہ سواری کرتے اور بٹالہ پہنچنے پر اپنی حویلی میں قیام فرماتے تھے۔ اور جوجولاہا اس حویلی کی دیکھ بھال کے لئے مقرر تھا اسے اپنے کھانے سے دیتے اور خود حسب معمول بہت کم کھاتے تھے۔ چنانچہ مرزا اسماعیل بیگ صاحب مرحوم کی شہادت ہے کہ جب حضرت اقدسؑ اپنے والد بزرگوار کے ارشاد کے ماتحت بعثت سے قبل مقدمات کی پیروی کے لئے جایا کرتے تھے تو سواری کے لئے گھوڑا بھی ساتھ ہوتا تھا اور میں بھی عموماً ہم رکاب ہوتاتھا لیکن جب آپ چلنے لگتے تو آپ پیدل ہی چلتے اور مجھے گھوڑے پر سوار کرا دیتے ۔ میں بار بار انکار کرتا اور عرض کرتا حضور مجھے شرم آتی ہے۔ آپ فرماتے کہ ’’ ہم کو پیدل چلتے شرم نہیں آتی تم کو سوار ہوتے کیوں شرم آتی ہے۔‘‘ جب حضور قادیان سے چلتے تو ہمیشہ پہلے مجھے سوار کرتے۔ جب نصف سے کم یا زیادہ راستہ طے ہوجاتا تو میں اتر جاتا اور آپ سوار ہو جاتے اور اسی طرح جب عدالت سے واپس ہونے لگتے تو پہلے مجھے سوار کرتے اور بعد میں آپ سوار ہوتے ۔ جب آپ سوار ہوتے تو گھوڑا جس چال سے چلتا اسی چال سے اسے چلنے دیتے۔ ‘‘(۱۶)
آپ کے دوسرے قدیم خادم مرزا دین محمد صاحب مرحوم آف لنگروال کا بیان ہے کہ :۔
’’ میں اولاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے واقف نہ تھا۔ یعنی ان کی خدمت میں مجھے جانے کی عادت نہ تھی۔ خود حضرت صاحب گوشہ گزینی اور گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ لیکن چونکہ وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند اور شریعت کے دلدادہ تھے۔ یہی شوق مجھے بھی ان کی طرف لے گیا اور میں ان کی خدمت میں رہنے لگا۔ جب مقدمات کی پیروی کے لئے جاتے تو مجھے گھوڑے پر اپنے ساتھ اپنے پیچھے سوار کر لیتے تھے اور بٹالہ جاکر اپنی حویلی میں باندھ دیتے ۔ اس حویلی میں ایک بالا خانہ تھا آپ اس میں قیام فرماتے ۔ اس مکان کی دیکھ بھال کاکام ایک جولاہے کے سپرد تھا جو ایک غریب آدمی تھا۔ آپ وہاں پہنچ کر دو پیسے کی روٹی منگواتے ۔ یہ اپنے لئے ہوتی تھی اور اس میں سے ایک روٹی کی چوتھائی کے ریزے پانی کے ساتھ کھالیتے۔ باقی روٹی اور دال وغیرہ جو ساتھ ہوتی وہ اس جولاہے کو دے دیتے اور مجھے کھانا کھانے کیلئے چار آنہ دیتے تھے۔ آپ بہت ہی کم کھایا کرتے تھے اور کسی قسم کے چسکے کی عادت نہ تھی۔‘‘ (۱۷)
جس دن آپ نے بٹالہ جانا ہوتا تو سفر سے پہلے آپ دو نفل پڑھ لیتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح کا کھانا آپ گھر سے کھا جاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے تحصیل میں چلے جانا میں باہر بیٹھتاتھا ۔ دوپہر کے وقت جو وقفہ ہوتا تھا اس میں آپ باہر تشریف لاتے اور مجھے چند پیسے دیتے کہ بھوک لگی ہوگی کوئی چیز کھالو قادیان کی واپسی پر آپ کبھی موڑ پر اتر پڑتے اور کبھی قادیان کے نزدیک ایک باغ میں ( جو محلہ دارالصحت کے قریب تھا) قادیان میں کبھی سوار ہونے کی حالت میں آپ تشریف نہیں لائے۔ ‘‘(۱۸)
مقدمات میں انقطاع الی اللہ :۔
ان مقدمات میں سب سے نمایاں امر آپ کا انقطاع الی اللہ تھا۔ جو ہر موقعہ پر خود بخود ظاہر ہوتاتھا آپ سفر میں ہوتے یا حضر میں ، عدالت میں ہوتے یا اپنی رہائش گاہ پر ، یاد الٰہی سے آپ ایک لمحہ بھی غافل نہیں رہتے تھے ۔ بلکہ زندگی کا ہر تغیر آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے کا باعث بنتا تھا۔ ڈلہوزی کے سفروں کے متعلق اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ ’’جب کبھی ڈلہوزی جانے کا مجھے اتفاق ہوتا تو پہاڑوں کے سبزہ زار حصوں اور بہتے ہوئے پانیوں کو دیکھ کر طبیعت میں بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد کا جوش پیدا ہوتا اور عبادت میں ایک مزہ آتا اور میں دیکھتا تھا کہ تنہائی کے لئے وہاں اچھا موقعہ ملتاہے ۔ ‘‘ (۱۹)
عنفوان شباب میں بہاریں لوٹنے کی بجائے خدا تعالیٰ کے تصور میں یوں کھوئے جانا آپ کے اس عشق کا پتہ دیتاہے جو آپ کے قلب صافی میں بحر مواج کی شکل میں ہر دم موجزن رہتاتھا۔ آپ دست باکار اور دل بایار کی مجسم تصویر اور عالم جوانی میں عشق الٰہی کے سانچے میں ڈھلا ہوا نفیس قالب تھے جس کے چہرہ مہرہ ، طرز گفتگو اور کردار سے روحانیت کا نور برستاتھا جو ایک اجنبی انسان کو بھی مبہوت کر دیاکرتا تھا۔ چنانچہ ڈلہوزی ہی کے سفر کا ایک واقعہ ہے کہ آپ ایک مقدمے کے سلسلہ میں پہاڑ پر یکہ میں بیٹھے سفر کر رہے تھے کہ راستہ میں بارش آگئی۔ آپ اپنے ہم سفر ساتھی سمیت یکہ سے اترے اور ایک پہاڑی آدمی کے مکان کی طرف گئے جو راستہ کے پاس تھا۔ آپ کے ساتھی نے آگے بڑھ کر مالک مکان سے اندر آنے کی اجازت چاہی مگر اس نے روکا ۔ اس پر ان کی باہم تکرار ہوگئی اور مالک مکان تیز ہو کر گالیوں پر اتر آیا۔ حضرت صاحب یہ تکرار سن کر آگے بڑھے ۔ جونہی آپ کی اور مالک مکان کی آنکھیں ملیں تو پیشتر اس کے کہ آپ کچھ فرماتے اس نے اپنا سر نیچے ڈال لیا اور کہا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ ’’میری ایک جوان لڑکی ہے اس لئے میں اجنبی آدمی کو گھر میں نہیں گھسنے دیتا مگر آپ بے شک اندر آجائیں ۔ ‘‘ (۲۰)
مقدمات خواہ کتنے پیچیدہ ، اہم اور آپ کی ذات یا خاندان کے لئے دور رس نتائج کے حامل ہوتے آپ نماز کی ادائیگی کو ہر صورت میں مقدم رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ کا ریکارڈ ہے کہ آپ نے ان مقدمات کے دوران میں کبھی کوئی نماز قضاء نہیں ہونے دی ۔ عین کچہری میں نماز کا وقت آتا تو اس کمال محویت اور ذوق شوق سے مصروف نماز ہو جاتے کہ گویا آپ صرف نماز پڑھنے کے لئے آئے ہیں کوئی اور کام آپ کے مدنظر نہیں ہے ۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ آپ خدا تعالیٰ کے حضور کھڑے عجزو نیاز کر رہے ہوتے اور مقدمہ میں طلبی ہو جاتی مگر آپ کے استغراق ، توکل علی اللہ اور حضور قلب کا یہ عالم تھا کہ جب تک مولائے حقیقی کے آستانہ پر جی بھر کر الحاح و زاری نہ کر لیتے اس کے دربار سے واپسی کا خیال تک نہ لاتے ۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں:
’’ میں بٹالہ ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا۔ نماز کا وقت ہوگیا اور میں نماز پڑھنے لگا۔ چپڑاسی نے آوازدی مگر میں نماز میں تھا فریق ثانی پیش ہوگیا اور اس نے یک طرفہ کارروائی سے فائدہ اٹھانا چاہا اور بہت زور اس بات پر دیا۔ مگر عدالت نے پروانہ کی اور مقدمہ اس کے خلاف کر دیا اور مجھے ڈگری دے دی۔ میں جب نماز سے فارغ ہو کر گیا تو مجھے خیال تھاکہ شاید حاکم نے قانونی طور پر میری غیر حاضری کو دیکھاہو۔ مگر جب میں حاضر ہوا اور میںنے کہا کہ میں تو نماز پڑھ رہا تھا تو اس نے کہا کہ میں تو آپ کو ڈگری دے چکا ہوں۔ ‘‘(۲۱)
عدالت سے غیر حاضری کے باوجود آپ کے حق میں فیصلہ ہو جانا ایک بھاری الٰہی نشان تھا جو آپ کے کمال درجہ انقطاع و ابتہال کے نتیجہ میں نمودار ہوا۔




پورے ہندوستان کو عیسائیت کے زیر نگیں
کرنے کی برطانوی سازش
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے تبلیغ اسلام کی زبردست جدو جہد کے متعلق کچھ لکھنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس زمانہ میں عیسائیت کی پشت پر برطانوی حکومت کی پوری مشینری کام کر رہی تھی اور ہندوستان میں پنجاب کو اور پنجاب میں لدھیانہ اور سیالکوٹ کو عیسائیت کا مرکز بناکر عیسائیت کا جال پھیلانے کی سر توڑ کوششیں جاری تھیں۔
انگریزی پالیسی :۔
انگریز ہندوستان میں ابتداء ہی سے یہ پالیسی لے کر آئے تھے کہ وہ دولت و ثروت کے بل بوتے پر اس برصغیر پر قابض ہو جائیں اور یہاں اپنا دائمی اثرو اقتدار قائم کرنے کے لئے ایسا طبقہ پیدا کر دیں کہ جو رنگ و خون کے اعتبار سے ہندوستانی ہو مگر اپنے مذاق، اپنی رائے، معاشرتی الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو۔ (۲۳) برطانوی حکومت نے اس پالیسی پر ابتداء میں جس طرح عمل کیا وہ اس کی ڈپلومیسی کا شاہکار تھا۔ سر سید مرحوم نے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ میں ان کارروائیوں کو بڑی تفصیل سے بے نقاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سب جانتے تھے کہ گورنمنٹ نے پادریوں کو مقرر کیاہے ان کو تنخواہ دی جاتی ہے ۔ دیگر اخراجات اور تقسیم کتب کے لئے بڑی بڑی رقمیں دی جاتی ہیں اور ہر طرح ان کے مددگار اور معاون ہیں۔ حکام شہر اور فوج کے افسر ماتحتوں سے مذہبی گفتگو کرتے تھے۔ اپنی کوٹھیوں پر بلا بلا کر پادریوں کا وعظ سنواتے تھے۔ غرض کہ اس بات نے یہاں تک ترقی پکڑی تھی کہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ گورنمنٹ کی عملداری میں ہمارا یا ہماری اولاد کا مذہب قائم رہے گا۔‘‘
ہندوستان کو عیسائیت کی آغوش میں دینے کی پالیسی جو ابھی تک خفیہ طور پر اختیار کی جاتی تھی ۱۸۵۷ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے ایوانوں میں گونجنے لگی۔ چنانچہ پارلیمانی ممبر مسٹر لنگس نے ان دنوں ایک تقریر میں کہا:
’’ خداوند تعالیٰ نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے کہ ہندوستان کی سلطنت انگلستان کے زیر نگیں ہے تاکہ عیسیٰ مسیح کی فتح کا جھنڈا ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لہرائے ہر شخص کو اپنی تمام تر قوت تمام ہندوستان کو عیسائی بنانے کے عظیم الشان کام کی تکمیل میں صرف کرنی چاہئے اور اس میں کسی طرح تساہل نہیں کرنا چاہئے۔ ‘‘ ( ۲۴)
ہنگامہ ۵۷ء کے فرو ہوتے ہی انگریزی حکمرانوں نے جس امر کی طرف مسلسل توجہ دی وہ تبلیغ عیسائیت کا معاملہ تھا ایک چرچ مشنری ہندوستان میں عیسائیت کے فروغ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛
’’غدر کی آگ کے بعد زیادہ مستحکم طور پر ایس پی جی نے دہلی میں اور سی ایم ایس نے لکھنؤ میں اپنے مرکز قائم کئے۔ اودھ میں مشنری خدمت کے لئے ہنری لارنس چیف کمشنر نے لکھنؤ میں لکھاجنہوں نے بنارس سے لیوپولٹ کو بھیج دیا۔ اور ۲۴ ۔ ستمبر ۱۸۵۸ء کو منٹگمری نے ایک جلسہ کرکے ۰۰۰،۵ پونڈ جمع کرلئے اور اودھ مشن کو تقویت پہنچائی ۔‘‘(۲۵)
۱۸۶۲ء میں انگلستان کے وزیر اعظم لارڈپامرسٹن اور وزیر ہند چارلس وڈ کی خدمت میں ایک وفد پیش ہوا جس میں دارالعلوم اور دارالا مراء کے رکن اور دوسرے بڑے بڑے لوگ شامل تھے۔ انگلستان کے سب سے بڑے پادری آرچ بشپ آف کنٹربری نے اس وفد کا تعارف کرایا۔ وزیر ہند نے اس وفد سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ :
’’میرا یہ ایمان ہے کہ ہر وہ نیا عیسائی جو ہندوستان میں عیسائیت قبول کرتاہے انگلستان کے ساتھ ایک نیا رابطہ اتحاد بنتا ہے اور ایمپائر کے استحکام کے لئے ایک نیا ذریعہ ہے ۔ ‘‘(۲۶)
وزیر اعظم لارڈپامرسٹن نے یہ بھی کہاکہ :
’’میں سمجھتاہوں کہ ہم سب اپنے مقصد میں متحد ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہی نہیں بلکہ خود ہمارا مفاد بھی اس امر سے وابستہ ہے کہ ہم عیسائیت کی تبلیغ کو جہاں تک بھی ہو سکے فروغ دیں۔ اور ہندوستان کے کونے کونے میں اس کو پھیلا دیں۔ ‘‘ (۲۷)
ان الفاظ کے بعد اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ ہندوستان سے انگلینڈ تک کے سب ہی انگریز افسر اپنی حکومت کے استحکام کا تمام تر راز عیسائیت کے فروغ میں سمجھتے تھے۔
پنجاب کو عیسائیت کیلئے قدرتی BASEقرار دیا گیا :
مسیحی مشنریوں کی رپورٹوں سے ثابت ہے کہ وہ وسط ایشیا میں عیسائیت کی ترقی کے لئے پنجاب کو قدرتی بنیاد (Base) یقین کرتے تھے۔ چنانچہ رابرٹ کلارک نے لکھا ہے :
’’پنجاب کی سرحدی لائن سے اور اسے اپنے کام کی بنیاد (Base)بناکر عیسائیت ان مقامات تک پھیل سکتی ہے جہاں ابھی اس کا نام تک نہیں پہنچا۔‘‘
’’وسط ایشیا میں عیسائیت کے تبلیغی کام کے لئے پنجاب ایک قدرتی بنیاد (Base)معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘(۲۸)
پنجاب کو صلیب کے جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے مرکزی مشن ابتداء لدھیانہ میں قائم کیا گیا ۔ جس کے بعد پنجاب میں اگرچہ دیکھتے ہی دیکھتے صوبہ کے تمام مشہور شہروں میں مسیحی مشنوں کا قیام عمل میں آیا۔ گرجے تعمیر ہوئے اور لٹریچر کی اشاعت شروع ہوگئی۔
سیالکوٹ مشن کی خصوصیت :۔
لیکن سیالکوٹ مشن کو ان میں ایک بھاری خصوصیت حاصل تھی کیونکہ یہ مشن ( جو اسکاچ مشن تھا) ملک کی ایک دفاعی سکیم کے ماتحت جاری ہوا تھا جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اسے فوجی افسروں کے مشورہ اور ایماء پر قائم کیا گیا تھا۔ چنانچہ ایک چرچ مشنری معترف ہیں کہ :
۱۸۵۶ء میں فوجی افسروں کی درخواست پر سکاچ مشن (۲۹)نے پنجاب کا رخ کیا جہاں دس سال کے اندر (۳۰) سیالکوٹ کو مرکز بناکر گردو نواح کے پچاس میل دائرہ کے شہروں اور قصبوں میں سکول ، یتیم خانے اور ڈسپنسریاں قائم کر دیں اور گردو پیش کے گائوں میں تبلیغ کی جانے لگی۔ ‘‘ (۳۱)
چنانچہ عیسائیت نے بالخصوص سیالکوٹ کے حلقہ میں دس سال کے اندر یعنی ۱۸۶۶ء تک اپنی جڑیں مضبوط کر لیں۔ دراصل پورے پنجاب میں سیالکوٹ ہی ایک ایسا مقام تھا جس نے انگریزوں کے خلاف بغاوت میں ڈٹ کر حصہ لیاتھا۔ اس لئے انگریزوں کا قدرتی طور پر مفاد اسی میں تھا کہ پنجاب کے اس ’’بازوئے شمشیرزن ‘‘ کو مفلوج کرنے کے لئے عیسائیت کی بکثرت اشاعت کریں۔ ملکہ وکٹوریہ نے ۱۸۵۷ء کے انہی واقعات سے متاثر ہوکر عفو عام ، مساوات اور مذہبی آزادی کا ایک تاریخی اعلان کیا۔ جس کی رو سے ہندوستان میں ہر مذہب و ملت کو اپنے دینی عقائد پر عملدر آمد کرنے اور اشاعت و تبلیغ کرنے کی مکمل اجازت دی گئی تھی۔ انگریزی حکومت سیاسی لحاظ سے خواہ کس قدر فتنوں کے بہالانے کا باعث ہوئی ملکہ کا یہ تاریخی اعلان ملک کے اہل فہم اور دینی مزاج رکھنے والے سنجیدہ طبقوں میں تشکر کے گہرے جذبات سے سناگیا۔ یہ مذہبی آزادی ہر فرقہ کے لئے مساوی تھی جس سے ہر فرقہ نے اپنے مذہب کی ترقی و اشاعت کے لئے فائدہ اٹھایا۔ لیکن انگریزی حکومت سبھی فرقوں کو مذہبی آزادی دینے کے بعد اگر عیسائیت کی پشت پناہی کا خیال ترک کر دیتی تو اسے اپنی موت پر دستخط کرنا پڑتے ۔ وہ بخوبی جانتی تھی کہ عیسائیت انگریزی اقتدار کا سہارا لئے بغیر اس برق رفتاری سے ہندوستان پر چھا نہیں سکتی۔ جس کا انگریزی حکومت کے مفاد تقاضا کرتے ہیں۔
دراصل ۱۸۵۷ء نے انگریز کو پوری طرح محسوس کروا دیا تھا کہ اگر عیسائیت کے فروغ کے لئے پوری جدو جہد کی جاتی تو ملک کی اکثریت عیسائیت کی چوکھٹ پر آجاتی اور اس قسم کے واقعات کی نوبت ہی نہیں آسکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد انہوں نے پوری قوت سے اور صاف کھل کر عیسائیت کی پشت پناہی شروع کر دی اور پادریوں کی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ایک پاکستانی ادیب لکھتے ہیں ’’انگریزوں کی غدر میں فتوحات کے بعد عیسائی مشنریوں کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے۔ ‘‘(۳۲) یہ اسی صورت حال کا لازمی نتیجہ تھا کہ خود ملک کے بعض منصف مزاج اور خدا ترس پادری برملا تسلیم کرتے تھے کہ اگر ۱۸۵۷ء کی مانند پھر غدر ہوا تو عماد الدین ایسے بدسگالوں کی بدزبانیوں اور بے ہودہ گوئیوں سے ہوگا۔ (۳۳) چنانچہ ۱۸۶۴ء میں ہنری لارنس کو جو قبل ازیں چیف کمشنر تھا اور ابتداء ہی سے عیسائیت کی ترقی و اشاعت میں دیوانہ وار کوشش کرنا اپنا سیاسی فرض سمجھتا تھا ہندوستان کا وائسرائے بنادیاگیا۔ یہ وہ شخص تھا جس کی قطعی رائے تھی کہ :
’’غدر کے بھڑکانے میں سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ برطانیہ حسب عادت اپنے مذہب کے معاملہ میں بزدلی دکھاتا رہا۔ ‘‘(۳۴)
وہ سر ہر برٹ ایڈ ورڈز کے اس نظریہ کا پر جوش حامی تھا کہ ’’ غدر کے برپا ہونے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ عیسائیت کی تبلیغ کی گئی ۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ عیسائیت کی تبلیغ نہیں کی گئی ‘‘(۳۵) ہنری لارنس ۱۸۶۴ء سے ۱۸۶۹ء تک وائسرائے رہا اور اس نے اپنے زمانہ اقتدار میں عیسائیت کے پھیلانے کی زبردست جدو جہد کی جس کا اعتراف خود فاضل مسیحی محققین کو ہے۔ ایک چرچ مشنری لکھتے ہیں کہ :۔
’’ جب ہنری لارنس وائسرائے مقرر ہوئے تو انہوں نے مسیحی تبلیغ کی اور وسیع کوشش کی ۔ ‘‘(۳۶)
بہرحال یہ تھا سیالکوٹ کے تبلیغی ’’میدان جنگ‘‘ کا نقشہ اور ملکی سیاست کا ماحول ۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قادیان سے سیالکوٹ تشریف لائے اور ایک عام سرکاری ملازم ہونے کے باوجود اس برطانوی اقدام کے خلاف تن تنہا پر جوش محاذ قائم کر لیا۔ اس زمانہ میں عیسائیت کے دفاع میں آپ کا ایک مناظرہ بلاشبہ حکومت وقت کے آئین سے نہیں اس کے مخصوص مفادات سے ’’بغاوت ‘‘ کے مترادف تھا۔ جمعیۃ العلماء ہند کے ایک سابق ناظم مولانا سید محمد میاں صاحب لکھتے ہیں :
’’رد عیسائیت بظاہر ایک واعظانہ اور مناظرانہ چیز ہے جس کو سیاست سے بظاہر کوئی تعلق نہیں لیکن غور کرو جب حکومت عیسائی گرہو۔ جس کا نقطہ نظر ہی یہ ہوکہ سارا ہندوستان عیسائی مذہب اختیار کرلے اور اس کی تمنادلوں کے پردوں سے نکل کر زبانوں تک آرہی ہو اور بے آئین اور جابر حکومت کا فولادی پنجہ اس کی امداد کر رہا ہوتو یہی تبلیغی اور خالص مذہبی خدمت کس قدر سیاسی اور کتنی زیادہ سخت اور صبر آزمابن جاتی ہے ۔ بلا شبہ رد عیسائیت کے سلسلہ میں ہر ایک مناظرہ ، ہر ایک تبلیغ ، ہر ایک تصنیف اغراض حکومت سے سراسر بغاوت تھی۔ ‘‘(۳۷)
سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعودؑ کا عیسائیت کے خلاف تبلیغی محاذ :۔
اس زمانہ میں مسیحی مشن چونکہ نیا نیا پنجاب میں آیا تھا اس لئے مسلمان اس کے علم کلام اور دلائل سے اکثر نا آشنا تھے اور عیسائیت سے اکثر شکست کھاجاتے تھے لیکن اس کے برعکس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسے مرد مجاہد سے جس مسیحی کی گفتگو ہوئی اسے خاموش ہونا پڑا۔ آپ صحیح معنوں میں سیالکوٹ کی پوری مذہبی فضاء پر چھائے ہوئے تھے اور عیسائی پادری آپ کے مدلل اور مسکت مباحثوں سے بالکل لاجواب ہو جاتے تھے۔ آپ کی بیٹھک کے قریب ہی ایک بوڑھے دکاندار فضل دین کی دکان تھی جہاں شام کو شہر کے اچھے اچھے سمجھدار لوگوں کا ایک ہجوم سا رہتا تھا۔ گاہے گاہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی تشریف لاتے اور مشن سکول کے ہیڈ ماسٹر نصر اللہ نامی عیسائی سے مذہبی امور پر معلومات افزاء گفتگو فرماتے ۔ ان دنوں حاجی پورہ میں ایک دیسی پادری الائشہ صاحب بھی ایک کوٹھی میں رہتے تھے ۔ ایک دفعہ ان سے آپ کا ایک مختصر سا مگر فیصلہ کن مباحثہ بھی ہوا۔ پادری صاحب نے مباحثہ کا آغاز کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ عیسائیت قبول کئے بغیر نجات کا حصول ممکن نہیں ۔ حضرت اقدس ؑ نے جرح میں صرف یہ فرمایا کہ نجات کی مفصل تعریف بیان کیجئے ۔ آپ کا بس اسی قدر فرمانا تھا کہ وہ صاحب دم بخودرہ گئے اور یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ ’’ میں اس قسم کی منطق نہیں پڑھا۔‘‘
پادری بٹلر سے تبادلہ خیالات :۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سیالکوٹ میں جن پادریوں سے مذہبی تبادلہ خیالات کا سلسلہ جاری رہتا تھا ان میں پادری بٹلر ایم اے ممتاز تھے۔ پادری بٹلر سکاچ مشن کے بڑے نامی گرامی اور فاضل پادری تھے ۔ ایک دفعہ حضرت اقدس سے ان کی اتفاقاً ملاقات ہوگئی۔ اثنائے گفتگو میں بہت کچھ مذہبی گفتگو ہوتی رہی۔ آپ کی تقریر اور دلائل نے پادری صاحب کے دل میں ایسا گھر کر لیا کہ ان کے دل میں آپ کی باتیں سننے کا بہت شوق پیدا ہو گیا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ پادری صاحب دفتر کے آخری وقت میں حضور کی خدمت میں آجاتے اور پھر آپ سے باتیں کرتے کرتے آپ کی فرودگاہ تک پہنچ جاتے اور بڑی خوشی سے اس چھوٹے سے مکان میں جو عیسائیوں کی خوش منظر اور عالی شان کوٹھیوں کے مقابلہ میں ایک جھونپڑا سا تھا بیٹھے رہتے اور بڑی توجہ اور محویت و عقیدت سے باتیں سنا کرتے اور اپنی طرز معاشرت کے تکلفات کو بھی اس جگہ بھول جاتے ۔ بعض تنگ ظرف عیسائیوں نے پادری صاحب کو اس سے روکا اور کہا کہ اس میں آپ کی اور مشن کی خفت ہے آپ وہاں نہ جایا کریں۔ لیکن پادری صاحب نے بڑے حلم اور متانت سے جواب دیا کہ ’’ یہ ایک عظیم الشان آدمی ہے کہ اپنی نظیر نہیں رکھتا تم اس کو نہیں سمجھتے میں خوب سمجھتاہوں۔ ‘‘ (۳۸)
پادری بٹلر پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پر نور شخصیت ، بے مثال متانت و سنجیدگی اور زبردست قوت استدلال کا اس درجہ گہرا اثر تھا کہ جب وہ ولایت جانے لگے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الوداعی سلام کئے بغیر سیالکوٹ سے جانا گوارا نہ کیا۔ چنانچہ وہ دفتر کے اوقات میں محض آپ کی آخری زیارت کے لئے کچہری آئے اور ڈپٹی کمشنر کے پوچھنے پر بتایا کہ صرف مرزا صاحب کی ملاقات کیلئے آیا ہوں اور پھر جہاں آپ بیٹھے تھے وہیں سیدھے چلے گئے۔ اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلے گئے۔ (۳۹)
مذہبی تبادلہ خیالات کے دوران میں اکثر ضدو تعصب کی آگ بھڑک اٹھتی ہے لیکن آپ کچھ ایسے دلکش اور پیارے الفاظ میں عیسائیت کے متعلق گفتگو فرماتے ہیں کہ خود عیسائیوں میں سے حق پسند طبقہ کو لطف آجاتا اور وہ اختلاف رائے کے باوجود آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ ان دنوں مرزا مراد بیگ صاحب جالندھری مدیر اخبار ’’وزیر ہند ‘‘ ( جو ابتداء مرزا شکستہ تخلص کرتے تھے لیکن عیسائیوں سے مباحثات کے بعد مرزا موحد کہلائے ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں اکثر حاضر ہوتے اور آپ کے علم کلام اور مسکت و معقول دلائل سے فیض یاب ہو کر اس سے اپنے رنگ میں اخباری دنیا کو روشناس کراتے ۔ مرزا موحد حضرت اقدسؑ کے جوش ایمانی ، اچھوتے طرز استدلال اور ناقابل تردید براہین پر حد درجہ فریفتہ تھے۔ جب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سیالکوٹ سے تشریف لے آئے تو وہ قادیان میں بھی کئی بار آپ کی زیارت و استفادہ کے لئے حاضر ہوتے رہے۔ (۴۰)
آپ کی پاکیزہ جوانی اور مقدس شباب کے متعلق چند شہادتیں :
وہ مسلمان ، ہندو اور سکھ یا عیسائی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ ملازمت میں کچہری کے عملہ میں شامل تھے آپ کی امانت و دیانت ، تقویٰ اور نیکی کے دل سے قائل تھے اور کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو آپ کی پاکیزہ جوانی اور مقدس شباب کا ثنا خواں اور مداح نہ ہو۔ ضلع کا سب سے بڑا افسر( ڈپٹی کمشنر) آپ کو غایت درجہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتاتھا۔ بلکہ ایک روایت سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ جب حضور استعفیٰ دے کر واپس قادیان آنے لگے تو اس نے آپ کی مشایعت کے اعزاز میں تعطیل عام کر دی تھی کہ ایسا پاکباز شخص ان کے عملے سے مستعفی ہو کر جا رہاہے ۔ (۴۱)
سرکاری افسروں اور ملازموں کے علاوہ سیالکوٹ کا ہر وہ شخص جسے آپ سے کبھی ملنے کا اتفاق ہوا آپ کی صالح اور درویشانہ طبیعت سے متاثر تھا۔ جن لوگوں کے مکانوں میں آپ نے ان دنوں قیام فرمایا وہ آپ کو ولی اللہ قرار دیتے تھے۔(۴۲) سیالکوٹ کے علمی طبقہ میں تو آپ کو علم و فضل کا ایک نمایاں مقام حاصل تھا۔ اس زمانہ کی چند شہادتیں درج ذیل ہیں۔
پہلی شہادت :۔
سیالکوٹ میں ایک صاحب حکیم مظہر حسین صاحب تھے جو اگرچہ حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ ماموریت پر دشمنان احمدیت کی صف اول میں چلے گئے تاہم حضور کے زمانہ سیالکوٹ کی پاکیزہ یا دوہ مخالفت کے ہجوم میں بھی فراموش نہیں کر سکے چنانچہ لکھتے ہیں :۔
’’ ثقہ صورت ، عالی حوصلہ اور بلند خیالات کا انسان اپنی علوہمتی کے مقابل کسی کا وجود نہیں سمجھتا ۔ اندر قدم رکھتے ہی وضو کے لئے پانی مانگا اور وضو سے فراغت پا نماز ادا کی یا وظیفہ میں تھے۔ ‘‘
درودوظائف کا لڑکپن سے شوق ہے مکتب کے زمانہ میں تحفہ ہند تحفہ الہنود ، خلعت الہنود وغیرہ کتابیں اور سنی اور شیعہ عیسائی مناظرہ کی کتابیں دیکھاکرتے تھے اور ہمیشہ آپ کا ارادہ تھا کہ کل مذاہب کے خلاف اسلام کی تائید میں کتابیں لکھ کر شائع کریں۔ ‘‘(۴۳)
دوسری شہادت :۔
دوسری شہادت مشہور مسلم لیڈر مولوی ظفر علی صاحب آف زمیندار کے والد بزرگوار منشی سراج الدین صاحب مرحوم کی ہے :
’’مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۶۰ء یا ۱۸۶۱ء (؟) کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے اس وقت آپ کی عمر ۲۲۔ ۲۳ سال ہوگی اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا ۔ عوام سے کم ملتے تھے۔ ‘‘(۴۴)
تیسری شہادتـ:۔
تیسری شہادت جو سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے شمس العلماء مولانا سید میر حسن صاحب (۴۵)مرحوم سیالکوٹی کی ہے۔ مولانا صاحب سیالکوٹ ہی میں نہیں ہندوستان بھر میں علوم مشرقی کے بلند پایہ عالم اور مسلمانوں میں ایک نہایت ممتاز شخصیت کے حامل تھے ۔ڈاکٹر محمد اقبال ایسے شہرہ آفاق فلسفی شاعر ابتداء میں آپ ہی سے شرف تلمذرکھتے تھے جس پر انہیں ہمیشہ ناز رہا۔( ۴۶)جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سیالکوٹ میں قیام پذیر تھے مولانا صاحب موصوف کو بھی حضور سے اکثر ملاقات کا موقعہ ملتا تھا۔ مولوی صاحب نے اس زمانہ میں حضور کو بڑے قریب سے مطالعہ کیا اور دیکھا۔ وہ سرسید تحریک کے دلدادہ تھے مگر ان کے دل پر حضور کی بزرگی، تقدس اور تقویٰ کا غیر معمولی اثر تھا اور وہ حضرت اقدسؑ کی بے حد عزت کیا کرتے تھے۔ (۴۷)ایک مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سیالکوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ادنیٰ تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہوجاتا تھا کہ حضرت اپنے ہر قول وفعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔‘‘(۴۸)
ایک دفعہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ سیالکوٹ میں ان سے ملے تو انہوں نے چشم پر آب ہو کر فرمایا:
’’افسوس ہم نے ان کی قدر نہ کی ۔ ان کے کمالات روحانی کو بیان نہیں کرسکتا ان کی زندگی معمولی انسان کی زندگی نہ تھی۔ بلکہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خدا تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں اور دنیا میں کبھی کبھی آتے ہیں۔‘‘(۴۹)
مولوی سید میر حسن صاحب سیالکوٹ کے قلم سے حضورؑ کے زمانہ سیالکوٹ کے مفصل حالات
مولانا سید میر حسن صاحب مرحوم نے حضور کے قیام سیالکوٹ کے متعلق دو مفصل بیانات بھی لکھے جن سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سیالکوٹ پر تفصیلی روشنی پڑتی ہے اور جنہیں کوئی مورخ نظر انداز نہیں کرسکتا بلکہ حق یہ ہے کہ اس زمانہ کی تاریخ میں یہ قیمتی معلومات بنیادی لڑیچر کی حیثیت رکھتی ہے۔
پہلا بیان :۔ (حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مرحوم سیالکوٹ میں اور ان کا زمانہ قیام بتقریب ملازمت ‘‘ کے عنوان سے )
’’حضرت مرزا صاحب ۱۸۶۴ء میں بتقریب ملازمت شہر سیالکوٹ میں تشریف لائے اورقیام فرمایا۔ چوں کہ آپ عزلت پسند اور پارسا اورفضول ولغو سے مجتنب اور محترز تھے اس واسطے عام لوگوں کی ملاقات جو اکثر تضیع اوقات کا باعث ہوتی تھی آپ پسند نہیں فرماتے تھے لالہ بھیم سین صاحب وکیل جن کے نانا مٹھن لال صاحب بٹالہ میں اکسٹر ااسسٹنٹ تھے ا ن کے بڑے رفیق تھے اور چوں کہ بٹالہ میں مرزا صاحب اور لالہ صاحب آپ میں تعارف رکھتے تھے اس لئے سیالکوٹ میں بھی ان کے اتحاد کامل رہا۔ پس سب سے کامل دوست مرزا صاحب کے اگر اس شہر میں تھے تو لالہ صاحب ہی تھے۔ اور چوں کہ لالہ صاحب سلیم طبع اور لیاقت زبان فارسی اورذہن رسا رکھتے تھے اس سبب سے بھی مرزا صاحب کو علم دوست ہونے کے باعث ان سے بہت محبت تھی۔
مرزا صاحب کی علمی لیاقت سے کچہری والے آگاہ نہ تھے مگر چوںکہ اسی سال کے اوائل گرما میں ایک عرب نوجوان محمد صالح نام شہر میں وارد ہوئے اور ان پر جاسوسی کا شبہ ہوا تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے (جن کانام پر کسن تھا اور پھر وہ آخر میں کمشنرراولپنڈی کی کمشنری کے ہوگئے تھے) محمد صالح کو اپنے محکمہ میں بغرض تفتیش حالات طلب کیا۔ ترجمان کی ضرورت تھی۔ مرزا صاحب چوں کہ عربی (۵۰) میں کامل استعداد رکھتے تھے اور عربی زبان میں تحریر وتقریر بخوبی کرسکتے تھے۔ اس واسطے مرزا صاحب کو بلا کر حکم دیا کہ جو بات ہم کہیں عرب صاحب سے پوچھو اور جو جواب وہ دیں اردو میں ہمیں لکھواتے جائو۔ مرزا صاحب نے اس کام کو کماحقہ ادا کیا اور آپ کی لیاقت لوگوں پر منکشف ہوئی۔
اس زمانہ میں مولوی الٰہی بخش صاحب کی سعی سے جو چیف محرر مدارس تھے (اب میں عہدہ کا نام ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس ہے ) کچہری کے ملازم منشیوں کے لئے ایک مدرسہ قائم ہوا کہ رات کو کچہری کے ملازم منشی انگریزی پڑھا کریں۔ ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسسٹنٹ سرجن پنشنر ہیں استاد مقرر ہوئے۔ مرزا صاحب نے بھی انگریزی شروع کی اور ایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھیں۔ (۵۱)
مرزا صاحب کو اس زمانہ میں بھی مذہبی مباحثہ کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ پادری صاحبوں سے اکثر مباحثہ رہتا تھا۔ ایک دفعہ پادری الائشہ صاحب ( سے ) جو دیسی عیسائی پادری تھے اور حاجی پورہ سے جانب جنوب کی کوٹھیوں میں ایک کوٹھی میں رہا کرتے تھے مباحثہ ہوا۔ پادری صاحب نے کہا کہ عیسوی مذہب قبول کرنے کے بغیر نجات نہیں ہوسکتی۔ مرزا صاحب نے فرمایا نجات کی تعریف کیا ہے ؟اور نجات سے آپ کیا مراد رکھتے ہیں؟ مفصل بیان کیجئے ۔ پادری صاحب نے کچھ مفصل تقریر نہ کی اور مباحثہ ختم کر بیٹھے اور کہا میں اس قسم کی منطق نہیں پڑھا۔
پادری بٹلر صاحب ایم اے سے جو بڑے فاضل اور محقق تھے مرزا صاحب کا مباحثہ بہت دفعہ ہوا ۔ یہ صاحب موضع گوہد پور کے قریب رہتے تھے ۔ ایک دفعہ پادری صاحب فرماتے تھے کہ مسیح کو بے باپ پیدا کرنے میں یہ سر تھا کہ وہ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے اور آدم کی شرکت سے جو گنہگار تھا بری رہے۔ مرزا صاحب نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی نسل سے ہے پھر آدم کی شرکت سے بریت کیسے اور علاوہ ازیں عورت ہی نے تو آدم کو ترغیب دی جس سے آدم نے درخت ممنوع کا پھل کھایا اور گنہگارہوا۔ پس چاہئے تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بری رہتے اس پر پادری صاحب خاموش ہوگئے۔
پادری بٹلر صاحب مرزا صاحب کی بہت عزت کرتے تھے اور بڑے ادب سے ان سے گفتگو کیا کرتے تھے ۔ پادری صاحب کو مرزا صاحب سے بہت محبت تھی۔ چنانچہ پادری صاحب ولادیت جانے لگے تو مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے کچہری میں تشریف لائے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے پادری صاحب سے تشریف آوری کا سبب پوچھا تو پادری صاحب نے جواب دیا کہ میں مرزا صاحب سے ملاقات کرنے کو آیا تھا۔ چوں کہ میں وطن جانے والاہوں اس لئے ان سے آخر ملاقات کروں گا۔ چنانچہ جہاں مرزا صاحب بیٹھے تھے وہیں چلے گئے اور فرش پر بیٹھے رہے اور ملاقات کر کے چلے گئے۔
چونکہ مرزا صاحب پادریوں کے ساتھ مباحثہ کو بہت پسند کرتے تھے اس واسطے مرزا شکستہ تخلص نے جو بعدا ازاں موحد تخلص کیا کرتے تھے اور مراد بیگ (۵۲) نام جالندھر کے رہنے والے تھے مرزا صاحب کو کہا کہ سید احمد خاں صاحب نے تورات وانجیل کی تفسیر لکھی ہے آپ ان سے خط وکتابت کریں اس معاملہ میں آپ کو بہت مدد ملے گی ۔ چنانچہ مرزا صاحب نے سرسید کو عربی میں خط لکھا۔
کچہری کے منشیوں سے شیخ اللہ داد صاحب مرحوم سابق محافظ دفتر سے بہت انس تھا اور نہایت پکی اور سچی محبت تھی۔ شہر کے بزرگوں سے ایک مولوی صاحب محبوب عالم نام سے جو عزلت گزین اور بڑے عابد اور پارسا اور نقشبندی طریق کے صوفی تھی مرزا صاحب کو دلی محبت تھی۔
چونکہ جس بیٹھک میں مرزا صاحب مع حکیم منصب علی کے جو اس زمانہ میں وثیقہ نویس تھے رہتے تھے اور وہ سربازار تھی اور اس دکان کے بہت قریب تھی جس میں حکیم حسام الدین (۵۳)صاحب مرحوم سامان دوا سازی اور دوا فروشی اور مطب رکھتے تھے ۔ اس سبب سے حکیم صاحب اور مرزا صاحب میں تعارف ہوگیا۔ چنانچہ حکیم صاحب نے مرزا صاحب سے قانونچہ اور موجز کا بھی کچھ حصہ پڑھا۔
چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کردی اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا پر امتحان میں کامیاب نہ ہوئے اور کیوں کر ہوتے وہ دنیوی اشغال کے لئے بنائے نہیں گئے تھے۔ سچ ہیـ ؎
ہر کسے را بہرے کارے ساختد
ان دنوں پنجاب یونیورسٹی نئی نئی قائم ہوئی تھی۔ اس میں عربی استاد کی ضرورت تھی۔ جس کی تنخواہ ایک سو روپیہ ماہوار تھی۔ میں ان کی خدمت میں عرض کی آپ درخواست بھیج دیں چونکہ آپ کی لیاقت عربی زباندانی کے لحاظ سے نہایت کامل ہے آپ ضرور اس عہدہ پر مقرر ہوجائیں گے۔ فرمایا میں مدرسی کو پسند نہیں کرتا کیوں کہ اکثر لوگ پڑھ کر بعدازاں بہت شرارت کے کام کرتے ہیں اورعلم کو ذریعہ اور آلہ ناجائز کاموں کو بناتے ہیں۔ میں اس آیت کی وعید سے بہت ڈریتا ہوں اُحْشِرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَھُمْ اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسے نیک باطن تھے۔
ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ انبیاء کو احتلام کیوں نہیں ہوتا؟ آپ نے فرمایا کہ چونکہ انبیاء سوتے جاگتے پاکیزہ خیالوں کے سوا کچھ نہیں رکھتے اور ناپاک خیالوں کو دل میں آنے نہیں دیتے اس واسطے ان کو خواب میں بھی احتلام نہیں ہوتا۔
ایک مرتبہ لباس کے بارے میں ذکر ہو رہا تھا۔ ایک کہتا کہ بہت کھلی اور وسیع موہری کا پاجامہ اچھا ہوتا ہے جیسا ہندوستانی اکثر پہنتے ہیں۔ دوسرے نے کہا تنگ موہری کا پاجامہ بہت اچھا ہوتا ہے۔ مرزا صاحب نے فرمایا کہ بلحاظ ستر عورت تنگ موہری کا پاجامہ بہت اچھا اور افضل ہے اور اس میں پردہ زیادہ ہے۔ کیوں کہ اس کی تنگ موہری کے باعث زمین سے بھی ستر عورت ہوجاتا ہے۔ سب نے اس کو پسند کیا۔
آخر مرزا صاحب نوکری سے دل برداشتہ ہو کر استعفیٰ دے کر ۱۸۶۸ء میں یہاں سے تشریف لے گئے۔ ایک دفعہ ۱۸۷۷ء میں آپ تشریف لائے اور لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر قیام فرمایا اور بتقریب دعوت حکیم میر حسام الدین صاحب کے مکان پر تشریف لائے۔
اسی سال سرسید احمد خان صاحب غفرلہ نے قرآن شریف کی تفسیر شروع کی تھی۔ تین رکوع کی تفسیر یہاں میرے پاس آچکی تھی ۔ جب میں اورشیخ اللہ داد صاحب مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر گئے تو اثنائے گفتگو میں سرسید صاحب کا ذکر شروع ہوا۔ اتنے میں تفسیر کا ذکر میں آگیا۔ راقم نے کہا کہ تین رکوعوں کی تفسیر آئی جس میں دعا اور نزول وحی کی بحث آگئی ہے ۔ فرمایا ’’کل جب آپ آویں تو تفسیر لیتے آنویں۔ جب دوسرے دن وہاں گئے تو تفسیر کے دونوں مقام آپ نے سنے اور سن کر خوش نہ ہوئے اور تفسیر کو پسند نہ کیا۔
اس زمانہ میں مرزا صاحب کی عمر راقم کے قیاس میں تخمیناً ۲۴ سے کم اور ۲۸ سے زیادہ نہ تھی غرض کہ ۱۸۶۴ء میں آپ کی عمر ۲۸ سے متجاوز نہ تھی۔ راقم میر حسن‘‘۔ (۵۴)
دوسرا بیان
’’حضرت مرزا صاحب پہلے محلہ کشمیریاں میں جو اس عاصی پر معاصی کے غریب خانہ کے بہت قریب ہے عمرا نامی کشمیری کے مکان پر کرایہ پر رہا کرتے تھے کچہری سکے جب تشریف لاتے تھے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے ۔ بیٹھ کر کھڑے ہو کر ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے اور زار زار رویا کرتے تھے ۔ ایسی خشوع اور خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ حسب عادت زمانہ ۔ صاحب حاجات جیسے اہلکاروں کے پاس جاتے ہیں ان کی خدمت میں بھی آجایا کرتے تھے اس عمرا مالک مکان کے بڑے بھائی فضل الدین نام کو جوفی الجملہ محلہ میں موقر تھا آپ بلا کر فرماتے۔ میاں فضل الدین ان لوگوں کو سمجھادو کہ یہاں نہ آیا کریں نہ اپنا وقت ضائع کیا کریں اور نہ میرے وقت کو برباد کیا کریں۔ میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں حاکم نہیں ہوں۔ جتنا کام میرے متعلق ہوتا ہے کچہری میں ہی کر آتا ہوں فضل الدین ان لوگوں کو سمجھا کر نکال دیتے ۔ مولوی عبدالکریم صاحب بھی اسی محلہ میں پیدا ہوئے اور جوان ہوئے جو آخر میں مرزا صاحب کے خاص مقریبن میں شمار کئے گئے۔
اس کے بعد وہ مسجد جامع کے سامنے ایک بیٹھک میں بمعہ منصب علی حکیم کے رہا کرتے تھے۔ وہ (یعنی منصب علی۔ خاکسار مولف) وثیقہ نویس کے عہدہ پر ممتاز تھے۔ بیٹھک کے قریب ایک شخص فضل الدین نام بوڑھے دکاندا ر تھے جو رات کوبھی دکان پر ہی رہا کرتے تھے ان کے اکثر احباب شام کے بعد آتے سب اچھے ہی آدمی ہوتے تھے۔ کبھی کبھی مرزا صاحب بھی تشریف لایا کرتے تھے اور گاہ گاہ نصر اللہ نام عیسائی جو ایک مشن سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے آجایا کرتے تھے ۔ مرزا صاحب اور ہیڈ ماسٹر کی اکثر بحث مذہبی امور میں ہوجاتی تھی۔ مرزا صاحب کی تقریر سے حاضرین مستفید ہوتے تھے۔
مولوی محبوب عالم صاحب ایک بزرگ نہایت پارسا اور صالح اور مرتاض شخص تھے۔ مرزا صاحب ان کی خدمت میں بھی جایا کرتے تھے اور لالہ بھیم سین صاحب وکیل کو بھی تاکید فرماتے تھے کہ مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرو۔ چنانچہ وہ بھی مولوی صاحب کی خدمت میں کبھی کبھی حاضر ہوا کرتے تھے ۔ جب کبھی بیعت اور پیری مریدی کا تذکرہ ہوتا تو مرزا صاحب فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو خودسعی اور محنت کرنی چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُو افِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا مولوی محبوب عالم صاحب اس سے کشیدہ ہو جایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ بیعت کے بغیر راہ نہیں ملتی۔
دینیات میں مرزا صاحب کی سبقت اور پیش روی تو عیاں ہے مگر ظاہری جسمانی دوڑ میں بھی آپ کی سبقت اس وقت کے حاضرین پر صاف ثابت ہوچکی تھی۔
اس کا مضصل حال یوں ہے کہ ایک دفعہ کچہری برخواست ہونے کے بعد جب اہلکار گھروں کو واپس ہونے لگے تو اتفاقاً تیز دوڑنے اور مسابقت کا ذکر شروع ہوگیا۔ ہر ایک نے دعویٰ کیا کہ میں بہت دوڑ سکتا ہوں۔ آخر ایک شخص بلاسنگھ نام نے کہا کہ میں سب سے دوڑنے میں سبقت لے جاتا ہوں۔ مرزا صاحب نے فرمایا کہ میرے ساتھ دوڑو تو ثابت ہوجائے گا کہ کون بہت دوڑتا ہے۔ آخر شیخ اللہ داد صاحب منصف مقرر ہوئے اور یہ امر قرار پایا کہ یہاں سے شروع کر کے اس پل تک جو کچہری کی سڑک اور شہر میں حد فاصل ہے ننگے پائوں دوڑو۔ جوتیاں ایک آدمی نے اٹھالیں اور پہلے ایک شخص اس پل پر بھیجا گیا تا کہ وہ شہادت دے کہ کون سبقت لے گیا اور پہلے پل پر پہنچا۔ مرزا صاحب اور بلاسنگ ایک ہی وقت میں دوڑے اور باقی آدمی معمولی رفتار سے پیچھے روانہ ہوئے۔جب پل پر پہنچے تو ثابت ہوا کہ حضرت مرزا صاحب سبقت لے گئے اور بلا سنگھ پیچھے رہ گیا۔‘‘(۵۵)
ملازمت سے استعفیٰ
سیالکوٹ کا زمانہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک روحانی ٹریننگ کا زمانہ تھا۔ جس میں آپ کے ہاتھوں پادریوں سے معرکہ آرائی کا آغاز ہونا مقدر تھا۔ اس لئے جب اللہ تعالیٰ کے فیصلہ اور تقدیر کے مطابق یہ چار سالہ دور ختم ہونے کو آیا تو ۱۸۶۷ء میں آپ کے والد بزرگوار کے دل میں جدائی کا زخم جو آہستہ آہستہ مندمل ہوگیا تھا یکایک تازہ ہوگیا اور انہوں نے ایک آدمی بھجوا کر اپنے چہیتے فرزند کو ملازمت سے استعفیٰ دے کر واپس آجانے کی فوری ہدایت دی۔ یہاں کیا دیر تھی چار سال کی طویل مدت میں ایک ایک گھڑی اسی انتظارمیں گذر رہی تھی کہ واپسی کا فرمان آئے تو اس دور اسیری کا خاتمہ ہو۔ چنانچہ آپ یہ ارشاد ملتے ہی ملازمت سے مستعفی ہو کر سیالکوٹ سے قادیان کو چل دئیے اور اپنے والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگئے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’آخر چوں کہ میرا جدا رہنا میرے والد صاحب پر بہت گراں تھا اس لئے ان کے حکم سے جو عین میری منشاء کے مطابق تھا میں نے استعفیٰ دے کر اپنے تئیں اس نوکری سے جو میری طبیعت کے مخالف تھی سبکدوش کردیا اور پھر والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔۔۔۔بقول صاحب مثنوی رومی وہ تمام ایام سخت کراہت اور درد کے ساتھ میں نے بسر کئے؎
من بہر جمعتے نالاں شد م جفت خوشحالاں وبد حالاں شدم
ہر کسے از ظن خود شد یار من وز درون من نجست اسرار من (۵۶)
حضرت چراغ بی بی صاحبہ رحمہا اللہ کا انتقال
حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؓ نے جب حضور کو استعفیٰ دے کر واپس چلے آنے کا پیغام بھجوایا تو حضور کی والدہ ماجدہ سخت بیمار تھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیغام سنتے ہی فوراً سیالکوٹ سے روانہ ہوگئے۔ امر ت سر پہنچے تو قادیان کے لئے تانگہ کا انتظام کیا۔ اسی اثناء میں قادیان سے ایک اور آدمی بھی آپ کو لینے کے لئے امرت سر پہنچ گیا۔ اس آدمی نے یکہ بان سے کہا کہ یکہ جلدی چلائوکیونکہ ان کی حالت بہت نازک تھی۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا بہت ہی نازک حالت تھی جلدی کرو کہیں فوت نہ ہوگئی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ سنتے ہی یقین ہوگیا کہ آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوچکا ہے۔ چنانچہ قادیان پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ کی مشفق ومہربان اور جان سے پیاری والدہ آپ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوچکی ہیں۔(۵۷) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے ’’حیات النبی‘‘ میں یہ واقعہ یوں بیان کیا ہے کہ ’’میراں بخش حجام کو آپ کے پاس بھیجا گیا اور اسے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ یک دم حضرت والدہ مکرمہ کی وفات کی خبر حضرت مسیح موعودؑ کو نہ سنائے چنانچہ جس وقت بٹالہ سے نکلے تو حضور کو حضرت والدہ صاحبہ کی علالت کی خبر دی یکہ پر سوار ہو کر جب قادیان کی طرف آئے تو اس نے یکہ والے کو کہا کہ بہت جلد لے چلو۔ حضرت نے پوچھا کہ اس قدر جلدی کیوں کرتے ہو؟اس نے کہا کہ ان کی طبیعت بہت ناساز تھی۔ پھر تھوڑی دور چل کر اس نے یکہ والے کو اور تاکید کی کہ بہت ہی جلدی لے چلو۔ تب پھر پوچھا۔ اس نے پھر کہا کہ ہاں طبیعت بہت ہی ناساز تھی کچھ نزع کی سی حالت تھی۔ خدا جانے ہمارے جانے تک زندہ رہیں یا فوت ہوجائیں۔ پھر حضرت خاموش ہوگئے۔ آخر اس نے پھر یکہ والا کو سخت تاکید شروع کی تو حضرت نے کہا کہ تم اصل واقعہ کیوں بیان نہیں کردیتے کیا معاملہ ہے۔ تب اس نے کہا کہ اصل میں مائی صاحبہ فوت ہوگئی تھیں اس خیال سے کہ آپ کو صدمہ نہ ہویک دم خبر نہیں دی۔ حضرت نے سن کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ دیا اور یہ خدا کی رضاء میں محو اور مست قلب اس واقعہ پر ہر چند کہ وہ ایک حادثہ عظیم تھا سکون اور تسلی سے بھرارہا۔‘‘(۵۸)
حضرت کی والدہ ماجدہؓ کے اخلاق وشمائل
حضرت چراغ بی بی صاحبہؓ ایمہ ضلع ہوشیار پور کے ایک معزز مغل خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ قناعت‘شجاعت‘عفت‘مروت‘وسعت حوصلہ‘استغناء‘فیاضی اور مہمان نوازی آپ کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ شہرکے مفلوک الحال اور پسماندہ طبقہ کی ضروریات کے مہیا کرنے میں انہیں خاص قلبی وروحانی مسرت حاصل ہوتی تھی۔ غرباء کے مردوں کو کفن ہمیشہ ان کے ہاں سے ملتا تھا۔ ان کی دور اندیشی اور معاملہ فہمی مشہور تھی۔ وہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب رضی اللہ عنہٗ کے لئے بہترین مشیر اور غمگسار تھیں اور آپ بھی اپنی ہیبت اور شوکت وجلال کے باوجود خانہ داری کے معاملات میں ان کی خلاف مرضی کوئی بات نہیں کرتے تھے۔(۵۹)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو چونکہ ابتداء ہی سے خلوت گزینی‘ذکر الٰہی اور مطالعہ سے ہر لمحہ شغف تھا اور اپنے والد صاحب کے دنیوی مشاغل اور دوسرے کاروبار میں حصہ لینے سے طبعاً متنفر تھے اس لئے گھر میں ’’ملاں‘‘کہلاتے تھے۔ لیکن آپ کی والدہ محترمہؓ کو آپ سے بڑی محبت تھی ۔ وہ آپ کی نیکی‘ تقویٰ شعاری‘ پاک زندگی اور سعادت مندی پر سو جان سے قربان ہوجاتیں اور آپ کی ہر قسم کی ضرورتوں کا خاص خیال رکھتی تھی۔ چنانچہ ان کی زندگی میں آپ کو کبھی کچھ کہنے کی نوبت نہیں آئی۔ کیونکہ وہ ابتداء ہی سے جانتی تھیں کہ آپ اپنے گھر کے دوسرے افراد کے مقابل بالکل درویش طبع ہیں اور اپنی ضروریات کا کسی سے اظہار کرنا آپ کو ہرگز پسند نہیں۔ جب تک زندہ رہیں آپ کے لئے (ظاہری لحاظ سے ) سپر بنی رہیں۔ والد خفگی کا اظہار کرتے تو ماں کی مامتا فرط محبت سے جوش میں آجاتی۔ حضور جب والد بزرگوار کے اصرار پر سیالکوٹ آگئے تو باقاعدہ آپ کے لئے کپڑے وغیرہ بنا کر بھجواتی رہیں۔ غرض کہ ان کا وجود آپ کے لئے سایہ رحمت تھا۔ دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی آپ سے بے پناہ محبت تھی۔ جب کبھی ان کا ذکر فرماتے آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے۔ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کا چشم دید بیان ہے کہ حضور علیہ السلام ایک مرتبہ سیر کی غرض سے اپنے پرانے خاندانی قبرستان کی طرف نکل گئے۔ راستہ سے ہٹ کر آپ ایک جوش کے ساتھ اپنی والدہ صاحبہؓ کے مزار پر آئے اور اپنے خدام سمیت ایک لمبی دعا فرمائی۔ حضور جب کبھی حضرت والدہ صاحبہ کا ذکر فرماتے تو آپ چشم پر آب ہوجاتے(۶۰) حضرت والدہ صاحبہ نہایت خدا رسیدہ اور بزرگ خاتون تھیں ۔ ان کی ایک کرامت حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ’’جب بڑے مرزا صاحب(یعنی حضرت ؑ کے والد۔ ناقل) کشمیر میں ملازم تھے تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ہماری والدہ نے کہا کہ آج میرا دل کہتا ہے کہ کشمیر سے کچھ آئے گا تو اسی دن کشمیر سے آدمی آگیا اور بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ ادھر والدہ صاحبہ نے یہ کہا اور ادھر دروازہ پر کسی نے دستک دی ۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ کشمیر سے آدمی آیا ہے‘‘۔(۶۱)
حضرت مریم صدیقہؓ سے معنوی مشابہت
حضرت سیدہ چراغ بی بی صاحبہ رضی اللہ عنہا کا روحانی مقام تو اس سے ظاہر ہے کہ آپ کے بطن مبارک سے مسیح محمدیؐ ایسا عظیم الشان وجود پیدا ہوا جس سے آفاق عالم روشن ہوگئے لیکن ایک حیرت انگیز معنوی مشابہت آپ کو حضرت مسیح موسوی کی والدہ (حضرت مریمؑ) سے بھی حاصل تھی۔ اور وہ یہ کہ مریم کے ایک معنی ’’سمندر کا ستارا‘‘۶۲ کے بھی ہیں اور آپ کا اسم مبارک چراغ بی بی تھا۔ روشنی اور نور کے مفہوم میں متحد ہونے کے باوجود ان دونوں ناموں میں کھلا کھلا تفاوت ہے جس میں حکمت یہ ہے کہ حضرت مسیحؑ کی آمد بنی اسرائیل میں دور نبوت کے خاتمہ پر ہوئی تھی اور وہ موسوی سلسلہ کی آخری کڑی تھے۔ اس لئے حضرت مسیح ناصری کی والدہ ستارہ تھیں جو فی نفسہہ روشن ہوتا ہے مگر کسی اور وجود میں اپنی روشنی منتقل نہیں کرسکتا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود سے چوں کہ قیامت تک ہزاروں اور کروڑوں شمعوں کا روشن ہونا مقدر تھا۔ اس لئے حضور کی والدہ ماجدہ کا نام آسمان پر چراغ بی بی رکھا گیا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں ؎
خدایا تیرے فضلوں کو کروں یا بشارت تونے دی اور پھر یہ اولا د
کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد
بشارت تونے مجھ کو بار ہا دی
فسبحان الذی اخزی الاعادی
تاریخ وفات کی تعیین
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا ایک قلمی روزنامچہ حال ہی میں دریافت ہوا ہے جس کے اکثر اندراجات مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کے قلم سے ہیں۔ انہوں نے اس میں حضرت والدہ صاحبہ کی تاریخ وفات ۱۲۔ ذی الحج ۱۲۸۳ ھ (مطابق ۱۸۔ اپریل ۱۸۶۷ء ) لکھی ہے۔
مزار مبارک
آپ کا مزار مبارک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدیم خاندانی مقبرہ میں موجود ہے جو مقامی عیدگاہ کے پاس ہے اور قادیان سے مغرب کی طرف واقع ہے اس قبرستان کے ایک حصہ کا خاکہ یہ ہے :
۱۔ احاطہ مزار شاہ عبداللہ غازیؒ وفرزند شاہ صاحب
موصوف
۲۔ مائی صاحب جان صاحبہ ۔ بیوہ مرزا غلام حیدر صاحب
چچی حضرت اقدسؑ
۳۔ مرزا غلام قادر صاحب برادر کلاں حضرت اقدسؑ
۴۔ حضرت چراغ بی بی صاحبہؒ
۵۔ حضرت مرزا گل محمد صاحب پردادا حضرت مسیح پاکؑ ۶۔ مرزا غلام محی الدین صاحب چچا حضرت اقدسؑ
۷ ۔ مراد بی بی صاحبہؓ ہمشیرہ حضرت اقدسؑ ۸۔ جنت بی بی صاحبہ ہمشیرہ حضرت اقدسؑ
۹۔ مرزا غلام حید ر صاحب چچا حضرت اقدسؑ ۱۰ ۔ اہلیہ مرزا گل محمد صاحب پردادی حضرت اقدسؑ
۱۱۔ مائی لاڈلی بیگم صاحبہؓ عرف مائی لاڈو اہلیہ مرزا عطا محمد صاحبؓ
۱۲۔ مرزا عطا محمد صاحبؓ(۶۳) وفات ۲۷۔ ربیع الاول ۱۲۸۰ھ بمطابق ۱۲۔ ستمبر ۱۸۶۲ء (قلمی روزنامچہ خاندان مسیح موعود)








باب ہشتم
قلمی جہاد کا آغاز
(۱۸۷۲تا ۱۸۷۶)
مضامین کی اشاعت ملکی اخبارات میں
آپ کی ایک گونہ پبلک زندگی کی ابتداء گو سیالکوٹ میں ہو چکی تھی لیکن اس کا حقیقی معنوں میں آغاز قریباً ۱۸۷۲ء سے ہوا جبکہ آپ نے ملک کے مختلف اخبارات میں اپنے مضامین کا سلسلہ جاری کرکے قلمی جہاد میں حصہ لینا شروع کیا۔
ابتداء میں آپ کا معمول تھا کہ کبھی کبھی شیخ رحیم بخش صاحب والد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یا بعض دوسرے ناموں سے اپنے مضامین چھپوا دیتے تھے (۱) حضورؑ کے اپنے نام سے جو مضامین ملکی اخبارات میں شائع ہونے شروع ہوئے ان میں موجودہ تحقیق کے مطابق سب سے پہلا مضمون غالباً بنگلور کے دس روزہ اخبار منشور محمدیؐ ۲۵۔ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ مطابق ۲۵۔ اگست ۱۸۷۲ء میں شائع ہوا۔ (۲) یہ تاریخی مضمون دراصل ایک نہایت اہم اعلان تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذاہب عالم کو اپنے بیس سالہ تجربہ و مشاہدہ کی بناء پر یہ زبردست چیلنج کیاکہ تمام انسانی معاملات اور تعلقات میں سچائی ہی تمام خوبیوں کی بنیاد اور اساس ہے۔ اس لئے ایک سچے مذہب کی نشان دہی کا آسان طریق یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس نے سچائی پر کار بند ہونے کی کہاں تک زور دار اور موثر طریق پر تلقین کی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ زبردست معیار قائم کرتے ہوئے پورے وثوق سے یہ اعلان فرمایا کہ آپ ہر اس غیر مسلم کو پانچ سو روپیہ کی رقم بطور انعام پیش کرنے کے لئے تیار ہیں جو اپنی مسلمہ مذہبی کتابوں سے ان تعلیمات کے مقابل آدھی بلکہ تہائی تعلیمات بھی پیش کردے جو آپ اسلام کی مسلمہ اور مستند مذہبی کتب سے سچائی کے موضوع پر نکال کر دکھائیں گے ۔ خدا کے شیر کی یہ پہلی للکار تھی جسے سن کر پورے ہندوستان میں خاموشی کا عالم طاری ہو گیا اور کسی شخص کو حضرت اقدس کا یہ زبردست چیلنج قبول کرنے کی جرات نہیں ہو سکی۔ (۳)
ضمناً یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ منشور محمدیؐ ( بنگلور ) کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اوائل زمانہ میں وکیل ہندوستان ۔ سفیر ہندامرت سر (۴) نورافشاں لدھیانہ ۔ برادر ہند لاہور۔ (۵) وزیر ہند سیالکوٹ ۔ ودیاپرکاش امرت سر ۔ آفتاب پنجاب لاہور۔ ریاض ہندامرت سر اور اشاعۃ السنہ منگوایا کرتے تھے۔ اور بعض میں مضامین بھی لکھتے تھے ۔ زمانہ ماموریت کے بعد مختلف زبانوں کے اخبارات قادیان میں آنے شروع ہوئے جو براہ راست غیر زبانوں کے اخبارات آپ کے ہاں پہنچے آپ جستہ جستہ مقامات سے ان کا ترجمہ سنتے اور اگران کے کالموں میں اسلام کی تردید میں کوئی مضامین آتے تو اس کا جواب لکھوا کر شائع فرماتے ۔ اور جو خود مطالعہ فرما سکتے وہ ضرور پڑھتے ۔ اخبارات کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا آپ کا معمول تھا۔ آخری زمانہ میں آپ لاہور کے روزنامہ ’’ اخبار عام ‘‘ کو بڑے شوق سے خریدتے اور خاص دلچسپی سے پڑھتے اور اس کی بے لاگ اور معتدل پالیسی کو پسند فرماتے تھے۔ (۶)
مولوی اللہ دتہ صاحب لودھی ننگل سے مسئلہ حیات النبی وغیرہ پر مذاکرہ :۔
قادیان کے پاس لودھی ننگل میں ایک مولوی صاحب اللہ دتہ نامی رہا کرتے تھے جنہیں ان دنوں حضرت اقدسؑ نے اپنے صاحبزادوں کی تعلیم کے لئے بلوایا تھا۔ مولوی صاحب( بعض اپنے مذہبی عقائد یا دیگر نامعلوم وجوہ کی بناء پر ) قادیان میں مختصر قیام کے بعد واپس اپنے گائوں چلے گئے۔ جب تک وہ قادیان میں رہے انہوںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مسئلہ ’’حیات النبی ‘‘ اور دوسرے مسائل پر مذاکرہ جاری رکھا اور واپسی کے بعد انہی مسائل کے متعلق ایک منظوم فارسی خط لکھا۔ جس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ۶۔ ستمبر ۱۸۷۲ء کو ایک پرکیف اور مبسوط فارسی نظم انہیں بھجوائی ۔ اس نظم سے یہ حقیقت بالکل نمایاں ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ آپ کو ابتداء ہی سے حضرت رسول اکرم ﷺ سے نہایت و الہانہ عقیدت تھی اور آپ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کو دل و جان سے ابدی حیات کے تخت پر رونق افروز ہونے والا زندہ نبی یقین کرتے ۔ حضورؑ کے چشمہ فیوض و برکات کو اپنے دل میں رواں دواں پاتے ۔ اور حضورﷺ کی عظمتوں اور برکتوں کی منادی کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ پوری نظم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے اپنی کتاب حیات احمد جلد اول نمبر ۳صفحہ ۲۰۵،۲۰۹پر شائع کی ہے اور قابل دید ہے ۔ صرف چند اشعار بطور نمونہ درج ذیل کرتا ہوں ؎
سپاس آں خداوند یکتائے را بمہر و بمہ عالم آرائے را
جہاں جملہ مردہ فتاد ست و زار یکے زندہ او ہست از کردگار
چنیں است ثابت بقول سروش اگر راز معنی نیابی خموش
اگر درہوا ہمچو مرغاں پری وگربرسر آب ہا بگذری
وگر ز آتش آئی سلامت بروں وگر خاک را زرکنی از فسوں
اگر منکری از حیات رسولؐ سراسر زیاں است و کار فضول
۱۸۷۲ء میں آپ کی روزمرہ زندگی کی ایک جھلک :۔
اب اگرچہ آپ پبلک زندگی میں قدم رکھ چکے تھے۔ لیکن آپ کی ان جلوتوں میں بھی خلوتوں کا رنگ چھایا ہوا تھا چنانچہ ان ایام کے متعلق مرزا دین محمد صاحب آف لنگروال کی چشم دید شہادت ہے کہ :
’’قریباً ۱۸۷۲ء کا ذکر ہے میں چھوٹا تھا مرزا نظام الدین صاحب وغیرہ میرے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ اس وقت اہل حدیث کا بہت زور تھا۔ میرے والد صاحب بھی اہل حدیث تھے۔ شیخ رحیم بخش صاحب والد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یہاں بہت آیا کرتے تھے میں عام طور پر حضرت مرزا صاحب کے والد صاحب کے گھر بوجہ رشتہ داری آتا جاتا تھا۔ میں ان کے پاس عام طور پر رہتاتھا مگر حضرت مرزا صاحب کی گوشہ نشینی کی وجہ سے میں یہی سمجھتاتھا کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کا ایک ہی لڑکا غلام قادر ہے۔ مگر مسجد میں میں مرزا صاحب کو بھی دیکھتا ۔ میرناصرنواب صاحب آیا کرتے تھے۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ یہ اپنے مکان میں تشریف لے جا رہے ہیں۔ دوسرے دن میں نے دیکھا کہ آپ نماز پڑھ کر گھر میں تشریف لے جا رہے ہیں میں آپ کے والد صاحب کے پاس بیٹھاتھا۔ میں بھی جلدی سے اٹھ کر آپ کی طرف گیا۔ آپ اپنے کمرہ میں داخل ہو کر دروازہ بند کرنے لگے تھے کہ میں بھی جاپہنچا۔ آپ نے دروازہ کھول دیا اور دریافت کیا کہ کیاکام ہے؟ میں نے کہامیں ملنا چاہتا ہوں۔ آپ نے مجھے وہاں بٹھایا اور دریافت کیاکہ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے بتایا کہ لنگروال سے ۔ اس کے بعد مجھے آپ کی واقفیت ہوگئی۔ آپ ایک بالا خانہ پر عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ اور گھر سے جب روٹی آتی تو اس کی ایک کھڑکی سے بذریعہ چھینکا روٹی اوپر لے لیتے ۔ اس کے بعد آپ سے مجھے انس ہوگیا اور گھر سے آپ کی روٹی میں لایا کرتا۔‘‘
’’میں آپ کے پاس ہی رہتاتھا اور اسی کمرہ میں سوتا تھا۔ آپ نے استخارہ بھی سکھایا۔ عشاء کی نماز کے بعد دو رکعت پڑھنے کے بعد گفتگو نہیں کرنی ہوتی تھی۔ صبح کو جو خواب آتی میں وہ آپ کو بتلا دیتا۔ آپ کے پاس فارسی کا ایک تعبیر نامہ بھی تھا آپ اسے دیکھتے تھے۔ آپ نے مجھے یہ بھی کہاکہ دونوں گھروں میں ( مرزا امام دین اور آپ کا مکان مراد تھا) استخارہ کا طریق بتلادو۔ اور اس طریق سے وہ سویا کریں۔ اور یہ بھی آپ نے کہا تھا کہ صبح جاکر ان کی خوابیں سنا کرو۔ مجھے روٹی بھی بہت دفعہ آپ ساتھ ہی کھلاتے ۔ حافظ معین الدین صاحب عرف ماہناں بھی آپ کے پاس آتے۔ (۷)مجھے آپ ان کی روٹی لانے کے لئے کہتے چنانچہ میں لا دیتا۔ آپ کا گھرانا بہت بڑا تھا جو بھی آتا اسے روٹی مل جاتی۔ اس عام روٹی سے میں میاں ماہناں کی روٹی لاتا۔ حضرت مرزا صاحب اس وقت تک انتظار کرتے اور جب میاں ماہناں کی روٹی آجاتی تو اپنا سالن اس کے سالن میں ملادیتے ۔ پھر اسے روٹی دیتے اور کہتے کھائیں اور خود آپ بہت آہستہ آہستہ روٹی شروع کرتے۔ جب میاں ماہناں اپنی روٹی کھالیتے ۔ تو آپ دریافت کرتے اور بھی چاہئے۔ وہ کہتے اگر ہے تو دے دیں تو بہت دفعہ حضور اپنا کھانا اور میرا بھی ان کو دے دیتے اور وہ سب کھا جاتے ایسے موقعہ پر تیسرے پہر پھر آپ مجھے پیسے دیتے کہ جاکر کابلی چنے بھنوا لائو۔ اس وقت بہت سستے ہوتے تھے ایک پیسے کے بھی بہت آجاتے تھے۔ اور میں اور حضور وہ کھالیتے ۔ آپ بہت آہستہ آہستہ کھاتے تھے۔ آپ ایک دو دانے ہی منہ میں ڈالتے تھے۔ آپ کی عادت تھی کہ باتیں بشاشت سے کرتے اور اکثر رانوں پر ہاتھ مارتے تھے۔ ‘‘
’’ آپ مسجد میں فرض نماز ادا کرتے ۔ سنتیں اور نوافل مکان پر ہی ادا کرتے تھے عشاء کی نماز کے بعد آپ سو جاتے تھے اور نصف رات کے بعد آپ جاگ پڑتے اور نفل ادا کرتے ۔ اس کے بعد قرآن مجید پڑھنا۔ مٹی کا دیا آپ جلاتے تھے۔ تلاوت فجر کی اذان تک کرتے ۔ جس کمرہ میں آپ کی رہائش تھی وہ چھوٹا سا تھا اس میں ایک چارپائی اور ایک تخت پوش تھا۔ چارپائی تو آپ نے مجھے دی ہوئی تھی اور خود تخت پوش پر سوتے تھے۔ فجر کی اذان کے وقت آپ پانی کے ہلکے ہلکے چھینٹوں سے مجھے جگاتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے دریافت کیاکہ حضور مجھے ویسے ہی کیوں نہیں جگادیتے ۔ آپ نے فرمایا حضور رسول کریم ﷺ کا یہی طریق تھا اس سنت پر میں کام کرتا ہوں تاکہ جاگنے میں تکلیف محسوس نہ ہو۔ نماز فجر کے بعد آپ واپس آکر کچھ عرصہ سو جاتے تھے کیونکہ رات کا اکثر حصہ عبادت الٰہی میں گذرتا تھا۔ ‘‘(۸)
سلسلہ تعلیم و تدریس :۔
زندگی کے اس دور سے جبکہ آپ قادیان میں زاہدانہ زندگی بسر کر رہے تھے اور حضرت والد صاحب کے حکم کی تعمیل میں مقدمات کی پیروی کے لئے جانا پڑتا تھا اپنے چشمہ علم و عرفان سے دوسروں کو بہرہ ور کرنا شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے عربی نصاب کی کتابیں نحومیر، تاریخ فرشتہ اور شاید گلستان و بوستان ، بھی آپ سے پڑھیں (۹)میاں علی محمد ساحب مرحوم کو گلستان و بوستاں کے کچھ سبق پڑھائے مرزا دین محمد صاحب آف لنگروال کی روایت کے مطابق ۱۸۷۲ء میں کشن سنگھ ۔ ملاوامل اور شرمپت آپ سے حکمت اور قانون وغیرہ کی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ بلکہ خود انہیں بھی حضور انور نے ایک فارسی کتاب پڑھانی شروع کی تھی(۱۰)
بھائی کشن سنگھ صاحب کا بیان :
بھائی کشن سنگھ صاحب کا بیان ہے کہ :
’’لوگ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم سے جرات کرکے کچھ نہ کہہ سکتے تھے۔ مگر حضرت مسیح موعود اعلیہ السلام سے بلا تکلف جو چاہتے کہہ لیتے تھے۔ میںنے اسی لئے ان سے پڑھنا شروع کیا۔ مجھے زمانہ طالب علمی میں یہ تجربہ ہوا کہ حضرت مرزا صاحب بھی کبھی ناراض نہیں ہوتے تھے ۔ ان کی خدمت میں جاتے ہوئے ہم کو ذرا بھی جھجک اور حجاب نہ ہوتا تھا۔ ہم بے تکلف جس وقت چاہتے چلے جاتے تھے اور کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ آپ نے اپنی مصروفیت یا آرام کرنے کا عذر کرکے ٹال دیا ہو۔ بعض اوقات آپ نے سوتے اٹھ کر دروازہ کھولا ہے مگر برا نہیں منایا کہ تم نے میرے آرام میں آکر خلل پید اکیا ۔‘‘ چونکہ دروازہ عموماً بند ہوتا تھا کبھی کبھی میں اوپر سے کنکر ہی پھینک دیتا تھا اور آپ اس کی آہٹ سے اٹھ کر دروازہ کھول دیتے ۔ کبھی ایسا بھی اتفاق ہوتا تھا کہ میں سبق پڑھا کرتا اور آپ کھاتے جاتے اور پڑھاتے بھی جاتے تھے۔ اسی حالت میں بعض اوقات میری کتاب میں کوئی غلطی ہوتی تو آپ کھانا چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے اور مستند کتاب نکال کر لاتے اور اس غلطی کی اصلاح یا مشکوک امر کو درست فرماتے ۔ میں ہر چند عرض کرتا کہ آپ تکلیف نہ اٹھائیں کھانا کھالیں بعد میں دیکھا جائے گا۔ مگر آپ میری اس درخواست کو منظور نہ فرماتے اور کہہ دیتے کہ تمہارا ہرج ہوگا یہ ٹھیک نہیں وہ اپنے آرام کی پروانہ کرتے اور کتاب نکال کر مجھے درست کرادیتے۔ ‘‘
’’میں طب اکبرپڑھ رہاتھا اور اس میں مالیخولیا کی بیماری پر بحث میرے سبق میں آئی۔ طب اکبر میں اس مرض کی علامات ‘ اسباب وغیرہ پر مفصل بحث تھی۔ اس میں خلوت نشینی کو بھی ایک حد تک داخل کر دیا ہے ۔ اس پر آپ نے فرمایا طبیبوں نے کسی کو بھی نہیں چھوڑا۔ دیکھو جو لوگ خلوت نشین ہوں ان کو بھی مجنون کہہ دیتے ہیں۔ ‘‘ میں نے آپ سے یہ سن کر ہنستے ہوئے کہا کہ جیسے آپ کو بھی کہتے ہیں۔ آپ ہنس پڑے اور مجھے کسی قسم کا زجرنہ فرمایا۔ گو مجھے کہہ دینے کے بعد بہت افسوس ہوا اور شرم محسوس ہوئی کہ میں نے غلطی کی ۔ لیکن میںنے کوئی عذر کرنا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ مرزا صاحب اس قسم کی بات دل میں نہیں رکھتے ۔ اور کسی سے بدلہ لینا نہیں چاہتے ۔(۱۱)
شعری کلام کی ابتداء اور دیوان کی تسوید :۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ اسلام کی قلمی جنگ میں فتح نصیب جرنیل کی حیثیت سے دنیا میں آئے تھے اس لئے قدرت نے ابتداء ہی سے آپ کو قلم کی لازوال قوتوں سے مسلح کرکے بھیجاتھا۔ اورنہ صرف نثر نگاری کے وسیع و عریض میدان کے آپ شہسوار تھے بلکہ اقلیم سخن کو آپ کی تاجداری پر ناز تھا۔ حضور علیہ السلام نے اپنے ہم عصر مسلمان شعراء کی طرح شعرو شاعری کو بطور پیشہ اختیار نہیں کیا۔ بلکہ اسے ذکر الٰہی ، آنحضرتﷺ سے عشق و فدائیت کے اظہار کا ایک موثر ذریعہ قرار دیا اور پھر اپنی خداداد روحانی و اخلاقی صلاحیتوں کی بدولت اس میں اپنے مسیحائی انفاس سے وہ روح پھونکی کہ الفاظ گویا اسلام کی ایک پرشوکت فوج میں بدل گئے اور تخیلات اور تصورات زبردست روحانی اسلحہ خانوں میں ڈھل گئے جو قیامت تک کفر و ضلالت کے فولادی قلعوں کو پاش پاش کرتے رہیں گے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک عالی خاندان کے فردتھے جسے بجا طور پر بخوروں کا گہوارہ قرار دیا جانا چاہئے ۔ آپ کے والد ماجد نے بھی طبیعت رسا پائی تھی وہ فارسی میں نہایت عمدہ شعر کہتے تھے اور تحسین تخلص کرتے تھے۔ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے ایک دفعہ ان کا کلام بلاغت نظام حافظ عمر دراز صاحب ایڈیٹر ’’پنجابی اخبار‘‘ کو دیا تھا مگر وہ فوت ہوگئے اور ان کے ساتھ یہ قیمتی خزانہ بھی معدوم ہوگیا۔ ایک ایرانی شاعر نے اس امر کا اظہار کیا تھا کہ ان کا فارسی کلام ایرانی شعراء کی طرح فصیح و بلیغ ہے۔ اسی طرح حضور کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کو بھی ذوق سخن تھا اور وہ مفتون (۱۲، ۱۳) تخلص کرتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے شعری کلام کی ابتداء کس سن میں ہوئی؟ اس بارے میں احمدی مورخین کوئی قطعی رائے قائم نہیں کر سکے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو خلافت ثانیہ کے ابتداء میں مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم سے شعروں کی ایک کاپی ملی تھی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے دست مبارک سے شعر درج کئے تھے۔ اس کاپی میں کئی شعر نامکمل تھے اور بعض شعر نظر ثانی کے لئے بھی چھوڑے ہوئے تھے۔ یہ کاپی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے بیان کے مطابق بہت پرانی معلوم ہوتی ہوتی ہے جو غالباً جوانی کا کلام تھا(۱۴) اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جوانی میں کلام کہنا شروع کیا تھا اور جوانی کے زمانے کا سب سے ابتدائی کلام جو معین تاریخ کے ساتھ ملتا ہے وہ ۱۸۷۲ء کا فارسی کلام ہے جس کا تذکرہ اوپر کے صفحات میں کیا جا چکا ہے ۔ آپ ابتداء میں فرخ تخلص کیا کرتے تھے ۔ جسے زمانہ ماموریت کے چند سال بعد بالکل ترک کر دیا ۔ ان دنوں آپ اگرچہ اردو اور عربی شعروں میں اپنے خیالات کا اظہار فرماتے لیکن آپ کی زیادہ تر توجہ اپنی خاندانی زبان فارسی کی طرف تھی۔ یہ تو ابتدائی زمانہ کی بات ہے ورنہ منصب ماموریت پر فائز ہونے کے بعد آپ نے اردو، عربی اور فارسی تینوں زبانوں کو اسلام کی منادی کا ذریعہ بنالیا۔ آپ کا کلام الگ الگ تینوں زبانوں میں درثمین کے نام سے چھپا ہوا ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی زندگی بھر کے اہم واقعات ، دعاوی اور علم کلام اس میں پوری شان جامعیت کے ساتھ موجود ہیں۔
۱۸۸۰ء سے پہلے جبکہ آپ کی مستقل تصانیف کی اشاعت شروع نہ ہوئی تھی۔ آپ کبھی کبھی اپنا کلام ملک کے بعض اخبارات میں بھی بھجوا دیتے تھے ۔ چنانچہ
’’منشور محمدؐی‘‘ میں ایک اردو نظم جو حضور نے قادیان سے ۸۔ محرم ۱۲۹۵ھ مطابق ۱۲جنوری ۱۸۷۸ء کو رقم فرمائی اور نیاز نامہ متعلقہ ’’جواب الجواب ‘‘ کے عنوان سے تھی شائع ہوئی ( ۱۵)
حضرت اقدس علیہ السلام نے دعویٰ مسیحیت سے قبل ’’دیوان فرخ قادیانی ‘‘ کے نام سے اپنی غزلیات اور قطعات کا ایک مجموعہ بھی مرتب فرمایا تھا جو آپ کی وفات کے آٹھ سال بعد دسمبر ۱۹۱۶ء میں ’’ درمکنون ‘‘ کے نام سے پہلی دفعہ منظر عام پر آیا۔ اس مجموعہ کلام میں حمد الٰہی ، شان مصطفی ، غیر مذاہب کے رد‘ اسلام کی حقانیت ، اصلاح نفس ، ذکر اولیاء نشان اولیاء، علامات اولیاء ، اخراج نبوت از یہود ، ترک دنیا ، دعا، ایمان ، مذمت کبر، نفس امارہ ، مرتبہ سلوک ، مذمت شرک اور مذمت گور پرستی وغیرہ علمی و روحانی مسائل اور تصوف کے قیمتی اسرارو نکات بیان کئے گئے تھے۔ اس دیوان کے زمانہ تصنیف کا تعین اس وقت تک نہیں کیا جا سکا۔ سلسلہ احمدیہ کے پہلے مورخ جناب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کے نزدیک اس کا زمانہ تصنیف قیام سیالکوٹ کے دور سے شروع ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک سیالکوٹ سے واپسی کے بعد۔ خود مجموعہ میں چار مقامات پر ۱۷۔ اکتوبر ۱۸۷۳ء ۔ ۳۱۔ اگست ۱۸۷۶ء ۔ ۲۱۔ ستمبر ۱۸۷۶ء اور ۱۶۔نومبر ۱۸۸۸ء کی تاریخیں درج ہیں۔ لہٰذا قیاسات اور تخمینوں سے الجھے بغیر علیٰ وجہ البصیرت کہا جا سکتا ہے کہ یہ مجموعہ ۱۸۷۳ء سے ۱۸۸۸ء تک کے پندرہ سالہ عرصہ کو محیط ہے۔
ایک مقدمہ میں نشان آسمانی کا ظہور
تخمیناً۱۸۷۳ء کا واقعہ ہے کہ کمشنر کی عدالت میں آپ زمینداروں کے خلاف ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے امرت سر تشریف لے گئے۔ فیصلہ سے ایک روز قبل کمشنر کا رویہ بہت سخت معاندانہ تھا اور اس نے زمینداروں کی ناجائز حمایت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا کہ یہ غریب لوگ ہیں تم ان پر ظلم کرتے ہو۔ رات کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خواب میں ایک انگریز کو ایک چھوٹے سے بچے کی شکل میں دیکھا کہ اس کے سر پر حضور ہاتھ پھیر رہے ہیں۔ چنانچہ حضور دوسرے دن جب عدالت میں پہنچے تو اس کی حالت ایسی بدلی ہوئی تھی کہ گویا وہ پہلا انگریز نہیں تھا۔ اس نے زمینداروں کو سخت ڈانٹ پلائی اور آپ کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے سارا خرچہ بھی ان پر ڈال دیا۔(۱۶)
آسمانی بادشاہت ، درویشوں کی جماعت اور اقتصادی کشائش عطا ہونے کی بشارت :۔
۱۸۷۴ء میں آپ کو خواب میں ایک فرشتہ ایک لڑکے کی صورت میں دکھائی دیا جو ایک اونچے چبوترے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پاکیزہ نان تھا جو نہایت چمکیلا تھا۔ وہ نان آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے اس نے کہا ’’یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے ۔ ‘‘ اس نظارہ میں آپ کو رزق کی کشائش کے علاوہ درویشوں کی ایک جماعت عطا کئے جانے کی بشارت دی گئی ۔ (۱۷) نیز آسمانی بادشاہت عطا ہونے کی خبر بھی دی گئی تھی۔ کیونکہ انجیل کے محاورہ میں روٹی سے مرادآسمانی بادشاہت کا قیام ہے۔ (۱۸) یاد رہے یہ اس زمانہ کی بشارت ہے جب آپ قادیان ایسے کو ردیہہ میں اقتصادی مشکلات سے دو چار گوشہ نشینی اور خلوت کی زندگی بسر کر رہے تھے اور آپ کے حلقہ بیعت سے کوئی ایک شخص بھی وابستہ نہیں تھا۔ اور عجیب تر بات یہ ہے کہ یہ بشارت ٹھیک اس زمانہ میں دی گئی جبکہ دانیال نبی کی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود کی آمد مقدر تھی ( یعنی ۱۲۹۰ھ مطابق ۱۸۷۳۔ ۱۸۷۴ء میں) چنانچہ مسٹر روتھر فورڈ انجیل کی پیشگوئیوں کی روشنی میں ۱۸۷۴ء کی اہمیت واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‏" The facts hereinbefore considered show that the lord was present from 1874"The in this that he was doing a special work concerning his church , to forward, restoring to them the great fundamental truths that had been covered and wit by the ecelesiasticat part of the Devil,s Organization, and preparing to hid gather the saints''(19)
یعنی حقائق بتاتے ہیں کہ ۱۸۷۴ء کے بعد مسیح اس دنیا میں موجود ہے اور اپنے کلیسیا کے متعلق ایک خاص کام سر انجام دے رہا ہے ۔ اور وہ بنیادی صداقتیں جنہیں طاغوتی نظام نے ڈھانپ رکھا ہے اور دنیا کی نظروں میں روپوش کر رکھا ہے ۔ وہ انہیں دوبارہ آشکار کرکے نیک اور پارسالوگوں کو اپنے گرد جمع کر رہا تھا۔
مسجد اقصیٰ کی تعمیر
اب چونکہ وہ زمانہ تیزی سے آرہا تھا جس میں آپ کے گرد پارسادرویش طبع لوگ پروانوں کی طرح جمع ہونے والے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ خوشخبری دی اور پھر اگلے سال (۱۸۷۵ء ) میں قادیان میں مسجد اقصیٰ ایسی عظیم الشان جامع مسجد کی نبیاد خود آپ کے والد ماجد کے ہاتھوں رکھوادی ۔ عمر بھر کی ناکامیوں کی وجہ سے چونکہ آپ کے والد ماجد کو مسلسل اور پیہم صدمات سے دو چار ہونا پڑا تھا اور دل زخم رسیدہ ہو چکا تھا۔ اس لئے زندگی کے آخری دنوں میں انہوں نے مافات کی تلافی کے لئے قادیان میں ایک جامع مسجد تعمیر کرنے کا قطعی فیصلہ کر لیا۔ اس سے پہلے انہوں نے اس مسجد کے حصول کی از حد کوشش کی جسے رام گڑھیہ سکھوں نے بالجبر قبضہ کرکے دھرم سالہ بنادیا تھا۔ لیکن جب خود مقامی مسلمانوں کی مخالفانہ شہادتوں نے اس کی بازیافتگی کا رستہ مسدود کر دیا تو آپ نے اس کے نزدیک ہی قصبہ کے وسط میں ایک اور جگہ انتخاب کی جو اس وقت سکھ کارداروں کی حویلی تھی (۲۰) لیکن اس حویلی کی نیلامی کا مرحلہ آیا تو اہل قریہ نے ایک بار پھر آپ کو زمین سے محروم کرنے کی کوشش کی اور مقابل پر قیمت میں ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لیکن آپ نے خدا تعالیٰ کے حضور یہ پختہ عہد کر رکھا تھا کہ اگر باقی جائیداد بھی فروخت کرنا پڑے تو میں یہ زمین لے کر مسجد ضرور بنائوں گا۔ اس لئے آپ نے مالیات کے سبھی پہلو نظر انداز کرکے چند روپوں کی مالیت کا قطعہ ۷۰۰ روپے کی قیمت پر خرید لیا(۲۱) اور اخلاص وندامت بھرے دل کے ساتھ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ گائوں میں چونکہ پہلے کئی مساجد موجود تھیں۔ اور یہ مسجد ان سب سے بڑی بنائی جا رہی تھی اس لئے اس وقت ایک شخص نے کہا کہ اتنی بڑی مسجد کی کیا ضرورت تھی ۔ کس نے نماز پڑھنی ہے اس مسجد میں چمگادڑ ہی رہا کریں گے (۲۲) اور یہ بات گائوں کی مختصر سی مسلم آبادی کے لحاظ سے ہر شخص کو معقول نظر آتی تھی۔ لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ کام خدائی تحریک اور اس کے تصرف سے ہو رہا ہے اور ایک زمانہ آئے گا جب اسے دنیا بھر میں ایک ممتاز شان حاصل ہوگی۔
مسجد اقصیٰ کی تعمیر :۔
یہ جامع مسجد جو اب مسجد اقصیٰ سے موسوم ہے تخمیناً ۱۸۷۵ء کے آخری دنوں سے تعمیر ہونی شروع ہوئی اور جون ۱۸۷۶ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی اور اس کے پہلے خادم اور امام میاں جان محمد صاحب مرحوم مقرر ہوئے۔ اس ابتدائی مسجد کی پرانی مسقف عمارت اور اس کا صحن اور کنواں اپنی اپنی جگہ پر بدستور موجود ہیں ۔ البتہ ابتدائی صحن مختصراور پختہ پرانی قسم کی چھوٹی اینٹوں کا بنا ہوا تھا۔ شمالی دروازہ کے اندر کنوئیں کا منہ پہلے اوپر مسجد کے صحن کے فرش کے برابر تھا اور جہاں صحن کا فرش ختم ہوتا تھا وہاں مشرقی کنارہ پر اینٹوں کی ایک منڈیر تھی جس پر نماز وضو کیا کرتے تھے اور نالی سے مستعمل پانی نیچے بازار کی گلی میں جاگرتا تھا (۲۳)چنانچہ پنڈت دیوی رام ساکن دو دو چک تحصیل شکر گڑھ کی (جو ۲۱۔جنوری ۱۸۷۵ء کو نائب مدرس ہو کر قادیان گئے اور چار سال تک انہیں حضرت اقدس کی خدمت میں رہنے کا موقعہ ملا)عینی شہادت ہے کہ ’’(آپ کے )گھر سے چھوٹی سی گلی مسجد کو جاتی تھی اس راستہ سے گذر کر مسجد میں جاتے تھے صرف اکیلے ہی ہوا کرتے تھے اگر دو تین ہو جاتے تو مرزا صاحب جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے اور اگر اکیلے ہوتے تو اکیلے ہی پڑھ لیتے ۔ ان دنوں قادیان میں مسلمان عموماً بے نماز تھے۔ قمار بازی میں مشغول رہتے تھے۔ مسلمانوں کی آبادی کم تھی ۔۔۔۔ نیکی تقویٰ اور طہارت میں مرزا غلام احمد صاحب اور مرزا کمال الدین صاحب اور میر عابد علی صاحب مسلمانوں میں مشہور تھے۔ مرزا کمال الدین فقیری طریقہ پر تھے۔ معلوم نہیں کہ وہ نماز کب پڑھا کرتے تھے۔ مگر مرزا غلام احمد صاحب کو ہم نے پنج وقت نماز پڑھتے دیکھا ہے ۔ ‘‘(۲۴)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے والد ماجد کے آخری عمر کے جذبات کا نقشہ کھینچتے ہوئے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کا پس منظر یوں بیان فرماتے ہیں:
’’ حضرت عزت جل شانہ کے سامنے خالی ہاتھ جانے کی حسرت روز بروز آخری عمر میں ان پر غلبہ کرتی گئی تھی۔ بارہا افسوس سے کہا کرتے تھے کہ دنیا کے بیہودہ خرخشوں کے لئے میں نے اپنی عمر ناحق ضائع کردی ۔ ایک مرتبہ حضرت والد صاحب نے یہ خواب بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ ایک بڑی شان کے ساتھ میرے مکان کی طرف چلے آتے ہیں جیساکہ ایک عظیم الشان بادشاہ آتا ہے ۔ تو میں اس وقت آپ کی طرف پیشوائی کے لئے دوڑا ۔ جب قریب پہنچا تو میں نے سوچا کہ کچھ نذر پیش کرنی چاہئے۔ یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا جس میں صرف ایک روپیہ تھا اور جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ کھوٹا ہے ۔یہ دیکھ کر میں چشم پر آب ہوگیا اور پھر آنکھ کھل گئی۔ اور پھر آپ ہی تعبیر فرمانے لگے کہ دنیا داری کے ساتھ خدا اور رسول کی محبت ایک کھوٹے روپے کی طرح ہے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ میری طرح میرے والد صاحب کا بھی آخری حصہ زندگی کا مصیبت اور غم اور حزن میں ہی گزرا اور جہاں ہاتھ ڈالا آخر ناکامی تھی۔ اور اپنے والد صاحب یعنی میرے پر دادا صاحب کا ایک شعر بھی سنایا کرتے تھے جس کا ایک مصرعہ راقم کو بھول گیا اور دوسرا یہ ہے کہ
ع ’’جب تدبیر کرتاہوں تو پھر تقدیر ہنستی ہے ‘‘
اور یہ غم اور دردان کا پیرانہ سالی میں بہت بڑھ گیا تھا۔ اسی خیال سے قریباً چھ ماہ پہلے حضرت والد صاحب نے اس قصبہ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کی جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے ۔ اور وصیت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو تاخدائے عزوجل کا نام میرے کان میں پڑتا رہے کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو۔ چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت بہمہ وجوہ مکمل ہوگئی اور شاید فرش کی چند اینٹیں باقی تھیں کہ حضرت والد صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہوگئے اور اسی مسجد کے اسی گوشہ میں جہاں انہوں نے کھڑے ہوکر نشان کیا تھا دفن کئے گئے ۔ اَللّٰھُمَّ اَرْحَمْہُ وَادْخِلْہُ الْجَنَّۃَ ۔ آمین ۔اسی یا پچاسی برس کے قریب عمر پائی ۔ ‘‘(۲۵)
روزوں کا عظیم مجاہدہ اور عالم روحانی کی سیر
تلاوت قرآن کریم ، ذکر الٰہی ، اصلاح خلق، خلوت گزینی اور درودشریف کی کثرت آپ کی زندگی کا معمول بن چکا تھا۔ اب ۱۸۷۵ء کے آخر میں جناب الٰہی سے آپ کو روزوں کے ایک عظیم مجاہدہ کا ارشاد ہوا۔ چنانچہ اس کی تعمیل میں آپ نے آٹھ یا نو ماہ تک مسلسل روزے رکھے (۲۶) روزوں کا یہ مجاہدہ بالکل مخفی طور پر اختیار کیا گیا اور اس کے لئے حضور نے یہ التزام فرمایا کہ گھر سے جو کھانا آتا وہ بعض بچوں میں تقسیم فرما دیتے اور خود روٹی کے چند لقموں یا چنوں پر گزا ر کر لیتے ۔ (۲۷) یہ دن انواز الٰہی کی بارش کے تھے جن میں آپ کو عالم روحانی کی سیر کرائی گئی اور خدا تعالیٰ کی تجلیات کے مختلف نظارے دکھائے گئے بعض گذشتہ انبیاء اور چوٹی کے صلحاء امت سے ملاقاتوں کے علاوہ آنحضرت ﷺ ، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضٰ اللہ عنہا، حضرت علی و حسن و حسین علیہم السلام کی عین بیداری میں زیارت بھی نصیب ہوئی۔ یہ گویا آپ ایسے بے نظیر عاشق رسول کا ایک معراج تھا جو مسلسل کئی ماہ تک جاری رہا۔ آنحضرتﷺ تو شب معراج میں خدا تک پہنچے تھے اور آپ اس روحانی سیر میں مصطفی تک پہنچے ۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا۔ اور اس نے یہ ذکر کرکے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجالائوں۔ سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا۔ مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالانا بہتر ہے ۔ پس میں نے یہ طریق اختیار کیاکہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگواتا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میںنے پہلے سے تجویز کرکے وقت حاضری کے لئے تاکید کر دی تھی دے دیتا۔ اور اس طرح تمام دن روزہ میں گذارتا اور بجز خدا تعالیٰ کے ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی۔ پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جو ایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھا لیتا ہوں مجھے کچھ بھی تکلیف نہیں ۔ بہتر ہے کہ کسی قدر کھانے کو کم کروں۔ سو میں اس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا۔ یہاں تک کہ میں تمام رات دن میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ شاید صرف چند تولہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی۔ غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا ۔ خدا تعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا۔ اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پرکھلے ۔ چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس امت میں گذر چکے ہیں ان سے ملاقات ہوئی۔ ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ ﷺ مع حسنین وعلی ؓ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا اور یہ خواب نہ تھی بلکہ بیداری کی ایک قسم تھی۔ غرض اسی طرح پر کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہوئیں جن کا ذکر کرنا موجب تطویل ہے اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبزو سرخ ایسے دلکش و دلستان طور پر نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریر سے باہر ہے وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبزاور بعض سرخ تھے ، ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا۔ اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی۔ میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے۔ یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہوگئی۔ یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا ان کو نہیں پہچان سکتی۔ لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے ۔
غرض اس حد تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع و اقسام کے مکاشفات تھے۔ ‘‘(۲۸)
ایک دفعہ فرمایا جب میں تین ماہ کے قریب پہنچا تو ایک شخص قد آور جسم رنگ سرخ میرے سامنے یہ الفاظ کہتا تھا۔ قرت، قرت۔قرت نفس کشی اور ریاضت شاقہ کی اس کٹھن منزل کے طے کرنے سے جہاں آپ کو آسمانی عجائبات دیکھنے کا موقعہ ملا (۲۹، ۳۰) وہاں پہلی مرتبہ اپنے نفس کی حیرت انگیز قوت برداشت کا تجربہ ہوا۔ نیز اس نتیجہ پر پہنچے کہ آرام طلبی کی زندگی کو ترک کئے بغیر روحانیت کے مدارج کا حصول ممکن نہیں ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
’’ ایک اور فائدہ مجھے یہ حاصل ہوا کہ میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کر سکتاہوں ۔ میں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ اگر ایک موٹا آدمی جو علاوہ فربہی کے پہلوان بھی ہو میرے ساتھ فاقہ کشی کے لئے مجبور کیا جائے تو قبل اس کے کہ مجھے کھانے کے لئے کچھ اضطرار ہو وہ فوت ہو جائے۔ اس سے مجھے یہ بھی ثبوت ملا کہ انسان کسی حد تک فاقہ کشی میں ترقی کر سکتاہے ۔ اور جب تک کسی کا جسم ایسا سخت کش نہ ہو جائے میرا یقین ہے کہ ایسا تنعم پسند روحانی منازل کے لائق نہیں ہو سکتا۔ لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتاکہ ایسا کرے اور نہ میںنے اپنی مرضی سے ایسا کیا۔۔۔۔۔۔۔ یاد رہے کہ میں نے کشف صریح کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے اطلاع پاکر جسمانی محنت کشی کا حصہ آٹھ یا نو ماہ تک لیا اور بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا اور پھر اس طریق کو علی الدوام بجالانا چھوڑ دیا اور کبھی کبھی اس کو اختیار بھی کیا۔ ‘‘(۳۱)
حضرت میرناصر نواب صاحب کی قادیان میں پہلی بار آمد اور تعلقات کا آغاز :۔
ان دنوں دلی کے مشہور عالی قدر سادات خاندان کے چشم و چراغ ، شہرہ آفاق صوفی مرتاض خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ کے نبیرہ اور ان کے روحانی کمالات کی یاد گار ایک بزرگ جن کا اسم گرامی میرناصر نواب تھا ، (۳۲) امرت سر سے منتقل ہونے کے بعد قادیان کے نزدیک موضع تتلہ میں نہر کے اوورسیر کی حیثیت سے متعین تھے۔ انہیں تبلیغ اسلام کا بڑا جوش تھا۔ ان کے دست مبارک پر اکتوبر ۱۸۷۴ء کو سٹھیالی کا ایک ہندو بنسی دھر حلقہ بگوش اسلام ہوا جس کا نام عبدالحق رکھا گیا (۳۳) ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان میں سب سے پہلے حضور کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم سے تعارف ہوا۔ ایک دفعہ حضرت میر صاحبؓ کی زوجہ محترمہ کی طبیعت علیل ہوگئی تو مرزا غلام قادر صاحب نے انہیں اپنے والد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؓ سے طبی مشورہ کے لئے قادیان جانے کی تحریک کی۔ چنانچہ حضرت میر صاحبؓ پہلی مرتبہ قادیان آئے۔ یہ اندازاً ۱۸۷۶ء کے اوائل کا واقعہ ہے ۔ حضرت میر ناصر نواب صاحب کے حرم محترم ؓ کی روایت ہے کہ مجھے ڈولے میں بٹھاکر قادیان لائے۔ جب میں یہاں آئی تو نیچے کی منزل میں مرزا غلام قادر صاحب مجلس لگائے بیٹھے تھے اور کچھ لوگ ان کے پاس بیٹھے تھے اور ایک نیچے کی کوٹھری میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک کھڑکی کے پاس بیٹھے قرآن شریف پڑھ رہے تھے۔ میںنے گھر والیوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ مرزا صاحب کا چھوٹا لڑکا ہے اور بالکل ولی آدمی ہے قرآن ہی پڑھتا رہتا ہے ۔ اوپر کی منزل میں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ؓ تھے۔ انہوں ںے میری نبض دیکھی اور ایک نسخہ لکھ دیا۔ اور پھر میر صاحبؓ کے ساتھ اپنے دلی جانے اور وہاں حکیم محمد شریف صاحب سے علم طب سیکھنے کا ذکر کرتے رہے۔ انہوں نے حضرت میر صاحب کو قادیان میں اور ٹھہرنے کے لئے کہا مگر ہم نہیں ٹھہر سکے۔ کیونکہ ( ام المومنین ) نصرت جہاں بیگم کو اکیلا چھوڑ آئے تھے( ۳۴) حضرت میر صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ کی قادیان میں یہ پہلی آمد تھی جو قریباً ۱۸۷۶ء کے اوائل میں ہوئی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلقات کا آغاز غالباً اگلے سال ۱۸۷۷ء کے بعد ہوا۔ جبکہ حضرت میرصاحب ؓ کے اہل و عیال قادیان میں رہائش پذیر ہوئے ۔ چنانچہ آپ کے حرم کا بیان ہے کہ اس کے بعد جب دوسری دفعہ قادیان آئی۔ تو حضرت مرزا غلام مرتضیٰؓ فوت ہو چکے تھے اور ان کی برسی کا دن تھا جو قدیم رسوم کے مطابق منائی جا رہی تھی۔ چنانچہ ہمارے گھر بھی بہت سا کھانا وغیرہ آیا تھا۔ اس دفعہ مرزا غلام قادر صاحب نے میر صاحب سے کہا کہ آپ تتلہ (قادیان سے قریب ایک گائوں )میں رہتے ہیں جہاں آپ کو تکلیف ہوتی ہوگی اور وہ گائوں بھی بدمعاش لوگوں کا گائوں ہے۔ بہتر ہے کہ آپ یہاں ہمارے مکان میں آجائیں میں گورداسپور رہتاہوں اور غلام احمد ( علیہ الصلوٰۃ والسلام ) بھی گھر میں بہت کم آتا ہے اس لئے آپ کو پردہ وغیرہ کی تکلیف نہیں ہوگی۔ چنانچہ میر صاحبؓ مان گئے اور ہم یہاں آکر رہنے لگے۔ (۳۵)غالباً اسی دوران میں حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ کی مرزا غلام قادر مرحوم کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلی ملاقات ہوئی تھی(۳۶) حضرت میر ناصر نواب صاحب ؓ کے بیان کے مطابق یہ وہ زمانہ تھا جبکہ حضرت اقدس ’’براہین احمدیہ ‘‘ لکھ رہے تھے (۳۷)حضرت میر صاحب کے زیادہ مراسم گو آپ کے بڑے بھائی سے تھے لیکن ابتدائی ملاقات ہی سے آپ کے دل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تقویٰ شعاری، عبادت اور ریاضت اور گوشہ گزینی نقش ہوگئی جس کا کبھی کبھی گھر میں اظہار کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ’’ مرزا غلام قادر کا چھوٹا بھائی بہت نیک اور متقی ہے۔‘‘(۳۸)چند ماہ بعد ان کی تبدیلی قادیان سے لاہور میں ہوگئی تو وہ چند روز کے لئے اپنے اہل خانہ کو حضور کے مشورہ کے احترام میں بے تامل آپ ہی کے ہاں چھوڑ گئے اور جب وہاں مکان کا بندوبست ہوگیا تو پھر انہیں لے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میں نے اپنے گھر والوں سے سنا کہ جب تک میرے گھر کے لوگ مرزا صاحب کے گھر میں رہے مرزا صاحب کبھی گھر میں داخل نہیں ہوئے بلکہ باہر کے مکان میں رہے۔ اس قدر ان کو میری عزت کا خیال تھا۔ وہ بھی عجب وقت تھا حضرت صاحب گوشہ نشین تھے‘عبادت اور تصنیف میں مشغول رہتے تھے۔ لالہ شرمپت اور ملاوامل کبھی کبھی حضرت صاحب کے پاس آیا کرتے تھے اور حضرت صاحب کے کشف اور الہام سنا کرتے تھے بلکہ کئی کشوف اور الہاموں کے پورے ہونے کے گواہ بھی ہیں۔ اس وقت یہ سچے اور نرم دل تھے۔‘‘(۳۹)
حضرت میر صاحب ابتداء ’’قادیان میں رہائش پذیر ہوئے تو انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اکثر نماز پڑھنے کا موقعہ ملتا اور وہ نماز کے بعد حضور سے علمی اورفقہی مسائل پر بھی مذاکرہ کیا کرتے تھے۔ چنانچہ پنڈت دیوی رام(ساکن دودو چک تحصیل شکر گڑھ) کی چشم دید شہادت ہے کہ میر صاحب چونکہ اہل حدیث مسلک رکھتے تھے اس لئے رفع یدین۔ آمین بالجہر، ہاتھ باندھنے اور تکبیر پڑھنے کے متعلق تبادلہ خیالات جاری رہتا تھا (۴۰) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حضرت میر صاحبؓ کے ابتدائی تعلقات کا یہ مختصر سانقشہ ہے۔ جس کے بعد ان میں روز روز اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ سات سال بعد وہ بھی دن آگیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شادی ان کے جگر گوشہ حضرت نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہما سے ہوئی۔ وہ نانا جان کہلائے اور ان کی مقدس صاحبزادی خدا کی ازلی تقدیروں کے باعث’’خدیجہ‘‘کے آسمانی خطاب سے سرفراز ہوکر ام المومنین کے نام سے موسوم ہوئیں۔ (اس کی تفصیل آئندہ بیان ہوگی)
حضرت مولانا عبداللہ غزنویؒاور دوسرے اہل اللہ سے ملاقات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کے اس دور کی ایک بھاری خصوصیت یہ تھی کہ آپ ان دنوں بعض اہل اللہ کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے۔(۴۱) سیالکوٹ میں آپ کا ایک بزرگ مولوی محبوب عالم صاحب مرحوم سے خاص تعلق پیدا ہوگیا تھا۔ وہاں سے واپسی کے بعد آپ نے ایک خدا رسیدہ صوفی حضرت میاں شرف الدین صاحب کی ملاقات کے لئے متعدد بار سم شریف متصل طالب پور ضلع گورداسپور کا سفر اختیار فرمایا۔ تاریخ سے آپ کے یہاں بعض لوگوں کا آنا بھی ثابت ہے۔ مثلاً ایک صاحب مکے شاہ نام ساکن لیل متصل دھاری وال قادیان آتے اور آپ ہی کے پاس قیام کرتے تھے (۴۲) ان کے علاوہ حضرت کو جس باخدا اور صاحب ولایت بزرگ سے آخر وقت تک بے حد الفت رہی وہ مولانا مولوی عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ تھے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے کہ ’’آپ غایت درجہ کے صالح۔۔۔۔۔۔۔۔مردان خدا میں تھے اور مکالمہ الہیہ کے کے شرف سے بھی مشرف تھے اور بمرتبہ کمال اتباع سنت کرنے والے اور تقویٰ اور طہارت کے جمیع مراتب اور مدارج کو ملحوظ اور مرعی رکھنے والے تھے۔ اور ان صادقوں اور راستبازوں میں سے تھے جن کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف کھینچا ہوا ہوتا ہے اور پرلے درجہ کے معمور الاوقات اور یاد الٰہی میں محواور غریق اور اسی راہ میں کھوئے گئے تھے۔‘‘ (۴۳) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے امرت سر اور اس کے نواحی گائوں خیروی میں ملاقات فرمائی۔ اس سفر میں جو موسم سرما میں اختیار کیا گیا تھا۔ حضور کے پاس فنڈر کی مشہور کتاب ’’میزان الحق‘‘(مطبوعہ ۱۸۶۱ء) تھی جس سے آپ نے آخر شب پانی گرم کرنے کا کام لیا۔ آپ فرماتے تھے کہ اس وقت میزان الحق نے خوب کام دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے قلم سے ان ملاقاتوں کا احوال یوں بیان فرماتے ہیں کہ:
’’جب وہ زندہ تھے ایک دفعہ مقام خیروی میں اور دوسری دفعہ امرت سر میں ان سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ ملہم ہیں ہمارا ایک مدعا ہے اس کے لئے آپ دعا کریں۔ مگر میں آپ کو نہیں بتلائوں گا کہ کیا مدعا ہے۔ انہوں نے کہا کہ درپوشیدہ داشتن برکت است ومن انشاء اللہ دعا خواہم کر دو الہام امر اختیاری نیست۔ اور میرا مدعا یہ تھا کہ دین محمدی علیہ الصلوٰۃ والسلام روز بروز تنزل میں ہے خدا اس کا مددگار ہو۔ بعد اس کے میں قادیان میں چلا آیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد بذریعہ ڈاک ان کا خط مجھ کو ملا جس میں لکھا تھا کہ ’’ایںعاجز برائے شما دعا کردہ بود القاشد وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ۔ فقیر راکم اتفاق مے افتد کہ بدیں جلدی القا شود ایں از اخلاص شمامے بینم ‘‘(۴۴) یہ تو ابتدائی انکشافات تھے ورنہ اس کے بعد تو آپ نے ایک مخلص ارادتمند (منشی محمد یعقوب صاحب) کو باذن الٰہی یہاں تک بتا دیا کہ حضرت مرزا صاحبؑ میرے بعد ایک عظیم الشان کام کے لئے مامور کئے جائیں گے۔ نیز اپنی وفات سے چند دن قبل (فروری ۱۸۸۱ء میں) اللہ تعالیٰ سے بذریعہ کشف خبر پاکر یہ پیشگوئی بھی فرمائی کہ ’’ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا مگر افسوس میری اولاد اس سے محروم رہ گئی‘‘(۴۵)
آپ کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی نسبت بھی الہاماً بتایا گیا تھا کہ اس میں کوئی عیب ہے۔ بٹالوی صاحب نے وضاحت چاہی مگر انہوں نے یہی جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کی حیا مانع ہے ۔ دراصل آپ کو عالم رویا میں یہ دکھایا گیا تھا کہ بٹالوی صاحب کے کپڑے چاک چاک ہوگئے ہیں (۴۶) ان صریح اور واضح پیشگوئیوں سے جو بعد میں پوری وضاحت وصراحت سے پوری ہوئیں۔ حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی حیرت انگیز قوت کشفی کا اندازہ ہوتا ہے۔
مولانا غزنوی کی وفات کے متعلق قبل از وقت خبر
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام گورداسپور میں تھے کہ حضور کو قبل از وقت بذریعہ رویا خبر دی گئی کہ ان کا زمانہ وفات قریب ہے (۴۷) چنانچہ وہ ۱۵۔ ربیع الاول ۱۲۹۸ھ بمطابق ۱۵۔ فروری ۱۸۸۱ء کو انتقال فرماگئے اور امرت سر میں بیرون دروازہ سلطان ونڈ میں دفن ہوئے(۴۸) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی وفات کے بعد بھی ان سے کشفی عالم میں ملاقات فرمائی تھی۔ جس میں انہوں نے حضرت اقدس کو خبردی کہ خدا تعالیٰ آپ سے بڑے بڑے کام لے گا۔ آپ روحانی انوار وبرکات کے ذریعہ سے مخالفین حق پر عقلی دلائل اور روحانی انوارو برکات دونوں ذریعہ سے اتمام حجت کریں گے۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ دنیا میں مجھے امید تھی کہ خدا تعالیٰ میرے بعد ضرور ایسا آدمی پیدا کرے گا پھر مولانا غزنویؒحضور کو ایک وسیع مکان کی طرف لے گئے جس میں ایک جماعت راستبازوں اور کامل لوگوں کی بیٹھی ہوئی تھی۔ لیکن سب کے سب مسلح اور سپاہیانہ صورت میں ایسی چستی کی طرز سے بیٹھے ہوئے معلوم ہوتے تھے کہ گویا کوئی خدمت بجا لانے کے لئے کسی ایسے حکم کے منتظر بیٹھے ہیں (۴۹)

ماموریت کا دوسرا سال
مسجد مبارک کی تعمیر (۱۸۸۳ء)
قادیان میں مسجد اقصیٰ کی موجودگی میں کسی اور مسجد کی بظاہر ضرورت نہیں تھی کیوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور معدودے چند افراد کے سوا اس میں کوئی نماز ی ہی نہیں تھا۔ مگر چوں کہ حضرت مسیح موعودؑ معمور الاوقات انسان تھے اور مستقبل قریب میں آپ کے سپرد تحریک احمدیت کی قیادت ہونے والی تھی اور آپ کے ہاتھوں اسلام کی تائید میں عالمگیر قلمی جنگ کے آغاز کا زمانہ قریب آچکا تھا اس لئے حضور کو پیش آنے والی اور وسیع علمی وروحانی سرگرمیوں کے لئے ایک ایسے بیت الذکر کی ضرورت تھی۔ جو آپ کے تاریخ چوبارے کے پہلو ہی میں (جو الہام میں ’’بیت الفکر‘‘ کے نام سے موسوم ہوا اور جس میں آپ نے ’’براہین احمدیہ‘‘ ایسی عظیم الشان کتاب تصنیف فرمائی) موجود ہو۔ تاکہ تصنیف و تالیف کی مصروفیات کے دوران میں ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر نمازوں کے التزام کے علاوہ جب چاہیں اپنے مولائے حقیقی کے آستانہ پر بالحاح وزاری عجزو نیاز کرسکیں۔ چنانچہ اس نوع کی متعدد آسمانی مصلحتوں کے مطابق حضرت اقدسؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھاری بشارتوں کے ساتھ ایک مسجد کے قیام کی تحریک ہوئی (۱) ۔ یہ مسجد جو مسجد مبارک کہلاتی ہے آج بھی پوری شان و عظمت کے ساتھ قادیان میں موجود ہے اور عالمگیر شہرت کی حامل ہے۔
مسجد مبارک کی تعمیر
مسجد مبارک کی بنیاد( حضرت پیر سراج الحق صاحب کی گذشتہ عینی شہادت کے مطابق)۱۸۸۲ء میں اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب کی تحقیق کے مطابق ۱۸۸۳ء میں رکھی گئی تھی۔ حضرت اقدسؑ کے چوبارے کے ساتھ جہاں اس مسجد کی تاسیس ہوئی دراصل کوئی موزون جگہ موجود نہیں تھی۔ کیونکہ ’’بیت الفکر‘‘ کے عقب میں گلی تھی اور گلی کے ساتھ آپ کے چچا مرزا غلام محی الدین کا رقبہ تھا جس میں ان کے خراس کی قدیم عمارت کے گھنڈر پڑے ہوئے تھے اور اس کے بقیہ آثار میں سے شمالی جانب ایک بوسیدہ سی دیوار کھڑی تھی۔ حضور نے اسی دیوار اور اپنے گھر کی جنوبی دیوار پر اپنے باغ کی دیسی لکڑی سے مسقف تیار کرایا۔ اینٹوں کی فراہمی کے لئے بعض پرانی بنیادوں کی کھدائی کی گئی اور مسجد کی تعمیر آپ کے خاندانی معمار پیراں دتا نے شروع کردی ۔ ۱۳۰ اگست ۱۸۸۳ء میں مسجد کی سیڑھیوں کے بننے کا مرحلہ آیا۔ مسجد کا اندرونی حصہ حتمی طور پر ۹۔ اکتوبر ۱۸۸۳ء تک ایک گونہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا لیکن اس کی سفیدی بعد کو ہوئی۔
قدیم مسجد مبارک کا اندرونی منظر
مسجد مبارک کی اندرونی عمارت کے تین حصے تھے پہلا اور غربی حصہ امام کا محرابی گوشہ تھا جس کے مغرب اور شمال میں دوکھڑکیاں اور شرقی دیوار میں ایک دروازہ تھا جو لکڑی کے تختے سے بند ہوکر دو ایک فرد کی خلوت نشینی کے لئے ایک نہایت مختصر مگر مستقل حجرہ بن جاتا تھا ۔ وسطی حصے میں چھ چھ نمازیوں کی دو صفوں کی گنجائش تھی۔ اسی حصے میں ’’بیت الفکر‘‘ کو کھڑکی کھلتی تھی مقابل کی جنوبی دیوار میں ایک کھڑی روشنی کے لئے نصب تھی اور باہر کے مشرقی حصہ سے الحاق کے لئے ایک دروازہ لگا دیا گیا تھا۔ مسجد کا شرقی حصہ وسطی حصہ سے نسبتاً بڑا تھا یعنی اس میں بعض اوقات تین حصوں میں کم وبیش پندرہ آدمی نماز پڑھ سکتے تھے اس حصے سے باہر ایک طرف زینہ تھا اور دوسری طرف نمازیوں کے وضو وغیرہ کے لئے جگہ اور ایک غسل خانہ بھی بنایا گیا ۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام گرمیوں میں استراحت بھی فرماتے تھے اور اسی میں سرخی کے چھینٹوں کا نشان بھی ظاہر ہوا(۲) ۔ شرقی حصے میں تین دروازے تھے پہلا شمالی دیوار میں تھا جو حضرت اقدس کے مکان سے متصل تھا۔ دوسرا زینے سے مسجد تک داخلہ کے لئے اور تیسرا غسل خانے کی جانب جاتا۔ مسجد کے دونوں دروازوں پر آیت ’’اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللہِ الْاِسْلَامُ‘‘۔ درود شریف اور مسجد کے متعلق الہامات درج تھے ۔ اس تفصیل کے مطابق (قدیم ) مسجد مبارک کے اندرونی حصے کا خاکہ یہ تھا۔
مسجد کی بالائی منزل
یہ تو مسجد کی اندرونی عمارت کا نقشہ تھا۔ جہاں تک بالائی منزل کا تعلق ہے وہ اس سے بھی سادہ اور مختصر تھی۔ یعنی گوشہ امام والا حصہ چھوڑ کر باقی چھت کے چاروں کونوں پر چار چھوٹے چھوٹے مینار تھے اور وہاں پہنچنے کے لئے سرخی کے نشان والے کمرے کی چھت پر دو سیڑھیوں کا ایک چوبی زینہ رکھا رہتا۔ قیام جماعت احمدیہ کے بعد جب حضرت مولانا نور الدین صاحب‘ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب اور دوسرے بزرگان سلسلہ قادیان میں ہجرت کر کے آگئے تو اس کے غربی حصے پر شے نشین بنا دیا گیا جہاں حضرت اقدس نماز مغرب کے بعد اپنے خدا م میں رونق افروز ہوتے اورعلم وعرفان کے موتی بکھیرتے تھے یہ پاک اور روح پرور محفل ’’دربار شام‘‘ کے پیارے نام سے یادکی جاتی تھی۔
مسجد مبارک کی تعمیر کے بعد حضرت مسیح موعود ؑ مسجد اقصیٰ کی بجائے مسجد مبارک میں نماز ادا فرمانے لگے۔ ابتداء میں اکثر خود ہی اذان دیتے اور خود ہی امامت کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔
مسجد کی توسیع
مسجد مبارک کی یہ ابتدائی عمارت چوبیس سال تک اپنی پہلی حالت میں بدستور قائم رہی۔ اس دوران میں صرف یہ خفیف سی تبدیلی کی گئی کہ سرخی کے نشان والا کمرہ جو ددو ایک فٹ نشیب میں واقع تھا مسجد کی عام سطح کے برابر کردیا گیا اور پھر ۱۹۰۷ء میں حضرت میر ناصر نواب صاحب کی نگرانی میں جنوبی طرف پہلی مرتبہ توسیع کی گئی جس کے نتیجہ میں اس کے جنوب مغربی کونے کا مینار قائم نہ رہ سکا۔ اور دو مینار شمالی دیوار میں جذب ہوگئے ایک مینار آج تک اصلی صورت میں موجود ہے۔ مسجد مبارک کی دوسری مرتبہ توسیع خلافت ثانیہ کے عہد میں دسمبر ۱۹۴۴ء میں مکمل ہوئی جس سے یہ مسجد ۱۹۰۷ء کی عمارت سے اپنی فراخی اور کشادگی میں دوچند ہوگئی۔ اس مرتبہ تعمیر کی نگرانی کا کام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے سرانجام دیا (۳)
نواب صدیق حسن خان صاحب کو سزا اور حضرت اقدسؑ کی دعا سے خطابات کی بحالی
نواب صدیق حسن خاں صاحب کی طرف سے ’’براہین احمدیہ‘‘ کی بے حرمتی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بددعا کا جو دلخراش واقعہ جلد اول میں بیان ہوچکا ہے وہ اسی زمانہ (۱۸۸۳ء) میں وقوع پذیر ہوا تھا۔
نواب صاحب مولوی سید اولاد حسن صاحب قنوجی کے فرزند تھے انہوںنے علوم دینی علمائے یمن وہند سے حاصل کئے۔ پھر ریاست بھوپاک کی ملازمت اختیار کرلی اور بتدریج ترقی کر کے وزارت ونیابت پر فائز ہوگئے یہاں تک کہ ان کا بھوپال کی والیہ شاہجہان بیگم صاحبہ سے ۱۸۷۱ء میں عقد ہوگیا جس کے بعد وہ عملاً ریاست کے فرمانروا بن گئے تھے۔ اور حکومت برطانیہ نے انہیں ’’ نواب والا جاہ۔‘‘ ’’امیر الملک‘‘اور ’’معتمد المہام‘‘ کے خطابات سے نواز دیا ۔ نواب صاحب اپنی شاہانہ ٹھاٹ باٹ اور علو مرتبت میں بھی اسلام کی تحریری خدمت سرانجام دے رہے تھے۔ اور ان کی علمی تصانیف کا ہندوستان کے طول وعرض میں ایک شہرہ تھا۔ اور مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی تو انہیں ’’مجدد وقت‘‘ تسلیم کرتے تھے۔ (۴) حضرت مسیح موعودؑ نے ان کی اس خصوصیت کی وجہ سے ان کی اسلامی خدمات پر حسن ظن کرتے ہوئے انہیں ’’براہین احمدیہ‘‘ بھجوائی تھی(۵) ۔ مگر انہوں نے یہ کتاب پھاڑ کر واپس کردی اور لکھا کہ ’’مذہبی کتابوں کی خریداری حکومت وقت کی سیاسی مصلحتوں کے خلاف ہے اس لئے ریاست سے کچھ امید نہ رکھیں۔ ‘‘حضرت مسیح موعودؑ نے کتاب کی یہ صورت دیکھی تو آپ کو بہت رنج ہوا اور آپ نے دعا کی کہ ان کی عزت چاک کردی جائے۔ (۶) خدا کی قدرت دیکھئے اس واقعہ پر ابھی دو تین سال کا عرصہ ہی ہوا تھا کہ ۱۸۸۶ء میں اسی حکومت نے ( جس کی خوشنودی کے لئے انہوں نے ’’براہین احمدیہ ‘‘ کی توہین کی تھی) ان پر بعض مقدمات دائر کر دئیے اوروہ جرائم پیشہ انسانوں کی طرح ریاست میں معصوموں کے خون بہانے ‘سوڈانی مہدی کو امداد بھجوانے اور اپنی مختلف تصانیف میں انگریزی گورنمنٹ کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکانے کے سنگین الزمات میں ماخوذ ہوگئے اور حکومت نے ان پر سر لیپل گریفن کا تحقیقاتی کمیشن بٹھا دیا کمیشن کے فیصلہ کے مطابق ان کے نوابی کے خطابات چھن گئے اور یہاں تک بے آبروئی ہوئی کہ خود مسلمانوں کے ایک طبقہ نے حکومت پر زور دیا کہ اس سیاسی مقدمہ میں ان سے ذرہ بھر رعایت روانہ رکھی جائے اور ان جرائم کی پاداش میں وہ تختہ دار پر لٹکا دئیے جائیں یا کالے پانی بھیج دئیے جائیں۔ حتٰی کہ خود مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کو نواب صاحب کے دفاع میں ایک مبسوط مضمون ’’ اشاعت السنہ‘‘ میں لکھنا پڑا۔ اور ’’گورنر ڈفرن اور سرلیپل گریفن کے حضور میں‘‘ نہایت عاجزی کے ساتھ التجا کرنا پڑی کہ وہ نواب صاحب موصوف کے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان کا خطاب بحال فرمائیں۔ وہ گورنمنٹ کے حقیقی اور دلی خیرخواہ ہیں۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا شمار حکومت انگریزی کے دلی خیر خواہوں اور حقیقی وفاداروں میں ہوتا تھا اور حکومت کی نگاہ میں ان کی شہادت بڑی وقیع اور پختہ سمجھی جاتی تھی۔ لیکن ان کی یہ اپیل بالکل ناقابل التفات سمجھی گئی اور حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اسی لئے پنڈت لیکھرام نے مارچ ۱۸۸۶ء میں حضرت اقدس کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا’’آپ تو مقبولوں کے سرغنہ ہیں اور آپ کی دعا تو تقدیر معلق کو باسلوبی ٹال سکتی ہے۔۔۔۔صدیق حسن خاں معزول ہیں اور ان کی نسبت جوجو مقدمات اور غبن مال سرکاری دائر ہیں ان سے نہایت ملول ہیں۔۔۔۔جناب بیگم صاحبہ والئی بھوپال صدیق حسن خاں معزول کو تین لاکھ دے کر خارج کرنا چاہتی ہیں ان کا ارادہ نسخ کیجئے۔‘‘ (۷)
خدا کی شان پنڈت لیکھرام نے تو یہ بات طنزاً کہی تھی مگر آپ ہی کی دعا کی برکت سے حالات میں تبدیلی واقع ہوئی جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب معاملہ تشویشناک صورت اختیار کرتا دکھائی دیا تو خود نواب صاحب موصوف نے سر تاپا عجزو انکسار بن کر حضرت اقدس کی خدمت میں درخواست دعا لکھی اور مولوی محمد حسین بٹالوی نے حضرت اقدس کی خدمت میں ان کی خدمات پیش کرتے اور دعا کی سفارش کا پیغام بھجواتے ہوئے حافظ محمد یوسف صاحب کو قادیان روانہ کیا۔ حافظ صاحب کا بیان ہے کہ میں نے جب حاضر ہو کر حضورؑ کی خدمت میں دعا کی درخواست پیش کی تو حضرت اقدس نے اولاً دعا کرنے سے انکار کردیا اور براہین کا واقعہ بیان کر کے یہ بھی فرمایا کہ وہ خدا کی رضا پر گورنمنٹ کی رضا کو مقدم کرنا چاہتے تھے اب گورنمنٹ کو راضی کرلیں۔ موحد ہونے کا دعویٰ کر کے ایک زمینی حکومت کے خوف اور وہ دین کے معاملہ میں جس میں خود اس حکومت نے ہر قسم کی آزادی دے رکھی ہے اس پر بہت دیر تک تقریر فرماتے رہے۔ چوں کہ مجھ پر مہربانی فرماتے تھے۔ میں نے بھی پیچھا نہ چھوڑا عرض کرتا ہی رہا۔ نواب صاحب کی طرف سے معذرت بھی کی آخر حضرت صاحب نے دعا کرنے کا وعدہ فرما لیا اور میں تو اسی غرض سے آیا تھا جب تک آپ نے دعا نہ کردی اور یہ نہ فرمایا کہ میں نے دعا کردی ہے وہ توبہ کریں خدا تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے وہ رحم کرے گا حکومت کے اخذ سے وہ بچ جائیں گے۔ خود حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ واقعہ اس رنگ میں بیان فرمایا ہے کہ (نواب صاحب موصوف نے ۔ ناقل)’’بڑی انکساری سے میری طرف خط لکھا کہ میں ان کے لئے دعا کروں۔ تب میں نے اس کو قابل رحم سمجھ کر اس کے لئے دعا کہ تو خدا تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ سرکوبی سے اس کی عزت بچائی گئی۔ میں نے یہ اطلاع بذریعہ خط ان کو دے دی اور کئی اور لوگوں کو بھی جو ان دنوں میں مخالف تھے یہی اطلاع دی۔ چنانچہ منجملہ ان کے حافظ محمد یوسف ضلعدار نہرحال پنشنر ساکن امرت سر اور مولوی محمد حسین بٹالوی بھی ہیں۔‘‘(۸) حافظ صاحب کا یہ بھی بیان ہے کہ میں نے ’’براہین احمدیہ ‘‘ کی خریداری کے لئے نواب صاحب کی طرف سے درخواست کی آپ نے اس کو منظور نہ فرمایا۔ ہر چند عرض کیا گیا آپ راضی نہ ہوئے فرمایا میں نے رحم کر کے ان کے لئے دعا کردی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ اس عذاب سے بچ جائیں گے میرا یہ فعل شفقت کا نتیجہ ہے ایسے شخص کو جس نے کتاب کو اس ذلت کے ساتھ واپس کیا میں اب کسی قیمت پر بھی کتاب دینا نہیں چاہتا۔ یہ میری غیرت اور ایمان کے خلاف ہے۔ ان لوگوں کو جو میں نے تحریک کی تھی خدا تعالیٰ کے مخفی اشارہ کے ماتحت اور ان پر رحم کرکے کہ یہ لوگ دین سے غافل ہوتے ہیں براہین کی اشاعت میں اعانت ان کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے اور خدا تعالیٰ انہیں کسی اور نیکی کی توفیق دے۔ ورنہ میں نے ان لوگوں کو کبھی امید گاہ نہیں بنایا۔ ہماری امید گاہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اوروہی کافی ہے نواب صاحب سنگین مقدمہ میں پانچ سال تک مبتلا رہے اور بالاخر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق انہیں حکومت کے مواخذہ سے بھی بچالیا اور ان کے خطابات بھی بحال کردئیے گئے۔ لیکن افسوس وہ بحالی کی خبر ملنے سے پہلے ہی اس دار فانی سے چل بسے۔ (۹)
مرزا غلام قادرصاحب (برادر اکبر) کی رحلت
حضرت مسیح موعودؑ کی شفیق والدہ آپ سے ۱۸۔ اپریل۱۸۶۷ء کو اور والد بزرگوار ۲۔ جون ۱۸۷۶ء کو جدا ہوچکے تھے اب ۱۸۸۳ء میں والد بزرگوار کے انتقال کے سات سال بعد آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب بھی ۹۔ جولائی کو رحلت فرماگئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر پچپن سال کے لگ بھگ تھی جو دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ تھی ورنہ وہ تو پندرہ سال پہلے ہی لقمہ اجل ہوچکے ہوتے کیونکہ انہیں کم وبیش چالیس سال کی عمر میں ایک شدید بیماری لاحق ہوگئی تھی اوروہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ رہ گئے تھے اور نقاہت کایہ عالم ہوگیا تھا کہ چارپائی پر لیٹتے تو کسی کو احساس تک نہ ہوتا کہ یہاں کوئی شخص پڑا ہے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر حضرت اقدس کے والد بزرگوار نے جو ایک حاذق طبیب تھے صاف کہدیا کہ اب یہ چند دن کا مہمان ہے بلکہ خود حضرت مسیح موعود ؑ کو بھی قبل ازیں الہاماً بتایا جا چکا تھا کہ پندرہ دن تک ان کی عمر کا خاتمہ یقینی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی بے انتہا قدرتوں کا نظارہ کرنے کے لئے جناب الٰہی کی طرف توجہ کی چنانچہ خدا کے فضل اور آپ کی روحانی توجہ اور دعا کی برکت سے پندرہ دن پندرہ سالوں میں بدل گئے اور مرزا غلام قادر صاحب جو اپنی زندگی کے دن پورے کر چکے تھے ’’زندہ ‘‘ ہو کر چند روز تک بالکل صحت یاب ہوگئے اور اس کے بعد پندرہ برس تک بقید حیات رہے۔
مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی وفات کا فوری سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مرزا اعظم بیگ لاہوری سابق اکسٹرااسسٹنٹ کمشنر نے بعض بے دخل شرکاء کی طرف سے آپ کی خاندانی جائیداد میں حصہ دار بننے کے لئے نالش دائر کردی۔ اور مرزا غلام قادر صاحب اپنی کامیابی کو یقینی سمجھتے ہوئے مقدمہ کی پیروی میں مصروف ہوگئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں بھی اور خاندان کے دوسرے تمام افراد کو بھی کھول کھول کر سنا دیا تھا کہ ہمارے لئے مقدمہ میں فتح یابی مقدر نہیں ہے اس لئے اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔ لیکن وہ ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے اور انہوں نے جواب دیا کہ اب ہم مقدمہ میں بہت کچھ خرچ کر چکے ہیں۔ اگر پہلے کہتے تو ہم مقدمہ نہ کرتے مگر یہ بے حقیقت بات تھی۔ دراصل انہیں اپنی کامیابی کا ابتداء سے کامل یقین تھا اور ماتحت عدالت میں کامیاب بھی ہوگئے مگر بالاخر چیف کورٹ میں ان کے خلاف ڈگری ہوئی اور تمام عدالتوں کا خرچہ بھی ان کے ذمے پڑا ۔ اور پیروی مقدمہ میں جو بھاری قرضہ اٹھایا تھا وہ بھی ادا کرنا پڑا ۔جس وقت ڈگری ہو جانے کی خبر آئی تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے کمرے میں تھے مرزا غلام قادر صاحب باہر سے کانپتے ہوئے ڈگری کا پرچہ ہاتھ میں لئے اندر آئے اور حضرت کے سامنے وہ کاغذ ڈال دیااور کہا’’لے غلام احمد جوو کہنداسی اوہوای ہوگیا اے ‘‘۔ یعنی دیکھو غلام احمد جوتم کہتے تھے وہی ہوگیا ہے ۔ اور پھر غش کھا کر گر گئے۔ بہرحال انہیں ڈگری سے شدید صدمہ ہوا۔ اور وہ اس غم میں سخت بیمار ہوگئے اور یہی بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔ آپ تقریباً دو سال اس بیماری میں مبتلا رہے۔ جس دن آپ کی وفات مقدر تھی۔ اس کی صبح کو حضرت اقدس کو الہام ہوا کہ ’’جنازہ ‘‘ اور شام ۷ بجے وہ انتقال کر گئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یاد الٰہی اور خدمت دین میں جس درجہ استغراق تھا اسی قدر شیفتگی اپنے والد بزرگوار کے بعد مرزا غلام قادر صاحب کو دینوی معاملات میں تھی۔ ایک کا دل اسلا م کی گم گشتہ حکومت کو دنیا بھر میں قائم کرنے کے لئے ہر لمحہ مضطرب اور بے قرار تھا اور دوسرے کے مدنظر فقط قادیان کی مٹی ہوئی ریاست کے باقی ماندہ نقوش کا رنگ و روغن اور ان کی حفاظت تھی۔
مطمح نظر کا یہ بعد المشرقین ہی تھا جس کی وجہ سے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مسلک ہمیشہ ناگوار گزرتا تھا لیکن اگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرح کشفی آنکھ سے کبھی یہ دیکھ پاتے کہ جس جائیداد کی واپسی کی خاطر وہ اپنی عمرو دولت ضائع کر رہے ہیں وہی آپ کے چھوٹے بھائی کی روحانی برکتوں کے طفیل کچھ عرصہ بعد خود بخود ان کے خاندان میں منتقل ہو جائے گی اور پھر حضرت مسیح موعود ؑ اور آپ کے خاندان کی روحانی عظمت کا سکہ ساری دنیا پر بیٹھ جائے گا تو ممکن نہیں تھا کہ وہ اس حقیر اور معمولی مقصد کا خیال تک دل میں لاتے ۔ انہیں حضرت مسیح موعود ؑ نے مقدمہ میں ناکامی کی قبل ازوقت خبر بھی دی مگر وہ اپنی افتادہ طبع کے باعث اپنی رائے بدلنے پر قادر نہیں ہو سکے ۔
اس خالص دینی نقطہ نگاہ سے قطع نظر وہ بڑے طنطنے کے انسان تھے شکل و شباہت نہایت درجہ پر رعب پائی تھی انہوں نے محکمہ نہر اور قطع گورداسپور کے دفتر میں ایک لمبا عرصہ ملازمت کی اور ہر جگہ اپنی اصابت رائے اور معاملہ فہمی سے حکومت کے بڑے بڑے افسروں کو اپنا مدح بنا لیا۔ وہ شجاعت اور غریب پروری کی نہایت اعلیٰ صفات سے پوری طرح متصف تھے۔ آپ کو اگرچہ حضرت اقدسؑ کے روحانی مشرب سے کوئی مناسبت نہیں تھی مگر آپ حضور کا احترام کرتے تھے۔ آپ کے روحانی کمالات شب بیداری اور دعائوں کی قبولیت کے قائل تھے۔ خاندانی مذاق کے موافق شعرو شاعری میں بھی درک تھا اور مفتون تخلص کرتے تھے۔
مرزا غلام قادر صاحب مرحوم لاولد تھے اوران کی جائیداد کے بھی آپ ہی وارث تھے ان کے ورثاء میں آپ کے سوا کوئی اور شخص ہوتا تو اپنے بھائی کی وفات کے معاً بعد اس جائیداد پر قابض ہو جاتا مگر آپ نے اس موقعہ پر یہ شاندار نمونہ پیش فرمایا کہ آپ نے اپنی بھاوج (۱۰) حرمت بی بی صاحبہ کی دلداری کے لئے جائیداد پر قبضہ نہیں کیا بلکہ پوری جائیداد اپنے فرزند اور ان کے متبنی حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان (۱۱) احمد صاحب کے زیر انتظام کر دی اور خود بد ستور اعلائے کلمۃ الاسلام ہی میں مصروف رہے ۔ بعد کو جب وہ ملازم ہوگئے اور جائیداد تقسیم ہو کر نصف ترکہ آپ کے نام درج ہوگیا تب بھی آپ کو ان معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ مرزا اسمٰعیل بیگ صاحب یا دوسرے خدام اس کی نگرانی کرتے تھے اور جو کچھ وہ لا دیتے حضرت اقدس تحقیق کئے بغیر وصول کر لیتے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا کہ بعض ہوشیار کارندے چالاکی سے آپ کو نقصان بھی پہنچا دیتے ۔ مگر آپ ان باتوں سے بالکل بے نیاز ہو کر اپنی دینی خدمت میں مستغرق رہتے تھے۔ دراصل بات یہ تھی کہ آپ کی بھاوج نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو رسمی طور پر متبنی قرار دیا تھا اور درخواست کی تھی کہ اسے نصف حصہ دے دیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تبنیت کے سوال پر تو صاف صاف کہدیا کہ اسلام میں یہ جائز نہیںہے۔ مگر محض ان کی دلداری کی خاطر آدھی جائداد مرزا سلطان احمد صاحب کے نام لکھ دی اور یہ سمجھ لیا کہ آپ نے ان کا حصہ اپنی زندگی میں ادا کر دیا ہے مرزا غلام قادر صاحب مرحوم نے اپنی زندگی میں ڈگری ہونے کے باوجود فریق مخالف کو جائیداد سپرد نہیں کی تھی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی وفات کے بعد جہاں مرزا سلطان احمد صاحب کو نصف جائیداد دی وہاں انہیں بلا کر قبضہ دے دینے کا ارشاد بھی فرمایا۔ نیز اراضی کی تقسیم کے متعلق نصیحت فرمائی کہ شرکاء جس طرح چاہیں تقسیم کر لیں تم دخل نہ دینا اور تسلیم کر لینا۔ چنانچہ اس موقعہ پر خاندان کے ایک قدیم کارکن کی طرف سے ( جو اس وقت مرزا اعظم بیگ ہی کے ملازم تھے) اگرچہ یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ وہ مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی طرح تقسیم قبول کرنے پر ہر گز آمادہ نہ ہوں۔ مگر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کی تعمیل میں فریق مخالف کو قبضہ بھی دے دیا اور جائیداد کا ایک حصہ نہایت سستے داموں فروخت کرکے اخراجات مقدمہ میں ادا کر دیئے۔ (۱۲)
مقام ماموریت سے متعلق بعض مزید تفصیلات
ماموریت کا وہ منصب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۸۸۲ء میں عطا ہوا تھا اس کے متعلق بعض مزید تفصیلات اس سال آپ پر ظاہر کر دی گئیں اور آپ کو بتایا گیا کہ آپ محدث اللہ ، عیسیٰ دوران اور خدا کے نبی ہیں(۱۳) عجیب بات یہ ہے کہ جیسا کہ یہودی تاریخ کے مطابق حضرت مسیح ناصری اپنے متبوع حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے ٹھیک ۱۲۷۲برس بعد پیدا ہوئے تھے اسی حضرت اقدس علیہ السلام کو بھی رسول اکرم ﷺ کے دعویٰ رسالت سے ٹھیک ۱۲۷۲ برس بعد ’’عیسیٰ ‘‘ کے عہدے پر سر فراز فرمایا گیا ۔ آنحضرتﷺ نے ۶۱۰ء میں دعویٰ نبوت فرمایا اور ٹھیک ۱۲۷۲سال بعد ۱۸۸۳ء میں یہ الہامات نازل ہوئے گویا مسیح موسوی کا جسمانی اور مسیح محمدی کا روحانی ظہور اپنے اپنے دائرہ میں ایک ہی سال میں وقوع میں آیا۔ (۱۴)
جیسا کہ ابتدا میں بتایا جا چکا ہے ان الہامات کے نزول کے ساتھ تصرف الٰہی سے یہ ہوا کہ آپ پر اپنی بعثت کے ابتدائی ایام میں یہ راز بالکل نہیں کھلا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسیح بنا کر بھیجا ہے اور آپ نے براہین احمدیہ حصہ چہارم میں یہ رسمی عقیدہ بھی درج فرمادیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے ۔ حضرت مسیح موعودؑ کا اس زمانہ میں اپنے قلم سے مسیح ناصری کی دوبارہ آمد کا اقرار کرنا خدائی مصلحت کے مطابق اور حضور کی سادگی اورعدم بناوٹ پر ایک چمکتا ہوا نشان تھا۔ چنانچہ بعد کو جب دعویٰ مسیحیت کے وقت آپ پر حیات مسیح کے متعلق گذشتہ عقیدہ کی آڑ میں اعتراضات کئے گئے تو آپ نے صاف جواب دیا کہ ’’جب تک مجھے خدا نے اس طرف توجہ نہ دلائی اور بار بار نہ سمجھایا کہ تو مسیح موعود ہے اور عیسیٰ فوت ہو گیا ہے تب تک میں اسی عقیدہ پر قائم تھا جو تم لوگوں کا عقیدہ ہے اسی وجہ سے کمال سادگی سے میں نے حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی نسبت براہین میں لکھا ہے ۔ جب خدا نے مجھ پر اصل حقیقت کھول دی تو میں اس عقیدہ سے باز آگیا۔ میں نے بجز کمال یقین کے جو میرے دل پر محیط ہو گیا اور مجھے نور سے بھر دیا۔ اس رسمی عقیدہ کو نہ چھوڑا ۔ حالانکہ اسی براہین میں میرا نام عیسیٰ رکھا گیا تھا اور مجھے خاتم الخلفاء ٹھہرایا گیا تھا اور میری نسبت کہا گیا تھا کہ توہی کسر صلیب کرے گا۔ اور مجھے بتلایا گیا تھا تیری خبرقرآن و حدیث میں موجود ہے اور توہی اس آیت کا مصداق ہے ۔ ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرۃ علی الدین کلہ۔ نیز فرمایا۔’’پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے بڑی شدو مد سے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے رسمی عقیدہ پر جمارہا۔ جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے تب تواتر سے اس بارہ میں الہامات شروع ہوئے کہ توہی مسیح موعود ہے۔ پس جب اس بارہ میں انتہاء تک خدا کی وحی پہنچی اور مجھے حکم ہوا فاصدع بما تومر یعنی جو تجھے حکم ہوتا ہے وہ کھول کر لوگوں کو سنا دے اور بہت سے نشان مجھے دیئے گئے اور میرے دل میں روز روشن کی طرح یقین بٹھا دیا گیا تب میں نے یہ پیغام لوگوں کو سنا دیا یہ خدا کی حکمت عملی میری سچائی کی ایک دلیل تھی۔ اور میری سادگی اورعدم بناوٹ پر ایک نشان تھا اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور انسانی منصوبہ اس کی جڑ ہوتی تو میں براہین احمدیہ کے وقت میںہی یہ دعویٰ کرتا کہ میں مسیح موعود ہوں۔‘‘(۱۵)
مسلمانان عالم کے روشن مستقبل کے متعلق ایک خبر
انیسویں صدی کا ربع آخر دنیائے اسلام کے لئے نہایت درجہ مایوس کن ، جگر سوز اور روح فرسادور تھا۔ ہندوستان میں ۱۸۵۷ء کے ’’انقلاب ‘‘ کے بعد مغلیہ خاندان کی بساط سیاست پلٹ چکی تھی۔ ترکی اور ایران کی منڈیوں پر یورپ کے سرمایہ دار قابض تھے۔ مصر نہر سویز کے جاری ہونے پر برطانوی اقتدار کے شکنجے میں آچکا تھا اور وہاں احمد عربی پاشاکی قیادت میں فرنگی اور ترکی اقتدار کے خلاف قومی تحریک اٹھ چکی تھی اور برطانیہ کی امداد کے لئے ہندوستانی فوج کی نئی کمک پہنچ رہی تھی عرب قبائل والئی نجد کے خلاف خانہ جنگی میں مصروف تھے۔ ٹیونس ، الجیریا اور مراکش فرانسیسی اثر کے زیر نگین تھے اور ایران میں ہر طرف بد نظمی اور ابتری کا دور دورہ تھا۔ (۱۶) اور یورپ کی سیاسی قوتیں جو طوفان بن کر اٹھی تھیں ہر طرف آندھی بن کر چھا چکی تھیں اور اسلامی دنیا مرد بیمار کی طرح سسکتے ہوئے بزبان حال پکار رہی تھی۔
وہ بیمار قریب مرگ ہے اسلام واویلا مسیحا کو نہیں ہے جس کی امید شفاباقی (۱۷)
اللہ تعالیٰ نے اسلامی دنیا کی زہرہ گداز اور درد انگیز کس مپرسی کے اس دور میں مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ رویا خبر دی کہ ’’عنایت الہٰیہ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ ہے اور یقین کامل ہے کہ اس قوت ایمان اور اخلاص اور توکل کو جو مسلمانوں کو فراموش ہوگئے ہیں پھر خداوند کریم یاد دلائے گا اور بہتوں کو اپنے خاص برکات سے متمتع کرے گا۔ کہ ہریک برکت ظاہری اور باطنی اسی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘(۱۸)
مسلمانوں کی ازسر نو ترقی اور عروج کے بارہ میں یہ تاریخی الہام بھی نازل ہوا کہ ’’بخرام کہ وقت تو نزدیک رسیدوپائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد‘‘ یعنی خوش ہوکہ تیری ترقی کا وقت قریب آپہنچا اور مسلمانوں کا قدم ایک بہت بلند مینار پر مضبوط پڑا۔ اس الہام الٰہی میں مسلماناں عالم کے عظیم الشان اور روشن مستقبل کی خبر دی گئی تھی۔
اللہ تعالیٰ کی ان بشارتوں کے مطابق اس کے فضل سے نہ صرف ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء؁ سے پاکستان ایسی عظیم الشان اسلامی مملکت معرض ظہور میں آچکی ہے بلکہ دنیا کے مسلمان پستی کی حالت سے نکل کر آہستہ آہستہ شان وشوکت کے اس مضبوط اور بلند مینار کی طرف آرہے ہیں جس کی خبر آپ کو دی گئی تھی۔ ایران ۔مصر ٹیونس،مراکش اورلیبیا اب غیر ملکی چنگل سے آزاد ہوچکے ہیں ۔سوڈان خود مختار ہوچکا ہے ۔انڈونیشیا میں مسلمان حکومت قائم ہوچکی ہے۔ ترکی بڑی تیزی سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ الجیریا وغیرہ ممالک کو ابھی تک غلامی کی زنجیروں میں ہیں مگران کی تحریک آزادی عالمی رائے کا مرکز بن رہی ہے۔ غرض ۱۸۸۳ء؁ کے مایوس کن اور خطرناک حالات کا نقشہ یکسر بدل چکا ہے اوراس کی جگہ ایک حوصلہ افزا ماحول نے لے لی ہے۔(جولائی ۱۹۶۲ء؁ میں الجیریا بھی آزاد ہوچکا ہے )
بانی آریہ سماج پرآخری اتمام حجت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابتداء ہی سے تبلیغ دین کا ایک پرجوش اوربے پناہ جذبہ عطا ہوا تھا اورآپ غیر مذاہب کے سربرآوروہ رہنمائوں کو اسلام کا پیغام
پہنچانا اوران کی ملحدانہ تعلیمات وعقائد کا رد کرنے کو اپنا فرض اولین سمجھتے تھے ۔آپ نے ۱۸۷۸ء؁ میں ’’پنڈت دیانندجی سرسوتی ’’ کوروحوں کے ان گنت ہونے کے متعلق چیلنج دے کرخط وکتابت کی جو طرح ڈالی تھی اس کا مقصد وحید بھی یہی تھا کہ وہ ایک جدید ہندو فرقہ کے بانی تھے ۔اگروہ اپنے غلط اوربے بنیاد عقائد سے رجوع کرکے آپ کی طرف متوجہ ہوجاتے تو شاید ہندوجاتی میں اسلام کے متعلق ایک عام روپیدا ہوجاتی لیکن افسوس پنڈت جی نے داعی حق کی آواز سن کر چپ سادھ لی۔ اورپوری عمر اپنے غلط، بے حقیقت اورخود ساختہ عقائد کے پرچار میں بسر کردی اوراسی بے خبری میں ۳۰۔اکتوبر ۱۸۸۳ء؁ کو اس جہان سے کوچ کرگئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی وفات سے صرف چھ ماہ قبل ان پر آخری دفعہ اتمام حجت کرنے کے لئے متعدد رجسٹری خطوط لکھے جنمیں صاف لفظوں میں یہ انتباہ کرتے ہوئے کہ دنیا چند روزہ ہے اورآخر کار خدا سے معاملہ پڑنے والا ہے۔ انہیں ازراہ شفقت ومحبت توجہ دلائی کہ وہ اپنے باطل خیال پر تعصب وعناد سے جمے رہنے کی بجائے قرآن مجید کی صداقت کے عقلی دلائل اوراس کی روحانی برکات ملاحظہ کرنے کے لئے حضور کی تصنیف’’براہین احمدیہ‘‘ کامطالعہ کریں۔ نیز یہ وعدہ بھی فرمایا کہ اگروہ حق وصداقت کی جستجو میں اس کتاب کا مطالعہ کرنے پر رضامند ہوں تو انہیں یہ قیمتی کتاب مفت ارسال فرمادیں گے۔ آپ نے انہیں یہ پیشکش بھی فرمائی کہ کتاب کے غیرجانبدارانہ مطالعہ کے بعد بھی ان کی نظر میں اسلام کی صداقت مشکوک رہے تو وہ مزید تسلی وتشفی کے لئے قادیان آئیں اوران کی آمدورفت اورقیام کے واجبی اخراجات آپ خود برداشت کریں گے ۔پنڈت دیانند جی نے ان خطوط کی رسید بجھوادی مگر اپنی گزشتہ روایات کے مطابق اس بارہ میں آخر وقت تک بالکل ساکت رہے۔
پنڈت جی کی یہ اتنی کھلی شکست تھی کہ ان کے سوانح نگاروں نے جہاں ان کی زندگی کے واقعات پر تفصیلی قلم اٹھایا وہاں اس عظیم الشان واقعہ کی طرف اشارہ تک کرنے کی جرأت نہیں کر سکے۔ پنڈت دیانند کی وفات کے متعلق بھی آپ کوقبل از وقت اطلاع دی گئی تھی جسے آپ نے قادیان کے ہندوئوں اورآریوں کو بتادیا تھا۔ اس طرح پنڈت دیانند کی زندگی توان کی ہزیمت وشکست کا ثبوت تھی ہی ان کی موت بھی اسلام کی زندگی کا نشان بن گئی ۔






ماموریت کا تیسرا سال
حضرت اقدسؑ کا پہلا سفرلدھیانہ(۱۸۸۴ء؁)
لدھیانہ کے عقیدت مندوں کا اصرار:۔ ’’ براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت نے یوں تو ملک بھر میں ایک تہلکہ مچادیا تھا مگرلدھیانہ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ یہاں حضرت اقدسؑ کے عقیدت مندوں کی ایک جماعت قائم ہوگئی تھی جس میں حضرت صوفی احمد جان صاحب‘قاضی خواجہ علی صاحب (۱) نواب علی محمد صاحب آف جھجر، (۲) مولوی عبدالقادر صاحب،(۳) شہزادہ عبدالمجید صاحب (۴) میر عباس علی صاحب وغیرہ بہت سے نفوس شامل تھے۔ یہ بزرگ آپ کے حلقہ ارادت میں آنے کے بعد ہزار جان سے چاہتے تھے کہ حضرت اقدسؑ ان کے ہاں لدھیانہ تشریف لائیں اوراس غرض سے ان کی طرف سے ۱۸۸۲ء؁ میں باصرار درخواست بھی حضور انور کی خدمت میں پہنچی اور حضور نے اس ازراہ شفقت منظور فرماتے ہوئے وعدہ بھی کرلیا۔ لیکن حالات کچھ ایسے پیدا ہوگئے کہ مختلف اوقات میں عزم سفر کرنے کے باوجود اس سال وہاں جانے کی نوبت نہ آسکی ۔۱۸۸۴ء؁ کے آغاز میں لدھیانہ کے دوستوں نے ایک دفعہ پھر میر عباس علی صاحب کے ذریعہ سے (جوان دنوں لدھیانہ میں گویا حضرت اقدس کے نمائندے تھے اور جن کے متعلق حضرت اقدس نے یہاں تک حکم دے رکھاتھا کہ لدھیانہ سے جو دوست حضور کی ملاقات کے لئے آئیں پہلے ان سے مل کر آئیں تا تسلی رہے) باربار اپنی اس دلی تمنا کا اظہار کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ اذن الٰہی کے بغیر کوئی قدم اٹھانا معصیت خیال کرتے تھے اس لئے آپ نے میر عباس علی صاحب کو ۱۸۔جنوری ۱۸۸۴ء؁ کو تحریر فرمایا کہ ’’کچھ خداوند کریم ہی کی طرف اسباب آپڑتے ہیں کہ رک جاتا ہوں ۔نہیں معلوم حضرت احدیت کی کیا مرضی ہے عاجز بندہ بغیر اس کی مشیت کے قدم اٹھا نہیں سکتا۔نیز لکھا کہ ’’لوگوں کے شوق اورارادت پرآپ خوش نہ ہوں حقیقی شوق اور ارادت کہ جو لغزش اورابتلاء کے مقابلہ پر کچھ ٹھہر سکے ۔ لاکھوں میں کسی ایک کو ہوتا ہے‘‘ اس سلسلہ میں انہیں اپنا ایک رؤیا بھی لکھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میر عباس علی صاحب کی باطنی کیفیت کے متعلق یہ نظارہ دکھایا گیا تھا۔ کہ آپ ایک مکان میں ہیں اور بعض نئے نئے آدمی آپ سے ملنے آئے ہیں اور میر عباس علی صاحب بھی ان کے ساتھ ہیں اوریہ سب حضور سے بیزار ہوکرایک دوسرے مکان میں جابیٹھے حضور ان لوگوں میں جن میں شاید میر صاحب بھی ہیں امامت کی غرض سے تشریف لے گئے لیکن پھر بھی انہوںنے بیزاری سے کہا کہ ہم نماز پڑھ چکے ہیں تب حضور نے ان سے کنارہ کش ہوکر باہر نکلنے کے لئے قدم اٹھایا معلوم ہوا کہ ان سب میں سے ایک شخص پیچھے چلا آتا ہے جب نظر اٹھا کر دیکھا تو میر صاحب تھے(۵) اس غیبی اطلاع پر تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اجازت عطا کردی گئی تو آپ نے میر عباس علی صاحب کو جو انہی دنوں حضور کی خدمت میں قادیان آئے ہوئے تھے یہ ہدایت فرمائی کہ لدھیانہ میں آپ کے لئے کوئی ایسی قیام گاہ تجویز کی جائے جس میں تخلیہ اور ملاقات کے لئے الگ الگ کمرے ہوں اوران میں مختصر ضروری سامان بھی موجود ہو۔ میر صاحب حضرت کا فرمان سن کر خوشی خوشی لدھیانہ پہنچے اور حضور کے استقبال کے لئے تیاریاں ہونے لگیں۔ لدھیانہ میں حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کے مریدوں کا ایک جال بچھا ہوا تھا انہیں آپ نے حضرت اقدس کی تشریف آوری کی خصوصی اطلاع دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ کثیر تعداد میں اسٹیشن پر حاضر ہوں۔ محلہ صوفیاں میں جہاں میر عباس علی صاحب سکونت رکھتے تھے انہیں کے اعزہ واقارب سے ایک دوست ڈپٹی امیر علی صاحب تھے جن کا مکان حضرت کی فردوگاہ کے لئے بہت موزوں تھا۔ مکان کی چابی ڈپٹی صاحب کے چچا میر نظام الدین صاحب کے پاس تھی جب انہیں بتایا گیا کہ اس مکان پر حضرت اقدس کے قیام فرمانے کی تجویز ہے تو انہوںنے بخوشی چابی دے دی ۔انہیں کہا گیا کہ وہ مکان میں سے تکلفات کا سامان اٹھالیں کیونکہ للہی محفل ہے اس میں غریب وامیر آئیں گے۔ ہم یہاں چٹائیاں بچھادیں گے مگرانہوںنے جواب دیا کہ میرے سامان کو قدم بوسی کی برکت نصیب ہوگی اسے یہیں رہنے دیا جائے ہم اسے اپنے ساتھ تھوڑا ہی لے جائیں گے حضرت صوفی احمد جان صاحب نے اپنی فراست کی بناء پر اپنے مریدوں کو پہلے سے کہہ رکھا تھا کہ احادیث میں اس زمانہ کے مامور کا حلیہ موجود ہے اس لئے اگرچہ میں نے حضرت کی پہلے کبھی زیارت نہیں کی میں آپ کو از خود پہچان لوں گا۔
لدھیانہ میں تشریف آوری اوربے مثال استقبال:۔ غرض یہ کہ اہل لدھیانہ حضرت اقدسؑ کی تشریف آوری کیلئے نہایت بے قراری سے چشم براہ تھے کہ حجور اطلاع کے مطابق اپنے تین خدام حافظ حامد علی صاحب مولوی جان محمد صاحب(۶) اور لالہ ملاوامل صاحب کی رفاقت میں لدھیانہ اسٹیشن پر تشریف لے آئے۔ یہ ۱۸۸۴ء؁ کی پہلی سہ ماہی کا واقعہ ہے ۔اسٹیشن پر زائرین کا بے پناہ ہجوم تھا یوں معلوم ہوتا تھا کہ پورا شہر امڈ آیا ہے۔ لدھیانہ کے دوستوں میں میر عباس علی صاحب کے سوا کوئی بھی حضور کی شکل مبارک سے واقف نہیں تھا اس لئے جب گاڑی کا وقت قریب آیا تو میر صاحب اوران کے ساتھ بہت سے دوست پلیٹ فارم کے اندر چلے گئے اور لوگوں کی نظریں اس طرف جم گئیں کہ میر صاحب جس بزرگ سے مصافحہ کریں گے وہی حضرت اقدس ہوں گے لیکن اتفاق یہ ہوا کہ حضور اپنے خدام کے جھرمٹ میں گاڑی کے اگلے ڈبوں سے اتر کر پھاٹک کی طرف تشریف لے آئے۔ پھاٹک پراس وقت سید میر عنایت علی صاحب کھڑے تھے۔(۷) جو یہ خیال کرکے پہلے ہی سے یہاں آگئے تھے کہ حضرت اقدس بہر حال یہیں سے گزریں گے۔ اور گو انہیں حضور کی زیارت کا قبل ازیں موقعہ نہیں ملا تھا مگر آنے والے مسافروں میں سے جونہی ان کی نظر حضور کے مقدس اورنورانی چہرے پر پڑی وہ فوراً بھانپ گئے کہ حضرت اقدس یہی ہیں اورجھٹ مصافحہ کرتے ہوئے دست بوسی کرلی۔ اس موقعہ پر حضرت صوفی احمد جان صاحب ؓ نے بھی جیسا کہ انہوں قبل ازوقت بتادیا تھا اسٹیشن پر حضور کو دیکھتے ہی بتادیا کہ حضرت اقدس یہ ہیں حضرت صوفی صاحب کے ساتھ اس وقت ان کے دونوں فرزند یعنی حضرت پیر منظور محمدؐ صاحب اور حضرت پیر افتخار احمد صاحب اور متعدد مرید شاگرد مثلاً مولوی قطب الدین صاحب بھی موجود تھے(۸) جوان دنوں تحصیل علم کی خاطرلدھیانہ میں مقیم تھے ۔ مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ حضور کو دیکھتے ہی میری زبان سے نکلا۔ھٰذا لَیسَ وَجہٗ کاذِبٍ۔
اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو باہر تشریف لاچکے تھے مگرمیر عباس علی صاحب اوران کے ساتھی ابھی تک آپ کی تلاش میں سرگرداں تھے جب انہیں اس میں کامیابی نہ ہوئی تو وہ بھی مختصر وقفہ کے بعد باہر آگئے اور حضور کو دیکھتے ہی مصافحہ کے لئے لپکے ان کا مصافحہ کرنا ہی تھا کہ زائرین شوق دیدار میں ٹوٹ پڑے۔ نواب علی محمد صاحب رئیس آف جھجر نے میر عباس علی صاحب سے کہا کہ میری کوٹھی قریب ہے اور اس کے گرد باغ بھی ہے بہت لوگ حضرت اقدس کی زیارت کے لئے آئیں گے۔ اگر آپ اجازت دیں تو حضرت صاحب کو یہیں ٹھہرا لیا جائے۔ میرصاحب نے کہ آج کی رات یہ مبارک قدم میرے غریب خانے پر پڑنے دیں کل آپ کو اختیار ہے۔ نواب صاحب موصوف مان گئے اور حضرت اقدس علیہ السلام قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بیٹھ کر محلہ صوفیاں میں ڈپٹی امیر علی صاحب کے مکان کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت اقدسؑ کے ساتھ اس وقت ایک بڑا مجمع تھا گویا ایک جلوس کی سی شکل تھی۔ جب مکان پر پہنچے تو نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ حضور نے پہنچتے ہی وضو کیا اور آخر میں اپنی مالیدہ کی جرابوں پر مسح کیا (۹) بعض لوگوں نے جو موجود تھے جب آپ کو پائوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا آپس میں اس کے جواز کے متعلق سرگوشیاں کیں۔ حضرت اقدس جب وضو کرکے مسجد محلہ صوفیاں کے اندر تشریف لائے تو مولوی موسیٰ صاحب نے استفسار کیاکہ حضور اس پر مسح جائز ہے؟ حضور نے فرمایا جائز ہے۔ امامت کے لئے عرض کیا گیا تو فرمایا نہیں نماز مولوی عبد القادر صاحب پڑھائیں گے چنانچہ جب تک حضرت اقدس کا لدھیانہ میں قیام رہا ( نماز فجر کے سوا جس میں حضور خود امامت کراتے تھے) باقی سب نمازیں مولوی صاحب ہی نے پڑھائیں۔
بعض لدھیانوی علماء کی ہنگامہ آرائی!:۔
پہلے روز شام کو میر عباس علی صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔ دوسرے دن صبح کو قاضی خواجہ علی صاحب اور شام کو احمدؐ جان صاحب کے ایک مرید منشی رحیم بخش صاحب نے دعوت کی۔ لدھیانہ کی فضا اس وقت تک پر سکون تھی اور ابھی تک کوئی ناشگوار اور تلخ صورت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اب شام کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مولوی رحیم بخش صاحب کے ہاں تشریف لے گئے تو لدھیانہ کے بعض خدا ناترس علماء کی ایک افسوناک کارروائی سامنے آئی۔ واقعہ یوں ہوا کہ حضرت اقدس آٹھ دس اصحاب کے ہمراہ منشی صاحب کے گھر پہنچے جہاں آپ کو پہلے تو ایک کھلے کمرے میں تشریف رکھنے کے لئے کہا گیا لیکن جب کھانا تیار ہو گیا تو حضور کو ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھادیا گیا۔ کھانا کھاچکے تو مولوی عبدالعزیز لدھیانوی نے ہنگامہ آرائی کے لئے اپنا ایک ایلچی بھیج دیا۔ جس نے آتے ہی حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مولوی عبدالعزیزی صاحب کہتے ہیں قادیان والے مرزا صاحب یا ہمارے ساتھ بحث کریں یا کو توالی چلیں۔ حضرت صوفی صاحب نے جواب دیاکہ ہم کیوں کو توالی چلیں کیا ہم نے کسی کا قصور کیاہے؟ اگر تمہارے مولوی صاحب نے کوئی بات دریافت کرنی ہے تو اخلاق وانسانیت کے ساتھ محلہ صوفیاں میں جہاں حضرت اقدس ٹھہرے ہوئے ہیں دریافت کرلیں حضرت صوفی صاحب نے اپنا جواب ختم کیا ہی تھا کہ خود میزبان یعنی منشی رحیم بخش صاحب نے انہیں یہ خبرسنائی کہ جس کمرہ سے آپ پہلے اٹھ کر آئے ہیں وہاں بعض لوگ جمع ہیں اپنے شکوک پیش کرنا چاہتے ہیں ۔حضرت صوفی صاحب نے انہیں سمجھایا کہ حضرت صاحب کو سفر کی وجہ سے تکان ہے یہ لوگ حضرت اقدس کی قیام گاہ محلہ صوفیاں پر آجائیں لیکن حضرت مسیح موعودؑ نے یہ سن کر فرمایا کہ نہیں ہم بیٹھیں گے اوران لوگوں کی بات سنیں گے کہ وہ کیا کہتے ہیں ۔یہ کہہ کر حضرت اقدس ؑ نے اپنے خدام کے ساتھ پہلے کمرے کی طرف چل دیئے یہاں آئے تو دیکھا کہ کمرہ کھچا کھچ بھرا ہے اور تل دھرنے کو جگہ نہیں ۔ حضور اورآپ کے ساتھیوں کو بمشکل جگہ ملی ان لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے شکوک پیش کریں۔ چنانچہ وہ اعتراضات کرتے رہے اور حضرت مسیح موعودؑ ان کے جوابات دیتے رہے لیکن ان شوریدہ سروں کو تحقیق حق تو مقصود نہیں تھی وہ تو لدھیانہ کے بعض مولویوں کی اشتعال انگیزی پر اپنے جوش غضب کا مظاہرہ کرنے کو آئے تھے جو کرتے رہے۔ اسی موقعہ پر ایک شخص نے یہ سوال بھی کیا کہ آپ بھی پیشگوئیاں فرماتے ہیں اور نجومی اوررمال بھی کرتے ہیں ہمیں صداقت کا پتہ کس طرح لگے؟ حضور نے فرمایا کہ الٰہی نصرت نجومیوں اوررمالوں کے ساتھ نہیں ہوتی لیکن انبیاء علیہم السلام اورمامورین کو نصرت اورکامیابی ملتی ہے اوران کی جماعت روز بروز ترقی کرتی اوران کا اقبال ترقی کرتا ہے خدا کے مامور کا حوصلہ دیکھو کہ میر عباس علی صاحب تو لدھیانہ والوں کا بے جا جوش دیکھ کر گبھرا جاتے مگر حضرت کے چہرے پر قطعاً ملال کے آثار نہیں تھے اور آ پ پوری تسلی اوراطمینان کے لب ولہجہ میں انہیں فرماتے تھے کہ یہ لوگ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں ان کو کرنے دو۔ آخر تھوڑی دیر بعد جب منشی رحیم بخش صاحب نے دیکھا کہ معاملہ طول کھینچ رہا ہے اور مخالفت لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی ہے تو انہوں نے کمال عقل مندی سے کہدیا کہ میں حضرت صاحب کو زیادہ تکلیف نہیں دینا چاہتا آپ لوگوں کے شکوک کے جواب حضرت صاحب نے کافی طور پر دے دیئے ہیں حضور کو تکان ہے چنانچہ حضرت اقدس واپسی کا قصد کرکے اٹھے تو صوفی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ نے میر عباس علی صاحب کو مشورہ دیا کہ مولوی عبدالعزیز صاحب فساد کے خوگر ہیں دوسرے رستہ سے چلنا چاہئے ۔حضرت اقدس نے جو قریب ہی کھڑے سن رہے تھے ۔اس موقعہ پر بھی کوہ استقلال بن کر ارشاد فرمایا نہیں اسی راستہ سے چلیں گے جس راستہ سے اندیشہ کیا جاتاہے غرض فوراً حضور اسی راستہ سے ڈپٹی امیر علی صاحب کے مکان تک تشریف لائے اور راستہ میں کسی شخص کو مزاحم ہونے کی جرات نہیں ہوسکی ۔چوڑے اوراونچے بازار کے سرے تک پہنچے تو لالہ ملاوامل نے میر عباس علی صاحب کو وہ رؤیا یاد دلایا جو حضور نے لدھیانہ والوں کی مخالفت کے متعلق لکھا تھا اوران سے پوچھا کہ وہ رؤیا پورا ہوگیا؟ میر عنایت علی صاحب نے جو اس وقت حضرت اقدس کے ہمراہ تھے پیچھے مڑ کر دیکھا تو فی الواقع میر صاحب کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ اس وقت خود میر عباس علی صاحب نے کھلا اقرار کیا کہ حضور کی رؤیا کمال صفائی سے پوری ہوگئی ہے ۔اگلے دن صوفی احمد جان صاحب کے ہاں دعوت کا انتظام تھا دعوت ختم ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ وہ بھی مزید برکت کے لئے ہمراہ ہوگئے ۔رستہ میں انہوںنے حضرت کے استفسار پر عرض کیا کہ میں نے بارہ چودہ سال رتڑ چھتڑ کی گدی میں مجاہدات کئے ہیں جن سے میرے
اندر اتنی زبردست طاقت پیدا ہوگئی ہے کہ اگر میں اپنے پیچھے آنے والے آدمی پر توجہ کروں تو وہ ابھی گر جائے اور تڑپنے لگے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عادت مبارک کے مطابق اپنی سوٹی کی نوک سے زمین پر نشان بناتے ہوئے فرمایا۔ صوفی صاحب اگر وہ گرجائے تو اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوگا اور اس کو کیا فائدہ ہوگا؟ صوفی صاحب اہل باطن میں سے تھے یہ نکتہ سن کر پھڑ ک اٹھے اوراسی وقت حضور کے سامنے علم توجہ سے ہمیشہ کے لئے توبہ کرلی بلکہ اپنی معرکہ الاراء کتاب طب روحانی کو (جس میں انہوںنے توجہ کے کمالات اوربرسوں کے تجربات پر اتنی مفصل روشنی ڈالی تھی کہ لدھیانہ والوں نے انہیں مسیح دوران کے خطابات دے رکھے تھے) نہ صرف مرتے دم تک خود اٹھا کر نہیں دیکھا بلکہ اپنے مریدوں میں اشتہار دے دیا کہ علم توجہ اسلام سے مخصوص نہیں ہے اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ آج سے میرا کوئی مریداسے دین اسلام کا جزو سمجھ کر استعمال نہ کرے۔ حضرت صوفی صاحب نے ’’طب روحانی‘‘ میں اعلان کیا تھا کہ اس سلسلہ میں ’’نجات جاودانی‘‘ اور’’کمالات انسانی‘‘ کے نام پر دو مزید حصے بھی شائع ہوں گے اورعملاً ان کا مسودہ بھی تیار تھا لیکن اس کے بعد آپ نے وہ مسودہ لے کر چاک کرڈالا بعض لوگوں نے جو ’’طب روحانی‘‘ سے بے حد متاثرتھے بڑے اصرار کے ساتھ آپ سے درخواست کی کہ وہ چیر ا پھاڑا ہوا مسودہ ہی بھیج دیں تا اسی کو مرتب کر کے معلوم ہوسکے کہ کیا لکھا ہے لیکن آپ نے جواب دیا کہ ’’آں قدح ،شکست وآں ساقی نماند‘‘ پنجاب میں ایک آفتاب نکلا ہے جس کے سامنے ستارے رہبری نہیں کرسکتے ۔اس آفتاب کا نام مرزا غلام احمد ہے انہوںنے ایک کتاب’’براہین احمدیہ‘‘ لکھی ہے اسے منگوا کر پڑھو‘‘(۱۰)
زائرین کا ہجوم اور حضور کی مجلس علم وعرفان:۔ بہرکیف زبردست مخالفت کے باوجود جو آپ کی آمد پر اٹھائی گئی تھی لدھیانہ کے گردونواح سے روزانہ ہی صبح وشام بڑی کثرت سے لوگ حاضر ہوتے تھے ۔علماء اور رؤساء کا تو ایک تانتا بندھا رہتا تھا ۔بالخصوص حضرت صوفی احمد جان صاحب نقشبندی ،مولوی شاہ دین صاحب ، مولوی محمد حسن صاحب رئیس اعظم لدھیانہ ، نواب علی محمد خان صاحب جھجر، پیر سراج الحق صاحب نعمانی توپروانوں کی طرح آپ کے گرد رہتے تھے ۔حضرت صوفی احمد جان خود ایک بڑی جماعت کے روحانی پیشوا تھے لیکن وہ حضرت اقدس کی مجلس میں نہایت اخلاص وارادت کے ساتھ دوزانو ہوکر باادب بیٹھتے اور عقیدت مند مریدوں کی طرح آپ کے کلمات طیبات سنتے اور فیض اٹھاتے ۔یہی حال پیر سراج الحق صاحب نعمانی کا تھا۔ حضرت کی مجلس میں ہر قسم کے دینی مسائل کا تذکرہ ہوتا تھا اور حضوربڑی دیر تک حقائق ومعارف کے خزانے لٹاتے اور لوگ مالا مال ہوتے تھے ۔چنانچہ ایک مرتبہ حضور نے اس امر پر لطیف روشنی ڈالی کہ ایمان اوریقین لانے کا فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ کچھ اخفاء بھی ہواگر معاملہ ایسا صاف اورروشن ہوجائے جیسا کہ نصف النہار کے وقت ہوتا ہے اس وقت ایمان لانے کا ثواب نہیں ہوتا۔ اجراسی وقت ہے کہ یُوْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے مطابق کچھ غیبوبت بھی ہواور ایمان لایا جائے ایک دن کسی شخص کے سوال پر حضور نے مسئلہ توحید پر تقریر فرمائی جو کئی گھنٹے تک جاری رہی ۔ حضور کی اعجازی تقریروں میں روحانیت کا دریا بہتا ہوا نظر آتاتھا اورکسی کو آج تک ان آسمانی علوم وحقائق ونکات سننے یا پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اسی دوران میں شہر کے بعض علماء مثلاً مولوی عبدالقادر صاحب نے بھری مجلس میں حضور سے استدعا کی کہ حضور ان کی بیعت قبول فرمائیں۔ مگر حضور نے بلاتامل جواب دیا۔’’ لست بما مور‘‘ ( میں مامور نہیں ہوں) اورپھر اس مجلس میں ٹھہرنا ہی گوارانہ فرمایا۔ اورفوراً باہر سیر کے لئے چل دیئے۔ حضرت کے اس طرز جواب پرآپ کے ارادتمند دل مسوس کررہ گئے۔ مگر جواب مختصر ہونے کے باوجود ہر پہلو سے مکمل تھا اس لئے پھر کسی کو آپ کے سامنے بیعت کی درخواست کرنے کی جرات نہیں ہوسکی۔ حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ اور میر عباس علی صاحب نے بعد کو مولوی عبدالقادر صاحب سے کہا آپ بہت سادہ ہیں ایسی بات علیحدگی میں کرنا چاہیے تھی۔
لدھیانہ میں معمول:۔ قیام لدھیانہ کے دوران میں حضرت اقدس اپنے معمول کے مطابق اکثر سیر کو بھی تشریف لے جاتے تھے ایک مرتبہ جنگل میں نماز عصر کا وقت ہوگیا۔ عرض کیا گیا نماز کا وقت ہوگیا ہے آپ نے فرمایا بہت اچھایہیں پڑھ لیں ۔ غرض وہیں مولوی عبدالقادر صاحب نے نماز پڑھائی۔
ٹمپرنس سوسائٹی میں تقریر کرنے سے انکار
لدھیانہ میں ٹمپرنس سوسائٹی کا جلسہ تھا جس میں حضور نے بھی شرکت فرمائی۔ مختلف فرقوں کے لوگ جمع تھے حاضرین نے آپ سے تقریر کے لئے پر زور درخواست کی مگر آپ نے منظور نہ فرمایا ۔ جب اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور آپ سے انکار کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا اگر میں تقریر کرتا تو ضرور تھا کہ میں بیان کرتا کہ شراب سے روکنے والوں کے سردار محمد رسول اللہ ﷺ ہیں جن کے ذکر کی یہ لوگ اجازت نہ دیتے اور میری کیفیت یہ ہے کہ میں اس تقریر کو جس میں میرے آقا کا نام لیا جانے کی اجازت نہ ہو پسند نہیں کرتا۔
واپسی ۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام تین چار روز تک علم و عرفان کی بارش برساتے اور اہل لدھیانہ کی روحانی تشنگی بجھاتے ہوئے واپس قادیان تشریف لے گئے (۱۱)
لدھیانہ کا دوسرا سفر :۔
لدھیانہ کے اس اولین سفر کے بعد حضور کو میر عباس علی صاحب کی عیادت کے لئے اسی سال ۱۴۔ اکتوبر کو دوبارہ لدھیانہ تشریف لانا پڑا۔ حضور نے اس دفعہ قبل از وقت محض سرسری سی اطلاع دی تھی تاہم قاضی خواجہ علی صاحب مولوی عبدالقادر صاحب اور نواب علی محمد خان صاحب آف جھجر حضورؑ کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر موجود تھے۔ حضور کا قیام بہت مختصر تھا۔ صرف دو ایک دن ٹھہرے اور سنت نبوی ( ﷺ) کی تعمیل میں عیادت کا اسلامی فریضہ ادا کرنے کے بعد قادیان واپس تشریف لائے۔ (۱۲)
سفر مالیر کوٹلہ :۔
نواب محمد ابراہیم علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ کو ان دنوں اپنے بڑے بیٹے عشق علی خان کی وفات وغیرہ صدمات کی وجہ سے خلل دماغ کا عارضہ لاحق تھا اور انہوں نے ریاستی امور سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی ان کی والدہ صاحبہ کو حضرت اقدس کی آمد کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے یہ موقعہ غنیمت سمجھتے ہوئے آپ سے اپنے ہاں تشریف لانے اور اپنے بچے کی شفایابی کے لئے دعا کرنے کی درخواست کی ۔ چنانچہ حضور قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بیٹھ کر میر عنایت علی صاحب اور دوسرے آٹھ دس خدام کے ہمراہ مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے اور دعا کرتے ہی لدھیانہ پلٹ آئے۔ میر عنایت علی صاحبؓ کا بیان ہے کہ ’’ اس وقت تک ابھی مالیر کوٹلہ کی ریل جاری نہیں ہوئی تھی ۔ میں بھی حضور کے ہمرکاب تھا۔ حضرت صاحب نے یہ سفر اس لئے اختیار کیا تھا کہ بیگم صاحبہ یعنی والدہ نواب ابراہیم علی خان صاحب نے اپنے اہلکاروں کو لدھیانہ بھیج کر حضرت صاحب کو بلایا تھا کہ حضور مالیر کوٹلہ تشریف لاکر میرے لڑکے کو دیکھیں اور دعا فرمائیں کیونکہ نواب ابراہیم علی خاں کو عرصہ سے خلل دماغ کا عارضہ ہو گیا تھا۔ حضرت صاحب لدھیانہ سے دن کے دس گیارہ بجے قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بیٹھ کر تین بجے کے قریب مالیر کوٹلہ پہنچے اور ریاست کے مہمان ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو بیگم صاحبہ نے اپنے اہلکاروں کو حکم دیا کہ حضرت صاحب کے لئے سواریاں لے جائیں تاکہ آپ باغ میں جاکر نواب صاحب کو دیکھیں مگر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہمیں سواری کی ضرورت نہیں ہم پیدل ہی چلیں گے۔چنانچہ آپ پیدل ہی گئے اس وقت ایک بڑا ہجوم لوگوں کا آپ کے ساتھ تھا۔ جب آپ باغ میں پہنچے تو مع اپنے ساتھیوں کے ٹھہر گئے نواب صاحب کوٹھی سے باہر آئے اور پہلی دفعہ حضرت صاحب کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے لیکن پھر آگے بڑھ کر آئے اور حضرت صاحب سے السلام علیکم کیا اور کہا کہ کیا براہین کا چوتھا حصہ چھپ گیاہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ابھی تو نہیں چھپا مگر انشاء اللہ عنقریب چھپ جائے گا۔ اس کے بعد نواب صاحب نے کہا کہ آئیے اندر بیٹھیں ۔ چنانچہ حضرت صاحب اور نواب صاحب کوٹھی کے اندر چلے گئے اور قریباً آدھ گھنٹہ اندر رہے ۔ کیونکہ کوئی آدمی ساتھ نہ تھا اس لئے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ اندر کیا کیا باتیں ہوئیں۔ اس کے بعد حضرت صاحب مع سب لوگوں کے پیدل ہی مسجد کی طرف چلے گئے اور نواب صاحب بھی سیر کے لئے باہر چلے گئے۔ مسجد میں پہنچ کر حضور نے فرمایا کہ سب لوگ پہلے وضوکریں اور پھر دو رکعت نماز پڑھ کر نواب صاحب کی صحت کے واسطے دعا کریں کیونکہ یہ تمہارے شہر کے والی ہیں ۔ اورہم بھی دعا کرتے ہیں ۔ غرض حضرت اقدسؑ نے مع سب لوگوں کے دعا کی اور پھر اس کے بعد لدھیانہ واپس تشریف لے آئے اور باوجود اصرار
کے مالیر کوٹلہ میں نہ ٹھہرے (۱۳)
سفر انبالہ ، پٹیالہ و سنور
۱۸۸۴ء میں حضرت انبالہ چھائونی کا سفر اختیار فرمایا جہاں آپ کے خسر حضرت میر ناصر نواب صاحب مقیم تھے۔ سنور کے مخلصین کو معلوم ہوا تو انہوں نے حضور کی خدمت میں غلام قادر صاحب (ولد اللہ بخش ) عبدالرحمن صاحب( ولد اللہ بخش) اور منشی عبداللہ صاحب سنوری پر مشتمل ایک وفد بھجوایا تاکہ حضور کو سنور تشریف لانے کی دعوت دیں ۔ چنانچہ منشی عبداللہ صاحب سنوری کی درخواست پر حضور واپسی کے وقت سنور تشریف لے گئے۔ رستہ میں پٹیالہ میں بھی مختصر سا قیام فرمایا۔ آپ پٹیالہ سٹیشن پر پہنچے تو بے شمار لوگ آپ کی زیارت کے لئے موجو د تھے ۔ وزیر الدولہ مدیر الملک خلیفہ سید محمد حسن صاحب خان بہادر سی آئی ای وزیر اعظم (۱۴) پٹیالہ نے جو آپ کے خاص ارادت مندوں میں سے تھے آپ کو شاہی بگھی میں بٹھایا اور اپنی کوٹھی میں لے گئے۔ حضرت اقدس نے پٹیالہ کے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک مختصر تقریر بھی فرمائی اور کہا کہ یہ تمہارے وزیر شیعہ نہیں ہیں اہل سنت و الجماعت میں سے ہیں ان کے لئے تم بھی دعا کرو میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کا خاتمہ بالخیر کرے اس کے بعد حضرت نے حاضرین سمیت ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی اور بگھی پر سوار ہو کر سنور تشریف لے گئے۔ دوپہر کا کھانا تناول فرمانے کے بعد ظہرو عصر کی نمازوں کے لئے مسجد شیخاناں گئے۔ خدام نے حضرت اقدس سے بار بار عرض کیا کہ آپ نماز پڑھائیں مگر آپ نے یہی جواب دیا کہ اس مسجد کا امام جماعت کرائے۔ آخر کار حددرجہ اصرار ہوا تو پھر آپ ہی نے نماز پڑھائی ۔ حضرت اقدس نے منشی عبداللہ صاحب سنوری کے گھر کو بھی اپنے قدم مبارک سے برکت بخشی اس وقت منشی صاحب ؓ کے دادا محمد بخش صاحب بقید حیات تھے انہیں حضرت اقدس سے مصافحہ کا شرف بھی حاصل ہوا۔ بعد ازاں پٹیالہ سے ہوتے ہوئے واپس انبالہ چھائونی روانہ ہوگئے ۔ (۱۵) اس سفر میں منشی عبداللہ صاحب سنوریؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔










ماموریت کا چوتھا سال
دعویٰ ماموریت اور نشان نمائی کی عالمگیر دعوت
(۱۸۸۵ء)
مارچ ۱۸۸۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے حکم پاکر اپنے مامور اور مجدد وقت ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اعلان عام فرمایا کہ آپ حضرت قادر مطلق جل شانہ کی طرف سے مامور ہوئے ہیں تا نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کی طرز پر کمال مسکینی فروتنی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کریں۔ نیز یہ کہ آپ کو جناب الٰہی سے یہ علم بھی دیا گیا ہے کہ آپ مجدد وقت ہیں۔ اور روحانی طور پر آپ کے کمالات مسیح ابن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے شدت مناسبت ومشابہت ہے اور آپ کو خواص انبیاء و رسل کے نمونہ پر محض بہ برکت و متابعت حضرت خیر البشر و افضل الرسل ﷺ ان بہتوں پر اکابر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو آپ سے پہلے گزر چکے ہیں۔
ماموریت و مجددیت کے اس عظیم الشان دعویٰ کے ساتھ ہی آپ نے مذاہب عالم کے سربر آوردہ لیڈروں اور مقتدر رہنمائوں کو الٰہی بشارتوں کے تحت نشان نمائی کی عالمگیر دعوت دی کہ اگر وہ طالب صادق بن کر آپ کے یہاں ایک سال تک قیام کریں تو وہ ضرور اپنی آنکھوں سے دین اسلام کی حقانیت کے چمکتے ہوئے نشان مشاہدہ کر لیں گے اور اگر ایک سال رہ کر بھی وہ آسمانی نشان سے محروم رہیں تو انہیں دو سور وپیہ ماہوار کے حساب سے چوبیس سوروپیہ بطور ہرجانہ یا جرمانہ پیش کیا جائے گا۔ (۱)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دعوت کی عالمگیر اشاعت کے لئے خدائی تحریک کے مطابق خاص اہتمام فرمایا۔ چنانچہ حضرت اقدس ؑ نے بیس ہزار کی تعداد میں اردو انگریزی اشتہارات شائع کئے۔ اور ایشیا یورپ اورامریکہ کے تمام بڑے بڑے مذہبی لیڈروں ، فرمانروائوں ، مہاراجوں، عالموں، مدبروں ، مصنفوں اور نوابوں کو باقاعدہ رجسٹری کرکے بھجوادیئے اور اس زمانہ میں کوئی نامور اور معروف شخصیت ایسی نہیں چھوڑی جس تک آپ نے یہ خدائی آواز نہ پہنچائی ہو۔ (۲)
اس دعوت سے بیرونی دنیا میں اس وقت بظاہر (۳) کوئی خاص جنبش پیدا نہیں ہوئی۔ مگر ہندوستان میں جو مذاہب عالم کا عجائب خانہ تھا۔ اس نے ایک زبردست زلزلہ پیدا کر دیا اور غیر مذاہب اس درجہ مبہوت اور دہشت زدہ ہوگئے کہ کسی کو آپ کی دعوت کے مطابق اسلام کی سچائی کا تجربہ کرنے کی جرات ہی نہ ہو سکی۔ آتھم صاحب امرتسر کے ایک منجھے ہوئے مشہور پادری تھے۔ حضرت اقدس ؑ نے انہیں مولوی قطب الدین صاحب کے ذریعہ سے اشتہار بھجوایا تو پادری عماد الدین صاحب اور بعض دوسرے پادری نیز امرت سر کے بعض رؤساء مثلا غلام حسن، یوسف شاہ وغیرہ بھی ان کی کوٹھی میں جمع ہوئے اور پادری آتھم اور دوسرے پادریوں کو قادیان جانے سے روک دیا۔ (۴) ہندوستان کی کروڑوں کی آبادی میں سے جن لوگوں نے قادیان کی روحانی تجربہ گاہ سے آزمائش پر بظاہر رضا مندی ظاہر کی وہ صرف تین تھے۔ منشی اندر من مراد آبادی۔ پادری سو فٹ ۔ پنڈت لیکھرام مگر جیسا کہ آئندہ واقعات نے کھول دیا یہ آمادگی بھی محض نمائش اور فریب تھی۔
منشی اند رمن صاحب مراد آبادی کا فرار
منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے اس دعوت کے جواب میں سرہیرا سنگھ (۵) سی ایس آئی مہاراجہ نابھہ کے اشارہ پر پہلے نابھہ اور پھر لاہور سے حضرت اقدس کو لکھا کہ وہ آسمانی نشان دیکھنے کے لئے ایک سال تک ٹھہرنا منظور کرتے ہیں مگر اس شرط پر کہ سات دن کے اند ر اندر چوبیس سو روپیہ ان کے لئے سرکاری بینک میں بطور پیشگی جمع کرادیا جائے۔ گوپیشگی رقم کے مطالبہ کا حضرت اقدس کی اصل دعوت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مگر حضرت اقدس چونکہ دل سے خواہاں تھے کہ ادیان باطلہ کا کوئی علمبردار میدان امتحان میں آئے اس لئے آپ نے چند ضروری اور ناگزیر شرائط کے ساتھ ان کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور لاہور میں مقیم اپنے اراتمندوں یعنی منشی عبدالحق صاحب، منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ اور حافظ محمد یوسف صاحب کو فوری طور پر ہدایت فرمائی کہ وہ مطلوبہ رقم مہیا کرکے منشی صاحب کو اطلاع دیں اور آپ کاجواب بھی ان تک پہنچا دیں۔ مقررہ میعاد کے اختتام میں صرف ایک رات باقی تھی۔ اس لئے جو نہی حضرت اقدس کا خط لاہور میں پہنچا۔ حافظ محمد یوسف صاحب روپیہ کی تلاش میں راتوں رات اپنے ایک اہلحدیث دوست منشی سزاوارخاں صاحب پوسٹ ماسٹر کے ہاں جنرل پوسٹ آفس میں پہنچے اور حضور کی ہدایت کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا روپیہ موجود ہے مگر گھر پر ہے میں اس وقت جا نہیں سکتا تم چابی لے جائو اور جا کر روپیہ لے لو۔ اس پر حافظ صاحب ان کے گھر گئے اور ان کا پیغام دے کر چوبیس سو روپیہ لے آئے اور اپنے دوستوں سے کہا یہ مرزا صاحب کی تائیدربانی کا کھلا کھلا ثبوت ہے۔ صبح ہوئی تو یہ اصحاب مطلوبہ رقم سمیت مرزا امان اللہ صاحب منشی امیر الدین صاحب خلیفہ رجب دین صاحب (۶) اور غالباً بابا محمد ؐ چٹو (۷) وغیرہ لاہور کے دوسرے سر کردہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر منشی اندر من صاحب مراد آبادی کی موعود جائے قیام پر پہنچے لیکن وفد کو یہاں آکر معلوم ہوا کہ منشی صاحب تو لاہور سے اسی روز فرید کوٹ چلے گئے ہیں۔ (۸) جس روز انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں مطلوبہ رقم کے لئے خط لکھا تھا۔
حضرت اقدس نے یہ ناشائستہ حرکت دیکھ کر ۳۰۔ مئی ۱۸۸۵ء کو ان کے فرار کا واقعہ اور اصل خط جو آپ نے وفد کے ذریعہ سے منشی صاحب کو بھجوایا بلا کم و کاست پبلک کے سامنے رکھ دیا۔ منشی اندر من صاحب نے یوں برسر عام اپنی ذلت دیکھی تو ہندوئوں کی اشک شوئی کرنے اور اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کے لئے بے سروپا اور مغالطہ انگیز اشتہار شائع کر ڈالا اور لکھا کہ پہلے مرزا صاحب نے خود ہی مجھ سے بحث کا وعدہ کیا اور جب میں اسی نیت سے مشقت سفر اٹھا کر لاہو رمیں آیا تو پھر میری طرف اس مضمون کا خط بھیجا کہ ہم بحث کرنا نہیں چاہتے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوبارہ ایک اشتہار میں بڑی تفصیل سے منشی صاحب کی عہد شکنی ، کنارہ کشی اور حق پوشی پر روشنی ڈالتے ہوئے بالا خر پر میشر کے نام پر انہیں اپیل کی کہ ’’ اگر آپ طالب صادق ہیں تو آپ کے پر میشر کی قسم دی جاتی ہے کہ آپ ہمارے مقابلہ سے ذرا کوتاہی نہ کریں۔ آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لئے قادیان میں آکر ایک سال تک ٹھہریں اور اس عرصہ میں جو کچھ وساوس عقلی طور پر آپ کے دل پر دامنگیر ہوں وہ بھی تحریری طورپر رفع کراتے جائیں۔ پھر اگر ہم مغلوب رہے تو کس قدر فتح کی بات ہے کہ آپ کو چوبیس سوروپیہ نقد مل جائے گا اور اپنی قوم میں آپ بڑی نیک نامی حاصل کریں گے ۔‘‘ حضرت اقدس نے منشی صاحب سے یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر قادیان میں ایک سال تک ٹھہرنے کی نیت سے آنے کا ارادہ ظاہر کریں تو مراد آباد سے قادیان تک کا کل کرایہ بھی انہیں بھیج دیں گے ۔ اور چوبیس سور وپیہ کسی بنک سرکاری میں الگ جمع کر دیا جائے گا۔ (۹) لیکن منشی صاحب تو مہاراجہ صاحب نابھہ کے آلہ کاربن کر محض ڈرامائی انداز میں ایک شور و غوغا بلند کرنے آئے تھے ۔ وہ بھلا اس دعوت کو کیسے قبول کر لیتے ۔ چنانچہ حضرت اقدس کے جواب الجواب پر بالکل خاموش ہوگئے اور بظاہر یہ خط و کتابت بالکل بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ مگر کرشمہ قدرت ملاحظہ ہوکر اس کے چودہ پندرہ برس بعد لالہ نرائن داس صاحب پلیڈر مراد آباد کے فرزند اور منشی اندر من صاحب کے نواسے بھگوتی سہائے نے قبول اسلام کرکے آنحضرت ﷺ کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
پنڈت لیکھرام کی آمادگی اور مصلحت امیز کارروائیوں کے ساتھ فرار
دوسرا شخص جس نے حضرت اقدس کی دعوت پر بظاہر آمادگی کا اظہار کیا پنڈت لیکھرام تھا۔ پنڈت لیکھرام نے امرتسر میں کسی سے حضرت اقدس کا اشتہار ( مطبوعہ مطبع مرتضائی لاہور) پڑھا اور ۳۔ اپریل ۱۸۸۵ء کو منشی اندر من جیسی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان دعوت میں خود ساختہ رنگ بھرتے اور نئے معنے ڈالتے ہوئے حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا کہ وہ قادیان میں ایک سال تک رہنے اور نشان دیکھنے کا خواہاں ہے بشرط کہ آپ اول بحساب دو سو روپیہ ( ماہوار) کے کل ۲۴۰۰ روپیہ ایک سال کا داخل خزانہ سرکار فرما دیویں ۔ اور اقرار نامہ تحریر کر دیویں کہ اگر ایک سال تک آپ کی ہدایت اور آسمانی نشانات و معجزات و غیرہ سے تسلی نہ پاکر آپ کے دین کو قبول نہ کروں تو وہ مبلغان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ کو مل جاویں اور وہ روپیہ تا انقضائے ایک سال کے خزانہ سرکاری میں مکفول رہے اس کے واپس لینے کا آپ کو اختیار نہ ہوگا۔ ‘‘ دعوت نشان نمائی میں حضرت اقدس کا روئے سخن چونکہ محض غیر مذاہب کے چید ہ ، منتخب اور مشہور رہنمائوں کی طرف تھا اس لئے حضور علیہ السلام نے اسے جواب دیا کہ خط مطبوعہ کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو اپنی قوم میں معزز اور سر برآوردہ ہیں۔ جن کا ہدایت پانا ملک کے ایک کثیر طبقہ پر موثر ہو سکتا ہے مگر آپ اس حیثیت اور مرتبہ کے آدمی نہیں ہیں۔ اور اگر میں نے اس رائے میں غلطی کی ہے اور آپ فی الحقیقت مقتداء و پیشوائے قوم ہیں تو صرف اتنا کریں کہ قادیان ، لاہور ، پشاور ، امرتسر اور لدھیانہ کی آریہ سماج کی طرف سے یہ حلفیہ بیان بھجوادیں کہ یہ صاحب ہمارے پیشوا ہیں۔ اور اگراس روحانی مقابلہ میں مغلوب ہوکر نشان آسمانی مشاہدہ کر لیں تو ہم سب بلا توقف حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں گے ۔ پنڈت لیکھرام نے اس معقول مطالبہ کو پورا کرنے کی بجائے اخبارات میں حضور کو بدنام کرنے کی مہم شروع کر دی کہ جس حالت میں میں آریہ سماج کا ایک مشہور لیڈر ہوں اور پھر طالب حق۔ تو پھر مجھے آسمانی نشان دکھانے اور اسلام کی حقیقت مشاہدہ کرانے سے کیوم محروم رکھا جاتاہے اور کیوں چوبیس سو روپیہ دینے کی شرط پر مجھ کو قادیان میں رہ کر نشان آزمانے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت لیکھرام کا یہ غایت درجہ اصرار دیکھا تو آپ نے اس کی درخواست منظور کرتے ہوئے فرمایا کہ میں جہاں چاہیں۔۲۴۰۰کی موعود رقم جمع کرانے کو تیار اور مستعد ہوں مگر چونکہ آپ نے دعوت نامہ کی شرائط سے تجاوز کرکے یہ رقم کسی بنک میں محفوظ کرالینے کا مطالبہ کیا ہے اسی طرح مجھے بھی حق پہنچتا ہے کہ میں بھی فقط اس لئے کہ نشان آسمانی کے دیکھنے کے بعد کہیں اپنے مشرف با سلام ہونے کے عہد سے برگشتہ نہ ہو جائیں آپ سے اتنا ہی روپیہ کسی مہاجن کی دکان پر پیشگی جمع کرالوں تا جس کو خدا تعالیٰ فتح بخشے اس کے لئے یہ روپیہ فتح کی ایک یاد گار رہے ۔ نیز لکھا’’ یہ انتظام نہایت عمدہ اور مستحسن ہے کہ ایک طرف آپ وصولی روپیہ کے لئے اپنی تسلی کر لیں اور ایک طرف میں بھی ایسا بندوبست کرلوں کہ درحالت عدم قبول اسلام آپ بھی شکست کے اثر سے خالی نہ جانے پاویں ۔ اگر آپ اسلا م کے قبول کرنے میں صادق النیت ہیں تو آپ کو روپیہ جمع کرنے میں کچھ نقصان اور اندیشہ نہیں۔ کیونکہ جب آپ بصورت مغلوب ہونے کے مسلمان ہو جائیں گے تو ہم کو آپ کے روپیہ سے کچھ سرو کار نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ روپیہ تو صرف اس حالت میں بطور تاوان آپ سے لیا جاوے گا کہ جب عہد شکنی کرکے اسلام کے قبول کرنے سے گریزیا روپوشی اختیار کریں گے ۔ سو یہ روپیہ بطور ضمانت آپ کی طرف سے جمع ہوگا۔ اور صرف عہد شکنی کی صورت میں ضبط ہوگا نہ کسی اور حالت میں ۔‘‘
پنڈت لیکھرام سمجھا کہ اس کے نامعقول مطالبہ کا جواب قطعی طور پر نفی میں ملے گا اور وہ اسے اچھالتے ہوئے اپنی شہرت کا موجب بنالے گا۔ مگر جب حضور نے ہر طرح آمادگی کا اظہار فرمایا اور اس کے مطالبہ کی تکمیل کے لئے ایک معقول طریق بھی سامنے رکھ دیا تو اس نے لکھا کہ ’’ آپ کو واجب تھا کہ پہلے ہی اشتہار میں صاف لفظوں میں شرط باندھتے کہ بطور قمار بازان کے چوبیس سوروپیہ لگایا جاوے گا۔ تاکہ شرائط کی ترمیم تنسیخ نہ کرنی پڑتی‘‘۔ نیز لکھا’’ میں باز آیا محبت سے اٹھا لو پاندان اپنا ۔ مگر آخری اپنا فرض دوستانہ ادا کرنا بھی واجب جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ سچا مذہب خدا کی طرف سے عالمگیر ہے اور جس کی صداقت کی شعاعیں ہمیشہ آفتاب کی طرح جہان کو روشن کر رہی ہیں۔ وہ آریہ دھرم ہے۔ پس بخیال نیک نیتی کے دعوت کی جاتی ہیں کہ جس طرح اور کئی علماء و فضلاء دین محمدی اچھی طرح سوچ سمجھ کر وید مقدس پر ایمان لائے ہیں آپ کو بھی اگر صراط المستقیم پر چلنے کی دلی تمنا ہے تو صدق دلی سے آریہ دھرم کو قبول کرو۔‘‘( ۱۱) لیکھرام کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مرحلہ پر حضرت مسیح موعود ؑ نے اسے جاہل سمجھ کر منہ لگانا ہی چھوڑ دیا۔ مگر تین ماہ بعد جب اس نے آپ کی خدمت میں ایک پوسٹ کارڈ لکھا تو حضرت نے جواباً لکھوایا کہ قادیان کوئی دور نہیں ہے آکر ملاقات کرجائو امید ہے کہ یہاں پر باہمی ملنے سے شرائط طے ہو جاویں گی۔ (۱۲)
حضرت اقدس کے خاندان کا ایک طبقہ جس میں آپ کا ایک چچا زاد (۱۳) بھائی مرزا امام الدین اپنے ملحدانہ خیالات اور بے دینی میں پیش پیش تھا۔ ابتداء ہی سے نہ صرف حضور کے دعاوی و الہامات کا مذاق اڑاتا تھا بلکہ اسلام اور رسول خدا ﷺ اور قرآن مجید کے خلاف ہرزہ سرائی اس کا ایک عام مشغلہ بن چکا تھا اس کی مقدس تعلیمات پر نشتر چلانے میں اسے ایک خاص لذت محسوس ہوتی تھی چنانچہ اب جو حضور نے نشان نمائی کی عالمگیر دعوت دی تو مرزا امام الدین نے منشی اندر من مراد آبادی اور پنڈت لیکھرام اور دوسرے دشمنان دین کی پیٹھ ٹھونکتے اور محض زبانی بیہودہ گوئی پر اکتفانہ کرتے ہوئے اگست ۱۸۸۵ء میں ’’ قانونی ہندپریس ‘‘ (۱۴) اور ’’چشمہ نورامرت سر ‘‘ سے آپ کے خلاف نہایت گندے اشتہار شائع کئے۔ نیز جب حضرت اقدسؑ نے پنڈت لیکھرام کو قادیان آنے کی دعوت دی تو ( حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی تحقیق کے مطابق) یہ معانداسلام خود گیا اور پنڈت لیکھرام کو قادیان (۱۵) لے آیا۔ پنڈت لیکھرام گو بظاہر حضرت مسیح موعود ؑ کی دعوت پر آیا اور اسے شرائط طے کرنے کے لئے حضرت اقدس سے بہر حال ملا قات کرنا چاہیئے تھی مگر مرزا امام الدین وغیرہ کو جو محض اپنے ذوق بے دینی کی تسکین کے لئے تماشائی بنے ہوئے تھے ۔ لیکھرام کا اظہار خیالات کے لئے حضرت اقدس کی مجلس میں جانا کیونکر پسند ہو سکتاتھا۔ چنانچہ مرزا امام الدین نے لیکھرام کو اپنے اشاروں کے مطابق چلانے کے لئے یہ مکروہ چال چلی کہ وہ اپنے لگے بندھے بعض نام نہاد مسلمانوں مثلا ملاں حسیناں اور مراد علی وغیرہ کے ساتھ آریہ سماج میں داخل ہوگئے اور یوں خود مسلمانوں ہی کے ہاتھوں ’’ قادیان آریہ سماج ‘‘ کی توسیع ہوئی۔ لیکھرام جب اس طرح مرزا امام الدین کے دام تزویر میں الجھ گیا تو اسے ہر جھوٹے اور مکروہ پر وپیگنڈے کا شکار بنانا چنداں مشکل نہ تھا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا امام الدین اور مقامی ہندوئوں کی فتنہ انگیزی سے حضرت اقدس کے خلاف لیکھرام میں دشمنی اور بغض و کینہ کے جذبات ہر لمحہ شدید تر ہوگئے۔ حالانکہ ابتداء میں اس کی حالت اتنی خطرناک نہیں تھی۔ یہ تبدیلی قادیان آنے کے بعد پیدا ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں ۔ ’’قادیان کے بعض شریر الطبع لوگوں نے اس کے دل کو خراب کر دیا اور میری نسبت بھی ان نالائق ہندووں نے بہت کچھ جھوٹی باتیں اس کو سنائیں تا وہ میری صحبت سے متنفر ہو جائے پس ان بدصحبتوں کی وجہ سے روز بروز ردی حالت کی طرف گرتا گیا مگر جہاں تک میرا خیال ہے ابتداء میں اس کی ایسی ردی حالت نہ تھی صرف مذہبی جوش تھا جو ہر اہل مذہب حق رکھتا ہے کہ اپنے مذہب کی پابندی میں بپابندی حق پرستی و انصاف بحث کرے۔ (۱۶) بہرحال لیکھرام کے ماحول پر مرزا امام الدین اور قادیان کے ہندو پوری طرح چھائے ہوئے تھے اس لئے وہ حضرت اقدس کی خدمت میں ملاقات کے لئے تو نہ آیا البتہ اس نے نہایت شوخی اور بے باکی کے رنگ میں حضرت اقدس سے سلسلہ خط و کتابت شروع کر دیا۔ یہ خط و کتابت اکثر بھائی کشن سنگھ اور گاہے گاہے پنڈت موہن لال ، پنڈت نہال چند اور حکیم دیارام کے ذریعہ سے ہوتی تھی۔ پنڈت موہن لال کا بیان ہے کہ ’’ حضرت صاحب بڑی مہربانی فرماتے تھے اور ہنستے ہوئے ملتے تھے اور کبھی خالی ہاتھ نہ آنے دیتے ۔ ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھے نہایت عمدہ سیب دیئے۔ میں لے کر گیا۔ پنڈت لیکھرام کا بھی معمول ہوگیا تھا کہ جب میں واپس جاتا تو ضرور پوچھتا کیا لائے ہو؟ میں نے جب کہا کہ سیب لایا ہوں تو اس نے گویا للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ کر کہالائو لائو میں کھائوں ۔ میں نے ان کو ہنسی سے کہا کہ دشمن کے گھر کی چیز تم کو نہیں کھانی چاہیئے۔ تو اس نے جھٹ میرے ہاتھ سے سیب لے لیا اور کھانا شروع کر دیا ۔(۱۷) لیکھرام اپنی تحریر اور مجلس میں نہایت رکیک اور سوقیانہ حملے کرتا تھا ۔ مگر آپ ان کو نظر انداز کرکے تحقیقی جوابات دیتے تھے اور آپ کی پوری کوشش یہ تھی کہ وہ دیانتدارانہ روش اختیار کرکے آپ کی دعوت نشان نمائی پر رضا مندی اختیار کرے۔ دوران خط وکتابت میں آپ نے اسلام کی صداقت کا قائل کرنے کے لئے اس کے سامنے اپنا وہ مخصوص علم کلام بھی پیش کیا۔ جس نے دنیائے اسلام میں زبردست انقلاب برپا کر رکھا تھا یعنی دعویٰ اور دلیل دونوں مذہبی کتاب سے پیش کرنے چاہیں۔ لیکن جب لیکھرام کے مذہبی لیڈر اور آریہ سماج کے بانی سوامی دیانند سرسوتی کو اس جری پہلوان کے سامنے آنے کی جرات نہ ہو سکی تو لیکھرام کو کیا جرات ہوتی ؟ لیکھرام ہر دفعہ نہایت چالاکی سے اس آسمانی حربہ کی زد سے بچنے کی خاطر صرف نشان دکھائے جانے کا مطالبہ دہرا دیتا اور اپنے ہزلیات کے فن میں مشاقی کے جو ہر دکھانے میں ہی کامیابی سمجھتا تھا۔
پنڈت لیکھرام ۱۹۔ نومبر ۱۸۸۵ء کو قادیان آیا اورکم و بیش دو ماہ (۱۸) قادیان میں رہا اس عرصہ میں اس نے مرزا امام الدین کا آلہ کاربن کر اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لگاتار سوقیانہ حملے کئے ۔ ایک مرتبہ تو یہاں تک نوبت آپہنچی کہ اس کی زبان درازی کو دیکھ کر مرزا سلطان احمد صاحب ایسے مرنجان مرنج طبیعت انسان نے اسے مباحثے کا چیلنج دے دیا۔ بلکہ پورے جوش کے عالم میں ہندو بازار تک جا پہنچے ۔ مگر ہندو ان کی یہ جرات دیکھ کر سہم گئے اور لیکھرام کو باہر نہ نکلنے دیا اور معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ ۱۳ دسمبر کو اس نے ایک خط میں لکھا ۔ ’’مرزا صاحب کندن کوہ( اس کے آگے ایک شکستہ لفظ تھا جو پڑھا نہیں گیا۔ ناقل ) افسوس کہ آپ (۱۹) قرآنی اسپ اور اوروں کے اسپ کو خچر قرار دیتے ہیں۔ میں نے ویدک اعتراض کا عقل سے جواب دیا اور آپ نے قرآنی اعتراض کا نقل سے مگر وہ عقل سے بسا بعید ہے۔ اگر آپ فارغ نہیں تو مجھے بھی تو کام بہت ہے اچھا آسمانی نشان تو دکھا دیں اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان تو مانگیں تا فیصلہ ہو ۔ ‘‘ حضرت اقدس نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا ۔’’ جناب پنڈت صاحب آپ کا خط میں نے پڑھا ۔ آپ یقینا سمجھیں کہ ہم کو نہ بحث سے انکار ہے اور نہ نشان دکھلانے سے مگر آپ سیدھی نیت سے طلب حق نہیں کرتے ۔ بے جاشرائط زیادہ کر دیتے ہیں۔ آپ کی زبان بد زبانی سے رکتی نہیں آپ لکھتے ہیں اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان مانگیں یہ کس قدر ہنسی ٹھٹھے کے کلمے ہیں گویا آپ اس خدا پر ایمان نہیں لاتے جو بیبا کوں کو تنبیہ کر سکتا ہے باقی رہا یہ اشارہ کہ خدا عرش پر ہے اور مکر کرتا ہے ۔ یہ خود آپ کی ناسمجھی ہے مکر لطیف اور مخفی تدبیر کو کہتے ہیں جس کا اطلاق خدا پر ناجائز نہیں۔ اور عرش کا کلمہ خدا تعالیٰ کی عظمت کے لئے آتا ہے کیونکہ وہ سب اونچوں سے اونچا اور جلال رکھتا ہے ۔ یہ نہیں کہ وہ کسی انسان کی طرح کسی تخت کا محتاج ہے ۔ خود قرآن میں ہے کہ ہر ایک چیز کو اس نے تھاما ہوا ہے اور وہ قیوم ہے جس کو کسی چیز کا سہارا نہیں ۔ پھر جب قرآن شریف یہ فرماتا ہے تو عرش کا اعتراض کرنا کس قدر ظلم ہے آپ عربی سے بے بہرہ ہیں آپ کو مکر کے معنے بھی معلوم نہیں ۔ مکر کے مفہوم میں کوئی ایسانا جائز امر نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا۔ شریروں کو سزا دینے کے لئے خدا کے جو باریک اور مخفی کام ہیں ان کا نام مکر ہے لغت دیکھو پھر اعتراض کرو۔ میں اگر بقول آپ کے وید سے امی ہوں تو کیا حرج ہے کیونکہ میں آپ کے مسلم اصول کو ہاتھ میںلے کر بحث کرتا ہوں مگر آپ تو اسلام کے اصول سے باہر ہو جاتے ہیں صاف افتراء کرتے ہیں۔ چاہئے تھا کہ عرش پر خدا کا ہونا جس طور پر مانا گیا ہے اول مجھ سے دریافت کرتے پھر اگر گنجائش ہوتی تو اعتراض کرتے اور ایسا ہی مکرکے معنے اول پوچھتے پھر اعتراض کرتے ۔ اور نشان خدا کے پاس ہیں وہ قادر ہے جو آپ کو دکھلادے۔ وَالسَّلَا مُ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْھُدیٰ (۲۰)
پنڈت لیکھرام کم و بیش دو ماہ تک قادیان میں رہا اس عرصہ میں خط و کتابت کے نتیجہ میں یہ تبدیلی ضرور ہوئی کہ ۲۰۰ روپیہ ماہوار کی بجائے تیس روپیہ ماہانہ رقم پر آ گیا۔ مگر اس کے مقابل اس کی بدلگامی اور بیہودی سرائی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اوروہ اپنی ضد پر آخر وقت تک قائم رہا۔ مرزا امام الدین کا آلہ کار بن کر اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سوقیانہ حملے کرتا رہا۔ پنڈت لیکھرام کی یہ مخالفانہ کارروائی سال کے آخر تک پوری طرح جاری رہی۔ اگلاسال ۱۸۸۶ء آیا تو حضرت مسیح موعود ؑ پر فروری ۱۸۸۶ء میں پنڈت لیکھرام اور منشی اندر من مراد آبادی کے متعلق بعض انکشافات ہوئے مگر آپ نے خدائی منشاء کے مطابق پہلے ان ہر دو سے پوچا کہ کیا ان کا اظہار کر دیا جائے۔ مراد آبادی صاحب تو خاموش رہے مگر لیکھرام نے افتاد طبیعت کا ثبوت دیتے ہوئے نہایت درجہ بے باکی سے تحریری اجازت بھجوا دی ۔ یہی نہیں جب حضرت مسیح موعودؑ کا ماسٹر مرلی دھرہوشیار پوری سے مباحثہ ’’سرمہ چشم آریہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا تو اس کی شرر انگیزیاں یکایک بڑھ گئیں اور اس نے اپنی کتاب ’’خبط احمدیہ‘‘ میں پر میشور سے سچے فیصلہ کی درخواست کرتے ہوئے کھلے لفظوں میںلکھا ۔’’میں نیاز التیام لیکھرام ولد پنڈت تارا سنگھ شرما مصنف تکذیب براہین احمدیہ ورسالہ ہذااقرار صحیح بدرستی ہوش و حواس کرکے کہتاہوں کہ میں نے اول سے آخر تک رسالہ سرمہ چشم آریہ کو پڑھ لیا۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے جگت پتا پر میشور کو ساکھی جان کر اقرار کرتا ہوں کہ ۔۔۔۔ اس سرشٹی کے آغاز میں جب انسانی خلقت شروع ہوئی پر ماتما نے دیدوں کو شری اگنی شری وایو شری آدت شری انگرہ جیوچار رشیوں کے آتمائوں میں الہام دیا مگر جبرئیل یا کسی اور چھٹی رسان کی معرفت نہیں بلکہ خود ہی ۔۔۔۔۔۔۔آریہ ورت سے ہی تمام دنیا نے فضیلت سیکھی۔ آریہ لوگ ہی سب کے استاد اول ہیں۔ کیونکہ تواریخ سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے ۔ آریہ ورت سے باہر جو بقول مسلمانوں کے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر (۵۔ ۶ہزار سال میں ) آئے ہیں اور توریت ، زبور ، انجیل ۔ قرآن وغیرہ کتب لائے ہیں میں دلی یقین سے ان پستکوں کے مطالعہ کرنے سے اور سمجھنے سے ( باستثنائے ان باتوں کے جو دید مقدس اب نشدو یا شاستروں میں درج ہیں) ان کی تمام مذہبی ہدایتوں کو بناوٹی اور جعلی ۔ اصلی الہام کو بدنام کرنے والی تحریریں خیال کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میرا دوسرا فریق مرزا غلام احمد ہے وہ قرآن کو خدا کا کلام جانتا ہے اور اس کی سب تعلیموں کو درست اور صحیح سمجھتاہے ۔۔۔۔۔۔ اے پرمیشور ہم دونوں فریقوں میں سچا فیصلہ کر ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ کاذب صادق کی طرح کبھی تیرے حضور میں عزت نہیں پاسکتا۔‘‘(۲۱)
گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لیکھرام کے متعلق بعض انکشاف ہو چکے تھے اور لیکھرام نے اس کی اشاعت پر بھی پابندی نہیں لگائی تھی مگر آپ الٰہی منشاء کے ماتحت پانچ برس تک اس بارہ میں بالکل خاموش رہے اور پھر اذن خداوندی پاکر ۲۰۔ فروری ۱۸۹۳ء کو آپ نے لیکھرام کے عبرتناک انجام کے متعلق پیشگوئی کا اعلان فرما دیا ۔ جس کے مطابق وہ ۶۔ مارچ ۱۸۹۷ء کو رب العرش خیر الماکرین کی پراسرار تدبیر کے تحت لاہور میں قتل ہوا۔ اور اس کی زبان جو خنجر کی طرح چلتی تھی تیغ محمدی ﷺ میں متشکل ہو کر اس کے پارہ پارہ کرنے کی موجب بن گئی۔ مگر اس کے بیان کا یہ موقعہ نہیں ۔ اس عظیم الشان نشان کی تفصیل ۱۸۹۷ء کے واقعات میں آئے گی۔
پادری سو فٹ کا گریز :۔
تیسرے صاحب جنہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی دعوت پر قادیان آنے اور نشان دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا پادری سو فٹ تھے جو ریاست گوالیار کے باشندے اور عیسائی مدرسہ الہیات ( سہارنپور ) سے فارغ التحصیل ہو کر ان دنوں گوجرانوالہ میں متعین تھے (۲۲) انہیں دوسرے پادریوں کی نسبت مسیحی دینیات کا بڑا ناز تھا حضرت اقدس کی دعوت نشان نمائی پر انہوں نے بذریعہ ڈاک ایک خط لکھا جس میں حضرت مسیحؑ کی خدائی کا لا طائل فسانہ چھیڑنے کے بعد دعوت کو نمائشی رنگ میں قبول کرتے ہوئے دو شرائط لکھیں جن میں پہلی شرط یہ تھی کہ چھ سو روپیہ یعنی تین ماہ کی تنخواہ بطور پیشگی ہمارے پاس گوجرانوالہ میں بھیجی جائے اور نیز مکان وغیرہ کا انتظام حضور کے ذمہ رہے اور اگر کسی نوع کی دقت پیش آئے تو فوراً وہ گوجرانوالہ کو واپس ہو جائیں گے اور جو روپیہ انہیں مل چکا ہو اس کی واپسی کا حضرت اقدس کو استحقاق نہیں ہوگا۔ دوسری شرط یہ لکھی کہ الہام اور معجزہ کا ثبوت ایسا چاہئے ، جیسے کتاب اقلید س میں ثبوت درج ہوتا ہے حضور کو یہ خط ملا تو آپ کو افسوس ہو ا کہ حضور کی زبردست سعی و جدو جہد کے باوجود عیسائیت کے علمبرداروں میں سے کوئی مرد میدان بن کر آگے نہیں آنا چاہتا۔ اور جس نے آگے آنے کی حامی بھری تو محض دنیا پر ستی کی تکمیل اور نام و نمود کے لئے ۔ بہرحال حضرت اقدس مایوس نہیں ہوئے۔ چنانچہ آپ نے اپنے جواب میں ’’ الوہیت مسیح‘‘ کے بچھائے ہوئے جال کو اپنے قلم سے پارہ پارہ کرتے ہوئے انہیں نہایت احسن رنگ میں لکھا کہ آپ کے اطمینان قلب کے لئے روپیہ کسی سرکاری بنک یا مہاجن کے پاس جمع کردیا جائے گا اور جس طرح چاہیں روپیہ کی بابت تسلی کر لیں مگر جب تک فریقین میں جو امر متنازعہ فیہ ہے وہ تصفیہ نہ پاجائے آپ کو پیشگی روپیہ لینے کا اصرار نہیں کرنا چاہئے مکان کے بارہ میں انہیں اطمینان دلایا کہ ’’ اس خاکسار کا یہ عہد و اقرار ہے کہ جو صاحب اس عاجز کے پاس آئیں ان کو اپنے مکان میں سے اچھا مکان اور اپنی خوراک کے موافق خوراک دی جائے گی۔ اور جس طرح ایک عزیزاور پیارے مہمان کی حتی الوسع دلجوئی و خدمت و تواضع کرنی چاہئے اسی طرح ان کی بھی کی جائیگی ۔ ہاں یہ وضاحت بھی فرما دی کہ ’’ یہ عاجز مسیحؑ کی زندگی کے نمونہ پر چلتا ہے کسی باغ میں امیر انہ کوٹھی نہیں رکھتا اور اس عاجز کا گھر اس قسم کی عیش و نشاط کا گھر نہیں ہو سکتا۔ جس کی طرف دنیا پر ستوں کی طبیعتیں راغب اور مائل ہیں۔ ‘‘ دوسری شرط کے متعلق فرمایا ’’ اقلیدس میں بہت سی وہمی اور بے ثبوت باتیں بھری ہوئی ہیں۔ (۲۳) جن کو جاننے والے خوب جانتے ہیں مگر آسمانی نشان تو وہ چیز ہے کہ وہ خود منکر کی ذات پر ہی وارد ہو کر حق الیقین تک اس کو پہنچا سکتا ہے ۔ اور انسان کو بجز اس کے ماننے کے کچھ بن نہیں پڑتا۔ سو آپ تسلی رکھیں کہ اقلید س کے ناچیز خیالات کو ان عالی مرتبہ نشانوں سے کچھ نسبت نہیں ’’چہ نسبت خاک رابا عالم پاک‘‘ اور یہ نہیں کہ صرف اس عاجز کے بیان پر ہی رہے گا ۔ بلکہ یہ فیصلہ بذریعہ ثالثوں کے ہو جائے گا۔ اور جب تک ثالث لوگ جو فریقین کے مذہب سے الگ ہوں گے یہ شہادت نہ دیں کہ ہاں فی الحقیقت یہ خوارق اور پیشگوئیاں انسانی طاقت سے باہر ہیں تب تک آپ غالب اور یہ عاجز مغلوب سمجھا جائے گا۔ ‘‘
خط کے آخر میں اسے خدائے کامل اور صادق کی قسم دیتے ہوئے غیرت دلائی کہ ’’ آپ ضرور تشریف لاویں ضرور آئیں اگر وہ قسم آپ کے دل پر موثر نہیں تو پھر اتمام الزام کی نیت سے آپ کو حضرت مسیح کی قسم ہے کہ آپ آنے میں ذرا توقف نہ کریں۔ تاحق اور باطل میںجو فرق ہے وہ آپ پر کھل جائے ۔ ‘‘ (۲۴)
غرض حضرت اقدس نے پادری سو فٹ پر ہر پہلو سے اتمام حجت کر دیا۔ کوئی حق کا طالب ہو تا تو اس مرد خدا کی زیارت کو دیوانہ وار چل پڑتا۔ مگر پادری صاحب کو محض سستی شہرت مطلوب تھی جب انہیں یہ گوہر مقصود نہ ملا تو ان کی زبان پر ابدی قفل لگ گئے ۔
حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے چالیس روزہ میعاد کا تعین :۔
خلاصہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس دعوت پر مذاہب عالم میں سے کسی کو میدان مقابلہ میں آنے کی جرات نہ ہوئی تاہم مزید اتمام حجت کے لئے آپ نے ستمبر ۱۸۸۶ء میں سال کی شرط اڑا کر اس کی بجائے چالیس روز مقرر کر دیئے۔ اور بالخصوص منشی جیون داس، لالہ مرلی دھر ڈرائنگ ماسٹر ہوشیار پور ، منشی اندر من مراد آبادی ، مسٹر عبداللہ آتھم ، پادری عماد الدین اور پادری ٹھاکرداس کو ایک بار پھر دعوت دی اور فرمایا کہ اس عرصہ میں اگر ہم کوئی خارق عادت پیشگوئی پیش نہ کریں یا پیش کریں مگر بوقت ظہور وہ جھوٹی نکلے یا وہ اس کا مقابلہ کرکے دکھادیں تو مبلغ پانسو روپیہ بلا توقف ادا کردیں گے لیکن اگر وہ پیشگوئی بپایہ صداقت پہنچ گئی تو مشرف بہ اسلام ہونا پڑے گا۔ (۲۵) مگریہ آواز بھی بے نتیجہ ثابت ہوئی اور اس معرکہ میں اسلام کو ایک بار پھر فتح نصیب ہوئی ۔
مقامی ہندوئوں کی درخواست نشان نمائی :۔
یہ تو بیرونی دنیا کا ذکر ہے خود قادیان میں اس کی باز گشت ایک لحاظ سے خوشگوار رنگ میں سنائی دی اور وہ اس طرح کہ غالباً اگست ۱۸۸۵ء میں قادیان کے دس ہندوئوں (۲۶) نے (جن میں ساہوکار وغیرہ شامل تھے ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بادب درخواست کی کہ ہم آپ کے ہمسایہ لندن اورامریکہ والوں سے زیادہ آسمانی نشان دیکھنے کے حقدار اور مشتاق ہیں۔ ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے سعادت ازلی تو خدا کی توفیق اور فضل سے عطا ہوتی ہے اس لئے مسلمان ہو جانے کی شرط تو ہم سے موقوف رکھی جائے البتہ ہم پر میشر کی قسم کھا کر وعدہ کرتے ہیں کہ ہم جو نشان آپ سے بچشم خود مشاہدہ کرلیں گے اخبارات میں بطور گواہ اسے شائع کرا دیں گے اور آپ کی صداقت کی حقیقت کو حتی الوسع اپنی قوم میں پھیلائیں گے ۔ اور ایک سال تک عند الضرورت آپ کے مکان پر حاضر ہوکر ہر قسم کی پیشگوئی پر بقید تاریخ دستخط کریں گے اور کوئی نامنصفانہ حرکت ہم سے ظہور میں نہیں آئے گی۔ درخواست کے لفظ لفظ سے چونکہ سراسر انصاف و حق پر ستی اور خلوص ٹپکتا تھا۔ اس لئے حضور نے نہایت درجہ مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے بلاتامل قبول فرما لیا اور ایک باقاعدہ تحریری معاہدہ کی شکل میں شرمپت رائے ممبر آریہ سماج قادیان نے اسے شائع بھی کر دیا اور ستمبر ۱۸۸۵ء سے ستمبر ۱۸۸۶ء تک اس کی میعاد قرار پائی۔ (۲۷)
خدا تعالیٰ کی قدرت ابھی میعاد شروع بھی نہ ہوئی تھی کہ ۵۔ اگست ۱۸۸۵ء کو آپ پر الہاماً منکشف ہوا کہ آج سے اکتیس ماہ تک مرزا امام الدین اور نظام الدین جو اس وقت آپ کی مخالفت میں اہم حصہ لے رہے تھے ) ایک بڑی مصیبت میں مبتلا ہوں گے۔ یعنی ان کے اہل و عیال میں سے کسی مرد یا عورت کا انتقال ہو جائے گا۔ جس سے انہیں سخت تکلیف پہنچے گی۔ حضرت اقدس نے یہ خبرپاتے ہی اس پر معاہدہ میں شامل چار ہندوئوں کے دستخط کرالئے۔ چنانچہ ٹھیک اکتیسویں مہینے ( یعنی فروری ۱۸۸۸ء میں ) مرزا نظام دین کی بیٹی اور مرزا امام الدین کی بھتیجی ایک چھوٹا بچہ چھوڑ کر فوت ہوگئی اور خدا کی بات پوری آب و تاب سے پوری ہوئی مگر افسوس معاہدہ کے مطابق مقامی ہندوئوں کی طرف سے نہ صرف اس نشان کی اشاعت نہ کی گئی بلکہ اصل میعاد کے ختم ہونے سے چند روز پہلے ہی یہ شورو غوغا مچانا شروع کر دیا کہ پیشگوئی غلط نکلی اور جب پیشگوئی کا ظہور ہوگیا تو انہوںنے چپ سادھ لی۔ اور اعتراف حق کرنے کی ان کو توفیق نہ مل سکی۔
یہ تو وہ پیشگوئی ہے جس پر ان ہندوئوں کے دستخط موجود تھے اس کے علاوہ اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صداقت اسلام کے ایک زندہ و تابندہ نشان کی بھی خبر دی گئی جس سے قرآن مجید اور رسول پاکﷺ کی سچائی صرف قادیان کے ہندوئوں پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہوگئی ۔ میری مراد مصلح موعود کی پیشگوئی سے ہے جو حضرت اقدسؑ کی دعوت نشان نمائی اور اکتیس ماہ کی میعاد کے اندر کی گئی جس کی تفصیل ۱۸۸۶ء کے واقعات میں بیان ہوگی۔
بیت اللہ شریف اور میدان عرفات میں حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ
کی زبان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درد انگیز دعا
۱۸۸۵ء کے اوائل میں حضرت صوفی احمد جان صاحب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت سے جب سفر حج پر روانہ ہونے لگے تو حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے قلم سے انہیں ایک درد انگیز دعا تحریر فرمائی اور لکھا ’’ اس عاجز ناکارہ کی ایک عاجزانہ التماس یاد رکھیں کہ جب آپ کو بیت اللہ کی زیارت بفضل اللہ تعالیٰ نصیب ہو۔ تو اس مقام محمود مبارک کی انہیں لفظوں سے مسکنت اور غربت کے ہاتھ بحضور دل اٹھا کر گزارش کریں۔ ‘‘ نیز یہ ہدایت فرمائی کہ ’’ آپ پر فرض ہے کہ انہیں الفاظ سے بلا تبدیل و تغیر بیت اللہ میں حضرت ارحم الراحمین میں اس عاجز کی طرف سے دعا کریں ۔ ‘‘چنانچہ حضرت صوفی صاحب نے حضرت کے ارشاد کے تعمیل میں یہ دعا بیت اللہ شریف میں بھی اور پھر ۹۔ ذی الحجہ ۱۳۰۲ھ کو (بمطابق ۱۹۔ ستمبر ۱۸۸۵ء ) میدان عرفات میں بھی پڑھی۔ آپ کے پیچھے اس وقت ان کے ۲۰؍۲۲خدام اور عقیدت مند تھے جن میں حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب مبلغ ایران حضرت خان صاحب محمد امیر خاں صاحب اور حضرت قاضی زین العابدین صاحب سرہندی (۲۸) اور حضرت صوفی صاحبؓ کے فرزند حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب بھی شامل تھے۔ صوفی صاحبؓ میدان عرفات میں حضرت مسیح موعودؑ کا مکتوب مبارک ہاتھ میں لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا میں یہ خط بلند آواز سے پڑھتا ہوں تم سب آمین کہتے جائو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔ (۲۹) اس تاریخی دعا کے الفاظ یہ تھے۔
’’ اے ارحم الراحمین ایک تیرا بندہ عاجز اور ناکارہ پر خطا اور نالائق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں سے اسکی یہ عرض ہے کہ اے ارحم الراحمین تو مجھ سے راضی ہو اور میری خطیات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفورو رحیم ہے اور مجھ سے وہ کام کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہو جائے مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی دوری ڈال اور میری زندگی اور میری موت اور میری ہریک قوت اور جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل متبعین ( ۳۰)میں مجھے اٹھا ۔ اے ارحم الراحمین جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا اور اس عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جواب تک اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عاجز اور اس عاجز کے تمام دوستوں اور مخلصوں اورہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کی نظر سے اپنے ظل حمایت میں رکھ کر دین و دنیا میں آپ ان کا متکفل اور متولی ہو جا اور سب کو اپنی دارا لرضاء میں پہنچا اور اپنے نبی ﷺ اور اس کی آل اور اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درودوسلام و برکات نازل کر۔ آمین یا رب العالمین ‘‘(۳۱)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفر لدھیانہ اور حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کی وفات
حضرت صوفی احمد جان صاحب زیارت کعبہ اور حج بیت اللہ شریف کے برکات سے فیضیاب ہو کر وسط دسمبر ۱۸۸۵ء میں لدھیانہ پہنچے اور یکایک سخت بیمار ہو گئے ۔ چنانچہ ابھی تیرہ دن ہی واپسی پر گزرے تھے کہ ۱۹۔ ربیع الاول ۱۳۰۳ھ ( بمطابق ۲۷۔ دسمبر ۱۸۸۵ء) کو پیغام اجل آگیا۔ اور آپ لدھیانہ کے قبرستان گورغریباں میں دفن ہوئے۔ تھوڑا عرصہ بعد حضرت اقدس بنفس نفیس تعزیت کے لئے لدھیانہ تشریف لے گئے ۔ آپ کے صاحبزادے حضرت پیر افتخار احمد صاحب کا بیان ہے کہ حضور نے اس موقعہ پر ’’ تھوڑی دیر قیام فرمایا ۔ والد صاحب مرحوم کی محبت ،اخلاص او ردینی خدما کا ذکر فرماتے رہے پھر حضورؑ نے مع حاضرین دعا فرمائی۔
حضرت صوفی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعودؑ کے ان اولین عشاق میں سے تھے۔ جنہوںنے اپنے کثیر ارادت مندوں اور عقیدت مندوں کی پروانہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کے دامن سے وابستگی اختیارکرلی تھی اورشاہی پر غلامی کو ترجیح دی۔ حضرت کو بھی آپ سے دلی محبت والفت تھی جس کا ذکر اکثر ان کی وفات کے بعد فرمایا کرتے تھے چنانچہ مارچ ۱۸۸۹ء؁ میں جب بیت اولیٰ ہوئی تو حضرت اقدس نے اس مقدس تقریب کے لئے حضرت صوفی صاحب رضی اللہ عنہ ہی کے مکان کا انتخاب فرمایا۔ پھراس کے بعد جب ازالہ اوہام کی تصنیف فرمائی تو اس میں اپنے مخلصین کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کے متعلق تحریر فرمایا ۔حبی فی اللہ منشی احمدجان صاحب مرحوم ۔اس وقت ایک نہایت غم سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ یہ پردرد قصہ مجھے لکھنا پڑا کہ اب یہ ہمارا دوست اس عالم میں موجود نہیں ہے۔ اورخداوند کریم ورحیم نے بہشت بریں کی طرف بلالیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ وانا بفراقہ لمحزونون ۔حاجی صاحب مغفور ومرحوم ایک جماعت کثیر کے پیشوا تھے اوران کے مریدوں میں آثار رشدو سعادت واتباع سنت نمایاں ہیں ۔اگرچہ حجرت موصوف اس عاجز کے شروع سلسلہ بیت سے پہلے ہی وفات پاچکے لیکن یہ امران کے خوارق میں سے دیکھتا ہوں کہ انہوںنے بیت اللہ کے قصد سے چند روز پہلے اس عاجز کو ایک خط ایسے انکسار سے لکھا جس میں انہوں نے درحقیقت اپنے تئیں اپنے دل میں سلسلہ بیعت میں داخل کرلیا۔ چنانچہ انہوںنے اس میں سیرۃ صالحین پراپنا توبہ کا اظہار کیا اور اپنی مغفرت کے لئے دعا چاہی اور لکھا کہ میں آپ کے للہی ربط کے زیر سایہ اپنے تئیں سمجھتا ہوں اورپھر لکھا کہ میری زندگی کا نہایت عمدہ حصہ یہی ہے کہ میں آپ کی جماعت میں داخل ہوگیا ہوں اورپھر کسرنفسی کے طورپر اپنے گزشتہ ایام کا شکوہ لکھا اور بہت سے رقت آمیز ایسے کلمات لکھے جن سے رونا آتا تھا۔ اس دوست کا وہ آخری خط جو ایک دردناک بیان سے بھرا ہوا ہے اب تک موجود ہے مگرافسوس کہ حج بیت اللہ سے واپس آتے وقت پھراس مخدوم پر بیماری کاایسا غلبہ طاری ہوا کہ اس دورافتادہ کو ملاقات کا اتفاق نہ ہوا بلکہ چند روز کے بعد ہی وفات کی خبر سنی گئی اورخبر سنتے ہی ایک جماعت کے ساتھ قادیان میں نماز جنازہ پڑھی گئی۔ حاجی صاحب مرحوم اظہار حق میں بہادرآدمی تھے بعض نافہم لوگوں نے حاجی صاحب موصوف کو اس عاجز کے ساتھ تعلق ارادت رکھنے سے منع کیا کہ اس میں آپ کی کسرشان ہے لیکن انہوںنے فرمایا کہ مجھے کسی شان کی پراہ نہیں اورنہ مریدوں کی حاجت‘‘۔
سرخی کے کشفی چھینٹوں کا حیرت انگیز نشان۔
۱۰؍جولائی ۱۸۸۵ء؁ (بمطابق ۲۷؍رمضان ۱۳۰۲ھ ) کا ذکر ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام طلوع آفتاب کے وقت حسب معمول مسجد مبارک کے مشرقی جانب حجرہ میں جو غسل خانہ کے طور پراستعمال ہوتا تھا شرقًا غرباً بچھی ہوئی ایک چارپائی پرآرام فرمارہے تھے تازہ پلستر کی وجہ سے حجرہ کی فضا میں خنکی سی تھی۔ چارپائی پر نہ کوئی بستر تھا نہ تکیہ اورحضرت اقدس بائیں کروٹ لیٹے بائیں کہنی سر کے نیچے رکھے اورچہرہ مبارک دائیں ہاتھ سے ڈھانپے ہوئے تھے اور حضور کے مخلص خادم منشی عبداللہ صاحب سنوری نیچے بیٹھے حضور کے پائوں داب رہے تھے کہ حضرت اقدس نے کشفی عالم میں دیکھا کہ بعض احکام قضاء وقدر حضرت نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں کہ آئندہ زمانہ میں ایسا ہوگا اور پھر اس کو دستخط کرانے کے لئے خداوند قادر مطلق جل شانہ کے سامنے پیش کیا ہے ۔ اور اس نے جو ایک اوربقیہ سرخی کا قلم کے منہ میں رہ گیا اوراس سے قضا ء وقدر کی کتاب پر دستخط کردیئے خدا کی معجزنمائی کا نشان دیکھو ادھر عالم کشف میں قلم کی سرخی چھڑکی گئی اورادھر یہ سرخی وجود خارجی میں منتقل ہوگئی۔ منشی صاحب نے سخت حیرت زدہ ہوکر بچشم خود دیکھا کہ حضورؑ کے ٹخنے پر سرخی کا ایک قطرہ پڑا ہے انہوںنے اپنی دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اس قطرہ پر رکھی تو وہ قطرہ ٹخنے اور انگلی پر بھی پھیل گیا۔ تب ا ن کے دل میں یہ آیت گزری صبغۃ اللہ ومن احسن اللہ صبغہ۔ انہوں نے سوچا کہ جب یہ اللہ کا رنگ ہے تو اس میں خوشبو بھی ہوگی مگراس میں خوشبو نہیں تھی۔ ابھی وہ اسی حیرت واستعجاب میں تھے کہ انہیں حضور کے کرتے پر بھی سرخی کے چند تازہ چھینٹے دیکھائی دیئے وہ مبہوت ہوکر آہستہ سے چارپائی سے اٹھے اور انہوںنے ان قطرات کا سراغ لگانے کے لئے چھت کا گوشہ گوشہ پوری باریک نظر سے دیکھ ڈالا انہیں اس وقت یہ بھی خیال ہوا کہ کہیں چھت پر کسی چھپکلی کی دم کٹنے سے خون نہ گرا ہو۔ مگروہ تو دست قدرت کا کشفی معجزہ تھا خارج میں اس کا کھوج کیا ملتا ناچار وہ چارپائی پر بیٹھ گئے اور دوبارہ پائوں دابنے کی خدمت میں مصروف ہوگئے ۔تھوڑی دیر بعد حضور عالم کشف سے بیدار ہوکر اٹھے اورمسجد مبارک میں تشریف لے آئے۔ منشی صاحب پھر دابنے لگے اوراس دوران میں انہوںنے حضرت سے سوال بھی کردیا کہ حضورآپ پر یہ سرخی کہاں سے گری ہے؟ حضورؑ نے بے توجہی سے فرمایا کہ آموں کا رس ہوگا۔ دوبار عرض کیا گیا کہ حضور یہ آموں کا رس نہیں یہ تو سرخی ہے اس پر حضور نے سرمبارک کو تھوڑی سی حرکت دے کر فرمای’’کتھے ہے‘‘ یعنی کہاں ہے۔ منشی صاحب نے کرتے پر وہ نشان دکھا کر کہا کہ یہ ہے ۔ اس پر حضور نے کرتہ سامنے کی طرف کھینچ کر اوراپنا سر ادھر پھر کرقطرہ کو دیکھا اورپھر (منشی صاحب کے بیان کے مطابق) پہلے بزرگوں کے کچھ واقعات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’خدا کی ہستی وراء الوراء ہے اوراس کو یہ آنکھیں دنیا میں نہیں دیکھ سکتیں البتہ اس کے بعض صفات جمالی یا جلالی متمثل ہوکر بزرگوں کو دکھائی دیئے جاتے ہیں۔
رویت باری تعالیٰ اور کشفی امور کے خارجی ظہور پر یوں واقعاتی روشنی ڈالنے کے بعد حضرت نے انہیں کشف کی پوری تفصیل سنائی بلکہ اپنے دست مبارک سے کشف میں قلم کے جھاڑنے اوردستخط کرنے کا نقشہ بھی کھینچا اوراسی طرز پر جنبش دی اوران سے پوچھا کہ اپنا کرتہ اورٹوپی دیکھیں کہیں ان پر بھی سرخی کا قطرہ تو نہیں گرا۔ انہوںنے کرتہ دیکھا تو وہ بالکل صاف تھا مگر ململ کی سفید ٹوپی پرایک قطرہ موجود تھا ۔منشی صاحب نے عاجزانہ درخواست کی کہ حضوراپنایہ اعجاز نما کرتہ انہیں تبرکاً عنایت فرمائیں۔ حضرت اقدس کا سلوک اپنے خدام ہی سے نہیں دشمنوں سے بھی فیاضانہ تھا لیکن آپ نے منشی صاحب کی یہ درخواست ماننے سے انکار کردیا اور فرمایا مجھے یہ اندیشہ ہے کہ ہمارے بعد اس سے شرک پھیلے گا۔ اورلوگ اس کی زیارت گاہ بناکر اس کی پوجا شروع کردیں گے ۔ انہوںنے عرض کیا رسول اللہ ﷺکے تبرکات جن صحابہ کے پاس تھے وہ مرتے ہوئے وصیتیں کرگئے کہ ان تبرکات کا ہمارے کفن کے ساتھ دفن کردینا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا جو تبرک جس صحابی کے پاس تھا وہ ان کے کفن کے ساتھ دفن کردیا گیا انہوں نے عرض کیا کہ حضور میں بھی مرتا ہوا وصیت کرجائوں گا اس پر حضرت اقدس نے فرمایا’’ہاں اگر یہ عہد کرتے ہوتو لے لو‘‘ چنانچہ حضرت نے جمعہ کے لئے کپڑے بدلے تو یہ کرتہ منشی صاحب کے سپرد کردیا اس اعجازی کرتے کو کپڑا نینو کہلاتا ہے اورسرخی کا رنگ ہلکا اورگلابی مائل تھا جس میں تینتالیس برس کی طویل مدت گزرنے کے باوجود خفیف سا تغیر بھی نہیں ہوا۔
نشان کے متعلق حضرت منشی صاحب کا حلفیہ بیان:۔
حضرت منشی صاحب کو اس نشان آسمانی پراس درجہ بصیرت وایمان حاصل تھا کہ ان کی زندگی میں ایک دفعہ مشہوراہلحدیث عالم مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری نے اس کشفی نشان پر تنقید کی تو حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری نے نہ صرف اپنی مفصل حلفیہ شہادت شائع کی بلکہ انہیں مباہلہ کا چیلنج بھی دے دیا مولوی صاحب نے چیلنج سے تو گریز اختیار کیا البتہ لکھا کہ ہمارے محلہ کی مسجد میں آکر قسم کھائیں چنانچہ وہ سلسلہ کے بعض اکابر کو ہمراہ لے کر بے کھٹکے امرت سر پہنچے اور مولوی ثناء اللہ صاحب کی مسجد میں اپنا مطبوعہ حلفیہ بیان ایسے دردانگیز رنگ میں پڑھ کر سنایا کہ سامعین پرایک لرزہ طاری ہوگیا نیز کہا کہ مولوی صاحب کے نزدیک یہ حلف کافی نہ ہوتو وہ جن الفاظ میں چاہین مجھ سے قسم کھلالیں۔ میں اپنی اولاد اپنے مال اوراپنی جان غرض یہ کہ ہرچیز کی قسم کھانے کے لئے تیار ہوں میں نے اس سرخی کے نشان کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ٹخنہ پر پڑا تھا اپنی شہادت کی انگلی لگا کردیکھا تھا اس سے میری سرخی لگ گئی تھی۔ اگر میں یہ جھوٹ کہتا ہوں تو میری انگلی کیا میرے جسم کا ذرہ ذرہ جہنم میں ڈالا جائے۔ اورسب سے بڑا جو عذاب ہے وہ مجھ پر نازل کیا جائے‘‘ حضرت منشی صاحب ایک عرصہ تک لوگوں کو یہ کرتہ دکھانے سے احتراز کرتے تھے۔ لیکن جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انہیں ارشاد فرمایا کہ اسے بہت کثرت سے دکھائو تا اس کی رؤیت کے گواہ بہت پیدا ہوجائیں تو وہ دکھانے لگے۔ اوریوں ہزاروں لوگوں کو اسے بچشم خود دیکھنے کا موقعہ مل گیا۔ حضرت منشی صاحب نے عمر بھر اعجازی کرتہ کی حفاظت کی اور سفر حضر میں ہمیشہ اپنے ساتھ ہی رکھتے تھے ۔بالآخر ۷؍اکتوبر ۱۹۲۷ء؁ کو انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا اوریہ قیمتی یاد گار بھی حضرت اقدس کی وصیت کے مطابق بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کردی گئی۔
شہب ثاقبہ کا آسمانی نظارہ
حضرت مسیح ناصریؑ نے اپنی آمد ثانی کے متعلق ایک یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ ’’اس وقت آسمان سے ستارے کریں گے اورجو قوتیں آسمان میں ہیں وہ بلائی جائیں گی‘‘ چنانچہ ۲۸؍نومبر ۸۸۵اء؁ کی شب کوآسمان پر شہب ثاقبہ کا یہ غیر معمولی نظارہ نمودار ہوا۔ اس وقت آسمان کی فضام ین ہر طرف اس درجہ بے شمار شعلے چل رہے تھے کہ گویا ان کی بارش ہورہی تھی ۔یورپ، امریکہ اورایشیا میں اس سے حیرت کی زبردست لہر دوڑ گئی اوراخباروں میں ان کی خبر نمایاں رنگ میں شائع ہوئی جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے اشارۃ بتایا تھا ۔یہ تصویری زبان میں اس امر کا اعلان تھا کہ آسمانی قوتیں اسلامی انقلاب کے لئے ہلادی گئی ہیں اور اب خدائی افواج کے سپہ سالار کی قیادت میں کفر وباطل کے قلعوں پرحملہ آور ہونے والی ہیں۔
شہب کی بارش کا یہ آسمانی نظارہ ابتدائے شب سے شروع ہوگیا تھا جسے آپ بہت دیر تک دیکھتے اورخدائی بشارتوں کا تصور کرکے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس موقعہ پر آپ پر باربار’’مارمیت اذ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی‘‘ کا الہام اورالقاء کیا گیا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہوا ہے۔‘‘ اس موقعہ پر حضور کو (کشفا) دکھایا گیا کہ آپ اورحضرت سید عبدالقادرؒایک باغ میں سیر کررہے ہیں۔
اس آسمانی نظارہ کے بعد یورپ کے لوگوں کو وہ ستارہ دکھائی دیا جو حضرت مسیحؑ کے ظہور کے وقت نکلا تھا۔ اورآپ کو بتایا گیا کہ یہ ستارہ بھی آپ کی صداقت کے لئے ایک دوسرا چمکتا ہوا نشان ہے۔













ماموریت کا پانچواں سال
ہوشیار پور کا مبارک سفر
’’پسر موعود‘‘ کے متعلق عظیم الشان پیشگوئی کا انکشاف
(۱۸۸۶ء؁)

گذشتہ نوشتوں میں پسر موعود کی پیشگوئی:۔ اب ہم ۱۸۸۶ء؁ میں قدم رکھ رہے ہیں جو تاریخ احمدیت میں ایک نہایت درجہ امتیازی حیثیت رکھتاہے کیونکہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کودین اسلام کے شرف اور آنحضرت ﷺ کی صداقت وعظمت کے اظہار کے لئے ایک ’’پسر موعود‘‘ کی عظیم الشان خبردی گئی گویہ پیشگوئی اپنی تفصیلات کے اعتبار سے پہلی دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ پر منکشف ہوئی مگر اپنی اصولی شکل میں وہ ہزاروں برس سے موجود تھی ۔چنانچہ مذہبی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء بنی اسرائیل کے سامنے یہ منادی کی گئی تھی کہ مسیح موعود کے انتقال کے بعد اس کا فرزند اورپوتا اس کی (آسمانی) بادشاہت کا وارث ہوگا۔ بعد ازاں جب نعمت نبوت بنی اسمٰعیل کی طرف منتقل ہوئی تو پیغمبر دوعالم ﷺ نے مسیح موعود کے متعلق یہ خبر دی’ ’یَتَزَوَّجَ وَیُوْلَدُ لَہٗ یعنی وہ شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہوگی۔ اب صاف ظاہر ہے کہ محض شادی اور اولاد کا وجود تو کسی مامورالٰہی کی سچائی پربرہان نہیں بن سکتا۔ جب تک وہ اپنے اندر بھاری نشان نہ رکھتے ہوں۔ پس بے شبہ مخبر صادق کا مقصود یہ تھا کہ مسیح موعود ایک موعود شادی کرے گا جو ایک زبردست آیت اللہ ہوگی جس کے نتیجے میں اسے ایک بلند مقام رکھنے والا صالح فرزند عطا عطا کیا جائے گا ۔جو اس کے روحانی کمالات کا نظیر ومثیل ہوگا اورجانشین بھی! وہ ہرامر میں اس کا مطیع ہوگا اس کا شمار درگاہ الٰہی کے معزز بندوں میں ہوگا اوروہ دین اسلام کی حمایت۔
اب چونکہ اس موعود کے ظہور کا زمانہ قریب آرہا تھا اس لئے خداتعالیٰ کی طرف سے اسلام کے مختلف باکمال بزرگوں کو بھی اطلاع دے دی گئی ۔چنانچہ روم میں مولوی جلال الدینؒ (۱۲۰۷۔۱۲۷۳) ہندوستان میں حضرت نعمت اللہ ولی ہانسوی ۱۱۶۵ء؁ اور شام میں حضرت محی الدین ابن عربی )۱۱۶۴۔۱۲۴۰ء) نے کشفی آنکھ سے اس موعود کو دیکھا اوراپنے اپنے زمانہ میں اس کی خبر دیتے رہے بلکہ پانچویں صدی ہجری کے شامی بزرگ حضرت امام یحیٰی بن عقبؒنے تو کھلے لفظوں میں پیشگوئی فرمائی کہ۔
وَمَحْمُوْدٌسَیَََظْھَرُ بَعْدَ ھٰذَا ۔۔۔۔۔۔۔وَیَمْلِکُ الشَّامَ بَلَا قِتَالِ
یعنی مسیح موعودؑ اور ایک عربی النسل انسان کے بعد محمود ظاہر ہوگا جو ملک شام کو کسی (مادی) جنگ کے بغیر فتح کرے گا۔ بعض ائمہ شیعہ کو بھی بتایا گیا کہ ایک آنے والے موعود کا اسم گرامی ’’محمود‘‘ ہوگا۔
ہوشیار پور کا مبارک سفر:۔ ان قدیم نوشتوں کے جلد پورا کرنے کے لئے خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں قادیان سے باہر چلہ کشی کرنے کی تحریک اٹھی اورآپ نے ۱۸۸۴ء؁ میں سوجان پور کا فیصلہ کرکے اپنے عقید تمند منشی عبداللہ صاحب سنوری کو اپنی منشاء سے اطلاع بھی دے دی مگر حضور کو الہاماً بتایا گیا کہ آپ کی عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی۔ سوحضور بہلی میں بیٹھ کر دریائے بیاس کے راستے ۲۲؍جنوری ۱۸۸۶ء؁ کو ہوشیار پور تشریف لے گئے اور چلہ کشی کے نتیجے میں مصلح موعود اورپردہ غیب میں پوشیدہ جماعت کے شاندار مستقبل کے متعلق بھاری بشارتیں پانے اور تبلیغ اسلام کی مہمات میں حصہ لینے کے بعد ۱۷؍ مارچ ۱۸۸۶ء؁ کو بانیل مرام واپس قادیان پہنچے۔
حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری (جنہیں اس موقعہ پر ابتداء سے آخرتک ہمسفررہنے کا شرف نصیب ہوا) اس مبارک سفر کی روداد یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’ حضرت صاحب نے ۱۸۸۴ء؁ میں ارادہ فرمایا تھا کہ قادیان سے باہر جاکر کہیں چلہ کشی فرمائیں گے اور ہندوستان کی سیر بھی کریں گے۔ چنانچہ آپ نے ارادہ فرمایا کہ سوجان پور ضلع گورداسپور میں جاکر خلوت میں رہیں اوراس کے متعلق حضور نے ایک اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا پوسٹ کارڈ بھی مجھے روانہ فرمایا۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے بھی اس سفر اور ہندوستان کے سفر میں حضور ساتھ رکھیں۔ حضور نے منظور فرمالیا۔ مگرپھر حضور کو اس سفر سوجان پور کے متعلق الہام ہوا کہ تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی۔ چنانچہ آپ نے سوجان پور جانے کا ارادہ ترک کردیا۔ ہوشیار پور جانے کاارادہ کرلیا۔ جب آپ ماہ جنوری ۱۸۸۶ء؁ میں ہوشیار پور جانے لگے تو مجھے خط لکھ کر حضور نے قادیان بلالیا۔ اورشیخ مہر علی رئیس ہوشیار پور کو خط لکھا کہ میں دوماہ کے واسطے ہوشیار پور آنا چاہتا ہوں کسی ایسے مکان کا انتظام کردیں جو شہر کے ایک کنارہ پر ہواوراس میں بالا خانہ بھی ہو۔ شیخ مہر علی نے اپنا ایک مکان جو طویلہ کے نام سے مشہور تھا خالی کروادیا۔ حضور بہلی میں بیٹھ کر دریائے بیاس کے راستے تشریف لے گئے۔ میں اور شیخ حامد علی اور فتح خاں ساتھ تھے۔۔۔۔۔۔ فتح خاں رسولپور متصل ’’ٹانڈہ ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا اورحضور کا بڑا معتقد تھا مگر بعد میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے اثر کے نیچے مرتد ہوگیا۔ حضور جب دریاپر پہنچے تو چونکہ کشتی تک پہنچنے کے رستہ میں کچھ پانی تھا اس لئے ملاح نے حضور کو اٹھا کر کشتی میں بٹھایا جس پر حضور نے اسے ایک روپیہ انعام دیا۔ دریا میں جب کشتی چل رہی تھی حضور نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ میاں عبداللہ کامل کی صحبت اس سفر دریا کی طرح ہے جس میں پار ہونے کی بھی امید ہے اور غرق ہونے کا بھی اندیشہ ہے ۔میں نے حضور کی یہ بات سرسری طور پر سنی مگر جب فتح خاں مرتد ہوا تو مجھے حضرت کی یہ بات یاد آئی ۔خیر ہم راستہ میں فتح خاں کے گائوں میں قیام کرتے ہوئے دوسرے دن ہوشیار پور پہنچے وہاں جاتے ہی حضرت صاحب نے طویلہ کے بالا خانہ میں قیام فرمایا اور اس غرض سے کہ ہمارا آپس میں کوئی جھگڑا نہ ہو ہم تینوں کے الگ الگ کام مقرر فرمادیئے ۔چنانچہ میرے سپرد کھانا پکانے کا کام ہوا ۔فتح خاں کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ بازار سے سودا وغیرہ لایا کرے شیخ حامد علی کا یہ کام مقرر ہوا کہ گھر کا بالائی کام اورآنے جانے والے کی مہمان نوازی کرے۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے بذریعہ دستی اشتہارات اعلان کردیا کہ چالیس دن تک مجھے کوئی صاحب ملنے نہ آویں۔ اورنہ کوئی صاحب مجھے دعوت کے لئے بلائیں۔ ان چالیس دن کے گزرنے کے بعد میں یہاں بیس دن اور ٹھہروں گا۔ ان بیس دنوں میں ملنے والے ملیں دعوت کا ارادہ رکھنے والے دعوت کرسکتے ہیں اورسوال وجواب کرنے والے سوال وجواب کرلیں ۔اورحضرت صاحب نے ہم کو بھی حکم دے دیا کہ ڈیوڑھی کے اندر کی زنجیر ہروقت لگی رہے اورگھر میں بھی کوئی شخص مجھے نہ بلائے ۔میں اگر کسی کو بلائوں تو وہ اسی حد تک میری بات کا جواب دے جس حد تک کہ ضروری ہے اورنہ اوپر بلاخانہ میں کوئی میرے پاس آوے۔ میرا کھانا اوپر پہنچادیا جاوے مگراس کا انتظار نہ کیا جاوے کہ میں کھانا کھالوں ۔خالی برتن پھر دوسرے وقت لے جایا کریں۔ نماز میں اوپر الگ پڑھا کروں گا تم نیچے پڑھ لیا کرو۔ جمعہ کے لئے حضرت صاحب نے فرمایا کوئی ویران سی مسجد تلاش کرو جو شہر کے ایک طرف ہو۔جہاں ہم علیحدگی میں نماز ادا کرسکیں۔ چنانچہ شہر کے باہرایک باغ تھا اس میں ایک چھوٹی سی ویران مسجد تھی ۔وہاں جمعہ کے دن حضور تشریف لے جایا کرتے تھے اورہم کو نماز پڑھاتے تھے اورخطبہ بھی خود پڑھتے تھے۔
’’میں کھانا چھوڑنے اوپر جایاکرتا تھا اورحضور سے کوئی بات نہیں کرتا تھا مگر کبھی حضور مجھ سے خود کوئی بات کرتے تھے تو جواب دے دیتا تھا ۔ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا ۔میاں عبداللہ ان دنوں میں مجھ پر بڑے بڑے خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلے ہیں اور بعض اوقات دیر دیر تک خدا تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے اگران کو لکھا جاوے تو کئی ورق ہوجاویں۔۔۔۔۔۔۔۔پسر موعودکے متعلق الہامات بھی اسی چلہ میں ہوئے تھے اور بعد چلہ کے ہوشیار پور سے ہی آپ نے اس پیشگوئی کااعلان فرمایا تھا جب چالیس دن گزر گئے تو پھر آپ حسب اعلان بیس دن اور وہاں ٹھہرے۔ ان دنوں میں کئی لوگوں نے دعوتیں کیں اور کئی لوگ مذہبی تبادلہ خیالات کے لئے اور باہر سے حضور کے پرانے ملنے والے لوگ بھی مہمان آئے انہی دنوں میں مرلی دھر سے آپ کا مباحثہ ہوا۔ جو سرمہ چشم آریہ میں درج ہے جب دو مہینے کی مدت پوری ہوگی تو حضرت صاحب واپس اسی راستہ سے قادیان روانہ ہوئے ہوشیار پور سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک بزرگ کی قبر ہے جہاں کچھ باغیچہ سا لگا ہواتھا وہاں پہنچ کر حضور تھوڑی دیر کے لئے بہلی سے اتر آئے اور فرمایا یہ عمدہ سایہ دار جگہ ہے یہاں تھوڑی دیر ٹھہرجاتے ہیں اس کے بعد حضور قبر کی طرف تشریف لے گئے میں بھی پیچھے پیچھے ساتھ ہوگیا۔ اور شیخ حامد علی اور فتح خاں بہلی کے پاس رہے آپ مقبرہ پر پہنچ کر اس کا دروازہ کھول کر اندر گئے اور قبر کے سرہانے کھڑے ہوکر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور تھوڑی دیر تک دعا فرماتے رہے پھر واپس آئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’جب میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو جس بزرگ کی یہ قبر ہے وہ قبر سے نکل کر دو زانو ہوکر میرے سامنے بیٹھ گئے اور اگر آپ ساتھ نہ ہوتے تو میں ان سے باتیں بھی کرلیتا۔ ان کی آنکھیں موٹی موٹی ہیں اور رنگ سانولا ہے۔‘‘ پھر کہا کہ دیکھو اگر یہاں کوئی مجاور ہے تو اس سے ان کے حالات پوچھیں۔ چنانچہ حضور نے مجاورسے دریافت کیا۔ اس نے کہا میں نے ان کو خود نہیں دیکھا کیونکہ ان کی وفات کو قریباً ایک سو سال گزرگیا ہے۔ ہاں اپنے باپ یا دادا سے سنا ہے کہ یہ اس علاقہ کے بڑے بزرگ تھے اور اس علاقہ میں ان کا بہت اثر تھا۔ حضور نے پوچھا ان کا حلیہ کیاتھا؟وہ کہنے لگا سنا ہے سانولا رنگ تھا اور موٹی موٹی آنکھیں تھیں۔ پھر ہم وہاں سے روانہ ہو کر قادیان پہنچ گئے۔‘‘(۱۱)
پسر موعود اور جماعت کی ترقی سے متعلق زبردست پیشگوئی
سفر ہوشیار پور کے ان اجمالی حالات میں حضور کی چلہ کشی پسر موعود کی پیشگوئی اور مباحثہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جن کا تفصیلی ذکر اب کیا جاتا ہے۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے ) ہوشیار پور میں محض چلہ کشی کے لئے تشریف لے گئے تھے اورشیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کے مکان کی بالائی منزل میں آپ چالیس روز تک دعائوں میں مصروف رہے اس دوران میں حضور کی خلوت نشینی کا عجیب رنگ تھا۔ شہر والوں سے تو دستی اشتہارات کے ذریعہ سے ملاقات کی ممانعت تھی اور اپنے تینوں خادموں کو بھی جو آپ کے ہمسفر تھے زبانی یہ حکم دے دیا تھا کہ ڈیوڑھی کی زنجیر ہر وقت لگی رہے اور کوئی شخص گھرمیں بھی مجھے نہ بلائے میں اگر کسی کو بلائوں تووہ اتنا ہی میری بات کا جواب دے جتنا ضروری ہے کھانا پہنچانے کے لئے بھی حضور سے انہیں اوپر اجازت لے کر جانا پـڑتاتھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس عرصہ میں مکالمات ومخاطبات کا وسیع سلسلہ جاری ہوا۔ چنانچہ منشی عبداللہ صاحب سنوری ایک دفعہ جب کھانا لے کر اوپر گئے تو حضور نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے۔’’بورک من فیھا ومن حولھا‘‘۔ اورحضور نے تشریح فرمائی کہ من فیھا سے تو میں مراد ہوں اورمن حولھا سے تم لوگ۔ اسی طرح ایک دوسرے موقعہ پر فرمایا۔’’مجھے خدا اس طرح مخاطب کرتا ہے اور مجھ سے اس طرح کی باتیں کرتا ہے کہ اگر میں ان میں سے کچھ تھوڑا سا بھی ظاہر کردوں تو یہ جو معتقد نظر آتے ہیں سب پھر جاویں‘‘۔(۱۲)ان سب الہامات میں اہمیت اس پیشگوئی کو حاصل ہے جس میں آپ کو پسر موعود کی خبر دی گئی۔ اسی لئے جب چلہ ختم ہوا تو حضرت اقدس نے اپنے قلم سے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو ایک اشتہار تحریر فرمایا۔ جو اخبار ریاض ہند امرت سر یکم مارچ ۱۸۸۶ء کی اشاعت میں بطور ضمیمہ شائع ہوا چنانچہ آپ نے لکھا۔
’’پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ واعلامہ عزوجل خدائے رحیم وکریم بزرگ وبرتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے (جل شانہ وعزاسمہ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعائوں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کردیا سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفرکی کلید تجھے ملتی ہے اے مظفر! تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پـڑے ہیں باہر آویں اور تادین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں۔ میں کہ تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی ﷺ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہوجائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ایک زکی غلام(لڑکا) تجھے ملے گا وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل ہوگا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے ‘وہ نور اللہ ہے مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت وغیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین وفہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری وباطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والاہوگا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دل بند گرامی ارجمند مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَالْاٰخَرِ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعُلَائِ کَاَنَّ اللہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَائِ۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا وہ جلد جلد بڑھے گا اوراسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیںاس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ وَکَانَ اَمْرًا مَقْضِیّاً۔
پھر خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیر نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھائوں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اورہر یک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لاولدرہ کر ختم ہوجائی گی اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہوجائیں گے ان کے گھر بیوائوں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔ خدا تیری برکتیں اردگر پھیلائے گا اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ڈرائونا گھر برکتوں سے بھر دے گا تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہوجائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ میں تجھے اٹھائوں گا اور اپنی طرف بلالوں گا پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا اور ایساہو گا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھائوں گا اور ان کے نفوس واموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت (۱۳) بخشوں گا اوروہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہ کرے گا اوروہ اعلیٰ حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے تو مجھے ایسا ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل(یعنی ظلی طور پر ان سے مشابہت رکھتا ہے) تو مجھے ایسا ہے جیسی میری توحید۔ تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں اوروہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے ‘ کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا۔ یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندہ کی نسبت شک میں ہو اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندہ پر کیا تو اس نشان رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگرتم سچے ہو اور اگر تم پیش نہ کرسکو اور یادرکھو کہ ہرگز پیش نہ کرسکو گے تو اس آگے سے ڈرو کہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اورحد سے بڑھنے والوں کے لئے تیار ہے ۔ فقط ‘‘(۱۴)
اس اشتہار کے بعد حضرت اقدس ؑ کو مزید بتایا گیا کہ ’’ایسا لڑکا بموجب وعدہ الٰہی ۹ برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے بہرحال اس عرصہ کے اندر پیدا ہوجائے گا۔(۱۵) نیز چند روز بعد ۸۔ اپریل ۱۸۸۶ء کو جناب الٰہی کی طرف توجہ کرنے پر منکشف ہوا ’’کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کرسکتا۔‘‘ تاہم یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جواب پیدا ہوگا یہی پسر موعود ہے یاوہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میںپیدا ہوگا۔ (۱۶)














ماسٹر مرلی دھر صاحب سے مباحثہ اور ’’ سرمہ چشم آریہ ‘‘
کی تصنیف و اشاعت
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر ہوشیار پور میں چلہ کشی اور پیشگوئی ’’ پسر موعود‘‘ کے بعد دوسرا اہم واقعہ مباحثہ مرلی دھر ہے۔
ماسٹر مرلی دھر صاحب آف ہوشیار پور سے مباحثہ :۔
ماسٹر مرلی دھر صاحب ( جو آریہ سماج ہوشیار پور کے ایک ممتاز رکن تھے) حضرت اقدس کی خدمت میں آئے اور درخواست کی کہ وہ اسلامی تعلیمات پر چند سوالات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ خدا کا پہلوان تو مدت سے للکار رہا تھا کہ کوئی آریہ سماجی لیڈر مرد میدان بنے۔ چنانچہ اب جو خود آریہ سماج کی طرف سے ایک تحریری مذہبی مباحثہ کی طرح ڈالی گئی تو حضور نے اسے بسر وچشم قبول فرما لیا۔ اور اس دینی مذاکرہ کو غیر جانبدارانہ سطح پر لے جانے کے لئے یہ تجویز کی کہ ماسٹر صاحب ایک نشست میں اسلام پر اعتراضات کریں اور آپ ان کے جوابات دیں۔ اور دوسری نشست میں حضور آریہ سماج کے مسلمات پر سوال کریں گے اور ماسٹر صاحب ان کا جواب دیں گے ۔ ماسٹر صاحب نے اس تجویز سے اتفاق ظاہر کیا۔ بحث کے لئے حضرت اقدسؑ کی فرودگاہ تجویز ہوئی ۔ اور مباحثہ کی دو نشتوں کے لئے گیارہ مارچ کی شب اور چودہ مارچ کا دن قرار پایا ۔ اور دونوں بحثوں سے متعلق یہ بات بھی طے ہوئی کہ بحث کا خاتمہ جواب الجواب کے جواب سے ہو۔ اس سے پہلے نہ ہو چنانچہ گیارہ مارچ ۱۸۸۶ء کی پہلی نشست میں ماسٹر صاحب اسلام پر چھ سوالات کرنے کی تیاری کرکے آئے تھے اور اس کا اظہار بھی انہوں نے کیا مگر ابھی انہوں نے معجزہ شق القمر کے متعلق ہی اپنا پہلا مایہ ناز اعتراض پیش کیا تھا کہ ان کی علمیت کا سارا بھرم کھل گیا اور وہ اپنی ناکامی کا داغ مٹانے کے لئے عین اس وقت جب کہ حضور کی طرف سے جواب الجواب کے جواب کا وقت آیا تو معاہدہ کے خلاف محض رات کی طوالت کے بہانے سے جانے کا قصد کرنے لگے ۔ اکثر ہندو حاضرین بالخصوص والی ریاست سو کیت کے بڑے بیٹے میاں شترو گہن صاحب نے جو اس مجلس میں موجود تھے کئی بار ماسٹر صاحب سے کہا کہ آپ جواب الجواب کا جواب لکھنے دیں ہم لوگ بخوشی بیٹھیں گے ہمیں کسی قسم کی تکلیف نہیں بلکہ ہمیں جواب سننے کا شوق ہے لیکن انہوں نے ایک نہ مانی۔ آخر حضرت اقدسؑ نے فرمایا یہ جواب تحریر ہونے سے رہ نہیں سکتا۔ اگر آپ اس کو اس وقت ٹالنا چاہتے ہیں تو یہ رسالہ کے ساتھ شامل کیا جائیگا۔ اس پر انہوں نے بادل ناخواستہ اس کا شامل رسالہ کیا جانا تسلیم کر لیا۔ لیکن جواب کا اس مجلس میں تحریر ہو کر پیش ہونا چونکہ ان کو ناگوار تھا اس لئے وہ اٹھ کر چل دیئے۔
پہلی نشست کا تو یوں حشر ہوا اب دوسری نشست کی کیفیت سنئے۔ اس دن حضرت اقدسؑ کا حق تھا کہ پہلے اپنے اعتراض پیش فرماتے ۔ مگر ماسٹر صاحب نے وقت ضائع کرنے کے لئے پہلی نشست کی بحث سے متعلق ایک فضول جھگڑا شروع کر دیا۔ اور یہ چند سطریں لکھ کر اور ان پر اپنے دستخط کرکے جلسہ عام میں ایک بڑے جوش سے کھڑے ہو کر سنائیں کہ ’’ آج پہلے اس کے کہ میں کوئی سوال پیش کروں مرزا صاحب کی پہلے روز کی تقریر میں سے وہ حصہ جو انہوں نے فرمایا کہ ستیارتھ پر کاش میں لکھاہے کہ روحیں اوس پر پھلتی ہیں اور عورتیں کھاتی ہیں تو آدمی پیدا ہوتے ہیں پیش کرتا ہوں ۔ یہ ستیارتھ پرکاش میں کسی جگہ نہیں ۔ اگر ہے تو ستیارتھ پرکاش میں دیتا ہوں اس میں سے نکال کر دکھلادیں تاکہ سچ اور جھوٹ کی نرقی لوگ کر لیں۔ ‘‘ اس کے جواب میںحضور نے کہا کہ پہلے روز کی تقریر اسی روز کے ساتھ ختم ہوگئی۔ آپ کو چاہئے تھا کہ اسی دن یہ مطالبہ پیش کرتے مگر ماسٹر صاحب سراسر مجادلہ کی راہ سے مصر تھے کہ جب تک اس امر کا تصفیہ نہ ہو لے دوسری گفتگو نہیں کر سکتے ۔ اس پر مولوی الٰہی بخش صاحب وکیل نے بھی انہیں بہت سمجھایا کہ اس موقعہ پر گذشتہ قصوں کو لے بیٹھنا بے جا ہے آج کے دن آج ہی کی بحث ہونی چاہیئے۔ آخر جب کافی ردو قدح ہو چکی تو حضرت اقدسؑ نے قضیہ ختم کرکے اصل موضوع کی طرف لانے کے لئے یہ تحریر لکھ دی کہ جب ہم یہ بحث شائع کریں گے تو اس مقام پر ستیار تھ پرکاش کا حوالہ بھی لکھ دیں گے اس حکمت عملی سے یہ جھگڑا رفع دفع ہوا۔ اور اصل کارروائی شروع ہوئی۔
چنانچہ اس کے بعد حضور کی طرف سے آریہ سماج کے اس اصول کے متعلق تحریری اعتراض پیش ہوا کہ آریہ سماج کا یہ عقیدہ کہ پرمیشر نے کوئی روح پیدا نہیں کی اور نہ وہ کسی کو خواہ کوئی کیسا ہی راست باز اور سچا پر ستار ہو ابدی نجات بخشے گا۔خدا تعالیٰ کی توحید اور رحمت دونوں کے صریح منافی ہے جب یہ زبردست اعتراض جلسہ عام میں سنایا گیا تو ماسٹر صاحب پر ایک عجیب حالت طاری ہوئی جس کی کیفیت ماسٹر صاحب ہی کا جی جانتا ہوگا۔ انہیں اس وقت کچھ بھی نہیں سوجھتا تھا کہ اس کا کیا جواب دیں ۔ اسی لئے گھنٹہ سوا گھنٹہ تک یہی عذر پیش کرتے رہے کہ یہ سوال ایک انہیں دو ہیں۔ حضورؑ نے بتلایا کہ حقیقت میں سوال ایک ہی ہے یعنی خدا تعالیٰ کی خالقیت سے انکار کرنا۔ اور میعادی مکتی ( نجات ) تو اس خراب اصول کا ایک بد اثر ہے ۔ جو اس سے الگ نہیں ہو سکتا ۔ اس جہت سے سوال کے دونوں ٹکڑے حقیقت میں ایک ہی ہیں کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کی خالقیت سے منکر ہو گا اس کے لئے ممکن ہی نہیں کہ ہمیشہ کی نجات کا اقرار کر سکے۔ سو انکار خالقیت اور انکار نجات جاودانی باہم لازم ملزوم ہیں۔ پس جو شخص یہ ثابت کرنا چاہے کہ خدا تعالیٰ کے رب العالمین اور خالق نہ ہونے میں کوئی حرج نہیں ۔ اس کو یہ ثابت کرنا بھی لازم آجائے گا کہ خدا تعالیٰ کے کامل بندوں کا ہمیشہ جنم مرن کے عذاب میں مبتلا رہنا اور کبھی دائمی نجات نہ پانا یہ بھی کچھ مضائقہ کی بات نہیں۔ غرض بار بار سمجھانے کے بعد ماسٹر صاحب کچھ سمجھے اور جواب لکھنا شروع کیا۔ اور تین گھنٹہ میں سوال کے ایک ٹکڑے کا جواب قلمبند کرکے سنایا اور دوسرے حصہ سوال کے متعلق جو مکتی کے بارے میں تھا یہ جواب دیا کہ اس کا جواب ہم اپنے مکان سے لکھ کر بھیج دیں گے ۔ حضور نے ایسا جواب لینے سے انکار کر کے فرمایا کہ آپ نے جو کچھ لکھنا ہے اسی جلسہ میں حاضرین کے روبرو تحریر کریں۔ اگر گھر میں بیٹھ کر لکھنا تھا تو پھر اس مباحثہ کی ضرورت ہی کیا تھی؟ مگر ماسٹر صاحب تو محض دفع الوقتی کے لئے آئے تھے وہ کیونکر مانتے ۔ حضور نے جب ان کی یہ ہٹ دھرمی دیکھی تو فرمایا جس قدر آپ نے لکھا ہے وہی ہمیں دے دیں تا اس کا ہم جواب الجواب لکھیں ۔ ماسٹر صاحب جو پہلی نشست میں جواب الجواب کے جواب سننے پر دہشت زدہ ہو گئے تھے ۔ اب جواب الجواب لکھنے پر بوکھلاگئے اور معذرت کی کہ اب ہماری سماج کا وقت ہے ہم بیٹھ نہیں سکتے۔ ماسٹر صاحب نے ابتداء میں جب بہت سا وقت ادھر ادھر کی باتوں میں ضائع کرکے بہت آہستگی اور دھیماپن سے جواب لکھنا شروع کیا تھا تو حضرت اقدسؑ اسی وقت سمجھ گئے کہ ان کی نیت بخیر نہیں اور اسی لئے حضور نے پہلے ان سے احتیاطاً یہ کہا تھا کہ بہتر یوں ہے کہ جو ورق آپ لکھتے جائیں وہ مجھے دیتے جائیں تا میں اس کا جواب الجواب بھی لکھتا جائوں۔ ماسٹر صاحب کے ایک ساتھی لالہ لچھمن صاحب نے حضرت اقدسؑ کی بات سن کر کہا کہ میں آپ کی غرض سمجھ گیا لیکن ماسٹر صاحب ایسا کرنا نہیں چاہتے ۔ چنانچہ وہی بات ہوئی اور اخیر پر مباحثہ نا تمام چھوڑ کر انہوں نے سماج کا عذر کر دیا جو محض بہانہ تھا۔ اصل موجب تو سراسیمگی اور گھبراہٹ تھی جو اعتراض سنتے ہی ان کے دل و دماغ پر چھاگئی اور وہ کچھ ایسے مبہوت ہو گئے کہ چہرے پر ہوائیاں چھوٹنے لگیں اور ناکارہ عذرات پیش کرکے یہ چاہا کہ جواب دیئے بغیر ہی اٹھ کر چلے جائیں ۔ یہ وجہ تھی کہ سامعین بھی مایوس ہو کر منتشر ہوگئے اور بعض یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ اب کیا بیٹھیں اب تو بحث ختم ہوگئی ۔ یہ رنگ دیکھا تو ماسٹر صاحب نے شرم و ندامت سے کچھ لکھا جس کا آدھا حصہ تو کاغذ پر اور آدھا ان کے دل میں رہا۔ بہرحال وہ اپنے جو اب کو اس صورت میں چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضور نے ماسٹر صاحب سے اس مرحلہ پر یہ بھی فرمایا کہ اگر آپ اس وقت ٹھہرنا مصلحتاً مناسب نہیں سمجھتے ہیں تو میں دو روز اور اس جگہ ہوں اور اپنا دن رات اسی خدمت میں صرف کر سکتا ہو ں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ مجھے فرصت نہیں۔ اس جواب پر حضور کو سخت افسوس ہوا اور آپ نے فرمایا کہ آپ نے یہ اچھا نہیں کیا کہ جو کچھ معاہدہ ہو چکا تھا۔ اسے توڑ دیا ۔نہ آپ نے پورا جواب لکھا اور نہ ہمیں اب جواب الجواب لکھنے دیتے ہیں۔ بہرکیف یہ جواب الجواب بھی مجبورا ً بطور خود تحریر کر کے رسالے کے ساتھ شامل کر دیا جائے گا۔ یہ بات سنتے ہی ماسٹر صاحب اپنے رفقاء سمیت اٹھ کر چلے گئے اور حاضرین جلسہ پر صاف کھل گیا کہ ماسٹرصاحب کی یہ تمام کارروائی سر تاپا گریز اور کنارہ کشی کے لئے ایک بہانہ تھی۔ (۱)
اس نشست میں سامعین کی تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ تھی۔ صد ہا مسلمان اور ہندو اپنا کام چھوڑ کر محض مباحثے کی کارروائی دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے تھے ۔ اور صحن مکان حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جن میں شیخ مہر علی صاحب رئیس اعظم ہوشیار پور ، ڈاکٹر مصطفی علی صاحب، بابو احمد حسین صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس ہوشیار پور، مولوی الٰہی بخش صاحب وکیل ہوشیار پور ، میاں عبداللہ صاحب حکیم ، میاں شہاب الدین صاحب دفعدار، لالہ نرائن داس صاحب وکیل ، پنڈت جگن ناتھ صاحب وکیل ، لالہ لچھمن سنگھ صاحب ہیڈ ماسٹر لدھیانہ ، بابو ہر کشن داس صاحب سکینڈ ماسٹر ، لالہ گنیش داس صاحب وکیل، لالہ سیتارام صاحب مہاجن میاں شتروگہن صاحب، میاں شترنجی صاحب، منشی گلاب سنگھ صاحب سر رشتہ دار ، مولوی غلام رسول صاحب مدرس ، مولوی فتح دین صاحب مدرس خاص طور قابل ذکر ہیں۔
’’سرمہ چشم آریہ‘‘ کی تصنیف و اشاعت:۔
حضرت اقدسؑ نے یہ مباحثہ چند ماہ بعد ہی ستمبر ۱۸۸۶ء میں ’’سرمہ چشم آریہ‘‘ کے نام سے شائع فرما دیا ۔(۲) جس میں آپ نے ستیارتھ پرکاش کا مطلوبہ حوالہ اور اس کے علاوہ وہ جوابات بھی جو مباحثے میں ناتمام رہ گئے تھے اس خوبصورتی سے شامل کر دیئے کہ کتاب کو ایک تاریخی شاہکار کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ حضور نے اس کتاب میں آریہ سماج پر زبردست تنقید کی اور معجزات و خوارق قرآنی، عجائبات عالم ، روح کے خواص ، کشف قبور، انسان کامل اور قانون قدرت جیسے اہم مسائل پر بھی بڑی لطیف روشنی ڈالی اور بالخصوص بتایا کہ خدائی قانون کا احاطہ جب کسی انسان کے لئے ممکن نہیں تو کسی معجزہ کو قانون قدرت کے منافی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ؟ کتاب کا رد لکھنے والے کے لئے حضور نے پانچ سو روپیہ کا انعامی اشتہار بھی دیا۔ اور لطف یہ کہ اس کے لئے منشی جیون داس صاحب سیکرٹری آریہ سماج کو ثالث تجویز فرما دیا کہ اگر وہ قسم کھا کر شہادت دے دیں کہ کتاب کا جواب دے دیا گیا ہے تو محض ان کی شہادت پر حضور یہ انعام دے دیں گے ۔ اس انعامی چیلنج پر آریہ سماج نے بالکل چپ سادھ لی۔ لیکھرام نے ’’ نسخہ خبط احمدیہ ‘‘ کے ذریعہ سے اس کے رد کی جو ناکام کوشش کی وہ اس قابل نہیں کہ اس کا ذکر کیا جائے۔
’’سرمہ چشم آریہ ‘‘ ایسی معرکہ الاراء کتاب کی اشاعت پر اہلحدیث عالم مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ ’’ اشاعتہ السنہ ‘‘ میں ریویو کرتے ہوئے لکھا۔ ’’ یہ کتاب لاجواب مولف ’’ براہین احمدیہ ‘‘ مرزا غلام احمد رئیس قادیان کی تصنیف ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں جناب مصنف کا ایک ممبر آریہ سماج سے مباحثہ شائع ہوا ہے جو معجزہ شق القمر اور تعلیم دید پر بمقام ہوشیار پور ہوا تھا اس مباحثہ میں جناب مصنف نے تاریخی واقعات اور عقلی وجوہات سے معجزہ شق القمر ثابت کای ہے اور اس کے مقابلہ میں آریہ سماج کی کتاب (وید ) اور اس کی تعلیمات و عقائد ( تناسخ وغیرہ ) کا کافی دلائل سے ابطال کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حمیت و حمایت اسلام تو اس میں ہے کہ ایک ایک مسلمان دس دس بیس بیس نسخہ خرید کر ہندو مسلمانوں میں تقسیم کرے۔ اس میں ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اصول اسلام کی خوبی اور اصول مذہب آریہ کی برائی زیادہ شیوع پائے گی اور اس سے آریہ سماج کی ان مخالفانہ کارروائیوں کو جو اسلام کے مقابلہ میں وہ کرتے ہیں روک ہوگی۔
دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کتاب کی قیمت سے دوسری تصانیف مرزا صاحب ( سراج منیر وغیرہ) کے جلد چھپنے اور شائع ہونے کی ایک صورت پیدا ہوگی۔ ہم نے سنا ہے کہ اس وقت تک سراج منیر کا طبع ہونا عدم موجودگی زر کے سبب معرض التوا میں ہے اور اس کے مصارف طبع کے لئے آمد قیمت سرمہ چشم آریہ کا انتظار ہے ۔ یہ بات صحیح ہے تو مسلمانوں کی حالت پر کمال افسوس ہے کہ ایک شخص اسلام کی حمایت میں تمام جہان کے اہل مذہب سے مقابلہ کے لئے وقت اور فدا ہو رہا ہے پھر اہل اسلام کا اس کام کی مالی معاونت میں یہ حال ہے ۔ شاید ان خام خیالوں کو یہ خیال ہو گا کہ مرزا صاحب اپنے دس ہزار روپیہ کی جائیداد جس کو انہوں نے مخالفین اسلام کو مقابلہ پر انعام دینے کے لئے رکھا ہوا ہے فروخت کرکے صرف کر لیں تو پیچھے کو وہ ان کو مالی مدد دیں گے ۔ ان کا واقعی یہی خیال ہے تو ان کا حال اور بھی افسوس کے لائق ہے۔ (۳،۴)
مشہور عیسائی اخبار نورافشاں (۶۔ جنوری ۱۸۸۷ء ) نے ’’سرمہ چشم اریہ ‘‘ پر ان الفاظ میں تبصرہ لکھا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کتاب نے آریہ سماج کو پورے طور پر بے نقاب کر تے ہوئے اسے پاش پاش کردیا ہے کتاب کے فیصلہ کن دلائل کا رد کرنا قطعی طور پر ناممکن ہے ۔(۵)
’’سرمہ چشم آریہ ‘‘ میں آریہ سماج کے بنیادی اصولوں کی جس طرح دھجیاں اڑائی گئی ہیں اس کی یاد خود ماسٹر مرلی دھر آخر دم تک بھلا نہیں سکے۔ چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق اس رائے کا اظہار کیا کہ ’’ مرزا صاحب غیر معمولی علم رکھتے ہیں میں نے علمائے اسلام میں وہ چیز نہیں دیکھی جوان میں ہے ۔ ’’سرمہ چشم آریہ‘‘ سے متعلق جواب دیا۔ ’’ واقعات درست ہیں نتائج اپنے طرز پر مرزا صاحب نے پیدا کرلئے ہیں اور ہر شخص رائے قائم کر سکتا ہے ۔‘‘ حضرت عرفانیؓ نے کہا کہ نتائج ان واقعات سے ہی پیدا ہوتے ہیں تو کہا کہ اپنا اپنا خیال ہے ۔ آپ نے کہا کہ آپ رد کریں تو کہا ضرورت نہیں (۶)
ایک غیر احمدی عالم ( مولوی سید ابو الحسن علی ندوی ) نے اس عظیم الشان کتاب کے متعلق حال ہی میں اپنی یہ رائے شائع کی ہے کہ ۔
’’۱۸۸۶ء میں مرزا صاحب نے ہوشیار پو رمیں مرلی دھر آریہ سماج سے مناظرہ کیا۔ اس مناظرہ کے بارے میں انہوں نے ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس کا نام ’’سرمہ چشم آریہ ‘‘ ہے یہ کتاب مناظرہ مذاہب و فرق میں ان کی دوسری تصنیف ہے ۔
پہلے دن کے مناظرہ کا موضوع بحث ’’ معجزہ شق القمر کا عقلی و نقلی ثبوت ‘‘ تھا۔ مرزا صاحب نے اپنی اس کتاب میں نہ صرف اس معجزہ بلکہ معجزات ابنیاء کی پر زور و مدلل وکالت کی ہے ۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ معجزات و خوارق کا وقوع عقلا ممکن ہے محدود انسانی عقل اور علم اور محدود انفرادی تجربات کو اس کا حق نہیں کہ وہ ان معجزات و خوارق کا انکار کریں اور اس کائنات کے احاطہ کا دعویٰ کریں وہ بار بار اس حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ انسان کا علم محدودو مختصر اور امکان کا دائرہ بہت وسیع ہے ان کا اس پر بھی زور ہے کہ مذاہب و عقائد کے لئے ایمان بالغیب ضروری ہے اور اس میں اور عقل میں کوئی منافات نہیں اس لئے کہ عقل غیر محیط ہے۔ ‘‘(۷)
حق و باطل کے فیصلہ کی ایک آسان صورت او ردعوت مباہلہ
’’ سرمہ چشم آریہ ‘‘ میں حضرت اقدسؑ نے آریوں کو حق و باطل کے فیصلہ کی ایک آسان صورت بتائی کہ وہ کافی غورو فکر کے بعد قرآن مجید سے متعلق دو تین ایسے زبردست اعتراضات بحوالہ آیات قرآنی پیش کریں جو ان کی دانست میں سب سے قوی ہوں پھر آپ اگر ان کا مسکت جواب دینے سے قاصر رہے تو فی اعتراض پچاس روپیہ بطور جرمانہ ادا کریں گے لیکن اگر فریق مخالف کے اعتراضات لغو ثابت ہوئے تو اسے بلا توقف مسلمان ہونا پڑے گا۔
اس آسان طریق فیصلہ کے علاوہ حضرت اقدسؑ نے اتمام حجت کی غرض سے آریہ سماج کے مشہور اور نامور ممبروں بالخصوص لالہ مرلی دھر ، لالہ جیون داس اور منشی اندر من مراد آبادی کو دعوت مباہلہ بھی دی اور فرمایا کہ فیصلہ آسمانی کے انتظار کے لئے ایک برس کی مہلت ہوگی ۔ پھر اگر ایک برس گزرنے کے بعد مجھ پر کوئی عذاب اور وبال نازل ہوا یا حریف مقابل پر نازل نہ ہوا تو ان دونوں صورتوں میں پانچ سو روپیہ تاوان ادا کریں گے اس دعوت کے ساتھ ہی حضور نے اپنی طرف سے بطور نمونہ مباہلی کی دعا بھی شائع فرما دی ۔ خیال تھا کہ اس فیصلہ کن طریق سے گریز نہیں کیا جائے گا ۔مگر افسوس آریہ سماج نے گذشتہ روایات کے مطابق اس دعوت مباہلہ پر بھی سکوت ہی اختیار کیا۔ البتہ پنڈت لیکھرام نے ۱۸۸۸ء میں اپنی کتاب نسخہ ’’خبط احمدیہ‘‘ میں دعائے مباہلہ کرتے ہوئے لکھا ۔ ’’ اے پرمیشر ہم دونوں فریقوں میں سچا فیصلہ کر کیونکہ کاذب صادق کی طرح کبھی تیرے حضور میں عزت نہیں پا سکتا۔ ‘‘(۸) اللہ تعالیٰ نے ۶۔ مارچ ۱۸۹۷ء کو وہ فیصلہ کر دکھا یا جو لیکھرام نے اپنے منہ مانگا تھا جس سے آریہ سماج کے بطلان اور اسلام کی سچائی پر ابدی مہر لگ گئی ( اس کی تفصیل اسی جلد میں آگے آرہی ہے )
سفر انبالہ
اس سال (۱۸۸۶ء کے وسط میں ) حضرت اقدس نے انبالہ کا سفربھی اختیار فرمایا اور قریباً ایک ماہ تک محمد لطیف صاحب کی کوٹھی واقع صدر انبالہ احاطہ ناگ پھنی میں قیام پذیر رہنے کے بعد ۲۵۔ نومبر ۱۸۸۶ء کو قادیان تشریف لائے ۔ (۹)


ماموریت کا ساتواں سال
حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے جدی خاندان
سے متعلق خدا تعالیٰ کا ایک قہری نشان
(۱۸۸۸ء)
مولوی محمد امام الدین صاحب سے خط وکتابت :۔ منٹگمری میں ایک صاحب مولوی محمد امام الدین ’’فاتح الکتاب المبین ‘‘ ہوتے تھے جو مسلمانوں میں یہ ملحدانہ عقیدہ پھیلانے میں مصروف رہتے تھے کہ قرآن شریف سے قبل کی آسمانی کتابیں ہنوز قابل عمل ہیں اور قرآن شریف کے نزول سے منسوخ نہیں ہو ئیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بعض اہل اسلام کی تحریک پر حضرت اقدس کی خدمت میں بھی ۲۲۔ اپریل ۱۸۸۸ء کو ایک خط لکھا۔ حضرت اقدس ؑ نے اس کے جواب میں ۲۸۔ اپریل ۱۸۸۸ء کو ایک مفصل مکتوب تحریر فرمایا جس میں آپ نے اس فتنہ انگیز خیال کی تردید میں لکھا ۔ ’’میری دانست میں آپ نے ایک ایسا فضول اور بے بنیاد دعویٰ اپنے ذمہ لے لیا ہے جس کا ثبوت آپ کے لئے محال اور ممتنع ہے۔ بینات قرآنی سے آپ کیوں بھاگتے ہیں ۔ کیا کبھی قرآن شریف کی تلاوت کا بھی اتفاق نہیں ہوا۔ اللہ جل شانہ فرماتا ہے ۔ یَتْلُوْا صُحُفاً مُّطَھَّرَۃً فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ۔سو جس حالت اللہ جل شانہ آپ فرماتا ہے کہ تمام پاک صداقتیں جو پہلی کتابوں میں تھیں اس کتاب میں درج ہیں تو آپ ایسی جامع کتاب کو کیوں نظر تحقیر سے دیکھتے ہیں آپ کے لئے یہ طریق بہتر ہے کہ چند پاک صداقتیں کسی پہلی کتاب کی جو آپ کے گمان میں قرآن شریف میں نہیں پائی جاتیں اس عاجز کے سامنے پیش کریں پھر اگر یہ عاجز قرآن شریف سے وہ صداقتیں دکھلانے میں قاصر رہا تو آپ کا دعویٰ خود بخود ثابت ہو جائیگا کہ ایسی ضروری اور پاک صداقتیں قرآن شریف میں نہ پائی گئیں۔ ورنہ آپ کو اس غایت درجہ کی بے ادبی سے توبہ کرنی چاہیئے کہ جس کتاب کا نام اللہ جل شاہ ، نے جامع الکتاب اور نور مبین رکھا ہے آپ اس کتاب کو ناقص ٹھہراتے ہیں‘‘ (۱) اگلے سال ۳۰ ستمبر ۱۸۸۹ء کو حضرت اقدس نے ان کے نام ایک اور مکتوب میں بائبل کی قلعی کھولتے ہوئے لکھا ۔’’انجیل اور توریت کی حالت کی نسبت یہ آیت نہایت موزون معلوم ہوتی ہے ۔ وَاِثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَفْعِھِمَا انہوں نے اپنی قوم کو جن کے ہاتھ میں صدہا سال سے یہ کتابیں ہیں کیا فائدہ پہنچایا ہے جو آپ کو بھی پہنچائیں گی جن کے گندے اور غیر مہذب بیانات کے بڑے فاضل انگریز جان پورٹ ولائل وغیرہ جیسے قائل ہوگئے ہیںآپ نے ان میں کیا دیکھ لیا کہ آپ قائل نہیں ہوتے ۔ خدا تعالیٰ رحم کرے ۔ ‘‘(۲)حضرت اقدس ؑ کے ان زبردست دلائل سے مولوی امام الدین صاحب دم بخود رہ گئے ۔
آپ کے جدی خاندان کی طرف مخالفین اسلام کی پشت پناہی :۔
آریہ قوم پوری بے حجابی سے آنحضرتﷺ اسلام اور آپ کے خلاف دشنام طرازی اور گندہ ذہنی کا مظاہرہ کر رہی تھی کہ عیسائی پادری سستی شہرت کی خاطر میدان مقابلہ میں اتر آئے۔ حضور نے نشان نمائی کا جو چیلنج دے رکھا تھا چونکہ مسیحی دنیا اس کے جواب سے بالکل عاجز اور ابے بس تھی۔ اس لئے وہ آپ کے دعویٰ الہام و کلام پر تنقید کرکے اسلام کی سچائی مخدوش ثابت کرنے کے لئے کسی موزوں موقعہ کی تلاش میں تھی جو مئی ۱۸۸۸ء میں حضور کے نام نہاد خاندان نے پیدا کر دیا۔
جیسا کہ اوپر اشارۃ ذکر آچکا ہے کہ حضرت اقدسؑ کے چچازاد بھائی مرزا نظام الدین ، اما م الدین اور ان کے لگے بندھے احمد بیگ وغیرہ اسلام کے بد ترین مخالف تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ کلمات بلکہ گندی گالیوں کا استعمال ان لوگوں کا عام شیوہ ہو چکا تھا۔ ہر نوع کی رسوم قبیحہ کے خوگر، عقائد باطلہ کے عاشق اور بدعات شنیعہ میں مستغرق رہنے کو فخر محسوس کرتے تھے اور اسلام کے معاندین کی صف اول میں شامل تھے۔ وہ خدا جس نے صنم گدوں سے کعبے کے پاسبان پیدا کر ڈالے اس نے اس زمانہ میں بھی کفر کے اسی گہوارہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھڑا کر دیا۔ اور دیگر تمام مذاہب پر اسلام کو ابدی غلبہ بخشنے کے لئے آپ کو خلعت ماموریت سے سرفراز فرمایا۔ جس پر یہ ظالم آتش زیر پا ہو کر آپ کے خلاف پوری قوت سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اور نہ صرف آپ کو ایک مکار اور فریبی قرار دیا۔ بلکہ یہاں تک کہا کہ ہم کسی کلام کرنے والے یا قضاء وقدر کے مالک اور روحی کنندہ خدا کو نہیں جانتے ۔ یہ محض ڈھونگ اور مکرو فریب ہے جو شروع سے چلا آیا ہے اور قرآن محمد ( ﷺ) کی تصنیف ہے خدا کا الہام نہیں ہو سکتا۔
ایک روح فرساواقعہ :۔
یہ بد زبانیاں پورے زوروں پر تھیں کہ ایک شخص حضورؑ کی خدمت میں روتا چلاتا پہنچا۔ حضرت اقدس نے گھبرا کر پوچھا کہ کیا کسی فوت شدہ کی خبر آئی ہے ؟ اس نے کہا اس سے بھی بڑھ کر ۔ چنانچہ اس نے بتایا کہ میں ان عدوان دین کے پاس تھا کہ ان میں سے ایک بدبخت نے آنحضرتﷺ کی شان مبارک میں وہ گندے الفاظ استعمال کئے کہ ایسے کلمات کسی کافر سے بھی نہیں سنے گئے ۔ یہی نہیں انہوں نے خدا تعالیٰ کی شان اقدس میں بھی قبیح الفاظ کہے اور قرآن مجید کو نہایت بے دردی سے اپنے پائوں تلے روند کر بے حرمتی کی۔ حضرت اقدس نے اسے فرمایا کہ میں نے پہلے بھی ان کے پاس بیٹھنے سے منع کیا تھا۔ پس خدا سے ڈرو اور توبہ کرو۔ (۳)
نشان نمائی کا مطالبہ :۔ پھر ان کی خدا نا ترسی کی انتہا یہ ہوئی کہ ان کی شوخی اور بدزبانی کا حلقہ پرائیویٹ مجالس سے نکل کر پبلک کے اخبارات تک وسیع ہو گیا۔ چنانچہ جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے ۔ وہ حضرت اقدس کی دعوت نشان نمائی پر ہندوئوں کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے لیکھرام کو خود بلا کر قادیان لائے اور سخت فتنہ کھڑا کیا اور اگست ۱۸۸۸ء میں اخبار ’’چشمہ نور امرتسر‘‘ سے آپ کے خلاف ایک انتہائی دل آزار اور زہریلا خط بھی شائع کیا جس میں انہوں نے خدا کی ہستی کے ثبوت میں نہایت بے باکی کے ساتھ اپنے متعلق نشان کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم صرف اسی نشان کو نشان قرار دیں گے جو اللہ تعالیٰ ان کی ذات کے متعلق ظاہر کرے گا۔ یہ خط چونکہ آنحضرت ﷺ اور قرآن مجید کے خلاف گالیوں سے پرتھا۔ اس لئے ہندوستان کے غیر مسلموں بالخصوص عیسائیوں نے اسے خوب اچھالا اور ملک کے طول و عرض میں بڑے وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت ہوئی ۔
حضرت مسیح موعود ؑ کی دعا او رالٰہی خبر :۔
اسلام کے خلاف اپنے رشتہ داروں کی یہ منظم مخالفت دیکھ کر حضور کو شدید تکلیف پہنچی ۔ اشتہار کے ایک ایک لفظ سے شرارت ٹپکتی تھی۔ اور مضمون اتنا گندہ تھا کہ آسمان پھٹ جاتا تو بعید نہ تھا اور جسے اسلام کا کوئی ادنیٰ ہمدرد بھی پڑھتا تو قطعاً برداشت نہ کر سکتا۔ پھر آپ جو عظیم ترین عاشق رسول تھے وہ کیونکر برداشت کر سکتے۔ چنانچہ جونہی حضور نے یہ اشتہار دیکھا آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسورواں ہوگئے ۔ آپ نے دروازہ بند کر لیا اور آہ و بکا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گرگئے اور یہ پر زور دعا کی کہ اے رب ! اے رب! اپنے بندے کی نصرت فرما اور اپنے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر دے اے میرے رب میری التجا سن اور اسے قبول فرما یہ کب تک تیرا اور تیرے رسول ﷺ کا مذاق اڑائیں گے ۔ کہاں تک تیری کتاب کی تکذیب کریں گے اور تیرے نبی ﷺ کو گالیاں دیتے رہیں گے ۔ اے ازلی ابدی اے مددگار خدا! میں تیری رحمت کا واسطہ دے کر تیرے حضور فریاد کرتا ہوں۔ ‘‘(۴)
اللہ تعالیٰ نے یہ گریہ وزاری سن کر آپ کو الہاماً بتایا کہ میں نے ان کی بد کرداری اور سرکشی دیکھی ہے میں ان پر طرح طرح کی آفات ڈال کر انہیں آسمان کے نیچے سے نابود کردوں گا۔ اور تم جلد دیکھو گے کہ میں ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں اور ہم ہرایک بات پر قادر ہیں۔ میں ان کی عورتیں بیوہ، ان کے بچے یتیم اور ان کے گھرویران کر ڈالوں گا۔ اور اس طرح وہ اپنی باتوں اور کارروائیوں کا مزہ چکھیں گے ۔ لیکن میں انہیں یکا یک ہلاک نہیں کروں گا بلکہ تدریجاً پکڑوں گا تا انہیں رجوع اور توبہ کا موقعہ ملے ۔ میری *** ان پر ، ان کے گھروں پر ، ان کے چھوٹوں اور بڑوں پر، ان کی عورتوں اور مردوں پر (بلکہ ) ان کے گھر میں داخل ہونے والے مہمان پر بھی نازل ہوگی۔ اور ان تمام پر *** برسے گی اور صرف انہی لوگوں پر رحم کیا جائے گا جو ایمان لائیں ۔ مناسب حال عمل کریں ۔ ان سے تعلقات منقطع کر لیں۔ اور ان کی مجالس سے کنارہ کش ہو جائیں۔‘‘(۵)
اس کے بعد سفر ہوشیار پور میں آپ کو محمدی بیگم کی نانی اور مرزا احمد بیگ کی خواشد امن کے متعلق الہام ہوا۔ ’’رَئَیْتُ ھٰذِہِ الْمَرْاَۃَ وَاَثَرَ الْبُکَائِ عَلیٰ وَجْھِھَا فَقُلْتُ اَیَّتُھَا الْمَرْاَۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَائَ عَلیٰ عَقِبِکِ وَالْمُصِیْبَۃُ نَازِلَۃٌ عَلَیْکِ یَمُوْتُ وَیْبْقیٰ مِنْہُ کِلَاتٌ مُتَعَدِّ دَۃٌ (۶)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے خدا کا یہ انذاری پیغام اصولی رنگ میں اپنے رشتہ داروں تک پہنچادیا۔ لیکن وہ توبہ کرنے کی بجائے اور زیادہ خود سری پر اتر آئے جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایاگیا کہ ہم انہیں رلانے والے نشانات دکھائیں گے اور ان پر عجیب و غریب ہموم و امراض نازل کریں گے ۔ ان کا عرصہ حیات تنگ کر دیں گے وہ پے در پے آفات کا نشانہ بنیں گے اور کوئی انہیں بچانے والا نہیں ہوگا۔ چنانچہ ان کی تباہی کے موعودہ آثار شروع ہو گئے خدا تعالیٰ نے مختلف غموں اور قرضوں کے بوجھ سے ان کی کمریں توڑ دیں۔ موت فوت کے دروازے ان پر کھول دیئے۔ او روہ قسم قسم کے مصائب میں گھر گئے یہ حالت دیکھ کر بھی یہ بد زبان باز نہ آئے۔ بلکہ ان کے دلوں کی کجی میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ اب آسمانی قضاء کے نزول کا وقت بالکل قریب آگیا اور بظاہر کوئی حالت منتظر ہ باقی نہیں تھی مگر خدا تعالیٰ نے جو محض ان کے رجوع اور توبہ کی غرض سے اپنے عذاب میں تاخیر فرمائی۔ اس میں اپنی صفت رحیمیت کے تحت ایک آخری اور مشروط مگر عجیب صورت پیدا کر دی۔
مرزا احمد بیگ کی دختر محمدی بیگم سے متعلق خدائی تحریک :۔
یہ لوگ اسلامی تعلیم کے خلاف اور ہندو تہذیب کے زیر اثریہ خیال کرتے تھے کہ کسی لڑکی کا اس کے غیر حقیقی ( یعنی رشتہ کے ) ماموں سے نکاح حرام ہے او رصاف کہتے تھے کہ ہمیں اسلام اور قرآن سے کچھ غرض نہیں (۷)نیز وہ آنحضرت ﷺ سے اپنی پھوپھی زاد بہن زینب کے نکاح پر بھی سخت معترض تھے۔ وہ خدا جس نے تبنیت کی رسم مٹانے کے لئے آنحضرت ﷺ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ زید کی مطلقہ بیوی کو اپنے نکاح میں لائیں۔ اسی طرح یہ رسم مٹانے کے لئے کہ کسی لڑکی کا غیر حقیقی ماموں سے نکاح حرام ہے اس نے آنحضرت ﷺ کے حقیقی خادم حضرت مرزا غلام احمد کو بھی یہ حکم دیا کہ آپ مرزا احمد بیگ سے اس کی بڑی لڑکی محمدی بیگم کے لئے سلسلہ جنبانی کریں اور اس سے کہہ دیں کہ تمام سلوک ومروت تم سے اسی شرط پر کیا جائے گا۔ اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اورایک رحمت کا نشان ہوگا اوران تمام برکتوں اوررحمتوں سے حصہ پائو گے جو اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء؁ میں درج ہیں۔ لیکن اگر انحراف کیا تو اس کا دوسری جگہ نکاح نہ لڑکی کے لئے مبارک ثابت ہوگا نہ تمہارے لئے اور اگر تم باز نہیں آئو گے تو کئی مصیبتیں تمہارے خاندان پروار د ہوں گی اور آخری مصیبت تیری موت ثابت ہوگی تو نکاح کے تین سال کے اندر اندر مرجائے گا۔ تو غافل ہے مگرتیری موت تیرے قریب ہی منڈلارہی ہے اسی طرح تیری لڑکی کا خاوند بھی اڑھائی سال کے اندر اندر لقمہ اجل بن جائے گا۔ اوران دونوں کی موت کے بعد ہم یہ لڑکی آپ کی طرف واپس لائیں گے۔
دوسری شادی اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے آپ کو ناگوار خاطر تھی۔ اورآپ نے ابتداء ہی سے یہ عہد کر رکھا تھا کہ ’’ کیسا ہی موقعہ پیش آوے جب تک اللہ کی طرف سے صریح حکم سے اس کے لئے مجبور نہ کیا جائوں تب تک کنارہ کش رہوں کیونکہ تعداد ازدواج کے بوجھ اور مکروہات از حد زیادہ ہیں۔ اور اس میں خرابیاں بہت ہیں اور وہی لوگ ان خرابیوں سے بچے رہتے ہیں جن کو اللہ جل شانہ اپنے ارادہ خاص سے اور اپنی کسی خاص مصلحت سے اور اپنے خاص اعلام و الہام سے اس بار گراں کے اٹھانے کے لئے مامور کرتا ہے ۔ تب اس میں بجائے مکرو ہات کے سراسر برکات ہوتے ہیں۔ ‘‘(۱۰) لیکن اب جو یہ خدائی تحریک ہوئی تو حضور نے محض خدائی حکم کی تعمیل کے لئے مرزا احمد بیگ کو خط لکھا جس میں آپ نے الٰہی حکم پہنچاتے ہوئے لکھا کہ میں یہ مکتوب اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم سے لکھ رہا ہوں اسے محفوظ رکھو کہ یہ صدوق و امین خدا کی طر ف سے ہے اللہ تعالیٰ شاہد ہے کہ میں اس بارہ میں سچا ہوں اور جو کچھ میں نے وعدہ کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ہے ۔ اور میں نے از خود نہیں کہا بلکہ خدائے تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے مجھ سے کہلوایا ۔ اور یہ میرے رب کا حکم تھا سو میں نے پورا کر دیا۔ مجھے تیری اور تیری بیٹی کی کوئی ضرورت نہ تھی اور نہ مجھ پر کوئی تنگی ہے اور عورتیں تیری بیٹی کے علاوہ بہت ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ صالحین کا والی ہے ۔ پس اگر مدت مقررہ گزر جائے اور سچائی ظاہر نہ ہو۔ ( یعنی تمہاری موت دکھ وغیرہ ظاہر نہ ہوں) تو میری گردن میں رسی اور پائوں میں بیڑیاں ڈالنا اور مجھے وہ دکھ دینا جو کسی کو نہ دیا گیا ہو تم نے خدا تعالیٰ سے نشان طلب کیا تھا ۔ پس یہ تمہارے لئے خدا کا نشان ہے ۔ (۱۱)
پیشگوئی کا پبلک حیثیت اختیار کرنا :۔
اس مرحلے پر مرزا احمد بیگ اور اس کے دست راست مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین وغیرہ کی مخالفت انتہا تک پہنچ گئی اور مرزا نظام الدین نے حضرت اقدسؑ کا پہلا خط جو محض پرائیویٹ رنگ میں تھا عیسائیوں کے اخبار نور افشاں ( ۱۰۔مئی ۱۸۸۸ء ) میں شائع کرا دیا جس سے اس پیشگوئی کو ایک پبلک حیثیت حاصل ہوگئی ۔ حالانکہ حضرت اقدس نے محض خط پر ہی اکتفاء فرمایا تھا اور آپ کو ان کی دل شکنی کے خیال سے اسے پبلک میں لانے کا خیال تک بھی نہیں تھا۔
’’ نور افشاں ‘‘ کا طوفان بے تمیزی اور حضرت اقدسؑ کا جواب :۔
اس خط کا ہاتھ آنا تھا کہ عیسائیوں نے ( جو اسلام کے زندہ مذہب ہونے کے متعلق آپ کے چیلنج سے تنگ آکر کسی موقعہ کی تلاش میں تھے) اس کی آڑ میں آنحضرتﷺ اور آپ کے خلاف ایک طوفان بے تمیزی برپا کر دیا۔ خود ایڈیٹر اخبار ’’ نور افشاں‘‘ نے اس پر عجیب طرح کی زبان درازی کی ۔ اور ایک صفحہ اخبار کا سخت گوئی اور دشنام دہی میں ہی سیاہ کیا۔ اور تعداد ازدواج کو زنا اور حرامکاری قرار دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۰۔ جولائی ۱۸۸۸ء کو اشتہار شائع فرمایا ۔ جس میں ’’ نور افشاں ‘‘ کی بدلگامی پر بائیبل کی روشنی میں دندان شکن جواب دیئے اور پیشگوئی کا پس منظر بتاتے ہوئے لکھا کہ یہ پیش گوئی ایسی نہیں کہ جو پہلے پہل اسی وقت ظاہر کی گئی ہے بلکہ مرزا امام الدین ، مرزا نظام الدین اور اس جگہ کے تمام آریہ اور نیز لیکھرام پشاوری اور صدہا دوسرے لوگ خوب جانتے ہیں کہ کئی سال ہوئے ہم نے اسی کے متعلق مجملاً ایک پیشگوئی کی تھی یعنی یہ کہ ہماری برادری میں سے ایک شخص احمد بیگ نام فوت ہونے والا ہے ۔ اب منصف مزاج آدمی سمجھ سکتا ہے کہ وہ پیشگوئی اس پیشگوئی کا ایک شعبہ تھی یا یوں کہویہ تفصیل اور وہ اجمال تھی۔ اور اس میں تاریخ اور مدت ظاہر کی گئی اور اس میں تاریخ اور مدت کا کچھ ذکر نہ تھا اور اس میں شرائط کی تصریح کی گئی اور وہ ابھی اجمالی حالت میں تھی۔ سمجھدار آدمی کے لئے یہ کافی ہے کہ پہلی پیش گوئی اس زمانہ کی ہے کہ جب کہ ہنوزوہ لڑکی نابالغ تھی اور جب کہ یہ پیش گوئی بھی اس شخص کی نسبت ہے جس کی نسبت اب سے پانچ برس پہلے کی گئی تھی۔ یعنی اس زمانہ میں جب کہ اس کی یہ لڑکی آٹھ یا نو برس کی تھی۔ تو اس پر نفسانی افتراء کا گمان کرنا اگر حماقت نہیں تو اور کیا ہے ؟‘‘ (۱۲)
نیز فرمایا’’ ہمیں اس رشتہ کی درخواست کی کچھ ضرورت نہیں تھی۔ سب ضرورتوں کو خدا تعالیٰ نے پورا کردیا تھا اولاد بھی عطا کی اور ان میں سے وہ لڑکا بھی جو دین کا چراغ ہوگا۔ بلکہ ایک اور لڑکا ہونے کا قریب مدت تک وعدہ دیا۔ جس کا نام محمود احمد ہوگا۔ اور اپنے کاموں میں اولوالعزم نکلے گاپس یہ رشتہ جس کی درخواست کی گئی ہے محض بطور نشان کے ہے تا خدا تعالیٰ اس کنبہ کے منکرین کو اعجوبہ قدرت دکھلاوے اگر وہ قبول کریں تو برکت اور رحمت کے نشان ان پر نازل کرے اور ان بلائوں کو دفع کر دیوے جو نزدیک چلی آتی ہیں لیکن اگر وہ رد کریں تو ان پر قہری نشان نازل کرکے ان کو متنبہ کرے ۔ (۱۳)
تاریخ سے ثابت ہے کہ ماموروں کے جسمانی رشتہ داروں پر بھی اس مامور کی وجہ سے فضل ورحم ہوتاہے چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے جب مختلف خواتین کو اپنے نکاح میں لیا تو ان کے خاندانوں پر یہ رحمت و برکت ہوئی کہ انہیں ہدایت نصیب ہوگئی۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت صفیہؓ بنت حی بن اخطب ( وفات ۵۰ھ) اور قبیلہ بنو مصطلق کے سردار حارث کی بیٹی حضرت جویریہ ؓ ( وفات ۵۰ھ) سے عقد کیا تو ان کے خاندان کے اکثر افراد بلکہ بعض کی پوری قوم حلقہ بگوش اسلام ہوگئی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کے خاندان پر بھی اس رنگ میں رحمت و برکت نازل کرنے کا ارادہ فرمایا اور حضرت اقدس نے احمد بیگ کو پہلے خط میں الہام الٰہی کے مطابق صاف صاف خبر دیدی کہ ’’ اگر آپ اپنی دختر کلاں کا رشتہ منظور کریں تو وہ تمام نحوستیں آپ کی اس رشتہ سے دورکردے گا اور آپ کو آفات سے محفوظ رکھ کر برکت پر برکت دے گا۔ اور اگر رشتہ وقوع میں نہ آیا تو آپ کے لئے دوسری جگہ رشتہ کرنا ہر گز مبارک نہ ہوگا۔ اور اس کا انجام درد اور تکلیف اور موت ہوگی یہ دونوں طرف برکت اور موت کی ایسی ہیں جن کو آزمانے کے بعد میرا صدق اور کذب معلوم ہو سکتا ہے ( اب جس طرح چاہو آزمالو)‘‘(۱۴)
مسلمانوں کی طرف سے پیشگوئی کے ظہور کے لئے دعائیں :۔
مرزا احمد بیگ سے متعلق پیشگوئی چونکہ کفرو اسلام کا ایک بہت بڑا معرکہ تھا۔ اس لئے اس زمانہ میں مسلمان اس پیشگوئی کے ظہور کے لئے دعائیں کرتے تھے چنانچہ ( سلسلے کے ایک شدید مخالف قاضی فضل احمد صاحب کی روایت کے مطابق) حضرت اقدسؑ ۱۷۔ جولائی ۱۸۹۰ء کے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ ہزاروں پادری شرارت سے نہیں بلکہ حماقت سے منتظر ہیں کہ یہ پیشگوئی جھوٹی نکلے تو ہمارا پلہ بھاری ہو۔ لیکن یقینا خدا تعالیٰ ان کو رسوا کرے گا۔ اور اپنے دین کی مدد کرے گا۔ میں نے لاہور میں جاکر معلوم کیا کہ ہزاروں مسلمان مساجد میں نماز کے بعد اس پیشگوئی کے ظہور کے لئے بصدق دل دعا کرتے ہیں سو یہ ان کی ہمدردی اور محبت ایمانی کا تقاضا ہے ۔ ‘‘(۱۵)
پیشگوئی کے بعض حیرت انگیز پہلو :۔
مرزا احمد بیگ کی وفات سے متعلق تو پہلے ہی اجمالی طور پر خبر موجود تھی ۔ مگر قدرت نے جب تفصیلات کی گرہیں کھولیں تو اس میں ضمناً کئی حیرت انگیز پیشگوئیاں نکل آئیں۔ مثلاً اول۔ نکاح سے انحراف ضرور ہوگا۔ دوم ۔ نکاح کے وقت تک حضرت اقدس زندہ رہیں گے ۔ سوم ۔ نکاح کے وقت تک مرزا احمد بیگ بھی زندہ رہے گا۔ چہارم ۔ نکاح کے وقت تک محمدی بیگم بھی زندہ رہے گی۔ پنجم ۔ نکاح کے بعد مرزا احمد بیگ تین سال کے اندر اندر مرجائے گا۔ ششم ۔ اس پیشگوئی کے سلسلے میں صرف ایک شخص کی موت واقع ہوگی۔ ہفتم ۔ اغیار اپنی کج نظری کے باعث تمسخر اور استہزاء کریں گے ۔ چنانچہ یہ سب پیشگوئیاں اس درجہ خارق عادت رنگ میں پوری ہوئیں کہ عقل محو حیرت ہو جاتی ہے۔
پیشگوئی کا ظہور :۔
پیشگوئی کے مطابق جب تک مرزا احمد بیگ نے نکاح نہیں کیا حضرت اقدس بھی زندہ رہے مرزا احمد بیگ بھی زندہ رہا۔ اور اس کی بیٹی محمدی بیگم بھی زندہ رہی یہ گویا خدائے قادر کی طرف سے تین افراد کی زندگی کی ضمانت تھی جو چار سال تک معجزانہ طور پر صحیح ثابت ہوئی۔ لیکن اس کے بعد جب مرزا احمد بیگ نے ۷۔ اپریل ۱۸۹۲ء کو اپنی لڑکی محمدی بیگم کا نکاح مرزا سلطان محمد صاحب آف پٹی سے کر دیاتو وہ مرزا احمد بیگ جسے خدا تعالیٰ نے پیشگوئی کے بعد چار سال تک زندہ رکھا تھا۔ نکاح کر دینے کے چھٹے ہی مہینے ۳۰۔ ستمبر ۱۸۹۶ء کو مطابق پیشگوئی ہلاک ہوگیا۔ مرزا احمد بیگ کا اس دنیا سے گزرنا ہی تھا کہ پورے خاندان میں صف ماتم بچھ گئی ۔ او وہ کہرام مچا کہ الامان ! الحفیظ ! اور افراد خاندان بلکہ مرزا احمد بیگ کے گائوں والے بھی سخت دہشت زدہ ہوگئے ۔ اور سخت ماتم پڑا حتیٰ کہ عورتوں نے اپنی چیخ پکار میں یہ الفاظ بھی کہ دیئے ۔ کہ ’’ہائے وہ باتیں سچی نکلیں۔ آج ہمارا دشمن جس نے ہمارے لئے پیشگوئی کی تھی سچا ثابت ہوگیا ۔ ‘‘(۱۶)
یہ اتنا عظیم الشان قہری نشان تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی ( جو اب اول المکفرین ہونے کی وجہ سے تمام مخالفین ہند کے سرخیل بن چکے تھے) اعتراف کیا کہ اگرچہ پیشگوئی تو پوری ہو گئی مگر یہ الہام نہیں بلکہ علم رمل یا نجوم وغیرہ سے کی گئی ۔ (۱۷)
غرض پیشگوئی کے مطابق مرزا احمد بیگ کی موت نے ان کے پورے خاندان کو مجسم غم و اندوہ بنا دیا ان کے داماد مرزا سلطان محمد صاحب کا سب سے زیادہ متاثر ہونا ایک قدرتی امر تھا کیونکہ جب دو شخصوں کے لئے ہلاکت کی پیشگوئی ہو۔ اور ایک پیشگوئی کی میعاد مقررہ پوری ہونے سے بہت پہلے ہی ہلاک ہو جائے تو دوسرے پر جو گزرے گی اور وہ جتنا بھی متفکر و متردد اور ترساں و لرزاں ہو جائے گا وہ محتاج بیان نہیں ۔ چنانچہ مرزا سلطان محمد صاحب نے بھی زاری اور دعا کی اور دل سے یقین کر لیا کہ ان کے خسر مرزا احمد بیگ پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئے ہیں۔ (۱۸) نتیجہ یہ ہو اکہ خدا تعالیٰ نے مرزا سلطان محمد صاحب کو موت کی سزا سے بچالیا ۔
علماء کو دعوت مباہلہ :۔
مرزا سلطان محمد صاحب جب تک میعاد مقررہ کے دوران میں زندہ رہے حضرت اقدس کی پیشگوئی کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا ۔ مگر اس کے بعد جب یہ میعاد ختم ہوگئی اور مرزا سلطان محمد صاحب تائب ہونے کی وجہ سے بچ گئے تو چاروں طرف سے شدید مخالفت اٹھ کھڑی ہوئی۔ حالانکہ صدقہ، دعا اور گریہ وزاری سے بڑے بڑے عذابوں کا (خواہ وہ تقدیر مبرم ہی کا حکم کیوں نہ رکھتے ہوں) ٹل جانا خد ا تعالیٰ کی ازلی ابدی سنت سے ثابت ہے اور خصوصاً قرآن مجید اور احادیث اور اکابر امت کا لٹریچر تو اس کی شہادتوں سے بھرا پڑا ہے۔ (۱۹) اور اس پیشگوئی میں تو بار بار توبہ کرنے پر مصائب کے ٹل جانے کا مسلسل تذکرہ تھا۔ (۲۰) لیکن عیسائی ، آریہ اور ان کی پشت پناہی میں آپ کے مخالف علماء نے صرف اس وجہ سے کہ مرزا سلطان محمد توبہ کی وجہ سے بچ گیا تھا۔ یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ معاذ اللہ پیشگوئی غلط ثابت ہوئی ۔ حضرت اقدس نے خدا کے نشان کی یوں تکذیب دیکھی تو آپ نے تین بڑے علماء ( شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی اور مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ) کو انعامی چیلنج دیا کہ وہ ایک جلسہ عام میں الہامی پیشگوئیوں کے عذاب موت کی معین تاریخوں کے ٹل جانے کے متعلق دو گھنٹہ تک کتاب اللہ اور احادیث نبویہ اور کتب سابقہ کی نصوص صریحہ ہم سے سنیں۔ اور پھر اگر اس مجمع میں تین بار حلفاً کہہ دیں کہ اے خدائے قادر ذوالجلال جو جھوٹوں کو سزا دیتا اور سچوں کی حمایت کرتا ہے ۔ میں تیری ذات کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ جو کچھ دلائل پیش کئے گئے ہیں وہ سب دلائل باطل ہیں اور تیری یہ ہر گز عادت نہیں کہ وعید میں کسی کی توبہ خائف اور ہراساں ہونے سے تاخیر کر دے بلکہ ایسی پیشگوئی سراسر جھوٹ یا شیطانی ہے اور ہر گز تیری طرف سے نہیں۔ اور اے قادر خدا اگر تو جانتا ہے کہ میں نے جھوٹ بولا ہے تو مجھے ذلت اور دکھ کے عذاب سے ہلاک کر۔ اس کے بعد بلا توقف آپ قسم کھانے والے کو غیر مشروط طورپر دو سو روپیہ نقد انعام دے دیں گے ۔ (۲۱)
پرشوکت اعلان :۔
علاوہ ازیں حضور نے تین سال بعد یہ پر شوکت اعلان بھی فرمایا کہ ۔’’ فیصلہ تو آسان ہے احمد بیگ کے داماد سلطان محمد کو کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے۔ اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔
’’ اور ضرور ہے کہ یہ وعید کی موت اس سے تھمی رہے جب تک کہ وہ گھڑی آجائے کہ اس کو بیباک کر دیوے ۔ سو اگر جلدی کرنا ہے تو اٹھواور اس کو بیباک اور مکذب بنائو اور اس سے اشتہار دلائو اور خدا کی قدرت کا تماشا دیکھو۔ ‘‘ (۲۲)
اس اعلان پر آریوں نے لیکھرام کے قتل اور عیسائیوں نے آتھم کی موت کے باعث مرزا سلطان محمد صاحب کو بڑی بڑی رقموں کی پیش کش کی تاوہ کسی طرح حضرت اقدس پر نالش کر دیں۔ مگر حضور کی سچائی سے متعلق ان میں اتنا زبردست اثر پڑچکا تھا کہ انہوں نے اس پیش کش کو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا۔ (۲۳)
مرزا سلطان محمد صاحب کا اظہار حق :۔
حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے بعد ایک دفعہ مرزا سلطان محمد صاحب نے ۲۱۔ مارچ ۱۹۱۳ء کو ایک تحریر بھی لکھ کر دی جس کا عکس جماعت احمدیہ کے لٹریچر (۲۴) میں برسوں سے شائع شدہ ہے ۔ اس تحریر میں انہوں نے لکھا۔ کہ ’’میں جناب مرزا جی صاحب مرحوم کو نیک ۔ بزرگ ۔ اسلام کا خدمت گزار ۔ شریف النفس۔خدا یاد پہلے بھی اور اب بھی خیال کر رہاہوں۔ مجھے ان کے مریدوں سے کسی قسم کی مخالفت نہیں ہے بلکہ افسوس کرتا ہوں کہ چند ایک امورات کی وجہ سے ان کی زندگی میں ان کا شرف حاصل نہ کر سکا۔‘‘ ۱۹۲۱ء میں حافظ جمال احمد صاحبؓ ( مبلغ ماریشس) ان سے موضع پٹی میں ملے تو انہوں نے حلفیہ بیان دیا۔ کہ انہیں حضرت اقدس کی اس پیشگوئی یا آپ کے دعویٰ کی سچائی پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس پر حافظ صاحب نے کہا پھر آپ بیعت کیوں نہیں کرتے ۔ مرزا سلطان محمد صاحب نے جواب دیا۔’’ اس کے وجوہات کچھ اور ہی ہیں جن کا اس وقت ذکر کرنا میں مصلحت کے خلاف سمجھتا ہوں۔ میں بہت چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ قادیان جائوں کیوں کہ مجھے حضرت میاں صاحب (۲۵) کی ملاقات کا بہت شوق ہے اور میرا ارادہ ہے کہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر تمام کیفیت بیان کروں۔ پھر چاہے وہ شائع بھی کر دیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا مگر گولی لگنے کی وجہ سے جواب مجھے لاٹھیوں پر چلنے کی دقت ہے ۔ یہ وہاں جانے میں روک ہو جاتی ہے۔ خیال آتاہے کہ اس ہیئت کے ساتھ میں کیا جائوں ۔ باقی رہی بیعت کی بات میں قسمیہ کہتا ہوں کہ جو ایمان اور اعتقاد مجھے حضرت مرزا صاحب پر ہے میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی جو بیعت کر چکے ہیں۔ اتنا نہیں ہوگا۔ ‘‘(۲۶)
محمد ی بیگم کی ایک خواب :۔
یہ تو مرزا سلطان محمد صاحب کی بات ہے خود محمدی بیگم کے ایمان کی کیفیت یہ ہے کہ انہوں نے خود بیان کیا کہ جنگ عظیم اول میں جب ’’ فرانس سے ان کو ( مرزا سلطان محمد صاحب کو ) گولی لگنے کی اطلاع مجھے ملی تو میں سخت پریشان ہوئی ۔ اور میرا دل گھبرا گیا۔ اسی تشویش میں مجھے رات کے وقت مرزا صاحب رؤیا میں نظر آئے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ ہے اور مجھ سے کہتے ہیں کہ لے محمدی بیگم یہ دودھ پی لے اور تیرے سر کی چادر سلامت ہے تو فکر نہ کر۔ اس سے مجھے اپنے خاوند کی خیریت کے متعلق اطمینان ہوگیا۔ ‘‘
خاندان مرزا احمد بیگ کے اکثر افراد کی جماعت احمدیہ میں شمولیت :۔
خدا تعالیٰ کے اس عظیم الشان نشان کا اثر صرف مرزا سلطان محمد صاحب اور محمدی بیگم صاحبہ کی عقیدت تک ہی نہیں رہا۔ بلکہ خاندان مرزا احمد بیگ کے اکثر افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔ چنانچہ مرزا احمد بیگ کی اہلیہ ، اس کا بیٹا ( مرزا محمد بیگ ) اس کی تین بیٹیاں ( سردار بیگم ، عنایت بیگم ، محمودہ بیگم ) اس کا پوتا ( مرزا محمود بیگ ) نواسہ ( مرزا محمد اسحاق پسر محمدی بیگم ) اور داماد ( مرزا محمد حسن ) سب حلقہ بگوش احمدیت ہوگئے ۔ ان کے علاوہ مرزا نظام الدین کے بیٹے اور بیٹی بلکہ مرزا غلام قادر مرحوم کی اہلیہ محترمہ ’’ تائی صاحبہ‘‘ وغیرہ بھی حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ ماموریت پر ایمان لے آئے۔ ( اور جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ) خصوصاً محمدی بیگم کے بیٹے محمد اسحاق صاحب نے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کرکے حضرت مسیح موعودؑ کو اپنا روحانی باپ تسلیم کر لیا جو ’’ آسمانی نکاح ‘‘ کے ظہور میں آنے کا واضح ترین ثبوت ہے ۔ (۲۷)
مرزا سلطان محمد صاحب کے بیٹے کا اعلان بیعت :۔
اس سلسلے میں یہاں مرزا محمد اسحاق بیگ صاحب کا وہ بیان درج کرنا ضروری ہے جو انہوں نے ۱۹۳۳ء میں اپنی بیعت کے وقت شائع کیا۔ انہوں نے لکھا۔ ’’احباب کرام ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ‘‘پیشتر اس کے کہ میں اپنا اصل مدعا بیان کروں ۔یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ واللہ میں کسی لالچ یا دینوی غرض یا کسی دبائو کے ماتحت جماعت احمدیہ میں داخل نہیں ہوا۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ایک لمبے عرصہ کی تحقیق حق کے بعد اس بات پر ایمان لایا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب اپنے ہر دعویٰ میں صادق او رمامورمن اللہ ہیں اور اپنے قول و فعل میں ایسے صادق ثابت ہوئے ہیں کہ کسی حق شناس کو اس میں کلام نہیں ہو سکتا۔ آپ کی تمام پیشگوئیاں ٹھیک ٹھیک پوری ہوئیں یہ الگ سوال ہے کہ بعض لوگ تعصب یا نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض پیشگوئیوں کو پیش کر کے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں مثلاً ان میں ایک پیشگوئی مرزا احمد بیگ صاحب وغیرہ کے متعلق ہے اس پیشگوئی کو ہر جگہ پیش کرکے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کا پورا ہونا ثابت کرو۔ حالانکہ وہ بھی صفائی کے ساتھ پوری ہوگئی۔ میں اس پیشگوئی کے متعلق ذکر کرنے سے پیشتر یہ بیان کرنا چاہتاہوں کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی تھی اور ایسی اندازی پیشگوئیاں خدا تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ اس لئے کرایا کرتا ہے کہ جن کے متعلق ہوں ان کی اصلاح ہو جائے۔ چنانچہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے ۔ وما نرسل بالا یات الاتخویفا کہ ہم انبیاء کو نشانات اس لئے دیتے ہیں کہ لوگ ڈر جائیں اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصل بیان فرما دیا ہے ۔ کہ ایسی انذاری پیشگوئیاں لوگوں کی اصلاح کی غرض سے کی جاتی ہیں۔ جب وہ قوم اللہ تعالیٰ سے ڈر جائے اور اپنی صلاحیت کی طرف رجوع کرے تو اللہ تعالیٰ اپنا معلق عذاب بھی ٹال دیتاہے جیساکہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ ۔ نیز حضرت موسیٰؑ کی قوم کی حالت وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْھِمْ الرِّجْزُ(اعراف :۱۳۵) سے ظاہر ہے ۔ اس صورت میں انذاری پیشگوئی کا لفظی طور پر پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ یہی نقشہ یہاں نظر آتا ہے ۔ کہ جب حضرت مرزا صاحب کی قوم اور رشتہ داروں نے گستاخی کی یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی ہستی سے انکار کیا۔ نبی کریم ﷺ اور قرآن پاک کی ہتک کی اور اشتہار دے دیا کہ ہمیں کوئی نشان دکھلایا جائے تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور کے ذریعہ پیشگوئی فرمائی۔ اس پیشگوئی کے مطابق میرے نانا جان مرزا احمد بیگ صاحب ہلاک ہوگئے اور باقی خاندان ڈر کر اصلاح کی طرف متوجہ ہوگیا جس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثر نے احمدیت قبول کر لی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت غفورو رحیم کے ماتحت قہر کورحم سے بدل دیا یہاں تک کہ انہوں نے ( یعنی مرزا سلطان محمد صاحب نے ) (حضرت اقدس) مرزا صاحب سے حسن عقیدت کے متعلق مختلف اوقات پر اپنا اظہار خیال بذریعہ خطوط فرمایا نہ صرف خیال ظاہر فرما دیا بلکہ معاندین سلسلہ کے اکسانے پر انہیں صاف جواب دے دیا۔ مثلاً ہندوئوں عیسائیوں اور مسلمانوں نے ہزاروں روپے کا لالچ دے کر اس بات کی کوشش کی۔ کہ آپ اس امر کا اعلان کر دیں کہ وہ پیشگوئی کی وجہ سے نہیں ڈرے لیکن آپ نے ہر گز ان کی بات نہ مانی۔
احمدیت کے متعلق ان ( مراد مرزا سلطان محمد صاحب ۔ ناقل) کی حسن عقیدت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جس طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ، کے والد ابو طالب بعض دینوی مشکلات کی وجہ سے نبی کریم ﷺ کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے تھے ۔ لیکن حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ ، کو بیعت کر لینے سے نہیں روکا تھا۔ اسی طرح جب میں بھی خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیزکی بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہوا تو آپ بجائے کسی قسم کی طعن و تشنیع کرنے کے خوش ہوئے۔ اگرچہ میرے والد صاحب کا تا حال احمدیت میں داخل نہ ہونا پیشگوئی کے پورے ہونے میں کسی طرح بھی مانع نہیں ہو سکتا تھا۔ تاہم خدا تعالیٰ نے یہ روک بھی دور کر دی۔ اور مجھے اللہ تعالیٰ نے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی فالحمدللہ علی ذلک ۔ میں پھر زوردار الفاظ میں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی۔ میں ان لوگوں سے جن کو احمدیت قبول کرنے میں یہ پیش گوئی حائل ہے عرض کرتا ہوں کہ وہ مسیح الزمان پر ایمان لے آئیں۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتاہوں یہ وہی مسیح موعود ہیں جن کی نسبت نبی کریم ﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی۔ اور ان کا انکار نبی کریم ﷺ کا انکار ہے ۔‘‘(۲۸)
ان تفصیلات سے عیاں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اگر ظاہری طور پر اس دنیا میں محمدی بیگم کا نکاح ہو جاتا تو وہ اتنا زبردست نشان نہ ہوتا جتنا زبردست نشان وہ اس دوسری صورت میں ہوگیا کہ اس خاندان کا ایک بڑا حصہ( جو حضرت اقدس ؑ کی اسلامی دعوت و تبلیغ کے خلاف مسلسل دس سا ل تک مخالفت پر ڈٹا رہا تھا۔ اور آپ کے خلاف ہندوئوں اور عیسائیوں سے ساز باز کرتا رہا تھا ) بالاخر خد ا تعالیٰ کے اس قہری نشان سے راہ راست پر آگیا اورجو لوگ اپنی مخالفت پر قائم رہے وہ صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔ آپ کے جدی بھائیوں کی ہر شاخ کاٹی گئی اور آپ کی مبارک نسل اور جماعت خدائی وعدوں کے مطابق دیکھتے ہی دیکھتے دنیا پر ایک تناور درخت کی طرح چھاگئی۔ جس وقت حضور نے دعویٰ کیا اس وقت آپ کے خاندان میں ستر کے قریب مرد تھے۔ لیکن اب ان کے سوا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جسمانی یا روحانی اولاد ہیں ان ستر میں سے کسی ایک کی بھی اولاد موجود نہیں۔ (۲۹) پس حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کی اگر کوئی اور پیش گوئی نہ ہوتی تو فقط یہی ایک نشان اسلام ، محمد عربی ﷺ اور آپ کی صداقت کے ثبوت میں کافی تھا۔ (۳۰)
پادری فتح مسیح کی طرف سے روحانی مقابلہ کی دعوت اور شکست کا اعتراف
مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری سے متعلق پیشگوئی کے واقعات پر یکجائی نظر ڈالنے کے بعد ہم پھر اصل مضمون کی طرف آتے ہیں۔ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ عیسائی مرزا احمد بیگ کے خط کی اشاعت پر ایک بار پھر میدان مقابلہ میں اترے۔ یہ مقابلہ صرف خط و کتابت کی اشاعت تک محدود نہیں رہا بلکہ عیسائیوں نے حضور کو نشان نمائی میں مقابلہ کا چیلنج بھی دیا۔ مگر بالاخر کھلا فرار اختیار کر گئے۔
۱۸مئی ۱۸۸۸ء کا واقعہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بشیر اول کے علاج معالجہ کے سلسلہ میں بٹالہ میں نبی بخش صاحب ذیلدار کے مکان پر فروکش تھے کہ عیسائیوں کی طرف سے ایک پادری فتح مسیح نامی حضور کی فرودگاہ پر آیا۔ اور ایک مجلس میں جس میں پچاس سے کچھ زیادہ مسلمان اور ہندو وغیرہ جمع تھے۔ حضرت اقدس سے مخاطب ہو کر دعویٰ کیا کہ جیسے آپ اس بات کے مدعی ہیں کہ میری اکثر دعائیں جناب الٰہی میں بپایہ قبولیت پہنچ کر ان کی قبولیت سے پیش از وقوع مجھ کو اللہ تعالی بذریعہ اپنے الہام خاص کے اطلاع دیتا ہے اور غیب کی باتوں پر مجھے مطلع کر تا ہے یہی مرتبہ ملہم ہونے کا مجھ کو اطلاع دے دیتا ہے۔ اس لئے میں آپ سے آپ کی پیشگوئیوں میں مقابلہ کرنا چاہتا ہوں۔ جس قدر اور جس طور کی پیشگوئیاں عام جلسہ میں آپ تحریر کرکے پیش کریں گے اسی قسم کی پیشگوئیاں اپنی طرف سے بھی پیش کروں گا اور فریقین کی پیشگوئیاں اخبار ’’نور افشاں ‘‘ میں شائع کرادوں گا۔ اور پھر خود ہی ۲۱ مئی ۱۸۸۸ء کی تاریخ اس مقابلہ کے لئے مقرر کی ۔
حضرت اقدسؑ نے پادری فتح مسیح کی یہ دعوت فوراً منظور فرمالی اور اسی دن بذریعہ اشتہار یہ اعلان شائع فرما دیا کہ ۲۱۔ مئی ۱۸۸۸ء کو پادری فتح مسیح روح القدس کا فیض اور الہامی پیشگوئیاں بالمقابل بتانے کے لئے ہمارے مکان پر آئیں گے پہلے ہم الہامی پیشگوئیاں بقید تاریخ پیش کریں گے اور پھر اس کے مقابل پر ان کے ذمہ ہوگا کہ ایسی ہی الہامی پیشگوئیاں وہ بھی پیش کریں۔ پس جو صاحب اس مقابلہ کو دیکھنا چاہتے ہیں وہ دس بجے تک ہمارے مکان پر پہنچ جائیں۔ پھر اگر میاں فتح مسیح برطبق اپنے وعدہ کے پیر کے دن آموجود ہوئے اور روح القدس کی الہامی طاقت جو اٹھارہ سو برس سے عیسائی جماعت سے بوجہ گمراہی گم ہو چکی ہے تازہ کر دکھائیں اور ان پیشگوئیوں کی سچائی اپنے وقت میں ظہور میں آجائے تو بلا شبہ عیسائیو ں کو اپنے مذہب کی صداقت پر ایک حجت ہوگی۔ کیونکہ ایسے عظیم الشان میدان مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے ان کی حمایت کی اور مسلمانوں کی نہ کی اور ان کو فتح دی اور مسلمانوں کو فتح نہ دی ۔ لیکن اگر ہماری پیشگوئیاں سچی نکلیں اور اسی میدان میں دشمن کو شکست اور ہم کو فتح ہوئی۔ تو اس سے صاف ثابت ہو جائے گا کہ خدا مسلمانوں کے ساتھ ہے ۔
اس بے نظیر مقابلہ کی اہمیت بتانے کے علاوہ آپ نے اسی اشتہار میں صریح الفاظ میں لکھ دیا کہ ’’ چونکہ ہم یقینا جانتے ہیں کہ عیسائی کلیسیا برکت اور قبولیت اور ایمانداری کے پھلوں سے بالکل خالی ہے اور سارا گذارہ لاف و گزاف اور یا وہ گوئی پر ہے اور تمام برکتیں اسلام سے ہی خاص ہیں اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ اس لاف و گزاف کی اصلیت ظاہر کرنے کے لئے اور نیز یہ بات پبلک کو دکھانے کے لئے کہ یہاں تک عیسائیوں میں دروغ گوئی اور بے باکی نے رواج پکڑلیا ہے بالمقابلہ کرامت نمائی کے لئے اجازت دی جائے۔
تاسیہ روئے شودہر کہ دروغش باشد
چنانچہ ۲۱۔ مئی ۱۸۸۸ء کو حضرت اقدس کی قیام گاہ پر بٹالہ کے معزز مسلمان اور ہندو رئیس اور عیسائی نہایت ذوق و شوق کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں جمع ہوئے۔ تا اسلام اور عیسائیت کے اس فیصلہ کن روحانی مقابلہ کا نظارہ دیکھیں ۔ مگر ہوا وہی جو حضرت اقدس نے قبل از وقت بتادیا تھا۔ فتح مسیح اپنے چند عیسائی دوستوں کے ساتھ دس بجے کے بعد جلسہ میں پہنچے۔ اور اپنے وعدہ کے مطابق پیشگوئیاں پیش کرنے کی بجائے انہوں نے سراسر لاطائل اور بیہودہ باتیں چھیڑ دیں جن کا موضوع سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ آخر حاضرین میں سے ایک معزز ہندو نے ان سے کہا کہ یہ جلسہ صرف بالمقابل پیشگوئیاں پیش کرنے کے لئے منعقد ہوا ہے اور یہی آپ کا اقرار ہے اور اسی شوق میں سب لوگ یہاں اکٹھے ہوئے ہیں سو اس وقت الہامی پیشگوئیاں بیان کرنا چاہئے۔ اس کے جواب میں پادری صاحب نے بر سر عا م کہا۔ ’’ اصل بات یہ ہے کہ میری طرف سے دعویٰ الہام نہیں ہے اور جو کچھ میرے منہ سے نکلا تھا میں نے یونہی فریق ثانی کے دعوے کے بالمقابل پر ایک دعویٰ کر دیا تھا ۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ان کا جھوٹا دعویٰ ہے سو ایسے ہی میں نے بھی ایک دعویٰ کر دیا۔ ‘‘ (۳۱)پادری صاحب کی زبان سے جھوٹ کا یہ کھلا کھلا اعتراف سن کر حاضرین جلسہ نے ان پر سخت لے دے کی۔ خصوصاً رائے شمبر داس صاحب رئیس بٹالہ ، بابو گوردت سنگھ صاحب مختار عدالت اور منشی محمد بخش صاحب مختار عدالت نے انہیں ملزم کیا کہ یہ دروغ گوئی نیک چلنی کے برخلاف تم سے وقوع میں آئی اگر تم فی الحقیقت ملہم نہیں تھے تو خلاف واقعہ ملہم ہونے کا کیوں دعویٰ کیا۔ پادری صاحب اس شرمناک دروغ گوئی اور کذب طرازی پر سخت معتوب ہوئے اور جلسہ برخاست ہوگیا۔
اس روحانی مقابلہ اسلام کی زبردست فتح اور عیسائیت کی شکست بالکل نمایاں ہوگئی۔ فتح مسیح دیسی پادری تھا مگر حضرت اقدس نے یورپین پادری ہربرٹ وائٹ بریخٹ سٹانٹن (انچارج بٹالہ مشن ) پر خصوصاً اور دوسرے یورپین پادریوں پر عموماً اتمام حجت کے لئے دوسرا اشتہار شائع کیا جس میں روحانی مقابلہ کی زبردست دعوت دی اور اسی غرض سے برابر ایک ماہ تک بٹالہ میں قیام بھی فرمایا ۔ (۳۲) پادری فتح مسیح نے جو اپنی زبان سے شکست کا اعتراف کر چکا تھا اپنی شرمندگی پر پردہ ڈالنے کے لئے اخبار ’’نورافشاں ‘‘( ۷۔ جون ۱۸۸۸ء ) میں یہ افتراکیا کہ میں نے الہام کا دعویٰ نہیں کیا تھا حالانکہ اس نے پادری وائٹ بریخٹ کے نام اپنے ہاتھ سے ایک چٹھی میں صاف لکھا کہ میں نے بالمقابل الہامی ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے ۔ پادری فتح مسیح نے اب کے نور افشاں میں لکھا کہ ہم اس طور پر تحقیق الہامات کے لئے جلسہ کر سکتے ہیں کہ ایک جلسہ منعقد ہو کر چار سوال بند کاغذ میں حاضرین جلسہ میں سے کسی کے ہاتھ میں دے دیں گے وہ ہمیں الہاماً بتایا جائے ۔ حضرت اقدس نے یہ طریق مقابلہ بھی قبول فرمالیا۔ مگر فرمایا فتح مسیح کہ جس کی طینت میں دروغ ہی دروغ ہے ہر گز قابل التفات نہیں ہے۔ ہاں اگر پادری وائٹ بریخٹ صاحب ایک عام جلسہ میں یہ حلفاً اقرار کریں کہ اگر کسی بند لفافہ کا مضمون جو میری طرف سے پیش ہو دس ہفتہ تک مجھے بتلادیا جائے تو میں دین مسیحی سے بیزار ہو کر مسلمان ہو جائوں گا۔ اور اگر ایسا نہ کروں تو ہزار روپیہ جو پہلے سے کسی ثالث منظور کردہ کے پاس جمع کرادوں گا بطور تاوان انجمن حمایت اسلام لاہور میں داخل کیا جائے گا ۔ اس تحریری اقرار اور نور افشاں میں اس کی اشاعت کے دس ہفتہ تک ہم نے لفافہ بند کا مضمون بتلادیا تو ان کا روپیہ ضبط ہو گا اور اگر ہم نہ بتلا سکے تو ہم دعویٰ الہام سے دست بردار ہو جائیں گے اور نیز جو سزا زیادہ سے زیادہ ہمارے لئے تجویز ہو وہ بخوشی خاطر اٹھالیں گے ۔ ‘‘(۳۳)
پادری فتح مسیح تو شملہ بھاگ گیا تھا اور پادری بریخٹ اس مقابلہ کے لئے آمادہ نہ ہو سکے اس طرح عیسائیت کے دیسی اور یورپین پادریوں کی حق پوشی بالکل نمایاں ہوگئی۔ اور اسلام کو ایک بار پھر شاندار فتح نصیب ہوئی۔
سفر پٹیالہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس روحانی مقابلے کے چند روز بعد وزیر الدولہ مدیر الملک خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب وزیر اعظم پٹیالہ کی درخواست پر (جون ۱۸۸۸ء ) میں پٹیالہ تشریف لے گئے۔ خلیفہ صاحب موصوف حضرت اقدس کے خاص عقیدت مندوں میں سے تھے۔ جب براہین احمدیہ شائع ہوئی تو وہ دل و جان سے آپ کے گرویدہ ہوگئے اور اس کی اشاعت میں نمایاں حصہ لیا۔ آپ بصد ذوق و شوق براہین پڑھتے دوسروں سے پڑھوا کر سنتے اور گھنٹوں محظوظ ہو کر زبان سے بار بار فرماتے ’’فی الحقیقت یہ شخص علماء ربانی میں سے ہے۔‘‘
حضرت اقدس کے سفر پٹیالہ کے ایمان افزا حالات جناب مرتضیٰ خان حسن صاحب نے اخبار پیغام صلح ۲۶۔ مئی ۱۹۵۴ء میں شائع کئے تھے جو درج کئے جاتے ہیں ۔ لکھتے ہیں ۔ ’’وزیر صاحب کی دعوت پر حضرت اقدس جون ۱۸۸۸ء میں پٹیالہ تشریف لے گئے۔ آپ حضرت کی آمد پر جامے میں پھولے نہ سماتے تھے ۔ ریاست میں اعلان کیا کہ ہمارے ایک عالم ربانی تشریف لا رہے ہیں ان کی زیارت کے لئے سب کو آنا چاہئے۔۔۔حضرت تشریف لائے تو آپ کا استقبال اس شان و شوکت سے کیا جس طرح بڑے بڑے راجائوں اور نوابوں کا کیا جاتاہے ریاست کے دستور کے مطابق ہاتھی اور گھوڑے لے کر اسٹیشن پر گئے اورایک شاندار جلوس حضرت اقدس کے استقبال کے لئے مرتب کیا ۔ وزیر صاحب فرماتے دنیا کے لوگوں کی عزت تو کی جاتی ہے مگر اصل عزت کے لائق تو یہ لوگ ہیں جو دین کی جائے پناہ ہیں۔‘‘ استقبال کے وقت لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ جمع تھے۔ لوگ شوق زیارت سے ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ کہتے ہیں کہ اس قدر خلقت کا اژدہام تھا کہ پٹیالہ کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی مگر حضرت ہیں کہ اس ظاہری شان و شوکت کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ نہ کسی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں نہ کوئی فخر ہے نہ غرورنہ تکبر ۔ وہی سادگی وہی منکسرالمزاجی جو جبلت میں خدا نے ودیعت فرمائی تھی اب بھی عیاں ہے آنکھیں حیاسے نیچے جھکی ہیں لب ہائے مبارک پر ہلکاہلکا تبسم ہے چہرہ پر انوار الٰہی کی بارش ہو رہی ہے ۔ گویا ابھی غسل کرکے باہر نکلے ہیں۔ دیکھنے والوں کی نظر آپ پر پڑتی ہے ۔ تو سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ چاروں طرف سے السلام علیکم السلام علیکم کی آواز آتی ہے آپ کمال وقار سے ہر ایک کا جوا ب دیتے اور دونوں ہاتھوں سے اور کبھی ایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں۔
جتنے دن آپ پٹیالہ میں مقیم رہے زائرین کا تانتا بندھا رہا۔ آپ اپنے مواعظ حسنہ سے طالبان ہدایت کو فیضیاب کرتے رہے۔ مختلف مجالس میں مختلف مسائل کا ذکر ہو تا تھا بالخصوص آریوں اور عیسائیوں کے متعلق اور ان کی خلاف اسلام کار روائیوں کا اکثر ذکر ہوتا تھا۔ انہی دنوں میں آپ قریب کے ایک قصبہ سنور میں بھی تشریف لے گئے جو آپ کے مخلص دوست مشہور و معروف مولوی عبداللہ صاحب سنوری کا مولدو مسکن تھا یہ حضرت کے اخلاق کریمانہ کے تقاضے سے تھا کہ آپ ایک بڑے آدمی کی دعوت پر پٹیالہ گئے تو اپنے ایک غریب دوست کو بھی جس کی دینوی حیثیت پٹواری سے زیادہ نہ تھی اپنے قدوم میمنت لزوم سے نوازا جو شخص شاہی مہمان ہو اور جس کا اس قدر تزک و احتشام سے استقبال کیا گیا ہو اس کا ایک غریب شخص کے گھر پر چلے جانے میں عارنہ سمجھنا فی الحقیقت اس امر کی دلیل ہے کہ یہ شخص اخلاص کا بے انتہا قدر دان ہے ۔ حضرت اقدس کا اصول تھا کہ اپنے مخلص دوستوں کی خواہ وہ دینوی حیثیت میں کتنے ہی ادنیٰ ہوں بے پناہ عزت اور محبت کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے ۔ ع
قدیمان خودرابیفزائے قدر
حضرت والا مولانا محمد عبداللہ خاں صاحب مرحوم و مغفور ان دنوں پٹیالہ میں ہی تھے چنانچہ سب سے پہلی دفعہ آپ کو اسی جگہ حضرت اقدس سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ آپ نے اس ملاقات کا اپنی خود نوشتہ سوانح حیات میں جو فارسی میں ہے ۔ ذکر فرمایا ہے یہ ۱۳۔ جون ۱۸۸۸ء کی تحریر ہے حضرت اقدس کی کتاب براہین احمدیہ اور آپ کے چیلنج کا جو اس کتاب میں مخالفین اسلام کے نام مفصل ذکر کرتے ہوئے اخیر میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ ۱۳۔ جون ۱۸۸۸ء چوں قصبہ سنور کہ متصل پٹیالہ است تشریف اوردندمشرف بزیارت گشتم ۔ میانہ قد۔ گندم گوں۔ کشادہ پیشانی ریش مخضب بخضاب ۔ عمر قریب چہل سال داشنتد ۔سلام گفتہ مصافحہ کردہ۔ بنشتم خلقے بزیارت ایناں گرد آمدہ بود۔ از چہرہ اش آثار بزرگی و جلال الٰہی نمودار۔۔۔۔۔۔۔۔ و ظاہری باحکام شریعت موافق و استوار والباطن یعلمہ اللہ حلم و حیا بسے غالب ۔ نماز پیشین درپس ایناں اداکردم۔۔۔۔۔۔۔ ہر چند کہ استعداد شناختن ایں چنیں مردم ندارم مگر وجود باجود ایناں بمنزلہ رحمت الٰہی وبرائے اسلام و اسلامیان تقویت لامتناہی است از مجددبودن ایناں انکار کردن بجز جہل و نادانی چیزے دیگر نیست سلمہ اللہ ۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ غرضکہ یہ سفر بخیر و خوبی طے ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہینوں پٹیالہ کے لوگوں میں حضرت کی تشریف آوری کا چرچا ہوتارہا۔ ۱۸۹۱ء میں حضرت اقدس کو پھر پٹیالہ جانے کا اتفاق ہوا۔ ‘‘(۳۴)
واپسی پر ایک حادثہ :۔
سفر پر روانہ ہونے سے قبل حضرت اقدس کو الہام ہوا تھا کہ اس سفر میں کچھ نقصان ہوگا اور کچھ ہم وغم پیش آئیگا۔ چنانچہ جب حضرت اقدس پٹیالہ سے واپسی پر لدھیانہ آنے لگے تو عصر کا وقت تھا ایک جگہ آپ نے نماز ادا فرمانے کے لئے اپنا چغہ اتار کر وزیر اعظم کے ایک نوکر کو دیا تا وضو کریں۔ پھر جب نماز سے فارغ ہو کر ٹکٹ لینے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہوا کہ جس رومال میں روپے بندھے ہوئے تھے وہ گر گیا ہے ۔ پھر حضور جب گاڑی پر سوار ہوئے تو راستہ میں ایک سٹیشن دوراہہ پر حضور کے ایک ساتھ کو کسی مسافر انگریز نے محض دھوکہ دہی سے اپنے فائدہ کے لئے کہدیا کہ لدھیانہ آگیا ہے ۔ چنانچہ اس جگہ آپ اور دیگر ساتھی اتر پڑے لیکن جب ریل چل دی تو معلوم ہوا کہ یہ کوئی اور سٹیشن تھا۔ اس طرح الہام کے دونوں حصے پورے ہوگئے۔ (۳۵)








ماموریت کا آٹھواں سال
اشتہار ’’ تکمیل تبلیغ ‘‘ اور لدھیانہ میں بیعت اولیٰ
(۱۸۸۹ء)
بیعت کے لئے حکم الٰہی :۔ جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے۔ اگرچہ مخلصین کے قلوب میں برسوں سے یہ تحریک جاری تھی کہ حضرت اقدس بیعت لیں۔ مگر حضرت اقدس ہمیشہ یہی جواب دیتے تھے کہ ’’لست بما مور‘‘ (یعنی میں مامور نہیں ہوں) چنانچہ ایک دفعہ آپ نے میر عباس علی صاحب کی معرفت مولوی عبدالقادر صاحبؓ کو صاف صاف لکھا کہ ’’ اس عاجز کی فطرت پر توحید اورتفویض الی اللہ غالب ہے اور ۔۔۔چونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خداوند کریم کی طرف سے کچھ علم نہیں۔ اس لئے تکلف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں۔ لعل اللّٰہ یحدث بعد ذالک امراً۔ مولوی صاحب اخوت دین کے بڑھانے میں کوشش کریں۔اوراخلاص اورمحبت کے چشمہ صٓفی سے اس پودا کی پرورش میں مصروف رہیں تو یہی طریق انشاء اللہ بہت مفید ہوگا‘‘
آخر چھ سات برس بعد ۱۸۸۸ء؁ کی پہلی سہ ماہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بیعت لینے کا ارشاد ہوا۔ یہ ربانی حکم جن الفاظ میں پہنچا وہ یہ تھے’’ اذا عزمت فتوکل علی اللہ واصنع الفلک باعیننا ووحینا ۔الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ۔ یداللہ فوق ایدیھم۔ یعنی جب تو عزم کرلے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر اورہمارے سامنے اورہماری وحی کے تحت( نظام جماعت کی) کشتی تیار کر۔جو لوگ تیرے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوگا۔
بیعت کا اعلان:۔ حضرت اقدس کی طبیعت اس بات سے کراہت کرتی تھی کہ ہرقسم کے رطب ویابس لوگ اس سلسلہ بیعت میں داخل ہوجائیں۔ اوردل یہ چاہتاتھا کہ اس مبارک سلسلہ میں وہی مبارک لوگ داخل ہوں جنکی فطرت میں وفاداری کا مادہ ہے اورکچے نہیں ہیں۔ اس لئے آپ کو ایک ایسی تقریب کا انتظار رہا۔ کہ جو مخلصوں اور منافقوں میں امتیاز کردکھلائے ۔ سو اللہ جل شانہ نے اپنی کمال حکمت ورحمت سے وہ تقریب اسی سال نومبر ۱۸۸۸ء؁ میں بشیراول کی وفات سے پیدا کردی۔ ملک میں آپ کے خلاف ایک شور مخالفت برپا ہوا اور خام خیال بدظن ہوکر الگ ہوگئے لہٰذا آپ کی نگاہ میں یہی موقعہ اس بابرکت سلسلے کی ابتداء کے لئے موزوں قرار پایا۔ اورآپ یکم دسمبر ۱۸۸۸ء؁ کو ایک اشتہار کے ذریعہ سے بیعت کا اعلان عام فرمادیا۔
اشتہار’’تکمیل تبلیغ وگزارش ضروری‘‘ اس اعلان کے ساتھ جو بیعت سے متعلق پہلا اعلان تھا حضور نے بیعت کے لئے معین رنگ میں کوئی خاص شراط نہیں تحریر کئے تھے۔مگر ادھر حضرت المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء؁ کو دس گیارہ بجے شب (بیت الذکر نمبر ۱ کے زیر سقف کمرہ سے متصل مشرقی کمرہ میں ) پیدا ہوئے ۔ادھرآپ نے ’’تکمیل تبلیغ‘‘ کا اشتہار تحریر فرمایا ۔اور اس میں بیعت کی وہ دس شرطیں تجویز فرمائیں جو جماعت میں داخلہ کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ۔اس طرح جماعت احمدیہ اور پسرموعودؑ کی پیدائش توام ہوئی۔
یہ دس شرائط بیعت حضرت اقدس کے الفاظ میں یہ ہیں۔
’’اول:۔ بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہوجائے شرک سے مجتنب رہے گا۔
دوم:۔ یہ کہ جھوٹ اورزنا اور بدنظری اورہرایک فسق وفجور اور ظلم اور خیانت اورفساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہوگااگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔
سوم:۔ یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اوراپنے نبی کریمؐ پر درود بھیجنے اور ہرروز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اوردلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرکے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہرروز وردبنالے گا۔
چہارم:۔ یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا ۔نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔
پنجم:۔ یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عسر اور یسر اور نعمت اوربلامیں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہرحالت راضی بقضا ہوگا۔ اورہرایک ذلت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیاررہے گا ۔اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پراس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا ۔
ششم:۔یہ کہ اتباع رسم اورمتابعت ہواوہوس سے بازآجائے گا اورقرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پرقبول کرے گا۔اورقال اللہ اورقال الرسول کواپنے ہریک راہ میں دستورالعمل قراردے گا۔
ہفتم:۔ یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا۔ اورفروتنی اورعاجزی اورخوش خلقی اورحلیمی اور مسکینی سے زندگی بسرکرے گا۔
ہشتم :۔ یہ کہ دین اور دین کی عزت اورہمدردی اسلام کو اپنی جان اوراپنے مال اوراپنی عزت اور اپنے ہریک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا۔
نہم:۔ یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا۔ اورجہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اورنعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔
دہم:۔ یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔‘‘
حضرت اقدس نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ استخارہ مسنونہ کے بعد بیعت کے لئے حاضر ہوں۔
لدھیانہ میں ورود:۔ اس اشتہار کے بعد حضرت اقدس قادیان سے لدھیانہ تشریف لے گئے اور حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کے مکان واقع محلہ جدید میں فروکش ہوئے ۔یہاں سے آپ نے ۴؍مارچ ۱۸۸۹ء؁ کو ایک اور اشتہار میں بیعت کے اغراض ومقاصد پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھا۔’’یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے ۔تاایسا متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پراپنا نیک اثر ڈالے اوران کا اتفاق اسلام کے لئے برکت وعظمت ونتائج خیر کا موجب ہو ۔اوروہ ببرکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک ومقدس خدمات میں جلد کام آسکیں اورایک کاہل اوربخیل وبے مصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوںنے اپنے تفرقہ ونااتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اوراس کے خوبصورت چہر ہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگادیا ہے اورنہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں ۔ اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ بھی غرض نہیں اوربنی نوع کی بھلائی کے لئے کچھ جوش نہیں بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہوجائیں۔ یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اوراسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الٰہی اورہمدردی بندگان خدا کا پاک چشمہ ہریک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہوکر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظرآئے۔۔۔۔خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہاہے تا دنیا میں محبت الٰہی اور توبہ نصوع اور پاکیزگی اورحقیقی نیکی اورامن اورصلاحیت اورنبی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے۔ سویہ گروہ اس کا ایک خاص گرو ہ ہوگا اوروہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا۔ اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا ۔اوروہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشینگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صٓدقین کو اس میں داخل کرے گا۔ وہ خود اس کی آب پاشی کرے گا اورا س کو نشوونما دے گا۔ یہاں تک کہ ان کی کثرت اوربرکت نظروں میں عجیب ہوجائے گی۔ اوروہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اوراسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے ۔وہ اس سلسلہ کے کامل متبیعین کو ہریک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کوقبولیت اور نصرت دی جائے گی اس قیامت تک ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی اس رب جلیل نے یہی چاہا ہے وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ہریک طاقت اور قدرت اسی کو ہے ۔‘‘
بیعت کے لئے لدھیانہ پہنچنے کا ارشاد:۔ اسی اشتہار میں آپ نے ہدایت فرمائی کہ بیعت کرنے والے اصحاب ۲۰؍مارچ کے بعد لدھیانہ پہنچ جائیں۔
ہوشیار پور میں شیخ مہر علی کی ایک تقریب میں شمولیت:۔ انہی دنوں شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کے لڑکے کی شادی کی تقریب تھی جس میں شمولیت کے لئے انہوںنے درخواست کررکھی تھی۔ اس لئے بیعت لینے سے قبل حضرت اقدس کو ایک مرتبہ ہوشیار پور بھی جانا پڑا۔ اس سفر میں منشی عبداللہ صاحب سنوریؓ میر عباس علی صاحب لدھیانوی اور حافظ حامد علی صاحبؓ آپ کے قدیم خادم آپ کے ساتھ تھے۔ شیخ مہر علی صاحب نے یہ انتظام کیا تھا کہ دعوت میں کھانے کے وقت رؤساء کے واسطے الگ کمرہ تھا اوران کے ساتھیوں اور خدام کے لئے الگ۔ مگر حضرت اقدس کا قاعدہ یہ تھا کہ اپنے خدام کو کمرے میں پہلے داخل کرتے پھر خود داخل ہوتے تھے ۔اوران کو اپنے دائیں بائیں بٹھاتے تھے۔ ان دنوں وہاں مولوی محمود شاہ صاحب چھچھ ہزاروی کا وعظ ہونے والا تھا حضرت اقدس نے منشی عبداللہ صاحب سنوریؓ کے ہاتھ بیعت کا اشتہار دے کر انہیں کہلا بھیجا کہ آپ اپنے لیکچر کے وقت کسی مناسب موقع پر میرا اشتہار بیعت پڑھ کر سنادیں۔ اور میں خود بھی آپ کے لیکچر میں آئوں گا انہوںنے وعدہ کرلیا۔ چنانچہ حضرت اقدس اس کے وعظ میں تشریف لے گئے۔ لیکن اس نے وعدہ خلافی کی اورحضور کا اشتہار نہ سنایا بلکہ جس وقت لوگ منتشر ہونے لگے اس وقت سنایا مگراکثر لوگ منتشر ہوگئے تھے۔ حضرت اقدسؑ کو اس پر بہت رنج ہوا ۔ فرمایا ہم اس کے وعدہ کے خیال سے ہی اس کے لیکچر میں آئے تھے کہ ہماری تبلیغ ہوگی ۔ورنہ ہمیں کیا ضرورت تھی۔ اس نے وعدہ خلافی کی ہے۔ خدا کے بندوں کی خفگی رنگ لائے بغیر نہیں رہتی۔ چنانچہ یہ مولوی تھوڑے عرصہ کے اندر ہی چوری کے الزام کے نیچے آکر سخت ذلیل ہوا۔
۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء؁ کو محلہ جدید میں بیعت اولیٰ کا آغاز:۔ حضرت اقدس کے اشتہار پر جموں، خوست، بھیرہ، سیالکوٹ، گورداسپور، گوجرانوالہ، جالندھر، پٹیالہ، مالیر کوٹلہ، انبالہ، کپور تھلہ، اور میرٹھ وغیرہ اضلاع سے متعدد مخلصین لدھیانہ پہنچ گئے۔ بیعت اولیٰ کا آغاز لدھیانہ میں حضرت منشی عبداللہ سنوریؓ کی روایات کے مطابق ۲۰؍رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۳مارچ ۱۸۸۹ء؁ کو حضرت صوفی احمد جان ؓ کے مکان واقع محلہ جدید میں ہوا ۔وہیں بیعت کے تاریخی ریکارڈ کے لئے ایک رجسٹر تیارہوا۔ جس کی پیشانی پر یہ لکھاگیا۔’’بیعت توبہ برائے حصول تقویٰ وطہارت‘‘ رجسٹر میں ایک نقشہ تھا جس میں نام ،ولدیت اور سکونت درج کی جاتی تھی۔
حضرت اقدسؑ بیعت لینے کے لئے مکان کی ایک کچی کوٹھری میں ( جوبعد کو دارالبیعت کے مقدس نام سے موسوم ہوئی) بیٹھ گئے اور دروازے پر حافظ حامد علی صاحبؓ کو مقرر کردیا اورانہیں ہدایت دی کہ جسے میں کہتا جائوں اسے کمرہ میں بلاتے جائو۔ چنانچہ آپ نے سب سے پہلے حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کو بلوایا ۔حضرت اقدس نے مولانا کا ہاتھ کلائی پر سے زور کے ساتھ پکڑا اور بڑی لمبی بیعت لی ۔ان دنوں بیعت کے الفاظ یہ تھے۔
’’آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے ان تمام گناہوں اورخراب عادتوں سے توبہ کرتا ہوں جن میں میں مبتلا تھا اور سچے دل اورپکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور میر ی سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری اور ۱۲؍جنوری کی دس شرطوں پر حتی الوسع کا ربند رہوںگا ۔اوراب بھی اپنے گذشتہ گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں ۔اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِیْ ۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِیْ ۔ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ اِلَیْہ اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہَ ۔رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِی فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ فَاِنَّہٗ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلاَّ اَنْتَ (۱۳،۱۴)
(خاکہ دارالبیعت لدھیانہ)
شمال



کمرہ بیعت

کمرہ
مشرق



کچا صحن
مسجد
مغرب
پکا صحن


(جنوب) حضرت صوفی احمد جان صاحب ؓ کا مکان

حضرت مولانا نور الدین رضی اللہ عنہ کے بعد میر عباس علی صاحب۔ شیخ محمد حسین صاحب خوشنویس مراد آبادی نیز چوتھے نمبر پر مولوی عبداللہ صاحب سنوری ؓ (۱۵) اور پانچویں نمبر پر مولوی عبداللہ صاحب ساکن تنگی علاقہ چار سدہ (۱۶) (صوبہ سرحد) نے بیعت کی۔ ان کے بعد غالباً منشی اللہ بخش صاحب (۱۷) لدھیانہ کا نام لے کر بلایا اور پھر شیخ حامد علی صاحب سے کہدیا کہ خودہی ایک ایک آدمی کو بھیجتے جائو۔ اس کے بعد آٹھویں نمبر پر قاضی خواجہ علی صاحبؓ نویں نمبر پر میر عنایت علی صاحبؓ اور دسویں نمبر پر چوہدری رستم علی صاحبؓ اور پھر ( معاًبعد یا کچھ وقفے کے ساتھ ) منشی اروڑا خاں صاحبؓ نے بیعت کی۔ سستائیسویں نمبر پر رحیم بخش صاحب (۱۸) سنوری کی بیعت ہوئی۔ اس طرح پہلے دن باری باری چالیس (۱۹) افراد نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا بیان ہے کہ ’’ سبز کا غذ پر جب اشتہار حضور نے جاری کیا تو میرے پاس بھی چھ سات اشتہار حضور نے بھیجے ۔ منشی اروڑا صاحبؓ فوراً لدھیانہ کو روانہ ہوگئے دوسرے دن محمد خاں صاحب اور میں گئے اور بیعت کر لی۔ منشی عبدالرحمن صاحب تیسرے دن پہنچے کیونکہ انہوں نے استخارہ کیا۔ اور آواز آئی ’’ عبدالرحمن آجا‘‘۔ ہم سے پہلے اس دن آٹھ نو کس بیعت کر چکے تھے۔ بیعت حضور اکیلے اکیلے کو بٹھا کر لیتے تھے اشتہار پہنچنے سے دوسرے دن چل کر تیسرے دن صبح ہم نے بیعت کی پہلے منشی اروڑا صاحب نے ۔ پھر میں نے ۔ میں جب بیعت کرنے لگا تو حضور نے فرمایا کہ آپ کے رفیق کہاں ہیں؟ میں نے عرض کی۔ منشی اروڑا صاحب نے تو بیعت کر لی ہے اور محمد خاں صاحب نہا رہے ہیں کہ نہا کر بیعت کریں۔ چنانچہ محمد خاں صاحب نے بیعت کر لی۔ اس کے ایک دن بعد منشی عبدالرحمن صاحبؓ نے بیعت کی۔ منشی عبدالرحمن صاحب۔ منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں ؓ صاحب تو بیعت کر کے واپس آگئے کیونکہ یہ تینوں ملازم تھے میں پندرہ بیس روز لدھیانہ ٹھہرا رہا۔ اور بہت سے لوگ بیعت کرتے رہے۔ حضور تنہائی میں بیعت لیتے تھے اور کواڑ بھی قدرے بند ہوتے تھے ۔ بیعت کرتے وقت جسم پر ایک لرزہ اور رقت طاری ہو جاتی تھی۔ اور دعا بعد بیعت بہت لمبی فرماتے تھے۔ ‘‘ (۲۰) پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی ۔ شیخ یعقوب علی صاحب تراب (۲۱) اور مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی اس دن لدھیانہ میں موجود تھے ۔ مگر پہلی بیعت میں شامل نہ ہو سکے ۔ پیر سراج الحق صاحب کا منشاء قادیان کی مسجد مبارک میں بیعت کرنے کا تھا جسے حضرت اقدس نے منظور فرما لیا۔ اور ۲۳ دسمبر ۱۸۸۹ء کو بیعت (۲۲) لی۔ باقی حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ (۲۳) اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ تراب (۲۴) نے انہی ایام میں بیعت کر لی تھی۔ حضرت اقدسؑ نے مولانا نور الدین صاحب کو بلایا اور ان کے ہاتھ میں مولانا عبدالکریم صاحب کا ہاتھ رکھا اور ان ہر دو کو اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر مولانا عبدالکریم صاحب سے بیعت کے الفاظ کہلوائے۔ (۲۵)
ان ایام میں حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نیچری خیالات رکھتے تھے ۔ لیکن چونکہ وہ بچپن (۲۶) ہی سے حضرت مولانا نورالدین سے راہ رسم رکھتے تھے اس لئے انہوں نے محض آپ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد اتنا زبردست تغیر ہوا کہ خود ہی فرمایا کرتے تھے ۔’’ میں نے قرآن بھی پڑھا تھا۔ مولانا نورالدین ؓ کے طفیل سے حدیث کا شوق بھی ہو گیا تھا۔ گھر میں صوفیوں کی کتابیں بھی پڑھ لیا کرتا تھا ۔ مگر ایمان میں وہ روشنی وہ نور معرفت میں ترقی نہ تھی۔ جو اب ہے اس لئے میں اپنے دوستوں کو اپنے تجربے کی بناء پر کہتا وہں کہ یادرکھو اس خلیفہ اللہ کے دیکھنے کے بدوں صحابہ کا سازندہ ایمان نہیں مل سکتا۔ اس کے پاس رہنے سے تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ کیسے موقع موقع پر خدا کی وحی سناتا ہے اور وہ پوری ہوتی ہے تو روح میں ایک محبت اور اخلاص کا چشمہ پھوٹ پڑتا ہے ۔ جو ایمان کے پودے کی آبپاشی کرتا ہے ۔ ‘‘(۲۷)
عورتوں کی بیعت :۔
مردوں کی بیعت کے بعد حضرت گھر میں آئے تو بعض عورتوں نے بھی بیعت کی ۔ سب سے پہلے حضرت مولانا نورالدین صاحب کی اہلیہ محترمہ حضرت صغریٰ بیگم (۲۸) نے بیعت کی۔ حضرت ام المومنین ابتداء ہی سے آپ کے سب ہی دعاوی پر ایمان رکھتی تھیں اور شروع ہی سے اپنے آپ کو بیعت میں سمجھتی تھیں۔ اس لئے آپ نے الگ بیعت کی ضرورت نہیں سمجھی۔(۲۹)
بیعت کے بعد اجتماعی کھانا اور نماز :۔
میاں رحیم بخش صاحب سنوری ؓ کا بیان ہے کہ ’’بیعت کے بعد کھانا تیار ہوا تو حضور نے فرمایا۔ اس مکان میں کھانا کھلائو کیونکہ وہ مکان لمبا تھا۔ غرض دسترخوان بچھ گیا اور سب دوستوں کو وہیں کھانا کھلایا گیا کھانے کے وقت ایسا اتفاق ہواکہ میں حضور کے ساتھ ایک پہلو پر بیٹھا تھا حضور اپنے برتن میں سے کھانا نکال کر میرے برتن میں ڈالتے جاتے تھے۔ اور میں کھانا کھاتا جاتاتھا۔ گاہے حضور بھی کوئی لقمہ نوش فرماتے تھے۔ کھانے کے بعد نماز کی تیاری ہوئی۔ نماز میں بھی ایسا اتفاق پیش آیا کہ میں حضور کے ایک پہلو میں حضور کے ساتھ کھڑا ہوا۔ اب مجھے یاد نہیں رہا کہ اس وقت کون امام تھا۔‘‘(۳۰)
دوسرے ایام میں بیعت :۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ میں ۱۸۔ اپریل ۱۸۸۹ء تک مقیم رہے ۔ (۳۱) ابتداء محلہ جدید میں پھر محلہ اقبال گنج میں تاہم بیعت کا سلسلہ بد ستور جاری رہا۔ پہلے بیعت اکیلے اکیلے ہوتی رہی پھر خطوط کے ذریعہ سے پھر مجمع عام میں ۔ (۳۲)
بیعت کے بعد نصائح:۔
حضرت اقدس کا اکثر یہ دستور تھا کہ بیعت کرنے والوں کو نصائح فرماتے تھے۔ چند نصائح بطور نمونہ درج ذیل ہیں۔
’’ا س جماعت میں داخل ہو کر اول زندگی میں تغیر کرنا چاہئے۔ کہ خدا پر ایمان سچا ہو اور وہ ہر مصیبت میں کام آئے۔ پھر اس کے احکام کو نظر خفت سے نہ دیکھا جائے بلکہ ایک ایک حکم کی تعظیم کی جائے اور عملاً اس تعظیم کا ثبوت دیا جائے۔ ‘‘
’’ہمہ و جوہ اسباب پر سرنگوں ہونا اور اسی پر بھروسہ کرنا اور خدا پر توکل چھوڑ دینا یہ شرک ہے اور گویا خدا کی ہستی سے انکار۔ رعایت اسباب اس حد تک کرنی چاہیئے۔ کہ شرک لازم نہ آئے۔ ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم رعایت اسباب سے منع نہیں کرتے مگر اس پر بھروسہ کرنے سے منع کرتے ہیں۔ دست درکار دل بایا ر والی بات ہونی چاہئے۔‘‘
’’ دیکھو تم لوگوں نے جو بیعت کی ہے اور اس وقت اقرار کیا ہے اس کا زبان سے کہہ دینا تو آسان ہے لیکن نبھانا مشکل ہے۔ کیونکہ شیطان اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ انسان کو دین سے لا پروا کردے دنیا اور اس کے فوائد کو تو وہ آسان دکھاتا ہے اور دین کو بہت دور۔ اس طرح دل سخت ہو جاتاہے اور پچھلا حال پہلے سے بدتر ہو جاتاہے اگرخدا کو راضی کرنا ہے تو اس گناہ سے بچنے کے اقرار کو نبھانے کے لئے ہمت اور کوشش سے تیار رہو۔ ‘‘
’’ فتنہ کی کوئی بات نہ کرو۔ شر نہ پھیلائو۔ گالی پر صبرکرو۔ کسی کا مقابلہ نہ کرو جو مقابلہ کرے اس سے بھی سلوک اور نیکی کے ساتھ پیش آئو۔ شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلائو سچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا راضی ہو جائے۔ اور دشمن بھی جا ن لے کہ اب بیعت کرکے یہ شخص وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ مقدمات میں سچی گواہی دو۔ اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ پورے دل پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جائے ۔ ‘‘(۳۳)
بعض لوگ بیعت کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کرتے تھے کہ حضور کسی وظیفہ وغیرہ کا ارشاد فرمائیں۔ اس کا جواب اکثر یہ دیا کرتے تھے کہ نماز سنوار کر پڑھا کریں اور نماز میں اپنی زبان میں دعا کیا کریں۔ اور قرآن شریف بہت پڑھا کریں ۔ آپ وظائف کے متعلق اکثر فرمایا کرتے تھے کہ استغفار کیاکریں۔ سورہ فاتحہ پڑھا کریں۔ درود شریف لاحول اور سبحان اللہ پر مداومت کریں ۔ اور فرماتے تھے کہ بس ہمارے وظائف تو یہی ہیں۔ (۳۴)
رجسٹر بیعت اولیٰ کی مکمل فہرست :
رجسٹر بیعت ابتداء حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کاغذات میں سے ملا تھا جو انہوں نے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو دے دیا اور حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس کی عظیم الشان اہمیت کے پیش نظر اسے خلافت لائبریری ربوہ میں منتقل فرمادیا ہے ۔ اس قیمتی دستاویز کا پہلا ورق ضائع ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ابتدائی آٹھ ناموں کا پتہ نہیں چل سکا۔ ذیل میں اس کی مکمل فہرست درج کی جاتی ہے اس فہرست میں مبائعین کی ترتیب مدنظر نہیں رکھی گئی جس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت دستخطی پرچیاں کسی ترتیب سے نہیں رکھی جاتی تھیں ۔ (۳۵)
بیعت اولیٰ کی تاریخ اور اس کے رجسٹر کے بارہ میں جدید تحقیق :۔
رسالہ الفرقان ربوہ مئی ۱۹۷۱ء (صفحہ ۱۷۔۳۱) میں بیعت اولیٰ کی تاریخ اور اس کے رجسٹر سے متعلق مولف کتاب ھذا کا حسب ذیل نوٹ شائع ہوا: ’’ سلسلہ احمدیہ میں لدھیانہ کی بیعت اولیٰ کو جو تاریخی اہمیت حاصل ہے وہ کسی احمدی سے قطعاً پوشیدہ نہیں ۔ اور یہ مسلمہ امر ہے کہ یہ اہم واقعہ ( جس نے آئندہ چل کر مذہبی دنیا پر ایک ہمہ گیر اور انقلاب انگیز اثر ڈالا ) مارچ ۱۸۸۹ء میں پیش آیا جبکہ حاجی الحرمین الشریفین حضرت حکیم الامت مولانا حکیم مولوی نور الدین صاحب بھیروی رضی اللہ عنہ نے حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست مبارک پر سب سے پہلے بیعت کا شرف حاسل کیا۔ علاوہ ازیں اس پر بھی اتفاق رائے ہے کہ اس آسمانی اور بابرکت تقریب کے پہلے روز چالیس قدوسیوں کا پاک نہاد، صاف باطن اور خوش نصیب قافلہ بیعت امام الزمان کرکے داخل سلسلہ ہوا تھا۔ مگر اس بیعت اولیٰ کا آغاز شمسی و قمری اعتبار سے کس معین تاریخ کو ہوا؟ یہ مسئلہ جماعت احمدیہ کے علمی حلقوں میں ابھی تک زیر تحقیق چلا آرہا ہے اور ایک معرکہ الاراء موضوع بنا ہوا ہے ۔
میرے نزدیک اس خالص علمی مسئلہ میں تحقیق و تفحص کے ذریعہ سے کسی نتیجہ خیز اور صحیح منزل کو پانے کے لئے مندرجہ ذیل حقائق بہترین مشعل راہ اور روشنی کا مینار ہیں۔
اول: حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام نے ایک طرف اپنے اشتہار ۴۔ مارچ ۱۸۸۹ میں بیعت پر مستعد اصحاب کے لئے یہ اعلان عام فرمایا :
’’ تاریخ ہذا سے جو ۴۔ مارچ ۱۸۸۹ء ہے ۲۵۔ مارچ تک یہ عاجز لودیانہ محلہ جدید میں مقیم رہے اس عرصہ میں اگر کوئی صاحب آنا چاہیں تو لودیانہ میں ۲۰ تاریخ کے بعد آجائویں۔ ‘‘
(تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ ۱۵۰ حاشیہ مرتبہ حضرت میر قاسم علی صاحبؓ )
دوسری طرف حضور انورؑ نے حکیم الامت حضرت مولانا حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ کو یہ خصوصی ہدایت فرمائی کہ :۔
’’بجائے بیس کے بائیس کو آپ تشریف لاویں۔۔۔۔۔۔۔۔یہ عاجزارادہ رکھتا ہے کہ ۱۵۔ مارچ ۱۸۸۹ء کو دو تین روز کے لئے ہوشیار پور جاوے اور ۱۹۔ مارچ یا ۲۰مارچ کو بہر حال واپس آجائوں گا ۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۶۲مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مدیر الحکم )
اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کا منشاء مبارک بائیس مارچ کے بعد سلسلہ بیعت کے آغاز کا تھا ورنہ حضور علیہ السلام حضرت مولوی صاحبؓ کو جوان دنوں جموں میں قیام فرما تھے جموں سے بائیس مارچ کو پہنچنے کا حکم نہ دیتے بلکہ بائیس مارچ سے پہلے وارد لدھیانہ ہونے کی تاکید فرماتے خصوصاً اس لئے بھی کہ حضرت مولوی صاحبؓ نے ایک عرصہ سے حضورؑ کی خدمت میں عرض کر رکھا تھا کہ جب حضور کو جناب الٰہی سے بیعت کا اذن ہو تو سب سے پہلے بیعت آپ کی لی جائے اور حضور ؑ اس درخواست و ازراہ شفقت قبول فرما چکے تھے۔
دوم ۔ حضرت مولانا عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ سیدنا المسیح الموعود علیہ السلام نے نہایت جلیل القدر اور مشہور صحابی، سرخ چھینٹوں کے کشفی نشان کے حامل ، براہین احمدیہ کی طباعت میں مخلص معاون اور مشہور سفر ہوشیار پور ۱۸۸۶ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خصوصی خادم تھے۔ حضورؑ نے اپنے قلم مبارک سے ازالہ اوہام میں ان کے لئے بہت تعریفی کلمات لکھے ہیں۔ حضور ؑ نے تحریر فرمایا ہے ’’یہ جوان صالح اپنی فطرتی مناسبت کی وجہ سے میری طرف کھینچا گیا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان وفادار دوستوں میں سے ہے جن پر کوئی ابتلاء جنبش نہیں لا سکتا وہ متفرق وقتوں میں دو دو تین تین ماہ تک بلکہ زیادہ بھی میری صحبت میں رہا۔۔۔۔۔۔ یہ نوجوان درحقیقت اللہ اور رسول ؐ کی محبت میں ایک خاص جوش رکھتا ہے ۔ الغرض میاں عبداللہ نہایت عمدہ آدمی اور میرے منتخب محبوں میں سے ہے۔ ‘‘(ازالہ اوہام طبع اول صفحہ ۷۹۶)
حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری ؓ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ نے بیعت اولیٰ میں چوتھے نمبر پر بیعت کی اور جیسا کہ آپ ؓ فرمایا کرتے تھے جہاں دوسرے مبائعین کو حضور ؑ کے حکم سے شیخ حامد علی صاحبؓ نے کمرہ بیعت میں جانے کی آواز دی وہاں حضور انورؑ نے خود آپ کو نام لے کر بلایا تھا ۔ ( الفضل ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۲۷ء )
اس شان کے خدا نما بزرگ اور مسیح محمدیؐ کے منتخب محب کا واضح اور قطعی بیان یہ ہے کہ :۔
’’پہلے دن جب آپ ؑ نے بیعت لی تو وہ تاریخ ۲۰۔ رجب ۱۳۹۶ھ مطابق ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء تھی۔‘‘( سیرت المہدی حصہ اول طبع دوم صفحہ ۷۷ مرتبہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ۔ طبع اول۱۰۔ دسمبر ۱۹۲۳ء ۔طبع ثانی ۱۴۔ نومبر ۱۹۳۵ء )
سوم ۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ تراب ( عرفانی ) کانام نامی کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ آپ کا مقام سلسلہ احمدیہ کے پہلے صحافی اور پہلے مورخ کے لحاظ سے نہایت بلند ہے۔ حضرت عرفانی رضی اللہ عنہ گو پہلے دن بیعت سے مشرف نہیں ہوئے تھے مگر وہ ان ایام میں لدھیانہ میں تھے اور انہیں دنوں داخل بیعت ہوگئے تھے۔ حضرت شیخ صاحب موصوفؓ بھی حضرت مولانا عبداللہ سنوری ؓ کی تائید میں یہ نظریہ رکھتے تھے کہ بیعت کا اصل دن ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶مطابق ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء ہی ہے ۔(حیات احمد جلد سوم صفحہ ۲۸)
چہارم:۔ حضرت سیدنا المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی قطعی رائے تھی کہ بیعت اولیٰ ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء کو ہوئی تھی بلکہ حضورؑ نے صرف اسی بناء پر ۲۳۔ مارچ ۱۹۴۴ء کا دن جلسہ مصلح موعود لدھیانہ کے لئے مقرر فرمایا اور پھر اس میں بنفس نفیس شرکت کی اور اپنے روح پرور خطاب کی ابتداء ہی ان مبارک کلمات سے فرمائی کہ :۔
’’اس شہر لدھیانہ میں ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ۔۔۔۔۔نے بیعت لی تھی ۔ ‘‘(الفضل ۱۸۔ فروری ۱۹۵۹ء )
پنجم ۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کا مسلک بھی اس کے مطابق تھا۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لدھیانہ کے مقام پر سب سے پہلی بیعت ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء کو لی تھی اور جماعت احمدیہ کا قیام معرض وجود میں آیا تھا۔ ‘‘
ششم۔ درالبیعت لدھیانہ میں ۱۹۱۶ء سے ۱۹۴۷ء تک جو کتب بطور یاد گار نصب رہا اس پر بھی ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء ہی کی تاریخ ثبت تھی۔ (ریویوآف ریلیجنز اردو جون ، جولائی ۹۴۳ء صفحہ ۲۶تا ۳۹)
ہفتم :۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے زمانہ خلافت کے آخر ی دور میں ’’یوم مسیح موعود‘‘ کی بنیاد پری اور ساتھ ہی حضور پر نور کی اجازت و استصواب کے بعد مرکز احمدیت سے مسلسل اعلان کیا گیا کہ بیعت اولیٰ کی تاریخ ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء ہے۔ ( الفضل ۴۔ امان ؍ مارچ ۱۳۲۷ہش ؍ ۱۹۵۸ء صفحہ)
ہشتم ۔ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردایم ۔ اے (سلسلہ احمدیہ کے نامور مولف و محقق کی قطعی رائے بھی اسی تاریخ کے حق میں تھی۔ چنانچہ آپ اپنی کتاب ’’ لائف آف احمد‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :۔
‏THE FORMAL INTIATION BEGAM ON MARCH 23RD, 1889(20RAJAB, 1306.A.H)
(صفحہ ۱۵۴ مطبوعہ ۱۹۴۹ء مطابق ۱۳۲۸ہش)
نہم :خالد احمدیت مولانا ابو العطاء صاحب فاضل نے یوم جمہوریہ پاکستان کے موقعہ پر ۲۳۔ مارچ ۱۹۵۷ء کو ایک مضمون سپرد قلم کیا جس میںنے صرف محولہ بالا تاریخ بیعت کی مکمل تائید کی بلکہ یہ نہایت ایمان افروز اور لطیف نکتہ بھی بیان فرمایا کہ :۔
’’ ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے بغیر کوئی پتہ بھی ہل نہیں سکتا ۔ پس اس لحاظ سے کوئی واقعہ اتفاقی نہیں ہے۔ بلکہ ہر کام ، حادثہ اور ہر سانحہ اللہ تعالیٰ کے علم اور عظیم حکمت کے ماتحت وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ الٰہی تصرفات میں سے یہ عجیب تصرف ہے کہ ۲۳۔ مارچ کو ہی اس زمانہ کے مامور نے روحانی جماعت کا علمی طور پر سنگ بنیاد رکھا اور اسی تاریخ (۵۴) کو مادی دنیا میں ارض مقدسہ ( پاکستان ) بننے پر اس کے جمہوریہ اسلامیہ قرار پانے کا اعلان کیا جاتاہے ۔ بہر حال جماعت احمدیہ کے لئے ۲۳۔ مارچ کی تاریخ نہایت ہی اہم اور خوشی کی تاریخ ہے ۔‘‘( الفضل ۲۸۔ مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۵ کالم ۴)
سیدنا المصلح الموعودؑ کی ہدایت خاص، حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری ؓ کے چشم دید بیان ، حضرت عرفانیؓ کے تائیدی نظریہ ، حضرت مصلح موعودؓ کے واضح فرمان ، حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ ، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد اور مولانا ابوالعطاء صاحب کی حتمی رائے۔ دارالبیعت کے یادگاری کتبہ اور جماعت احمدیہ کے اجماعی مسلک سے سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا کہ ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء ہی کو جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔
اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ ہو۔ یعنی ان محرکات و عوامل کا تجزیہ کیجئے جو اس صاف اور دو ٹوک نتیجہ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ اس تعلق میں بنیادی طور پر صرف دو امور پیش کئے جاسکتے ہیں۔
ٍ۱۔ قدیم رجسٹر بیعت میں مندرجہ تاریخ ۔
۲۔ حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری ؓ کی بیان رمود ہ قمری و شمسی تاریخوں میں عدم موافقت ۔ اول الذکر سے بظاہر اس خیال کو بہت تقویت حاصل ہوتی ہے کہ سلسلہ بیعت دراصل ۲۱۔ مارچ ۱۸۸۹ء سے جاری ہو چکا تھا اور قادیان ، کا نگڑہ ، غوث گڑھ ، جموں ، مالیر کوٹلہ، شاہ پور، کڑیانہ ، جھنپٹ اور لدھیانہ وغیرہ کے چھیالیس بزرگ بیعت ہوچکے تھے۔
ثانی الذکر امر یہ بھاری شبہ ڈالتا ہے کہ بیعت اولیٰ کی ابتداء ۲۱یا ۲۳مارچ ۱۸۸۹ء کی بجائے ۲۲۔ مارچ کو ہوئی تھی کیونکہ مصری فاضل محمد مختار باشا کی تقویم ۔ اَلتَّوْفِیْقَاتُ الْاِلْھَامِیَّۃِ‘‘سے ثابت ہوتا ہے کہ ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ کو ۲۲۔ مارچ ۱۸۹۹ء کا دن تھا۔ (۵۵)
قدیم رجسٹر جو تاریخ احمدیت کی ایک مقدس دستاویز اور بیعت اولیٰ کے دور کی نہایت بیش قیمت یاد گارہے آج تک خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے ۔ یہ رجسٹر حضرت اقدس مسیح موعود کے حکم سے تیار کیا گیا تھا اور اس کا نام ’’ بیعت توبہ برائے حصول تقویٰ و طہارت ‘‘ تجویز فرمایا گیا۔ اس رجسٹر کی تحریر مختلف ہاتھوں میں رہی۔ بعض نام حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے قلم سے لکھے بعض حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ اور دوسرے بزرگوں نے ۔ اس رجسٹر کا پہلا ورق چونکہ ضائع ہو چکا ہے اس لئے اس کے ابتدائی ناموں کا پتہ نہیں چلتا۔ اپریل ۱۹۳۹ء میں قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے پہلی بار اس کے ابتدائی ۶۲ اندراجات اپنی کتاب سیرۃ المہدی حصہ سوم میں شائع فرمائے تو اس کے پہلے آٹھ نام بعض زبانی اور مستند روایات سے قیاساً درج کرکے اس کے پہلے نمبر پر ۱۹۔ رجب ۱۳۰۶ھ اور ۲۱مارچ ۱۸۸۹ کی تاریخوں کا اس لئے اضافہ فرما دیا کہ رجسٹر میں سینتالیسویں نمبر پر پہلی تاریخ جو بطور یاد داشت درج تھی وہ ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ اور ۲۲۔ مارچ ۱۸۸۹ء تھی۔
سیر ت المہدی حصہ سوم کی اس فہرست سے یہ تاثر پیدا ہوتاہے کہ ۱۹۔ رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۱۔ مارچ ۱۸۸۹ء ہی کو یوم البیعت تسلیم کیا جانا چاہئے جیسا کہ حال ہی میں بیرو ن پاکستان کے ایک فاضل دوست نے راقم الحروف کے نام اپنے ایک تازہ مکتوب میں لکھا ہے اور زور دیا ہے کہ رجسٹر کی اندرونی شہادت کو کیوں قبول نہیں کیا جاتا؟
بلاشبہ یہ قدیم رجسٹر بیعت ایک مستند ، وقیع ، قابل استناد اور ثقہ شہادت سابقو ن الاولون کے اسماء مبارکہ کی ہے اور کوئی احمدی محقق خواہ وہ کتنی عظیم علمی شخصیت کا حامل ہو اور تاریخ نویسی اور وقائع نگاری میں سند عام کا درجہ حاصل کر لے اس سے بے نیاز ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ بایں ہمہ قابل غورو فکر پہلو یہ ہے کہ یہ شہادت کس نوعیت کی ہے ؟ اگر یہ شہادت اس بات کی ہے کہ سلسلہ احمدیہ سے وابستہ ہونے والے قدیم ترین فدائیوں کے نام اور کوائف کیا تھے تو یہ سو فیصد درست ہے اور اگر شہادت سے مراد یہ ہے کہ اس سے بیعت کرنے والوں کی ٹھیک ٹھیک عملی ترتیب اور صحیح صحیح تاریخ کی نشاندہی ہوتی ہے تو قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہما جیسے اکابر محققین احمدیت کی رائے میں بھی اس کا جواب یکسر نفی میں ہے حتیٰ کہ سرے سے اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ اس میں مندرجہ تواریخ ہجری و شمسی عین بیعت کے وقت لکھی گئی تھیں۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سیرۃ المہدی حصہ سوم میں فرماتے ہیں:۔
’’بیعت کنندگان کے رجسٹر سے جو مجھے مکرم میر محمد اسحاق صاحبؓ کے ذریعہ دستیاب ہوا ہے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ آیا بیعت کے وقت ہی اس رجسٹر میں فوراً اندراج کر لیا جاتاتھا یا کہ بیعت کے بعد چند اسماء اکٹھے درج کر لئے جاتے تھے۔ موخر الذکر صورت میں اس بات کا امکان ہے کہ بوقت اندراج اصل ترتیب سے کسی قدر اختلاف ہو جاتاہے ۔ بلکہ بعض اندراجات سے شبہ ہو تاہے کہ بعض اوقات ایسا ہو جاتا تھا کیونکہ بعض صورتوں میں زبانی روایات اور اندراج میں کافی اختلاف ہے ۔ ‘‘(صفحہ ۴۱)
حضرت قمر الانبیاء رضی اللہ عنہ ( نور اللہ مرقدہ) نے مندرجہ بالا تحریر میں جس ’’ کافی اختلاف‘‘ کی طرف سے نہایت اجمالی مگر بلیغ رنگ میں اشارہ فرمایا ہے اس کی بعض نہایت واضح مثالیں بیان کرنا ضروری معلوم ہوتاہے۔
۱۔ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا، حضرت سیدنا المصلح الموعود ؓ ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اور دوسرے اکابر سلسلہ اس رائے پر متفق ہیں کہ پہلے دن چالیس بزرگوں نے بیعت کی تھی۔ ( سیرت المہدی حصہ اول صفحہ ۱۸، سیرت مسیح موعود ؑ از حضرت مصلح موعودؓ ۔ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۲۹از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ۔ ذکر حبیب صفحہ ۹ مولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بھیروی ) اس مسلمہ حقیقت کے باوجود رجسٹر بیعت کے ابتدائی اوراق میں چالیس کی بجائے چھیالیس کے نام لکھے ہیں۔
رجسٹر بیعت میں تینتالیسویں نمبر پر حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی و نام نامی درج ہے حالانکہ حضرت مرزا بشیر احمدصاحب نے بھی ( بروایت حضرت مولانا عبداللہ صاحب سنوری ؓ ) لکھا ہے کہ ’’ بیعت اولیٰ کے دن مولوی عبدالکریم صاحب بھی وہیں موجود تھے مگر بیعت نہیں کی ۔ ‘‘ (سیرت المہدی حصہ اول طبع دوم صفحہ ۷۸)
۳۔ دنیائے احمدیت کے نہایت ممتاز، مخلص اور فدائی بزرگ اور حضرت مسیح موعود ؑ کے عاشق صادق حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی سوانح اور روایات سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ جب حضرت اقدس علیہ السلام نے بیعت کے لئے اشتہار دیا تو اگرچہ حضرت منشی روڑا خان صاحبؓ اشتہار بیعت ملتے ہی لدھیانہ روانہ ہوگئے تھے اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب ؓ اور حضرت میاں محمد خان صاحب کپور تھلوی دوسرے دن چل کر تیسرے دن صبح لدھیانہ پہنچے مگر کپور تھلہ کی ان تینوں بلند پایہ شخصیتوں نے بیعت اولیٰ کے پہلے روز ہی بیعت کر لی تھی۔ پہلے حضرت منشی روڑا خان صاحبؓ بیعت ہوئے۔ پھر حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ اور بعد ازاں حضرت محمد خان صاحبؓ ۔ ( اصحاب احمد جلد چہارم طبع اول صفحہ ۹۱) مگر اس واقعہ کے برعکس رجسٹر بیعت میں ۲۰۔ مارچ کی تاریخ کے تحت ہمیں صرف حضرت منشی روڑا خان صاحب کے نام ملتاہے اور بقیہ دو عشاق مسیح موعود ؑ کے مبارک اسماء ۲۳۔ مارچ میں درج کے گئے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان عالی مقام ، مجسم اخلاص اور سرتاپا فدائیت و جودوں اور شمع مسیح کے زندہ جاوید اور بے مثال پروانوں کی واقعاتی شہادتو ں اور رجسٹر بیعت کے اس حیرت انگیز اور بالکل کھلے کھلے تفاوت و اختلاف کی آخر وجہ کیاہے ؟ اور کیا ان میں مطابقت کی کوئی صورت ممکن نہیں؟
یہ ناچیز جواباً عرض کرتا ہے کہ اگرگہری تحقیق سے کام لیا جائے تو یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ رجسٹر بیعت کے اندراجات کی اصل اور بنیادی ترتیب بیعت اولیٰ کے مبائعین کی عملی بیعت کے اعتبار سے نہیں بلکہ قبل از وقت بیعت کی اطلاع دینے والوں یا بیعت کی خاطر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں لدھیانہ پہنچ جانے والو کے اعتبار سے ہے۔ یہ محض قیاسی یا اجتہادی امر نہیں بلکہ اس کا سراغ براہ راست سیدنا المسیح الموعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس اشتہار سے بخوبی ملتا ہے جو حضور ؑ نے بیعت اولیٰ سے قبل شائع فرمایا اور جس میں رجسٹر بیعت کی غرض و غایت پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی۔
چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام نے اشتہار مارچ۱۸۸۹ء میں بیعت کے لئے مستعد اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا۔
’’اے اخوان مومنین (اَیَّدَکُمُ اللّٰہُ بِرُوْحٍ مِنْہٗ) آپ سب صاحبوں پر جو اس عاجز سے خالصاً ۔ طلب اللہ بیعت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں واضح ہوکہ بالقاء رب کریم و جلیل ( جس کا ارادہ ہے کہ مسلمانوں کو انواع و اقسام کے اختلاف اور غل اور حقداور نزاع اور فساد کینہ اور بغض سے جس نے ان کو بے برکت و نکما کر دیا ہے نجات دے کر فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَاناً کا مصداق بنا دے) مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض فوائد و منافع بیعت کہ جو آپ لوگوں کے لئے مقدر ہیں اس انتظام پر موقوف ہیںکہ آپ سب صاحبوں کے اسماء مبارکہ ایک کتاب میں بقید ولدیت و سکونت مستقل و عارضی اور کسی قدر کیفیت کے( اگر ممکن ہو) اندراج پاویں اور پھر جب وہ اسماء مندرجہ کسی تعداد موزوں تک پہنچ جائیں تو ان سب ناموں کی ایک فہرست تیارکرکے اور چھپوا کر ایک ایک کاپی اس کی تمام بیعت کرنے والوں کی خدمت میں بھیجی جائے اور پھر جب دوسری (۵۶) وقت میں نئی بیعت کرنے والوں کا ایک معتدبہ گروہ ہو جائے تو ایسا ہی ہوتا رہے۔ جب تک ارادہ الٰہی نے اپنے اندر مقدرہ تک پہنچ جائے۔۔۔۔۔ مگر چونکہ یہ کارروائی بجز اس کے باسانی و صحت انجام پذیر نہیں ہو سکتی کہ خود مبائعین اپنے ہاتھ سے خوشخط قلم سے لکھ کر اپنا تمام پتہ و نشان بتفصیل مندرجہ بالا بھیج دیں اس لئے ہر صاحب کو جو صدق دل اور خلوص تام سے بیعت کرنے کے لئے مستعد ہیں تکلیف دی جاتی ہے کہ وہ بتحریر خاص اپنے پورے پورے نام و ولدیت و سکونت مستقل و عارضی وغیرہ سے اطلاع بخشیں یا اپنے حاضر ہونے کے وقت یہ تمام امور درج کرا دیں ۔‘‘(تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ ۱۵۲)
حضور انور کے محولہ بالا الفاظ سے ایک گم شدہ کڑی پر اطلاع ملتی ہے اور یہ صداقت نمایاں ہو کر ابھرآتی ہے کہ رجسٹر بیعت میں ناموں کا اندراج بیعت اولیٰ کے انعقاد سے بھی قبل شروع کیا جا چکا تھا لہٰذا یہ سمجھنا کہ اس رجسٹر میں عین بیعت اولیٰ کے وقت یا اس کے دوران یا معاً بعد اندراج ہوا یا اس میں درج شدہ تاریخ لازماً بیعت کی تاریخ ہوگی ( جہاں تک بیعت اولیٰ کے پہلے دن کا تعلق ہے ) یقینا صحیح نہیں ہو سکتا ہاں استثنائی طور پر یہ ضرور ممکن ہے کہ کسی بزرگ کی لدھیانہ پہنچنے ، بیعت سے مشرف ہونے اور رجسٹر میں اس کے اندراج کی تاریخ ایک ہی ہو مگر یہ ایک اتفاقی چیز ہے جس کو بہرکیف کلیہ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔
اس وضاحت سے یہ عقدہ لایخل اور سر بستہ راز بھی خود بخود منکشف ہو جاتاہے کہ رجسٹر بیعت میں
ٍ ٭پہلے دن کی تاریخ میں بیعت کرنے والے چالیس بزرگوں کی بجائے چھیالیس بزرگوں کا کیوں ذکر ہے؟
٭اور جب حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی نے پہلے دن بیعت ہی نہیں کی تو پہلی تاریخ میں ان کا نام کیسے درج ہوگیا ؟
٭اسی طرح جب کپور تھلہ کے تینوں بزرگوں نے پہلے ہی دن بیعت کا اکٹھا شرف حاصل کیا تھا تو ان کے نام مبارک ۲۱اور ۲۳۔ مارچ کی دو الگ الگ تاریخوں میں کیوں لکھے گئے ؟
یہ اور اس نوعیت کی سب الجھنیں ، دشواریاں اور پیچیدگیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ بالا وضاحتی اشتہار کی برکت سے بیک جنبش قلم ختم ہو جاتی ہیں اور گویا دن چڑھ جاتاہے اور اب ہم اس کی بدولت یقین کی فولادی چٹان پر کھڑے ہو کر بلا تامل بتا سکتے ہیں کہ رجسٹر بیعت کے ابتدائی اوراق تو محض یہ راہ نمائی کرتے ہیں کہ کون کون سے بزرگو ں نے بیعت پر آمادگی کی اطلاع دی یا بیعت کی خاطر بیعت اولیٰ کے انعقاد سے قبل لدھیانہ تشریف لے آئے ۔ یہی اورصرف یہی وجہ ہے کہ ۲۲۔مارچ سے قبل حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سمیت لدھیانہ آنے والے چھیالیس بزرگوں کے نام مبارک ریکارڈ کئے گئے ۔ بعینہٖ اسی حکمت سے حضرت منشی روڑا خان صاحبؓ کا نام ان کے درود لدھیانہ کے بعد ۲۱۔ مارچ کو اور حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ اور حضرت محمد خان صاحبؓ کے اسماء مبارکہ کا نام ۲۳۔ مارچ کو درج رجسٹر کیا گیا۔
اس وضاحت سے ضمناً یہ بھی ثبوت ملتاہے کہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنے بیان کے مطابق چونکہ لدھیانہ پہنچتے ہی بیعت اولیٰ کے پہلے روز دوسرے مخلصین کپور تھلہ کے ساتھ بیعت کی تھی اس لئے ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء کی جو تاریخ ان کے نام کے ساتھ مندرج ہے حتمی طور پر وہی تاریخ بیعت اولیٰ کے آغاز کی ہے۔
المختصر !! رجسٹر بیعت کے ابتدائی اوراق کی فہرست ہرگز ہرگز مبائعین کی واقعاتی ترتیب و تاریخ کے مطابق تیار اور مرتب نہیں ہوئی لہٰذا ۱۹۔ رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۱۔ مارچ ۱۸۸۹ء کو بیعت اولیٰ کا دن قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ۔
اب تحقیق طلب صرف یہ دوسرا امر رہ جاتا ہے کہ حضرت مولانا عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ نے بیعت اولیٰ کی قمری تاریخ ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ اور شمسی تاریخ ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء متعین کی ہے حالانکہ ’’ التوفیقات الالھامیہ ‘‘ کی روسے ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ کو ۲۲ مارچ ۱۸۸۹ء کا دن بناتا ہ ے۔ اس صورت میں آیا قمری تاریخ کو درست سمجھا جائے یا شمسی تاریخ پر اعتماد کیا جائے ؟؟
اس ضمن میں یہ عاجز محض خدا کے فضل وکرم سے علیٰ وجہ البصیرت اس رائے پر قائم ہے کہ حضرت مولانا سنوری رحمۃ اللہ علیہ کی دونوں بیان فرمودہ تاریخیں ہی صحیح ہیں اور اگر کوئی ’’ سہو‘ ‘ یا ’’ غلطی ‘‘ ہے تو وہ مصری تقویم ’’ التوفیقات الالھامیہ ‘‘ کی ہے جس میں ۱۳۰۶ھ کے جمادی الثانی کو انتیس دن کا شما رکرکے یکم رجب ۱۳۰۶ھ کو ۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء سے شروع کیا گیا ہے جو واقعہ کے خلاف ہے ۔ حق یہ ہے کہ اس سال جمادی الثانی انتیس کی بجائے تیس کا تھا اور یکم رجب ۱۳۰۶ھ کو ۴۔ مارچ ۱۸۸۹ء کی اور ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ کو ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء کی تاریخ تھی جیا کہ حضرت میاں معراج دین صاحب عمر رضی اللہ عنہ (۵۷) کی مشہور و معروف ’’ ایک سو پچیس برس کی جنتری ‘‘ سے ثابت ہے ۔ یہ جنتری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عہد مبارک میں یکم ستمبر ۱۹۰۶ء کو اشاعت پذیر ہوئی تھی اس جنتری کے صفحہ ۲۱۷ پر مارچ ۱۸۸۹ء کا عیسوی ، ہجری ، فصلی ، اور بکرمی کیلنڈر حسب ذیل صورت میں درج ہے:۔
مندرجہ بالا کیلنڈر کی رو سے صاف کھل جاتاہے کہ ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء کو یقینا ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ کی تاریخ تھی۔ پس حضرت مولانا عبداللہ ؓ سنوری کی قمری و شمسی تاریخوں میں مکمل موافقت پائی جاتی ہے اور کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ۔ بنا بریں ’’اختلاف و تضاد‘‘ کے مفروضہ پر ۲۲۔ مارچ ۱۸۸۹ء کو یوم البیعت تجویز کئے جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
چنانچہ قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اپنے ایک حقیقت افروز نوٹ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’میاں عبداللہ صاحب سنوری ؓ نے پہلے دن کی بیعت کی تاریخ ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۳۔ مارچ ( ۱۸۸۹ء) بیان کی ہے مگر رجسٹر بیعت کنندگان سے پہلے دن کی بیعت ۱۹۔ رجب اور ۲۱ مارچ ظاہر ہوتی ہے ۔ یعنی نہ صرف تاریخ مختلف ہے بلکہ قمری اور شمسی تاریخوں میں مقابلہ بھی غلط ہو جاتاہے ۔ اس اختلاف کی وجہ سے میں نے گزشتہ جنتری کو دیکھا تو وہاں سے مطابق زبانی روایت ۲۰۔ رجب کو ۲۳۔ مارچ ثابت ہوتی ہے ۔ پس یا تو رجسٹر کا اندراج چند دن بعد میں ہونے کی وجہ سے غلط ہوگیا ہے اور یا اس میں چاند کی رویت جنتری کے اندراج سے مختلف ہوئی ہوگی۔‘‘ (سیر ت المہدی حصہ سوم صفحہ ۴ مطبوعہ ۳۔ فروری ۱۹۳۹ء ) حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کا یہ ناحق فیصلہ ( کہ جنتری کی رو سے ۲۰۔ رجب کو ۲۳۔ مارچ کی تاریخ ثابت ہوتی ہے ) اپنی پشت پر حقیقتوں اور صداقتوں کی ایک زبردست طاقت رکھتاہے ۔ چنانچہ اگر ۱۸۸۹ء کے جرائد کا مطالعہ کیا جائے تو ان سے بھی اس فیصلہ کی مزید توثیق ہوتی ہے۔ مثلاً اس وقت میرے سامنے امرتسر کے ہفت روزہ ’’ ریاض ہند ‘‘ کا فائل ہے ۔ اس اخبار کے مالک و مہتمم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص و قدیم صحابی حضرت شیخ نور احمد صاحبؓ تھے جن کے ’’ مطبع ریاض ہند میں نہ صرف حضرت مسیح موعود ؑ کی شہرہ آفاق کتاب ’’ براہین احمدیہ کے تین حصے چھپے بلکہ دعوی ماموریت و مسیحیت کے بعد کی بہت سی کتابیں اور اشتہارات بھی زیور طبع سے آراستہ ہوئے اور یہ سلسلہ نہایت باقاعدگی کے ساتھ ۱۸۹۵ء میں ’’ ضیاء الاسلام پریس‘‘ قادیان کی تنصیب تک جاری رہا۔ حضرت شیخ صاحبؓ کے اخبار ’’ ریاض ہند ‘‘ کو برصغیر کی صحافت میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہی وہ اخبار تھا جس میں ۲۰۔ فروری ۱۸۸۶ء کا مشہور عالم اشتہار شائع ہوا۔ اسی میں جماعت احمدیہ کے سنگ بنیاد سے بھی برسوں قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریروں اور سفروں وغیرہ کی اکثر خبریں شائع ہوا کرتی تھیں اور جہاں تک موجودہ تحقیق کا تعلق ہے ۔ ’’ ریاض ہند‘‘ واحد اخبار ہے جس میں حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ کی ولادت باسعادت کی خبر شائع ہوئی (۵۸) یہ اخبار اپنے سرورق پر ہمیشہ قمری اور شمسی تاریخوں کے اندراج کا خاص التزام کیا کرتا تھا۔ ماہ مارچ ۱۸۸۹ء میں اس اخبار کے چار نمبر شائع ہوئے۔ جن پر بالترتیب حسب ذیل تاریخیں موجود ہیں:۔
۴۔ مارچ ۱۸۸۹ء یکم رجب المرجب ۱۳۰۶ھ یوم دوشنبہ
۱۱۔ مارچ ۱۸۸۹ء مطابق ۸۔رجب المرجب ۱۳۰۶ھ یوم دوشنبہ
۱۸۔ مارچ ۱۸۸۹ء مطابق ۱۵۔رجب المرجب ۱۳۰۶ھ یوم دوشنبہ
۲۵۔ مارچ ۱۸۸۹ء مطابق ۲۲۔ رجب المرجب ۱۳۰۶ھ یوم دوشنبہ
محولہ بالا نقشہ سے جو اخبار’’ ریاض ہند‘‘ کے چار پرچوں سے مرتب کیا گیا ہے اس نظریہ پر مہر تصدیق ثبت ہو جاتی ہے کہ ’’ التوفیقات الالھامیہ ‘‘ میں یکم رجب ۱۳۰۶ھ کو جو ۳۔ مارچ ۱۸۸۹ ء کا دن شمار کیا گیا ہے وہ ہر گز درست نہیں ۔ بلکہ اس کے برخلاف یہ ۔۴۔ مارچ ۱۸۸۹ء کا دن تھا اور ظاہر ہے کہ اس حساب کے مطابق ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ کو شمسی تاریخ ۲۳۔ مارچ ہی تھی جیسا کہ حضرت مولانا عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ۔
خلاصہ تحقیق :۔
الغرض جس نقطہ نگاہ اور زاویہ خیال سے بھی دیکھا جائے اندرونی اور بیرونی علمی اور واقعاتی شہادتوں اور عقلی و نقلی دلائل و براہین کی روشنی میں یہ حقیقت نیر النہار کی طرح ایک قطعی اور فیصلہ کن صورت اختیار کر جاتی ہے کہ بیعت اولیٰ لدھیانہ کی اصل اور صحیح تاریخ ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ ء ہے اور یقینا یہی دن سلسلہ احمدیہ جیسی مقدس اور عالمی تحریک کی جماعتی زندگی کا پہلا اور مبارک دن ہے جو رہتی دنیا تک یوم الفرقان کی حیثیت سے یاد گار رہے گا اور فرمان ایزدی ’’ ذَکِّرْھِمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ ‘‘ کا مصداق و مورد سمجھا جائے گا اور سلسلہ بیعت سے بھی قبل کی یہ خدائی پیشگوئی ہر زمانہ میں پوری شان و شوکت سے پوری ہوتی رہے گی کہ :۔
’’ اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا۔ وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کو نشوونما دے گا یہاںتک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتاہے دنیا کی چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ ٹھہریں گے ۔ ‘‘
(اشتہار ۴۔ مارچ ۱۸۸۹ء مشمولہ تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ ۱۵۵)
قیام لدھیانہ کے دو واقعات :۔
قیام لدھیانہ کے دوران دو واقعات کا تذکرہ ضروری ہے۔
پہلا واقعہ:۔ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا بیان ہے کہ ’’ بیعت کے بعد جب میں لدھیانہ ٹھہرا ہوا تھا تو ایک صوفی طبع شخص نے چند سوالات کے بعد حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ آیا آپ آنحضرت ﷺ کی زیارت بھی کر اسکتے ہیں؟ آپ نے جو اب دیا کہ اس کے لئے مناسب شرط ہے اور میری طرف منہ کرکے فرمایا کہ یا جس پر خدا کا فضل ہو جائے۔ اسی رات میں نے آنحضرت ﷺ کو خواب میں دیکھا ۔ ‘‘(۵۹)
دوسرا واقعہ :۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک سائل آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیاکہ میرا ایک عزیز فوت ہو گیا ہے اور میرے پاس کفن دفن کے لئے کچھ انتظام نہیں ہے اور اس نے کچھ سکے چاندی اور تانبے کے رکھے ہوئے تھے یہ دکھانے کے لئے کہ کسی قدر چندہ ہوا ہے اور ابھی اور ضرورت ہے۔ حضرت اقدس نے قاضی خواجہ علی صاحب سے فرمایا کہ ’’ قاضی صاحب ان کے ساتھ جا کر کفن کا انتظام کردو۔ ‘‘ حضرت اقدس کی اس قسم کی عادت مبارک نہیں تھی بلکہ عام طور پر جو مناسب سمجھتے نہایت درجہ فیاضی سے دے دیتے ۔ اس ارشاد سے خدا کو تعجب ہوا۔ حضرت قاضی صاحب نے بھی یہ نہیں پوچھا کہ کیا دے دوں۔ بلکہ وہ ساتھ ہی ہوگئے۔ سائل قاضی صاحب کو لے کر رخصت ہوا۔
تھوڑی دیر بعد حضرت قاضی صاحب مسکراتے ہوئے واپس آئے اور کہا حضورؑ وہ تو بڑا دھوکہ باز تھا راستہ میں جا کر اس نے میری بڑی منت خوشامد کی کہ خدا کے واسطے آپ نہ جاویں جو کچھ دینا ہے دے دیں۔ میں نے کہا کہ مجھے تو خود جانے کا حکم ہے جو کچھ تمہارے پاس ہے یہ مجھے دو جو کچھ خرچ آئے گا میں کروں گا۔ آخر جب اس نے دیکھا کہ میں ٹلتاہی نہیں تو اس نے ہاتھ جوڑ کر ندامت کے ساتھ کہا کہ نہ کوئی مرا ہے اورنہ کوئی کفن دفن کی ضرورت ہے ۔ یہ میرا پیشہ ہے۔ اب میری پردہ دری نہ کرو۔ تم واپس جائو۔ میں اب یہ کام نہیں کروں گا۔ ‘‘(۶۰)
؎













ماموریت کا نواں اور دسواں سال
’’فتح اسلام ‘‘ اور توضیح مرام ‘‘ کی تصنیف و اشاعت اور دعویٰ مسیحیت
(۱۸۹۰۔۱۸۹۱)
شدید علالت :۔ ۱۸۹۰ء میں حضرت اقد س علیہ السلام کئی ماہ تک شدید بیماررہے حتی کہ بظاہر زندگی کی امید منقطع ہوگئی۔ بیماری کا یہ حملہ مارچ ۱۸۹۰ء کے آخری ہفتہ میں ہوا ۔ مئی میں آپ ڈاکٹری علاج کے لئے لاہور تشریف لائے اور اپنے فرزند اکبر مرزا سلطان احمد صاحب نائب تحصیلدار کے مکان پر ٹھہرے اور مشہور ناولسٹ مسٹر احمد حسین کے والد ڈاکٹر محمد حسین صاحب کے زیر علاج رہے۔
آپ کی طبیعت ایک مرض دوری کے باعث اکثر بیمار رہتی تھی اور ضعف تشویشناک حد تک بڑھ گیا تھا شروع جولائی میں آپ تبدیلی آب وہوا کے لئے عازم لدھیانہ ہوئے اور محلہ اقبال گنج میں برمکان شہزادہ حیدر فروکش ہوئے ۔یہ ساری تفصیلات حضور انور کے ان خطوط سے ملتی ہیں جو انہیں دنوں آپ نے اپنے مخلص مرید حضرت چوہدری رستم علی صاحب مدار ضلع جالندھر کے نام تحریر فرمائے اور جو ’’ مکتوبات احمدیہ ‘‘ جلد پنجم نمبر ۳صفحہ ۱۰۶تا ۱۰۹ میں شائع شدہ ہیں۔
۱۸۹۰ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی طر ف سے یہ عظیم الشان انکشاف ہوا کہ حضرت مسیح ناصریؑ جن کو مسلمانوں نے آسمان پر زندہ سمجھ رکھا ہے اور جن کے متعلق وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آخری زمانہ میں وہ اپنے خاکی جسم کے ساتھ دوبارہ دنیا میں واپس تشریف لائیں گے ، وفات پا چکے ہیں اور ان کے مثیل کی شکل میں آپ کو دنیا کی ہدایت اور اسلام کی اشاعت کے لئے مبعوث فرمایا گیا ہے۔ اس انکشاف پر آپ نے ’’ فتح اسلام ‘‘ اور پھر ’’ توضیح مرام ‘‘ کے نام سے د و کتابیں شائع فرمائیں جن میں اپنے دعویٰ مسیحیت کا اعلان فرمایا ۔ اور لکھا کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کی زندگی اور ان کی بجسد عنصری واپسی کا عقیدہ جو عام مسلمانوں میں پھیل گیا ہے اسلامی کتب میں اس کا نام و نشان بھی نہیں۔ یہ محض غلط فہمی کا نتیجہ ہے جس کے ساتھ کئی بے جاحاشے لگا دیئے ہیں اور بے اصل موضوعات سے اس کو رونق دی گئی ہے حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ آنے والا مسیح اسی امت میں سے ہوگا۔ بلکہ آنحضرتﷺ نے تو مسیح اول اور مسیح ثانی میں مابہ الامتیاز قائم کرنے کے لئے دونوں مسیحوں کا جدا جد احلیہ بیان فرمایا ہے ۔ جو اس امر کا قطعی اور یقینی ثبوت ہے کہ مسیح اول اور ہے اور مسیح ثانی اور نیز مسیح ثانی کو ابن مریم کے نام سے پکارنا ایک لطیف استعارہ ہے ورنہ وہ درحقیقت امت محمدیہ میں سے ایک امام ہوگا۔ (۱)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’فتح اسلام ‘‘ کی کتابت کے سلسلہ میں شیخ نور احمد صاحب مالک ریاض ہند پر یس ہال بازا رامرت سر کو تحریر فرمایا کہ ایک کاتب ہمارے پاس بھیج دیں ایک چھوٹا سا رسالہ لکھوانا ہے ان دنوں شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی مرحوم ان کے ہاں کام کرتے تھے۔ شیخ نور احمد صاحب( ۲) نے انہی کو بھیج دیا اور حضرت اقدس نے ان سے ’’فتح اسلام ‘‘ کا رسالہ لکھوایا ۔ شیخ محمد حسین صاحبؓ مرحوم کتاب کی کاپیاں لے کر امرت سر واپس آئے اور شیخ نور احمد صاحبؓ سے کہا کہ حضرت اقدس نے اس کو چھاپنے کے لئے آپ کے پاس بھیجا ہے ان کا خیال تھا کہ نہ معلوم یہ رسالہ چھاپیں یا نہ چھاپیں ۔ کیونکہ سلطنت بھی عیسائی ہے اور پادری حضرت مسیح کو خدا ور خدا کا بیٹا کہنے والے موجود ہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت کی طرف سے کوئی باز پرس یا عتاب ہو یا یہ رسالہ ہی ضبط ہو جائے۔ اور پریس والے اور کاتب بھی گرفتار ہو ں ۔ یا کسی اور مصیبت کا سامنا ہو ۔ شیخ نور احمد صاحبؓ نے اسے دیکھ کر کہا کہ میں اس کو ضرور چھاپوں گا۔ چنانچہ انہوں نے یہ دورسالے بڑی عقیدت مندی کے ساتھ اپنے مطبع میں چھاپے اور قادیان پہنچا دئیے۔ (۳)
مخالفت کا طوفان
رسالہ ’’فتح اسلام ‘‘ ابھی امرت سر میں چھپ ہی رہا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اتفاقاً امرتسر پہنچے اور انہوں نے اس رسالہ کے پروف مطبع ریاض ہند سے منگوا کر دیکھے۔ (۴)اور دیکھتے ہی آگ بگولا ہوگئے۔ انہیں غصہ اس بات پر تھا کہ مجھ سے اپنے دعویٰ سے متعلق آپ نے مشورہ کیوں نہیں کیا ۔ چنانچہ انہی دنوں جب ایک شخص نے انہیں بتایا کہ حضور ایک ایسی کتاب لکھ رہے ہیں جس میں وفات مسیح کا ذکر ہے تو وہ کہنے لگے کہ انہوںنے ہم سے تو کوئی ذکر نہیں کیا۔ بہرحال ’’فتح اسلام‘‘ میں آ پ کا دعویٰ مسیحیت پڑھتے ہی ان کی عقیدت کا گذ شتہ رنگ اڑ گیا اورانہوںنے لکھا کہ اس رسالہ کے دیکھنے اورسننے سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ نے اس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ مسیح موعود(جن کے قیامت سے پہلے آنے کا خداتعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں اشارۃً اوررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلام مبارک میں جو صحاح احادیث میں موجود ہے صراحۃً وعدۃ دیا ہے وہ) آپ ہی ہیں۔ اگر آپ کا یہی دعویٰ ہے تو آپ صرف ’’ہاں ‘‘تحریر فرمادیں زیادہ توضیح کی تکلیف نہ اٹھاویں اور اگر اس دعویٰ سے کچھ اور مراد ہے تو اس کی توضیح کریں۔ حضرت اقدس نے ۵؍فروری ۱۸۹۱ء؁ کو لکھا کہ آپ کے استفسار کے جواب میں میں صرف ’’ہاں ‘‘ کافی سمجھتا ہوں ۔اس جواب پر مولوی صاحب آپے سے باہر ہوگئے اورآپ سے طویل سلسلہ مراسلت شروع کردیا(جس کی نقل انہوںنے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ۱۲ نمبر ۱۲ میں شائع کردی) بٹالوی صاحب نے لکھا کہ آپ اگر اس دعویٰ میں حضرت خضر کی طرح معذور ہیں تو میں اس کے انکار میں حضرت موسیٰ کی طرح مجبور ہوں ۔حضرت اقدسؑ نے ’’فتح اسلام‘‘ اور’’توضیح مرام‘‘ کا ایک ایک نسخہ انہیں بھجواتے ہوئے لکھا کہ ’’مجھے اس سے کچھ غم اور رنج نہیں کہ آپ جیسے دوست مخالفت پر آمادہ ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔کل میں نے اپنے بازو پر یہ لفظ اپنے تئیں لکھتے ہوئے دیکھا کہ میں اکیلا ہوں۔ اورخدا میرے ساتھ ہے ۔اوراس کے ساتھ مجھے الہام ہوا ان معنی ربی سیھدین۔ سو میں جانتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی حجت ظاہر کردے گا۔ میں آپ کے لئے دعا کروں گا مگر ضرور ہے کہ جو آپ کے لئے مقدر ہے وہ سب آپ کے ہاتھ سے پورا ہوجائے ‘‘
مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی کو فتح اسلام اورتوضیح مرام کے نسخے پہنچے تو انہوںنے اپنے دلی بغض وعناد کا برملا اظہار کرتے ہوئے اپنے اس فیصلے کا اعلان کردیا کہ ’’(اشاعۃ السنہ‘‘) کا فرض اوراس کے ذمہ یہ ایک قرض تھا کہ اس نے جیسا اس کو (یعنی سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کو ناقل) دعاوی قدیمہ کی نظر سے آسمان پر چڑھایا تھا ویسا ہی ان دعاوی جدیدہ کی نظر سے اس کو زمین پر گرادے ‘‘ نیز مسلمانان ہند کو اشتعال دلانے کے لئے لکھا کہ فتنہ قادیانی ابھی فتنہ ہے کوئی دن میں قیامت ہوگا۔ اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے مذہب وامن میں زبردست انقلاب واقع ہونے کا اندیشہ ہے اسی لئے اشاعۃ السنہ کا رسالہ اس کی سرکوبی کے لئے مخصوص کردیا گیاہے۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا یہ اعلان منظر عام پر آنا تھا کہ ملک بھر میں مخالفت کا طوفان بے تمیزی اٹھ کھڑا ہوا۔ شیخ نور احمد صاحبؓ کا (جن کے مطبع ریاض ہند امرت سر میں ابتدائی کتابچے شائع ہوئے) بیان ہے کہ لوگ میرے مطبع میں آتے اور کہتے کہ تم کو کیا ہوگیا تم نے یہ کتاب کیوں چھاپی؟عیسیٰ علیہ السلام تو آسمان پر زندہ موجود ہیں اورآخری زمانہ میں دمشق کے مشرقی سفید منارہ پر اتریں گے اوریہ ہندوستان ہے۔ مرزا صاحب کیسے مسیح موعود ہوسکتے ہیں تم نے مسلمانوں کے خلاف مرزا صاحب کو کیوں مسیح موعود مان لیا۔ علماء اور ان کے زیر اثر سب لوگ مجھ پر ناراض ہوئے۔ اور کہ یہ شخص ایک گائوں کا رہنے والا اور بے علم ہے۔ کسی مدرسہ کا تعلیم یافتہ نہیں اور نہ کسی عربی تعلیم گاہ کا دستار بند ہے ۔امرتسر والوں نے انہیں بہت پریشان کیا لیکن انہوںنے ان کی کچھ پرواہ نہ کی۔ سارا دن یہ لوگ ان کا مطبع اورمکان گھیرے رکھتے اوربھانت بھانت کی بولیاں بولتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف فتویٰ تکفیر:۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حق کی آواز دبانے کا فیصلہ کرکے ہر لمحہ حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت میں وقف کردیا اوراپنی مہم کو کامیاب بنانے کے لئے اسی پرانے حربے کو آزمانے کی ٹھانی جو ہر مامور اورامام ربانی کے وقت استعمال ہوتا آرہا ہے یعنی انہوںنے اول المکفرین بن کر ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک طوفانی دورہ کیا اور’’فتح اسلام‘‘ اور ’’توضیح مرام‘‘ کی بعض عبارتوں میں قطع وبرید کا سہارا لے کر ایک استفتاء تیار کیا۔ علماء سے آپ کے کفروارتداد کے فتوے حاصل کئے اورپھراسے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ۱۳نمبر ۱۲ میں شائع کردیا۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنی ان معاندانہ سرگرمیوں کے متعلق انہی دنوں خود لکھا تھا کہ ’’جون ۱۸۹۱ء؁ سے مارچ ۱۸۹۲ء؁ تک جو اشاعۃ السنہ کا کوئی پرچہ نہیں نکلا تو اس سے وہ غیر حاضر اوراپنے منصبی فرض اورقوم کی خدمت ادا کرنے میں قاصر متصور ہوسکتا ہے۔ نہیں ہرگز نہیں ۔اس عرصہ میں جو خدمت قلمے ۔ قدمے اوردرمے اس نے کی ہے وہ اپنے زمانہ خدمت چودہ سال میں کبھی نہیں کی۔ جون ۱۸۹۱ء؁ میں وہ نمبر ۱،۲،۳جلد ۱۳ میں کیفیت گریز وفرار کادیانی اوراس کے فرضی حواری حکیم نورالدین جمونی کی رپورٹ کرکے پھر جولائی ۱۸۹۱ء؁ سے اس اسلام ومسلمانوں کے دوست نما دشمن عقائد قدیمہ اسلامی کے رہزن وبیخ کن(کادیانی) کے تعاقب میں رہا اوربمشکل ولطائف الحیل جولائی ۱۸۹۱ء؁ بمقام لدھیانہ اس کو جا پکڑا اوربارہ دن تک خوب رگیدا اورچتھاڑا اور ۳۱؍جولائی ۱۸۱۹ء؁ کو ذلت کی شکست سے کر بھگادیا۔ پھر ہندوستان پہنچ کر اس کے عقائد ومقالات کی نسبت ایک استفسار مرتب کیا اور ایک لمبا سفر اختیار کرکے مختلف بلاد ہندوستان کے علماء وفضلاء کا فتویٰ اس کے حق میں حاصل کیا اورخاص وعوام ہندوستان وپنجاب کو اس فتویٰ اوراپنے ربانی بیانات اورمواعظ کے ذریعہ سے اس کے عقائد باطلہ پر آگاہ کرکے اس سے بچنے کے لئے ہوشیار کردیا۔ پھر جب ماہ اکتوبر ۱۸۹۱ء؁ میں قادیانی نے دہلی پہنچ کر سراٹھایا اوروہاں کے اکابر کے مقابلہ میں جو اس کو مخاطب کرنے کے لائق نہ سمجھتے تھے ھل من مبارز کا نعرہ بلند کیا تویہ خادم دہلی پہنچا اور وہاں ا س کو پچھاڑا پھر جب وہ لاہور وسیالکوٹ پہنچا تو وہاں اس کا پیچھا کیا اورمباحثہ سے صاف صریح انکار کرا کے بھگادیا۔
ان الفاظ سے جہاںبٹالوی صاحب کی ان سرگرمیوں پرروشنی پڑتی ہے جو ابتداء میں انہوںنے شمع صداقت بجھانے کے لئے اختیار کیں وہاں فتویٰ کفر سے متعلق ان کے وسیع پیمانے پر ملکی دورہ کا بھی پتہ چلتا ہے ۔یہ فتویٰ کم وبیش ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل تھا ۔اوراس میں دلی ، آگرہ، حیدر آباد دکن، بنگال، کانپور، علی گڑھ، بنارس، اعظم گڑھ، آرہ ، غازی پور، ترہت، بھوپال ولدھیانہ ،امرتسر، سوجانپور، لاہور، بٹالہ ، پٹیالہ ، لکھوکے ضلع فیروز پور ،پشاور ،سوات، راولپنڈی، ہزارہ، جہلم ،گجرات، سیالکوٹ، وزیر آباد، سوہدرہ، کپورتھلہ، گنگوہ، دیوبند، سہارنپور، لکھنؤ ، مراد آباد پٹنہ ،کان پور غرضکہ (متحدہ) ہندوستان کے تمام اہم مقامات کے علماء کے فتاویٰ درج تھے۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اس فتوے کی اشاعت میں ناروا ہتھکنڈے استعمال کرکے بعض خدا ترس علماء کا نام بھی از خود لکھ دیا۔ حالانکہ انہوںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف قطعاً فتویٰ کرلیا اور حافظ صاحبؓ کے احتجاج کے باوجود اسے اپنے فتویٰ سے خارج نہیں کیا۔ حافظ صاحبؓ نے ۲۴؍ مئی ۱۸۹۲ء؁ کو حضرت اقدسؑ کی خدمت میں اصل واقعہ لکھ دیا اورآپ فارسی نظم بھی بھجوائی جس میں نہایت عمدہ پیرایہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اخلاص وارادت کا اظہار کیا گیا جسے حضورؑ نے اپنی کتاب ’’نشان آسمانی‘‘ میں شائع کردیا ۔ مولوی محمد حسین صاحب نے یہی چال حافظ صاحبؓ کے استاد مولوی محمد عبداللہ خاں پروفیسر عربی مہندر کالج پٹیالہ سے متعلق چلی تھی ۔اس لئے انہیں بھی اس کی تردید میں اشتہار دینا پڑا ۔ اس سے بڑھ کر مولوی فیض احمد صاحب جہلمی کا واقعہ ہے کہ گوابتداء میں تو انہوںنے فتویٰ دیا تھا مگر ازالہ اوہام کی اشاعت پر تائب ہوکر انہوںنے بٹالوی صاحب سے اپنا فتویٰ واپس طلب کیا لیکن بٹالوی صاحب نہ مانے۔ اوران کا پہلا فتویٰ جس سے وہ رجوع کرچکے تھے شائع کرکے دم لیا۔
فتویٰ دینے والے علماء میں حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی بھی شامل تھے مگرانہوںنے فتویٰ کو محدود اور مشروط اورمحتاط رنگ میں پیش کرکے لکھا کہ ’’نہ‘‘ مطلقاً بلکہ مقیداً لکھا جاتا ہے کہ اگر مرزا ایسے اعتقادات کا معتقد ومدعی ہے جو سوال میں درج ہیں تو بے شک وہ انہیں فتاویٰ کا مستوجب و مستحق ہے جو علماء ربانیین نے اس کے حق میں لگائے ہیں۔ اور عیاذ اً باللہ کہ کسی کے حق میں تقلید اً اور سمعا کوئی فتویٰ دوں اورلکھوں‘‘ اسی فروتنی انکسار اورخدا ترسی کا نتیجہ تھا کہ جب بعد کو انہوںنے حضرت مسیح موعودؑ کی اصل کتابیں ’’فتح اسلام ‘‘ توضیح مرام‘ ‘اور ازالہ اوہام‘‘ وغیرہ دیکھیں تو آپ پر حق کھل گیا ۔اورآپ اگلے ہی سال حجرت امام الزمان کے قدموں میں آگئے۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کفر کی جو قرار داد جرم تیار کی اس کا ایک دلچسپ مگر عبرت انگیز پہلو یہ تھا کہ انہوںنے ایک طرف تو یہ لکھا کہ مرزا صاحب اپنے تئیں محدث لکھتے ہیں ۔ حالانکہ حدیث شریف میں بڑی صراحت کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ مسیح موعود قطعی طور پر نبی اللہ ہوگا۔ اور دوسری طرف یہ لکھا کہ نصوص کے لحاظ سے جو شخص آنحضرت ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرے(چاہے محدث ہی کیوں نہ کہلاتا ہو) وہ دجال وکذاب ہے۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اوران کے ہم نوا علماء نے فتویٰ تکفیر کے بعد مخالفت کا کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ابتداء میں قادیان کی ناکہ بندی کے لئے بٹالہ اسٹیشن سے قادیان والی نہر تک اپنے ایجنٹوں کا گویا ایک جال بچھا رکھا تھا۔ جو اسٹیشن سے اترتے ہی قادیان جانے والوں کو روکتے تھے ۔ان ایجنٹوں نے ایک کیمپ سا لگا رکھا تھا جہاں جانے والوں کے لئے حق کا انتظام ہوتا تھا۔ چنانچہ بعض صحابہ کا بیان ہے کہ شروع شروع میں جب ہم قادیان جایاکرتے تھے تو بٹالہ کے اسٹیشن اورقادیان کی سڑک پر میل میل کے فاصلے سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آدمی بٹھا دیا کرتے تھے ۔ہرشخص کے ہاتھ میں ایک بڑا رجسٹر ہوا کرتاتھا جس پر جانے والوں کے نام اور جانے کی غرض درج کی جاتی تھی۔ کبھی کبھی مولوی محمدحسین صاحب خود بھی یہ ’’خدمت ‘‘ انجام دیتے تھے اورقادیان جانے والوں سے پوچھا کرتے تھے کہ تم کیوں اورکس لئے جاتے ہو؟ جب لوگ کہتے کہ حضرت مرزا صاحب کو ملنے کے لئے جاتے ہیں تو وہ ہر ممکن کوشش سے روکا کرتے اور واپس جانے کے لئے کہتے ۔کئی آدمی انہوںنے واپس بھی کئے۔ اس زمانہ میں عوام مولوی محمد حسین صاحب کی وجہ سے بھی جانے سے ڈرتے تھے۔ نیز وہ سمجھتے تھے کہ یہ رجسٹر جو رکھے جاتے ہیں گورنمنٹ کے حکم سے رکھے جاتے ہیں ۔ اور ہمارے خلاف ضرور کوئی کاروائی کی جائے گی۔
قتل کرنے کی سازش:۔ بیرونی کوششوں کی ناکامی دیکھ کر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قتل کرانے کی بھی متعدد بار سازش کی چنانچہ مولوی عمرالدین صاحب شملوی کی شہادت ہے کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور حافظ عبدالرحمن صاحب سیاح امرتسری آپس میں باتیں کررہے تھے کہ مرزا صاحب کو چپ کرانے کی کیا تجویز ہو۔ حافظ عبدالرحمن صاحب نے کہا میں بتاتا ہوں ۔مرزا صاحب اعلان کرچکے ہیں کہ میں مباحثہ نہیں کروں گا ۔اب انہیں مباحثہ کا چیلنج دیدو۔ اگرتو وہ تیار ہوگئے تو انہیں کا قول یاد دلا کر نادم کیاجائے۔ کہ ہم پبلک کو صرف یہ دکھانا چاہتے تھے کہ آپ کو اپنے قول کا پاس نہیں ۔اوراگر مباحثہ سے انکار کیاتوہم یہ اعلان کردیں گے کہ دیکھو ہمارے مقابل پر آنے کا حوصلہ نہیں۔ مولوی عمرالدین صاحب نے کہا مجھے کہو تو میں انہیں جاکر مارآتا ہوں جھگڑا ہی ختم ہوجائے ۔ اس پر وہ کہنے لگے تمہیں کیا معلوم ہم یہ سب تدبیریں کرچکے ہیں کوئی سبب ہی نہیں بنتا یہ سنتے ہی مولوی عمر الدین صاحب کے دل میں حضور کی صداقت کا یقین ہوگیا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنی اس حسرت کا دوبارہ اظہار کرکے اور عیسائی حکومت کو آپ کے قتل پر اکسا کر ۱۸۹۷ء؁ میں لکھا ’’حکومت وسلطنت اسلامی ہوتی تو ہم اس کا جواب آپ کو دیتے ۔اسی وقت آپ کا سرکاٹ کر آپ کو مردار کرتے ۔سچے نبی کو گالیاں دینا مسلمانوں کے نزدیک ایک ایسا کفر اور ارتداد ہے۔ جس کا جواب بجز قتل اورکوئی نہیں ۔مگر کیا کریں مجبور ہیں۔ سلطنت غیر اسلامی ہے اس کے ماتحت رہ کر ہم اس فعل کے مجاز نہیں اور سلطنت کو جو (عیسائی کہلاتی ہے) اس امر کی پروا نہیں ہے ۔ رہے پادری جو مذہب ہی کی خدمت وحمایت کے صدقہ وطفیل سے ٹکڑا کھاتے ہیں سو(وہ ) بھی اپنی تنخواہ سے کام رکھتے ہیں حمیت وغیرت مذہب کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ اب آپ شوق سے جس قدر چاہیں حضرت مسیحؑ کو یا کسی اورنبی کو گالیاں دیں کوئی پوچھنے اور پکڑنے والا نہیں ہے‘‘
بہرحال مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف فتنہ تکفیر کھڑا کرکے آپ کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔ اوراس طرح صلحاء امت کی یہ پیشگوئی پوری ہوگئی کہ مسیح موعودؑ پرعلماء کفر کا فتوی لگائیں گے اورایسا ہونا اس لئے بھی ضروری تھا کہ امت کا بیشتر حصہ صراط مستقیم سے ادھر ادھر ہوچکا تھا ۔چنانچہ عراق کے ایک عالم شیخ محمد رضا شیسی فرماتے ہیں۔
اَلَا لَیْْتَ شِعْریْ مَا تَرٰی رُوْحُ اَحْمَدَ اِذَا طَالَعَتْنَا مِنْ عَلٍ اَوَاَطَلَّتِ
وَاَکْبَرُ ظَنِّیْ لَوْ اَتَانَا مُحَمَّدٌ ﷺ لَلَاقَی الَّذِیْ لَاقَاۃٌ مِنْ اَھْلِ مَکَّۃِ
عَدَلْنَا عِنَ النُّوْرِ الَّذِیْ جَائَ نَا بِہٖ کَمَا عَدَلَتْ عَنْہُ قُرَیْشٌ فَضَلَّتِ
اِذَنْ لَقَضٰی لَا مَنْھَجَ النَّاسِ مَنْھَجِیْ وَلَا مِلَّۃُ الْقَوْمِ اِلَّا وَاٰخِرُ مِلَّتِیْ
(ترجمہ)اگر احمد مجتبیٰ ﷺ کی روح عالم بالا پر ہمارے حالات سے واقف ہوجائے یا ہمیں جھانکے اور دیکھ پائے تومعلوم نہیں ہمارے متعلق کیا رائے قائم کرے۔ میرا ظن غالب ہے کہ محمد ﷺ آج ہمارے پاس تشریف لے آئیں تو آپ کو آج بھی اس قوم کے ہاتھوں اسی قسم کے مصائب اور انکار حق سے دو چار ہونا پڑے گا۔ جس طرح اہل مکہ کے ہاتھوں سے دو چار ہوئے( کیونکہ) ہم اس نور حق سے جسے آپ لے کر مبعوث ہوئے تھے اسی طرح روگردانی کر چکے ہیں جس طرح روگردانی کر چکے ہیں جس طرح قریش نے اس سے منہ پھیرا تھا اور گمراہی کے گڑھے میں جاپڑے تھے ۔ پیغمبر خدا ﷺ ہماری زبوں حالی اور راہ حق سے بیزاری دیکھ کر یقینا یہ فیصلہ کریں گے کہ لوگ جس راستے پر چل رہے ہیں یہ میرا بتایا ہوا رستہ نہیں ہے اور آخری زمانہ کے لوگوں نے جس مذہب کا طوق ڈال رکھا ہے وہ میرا مذہب ہرگز نہیں ہے۔
مسلمانان ہند (۲۶)کے روشن خیال عناصر کا رد عمل
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دیگر علماء ظواہر کے فتویٰ تکفیر نے عامتہ المسلیمن میں زبردست ہیجان پیدا کردیا تھا مگر مسلمانوں کے روشن خیال اور سنجیدہ عناصر اکثرو بیشتر اس ہنگامہ آرائی میں غیر جانبدار رہے ۔ یہی نہیں بعض مشہور ملسم زعماء نے اختلاف عقیدہ کے باوجود عمر بھر حضور اور حضور کی جماعت کی خدمات کو سراہا۔ ا س غیر جانبدار طبقہ میں ملک کے چوٹی کے ادیب ، صحافی‘ شعراء‘ سیاسی اور مذہبی لیڈر وغیرہ شامل تھے اس ضمن میں چندہ قابل ذکر شخصیتوں کے نام یہ ہیں ۔ خواجہ الطاف حسین حالی پانی پتی (۱۸۳۷۔۱۹۱۴) اکبر حسین رضوی اکبر الہ آبادی (۱۸۴۶۔۱۹۲۱) سید علی محمد شاد عظیم آبادی (۱۸۴۶۔ ۱۹۲۷) سید ریاض اور ریاض خیر آبادی (۱۸۵۳۔ ۱۹۳۴)سر سید احمد خاں بانی علی گڑھ کالج ( ۱۸۱۷۔ ۱۸۹۸) مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محل (۱۸۷۹۔ ۱۹۲۶) مولانا سید امتیاز علی صاحب امتیاز ( ۱۸۶۰۔ ۱۹۳۵) منشی محمد دین صاحب فوق (ولادت ۱۸۷۷ء) حکیم مولوی عبدالکریم صاحب برہم گور کھپوری (۱۸۶۷۔ ۱۹۲۹) مولوی سراج الدین صاحب والد مولوی ظفر علی خان ایڈیٹر اخبار ’’زمیندار‘‘(متوفی ۱۹۰۹ء) محسن الملک نواب مہدی علی خاں(۱۸۳۷۔ ۱۹۰۷) مولانا محمد علی جوہر (۱۸۷۸۔ ۱۹۳۱) مولانا شوکت علی ( ۱۸۷۳۔ ۱۹۳۸) مولانا شبلی نعمانی ( ۱۸۵۷۔ ۱۹۱۴) نواب وقار الملک سید مشتاق حسین (۱۸۳۹۔ ۱۹۱۷) مولوی عبدالحلیم شرر( ۱۸۶۹۔ ۱۹۲۱)
یہ محض دعویٰ ہی نہیں بلکہ ادبی لڑیچر میںاس کے متعدد شواہد موجود ہیں۔ چنانچہ خواجہ الطاف حسین حالی جو عمر بھی صلح پسندی اور اسلامی رواداری میں سرسید مرحوم کے نقش قدم پر گامزن رہے’’حیات جاوید‘‘ جلد دوم صفحہ ۴۳۷ پر سرسید کے متعلق لکھتے ہیں۔ ’’ ایک شخص نے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی نسبت۔۔۔۔ایک طول طویل خط سرسید کو لکھا۔ اس کے جواب میں وہ لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔نادان ہیں وہ جو ان سے جھگڑا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک اور شخص نے مرزا صاحب کے خیالات کی مخالفت میں کچھ لکھنے کا ارادہ سرسید سے ظاہر کیا اس کے جواب میں وہ لکھتے ہیں آپ جو رسالہ نسبت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی لکھنا چاہتے ہیں کیا آپ کو کچھ مالیخولیا ہوگیا ہے اس لغو حرکت سے کچھ فائدہ نہیں‘‘۔ جناب اکبر الہ آبادی نے ایک مرتبہ اپنی محبت والفت کا ثبوت دیتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا۔’’ اگر آج میں مرزا صاحب کو پاتا تو قبول کرتا خدا کی قسم میں ان کو مانتا ہوں اور یہی میری بیعت ہے۔ نیز کہا ۔ مرزا صاحب اگر خود نبی ہوکر چلے جاتے تو مجھ کو افسوس ہوتا۔ وہ تو ہر ایک کو امید دلا گئے ہیں کہ وہ مسیح بن سکتا ہے اور یہ جوش ایسا ہے کہ میرا جی چاہتا ہے کہ اپنا مکان عشرت منزل چھوڑ دوں مجھ کو مرزا صاحب کی تحریر سے یقین ہوگیا کہ مسیحؑ مرگئے اور مہدی کا کوئی وجود نہیں‘‘۔ ان کا یہ بیان ان کی زندگی میں ہی۔ اخبار ’’الفضل ‘‘ ۲۸ اکتوبر ۱۹۱۶ میں شائع ہوا تھا۔ سید ممتاز علی صاحب اور مولوی سراج الدین صاحب آف زمیندار نے حضرت مسیح موعود کے وصال پر جو شذرہ لکھا وہ ان کے خیالات کا آئینہ دار ہے۔ نواب محسن الملک کا ایک مکتوب اسی کتاب میں درج ہے۔ جس میں انہوں نے حضرت اقدس کی اسلامی خدمات کو خراج تحسین ادا کیا ہے۔ مولانا محمد علی جوہر اور حکیم عبدالکریم برہم تحریر احمدیت کے متعلق جو جذبات رکھتے تھے ان کا اظہار انہوں نے بالترتین اخبار ’’ہمدرد ‘‘اور ’’مشرق‘‘ کے زریعہ سے کیا( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب ’’جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات ‘‘ مولفہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم ۔ اے ) اسی طرح مولاا شبلی نے اس رائے کااظہار کیا۔ ’’میں نے کوشش کی کہ انگریزی خوان عربی پڑھیں دیندار ہوں مگر میں ناکام رہا یہ کامیابی مرزا صاحب کو حاصل ہوئی ۔‘‘ (الفضل ۱۱مارچ ۱۹۱۷ ) مولانا عبدالحلیم صاحب شرر فرماتے ہیں ’’احمد مسلک شریعت محمدیہ کو اسی قوت اور شان سے قائم رکھ کر اس کی مزید تبلیغ و اشاعت کرتا ہے ۔ خلاصہ یہ کہ بابیت اسلام کے مٹانے کو آئی ہے اور احمدیت اسلام کو قوت دینے کے لئے۔ اور اسی کی برکت ہے کہ باوجود چند اختلافات کے احمدی اسلام کی سچی اور پر جوش خدمت ادا کرتے ہیں ۔ جو دوسرے مسلمان نہیں کرتے ۔‘‘( رسالہ دل گداز بابت ماہ جون ۱۹۰۶ء)
سفر لدھیانہ
دعویٰ مسیحیت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا کا پیغام پہنچانے اور بالخصوص مسلمانوں پر اتمام حجت کی غرض سے لدھیانہ ‘امرتسر‘دلی ‘ پٹیالہ ‘ لاہور ‘ سیالکوٹ ‘جالندھر اور کپور تھلہ کے سفر اختیار فرمائے۔ جن سے آپ کی دعوت کا ملک میں خوب چرچا ہوگیا۔
اس تعلق میں آپ کا سب سے پہلا سفر لدھیانہ کا ہے جو حضورؑ نے ۳۔ مارچ ۱۸۹۱ء کو اختیار کیا۔ (۲۷) لدھیانہ میں آپ نے محلّہ اقبال گنج مکان شہزادہ غلام حیدر میں قیام فرمایا۔ حضرت اقدسؑ کے ساتھ حضرت حافظ حامد علی صاحب اور پیراں دتا تھے ۔ (۲۸) حضرت اقدس بیمار تھے۔ اس لئے حضورؑ نے یہاں خطوط کے جوابات کے لئے منشی عبداللہ صاحب سنوری کو بلا بھیجا۔ (۲۹) اور خود بیماری کے باوجود پیغام آسمانی پہنچانے میں مصروف ہوگئے۔ لدھیانہ کے علماء ( مولوی محمد صاحب اور مولوی عبدالعزیز صاحب وغیرہ ) جو ’’براہین احمدیہ ‘‘ کی اشاعت کے زمانے سے مخالفت کرتے چلے آرہے تھے اب اس دعوے پر پہلے سے بھی زیادہ مشتعل ہوگئے اور انہوں نے آپ کے ورودلدھیانہ پر آپ کے خلاف مخالفت کی آگ لگادی۔ ان کے حوصلے یہاں تک بڑھے کہ وہ مسلمانوں کو آپ کے قتل پر کھلم کھلا اکساتے ۔ ایک دفعہ ایک واعظ نے بازار میں کھڑے ہو کر بڑے جوش سے کہا کہ مرزا کافر ہے اور اس کے زریعہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ جو کوئی اس کو قتل کر ڈالے گاوہ بہت بڑا ثواب حاصل کرے گا۔اور سیدھا بہشت کو جائے گا۔ ایک گنوار جو ہاتھ میں ایک لٹھ لئے کھڑا اس کی تقریر سن رہا تھا اس وعظ سے بہت متاثر ہوا اور چپکے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مکان پوچھتا ہو اآپ کی قیام گاہ پر پہنچ گیا۔ وہاں کوئی دربان نہیں ہوتا تھا ہر ایک شخص جس کا جی چاہتا اندر چلا آتا اتفاق سے حضرت اقدسؑ اس وقت دیوان خانے میں بیٹھے تقریر فرما رہے تھے اور چند آدمی جن میں کچھ ارادت منداور کچھ غیراز جماعت تھے اردگرد بیٹھے حضور کی باتیں سن رہے تھے۔ وہ گنوار بھی اپنا لٹھ کاندھے پر رکھے ہوئے کمرہ میں داخل ہوا۔ اور دیوار کے ساتھ کھڑا ہو کر آپ پر قاتلانہ حملہ کے لئے مناسب موقعہ کا انتظار کرنے لگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی طرف کچھ توجہ نہ کی اور اپنی تقریر جاری رکھی وہ بھی سننے لگا۔ چند منٹ کے بعد اس کے دل پر اس تقریر کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ لٹھ اس کے کندھے سے اتر کر زمین پر آگیا اور وہ مزید تقریر سننے کے لئے بیٹھ گیا اور سنتا رہا۔ یہاں تک کہ حضور نے یہ سلسلہ گفتگو بند کردیا۔ مجلس میں سے کسی شخص نے عرض کیا کہ حضور آپ کا دعویٰ میری سمجھ میں آگیا ہے۔ اور میں حضور کو سچا سمجھتا ہوں اور آپ کے مریدوں میں داخل ہونا چاہتا ہوں۔ اس پر وہ گنوار بھی آگے بڑھ کر بوالا کہ میں ایک واعظ سے اثر پا کر اس ارادہ سے اس وقت یہاں آیا تھا کہ آپ کو قتل کر ڈالوں اور جیسا کہ واعظ صاحب نے کہا ہے سیدھا بہشت کو پہنچ جائوں۔ مگر آپ کی تقریر کے فقرات مجھ کو پسند آئے۔ اور میں زیادہ سننے کے واسطے ٹھہر گیا۔ اور آپ کی باتیں سننے کے بعد مجھے یہ یقین ہوگیا ہے کہ مولوی صاحب کا وعظ بالکل بے جا دشمنی سے بھرا ہوا تھا۔ آپ بے شک سچے ہیں اور میں بھی آپ کے مریدوں میں داخل ہونا چاہتا ہوں۔ حضرت اقدسؑ نے اس کی بیعت قبول فرمائی۔ اس وقت بیعت ایک علیحدہ کمرہ میں ہر ایک کی الگ الگ ہوتی تھی۔ (۳۰)
لدھیانہ کے مخالف علماء میں سے مولوی سعد اللہ نو مسلم پیش پیش تھا۔ ہر روز کبھی دوسرے روز ایک اشتہار مخالفت میں گالیوں سے بھرا ہوا شائع کرتا تھا جس میں کبھی چوری کا الزام ہوتا اور کبھی بغاوت کا۔ اسی طرح اور کئی مخالف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آتے اور بات بات میں جھگڑا کرتے اور الجھتے رہے۔ بعض امتحان اور آزمائش کے لئے اور بعض صرف دیکھنے کے لئے آتے تھے۔ ایک روز مخالفوں نے پانچ آدمیوں کو بھیجا اور کہا کہ اس مکان میں ایک شخص ہے جو تمام نبیوں کو گالیاں دیتا ہے اور قرآن اور رسول کو نہیں مانتا۔ وہ لوگ سخت غضب میں بھرے ہوئے یکدم مکان میں چلے آئے ۔ اس وقت ایک احمدی حضرت اقدسؑ سے ایک آیت کے معنے دریافت کر رہا تھا۔ حضور نے ایسی تفسیر فرمائی کہ وہ لوگ بہت دیر تک چپ بیٹھے رہے۔ جب حضور خاموش ہوئے تو انہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام سے مصافحہ کیا اور آپ کے دست مبارک کو بوسہ دیا اور عرض کیا کہ لوگوں نے ہمیں دھوکہ دیا جو آپ کو کافر کہتے ہیں وہ خود کافر ہیں اور اگر آپ مسلمان نہیں تو کوئی بھی مسلمان نہیں۔ وہ لوگ باہر آئے ۔ تو لوگوں نے کہا کہ مرزا جادو گر ہے جو اس کے پاس جاتا ہے وہ اسی کا ہو رہتا ہے اس کے پاس کوئی نہ جائے۔ (۳۱)
نواب علی محمد خان صاحب لدھیانوی کی وفات :۔
واقعات لدھیانہ میں سے ایک اہم واقعہ حضرت نواب علی محمد خان صاحب لدھیانوی کی وفات ہے ۔ نواب صاحب موصوف حکمت تصوف اورعلوم شرعیہ میں ید طولی رکھتے تھے۔ اہل اللہ کے بڑے معتقد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق جانباز تھے۔ ہر وقت درود شریف پڑھتے رہتے ۔انہیں حضرت اقدس علیہ السلام سے اعلیٰ درجہ کا عشق تھا اور اکثر کہا کرتے تھے کہ جو بات میں نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی میں دیکھی وہ کسی میں نہیں دیکھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگرکوئی شخص ہے تو یہی ہے اس کی تحریر میں نور، اس کے کلام میں نور، اور اس کے چہرہ میں نور ہے۔
حضرت اقدس علیہ السلام بھی کبھی کبھی نواب صاحب سے ملنے جایا کرتے تھے اور نواب صاحب بھی آپ سے ملنے کے لئے اکثر آیا کرتے تھے نواب صاحب کے انتقال کے وقت حضرت اقدس علیہ السلام لدھیانہ میں تشریف رکھتے تھے بوقت انتقال نواب صاحب نے دعا کے لئے ایک آدمی حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بھیجا اور جوں جوں آخری وقت آتا جاتا تھا آدھ آدھ گھنٹہ اور دس دس منٹ کے بعد آدمی بھیجتے رہے اور کہتے رہے کہ میں بڑا خوش ہوں کہ حضور اس وقت لدھیانہ تشریف رکھتے ہیں اور مجھے دعا کرانے کا موقعہ ملا۔ جب حالت نزع طاری ہوئی تو وصیت کی کہ میرے جنازہ کی نماز حضرت مرزا صاحب پڑھائیں تاکہ میری نجات ہونواب صاحب مرحوم کا انتقال ہوگیا تو لدھیانوی علماء نے نواب صاحب کے اقرباء کو جو ان کے زیر اثر تھے کہلا بھیجا کہ اگر مرزا صاحب جنازہ پر آئے تو ہم اور کوئی مسلمان جنازہ پر نہ آئیں گے اور تم پر کفر کا فتویٰ لگ جائے گا۔ اور جو آئندہ ان میں سے مرے گا اس کی نماز جنازہ کوئی نہیں پڑھے گا۔ نواب صاحب کے اقرباء ان کی اس بات سے ڈر گئے اس لئے حضرت اقدسؑ نے ان کے جنازہ کی نماز اپنے مکان پر ہی ادا فرمائی اور نواب صاحب مرحوم کے لئے مغفرت ورحمت کی بہت بہت دعا کی۔ (۳۲)
انگریزی حکومت کے زوال سے متعلق الہام : ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو (شہزادہ عبدالمجید صاحبؓ کی روایت کے مطابق ) قیام لدھیانہ میں انگریزی حکومت کے زوال سے متعلق بھی خبر دی گئی اور الہام ہوا کہ ۔
سلطنت برطانیہ تاہشت سال بعد ازاں ایام ضعف و اختلال (۳۳)
یعنی برطانیہ کی شان و شوکت کا زمانہ آٹھ سال تک ہے اس کے بعد ضعف و انحطاط کے آثار پیدا ہو جائیں گے ۔
پیر سراج الحق صاحب نے اس الہام کے متعلق حضرت اقدسؑ سے عرض کیا کہ اس میں روحانی اور مذہبی طاقت کا ذکر معلوم ہوتا ہے ۔ یعنی آٹھ سال کے بعد سلطنت برطانیہ کی مذہبی طاقت یعنی عیسائیت میں ضعف رونما ہو جائے گا اور سچے مذہب یعنی اسلام اور احمدیت کا غلبہ شروع ہو جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا جو ہو گا وہ ہو رہے گا ہم پیش از وقت کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ (۳۴)
پادریوں کو دعوت مذاکرہ :۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰۔ مئی ۱۸۹۱ء کو پادریوں کے مقابل اشتہار دیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر انکشاف فرمایا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور اس قدر ثبوت میرے پاس ہیں کہ کسی منصف کو مانے بغیر چارہ نہیں۔ اس اشتہار میں آپ نے پادری صاحبان کو تبادلہ خیالات کی دعوت دی ۔ مگر کوئی پادری آپ ؑ کے مقابلہ میں نہ آیا۔ (۳۵)
سفر امرتسر اور لدھیانہ میں دوبارہ ورود : ۔
حضرت اقدسؑ اوائل جولائی ۱۸۹۱ء میں بعض احباب اور امرتسر کے رؤساء کی خواہش پر چند دن کے لئے لدھیانہ سے امرتسر تشریف لے گئے ۔ وہاں الحدیث کے دو فریق ہو چکے تھے ایک فریق مولوی احمد اللہ صاحب کا تھا اور دوسرا غزنویوں کا ۔ مولوی احمد اللہ صاحب بڑے شریف الطبع انسان تھے۔ غزنوی گروہ چاہتا تھا کہ مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لگائیں مگر وہ گریز کرتے تھے جس پر مولوی صاحب مسجد سے نکال دیئے گئے اور ان کے معتقدین انہیں اپنی دوسری مسجد میں لے آئے۔ اس سفر میں حضرت اقدس نے مولوی احمد اللہ صاحب کو اپنے دعویٰ سے متعلق ۷۔ جولائی ۱۸۹۱ء کو تحریری مباحثہ کی دعوت دی مگر انہوں نے آمادگی کا اظہار نہ کیا اور گو انہوں نے بیعت نہیں کی مگر ان کی اس خاموشی کو دیکھ کر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھیوں نے انہیں ’’مرزائی ‘‘ مشہور کر رکھا تھا۔ ان کے بعض معتقدین جن میں مولوی محمد اسمٰعیل صاحب، میاں نبی بخش صاحب ، مولوی عنایت اللہ صاحب، اور میاں چراغ الدین صاحب شامل تھے۔ بالاخر سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوگئے۔ (۳۶)
حضرت اقدس ؑ امر تسر میں مختصر قیام کے بعد واپس لدھیانہ تشریف لے گئے۔










علماء وقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت
حضرت اقدس ؑ کا یہ سفر چونکہ اتمام حجت کی غرض سے تھا اس لئے حضور ؑ نے لدھیانہ سے ۲۶۔ مارچ ۱۸۹۱ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ تمام مشہور علماء بالخصوص مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی ، مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ( ۱۸۲۸ء ۔ ۱۹۰۵) مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی (۱۸۵۲۔ ۱۹۱۳) مولوی عبدالرحمن صاحب لکھو کے والے ، مولوی شیخ عبداللہ صاحب تبتی ۔ مولوی عبدالعزیز صاحب لدھیانوی اور مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری کو تحریری مباحثہ کا چیلنج دیا اور لکھا کہ میرا دعویٰ ہر گز قال اللہ اور قال الرسول کے خلاف نہیں اگر آپ حضرات مقام و تاریخ مقرر کرکے ایک عام جلسہ میں مجھ سے تحریری بحث نہیں کریں گے تو آپ خدا تعالیٰ اور اس کے راست باز بندوں کی نظر میں مخالف ٹھہریں گے ۔ (۱)
حضرت اقدسؑ کے اس اشتہار پر لدھیانہ کے مولوی دبک گئے اور بحث کے لئے آمادہ نہ ہوئے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کے ایک مرید اور دست و بازو مولوی شاہ دین صاحب تھے انہوں نے اپنے پیرو مرشد( مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ) کو لکھا کہ میں مرزا صاحب سے مباحثہ کروں تو کس طرح کروں اور کس مسئلہ میں کروں۔ جواب آیا کہ مرزا صاحب سے بحث کرنا تمہارا کام نہیں اول تو ٹال دینا اور جو بات نہ ٹلے اور مباحثہ ہو ہی جائے تو وفات و حیات مسیح علیہ السلام میں ہر گز بحث نہ کرنا۔ اس میں تمہارا یا کسی کا ہاتھ نہیں پڑے گا۔ ہاں نزول میں بحث کر لینا اس مسئلہ میں ہماری کچھ جیب ہو سکتی ہے۔ چنانچہ مولوی شاہ دین کو جب بحث کے لئے اصرار سے کہا جانے لگا تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ مرزا صاحب بے علم ہیں۔ میری شان سے بعید ہے کہ ایک بے علم آدمی سے بحث کروں۔
لدھیانہ میں ایک اور مولوی مشتاق احمد صاحب انبیٹھوی تھے جنہیں اپنی حدیث دانی پر بڑا ناز تھا یہ صاحب گنگوہ پہنچے ان کو بھی وہاں سے وہی جواب ملا جو مولوی شاہ دین کو ملا تھا، لدھیانہ ، دیو بند، سہارنپور ، گنگوہ میں اس بارہ میں خفیہ مشورے ہوئے کہ کیا کرنا چاہئے لیکن مباحثہ کے لئے کوئی آمادہ نہ ہوا۔
مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کا مباحثہ تحریری سے انکار :۔
اسی دوران پیر سراج الحق صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ سب لوگوں کی نظر مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی طرف لگ رہی ہے اگر حکم ہو تو مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو لکھوں کہ وہ مباحثہ کے لئے آمادہ ہوں۔ فرمایا اگر تمہارے لکھنے سے آمادہ ہوں تو ضرور لکھ دو۔ چنانچہ انہوں نے اس بارہ میں ایک خط لکھ کر گنگوہ بھجوادیا۔
مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور پیر صاحب موصوف ہمزلف بھی تھے اور ویسے بھی ان سے تعلقات رکھتے تھے لیکن جوں ہی ان کو یہ خط پہنچا مولوی صاحب اور ان کے معتقدوں اور شاگردوں نے ایک شور برپا کر دیا۔ مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں لکھا کہ میں بحث کو مرزا صاحب سے منظور کرتا ہوں لیکن تقریری اور صرف زبانی۔ تحریری مجھ کو ہرگز ہرگز منظور نہیں ہے اور عام جلسہ میں بحث ہوگی اور وفات و حیات مسیح میں کہ یہ فرع ہے بحث نہیں ہوگی بلکہ بحث نزول مسیحؑ میں ہوگئی جو اصل ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خط دیکھ کر پیر صاحب کو ارشاد فرمایا کہ آپ اس کے جواب میں یہ لکھ دیں کہ بحث تحریری ہونی چاہئے۔ تا حاضرین کے علاوہ غائبین کو بھی پورا پورا حال معلوم ہو جائے۔ اسی طرح فرمایا کہ وفات و حیات فرع کس طرح ہوئی اصل مسئلہ تو وفات وحیات مسیح ہی ہے اگر حیات مسیح ثابت ہوگئی تو نزول بھی ثابت ہوگیا اور جو وفات ثابت ہوگئی تو مسیحؑ کا بجسد عنصری نزول خود بخود باطل ہوگیا۔ ہمارے دعویٰ کی بنیاد یہی وفات مسیح پر ہے اگر مسیحؑ کی زندگی ثابت ہو جائے ۔ تو ہمارے دعوے میں کلام کرنا فضول ہے۔
مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میںلکھا کہ افسوس ہے مرزا صاحب اصل کو فرع اور فرع کو اصل قرار دیتے ہیں۔ بہرحل تقریری کی بجائے تحریری مباحثہ نہیں کرتا۔
دو سجادہ نشینوں کو دعوت
یہاں سے مایوس ہو کر پیرسراج الحق صاحب نعمانیؓ نے دو مشہور سجادہ نشینوں(میاں اللہ بخش صاحب تونسوی سنگھڑی اور شاہ نظام الدین صاحب بریلوی نیازی) کیطرف توجہ کی اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے علمی یا روحانی طریق سے مقابلہ کرنے کی دعوت دی۔ یہ دعوت نامہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پسند فرمایا اور اپنے دستخط کر کے یہ تحریر فرمایا کہ میں روحانی باطنی اور علمی مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں اور جو کچھ صاحبزادہ صاحب نے لکھا ہے درست ہے اور میں مسیح موعود اور امام مہدی معہود ہوں۔ مسیحؑ بے شک فوت ہوچکے ہیں وہ اب نہیں آئیں گے۔ چوں کہ آپ گدی نشین‘ سجادہ نشین‘ صوفی اور پیر ہیں اس معاملہ میں خواہ تحریری خواہ باطنی قوت قلبی یا دعا سے مقابلہ کریں تاحق ظاہر ہو اور باطل مٹ جاوے۔
سنگھڑ سے تو اس خط کا کوئی جواب موصول نہ ہوا البتہ بریلی سے شاہ نظام الدین صاحب نے معذرت کرتے ہوئے لکھا کہ ’’فقیر میں اتنی قو ت نہیں ہے کہ جو مقابلہ کرسکے یا اس باطنی ورحانی طور سے مقابل پر کھڑا ہوسکے۔ یہ کام تو مولویوں اور علماء کا ہے آپ بھی تو صوفی اور درویش اور چار قطب ہانسوی اور امام اعظم رحمتہ االلہ علیہم اجمعین کے پوتے ہیں ہمیں آپ پر حسن ظن ہے۔ اور جیسا کچھ اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا ۔وہ ہو رہے گا۔ مجھے آپ معاف فرمائیں۔‘‘(۳)
مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو تقریری مباحثہ کی دعوت اور ان کا انکار
حضرت اقدسؑ نے یہ خط پڑھ کر فرمایا۔ تو نسوی متکبر کو دیکھو کہ جواب تک نہیں دیا۔ مگر یہ کیسے منکسر المزاج ہیں۔ نیز حضور نے پیرسراج الحق صاحب سے فرمایا کہ مولوی رشید احمد صاحب کو لکھ دیا جائے کہ اچھا ہم بطریق تنزل تقریری مباحثہ منظور کرتے ہیں مگر اس شرط سے کہ آپ تقریر کرتے جائیں اور دوسرا شخص آپ کی تقریرلکھتا جائے اور جب تک ایک کی تقریر ختم نہ ہو۔ دوسرا فریق یا کوئی اور دوران تقریر میں نہ بولے۔ پھر دونوںتقریریں شائع ہوجائیں لیکن بحث لاہور میں ہو۔ کیونکہ لاہور علوم وفنون کا مرکز ہے۔ پیر صاحب نے حضرت اقدسؑ کا یہ پیغام مولوی صاحب کو بھیج دیا۔ وہاں سے جواب آیا کہ تقریر صرف زبانی ہوگی۔ لکھنے یا کوئی جملہ نوٹ کرنے کی کسی کو اجازت نہ ہوگی۔ اور حاضرین میں سے جس کے جی میں جو آئے گا وہ رفع اعتراض وشک کے لئے بولے گا۔ میں لاہور نہیں جاتا۔ مرزا صاحب بھی سہارنپور آجائیں اور میں بھی سہارنپور آجائں گا۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا۔ سہارنپور میں مباحثہ کا ہونا مناسب نہیں ہے سہارنپور والوں میں فیصلہ کرنے یا حق وباطل کی سمجھ نہیں ہے۔ لاہور آج دارالعلوم اور مخزن علم ہے اور ہر ایک ملک اور شہرکے لوگ اور ہر مذہب وملت کے اشخاص وہاں موجود ہیں۔ آپ لاہور چلیں میں بھی لاہور چلا جاتا ہوں اور آپ کا خرچ آمدورفت اور قیام لاہور ایام بحث تک اور مکان کا کرایہ اور خرچ میرے ذمہ ہوگا یہ مضمون پیر صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کے دستخط سے گنگوہ بھیج دیا۔
مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں پھر یہی لکھا کہ میں لاہور نہیں جاتا صرف سہارنپور تک آسکتا ہوں۔ اور تحریری بحث مجھے منظور نہیں اور تقریر بھی کسی دوسرے شخص کو لکھنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ خط پڑھ کر ارشاد فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب ان کو یہ لکھ دو کہ ہم مباحثہ کے لئے سہارنپور ہی آجائیں گے آپ سرکاری انتظام کرلیں میں تاریخ مقررپ آجائوں گا۔ اور ایک اشتہار اس مباحثہ کے لئے شائع کر دیا جائے گا تالاہور وغیرہ مقامات سے صاحب علم اور مباحثہ سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب سہارنپور آجائیں ۔ رہا تقریری اور تحریری مباحثہ وہ اس وقت پر رکھیں تو بہتر ہے جیسی حاضرین جلسہ کی رائے ہوگی۔ کثرت رائے پر ہم اور آپ کا ر بند ہوجائیں گے۔
بہرحال آپ مباحثہ ضرورکریں کہ لوگوں کی نظریں آپ کی طرف لگ رہی ہیں۔ مولوی رشید احمد صاحب نے اس دعوت کا صرف یہ جواب دیا کہ انتظام کا میں ذمہ دار نہیں ہوسکتا۔ اور پھر باربار یادد ہانی کے باوجود چپ سادھ لی۔ (۴)
سعید روحوں کی خدائی جماعت میں شمولیت
لدھیانہ ان دنوں مخالفت کا مرکز بنا ہوا تھامگر آ آتشین فضاء میں بھی خدا کے فرشتے سعید روحوں کو کھینچ کھینچ کر خداکے مامور کی جماعت میں لارہے تھے ۔ لاہور سے ایک عالم رحیم اللہ صاحب آئے اور آتے ہی انہوں نے حضورؑ کی بیعت کرلی۔ (۶۵) ان سے قبل مولوی غلام نبی صاحب ساکن خوشاب لدھیانہ میں آئے اور آتے ہی حضرت اقدسؑ کی مخالفت میں تقریریں کرنے لگے۔ شہر میں ان کے لیکچروں کی دھوم مچ گئی اور ہر جگہ ان کے علم و فضل کا چرچا ہونے لگا ایک روز اتفاق سے مولوی صاحب کا وعظ اسی محلہ میں تھا جس میں حضور تشریف فرما تھے وعظ اتنا زبردست تھا کہ تحسین وآفرین کے نعرے بلند ہونے لگے۔ اور مرحبا کا شور چاروں طرف سے اٹھا۔ اس وعظ میں لدھیانہ کے تمام مولوی موجود تھے۔ اور ان کے حسن بیان اور علم کی بار بار داد دیتے تھے۔ حضرت اقدس علیہ السلام زنانہ میں تھے اور کتاب ازالہ اوہام کا مسودہ تیار کر رہے تھے۔ مولوی صاحب وعظ کہہ کر اور پوری مخالفت کا زور لگا کر چلے اور ساتھ ساتھ ایک جم غفیر اور مولوی صاحبان تھے اور ادھر سے حضرت اقدس علیہ السلام زنانہ مکان سے باہر مردانہ مکان میں جانے کے لئے نکلے تو مولوی صاحب سے مڈبھیڑ ہوگئی اور خود حضرت اقدس علیہ السلام نے السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور مولوی صاحب نے جواب میں وعلیکم السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دئیے ہوئے آپ کے ساتھ سیدھے مردانہ میں چلے آئے اور حضرتؑ کے سامنے دوزانو بیٹھ گئے۔ باہر تمام لوگ حیرت میں کھڑے تھے ۔ علماء نے عوام کو جو مختلف چہ میگوئیاں کر رہے تھے یقین دلایا کہ مولوی صاحب مرزا کی خبر لینے گئے ہیں وہاں انہیں نیچا کھا کر آئیں گے لیکن ارادہ الٰہی میں کچھ اور ہی مقدر تھا۔ جب مولوی غلام نبی صاحب اندر گئے تو مولوی صاحب نے پوچھا۔ حضور آپ نے وفات مسیحؑ کا مسئلہ کہاں سے لیا ہے؟
حضرت اقدس! قرآن شریف ‘حدیث شریف اور علماء ربانی کے اقوال سے ۔
مولوی صاحب! کوئی آیت قرآن مجید میں وفات مسیحؑ کے بارے میں ہو تو بتلائیے۔
حضرت اقدس نے قرآن شریف کے دو مقام پر کاغذ کا نشان رکھ کر مولوی صاحب کے ہاتھ میں دیا۔ ایک مقام تو سورہ آل عمران ع ۶ اور دوسرا سورہ مائدہ کے آخری رکوع کا تھا۔ پہلے میں آیت یا عیسیٰ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ اور دوسرے میں آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ تھی۔ مولوی صاحب دونوں آیات دیکھ کر حیران وششدر رہ گئے اور کہنے لگے یُوَفِّیْ اُجُوْرَھُمْ بھی تو قرآن شریف میں ہے اس کے کیا معنے ہوں گے؟
حضور اقدسؑ نے فرمایا۔ یہ اور باب سے ہے اور وہ اور باب سے۔ مولوی صاحب دو چار منٹ حیران ہوگئے اور سوچ کر کہنے لگے معاف فرمائیے میری غلطی تھی۔ جو کچھ آپ نے فرمایا صحیح ہے قرآن مجید آپ کے ساتھ ہے۔
حضرت اقدسؑ فرمانے لگے جب قرآن مجید ہمارے ساتھ ہے تو آپ کس کے ساتھ ہیں؟ مولوی صاحب یہ سن کر رو پڑے یہاں تک کہ ان کی ہچکی بندھ گئی اور عرض کیایہ خطا کار گہنگار بھی حضور کے ساتھ ہے اس کے بعد مولوی صاحب پھر روتے رہے اور سامنے مودب بیٹھے رہے۔(۷)
اندر تو مولوی صاحب کے خیالات میں یہ انقلاب واقع ہوا اور باہر کئی ہزار آدمی کھڑا اس انتظار میں خوش ہو ہو کر تالیاں بجا رہا تھا کہ آج مرزا قابوآیا۔ آج مرزا کو توبہ کرنی پڑے گی۔ بہر کیف جب بہت دیر ہوگئی تو لوگ آوازیں دینے لگے کہ جناب مولوی صاحب باہر تشریف لائیے۔ مولوی صاحب نے ان کی ایک بات کا بھی جواب نہ دیا جب شور زیادہ بلند ہواتو مولوی صاحب نے کہلا بھیجا کہ تم جائو میں نے حق دیکھ لیا اور پالیا۔ اب میرا تم سے کچھ کام نہیں ہے اگر تم اپنا ایمان سلامت رکھنا چاہتے ہو تو آجائو اور اس امام کو مان لو۔ میں اس امام صادق سے کس طرح الگ ہوسکتا ہوں۔ جو اللہ تعالیٰ کا مامور اور آنحضرتؐ کا موعود ہے۔ جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام بھیجا۔ مولوی صاحب اس حدیث کے الفاظ پڑھ کر حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اور آپؑ کے سامنے یہ حدیث شریف دوبارہ بڑے زور سے پڑھی اور عرض کیا کہ میں اس وقت بموجب حکم آنحضرت ؐ کا سلام پہنچاتا ہوں۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس وقت ایک عجیب لہجہ اور عجیب آواز سے علیکم السلام فرمایا کہ مولوی صاحب مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے۔ اس وقت حضرت اقدس علیہ السلام کے چہرہ مبارک کا اور ہی نقشہ تھا اور حاضرین وسامعین پر بھی ایک عجیب وجد وسرور کی کیفیت طاری تھی۔
باہر مجمع کو مولوی صاحب کا جب یہ پیغام پہنچا کہ میں نے حق پالیا ہے تو سب کی زبان سے کافر کافر کا شور بلند ہوا اور گالیوں کی بوچھاڑ پڑنے لگی اور سب لوگ منتشر ہوگئے۔
اس کے بعد علماء کی طرف سے مولوی غلام صاحب کے پاس مباحثہ کے پیغام آنے لگے مولوی صاحب موصوف نے مباحثہ منظور کیا لیکن مباحثہ کے لئے کوئی نہ آیا مولوی غلام نبی صاحب نے اشتہار مباحثہ بھی شائع کیا کہ میں تیار ہوں۔ جس کو علم کا دعویٰ ہو وہ مجھ سے بحث کرے اس کے بعد مولوی غلام نبی صاحبؓ نے یہ اشتہار دیا کہ جو شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی (جسمانی) زندگی کے ثبوت میں قرآن شریف کی آیت صریح اور حدیث صحیح پیش کرے تو ہر آیت اور ہر حدیث پر دس روپے انعام دوں گا۔ اور روپے پہلے بنک میں جمع کروا دئیے جائیں گے یہ اشتہار دیکھ کر بھی کسی کو مرد میدان بننے کی جرات نہ ہوسکی۔ اب تو مولوی غلام نبی صاحب بس حضرت اقدس علیہ السلام کے ہی ہو رہے اور ان کا ایسا بحر کھلا کہ جو کوئی مولوی یا کوئی شخص آتا اس سے بات کرنے اور مباحثہ کرنے کے لئے آمادہ ہوجاتے اور حضرت اقدسؑ کا چہرہ ہی دیکھتے رہتے اور خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے۔
مولوی صاحبؓ کہیں ملازم تھے وہاں سے خط آیا کہ جلد آئو ورنہ ملازمت جاتی رہے گی اور نام کٹ جائے گا۔ مولوی صاحب نے ملازمت کی کچھ بھی پروانہ کی اور کہا کہ میں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی بیعت میں شرط کی ہے۔ مجھے نوکری کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ایک روز یہ ذکر آگیا تو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ خود ملازمت کو چھوڑنا نہیں چاہیئے ۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہے۔ ہاں خود بخود ہی اللہ تعالیٰ اپنی کسی خاص مصلحت سے علیحدہ کردے تو اور بات ہے ملازمت پر چلے جانا چاہیئے۔پھر رخصت لے کر آجانا۔ حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ ارشاد سن کر مولوی صاحب مجبوراً چلنے کو تیار ہو گئے اور دوبارہ بیعت کی تجدید کی۔ جب وہ رخصت ہو کر چلنے لگے تو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کا دل جانے کونہیں چاہتا دیکھو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے یہ معنے ہیں ۔ مولوی صاحب چل دیئے۔ مگر کچھ دیر بعد دیکھا تو وہ ہنستے ہوئے اور خوشی خوشی بغل میں گٹھری دبائے واپس چلے آتے ہیں۔ سب حیران ہوئے۔ اور حضرت اقدسؑ بھی مسکرائے۔ مولوی صاحب نے بتایا میرے جاتے جاتے ریل چل دی۔ بعض لوگوں نے کہا بھی کہ سٹیشن پر ٹھہرو دوسرے وقت چلے جانا۔ میں نے کہا جتنی دیر اسٹیشن پر لگے اتنی دیر حضور کی صحبت میں رہوں تو بہتر ہے اسٹیشن پر ٹھہرنے سے کیا فائدہ ؟
حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ۔ جزاک اللہ یہ خیال بہت اچھا ہے اللہ تعالیٰ کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے خوب واقف ہے اس میں کچھ حکمت الٰہی ہے یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ دوسرا خط آیا کہ تم اپنی ملازمت پر حاضر ہو جائو اور اگر کسی وجہ سے نہ آسکو تو رخصت کی ایک درخواست بھیج دو تارخصت مل جائے۔ اور میں کوشش کرکے رخصت دلوادوں گا۔
حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ریل کے نہ ملنے میں یہ حکمت الٰہی تھی۔ اب رخصت کی درخواست بھیج دو۔ مولوی صاحب نے حسب الارشاد ایک درخواست بھیج دی اور وہ بھی منظور ہو گئی۔ مولوی صاحب کو بہت روز حضرت کی خدمت میں رہنے اور فیض صحبت اٹھانے کا موقع میسر آگیا۔ (۸)
مباحثہ ’’الحق ‘‘ لدھیانہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت مباحثہ پر اورکوئی سامنے نہ آیا لیکن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو اپنے علم پر بہت گھمنڈ تھا اور وہ ابتداء ہی سے حضرت اقدس کو مغلوب کرنے کا فیصلہ کر کے حضور سے خط و کتابت کرنے کے علاوہ حضرت مولانا نور الدین صاحب (۹)سے بھی نوک جھونک جاری رکھے ہوئے تھے۔ اسی ترنگ میں وہ شملہ سے لدھیانہ پہنچے اور آتے ہی شہر میں یہ شور مچا دیا کہ مرزا صاحب کو چاہیے کہ وہ مجھ سے مباحثہ کر لیں۔ حضرت اقدسؑ تو مباحثہ کے لئے پہلے ہی تیار تھے رات کے وقت مولوی رحیم اللہ صاحب لاہوری اور مولوی نظام الدین صاحب حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثہ نہ کیا جائے کیونکہ وہ سخت بد زبان ہے۔ مگر آپ نے فرمایا بحث ہونے دو اس کی علمیت کی پوری حقیقت کھول دی جائے گی اور وہ جان جائے گا کہ بحث اس کانام ہے ۔ پھر مولوی عبداللہ صاحب نے عرض کیا کہ بحث کس مسئلہ اور وہ جان جائے گا کہ بحث اس کا نام ہے ۔ پھر مولوی عبداللہ صاحب نے عرض کیا کہ بحث کس مسئلہ میں ہوگی فرمایا وفات مسیح میں بحث ہوگی۔ اور یہی اصل ہے انہوںنے عرض کیا کہ سنا ہے وہ یہ مسئلہ نہیں چھیڑیں گے وہ تو نزول مسیح کے مسئلہ میں گفتگو کریں گے ۔ آپ ؑ نے فرمایا نزول مسیح کی بحث سے کیا تعلق ۔ نزول مسیح تو ہم خود مانتے ہیں۔ اگر نزول مسیحؑ ہم نہ مانتے تو ہمارا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا کب چل سکتاتھا۔ اصل مسئلہ جس پر بنیادی طور پر بحث ضروری ہے وہ تو وفات و حیات مسیح کا ہی مسئلہ ہے۔
مولوی نظام الدین صاحب کی بیعت کا واقعہ:۔
دوسرے روز صبح آٹھ نو بجے مولوی نظام الدین صاحب مولوی محمد حسین صاحب اور دو تین اور اشخاص کی مولوی محمد حسین صاحب کے مکان پر آپس میں گفتگو ہوئی۔ مولوی نظام الدین صاحب نے کہا کہ حضرت مسیحؑ کی زندگی پر بھی قرآن شریف میں کوئی آیت ہے۔
مولوی صاحب نے کہا کہ بیس آیتیں قرآن شریف میں موجود ہیں۔ مولوی نظام الدین صاحب فوراً حضرت اقدسؑ کی مجلس میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ کے پاس کیا اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا گئے ہیں۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ قرآن شریف ہے مولوی نظام الدین صاحب نے کہا کہ اگر قرآن شریف میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے کی کوئی آیت موجود ہو توآپ مان لیں گے ؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا۔ ہاں ہم مان لیں گے ۔ مولوی صاحب نے کہا میں ایک دو نہیں بیس آیتیں قرآن شریف کی حضرت عیسیٰ کی زندگی پر لے آئوں گا۔ حضرت اقدس علیہ السلان نے فرمایا۔ بیس کیا اگر آپ ایک ہی آیت لے آئیں گے تو میں قبول کر لوں گا۔ ساتھ ہی فرمایا ۔ مولوی صاحب یاد رہے آپ کو یا کسی اور کو ایک آیت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کی نہیں ملے گی۔ مولوی نظام الدین صاحب نے کہا آپ اپنی بات پر پکّے رہیں۔ میں بیس آیتیں ابھی لائے دیتاہوں۔ چنانچہ وہ مولویوں کے پاس پہنچے اور کہا میں مرزا صاحب کو ہرا آیا ہوں۔ مولوی صاحبان یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے اور کہا مولوی صاحب مرزا صاحب کو کس طرح ہرا آئے ؟ مولوی نظام الدین صاحب نے کہا کہ میں حیات مسیحؑ کے ثبوت میں بیس آیتوں کا وعدہ کر آیا ہوں۔ اب مجھے بیس آیتیں قرآن شریف سے نکال دیں مولوی محمد حسین صاحب بولے کہ آپ نے یہ کیوں نہیں کہا کہ ہم احادیث سے حیات مسیحؑ کا ثبوت پیش کر دیتے ہیں انہوںنے کہا ایسا کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیونکہ مقدم قرآن شریف ہے مولوی محمد حسین صاحب نے کھڑے ہو کر اور گھبرا کر عمامہ سر سے پھنک دیا اور کہا کہ تو مرزا کو ہرا کے نہیں آیاہمیں ہرا آیا اور ہمیں شرمندہ کیا۔ میں مدت سے مرزا کو حدیث کی طرف لارہا ہوں اور وہ قرآن شریف کی طرف مجھے کھینچتاہے۔ قرآن شریف میں اگر کوئی آیت مسیح کی زندگی کے متعلق ہوتی تو ہم کبھی کی پیش کر دیتے ۔ ہم تو حدیثوں پر زور دے رہے ہیں۔ (۱۰) تب مولوی نظام الدین صاحب کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے کہا جب قرآن شریف تمہارے ساتھ نہیں تو اتنا دعویٰ تم نے کیوں کیا تھا۔ اور کیوں بیس آیتوں کے دینے کا مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ اب میں کیا منہ لے کے مرزا صاحب کے پاس جائوں گا۔ اگر قرآن شریف تمہارے ساتھ نہیں مرزا صاحب کے ساتھ ہے تو میں بھی مرزا صاحب کے ساتھ ہوں تمہارے ساتھ نہیں ۔ چنانچہ مولوی نظام الدین صاحب وہاں سے چلے اور حضرت اقدسؑ کی خدمت میں آکر اور شرمندہ ہو کر بیٹھ گئے۔ حضرت اقدس ؑ نے فرمایا ۔ مولوی صاحب آیتیں لے آئے؟ مولوی نظام الدین صاحب نے دو چار مرتبہ دریافت کرنے پر رو کر عرض کیاکہ حضور وہاں تو یہ معاملہ گزرا اب توجد ھر قرآن شریف ہے ادھر ہی میں ہوں ۔ اور یہ کہہ کر انہوں نے بیعت کر لی۔ (۱۱)
مباحثے کا آغاز :۔
ان حالات میں حضرت اقدسؑ کا مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثہ شروع ہوا۔ یہ مناظرہ تحریری تھا اور ۲۰ سے ۲۹ جولائی ۱۸۹۱ء تک یعنی دس روز جاری رہا۔ مباحثہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بخاری شریف رکھ لیتے اور قلم برداشتہ لکھتے جاتے جب مضمون تیار ہو جاتا تو پڑھ کر سنا دیا جاتا۔ مگر ادھر بڑی مشکل سے مضمون تیار کیا جاتا۔ اور بڑی دقت سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اپنا مضمون تیار کرکے سناتے ۔
یہ مباحثہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان پر ہوتا تھا لیکن بعد کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت اقدسؑ سے کہا کہ ہم آپ کے مکان پر آتے ہیں آپ ہمارے مکان پر نہیں آتے ۔ چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام مولوی محمد حسن صاحب رئیس آنریری مجسٹریٹ کے مکان پر ( جہاں بٹالوی صاحب ٹھہرے ہوئے تھے) تشریف لے جانے لگے ۔ حضرت اقدسؑ کی سواری کے لئے ایک صاحب منشی میراں بخش صاحب اکونٹنٹ محکمہ نہر نے اپنی ٹم ٹم پیش کی لیکن حضور نے فرمایا ۔ ہم پیدل ہی جائیں گے ۔ جس راستہ سے حضور گزرتے ہندو بھی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے کہ کس قدر نورانی چہرہ ہے ۔ مسلمان کیوں ان کے مخالف ہوگئے ہیں۔ (۱۲)
ایک معجزہ :۔
( حضرت پیر سراج الحق صاحب کی روایت کے مطابق) اس مباحثہ کے دوران میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بخاری کا ایک حوالہ طلب کیا۔ اس وقت وہ حوالہ حضرت اقدسؑ کو یا د نہیں تھا۔ اور نہ آپ کے خادموں میں سے کسی اور کو یاد تھا۔ مگر حضرت اقدسؑ نے بخاری شریف کا نسخہ منگایا اور اس کی ورق گردانی شروع کر دی اور جلدجلد اس کا ایک ایک ورق الٹنے لگے اور آخر ایک جگہ پہنچ کر آپ ٹھہر گئے اور فرمایا ۔ لو یہ دیکھ لو۔ دیکھنے والے سب حیران تھے کہ یہ کیا ماجراہے کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ جب میںنے کتاب ہاتھ میں لے کر ورق الٹانے شروع کئے تو مجھے کتاب کے صفحات ایسے نظر آتے تھے کہ گویا وہ خالی ہیں اور ان پر کچھ نہیں لکھا۔ اس لئے میں ان کو جلد جلد الٹاتا گیا آخر مجھے ایک صفحہ ملا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی حوالہ ہے جس کی مجھے ضرورت ہے گویا اللہ تعالیٰ نے ایسا معجزانہ تصرف فرمایا کہ اس جگہ کے سوا جہاں حوالہ درج تھا باقی تمام اوراق آپ کو خالی نظر آئے۔ (۱۳)
حضرت شیخ یعقوب عرفانی کا بیان ہے کہ یہ واقعہ لدھیانہ کا نہیں لاہور کا ہے مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محدثیت اور نبوت پر بحث ہوئی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے محدثیت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے بخاری کی ایک حدیث (۱۴) کا حوالہ دیا۔ مولوی عبدالحکیم صاحب کے مددگاروں میں سے مولوی احمد علی صاحب نے حوالہ کا مطالبہ کیا بلکہ بخاری خود بھیج دی۔ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے حوالہ نکالنے کی کوشش کی مگر نہ نکلا۔ آخر حضرت مسیح موعودؑ نے خدائی تصرف کے نتیجہ میں خود نکال کر پیش فرما دیا جسے دیکھ کر فریق مخالف پر ایک موت وارد ہوگئی اور مولوی عبدالحکیم صاحب نے اس پر مباحثہ ختم کر دیا۔ (۱۵) یہ واقعہ خواہ لدھیانہ میں ہوا ہو یا لاہور میں بہر کیف دونوں جگہ یہ ایک نشان تھا۔ جو خدا تعالیٰ کا اپنے بندے کے لئے ظاہر ہوا۔
یہ مباحثہ انہی دنوں حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے ایک محققانہ دیباچہ کے ساتھ سیالکوٹ سے شائع کر دیا تھا جو ’’ الحق ‘‘ لدھیانہ کے نام سے مشہور ہے ۔
پیر سراج الحق صاحب کے بیان کردہ مباحثہ کے تفصیلی کوائف :۔
اس مباحثہ میں حضرت اقدس کے مضمون کو نقل کرنے کی خدمت حضرت پیرسراج الحق صاحب نعمانی کے سپرد تھی۔ حضرت پیر صاحب نے اپنی کتاب تذکرۃ المہدی ( حصہ اول ) میں جہاں سفر لدھیانہ کے تفصیلی حالات بیان کئے ہیں وہاں مباحثہ کے مفصل حالات بھی لکھے ہیں جو قابل ذکر ہیں چنانچہ آپ لکھتے ہیں مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثہ قرار پایا اور مباحثہ کا دن مقرر ہوا۔ مباحثہ کے لئے مولوی محمد حسین صاحب حضرت اقدس علیہ السلام کے آگے رکھ دیا حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کا جواب لکھ دیا۔ اور مجھ سے فرمایا کہ کئی قلم بنا کر میرے پاس رکھ دو اور جو ہم لکھتے جائیں اس کی نقل کرتے جائو چنانچہ میں نقل کرنے لگا اور آپ لکھنے لگے جب سوال و جواب اس دن کے لکھ لئے گئے تو مولوی محمد حسین صاحب نے خلاف عہد زبانی وعظ شروع کر دیا اور بیان کیا کہ مرزا صاحب کا جو یہ عقیدہ ہے کہ قرآن شریف حدیث پر مقدم ہے یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے بلکہ عقیدہ یہ چاہیے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے ۔ کیونکہ قرآن شریف کے متعلق مسائل کو حدیث کھولتی ہے پس وہی فیصلہ کن ہے۔ خلاصہ مولوی صاحب کی تقریر کا یہی تھا۔ پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے چونکہ یہ معاہدہ ہو چکا تھا کہ زبانی تقریر کوئی نہ کرے اور مولوی صاحب نے اس معاہدے کے خلاف تقریر کی ہے سو اب میرا بھی حق ہے کہ میں بھی کچھ زبانی تقریر کروں۔ پھرحضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کا یہ عقیدہ کسی طرح بھی صحیح اور درست نہیں ہے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے ۔ قرآن شریف وحی متلو ہے اور تمام کلام مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمع ہو چکا تھا۔ اور حدیث کے جمع کرنے کا ایسا انتظام نہیں تھا۔ اور نہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھی گئی تھی ۔ پس وہ مرتبہ اور درجہ جو قرآن شریف کو حاصل ہے وہ حدیث کو نہیں ہے ۔کیونکہ یہ روایت در روایت پہنچی ہے ۔
اس بیان اور تقریر نیز اس تحریری پرچہ پر جو حضرت اقدس علیہ السلام سناتے تھے چاروں طرف سے واہ واکے اور سبحان اللہ کے نعرے بلند ہوتے تھے۔ بلکہ سعد اللہ اور مولوی محمد حسین صاحب کے سوا ان کی طرف کے لوگ بھی بے اختیار سبحان اللہ کہہ اٹھتے تھے۔ مولوی صاحب اس پر خفا ہوتے اور کہتے کہ لوگو تم سننے کو آئے ہو یا واہ وا سبحان اللہ کہنے کو آئے ہو۔ اس مباحثہ میں حضرت اقدس علیہ السلام نے حدیث اور قرآن شریف کے مقام پر سیر کن بحث کی ہے اور آئندہ کے لئے تمام بحثوں کا خاتمہ کر دیا ہے ۔ چھ سات روز تک یہ مباحثہ حضرت اقدس علیہ السلام کے مکان پر ہوا۔ اب مولوی صاحب نے رنگ بدلا۔ اور کہا کہ اتنے روز تو آپ کے مکان پر مباحثہ رہا اب میری فرودگاہ ( یعنی مولوی محمد حسن صاحب کے مکان ) پر مباحثہ ہونا چاہئے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ بھی منظور فرما لیا۔ اور باقی دنوں تک مولوی محمد حسن صاحب کے مکان پر مباحثہ رہا جب حضرت اقدس علیہ السلام وہاں تشریف لے جاتے تو میں حاضر ہو جاتا ورنہ مجھے بلوا لیتے ۔ اس مباحثے میں مولوی محمد حسین صاحب نے بہت چالاکیاں کیں بلکہ ایک پرچہ بھی اڑا لیا جس کا مباحثے میںحوالہ دیا گیا ہے دس روز تک یہ مباحثہ رہا۔ آخر باہر سے خطوط آنے لگے اور لدھیانہ کے لوگوں نے بھی شور کیا۔ کہ اصل بحث تو وفات و حیات مسیحؑ پر ہونی چاہیے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی بار بار فرمایا کہ مباحثہ تو وفات و حیات مسیحؑ میں ہونا ضروری ہے تاکہ سب مسائل کا یکدم فیصلہ ہو جاوے مگر مولوی صاحب اس مسئلہ کی طرف نہ آئے جب آخری روز مباحثہ کا آیا تو عیسائیوں مسلمانوں اور ہندوئوں کا بہت ہجوم ہوگیا۔ میں نواب علی محمد خاں آف جھجر کی کوٹھی پر تھا اور روانگی کا ارادہ کر رہا تھا حضرت اقدسؑ مولوی عبدالکریم صاحب اور منشی غلام قادر صاحب فصیح اور قاضی خواجہ علی صاحب اور الہ دین صاحب واعظ وغیرہ کے ہمراہ مولوی محمد حسن صاحب کے مکان پر تشریف لے گئے اور میرے پاس مولوی نظام الدین صاحب مرحوم اور مولوی عبداللہ صاحب مجتہد مرحوم کو بھیجا کہ جلد صاحبزادہ سراج الحق صاحب کو لے آئو۔ چونکہ مضمون میرے پاس تھا۔ اور میں نے رات بھر میں مضمون کی نقل کر لی تھی۔ اس واسطے اور بھی حضرت اقدسؑ کو میرا انتظام ہوا۔
جب میں آیا تو دروازہ بند پایا ۔ دروازہ پر سینکڑوں آدمی تھے بمشکل تمام دروازہ مولوی نظام الدین صاحب مرحوم نے کھلوایا ۔ میرے ساتھ سب آدمی اندر گھس گئے اور مولوی محمد حسن صاحب اور مولوی محمد حسین صاحب کا چہرہ زرد ہوگیا ۔ مجھ سے مولوی محمد حسن صاحب نے کہا۔ کہ تم کیوں آگئے؟ میں نے کہا ہم کیسے نہ آویں ۔ کاتب مباحثہ میں ہوں۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے مضمون سنانے سے پہلے فرمایا۔کہ مولوی صاحب اب یہ مباحثہ طول پکڑگیا ہے ۔ اس کی اب کوئی ضرورت نہیں۔ وفات و حیات مسیح علیہ السلام میں بحث ہونی مناسب ہے مگر مولوی صاحب کب ماننے والے تھے۔ جب حضرت اقدس علیہ السلام نے پرچہ سنانا شروع کیا تو مولوی صاحب کا چہرہ سیاہ پڑگیا اور ایسی گھبراہٹ ہوئی اور اس قدر حواس باختہ ہوئے کہ نوٹ کرنے کے لئے جب قلم اٹھایا تو زمین پر قلم مارنے لگے دوات جوں کی توں رکھی رہ گئی اور قلم چند بار زمین پر مارنے سے ٹوٹ گیا اور جب یہ حدیث آئی کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ جو حدیث معارض قرآن ہو وہ چھوڑ دی جائے۔ اور قرآن کو لے لیا جائے تو اس پر مولوی محمد حسین صاحب کو نہایت غصہ آیا او ر کہا یہ حدیث بخاری میں نہیں ہے۔ اور جو یہ حدیث بخاری میں ہوتو میری دونوں بیویوں پر طلاق ہے اس طلاق کے لفظ سے تمام لوگ ہنس پڑے اور مولوی صاحب کو مارے شرم کے اور کچھ نہ بن پڑا۔ اور بعد کو کئی روز تک لوگوں سے مولوی صاحب کہتے رہے کہ نہیں نہیں میری دونوں بیویوں پر طلاق نہیں پڑی۔ اور نہ میں نے طلاق کا نام لیا ہے۔ پہلے تو چند لوگوں کو اس کی خبر تھی لیکن اب مولوی صاحب ہی نے ہزاروں کو اس کی اطلاع کر دی (۱۶)
غرض کہ مولوی صاحب کو اس مباحثہ میں ہر لحاظ سے شکست ہوئی ۔ مگر مولوی صاحب کی دیدہ دلیری کہ اپنی خفت مٹانے کے لئے انہوں نے یکم اگست ۱۸۹۱ء کو ایک لمبا چوڑا اشتہار شائع کیا جو ہر قسم کے مفتریات کا مجموعہ تھا۔ ( ۱۷)
کئی ماہ بعد جبکہ یہ مباحثہ شائع ہو چکا تھا۔ دلی میں ایک جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں بہت سے علماء نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی پر زبردست تنقید کی کہ تم نے جو مرزا صاحب سے لدھیانہ میں مباحثہ کیا ہے اس میں تم نے کیا کیا اور کیا کر کے دکھایا اصل بحث تو کچھ بھی نہ ہوئی بٹالوی صاحب نے جواب دیا کہ اصل بحث کس طرح کرتا۔ اس کا پتہ ہی نہیں ۔ قرآن شریف میں مسیحؑ کی حیات یا رفع الی السماء کا کوئی ذکر نہیں ۔ حدیثوں سے صرف نزول ثابت ہوتاہے میں مرزا صاحب کو حدیثوں پرلاتاتھا اور وہ مجھے قرآن کی طرف لے جاتے تھے۔ پھر ان علماء نے کہاکہ مرزا صاحب نے تو بحث چھاپ دی تم نے اب تک کیوں نہ چھاپی۔ بٹالوی صاحب نے کہا اشاعۃ السنہ میں چھاپوں گا۔ انہوںنے کہا اس بحث کو الگ رسالہ کی شکل میں مکمل کرکے چھپوانا تھا۔ اس طرح علماء نے انہیں بہت شرمندہ کیا۔ (۱۸)
میر عباس علی صاحب کا ارتداد :۔
میر عباس علی صاحب بظاہر تو ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہی نظر آتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ حضرت اقدس سے ان کی عقیدت سفر علی گڑھ کے دوران ہی میں روبہ تنزل ہو چکی تھی۔ اور وہ لمحہ بہ لمحہ حضور ؑ سے دور جاتے جا رہے تھے۔ مباحثہ لدھیانہ کے دنوں میں مولوی محمد حسین صاحب کا جو پرچہ نقل کے بعد منگوایا جاتا تھا وہ لینے کے لئے میر صاحب ہی جاتے تھے اور بدقسمتی سے اس آمدو رفت نے ان کی رہی سہی عقیدت بھی ختم کر دی ۔ بات یہ ہوئی کہ مولوی محمد حسین صاحب اور مولوی محمد حسن صاحب انہیں پھانسنے کے لئے بڑی خاطر تواضع کرتے اور جب جاتے تو سروقد تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے اور کہتے میر عباس علی صاحب تم تو سید ہو آل رسول ہو تمہارا تو وہ مرتبہ ہے کہ لوگ تم سب بیعت ہوں مگر افسوس تم مرزا کے مرید ہو گئے امام مہدی تو سیدوں میں سے ہوگا یہ مغل کہاں سے بن گیا یہ دونوں مولوی میر عباس علی صاحب کے ہاتھ چومتے اور دو ایک روپیہ نذرانہ بھی دیتے اور کہتے کہ تمہاری شان تو وہ ہے کہ تم درود میں شریک ہو مگر افسوس تم کس کے مرید ہوگئے میر عباس علی صاحب تو پہلے ہی منافقت آمیز رویہ اختیار کئے ہوئے تھے ۔ اب جوان جیلہ گروں کی یہ ارادت مندی دیکھی تو باچھیں کھل گئیں۔ اعتقاد متزلزل ہوگیا اورایمان کی دولت یکسر کھوبیٹھے۔ ایک روز وہ حضور کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے کہ آپ نے ایسا دعویٰ کیاہے کہ جس کی وجہ سے ہم کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے حضرت اقدسؑ نے فرمایا۔ کہ میر صاحب میں نے جھوٹا دعویٰ نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اور قسم کھا کر کہتاہوں کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور سچا ہوں۔ کیا اتنے روز سے تم نے میرا کوئی جھوٹ سنایا مجھ کو جھوٹ بولتے دیکھا یا میں نے کوئی افتراء کیا یا منصوبہ باندھا۔ میں مسیح موعود اور مہدی موعود ہوں۔ یہ تقریر سن کر حضرت مولانا نور الدین ؓ پر ایسا اثر ہوا کہ ان پر وجد طاری ہوگیا۔ لیکن میر صاحب پر کوئی اثر نہ ہوا۔ (۱۹)
میر صاحب اس کے بعد روز بروز معاندانہ سرگرمیوں میں بڑھتے گئے یہاں تک کہ اسی سال ۱۲۔ دسمبر ۱۸۹۱ء کو انہوں نے ایک مخالفانہ اشتہار بھی شائع کیا جو ترک ادب اور تحقیر کے الفاظ سے بھرا ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے آسمانی فیصلہ میں اس اشتہار کا گو جواب دیا مگر ان کے زمانہ عقیدت و اخلاص کو نظر انداز نہیں ہونے دیا۔ بلکہ اپنی جماعت کو ہدایت فرمائی کہ وہ ان کے حق میں دعا کریں اور میں بھی دعا کروں گا۔ نیر فرمایا ۔’’ یہ انسان کے تغیر ات کا ایک نمونہ ہے کہ وہ شخص جس کے دل پر ہر وقت عظمت اور ہیبت سچی ارادت کی طاری رہتی تھی اور اپنے خطوط میں اس عاجز کی نسبت خلیفۃ اللہ فی الارض لکھا کرتا تھا۔ آج اس کی کیا حالت ہے پس خدا تعالیٰ سے ڈرو اور دعا کرتے رہو کہ وہ محض اپنے فضل سے تمہارے دلوں کو حق پر قائم رکھے اور لغزش سے بچاوے ‘‘۔۔۔۔۔۔۔ نیز فرمایا ’’ مجھے اگرچہ میر عباس علی صاحب کی لغزش سے بہت رنج ہوا۔ لیکن پھر میں دیکھتاہوں کہ جب کہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے نمونہ پر آیا ہوں تو یہ بھی ضرور تھا کہ میرے بعض مدعیان اخلاص کے واقعات میں بھی وہ نمونہ ظاہر ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعض خاص دوست جوان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے۔ جن کی تعریف میں وحی الٰہی بھی نازل ہوگئی تھی۔ آخر مسیحؑ سے منحرف ہوگئے تھے۔ ‘‘(۲۰)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفر امرتسر اور لدھیانہ میں دوبارہ تشریف آوری :۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے شکست کھانے کے بعد اپنی ندامت چھپانے کے لئے لدھیانہ میں ایک شورش سی برپا کر دی ۔ لدھیانہ کے ڈپٹی کمشنر صاحب کو اندیشہ ہوا کہ کہیں فساد نہ ہو جائے اس لئے ان کو لدھیانہ سے رخصت کر دینے کا حکم دے دیا۔ اس کام کے لئے ڈپٹی کمشنر صاحب نے ڈپٹی دلاور علی اور کریم بخش تھانہ دار کو مقرر کیا۔ ان لوگوں نے مولوی محمد حسین صاحب کو ڈپٹی کمشنر کا حکم سنایا اور وہ لدھیانہ سے چل دیئے۔ پھر وہ حضرت اقدس ؑ کی طرف آئے اور سٹر ک پر کھڑے ہو کر اندر آنے کی اجازت چاہی حضرت اقدسؑ نے ان کو اجازت دے دی۔ اور اندر بلا لیا۔ وہ ڈپٹی کمشنرکا یہ پیغام لائے تھے کہ لدھیانہ میں فساد کا اندیشہ ہے بہترہے کہ آپ کچھ عرصہ کے لئے یہاں سے تشریف لے جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اب یہاں ہمارا کوئی کام نہیں ہے ہم جانے کو تیار ہیں لیکن سردست ہم سفر نہیں کر سکتے کیونکہ بچوں کی طبیعت اچھی نہیں ہے انہوں نے کہا کہ خیر کوئی بات نہیں ، ہم ڈپٹی کمشنر سے کہ دیں گے اور ہمیں آپ کی ملاقات کا بہت شوق تھا سو شکر ہے کہ اس بہانہ سے زیارت ہوگئی۔ اس کے بعد حضرت صاحب اندرون خانہ تشریف لے گئے اور ایک چٹھی ڈپٹی کمشنر کے نام لکھ کر لائے۔ جس میں اپنے خاندانی حالات اور اپنی تعلیم وغیرہ کا ذکر فرمایا ۔ اور بعض خاندانی خطوط کی نقول بھی منسلک فرما دیں ۔
چٹھی کا انگریزی ترجمہ منشی غلام قادر صاحب فصیح نے کیا (۲۱) دراصل ڈپٹی دلاور علی کو ڈپٹی کمشنر کا حکم سمجھنے میں غلطی ہوگئی تھی۔ ڈپٹی کمشنر صاحب کا منشاء صرف مولوی محمد حسین صاحب کے اخراج کا تھا۔ تاہم یہ چٹھی ارسال کرنے کے بعد حضرت اقدسؑ احتیاطاً لدھیانہ سے امر تسر تشریف لے آئے۔
اس سفر میں حضورؑ نے مفتی محمد صادق صاحب کو بھی ساتھ چلنے کی ہدایت کی۔ صبح کے وقت گاڑی امرتسر کے سٹیشن پر پہنچی ۔ شیخ نور احمد صاحب ؓ مالک مطبع ریاض ہند سٹیشن پر موجود تھے انہوں نے فوراً ایک مکان کا انتظام کیا جو ہال بازار کے قریب غربی جانب کے راستوں میں سے ایک راستہ پر تھا ۔ اور کنھیا لعل کے تھیٹر کے قریب ایک گلی میں چھوٹا سا مکان تھا ۔ اوپر کے کمرے میں حضرت اقدس کے اہل بیت فروکش ہوئے اور خود حضور اپنے تین چار خادموں کے ساتھ نیچے ٹھہرے ۔ امرتسر میں آپ کی آمد کا شہرہ ہوگیا۔ اور لوگ آپ کی زیارت کے لئے آنے لگے۔ امر تسر کے کسی معزز دوست نے حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خدام کی دعوت بھی کی جس میں مولوی احمد اللہ صاحب بھی مدعو تھے۔ دعوت کی تقریب پر مولوی احمد اللہ صاحب نے حضرت اقدسؑ کے سامنے یہی مسئلہ پیش کیا کہ آپ کی بعض تحریروں سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ آپ نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں اس لئے لوگوں کو ٹھوکر لگتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی تشریح فرمائی کہ میری مراد نبوت سے کیا ہے جس پر مولوی صاحب نے عرض کیا اچھا آپ تحریر کر دیں کہ آپ کی تحریرات میں جہاں کہیں نبوت کا لفظ ہے وہ ایسا نہیں کہ جو ختم نبوت کے منافی ہو او را س سے مراد محدثیت ہے۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ میں لکھے دیتاہوں۔ چنانچہ اس وقت حضور نے ایک تحریر لکھ کر مولوی صاحب کو دے دی ۔ جو انہوں نے اپنے پاس رکھ لی تا ان لوگوں کو دکھائیں جو اس وجہ سے حضرت اقدسؑ پر کفر کا فتویٰ لگاتے تھے (۲۲)
مولوی احمد اللہ صاحب نے حضرت اقدسؑ سے یہ بھی دریافت کیا تھا کہ اہلحدیث آپ کا یہ شعر پیش کرکے آپ پر شرک کا الزام لگاتے ہیں کہ
شان احمد را کہ داند جز خدا وند کریم
آنچناں از خود جدا شدکز میاں افتاد میم
اس کا کیا مطلب ہے؟ حضرت اقدس ؑ نے جواب دیا چونکہ آنحضرتؐ اللہ تعالیٰ کے مظہر اتم ہیں اس لئے جس طرح اللہ تعالیٰ خالق ہونے کے اعتبار سے ’’ احد ‘‘ ہے اسی طرح رسول کریم ﷺ اس کا مظہرا تم ہونے کے باعث تمام مخلوقات میں ’’ احد ‘‘ ہیں ۔(۲۳)
انہی دنوں ایک دفعہ بعض شریر لوگوں نے حضرت اقدسؑ کے مکان پر حملہ کرکے بالا خانہ پر چڑھنا چاہا۔ مگر آپ ؑ کے چند خدام نے بڑی ہمت سے سیڑھیوں میں کھڑے ہوکر ان شریر وں کو روکا۔ اور بعد کو پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہو منتشر ہوگئے۔
حضرت اقدسؑ کے امرت سر تشریف لانے کی خبر پر بعض اور احباب بھی مختلف شہروں سے پہنچ گئے۔ کپور تھلہ سے منشی محمد خاں صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب بھی آگئے اور بہت دنوں ٹھہرے رہے۔
حضورؑ کچھ دن امرتسر میں مقیم رہے۔ پھر لدھیانہ سے ڈپٹی کمشنر کی یہ چھٹی موصول ہونے پر کہ آپکو لدھیانہ میں ٹھہرنے کے وہی حقوق حاصل ہیں جیسا کہ دیگر رعایا سرکار انگریزی کو حاصل ہیں۔ حضور لدھیانہ واپس تشریف لے گئے جہاں کچھ عرصہ قیام فرما کر قادیان آگئے۔ (۲۴)
سفر دلی
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا نے اپنے دعویٰ کی تبلیغ و اشاعت کے لئے دوسرا سفر ہندوستان کے قدیم دارالسلطنت اور مشہور علمی مرکز دلی کی طرف فرمایا ۔ حضور مع ام المومنین و میر محمد اسمٰعیل صاحب وغیرہ قادیان سے روانہ ہوکر ۲۹۔ ستمبر ۱۸۹۱ء کو دلی پہنچے اور نواب لوہاروکی دو منزلہ کوٹھی واقع محلہ بلیماراں میں قیام فرماہوئے۔ پہلی منزل میں مرد اور دوسری یعنی بالائی منزل میں حضرت ام المومنین مقیم ہوئیں۔ (۱۹) حضور کے دلی میں وار ہوتے ہی چاروں طرف یہ خبر پھیل گئی۔ اہل دلی کے ایک طبقہ نے جو مخالف ومتشد د علماء کے زیر اثر خطرناک غلط فہمیوں میں مبتلا تھا۔ خدا کے مسیحؑ سے ویسا ہی سلوک روا رکھا جیسا مامور ان الٰہی کے ساتھ منکرین حق ابتداء سے کرتے چلے آئے ہیں۔ اور حضرت مسیح ناصری سے یہود نا مسعود نے کیا تھا۔ حضورجس کوٹھی میں مقیم تھے اس کے نیچے بازار میں شوریدہ سر اور آتش مزاج لوگ نہایت بیباکی و خود سری سے گندی گالیاں دیتے اور کوٹھی پر خشت باری کرتے تھے۔ (۲۰)
سید نذیر حسین صاحب دہلوی اورمولوی عبدالحق صاحب کو مباحثہ کی دعوت
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہی حالات میں ۲۔ اکتوبر کو شیخ الکل مولوی سید نذیر حسین صاحب ( ۱۸۰۵۔ ۱۹۰۲ء) اور شمس العلماء مولوی عبدالحق صاحب حقانی ( ۱۸۴۹۔ ۱۹۱۶) کو بذریعہ اشتہار قرآن وحدیث صحیح سے وفات مسیحؑ پر تحریری بحث کی کھلی دعوت دی اور لکھا کہ امن قائم رکھنے کے لئے وہ خود سرکاری انتظام کرادیں کیوں کہ میں مسافر ہوں اور اپنی عزیزقوم کا مورد عتاب !!اشتہار میں آپ نے یہ حلفیہ اقرار بھی کیا کہ اگرمیں اس بحث میں غلطی پر ثابت ہوا تو میں اپنے دعوے سے دست بردار ہوجائوں گا۔ (۲۱)
شمس العلماء مولوی عبدالحق صاحب کی معذرت:۔
اس اشتہار کے نکلنے پر مولوی عبدالحق صاحب حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اور عرض کیا کہ ’’حضرت میں تو آپ کا بچہ ہوں۔ آپ میرے بزرگ ہیں آپ کا مقابلہ بھلا مجھ جیسا نا چیز آدمی کیا کرسکتا ہے۔ میرا نام اشتہار سے کاٹ دیں۔ میں ایک فقیر گوشہ نشین اور ایک زاویہ گزین درویش ہوں اور مباحثات سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ اچھا آپ ہی اپنے ہاتھ سے کاٹ دیں۔ چنانچہ مولوی صاحب نے اپنے ہاتھ سے اپنا نام کاٹ دیا۔ (۲۲)
شیخ الکل مولوی سید نذیر حسین صاحب کا انکار:۔
مولوی عبدالحق صاحب نے یوں پہلو بچایا ممکن تھا کہ مولوی نذیر حسین صاحب بھی خاموش رہتے۔ مگر حضرت اقدسؑ کی آمد سے ایک دن پہلے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی پہنچ گئے۔ بٹالوی صاحب نے مولوی نذیر حسین صاحب کو اپنے متشدد خیالات سے متاثر کرنا شروع کیا۔ مولوی نذیر حسین صاحب نے ان سے ایک دفعہ کہا بھی کہ بڑھاپے میں مجھے رسوانہ کرو اور اس قصے کو جانے ہی دو حضرت مسیحؑ کی جسمانی زندگی کا کہیں بھی ثبوت نہیں مل سکتا۔ لیکن مولوی محمد حسین صاحب نے ان سے کہا کہ اگر آپ ایسے کلمات زبان پر لائیں گے تو سب لوگ آپ سے پھر جائیں گے (۲۳)
شیخ الکل عمر رسیدہ تھے اپنے شاگر د کی زبان سے یہ سن کر خوفزدہ ہوگئے اور مجبوراً حضرت اقدسؑ کے مقابلے پر کمر بستہ ہونا پڑا۔ اب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے بعض دوسرے شاگردوں نے یہ شرارت کی کہ حضرت اقدسؑ کو براہ راست کسی قسم کی کوئی اطلاع دئے بغیر مباحثے کا ایک دن مقرر کرلیا اور عین وقت پر حضرت اقدسؑ کے پاس آدمی بھیجا کہ مباحثے کے لئے تشریف لائیے۔ اور ساتھ ہی دلی کے عوام کو بے بنیاد اتہمات سے مشتعل کرکے اسی دن آپ کی کوٹھی کا محاصرہ کرادیا۔ حضرت اقدسؑ کے لئے اخلاقاً اس یکطرفہ جلسہ میں پہنچنا ضروری نہیں تھا۔ مگر پھر بھی حضور نے وہاں جانے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن عین جلسہ کے وقت جب مفسد لوگوں نے صورت حال ہی بدل دی۔ تو مجبوراً یہ حالت دیکھ کر حضور بالاخانے پر چلے گئے۔ ہجوم نے کواڑوں پر حملہ کردیا اور کچھ لوگ مکان کے اندر بھی داخل ہوگئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ بعض سرکش بالا خانے میں بھی پہنچ گئے۔ ان حالات میں حضرت اقدسؑ یہی جواب دے سکتے تھے۔ اور آپ نے یہی جواب دیا کہ خود بخود فریق ثانی کی منظوری اور شرائط کے تصفیہ کے بغیر مباحثہ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ اور مجھے عین وقت پر اطلاع دی گئی ہے اور مجھے تو اس صورت میں بھی انکار نہ ہوتا۔ مگر آپ کے شہر میں مخالفت کا یہ حال ہے کہ سینکڑوں بدلگام میرے مکان کے اردگرد شرارت کی نیت سے جمع ہیں اور ذمہ دار لوگ انہیں نہیں روکتے بلکہ اشتعال انگیز الفاظ کہہ کہہ کر الٹا جوش دلاتے ہیں۔ پس جب تک میں اپنے پیچھے اپنے مکان اور اپنے اہل وعیال کی حفاظت کا انتظام نہ کرلوں میں نہیں جاسکتا۔ اور علاوہ ازیں ابھی تک جائے مباحثہ اور راستہ میں بھی حفظ امن کا کوئی انتظام نہیں ہے (۲۴) شیخ الکل کے شاگرد فرار کے لئے کسی بہانہ کی تلاش میں تھے اب جو حضرت اقدسؑ کی طرف سے یہ جواب ملا تو انہوں نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ اور اپنی جھوٹی فتح کا نقارہ بجاتے ہوئے شور مچانے لگے کہ مرزا صاحب بھاگ گئے ہیں۔ ساتھ ہی یہ مشورہ بھی ہوا کہ آپ کے اشتہار چھپنا بند کردو۔ یہ بڑی مشکل تھی مگر خدا تعالیٰ نے جلد ہی اس منصوبے کا تدارک بھی کر دیا۔
دلی میں ایک اہل حدیث عالم کی طرف سے ایک اشتہار نکلا کہ غلام احمد وغیرہ نام رکھنا شرک میں داخل ہے فتح پور کے ایک بڑے حنفی عالم مولوی محمد عثمان صاحب نے اس کے جواب میں ایک اشتہار شائع کیا کہ علماء اہلحدیث نے اس اشتہار میں دراصل ہم سب مقلدین پر طنز کی ہے کیوں کہ ہمارے نام اس قسم کے ہیں۔ اور ہم ان ناموں کو جائز سمجھتے ہیں۔ پھر وہ خفیہ طور پر حضرت اقدس علیہ السلام کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے میں آپ سے ایسی محبت رکھتا ہوں جیسی اپنی جان سے۔ ان لوگوں نے بڑی شرارت کی ہے میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہوں۔ گومیں آپ کو مسیح موعود نہیں مانتا مگر میں آپ کی طرف ہوں آپ جو اشتہار وغیرہ چھپوانا چاہیں میری معرفت چھپوائیں میرا ایک شاگرد عمدہ کاپی نویس ہے اور ایک مطبع والا میرا شاگر د ہے۔ میں اس کے مطبع میں چھپوادوں گا۔(۲۵) سو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا نا ترس علماء کی مغالطٰہ انگیزیوں کا پردہ چاک کرنے اور عوام تک اصل واقعات پہنچانے کے لئے ۱۷۔ اکتوبر کو انہی کے ذریعہ سے ایک اشتہار دیا کہ میں نے اب حفاظت کا انتظام کرلیا ہے مولوی سید نذیر حسین صاحب جہاں چاہیں بحث کے لئے حاضر ہو جائوں گا اور ہرگز تخلف نہ کروں گا۔ وَلَعْنَۃُ اللہِ عَلٰی مَنْ تَخَلَّفَ۔ اس اشتہار میں حضور نے مولوی نذیر حسین صاحب کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر لکھا کہ وہ مرد میدان بنیں اور حیات مسیح کے متعلق تحریری مباحثہ کرلیں۔ اس اشتہار میں حضور نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ اگر آپ کسی طرح بحث کرنا نہیں چاہتے تو ایک مجلس میں میرے تمام دلائل سن کر تین مرتبہ قسم کھا کر کہدیں کہ یہ دلائل صحیح نہیں ہیں اور صحیح اور یقینی امر یہی ہے کہ حضرت مسیحؑ ابن مریم زندہ بجسدہ العنصری آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور یہی میرا عقیدہ ہے اس پر اگر ایک سال کے اندر اندر آپ خدا کے عبرتناک عذاب سے بچ نکلیں تو میں جھوٹا ہوں۔ ( ۲۶)
مولوی نذیر حسین صاحب نے چند روز قبل (۱۳۔ اکتوبر ۱۸۹۱) حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا تھا کہ آئندہ آپ مجھے خط وکتابت سے معاف رکھیں جو کچھ کہنا ہومیرے تلامذہ مولوی عبدالمجید صاحب اور مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب سے کہیں اور انہی سے جواب لیں۔ (۲۷) حضرت اقدسؑ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ آپ بقول بٹالوی صاحب شیخ الکل ہیں۔ گویا آپ سارے جہان کے مقتدا ہین اور بٹالوی صاحب اور عبدالمجید صاحب جیسے آپ کے ہزاروں شاگر ہوں گے۔ اگر بٹالوی صاحب کو ایک مرتبہ نہیں ہزار مرتبہ ساکت کر دیا جائے تو اس کا کیا اثر ہوگا۔ (۲۸)
اس اشتہار کے شائع ہوتے ہی دلی والوں میں کھلبلی مچ گئی۔ آخر انہوں نے بات یہ بنائی کہ مولوی نذیر حسین صاحب بہت بوڑھے ہیں۔ مرزا صاحب نے دیکھ لیا کہ اب مرنے والے تو ہیں ہی چلو ایسا اشتہار دے دو یہ مر جائیں گے اور ہماری بات بن جائے گی ہم یہ بات تسلیم نہیں کرتے اور نہ مولوی نذیر حسین صاحب یہ بات مان سکتے ہیں۔ مگر دلی کے شریف اور متین طبقے نے ان کی یہ روش دیکھ کر زور دینا شروع کیا کہ مولوی نذیر حسین صاحب قسم کھائیں۔ سچ اور جھوٹ میں واقع تمیز ہوجائے گی۔ (۲۹) چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ۲۰۔ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو عصر کی نماز کے بعد مباحثہ ہو یا قسم اٹھائی جائے۔ جو لوگ دیانتداری سے حق وباطل کا فیصلہ چاہتے تھے وہ اس دن کا شدت انتظار کرنے لگے۔ لیکن مخالف عنصر نے جس کی تعداد زیادہ تھی یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو مسجد ہی میں قتل کردینا چاہیئے۔ (۳۰)
جامع مسجد دلی میں اجتماع:۔
چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ۲۰۔ اکتوبر کی صبح ہی سے یہ پیغام آنے لگے کہ آپ جامع مسجد میں ہرگز نہ جائیں فساد کا اندیشہ ہے۔ دلی کے لوگ آپ کے قتل کے درپے ہیں۔ یہ بات بالکل صحیح تھی۔ مگر حضرت اقدس علیہ السلام باربار فرماتے تھے کہ کوئی پروا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے واللہ یعصمک من الناس ۔ اللہ تعالیٰ کی حفاظت کافی ہے۔ (۳۱)
ظہرو عصر کی نماز ظہر کے وقت ہی جمع کی گئی۔ اور دوتین بگھیاں کرایہ کی منگائی گئیں۔ ایک بگھی میں حضرت اقدس علیہ السلام‘ سید امیر علی شاہ صاحب‘مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی اور ایک اور بزرگ ۔ ایک بگھی میں پیر سراج الحق صاحب۔ غلام قادر صاحب فصیح سیالکوٹی اور محمد خاں صاحب کپور تھلوی اور ایک اور بزرگ اور تیسری میں حکیم فضل دین(۳۲) صاحب بھیروی اور بعض اور بزرگ بیٹھ گئے جن سب کی تعداد حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے حواریوں کی مانند بارہ تھی ان بزرگوں میں سے باقی چھ کے نام یہ ہیں۔ شیخ رحمت اللہ صاحب۔ منشی اروڑا خان صاحب۔ حافظ حامد علی صاحب۔ میر محمد سعید صاحب( حضرت میر ناصر نواب صاحب کے بھانجے) سید فضیلت علی صاحب منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی۔ (۳۳) راستے میں کئی بدبخت گھات میں بیٹھ گئے کہ بندوق سے حضور پر فائر کر دیں۔ لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت !! کہ جس راہ حضرت اقدسؑ اور آپ کے خدام کو جانا تھا بگھی والوں نے کہا کہ ہم اس راہ سے نہیں جائیں گے۔ گویا خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت سے بگھی والوں کے دل میں مخالفت ڈال دی اوربفضلہٖ تعالیٰ حضور بخریت مسجد جامع کے جنوبی دروازہ کی سیڑھیوں تک پہنچ کر جو آدمیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ گاڑی سے باہر تشریف لائے۔ خدام کچھ حضور کے دائیں بائیں ہو گئے اور کچھ عقب میں اور حضور نہایت متانت ووقار سے سیڑھیاں طے فرما کر دروازہ مسجد کے اندر داخل ہوئے۔ اور صحن مسجد سے گذر کر وسطی محراب مسجد میں رونق افروز ہوگئے۔ مسجد میں بھی ہزاروں کا مجمع تھا۔ جس کی تعداد اس ہجوم کی تعداد کو جو سیڑھیوں پر تھا شامل کر کے پانچ ہزار (۳۴) یا اس سے بھی زیادہ ہوگی۔ حضورؑ کے دائیں بائیں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب وغیرہ بیٹھے اور سامنے حضرت پیر سراج الحق صاحب اور قریب ہی کتب متعلقہ مباحثہ رکھ دی گئی تھیں۔ اس اثنا میں یوروپین سپرنٹنڈنٹ پولیس اپنے ہمراہ انسپکٹر پولیس اور ایک سو سے زیادہ وردی پہنے ہوئے سپاہیوں کو لے کر آگیا۔ اور حضرت اقدسؑ کو معہ خدام حلقہ میں لے لیا۔ تھوڑے وقفہ کے بعد شیخ الکل جناب مولوی سید نذیر حسین صاحب اور ان کے شاگر د ابوسعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی عبدالمجید صاحب انصاری دہلوی وغیرہ علماء مسجد کے شمالی دروازے سے داخل ہوکر اسی دالان میں بیٹھ گئے جس کا سلسلہ دروازے کے اندر قدم رکھتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد ان لوگوں نے مسجد میں آکرنماز عصر ادا کی اور پھر اسی دالان میں جہاں پہلے بیٹھے تھے چلے گئے ۔ حضرت اقدسؑ کی طرف جو مع خدام مسجد میں تشریف رکھتے تھے نہ آئے۔
اب مولوی عبدالمجید صاحب انصاری وغیرہ جن میں مولوی محمد حسین بٹالوی شامل نہیں تھے اپنی اپنی جگہ سے اٹھے اور باقی علماء کے نمائندے بن کر پولیس افسر جو دالان کے باہر قریب ہی موجود تھاباتیں کرنے لگے۔ (۳۵) مولوی سید نذیر حسین صاحب اپنی جگہ خاموش بیٹھے تھے اور ان کے چہرے سے سخت پریشانی کے آثار ظاہر ہور ہے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جناب مولوی محمد نذیر حسین صاحب کو ایک رقعہ لکھاجس کا مضمون یہ تھا کہ میں موجود ہوں اب آپ جیسا کہ اشتہار ۱۷۔ اکتوبر ۱۸۹۱ء میں میری طرف سے شائع ہو چکا ہے حیات ووفات مسیح کے بارے میں مجھ سے بحث کریں اور اگر بحث سے عاجز ہیں تو یہ قسم کھالیں کہ میرے نزدیک مسیح ابن مریم ؑ کا زندہ بجسد عنصری آسمان پر اٹھایا جانا قرآن وحدیث کے نصوص صریحہ قطعیہ بنیہ سے ثابت ہے اس قسم کے بعد اگر ایک سال تک آپ اس جھوٹے حلف کے اثر بد سے محفوظ رہے تو میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کروں گا بلکہ اس مضمون کی تمام کتابیں جلا دوں گا۔
مولوی صاحب موصوف نے حضرت اقدسؑ کے رقعہ کا کوئی جواب نہ دیا۔ ہاں اپنے نمائندے کے ذریعہ سے پولیس افسر تک مباحثہ نہ کرنے کا یہ عذر پہنچا دیا کہ یہ شخص عقائد اسلام سے منحرف ہے جب تک اپنے عقائد کا ہم سے تصفیہ نہ کرلے ہم حیات ووفات مسیح علیہ السلام کے بارہ میں اس سے ہرگز بحث نہ کریں گے ۔
حضرت اقدسؑ نے سپر نٹنڈنٹ پولیس کو اس کے استفسار پر یہ جواب دیا کہ یہ ان ( مولوی نذیر حسین صاحب) کے فہم کاقصور ہے۔ ورنہ میرے تمام عقیدے اہل سنت وجماعت کے بنیادی عقائد کے بالکل مقابق ہیں ان سے انکار کرنے والے کو میں دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اس صورت میں ان تمام عقائد مسلمہ میں بحث کیا کروں بحث تو اختالف کی صورت میں ہوتی ہے نہ اتفاق کی حالت میں۔ پس اصل اختلافی مسئلہ حضرت مسیحؑ کی حیات ووفات ہے لیکن مولوی نذیر حسین صاحب اور ان کے شاگر د اپنی ضد پر اڑے رہے اور اس بحث سے بار بار انکار کرتے رہے۔ (۳۶)
پھر قسم کے بارے میں گفتگو ہوئی اس سے بھی ان لوگوں نے انکار کیا اور کہا کہ مولوی صاحب بوڑھے اور ضعیف ہیں ہم نہ قسم کھائیں اور نہ اس پر مولوی صاحب کو آمادہ کریں۔ (۳۷) ان کے اس قسم کے عذرات سن کر خواجہ محمد یوسف صاحب وکیل اور آنریری مجسٹریٹ علی گڑھ حضرت اقدسؑ کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کیاکہ آپ اپنے عقائد لکھ دیں۔ لوگوں کا گمان ہے کہ آپ کے عقائد خلاف اسلام میں۔ آپ کا لکھا ہوا میں سنادوں گا۔ اور ایک نقل اس کی علی گڑھ بھی لے جائوں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی وقت اپنے عقائد سے متعلق ایک بیان لکھ کر انہیں دے دیا۔ جو خواجہ محمد یوسف صاحب نے بلند آواز سے پڑھ کر سنادیا۔ اور پھر اس بات پر زور دیا کہ جب ان عقائد میں درحقیقت کوئی نزاع ہی نہیں فریقین بالاتفاق مانتے ہیں تو پھر ان میں بحث کیونکر ہو سکتی ہے ؟ بحث کے لائق تو وہ مسئلہ ہے جس میں فریقین اختلاف رکھتے ہیں یعنی وفات و حیات مسیحؑ کا مسئلہ ۔ جس کے طے ہونے سے سارا فیصلہ ہو جاتاہے بلکہ حیات مسیح کے ثبوت کی صورت میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ساتھ ہی باطل ہو جاتاہے۔ اور بار بار حضرت اقدسؑ کا نام لے کر کہا کہ انہوں نے خود وعدہ کر لیا ہے کہ اگر نصوص بینہ قرآن و حدیث سے حیات مسیحؑ ثابت ہوگئی تو میں مسیح موعود ہونے کے دعوے سے دست بردار ہو جائوں گا۔ الغرض خواجہ صاحب نے بہت کوشش کی کہ علماء اس مسئلہ کی طرف آئیں۔ مگر علماء کو تو اس مسئلہ میں بحث منظور ہی نہیں تھی وہ کیوں اس طرف آتے ۔ انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ اس وقت ایک شخص نے کھڑے ہو کر بڑے درد سے کہا کہ آج تو شیخ الکل صاحب نے دہلی کی عزت خاک میں ملادی اور ہمیں خجالت کے دریا میں ڈبو دیا۔ بعض نے کہا کہ اگر ہمارا یہ مولوی سچ پر ہوتا تو اس شخص سے ضرور بحث کرتا ۔ یہ تو نزدیک والوں کے خیالات تھے لیکن جو نادان اور جاہل دور کھڑے تھے اور جنہیں معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے وہ مشتعل ہوگئے (۳۸) اور اپنے خونی پروگرام کی تکمیل کے لئے آمادہ ہونے لگے۔ پولیس افسر نے یہ دیکھ کر کہ اب فساد ہوا چاہتاہے اپنے ماتحت افسر کو حکم دیا کہ مجمع منتشر کر دو۔ چنانچہ اعلان کر دیا گیا کہ کوئی مباحثہ نہیں ہوگا۔ سب چلے جائیں ۔ اس اعلان پر حضرت اقدسؑ نے اٹھنے کا قصد فرمایا مگر منشی ظفر احمد صاحب کے یہ عرض کرنے پر کہ مولوی نذیر حسین صاحب وغیرہ بھی تو رخصت ہوں رک گئے بحالیکہ مولوی صاحب موصوف اور ان کے رفقاء اسی دالان میں بیٹھے تھے جس میں دروازہ ہے ۔ اس لئے وہ چلے جانے کا اعلان ہوتے ہی دروازے سے باہر ہوچکے تھے یہ معلوم ہونے پر حضرت اقدسؑ بھی مع خدام اٹھے۔ صاحب سپر نٹندنٹ پولیس حضور کے ہمراہ تھے۔ حضور کے بارہ خادموں نے حضور کے گرد حلقہ کر لیا۔ اور ان کے گرد پولیس کے جوانوں نے ۔ بگھیوں کا دو طرفہ کرایہ ادا کردیا گیا تھا لیکن باہر آکر معلوم ہوا کہ ایک بگھی بھی موجود نہیں ہے۔ کیونکہ ایذارساں بگھی والوں کو بہکا کر پہلے ہی بھگا چکے تھے اور دوسری تمام بگھیاں وغیرہ مسجد کی سیڑھیوں تک آنے سے روک دی گئی تھیں ۔ حضرت اقدسؑ کو مع خدام کچھ دیر اس انتظار میں رکنا پڑا کہ کوئی بگھی یا گاڑی آجائے۔ شورید سروں نے جو حضرت اقدسؑ کو دیکھا تو حضور ؑ کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس نے یہ رنگ دیکھا تو حضورؑ سے کہا ان لوگوں کا ارادہ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ میری گاڑی میں تشریف لے جائیں حضور مسجد کی سیڑھیوں سے اتر کر اس گاڑی میں بیٹھ گئے تو صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس نے کوچ مین سے کہا کہ جہاں تک جلد ممن ہو گاڑی کو کوٹھی میں پہنچائو۔ حضورؑ کے تشریف لے جانے پر لوگوں نے حضور کے خدام سے بحث کرنی چاہی۔ چونکہ وہ موقع ایسا نہیں تھا اس لئے اعراض کیا گیا۔
جب تک حضرت اقدسؑ کو کوٹھی پر پہنچا کر گاڑی واپس نہیں آگئی صاحب سپر نٹنڈنٹ پولیس مسجد کی سیڑھیوں پر ٹھہرے رہے ۔ اس کے بعد حضورؑ کے خدام روانہ ہوئے تو یہ فرض شناس پولیس افسر لوگوں کو منتشر کر تا رہا۔ آخر سب خدام بھی بخیرت حضورؑ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ (۳۹)
دہلی کے ہر طبقے کی طر ف سے مخالفت:۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اہل دلی کے بعض طبقات میں سے حق پسندی و منصف مزاجی سے تعلق نہ رکھنے اور اپنے معتقدات کے خلاف کچھ سنتے ہی بھڑک اٹھنے والے تو ابتداء ہی سے خلاف انسانیت حرکات میں مشغول تھے لیکن مسجد جامع کے واقعہ نے ان طبقات کے آشفتہ دماغ آتش مزاج اشخاص کو بھی ان کی قیام گاہوں سے نکال کر میدان مخالفت میں کھڑا کر دیا۔ جواب تک پہلے مخالفت کرنے والوں کے ساتھ شامل نہیں تھے۔ بحالیکہ مخالفت کی کوئی معقول وجہ نہ تو پہلے موجود تھی نہ اب ۔ اور اب تو وہ یہ بھی دیکھ چکے تھے ۔ کہ جس مسئلہ پر بحث کے لئے اور بحث نہ کرنے کی صورت میں قسم کھا کر دلائل وفات مسیح کو غلط اور اپنے عقیدہ حیات مسیحؑ کو صحیح قرار دینے کا مولوی محمد نذیر حسین صاحب سے مطالبہ کیا گیا تھا۔ وہ انہوں نے پورا نہیں کیا ہے یعنی نہ تو مسئلہ مذکورہ میں بحث کی ہے اور نہ حسب مطالبہ قسم کھائی ہے ۔ اس حالت میں حضرت اقدسؑ کے خلاف جوش و خروش کی تو ان کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں تھی اپنے شیخ الکل پر غصہ کرنے یا کم ازکم ان کی اس حالت پر کہ نہ انہوں نے بحث کی ہے اور نہ مطالبہ قسم پورا کیا ہے متاسف ہونے کا موقعہ تھا۔ اگر وہ اس امر پر ایک طالب تحقیق کی طرح غور کرتے کہ مولوی سید نذیر حسین صاحب جیسے شہرہ آفاق عالم نے مسئلہ حیات و فات مسیحؑ میں بحث کیوں نہیں کی اور بحث نہ کر سکنے کی حالت میں حسب مطالبہ قسم کیوں نہ کھائی عقیدہ حیات مسیحؑ کی حقیقت ان سے مخفی نہ رہتی ۔ اور ان کی سمجھ میں آجاتا کہ جب شیخ الکل نے اس مسئلہ میں بحث نہیں کی اور حسب مطالبہ قسم نہیں کھائی تو ہمارے شور مخالفت برپا کرنے سے کیا ہاتھ آئے گا اور اس سے حیات مسیحؑ کا عقیدہ کس طرح صحیح ثابت ہوجائے اس اختلافی مسئلہ کی صحت و عدم صحت معلوم کرنے کا ذریعہ تواز روئے آیات قرآنیہ و احادیث صحیحہ مبادلہ خیالات ہی ہے نہ اختلاف رکھنے والے کے خلاف شورو غوغا اور طوفان مزخرفات اور یہ سمجھ کر وہ اپنے ہنگامہ بے جاو حرکات نارو اسے باز آجاتے ۔ لیکن چونکہ وہ مخالف علما ء کے لگائے ہوئے غلط الزاموں اور باطل اتہاموں سے اتنے متاثرو مشتعل ہوچکے تھے کہ ان میں حضرت اقدسؑ کے خلا ف ہنگامے برپا کرنے اور اشتعال پھیلانے کے سوا کسی اور امر کی طرف توجہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رہی تھی۔ اس لئے وہ مخالفت ہی میں سر گرم رہے اور یہ مخالفت خاص خاص طبقات کے شورش پسند افراد تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے پیروں فقیروں اور مغربیت زدہ وغیرہ گروہوں کے افراد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور پہلے پچھلے دونوں قسم کے مخالف اپنی اپنی مناسبت طبع اور ذوق فطری کے مطابق جو ہر دنائت و سفاہت کا مظاہرہ کرنے اور شرافت اور انسانیت کو شرمانے لگے اس موقعہ پر ان کی کارستانیوں اور کرتوتوں کی بہت سی گونا گوں مثالوں میں سے صرف ایک ہلکی سی مثال پیش کی جاتی ہے۔ اور یہ مثال ہے بھی ان کی جو مشہور صحافی بھی ہیں اور بہت سی کتابوں کے مولف و مصنف بھی اور جنہوں نے قرآن شریف اور بخاری شریف کا ترجمہ بھی کیا ہے اور جن کا نام ہے مولوی امراء مرزا حیات حیرت دہلوی (۱۸۵۸۔۱۹۲۸) آپ مغربیت کے دلدادہ ، اور اس پر فخر کرنے والے بھی تھے۔ اور زمرہ علماء میں سے ہونے کا غرہ رکھنے والے بھی۔ آپ نے بعض اور علماء کے مشورہ سے اس مضمون کا ایک اشتہار چھپوایا۔ کہ اصل مسیحؑ میں ہوں جو آسمان سے اتراہوں اور دلی میں دجال آیا ہوا ہے اور آپ یہ اشتہار لے کر فتح گڑھ کے منارپر چڑھ گئے اور وہاں سے یہ اشتہار پھینکنے لگے ۔ حضرت اقدس ؑ نے حیرت صاحب کی اس سفلہ خوئی پر اشتہار مورخہ ۲۳۔ اکتوبر ۱۸۹۱ء میں دلی والوں کو بڑی شرم دلائی ہے ۔ پھر یہی مرزا حیرت صاحب ایک روز پولیس افسر بن کر حضرت اقدسؑ کے پاس آئے اور کہا میں سپرنٹنڈنٹ پولیس ہوں۔ اور مجھے ہدایت ہوئی ہے کہ میں آپ سے دریافت کروں کہ آپ کس غرض کے لئے آئے ہیں اور کس قدر عرصہ ٹھہریں گے ۔ اور اگرکوئی فساد ہو تو اس کا ذمہ دار کون ہے ۔ آپ مجھے اپنا بیان لکھوادیں بلکہ یہاں تک کہا کہ سرکار سے حکم ہواہے کہ یہاں سے فوراً چلے جائو ورنہ تمہارے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔ حضرت اقدس ؑ نے مرزا حیرت کی طرف ذرہ بھی التفات نہ کیا۔ صرف سید امیر علی شاہ صاحب نے جو اہلکار پولیس تھے ان سے کچھ دریافت کرنا چاہا ۔تووہ گھبرائے اور اپنا بھرم کھلتا دیکھ کر چلتے بنے۔
اس مثال سے قیاس ہوسکتا ہے کہ جو شخص بہت سی کتابوں کا منصف ومولف ہواورقرآن کریم اوربخاری شریف کے مترجم ہونے کا حوصلہ رکھنے والا بھی ہو جوش مخالفت میں ایسی ذلیل وشرمناک حرکتوں سے باز نہ رہ سکا تو اسی جیسا علم اور دل ودماغ رکھنے والوں اورپھر عوام کالانعام کا کیا حال ہوگا ۔
اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے طبائع کافرق بھی کتنا عجیب ہے جہاں دلی کے ہزاروں آتش مزاجوں اور شورش پسندوں میں سے کسی ایک کو بھی یہ خیال نہ ہوا کہ مطالبہ تو مسئلہ حیات ووفات حضرت مسیح علیہ السلام میں مباحثہ کا ہے اور وہ پورا ہوسکتا ہے مولوی سید نذیر حسین صاحب کے مسئلہ مذکورہ میں مباحثہ کرلینے یا نہ کرسکنے کی حالت میں حسب مطالبہ قسم کھالینے سے ہماری زشت کاریوں اورکشت باریوں اور تمسخرواستہزاء وغیرہ سے وہ کس طرح پورا ہوجائے گا وہاں دلی ہی کے شریف وشائستہ متین وسنجیدہ اور امن پسند لوگوں کو ابتداء ہی سے یہ خیال تھا۔ کہ ایک معزز شخص اپنے چند عقیدت مندوں کو ساتھ لے کر ہندوستان کے قدیمی دارالسلطنت اور مشہور علمی مرکز دلی میں وارد ہوا ہے اوراس نے علمی لحاظ سے اس شہر کی عظیم شخصیت سے مسئلہ حیات ووفات حضرت مسیحؑ میں مباحثہ کا مطالبہ کیا ہے اور ساتھ ہی یہ اقرار بھی شائع کردیا ہے کہ اگرازروئے آیات قرآنیہ وواحادیث صحیحیہ حیات حضرت مسیحؑ ثابت کردی گئی تو اس نے وفات حضرت مسیحؑ کے ثبوت میں جو کتابیں لکھی ہیں وہ جلادے گا ۔اور حیات حضرت مسیحؑ ثابت کرنے والے کے ہاتھ پر بیعت کرلے گا۔
کیا انصافاً یہ مطالبہ ایسا ہے جو اینت پتھر گالی گلوچ اور تمسخر اور استہزاء یا اسی قسم کی اور حرکات بے جا وناروا کے ذریعہ ٹال دیا جائے ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ ہرگز ایسا نہیں بلکہ یہ تو ایسا مطالبہ ہے جس کا پورا کیا جانا اشد ضروری ہے اور مسئلہ متنازعہ حیات ووفات مسیح میں ضرور مباحثہ ہونا چاہئے ۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا اورطالب مباحثہ کی جائے قیام پر یورش اور کواڑ توڑ کر اندر گھسنے اور حسب حوصلہ دل کی بھڑاس نکالنے کا جوش وخروش ٹھنڈا نہ ہوگیا اورچند مسافر مصائب مسلسل کو برداشت نہ کرکے مباحثہ کئے بغیر ہی شہر سے نکل جانے پر مجبور ہوگئے تو نتیجہ نہایت افسوسناک ہوگا۔ دنیا اسے کبھی اچھی نظر سے نہ دیکھے گی علماء کے اعتبار ووقار میں فرق پڑے گا۔ حیات مسیحؑ کے عقیدے میں تزلزل پیدا ہوجائے گا بہت سے اسے چھوڑ دیں گے اوربہت سے تذبذب میں پڑجائیں گے ان تمام امور کے لحاظ سے مباحثہ ہوجانے کی بے حد ضرورت ہے اورکوشش ہونی چاہیے کہ مباحثہ ضرور ہوجائے چنانچہ ایسے ہی خیال والوں میں سے ایک معاملہ فہم ومحل شناس انسان کو مباحثہ کا انتظام کردینے کی توفیق مل گئی۔
علی جاں والوں کی طرف سے مولوی محمد بشیر صاحب کو دعوت مباحثہ:۔ علی جان والوں کو جو دلی میں ٹوپیوں کی ایک بڑی فرم کے مالک اورمذہبا اہلحدیث تھے اپنی ذاتی واقفیت کی بنا پر ابتدا ہی سے یہ علم تھا کہ دلی کے علماء خواہ وہ احناف میں سے ہوں یا اہلحدیث میں سے۔ آپ کے ساتھ مسئلہ حیات ووفات مسیحؑ میں مباحثہ کرنے کے لئے حقیقتاً ایک بھی آمادہ نہیں ۔اشتہار شائع کئے جائیں گے تقریریں ہوں گی مگر مسئلہ مذکورہ میں مباحثہ ہرگز نہ کیا جائے گا وہ خود یہی یقین رکھتے تھے کہ حیات حضرت مسیحؑ کا عقیدہ ایک اسلامی عقیدہ اورقرآن وحدیث سے ثابت ہے پھراس میں مباحثہ نہ کرنا کیا معنے۔ انہیں بڑا دکھ تھا کہ اس مسئلہ میں مباحثہ نہ کئے جانے سے تو عقیدہ حیات مسیح کو بڑی ٹھیس لگے گی اوریہ بالکل ہی متزلزل ہوجائے گا علماء دلی سے وہ مایوس چکے تھے اس مسئلہ میں مباحثہ کو ضروری سمجھتے تھے اس حالت میں وہ مجبو ر ہوگئے کہ باہر کے علماء میں سے کسی کو اس مباحثہ کے لئے آمادہ کریں اورباہر والوں میں سے ان نظر مولوی سید محمد بشیر صاحب سہسوانی کے سوا اورکسی کی طرف کہاں جاسکتی تھی وہ اس زمانے کے بہت بڑے عالم بھی تھے اور علی جان والوں کے ہم مذہب بھی ۔آخر اس مباحثہ کے لئے ان کی منظوری حاصل کرلی گئی۔
مولوی سید محمد بشیرسہسواں ضلع بدایوں کے رہنے والے اوراہل حدیث کے ایک مشہور وجید عالم تھے اور بعض دوسرے علماء اہل حدیث کی طرح نواب سید محمد صدیق حسن خاں رئیس بھوپال کے قائم فرمائے ہوئے اشاعتی ادارے سے وابستہ ، اورمولانا سید محمد احسن صاحب امروہی کی طرح اس کے ممتاز رکن تھے ۔ اور حضرت اقدسؑ کی کتاب’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کے بعد حضور کی فضیلت علمی اور وجاہت وعظمت روحانی کا جو اثر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی وغیرہ کثیر علماء پر ہوا تھا اس سے یہ دونوں موصوف الصدر علماء بھی خالی نہیں تھے لیکن جب حضرت اقدسؑ نے یہ اعلان فرمایا کہ حضرت مسیح موسوی علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں ۔ اورامت محمدیہ میں جس مسیح کی آمد کی مثردہ دیا اور وعدہ کیا گیا تھا وہ مسیح میں ہوں تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اس نہایت ہی عجیب وغریب خیال کی بناء پر کہ اس اعلان سے پہلے مجھ سے مشورہ کریں نہیں کیا گیا۔ سرکشی وسرتابی اختیار کرلی اور بڑے جوش وخروش سے مخالفت شروع کردی۔ مگر باقی دونوں مذکورہ علماء حضرت اقدس ؑ کے دعویٰ پر علیحدہ علیحدہ بھی غور کرنے لگے۔ اورباہم مبادلہ خیالات کے ذریعہ سے بھی دونوں صاحبوں میں گفتگو تو ہوا ہی کرتی تھی مگر کسی مقررہ مقام پر نہیں ۔ آخر مولوی محمد بشیر صاحب کے اس مشورہ پر کہ ان مسائل میں برملا گفتگو مناسب نہیں ۔عوام الناس میں مخالفت پیدا ہوتی ہے۔ مناسب یہی ہے کہ خلوت میں گفتگو ہوا کرے ۔اورمولوی صاحب موصوف ہی کی تجویز وخواہش پر یہ مبادلہ خیالات مولانا محمد احسن صاحب کے مکان پر خلوت میں ہونے لگا۔ یہ مبادلہ خیالات مناظرانہ ومخالفانہ نہیں بلکہ محققانہ ومحبانہ تھا اور دونوں حضرات نے اس تسمیہ عہد کے عد شروع کیا کہ جو امر صحیح ثابت ہوگا وہ ضرور قبول کرلیا جائے گا۔ پہلے روز مولانا محمد احسن صاحب نے اپنے غیر مطبوعہ رسالہ اعلام الناس جو آپ نے وفات مسیحؑ کے ثبوت اور مولوی عبدالحق غزنولی کے رد میں لکھا تھا مولوی محمد بشیر صاحب کو سنانا شروع کیا۔ تاجس امر سے انہیں اختلاف ہواس پر مبادلہ خیالات ہوجائے۔ مولوی محمد بشیر صاحب نے صرف ایک جگہ اختلاف کیا اور اتنا مضمون مولانا محمد احسن صاحب نے اپنے رسالہ سے خارج کردیا۔ باقی تمام مضمون سے اتفاق کیا۔ اور نہ صرف اتفاق بلکہ جابجا تائیدی مضمون بھی بیان کئے جومولوی محمد احسن صاحب نے اس رسالے میں شامل کرلئے۔ باقی امور میں مبادلہ خیالات جاری تھا کہ اس خلوت کے مبادلہ خیالات اور دوسرے لوگوں کو علم ہوکر عام چرچا ہوگیا اور ابھی اس مبادلہ خیالات کے صرف تین ہی جلسے ہوپائے تھے کہ یہ سلسلہ ختم کردینا پڑا اور مولوی محمد بشیر صاحب جس بات سے ڈرتے تھے وہ ہو کر رہی اور جابجا ذکر ہونے لگا کہ یہ دونوں مولوی قادیانی خیالات کے ہوگئے ہیں ان کی وجہ سے یہاں قادیانیت پھیلنے کا سخت خطرہ پیدا ہوگیا ہے ۔ مولاناسید محمد احسن صاحب نے تو اس کی پروانہ کی۔ اور حضرت اقدسؑ کی بیعت کر لی۔ لیکن مولوی محمد بشیر صاحب یہ جرات نہ کر سکے۔ (۴۲)
مولانا محمد احسن صاحب کی بیعت کر لینے سے عوام کے اس خیال کو بڑی تقویت حاصل ہوگئی کہ دونوں مولوی قادیانی ہوگئے ہیں اور کہا جانے لگا کہ ایک تو بے نقاب ہوگئے دوسرے جو کسی مصلحت سے رکے ہوئے ہیں حشران کا بھی وہی ہونا ہے جو پہلے کا ہو چکاہے ۔ مولوی محمد بشیر صاحب لوگوں کے ان خیالات و مقالات سے بے خبر نہیں تھے انہوں نے لوگوں کو ان خیالات سے روکنے کے لئے حضرت اقدسؑ کے خلاف تقریریں شروع کر دیں اور یہ سلسلہ جاری تھا کہ علی جان والوں نے ان سے دلی تشریف لا کر حضرت اقدسؑ سے مسئلہ حیات و فات حضرت مسیح علیہ السلام میں بحث کرنے کی درخواست کی اور مولوی صاحب نے یہ سمجھ کر کہ دلی پہنچ کر اس مسئلہ میں بحث کرنے سے وہ الزامات جو ان پر عائد کے گئے اور کئے جارہے ہیں بڑی صفائی سے دور ہو جائیں گے اور ہم جس چیز کو حاصل کرنے کی دنوں سے کوشش کر رہے ہیں وہ بڑی آسانی سے حاصل ہو جائے گی۔ بڑی خوشی سے منظور کر لی تھی۔ اور جب دلی والوں نے انہیں بلایا تو وہ دلی پہنچ گئے ۔
مولوی محمد بشیر صاحب دلی میں :۔
مولوی صاحب موصوف جب دلی تشریف لے آئے تو غیر مقلد و مقلددونوں قسم کے علماء نے جو مسئلہ حیات و وفات مسیح میں بحث ہونا کسی طرح مناسب نہیں سمجھتے تھے اور جس طرح بھی ٹال سکے اب تک اسے ٹالتے آئے تھے۔ جمع ہو کر ان سے دریافت کیا کہ آپ کے پاس حیات مسیح پر وہ کونسی قطعی الدلالت آیت ہے جو آپ ( حضرت اقدس) مرزا صاحب کے مقابلے میں پیش کریں گے مولوی محمد بشیر صاحب نے آیت وان من اھل الکتب الا لیومنن بہ قبل موتہ پڑھی ۔ علماء نے کہا مولوی صاحب ! اس آیت شریفہ سے تو اشارتا! کنایتہ بھی حیات مسیح نہیں نکلتی ۔ مولوی صاحب نے کہا میں تو یہی آیت پیش کروں گا۔ تمام علماء نے کہا کہ ہم اس معاملے میں آپ کے ساتھ نہیں ہیں اور آپ کی فتح و شکست کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ مگر مولوی صاحب نے اس کی کچھ پرواہ نہیں کی۔ اور ان سے بالکل بے نیاز ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں درخواست بھیج دی۔ کہ آپ مجھ سے مسئلہ حیات و وفات اور نزول مسیحؑ پر مباحثہ کر لیں۔ حضورنے وہ منظور فرمالی اور مباحثے کی پانچ ضروری شرائط بھی بھجوادیں کہ مباحثہ تحریری ہوگا۔ فریقین کی طرف سے پانچ پانچ پرچے ہوں گے اور پہلا پرچہ آپ کا ہوگا اور سب سے قبل مسئلہ حیات و وفات مسیحؑ پر مباحثہ ہوگا۔ اس کے بعد نزول مسیحؑ اور پھر آپ کے مسیح موعود ہونے کی بحث ہوگی۔ مباحثہ کی تاریخ ۲۳۔ اکتوبر ۱۸۹۱ء مطابق ۱۹۔ ربیع الاول ۱۳۰۹ھ قرار پائی ( ۴۳)
مباحثے کا آغاز :۔
دوسرے دن صبح ۲۳۔ اکتوبر کو مباحثے کا اہتمام شروع ہوا۔ ایک بڑا لمبا دالان تھا جس کے ایک کمرے میں مولوی عبدالکریم صاحب منشی عبدالقدوس صاحب (اخبار ’’صحیفہ قدسی‘‘ کے غیر احمدی ایڈیٹر) منشی ظفر احمد صاحب، پیر سراج الحق صاحب اور حضور کے بعض دوسرے خدام بیٹھے تھے کہ مولوی محمد بشیر صاحب بھی اپنے چند رفقاء سمیت آگئے۔ حضور علیہ السلام مولوی محمد بشیر صاحب کی آمد کی اطلاع پر بالا خانے سے نیچے تشریف لائے۔ السلام علیکم اور وعلیکیم السلام کے بعد مولوی محمد بشیر صاحب نے مصافحہ بھی کیا اور معانقہ بھی۔ اس کے بعد حضرت اقدس اور تمام حاضرین بیٹھ گئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مباحثہ شروع ہونے سے قبل اپنے دعویٰ سے متعلق مولوی محمد بشیر صاحب اور ان کے رفقاء کو مخاطب کرکے ایک پر معارف تقریر فرمائی ۔ حضورؑ کی یہ تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ مولوی محمد بشیر صاحب دوران تقریر ہی میں بول اٹھے کہ آپ اجازت دیں تو میں دالان کے پرلے گوشے میں جابیٹھوں اور وہاں کچھ لکھوں ۔ دالان میں بہت سے آدمی علی جان والوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا ۔ بہت اچھا!! چنانچہ مولوی صاحب دالان کے اس گوشہ میں جابیٹھے اور جو مضمون گھر سے لکھ کر لائے تھے نقل کروانے لگے۔ (۴۴) حالانکہ شرط یہ تھی کہ کوئی اپنا پہلا مضمون نہ لکھے بلکہ جو کچھ لکھنا ہوگا وہ اسی وقت جلسہ بحث میں لکھنا ہوگا۔ اس خلاف ورزی پر مولانا عبدالکریم صاحب نے کہا یہ تو خلاف شرط ہے ۔ پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے حضرت اقدس سے عرض کیا کہ حضور اجازت دیں تو میں مولوی صاحب سے کہہ دوں کہ آپ لکھا ہوا تو لائے ہیں یہی دے دیجئے۔ تاکہ اس کا جواب لکھا جائے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کی بکراہت اجازت دے دی۔ انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ مولوی صاحب لکھے ہوئے مضمون کو نقل کرانے کی کیا ضرورت ہے دیر ہوتی ہے لکھا ہوا مضمون دے دیجئے۔ تاکہ ادھر سے جلدی جواب لکھا جائے۔ اسی طرح منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے کہا کہ حضرت صاحب خالی بیٹھے ہیں جب آپ سوال لکھ کر ہی لائے ہیں تو وہی دے دیں تا حضور جواب لکھیں۔ مولوی صاحب نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے گھبرا کر جواب دیا۔ نہیں نہیں میں مضمون لکھ کر تو نہیں لایا صرف نوٹ لکھ لایا تھا۔ جنہیں مفصل لکھ رہا ہوں۔ حالانکہ وہ مضمون کو حرف بحرف ہی لکھوا رہے تھے اس کے جواب میں پیر صاحب نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر حضرت اقدسؑ نے انہیں روک دیا۔ اور حضور نے منشی ظفر احمد صاحب سے یہ فرمایا کر کہ جب مولوی صاحب مضمون دیں تو مجھے بھیج دیا جائے۔ بالاخانے پر تشریف لے گئے اور مولوی صاحب کے مضمون دینے پر منشی صاحب نے وہ لے جاکر حضور کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضرت اقدسؑ نے مولوی صاحب کے مضمون پر پہلے صفحہ سے لے کر آخر صفحہ تک بہت تیزی سے نظر فرمائی اور اس کا جواب لکھنا شروع کر دیا۔ جب مضمون کے دو ورق تیار ہوگئے تو حضور منشی ظفر احمد صاحب کو نیچے نقل کرنے کو دے آئے۔ ایک ایک ورق لے کر مولوی عبدالکریم صاحب اور عبدالقدوس صاحب نے نقل کرنا شروع کیا۔ اسی طرح منشی صاحب حضرت صاحب کا مسودہ لاتے اور یہ دونوں صاحب نقل کرتے رہتے ۔ حضرت اقدسؑ اتنی تیزی سے لکھ رہے تھے کہ عبدالقدوس صاحب جو خود بھی بڑے زودنویس تھے متحیر ہوگئے ۔ اور حضور کی تحریر پر انگلی کا پورا لگا کر سیاہی دیکھنے لگے کہ یہ کہیں پہلے کا لکھا ہوا تو نہیں ۔ منشی ظفر احمد صاحب نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہوگا۔ کہ جواب پہلے سے لکھا ہوا ہے۔ حضرت اقدسؑ کی یہ حیرت انگیز قوت تصنیف دیکھ کر مولوی محمد بشیر صاحب کو حضور کی خدمت میں درخواست کرنی پڑی کہ اگر آپ اجازت دیدیں تو میں کل اپنے جائے قیام ہی سے جواب لکھ لائوں۔ حضور نے بے تامل اجازت دیدی اور پھر مولوی صاحب نے مباحثہ کے ختم ہونے تک یہی طریقہ رکھا۔ کہ حضرت اقدسؑ کا مضمون ملنے پر حضور سے اجازت لے کر اپنے جائے قیام پر چلے جاتے اور مضمون وہیں سے لکھ کر لاتے انہوں نے سامنے بیٹھ کر کوئی مضمون تحریر نہیں کیا۔
اب فریقین کے تین تین پرچے ہوچکے تھے اور مولوی صاحب کے اس مسئلہ سے متعلق جو ذخیرہ تھا وہ ختم ہو چکا تھا جو کچھ انہوںنے کہنا تھا وہ انہوں نے کہہ لیا تھا۔ اور حضرت اقدسؑ نے ان کی ہر دلیل کا جواب دیدیا تھا اور جو پرچے لکھے جا چکے وہ ہر منصف مزاج طالب تحقیق کے لئے کافی تھے۔ مباحثہ کوخواہ مخواہ طول دینا وقت کو ضائع کرناتھا۔ اور جب مولوی صاحب نے سامنے بیٹھ کر لکھنے کی شرط پر عمل کرنے سے روگردانی کر لی تھی مضمون گھر سے لکھ کر لاتے تھے اور اس قسم کا مباحثہ اپنے اپنے مقام پر موجود رہ کر بھی ہو سکتا تھا اس کے لئے حضور کے دلی میں مقیم رہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس لئے حضورؑ نے فریقین کے تین تین پرچے تحریر ہوجانے پر مباحثہ ختم کر دیا۔ اور مولوی صاحب سے فرمایا کہ جب آپ کے پاس کوئی دلیل ہی نہیں رہی تو پھر خواہ مخواہ تحریر بڑھانے سے کیا فائدہ ؟ بحث ختم ہو جانے پر مولوی محمد بشیر صاحب حضرت اقدسؑ سے ملنے آئے اور کہا کہ میرے دل میں آپ کی بڑی عزت ہے آپ کو اس بحث کے لئے جو تکلیف دی ہے اس کی معافی چاہتاہوں۔(۴۵)
اس مباحثہ کی روداد’’ الحق دہلی‘‘ کے نام سے شائع ہوئی
سفر لدھیانہ
مباحثہ دلی کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مع اہل بیت لدھیانہ تشریف لائے اور یہاں ایک جلسہ عام سے خطاب فرمایا۔ سیالکوٹ وغیرہ شہروں سے بہت سے خدام آئے ہوئے تھے۔ تقریر کے بعد منشی فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے عرض کیا کہ حضور ہماری مسجد کا مقدمہ دائرہے۔ شہر کے تمام رئیس اور کپور تھلہ کے جملہ حکام فریق مخالف کی امداد کر رہے ہیں اور ہم چند احمدیوں کی بات بھی کوئی نہیں سنتا۔ حضور دعا فرمائیں ۔ منشی فیاض علی صاحب کے عرض کرنے پر حضور نے جلالی رنگ میں فرمایا ۔’’ اگر یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے تو مسجد تمہارے پاس واپس آئے گی ‘‘منشی صاحب نے یہ پیشگوئی مدعا علیہم اور شہر والوں کو سنادی ۔ اور مسجد میں ایک تحریر بھی لکھ کر چسپاں کر دی۔ اب اتفاق یہ ہوا کہ چیف کورٹ کے جج نے پہلی ہی پیشی میں فریقین کی موجودگی میں کہہ دیا۔ کہ مسجد کا بانی غیر احمدی تھا۔ لہٰذا احمدی اپنی مسجد علیحدہ بنالیں۔ میں پرسوں مسل پر حکم لکھ دوں گا۔ جج کے اس زبانی فیصلہ پر غیروں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پر خوب مذاق اڑایا۔ لیکن تیسرے ہی دن ان کی ساری خوشی خاک میں مل گئی کیونکہ عین اس وقت جب کہ یہ جج عدالت میں جانے سے قبل گھر میں حقہ کی انتظار میں بیٹھا تھا اس کی حرکت قلب بند ہوگئی اور وہ مسل پر حکم لکھنے کی حسرت اپنے ساتھ ہی لے کر کوچ کر گیا۔ اس حادثہ کے بعد چیف کورٹ کی طرف انگریزی علاقہ سے ایک آریہ بیر سٹر کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس سے مقدمہ کے بارے میں رائے طلب کی گئی اس مقدمہ پر فریق مخالف نے حصول مقصد کے لئے ہر ممکن کوشش کی مگر وہ ناکام رہا۔ اور بالا خر ۱۹۰۵ء میں احمدیوں کے حق میں فیصلہ دیدیا گیا اور مسجد احمدیوںکو مل گئی ۔ (۴۶)
سفر پٹیالہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام لدھیانے سے پٹیالہ تشریف لے گئے جہاں حضور کے خسر میر ناصر نواب صاحب ملازمت کے سلسلہ میں مقیم تھے۔ حضور کے یہاں ورود فرماتے ہی مولوی محمد اسحاق صاحب وغیرہ نے آپ کے خلاف عوام میں مخالف کی آگ سی لگادی ۔ وہ قیام پٹیالہ کے دوران میں ایک دن ( ۳۰۔ اکتوبر) حضر ت اقدسؑ کی فرودگاہ پر آئے اور حضور سے وفات مسیحؑ کے متعلق بالمشافہ گفتگو کی۔ مولوی محمد اسحاق صاحب نے دوسرے علماء کے مسلک سے کچھ اختلاف کرتے ہوئے کہا ۔ کہ اس قدر تو ہم بھی مانتے ہیں۔ کہ بعض احادیث میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم چند گھنٹے کے لئے ضرور فوت ہوگئے تھے مگر وہ پھر زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے تھے۔ اور پھر کسی وقت زمین پر اتریں گے ۔ حضرت اقدسؑ نے اس کے جواب میں ایک نہایت مبسوط تقریر فرمائی۔ اور قرآن و حدیث کے متعدد دلائل سے ثابت کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یقینی طور پر فوت ہو چکے ہیں۔
مولوی محمد اسحاق صاحب کے ہمراہ ایک دوسرے عالم مولوی غلام مرتضیٰ صاحب بھیروی بھی آئے تھے جنہوں نے ایک مسئلہ کی تحقیق میں استہزاء شروع کر دیا۔ اس پر مولوی محمد عبداللہ صاحب پروفیسر مہندر کالج پٹیالہ نے ( جو اس وقت احمدی نہیں تھے) کہا ۔ مولوی صاحب آپ نے تہذیب سے کام نہیں لیا۔ آپ کی مولویا نہ شان سے بعید ہے کہ ایسی سوقیانہ باتیں کریں۔ بعد میں حضرت اقدسؑ نے مولوی عبداللہ صاحب سنوری سے دریافت فرمای کہ یہ کون صاحب تھے جنہوں نے مولوی غلام مرتضیٰ صاحب کو ڈانٹا۔ ان سے ایمان کی خوشبو آتی ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہو ااور پروفیسر محمد عبداللہ صاحب اپنے خاندان سمیت بیعت میں داخل ہوگئے (۴۷)
مولوی محمد اسحاق صاحب پر اتمام حجت:۔
مولوی محمد اسحاق صاحب اور ان کے رفقاء نے حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لئے مشہور کر دیا کہ انہوں نے اس گفتگو میں فتح پائی ۔ حضرت اقدسؑ نے پٹیالہ کے عوام کو اس گمراہ کن پراپیگنڈہ سے بچانے کی غرض سے ۳۱۔ اکتوبر کو ایک اشتہار میں اصل واقعات لکھ دئیے اور مولوی محمد اسحاق صاحب کو تحریری مباحثہ کا کھلا چیلنج دیا۔ مگر انہیں میدان مقابلہ میں آنے کی جرات نہ ہو سکی ۔ (۴۸)
حضرت اقدس علیہ السلام پٹیالہ میں مختصر قیام کے بعد واپس قادیان تشریف لے آئے۔








ماموریت کا گیارھواں سال
سفر لاہور
(۱۸۹۲ء)
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جنوری ۱۸۹۲ء کے تیسرے ہفتہ میں لاہور والوں پر اتمام حجت کے لئے سفر لاہو راختیار فرمایا۔ حضورؑ لاہور اسٹیشن سے قیامگاہ تک یکے میں سوار ہو کر پہنچے ۔ ابتداًء حضور نے منشی میراں بخش صاحب میونسپل کمشنر لاہور کی کوٹھی واقع چونا منڈی میں قیام فرمایا:لیکن جب وہ جگہ کافی نہ رہی تو آپ محبوب رایوں کے مکان واقع ہیرا منڈی میں تشریف لے گئے۔
ایک فاتر العقل شخص کا حملہ:۔
حضرت اقدسؑ قیام لاہو رکے دوران میں مسجد مولوی رحیم اللہ صاحب میں جو (لنگے منڈی میں میاں چراغ الدین صاحب کے مکانات کے سامنے تھی) نمازیں ادا فرماتے تھے ایک روز حضور ظہر یا عصر کی نماز پڑھ کر سیدھا مٹھا بازار کی طرف تشریف لے جا رہے تھے جہاں حضور محبوب رایوں کے مکان میں مقیم تھے۔ حضور کے پیچھے خدام دس گز کے فاصلے پر تھے۔ کہ ایک شخص اچانک آکر لپٹ گیا اور شور مچانے لگا کہ مہدی تو میں ہوں تم نے کیوں دعویٰ کیاہے ؟ وہ نہ تو آپ کو اٹھا سکا نہ گراسکا۔ حضرت اقدسؑ کے بعض خدام نے اسے پکڑ کر الگ کر دیا۔ وہ اسے مارنا چاہتے تھے مگر حضور نے مسکراکے ارشاد فرمایا کہ اسے کچھ نہ کہوجانے دو ۔ معذور ہے وہ تو یہ سمجھتا ہے کہ اس کا عہد ہ میں نے سنبھال لیاہے ۔
حضرت اقدسؑ کی طرف سے صبرکا ایک بے نظیر نمونہ :۔
حضرت اقدسؑ جہاں ٹھہرے تھے وہاں لاہور کے مسلمان ہندو مرد عورت ہر مذہب و ملت کے لوگ بڑی کثرت سے آتے مختلف سوال کرتے تھے ۔ حضرت اقدسؑ ان کے شافی جوابات دیتے اور وہ بادب سنتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت اقدسؑ مجلس میں تشریف فرماتھے اور منشی شمس الدین صاحب جنرل سیکرٹری حضورؑ کے ارشاد سے رسالہ’’ آسمانی فیصلہ ‘‘ سنا رہے تھے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب (۱) گولڑوی کے کسی بدزبان مرید نے حضور گو نہایت گندی گالیاں دینا شروع کر دیں۔ حضورؑ خاموش سر جھکائے اور ریش مبارک پر ہاتھ رکھے سنتے رہے۔ جب وہ خاموش ہوگیا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ۔ کہ کچھ اور بھی کہنا ہے تو کہہ ڈالو اس پر وہ بہت نادم ہو کر معافی کا خواستگار ہوا۔ جب وہ چلا گیا تو حاضرین میں سے ایک تعلیم یافتہ برہموسماجی لیڈر نے کہا کہ حضرت مسیح ( علیہ السلام ) کے تحمل کے متعلق تو بہت کچھ پڑھا تھا مگر جو نمونہ آج دیکھنے میں آیا ہے یہ یقینا آپ کا بہت بڑا اخلاقی معجزہ ہے ۔
لاہور کے ’’ پیسہ‘‘ اخبار( ۲۲۔ فروری ۱۸۹۲ء ) نے لکھا:۔
’’جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی لاہور میں۔
مرزا صاحب دو ہفتے سے لاہور میں تشریف رکھتے تھے ۔ لاہور کی خاص و عام طبائع کو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے کہ کسی وجہ سے سیالکوٹ کو چلے گئے ہیں۔ ہر شخص گھر میں ہر دکان بازار میں ۔ دفتر میں مرزا صاحب اور ان کے دعویٰ مماثلت مسیح کا ذکر کرتاہے ۔ آج تک اخبارات نے کالم کے کالم اور ورقوں کے ورقے مرزا صاحب کے حالات اور عقائد کی تردید یا تائید میں لکھ ڈالے ہیں۔ مگر ہم نے عمداً اس بحث کو نہیں چھیڑا۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے پیسہ اخبار کو ئی مذہبی اخبار نہیں ۔ مگر اب چونکہ معاملہ عام انٹرسٹ کا ہوگیا ہے ۔ اور کئی صاحبوں نے پیسہ اخبار کی رائے مرزا صاحب کے عقائد اور عام حالات کی نسبت دریافت کی ہے ۔ اس لئے ہم مختصر طور پر ایک دو باتیں ظاہر کرتے ہیں۔ مرزا صاحب کے حق میں جو کفر کا فتویٰ دیا گیا ہے ہم کو اس سے سخت افسوس ہوا ہے ۔ کوئی مسلمان زنا کرے چوری کرے ۔ الحاد کا قائل ہو۔ شراب پئے اور کوئی کبیرہ گناہ کرے کبھی علمائے اسلام اس کی تکفیر پر آمادہ نہیں سنے گئے۔ مگر ایک باخدا مولوی جو قال اللہ اور قال الرسول کی تابعداری کرتاہے بعض جزوی اختلافات کی وجہ سے کافر گردانا جاتا ہے ۔
گر مسلمانی ہمیں است کہ واعظ و ارد
وائے گر ازپس امروز بود فردائے
ہم یہ نہیں کہتے کہ ہر شخص مرزا صاحب کی ہر ایک بات کو تسلیم کر لے۔ لیکن یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے مولوی صاحبان اپنی اس لیاقت اور ہمت کو غیر مسلموں کے مقابلے میں صرف کریں جو اب مرزا صاحب کے مقابلے میں صرف ہو رہی ہے۔
؎ ہر کس ازدست غیر نالہ کند
سعدی از دست خویشتن فریاد
اہل اسلام مطمئن رہیں کہ مرزا صاحب اسلام کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ اور یہ بات ہمارے عقیدے کے مطابق ان کے اختیار سے بھی باہر ہے ۔ اگر اہل ہنود خصوصاً آریہ لوگ اور عیسائی لوگ مرزا صاحب کی مخالفت میں زور و شور سے کھڑے ہو جاتے تو ایسا بے جا نہیں تھا۔ مرزا صاحب کی تمام کوششیں آریہ اور عیسائیوں کی مخالفت میں اور مسلمانوں کی تائید میں صرف ہوئی ہیں۔ جیسا کہ ان کی مشہور تصنیفات ، براہین احمدیہ ، سرمہ چشم آریہ اور بعد کے رسائل سے واضح ہیں۔ ‘‘
جلسہ عام میں حضرت اقدسؑ کی تقریر :۔
۳۱۔ جنوری ۱۸۹۲ء کو منشی میراں بخش صاحب کی کوٹھی کے احاطے میں حضورؑ کا ایک عظیم الشان لیکچرہوا خلقت کا اژدحام اس کثرت سے تھا کہ کسی صورت میں بھی حاضرین کی تعداد دس ہزار سے کم نہ ہوگی۔ ہر طبقہ کے لوگ موجو دتھے۔ کوٹھی کے صحن کے علاوہ آس پاس کے مکانوں کی چھتوں اور گلیوں میں بھی بڑا ہجوم تھا۔ حضرت اقدس نے اپنی تقریر میں اپنے دعاوی سے متعلق زبردست دلائل دیئے۔ اور خصوصیت سے ان آسمانی نشانوں کا تذکرہ فرمایا جو خدا تعالیٰ نے آپ کی نصرت کے لئے بارش کی طرح نازل فرمائے تھے اور بتایا کہ علماء میرے مقابلہ میں دلائل قرآنیہ سے عاجز آکر میرے خلاف کفر کا فتویٰ دیتے ہیں۔ ایک مومن کو کافر کہہ دینا آسان ہے مگر اپنا ایمان ثابت کرنا آسان نہیں۔قرآن کریم نے مومن اور غیر مومن کے لئے کچھ نشان مقرر کر دیئے ہیں۔ میں ان کافر کہنے والوں کو دعوت دیتاہوں کہ اسی لاہور میں میرے اور اپنے ایمان کا قرآن مجید کے مطابق فیصلہ کرالیں۔
حضرت اقدسؑ تقریر فر ما چکے تو حضرت مولانا نور الدین سے ارشاد فرمایا کہ آپ بھی تقریر کر یں ۔ یہ کہ کر حضور انور تو اندر تشریف لے گئے اور حضرت حکیم الامت نے ایک دل ہلا دینے والی تقریر فرمائی۔
حضرت حکیم الامت کا یہ خطاب گو مختصر تھا مگر جب آپ نے کلمہ شہادت پڑھ کر کہا۔ کہ کیا میں اس عمر میں بھی جھوٹ بولنے کی آرزو کر سکتاہوں ؟ تو یہ الفاظ تیر بن کر دلوں کے پار ہوگئے کوئی آنکھ نہ تھی جو اشکبار نہ ہوئی ہو۔ ہر طرف آہ و بکا کا شور بلند ہوگیا۔ تقریر کے بعد چند ہندو معززین آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ایک دفعہ وہی کلمہ پھر پڑھتے تو ہم پورے مسلمان ہو جاتے لیکن آدھے مسلمان تو ہوگئے۔ آپ کے مخالفوں نے اس موقعے پر لوگوں کو جلسہ میں شامل ہونے سے بڑی سختی سے منع کیا۔ اس وقت بازار میں اتنا بڑا انبوہ ہوگیا کہ آمدورفت رک گئی ۔ مگر خدا تعالیٰ کے مسیح کی آواز منہ کی پھونکوں سے بند کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔
مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے مباحثہ :۔
قیام لاہو رکا ایک اہم ترین واقعہ مباحثہ مولوی عبدالحکیم کلانوری ہے مولوی عبدالحکم صاحب کلانور ضلع گورداسپور کے باشندے تھے اور الور میں رہتے تھے ۔ انہوں نے حضرت اقدسؑ سے ’’توضیح مرام ‘‘ کی اس عبارت پر کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتاہے چند روز تک تحریری مباحثہ کیا۔ جو ۳۔ فروری تک جاری رہا۔ ابتداء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ۔ کہ میرے دعویٰ کی بنیاد اس امر پر ہے کہ مسیح ابن مریم ؑ نبی ناصری فوت ہو چکے ہیں اور جس مسیح کے آنے کا وعدہ ہے وہ میں ہوں۔ اگر مسیح علیہ السلام کا زندہ آسمان پر جانا ثابت ہو جائے تو میرا دعویٰ خود بخود غلط ہو جائے گا۔ مگر مولوی عبدالحکم صاحب نے اس راہ سے ہٹ کر ایک دوسرا طریق اختیار کیا۔ یعنی کہا کہ میں اس بحث کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ پہلے آپ کا مسلمان ہونا تو ثابت ہو۔ آپ نے نبوت کا دعویٰ کرکے اسلام سے خروج کیا ہے ۔ اور مسیح ابن مریم کے نزول کا عقیدہ اسلام کے خلاف نہیں ہواسی امت میں ہوگا۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا ۔مجھ پر دعویٰ نبوت کا الزام سراسر افتراہے۔ حضرت اقدس نے یہ بھی فرمایا کہ میرے مسلمان اور مومن ہونے کا ثبوت ان معیاروں سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں اور جن کو میں نے رسالہ ’’ آسمانی فیصلہ‘‘ میں لکھا ہے ۔ مگر مولوی عبدالحکیم صاحب اپنی بات پر اڑ گئے۔ جس پر تحریر ی مباحثہ شروع ہوا۔ حضورؑ نے اپنے جواب میں یہ بنیادی نکتہ پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ سے مکالمات و مخاطبات کا سلسلہ امت محمدیہ میں قیامت تک جاری ہے اس دعوے کے ثبوت میں حضور نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث لکھی ’’ لَقَدْ کَانَ فِیْ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ رِجَالٌ یُکَلَّمُوْنَ مِنْ غَیْرِاَنْ یَکُوْنُوْ ا اَنْبِیَائَ فَاِنْ یَکُنْ فِیْ اُمَّتِیْ مِنْھُمْ اَحَدٌ فَعُمَرً(۲)
جونہی یہ حدیث پڑھی گئی مولوی احمد علی صاحب نے جو مولوی عبدالحکیم صاحب کے کاتب کے فرائض انجام دے رہے تھے شور مچانا شروع کر دیا کہ بخاری شریف سے یہ حدیث نکال کر پیش کریں۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا مضمون ختم ہونے دیں۔ میں حدیث نکال کر پیش کردوں کا مگر وہ بار بار بخاری حضرت اقدسؑ کی طرف پیش کرتے کہ لیجئے اور نکالئے۔ غرض کہ ان کا مطالبہ بڑی شدت اختیار کر گیا۔ مولانا سید محمد احسن صاحب ایسے محدث نے حوالہ کی تلاش میں بخاری کی پوری باریک نظری سے ورق گردانی کی مگر حوالہ نہ مل سکا۔ اور فریق مخالف کے حوصلے اور بھی بڑھ گئے تب حضرت اقدسؑ نے خود بخاری لے کر چند ورق الٹے اور آخر حوالہ معجزانہ رنگ میں مل گیا اور اسی پر مباحثہ ختم ہوگیا ۔ مباحثے کے اختتام پر حضرت اقدسؑ کا ایک تحریری بیان جس پر آٹھ افراد کے دستخط تھے پڑھ کر سنایا گیا۔ اس مباحثے کے اصل پرچے مولوی عبدالحکیم صاحب ساتھ لے کر چلے گئے تھے اور مطالبے کے باوجود انہوںنے آخر دم تک واپس نہیں کئے۔ مولوی صاحب ایک دفعہ مباحثہ کے بعد قادیان بھی آئے تھے۔ حضورؑ کو اطلاع ہوئی تو وہ نواب صاحب کے مکان میں ٹھہرائے گئے اور حضورؑ نے ان کی خاطر تواضع کے لئے حکم دیا۔ اس موقعہ پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب (۳) نے ان سے بڑے اصرار کے ساتھ کہا کہ آپ کے پاس مباحثے کے پرچے ہیں مہربانی کرکے مجھے دیدیں آپ کے کام کے نہیں اور اگر اپنے پرچے نہ بھی دیں تو حر ج نہیں مگر حضرت اقدسؑ کے پرچے ضرور دے دیں انہوں نے اس وقت وعدہ کیا کہ جاتے ہی بھیج دوں گا۔ مگر ا کے ایفا کی ان کو توفیق نہ مل سکی۔
تقدیر کے مسئلہ پر تقریر:۔
انہی دنوں ایک برہمو سماج کا سیکرٹری جو ایم ۔ اے تھا حاضر خدمت ہوا۔ اور اس نے ذکر کیا کہ تقدیر کا مسئلہ میں نے اپنی تحقیق کی بناء پر اس طرح حل کیا ہے کہ میرے خیال میں شاید اس سے بہتر کوئی اور تسلی بخش بیان نہ کرسکے ۔ آپ نے یہ سن کر مسئلہ تقدیر پر تقریر شروع فرمادی۔ وہ شخص حیران ہوگیا اور اس نے کھڑے ہوکر کہا کہ میری معلومات اس بارے میں ہیچ ہیں اور آپ سے بہتر دنیا میں کوئی اور شخص مسئلہ تقدیر کو نہیں سمجھتا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ آپ میں ہر میشر کی شکتی ہے انسان سے آدمی گفتگو کرسکتا ہے مگر جو پر میشر کاروپ رکھتا ہو۔ اس کے آگے کیا پیش جاسکتی ہے پھر وہ نہایت ادب سے ہاتھ باندھ کر سلام کر کے الٹے پائوں یہ کہتا ہو اچلا گیا۔ کہ بڑی قوت ہے بڑی قوت ہے۔ اس کے جانے کے بعد نواب فتح علی خاں صاحب (۴) قزلباش کہنے لگے کہ آپ اسلام کی روح بیان فرماتے ہیں وہ لوگ بڑ ے ظالم ہیں جو آپ کی مخالفت کرتے ہیں۔ ظالم کا لفظ سن کر آپ نے بڑے جوش میں ایک زبردست تقریر فرمائی۔ نواب صاحب اس تقریر سے بڑے متاثر ہوئے اور پھر اجازت لے کر السلام علیکم کہہ کر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد حضورؑ نے فرمایا کہ ہمارے نواب صاحب سے پرانے تعلقات ہیں ۔ انہیں ایسی مجالس میں شریک ہونے کا کہاں موقعہ ملتا ہے۔ اتفاقیہ آگئے میں نے ضروری سمجھا کہ انہیں نصائح آمیز تبلیغ کردوں۔ تا اگر غور کریں تو ہدایت یاب ہوں۔(۵)
سفر سیالکوٹ
جماعت احمدیہ سیالکوٹ کی دلی خواہش تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں دوبارہ رونق افروز ہوں اور انہیں زیارت سے فیضیاب فرمائیں۔ چنانچہ اب جو حضورؑ لاہور تشریف لائے۔ تو مولانا عبدالکریم صاحب نے احباب سیالکوٹ کی طرف سے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں سیالکوٹ آنے کی دعوت پیش کی ۔ چنانچہ اس دعوت کو آپ نے شرف قبولیت بخشا اور فروری ۱۸۹۲ء کے دوسرے ہفتہ میں سیالکوٹ تشریف لے گئے اور حکیم حسام الدین صاحب کے مکان میں فروکش ہوئے۔
زائرین کا ہجوم اور پاک مجلس
حضرت اقدسؑ کے تشریف لانے کی خبر سن کر سیالکوٹ اور اس کے نواح سے زائرین کا ایک ہجوم امڈ آیا اور لوگ ذوق وشوق سے حضورؑ کا چہرہ مبارک دیکھنے اور پاک مجلس سے فائدہ اٹھانے کے لئے آنے لگے ۔ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کا بیان ہے کہ ’’میں مع ایک دوست کے تیسرے پہر آپ کو دیکھنے کے لئے شہر گیا۔ اس وقت حکیم حسام الدین صاحب کے کوچہ میں لوگوں کا بے حد اژدہام تھا۔ ہم دونوں نوجوان لڑکے تھے گھستے پھستے آخر اس قطار تک پہنچ گئے جو عین دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔ حضرت اقدسؑ ایک دورازے سے نکلے اور کوچہ عبور کر کے دوسرے مکان کے دروازہ میں چلے گئے۔ مجھے یہ معلوم ہوا کہ ایک نور کا جھمکڑا نظروں کے سامنے آکر یکایک گم ہوگیا۔ میں اپنے تخیل میں کسی بزرگ کی مقدس شکل کا جو بہتر سے بہتر تصور قائم کیا کرتا تھا یہ ویسا ہی بلکہ ا س سے بھی کچھ زیادہ تھا۔ میرے دل پر اتنا اثر ہوا کہ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ یہ نورانی شکل جھوٹے کی نہیں ہوسکتی۔ یہ شخص سچا ہے۔ اس کے بعد ہم حکیم حسام الدین والی مسجد کے اندر گئے اور حضرت اقدسؑ نے عصر کی نماز پڑھائی اور ہم نے بھی آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ نماز کے بعد آپ مسجد کے درمیانی در میں جنوبی ستون کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئے اور مسجد کا اندر اور صحن سب لوگوں سے بھرا ہوا تھا صحن کے سامنے کی طرف ایک شہ نشین تھا اس پر میں اور مولوی عبدالکریم صاحب بیٹھے ہوئے تھے میری نظریں حضرت اقدسؑ کے چہرہ پر جمی ہوئی تھیں۔ اتنے میں مولوی عبدالکریم صاحب بولے کہ دیکھو چہرہ پر کس قدر نور برس رہا ہے میں نے کہا واقع اس قدر نورانی چہرہ میں نے کبھی نہیں دیکھا لوگ مختلف مذہبی سوالات کرتے تھے جن کے آپ ایسے معقول جواب دیتے تھے کہ نہ صرف دل کو لگتے تھے بلکہ مجھے نہایت تعجب ہوتا تھا کہ مذہبی لوگوں سے ایسی معقول باتیں میں نے کبھی نہیں سنی تھیں۔ کسی شخص نے ایک مرگی زردہ کی شفا کے لئے دعا بھی کروائی۔ چنانچہ آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ اتنے میں مولوی عبدالکریم صاحب نے نزدیک ہو کر دریافت کیا کہ حضرت عرش کیا ہے؟آپ نے فرمایا اس سے مراد سلطنت اور نفاذ امر بھی ہیں لیکن حال اور صاحب باطن لوگوں کی نظر میں یہ وہ مقام ہے جہاں مادی اور روحانی ہر طرح کی مخلوق کی حد ختم ہو جاتی ہے اور صرف ذات باری تعالیٰ ہی جلوہ گر ہوتی ہے۔ غرض کہ آپ نے عرش پر ایسی لطیف تقریرفرمائی کہ سننے والوں کو وجد آگیا۔ شام ہوگئی۔ نماز مغرب کے بعد میں مع اپنے دوست کے واپس چلا آیا۔ ہم دونوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ یہ شخص صادق ہے۔ دوسرے دن ہم دونوں آدمی پھر نماز ظہر کے وقت گئے حضرت اقدسؑ نے نماز ظہرکے بعد ایک تقریر کی جس میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر فرمائی جو ایسی لطیف اور پراز معارف تھی کہ ہم دونوں عش عش کر گئے اس سے قبل یہ حقائق ومعارف کہاں سنے تھے بہت عالموں کے وعظ سنے تھے مگر یہاں بات ہی کچھ اور تھی۔ ان دنوں آریہ سماج کا بڑا زور تھا اس تقریر کے دوران میں ہمارے لئے ایک نئی بات یہ بھی ہوئی کہ حضرت صاحب نے آریہ سماج کے ایسے پرخچے اڑائے کہ آریہ سماج کا جتنا رعب ہمارے جیسے نو عمر طالب علمو ں پر تھا وہ سب ہباء منشور اً ہوگیا اور اسلام کی عظمت اور شوکت آنکھوں کے سامنے ہویداہوگئی۔ تقریر کے بعد چند جٹ زمیندار حضرت اقدسؑ کے گرد جمع ہو کر زور زور سے باتیں کرنے لگے۔ جنہیں بھیڑ کی وجہ سے میں نہ سمجھ سکا۔(۶)
ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور ان کے والد اور برادر اکبر کی عقیدت وبیعت سے متعلق ایک ضمنی نوٹ :۔
یہاں ضمناً یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ کہ (شاعر مشرق) ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب (۱۸۷۳ء ۱۹۳۸ ) کے والد بزرگوار شیخ نور محمد صاحب (متوفی ۱۹۲۹ء) نے مولانا عبدالکریم صاحب اور سید حامد شاہ صاحب کی تحریک پر ۹۲۔ ۱۸۹۱ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی۔ (۷) اور ان کے دونوں فرزند شیخ عطا محمد صاحب اور ڈاکٹر محمد اقبال صاحب بھی اپنے آپ کو جماعت میں شمار کرتے تھے۔ اور حضرت اقدسؑ سے ارادت مندانہ تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ہی کا بیان ہے کہ ’’سفر سیالکوٹ کے موقعہ پر ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب جو مسجد کی ڈیوڑھی کی چھت پر چڑھے بیٹھے تھے مجھے دیکھ کر کہنے لگے دیکھو شمع پر کس طرح پروانے گر رہے ہیں۔‘‘ (۸) یہ اسی عقیدت کا نتیجہ تھا کہ دو ایک سال بعد جب سعداللہ لدھیانوی نے حضرت اقدسؑ کی ذات پر نہایت گندے اور لغو اعتراضات کئے تو ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب جو ان دنوں سکاچ مشن سکول سیالکوٹ میں ایف اے کے طالب علم تھے حضرت اقدسؑ پر سوقیانہ حملے برداشت نہ کرسکے اور انہوں نے اس کے جواب میں ایک نظم لکھی جس میں حضور ؑ کو ’’آفتاب صدق‘‘ تسلیم کیا۔ (۹)
چند سال بعد شیخ نور محمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بذریعہ خط درخواست کی کہ سیالکوٹ کی جماعت چونکہ نوجوانوں کی جماعت ہے اور میں بوڑھا آدمی ان کے ساتھ چل نہیں سکتا۔ (۱۰) لہٰذا آپ میرا نام اس جماعت سے الگ رکھیں تاہم ان کے فرزند شیخ عطا محمد صاحب عمر بھر نہایت اخلاص کے ساتھ احمدیت سے وابستہ رہے۔ (۱۱) شیخ عطا محمد صاحب کے بیٹے شیخ اعجاز احمد صاحب خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور نہایت مخلص احمدی ہیں (کتاب کے اس جدید ایڈیشن کے دوران آپ انتقال فرماگئے۔ تاریخ وفات ۲۔ جنوری ۱۹۹۴ء) مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری کے بیان کے مطابق خود ڈاکٹر سرمحمد اقبال صاحب نے بھی پانچ سال بعد ۱۸۹۷ء (۱۲) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرلی تھی۔ اور حضرت اقدس کی زندگی میں اپنے بعض انگریزی مضامین میں حضورؑ کے متعلق صاف صاف لکھاکہ آپ جدید ہندی مسلمانوں میں سب سے بڑے دینی مفکر ہیں۔ (۱۳) نو سال بعد (۱۹۱۰ء میں ) انہوں نے علی گڑھ میں ایک تقریر میں کہا کہ’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں۔ ‘‘ (۱۴۔۱۵) ان کے بعض سوانح نگاروں کے بیان کردہ حالات سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ ۱۹۱۳ء تک وہ جماعت قادیان سے ربط ضبط رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس زمانہ میں ایک نجی مسئلے میں فتویٰ حاصل کرنے کے لئے اپنے ایک گہرے دوست کو حضرت خلیفۃ المسیح اول کی خدمت میں قادیان بھیجا تھا۔ (۱۶) لیکن اس کے بعد جیسا کہ ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے وہ سلسلہ قادریہ سے منسلک ہوگئے تھے۔ (۱۷) اور عمر کے آخر میں جمال الدین صاحب افغانی کو مجدد سمجھنے لگے تھے۔ بایں ہمہ وہ ۱۹۳۲ء تک جماعت احمدیہ کے اشاعت اسلام کے دینی جو ش وخروش کے بہر نوع مدح رہے۔ چنانچہ انہوںنے ۷۔ اپریل ۱۹۳۲ء کو اپنے ایک مکتوب میں لکھا۔ کہ ’’ اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے کئی طریق ہیں۔ میرے عقیدہ ناقص میں جو طریق مرزا صاحب نے اختیار کیا ہے وہ زمانہ حال کی طبائع کے لئے موزوں نہیں ہے ہاں اشاعت اسلام کاجوش جو ان کی جماعت کے اکثر افراد میں پایا جاتا ہے قابل قدر ہے ‘‘(۱۸) ان کی وفات سے تین سال قبل (۱۹۳۵ء میں) بعض سیاسی حلقوں میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کا مطالبہ اٹھاتو ڈاکٹر صاحب موصوف نے اس کی تائید میں خالص فلسفیانہ رنگ میں مضامین لکھے اور دراصل فلسفہ ہی وہ موضوع تھا جس کے متعلق خود ان کی رائے تھی کہ ’’میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفہ کے مطالعہ میں گزری ہے اوریہ نقطہ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے۔ دانستہ یا نا دانستہ میں اسی نقطہ خیال سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں‘‘۔ (۱۹)
ڈاکٹر صاحب اور ان کے والد بزرگوار کا ضمنی تذکرہ کرنے کے بعد دوبارہ سفر سیالکوٹ کا ذکر کیاجاتا ہے۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی مخالفانہ کوشش اور ناکامی:۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لائے تومولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی سیالکوٹ پہنچے ۔ اور مختلف مساجد میں حضرت اقدسؑ کے خلاف گمراہ کن وعظ کئے اور عوام کو آپ کے خلاف بھڑکانے کی ہر رنگ کوشش کی مگر جن آنکھوں نے اس نورانی چہرہ کو اٹھائیس برس قبل دیکھا تھا وہ بھلا ان کی باتوں سے کیونکر دھوکا کھا سکتی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس مخالفت میں انہیں سخت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اور لوگ ذوق وشوق کے ساتھ آپ کی بیعت میں شامل ہوئے۔
سفر کپور تھلہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں دعوت وتبلیغ کا فریضہ ادا کرنے کے بعد کپور تھلہ تشریف لے گئے جہاں حضور نے دو ہفتہ قیام فرمایا اور میاں سردار علی صاحب کے مکان میں فرو کش ہوئے یہ حضور کا کپور تھلہ کی طرف تیسرا اور آخری سفر تھا۔
حضورؑ نے کپور تھلہ کاپہلا سفر منشی محمد اروڑا صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب کی درخواست پر زمانہ بیعت کے قریب اختیار فرمایا تھا اس وقت کپور تھلے تک ریل نہیں تھی۔ حضور یکے سے اتر کر کپور تھلے کی مسجد فتح والی میں تشریف لے گئے۔ حافظ حامد علی صاحب ساتھ تھے۔ مسجد سے حضور نے خادم مسجد کو بھیجا کہ منشی اروڑا صاحب یا منشی ظفر احمد صاحب کو ہمارے آنے کی اطلاع کردو۔ منشی ظفر احمد صاحب اور منشی محمد اروڑا صاحب کچہری میں تھے۔ خادم مسجد نے انہیں اطلاع دے دی کہ مرزا صاحب مسجد میں ہیں اور انہوں نے مجھے اطلاع دینے کے لئے بھیجا ہے۔ منشی محمد اروڑا صاحب نے بڑی حیرت سے اسے پنجابی میں کہا۔ ’’دیکھ تاں تیری مسیت وچ آکے مرزا صاحب نے ٹھہر ناسی۔‘‘ یعنی کیا تمہاری مسجد میں ہی آکر مرزا صاحب نے ٹھہرنا تھا۔ منشی ظفر احمد صاحب نے کہا چل کر دیکھنا تو چاہیئے ۔ پھر منشی صاحب جلد ی سے پگڑی باندھ کر ان کے ساتھ چل پڑے۔ مسجد میں جاکر دیکھا کہ حضور فرش پر لیٹے تھے اور حافظ حامد علی صاحب پائوں دبار ہے تھے۔ منشی محمد اروڑا خان صاحب نے عرض کیا کہ حضور تشریف لانا تھا تو ہمیں اطالع فرماتے ہم کرتا رپور اسٹیشن پر حاضر ہوتے۔ حضورؑ نے جواب دیا اطلاع دینے کی کیا ضرورت تھی ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔ وہ پورا کرنا تھا۔
بہرحال حضرت اقدسؑ کپور تھلہ کے محلہ قائم پورہ کے اس مکان میں جہاں بعد میں پرانا ڈاک خانہ رہا ہے فروکش ہوئے۔ وہاں بہت سے لوگ حضورؑ کے پاس جمع ہوگئے جن میں کرنیل محمد علی خاں صاحب اور مولوی غلام محمد صاحب بھی تھے کرنیل صاحب نے ایک سوال پیش کیا جس کے جواب میں حضورؑ نے تصوف کے رنگ میں ایک تقریر فرمائی جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے ۔ مولوی غلام محمد صاحب جو کپور تھلہ کے علماء میں سے تھے آبدیدہ ہوگئے اور انہوں نے ہاتھ بڑھایا کہ میری بیعت لے لیں۔ مگر حضورؑ نے بیعت لینے سے انکار کردیا۔ وہاں صرف ایک ہی دن قیام فرمایا اورقادیان تشریف لے آئے۔
حضرت اقدس نے دوسرا سفر زمانہ بیعت کے بعداختیار فرمایا آپ اس وقت علی گوہر صاحب افسر ڈاک خانہ کے ہاں ٹھہرے تھے۔اور تین دن قیام فرمایا تھا۔ اور تیسرا اب اختیار فرمایا۔ جو دعویٰ مسیحیت کے بعد تھا۔ آپؑ اس کے بعد کپور تھلہ تشریف نہیں لے گئے (۲۰)
سفر جالندھر:۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کپور تھلہ سے واپسی پر کرتارپور تک بگھی میں سفر کیا اور جالندھر تشریف لے گئے اس سفر میں کپور تھلہ کے مخلص خدام مثلاً منشی عبدالرحمن صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب حضورؑ کے ہمرکاب تھے۔
بعض لوگوں نے جالندھر کے انگریزسپرنٹنڈنٹ پولیس سے شکایت کی کہ ایک شخص قادیان سے آیا ہواہے اور کہتا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں۔ اس کے قیام سے یہاں فساد کا اندیشہ ہے اسے حکم دیا جائے کہ وہ یہاں سے چلا جائے۔ چنانچہ اسی شکایت کی بناء پر یہ انگریز افسر صبح سویرے ہی حضور کی قیام گاہ پر پہنچا۔ بہت سے مخلصین جمع تھے۔ حضور نے اس کے واسطے کرسی منگوائی اور دوسری کرسی پر خود تشریف فرما ہوئے ۔ اس نے پوچھا آپ یہاں کیسے آئے ہیں۔ حضور علیہ السلام نے ایک لمبی تقریر فرمائی جس سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے کہا جب تک آپ کی مرضی ہو یہاں قیام فرمائیں اور یہ کہہ کر اور سلام کر کے وہ واپس چلا گیا اس کے بعد اس کا یہ معمول ہوگیا کہ جب حضور سیر کو تشریف لے جاتے اور وہ راستے میں گھوڑے پر سوار مل جاتا تو وہ ٹوپی اتار کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتا (۲۱)
سفر لدھیانہ:۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جالندھر میں قریباً ایک ماہ قیام فرما کر لدھیانہ تشریف لے گئے۔ حضورؑ نے ’’ازالہ اوہام‘‘ میں مخالفین کو نشان نمائی کے مقابلہ کی دعوت دے رکھی تھی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ ( جلد ۱۴ نمبر ۲ صفحہ ۵۱۔ ۵۲ ) میں ایک فرضی صوفی کی طرف سے یہ مضحکہ خیز اعلان شائع کیا کہ اگر مرزا کو درگاہ الٰہی میں اپنے مقبول ہونے اور دیگر علماء کے مردود ہونے کا زعم ہو وہ کرامت دکھائے۔ کرامت ایسی ہونی چاہیے کہ اس کے جزئی وکلی حالات پوری تشریح سے شائع ہوں اورہر خاص وعام اسی تشریح کے مطابق ان کا پورا ہونا اچھی طرح دیکھ لے ۔یہ کرامت دس ہفتہ میں دکھلائی جائے اور اگر اس میعاد میں مرزا ایسی کرامت دکھانے سے عاجز آجائے تو اس کے اقرار عجز کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ میں وہی کرامت اورآسمانی نشان جو مرزا طلب کرے گا اس کو پانچ ہفتہ کے اندر دکھادوں گا حضرت اقدس جب جالندھر سے لدھیانہ آئے تو میر عباس علی صاحب نے اسی فرضی صوفی کی وکالت میں حضور کو لکھا کہ ان سے مقابلہ کریں ۔حضورؑ پرنور نے بذریعہ اشتہار جواب دیا۔ کہ اگریہ پردہ نشین صوفی درحقیقت موجود ہے تو اسے اپنا نام شائع کرنا چاہیے۔ اوراگراس کے پاس حق ہے تو حق لے کر میدان میں آجائے مجھے جب کوئی معین شخص سامنے نظر نہیں آتاتو میں کس سے مقابلہ کروں؟ حضور کے اس مطالبے پر نہ میر عباس علی صاحب لدھیانوی کچھ بولے اور نہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی!!
حضور مئی کے تیسرے ہفتے میں واپس قادیان آگئے اور اس طرح آپ کے دعویٰ مسیحیت کے سلسلہ میں ابتدائی سفر بخیروخوبی ختم ہوئے اورآپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی ۔
’’نشان آسمانی‘‘ کی تصنیف واشاعت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سفر جالندھر کے بعد لدھیانہ میں مقیم تھے تو حضور نے ’’نشان آسمانی‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف فرمائی جس کا دوسرا نام ’’شہادت الملمین‘‘ بھی ہے اس کتاب میں حضرت اقدسؑ نے آنحضرتﷺ کے علاوہ نعمت اللہ صاحب ولی اورجمال پور ضلع لدھیانہ کے ایک درویش بزرگ مجذوب گلاب شاہ صاحبؒ کی اہم پیش گوئیوں کا شرح وبسط سے ذکر فرمایا ۔ جو انہوںنے سالہا سال قبل مسیح ومہدی کے متعلق کررکھی تھیں اور جو آپ کی آمد سے روز روشن کی طرح پوری ہوئیں۔’’نشان آسمانی‘‘ میں حضرت اقدسؑ نے اپنے دعویٰ کی صحت معلوم کرنے کے لئے قوم کے سامنے ایک آسان تجویز یہ بھی رکھی کہ وہ آپ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق دوہفتہ تک خدا تعالیٰ سے استخارہ کریں۔
مکفر علماء کو مباہلہ کی پہلی دعوت:۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس وقت تک علماء کو اپنے دعویٰ کی سچائی کے لئے قرآن وحدیث کے علاوہ آسمانی نشان کی طرف توجہ دلارہے تھے لیکن اب جب کہ آپ تبلیغ حق کا ایک ابتدائی مرحلہ طے کرچکے تھے آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ ان تمام علماء کو جو آ پ کو محض جزئی اختلاف یا اپنی کج فہمی کے باعث ابھی تک کافر کہے جاتے ہیں مباہلہ کا چیلنج دیں۔ چنانچہ حضرت اقدسؑ نے ۱۰؍دسمبر ۱۸۹۲ء؁ کو علماء وقت کو مباہلہ کی پہلی دعوت عام دی۔ اورمباہلہ کے لئے چار ماہ کی مہلت دی ۔اس دعوت میں آپ کے اولین مخاطب شیخ الکل مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی اور ان کے انکار کی صورت میں شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی تھے۔
مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی پر اتمام حجت:۔
یہ دعوت حضورؑ نے فرداً فرداً تمام مکفر وعلماء کو بھیجی ۔مگران میں سے کسی کومرد میدان بننے کی جرات نہ ہوئی۔ صرف مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے آمادگی کا اظہار کیا مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے بعض علماء کو شریک مباہلہ کرنے کی درپردہ بڑی جدوجہد کی مگر غزنوی خاندان کے اکابر خود بھی گریز کر گئے اوران کو بھی منع کیا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ان کی آمادگی کو غنیمت سمجھتے ہوئے ۱۰؍ذی قعدہ ۱۳۱۰ھ مطابق ۲۷؍ مئی ۱۸۹۳ء؁ کا دن مباہلہ کے لئے تجویز فرمایا۔ اور امرتسر کی عیدگاہ متصل مسجد خان بہادر حاجی محمد شاہ مقام مباہلہ مقررکیا۔ نیز مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی پر اتمام حجت کے لئے اشتہار شائع کیا کہ وہ اس تاریخ کو اگر شامل مباہلہ نہ ہوئے تو سمجھا جائے گا کہ انہوںنے اپنے فتویٰ تکفیر سے رجوع کرلیا ہے۔ اس اشتہار پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے مجبوراً چند شرائط پر مباہلہ کرنا منظور کرلیا۔ اور حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بذریعہ خط وہ الفاظ بھی بجھوادیئے جن میں وہ مباہلہ کرنا چاہتے تھے ۔حضورؑ نے بذریعہ اشتہار امرتسر کے مسلمانوں کو تحریک فرمائی کہ وہ بکثرت میدان مباہلہ میں حاضر ہوں میں یہ دعا کروں گا کہ ’’جس قدر میری تالیفات ہیں ان میں سے کوئی بھی خدا اور رسول کے فرمودہ کے مخالف نہیں ہیں اورنہ میں کافر ہوں اوراگر میری کتابیں خدا اور رسول ﷺ کے فرمودہ سے مخالف اورکفر سے بھری ہوئی ہیں تو خدا تعالیٰ وہ *** اورعذاب میرے پر نازل کرے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی کافر بے ایمان پر نہ کی ہو۔ اورآپ لوگ کہیں آمین‘‘۔
حضرت اقدس میدان مباہلہ میں اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا گریز:۔
حضرت اقدس علیہ السلام اپنے خدام کے ساتھ وقت مقررہ(۲بجے) پرعید گاہ تشریف لے گئے عیدگاہ میں یہ معرکہ حق وباطل دیکھنے کے لئے مسلم اور غیر مسلم کثیر تعداد میں جمع تھے ۔مگر مکفر علماء میں سے خال خال ہی تھے۔ حضرت اقدس ؑ ایک درخت کے نیچے عام انبوہ خلائق کے حلقے میں بیٹھ گئے ۔ کچھ دیر بعد مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی بھی پہنچ گئے اور عیدگاہ کے منبر پر بیٹھ کر گالیوں بھرا ’’وعظ‘‘ کرنے لگے ۔ حالانکہ اپنے خط میں یہ شرط تسلیم کرچکے تھے کہ مباہلے کے سوا کوئی فریق کوئی وعظ کرنے کا مجاز نہ ہوگا۔ عام لوگوں کو ان کی یہ حرکت بہت ناگوار گزری کہ آئے کس غرض سے تھے اورکرتے کیا ہیں۔ آخر کار خواجہ یوسف شاہ صاحب رئیس امرت سر ہجوم میں سے ہوتے ہوئے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ مولوی محمد حسین صاحب کہتے ہیں کہ آپ اس طرح دعا کریں کہ الٰہی میں نے جو اپنی کتابوں میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے ملائکہ سے انکار کیا ہے اگران سب کفریات میں میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر *** بھیج ۔یہ احمقانہ بات سن کر سب لوگ ہنس پڑے اور خود خواجہ صاحب بھی مسکرادیئے ۔حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ آپ ہی سوچئے کہ میں تو اپنے آپ کو امت محمدیہ کا ایک فرد سمجھتا ہوں اورایسی باتوں کا منہ پر لا ناخودکفر جانتا ہوں پھر یہ کیسے کہوں۔ یہ کہہ کر حضرت اقدسؑ نے وہ خط خواجہ صاحب کے ہاتھ میں دے دیا کہ یہ انہی کی تحریر ہے آپ ان کو دکھائیں ۔اورچونکہ وقت گزرتا جاتاہے اس لئے مباہلہ پرآمادہ کریں ۔مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ایک شاگرد شیخ عبدالعزیز صاحب نے جو یہ خط دیکھا تو کہا کہ یہاں تو صاف لکھا ہے کہ مباہلے کے سوا کسی فریق کو وعظ کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ اور وہ خواجہ صاحب اور منشی غلام قادر صاحب فصیح کو ساتھ لے کر مولوی محمد حسین صاحب کے پاس گئے اور انہوںنے اور دیگر معززین نے بہت زور لگایا مگر مولوی صاحب کی تو مباہلہ سے جان جاتی تھی وہ بھلا کیسے تیار ہوتے عوام میں ان کے اس کھلے گریز کے بڑے چرچے ہوئے۔ حضرت اقدس ؑ نے یہ دیکھا تو خود ہی مولوی عبدالحق صاحب کے ساتھ مباہلہ کرنے کھڑے ہوگئے۔ سب مرید اور دوسرے لوگ صف بستہ پیچھے کھڑے تھے۔ حضورؑ نے اس وقت ایسے درد ناک پیرایہ میں تین بار بلند آواز سے دعا کے الفاظ دہرائے کہ عید گاہ آہ و فغاں سے میدان حشر کا نمونہ بن گئی اور کئی آدمی غش کھا کر گر پڑے ۔ حضورؑ نے اس مباہلے میں مولوی عبدالحق صاحب کے خلاف کوئی بددعا نہیں کی۔ صرف اپنے متعلق خدا تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ اگر میں اپنے دعوے میں جھوٹا ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے ہلاک کر دے ۔ اور پھر اپنے معتقدات پر ایک زبردست تقریر فرمائی آپ کی یہ تقریر اتنی موثر تھی کہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کے ایک شاگرد منشی محمد یعقوب صاحب سابق اور سیر محکمہ نہر کی توچیخ نکل گئی ۔ اور وہ ہاتھ پھیلائے حضور کے قدموں میں جاگرے اور مجمع عام میں بیعت کر لی۔ حضرت اقدسؑ کے مباہلہ اور تقریر کی یہ فوری تاثیر ایک عظیم الشان نشان تھا جس نے لوگوں کے دل میں حضور سے ایک عقیدت پیدا کر دی اور وہ بٹالوی صاحب سے بد ظن ہوگئے ۔ چونکہ وقت بہت ہو چکا تھا ۔ اس لئے انسپکٹر پولیس نے جو عید گاہ میں موجود تھا حضرت اقدسؑ سے بھی تشریف لے جانے کی درخواست کی اور بٹالوی صاحب سے بھی ۔ عید گاہ سے آنے کے بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالولی نے ہر چند کوشش کی کہ انہیں مسجد خیرالدین ( امرتسر) میں ہی وعظ کرنے کا موقعہ مل جائے مگر شہر کے عوام اور رؤساء کو ان کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہ تھا۔ وہ انہیں کیوں موقعہ دیتے ۔ مولوی صاحب نے یہ ذلت و رسوائی دیکھی تو خودہی امرت سر سے چلے گئے ۔(۲۸)
مباہلے کے بعد مباحثے کا چیلنج اور علماء کا فرار :۔
مباہلے کے بعد علماء نے شور مچایا کہ ہم سے بحث ہونی چاہئے۔ اس پر حضرت اقدسؑ نے ایک اشتہار شائع فرمایا کہ جن مولوی صاحب کو بحث کرنا ہو وہ کوئی مقام تجویز کریں ہم آج سے تیسرے روز یہاں سے چلے جائیں گے پھر کوئی عذر نہ رہے گا لیکن مولوی صاحبان خاموش رہے۔ اس پر خواجہ یوسف شاہ صاحب رئیس امر تسر نے مولویوں سے کہا کہ اب آپ بحث کیوں نہیں کرتے جب کہ مرزا صاحب نے بحث منظور کر لی ہے ۔ مولویوں نے جواب دیا کہ ہم بحث کریں گے پہلے باہم مشورہ کر لیں چنانچہ وہ مشورہ کی غرض سے محمد جان کی مسجد کے ایک حجرے میں جمع ہوئے اور موذن سے کہہ دیا کہ حجرے کا دروازہ مقفل کرکے چابی اپنے پاس رکھے اور اگر کوئی پوچھے تو کہہ دینا کہ کہیں دعوت پر گئے ہیں دیر میں آئیں گے ۔ خواجہ یوسف شاہ صاحب مولویوں کو تلاش کرتے ہوئے وہاں آگئے۔ موذن سے پوچھا کہ مولوی صاحبان کہاں ہیں؟ اس نے کہا دعوت میں گئے ہیں ۔ پھر خواجہ صاحب موصوف مولوی عبدالجبار صاحب کے ہاں گئے وہاں سے بھی یہی جواب ملا اس پر خواجہ صاحب مولویوں کی تلاش میں نکلے اورپتہ لگایا کہ کس کے ہاں دعوت ہے اوردوبارہ محمد جان کی مسجد کی طرف آئے تو اچانک کسی نے تبادلہ کہ تمام مولوی اس مسجد کے نیچے کے حجرہ میں جمع ہیں اور باہر سے قفل لگا ہواہے تا کسی کو پتہ نہ لگے۔ خواجہ صاحب نے موذن سے پھر پوچھا ۔کہ مولوی صاحبان کہاں ہیں؟ موذن نے پھر یہی جواب دیا کہ دعوت میں گئے ہیں۔ خواجہ صاحب نے کہا کس کے ہاں؟ اس کا جواب اس نے خوفزدہ ہوکردیا کہ مجھے معلوم نہیں ۔ اس پرخواجہ صاحب نے اس سے کنجی لے کر حجرہ کھولا ۔ جب اندر جاکر دیکھا تو سب مولوی حجرہ کے اندر بیٹھے ہوئے پائے۔ خواجہ صاحب کہنے لگے۔ آج تو بحث کا دن ہے اورآپ چھپ کر بیٹھے ہیں کل کو مرزا صاحب چلے جاویں گے تو بحث کس سے ہوگی۔مولویوں نے کھسیانے ہوکر کہا کہ ہاں ہم مشورہ کررہے ہیں تھوڑی دیر میں آپ کو اطلاع دی جائے گی آپ تسلی رکھیں۔خواجہ صاحب تاکید کرکے چلے گئے ۔ مگر جب مولویوں نے خواجہ صاحب کو کچھ نہ بتایا تو خواجہ صاحب کو یقین ہوگیا کہ مولوی صاحبان بحث نہیں کرسکتے۔ اورسچی بات بھی یہی تھی۔ اس پر خواجہ صاحب خاموش ہوگئے۔ البتہ جب حضرت اقدسؑ قادیان واپسی کے لئے تیار ہوئے تو مولوی صاحبان نے آپ کے اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے ایک مطبوعہ اشتہار آپ کی سواری کے پیچھے پیچھے تقسیم کرنا اور دیواروں پر چسپاں کرنا شروع کردیا جس کا عنوان تھا ’’مرزا بھاگ گیا‘‘
امرتسری علماء دوچار روز بعد مباحثہ کرنے والے عالم کا انتخاب کرنے کے لئے دوبارہ جمع ہوئے مگر کوئی فیصلہ نہ ہوا ۔آخر مولوی غلام اللہ صاحب قصوری بولے کہ بحث سے تو انکار نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں یہ لکھ دو کہ مقام مباحثہ کابل یا مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ ہوگا۔ نہ وہاں جائیں گے نہ مباحثہ ہوگا۔
۱۸۹۲ء؁ کے بعض صحابہ
۱۸۹۲ء؁ کے بعض مشہور صحابہ یہ ہیں ۔(۱)حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب (۲) حضرت میاں عبدالعزیز صاحب المعروف مغل(۳)حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب (۴) مرزا یعقوب بیگ صاحب(۵) حضرت منشی شادی خاں صاحب سیالکوٹی(۶)حضرت پیر منظور محمد صاحب(۷) حضرت حاجی شہزادہ عبدالمجید صاحب(۸) حضرت خان عبدالمجید صاحب کپور تھلوی(۹) حضرت مولوی غلام امام صاحب عزیز الواعظین منی پور(۱۰) حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی(۱۱) منشی گلاب دین صاحب رہتاسی(۱۲) حضرت مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں(۱۳) حضرت مولوی حکیم قطب الدین صاحب(۱۴) حضرت صوفی نبی بخش صاحب (۱۵) حضرت میاں عبدالعزیز صاحب اوجلوی(۱۶) حضرت پروفیسر علی احمد صاحب بھاگلپوری(۱۷) حضرت خان بہادر غلام محمدصاحب گلگتی (۱۸) حضرت حکیم محمد حسین (مرہم عیسیٰ) (۱۹) حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہانپوری۔


ماموریت کا بارھواں سال
’’آئینہ کمالات ِاسلام‘‘ کی تصنیف واشاعت
(۱۸۹۳ء)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کو قرآن مجیدکے کمالات اوراسلام کی اعلیٰ تعلیم سے واقف کرانے کے لئے ۱۸۹۲ء؁ میں ایک کتاب لکھنی شروع کی جو ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کے نام سے فروری ۱۸۹۳ء؁ میں شائع ہوئی ۔اس کتاب کی تحریر کے دوران میں آپ کورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو مرتبہ زیارت ہوئی۔ اورحضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تالیف پر بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
اس معرکتہ الاراء تصنیف میں متعدد اہم مباحث مثلاً مقام فنا، بقا، لقا، روح القدس کی دائمی رفاقت اورملائک وجنات کے وجود کے ثبوت پر جدید زاویہ نگاہ سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔کتاب میں وہ قوت وشوکت ہے کہ سطرسطر سے تائید حق کا جلوہ صاف نظرآتاہے۔
’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کی طباعت۔
حضرت اقدس علیہ السلام نے ابتداء ہی میں کتاب آئینہ کمالات اسلام لکھنے کا ارادہ فرمایا تو شیخ نور احمد صاحب مالک ریاض ہند پریس امرتسر سے ارشاد فرمایا کہ اپنا پریس قادیان لے آئیں۔ چنانچہ وہ امرتسر سے اپنا پریس قادیان لے آئے اور اسے گول کمرے میں نصب کردیا۔ حضرت اقدسؑ ساتھ ساتھ مضمون لکھتے اور ساتھ ہی ساتھ کاپی لکھی جاتی تھی۔ کاتب امام الدین صاحب لاہوری تھے جن کو حضورؑ کا لکھا ہوا خط پڑھنے کی خوب مہارت ہوگئی تھی۔ (۲)
’’التبلیغ‘‘
۱۱۔ جنوری ۱۸۹۳ء کو جب کتاب کا اردو حصہ مکمل ہوچکا تو مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے ایک مجلس میں حضرت اقدسؑ سے عرض کی کہ اس کتاب کے ساتھ مسلمان فقراء اور پیرزادوں پر اتمام حجت کے لئے ایک خط بھی شائع ہونا چاہیئے۔ حضور نے یہ تجویز بہت پسند کی ۔ آپ کا ارادہ تھا کہ یہ خط اردو میں لکھا جائے لیکن رات کوبعض اشارات الہامی میں آپ کو عربی میں لکھنے کی تحریک ہوئی۔ (۳) اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنے پر آپ کو رات ہی رات میں عربی کا چالیس ہزار مادہ سکھا دیا گیا (۴) چنانچہ آپ نے اسی الہامی قوت سے ’’التبلیغ‘‘ کے نام سے فصیح وبلیغ عربی میں ایک خط لکھا جس میں آپ نے ہندوستان‘ عرب ‘ ایران‘ترکی‘مصر اور دیگر ممالک کے پیرزاردوں ‘سجادہ نشینوں‘ زاہدوں‘ صوفیوں اور خانقاہ نشینوں تک پیغام حق پہنچا دیا۔’’التبلیغ‘‘ کے بعد عربی زبان میں حضورؑ نے وہ بے نظیر لڑیچر پیدا کیا کہ فصحائے عرب وعجم کی زبانیں اس کے مقابلے میں گنگ ہوگئیں۔ ’’التبلیغ‘‘ کے متعلق ایک عرب فاضل نے کہا کہ اسے پڑھ کر ایسا وجد طاری ہوا کہ دل میں آیا کہ سر کے بل رقص کرتا ہوا قادیان پہنچوں۔(۵) طرابلس کے ایک مشہور عالم السید محمد سعیدی شامی نے اسے پڑھتے ہی بے ساختہ کہا۔ واللہ ایسی عبارت عرب نہیں لکھ سکتا۔ (۶) اور بالاخر اسی سے متاثر ہو کر احمدیت قبول کرلی(۷) ۔ حضرت اقدس فرمایا کرتے تھے ۔ کہ ہماری جتنی عربی تحریریں ہیں یہ سب ایک رنگ کی الہامی ہی ہیں کیوں کہ سب خدا کی خاص تائید سے لکھی گئی ہیں۔ فرماتے تھے بعض اوقات میں کئی الفاظ اور فقرے لکھ جاتاہوں۔ مگر مجھے ان کے معنے نہیں آتے۔ پھر لکھنے کے بعد لغت دیکھتا ہوں تو پتہ لگتا ہے ۔
ان کتابوں کا یہ اعجازی رنگ دیکھ کر مخالف علماء کو یقین ہی نہیں آتا تھا کہ یہ آپ کی تالیفات ہیں وہ قطعی طور پر سمجھتے تھے کہ آپ نے اسی غرض کے لئے علماء کا کوئی خفیہ گروہ ملازم رکھا ہوا ہے چنانچہ ایک دفعہ ایک مولوی صاحب اس ’’خفیہ گروہ ‘‘ کا سراغ لگا نے کے لئے قادیان آئے اور رات کے وقت مسجد مبارک میں گئے۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی ان دنوں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں مقیم تھے مولوی صاحب نے حضرت منشی صاحب سے پوچھا کہ مرزا صاحب کی عربی تصانیف ایسی ہیں کہ ان جیسی کوئی فصیح بلیغ عبارت نہیں لکھ سکتا ضرور مرزا صاحب کچھ علماء سے مدد لے کر لکھتے ہوں گے اور و ہ وقت رات ہی کا ہوسکتا ہے تو کیا رات کو کچھ آدمی ایسے آپ کے پاس رہتے ہیں جو اس کام میں مدد دیتے ہوں حضرت منشی صاحب نے کہا مولوی محمد چراغ صاحب اور مولوی معین صاحب ضرور آ پ کے پاس رہتے ہیں یہی علماء رات کو امداد کرتے ہوں گے۔ حضرت اقدسؑ کو منشی صاحب کی یہ آواز پہنچ گئی اور حضور بہت ہنسے۔ کیوں کہ مولوی محمد چراغ صاحب اور مولوی معین الدین صاحب دونوں حضور کے ان پڑھ ملازم تھے اس کے بعد مولوی صاحب موصوف اٹھ کر چلے گئے۔ اگلے روز جب حضور بعد عصر مسجد میں حسب معمول بیٹھے تو مولوی صاحب موصوف بھی موجود تھے۔ حضورؑ منشی صاحب کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا وہ رات والے علماء انہیں دکھلا بھی تو دو۔ اس وقت حضور نے مولانا عبدالکریم صاحب کو بھی رات کا واقعہ سنایا وہ بھی ہنسنے لگے حضرت منشی صاحب نے محمد چراغ اور معین الدین کو بلا کر مولوی صاحب موصوف کے سامنے کھڑا کردیا وہ مولوی صاحب ان دونوں ’’علماء ‘‘ کو دیکھ کر چلے گئے اور ایک بڑے تھال میں شیرینی لے آئے اور اپنے بارہ ساتھیوں سمیت حضور کے دست مبارک پر بیعت کرلی ۔(۸)
سرور کونین ﷺ کی شان اقدس میں قصیدہ مدحیہ :۔
’’ التبلیغ‘‘ کے آخر میں حضرت مسیح موعودؑ نے آنحضرت ﷺ کی شان اقدس میں ایک معجزہ نما عربی قصیدہ بھی رقم فرمایا جو چودہ سو سال کے اسلامی لڑیچر میں آپ ہی اپنی نظیر ہے ۔ جب حضور یہ قصیدہ لکھ چکے تو آپؑ کا روئے مبارک فرط مسرت سے چمک اٹھا اور آپ نے فرمایا یہ قصیدہ جناب الٰہی میں قبول ہوگیا اور خدا تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ جو شخص یہ قصیدہ حفظ کرلے گا اور ہمیشہ پڑھے گا میں اس کے دل میں اپنی اور اپنے رسول ( آنحضرت ﷺ ) کی محبت کوٹ کوٹ کر بھردوں گا۔ اور اپنا قرب عطا کروں گا۔ (۹) السید محمد سعیدی شامی کو جب یہ قصیدہ دکھایا گیا تو وہ پڑھ کر بے اختیار رونے لگے اور کہا۔ خدا کی قسم میں نے اس زمانہ کے عربوں کے اشعار بھی کبھی پسند نہیں کئے مگر ان اشعار کو میں حفظ کروں گا۔(۱۰)
مولانا نیاز محمد خاں نیاز فتحپوری نے اس قصیدے کے متعلق لکھا ہے ۔ ’’اب سے تقریباً ۶۵ سال قبل ۱۸۹۳ء کی بات ہے۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعویٰ تجدید ومہددیت سے ملک کی فضا گونج رہی تھی۔ اور مخالفت کا ایک طوفان ان کے خلاف برپاتھا۔ آریہ عیسائی اور مسلم علماء سبھی ان کے مخالف تھے اوروہ تن تنہا ان تمام حریفوں کا مقابلہ کر رہے تھے ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انہوں نے مخالفین کو ’’ھل من مبارز‘‘ کے متعدد چیلنج دئیے اور ان میں سے کوئی سامنے نہ آیا۔ ان پر منجملہ اور اتہامات میں سے ایک اتہام یہ بھی تھا کہ وہ عربی وفارسی سے نابلد ہیں اسی اتہام کی تردید میں انہوں نے یہ قصیدہ نعت عربی میں لکھ کر مخالفین کو اس کا جواب لکھنے کی دعوت دی لیکن ان میں سے کوئی بروئے کار نہ آیا۔
مرزا صاحب کایہ مشہور قصیدہ ۔۶۹ اشعار پر مشتمل ہے اپنے تمام لسانی محاسن کے لحاظ سے ایسی عجیب وغریب چیز ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک ایسا شخص جس نے کسی مدرسہ میں زانوئے ادب تہہ نہ کیا تھا کیوں کر ایسا فصیح وبلیغ قصیدہ لکھنے پر قادر ہوگیا۔ اسی زمانہ میں ان کے مخالفین یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ان کی عربی زبان کی شاعری غالباًان کے مرید خاص مولوی نورالدین کی ممنون کرم ہے لیکن اس الزام کی لغویت اسی سے ظاہر ہے کہ مولوی نورالدین خود مرزا صاحب کے بڑے معتقد تھے اور اگر مرزا صاحب کے عربی قصائد وغیرہ انہی کی تصنیف ہوتے تو مرزا صاحب کے اس کذب ودروغ پر کہ یہ سب کچھ خود انہی کی فکر کا نتیجہ ہے سب سے پہلے مولوی نور الدین ہی معترض ہو کر اس جماعت سے علیحدہ ہو جاتے ۔ حالانکہ مرزا صاحب کے بعد وہی خلافت کے مستحق قرار دئیے گئے۔۔۔۔۔ یہ قصیدہ نہ صرف اپنی لسانی وفنی خصوصیات بلکہ اس والہام محبت کے لحاظ سے جو مرزا صاحب کو رسول اللہ سے تھی بڑی پر اثر چیز ہے یہ قصیدہ اس شعر سے شروع ہوتاہے ۔
یَا عَیْنَ فَیْضِ اللّٰہِ وَالْعِرْفَانِ
یَسْعٰی اِلَیْکَ الْخَلْقُ کَالظَّمْاٰنِ
اور اختتام اس شعر پر ہوتاہے :۔
جِسْمِیْ یَطِیْرُ اِلَیْکَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا
یَالَیْتَ کَانَتْ قَوَّۃُ الطَّیَرَانِ
فارسی نعت :۔ اس عربی قصیدہ کے علاوہ جو ’’ التبلیغ ‘‘ میں شامل تھا حضرت اقدسؑ نے ’’ آئینہ کمالات اسلام ‘‘ میں ایک بلند پایہ فارسی نعت بھی رقم فرمائی اس نعت کا مطلع یہ ہے ۔
؎ عجب نوریست در جان محمد
عجب لعلیت در کان محمد
یہی وہ نعت ہے جس کے ایک شعر سے متعلق جماعت احمدیہ کا ایک شد ید مخالف اخبار ’’ آزاد ‘‘ بھی یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہوگیا کہ آنحضرتﷺ کی تعریف و توصیف میں گزشتہ انبیاء و مرسلین سے لے کر صلحائے امت تک نے بہت کچھ کہا ہے مگر حقیقی تعریف اسی شعر میں بیان کی گئی ہے کہ ۔
؎ اگر خواہی دلببلے عاشقش باش
محمد ہست برہان محمد
’’التبلیغ ‘‘ کا فارسی ترجمہ مولانا عبدالکریم صاحب کا کیا ہوا ہے ۔
ملکہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آئینہ کمالات اسلام میں ملکہ و کٹوریہ ( ۱۸۱۹۔ ۱۹۰۱) کو ایک خط کے ذریعہ سے دعوت اسلام دی۔ جس میں آپ ؑ نے انحضرت ﷺ کے حقیقی خادم ہونے کی حیثیت سے ملکہ و کٹوریہ کو انہی الفاظ میں حق کا پیغام پہنچایا۔ جن الفاظ میں آنحضرتﷺ (۱۳) نے ۶۲۸ء کے آخر میں قیصرہ کسریٰ کو پہنچایا تھا۔ یعنی آپ نے لکھا ’’ یا ملیکہ الا رض اسلمی تسلمین ۔‘‘ اے ملکہ مسلمان ہو جا تو اور تیری سلطنت محفوط رہے گی۔ خط کے آخر میں حضور نے اسے محض اللہ نصیحت فرمائی کہ اے ملکہ مسلمانوں کی طرف خاص نظر کرنا اور ان کی اکثریت کو حکومت کے معاملات میں اپنا مقرب و مصاحب بنانا کیونکہ تو ان کی اس ریاست پر قابض ہوئی ہے جس پر وہ ایک ہزار سال (۱۴) تک اپنا پرچم لہراتے رہے ہیں پس خدا کے اس انعام پر اپنے رب کا شکر اداکر اور مسلمانوں پر فدا ہو جاکہ خدا تصدق ہو جانے والوں کو پسند فرماتاہے ۔ حکومت کا اصل مالک خدا ہے وہ جسے چاہتا ہے حکومت عطا کرتا۔ اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔
ملکہ وکٹوریہ کو جب یہ دعوت ملی تو اس نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں شکریہ کا خط ارسال کیا اور خواہش ظاہر کی کہ حضور اپنی تمام تصانیف انہیں بھجوائیں (۱۵) عمر کے آخری حصہ میں ملکہ کو اسلام سے خاص محبت و الفت پیدا ہوگئی تھی ۔ اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تعظیم کرتی تھیں۔ اور انہوں نے ایک ذی علم مسلمان سے اردو بھی پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ (۱۶)
حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف کا خراج عقیدت : ۔
تبلیغ اسلام کا یہی وہ مجاہدانہ کارنامہ تھا جسے چاچڑاں شریف سابق ریاست بہاولپور کے ایک صاحب کشف بزرگ خواجہ غلام فرید صاحب(۱۷) نے ( جن کے ارادتمندوں کا حلقہ بہت وسیع ہے ) بہت سراہا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ۔’’ ہمہ اوقات مرزا صاحب بعبادت خدا عزوجل میگذارند ، یا نمازمی خواند، یا تلاوت قرآن شریف میکند، یادیگر شغل اشغال مینماید ۔ وبر حمایت اسلام و دین چناں کمرہمت بستہ کہ ملکہ زمان لندن رانیز دعوت دین محمدی کردہ است ، وبادشاہ روس و فرانس وغیرہ ہماراہم دعوت اسلام نمودہ است ، وہمہ سعی و کوشش اوانیست کہ عقیدہ تثلیت و صلیب راکہ سراسر کفراسست بگذارند ، و تبوحید خداوند تعالیٰ بگروند ۔ و علماء وقت رابہ بینید ، کہ دیگر گروہ مذاہب باطلہ راگذاشتہ صرف درپے ایں چنیں نیک مرد کہ ازاہل سنت و جماعت است و بر صراط مستقیم است درراہ ہدات می نماید آفتادہ اند۔و بروے حکم تکفیرمے سازند ۔ کلام عربی ادبہ بینید کہ از طاقت بشریہ خارج است و تمام کلام او مملواز معارف و حقائق است۔‘‘ (۱۸) یعنی حضرت مرزا صاحب اپنے تمام اوقات عبادت الٰہی ، دعا ، نماز ، تلاوت قرآن اور اسی نوح کے دوسرے مشاغل میں گزارتے ہیں۔ دین اسلا کی حمایت کے لئے آپ نے ایسی کمرہمت باندھی ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کو لندن میں دعوت اسلام بھیجی ہے اسی طرح روس ، فرانس اور دوسرے ممالک کے بادشاہوں کو اسلام کا پیغام دیا ہے ۔ آپ کی تمام تر سعی جدو جہد یہ ہے کہ تثلیث و صلیب کا عقیدہ جو سراسر کفرو الحاد ہے ۔ صفحہ ہستی سے مٹ جائے اور اس کی بجائے اسلامی توحید قائم ہو جائے۔ مگر علماء وقت کو دیکھو کہ باقی تمام باطل مذاہب کو چھوڑ کر اس نیک مرد پر کفر کے فتوئوں سے ٹوٹ پڑے ہیں جو اہل سنت و الجماعت میں سے ہے خود بھی صراط مستقیم پر گامزن ہے اور دوسروں کو بھی اسی کی راہنمائی کر رہا ہے ۔ آپ کا تمام عربی کلام دیکھا جائے تو انسانی قدرت سے بالا، معارف و حقائق سے لبریز اور سرتاپا ہدایت ہے ۔
پنڈت لیکھرام سے متعلق پیشگوئی
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر پنڈت لیکھرام کے متعلق اگرچہ سات سال قبل ( فروری ۱۸۸۶ء ) سے اعلان کر رکھا تھا کہ اس شاتم رسول کے لئے ایک عبرتناک سزا مقدر ہے ۔ مگر اس کی تفصیلات آپ کو ۱۸۹۳ء میں بتائی گئیں۔ چنانچہ اس سال مختلف اوقات میں نازل ہونے والے الہامات و کشوف کے ذریعہ سے آپ کو لیکھرام کی عبرتناک سزا کے بارے میں تفصیلاً بتایا گیا کہ :۔
اول:۔ لیکھرام ایک ایسے عبرتناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا جس کا نتیجہ ہلاکت ہوگا۔
دوم :۔ یہ عذاب چھ سال کے عرصہ میں آئے گا۔
سوم :۔ یہ عذاب عید کے دن سے ملے ہوئے دن میں آئے گا۔
چہارم :۔ اس کی ہلاکت ایک ایسے شخص کے ذریعہ سے مقدر ہے جس کی آنکھوں سے خون ٹپکتا ہوگا۔ (جیساکہ آپ کو ایک کشف میں دکھا یا گیا )
پنجم :۔ وہ ’’تیغ برہان محمد ‘‘ یعنی رسول اکرم ﷺ کی تیز تلوار سے کیفرکردار کو پہنچے گا۔
ششم:۔ اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے سے کیا گیا تھا اور وہ یہ ہے کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔ پھر اسے جلا کر اس کی راکھ دریا میں ڈال دی گئی تھی۔
حضور نے یہ تفصیلی پیشگوئیاں آئینہ کمالات اسلام ، برکات الدعا اور کرامات الصادقین میں شائع فرمائیں۔
زبردست تحدی:۔
حضور نے لیکھرام سے متعلق یہ پیشگوئی شائع کرتے ہوئے ملک بھر کے مسلمانوں، آریوں اور عیسائیوں کے سامنے یہ زبردست تحدی کی کہ ’’ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا تو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اس کی روح سے میرا یہ نطق ہے ۔ اور اگر میں اس پیشگوئی میں کاذب نکلا تو ہر یک سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رسہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے۔ ‘‘ نیز لکھا ’’ اب آریوں کو چاہئے کہ سب مل کر دعا کریں کہ یہ عذاب ان کے اس وکیل سے ٹل جائے ۔ ‘(۱۹)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ ّ العالی کی ولادت
’’ آئینہ کمالات اسلام ‘‘ (صفحہ ۲۶۶) میں حضرت اقدسؑ نے خد اتعالیٰ سے اطلاع پاکر یہ پیشگوئی شائع فرمائی کہ ’’یَاتِیْ قَمَرُ الْاَنْبِیَائِ وَاَمْرُکَ یَتَاتّٰیْ یُسِرُّ اللّٰہُ وَجْھَکَ وَیُنِیْرُ بُرْھَانَکَ سَیُوْلَدُلَکَ الْوَلَدُ ۔وَیُدْنیٰ مِنْکَ الْفَضْلُ اِنَّ نُوْرِیْ قَرِیْبٌ۔ یعنی نبیوں کا چاند آئیگا اور تیرا مدعا حاصل ہو جائیگا ۔ خدا تیرے منہ کو بشاش اور تیری برہان کو روشن کر دیگا ۔ تجھے عنقریب ایک لڑکا عطا ہوگا اور فضل تیرے نزدیک کیا جائیگا۔ یقینا میرا نور قریب ہے ، سو اس عظیم الشان پیشگوئی کے مطابق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ۲۰۔ اپریل ۱۸۹۳ء کو پیدا ہوئے۔ (۲۰) جو خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے عالی گہراور خدا تعالیٰ کے ایک زندہ نشان ہیں۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کو بچپن میں ایک مرتبہ آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہوگیا پلکیں گرگئیں تھیں۔ آنکھوں سے پانی بہتا تھا ۔ کئی سال تک انگریزی اور یونانی علاج کیا گیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ بلکہ حالت اور زیادہ تشویشناک ہوگئی ۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کی تو حضورؑ کو الہام ہوا۔ بَرِقَ طِفْلِیْ بَشِیْر( میری لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں اچھی ہو گئیں) چنانچہ اس الہام کے ایک ہفتہ بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامل شفا بخشی۔ اور نہ صرف آنکھیں بالکل درست ہوگئیں( ۲۱) بلکہ بصیرت کی آنکھیں بھی ایسی روشن ہوئیں کہ مادی اور روحانی علوم کے دروازے آپ پر کھل گئے۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کی بلند پایہ تالیفات :۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش اور تمنا ( ۲۲) تھی کہ آپ کو ایم ۔ اے کرایا جائے۔ حضورؑ کا منشائے مبارک اس وصیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تاآپ بیسویں صدی میں اسلام کی ترجمانی کا حق ادا کرسکیں ۔ چنانچہ ۱۹۱۶ء میں آپ ایم ۔ اے کا امتحان پاس کرتے ہی قلمی میدان میں آگئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں ایسا شاندار لٹریچر پید اکر دیا کہ اپنے ہی نہیں بیگانے بھی آپ کے قلم کا لو ماننے پر مجبور ہوئے ۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کو چونکہ ابتدا ہی سے علم حدیث اور تاریخ اسلام سے ایک خاص فطری تعلق رہا ہے اس لئے ابتداً آپ نے اسلام کی مستقل خدمت کے لئے جس موضوع کا انتخاب کیا وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح مبارک ہیں۔ جو آپ نے ’’ سیرۃ خاتم النبیین ‘‘ ( ۲۳) جیسی بلند پایہ کتاب کی شکل میں تحریر فرمائی۔ اس بلند پایہ تالیف کی اشاعت نے ملک کے اسلامی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑا دی اور انہوں نے اچھوتے مضامین ، دلاویز اسلوب بیان اور علم سیرت نبوی اور علم کلام کے نادرامتزاج اور دوسرے محاسن و کمالات پر دل کھول کر خراج تحسین ادا کیا۔
چنانچہ سیٹھ عبداللہ ہارون ایم۔ ایل ۔ اے نے لکھا ۔’’میری رائے میں اس زمانہ میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرۃ کی کتابیں تصنیف کی گئی ہیں ان میں سے یہ ایک بہترین کتاب ہے امید ہے کہ یہ کتاب مسلمانان ہند کے لئے نہایت مفید ثابت ہوگی۔ ‘‘ شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال نے اس رائے کا اظہار کیا ۔ ’’ اس تصنیف میں بعض اہم مباحث پر عمدہ بحث کی گئی ہے ۔ ‘‘ نواب اکبر یا رجنگ بہادر جج ہائیکورٹ حید ر آباد دکن نے اس پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا۔ ’’ میری نظر میں یہ بے مثل کتاب ہے ۔ ‘‘ مولانا سید سلیمان ندوی نے کہا۔ ’’ اس میں شک نہیں کہ اس تصنیف میں محنت اٹھائی گئی ہے ۔ ‘‘ مولانا عبدالماجد صاحب ایڈیٹر اخبار ’’ سچ‘‘ لکھنؤ نے اس پر مفصل ریویو کرتے ہوئے لکھا۔ ’’سیرۃ خاتم النبیین حصہ دوم بہت مفصل و مشرح ہے اور اس میں علاوہ واقعات تاریخی کے مسائل کا حصہ بھی کثرت سے آگیاہے ۔ قانون ازدواج و طلاق ۔ غلامی۔ تعداد ازدواج ۔ جہاد وغیرہ کے مباحث خصوصاً مفصل ہیں اور انگریزی خوان نوجوان کے حق میں مفید ۔ معجزات پر بھی شافی بحث ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان مسائل پر بحث کرتے وقت مصنف کا قلب تحقیقات فرنگ سے مرعوب و دہشت زدہ نہیں جیساکہ بدقسمتی سے اکثر متکلمین حال کا حال ہے ۔۔۔۔۔ سرورکائنات کا ذات پر جمال تو وہ ہے جس نے خدا معلوم کتنے بیگانوں تک کے دلوں کو موہ لیا ہے اہل قادیان تو بہرحال کلمہ گوہیں ان کے کسی مصور کے قلم نے اگر اس حسین و جمیل کی ایسی دلکش تصویر تیار کر دی ہے تو اس پر حیرت بے محل ہے ۔ ‘‘
’’ سیرت خاتم النبیین ‘‘ کی تالیف کے دوران ہی میں آپ کی توجہ حضرت مسیح موعود کی سیرت و سوانح سے متعلق صحابہ کرامؓ کی روایت جمع کرنے کی طرف ہوئی۔ چنانچہ آپ کی شبانہ روز کوششوں کے نتیجہ میں ’’ سیرت المہدی ‘‘ (۲۴) کا قیمتی ذخیرہ شائع ہو کر ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا۔ سلسلہ کی بعض گمشدہ کڑیوں کا سراغ اسی سے ملتا ہے اس کے چوتھے حصہ کا مواد بھی فراہم ہو چکا ہے مگر اس کی اشاعت کی نوبت ابھی نہیں آسکی۔
تاریخ سلسلہ کی تدوین کے سلسلہ میں آپ کی معرکۃ الا راء تالیف ’’ سلسلہ احمدیہ ‘‘ ہمیشہ یادگار رہے گی ۔ جو آپ نے خلافت جوبلی کی تقریب پر ۱۹۳۹ء میں شائع فرمائی ۔ یہ کتاب جماعت احمدیہ کے پچاس سالہ کارناموں کی مختصر مگر جامع اور مستند تاریخ ہے ۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس میں سلسلہ احمدیہ کے مخصوص عقائد ، اس کے اغراض و مقاصد اور مستقبل پر بھی مخصوص انداز میں سیر حاصل روشنی ڈالی ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔
ان تالیفات کے علاوہ جو اسلام و احمدیت کا انسائیکلوپیڈیا کہلانے کی مستحق ہیں آپ نے سلسلہ کے اخبارات ورسائل میں سینکڑوں مضامین لکھے ہیں ۔ اور متعدد لاجواب کتابیں اور رسائل تالیف کئے ہیں۔ مثلاً ’’ کلمۃ الفصل ‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۱۵) ’’تصدیق المسیح‘‘ (مطبوعہ ۱۹۲۷ء) ’’ الحجۃ البالغہ‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۷۱ء ) ’’ ہمارا خدا ‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۲۷ء ) ’’ تبلیغ ہدایت ‘‘ (مطبوعہ ۱۹۲۷ء ) ’’ ایک اور تازہ نشان ‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۳۴) ’’ امتحان پاس کرنے کے گر‘‘ ۔ (مطبوعہ ۱۹۳۴ء ) ’’ مسئلہ جنازہ کی حقیقت ‘‘ (مطبوعہ ۱۹۴۱ء ) ’’ قادیان کاخونی روزنامچہ ‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۸۴ء ) (۲۵) ’’ اشتراکیت اور اسلام ۔ ‘‘ ’’ چالیس جواہر پارے ‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۵۰ء) ’’ اسلامی خلافت کا نظریہ ‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۵۱ء ) ’’اچھی مائیں ‘‘۔ ’’ ختم نبوت کی حقیقت ‘‘( مطبوعہ ۱۹۵۳) ’’جماعتی تربیت اور اس کے اصول ۔‘‘ ’’ روحانیت کے دو زبردست ستون ‘‘ (مطبوعہ ۱۹۵۶ء) ’’ احمدیت کا مستقبل ۔‘‘ ’’ قرآ ن کا اول و آخر ۔‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۵۷ء) ’’ نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں ‘‘(مطبوعہ ۱۹۵۸) ’’ سیرت طیبہ ‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۶۰) تربیتی مضامین ‘‘(۲۶) (مطبوعہ ۱۹۶۰ء) ان میں سے ہرایک تالیف یا مضمون کو اپنے موضوع کے اعتبار سے مشعل راہ کی حیثیت حاصل ہے ۔
عظیم الشان عملی کارنامے :۔
یہ تو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی علمی خدمات کا ایک مختصر سا خاکہ ہے انتظامی اور عملی لحاظ سے بھی آپ کا مقدس وجود جن عظیم الشان برکتوں کا موجب ثابت ہوا ہے وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ بلا شبہ آپ کوہ وقار اور پیکر جہادو استقلال ہیں۔ آپ کی خاموش اور بے ریا زندگی خدمت دین کے بے شمار کارناموں سے معمور ہے جن کی تفصیل کے لئے ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے ۔ مختصراً اتنا بتانا ضروری ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے عملی کارناموں کا آغاز مولانا نورالدین حضرت خلیفہ اول ؓ کے زمانہ سے ہوتا ہے جب کہ آپ کو حضرت خلیفہ اول ؓ نے ’’ صدر انجمن احمدیہ ‘‘ کی مجلس معتمدین کا ممبر نامزد فرمایا۔ خلافت اولیٰ کا دور آپ نے زیادہ تر تعلیمی مصروفیات میں گزارا۔ لیکن خلافت ثانیہ کے ابتداء ہی سے آپ کا ایک ایک لمحہ خدمت دین کے لئے وقف ہوگیا۔ چنانچہ شروع میں آپ نے ’’ الفضل ‘‘ کی ادارت کے فرائض سر انجام دیئے اس کے بعد ’’ ریویو آف ریلیجنز ‘‘ کی خدمت ایک عرصہ تک آپ کے سپر د رہی ۔ مدرسہ احمدیہ ایسے اہم جماعتی ادراہ کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے۔ سالہاسال تک سلسلہ احمدیہ کے متعدد صیغوں مثلاً تالیف و تصنیف ۔ امور عامہ اور تعلیم و تربیت کی نگرانی کے فرائض سر انجام دینے کے علاوہ ناظر اعلیٰ بھی رہے ۔ ’’ انگریزی ترجمہ القرآن ‘‘ کے نام میں بھی نمایاں حصہ لیا۔ پھر قیام پاکستان کے سلسلہ میں حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایات کے تحت آپ نے شاندار خدمات انجام دیں۔ جن کا مفصل ذکر اپنے مقام پر آرہا ہے ۔ ۳۱۔ اگست ۱۹۴۷ء کو جب حضرت اقدس مصلح موعود ہجرت کرکے قادیان سے پاکستان تشریف لائے تو حضور نے آپ کو امیر مقامی نامزد فرمایا حضرت صاحبزادہ صاحب نے قادیان میں ۲۳۔ ستمبر ۱۹۴۷ء تک نہایت احسن رنگ سے نیابت کے فرائض ادا کئے اور پھر حضور کے خاص ارشاد کے تحت پاکستان تشریف لے آئے ۔
یہاں حفاظت ( ۲۷) مرکز کا اہم شعبہ آپ کے سپر د ہوا۔ جس کی زمام قیادت آپ اب تک نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ آپ نے وقت کے ہر اہم جماعتی تقاضے کو پورا کرنے میں انتہائی معاملہ فہمی اور بیدار مغزی کا ثبوت دیا ہے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جب مرکز سے باہر تشریف لے جاتے ہیں تو حضور آپ کو ہی امیر مقامی تجویز فرماتے ہیں۔ غرض کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی زندگی اسلام و احمدیت کے لئے مسلسل جہاد اور تاریخ احمدیت کا زریں ورق ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و توانائی کے ساتھ لمبی عمر بخشے ۔ آمین۔ ( جدید ایڈیشن سے قبل آپ وصال فرما چکے ہیں۔ تاریخ وفات ۲۔ ستمبر ۱۹۶۳ء)
تصنیف واشاعت’’ برکات الدعاء‘‘
سرسید احمد خاں مرحوم ہندو ستانی مسلمانوں کے عظیم سیاسی لیڈر تھے جنہوں نے مسلمانوں کی کسمپرسی سے مضطرب ہو کر ان کی رفاہ و بہبود کا بیڑا اٹھایا اور تعلیمی و معاشرتی اصلاح کے لئے ایک منظم تحریک کا آغاز کیا۔ جس نے دینوی اعتبار سے مسلمانان ہند کو بڑے بڑے فوائد پہنچائے مگر بد قسمتی سے انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے پاکیزہ جذبہ کے جوش میں مغربیت اور اسلام کی صلح کرانے کے لئے اسلام کے اہم بنیادی اصول مثلاً وحی کو اندرونی خیالات کا نام دے کر استجابت دعا وغیرہ کا انکار کر دیا اور اپنے خیالات کی اشاعت کے لئے قرآن مجید کے ایک حصے کی تفسیر شائع کی اور پھر رسالہ ’’ الدعاء والاستجابہ‘‘ اور ’’ تحریرفی اصول التفسیر ‘‘ کے ذریعہ سے اپنے نظریات دہرائے۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو دنیا میں وحی اور دعا کی قبولیت کا مجسم نشان بن کر آئے تھے آپ بھلا ایسے خیالات کو کب برداشت کرسکتے تھے چنانچہ حضور نے اپریل ۱۸۹۳ء کو ’’ برکات الدعاء ‘‘ جیسی لطیف تصنیف شائع فرمائی اس رسالے میں حضور نے سر سید احمد خاں کو پنڈت لیکھرام کے عبرت ناک انجام کے بارہ میں اپنی دعا کے قبول ہونے کی قبل از وقت خبر دیتے ہوئے یہ زبردست پیشگوئی بھی فرمائی کہ جب تک لیکھرام کی موت واقع نہ ہوگی وہ زندہ رہیں گے جیسا کہ حضور نے فرمایا :۔
ہاں مکن انکار زیں اسرار قدت ہائے حق قصہ کو تہ کن بیبں ازمادعائے مستجاب (۲۸)
چنانچہ ایسا ہی ہوا سر سید احمد خاں اس وقت تک زندہ رہے جب تک لیکھرام کی موت واقع نہیں ہوئی ۔
ہنری مارٹن کلارک کی طرف سے مباحثہ کا چیلنج اور رسالہ
’’حجۃ الاسلام ‘‘ اور رسالہ ’’ سچائی کا اظہار ‘‘ کی تصنیف و اشاعت
جنڈیالہ ( ضلع امرت سر ) میں عیسائیوں کا بھاری مشن تھا۔ ۱۸۸۲ء ( ۲۹) میں ڈاکٹر کلارک امرتسر میں طبی مشن کے انچارج بنے تو انہوں نے یہاں طبی شاخ کھول کر عیسائیت کے فروغ کا نیا دروازہ کھول دیا۔ اور عیسائی مناد جابجاو عظ کرنے لگے ۔ جنڈیالہ کے ایک غیور مسلمان میاں محمد بخش پاندہ نے جو یہ صورت حال دیکھی تو وہ معمولی تعلیم رکھنے کے باوجود مقابلہ کے لئے کھڑے ہو گئے ۔ عیسائی پادریوں سے جب کوئی معقول جواب نہ بن سکا تو انہوں نے مشن انچارج ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب سے شکایت کی جس پر مارٹن صاحب نے جنڈیالہ کے مسیحیوں کی طرف سے مسلمانوں کو مباحثہ کا تحریری چیلنج دے دیا۔ اور کہا کہ اہل اسلام جنڈیالہ اپنے علماء و بزرگان دین کو میدان میں لاکر دین حق کی تحقیق کریں ورنہ آئندہ سوال کرنے سے خاموش ہو جائیں۔ میاں محمد بخش صاحب نے یہ چیلنج ملتے ہی علماء کو خط لکھے کہ پادریوں سے بحث کرنے کے لئے جنڈیالہ تشریف لائیں ۔ نیز اسی دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھی لکھا کہ آنجناب اللہ اہل اسلام جنڈیالہ کی امداد فرمائیں۔ دوسرے مولویوں نے تو پاندہ صاحب کو جواب دیا کہ ہمارے قیام و طعام اور سفر خرچ وغیرہ کا کیا انتظام ہوگا۔ مگر حضرت اقدسؑ یہ خط پڑھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ خد اتعالیٰ نے ہمارے لئے ایک شکار بھیجا ہے ۔ چنانچہ حضور ؑ نے ۲۳۔ اپریل ۱۸۹۳ء کو جنڈیالہ اطلاع بھجوائی کہ حضور اس دینی کام کے لئے بالکل تیار ہیں۔ (۳۰) نیز دوسرے ہی دن قادیان سے اپنے خدام کا ایک وفد ( ۳۱) پادری مارٹن کلارک صاحب کے پاس امرت سر بھجوایا پادری صاحب کوٹھی پر موجود تھے انہوں نے اردلی کو توحکم دیا کہ کرسیاں برآمدہ میں رکھ دو اور خود دوسرے دروازہ سے پادری عبداللہ آتھم ( ۳۲) صاحب کی کوٹھی پر پہنچے اور انہیں اپنی کوٹھی پر لے آئے رات کے گیارہ بجے تک گفتگو جاری رہی اور بالاخر اتفاق رائے سے ایک مفصل تحریری شرائط نامہ ( ۳۳) پر فریقین کے دستخط ہوگئے۔ مباحثہ کیلئے ۲۲۔ مئی سے ۵۔ جون ۱۸۹۳ء کی تاریخیں مقرر ہو ئیں۔ مسلمانوں کی طرف سے حضرت مسیح موعود ؑ اور عیسائیوں کی طرف سے پادری عبداللہ آتھم مناظر قرار پائے۔
بعض علماء کی عیسائیت نوازی :۔
جب امرتسر اور بٹالہ کے بعض مولویوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے آتھم صاحب کی کوٹھی پر جا کر کہا کہ تم نے دوسرے علماء سے بحث کیوں منظور نہ کی مرزا صاحب سے کیوں بحث پر رضا مندی ظاہر کی ان کو تو تمام علماء کافر کہتے ہیں اور ان پر اور ان کے مریدوں پر کفر کے فتوے لگ چکے ہیں۔ آتھم صاحب تو پہلے ہی حضرت اقدسؑ سے خوفزدہ تھے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک سے کہنے لگے کہ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مرزا صاحب سے بحث کرنا آسان نہیں۔ اب یہ موقع اچھا ہاتھ آگیا ہے ۔ مرزا صاحب کو جواب دے دو اور ان مولویوں سے بے شک مباحثہ کر لو کوئی حرج نہیں چنانچہ پادری مارٹن کلارک نے ۱۲۔ مئی ۱۸۹۳ء کو ایک اشتہار دیا کہ مرزا صاحب کو علماء نے کافر قرار دیا ہے ۔(۳۴) لہٰذا وہ اسلام کے وکیل نہیں ہو سکتے ۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کے جواب میں انہیں خط لکھا کہ اب آپ کا انکار درست نہیں۔ آپ لوگوں کی تحریریں اور وعدے اور منظور کردہ شرائط ہمارے پاس ہیں پس آپ کو یا تو بحث کر نا ہوگی یا پھر شکست تسلیم کرنی پڑے گی اگریہ بات اخباروں میں شائع کردو اور اپنی شکست کا اعتراف کر لو پھر تمہیں اختیار ہے جس مولوی سے چاہو بحث کر لو۔ نیز فرمایا تم ہمیں کفر کے فتووں کا طعنہ دیتے ہو حالانکہ یہ فتاویٰ کفر ہم پر چسپاں نہیں ہو سکتے ۔ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے سچے مسلمان ہیں اور ایک خدا ترس عالم فاضل مسلمانوں کی جماعت ہمارے ساتھ ہے اور کفر کے فتوے تو آپ لوگوں پر بھی لگ چلے ہیں پروٹسٹنٹ کیتھولک مذہب والوں کو کافر بلکہ واجب القتل یقین کرتے ہیں۔ پھر تو آپ بھی عیسائیت کے وکیل نہیں ہو سکتے ۔ پس فتاویٰ کفر میں ہم اور تم برابر ہیں ۔ بحث تو دراصل حق اور باطل میں ہے کہ آیا حق آپ کی طرف ہے یا ہم حق پر ہیں۔ اس میں کفر کے فتوئوں کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم نے اسلام اور قرآن کریم کی وکالت کرنی ہے اور آپ نے اناجیل کی ۔ بھلااس کو فتاویٰ کفر سے کیا تعلق ‘‘(۳۵)
حضرت اقدسؑ نے مناظرہ کی ابتدائی خط و کتابت ، مارٹن کلارک کا چیلنج ، پاندہ صاحب کا خط ، مناظرہ کے شرائط اور دیگر تمہید کوائف منظر عام پر لانے کے لئے ’’ حجۃ الاسلام ‘‘ اور ’’ سچائی کا اظہار ‘‘ نامی رسالے شائع کئے۔ حجۃ الاسلام میں حضورؑ نے خد اتعالیٰ سے علم پا کر اول المکفرین مولوی محمد حسین بٹالوی سے متعلق یہ خبر دی کہ وہ مرنے سے قبل میرا مومن ہونا تسلیم کر لیں گے اور تکفیر سے رجوع کر لیں گے ۔ چنانچہ یہ پیشگوئی ۱۹۱۴ء میں پوری ہوگئی جب کہ مولوی صاحب نے ضلع گوجرانوالہ کے جج لالہ دیو کی نندن کی عدالت میں حلفیہ شہادت دی کہ فرقہ احمدیہ بھی قرآن و حدیث کو مانتاہے اور ہمارا فرقہ کسی ایسے فرقہ کو جو قرآن اور حدیث کو مانے کا فر نہیں کہتا ( دیکھو مقدمہ نمبر ۱۳۰۰ بعد الت لالہ دیو کی نندن مجسٹریٹ درجہ اول )ایک غیر احمدی عالم اس نشان کے پورا ہونے کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مرزا صاحب کے سخت مخالف تھے ۔ حتیٰ کہ آپ نے مرزا صاحب پر کفر کے فتوے لگائے عین اس زمانہ میں مرزا صاحب نے پیشگوئی کی کہ مولانا موصوف وفات سے قبل میرا مومن ہونا تسلیم کر لیں گے ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور مولوی صاحب کو عدالت میں یہ بیان دینا پڑا کہ ان کا فرقہ جماعت مرزائیہ کو مطلقاً کافر نہیں کہتا یہ ایک ایسا بد یہی نشان ہے جس سے انکار نہیں ہو سکتا۔(۳۶)
جنگ مقدس
طے شدہ شرائط کے مطابق ۲۲۔ مئی سے ۵۔ جون ۱۸۹۳ء تک امرتسر میں مباحثہ ہوا۔ جو جنگ مقدس کے نام سے چھپا ہوا موجود ہے ۔ یہ مباحثہ مسٹرہنری مارٹن کلارک کی کوٹھی میں ہوا۔ مسلمانوں کی طرف سے منشی غلام قادر صاحب فصیح( وائس پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی سیالکوٹ) نے اور عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب نے صدر کے فرائض سر انجام دیئے۔ حضور کے ساتھ معاونین کے طور پر حضرت مولانا نور الدین صاحب۔ مولانا سید محمد احسن صاحب اور شیخ اللہ دیا صاحب لدھیانوی تھے۔ اور عیسائی مناظر آتھم کے معاون پادری جے ۔ایل ٹھاکر داس، پادری عبداللہ اور پادری ٹامس ہاول صاحب قرار پائے۔ کرنیل الطاف علی خاں صاحب رئیس کپورتھلہ جو عیسائیت اختیار کر چکے تھے عیسائیوں کی طرف بیٹھتے۔ ایک طرف حضرت اقدسؑ اور دوسری طرف عبداللہ آتھم صاحب بیٹھتے تھے ۔ دونوں فریقوں کے درمیاں خلیفہ نورالدین صاحب جمونی اور منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی مباحثہ کی کارروائی نوٹ کرتے ۔ اسی طرح عیسائیوں کے آدمی بھی لکھتے تھے اور بعد میں تحریروں کا مقابلہ کر لیتے تھے ۔ (۳۷)
ایک ایمان افروز واقعہ:۔
مباحثہ کے دوران میں ایک عجیب ایمان افزا واقعہ پیش آیا جس نے اپنوں اور بیگانوں کو حیران کر دیا۔ عیسائیوں نے آپ کو شرمندہ کرنے کے لئے یہ صورت نکالی کہ ایک دن چند لولے لنگڑے اور اندھے اکٹھے کر لئے اور کہا کہ آپ کو مسیح ہونے کا دعویٰ ہے ان پر ہاتھ پھیر کر اچھا کر دیں۔ مجلس میں ایک سناٹا سا چھا گیا۔ اور مسلمان نہایت بے تابی سے انتظار کرنے لگے کہ دیکھیں آپ اس کا کیا جواب دیتے ہیں اور عیسائی اپنی اس کارروائی پر پھولے نہیں سماتے تھے لیکھ جب حضورؑ نے اس مطالبہ کا جواب دیا تو ان کی فتح شکست سے بدل گئی اور سب لوگ آپ کے جواب کی برجستگی اور معقولیت کے قائل ہوگئے آپ نے فرمایا کہ اس قسم کے مریضوں کو اچھا کرنا انجیل میں لکھا ہے ہم تو اس کے قائل ہی نہیں ہمارے نزدیک تو حضرت مسیحؑ کے معجزات کا رنگ ہی اور تھا۔ یہ تو انجیل کا دعویٰ ہے کہ وہ ایسے بیماروں کو جسمانی رنگ میں اچھا کرتے تھے۔ لیکن اسی انجیل میں لکھا ہے کہ اگر تم میں رائی برابر ( ۳۸) بھی ایمان ہوگا تو تم مجھ سے بھی بڑھ کر عجیب کام کر سکتے ہو۔ پس ان مریضوں کو پیش کرنا آپ لوگوں کاکام نہیں بلکہ ہمارا کام ہے اور اب میں ان مریضوں کو جو آپ نے نہایت مہربانی سے جمع کر لئے ہیں آپ کے سامنے پیش کرکے کہتا ہوں کہ براہ مہربانی انجیل کے حکم کے ماتحت اگر آپ لوگوں میں ایک رائی کے دانہ برابر بھی ایمان ہے تو ان مریضوں پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ اچھے ہو جائو۔ اگریہ اچھے ہوگئے تو ہم یقین کر لیں گے کہ آپ اور آپ کا مذہب سچاہے ۔ حضرت اقدسؑ کی طرف سے یہ برجستہ جواب سن کر پادریوں کے ہوش اڑ گئے اور انہوں نے جھٹ اشارہ کر کے ان لوگوں کو وہاں سے رخصت کر دیا۔ (۳۹)
مباحثے کا اثر :۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس مباحثہ میں یہ اصول پیش کیا کہ فریقین کو لازم ہوگا کہ جو دعویٰ کریں وہ دعویٰ اس الہامی کتاب کے حوالہ سے کیا جائے جو الہامی قرار دی گئی ہے اور جو دلیل پیش کریں اور دلیل بھی اسی کتاب کے حوالہ سے ہو ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سنہری اصول کا التزام کرتے ہوئے قرآن کریم کی صداقت جس خوبی سے نمایاں کرکے دکھائی ہے اس کا لطف اصل پر چے دیکھنے سے ہو سکتا ہے ۔ اس کے مقابل عیسائی مناظر اس میں سراسر ناکام ہوئے یہ اسی فتح عظیم کا نتیجہ تھا کہ کرنیل الطاف علی خاں صاحب رئیس کپورتھلہ جو مباحثہ میں عیسائیوں کی صف میں بیٹھتے تھے آخری دن حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پہنچے اور عیسائیت سے تائب ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ۔(۴۰)
باطل طریق کے لئے پیشگوئی :۔
مباحثہ کا آخری دن ( ۵۔ جون ۱۸۹۳ء ) بڑے معرکے کا دن تھا کیونکہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا سے علم پاکر باطل فریق کے متعلق یہ زبردست پیشگوئی فرمائی کہ ’’ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا۔ اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے ۔ ‘‘ اس کے بعد حضورؑ نے مسٹر آتھم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگریہ نشان پورا ہوگیا تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کے بارہ میں جن کو اندرونہ بائبل ( صفحہ۷۰، ۷۵) میں معاذ اللہ دجال کے لفظ سے آپ یاد کرتے ہیں محکم دلیل ٹھہرے گی یا نہیں ؟ (۴۱) یہ ہیبت ناک پیشگوئی سن کر مسٹر آتھم کا رنگ فق اور چہرہ زرد ہو گیا اور ہاتھ کانپنے لگے اور انہوںنے بلا توقف اپنی زبان منہ سے نکالی اور دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے جیسا کہ ایک خائف ملزم توبہ اور انکسار کے رنگ میں اپنے تئیں ظاہر کرتاہے ۔ اور بار بار لرزتی ہوئی زبان سے کہا توبہ توبہ میں نے بے ادبی اور گستاخی نہیں کی اور میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز دجال نہیں کہا۔(۴۲،۴۳)
سفر جنڈیالہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مناظرہ سے فارغ ہونے کے بعد مسلمانان جنڈیالہ کی درخواست پر ایک دن کے لئے جنڈیالہ تشریف لے گئے ۔ قصبہ کے اکثر معزز لوگوں نے جو حضورؑ کی زیارت کے مشتاق تھے آپ کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ اور ایک نئے مکان میں حضور کا قیام ہوا۔ مکان کے ایک دالان اور کوٹھری میں فرش بچھا ہوا تھا۔ کوٹھری میں تو حضرت اقدس فروکش ہوئے اور چند خدام حضرت مولانا نورالدین صاحب کے ساتھ مکان کی ملحقہ مسجد میں آکر بیٹھ گئے ۔ اہل جنڈیالہ نہایت شوق سے مسجد میں جمع ہوئے اور مناظرہ کے کوائف سنتے رہے حضرت مولانا بڑی دیر تک وعظ فرماتے اور حالات سناتے رہے ۔ اہل جنڈیالہ اس دن اس قدر خوش تھے کہ گویا ان کے واسطے عید کا دن تھا۔ دوپہر کا کھانا تناول کرنے کے بعد تھوڑی دیر ٹھہر کر حضرت اقدسؑ بھی مسجد میں تشریف لے آئے اور دیر تک اپنے مقدس کلمات سے نوازتے رہے ۔ حضور نے بڑی تفصیل سے ان غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جو علماء نے پھیلا رکھی تھیں اور نصوص قطعیہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ثابت کی جس سے لوگوں کی خوب تسلی ہوئی اور وہ نہایت شکر گزار ہوئے ۔ حضرت اقدسؑ عصر کی نماز تک جنڈیالہ میں مقیم رہے اور عصرکے بعد تھوڑی دیر بیٹھ کر امر تسر تشریف لے آئے ۔ (۴۴)
قادیان کوواپس :۔
جنڈیالہ سے آنے کے بعد چند روز حضورؑ نے مزید امرتسر میں قیام فرمایا اور جون کے دوسرے ہفتہ میں قادیان تشریف لے آئے ۔ (۴۵)












ماموریت کا پندرھواں سال
تعطیل جمعہ کی تحریک
(۱۸۹۶ء)
۱۸۹۶ء کا آغاز ایک دوسری تحریک سے ہوا جو تعطیل جمعہ سے متعلق تھی۔ جمعہ کی عظمت و فرضیت قرآن و احادیث سے نمایاں اور مسلمانان عالم کے نزدیک مسلم ہے جہاں جہاں اسلامی حکومتیں قائم رہیں انہوں نے اس شعار اسلامی کے قیام و بقاء کا خاص خیال رکھا۔ اسی طرح جس وقت سے ہندوستان میں اسلامی سلطنت کی بنیاد پڑی اسی وقت سے جمعہ کی تعطیل بھی جاری ہوئی اور آخرتک جاری رہی بلکہ مسلمان حکومت کے خاتمہ کے بعد بھی مدت تک بعض ہندو ریاستوں میں جمعہ کی سرکاری تعطیل ہوتی رہی۔ لیکن جب انگریز ملک پر قابض ہوئے تو اتوار کی تعطیل شروع ہوگئی اور مسلمان بالعموم اس مقدس دن کی برکتوں سے محروم رہ گئے ۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ احیائے دین کے لئے تشریف لائے تھے اس لئے آپ نے یکم جنوی ۱۸۹۶ء کو مسلمانان ہند کی طر ف سے وائسرائے ہند کے نام اشتہار شائع کیا (۱) جس میں اسلامی نقطہ نگاہ سے جمعہ کی اہمیت واضح کرکے درخواست کی کہ وہ مسلمانوں کے لئے جمعہ کی تعطیل قراردیں۔
اس سے قبل مسلمانوں نے کئی دفعہ اس تجویز کا ارادہ کیالیکن یہ سوچ کر کہ ایک غیر اسلامی گورنمنٹ سے اس کے قبول کرنے کی امید نہیں ہو سکتی وہ دستکش ہوگئے۔ (۲)
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی پرزور مخالفت :۔
حضرت اقدس نے یہ تحریک اٹھاتے ہوئے بالخصوص علماء کو توجہ دلائی ۔کہ ’’ وہ بھی دستخط کرنے سے ثواب آخرت حاصل کر یں ۔ یہ فرض کیا کہ ہم ان کی نظر میں کافر اور بے دین ہیں۔ مگر اس بے دلیل خیال سے اس نیکی سے محروم نہ رہ جائیں یونہی سمجھ لیں کہ کبھی دین کو خدا تعالیٰ فاسقوں کے ذریعہ سے بھی مدد دیتاہے (۳)لیکن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے زیر اثر علماء نے اس موقعہ پر بھی اختلاف کا افسوسناک مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا پورا زور صرف کر دیا۔ چنانچہ لکھا ۔’’ چونکہ وہ درپردہ دشمن اسلام اور دہریہ ہے اور موجودہ ہیئت اسلام و مسلمانوں کو درہم برہم کرنا چاہتاہے لہٰذا کچھ بعید نہیں کہ یہ درخواست اس نے اسی غرض سے تجویز کی ہو کہ یہ درخواست گورنمنٹ سے نامنظور ہو تو موجودہ حالت ( افسران بالادست کی خاص اجازت ) بھی باقی رہے اور جمعہ جماعت کا بکھیڑا دور ہوتا نظر آوے ۔ ‘‘(یٔ)
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی اس حاسدانہ کارروائی سے وقتی طور پر یہ تحریک دب گئی مگر بالا خر مولانا نورالدین حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے عہد میں حکومت نے یہ تجویز منظور کر لی۔ (۵)
امیر کابل کے نام تبلیغی خط
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مارچ یا اپریل ۱۸۹۶ء مطابق شوال ۱۳۱۳ھ میں والئی کابل امیر عبدالرحمن خاں ( ۱۸۴۴۔ ۱۹۰۱ء ) کے نام ایک تبلیغی خط بھیجا( ۶) یہ خط حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب شہید لے کر گئے تھے ۔ جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے ایک مرتبہ اپنے اخبار’’ منادی ‘‘ میں لکھا تھا کہ امیر کابل نے اس خط کے موصول ہونے پر فقط یہ جواب دیا کہ ’’اینجابیا‘‘ اور مقصد یہ تھا کہ کابل میں آکر دعویٰ کرو۔ تو نتیجہ معلوم ہو جائے گا۔ (۷) لیکن اس کا کوئی قطعی ثبوت معلوم نہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریرات سے صرف اتنا ثابت ہوتاہے ۔کہ بعد کو جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کابل گئے تو انہوں نے امیر کابل کو مشتعل کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ چنانچہ مولوی صاحب نے واپس آنے کے بعد یہ مشہور کر دیا کہ مرزا صاحب کابل جائیں تو زندہ واپس نہیں آسکیں گے ۔(۸)
بعض علماء کا کہنا ہے کہ امیر کابل کو جب حضرت مسیح موعود ؑ کا تبلیغی خط پہنچا۔ تو انہوں نے کہا’’مارا عمر باید نہ عیسیٰؑ ۔ عیسیٰ درزمان خودچہ کردہ بودکہ باردیگر آمد خواہد کرد۔‘‘ یعنی ہمیں حضرت عمر فاروق کی ضرورت ہے ۔ حضرت عیسیٰؑ کی ضرورت نہیں ۔ انہوں نے بعثت اولیٰ میں کیا کامیابی حاصل کی تھی؟ (۹)
مخالف عالموں اور سجادہ نشینوں کو مباہلے کی دعوت
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے دعویٰ الہام پر بیس برس سے زائد عرصہ گزر چکا تھا جو آپ کی صداقت کا کھلا کھلا خدائی نشان تھا۔ جب آپ ؑ نے الہام پانے کا دعویٰ کیا تو آپ جوان تھے لیکن اب آپ بوڑھے ہو چکے ۔ آپ کے بہت سے دوست اور عزیز جو آپ سے چھوٹے تھے فوت ہو گئے اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے عمر دراز بخشی اور ہر میدان میں آپ کی نصرت و تائید فرمائی ۔ اور ہر مشکل میں آپ کا متکفل و متولی رہا۔ مگر آسمانی عدالت کا یہ عملی فیصلہ دیکھ کر بھی چونکہ خدا ناترس علماء اور سجادہ نشین ابھی تک آپ کے مفتری و کذاب ہونے کی رٹ لگارہے تھے اس لئے حضور نے خدا کے حکم ( ۱۰) سے اس سال ہندوستا ن کے تمام قابل ذکر مخالف عالموں اور سجادہ نشینوں کا نام لے لے کر ان کو مباہلہ کی فیصلہ کن دعوت دی۔ (۱۱)
الفاظ مباہلہ :۔ اس دعوت کے ساتھ حضور نے مباہلہ کے الفاظ بھی از خود لکھ دیئے۔ چنانچہ لکھا ’’تاریخ اور مقام مباہلہ کے مقرر ہونے کے بعد میں ان تمام الہامات کو جو لکھ چکا ہوں اپنے ہاتھ میں لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہوں گا اور دعاکروں گا کہ یا الٰہی اگر یہ الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں میرا ہی افتراہے اور تو جانتاہے کہ میں نے ان کو اپنی طرف سے بنالیا ہے یا اگر یہ شیطانی وساوس ہیں اور تیرے الہام نہیں ۔ تو آج کی تاریخ سے ایک برس گزرنے سے پہلے مجھے وفات دے یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا کر جو موت سے بدتر ہو اور اس سے رہائی عطانہ کر جب تک کہ موت آجائے تا میری ذلت ظاہر ہو اور لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سبب سے تیرے بندے فتنہ اور ضلالت میں پڑیں۔ اور ایسے مفتری کا مرنا ہی بہتر ہے ۔ لیکن اے علیم و خبیر اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں اور تیرے ہی منہ کی باتیں ہیں تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہیں ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر ۔ کسی کو اندھا کر دے ۔ اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا۔ اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر اور جب میں یہ دعا کر چکوں تو دونوں فریق کہیں کہ آمین ۔ ایسا ہی فریق ثانی کی جماعت میں سے ہریک شخص جو مباہلہ کے لئے حاضر ہو جناب الٰہی میں یہ دعا کرے ۔ کہ اے خدائے علیم و خبیر ہم اس شخص کو جس کا نام غلام احمد ہے دراصل کذاب اورمفتری اور کافر جانتے ہیں ۔ پس اگر یہ شخص درحقیقت کذاب اور مفتری اور کافر اور بے دین ہے اور اس کے یہ الہام تیری طرف سے نہیں بلکہ اپنا ہی افتراء ہے تو اس امت مرحومہ پر یہ احسان کر کہ اس مفتری کو ایک سال کے اندر ہلاک کردے تالوگ اس کے فتنہ سے امن میں آجائیں۔ اور اگر یہ مفتری نہیں اور تیری طرف سے ہے اور یہ تمام الہام تیرے ہی منہ کی باتیں ہیں تو ہم پر جو اس کو کافر اور کذاب سمجھتے ہیں دکھ اور ذلت سے بھرا ہوا عذاب ایک برس کے اند رنازل کر ۔ اور کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر اور جب یہ دعا فریق ثانی کر چکے تو دونوں فریق کہیں کہ آمین (۱۲)
اس کے ساتھ ہی حضورؑ نے یہ ۔۔۔۔۔۔۔شرط بھی درج فرمائی کہ ’’میری بددعا کا اثر صرف اس صورت میں سمجھا جاوے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں ایک سال تک ان بلائوں میں سے کسی نہ کسی بلا میں گرفتار ہو جائیں ۔ اگرایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کا ذب سمجھوں گا۔ اگرچہ وہ ہزار ہوں یا دو ہزار اور پھر ان کے ہاتھ پر توبہ کروں گا۔ اور اگر میں مرگیا تو ایک خبیث کے مرنے سے دنیا میں ٹھنڈاور آرام ہو جائے گا۔
حضرت اقدسؑ نے یہ دعوت باقاعدہ مطبوعہ شکل میں تمام مشہور علماء اور سجادہ نشینوں کو بذریعہ رجسٹری ارسال فرمائی ۔ اور ان کے ناموں کی لمبی فہرست دے کر آخر میں یہ بھی احتیاطاًلکھا کہ ان حضرات میں سے اگر اتفاقاً کسی صاحب کو یہ رسالہ نہ پہنچا ہو تو وہ اطلاع دیں تا دوبارہ بذریعہ رجسٹری بھیجا جائے ۔(۱۴)
اس دعوت کے بعد آپ نے علماء و مشائخ کے سامنے یہ تجویز بھی رکھی کہ ان میں سے ہر شخص اپنے ہا ں بیٹھے بٹھائے اشتہارات کے ذریعہ سے بھی مباہلہ کر سکتا ہے ۔ (۱۵) لیکن افسوس کہ اس درجہ سہولت ، اور غیرت دلانے والے الفاظ کے باوجود حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف اور حضرت پیر صاحب العلم سندھ کے سوا کوئی شخص ایسا نہ نکلا جو کھلم کھلا حضور کی تصدیق کرتا۔
دعوت مباہلہ مجسم نشان کی حیثیت اختیار کر گئی :۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دعوت میں لکھا تھا۔ کہ میں مباہلہ میں دعا کروں گا کہ ’’ اے علیم و خبیر اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں اور تیرے منہ کی باتیں ہیں تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضرہیں۔ ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج او ر کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر ۔‘‘ اور گومباہلہ کی نوبت نہیں آئی۔ لیکن یہ عجیب کرشمہ قدرت ہے کہ آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ بے اثر ثابت نہیں ہوئے ۔ بلکہ جو معاند علماء یا گدی نشین اپنی مخالفت پر بدستور قائم رہے انہیں اپنے جرم کی پاداش میں ان سزائوں میں سے کسی نہ کسی سزا کو ضرور بھگتنا پڑا۔ چنانچہ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی پہلے اندھے ہوئے پھر سانپ کے ڈسنے سے مرے ۔ مولوی عبدالعزیز صاحب اور مولوی محمد صاحب لدھیانوی جو مشہور مکفر ین میں سے تھے صرف تیرہ دن کے وقفے سے یکے بعد دیگرے اس جہان سے کوچ کر گئے اور ان کا پورا خاندان اجڑ گیا۔ مولوی سعد اللہ صاحب نو مسلم اور مولوی رسل بابا صاحب طاعون کا شکا ر ہوئے۔ مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری نے اپنی کتاب ’’فتح رحمانی‘‘ صفحہ ۲۶۔۲۷میں آپ کے خلاف بد دعا کی تھی وہ کتاب کی اشاعت سے قبل ہی اجل کے ہاتھوں پکڑے گئے ۔ غرض ان مخالفانہ کاروائی جاری رکھنے والوں میں سے اکثر آپ کی زندگی میں ہی تباہ و برباد ہوئے۔ چنانچہ ۱۹۰۶ء تک ان مخالفین کی اکثریت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور جوزندہ تھے ۔ وہ بھی کسی نہ کسی بلا میں گرفتار تھے۔ (۱۶) آپ کی وفات کے بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری سلسلہ احمدیہ کے عروج کا مشاہدہ کرنے کے لئے دیر تک زندہ رہے اور بالاخر پے درپے صدمات سہ کر فالج سے راہی ملک عدم ہوئے (۱۷)
حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف کی تصدیق : ۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے ان عالموں اور سجادہ نشینوں کے حلقے میں حضرت خواجہ غلام فرید صاحب وہ مرد مجاہد تھے جنہوں نے کھلے لفظوں سے آپ کی تصدیق فرمائی ۔ چنانچہ انہوں نے دعوت مباہلہ کا اشتہار ملتے ہی ۲۷۔ رجب ۱۳۱۴ھ ( مطابق جنوری ۱۸۹۷ء) کو حضرت اقدسؑ کے نام عربی میں عقیدت مندی کے جذبات سے مکتوب بھیجا کہ مباہلہ کا سوال ہی کیا ہے میں تو ابتداہی سے حضور کی تعظیم کر تاہوں تا مجھے ثواب حاصل ہو۔ اور کبھی میری زبان پر تعظیم و تکریم اور رعایت آداب کے سوا آپ کے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا۔ حضرت اقدس نے یہ خط ضمیمہ ’’ انجام آتھم ‘‘ میں شائع فرما دیا۔ اورآپ کی بڑی تعریف فرمائی کہ ہزاروں میں سے انہوں نے پرہیز گاری اور تقویٰ شعاری کا نور دکھلایا۔ آپ کا یہ کارنامہ کبھی فراموش نہیں ہو سکتا۔ یہ خط چھپا تو پہلے مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری اور پھر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ان کے گائوں پہنچے اور غزنوی خاندان کے بعض علماء نے انہیں مکذب بنانے کے لئے خطوط بھی بھیجے مگر آپ چونکہ بزرگ اور پاک وطن تھے اور خدا تعالیٰ نے آپ پر مسیح کی صداقت پوری طرح منکشف کرکے آپ کا سینہ نور صداقت سے منور کر رکھا تھا اس لئے آپ نے کسی کی بھی پروانہ کی اور ان خشک ملائوں کو ایسے دنداں شکن جواب دیئے کہ وہ ساکت ہوگئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کا خاتمہ مصدق ہونے کی حالت میں ہوا۔(۱۸)
حضرت پیر ’’ صاحب العلم ‘‘ کی شہادت:۔
دوسرے مصدق حضرت پیر صاحب العلم تھے جو سند ھ کے مشہور مشائخ میں سے تھے او رجن کے مرید ایک لاکھ سے بھی متجاوز تھے انہوں نے آپ کی نسبت گواہی دی کہ ’’ میں نے رسول اللہ ﷺ کو عالم کشف میں دیکھا ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ شخص جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیا یہ مفتری ہے یا صادق؟ حضور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ صادق ہے اور خدا تعالیٰ کی طر ف سے ہے ۔ چنانچہ انہوں نے ایک طرف تو عام مجلس میں کھڑے ہو کر اور ہاتھ میں عصالے کر تمام حاضرین کو بلند آواز سے سنا دیا کہ میں حضرت اقدس مرزا صاحب کو ان کے دعوے میں حق پر جانتاہوں اور ایساہی مجھے کشفاً معلوم ہوا ہے اور دوسری طرف انہوںنے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں عقیدت مندانہ پیغام بھیجا کہ میں نے سمجھ لیا ہے کہ آپ حق پر ہیں۔ اب بعد اس کے ہم آپ کے امور میں شک نہیں کریں گے ۔ اور آپ کی شان میں ہمیں کچھ شبہ نہیں ہوگا۔ اور جو کچھ آپ فرمائیں گے ہم وہی کریں گے ۔پس اگر آپ یہ ارشاد فرمائیں کہ امریکہ میں چلے جائیں تو ہم وہیں جائیں گے اور ہم نے اپنے تئیں آپ کے حوالہ کر دیا ہے اور انشاء اللہ ہمیں فرمانبردارپائیں گے ۔
یہ باتیں ان کے خلیفہ عبداللطیف صاحب اور شیخ عبداللہ صاحب عرب نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں خود عرض کی تھیں۔(۱۹)






حواشی
۱۔ تبلیغ رسالت جلد پنجم صفحہ ۷۔۱۰
۲۔ اشاعۃ السنہ جلد ۱۶نمبر ۱۲صفحہ ۳۷۲۔۳۷۳
۳۔ تبلیغ رسالت جلد چہارم صفحہ ۳۸۔۴۷ جلد پنجم صفحہ ۲
۴۔ اشاعۃ السنہ جلد ۱۶نمبر ۱۲صفحہ ۳۷۳
۴۔ تفصیل ’’ خلافت اولیٰ ‘‘ کے واقعات میں آئے گی ۔
۶۔ مفصل مکتوب کے لئے ملاحظہ ہو ’’ الحکم ‘‘ ۱۷۔ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸۔ ۱۰
۷۔ ’’حیات احمد‘‘ جلد چہارم صفحہ ۵۴۲۔۵۴۴
۸۔ ’’ حقیقۃ المہدی ‘‘ طبع اول صفحہ ۳
۹۔ ’’ عاقبۃ المکذبین ‘‘ جلد اول صفحہ ۱۷ مطبوعہ ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء ( مولفہ قاضی محمد یوسف صاحب آف ہوتی مردان )
۱۰۔ علماء وقت تو ۱۸۹۱ء سے آپ کو مباہلہ کا چیلنج دے رہے تھے لیکن حضور کو اس میں ایک عرصے تک تامل رہا۔ کیونکہ حضورمباہلہ کے لئے اتمام حجت ضروری سمجھتے تھے ۔ دوسرے جزئی اختلاف کی وجہ سے جس کی بناء اجتہاد پر ہو مباہلہ کرنا آپ نے نزدیک سرے سے جائز ہی نہیں تھا چنانچہ حضور نے نواب محمد علی خان صاحب کو ایک خط میں لکھا۔ ’’ کسی جزئی میں حنفی حق پر نہیں اور کسی بھی شافعی حق پر اور کسی میں اہلحدیث ۔ اب جب کہ فرض کیا جائے کہ سب فرقے اسلام کے جزئی اختلاف کی وجہ سے باہم مباہلہ کریں۔ اور خدا تعالیٰ اس پر جو حق پر نہیں عذاب نازل کرے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنی اپنی خطا کی وجہ سے تمام فرقے اسلام کے روئے زمین سے نابود کئے جائیں اب ظاہر ہے کہ جس امر کے تجویز کرنے سے اسلام کا استیصال کرنا پڑتا ہے وہ خدائے تعالیٰ کے نزدیک جو حامی اسلام اور مسلمین ہے کیونکر جائز ہوگا۔ ( مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم صفحہ ۱۱)
۱۱۔ چند مخاطب عالموں اور سجادہ نشینوں کے نام یہ ہیں شیخ الکل مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی ۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی۔ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ۔ مولوی عبدالحق صاحب دہلوی مولف تفسیر حقانی ۔ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری مولوی عبدالجبار صاحب۔ غزنوی ۔ مولوی عبدالواحد صاحب غزنوی ۔ مولوی عبدالحق صاحب غزنوی ۔ مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری ۔ مولوی عبداللہ صاحب ٹونکی ۔ حافظ عبدالمنان صاحب وزیر آبادی۔ مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالی ۔ غلام نظام الدین صاحب سجادہ نشین ۔ نیاز احمد صاحب بریلوی ۔ خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف ۔ صادق علی شاہ صاحب رتر چھتر( ضلع گورداسپو ر) سید حسن شاہ صاحب مودودی دہلوی
۱۲۔ ’’انجام آتھم ‘‘ طبع اول صفحہ ۶۵۔ ۶۶
۱۳۔ ’’انجام آتھم ‘‘ طبع اول صفحہ ۶۴۔ ۶۷
۱۴۔ ’’انجام آتھم ‘‘ صفحہ ۷۲
۱۵۔ ضمیمہ انجام آتھم ( حاشیہ صفحہ ۳۳۔ ۳۵)
۱۶۔ ’’ حقیقۃ الوحی ‘‘ طبع اول صفحہ ۲۲۷۔۳۰۰‘‘’’عاقبۃ المکذبین ‘‘ صفحہ ۳۳۔ ۳۴( مولفہ حضرت شاہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانوی
۱۷۔ سیرت ثنائی صفحۃ ۳۷۲حاشیہ و صفحہ ۳۹۷ حاشیہ ( مولفہ جناب مولوی عبدالمجید صاحب سوہدروی)
۱۸۔ حقیقۃ الوحی طبع اول صفحہ ۲۰۷، ’’اشاعۃ السنہ ‘‘جلد ۱۸نمبر ۵صفحہ ۱۳۸۔ ۱۳۹ ۱۹۔ انجام آتھم صفحہ ۶۰
’’جلسہ مذاہب عالم ‘‘ میں اسلام کی شاندار فتح اور تصنیف و اشاعت ’’ اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘
۱۸۹۶ء کا اختتام ’’جلسہ مذاہب عالم‘‘ ایسے عظیم الشان واقعہ سے ہوا جس میں دنیا کے ایک مشترکہ مذہبی پلیٹ فارم پر اسلام کو اور اسلام کے کامیاب وکیل ہونے کی حیثیت سے حضرت مسیح موعودؑ کو ایسی شاندار فتح نصیب ہوئی کہ رہتی دنیا تک یاد گار ہے گی ۔
جلسہ کا پس منظر :۔
ایک صاحب سوامی سادھو شوگن چند رنامی تھے۔ جنہیں بچپن سے ہی مذہب کی طرف میلان تھا۔ ابتدائی عمر میں کچھ عرصہ ملازمت اختیار کی مگر پھر سادھو بن گئے اور کنجاہ (گجرات ) کے ایک فقیر سے ان کا تعلق ہوگیا۔ جس کے حکم پر وہ تین چار سال تک ہندوئوں کا کاستھ قوم کی اصلاح وخدمت کا کام کرتے رہے۔ آخر ۱۸۹۲ء میں دفعتہ انہیں خیال آیا کہ جب تک سب لوگ اکٹھے نہ ہوں کوئی فائدہ نہیں ہوگا وہ اس فکر میں رہے اور آخر یہ تجویز دل میں آئی کہ ایک مذہبی کانفرنس منعقد کی جائے چنانچہ اس نوعیت کا پہلا جلسہ اجمیر میں ہوا۔ اس کے بعد وہ دوسری کانفرنس کے لئے لاہور کی فضاء کو موزون سمجھ کر یہاں اس کی تیاری میں لگ گئے ۔(۱)
کانفرنس کے لئے انتظامات :۔
سوامی صاحب نے اسے عملی جامہ پہنانے اور جلسہ کے وسیع پیمانہ پر انتظامات کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی جس کے پریذیڈنٹ ماسٹرورگاپر شاداور چیف سیکرٹری ہائیکورٹ لاہور کے ایک ہندو پلیڈ ر لالہ دھنپت لائے بی اے۔ ایل ۔ ایل۔ بی تھے ۔ کمیٹی نے جلسہ کے لئے پانچ سوالات تجویز کئے۔
اول:۔انسان کی جسمانی ، اخلاقی اور روحانی حالتیں ۔
دوم :۔ انسان کی زندگی کے بعد کی حالت یعنی عقبیٰ
سوم :۔ دنیا میں انسان کی ہستی کی اصل غرض کیاہے اور وہ غرض کس طرح پوری ہو سکتی ہے ؟
چہارم :۔ کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا اور عاقبت میں کیا ہوتاہے ؟
پنجم :۔ علم یعنی گیان اور معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں؟ (۲)
کانفرنس کے لئے ۲۶۔ ۲۷۔ ۲۸۔ دسمبر ۱۸۹۶ء کی تاریخیں قرار پائیں اور جلسہ گاہ کے لئے انجمن حمایت اسلام لاہور کے ہائی سکول کا احاطہ ( متصل مسجد مولوی احمد علی شیر انوالہ دروازہ ) حاصل کیا گیا ۔ (۳) جلسہ کی کارروائی کے لئے مندرجہ ذیل چھ موڈریٹر صاحبان نامزد کئے گئے ۔(۱) رائے بہادربابو پر تول چند صاحب جج چیف کوٹ پنجاب (۲) خان بہادر شیخ خدا بخش صاحب جج سمال کا زکورٹ لاہور (۳) رائے بہادر پنڈت رادھا کشن صاحب کول پلیڈرچیف کورٹ سابق گورنر جموں (۴) حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب طبیب شاہی(۵) رائے بوانی داس صاحب ایم ۔ اے اکسٹرا سٹلمنٹ آفسیر جہلم ۔ (۶) جناب سردار جواہر سنگھ صاحب سیکرٹری خالصہ کمیٹی لاہور۔ (۴)
اشتہار واجب الاظہار :۔
سوامی شوگن چندر صاحب نے کمیٹی کی طرف سے جلسہ کا اشتہار دیتے ہوئے مسلمانوں ، عیسائیوں اور آریہ صاحبان کو قسم دی کہ ان کے نامی علماء ضرور اس جلسے میں اپنے اپنے مذاہب کی خوبیاں بیان فرمائیں چنانچہ انہوں نے لکھا۔ ’’اس وقت یہ بندہ کل صاحبان مذہب کی خدمت میں جو اپنے اپنے مذہب کے اعلیٰ درجہ کے واعظ اور بنی نوع کی ہمدردی کے لئے سرگرم ہیں ادب و انکسار سے گزارش کرتاہے کہ جو جلسہ اعظم مذاہب کا بمقام لاہور ٹائون ہال قرار پایا ہے جس کی تاریخیں ۲۶۔ ۲۷۔۲۸دسمبر ۱۸۹۶ء مقرر ہو چکی ہیں۔ اس جلسہ کے اغراض یہی ہیں کہ سچے مذہب کے کمالات اور خوبیاں ایک عام مجمع مہذبین میں ظاہر ہو کر اس کی محبت دلوں میں بیٹھ جائے اور اس کے دلائل اور براہین کو لوگ بخوبی سمجھ لیں اور اس طرح پر ہر ایک مذہب کے بزرگ واعظ کو موقع ملے کہ وہ اپنے مذہب کی سچائیاں دوسروں کے دلوں میں بٹھا دے اور سننے والوں کو بھی یہ مبارک موقع حاصل ہوکہ وہ ان سب بزرگوں کے مجمع میں ہر ایک تقریر کا دوسرے کی تقریر کے ساتھ موازنہ کریں اور جہاں حق کی چمک پاویں اس کو قبول کر لیں۔ اور پھر یہ سب تقریریں ایک مجموعہ میں چھپ کر پبلک کے فائدہ کے لئے اردو اور انگریزی میں شائع کر دی جائیں۔
اس بات کو کون نہیں جانتا کہ آج کل مذاہب کے جھگڑوں سے دلوں میں بہت کچھ ابال اٹھا ہوا ہے اور ہر ایک طالب حق سچے مذہب کی تلاش میں ہے اور ہرایک دل اس بات کا خواہشمند ہے کہ جس مذہب میں درحقیقت سچائی ہے وہ مذہب معلوم ہو جائے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ کیونکر معلوم ہو اس سوال کے جواب میں جہاں تک فکر کام کر سکتاہے یہی احسن طریق معلوم ہوتا ہے کہ تمام بزرگان مذہب جو وعظ اور نصیحت اپنا شیوہ رکھتے ہیں ایک مقام میں جمع ہوں اور اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں سوالات مشتہرہ کی پابندی سے بیان فرمائیں ۔ پس اس مجمع اکابرمذہب میں جو مذہب سچے پر میشر کی طر ف سے ہوگا ضرور وہ اپنی نمایاں چمک دکھلائے گا۔ اسی غرض سے اس جلسہ کی تجویز ہوئی ہے اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو کسی مذہب کو اس پر اعتراض ہو۔ سراسر بے تعصب اصول پر مبنی ہے ۔ لہٰذا یہ خاکسار ہر ایک بزرگ واعظ مذہب کی خدمت میں بانکسار عرض کرتاہے کہ میرے اس ارادہ میں مجھ کو مدددیں۔ اور مہربانی فرما کر اپنے مذہب کے جوہر دکھلانے کے لئے تاریخ مقررہ پر تشریف لاویں۔ میں اس بات کا یقین دلاتاہوں کہ خلاف تہذیب اور برخلاف شرائط مشتہرہ کے کوئی امر ظہور میں نہیں آئے گا۔ اور صلح کاری اور محبت کے ساتھ یہ جلسہ ہوگا اور ہر ایک قوم کے بزرگ واعظ خوب جانتے ہیں کہ اپنے مذہب۔۔۔۔۔۔ کی سچائی ظاہر کرنا ان پر فرض ہے پس جس حالت میں اس غرض کے لئے یہ جلسہ انعقاد پایا ہے کہ سچائیاں ظاہر ہوں تو خد انے ان کو اس غرض کے ادا کرنے کا اب جواب موقع دیا ہے۔ جو ہمیشہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا میرا دل اس بات کو قبول نہیں کر سکتا کہ اگر ایک شخص سچا جوش اپنے مذہب کے لئے رکھتا ہو اور فی الواقع اس بات میں ہمدردی انسانوں کو دیکھتا ہو کہ ان کو اپنے مذہب کی طرف کھینچے تو پھر وہ ایسی نیک تقریب میں کہ جب کہ صدہا مہذب اور تعلیم یافتہ لو گ ایک عالم خاموشی میں بیٹھ کر اس کے مذہب کی خوبیاں سننے کے لئے تیار ہوں گے ایسے مبارک وقت کو وہ ہاتھ سے دیدے اور ذرا اس کو اپنے فرض کا خیال نہ آوے اس وقت میں کیونکر کوئی عذر قبول کروں کیا میں قبول کر سکتا ہوں کہ جو شخص دوسرے کو ایک مہلک بیماری میں خیال کرتاہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس کی سلامتی میری دوا میں ہے اور بنی نوع کی ہمدردی کا دعویٰ بھی کرتا ہے وہ ایسے موقع میں جو غریب بیمار اس کو علاج کے لئے بتلاتے ہیں وہ پہلو تہی کرے میر ادل اس بات کے لئے تڑپ رہا ہے کہ یہ فیصلہ ہو جائے کہ کونسا مذہب درحقیقت سچائیوں اور صداقتوں سے بھرا ہوا ہے اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ میں اپنے اس سچے جوش کو بیان کر سکوں ۔ میرا قوموں کے بزرگ و اعظموں اور جلیل الشان حامیوں پر کوئی حکم نہیں ان کی خدمت میں سچائی ظاہر کرنے کیلئے ایک عاجزانہ التماس ہے ۔ میں اس وقت مسلمانوں کے معزز علماء کی خدمت میں ان کے خدا کی قسم دے کر بادب التماس کرتا ہوں کہ اگر وہ اپنا مذہب منجانب اللہ جانتے ہیں تو اس موقعہ پر اپنے اس نبی کی عزت کے لئے جس کے فداشدہ اپنے تئیں خیال کرتے ہیں اس جلسہ میں حاضر ہوں۔ اسی طرح بخدمت پادری صاحبان نہایت ادب اور انکسار سے میری التماس ہے کہ اگر وہ اپنے مذہب کو فی الواقعہ سچا اور انسانوں کی نجات کا ذریعہ خیال کرتے ہیں تو اس موقعہ پر ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا بزرگ ان میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں سنانے کے لئے جلسہ میں تشریف لاویں۔ میں نے جیساکہ مسلمانوں کو قسم دی ہے ایسا ہی بزرگ پادری صاحبوں کو حضرت مسیحؑ کی قسم دیتا ہوں اور ان کی محبت اور عزت اور بزرگی کا واسطہ ڈال کر خاکساری کے ساتھ عرض پرداز ہوں کہ اگر کسی اور نیت کے لئے نہیں تو اس قسم کے عزت کے لئے ضروری جلسہ میں ایک اعلیٰ بزرگ ان میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں سنانے کے لئے جلسہ میں تشریف لاویں ۔ ایسا ہی اپنے بھائیوں آریہ سماج والوں کی خدمت میں اس پر میشر کی قسم دے کر جس نے وید مقدس کو اپنت کہا عاجزانہ عرض کرتا ہوں کہ اس جلسہ میں ضرور کوئی اعلیٰ واعظ ان کا تشریف لا کر وید مقدس کی خوبیاں بیان کرے اور ایسا ہی صاحبان سناتن دھرم اور برہمو صاحبوں وغیرہ کی خدمت میں اس قسم کی التماس ہے ۔ پبلک کو اس اشتہار کے بعد ایک یہ فائدہ بھی حاصل ہو گا کہ ان تمام قوموں میں کسی قوم کو درحقیقت اپنے خدا کی عزت اور قسم کا پاس ہے اور اگر اس کے بعد بعض صاحبوں نے پہلو تہی کیا۔ تو بلا شبہ ان کا پہلو تہی کرنا گویا اپنے مذہب کی سچائی سے انکار کرنا ہے ۔
’’المشتہر ۔ شوگن المعروف سوامی شوگن چندردھرم مہوتسواوپدیشک لاہور)(۵)
مذاہب کے نمائندے :۔
اس اشتہار پر مندرجہ ذیل حضرات نے دعوت قبول کی (۱) حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام (نمائندہ اسلام ) (۲) مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی ( نمائندہ اسلام )(۳) مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری(نماندہ اسلام )(۴) مفتی محمد عبداللہ صاحب ٹونکی (نمائندہ سناتن دھرم ) (۷) پنڈت گوپی ناتھ صاحب سیکرٹری سناتن دھرم سبھا لاہور(نمائندہ سناتن دھرم ) (۸) پنڈت بھانودت صاحب ممتحن پنجاب یونیورسٹی ( نمائندہ سناتن دھرم ) (۹) رائے برودہ کنٹہ صاحب پلیڈروزیر ریاست فرید کوٹ (نمائندہ تھیوسافیکل سوسائٹی ) (۱۰) یابو بیجا رام چٹر جی صاحب سکھر (نمائندہ آریہ سماج )(۱۱) ماسٹر درگا پر شاد صاحب (نمائندہ آریہ سماج )۱۳۔ پنڈت گوردھن داس صاحب (نمائندہ فری تھنکر )(۱۳) سردار جواہر سنگھ صاحب ایم۔ اے (نمائندہ سکھ مذہب )(۱۴) ماسٹر رامجید اس صاحب ( نمائندہ ہار مونیکل سوسائٹی (۱۵) لالہ کانشی رام صاحب سیکرٹری برہموسماج لاہور (نمائندہ برہمو سماج )(۱۶۰) مسٹر جے ماریسن صاحب بہادر جرنلٹ لاہور(نمائندہ عیسائیت ) (۱۷۰) مسٹر رو صاحب بہادر سابق ہیڈ ماسٹر ایچی سن ہائی سکول لاہور ( نمائندہ عیسائیت )
مفتی عبداللہ صاحب اور مسٹر رو صاحب عملاً شریک جلسہ نہیں ہو سکے اس لئے ان کا وقت دوسرے مقررین کو دے دیا گیا۔
حضرت مسیح موعود کی طرف سے اپنے مضمون کے بالا رہنے کی قبل از وقت پیشگوئی :۔
سوامی شوگن چندر صاحب جلسہ کا اشتہار دینے سے پہلے قادیان بھی آئے تھے اور حضرت اقدسؑ سے عرض کیا کہ میں ایک مذہبی جلسہ کرنا چاہتاہوں آپ بھی اپنے مذہب کی خوبیوں سے متعلق کچھ مضمون لکھیں تااس جلسہ میں پڑھا جائے ۔حضرت اقدسؑ نے اپنی بیماری کے باعث عذر کیا لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ آپ ضرور لکھیں چونکہ آپ یقین رکھتے تھے کہ آپ بغیر خدا کے بلائے بول نہیں سکتے۔ اس لئے آپ نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ وہ آپ کو ایسے مضمون کا القاء کرے جو اس مجمع کی تمام تقریروں پر غالب رہے آپ نے دعا کے بعد دیکھا کہ ایک قوت آپ نے اندر پھونک دی گئی اور آپ نے آسمانی قوت کی ایک زبردست جنبش اپنے اندر محسوس کی۔ آپ کو ان دنوں اسہال کا عارضہ تھا آپ نے ناسازی طبع کے باعث لیٹے لیٹے ہی قلم برداشتہ مضمون لکھنا شروع کیا۔ آپ ایسی تیزی اور جلدی سے لکھتے تھے کہ نقل کرنے والوں کے لئے مشکل ہوگیا کہ اس قدر جلدی سے اس کی نقل کرسکیں۔ جب حضور مضمون لکھ چکے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ مضمون بالا رہا۔ (۶) یہ الٰہی خوشخبری پاتے ہی آپ نے ۲۱۔ دسمبر ۱۸۹۶ء کو ایک اشتہار لکھا جس کا عنوان تھا ۔’’سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری۔‘‘ اس اشتہار میں آپ نے تحریر فرمایا ۔
’’جلسہ اعظم مذاہب جو لاہور ٹائون ہال میں ۲۶۔۲۷۔۲۸۔دسمبر ۱۸۹۶ء؁ کو ہوگا اس میں عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات کے بارے میں پڑھاجائے گا ۔یہ وہ مضمون ہے۔ جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اس کی تائید سے لکھا گیا ہے اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اورمعارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن ہوجائے گا کہ درحقیقت یہ خدا کاکلام اور رب العالمین کی کتاب ہے ۔اورجو شخص اس مضمون کو اول سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب میں سنے گا ۔ میں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہوگا اورایک نیا نور اس میں چمک اٹھے گا ۔اورخدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ آجائے گی۔ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف وگزاف کے داغ سے منزہ ہے مجھے اس وقت محض بنی آدم کی ہمدردی نے اس اشتہار کے لکھنے کے لئے مجبور کیا ہے کہ تا وہ قرآن شریف کے حسن وجمال کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارے مخالفوں کا کس قدر ظلم ہے کہ وہ تاریکی سے محبت کرتے اور نور سے نفرت کرتے ہیں ۔مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا اوراس میں سچائی اورحکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اوراس کو اول سے آخر تک سنیں ۔ خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اس پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا ۔اوراس کے چھونے سے ۔۔۔۔۔۔ اس محل میں سے ایک نور ساطعہ نکلا جو اردگرد پھیل گیا ۔ اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی ہوئی۔ تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا۔ اللہ اکبر خربت خیبر ۔ اس کی یہ تعبیر ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول وحلول انوار ہے اور وہ نورانی معارف ہیں اور خیبر سے مراد تمام خراب مذاہب ہیں۔ جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے اورانسان کو خدا کی جگہ دی گئی یا خدا کے صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرادیا گیا ہے۔ سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کرے ۔پھر میں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اورمجھے یہ الہام ہواان اللہ معک ان اللہ یقوم اینما قمت یعنی خدا تیرے ساتھ ہے اور خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے ۔جہاں تو کھڑا ہوتا ہے ۔یہ حمایت الٰہی کے لئے ایک استعارہ ہے۔ اب میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا ہرایک کو یہی اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا اپنا ہرج بھی کرکے ان معارف کے سننے کے لئے ضرور بمقام لاہور تاریخ جلسہ پر آویں کہ ان کی عقل اورایمان کو اس سے وہ فائدے حاصل ہوں گے کہ وہ گمان نہیں کرسکتے ہوں گے۔ والسلام علی من اتبع الھدی۔
خاکسار غلام احمد از قادیان ۲۱ ۔دسمبر ۱۸۹۶ء؁
حضرت اقدس کا یہ اشتہار بڑی کثرت سے شائع ہوا ۔اورہندوستان کے دور دراز مقامات تک پھیلادیا گیا۔
جناب خواجہ کمال الدین صاحب کا تاثر:۔ جناب خواجہ کمال الدین صاحب جلسے کے انتظامات میں گہری دلچسپی لے رہے تھے ۔آپ انہیں دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت اقدسؑ نے اپنا مضمون خواجہ صاحب کی خواہش پر ان کو پڑھنے کے لئے دیا تو انہوں نے اس پر کچھ ناامیدی کا اظہار کرکے اندیشہ ظاہر کیا کہ یہ مضمون قدر کی نگاہوں سے نہ دیکھا جائے گا۔ اورخواہ مخواہ ہنسی کا موجب ہوگا۔ چنانچہ خود حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ایک دفعہ فرمایا۔’’مہوتسو کے جلسہ اعظم مذاہب کے واسطے جب ہم نے مضمون لکھا تو طبیعت بہت علیل تھی اور وقت نہایت تنگ تھا۔ اورہم نے مضمون جلدی کے ساتھ اسی تکلیف کی حالت میں لیٹے ہوئے لکھا۔ اس کو سنکر احباب میں سے ایک نے کچھ ناپسندیدگی کا منہ بنایا۔ اور پسند نہ کیا کہ مذاہب کے اتنے بڑے عظیم الشان جلسہ میں وہ مضمون پڑھا جائے۔
جلسے کی کاروائی کاآغاز:۔
بہرحال ۲۶؍دسمبر ۱۸۹۶ء؁ ٹھیک دس بجے انجمن حمایت اسلام کے ہائی سکول واقع شیرانوالہ کے وسیع احاطہ میں جلسہ شروع ہوا حضرت اقدسؑ کا مضمون دوسرے دن ڈیڑھ بجے کی دوسری نشست میں پڑھا جانا تھا۔ اس لئے اس سے قبل ایشری پرشاد صاحب مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی او ر برودا کنٹہ صاحب، مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری ، بابو بیجارام صاحب اورپنڈت گوردھن داس صاحب کی تقریریں ہوئیں ۔اس زمانے میں ابوسعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کاطوطی بول رہا تھا اورہرطرف ان کی بڑی شہرت تھی۔ اور مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب ابھی نوجوان تھے اور نئے نئے منظر عام پر آئے تھے لیکن مولوی ابوسعید صاحب کی تقریر مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریر کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکی۔
حضرت اقدسؑ کا مضمون اورسامعین کا ذوق وشوق:۔
جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے حضرت اقدسؑ کے مضمون کے لئے دوسرے دن کی دوسری نشست مقرر تھی ۔جس کا وقت اگرچہ ڈیرھ بجے شروع ہونا تھا مگر مخالف کے باوجود دلوں میں ایسی تحریک پیدا ہوگئی کہ پہلی نشست میں بیٹھنے والے بھی اپنی اپنی جگہ پر جمے رہے اور ہزاروں سامعین چاروں طرف سے امڈ پڑے۔ نتیجہ یہ ہوا۔ کہ کاروائی سے قبل ہی جلسہ کا پنڈال کھچا کھچ بھرگیا اور سینکڑوں اشخاص جن میں ملک کے بڑے بڑے سربرآوردہ افراد رؤسا معہ ڈاکٹر اوروکلاء شامل تھے کھڑے ہونے پر مجبور ہوگئے آخر حضرت مولانا عبدالکریم صاحب جیسے فصیح البیان نے اپنی دلکش ودل نشین آواز سے حضرت اقدسؑ کا مضمون پڑھنا شروع کیا۔
حضرت مسیح پاک علیہ السلام کا تائید روح القدس سے لکھا ہوا مضمون اور مولانا عبدالکریم صاحب کی شیریں زبان نے ہزاروں کے اس تاریخی اجتماع پر کیف وسرور کا وہ عالم طاری کردیا کہ فلک نے آج تک سرزمین ہند میں کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ ایسا نظر آتاتھا کہ گویا ملائک آسمان سے نور کے طبق لے کے حاضر ہوگئے ہیں اور ایک دست غیب اپنی مقناطیسی جذب وکشش سے ہر دل کوکشاں کشاں عالم وجد کی طرف لے جارہا ہے۔ دل ودماغ اس آسمانی مائدہ سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ یکایک مضمون کا مقررہ وقت ختم ہوگیا۔ یہ دیکھ کر مولوی ابویوسف محمد مبارک علی صاحب سیالکوٹی نے اعلان کیا کہ میں اپنا وقت بھی حضرت اقدسؑ کے مضمون کے لئے دیتا ہوں ۔اس اعلان نے مجمع میں خوشی اور مسرت کی برقی لہر دوڑ ا دی اورپنڈال تالیوں سے گونج اٹھا اورپھر علم وحکمت کے موتی لٹنے لگے۔ مضمون ابھی باقی تھا کہ وقت پھر ختم ہوگیا اب کی دفعہ چاروں طرف سے شور برپا ہوا کہ جلسہ کی کاروائی اس وقت تک ختم نہ کی جائے جب تک یہ مضمون ختم نہ ہولے اور جلسہ کے منتظمین کو یہی کرنا پڑا۔ سامعین نے یہ سن کر پھر تالیوں کے ذریعہ سے اپنی مسرت ظاہر کی اور مضمون نہایت ذوق وشوق اور یکساں دلچسپی سے شام کے ساڑھے پانج بجے تک مسلسل چار گھنٹہ تک جاری رہا۔ سامعین کی بے خودی اور محویت یہاں تک بڑھی کہ انہوں نے یہی سمجھ لیا کہ پانچوں سوالات کے جوابات پڑھ دیئے گئے ہیں لیکن حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے بلند آواز سے فرمایا کہ حضرات جو کچھ آپ نے سنا ہے یہ صرف پہلے سوال کا جواب ہے چار سوالوں کے جوابات ابھی باقی ہیں ۔ مولانا کا یہ کہنا تھا کہ سامعین نے یک زبان ہوکر بڑے زور شور سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ جب چار سوالوں کے جواب ابھی باقی ہیں تو جلسہ کے لئے ایک اور دن کیوں نہ بڑھادیا جائے یہ زبردست مطالبہ چاروں طرف سے اتنی شدت سے بلند ہوا کہ منتظمین جلسہ کو اعلان کرنا پڑا کہ سامعین کی خاطر جلسہ کے لئے ایک دن کا اضافہ کیا جاتا ہے ۔ا س اعلان پر پبلک نے جس جوش وخروش سے اظہار شادمانی کیا وہ دیکھنے کی چیز تھی اس کا نقشہ پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔
جلسے کے منتظمین کا بیان:۔
۲۷؍دسمبر کے دن کی اس کاروائی سے متعلق منتظمین جلسہ کے بیانات درج ذیل ہیں ۔
’’پنڈت گوردھن داس صاحب کی تقریرکے بعد نصف گھنٹہ کا وقفہ تھا لیکن چونکہ بعد از وقفہ ایک نامی وکیل اسلام کی طرف سے تقریر کا پیش ہونا تھا اس لئے اکثر شائقین نے اپنی اپنی جگہ کو نہ چھوڑا ۔ڈیڑھ بجے میں ابھی بہت سا وقت رہتا تھا کہ اسلامیہ کالج کا وسیع میدان جلد جلد بھرنے لگا ۔اورچندہی منٹوں میں تمام میدان پر ہوگیا اس وقت کوئی سات اورآٹھ ہزار کے درمیان مجمع تھا ۔مختلف مذاہب وملل اور مختلف سوسائٹیوں کے معتدبہ اور ذی علم آدمی موجود تھے۔ اگرچہ کرسیاں اور میزیں اور فرش نہایت ہی وسعت کے ساتھ مہیا کیا گیا لیکن صدہا آدمیوں کو کھڑا ہونے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑا۔ اور ان کھڑے ہوئے شائقینوں میں بڑے بڑے رؤساء عمائد پنجاب ۔علماء فضلاء ۔بیر سٹر وکیل ۔پروفیسر۔ اکسٹرااسسٹنٹ۔ ڈاکٹر غرض کہ اعلیٰ طبقہ کے مختلف برانچوں کے ہر قسم کے آدمی موجود تھے ۔ان لوگوں کے اس طرح جمع ہوجانے اورنہایت صبر وتحمل کے ساتھ جوش سے برابر پانچ چار گھنٹہ اس وقت ایک ٹانگ پر کھڑا رہنے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ان ذی جاہ لوگوں کو کہاں تک اس مقدس تحریک سے ہمدردی تھی۔ مصنف تقریر اصالتاً تو شریک جلسہ نہ تھے۔ لیکن خود انہوںنے اپنے ایک شاگرد خاص جناب مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کو مضمون کے پڑھنے کے لئے بھیجا ہوا تھا۔ اس مضمون کے لئے اگرچہ اس کمیٹی کی طرف سے صرف دوگھنٹے ہی تھے لیکن حاضرین جلسہ کو عام طور پر اس سے کچھ ایسی دلچسپی پیدا ہوگئی کہ موڈریٹر صاحبان نے نہایت جوش اور خوشی کے ساتھ اجازت دی کہ جب تک یہ مضمون نہ ختم ہو تب تک کاروائی جلسہ کو ختم نہ کیا جائے۔ ان کا ایسا فرمانا عین اہل جلسہ اور حاضرین جلسہ کے منشاء کے مطابق تھا۔ کیونکہ جب وقت مقررہ کے گزرنے پر مولوی ابویوسف مبارک علی صاحب نے اپنا وقت بھی اس مضمون کے ختم ہونے کے لئے دیدیا۔ تو حاضرین اورموڈریٹر صاحبان نے ایک نعرہ خوشی سے مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ جلسہ کی کاروائی ساڑھے چار بجے ختم ہوجانی تھی لیکن عام خواہش کو دیکھ کر کاروائی جلسہ ساڑھے پانج بجے کے بعد تک جاری رکھنی پڑی کیونکہ مضمون قریباً چار گھنٹہ میں ختم ہوااور شروع سے اخیر تک یکساں دلچسپی ومقبولیت اپنے ساتھ رکھتا تھا۔‘‘
’’اگرچہ اس مضمون کے ختم ہوتے ہوتے شام کا وقت قریب آگیا لیکن یہ ابھی پہلے سوال کا جواب تھا اس مضمون سے حاضرین جلسہ کو بلااستثناء احدے ایسی دلچسپی ہوگئی کہ عام طور سے ایگزیکٹو کمیٹی سے استدعا کی گئی کہ کمیٹی اس جلسہ کے چوتھے اجلاس کے لئے انتظام کرے جس میں باقی سوالات کا جواب سنایا جاوے کیونکہ حسب اعلان ایگزیکٹو کمیٹی جلسہ کے تین ہی اجلاس ہونے تھے ۔اور تیسرے اجلاس کے سپیکر پہلے ہی سے مقرر ہوچکے تھے جلسہ کا دن بڑھانے کے لئے موڈریٹر صاحبان کی خاص رضامندی تھی۔ علاوہ ازیں سناتن دھرم کی طرف سے اور آریہ سماج کی طر ف سے بھی استدعا تھی کہ ان کی طرف سے اور زیادہ ریپریذینٹیشن ہو اس لئے ایگزیکٹو کمیٹی نے انجمن حمایت اسلام کے سیکرٹری اورپریذیڈنٹ صاحب سے جو وہاں موجود تھے چوتھے دن کے لئے استعمال مکان کی اجازت لے کر میر مجلس کو اطلاع دی کہ وہ چوتھے دن کا اعلان کردیں۔ مضمون ساڑھے پانج بجے ختم ہوا۔ جس پر ذیل کے الفاظ میں میر مجلس نے آج کے اجلاس کی کاروائی کو ختم کیا۔
میرے دوستو! آپ نے پہلے سوال کا جواب جناب مرزا صاحب کی طرف سے سنا۔ ہمیں خاص کر جناب مولوی عبدالکریم صاحب کا مشکور ہونا چاہیے۔ جنہوںنے ایسی قابلیت کے ساتھ اس مضمون کو پڑھا۔میں آپ کو مژدہ دیتا ہوں کہ آپ کے اس فرط شوق اور دلچسپی کو دیکھ کر جو آپ نے مضمون کے سننے میں ظاہر کی اور خصوصاً موڈریٹر صاحبان اور دیگر عمائد و رؤساء کی خاص فرمائش سے ایگزیکٹو کمیٹی نے منظور کرلیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے بقیہ حصہ مضمون کے لئے وہ چوتھے دن اپنا آخری اجلاس کرے ۔اب نماز مغرب کا وقت قریب آگیا ہے۔ اور میں زیادہ وقت آپ کا لینا نہیں چاہتا‘‘۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی استدعا:۔
دوسری طرف مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کی سنئے ۔حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہانپوری کا بیان ہے کہ ۲۷؍دسمبر کی کاروائی کے خاتمے پر میں اپنے بزرگوں کے ساتھ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے دردولت پر جہاں میرا قیام تھا واپس آگیا اس رات حضرت خلیفہ صاحب موصوف کے بڑے بھائی کی طرف سے جن کا نام خلیفہ عمادالدین صاحب تھا چند معززین کی دعوت تھی۔ ان میں جناب خان بہادر خدا بخش صاحب جج بھی شامل تھے جنہوں نے ایک وقت جلسہ کی صدارت بھی فرمائی تھی اورجو جلسہ کے ماڈریٹروں میں سے تھے ۔موجود الوقت حضرات میں اس وقت عام طور پر جلسے کی تقریریں ہی زیر بحث تھیں ۔ تعریف سب کی زبان پر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی کے مضمون کی تھی۔ اسی اثناء میں ایک شخص نے آکر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا یہ تحریری پیغام جناب جج صاحب موصوف کی خدمت میں پیش کیا کہ جلسے کا ایک دن بڑھادیاگیا ہے۔ اگرجناب میری تقریرکے لئے بھی وقت دیئے جانے کی طرف توجہ فرمائیں گے تو بڑی مہربانی ہوگی۔ جناب جج صاحب نے بے ساختہ فرمایا۔ کہ ’’مولوی ابوسعید صاحب نے اپنی پہلی تقریر میں کونسا تیر مارا تھا جوان کی دوسری تقریر کے لئے وقت رکھا جائے‘‘
مولوی محمدحسین صاحب نے یہ صورت دیکھی تو انہوںنے مضمون پڑھنے کے لئے ایک اورطریق نکالا۔ ۲۸؍دسمبر کے پروگرام میں پہلی تقریر مولوی مفتی محمد عبداللہ صاحب ٹونکی پروفیسر اورینٹل کالج لاہور کی تھی۔ اوراس کے بعد پوراوقت غیر مسلم نمائندوں کے لئے مخصوص تھا۔ اس لئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے مفتی صاحب موصوف سے درخواست کی کہ وہ اپنا وقت انہیں دے دیں جسے انہوںنے منظور کرلیا۔ اس پر مولوی صاحب شیخ خدا بخش صاحب جج کے پاس آئے اوران کو بھی مفتی صاحب کا پیغام دے کر رضامند کرلیا۔ چنانچہ وہ ان کو ہمراہ لے کر قریبا ً ساڑھے آٹھ بجے صبح پنڈال میں پہنچ گئے۔ جلسے کی کاروائی کو دس بجے شروع ہونا تھا ۔ساڑھے دس بجنے میں ابھی کچھ منٹ باقی تھے کہ خان بہادر صاحب موصوف نے انتظامیہ کمیٹی کے چند ممبروں سے بیان کیا کہ جناب مفتی صاحب چند اتفاقات کے باعث آج نہیں آسکیں گے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کا وقت مولوی محمد حسین صاحب کو دے دیا جائے۔ لہٰذا اب کمیٹی میں یہ تب منظور کرائیں۔ چنانچہ کمیٹی کے اجلاس میںجب یہ معاملہ پیش ہوا تو مفتی صاحب کے پیغام سے ایک قسم کی مایوسی ہوئی کیونکہ یہ کمیٹی کا فرض تھا کہ ہر مذہب کی طرف سے مختلف وکیل جلسے میں پیش کرے۔ سیکرٹری صاحب اس تبدیلی کے مخالف تھے لیکن جب مسلمان ممبروں نے اس بات پر زوردیا تو بہت بحث کے بعد یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مفتی صاحب کا وقت دیا جاوے۔
۲۸؍دسمبر کی کاروائی اورمولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی دوسری تقریر:۔ ۲۸؍دسمبر ۱۸۹۶ء؁ کو جلسہ دس بجے شروع ہونا تھا لیکن جیسا کہ رپورٹ میں درج ہے لوگ وقت مقررہ پر بہت ہی کم آئے۔ اس لئے قریباً ساڑھے دس بجے کاروائی کا آغاز ہوا پہلی تقریر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کی۔ جس میں گزشتہ تقریرکے الجھائو کا رنگ اورزیادہ نمایاں ہوگیا اور ان کی زبان سے یہ سن کر تو مسلمانوں کی گردنیں مارے شرم کے جھک گئیں کہ ’’انبیاء فوت ہوچکے۔ امت محمدیہ کے بزرگ ختم ہو چکے بے شک وارث انبیاء ولی تھے وہ کرامت رکھتے اور برکات رکھتے تھے وہ نظر نہیں آتے زیر زمین ہوگئے آج اسلام ان کرامت والوں سے خالی ہے اورہم کو گزشتہ اخبار کی طرف حوالہ کرنا پڑتا ہے ہم نہیں دکھا سکتے۔‘‘
۲۹؍دسمبر کو حضرت اقدسؑ کے بقیہ مضمون کی گونج:۔
۲۹؍دسمبر ۱۸۹۶ء؁ کو جلسے کا آخری اجلاس منعقد ہوا ۔اس دن اگرچہ جلسہ کی کاروائی دستور سابق کے خلاف نو بجے صبح رکھی گئی تھی لیکن ابھی نو بھی نہ بجنے پائے تھے کہ سامعین کا ہجوم شروع ہوگیا۔ ٹھیک مقررہ وقت پر مولانا عبدالکریم صاحب نے حضرت اقدسؑ کے پرمعارف مضمون کا بقیہ حصہ اپنی گذشتہ شان کے ساتھ پڑھنا شروع کیا اورپھر ۲۷؍ دسمبر کا سماں بندھ گیا۔ ہر شخص ہمہ تن گوش بناسن رہا تھا ۔اس بقیہ مضمون کی ایک اعجازی خصوصیت یہ تھی کہ جلسہ میں غیر مسلم مقررین کی طرف سے بالواسطہ یا بلاواسطہ اسلامی تعلیمات اور قرآنی صداقتوں پر جو اہم اعتراضات وارد کئے گئے تھے ان کا شافی جواب اس مضمون کے اندر موجود تھا ۔بلکہ مسلمانوں کے بعض دوسرے نمائندوں نے اسلام کے مقدس چہرے پر جو گردو غبار ڈالنے کی کوشش کی تھی اس کی صفائی بھی اس حصہ سے ہوگئی ۔ چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ایک دن قبل اپنی تقریر میں اسلام جیسے زندہ مذہب کی طرف جو معجزات سے خالی ہونے کا اتہام لگایا تھا اس کا رد بھی اس حصہ میں آگیا جس نے مجمع کو بے خود کر دیا۔ اکثر لوگ زار زار روتے تھے اور لذت سے دل وجد کر رہے تھے ۔ حضرت اقدسؑ نے تحریر فرمایا تھا کہ ’’میں بنی نوع انسان پر ظلم کروں گا اگر میں اس وقت ظاہر نہ کروں کہ وہ مقام جس کی میں نے یہ تعریفیں کی ہیں اور وہ مرتبہ مکالمہ اور مخاطبہ کا جس کی میں نے اس وقت تفصیلی بیان کی وہ خدا کی عنایت نے مجھے عنایت فرمایا ہے تامیں اندھوں کو بینائی بخشوں اور ڈھونڈنے والوں کو اس گم گشتہ کاپتہ دوں ۔ اور سچائی قبول کرنے والوں کو اس پاک چشمہ کی خوشخبری سنائوں۔ جس کا تذکرہ بہتوں میں ہے اور پانے والے تھوڑے ہیں۔ میں سامعین کو یقین دلاتاہوں کہ جس کے ملنے میں انسان کی نجات اور دائمی خوشحالی ہے وہ بجز قرآن شریف کی پیروی کے ہر گز نہیں مل سکتا۔ کاش جو میں نے دیکھا ہے لوگ دیکھیں اور جو میں نے سنا ہے وہ سنیں اور قصوں کو چھوڑ یں۔ اور حقیقت کی طرف دوڑیں۔ ‘‘
’’ میں سب طالبوں کو یقین دلاتاہوں کہ صرف اسلام ہی ہے جو اس راہ کی خوشخبری دیتاہے اور دوسری قومیں تو خدا کے الہام پر مدت سے مہر لگا چکی ہیں۔ سو یقینا سمجھو کہ یہ خدا کی طرف سے مہر نہیں بلکہ محرومی کی وجہ سے انسان ایک حیلہ پیدا کر لیتاہے اور یقینا سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اس پیارے محبوب کا منہ دیکھ سکیں۔
میں جوان تھا اب بوڑھا ہوا مگر میں نے کوئی نہ پایا جس نے بغیر اس پاک چشمہ کے اس کھلی کھلی معرفت کا پیالہ پیا ہو۔‘‘ (۱۴)
اب کی دفعہ پھر تقریر کے دوران میں ہی وقت مقررہ ختم ہو گیا اور پبلک اور صدر صاحبان دونوں نے اصرار کے ساتھ وقت کے اضافہ کا مطالبہ کیا ۔ جلسہ کی مجلس عامہ نے اس مطالبہ کو بخوشی پورا کرکے ہزاروں دلوں کو خوشی اورشادمانی سے بھر دیا۔ (۱۵)
مضمون بالا رہا:۔
غرض کہ یہ مضمون پوری شان و شوکت سے ختم (۱۶)ہوا۔ سب لوگوں نے مسلمانوں کو مبارک باد دی ۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی طوعاً و کرہاً قائل ہوگئے کہ یہ تمام تاثیر خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی ۔ اور یہ مضمون اسلام کی فتح کا موجب ہوا۔ ملک بھر میں اس مضمون کی دھوم مچ گئی اور ہر طرف اسی کے چرچے ہوئے۔ اور مسلمان بے اختیار بول اٹھے کہ اگر یہ مضمون نہ ہوتا تو آج اسلام کو سبکی اٹھانی پڑتی ۔ اور ہر ایک کہتاتھا کہ آج اسلام کی فتح ہوئی اور حضور کا مضمون ہی بالا رہا۔ (۱۷) اس شاندار فتح کا اعتراف ملک کے بیس کے قریب اخبارات مثلاً سول اینڈملٹری گزٹ ‘‘’’ پیسہ اخبار‘‘ چودھویں صدی‘‘ ( راولپنڈی) ’’ سراج الاخبار ‘‘ ’’ مشیر ہند ‘‘ لاہور ۔ ’’ صادق الاخبار‘‘ (بہاولپور ) ’’مخبردکن ‘ ‘ ۔پنجاب آبزرور‘‘’’ وزیر ہند‘‘ (سیالکوٹ) اور ’’جنرل و گوہر آصفی‘‘ (کلکتہ ) نے کیا۔ اور بڑے نمایاں انداز میں اس کی خبر شائع کرکے آپ کو خراج تحسین ادا کیا۔ اور اس مضمون کی تعریف میں کالموں کے کالم بھر دیئے۔ (۱۸)
اخبار’’ سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ اور ’’ آبزرور‘‘ کاریویو:۔
اخبار’’ سول اینڈملٹری گزٹ (لاہور) نے لکھا:۔
’’ اس جلسہ میں سامعین کو دلی اور خاص دلچسپی میرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے لیکچر کے ساتھ تھی جو اسلام کی حمایت و حفاظت میں ماہر کامل ہیں۔ اس لیکچر کے سننے کے لئے دور نزدیک سے مختلف فرقوں کا ایک جم غفیر امڈ آیا تھا۔ اور چونکہ مرزا صاحب خود تشریف نہیں لا سکتے تھے اس لئے یہ لیکچران کے ایک لائق شاگرد منشی عبدالکریم صاحب فصیح سیالکوٹی نے پڑھ کر سنایا۔ ۲۷۔ تاریخ کو یہ لیکچر تین گھنٹہ تک ہوتا رہا اور عوام الناس نے نہایت ہی خوشی اور توجہ سے اس کو سنا لیکن ابھی صرف ایک سوال ختم ہوا۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے وعدہ کیا کہ اگر وقت ملا تو باقی حصہ بھی سنا دوں گا۔ اس لئے مجلس انتظامیہ اور صدر نے یہ تجویز منظور کر لی ہے کہ ۲۹۔ دسمبر کا دن بڑھا دیا جائے ۔‘‘(ترجمہ)
اخبار ’’ پنجاب آبزرور ‘‘ نے بھی انہیں الفاظ میں حضرت اقدس کے مضمون کی رپورٹ شائع کی (۱۹)
اخبار ’’چودھویں صدی ‘‘ کا ریویو :۔
اخبار ’’ چودھویں صدی ‘‘ راولپنڈی نے لکھا ’’ان لیکچروں میں سب سے عمدہ اور بہترین لیکچر جو جلسہ کی روح رواں (۲۰) تھا مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا لیکچر تھا جس کو مشہور فصیح البیان مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے پڑھا ۔ یہ لیکچر دو دن میں تمام ہوا ۲۷۔ دسمبر کو قریباً چار گھنٹے اور ۲۹ کو ۲گھنٹہ تک ہوتا رہا۔ کل چھ گھنٹہ میں یہ لیکچر تمام ہوا جو حجم میں سو صفحہ کلاں تک ہوگا۔
غرض کہ مولوی عبدالکریم صاحب نے یہ لیکچر شروع کیا اور کیسا شروع کیا کہ تمام سامعین لٹو ہوگئے ۔ فقرہ فقرہ پر صدائے آفرین و تحسین بلند تھی اور بسا اوقات ایک ایک فقرہ کو دوبارہ پڑھنے کے لئے حاضرین سے فرمائش کی جاتی تھی۔ عمر بھر کانوں نے ایسا خوش آئندہ لیکچر نہیں سنا۔ دیگر مذاہب میں سے جتنے لوگوں نے لیکچر دیئے۔ سچ تو یہ ہے کہ جلسہ کے مستفسرہ سوالوں کے جواب بھی نہیں تھے۔ عموماً سپیکر صرف چوتھے سوال پر ہی رہے اور باقی سوالوں کو انہوں نے بہت ہی کم مس کیا اور زیادہ تراصحاب تو ایسے بھی تھے جو بولتے تو بہت تھے مگر اس میں جاندار بات ایک آدھ ہی ہوتی ۔ تقریریں عموماً کمزور سطحی خیالات کی تھیں ۔ بجزمرزا صاحب کے لیکچر کے جوان سوالات کا علیحدہ علیحدہ مفصل اور مکمل جواب تھا اور جس کو حاضرین جلسہ نے نہایت ہی توجہ اور دلچسپی سے سنا اور بڑا بیش قیمت اورعالی قدر خیال کیا ہم مرزا صاحب کے مرید نہیں ہیں نہ ان سے ہم کو کوئی تعلق ہے لیکن انصاف کا خون ہم کبھی نہیں کر سکتے اور نہ کوئی سلیم فطرت اور صحیح کاشنس اس کو روارکھ سکتا ہے مرزا صاحب نے کل سوالوں کے جواب ( جیسا کہ مناسب تھا ) قرآن شریف سے دیئے اور تمام بڑے بڑے اصول و فروع اسلام کو دلائل عقلیہ اور براہین فلسفہ کے ساتھ مبرہن اور مزین کیا ۔ پہلے عقلی دلائل سے الہیات کے ایک مسئلہ کو ثابت کرنا۔ اور اس کے بعد کلام الٰہی کو بطور حوالہ پڑھنا ایک عجیب شان دکھاتاتھا۔
مرزا صاحب نے یہ صرف مسائل قرآن کی فلاسفی بیان کی بلکہ الفاظ قرآنی کی فلالوجی اور فلاسونی بھی ساتھ ساتھ بیان کر دی غرض کہ مرزا صاحب کا لیکچربہ ہیت مجموعی ایک مکمل اور حاوی لیکچر تھا جس میں بیشمار معارف و حقائق و حکم و اسرار کے موتی چمک رہے تھے اور فلسفہ الہیہ کو ایسے ڈھنگ سے بیان کیا گیا تھا کہ تمام اہل مذاہب ششدر رہ گئے ۔ کسی شخص کے لیکچر کے وقت اتنے آدمی جمع نہیں تھے جتنے کہ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت ۔ تمام ہال اوپر نیچے سے بھر رہا تھا۔ اور سامعین ہمہ تن گوش ہو رہے تھے۔
مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت اور دیگر سپیکروں کے لیکچروں میں امتیاز کے لئے اس قدر کافی ہے کہ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت خلقت اس طرح آگری جیسے شہد پر مکھیاں ۔ مگر دوسرے لیکچروں کے وقت بوجہ بے لطفی بہت سے لوگ بیٹھے بیٹھے اٹھ جاتے ۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا لیکچر بالکل معمولی تھا۔ وہی ملانی خیالات تھے جن کو ہم لوگ ہر روز سنتے ہیں اس میں کوئی عجیب و غریب بات نہ تھی اور مولوی صاحب موصوف کے دوسرے حصہ لیکچر کے وقت پر کئی لوگ اٹھ کر چلے گئے تھے۔ مولوی ممدوح کو اپنا لیکچر پورا کرنے کے لئے چند منٹ زائد کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی لیکن مرزا صاحب کے لیکچر پورا کرنے کے لئے لالہ درگاپر شاد صاحب نے آپ سے آپ دس پندرہ منٹ کی اجازت دے دی۔ غرض کہ وہ لیکچر ایسا پر لطف اور ایسا عظیم الشان تھا کہ بجز سننے کے اس کا لطف بیان میں نہیں آسکتا۔ مرزا صاحب نے انسان کی پیدائش سے لے کر معاد تک ایسا مسلسل بیان فرمایا اور عالم برزخ اور قیامت کا حال ایسا عیاں فرمایا کہ بہشت و دوزخ سامنے دکھادیا۔ اسلام کے بڑے سے بڑے مخالف اس روز اس لیکچر کی تعریف میں رطب اللسان تھے چونکہ وہ لیکچر عنقریب رپورٹ میں شائع ہونے والا ہے اس لئے ہم ناظرین کو شوق دلاتے ہیں کہ اس کے منتظر رہیں۔ مسلمانوں میں سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری کا طرز بیان بھی کسی قدر اچھا تھا ۔ لیکن لیکچر عموماًوعظ کی قسم کا تھا۔ فلسفیانہ ڈھنگ کا نہیں تھا جس کی جلسہ کو ضرورت تھی۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال اس کا شکر ہے کہ اس جلسہ میں اسلام کا بول بالا رہا۔ اورتمام غیر مذاہب کے دلوں پر اسلام کا سکہ بیٹھ گیا ۔ گو زبان سے وہ اقرار کریں یا نہ کریں۔‘‘(۲۱)
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کمال صفائی سے پوری ہوئی اور اسلام کو غلبہ نصیب ہوا۔ یہ مقابلہ اس مقابلے کی مانند تھا جو حضرت موسیٰ کو ساحروں کے ساتھ کرنا پڑا۔ سب مذاہب والوں نے اپنی اپنی لاٹھیوں کے خیالی سانپ بنائے تھے لیکن جب خدا نے مسیح موعودؑ کے ہاتھ سے اسلامی راستی کا عصا ایک پاک اور پر معارف تقریر کے پیرائے میں ان کے مقابل چھوڑا تو وہ اژدھا بن کر سب کو نگل گیا۔
جلسہ اعظم مذاہب میں اسلام کی شاندار فتح سے متعلق کلکتہ کے اخبار جنرل و گوہر آصفی کا تبصرہ :۔
اخبار ’’جنرل و گوہر آصفی‘‘ (کلکتہ ) نے ۲۴۔ جنوری ۱۸۹۷ء کی اشاعت میں صفحہ ۲پر ’’جلسہ اعظم مذاہب ‘‘ منعقد لاہور اور ’’فتح اسلام ‘‘ کے دوہرے عنوان سے لکھا۔’’ چونکہ ہمارے اخبار کے کالم اس جلسہ کے متعلق ایک خاص دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں لہٰذا ہم اپنے شائق ناظرین کو اس کے درجہ آخر مختصر حالات سے اطلاع دینی ضروری سمجھتے ہیں۔
جہاں تک ہم نے دریافت کیا ہے ہر ایک طالب حق کو اس جلسہ کے حالات معلوم کرنے کے لئے بڑا ہی شائق پایا ہے کون دل ہوگا جو حق کا متلاشی نہ ہوگا۔ کون آنکھ ہوگی جو حق کی چمک دیکھنے کے لئے تڑپتی نہ ہوگی؟ کون دماغ ہوگا جو حق کی جانچ پڑتال کی طرف مائل نہ ہوگا۔ پھر ہم یہ کیونکر امید نہیں کر سکتے کہ اپنے ناظرین کی روحیں اس جلسہ کی کارروائی کی دریافت کے لئے مضطرنہ ہوں گی ۔ کیا اس اضطرار کو دفع کرنا ہمارا فریضہ نہیں۔ بے شک ہے اور ضرور ہے اور اسی لئے ہے جو ہم نے خاص انتظام کر کے اس جلسہ کے حالات کو دریافت کیاہے جنہیں ہم اب ہدیہ ناظرین کیا چاہتے ہیں پیشتر اس کے کہ ہم کارروائی جلسہ کی نسبت گفتگو کریں ہمیں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ ہمارے اخبار کے کالموں میں جیساکہ اس کے ناظرین پر واضح ہوگا یہ بحث ہو چکی ہے کہ اس جلسہ اعظم مذاہب میں اسلامی وکالت کے لئے سب سے زیادہ لائق کون شخص تھا۔ ہمارے ایک معزز لائق نامہ نگار صاحب نے سب سے پہلے خالی الذہن ہوکر اور حق کو مدنظر رکھ کر حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان کو اپنی رائے میں منتخب فرمایا تھا۔ جس کے ساتھ ہمارے اور ایک مکرم مخدوم نے اپنی مراسلت میں توارداً اتفاق ظاہر کیا تھا۔ جناب مولوی سید محمد فخر الدین صاحب فخر نے بڑے زور کے ساتھ اس انتخاب کی نسبت جو اپنی آزاد، مدلل اور بیش قیمت رائے پبلک کے پیش فرمائی تھی اس میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان ۔ جناب سر سید احمد صاحب آف علی گڑھ کو انتخاب فرمایا تھا اور ساتھ ہی اس اسلامی وکالت کا قرعہ حضرات ذیل کے نام نکالاتھا۔ جناب مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی ۔ جناب مولوی حاجی سید محمد علی صاحب کانپوری اور جناب مولوی احمد حسین صاحب عظیم آبادی۔ یہاں یہ ذکر کر دینا بھی نا مناسب نہ ہوگا۔ کہ ہمارے ایک لوکل اخبار کے ایک نامہ نگار نے جناب مولوی عبدالحق صاحب دہلوی مصنف تفسیر حقانی کو اس کام کے لئے منتخب فرمایا تھا ہم اپنے ناظرین کو یہ بھی معلوم کرانا چاہتے ہیں کہ سوامی شوگن چندرنے انعقاد جلسہ سے پہلے اپنے اشتہار واجب اظہار کے ذریعے علمائے مذاہب مختلف ہند کو بہت عاردلادلا کر اپنے اپنے مذہب کے جوہر دکھلانے کے لئے طلب کیا تھا اور جس جوش سے اور عاردلانے والے طریق سے انہوں نے طلب کیا تھا اس کا ٹھیک اندازہ انہیں کی عبادت سے کیا جا سکتا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں۔
’’ ہرا یک قوم کے بزرگ واعظ جانتے ہیں کہ اپنے مذہب کی سچائی کو ظاہر کرنا ان پر فرض ہے پس جس حالت میں اسی غرض کے لئے یہ جلسہ انعقاد پایا ہے کہ سچائیاں ظاہر ہوں۔ تو خدا نے ان کو اس فرض کے ادا کرنے کا اب خوب موقع دیا ہے جو ہمیشہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ میرا دل اس بات کو قبول کر نہیں سکتا۔ کہ اگر ایک شخص سچا جوش اپنے مذہب کے لئے رکھتا ہو اور فی الواقع اس بات میں ہمدردی انسانوں کی دیکھتا ہو کہ ان کو اپنے مذہب کی طرف کھینچے تو پھر وہ ایسی نیک تقریب میں جب کہ صدہا مہذب اور تعلیم یافتہ لوگ ایک عالم خاموشی میں بیٹھ کر اس کے مذہب کی خوبیاں سننے کے لئے تیار ہوں گے ایسے مبارک وقت کو ہاتھ سے دیدے اور ذرہ اس کو اپنے فرض کا خیال نہ آوے اس وقت میں کیوں کر کوئی عذر قبول کروں۔ کیا میں قبول کرسکتا ہوں کہ جو شخص دوسروں کو ایک مہلک بیماری میں خیال کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس کی سلامتی میری دوا میں ہے اور بنی نوع کی ہمدردی کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ وہ ایسے موقع میں جو غریب بیمار اس کو علاج کے لئے بلاتے ہیں وہ دانستہ پہلو تہی کرے ۔ میرا دل اس بات کے لئے تڑپ رہا ہے کہ یہ فیصلہ ہوجائے کہ کونسا مذہب درحقیقت سچائیوں اور صداقتوں سے بھرا ہوا ہے اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ میں اپنے اس سچے جوش کو بیان کرسکوں۔ میرا قوموں کے بزرگ واعظوں اور جلیل الشان حامیوں پر کوئی حکم نہیں ۔ صرف ان کی خدمت میں سچائی ظاہر کرنے کے لئے ایک عجزانہ التماس ہے۔ میں اس وقت مسلمانوں کے معزز علماء کی خدمت میں ان کے خدا کی قسم دے کر با ادب التماس کرتا ہوں کہ اگر وہ مذہب منجانب اللہ جانتے ہیں تو اس موقع پر اپنے اسی نبی کی عزت کے لئے جس کے فداشدہ وہ اپنے تئیں خیال کرتے ہیں اس جلسہ میں حاضر ہوں۔ اسی طرح بخدمت پادری صاحبان نہایت ادب اور انکساری سے میری التماس ہے کہ اگروہ مذہب کوئی فی الواقع سچا اور انسانوں کی نجات کا ذریعہ خیال کرتے ہیں تو اس موقعہ پر ایک اعلیٰ درجہ کا بزرگ ان میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں سنانے کے لئے جلسہ میں تشریف لا دیں۔ میں نے جیسا کہ مسلمانوں کو قسم دی ایسا ہی بزرگ پادری صاحبوں کو حضرت مسیحؑ کی قسم دیتا ہوں اور ان کی محبت اور عزت اور بزرگی کا واسطہ ڈال کر خاکساری کے ساتھ عرض پرواز ہوں۔ کہ اگر کسی اور نیت کے لئے نہیں تو اس قسم کی عزت کے لئے ضرور اس جلسہ میں ایک اعلیٰ بزرگ ان میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے تشریف لاویں۔ ایسا ہی میں اپنے بھائیوں آریہ سماج والوں کی خدمت میں اس پر میشر کی قسم دے کر جس نے وید مقدس کو اپنت کیا عاجزانہ عرض کرتا ہوں۔ کہ اس جلسہ میں ضرور کوئی اعلیٰ واعظ ان کا تشریف لا کر وید مقدس کی خوبیاں بیان کرے۔ اور ایسا ہی صاحبان سناتن دھرم اور برہمو صاحبان وغیرہ کی خدمت میں اسی قسم کے ساتھ التماس ہے پبلک کو اس اشتہار کے بعد ایک فائدہ بھی حاصل ہوگا کہ ان تمام قوموں میں سے کس قوم کو درحقیقت اپنے خدا کی عزت اور قسم کا پاس ہے اور اگر اس کے بعد بعض صاحبوں نے پہلو تہی کی تو بلاشبہ ان کا پہلو تہی کرنا گویا اپنے مذہب کی سچائی سے انکار ہے ‘‘۔
اب ہمارے ناظرین کو غور کرنا چاہیئے کہ اس جلسے کے اشتہاروں وغیرہ کے دیکھنے اور دعوتوں کے پہنچنے پر کن کن علمائے ہند کی رگ حمیت نے مقدس دین اسلام کی وکالت کے لئے جوش کھایا۔ اور کہاں تک انہوں نے اسلامی حمایت کا بیڑا اٹھا کر حجج وبراہین کے ذریعے فرقانی ہیبت کا سکہ غیر مذاہب کے دل پر بٹھانے کے لئے کوشش کی ہے۔
ہمیں معتبر ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ کارکنان جلسہ نے خاص طور پر حضرت مرزا غلام احمد صاحب اور سرسید احمد صاحب کو شریک جلسہ ہونے کے لئے خط لکھا تھا تو حضرت مرزا صاحب نے گو علالت طبع کی وجہ سے بنفس نفیس شریک جلسہ نہ ہوسکے مگر اپنا مضمون بھیج کر اپنے ایک شاگرد خاص جناب مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کو اس کی قرات کے لئے مقرر فرمایا۔ لیکن جناب سرسید نے شریک جلسہ ہونے اور مضمون بھیجنے سے کنارہ کشی فرمائی یہ اس بناء پر نہ تھا کہ وہ معمر ہو چکے اور ایسے جلسوں میں شریک ہونے کے قابل نہ رہے ہیں اور نہ اس بناء پر تھا کہ انہیں ایام میں ایجوکیشنل کانفرنس کا انعقاد میرٹھ میں مقرر ہوچکا تھا بلکہ یہ اس بناء پر تھا کہ مذہبی جلسے ان کی توجہ کے قابل نہیں۔ کیوں کہ انہوں نے اپنی چٹھی میں جس کو ہم انشاء اللہ تعالیٰ اپنے اخبار میں کسی اور وقت درج کریں گے صاف لکھ دیا ہے کہ وہ کوئی واعظ یا ناصح یا مولوی نہیں۔ یہ کام واعظوں اور ناصحوں کا ہے جلسے کے پروگرام کے دیکھنے اور نیز تحقیق کرنے سے ہمیں یہ پتہ ملا ہے کہ جناب مولوی سید محمد علی صاحب کانپوری ۔ جناب مولوی عبدالحق صاحب دہلوی اور جناب مولوی احمد حسین صاحب عظیم آبادی نے اس جلسہ کی طرف کوئی جوشیلی توجہ نہیں فرمائی اور نہ ہمارے مقدس زمرہ علماء سے کسی اور لائق فرد نے اپنا مضمون پڑھنے یا پڑھوانے کا عزم بتایا۔ ہاں دو ایک عالم صاحبوں نے بڑی ہمت کرکے مانحن فیھا میں قدم رکھا۔ مگر الٹا۔ اس لئے انہوں نے یا تو مقرر کردہ مضامین پر کوئی گفتگو نہ کی۔ یا بے سروپا کچھ ہانک دیا۔ جیسا کہ ہماری آئندہ کی رپورٹ سے واضح ہوگا۔ غرض جلسہ کی کاروائی سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صرف ایک حضرت مرزا غلام احمدؑ صاحب رئیس قادیان تھے جنہوں نے اس میدان مقابلہ میں اسلامی پہلوانی کا پورا حق ادا فرمایا ہے۔ اور اس انتخاب کو راست کیا ہے جو خاص آپ کی ذات کو اسلامی وکیل مقررکرنے میں پشاور ۔ روالپنڈی ۔ جہلم ۔ شاہ پور ۔ بھیرہ ۔ خوشاب ۔ سیالکوٹ۔ جموں ۔ وزیر آباد۔ لاہور ۔ امرت سر۔ گورداسپور۔ لودھیانہ شملہ۔ دہلی ۔انبالہ ۔ ریاست پٹیالہ ۔ کپور تھلہ۔ ڈیرہ دون۔ الہ آباد ۔ مدراس۔ بمبئی ۔ حیدر آباد دکن ۔ بنگلور وغیرہ بلا دہند کے مختلف اسلامی فرقوں سے وکالت ناموں کے ذریعہ مزین بدستخط ہو کر وقوع میں آیا تھا۔ حق تویہ ثابت ہوتا ہے ۔ کہ اگر اس جلسے میں حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے روبرو ذلت و ندامت کا قشقہ لگتا۔ مگر خدا کے زبردست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچالیا۔ بلکہ اس کو اس مضمون کی بدولت ایسی فتح نصیب فرمائی کہ موافقین تو موافقین مخالفین بھی سچی فطرتی جوش سے کہہ اٹھے کہ یہ مضمون سب پر بالا ہے۔ بالا ہے۔ صرف اسی قدر نہیں بلکہ اختتام مضمون پر حق الامر معاندین کی زبان پریوں جاری ہوچکا کہ اب اسلام کی حقیقت کھلی اور اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔ جو انتخاب تیر بہدف کی طرح روز روشن میں ٹھیک نکلا۔ اب اس کی مخالفت میں دم زدن کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ بلکہ وہ ہمارے فخرو ناز کا موجب ہے اس لئے اس میں اسلامی شوکت ہے اور اسی میں اسلامی عظمت اور حق بھی یہی ہے۔
اگر چہ جلسہ اعظم مذاہب کا ہند میں یہ دوسرا اجلاس تھا لیکن اس نے اپنی شان وشوکت اور جاہ وعظمت کی رو سے سارے ہندوستانی کانگرسوں اور کانفرنسوں کو مات کردیا ہے ہندوستان کے مختلف بلاد کے روسا اس میں شریک ہوئے ۔ اور ہم بڑی خوشی کے ساتھ یہ ظاہر کیا چاہتے ہیں ۔ کہ ہمارے مدارس نے بھی اس میں حصہ لیا ہے جلسہ کی دلچسپی یہاں تک بڑھی کہ مشتہرہ تین دن پر ایک دن بڑھانا پڑا۔ انعقاد جلسہ کے لئے کارکن کمیٹی نے لاہور میں سب سے بڑی وسعت کا مکان اسلامیہ کالج تجویز کیالیکن خلق خدا کا ازدحام اس قدر تھا کہ مکان تھا (وسعت) غیر مکتفی ثابت ہوئی۔ جلسہ کی عظمت کا یہ کافی ثبوت ہے کہ کل پنجاب کے عمائدین کے علاوہ چیف کورٹ اور ہائیکورٹ آلہ آباد کے آنریبل ججز بابو پر تول چندر صاحب اورمسٹر بینر جی نہایت خوشی سے شریک جلسہ ہوئے۔ اس جلسے کے لئے سابق چھ پریذیڈنٹ مقرر ہوچکے تھے جن کے نام نامی یہ ہیں(۱) رائے بہادر بابو پر تول چندر چٹر جی چیفکورٹ پنجاب (۲ ) خان بہادر شیخ خدا بخش صاحب جج اسمال کا زکورٹ لاہور (۳) رائے بہادر پنڈت رادھا کشن صاحب کول پلیڈر چیف کورٹ وسابق گورنر جموں (۴) سر داردیال سنگھ صاحب رئیس اعظم مجیٹھ (۵) رائے بہادر بھوانیداس صاحب افسر بندوبست ضلع جہلم۔ (۶) مولوی حکیم نورالدین صاحب سابق طبیب شاہی مہاراجہ صاحب بہادر والی کشمیر اور یہی مولوی صاحب تھے جو اختتام جلسہ پر خاتمہ کی تقریر کرنے کے لئے مقرر کئے گئے تھے۔ ‘‘
لیکچر کا غیر زبانوں میں ترجمہ اور عالمگیر مقبولیت :۔
۱۸۹۷ء میں پہلی دفعہ یہ شہرہ آفاق لیکچر کتابی شکل میں بزبان اردو شائع ہوا۔ لیکن جلد ہی اسے مختلف زبانوں میں منتقل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ اب دنیا کی تمام بڑی بڑی زبانوں مثلاً عربی۔ فارسی، انگریزی، جرمنی، انڈونیشی ، ہسپانوی، برمی، چینی اور سہیلی کے علاوہ کنیاری، ہندی اور گورمکھی میں اس کے تراجم شائع ہو چکے ہیں اور جیساکہ حضرت اقدسؑ کو کشف میں بتایا گیا تھا ۔ دنیا بھر میں اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا موثر ترین ذریعہ بن رہے ہیں۔ اور بالخصوص مغربی ممالک میں اسلامی تعلیمات کے وسیع اور مقبول ہونے میں تو اس لیکچر کو بڑا بھاری دخل ہے سینکڑوں غیر مسلم اس کا مطالعہ کرکے حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں اور ایک عالم اس کے پاک انوار سے حق و صداقت کی روشنی کی طرف کھچا آرہا ہے ۔’’ اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘ کا انگریزی ترجمہ جناب مولوی محمد علی صاحب ایم ۔ اے نے کیا تھا۔ اور اس پر نظر ثانی مسٹر محمد الیگزنڈررسل ویب( امریکہ ) حضرت مولوی شیر علی صاحب بی اے اور چودھری غلام محمد صاحب سیالکوٹی نے کی تھی ۔ (۲۲) یہ ترجمہ ۱۹۱۰ء کے وسط میں لنڈن میں چھپا تھا۔
’’ اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘ مغربی مفکرین کی نظر میں :۔
امریکہ و یورپ میں جب ’’ اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے ترجمہ کی اشاعت ہوئی تو اسے زبردست مقبولیت نصیب ہوئی۔ اور مغربی مفکرین نے اس لیکچر کو بے حد سراہا ۔ چند آراء بطور مثال درج ذیل ہیں۔
۱۔ نامورروسی مفکر اکائونٹ ٹالسٹائی نے کہا:۔
‏The ideas are very profound and very true;
یہ خیالات نہایت گہرے اور سچے ہیں۔
۲۔ ’’ تھیوسافیکل بک نوٹس ‘‘ نے لکھا :۔
‏ ٓAdmirably calculated to appeal to the student of comparative religion, Who will find exactly what he wants to know as Mohammedan doctrines on souls and bodies, divine existence , moral law and much else;
(مارچ ۱۹۱۲ء ) Theosophical Book Notes
قابل تعریف جچا تلاانداز جو مقابلہ مذاہب کے ایسے طالب علم کو بہت متاثر کرتا ہے جسے اس میں وہ سب کچھ مل جاتاہے جو وہ محمدی قوانین کی روشنی میں روح، جسم، روحانی زندگی ، اخلاقی قوانین اور دیگر بہت سے متعلقہ امو رکے بارے میں جاننا چاہتاہے ۔ (مارچ ۱۹۱۲ء)
۳۔ ’ ’ دی انگلش میل ‘‘ نے یہ رائے دی کہ :۔
‏ A summary of really Islamic Ideas;
(۲۷۔ اکتوبر ۱۹۱۱ء ) The English Mail
’’ حقیقی اسلامی خیالات کا خلاصہ ‘‘ (۲۷ ۔اکتوبر ۱۹۱۱ء )
۴۔ ’’ دی برسٹل ٹائمزاینڈ مرر‘‘ نے تبصرہ کیا کہ :۔
‏Clearly it is no ordinary person who thus assresses himself to the west.
‏the Bristol Times and Mirror
یقینا وہ شخص جو اس رنگ میں مغرب کو مخاطب کرتا ہے کوئی معمولی آدمی نہیں ۔
۵۔ دی ڈیلی نیوز ( شکاگو)نے لکھا :۔
‏Character of the author is apparent "
(۱۶۔مارچ ۱۹۱۲ء) chicag.
‏The devout and earnest ( the Daily News)
اس مصنف کا نہایت پر خلوص اور حقیقت پر مبنی کردار بالکل عیاں ہے ۔
۶۔ دی اینگو بیلجین ٹائمز( برسلز) نے کتاب پر درج ذیل خیالات کا اظہار کیا:۔
‏The Teaching of Islam'turns out a wonderful commentary on the Quran (the Muslim scripture) itself. The author, s method has a further moral, and this is one which, to our mind, all writers on religion will do well to consider. It is that a religious treatise should be affirmative rather than negative in character. It should insist on the beauties of the one system rather than on the defects of another . The Teaching of Islam" demonstrates the principle in a pre.eminent degree, and the result is that the author has been able, without being in the least bitter towards any non.Muslim system, to guide the reader to an appreciation of Muslim fundamentals such as would have been impossible otherwise. The book rings with sincerity and conviction .
‏The Anglo. Belgian Times, Brussels
’’ٹیچنگ آف اسلام ‘‘ مسلمانوں کی الہامی کتاب قرآن کریم کی ایک نہایت عمدہ تفسیر ہے ۔ مصنف کا اسلوب بیان ایک مزید اخلاقی معیار قائم کرتاہے ۔ جسے ہمارے نزدیک مذہب پر لکھنے والے تمام مصنفین کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک مذہبی تصنیف کا انداز منفی نہیں بلکہ مثبت ہونا چاہئے۔ اسے کسی بھی سسٹم کی خوبیاں واضح کرنی چاہئیں نہ کہ محض دوسرے کی خامیاں ۔ کتاب ’’ ٹیچنگز آف اسلام ‘‘ یہ اصول نہایت واضح طور پر قائم کرتی ہے جس کی بناء پر اس کا مصنف قاری کو اسلا م کے بنیادی اصولوں کی ستائش کی ترغیب کی خاطر کسی اور غیر مسلم سسٹم کے خلاف تلخ رویہ اختیار نہیں کرتا۔ اور یہ بات کوئی اور طرز بان اختیار کرنے سے ممکن نہ تھی۔ الغرض یہ کتاب خلوص اور حق الیقین کا مرقع ہے ۔ (۲۳)
۱۸۹۲ء کے بعض صحابہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض جلیل القدر صحابہ جنہوں نے ۱۸۹۲ء میں سلسلہ حقہ میں شمولیت اختیار کی یہ ہیں۔
(۱) حضرت ملک نورالدین صاحب (۲۴)
(۲) حضرت میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں ضلع گورداسپور (۲۵)
(۳) حضرت ڈاکٹر بوڑیخاں صاحب قصور۔ (۲۶)
(۵) حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب ۔ (۲۸)
حضرت مولوی امام الدین صاحب گولیکی ۹۷۔ ۱۸۹۲ء میں داخل سلسلہ ہوئے ۔ آپ کا مختصر تذکرہ پہلے آچکاہے ۔
اس وقت مندرجہ بالا ۳۱۳ اصحاب میں سے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ( ۱۰۱) حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب جہلمی (۱۹۰) اور حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب ربوہ ( ۲۸۱) خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں۔ اور مبائعین میں شامل ہیں۔ ان مخلصین کے علاوہ فہرست میں شامل چند اور اصحاب بھی گوبقید حیات ہیں۔ مگر وہ مبایعین سے متعلق نہیں رہے۔( افسوس موجود ہ ایڈیشن کے وقت ۳۱۳ اصحاب میں سے کوئی بزرگ زندہ نہیں۔ اس مبارک گروہ کے آخری فرد حضرت قاضی صاحب تھے جن کا انتقال ۲۷۔ فروری ۱۹۷۲ء کو ہوا)
علماء کے نام عربی مکتوب :۔
’’انجام آتھم ‘‘ میں حضرت اقدس نے علماء پر اتمام حجت کے لئے فصیح وبلیغ عربی میں ایک مفصل مکتوب بھی تحریر فرمایا۔ جو آپ کے روحانی اور علمی کمالات کا مرقع اور آپ کی سچائی پر ابدی برہان ہے۔
اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا پرشوکت چیلنج:۔
کتاب کے ضمیمہ میں حضور نے اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ ہونے پر ایک پرشوکت چیلنج دیتے ہوئے اعلان فرمایا:۔
بالآخر میں پھر ہریک طالب حق کو یاد دلاتا ہوں کہ وہ دین حق کے نشان اوراسلام کی سچائی کے آسمانی گواہ جس سے ہمارے نابینا علماء بے خبر ہیں۔ وہ مجھ کو عطا کئے گئے ہیں۔ مجھے بھیجا گیا ہے ۔تا میں ثابت کروں کہ ایک اسلام ہی ہے جو زندہ مذہب ہے اور وہ کرامات مجھے عطا کئے گئے ہیں جن کے مقابلہ سے تمام غیر مذاہب والے اور ہمارے اندرونی اندھے مخالف بھی عاجز ہیں ۔میں ہریک مخالف کو دکھلا سکتا ہوں۔ کہ قرآن شریف اپنی تعلیموں اور اپنے علوم حکمیہ اوراپنے معارف دقیقہ اور بلاغت کاملہ کی رو سے معجزہ ہے۔ موسیٰ کے معجزہ سے بڑھ کر اور عیسیٰ کے معجزات سے صدہا درجہ زیادہ ۔
میں باربار کہتاہوں اوربلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم ﷺ سے سچی محبت رکھنا اور سچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحب کرامات بنادیتا ہے اوراسی کامل انسان پر علوم غیبیہ کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور دنیا میں کسی مذہب والا روحانی برکات میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ چنانچہ میں اس میں صاحب تجربہ ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب مردے۔ ان کے خدا مردے اور خود وہ تمام پیرو مردے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہوجانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں ۔ ہرگز ممکن نہیں ۔
اے نادانو! تمہیں مردہ پرستی میں کیا مزہ ہے؟ اورمردار کھانے میں کیا لذات؟!! آئو میں تمہیں بتلائوں کہ زندہ خدا کہاں ہے اور کس قوم کے ساتھ ہے ۔ وہ اسلام کے ساتھ ہے اسلام اس وقت موسیٰ کا طو ر ہے۔ جہاں خدا بول رہا ہے وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ ہمیشہ کلام کرتاتھا۔ اورپھر چپ ہوگیا آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کررہا ہے۔ کیا تم میں سے کسی کو شوق نہیں کہ اس بات کو پرکھے۔ پھر اگر حق کو پاوے تو قبول کرلیوے ۔تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ کیا ایک مردہ کفن میں لپیٹا ہوا ۔پھر کیا ہے؟ کیا ایک مشت خاک ۔کیا یہ مردہ خدا ہوسکتا ہے؟ کیا یہ تمہیں کچھ جواب دے سکتا ہے؟ذرا آئو! ہاں! *** ہے تم پراگر نہ آئو اور اس سڑے گلے مردہ کا میرے خدا کے ساتھ مقابلہ نہ کرو۔
دیکھو میں تمہیں کہتاہوں کہ چالیس دن نہیں گزریں گے کہ وہ بعض آسمانی نشانوں سے تمہیں شرمندہ کرے گا ۔ ناپاک ہے وہ دل جوسچے ارادہ سے نہیں آزماتے اورپھر انکارکرتے ہیں اورپلید ہیں وہ طبیعتیں جو شرارت کی طرف جاتی ہیں نہ طلب حق کی طرف۔
او میرے مخالف مولویو! اگرتم میں شک ہوتو آئو چند روز میری صحبت میں رہو اگر خدا کے نشان نہ دیکھو تو مجھے پکڑو اور جس طرح چاہو تکذیب سے پیش آئو ۔ میں اتمام حجت کرچکا ۔ اب جب تک تم اس حجت کو نہ توڑ لو تمہارے پاس کوئی جواب نہیں ۔خدا کے نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں کیا تم میں سے کوئی نہیں جو سچا دل لے کر میرے پاس آوے کیا ایک بھی نہیں۔
’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زورآور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا‘‘
اشتہار مستیقنا بوحی اللہ القھار:۔
یہ پرشوکت چیلنج آپ نے بالخصوص عیسائی پادریوں کو مخاطب کرتے ہوئے ۱۴؍ جنوری ۱۸۹۷ء؁ کو الاشتھار مستیقنا بوحی اللہ القھار‘‘ کے ذریعہ سے بھی دیا۔ اس روحانی مقابلہ کے لئے آپ نے چالیس دن مقرر فرمائے۔ اشتہار کا ایک ایک لفظ تثلیث پرستی کے لئے شمشیرو سنان کا حکم رکھتاہے۔
عیسائیوں کو ایک ہزار روپیہ انعام کی پیشکش:۔
اس اشتہار کے چودہ دن بعد ۲۸؍ جنوری ۱۸۹۷ء؁ کو ایک اور اشتہار میں یہ بھی اعلان فرمایا کہ میرا دعویٰ ہے کہ یسوع کی پیشگوئیوں کی نسبت میری پیشگوئیاں اور میرے نشان زیادہ ہیں ۔ اگرکوئی پادری میری پیشگوئیوں اورمیرے نشانوں کی نسبت یسوع کی پیشگوئیاں اور نشان ثبوت کے رو سے قومی تر دکھلا سکے تو میں اس کو ایک ہزار روپیہ نقد دوں گا ۔
پادریوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کے ان اشتہاروں سے لاجواب اور مبہوت ہوکر یہ جواب دیا کہ انجیل کی رو سے جھوٹے رسول اور جھوٹے مسیح بھی ایسے بڑے نشان دکھلاسکتے ہیں کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کردیں۔ حضرت اقدسؑ کو یہ جواب پہنچا ۔تو آپ نے ۲۸؍فروری ۱۸۹۷ء؁ کو ایک اور اشتہار دیا۔ جس میں لکھا کہ انجیل کا جو سہارا انہوںنے لیا ہے وہ ان کے لئے کچھ فائدہ بخش نہیں بلکہ اس سے وہ خود زیرالزام آتے ہیں کیونکہ جس حالت میں اسی قسم کے نشانوں پر بھروسہ کرکے یسوع کو خدا بنادیا گیا ہے تو یہ بڑ اظلم ہوگا کہ دوسرا شخص ایسے ہی نشان بلکہ بقول یسوع بڑے بڑے نشان بھی دکھلا کر ایک سچا ملہم بھی نہ ٹھہر سکے۔
اشتہار’’ خدا کی *** اور کسر صلیب‘‘
اس اشتہار کے بعد ۶؍مارچ ۱۸۹۷ء؁ کو آپ نے ’’خدا کی *** اور کسرصلیب‘‘ کے عنوان سے ایک اور زبردست اشتہار دیا جس میں آپ نے ثابت کیا کہ *** کی رو سے *** کے معنے راندہ درگاہ عالی اورشیاطین کے ہیں مگر عیسائیوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ یسوع مسیح مصلوب ہوکر تین دن کے لئے *** ہوگئے تھے ۔بنابریں آپ نے سوال کیا کہ اگر معاذ اللہ جناب یسوع پر واقعی کچھ دنوں تک *** پڑ گئی تو ان کا خدا تعالیٰ سے انبیت کا تعلق کیسے قائم رہ سکتاتھا جب کہ بیٹا ہونا تو الگ رہا خود پیارا ہونا بھی *** کے منافی ہے۔
شیخ محمد رضا طہرانی نجفی کی اشتہار بازی
شیخ محمد رضا طہرانی نجفی ایک شیعہ مجتہد تھے ۔جنہوں نے سستی شہرت اوراپنے علم وفضیلت کا سکہ جمانے کے لئے حضرت اقدس کے خلاف اشتہار بازی کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے حق وکذب کے فیصلے کا یہ مضحکہ خیز طریق پیش کیا کہ ہم دونوں لاہور کی شاہی مسجد کے منارے سے چھلانگ لگائیں۔ جو صادق ہوگا وہ بچ جائے گا۔ نیز حضرت اقدسؑ کے دعویٰ الہام و نشان کا مذاق اڑاتے ہوئے تعلی کی کہ میں چالیس لمحوں میں نشان دکھا سکتاہوں ۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے یکم فروری ۱۸۹۷ء کو بذریعہ اشتہار ان کے شاہی مسجد سے چھلانگ لگانے کے مطالبے کا تویہ لطیف جواب دیا کہ یہ عجیب بات ہے کہ دنیا میں اس طرز کا واقعہ دو مرتبہ ہوا ہے ۔ شیخ نجدی (۷) نے حضرت مسیح علیہ السلام سے پہلی مرتبہ یہ کہا تھا اور اب شیخ نجفی مجھ سے یہ تقاضا فرما رہے ہیں۔ پس میں بھی انہیں وہی جواب دیتاہوں جو حضرت مسیحؑ نے شیخ نجدی کو دیا تھا۔ کہ میں اپنے خدا کی آزمائش نہیں کرنا چاہتا(۸) شیخ نجفی کے دعویٰ نشان نمائی کے جواب میں حضور نے فرمایا ۔ کہ چالیس روز کے اندر اگرہم سے نشان ظاہر ہوگیا اور وہ جو چالیس لمحوں میں کرامت دکھانے کا ادعا کرتے ہیں ۔چالیس دنوں میں بھی کچھ نہ دکھاسکے۔ تو صادق و کاذب کی خود بخود شناخت ہو جائے گی۔ (۹) سو چالیس دن کے اند رلیکھرام پشاوری کی ہلاکت کا نشان وقوع میں آگیا ۔ جس پر حضور نے ۱۰۔ مارچ ۱۸۹۷ء کو اشتہار دیا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی صداقت پر چمکتا ہوا نشان ظاہر کرکے شیخ نجفی کا کذب کھول دیا ہے اور اب کسی مقابلہ کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی ۔ تاہم تنزل کے طور پر راضی ہیںکہ وہ مسجد شاہی کے منارہ سے اب نیچے گر کے دکھلاویں۔ (۱۰)
حضرت سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہا العالی کی ولادت :۔
۲۔ مارچ ۱۸۹۷ء مطابق ۲۷۔ رمضان ۱۳۱۴ھ کو حضرت سیدہ مبارکہ بیگم مدظلہا العالی کی پیدائش ہوئی ۔ آپ کی ولادت سے قبل حضرت اقدس کو الہاماً خبر دی گئی کہ ’’ تنشافی الحلیہ‘‘(۱۱) کہ یہ دختر نیک اختر زیورات میں نشوونماپائے گی۔ پھر ۱۹۰۱ء میں الہام ہوا۔ ’’نواب مبارکہ بیگم ‘‘(۱۲) ان الہامات اور بعض رویا کی روشنی میں حضور نے ( حضرت صاحبزادہ ) مرزا بشیر احمد صاحب( حضرت صاحبزادہ ) مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت سیدہ موصوفہ کی آمین کے موقع پر خصوصاً آپ سے متعلق فرمایا ؛
؎ اوران کے ساتھ دی ہے ایک دختر ہے کچھ کم پانچ کی وہ نیک اختر
کلام اللہ کو پڑھتی ہے فرفر خد اکا فضل اور رحمت سراسر
ہوا اک خواب میں مجھ پر یہ اظہر کہ اس کو بھی ملے گا بخت برتر
لقب عزت کا پاوے وہ مقرر یہی روز ازل سے ہے مقدر
چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق حضرت صاحبزادی صاحبہ ’’ حجۃ اللہ ‘‘ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس اعظم ریاست مالیر کوٹلہ سے بیاہی گئیں۔ ۱۷۔ فروری ۱۹۰۸ء کو آپ کی تقریب نکاح عمل میں آئی اور ۱۴۔ مارچ ۱۹۰۹ء کو رخصتانہ ہوا۔ خطبہ نکاح حضرت مولانا نورالدین نے پڑھا۔ جس میں کہا ’’ ایک وقت تھا جب کہ حضرت نواب صاحب موصوف کے ایک مورث اعلیٰ صدر جہاں کو ایک بادشاہ نے اپنی لڑکی نکاح میں دی تھی۔ اور وہ بزرگ بہت ہی خوش قسمت تھا۔ مگر ہمارے دوست نواب محمد علی خاں صاحب اس سے زیادہ خوش قسمت ہیں کہ ان کے نکاح میں ایک نبی اللہ کی لڑکی آئی ہے ۔‘‘(۱۳)
حضرت سیدہ موصوفہ سلسلہ کی ان بزرگ ہستیوں میں شامل ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست تعلق و نسبت کا فخر بھی بخشا ہے اور بلند پایہ اور لطیف روحانی اور ادبی ذوق سے بھی نوازاہے۔ آپ کا شعری کلام تصوف و روحانیت کی نازک خیالیوں اور لطافتوں سے لبریز اور سوزو گداز میں ڈوبا ہوتاہے ۔ آپ کی شعری خدمات کا سلسلہ ۱۹۲۴ء سے شروع ہوتا ہے جس کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ یورپ کے پہلے سفر پر روانہ ہوئے تھے ۔ آپ کی روح پر ور نظموں کا مجموعہ ’’ الشرکہ الاسلامیہ ‘‘ ربوہ نے ’’ درعدن ‘‘ کے نام سے دسمبر ۱۹۵۹ء میں شائع کیا ہے ۔
نظم کی طرح نثر میں بھی مخصوص طرز نگارش رکھتی ہیں۔ زبان نہایت نفیس پاکیزہ اور شگفتہ ہے جو حضرت مسیح موعود کی دعا اور حضرت امام المومنین نور اللہ مرقدھا کی حسن تربیت کا فیض ہے۔ ( حضرت سیدہ ۲۳۔ مئی ۱۹۷۷ء کو انتقال فرماگئیں)






شاتم رسول پنڈت لیکھرام کا قتل ، خانہ تلاشی اور آریوں کے خطرناک منصوبے ’’ استفتاء ‘‘ اور ’’ سراج منیر ‘‘ کی تصنیف و اشاعت
پنڈت لیکھرام کا قتل :۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شاتم رسول پنڈت لیکھرام کی عبرتناک موت سے متعلق جو مفصل پیشگوئی فروری ۱۸۹۳ء سے کر رکھی تھی اس کی چھ سالہ میعاد مقرر تھی جواب اختتام کو پہنچ رہی تھی اور مارچ کے مہینہ میں عید الفطر کا دن بھی آرہا تھا جو اس واقعہ کی معین علامت بتائی گئی تھی اس لئے جوں جوں یہ دن نزدیک آرہا تھا پبلک کی بیتابی میں بھی اضافہ ہوتا جاتاتھا۔ دوسری طرف پنڈت لیکھرام کو بھی دھڑکا لگا ہوا تھا اور اس نے دو تنخواہ دار سپاہی اپنی حفاظت کے لئے اپنے مکان واقعہ محلہ وچھووالی لاہور میں تعینات کرلئے تھے ۔(۱) مگر یہ انتظامات خدا تعالیٰ کے عذاب سے کیونکر بچا سکتے تھے ؟ ۵۔ مارچ کو عید الفطر کا دن تھا۔ جو بظاہر سکون سے گزارا۔ لیکن اگلے دن (۶۔ مارچ کو ) سات بجے شام لیکھرام مکان کی بالائی منزل پر بیٹھے پنڈت دیانند کی سوانح عمری لکھ رہے تھے اور ایک شخص جو آریہ سماجیوں کے بیان کے مطابق شدھ ہونے کے لئے پاس بیٹھا تھا اور جس کے لئے آریہ سماج ۷۔ مارچ ۱۸۹۷ء کو شدھی کی پہلی تقریب منانے کا اہتمام بڑی دھوم دھام سے کرنے والی تھی) پاس بیٹھا تھا۔ اس دوران میں پنڈت لیکھرام تصنیف کے کام سے تھک کر ذرا آرام کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور انگڑائی لی ۔ جس پر ’’شدھ ہونے والے شخص نے ‘‘ ان پر خنجر سے بھرپور وار کیا ۔ کہ انتڑیاں باہر نکل آئیں۔ اور پنڈت لیکھرام کے منہ سے بیل کی طرح نہایت زور کی آواز نکلی جسے سن کر اس کی بیوی اور والدہ اوپر گئیں۔ لوگ جمع ہوگئے ۔ لیکھرام کو لاہور کے میو ہسپتال میں پہنچا دیا گیا ۔ شام کا وقت تھا۔ ہسپتال میں اس وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ( جو اس وقت میڈیکل کالج میں تعلیم پاتے تھے ) ڈیوٹی پر تھے ۔ مگر انگریز سرجن ڈاکٹر پیری موجودنہ تھا ۔ جب سرجن ڈاکٹر کے آنے میں تاخیر ہوئی تو پنڈت لیکھرام نے بار بار یہ کہنا شروع کیا ۔ ’ ’ ہائے میری قسمت کوئی ڈاکٹر بھی نہیں بوہڑدا‘‘۔ یعنی ڈاکٹر بھی نہیں پہنچتا۔ آخر بہت انتظار کے بعد قریباً نو بجے ڈاکٹر پیری بھی آپہنچا۔ اپریشن سے پہلے اس نے مرزا یعقوب بیگ صاحب کو کئی مرتبہ جو ’’ مرزا صاحب ‘‘ کہہ کے پکارا ۔ تولیکھرام کانپ اٹھا۔۔۔۔۔۔ کہ ہائے و ہ مرزا صاحب یہا ہسپتال بھی آپہنچے۔ ڈاکٹر پیری نے زخم سیئے لیکن قریباً بارہ بجے جب وہ انتڑیاں وغیرہ صاف کرکے اور پیٹ سی کر ہاتھ دھونے لگا تو ٹانکے چھوٹ گئے اور ان کو دوبارہ سینا پڑا۔ اس وقت پولیس والوں نے پنڈت لیکھرام کا بیان لینا چاہا جسے ڈاکٹر پیری نے روک دیا۔ کہ اس میں جان کا خطرہ ہے ۔ اس طرح آخر شب ہوگئی اور بالآخر لیکھرام تڑپ تڑپ کر ۴ بجے صبح چل بسا۔ اور جس طرح پیشگوئی میں قبل از وقت بتایا گیا تھا سامری کے بچھڑے کی طرح اس کی ارتھی جلائی گئی ۔ اور اس کی راکھ دریا میں بہادی گئی ۔ (۲)
پنڈت دیوپر کاش کا بیان :۔
مشہور آریہ سماجی پنڈت دیو پرکاش نے اپنی کتاب دافع الاوہام میں پنڈت لیکھرام کے واقعات قتل پر مفصل روشنی ڈالی ہے جس کے لفظ لفظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے ہر حصہ کے پورے ہونے کی شہادت ملتی ہے پنڈت صاحب لکھتے ہیں ۔ ’’ ۱۳ فروری یا ۱۴ ۔ فروری ۱۸۹۷ء کو ایک شخص لالہ ہنسراج جی کے پاس گیا پھر دوسرے روز دیا نند کالج ہال میں دکھائی دیا ۔ وہ پنڈت لیکھرام جی کو تلاش کرتا تھا ۔ پھر پنڈت جی کو ملا۔ اس نے ظاہر کیا کہ وہ پہلے ہندوتھا۔ عرصہ دو سال سے مسلمان ہوگیا تھا ۔ اب پھر اپنے اصل دھرم میں واپس آنا چاہتاہے ۔۔۔۔۔ وہ پنڈت جی کے ساتھ سایہ کی طرح رہنے لگا۔ کھانا بھی عام طور سے پنڈت جی کے گھر ہی کھایا کرتا تھا یہاں تک کہ پنڈت جی یکم مارچ کو ملتان تشریف لے گئے ۔ ۵۔ مارچ کو عید کا دن تھا ۔ قاتل نے اس دن پنڈت جی کے گھر ریلوے سٹیشن آریہ پرتی ندھی سبھا کے دفتر ۱۸یا ۱۹ چکر لگائے ۔ مگر پنڈت جی ۵۔ مارچ کو ملتان سے نہ آسکے ۔ اس سے اس ظالم کا ارادہ پنڈت جی کو عید کے دن شہید کرنا تھا۔ ۶۔ مارچ کو صبح ہی پنڈت جی کے مکان پر پہنچا اور بعد ازاں پرتی ندھی کے دفتر سے ہوتا اور ریلوے اسٹیشن پر گیا۔ اس روز پنڈت جی ملتان سے تشریف لے آئے ۔ قاتل خلاف معمول کمبل اوڑھے ہوئے تھا اور بار بار تھوکتا تھا اور کانپ رہا تھا یہ حالت دیکھ کر پنڈت جی نے سوال کیا کہ کیا بخار ہے ۔ اس نے کہا ہاں ۔ ساتھ کچھ درد بھی ہے تب پنڈت جی اسے ڈاکٹر بشنداس کے پاس کے گئے ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا اسے بخار وغیرہ تو کچھ نہیں لیکن خون میں کچھ جوش ہے ڈاکٹر صاحب نے پلستر لگانے کو کہا مگر اس مکار نے انکار کر دیا اور کہا کہ کوئی پینے کی دوا دیجئے ۔ تب پنڈت جی نے ڈاکٹر صاحب کی اجازت سے اسے شربت پلایا ۔ اس کے بعد پنڈت جی نے کچھ کپڑا خریدا اور گھر کو چلے آئے اور وہ ظالم بھی ساتھ ہی تھا۔ جس مکان میں پنڈت جی کام کرتے تھے وہ گلی وچھووالی لاہور میں واقع ہے اور اس کا نقشہ حسب ذیل ہے زینہ چڑھتے ہی چھت پر اس کے ساتھ لگا ہوا ایک برآمدہ ہے ۔ اس میں پنڈت جی کام کیا کرتے تھے ۔ دو طرف دیوار ۔ ایک طرف اندرونی کمرہ کا دروازہ جس میں ان کی ماتا اور دھرم پتنی بیٹھی تھی اور کواڑ بند تھا۔ چوتھی طرف بالکل کھلی ہوئی تھی پنڈت جی چار پائی پر جا بیٹھے اور رشی دیانند کے جیون چرتر (سوانح عمری) کے کاغذات مکمل اور مرتب کرنے میں مشغول ہوگئے اور سفاک بھی بائیں طرف بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔ عین اس وقت جب کہ پنڈت جی نے مہرشی کے جیون کے اس آخری حصہ کو جس وقت کہ انہوں نے اپنی زندگی کو دیدک دھرم کے راستہ میں قربان کیا اور کہا کہ ایشور تیری اچھیا( خواہش) پورن ( پوری ) ہو ختم کیا اور تھکاوٹ کے سبب اٹھ کے ۷ بجے شام کے وقت انگڑائی لی ۔ اس وقت اس ظالم نے جو صبح سے موقع کی گھات میں تھا فوراً اٹھ کر پنڈت جی کے پہلو میں چھرا گھونپ دیا جس سے انتڑیاں باہر نکل آئیں۔ پنڈت جی نے ایک ہاتھ سے انتڑیوں کو تھاما اور ایک سے چھری چھین لی ۔ تب پنڈت جی کی ماتا اور دھرم پتنی اس کی طرف دوڑیں اس وقت اس بے رحم ظالم نے پندت جی کی بوڑھی ماتا کو بیلنا اس زور سے مارا کہ وہ اچانک چوٹ لگنے کے سبب سے بے ہوش ہو کر گر گئیں۔ اور وہ بے ایمان قاتل فرار ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد لوگ جمع ہوگئے اور پنڈت جی کو ہسپتال لے گئے ڈاکٹر صاحب نے زخموں کا ملاحظہ کیا اور سینے میں مصروف رہے اور کہا کہ اگر صبح تک بچ گئے تو امید زیست ہے ورنہ نہیں۔ پنڈت جی جب تک ہسپتال میں جیتے رہے دید منتروں کا پاٹھ کر تے رہے اور آخر ایک بجے رات کے اپنی آخری وصیت کہ آریہ سماج سے تحریر کا کام بند نہ ہوکر کے آپ کی پاک روح قفس فانی سے عالم جاودانی کی طرف پرواز کر گئی ۔ ‘‘(۳)
بابو گھانسی رام صاحب ایم ۔ اے ۔ ایل ایل ۔ بی کا اعلان حق :۔
ایک دوسرے آریہ سماجی بابو گھانسی رام صاحب ایم ۔ اے ایل ۔ ایل ۔بی کھلے الفاظ میں فرماتے ہیں ’’ صوبہ پنجاب کے دارالخلافت لاہو رمیں یہ قتل ہوا۔ مگر پولیس قاتل کا پتہ چلانے میں ناکامیاب رہی اتفاق دیکھئے۔ غلام احمد کی پیشگوئی پوری ہوئی اور پنڈت لیکھرام کو شہادت نصیب ہوئی اس بات کو پر میشر ہی جان سکتا ہے کہ یہ اس کا بھیجا ہوا عذاب تھا یا انسان کا ۔‘‘(۴)
پنڈت مدن گوپال سناتن دھرمی کا واضح اقرار :۔
یہ تو ایک آریہ سماجی صاحب کا بیان ہے اب ایک سناتن دھرمی فاضل کا واضح اقرار درج کیا جاتاہے ۔ جناب مدن گوپال مدن پاراشرسابق ایڈیٹر’’ رندھیر ‘‘ پٹی ضلع لاہور لکھتے ہیں ’’لیکھرام کے مارے جانے کی نسبت پیشگوئی اور الزام قتل سے انجام کار اپنے بری ہونے کی پیشگوئی پوری ہوئی ۔ ‘‘ ( ۵)
ان تین ناقابل تردید بیانات سے واضح ہے کہ ایک عرصہ کے بعد آریہ سماجی اور سناتن دھرمی دونوں حلقے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ پنڈت لیکھرام سے متعلق خدا کا چمکتا ہوا نشان پوری شان سے ظاہر ہوا۔
ہندوئوں کی شورش :۔
اس عظیم الشان پیشگوئی کے واضح رنگ میں پورے ہونے پر چاہئے تو یہ تھا کہ ہندو اسلام اور پیغمبر خدا ﷺ کی سچائی پر ایمان لے آتے مگر افسوس اس موقع پر ان کی قساوت قلبی میں اور بھی اضافہ ہوگیا اور انہوں نے مسلمانوں کے خلاف زبردست شورش برپا کر دی۔ خصوصاً لاہور میں جہاں یہ واقعہ ہوا تھا ہندوئوں نے کئی مسلمان بچوں کو مٹھائی وغیرہ میں زہردے دیا۔ جب ایسی متعدد واردات ہوئیں تو مسلمانوں نے ایکا کر لیا کہ وہ ہندوئوں کے ہاتھوں سے نہیں کھائیں گے اور اس طرح کئی دکانیں مسلمانوں کی کھل گئیں۔ آریہ لوگوں نے ملک میں اپنے جاسوسوں کا جال بچھا دیا اور ملک کا چپہ چپہ چھان مارا اور قاتل کے گرفتار کرنے والے کے لئے بڑے بڑے انعام رکھے گئے مگر اس شورش کا حقیقی اور تمام تر رخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات مقدس کی طرف تھا۔ چنانچہ ہندو اخباروں نے آپ کے خلاف عوام اور حکومت دونوں کو مشتعل کرنے میں کوئی دقیقہ فردو گذاشت نہیں کیا۔ اور ملک بھر میں ایک زبردست آگ لگا دی ۔ اور صریح لفظوں میں آپ کو قتل میں شریک قرار دیا۔
ہندو اخبارات کی زہر چکانی :۔
چنانچہ ’’اخبار عام ‘‘ ۱۰۔ مارچ ۱۸۹۷ء نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ۔ ’’ اگر ڈپٹی صاحب یعنی آتھم کے ساتھ ایسا واقعہ ہو جاتا جس کا خمیازہ لیکھرام کو بھگتنا پڑا تب اور صورت تھی۔
’’ یہ قتل کئی ایک اشخاص کی مدت کی سوچی اور سمجھی ہوئی اور پختہ سازش کا نتیجہ ہے ۔ جس کی تجاویزامرت سر اور گورداسپورہ کے نزدیک اور ادھر دہلی اور بمبئی کے ارد گرد مدت سے ہو رہی تھیں۔ کیا یہ غیر اغلب ہے کہ اس سازش کا جنم ان اشخاص سے ہوا جو علانیہ بذریعہ تحریر و تقریر کہا کرتے تھے کہ پنڈت کو مارڈالیں گے اور مزید برآں یہ کہ پنڈت اس عرصہ میں اور فلاں دن ایک دردنا ک حالت میں مرے گا۔ کیا آریہ دھرم کے مخالف چند ایک کتب کے ایک خاص مصنف کو اس سازش سے کوئی تعلق نہیں ۔ ‘‘
’’ انیس ہند ‘‘ میرٹھ ( ۲۰۔ مارچ ۱۸۹۷ء ) نے لکھا ’’ ہمارا ماتھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا کہ جب مرزا غلام احمد قادیانی نے لیکھرام کی موت کی نسبت پیشگوئی کی تھی۔ کیا اس کو علم غیب تھا۔ ‘‘
حضرت اقدسؑ کو قتل کی دھمکیاں :۔
یہی نہیں ہندوئوں نے حضور ؑ کو برملا قتل (۶) کی دھمکیاں دیں چنانچہ اخبار ’’ رہبر ہند‘‘ لاہور۵۔ مارچ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۴نے لکھا کہ ’’ کہتے ہیں کہ ہندوقادیان والے کو قتل کرائیں گے ۔ ‘‘
ایک ہندو بشیشرداس نے اخبار آفتاب ہند ( ۱۸۔ مارچ ۱۸۹۷ء صفحہ ۵) پر ’’ مرزا قادیانی خبردار ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں صاف صاف لکھا کہ ’’ مرزا قادیانی بھی امروز فرد کا مہمان ہے بکرے کی ماں کب تک خیر منا سکتی ہے ۔ آج کل ہنود کے خیالات مرزا قادیانی کی نسبت بہت بگڑے ہوئے ہیں پس مرزا قادیانی کو خبردار رہنا چاہئے۔ کہ وہ بھی بکر عید کی قربانی نہ ہو جائوے ۔ ‘‘(۷)
اس درپردہ خونی منصوبے کی تکمیل کے لئے ایک خفیہ انجمن بھی قائم کی گئی ۔ چنانچہ حضور کی خدمت میں پنجاب کے مختلف مقامات سے بکثرت ی