• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تاریخ احمدیت ۔ جلد 12 ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تاریخ احمدیت ۔ جلد 12 ۔ یونی کوڈ

‏tav.12.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
ربوہ کے پہلے جلسہ سے لیکر مصلح موعود کی رہائش تک
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت
جلد ۱۲
مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ پاکستان کے پہلے سالانہ اجتماع سے لیکر جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ ۱۹۵۱ء/۱۳۲۰ہش تک
مولفہ
دوست محمد شاہد
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت کی چودہویں۱ جلد
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور اس کی عنایت سے جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء کی مبارک تقریب پر تاریخ احمدیت کی چودہویں جلد طبع ہوکر احباب کی خدمت میں پیش ہورہی ہے یہ جلد ۱۹۴۹ء کے مجلس خدام الاحمدیہ کے مرکز ربوہ میں پہلے اجتماع سے لے کر سالانہ جلسہ ربوہ ۱۹۵۱ء تک کے ایمان افروز روح پرور اور انقلاب آفریں واقعات پر مشتمل ہے اس جلد کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے بہت سے غیر مطبوعہ پیغامات مراسلات اور تحریرات کے علاوہ حضور کے سفر بھیرہ کے موقع کی پرمعارف تقریر پہلی بار مکمل طور پر شائع ہورہی ہے اس طرح متعدد نایاب اور بالکل غیر مطبوعہ فوٹو جو مصلح موعود~رح~ کے خدا نما عہد مبارک کی پیاری یاد کو تازہ کررہے ہیں نہایت عمدہ طباعت کے ساتھ شامل اشاعت ہیں۔
۱۹۵۱ء میں السید عبدالوہاب عسکری عراقی نمائندہ موقر عالم اسلامی ربوہ تشریف لائے ان کے اعزاز میں جامعتہ المبشرین میں دعوت دی گئی جامعتہ المبشرین ان دنوں اس کچی عمارت میں تھا جو جلسہ سالانہ کے لنگر خانہ کے لئے بنائی گئی تھی۔ اس تقریب میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مرحوم اور مکرم شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ بلاد عربیہ بھی شامل ہوئے خاکسار ان دنوں جامعتہ المبشرین کے پرنسپل کے فرائض ادا کررہا تھا اس تقریب کے فوٹو لئے گئے ان میں سے دو فوٹو خاک کے پاس محفوظ تھے۔ وہ بھی اس جلد میں تاریخی یادگار بن رہے ہیں۔
زمانہ کے حالات بڑی سرعت سے بدل رہے ہیں پچھلے سال کی نسبت اس سال بہت زیادہ مہنگائی ہوگئی ہے اور تقریباً ہر چیز کی قیمت دگنی اور بعض چیزوں کی قیمت دگنی سے زیادہ ہوگئی ہے کاغذ جو پچھلے سال ۴۰۰ روپے رم تھا اب اسی روپے رم خریدا گیا ہے ان حالات میں اخراجات طباعت کا بڑھ جانا ناگریز تھا۔ بہرحال قیمت تقریباً لاگت کے مطابق رکھی گئی ہے احباب سے درخواست ہے کہ وہ کتاب کو خرید کر تعاون فرمائیں تاکہ تاریخ احمدیت کی تکمیل کے فرض سے ہم جلد سبکدوش ہوسکیں۔ بالاخر الل¶ہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری مساعی کو قبول فرمائے۔ )آمین(
والسلام
خاکسار ابوالمنیر نور الحق
منیجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ربوہ
۲۱۔ دسمبر ۷۳ء
۱~}~ یہ جلد اب موجودہ ایڈیشن کی جلد ۱۲ کا آخری حصہ ہے۔ )مولف(
پہلا باب
ربوہ کے پہلے سالانہ جلسہ سے لیکر سیدنا حضرت مصلح موعود کی دارالہجرت میں بغرض رہائش تشریف آوری تک
فصل اول
ربوہ کا پہلا سالانہ جلسہ
ربوہ میں پہلا سالانہ جلسہ ۱۵` ۱۶` ۱۷۔ ماہ شہادت /اپریل ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کو منعقد ہوا۔ یہ مثالی جلسہ دنیائے احمدیت میں ایک منفرد مخصوص تاریخی عظمت و شان کا حامل تھا اور قیامت تک پرسوز اور پردرد اجتماعی اور عاجزانہ دعائوں کی وجہ سے دعائوں کے جلسہ کے نام سے یاد رہے گا۔
جلسہ کا روحانی پس منظر
سیدنا المصلح الموعودؓ نے جلسہ لاہور )منعقدہ دسمبر ۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء( میں اعلان فرمایا تھا کہ ہمارا مرکزی سالانہ جلسہ ربوہ میں ایسٹر کی تعطیلات کے دوران ہوگا۔ اس فیصلہ پر جماعت کے مرکزی کارکنوں کے علاوہ بیرونی جماعتوں کی طرف سے بھی حضور کی خدمت میں بکثرت خطوط پہنچے کہ ان دنوں جلسہ کا ہونا سخت دشوار اور مشکل ہوگا۔ جلسہ کے لئے ہر چیز باہر سے پہنچانا ہوگی اور زمیندار اصحاب جن کی ہمارے یہاں بھاری اکثریت ہے فصلوں کی کٹائی کے باعث بہت کم شریک جلسہ ہوسکیں گے۔ اس لئے یا تو جلسہ کی تاریخیں بدل دی جائیں یا جلسہ ہی لاہور میں منعقد کیا جاسکے۔ مگر حضور نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا بلکہ اسوہ انبیائؑ و خلفاء کے عین مطابق اور رب کریم کے فرمان فاذا عزمت فتوکل علی اللہ کی تعمیل میں قطعی ارشاد فرمایا کہ یہ جلسہ بہرحال مقررہ تاریخوں پر ربوہ ہی میں ہوگا۔ اور بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ موعود اولوالعزم خلیفہ نے اپنے نور فراست و بصیرت کی بناء پر جو فیصلہ کیا وہی صحیح مناسب اور مبارک تھا۔
جلس ربوہ کا پس منظر کیا تھا اور اس کے ربوہ میں منعقد کئے جانے کی کیا حکمتیں کار فرما تھیں` حضرت اقدس نے اس پہلو پر نہایت شرح و بسط سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:۔
>جب کوئی شخص سمندر میں کودتا ہے یا کوئی جہاز غرق ہوتا ہے اور اس کی سواریاں سمندر میں گرجاتی ہیں تو آخر انہیں ساحل کی تلاش کرنی ہی پڑتی ہے۔ اس ساحل کی جستجو میں خطرات بھی ہوتے ہیں اور اس کی جستجو میں خوف بھی لاحق ہوتے ہیں۔ جب کوئی جہاز ڈوبتا ہے تو چاروں طرف پانی ہی پانی ہوتا ہے اور انسان نہیں جانتا کہ میں دائیں گیا تو مجھے خشکی ملے گی یا بائیں گیا تو مجھے خشکی ملے گی` سامنے کی طرف گیا تو مجھے خشکی ملے گی یا پیچھے کی طرف گیا تو مجھے خشکی ملے گی۔ یہ بھی انسان نہیں جانتا کہ اگر خشکی مجھ سے بہت دور ہے اور میں کسی طرح بھی ساحل تک نہیں پہنچ سکتا تو اگر دائیں طرف تیرا تو مجھے کوئی جہاز یا کشتی مل جائے گی یا بائیں طرف تیرا تو مجھے کوئی جہاز یا کشتی مل جائے گی` آگے کی طرف تیرا تو مجھے کوئی جہاز یا کشتی مل جائے گی یا پیچھے کی طرف تیرا تو مجھے کوئی جہاز یا کشتی مل جائے گی۔ ان آٹھوں باتوں میں سے اسے کوئی بات بھی معلوم نہیں ہوتی۔ مگر پھر بھی وہ ایک جگہ پر کھڑا نہیں رہتا۔ بظاہر اس کی جگہ پر کھڑا رہنا یا ان چاروں جہات میں سے کسی ایک کا خشکی پر پہنچنے یا جہاز اور کشتی حاصل کرنے کے لئے اختیار کرنا برابر معلوم ہوتا ہے مگر باوجود اس کے کہ یہ سب باتیں برابر معلوم ہوتی ہیں۔ انسان پھر بھی جدوجہد کرتا ہے اور ساحل یا کشتی کی تلاش میں دائیں بائیں یا آگے پیچھے ضرور جاتا ہے۔ اسی طرح ہمیں بھی ساحل یا جہاز کے لئے جو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے مقدر ہے` جستجو اور تلاش کی ضرورت ہے اور جلد سے جلد کسی ایسے طریق کار کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے اندر ایک استقلال اور پائداری رکھتا ہو۔ اس وقت تک جو کچھ خدا تعالیٰ کی مشیت ظاہر ہوتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ربوہ ہی وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ ہماری جماعت دوبارہ اپنا مرکز بنائے۔ اور جب کوئی نئی جگہ اختیار کی جاتی ہے تو اس کے لئے دعائیں بھی کی جاتی ہیں` اس کے لئے صدقہ و خیرات بھی کیا جاتا ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت بھی طلب کی جاتی ہے` اور یہ بہترین وقت ہمیں جلسہ سالانہ کے دنوں میں ہی میسر آسکتا ہے کیونکہ اس موقعہ پر وہاں ہزاروں ہزار افراد جمع ہوں گے اور ہزاروں ہزار افراد کے جمع ہونے سے طبیعتوں پر جو اثر ہوسکتا ہے اور ہزاروں ہزار افراد کی متحدہ دعائیں جو تاثیر اپنے اندر رکھتی ہیں وہ صرف چند افراد کے جمع ہونے سے نہ اثر ہوسکتا ہے اور نہ ان کی دعائیں خواہ وہ سچے دل سے ہی کیوں نہ ہوں اتنی تاثیر رکھ سکتی ہیں جتنی ہزاروں ہزار افراد کی دعائیں اثر رکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ انہی باتوں کو دیکھتے ہوئے میں نے مناسب سمجھا کہ ہم ربوہ کا افتتاح جلسہ سالانہ سے کریں اور خدا تعالیٰ سے اس مقام کے بابرکت ہونے کے لئے متحدہ طور پر دعائیں کریں۔ بے شک ان شامل ہونے والوں میں غافل بھی ہوں گے` سست بھی ہوں گے` کمزور بھی ہوں گے` لیکن ان لوگوں میں چست بھی ہوں گے` مخلص بھی ہوں گے` سلسلہ کے فدا کار اور جانثار بھی ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بھی ہوں گے اور چستیوں اور فداکاروں کی آوازکے ساتھ جب کمزوروں اور ناقص دعا کرنے والوں کی آواز خداتعالیٰ کے سامنے >ہم< کہتے ہوئے پہنچے گی تو یقیناً اس >ہم< میں جو برکت ہوگی وہ صرف چند افراد کے جابسنے سے نہیں ہوسکتی۔ پس بجائے اس کے کہ ربوہ کا کوئی افتتاح نہ کیا جاتا اور بجائے اس کے کہ چند افراد جو وہاں بس رہے ہیں انہی کا بسنا ربوہ کے افتتاح کے لئے کافی سمجھ لیا جاتا میں نے چاہا کہ ہمارا اس سال کا سالانہ جلسہ ربوہ میں ہوتا کہ جب ہماری جماعت کے ہزاروں ہزار افراد اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئیں تو ہمارا جلسہ بھی ہوجائے اور اس کے ساتھ اللہہ تعالیٰ کے حضور ایک بہت بڑی تعداد میں اکٹھے ہوکر ہم متحدہ طور پر دعائیں کریں کہ وہ اس مقام کو احمدیت کے لئے بابرکت کرے اور اسے اسلام اور احمدیت کی اشاعت کا ایک زبردست مرکز بنا دے۔ میں جانتا ہوں کہ منتظمین کو تکلیف ہوگی اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ شاید ہمیں پورا سامان بھی میسر نہ آسکے۔ یہاں اگر کسی چیز کی ضرورت محسوس ہو تو فوری طور پر مہیا ہوسکتی ہے لیکن وہاں ایسا نہیں ہوسکتا۔ مثلاً لاہور میں سینکڑوں باورچیوں کی دکانیں ہیں۔ اگر کسی وقت کھانا کم ہوجائے اور دو تین سو افراد کو کھانا مہیا کرنے کی ڈیوٹی پر لگا دیا جائے تو میں سمجھتا ہوں دو تین گھنٹہ میں دس پندرہ ہزار آدمی کا کھانا آسانی سے مہیا ہوسکتا ہے۔ لیکن جو مقصد میرے سامنے ہے وہ اس رنگ میں پورا نہیں ہوسکتا۔ اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ لاہور کی بجائے ربوہ میں اس جلسہ کا انعقاد کیا جائے۔ باقی رہا تکلیف کا سوال` سو یہ بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس وادی غیر ذی زرع میں جس میں شور پانی نکلتا ہے` اس دادی غیر ذی زرع میں جس میں چالیس چالیس پچاس میل تک کھیتی کا کہیں نشان تک نظر نہیں آتا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ تک لوگ بڑے بڑے وسیع جنگلوں میں سے گزرتے ہوئے` ایسے جنگلوں میں سے جو صرف درندوں کے مسکن تھے` ایسے جنگلوں میں سے جہاں بعض دفعہ سو سو میل تک پانی کا ایک قطرہ تک میسر نہیں آتا تھا یا اونٹنیوں پر سوار اپنے مشکیزوں میں پانی اٹھائے حج کے لئے دوڑتے چلے آتے تھے` اور دنوں نہیں` مہینوں نہیں` سالوں نہیں` صدیوں نہیں` ہزاروں سال تک وہ برابر ایسا کرتے چلے گئے۔
ہماری جماعت کو ایسا بے ہمت تو نہیں ہونا چاہئے کہ اگر صرف ایک دفعہ انہیں یہ کام کرنا پڑے تو وہ گھبراہٹ کا اظہار کرنے لگ جائیں۔ اس صورت میں بھی تم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکو گے کہ عرب کے قبل از اسلام لوگوں نے جو کام دو ہزار چار سو دفعہ کیا وہ ہم نے بھی ایک دفعہ کرلیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور رسول کریم~صل۱~ کے درمیان کا زمانہ ۲۲ سو سے ۲۴ سو سال تک کا ہے اور ہر سال حج ہوتا ہے۔ اس لئے اگر صرف حج کو ہی لے لیا جائے عمرہ کو جانے دیا جائے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ چوبیس سو دفعہ یہ کام ان لوگوں نے کیا۔ حالانکہ ان لوگوں میں سے اکثر وہ تھے جو زمانہ نبوت کے بہت دور تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ابتدائی چند نسلوں اور رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ کو مستثنیٰ کرتے ہوئے درمیان میں صرف کفر اور تاریکی اور بے دینی کا زمانہ تھا۔ اس کفر کے زمانہ میں` اس تاریکی کے زمانہ میں` اس بے دینی اور الحاد کے زمانہ میں جو کام انہوں نے ۲۴ سو دفعہ کیا بلکہ اگر عمرے بھی شامل کرلئے جائیں تو جو کام انہوں نے ۲۴ ہزار دفعہ کیا ہمیں اگر ویسا ہی کام صرف ایک دفعہ کرنا پڑے تو ہمارے نفسوں پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم بھی لہو لگا کر شہیدوں میں مل گئے۔
اللہ تعالیٰ کی اپنے ہر کام میں حکمتیں ہوتی ہیں اور اس کی حکمتیں نہایت وسیع ہیں۔ دنیا ان چیزوں کو نہیں دیکھتی جن کو خدا دیکھ رہا ہوتا ہے یا جن کے دکھانے سے اس کے فرشتے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے بیج دنیا میں بوئے جاتے ہیں مگر ان بیجوں کے اچھا ہونے کے باوجود` زمینوں کے اچھا ہونے کے باوجود` نگرانی اور دیکھ بھال کے اچھا ہونے کے باوجود الٰہی مصلحت اور الٰہی تدبیر ان بیجوں کو نہ اگنے دیتی ہے نہ بڑھنے دیتی ہے نہ پھل پیدا کرنے دیتی ہے۔ مگر کئی بیج دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو سنگلاخ زمینوں اور شوربیا بانوں میں بوئے جاتے ہیں۔ ان کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ان کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ان کو پانی دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ مگر خدا تعالیٰ کی مصلحتیں اور اس کی تقدیر ان بیجوں کو بڑھاتے بڑھاتے بہت بڑے درختوں کی صورت میں بدل دیتی ہے۔ اتنے بڑے درخت کہ ہزاروں ہزار لوگ ان کے پھل کھاتے اور ان کے آرام دہ سایہ میں ہزاروں سال تک پناہ حاصل کرتے ہیں۔ خدا کے کام خدا ہی جانتا ہے۔ انسانی عقلیں اور تدبیریں خدا تعالیٰ کی مصلحتوں اور تدبیروں پر حاوی نہیں ہوسکتیں۔ ہم بھی کوشش کررہے ہیں کہ ایک شور زمین میں اپنا مرکز بنائیں۔ عرش پر بیٹھنے والا خدا اور آسمان میں رہنے والے فرشتے ہی جانتے ہیں کہ ہماری اس ناچیز حقیر اور کمزور جدوجہد کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے۔ ہمارے لئے مشکلات بھی ہیں۔ ہمارے راستہ میں روکیں بھی ہیں۔ ہمارے سامنے دشمنیاں اور عداوتیں بھی ہیں۔ لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا چاہتا ہے اور انسانی عقل اور انسانی تدبیر آخر بیکار ہوکر رہ جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں۔ بلکہ ہم سمجھتے اور یقین ہی نہیں رکھتے ہم اپنی روحانی آنکھوں سے وہ چیز دیکھ رہے ہیں جو دنیا کو نظر نہیں آتی۔ ہم اپنی کمزوریوں کو بھی جانتے ہیں` ہم مشکلات کو بھی جانتے ہیں جو ہمارے راستہ میں حائل ہیں` ہم مخالفت کے اس اتار چڑھائو کو بھی جانتے ہیں جو ہمارے سامنے آنے والا ہے۔ ہم ان قتلوں اور غارتوں کو بھی دیکھ رہے ہیں جو ہمیں پیش آنے والے ہیں۔ ہم ان ہجرتوں کو بھی دیکھ رہے ہیں جو ہماری جماعت کو ایک دن پیش آنے والی ہیں۔ ہم ان جسمانی اور مالی اور سیاسی مشکلات کو بھی دیکھتے ہیں جو ہمارے سامنے رونما ہونے والی ہیں۔ مگر ان سب دھندلکوں میں سے پار ہوتی ہوئی اور ان سب تاریکیوں کے پیچھے ہماری نگاہ اس اونچے اور بلند تر جھنڈے کو بھی انتہائی شان و شوکت کے ساتھ لہراتا ہوا دیکھ رہی ہے جس کے نیچے ایک دن ساری دنیا پناہ لینے پر مجبور ہوگی۔ یہ جھنڈا خدا کا ہوگا۔ یہ جھنڈا محمد رسول اللہ~صل۱~ کا ہوگا۔ یہ جھنڈا احمدیت کا ہوگا۔
اور یہ سب کچھ ایک دن ضرور ہوکر رہے گا۔ بیشک دنیوی مصائب کے وقت کئی اپنے بھی یہ کہہ اٹھیں گے کہ ہم نے کیا سمجھا تھا اور کیا ہوگیا۔ مگر یہ سب چیزیں مٹتی چلی جائیں گی۔ مٹتی چلی جائیں گی۔ آسمان کا نور ظاہر ہوتا چلا جائے گا اور زمین کی تاریکی دور ہوتی چلی جائے گی اور آخر وہی ہوگا جو خدا نے چاہا۔ وہ نہیں ہوگا جو دنیا نے چاہا<۱
انتظامات جلسہ کیلئے حضرت امیرالمومنین کی زریں ہدایات
ربوہ ان دنوں چونکہ لق و دق صحرا کا منظر پیش کررہا تھا۔ جہاں رہائشی مکانات کا نام و نشان تک موجود نہ تھا اور جس جگہ وسیع پیمانے پر کسی جلسہ کا انعقاد صرف اسی صورت میں ممکن خیال کیا جاسکتا تھا جبکہ جملہ ضروریات لاہور` لائل پور` سرگودھا یا چنیوٹ وغیرہ سے بہم پہنچائی جائیں اور ان کو زیر استعمال لانے کے لئے منظم طریق پر انتظامات کئے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے ۱۳۰۸ہش/ ۱۹۴۹ء کے اوائل ہی سے اس طرف خصوصی توجہ فرمائی اور منتظمین جلسہ کو عارضی انتظامات کے بارے میں نہایت پرحکمت اور تاکیدی ہدایات جاری فرماتے رہے جن میں سے بعض بطور نمونہ بیان کی جاتی ہیں:۔
)ہدایات فرمودہ ۲۸۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء(
۱۔
جلسہ سالانہ کے لئے مندرجہ ذیل اشیاء فراہم کی جائیں:۔
مٹی کے تیل کا کنستر= ۴۰ عدد` لال ٹینیں= ۴۰۰ یا ۵۰۰ عدد`موم بتیاں جن کی لمبائی ۴ انچ اور موٹائی ۴/۳ ہو= ۳۰۰ بنڈل۔
۲۔
ڈھائی سو بوری آٹا پسوایا جائے اور بوقت ضرورت دو سو بوری آٹا پسوانے کا انتظام رکھا جائے۔
۳۔
پانی جمع کرنے کے لئے ۴۰ ڈیزل آئیل کے خالی ڈرم فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لاہور سے حاصل کئے جائیں اور ۱۰۰ سیکنڈ ہینڈ ڈرم اور حسب ضرورت گھڑے خرید لئے جائیں۔
۴۔
فولڈنگ کینوس ٹینک TANK) CANVAS (FOLDING کی فراہمی کی کوشش کی جائے اور ٹینکر (TANKER) کرایہ پر لینے کی کوشش کی جائے۔ یہ مہیا نہ ہوں تو چنیوٹ میں سقوں کا انتظام کیا جائے۔
۵۔
روزانہ پچاس ہزار کچی اینٹ تیار کرانے کی کوشش کی جائے۔
۶۔
۲۳۔ امان/ مارچ کو حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں حضرت مولوی عبدالغنی خاں صاحب ناظر دعوت و تبلیغ نے عرض کیا کہ کیا ہندوستان کے مبلغ جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے پاکستان آجائیں۔ فرمایا۔ صرف اس صورت میں آنے کی اجازت ہے جبکہ یہاں سے واپس جانے کا پرمٹ بھی ساتھ لے کر آئیں۔
حضور نے ہدایت دی کہ عورتوں کی جلسہ گاہ مردوں کے پنڈال سے ۲۰۰ فٹ پرے ہٹا کر بنائی جائے اور اس کے گرد قناتیں لگائی جائیں۔ گیلریاں اگر موجود ہیں تو مردوں کے لئے استعمال کی جائیں۔ جلسہ کی کارروائی صبح و شام اور رات کو ہو` دوپہر کو نہ ہو۔
پوسٹر شائع نہ کئے جائیں۔ اگر لوائے احمدیت اس موقعہ پر لگایا جائے تو ساتھ ہی اتنا ہی اونچا پاکستان کا جھنڈا بھی نصب کیا جائے۔۲
اس کے ساتھ ہی مہمانوں کی قیام گاہوں کے لئے ایسی طرز پر بیرکیں بنانے کا حکم دیا جو جلسہ کے بعد مناسب تبدیلی کے ساتھ شہر کی پختہ تعمیر کے آغاز تک دفاتر اور کارکنوں کے رہائشی مکان کے طور پر استعمال کی جاسکیں۔۳
۷۔
۴۔ ماہ شہادت/ اپریل کو حضرت امیر المومنین نے فرمایا کہ دفتروں نے جلسہ کے موقعہ پر ربوہ جانا ہے اور افسران نے دن رات کام کرنا ہے ان کے لئے تین سو چارپائیوں کا انتظام کرلینا چاہئے تاکہ ان کو کام کے بعد آرام کا موقع مل سکے۔ نیز پچیس ہزار روپیہ کہیں سے قرض لے لیا جائے اور آہستہ آہستہ کرکے بجٹ میں رکھ کر اس کو اتار دیا جائے اور اس رقم کے ذریعہ برتن اور دیگر سامان غرباء کے لئے خرید کر ربوہ میں کام کرنے والے غرباء میں تقسیم کیا جائے۔ ایسا سامان جو ربوہ میں جائے گا اس کے انتظام کے لئے بابو فضل الدین صاحب سے گفتگو کی جائے۔ اگر وہ کام کرسکیں تو سامان کا چارج ان کو دیا جائے اور جب کوئی وہاں جائے تو وہ سامان ان کو دیں اور پھر واپس لیں۔۴
حضرت مصلح موعود کامعائنہ انتظامات کی خاطر ربوہ کاخصوصی سفر
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے صرف ہدایات جاری کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ بنفس نفیس معائنہ انتظامات اور مزید راہ نمائی
کے لئے ۲۴۔ ماہ امان/ مارچ ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کو لاہور سے ربوہ تشریف لائے۔ اس خصوصی سفر کی تفصیلات حضور ہی کے مبارک الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہیں۔ حضور نے ۲۵۔ امان/ مارچ کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:۔
>جلسہ سالانہ کے متعلق جو وہاں انتظامات ہورہے ہیں۔ میں کل ان کو دیکھنے کے لئے ربوہ گیا تھا۔ چونکہ اس جگہ پر کوئی رہائشی مکانات نہیں ہیں اس لئے ظاہر ہے کہ ہمیں وہاں رہائش کے لئے عارضی انتظامات ہی کرنے ہوں گے۔ چنانچہ اسی غرض کے لئے میں نے انجینئروں سے مشورہ کرنے کے بعد ساڑھے تیرہ ہزار روپے کی منظوری عارضی شیڈ بنانے کے لئے دے دی ہے اور اس میں پچاس شیڈ بنائے جارہے ہیں۔ ہر شیڈ ۹۶ فٹ لمبا اور ۱۶ فٹ چوڑا ہے۔ درمیان میں ستون ہیں۔ اس طرح ہر شیڈ دو حصوں میں منقسم ہے۔ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ ہر شیڈ میں ۱۲۵ یا ۱۳۰ آدمی آسکتے ہیں۔ اس طرح ۵۰ شیڈ میں تقریباً چھ ہزار آدمی کی گنجائش ہے۔ ان میں سے بیس شیڈ مستورات کے لئے مخصوص کردیئے گئے ہیں جن میں ۲/۲۱ ہزار کے قریب مستورات کے رہنے کی گنجائش ہوگی۔ لیکن چونکہ جلسہ سالانہ کے ایام آنے تک موسم گرما ہوجائے گا اور لوگ غالباً پسند کریں گے کہ وہ باہر نکل کر سوئیں اس لئے خیال ہے کہ یہ عمارت ۳۰۔ ۴۰ بلکہ ۵۰ ہزار آدمی کے لئے کافی ہوگی۔ کیونکہ صرف اسباب اندر رکھنا ہوگا۔ سونے کے لئے لوگ باہر لیٹنا زیادہ پسند کریں گے۔ اسباب کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر الگ الگ جماعتوں کو رکھا جائے۔ تب بھی ہمارا خیال ہے کہ شیڈ ۱۲۔ ۱۵ بلکہ بیس ہزار آدمی کے لئے کافی ہوں گے۔ چونکہ جماعت جب جلسہ پر آتی ہے تو بالعموم اپنے چندے بھی ساتھ لاتی ہے اور بالعموم وہ ان ایام میں اپنے گزشتہ حسابات بھی دیکھنا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف دفاتر سے لوگوں کو مختلف کام ہوتے ہیں۔ بعض کو اپنے جھگڑوں اور تنازعات کے سلسلہ میں امور عامہ کے دفتر سے کام ہوتا ہے یا رشتہ ناطہ کے لئے وہ شعبہ رشتہ ناطہ سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں یا بیت المال والوں سے وہ اپنے بجٹ کے سلسلہ میں ملنا چاہتے ہیں یا دفتر محاسب میں وہ اپنی امانتیں رکھوانا یا اپنی امانتیں نکلوانا چاہتے ہیں اس لئے ان دفاتر کے لئے بھی وہاں مکانات بنانے ضروری تھے چونکہ میں نے انجینئروں سے مشورہ کرنے کے بعد اس غرض کے لئے عارضی طور پر بارہ کمرے بنانے کا حکم دے دیا ہے۔ اور وہیں خزانہ بنانے کی ہدایت بھی دے دی ہے۔ اسی طرح جو مستقل افسر ہیں اور جن کو جلسہ سالانہ کے ایام میں رات دن کام کرنا پڑے گا ان کے لئے بھی علیحدہ انتظام کی ضرورت تھی چنانچہ اس کے لئے بھی میں نے چھ مکانات الگ بنوانے کا فیصلہ کیا ہے اور متعلقہ کارکنان کو اس کے متعلق ہدایت دے دی ہے۔ یہ تمام مکانات صرف عارضی طور پر بنائے جائیں گے اور تقریباً ۱۸۔ ۲۰ ہزار روپیہ صرف ہوگا لیکن اس میں سے خرچ کا کچھ حصہ سلسلہ کو واپس مل جائے گا۔ مثلاً جب یہ مکانات توڑے جائیں گے تو ان کی کچی اینٹیں کچھ تو ضائع ہوجائیں گی لیکن انجینئروں کا خیال ہے کہ دو تہائی اینٹیں آئندہ کی ضروریات کے لئے بچ جائیں گی اسی طرح ان مکانات میں جو لکڑی استعمال کی جائے گی وہ بھی بچ جائے گی۔ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ نصف کے قریب خرچ واپس مل جائے گا اور صرف دس ہزار روپیہ ایسا ہوگا۔ جو جلسہ کی خاطر خرچ ہوگا۔ میں نے یوں اندازہ لگایا ہے کہ انجمن کے جو دفاتر ہیں وہ قادیان کی نسبت اب بہت بڑھ گئے ہیں۔ قادیان میں ہمارا سو کے قریب کلرک تھا لیکن اس وقت غالباً زیادہ ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی دفتر لاہور میں ہے کوئی چنیوٹ میں ہے اور کوئی احمد نگر میں ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے دفاتر اب دو ملکوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ گویا ہمارے دفتر کا کام پہلے کی نسبت بہت بڑھ گیا ہے۔ بلکہ اب تو ایک مستقل دفتر حفاظت مرکز کے لئے ہی قائم ہوچکا ہے اور اس کا کام یہی ہے کہ قادیان کے متعلق جو مشکلات پیدا ہوں ان کا ازالہ کرے۔ گورنمنٹ سے خط و کتابت کرے۔ جماعتوں کو قادیان کے حالات سے باخبر رکھے اور ہر قسم کا ضروری ریکارڈ جمع کرتا رہے۔ پھر چونکہ قادیان کی صدر انجمن بھی قائم ہے۔ اس کے دفاتر الگ ہیں۔ مگر ان دفاتر کا صرف خرچ کے ساتھ تعلق ہے۔ ربوہ میں مکانات کی تعمیر یا صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح تحریک جدید کے بہت سے کارکنان ہیں۔ ان سب کارکنوں کو اگر ملایا جائے تو ہزار بارہ سو تک ان کی تعداد پہنچ جاتی ہے اور ان کی رہائش کے لئے کم سے کم اڑھائی تین سو مکانات کی ضرورت ہے۔ اب تو ہمارے تین مکان لاہور میں ہیں۔ کالج بھی یہیں ہے۔ کچھ مکانات چنیوٹ میں ہیں۔ ۴۰` ۵۰ مکانات احمد نگر میں ہیں اور کچھ حصہ کارکنوں کے خیموں میں رہتا ہے۔ جب دفاتر اکٹھے ہوں گے تو ہمیں ضرورت ہوگی کہ ان کے لئے اڑھائی سو خیمہ لگوایا جائے اور اگر اڑھائی سو خیمہ لگوا دیا جائے تب بھی اول تو خیموں میں وہ آرام میسر نہیں آسکتا جو مکانات میں ہوتا ہے۔ دوسرے اگر اڑھائی سو خیمہ خریدا جائے تو سوا لاکھ روپیہ میں آتا ہے۔ ان خیموں کو اگر دوبارہ مکانات بننے پر بیچ بھی دیا جائے تب بھی ساٹھ ہزار کا نقصان ہمیں برداشت کرنا پڑے گا۔ اور اگر اڑھائی سو خیمہ کرایہ پر لیا جائے تو اٹھارہ روپیہ ماہور پر ایک خیمہ ملتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ۴۵۰۰ روپیہ ماہوار صرف کرایہ پر صرف ہوگا۔ اگر یہ خیمے ایک سال تک رکھے جائیں جب تک ہماری عمارتیں مکمل نہ ہوجائیں تو ۵۴ ہزار روپیہ سالانہ صرف کرایہ پر خرچ آئے گا۔ اور پھر ان خیموں کے پہنچانے اور واپس لانے میں جو خرچ ہوگا وہ بھی چار چار پانچ پانچ روپے فی خیمہ سے کم نہیں ہوسکتا۔ ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ سمجھا کہ اگر ہم ان عارضی عمارتوں کو جو جلسہ سالانہ کے لئے بنائی جارہی ہیں بعد میں توڑیں نہیں بلکہ اسی طرح رہنے دیںتو ہمارا بیس ہزار روپیہ جو ان عمارتوں پر خرچ ہوگا۔ اس میں سے دس ہزار روپیہ تو یقیناً جلسہ سالانہ کے لئے خرچ ہونا تھا` باقی دس ہزار روپیہ جو لکڑی اور اینٹوں کی صورت میں ہمیں واپس مل سکتا تھا وہ ان عمارتوں کو سال بھر قائم رکھ کر ہمارے دفاتر اور کارکنوں کو اکٹھا رکھنے میں کام آسکتا ہے۔ میں نے اندازہ لگایا ہے کہ فی بیرک چھ چھ مکان بن سکتے ہیں۔ اور چونکہ پچاس بیرکیں ہیں اس لئے بعد میں بڑی آسانی سے تین سو مکان بن سکتا ہے۔ اگر ہم ان مکانات کو سال بھر رہنے دیں تو دس ہزار روپیہ کا نقصان اٹھانے کی بجائے ہمیں کم سے کم چالیس ہزار روپیہ کی بچت ہوگی۔ اگر ہم خیمے لگائیں تو ہمیں پچاس ہزار روپیہ سالانہ کرایہ ادا کرنا پڑے گا۔ اور اگر ہم خیمے خرید کر سال بھر کے بعد بیچیں تو ہمیں ساٹھ ستر ہزار روپے کا گھاٹا برداشت کرنا پڑے گا۔ لیکن اگر یہ شیڈ اور مکانات اسی طرح پر کھڑے رہیں اور چھ چھ مکان فی بیرک بنا دیئے جائیں تو تین سو مکان بن جائیں گے۔ ان پچاس شیڈوں کے علاوہ جو عارضی مکانات وہاں جلسہ سالانہ کے لئے بنائے جارہے ہیں جن میں دفاتر بھی ہوں گے۔ ناظروں کے لئے مکانات بھی ہوں گے پرائیویٹ سیکرٹری کا بھی دفتر ہوگا اور میرا مکان بھی ہوگا۔ اس پر ہمارے اخراجات کا اندازہ چار ہزار روپیہ ہے۔ کیونکہ بہرحال کسی چھوٹی سی جگہ میں یہ سارے دفاتر نہیں آسکتے۔ دس بارہ افسروں کے لئے جگہ کی ضرورت ہوگی۔ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے لئے جگہ کی ضرورت ہوگی اور پھر میری رہائش کے لئے جگہ کی ضرورت ہوگی۔ اس کے لئے ہم نے جو نقشہ تجویز کیا ہے اس کے مطابق چار ہزار خرچ کا اندازہ ہے۔ اور اگر اس خرچ کو پورے سال پر پھیلا دیا جائے جو ۲/۳۱ سو روپے ماہوار کا خرچ ہے جو سلسلہ کو برداشت کرنا پڑے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر جلسہ سالانہ کے فوراً بعد ہم دفاتر وہاں منتقل کرنا شروع کردیں اور موجودہ عارضی عمارات کو قائم رکھیں تو بجائے نقصان کے ہمیں تیس چالیس ہزار روپیہ کا فائدہ رہے گا اور پھر مزید فائدہ یہ ہوگا کہ سب کارکن اکٹھے رہیں گے اور کام میں پہلے کی نسبت زیادہ ترقی ہوگی<۵
ربوہ اسٹیشن کی منظوری اور گاڑیوں کی باقاعدہ آمدورفت
‏]0 [rtfحضرت مصلح موعود کے ارشاد پر میاں غلام محمد صاحب اختر عرصہ سے ربوہ اسٹیشن کی منظوری کے لئے مسلسل دوڑ دھوپ کررہے تھے جو خدا کے فضل و کرم سے جلسہ کے قریب آکر کامیاب ہوگئی اور ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ صاحب نے ۲۵۔ مارچ کو ربوہ ہالڈنگ سٹیشن کی منظوری دے دی۔۶
ازاں بعد مورخہ ۳۱۔ امان/ مارچ کی شام تک ربوہ کا نیا سٹیشن مکمل ہوگیا اور پلیٹ فارم اور بکنگ آفس بن گیا نیز سٹیشن کا تمام عملہ بھی ربوہ میں پہنچ گیا۔ پہلے اسٹیشن ماسٹر چوہدری محمد صدیق صاحب آف نارووال مقرر ہوئے۔ یکم ماہ شہادت/ اپریل کو گاڑیوں کی باقاعدہ آمدورفت شروع ہوگئی۔ پہلی گاڑی جو سرگودھا کی طرف سے آئی` صبح سات بجکر بیس منٹ پر کھڑی ہوئی۔ اس موقعہ پر ربوہ کے تمام احمدیوں کے علاوہ احمد نگر کے بھی اکثر احباب نیز جامعہ احمدیہ کے طلباء قطار در قطار کھڑے تھے۔ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب ناظر ضیافت نے گاڑی آنے سے پہلے نہایت رقت انگیز دعا کرائی۔ جنگل میں پہاڑیوں اور ٹیلوں کے درمیان اجتماعی دعا کا یہ نظارہ بڑا ہی پرکیف اور عجیب تھا جس سے الہام >جنگل میں منگل< کا نظارہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ دعا کے بعد دور لالیاں کی طرف سے گاڑی آتی دکھائی دی تو تمام دوستوں نے فرط مسرت سے بے اختیار پرجوش نعرے بلند کئے۔ ربوہ اسٹیشن سے پہلا ٹکٹ مولوی محمد اسمعیل صاحب معتبر آڈیٹر تھریک جدید نے خریدا۔ اور سب سے پہلی ٹرین پر تئیس روپے سات آنے کے ٹکٹ فروخت ہوئے۔ ٹکٹ لینے والے دوست گاڑی میں سوار ہوئے اور گاڑی نعرہ ہائے تکبیر میں چل دی۔
دوسری گاڑی اس کے معاًبعد چنیوٹ سے ربوہ آئی جس سے تعلیم الاسلام ہائی سکول اور جماعت چنیوٹ کے بیسیوں احباب کے علاوہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی تشریف لائے۔ حضرت مفتی صاحب نے جملہ حاضرین سے مصافحہ کیا۔ جس کے بعد یہ گاڑی بھی روانہ ہوگئی۔ اس طرح خدا کے فضل و کرم سے ربوہ اسٹیشن کا بابرکت افتتاح عمل میں آیا۔۷ اور اس وادی غیر ذی زرع کا رابطہ ریلوے نظام کے اعتبار سے پورے ملک سے قائم ہوگیا جس سے زائرین ربوہ کو بے انداز سہولت ہوگئی۔ چنانچہ پہلے تاریکی جلسہ میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اکثر و بیشتر مہمان بذریعہ گاڑی ہی ربوہ کی مقدس سرزمین میں تشریف لائے۔
صدر مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے تربیت یافتہ رضاکاروں کیلئے اپیل
چونکہ جلسوں کے انتظامات اسلوبی سے چلانے کے لئے سینکڑوں رضاکاروں کی اشد ضرورت تھی۔ اس لئے صدر مجلس خدام الاحمدیہ حضرت
صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے بذریعہ الفضل اپیل کی کہ خصوصاً فرقان فورس کے تربیت یافتہ نوجوان جو نظام سلسلہ کے تحت کام کرچکے ہیں زیادہ سے زیادہ جلسہ میں شامل ہوں اپنا خیمہ نصب کرنے کا سامان ہمراہ لائیں۔ اور ۱۳۔ ماہ شہادت/ اپریل کو ربوہ پہنچ کر دفتر خدام الاحمدیہ میں اطلاع دیں تا ان کی ڈیوٹی لگائی جاسکے۔۸]body2 [tag اس اپیل پر بہت سے نوجوان ربوہ پہنچ گئے۔
جلسہ ربوہ کا افتتاح اور حضرت سیدنا المصلح الموعود کا ایمان افروز خطاب
۱۵۔ ماہ شہادت/ اپریل کو بوقت نو بجے صبح ربوہ کی سرزمین میں جماعت احمدیہ کا پہلا مبارک اور تاریخی سالانہ جلسہ حضرت مصلح موعود کی
ایمان افروز تقریر اور ہزارہا مومنین کی درد و کرب اور سوز وگداز سے بھری ہوئی عاجزانہ دعائوں اور التجائوں کے روح پرور ماحول میں شروع ہوا۔
اس موقعہ پر حضرت مصلح موعود نے جو افتتاحی خطاب فرمایا۔ اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ حضرت امیرالمومنین نے تشہد و تعوذ کے بعد سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائی جس میں الحمد للہ رب العالمین کا خصوصیت کے ساتھ تین بار تکرار فرمایا۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا:۔
>یہ جلسہ تقریروں کا جلسہ نہیں۔ یہ جلسہ اپنے اندر ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی تاریخی حیثیت جو مہینوں یا سالوں یا صدیوں تک نہیں جائے گی بلکہ بنی نوع انسان کی اس دنیا پر جو زندگی ہے اس کے خاتمہ تک جائے گی۔ اس میں شامل ہونے والے لوگ ایک جلسہ میں شامل نہیں ہورہے بلکہ روحانی لحاظ سے وہ ایک نئی دنیا` ایک نئی زمین اور ایک نئے آسمان کے بنانے میں شامل ہورہے ہیں۔ پس اس جلسہ کو تقریروں کا جلسہ مت سمجھو۔ تقریریں ہوں یا نہ ہوں۔ مختلف مضامین پر لیکچر سننے کا موقعہ ملے یا نہ ملے۔ اس کا کوئی سوال نہیں جو اصل مقصد ہے وہ ہمارے سامنے رہنا چاہئے۔ اور جو اصل مقصد ہے اس کو ہمیں ہر چیز پر اہمیت دینی چاہئے۔ میں اب قرآن کریم کی کچھ آیتیں پڑھوں گا اور آہستہ آہستہ کئی دفعہ دہرائوں گا۔ پڑھے ہوئے اور ان پڑھ جس قدر دوست یہاں موجود ہیں وہ بھی میرا ساتھ دے سکتے ہیں اور انہیں ساتھ دینا چاہئے۔ یعنی جب میں وہ آیتیں پڑھوں تو جماعت کے دوست کیا مرد اور کیا عورتیں ساتھ ساتھ ان آیتوں کو دہراتے چلے جائیں۔
)اس موقعہ پر حضور نے ہدایت فرمائی کہ کوئی کارکن جاکر عورتوں کی جلسہ گاہ سے پوچھ لے کہ ان کو آواز آرہی ہے یا نہیں تاکہ محروم نہ رہ جائیں(
عورتوں میں سے جو عورتیں ایسی ہیں کہ ان پر ان ایام میں ایسی حالت ہے کہ وہ بلند آواز سے قرآن کریم نہیں پڑھ سکتیں` ان کو چاہئے کہ وہ دل میں ان آیتوں کو دہراتی چلی جائیں۔ اور جن عورتوں کے لئے ان ایام میں قرآن کریم پڑھنا جائز ہے وہ زبان سے بھی ان آیتوں کو دہرائیں بہرحال جن عورتوں کے لئے ان ایام میں زبان سے پڑھنا جائز نہیں وہ زبان سے پڑھنے کی بجائے صرف دل میں ان آیتوں کو دہراتی رہیں۔ کیونکہ شریعت نے اپنے حکم کے مطابق جہاں مخصوص ایام میں تلاوت قرآن کریم سے عورتوں کو روکا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ وہ وہاں دل میں بھی ایسے خیالات نہ لائیں یا دل میں بھی نہ دہرائیں بلکہ صرف اتنا حکم ہیکہ زبان سے نہ دہرائیں۔ بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک صرف قرآن کریم کو ہاتھ لگانا منع ہے مگر احتیاط یہی ہے کہ کثرت سے جس بات پر مسلمانوں کا عمل رہا ہے اسی پر عمل کیا جائے۔ پس بجائے زبان سے دہرانے کے وہ دل میں ان آیتوں کو دہراتی چلی جائیں۔
میں نے بتایا ہے کہ میں کئی دفعہ آیات کو پڑھوں گا۔ ممکن ہے میں پہلی دفعہ جلدی پڑھوں تاکہ ان کا مفہوم آسانی سے سمجھ میں آسکے۔ اگر لفظوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہو اور انسان مضمون سے پہلے واقف نہ ہو تو آہستگی سے پڑھنے کے نتیجہ میں مضمون بجائے اچھا سمجھ آنے کے کم سمجھ آتا ہے۔ مگر جو شخص اس کے ترجمہ سے واقف ہوتا اور مضمون سے آگاہ ہوتا ہے اس کا دلی جوش اور جذبہ بعض دفعہ اسے جلدی پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس لئے پہلی دفعہ کی تلاوت میں اپنے لئے مخصوص کروں گا۔ یعنی میں اس طرح پڑھوں گا جس طرح میرا اپنا دل چاہتا ہے۔ اس کے بعد جب میں تلاوت کروں گا تو اس امر کو ملحوظ رکھوں گا کہ پڑھا ہوا اور ان پڑھ` عالم اور جاہل` بڑی عمر کا اور چھوٹی عمر کا ہر شخص لفظاً لفظاً اگر وہ چاہے اور اگر اس کے دل میں ارادہ اور ہمت ہو تو میرے پیچھے پیچھے چل سکے اور ہر لفظ کو دہرا سکے<۔
ان تمہیدی الفاظ کے بعد حضور نے نہایت رقت آمیز رنگ میں قرآن کریم کی وہ دعائیں بلند آواز سے پڑھنا شروع کیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو وادی مکہ میں چھوڑتے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور کی تھیں۔ جماعت کے تمام ددوست کیا مرد اور کیا عورتیں سب کے سب حضور کے ساتھ ساتھ ان دعائوں کو دہراتے چلے گئے۔
یہ دعائیں جس طرح بار بار حضور نے پڑھیں اسی طرح ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔ حضور نے ابراہیمی دعائوں کو منتخب کرتے ہوئے اس موقع پر نہایت درد کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے عرض کیا:۔
ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد
ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد خیر ذی زرح عند بیتک المحرم
ربنا لیقیموا الصلوہ
ربنا لیقیموا الصلوہ
فاجعل افئدہ من الناس تھوی الیھم و ارزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون۔
ربنا انک تعلم ما نخفی وما نعلن
ربنا انک تعلم ما نخفی وما نعلن
وما یخفی علی اللہ من شئی فی الارض ولا فی السماء
اس کے بعد دوبارہ حضور نے انہی دعائوں کو اس رنگ میں دہرایا۔
ربنا انی اسکنت من ذریتی
ربنا انی اسکنت من ذریتی
بداد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم۔ ربنا لیقیموا الصلوہ فاجعل
افئدہ من الناس تھوی الیھم وارزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون
ربنا انک تعلم ما نخفی وما نعلن
ربنا انک تعلم ما نخفی وما نعلن
ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم
ربنا لیقیموا الصلوہ
ربنا لیقیموا الصلوہ
ربنا لیقیموا الصلوہ
ربنا لیقیموا الصلوہ
ربنا لیقیموا الصلوہ
فاجعل افئدہ من الناس تھوی الیھم
فاجعل افئدہ من الناس تھوی الیھم
فاجعل افئدہ من الناس تھوی الیھم
وارزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون۔
اس کے بعد حضور نے فرمایا:۔
آج سے قریباً ۴۵ سو سال پہلے اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کو حکم ہوا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ذبح کر ڈالے۔ یہ رئویا اپنے اندر دو حکمتیں رکھتی تھی۔ ایک حکمت تو یہ تھی کہ اس وقت سے پہلے انسانی قربانی کو جائز سمجھا جاتا تھا اور خصوصیت کے ساتھ لوگ اپنی اولاد کو خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے یا اپنے بتوں کو خوش کرنے کے لئے قربان کردیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت نے فیصلہ کیا کہ اب بنی نوع انسان کو اس مہیب اور بھیانک فعل سے باز رکھنا چاہئے۔ کیونکہ انسانی دماغ اب اتنی ترقی کرچکا ہے کہ وہ حقیقت اور مجاز میں فرق کرنے کا اہل ہوگیا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو جس کا نام ابراہیمؑ تھا یہ رئویا دکھائی۔ اس رئویا میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک حکمت یہ تھی کہ آئندہ انسانی قربانی کو روک دیا جائے۔ اور دوسری حکمت یہ تھی کہ خدا تعالیٰ انسان سے حقیقی قربانی کا مطالبہ کرنا چاہتا تھا جو مطالبہ اس سے پہلے انسان سے نہیں ہوا تھا۔ بہرحال جب سے انسان اس قابل ہوا کہ اس پر الہام نازل ہو کسی نہ کسی صورت میں لوگ خدا تعالیٰ کی عبادت کیا ہی کرتے تھے۔ لیکن ابھی ایسا زمانہ انسان پر نہیں آیا تھا کہ کچھ لوگ اپنی زندگیوں کو کلی طور پر خدا تعالیٰ کے لئے وقف کردیں۔ نماز تو لوگ پڑھتے تھے` روزہ بھی رکھتے تھے۔ ذکر الٰہی بھی لوگ کرتے تھے کیونکہ ان چیزوں کے بغیر روحانیت زندہ نہیں رہ سکتی۔ اگر آدمؑ ایک روحانی انسان تھا تو نوحؑ اور آدمؑ اور ان کے متبع یقیناً نماز بھی پڑھتے تھے۔ ذکر الٰہی بھی کرتے تھے اور روزہ بھی رکھتے تھے کیونکہ روح بغیر ان چیزوں کے جلا نہیں پاتی۔ اور روح کے جلا پائے بغیر خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کا وصال حاصل نہیں ہوسکتا۔ مگر اس قربانی اور ان قربانیوں میں کیا فرق تھا؟ فرق یہ تھا کہ ہر شخص اپنے اپنے طور پر نمازیں ادا کرتا تھا۔ اور کوئی ایسا شخص بھی ہوتا تھا جس کو خدا تعالیٰ چن لیتا تھا اور اسے مقرر کرتا تھا کہ تم اپنی زندگی میں میری طرف سے مامور کی حیثیت رکھتے ہو۔ تم بنی نوع انسان کو مخاطب کرو اور انہیں میری طرف لانے کی کوشش کرو۔ یہ لوگ انبیاء علیھم السلام ہوتے تھے مگر ان کے علاوہ کوئی ایسے گروہ نہیں ہوتے تھے جو اپنی زندگیوں کو کسی مخصوص مقام سے وابستہ کردیں اور دن اور رات ذکر الٰہی کے شغل کو جاری رکھیں۔
اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ جہاں وہ اس غیر حقیقی قربانی کو منسوخ کردے جو چھری کے ذریعہ سے بیٹوں کو قتل کرکے ادا کی جاتی تھی وہاں وہ اس حقیقی قربانی کی بنیاد ڈال دے کہ دنیا کو چھوڑ کر انسان اپنی زندگی محض خدا تعالیٰ کے لئے وقف کردیا کرے۔ چھری انسانی زندگی کو ایک منٹ میں ختم کردیتی ہے۔ بالکل ممکن ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگی خدا تعالیٰ کے ئے دی اور چھریوں اور نیزوں سے اپنے آپ کو قربان کروا دیا اگر وہ ایک سال اور زندہ رہتے تو مرتد ہوجاتے ایک سال اور زندہ رہتے تو ان کے ایمان کمزور ہوجاتے۔ ایک سال اور زندہ رہتے تو ان کے اندر عبادت کے لئے وہ جوش و خروش باقی نہ رہتا جو اس وقت انہوں نے دکھایا تھا۔
پس چھری کے ساتھ انہوں نے اپنے مشتبہ انجام کو چھپایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اپنی مرضی سے اپنی زندگی کو قربان کرتا ہے یا جو شخص اپنی مرضی سے اپنی اولاد کو قربان کرتا ہے وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ ڈرتا ہے کہ وہ اور اس کی اولاد لمبے امتحانوں میں سے گزرتے ہوئے ناکام نہ رہ جائے۔ اور وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ہی اپنی زندگی یا اپنی اولاد کی زندگی کو ختم کردیتا ہے مگر جو شخص ساری عمر قربان ہوتا رہتا ہے` موت کے ذریعہ نہیں بلکہ منہیات سے` ذکر الٰہی کی پابندی اختیار کرنے سے` تبلیغ اسلام کو اختیار کرنے سے` بنی نوع انسان کی تربیت کی ذمہ داری لینے سے` وہ دلیرانہ اس سمندر میں کودتا ہے۔ وہ اپنا خاتمہ موت سے نہیں کرتا بلکہ وہ اپنا ایمان اپنی زندگی سے ثابت کردیتا ہے۔ مرنے والے کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگر وہ زندہ رہتا تو ایماندار رہتا۔ مگر جس نے زندہ رہ کر اپنے ایمان کو ثابت کردیا اور جس نے مدت تک اپنے ایمان کو سلامت لے جاکر عملی طور پر اس کے سچا ہونے کا ثبوت دے دیا` اس کے متعلق دشمن سے دشمن کو بھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اس نے اپنے عہد کو سچا ثابت کردیا۔ میں نے کہا کہ جو شخص اپنی مرضی سے اپنی زندگی کو ختم کرتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو مستثنیٰ کردیا ہے جو اپنی مرضی سے اپنی زندگی ختم نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ کی مشیت سے ان کی زندگی ختم ہوجاتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کو شہداء کہتے ہیں۔
پس جو دلیل میں نے تلوار یا نیزہ سے اپنے آپ کو ختم کرنے والوں کے خلاف دی ہے وہ شہداء کے خلاف نہیں پڑتی اس لئے کہ شہداء نے خود اپنے آپ کو مار کر زندگی کی جدوجہد سے آزاد ہونے کی کوشش نہیں کی بلکہ خدا تعالیٰ کی مشیت نے ان کے زندہ رہنے کی خواہش کے باوجود یہ چاہا کہ ان کی مادی زندگی کے دور کو ختم کردے۔ اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان دونوں باتوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
پس جو دلیل میں نے اپنی زندگی ختم کرنے والوں کے خلاف دی ہے وہ شہداء کے خلاف نہیں پڑتی۔ اس لئے کہ وہ خود نہیں مرتے بلکہ ان کو دشمن مارتا ہے۔ ورنہ وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ دشمن کو مار کر اپنے ایمانوں کو اور بھی قوی کریں۔ اس امر کا ثبوت کہ وہ اپنی زندگی ختم کرکے میدان جدوجہد سے بھاگنا نہیں چاہتے ایک حدیث سے بھی ملتا ہے۔
حضرت عبداللہؓ جو رسول کریم~صل۱~ کے ایک نہایت مقرب صحابیؓ تھے جب شہید ہوگئے تو ان کے بیٹے حاضر جابرؓ کو ایک دفعہ رسول کریم~صل۱~ نے نہایت افسردہ حالت میں سر جھکائے دیکھا۔ آپﷺ~ نے جابرؓ سے فرمایا۔ جابر! تمہیں اپنے باپ کی موت کا بہت صدمہ معلوم ہوتا ہے۔ اس نے کہا۔ ہاں یارسول اللہ~صل۱~۔ باپ بھی بہت نیک تھا جس کی وفات کا طبعی طور پر مجھے سخت صدمہ ہے مگر میری افسردگی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا خاندان بہت بڑا ہے اور اب اس کی تمام بار میرے کمزور کندھوں پر آپڑا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا۔ جابر! اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ تمہارے باپ کا کیا حال ہوا تو تم کبھی افسردہ نہ ہوتے بلکہ خوش ہوتے۔ پھر آپ نے فرمایا۔ جابر! جب عبداللہؓ شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے کہا۔ عبداللہؓ کی روح کو میرے سامنے لائو۔ جب عبداللہؓ کی روح اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے فرمایا کہ عبداللہ ہم تمہارے کارنامے پر اور اسلام کے لئے تم نے جو قربانی پیش کی ہے اس پر اتنے خوش ہوئے ہیں کہ تم جو کچھ مانگنا چاہتے ہو مانگو۔ ہم تمہاری ہر خواہش کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس پر عبداللہؓ یہ نہیں کہا کہ الٰہی جنت کے فلاں مقام پر مجھے رکھا جائے۔ اس پر عبداللہؓ یہ نہیں کہا کہ الٰہی مجھے ایسی ایسی حوریں دے عبداللہؓ نے یہ نہیں کہا کہ الٰہی مجھے جنت غلمان خدمت کے لئے دے عبداللہؓ یہ نہیں کہا کہ الٰہی مجھے ایسے ایسے باغات مل جائیں بلکہ عبداللہؓ نے اگر کہا تو یہ کہا کہ اے میرے رب اگر تو مجھے کچھ دینا چاہتا ہے تو میری خواہش یہ ہے کہ تو مجھے پھر زندہ کردے تاکہ میں پھر تیرے دین کی خدمت کرتا ہوا مارا جائوں۔
اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ شہید ہونے والا اپنی مرضی سے مرنا نہیں چاہتا۔ وہ خطرے کے مواقع پر اپنی جان ضرور پیش کرتا ہے مگر اس کا دل چاہتا ہے کہ میں زندہ رہ ک ان تمام مشکلات کا مقابلہ کروں جو اسلام یا دین حقہ کو مخالفوں کی طرف سے پیش آنے والی ہیں۔ پس میں نے جو اعتراض خود کشی کرنے والوں یا جھوٹے جان دینے والوں پر کیا ہے وہ شہداء پر نہیں پڑتا۔ غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ وہ دین حقہ کے لئے ایسے قربانی کرنے والے پیدا کرے جو اپنی جان کو مار کر اس دنیا کی جدوجہد سے بھاگنا نہیں چاہتے بلکہ دنیا میں زندہ رہ کر دنیا کی کشمکشوں میں سے گزر کر ددنیا کی مصیبتوں کو جھیل کر دنیا کی تکالیف برداشت کرکے اپنی مردانگی کا ثبوت دینا چاہتے ہیں اور بتانا چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا بندہ دنیا کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے ڈرا نہیں کرتا۔ یہی وہ حقیقی قربانی ہے جو شاندار ہوتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کا نام لے کر سینہ میں خنجر مار لینا کوئی قربانی نہیں۔ وہ بزدلی ہے` وہ کمزوری ہے` وہ دون ہمتی ہے جو لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ایک قربانی کی شکل میں پیش کی جاتی ہے۔ ورنہ وہ خوب جانتا ہے کہ میں بزدل ہوں۔ میں اس لئے مررہا ہوں کہ دنیا میں رہ کر میں مصیبتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور وہ سمجھتا ہے کہ چند مصیبتیں آنے کے بعد ہی میرا ایمان کمزور ہوجائے گا۔ اس لئے وہ اپنی زندگی کو ختم کردیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ اس قربانی کی بنیاد ڈالے جو زندہ رہ کر اور دنیا کی کشمکشوں کا مقابلہ کرکے اور دنیا کی مصیبتوں کو برداشت کرکے انسان پیش کرسکتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سب سے بڑا کارنامہ درحقیقت یہی تھا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے وہ رویاء دکھائی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ اکلوتے بیٹے کو جو یقیناً اسماعیلؑ تھے ذبح کررہے ہیں تو چونکہ اس وقت لوگ اپنے بیٹوں کو خدا تعالیٰ کے نام پر ذبح کرتے تھے حضرت ابراہیمؑ نے سمجھا کہ الٰہی منشاء یہ ہے کہ میں بھی اپنے بیٹے کو خدا تعالیٰ کے نام پر ذبح کردوں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسمعیلؑ کو جن کی عمر اس وقت تاریخ سے سات سال کی معلوم ہوتی ہے بتایا کہ میں نے ایسی ایسی رئویا دکھی ہے۔ اسمعیلؑ جو اپنے باپ کی نیک تربیت کے ماتحت دین کو سمجھتا تھا اور جس میں یہ حس تھی کہ خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرنی چاہئے اس نے فوراً حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس بات کو قبول کیا کہ خدا تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے آپ اس پر عمل کریں۔ میں اسے حضرت اسمعیل کی ذاتی نیکی نہیں سمجھتا۔ جب وہ بڑے ہوئے تو یقیناً وہ نیک ثابت ہوئے اور انہوں نے اپنے عمل اور طریق سے خدا تعالیٰ کو اتنا خوش کیا کہ اس نے انہیں نبوت کے مقام پر فائز کردیا۔ مگر الصبی صبی ولو کان نبیا۔ بچہ بچہ ہی ہے خواہ وہ بعد میں نبی ہی کیوں نہ بن جائے سات سال کی عمر میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کا یہ نمونہ دکھانا یقیناً حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی بیوی اور دوسرے رشتہ داروں کی نیکی کا مظاہرہ تھا۔ حضرت اسمعیل کی ذاتی خوبی نہیں تھا۔ مجھے اپنے گھر کا ایک واقعہ یاد ہے۔ میرا ایک بچہ جس کی عمر پانچ چھ سال تھی ایک دفعہ نچلی منزل کی سیڑھی پر کھڑا تھا اور میں اوپر تھا۔ اس کے ایک دو بھائی جو بڑی عمر کے تھے وہ اس کے پاس کھڑے اسے ڈرا رہے تھے اور میرے کان میں ان کی آوازیں آرہی تھیں۔ مجھے ان کی باتیں کچھ دلچسپ معلوم ہوئیں اور میں غور سے سننے لگا۔ میں نے سنا۔ ان میں سے ایک نے اسے کہا۔ اگر تم کو رات کے وقت جنگل میں اکیلے چھوڑ آئیں تو کیا تم اس کے لئے تیار ہوگے۔ میں نے دیکھا کہ اس بات کے سنتے ہی بچے پر دہشت غالب آگئی۔ وہ ڈر گیا اور اس نے کہا نہیں۔ اس کے بعد دوسرے نے کہا۔ اگر میں تم کو کہوں کہ تم رات کو اکیلے جنگل میں چلے جائو اور وہیں رہو تو کیا تم میری بات مانو گے؟ اس نے کہا نہیں۔ پھر انہوں نے کسی اور کا نام لے کر کہا کہ اگر وہ کہے تو پھر بھی مانو گے یا نہیں۔ اس نے کہا نہیں۔ اس کے بعد انہوں نے میرا نام لیا اور کہا کہ اگر ابا جان کہیں تو کیا تم جنگل میں چلے جائو گے۔ اس نے پھر کہا نہیں۔ آخر انہوں نے کہا۔ اگر خدا کہے کہ تم جنگل میں چلے جائو تو کیا تم جائو گے؟ میں نے دیکھا کہ اس بات کے سنتے ہی اس کا رنگ زرد ہوگیا۔ مگر اس نے کہا۔ ہاں پھر میں مان لوں گا۔ اب دیکھو پانچ چھ سال کا بچہ نہیں جانتا کہ خدا کیا چیز ہے۔ وہ صرف موٹی موٹی باتیں جانتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے احکام کی اہمیت کو نہیں سمجھتا۔ مگر چونکہ صبح و شام وہ سنتا رہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات بہت بڑی ہے اور اس کے احکام کو نہ ماننا کسی انسان کے لئے جائز نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اور سب کا نام لینے پر اس نے انکار کیا۔ یہاں تک کہ باپ کا نام لینے پر بھی اس نے یہی کہا کہ میں نہیں جائوں گا۔ مگر جب خدا تعالیٰ کا نام لیا گیا تو اس نے سمجھا کہ اب انکار نہیں ہوسکتا۔ اور اس نے کہا کہ اگر خدا کہے تو پھر میں چلا جائوں گا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جب اپنے بیٹے حضرت اسمعیلؑ سے کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے رئویا میں یہ دکھایا ہے کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں۔ اب بتا تیری کیا رائے ہے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس نیک تربیت کی وجہ سے جو انہیں حاصل تھی یہ جواب دیا کہ جب خدا نے ایسا کہا ہے تو پھر بے شک اس پر عمل کریں میں اس کے لئے بالکل تیار ہوں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسمعیلؑ کو جنگل میں لے گئے۔ ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی۔ انہیں زمین پر لٹادیا اور پھر چھری نکال کر چاہا کہ اس زمانہ کے رسم و رواج کے مطابق اپنے بیٹے کو خدا تعالیٰ کے نام پرذبح کردیں۔ مگر خدا تعالیٰ نے یہ بتانا چاہتا تھا کہ انسانی قربانی ناجائز ہے۔ چنانچہ جب انہوں نے چھری نکالی اور ذبح کرنا چاہا تو فرشتہ نازل ہوا۔ اور اس نے خدا تعالیٰ کی طرف سے کہا کہ یا ابراہیم قد صدقت الرئیا۔ اے ابراہیمؑ! تم نے عملاً اپنے بچے کو ذبح کرنے کے ارادہ سے لٹا کر اور چھری نکال کر اپنے خواب کو پورا کردیا ہے۔ مگر ہمارا منشاء یہ نہیں تھا کہ تم واقع میں اسے ذبح کردو بلکہ ہم یہ بتانا چاہتے تھے کہ خواب میں اگر کوئی شخص اپنے بچے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کی تعبیر کچھ اور ہوا کرتی ہے۔ ہم انسانی قربانی کو روکنا چاہتے تھے اور اسی لئے ہم نے یہ رئویا دکھائی تھی۔ اس ذریعہ سے تمہارا ایمان بھی ظاہر ہوگیا اور ہماری غرض بھی پوری ہوگی۔ اے ابراہیم! آج سے انسانی قربانی کو بند کیا جاتا ہے۔ اب آئندہ کسی انسان کو اس رنگ میں قربان کرنا جائز نہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے انسانی قربانی جو خودکشی یا دوسرے کو قتل کرنے کے رنگ میں جاری تھی` رک گئی۔ درحقیقت اس رئویا میں یہ بتایا گیا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک وادی غیر ذی زرع میں اپنے بیٹے کو چھوڑ آئیں گے اور اس لئے چھوڑ آئیں گے لیقیموا الصلوہ تاکہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کو قائم کریں دوسری جگہ یہ ذکر آتا ہے کہ ان کو بیت اللہ کے پاس اس لئے رکھا گیا تھا` تاکہ وہ زائرین اور طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لئے اس کے گھر کو آباد رکھیں۔ چنانچہ جب یہ قربانی جاتی رہی۔ تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے رئویا کے ذریعہ بتایا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل اور اس کی والدہ کو بیت اللہ کی جگہ چھوڑ آئیں۔
‏tav.12.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
ربوہ کے پہلے جلسہ سے لیکر مصلح موعود کی رہائش تک
بخاری میں روایت آتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں یہ حکم ہوا تو انہوں نے اپنا بچہ اٹھا لیا۔ یا ممکن ہے انہوں نے کسی سواری کا بھی انتظام کر لیا ہو۔ روایت میں آتا ہے کہ بعض جگہ حضرت ہاجرہ بچے کو اٹھا لیتیں۔ اور بعض جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اسے اٹھا لیتے۔ اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی اور بچے کو ساتھ لے کر فلسطین سے مکہ کا رخ کیا۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ فلسطین سے مکہ کوئی دو ہزار میل کے قریب ہوگا۔ سفر کرتے کرتے وہ خانہ کعبہ میں پہنچے۔ اس وقت صرف ایک مشکیزہ پانی کا اور ایک ٹوکری کھجوروں کی ان کے پاس تھی انہوں نے اپنی بیوی اور بچے کو وہاں بٹھایا اور کھجوروں کی ٹوکری اور پانی کا مشکیزہ ان کے پاس رکھ دیا۔ مکہ میں اس وقت کوئی پانی کا چشمہ یا نہر نہیں تھی۔ کوئی نالہ بھی پاس سے نہیں گزرتا تھا۔ اور زمین کے لحاظ سے کوئی سرسبزی و شادابی اس میں نہیں پائی جاتی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو وہاں رکھا۔ اپنی بیوی کو چھوڑا اور کہا۔ میں ایک کام کے لئے جارہا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ وہاں سے واپس چل پڑے۔ لیکن ۸۰ سال کی عمر میں پیدا ہونے والے اکلوتے بچے کی محبت خوائی کوئی نبی بھی ہو` اس کے دل سے ٹھنڈی نہیں ہوسکتی۔ اب ابراہیمؑ نوے سال کی عمر کو پہنچ رہے تھے۔ اور اس عمر میں ان کو اپنے بیٹے اور اس بیٹے کی شریف اور نیک ماں کو چھوڑ کر واپس چلے جانا کوئی آسان امر نہیں تھا۔ پچاس ساٹھ گزر گئے تھے کہ انہوں نے مڑ کر اپنی بیوی اور بچے کو دیکھا اور ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ پھر کچھ دور گئے تو محبت نے پھر جوش مارا اور انہوں نے مڑ کر ان پر نظر ڈالی وہ اس طرح کرتے چلے گئے یہاں تک کہ وہ ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے ان کا نظر آنا مشکل ہوگیا۔ اس وقت انہوں نے اس طرف مونہہ کیا جدھر ان کی بیوی بچے تھے۔ جن کو چھوڑ کر وہ ہمیشہ کے لئے جارہے تھے اور جن کے زندہ رہنے کا بظاہر کوئی امکان نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت عاجزانہ طور پر انہوں نے دعا کی کہ
ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع
اے ہمارے رب! انہوں نےnsk] gat[ ربنا کہا ہے ربی نہیں کہا۔ کیونکہ اس قربانی میں وہ اپنی بیوی کو بھی شامل کرتے ہیں۔ مگر اس کے بعد وہ انی کہتے ہیں انا نہیں کہتے۔ کیونکہ یہ فعل ان کی بیوی کی طرف سے نہیں تھا۔ ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد۔ اے ہمارے رب! میں نے اپنی ذریت کا ایک حصہ اس وادی میں لاکر چھوڑ دیا ہے۔ ایک حصہ انہوں نے اس لہے کہا کہ اس وقت تک حضرت اسحٰقؑ بھی پیدا ہوچکے تھے۔ جب انہوں نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا چاہا تھا اس وقت تک حضرت اسحاقؑ پیدا نہیں ہوئے تھے۔ لیکن جب انہوں نے حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو مکہ میں لاکر چھوڑا ہے اس وقت حضرت اسحاقؑ پیدا ہوچکے تھے۔ اس لئے وہ فرماتے ہیں ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد۔ الٰہی میں نے اپنی اولاد کا ایک حصہ اس وادی میں لاکر چھوڑ دیا ہے غیر ذی زرع جس میں کوئی کھیتی باڑی نہیں ہوتی۔ جیسے ربوہ میں کوئی کھیتی باڑی نہیں ہوتی سرکاری کاغذات میں لکھا ہوا ہے کہ اس رقبہ میں نہ زراعت ہوتی ہے اور نہ اس وقت کی تحقیقات کے مطابق ہوسکتی ہے۔ UNAGRICULTURAL UNCULTIVABLE عند بیتک المحرم تیرے پاکیزہ گھر کے پاس۔ اس وقت تک خانہ کعبہ نہیں بنا تھا۔ لیکن اس آیت سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کسی زمانہ میں وہاں کوئی پرانا معبد تھا۔ اور جو لوگ یہ عقیدہ نہیں رکھتے وہ اس کے معنے یہ کرتے ہیں کہ جو معبد بننے والا ہے اس کے نزدیک میں نے اپنی اولاد کو لاکر رکھ دیا ہے۔ تیسرے معنے اس کے یہ کئے جاتے ہیں کہ بیت اللہ درحقیقت تقویٰ کا مقام ہے۔ پس عند بیتک المحرم کے یہ معنے ہیں کہ میں ایک ایسے مقام کے پاس انہیں چھوڑ رہا ہوں جہاں شیطانی خیالات کا دخلنہیں ہوگا۔ یعنی دین کی خدمت کے لئے میں انہیں یہاں چھوڑ رہا ہوں ربنا لیقیموا الصلوہ اے میرے رب میں ان کو یہاں چھوڑ تو رہا ہوں مگر اس لئے نہیں کہ یہ بڑی بڑی کمائیاں کریں یا بڑے بڑے جتھے بنائیں اور فتوحات حاصل کریں بلکہ
ربنا لیقیموا الصلوہ
اے میرے رب! میں اس لئے ان کو یہاں چھوڑ رہا ہوں تاکہ وہ تیری عبادت کو اس جنگل میں قائم کریں۔
فاجعل افئدہ من الناس تھوی الیھم
پس اے میرے رب تو لوگوں کے دلوں میں خود ان کی محبت ڈال اور انہیں اس طرف جھکا دے۔ چونکہ یہ خالص تیری عبادت کے لئے وقف ہوں گے اور تیرے دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہوں گے اس لئے اے میرے رب! تو لوگوں کے ایک طبقہ کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے اور ان کے دلوں میں ان کی عقیدت اور احترام پیدا کردے۔ تاکہ وہ باہر کی دنیا میں رہ کر کمائیں اور اپنی کمائی کا ایک حصہ ان کے کھانے کے لئے بھجوا دیا کریں۔ اور اے میرے رب! جب میں اپنی اولاو کو دین کی خدمت کیلئے یہاں چھوڑے جارہا ہوں تو میں یہ نہیں چاہتا کہ مسجد کے ملانوں کی طرح یہ جمعرات کی روٹیوں کے محتاج ہوں۔ میں اپنی اولاد کو ایک جنگل میں چھوڑ رہا ہں۔ میں اپنے بچے کو جو جوان ہے اور اس عمر سے گزر گیا ہے جس میں بچے بالعموم مرجایا کرتے ہیں ایک ایسی جگہ چھوڑ رہا ہوں جس میں اس کی موت یقینی ہے۔ انسان ہونے کے لحاظ سے مین علم غیب نہیں رکھتا اور میں نہیں جانتا کہ کل تو ان سے کیا سلوک کرے گا۔ میرا اندازہ انسانی علم کے لحاظ سے یہی ہے کہ میری بیوی اور بچہ یہاں مرجائیں گے۔ میں نے انسان ہوتے ہوئے قربانی کے ہر نقطہ نگاہ میں سے جو سب سے بڑا نقطہ نگاہ تھا اس کو پورا کردیا ہے۔ اب میں تیرا بھی امتحان لینا چاہتا ہوں- میں نے بندہ ہوکر وہ کام کیا ہے جو قربانی اور ایثار کے لحاظ سے اپنے انتہائی کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ اب میں تیری خدائی کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ فاجعل افئدہ من الناس تھوی الیھوم۔ میں نے اپنی بیوی اور بچے کو یہاں لاکر چھوڑا ہے اور یہ سمجھتے ہوئے چھوڑا ہے کہ وہ اس جنگل میں بھوکے اور پیاسے مرجائیں گے۔ اب اے خدا! اگر تو خدا ہے تو یہاں ان کے لئے لوگوں کو کھینچ لا اور ان کے قلوب اس طرف مائل کردے۔
وارزقھم من الثمرات
مگر اے خدا! میں تجھ سے ان کے لئے جمعرات کی روٹی نہیں مانگتا۔ میں تجھ سے ان کے لئے چاول بھی نہیں مانگتا۔ بلکہ میں یہ مانگتا ہوں کہ یہ جگہ جہاں گھاس کی ایک پتی بھی پیدا نہیں ہوتی۔ اس جگہ دنیا بھر کے میوے آئیں اور یہ ان میووں کو یہاں بیٹھ کر کھائیں تو روٹی دے گا تو میں نہیں مانوں گا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا ہے۔ تو چاول کھلائے گا تو میں نہیں مانوں گا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا ہے۔ تو زردہ اور پلائو کھلائے گا تو میں نہیں مانوں گا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا ہے۔ میں تیری خدائی کا ثبوت تب مانوں گا جب یہ مکہ میں بیٹھ کر چین اور جاپان اور یورپ اور امریکہ کے میوے کھائیں تب میں مانوں گا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دے دیا ہے۔ میں نے بندہ ہوکر ایک انتہائی قربانی کی ہے۔ اب اے خدا! میں تیری خدائی کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں اور وہ بھی اس رنگ میں کہ اس وادی غیر ذی زرع میں دنیا کا ہر بہترین رزق تو انہیں پہنچا۔ خدا تعالیٰ نے ابراہیم کے اس چیلنج کو قبول کیا اور اس نے کہا۔ اے ابراہیم! تو نے اپنی اولاد کو ایک وادی غیر ذی زرع میں لاکر بسایا ہے اور مجھ سے کہا ہے کہ میں نے اپنا بیٹا قربان کردیا ہے` اب تو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے تو نے کہا ہے کہ میں نے ایک عاجز بندہ ہوکر اپنی بندگی کا ثبوت دے دیا` اب اے خدا! تو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے۔ اور تو نے ثبوت یہ مانگا ہے کہ یہ نہ کمائیں بلکہ بنی نوع انسان کمائیں اور انہیں کھلائی اور کھلائی بھی معمولی چیزیں نہیں بلکہ دنیا بھر کے میوے ان کے پاس پہنچیں۔ میں تیرے اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں اور میں اس وادی غیر ذی زرع میں جہاں گھاس کی ایک پتی بھی نہیں اگتی تجھے ایسا ہی کرکے دکھائوں گا۔
میں نے حج کے موقعہ پر خود اس کا تجربہ کیا ہے۔ میں نے مکہ مکرمہ میں ہندوستان کے گنے دیکھے ہیں۔ میں نے مکہ مکرمہ میں طائف کے انگور کھائے۔ میں نے مکہ مکرمہ میں اعلیٰ درجہ کے انار کھائے ہیں۔ گنے کے متعلق تو مجھے یاد نہیں کہ میری طبیعت پر اس کے متعلق کیا اثر تھا لیکن انگوروں اور اناروں کے متعلق مین شہادت دے سکتا ہوں کہ ویسے اعلیٰ درجہ کے انگور اور انار میں نے اور کہیں نہیں کھائے۔ میں یورپ بھی گیا ہوں۔ میں شام بھی گیا ہوں۔ میں فلسطین بھی گیا ہوں۔ اٹلی کا ملک انگوروں کے لئے بہت مشہور ہے۔ یورپ کے لوگ کہتے ہیں کہ بہترین انگور اٹلی میں ہوتے ہیں۔ مگر میں نے اٹلی کے لوگوں سے کہا کہ مکہ کی وادی غیر ذی روح میں ابراہیمی پیشگوئی کے ماتحت جو انگور میں نے کھائے ہیں وہ اٹلی کے انگوروں سے بہت میٹھے اور بہت زیادہ اعلیٰ تھے۔ ہمارے اردگرد قندھار کوئٹہ اور کابل کا انار مشہور ہے۔ مگر میں نے جو موٹا سرخ شیریں اور لذیذ انار مکہ میں کھایا ہے اس کا سینکڑواں حصہ بھی قندھار اور کوئٹہ اور کابل کا انار نہیں۔
غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں۔ وارزقھم من الثمرات اے خدا! میں نے اپنی بندگی کا انتہائی ثبوت دے دیا ہے۔ اب تجھ سے میں کہتا ہوں کہ تو بھی اپنی خدائی کا انتہا درجے کا ثبوت دے اور وہ ثبوت میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ یہ نہ کمائیں بلکہ لوگ کما کر ان کے پاس لائیں اور لائیں بھی معمولی چیزیں نہیں بلکہ دنیا بھر کے بہترین پھل اور میوے
لعلھم یشکرون
اے میرے رب میں احسان کے طور پر نہیں کہتا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اگر ایسا ہوا تب میرا بدلہ اترے گا یا تب میری اولاد کی قربانی کا بدلہ اترے گا۔ میں نے بے شک ایک مطالبہ کیا ہے مگر اس لئے نہیں کہ میں نے کوئی قربانی کی ہے بلکہ میں نے یہ مطالبہ محض اس لئے کیا ہے کہ بندے نے اپنی بندگی کا انتہائی ثبوت دے دیا۔ اب تو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے لعلھم یشکرون۔ تاکہ میری اولاد ایمان پر قائم رہے اور اسے یقین ہو کہ کیسی زبردست طاقتوں کا مالک وہ خدا ہے جس کی خدمت کے لئے وہ یہاں بیٹھے ہیں۔ بظاہر یہ ایک چیلنج معلوم ہوتا ہے کہ دیکھ میں نے کتنی قربانی کی` اب تو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے۔ مگر میری یہ غرض نہیں کہ تو میرے فعل کی وجہ سے انہیں یہ پھل کھلا بلکہ میری غرض یہ ہے کہ تیرے فعل سے بنی نوع انسان کے اندر ایمان پیدا ہو۔ گویا اس میں بھی اصل غرض تیرے نام کی بلندی ہے` اپنے نام کی بلندی نہیں۔
ربنا انک تعلم ما نخفی وما نعلن
پھر ابراہیمؑ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ بچہ چھوٹا ہے بیوی جوان ہے۔ یہ میری دوسری بیوی ہے۔ میری بڑی بیوی جو میری پھوپھی زاد بہن ہے میرے گھر میں موجود ہے اور اس سے نسل بھی ہورہی ہے۔ ہاجرہ یہ بھی جانتی ہے کہ وہ میری چہیتی بیوی ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ اس سے اولاد ہوگئی ہے۔ اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ یہ ظالم اس بیوی کی خاطر مجھے یہاں چھوڑے جارہا ہے اور اس بچے کی خاطر میرے اس بچے کو چھوڑ رہا ہے اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گر گئے اور انہوں نے کہا۔ ربنا انک تعلم ما نخفی وما نعلن۔ اے میرے رب میں نے تیرے نام کی عزت کے لئے اپنے اوپر یہ دھبہ قبول کیا ہے۔ میں اپنی بیوی کو یہاں اس لئے نہیں چھوڑ رہا کہ میں اپنی پہلی بیوی کو اس پر مقدم رکھتا ہوں۔ میں اپنے بچے کو یہاں اس لئے نہیں چھوڑ رہا کہ میں اس بچے پر دوسرے بچہ کو مقدم رکھتا ہوں۔ بلکہ اے خدا! اس بیوی کو میں اس لئے یہاں چھوڑ رہا ہوں کہ تو نے مجھے اس کا حکم دیا ہے اور اے خدا! یہ بچہ مجھے بہت عزیز ہے۔ اسحٰق سے ذلیل سمجھ کر میں اسے یہاں نہیں چھوڑ رہا۔ میں اس کی وراثت میں اسے روک سمجھ کر یہاں نہیں چھوڑ رہا۔ بلکہ اے خدا باوجود اس کے کہ یہ مجھے بہت پیارا ہے میں اسے اس لئے یہاں چھوڑ رہا ہوں کہ تو نے اسے یہاں چھوڑنے کو کہا ہے یہ ظلم کا الزام` یہ بے وفائی کا الزام` یہ سنگدلی کا الزام` اے خدا! میں نے محض تیرے لئے قبول کیا ہے۔ میری بیوی اس نکتہ کو نہیں سمجھ سکتی۔ وہ سمجھے گی کہ میں نے دوسری بیوی کی خاطر اسے یہاں چھوڑا ہے۔ میرا بچہ بھی اس بات کو نہیں سمجھ سکتا۔ وہ بڑا ہوکر کہے گا کہ باپ کیسا ظالم تھا وہ مجھے اور میری ماں کو یہاں چھوڑ گیا۔ اے میرے رب!میں اپنے دل کا درد کس کو بتائوں سوائے تیری ذلت کے جسے سب کچھ علم ہے۔ تجھے پتہ ہے کہ میرے دل میں کتنا دکھ ہے۔ تجھ کو پتہ ہے کہ یہ ظاہری سنگدلی اور ظالم کا الزام میں نے محض تیرے حکم کو پورا کرنے کے لئے اپنے اوپر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وما یخفی علے اللہ من شئی فی الارض ولا فی السماء۔ ابراہیمؑ نے کہا تھا۔ تو جانتا ہے کہ میرے دل میں کتنا درد ہے اور یہ کہ ظاہری طور پر میں جو کچھ سنگدلی اور سختی کررہا ہوں یہ محض تیرے لئے ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے وما یخفی علی اللہ من شئی فی الارض ولا فی السماء۔ یہ خدائی کلام ہے` ابراہیمؑ کا نہیں۔ فرماتا ہے خدا تعالیٰ کو پتہ ہے کہ زمین اور آسمان میں کیا کچھ ہے۔ اس کے علم سے کوئی بات مخفی نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ ابراہیمؑ کا یہ فعل ایک بیج کی طرح زمین میں ڈالا جارہا ہے جس سے ایک دن ایک بڑی قوم پیدا ہوگی۔ اور وہ جانتا ہے کہ آسمان پر اس بیج بونے کے نتیجہ میں کیسا عظیم الشان انعام مقدر ہے۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی تو حضرت ہاجرہؓ کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ یہ جدائی کسی عارضی کام کے لئے معلوم نہیں ہوتی۔ بلکہ دائمی جدائی معلوم ہوتی ہے۔ وہ دوڑتی ہوئی آپ کے پیچھے گئیں۔ اور انہوں نے کہا۔ ابراہیمؑ! ابراہیمؑ تم ہمیں یہاں کس لئے چھوڑے جارہے ہو۔ یہ تو عارضی جدائی معلوم نہیں ہوتی۔ تم ہمیں جنگل میں اکیلے چھوڑے جارہے ہو۔ ابراہیمؑ دیکھو۔ تمہارا بیٹا بھوکا مرجائے گا۔ ابراہیمؑ تمہاری بیوی یہاں موجود ہے اور اس کا بھی تم پر حق ہے۔ مگر حضرت ابراہیمؑنے ان کی طرف نہیں دیکھا کیونکہ ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ وہ ڈرتے تھے کہ اگر میں نے جواب دیا تو بیتاب ہوجائوں گا اور رقت مجھ پر غالب آجائے گی اور یہ اس شان کے خلاف ہوگا جس کا یہ قربانی تقاضا کرتی ہے۔ جب حضرت ابراہیمؑ نے کوئی جواب نہ دیا تو پھر ہاجرہؓ نے کہا۔ ابراہیمؑ! ابراہیمؑ تم اپنی بیوی اور بیٹے کو کس لئے ایک ایسے جنگل میں چھوڑے جارہے ہو جس میں ایک دن بھی رہائش اختیار نہیں کی جاسکتی۔ بھیڑئیے آئیں گے اور ہمیں ختم کردیں گے۔ اور اگر بھیڑئیے نہ بھی آئے تب بھی پانی ختم ہوگیا تو ہم کیا کریں گے` کھجوریں ختم ہوگئیں تو ہم کیا کریں گے۔ آخر کیوں تم ہمیں یہاں چھوڑے جارہے ہو؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پھر بھی ان کی طرف نہ دیکھا اور زبان سے کوئی جواب نہ دیا۔ آخر ہاجرہؓ نے آگے بڑھ کر ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا۔ بتائو تم کس پر ہمیں چھوڑے جارہے ہو۔ کیا خدا پر چھوڑے جارہے ہو؟ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا مونہہ موڑا اور آسمان کی طرف انگلی اٹھا دی۔ بولے نہیں۔ کیونکہ جانتے تھے کہ اگر میں بولا تو رقت مجھ پر غالب آجائے گی۔ انہوں نے صرف آسمان کی طرف انگلی اٹھا دی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ہاں خدا پر اور خدا تعالیٰ کے کہنے پر میں یہ کام کررہا ہوں۔ ہاجرہ~رضی۱~ ایک عورت ہی سہی` وہ ایک مصری خاتون ہی سہی جس کا ابراہیمی خاندان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مگر وہ ابراہیمی تربیت حاصل کرچکی تھی` وہ خدا کا نام سن چکی تھی۔ وہ الٰہی قدرتوں کا مشاہدہ کرچکی تھی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر بتایا کہ میں محض خدا تعالیٰ کی خاطر اور اسی کے حکم کی تعمیل میں تمہیں یہاں چھوڑے جارہا ہوں۔ تو ہاجرہؓ فوراً پیچھے ہٹ گئیں اور انہوں نے کہا۔
اذا لا یضیعنا
تب خدا تعالیٰ ہم کو ضائع نہیں کرے گا۔ بے شک جہاں جانا ہے چلے جائو۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ چلے گئے۔ اور وہ بے وطن اور مسکین ہاجرہؓ` اسماعیل کی ماں` پھر اپنے خاوند کا منہ نہیں دیکھ سکی۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام جب جوان ہوئے تو اس کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے۔ لیکن اس وقت حضرت ہاجرہؓ فوت ہوچکی تھیں۔ تب خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت انہوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی جس کو ہم بیت اللہ کہتے ہیں اور جس کی طرف مونہہ کرکے نمازیں پڑھتے ہیں۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام دوبارہ آئے۔ اس وقت جرہم قبیلہ کے لوگ وہیں بس چکے تھے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ انہوں نے اپنی بیٹی بھی بیاہ دی تھی۔ اب وہ آبادی تھی۔ چند خیمے یا چند جھونپڑیاں تھیں جن میں لوگ رہتے تھے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جھونپڑیاں تھیں۔ کیونکہ روایات میں ذکر آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تو حضرت اسماعیل اس وقت گھر پر نہیں تھے۔ آپ گھر میں یہ پیغام دے گئے کہ جب اسماعیلؑ آئے تو اس سے کہنا کہ تمہاری چوکھٹ اچھی نہیں اسے بدل دو۔ مطلب یہ تھا کہ تمہاری بیوی بداخلاق ہے اس کی بجائے کوئی اچھے اخلاق والی بیوی کرو۔ حضرت ابراہیمؑ اس کے بعد بھی کئی دفعہ آئے۔ ایک اس وقت آئے جب انہوں نے حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی تھی۔ اور ایک اس وقت آئے جب انہوں نے حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی تھی۔ اور ایک اس وقت آئے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے۔ وہ اکثر شکار کے لئے دور پہاڑوں میں نکل جایا کرتے تھے اور پھر شکار کا گوشت سکھا کر رکھ لیتے اور استعمال کرتے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تو حضرت اسماعیلؑ شکار کی تلاش میں باہر گئے ہوئے تھے۔ آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک عورت بولی۔ بابا تو کون ہے؟ آپ نے فرمایا۔ بی بی! میں اسماعیلؑ سے ملنے کے لئے آیا ہوں۔ اس نے کہا۔ بابا جائو` اسماعیلؑ گھر پر نہیں۔ انہوں نے کہا۔ اچھا` میں جاتا تو ہوں مگر جب اسماعیلؑ واپس آئے تو اس سے کہہ دینا کہ تمہارے دروازہ کی چوکھٹ اچھی نہیں اسے بدل دو۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام واپس آئے تو انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ پیچھے کے واقعات بتائو۔ چونکہ اس وقت مکہ میں صرف چند گھر تھے اس لئے انہیں ایک دوسرے کے حالات معلوم کرنے کی طبعاً جستجو رہتی تھی اور بڑا بھاری واقعہ وہ اس بات کو سمجھتے تھے کہ فلاں قبیلہ یہاں سے گزرا ہے اور وہ یہ یہ چیزیں لے گیا اور یہ یہ چیزیں دے گیا ہے بیوی نے کہا اور تو کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ صرف ایک بڈھا آپ کے پیچھے آیا تھا۔ حضرت اسماعیلؑ کا دل دھڑکنے لگا کہ یہ بڈھا کہیں ان کا باپ ہی نہ ہو۔ انہوں نے کہا۔ اس بڈھے نے کوئی بات بھی کی تھی یا نہیں۔ اس نے کہا۔ اس بڈھے نے آپ کے متعلق پوچھا تھا۔ میں نے بتایا کہ آپ گھر پر موجود نہیں ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ کیا تم اس بڈھے کی کوئی خاصر تواضع بھی کی۔ اس نے کہا۔ میں نے تو کوئی خاطر تواضع نہیں کی۔ البتہ جاتے وقت وہ ایک پیغام آپ کو پہنچانے کے لئے دے گیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اسماعیل سے کہہ دینا۔ تمہاری چوکھٹ اچھی نہیں` اسے بدل دو۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے یہ سنتے ہی کہا۔ بی بی میری طرف سے تم پر طلاق۔ اس نے کہا۔ اس کا کیا مطلب؟ حضرت اسماعیل نے کہا۔ وہ بڈھا میرا باپ تھا جو دو ہزار میل سے چل کر آیا مگر تم سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ تم انہیں کہتیں۔ تشریف رکھئے اور آرام کیجئے۔ تمہارے اخلاق ایسے نہیں کہ میرے گھر میں رہنے کے قابل سمجھی جاسکو۔ چنانچہ حضرت اسماعیلؑ نے اسے طلاق دے دی اور ایک اور شادی کرلی۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے۔ اتفاقاً اس دن بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام باہر تھے۔ آپ آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے ایک عورت نے جواب دیا کہ کون صاحب ہیں۔ بیٹھئے` تشریف رکھئے۔ چنانچہ آپ اندر گئے۔ اس عورت نے آپ کی خدمت کی` پیر ڈھلائے` کھانے پینے کی چیزیں آپ کے سامنے رکھیں اور کہا مجھے سخت افسوس ہے کہ آپ بہت فاصلہ سے آئے مگر اسماعیلؑ سے نہیں مل سکے۔ آپ ٹھہرئیے اور ان کا انتظار کیجئے۔ اس عرصہ میں مجھ سے جو کچھ ہوسکتا ہے میں آپ کی خدمت کروں گی۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام ٹھہرے نہیں بلکہ واپس چلے گئے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ان کی قوم کے افراد بہت پھیلے ہوئے تھے اور وہ ان کے ہاں ٹھہر جاتے تھے۔ جاتے ہوئے انہوں نے کہا۔ اسماعیلؑ جب واپس آئے تو اس سے کہنا کہ فلاں طرف سے ایک آدمی آیا تھا اور اس سے کہنا کہ تمہارے دروازے کی چوکھٹ اب بالکل ٹھیک ہے اس کو قائم رکھنا۔ چنانچہ حضرت اسماعیلؑ جب واپس آئے اور انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ کوئی نئی خبر سنائو تو اس نے کہا۔ آج کی نئی خبر یہ ہے کہ ایک بڈھا آیا تھا۔ حضرت اسماعیلؑ نے جلدی سے کہا۔ پھر؟ اس نے کہا۔ میں نے ان کو بٹھایا` پائوں دھلائے` پانی پلایا اور کھانے کے لئے ان کے سامنے چیزیں رکھیں۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا تھا کہ ٹھہرئیے جب تک اسماعیل واپس نہیں آجاتے۔ مگر انہوں نے کہا کہ میں زیادہ انتظار نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد وہ چلے گئے۔ مگر جاتی دفعہ وہ ایک عجیب طرح کا پیغام دے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اسماعیلؑ سے کہہ دینا` تمہارے دروازہ کی چوکھٹ بڑی اچھی ہے` اسے قائم رکھنا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا۔ میری بیوی! یہ آنے والا میرا باپ تھا۔ اور سفارش کرکے گیا ہے کہ میں تمہیں عزت و احترام سے اپنے گھر رکھوں۔][آخر وہ دن بھی آگیا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیلؑ کو اپنے ساتھ لے کر اس گھر کی بنیاد رکھی جس کو خانہ کعبہ کہتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
واذ جعلنا البیت مثابہ للناس وامنا ط واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی ط وعھدنا الی ابراھیم و اسماعیل ان طھرا بیتی للطائفین والعاکفین و الرکع السجود )البقرہ رکوع ۱۵( اور جبکہ ہم نے وہ گھر جو ابراہیمؑ نے بنایا اس کو لوگوں کے لئے بار بار آنے کا مقام بنا دیا` زیارت گاہ بنا دیا۔ ثواب کی جگہ بنا دیا۔ وامنا اور امن کا مقام بنا دیا۔ واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی۔ اور اے لوگو! جو خانہ کعبہ کے شیدائی بنتے ہو جو بیت اللہ کی محبت کا دم بھرتے ہو۔ تم ہر ایک چیز جو تمہیں پسند آتی ہے` اس کی تصویر اپنے گھر میں رکھنے کی کوشش کرتے ہو۔ اگر کوئی پھل تمہیں پسند آئے تو تم اسے اپنے گھر لاتے اور اپنے بیوی بچوں کو چکھانے کی کوشش کرتے ہو۔ اے کم عقلو! جب تم بازار میں خربوزہ دیکھ کر بس نہیں کرتے بلکہ وہ خربوزہ گھر میں لاتے ہو۔ جب تم کسی اچھے نظارے کو دیکھتے ہو تو اس کی تصویر کھینچتے اور اپنے بیوی بچوں کو دکھاتے اور آئندہ آنے والوں کے لئے گھر میں رکھتے ہو۔ تو کیا وجہ ہے` کیا سبب ہے` اس میں کون سی معقولیت ہے کہ تم اپنے مونہوں سے تو خانہ کعبہ کی تعریفیں کرتے ہو۔ اپنے مونہوں سے تو خانہ کعبہ کے احترام کا اظہار کرتے ہو۔ لیکن تم ایک خربوزے کو تو گھر میں لانے کی کوشش کرتے ہو۔ تم تاج محل کو دیکھتے ہو تو اس کی تصویر لینے کی کوشش کرتے ہو مگر تم خانہ کعبہ کے ظل کو اپنے ملک اور اپنے علاقہ میں لانے کی کوشش نہیں کرتے۔ خانہ کعبہ کیا ہے؟ ایک گھر ہے جو خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے وقف ہے۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ ساری دنیا کے انسان خانہ کعبہ میں نہیں جاسکتے پس جس طح خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ابراہیم کی نقلیں دنیا میں پیدا کرے` اسی طرح وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ تم خانہ کعبہ کی نقلیں بنائو جس میں تم اور تمہاری اولادیں اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کرکے بیٹھ جائیں۔ جس طرح وہ لوگ جو ابراہیمؑ کے نمونہ پر چلیں گے` ابراہیمؑ کی اولاد اور اس کا ظل ہوں گے۔ اسی طرح یہ نقلیں خانہ کعبہ کی اولاد ہوں گی` خانہ کعبہ کی ظل اور اس کا نمونہ ہوں گے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک خانہ کعبہ کے ظلی دنیا کے گوشے گوشے میں قائم نہ کردیئے جائیں اس وقت تک دین پھیل نہیں سکتا۔ پس فرماتا ہے:۔
واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی
اے بنی نوع انسان! ہم تجھ کو توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ تم بھی ابراہیمی مقام پر کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادتیں کرو۔ یعنی ایسے مرکز بنائو جو دین کی اشاعت کا کام دیں۔
وعھدنا الی ابراھیم و اسماعیل ان طھرا بیتی للطائفین والعاکفین والرکع السجود۔
اب بتاتا ہے کہ وہ مقام ابراہیمؑ کیا چیز ہے۔ وعھدنا الی ابراھیم۔ اور ہم نے ابراہیمؑ کو بڑی پکی نصیحت کی۔ عھد بہ کے معنے ہوتے ہیں۔ اس نے فلاں کے ساتھ عہد کیا۔ لیکن جب عھد کے ساتھ الی کا صلہ آئے تو اس کے معنے ہوتے ہیں پکی نصیحت کرنا یا وصیت کرنا۔ پس فرماتا ہے وعھدنا الی ابراھیم و اسماعیل۔ ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو بار بار نصیحت کی اور بار بار اس طرف توجہ دلائی ان طھرا بیتی کہ تم دونوں میرے گھر کو پاک بنائو اور ہر قسم کے عیبوں اور خرابیوں سے اس کو بچائو للطائفین طواف کرنے والوں کے لئے والعاکفین اور ان لوگوں کے لئے جو اپنی زندگی وقف کرکے یہیں بیٹھ رہیں۔ طائفین وہ لوگ ہیں جو کبھی کبھی آئیں اور عاکفین وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی اسی گھر کی خدمت کے لئے وقف کردیں۔ والرکع السجود اور ان لوگوں کے لئے جو خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے کھڑے رہتے ہیں اور اس کی رماں برداری میں اپنی ساری زندگی بسر کرتے ہیں یا ان لوگوں کے لئے جو رکوع اور سجود کرتے ہیں۔
یہ چیز ہے جو مقام ابراہیم ہے اور جس کو قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ فرماتا ہے۔ ہماری نصیحت یہی ہے کہ دنیا کے گوشتے گوشتے میں خانہ کعبہ کی نقلیں بننی چاہئیں اور دنیا کے کونے کونے میں تمہیں اس کے ظل قائم کرنے چاہئیں۔ اس کے بغیر دین حق کی کامل اشاعت کبھی نہیں ہوسکتی<۔
اس کے بعد حضور نے فرمایا:۔
>میں ایک دفعہ اس دعا کو پڑھ جائوں گا۔ اس کے بعد پھر دوبارہ پڑھوں گا تمام عورتیں اور مرد میری اتباع کریں<۔
اس ارشاد کے بعد حضور نے جس رنگ میں تلاوت فرمائی اور جس طرح بعض دعائوں کا بار بار تکرار فرمایا اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ ادعیہ درج ذیل کی جاتی ہیں۔
واذ قال ابراھیم رب اجعل ھذا بلدا۔ رب اجعل ھذا بلدا امنا وارزق اھلہ من الثمرات وارزق اھلہ من الثمرات وارزق اھلہ من الثمرات۔
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
ربنا واجعلنا مسلمین لک
حضور نے فرمایا:۔
یہاں مسلمین سے گو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ مراد ہیں مگر دعا مانگتے ہوئے مسلمین سے ہر شخص میاں بیوی بھی مراد لے سکتا ہے۔
ربنا واجعلنا مسلمین لک
ربنا واجعلنا مسلمین لک
ربنا واجعلنا مسلمین لک
ربنا واجعلنا مسلمین لک
ربنا واجعلنا مسلمین لک
ربنا واجعلنا مسلمین لک
ومن ذریتنا امہ مسلمہ لک
اے ہمارے رب اجعل ھذا بنا دے اس کو جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی ہے اس وقت مکہ کوئی شہر نہیں تھا۔ وہ صرف چند جھونپڑیاں تھیں جو ایک بے آب و گیا وادی میں نظر آئی تھی۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ زمین جو ویران پڑی ہوئی ہے اسے بنا دے` کیا بنا دے؟ بلدا۔ ایک شہر بنادے۔
عام طور پر جو لوگ عربی نہیں جانتے وہ اس کے معنے یہ کرتے ہیں۔ کہ اس شہر کو امن والا بنا دے۔ حالانکہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہی منشاء ہوتا` تو آپ ھذا بلدا کہنے کی بجائے ھذا البلد فرماتے۔ مگر آپ ھذا البلد نہیں کہتے بلکہ ھذا بلدا امنا کہتے ہیں پس یہ شہر کے بنانے کی دعا ہے۔ شہر کو کچھ اور بنانے کی دعا نہیں۔ رب اجعل ھذا بلدا۔ اے میرے رب بنادے اس ویران زمین کو شہر۔ امنا` مگر شہروں کے ساتھ فتنہ و فساد کا بھی احتمال ہوتا ہے۔ جب لوگ مل کر رہتے ہیں تو لڑائیاں بھی ہوتی ہیں۔ جھگڑے بھی ہوتے ہیں۔ فسادات بھی ہوتے ہیں۔ اور پھر شہروں کو فتح کرنے کے لئے حکومتیں حملہ بھی کرتی ہیں۔ یا بعض شہر جب بڑے ہوجائیں تو ان کے رہنے والے اپنا نفوذ بڑھانے کے لئے دوسروں پر حملہ کردیتے ہیں۔ اور چونکہ یہ سارے خدشات شہروں سے وابستہ ہوتے ہیں اس لئے میں تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو اسے امن والا بنائیو۔ نہ کوئی اس پر حملہ کرے۔ اور نہ یہ کسی اور پر حملہ کرے۔ وارزق اھلہ من الثمرات اور اس کے رہنے والوں کو شرارت دیجئو۔
میں پہلے بتا چکا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا یہ مفہوم ہے کہ اے خدا! میں تجھ سے ان کے لئے روٹی نہیں مانگتا۔ میں تجھ سے پلائو نہیں` میں تجھ سے دنتے کا گوشت نہیں مانگتا۔ بے شک یہ بھی تیری نعمتیں ہیں۔ اور اگر ان کو مل جائیں تو تیرا فضل اور انعام ہے۔ مگر میں جو کچھ چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تو ان کو وہ پھل کھلا جو دس میل لے جاکر بھی سڑ جاتا ہے۔ تو دنیا کے کناروں سے ان کے لئے ہر قسم کے پھل لا اور انہیں ان پھلوں سے متمتع فرما۔ من امن منھم باللہ والیوم الاخر۔ پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی کہ میری اولاد میں سے بھی نبی بنائیو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر وہ نیک ہوں گے تو ہم ان کو اپنے انعامات سے حصہ دیں گے ورنہ نہیں۔ نبی بڑا محتاط ہوتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ میں ہر ایک کو یہ انعام نہیں دے سکتا۔ جو نیک ہوگا صرف اسے انعام ملے گا۔ تو اس دوسری دعا کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی امر کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ یااللہ جو نیک ہوں صرف ان کو رزق دیجئو۔ قال ومن کفر فامتعہ قلیلا ثم اضطرہ الی عذاب النار وبئس المصیر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رزق کے معاملہ میں ہمارا اور حکم ہے۔ اور نبوت اور امامت کے معاملہ میں ہمارا اور حکم ہے۔ نبوت اور امامت صرف نیک لوگوں کو ملتی ہے` مگر رزق ہر ایک کو ملتا ہے۔ پس جو کافر ہوگا دنیا کی روزی ہم اس کو بھی دیں گے۔ چنانچہ ¶سینکروں سال تک مکہ کے لوگ مشرک رہے مگر ابراہیمی رزق ان کو بھی پہنچتا رہا۔ ہاں تیری نسل ہونے کی وجہ سے وہ اخروی عذاب سے بچ نہیں سکتے۔ مرجائیں گے تو وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
پھر فرمایا ہے۔ یاد کرو جب ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ مل کر بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعائیں کررہے تھے کہ خدایا تیرا گھر تو برکت والا ہی ہوگا۔ کون ہے جو اسے برکت سے محروم کرسکے۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہماری نسل میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو نمازیں پڑھنے والے اور تیری یاد میں اپنی زندگی بسر کرنے والے ہوں تاکہ اس گھر کی برکت سے انہیں بھی فائدہ پہنچے۔ مگر اگلی اولادوں کو ٹھیک کرنا آئندہ نسلوں کو درست کرنا اور اپنے ایمانوں کی حفاظت کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔
ربنا تقبل منا۔ اے ہمارے رب! ہم نے خالص تیرے ایمان اور محبت کے لئے یہ گھ بنایا ہے۔ تو اپنے فضل سے اسے قبول کرلے اور اس کو ہمیشہ اپنے ذکر اور برکت کی جگہ بنا دے۔ انک انت السمیع العلیم۔ تو ہماری دردمندانہ دعائوں کو سننے والا اور ہمارے حالات کو خوب جاننے والا ہے۔ تو اگر فیصلہ کردے کہ یہ گھر ہمیشہ تیرے ذکر کے لئے مخصوص رہے گا تو اسے کون بدل سکتا ہے۔ واجعلنا مسلمین لک۔ اس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بیت اللہ بنانے کے درحقیقت دو حصے ہیں۔ ایک حصہ بندے سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا حصہ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے۔ جس مکان کو ہم بیت اللہ کہتے ہیں وہ اینٹوں سے بنتا ہے۔ چونے سے بنتا ہے۔ گارے سے بنتا ہے۔ اور یہ کام خدا تعالیٰ نہیں کرتا بلکہ انسان کرتا ہے۔ مگر کیا انسان کے بنانے سے کوئی مکان بیت اللہ بن سکتا ہے۔ انسان تو صرف ڈھانچہ بناتا ہے۔ روح اس میں خدا تعالیٰ ڈالتا ہے۔ اسی امر کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ڈھانچہ تو میں نے اور اسمعیلؑ نے بنا دیا ہے۔ مگر ہمارے بنانے سے کیا بنتا ہے۔ ربنا تقبل منا۔ اے خدا تو ہمارے اس تحفہ کو قبول کر اور اسے اپنے پاس سے مقبولیت عطا فرما۔ ورنہ محض مسجدیں بنانے سے کیا بنتا ہے۔ کئی مسجدیں ایسی ہیں جو باپ دادوں نے بنائیں اور بیٹوں نے بیچ ڈالیں۔ کئی مسجدیں ایسی ہیں جو بادشاہوں یا شہزادوں نے بنائیں مگر آج ان میں کتے پاخانہ پھرتے ہیں اس لئے کہ انسان نے تو مسجدیں بنائیں مگر خدا نے انہیں قبول نہ کیا۔ پس حضرت ابراہیمؑ اور حصرت اسمعیلؑ کہتے ہیں کہ اے خدا ہم نے تو تیرا گھر بنایا ہے مگر یہ محض ہمارے بنانے سے قیامت تک قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ اس وقت تک رہ سکتا ہے جب تک تو کہے گا۔ اس لئے ربنا تقبل منا۔ اے خدا ہم نے جو گھر بنایا ہے اسے تو قبول فرما اور تو سچ مچ اس میں رہ پڑ۔ اور جب خدا کسی جگہ بس جائے تو وہ کیسے اجڑ سکتا ہے۔ گائوں اجڑ جائیں تو اجڑ جائیں شہر اجڑ جائیں تو اجڑ جائیں وہ مقام کبھی نہیں اجڑ سکتا جس جگہ خدا بس گیا ہو۔ چنانچہ دیکھ لو سینکڑوں سال تک مکہ بے آباد رہا مگر چونکہ خدا وہاں تھا اس لئے اس کی عزت قائم رہی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہی دعا مانگتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ربنا واجعلنا مسلمین لک۔ اے خدا اس گھر کی آبادی تیرے بندوں سے وابستہ ہے۔ مگر محض لوگوں کی آبادی کوئی چیز نہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے نیک ہوں۔ پس ہم جو بیت اللہ کو بنانے والے ہیں اور جو دو افراد ہیں۔ ہماری پہلی دعا تو یہ ہے کہ تو خود ہمیں نیک بنا ومن ذریتنا امہ مسلمہ لک اور پھر ہماری اولاد میں سے ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے جو تیرا مطیع اور فرمانبردار ہو۔ وارنا منا سکنا۔ پھر چاہے انسان کے دل میں کتنا ہی اخلاص ہو۔ اگر اسے طریق معلوم نہ ہو کہ کس طرح کسی گھر کو آباد رکھنا ہے۔ تو پھر بھی وہ غلطی کرجاتا ہے۔ اس لئے وہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا نہ صرف ہمارے دلوں میں ایمان قائم رکھ بلکہ وقتاً فوقتاً ہمیں یہ بھی بتاتا رہیو کہ ہم نے کس طرح اسے آباد رکھنا ہے اور ہم کون سا وہ طریق عبادت اختیار کریں جس سے تو خوش ہو اور یہ گھر آباد رہ سکے۔
وتب علینا۔]ydob [tag مگر اس اخلاص کے باوجود` اس الہام کے باوجود جو یہ بتاتا رہے کہ کس طرح اس گھر کو آباد رکھنا ہے۔ اے خدا ہم بندے ہیں اور ہم نے غلطیاں کرنی ہیں۔ تو تواب اور رحیم ہے تو ہمیں معاف کردیا اور ہمارے گناہوں سے درگزر کرتا رہ۔ انک انت التوب الرحیم۔ تو بڑی توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔ تواب اور رحیم نام اسی لئے لائے گئے ہیں کہ بندہ خواہ کتنی بھی نیک نیتی سے کام کرے وہ غلطی کرجاتا ہے۔ ایسی حالت میں توابیت اس کے کام آتی ہے اور اگر اچھا کام کرے تو رحیمیت اس کے کام آتی ہے۔
‏]ksn [tagربنا وابعث فیھم رسولا منھم۔ اے ہمارے رب! تو ان لوگوں میں جو اس جگہ رہیں گے ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما۔ منھم اور اے ہمارے رب! رسول کے آنے سے یہ ضرورت تو پوری ہوجائے گی کہ خانہ کعبہ سے جس طرح تعلق رکھنا ہے اس کا پتہ لگ جائے اور وہ سچے اور مخلص مومن بن جائیں گے مگر اے ہمارے رب ہم نے جو اپنی اولاد کو یہاں آکر بسایا ہے اس میں کچھ خود غرضی بھی ہے۔ ہماری یہ بھی غرض ہے کہ تیرا نام بلند ہو اور ہماری یہ بھی غرض ہے کہ ہماری اولاد کے ذریعہ تیرا نام بلند ہو۔ ہم نے صرف تیرا گھر نہیں بنایا بلکہ اپنی اولاد کو بھی یہاں لاکر بسا دیا ہے۔ گویا ہم نے جو تیرے نام کی بلندی کی کوشش کی ہے اس میں کچھ خودغرضی بھی شامل ہے۔ ہم نے یہ مکان بنایا ہے اس لئے کہ تیرا نام بلند ہے اور ہم نے اپنی اولاد یہاں اس لئے بسائی ہے کہ اس کے ذریعہ تیرا نام بلند ہو۔ پس ہم نے جو اپنی اولاد یہاں بسائی ہے اس میں ہماری یہ غرض بھی شامل ہے کہ آنے والا رسول انہی میں سے ہو باہر سے نہ ہو۔ یتلو علیھم ایاتک۔ وہ تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائے۔ تیرے نشانات اور معجزات کے ذریعہ ان کے ایمانوں کو بلند کرے۔ و یعلمھم الکتاب۔ اور تیری شریعت جس کے بغیر باطن پاکیزہ نہیں ہوسکتا اور جو انسان کو مکمل نمونہ بنا دیتی ہے نازل ہو اور وہ لوگوں کو سکھائے۔ والحکمہ۔ اور اے ہمارے رب! جب وہ رسول آئے گا۔ انسانی عقل تیز ہوچکی ہوگی۔ اس وقت انسان بچہ نہیں ہوگا کہ اسے یہ کہا جائے کہ اٹھ اور فلاں کام کر۔ اور جب وہ کہے کہ میں کیوں کروں تو اسے کہا جائے آگے سے بکواس مت کرو۔ عیٰسیؑ کے زمانہ میں اور موسیٰؑ کے زمانے میں اور نوحؑ کے زمانہ میں ایسا ہوچکا۔ مگر جب وہ نبی آئے گا اس کا زمانہ انسانی عقل کے ارتقاء کا زمانہ ہوگا۔ اس وقت بندہ صرف یہی نہیں سنے گا کہ کر بلکہ وہ پوچھے گا کہ کیوں کرو؟ پس یعلمھم الکتاب والحکمہ۔ اے خدا! تو اس کو موسیٰؑ کی طرح شریعت ہی نہ دیجئو۔ نوحؑ کی طرح صحف ہی نہ دیجئو۔ دائودؑ کی طرح احکام ہی نہ دیجئو۔ بلکہ ساتھ ہی نہ دیجئو۔ نوحؑ کی طرح صحف ہی نہ دیجئو۔ دائودؑ کی طرح احکام ہی نہ دیجئو۔ بلکہ ساتھ ہی ان کی وجہ بھی بتا دیجئو۔ اور ان احکام کی حکمت بھی واضح کیجئو۔ تاکہ نہ صرف نہ ان کے جسم تیرے حکم کے تابع ہوں بلکہ ان کا دماغ اور دل بھی تیرے حکم کے تابع ہوں اور وہ سمجھیں کہ جو کچھ کہا گیا ہے فلسفہ کے ماتحت کہا گیا ہے۔ عقل کے ماتحت کہا گیا ہے` ضرورت کے تحت کہا گیا ہے` فوائد کے تحت کہا گیا ہے۔ ویزکیھم۔ اور ان کو پاک کرے۔ دماغ کو ہی پاک نہ کرے بلکہ حکمت یا شہزادوں نے بنائیں مگر آج ان میں کتے پاخانہ پھرتے ہیں اس لئے کہ انسان نے تو مسجدیں بنائیں مگر خدا نے انہیں قبول نہ کیا۔ پس حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ کہتے ہیں کہ اے خدا ہم نے تو تیرا گھر بنایا ہے مگر یہ محض ہمارے بنانے سے قیامت تک قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ اس وقت تک رہ سکتا ہے جب تک تو کہے گا۔ اس لئے ربنا تقبل منا۔ اے خدا نے ہم جو گھر بنایا ہے اسے تو قبول فرما اور تو مچ اس میں رہ پڑ۔ اور جب خدا کسی جگہ بس جائے تو وہ کیسے اجڑ سکتا ہے۔ گائوں اجڑ جائیں تو اجڑ جائیں شہر اجڑ جائیں تو اجڑ جائیں وہ مقام کبھی نہیں اجڑ سکتا جس جگہ خدا بس گیا ہو۔ چنانچہ دیکھ لو سینکڑوں سال تک مکہ بے آباد رہا مگر چونکہ خدا وہاں تھا اس لئے اس کی عزت قائم رہی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہی دعا مانگتے ہوئے فرماتے ہیں۔ربنا واجعلنا مسلمین لک۔ اے خدا اس گھر کی آبادی تیرے بندوں سے وابستہ ہے۔ مگر محض لوگوں کی آبادی کوئی چیز نہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے نیک ہوں۔ پس ہم جو بیت اللہ کو بنانے والے ہیں اور جو دو افراد ہیں۔ ہماری پہلی دعا تو یہ ہے کہ تو خود ہمیں نیک بنا ومن ذریتنا امہ مسلمہ لک اور پھر ہماری اولاد میں سے ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے جو تیرا مطیع اور فرمانبردار ہو۔ وارنا منا سکنا۔ پھر چاہے انسان کے دل میں کتنا ہی اخلاص ہو۔ اگر اسے طریق معلوم نہ ہو کہ کس طرح کسی گھر کو آباد رکھنا ہے تو پھر بھی وہ غلطی کرجاتا ہے۔ اس لئے وہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا نہ صرف ہمارے دلوں میں ایمان قائم رکھ بلکہ وقتاً فوقتاً ہمیں یہ بھی بتاتا رہو کہ ہم نے کس طرح اسے آباد رکھنا ہے اور ہم کونسا وہ طریق عبادت اختیار کریں جس سے تو خوش ہو اور یہ گھر آباد رہ سکے۔
وتب علینا۔ مگر اس اخلاص کے باوجود` اس الہام کے باوجود یہ بتاتا رہے کہ کس طرح اس گھر کو آباد رکھنا ہے۔ اے خدا ہم بندے ہیں اور ہم نے غلطیاں کرنی ہیں۔ تو تواب اور رحیم ہے تو ہمیں معاف کردیا اور ہمارے گناہوں سے درگزر کرتا رہ۔ انک انت التوب الرحیم۔ تو بڑی توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔ تواب اور رحیم نام اسی لئے لائے گئے ہیں کہ بندہ خواہ کتنی بھی نیک نیتی سے کام کرے وہ غلطی کرجاتا ہے۔ ایسی حالت میں توابیت اس کے کام آتی ہے اور اگر اچھا کام کرے تو رحیمیت اس کے کام آتی ہے۔
ربنا وابعث فیھم رسولا منھم۔ اے ہمارے رب! تو ان لوگوں میں جو اس جگہ رہیں گے ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما۔ منھم اور ہمارے رب! رسول کے آنے سے یہ ضرورت تو پوری ہوجائے گی کہ خانہ کعبہ سے جس طرح تعلق رکھنا ہے اس کا پتہ لگ جائے گا اور وہ سچے اور مخلص مومن بن جائیں گے مگر اے ہمارے رب ہم نے جو اپنی اولاد کو یہاں آکر بسایا ہے اس میں کچھ خودغرضی بھی ہے۔ ہماری یہ بھی غرض ہے کہ تیرا نام بلند ہو اور ہماری یہ بھی غرض ہے کہ ہماری اولاد کے ذریعہ تیرا نام بلند ہو۔ ہم نے صرف تیرا گھر نہیں بنایا بلکہ اپنی اولاد کو بھی یہاں لاکر بسا دیا ہے۔ گویا ہم نے جو تیرے نام کی بلندی کی کوشش کی ہے اس میں کچھ خود غرضی بھی شامل ہے۔ ہم نے یہ مکان بنایا ہے اس لئے کہ تیرا نام بلند ہو اور ہم نے اپنی اولاد یہاں اس لئے بسائی ہے کہ اس کے ذریعہ تیرا نام بلند ہو۔ پس ہم نے جو اپنی اولاد یہاں بسائی ہے اس میں ہماری یہ غرض بھی شامل ہے کہ آنے والا رسول انہی میں سے ہو باہر سے نہ ہو۔ یتلو علیھم ایاتک۔ وہ تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائے۔ تیرے نشانات اور معجزات کے ذریعہ ان کے ایمانوں کو بلند کرے۔ ویعلمھم الکتاب۔ اور تیری شریعت جس کے بغیر باطن پاکیزہ نہیں ہوسکتا اور جو انسان کو مکمل نمونہ بنا دیتی ہے نازل ہو اور وہ لوگوں کو سکھائے۔ والحکمہ اور اے ہمارے رب! جب وہ رسول آئے گا۔ انسانی عقل تیز ہوچکی ہوگی۔ اس وقت انسان بچہ نہیں ہوگا کہ اسے یہ کہا جائے کہ آٹھ اور فلاں کام کر۔ اور جب وہ کہے کہ میں کیوں کروں تو اسے کہا جائے آگے س یبکواس مت کرو۔ عیٰسیؑ کے زمانہ میں اور موسیٰؑکے زمانہ میں اور نوحؑ کے زمانہ میں ایسا ہوچکا۔ مگر جب وہ نبی آئے گا اس کا زمانہ انسانی عقل کے ارتقاء کا زمانہ ہوگا۔ اس وقت بندہ صرف یہی نہیں سنے گا کہ کر بلکہ وہ پوچھے گا کہ کیوں کروں؟ پس یعلمھم الکتاب والحکمہ۔ اے خدا! تو اس کو موسیٰؑ کی طرح شریعت ہی نہ دیجئو۔ نوحؑ کی طرف صحف ہی نہ دیجئو۔ دائودؑ کی طرح احکام ہی نہ دیجئو۔ بلکہ ساتھ ہی ان کی وجہ بھی بتا دیجئو اور ان احکام کی حکمت بھی واضح کیجئو۔ تاکہ نہ صرف نہ ان کے جسم تیرے حکم کے تابع ہوں بلکہ ان کا دماغ اور دل بھی تیرے حکم کے تابع ہو اور وہ سمجھیں کہ جو کچھ کہا گیا ہے فلسفہ کے ماتحت کہا گیا ہے۔ عقل کے ماتحت کہا گیا ہے` ضرورت کے تحت کہا گیا ہے` فوائد کے ماتحت کہا گیا ہے۔ ویزکیھم اور ان کو پاک کرے۔ دماغ کو ہی پاک نہ کرے بلکہ حکمت سکھا کر ان کے قلوب کو بھی محبت الٰہی سے بھروسے یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ میں جذب کردیں۔ الٰہی صفات ان میں پیدا ہوجائیں اور وہ چلتے ہوئے انسان نظر نہ آئیں بلکہ خدا نمائی کا ایک آئینہ دکھائی دیں۔
انک انت العزیز الحکیم۔ اے ہمارے رب! ہم نے جو چیز مانگی ہے بہ ظاہر یہ ناممکن نظر آتی ہے اور جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ لیکن ہم خوب جانتے ہیں کہ تجھ میں طاقت ہے تو عزیز خدا ہے تو غالب خدا ہے اور تیری شان یہ ہے۔ ~}~
‏poet] gat[جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تو ایسا کرسکتا ہے۔ انک انت العزیز الحکیم۔ چونکہ تو عزیز خدا ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ایسا رسول آئے۔ اس پر اعتراض ہوسکتا تھا کہ اگر پہلے خدا نے ایسا رسول نہیں بھیجا تو اب کیوں بھیجے؟ اور اگر پہلے بھی ایسا رسول بھیجنا ضروری تھا تو پھر ایسے رسول کو نہ بھجوا کر بنی نوع انسان پر کیوں ظلم کیا گیا؟ اس اعتراض کا الحکیم]ydob [tag کہہ کر ازالہ کردیا کہ ہم جانتے ہیں پہلے ایسا رسول آہی نہیں سکتا تھا۔ پہلے لوگ اس قابل ہی نہیں تھے کہ محمدیﷺ~ تعلیم کو برداشت کرسکیں۔ پس ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عزیز کہہ کر خدائی غیرت کو جوش دلایا ہے اور کہا ہے کہ ہمارا مطالبہ غیر معقول نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تو ایسا کرسکتا ہے۔ مگر ساتھ ہی حکیم کہہ کر بتا دیا کہ ہم یہ نہیں سمجھتے کہ اگر پہلے تو نے ایسا رسول نہیں بھجوایا تو نعوذ باللہ تو نے بخل سے کام لیا ہے۔ بلکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر پہلے تو نے ایسا نبی نہیں بھیجا تو صرف اس لئے کہ پہلے ایسا نبی بھیجنا مناسب نہیں تھا۔ یہ کسی کامل دعا ہے جو رسول کریم~صل۱~ کے بلند مقام اور آپ کے بلند ترین مدارج کو واضح کرنے والی ہے۔ مگر میں پھر کہتا ہوں۔ دنیا دوسری چیزوں کی نقلیں کرتی ہے۔ دنیا چاہتی ہے کہ اگر اسے اچھی تصویریں نظر آئیں تو ان کو اپنے گھروں میں لے جائے۔ وہ خوشنما اور خوبصورت مناظر دیکھتی ہے تو ان کے نقشے اپنے گھروں میں رکھتی مگر انسان کو یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ وہ خانہ کعبہ کی بھی نقلیں بنائے جنہیں لوگ دیکھیں اور جہاں لوگ اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے ذکر اور اس کے نام کی بلندی کے لئے وقف کردیں۔ انسان کو یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ میں اپنے دل میں محمد رسول اللہ~صل۱~ کو لاکر بٹھائوں تا محمد رسول اللہ~صل۱~ کے نمونہ اور تصویر کو دیکھ کر اور لوگ بھی محمد رسول اللہ~صل۱~ کا ظل بننے کی کوشش کریں۔ حالانکہ اگر دنیا میں ہر جگہ خانہ کعبہ کے ظل اور اس کی نقلیں نہ ہوں` اگر دنیا میں ہر جگہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے ظل اور آپﷺ~ کی نقلیں نہ ہوں تو وہ دنیا ہرگز رہنے کے قابل نہیں۔ دنیا تب ہی بچ سکتی ہے` دنیا تب ہی زندہ رہ سکتی ہے` دنیا تب ہی ترقی کرسکتی ہے جب ہر ملک کے وگ خانہ کعبہ کی نقل میں ایسی جگہیں بنائیں جہاں لوگ اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کردیں اور انسان کوشش کرے کہ ہر خطہ زمین پر محمد رسول اللہ~صل۱~ چلتے ہوئے نظر آئیں۔
بہرحال یہ دعائیں ہیں جو خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے مانگیں۔ میں اس وقت اسی پر بس کرتا ہوں۔ اگر میری تقریر کے لمبا ہوجانے کی وجہ سے بعض تقریریں ضائع ہوگئی ہیں تو بے شک ہوجائیں۔ ہمارا مقصد اس جلسہ میں تقریریں کرنا نہیں بلکہ دعائیں کرکے اس مقام کو بابرکت بنانا ہے۔ میں نے دعائیں سکھا دی ہیں۔ یوں انسان کے ذہن میں دعائیں نہیں آتیں۔ مگر نبیوں کے ذہن میں جو دعائیں آتی ہیں وہ نہایت کامل ہوتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کے نبی حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے دل میں ایسے وقت میں جو خیالات آئے اور جو کچھ ان مقدس مقامات کے فرائض اور ذمہ داریاں ہیں اور کامیابی کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے جن فضلوں کی ضرورت ہے ان تمام چیزوں کو آپ نے اللہ تعالیٰ سے مانگا ہے اور اب آپ سب لوگ میرے ساتھ مل کر دعا کریں۔ یہ زمین ابھی ہمیں پورے طور پر ملی نہیں۔ ہم تفائول کے طور پر اسے اپنا مرکز بناتے ہیں اور دعائوں کے ساتھ اسے اپنا مذہبی مقدس مقام قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارا فرض ہوگا کہ ہم اس مقام کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کریں اور ہمیشہ دین اسلام کی خدمت اور خدا تعالیٰ کے نام کی بلندی کے لئے اسے استعمال کرنے کی کوشش کریں۔
پس آئو جس طرح محمد رسول اللہ~صل۱~ جب مدینہ تسریف لے گئے تو آپﷺ~ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ اے خدا میں ابراہیمؑ کی طرح تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو مدینہ کو بھی اسی طرح برکتیں دے جس طرح تو نے مکہ کو برکتیں دی ہیں۔ اسی طرح ہم بھی اس مقام کے بابرکت ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں۔ ہم محمد رسول اللہ~صل۱~ نہیں لیکن محمد رسول اللہ~صل۱~ کے خادم اور غلام ضرور ہیں۔ اور جہاں آقا جاتا ہے وہاں خادم بھی جایا کرتا ہے۔ گورنر کی جب کسی جگہ دعوت ہو تو اس مقام پر گورنر کا چپڑاسی پہنچ جایا کرتا ہے پس محمد رسول اللہ~صل۱~ کے خادم ہونے کی حیثیت سے ہمارا بھی خدا پر حق ہے اور ہم بھی خدا تعالیٰ کو اس کا یہ حق یاد دلاتے ہوئے اس سے کہتے ہیں کہ اے خدا! جس طرح تو نے مکہ اور مدینہ اور قادیان کو برکتیں دیں اسی طرح تو ہمارے اس نئے مرکز کو بھی مقدس بنا اور اسے اپنی برکتوں سے مالا مال فرما۔ یہاں پر آنے والے اور یہاں پر بسنے والے` یہاں پر مرنے والے اور یہاں پر جینے والے سارے کے سارے خدا تعالیٰ کے عاشق اور اس کے نام کو بلند کرنے والے ہوں اور یہ مقام اسلام کی اشاعت کے لئے` احمدیت کی ترقی کے لئے` روحانیت کے غلبہ کے لئے خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے` محمد رسول اللہ~صل۱~ کا نام اونچا کرنے کے لئے اور اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرنے کے لئے بہت اہم اور اونچا اور صدر مقام ثابت ہو۔
پس آئو ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس مقام کو ہمارے لئے بابرکت کرے اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم منشائے ابراہیمی` منشاء محمدی اور منشاء مسیح موعود کے مطابق اس مقام کو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے ایک بہت بڑا مرکز بنائیں اور خدا تعالیٰ کے فضل ہم کو اس کی توفیق عطا فرمائیں کہ ہم نے اس مقام کو اشاعت اسلام کے لئے مرکز قرار دے کر جو ارادے کئے ہیں وہ پورے ہوجائیں۔ کیونکہ سچی بات یہی ہے کہ ہم نے جو ارادے کئے ہیں ان کو پورا کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔
)اس کے بعد حضور نے ان ہزارہا مخلصین کے ساتھ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس مقدس اجتماع میں شریک ہونے کی توفیق بخشی تھی اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اٹھا کر ایک لمبی دعا کی اور پھر فرمایا(
اب میں سجدہ میں گر کر دعا کرتا ہوں کیونکہ مسجد دعا کے لئے ایک خاص مقام ہوتا ہے۔ اگر جگہ نہ ہو تو لوگ ایک دوسرے کی پیٹھوں پر بھی سجدہ کرسکتے ہیں۔
)یہ الفاظ کہتے ہوئے حضور سجدہ میں گر گئے اور حضور کے ساتھ ہی ہزاروں مخلصین جو اس بابرکت اجتماع میں شمولیت کے لئے دور و نزدیک سے تشریف لائے ہوئے تھے وہ بھی سربسجود ہوگئے اور رب العرش سے اس مقام کے بابرکت ہونے کے متعلق آنسوئوں کی جھڑی اور آہ و بکا کے شور کے ساتھ دعائیں کی گئیں(
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔۹
الفضل کی خصوصی اشاعت
۱۵۔ ماہ شہادت/ اپریل کو ادارہ الفضل نے >الفضل کا< ایک ربوہ نمبر نکالا جس میں ہجرت اور مرکز ربوہ اور جلسہ ربوہ کے متعلق مضامین اور نظمیں شائع کیں۔ ہجرت پاکستان کے بعد روزنامہ الفضل کا یہ پہلا خصوصی شمارہ تھا جو جماعت کی پرمسرت اور مقدس تقریب افتتاح پر منظر عام پر آیا اور جو ایک نئے موسم بہار کی آمد کا پتہ دیتا تھا۔
‏j1] g[taخطبہ جمعہ میں جماعت کو ہمیشہ مرکزیت سے وابستہ رہنے کی موثر تحریک
امام ہمام کی اس پرمعارف اور ولولہ انگیز تقریر کے بعد حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب مبلغ انگلستان و امریکہ` شیخ بشیر احمد صاحب
ایڈووکیٹ لاہور اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے موثر تقاریر فرمائیں۔ ۲/۳۱ سے ۴ بجے جمعہ و عصر کی نمازیں پڑھی گئیں۔ سیدنا حضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ میں مخلصین جماعت کے سامنے شہد کی مکھی کے تعجب خیز نظام کی مثال بیان فرمائی اور نہایت دلکش پیرایہ میں یہ نصیحت فرمائی کہ ہمیشہ اس بات کو یاد رکھو کہ تم نے بے مرکز نہیں رہنا۔ اسلام کا غلبہ اور احمدیت کی ترقی مرکزیت ہی کے ساتھ وابستہ ہے۔۱۰
خطبہ جمعہ اور نماز کی ادائیگی کے بعد پہلے دن کا اجلاس دوم منعقد ہوا جس میں مولوی غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی` حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے مختلف علمی موضوعات پر پراز معلومات تقریر کیں۔ ایک مختصر سی تقریر جرمن نو مسلم ہرعبدالشکور کنزے کی بھی ہوئی۔]10 [p۱۱
‏tav.12.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
ربوہ کے پہلے جلسہ سے لیکر مصلح موعود کی رہائش تک
مجلس مشاورت کا انعقاد
ساڑھے نو بجے شب مجلس مشاورت ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء ہوئی جو بارہ بجے شب تک جاری رہی۔ اجلاس میں پاکستان کی اکثر احمدی جماعتوں کے نمائندے موجود تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آئندہ سال کے لئے قریباً اٹھارہ لاکھ روپیہ کا میزانیہ منظور فرمایا۔ اور تاجروں کو نصیحت فرمائی کہ وہ حکومت کے ٹیکس اور جماعتی چندے دیانت داری کے ساتھ اپنی صحیح اور اصل آمد کے حساب سے ادا کیا کریں۔ اس تعلق میں حضور نے اپنی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک سودے کے سلسلہ میں ہمیں سو روپیہ ٹیکس ادا کرنا تھا۔ مگر ہمیں کہا گیا کہ اگر آپ رسید نہ لیں تو اس ٹیکس سے بچ سکتے ہیں۔ مگر میں نے کہا کہ ہم اپنی بچت کا ہرگز خیال نہیں کریں گے اور یہ ٹیکس ضرور ادا کریں گے حضور نے فرمایا۔ اب تو ملک میں ہماری اپنی حکومت ہے۔ کیا ہم اپنی حکومت کو بھی ٹیکس نہ دیں۔۱۲]ttex [tag
حضرت امیرالمومنین مصلح موعود کا خواتین احمدیت سے پراثر خطاب
جلسہ کے دوسرے روز )۱۶۔ شہادت/ اپریل( کو صبح آٹھ بجے حضرت مصلح موعود نے جماعت احمدیہ کی خواتین سے نہایت اثر انگیز اور
مسحور کن خطاب فرمایا جس کے شروع میں حضور نے بتایا کہ اس جلسہ کی غرض و غایت اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ یہ جلسہ تقریروں کا نہیں` دعائوں کا ہے۔ اس تمہید کے بعد حضور نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے صبر و استقامت کے بعض نہایت ایمان افروز واقعات بیان فرمائے اور بتایا کہ انبیاء کی جماعتیں ہمیشہ تکلیفوں سے عزت پاتی ہیں۔ پس اپنے نفس میں اور اپنی اولاد میں دین کی خاطر تکلیفیں برداشت کرنے کی عادت ڈالو۔ وہی عورت عزت کی مستحق ہے جو بچہ نہیں جنتی شیر جنتی ہے` جو انسان نہیں جنتی فرشتہ جنتی ہے۔ یہی وہ کام ہے جو صحابیات نے کیا۔ اور یہی تمہارے لئے حقیقی نمونہ اور حقیقی راہ نما ہے۔۱۳
حضرت امیرالمومنین کی مردانہ جلسہ گاہ میں نہایت پرمعارف تقریر
اس وقت جب کہ حضور پرنور نے خواتین احمدیت سے خطاب فرمایا مردانہ جلسہ گاہ میں اجلاس اول کی کارروائی سوا دس بجے تک
جاری رہی جس میں ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی بی اے ایل ایل بی قاضی محمد نذیر صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ اور ابوالبشارت مولوی عبدالغفور صاحب۱۴ کی عالمانہ تقریریں ہوئیں۔ دوپہر کے وقفہ کے بعد حسب پروگرام نماز ظہر و عصر جمع کی گئیں اور ۲/۴۱ بجے سہ پہر کے قریب حضرت امیر المومنین جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے اور حضور پرنور نے تلاوت قرآنی کے بعد جو ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے کی اپنی پرمعارف تقریر شروع فرمائی۔
ابتداء میں حضور نے قادیان سے نکلنے کے پس منظر پر کسی قدر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالتے ہوئے قادیان کی واپسی سے متعلق خدائی وعدوں کا تذکرہ فرمایا اور بتایا کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ہمارے اصل مرکز قادیان سے دوامی طور پر جدا نہیں رکھ سکتی۔ ہم نے خدائی ہاتھ دیکھے ہیں اور آسمانی فوجوں کو اترتے دیکھا ہے اگر ساری طاقتیں بھی مل کر خدائی تقدیر کا مقابلہ کرنا چاہیں تو وہ یقیناً ناکام رہیں گی۔ اور وہ وقت ضرورت آئے گا کہ جب قادیان پہلے کی طرح پھر جماعت احمدیہ کا مرکز بنے گا خواہ صلح کے ذریعہ ایسا ظہور میں آئے یا جنگ کے ذریعہ۔ بہرحال یہ خدائی تقدیر ہے جو اپنے معین وقت پر ضرور پوری ہوگی۔ قادیان ملے گا اور ضرور ملے گا لیکن اس وقت اس چیز کی ضرورت ہے کہ ہم نئے مرکز میں نئی زندگی کا ثبوت دیں۔ اور اس تنظیم کو پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ قائم کریں جو آج تک ہمرا طرہ امتیاز رہی ہے۔
اس کے بعد قادیان سے ہجرت کے متعلق مزید تفصیلات بیان کرنے سے قبل حضور نے تنظیم سے متعلق بعض نہایت اہم امور کی طرف توجہ دلائی اور جماعت کو زیادہ دلجمعی استقلال اور قربانی و ایثار سے کام لیتے ہوئے فرائض ادا کرنے کی تلقین کی۔ چنانچہ فرمایا تبلیغی جماعتوں کی ترقی اور تنظیم میں اچھے لٹریچر کا بہت دخل ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں جماعت کی طرف سے انگریزی ترجمہ قرآن شائع کیا گیا تھا لیکن احباب نے اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی طرف بہت کم توجہ کی ہے حالانکہ غیر ممالک کے باشندوں میں تبلیغ کا اس سے موثر طریق اور کیا ہوسکتا ہے۔ شام` شرق` اردن وغیرہ ممالک کے اخبارات نے اس ترجمہ قرآن مجید پر نہایت شاندار ریویو شائع کئے ہیں اور یورپین مستشرقین میں اس کی اشاعت سے ایک کھلبلی مچ گئی ہے اور ان میں سے کئی نے جماعت احمدیہ کی اس کامیاب کوشش کے خلاف بہت غم و غصہ کا اظہار کیا ہے اس لئے احباب کو انگریزی ترجمہ قرآن مجید خرید کر خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اسی طرح تفسیر کبیر کی نئی جلدوں کی اشاعت میں پہلے کی نسبت کمی واقع ہوگئی ہے حالانکہ اس کی پہلی جلد بعد میں ایسی نایاب ہوئی کہ خود غیر احمدیوں نے سو سو روپے فی جلد خرید کر اس کا مطالعہ کیا آج کل آخری پارے کی آخری جلد لکھی جارہی ہے۔ دوستوں کو اس کی خریداری میں تساہل نہیں برتنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ بعد میں یہ تساہل مہنگا ثابت ہو۔
الفضل کے متعلق تحریک کرتے ہوئے حضور نے فرمایا الفضل ایک جماعتی اخبار ہے دوستوں کو چاہئے کہ اس کی خریداری بڑھائیں جہاں جہاں جماعتیں ہیں وہاں باقاعدہ ایجنسیاں قائم کی جائیں اور اس طرح اس کی اشاعت کو وسیع کیا جائے۔
وقف زندگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا فی زمانہ سلسلہ کی اہم ترین ضروریات میں سے ایک وقف زندگی کی تحریک ہے۔ بغیر وقف زندگی کے جماعت کے کام نہیں چل سکتے۔ اس لئے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ خدمت اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ اور اس طرح اسلام کو تمام دنیا میں غالب کرنے کے سامان بہم پہنچائیں۔
اس موقع پر حضور انور نے بیرونی ممالک میں وقف زندگی کے فروغ کا بھی ذکر فرمایا۔ اور بتایا کہ بیرونی ممالک کے نو مسلم اہمدی نوجوانوں میں یہ تحریک بہت زور پکڑ رہی ہے چنانچہ ان میں سے کئی نوجوانوں نے قبول حق کی سعادت حاصل کرنے کے بعد اپنی زندگیاں خدمت اسلام کے لئے وقف کی ہیں۔
اس ضمن میں حضور نے بیرونی ممالک میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی جدوجہد میں وسعت کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے فرمایا اگرچہ ہمیں یہاں پر ایک زبردست ابتلاء سے دوچار ہونا پڑا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے نعم البدل کے طور پر بیرونی ممالک میں ہماری تبلیغ کو بہت وسیع کردیا ہے اس کے بعد حضور نے ہر ملک میں تبلیغ کی رفتار اور اس کے خوشکن نتائج پر علیحدہ علیحدہ روشنی ڈالی۔
اس کے بعد حضور نے تحریک فرمائی کہ احباب جماعت کو آئندہ مرکز میں بار بار آنے کی کوشش کرنی چاہئے بار بار آنے سے نہ صرف یہ کہ مرکز سے ان کا تعلق مضبوط ہوگا بلکہ وہ ترقی کی سکیموں اور دیگر جماعتی سرگرمیوں سے پوری طرح باخبر رہیں گے۔ اور ان کا کثرت کے ساتھ یہاں آنا ان کے ایمان اور اخلاص میں ترقی کا موجب ہوگا اس مقام پر حضور نے ریلوے حکام کے تعاون کا شکریہ ادا کرتے ہوئے احباب جماعت کو ہدایت فرمائی کہ وہ جب بھی آئیں حتی الوسع ریل کے ذریعہ ہی سفر کریں۔ تاکہ ریل کی آمدن ایسی دکھائی جاسکے جس سے ربوہ سٹیشن کا قیام ریلوے کے لئے ہر لحاظ سے نفع رساں ثابت ہو۔
ربوہ میں زمین خرید کی مستقل رہائش اختیار کرنے والوں کو حضور نے تنبیہ فرمائی کہ ہم اس مرکز کو اسلامی تہذیب و تمدن اور معاشرت کا ایک مثالی نمونہ بنانا چاہتے ہیں اس لئے جو لوگ بھی مکان بنا کر مستقل طور پر یہاں رہنا چاہیں گے انہیں بعض شرائط اور قواعد و ضوابط کی پابندی کرنی ہوگی۔ مثلاً ہر شخص کو خواہ اس کی تجارت کو نقصان ہو یا اس کے کاروبار پر اس کا اثر پڑے سال میں ایک ماہ خدمت دین کے لئے ضرور وقف کرنا ہوگا۔ ہر بچے اور بچی کے لئے سکول میں داخل ہوکر تعلیم حاصل کرنی ضروری ہوگی۔ اور ہر فرد بشر کے لئے اسلامی اخلاق کو اس درجہ اپنانا ضروری ہوگا کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ بن سکے۔ مثلاً نماز باجماعت کی پابندی` ڈاڑھی رکھنا وغیرہ وغیرہ جو شخص ان چیزوں کی پابندی نہ کرے گا اسے ربوہ میں رہنے کی قطعاً اجازت نہ دی جائے گی۔۱۵ان امور کی طرف توجہ دلانے کے بعد فرمایا:۔
>میرے نزدیک اب وقت آگیا ہے کہ ہم دماغی ترقی کی طرف خاص طور پر توجہ دیں۔ اس وقت تک جو کتابیں ہماری جماعت کی طرف سے شائع ہوئی ہیں وہ کسی تنظیم کے بغیر شائع ہوئی ہیں۔ سوائے تفسیر کبیر کے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ جماعت کا ہر فرد وقتی ضرور تون کے ماتحت ایک خاص پروگرام کے ماتحت چلے اور اس طرح ترقی کرنے کی کوشش کرے۔ اس لئے میں نے سمجھا کہ میں نیا مرکز بن جانے کے بعد ایک خاص نظام قائم کروں تا جماعت کے افراد کی خاص طور پر تربیت ہو۔ اور اخلاق` عقائد` مذہب اور دیگر دنیوی علوم پر ہر آدمی آسانی کے ساتھ عبور حاصل کرسکے۔ اور اس کا یہی طریق ہے کہ آسان اردو میں ایسی کتابیں شائع کی جائیں جو ہر مضمون کے متعلق ہوں اور علمی مطالب پر حاوی ہوں۔ اور ایسی سیدھی سادی زبان میں ہوں کہ معمولی زمیندار بھی انہیں سمجھ سکیں۔ وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی جس کے صرف چند افراد عالم ہوں۔ ہم نے اگر ترقی کرنا ہے تو ہمیں اپنی جماعت کے علم کے درجہ کو بلند کرنا ہوگا۔ اس کا طریق یہی ہے کہ کتب کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے جس میں دنیا کے تمام موٹے موٹے علوم آجائیں اور وہ بچوں` درمیانی عمر والوں اور پختہ کار لوگوں غرض سب کے لئے کافی ہوں۔ اس کے تین سلسلے ہوں گے۔ پہلا سلسلہ مڈل سے نیچے پڑھنے والے بچوں کے لئے یا یوں سمجھ لیجئے کہ پہلا سلسلہ ۱۳ سال سے کم عمر والے بچوں کے لئے ہوگا۔ دوسرا سلسلہ انٹرنس پاس یا سولہ سترہ سال کے بچوں کے لئے ہوگا۔ دوسرا سلسلہ انٹرنس پاس یا سولہ سترہ سال تک کے بچوں کے لئے ہوگا۔ اور تیسرا سلسلہ اس سے اوپر عمر والوں اور پختہ کار لوگوں کے لئے ہوگا۔ یہ کتابیں ایسی سلیس اردو میں لکھی جائیں گی کہ ایک ادنیٰ سے ادنیٰ اردو لکھنے والا بھی اسے سمجھ سکے۔ اسی طرح میری رائے یہ ہے کہ یہ کتابیں اس طرز پر لکھی جائیں کہ پہلی کتاب ۵۰ صفحات کی ہو۔ دوسری ۸۰ صفحات کی ہو اور تیسری کتاب اوسطاً سوا سو صفحات پر مشتمل ہو۔ اور پھر ہر وہ کتاب جو سولہ سترہ سال تک کے افراد کے لئے ہو وہ سولہ ہزار الفاظ پر مشتمل ہو اور ہر وہ کتاب جو اس سے اوپر والے افراد کے لئے ہو وہ ۳۵ ہزار الفاظ پر مشتمل ہو اور اس لئے کہ لکھنے والے ان کتابوں کو غور سے لکھیں اور مطالعہ کرکے لکھیں ان کے لئے ایک رقم بطور انعام مقرر کی جائے گی۔ تاکہ وہ اس علم کی کتابیں مطالعہ کرکے مضمون لکھیں اور ایسی سلیس اردو میں لکھیں کہ ہر معمولی خواندہ اسے سمجھ سکے۔ میرا خیال ہے کہ ہر اس کتاب کے لئے جو پچاس صفحات کی ہو پچاس روپے سے ایک سو روپیہ تک کا انعام رکھا جائے۔ ان کتب کی خصوصیات یہ ہوں گی کہ
۱۔
ان میں تمام قسم کے علوم کے متعلق باتیں ہوں گی۔
۲۔
یہ سلیس اردو میں ہوں گی جسے ایک معمولی اردو جاننے والا بھی سمجھ سکے۔
۳۔
ان میں کسی قسم کی اصطلاح استعمال نہیں کی جائے گی۔ ان اصطلاحوں کی وجہ سے مضمون سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔
لیکن چونکہ کبھی کبھی بعض شوقین لوگ علماء کی مجلس میں بھی چلے جائیں گے اور ان کی باتوں سے لطف اندوز ہوں گے۔ اس لئے حاشیہ میں ان اصطلاحات کا بھی ذکر کردیا جائے گا۔ اس طرح اسے یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ برکلے اور کانٹ نے کیا کہا ہے۔ بلکہ کتاب کے حاشیہ میں ہی یہ لکھا ہوا ہوگا کہ برکلے اور کانٹ کا یہ مقولہ ہے یا یہ فلاں کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ غرض جب بھی وہ چاہے اپنے عام علم کو اصطلاحی علم میں بدل لے۔ یا سیدھی سادھی اردو میں پڑھ لے۔ غرض ہر صفحہ کے نیچے ہر ایک امر کا حوالہ دیا جائے گا تا جس کو شوق ہو تحقیق کرسکے۔ اس سلسلہ کی کئی کڑیاں ہوں گی۔
اول۔ بچوں کے لئے یعنی ابتدائی تعلیم سے مڈل تک کے بچوں کے لئے مگر اس سے وہ لوگ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہوں۔ جو معمولی لکھنا پڑھنا ہی جانتے ہوں۔
دوم۔ بڑے بچوں کے لئے یعنی ہائی سکولوں کے طالب علموں کے لئے۔
سوم۔ بڑوں کے لئے قطع نظر اس کے کہ وہ کالجوں میں پڑھتے ہوں یا انہوں نے خود تحقیق کی ہو۔
چہارم۔ محض لڑکیوں کے لئے
پنجم۔ محض لڑکوں کے لئے
ششم۔ محض مردوں کے لئے
ہفتم۔ محض عورتوں کے لئے
ہشتم۔ میاں کے لئے
نہم۔ میاں کے لئے
دھم۔ اچھے شہری کے لئے
میرے نزدیک مختلف ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سلسلہ کتب میں ان مضامین پر بحث ہونی چاہئے۔
پہلا سلسلہ۔ ۱۔ ہستی باری تعالیٰ` ۲۔ معیار شناخت نبوت` ۳۔ دعا۔ قضاء` ۵۔ بعث بعد الموت` ۶۔ بہشت و دوزخ` ۷۔آ معجزات` ۸۔ فرشتے` ۹۔ صفات الٰہیہ` ۱۰۔ ضرورت نبوت و شریعت اور اس کا ارتقاء۔
دوسرا سلسلہ۔ ۱۔ عبادت اور اس کی ضرورت` ۲۔ نماز` ۳۔ ذکر` ۴۔ روزہ` ۵۔ حج` ۶۔ زکٰوۃ` ۷۔ معاملات` ۸۔ اسلامی حکومت` ۹۔ اچھے شہری کے فرائض` ۱۰۔ ورثہ` ۱۱۔ تعلیم` ۱۲۔ اخلاق اور ان کی ضرورت` ۱۳۔ تربیت افراد میں قوم کا فرض اور اس کی ذمہ داریاں` ۱۴۔ ملت شخص پر مقدم ہے` ۱۵۔ خاندان فرد پر مقدم ہے` ۱۶۔ حکومت قوم پر مقدم ہے` ۱۷۔ حکومت اور رعایا کے تعلقات` ۱۸۔ ظاہر و باطن دونوں کی ضرورت اور اہمیت` ۱۹۔ اخوت باہمی اور اس کی وجہ سے غریب امیر` عالم جاہل پر ذمہ داریاں` ۲۰۔ اسلام کا فلسفہ اقتصادیات` ۲۱۔ مظلوم کے حقوق اور ان کا ایفاء اور اس کا طریقہ` ۲۲۔ ماں باپ کے حقوق اور ان کی ادائیگی۔ شادی کے بعد ماں باپ اور خاوند بیوی کے حقوق کا تصادم اور اس کا علاج` ۲۳۔ میاں بیوی کے باہمی حقوق میاں بیوی کے ایک دوسرے کے والدین کے متعلق فرائض۔ میاں بیوی کے حقوق غربیت اولاد کے متعلق میاں بیوی کے حقوق خاندان کے افراد کے ورثہ کے لحاظ سے۔ آقا اور نوکر کے تعلقات` ۲۵۔ تجارتی لین دین اور قرضہ کی ذمہ داریاں اور جائدادوں کے تلف ہونے صورتوں میں اور دیوالیہ ہونے کی صورت میں ہر فریق کی ذمہ داری` ۲۶۔ جہاد` ۲۷۔ حفظان صحت جسمانی` ۲۸۔ حفظان صحت بحیثیت ماحول` ۲۹۔ محنت کی عادت اور وقت کی پابندی` ۳۰۔ تبلیغ اور اس کی اہمیت` ۳۱۔ چندہ اور اس کی اہمیت` ۳۲۔ احمدیت میں ہندوستان اور پاکستان کی خاص اہمیت` ۳۳۔ زندگی وقف کرنے کی اہمیت۔
تیسرا سلسلہ:۔ تاریخ مذہب قبل تاریخ` ۲۔ تاریخ ہندو زمانہ تاریخ تاریخ بدھ مت` ۴۔ تاریخ زرتشت` ۵۔ تاریخ مصلحین غیر معروف ارسطو کنفیوشس وغیرہ` ۶۔ تاریخ دنیا قبل از تاریخ` ۷۔ تاریخ عرب قبل از تاریخ` ۸۔ تاریخ ہند قبل از تاریخ` ۹۔ تاریخ علاقہ جات پاکستان قبل از تاریخ` ۱۰۔ تاریخ شمالی افریقہ قبل مسیح` ۱۱۔ تاریخ یونان قبل تیسری صدی مسیحی` ۱۲۔ تاریخ ایران قبل بادشاہان میدو فارس` ۱۳۔ تاریخ ایران بعد بادشاہان و فارس تا زمانہ عمرؓ` ۱۴۔ سیرۃ نبوی~صل۱`~ )اس کی ضرورت میری سیرت سے پوری ہوچکی ہے۔`( ۱۵۔ تواریخ خلفاء` ۱۶۔ سیرۃ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام` ۱۷۔ تاریخ احمدیت بزمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام` ۱۸۔ سیرت حضرت خلیفہ اولؓ` ۱۹۔ تاریخ احمدیت )خلافت اولیٰ( ۲۰۔ تاریخ احمدیت خلافت ثانیہ` ۲۱۔ تاریخ احمدیت افغانستان` ۲۲۔ تاریخ صحابہؓ مسیح موعودؑ` ۲۳۔ تاریخ اکابر صحابہ رسول کریم~صل۱`~ ۲۴۔ تاریخ اکابر اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام` ۲۵۔ تاریخ صحابیات رسول کریم~صل۱`~ ۲۶۔ تاریخ صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوہ والسلام۔
۲۷۔ تاریخ ہند بزمانہ اسلام تین حصوں میں۔ الف۔ افغانوں سے پہلے زمانہ کی` ب۔ افغانوں کے زمانہ کی` ج۔ مغلیہ زمانہ کی۔ ۲۸۔ مبلغین اسلام ہندوستان` ۲۹۔ سوانح صوفیائے کرام` ۳۰۔ تاریخ اسلام اور یورپ` ۳۱۔ تاریخ عرب بعد از چہارم صدی ہجری` ۳۲۔ تاریخ اشاعت اسلام مغربی افریقہ` ۳۳۔ تاریخ ایبے سینیا` ۳۴۔ تاریخ افریقہ وسطی و جنوبی گزشتہ ہزار سال کی` ۳۵۔ تاریخ روما۔ الف۔ قبل از مسیح` ب۔ بعد از مسیح` ج۔ بعد از زمانہ نبویﷺ`~ ۳۶۔ تاریخ قسطنطنیہ۔ الف۔ زمانہ نبوی تک` ب۔ زمانہ نبوی کے بعد اسلام کے قبضہ تک۔ ۳۷۔ تاریخ ہسپانیہ قبل از تسلط اسلام و بعد تسلط` ۳۸۔ تاریخ صقلیہ۔ قبل از تسلط اسلام و بعد تسلط اسلام۔ ۳۹۔ تاریخ روما جنوبی بزمانہ و اسلام` ۴۰۔ تاریخ چین بزمانہ اسلام` ۴۱۔ تاریخ فلپائن و ملحقہ جزائر بزمانہ اسلام` ۴۲۔ تاریخ انڈونیشیا قبل از اسلام و بعد از اسلام` ۴۳۔ تاریخ سیلون قبل از اسلام و بعد از اسلام` ۴۴۔ تاریخ بخارا و ملحقات قبول از اسلام و بعد از اسلام ۴۵۔ تاریخ روس از ابتداء تا پندرھویں صدی اور پندرھویں صدی سے لے کر آج تک جس میں خصوصاً اسلام سے اس کے تعلقات پر روشنی ہو۔ ۴۶۔ تاریخ مارکسزم` ۴۷۔ تاریخ بالشوزم` ۴۸۔ تاریخ شمالی امریکہ و جغرافیہ` ۴۹۔ تاریخ جنوبی افریقہ و جغرافیہ` ۵۰۔ تاریخ جزائر آسٹریلیا و نیوزی لینڈ وغیرہ` ۵۱۔ احوال الانبیاء۔
چوتھا سلسلہ:۔ ۱۔ رسالہ کیمسٹری ناواقفوں کے لئے` ۲۔ رسالہ فزکس` ۳۔ موٹے موٹے مضامین کے الگ الگ رسالے` ۴۔ تاریخ سائنس` ۵۔ مسلمانوں کا سائنس میں حصہ` ۶۔ قرآن اور علوم` ۷۔ اسلام اور علوم` ۸۔ علم الجحر` ۹۔ مسلمانوں کا علم الجری میں حصہ` ۱۰۔ فلکیات` ۱۱۔ مسلمانوں کا فلکیات میں حصہ` ۱۲۔ جغرافیہ عالم` ۱۳۔ جغرافیہ میں مسلمانوں کا حصہ` ۱۴۔ جغرافیہ طبیعات` ۱۵۔ جغرافیہ طبیعات میں مسلمانوں کا حصہ` ۱۶۔ درندے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات` ۱۷۔ چرندے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات ۱۸۔ پرندے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات ۱۹۔ مکوڑے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات` ۲۰۔ رینگنے والے جانور اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات ۲۱۔ پانی کے اندر کے سانس لینے والے جانور اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات` ۲۲۔ پانی میں رہنے والے لیکن باہر نکل کر سانس لینے والے جانور اور ان کی خصوصیات` ۲۳۔ ساکن جانور بری اور بحری اور ان کی خصوصیات ۲۴۔ خوردبینی کیڑے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات` ۲۵۔ انسانی پیدائش موجودہ دور میں مادہ حیات۔ اس کے تغیرات اور اس کی صحت اور بیماری کی حالت اس کے انتقال کا طریقہ اور انتقال کے بعد پیدائش تک کے ادوار` ۲۶۔ انسانی جسم کی تشریح` ۲۷۔ صحت کی حالت میں اعضائے انسانی کے فرائض اور وظائف` ۲۸۔ مختلف بیماریاں اور ان کے اسباب` ۲۹۔ علم النباتات` ۳۰۔ علم الجمادات` ۳۱۔ منطق` ۳۲۔ فلسفہ منطق` ۳۳۔ فلسفہ` ۳۴۔ فلسفہ` فلسفہ` ۳۵۔ فلسفہ تاریخ` ۳۶۔ طبقات الارض` ۳۷۔ ارتقاء نسل انسانی` ۳۸۔ علم اللسان` ۳۹۔ علم النفس` ۴۰۔ ارتقائے عالم` ۴۱۔ کائنات کے مختلف انواع میں امتیازی نشان` ۴۲۔ انسان اور دیگر اشیاء میں فرق` ۴۳۔ علم البرق` ۴۴۔ کیفیت مادہ۔۱۶
قومی اور ملی خدمات
ایک آزاد شہری کی حیثیت سے احمدی دوستوں پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں حضور نے ان کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا۔ دوستوں کو پاکستان کی حفاظت اور دفاع میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔ اس سلسلے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ حفاظت نعرے لگانے اور جوش دکھانے سے نہیں ہوا کرتی۔ حفاظت اور استحکام کی ایک ہی صورت ہے۔ اور وہ یہ کہ قوم مرنے مارنے کے لئے تیار ہوجائے۔ لیکن مرنے مارنے کے لئے بھی ڈھنگ اور فن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ لوگ فنون جنگ سے کماحقہ واقفیت حاصل کریں۔ اور ہرممکن طریق اور موقعہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ اس سلسلہ میں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نئے مرکز کا قیام اور اس سے وابستگی کی تلقین اس لئے ہے کہ ہم اپنے کام کو وسیع کریں۔ ان قیمتی ہدایت و نصائح کے بعد حضرت امیرالمومنین نے فرمایا:۔
>اب میں اپنے اصل مضمون کی طرف آتا ہوں مگر اس سے پہلے میں آپ لوگوں کو ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔ آج سے تقریباً ۲۳۔ ۲۴ سو سال پہلے کی بات ہے۔ یونان میں ایک شخص ہوا کرتا تھا۔ وہ یہ تعلیم دیا کرتا تھا کہ خدا ایک ہے اور وہ دیویاں اور بت جن کے لوگ منعقد ہیں باطل ہیں۔ ہاں خدا تعالیٰ کے فرشتے موجود ہیں۔ اور کائنات کے مختلف کام ان کے سپرد ہیں۔ وہ یہ بھی کہا کرتا تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی مرضی اپنے نیک بندوں پر ظاہر کرتا ہے۔ اور اس کے فرشتے اس کے نیک بندوں پر جلوہ گر ہوتے ہیں اور ان سے کلام کرتے ہیں اس کی یہ بھی تعلیم تھی کہ جس حکومت کے ماتحت تم رہو اس کے فرمانبردار رہو۔ اگر تم نے دنیا میں امن قائم رکھنا ہے تو تمہیں حکومت سے اپنے مطالبات ہمیشہ امن کے ساتھ منوانے چاہئیں۔ اگر کسی وقت تمہیں اس حکومت پر اعتماد نہ رہے بلکہ تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ تمہارے مذہبی احکام کے بجا لانے میں روک بنتی ہے اور تم پر مظالم ڈھاتی ہے اور جبراً تمہارا مذہب تم سے چھڑانا چاہتی ہے۔ تو تمہیں اس ملک کو چھوڑ دینا چاہئے۔ اور ایسی حکومت کے ماتحت جاکر بس جانا چاہئے جو خدائی احکام کے بجا لانے میں کوئی روک پیدا نہ کرتی ہو۔
یہ ساری تعلیمیں قرآن کریم میں بھی موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ شخص کامل طور پر نبی نہیں تھا تو ایک مامور من اللہ یا مجدد کی حیثیت ضرور رکھتا تھا۔ اس کا نام سقراط تھا جب حکومت کو معلوم ہوا کہ وہ حکومت کے خلاف تعلیم دیتا ہے۔ تو اس پر مقدمہ چلایا گیا اور مقدمہ چلانے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے زہر پلا کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ پرانے زمانہ میں یہ بھی سزا کا ایک طریق تھا کہ جس شخص کو موت کی سزا دی جاتی تھی اسے زہر پلا کر مار دیا جاتا تھا۔ سقراط کی سزا کے لئے کوئی معین تاریخ مقرر نہ ہوئی۔ ہاں یہ بتایا گیا جس دن فلاں جہاز جو فلاں جگہ سے چلا ہے اس ملک میں پہنچے گا تو اس کے دوسرے دن اس کو مار دیا جائے گا۔ سقراط کے ماننے والوں میں بہت سے ذی اثر لوگ بھی تھے۔ وہ اس کے پاس جاتے اور اس پر زور دیتے کہ وہ ملک کو چھوڑ دے اور کسی اور ملک میں جابسے۔ افلاطون بھی سقراط کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد تھا۔ وہ اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ ایک دن سقراط کا >فریتو< نامی شاگرد ان کے پاس گیا۔ وہ اس وقت میٹھی نیند سو رہے تھے اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور ان کے جسم سے اطمینان اور سکون ظاہر تھا۔ فریتو پاس بیٹھ گیا اور پیار سے آپ کا چہرہ دیکھتا رہا آپ کی اس حالت کو دیکھ کر کہ آپ اطمینان سے سو رہے ہیں اس پر گہرا اثر پڑا۔ اس نے آپ کو جگایا نہیں بلکہ آرام سے پاس بیٹھ کر آپ کا چہرہ دیکھتا رہا۔ جب آپ کی آنکھ کھلی تو آپ نے دیکھا کہ آپ کا فریتو نامی شاگرد پاس بیٹھا ہوا ہے اور پیار سے آپ کی طرف دیکھ رہا ہے آپ نے اس سے پوچھا تم کب آئے ہو؟ اور کس طرح یہاں پہنچے ہو فریتو نے کہا میں آپ کو دیکھنے کے لئے آیا ہوں۔ آپ نے کہا تم اتنی جلدی صبح صبح کس طرح آگئے؟ فریتو نے کہا جیل کے افسر میرے دوست ہیں۔ اس لئے اندر آنے کی مجھے اجازت مل گئی ہے۔ میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ تم بہت دیر سے یہاں بیٹھے ہو۔ تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں۔ فریتو نے کہا میں جب کمرے میں داخل ہوا تو آپ سوئے ہوئے تھے اور آپ کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اس لئے میں نے آپ کو جگایا نہیں بلکہ آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ اس بات کا مجھ پر گہرا اثر ہوا کہ وہ شخص جس کی موت کا حکم سنایا گیا ہے کس اطمینان اور سکون سے سویا ہوا ہے۔
سقراط نے کہا میاں کیا خدا تعالیٰ کی مرضی کو کوئی انسان دور کرسکتا ہے` فریتو نے کہا نہیں۔ سقراط نے کہا کیا تم اس کی مرضی پر خوش نہیں؟ فریتو نے کہا ہاں ہم اس کی مرضی پر خوش ہیں۔ سقراط نے کہا جب خدا تعالیٰ نے میرے لئے موت کو مقدر کیا ہے تو اس کو کون ہٹا سکتا ہے؟ اور جب خدا تعالیٰ نے ہی میرے لئے موت مقدر کی ہے اور میں اس کی رضا پر راضی ہوں تو پھر اس پر بے چینی کی کیا وجہ؟ مجھے تو خوش ہونا چاہئے کہ میرے خدا کی یہ مرضی ہے کہ وہ مجھے موت دے۔ فریتو تم بتائو کہ اس وقت تم مجھے کیا کہنے آئے تھے۔ فریتو نے جواب دیا میرے آقا میں آپ کو ایک بڑی خبر دینے آیا تھا کہ وہ جہاز جس کی آمد کے دوسرے دن آپ کو زہر پلائے جانے کا فیصلہ ہے وہ گو ابھی تک پہنچا تو نہیں لیکن خیال ہے کہ آج شاعر کو پہنچ جائے گا اس لئے کل آپ کو مار دیا جائے گا۔ اس پر سقراط ہنس پڑے اور کہا کہ میرا تو خیال نہیں کہ وہ جہاز آج پہنچے نہ کل یہاں پہنچے گا۔ فریتو نے کہا وہ جہاز فلاں جگہ پر لگا ہوا ہے اور ایک آدمی خشکی کے ذریعہ یہاں ایا ہے اور اس نے بتایا ہے کہ وہ جہاز آج شام تک یہاں پہنچ جائے گا۔ کل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سقراط نے کہا فریتو بے شک اس شخص نے یہ بتایا ہے کہ وہ جہاز کل یہاں پہنچے گا تو ویسا ہی ہوگا۔ فریتو نے کہا۔ میرے آقا آپ کو کیسے علم ہوا کہ وہ جہاز کل یہاں پہنچے گا۔ سقراط نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک خوبصورت عورت میرے پاس آئی ہے اور اس نے میرا نام لیا اور کہا تیار ہو جائو پرسوں جنت کے دروازے تمہارے لئے کھول دیئے جائیں گے۔ فریتو کیا تم نے یہ نہیں سنا کہ جہاز آج شام کو یہاں پہنچ جائے گا۔ اور اگر جہاز آج یہاں پہنچ جائے تو کیا کل مجھے سزا دی جائے گی۔ لیکن فرشتے نے مجھے کہا ہے کہ پرسوں تمہارے لئے جنت کے دروازے کھولے جائیں گے اس لئے جہاز آج نہیں آئے گا کل آئے گا۔ اور پرسوں مجھے مار دیا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
ایک طوفان آیا اور جہاز کو وہیں ٹھہرنا پڑا۔ اور دوسرے دن وہ اس شہر میں پہنچ سکا اور تیسرے دن وہ مارے گئے۔
آپ کی بات سننے کے بعد اسی شاگرد نے کہا آپ کیوں ضد کررہے ہیں۔ کیا آپ کو ہم پر رحم نہیں آتا اگر آپ زندہ رہیں گے تو ہمیں آپ سے بہت فوائد حاصل ہوں گے۔ اگر آپ یہاں سے بھاگ جائیں اور کسی اور حکومت کے زیر سایہ رہنا شروع کردیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ سقراط نے میں اس ملک سے کس طرح بھاگ سکتا ہوں کیا میں عورتوں کا لباس پہن کر یہاں سے بھاگ جائوں۔ اگر میں عورتوں کا لباس پہن کر یہاں سے بھاگ جائوں تو لوگ کہیں گے سقراط عورتوں کا لباس پہن کر بھاگ گیا یا پھر میں جانوروں کی کھال میں لپٹ کر یہاں سے بھاگ جائوں۔ کیا اس سے وہی عزت ہوگی؟ فریتو نے کہا میرے آقا یہ ٹھیک ہے لیکن ہم ان چیزوں کے بغیر آپ کو نکالیں گے۔ میں ایک مالدار آدمی ہوں اور فوجی افسر میرے تابع ہیں۔ میں نے ان سے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ میری اس بارہ میں مدد کریں گے۔ اور آپ کو عزت کے ساتھ کسی اور ملک میں چھوڑ آئیں گے۔ جن میں سے اس نے کریٹ کا نام بھی لیا۔ سقراط نے کہا پھر تم جانتے ہو کیا ہوگا ایک بھاری رقم بطور تاوان ڈالی جائے گی اور جب ایسا ہوگا تو فریتو تم ہی بتائو کیا اچھی بات ہوگی کہ میں اپنی جان بچانے کے لئے اپنے ایک شاگرد کو تباہ کردوں۔ فریتو نے کہا میرے آقا آپ اس کا خیال نہ کریں۔ آپ کے شاگرد بہت سے ہیں اور یہ رقم ہم آپس میں بحصہ رسدی رقسیم کریں گے سقراط نے کہا ہاں یہ ٹھیک ہے لیکن جب حکومت کو پتہ چلا تو وہ سب کو قید کرے گی۔ فریتو نے کہا ہاں آقا مگر وہ کچھ مدت کے بعد ہمیں چھوڑ دے گی۔ سقراط نے کہا مگر کیا یہ اچھی بات ہوگی کہ میں اپنی جان بچانے کے لئے اپنے شاگردوں کو قید خانہ میں ڈلوائوں۔ فریتو نے کہا مگر آقا آپ سوچئے آپ روحانیت کی تعلیم دیں گے اور لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف لائیں گے۔ یہ کتنا بڑا کام ہے اس کے لئے اگر ہم قید میں بھی گئے تو کیا ہوا۔ سقراط نے کہا یہ بات ٹھیک ہے اور شاید یہ بات سوچنے کے قابل ہو۔ مگر فریتو میں جو ۸۵ سال کا ہوگیا ہوں اگر کسی ملک میں جاتے ہوئے رستے میں مرجائوں تو مجھے کون عقلمند کہے گا کہ میں نے یونہی مفت میں تباہی ڈال دی۔ پھر انہوں نے کہا اے میرے شاگرد تم بتائو تو سہی میں تمہیں اس حکومت کے بارہ میں جن کے تم رہتے ہو کیا تعلیم دیا کرتا تھا؟ فریتو نے کہا آپ ہمیں یہی تعلیم دیا کرتے تھے کہ اس حکومت کا ہمیشہ فرمانبردار رہنا چاہئے۔ سقراط نے کہا اب تم ہی بتائو کہ میں اس چیز کی ساری عمر تعلیم دیتا رہا۔ اب اگر میں موت کے ڈر سے اس ملک سے بھاگ جائوں تو دنیا یہی کہے گی نہ کہ میں یہاں کی زندگی میں جھوٹے دعویٰ کیا کرتا تھا پھر تم ہی بتائو کہ کیا حکومت ظالم ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں اس ملک سے نکلنا پڑا۔ اس کے قانون کو توڑنا جائز ہے دنیا کی کوئی حکومت اپنے آپ کو ظالم نہیں کہتی۔ اگر میں یہاں سے پوشیدہ کسی اور ملک میں بھاگ جائوں تو میری بات دوسروں پر کیا اثر کرے گی۔ ہر ایک یہی کہے گا کہ یہ تو وہی بات ہے جس پر اس نے خود عمل نہیں کیا۔ میں اس حکومت مین پیدا ہوا اور دعوے کے بعد چالیس سال تک اس ملک میں رہا۔ کیا چالیس سال کے عرصہ میں میرے لئے اس ملک کو چھوڑ جانے کا موقعہ نہ تھا۔ حکومت یہ کہے گی کہ اگر ہم ظالم تھے تو یہ چالیس سال کے دوران میں کیوں باہر نہیں چلاگیا۔ بلکہ یہ تو ہمارے انصاف کا اتنا قائل تھا کہ یہ شہر سے باہر بھی نہیں نکلتا تھا۔ میں ان باتوں کا کیا جواب دوں گا۔ غرض اس نے ایک لمبی بحث کے بعد کہا۔ خلاصہ یہ ہے کہ میں یہیں رہوں گا۔ اور حکومت کے مقابلہ کے لئے تیار نہیں ہوں گا۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے سقراط کا یہ دعویٰ تھا کہ اسے الہام ہوتا ہے اور اس نے اپنے الہام کی ایک معین صورت کو پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ جہاز آج نہیں پہنچے گا کل پہنچے گا۔ میرے خدا نے مجھے کہا ہے کہ تمہارے لئے جنت کے دروازے پرسوں کھول دیئے جائیں گے یہ اس جنت کا ثبوت ہے کہ وہ شخص خدا تعالیٰ سے تائب حاصل کرنے والا تھا۔ اس نے اپنی جگہ سے نکلنے کا نام نہیں لیا۔ ہماری جماعت میں سے بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں قادیان سے باہر کیوں نکلا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں قادیان سے نکلنا نہیں چاہئے تھا اور میں نے خود بھی کہا تھا کہ میں قادیان سے نہیں نکلوں گا بلکہ میں نے بتایا ہے کہ سقراط جو ایک مامور من اللہ تھا اس کی زندگی میں بھی ایک واقعہ پیش آیا۔ اور اس نے اپنے شہر سے نکلنے سے انکار کردیا۔۱۷
جیسا واقعہ سقراط کو یونان میں پیش آیا ایسا ہی واقعہ مجھے قادیان پیش آیا۔
ایک اور واقعہ بھی ہے جو ہمیں ایک اور نبی اللہ کے متعلق ملتا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے متفق یہ فیصلہ تھا کہ وہ یہود کی بادشاہت کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں گے۔ مگر آپ پر ایک وقت ایسا آیا جب سارا ملک آپ کا دشمن ہوگیا اور اس کی دشمنی ایک خطرناک صورت اختیار کرگئی۔ یہودیوں نے حکومت کے نمائندوں کے پاس آپ کے متعلق شکایتیں کیں اور آپ کو پکڑوا دیا گیا اور آخر حکام کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا گیا کہ آپ باغی ہیں جس طرح یونان کے مجسٹریٹوں نے یہ فیصلہ کیا کہ سقراط باغی ہے اسی طرح فلسطین کے مجسٹریٹوں نے فیصلہ کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام باغی ہیں۔ دونوں کے متعلق ایک ہی قسم کا الزام تھا۔ سقراط کے پاس جب ان کے شاگرد گئے اور آپ کو انہوں نے کہا کہ آپ ملک سے نکل جائیں۔ تو سقراط نے کہا نہیں نہیں۔ میں اس ملک سے باہر نہیں نکل سکتا۔ خدا تعالیٰ کی تقدیر یہی ہے کہ میں یہاں رہوں` زہر کے ذریعہ مارا جائوں اگر میں اس ملک سے باہر نکلتا ہوں تو خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف کرتا ہوں۔ ادھر حضرت مسیح علیہ السلام کو جب یہ کہا گیا کہ آپ کو پھانسی پر لٹکا کر مارا جائے گا تو آپ نے فرمایا کہ میں اس کے لئے تیار نہیں ہوں۔ میں کوئی تدبیر کروں گا تا کسی طرح سزا سے بچ جائوں۔ اور مسیح علیہ السلام نے تدبیر کی اور جیسا کہ آپ کو پہلے بتا دیا گیا تھا آپ کو دو تین دن تک قبر میں رکھا گیا اور پھر وہاں سے سلامت نکال لیا گیا آپ اپنے حواریوں سے ملے اور انجیل کے بیان کے مطابق آپ آسمان پر اڑ گئے۔ لیکن دنیوی تاریخ کے مطابق آپ نصیبین` ایران اور افغانستان کے راستے ہوئے ہوئے ہندوستان چلے آئے پہلے آپ مدارس گئے پھر آپ گورداسپور آئے پھر کانگڑہ کی طرف چلے گئے۔ مگر وہاں موسم اچھا نہ پاکر آپ تبت کے پہاڑوں کے راستہ سے کشمیر چلے گئے۔ گویا ایک طرف یہ مثال پائی جاتی ہے کہ مامور من اللہ کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے مار یا جائے۔ اس کے ساتھی اسے نکالنے کے لئے بڑی بڑی رقمیں خرچ کرتے ہیں اور پولیس بھی ان کے اس کام کیا` ہمدردی کرتی ہے مگر وہ انکار کردیتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے اصرار کے باوجود یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ یہاں سے کسی اور ملک میں جانے کے لئے تیار نہیں۔ مگر حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آتا ہے وہ بھی مامور من اللہ اور خدا تعالیٰ کے ایک نبی تھے اور جیسا کہ واقعات بتاتے ہیں کہ سقراط بھی ایک مامور من اللہ تھا۔ دونوں ایک ہی منبع سے علم حاصل کرنے والے تھے۔ ایک ہی قسم کا کام ان کے سپرد تھا۔ لیکن ایک کو جب کہا جاتا ہے کہ آپ یہاں سے نکل جائیں تو وہ یہ جواب دیتا ہے کہ میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا۔ اور خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف کرتا ہوں۔ لیکن دوسرا شخص یعنی مسیح علیہ السلام کو جب سزا کا حکم سنایا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ میں کوشش کروں گا کہ یہاں سے نکل جائوں اور کسی اور جگہ چلا جائوں۔ یہ واقعات اس طرح کیوں ہوئے۔ کیا سقراط جھوٹا تھا یا کیا حضرت مسیحؑ نے ایک خطرناک غلطی کی اور اپنے آپ کو تقدیر الٰہی سے بچانے کی کوشش کی۔
حقیقت یہ ہے کہ سقراط اسی شہر کی طرف مبعوث تھا جس کے رہنے والوں نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سقراط ان جگہوں کے لئے مبعوث نہیں تھا جن کی طرف بھاگے جانے کے لئے اسے اس کے شاگرد مجبور کرتے تھے۔ سقراط دوسری قوموں کی طرف مبعوث نہیں تھا۔ لیکن مسیح علیہ السلام کو یہ کہا گیا تھا کہ تم بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں تک بھی میرا یہ پیغام پہنچائو اور یہ بھیڑیں ایران` افغانستان اور کشمیر میں بھی بستی تھیں۔ سقراط اگر اپنے شہر کو چھوڑتا تھا تو وہ ایک مکتب اور مدرسہ کو چھوڑتا تھا جس کے لئے اسے مقرر کیا گیا تھا۔ مثلاً ایک لوکل سکول میں کسی کو ہیڈماسٹر مقرر کیا جاتا ہے تو وہ اس سکول کو بلا اجازت نہیں چھوڑ سکتا اگر وہ اس سکول کو بلا اجازت چھوڑے گا تو وہ مجرم ہوگا۔ لیکن ایک انسپکٹر کو اپنے حلقہ میں کسی جگہ پر جانا پڑتا ہے تو وہ بلا اجازت چلا جاتا ہے۔ اور ایک لوکل سکول کا ہیڈ ماسٹر کسی دوسری جگہ نہیں جاتا جب تک وہ اپنے بالا افسر سے چھٹی حاصل نہیں کرلیتا لیکن ایک انسپکٹر بغیر اجازت افسر بالا کے اپنے حلقہ کا دورہ کرتا ہے۔ ایک ہیڈ ماسٹر کو یہ کہا جاتا ہے کہ تم اگر اپنی جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ گئے تو مجرم ہوگے۔ لیکن انسپکٹر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو اسے کوئی شخص مجرم نہیں گردانتا۔ اس لئے کہ اس کا دائرہ عمل اس حد تک وسیع ہے لیکن ایک ہیڈماسٹر کا دائرہ عمل ایک سکول تک محدود ہے اور وہ اگر اس سے نکلتا ہے تو قانون کو توڑتا ہے۔ پس سقراط ایک شہر کی طرف مبعوث کیا گیا تھا۔ اس کا دائرہ عمل محدود تھا۔ اگر وہ اس شہر کو چھوڑتا تھا تو گنہ گار تھا کیونکہ اس کے مخاطب اسی شہر کے باشندے تھے لیکن حضرت مسیح علیہ السلام نے فلسطین کو چھوڑا تو اس لئے کہ ان کے دائرہ خطاب میں کشمیر بھی شامل تھا۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب فلسطین کو چھوڑا تو آپ اپنے دائرہ عمل سے بھاگے نہیں۔ بلکہ آپ اپنی دوسری ڈیوٹی پر چلے گئے۔
اگر آپ فلسطین میں ہی رہتے تو آپ فلسطین میں اپنا کام کرسکتے تھے اور نہ ہی بنی اسرائیل کی دوسری کھوئی ہوئی بھیڑوں تک خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا سکتے تھے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے اگر فلسطین چھوڑا تو اس کے بعد آپ کا دائرہ عمل اور وسیع ہوگیا اور یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے قادیان چھوڑنے کے لئے اپنی رائے کو بدلنے پر مجبور کیا میرے سپرد جو کام ہے وہ صرف قادیان سے ہی نہیں تعلق رکھتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اسلام کی اشاعت کے لئے اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کے نام کو بلند کرنے کی خاطر ساری دنیا کی طرف مبعوث کئے گئے تھے۔ آپ کا دائرہ عمل خطاب صرف قادیان تک محدود نہ تھا۔ بے شک میں نے پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں قادیان میں ہی رہوں۔ لیکن بعد میں حضرت مسیح علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہامات پر غور کرکے مجھے یقین ہوگیا کہ جماعت کے لئے ایک ہجرت مقدر ہے۔ تو میں نے سوچا کہ میرا کام قادیان یا صرف ایک ملک سے وابستہ نہیں بلکہ دوسرے ممالک سے بھی میرا تعلق ہے اگر میں قادیان میں رہتا ہوں تو اس کے یہ معنے ہیں کہ میں ان سب کاموں کو ترک کردیتا ہوں جو میرے سپرد ہیں اور ایک جگہ اپنے آپ کو مقید کرلیتا ہوں جب کہ بعد میں قادیان والوں کی حالت ہوگئی تھی۔ لیکن اگر میں قادیان سے باہر چلا جاتا ہوں تو میں صرف ایک چھوٹے سے دائرہ سے الگ ہوتا ہوں۔ اور ایک وسیع دنیا کو ملانے پر قادر ہوجاتا ہوں۔ سقراط نے اپنے شہر کو اس لئے نہیں چھوڑا کہ ان کے مخاطب صرف اس شہر والے تھے اور حضرت مسیح علیہ السلام نے فلسطین کو چھوڑا تو اس لئے کہ فلسطین میں ان کے مخاطبوں میں سے صرف دو قبیلے تھے اور دس قبیلے فلسطین سے باہر تھے۔
حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی لوگوں کی خاطر فلسطین کو چھوڑا وہ فلسطین میں بسنے والوں سے سینکڑوں گنا زیادہ تھے۔ لیکن میں نے جن لوگوں کی خاطر قادیان کو چھوڑا قادیان اور اس کی آبادی کا ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ پس یہ صحیح ہے کہ پہلے یہی فیصلہ کیا گیا تھا کہ میں قادیان نہیں چھوڑوں گا۔ لیکن جب میں نے دیکھا کہ ہمارے لئے ہجرت مقدر ہے تو میں نے قادیان کو چھوڑ کر یہاں چلے آنے کا فیصلہ کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو یہ الہام موجود تھا کہ
>داغ ہجرت<
اور ادھر میری خوابوں میں یہ بات تھی کہ ہمیں قادیان سے باہر جانا پڑے گا میں نے دیکھا کہ یہ الہام تو موجود ہے مگر ابھی تک ہجرت نہیں ہوئی۔ اس لئے یا تو یہ مثیل مسیح پر پیشگوئی صادق آئے گی اور یا اسے جھوٹا ماننا پڑے گا یہی وہ چیزیں تھیں جن کی وجہ سے ہمیں قادیان کو چھوڑنا پڑا۔ پھر یہ فیصلہ میں نے خود ہی کیا بلکہ جماعت کے دوستوں کی طرف سے مجھے یہ مشورہ دیا گیا کہ میں قادیان سے باہر آجائوں۔ ویسے میری ذاتی دلچسپیاں تو قادیان سے ہی وابستہ تھیں لیکن میرے سامنے دو چیزیں تھیں اول یہ کہ میں ان سب کاموں کو ترک کروں جو میرے سپرد کئے گئے ہیں۔ اور قادیان میں ایک قیدی کی حیثیت سے بیٹھا رہوں۔ اور اس بات کا حق میں کہ میں قادیان میں ہی بیٹھا رہوں ایک رائے بھی نہیں تھی۔ ۷۔ ستمبر کو یہ فیصلہ ہوا کہ چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کا کام قادیان سے باہر آنے پر ہی ہوسکتا ہے۔ اس لئے ہم جذباتی چیز کو حقیقت پر قربان کریں گے پس میں نے ضروری سمجھا کہ آج میں دوستوں کو بتائوں کہ ہم نے واقعات کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے اور ہمارا قادیان سے باہر ہونا ان حالات میں ہوا ہے۔ اگر سقراط کے طریق پر عمل کرتے اور قادیان میں ہی رہتے تو یہ بات غلط ہوتی۔ کیونکہ ہمارے حالات سقراط کے حالات سے نہیں ملتے تھے۔ ہم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی مثال پر عمل کیا۔ کیونکہ آپ کے حالات ہمارے حالات سے ملتے تھے۔ خود رسول کریم~صل۱~ کا بھی جی نہیں چاہتا تھا آپ مکہ کو چھوڑیں لیکن جب آپﷺ~ نے دیکھا کہ اس کے بغیر اس پیغام کو جو آپ دنیا کی طرف لے کر مبعوث ہوئے تھے۔ نہیں پھیلایا جاسکتا۔ تو آپ مکہ چھوڑنے پرپ مجبور ہوئے۔
حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول کریم~صل۱~ غار ثور سے نکلے تو آپ نے آبدیدہ ہوکر اور مکہ کی طرف منہ کرکے فرمایا اے مکہ تو مجھے بڑا ہی پیارا تھا۔ اور میں تجھے چھوڑنا ہیں چاہتا تھا لیکن افسوس تیرے رہنے والوں نے مجھے یہاں رہنے کی اجازت نہیں دی۔ یہ فقرہ بتاتا ہے کہ رسول کریم~صل۱~ مکہ کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ آپ کو مکہ سے محبت تھی` لیکن اشاعت اسلام چونکہ مقدم تھی اور مکہ میں رہنے سے اس کی اشاعت کا کام باطل ہوجاتا تھا۔ اس لئے آپ نے مکہ چھوڑنا قبول کرلیا میں نے بھی اسی سنت کے ماتحت قادیان چھوڑا اور اب واقعات نے تصدیق کردی ہے کہ میں اس میں حق بجانب تھا۔ غرض دین کی اشاعت چونکہ سب سے اہم تھی اس لئے میں نے قادیان چھوڑنا قبول کرلیا اور پاکستان آگیا۔۱۸
یہاں تک بیان فرمانے کے بعد حضور نے اجلاس برخاست کرتے ہوئے فرمایا کہ اس تقریر کا دوسرا حصہ آپ اگلے دن جلسہ کے آخری اجلاس میں بیان فرمائیں گے۔ چنانچہ نماز مغرب سے کچھ دیر پہلے اجلاس برخاست کردیا گیا۔۱۹
جلسہ کا آخری دن تیسرے روز کا اجلاس اول
۱۷۔ شہادت/اپریل کو جلسہ کا آخری اور تیسرا دن تھا۔ اس روز اجلاس اول میں مکرم قاضی محمد اسلم صاحب۲۰4] ft`[r مکرم حکیم فضل الرحمن صاحب۲۱` کرم مولوی ابوالعطاء صاحب نے فاضلانہ تقریریں کیں جن کے بعد ماریشین کے احمد علیہ اللہ صاحب نے بھی مختصر تقریر کی۔۲۲
اجلاس دوم میں حضرت مصلح موعود کی ایمان افروز اختتامی تقریر
ازاں بعد ظہر و عصر کی نمازیں جمع کرانے کے بعد حضرت مصلح موعود ۲/۴۱ بجے سٹیج پر تشریف لائے اور اس تاریخی جلسہ کے افتتاحی اجلاس میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر فرمائی۔ تقریر کے آغاز میں حضور نے فرمایا بہت سی ایسی جماعتوں کی طرف سے پیغامات آئے ہیں۔ جو جلسہ میں شامل نہیں ہوسکیں۔ انہوں نے احباب کو محبت بھر اسلام کہا ہے۔ اور دعائوں کی درخواست کی ہے۔ سب پیغامات تو سنائے نہیں جاسکتے بعض اہم مقامات کے پیغامات سنا دیتا ہوں۔
سب سے پہلا پیغام تو قادیان کی جماعت کا ہے جو وہاں کے امیر مولوی عبدالرحمن صاحب کی معرفت وصول ہوا ہے۔ اس میں وہاں کے دوستوں نے تمام احباب کو السلام علیکم کہا ہے اور دعا کی درخواست کی ہے۔ قادیان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ قادیان سے جدا ہونے کا صدمہ بہت بڑا صدمہ ہے لیکن میں نے دوستوں کو متواتر نصیحت کی ہے کہ وہ کسی قسم کے غم کو اس سلسلے میں اپنے آپ پر غالب نہ آنے دیں۔ لیکن ایک حصہ کا انسان کے ساتھ ایسا لگا ہوا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا قادیان سے ایک اہم واقعہ ہے کہ اگر اس سلسلے میں ہم سوچنا اور غور کرنا شروع کردیں تو ہمارے کاموں میں خنہ پیدا ہونا شروع ہوجائے گا۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ایک نہایت ہی ہے۔ نہ معلوم کوئی خدائی فرشتہ تھا جس نے مجھ سے انگلستان جاتے ہوئے یہ شعر لکھوایا کہ ~}~
یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب
پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے قادیان
میں خدا کے فرشتوں کے ذریعہ سے اپنی طرف سے اور ساری جماعت کی طرف سے قادیان والوں کو وعلیکم السلام کہتا ہوں۔ درحقیقت وہ لوگ خوش قسمت ہیں۔ آنے والی نسلیں ہمیشہ عزت کی نگاہ سے اور احترام و محبت کے ساتھ ان کے نام لیا کریں گی بعد ہزاروں لوگوں کو یہ حسرت ہوا کرے گی کہ کاش ہمارے آباء کو بھی یہ خدمت کرنے کی توفیق ملتی۔
اس کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل مقامات کے السلام و علیکم اور درخواست دعا پر مشتمل پیغامات پڑھ کر سنائے۔
۱۔
چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام مسجد لنڈن از طرف جماعت احمدیہ لنڈن۔
۲۔
چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر ایم اے انچارج احمدیہ مشن امریکہ۔
۳۔
رئیس التبلیغ احمدیہ مشن گولڈ کوسٹ )افریقہ(
۴۔
رئیس التبلیغ صاحب احمدیہ مشن مشرقی افریقہ
۵۔
جماعت احمدیہ کولمبو
۶۔
مولوی مبارک احمد صاحب امیر جماعت ہائے احمدیہ مشرقی پاکستان۔
۷۔
ماخوذین مقدمہ قتل سندھ۔
حضور نے انتظامات جلسہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا افسوس ہے کہ کھانے پینے کا انتظام بعض وجوہ کی بناء پر صحیح نہیں ہوسکا۔ ہمارا اندازہ دس ہزار مہمانوں کا تھا۔ لیکن حاضری اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۶ ہزار سے بھی زیادہ ہوئی ہے۔ ہم نے صرف پانی کے انتظام پر دس ہزار روپیہ خرچ کیا تھا مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اگر گورنمنٹ کے محکمہ حفظان صحت کی مہربانی سے ہمیں طمینک نہ مل جائے تو پانی کی بہت ہی تکلیف ہونی تھی۔ صفائی کے محکمہ نے بھی ہماری مدد کی ہے۔ اسی طرح ریلوے کے محکمہ کے ساتھ تعاون کا بہت اچھا ثبوت دیا ہے۔ درحقیقت ان تینوں محکموں کی امداد کے بغیر ہمارا یہ جلسہ کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لئے ہم ان محکموں کا اور چونکہ یہ محکمے گورنمنٹ پاکستان کے ہیں اس لئے ہم حکومت پاکستان کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ پبلک ڈیوٹی کی ادائیگی کی وجہ سے یہ محکمے یقیناً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب کے مستحق ہوں گے۔
جماعت احمدیہ نے قادیان سے کیوں ہجرت کی؟
اس موضوع پر تقریر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا مقدس مقامات کو چھوڑنا قدرتاً سبع کر گراں گزرتا ہے۔ بلکہ اسے گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں بعض فعہ اس کام کو جو عام حالات میں گناہ سمجھا جاتا ہے ثواب بنا دیتی ہیں۔ مثلاً خانہ کعبہ کتنی مقدس اور بابرکت جگہ ہے لیکن رسول کریم~صل۱~ اور آپ کے صحابہ نے وہاں سے ہجرت کی۔ اگر مقدس مقامات کو چھوڑنا ہر حالت میں گناہ ہوتا تو آپ کبھی بھی مکے کے مقام کو نہ چھوڑتے۔ درحقیقت آپ کی ہجرت بھی آپ کی صداقت کا ایک نشان تھا۔ کیونکہ سینکڑوں برس قبل اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کے ذریعہ رسول کریم~صل۱~ اور آپ کے صحابہ کے مکہ سے نکل جانے پر اسلام پر کوئی اعتراض نہیں آتا تو قادیان سے نکلنے پر کس طرح اعتراض کیا جاسکتا ہے خاص کر جیسا کہ ہمارا ایک حصہ ابھی تک قادیان میں بیٹھا ہوا ہے ہاں یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ گزشتہ انبیاء نے جس قدر ہجرتیں کیں ان کی خبر تو ضرور پہلے سے موجود ہوتی تھی۔ کیا قادیان سے ہجرت کی پیشگوئی کی خبر بھی پہلے سے موجود تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قادیان سے ہجرت کی پیشگوئی بھی پوری تفصیل کے ساتھ پہلے سے موجود ہے۔
اس کے بعد حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے چند الہامات اور اپنی متعدد رئویا پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی جس میں قادیان سے ہجرت اور حضور کے ذریعہ جماعت کی حفاظت اور نئے مرکز میں جماعت کو اکٹھا کرنے کی خبر دی گئی تھی۔ حضور نے بتایا کہ کس طرح نہایت حیرت انگیز رنگ میں یہ تمام امور پورے ہوچکے ہیں۔
آخر میں حضور نے فرمایا دیکھو جو کچھ خدا نے فرمایا تھا وہ پورا کردیا یہ خدا کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ
اس نے وعدے کے مطابق اس عظیم الشان ابتلاء میں مجھے جماعت کی حفاظت کرنے اور اسے پھر اکٹھا کرنے کی توفیق دی۔ تمہیں چاہئے کہ اپنے رب کا شکر ادا کرو اور سچے مسلمان بنو اور اپنے خدا کے فضل کی تلاش میں لگے رہو یاد رکھو تم وہ قوم ہو جو آج اسلامکی ترقی کے لئے بمنزلہ بیج کے ہو۔ تم وہ درخت ہو جس کے نیچے دنیا نے پناہ لینی ہے` تم وہ آواز ہو جس کے ذریعہ محمد رسول اللہ~صل۱~ اپنا پیغام دنیا کو سنائیں گے۔ تم وہ اولاد ہو جس پر محمد رسول اللہ~صل۱~ فخر کریں گے اور اپنے خدا کے حضور کہیں گے کہ اے میرے رب جب میری قوم نے قرآن پھینک دیا تھا اور تیرے نشانات کی قدر کرنے سے مونہہ موڑ لیا تھا تو یہی وہ چھوٹی سی جماعت تھی جس نے اسلام کے جھنڈے کو تھامے رکھا اسے مارا گیا` اسے بدنام کیا گیا` اسے گھروں سے بے گھر کیا گیا اور اسے مصیبت کی چکیوں میں پیسا گیا مگر اس نے تیرے نام کو اونچا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ میں آسمان کو اور زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ خدا نے جو کچھ کہا تھا وہ پورا ہوا۔ وہ سچے وعدوں والا خدا ہے جو آج بھی اپنی ہستی کے زندہ نشان ظاہر کررہا ہے۔ دنیا کی اندھی آنکھیں دیکھیں یا نہ دیکھیں یا نہ دیکھیں اور بہرے کان سنیں یا نہ سنیں لیکن یہ امر اٹل ہے کہ خدا کا دین پھیل کر رہے گا کمیونزم خواہ کتنی ہی طاقت پکڑ جائے مگر وہ میرے ہاتھ سے شکست کھا کررہے گا۔ اس لئے نہیں کہ میرے ہاتھ میں کوئی طاقت ہے بلکہ اس لئے کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کا خادم ہوں۔
خدا نے جو وعدے کئے وہ کچھ تو پورے ہوچکے اور باقی آئندہ پورے ہوں گے۔ آئندہ جو کچھ ظاہر ہوگا ہمیں اس کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ جن کندھوں پر آئندہ سلسلہ کے کاموں کا بوجھ پڑنے والا ہے۔ چاہئے کہ وہ ہمت کے ساتھ اس بوجھ کو اٹھائیں۔ یہاں تک کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی بادشاہت پھر دنیا میں قائم ہوجائے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ زندگی کی آخری گھڑی تک مجھے اپنے دین کی خدمت کرنے کی توفیق دے اور آپ لوگوں کو بھی اللہ تعالٰی نے خدمت دین کی توفیق دے اور آپ اس وقت تک صبر نہ کریں جب تک کہ اسلام دوبارہ ساری دنیا پر غالب نہ آجائے۔
اس کے بعد حضور نے دعا فرمائی اور پھر اس تاریخی جلسے کے اختتام کا اعلان فرمایا۔۲۳
ربوہ کے پہلے تاریخی جلسہ سالانہ کے کوائف پر ایک طائرانہ نظر
ربوہ کے اس پہلے تاریخی جلسہ سالانہ کے تمام انتظامات بھی حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بی اے` بی ٹی ناظر ضیافت کے سپرد تھے اور حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ایم اے اور میاں عبدالمنان صاحب عمر ایم اے آپ کے نائب اور مولوی محمد شفیع صاحب اشرف واقف زندگی انچارج دفتر کے فرائض بجا لاتے رہے۔
نظارت سپلائی کے انچارج جناب قاری محمد امین صاحب تھے اور جلسہ کے انتظامات کے متعلق تمام اشیاء کی فراہمی کا انتظام آپ کے سپرد تھا۔ نظامت کے سٹور کے انچارج عبدالوحید خان صاحب تھے۔
مہمانوں کے قیام و طعام کا بندوبست ناظم جلسہ کی حیثیت سے حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب بی اے` بی ٹی ہیڈماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ذمہ تھا آپ کے نائبین صوفی محمد ابراہیم` صوفی غلام محمد صاحب` ماسٹر ابراہیم صاحب بی اے` ماسٹر ابراہیم صاحب ناص تھے۔ چوہدری حبیب احمد صاحب سیال معاون ناظر ضیافت تھے۔ حضرت شاہ صاحب نے انتہائی بے سرو سامانی اور مشکلات کے ہجوم میں اپنے نائبین کے ساتھ عمدہ طور پر اپنی ذمہ داری ادا کی مہمانوں کی خدمت کے لئے تیس کے قریب محکمے اس نظامت کی براہ راست نگرانی میں کام کررہے تھے مثلاً شعبہ روشنی و شعبہ صفائی` شعبہ استقبال` شعبہ مہمان نوازی جس کے انچارج بالترتیب چوہدری عبدالباری صاحب` چوہدری عبدالسلام صاحب اختر ایم اے تھے` چوہدری صلاح الدین صاحب بی اے اور مولانا ¶ابوالعطاء و چوہدری عبدالرحمن صاحب بی اے بی ٹی تھے۔
کھانا وغیرہ لنگر خانہ کے منتظم صوفی غلام محمد صاحب نائب ناظم جلسہ کی نگرانی میں تیار ہوتا تھا۔ دن رات چالیس تنور گرم رہے اور ایک ایک وقت میں ساٹھ ساٹھ دیگیں سالن وغیرہ کی تیار ہوتی رہیں۔ معزز مہمانوں کی آمد لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی تھی اور کام کرنے والوں کی تعداد کا ہر اندازہ غلط ہوتا رہا۔ اس لئے کارکنوں کی محدود تعداد پر ہی کام کا بوجھ پڑ رہا تھا۔ اس کوشش میں کہ تمام مہمانوں کو کھانا پہنچ جائے اس محدود عملہ سے زیادہ سے زیادہ کام لینے کی کوشش کی جاتی تھی۔ جس کے نتیجہ میں پر اور باورچی بے ہوش ہوہو جاتے تھے اور دوسرے عملہ کو بھی بعض اوقات بیس بیس گھنٹے کام کرنا پڑا۔
حضرت امیرالمومنین کی تحریک کے مطابق بہت سے احباب اپنے ہمراہ گندم آٹا اور دالیں وغیرہ لے کر آئے تھے۔ بعض دوست تو کئی بوریاں گندم کی لائے۔ چنانچہ مہمانوں کی خوراک کے لئے گندم کا کافی ذخیرہ ہوگیا تھا اور باوجود مہمانوں کی کثرت کے گندم کی قطعاً قلت محسوس نہ ہوئی ایک پہاڑی کے دامن میں لنگر قائم کیا گیا تھا۔ جہاں تمام مہمانوں کے لئے کھانا تیار ہوتا تھا۔ اس جگہ ۴۵ تنور لگائے گئے تھے۔ چونکہ لنگر خانہ مہمانوں کی قیام گاہ سے ذرا فاصلے پر تھے۔ اس لئے پانچ ٹرک قیام گاہوں تک کھانا لانے کے لئے مخصوص کردیئے گئے تھے۔ جب کھانا قیام گاہوں تک پہنچتا۔ تو اسے جماعت وار تقسیم کردیا جاتا۔ ہر جماعت کے لئے الگ الگ کارکن مقرر تھے جو کھانا کھلانے کی خدمت سرانجام دیتے۔ کارکنان کی کمی ان کی ناتجربہ کاری نئی جگہ اور نئے حالات کی وجہ سے انتظامات میں رحمتوں کا پیدا ہونا تو لازمی تھا۔ لیکن امید سے بڑھ کر مہمان آنے کی وجہ سے مشکلات میں اور اضافہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے کھانا وقت پر نہ ملنے یا ناکافی ملنے کی شکایات بھی پیدا ہوجاتی تھیں۔ لیکن احباب کو چونکہ مشکلات کا علم تھا اس لئے وہ نہایت خندہ پیشانی سے یہ تکلیف برداشت کرتے رہے۔ مہمانوں کی رہائش کے لئے اسٹیشن کے دونوں طرف پچاس نئی اور عارضی اور کچی بیرکیں تعمیر کی گئی تھیں۔ شعبہ تعمیرات کے انچارج مکرم ملک محمد خورشید صاحب تھے۔ جنہوں نے اپنے نائبین چوہدری عبداللطیف صاحب اور راجہ محمد نواز صاحب کی امداد سے نہایت تنگ وقت میں یہ کام انجام دیا۔ مستورات کی بیرکوں کے گردا گر ایک اونچی دیوار کھینچ دی گئی تھی۔ جس سے پردہ کا پورا پورا اہتمام تھا خواتین کے لئے دس بیرکیں مخصوص کی گئی تھیں۔ لیکن مورخہ ۱۴۔ شہادت/ اپریل کی رات کو اتنی تعداد میں مستورات آگئیں کہ وہ جگہ ان کے لئے قطعاً ناکافی ثابت ہوئی۔ اس کی دیوار توڑ کر قریب کی دو بیرکیں بھی مستورات کو دے دی گئیں۔ ان بیرکوں کے علاوہ احباب ایک معقول تعدا اپنے ساتھ پھولداریاں اور خیمے لائی ہوئی تھی جن کے نصب کرنے کے لئے ایک مخصوص جگہ وقف کردی گئی تھی اور جن سے میدان ربوہ میدان عرفت کی یاد دلا رہا تھا جلسہ میں کسیر وغیرہ کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے نیچے بچھانے کے لئے کھجور کی بنی ہوئی چٹائیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔
وادی غیر ذی زرع ربوہ میں ۱۶۔ ۱۷ ہزار نفوس کے لئے پانی کا مہیا کرنا ایک بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ اس اجتماع میں صرف لنگر خانہ میں پانی کا روزانہ خرچ سات ہزار گیلی تھا بہرحال خدا تعالیٰ کے فضل سے ان تمام مشکلات پر قابو پالیا گیا اس سلسلہ میں ربوہ میں ۲۲ نلکے لگوائے گئے۔ اور ٹینکروں کے ذریعہ ربوہ سے باہر ساڑھے سات میل کے فاصلہ سے پانی کے منگوانے کا انتظام کیا گیا۔ اسی طرح تقریباً ۶۸ ہزار گیلن پانی روزانہ مہیا ہوتا رہا۔ گورنمنٹ نے چار ٹینکر مع ضروری سٹاف کے یہاں بھجوائے۔ پانی کے سٹاک کے لئے چھوٹی چھوٹی آہنی ٹینکوں کا انتظام تھا اور وہ مناسب جگہوں پر رکھی ہوئی تھیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے اس شعبہ کے منتظم چوہدری عبدالباری صاحب بی اے نائب ناظر بیت المال تھے۔ جنہوں نے نہایت تندہی سے اس کام کو سرانجام دیا۔
قادیان میں تو ہزاروں ہزاروں تربیت یافتہ کارکن میسر آجاتے تھے لیکن یہاں مقامی کارکن قریباً نہ ہونے کے برابر تھے اس لئے بیشتر کارکن خود مہمانوں پر ہی مشتمل تھے۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ` جامعہ احمدیہ` مدرسہ احمدیہ کے قابل احترام اساتذہ اور جواں ہمت طلباء نے انتظامات جلسہ میں نمایاں کردار ادا کیا۔
جلسہ مستورات کے انتظامات کے سلسلہ میں خاندان حضرت مسیح موعود کی مستورات قابل رشک حد تک سرگرم عمل رہیں۔ بہت سی دیگر مہمان خواتین نے بھی ان کا نہایت اخلاص سے ہاتھ بٹایا۔ خواتین کا انتظام عمدہ تھا کہ خود سیدنا حضرت مصلح موعود نے اس کی بہت تعریف فرمائی۔
جلسہ سالانہ کے دو دن پہلے ہی شمع احمدیت کے پروانوں کی آمد شروع ہوگئی تھی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے توقع سے زیادہ تعداد جلسہ میں شامل ہوئی۔ باوجودیکہ فصل کی کٹائی کا موسم تھا۔ پھر بھی دیہاتی جماعتوں کے احباب کثرت سے آئے۔ جلسہ میں نہ صرف پنجاب ہی کے احباب شامل ہوئے۔ بدر مشرق پاکستان اور مغربی پاکستان کے ہر صوبے کے احمدی دوست آئے۔ اسی طرح پاکستان کے علاوہ قادیان` بہار` کلکتہ اور حیدر آباد سے بھی دوست تشریف لائے۔ جن میں حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس طرح جرمن کے نومسلم بھائی عبدالشکور` کنزے اور ماریشس کے برادرم احمدید اللہ بھی شریک جلسہ ہوئے۔ ۱۳۔ اپریل سے ۱۹۔ اپریل کی شام تک ۷۷۳۷۱ مہمانوں کے کھانا کا انتظام کیا گیا جس سے حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ فرمان ایک نئی شان کے ساتھ پورا ہوا کہ
لفاظات الموائد کان اکی
وصرت الیوم مطعام الاھالی
کسی زمانہ میں دستر خوان کا پس خوردہ میری خوراک تھا مگر آج میں بے شمار گھرانوں کو رات دن کھلانے والا ہوں۔
دھوپ کی شدت کی وجہ سے جلسہ گاہ اور سٹیج پر خیمے لگا دیئے گئے تھے۔ مردانہ جلسہ گاہ کی کاروائی ۱۹۸ x ۱۹۸ گز کے شامیانے میں ہوئی۔ مردانہ جلسہ گاہ کے باہر سٹیج کے قریب ایک طرف لوائے احمدیت اور دوسری طرف لوائے پاکستان لہرا رہا تھا۔ لوائے احمدیت کی حفاظت کا کام خدام الاحمدیہ کے ایثار پیشہ نوجوان کے سپرد تھا۔ مردانہ جلسہ گاہ کے قریب ہی پردوں کے اندر مستورات کی جلسہ گاہ تھی۔ لائوڈ سپیکر کا نہایت عمدہ انتظام تھا اور حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کی تقاریر بیک وقت دونوں جلسہ گاہوں میں سنی جاتی تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر خانہ سے طعام کے انتظام کے علاوہ عارضی طور پر بازار بھی لگایا گیا۔ جس میں موسم کے لحاظ سے مہمانوں کی ضروریات مہیا کرنے کا انتظام رہا لیکن جب متوقع مقدار سے بہت بڑھ کر مسیح موعود کے مہمان نئے مرکز میں پہنچ گئے تو جس طرح لنگر خانہ کا انتظام عاجز رہ گیا اسی طرح بازار میں بھی اشیاء فروخت ختم ہوجاتی رہیں۔
حکومت کی طرف سے مہمانوں کی روانگی کے لئے ایک سپیشل ٹرین کا انتظام بھی کیا گیا تھا گو وہ اصل وقت سے کئی گھنٹے تاخیر سے گئی۔ مہمانوں کی ایک معقول تعداد لاریوں کے ذریعہ بھی آئی اور گئی۔ ریلوے اسٹیشن ربوہ پر سٹاف کی کمی کی وجہ سے پورے ٹکٹ نہیں فروخت کرسکے اسی طرح یہ شکایت بھی رہی کہ بعض اسٹیشنوں سے ربوہ کا ٹکٹ نہیں دیا گیا۔۲۴
جلسے کے ایام کے لئے گاڑیوں کے ساتھ کافی زائد بوگیاں لگا دی گئی تھیں۔ ¶مہمانوں کی طبی امداد کے لئے حسب سابق نور ہسپتال ہی یہ خدمت بجا لاتا رہا جس کے انچارج حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے۔ گورنمنٹ نے بھی سول ہسپتال چنیوٹ کے انچارج کو ہدایت کی تھی کہ وہ بھی جلسہ کے کے موقع پر اپنے عملہ کو بھجوائے۔ الحمدلل¶ہ۔ اس قدر کثیر مجمع میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر طرح خیریت رہی۔
جلسہ میں حفاظت کا کام مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سپرد تھا۔ خود صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بنفس نفیس اس کی نگرانی فرماتے رہے آپ کے نائب مرزا بشیر احمد بیگ صاحب تھے۔
یہ جلسہ چونکہ انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں ہورہا تھا اس کے انتظام کے لئے خود حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی نے غیر معمولی طور پر توجہ فرمائی۔ اور باوجود ناسازی طبع کے ان ایام میں ازحد مصروف رہے۔ بیرونی جماعتوں سے ملاقاتیں کرنے اور نہایت پرمعارف اور مفصل تقاریر ارشاد فرمانے کے علاوہ حضور نے انتظامات جلسہ کے ہر شعبہ اور ہر پہلو کی ذاتی نگرانی فرمائی۔ چنانچہ حضور لنگر خانہ میں تیاری و تقسیم طعام کی مشکلات کو حل کرنے اور دیگر ضروری اور فوری ہدایت کے لئے بعض اوقات خود تشریف لاتے رہے چنانچہ ایک موقعہ پر رات کے ایک بجے اور ایک دن ۲/۲۱ بجے دوپہر حضور لنگر خانہ میں تشریف لائے اور اپنی مفید اور ضروری ہدایات سے مشکل کشائی فرمائی اس طرح ۱۳۔ اپیل کو شام کی گاڑی پر حضور خود تشریف لے گئے۔ اور چونکہ قلیوں اور مزدوروں کا کوئی انتظام نہیں تھا اور ڈر تھا کہ ہنگامہ میں کوئی سامان ضائع نہ ہوجائے۔ حضور مسلسل دو گھنٹے تک اسٹیشن پر موجود رہے۔ اور پوری حفاظت کے ساتھ جب تک ہر ایک شخص کا سامان اس کی فرودگاہ تک والنٹیر کے ذریعہ نہیں پہنچ گیا حضور وہیں رہے۔ اور اسی طرح سب سے پہلے دن عمل طور پر کارکنوں کی تربیت کرکے استقبال کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔
ایام جلسہ میں صدر انجمن احمدیہ کے مختلف محکمہ جات میں اشتراک عمل پیدا کرنے کا کام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کے سپرد تھا۔ اور اس کام میں آپ بعض اوقات رات کے دو بجے تک مصروف رہے۔۲۵
کوائف جلسہ کا ایمان افروز تذکرہ کرنے کے بعد بالاخر بتانا بھی ضروری ہے کہ حضرت مصلح موعود کی منظوری سے صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے اس تاریخی جلسہ کی ایک متحرک فلم کا بھی انتظامکیا گیا۔ مگر افسوس حسن فرم نے سلسلہ احمدیہ جلسہ کی کارروائی محفوظ کرنے کے لئے منہ مانگے دام وصول کئے وہ اپنے عہد سے عملاً منحرف ہوگئی اور آئندہ نسلیں خلافت ثانیہ کے عہد مبارک کی ایک قیمتی یادگار سے ہمیشہ کے لئے محروم رہ گئی۔
‏tav.12.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
ربوہ کے پہلے جلسہ سے لیکر مصلح موعود کی رہائش تک
جلسہ کی حیرت انگیز کامیابی پر حضرت مصلح موعود کا مفصل خطبہ جمعہ
اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ انتہائی مخالف حالات اور پرخطر ماحول کے باوجود یہ جلسہ حیرت انگیز طور پر کامیاب رہا۔ حضرت مصلح موعود نے
خدا تعالیٰ کے بے شمار فضلوں` رحمتوں` برکتوں کے اس تازہ شان پر اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲۔ شہادت/ اپریل ۱۳۴۸/۱۹۴۹ء میں مفصل روشنی ڈالی چنانچہ فرمایا:۔
>اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ اس سال ہم اس جگہ پر کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کو آئندہ جماعت احمدیہ کا مرکز بنانے کی تجویز ہے بظاہر حالات ہمیں اس جگہ پر اس سال جلسہ سالانہ کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی جیسا کہ میں نے اپنے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا۔ جماعت کے دوستوں نے مجھے کثرت سے لکھنا شروع کردیا تھا کہ اس سال ربوہ میں جلسہ سالانہ کرنا مناسب ہے۔ کیونکہ شدت کی گرمی کی وجہ سے لوگ وہاں ٹھہر نہیں سکیں گے اور پھر یہ فصلوں کے دن ہیں اور کٹائیوں کی وجہ سے لوگ کثرت سے اس جلسہ پر نہیں آسکیں گے۔ پھر نئی جگہ ہے وہاں رہائش کا کوئی بندوبست نہیں پانی وغیرہ کی دقت ہے۔ یہ باتیں مجھے بھی نظر آتی تھیں۔ مگر میں جب سے قادیان سے آیا ہوں میں یہ جانتا تھا کہ پانچ سالہ پیشگوئی کے مطابق۲۶ ۱۹۴۹ء کا جلسہ سالانہ ہم کسی ایسی جگہ کریں گے جس کو ہم اپنا کہہ سکیں گے۔ چنانچہ اس دفعہ جلسہ سالانہ کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا کہ کرسمس کی تعطیلات کی بجائے ایسٹر ہو لیڈیز میں کیا جائے لیکن جب جلسہ سالانہ کے ایسٹر ہو لیڈیز میں کرنے کی تجویز ہوگئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس سال جلسہ سالانہ دسمبر کی بجائے اپریل میں منعقد ہو تو لوگوں نے یہ وہم کرنا شروع کریا کہ وہاں گرمی ہوگی۔ کھانے پینے اور رہائش کی دقت ہوگی۔ پہلے خیال تھا کہ ایسٹر کی تعطیلات مارچ میں ہوں گی۔ اور مارچ کا موسم اچھا ہوتا ہے زیادہ گرم نہیں ہوتا لیکن جب ایسٹر کی تعطیلات اپریل میں نکلیں یا یوں کہو کہ جب علم ہوا کہ ایسٹر کی تعطیلات اپریل میں ہوں گی تو لوگوں کے دلوں میں شبہ پیدا ہونا شروع ہوا کہ اس دفعہ وہاں جلسہ کرنا ناممکن ہے لیکن جرا ہمارے ذہن میں تھی اس کے خلاف لوگ بہت زیادہ تعداد میں آئے۔ ہمارا خیال تھا کہ اس جلسہ سالانہ پر صرف دس ہزار آدمی آسکیں گے کیونکہ ایک تو موسم اچھا نہیں تھا گرمی تھی پھر یہ فصلوں کا وقت تھا اور کٹائیاں ہورہی تھی۔ اور زمیندار کٹائی چھوڑ کر جلسہ پر نہیں آسکتے تھے۔ پھر بعض لوگ اس لئے بھی نہ آسکے کہ نئی جگہ ہونے کی وجہ سے وہاں رہائش کا مناسب انتظام نہ تھا لیکن تقسیم پرچی سے جو اندازہ لگایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین ہزار پانچ سو کے قریب وہ عورتیں تھیں جن کے کھانے کا انتظام لجنہ اماء اللہ کے ماتحت کیا جاتا تھا۔ اور دس ہزار چھ سو کے قریب وہ پرچی تھی جس کا انتظام مردوں کے ذریعہ کیا جاتا تھا۔ اس طرح یہ تعداد پندرہ ہزار کے قریب ہوجاتی ہے۔ لیکن ڈیڑھ ہزار کے قریب وہ لوگ تھے جو کھانے کی پرچی میں شمار نہیں ہوسکتے تھے۔ کیونکہ وہ جلسے سننے کے لئے تو آجاتے تھے مگر کھانے کے وقت واپس چلے جاتے تھے۔ مثلاً احمد نگر میں چھ سات سو آدمی ٹھہرے ہوئے تھے وہ جلسہ سننے کے لئے آئے تھے اور پھر چلے جاتے تھے۔ کھانا ربوہ میں نہیں کھاتے تھے۔ اسی طرح بعض لوگ چنیوٹ میں بھی ٹھہرے ہوئے تھے اس کے علاوہ چنیوٹ میں بھی کافی احمدی بستے ہیں۔ کچھ تو فسادات کے بعد وہاں آکر بس گئے ہیں اور کچھ وہاں کے باشندے ہیں۔ بہرحال سات آٹھ سو کے قریب وہ لوگ تھے جو چنیوٹ میں ٹھہرے ہوئے تھے اور جلسہ سننے کے لئے روزانہ ربوہ آجاتے تھے اور چلے جاتے تھے۔ وہاں کھانا نہیں کھاتے تھے اور جلسہ سننے کے لئے روزانہ ربوہ آجاتے تھے اور چلے جاتے تھے۔ وہاں کھانا نہیں کھاتے تھے۔ احمد نگر اور چنیوٹ کے علاوہ بعض دوسری جگہوں سے بھی لوگ صرف جلسہ کے وقت آتے تھے۔ حتیٰ کہ ایک دو سو آدمی لائل پور سے بھی ایسا آتا تھا۔ پھر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے کھانے کا اپنا انتظام کیا ہوا تھا۔ مثلاً سو کے قریب ہمارے ہی خاندان کے افراد تھے۔ جن کے کھانے کا اپنا انتظام تھا۔ اس طرح پندرہ سو سے دو ہزار تک ان لوگوں کی تعداد ہوجاتی تھی جو لنگر کے انتظام کے ماتحت کھانا نہیں کھاتے تھے بلکہ ان کا اپنا انتظام تھا۔ اس تعداد کو ملا کر سترہ ہزار کے قریب ایسے لوگ تھے جو اس سال جلسہ میں شامل ہوئے اور ان مخالف سوالات کے باوجود شامل ہوئے کہ جن کے ہوتے ہوئے بعض کہتے تھے کہ اس سال وہاں جلسہ سالانہ نہیں ہوسکے گا بلکہ بعض مخالف ایسے تھے جنہوں نے ان مخالف حالات کی وجہ سے یہ پیشگوئیاں کرنی شروع کردی تھیں کہ یہ جلسہ سالانہ اس سال نہیں ہوسکے گا۔ مگر خدا تعالیٰ نے اپنا خاص فضل نازل کیا اور جلسہ ہوا۔ اور صرف ہوا ہی نہیں بلکہ اس کامیابی کے ساتھ ہوا کہ لوگ حیران رہ گئے۔ چنانچہ اتنے لوگوں کا وہاں آجانا تو حسن ظن کے ماتحت بھی ہوسکتا ہے لیکن جو تکلیفیں اور مشکلات وہاں تھیں ان کے باوجود لوگوں کا وہاں رہنا اور ان کو خوشی سے برداشت کرنا یہ ایسی چیز تھی جو تائید الٰہی کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی۔ مثلاً پہلے دن ہی سوا دو بجے رات تک بہت سے لوگ ایسے تھے جنہیں کھانا نہیں ملا تھا مجھے ساڑھے بارہ بجے کے بعد یہ آوازیں آنی شروع ہوگئیں کہ ٹھہرو ابھی کھانا دیتے ہیں ٹھہرو ابھی کھانا دیتے ہیں۔ میں نے ایک آدمی لنگر خانے بھجوایا اور اس طرح مجھے معلوم ہوا کہ روٹیاں ابھی پہنچی ہی نہیں۔ کچھ روٹیاں پہنچی ہیں لیکن وہ بہت تھوڑے لوگوں کو مل سکی ہیں۔ میں خود وہاں گیا اور لنگر خانہ کے کارکنوں سے پوچھا کہ روٹی کا ابھی تک کیوں انتظام نہیں ہوسکا۔ اس پر مجھے بتایا گیا کہ ہماری تمام کوششیں بالکل ناکام ہوچکی ہیں اس میں کچھ منتظمین کا بھی قصور تھا کیونکہ مجھے بتایا گیا تھا کہ اس دفعہ ساٹھ تندور لگائے جائیں گے لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ صرف چالیس تندور لگائے گئے ہیں بہرحال چونکہ عام طور پر یہ خیال تھا کہ جلسہ پر بہت کم لوگ آئیں گے اس لئے تندور کم لگائے گئے۔ باورچی بھی کم تھے نتیجہ یہ ہوا ان پر کام کا بوجھ زیادہ پڑا گرمی کا موسم تھا جو شیڈ بنائے گئے تھے وہ کم تھے پھر ایک طرف دیوار کھینچی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ہوا نہیں آتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۹ باورچی بے ہوش ہوگئے۔ ان کو دیکھ کر باقی باورچیوں نے کام چھوڑ دیا اور کہ دیا کہ ہم اپنی جان کو مصیبت میں کیوں الیں۔ اس وجہ سے ۹۔ ۱۰ بجے تک روٹی کا کوئی انتظام نہ ہوسکا بلکہ اس وقت تک ان کو کام کرنے کی طرف کوئی رغبت ہی نہ تھی۔ تھوڑے سے چاول ابالے گئے اور وہ صرف بچوں کو دیئے گئے پھر جوں توں کرکے روٹی کا انتظام کیا گیا اور صبح کے پانچ بجے تک روٹی تقسیم ہوتی رہی اور وہ بھی بہت تھوڑی تھوڑی۔ حالانکہ بعض لوگ ایسے بھی تھے کہ جنہیں دوپہر کو بھی کھانا نہیں ملا تھا اور وہ رات بھی انہوں نے بغیر کھائے کے گزار دی مگر بجائے اس کے کہ ان کی طبائع میں شکوہ پیدا ہوتا انہوں نے اس تکلیف کو بخوشی برداشت کیا۔ پھر دوسرا دن بھی اسی طرح گزرا۔ دوسرے دن بھی کھانا تیار کروانے کی بظاہر کوئی صورت نہیں تھی آخر میں نے افسروں کی سرزنش کی اور انہیں مختلف تدابیر بتائیں اپنے بیٹوں کو اس کام پر لگایا اور بالاخر بعض ایسی تدابیر نکال لی گئیں جن کے ذریعہ اگر پیٹ بھر کر نہیں تو کچھ نہ کچھ کھانا ضرور مل گیا مثلاً ہمارے ملک میں ایک آدمی کی عام غذا تین روٹی ہے لیکن میں نے یہ فیصلہ کیا۔
سو بجائے تین تین روٹی کے دو دو روٹیاں دی جائیں پھر یہ تدبیر اختیار کی گئی کہ نانبائیوں سے ٹھیکہ کرلیا گیا کہ اگر وہ اتنا کھانا تیار کردیں تو انہیں مزدوری کے علاوہ انعام بھی دیا جائے گا اس طرح ان غریب آدمیوں نے لالچ کی وجہ سے کام کیا اور ہمارے جلسہ کے ن گزر گئے۔ غرض ان تمام تکلیفوں کے باوجود ہمارے لوگوں کا بشاشت کے ساتھ وہاں بیٹھے رہنا بتاتا ہے کہ یہ محض خدا تعالیٰ کے فضل سے تھا پانی کے جو ہم نلکے لگوائے تھے وہ تمام ناکام گئے البتہ پانی کے لئے جو سرکاری انتظام کیا گیا تھا اس سے بہت کچھ فائدہ ہوا لیکن پانی استعمال کرنے کی ہمارے لوگوں کو جتنی عادت ہوتی ہے اتنا پانی پھر بھی مہیا نہ ہوسکا۔ رہائش کی یہ حالت تھی کہ جن بارکوں میں ۲/۴۱ ہزار عورتوں کو رکھا گیا تھا ان کے متعلق دیکھنے والا یہ تسلیم ہی نہیں کرتا تھا کہ ان بیرکوں میں اتنی عورتیں رہ سکتی ہیں جن بیرکوں میں عورتوں کو ٹھہرایا گیا تھا وہ کل سولہ تھیں ان میں اگر لوگوں کو پاس پاس بھی سلا دیا جائے تو صرف دو ہزار آمی آسکتا ہے لیکن جلسہ پر جو عورتیں وہاں ٹھہری تھیں وہ ساڑھے چار ہزار کے قریب تھیں یہ اس طرح ہوا کہ انہوں نے سامان اندر رکھ یا اور آپ باہر سو کر گزارہ کرلیا۔ مردوں کا حال اس سے بھی برا تھا۔ تمام مرد بارکوں کے اندر سو نہیں سکتے تھے اس لئے مردوں کو عورتوں سے زیادہ تکالیف ہوئی کچھ گنجائش اس طرح بھی نکل آئی کہ میری تحریک کے ماتحت بعض اپنے ساتھ بانس` کیلے اور ستنی لے آئے اور خود خیمے لگا کر انہوں نے جلسہ کے دن گزارے مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے بھی یہ تحریک کردی گئی تھی چنانچہ میں نے جب جلسہ کے انتظامات دیکھنے کے لئے چکر لگایا تو بہت سے خیمے لگے ہوئے تھے میرا خیال ہے کہ وہ سو ڈیڑھ سو کے قریب ہوں گے۔ پھر کچھ لوگ چنیوٹ ٹھہر گئے اور کچھ لوگ احمدنگر ٹھہر گئے اور اس طرح گزارہ ہوگیا۔ غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجود مخالف حالات اور مختلف تکالیف اور مشکلات کے خدا تعالیٰ کی وہ خبر جس کو میں پہلے تعبیری طور پر سمجھتا تھا عملی طور پر بھی ثابت ہوئی۔ اور وہی جو خیال کرتے تھے کہ اس سال جلسہ سالانہ نہیں ہوسکے گا انہیں بھی اقرار کرنا پڑا کہ اس جگہ رہائش کرنے کی وجہ سے لوگوں کی صحت پر براثر نہیں پڑا بلکہ اچھا ہی پڑا ہے۔ آندھیاں سارا دن چلتی رہتی تھیں اور گرد سارا دن آنکھوں میں پڑتی تھی لیکن لاہور میں میرا یہ حال تھا کہ مجھے آنکھوں میں اتنی تکلیف تھی کہ مجھے کئی بار دوائی لگوانی پڑتی تھی۔ درد کی وجہ سے مجھے شبہ ہوگیا تھا کہ کہیں کوئی بیماری نہ ہو۔ دن میں چار پانچ دفعہ مجھے لوشن لوانا پڑتا تھا تب جاکر کہیں میری حالت قابل برداشت ہوتی تھی لیکن ربوہ میں نو دن کے قیام میں مجھے صرف دو دفعہ لوشن ڈلوانا پڑا اور پہلے سے میری آنکھیں اچھی معلوم ہوتی تھیں حالانکہ سارا دن مٹی آنکھوں میں پڑتی رہتی تھی اسی طرح وہاں کے پانی کے متعلق ڈاکٹری رپورٹ یہ تھی کہ وہ زہریلا ہے۔ اور انسان کے پینے کے ناقابل ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ بجائے اس کے کہ وہ پانی ہم پر برا اثر ڈالے اچھا اثر ڈالتا رہا۔ وہ بدمزہ ضرور تھا ایک دن ایسا ہوا کہ میں نے مقابلہ میں پانی پی لیا یعنی دوسرا اور پانی میں نے پہلے پی لیا اور پھر وہاں سے نلکوں کا پانی پی لیا نتیجہ یہ ہوا کہ قریباً سوا گھنٹہ تک منہ کا ذائقہ خراب رہا لیکن باوجود اس کے کہ ڈاکٹری رپورٹ اس پانی کے متعلق تھی کہ وہ انسان کے پینے کے قابل نہیں اس پانی نے بجائے تکلیف پہنچانے کے ہمیں فائدہ پہنچایا جب میں لاہور سے گیا میرے معدہ میں سخت تکلیف تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے میری انتڑیوں پر فالج گررہا ہے لیکن وہاں میری طبیعت اچھی ہوگئی۔ اجابت بھی اچھی ہوتی رہی صرف آکری دن اسہال آنے شروع ہوگئے اور بیس کے قریب اسہال آئے لیکن باقی دنوں میں میری طبیعت اچھی ہی میری بیوی ام ناصر نے بتایا کہ یہاں لاہور میں میں ایک دفعہ کھانا کھایا کرتی تھی لیکن ربوہ میں دونوں وقت کھانا کھاتی رہی۔ آج لاہور آکر پھر ایک دفعہ کھانا کھا رہی ہوں۔ اسی طرح کئی اور دوستوں نے بتایا کہ ربوہ کے پانی نے ان کی صحتوں پر اچھا ار ڈالا ہے اور بوجود گردوغبار اڑنے کے ان کی آنکھوں کو آرام آگیا۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہاں واپس آکر میری آنکھوں میں پھر تکلیف شروع ہوگئی یہاں آکر میں دو تین دفعہ دوائی ڈلوا چکا ہوں غرض خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ایسے سامان کردیئے کہ بجائے اس کے کہ اچھا کھانا نہ ملنے کی وجہ سے ہماری صحت پر کوئی برا اثر پڑتا ہماری صحت پر اچھا اثر پڑا بجائے اس کے کہ وہاں پانی اچھا نہ ملنے کی وجہ سے ہماری صحتوں پر اثر پڑتا ربوہ کے پانی نے ہماری صحتوں پر اچھا اثر ڈالا۔ بجائے اس کے کہ گردوغبار اڑنے کی وجہ سے ہماری آنکھیں خراب ہوتیں ہماری آنکھیں پہلے سے بھی اچھی ہوگئیں۔ وہاں کے قیام میں آنکھوں میں اتنی گرد پڑی کہ اگر سال بھر کی گرد کو جمع کیا جائے تو اتنی نہ ہوگی لیکن اس گردوغبار نے ہماری آنکھوں کو اور بھی منور کردیا اسی طرح روٹیوں اور سالن کے مہیا کرنے میں بہت سی مشکلات تھیں لیکن وہی روٹیاں جو کچی ہوتی تھیں بجائے اس کے کہ ہمارے معدوں کو خراب کرتیں ان کے کھانے سے ہمارے معدوں میں اور زیادہ طاقت محسوس ہونے لگ گئی۔ پھر علاقہ نیا تھا اس وجہ سے بھی بعض دقتوں کا احتمال تھا مگر اس میں بھی خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہوا۔ اور وہاں تبلیغ کثرت سے ہوئی قادیان کے جلسوں پر ضلع جھنگ کے صرف چالیس پینتالیس آدمی آیا کرتے تھے لیکن اس جلسہ پر سب سے زیادہ آنے والے جھنگ کے لوگ تجھے لجنہ اماء اللہ نے جو عورتوں کی تعداد کے متعلق ضلعوار رپورٹ دی اس کے مطابق جلسہ پر آنے والی ایک ہزار پندرہ عورتیں ایسی تھیں جو ضلع جھنگ سے آئی تھیں چونکہ ہم نئے نئے وہاں گئے تھے اردگرد کے لوگوں نے ہمارے متعلق باتیں سنیں تو وہ جلسہ پر آگئے۔ اس طرح تبلیغ کے لئے ایک اور راستہ نکل آیا میرے ایک عزیز لالیاں ٹھہرے ہوئے تھے ربوہ میں چونکہ رہائش کا خاص انتظام نہیں تھا اس لئے وہ لالیاں ٹھہر گئے اور ڈاک بنگلہ ریزرو کروا لیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب وہ سٹیشن پر رخصت ہونے لگے تو ایک پٹھان شور مچارہا تھا وہ پٹھان قادیان نہیں آیا تھا لیکن ربوہ کا جلسہ اس نے دیکھا تھا چونکہ یہ لوگ اسلامی ممالک کے قریب رہتے ہیں اس لئے اسلامی باتوں کا ان کے دلوں پر اچھا اثر ہوتا ہے اس عزیز نے بتایا کہ وہ پٹھان شور مچارہا تھا کہ ایسا جلسہ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ایسی تقریر ہم نے پہلے سنی ہے اس کے پاس کوئی مولوی طرز کا ایک آدمی کھڑا تھا۔ اس نے کہا یہ لوگ تو کافر ہیں ان کا جلسہ کیا اور ان کی تقریریں کیسی اس نے کہا وہ کافر نہیں ہوسکتا وہ تو سو بکرا روز کھلاتا ہے وہ کافر کیسے ہوسکتا ہے۔ یہ اسلامی تہذیب کا اثر تھا جو اس پٹھان کی طبعت پر ہوا پٹھان ایک مہمان نواز قوم ہے اس نے جب جلسہ پر مہمان نوازی کا انتظام دیکھا تو اس کی طبیعت پر بہت اچھا اثر ہوا۔ اسی طرح پونچھ کے علاقہ کی ایک عورت میری ایک بیوی کے پاس آئی پہاڑی علاقہ کے لوگ عام طور پر مہمان نواز ہوتے ہیں لیکن وہ ایسے علاقہ کی تھی جو مہمان نواز نہیں تھا۔ وہ عورت میری ایک بیوی کے پاس آئی ان سے کہا کہ ہمارے ہاں تو مہمان آئے تو چارپائی الٹ دیتے ہیں اور مہمان کو کھانا نہیں کھلاتے آپ تو ساروں کو کھانا دیتے ہیں بہرحال نئی جگہ اور نیا علاقہ ہونے کی وجہ سے کئی نئے لوگوں کو ہماری باتیں سننے کا موقعہ ملا۔ میں لاہور والوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں )اگرچہ یہ بات میری عقل میں نہیں آتی کہ لاہور اس فعہ سیکنڈ رہا ہے۔ لجنہ اماء اللہ کی طرف سے جو عورتوں کی تعداد مجھے دی گئی ہے اس کے مطابق ۹۷۵ عورتیں لاہور کی تھیں۔ یہ بات میں نہیں سمجھ سکا کہ اتنی عورتیں کہاں سے آئیں۔ دو اڑھائی سو تک تو بات سمجھ میں آجاتی ہے اتنی عورتیں تو قادیان کی مہاجر عورتیں ہوسکتی ہیں لیکن پھر بھی ساڑھے چھ سو کی تعداد باقی رہ جاتی ہے اور اگر ۹۷۵ عورتیں لاہور کی تھیں تو جلسہ میں مرد بھی شامل ہوئے تھے اگر ان کی حاضر کی بھی یہی نسبت تھی تو پھر لاہوری ضلع حاضری کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آجاتا ہے۔ سرگودھا لائل پور اور سیالکوٹ کا ضلع اپنی احمدی آبادی کے لحاظ سے بہت کم شامل ہوئے۔ ان اضلاع سے آنے والے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہونی چاہئے تھی۔ آبادی کے لحاظ سے ان ضلعوں سے آنے والے بہت کم لوگ تھے۔ ضلع سرگودھا سے آنے والوں کی تعداد اور باقی دو اضلاع سے نسبتاً زیادہ تھی اور لائل پور اورسیالکوٹ کی تعداد بہت پیچھے تھی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ہمارے جلسہ کو نہایت کامیابی سے گزرا<۔۲۷
ربوہ کی مساجد کو قبلہ رخ بنانے کا خصوصی اہتمام
چوہدری عبداللطیف صاحب اوورسیر کا تحریر بیان ہے کہ:۔
>ربوہ کی تعمیر کے سلسلہ میں خاکسار شروع ماہ اکتوبر ۱۹۴۸ء میں جنگ فیکٹری کزی سنھ میں تعمیر کا کام ختم کرکے ربوہ پہنچ گیا تھا اور خیموں میں رہائش اختیار کی اس دوران تعمیر کا سامان اکٹھا کرنا شروع کیا۔ کچی اینٹ بننی شروع ہوئی اور عارضی تعمیرات کی صورت میں بیرکس بننی شروع ہوئیں۔ پختہ اینٹ کا انتظام کرکے چند ایک کمرے سٹورز کے لئے پہاڑی کے دامن میں بنائے گئے ماہ اپریل ۱۹۴۹ء میں ربوہ میں جلسہ سالانہ ہوا اس کے بعد ان بیریکس میں دیواریں بنا کر کوارٹرز بنائے گئے۔ ان دنوں یہ سوچ وچار ہوئی کہ مسجد کی تعمیر میں قبلہ کا رخ کس طرح تعین کیا جائے چنانچہ تھیاڈو لائٹ مشین کا انتظام کرکے دب اکبر کے ذریعہ قطبی ستارہ کا جائزہ لیا یہ ستارہ بھی ساکن نہیں ہے اور اپنے محور کے گرد ایک چھوٹے سے دائرہ میں گھومتا ہے۔ اور صحیح نارتھ کی لائن اس چھوٹے دائرہ کے درمیان گزرتی ہے۔ یہ مشین شریف احمد صاحب انجینئر رسول کالج سے چند دنوں کے لئے لائے جو سردار بشیر احمد صاحب کے ذریعہ ملی۔ شریف احمد صاحب آج کل امریکہ میں مقیم تھے اور وہ منصوری سے مہاجر ہوکر آئے تھے۔ قبلہ رخ کی تعین کے لئے ربوہ کا طول بلد اور عرض بلد معلوم کرکے سفیریکل ٹرگنو میٹری کے ذریعہ حساب نکالا گیا یہ کام قاضی محمد رفیق صاحب آرکیٹیکٹ کی عزیزہ حفیظہ صاحبہ نے کیا جو اس وقت پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ تھیں اور بعد میں جامعہ نصرت ربوہ میں بطور لیکچرار کام کرتی رہیں۔ انہوں نے یہ حساب ۵۵۔۹ منٹ ڈگری ورک اوٹ کیا اور سردار بشیر احمد صاحب نے ۳۲۔۹ منٹ ڈگری نکالا۔ یہ دونو حساب خاکسار نے حضرت میاں شریف احمد صاحب کی خدمت میں پیش کئے تو انہوں نے فرمایا کہ قادیان مین ہم ۴ ڈگری نارتھ لائن سے مشرقی طرف لگا کر مسجد کا رخ قائم کرتے تھے۔ ربوہ میں ۱۰ ڈگری لگائیں چنانچہ مسجد مبارک کی تعمیر کے وقت خاکسار نے رات کے وقت شمال اور جنوب لائن لگا کر ۱۰ ڈگری شرقی طرف turn کرکے مسجد کا لے اوٹ کیا۔ اس مسجد کی تعمیر قاضی عبدالرحیم بھٹی کے سپرد ہوئی تھی۔ بعد میں جب مسجد اقصیٰ کی تعمیر کا کام چودھری نذیر احمد صاحب کے سپرد ہوا تو خاکسار نے قطبی ستارہ کے ذریعہ نارتھ لائن لگا کر ۱۰ ڈگری مشرق کی طرف turn کرکے مسجد کا رخ قائم کیا۔ مسجد ناصر محلہ دارالرحمت غربی` یادگاری مسجد فضل عمر ہسپتال` مسجد احمد فیکٹری ایریا کا لے اوٹ بھی خاکسار کے ذریعہ اسی اصول پر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ خاکسار نے ربوہ کی دیگر مساجد کی تعمیر میں اس رخ کو قائم رکھنے میں مدد کی ہے اور ٹھیکیدار ولی محمد صاحب کو تو میں نے ایک تکون کاغذ پر لگا کر بتایا ہوا ہے کہ شمال جنوب قائم کرکے اتنے فٹ پیمائش کرکے زاویہ قائم لگا کر اتنے فٹ پر لائن قائم ہوجاتی ہے۔
قبرستان خاص یعنی بہشتی مقبرہ کا ابتدائی نقشہ خاکسار نے تیار کیا تو مسجد کے مجوزہ رخ ۱۰ ڈگری شرقی طرف turn کرنے کے طریق پر رات قطبی ستارہ سے شمال جنوب قائم کرکے نقشہ پر قطعات اور راستے قائم کئے۔
محلہ دارالعلوم غربی اور شرقی کے لئے جب زمین ۱۹۶۰ء میں خرید کی گئی تھی تو خاکسار نے اس کا نقشہ پلائٹس تیار کیا اور پلاٹس اور سڑکوں کا لے اوٹ کیا تو مسجد کے رخ کے اس اصول کو مدنظر رکھا۔ اس طرح محلہ کے ۸۰ فیصد پلاٹس کی لائنیں قبلہ رخ ہیں۔
عبداللطیف اوورسیر
۹۵-۱۱-۸
پہلا باب )فصل دوم(
حضرت مصلح موعود کا سفر سندھ و کوئٹہ
سال ۱۳۲۸ہش )۱۹۴۹ء( کی دوسری ششماہی کا قابل ذکر اور اہم واقعہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی امیر المومنین المصلح الموعود کا سفر سندھ و کوئٹہ ہے۔ حضور ۲۱۔ ماہ ہجرت/ مئی کو لاہور سے سندھ کے لئے مع اہل بیت و خدام روانہ ہوئے۔۲۸ اور ۲/۴۱ ماہ کے بعد ۴۔ تبوک/ ستمبر کو کوئٹہ سے روانہ ہوکر ۵۔ تبوک/ ستمبر کو واپس لاہور تشریف لے آئے۔۲۹
روانگی
اس سفر میں پچاس نفوس پر مشتمل قافلہ حضور کے ہمرکاب تھا جو روہڑی سے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ حضرت امیرالمومنین اور اہل بیت میں سے حضرت سیدہ ام متین حرم ثالث اور حضرت سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ حرم رابع اور حضور کے بعض صاحبزادے اور صاحبزادیاں اور بعض خدام مثلاً حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب طبی مشیر اور چودھری سلطان احمد صاحب سپرنٹنڈنٹ احمدیہ سنڈیکیٹ اور شیخ نور الحق صاحب سپرنٹنڈنٹ ایم این سنڈیکیٹ اپنے ضروری ریکارڈ کے ساتھ سندھ تشریف لے گئے۔ اور حضرت ام المومنین` حضرت سیدہ ام ناصر حرم اول` حضرت سیدہ ام وسیم حرم ثانی و صاحبزادی امتہ العزیز صاحبہ اور میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری اور مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر انچارج شعبہ زود نویسی کوئٹہ کی طرف روانہ ہوئے۔
میرپور خاص
حضرت امیرالمومنین مع اہل بیت ۲۲۔ ہجرت/ مئی کو بوقت چھ بجے صبح حیدرآباد پہنچے پھر بذریعہ کار سوا دس بجے میرپور خاص میں رونق افروز ہوئے۔ میاں عبدالرحیم احمد صاحب اور اسٹیٹ کے دوسرے مخلص کارکنوں نے حضور کا استقبال کیا۔۳۰ حضور کا یہ مبارک سفر چونکہ زیادہ تر انتظامی نوعیت کا تھا اس لئے حضور یہاں پہنچتے ہی مختلف اسٹیٹ کے کارکنوں کے ذریعہ صورتحال کا جائزہ لینے اور ضروری ہدایات دینے میں دن رات سرگرم عمل ہوگئے۔
کنزی سے محمود آباد اسٹیٹ
۴۔ احسان/ جون کو حضور اقدس مع اہلبیت کنزی تشریف لے گئے میاں عبدالرحیم احمد صاحب اویسیہ عبدالرزاق شاہ صاحب بھی ہمراہ تھے۔ دی سندھ جننگ اینڈ پریسنگ کی فیکٹری کی طرف سے دوپہر کا کھانا پیش کیا گیا۔ کھانے کے بعد حضور دیر تک مجلس میں رونق افروز ہوکر احباب سے گفتگو فرماتے رہے ظہر و عصر کی نمازیں حضور نے فیکٹری کی مسجد میں پڑھائیں پھر یہ قافلہ شام کے وقت کنری سے روانہ ہوکر سوا سات بجے شام محمود آباد اسٹیٹ میں وارد ہوا۔ سید دائود مظفر شاہ صاحب منیجر اسٹیٹ اور ماسٹر فضل کریم صاحب اکائونٹنٹ مع عملہ اسٹیٹ اور دیگر احباب اپنے مقدس آقا کا خیر مقدم کرنے کے لئے موجود تھے۔۳۱ حضور نے دو روز تک محمودآباد اسٹیٹ کا معائنہ فرمایا۔
ٹاہلی اسٹیشن پر ورود
۶۔ احسان/ جون کو حضور طاہر آباد اور خلیل آباد کی فصل کا معائنہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے طاہر آباد کو بسانے کی تجویز زیر عمل تھی اس لئے حضور نے مع خدام اجتماعی دعا فرمائی۔ ۷۔ احسان/ جون کو ۲/۲۱ بجے بعد دوپہر حضور نے بذریعہ گاڑی ٹاہلی اسٹیشن پر قدم رکھا۔ جہاں چوہدری صلاح الدین صاحب جنرل منیجر محمد آباد اسٹیٹ غلام احمد صاحب عطا ایم ایس سی انچارج تجرباتی فارم سید مسعود مبارک صاحب اور چوہدری غلام احمد صاحب بسرا ڈپٹی منیجر اپنے دیگر عملہ سمیت اھلا و سھلا و مرحبا کہنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔۳۲
حلقہ نور نگر میں >صادق آباد< کی بنیاداور گھوڑوں کی دیکھ بھال کیلئے ہدایات
۸۔ احسان/ جون کی صبح کو حضور نے حلقہ نور نگر اور حلقہ محمد آباد کی فصلیں ملاحظہ فرمائیں۔ حلقہ نور نگر میں ایک نئی بستی کی بنیاد رکھی
جارہی تھی۔ حضور وہاں بھی تشریف لے گئے اور خدام سمیت دعا فرمائی اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے نام پر اس بستی کا نام صادق آباد تجویز فرمایا۔ ۹۔ جون کی صبح کو حضرت اقدس نے محمد آباد سٹیٹ کے گھوڑوں اور ان کے سامان کا جائزہ لیا اور چوہدری صلاح الدین صاحب جنرل منیجر کو ہدایت فرمائی کہ ہفتہ میں کم از کم ایک بار گھوڑوں اور زینوں وغیرہ کا معائنہ کیا جانا چاہئے یہ بھی دیکھا جائے کہ آیا گھوڑوں کی صحیح دیکھ بھال ہوتی ہے یا نہیں آیا زینوں کا قابل مرمت سامان مرمت کرایا جاتا ہے۔ چمڑا کو پالش کیا جاتا ہے یا نہیں۔۳۳ یہ معائنہ جہد سلیمان کا ایک ورق تھا جو دہرایا جارہا تھا۔
تغیر عظیم پیدا کرنے کے لئے سندھی پڑھنے لکھنے اور بولنے کی تلقین
۱۰۔ احسان/ جون کو حضور نے ناسازی مطبع کے باوجود محمد آباد سٹیٹ میں نماز جمعہ خود پڑھائی اور نہایت روح پرور خطبہ ارشاد فرمایا جس میں
سندھ کی جماعتوں کو اپنے اندر تربیتی اور تبلیغی لحاظ سے تغیر عظیم پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی نیز پرزور تحریک فرمائی کہ سندھی پڑھنا لکھنا اور بولنا سیکھو تا پنجابی اور سندھی کا بعد دور ہوجائے اس بارہ میں یہاں تک تاکید کی کہ اگلے سال اگر میں زندہ رہا تو میں یہاں کے کارکنوں کا امتحان لوں گا کہ انہوں نے کہاں تک میری آواز پر لبیک کہا ہے۔۳۴
احمد آباد اسٹیٹ سے کنجیجی
۱۳۔ ماہ احسان/ جون کو اکائونٹنٹ صاحب احمد آباد نے بھی سالانہ بجٹ پیش کیا۔ حضور نے دو نئی بستیاں آباد کرنے اور ان کے نام مہدی آباد اور مسیح آباد رکھنے کا ارشاد فرمایا۔ مقامی جماعت کی طرف سے دعوت طعام دی گئی۔ اس موقعہ پر حضور نے ایک مختصر تقریر میں قرب الٰہی کے حصول اور اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی نصیحت فرمائی۔ بعد ازاں حضور گھوڑے پر سوار ہوکر نبی سر روڈ ریلوے سٹیشن پر تشریف لے گئے اور بذریعہ ٹرین مع قافلہ تین بجے دوپہر کنجیجی رونق افروز ہوئے۔ صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب اور چودھری فضل الرحمن صاحب منیجر ناصر آباد اسٹیٹ استقبال کے لئے موجود تھے۔ حضور مع اہل بیت بذریعہ کار اور باقی قافلہ بیل گاڑیوں پر ناصر آباد اسٹیٹ پہنچا۔۳۵
پرمعارف خطبہ
۱۷۔ احسان/ جون کو حضور نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ شریعت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو ورنہ اگر کوئی نقص رہ گیا تو یقیناً تمہارے ثواب میں کمی واقع ہوجائے گی۔ صحابہ کرام اس بارے میں بہت احتیاط سے کام لیتے اور چھوٹی سے چھوٹی بات یاد رکھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہی جذبہ تھا جس کی وجہ سے صحابہ نے اپنے اعمال و افکار کی تکمیل کرلی تھی۔
نماز جمعہ میں میر پور خاص اور احمدیہ اسٹیٹس کے احباب کثیر تعداد میں حاضر تھے۔ نماز عصر کے بعد پانچ وستوں نے حضور کے دست مبارک پر بیعت کی۔۳۶
کنجیجی سے کوئٹہ
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود قریباً ایک ماہ تک سندھ کی احمدی اسٹیٹس کا وسیع پیمانے پر دورہ و معائنہ کرنے اپنے خدام اور کارکنان کو قیمتی ہدایات سے نوازنے اور خطبات جمعہ کے ذریعہ مخلصین جماعت کے اندر فکر وعمل کی نئی قوت بھرنے کے بعد مع اہل بیت و خدام ۲۱۔ احسان/ جون کو ایک بجے دوپہر کنجینی سے روانہ ہوئے اور اگلے روز ۲۲۔ احسان/ جون کو چار بجے کے قریب بخیریت کوئٹہ پہنچے اسٹیشن پر مخلصین کوئٹہ اپنے امیر میاں بشیر احمد صاحب کے ہمراہ بھاری تعداد میں اپنے مقدس و محبوب آقا کی پیشوائی کے لئے حاضر تھے۔ حضور نے سب کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر مع اہل بیت کاروں کے ذریعہ سے )جن کا اہتمام مقامی جماعت نے کیا تھا( اپنی قیام گاہ واقع یارک ہائوس میں تشریف لائے۔۳۷
قیام کوئٹہ کے اکثر و بیشتر ایام میں حضرت مصلح موعود کی طبیعت سخت علیل رہی حضرت مسیح علیہ السلام کا قول ہے کہ >روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے<۳۸ یہی کیفیت حضور پرنور کی تھی۔ جونہی بیماری کے حملہ میں معمولی سا افاقہ محسوس فرماتے حضور کی دینی مصروفیات میں ایسی نمایاں تیزی اور غیر معمولی سرگرمی پیدا ہوجاتی کہ دیکھنے والے ورطہ حیرت میں پڑجاتا۔ اس حقیقت کا اندازہ قیام کوئٹہ کے آئندہ درج شدہ کوائف سے باسانی لگ سکے گا۔
جماعت کو نئی آزمائشوں کیلئے تیار ہوجانے کا حکم
۲۴۔ احسان/ جون کو جمعہ تھا۔ حضرت امیرالمومنین نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ ہماری جماعت کو اب نئی آزمائشوں کے لئے تیار ہوجانا چاہئے چنانچہ فرمایا:۔
>جہاں تک میں سمجھتا ہوں اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علوم اور اس کی دی ہوئی خبروں سے مجھے معلوم ہوتا ہے جماعت کے لئے اب ایک ہی وقت میں دو قسم کے زمانے آرہے ہیں اور الٰہی جماعتوں کے لئے ہمیشہ ہی یہ دونوں زمانے متوازی آیا کرتے ہیں یعنی ایک ہی وقت میں ترقی اور ایک ہی وقت میں تکالیف اور مصائب کا زمانہ شروع ہوجاتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ وہ آخری زمانہ نہیں آجاتا جس میں تمام تکالیف ختم ہوجاتی ہیں اور صرف ترقیات ہی ترقیات باقی رہ جاتی ہیں لیکن الٰہی سنت یہ ہے کہ جب بیرونی مصائب کا زمانہ ختم ہوجاتا ہے تو اندرونی مصائب شروع ہوجاتے ہیں۔ صحابہ اس نکتہ کو خوب سمجھتے تھے اسی وجہ سے جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عرب پر فتح دی تو اس کے بعد وہ خاموش ہوکر نہیں بیٹھ گئے بلکہ انہوں نے قیصر اور کسریٰ دو زبردست بادشاہوں سے لڑائی شروع کردی۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ شاید دنیا کا لالچ یا دنیا کی بڑائی کی خواہش میں صحابہؓ نے ایسا کیا لیکن واقعات اس کی تردید کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں تھی کہ حضرت ابوبکرؓ جانتے تھے کہ جب بھی بیرونی خطرہ کم ہوا اندرونی فسادات شروع ہوجائیں گے اس لئے جب قیصر نے حملہ کیا تو انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ قیصر نے حملہ نہیں کیا بلکہ خدا نے ایک راہ نکالی ہے تاکہ مسلمان ایک مصیبت کے ذریعہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے اندر نئی زندگی اور نیا تغیر پیدا کریں۔ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نے بھی ان حملوں کو ایک خدائی انتباہ سمجھا اور وہ لڑائی کے لئے تیار ہوگئے تاکہ مسلمان بیدار رہیں اور ان کے اندر نئی روح اور نئی زندگی پیدا ہوتی رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مصائب خدا کی طرف سے اس لئے آتے ہیں تاکہ قوم میں آرام کے سامانوں کے پیدا ہونے کی وجہ سے کلی طور پر وہ دنیا کی طرف مائل نہ ہوجائیں۔ انفرادی طور پر تو ایسے ہزاروں لوگ مل سکتے ہیں جو بڑی بڑی دولتوں کے مالک ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ کو نہیں بھولتے مگر قومی طور پر اس مقام پر پہنچنا بڑا مشکل ہوتا ہے تو میں اسی وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتی ہیں جب تک وہ مصائب اور آفات میں گھری رہتی ہیں۔
پس مصائب کا زمانہ روحانی ترقی کے لئے ایک نہایت ضروری چیز ہے اگر کسی وقت باہر سے مصائب نہ آئیں تو مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر اندرونی طور پر خود مصائب تلاش کرنے کی کوشش کرے۔ یہ غلط خیال ہے کہ ابتلاء صرف ابتدائی زمانہ میں آیا کرتے ہیں ترقی کے زمانہ میں ابتلائوں کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کی ترقی اور ابتلاء یہ دو توام بھائی ہیں۔ ابتدائی سے ابتائی زمانہ میں بھی ابتلا آتے ہیں اور انتہائی عروج کے وقت بھی ابتلاء آتے ہیں<۔۳۹
حضرت امیرالمومنین نے یہی حقیقت ایک دوسرے رنگ میں ۲۹۔ وفا/ جولائی کو بھی خطبہ جمعہ کے دوران واضح کی اور کھلے لفظوں میں انتباہ فرمایا کہ:۔
>الٰہی جماعتوں کا یہ طریق ہوتا ہے کہ دشمن انہیں مارنا چاہتے ہیں تو ان کے افراد اس سے گھبراتے نہیں بلکہ اپنے آپ کو موت کے لئے پیش کرتے چلے جاتے ہیں اور اگر ہم ایک نبی کی جماعت ہیں تو یقیناً ایک دن ہمارے مخالف ہمیں کچلنے کی کوشش کریں گے اور چاہیں گے کہ اس کانٹا کو اس رستہ سے ہٹا دیا جائے مگر جب ایسا وقت آئے گا تو کیا وہ لوگ جو اب اپنی آمد کا ۱۰/۱ حصہ بھی بطور چندہ نہیں دیتے اس وقت سینکڑوں روپے کی ماہوار آمد کو چھوڑ دیں گے؟ جماعت پر جب بھی ایسا وقت آئے گا وہ اپنے آپ کو غیر احمدی کہنا شروع کردیں گے اور اپنے دلوں کو اس طرح تسلی دے لیں گے کہ خدا تعالیٰ تو عالم الغیب ہے وہ تو جانتا ہے کہ ہم ولی سے احمدی ہیں۔ اس وقت جماعت کا کتنا حصہ ہوگا جو باقی رہ جائے گا اور کہے گا کہ اچھا تم ہمیں مارنا چاہتے ہو تو مارتے جائو۔ ملازمتوں سے الگ کرنا چاہتے ہو تو الگ کردو۔ ملک بدر کرتے ہو تو ملک بدر کردو جیل خانوں میں ڈالتے ہو تو جیل خانوں میں ڈال دو۔ ہم وہاں بھی فریضہ تبلیغ کو نہیں چھوڑیں گے تم ہمیں پھانسی دیتے ہو تو دے دو ہم پھانسی کے تختوں پر بھی نعرہ ہائے تکبیر بلند کریں گے۔ جب جماعت میں ایسا رنگ پیدا ہوجائے گا تو پھر وہی افسر جو ملک بدر کرنے پر مامور ہوں گے۔ اسی طرح جیل خانوں کے افسر اور جلاد وغیرہ سب احمدیت کو قبول کرلیں گے کہ احمدیہ جماعت واقعی الٰہی جماعتوں والا رنگ رکھتی ہے لیکن جو شخص ابھی سے اپنے آپ کو اس گھڑی کے لئے تیار نہیں کرتا اس پر ہم کیسے امید کرسکتے ہیں کہ وہ وقت آنے پر ثابت قدم رہے گا۔ بے شک جماعت میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنی دنیوی جائدادوں اور اپنی آمدنوں پر لات مار کر دین کی خدمت کے لئے آگئے ہیں۔ مگر پھر بھی جماعت کا ایک حصہ سست اور غافل ہے اور اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
یاد رکھو! جب تک جماعت کا اکثر حصہ نبیوں کی جماعتوں کی طرح مار کھانے کے لئے تیار نہیں ہوجاتا ہم اپنے مقصد کو حاصل نہیں کرسکتے۔ مار کھانا بڑے حوصلے کی بات ہے۔ جو مارتے ہیں وہ دنیا کی توجہ اپنی طرف نہیں پھیر سکتے۔ مگر جو مار کھاتے ہیں ان کی طرف دنیا کی توجہ پھر جاتی ہے<۔۴۰
رمضان المبارک کی برکات سے متعلق بصیرت افروز خطاب اور اجتماعی دعا
۲۶۔ وفا/ جولائی کو انتیسواں روزہ تھا۔ اس موقع پر جماعت احمدیہ کوئٹہ کے تمام احباب مرد وزن یارک ہائوس میں اجتماعی دعا کیلئے جمع
جمع ہوئے حضرت امیرالمومنین کے نے باوجود ناسازی طبع کے شمولیت کی اور ارشاد فرمایا:۔
>رمضان بڑی برکتوں والا مہینہ ہے اس میں انسان خدا تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کے لئے جتنی بھی کوشش کرسکے اسے کرنی چاہئے۔ سب سے بڑا سبق جو رمضان ہمیں دینے کے لئے آتا ہے وہ یہ ہے کہ مومن کو چاہئے کہ اپنی روحانیت کی تکمیل کے لئے دوسرے ایام میں بھی روزے رکھتا رہے۔ مگر افسوس ہے کہ اس زمانہ میں اس طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے رمضان آتا ہے تو لوگ روزے رکھنے شروع کردیتے ہیں اور بعض اتنا تعہد کرتے ہیں کہ مسافر اور مریض بھی روزے رکھتے ہیں۔ اور کوئی نہ کوئی توجیہہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کے لئے روزہ رکھنا جائز قرار دیا جاسکے۔ لیکن اس کے بعد سارا سال اس سبق کو بھلا دیا جاتا ہے اور کبھی نفلی روزے نہیں رکھے جاتے حالانکہ یہ ایام صرف اپنی ذات میں ہی نہیں بلکہ دوسرے ایام میں بھی روزے رکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
اسلام کی بڑی بڑی عبادتیں` نماز` روزہ` زکٰوۃ اور حج ہیں۔ لیکن اگر ہم غور کے ساتھ کام لیں تو ہمیں یہ چاروں عبادتیں نوافل کے ساتھ وابستہ نظر آتی ہیں۔ مثلاً نماز کے لئے اگرچہ دن میں پانچ وقت مقرر ہیں لیکن اس کے ساتھ کئی نوافل لگا دیئے گئے ہیں۔ حج اگرچہ سال میں ایک دفعہ مقرر ہے مگر اس کے ساتھ عمرہ لگا دیا گیا ہے جو سال میں ہر وقت ہوسکتا ہے۔ زکٰو~ہ~ اگرچہ سال میں ایک دفعہ مقرر ہے مگر اس کے ساتھ صدقہ لگا دیا گیا ہے جو ہر وقت کیا جاسکتا ہے اسی طرح رمضان بھی یہ بتانے کے لئے آتا ہے کہ دوسرے ایام میں بھی ہمیں روزے رکھنے چاہئیں۔ گویا رمضان ٹریننگ کا مہینہ ہے اور جس غرض کے لئے اس میں مشق کرائی جاتی ہے اگر وہ پوری نہ ہو تو مشق کا فائدہ ہی کیا؟ ایک سپاہی کو پریڈ گولی چلانا اور دوسرے فنون حرب اس لئے سکھائے جاتے ہیں تا وہ وقت آنے پر قوم اور ملک کی خدمت کرسکے۔ اگر وہ وقت پر یہ کہہ دے کہ میں نے جو کچھ کرنا تھا ٹریننگ کے عرصہ میں کرلیا ہے تو اسے کون عقلمند کہے گا۔
صحابہؓ میں نفلی روزے رکھنے کا خاص جوش پایا جاتا تھا لیکن دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوست اس طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ دوستوں کو چاہئے کہ علاوہ رمضان میں روزے رکھنے کے نفلی وزے بھی وقتاً فوقتاً رکھتے رہا کریں اس سے جہاں روزے رکھنے والے کو ثواب ملے گا وہاں دوسرے لوگوں میں بھی روزوں کی تحریک جاری ہوگی۔
بے شک رمضان میں برکتیں زیادہ ہیں لیکن یہ اس لئے آتا ہے تا مومنوں کو اس بات کی عادت ڈالے کہ وہ دوسرے ایام میں بھی روزے رکھ کر اپنی روحانیت کی تکمیل کیا کریں<
اس نصیحت کے بعد حضور نے احباب سمیت لمبی دعا فرمائی۔ اختتام دعا پر جماعت احمدیہ کوئٹہ کی طرف سے سب احباب کی افطاری کرائی گئی۔۴۱
قرآن مجید کا اردو ترجمہ سیکھنے کی پرزور تحریک
۲۹۔ وفا/ جولائی کو حضور نے یارک ہائوس میں ایک نہایت اہم پبلک لیکچر دیا۔ اخبار >پکار< کوئٹہ۴۲ نے اپنے ۱۳۔ اگست ۱۹۴۹ء کے ایشوع میں اس تقریر کا مندرجہ ذیل ملخص شائع کیا:۔
>مرزا بشیر الدین امیر جماعت احمدیہ کی تقریر۔
کوئٹہ ۲۹۔ جولائی آج شام سات بجے یارک ہائوس لٹن روڈ میں امیر جماعت احمدیہ نے ایک تقریر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ لوگوں کو اردو بولنا چاہئے انہوں نے حاضرین جن میں اکثریت جماعت احمدیہ کے ممبروں کی تھی پر زور دیا کہ وہ پنجابی زبان کو ختم کردیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر ایک کو چاہئے کہ وہ قرآن کا کم از کم اردو ترجمہ ضرور یاد کریں۔ اس تقریر میں آپ نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ میرے پاس دیوبند کے دو مولوی آئے اور مجھے کہا کہ آپ کیا پڑھے ہوئے ہیں؟ میں نے ان کو جواب دیا کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ بھی قرآن پڑھے ہوئے تھے۔ میں بھی قرآن پڑھا ہوا ہوں۔
مرزا صاحب نے تقریباً ۲۰ منٹ تقریر کی اور اس کے بعد متعدد شہریوں اور نمائندگان پریس سے ملے اور اپنی قیام گاہ میں تشریف لے گئے۔ )نامہ نگار<(
آیت قل ان صلوتی ونسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین کی لطیف اور پرمعارف تفسیر پر مشتمل سلسلہ خطبات
سیدنا حضرت المصلح الموعود خلیفتہ المسیح الثانی نے ۲۵۔ اخاء اکتوبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو عالم رئویا میں دیکھا کہ:۔
‏body] g>[taبہت سے لوگ جمع ہیں )اور( میں ان کے سامنے رسول کریم~صل۱~ کی زندگی پر تقریر کررہا ہوں اور آیت قل ان صلواتی و نسکی و محبای و مماتی للہ رب العالمین کو لے کر اس کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتا ہوں۔
فرمایا:۔ >اس سے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بیج کے طور پر اس آیت کے مطالب کو میرے قلب میں داخل کردیا ہے اور جب ضرورت ہوگی وہ اس کے مطالب کو میرے ذریعہ سے روشن فرمائے گا<۔۴۳
یہ ایک عظیم پیشگوئی سفر کوئٹہ کے دوران پوری ہوگئی جب کہ حضور نے اس آیت کریمہ کی لطیف تفسیر پر ایک سلسلہ خطبات شروع فرمایا جو ۵۔ ظہور/ اگست سے لے کر ۲۶۔ ظہور/ اگست تک جاری رہا۔ ان پرمعارف خطبات میں حضور انور نے ایک نئے اسلوب اور اچھوتے اور دل نشین پیرائے میں یہ حقیقت روز روشن کی طرح نمایاں کر دکھائی کہ آنحضرت~صل۱~ کی عبادتیں` قربانیاں` زندگی اور موت حقیقتاً رب العالمین کی رضا اور خوشنودی کے لئے تھی اس سلسلہ کے آخری خطبہ میں حضور نے مسلمانان عالم کی توجہ اس انقلاب انگیز نکتہ کی طرف منعطف فرمائی کہ
>رسول کریم~صل۱~ کو اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کا مطاع قرار دیا ہے پس آپ پر سچا ایمان رکھنے والوں کا فرض ہے کہ جس طرح رسول کریم~صل۱~ نے بنی نوع انسان کے لئے انتہائی قربانیوں کا مظاہرہ کیا اسی طرح وہ بھی اپنی اپنی روحانی استعداد کے مطابق ان قربانیوں میں حصہ لیں تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی محمد رسول اللہ~صل۱~ کے قرب میں جگہ دے اور جس طرح آپ تمام انبیاء سے افضل ہیں اسی طرح آپ کی امت بھی اپنی قربانیوں میں تمام امتوں سے افضل ثابت ہو<۔۴۴
اسلام اور موجودہ مغربی نظریئے کے موضوع پرایک جلسہ عام میں اثر انگیز خطاب
۲۱۔ ظہور/ اگست ۶ بجے شام جماعت احمدیہ کوئٹہ کے زیر اہتمام یارک ہائوس کے احاطہ میں ایک شاندار جلسہ منعقد ہوا جس میں حضرت مصلح
موعود نے سوا گھنٹہ تک۔ >اسلام اور موجودہ مغربی نظرئیے< کے موضوع پر ایک فکر انگیز خطاب فرمایا جس میں اسلام کے مخصوص نظریات میں سے توحید` طلاق` حرمت شراب` کثرت ازدواج` جوا اور سزائے موت میں سے ایک ایک کو لے کر ثابت کیا کہ زمانہ حاضرہ میں مغرب کو اسلام کے مقابل پر مذہبی سیاسی اور اقتصادی تھیوری میں شکست فاش اٹھانا پڑی ہے اپنے خطاب کے آخر میں فرمایا کہ تمام خرابی اور تباہی کی صرف رسمی رکھتے ہیں ورنہ وہ سمجھتے کہ تمام برکت قرآن کریم پر عمل کرنے میں ہے اور اگر ہم ذرا بھی اس کے احکام سے ادھر ادھر ہوئے تو ہمیں بھی نقصان پہنچے گا اور ہماری آئندہ نسلیں بھی تباہ ہوں گی۔۴۵ اس جلسہ عام میں احباب جماعت احمدیہ کے علاوہ چھ سو کے قریب غیر احمدی معززین بھی شامل ہوئے جن کی نشست کے لئے کرسیوں کا انتظام تھا خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس تقریر کا تمام سامعین پر نہایت گہرا اثر ہوا۔10] [p۴۶
کوئٹہ میں ایک فوجی افسر کی ملاقات
کوئٹہ میں حضرت مصلح موعود سے ایک فوجی افسر کی ملاقات ہوئی۔ یہ صاحب ہندوستان کی وسیع جنگی تیاری سے خوفزدہ تھے اور کشمیر کی واپسی کو ناممکن تصور کرتے تھے مگر حضرت مصلح موعود نے انہیں قرآن مجید کی روشنی میں ایسا بصیرت افروز جواب دیا جو ایک مخلص مسلمان کی تسلی و تشفی کے لئے کافی و وافی تھا۔ حضرت مصلح موعود کے الفاظ میں اس واقعہ کی تفصیل حسب ذیل ہے فرمایا:۔
>میں کوئٹہ گیا تو وہاں مجھے کچھ فوجی افسر ملنے آئے۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں اسی دوران میں کشمیر کا بھی ذکر آگیا میں نے کہا کشمیر مسلمانوں کو ضرور ملنا چاہئے۔ ورنہ اس کے بغیر پاکستان محفوظ نہیں رہ سکتا۔ دوسرے دن میرے پرائیویٹ سیکرٹری نے مجھے لکھا کہ فلاں کرنیل صاحب آپ سے ملنے کے لئے آئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے الگ بات کرنی ہے۔ میں نے ان کو لکھا کہ آپ کو کوئی غلطی تو نہیں لگی یہ تو کل مجھے مل کر گئے ہیں انہوں نے کہا یہ بات تو درست ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک پرائیویٹ بات کرنی ہے۔ میں نے کہا لے آئو۔ چنانچہ وہ آگئے میں نے کہا فرمائیے آپ نے کوئی الگ بات کرنی تھی کہنے لگے جی ہاں میں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگے کہ آپ نے کہا تھا کہ ہمیں کشمیر لینا چاہئے اور اس کے لئے ہمیں قربانی کرنی چاہئے۔ یہ بات آپ نے کس بنا پر کہی تھی۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہندوستان کے پاس فوج زیادہ ہے میں نے کہا میں خوب جانتا ہوں کہ اس کے پاس فوج زیادہ ہے۔ کہنے لگے تو کیا آپ جانتے ہیں کہ جو بندوقیں ہمارے پاس ہیں وہی ان کے پاس ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے کہنے لگے آپ کو معلوم نہیں ان کے پاس ڈم ڈم کی فیکٹری ہے جو ہزاروں ہزار بندوق ان کو ہر مہینے تیار کرکے دیتی ہے میں نے کہا ٹھیک ہے کہنے لگے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ان کے پاس اتنا گولہ بارود ہے اور آٹھ کروڑ کا گولہ بارود دجو ہمارا حصہ تھا وہ بھی انہوں نے ہم کو نہیں دیا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے کہنے لگے آپ کو معلوم نہیں ان کے ہاں ہوائی جہازوں کے چھ سکواڈرن ہیں اور ہمارے ہاں صرف دو ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے کہنے لگے ان کی اتنی آمد ہے اور ہماری اتنی آمد ہے میں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے کہنے لگے جن کالجوں میں وہ پڑھتے ہیں انہیں کالجوں میں ہم بھی پڑھتے ہیں ان پر علمی رنگ میں کوئی برتری حاصل نہیں۔ میں نے کہا یہ ٹھیک ہے۔ کہنے لگے پھر جب ہماری فوج کم ہے اور ان کی زیادہ ہے گولہ بارود ان کے پاس زیادہ ہے تپیں ان کے پاس زیادہ ہیں۔ ہوائی جہاز ان کے پاس زیادہ ہیں آمد ان کی زیادہ ہم اور ہم بھی انہی کالجوں میں پڑھتے ہوئے ہیں جن میں وہ پڑھے۔ ہمارے اندر کوئی خاص لیاقت نہیں تو پھر آپ نے کس بناء پر ہمیں کہا تھا کہ ہمیں کشمیر لینا چاہئے میں نے کہا دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کم من فئہ قلیلہ غلبت فئہ کثیرہ بان اللہ۔ کہ کئی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں جو الل¶ہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اس لئے بیان فرمائی ہے کہ تم تھوڑے اور کمزور ہوکر ڈرا نہ کرو خدا تعالیٰ طاقت رکھتا ہے کہ تمہیں بڑوں پر غلبہ دے دے اس لئے آپ گھبراتے کیوں ہیں اللہ تعالیٰ پر توکل رکھئے۔ بے شک آپ تھوڑے ہیں لیکن خدا تعالیٰ آپ کو طاقت دے دے گا۔ پھر میں نے کہا میں تم کو ایک موٹی بات بتاتا ہوں۔ تم مسلمان ہو کیا تمہیں معلوم ہے یا نہیں کہ قرآن نے یہ کہا ہے کہ اگر تم مارے جائو گے تو جنت میں جائو گے۔ کہنے لگا جی ہاں۔ میں نے کہا اب دو صورتیں ہیں کہ اگر تم میدان میں کھڑے رہو گے اور زندہ رہو گے تو جیت جائو گے۔ اور اگر مارے جائو گے تو جنت میں چلے جائو گے اب بتائو کیا تمہارے اندر مرنے کا کوئی ڈر ہوسکتا ہے کیونکہ تم سمجھتے ہو کہ اگر میں لڑائی کے میدان میں کھڑا رہا اور لڑتا رہا تو دو ہی صورتیں ہیں یا جیت جائوں یا جنت میں چلا جائوں گا پس تمہاری بہادری کا ہندو کس طرح مقابلہ کرسکتا ہے۔ وہ تو یہ جانتا ہے کہ اگر میں مر گیا تو بندر بن جائوں گا یا سور بن جائوں گا یا کتنا بن جائوں گا یہ اس کا تناسخ ہے۔ تم یہ تو جانتے ہو کہ مر کے جنت میں چلے جائیں گے اور وہ یہ جانتا ہے کہ مر کے کتا بن جائوں گا۔ سور بن جائوں گا بندر بن جائوں گا تو مسلمان اور ہندو کا کوئی مقابلہ ہوہی نہیں سکتا اسے تو کتا یا سور بننے کا ڈر لگا ہوا ہے اور تم میں جنت میں جانے کا شوق ہے۔ تمہارا اور اس کا مقابلہ کیسے ہوسکتا ہے۔ تو حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے دلیری کے اتنا مواقع پیدا کردیئے گئے ہیں کہ اس کو کوئی گزند آہی نہیں سکتی<۔۴۷
‏tav.12.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
ربوہ کے پہلے جلسہ سے لیکر مصلح موعود کی رہائش تک
پہلا باب )فصل سوم(
حضرت نواب محمد الدین صاحب کا انتقال
سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کوئٹہ میں ہی تشریف فرما تھے کہ حضور انور کی خدمت میں یہ روح فرسا اطلاع پہنچی کہ خان بہادر حضرت چوہدری نواب محمد الدین صاحب مری میں انتقال فرما گئے ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔۴۸
آپ مشہور راجپوت باجوہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے جدامجد راجہ فتح چند جی نے سب سے پہلے قبول اسلام کا شرف حاصل کیا۔ تاریخ۔ آئینہ اکبری میں آپ کا قابل تعریف الفاظ میں تذکرہ ملتا ہے۔ راجہ فتح سنگھ جی صوبہ پسرور کے گورنر تھے آپ ہی کی اولاد میں سے حضرت جان محمد صاحب اور حضرت اسماعیل صاحب جیسے اولیاء پیدا ہوئے جن کا مقبرہ کیلاسا گائوں کے نزدیک ہے اور جن کے لڑکے عنایت اللہ خان کے نام پر قصبہ تلونڈی عنایت خاں آباد ہوا۔ حضرت چودھری محمد الدین صاحب اسی قصبہ میں ۱۸۷۲ء میں پیدا ہوئے والد ماجد کا نام صوبہ خاں تھا۔ حضرت چوہدری صاحب کی ابتدائی تعلیم ۱۸۸۰ء میں شروع ہوئی آپ نے انگریزی تعلیم صرف میٹرک تک حاصل کی اور پٹواری کی اسامی سے ملازمت میں قدم رکھا۔ مگر اپنے خلوص محنت اور دیانتداری کے سبب بڑے بڑے عالی مراتب اور بلند مناصب تک پہنچے چنانچہ ۱۸۹۸ء میں تحصیلدار ڈیرہ اسماعیل خان اور ۱۹۰۱ء میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۴ء سے ۱۹۰۶ء تک دہلی میں پہلے سیٹلمنٹ آفیسر پھر ۱۹۰۶ء سے ۱۹۱۰ء تک ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر رہے۔ ۱۹۱۰ء میں نواب صاحب ریاست مالیر کوٹلہ نے آپ کی خدمات حکومت سے مستعار حاصل کیں اور آپ نے ریاست میں مہتمم بندوبست کے فرائض نہایت کامیابی سے انجام دیئے۔ ان خدمات کے صلہ میں ۱۹۱۸ء میں آپ کو خان بہادر کا خطاب دیا گیا ۱۹۱۹ء میں آپ پاکپٹن اور خانیوال میں سب ڈویژنل آفیسر رہے ۱۹۲۲ء میں آپ پونچھ ریاست میں مہتمم بندوبست و ریونیو آفیسر کی حیثیت میں فرائض بجا لاتے رہے۔ پھر ضلع رہتک کے ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۴ء میں آپ کی خدمات ریاست بہاول پور نے حاصل کرلیں۔ آپ اپنے مختصر قیام ریاست میں ایک ایسی سکیم تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جس میں ریاست کو ۳۸ کروڑ کا فائدہ ہوتا مگر افسوس یہاں آپ کو دربار ریاست کے اندرونی خلفشار اور انتشار کے باعث صرف ایک سال تک رہنے کا موقعہ میسر آیا تاہم آپ کی خدمات جلیلہ کا اقرار اخبار پائونیر نے اپنی ۲۷۔ جنوری ۱۹۲۵ء کی اشاعت میں نمایاں طور پر کیا۔ اپریل ۱۹۲۶ء میں آپ ضلع شیخوپورہ میں دپٹی کمشنر مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۸ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوگئے۔ آپ کی الوداعی پارٹی میں پنجاب کے گورنر سر جعفری ڈی مائونٹ مورنس اور سردار بوٹا سنگھ پریذیڈنٹ پنجاب کونسل نے آپ کی بہت تعریف کی۔ اکتوبر ۱۹۳۰ء میں آپ کونسل آف اسٹیٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ ۱۹۳۱ء سے ۱۹۳۵ء تک جے پور کے پردھان منتری یعنی پرائم منسٹر رہے اور نواب کا خطاب ملا بعد میں قریباً ۶ برس تک ریاست جودھ پور کے ریونیو منسٹر رہے۔ الغرض پوری زندگی خداوند کریم کے انعامات کا مہبط و مورد رہے۔ مگر آپ کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ پر اتقاء پارسائی اور روحانیت ہی کا درویشانہ رنگ غالب رہا۔ نہایت مرنجان مرنج طبیعت رکھتے تھے اور مسلم غیر مسلم سب بڑی قدر و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے نہایت خلیق غایت درجہ رحمدل` منصف مزاج` راستگو` غریبوں کے ہمدرد و غمگسار` خدا ترس اور شب بیدار۔ اکثر بڑے بڑے مقدمات کا فیصلہ لکھنے سے پہلے بہت دعائیں کرتے تھے۔۴۹ از مضمون سید علی شاہ صاحب ایس ٹی ای ان ڈبلیو آر میرپور خاص سندھ۔ منشی دین محمد صاحب ایڈیٹر میونسپل گزٹ لاہور نے اپنی کتاب یادگار دربار تاجپوشی ۱۹۱۱ء کے صفحہ ۳۰۷ پر آپ کے مختصر حالات سپرد قلم کئے ہیں۔
حضرت نواب صاحب سلسلہ احمدیہ کی نہایت معروف و ممتاز شخصیت اور انتہائی مخلص بزرگ تھے جنہوں نے مسیح محمدی کا مبارک زمانہ پایا اور تحریک احمدیت سے دلی طور پر وابستہ ہوئے مگر بیعت حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر ۱۹۲۷ء کے لگ بھگ کی۔
حضرت چوہدری صاحب اپنے خود نوشت حالات قبول احمدیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
>پچاس سال گزرے ہیں۔ میں ۱۸۸۹ء میں سیالکوٹ ہائی سکول میں پڑھتا تھا۔ اسی سکول میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مدرس تھے۔ میں عموماً ہر روز عصر کے بعد مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا۔ آپ اکثر ایسے وقت میں شیخ نتھو صاحب )والد ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب( کی دوکان پر یا میاں مولا بخش صاحب بوٹ فروش کی دکان پر ملتے تھے۔ حضرت مولوی صاحب کی تقریر بہت موثر اور فصیح ہوا کرتی تھی۔ میں نے سکول میں عربی کا مضمون لے رکھا تھا اور مولوی صاحب سے عربی کی ابتدائی کتاب پڑھا کرتا تھا۔ اسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہامات اور کتابوں >براہین احمدیہ< اور >سرمہ چشم آریہ< وغیرہ کا بہت چرچا تھا اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب جن کی طبیعت پہلے نیچریت کی طرف زیادہ راغب تھی۔ حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کی صحبت کے اثر سے نیچریت سے بیزار ہوکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی غلامی میں داخل ہوگئے تھے۔ مولوی صاحب حکیم حسام الدین صاحب والی مسجد میں درس قرآن دیا کرتے تھے اور اسی میں چوہدری نصراللہ خاں صاحب مرحوم شامل ہوا کرتے تھے۔
سیالکوٹ سکول سے فارغ ہوکر میں اسی ضلع کے بندوبست میں ٹریننگ پر تحصیل ظفروال میں تعینات ہوا اور متواتر کئی سال تک دیہاتی زندگی بسر کی۔ ظفروال میں حافظ فصیح الدین صاحب تحصیلدار تھے جو بظاہر بہت متشرع اور دیندار اہلحدیث تھے اور شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے حسن ظنی رکھتے تھے مگر بعد میں سخت مخالف ہوگئے۔ ۱۸۹۶ء میں جب لاہور میں جلسہ مذاہب تھا۔ میں حافظ صاحب کے ساتھ جلسہ میں گیا۔ تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سٹیج پر تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا مضمون سنا رہے تھے عجیب کیفیت تھی۔ سب لوگ ہمہ تن گوش تھے۔ تقریر سننے کے بعد شام کو جب ہم مکان پر پہنچے تو حافظ فصیح الدین صاحب سے حافظ محمد یوسف صاحب ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مضمون کے متعلق دریافت کیا۔ انہوں نے کہا۔ اسلام پر اس سے بہتر مضمون میں نے کبھی نہیں سنا۔ الغرض باوجود مخالفت کے انہوں نے اس مضمون کا نہایت اعلیٰ ہونا تسلیم کیا۔
میں ۱۸۹۷ء میں صاحب کمشنر بندوبست پنجاب کے دفتر میں سپرنٹندنٹ تھا۔ اور لاہور میں چوہدری شہاب الدین صاحب` مولوی محمد علی صاحب اور میں ایک ہی مکان میں رہتے تھے۔ چوہدری حاجت اور مولوی صاحب ان دنوں وکالت کے امتحان کی تیاری کررہے تھے۔ مولوی صاحب اکثر قادیان جاتے رہتے تھے وکالت پاس کنے کے بعد جب انہوں نے کلی طور پر اپنے آپ کو دینی خدمت میں لگا دیا تو ان کی اس قربانی کا میری طبیعت پر بہت اثر ہوا۔
کچھ عرصہ بعد میں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے بندوبست میں تعینات ہوا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب وہاں بھی اکثر مجھے تبلیغی خط لکھا کرتے تھے۔ میں حسن ظن اور اخلاص رکھتا تھا اور حسب توفیق چندہ بھی دیا کرتا تھا۔ اخبار الحکم اور البدر کا بھی خریدار تھا اور ہمیشہ پڑھا کرتا تھا لیکن جب میں دیکھا کہ بعض لوگ بیعت کرنے کے بعد مرتد ہوجاتے ہیں تو میں سوچا کرتا کہ حسن ظن رہنا زیادہ بہتر ہے بمقابلہ اس کے کہ بیعت کرکے پھر ارتداد کا خطرہ لاحق ہو۔ مجھ کو تو شروع سے حسن ظن رہا ہے لیکن جب کبھی میں سنتا کہ فلاں نے بیعت کی ہوئی تھی اور وہ مرتد ہوگیا ہے تو میں اکثر یہ تحقیقات کرنے کی کوشش کرتا کہ اس کے ارتداد کی کیا وجہ ہوئی؟ اکثر مرتدین سے گفتگو کرنے کا بھی موقع ملا۔ مثلاً ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب پٹیالوی سے۔ جب وہ کئی رسالے مخالفت میں لکھنے کے بعد خاموش ہوگئے تو میں نے پوچھا اب آپ خاموش کیوں ہیں؟ انہوں نے کہا۔ اب احمدیت کا باقی کیا رہ گیا ہے جو میں کچھ لکھوں۔ گویا وہ بزعم خود احمدیت کو ختم کرچکے تھے۔ بعض لوگ جو باوجود ظاہری قربانیوں کے جماعت سے کٹ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ وہی ہے جو دنیا میں سب سے پہلے خلیفہ حضرت آدم علیہ السلام کے منکروں کو پیش آئی تھی۔ یعنی وہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب ہم پر سارا دارومدار ہے اور ان میں اپنی لیاقت اور قربانیوں وغیرہ کے خیال سے تکبر اور رعونت آجاتی ہے جس سے خدائی قانون کے ماتحت ان کا سارا کیا کرایا برباد ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس تکبر اور رعونت کی بیماری سے محفوظ رکھے اور ہمارے بچھڑے ہوئے دوستوں کو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تیار کردہ کشتی میں سوار ہونے اور آپ کے پاس بیٹھنے کی توفیق دے۔ ~}~
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے
اگر یہ جڑھ رہی سب کچھ رہا ہے
یہی اک فخر شان اولیا ہے
بجز تقویٰ زیادت ان میں کیا ہے
ڈرو یارو کہ وہ بینا خدا ہے
اگر سوچو یہی دارالجزاء ہے
ہمارے خاندان میں سب سے پہلے میرے مرحوم بھائی چوہدری محمد حسین نے بیعت کی اس کے بعد رفتہ رفتہ قریباً سارا خاندان احمدی ہوگیا۔ میں ۱۹۰۶ء میں دہلی بندوبست میں اسسٹنٹ سٹیلمنٹ آفیسر تھا۔ میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق اسی بندوبست میں ناظر تھے۔ میر صاحب جلسہ سالانہ پر قادیان جارہے تھے میں نے اپنے لڑکے محمد شریف )حال ایڈووکیٹ منٹگمری( کو جو اس وقت پرائمی میں پڑھتا تھا میر صاحب کے ساتھ بھیج دیا وہاں اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ دہلی کے زمانہ میں محمد شریف کا چھوٹا بھائی محمد سعید چیچک سے سخت بیمار ہوگیا۔ اس کی حالت نہایت تشویشانک تھی اور ہم قریباً مایوس ہوچکے تھے۔ میر قاسم علی صاحب نے دعا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی خدمت میں تار دیا۔ اور شام کو ہمیں تسلی دی کہ اس وقت قادیان میں محمد سعید کی صحت کے لئے دعا ہورہی ہے زیادہ فکر نہیں کرنی چاہئے۔ چیچک اس قدر تھی کہ اگر وہ بچ بھی گیا تو اس کی آنکھیں نہیں بچ سکیں گی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی دعا کی برکت سے محمد سعید کو کامل شفا عطا فرمائی۔
باوجود ان سب باتوں کے میری قسمت میں نہیں تھا کہ میں صحابی ہوتا۔ اور مجھے اخلاص رکھنے کے باوجود بیعت کی توفیق بہت دیر میں ملی۔ جب حضرت خلیفہ اولؓ کے انتقال پر جماعت میں اختلاف پیدا ہوا اور ہمارے دوست جن کی میرے دل میں بہت عزت تھی قادیان چھوڑ کر لاہور جا بیٹھے تو مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ انہی دنوں میں نے رئویا دیکھا جو میں نے اپنے بھائی چوہدری غلام حسن صاحب کو سنایا۔ جس سے مجھ پر یہ ظاہر ہوا کہ خلافت ثانیہ حق ہے۔ اب وہ دور شروع ہوا جب میں نے حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات اور تحریروں کو پڑھنا شروع کیا۔ اور ان سے ہمیشہ بہت فائدہ اٹھایا اختلاف کے چند روز بعد میں سیالکوٹ سے لاہور آرہا تھا راستہ میں وزیرآباد سٹیشن پر منشی نواب خان صاحب مرحوم تحصیلدار مجھے مل گئے۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت میں سرشار نظر آیا کرتے تھے اور ہر وقت سلسلہ کی باتیں کیا کرتے تھے اس روز خلاف معمول وزیر آباد سے گوجرانوالہ پہنچنے تک انہوں نے سلسلہ کے متعلق جب کوئی تذکرہ نہ کیا۔ تو میں نے کہا معلوم ہوتا ہے آپ منکرین خلافت میں شامل ہوچکے ہیں۔ کیونکہ وہ ذوق تبلیغ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے محبت آپ میں نہیں رہی۔ میرا یہ قیاس صحیح نکلا دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوئے پر نہ چھوڑا ساتھ تو نے اے مرے حاجت برار۔
لاہور پہنچ کر میں چودھری شہاب الدین صاحب کے مکان پر ٹھہرا۔ وہاں میری برادری کے میرے ایک عزیز موجود تھے۔ جو مخلص احمدی ہوا کرتے تھے۔ اور مجھے تبلیغی خط لکھتے رہتے تھے۔ ان سے میں نے وہی سوال کیا کہ آپ مصدقین خلافت میں سے ہیں یا منکرین میں سے انہوں نے کہا آپ نے بہت سخت لفظ استعمال کیا ہے۔ میں خلافت ثانیہ کو نہیں مانتا ان سے اس سلسلہ میں گفتگو ہوتی رہی۔ دوسرے دن وہ صبح جاگے تو انہوں نے کہا رات کو خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی وہ نظم میں پڑھتا رہا جس میں درج ہے۔ ~}~
زمین قادیاں اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارض حرم ہے
اسی نظم میں ہے ~}~
بشارت دی کہ اک بیتا ہے تیرا
جو ہوگا ایک دن محبوب میرا
کروں گا دور اس مہ سے اندھیرا
دکھائوں گا کہ اک عالم کو پھیرا
بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی
سبحان الذی اخزی الاعادی
ان کے والد صاحب اور سارا کنبہ احمدی ہیں میں ان کے خواب کی کیفیت ان سے سن کر بہت خوش ہوا اس خیال سے بھی کہ ان کا مصدقین میں شامل ہونا ان کے والد صاحب ہے بڑی مسرت کا باعث ہوگا۔ ان کے والد صاحب اور ان کا خاندان ہماری باجوہ برادری میں نہایت مخلص احمدی ہیں۔
پچھلے سال میں نے >الفضل< میں پڑھا تھا کہ انہوں نے حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھا کہ:۔
>میری روح کا زائد از چالیس برس حضور سے تعلق ہے` اور اس پر حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے تحریر فرمایا۔
>آپ جیسے مکلص کا یہی مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ خاص فضل کرے<۔
لاہور سے دوسرے دن میں اپنی ملازمت پر چلا گیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے عزیز دوست مصدقین خلافت میں شامل نہیں ہوسکے۔ اگرچہ میں امید رکھتا ہوں کہ خداوند کریم ان کے متقی اور صالح والد صاحب کی دعائیں ان کے حق میں قبول فرمائے گا۔ اور ان کو اپنے والد صاحب کی زندگی میں یہ سعادت نصیب ہوگی۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشند خدائے بخشندہ
جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں میں اخلاص تو بہت مدت سے رکھتا تھا لیکن بیعت کا شرف مجھے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے زمانہ میں عطا ہوا۔
اس اثناء میں میرے بھائی اور میری اہلیہ اور بچے مجھ سے بہت پہلے بیعت کرچکے تھے اور مجھے نہایت افسوس ہے کہ میں اس مقام پر بہت دیر سے پہنچا۔
میں نے جو اخلاص حاصل کرنے کے بعد بیعت میں اس قدر دیر لگا دی آج مجھے اس کا سخت افسوس ہورہا ہے لیکن ع
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
اکثر ایسے احباب ہیں جن پر صداقت کھل چکی ہے مگر وہ کسی دنیوی رکاوٹ کے ماتحت ابھی تامل ہیں۔ ایسے دوستوں سے میں کہتا ہوں ع
من نہ کردم شمار حذر بکنید
ایسا نہ ہو کہ اسی تامل اور تردد میں موت آجائے۔ اور امام وقت کی شناخت سے محروم رہ جائو۔ پس نہایت ضروری ہے کہ جب انشراح صدر ہوجائے تو بیعت میں توقف نہ کیا جائے<۔۵۰
حضرت نواب صاحب کے دل میں یہ حسرت و ارمان زندگی بھر قائم رہا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقدس زمانہ دیکھا` میرے خاندان کے آدمیوں نے بیعت کی۔ حتیٰ کہ میرے بیٹے کو )چودھری محمد شریف صاحب( بفضلہ تعالیٰ صحابہ کے پاک گروہ میں شامل ہونے کی توفیق مل گئی مگر میں محروم رہا۔ اس محرومی کے شدت احساس نے بیعت کے بعد آپ کے دل میں خدمات سلسلہ کے لئے بہت جوش پیدا کر ڈالا جو رب جلیل کے فضل و عنایت سے دم بدم بڑھتا گیا اور آپ پیرانہ سالی میں بھی نوجوانوں سے بڑھ کر شوق و مستعدی سے مصروف عمل رہنے لگے۔
حضرت مصلح موعود نے ہجرت پاکستان کے بعد تبوک/ ستمبر ۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء میں آپ کو صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا پہلا ناظر دعوت و تبلیغ مقرر فرمایا۔ اور آپ نے یہ خدمت نہایت محنت و استقلال سے ادا کی۔ مگر اصل کام جس کی خاطر خدائے عزوجل نے اپنی تقدیر خاص سے آپ کو خلت وہود سے نوازا اور لمبی اور برکتوں سے معمور زندگی عطا فرمائی مرکز احمدیت ربوہ کے قیام کا عظیم الشان کارنامہ تھا جو آپ کے ہاتھوں خدا کے فضل اور حضرت مصلح موعود کی دعائوں اور روحانی توجہ کے طفیل معرض وجود میں آیا۔ اور جو قیامت تک آپ کو یادگار رہے گا اسی بے مثال خصوصیت کے باعث سیدنا حضرت مصلح موعود نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں قیام مرکز کے سلسلہ میں آپ کی سنہری خدمات کا ذکر نہایت شاندار الفاظ میں کرتے ہوئے فرمایا:۔
>جس طرح میرے قادیان سے نکلنے کا کام کیپٹن عطاء اللہ صاحب کے ہاتھ سے سرانجام پانا تھا اسی طرح ایک نئے مرکز کا قیام ایک دوسرے آدمی کے سپرد تھا۔ جو پیچھے آیا اور کئی لوگوں سے آگے بڑھ گیا۔ میری مراد نواب محمد دین صاحب مرحوم سے ہے۔ جن کی اسی ہفتہ میں وفات واقع ہوئی ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کی خدمات کی وجہ سے ربوہ میں کوئی ایسا نشان مقرر کیا جائے جس کی وجہ سے جماعت ہمیشہ ان کی قربانیوں کو یاد رکھے۔ اور اس بات کو مت بھولے کہ کس طرح ایک اسی سالہ بوڑھنے جو محنت اور جفاکشی کا عادی نہیں تھا جو ڈپٹی کمشنر اور ریاست کا وزیر رہ چکا تھا جو صاحب جائداد اور متمول آدمی تھا۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۴۹ء کے شروع تک باوجود اس کے کہ اس کی طبیعت اتنی مضمحل ہوچکی تھی کہ وہ طاقت کا کوئی کام نہیں کرسکتا تھا اپنی صحت اور اپنے آرام کو نظر انداز کرتے ہوئے رات اور دن ایک کردیا۔ اس لئے کہ کسی طرح جماعت کا نیا مرکز قائم ہوجائے۔ سینکڑوں دفعہ وہ افسروں سے ملے۔ ان سے جھگڑے کئے۔ لڑائیاں کیں` منتیں اور خوشامدیں کیں اور پھر مرکز کی تلاش کے لئے بھی پھرتے رہے۔ انہیں اس کام میں اتنا انہماک تھا کہ ایک دفعہ میں اکیلا ربوہ گیا۔ اور انہیں اطلاع نہ دی۔ میں نے سمجھا وہ ضعیف العمر ہیں۔ انہیں تکلیف نہ دی جائے۔ ان کو ریٹائر ہوئے بھی بیس سال ہوچکے تھے۔ جب میں واپس آیا تو انہوں نے کہا مجھے سخت افسوس ہے کہ اس دفعہ میں آپ کے ساتھ نہیں جاسکا مجھے بھی اطلاع دیتے میں ساتھ چلا جاتا۔ میں نے کہا صرف آپ کی تکلیف کے خیال سے میں نے آپ کو اطلاع نہیں دی۔ انہوں نے کہا میری خواہش تھی کہ میں آپ کے ساتھ جاتا اور اب نہ جانے کی وجہ سے مجھے انتہائی رنج ہوا۔ غرض اس کام کے لئے انہوں نے دن رات ایک کردیا تھا۔ اور یقیناً اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی موزوں آدمی تھے۔ ہمارے مرکز کا قائم ہونا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ بڑی اہم چیز ہے اگر ہمارا نیا مرکز کامیاب ہوگا۔ اور ہمیں یقین ہے کہ وہ کامیاب ہوگا تو یہ ایک ویسی ہی اہمیت رکھنے والی چیز ہوگی۔ جیسے کہ دنیا کے بڑے بڑے مذہبی مرکزوں کی تعمیر اہمیت رکھتی تھی۔ مقامات مرکزی کا قیام ایک بہت بڑا کام ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے جدید مرکز کے قیام کا سہرا یقیناً نواب محمد دین صاحب مرحوم کے سر پرد ہے اور یہ عزت اور رتبہ ان ہی کا حق ہے جب تک یہ جماعت قائم رہے گی۔ لوگ ان کے لئے دعا بھی کریں گے اور ان کی قربانی کو دیکھ کر نوجوانوں کے دلوں میں یہ جذبہ بھی پیدا ہوگا۔ کہ وہ ان جیسا کام کریں۔ کجا ایک بوڑھا بیمار اور کمزور آدمی اور کجا اس کی یہ حالتکہ وہ دن کو بھی وہاں موجود ہے۔ رات کو بھی وہیں موجود ہے اور رپورٹیں پیش کررہا ہے۔ کہ آج میں فلاں سے ملا تھا۔ آج میں فلاں سے ملا تھا۔ اب بھی جب مری میں تھے وفات سے دس دن پہلے انہوں نے مجھے لکھا کہ اب ربوہ میں تعمیر کا کام شروع ہونے والا ہے اور چونکہ یہ کام نگرانی چاہتا ہے۔ اور میری صحت تھیک ہوگئی ہے اس لئے میرا ارادہ ہے کہ ربوہ چلا جائوں اور کام میں مدد دوں۔ غرض ہرکارے و ہر مروے سینکڑوں کام ہوتے ہیں لیکن بہت برکت والا ہوتا ہے وہ آدمی جس س کوئی ایسا کام ہوجائے جو اپنے اندر تاریخی عظمت رکھتا ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کام کا ان کے ہاتھ سے ہونا ان کی کسی بہت بڑی نیکی کی وجہ سے تھا اور میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ پیچھے آئے مگر آگے گزر جائے۔
بیعت سے پہلے وہ احمدیت کے قائل تو تھے۔ چنانچہ جب وہ دہلی میں افسر مال لگے ہوئے تھے اور میر قاسم علی صاحب وہاں تھے تو انہوں نے اپنے لڑکے چوہدری محمد شریف صاحب وکیل کی بیعت کرا دی تھی۔ لیکن خود بیعت نہیں کرتے تھے غالباً ۱۹۲۷ء میں انہوں نے بیعت کی ہے۔ مجھے یاد ہے جب انہوں نے بیعت کی تو ساتھ یہ درخواست کی کہ میری بیعت ابھی مخفی رہے انہوں نے کہا مین ریٹائر ہوچکا ہوں۔ اور اب ملازمتیں ریاستوں میں ہی مل سکتی ہیں۔ اس لئے اگر میری بیعت ظاہر نہ ہو تو ملازمت حاصل کرنے میں سہولت رہے گی۔ جب وہ ہمارے سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں اس وقت و ریاست مالیر کوٹلہ یا جے پور میں ملازم تھے۔ بیعت کرکے وہاں جانے کی بجائے شملہ چلے گئے۔ میں بھی چند دنوں کے لئے شملہ گیا اور انہوں نے مجھے دعوت پر بلایا اور کہا۔ اور تو میں کوئی خدمت نہیں کرسکتا لیکن یہ کرسکتا ہوں کہ دعوت پر بڑے بڑے آدمیوں کو بلا لوں اور آپ کا واقف کرا دوں اور مجھے ثواب مل جائے گا۔ میں دعوت پر چلا گیا۔ انہوں نے بڑے بڑے آدمی بلائے ہوئے تھے۔ میں اس انتظار میں تھا کہ کوئی اعتراض کرے اور میں اس کا جواب دوں کہ وہ کھڑے ہوگئے اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تقریر میں انہوں نے کہا یہ بری خوشی کی بات ہے کہ امام جماعت احمدیہ یہاں تشریف لائے ہیں۔ جو شخص کسی قوم کا لیڈر ہوتا ہے ہمیں اس کا احترام کرنا چاہئے۔ وہ ہمیں دین کی باتیں سنائیں گے۔ خواہ ہم مانیں یا نہ مانیں۔ ان سے ہمیں فائدہ پہنچے گا۔ اس طرح تھوڑی دیر وہ تقریر کرتے رہے دو تین منٹ کے بعد وہ تقریر کرتے ہوئے یکدم جوش میں آگئے اور کہنے لگے اس زمانہ میں ایک شخص آیا وہ اور وہ کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں اگر آپ لوگ اسے نہیں مانیں گے تو آپ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب آجائے گا۔ جب وہ تقریر کرکے بیٹھ گئے تو میں نے کہا دیکھئے نواب صاحب میں نے تو ظاہر نہیں کیا کہ آپ احمدی ہیں۔ آپ نے تو خود ظاہر کردیا ہے۔ وہ کہنے لگے مجھے سے رہا نہیں گیا۔ میں نے کہا میں تو پہلے ہی سمجھتا تھا کہ سچی احمدیت چھپی نہیں رہتی۔ آپ خواہ کتنا بھی چھپائیں یہ ظاہر ہوکر رہے گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ چندے باقاعدگی کے ساتھ دیتے تھے۔ مگر جماعتی کاموں میں انہوں نے چند سال پہلے تک کوئی نمایاں حصہ نہیں لیا تھا۔ لیکن یہ موقعہ انہیں ایسا ملا کہ جب تک یہ مرکز قائم رہے گا۔ ان کا نام بطور یادگار دنیا میں لیا جائے گا۔ یہ ضروری نہیں کہ قادیان کے واپس مل جانے پر اس مرکز کی اہمیت کم ہوجائے۔
اول تو ہمیں ایک ہی وقت میں کئی مرکزوں کی ضرورت ہے۔ دوسرے یہ مرکز ایک پیشگوئی کے ماتحت قائم کیا جارہا ہے اور جومرکز پیشگوئی کے ماتحت قائم کیا جائے اس میں اور دوسرے مرکزوں میں بہرحال امتیاز ہوتا ہے۔ یہ مقام چونکہ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی کے ماتحت قائم کیا جارہا ہے اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کی حفاظت کریں گے اور اس کی برکتیں اس سے وابستہ رہیں گی۔ اور یقیناً اس مقام سے تعلق رکھنے کی وجہ سے نواب صاحب مرحوم کا نام بھی قیامت تک قائم رہے گا۔
مجھے چوھدری مشتاق احمد صاحب کا انگلستان سے جو خط ملا ہے اس میں انہوں نے میری ۱۹۴۴ء کی ایک خواب لکھی ہے۔ جو یہ ہے کہ میں نے رئویا میں ان کی بیوی کلثوم کو دیکھا کہ وہ کہہ رہی ہے کہ باباجی اتنے بیمار ہوئے لیکن ہمیں کسی نے اطلاع تک نہیں دی۔ چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ بالکل ایسا ہی واقعہ اس وقت ہوا ہے ہمیں ان کی بیماری کی اطلاع تک نہیں ملی اور اب وفات کی خبر بھی صرف آپ کی طرف سے ملی ہے۔ خاندان کے کسی اور فرد کی طرف سے نہیں ملی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے رشتہ داروں میں سے بھی کسی کو ان کی بیماری کی خبر نہیں ملی۔ چوہدری محمد شریف صاحب وکیل نے مجھے لکھا کہ وفات سے پہلے دن شام کے وقت ڈاکٹر آیا اور اس نے کہا کہ خطرہ کی کوئی بات نہیں۔ چوہدری عزیز احمد صاحب )جو سب جج ہیں( مجھے اطلاع کا خط لکھنے لگے تو والد صاحب نے منع کردیا اور کہا کیا ضرورت ہے؟ پس خواب میں >ہم< سے مراد صرف کلثوم ہی نہیں بلکہ سارے رشتہ دار مراد تھے میں نے یہ ذکر تفصیل کے ساتھ اس لئے کیا ہے کہ تا اس قسم کے لوگوں کے نیک افعال آئندہ کے لئے بطور یادگار رہیں۔ رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں۔
اذکروا امرتکم بالخیر
عام طور پر اس کے یہ معنے کئے جاتے ہیں کہ مردوں کی برائی بیان نہیں کرنی چاہئے وہ فوت ہوگئے ہیں اور ان کا معاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے۔ یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن درحقیقت اس میں ایک قومی نقطہ بھی بیان کیا گیا ہے آپ نے اذکر والموتی بالخیر نہیں فرمایا بلکہ آپ نے مرتکم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی اپنے مردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ آپ نے یہ صحابہؓ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔ دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم۔ میرے سب صحابی ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پاجائو گے کیونکہ صحابہؓ میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی خدمت دین کا موقعہ ایسا ملا ہے جس میں وہ منفرد نظر آتا ہے اسی لئے آپ نے >موتاکم< کا لفظ استعمال فرمایا ہے کہ تم ان کو ہمیشہ یاد رکھا کرو تا تمہیں یہ احساس ہو کہ ہمیں بھی اس قسم کی قربانیاں کرنی چاہئیں۔ اور تا نوجواں میں ہمیشہ قربانی` ایثار اور جرائت کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے بزرگ اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے رہیں<۔۵۱
حضرت نواب محمد الدین صاحب کا ایک نایاب مکتوب
درج ذیل مکتوب حضرت نواب محمد الدین صاحب~رح~ نے حضرت شیخ محمد الدین صاحب مختار عام کو لکھا تھا یہ مکتوب اس غیر معمولی شغف انہماک محنت و جانفشانی اور احساس ذمہ داری کا آئینہ دار ہے جو رب کریم کی طرف سے حضرت نواب صاحب کو قیام مرک نو کے لئے عطا ہوا تھا۔ اس مراسلہ پر کوئی تاریخ درج نہیں مگر مضمون کی اندرونی شہادت اور بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قطعی طور پر )۲۰ تبوک ۱۳۲۷ہش/ ستمبر ۱۹۴۸ء( سے قبل کی تحریر ہے جبکہ اس مرکز کا افتتاح عمل میں نہیں آیا تھا۔ یہ مکتوب حضرت شیخ صاحبؓ نے مولف کتاب کو مرحمت فرمایا تھا۔
اپر مال نمبر ۱۰۸ لاہور
مکرمی سلمہ تعالیٰ!
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ! خط پہنچا۔ غلہ گندم جو خریدنے کی تجویز ہے اس کے حفاظت سے رکھنے اور چوہوں اور کھپرا سے بچانے کے لئے کسی مناسب مکان کا احمد نگر میں یا چنیوٹ میں آیا انتظام ہوسکے گا۔ اس بات کی اطلاع فرما دیں۔
امید ہے انشاء اللہ چند روز میں ٹائون پلیننگ آفیسر )اور ان کے ساتھ ¶ہمارا کوئی سرویر ہوگا( چک ڈگیا نہ سرکاری کا موقعہ دیکھنے پہنچیں گے۔ آپ پٹواری کا بھی پتہ رکھیں۔ اور خود بھی چنیوٹ موجود رہیں۔ اور پرانے زمانہ میں ان پہاڑوں سے سنگ تراش شائد اینٹیں بنایا کرتے تھے۔ چک ڈگیانہ کے جنوب میں ایک دو میل کے فاصلہ پر ایک موضع سنگتراشان ہے معلوم نہیں آیا اس موضع میں یا چنیوٹ میں کوئی سنگ تراش آیا بھی ہے یا نہیں۔ آج کل چاندنی راتیں ہیں اگر ہوسکے آپ چنیوٹ سے چل کر صبح سویرے دریا کے پار چک ڈگیانہ میں دریا کے کنارے صبح کی نماز پڑھا کریں اور نماز اور دعا سے فارغ ہونے کے بعد چک میں ٹھنڈے وقت گشت لگایا کریں اور امور ذیل پر غور کیا کریں۔
۱۔
دریا سے پمپ کے ذریعہ پانی آراضی پر بحث پر چڑھانے کے لئے کونسا موقعہ موزوں ہوگا؟
۲۔
اراضی زیر بحث میں ایک ٹیوب ویل آب پاشی کے لئے فوراً لگانا ہے اس کے لئے کون سا موقع موزوں ہوگا۔
۳۔
عمارتوں کے لئے پختہ اینٹیں تیار کرنے کے بھٹے لگانے ہوں گے ان کے لئے کونسا موقع ہونا چاہئے۔
۴۔
آئندہ ماہ ساون میں پھلدار درخت آم وغیرہ اور نیز شیشم ویو کلپٹس ودھریک و کیکر کے درخت رقبہ زیر بحث میں کس کس موقع پر لگانے مناسب ہوں گے۔ یہ بھی معلوم کریں۔ آیا اس نواح میں کہیں درختوں کی نرسری ہے اگر نہ ہو تو احمدنگر کوئی مناسب نرسری ذخیرہ درختاں کے لئے تجویز کیا جائے۔
۵۔
موضع احمد نگر کا بہت سا رقبہ سڑک پختہ مابین چنیوٹ دلالیاں کے )بائیں جانب چنیوٹ سے لالیاں جاتے ہوئے( بنجر پڑا ہے۔ اگر وہ رقبہ مناسب قیمت پر ہم خرید لیویں تو غالباً اس کو نہری بنایا جاسکتا ہے۔ وہ رقبہ دیکھیں اور معلوم کریں کہ کس کی ملکیت ہے اور آیا اس کا خرید کرنا مناسب ہوگا۔ اپنے طور پر یہ حالات معلوم کریں یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم اس کو خریدنا چاہتے ہیں۔
۶۔
آپ یہ بھی غور کریں کہ مکانات بنانے کے لئے کونسا قطعہ موزوں ہوگا۔ یعنی آبادی دیہہ کہاں ہونی چاہئے ہمارے کارخانے اور کالج و سکول و فضل عمر انسٹی ٹیوٹ و لائبریری وغیرہ کے لئے کونسا موقعہ موزون ہوگا؟
۷۔
قبرستان کہاں ہونا چاہئے۔
۸۔
احمد نگر میں کچھ رقبہ نہر سے آبپاش ہوتا ہے۔ آپ وہ راجباہا دیکھیں جس سے اس رقبہ کو نہری پانی ملتا ہے۔
آپ نہر محکمہ میں رہ چکے ہیں۔ پٹواری نہر و ضلعدار سے بھی ملیں۔ اور اس امر پر غور کریں کہ اس موضع کے باقی رقبہ کو جو اس وقت نہری نہیں ہے نہری آبپاشی میں لانے کے لئے کیا تجویز ہوسکتی ہے؟
گورنمنٹ کو ضرورت ہے غلبہ کی پیداواری بڑھانے کی اور اس ضرورت کی طرف توجہ دلا کر اس رقبہ کی آبپاشی کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ بنجر رقبہ سرکاری ہے۔ تو سردست ہم سرکار سے عارضی کاشت پر لینے کی درخواست کرسکتے ہیں۔
۹۔
جو امور میں نے اوپر درج کئے ہیں ان میں سے بعض کے متعلق آپ مولوی ابوالعطاء صاحب اور احمد نگر میں دوسرے دوستوں سے بھی مشورہ کرسکتے ہیں۔ اور اس علاقہ کے پرانے زمینداراں سے بھی اپنے طور پر معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔
۱۰۔
جب کام شروع ہوگا۔ حضرت خلیفتہ المسیح )ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز( کی رہائش کے لئے چنیوٹ میں کوئی موزوں مکان )کی( ضرورت ہوگی۔ چنیوٹ اسٹیشن کے نزدیک شہر سے باہر کوئی بنگلے ہیں جو شاید پناہ گزینوں کے قبضہ میں ہوں گے۔ ان کا خیال رکھیں جب ان میں سے کوئی بنگلہ خالی ہو فوراً اپنے نام الاٹ کرانے کی کوشش کریں۔ حضرت صاحب کی طبیعت سے آپ واقف ہیں۔ حضور ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ کسی کو تکلیف پہنچے جو مکان آپ حاصل کریں ایسے طور پر عمل ہوکہ کسی کو وجہ شکایت نہ پیدا ہو۔
۱۱۔
احمدنگر اور لالیاں میں حضور کے لئے مکان ہونا چاہئے جہاں آپ کبھی کبھی استراحت فرماسکیں۔ لالیاں میں تو ڈاک بنگلہ موجود ہے لیکن احمدنگر میں ایسی صورت نہیں وہاں جس جگہ بیٹھ کر ہم نے کھانا کھایا تھا وہ ٹوٹے پھوٹے مکانات ہیں۔ گائوں کے اندر مسجد کے نزدیک اگر کوئی مکان ہو جو تھوڑے تغیر و تبدل کے بعد حضور کی عارضی رہائش کے لئے موزوں بن سکے تو بہتر ہوگا۔
۱۲۔
یہ وادی غیر ذی زرع میں مہاجرین قادیان کی بستی کی بنیاد رکھی جانے والی ہے۔ ہمارے دوستوں کو جو چنیوٹ میں ہیں اور جو احمد نگر میں ہیں تعطیل کے دن وہاں پہنچ کر دعائیں کرنی چاہئیں اور وہ نظارہ قائم کرنا چاہئے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ معظمہ کی بنیاد رکھتے وقت اپنی دعائوں سے قائم کیا تھا۔
۱۳۔
اس نواح میں جو احمدیوں کے مواضعات اضلاع جھنگ` لائل پور` سرگودھا میں واقعہ ہیں۔ ان کا بھی آپ پتہ لے رکھیں۔
۱۴۔
‏]din [tag لالیاں اور چنیوٹ میں غالباً کپاس وغیرہ کے کارخانے ہیں۔ ان کی میعاد اگست تک ہے۔ جن لوگوں نے پچھلے مہینوں میں کارخانوں کو ٹھیک طور پر نہیں چلایا ان سے کارخانے لے کر غالباً دوسروں کو جو انتظام کے اہل ہوں دیئے جائیں گے ان کارخانوں کی بابت بھی آپ معلوم حاصل کریں۔
۱۵۔
کیا دریا کے کنارے چنیوٹ میں کوئی لکڑی منڈی ہے۔ انشاء اللہ ہم اپنی عمارتوں کے لئے دیار اور چیڑ وغیرہ کی لکڑی وزیرآباد سے دریا کے راستہ لایا کریں گے۔ اور ڈگیانہ کے محاذ لکڑی منڈی کا موقع تجویز کرنا ہوگا۔
۱۶۔
چنیوٹ اور احمدنگر کے درمیان کسی مناسب موقع پر آئل پمپ کی تجویز بھی کرنی ہوگی۔
۱۷۔
اگر آپ ریلوے لائن پر چنیوٹ کی طرف سے لالیاں کو چنیں تو چک ڈگیاں میں ایک موقعہ پر پل ہے اس پل سے بارشی پانی شمال مشرق سے جنوب غرب کو دریا کی طرف جاتا ہے۔ اگر اس بارشی پانی کو روکنے کیلئے اس نالی پر دو تین موقعوں پر چھوٹے چھوٹے بند لگا دیئے جائیں تو بارشی پانی کی چند ایک چھپڑیاں نشیب میں بن جائیں گی اور اغلب ہے کہ اچھی بارش کی صورت میں وہاں اتنا پانی جمع ہوجائے کہ مال مویشی کے لئے کئی ماہ تک کام آسکے۔ اس کے متعلق آپ خرچ کا اندازہ کرکے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں رپورٹ کریں۔
۱۸۔
چک ڈگیاں کا رقبہ عموماً کلر اٹھی ہے کلر اٹھی زمین سے کیکر کا درخت اگرچہ نکلے تو زمین درست ہونے میں امداد ملتی ہے۔ اس لئے بارشی لائنوں میں بارش کے موسم میں کیچڑ میں اگر کیکر کا بیج دیا جاوے تو کیکر چل نکلیں گے۔
۱۹۔
ان چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں کوئی مدخت نہیں ہیں کیونکہ بکریاں چرتی ہیں ان پر درخت اگنے نہیں پاتے۔ اگر ہم بکری چرائی منع ¶کردیں گے تو امید ہے ان پہاڑوں پر گھاس اور ایندھن کی کچھ پیداوار ہوسکے۔
پہاڑیوں کے دامن میں ایسے موقع تلاش کرنے چاہئیں جہاں تھوڑا سا بند لگانے سے پہاڑ کے بارشی پانی کے چھوٹے تالاب چھپڑیاں بن جاویں۔ جودھپور میں چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے دامن میں رہنے والے زمیندار آبنوشی کے ایسے تالاب بنا رکھتے ہیں۔
۲۰۔
شروع مین ۶ ماہ کے لئے ہم کو عملہ کے لئے اور معماروں اور مزدوروں کے لئے چھپروں کی ضرورت ہوگی۔ اس علاقہ میں چھپر بند مل جایا کرتے ہیں اس کے متعلق بھی آپ معلوم کریں کہ کہاں سے چھپر بند مل سکتے ہیں۔
۲۱۔
ان پہاڑوں کے اوپر چھوٹے چھوٹے مکان بنے ہوئے ہیں اور ایک اچھی پختہ بلڈنگ دریا کے کنارے ریلوے برج کے نزدیک چنیوٹ کی جانب واقع ہے۔ وہ غالباً خالی ہے۔ ہم ایسے خالی مکانات کا قبضہ لے لیویں۔ جب تک ہمارے مکانات نئے قصبہ میں تیار نہیں ہوتے۔ یہ مکانات استعمال میں آسکیں گے۔ امید ہے آپ بفضلہ تعالیٰ ہر طرح صحت و عافیت سے ہوں گے۔
آپ کا
محمد الدین
پہلا باب )فصل چہارم(
حضرت مصلح موعود کا پیغام جماعت احمدیہ امریکہ کی سالانہ کنوینشن کے نام ۱۷۔ ۱۸ سال ستمبر ۱۹۶۹ء کو جماعت احمدیہ کی دوسری سالانہ کنوینشن کا انعقاد ہوا جس کے لئے سیدنا حضرت مصلح موعود نے درج ذیل روح پرور پیغام ارسال فرمایا۔
‏Road, Lytton House, York
۔Pakistan Queeta,
۔1949 Spetember, 2nd
‏children spiritual and friends dear My
‏America, of States United the of
۔Barakatuhu ۔Wa ۔Rahmatullahi ۔wa ۔Alaikum Assalamu
‏ the in Missionary-in-Charge our by asked been have I message a etirw to Nasir, Ahmad Khalil ۔Mr America, of States United ۔Convention Second your in read be to you for nine۔Twenty ۔so do to me for pleasure great a is It an Sadiq, Mohammad Mufti sent I ago, years to him), on be (peace Messiah Promised the of companion old ۔country your in Movement Ahmadiyya the introduce America, of States United the reaching after He ۔mission his of centre the as Chicago choses a about truth the of support in raised voice lonely a was His back; century a of quartter yeht when laughed people the probably and the ۔Ahmadiyyat to them call and Islam preach him heard inspired divinely and true this that thought they Probably ۔Islam of interpretation just mad was man bearded grey disciplcs his and prophet every thought old of peoples the as so thought who those But ۔mad were that sheep The ۔themselves made were and mad is shepherd the recognize not does becomes it for destruction, for destined۔salvation of hope all loses and Satan;۔wold old that of prey eht][ No children! and friends dear My are people no and country ۔truth after seekers any without absolutely a of babble the as taken was which voice The some attract to began many, by man mad the be to destined were who those of the in truth of bearers torch- and pioneers them of some be May ۔America of States United Even ۔are none be may alive, still are their world, this left have them of all if heads your over hoveriong be might spirits is which seed the you in seeing now just ,swildernes the in God by broadcast being grow to soil, prepared well some in as well as crop heavy a become and time in۔country your of people of millions and missions to life new a give to
‏God of message the is Ahmadiyyat children! and friend My any by conceived scheme a not and Almighty should you So ۔being mortal try and such as it upon look great with and literally it follow to of law the breaks citizen good No ۔care ۔believer true a of case the is so and country his og law the ttha knows He is and philosophy inafallible upon based is God your that try always So ۔betterment and good his for law the with accord complete in be may actions God ۔Creator your by you for chosen ۔Quran Holy the in says Almighty perfection to brought have I day۔<To which to according code spiritual the for filled have I thus and live to have you >۔brim very its to blessings my of cup the you Holy the by given injunction and order every that shows verse This not and man of uplift lautispir the for in Quran ۔God to serfdom their feel beings human the make to order arbitrary an as ۔Law> <The follow we if gain to nothing has God so and it from benefit who we is It his in lukeworm is who person the in law the to obedience Wose ۔loser the himself is spirit, in and letter heaven of door the finds who him to goes and face his turns but him for opened all with you advice I So ۔astry this of yourselves avail to you, for bear I love the country your in truth the of pioneers gbein of opportunity great His and God to obedience true of example grand a set and so generateions, coming the for and contemporaries your for religion God; o eyes the in become you that so much people; your and country your of deliveres the the of disciples first the like become and God; on claims special no had disciples Those ۔old of prophets first believe, to first the were they that was claim only their live to first and sacrifices make to the with conformity in not was which life a They ۔countrymen their of lives rebuke; all well bore and bore the to stuck and ridicule all heart light a with took they new to place giving out die thus and them for chose God which way governments has name good disciples, these but ones still are and died never people these but succumbed have of millions of memories the in living۔kin and kith own their than more them love who people
‏ got have you Fortunately children! spiritual my and Friends Dear of beares first the being ,ytinutroppo same the the of disciples being America, of States United the in truth of beloved ۔him) on be (peace Messiah Promised the of disciples God ۔was Christ the as sense same the in son, begotton only His God, and presence His gain who those but son no has faith, wavering never and love steadfast through pleasue his win ۔that that more even Nay ۔Him to sons like become circumstances certain in son his forsake may father A You ۔ones beloved His forsakes never God but of time the found you tath blessing further a have the of disciples more not are you so and Son promised the him) on be (peace Messih Promised the of disciples So ۔themselves disciples first the like also are but your to according act and occasion grand the to rise is everybody that forget not Do ۔position exalted copy not do Therefore, ۔God his to responsible directly God of word the follow but weaknesses anybody's life a live to try and Prophet His and come have who those of lives the than cleaner and pious erom even there, representatives my that hope also I ۔you teach to and you for example good a set will cause the to detrimental way a in act not will him to Woe ۔truth after seekers the misleading and Islam of God of fold the to people bringing of opportunity the gets who ۔Stan ۔enemy eternal His to them delivers but all that so country, your and preachers your you, help God May through country, your and God of blessings the gain you of the and efforts untiring are God of stongholds first eth of one becomes God, of grace represented truly is which Islam, ۔religion living and true His and۔AMEN ۔Ahmadiyyat by time our in
‏sincerely, very Yours
‏۵۲MASSSIH-II KHALIFATUL
‏tav.12.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
ربوہ کے پہلے جلسہ سے لیکر مصلح موعود کی رہائش تک
پہلا باب )فصل پنجم(
ربوہ میں سیدنا حضرت مصلح موعود کی بغرض رہائش تشریف آوری
اور مرکز احمدیت کے نئے دور کا آغاز
۱۹۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء کو مرکز احمدیت۔ ربوہ ایک نئے اور انقلاب آفریں دور میں داخل ہوا۔ کیونکہ اس روز حضرت مصلح موعود جواب تک لاہور میں قیام فرما تھے مستقل طور پر تشریف لے آئے۔ اور حضور کے انفاس قدسہ` اور روحانی توجہات کی بدولت نہ صرف یہ پاک بستی ایک فعال مرکز کی حیثیت سے جلد جلد ترقی و ارتقا کے منازل طے کرنے لگی بلکہ غلبہ اسلام کی مہم میں پہلے سے زیادہ قوت و شوکت پیدا ہوگئی۔ اور آسمانی بادشاہت کا دور قریب سے قریب تر نظر آنے لگا۔
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کے اس اہم اور یادگار سفر ربوہ کی مفصل روداد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے قلم مبارک سے ہدیہ قارئین کی جاتی ہے۔ فرماتے ہیں:۔]>[یوں تو حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کئی دفعہ ربوہ تشریف لے جاچکے ہیں اور گزشتہ جلسہ سالانہ بھی ربوہ میں ہی منعقد ہوا تھا۔ جب کہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مع اہل و عیال کئی دن تک ربوہ قیام فرمایا تھا۔ لیکن یہ سب سفر عارضی رنگ رکھتے تھے اور ابھی تک حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی مستقل سکونت رتن باغ لاہور میں ہی تھی لیکن جو سفر ۱۹۔ ستمبر ۱۹۴۹ء کو بزور دو شنبہ اختیار کیا گیا وہ ربوہ کی مستقل رہائش کی غرض سے تھا۔ گویا دوسرے الفاظ میں یہ ہماری قادیان سے ہجرت کی تکمیل کا دن تھا۔ جبکہ خلیفہ وقت اور امام جماعت قادیان سے باہر ہونے کے بعد اپنی عارضی رہائش گاہ سے منتقل ہوکر جماعت احمدیہ کے قائم مقام مرکز ربوہ میں رہائش رکھنے کی غرض سے تشریف لے گئے۔ پس یہ دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک یادگاری دن تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے میں مختصر طور پر اس سفر کے چشم دید حالات تاریخ احمدیت کو ضبط میں لانے کی غرض سے درج کرتا ہوں۔
دراصل گو میرا دفتر ابھی تک لاہور میں ہے۔ مگر میں نے اس سفر کی تاریخی اہمیت کو محسوس کرکے یہ ارادہ کیا تھا کہ میں انشاء اللہ اس سفر میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جائوں گا اور سفر اور ربوہ کی دعا میں شریک ہوکر اسی دن شام کو لاہور واپس پہنچ جائوں گا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس کی توفیق دی جس کے نتیجہ میں ذیل کی چند سطور ہدیہ ناظرین کرنے کے قابل ہوا ہوں۔
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا فیصلہ تو یہ تھا کہ انشاء اللہ ۱۹۔ ستمبر ۱۹۴۹ء کو صبح ۸ بجے لاہور سے روانگی ہوگی مگر دفتری انتظام کے نقص کی وجہ سے یہ روانگی وقت مقررہ پر نہیں ہوسکی۔ چنانچہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ آٹھ بجے صبح کی بجائے دس بج کر چالیس منٹ پر یعنی تقریباً گیارہ بجے رتن باغ لاہور سے بذریعہ موٹر روانہ ہوئے۔ حضور کی موٹر میں حضرت ام المومنین اطال اللہ بقائہا اور حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ اور شاید ایک دو بچیاں ساتھ تھیں اور حضور کے پیچھے دوسری موٹر میں حضرت صاحب کی بعض دوسری صاحبزادیاں اور ایک بہو اور بعض بچے اور میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری سوار تھے۔ تیسری موٹر میں سیدہ بشریٰ بیگم مہر آپا صاحبہ اور محترم ام وسیم احمد صاحبہ اور بعض دوسرے بچے تھے اور ان کے پیچھے چوتھی موٹر میں خاکسار مرزا بشیر احمد اور میرے اہل و عیال اور عزیزہ آمنہ بیگم سیال اور محترمی چوہدری عبدالحمید صاحب سپرنٹندنٹ انجینئر اور میاں غلام محمد صاحب اختر اے پی او سوار تھے۔ شاہدرہ سے کچھ آگے نکل کر حضرت صاحب نے اپنی موٹر روک کر انتظار کیا کیونکہ ابھی تک تیسری موٹر نہیں پہنچی تھی۔ اور کچھ وقت انتظار کرنے کے بعد آگے روانہ ہوئے۔ ایک لاری اور دو ٹرک کافی عرصہ بعد روانہ ہوئے۔
رتن باغ سے روانہ ہونے سے پہلے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت فرمائی کہ سب لوگ رتن باغ سے روانہ ہوتے ہوئے اور پھر ربوہ کی سرزمین میں داخل ہوتے ہوئے یہ قرآنی دعا جو آنحضرت~صل۱~ کو مدینہ کی ہجرت کے وقت سکھلائی گئی تھی۔ پڑھتے جائیں۔ یعنی
رب ادخلنی مدخل صدق واخرجنی مخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا۔
چنانچہ اس دعا کے درد کے ساتھ قافلہ روانہ ہوا۔ اور رستہ میں بھی یہ دعا برابر جاری رہی۔ چونکہ روانگی میں دیر ہوگئی تھی اس لئے موٹریں کافی تیز رفتاری کے ساتھ گئیں اور سفر کا آخری حصہ تو غالباً ستر پچھتر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے طے ہوا ہوگا اور اس غرض سے رستہ میں کسی جگہ ٹھہرا بھی نہیں گیا۔ یہی وجہ ہے کہ محترمی شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی موٹر جو لاہور سے قریباً ڈیڑھ گھنٹہ پہلے روانہ ہوئی تھی اور اس میں محترمی مولوی عبدالرحیم صاحب درد بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ہمیں رستہ میں ہی ربوہ کے قریب چناب کے پل پر مل گئی تھی یہ گویا اس سفر کی پانچویں موٹر تھی۔ اس کے علاوہ ایک چھٹی موٹر بھی تھی۔ جس میں محترمی ملک عمر علی صاحب رئیس ملتان اور ہمارے بعض دوسرے عزیز بیٹھے تھے لیکن چونکہ یہ موٹر چونکہ بعد میں چلی اور زیادہ رفتار بھی نہیں رکھ سکی اس لئے وہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ربوہ میں داخل ہونے کے کچھ عرصہ بعد پہنچی۔
چناب کا پل گزرنے کے بعد جس سے آگے ربوہ کی سرزمین کا آغاز ہوتا ہے۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی موٹر سے اتر آئے اور دوسرے سب ساتھی بھی اپنی اپنی موٹروں سے اتر آئے۔ البتہ مستورات موٹروں کے اندر بیٹھی ہیں اس جگہ اتر کر بعض دوستوں نے اعلان کی غرض سے اہل ربوہ تک اطلاع پہنچانے کے خیال سے ریوالور اور رائفل کے کچھ کارتوس ہوا میں چلائے اس کے بعد حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے رفقاء میں اعلان فرمایا کہ میں یہاں قبلہ رخ ہوکر مسنون دعا کرتا ہوں۔ اور ہمارے دوست بھی اس دعا کو بلند آواز سے دہرائے جائیں اور مستورات بھی اپنی اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے یہ دعا دہرائیں۔ اس کے بعد حضور نے ہاتھ اونچے کرکے یہ دعا کرنی شروع کی۔
رب ادخلنی مدخل صدق واخرجنی مخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا وقل جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔
>یعنی اے میرے رب مجھے اس بستی میں اپنی بہترین برکتوں کے ساتھ داخل کر اور پھر اے میرے آقا مجھے اس بستی سے نکال کر اپنی اصل قیام گاہ کی طرف اپنی بہترین برکتوں کے ساتھ لے جا۔ اور اے مومنو تم خدا کی برکتوں کو دیکھ کر اس آواز کو بلند کرو کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔ اور باطل کے لئے تو بھاگنا ہی مقدر ہوچکا ہے<۔
یہ دعا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے چناب کا پل گزر کر اور قبلہ رخ ہوکر ربوہ کی سرزمین کے کنارے پر کھڑے ہوکر کئی دفعہ نہایت سوز اور رقت کے ساتھ دہرائی اور اس کے بعد موٹروں میں بیٹھ کر آگے روانہ ہوئے۔ کیونکہ ربوہ کی موجودہ بستی چناپ کے پل سے قریباً دو میل آگے ہے۔ اس عرصہ بھی سب دوست اوپر کی دعا کو مسلسل دہراتے چلے گئے۔ جب ربوہ کی بستی کے سامنے موٹریں پہنچیں تو اس وقت ربوہ اور اس کے گردونواح کے سینکڑوں دوست ایک شامیانے کے نیچے حضرت صاحب کے استقبال کے لئے جمع تھے۔ اس وقت جب کہ عین ڈیڑھ بجے کا وقت تھا سب کے آگے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی موٹر تھی۔ اس کے بعد ہماری موٹر تھی۔ اس کے بعد غالباً سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ مہر آپا کی موٹر تھی۔ اس کے بعد حضرت صاحب کی صاحبزادیوں کی موٹر تھی۔ اور اس کے بعد غالباً محترمی شیخ بشیر احمد صاحب کی موٹر تھی۔
جب حضرت صاحب اپنی موٹر سے اترے تو ربوہ کے چند نمائندہ دوست جن میں محترمی مرزا عزیز احمد صاحب ایم اے ناظر اعلیٰ اور محترمی سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ و امیر مقامی اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور عزیز ڈاکٹر منور احمد سلمہ اللہ اور بعض ناظر صاحبان اور تحریک جدید کے وکلا صاحبان اور محترمی مولوی ابوالعطاء صاحب وغیرہ شامل تھے آگے آئے اور حضور کے ساتھ مصافحہ کرکے حضور کو اس شامیانہ کی طرف لے گئے جو چند گز مغرب کی طرف نصب شدہ تھا۔ اور جس میں دوسرے سب دوست انتظار کررہے تھے۔
حضرت صاحب اس وقت بھیnsk] gat[ رب ادخلنی مدخل صدق والی دعا دہرا رہے تھے اور دوسروں کو بھی ہدایت فرماتے تھے کہ میرے ساتھ ساتھ یہ دعا دہراتے جائو۔ شامیانے کے نیچے پہنچ کر حضرت صاحب نے وضو کیا۔ اور پھر سب دوستوں کے ساتھ قبلہ رخ ہوکر ظہر کی نماز ادا فرمائی۔ یہ گویا درود ربوہ کا سب سے پہلا کام تھا۔ نماز اور سنتوں سے فارغ ہوکر حضور نے ایک مختصر سی تقریر فرمائی۔ جس میں فرمایا کہ میں امید رکھتا تھا کہ آنحضرت~صل۱~ کی ہجرت کی سنت کو سامنے رکھ کر آپ لوگ رستہ تک آگے آکر استقبال کریں گے تاکہ ہم سب متحد دعائوں کے ساتھ ربوہ کی سرزمین میں داخل ہوتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا اس لئے اب میں اس کمی کو پورا کرنے کے لئے پھر اس دعا کو دہراتا ہوں اور سب دوست بلند آواز سے میرے پیچھے اس دعا کو دہراتے جائیں چنانچہ آپ نے شاید تین یا پانچ دفعہ رب ادخلنی مدخل صدق اور قل جاء الحق وزھق الباطل والی دعا دہرائی۔ اور سب دوستوں نے بلند آواز سے آپ کی اتباع کی۔ اس کے بعد حضرت صاحب نے مختصر طور پر اس دعا کی تشریح فرمائی۔ کہ یہ دعا وہ ہے جو مدینہ کی ہجرت کے وقت آنحضرت~صل۱~ کو سکھلائی گئی تھی اور اس میں]ksn [tag ادخلنی )مجھے داخل کر( کے الفاظ کو اخرجنی )مجھے نکال( کے الفاظ پر اس لئے مقدم کیا گیا ہے۔ تاکہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ مدینہ میں داخل ہوکر رک جانا ہی آنحضرت~صل۱~ کی ہجرت کی غرض و غایت نہیں ہے بلکہ یہ صرف ایک درمیانی واسطہ ہے۔ اور اس کے بعد پھر مدینہ سے نکل کر مکہ کو واپس حاصل کرنا اصل مقصد ہے اور پھر اس کے ساتھ قد جاء الحق والی دعا کو شامل کیا گیا تاکہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ مومن کی ہجرت حقیقتاً اعلاء کلمتہ اللہ کی غرض سے ہوتی ہے نیز اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی ہجرت خدا کے فضل سے مقبول ہوئی ہے کیونکہ خدا نے اس کے ساتھ ہی حق کے قائم ہونے اور باطل کے بھاگنے کے لئے دروازہ کھول دیا ہے اور پھر اسی تمثیل کے ساتھ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے قادیان کا ذکر کیا۔
کہ ہم بھی قادیان سے نکالے جاکر ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔ مگر ہمارا یہ کام نہیں کہ اپنی ہجرت گاہ میں ہی دھرنا مار کر بیٹھ جائیں۔ بلکہ اپنے اصل اور دائمی مرکز کو واپس حاصل کرنا ہمارا اصل فرض ہے۔
اس تقریر کے بعد جس میں ایک طف موٹروں میں بیٹھے بیٹھے مستورات بھی شریک ہوئی تھیں حضرت امیرالمومنین اپنی ربوہ کی عارضی فرودگاہ اس لئے کہا ہے کہ اب تک جتنی بھی عمارتیں ربوہ میں بنی ہیں وہ دراصل سب کی سب عارضی ہیں۔ اور اس کے بعد پلاٹ بندی ہونے پر مستقل تقسیم ہوگی۔ اور لوگ اپنے اپنے مکان بنوائیں گے۔ حضرت صاحب کے مکان میں ربوہ کی مستورات استقبال کی غرض سے جمع تھیں جن کی قیادت ہماری ممانی سیدہ ام دائود صاحبہ فرما رہی تھیں۔ اس کے بعد حضرت صاحب اور دوسرے عزیزوں اور اہل قافلہ نے کھانا کھایا جو صدر انجمن احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر خانہ کی طرف سے پیش کیا تھا غالباً ربوہ وارد ہونے کے معاً بعد یہ پروگرام بھی تھا۔ کہ حضرت صاحب اپنی مجوزہ مستقل رہائش گاہ کے ساتھ متصل زمین میں مسجد کی بنیاد بھی رکھیں گے۔ لیکن چونکہ اس مسجد کی داغ بیل میں کچھ غلطی نظر آئی اس لئے اسے کسی دوسرے وقت پر ملتوی کردیا گیا۔ عصر کی نماز حضور نے اس مسجد میں ادا فرمائی جو حضور کے عارضی مکان کے قریب ہی عارضی طور پر بنائی گئی ہے۔ اور اسی لئے اسے مسجد کی بجائے >جائے نماز< کا نام دیا گیا ہے۔ کیونکہ بعد میں یہ مسجد مستقل جگہ کی طرف منتقل کردی جائے گی۔ یہ جائے نماز ایک کھلے چھپر کی صورت میں ہے جس کے نیچے لکڑی کے ستونوں کا سہارا دیا گیا ہے۔ اور اس کے سامنے ایک فراخ کچا صحن ہے اور اس مسجد کے علاوہ بھی ایک دو عارضی مسجدیں ربوہ میں تعمیر کی جاچکی ہیں کیونکہ اس وقت ربوہ کی آبادی ایک ہزار نفوس کے قریب بتائی جاتی ہے اور آبادی کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ عام نمازوں میں سب دوستوں کا ایک مسجد میں جمع ہونا مشکل سمجھا گیا ہے۔ عصر کی نماز کے بعد دوستوں نے حضور سے مصافحہ کا شرف بھی حاصل کیا۔۵۳
‏]1daeh [tagسفر ربوہ کے چند بقیہ واقعات
۱۔
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کے اس یادگاری سفر کے پیش نظر احباب ربوہ نے پانچ بکروں کے ذبح کرنے کا بھی انتظام کیا تھا۔ کیونکہ خاص موقعوں پر یہ بھی ایک مسنون طریق ہے۔
۲۔
بکروں کے ذبحہ کرنے کے علاوہ ربوہ کی جماعت نے اس موقعہ پر غریبوں کو کھانا کھلانے کا بھی انتظام کیا تھا۔ چنانچہ بہت سے غریبوں کو دعا اور رد بلا کی غرض سے کھانا کھلایا گیا۔
۳۔
اسی طرح اہل ربوہ نے غرباء میں کچھ نقد رقم بھی تقسیم کرنے کا انتظام کیا تھا کہ یہ بھی ایسے موقعوں پر برکت کا ایک روحانی ذریعہ ہے۔
۴۔
دوپہر کے کھانے کے بعد جو حضرت مسیح موعود کے لنگر کی طرف سے صدر انجمن احمدیہ نے پیش کیا۔ شام کا کھانا اہل ربوہ کی طرف سے پیش کیا گیا<۔۵۴
سیدنا حضرت مصلح موعود اپنی ذات میں تجلیات الٰہیہ اور برکات ربانی کا زندہ اور چلتا پھرتا انسان تھے اور آپ کے نزول کو آسمانی نوشتوں میں بہت مبارک قرار دیا گیا تھا۔ مگر یہ مبارک سفر تو خدائی برکتوں کا ایک دریائے نور اپنے ساتھ لایا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لقاء کے آخری درجہ تک پہنچنے والے مقربان بارگاہ الٰہی کے اقتداری خوارق کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
>اور جیسا کہ وہ مبارک ہے ایسا ہی اس کے اقوال و افعال و حرکات اور سکنات اور خوراک اور پوشاک اور مکان اور زمان اور اس کے جمیع لوازم میں برکت رکھ دیتا ہے تب ہریک چیز جو اس سے مس کرتی ہے بغیر اس کے جو یہ دعا کرے برکت پاتی ہے اور اس کے مکان میں برکت ہوتی ہے۔ اس کے دروازوں کے آستانے برکت سے بھرے ہوتے ہیں اس کے گھر کے دروازوں پر برکت برستی ہے جو ہر دم اس کو مشاہدہ ہوتی ہے اور اس کی خوشبو اس کو آتی ہے۔ جب یہ سفر کرے تو خدا تعالیٰ مع اپنی تمام برکتوں کے اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب یہ گھر میں آوے تو ایک دریا نور کا ساتھ لاتا ہے<۔۵۵
واخر دعونا ان الحمدللہ رب العالمین
حواشی
۱۔
الفضل ۱۲۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۳۔ ۵۔
۲۔
رجسٹر روداد اجلاس ہائے رتن باغ لاہور۔
۳۔
چودھری عبداللطیف صاحب اوورسیر کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ۸۔ ماہ شہادت/ اپریل تک مہمانوں کی سب بیرکیں پایہ تکمیل تک پہنچ گئیں۔ اسی طرح حضور کی عارضی رہائش گاہ بھی قریباً مکمل ہوچکی تھی۔ البتہ ناظر صاحبان کے اٹھارہ کمروں کا سیٹ ابھی زیر تعمیر تھا۔
۴۔
رجسٹر روداد اجلاس رتن باغ لاہور۔
۵۔
الفضل ۳۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۶۔
بذریعہ چٹھی ۳۲g/۔/c۸۹ مورخہ ۲۵۔ مارچ ۱۹۴۹ء۔
۷۔
الفضل ۱۵۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۶۔
۸۔
الفضل ۱۰۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۶۔
۹۔
الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۳۴۰ہش/ ۱۹۶۱ء صفحہ ۵ تا ۱۳۔
۱۰۔
الفضل خطبہ الفضل ۸۔ احسان/ جون ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء میں شائع شدہ ہے۔
۱۱۔
الفضل ۲۰۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۸۔
۱۲۔
الفضل ۲۰۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۵۔
۱۳۔
مفصل تقریر رسالہ >مصباح< بابت مئی ۱۹۵۰ء میں چھپ گئی تھی۔
۱۴۔
آپ کی مکمل تقریر الفضل ۶۔ ۷۔ ۱۰۔ ۱۱۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء میں چھپی ہوئی ہے۔
۱۵۔
الفضل ۲۰۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۴۔
۱۶۔
الفضل ۲۱۔ احسان/ جون ۱۳۴۰ ہش/ ۱۹۶۱ء صفحہ ۲ تا ۴۔
۱۷۔
روزنامہ الفضل مورخہ ۱۶۔ جولائی ۱۹۶۱ء صفحہ ۳` ۴۔
۱۸۔
روزنامہ الفضل ۱۸۔ وفا ۱۳۴۰ہش بمطابق ۱۸۔ جولائی ۱۹۶۱ء صفحہ ۳` ۴۔
۱۹۔
روزنامہ الفضل ۲۰۔ شہادت/ اپریل ۱۳۸۲ہش/ ۱۹۴۹ء۔
۲۰۔
مکمل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۶` ۲۷` ۲۸۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء۔
۲۱۔
پوری تقریر الفضل ۲۹۔ ۳۰۔ شہادت/ اپریل یکم ہجرت/ مئی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۱ء میں طبع شدہ ہے۔
۲۲۔
الفضل ۲۲۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء پر اس تقریر کا ترجمہ چھپ گیا ہے۔
۲۳۔
الفضل ۲۱۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۳۔ ۸۔
۲۴۔
آیتہ کمالات اسلام صفحہ ۵۷۶ )طبع اول(
۲۵۔
الفضل ۲۳۔ شہادت/ ۲۱۔ احسان ۱۳۲۸ہش/ جون ۱۹۴۶ء۔
۲۶۔
الفضل ۴۔ فروری ۱۹۴۸ء صفحہ ۱ )رویا و کشوف سیدنا محمود صفحہ ۱۹۳۔ ۱۹۵ ناشر فضل عمر فائونڈیشن ربوہ(
۲۷۔
روزنامہ الفضل ۱۸۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۸/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔ ۴۔
۲۸۔
الفضل ۲۲۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۱۔
۲۹۔
الفضل ۷/۶۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۱` ۲۔
۳۰۔
الفضل ۲۔ احسان/ جون ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۳۱۔
الفضل ۱۲۔ احسان/ جون ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء۔
۳۲۔
الفضل ۱۲۔ احسان/ جون ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۳۳۔
الفضل ۱۴۔ احسان/ جون ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۳۴۔
الفضل ۶۔ احسان/ جون ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۳۵۔
الفضل ۱۹۔ احسان/ جون ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۳۶۔
الفضل ۲۳۔ احسان/ جون ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۳۷۔
الفضل یکم وفا/ جولائی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۳۸۔
مئی ۴۱/ ۲۶۔
۳۹۔
الفضل ۲۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۴۔
۴۰۔
الفضل ۵۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۴۱۔
الفضل ۲۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء۔
۴۲۔
اس اخبار کے مالک و مدیر جناب عبدالکریم صاحب بٹ تھے۔ یہ اخبار ۱۹۴۸ء سے نکلنا شروع ہوا تھا۔
۴۳۔
الفضل ۳۱۔ اخاء/ اکتوبر ۱۳۳۵ہش/ ۱۹۴۶ء۔
۴۴۔
خطاب کے متن کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۶۔ فتح ۱۳۳۸ہش/ دسمبر ۱۹۵۹ء` ۳۰۔ فتح/ ۱۳۸۸ہش/ دسمبر ۱۹۵۹ء` ۶۔ صلح ۱۳۳۹ہش/ جنوری ۱۹۶۰ء` ۳۱۔ صلح ۱۳۴۱ ہش/ جنوری ۱۹۶۲ء صفحہ ۶۔
۴۵۔
الفضل ۳۱۔ ظہور ۱۳۲۸ہش/ اگست ۱۹۴۹ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۴۶۔
الفضل ۳۱۔ ظہور ۱۳۲۸ہش/ اگست ۱۹۴۹ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۴۷۔
تفسیر روحانی جلد سوم صفحہ ۲۶۶ تا صفحہ ۲۶۸۔ ناشر الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ۔
۴۸۔
الفضل ۲۰۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۱۔
۴۹۔
الفضل ۲۶۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء۔
۵۰۔
روزنامہ الفضل مورخہ ۲۸۔ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۳۱۔ ۳۳۔
۵۱۔
روزنامہ الفضل ۳۱۔ وفا ۱۳۲۸ہش بمطابق ۳۱۔ جولائی ۱۹۴۹ء صفحہ ۷۶۔
۵۲۔
‏ 1949, Quarter, fourth 13۔11 egPa Sunrise, Moslem The ۔A۔S۔U Illionois, 4, Chicago
۵۳۔
الفضل ۲۲۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء۔
۵۴۔
الفضل ۲۷۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۵۵۔
آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۶۹۔
‏tav.12.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
خدام الاحمدیہ کے اجتماع سے لیکر شہدائے احمدیت تک
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
دوسرا باب
مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ پاکستان کے پہلے سالانہ اجتماع سے لیکر اوکاڑہ اور راولپنڈی کے شہدائے احمدیت کی شہادت کے حالات تک

ترقیوں اور ابتلائوں کا متوازی سلسلہ
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کی ہجرت ربوہ کا واقعہ پچھلی جلد میں آچکا ہے۔ اس اہم اور ناقابل فراموش واقعہ کے بعد جماعت احمدیہ کا قدم عظیم الشان ترقیات اور خوفناک ابتلائوں کے ایک متوازی سلسلہ میں داخل ہوگیا۔
یہ زمانہ احمدیت کے لئے بڑی تنگی اور مصیبت کا زمانہ تھا۔ مگر جہاں خدا تعالیٰ نے اپنے فضلوں اور قدرتوں کے پے درپے جلوے دکھائے وہاں حضرت مصلح موعودؓ اور دوسرے بزرگان سلسلہ احمدیہ نے بالخصوص اور باقی افراد جماعت نے بالعموم علیٰ قدر مراتب اپنے مولیٰ کریم سے وفاداری اور صبر و توکل کا وہی بے مثال نمونہ دکھایا جس کا نقشہ حضرت مہدی معہود و مسیح موعود علیہ السلام نے درج ذیل الفاظ میں کھینچا ہے:۔
>ایک قوی توکل ان کو عطا ہوتی ہے اور ایک محکم یقین ان کو دیا جاتا ہے اور ایک لذیذ محبت الٰہی جو لذت وصال سے پرورش یاب ہے ان کے دلوں میں رکھی جاتی ہے۔ اگر ان کے وجودوں کو ہاون مصائب میں پیسا جائے اور سخت شکنجوں میں دے کر نچوڑا جائے تو ان کا عرق بجز حب الٰہی کے اور کچھ نہیں۔ دنیا ان سے ناواقف اور وہ دنیا سے دور تر و بلند تر ہیں۔ خدا کے معاملات ان سے خارق عادت ہیں۔ ان پر ثابت ہوا ہے کہ خدا ہے۔ انہی پر کھلا ہے کہ ایک ہے۔ جب وہ دعا کرتے ہیں تو وہ ان کی سنتا ہے۔ جب وہ پکارتے ہیں تو وہ انہیں جواب دیتا ہے۔ جب وہ پناہ چاہتے ہیں تو وہ ان کی طرف دوڑتا ہے۔ وہ باپوں سے زیادہ ان سے پیار کرتا ہے اور ان کی درودیوار پر برکتوں کی بارش برساتا ہے۔ پس وہ اس کی ظاہری و باطنی و روحانی و جسمانی تائیدوں سے شناخت کئے جاتے ہیں۔ اور وہ ہریک میدان میں ان کی مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کے اور وہ ان کا ہے<۔۱
تحریک احمدیت کے خلاف ہنگامہ آرائیوں اور کھلی جارحانہ کارروائیوں کا دائرہ تو زیادہ تر برصغیر پاک و ہند میں ہی محدود رہا مگر جماعت احمدیہ کی شاندار پیش قدمی نہ صرف برصغیر کے اندر بلکہ دنیا بھر میں ایک فاتحانہ شان کے ساتھ جاری رہی۔ پہلے سے قائم شدہ احمدی مشنوں میں اسلام کی پاک و مقدس خدمات کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ نئے مشن قائم ہوئے۔ نیا لٹریچر شائع ہوا۔ علاوہ ازیں سلسلہ احمدیہ کا جدید مرکز دیکھتے ہی دیکھتے ایک عالی شان شہر میں تبدیل ہوگیا جس کی بدولت انوار قرآنی قدیم و جدید دنیا تک بڑی تیزی سے پھیلنے لگے۔ فالحمدللہ اولا و اخرا وظاھرا وباطنا۔ اسلمنالہ ھو مولینا فی الدنیا والاخرہ نعم المولی ونعم النصیر۔
فصل اول
مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ پاکستان کا پہلا سالانہ اجتماع
دنیا کی مذہبی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیھم السلام پر ابتدائے زمانہ میں ایمان لانے والے زیادہ تر جوان ہی ہوتے ہیں۔ عہد شباب میں قویٰ مضبوط اور طاقت ور ہوتے ہیں اور دلوں میں ایک امنگ ولولہ اور جوش موجزن ہوتا ہے اس لئے وہ ایک لمبے عرصہ تک نور صداقت کو پھیلا سکتے اور اس کی اشاعت و ترویج میں حصہ لے سکتے ہیں۔ خاص طور پر تبلیغی` اصلاحی اور جمالی سلسلوں کے لئے تو اور بھی ضروری ہے کہ ان کے اندر آسمانی تعلیم کو مدت دراز تک اپنی اصلی صورت میں محفوظ رکھنے کے لئے تعلیم کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے کا مفید اور بابرکت نظام پورے تسلسل سے موجود رہے تا وہ اپنے ظاہری ڈھانچہ اور حقیقی روح دونوں کے ساتھ رائج و نافذ ہو اور پختہ بنیادون پر جاری رہ سکے۔
تاریخ مذاہب کے اسی انقلابی اصول اور اٹل فلسفہ کی بناء پر حضرت مصلح موعودؓ نے ۴۔ فروری ۱۹۳۸ء کو مجلس خدام الاحمدیہ جیسی عالمی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کے متحدہ ہندوستان میں )۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء تک( ۹ سالانہ اجتماعات ہوئے۔
پاکستان میں مجلس کا پہلا سالانہ مرکزی اجتماع ۳۰` ۳۱۔ اخاء/ اکتوبر و یکم نبوت/ نومبر ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء کو ربوہ کے آب و گیاہ اور وسیع میدان میں منعقد ہوا۔ اس اجتماع کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ حضور نے خدام الاحمدیہ کے نظام میں اس بنیادی تبدیلی کا اعلان فرمایا کہ خدام الاحمدیہ نے چونکہ دینداری کی ان تمام توقعات کو اس حد تک پورا نہیں کیا جس حد تک میں چاہتا تھا اس لئے آئندہ کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ کا صدر میں ہوا کروں گا اور شوریٰ کی طرح اس کا اجتماع بھی میری ہی صدارت میں ہوا کریں گے اور نائب صدر کا کام محض تنفیذ احکام صدر ہوگا۔ حضرت امیرالمومنین نے اس تنظیمی تبدیلی کی نسبت یہ وضاحت فرمائی کہ کہ اس کا تعلق میرے ساتھ ہے تمہارے ساتھ نہیں۔ نائب صدر میرا نمائندہ ہوگا لہذا تمہیں نائب صدر کے احکام کی پابندی صدر ہی کے احکام سمجھ کر کرنا ہوگی۔ نائب صدر اپنے عہدہ کی حیثیت سے صدر انجمن احمدیہ کا ممبر ہوا کرے گا۔۲
پاکستانی دور کے اس پہلے سالانہ اجتماع میں نوجوانان احمدیت نے تین دن خالص علمی` ورزشی اور دینی مصروفیات میں گزارے اور حضرت مصلح موعودؓ نے اس اجتماع میں احمدی نوجوانوں کو تین بار خطاب سے نوازا اور ان کو بہت سی قیمتی نصائح فرمائیں جو ہمیشہ مشعل راہ کا کام دیں گی۔ مثلاً:۔
۱۔
خدام الاحمدیہ ایک روحانی جماعت ہے لہذا اس سے توقع کی جاتی ہے کہ یہ روحانی تقاضوں کو پورا کرے۔
۲۔
انتخاب میں محض اس لئے کوئی نام تجویز کرنا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے خدام الاحمدیہ کی اس روح کے منافی ہے جس کے قیام کے لئے یہ تحریک جاری کی گئی ہے۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ اس کا عمل اسلام اور احمدیت کی شان کے مطابق ہے یا نہیں۔ اہل بیت کے معاملے میں تو قرآن کریم کا ارشاد نہایت ہی سخت ہے کہ اگر وہ کوئی غلطی کریں گے تو انہیں دگنی سزا ملے گی۔ پس جب تک مذہب کی صحیح روح کسی شخص میں پیدا نہ ہوجائے اس وقت تک کوئی صحیح مومن نہیں ہوسکتا۔
۳۔
احمدی نوجوان کے معنے یہ ہیں کہ اسے اپنے زبان پر قابو ہو` وہ محنتی ہو` وہ دیندار ہو` وہ پنجوقتہ نمازی ہو` وہ قربانی و ایثار کا مجسمہ ہو اور کلمہ حق کو زیادہ سے زیادہ پہنچانے میں نڈر ہو۔۳
۴۔
فرمایا >فیشن اور سماج کے رواج تمہیں مرعوب نہ کرنے پائیں۔ انبیاء کی تاریخ پر نظر دوڑا کر دیکھو وہ کہاں فیشن سے مرعوب ہوتے تھے؟ انہوں نے کب نوکریاں چلے جانے کے ڈر سے اپنے فرائض کی صحیح ادائیگی چھوڑ دی تھی؟ کلمہ حق کو ہر حالمیں نڈروں کی طرح پہنچانے کے لئے تیار ہوجائو۔ مجھے ہرگز ان عقل مندوں کی ضرورت نہیں جو قدم قدم پر لوگوں سے مرعوب ہوتے پھریں بلکہ مجھے ان دیوانوں اور پاگلوں کی ضرورت ہے جو خدا کی بات منوا کر ہی چھوڑیں۔ اپنے اندر عمل کا جذبہ پیدا کرو اور دنیا والوں کے تمسخر کی پروا نہ کرو۔ یاد رکھو تعریف وہی اچھی ہے جو آسمان پر ہو دنیا والوں کی تعریف اس آسمانی تعریف کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی<۔۴
۵۔
قواعد کی پابندی ہر حالت میں لازمی ہوتی ہے۔ جو قومیں دلیلوں سے قاعدے توڑنے کا جواز نکالنا شروع کردیتی ہیں ان کی ذہنیتیں شکست خوردہ ہوجاتی ہیں۔ افسر جو قانون بنائیں سب سے پہلے اس پر خود کاربند ہوں۔۵
خلاصہ یہ کہ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے اپنی زندگی بخش اور روح پرور تقریروں میں مجلس کی گزشتہ جدوجہد کا تجزیہ کیا` اس کے عمدہ کاموں کو سراہا اور خامیوں کو دور کرنے کی تلقین فرمائی اور آئندہ کے لئے قوم کے نونہالوں کی تربیت کی باگ ڈور خود اپنے مقدس ہاتھ میں لے لی۔۶
حضور کی اس بروقت توجہ اور براہ راست نگرانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مجلس بہت جلد چوکس اور بیدار ہوکر پہلے سے زیادہ خدمت میں سرگرم عمل ہوگئی۔
دوسرا باب )فصل دوم(
اخبار >الرحمت< کا اجراء اور حضرت مصلح موعودؓ کا بصیرت افروز افتتاحی مضمون
حکومت ہندوستان نے اخبار الفضل پر پابندی عائد کردی تھی حضرت مصلح موعودؓ نے حکم دیا کہ ہندوستان کی احمدی جماعتوں کیلئے ایک
نیا اخبار لاہور سے جاری کیا جائے جو خالصتاً تبلیغی اور اخلاقی اقدار کا علمبردار ہو۔ اس پر ۲۱۔ نبوت/ ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء کو مکرم شیخ روشن دین صاحب تنویر کی ادارت میں الرحمت جاری کیا گیا جو ۷۔ ہجرت ۱۳۳۰ہش/ مئی ۱۹۵۱ء تک ایک کامیاب دینی ترجمان کی حیثیت سے باقاعدگی کے ساتھ نکلتا رہا۔
اخبار الرحمت کے پرنٹر و پبلشر مکرم مسعود احمد خاں صاحب دہلوی اور منیجر مکرم مولوی محمد عبداللہ صاحب اعجاز تھے۔ شروع میں یہ اخبار کواپریٹو کیپٹل پرنٹنگ پریس وطن بلڈنگ لاہور میں چھپتا تھا لیکن بعد میں اس کی طباعت پہلے ویسٹ پنجاب پرنٹنگ پریس موہن لال روڈ لاہور میں پھر پاکستان ٹائمز پریس لاہور میں ہوئی۔ درمیان میں اس کے بعض پرچے جیلانی الیکڑک پریس ہسپتال روڈ لاہور میں بھی چھپتے رہے۔
اخبار الرحمت کی بنیاد چونکہ حضرت مصلح موعودؓ کے مبارک ہاتھوں سے رکھی گئی تھی اس لئے جماعت کے اس نئے ترجمان نے اس خلاء کو فوری طور پر بہت حد تک پورا کردیا جو اخبار الفضل کی جبری بندش نے پیدا کردیا تھا۔ اس اخبار میں پورے التزام کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کے روح پرور خطبات چھپتے تھے برصغیر پاک و ہند کے علماء سلسلہ کی تقاریر اور مضامین نیز بیرونی ممالک کے مجاہدین کی معلومات افزا رپورٹیں بھی شائع کی جاتی تھیں۔ ربوہ کی تازہ خبریں بھی باقاعدگی سے درج کی جاتی تھیں۔ علاوہ ازیں اس میں مرکز احمدیت قادیان اور دوسری ہندوستانی جماعتوں کی تبلیغی اور تنظیمی جدوجہد پر بھی روشنی ڈالی جاتی تھی۔
سیدنا حضرت امیرالمومنین مصلح موعودؓ نے الرحمت کے اجراء پر ایک نہایت مفصل` حقیقت افروز افتتاحی مضمون۷ سپرد قلم فرمایا جو اس کے پہلے شمارہ کے صفحہ ۳ اور ۴ پر شائع ہوا۔ ذیل میں اس مبارک مضمون کا متن درج کیا جاتا ہے:۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
والسلام علی عبدہ المسیح الموعود
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
بسم اللہ مجرھا ومرسھا
>الرحمت<
آج سے چھتیس سال پہلے نہایت خطرناک حالات اور بالکل بے بسی اور بیکسی کی صورت میں میں نے الفضل اخباری جاری کیا تھا جو پہلے ہفتہ وار شروع ہوا اور اب روزانہ اخبار کی صورت میں شائع ہورہا ہے اور اس وقت ملک کے مقتدر پرچوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد یہ پرچہ ہندوستان سے پاکستان میں آگیا۔ اپنی مرضی سے نہیں مجبوری سے۔ ملک کے حالات ہی کچھ ایسے ہوگئے کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا رہنا اور مغربی پنجاب میں ہندوئوں اور سکھوں کا رہنا قریباً ناممکن ہوگیا۔ یہ حالات یقیناً تکلیف دہ تھے۔ تکلیف دہ ہیں اور تکلیف دہ رہیں گے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان حالات کے پیدا کرنے میں قدرت کی کوئی مصلحت بھی تھی۔ وہ کیا تھی؟ شاید اس کا بیان ابھی مناسب نہ ہو۔ بہرحال ان حالات کی وجہ سے علاوہ افراد کے بہت سے ہندو اور سکھ اخبار بھی مغربی پنجاب سے نکل کر مشرقی پنجاب کی طرف منتقل ہوگئے اور بہت سے مسلمانوں کے اخبار مشرقی پنجاب سے نکل کر مغربی پنجاب میں آگئے۔ جہاں تک اخباروں کا تعلق ہے شائد نقصان ہندوئوں اور سکھوں کا زیادہ ہوا اور مسلمانوں کا کم۔ کیونکہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا ایک ہی مقتدر اخبار الفضل تھا لیکن مغربی پنجاب میں ہندوئوں کے کئی بڑے بڑے پرچے تھے مثلاً >ٹریبون< >پرتاپ< >ملاپ< >اجیت< >ویر بھارت<۔
جو پرچے جس ملک میں گئے لازماً ان کی ہمدردیاں ان ممالک سے وابستہ ہوگئیں۔ الفضل گو ایک مذہبی پرچہ تھا لیکن کبھی کبھار اس میں نیم سیاسی مضامین بھی شائع ہوتے تھے جن میں اپنی دیرینہ پالیسی کے مطابق پوری احتیاط سے کام لیا جاتا تھا اور خیال رکھا جاتا تھا کہ بین الاقوامی منافرت کی کوئی صورت پیدا نہ ہو لیکن ایک پاکستانی اخبار کے جذبات بہرحال پاکستانی ہی ہوسکتے تھے میرے علم میں تو ایسی کوئی بات نہیں مگر ہندوستان کے بعض صوبوں کی حکومتوں نے الفضل کے بعض مضامین کو قابل اعتراض سمجھ کر اس کا داخلہ بند کردیا۔ اور اب تو قریباً سارے ہندوستان میں ہی سوائے دہلی کے اس کا داخلہ بند ہے۔ ہندوستانی حکومت کے پاس جب اس کے متعلق احتجاج کیا گیا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ مرکزی حکومت نے الفضل کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا اور براہ راست اس کے ماتحت علاقوں میں اس کا داخلہ ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔ باقی رہیں صوبہ جاتی حکومتیں سو وہ اس معاملہ میں آزاد ہیں۔ اگر کسی صوبہ جاتی حکومت نے ایسا کیا ہو تو آپ اس سے براہ راسست احتجاج کریں۔ الفضل چونکہ ایک مذہبی پچہ تھا اس لئے ہندوستان کی جماعتوں کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس پرچہ میں سیاسی مضامین کلیتاً ممنوع قرار دئے جائیں تاکہ کسی غیر گورنمنٹ کو اس پر اعتراض کا موقع نہ ملے لیکن یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی اور باوجود اس کے کہ الفضل میں سیاسی مضامین چھپنے بند ہوگئے ہندوستان کے مزید صوبوں میں اس کا داخلہ بند ہے۔ جس طرح ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی تھی کہ الفضل کے کونسے مضامین کی وجہ سے اس کا داخلہ ممنوع قرار دیا جانے لگا ہے اسی طرح ہماری سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آئی کہ الفضل میں سیاسی مضامین کے ممنوع ہوجانے کے باوجود اس کا داخلہ مزید صوبوں میں کیوں بند کیا جاتا رہا مگر بہرحال یہ حکومت اپنے مصالح کو خود سمجھت ہے اور دوسرے لوگوں کی سمجھ میں خواہ وہ مصالح آئیں یا نہ آئیں ان کے لئے احکام حکومت کی پابندی لازمی اور ضروری ہوتی ہے خصوصاً جماعت احمدیہ کے لئے جس کے اصول میں یہ بات داخل ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہو اس کے احکام کی فرمانبرداری کرو اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ بجائے اس کے کہ الفضل کے خلاف جو قدم اٹھایا گیا ہے اس پر پروٹیسٹ کریں اور اس کے ازالہ کے لئے کوئی جدوجہد کریں ایک نیا اخبار جاری کردیا جائے جو کلیتاً سیاسیات سے الگ ہوتا کہ ان جماعت ہائے احمدیہ کی تنظیم اور تبلیغ میں کوئی روک پیدا نہ ہو جو ہندوستان میں رہتی ہیں۔ اس ادارہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہوئے کہ وہ اس پرچہ کو بابرکت بنائے اور ان مقاصد کی اشاعت میں کامیاب کرے جن کا ذکر ذیل میں کیا جائے گا۔
میں >الرحمت< کو جاری کرتا ہوں۔ یہ پرچ خالص مذہبی پرچہ ہوگا۔ اور جہاں اس کی پالیسی یہ ہوگی کہ اور صدق کے قوانین کے مطابق مختلف مذاہب کے لوگوں میں عقل اور اخلاق کی پیروی کی روح پیدا کرے وہاں اس کی یہ بھی پالیسی ہوگی کہ وہ سیاسیات سے الگ رہتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک بہتر فضا پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
ہمیں نہایت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کئی ہندوستانیوں نے مسٹر گاندھی کے ان اعلانات کو بھلا دیا ہے کہ ہر ہندو اور سکھ اور غیر مسلم کو جو پاکستان میں رہتا ہے پاکستان کا مخلص اور وفادار شہری ہوکر رہنا چاہئے۔ اور کئی مسلمانوں نے قائداعظم کے ان اعلانات کو بھلا دیا ہے کہ ہر مسلمان کو جو ہندوستان میں رہتا ہے ہندوستانی حکومت کا مخلص اور وفادار شہری ہوکر رہنا چاہئے۔ ان لیڈروں کے منشاء کے خلاف کچھ لوگ ایسے پیدا ہوگئے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی غیر مسلم کو پاکستان میں رہنا ہی نہیں چاہئے اور اگر ایسا ہو تو پھر پاکستان میں رہنے والے غیر مسلم کو دل میں پاکستان سے دشمنی رکھنی چاہئے اور ہندوستان میں رہنے والے مسلمان کو دل میں ہندوستان سے دشمنی رکھنی چاہئے۔ اگر گاندھی جی اور قائداعظم کے بیانات نہ بھی ہوتے تب بھی یہ جذبہ اور روح نہایت افسوسناک اور مذہب اور اخلاق کے خلاف تھی۔ مگر ان دو زبردست ہستیوں کے اعلانات کے خلاف اس قسم کے جذبے کا پیدا ہونا نہایت ہی تعجب انگیز اور افسوسناک ہے۔ ہندوستان کی موجودہ دو علاقوں میں تقسیم بعض مصلحتوں کے ماتحت ہوئی تھی۔ ان مصلحتوں سے زیادہ کھینچ تان کر اس مسئلہ کو کوئی اور شکل دینا کسی صورت میں جائز نہیں ہوسکتا۔ جب تقسیم اٹل ہوگئی تھ تو میں نے اس وقت یہ اعلان کیا تھا کہ اگر یہ تقسیم ہونی ہی ہے تو پھر کوشش کرنی چاہئے کہ دونوں ملکوں کے باشندوں کو ایک دوسرے کے ملک میں بغیر پاسپورٹ کے آنے جانے کی اجازت ہو۔ تجارت پر کسی قسم کی کوئی پابندیاں نہ ہوں۔۸ لیکن افسوس کہ اس وقت میری آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی اور شاید آج بھی یہ آواز صدا بصحرا ثابت ہوگی۔ اگر میری بات کو مان لیا جاتا تو وہ خون ریزی جو مشرقی پنجاب اور کشمیر میں ہوئی ہے ہرگز نہ ہوتی۔ ہم کلی طور پر آزاد بھی ہوتے مگر ہماری حیثیت ان دو بھائیوں سے مختلف نہ ہوتی جو اپنے والدن کی جائداد تقسیم کرکے اپنے چولہے الگ کرلیتے ہیں۔ وہ یقیناً اپنی اپنی جائداد کے کلی طور پر مالک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ماتحت نہیں ہوتے۔ ان کا کھانا پینا بھی الگ الگ ہوتا ہے۔ ان کی آمدنیں بھی الگ الگ ہوتی ہیں اور ان کے خرچ بھی الگ ہوتے ہیں مگر باوجود اس کے وہ بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ اگر ماں باپ کی جائداد کے تقسیم کرنے سے دو بھائی دشمن نہیں پیدا کرتی تقسیم کے پیچھے کسی غلط روح کا ہونا دشمنی پیدا کرتا ہے میں چاہتا تھا کہ اس غلط روح کو کچل دیا جائے اور بھائیوں بھائیوں کی طرح مسلمان اور ہندو اپنی آبائی جائداد کی تقسیم کا فیصلہ کریں مگر میری اس آواز کو اس وقت نہ سنا گیا۔ میری اس آواز کو بعد میں بھی نہ سنا گیا۔ پاکستان کے ایک متعصب عنصر نے میرے ان خیالات کی وجہ سے مجھے پاکستان کا ففتھ کالمسٹ قرار دیا اور انہوں نے یہ نہ سوچا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جس کا اعلان بار بار قائداعظم نے کیا تھا۔ صرف فرق یہ تھا کہ قائداعظم نے ایک مجمل اصل بیان کیا تھا اور میں شروع سے ان تفاصیل کو بیان کررہا تھا جن تفاصیل کے ذریعہ سے ہی قائداعظم کا بیان کردہ اصل عملی صورت اختیار کرسکتا تھا۔ میرے ان خیالات کی وجہ سے ہندوستان کے احمدیوں کو بھی ہندوستان میں کشتنی اور گردن زدنی سمجھا گیا۔ شاید کسی اور مسلمان فرقہ کو اس قدر نقصان ہندوستان میں نہیں پہنچا جس قدر کہ احمدی جماعت کو پہنچا ہے۔ اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کا امام گاندھی جی کے بیان کردہ اصل کی ترجمانی کے صحیح طریق ان کے سامنے پیش کررہا تھا۔ ہم نے ایک سچائی کے لئے دونوں ملکوں میں تکلیف اٹھائی اور شاید دونوں ملکوں کے متعصب لوگوں کے ہاتھوں سے آئندہ بھی ہم دونوں ملکوں میں تکلیف اٹھائیں گے لیکن ہم اس دائمی سچائی کو جو قرآن کریم میں بار بار بیان کی گئی ہے کبھی نہیں چھوڑ سکتے کہ جو شخص جس حکومت میں رہتا ہے وہ اس کا فرمانبردار رہے اور اس کے ساتھ پوری طرح تعاون کرے۔ اور اگر کسی وقت وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے مذہب اور اخلاق کو قائم رکھتے ہوئے اس ملک میں رہ نہیں سکتا تو اس ملک سے ہجرت کرجائے۔ اگر اس ملک کی حکومت اس کو ہجرت بھی نہ کرنے دے تو پھر وہ آزاد ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے جو بھی ذریعہ بخشا ہو اسے کام میں لاتے ہوئے اپنی آزادی کی جدوجہد کرے۔ جب کانگرس گورنمنٹ کے خلاف کھڑی ہوئی تھی تو ان ہی اصول کی وجہ سے میں نے کانگرس کی مخالفت کی تھی ورنہ میں کانگرس کا دشمن نہیں تھا۔ نہ ملک کی آزادی کا دشمن تھا۔ کانگرس کے کئی لیڈر میرے واقف تھے اور بعض دوست بھی اور وہ مختلف اوقات میں مجھ سے تبادلہ خیالات کرتے رہتے تھے۔ وہ جانتے تھے اور جانتے ہیں کہ میں ملک کی آزادی کا ان سے کم حامی نہیں تھا۔ مجھے ان سے اختلاف صرف اس طریقہ کار کے متعلق جو میرے نزدیک ملکی حکومت کے بن جانے پر بھی تفرقہ کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ جو کچھ میں نے اس وقت کہا تھا آج پاکستان اور ہندوستان میں لفظاً لفظاً صحیح ثابت ہورہا ہے۔ حکومت کے بائیکاٹ کے اعلانات کئے جارہے ہیں۔ سٹرائیکیں کی جارہی ہیں اور ملک میں رہتے ہوئے انتشار اور اختلاف کے سامان پیدا کئے جارہے ہیں۔ میں جو انگریز کے زمانہ میں انگریز کے خلاف ایسی باتوں کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ خود ملکی حکومتوں کے قائم ہوجانے کے بعد پاکستان یا ہندوستان میں میں ایسی باتوں کی اجازت دے دیتا۔ چنانچہ ہر ایسے موقع پر جو پاکستان یا ہندوستان میں پیدا ہوا میں نے اپنی جماعت کو یہی حکم دیا کہ وہ حکومت وقت کے پورے طور پر وفاداری کریں اور جو ذمہ داریاں حکومت کی طرف سے شہریوں پر عائد کی جائیں ان ذمہ داریوں کو دیانتداری سے ادا کریں۔ یقیناً یہ تعلیم پاکستانی اور ہندوستانی حکومتوں کی نظر میں ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھی جانی چاہئے تھی مگر افسوس کہ ہندوستان میں ایسا نہیں کیا گیا اور بعض صوبجاتی حکومتوں نے اس قیمتی خزانے کی قدر نہیں کی جو احمدیہ جماعت کی صورت میں ان کے ملک کو حاصل ہوا تھا۔ احمدی جماعت ہر ملک کے لئے ایک قیمتی جوہر ہے۔ وہ وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اپنے ملک کی حکومت کے ساتھ تعاون کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ وہ انصاف اور عدل کے لئے قربانی کرنے والی جماعت ہے مگر حکومت کے ساتھ عدم تعاون اس کے اصولوں کے خلاف ہے۔ وہ عدل اور انصاف کو عدل اور انصاف کے ذریعوں سے ہی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ وہ عدل اور انصاف کے حاصل کرنے کے لئے غیر منصفانہ اور غیر عادلانہ ذرائع کے اختیار کرنے کو جائز قرار نہیں دیتی۔ ہر سمجھدار انسان اس جماعت کو سر اور آنکھوں پر بٹھائے گا۔ ہر سمجھدار حکومت ایسی جماعت کو قدر اور عزت کی نگاہوں سے دیکھے گی اور میں امید کرتا ہوں کہ اگر اس سے پہلے نہیں تو آئندہ ہندوستان کی مختلف صوبائی حکومتیں اور مرکزی حکومت ان احمدی تعلیمات کو مدنظر رکھ کر جو میں نے اوپر بیان کی ہیں احمدیوں کے متعلق اپنے رویہ کو تبدیل کرے گی۔ مجھ سے بعض ہندوستانی جو ادھر آتے رہتے ہیں انہوں نے بعض دفعہ ان امور پر تبادلہ خیالات کیا ہے اور بعض ایسے سوالات کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمارے نقطہ نگاہ کو پورے طور پر نہیں سمجھا۔ مثلاً یہ کہ اگر آپ ہندوستان کے احمدیوں کو ہندوستان کی وفاداری کی تعلیم دیتے ہیں تو کیا پاکستان کے احمدی کشمیر کے معاملہ میں پاکستان حکومت کے ساتھ نہیں دیں گے؟ میری اوپر کی تشریح کے بعد یہ سوال کیسا مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ جو کچھ میں نے اوپر بیان کیا ہے اس کا تو یہ مطلب ہے کہ ہمارے نزدیک قرآن کریم کی یہ تعلیم ہے کہ جو شخص جس حکومت میں رہے وہ اس کا فرمانبردار رہے اور اس کے ساتھ تعاون کرے۔ اس تعلیم کا یہ مطلب ہے کہ ہر پاکستان میں رہنے والا احمدی اپنی حکومت کا پوری طرح فرمانبردار ہوگا اور اس کے مقاصد اور مفاد میں پوری طرح تعاون کرے گا۔ اور ہندوستان میں رہنے والا ہر احمدی حکومت ہندوستان کا پوری طرح فرمانبردار ہوگا اور اس کے مقاصد اور مفاد میں اس سے پوری طرح تعاون کرے گا۔ اتنی واضح تعلیم کے بعد اس قسم کا شبہ پیدا ہی کس طرح ہوسکتا ہے؟ یہ سوال تو بے شک کیا جاسکتا تھا کہ کیا ہندوستان میں رہنے والا احمدی اپنی حکومت کے ساتھ پوری طرح تعاون کرے گا؟ اس کا جواب یقیناً میں یہ دیتا کہ ہاں کرے گا۔ لیکن ہر حکومت کی وفاداری کی تعلیم سن کر یہ کہنا کہ کیا پاکستان میں رہنے والا احمدی پاکستان کی حکومت سے بغاوت کرے گا بالکل احمقانہ اور جاہلانہ سوال ہے۔ اوپر کی بیان کردہ تعلیم کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ پاکستان میں رہنے والا ہر احمدی حکومت پاکستان کی پوری فرمانبرداری کرے گا اور اس کے تمام مقاصد اور مفاد میں اس کے ساتھ تعاون کرے گا۔ اگر پاکستان ہم سے یہ مطالبہ کرے کہ ہم ہندوستان کے احمدیوں کو ہندوستان سے بغاوت کی تعلیم دیں تو ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے اور اگر ہندوستان کی حکومت ہم سے یہ مطالبہ کرے کہ ہندوستان میں رہنے والے احمدیوں کو امن سے رہنے دینے کی قیمت ہمیں یوں ادا کرنی چاہئے کہ پاکستان کے احمدی پاکستان کی حکومت سے غداری کریں یا اس سے عدم تعاون کریں تو ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے ہمارا مذہب یہ کہتا ہے کہ جس حکومت میں رہو اس کے فرمانبردار رہو۔ پس جو ہندوستان میں رہتے ہیں ہم ان کو یہی کہیں گے کہ ہندوستان کی حکومت کی فرمانبرداری کرو اور جو پاکستان میں رہتے ہیں ہم ان کو یہی کہیں گے کہ پاکستان کی حکومت کی فرمانبرداری کرو۔ اور یہی تعلیم ہماری انڈونیشیا` عرب` یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ` انگلستان` فرانس` جرمنی` ہالینڈ` سوئٹزرلینڈ` ایبے سینیا` مصر اور دیگر حکومتوں کے ماتحت رہنے والے احمدیوں کو ہوگی۔ کسی کی سمجھ میں ہماری بات آئے یا نہ آئے ہماری سمج میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ ہمارے بیان کردہ اصولوں کے بغیر دنیا میں امن قائم کس طرح رہ سکتا ہے؟ اگر ہندوستانی اپنے سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کو یہ تعلیم دیں کہ وہ جہاں کہیں جائیں ہندوستان کے ایجنٹ بن کر رہیں تو دوسری قومیں ان کو برداشت کس طرح کریں گی؟ اور اگر پاکستانی اپنی رعایا یا اپنے سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کو یہ تعلیم دیں تو اسی سلوک کی ان کو بھی امید رکھنی چاہئے۔ ہر سیاسی حکومت کو اپنے باشندوں کو یہی حکم دینا ہوگا کہ تم اپنی حکومت کے فرمانبردار رہو۔ اور اگر باہرجائو تو عارضی طور پر اس حکومت کے قوانین کی پیروی کرو اور ایک مذہبی گروپ کو اپنے افراد کو یہی تعلیم دینی ہوگی کہ تم جس ملک کے باشندے ہو اس ملک کے وفادار رہو۔
پس یہ اخبار اسی پالیسی کے ماتحت ہر ملک کے احمدیوں کو یہ تعلیم دے گا کہ وہ اپنی اپنی حکومت کے فرمانبردار اور مطیع رہیں اور اس کے ساتھ سچا تعاون کریں۔
۲۔ اس وقت سب سے بڑی مصیبت دنیا پر یہ آئی ہوئی ہے کہ حکومتیں اپنے آپ کو اخلاقی نطام سے باہر سمجھتی ہیں۔ اخلاقی نظام کی پابندی صرف افراد کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں بہت سے فساد اور خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔ >الرحمت< اس مسئلہ کو بار بار سامنے لائے گا اور اپنی اس کمزور آواز کو بلند سے بلند کرتا چلا جائے گا کہ حکومتیں اور افراد دونوں ہی اخلاقی ذمہ داریوں کو اپنے اوپر حاکم تصور کریں اور اپنے آپ کو اخلاقی حکومت سے بالا خیال نہ کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سچائی` دیانت اور عدل کے قوانین کو اگر پوری طرح مدنظر رکھا جائے تو بہت سی مشکلات جو اس وقت ناقابل ہل معلوم ہوتی ہیں آسانی سے حل ہوسکتی ہیں۔ ہر قوم کو دوسری قوم کا حق دینا چاہئے اور ایک ملک میں رہنے والی سب قوموں کو آپس میں بھائی بھائی بن کر رہنا چاہئے۔ سیاسی اختلافات کی بنیاد ملک کی ترقی پر رکھنی چاہئے۔ نہ کہ قوموں کے اندر اختلاف اور انشقاق پیدا کرنے پر۔ ہماری یہ کوشش ہوگی کہ ہم سب سے پہلے جماعت احمدیہ کو اس کے اخلاقی فرائض کی طرف توجہ دلائیں جس میں ان کے مذہبی پیشوائوں نے ہم سے اتفاق کیا ہے اور ان کو اپنے پیشوائوں کی سچی پیروی کی ہدایت کریں۔
۳۔ اس وقت ایک عظیم الشان حادثہ کی وجہ سے مسلمانوں میں انتشار پیدا ہورہا ہے اور وہ حیران ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہئے؟ اس اثر سے احمدی جماعت بھی آزاد نہیں۔ ہمارے نزدیک اس انتشار کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ ملک کی تقسیم کے بعد بھی مسلمان ہندوستان میں آزادی سے رہ سکتا ہے اگر وہ عقل سے کام لے سیاسی پہلوئوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم مذہبی اور اخلاقی پہلو جماعت اور دوسرے مسلمانوں کے سامنے رکھتے رہیں گے جن کی روشنی میں وہ ہندوستان کی حکومت کا ایک مفید جزو بن سکیں اور ہندوستان میں امن اور عزت کی زندگی بسر کرسکیں۔ ہم ایسی ہی خدمت ان ہندوئوں اور سکھوں کی بھی کرنے کے لئے تیار رہیں گے جنہوں نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے یا جو آئندہ ایسا فیصلہ کریں۔
غرض اس پرچہ کی بنیاد مذہب اور اخلاق پر ہوگی اور صلح اور آشتی پر ہوگی۔ یہ پرچہ سیاسیات سے الگ رہے گا۔ اختلافات کو بڑھائے گا نہیں کم کرنے کی کوشش کرے گا۔ جہاں تک عوامی تعلقات کا سوال ہے یہ پاکستان اور ہندوستان کے عوام کے جوش میں آئے ہوئے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے گا اور ہر غداری کی روح کو خواہ وہ پاکستان میں سر اٹھائے یا ہندوستان میں سر اٹھائے دبانے کی کوشش کرے گا بلکہ صرف ہندوستان اور پاکستان میں ہی نہیں دنیا کے ہر گوشہ کے لوگوں کے لئے >الرحمت< رحمت کا نشان بننے کی سعی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ارادہ میں پورا اترنے کی توفیق دے اور اس رستہ کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت بخشے اور اپنی مدد اور نصرت سے سچائی` عدل اور انصاف کے غلبہ کے سامان مہیا کرے۔
میں پھر اسی آیت کو دہراتے ہوئے جس کو میں اوپر لکھ چکا ہوں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں بسم اللہ مجرمھا و مزسھا یعنی اے خدا! میں اس کمزور کشتی کو ایک متلاطم مندر میں پھینکتا ہوں تیرا ہی نام لیتے ہوئے اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہوئے تو اپنے فضل سے اس متلاطم سمندر میں اس کشتی کو آرام سے چلنے میں مدد دے اور اپنی حفاظت میں اس کے منزل مقصود پہنچنے کے سامان پیدا فرما۔ آمین<۔۹
دوسرا باب )فصل سوم(
مسجد مبارک ربوہ کے سنگ بنیاد کی مقدس تقریب
‏text] ga[t۳۔ اخاء ۱۳۲۸ہش/ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو دو شنبہ کا دن اور ۹۔ ذی الحج کی بابرکت تاریخ تھی جو سب مسلمانان عالم کے لئے عموماً اور دنیائے احمدیت کے لئے خصوصاً دوہری خوشبوں اور مسرتوں کا موجب بنی کیونکہ اس روز نماز عصر کے بعد ٹھیک اس وقت جبکہ دنیا بھر سے عشاق رسول عربی~صل۱~ میدان عرفات میں وقوف کرکے خدا تعالیٰ کے حضور متفرعانہ دعائوں میں مصروف تھے خلیفہ وقت امام ہمام سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے مقدس ہاتھوں سے تحریک احمدیت کے نئے مرکز >ربوہ< کی مسجد مبارک کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس مقدس تقریب میں روحانی اور معنوی اعتبار سے دنیا کے دوسرے احمدیوں کو شامل کرنے کے لئے سیدنا مصلح موعودؓ کی ہدایت پر پاک وہند کی جماعتوں اور لنڈن مشن کو بذریعہ تار اطلاعات دی گئیں نیز >الفضل< میں بھی اعلان کردیا گیا کہ ۳۔ اخاء کو ساڑھے پانچ بجے بعد دوپہر مسجد کا بنیادی پتھر رکھا جائے گا اور دعا ہوگی۔ احباب بھی اپنی اپنی جگہ دعا میں شریک ہوں۔۲۰
حضرت امیرالمومنین کی تشریف آوری
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ ۳۔ اخاء/ اکتوبر کو لاہور سے ۹ بجکر چالیس منٹ پر بذریعہ کار روانہ ہوئے اور بارہ بج کر پینتالیس منٹ پر ربوہ پہنچے۔ حضور کے ہمراہ خاندان مسیح موعودؑ کی بیگمات کے علاوہ صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور مکرم میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھے۔
بیرونی مخلص کی آمد
چونکہ الفضل میں اس مسجد کے سنگ بنیاد رکھے جانے کی خبر شائع ہوچکی تھی اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے بذریعہ تار بھی جماعتوں کو اطلاعات بھجوائی جاچکی تھیں اس لئے لاہور` منٹگمری` سرگودھا شہر` چک نمبر ۴۱ جنوبی سرگودھا` چک نمبر ۴۳` چک نمبر ۸۶` چک نمبر ۹۸` چک نمبر ۹۹` چک نمبر ۱۲۴ سرگودھا` لائل پور` چک نمبر ۶۸ لائل پور` جھنگ مگھیانہ` جڑانوالہ` سیالکوٹ شہر` میانوالی` بھکر` چنیوٹ` احمد نگر اور لالیاں وغیرہ کے بہت سے مخلص افراد اس تاریخی تقریب میں شمولیت اور دعا کی غرض سے ربوہ پہنچ گئے۔ میانوالی سے صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب S۔A۔P ڈپٹی کمشنر بھی تشریف لائے۔ لاہور سے آنے والے دوستوں میں شیخ بشیر احمد صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور` چوہدری اسداللہ خاں صاحب` میاں غلام محمد صاحب اختر پرنسل آفیسر ریلوے` چوہدری عبدالحمید صاحب انجینئر اور چوہدری عبداللہ خاں صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جماعت احمدیہ ربوہ کے تمام مردوں اور بچوں کے علاوہ مقامی خواتین بھی دعا کی غرض سے موجود تھیں۔
حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایات خصوصی
بنیاد رکھے جانے کا وقت بعد نماز عصر مقرر تھا اور چونکہ یہ ایک مقدس تقریب تھی جس میں اللہ تعالیٰ کے گھر کی بنیاد رکھی جانے والی تھی اس لئے حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ کی ہدایت کے ماتحت نظارت علیا نے وہ دعائیں جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھاتے وقت فرمائی تھیں دستی پریس پر طبع کروا دی تھیں تا لوگ ان دعائوں کو یاد رکھیں اور بنیاد رکھے جانے کے وقت اور اس سے قبل باواز بلند دہراتے رہیں چنانچہ نماز عصر کے وقت یہ طبع شدہ دعائیہ اوراق لوگوں میں تقسیم کئے گئے اور سب دوست ان دعائوں کو دہرات رہے۔
عصر کی نماز سے قبل حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ کی مندرجہ ذیل ہدایات موصول ہوئیں جو مولانا جلال الدین صاحب شمس قائم مقام ناظر اعلیٰ نے پڑھ کر سنائیں:۔
>دعا کے وقت اینٹوں اور گارے تک تین صفیں ہوں گی۔
۱۔
صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک صف۔
۲۔
دوسری صف خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نرینہ افراد کی۔
۳۔
تیسری صف واقفین زندگی کی۔
یہ تینوں متوازی ہوں گی اور اینٹ گارا اس کی جگہ سے پکڑ کر وہاں تک پہنچائیں گی جہاں میں کھڑا ہوں گا۔ ایک ایک تغاری گارے یا چونے کی اور تین تین اینٹ ہر ایک صف کے لوگ مجھ تک پہنچائیں گے۔ اس وقت چند حفاظ ادعیہ رفع بیت اللہ بلند آواز سے دہراتے جائیں گے اور ساتھ ہی سب حاضرین دعائیں دہرائیں گے۔ اس کے بعد نماز مغربی ہوگی۔ عصر کی نماز بنیاد رکھنے سے پہلے ہوگی۔ اس کے بعد بنیاد شروع ہوگی۔
والسلام خاکسار
مرزا محمود احمد<
بعد ازاں حضور کے ارشاد پر مزید یہ اعلان ہوا کہ ان کے علاوہ چوتھی صف امراء جماعتہائے احمدیہ اور ناظران سلسلہ کی اور پانچویں صف مہاجرین قادیان کی ہوگی۔ باقی دوست ایک طرف کھڑے ہوکر دعا میں مشغول رہیں۔
اس کے بعد حضور نے اس مقام پر پہنچ کر خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی خواتین مبارکہ اور صحابیات و مہاجرات قادیان کی دو مزید صفوں کا بھی حکم دیا۔
نماز عصر اور بنیاد کی تقریب
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے نماز عصر اسی جگہ پڑآھائی جہاں بنیاد رکھی جانے والی تھی اور جہاں دھوپ سے بچائو کے کے لئے خیمہ کا انتظام کیا گیا تھا۔ جب حضور نماز عصر سے فارغ ہوئے تو اس کے معاًبعد تمام دوست اوپر کی بیان کردہ ترتیب کے مطابق اپنی اپنی صفوں میں پہنچ گئے اور پھر دست بدست حضور کی خدمت میں اینٹیں اور سیمنٹ کی تغاریاں پہنچائی گئیں۔ تین اینٹیں کاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے نرینہ افراد نے` تین اینٹیں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے` تین اینٹیں واقفین زندگی نے` تین اینٹیں امراء جماعتہائے احمدیہ اور ناظران سلسلہ نے` تین اینٹیں مہاجرین قادیان نے` تین اینٹیں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بیگمات نے اور تین اینٹیں صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور مہاجرات نے پیش کیں۔ اسی طرح ہر دفعہ سیمنٹ کی تغاری بھی دست بدست حضور تک پہنچائی جاتی رہی۔ خاندان مسیح موعودؑ کی بیگمات اور صحابیات سے حضور بنفس نفیس آگے بڑھ کر تغاری لیتے اور بنیادوں تک لاکر استعمال فرماتے رہے۔
اس جگہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ بنیادی اینٹوں میں اوپر کی تعداد کے علاوہ دو اینٹیں مسجد مبارک )قادیان( کی اینٹوں میں سے بھی لگائی گئیں جو صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ۱۱۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء کو قادیان سے لائے۔۱۱ گویا کل ۲۳ اینٹیں بنیاد میں لگائی گئیں۔ اس دوران میں حضرت امیرالمومنین بار بار بلند آواز سے دعائیں مانگتے چلے جاتے تھے اور تمام مجمع بھی رقت اور سوز کے ساتھ ان دعائوں کو دہراتا رہا۔ حضور کی آواز میں اس وقت ایک خاص قسم کا درد اور سوز پایا جاتا تھا۔ جب تمام اینٹیں رکھی جاچکیں تو حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے کھڑے ہوکر نہایت خشوع و خصوع اور انتہائی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور پھر یہ دعائیں کیں کہ:۔
ربنا تقبل منا ط انک انت السمیع العلیم ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امہ مسلمہ لک ص وارنا مناسکنا و تب علینا ج انک انت التواب الرحیم ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیھم ایتک ویعلمھم الکتب والحکمہ ویزکیھم ط انک انت العزیز الحکیم
)البقرہ: آیت ۱۲۸ تا ۱۲۹(
ایک ایک دعا حضور نے کئی بار دہرائی اور حضور کے ساتھ ہی تمام مجمع ان دعائوں کو دہراتا چلا گیا۔ مجمع پر ایک رقت کا عالم طاری تھا اور سینکڑوں آنکھیں پرآب تھیں۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا اب میں خاموشی سے دعا کروں گا دوست بھی میرے ساتھ شریک ہوں چنانچہ حضور نے ہاتھ اٹھا کر لمبی دعا فرمائی اور دوسرے دوست بھی دعا میں مشغول ہوگئے۔
حضرت امام ہمام کا ایمان افروز خطاب
دعا سے فارغ ہونے کے بعد حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود منبر پر رونق افروز ہوئے۔ حضور نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی اور اس کے بعد فرمایا:۔
>حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ایک الہام تھا کہ آپ کے ہم اور غم نے اسمعیل کا درخت اگایا۔۱۲ اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام یا ان کی روح کے لئے نہایت تکلیف دن ہوگا ایسا تکلیف دہ کہ آپ کی روح تڑپ تڑپ کر ورزاری کرکرکے خدا تعالیٰ کے حضور جھکے گی اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اسمعیلی درخت اگائے گی۔ اسمعیل کا درخت کیا ہے؟ اسمعیل کا درخت خانہ کعبہ ہے۔ اس الہام میں یہ پیشگوئی تھی کہ ایک زمانہ میں احمدیوں کو قادیان سے ایک حد تک ہاتھ دھونا پڑے گا اور ان کے ہاتھ دھونے کے بعد اللہ تعالیٰ ایک نئے مقدس مقام کی بنیاد رکھے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اسی مقام کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور چونکہ یہ ایک مرکزی مقام ہے اور ساری دنیا کے لوگوں سے اس کا تعلق ہے اس لئے ساری دنیا کے لوگوں کو ہمیں اس کی تعمیر میں حصہ دینا چاہئے۔ پس میں اس موقعہ پر تمام جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی توفیق کے مطابق اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیں۔ میرا خیال ہے کہ بیس پچیس ہزار روپیہ بلکہ تیس پینتیس ہزار تک اس پر خرچ ہوجائے گا۔ ربوہ کی جماعت کو چاہئے تھا کہ وہ اس میں پہل کرتی مگر غالباً یہاں کے کارکنوں کا ذہن ادھر گیا نہیں۔ لائلپور کی جماعت کا ذہن ادھر گیا اور وہ اپنا چندہ آج اپنے ساتھ لائی ہے جو ۷۳۳ روپیہ آٹھ آنہ ہے۔ آخر یہ مسجد تعمیر ہوگی یہ مرکزی مسجد ہوگی۔ اس وجہ سے اس میں ساری ہی جماعت کا حصہ بھی چاہئے۔ ہماری جماعت تو مخلصین کی جماعت ہے۔ مومنین کی جماعت ہے۔ عارفین کی جماعت ہے۔ مکہ کے لوگ جن میں شرک پایا جاتا تھا اور جو دین سے دور چلے گئے تھے ان میں بھی خانہ کعبہ کی تعمیر میں حصہ لینے کا اتنا جذبہ پایا جاتا تھا کہ ایک دفعہ جب کہ خانہ کعبہ کی عمارت کمزور ہوگئی انہوں نے ارادہ کیا کہ چندہ کرکے وہ اس کی تعمیر نئے سرے سے کریں۔ تعمیر کرتے وقت جب وہ اس مقام پر پہنچے جہاں حجر اسود رکھا جانا تھا تو سارے قبائل میں لڑائی شروع ہوگئی۔ کچھ کہتے تھے کہ اسے ہم اٹھا کر رکھیں گے۔ یہ لڑائی اتنی بڑھی کہ نوجوانوں نے تلواریں کھینچ لیں اور انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مخالف کے خون کی ندیاں بہا دیں گے مگر اپنے سوا کسی اور کو یہ شرف حاصل نہیں ہونے دیں گے۔ آخر قوم کے بڈھوں نے کہا کہ یہ صورت تو خطرناک ہے چلو یہ فیصلہ کرلو کہ جو شخص اس وقت کے بعد سب سے پہلے ادھر آئے اس کے ہاتھ سے ہم بنیاد رکھوائیں اور اس کے فیصلہ کو قبول کرلیں اور سب نے اس سے اتفاق کرلیا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خانہ کعبہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے ہاتھ میں آنے والا تھا اس لئے اس فیصلہ کے بعد جو شخص سب سے پہلے نمودار ہوا وہ محمد رسول اللہ~صل۱~ تھے۔ آپﷺ~ کو دیکھ کر سب کے سب اس بات پر متفق ہوگئے کہ ہم بنیاد کا معاملہ آپ کے ہی سپرد کرتے ہیں۔ آپﷺ~ نے ایک چادر لی اور حجراسود کو اپنے ہاتھ سے اٹھا کر اس پر رکھ دیا اور پھر ہر قبیلہ کے سردار کو کہا کہ اس چادر کا ایک ایک کونہ پکڑلو۔ چنانچہ تمام قبائل کے سرداروں نے اس چادر کا ایک ایک کونہ پکڑلیا اور اسے اٹھا کر اس مقام پر لے گئے جہاں اسے رکھنا تھا۔ جب وہاں پہنچ گئے تو آپﷺ~ نے پھر اپنے ہاتھوں سے حجر اسود کو اٹھایا اور اس کے اصل مقام پر اسے رکھ دیا۔ اس طرح وہ سارے کے سارے خوش ہوگئے۔۱۳ مگر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی بھی کروا دی کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے ذریعہ ہی آئندہ خانہ کعبہ کی تعمیر ہوگی۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے ثواب میں شامل ہونے کے لئے اگر عرب کے مشرکین اتنا اصرار کرتے تھے تو مومنین کو تو بہرحال ان سے زیادہ ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ جہاں بھی قومی طور پر کسی کا سوال ہو زندہ قوم کے زندہ افراد اصرار کیا کرتے ہیں کہ ہمیں اس میں حصہ دیا جائے۔ پس ربوہ کے مخلصین کو چاہئے تھا کہ چاہے وہ غریب تھے اپنے ایمان کے لحاظ سے وہ اس میں دوسروں سے پہلے حصہ لیتے۔ بہرحال جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں باہر کی جماعتوں میں سے سب سے پہلے لائلپور کی جماعت نے ۷۳۳ روپے آٹھ آنے اس غرض کے لئے پیش کئے ہیں اس کے علاوہ کچھ وعدے اور کچھ نقد روپیہ بھی اکٹھا ہوا ہے۔
میں نے اپنی طرف سے ۲۱ روپے نقد دیئے ہیں اور پانچ سو روپے کا وعہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے خاندان کے افراد کے چندے کی فہرست یہ ہے:۔
صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب مع بیوی بچے
۔/۲۱ روپے
مہر آپا سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ
۔/۱۰ روپے
مرزا مظفر احمد صاحب مع سیدہ امتہ القیوم صاحبہ
۔/۲۱ روپے
حضرت ام المومنین
۔/۴۰ روپے
)حضرت( سیدہ ام وسیم احمد صاحب
۔/۵ روپے
)حضرت( سیدہ ام ناصر احمد صاحب
۔/۳۰ روپے
سیدہ امتہ النصیر صاحبہ
۔/۱۰ روپے
اس موقع پر حضور نے فرمایا کہ بعض جو یہاں نہیں ان کے رشتہ داروں نے خود ان کی طرف سے چندہ لکھوا دیا ہے تا وہ پہلے دن کے چندہ میں شامل ہوجائیں ان کی فہرست یہ ہے:۔
)حضرت( مرزا ناصر احمد صاحب
۔/۲۱ روپے
مرزا مبارک احمد صاحب
۔/۲۱ روپے
مرزا حفیظ احمد صاحب
۔/۵ روپے
مرزا رفیع احمد صاحب
۔/۵ روپے
مرزا خلیل احمد صاحب
۔/۵ روپے
مرزا وسیم احمد صاحب
۔/۲۱ روپے
مرزا طاہر احمد صاحب
۔/۵ روپے
مرزا اظہر احمد صاحب
۔/۵ روپے
میاں عبدالرحیم احمد صاحب و سیدہ امتہ الرشید صاحبہ و بچگان
۔/۵ روپے
سید دائود احمد صاحب و سیدہ امتہ الحکیم صاحب
۔/۵ روپے
میاں مسعود احمد خاں صاحب۱۴
۔/۳۱ روپے
)حضرت( مرزا بشیر احمد صاحب مع بیگم صاحبہ
۔/۲۱ روپے
)حضرت( مرزا شریف احمد صاحب
۔/۲۱ روپے
)حضرت( سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ
۔/۱۰ روپے
)حضرت( نواب میاں عبداللہ خاں صاحب و )حضرت( سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ۔
۔/۱۱ روپے
مرزا حمید احمد صاحب مع اہلیہ صاحبہ
۔/۵ روپے
مرزا منیر احمد صاحب
۔/۵ روپے
مرزا مبشر احمد صاحب
۔/۵ روپے
مرزا مجید احمد صاحب
۔/۵ روپے
امتہ الحمید بیگم صاحبہ
۔/۵ روپے
امتہ المجید بیگم صاحبہ
۔/۵ روپے
)حضرت( مرزا عزیز احمد صاحب
۔/۵ روپے
نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ )حضرت( مرزا عزیز احمد صاحب
۔/۵ روپے
)حضرت( سیدہ ام دائود صاحبہ اہلیہ )حضرت( میر محمد اسحق صاحبؓ
۔/۵ روپے
بشریٰ بیگم صاحبہ بنت )حضرت( میر محمد اسحٰق صاحبؓ
۔/۵ روپے
مرزا انور احمد صاحب
۔/۱۰ روپے
مرزا منصور احمد صاحب و سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ
۔/۱۱ روپے
مرزا رفیق احمد صاحب
۔/۱۰ روپے
مرزا حنیف احمد صاحب
‏3i] gat[ ۔/۵ روپے
میاں محمد احمد صاحب
۔/۵ روپے
مرزا ظفر احمد صاحب مع اہلیہ صاحبہ
۔/۵ روپے
)حضرت( سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ )ام متین(
۔/۱۱ روپے
اچھی اماں صاحبہ
۔/۵ روپے
والدہ سید محمد احمد صاحب )امتہ اللطیف صاحبہ(
۔/۵ روپے
سید محمد احمد صاحب
۔/۵ روپے
پیر صلاح الدین صاحب و امتہ اللہ بیگم صاحبہ
۔/۱۱ روپے
امتہ القدوس صاحبہ
‏]i3 [tag ۔/۵ روپے
مرزا دائود احمد صاحب مع اہلیہ صاحبہ
۔/۱۱ روپے
بے بی
۔/۱ روپیہ
مرزا رشید احمد صاحب مع اہلیہ صاحبہ و بچگان
۔/۱۱ روپے
مرزا نعیم احمد صاحب
۔/۱۰ روپے
امتہ الحفیظ صاحبہ
۔/۵ روپے
اس کے بعد حضور نے فرمایا:۔
بعض جماعتوں کی طرف سے میں نے رسول کریم~صل۱~ کی ایک سنت کی اتباع میں خود ان کا نام چندہ کی فہرست میں لکھ دیا ہے۔ جب حضرت عثمانؓ مکہ میں تھے اور بیعت رضوان ہورہی تھی تو رسول کریم~صل۱~ نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور فرمایا یہ عثمانؓ کا ہاتھ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ یہاں ہوتا تو بیعت سے کبھی پیچھے نہ رہتا۔۱۵ باہر کی جماعتوں کو چونکہ یہ آواز دیر میں پہنچے گی اس لئے میں نے ان کو ثواب میں شریک کرنے کے لئے ان کی طرف سے خودبخود چندہ تجویز کردیا ہے۔ ان لوگوں کا چندہ پہلے دن کے ثواب میں شمولیت کی وجہ سے میں نے لکھ دیا ہے۔ وہ زیادہ کرسکتے ہیں لیکن اگر کم کریں تو میں ادا کردوں گا:۔
‏]1i [tag جماعتہائے مشرقی پاکستان
۔/۱۰۰۰ روپیہ
جماعتہائے سندھ اسٹیٹس
۔/۱۰۰۰ روپیہ
جماعت کوئٹہ
۔/۵۰۰ روپیہ
جماعت لاہور
۔/۱۰۱ روپیہ
جماعت شام
۔/۱۰۱ روپیہ
جماعت انڈونیشیا
۔/۱۰۱ روپیہ
جماعت ماریشس
۔/۱۰۱ روپیہ
جماعت فلسطین
۔/۱۰۱ روپیہ
جماعت سوئٹزرلینڈ
۔/۱۰۱ روپیہ
جماعت لندن
‏3i] gat[ ۔/۱۱ روپیہ
جماعت ہالینڈ
۔/۱۱ روپیہ
جماعت جرمنی
۔/۱۱ روپیہ
جماعت سپین
۔/۱۱ روپیہ
جماعت فرانس
۔/۱۱ روپیہ
)حضرت( سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب
۔/۱۰۱ روپیہ
خاندان )حضرت( سیٹھ محمد غوث صاحب
۔/۵۱ روپیہ
جماعت قادیان
۔/۳۱۳ روپیہ
چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب
۔/۱۰۱ روپیہ
آمنہ بیگم صاحبہ زوجہ چوہدری عبداللہ خاں صاحب
۔/۱۰۰ روپیہ
)انہوں نے خود چندہ لکھوایا اور نقد ادا کردیا(

جماعت امریکہ
۔/۱۰۰۰ روپیہ
جماعت مشرقی افریقہ
۔/۱۰۰۰ روپیہ
جماعت مغربی افریقہ
۔/۱۰۰۰ روپیہ
اس سے آگے وہ فہرست ہے جنہوں نے خود اس موقع پر چندہ لکھوایا:۔
میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری مع بچگان
۔/۱۰۱ روپیہ
میاں غلام محمد صاحب اختر پرنسل آفیسر ریلوے مع اہل وعیال
۔/۱۰۱ روپیہ
چوہدری اسداللہ خاں صاحب مع اہل و عیال
۔/۵۲۱ روپیہ
کیپٹن مبارک احمد صاحب و امتہ المجیب صاحبہ اختر بنت اختر صاحب
۔/۲۱ روپیہ
قریشی عبدالرشید صاحب مع اہلیہ صاحبہ
۔/۲۱ روپیہ
جماعت احمدیہ ناسنور )کشمیر(
۔/۵۰ روپیہ )نقد ادا کیا(
)حضرت( چوہدری فتح محمد صاحب سیال
۔/۱۰۱ روپیہ
چوہدری غلام محمد صاحب کڑیال شہید
۔/۵۱ روپیہ
شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور )شیخ مشتاق حسین صاحبؓ کے خاندان کی طرف سے(
۔/۱۰۰۰ روپیہ
جامعہ احمدیہ
۔/۲۰۰ روپیہ
محمد شریف صاحب خالد کی پھوپھی صاحبہ کا ترکہ
۔/۳۰۰ روپیہ
)حضور نے فرمایا محمد شریف صاحب خالد کی پھوپھی فوت ہوگئی ہیں ان کا ترکہ تین سو روپے تھا جو انہوں نے اسی غرض کے لئے رکھا ہوا تھا کہ مسجد کے لئے دیں گے چنانچہ اب وہ یہ روپیہ پیش کرتے ہیں(
حضور کی طرف سے جب ان وعدوں کے اعلانات ہوئے تو مجمع میں سے اکثر دوستوں نے اپنے اپنے وعدے پیش کرنے شروع کردئے اس پر حضور نے فرمایا کہ افراد اپنے وعدے دفتر بیت المال میں لکھوائیں یہاں صرف جماعتوں کے وعدے لکھے جائیں گے چنانچہ اس پر جن جماعتوں نے اپنے وعدے لکھوائے وہ یہ ہیں:۔
مدرسہ احمدیہ
۔/۱۰۰ روپے
جماعت شیخوپورہ
۔/۵۲۱ روپے
جماعت منٹگمری شہر
۔/۳۰۱ روپے
جماعت چک نمبر ۹۹ شمالی ضلع سرگودھا
۔/۵۱ روپے
جماعت رسالپور
۔/۷۱ روپے
‏1i] gat[ جماعت رشی نگر
۔/۱۱ روپے
واقفین ربوہ
۔/۱۰۱ روپے
جماعت چک نمبر ۶۸ لائل پور
۔/۴۷ روپے
جماعت چک نمبر ۹۸ شمالی سرگودھا
۔/۱۰۱ روپے
سرگودھا شہر
۔/۵۰۰ روپے
جماعت ڈسکہ
۔/۲۰۰ روپے
جماعت ہموساں )کشمیر(
۔/۳۰ روپے
جماعت سیالکوٹ
۔/۷۰۰ روپے
جماعت کوٹلی ضلع میرپور آزاد کشمیر
۔/۵۰ روپے
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری
۔/۱۰۱ روپے
تعلیم الاسلام ہائی سکول
۔/۱۰۱ روپے
جماعت میانوالی
۔/۱۱ روپے
چک نمبر ۸۶` ۸۷ شمالی سرگودھا
۔/۱۰۰ روپے
جماعت کہوٹہ
۔/۳۱ روپے
جماعت چنیوٹ
۔/۲۰۰ روپے
جماعت سیالکوٹ چھائونی
۔/۵۰ روپے
جماعت صریح چک نمبر ۹۶ تحصیل جڑانوالہ
۔/۱۱ روپے
جماعت بربط )آزاد کشمیر(
۔/۱۱ روپے
‏]i1 [tag جماعت لاہور چھائونی
۔/۲۰۰ روپے
بزم محمود )احمد نگر(
۔/۱۱ روپے
بزم احمد )احمد نگر(
۔/۵ روپے
کارکنان صدر انجمن احمدیہ
۔/۱۲۰ روپے
جماعت الہ آباد ریاست بہاولپور
۔/۵ روپے
تاجران ربوہ
۔/۱۰۱ روپے
جماعت کلکتہ
۔/۵۰۰ روپے
جماعت چک نمبر ۲۷۶ گوکھووال
۔/۵۰ روپے
جماعت بھکر
۔/۲۵ روپے
مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ
۔/۵۲۱ روپے
جماعت فتح پور ضلع گجرات
۔/۵ روپے
جماعت پنڈی بھٹیاں
۔/۱۰ روپے
جماعت چک نمبر ۷۴ ریاست بہاولپور
۔/۵ روپے
جماعت احمدیہ احمدنگر
۔/۵۱ روپے
جماعت لالیاں
۔/۵۰ روپے
جماعت چک نمبر ۵ ضلع لائل پور
۔/۳۰ روپے
جماعت احمدیہ اونچے مانگٹ
۔/۲۱ روپے
بہلول پور ضلع لائل پور
۔/۱۰۱ روپے
اطفال الاحمدیہ ربوہ
۔/۲۱ روپے
جماعت چک نمبر ۳۵ جنوبی سرگودھا
۔/۵۰ روپے
جماعت حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ
۔/۵۰ روپے
لجنہ اماء اللہ مرکزیہ
۔/۵۱ روپے
جماعت بدوملہی
۔/۱۰۰ روپے
جماعت پیر کوٹ ضلع گوجرانوالہ
۔/۱۰ روپے
جماعت بھیرہ
۔/۲۱ روپے
جماعت علی پور چک نمبر ۶ ضلع لاہور
۔/۵۰ روپے
جماعت چیچہ وطنی
۔/۱۱ روپے
ان وعدوں کے علاوہ مختلف افراد نے دفتر بیت المال میں پہنچ کر جو وعدے لکھوائے یا نقد رقوم ادا کیں ان تمام کی مجموعی میزان سترہ ہزار سے اوپر نکل گئی۔
نماز مغرب
تقریر کے بعد حضور نے وہیں مغرب کی نماز پڑھائی جس کی آخری رکعت میں پھر ان دعائوں کو دہرایا جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت کی تھیں اور اس طرح یہ مبارک تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
‏tav.12.8
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
خدام الاحمدیہ کے اجتماع سے لیکر شہدائے احمدیت تک
دیگر کوائف
اس مبارک تقریب میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جن نرینہ افراد نے حصہ لیا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:۔
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب )ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کے صاحبزادے`( صاحبزادہ مرزا غلام اہمد صاحب )ابن حضرت مرزا عزیز احمد صاحب`( صاحبزادہ میاں محمود احمد خاں صاحب )میاں مسعود احمد خان صاحب کے صاحبزادے(۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مقدس خاندان کی جن مبارک خواتین کو اس میں حصہ لینے کا موقع ملا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:۔
حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحب` حضرت سیدہ ام وسیم احمد صاحب` حضرت سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ` سیدہ امتہ القیوم بیگم صاحبہ` سیدہ امتہ الباسط صاحبہ` سیدہ امتہ النصیر صاحبہ` سیدہ امتہ الجلیل صاحبہ` سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ` بیگم صاحبہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب` سیدہ ریحانہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مرزا عزیز احمد صاحب۔۱۶
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے جن صحابہ کو اس مبارک تقریب میں شمولیت کا موقع ملا ان کے نام حسب ذیل ہیں:۔
۱۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب
۲۔ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب
۳۔ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب
۴۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب
۵۔ مکرم سید محمود عالم صاحب
۶۔ مکرم چوہدری برکت علی خاں صاحب
۷۔ حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری
۸۔ مکرم ڈاکٹر غلام غوث صاحب
۹۔ مکرم میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری
۱۰۔ مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب
۱۱۔ مکرم سید محمد اسمعیل صاحب
۱۲۔ مکرم شیخ فضل احمد صاحب
۱۳۔ مکرم منشی کظیم الرحمن صاحب ہیڈ کلرک نظارت امور عامہ
۱۴۔ مکرم منشی عبدالخالق صاحب
۱۵۔ مکرم منشی سربلند خاں صاحب
۱۶۔ مکرم مرزا احمد بیگ صاحب
۱۷۔ مکرم چوہدری محمد شریف صاحب منٹگمری
۱۸۔ مکرم مولوی عبدالحق صاحب بدوملہی
۱۹۔ مکرم خواجہ عبیداللہ صاحب ریٹائرڈ ایس` ڈی` او
۲۰۔ مکرم مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالوی
۲۱۔ مکرم بھائی محمود احمد صاحب
۲۲۔ مکرم حکیم دین محمد صاحب
۲۳۔ مکرم محمد عبداللہ صاحب جلد ساز
۲۴۔ مکرم مولوی فضل دین صاحب وکیل
‏coll1] gat[ ۲۵۔ مکرم شیخ محمد حسین صاحب پنشنر
۲۶۔ مکرم بابا حسن محمد صاحب
۲۷۔ مکرم عبیداللہ صاحب رانجھا
۲۸۔ مکرم ماسٹر نور الٰہی صاحب
۲۹۔ مکرم بابو فقیر علی صاحب
۳۰۔ مکرم بابو محمد اسمعیل صاحب معتبر
۳۱۔ مکرم خدا بخش صاحب مومن
۳۲۔ مکرم رسائیدار کرم داد خان صاحب
۳۳۔ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب
۳۴۔ مکرم خوشی محمد صاحب چک نمبر ۳۲ سرگودھا
۳۵۔ مکرم خدا بخش صاحب ساکن اورحمہ
۳۶۔ مکرم فقیر محمد صاحب سیکھواں
۳۷۔ مکرم عبداللہ صاحب بھاگووال
۳۸۔ مکرم حکیم فضل الرحمن صاحب
۳۹۔ مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس
۴۰۔ مکرم صوفی غلام محمد صاحب
۴۱۔ مکرم ماسٹر عطاء محمد صاحب
۴۲۔ مکرم مولوی غلام احمد صاحب
۴۳۔ مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر پی۔ او
۴۴۔ مکرم مستری محمد دین صاحب
۴۵۔ مکرم احمد دین صاحب موذن
‏]2llco [tag ۴۶۔ مکرم امیر بخش صاحب پہلوان
۴۷۔ مکرم چوہدری فضل احمد صاحب
۴۸۔ مکرم ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب
۴۹۔ مکرم مرزا مولا بخش صاحب
۵۰۔ مکرم محمد افضل صاحب
۵۱۔ مکرم محمد اسمعیل صاحب
۵۲۔ مکرم عطاء محمد صاحب
۵۳۔ مکرم عبدالسلام خاں صاحب
۵۴۔ مکرم رحمت خاں صاحب
۵۵۔ مکرم عبدالمجید صاحب
۵۶۔ مکرم رحیم بخش صاحب
۵۷۔ مکرم عبدالرحیم صاحب عرف پولا
۵۸۔ مکرم عنایت اللہ صاحب
۵۹۔ مکرم محمد دین صاحب
۶۰۔ مکرم احمد دین صاحب
۶۱۔ مکرم محمد ظہور صاحب
۶۲۔ مکرم شیخ نذر محمد صاحب
۶۳۔ مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب
۶۴۔ مکرم چوہدری غلام محمد صاحب
۶۵۔ مکرم چوہدری غلام رسول صاحب
۶۶۔ مکرم شمشیر خاں صاحب
۶۷۔ مکرم علی احمد صاحب
۶۸۔ مکرم مالی صاحب ننگل باغباناں
۶۹۔ مکرم مستری عبدالکریم صاحب۔۱۷

واقفین تحریک جدید جو اس تقریب میں شریک ہوئے ان کی تعداد ۸۸ تھی۔ امرائے جماعتہائے احمدیہ جو اس موقع پر تشریف لائے ان کے اسماء یہ ہیں:۔
شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور۔ مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت احمدیہ سرگودھا۔ شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ لاہور۔ چوہدری محمد شریف صاحب امیر جماعت احمدیہ منٹگمری۔ چوہدری عبداللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی۔ ملک غلام نبی صاحب امیر جماعت احمدیہ چک نمبر ۹۸ شمالی ضلع سرگودھا۔
تعمیر مسجد سے قبل صدقہ
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قبل ازیں ۱۹۔ تبوک ۱۳۲۸ہش/ ستمبر ۱۹۴۹ء بروز پیر سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ڈیڑھ بجے کے قریب ربوہ تشریف لائے تو اس وقت مسجد مجوزہ کی نشاندہی ہوچکی تھی۔ حضور کے اس مجوزہ مسجد کے اندر داخل ہونے کے بعد اہل ربوہ کی طرف سے تین بکرے مسجد کے تین کونوں پر ذبح کئے گئے ایک حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ نے` دوسرا صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے اور تیسرا حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب امیر مقامی نے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ اسی طرح جب حضور اپنے گھر کے اندر داخل ہونے لگے تو اس وقت بھی دو بکرے مقامی انجمن احمدیہ ربوہ کے جنرل سیکرٹری مکرم شیخ محمد الدین صاحب مختار عام نے ذبح کئے۔۱۸
مسجد مبارک کی تعمیر اور افتتاح
مسجد مبارک کا نقشہ مکرم حفیظ الرحمان صاحب واحد ہیڈڈرافٹس مین نے تیار کیا۔۱۹ اور اس کی تعمیر حضرت مسیح موعود~ع۱~ کے جلیل القدر صحابی حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب کی زیر نگرانی ماہ ظہور ۱۳۳۰ہش/ اگست ۱۹۵۱ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔ مینار بعد میں بنے۔۲۰
ربوہ کی پہلی مستقل مسجد ہے جس کے بنانے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو عطا فرمائی۔ مسجد کے ایک رنگ میں مکمل ہونے پر حضرت مصلح موعود نے ۲۳۔ امان ۱۳۳۰ہش/ مارچ ۱۹۵۱ء کو اس میں پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور افتتاح سے قبل بطور شکرانہ ایک لمبا سجدہ شکر کیا اور حضور کی اقتداء میں باقی تمام دوست بھی سجدہ ریز ہوگئے۔
دوسرا باب )فصل چہارم(
حضرت امیرالمومنین کا رہائش ربوہ کے بعد پہلا روح پرور خطبہ جمعہ
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے ربوہ میں مستقل رہائش کے بعد پہلا خطبہ جمعہ ۳۰۔ تبوک۱۳۲۸۲۱ہش/ ستمبر
۱۹۴۹ء کو ارشاد فرمایا۔ حضور نے یہ خطبہ قصر خلافت کی کچی عمارت سے متصل عارضی مسجد میں دیا جس میں احمدیت کے اس نئے دینی مرکز کے قیام کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس پاک بستی میں صرف انہی مخلصین کو رہنا چاہئے جو عملاً واقف زندگی ہوں۔ ہمیشہ خدا تعالیٰ پر توکل رکھیں اور ہر وقت خدمت دین کے لئے تیار رہیں۔ حضرت امیرالمومنین کے اس روح پرور خطبہ کے بعض ضروری اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں:۔
>اب یہاں ہماری عمارتیں بننی شروع ہوگئی ہیں لوگ رہنے لگ گئے ہیں دکانیں کھل گئی ہیں کچھ کارخانوں کی صورت بھی پیدا ہورہی ہے کیونکہ چکیاں وغیرہ لگ رہی ہیں۔ مزدور بھی آگئے ہیں پیشہ ور بھی آگئے ہیں اور دفتر بھی آگئے ہیں مگر یہ سب عارضی انتظام ہے مستقل انتظام کے لئے یہ شرط ہوگی کہ صرف ایسے ہی لوگوں کو ربوہ میں رہنے کی اجازت دی جائے گی جو اپنی زندگی عملی طور پر دین کی خدمت کے لئے وقف کرنے والے ہوں۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ یہاں رہنے والا کوئی شخص دکان نہیں کرسکتا یا کوئی اور پیشہ نہیں کرسکتا۔ وہ ایسا کرسکتا ہے مگر عملاً اسے دین کی خدمت کے لئے وقف رہنا پڑے گا جب بھی سلسلہ کو ضرورت ہوگی وہ بلاچون و چرا اپنا کام بند کرکے سلسلہ کی خدمت کرنے کا پابند ہوگا مثلاً اگر تبلیغ کے لئے وفد جارہے ہوں یا علاقہ میں کسی اور کام کے لئے اس کی خدمات کی ضرورت ہو تو اس کا فرض ہوگا کہ وہ فوراً اپنا کام بند کرکے باہر چلا جائے انہی شرائط پر لوگوں کو زمین دی جائے گی اور جو لوگ اس کے پابند نہیں ہوں گے انہیں یہاں زمین نہیں دی جائے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ جگہ ایک مثالی جگہ ہو جس طرح ظاہر میں اسے دین کا مرکز بنارہے ہیں اس طرح حقیقی طور پر یہاں کے رہنے والے سب کے سب افراد دین کی خدمت کے لئے وقف ہوں وہ بقدر ضرورت دنیا کا کام بھی کرتے ہوں لیکن ان کا اصل مقصد دین کی خدمت اور اس کی اشاعت ہو یوں تو صحابہؓ بھی دنیا کے کام کرتے تھے۔ رسول کریم~صل۱~ کے لشکر میں کوئی ایک سپاہی بھی ایسا نہیں تھا جو تنخواہ دار ہو کوئی دکاندار تھا` کوئی زمیندار تھا` کوئی مزدور تھا` کوئی لوہار تھا` کوئی ترکھان تھا` غرض سارے کے سارے پیشہ ور تھے۔ جس طرح آپ لوگوں کی دکانین ہیں اسی طرح ان کی بھی دکانیں تھیں۔ جس طرح آپ لوگوں کی زمینداریاں ہیں اسی طرح ان لوگوں کی بھی زمینداریاں تھیں۔ اگر آپ لوگ مختلف پیشوں سے کام لیتے ہیں مزدوری کرتے ہیں یا بڑھئی اور لوہار کا کام کرتے ہیں تو وہ بھی یہ سب کام کرتے تھے مگر رسول کریم~صل۱~ جب جنگ کے لئے نکلتے تو وہ سب کے سب آپ کے ساتھ چل پڑتے تھے اس زمانہ مین جنگ تھی اس زمانہ میں تبلیغ کا کام ہمارے سپرد ہے۔ آپﷺ~ صحابہؓ سے فرماتے چلو تو وہ سب چل پڑتے تھے وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہماری دکانیں بند ہوجائیں گی۔ پھر یہ بھی نہیں کہ ان کے بیوی بچے نہیں تھے۔ آج کل لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر ہم دین کی خدمت کے لئے جائیں تو ہمارے بیوی بچوں کو کون کھلائے گا؟ سوال یہ ہے کہ آیا صحابہؓ کے بیوی بچے تھے یا نہیں۔ اگر تھے جنگ پر جانے کے بعد انہیں کون کھلاتا تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی ترقی قربانی سے وابستہ ہے روپیہ ایک عارضی چیز ہے جیسے تحریک جدید کے ابتداء میں ہی میں نے کہہ دیا تھا کہ روپیہ ایک ضمنی چیز ہوگی تحریک جدید کی اصل بنیاد وقف زندگی پر ہوگی مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب واقفین میں سے ایک حصہ کا رجحان روپیہ کی طرف ہورہا ہے اور وہ یہ سوال کردیا کرتے ہیں کہ ہم کھائیں گے کہاں سے؟ حالانکہ وقف کی ابتدائی شرطوں میں ہی صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ زندگی وقف کرنے والا ہر قسم کی قربانی سے کام لے گا اور وہ کسی قسم کے مطالبہ کا حقدار نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص خدا کے لئے قربانی کرتا ہے خود خدا اس کا مددگار ہوجاتا ہے۔ آخر ہمارے وقف کے دو ہی نتیجے ہوسکتے ہیں یا تو ہمیں ملے یا نہ ملے۔ میں >ہمارے< کا لفظ اس لئے کہتا ہوں کہ میں بھی جوانی سے دین کی خدمت کے لئے وقف ہوں اور میں جب دین کی خدمت کے لئے آیا تھا اس وقت میں نے خدا تعالیٰ سے یا خدا تعالیٰ کے نمائندوں سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ میں اور میرے بیوی بچے کہاں سے کھائیں گے مگر اب تم میں سے کئی لوگوں کو یہ نظر آتا ہے کہ میرے پاس روپیہ بھی ہے اور میں کھاتا پیتا بھی بافراغت ہوں۔ مگر سوال یہ ہے کہ میں نے تو کوئی شرط نہیں کی تھی جو کچھ خدا نے مجھے دیا یہ اس کا احسان ہے میرا حق نہیں کہ میں اس کی کسی نعمت کو رد کروں لیکن جب میں آیا تھا اس وقت میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ پہلے میرے اور میرے بیوی بچوں کے گزارہ کی کوئی صورت پیدا کی جائے اس کے بعد میں اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کروں گا یہ خدا کا سلوک ہے جس میں کسی بندے کو کوئی اختیار نہیں<۔
>غرض اللہ تعالیٰ پر توکل ہی انسان کو حقیقی زندگی دیتا ہے اور توکل ہی ہر قسم کی برکات کا انسان کو مستحق بناتا ہے جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے مکہ بنوایا تو اس وقت اس نے یہی کہا کہ یہاں تو کل سے رہنا اور خدا تعالیٰ سے روٹی مانگنا بندوں سے نہ مانگان اسی نیت اور ارادہ کے ساتھ ہمیں قایدان میں بھی رہنا چاہئے تھا مگر وہ احمدیت سے پہلے کی بنی ہوئی بستی تھی اور ابھی بہت سے لوگ اس سبق سے ناآشنا تھے لیکن یہ نئی بستی جہاں ایک طرف مدینہ سے مشابہت رکھتی ہے اس لحاظ سے کہ ہم قادیان سے ہجرت کرنے کے بعد یہاں آئے وہاں دوسری طرف یہ مکہ سے بھی مشابہت رکھتی ہے کیونکہ یہ نئے سرے سے بنائی جارہی ہے اور محض احمدیت کے ہاتھوں سے بنائی جارہی ہے جس طرح حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے مکہ معظمہ بنوایا وہاں بھی خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کی نسل سے یہی کہا تھا کہ تم اپنی روٹی کا ذمہ دار مجھے سمجھنا کسی بندے کو نہ سمجھنا پھر میں تم کو دوں گا اور اس طرح دوں گا کہ دنیا کے لئے حیرت کا موجب ہوگا۔ چنانچہ دیکھ لو ایسا ہی ہوا۔ مکہ والے بے شک محنت مزدوری بھی کرنے لگ گئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں اگر وہ محنت مزدوری چھوڑ دیتے تب بھی جس طرح بنی اسرائیل کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک جنگل میں من و سلویٰ نازل کیا تھا اسی طرح مکے والوں کے لئے من و سلویٰ اترنے لگے کیونکہ وہاں پر رہنے والوں کا رزق خدا تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے اسی طرح ہم کو بھی اس جنگل میں جس جگہ کوئی آبادی نہیں تھی جس جگہ رزق کا کوئی سامان نہیں تھا جو مکہ کی طرح ایک وادی غیر ذی زرع تھی اور جہاں مکہ کی طرح کھاری پانی ملتا ہے اور جو اس لحاظ سے بھی مکہ سے ایک مشابہت رکھتا ہے کہ مکہ کی طرح یہاں کوئی سبزہ وغیرہ نہیں اور پھر مکہ کے گرد جس طرح پہاڑیاں ہیں اس طرح اس مقام کے اردگرد پہاڑیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ ہم ایک نئی بستی اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے بسائیں پس اس موقع پر ہمیں بھی اور یہاں کے رہنے والے سب افراد کو بھی یہ عزم کرلینا چاہئے کہ انہوں نے خدا سے مانگنا ہے کسی بندے سے نہیں مانگنا تم اپنے دل میں ہنسو۔ تمسخر کرو کچھ سمجھو حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں سب سے معزز روزی وہی ہے جو خدا تعالیٰ سے مانگی جائے۔ وہ کوئی روزی نہیں جو انسان کو انسان سے مانگ کر ملتی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے )مگر یہ اعلیٰ مقام کی بات ہے اور اعلیٰ درجہ کی روحانیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور شائد تم میں سے بہتوں کی سمجھ میں بھی نہ آئے( کہ وہ روزی بھی اتنی اچھی نہیں جو خدا تعالیٰ سے مانگ کر ملتی ہے بلکہ اعلیٰ روزی وہ ہے جو خداتعالیٰ خود دیتا ہے اور بے مانگے کے دیتا ہے۔ مجھے اپنی زندگی مین ہمیشہ ہنسی آتی ہے اپنی ایک بات پر )مگر یہ ابتدائی مقام کی بات تھی اور اعلیٰ مقام ہمیشہ ابتدائی منازل کو طے کرنے کے بعد ملتا ہے اور ابتدائی مقام یہی ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے مین نے خدا سے مانگنا ہے( کہ میں نے بھی خدا سے کچھ مانگا اور اپنے خیال میں انتہائی درجہ کا مانگا مگر مجھے ہمیشہ ہنسی آتی ہے اپنی بیوقوفی پر اور ہمیشہ لطف آتا ہے خدا تعالیٰ کے انتقام پر کہ جو کچھ ساری عمر کے لئے میں نے مانگا تھا وہ بعض دفعہ اس نے مجھے ایک ایک ہفتہ میں دے دیا۔ میں زمین پر شرمنہ ہوں کہ میں نے کیا حماقت کی اور اس سے کیا مانگا اور وہ آسمان پر ہنستا ہے کہ اس کو ہم نے کیسا بدلہ دیا اور کیسا نادم اور شرمندہ کیا۔ پھر میں نے سمجھا کہ مانگنا بھی فضول ہے کیوں نہ ہم اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کریں کہ وہ ہمیں بے مانگے ہی دیتا چلا جائے ایک شخص جو کسی بڑے آدمی کے گھر مہمان جاتا ہے وہ اگر اس سے جاک کہے کہ صاحب میں آپ کے گھر سے کھانا کھائوں گا تو اس میں میزبان اپنی کتنی ہتک محسوس کرتا ہے جب وہ اس کے ہاں مہمان آیا ہے تو صاف بات یہ ہے کہ وہ اس کے ہاں سے کھانا کھائے گا۔ اس کا یہ کہنا کہ میں آپ کے ہاں سے کھانا کائوں گا یہ مفہوم رکھتا ہے کہ وہ میزبان کے متعلق اپنے دل میں یہ بدظنی محسوس کرتا ہے کہ شائد وہ کھانا نہ کھلائے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا جو مہمان ہوجاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ خود کھلاتا اور پلاتا ہے اگر وہ اس سے مانگے تو اس میں اس کی اعلیٰ و ارفع شان کی ہتک ہوتی ہے۔ مگر خدا کا سلوک ہر بندے سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ جو خدا کے لئے اپنی زندگی وقف نہیں کرتے ان کو بھی وہ روزی بہم پہنچاتا ہے اور جو اس کے لئے اپنی ساری زندگی کو وقف کئے ہوئے ہوتے ہیں ان کو بھی روزی بہم پہنچاتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کلا نمد ھولاء وھولاء ہم اس کے لئے بھی روزی کا انتظام کرتے ہیں جو ایمان سے خارج اور دہریہ ہوتا ہے اور اس کے لئے بھی روزی کا انتظام کرتے ہیں جو ہم پر کامل ایمان رکھنے والا ہوتا ہے۔ یہ دو گروہ ہیں جو الگ الگ ہیں۔ ایک وہ ہے جو ہمیں گالیاں دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں خود کمائی کروں گا اور اپنی کوشش سے رزق حاصل کروں گا۔ ایک گروہ وہ ہے جو کہتا ہے کہ کمائی لغو چیز ہے بلکہ میں نے تو خدا تعالیٰ سے بھی نہیں مانگنا اس کی مرضی ہے چاہے دے یا نہ دے۔ فرماتا ہے ہم اس گروہ کو بھی دیتے ہیں اور اس گروہ کو بھی دیتے ہیں۔ ایک ھولاء ان لوگوں کی طرف جاتا ہے جو بدترن خلائق ہوتے ہیں اور جو مادیات کے اتنے دلدادہ اور عاشق ہوتے ہیں کہ سمجھتے ہیں سب نتائج کی بنیاد مادیات پر ہی ہے اور ایک ھولاء ان لوگوں کی طرف جاتا ہے جو مادیات سے بالکل بالا ہوکر اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ سمجھتے ہیں ہم نے خدا سے بھی نہیں مانگنا اور ایک درمیانی گروہ ہوتا ہے وہ اپنے اپنے درجہ کے مطابق ظاہر میں کچھ مادی کوششیں بھی کرلیتے ہیں اور پھر ساتھ اس کے اللہ تعالیٰ پر توکل بھی رکھتے ہیں کبھی مانگتے ہیں اور کبھی نہیں مانگتے یا اپنی زندگی میں سے کچھ عرصہ کوشش اور جدوجہد کرتے ہیں اور کچھ عرصہ کوشش اور جدوجہد کو ترک کردیتے ہیں۔ ظاہری تدبیر حضرت خلیفہ اولؓ نے بھی کی۔ آپ طلب کرتے تھے اور روپیہ کماتے تھے اور ظاہری تدبیر ہم نے بھی کی ہم بھی زمیندارہ کرتے ہیں اور بعض دفعہ تجارت بھی کرلیتے ہیں مگر اس نیت سے کرتے ہیں کہ اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے اگر وہ کہے کہ میں نے تمہیں کچھ نہیں دینا تو ہمیں اس سے کوئی شکوہ نہیں ہوگا ہمیں اس کے فیصلہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ہم پھر بھی یہی سمجھیں گے کہ وہ ہماری اتنی ہی حمد کا مستحق ہے جتنی حمد کا اب مستحق ہے بلکہ وہ ہمدردی اتنی حمد کا ہے جتنی حمد ہم کر بھی نہیں سکتے۔ پس اس مقام کے رہنے والوں کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ توکل سے کام لیں اور ہمیشہ اپنی نگاہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلند رکھیں۔ جو دیانتدار احمدی ہیں میں ان سے کہوں گا کہ اگر وہ کسی وقت یہ دیکھیں کہ وہ توکل کے مقام پر قائم نہیں رہے تو وہ خودبخود یہاں سے چلے جائیں اور اگر خود نہ جائیں تو جب ان سے کہا جائے کہ چلے جائو تو کم سے کم اس وقت ان کا فرض ہوگا کہ وہ یہاں سے فوراً چلے جائیں۔ یہ جگہ خدا تعالیٰ کے ذکر کے بلند کرنے کے لئے مخصوص ہونی چاہئے۔ یہ جگہ خدا تعالیٰ کے نام کے پھیلانے کے لئے مخصوص ہونی چاہئے۔ یہ جگہ خدا تعالیٰ کے نام کے پھیلانے کے لئے مخصوص ہونی چاہئے۔ یہ جگہ خدا تعالیٰ کے دین کی تعلیم اور اس کا مرکز بننے کے لئے مخصوص ہونی چاہئے۔ ہم میں سے ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنی اولاد اور اپنے اعزہ اور اقارب کو اس رستہ پر چلانے کی کوشش کرے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ اس کوشش میں کامیاب ہوسکے۔ نوحؑ کی کوشش کے باوجود اس کا بیٹا اس کے خلاف رہا۔ لوطؑ کی کوشش کے باوجود اس کی بیوی اس کے خلاف رہی۔ اسی طرح اور کئی اور اولیاء ایسے ہیں جن کی اولادیں اور بھائی اور رشتہ دار ان کے خلاف رہے۔ ہم میں سے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے خاندان میں سے کتنوں کو دین کی طرف لاسکے گا مگر اس کی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ اس کی ساری اولاد اور اس کی ساری نسل دین کے پیچھے چلے اور اگر اس کی کوشش کے باوجود اس کا کوئی عزیز اس رستہ سے دور چلا جاتا ہے تو سمجھ لے کہ وہ میری اولاد میں سے نہیں میری اولاد وہی ہے جو اس منشاء کو پورا کرنے والی ہے جو الٰہی منشاء ہے۔ جو شخص دین کی خدمت کے لئے تیار نہیں وہ ہماری اولاد میں سے نہیں۔ ہم اپنی اولاد کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ ضرور دین کے پیچھے چلیں۔ ہم ان کے دل میں ایمان پیدا نہیں کرسکتے خدا ہی ہے جو ان کے دلوں میں ایمان پیدا کرسکتا ہے لیکن ہم یہ ضرور کرسکتے ہیں کہ جو اولاد اس منشاء کو پورا کرنے والی نہ ہو اسے ہم اپنے دل سے نکال دیں۔ بہرحال اگر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اعلیٰ مقام دے تو ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ صرف ہم ہی نہیں بلکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی اس مقام کو دین کا مرکز بنائے رکھیں اور ہمیشہ دین کی خدمت اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لئے وہ اپنی زندگیاں وقف کرتے چلے جائیں لیکن اگر ہماری کسی غلطی اور گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ یہ مقام ہمیں نصیب نہ کرے اور ہماری ساری اولادیں یا ہماری اولادوں کا کچھ حصہ دین کی خدمت کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ پر توکل اس کے اندر نہ پایا جاتا ہو۔ خدا تعالیٰ کی طرف انابت کا مادہ اس کے اندر موجود نہ ہو تو پھر ہمیں اپنے آپ کو اس امر کے لئے تیار رکھنا چاہئے کہ جس طرح ایک مردہ جسم کو کاٹ کر الگ پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح ہم اس کو بھی کاٹ کر الگ کردیں اور اس جگہ کو دین کی خدمت کرنے والوں کے لئے ان سے خالی کروالیں<۔۲۲
منافق طبع لوگوں کی اصلاح کرنے اورخلیفہ وقت کو انکی اطلاع دینے کی تحریک
سیدنا حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے ۱۸۔ ماہ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء کو بمقام ربوہ ایک اہم خطبہ ارشاد فرمایا جس میں تحریک
فرمائی کہ منافق طبع لوگوں کی اصلاح کی جائے اور خلیفہ وقت کو ایسے لوگوں کی اطلاع دی جائے۔ نیز اس امر پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے کہ طبقہ منافقین کے پیدا ہونے کے بنیادی وجوہ اور اسباب کہاں ہیں؟ چنانچہ فرمایا:۔
>یہ طبقہ کہاں سے آتا ہے؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اس کی موٹی موٹی جگہیں یہ ہیں۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ بعض لوگ دلائل سن کر ایمان لے آتے ہیں لیکن جب ان سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ ان کی برداشت نہیں کرسکتے۔ مثلاً جب وہ نماز نہیں پڑھتے تو لوگ ان سے پوچھتے ہیں کہ تم نماز کیوں نہیں پڑھتے۔ آخر اس سوال کا وہ کیا جواب دیں گے۔ کیا وہ یہ جواب دیں گے کہ بھئی ہم کمزور ہیں گنہگار ہیں۔ اس جواب کے لئے بڑی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ میں نے تمہارے بڑے بڑے آدمیوں کو دیکھا ہوا ہے وہ نمازیں نہیں پڑھتے۔ گویا وہ اپنا الزام دوسروں پر لگا دیں گے تا ان کا وہ عیب چھپ جاوے۔ یہ بات ان سے اگر کوئی کمزور ایمان شخص سن لے گا تو وہ دوسری جگہ پر جائے گا اور کہے گا کہ میں نے ایک معتبر شخص سے سنا ہے کہ فلاں فلاں شخص نماز نہیں پڑھتا وہ معتبر شخص کون ہوگا وہ معتبر شخص وہی منافق ہوگا جس نے اپنا عیب چھپانے کے لئے اپنا الزام دوسروں پر لگا دیا۔ یا مثلاً چندہ ہے ایک شخص چندہ نہیں دیتا لوگ اس سے پوچھتے ہیں کہ بھئی تم چندہ کیوں نہیں دیتے۔ وہ اپنے عیب کو چھپانے کے لئے کہہ دیتا ہے کہ بھئی چندہ کیا دیں مرکز میں بیٹھے لوگ چندے کھارہے ہیں۔ یہ تو کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ میں بے ایمان ہوں` کمزور ہوں اس لئے چندہ نہیں دیتا بجائے اس کے کہ وہ کہے بھئی میں بے ایمان ہوں` کمزور ہوں وہ کہہ دیتا ہے مرکز میں بڑے بڑے لوگ چندے کھارہے ہیں اس لئے میں چندہ نہیں دیتا۔ اس طرح وہ اپنی عزت کو بچانا چاہتا ہے۔ غرض بدعمل لوگ اپنے عیب اور کمزوری کو چھپانے کے لئے اور اس پر پردہ ڈالنے کے لئے ہمیشہ دوسروں پر الزام لگاتے ہیں۔ ان لوگوں کی بڑی پہچان یہ ہے کہ پہلے معترض کا اپنا عمل دیکھا جائے کہ وہ چندہ دیتا ہے یا دیانتداری میں خود مشہور ہے یا وہ خود تو کسی سے دھوکہ نہیں کرتا۔ اگر وہ خود چندہ دیتا ہے` وہ خود دیانتداری میں مشہور ہے تب تو ہم یہ شبہ کرسکتے ہیں کہ شاید اس کی بات سچی ہو یا شاید اس نے کسی غلط فہمی کی بناء پر کوئی بات کہہ دی ہو۔ لیکن جس کی دیانت خود مشتبہ ہے وہ خود چندہ نہیں دیتا اور پھر وہ دوسروں پر اعتراض کرتا ہے وہ منافق ہے۔ پس ہر وہ شخص جو دوسروں پر خیانت اور بددیانتی کا الزام لگائے پہلے اسے دیکھو کہ آیا وہ خود دیانتدار ہے خود چندوں میں چست ہے۔ اگر وہ خود ایماندار ہو تب تک بے شک اس کی بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن پھر بھی یہ ضروری نہیں کہ اس کی بات فی الواقع سچی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ جو کچھ کہہ رہا ہے محض غلط فہمی کی بناء پر ہو۔ دوسری وجہ منافقت کی یہ ہوتی ہے کہ نئی نسل کی تربیت اچھی نہیں ہوتی پہلے لوگ تو سوچ سمجھ کر ایمان لاتے ہیں لیکن نئی نسل تو سوچ سمجھ کر ایمان لاتے ہیں لیکن نئی نسل تو سوچ سمجھ کر ایمان نہیں لائی ہوتی۔ وہ تو پیدائشی احمدی ہوتے ہیں اس لئے بری تربیت کی وجہ سے وہ جلد منافقت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ جو سوچ سمجھ کر ایمان لاتا ہے اس کا ایمان اتنا کمزور نہیں ہوتا کہ ٹھوکر کھا جائے لیکن جو شخص سوچ سمجھ کر ایمان نہیں لایا بلکہ محض پیدائش کی وجہ سے وہ احمدی ہے اس کا ایمان اتنا مضبوط نہیں ہوتا جتنا اس شخص کا جو خود سوچ سمجھ کر ایمان لایا ہو۔ غرض نئی پود میں بھی منافقت زیادہ گھر کر جاتی ہے۔ اب اگر یہ صحیح ہے کہ ہر احمدی کی تربیت اچھی نہیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ منافقت احمدیوں میں بھی ہوسکتی ہے۔
منافقت کی تیسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ ایمان دار اور مخلص شخص بھی کمزوری رکھا جاتا ہے اور چونکہ ہر کمزوری معاف نہیں ہوسکتی اس لئے بعض دفعہ اسے سلسلہ کی طرف سے سزا دی جاتی ہے اور بعض اوقات اسے سزا کی وجہ سے وہ ٹھوکر کھا جاتا ہے یا اس کے اندر بغض اور کینہ پیدا ہوجاتا ہے۔ پس اگر کوئی شخص منافقت والی بات کررہا ہو تو دیکھو کہ آیا وہ ایسا شخص تو نہیں جسے کسی جرم کی بناء پر سلسلہ کی طرف سے سزا دی گئی ہو یا اس کے کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کو سزا دی گئی ہو اگر ایسا ہے تو یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ اپنا بدلہ لے رہا ہے۔
جو لوگ مخلص نہیں وہ میرے مخاطب نہیں لیکن جو لوگ سچے مبائع اور مخلص ہیں میں انہیں ہدایت دیتا ہوں کہ ایسے لوگ جہاں کہیں بھی ہوں ان کی اطلاع مجھے دیں۔ بعض اطلاعیں مجھے مل چکی ہیں اور ان کے متعلق میں قدم اٹھانے والا ہوں لیکن اگر تم لوگ بھی مجھے اطلاع دیتے رہو گے تو مجھے اپنے کام میں مدد ملے گی۔ مثلاً میرے پاس ایک روایت پہنچتی ہے کہ فلاں شخص منافق ہے لیکن ایک روایت کے ساتھ کسی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جاسکتا اور اگر ہم اس شخص کا نام پہلے ہی لے دیں تو اس کے خلاف غلط روایات جمع ہونی شروع ہوجائیں گی اس لئے ایسا کرنا اس پر ظلم ہوگا۔ پس جماعت کے ہر فرد کو چاہئے کہ جہاں کہیں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہوں جو ایسے لوگوں کے سامنے باتیں کرتے ہوں جو اصلاح پر مقرر نہیں کئے گئے ان کی اطلاع مجھے دے۔ اصلاح پر معرر خلیفہ ہے۔ صدر انجمن احمدیہ ہے مجلس شوریٰ ہے۔ ناظر ہیں اور بعض کاموں میں تحریک جدید اور تحریک جدید کی انجمن ہے اور ان کے بعد لوکل امیر اور لوکل امیر کی انجمن ہے۔ میں کسی فرد کا نام نہیں لے رہا۔ اگر ان سات کے سامنے کوئی شخص کوئی بات کرتا ہے تو وہ منافق نہیں اس لئے کہ یہ اصلاح پر مقرر ہیں لیکن ان سات کے سوا اگر وہ کسی اور کے سامنے کوئی بات کرتا ہے تو ہم اسے منافق کہیں گے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ منافق ہو لیکن وہ اس بات کا اہل ہے کہ اس کا جائزہ لیا جائے کہ آیا وہ احمق ہے یا منافق۔ پس اگر کوئی شخص خلیفہ وقت` نظام جماعت یا افراد جماعت کے خلاف ان سات قسم کے لوگوں کے سوا کسی اور کے سامنے کوئی بات کرتا ہے تو ایسے شخص کی رپورٹ میرے پاس آنی چاہئے تاکہ اگر وہ اصلاح کے قابل ہے تو اس کی اصلاح کی جائے ہمارے ہاتھ میں صرف یہی ہے کہ ہم اس کا مقاطعہ کردیں یہ نہیں کہ اسے مارپیٹ کریں مار پیٹ کرنا گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔
بہرحال جماعت کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس قسم کے لوگوں کی اصلاح کی جائے۔ میں پھر یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ رحم کے یہ معنے نہیں کہ باغ میں گھاس اگا ہو اور اسے کاٹا نہ جائے اگر کوئی باغبان اس گھاس پر رحم کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ درخت مرجائے گا۔ اگر کوئی شخص سانپ پر رحم کتا ہے ۔۔۔ تو اس کے یہ معنے ہیں کہ سانپ اس کے بچہ کو کاٹ لے گا۔ بائولے کتے پر اگر کوئی رحم کرتا ہے تو اچھے شہری مارے جائیں گے یہ رحم نہیں ظلم ہے۔ رحم کی مستحق سب سے اول جماعت ہے۔ رحم کا مستحق سب سے اول سلسلہ ہے۔ رحم کا مستحق سب سے اول نظام سلسلہ ہے۔ اور جو شخص ان کے خلاف باتیں کرتا ہے وہ اس قابل نہیں کہ اسے جماعت میں رہنے دیا جائے<۔۲۳
حضرت مصلح موعود نے اس تحریک کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔
>منافق لوگ جماعت کو یا مجھے اس وقت تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ یہ ہماری ترقی کا زمانہ ہے۔ اس وقت ان کی حیثیت ایک مچھر کی بھی نہیں۔ مچھر کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے مگر وہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے لیکن پھر بھی انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اگر یہ بیج قائم رہا تو جب جماعت کمزور ہوجائے گی اس وقت اسے نقصان پہنچائے گا اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ نہ صرف ہم اپنی اصلاح کریں بلکہ ایسے لوگوں کی بھی اصلاح کریں جو جماعت کے لئے آئندہ کسی وقت بھی مضر ہوسکتے ہیں۔ پس ان لوگوں کو کچلنا ہمارا فرض ہے خواہ ان کے ساتھ ان سے ہمدردی رکھنے والے بعض بڑے لوگ بھی کچلے جائیں اور ہر مخلص اور سچے مبائع کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بارہ میں میری مدد کرے اور ایسے لوگوں کے متعلق مجھے اطلاع دے۔ اور اگر کوئی احمدی میرے اس اعلان کے بعد اس کام میں کوتاہی کرے گا تو خدا تعالیٰ کے نزدیک مومن نہیں ہوگا بلکہ اس کی بیعت ایک تمسخر بن جائے گی کیونکہ اس نے جان و مال اور عزت کے قربان کرنے کا وعدہ کیا لیکن جب خلیفہ وقت نے اسے آواز دی تو اس نے کسی کی دوستی کی وجہ سے اس آواز کا جواب نہیں دیا۔ پس ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ منافقین کی اطلاع مجھے دے۔ تم اس بات سے مت ڈرو کہ سو میں سے پچاس احمدی نکل جائیں گے تم پچاس سے ہی سو بنے ہو بلکہ تم ایک سے سو بنے ہو پھر اگر سو میں سے پچاس نکل جائیں گے تو کیا ہوا۔ پس یہ مت خیال کرو کہ ان لوگوں کے نکل جانے سے جماعت کو کوئی نقصان پہنچے گا۔ گھاس کاٹ دینے سے باغ سے سبزہ تو کم ہوجاتا ہے لیکن درخت نشوونما پاتا ہے اور باغ زیادہ قیمتی ہوجاتا ہے<۔۲۴
حضرت مصلح موعودؓ کا لیکچر سرگودھا
جناب ملک صاحب خاں صاحب نون ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر نے حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کی خدمت میں سرگودھا تشریف لانے اور اپنے خطاب سے اہل سرگودھا کو نوازنے کی درخواست کی تھی جو حضور نے قبول فرمائی چنانچہ حضور ¶۱۱۔ ماہ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء کو سرگودھا تشریف لے گئے اور نماز جمعہ پڑھنا کے بعد کمپنی باغ کے وسیع احاطہ میں ایک نہایت پرمعارف اور موثر تقریر فرمائی جس میں پاکستانیوں کو بدلے ہوئے حالات میں ان کی نئی ذمہ داریوں کی طرف بڑے دلنشیں پیرایہ میں توجہ دلائی۔۲۵ یہ تقریر چار بجے سہ پہر سے شروع ہوکر شام کے چھ بجے تک جاری رہی۔ حضور کا خطاب پبلک نے کمال ذوق و شوق اور دلجمعی سے سنا اور مجمع پر سکتے کا سا عالم طاری رہا۔ رئوسائے شہر اور حکام ضلع کے علاوہ سرگودھا کے دیگر معززین اور غیر احمدی احباب ہزارہا کی تعداد میں تشریف لائے اور حضور کی روح پرور ارشادات سے مستفیض ہوئے۔ علاوہ ازیں سرگودھا کے علاوہ ازیں سرگودھا کے علاوہ پنجاب کے دوسرے اضلاع کی احمدی جماعتوں کے دوست بھی کثیر تعداد میں شامل جلسہ ہوئے۔
ان دنوں جناب مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ سرگودھا کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ آپ نے قریباً اڑھائی ہفتہ پیشتر بذریعہ الفضل حضور کے لیکچر کی خوشکن خبر شائع کرائی نیز اطلاع دی کہ احباب کے لئے دوپہر و شام کے کھانے اور قیام کا انتظام ملک صاحب خاں صاحب نون کی کوٹھی پر ہوگا۔ آپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ ضلع سرگودھا کے احمدی نوجوان دس نومبر یعنی جمعرات کو دوپہر کو سرگودھا پہنچ جائیں تابروقت انتظامات جلسہ میں حصہ لے سکیں۔۲۶ اس جلسہ کے ناظم محمد اقبال صاحب پراچہ )جنرل منیجر دی یونائیٹڈ ٹرانسپورٹ سرگودھا( تھے جنہوں نے الفضل مورخہ ۶۔ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء میں عازمین جلسہ سرگودھا کے لئے ایک ضروری نوٹ لکھا اور مہمانوں سے انتظامات جلسہ کی مشترکہ ذمہ داری میں تعاون کی اپیل کی۔ محترم پراچہ صاحب نے لاہور سے سرگودھا جانے والے احباب کی سہولت کے پیش نظر سپیشل بسوں کا بھی انتظام کیا جیسا کہ اخبار الفضل ۸۔ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۲ سے پتہ چلتا ہے۔ مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر صوبائی پنجاب اپنی سوانح میں اس عظیم الشان جلسہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
>۱۹۴۹ء میں ہم نے سرگودھا میں ایک جلسہ عام کمپنی باغ میں کروایا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی تقریر ہوئی جس کا بہت اچھا اثر ہوا۔ اس جلسہ کے سارے اخراجات محترم ملک صاحب خاں صاحب نون رئیس سرگودھا نے ادا کئے۔ اس میں بہت وسیع پیمانے پر کھانے کی دعوت بھی دی گئی جس میں حکام اور رئووسا کو بھی شامل کیا گیا۔ مولویوں نے اس جلسہ کو منسوخ کروانا چاہا لیکن ڈپٹی کمشنر ہمیں پہلے اجازت دے چکے تھے انہوں نے منسوخ کرنے سے انکار کردیا<۔۲۷
دوسرا باب )فصل پنجم(
احمدیہ مسلم مشن گلاسگو کا قیام
سکاٹ لینڈ برطانیہ کلاں کا ایک ملک ہے جو ۱۷۰۷ء۲۸ سے انگلینڈ کے ساتھ قانوناً الحاق رکھتا ہے انگلینڈ کی طرح اس ملک کے پراٹسٹنٹ چرچ کو بھی شہرت حاصل ہے جس کے مدارس الٰہیات ایڈنبرا (EDUNBURGH) گلاسگو (GLASGOW) اور ایبرڈن (ABERDEEN) میں قائم ہیں۔ گلاسگو سکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا اور برطانیہ میں لنڈن کے بعد دوسرے نمبر کا شہر ہے جہاں پاکستان` ہندوستان اور مصر کے مسلمان بھی خاصی تعداد میں آباد ہیں۔ کمیونٹی ریلیشنز کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سکاٹ لینڈ میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد چھ ہزار اور بھارتیوں کی تعداد چار ہزار تک پہنچ گئی ہے۔۲۹
‏]sub [tagمشن کی بنیاد
سکاٹ لینڈ میں اسلام و احمدیت کا بیج حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن کے ذریعہ ۱۳۱۹ہش/ ۱۹۴۰ء کے قریب بویا گیا جبکہ سکاٹ لینڈ یونیورسٹی کی ایک طالبہ مس وائٹ لو LOW) WHITE ۔(MISS اور مسٹر فیرشا FARSHAH) ۔(MR نے قبول اسلام کیا۔۳۰ فروری۳۱ ۱۹۴۹ء میں حضرت مصلح موعود کی خاص ہدایت پر مسٹر بشیر احمد آرچرڈ نے گلاسگو میں احمدیہ مسلم مشن کی بنیاد رکھی۔۳۲
ابتدائی تبلیغی سرگرمیاں
یہاں آپ کے سوا اور کوئی احمدی نہ تھا مگر دو ماہ بھی نہ ہوئے تھے کہ دو افراد حلقہ بگوش احمدیت ہوگئے جن میں سے ایک کا نام بشیر احمد اور دوسرے کا عبدالحق پنڈر۳۳ (PINDER) تھا۔ مقدم الذکر محکمہ ریلوے میں کام کرنے والے ایک پاکستانی تھے اور دوسرے سکاٹش مسلمان۔
۶۔ ہجرت ۱۳۲۸ہش/ مئی ۱۹۴۹ء کو مسٹر بشیر آرچرڈ نے تبلیغ اسلام کے لئے پہلی پبلک میٹنگ منعقد کی۳۴ اور اس کے بعد باقاعدگی سے لیکچروں کے ذریعہ پیغام حق کا حلقہ وسیع کرنے لگے۔ چنانچہ گلاسگو کے بعد ۱۷۔ ظہور ۱۳۲۸ہش/ اگست ۱۹۴۹ء کو ایڈنبرگ میں بھی اجلاس کرنے کا اہتمام کیا جو بہت کامیاب رہا۔ اسی طرح گلاسٹر میں بھی آپ نے لیکچر دیا۔
اس کے علاوہ آپ نے سکاٹ لینڈ میں اسلامی لٹریچر کے پھیلانے کی طرف بھی توجہ دینا شروع کردی اور اپنی سرگرمیوں کا آغاز مندرجہ ذیل پمفلٹوں سے کیا:۔
۱۔
قبر مسیح۔ یسوع ہندوستان میں INDIA) IN TSCHRI ۔JESUS OF TOMB (THE مرتبہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن۔
۲۔
کلیسیا کے نام کھلا چیلنج CHURCH) THE TO CHALLENGE OPEN (AN از چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۳۔
ایک آسمانی پیغام MESSAGE) DIVINE (A۳۵
مسلم ہیرلڈ کا اجراء
ماہ ظہور ۱۳۲۹ہش/ اگست ۱۹۵۰ء میں آپ نے سائیکلو سٹائل مشین سے ایک ماہوار رسالہ مسلم ہیرلڈ HERALD) (MUSLIM جاری کیا۔ ماہ شہادت ۱۳۲۹ہش/ اپریل ۱۹۵۰ء میں آپ کی جدوجہد سے گلاسگو میں پہلی بار یوم پیشوایان مذاہب منایا گیا جس میں تیس افراد شامل ہوئے۔ ماہ احسان ۱۳۲۹ہش/ جون ۱۹۵۰ء سے آپ نے تبلیغی سرگرمیاں تیز تر کردیں اور گھر گھر پہنچ کر اسلام و احمدیت کی منادی کی اور گلاسکو کے بڑے بڑے سماجی اور مذہبی لیڈروں کو اسلامی لٹریچر بھجوایا۔۳۶
آرچ بشپ آف یارک اور پوپ کو دعوت مذاکرہ
ماہ اخاء ۱۳۲۹ہش/ اکتوبر ۱۹۵۰ء میں آپ نے آرچ بشپ آف یارک YARK) OF BISHOP (ARCH کو مسیح کے دوبارہ جی اٹھنے اور آسمان پر چڑھ جانے کی نسبت چیلنج دیا مگر انہیں یہ چیلنج قبول کرنے کی جرات نہ ہوسکی۔ اگلے سال آپ نے ۱۳۳۰ہش/ ۱۹۵۱ء کے شروع میں پوپ اور کلیسا کے دوسرے مذہبی راہنمائوں کو بذریعہ اشتہار۳۷ دعوت مذاکرہ دی مگر پوپ کے سیکرٹری کی رسید کے سوا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
حلقہ اشاعت اسلام میں وسعت
۱۳۳۰ہش/ ۱۹۵۱ء میں آپ نے اشاعت اسلام کے حلقہ کو وسیع کرنے کے لئے متعدد نئے اقدامات کئے۔ مثلاً ہر اتوار کو اسلامی لٹریچر کا سٹال لگانا شروع کیا جس سے تبلیغ کی نئی راہیں کھلیں۔ گلاسگو کی لائبریریوں میں اسلامی لٹریچر رکھوایا۔ پہلے مکرم نسیم سیفی صاحب رئیس التبلیغ مغربی افریقہ اور پھر مکرم ملک عمر علی صاحب کے ہمراہ آپ نے تبلیغی دورہ کیا اور یہوواہ وٹنس WITNESSES)۔(JEHOVER فرقہ کے لوگوں سے گفتگو کی اس سال مسٹر بشیر آرچرڈ نے عرشہ جہاز کے مسلمان عملہ سے بھی رابطہ قائم کیا۔ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحبؓ نے اسلام اینڈ پیس PEACE) DAN (ISLAM کے دو نسخے مشن کو بھجوائے تھے جو آپ نے غیر مسلموں تک پہنچائے۔ علاوہ ازیں اپنے بہت سے مضامین سائیکلو سٹائل کرکے کتابی صورت میں شائع کئے۔ ان مضامین میں اسلام اینڈ پیس۳۸ اور کرسچین اویک۳۹ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ موخر الذکر مضمون کا عربی ترجمہ۔ >استیقظوا ایھا المسیحیون< کے عنوان سے فلسطین کے رسالہ البشریٰ۴۰ میں بھی شائع ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی کوششوں میں برکت ڈالی اور ماہ فتح ۱۳۲۹ہش سے لے کر ماہ شہادت ۱۳۳۰ہش تک تین سعید روحیں قبول اسلام سے مشرف ہوئیں۔ بیعت کرنے والوں میں دو پولینڈ۴۱ کے باشندے اور ایک سکاٹش تھا۔
مبلغ اسلام کا ایثار
مجاہد گلاسگو مسٹر بشیر آرچرڈ شروع سے ہی نہایت قلیل رقم پر گزارہ کررہے تھے۔ ۸۔ ظہور ۱۳۲۸ہش )مطابق ۸۔ اگست ۱۹۴۹ء( کو ایک نو مسلم انگریز کے ہاں آپ کی شادی ہوئی جس سے آپ کے اخراجات میں اضافہ ہوا تاہم آپ نے مرکز سے اپنے مشاہرہ میں اضافہ کی کوئی درخواست نہ کی بلکہ ماہ اخاء ۱۳۲۹ہش/ اکتوبر ۱۹۵۰ء سے اپنا ماہانہ تبلیغی الائونس )۵ پونڈ(۴۲ بھی بند کرادیا اور خود پرانے۴۳ ٹکٹوں` عطر اور سٹیشنری کی فروخت اور ٹائپ اور سائیکلو سٹائل کرکے مشن کے اخراجات چلانے لگے۔
ٹرینیڈاڈ کو روانگی
مسٹر بشیر آرچرڈ نے جب اس خطہ میں بغرض تبلیغ قدم رکھا تو حالات سراسر ناموافق تھے حتیٰ کہ ابتداء میں جب آپ نے اشتہارات کی تقسیم شروع کی تو کئی لوگ سخت برہم ہوئے اور اشتہار پھاڑ کر زمین پر پھینک ڈالے مگر آپ نے پوری بشاشت اور استقلال کے ساتھ اشاعت اسلام کی جدوجہد جاری رکھی اور قریباً ساڑھے تین سال تک نہایت محبت` اخلاص اور وفاشعاری سے پیغام حق پہنچاتے رہے اور ماہ اخاء ۱۳۳۱ہش/ اکتوبر ۱۹۵۲ء میں مبلغ اسلام کی حیثیت سے ٹرینیڈاڈ تشریف لے گئے۔۴۴
گلاسگو مشن دارالتبلیغ لنڈن کی براہ راست نگرانی میں
ماہ اخاء ۱۳۳۱ہش/ اکتوبر ۱۹۵۲ء سے لے کر ماہ اخاء ۱۳۴۵ہش/ اکتوبر ۱۹۶۶ء تک گلاسگو مشن براہ راست لندن مشن کی نگرانی میں رہا۔ اس دوران میں متعدد پاکستانی احمدی یہاں پہنچ گئے اور ایک خاصی جماعت قائم ہوگئی جس کی تنظیم کے لئے مبلغ انگلستان بشیر احمد خاں صاحب رفیق۴۵ نے ۱۸۔ وفا ۱۳۲۸ہش/ جولائی ۱۹۵۹ء کو سکاٹ لینڈ کا خصوصی سفر کیا۔ لنڈن مشن کے ایک مخلص احمدی چوہدری عبدالرحمن صاحب بھی آپ کے ہمسفر تھے۔ اس سفر کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ گلاسگو میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہوگئی اور اس نے لنڈن مشن سے باقاعدہ منسلک ہوکر ماہوار چندہ بی ادا کرنا شروع کردیا جس سے لنڈن مشن کی آمد میں اضافہ ہوا۔۴۶ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بشیر احمد خاں صاحب رفیق کی رپورٹ )۲۴۔ تبوک ۱۳۲۸ہش( پیش ہوئی تو حضور نے اس پر رقم فرمایا:۔
>سکاٹ لینڈ کا ایک احمدی میرے سفر میں مجھے ملنے کے لئے آیا تھا<۔
مکرم بشیر احمد خاں صاحب رفیق سفر سکاٹ لینڈ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
>سکاٹ لینڈ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری چھوٹی سی جماعت موجود ہے۔ چونکہ یہ منظم نہیں تھی اس لئے مورخہ ۱۸۔ جولائی ۱۹۵۹ء کو خاکسار نے سکاٹ لینڈ` نوٹنگھم` بریڈفورڈ` لیڈز وغیرہ کا تنظیمی و تربیتی دورہ کیا۔ مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب نے اپنی کار اس مقصد کے لئے پیش کی۔ آپ نے اپنے وقت کی بھی قربانی کی اور اس سارے دورہ میں ساتھ رہے اور ہر ممکن تعاون کیا۔ مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب سلسلہ سے بے حد تعاون کرنے والے احباب میں سے ہیں اللہ تعالیٰ کو جزائے خیر دے اور زیادہ سے زیادہ خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
گلاسگو میں خاکسار نے احمدی احباب کو مکرم منصور احمد صاحب کے مکان پر جمع کیا )مکرم منصور صاحب` مکرم چوہدری علی محمد صاحب۴۷body] gat[ بی۔ اے` بی ٹی کے صاحبزادے ہیں اور مخلص نوجوان ہیں( اور تنظیم کی برکات اور چندوں کی باقاعدہ ادائیگی کے موضوع پر تقریر کی۔ تقریر کے بعد مکرم احمد صاحب کو متفقہ طور پر جماعت احمدیہ گلاسگو کا امیر و سیکرٹری مال منتخب کیا گیا چنانچہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے سکاٹ لینڈ کی جماعت منظم طور پر کام کررہی ہے۔ واپسی پر خاکسار نے نوٹنگھم میں جماعت قائم کی۔ مکرم آزاد صاحب یہاں کے امیر و سیکرٹری مال مقرر ہوئے۔ چونکہ یہاں کے احمدی دوست قریب قریب رہتے ہیں اس لئے خاکسار نے ان کو ایک دوست کے مکان پر جمع ہوکر کم از کم ایک نماز ضرور باجماعت پڑھنے کی تلقین کی۔ مکرم آزاد صاحب بہت مخلص اور نیک نوجوان ہیں۔
اس دورہ کے دوران میں متعدد مسلم و غیر مسلم احباب کو تبلیغ بھی کی۔ ایک دوست کے ساتھ اسلام میں عورت کی حیثیت اور تعدد ازدواج کے موضوع پر مباحثہ کے رنگ میں بے حد دلچسپ گفتگو ہوئی اس گفتگو میں مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب نے بھی حصہ لیا<۔۴۸
مشن کے دور ثانی کی خدمات پر ایک نظر
یکم اخاء ۱۳۴۵ہش/ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو مسٹر بشیر احمد آرچرڈ حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حکم سے دوبارہ سکاٹ لینڈ میں مبلغ اسلام کی حیثیت سے مقرر ہوئے جہاں آپ اب تک اعلائے کلمہ اسلام میں سرگرم عمل ہیں۔ یہ سکاٹ لینڈ مشن کے احیاء کا دور ہے جس میں مشن کی تبلیغی اور تنظیمی سرگرمیوں میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ مبشر اسلام مختلف سکولوں` سوسائٹیوں` گرجوں اور کلبوں میں اسلام پر تقاریر کرچکے ہیں۔ گلاسگو کے علاوہ ملک کے دوسرے قصبات تک بھی پبلک تقاریر اور تبادلہ خیالات کے ذریعہ حق و صداقت کی آواز بلند کی جارہی ہے۔ دعوت اسلام iSLAM) TO (INVITATION کے نام سے ایک انگریزی پمفلٹ پانچ ہزار کی تعداد میں تقسیم کیا جاچکا ہے۔ علاوہ ازیں احمدیہ گزٹ ہر ماہ سائیکلو سٹائل کرکے شائع کیا جاتا اور مشن کی مضبوطی کا موجب بنتا ہے۔ سکاٹ لینڈ میں اشاعت اسلام کا ایک موثر ذریعہ مسلم ہیرلڈ رسالہ بھی ہے جو مکرم بشیر احمد خاں صاحب رفیق کی جدوجہد سے براہ راست لنڈن میں چھپتا ہے اور جس میں دیگر نہایت قیمتی اور معلومات افزاء مقالوں کے علاوہ مسٹر بشیر احمد آرچرڈ کے مضامین بھی سپرد اشاعت ہوتے رہتے ہیں۔
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثالث کا سفر سکاٹ لینڈ
سکاٹ لینڈ مشن کے اس دور ثانی کا سب سے نمایاں اور ممتاز واقعہ سیدنا حضرت امیرالمومنین کا اس سرزمین میں ورود مسعود ہے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ۳۱۔ وفا ۱۳۴۶ہش/ جولائی ۱۹۶۷ء کو اپنے مشہور سفر یورپ کے دوران لنڈن سے مع قافلہ عازم سکاٹ لینڈ ہوئے۔۴۹ راستہ میں حضور نے سکاچ کارنر۵۰ کے مقام پر رات بسر کی اور اگلے روز یکم ظہور بروز منگل گلاسگو رونق افروز ہوئے۔ سکاٹ لینڈ کی پوری جماعت احمدیہ حضور کی قیام گاہ )رائل سٹورڈ ہوٹل( کے سامنے نہایت بے تابی سے چشم براہ تھی۔ سب سے قبل مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب نے حضور کا استقبال کیا۔ جس کے بعد حضور نے سب احباب کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر مع خدام مشن ہائوس تشریف لے گئے جہاں مغرب و عشاء کی نمازیں پڑھائیں۔ بعد نماز احباب جماعت نے حضور اقدس کے دست مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی۔ بیعت کے بعد حضور نے لمبی دعا کی۔ ۲۔ ظہور کو حضور نے ایک استقبالیہ تقریب میں شرکت فرمائی جو حضور کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی۔ اس موقع پر پریس کے نمائندے بھی موجود تھے جنہوں نے بکثرت سوال کئے اور حضور نے برجستہ اور مدلل جواب دئے۔ اسی روز سہ پہر کو حضور ایڈنبرا تشریف لے گئے جہاں احمدی احباب کو اپنے مقدس آقا کی زیارت سے فیض یاب ہونے کا موقع میسر آیا اس سفر میں مکرم بشیر احمد صاحب آرچرڈ` مکرم محمد ایوب صاحب )سابق صدر جماعت احمدیہ گلاسگو( مکرم ڈاکٹر سعید احمد صاحب اور بعض دیگر مخلصین جماعت بھی حضور کے ہمراہ تھے۔ قیام گلاسگو کے دوران حضور نے وہاں مسجد کے لئے زمین خریدنے کی نسبت بھی ضروری ہدایات دیں۔ حضور گلاسگو کے بعد بریڈ فورڈ اور ہڈرز فیلڈ کا کامیاب دورہ فرمانے کے بعد ۹۔ ظہور ۱۳۴۶ہش/ اگست ۱۹۶۷ء کی شام کو واپس لندن تشریف لے آئے۔۵۱
خلاصہ
المختصر گلاسگو کا وہ اسلامی مشن جو ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی توجہ سے قائم ہوا تھا خلافت ثالثہ کے عہد مبارک میں اسلام کے علمی و روحانی انقلاب کے پیدا کرنے میں اہم رول ادا کررہا ہے اور >مسلم سکاٹ لینڈ< کی روحانی تعمیر میں مصروف ہے جس سے اس تثلیث کدہ میں اسلام کے پرامید اور روشن مستقبل کی جھلک نمایاں نظر آرہی ہے۔]ksn [tag فالحمدللہ علے ذلک۔
‏tav.12.9
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
دوسرا باب )فصل ششم(
کوائف قادیان
اس سال کی ایک بھاری خصوصیت یہ ہے کہ درویشان قادیان جو ۱۳۲۷ہش تک قادیان میں قیدیوں کی سی زندگی بسر کررہے تھے اور اپنے حلقے سے باہر پولیس کی حفاظت کے بغیر قدم نہیں رکھ سکتے تھے۔ نہ صرف قادیان کے محلوں میں بلا روک ٹوک جانے لگے بلکہ قادیان کے مضافات اور بعد ازاں بٹالہ میں بھی دو ایک دفعہ صرف مقامی پولیس کو اطلاع دے کر پہنچ گئے۔ ہندو سکھ اصحاب کے نزدیک مسلمانوں کا ان کے درمیان بلا خوف و خطر چلنا پھرنا ایک اچنبھے کی بات تھی اور وہ ایک ہجوم کی شکل میں اکٹھے ہوجاتے تھے ماہ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء کے پہلے ہفتہ میں کئی درویشوں نے نظام سلسلہ سے درخواست کی کہ انہیں کاروبار کی غرض سے بیرونی دیہات اور بٹالہ اور گورداسپور وغیرہ میں جانے کی اجازت دی جائے مگر حضرت مصلح موعود نے ارشاد فرمایا کہ میرے نزدیک اس سے بچنا چاہئے۔ اس ہدایت کی روشنی میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مزید یہ نصیحت فرمائی کہ میری رائے میں قدم تدریجی اٹھانا چاہئے چنانچہ درویشان قادیان نے نہایت حرم و احتیاط سے آمدورفت کا سلسلہ شروع کیا اور انہیں یہ دیکھ کر انتہائی مسرت ہوئی کہ غیر مسلم پبلک کے جذبات نفرت میں کافی کمی واقع ہوگئی ہے اور کم از کم بٹالہ اور گورداسپور میں ان کے جانے پر کسی قسم کا کوئی مظاہرہ نہیں ہوا البتہ حیرت و استعجاب کا اظہار ضرور کیا گیا جو ایک طبعی امر تھا۔ اس صورت حال نے درویشوں کے حوصلے بہت بلند کردئے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ایک مطبوعہ نوٹ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خوشگوار تبدیلی جس سے درویشوں کا دور محصوریت اللہ عزوجل کی عنایت اور فضل و کرم کی بدولت دور رابطہ میں بدل گیا` ماہ شہادت و ہجرت ۱۳۲۸ہش کے دوران ہوئی۔ چنانچہ آپ نے الفضل ۱۰۔ ماہ ہجرت ۱۳۲۸ہش صفحہ ۲ میں لکھا:۔
>آہستہ آہستہ نقل و حرکت کی سہولت پیدا ہورہی ہے چنانچہ ہمارے بعض دوست بعض ضروری کاموں کے تعلق میں متعدد دفعہ بٹالہ جاچکے ہیں اور ایک دفعہ گورداسپور بھی ہوآئے ہیں اور واپسی پر راستہ میں دھاریوال بھی ٹھہرے تھے ایسے موقعوں پر وہ ہمیشہ احتیاطاً چار چار پانچ پانچ کی پارٹی میں جاتے ہیں اور جلد واپس آجاتے ہیں<۔
امیرالمومنین سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے گزشتہ سالانہ جلسہ قادیان )۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء( کے موقع پر جو روح پرور پیغام۵۲ دیا اس میں خاص طور پر یہ ہدایت فرمائی تھی کہ >قادیان میں احمدیوں کے آنے اور قادیان کے احمدیوں کو ہندوستان یونین میں جانے کے متعلق آزاد کرانے کے لئے آپ لوگ باقاعدہ کوشش کریں اور کوشش کرتے چلے جائیں<۔
حضور کے اس فرمان مبارک کی تعمیل میں ہندوستان بھر کی احمدی جماعتوں۵۳]4 [rtf نے بھارت کے گورنر جنرل` وزیراعظم` ہوم منسٹر` گورنر مشرقی پنجاب اور ہوم منسٹر مشرقی پنجاب کو قراردادیں پاس کرکے بھجوائیں کہ جماعت احمدیہ ایک پرامن مذہبی جماعت ہے جس کا مذہبی مرکز قادیان ہے جس کی مرکزی تنظیم صدر انجمن احمدیہ ہے اور جس کے ذمہ ہندوستان کی تمام مقامی احمدی جماعتوں کی مذہبی` تعلیمی اور اخلاقی نگرانی کا کام ہے۔ فسادات ۱۹۴۷ء کے باعث یہ تعلق منقطع ہوگیا اور مرکز سے عہدیدار` مبلغین اور انسپکٹر جماعتوں کی نگرانی کے لئے نہیں بھجوائے جاسکے اور نہ بیرونی مقامی جماعتوں کے افراد اور عہدیدار ہی قادیان پہنچ کر مذہبی اور اخلاقی امور میں مرکز سے ہدایات لے سکتے ہیں۔ اس طرح بھارتی جماعتوں کی تنظیم اور تعلیم و تربیت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے لہذا ہم درخواست کرتے ہیں کہ حکومت ہمارے لئے اپنے مقدس مرکز قادیان میں بلا روک ٹوک کثرت سے جانے کے لئے سفر کی سہولت اور حفاظت کا انتظام فرمائے اور اس طرح مرکزی عہدیداروں اور مبلغین وغیرہ کے لئے آسانیاں مہیا کرے۔ ہم یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ قادیان صرف مرکزی تنظیمی انجمن کا ہیڈکوارٹر ہی نہیں بلکہ اس میں جماعت احمدیہ کے خصوصی اہمیت رکھنے والے مقامات مقدسہ بھی ہیں۔ یہیں بانی جماعت احمدیہ پیدا ہونے اور منصب نبوت پر فائز ہونے خدا کے بے شمار نشانات آپ کے ذریعہ ظاہر ہوئے اور آپ نے خود اس بستی کے متعلق فرمایا کہ قادیان خدا کے رسول کا تخت گاہ ہے اور خدا نے اس کو برکت دی ہے۔ اندرین صورت قادیان کی زیارت ہمارا مذہبی فریضہ ہے اور ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ بھارتی احمدیوں کے لئے دہلی سے قادیان اور پھر واپسی تک کے لء سفر کی حفاظتی تدابیر بروئے کار لائی جائیں جس کے لئے عملی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ قادیان جانے والے احمدی جماعت احمدیہ دہلی کے مقامی مبلغ و امیر مولوی بشیر احمد صاحب )بلیماراں سٹریٹ( کی معرفت سرکاری افسروں کو مناسب وقت پہلے یہ اطلاع دے دیا کریں کہ فلاں تاریخ کو اتنے افراد قادیان جانا چاہتے ہیں یا مرکزی نمائندے اور دوسرے احمدی فلاں تاریخ کو قادیان سے روانہ ہونا چاہتے ہیں ان ہر دو صورتوں میں سرکاری سطح پر حفاظتی انتظام فرمایا جائے۔
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۵` ۱۶۔ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء کو مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ امیر جماعت احمدیہ قادیان کے نام حسب ذیل مکتوب تحریر فرمایا:۔
>جلسہ قریب آرہا ہے اب آپ کو پوری طرح کوشش کرنی چاہئے کہ مختلف جگہوں سے پچیس تیس آدمی کم سے کم مستقل مہاجر ہوکر قادیان آجائیں اور پچیس تیس آدمیوں کو قادیان سے فارغ کرکے ادھر بھجوا دیا جائے کیونکہ غالباً اتنے لوگ وہاں ہیں جو ادھر آنا چاہتے ہیں۔ یا ان کے حالات ایسے ہیں کہ ان کو ادھر بھجوا دینا چاہئے۔ اس طرح دس بارہ نوجوانوں کو بلوا کر دیہاتی مبلغوں کی طرح تعلیم دینی چاہئے۔ ملکانہ` مالا بار` بہار اور بنگال سے ایسے آدمی منگوانے چاہئیں اس طرح کے اضلاع سے اور جو موجودہ دیہاتی مبلغ ہیں وہ تین سال سے پڑھ رہے ہیں ان کو باہر بھجوانا چاہئے تا وہ کام کریں۔ پہلے موجودہ جماعتوں کو سنبھالنے اور ان کو بڑھانے کی کوشش ہونی چاہئے اس کے بعد نئے نئے تبلیغی مرکز مختلف صوبوں میں کھولنے چاہئیں۔ یہ وقت انتہائی کوشش کا ہے کوئی مشکل نہیں کہ اگر آپ لوگ توجہ کریں تو سال ڈیڑھ سال میں لاکھ دو لاکھ کی جماعت ہندوستان میں پیدا نہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہوجائے تو چھ سات لاکھ سالانہ کی آمد آسانی سے قادیان میں ہوتی رہے گی جو زمانہ کے ساتھ بڑھتی چلی جائے گی اور آپ لوگ پھر مدرسہ احمدیہ` دینیات کالج` ہائی سکول اور تعلیم الاسلام کالج وہاں بنانے کی توفیق پالیں گے۔ جو زمانہ زندہ رہنے کی کوشش کا تھا اللہ تعالیٰ نے خیریت سے اس زمانہ کو گزار دیا ہے اب آپ نے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے۔ نئے ماڈل سوچنے کا ابھی سوال نہیں قادیان میں جو کچھ پہلے تھا اسے دوبارہ قائم کرنے کے لئے کسی سکیم کے سوچنے کی ضرورت نہیں وہ سکیم تو سامنے ہی ہے اس کے لئے صرف ان باتوں کی ضرورت ہے:۔
اول:۔ قادیان میں عورتوں` بچوں کا مہیا کرنا۔ اڑیسہ` کانپور اور بہار میں بہت غریب عورتیں مل جاتی ہیں جو شادیاں کرسکتی ہیں ان کی ان علاقوں میں شادیاں کروائیے اور قادیان میں عورتیں بسوائیے۔
دوم:۔ ہزاروں ہزار مسلمان جو مارا گیا ہے ان کے بیوی بچے ابھی دہلی اور اس کے گردونواح میں موجود ہیں ایسے پندرہ بیس بچے منگوائیے اور پرائمری سکھول کھول دیجئے۔ دس بیس نوجوان باہر سے وقف کی تحریک کرکے دیہاتی مبلغ بنانے کے لئے منگوائیے اور مدرسہ احمدیہ قائم کردیجئے۔ اگر پرانا پریس نہیں ملتا تو نئے پریس کی اجازت لیجئے۔ دستی پریس پتھروں والا ہو یہ سو دو سو میں آجاتا ہے بلکہ خود قادیان میں بنوایا جاسکتا ہے اس پر ایک پرچہ ہتہ وار چھاپنا شروع کردیجئے آپ لوگوں کے لئے کام اور شغل نکل آئے گا۔ کچھ لوگ کاتب بن جائیں گے کچھ کاغذ لگانے والے اور ہتھی چلانے والے بن جائیں گے اور کئی لوگوں کے لئے کام نکل آئے گا۔ آبادی بڑھے گی تو خالی جگہوں کو دیکھ کر لوگوں کو جو لالچ پیدا ہوجاتا ہے وہ جاتا رہے گا اور جو خالی ٹکڑے پڑے ہیں ان میں نئی عمارتیں بن جائیں گی۔
سوم:۔ حکیم خلیل احمد صاحب میرے خیال میں اگر وہاں آجائیں یا کوئی حکیم تو ایک مطب بھی کھول دیا جائے اور ایک طبیہ کلاس کھول دی جائے دیہاتی مبلغ بھی طب سیکھیں اور مرزا وسیم احمد صاحب بھی طب سیکھ لیں اور ایک بہت بڑا دواخانہ کھول دیا جائے جس کی دوائیں سارے ہندوستان میں جائیں خدا چاہے تو لاکھوں کی آمدنی اس ذریعہ سے ہوسکتی ہے۔ یہ خط تمام ممبران انجمن کو سنا دیں تا سب لوگ اس سکیم کو اپنے سامنے رکھیں اور جلد سے جلد اس سکیم کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے<۔۵۴
سیدنا حضرت مصلح موعود نے ۶۔ شہادت ۱۳۲۸ہش/ اپریل ۱۹۴۹ء کو بذریعہ مکتوب ارشاد فرمایا کہ ہندوستان کی جماعتوں کو منظم کرنے کی جو میں نے ہدایت دی ہے اس کے بارے میں یاد رکھیں کہ سب سے اول یوپی` بمبئی` بہار اور مدراس کے چندے جمع کرنے پر زور دیں نیز سب جگہوں پر سالانہ جلسہ کرانے اور قادیان کے لئے زندگی وقف کرنے پر زور دیں جو اپنے بال بچوں سمیت رہیں۔ اسی طرح ہندوستان کے احمدی نوجوانوں کو تبلیغ کے لئے وقف ہونے کی تحریک کریں۔ حضور نے اس مکتوب میں یہ بھی حکم دیا کہ قادیان میں تبلیغی کالج کھول دیں تا ہندوستان میں تبلیغ وسیع ہوسکے۔
صدر انجمن احمدیہ قادیان ہندوستانی جماعتوں کی تنظیم کے لئے اس سال صرف یہ قدم اٹھا سکی کہ نظارت بیت المال کی طرف سے مولوی غلام احمد صاحب ارشد کو یوپی بھجوا دیا جنہوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اس علاقہ کی جماعتوں کو ازسرنو منظم کیا اور ان کا باقاعدہ سروے کرکے احمدی افراد کی فہرستیں تیار کیں۔
قادیان کے متعلق حکومت کی پالیسی میں تبدیلی
بجائے اس کے کہ بھارتی حکومت ہندوستانی احمدیوں کی درخواست پر ہمدردانہ غور کرکے حق و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتی اس نے اپنی پالیسی میں اور زیادہ سخت گیری اور سختی پیدا کردی اور براہ راست درویشوں پر بعض نئی پابندیاں عائد کردیں۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے انہی دنوں اس صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے لکھا:۔
>قادیان میں اب بظاہر نارمل حالات پیدا ہورہے ہیں اور ہمارے دوستوں کو نقل و حرکت کی کافی سہولت مل گئی ہے لیکن حالات کے گہرے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تبدیلی ابھی تک کسی طرح تسلی بخش نہیں سمجھی جاسکتی۔ حقیقتاً یہ تبدیلی سکھ قوم کے اقتدار کی جگہ ہندو قوم کے اقتدار کا رنگ رکھتی ہے۔ جب تک سکھ قوم اور سکھ پالیسی کا غلبہ رہا قادیان اور اس کے ماحول میں برملا ظلم و تشدد اور لوٹ مار کا منظر نظر آتا رہا لیکن اب آہستہ آہستہ اس منظر نے بدل کر ہندو اقتدار کی پالیسی کی جگہ دے دی ہے جس میں بظاہر نارمل حالات کا دور دورہ نطر آتا ہے اور ابتری کی بجائے تنظیم کے حالات دکھائی دیتے ہیں لیکن تنظیم کے اس ظاہری پردہ کے پیچھے نقصان پہنچانے کی منظم پالیسی نظر آرہی ہے۔ چنانچہ نئے دور میں حکومت کی پالیسی نے تین ایسی باتوں کو چنا ہے جو اوپر کی تبدیلی کی طرف واضح اشارہ کررہی ہیں۔
)۱( قادیان میں یا یوں کہنا چائے کہ مشرقی پنجاب میں الفضل کا داخلہ حکومت مشرقی پنجاب کے حکم کے ماتحت بند کردیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہمارے قادیان کے دوست حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح ایدہ کے خطبات اور جماعتی تحریکات اور احمدیہ مشنوں کی رپورٹوں وغیرہ سے کلیت¶ہ محروم ہوگئے ہیں یا بالفاظ دیگر جماعت تحریکات اور احمدیہ مشنوں کی رپورٹوں وغیرہ سے کلیت¶ہ محروم ہوگئے ہیں یا بالفاظ دیگر جماعت کی مذہبی تنظیم کے مرکزی نقطہ سے بالکل کاٹ دئے گئے ہیں۔ بظاہر اس حکم کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ الفضل میں ایسی باتیں شائع ہوتی ہیں جو حکومت ہندوستان کے مفاد کے خلاف ہیں لیکن ظاہر ہے کہ الفضل کی پالیسی میں کوئی نئی تبدیلی پیدا نہیں بلکہ فسادات کے بعد سے ایک ہی پالیسی چلی آرہی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اب الفضل میں پہلے کی نسبت مذہبی مضامین کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے کیونکہ یہی اس کی غرض وغایت ہے اور سیاسی نوعیت کے مضامین بہت کم ہوتے ہیں باوجود ان حالات کے الفضل کا فسادات کے بعد تو جاری رہنا مگر اب آکر بند کیا جانا حکومت کی تبدیل شدہ پالیسی کی ایک واضح دلیل ہے۔
)۲( قادیان جماعت احمدیہ کا مقدس مقام ہے اور دنیا بھر کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر قوم اپنے اپنے مقدس مقامات کی خدمت اور احترام کے لئے تحائف اور ہدایا اور مالی نذرانے بھیجا کرتی ہے اور آج تک دنیا کی کسی مہذب حکومت نے اس قسم کے مال یا جنسی تحائف میں روک نہیں ڈالی اور اس وقت تک قادیان میں بھی اس قسم کے تحائف جاتے رہے ہیں لیکن حال ہی میں بعضان منی آرڈروں کو جو باہر سے قادیان بھجوائے گئے تھے ہندوستان کی حکومت نے روک لیا ہے حالانکہ جو احمدی قادیان میں بیٹھے ہیں ان کے گزارہ کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ ان کی سب جائدادیں ان کے ہاتھ سے چھنی جاسکتی ہیں۔ پس ان حالات میں بیرونی منی آرڈروں کو روکنا مقامی مسلمان آبادی کو بھوکے مارنے کے مترادف ہے۔
)۳( قادیان میں سالہا سال سے یعنی تقسیم پنجاب سے بھی پہلے سے حکومت جماعت احمدیہ کو اس بات کی اجازت دیتی رہی ہے کہ وہ لنگر خانہ اور دوسرے احمدیہ اداروں کے لئے اکٹھی گندم خرید لیا کریں لیکن اس سال حکومت مشرقی پنجاب نے اس بات کی اجازت نہیں دی اور ہدایت جاری کی ہے کہ ہر احمدی اپنا الگ الگ راشن کارڈ حاصل کرے جن کی غرض سوائے اس کے کوئی نظر نہیں آتی کہ قادیان کے کی خوراک کے مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں محفوظ کرلیا جائے۔ ہمارے دوستوں کی طرف سے یہ دلیل پیش کی گئی کہ جو نطام سالہا سال سے چلا آیا ہے اسے بدلنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اور انفرادی راشن کارڈوں میں یہ خطرہ بھی ظاہر ہے کہ ہر شخص کو اپنا علیحدہ علیحدہ راشدن لینے کے لئے بازار جانا ہوگا جس میں ٹکرائو کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ اور پھر جب قادیان کی احمدی آبادی معین ہے اور اس میں حکومت کی اجازت کے بغیر کمی بیشی نہیں ہوسکتی تو پھر اکٹھی خرید کر اجازت دینے میں یہ خطرہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ضرورت سے زیادہ گندم خرید کی جائے گی یا کہ خرید کے بعد ضائع کردی جائے گی۔ علاوہ ازیں گندم کا جو بھی ذخیرہ ہوگا وہ بہرحال قادیان میں ہی رہے گا اور حکومت کی نظروں کے سامنے ہوگا مگر باوجود ان معقول دلیلوں کے گورنمنٹ نے اپنے حکم کو نہیں بدلا اور ابھی تک یہ اصرار کررہی ہے کہ ہر احمدی انفرادی راشن کارڈ حاصل کرے۔
اوپر کی باتوں سے واضح ہے کہ برملا ظلم وتشدد اور لوٹ مار کا دور دورہ تو اب بظاہر گزر چکا ہے لیکن اس کی جگہ ایسی پالیسی نے لے لی ہے جسے مخفی مگر منظم تشدد کا نام دیا جاسکتا ہے۔ بہرحال ہماری اصل اپیل خدا کے پاس ہے اور وہی انشائاللہ اپنی جماعت کا حافظ و ناصر ہوگا اور درمیانی ابتلاء خواہ کوئی بھی صورت اختیار کریں آخری فتح و ظفر یقیناً خدا کے نام کی ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اسے ٹال نہیں سکتی۔ ولا حول ولا قوہ الا باللہ العظیم<۔۵۵]ydob [tag
دشمنان اسلام واحمدیت کا ایک تباہ کن منصوبہ اور اسکی ناکامی
معاندیں اسلام کو وہ طبقہ جو درویشوں کو اپنے محبوب و مقدس مرکز سے بے دخل کرنے کی سازشوں میں مصروف چلا آرہا تھا۔ ۱۹۴۹ء میں اللہ رکھا نامی ایک منافق کو احمدی آبادی کے خلاف کھڑا کرکے اپنے مذموم اور ناپاک منصوبہ کی کامیابی کے خواب دیکھنے لگا۔
الل رکھا گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ کا باشندہ اور حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے زمانہ میں دارالشیوخ قادیان میں رہا کرتا اور اس ادارہ کے لئے مختلف دیہات سے آٹا اکٹھا کرکے لایا کرتا تھا۔ فسادات ۱۹۴۷ء میں یہ شخص قادیان سے اپنے گائوں چلا آیا لیکن چند ماہ بعد جماعتی اجازت کے بغیر غیر ذئینی صورت میں ہندو پاک سرحد پار کرکے قادیان پہنچ گیا۔ مقامی جماعت نے اسے ہر طرح سمجھایا کہ وہ واپس چلا جائے اور باضابطہ اجازت لے کر آئے مگر وہ مخالفین احمدیت کا آلہ کار تھا بھلا کیسے چلا جاتا۔ جہاں دشمنان احمدیت کی نگاہ میں دوسرے تمام درویش خار کی طرح کھٹکتے تھے اور ان کا قادیان میں رہنا انہیں گوارا نہیں تھا وہاں اس شخص کی غیر قانونی آمد پر کبھی اعتراض نہیں اٹھایا بلکہ اسے ان کی ہمیشہ پشت پناہی حاصل رہی۔
اللہ رکھا نے قادیان کے نظام احمدیت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے سب سے پہلے وہی حربہ جماعت کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا جو خلفائے راشدین اور خلافت راشدہ کے دشمنوں کا طرہ امتیاز رہا ہے یعنی اس نے قادیان پہنچتے ہی صدر انجمن احمدیہ کی مرکزی شخصیتوں کو برسرعام اعتراضات کا نشانہ بنانے کی باقاعدہ مہم جاری کردی جس پر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک تحریری پیغام کے ذریعہ اسے اپنی شرمناک روش بدلنے کی طرف توجہ دلائی مگر جب اس کی روش میں پہلے سے زیادہ اشتعال اور تیزی کا رنگ پیدا ہوگیا تو حضور نے اس فتنہ پرور سے مقاطعہ کرنے کا حکم دے دیا نیز ہدایت فرمائی کہ درویش اسے اپنے حلقہ میں داخل نہ ہونے دیں۔ حضور نے اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل اعلان مقاطعہ کیا جو الفضل ۹۔ ظہور ۱۳۲۸ہش/ اگست ۱۹۴۹ء کے الفضل میں بھی شائع ہوا:۔
>میاں اللہ رکھا سیالکوٹی حال قادیان چونکہ جماعت میں فتنہ پیدا کرتے ہیں اور جماعتی نظام میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے میں اس اعلان کے ذریعہ انہیں اپنی جماعت سے خارج کرتا ہوں اور فتنہ سے بچنے کے لئے تمام احمدیوں کو حکم دیتا ہوں کہ ان سے سلام کلام بند رکھیں اور اپنی مجالس میں آنے کی اجازت نہ دیں تاکہ وہ خواہ مخواہ جماعت کی بدنامی کی کوئی صورت پیدا نہ کردیں۔ میں ان کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ ان کے اندر اگر ذرہ بھی ایمان کا باقی ہے تو اس سے باز آجائیں اور اپنی حرکات کو چھوڑ دیں اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کا معاملہ خدا تعالیٰ سے ہوگا اور وہ اپنی عاقبت آپ خراب کریں گے۔
مرزا محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی
اگر یہ شخص مبائعین کی طرف منسوب ہوتا تھا لیکن دل سے خلافت کا ہی منکر تھا اس لئے اس نے حضور کے حکم کو ماننے سے انکار کردیا اور اپنی منافقت پر پردہ ڈالنے کے لئے علی الاعلان کہنا شروع کردیا کہ وہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو خدا کا برحق خلیفہ مانتا ہے لیکن اس ذاتی معاملے میں ان کی بات پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اور ساتھ ہی اس نے اپنے مکان کی چھت پر درویشوں کے خلاف نہایت بدزبانی اور بدکلامی کا مظاہرہ کرنا شروع کیا۔ چند دن بعد سلسلہ احمدیہ کے مخالفوں کی شہ پر ایک پھٹا ہوا مصلی لے کر دارالمسیح کے بیرونی دروازے پر پہنچ جاتا اور زبردستی اندر گھسنے کی کوشش کرتا نیز کہتا وہ احمدی ہے اس کو کوئی خارج نہیں کرسکتا اور اس کا حق ہے کہ وہ بھی مقامات مقدسہ کی زیارت کرے اور مساجد میں عبادت بجالائے۔ دارالمسیح کے اندر جانے میں جب کامیابی نہ ہوتی تو وہ دفتر تحریک جدید کے سامنے مصلیٰ بچھا لیتا ہے جہاں نماز تو کم پڑھتا لیکن خدا کے درویش بندوں کو گالیاں زیادہ دیتا۔ درویش یہ المناک نظارہ دیکھ کر بے بس رہ جاتے اور سلسلہ کی روایات اور ہدایات کے مطابق صبر وتحمل کے دامن کو نہ چھوڑتے۔
معاندین احمدیت روزانہ اپنی آنکھوں سے یہ مظاہرے دیکھ کر بڑی خوشی کا اظہار کرتے اور اسے ہنگامہ آرائی کے نت نئے سے نئے ڈھنگ بتاتے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے اس شخص کو یہ پٹی پڑھائی کہ وہ درویشوں کی برسر عام بازاروں میں توہین و تحقیر کرے چنانچہ اس کے مطابق ماہ جولائی ۱۹۴۹ء کے آخر میں اس نے یہ شرارت کی کہ بازار سے گزرتے ہوئے ایک احمدی درویش کو پکڑ لیا اور اسے نہایت درجہ فحش اور بازاری گالیاں دیں اور پھر رات کو ایک کوٹھے پر چڑھ گیا اور یہ مفتریانہ پراپیگنڈا کرنا شروع کردیا کہ احمدیوں نے گزشتہ فسادات میں غیر مسلموں کا قتل عام کیا ہے اور فلاں فلاں غیر مسلم کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔
ان افترا پردازیوں نے جو مسلسل کئی ماہ سے جاری تھیں ستمبر ۱۹۴۹ء میں ایک تکلیف دہ مقدمے کی شکل اختیار کرلی چنانچہ اللہ رکھا نے سردار امولک سنگھ سابق ریذیڈنٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں مندرجہ ذیل پچیس درویشوں کے خلاف بذریعہ زیر دفعہ ۱۰۷ مقدمہ دائر کردیا:۔
۱۔ خان فضل الٰہی صاحب امور عامہ ۲۔ منشی محمد صادق صاحب مختار عام ۳۔ مولوی برکات احمد صاحب راجیکی بی۔ اے ناظر امور عامہ ۴۔ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے مولف اصحاب احمد ۵۔ مولوی برکت علی صاحب جنرل پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ قادیان ۶۔ چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی ۷۔ صوفی عبدالقدیر صاحب ۸۔ خواجہ عبدالکریم صاحب ۹۔ محمد اشرف صاحب گجراتی ۱۰۔ محمد یحییٰ صاحب سرساوی ۱۱۔ محمد رفیق صاحب سرساوی ۱۲۔ میر رفیع احمد صاحب ۱۳۔ محمد ابراہیم صاحب خادم ۱۴۔ محمود احمد صاحب سرگودھی ۱۵۔ عبدالحمید صاحب دکاندار ۱۶۔ مبارک علی صاحب کمپونڈر ۱۷۔ مولوی محمد عبداللہ صاحب ۱۸۔ سلطان احمد صاحب کھاریاں )یہ درویش مقدمہ کی کارروائی شروع ہونے سے قبل انتقال فرما گئے تھے( ۱۹۔ شیر محمد صاحب پٹھان ۲۰۔ چوہدری سعید احمد صاحب مہار ۲۱۔ کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد صاحب ۲۲۔ مستری غلام قادر صاحب ۲۳۔ بدر دین صاحب عامل ۲۴۔ افتخار احمد صاحب اشرف ۲۵۔ بشیر احمد صاحب ٹھیکیدار بھٹہ۔
۱۸۔ ستمبر ۱۹۴۹ء کومقدمہ کی باضابطہ کارروائی بٹالہ میں شروع ہوئی۔ عدالت نے ان درویشوں کو نوٹس جاری کیا کہ وجہ بیان کریں کہ کہیں آپ سے ایک سال کے لئے ہزار ہزار روپے کی ضمانت حفظ امن نہ لی جائے۔ درویشوں نے ضمانت دینے سے انکار کیا جس پر اللہ رکھا کا بیان ہوا جو بے بنیاد اور بے سروپا الزامات کا مجموعہ تھا۔ دوران بیان اس نے عدالت کو بھی بتایا کہ وہ حضرت خلیفتہ المسیح کے حکم کی تعمیل کے لئے ہر وقت تیار ہے مگر اس ذاتی معاملہ میں ان کا کوئی حکم نہیں مان سکتا۔ اللہ رکھا کی طرف سے منوہر سنگھ` پریتم سنگھ )پناہ گیر( اور ماسٹر رام سنگھ اور ریشم سنگھ منشی چوکی پولیس قادیان نے گواہی دی۔ اور درویشوں کی طرف سے بٹالہ کے دو وکیل بخشی سائیں داس صاحب اور لالہ رام تن صاحب ایڈووکیٹ بطور وکیل پیش ہوئے مگر انہیں پہلے دن مدعی اور اس کے گواہوں پر جرح کرنے کا موقع نہیں ملا۔ درویشوں نے ۳۰۔ نومبر ۱۹۴۹ء کو شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور اور صدر بار ایسوسی ایشن لاہور کی لکھی ہوئی ایک مدلل بحث بھی عدالت میں ¶پیش کی مگر مجسٹریٹ صاحب نے اس پر کوئی توجہ دینے کی بجائے باقی بحث بند کرا دی اور درویشوں کو ایک ایک ہزار کی ضمانتیں پیش کرنے یا انہیں ایک ایک سال قید کئے جانے کا فیصلہ سنا دیا۔ غریب درویش بھلا چوبیس ہزار روپے کی رقم کہاں سے لاتے انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس ضمانت کے لئے کوئی رقم نہیں ہاں وہ جائیداد ضرور ہے جس پر اس وقت حکومت مشرقی پنجاب کا قبضہ ہے چنانچہ مجسٹریٹ نے یہی ضمانت قبول کرلی۔ جو درویش اپنی جائیدادیں نہ رکھتے تھے ان کی طرف سے بھائی شیر محمد صاحب` میاں عبدالرحیم صاحب امانت سوڈاواٹر اور ڈاکٹر عطر دین صاحب نے اپنی جائیدادیں بغرض ضمانت پیش کردیں مقدمہ کے فیصلہ کے ایک ماہ بعد یکم جنوری ۱۹۵۰ء کو اللہ رکھا قادیان چھوڑ کر پاکستان چلا آیا اور اس مقدس بستی کی فضا اس فتنہ سے ہمیشہ کے لئے پاک ہوگئی۔
اللہ رکھا نے پاکستان پہنچ کر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حسب ذیل خط لکھا:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
سیدنا حضرت اقدس امیرالمومنین السلام علیکم
بندہ مظلومیت کی حالت میں حضور کی خدمت میں حضور کے ارشاد کے مطابق امیر صاحب قادیان کی اجازت سے آیا ہے اور حضور کے ارشاد کے مطابق قادیان رہتا تھا۔ قادیان سے کبھی بھی منہ پھرا نہیں سکتا۔ قادیان میرا مقدس شہر۔ میرے پیارے حضرت مسیح موعودؑ بکا مقدس شہر اور وہاں آپؑ کا مزار اور مذہبی یادگاریں ہیں جہاں ہم لوگ جاتے ہیں۔ میں احمدی ہوں۔ حضرت مسیح موعودؑ کو مانتا ہوں اور خلیفہ وقت کو مانتا ہوں اب بھی اگر خدا نے چاہا تو حضور کے ارشاد سے ہی قادیان جائوں گا حضور کی ناراضگی میں نہیں جائوں گا<۔۵۶
اس خط پر حضرت مصلح موعود~رضی۱~ نے فرمایا کہ:۔
>معاف تو ہم نے کردیا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس نے جھوٹ نہیں بولا اور منافق نہیں ہے۔ میری صحت اچھی ہونے پر میں مجلس میں بلوا کر پیش کروں گا کہ یہ جھوٹ بول کر قادیان کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا رہا اور منافق ہے<۔۵۷
جلسہ قادیان کے لئے پہلا پاکستانی قافلہ
اس سال بھی سالانہ جلسہ قادیان حسب دستور ۲۶` ۲۷` ۲۸۔ فتح ۱۳۲۸ہش/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو منعقد ہوا جس میں علاوہ قادیان اور ہندوستان کی دیگر جماعتوں کے شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی قیادت میں پچپن پاکستانی احمدیوں کا ایک قافلہ بھی شامل ہوا اور اس مقدس و مبارک اجتماع کی برکات سے مستفید ہوا۔
اس پہلے پاکستانی قافلہ کے مختصر حالات و کوائف حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے قلم سے درج ذیل کئے جاتے ہیں:۔
>قادیان جانے والے قافلہ کے لئے قریباً درخواستیں موصول ہوئی تھیں جن میں سے حکومت کی مقرر کردہ حد بندی کے ماتحت صرف پچاس کا انتخاب کرنا تھا چنانچہ پچاس افراد کا انتخاب کرکے انہیں اطلاع دی گئی کہ ۲۴۔ دسمبر کی شام تک سب لاہور لاہور پہنچ جائیں چنانچہ یہ جملہ پچاس افراد ۲۴۔ دسمبر کی شام تک لاہور پہنچ گئے۔ ان میں تین بوڑھی دیہاتی عورتیں بھی شامل تھیں جو مقدس مقامات کی زیارت کے علاوہ اپنے بچوں کو ملنے کے لئے جارہی تھیں جو اس وقت قادیان میں درویشی زندگی بسر کررہے ہیں۔
حسن اتفاق سے حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی ایک تقریب کے تعلق میں ۲۴۔ تاریخ کی شام کو لاہور تشریف لے آئے اور قافلہ کی روانگی کے خیال سے ۲۵۔ تاریخ کی صبح کو بھی لاہور میں ٹھہر گئے چنانچہ حضور کی نہایت دردمندانہ اور پرسوز دعائوں کے ساتھ یہ پچاس افراد کا قافلہ ہریکے موٹر ٹرانسپورٹ کمپنی کی دو لاریوں میں لاہور سے روانہ ہوا۔ یہ قافلہ رتن باغ سے ۲۵ تاریخ کی صبحکو نو بجے روانہ ہوا اور قافلہ کی کل تعداد ۵۴ تھی کیونکہ پچاس ممبران قافلہ کے علاوہ دو ڈرائیور اور دو کلینر کنڈکٹر بھی اس قافلہ میں شامل تھے۔ رستہ میں کچھ وقت رکنے کے بعد قافلہ قریباً ساڑھے دس بجے بارڈر پر پہنچا جہاں مسٹر اے۔ جی چیمہ مجسٹریٹ درجہ اول اور مسٹر ایس۔ ایس جعفری ڈپٹی کمشنر لاہور انہیں رخصت کرنے کے لئے پہلے سے پہنچ چکے تھے۔ قافلہ کو الوداع کہنے کے لئے بہت سے دوست بارڈر تک ساتھ گئے ان لوگوں میں یہ خاکسار بھی شامل تھا اور وہاں ہم سب نے روانگی کی آخری دعا کرکے اپنے بھائیوں کو رخصت کیا۔ میری گھڑی کے مطابق ہمارے قافلہ نے دس بج کر پینتیس منٹ پر پاکستان اور ہندوستان کی سرحد کو عبور کیا اور پھر ہم تھوڑی دیر تک ان کی لاریوں کو دیکھتے ہوئے اور دعا کرتے ہوئے لاہور واپس آگئے۔
جیسا کہ پہلے سے پروگرام مقرر تھا قافلہ نے ۲۵۔ دسمبر کو قادیان جاکر ۳۰۔ دسمبر کو واپس آنا تھا چنانچہ یہ قافلہ دو بجے بعد دوپہر قادیان پہنچ گیا اور سب سے پہلے بہشتی مقبرہ میں جاکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مزار پر دعا کی جہاں قادیان کے بہت سے دوست قافلہ کے استقبال کے لئے پہنچے ہوئے تھے۔ ایک طرف تو بچھڑے ہوئے بھائیوں سے ملاقات دوسری طرف قادیان کا ماحول اور تیسری طرف بہشتی مقبرہ کا مقام ان سب باتوں نے مل کر اس دعا میں سوز و گداز پیدا کردیا جو اہل قافلہ کی رپورٹ کے مطابق صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ بہرحال ہمارے یہ دوست تیس دسمبر کی صبح تک قادیان میں ٹھہرے اور جلسہ کی شرکت کے علاوہ جو حسب دستور ۲۶` ۲۷` ۲۸ تاریخوں میں مقرر تھا ان ایام کو مقامات مقدسہ میں خاص دعائوں اور عبادت میں گزارا۔ اور سب واپس آنے والے دوست بلا استناء کہتے ہیں کہ قادیان کے جملہ درویش اپنی جگہ نہایت قربانی اور للہیت کے جذبہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے اوقات دعائوں اور نوافل سے اس طرح معمور ہیں جس طرح ایک عمدہ اسفنج کا ٹکڑا پانی سے بھر جاتا ہے۔ اور سب درویش یہ عزم رکھتے ہیں خواہ موجودہ حالات میں ان کا قادیان کا قیام کتنا ہی لمبا ہوجائے وہ انشائاللہ پورے صبر اور استقلال اور قربانی کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم رہیں گے بلکہ ان میں سے بعض نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ جب ہم خود انتہائی خوشی اور رضا اور عزم کے ساتھ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے بعض پاکستانی رشتہ داروں کو ہماری وجہ سے کوئی گھبراہٹ ہو۔ قادیان کے قیام کے دوران میں ہمارے دوستوں کو ان ہندوستانی احمدیوں کی ملاقات کا بھی موقع ملا جو ہندوستان کے مختلف صوبوں سے جلسہ کی شمولیت کے لئے قادیان آئے تھے اور ان میں محترمی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حیدرآباد دکن اور چوہدری انور احمد صاحب کاہلوں امیر جماعت احمدیہ کلکتہ اور مولوی بشیر احمد صاحب امیر جماعت دہلی اور حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری اور سیٹھ محمد اعظم صاحب تاجر حیدرآباد دکن اور سید ارشد علی صاحب ارشد تاجر لکھنو اور مولوی محمد سلیم صاحب مبلغ مغربی بنگال بھی شامل تھے۔ اور تین دوست کشمیر سے بھی آئے تھے۔ ان ایام میں قادیان کے ہندوئوں اور سکھوں نے پاکستانی اور ہندوستانی زائرین اور بعض درویشوں کو چائے کی دعوت دی اور اس موقع پر ہمارے کئی دوستوں نے جن میں شیخ بشیر احمد صاحب امیر قافلہ پاکستان اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری شامل تھے دعوت دینے والوں کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ مناسب رنگ میں تبلیغ بھی کی۔ اور ہمارا جلسہ تو گویا مجسم تبلیغ ہی تھا کیونکہ اس میں بیشتر تعداد غیر مسلموں کی شامل ہوئی تھی اور وہ سب ہمارے مقررین کی تبلیغی تقریروں کو نہایت درجہ توجہ اور سکون سے سنتے رہے بلکہ وہ اس بات کو سخت حیرت کے ساتھ دیکھتے تھے کہ یہ چند گنتی کے مسلمان اس درجہ غیر اسلامی ماحول میں گھرے ہوئے ہیں اور پھر بھی کس جرات کے ساتھ ہمیں اسلام کا پیغام پہنچاتے اور اسلام زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ ہمارا قافلہ ۳۰۔ دسمبر کو ۱۱ بجے کے قریب قادیان سے روانہ ہوکر ۴ بجے سہ پہر کے قریب رتن باغ لاہور میں پہنچ گیا اور بہت سے دوستوں نے دعا کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور پھر محترمی شیخ بشیر احمد صاحب امیر قافلہ اور محترمی میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ رپورٹ دینے کی غرض سے ربوہ بھی پہنچے۔ قافہ میں شامل ہونے والے اصحاب کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں:۔
۱۔ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور امیر قافلہ ۲۔ مولوی محمد صدیق صاحب مبلغ مغربی افریقہ حال لاہور ۳۔ شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ مشرقی افریقہ حال ربوہ ضلع جھنگ ۴۔ شیخ محمد عمر صاحب )مہاشہ( مبلغ ربوہ ۵۔ مرزا واحد حسین صاحب )گیانی( مبلغ ربوہ ۶۔ میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ گوجرانوالہ ۷۔ چوہدری محمد احمد صاحب واقف زندگی کارکن تعلیم الاسلام کالج لاہور ۸۔ شکیل احمد صاحب مونگھیری لاہور ۹۔ منشی عبدالحق صاحب کاتب جودھامل بلڈنگ لاہور ۱۰۔ مولوی عطاء اللہ صاحب واقف زندگی ربوہ ۱۱۔ چوہدری نور احمد صاحب سابق خزانچی صدر انجمن حال ملتان ۱۲۔ چوہدری غلام محمد صاحب کوٹ رحمت خاں شیخوپورہ ۱۳۔ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم جلیانوالہ لائلپور ۱۴۔ مرزا مہتاب بیگ صاحب آف قادیان حال سیالکوٹ ۱۵۔ مرزا محمد حیات صاحب مالک دواخانہ رفیق حیات سیالکوٹ ۱۶۔ خواجہ محمد عبدالل صاحب عرف عبدل جہلم۔ ۱۷۔ خواجہ عبدالواحد صاحب گوجرانوالہ ۱۸۔ والدہ عثمان علی درویش بنگالی حال ربوہ ۱۹۔ چوہدری فضل احمد صاحب ہیڈ ماسٹر بھکر )میانوالی( ۲۰۔ محمد یعقوب صاحب کاتب الفضل لاہور ۲۱۔ مستری عبدالحمید صاحب گوجرہ لائل پور ۲۲۔ ملک نورالحق صاحب دوالمیال جہلم ۲۳۔ ملک محمد شفیع صاحب منٹگمری ۲۴۔ چوہدری لال خاں صاحب کھاریاں گجرات ۲۵۔ چوہدری فیض احمد صاحب گھٹیالیاں چیف انسپکٹر بیت المال ربوہ ۲۶۔ حاجی خدا بخش صاحب میانوالی مہاراں سیالکوٹ ۲۷۔ مبارک احمد صاحب اعجاز احمد نگر )جھنگ( ۲۸۔ عبدالغفار صاحب شادیوال )گجرات( ۲۹۔ ملک محمد ابراہیم صاحب لالہ موسیٰ )گجرات( ۳۰۔ محمد یوسف صاحب شادیوال )گجرات( ۳۱۔ ڈاکٹر برکت اللہ صاحب کوٹ فتح خان )کیمبلپور( ۳۲۔ مرزا احسن بیگ صاحب ٹنڈوآدم سندھ ۳۳۔ میاں مولا بخش صاحب خانقاہ ڈوگراں )شیخوپورہ( ۳۴۔ ملک عبدالکریم صاحب ترگڑی )گوجرانوالہ( ۳۵۔ شیخ عبدالکریم صاحب چنیوٹ ۳۶۔ )چوہدری نور محمد صاحب کوئٹہ ۳۷۔ مسماۃ غلام فاطمہ صاحبہ پریم کوٹ )گوجرانوالہ( ۳۸۔ قاضی مبارک احمد صاحب احمد نگر )جھنگ( ۳۹۔ چوہدری محمد خاں صاحب بن باجوہ )سیالکوٹ( ۴۰۔ منور احمد صاحب پسر مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی چنیوٹ ۴۱۔ ملک نیاز محمد صاحب کسمووال )منٹگمری( ۴۲۔ ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب لاہور ۴۳۔ میاں مبارک احمد صاحب پنڈی چری )شیخوپورہ( ۴۴۔ سردار محمد صاحب بہوڑہ چک نمبر ۸ )شیخوپورہ( ۴۵۔ مسماۃ جیوا رتن باغ لاہور ۴۶۔ ڈاکٹر محمد دین صاحب ایمن آباد )گوجرانوالہ( ۴۷۔ منیر احمد صاحب احمد نگر )جھنگ( ۴۸۔ مرزا عبدالمنان صاحب۔ واہ )کیمبلپورہ( ۴۹۔ منظور احمد صاحب شیخ پور )گجرات( ۵۰۔ ڈاکٹر محمد احمد صاحب حمیدیہ فارمیسی جڑانوالہ )لائل پور(
‏body] g[taان کے علاوہ دو مزید احمدی دوست یعنی مستری عبدالحکیم صاحب لاہور اور میاں نذیر احمد صاحب ڈسکہ کنڈکٹر کی حیثیت میں شامل ہوئے<۔۵۸
پاکستانی قافلہ کا خیرمقدم
قادیان کی انوار وبرکات سے فیضیاب پاکستانی قافلہ کے خیرمقدم کا منظر بڑا ہی پرکیف تھا۔ اس خوش نصیب قافلہ نے جو واہگہ کی پاکستانی حدود میں داخل ہوتے ہی پاکستان زندہ باد` احمدیت زندہ باد اور حضرت امیرالمومنین زندہ باد کے نعرے بلند کئے۔ جماعت احمدیہ لاہور کے بہت سے احباب نے آگے بڑھ کر زائرین کا استقبال کیا اور زیارت مرکز سے مشرف ہونے پر مبارکباد پیش کی۔ امیر قافلہ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے احباب لاہور کو درویشان قادیان کا ایک مختصر لیکن پیارا پیغام سنایا جو السلام علیکم اور درخواست دعا کے دو مختصر جملوں پر مشتمل تھا۔ قافلہ دعائیں کرتا ہوا واہگہ سے روانہ ہوکر رتن باغ پہنچا جہاں مقامی جماعت کے بہت سے احباب جمع تھے قافلہ کے یہاں پہنچنے پر فضا دوبارہ نعروں سے گونج اٹھی۔ زائرین نے رتن باغ کی مسجد میں نماز عصر ادا کی جس کے بعد امیرقافلہ نے ایک رقت آمیز دعا کرائی اور تمام زائرین کو جانے کی اجازت دی۔۵۹
دوسرا باب )فصل ہفتم(
قادیان اور ربوہ میں سالانہ جلسہ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء
حسب سابق اس سال بھی احمدیت کے دائمی مرکز قادیان کا سالانہ جلسہ ۲۶ تا ۲۸ ماہ فتح ۱۳۲۸ہش/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو زنانہ جلسہ گاہ میں منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں قریباً ایک ہزار افراد نے شرکت کی۔ تقسیم ہند کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستانی احمدی شامل جلسہ ہوئے۔ زائرین میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر مقیم جالندھر میجر جنرل راجہ عبدالرحمن صاحب کا نام قابل ذکر ہے۔ جلسہ میں ۱۳۸ ہندوستانی احمدی تشریف لائے جن میں چار مستورات اور پانچ بچے بھی شامل تھے۔ حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ امیر جماعت قادیان نے اپنی افتتاحی تقریر میں بعض مقتدر احمدی اکابر کے پیغامات اور دنیا بھر کے احمدی مشنوں کے مراسلات سنائے۔ ازاں بعد پاکستانی قافلہ کے امیر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور نے صدارتی تقریر میں بتایا کہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی نے دیگر بابرکت ارشادات کے علاوہ مجھے یہ پیغام پہنچانے کے لئے فرمایا تھا کہ >اپنے رب پر بھروسہ رکھو۔ اس کی کامل اطاعت کرو۔ اس پر کامل یقین اور اس کی کامل اطاعت کے ساتھ دنیا میں امن قائم ہوسکے گا<۔
مندرجہ ذیل مقررین نے اس جلسہ سے خطاب کیا:۔
۱۔
مکرم عبدالحمید صاحب عاجز )ہستی باری تعالیٰ(
۲۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الکبیر )ذکر حبیبﷺ(~
۳۔
مکرم مولوی شریف احمد صاحب امینی )حضرت مسیح موعودؑ کے کارنامے(
۴۔
مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی )پیشگوئی مصلح موعودؓ(
۵۔
مکرم مولوی محمد حفیظ صاحب بقاپوری )صداقت مسیح موعودؑ(
۶۔
مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے مولف >اصحاب احمد< )جماعت احمدیہ کا سلوک غیر مسلموں سے(
۷۔
مکرم مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ دہلی )صداقت مسیح موعودؑ از روئے ہندو سکھ مذہب(
۸۔
مکرم مولوی محمد سلیم صاحب مبلغ کلکتہ )اسلام اور کمیونزم۔ قادیان سے ہماری ہجرت(
۹۔
مکرم مولوی عبدالقادر صاحب دہلوی )اسلام میں عورت کا درجہ(
۱۰۔
مکرم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی بی۔ اے )قادیان کی تاریخ(
۱۱۔
مکرم گیانی مرزا واحد حسین صاحب )سکھ مسلم اتحاد(
۱۲۔
حضرت حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری )حکومت و رعایا کے تعلقات اسلام کے نقطہ نظر سے(
۱۳۔
مکرم مہاشہ محمد عمر صاحب )ہندو مسلم اتحاد(
۱۴۔
مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب یادگیر )آنحضرت~صل۱~ کے اخلاق قافلہ(
۱۵۔
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ
۱۶۔
مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری مبلغ سیرالیون
موخرالذکر مبلغین نے افریقہ میں تبلیغ اسلام کے موضوع پر اظہار خیال فرمایا۔
اس مبارک اجتماع پر بالاتفاق ایک قرارداد پاس کی گئی جس میں بھارتی حکومت کو توجہ دلائی گئی کہ:۔
۱۔ قادیان میں مقیم درویشوں کو یہ اجازت ضرور ملنی چاہئے کہ ان کے اہل و عیال ان سے مل سکیں۔
۲۔ قادیان میں قریباً پچاس ساٹھ ایسے احمدی زائر مقیم ہیں جو ایام فسادات میں یہاں آئے تھے اور اب وہ واپس اپنے وطن پاکستان جانے کے لئے بے تاب ہیں۔ اس کے علاوہ قادیان کے بعض ابتدائی باشندے یہاں ازسرنو آباد ہونا چاہتے ہیں۔۳۔ حکومت نے صدر انجمن احمدیہ قادیان کی قیمتی جائداد متروکہ قرار دے کر اپنے قبضہ میں لے رکھی ہے حالانکہ یہ انجمن اب بھی قادیان میں قائم ہے۔
۴۔ قادیان کے بعض تعلیمی اداروں کو بہت جلد واگزار کردیا جائے کیونکہ محض ان اداروں کے نہ ہونے کی وجہ ہی سے احمدی بچوں کی تعلیم نظرانداز ہورہی ہے۔
۵۔ جو ہندوستانی احمدی مذہبی اور دینی تعلیم سیکھنے کے لئے باہر جانا چاہیں انہیں ہ قسم کی سہولتیں دی جائیں۔
۶۔ احمدیوں کی جو مسجدیں اور قبرستان ملکی فسادات کے دوران مسمار کئے جاچکے ہیں وہ واگزار کی جائیں اور ان کی مرمت و تعمیر کے لئے مناسب انتظامات کئے جائیں۔
۷۔ قادیان احمدیوں کا مذہبی مرکز سے مگر حکومت نے شرنارتھیوں کو بعض حالات کے تقاضا کے تحت اس میں رہنے کی اجازت دے دی ہے نیز قادیان میونسپلٹی نے قادیان کے بعض ایسے محلوں اور گلیوں کے اسلامی نام بدل دیئے ہیں جن سے مذہبی تقدس اور سلسلہ احمدیہ کی بعض قدیم روایات وابستہ ہیں۔ اس اقدام سے احمدیوں کے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچی ہے۔ قادیان کے محلوں اور گلیوں کے پہلے اسلامی نام بحال کئے جائیں ورنہ جماعت احمدیہ کے مذہبی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
جلسہ قادیان میں شامل ہونے والے ہندوستانی
اس مبارک جلسہ میں ہندوستان کے طول و عرض سے جو مخلص احمدی شامل ہوئے ان کے نام یہ ہیں۔
۱۔
مولانا بشیر احمد صاحب انچارج احمدیہ مشن دہلی و امیر جماعت احمدیہ دہلی امیر وفد
۲۔
محمود حسین صاحب کمپونڈر دہلی
۳۔
مکرم نبی حسن صاحب احمدیہ فرنیچر سٹور دہلی
۴۔
مکرم مختار احمد صاحب پسر بابو نذیر احمد صاحبؓ دہلی سابق امیر جماعت احمدیہ دہلی
۵۔
مکرم محمد حسین صاحب دہلی
۶۔
عبدالمجید صاحب دہلی
۷۔
محترمہ اہلیہ صاحبہ مولانا بشیر احمد صاحب مبالغ دہلی
۸۔
محترمہ اہلیہ ثانی بابو نذیر احمد صاحبؓ سابق امیر جماعت احمدیہ لاہور
۹۔
‏ind1] gat[ محترمہ زبیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ منیر احمد صاحب ابن بابو نذیر احمد صاحبؓ سابق امیر جماعت احمدیہ دہلی
۱۰۔
مکرم حافظ سخاوت علی صاحب شاہجہان پور۔ یوپی
۱۱۔
مکرم حاجی محمد نذیر صاحب شاہجہان پور۔ یوپی
۱۲۔
مکرم الطاف خان صاحبؓ اودے پورکٹیا ضلع شاہجہان پور یوپی۔
۱۳۔
مکرم امام علی صاحب اودے پور کٹیا ضلع شاہجہان پور یوپی۔
۱۴۔
مکرم قریشی محمد عقیل صاحب۔ شاہجہان پور۔ یوپی
‏in1] g[ta۱۵۔
مکرم سید قاسم میاں صاحبؓ شاہجہان پور۔ یوپی
۱۶۔
مکرم انوار محمد صاحب راٹھ ضلع ہمیرپور۔ یوپی
۱۷۔
مکرم اسرار محمد صاحب راٹھ ضلع ہمیرپور یوپی
۱۸۔
مکرم محمد تقی صاحب مودھا ضلع ہمیرپور یوپی
۱۹۔
مکرم محمد کریم صاحب مکڑ ضلع ہمیرپور یوپی
۲۰۔
مکرم دیدار محمد صاحب راٹھ ضلع میرپور یوپی
۲۱۔
مکرم محمد حنیف صاحب مکہریا ضلع ہمیرپور یوپی
۲۲۔
مکرم سید ارشد علی صاحب مرحوم لکھنو یوپی
۲۳۔
مکرم قریشی مختار احمد صاحب مرہوم لکھنو یوپی
۲۴۔
مکرم اختر حسین صاحب لکھنو یوپی۔
۲۵۔
مکرم حاجی بشیر احمد صاحب بجوپورہ ضلع سہارنپور یوپی
۲۶۔
مکرم ٹھیکیدار بشیر احمد صاحب بھکرہ ضلع مظفر نگر یوپی
۲۷۔
مکرم مولوی عبداللطیف صاحب مبلغ رینیٹہ ضلع مظفر نگر یوپی
۲۸۔
مکرم امیر احمد صاحب ضلع مظفرنگر یوپی
۲۹۔
مکرم انوار احمد صاحب ضلع مظفرنگر یوپی
۳۰۔
مکرم جمشید احمد صاحب ضلع مظفرنگر یوپی
۳۱۔
مکرم سلیمان احمد سلیمان ضلع مظفرنگر یوپی
۳۲۔
مکرم سجاد احمد صاحب ضلع مظفرنگر یوپی
۳۳۔
مکرم فرمان احمد صاحب ضلع مظر نگر یوپی
۳۴۔
مکرم گیانی بشیر احمد صاحب مبلغ بجوپورہ ضلع سہارنپور یوپی
۳۵۔
مکرم مولوی محمد صادق صاحب مبلغ۔ شاہجہانپور یوپی
‏in1] ga[t۳۶۔
مکرم مولوی عطاء اللہ صاحب مبلغ ساندہن ضلع آگرہ یوپی
۳۷۔
مکرم بہادر خان صاحب مکرم ساندہن ضلع آگرہ یوپی
۳۸۔
مکرم سردار خان صاحب ساندہن ضلع آگرہ یوپی
۳۹۔
مکرم بشیر احمد خان صاحب ساندہن ضلع آگرہ یوپی
۴۰۔
مکرم سعید احمد خان صاحب ساندہن ضلع آگرہ یوپی
۴۱۔
مکرم عنایت اللہ خان صاحب ساندہن ضلع آگرہ یوپی
۴۲۔
مکرم منور احمد خان صاحب صالح نگر آگرہ یوپی
)مکرم پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ(
۴۳۔
مکرم جعفت خان صاحب صالح نگر آگرہ یوپی
۴۴۔
مکرم محمود احمد خان صاحب صالح نگر آگرہ یوپی
۴۵۔
مکرم عزیز احمد خان صاحب صالح نگر آگرہ یوپی
۴۶۔
مکرم ماسٹر جان الحق صاحب میرٹھ یوپی
۴۷۔
مکرم ماسٹر بشیر احمد صاحب میرٹھ۔ یوپی
۴۸۔
مکرم مولوی خورشید احمد صاحب بنارس یوپی
۴۹۔
مکرم قریشی محمد یونس صاحب بریلی یوپی
۵۰۔
مکرم قریشی حبیب احمد صاحب بریلی یوپی
۵۱۔
مکرم قریشی مسعود احمد صاحب بریلی یوپی
۵۲۔
مکرم حاجی بقاء اللہ صاحبؓ بھوپال یوپی
۵۳۔
مکرم افتخار احمد صاحب بھوپال یوپی
۵۴۔
مکرم ملک علی بخش صاحب بھوپال یوپی
۵۵۔
مکرم ارشاد احمد صاحب امروہہ۔ یوپی
۵۶۔
مکرم ضمیر احمد صاحب امروہہ۔ یوپی
۵۷۔
مکرم محمد صدیق صاحب۔ امروہہ۔ یوپی
۵۸۔
مکرم علائو الدین صاحب امروہہ۔ یوپی
۵۹۔
مکرم محمد اسماعیل صاحب امروہہ۔ یوپی
۶۰۔
مکرم ننھے میاں صاحب امروہہ۔ یوپی
۶۱۔
مکرم منشی عبدالرحیم صاحب امروہہ۔ یوپی
۶۲۔
مکرم ماسٹر عبدالحمید صاحب امروہہ۔ یوپی
۶۳۔
مکرم رحیم اللہ صاحب امروہہ۔ یوپی
۶۴۔
مکرم عبدالحئی صاحب امروہہ۔ یوپی
۶۵۔
مکرم بشیر اہمد صاحب مراد آباد۔ یوپی
۶۶۔
مکرم شہامت علی صاحب کانپور۔ یوپی
۶۷۔
مکرم مورخ احمدیت حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ حیدرآباد دکن
۶۸۔
مکرم حضرت مولوی فضل دین صاحبؓ مبلغ حیدر آباد دکن
۶۹۔
علی محمد الٰہ دین صاحب حیدر آباد۔ دکن
۷۰۔
مکرم محمود احمد صاحب۔ حیدرآباد۔ دکن
۷۱۔
مکرم صالح محمد الٰہ دین صاحب حیدر آباد۔ دکن
۷۲۔
مکرم مسیح الدین صاحب حیدرآباد۔ دکن
۷۳۔
مکرم عبدالرئوف صاحب حیدرآباد۔ دکن
۷۴۔
مکرم محمد احمد صاحب غوری حیدرآباد۔ دکن
۷۵۔
مکرم سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآباد۔ دکن
۷۶۔
محترمہ اہلیہ صاحبہ سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآباد۔ دکن
۷۷۔
محترمہ انیہ بیگم صاحبہ بنت سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآباد۔ دکن
۷۸۔
محترمہ امینہ بیگم صاحبہ بنت سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآباد۔ دکن
۷۹۔
‏ind1] g[ta مکرم محمد انور صاحب ابن سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآباد۔ دکن
۸۰۔
مکرم سیٹھ معین الدین صاحب حیدرآباد۔ دکن
۸۱۔
مکرم محمد اسماعیل صاحبؓ )یادگیر( حیدرآباد۔ دکن
۸۲۔
مکرم محمد یعقوب صاحب حیدرآباد دکن
۸۳۔
مکرم عبدالحی صاحب حیدرآباد دکن
۸۴۔
مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب بمبئی
۸۵۔
مکرم مولوی محمد دین صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ بمبئی
۸۶۔
مکرم عبدالحق صاحب بمبئی
۸۷۔
مکرم شیر محمد صاحب بمبئی
۸۸۔
مکرم حضرت مولوی عبداللہ صاحب مالا باریؓ مبلغ سلسلہ احمدیہ۔ مالا بار
۸۹۔
مکرم عبدالرشید صاحب مالابار
۹۰۔
مکرم مولوی زین الدین صاحب مالابار
۹۱۔
مکرم صدیق امیر علی صاحب مالابار
۹۲۔
مکرم عبداللہ صاحب مالابار
۹۳۔
مکرم محمد صاحب مالابار
۹۴۔
مکرم علی محی الدین صاحب مدراس
۹۵۔
مکرم شیخ محمد رفیق صاحب مدراس
۹۶۔
مکرم حضرت سید بزارت حسین صاحب۔ اورین۔ بہار
۹۷۔
مکرم ڈاکٹر سید منصور احمد صاحب۔ مظفرپور۔ بہار
۹۸۔
مکرم سید غلام مصطفیٰ صاحب مظفرپور۔ بہار
۹۹۔
مکرم محمد عقیل صاحب کملی مظفرپور۔ بہار
۱۰۰۔
مکرم دوست محمد صاحب مظفرپور۔ بہار
۱۰۱۔
مکرم محسن احمد صاحب مظفرپور۔بہار
۱۰۲۔
‏ind1] [tag مکرم دائود احمد صاحب مظفرپور۔ بہار
۱۰۳۔
مکرم تسنیم احمد صاحب مظفرپور۔ بہار
۱۰۴۔
مکرم حامد احمد صاحب مظفرپور۔ بہار
۱۰۵۔
مکرم محمد عاشق حسین صاحب خانپور ملکی بہار
۱۰۶۔
مکرم محمد خورشید عالم صاحب خانپور ملکی بہار
۱۰۷۔
مکرم محمد نظام الدین صاحب خانپور ملکی بہار
۱۰۸۔
مکرم مولوی سمیع اللہ صاحب خانپور ملکی بہار
۱۰۹۔
مکرم محمد ظریف صاحب خانپور ملکی بہار
۱۱۰۔
مکرم حافظ الٰہی بخش صاحب خانپورملکی بہار
۱۱۱۔
مکرم حسن محمد صاحب خانپورملکی بہار
۱۱۲۔
مکرم حضرت حکیم خلیل احمدصاحبؓ مونگھیری بہار
۱۱۳۔
مکرم سید عبدالغفار صاحب مونگھیری بہار
۱۱۴۔
مکرم مولوی محمدسلیم صاحب فاضل مبلغ کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۱۵۔
مکرم چوہدری انور احمد صاحب کاہلوں امیر جماعت احمدیہ کلکتہ
۱۱۶۔
‏ind1] gat[ مکرم سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۱۷۔
مکرم میاں دوست محمد صاحبؓ کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۱۸۔
مکرم ڈاکٹر اصغر حسین صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۱۹۔
مکرم بابو محمد صدیق صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۰۔
مکرم سید عبدالشکور صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۱۔
مکرم مقصود احمد صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۲۔
مکرم سید بشیر احمد صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۳۔
مکرم سید بشیر الرحمن صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۴۔
مکرم میاں شریف احمد صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۵۔
مکرم میاں محمد انور صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۶۔
مکرم میاں شفیق احمد صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۷۔
مکرم مولوی فضل کریم صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۸۔
مکرم سہیل احمد صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۹۔
مکرم سیف الدین صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۳۰۔
مکرم مخلص الرحمن صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۳۱۔
مکرم حافظ عبدالمنان صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۳۲۔
مکرم سراج الدین صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۳۳۔
مکرم مولوی عبدالرحیم صاحب مرحوم انسپکٹر بیت المال کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۳۴۔
مکرم کالے خان صاحب اڑیسہ مغربی بنگال
۱۳۵۔
مکرم رحیم بخش صاحب اڑیسہ مغربی بنگال
اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ
اس تاریخی جلسہ کی نسبت پاکستان کے اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور نے خصوصی نمائندہ کے قلم سے حسب ذیل نوٹ سپرد اشاعت کیا۔
‏QADIAN AT JALSA 59th
‏Present Ahmediyas Thousand
‏Correspondent) Own OUt (From
‏ Including Muslims Ahmediya 56 years, 21 nearly after 28- ۔Dec ۔QADIAN Bashir Sheikh by headed womens, two from Sunday on here arrived Ahmad, of community Ahmediya the of Jalsa Annual 59th the for Pakistan Indian 38 ,ylsuoenasimult Qadian women four including Muslims Ahmediya the of parts all from drawn children five and۔Sunday on here arrived country
‏ Ahmediya the to escorted were They in lodged were and town the in colony witnessed were seenes Touching houses, different Pakistani the met Ahmediyas Indian the when mosque the in both prayers offered them of All ۔Ahmediyass۔yard given Bahisit the at and
‏ own their and police armed by guraded Closely was Jain the volunteers, was and compound year's spreviou the in held ۔all in persons ,000 about by attended Pakistan's ۔Rehman Abdur General۔Major was visitors the Among۔Jullundur in Commissioner High Deputy
‏ the inaugurated Ahmediyas, local the of head Jutt, Rehman Abdur Maulvi the as it describing Jalsu, Ahmediyas distinguished from messages out read and partition, after third from branches of head and۔world the of parts all
‏ Pakistan from delegation the headed who Ahmed, Bashir Sheikh Mirza Hazrat how mentioned He Chair, the doccupe then Mahmood Din۔ud۔Bashir message special a them send not could preoccupations to owing Ahmad to come had the but year this to them asked blessings his in had and off them see had He ۔God in falth with on carry۔God in faith through world the in peace be could there that said also
‏ visit to anxlous were Ahmediyas Pakistan Although pecullar had and importance international an acquired had which Qadian, faith, their for sanctly could they control their beyond elrcumstances of esubeca that hoped however ۔so do not reign the and run lon the in prevall would will God's۔disappear soon would world, the ecllpsing temporarlly Batan of
‏TEACHINGS OF SIMILARITY
‏ religions on discourses of consisted Juisa The existence the to training subjects his of some founders, the of propheets and deeds God, of the of teachings the and mhacles, of similiarity the on emphasts great said speakers The ۔faith Ahmediya ۔Hindustan including rellgons all of sgnihteac stressed they and Christtanity and lam is Sikhism of understanding proper for need the and hatred of feelings discarding view, of point other's each۔animostly
‏ sponsored was which resolution, lengthy a adopted Jaisa The and Ahmediyas indian the by by voted unanimously also the to gratitude expressed It ۔Ahmediyas Indian the East and India of Governments the for provided facilities the for Punjab Ahmediyas of participation convey to permision tought and Pakistan and India morfrequests: following the
‏ the of headquarters religious and spiritual the is Qadian That (1) ۔world the over all spread community Ahmediya leave to had Ahmediyas Several and 1947 of disturbances the to owing plae this۔here settle and return to anxious now were
‏ arranged, be cannot Ahmediyas all of retugn the as long So (2) Qadian the living still those of famllies the ۔them visit to allowed be should
‏ pllgrims Ahmediyas 60 to 60 are There (3) disturbances the during here dearriv who to anxious are they and 947 of eiderly some Likewise ۔Pakistan in homen their to back go۔here return to eager are Qadian of inhabitants
‏ belonging crores two worth Property (4) body a Qadian, Anjuman Sadar the to as Government by seized 1906, in registered its because restored be should property evacuce Qadian at be to continued headquarters۔migrated never had members its and
۔etc hostels, institutions, education their of Most (5) the as them to restored be also dluohs being was Ahmediyas Indian of education۔imparied seriously
‏ Indian allowed be should facilities Adequate (6) frequent perform to wanted who Ahmediyas۔education religious recive or pilgrimage
‏ of damaged were ۔etc graveyards, mosques, their of Serveral (7) These ۔947 of distirbances the during destroyed۔repair for made arrangements suitable and estored be should
‏ and Ahmediyas the of centre religious the is Qadian (8) settled has Government the although the cicrumstances, of stress the under refugees changing in Committe Municipal local of action religious the injures mohallas and streets of names Islamic community Ahmediyas The ۔Ahmediyas of susceptibilites the restore to Government the Requests religious the potect and names Islamic۶۰۔community the of rights
‏tav.12.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
جلسہ ربوہ
ٹھیک انہی تاریخوں میں جبکہ حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی مقدس بستی میں شمع احمدیت کے پروانے تبع ہو۔ سرزمین ربوہ میں احمدیت کے نئے مرکز کا دوسرا سالانہ جلسہ منعقد ہوا جس میں دیگر علمائے سلسلہ کی تقاریر کے علاوہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے اپنے روح پرور اور ایمان افروز خطابات سے نوازا۔
حضور نے اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایا:۔
>ہماری موجودہ مثال ان کمزور پرندوں کی سی ہے جو دریا کے کسی خشک حصہ میں سستانے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں اور شکاری جو ان کی تاک میں لگا ہوا ہوتا ہے ان پر فائر کردیتا ہے اور وہ پرندے وہاں سے اڑ کر ایک دوسری جگہ پر جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم بھی آرام سے اور اطمینان سے دنیا کی چالاکیوں اور ہوشیاریوں اور فریبوں سے بالکل غافل ہوکر` کیونکہ مومن چونکہ خود چالاک اور فریبی نہیں ہوتا وہ دوسروں کی چالاکیوں اور فریبوں کا بھی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اپنے آرام گاہ میں اطمینان اور آرام سیے بیٹھے تھے اور ارادے کررہے تھے کہ ہم میں سے کوئی اڑ کر امریکہ جائے گا` کوئی انگسلتان جائے گا` کوئی جاپان جائے گا اور دین اسلام کی اشاعت ان جگہوں میں کرے گا لیکن چالاک شکاری اس تاک میں تھا کہ وہ ان غافل اور سادہ لوح پرندوں پر فائر کرے چنانچہ اس نے فائر کیا اور وہ چاہا کہ وہ ہمیں منتشر کردے مگر ہماری جماعت جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہامات میں پرندہی قرار دیا گیا ہے اپنے اندر ایک اجتماعی روح رکھتی تھی<۔
>مشرقی پنجاب سے بہت سی قومیں بہت سے گائوں نکلے` بہت سے شہر نکلے` بہت سے علاقے نکلے لیکن انہوں نے اپنے فعل سے ثابت کردیا کہ وہ قومی روح اپنے اندر نہیں رکھتے تھے۔ وہ پراگندہ ہوگئے` وہ پھیل گئے` وہ منتشر ہوگئے یہاں تک کہ بعض جگہ پر بھائی کو بھائی کا` باپ کو بیٹے کا اور ماں کو اپنی لڑکی کا بھی حال معلوم نہیں۔ صرف وہ چھوٹی سی قوم` وہ تھوڑے سے افراد جو دشمن کے تیروں کا ہمیشہ سے نشانہ بنتے چلے آئے ہیں۔ اور جن کے متعلق کہنے والے کہتے تھے کہ دشمن کے حملہ کا ایک ریلا آنے دو پھر دیکھو گے کہ ان کا کیا حشر ہوتا ہے؟ جونہی حملہ ہوا یہ لوگ متفرق ہوجائیں گے منتشر اور پراگندہ ہوجائیں گے وہی ہیں جو آج ایک مرکز پر جمع ہیں وہ کثیر التعداد آدمی جو وہاں سے نکلے تھے وہ پھیل گئے وہ بکھر گئے وہ پراگندہ ہوگئے مگر وہ چھوٹی سی جماعت جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ایک معمولی سا ریلا بھی آیا تو یہ ہمیشہ کے لئے منتشر ہوجائے گی وہ مرغابیوں کی طرح اٹھی تھوڑی دیر کے لئے ادھر ادھر اڑی مگر پھر جمع ہوئی اور ربوہ میں آکر بیٹھ گئی چنانچہ جو نظارہ آج تم دیکھ رہے ہو یہ خواہ اتنا شاندار نہیں جتنا قادیان میں ہوا کرتا تھا کیونکہ ابھی ہماری پریشانی کا زمانہ ختم نہیں ہوا لیکن اور کون سی قوم ہے جس کی حالت تمہارے جیسی ہے۔ اور کون سی جماعت ہے جو آج اس طرح پھر جمع ہوکر ایک مقام پر بیٹھ گئی ہے یقیناً اور کوئی قوم ایسی نہیں۔ پس تمہارے اس فعل نے بتا دیا کہ تمہارے اندر ایک حد تک قومی روح ضرور سرایت کرچکی ہے۔ تم اڑے بھی` تم پراگندہ بھی ہوئے` تم منتشر بھی ہوئے مگر پھر جو تمہاری جبلت ہے` وہ تمہاری طینت ہے` جو چیز تمہاری فطرت بن چکی ہے کہ تم ایک قوم بن کر رہتے ہو اور ایک آواز پر اکٹھے ہوجاتے ہو یہ فطرت تمہاری ظاہر ہوگئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ کوئی طاقت تمہیں ہمیشہ کے لئے پراگندہ نہیں کرسکتی<۔
اس کے بعد حضور نے شعبان ۵ھ۶۲ کے مشہور واقعہ غزوہ بنو مصطلق پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:۔
>مجھے اس وقت یاد تو کیا آگیا ایک واقعہ تھا جس کا اس بات کے کہتے کہتے میری آنکھوں کے سامنے نقشہ کھینچ گیا۔ ایک جنگ کے موقع پر انصار اور مہاجرین میں جھگڑا ہوگیا۔ اور یوں معلوم ہونے لگا جیسے آج مہاجر اور انصار آپس میں لڑہی پڑیں گے۔ اس وقت عبداللہ بن ابی ابن سلول دیرینہ منافق ۔۔۔۔ نے کہا اے انصار یہ تمہاری ہی غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ تم ان لوگوں کے منہ سے ایسی باتیں سن رہے ہو میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ تم ایسا قدم مت اٹھائو مگر تم نہ مانے اب شکر ہے کہ میری بات تمہاری سمجھ میں آرہی ہے تم ذرا ٹھہرو اور مجھے مدینہ پہنچ لینے دو پھر دیکھو گے کہ مدینہ کا سب سے زیادہ معزز شخص یعنی وہ کمبخت )نعوذ باللہ( مدینہ کے سب سے زیادہ ذلیل آدمی یعنی محمد رسول اللہ~صل۱~ کو وہاں سے نکال دے گا اور یہ فتنہ ہمیشہ کے لئے دور ہوجائے گا۔ عبداللہ کا بیٹا مومن تھا وہ ایک سچا مسلمان تھا جب اس نے اپنے باپ کی یہ بات سنی تو وہ رسول اللہ~صل۱~ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا یارسول اللہ~صل۱~ میرے باپ نے جو بات کہی ہے اس کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں ہوسکتی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ یہی سزا اسے دیں گے۔ لیکن میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اگر کسی اور مسلمان کو آپﷺ~ نے کہا اور اس نے میرے باپ کو قتل کردیا اور پھر کوئی کمزوری کا وقت مجھ پر آگیا اور وہ مسلمان میرے سامنے آیا تو ممکن ہے میرے دل میں خیال آجائے کہ یہ میرے باپ کا قاتل ہے اور میں جوش میں آکر اس پر حملہ کر بیٹھوں اور اس طرح بے ایمان ہوجائوں۔ یا رسول اللہ میری درخواست یہ ہے کہ آپﷺ~ مجھے ہی حکم دیجئے کہ میں اپنے باپ کو اپنے ہاتھ سے قتل کروں تاکہ کسی مسلمان کا کینہ میرے دل میں پیدا نہ ہو۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ ہم تمہارے باپ کو قتل کریں اس نے بات کی اور اپنے اندرونہ کو ظاہر کردیا ہماری طرف سے اس پر کوئی گرفت نہیں۔ اب باتت بظاہر ختم ہوگئی اور وہ آئی گئی ہوگئی۔ انصار اور مہاجر آپس میں پھر بغلگیر ہوگئے عبداللہ بن ابی ابن سلول پھر ذلیل اور شرمندہ ہوکر اپنے خیمہ میں جاگھسا۔ پھر انصار اور مہاجرین میں بھائیوں بھائیوں کا سا نظارہ نظر آنے لگا<۔
>غیر اس کی بات بھول گئے` رشتہ دار اس کی بات بھول گئے` دوست اس کی بات بھول گئے` دشمن اس کی بات بھول گئے لیکن اس کا بیٹا اس بات کو نہیں بھولا اور بغیر اس واقعہ کے اسے اور کسی چیز کا خیال تک نہیں آیا۔ جس وقت محمد رسول اللہ~صل۱~ کی سواری مدینہ منورہ میں داخل ہوچکی اور اسلامی لشکر اندر داخل ہونے لگا تو وہ لڑکا اپنی سواری سے کود کر گلی کے کنارے پر کھڑا ہوگیا اور جب اپنے باپ عبداللہ بن ابی کو دیکھا تو اس نے تلوار نکال کر اپنے باپ سے کہا تمہیں یاد ہے تم نے وہاں کیا الفاظ کہے تھے تم نے کہا تھا کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ نے تم کو معاف کردیا لیکن میں تمہیں معاف نہیں کروں گا اور تمہیں اس وقت تک مدینہ میں داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک تم تین دفعہ میرے سامنے یہ اقرار نہ کرو کہ میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں اور محمد رسول اللہ~صل۱~ سب سے زیادہ معزز انسان ہیں۔ باپ نے دیکھ لیا کہ آج اس بیٹے کی تلوار میرے پیٹ میں جائے بغیر نہیں رہے گی` آج اس کی تلوار میرے دل کو چیرے بغیر نہیں رہے گی اس نے اپنے سارے ہمنشینوں اور مجلسیوں کے سامنے جن میں وہ اپنی بادشاہت کی لافیں مارا کرتا تھا اقرار کیا کہ ہاں میں مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل شخص ہوں اور محمد رسول اللہ~صل۱~ سب سے زیادہ معزز انسان ہیں۔ مجھے یہ واقعہ یاد آگیا اور میں نے کہا خدا کی رحمتیں ہوں عبداللہ کے بیٹے پر کہ اس نے اس طعنہ کو نہیں بھلایا اور تب تک اس نے آرام نہیں کیا جب تک اپنے باپ کے منہ سے اس نے یہ نہ کہلوایا کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ ہی سب سے زیادہ معزز وجود ہیں اور اس کا باپ سب سے زیادہ ذلیل آدمی ہے۔ مگر خدا رحم کرے ہم پر بھی جن کے سامنے دنیا نے محمد رسول اللہ~صل۱~ کو اتنی گالیاں دی ہیں کہ کسی ذلیل انسان کو بھی وہ گالیاں نہیں دی گئیں مگر ہم آرام سے بیٹھے ہیں۔ ہمارے دلوں میں یہ جوش پیدا نہیں ہوتا کہ ہم وہ بات غیر کے منہ سے کہلوا سکیں جو عبداللہ کے بیٹے نے عبداللہ کے منہ سے کہلوائی۔ کس طرح ہم کو چین آرہا ہے۔ کس طرح ہمارے دل ادھر ادھر کی باتوں میں مشغول ہیں۔ اگر عبداللہ کے بیٹے جتنا ایمان ہی ہمارے دلوں میں ہوتا حالانکہ چاہئے تھا کہ اس سے بہت زیادہ ایمان ہوتا تو ہمارا فرض تھا کہ دنیا کا سب سے زیادہ معزز وجود محمد رسول اللہ~صل۱~ کا ہے اور اس کا دشمن سب سے زیادہ ذلیل ہے۔ ہم ایک دفعہ پھر یہاں جمع ہوئے ہیں خدا تعالیٰ کی عنایت اور اس کی مہربانی سے آئو ہم سچے دل سے یہ عہد کریں کہ ہم کم سے کم عبداللہ کے بیٹے جتنا ایمان دکھائیں گے اور جب تک محمد رسول اللہ~صل۱~ کی عزت کا اقرار دنیا سے نہیں کروالیں گے اس وقت تک ہم اطمینان اور چین سے نہیں بیٹھیں گے<۔۶۳
حضرت امیرالمومنین کی دوسری تقریریں
حضور نے افتتاحی خطاب کے علاوہ ۲۷` ۲۸۔ فتح/ دسمبر کو مفصل تقاریر فرمائیں جن میں ان پیشگوئیوں پر تفصیلاً روشنی ڈالی جو اس زمانہ میں حضور کے بابرکت وجود سے پوری ہوئیں۔ ربوہ میں زمین خریدنے اور اس میں مکان بنانے کی نصیحت کی۔ غرباء کے مکانات کے لئے چندہ کی تحریک فرمائی۔ انگریزی ترجمہ قرآن کی ایک اور جلد تیار ہونے کی خوشخبری دی۔ خدام الاحمدیہ کو پابندی نماز` ذکر الٰہی` شعار اسلامی کے قیام خدمت خلق اور بہادری جذبہ قربانی اور ایثار کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا بہادری کا نمونہ دکھائو اور ماریں کھانے` گالیاں سن کر برداشت کرنے کی عادت ڈالو لیکن بے غیرتی مت دکھائو کیونکہ بہاری بے غیرتی کا نام نہیں۔ زراعت کے تعلق میں اگلے سال احمدی زمینداروں اور ماہرین فن کی ایک مجلس شوریٰ بلانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ تجارت کے بارے میں بتایا کہ اس کے بغیر جماعت ترقی نہیں کرسکتی نیز یہ کہ ہم نے ایک چمبر آف کامرس قائم کیا ہے۔ چھوٹے بڑے سب تاجروں کو چاہئے کہ وہ اس میں شامل ہوں تا جماعت منظم ہوسکے۔ حضور نے دوران تقریر مہاجرین کو خوش رہنے کی بھی تلقین فرمائی۔ پھر اس تجویز کا اعلان کیا کہ قاضیوں کا بورڈ قائم کیا جائے جو مشرقی پنجاب سے آنے والے مقروضوں کے تنازعات کا فیصلہ کرے۔ جس شخص کا کسی دوسرے کے ذمہ قرض ہو وہ محکمہ قضاء میں نالش کرے۔ البتہ اگر کسی کو رجسٹرڈ یا لمیٹڈ کمپنیوں کے بارہ میں شکایت ہو تو وہ سرکاری عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے کیونکہ معاملہ کو لٹکانا فساد پیدا کرتا ہے اور اس سے دلوں پر زنگ لگتا اور فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ الغرض حضور نے پیش آمدہ حالات میں احباب جماعت کی راہنمائی فرمائی۔۶۴
جلسہ ربوہ کی بعض خصوصیات
اس جلسہ میں گزشتہ جلسہ کے مقابل سامعین کی تعداد تیرہ ہزار سے بڑھ کر تیس ہزار تک پہنچ گئی جیسا کہ اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ اور پاکستان ٹائمز )مورخہ( ۳۱۔ دسمبر ۱۹۴۹ء نے سٹار نیوز ایجنسی کے حوالہ سے خبر شائع کی۔
جلسہ میں مستورات کے لئے ایک الگ لنگر خانے کا انتظام کیا گیا۔ لجنہ اماء اللہ کی منتظمات اپنی ضرورت کے مطابق کھانا پکواتیں اور اپنے زیر نگرانی تقسیم کراتی تھیں۔ یہ پہلا تجربہ تھا جو بہت کامیاب رہا۔
اس دفعہ مہمانوں کے قیام کے لئے دو سو بیرکیں تیار کی گئیں جن میں حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کی ہدایت کے مطابق کچی اینٹوں کے علاوہ پانچ لاکھ پکی اینٹیں بھی استعمال کی گئیں۔ یہ کام حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ کی مسلسل تگ ودو اور شب روز کی محنت شاقہ سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔ بیرکوں کے علاوہ پانچ سو پینتیس خیموں اور چھلداریوں کا بھی بندوبست کیا گیا۔
ماہ شہادت ۳۲۸ہش/ اپریل ۹۴۹ء کے پہلے جلسہ ربوہ میں تو مصارف کثیر کے باوجود پانی کی سخت دقت رہی تھی اور ٹینکروں کے ذریعہ ساڑھے سات میل کے فاصلہ سے پانی منگوانا پڑا تھا مگر اس جلسہ پر زندہ خدا کا یہ زندہ نشان ظاہر ہوا کہ خدا تعالیٰ کی اس بشارت کے مطابق کہ ربوہ میں باافراط پانی میسر آنے لگا۔۶۵ نہ صرف یہ کہ ربوہ کی بنجر اور کلر زدہ زمین میں سے میٹھا پانی نکلا بلکہ اس کثرت سے نکلا کہ جلسہ سالانہ پر آنے والے تیس ہزار مہمانوں کی ضروریات باسانی پوری ہوتی رہیں۔ اور پھر نکلا بھی عین اس جگہ کے قریب جو پہلے سے پاس شدہ نقشہ کے مطابق حضرت مصلح موعود کے مکان کے لئے مخصوص تھی۔۶۶
دوسرا باب )فصل ہشتم(
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
اس سال متعدد جلیل القدر صحابہ نے انتقال کیا جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:۔
۱۔ حضرت میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی۶۷:۔
)ولادت اندازاً ۱۸۶۹ء۔ بیعت ۲۳۔ نومبر ۱۸۸۹ء۔ وفات ۱۷۔ امان ۱۳۲۸ہش/ مارچ ۱۹۴۹ء بعمر اسی)۸۰( سال(
حضرت مسیح محمدی علیہ السلام کے ان اولین صحابہ میں سے تھے جن کو بیعت اولیٰ سے بھی قبل حضورؑ سے تعلق عقیدت وارادت تھا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے تین سو تیرہ اصحاب کبار میں آپ کا نام آئینہ کمالات اسلام میں ۱۹۸ نمبر پر اور ضمیمہ انجام آتھم میں ۳۲ نمبر پر درج فرمایا۔
۱۸۹۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے حکم پر ایک سہ رکنی وفد نصیبین کے آثار قدیمہ کی چھان بین اور سفر مسیح ناصری کی مزید تحقیقات کے لئے تیار کیا گیا۔ اس موقعہ پر سیکھوانی برادران نے جو مالی قربانی پیش کی اس پر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے قلم مبارک سے اظہار خوشنودی کیا اور تحریر فرمایا:۔
>ان چاروں صاحبوں کے چندہ کا معاملہ نہایت عجیب اور قابل رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ رکھتے ہیں۔ گویا حضرت ابوبکرؓ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے ہیں اور دین کو آخرت پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی<۔۶۸
۱۹۰۰ء میں جب حضور علیہ السلام نے مینارۃ المسیح کے لئے اپنے خدام سے ایک ایک سو روپیہ چندہ کی تحریک فرمائی تو حضرت میاں صاحبؓ اور ان کے بھائیوں نے مع اپنی والدہ ماجدہ کے درخواست پیش کی کہ ہم اس چندہ میں شامل ہونا اپنی سعادت سمجھتے ہیں لیکن اس قدر وسعت نہیں کہ ہم میں سے ہر ایک سو سو روپیہ دے سکے اس لئے ہم چاروں ہی ایک سو روپیہ دیں گے اگر منظور فرمایا جاوے۔ حضور نے یہ درخواست منظور فرمالی اور جب خلافت ثانیہ کے عہد مبارک میں مینارۃ المسیح کی تکمیل ہوئی تو ان تینوں خوش نصیب بھائیوں اور ان کی والدہ کے نام مینارۃ المسیح پر کندہ کئے گئے۔۶۹
حضرت مسیح موعود علیہ السلام عموماً دوسروں کی اقتداء میں نماز پڑھا کرتے تھے لیکن بعض دفعہ آپؑ خود بھی نماز پڑھاتے تھے۔ حضرت میاں خیرالدین صاحب کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپ نے دو بار حضورؑ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ ایک بار قبل از دعویٰ مسجد اقصیٰ میں شام کی نماز جس کی ایک رکعت میں حضورؑ نے سورۃ والتین کی تلاوت فرمائی۔ دوسری دفعہ نماز ظہر حضورؑ کی اقتداء میں پڑھنے کا موقع ملا۔ حضورؑ مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف لے جارہے تھے اور حضورؑ نے یہ نماز بڑی نہ پر پڑھائی۷۰ آپ نظام الوصیت سے بھی وابستہ تھے اور مجاہدین تحریک جدید بھی شامل تھے۔ پنجگانہ نماز بلکہ تہجد کا نہایت درجہ التزام رکھتے تھے۔ روزوں کی پابندی میں اپنی نظیر آپ تھے۔ ۳۲۶ہش/ ۹۴۷ء میں قادیان سے ہجرت کرکے جہلم شہر میں فروکش ہوگئے تھے جہاں گاڑی کے ایک حادثہ سے انتقال فرما گئے۔۷۱
۲۔ میاں خیرالدین صاحب متوطن قادر آباد متصل قادیان:۔
)ولادت۷۲ جنوری ۱۸۸۹ء بیعت۷۳ ۱۹۴۰ء` زیارت۷۴ ۱۹۰۴ء` وفات۷۵ ۴۔ وفا ۱۳۲۸ہش مطابق ۴۔ جولائی ۱۹۴۹ء بمقام احمد نگر ضلع جھنگ(
آپ کے والد میاں محمد بخش صاحب ابتداء میں ہی شامل احمدیت ہوگئے تھے۔ آپ کا گھرانہ گویا خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زیر سایہ ہی رہتا تھا اور نہ صرف یہ کہ اس مبارک خاندان کے دوسرے افراد قادر آباد )قادیان سے متصل ذیلی بستی( میں جاتے اور مستری صاحب کو شرف خدمت حاصل ہوتا بلکہ ایک بار خود حضرت مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام تشریف لے گئے۔ فرمایا کرتے تھے جب میں نجاری کا کام سیکھنے لگا تو حضورؑ کے لئے عرض کیا تو حضورؑ نے دعا فرمائی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بے حد برکت دی۔
آپ حضرت اقدس علیہ السلام کی صداقت کے ایک عظیم نشان کے عنی شاہد بھی تھے جس کی تفصیل ان کے الفاظ میں یہ ہے:۔
>جب ہمارے ملک میں طاعون پھوٹی تو ہمارے گائوں قادر آباد میں بھی شروع ہوگئی اور بہت سے لوگ بیمار ہوگئے منجملہ ان میں سے میرے والد صاحب بھی تھے۔ میں اور میری والدہ صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس گئے آپ اس وقت کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے میری والدہ صاحبہ نے سارا حال بیان کیا اور دعا کے لئے عرض کی۔ آپﷺ~ نے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی اور اپنے میز کی دراز سے ایک نرلسبی )جدوار( کی گنڈی دی اور فرمایا کہ اس کو رگڑ کر پھوڑے پر لگائو اور چار پانچ آنے کے پیسے بھی دیئے اور آپ نے یہ حکم دیا کہ تم رب کل شئی خادمک رب فاحفظنی و انصرنی و ارحمنی بہت پڑھو اور لوگوں کو بھی پڑھائو۔ میری والدہ صاحبہ نے عرض کیا کہ مجھے یہ دعا یاد نہیں رہے گی آپ اس کو کاغذ پر لکھ دیں تو آپﷺ~ نے یہ دعا ایک کاغذ پر لکھ دی اور یہ بھی فرمایا کہ تم گھروں سے نکل جائو اور لوگوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی گھروں سے نکل جائیں تب ہم نے گھر آکر والد صاحب کی چارپائی گائوں کے باہر درختوں کے نیچے بچھائی اور لوگوں کو بھی کہا کہ تم گھروں سے نکل جائو ۔۔۔۔۔۔۔ جو ان میں سے نکلے وہ بچ گئے اور باقی سب کے سب موت کا شکار ہوئے اور ہم نے حضورؑ کے حکم کے مطابق نرلسبی کی گھنڈی پھوڑے پر لگائی اور دعا رب کل شئی خادمک رب فاحفظنی وانصرنی وارحمنی بکثرت پڑھی اور سب لوگوں کو یاد کرائی تب خداوند تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی دعا سے اور آپ کے بیان کردہ علاج سے ہمارے والد صاحب کو شفا بخشی اور ہمیں غموم و ہموم سے نجات بخشی<۔۷۶
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک کی بعض مرکزی تعمیرات میں آپ کو خدمت بجا لانے کا موقع ملا۔ تقسیم ملک سے پہلے جماعت احمدیہ قادرآباد کے پریذیڈنٹ تھے۔ ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد اہل وعیال سمیت احمد نگر متصل ربوہ میں پناہ گزین ہوئے یہاں بھی ایک سال تک سیکرٹری ضیافت رہے۔ مہمانوں کی خدمت شوق سے کرتے تھے۔ طبیعت میں بہت فروتنی اور ملنساری تھی۔ بزرگان سلسلہ کی خدمت کو سعادت سمجھتے تھے۔ اکثر وقت تلاوت قرآن عظیم میں گزارتے تھے۔ خود بھی نمازوں کے پابند تھے اور اپنے رشتہ داروں کو بھی پابندی صلٰوۃ کی تاکید کیا کرتے تھے۔ موصی اور صاحب رئویا تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک کے حالات دردمند لہجے میں سنایا کرتے تھے۔ المختصر ایک نیت سیرت سچے اور مخلص احمدی بزرگ تھے۔۷۷`۷۸
۳۔ حضرت شیخ مشتاق حسین صاحبؓ:۔
)ولادت۷۹ ۱۸۷۸ء` بیعت۸۰ ۱۹۰۰ء` وفات۸۱ ۲۳۔ ظحور ۱۳۲۸ہش مطابق ۲۳۔ اگست ۱۹۴۹ء( حضرت شیخ مشتاق حسین صاحبؓ کے قبول احمدیت کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ آپ نے دلی دروازہ لاہور کے باہر جماعت احمدیہ کی طرف سے دیواروں پر ایک پوسٹر لگا ہوا دیکھا جس میں دعویٰ حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر تھا۔ پوسٹر پڑھتے ہی آپ کے دل میں حضور علیہ السلام کی محبت پیدا ہوگئی اور آپ نے بیعت کا خط لکھ دیا۔ اس کے بعد سلسلہ کے ساتھ جوں جوں واقفیت بڑھتی گئی آپ ایمان و عرفان میں ترقی کرتے چلے گئے حتیٰ کہ طاعون کی شدت کے زمانہ میں جبکہ عام موتا موتی لگ رہی تھی اور لوگ پر خوف وہراس طاری تھا آپ دیوانہ وار مصروف تبلیغ رہتے تھے۔ آپ کا قیام ان دنوں اندرون بھاٹی دروازہ لاہور محلہ پٹ رنگاں کے ایک چوبارے میں تھا نچلی منزل میں اور لوگ رہتے تھے جو سب لقمہ طاعون ہوئے جس پر لوگوں نے انہیں چوبارہ خالی کرکے کسی اور مکان میں منتقل ہونے کا مشورہ دیا مگر آپ نے فرمایا کہ طاعون کے کیڑے احمدیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کشتی نوح سے پیش کرکے فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم بھی طاعون سے محفوظ رہنا چاہتے ہو تو آئو احمدیت قبول کرلو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں آپ کو سالانہ جلسہ قادیان میں شرکت کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ ۱۵۔ مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے مسلمانوں کے مشہور روشن خیال سیاسی لیڈر مسٹر فضل حسین صاحب بیرسٹر کی ملاقات ہوئی۸۲ جس کے دوران آپ بھی موجود تھے جو رئیس دہلی حافظ عبدالکریم صاحب کو ساتھ لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔۸۳
حضرت شیخ صاحبؓ لاہور میں ریلوے کلرک تھے پھر عہد خلافت اولیٰ میں سرکاری ملازمت ترک کرکے پشاور آگئے اور فوج میں گوشت کی سپلائی کرنے لگے۔ ۱۹۱۳ء میں ان کا قیام سٹھ رحمت اینڈ سنز کے احاطہ میں تھا۔۸۴ حضرت خلیفہ اولؓ کی وفات کی اطلاع پشاور میں پہنچی تو آپ پہلے احمدی تھے جنہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فضل عمرؓ کی بیعت بذریعہ تار کی۔ شروع جون ۱۹۱۴ء میں حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ غیر مبائعین سے مباحثہ کے لئے پشاور تشریف لے گئے تو آپ ہی کے ہاں مقیم ہوئے۔۸۵
پشاور میں کچھ عرصہ رہائش کے بعد آپ گوجرانوالہ آگئے۔ ۱۹۲۲ء سے مجلس مشاورت میں گوجرانوالہ کی طرف سے نمائندگی کے فرائض انجام دینے لگے۔ قیام گوجرانوالہ کے دوران آپ نے سیکرٹری تبلیغ کی حیثیت سے متعدد تبلیغی پمفلٹ لکھے۔۸۶
آپ عاشق قرآن تھے اور اکثر پرنم آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔ ~}~
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
بارہا فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ قرآن کریم کا طواف کروں۔
آپ سلسلہ کے سارے اخبارات منگوایا کرتے تھے۔ کتابیں بھی خاصی تعداد میں جمع کر رکھی تھیں۔ بعض اوقات کتابوں کے کئی کئی نسخے خریدتے اور زیر تبلیغ افراد میں تقسم کردیتے تھے۔۸۷`۸۸
حضرت شیخ صاحب پانچ ہزاری مجاہدین تحریک جدید میں شامل تھے۔
۴۔ حضرت مرزاغلام رسول صاحبؓ ریڈر جوڈیشنل کمشنر پشاور
)ولادت بیعت۱۹۰۷۸۹ء` وفات۹۰ ۵۔ اخاء ۱۳۲۸ہش مطابق ۵۔ اکتوبر ۱۹۴۹ء(
اصل وطن موضع پنڈی لالہ ضلع گجرات تھا۔۹۱ بی۔ اے تک تعلیم اسلامیہ کالج لاہور میں پائی تھی۔ آپ بیعت سے قبل کالج کی تعلیم کے دوران بھی اکثر قادیان جاکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت مجلس میں حاضر ہوا کرتے تھے چنانچہ آخر دسمبر ۱۹۰۵ء میں جبکہ حضورؑ نے رسالہ >الوصیت< تصنیف فرمایا آپ قادیان میں تھے۔ ایک روز نماز عصر سے قبل حضرت اقدس مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے کہ آپ مسجد میں پہنچے حضور اس وقت رسالہ >الوصیت< کی وجہ تصنیف اور بہشتی مقبرہ کے قیام کے مقصد پر روشنی ڈال رہے تھے۔۹۲
فرمایا کرتے تھے کہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی پاکیزہ زندگی` دینی غیرت اور انتہائی درجہ کے تقویٰ و طہارت سے بہت متاثر ہوا۔
خلافت ثانیہ کے قیام پر اگرچہ آپ فوراً مبائعین میں شامل نہیں ہوئے مگر انہیں نور فراست سے جلد ہی معلوم ہوگیا کہ غیر مبائعین کی اصل جنگ حضرت سیدنا محمود کے خلاف نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ہے تب آپ ان سے بددل ہوگئے۔ پھر ایک روز اللہ تعالیٰ کی طرف سے انکشاف ہوا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اس وقت قرب الٰہی کے سب سے بلند مقامات پر فائز ہیں اس پر آپ نظام خلافت سے وابستہ ہوگئے۔۹۳
۷۔ مارچ ۱۹۲۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے علاقہ ملکانہ کی شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اس پر جن سرفروشوں نے لبیک کہا ان میں آپ بھی شامل تھے آپ تین ماہ کی رخصت لے کر اس تبلیغی جہاد میں شمولیت کے لئے تشریف لے گئے اور گرانقدر خدمات سرانجام دے کر حضور کی سند خوشنودی حاصل کی۔
دوران جہاد کا واقعہ ہے کہ ۲۶۔ جولائی ۱۹۲۳ء کو موضع اسپار ضلع متھرا میں ایک مسلمان راجپوت غیاثی نام نے مسجد کے باہر مسجد ہی کی زمین میں بکرے کی قربانی کی۔ مرتدین آئے اور خفیہ طور پر گوشت لے گئے قریباً تین بجے بعد دوپہر آریوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے لوگوں کو آپ کے خلاف اکسایا اور کم و بیش چالیس پچاس کی تعداد میں مسلح ہوکر آپ کی رہائش گاہ پر حملہ کردیا۔ مولوی صاحب کو گالیاں دیں۔ پھر ان کی جھونپڑی پر حملہ کرکے اسے گرا دیا آپ نیچے دب گئے اور ایک شخص نے آپ کو بازوئوں سے کھینچ کر باہر نکالا پھر وہ لوگ آپ کو کھینچتے ہوئے گائوں سے باہر لے گئے آپ اپنے بعض کاغذات لینے کے لئے مسجد میں داخل ہونے لگے تو مسلح لوگ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے بزور روکا اور آپ کو دھکے دے کر گائوں بدر کردیا گیا۹۴ مگر آپ اسی گائوں میں ڈٹے رہے۔ چنانچہ جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ ضلع لائل پور اس واقعہ کی تفصیل فرماتے ہیں:۔
>۱۹۲۳ء میں مرحوم تین ماہ کی رخصت لے کر تبلیغی جہاد کے لئے آئے تو موضع اسپار ضلع متھرا میں ان کی تعیناتی بطور مبلغ ہوئی۔ گائوں میں ایک کچا کوٹھہ مسجد کے نام سے موسوم تھا اس کے ساتھ ایک چھپر تلے انہوں نے تنہاء ڈیرا جمایا اور کام شروع کیا اور اس خوشی اور حسن تدبیر سے کام کیا کہ قرب وجوار کے آریہ پرچارک اپنی چالبازیوں میں ناکام اور دیوبندی معاندین اپنی دراندازیوں میں خائب و خاسر ہوکر رہ گئے۔ دونوں قسم کے مخالفین کو ایک ایسے ذہین اور فطین حریف سے پالا پڑا تھا جو ہر جوڑ کا توڑ اور ہر زہر کا تریاق ان کے مقابلے میں اپنے پاس مہیا رکھتا تھا۔ اسی طرح یہ کام جاری تھا کہ عیدالاضحیہ آگئی مرزا صاحب مرحوم نے قربانی کا گوشت گائوں میں تقسیم کیا تو شدھی قبول کرنے والوں کے کام ودہن بھی اس سے محروم نہ رہے۔ آریہ پرچارکوں کو جب اس کا علم ہوا تو وہ سرپیٹ کر رہ گئے۔ آخر ایک بڑا مجمع کرکے انہوں نے اشتعال انگیز تقریریں کیں کہ اس مولوی نے گوشت کی چند بوٹیوں سے تمہارا دھرم بھرشٹ کردیا اور ہمارا صرف کثیر اور محنت سب اکارت گئے۔ نتیجہ یہ تھا کہ تیس چالیس بلوائیوں نے مولوی صاحب مرحوم پر ہلہ بول دیا` انہیں زدوکوب کیا اور چھپر ان کے اوپر گرا دیا۔ پھر انہیں زمین پر گھسیٹا اور قتل پر آمادہ ہوگئے۔ لیکن انہی میں سے چند ملکانے جو مولوی صاحب کے زیر بار احسان تھے مانع آئے اور مولوی صاحب مرحوم کی جان سلامت رہی۔ پھر انہوں نے تقاضا کیا کہ ہمارے گائوں سے نکل جائو۔ مرحوم نے مومنانہ عزم و استقلال سے جواب دیا کہ یہ گائوں میرے امام نے میرے سپرد کیا ہے میں اپنا کام کسی صورت میں چھوڑ نہیں سکتا۔ ~}~
تاسر نہ دہم پانکشم ازسر کویش
نامری و مروی قدمے فاصلہ دارد
ایسے پرخطر ماحول برابر اپنے فرض پر جمے رہے۔ آگرہ ہمارا تبلیغی مرکز تھا وہاں بھی بعد میں اطلاع ہوئی۔ مرحوم کا یہ نمونہ ایسا اعلیٰ تھا کہ خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس پر خوشنودی کا اظہار فرمایا اور ہمارے دوستوں کے حوصلے بلند سے بلند تر ہوگئے۔
حالات کا تقاضا تھا کہ مجرموں کے خلاف مقدمہ چلایا جائے تاکہ دوسرے مبلغین کے خلاف اس قسم کی شرارتیں آریوں کی طرف سے برپا نہ ہوں اور اس کا قوی احتمال بھی تھا۔ پولیس نے بعد تفتیش ملزمان کا چالان نہ کیا تو مولوی صاحب مرحوم کی طرف سے استغاثہ دائر ہوگیا اور شہر متھرا میں بعدالت انگریز مجسٹریٹ مسٹر فرامپٹسن سماعت شروع ہوئی۔ ان دنوں تبلیغی سفر دور ونزدیک کرنے پڑتے تھے۔ ساتھ نہ سامان نہ بستر ~}~
سبکبار مردم سبک تر روند
حق ایں است صاحبدلاں بشنوند
بارہا ایسا اتفاق ہوا کہ کچھ رات گئے گاڑے متھرا سٹیشن پر پہنچی۔ کوئی ٹھکانہ تو تھا نہیں ہم پلیٹ فارم پر ہی ایک طرف کو ایک چادر بچھا کر پڑ رہتے تھے اور مرزا صاحب مرحوم کی زندہ دلی اور خوش طبعی سے باتوں باتوں میں وقت کٹ جاتا اور خود ان کاموں میں ایسی لذت اور سرور محسوس کرتے تھے کہ گویا کوئی مشکل` کوئی بات ہی نہیں۔ مرحوم اس وقت جوڈیشنل کمشنر پشاور کے ریڈر تھے اور اپنی قابلیت اور دیانت کی وجہ سے ممتاز اور معتمد علیہ۔ ناموافق حالات کے ماتحت مقدمہ کی کامیابی بظاہر مشکل نظر آتی تھی لیکن مرحوم کی ذہانت تدبیر اور خصوصاً شبانہ روز دعائوں نے اس مہم کو آسان کرکے چھوڑا۔ مقدمہ کی پیشی کے دن مرحوم کا قاعدہ تھا کہ احاطہ عدالت میں ایک طرف جاکر عالم تنہائی میں گھنٹوں سربسجدہ اور دست بدعا رہتے اور جب مقدمہ کے لئے آواز پڑتی تو اکثر وہ جائے نماز سے اٹھ کر ہی عدالت کے کمرے میں جاتے۔ یہی ان کا معمول اور وظیفہ تھا۔ اور بایں ہمہ ان کی خود اعتمادی` زندہ دلی اور بے تکلفی میں ذرا فرق نہ آتا تھا ہر وقت خوش نظر آتے تھے اور میں انہیں زندہ دل صوفی کہا کرتا تھا۔
اس زمانہ کی ڈائری اتفاق سے میرے پاس محفوظ رہ گئی ہے جس کا ایک ورق مندرجہ بالا کیفیت کا آئینہ دار ہے اور یہ تاریخ فیصلہ مقدمہ سے متعلق ہے۔ وھو ھذا:۔
>۳۔ اکتوبر ۱۹۲۳ء بروز بدھ ۲/۹۱ بجے کچہری پہنچے۔ ہم ورجا میں انتظار و دعا کرتے رہے۔ اتنے میں بارہ بج گئے۔ ہاں رات پیشکار صاحب کو خواب آیا کہ چلتے چلتے ان کی ایڑیاں زخمی ہوگئیں کسی نے مرہم لگایا اور اچھی ہوگئیں۔ اسی شب مجھے دو خواب آئے ایک میں مجسٹریٹ سے میں کہہ رہا ہوں کہ مقدمہ صاف ہے سزا کیوں نہیں دیتے۔ اس نے کہا کہ مستغیث کا بیان کچھ کمزور ہے۔ میں نے کہا حالات کے ماتحت ایسا ہی بیان ہونا چاہئے تھا۔ اس نے کہا اچھا میں سزا تجویز کرتا ہوں اور ایک ملزم تو خود مجھے آکر کہہ گیا ہے کہ اس کے دو بید لگا دو اور فیصلہ لکھنا شروع کیا۔ اسی طرح پیشکار صاحب کو اسی شب خواب آیا کہ عبداللہ سقہ ساکن اسپار نے ایک سانپ ایک سوٹی میں بند کرکے دیا اور چوہدری فتح محمد صاحب نے اسے مار ڈالا۔ صبح ہم نے ایک دوسرے کو خوابیں سنائیں اور کچہری روانہ ہوئے۔ ایک بجے کے قریب آواز پڑی۔ ۱۶ ملزمان میں سے ۱۳ کو سزا ہوئی اور ایک ایک سال کے لئے حفظ امن کی ضمانتیں ملزمان سے لی گئیں اور جرمانہ میں سے یک صد )۱۰۰( روپیہ مستغیث کو حرجانہ دلایا گیا۔ ہمارے دل سجدے میں جھک گئے۔ لپک کر ڈاک خانہ گئے۔ تار بخدمت حضرت صاحب اور خطوط لکھے گئے۔ ملزمان اور ان کے آریہ مربی اور وکلاء مبہوت اور ہم اور ہمارے ملکانے ہمراہی مسرور تھے۔ پیشکار صاحب اسی وقت اسپار جانے کے لئے مشتاق۔ لیکن صلاح ٹھہری کہ اس رات پیشکار صاحب اسپار کی بجائے مانا کے بنگلے ٹھہریں سردار خان آکر اطلاع دے۔ خیال ہے کہ فوری رنج کا اثر زائل ہوکر صبح دیہہ میں امن ہوجائے گا<۔ >دوسرے دن سات اخبارات کے نام فیصلہ مقدمہ کی تاریں دے دی گئیں<۔
مرحوم عجیب مستقیم الحال انسان تھے مقدمہ ختم ہوتے ہی پھر اپنے کام پر جاڈٹے۔ پھر وہی مسجد کا کچا کوٹھہ وہی چھپر اور پھر وہی تبلیغ کا سلسلہ تھا اور پھر
حریفاں را نہ سرماند ونہ دستار
اس کے ایک ماہ بعد بہت سے ملکانے ضلع اسپار کے باشندے واپس اسلام میں داخل ہوئے اور مولوی صاحب کی دعائیں مستجاب ہوئیں۔ مضمون لمبا ہوگیا۔ ~}~
لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم
لیکن تین باتیں ابھی قابل ذکر ہیں۔ ایک دن مولوی مولوی صاحب مرحوم غمناک لہجے میں فرمانے لگے کہ بھئی میں نے تو ابھی وہ کام نہیں کیا جو کرنا چاہئے تھا تین ماہ کی رخصت نے آکر دوبارہ آئوں گا۔ اس قدر احساس و ایثار کے باوجود ان کا یہ بے ساختہ انکسار بہت ہی دور انگیز تھا۔ انہی ایام میں اسپار کے آریہ پرچارک نے کچھ حلوا پوری ایک تیہوہار کی تقریب پر مولوی کے لئے بھیجا مرحوم فوراً اس کی چال کو بھانپ گئے اور لانے والے کو سختی سے ٹوکا کہ پنڈت جی سے جاکر کہہ دو کہ ع
عطائے تو نجشیدم بہ لقائے تو
یہ ناپاک کھانا ہم نہیں کھاسکتے۔ بات یہ تھی کہ آریوں کی عامیانہ اور چلتی ہوئی دلیل ان دنوں میں ایک یہ بھی تھی کہ مسلمان ادنیٰ ہوتے ہیں اس لئے ہندوئوں کے ہاتھ کا کھالیتے ہیں اور ہندو اعلیٰ ہونے کی وجہ سے مسلمان کے ہاتھ کا نہیں کھاتے۔ مبلغین کو ان ایام میں خصوصیت سے ہدایت تھی کہ ہندوئوں کے ہاتھ کی کوئی چیز قطعاً نہ کھائیں۔
استغاثہ کے دو گواہ غیاثی اور سردار خان نامی موضع اسپار کے دو ملکانے تھے جنہوں نے مولوی صاحب کے فیض صحبت کی بدولت بڑی ہمت دکھائی اور اپنے دیہہ کے جتھے کے خلاف بحق استغاثہ شہادت دی تھی۔ اس کے بعد دیہہ میں ان کا رہنا آسان نہ تھا دونوں قادیان چلے گئے اور مجھے یہ معلوم ہے کہ مولوی صاحب مرحوم کئی سال تک اپنے پاس سے ماہانہ وظیفہ ان کو دیتے رہے<۔۹۵
حضرت مرزا غلام رسول صاحب دعاگو اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ پنجوقتہ نمازوں کے علاوہ تہجد کا بہت التزام کرتے تھے۔ آپ کی دعائوں میں اتنا سوز اور اتنی شدت والحاح ہوتا تھا کہ بسا اوقات یوں معلوم ہوتا کہ آپ کے سینہ میں ایک ہندیا ابل رہی ہے۔ آپ کو دعائوں کی تاثیرات پر زبردست ایمان تھا۔ آپ نے ایبٹ آباد میں مکان بنانے کے لئے زمین خریدی تو صوبہ سرحد کے ایک بڑے اور مقتدر شخص نے آپ پر مقدمہ دائر کردیا اور کہا کہ میں یہاں مرزائیوں کے قدم نہیں جمنے دوں گا۔ قانونی طور پر اس کا کیس بظاہر بہت مضبوط تھا مگر آپ نے جرات ایمانی سے کہا کہ اب انشائاللہ مجھے ضرور کامیابی ہوگی کیونکہ اب تمہارا مقابلہ غلام رسول سے نہیں بلکہ احمدیت سے ہے چنانچہ عجیب تصرف الٰہی کے ماتحت اس مقدمہ کا فیصلہ آپ کے حق میں ہوگیا۔
تلاوت قرآن کریم نہایت ذوق و شوق سے کرتے تھے۔ فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی کثرت سے رکھتے تھے۔ بیکسوں` مظلوموں` مسکینوں اور غریبوں کی امداد کے لئے آپ کے اندر ایک خاص جوش تھا اور آپ اس میں روحانی لذت و فرحت محسوس کرتے تھے۔ بعض موقعوں پر آپ نے اپنی ملازمت تک کو خطرے میں ڈال کر صوبہ سرحد کی عظیم شخصیتوں کے مقابلے میں بعض غریب` مظلوم اور بیکس لوگوں کی علی الاعلان مدد کی۔ آپ کے گھر میں مہمانوں کا عموماً تانتا بندھا رہتا تھا۔
آپ ۱۲۔۱۹۱۱ء میں پشاور گورنمنٹ ہائی سکول کے استاد ہوکر آئے مگر جلد مدرسی ترک کرکے دفتر سیشن جج پشاور میں انگریزی مترجم مقرر ہوئے اور رفتہ رفتہ ترقی کرکے سیشن جج کے مثل خواں مقرر ہوئے۔ بالاخر جوڈیشنل کمشنر کے ریڈر )مثل خواں( بنا دئے گئے۔
آپ سرحد ہائی کورٹ کے نہایت کامیاب اور ماہر سینئر ریڈر تھے اور بڑے سے بڑے افسر بھی آپ کی قانونی باریک نظری اور تبحر معلومات کے قائل اور آپ کی محنت` دیانتداری اور پاکیزگی کے معترف تھے۔ صوبہ سرحد کی ہائی کورٹ کے انگریز چیف جج اور جوڈیشنل کمشنر مسٹر فریزر نے بعض ناجائز تصرفات یعنی رشوت لینے میں آپ سے مدد لینا چاہی مگر آپ نے صاف انکار کردیا اور صاحب کی مخالفت کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی ملازمت تک خطرے میں پڑگئی۔ آپ نے دعا کی تو آپ کو بتایا گیا کہ اتنی دفعہ متواتر یہ بھی دعا کرو لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین اور تہجد بھی پڑھو۔ چنانچہ آپ نے تہجد اور دعائوں کا خاص مجاہدہ کیا۔ چندہ دن بعد آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی آنکھیں انگارے کی طرح سرخ ہوگئی ہیں اور جس شخص کی طرف آپ دیکھتے ہیں وہ مرجاتا ہے۔ اسی اثناء میں آپ نے دیکھا کہ انگریز چیف جج بھی آپ کے سامنے آیا اور مرگیا۔ چند روز بعد اس کو سل کے مرض کی تشخیص ہوئی اور وہ چھٹی لے کر ولایت چلا گیا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا۔
آپ مالی قربانی کو خاندانی اور قومی ترقی کا ذریعہ سمجھتے اور سلسلہ احمدیہ کی مالی تحریکوں میں ضرور حصہ لیتے تھے چنانچہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ سرحد کا بیان ہے کہ:۔
>اپنے چندوں میں باقاعدہ تھے۔ موصی تھے۔ ہر مرکزی تحریک میں ضرور حصہ لیتے بلکہ مقامی چندوں میں بھی امداد کرنے سے دریغ نہ کرتے۔ ایک دفعہ ۱۹۱۲ء میں خاکسار نے حقیقتہ المسیح نامی کتاب لکھی طباعت کے واسطے روپے کی ضرورت تھی۔ مولوی صاحب کو معلوم ہوا تو آپ نے بیوی سے ذکر کیا کہ میرے پاس اس وقت کوئی پیسہ نہیں ہے۔ یہ کتاب تبلیغ کے لئے چھاپنی ضروری ہے۔ ان کی بیوی صاحبہ نیکی میں ان کے نقش قدم پر تھیں انہوں نے اپنے زیور اتار کر دے دیئے<۔۹۶
خلیفہ وقت سے عقیدت و شیفگتی کا یہ عالم تھا کہ مرض الموت میں جب کہ آپ بستر مرگ پر تڑپ رہے تھے آپ نے اپنے فرزند مرزا عبداللہ جان صاحب سے کہا کہ کل حضور ربوہ میں مسجد مبارک کی بنیاد رکھیں گے اس موقع پر مسجد احمدیہ پشاور میں بھی اجتماعی دعا ہوگی تم نے اس میں ضرور شامل ہونا ہے۔
آپ آخر دم تک قرآنی آیات اور دعائوں کا ورد کرتے رہے۔ >مومن اگر تقویٰ و طہارت سے کام لے تو کبھی نہیں مرتا< >صالح بنو` متقی بنو خدا تمہاری مدد کرے گا< آپ کے آخری الفاظ تھے۔۹۷
آپ کا جنازہ آپ کے چھوٹے بھائی مرزا غلام حیدرؓ وکیل نوشہرہ نے پڑھایا اور آپ امانتاً احمدیہ قبرستان پشاور میں سپرد خاک کئے گئے۔۹۸
۵۔ حضرت منشی سید صادق حسین صاحب مختارؓ اٹاوہ )یوپی( ولد حکیم وارث علی صاحب
)بیعت۹۹ ۱۱۔ اپریل ۱۸۸۹ء` وفات۱۰۰ ۶۔ اخاء ۱۳۲۸ہش مطابق ۶۔ اکتوبر ۱۹۴۹ء بعمر نوے )۹۰( سال( ۳۱۳ اصحاب کبار میں
آپ کا نام ۱۳۸ نمبر پر درج ہے۔۱۰۱
داخل احمدیت ہونے سے قبل بھی آپ کا شمار یوپی کے کامیاب اور مشہور وکیلوں میں ہوتا تھا۔ آپ اردو` فارسی اور عربی زبانوں میں یدطولیٰ رکھتے تھے اور علمی حلقوں میں آپ کا سکہ بیٹھا ہوا تھا۔ شعر وادب کا شوق ابتداء ہی سے تھا۔ ایام جوانی میں آپ نے >صبح صادق< کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کیا جس میں سیاسی` ادبی و علمی مضامین کے علاوہ مشاہرہ کی چیدہ چیدہ نظمیں بھی شائع کی جاتی تھیں۔ یہ مشاعرہ آپ ہی کے زیر اہتمام ہوتا تھا اور اس میں نواب فصیح الملک داغ دہلوی اور ملک الشعراء حضرت امیرمینائی لکھنوی ہر ماہ مصرعہ طرح پر اپنا کلام بھیجتے جو اس رسالہ کی زینت ہوا کرتا تھا۔
حضرت منشی صاحبؓ اٹاوہ` مین پوری` آگرہ` کانپور وغیرہ اضلاع میں احمدیت کا ایک محکم ستون تھے` آپ کی دیانت اور انصاف پروری کا یہ عالم تھا کہ غیراحمدی دوست بھی اپنے تنازعات میں آپ کو بخوشی ثالث بناتے اور بلاچون وچرا آپ کا فیصلہ قبول کرلیتے تھے۔ اٹاوہ میں انجمن حمایت اسلام نے ایک مڈل سکول جاری کررکھا تھا جس کا سال میں ایک مرتبہ ایک جلسہ بھی ہوتا تھا جس میں علماء مذہبی تقریریں کرتے تھے۔ ایک بار دوران جلسہ مسلمانوں اور آریوں کے مابین مباحثہ منعقد ہوا جس کی صدارت کے لئے مسلمانوں نے خاص طور پر آپ کا انتخاب کیا۔ آپ کے نیک نمونہ اور تبلیغ سے بیسیوں لوگ احمدی ہوئے۔۱۰۲]body [tag
آپ کی پوری عمر قلمی جہاد میں گزری۔ آپ کے زوردار معلومات افزا اور محققانہ مضامین رسالہ >تشحیذ الاذہان< >ریویو آف ریلیجنز< اور الفضل میں شائع ہوتے تھے۔ شیعہ لٹریچر پر آپ کو خاص دستگاہ تھی اور حضرت منشی خادم حسین صاحبؓ بھیروی کی طرح اس تحریک کے بہترین ناقد و مبصر تھے۔ لکھنو کے ایک مجہد العصر سے آپ کا تحریری مناظرہ ہوا مگر آٹھ دس پرچوں کا جواب دینے کے بعد وہ میدان چھوڑ گئے۔
آپ کی مختصر لائبریری میں بعض لاجواب اور نایاب قلمی نسخے موجود تھے۔۱۰۳ رسالہ >صبح صادق< اور اخبار >اظہار الحق< کے علاوہ آپ کے قلم سے مندرجہ ذیل تالیفات شائع ہوئیں:۔
صادق کلمات۔ ثنائی ہفوات۔ ازالتہ الشکوک )رد آریہ سماج( الحق دہلی۔ تصدیق کلام ربانی )رد آریہ( مثنوی پیام صادق۔ تبلیغی خط۔ تحفتہ الشیعی نمبر ۱` نمبر ۲` نمبر ۳۔ سیف اللہ القہار علی رئوس الاشرار` صمصام الحق )رد شیعہ تحریک( اٹاوہ میں شیعہ سنی تحریری مباحثہ۔ ترکیب بند صادق منظوم۔۱۰۴ کشف الاسرار )قبر مسیح(
۶۔ حضرت ملک مولا بخش صاحبؓ:
‏]text )[tagولادت۱۰۵ اندازاً ۱۸۷۹ء` بیعت و زیارت۱۰۶ دسمبر ۱۹۰۰ء` وفات۱۰۷ ۲۷` ۲۸۔ اخاء ۱۳۲۸ہش مطابق اکتوبر ۱۹۴۹ء(
ملک صاحب نے حضرت مہدی معہودؑ کی پہلی زیارت مباحثہ آتھم کے دوران ۱۸۹۳ء میں کی۔ ان دنوں حضورؑ امرتسر میں رونق افروز تھے۔ میاں نبی بخش صاحب رفوگر امرتسری نے حضورؑ کے اعزاز میں ایک دعوت دی۔ میاں صاحب کے مکان کے ساتھ ہی ملک صاحب کرایہ کے مکان میں رہتے تھے۔ یہ مکان کٹڑا اہلووالیہ کوچہ شیخ کمال الدین میں واقع تھا اور وسیع تھا اس لئے اس کے صحن میں حضرت اقدسؑ کو بٹھایا گیا۔ ملک صاحب نے اس وقت اپنے کوٹھے پر سے حضورؑ کو دیکھا۔ ۱۸۹۹ء میں آپ بیمار ہوگئے اور بغرض علاج حضرت مولانا نور الدینؓ کی خدمت میں قادیان پہنچے اور عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سل کا مرض ہے جو لاعلاج ہے۔ اس پر حضرت مولانا صاحبؓ نے بڑے جوش سے کہا حکیموں کے بادشاہ نے فرمایا ہے لکل داء دواء ہر بیماری کی دوا ہے۔ حضرت مولوی صاحب نے ایک دوا تجویز فرمائی جس کے استعمال سے آپ کوئی دو ہفتہ میں شفایاب ہوگئے سفر قادیان میں امرتسر کے ممتاز صحابی حضرت ڈاکٹر عباداللہ صاحب آپ کے ساتھ تھے۔ اس تعلق کی وجہ سے ملک صاحب ڈاکٹر صاحب کے محلہ میں ہی مقیم ہوگئے اور ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بعض کتب حاصل کرکے مطالعہ کرتے رہے۔ اسی اثناء میں ایک دفعہ حضرت مولوی محمد احسن صاحبؓ امروہی نے مسجد احمدیہ امرتسر میں خطبہ جمعہ پڑھا اور سورۃ نور کی آیت استخلاف سے حضرت اقدس علیہ السلام کی صداقت پر استدلال کیا۔ چند روز بعد آپ کو >شہادۃ القرآن< کے مطالعہ کا موقع ملا اور آپ دل سے احمدی ہوگئے اور دسمبر ۱۹۰۰ء کے سالانہ جلسہ پر حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔
ملک صاحب موصوف کو سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ مبارک میں کئی بار قادیان جانے اور حضور سے روحانی فیض اٹھانے کا موقع ملا۔
ماسٹر عبدالحق صاحب قصوری بی۔ اے سابق طالب علم مشن کالج لاہور نے جو عرصہ تین سال سے عسائی تھے ۲۶۔ دسمبر ۱۹۰۱ء کو پانچ سوالات لکھ کر پیش کئے جس کے جواب میں حضورؑ نے مفصل تقریر فرمائی۔۱۰۸ ملک صاحب موصوف کو یہ تقریر سننے کا شرف حاصل ہے۔ ماسٹر عبدالحق صاحب اس تقریر سے متاثر ہوکر اسلام لے آئے۔۱۰۹
ملک صاحب فرماتے ہیں:۔
)>۱۹۰۳ء میں( صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے کابل میں سنگسار ہونے کے فوراً بعد ہم قادیان گئے تو مغرب کی مجلس کے بعد اس کا تذکرہ تھا۔ غالباً احمد نور صاحبؓ کابلی آئے تھے اور انہوں نے حالات سنائے تھے۔ حضور کو سخت صدمہ تھا۔ حضور نے ارادہ ظاہر فرمایا کہ ہم اس کے متعلق ایک کتاب لکھیں گے۔ مجھے چونکہ حضورؑ کے فارسی اشعار سے بہت محبت ہے میں نے عرض کیا حضور کچھ فارسی اشعار بھی ہوں۔ حضورؑ نے جھٹ فرمایا نہیں ہمارا مضمون سادہ ہوگا۔ لیکن جب کتاب تذکرۃ الشہادتین شائع ہوئی تو اس میں ایک لمبی پردرد فارسی نظم تھی۔ مجھے اس وقت خیال آیا کہ کیسے پاک لوگ ہیں اپنے ارادہ سے نہیں بلکہ صحیح ربانی تحریک کے ماتحت کام کرتے ہیں ورنہ ان کو شعر گوئی سے کوئی نسبت نہیں<۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آخری سفر دہلی سے واپسی پر ۹۔ نومبر ۱۹۰۵ء کی صبح کو رائے کنہیالال صاحب وکیل ک لیکچر ہال امرتسر میں تقریر فرمائی جس کے دوران ایک ہنگامہ عظیم برپا کردیا گیا۔ ملک صاحب اس ہنگامہ کے وقت لیکچر ہال میں موجود تھے چنانچہ وہ اس واقعہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:۔
>جب ہم نے دیکھ لیا کہ حضورؑ جاچکے تو ہم حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کے ہمراہ ۔۔۔۔۔۔۔ باہر بازار میں نکلنے لگے کسی شخص نے حضرت مولوی صاحبؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور ٹھہرجاویں لوگ پتھر ماررہے ہیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے ایک درد بھرے دل سے کہا وہ گیا جس کو مارتے تھے مجھ کو کون مارتا ہے یہ ہر کسی کو نصیب نہیں<۔
ملک صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انتقال کی المناک اطلاع کیسے ملی؟ اس واقعہ پر آپ درج ذیل الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں:۔
>حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کی خبر میرے ایک چچا صاحب نے مجھے اس وقت دی جب میں عدالت مطالبہ خفیفہ امرتسر میں ایک عرضی دعویٰ کا انگریزی ترجمہ کررہا تھا۔ اس وقت گو چند لمحوں کے لئے ایسا ہوا مگر میری نظر بالکل جاتی رہی اور سامنے پڑے ہوئے کاغذ کے حروف نظر نہ آتے تھے۔ دوسرے روز ہم بمعہ ڈاکٹر عباداللہ صاحبؓ اور دوسرے دوستوں کے صبح کی گاڑی سے بٹالہ اور وہاں سے یکہ پر قادیان گئے۔ وہاں حضورؑ کے چہرے کو جو اس وقت بھی نورانی تھا دیکھا۔ انتخاب خلافت )اولیٰ( ہوا اور پہلے جن لوگوں نے بیعت کی ان میں میں نے بھی خلافت اولیٰ کی بیعت کا شرف حاصل کیا<۔۱۱۰
۱۹۳۴ء میں آپ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم پر نائب ناظر بیت المال مقرر کئے گئے۔ ازاں بعد حضور نے آپ کو اراضیات سندھ کی نگرانی کے لئے بھجوایا جہاں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد آپ بیمار ہوگئے۔ طبیعت سنبھل جانے پر قادیان آگئے تو حضرت امیرالمومنین نے آپ کو ناظم جائیداد کی خدمت سپرد فرمائی جس پر آپ آخر عمر تک فائز رہے۔
بالفاظ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بہت زندہ دل خوش مزاج بزرگ تھے<۔ قرآن عظیم کے مطالعہ اور اس پر غور و تدبر کرنے کا بہت شوق تھا۔ جب کسی آیت کی لطیف تفسیر ذہن میں آتی اسے نوٹ کرلیتے اور اپنے بچوں کو سناتے تھے۔ >الفضل< اور >ریویو آف ریلیجنز< انگریزی میں آپ کے کئی مضامین چھپے ہوئے ہیں۔ ہومیو پیتھی دوائیں ہمیشہ گھر میں رکھتے اور مفت دیا کرتے تھے۔ آپ کے اخلاق میں تحمل` ملنساری` جرائت` اور اصابت رائے اور موقع شناسی کے اوصاف بہت نمایاں تھے ماتحتوں سے عمدہ سلوک تھا۔ بہت اچھے دوست اور دوستوں کے لئے قربانی کا مادہ رکھتے تھے۔ عرصہ تک عدالتوں میں کام کرنے کے باعث مروجہ قانون سے خوف واقف تھے۔ ڈرافٹ تیار کرنے اور خلاصہ نکالنے میں ماہ تھے اور اسی لئے حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں اپنے سامنے اپیلیں پیش کرنے کا فریضہ بھی سونپ رکھا تھا۔ غیر احمدی اور ہندو وکیل بھی آپ کے مداح تھے۔ دوران ملازمت جہاں جہاں گئے سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ میں سرگرم رہے اور کئی لوگوں کی ہدایت کا موجب بنے۔ نظام الوصیت سے بھی وابستہ تھے اور تحریک جدید کے دفتر اول کے مجاہدوں میں سے تھے۔
سیالکوٹ میں وفات پائی اور قبرستان سائیں مونگا ولی میں بطور امانت دفن کئے گئے۔۱۱۱
۷۔ میاں نور محمد صاحبؓ کھوکھر امیرپور ضلع ملتان۱۱۲:۔
)ولادت ؟ بیعت۱۱۳ ۱۵۔ اگست ۱۹۰۷ء` وفات۱۱۴ ۲۸۔ اخاء ۱۳۲۸ہش بعمر ۷۴ سال(
میاں نور احمد صاحب مدرس امدادی بستی وریام کملانہ ڈاک خانہ ڈب کلاں تحصیل شور کوٹ ضلع جھنگ جن کا ذکر حضرت مہدی معہودؑ نے حقیقتہ الوحی کے نشان نمبر ۱۴۱ میں فرمایا ہے آپ کے چھوٹے بھائی تھے۔ میاں نور احمد صاحب نے آپ کو تبلیغ بھی کی اور حق پانے کے لئے استخارہ بھی بتایا اور ایک حمائل شریف مترجم حضرت شاہ رفیع الدین~رح~ بھی دی کہ اسے بلاناغہ پڑھیں اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگتے رہیں۔ تلاوت قرآن مجید اور استخارہ کے نتیجہ میں آپ کو پروانہ وار بیعت اور حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کا شوق پیدا ہوگیا اور آپ مولوی محمد فاضل صاحب احمدی کو ساتھ لے کر قادیان پہنچے۔ چار پانچ روز مسجد مبارک میں حضرت اقدسؑ کے ساتھ نماز باجماعت ادا کی۔ ۱۵۔ اگست ۱۹۰۷ء کو بوقت عصر حضورؑ تشریف لائے تو آپ بیعت کے لئے آگے بڑھے بیعت کے بعد حضورؑ نے ان سے ملتان کے کوائف دریافت فرمائے اور پوچھا کہ اس طرف سلسلہ کی مخالفت کثرت سے نہیں۔
آپ نے عرض کیا بہت لوگ مخالف ہیں۔ اس پر حضرت اقدسؑ نے ایک روح پرور تقریر فرمائی جس کے آخری الفاظ یہ تھے:۔
>خدا تعالیٰ کی قدرت دیکھو کہ جہاں ہماری مخالفت میں زیادہ شور اٹھا ہے وہاں ہی زیادہ جماعت تیار ہوئی ہے جہاں مخالفت کم ہے وہاں ہماری جماعت بھی کم ہے<۔
حضور~ع۱~ کی تقریر مع کوائف ملتان الحکم ۲۴۔ اگست ۱۹۰۷ء میں چھپ چکی ہے۔
میاں نور محمد صاحب غریبوں کے ہمدرد اور منکسر المزاج تھے۔ نماز تہجد کے باقاعدہ پابند تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے۔ خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے بے انتہا محبت تھی۔ ترقی احمدیت` درویشان قادیان اور مبلغین سلسلہ اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے لئے درد دل سے دعائیں کیا کرتے تھے۔ گنگا رام ہسپتال لاہور میں فوت ہوئے۔ جنازہ حضرت مصلح موعودؓ نے پڑھایا اور تدفین قبرستان ربوہ میں ہوئی۔۱۱۵
‏tav.12.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
۸۔ حضرت منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹیؓ:۔
)ولادت ۶۷۔۱۸۶۶ء` زیارت ۱۸۹۳ء` بیعت ۱۹۰۰ء وفات ۱۰۔ دسمبر ۱۹۴۹ء(
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کے پھوپی زاد بھائی تھے۔ سیالکوٹ کے اکابر صحابہ حضرت حسام الدین صاحبؓ` حضرت میر حامد علی شاہ صاحبؓ` حضرت چوہدری نصراللہ خان صاحبؓ آپ سے بوجہ تقویٰ اور پارسائی بہت محبت رکھتے تھے۔ تبلیغ احمدیت کا خاص شغف تھا۔ خلافت اولیٰ کے عہد مبارک میں آپ کو قادیان بلا لیا گیا۔ آپ قادیان اور اس کے ماحول میں قرآن پڑھاتے اور پیغام احمدیت پہنچاتے رہے تھے۔ کئی لوگ آپ کے نیک نمونہ سے شامل احمدیت ہوئے۔ سلسلہ کی ہر تحریک پر لبیک کہتے تھے۔ آپ موصی تھے اور تحریک جدید کا چندہ اعلان ہوتے ہی ادا کردیتے تھے۔ آپ نے چندہ مسجد لنڈن اور تراجم القرآن کی تحریک میں بھی حصہ لیا۔ حضرت منشی صاحبؓ کو ارتداد ملکانہ کے دوران ۱۹۲۳ء اور ۱۹۲۴ء میں ¶دوبار علاقہ اجمیر میں بھیجا گیا۔ ۱۹۳۹ء میں آپ نے چار ماہ تک مکیریاں اور مہت پور ضلع ہشیارپور میں تبلیغ کی ہمیشہ درثمین اردو اپنے پاس رکھتے اور بغرض تبلیغ تقسیم کیا کرتے تھے۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ان کی وفات پر فرمایا:۔
>منشی محمد اسمعیل صاحب نہایت سادہ طبع` نیک اور صاحب الہام آدمی تھے ان کو کثرت سے الہام ہوتے تھے۔ اور وہ کثرت سے دعائیں کنے والے انسان تھے۔ نماز تہجد کے اتنے پابند تھے کہ بیماری کی حالت میں بھی تہجد نہیں چھوڑی۔ آپ حال میں ہی سیالکوٹ میں فوت ہوئے ہیں۔ آپ مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی بڑی بیوی )جن کو مولوی صاحب کی وجہ سے ہم مولویانی کہا کرتے تھے( کے بھائی تھے۔ نہایت مخلص اور اچھے نمونہ کے احمدی تھے اور تبلیغ میں اس طرح منہمک رہتے تھے کہ ایسا انہماک بہت کم لوگوں کو نصب ہوتا ہے۔ سکول سے پنشن لی اور ریل اور ڈاکخانہ کے محکموں میں جو کوئی ہندو قادیان آجاتا اس کو پکڑ لیتے اور اسے قرآن کریم پڑھانا شروع کردیتے۔ میں نے خود ایک ہندو کو دیکھا ہے جس نے ان سے قریباً بیس سپارے ترجمہ کے ساتھ پڑھ لئے تھے۔ وہ دل سے مسلمان تھے۔ اب شاید پارٹیشن کے بعد وہ ہندوستان چلا گیا ہو کیونکہ اس کا نام ہندوانہ ہی تھا لیکن دراصل وہ مسلمان تھا۔ نمازیں پڑھتا تھا۔ اسی طرح روزے بھی رکھتا تھا۔ وہ صرف انہی کے طفیل اور ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں مسلمان ہوا تھا<۔۱۱۶
حضرت حافظ جمال احمد صاحبؓ مجاہد ماریشس:۔
آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ان ممتاز صحابہ مژیں سے تھے جو عنفوان شباب سے حضورؑ کے دامن سے وابستہ ہوئے اور مئی ۹۸ء میں بمقام عزت لاہور حضرت اقدسؑ کی زیارت سے مشرف ہوئے چنانچہ ¶فرماتے ہیں:۔
>میرے والد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زندگی میں بذریعہ خط حضور اقدسؑ کی بیعت کی تھی اور میں اس وقت قریباً پندرہ سولہ برس کا تھا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام آخری ایام میں لاہور میں قیام فرما تھے لاہور میں آیا اور مجھے حضورؑ کی زیارت نصیب ہوئی اور میری آمد سے پندرہ سولہ روز بعد حضورؑ اس دارفانی سے رحلت فرما گئے<۔۱۱۷
حضرت حافظ صاحب کو صحابہ حضرت مسیح موعودؑ میں یہ منفرد خصوصیت حاصل ہے کہ آپ اکیس برس تک ماریشس میں جہاد تبلیغ میں سرگرم عمل رہے۔ آپ ۲۷۔ جولائی ۱۹۲۸ء کو قادیان سے ماریشس پہنچے اور ۲۷۔ فتح ۱۳۲۸ہش/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو ماریشس میں ہی انتقال فرما گئے اور سینٹ پیری میں سپرد خاک کئے گئے۔۱۱۸ آپ کی وفات کی اطلاع پر حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے ۳۰۔ دسمبر ۱۹۴۹ء کو جو خطبہ دیا اس میں آپ کی وفات کو نشان قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ
>حافظ جمال احمد صاحب کی وفات اپنے اندر ایک نشان رکھتی ہے اور وہ اس طرح کہ جب وہ ماریشس بھیجے گئے تو اس وقت جماعت کی مالی حالت بہت کمزور تھی اتنی کمزور کہ ہم کسی مبلغ کی آمدورفت کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ میں نے تحریک کی کہ کوئی دوست اس ملک میں جائیں۔ اس پر حافظ صاحب مرحوم نے خود اپنے آپ کو پیش کیا یا کسی اور دوست نے تحریر کیا کہ حافظ جمال احمد صاحب کو وہاں بھیج دیا جائے۔ چونکہ پہلے وہاں صوفی غلام محمد صاحب تھے اور وہ حافظ تھے اس لئے احباب جماعت نے وہاں ایک حافظ کے جانے کو ہی پسند کیا۔ گو صوفی غلام محمد صاحب بی۔ اے تھے اور ان کی عربی کی لیاقت بھی بہت زیادہ تھی اور حافظ جمال احمد صاحب غالباً مولوی فاضل نہیں تھے ہاں عربی تعلیم حاصل کی ہوئی تھی اور قرآن کریم حفظ کیا ہوا تھا لیکن بہرحال انہیں صوفی صاحب کی جگہ مبلغ بناکر ماریشس بھیج دیا گیا۔
حافظ صاحب مرحوم کی شادی مولوی فتح الدین صاحب کی لڑکی کے ساتھ ہوئی تھی جنہوں نے شروع شروع میں پنجابی میں کامن لکھے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دعوے سے پہلے کے تعلق رکھنے والے دوستوں میں سے تھے۔ ان کے سسرال کے حالات کچھ ایسے تھے کہ ان کے بعد ان کے بیوی بچوں کا انتظام مشکل تھا اس لئے انہوں نے مجھے تحریک کی کہ انہیں بیوی بچے ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے۔ چونکہ اس وقت سلسلہ کی مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ پیسے پیسے کا خرچ بوجھ معلوم ہوتا تھا اور ادھر حافظ صاحب مرحوم کی حالت ایسی تھی کہ انہیں اپنے بیوی بچے اپنے پیچھے رکھنے مشکل تھے۔ میں نے کہا کہ میں آپ کو بیوی بچے ساتھ لے جانے کی اجازت دیتا ہوں مگر اس شرط پر کہ آپ کو ساری عمر کے لئے وہاں رہنا ہوگا۔ اس وقت کے حالات کے ماتحت انہوں نے یہ بات مان لی اور سلسلہ اور ان کے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ایک لمبے عرصہ کے بعد جب ان کے لڑکے جوان ہوئے اور لڑکی بھی جوان ہوئی انہوں نے مجھے تحریک کی کہ میرے بچے جوان ہو گئے ہیں اس لئے ان کی شادی کا سوال درپیش ہے آپ مجھے واپس آنے کی اجازت دیں تا بچوں کی شادی کا انتظام کرسکوں لیکن میری طبیعت پر چونکہ یہ اثر تھا کہ وہ عہد کے مطابق عمل کرنا چاہئے انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اپنا عہد یاد ہے لیکن میری لڑکی جوان ہوگئی تھی جس کی وجہ سے مجھے واپس آنے کی ضرورت پیش آئی۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں یہیں رہوں تو میں اپنی درخواست واپس لے لیتا ہوں بعد میں محکمہ کی طرف سے بھی کئی دفعہ تحریک کی گئی کہ انہیں واپس بلا لیا جائے لیکن میں نے ہمیشہ یہی کہا کہ انہوں نے عہد کیا ہوا ہے اور اس عہد کے مطابق انہیں وہیں کا ہورہنا چاہئے۔ ابھی کوئی دو ماہ ہوئے میں نے سمجھا کہ چونکہ اب حالات بدل چکے ہیں اور اب نیا مرکز بنا ہے اس لئے ان کو بھی نئے مرکز سے فائدہ اٹھانے کا موقع دینا چاہئے میں نے انہیں یہاں آنے کی اجازت دے دی اور محکمہ نے انہیں واپس بلوا بھیجا لیکن خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں۔ جب تک ان کی اپنی خواہش واپس آنے کو تھی وہ زندہ رہے۔ چونکہ وہ آخری اختیار رکھنے والے نہیں تھے اس لئے اپنی خواہش کے مطابق وہ واپس نہیں آسکتے تھے۔ لیکن جب میں نے اجازت دے دی تو خدا تعالیٰ نے کہا اب ہم اپنا اختیار استعمال کرتے ہیں اور انہیں وہیں وفات دے دی۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ سارے واقعات اپنے اندر ایک نشان رکھتے ہیں۔ ایک شخص عہد کرتا ہے اور سالہا سال تک اس پر پابند رہتا ہے اس کے بعد وہ اسے توڑتا نہیں مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے واپس آنے کی اجازت مانگتا ہے لیکن میں اصرار کے ساتھ ان کی درخواستیں رد کرتا چلا جاتا ہوں اور وہ چپ کرجاتا ہے۔ پھر محکمہ بھی اس کے بلانے پر اصرار کرتا ہے لیکن میں اسے واپس بلانے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ بھی نہیں کہ حافظ صاحب کوئی بڑی عمر کے تھے۔ شاید وہ مجھ سے چھوٹے تھے۔ انہوں نے جب خود واپس آنا چاہا تو میں نے ان کی درخواستیں رد کردیں جب محکمہ نے ان کے واپس بلانے پر اصرار کیا تب بھی میں نے اصرار کیا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں۔ لڑکوں کے متعلق انہوں نے اصرار کیا کہ ان کی تعلیم کا حرج ہورہا ہے تو میں نے کہا اچھا انہیں یہاں بھیج دو چنانچہ ان کا ایک لڑکا لاہور پڑھتا ہے اور سلسلہ کی طرف سے اسے امداد دی جاتی ہے۔ لیکن قادیان سے نکلنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ انہوں نیا ماحول تو دیکھا نہیں اس لئے انہیں واپس بلا لیا جائے اور اس نئے ماحول سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے میں نے انہیں واپس آنے کی اجازت دی۔ لیکن جب اس حکم پر عمل کرنے کا وقت آیا تو خدا تعالیٰ نے انہیں واپس بلا لیا تا وہ اپنے عہد کو پورا کرنے والے بنیں اور منھم من قضی نحبہ کی جماعت میں شامل ہوجائیں۔ اس آیت قرآنیہ میں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ منھم من قضی نحبہ کچھ تو ایسے صحابہؓ ہیں جنہوں نے موت تک اپنے عہد کو نباہا ہے۔ ومنھم من ینظرbody] ga[t اور کچھ ایسے ہیں کہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ انہیں موقع ملے تو وہ اپنے عہدے کو پورا کریں<۔
اسی تسلسل میں فرمایا:۔
>ہماری جماعت میں بھی خدا تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ حافظ جمال احمد صاحب بھی انہی میں سے تھے جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ منھم من قضی نحبہ وہ یہاں سے عہد کرکے گئے تھے کہ وہ وہیں کے ہو رہیں گے۔ جب ہم نے چاہا کہ وہ آجائیں تو خدا تعالیٰ نے کہا نہیں میں ان کا عہد پورا کروں گا۔ ماریشس ایک ایسا ملک ہے جہاں بہت ابتداء سے ہمارے مشن جارہے ہیں۔۱۱۹ میری خلافت کے دوسرے یا تیسرے سال سے وہاں مشن جارہے ہیں۔ ایسے پرانے ملک کا بھ یہ حق تھا کہ وہ کسی صحابی یا تابعی کی قبر پر اپنے اندر رکھتا ہو۔ ہم شرک نہیں کرتے ہم قبروں پر سے مٹیاں لینے والے نہیں۔ ہم قبروں پر پھول چڑھانے والے نہیں۔ ہمیں تو یہ بھی سن کر تعجب آتا ہے کہ ابن سعود کے نمائندے بھی قبروں پر پھول چڑھانے لگ گئے ہیں۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ اگر کوئی پھول چڑھانے کی مستحق قبر تھی تو وہ رسول کریم~صل۱~ کی قبر تھی۔ کیا حضرت ابوبکر~رضی۱~ کو پھول نہ ملے کہ وہ آپ کی قبر مبارک پر پھول چڑھاتے۔ کیا حضرت عمرؓ کو پھول نہ ملے کہ وہ آپﷺ~ کے مزار پر پھول چڑھاتے۔ اگر آپ کے مزار پر ان بزرگوں نے پھول چڑھائے ہوتے تو ہم اپنے خون سے پھولوں کے پودوں کو سینچتے تا آپ کے مزار پر پھول چڑھائیں۔ مگر افسوس زمانے بدل گئے اور ان کی قدریں بدل گئیں لیکن ہم موحد ہیں مشرک نہیں بلکہ ہمیں تو ان موحدوں پر افسوس آتا ہے جو توحید پر عمل کرتے تھے لیکن اب ان کے نمائندے قبروں پر جاتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں۔ دنیا میں جو لوگ اچھے کام کرجاتے ہیں ان کی قبروں پر جانا اور ان کے لئے دعائیں کرنا ہی ان کے لئے پھول ہیں گلاب کے پھول ان کے کام نہیں آتے عقیدت کے پھول ان کے کام آتے ہیں۔ اور یہ صحیح ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دیتے ہیں۔ ان کے مزاروں پر دعا کرنا بسا اوقات بہت بڑی برکتوں کا موجب ہوجاتا ہے۔ ان سے مانگنا جائز نہیں ہاں ان کی قربانی یاد دلا کر خدا تعالیٰ سے مانگنا چاہئے جسے حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قحط پڑا تو آپ نے دعا کی کہ اے اللہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے زمانہ میں ہم آپ کا واسطہ دے کر تجھ سے دعا مانگا کرتے تھے اب وہ تو ہمارے پاس نہیں ہیں ان کے چچا عباسؓ کا واسطہ دے کر تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ اس قحط کو دور فرما۔ جیسے لوگ کہتے ہیں بچوں کا صدقہ اسی طرح خداتعالیٰ سے بھی اس کے پیاروں کا واسطہ دے کر مانگنا جائز ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ماریشس اس بات کا مستحق تھا کہ اس میں کسی صحابی یا کسی ایسے تابعی کی جس کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے قریب پہنچتا ہو قبر ہوتا وہ اس کے مزار پر خدا تعالیٰ سے دعا مانگیں میں نے صحابی یا تابع اس لئے کہا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ حافظ صاحب مرحوم صحابی تھے یا نہیں جب سے میں انہیں دیکھتا رہا ہوں وہ حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کا زمانہ تھا۔ اور اگر میرے دیکھنے پر اس کی بنیاد ہو تو وہ تابعی تھے<۔
>میں دوسرے نوجوانوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ احمدیت کی ترقی بغیر قربانی اور بغیر وقف کے نہیں ہوسکتی۔ انہیں بھی اس چیز کا احساس ہونا چاہئے۔ سینکڑوں ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے وقف کیا مگر سینکڑوں انتظار کرنے والے بھی آگے آئیں تا ان کے نام خدا تعالیٰ کے رجسٹر میں لکھے جائیں<۔۱۲۰
ان جلیل القدر صحابہ کے علاوہ مندرجہ ذیل صحابہ بھی انتقال کرگئے:۔
۱۔
شیخ عمر بخش صاحب بنگوی )بیعت ۱۹۰۳ء` وفات ۱۷۔ تبلیغ ۱۳۲۸ہش بعمر ۹۲ سال(۱۲۱
۲۔
میاں محمد دین صاحب ساکن بھڈیا ضلع امرتسر )بیعت ۱۸۹۵ء` وفات ۱۶۔ اخاء ۱۳۲۸ہش(۱۲۲ آپ کے تفصیلی حالات مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کے قلم سے الفضل ۱۸۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۵ پر شائع شد ہیں۔
۳۔
منشی غلام حیدر صاحب سب انسپکٹر اشتمال اراضی گوجرانوالہ )بیعت ۱۹۰۸ء` وفات ۲۔ نبوت ۱۳۲۸ہش(۱۲۳
بزرگ صحابیات سے اس سال محترمہ کریم بی بی صاحبہ۱۲۴ )اہلیہ حضرت منشی امام الدین صاحب پٹواری( اور محترمہ عزیز بیگم صاحبہ۱۲۵ )اہلیہ حضرت خان صااحب منشی برکت علی صاحب شملوی( بالترتیب ۷۔ اخاء اور ۲۱۔ فتح کو اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں۔
دوسرا باب )فصل نہم(
۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات][
اب ہم ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ میں تقاریب مسرت
اس سال بھی رب جلیل کے پاک وعدوں کے مطابق حضرت مسیح محمدیﷺ~ کے خاندان میں اضافہ ہوا۔
چنانچہ ۲۲۔ صلح۱۲۶ کو صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب کے ہاں صاحبزادہ مرزا لئیق احمد صاحب اور ۴۔ امان۱۲۷ کو میاں الیاس احمد خاں صاحب کے ہاں میاں جعفر احمد خاں پیدا ہوئے اور ۲۷۔ ۱۲۸۲۸ ماہ تبلیغ کی درمیانی شب کو صاحبادہ مرزا دائود احمد صاحب کے ہاں صاحبزادی امتہ المصور صاحبہ اور ۲۱۔ ماہ نبوت۱۲۹ کو صاحبزادہ` مرزا حمید احمد صاحب کے ہاں صاحبزادی امتہ الغفور کوثر صاحب کی ولادت ہوئی۔
نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ میں
نصرت گرلز ہائی سکول جو ہجرت کے بعد اخاء ۱۳۲۶ہش سے لے کر امان ۱۳۲۸ہش تک رتن باغ میں جاری رہا اس سال ماہ شہادت/ اپریل میں ربوہ منتقل کردیا گیا سلسلہ احمدیہ کا یہ پہلا مرکزی تعلیمی ادارہ تھا جو دارالہجرت میں قائم ہوا۔۱۳۰
حضرت امیرالمومنینؓ کی مسلمانان عالم کو نصیحت
۲۔ صلح )جنوری( کو بیگم سلمہ تصدق حسین نے مفتی فلسطین کے ذاتی نمائندہ الشیخ عبداللہ غوثیہ اور سید سلیم الحسینی کے اعزاز میں ایک دعوت کا انتظام کیا تھا جس میں حضور نے نصیحت فرمائی کہ اگر ہم فی الحقیقت کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر کام سوچ سمجھ کر اور ایک خاص سکیم کے ماتحت کرنا چاہئے۔۱۳۱
جرمن نومسلم کو حضرت مصلح موعودؓ کا خصوصی ارشاد
۱۹۔ ماہ صلح/ جنوری کو رتن باغ لاہور میں جرمن نومسلم ہر عبدالشکور کے اعزاز میں ایک دعوت دی گئی جس میں اکابر جماعت کے علاوہ مغربی پنجاب کے اعلیٰ حکام` پولیس اور فوج کے اعلیٰ افسر` پروفیسر` سکالرز` موقر جرید نگار کے علاوہ متعدد بااثر شخصیتوں نے شرکت کی جن میں لاہور کے ڈپٹی کمشنر مسز جعفری` سابق ڈپٹی کمشنر لاہور مسٹر ظفر الاحسن` بیگم سلمہ تصدق حسین صاحب ایم۔ ایل۔ اے` چوہدری نصر اللہ خاں صاحب ایم۔ ایل۔ اے اور جناب علائو الدین صاحب صدیقی کے اسماء خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس تقریب سعید پر ایک نہایت روح پرور تقریر کی جس کی ابتداء میں فرمایا کہ میرے آقا ومولا کے ارشاد کے مطابق اسلام اور اس کے سچے متبع ہی کونے کے پتھر ہیں وہ جس پر بھی گریں گے اسے پاش پاش کردیں گے اور جو ان پر گرے گا وہ چکنا چور ہوجائے گا۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا ہر کنزے اس سے پہلے جس مذہب سے وابستہ تھے اس میں شریعت کو *** قرار دیا گیا تھا لیکن اسلام شریعت کو برکات خداوندی سے معمور گردانتا ہے۔ لہذا میں ہر عبدالشکور صاحب کو نصیحت کروں گا کہ وہ جو اب اپنے تمام اعزہ و اقرباء کو چھوڑ کر خدا کے دامن سے وابستہ ہوگئے ہیں شریعت کو اپنی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی کرنے کی کوشش کریں۔ اور جس طرح وہ پہلے ہر ہٹلر کے سپاہی تھے آج میرے آقا محمد عربی~صل۱~ کے ایسے جاں نثار سپاہی بنیں کہ خدا ان کے ہاتھ پر فتوحات کی بارشیں کرے اور پیدائشی مسلمانوں سے کہیں بڑھ چڑھ کر ایمان و اعتقاد پیدا کرنے کی کوشش کریں<۔۱۳۲`۱۳۳
حضرت مصلح موعود~رضی۱~ اخبار نویسوں کے قافلہ سمیت محاذ کشمیر پر
۲۷۔ تبلیغ ۱۳۲۸ہش/ فروری ۱۹۴۹ء کو سیدنا حضرت فضل عمر المصلح الموعودؓ فرقان فورس کے مجاہدوں کا جائزہ لینے کے لئے بھمبر سے ہوتے ہوئے محاذ کشمیر پر تشریف لے گئے۔ اس سفر میں مندرجہ ذیل صحافیوں کو حضور کی بابرکت معیت کا مبارک اور زرین موقع میسر آیا:۔
۱۔
ثاقب صاحب زیروی )نامہ نگار خصوصی >الفضل< لاہور(
۲۔
میاں محمد شفیع صاحب )چیف رپورٹر روزنامہ >پاکستان ٹائمز< لاہور(
۳۔
‏]dni [tag سردار فضلی صاحب )چیف رپورٹر روزنامہ >احسان< لاہور(
۴۔
پروفیسر محمد سرور صاحب )مدیر >آفاق< لاہور(
حضور بذریعہ جیپ کار قصبہ بھمبر سے ہوتے ہوئے نوشہرہ کے جنوب میں بکسر کے اس مشہور قلعے کے قریب پہنچے جس کی پیشانی پر احمد شاہ ابدالی کی سطوت و شوکت کا نشان عیاں تھا اور جس کی مستحکم دیواروں سے ٹکرا کر دشمن کی دور مار توپوں کے گولوں کو بیسیوں ہی نہیں سینکڑوں بار منہ کی کھانا پڑی تھی اور جس کے قرب و جوار میں خدا کے فضل سے احمدیت کے شیر دل اور جاں نثار نوجوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے اس مقدس سرزمین کے چپہ چپہ کی پاسبانی اور حفاظت کررہے تھے۔۱۳۴
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کو اس مبارک سفر کے دوران محاذ پر ایک واقعہ نے یکایک قادیان کی ایسی یاد دلائی کہ آپ بے چین ہوکر تڑپ اٹھے مگر آپ نے اپنے قلبی غم و اندوہ کو کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا اور کمال ضبط نفس کا ثبوت دیتے ہوئے چند منٹ تک بالکل خاموشی اختیار کئے رکھی۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔
>میں تھوڑے دن ہوئے کشمیر کے محاذ پر فرقان فورس دیکھنے گیا۔ فرقان فورس نے میرے کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا میں جب وہاں گیا تو ایک جگہ پر ہاتھ دھلانے کے لئے دو چھوٹے لڑکے کھڑے تھے۔ مجھے بڑا تعجب تھا کہ جس جگہ جاتے ہوئے بڑی عمر والے اور پختہ کار لوگ ہچکچاتے ہیں وہاں پر یہ چھوٹی عمر کے دونوں بچے آئے ہوئے ہیں اور خوشی سے اپنی ڈیوٹی کو نبھارہے ہیں۔ وہ دونوں ہاتھ دھلانے کے لئے وہاں کھڑے تھے۔ چھوٹی عمر میں اتنی بڑی قربانی کرنے کی وجہ سے مجھے ان کا یہ فعل پیارا لگا اور نادانی اور غفلت میں میں نے سوال کیا کہ تم کہاں سے آئے ہو۔ میں نے خیال کیا کہ وہ کہیں گے کہ ہم گجرات سے آئے ہیں` جہلم سے آئے ہیں` راولپنڈی سے آئے ہیں یا سیالکوٹ سے آئے ہیں۔ میں ان سے کوئی دوسرا جواب سننے کے لئے تیار نہیں تھا لیکن میں نے جب یہ سوال کیا کہ تم کہاں سے آئے ہو تو ان دونوں لڑکوں نے بے اختیار کہا ہم قادیان سے آئے ہیں۔ مجھے یہ جواب سننے کی امید نہ تھی اس لئے مجھے اپنی حالت سنبھالنے کے لئے بہت زیادہ جدوجہد کی ضرورت پڑی۔ میرے ساتھ اس وقت اخباروں کے نمائندے بھی تھے اور بعض دوسرے افسر بھی۔ میں نے زور سے اپنی زبان دانتوں میں دبالی۔ میں نے ایسا محسوس کیا کہ اگر میں اپنے آپ کو نہیں روکوں گا تو میری چیخیں نکل جائیں گی۔ کئی غیر احمدی بھی اس وقت مجھ سے ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے میں نے ان سے کوئی بات نہیں کی اور میں بات کرہی نہیں سکا تھا۔ انہوں نے شاید یہ سمجھا ہوگا کہ میں بہت معزور ہوں اور ان کے ساتھ بات کرنا نہیں چاہتا لیکن میں مختصر جواب دے کر اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا۔ پندرہ بیس منٹ بعد جاکر کہیں میری طبیعت سنبھلی اور میں بات کرنے کے قابل ہوا۔ غرض میں نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ میں قادیان کے چھوٹ جانے پر غم نہیں کروں گا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں۔ آپ لوگ بھی اپنے تما جوشوں کو دباتے چلے جائیں خدا تعالیٰ وہ وقت جلد لے آئے گا جب تمہارے دبائے ہوئے جذبات ایک طوفان کی شکل اختیار کریں گے اور وہ طوفان ہر قسم کے خس و خاشاک کو اڑا کر پرے پھینک دے گا۔ لیکن جب تک وہ مرکز جماعت کو نہیں ملتا سب جماعت کو ایک دوسرے مرکز کی طرف منہ کرنا ہوگا کیونکہ مرکز کے بغیر کوئی جماعت نہیں رہ سکتی<۔۱۳۵
انجمن حمایت اسلام کے مشاعرہ میں احمدی شاعر کے کلام کی مقبولیت
۲۶۔ امان ۱۳۲۸ہش کو انجمن حمایت اسلام لاہور کا ایک مشاعرہ ہوا جس میں جناب ثاقب زیروی صاحب نے ایک نظم پڑھی جو حاصل مشاعرہ
سمجھی گئی۔ گورنر جنرل الحاج خواجہ ناظم الدین صاحب نے مشاعرہ میں اس نظم کو دوبارہ سننے کی فرمائش کی اور یہ اعزاز اس نشست میں کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہ ہوسکا۔ دوسرے دن لاہور کے تقریباً تمام اخبارات میں اس نظم کا چرچا تھا۔ چنانچہ اخبار >انقلاب< نے ۲۸۔ مارچ ۹۴۹ء صفحہ ۱ کالم ۱ پر >ثاقب نے سب کو مات دی< کے عنوان سے حسب ذیل خبر شائع کی:۔
>لاہور ۲۶۔ مارچ۔ انجمن حمایت اسلام کے مشاعرے میں ایک انیس سالہ نوجوان شاعر صدیق ثاقب زیروی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ہزایکسی لینسی گورنر جنرل پاکستان نے اس سے فرمائش کی کہ وہ تیسری بار اپنا کلام سنائے۔
اس مشاعرے میں بڑے بڑے شعراء نے حصہ لیا لیکن عوام اور خواص سب نے ثاقب کے کلام کا اتنا پسند کیا کہ اسے تین بار سٹیج پر بلایا گیا۔ یہ سعادت کسی اور کو حاصل نہیں ہوئی۔ ثاقب کی نظم کا عنوان تھا >میرا جواب< جو ایک اخبار نویس کی طرف سے شراب کی پیشکش پر لکھی گئی تھی۔ یہی نظم خواجہ ناظم الدین کو خاص طور پر پسند آئی اور انہوں نے اسی کو دوبارہ پڑھوایا<۔
جماعت احمدیہ اور حکومت مجاز کی وفاداری
سکھوں کے اخبار >شیر پنجاب< نے ایک مضمون میں یہ اعتراض اٹھایا کہ ہندوستان یا پاکستان کے احمدی اس وقت تک اپنی اپنی حکومتوں کے وفادار رہیں گے جب تک ان کے امام جماعت کی طرف سے ایسا حکم ہوگا جب ان کا حکم نہیں رہے گا ان کی وفاداری بھی ختم ہوجائے گی۔
اس اعتراض کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ نے >جماعت احمدیہ اور حکومت مجاز کی وفاداری< کے عنوان پر حسب ذیل مضمون سپرد قلم فرمایا:۔
>۔۔۔۔۔۔ ہماری جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام کے رو سے جس حکومت میں بھی کوئی شخص رہے اس حکومت کا اسے وفادار رہنا چاہئے۔ اگر کبھی حالات خلاف ہوجائیں اور وہ وفادار نہ رہ سکے تو اسے اس ملک سے ہجرت کرجانی چاہئے۔ انگریزوں کے زمانہ میں اس عقیدہ کی وجہ سے ہندوئوں` سکھوں اور مسلمانوں نے ہماری مخالفت بھی کی لیکن ہم نے یہ عقیدہ نہیں بدلا کیونکہ عقائد کو بدل دینا کسی انسان کے اختیار میں نہیں عقائد خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اور ان کو خدا ہی بدل سکتا ہے۔
ہمارے نزدیک قرآن کریم کی تعلیم کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا۔ ہم بانی سلسلہ احمدیہ کو بھی قرآن کریم کی تعلیم کا بدلنے والا نہیں مانتے بلکہ اس کا خادم مانتے ہیں۔ ہمارے عقیدہ کی رو سے وہ اسلام کے کسی چھوٹے سے چھوٹے حکم کو بھی تبدیل نہیں کرسکتے تھے۔ جب بانی سلسلہ احمدیہ بھی کسی حکم کو تبدیل نہیں کرسکتے تھے تو پھر ان کو کوئی خلیفہ خواہ کتنا بڑا ہو کسی حکم کو کس طرح تبدیل کرسکتا ہے۔ پس یہ خیال کرلینا کہ ہندوستان یا پاکستان کے احمدیوں کی اپنی حکومتوں سے وفاداری اسی وقت تک ہوگی جب تک امام جماعت احمدیہ ان کو ایسا کرنے کا حکم دیتا ہے اول درجہ کی حماقت اور بیوقوفی ہے اس معاملہ میں امام جماعت احمدیہ کوئی حق ہی نہیں رکھتا۔ اسلامی تعلیم کو دوہرانا اس کا کام ہے اسے بدل نہیں سکتا۔ اگر کسی وقت جماعت احمدیہ کا امام کسی ملک کی جماعت کو یہ حکم دے کہ تم اپنی حکومت کے وفادار نہ رہو تو اس کے معنی یہی نہیں ہوں گے کہ وہ یہ کہتا ہے کہ تم اپنی حکومت کے وفادار نہ رہو بلکہ احمدیہ جماعت کے مذہبی مسلمات ک رو سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ تم نعوذ باللہ من ذلک قرآن کریم اور خدا تعالیٰ کے فرمانبردار نہ رہو۔ اور کیا کوئی نائب اپنے افسر کے حکموں کو بدل سکتا ہے۔ خلیفہ بے شک جماعت کا امام ہے لیکن وہ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا تابع ہے` محمد رسول اللہ~صل۱~ کا تابع ہے۔ قرآن کریم کا تابع ہے۔ اللہ تعالیٰ کاتابع ہے اسے اپنے بالا افسروں کے احکام کے بدل دینے کا حق ہی کہاں ہے۔ پس یہ کہنا کہ جماعت احمدیہ قادیان کی وفاداری چونکہ امام جماعت احمدیہ کے حکم کے ساتھ وابستہ ہے جو پاکستان میں رہتا ہے اس لئے ان کی وفاداری پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ ایک خلاف عقل قول ہے۔ حکومت کی وفاداری کا حکم ہمارے نزدیک قرآن کریم کا حکم ہے اور قرآن کریم خدا تعالیٰ کی کتاب ہے۔
ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا کی جس حکومت میں بھی کوئی احمدی رہتا ہے اس حکومت کا اس کو وفادار رہنا چاہئے۔ کوئی خلیفہ یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اس حکم کو بدل دے کیونکہ خلیفہ ڈکٹیٹر نہیں ہے وہ نائب ہے اور نائب اپنے سے بالا حکام کے احکام کا ویسا ہی فرمانبردار ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے لوگ<۔۱۳۶
پاکستانی سائنسدانوں کو نصیحت
۱۱۔ ماہ شہادت ۱۳۲۸ہش کو فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں حضرت مصلح موعودؓ نے پاکستانی سائنسدانوں کو نصیحت فرمائی کہ انہیں استقلال کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہئے۔ اخبار انقلاب ۱۴۔ اپریل ۱۹۴۹ء میں اس تقریر کا خلاصہ درج ذیل لفظوں میں چھپا:۔
>حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے کہا پاکستان کے سائنسدانوں کو اس بات پر حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے کہ ان کے پاس نہ مناسب تعداد میں آلات ہیں نہ سکالر۔ اگر تم میں رسول کریم~صل۱~ کے پیروئوں کا جوش موجود ہے تو جس طرح اسلام ایک چھوٹی سی جگہ سے نکلا اور دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا اسی طرح تمہارے لئے یہ بات مشکل نہیں ہونی چاہئے کہ سائنس کی دنیا میں اسی طرح کامیابی حاصل کرو<۔۱۳۷
جماعت احمدیہ لاہور کی تبلیغی و تعلیمی ذمہ داریاں
حضرت مصلح موعودؓ نے ۶۔ ہجرت ۱۳۲۸ہش کو بذریعہ خطبہ جمعہ جماعت احمدیہ لاہور کی تبلیغی و تعلیمی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ چنانچہ فرمایا:۔
>اگر لاہور کی جماعت کمزور ہوگی` اگر لاہور کی جماعت اپنے مقام کو جو اس کا جائز حق ہے حاصل نہ کرے گی تو اس کا اثر صوبہ کی دوسری جماعتوں پر بھی ضرور پڑے گا۔ اور وہ تبلیغ جس کے رستے اب خدا تعالیٰ نے کھول دئے ہیں اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے جو مواقع ہمیں میسر آچکے ہیں انہیں زبردست دکھا لگے گا جس کا ازالہ آسانی سے نہیں ہوسکے گا لیکن لاہور کی جماعت اگر اخلاص سے کام لے گی اور اپنے فرض منصبی کو سمجھے گی تو ہماری تبلیغ اور بھی وسیع ہوجائے گی اور جماعت یوما فیوما بڑھتی چلی جائے گی۔ اگر لاہور کی جماعت لاہور میں اپنے اثر کو اتنا نمایاں اور ظاہر کردے کہ دشمن کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑے کہ جماعت احمدیہ نے اپنا ایک نقش قائم کردیا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صوبہ کے باقی اضلاع` شہروں اور دیہات میں احمدیت اس سے زیادہ سرعت کے ساتھ پھیلنے لگ جائے گی جس سرعت سے وہ اب پھیل رہی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق تین چار ماہ تک ہم ربوہ میں جابسے اور ایسی سہولتیں ہمیں حاصل ہوگئیں کہ اسے ہم مرکز بنالیں تو پھر جماعت کا تنظیمی مرکز تو بے شک ربوہ ہی ہوگا لیکن یہ بات نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ اس کا سیاسی مرکز ایک رنگ میں لاہور ہی ہوگا کیونکہ جماعت کا تنظیمی مرکز جس جگہ ہوضروری نہیں کہ دوسرے لوگ جو جماعت سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ بھی اپنی توجہ کا مرکز اسے بنالیں گے۔ لوگ قدرتی طور پر سہل ترین طریق کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اپنے ذاتی کاموں کے لئے لاہور آنا پڑتا ہے جب وہ لاہور آتے ہیں تو قدرتی طور پر ان کی توجہ ان اداروں اور تحریکوں کی طرف بھی ہوتی ہے جن کے مرکز یا مرکزوں کے ظل لاہور میں موجود ہیں۔ گویا وہ ایک تیر سے دو شکار کرلیتے ہیں۔ وہ یہاں آکر اپنے ضروری کام بھی کرتے ہیں اور ایسے ادارے اور تحریک سے واقفیت بھی حاصل کرلیتے ہیں جو ان کی توجہ کا مرکز بن رہا ہو۔ پس جہاں تک لاہور کو سیاسی حیثیت حاصل ہے ہم اس جماعت کو بعد میں بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اگر لاہور میں جو مشکلات ہمیں پیش آرہی ہیں وہ دور ہوجائیں اور ہمیں ایسی جگہیں مل جائیں جہاں ہم مرکز کا ایک حصہ رکھ سکیں تو مرکز بھی مقامی جماعت کے ان کاموں میں ممد ثابت ہوگا جس کے کرنے کی ذمہ داری اس پر ڈال دی گئی ہے<۔۱۳۸
حضرت مصلح موعود~رضی~ کا ایک اہم بیان کشمیر میں استصواب رائے کے سلسلہ میں
۱۰۔ مئی ۱۹۴۹ء کو حکومت پاکستان کی طرف سے کشمیر میں استصواب رائے کے لئے تین سب کمیٹیوں کی تشکیل کا اعلان کیا گیا:۔
۱۔
>پبلیسائٹ اڈوائزی کمیٹی< COMMITTEE) ADVISORY (PUBLICITE
۲۔
>ریفیوجی ری ہیبلی ٹیشن اڈوائزری کمیٹیCOMMITTEE)< ADVISORY HABLITATION۔RE (REFUGEE
۳۔
>پبلسٹی پالیسی کمیٹی< COMMITTE) POLICE (PUBLICITY
سرکاری اعلامیہ میں وضاحت کی گئی کہ ہر ایک کمیٹی میں پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں اور عوام کے نمائندہ ممبر کتنی تعداد میں ہوں گے۔ چونکہ یہ نئی جدوجہد بھی تحریک آزادی کشمیر کے اسی سلسلہ کی لازمی کڑی تھی جس کا آغاز ۱۹۳۱ء میں سیدنا المصلح الموعودؓ کی صدارت و قیادت میں ہوا تھا اس لئے حضور کو قدرتاً اس اعلان پر بے انتہا خوشی ہوئی اور آپ نے اس کا نہایت دلچسپی سے مطالعہ کرنے کے بعد ایک اہم بیان دیا جس کا متن اخبار >انقلاب< میں حسب ذیل الفاظ میں شائع ہوا:۔
>میرے دل میں تڑپ ہے کہ کشمیر آزاد ہو<
مرزا بشیر الدین کا بیان
لاہور ۱۶۔ مئی۔ جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیر الدین محمود نے حسب ذیل بیان بغرض اشاعت جاری کیا ہے:۔
>حکومت پاکستان کے محکمہ بغیر پورٹ فولیو نے ۱۰۔ مئی ۱۹۴۹ء کو ایک اعلان شائع کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر میں استصواب رائے کے لڑنے کے لئے ایک پالیسی طے کرلی ہے اور اس کے اصول انہوں نے شائع کردئے ہیں اور مختلف کاموں کے لئے سب کمیٹیاں بنا دی ہیں۔ چنانچہ اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک سب کمیٹی پبلیسائٹ اڈوائزری کمیٹی کے نام سے مقرر کی گئی ہے۔ دوسری ریفیوجی ری ہیبلی ٹیشن اڈوائزری کمیٹی اور تیسری پبلیسٹی پالیسی کمیٹی کے نام سے۔ ان تینوں کمیٹیوں کی ساخت اس طرح کی گئی ہے کہ پہلی کمیٹی میں چار ممبر پاکستان پبلک کے نمائندے یا آزاد کشمیر گورنمنٹ کے نمائندے ہیں اور تین مسلم کانفرنس کے نمائندے ہیں۔ دوسری میں نوممبر ہیں جن میں سے دو آزاد کشمیر گورنمنٹ کی طرف سے ہیں اور مسلم کانفرنس کے نمائندے ہیں اور پانچ پاکستانی حکومت یا پاکستان پبلک کے نمائندے ہیں۔ تیسری سب کمیٹی یعنی پروپیگنڈا کی کمیٹی میں سات ممبر ہوں گے جن میں سے چھ پاکستانی حکومت کے نمائندے ہوں گے اور ایک مسلم کانفرنس کا نمائندہ ہوگا۔ اس اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کشمیر کی جدوجہد کے خاتمہ کا زمانہ اب قریب آرہا ہے اور یہ جدوجہد اپنے آخری دور میں داخل ہونے والی ہے مجھے چونکہ قدرتاً اس نئی جدوجہد سے دلچسپی ہے جو اس سابقہ سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس کا میں صدر رہا ہوں۔ مجھے خصوصیت سے یہ تڑپ ہے کہ کشمیر کے مسلمان آزاد ہوں اور اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں سے مل کر اسلام کی ترقی کی جدوجہد میں نمایاں کام کریں۔ اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے میں تمام ان لوگوں سے جو کشمیر کے کام سے دلچسپی رکھتے ہیں اپیل کرتا ہوں کہ اب جبکہ یہ آزادی کی تحریک آخری ادوار سے گزررہی ہے اپنی سب طاقتیں اس کی کامیابی کے حصول کے لئے لگادیں اور ایسی باتوں کو ترک کردیں جو اس مقصد کے حصول میں روک ثابت ہوسکتی ہیں۔ یہ صاف اور سیدھی بات ہے کہ جو اہمیت مقصد کو حاصل ہوتی ہے ذریعہ کو حاصل نہیں ہوتی۔ ہم خیال لوگوں کے ذرائع مختلف ہوسکتے ہیں مگر مقصد الگ الگ نہیں ہوسکتے۔ یہ بھی امر ظاہر ہے کہ ایک متحد خیال کو مختلف تدابیر پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔ مختلف تدابیر ہی میں سے بعض کو مقصد وحید کے لئے قربان کیا جائے گا۔ پس پاکستان کے ارباب حل و عقد کو یہ موقع دینے کے لئے کہ وہ ایسی پالیسی کو جسے وہ صحیح سمجھتے ہیں اچھی طرح چلا سکیں تمام مہاجرین کشمیر اور پاکستانی مسلمانوں کو سہولتیں بہم پہنچانی چاہئیں تاکہ پاکستانی حکومت دلجمعی سے کام کرسکے اور ان نتائج کو پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکے جو وہ پیدا کرنا چاہتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی شخص اپنے اختلاف رائے کو ان لوگوں کے سامنے بھی پیش نہ کرے جو حکام مجاز ہیں ان کے سامنے اپنے خیالات کو بغیر جوش اور تعصب کے رکھ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے کہ اصل کام کی جگہ لڑائی جھگڑوں کے تصفیہ میں لگے رہیں اور اصل کام کا حرج ہوجائے۔ پس تمام مختلف الخیال کشمیری مہاجرین کو اس کام کے لئے اکٹھے ہوجانا چاہئے اور حکومت پاکستان کے مقرر کردہ اداروں سے مل کر اس طرح زور لگانا چاہئے کہ کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہوجائے اور یہ عظیم الشان خطرہ جو ہر وقت پاکستان کے سامنے رہتا ہے کلی طور پر دور ہوجائے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اول تو اعلان میں کشمیر کے نمائندوں کا نام نہیں ہے۔ اگر اہل کشمیر میں سے بعض سے اختلاف بھی ہو تو یہ کون کہہ سکتا ہے کہ ہر نمائندہ ضرور ان سے اختلاف خیال رکھتا ہوگا۔ لیکن اگر فرض کرو ایسا ہو بھی تو کیا چند دنوں کے لئے ایک مخصوص کام کے لئے جس پر کشمیر کے مسلمانوں کی زندگی اور موت کا انحصار ہے وہ صبر سے کام نہیں لے سکتے۔ میں تمام اہل کشمیر سے جن پر میرا پہلی جنگ آزادی کی وجہ سے یقیناً حق ہے کہتا ہوں کہ پاکستانی حکومت کی مذکورہ بالا تجاویز کو کامیاب کرنے کے لئے وہ پوری طرح تعاون کی روح کا مظاہرہ کریں۔ کشمیر اگر پاکستان سے ملا تو دوسروں کا ہی نہیں ان کا بھی فائدہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور ان اسباب کو دور کردے جو تفرقہ اور شقاق کا موجب ہوتے ہیں<۔۱۳۹
نائجیریا` انگلستان اور امریکہ میں کامیاب سالانہ جلسے
۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء کی یہ خصوصیت ہے کہ اس سال نائجیریا اور انگلستان کی احمدی جماعتوں نے سالانہ جلسوں کا سلسلہ شروع کیا اور امریکہ کی دوسری کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ سب اجتماعات خدا کے فضل و کرم سے بہت کامیاب رہے۔ چنانچہ
۱۔ ۱۳` ۱۴۔ ظہور ۱۳۲۸ہش مطابق ۱۳` ۱۵۔ اگست ۱۹۴۹ء کو جماعت احمدیہ نائجیریا کا پہلا سالانہ جلسہ مسجد احمدیہ لیگوس میں انعقاد پذیر ہوا جس میں مقامی احباب کے علاوہ الارد` کوٹہ` رجب واڈے` الینے` ایپے` اجڈے` اودین` اونڈو` اکیٹی یوپا` اولیو` ادوم` اودو` آڈو اکیتی` زاریا` آگے ڈنگبی کی احمدی جماعتوں کے احباب شامل ہوئے۔ جلسہ کے چار اجلاس ہوئے جن میں مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی امیر وانچارج نائجیریا` قریشی محمد افضل صاحب اور مولوی سید احمد شاہ صاحب )پاکستانی مجاہدین( کے علاوہ مندرجہ ذیل نائجیرین احمدیوں نے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا:۔
الفابیض صالح آف اوٹا` مسٹر اے بی ابانو گون` آئی ڈی اولوکو ڈانا` الحاج اے اے ابٹولا آف الارو` الحاج عبدالوحید فلادیو آف زاریا` ایچ اوسنیالو` بی بی بالوگون` الفا اے بی ڈنمالا آف اجڈے۔
جلسہ کے اختتام پر ایک مقامی غیر احمدی عالم الحاج عبدالل¶ہ آدم فارغ التحصیل الازہر یونیورسٹی مصر نے جماعت احمدیہ کی یورپ میں اسلامی خدمات کو سراہا۔ جلسہ کے ایام میں سالانہ مجلس مشاورت کے اجلاس بھی ہوئے جن میں فضل عمر احمدیہ سکول کے قیام اور احمدیہ اخبار >دی ٹروتھ< کے اجراء کے لئے اخراجات کی تحریک کی گئی۔ نائجیریا کے پریس نے اس کامیاب جلسے کی رپورٹیں شائع کیں۔ چنانچہ اخبار افریقین ایکسپریس نے ۲۳۔ اگست ۹۴۹ء کے شمارہ میں صفحہ اول پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شبیہہ مبارک اور حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر بانی نائجیریا مشن کی تصویر شائع کی اور لکھا:۔
>صدر انجمن احمدیہ قادیان کی شاخ نائجیریا مشن نے اپنی پہلی سالانہ کانفرنس کے اجلاسوں میں نہایت اہم امور پر بحث کی ہے جو جماعت احمدیہ اور تمام مسلمانان نائجیریا کے مفاد سے وابستہ ہیں۔ اس پہلی سالانہ کانفرنس میں صوبہ جات کے ساٹھ نمائندے شامل ہوئے۔ علاوہ ازیں معززین شہر اور جملہ مذاہب کے علماء نے شرکت کی۔ احمدیہ سکول کھولنے کے لئے خاص تجاویز زیر غور آئیں۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ سکول وسط تبوک ۱۳۲۸ہش/ ستمبر ۱۹۴۹ء میں مسجد احمدیہ واقع اجوگیوا سٹریٹ میں جاری کیا جاوے۔ اس سکول میں تمام طلباء کو بلا امتیاز مذہب و ملت داخلہ کی اجازت ہوگی۔ کوٹہ اور السنے میں دارالتبلیغ کی تعمیر کے ریزولیوشن بھی پاس ہوئے۔ اس کے علاوہ اخبار ٹروتھ جاری کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا جس کا مقصد مسلمانان نائجیریا کے حقوق کی حفاظت ہوگا۔۱۴۰
۲۔ جماعت احمدیہ انگلستان کا پہلا سالانہ جلسہ ۲۹` ۳۰۔ ماہ اخاء ۱۳۲۸ہش مطابق ۲۹` ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو منعقد ہوا۔ جلسہ کا پہلا دن آنحضرت~صل۱~ کی سیرت کے لئے مخصوص تھا۔ جس میں مختلف مذاہب کے درج ذیل نمائندوں نے دربار رسالتﷺ~ میں ہدیہ عقیدت پیش کیا:۔
۱۔
پروفیسر پرفرسٹ صدر شعبہ مذہب و فلسفہ گریگری پیرسن کالج۔
۲۔
مسٹر ڈسمنڈ مشہور برطانوی مصنف۔
۳۔
سوامی اویکانندن صدر لنڈن وید انتا سوسائٹی۔
۴۔
آلڈرمن ایڈیٹر سائوتھ ویسٹ ہیرلڈ۔
۵۔
چینی ڈاکٹر جی پی ایچ ڈی۔
۶۔
مسٹر ٹوثیگ ایڈیٹر ایسٹرن ورلڈ۔
اسی روز نماز مغرب و عشاء کے بعد بشیر احمد صاحب آرچرڈ مبلغ سکاٹ لینڈ نے مناظر قادیان کی فلم دکھائی۔ دوسرے دن مسٹر بلال نٹل کی صدارت میں صبح گیارہ بجے سے لے کر نماز ظہر تک جلسہ ہوا جس میں سب سے پہلے چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کی تحریک پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حضور جماعت احمدیہ انگلستان کی طرف سے اظہار عقیدت و محبت کا متفقہ ریزولیوشن پاس کیا گیا جس کے بعد انگریز نومسلموں میں سے مسٹر فرید احمد کلیٹن` مسٹر جمال الدین ڈائر` مسٹر بشارت احمد گریک` مسٹر عبدالکریم ہربرٹ اور مسٹر بشیر احمد آرچرڈ نے >میں نے اسلام کیوں قبول کیا< کے موضوع پر تقریریں کیں۔ ان تقریروں کے معاًبعد یورپ کے مبلغین نے >میرے مشن کے کام< کے عنوان پر خطاب فرمایا۔ آخر میں میر عبدالسلام صاحب نے بائبل کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حقانیت ثابت کی۔ آخری اجلاس میں جو بعد نماز ظہر وعصر شروع ہوکر سات بجے شام تک جاری رہا جماعت انگلستان کے تبلیغی اور تربیتی نظام کو وسیع کرنے کے لئے آٹھ اہم قراردادیں پاس کی گئیں۔۱۴۱
۳۔ گزشتہ سال )۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء( میں جماعت ہائے احمدیہ امریکہ کی پہلی یک روزہ سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس سال پٹس برگ میں ۱۷` ۱۸۔ تبوک ۱۳۲۸ہش )ستمبر ۱۹۴۹ء( کو دوسری کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے ایک خاص پیغام اس کے لئے ارسال فرمایا جس میں حضور نے >میرے پیارے دوستو اور روحانی بچو< کے پرمحبت خطاب کے بعد جماعت امریکہ کو فرمایا:۔
>مجھ سے خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ انچارج امریکہ نے اس بات کی خواہش کی کہ میں آپ کو آپ کی دوسری سالانہ کانفرنس کے موقع پر ایک پیغام بھیجوں۔ >آج سے ۲۹ سال پہلے میں نے مفتی محمد صادق صاحب کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابیوں میں سے ہیں` آپ کے ملک میں اسلام کی تبلیغ کے لئے بھیجا تھا تاکہ وہ آپ کے سامنے خدا تعالیٰ اور ہدایت کے راستہ کو پیش کریں۔ اس وقت شاید ان کی باتوں کو ایک بوڑھے مجذوب کی بڑ سمجھا گیا مگر آخر اسی آواز کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے وہ لوگ پیدا کئے جو امریکہ میں سچائی اور صداقت کے علمبردار ہوئے<۔
آگے چل کر حضورؓ نے رقم فرمایا:۔
>احمدیت خدائے ذوالجلال کا پیغام ہے یہ کسی انسان کا کام نہیں۔ پس آپ ہمیشہ اس بات کی کوشش کریں کہ آپ کو اسلام اور احمدیت کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل ہوتا کہ آپ کے اعمال خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں۔ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کے ذریعہ ایک مکمل شریعت آپ کو دی اور اس پر عمل کرنا آپ کے ہی فائدہ کے لئے ہے<۔
حضور نے جماعت کو نصیحت فرمائی کہ
>آپ اس عظیم الشان موقع کو جو کہ آپ کو خدا تعالیٰ کا پیغام شروع میں ماننے کی وجہ سے حاصل ہوا ہے فائدہ اٹھالیں اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی خدمت میں لگا دیں۔ اگر کسی میں کوئی کمزوریاں ہوں تو ان کی نقل نہ کریں بلکہ آپ خدا تعالیٰ کے کلام کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں<۔
آخر میں حضور نے دعا کی کہ
>خدا تعالیٰ آپ کی اور ان مبلغین کی جو آپ کے ملک میں ہیں اور آپ کے ملک کی مدد فرمائے اور آپ کی کوششوں کے نتیجہ میں آپ کا ملک اسلام کے لئے ایک قلعہ ثابت ہو اور اللہ تعالیٰ کی برکتیں اور رحمتیں آپ پر نازل ہوں<۔ )اس روح پرور پیغام کا مکمل متن باب اول فصل سوم میں آچکا ہے(
چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی اور دو دفعہ خطاب فرمایا۔
اس کانفرنس کا افتتاح چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ انچارج امریکہ نے کیا۔ کانفرنس میں رشید احمد صاحب شکاگو` محترمہ علیہ علی صاحبہ` احمد شہید صاحب` محترمہ امتہ اللطیف صاحبہ نے بالترتیب تبلیغ` مال` تعلیم اور تمدن و معاشرت سے متعلق رپورٹیں سنائیں جن پر مختلف احباب نے اپنے مشورے پیش کئے اور غور و تمحیص کے بعد آئندہ سال کے لئے لائحہ عمل تجویز کیا گیا جسے بروئے کار لانے کے لئے ایک سیکرٹری کا انتخاب عمل میں آیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے پیغام نے خصوصاً امریکن احمدی خواتین میں ایسا زبردست جوش و خروش پیدا کردیا کہ جونہی حضور کا پیغام پڑھا جاچکا محترمہ علیہ علی صاحبہ نے تقریر کی کہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی کا یہ نہایت ہی پیارا پیغام سننے کے بعد ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم مزید قربانی کریں۔ اس امر کے اظہار کے لئے کہ احمدی نومسلم عورتیں حضور کے ارشاد پر ہر قربانی کے لئے تیار ہیں۔ ہم لجنات امریکہ مشن فوری طور پر ۵۳۵ ڈالر نقد حضور کی خدمت میں پیش کرتی ہیں۔ یہ اخلاص کا منظر نہایت ہی روح پرور اور ایمان افروز تھا کہ ان نو مسلم مستورات نے جو بظاہر اسلام میں ابھی تک حدیث العہد تھا قربانی کا شاندار نمونہ دکھایا۔
کانفرنس میں مندرجہ ذیل جماعتوں کے نمائندے شامل ہوئے:۔
پٹس برگ` بالٹی مور` نیو یارک` ڈوکین` بریڈک` ہوم سٹرٹ` ڈیٹن` سینٹ لوئیس` ایسٹ سینٹ لوئیس` کین سٹی` آئی یوواسٹی` شکاگو` کلیولینڈ` میگس ٹائون` ڈی ٹرائٹ` انڈیانہ پوس۔
حضرت امیرالمومنین کے فوری ارشاد کے مطابق مولوی عبدالقادر صاحب ضیغم بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان سے پٹس برگ پہنچے اور کانفرنس میں شرکت کی۔ عبدالقادر صاحب ضیغم بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان سے پٹس برگ پہنچے اور کانفرنس میں شرکت کی۔ عبدالقادر صاحب ضیغم کے ورود پر جماعت احمدیہ امریکہ نے اپنے پیارے امام ہمام کا بہت شکریہ ادا کیا کہ پچھلے سال ۱۷۔ ستمبر کو جو موجودہ کنونشن کا پہلا دن ہے۔ مجاہد امریکہ مرزا منور احمد صاحب دفن ہوئے اور اس پر ایک سال نہیں گزرا تھا کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایک نیا مبلغ عطا فرما دیا۔۱۴۲
لبنانی پریس میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا تذکرہ
بیروت کے اخبار >الیوم< نے ۲۲۔ کانون الاول ۱۹۴۹ء کے پرچے میں حضرت امام جماعت احمدیہ کی عظیم شخصیت کے بارے میں مندرجہ ذیل تعارفی نوٹ شائع کیا:۔
>یتمتع الخلیفہ میرزا بشیر الدین محمود احمد بمکانہ دینیہ کبیرہ فی باکستان` وھو من لاھور عاصمہ البنجاب` ویبلغ من العمر ۶۰ عاما و یعتبر ثقہ فی امور الاسلم ویتولی رئاسہ الجماعہ الاحمدیین` الذین ینتشرون فی کل بقعہ من بقاع العالم مبشرین بتعالیم الدین الاسلامی الحنیف` ویرجع الیہ الفضل الاول فی انشاء مراکز التبشیر فی اکثر بلدان العالم` وقد لعب ھذا الزعیم الدینی المسلم دورا ھاما فی کشمیر وفی تاسیس دولہ باکستان لجماعہ نظام خاص من الفقیر الی الوزیر` وھو ای السید میرزا بشیر الدین تقی ورع و مستجاب الدعوات وقد کتب عن حیاتہ السید محمد ظفر اللہ خان وزیر خارجیہ باکستان باللغتین الانکلیزیہ والارادیہ۔ ولھذا الزعیم الدینی الکبیر مولفات متعددہ فی الاسلام وفی تفسیر تعالیمہ باللغتین الاردیہ والانکلیزیہ` وقد سبق لہ ان تولی رئاسہ لجنہ کشمیر کما مثل مسلمی الھند فی موتمر الادیان الذی انعقد فی عام ۱۹۲۴ فی لندن ۔۔۔۔۔۔<۱۴۳
خلیفہ میرزا بشیر الدین محمود احمد کو پاکستان میں مذہبی اعتبار سے بڑی عظمت و اہمیت حاصل ہے آپ کی عمر اس وقت ساٹھ سال ہے اور آپ کا تعلق پنجاب کے دارالحکومت لاہور۱۴۴ سے ہے۔ آپ اسلامی مسائل میں ثقہ سمجھے جاتے ہیں اور جماعت احمدیہ کے امام ہیں جو اکناف عالم تک پھیلی ہوئی ہے اور اسلامی عقائد کی تبلیغ کررہی ہے اور دنیا کے اکثر ممالک میں تبلیغی مراکز کیے قیام میں اس کا نمایاں دخل ہے۔ اس مسلمان مذہبی لیڈر نے پاکستان کی تاسیس اور مسئلہ کشمیر میں کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے افراد فقیر سے لے کر وزیر تک ایک خاص نظام سے وابستہ ہیں۔
میرزا بشیر الدین متقی` پارسا اور مستجاب الدعوات ہیں۔ محمد ظفراللہ خان وزیر خارجہ پاکستان نے انگریزی اور اردو زبانوں میں آپ کی سیرت لکھی ہے۔ اس عظیم مذہبی لیڈر نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کی تفسیر میں اردو اور انگریزی میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ آپ کشمیر کمیٹی کے صدر بھی رہے ہیں۔ اسی طرح آپ نے مسلمانان ہند کی طرف سے مذاہب عالم کانفرنس میں بھی نمائندگی کی جو ۹۲۴ء میں بمقام لنڈن منعقد ہوئی تھی۔
مبلغین کی بیرونی ممالک سے آمد اور روانگی
اس سال حسب ذیل مجاہدین احمدیت بیرونی ممالک میں فریضہ تبلیغ بجالانے کے بعد پاکستان تشریف لائے:۔
۱۔
مولوی محمد صدیق صاحب انچارج مشن سیر الیون )آمد لاہور ۳۔ احسان ۱۳۲۸ہش۱۴۵4] ([rtf
۲۔
ملک محمد شریف صاحب مبلغ اٹلی )آمد لاہور یکم تبوک ۱۳۲۸ہش۱۴۶(
۳۔
شیخ نور احمد صاحب منیر مبشر اسلامی بلاد عربیہ )آمد ربوہ ۱۷۔ فتح ۱۳۲۸ہش(
شیخ نور احمد صاحب منیر کے استقبال کے لئے دوسرے مخلصین کے علاوہ سیدنا حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود بھی ربوہ اسٹیشن پر تشریف لے گئے۔۱۴۷
اسی طرح شیخ صاحب کی آمد سے دو روز قبل )۱۵۔ فتح کو( مولانا محمد صادق صاحب مجاہد انڈونیشیا سنگاپور کے لئے روانہ ہوئے تو اس موقع پر بھی حضور پرنور اسٹیشن پر رونق افروز تھے اور حضور نے آپ کو دعائوں سے الوادع کیا۔۱۴۸
نئی مطبوعات
اس سال مندرجہ ذیل کتابیں مصنفین سلسلہ کی طرف سے شائع ہوئیں جن سے جماعتی لٹریچر میں بے بہا اور مفید اضافہ ہوا:۔
لائف آف احمد )مولانا عبدالرحیم صاحب درد( مقامات النساء )مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری( البیان ی اسلوب القران۔ اعجاز القران ما یثبت بالقران]ydob [tag )حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ( تلخیص العربیہ یا خلاصتہ المنجد )حکیم عبداللطیف صاحب شاہد( انذاز و بشارت )حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب( فقہ احمدیہ زنانہ حصہ دوم )مولوی عبداللطیف صاحب بہاولپوری( سیرت خاتم النبینﷺ~ حصہ سوم )مولفہ صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے(۱۴۹
‏tav.12.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
دوسرا باب )فصل دہم(
کتاب >اسلام اور ملکیت زمین< کی اشاعت۔ مجلس مشاورت ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء کا انعقاد۔ دفاع وطن کی تیاری میں حصہ لینے اور جدید لٹریچر تیار کرنے کی تحریک۔ حضرت مصلح موعودؓ کا سفر کوئٹہ و سندھ۔ اوکاڑہ اور راولپنڈی میں دو احمدیوں کی المناک شہادت
)خلافت ثانیہ کا چھتیسواں سال ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء(
>اسلام اور ملکیت زمین< کی اشاعت
پاکستان میں کمیونسٹ تحریک نے مختلف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر یہ آواز بلند کرنا شروع کی کہ ملکیت زمین کے بارے میں ہمارے ملک میں اصلاح کی ضرورت ہے مگر جو اصلاح تجویز کی اگرچہ وہ تفصیلاً وہی تھی جو کمیونزم نے تجویز کی ہے لیکن اس کا نام >اسلامی اصلاح< رکھ دیا۔ بعض حلقوں نے اسلامی تعلیمات کو توڑ موڑ کر ایسی شکل دینے کی کوشش کی کہ لوگ اس تحریک کو اسلامی ہی سمجھیں۔ بعض نے رسول اکرم~صل۱~ اور آپ کے صحابہؓ کے تعامل کو نظر انداز کرکے کچھ نئے معنی ان آیات اور احادیث کو دے دیئے جن سے ان کے نظریہ کی تصدیق ہوتی تھی۔
برسر اقتدار مسلم لیگ پارٹی نے اس پروپیگنڈا سے متاثر ہوکر زمیندارہ سسٹم کی اصلاح کے لئے پنجاب` سندھ اور مشرقی بنگال میں کمیٹیاں مقرر کردیں جن کی رپورٹوں پر غور کرنے کے بعد مرکزی مسلم لیگ نے ایک رپورٹ تیار کی جس پر مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے زمیندارہ اصلاح سے متعلق کچھ اصول وضع کئے اور فیصلہ کیا کہ بڑی بڑی زمینداریاں اور جاگیرداری بہرحال جلد ختم کردی جائے۔ اور صوبجاتی حکومتوں کو توجہ دلائی کہ وضع کردہ اصولوں کو جاری کرنے کی کوشش کریں۔
جہاں تک حکومت وقت کے نمائندوں کے فیصلوں کا تعلق تھا حضرت مصلح موعودؓ کو اس پر بحث کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی کیونکہ آپ کا یہ قطعی مملکت تھا کہ سیاسی امور سیاسی لوگوں پر ہی چھوڑ دینے چاہئیں لیکن ایک بین الاقوامی مذہبی جماعت کے دینی راہ نما کی حیثیت سے آپ نے یہ گوارا نہ کیا کہ اسلام کے نام پر کوئی ایسی بات کہی جائے جو اسلام سے ثابت نہ ہو چنانچہ آپ نے اس اہم مذہبی فرض کی بجاآوری کے لئے >اسلام اور مملکت زمین< کے نام سے ایک پراز معلومات کتاب سپرد قلم فرمائی جو صلح ۱۳۳۹ہش/ جنوری ۱۹۵۰ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب بارہ ۱۲ ابواب پر مشتمل تھی اور اس میں اپنے ملکیت اشیاء کے قانون` ملکیت زمین کے اصول` جاگیرداری` وسیع رقبہ اراضی کی ملکیت` لگان اور بٹائی پر زمین دینے اور حکومت کا عوام کی جائیداد پر جبراً قبضہ کرنے کے مسائل پر خالص اسلامی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالی۔ نیز سندھ زمیندارہ کمیٹی اور مسلم لیگ کی زمیندارہ کمیٹیوں کی بعض خامیوں پر بھی عقلی بحث کی۔ اور آخر میں کسانوں اور کاشت کاروں کی حالت زار کی اصلاح کے لئے ایسی مفید تجاویز بتائیں جن سے ملک میں رائج شدہ فرسودہ زمیندارہ نظام کی کایا پلٹ سکتی تھی۔ ان تجاویز کا خلاصہ یہ تھا:۔
۱۔
زمیندار ان تمام طریقوں کو استعمال کریں جن کے ذریعہ مغربی ممالک کے زمیندار آمدن پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً غیرملکی کاشت کار اپنی مملوکہ جائداد کے ہر حصہ کو ہر طریق سے آمدن پیدا کرنے میں لگاتا ہے اور اپنے فارم میں باغ لگا کر` شہد کی مکھیاں` مرغیاں اور گائے پال کر اور علاوہ غلہ کے سبزی ترکاری پیدا کرکے زمین کے چپہ چپہ کو اس طرح استعمال کرتا ہے کہ زمین سونا اگلنے لگتی ہے۔
۲۔
حکومت دیہات میں سوختنی اور تعمیری لکڑی کے ذخائر قائم کرنے کا انتظام کرے تا کسانوں` کاشتکاروں اور زمینداروں کا کھاد ایندھن کی بجائے پیداوار بڑھانے کے کام آسکے۔
۳۔
ہمیں اپنے زمیندارہ نظام کی اصلاح کے لئے امریکہ اور روس کی بجائے )وہاں وسیع اور کھلی زمینیں پڑی ہوئی ہیں یا آبادی کے وسیع مواقع موجود ہیں( اٹلی` جنوبی انگلستان اور وسطی جرمنی میں جانا ۔ ممکن ہے فرانس` سپین` شام اور لبنان سے بھی اس بارہ میں ہم کو کچھ مدد مل سکے۔ جو وفد ان ملکوں کے دورہ کے لئے جائیں ان کو عملی طور پر ایسے کھیتوں میں کام کرنے کی ہدایت ہو جن کی کل زمین دس پندرہ ایکڑ سے زیادہ نہ ہو۔ وہ عملی طور پر معلوم کریں کہ ان کے مالکوں کی کیا حالت ہے؟ اگر ہمارے ملک سے اچھی حالت ہے تو وہ کس ذریعہ سے بنائی جاتی ہے اور کہاں سے اس کے لئے آمد پیدا کی جاتی ہے؟
۴۔
ملکی صنعت و حرفت کو ترقی دی جائے اور اسے صرف بڑے بڑے شہروں میں محدود کرنے کی بجائے پورے ملک میں ایسے طریق پر پھیلایا جائے کہ زمیندارہ آبادی اپنے کاموں کو چھوڑے بغیر صنعت و حرفت میں ترقی کرسکے اور اس کی دلچسپیاں اپنی زراعت کے ساتھ بھی باقی رہیں۔
۵۔
کاشت کار کو یہ بتانے کے لئے پراپیگنڈا کی مہم چلائی جائے کہ مزدوری سے ہرگز نفرت نہیں کی جانی چاہئے۔
۶۔
زمین کے مالک کاشت کاروں سے جو جابرانہ اور ظالمانہ سلوک روا رکھتے ہیں اس کی روک تھام کے لئے قانون بنایا جائے۔ بیگار بند کرانے کے لئے سزائیں مقرر کی جائیں۔ حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ مزار عین اور زمین کے مالکوں سے مشورہ کرکے یہ قانون بھی پاس کرا دے کہ ہر زمین کا مقاطعہ تین سے چھ سال تک کے لئے ہوگا۔ اس مقررہ عرصہ سے پہلے کسی مزارع کو زمین سے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا۔
۷۔
ابتداًء جب پنجاب اور سندھ میں نہریں کھودی گئیں تو ماہرین سائنس نے قبل از وقت بتا دیا تھا کہ اتنے اتنے سال میں یہاں سیم شروع ہوجائے گی لیکن باوجود اس کے حکومت کی طرف سے اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری وقت پر نہ کی گئی۔ اول تو نہریں بناتے وقت ایسی احتیاطیں اختیار کی جانی چاہئیں کہ سیم یا تو پیدا نہ ہو یا کم سے کم پیدا ہو۔ لیکن اگر اس کے لئے بھاری اخراجات درکار ہوں تو کم سے کم معالجاتی تدابیر تو فوراً ہی شروع ہوجانی چاہئیں۔
۸۔
حکومت کو کاشت کے متعلق صحیح اور بروقت راہ نمائی کرنی چاہئے۔ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ عام طور پر ایک ہی جگہ کا بیج استعمال کرتے رہنا فصل کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اچھی فصلوں کے لئے ضروری ہے کہ مختلف دوسری جگہوں سے بیج منگوا کر ڈالا جائے۔ پھر اس معاملہ پر بھی غور کیا جائے کہ کلر اور سیم یا پانی کے بغیر کون سی اجناس پرورش پاسکتی ہیں۔ اور ہمیں وہ بیج نکالنے پڑیں گے جو کلر اور سیم میں یا بغیر پانی کے بھی پرورش پاسکیں اور نہروں کو محدود کیا جائے تاکہ ہمارا ملک دلدل بن جانے سے بچ جائے ورنہ جس رنگ میں ہمارے ملک میں سیم بڑھ رہی ہے تیس یا پینتیس سال میں اس رفتار کے ساتھ اس کی حالت ایسی خطرناک ہوجائے گی کہ ملک کے لئے خوراک مہیا کرنا بھی مشکل ہوجائے گی۔
۹۔
افتادہ زمینوں کے صحیح استعمال کی طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ غیر مسلموں کی متروکہ زمین کا بھی بہت سا حصہ نکلوانے کے قابل ہے۔
۱۰۔
اگر گورنمنٹ تحقیقات کرائے تو اسے معلوم ہوگا کہ سندھ میں کئی لاکھ غیر پاکستانی زمیندارہ یا غیر زمیندارہ مزدوری کررہا ہے۔ یہ لوگ بیکانیر` جیلمیز` جودھ پور` جے پور` کچھ اور تھل کے علاقہ سے آتے ہیں اور مقاطعہ پر زمینیں لے کر کاشت کرتے ہیں یا زمیندارہ مزدوری کرتے ہیں۔ یہ لوگ جو ادھر سے آتے ہیں بعض صورتوں میں بڑے منظم ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں کانگرس کے مقرر کردہ افسر ان کے ساتھ آتے ہیں۔ خطرہ کے وقت میں یہ لاکھوں کی آبادی نہایت ہی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اپنے ملک کی آبادی کے لئے گزارہ کی صورت نہ پیدا کی جائے اور غیر ملک کے لوگوں کو یہ موقع دیا جائے۔
۱۱۔
کاشت کار کی آمدن کا ایک کافی حصہ خود حکام کے پیٹوں میں جاتا ہے اگر اس کو بچایا جائے تو اس سے بھی زمیندار کی حالت بہتر ہوجائے گی۔
۱۲۔
کاشت کار فخر و مباہات اور شادی بیاہ پر بہت خرچ کردیتا ہے جس سے اسے بچنا چاہئے۔
۱۳۔
حکومت کو ایسے ذرائع سوچنے چاہئیں جن سے کاشت کاروں کو مقدمہ بازی کی *** سے نجات ملے۔ صحیح طور پر عوام کی تربیت کی جائے تو مقدمات کم ہوں گے اور گورنمنٹ اور کاشتکار دونوں کا روپیہ بچے گا۔
۱۴۔
اگر تعاون باہمی کی انجمنیں بنائی جائیں اور ان کو سودی اصول کی بجائے تجارتی بنیاد پر چلایا جائے اور گورنمنٹ ایک حد تک روپے یا اجناس کی وصولی میں مدد کرے تو کاشت کار کی گئی فوری ضروریات پوری ہوسکتی ہیں اور وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکتا ہے۔
اس کتاب میں حضور نے ایک طرف مسلم لیگی حکومت کو بھی زبردست انتباہ کیا کہ اگر اس نے غیر طبعی یا غیر شرعی تجاویز کی طرف توجہ کی تو وہ کمیونزم کے حملہ کا مقابلہ کرنے کی طاقت کھو بیٹھے گی دوسری طرف بڑے زمینداروں کو بھی توجہ دلائی کہ:۔
>اسلام کی بنیاد اخوت اور رحم پر ہے۔ ان کو اپنے بھائیوں کی مشکلات کے حل کرنے میں سیاسی لیڈروں سے زیادہ کوشاں ہونا چاہئے۔ اگر وہ غریب زمیندار کی مدد خود خوشی سے کریں گے اور ایسے قوانین کے بنانے میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں گے جن سے ظلم دور ہوجائے اور ان کا غریب بھائی آرام سے زندگی بسر کرے تو یہ بات دین اور دنیا دونوں میں ان کے لئے عزم اور آرام کا موجب ہوگی اور وہ اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے سرخرو جاسکیں گے ورنہ وہ سمجھ لیں کہ اگر حکومت اسلامی احکام کے ادب سے کوئی جابرانہ قانون نہ بھی بنائے تو بھی خدائی عذاب سے ان کو دوچار ہونا پڑے گا اور کوئی چیز بھی ان کو نہ بچا سکے گی<۔۱۵۰
حضرت مصلح موعودؓ کی اس معرکتہ الاراء تصنیف کی بھاری خصوصیت یہ تھی کہ اس میں آپ نے مسلمانان عالم کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرکے اتمام حجت کردی کہ:۔
>اس وقت کمیونزم کا خوف دنیا پر طاری ہورہا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہ بڑی بڑی حکومتیں بھی جو اس وقت کمیونزم کا مقابلہ کرنے کا دعویٰ کررہی ہیں ان کے دل اندر سے کھوکھلے ہورہے ہیں۔ اردو زبان کا یہ مشہور مقولہ ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو یعنی جب دنیا میں لوگ کثرت سے ایک آواز سے اٹھانے لگتے ہیں تو قلوب مرعوب ہوجاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ الٰہی فیصلہ ہے اور اسی طرح ہوکر رہے گا حالانکہ یہ آواز محض ایک رو ہوتی ہے جیسے بہائو کی طرف پانی بہتا ہے لیکن ہمیشہ بہائو کی طرف پانی بہنے دینا کوئی عقلمندی نہیں ہوتی۔ جن لوگوں نے یہ کہا کہ پانی بہائو کی طرف بہا کرتا ہے ان کے ملک اجڑتے رہے لیکن جنہوں نے یہ کہا کہ بے شک پانی بہائو کی طرف بہتا ہے۔ لیکن بہائو کا بنانا بھی خدا تعالیٰ نے انسانوں کے اختیار میں رکھا ہے آئو ہم نئے بہائو بنائیں انہوں نے نہریں بنائیں اور نالے بنائے اور ویران ملکوں کو آباد کردیا۔ پس کوئی شخص میری بات سننے یا نہ سننے میں یہ صاف کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں کمیونزم کے خوف کی وجہ سے کوئی بات نہیں کہنی چاہئے۔ اگر کمیونزم اچھی چیز ہے تو اس سے خوف کے کوئی معنی نہیں ہمیں شوق سے اس کو قبول کرنا چاہئے اور اس کے خلاف سب باتوں کو چھوڑ دینا چاہئے خواہ مذہب کے نام پر کہی جاتی ہوں یا کسی اور نام پر۔ جو بات ٹھیک ہے وہ بہرحال ٹھیک ہے لیکن اگر کمیونزم غلط ہے تو پھر محض اس وجہ سے کہ وہ ایک ایسی تعلیم پیش کررہی ہے جس کی وجہ سے عوام الناس اس کی طرف بھاگے جارہے ہیں ہمارا اس کو قبول کرلینا خودکشی کے مترادف ہوگا اور ہمیں بہادروں کی صف میں نہیں بلکہ بزدلوں کی صف میں کھڑا کرے گا<۔۱۵۱
مجلس مشاورت ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء کا انعقاد
اس سال جماعت احمدیہ کی اکتیسویں مجلس مشاورت مورخہ ۷`۸`۹۔ شہادت کو منعقد ہوئی جس میں علاوہ دیگر اہم فیصلوں کے ۷۶۵۴۲ روپے کا بجٹ آمد وخرچ منظور کیا گیا۔ مشاورت کا انتظام نصرت گرلز ہائی سکول کے صحن میں کیا گیا۔ کل ۳۷۷ نمائندگان نے شرکت کی جن میں مغربی افریقہ` مشرقی افریقہ` امریکہ` سپین` شام` مصر اور ہالینڈ وغیرہ کی احمدی جماعتوں کے ۱۳ نمائندے بھی تھے۔۱۵۲
ہجرت کے بعد سے اب تک نمائندگان مشاورت زمین پر ہی بیٹھتے تھے اور ان کے لئے کرسیوں کا کوئی انتظام نہ ہوتا تھا مگر اس دفعہ حضور نے کارکنوں کو اول نمبر پر یہ ہدایت فرمائی کہ:۔
>وہ مجلس شوریٰ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ اس کے لئے سامان جمع کریں۔ ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ رہے گی اور مجلس شوریٰ بھی ہمیشہ ہوتی رہے گی بلکہ یہ زیادہ سے زیادہ منظم ہوتی چلی جائے گی اس لئے ضروری ہے کہ نمائندگان اور زائرین کے بیٹھنے کے لئے مناسب انتظام کیا جائے<۔۱۵۳
اس ضمن میں حضورؓ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ مجلس میں ہر ضلع کے نمائندوں کو اکٹھا بٹھایا جائے زائرین کو بھی الگ ایک ترتیب سے بٹھانے کا انتظام کیا جائے اور خدام الاحمدیہ کی طرح شوریٰ کے کارکن بھی مشاورت کے دوران بیج لگائیں تاکہ نمائندگان سے ان کا امتیاز ہوسکے۔ قبل ازیں تحریک جدید انجمن احمدیہ کا بجٹ ممبران مجلس تحریک جدید باہمی مشورہ سے بنالیتے تھے اور پھر حضور سے منظوری لے لیتے تھے مگر اس مشاورت پر حضور نے اس فیصلہ کا اعلان فرمایا کہ آئندہ تحریک جدید کا بجٹ بھی مجلس شوریٰ میں پیش ہوا کرے۔
دفاع وطن کی تیاری میں حصہ لینے کی پرزور تحریک
قیام پاکستان کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لینے کے باعث جماعت احمدیہ پاکستان پر یہ دوہری ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ دوسرے محب وطن پاکستانی شہریوں سے بڑھ کر اس نوزائیدہ مملکت کے استحکام میں کوشاں رہے اور اس کے دفاع اور تحفظ کی خاطر فوجی ٹریننگ سیکھے تا جب اسلام` پاکستان اور ملت اسلامیہ کے لئے جانی قربانیاں پیش کرنے کا موقع آئے تو جماعت احمدیہ کے مجاہد صف اول میں کھڑے ہوکر مثالی نمونہ قائم کرسکیں۔
اسی پاک مقصد کے پیش نظر فرقان بٹالین کا قیام عمل میں لایا جاچکا تھا اور حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت پر بہت سے احمدی نوجوان محاذ کشمیر پر شاندار خدمات انجام دے رہے تھے مگر ایک طبقہ مجرمانہ غفلت اور کوتاہی کا ثبوت دے رہا تھا جس پر حضرت امیرالمومنین نے مشاورت ۱۳۲۹ہش میں انتہائی خفگی کا اظہار کیا اور جماعت کو آزادی ملک کے نتیجہ میں عائد ہونے والی قومی اور ملکی فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بتایا:۔
>قادیان میں رہتے ہوئے ہمارے لئے ایک مشکل تھی ورنہ ان دنوں بھی ہم یہی پسند کرتے کہ دشمن سے لڑ کر مرجائیں اور وہ مشکل یہ تھی کہ ہمیں حکومت سے لڑنا پڑتا تھا اور حکومت سے لڑنا ہمارے مذہب میں جائز نہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ قادیان سے ہمارا پیچھے ہٹنا حرام اور قطعی حرام ہوتا اگر حکومت سے مقابلہ نہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔ مگر چونکہ خدا کا حکم تھا کہ حکومت سے نہیں لڑنا اس لئے ہم پیچھے ہٹ گئے جیسے مکہ میں رہتے ہوئے رسول کریم~صل۱~ کے لئے دشمن سے جنگ کرنا جائز نہیں تھا مگر جب آپﷺ~ مدینہ تشریف لے گئے تو لڑائی ہوگئی تو حکومت کے ساتھ ہوکر ہمیں لڑنا پڑے گا اور حکومت کی تائید میں ہمیں جنگ کرنی پڑے گی اس لئے اب پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال ہی نہیں<۔۱۵۴
حضورؓ نے یہ بنیادی نکتہ ذہن نشین کرانے کے بعد بڑے موثر پیرایہ میں تحریک فرمائی کہ احمدیوں کو ملکی قانون کے تحت فوجی ٹریننگ کے ہرممکن موقع سے کماحقہ فائدہ اٹھانا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ جہاد اور جنگ کی تیاری تو چندہ سے بہت زیادہ اہم ہے۔ جیسے نماز فرض ہے اسی طرح دین کی خاطر ضرورت پیش آنے پر لڑائی کرنا بھی فرض ہے۔۱۵۵ چنانچہ فرمایا:۔
>جن امور کو اسلام نے ایمان کا اہم ترین حصہ قرار دیا ہے ان میں سے ایک جہاد بھی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا ہے کہ جو شخص جہاد کے موقع پر پیٹھ دکھاتا ہے وہ جہنمی ہوجاتا ہے اور جہاد میں کوئی شخص حصہ ہی کس طرح لے سکتا ہے جب تک وہ فوجی فنون کو سیکھنے کے لئے نہیں جاتا۔ کشمیر کی جنگ کا شروع ہونا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اہم موقع تھا جس سے ہماری جماعت بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتی تھی بلکہ اب بھی اٹھا سکتی ہے۔ لیکن اگر کشمیر کی جنگ نہ ہوتی تب بھی ہماری جماعت کا فرض تھا کہ وہ فوجی فنون کو سیکھنے کے لئے اپنے نوجوانوں کو پیش کرتی تاکہ اگر براہ راست پاکستان پر ہی حملہ ہوجاتا تو وہ اپنی قوم اور اپنے ملک کی حفاظت کا کام سرانجام دے سکتی۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ فوجی خدمت سے جی چراتے ہیں اس وجہ سے جی چراتے ہیں کہ ان کی اس کام سے جان نکلتی ہے حالانکہ دنیا میں جب بھی کوئی قیمتی چیز کسی کو ملے گی لوگ اسے اس سے چھیننے کی کوشش کریں گے۔ حضرت عیٰسی علیہ السلام ساری عمر یہ کہتے رہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیردو لیکن دشمنوں نے اس شخص کی قوم پر تھی تلوار چلائی اور خود حفاظتی پر مجبور کردیا۔ اسلام کتنا صلح کن مذہب ہے مگر مسلمانوں کو حکومت ملی تو ان کے ملک کو تباہ کرنے کے لئے چاروں سے دشمن کود پڑے۔ رسول کریم~صل۱~ کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت اس قدر استوار تھی کہ گولڑائی میں سب سے زیادہ بہادر آپ سمجھے جاتے تھے مگر آپ دشمن کو اپنے ہاتھ سے مارتے نہیں تھے صرف لوگوں کو ہدایتیں دیتے تھے کہ اس میں اس طرح لڑائی کرو گویا آپﷺ~ کا دل نہیں چاہتا تھا کہ لڑائی کریں لیکن چونکہ دشمن نے آپ کو لڑنے پر مجبور کردیا اس لئے آپﷺ~ کو بھی اس کے مقابلہ میں نکلنا پڑا۔ صرف ایک دفعہ ایک دشمن نے اصرار کیا کہ آپ اس سے لڑائی کریں اور آپ اس کے مجبور کرنے پر اس کے مقابلہ کے لئے تیار ہوگئے۔ مگر بعض دفعہ ایمان کے ساتھ محبت مل کر ایک عجیب مضحکہ خیز مثال پیدا کردیتی ہے۔ رسول کریم~صل۱~ کی بہادری اور جرائت کا حال سب کو معلوم تھا مگر ایک لڑائی میں جب کفار کو ایک جرنیل مقابلہ کے لئے نکلا اور اس نے چیلنج کیا کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ میرے مقابلہ کے لئے نکلیں تو صحابہ~رضی۱~ آپﷺ~ کے گرد اکٹھے ہوگئے کہ آپﷺ~ کی حفاظت کریں حالانکہ آپ ان سے زیادہ بہادر تھے۔ چنانچہ آپﷺ~ نے فرمایا رستہ چھوڑ دو اور اسے آنے دو۔ جب وہ آگے بڑھا اور اس نے حملہ کردیا تو رسول کریم~صل۱~ نے اس کے وار کو روک کر اپنا نیزہ لمبا کرکے محض اس کے جسم کو چھوا اور وہ اسی وقت واپس لوٹ گیا۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ تم اتنے بہادر تھے مگر آج تم نے کیا کیا کہ نیزہ ادھر تمہارے جسم سے چھوا اور ادھر تم واپس لوٹ آئے۔ اس نے کہا تمہیں حقیقت نہیں معلوم تمہیں یہی نظر آرہا ہے کہ وہ نیزہ میرے جسم سے چھوا ہے تم مجھ سے پوچھو جس کے نیزہ لگا ہے تو مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا جہان کی ساری آگ میرے جسم میں بھر دی گئی ہے۔ یہ ایک معجزہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا۔ مگر بہرحال اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریم~صل۱~ لڑائی سے نفرت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ کو لڑنا پڑا۔ پس یہ خیال کرنا کہ ہم محبت اور پیار سے تبلیغ کرنے والے ہیں ہمارے ساتھ کسی نے کیا لڑنا ہے یا یہ کہ ہمارا ملک صلح پسند ہے اس پر کسی نے کیا حملہ کرنا ہے محض جہالت ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر وقت اپنے آپ کو تیار رکھیں اور فوجی ٹریننگ حاصل کریں تا وقت پر اپنے ملک کی حفاظت کرسکیں۔ پس جماعت کو اب یہ فیصلہ کرکے یہاں سے جانا چاہئے کہ وہ اپنے سارے نوجوانوں کو نکال کر فوجی ٹریننگ کے لئے بھجوائے گی ۔۔۔۔۔۔ تاکہ جب کبھی جہاد کا موقع آئے یا رسول کریم~صل۱~ کے اس ارشاد کے مطابق کہ >من قتل دون مالہ و عرضہ فھو شھید< ہمیں اپنے ملک` اپنے امول اور اپنی عزتوں کی حفاظت کے لئے قربانی کرنی پڑے تو ہم اس میدان میں بھی سب سے بہتر نمونہ دکھانے والے ہوں اور دوسرے مسلمان ہمیں یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ مولوی ملک کی حفاظت کے وقت کچے ثابت ہوئے اور یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ کافر بھی بڑی بڑی قربانیاں کیا کرتے ہیں۔ تاریخوں میں لکھا ہے کہ ایک لڑائی کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے ایک شخص کفار پر حملہ آور ہوا اور اس نے ایسی بے جگری کے ساتھ لڑائی کی اور اس طرح کفار کو تہ تیغ کرنا آسان شروع کیا کہ مسلمان اس کو دیکھ دیکھ کر بے اختیار کہتے کہ خدا اس شخص کو جزائے خیر دے یہ اسلام کی کتنی بڑی خدمت سرانجام دے رہا ہے مگر رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا کہ اگر کسی نے اس دنیا کے پردہ پر کوئی دوزخی دیکھنا ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔ جب رسول کریم~صل۱~ نے یہ بات فرمائی تو صحابہؓ سخت حیران ہوئے کہ اتنی بڑی قربانی کرنے والے اور آگے بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والے کے متعلق رسول کریم~صل۱~ نے یہ کس طرح فرما دیا کہ اگر کسی نے اس دنیا کے پردہ پر کوئی دوزخی دیکھنا ہو تو وہ اسے دیکھ لے۔ ایک صحابیؓ کہتے ہیں میں نے کئی لوگوں کو اس قسم کی باتیں کرتے سنا کہ رسول کریم~صل۱~ نے یہ کیا فرما دیا اور میں نے سمجھا کہ ممکن ہے اس سے بعض لوگوں کو ٹھوکر لگے چنانچہ میں نے قسم کھائی کہ میں اس شخص کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا جب تک میں اس کا انجام نہ دیکھ لوں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں میں اس کے ساتھ ساتھ رہا یہاں تک کہ وہ لڑتے لڑتے زخمی ہوا اور اسے لوگوں نے اٹھا کر ایک طرف لٹا دیا۔ وہ درد کی شدت کی وجہ سے کراہتا تھا اور چیخیں مارتا تھا۔ صحابہؓ اس کے پاس پہنچتے اور کہتے کہ >ابشر بالجنہ< تجھے جنت کی خوشخبری ہو۔ اس پر وہ انہیں جواب میں کہتا >ابشرونی بالنار< مجھے جنت کی نہیں دوزخ کی خبر دو۔ اور پھر اس نے بتایا کہ میں آج اسلام کی خاطر نہیں لڑا بلکہ اس لئے لڑا تھا کہ میرا ان لوگوں کے ساتھ کوئی پرانا بغض تھا۔ آخر وہ صحابیؓ کہتے ہیں اس نے زمین میں اپنا نیزہ گاڑا اور پیٹ کا دبائو ڈال کر خود کشی کرلی۔ جب وہ مر گیا تو وہ صحابیؓ رسول کریم~صل۱~ کی مجلس میں پہنچے تو انہوں نے بلند آواز سے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ اللہ کے رسول ہیں۔ آپﷺ~ نے بھی جواب میں فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اس کا رسول ہوں۔ پھر آپﷺ~ نے فرمایا تم نے یہ بات کیوں کہی ہے۔ اس نے کہا یارسول اللہ آپﷺ~ نے فلاں شخص کے متعلق یہ بات کہی تھی اس پر بعض صحابہؓ کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ اتنے بڑے نیک انسان کے متعلق رسول کریم~صل۱~ نے یہ کیا کہہ دیا ہے مگر میں نے کہا خدا کے رسول کی بات جھوٹی نہیں ہوسکتی اور میں نے قسم کھائی کہ میں اسے چھوڑوں گا نہیں جب تک میں اس کا انجام نہ دیکھ لوں۔ چنانچہ میں اس کے ساتھ رہا اور آخر وہ خودکشی کرکے مر گیا۔ تو بے دین لوگ بھی ملک کی خاطر اور حمیت کی خاطر اور جاہلیت کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں کیا کرتے ہیں۔ پس جان اتنی قیمتی چیز نہیں کہ اسے اس طرح سنبھال سنبھال کر رکھا جائے لیکن جب سینکڑوں سالکی غلامی کے بعد کسی کو آزادی ملے اور سینکڑوں سال کے بعد کسی کو اس بات کے آثار نظر آنے لگیں کہ خدا تعالیٰ پھر اسلام کی سربلندی کے مواقع بہم پہنچارہا ہے تو اس وقت بھی اپنے حالات میں تغیر پیدا نہ کرنا اور غلامی کے احساسات کو قائم رکھنا بڑی خطرناک بات ہے۔ ہم تو انگریزوں کے زمانہ میں بھی یہ کہا کرتے تھے کہ غلامی اور چیز ہے اور اطاعت اور چیز۔ جب گاندھی کہتا کہ ہم کب تک انگریزوں کے غلام رہیں گے تو میں ہمیشہ اس کے جواب میں یہ کہا کرتا تھا کہ میں تو انگریزوں کا غلام نہیں میری ضمیر خدا تعالیٰ کے فضل سے اب بھی آزاد ہے اور اگر مجھے جائز رنگ میں ان کا مقابلہ کرنا پڑے تو میں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔ غرض غلامی کے غلط اور گندے احساسات اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے اندر نہیں تھے لیکن دوسرے لوگ اگر ان ہی احساسات کو اب بھی لئے چلے جائیں اور یہ نہ سمجھیں کہ آئندہ ان پر کیا ذمہ داری آنے والی ہے تو یہ بالکل تباہی والی بات ہوگی۔ بہرحال جماعت کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اب ان باتوں کو قطعی طور پر برداشت نہیں کیا جاسکتا<۔
نیز فرمایا:۔
>تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اب تمہاری وطنی حکومت ہے اور وطنی حکومت اور غیر حکومت میں بڑا بھاری فرق ہوتا ہے۔ ہمارے اصول کے مطابق تو غیر حکومت جو امن دے رہی ہو اس کی مدد کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور وطنی حکومت کی مدد کرنا تو اس حدیث کے ماتحت آتا ہے کہ >من قتل دون مالہ وعرضہ فھو شھید< جو شخص اپنے مال اور اپنی عزت کا بچائو کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہوتا ہے۔ یہ شہادت چاہے اتنی شاندار نہ ہو جتنی دینی جہاد میں جان دینے والے کی شہادت ہوتی ہے لیکن بہرحال یہ ایک رنگ کی شہادت ضرور ہے اور انسان جتنا بھی ثواب حاصل کرسکے اس کے ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے<۔
>ایک کرنل نے سنایا کہ کشمیر میں ایک بڑا سخت مورچہ تھا` مہاراجہ کشمیر کا اس کے متعلق یہ اعلان تھا کہ یہ مورچہ چھ مہینے تک فتح نہیں ہوسکتا۔ یہ ان کی ایک خاندانی جگہ تھی جسے انہوں نے بڑا مضبوط بنایا ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہمیں حکم ہوا کہ پٹھانوں کو آگے بھیجو۔ اس وقت کابل کی طرف سے پاوندے آئے ہوئے تھے فوجی افسر نے انہیں اپنے ساتھ لیا اور نقشوں سے بتانا شروع کیا کہ فلاں جگہ سے رستہ گزرتا ہے فلاں جگہ نالہ ہے` فلاں رستہ بڑا خطرناک ہے کیونکہ وہاں دشمن نے مائنز بچھائی ہوئی ہیں پہلے اس طرف سے جانا پھر پہاڑی کے اس طرف چلے جانا پھر اس نالے کو عبور کرنا۔ وہ گھبرائیں کہ یہ اپنی بات کو ختم کیوں نہیں کرتا اور یہ بتاتا کیوں نہیں کہ ہم نے کرنا کیا ہے۔ جب وہ بات کرچکا تو انہوں نے کہا کہ تم صرف اتنا بتائو کہ ہم نے کرنا کیا ہے؟ اس نے کہا فلاں قلعہ پر قبضہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا بس اتنی بات تھی تم نے خواہ مخواہ ہمارا اتنا وقت ضائع کیا۔ اس کے بعد وہ سیدھے اس قلعہ کی طرف چل پڑے` پندرہ بیس گز گئے تھے کہ دشمن کو علم ہوگیا اور اس نے فائرنگ شروع کردی۔ ان کے چالیس پچاس آدمی وہیں ڈھیر ہوگئے۔ اس پر انہوں نے ان لاشوں کی اوٹ میں آگے بڑھنا شروع کردیا پھر کچھ مرے تو انہوں نے ان کی لاشوں کو آگے رکھ لیا اس طرح وہ اپنی لاشوں کو پناہ بناتے ہوئے ہی آگے بڑھتے چلے گئے اور جس قلعہ کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ چھ مہینے تک فتح نہیں ہوسکتا اس قلعہ پر شام کے وقت ہمارا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ اس کرنل نے بتایا کہ وہ اتنی دلیری سے آگے بڑھے کہ ہمیں دیکھ کر حیرت آتی تھی۔ ہم ان سے کہتے کہ دشمن سے چھپو اور وہ ناچنے لگ جاتے اور کہتے کہ ہم تو حملہ سے پہلے ناچار کرتے ہیں۔ یہ دینوی چیزیں جو ایمان کے نہ ہوتے ہوئے بھی مختلف قوموں میں پائی جاتی ہیں۔ اگر یہ پہلی چیزیں ہی ہمارے اندر نہیں پائی جاتیں تو اگلی خوبیاں ہم میں کہاں ہوسکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا دار لوگ جتنی قربانیاں کرتے ہیں وہ ایک چھوٹا پیمانہ ہوتا ہے جس کو دیکھتے ہوئے مومن اپنی آئندہ ترقی کی عمارت تیار کرتا ہے۔ اگر نئی عمارت بنانے کی بجائے ہم اس پیمانہ کی قربانیاں بھی نہ کریں جس پیمانہ کی قربانیاں عام دنیا دار لوگ کیا کرتے ہیں تو ہم سے زیادہ اپنے دعووں میں جھوٹا اور کون ہوسکتا ہے۔ پس آپ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں کہ اب یہ غفلت زیادہ دیر تک برداشت نہیں کی جاسکتی۔ دنیا میں کبھی بھی مذہب نے قربانی کے رستوں کے بغیر ترقی نہیں کی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم کو وہ تکلیفیں نہیں پہنچیں گی جو پہلے لوگوں کو پہنچی ہیں۔ اگر تم ایسا خیال کرتے ہو تو یہ تمہاری غلطی ہے۔ اب دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں یا تو تم یہ سمجھو کہ قرآن نعوذباللہ جھوٹا ہے اس نے یوں ہی ایک گپ ہانک دی ہے اور یا تم یہ سمجھو کہ احمدیت جھوٹی ہے اس نے ترقی ہی نہیں کرنی پھر اس کے لئے جان کی قربانی کی کیا ضرورت ہے۔ اور اگر قرآن نے جو کہا وہ سچ ہے اور اگر احمدیت بھی سچی ہے تو لازماً اپنے ملک کی عزت کی حفاظت کے لئے اس وقت جو موقع پیدا ہوا ہے اس میں تمہیں حصہ لینا پڑے گا کیونکہ یہ تغیر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے لئے پیدا کیا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اسلام کی آئندہ ترقی کے لئے زیادہ قربانیاں ہم کو ہندوستان میں دینی ہوگے یا افریقہ میں لیکن فرض کرو افریقہ میں پیش آتی ہیں تو وہاں کے احمدی ہمارا نمونہ دیکھیں گے اگر ہم اس وقت اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے تو ہم ان سے کہہ سکیں گے کہ پاکستان میں ہم کو دینی جہاد کا موقع تو نہیں ملا لیکن ہمارے دنیوی حکومت پر یا ہمارے ملک اور ہماری قوم پر جب حملہ ہوا تو ہم نے اس کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کو قربان کردیا ہے۔ یہ نمونہ ہے جس سے وہ سبق سیکھیں گے اور اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے<۔۱۵۶
تبلیغ اسلام کے لئے جدید لٹریچر تیار کرنے کی تحریک
چونکہ دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں میں تحریک احمدیت کا اثر و نفوذ تیزی سے بڑھ رہا تھا اس لئے حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود خلیفتہ المسیح الثانی نے اسی مجلس شوریٰ میں نئی ضروریات اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید لٹریچر تیار کرنے کے لئے ایک مفصل سکیم جماعت کے سامنے رکھی جو یہ تھی۔ فرمایا:۔
>ہمارا سلسلہ اس وقت مختلف ممالک میں پھیل رہا ہے اور لوگ ہم سے لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں مگر ہمارے پاس کوئی لٹریچر ایسا نہیں ہوتا جو ان کی ضروریات کو پورا کرنے والا ہو۔ ابتدائی زمانہ میں احمدیت صرف ہندوستان میں محدود تھ اور یہاں زیادہ ان مسائل کا چرچا تھا کہ حضرت عیٰسی علیہ السلام زندہ ہیں یا نہیں` دجال کسے کہتے ہیں` یاجوج ماجوج سے کیا مراد ہے` آنے والے مسیح اور مہدی کی علامات کیا ہیں` جہاد کا کیا مسئلہ ہے۔ یہ اور اسی قسم کے دوسرے مسائل پر جماعت نے لٹریچر شائع کیا۔ اس کے بعد احمدیت انگلستان میں پھیلی تو عیسائیوں کے مخصوص مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریزی لٹریچر شائع کیا گیا لیکن اب ہماری جماعت ایسے ملکوں میں پھیل رہی ہے جن میں اردو تو نہیں بولی جاتی لیکن وہاں مسائل وہی ہیں جو ابتدائی زمانہ احمدیت میں ہمیں پیش آئے یعنی دجال سے کیا مراد ہے` مسیح ناصریؑ نے آنا ہے یا نہیں` جہاد کی کیا حقیقت ہے` مسیح اور مہدی کی پیشگوئیاں کس طرح پوری ہوئی ہیں۔ ایسٹ افریقہ` ویسٹ افریقہ` انڈونیشیا` ماریشس` مڈغاسکر اور عرب ممالک میں یہی مسائل پوچھے جاتے ہیں۔ اور جب وہ ہم سے کہتے ہیں کہ لائو اپنا لٹریچر تو ہم ان کے سامنے اپنا لٹریچر پیش کردیتے ہیں جن میں ان مسائل کا تفصیلی طور پر کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ پس جہاں ہمیں جدید لٹریچر کی ضرورت ہے وہاں ہم نے اپنے لٹریچر کو کہیں عربی زبان میں بدلنا ہے کہیں انڈونیشین میں بدلنا ہے` کہیں افریقن میں بدلنا ہے اور اس کے لئے بڑی بھاری جدوجہد اور کوشش کی ضرورت ہے۔ یہ ایک بہت بڑا علمی کام ہے جو ہماری جماعت نے سرانجام دینا ہے<۔
>اگر تم صحیح معنوں میں کام کرنا چاہتے ہو تو پہلے تم یہ فیصلہ کرو کہ تم نے کرنا کیا ہے؟ اور جماعت کو اس وقت کن مسائل پر قلم اٹھانے کی ضرورت ہے مگر یہ تو کبھی فیصلہ ہی نہیں ہوتا اور جو جی میں آجائے اس کے متعلق اشتہار ہوجاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جس کا ازالہ ہونا چاہئے اور میں صدر انجمن احمدیہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فوراً اس غرض کے لئے ایک کمیٹی مقرر کرے اس کمیٹی کے نصف ممبر تحریک جدید کے ہوں اور نصف ممبر صدر انجمن احمدیہ کے ہوں` اس کمیٹی کا یہ فرض ہوگا کہ وہ اپنے کام کی ہفتہ وار رپورٹ میرے سامنے پیش کرے۔ اس کمیٹی کا یہ کام ہوگا کہ وہ سلسلہ احمدیہ کا قدیم اور جدید لٹریچر شائع کرنے کے لئے ایک مفصل سکیم تیار کرے جو میرے سامنے پیش کی جائے اور پھر منظور شدہ لائنوں پر جماعت کے لئے لٹریچر مہیا کرے۔ اس غرض کے لئے کمیٹی کا سب سے پہلا کام یہ ہوگا کہ وہ تمام ممالک کی ایک لسٹ تیار کرے اور پھر ان زبانوں کی ایک لسٹ تیار کرے جو ان ممالک میں بولی جاتی ہیں۔ اور پھر یہ جائزہ لے کہ ہر مک کے لوگوں کے لئے کس قسم کے لٹریچر کی ضرورت ہے اور کون کون سے مسائل مخصوصہ ہیں جن کے لئے وہ لوگ ہم سے لٹریچر کا مطالبہ کرسکتے ہیں یا جن مسائل میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان کی راہنمائی کریں۔ اس طرح یہ بھی غور کیا جاوے کہ اس وقت ہندوستان اور پاکستان کے لوگ کن کن مسائل کو زیر بحث لاتے ہیں اور پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ آیا اس مقصد کے لئے ہمارے پاس کوئی سابق لٹریچر موجود ہے یا نہیں` اگر ہے تو کون کون سا ہے۔ پھر اس امر پر بھی غور ہونا چاہئے کہ ہمارے پہلے لٹریچر میں کون کون سے مسائل پر زیادہ تفصیلی مواد موجود ہے جس کا خلاصہ شائع کرنے کی ضرورت ہے اور کن مسائل پر ہمارے پاس کم مواد ہے جن پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ تمام امور پر غور کرنے کے بعد عملی کام شروع کیا جائے اور نہ صرف جماعت کو بلکہ غیر ممالک کے لوگوں کو بھی ان کی زبانوں میں لٹریچر مہیا کیا جائے<۔۱۵۷
حکومت پاکستان کا ایک تردیدی بیان
حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے خلاف احراری لیڈر نے جھوٹے الزامات کی مہم جار رکھی تھی جو اس سال تیز سے تیز تر ہوگئی جس پر حکومت پاکستان کی طرف سے حسب ذیل اعلان جاری کیا گیا:
>کراچی ۷۔ مئی:۔ حکومت پاکستان کو گزشتہ چند ماہ میں وقتاً فوقتاً ان الزامات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ جو بعض اردو اخبارات میں چودھری محمد ظفر اللہ خاں وزیر امور خارجہ پاکستان کے خلاف لگائے گئے ہیں۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ جولائی ۱۹۴۷ء میں بانڈری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کے مقدمہ کی وکالت کرتے ہوئے موصوف نے اس پر اصرار کیا کہ انہیں احمدیہ فرقہ کی وکالت کرنے کا بھی موقعہ دیا جائے اور انہوں نے کمیشن پر زور دیا کہ قانون کو ایک >کوہ شہر وار دیا جائے۔ اور بتایا کہ احمدی عام مسلمانوں سے علیحدہ ایک فرقہ ہیں۔ ان الزامات کی بناء پر یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ بانڈری کمیشن کے سامنے احمدیہ فرقہ کی حمایت میں آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خاں کا یہ موقف ضلع گورداسپور کے مسلمانوں کے فیصدی تناسب میں کمی کا موجب بنا۔ جس کی وجہ سے اس ضلع کے مسلم اکثریت کے ضلع کے بجائے مسلم اقلیت کا ضلع شمار کیا گیا اور تقسیم کے فیصلے میں اسے پاکستان میں شامل کرنے کے بجائے جیسا کہ اسے ہونا چاہئے تھا بھارت میں شامل کرلیا گیا۔
حکومت پاکستان کو ان الزامات پر سخت حیرت ہے کیونکہ یہ ان واقعات کے طقعی خلاف ہیں جو حکومت کے نام میں ہیں۔ اس کے باوجود حکومت پاکستان نے الزامات کی پوری تحقیقات کی اور اس تحقیقات سے اس کا یہ یقین اور پختہ ہوگیا کہ یہ الزام بالکل غلط دور بے بنیاد ہیں۔ آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خاں نے احمدیہ فرقہ کی بانڈری کمیشن کے سامنے نہ تو وکالت کی نہ اس فرقہ کی طرف سے بحث کی نہ انہوں نے کسی حیثیت سے کمیشن کے سامنے مبینہ دلائل پیش کئے اور نہ کبھی وہ بیانات دیئے جو ان سے منسوب کئے جاتے ہیں )معتمد کابینہ حکومت پاکستان(۱۵۸
جھوٹ کے بطن سے ہمیشہ ایک نیا جھوٹ جنم لیتا ہے۔ یہی ردعمل اس بیان کا ہوا چنانچہ اس تردیدی بیان پر احراری اخبار >آزاد< ۲۔ جون ۱۹۵۰ء( نے اپنے اداریہ میں احراری لیڈروں کی افترا پردازی پر معذرت کرنے کی بجائے پینترا بدلا اور بدحواسی سے یہ دلچسپ نوٹ کر ڈالا کہ:۔
>احرار زعماء نے مختلف شہروں میں تقریریں فرمائیں برسبیل تذکرہ تقریر کی روانی اور خطابت کے جوش سر ظفراللہ کا نام بھی آتا رہا لیکن اصل مبحث قادیانی جماعت تھی نہ کہ سرظفراللہ کی ذات< حالانکہ جیسا کہ بائونڈری کمیشن کی مطبوعہ رپورٹوں سے ثابت ہے جماعت احمدیہ نے مسلم لیگ کے موقف کی تائید کے لئے اور اس کے وقت میں اپنا میمورنڈم پیش کیا جن میں قادیان کو پاکستان میں شامل کئے جانے کی پرزور حمایت کی تھی۔
حضرت مصلح موعودؓ کا سفر کوئٹہ و سندھ اور بعض خاص علمی تقریبات
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے اس سال بھی دینی جماعتی اغراض کیلئے کوئٹہ اور سندھ کا سفر کیا۔ حضور معہ افراد قافلہ ۵۔احسان
)جون( کو لاہور سے عازم کوئٹہ ہوئے۔۱۵۹]4 [rtf جہاں آپ دو ماہ قیام فرما رہے۔ پھر ۹۔ ظہور )اگست( کو سندھ روانہ ہوئے۱۶۰ اور ۳۱۔ ظہور )اگست( کو سندھ اسٹیٹس کا دورہ ختم کرکے یکم تبوک )ستمبر( کو حیدرآباد اور ۲۔ تبوک )ستمبر( کو کراچی میں رونق افروز ہوئے۱۶۱ اور مسیح موعودؑ کے دلی محبتوں اور دیگر بے شمار بندگان الٰہی کو اپنے علوم ظاہری و باطنی سے فیضیاب کرکے ۲۱۔ تبوک )ستمبر( کو لاہور تشریف لائے۔۱۶۲
یوں تو اس للہی اور مبارک سفر کا ایک ایک دن برکات سماوی کے نزول کا باعث تھا مگر اس کے دوران بعض ایسی خاص علمی تقریبات کا انعقاد بھی ہوا جس نے اس سفر کی افادیت کو مستقل اور دائمی حیثیت دے دی جن کا ذکر آئندہ سطور میں کیا جاتا ہے۔
کوئٹہ میں درس القرآن
حضرت مصلح موعودؓ کے سفر کوئٹہ۱۶۳ کی بڑی غرض یہ تھی کہ ایک تو آپ رمضان کے روزے زیادہ سہولت سے رکھ سکیں۔ دوسرے قرآن کریم کے چند پاروں کے نوٹ مجلس میں بیٹھ کر لکھوا دیں تاکہ احباب جماعت بھی فائدہ اٹھالیں اور پھر یہ نوٹ صاف ہونے کے بعد ان دوستوں کو بھجوا دیئے جائیں جو انگریزی ترجمہ قرآن کو ایڈٹ کررہے تھے کیونکہ پچھلا درس ختم ہوچکا تھا۔ پندرہ پارے انگریزی تفسیر قرآن کے شائع ہوچکے تھے اور مزید مضمون کا تقاضا کیا جارہا تھا۔۱۶۴ چنانچہ یکم رمضان المبارک ۱۳۶۹ھ مطابق ۱۷۔ جون ۱۹۵۰ء کو ایک لمبی دعا کے بعد سورہ مریم درس قرآن کا آغاز کیا جو وجع المفاصل اور درد نقرس کے شدید حملہ کے باوجود بارہ روز تک مسلسل جاری رہا اور رمضان المبارک کے اختتام پر بھی درس دیا۔۱۶۵
جلسہ عام سے حقیقت افروز خطاب
درس کے علاوہ حضور نے سات خطبات دیئے اور مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ اور لجنہ اماء اللہ کوئٹہ کے اجتماعات میں بھی تقریر کی نیز یکم ظہور )اگست( کو ایک جلسہ عام سے بھی خطاب فرمایا جس میں سول اور ملٹری کے اعلیٰ افسر بھی شامل تھے۔
حضورؓ اپنے خطاب میں درج ذیل دو سوالات کے نہایت شرح و بسط سے جواب دیئے:۔
۱۔
احمدی مسلمان دوسروں کے ساتھ نمازیں کیوں نہیں پڑھتے؟
۲۔
احمدی مسلمانوں کے لئے کیا مستقبل پیش کرتی ہے؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے حضور نے مذہبی` عقلی` واقعاتی اور عملی پہلوئوں کے اعتبار سے اس کے مدلل اور عارفانہ جواب دیئے۔
چنانچہ حضور نے فرمایا یہ سوال اپنے اندر کئی پہلو رکھتا ہے جن میں سے ایک اس کا مذہبی پہلو ہے ہمارا بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ وہ ان پیشگوئیوں کے مطابق دنیا میں مبعوث ہوئے ہیں جو مسیح و مہدی کی آمد کے متعلق اسلام میں پائی جاتی تھیں۔ یہ سوال الگ ہے کہ ان کا دعویٰ صحیح تھا یا غلط بہرحال جب ہم انہیں مسیح و مہدی تسلیم کرتے ہیں تو لازماً ہم سے ان ہی باتوں کی امید کی جائے گی جو رسول کریم~صل۱~ نے آنے والے کے متعلق بیان فرمائی ہے۔ اور جب ہم احادیث کو دیکھتے ہیں تو ان میں ہمیں رسول کریم~صل۱~ کا یہ ارشاد نظر آتا ہے کہ کیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم واما مکم منکم تم اس وقت کیسے اچھے حال میں ہوگے جب مسیح تم میں نازل ہوگا اور اس وقت تمہیں نمازیں پڑھانے والا تم ہی میں سے ہوگا۔ دوسری روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وامکم منکم تمہاری نماز کی امامت ایسا شخص کرے گا جو تم میں سے ہوگا۔ اب اس کے دو ہی معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ مسلمانوں کو اس وقت مسلمان ہی نماز پڑھایا کریں گے اور دوسرے یہ کہ مسیح کی جماعت کو مسیح کے پیرو ہی نمازیں پڑھایا کریں گے۔ پہلے معنی ایسے ہیں جو یہاں چسپاں نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ کہنا کہ مسلمانوں کو مسلمان ہی نمازیں پڑھایا کریں گے اس کے یہ معنی ہیں کہ گویا پہلے عیسائی اور یہودی اور زرتشتی بھی ان کے امام ہوا کرتے تھے مگر مسیح کے آنے کے بعد صرف مسلمان ہی نمازیں پڑھایا کریں گے۔ پس یہ معنی تو بالبداہت باطل ہیں لازماً اس کے دوسرے معنی ہی ہوسکتے ہیں کہ مسیح کو ماننے والوں کا امام انہی میں سے ہوگا۔ پس یہ تو سوال ہوسکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب مسیح موعود ہیں یا نہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اگر وہ مسیح موعود ہیں تو ان کی جماعت دوسروں کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتی یا پھر یہ بحث ہوسکتی ہے کہ یہ حدیث غلط ہے یا یہ کہ اس کا کچھ اور مطلب ہے مگر نماز کا مطالبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ تم رسول کریم~صل۱~ کی بات کیوں مانتے ہو۔ دوم` رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہے کہ امام وہ ہو جو اتقی ہو۔ اس حکم کی موجودگی میں بھی یہ مطالبہ خلاف عقل ہے کیونکہ جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ایک مامور پر ایمان رکھتی ہے اور جب اس کا یہ عقیدہ ہے تو لازمی طور پر اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ دوسروں سے تقویٰ میں` طہارت میں اور پاکیزگی میں افضل ہے اور جب جماعت احمدیہ کے لوگ دوسروں سے اتقیٰ ہوئے اور رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں کہ امام وہ ہونا چاہئے جو اتقیٰ ہو تو یہ کس طرح مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ اتقیٰ شخص دوسروں کے پیچھے نماز پڑھے۔ آخر وہ اپنے عقیدہ کے مطابق مسیح و مہدی پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیا مسیح و مہدی کو ماننے والے کا اتنا بھی حق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو اتقیٰ سمجھے<۔
حضورؓ نے فرمایا:۔
>اس مسئلہ کا ایک عقلی پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ الف:۔ ہر مامور کو ماننے والے ابتداء میں تھوڑے ہوتے ہیں` تھوڑے ماننے والے کثرت سے ملیں تو اپنا جوہر کھو بیٹھتے ہیں۔ پس ان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے الگ رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے حکم دیا ہے کہ کونوا مع الصادقین تم ہمیشہ سچوں کے ساتھ بیٹھا کرو انسان اپنے ہم جلیس کے اخلاق اور اس کی عادات کو اختیار کرلیتا ہے۔
ب۔ پھر مامور کا سوال بھی جانے دو کم از کم اتنا تو ہر ایک شخص تسلیم کرتا ہے کہ احمدی جماعت دنیا بھر میں تبلیغ کرتی ہے اور اس میں وہ دوسروں سے ہزاروں گنے زیادہ ہے اگر وہ دوسروں میں جذب ہوجائے تو یہ خدمت اسلام ختم ہوجائے گی اور جس طرح اور لوگ اپنی طاقتوں اور اپنے روپیہ کو دنیوی کاموں میں صرف کررہے ہیں وہ بھی دنیوی کاموں پر روپیہ وغیرہ صرف کرنے لگ جائے گی۔ پس اس نیکی اور خدمت اسلام کا بھی تقاضا ہے کہ احمدی دوسروں سے الگ رہیں۔
ج۔ یہ تو احمدی جماعت سے امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے آپ کو جھوٹا کہے وہ بہرحال اپنے آپ کو سچا کہے گا اور وہ اپنے آپ کو سچا کہتی ہے تو اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اس سچ کو ہر ایک تک پہنچائے۔ اب اس کے لئے کوئی طبعی ذرائع ہونے چاہئیں تھے تاکہ لوگوں کو احمدیت کے بارے میں سننے کا شوق پیدا ہو۔ نماز وغیرہ مسائل ہی ہیں جو لوگوں کو ادھر توجہ دلاتے ہیں۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ نمازیں نہیں پڑھتے تو ہر ایک کے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے میں ان کو سمجھاتا ہوں اور جب وہ ہمارے پاس آتے ہیں تو ہماری تبلیغ کا رستہ کھل جاتا ہے۔ اور اس طرح سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں کو احمدیت کی واقفیت ہوجاتی ہے<۔
تقریر جاری رکھتے ہوئے حضورؓ نے فرمایا:۔
>اس مسئلہ کا ایک واقعاتی پہلو بھی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علماء کے فتویٰ کفر کے کئی سال بعد تک نماز کو منع نہیں کیا بلکہ خود بھی ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے مگر علماء اپنے فتویٰ کی شدت میں بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ انہوں نے اپنی مسجدوں پر لکھ کر لگا دیا کہ >اس مسجد میں کتے مرزائی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں< جس جگہ احمدیوں کا پیر پڑجاتا اسے ناپاک سمجھا جاتا اور پانی سے دھویا جاتا۔ کئی جگہ مسجدوں کی صفیں اس لئے جلا دی گئیں کہ ان پر کسسی احمدی نے نماز پڑھ لی تھی۔ جب انہوں نے اس معاملہ کو انتہا تک پہنچا دیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی حکم دے دیا کہ اب ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے جیسے رسول کریم~صل۱~ مکہ میں بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھیں مگر یہودی اور عیسائی ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ ہم سے ڈر کر اس طرف نمازیں پڑھی جاتی ہیں آخر خدا نے بیت اللہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دے دیا۔ اس پر یہود نے شور مچا دیا کہ دیکھو کتنا بڑا ظلم ہے اتنا پرانا قبلہ تھا مگر اسے چھوڑ دیا گیا۔ گویا جب تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھتے رہے نعوذباللہ ڈرپوک کہلائے اور جب چھوڑا تو ظالم بن گئے۔ یہی حالت علماء کی ہے کئی سال تک ہماری جماعت ان کے پچیھے نمازیں پڑھتی رہی مگر یہ لوگ یہی کہتے رہے کہ احمدی اتنے ناپاک ہیں کہ اگر یہ مسجد میں بھی داخل ہوجائیں تو مسجد کو صاف کرنا چاہئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے حکماً منع کردیا۔ پس جب خود علماء نے ہمارے خلاف فتوے دئے ہیں اور اب تک انہوں نے اپنے فتووں کو واپس نہیں لیا تو احمدیوں پر کیا الزام ہے۔
۲۔ حضور نے فرمایا علماء کی طرف سے جو سلوک احمدی جماعت سے ہوتا رہا ہے وہ بھی اس مطالبہ کو جائز نہیں کرتا۔ نماز علماء پڑھاتے ہیں اور ان کا یہ حال ہے کہ شروع سے ہمیں دکھ دیتے چلے آئے ہیں سب سے پہلے احمدیوں کے واجب القتل ہونے کا انہوں نے فتویٰ دیا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر دہلی اور امرتسر میں پتھرائو کیا گیا۔ لاہور میں آپؑ کی وفات پر بدترین نمونہ دکھایا گیا اور مصنوعی لاش بنا کر اس پر پاخانہ پھینکا گیا` جوتیاں ماری گئیں اور احمدیوں کی شدید دل آزاری کی گئی۔ ہم اس سلوک کی پرواہ نہیں کرتے لیکن جب ہم سے اس قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں تو ہمیں یہ باتیں یاد آجاتی ہیں۔ پھر مجھ پر سیالکوٹ میں پتھر برسائے گئے` میرے قتل کی تدبیریں کی گئیں` کابل میں ہمارے احمدیوں کو سنگسار کیا گیا۔ مصر میں ہمارے ایک احمدی کو شہید کیا گیا۔ گزشتہ سال اسی کوئٹہ میں ڈاکٹر میجر محمود کو خنجر مار کر شہید کردیا گیا۔ کیا اس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ساتھ نمازیں کیوں نہیں پڑھتے۔ کیا یہ سلوک نماز پڑھانے کی ہی تمہید ہے؟
اس کے بعد حضور نے فرمایا اس مسئلہ کا ایک عملی پہلو بھی ہے۔ کوئی بتائے کہ کیا مسلمانوں پر کبھی کوئی مصیبت آئی ہے جس پر ہم نے ان کا ساتھ نہ دیا ہو یا احمدی قومی کاموں میں دوسروں سے پیچھے رہے ہوں۔ ملکانہ میں ارتداد ہوا تو ہم پہنچے` بہار کے فسادات میں ہم نے مسلمانوں کی مدد کی` پنجاب کے فسادات میں ہم نے مسلمانوں کی مدد کی` مسلم لیگ کی ہم نے مدد کی` مشرقی پنجاب کے فسادات کے دوران ہم نے مسلمانوں کی مدد کی۔ ان حالات میں نماز پڑھ لینے سے کیا فرق پڑجائے گا اور اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ آخر غرض تو یہی ہے کہ اختلاف عقائد کے باوجود مسلمان سیاسی اتحاد رکھیں اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم ہمیشہ اس میں حصہ لیتے رہے ہیں پھر کونسی نئی تبدیلی ہے جو اس مسئلہ سے پیدا ہوجائے گی۔
حضور نے فرمایا:۔ اس مسئلہ کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ قومی کام ایک ایک فرد یا جماعت میں تقسیم ہوتے ہیں۔ فوج سے فوجی بات کرسکتے ہیں` پولیس سے پولیس والے اور مجسٹریٹ سسے مجسٹریٹ۔ نماز ایک مذہبی عقیدہ ہے اور اس کی امامت علماء کے سپرد ہے پس وہی حق رکھتے ہیں کہ اس کا تصفیہ کریں۔ تعجب ہے کہ ایک فوجی افسر سے اگر فوجی امور کے تصفیہ کے لئے کوئی دوسرا بات کرے تو وہ کہیں گے یہ فوجی امر ہے۔ بالمقابل فوجی افسر بات کرے۔ لیکن نماز کا تصفیہ ایک فوجی افسر جسے قوم کی طرف سے بولنے کا حق نہیں` ایک سیاسی لیڈر جسے قوم کی طرف سے مذہبی فیصلہ کا اختیار نہیں وہ تصفیہ چاہتا ہے حالانکہ یہ امر دونوں فریق کے علماء میں طے ہوسکتا ہے۔ پس آپ اپنے علماء میں تحریک کریں کہ وہ احمدیوں سے کہیں کہ ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں آپ ہمارے پیچھے نماز پڑھیں۔ ان کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جائے تو جماعت کے علماء ان سے بات کرسکتے ہیں ورنہ تعلیم یافتہ طبقہ میں سے کونسا شخص ہے جویہ کہے کہ میں تمام پاکستان کی مساجد کا ذمہ دار ہوں کہ وہاں کے علماء احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھیں گے احمدی ان کے پیچھے نماز پڑھیں۔ نہ وہ ایسا دعویٰ کرسکتے ہیں نہ ان کی بات علماء مانیں گے۔ پھر ایسا مطالبہ جو وہ خود اپنے علماء سے نہیں منوا سکتے کس طرح تقویٰ کے مطابق ہوسکتا ہے۔ آخر قومی کام قوم کے نمائندے کرتے ہیں اور نمائندے بھی اسی محکمہ کے جس سے وہ سوال تعلق رکھتا ہو۔ پس جو نمائندہ نہیں اور دین کے بارہ میں علماء کا نمائندہ نہیں اسے ایسی باتیں ہی نہیں کرنی چاہئیں۔ مصنف مزاج آدمی کو اگر کوئی بات غلط معلوم ہوتی ہے تو پہلے وہ اپنی قوم سے غلطی منواتا ہے پھر دوسرے فرقہ کی طرف توجہ کرتا ہے۔
اپنی معرکتہ الاراء تقریر کے دوسرے حصہ میں حضور نے فرمایا:۔
دوسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ احمدیت مسلمانوں کے لئے کیا مستقبل پیش کرسکتی ہے۔ میرے نزدیک یہ سوال صحیح الفاظ میں پیش نہیں کیا گیا۔ احمدیت کوئی نیا دین نہیں کہ اس نے کوئی نیا پروگرام بنایا ہے احمدیت تو اسلام کی ترقی کی ایک کڑی ہے۔ فوجی محکمہ بالا ایک سکیم بناتا ہے اس کے حصے وہ مختلف افسروں کے سپرد کرتا ہے ہر افسر اپنے اپنے حصہ اور اپنے وقت کو پورا کرتا ہے` اجزاء بدلتے جاتے ہیں مگر سکیم ایک ہی رہتی ہے کیونکہ ہر نیا جزو پرانی سکیم کا ایک حصہ ہوتا ہے نئی شے نہیں ہوتی۔ پس سوال یہ ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کا کیا مستقبل اس زمانہ کے بارہ میں تجویز کیا ہے جسے پورا کرنے کے لئے احمدیت کھڑی ہوئی ہے۔ حضور نے فرمایا مستقبل خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ~صل۱~ مقرر کرسکتے ہیں۔ مرزا صاحب ایک نائب کمانڈر ہیں ان کا اور ان کی جماعت کا کام یہ ہے کہ کمانڈر کی مقرر کی ہوئی سکیم کو جاری کریں اور کامیابی تک پہنچائیں۔ فوجی یہ سمجھ لیں کہ خدا تعالیٰ بادشاہ ہے محمد رسول اللہ~صل۱~ چیف آف دی جنرل سٹاف ہیں اور مرزا صاحب لوکل کمانڈر ہیں مگر چونکہ یہ کمان جگہ کی بجائے وقت میں پھیلی ہوئی ہے۔ لوکل کمانڈر کو اصولی پلین چیف آف دی جنرل سٹاف سے آتی ہے تفصیلات ان کے مطابق وہ خد طے کرتا ہے۔ حضور نے فرمایا:۔ دعائے ابراہیمی محمد رسول اللہ~صل۱~ کا یہ کام بتایا گیا ہے کہ یتلوا علیھم ایتک ویعلمھم الکتاب والحکمہ و یزکیھم۱۶۶ گویا تعلیم آیات` تعلیم کتاب` تعلیم حکمت اور تزکیہ یعنی پاک کرنا اور اسلام کو پھیلانا( یہ تعلیم ہے جو مختلف زمانوں کے لحاظ سے تفصیلات میں تو بدلے گی لیکن اصول وہی رہیں گے۔ رسول کریم~صل۱~ کے بعد ہمیشہ جو کمانڈر آئے ان کا کام یہ تھا کہ لوگوں کو اسلام پر قائم رکھیں یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ ملک کی حفاظت کریں لیکن پھر ایک ایسا زمانہ آیا کہ رسول کریم~صل۱~ کی طرف سے مسلمانوں کی توجہ ہٹ گئی اور اس کے نتیجہ میں انہیں دنیوی شکست بھی پہنچی` دشمن غالب آگیا اور چھا گیا۔ اب اس زمانہ کے مامور کا پروگرام یہ ہے کہ تلاوت آیات اور تعلیم کتاب و حکمت و تزکیہ پھر سے کرے اور اسلام کی ترقی کے لئے پھر سے سکیم بنائے سو اس نے تلاوت آیات اور تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت کی اور اس کی جماعت ایسا کررہی ہے۔ حضور نے فرمایا:۔ قومیں ہمیشہ آئیڈیز۱۶۷ سے ترقی کرتی ہیں حضرت مرزا صاحب نے مسلمانوں کے سامنے آئیڈئیز۱۶۸ رکھ دیئے ہیں جن سے مسلمانوں کے لئے ترقی کرنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ مثلاً حضرت مرزا صاحب نے مندرجہ ذیل عظیم السان اصول پیش کئے ہیں جن کو مان کر مسلمان دشمن کے روحانی حملہ سے بچ جاتا ہے اور دشمن اس کے آگے آگے بھاگتا ہے:۔
۱۔
قرآن کریم کا کوئی حصہ منسوخ نہیں۔
۲۔
قرآن کریم اپنے اندر شاندار ترتیب رکھتا ہے۔
۳۔
الہام الٰہی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے۔
۴۔
مسلمان رسول کریم~صل۱~ کی شاگردی اور اتباع میں اعلیٰ سے اعلیٰ درجے حاصل کرسکتا ہے۔
۵۔
نبی معصوم ہوتے ہیں خصوصاً نبی کریم~صل۱~ بالکل معصوم تھے اور آپ پر دشمن کے ہر قسم کے اعتراضات باطل ہیں۔
۶۔
مسیح علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں۔
۷۔
مسیح علیہ السلام کی طرف خدائی صفات منسوب کرنا غلطی ہے۔ اللہ کی طرف سے ایسے معجزات ہرگز نہیں دکھائے جاتے جو صفات الٰہیہ کے خلاف ہوں۔
ان تمام پہلوئوں پر حضور نے تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے حضرت مرزا صاحبؑ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مسلمان اپنی اپنی جگہ اپنے بچائو کی تو بے شک کوشش کریں لیکن چونکہ اس وقت ان کے خلاف مذہبی جنگ نہیں کی جاتی اس لئے غیر ادیان سے اس وقت تبلیغی جنگ کی جائے گی اور تبلیغ سے ہی اسلام کو سب دنیا میں پھیلایا جائے گا۔ پس اس وقت مسلمان اگر دنیا پر غالب آسکتے ہیں تو تبلیغ کے ذریعہ ہی مگر افسوس مسلمان اس چیز کو بول گئے ہیں جو ان کے غلبہ کا ایک ہی ذریعہ ہے۔ یہ مستقبل ہے جو مرزا صاحب نے پیش کیا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہی وہ حربہ ہے جس سے اسلام اس وقت ساری دنیا میں غالب آسکتا ہے۔۱۶۹
کوئٹہ کے غیر متعصب اور متین غیر احمدی طبقہ نے یہ پرمعارف اور مدلل لیکچر بہت پسند کیا اور تسلیم کیا کہ امام جماعت احمدیہ نے اپنی جماعت کا موقف نہایت خوش اسلوبی سے صحیح ثابت کر دکھایا ہے چنانچہ شیخ کریم بخش صاحبؓ نائب امیر جماعت احمدیہ۱۷۰ کوئٹہ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی خدمت میں لکھا کہ:۔
>حضور کی کل کی تقریر سے پبلک پر بہت اچھا اثر ہوا ہے اور میں نے کئی غیر احمدیوں سے سنا ہے کہ آج ہمیں احمدیت کے متعلق پورا علم ہوا ہے۔ ہمارے ایک غیر احمدی مہمان شیخ عبدالرحمن صاحب نے بھی جلسہ میں کہہ دیا تھا کہ حضرت صاحب بہت ذہین اور عالم بزرگ ہیں اور ان پر بفضل خدا بہت اچھا اثر ہوا ہے۔ لوگوں نے بہت دلچسپی سے حضور کے لیکچر کو سنا حالانکہ مجلس میں بہت سے کٹر شیعہ سنی اور اہل حدیث موجود تھے۔ بندہ کا تو یہ خیال ہے کہ احمدیت کے متعلق کوئٹہ میں پہلا موثر لیکچر ہے جو حضور نے فرمایا اور عام پبلک میں بخوبی مقبول عام ہوا<۔۱۷۱
اسی ضمن میں بعض غیراز جماعت معززین کے تاثرات ملاحظہ ہوں:۔
۱۔
کیپٹن محمد اظہر حسن انصاری صاحب:۔
>نہایت بصیرت افروز لیکچر تھا۔ مجھے ان لوگوں پر جو دوران لیکچر میں اٹھ رہے تھے )گو وہ نماز عصر کے لئے اٹھے تھے( سخت غصہ آرہا تھا میں اس سے بہت محظوظ ہوا۔
۲۔
لیفٹیننٹ سید احمد شعاع زیدی )فرید آبادی:(۔
>اس لیکچر کا خوب لطف آیا<
۳۔
جمعدار محمد ہاشم صاحب:۔
>شرافت کا تقاضا ہے کہ خواہ ہم انکار کریں صداقت صداقت ہی ہے۔ MESS میں جاکر کئی ایک جمعدار صوبیدار حالت رات بارہ بجے تک خوب اس لیکچر پر بحث کرتے ہوئے سوائے ایک دو کے جو مخالف تھے باقی بہت مداح تھے۔ نماز الگ پڑھنے کے دلائل ہر طرح سے نہایت مسکت تھے۔ مجھے لیکچر سے نہایت ہی روحانی خوشی حاصل ہوئی<۔
۴۔
مسٹر غلام احمد منشی )سویلین آفیسر اصل وطن پونا:(۔
>یہ لیکچر سن کر میں ان لوگوں کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا جو محض دشمنی کی وجہ سے جماعت احمدیہ کی مخالفت کرتے اور گالیاں بکتے ہیں۔ لیکچر نہایت عمدہ تھا اور میں نے بہت پسند کیا<۔
۵۔
مسٹر محمد صادق صاحب پراچہ )سویلین آفیسر۔ اصل وطن میانی ضلع شاہ پور:(۔
>لیکچر بہت عمدہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں میں آپ کی جماعت کی تنظیم بہترین ہے<۔
۶۔
مسٹر نصیر الدین حیدر )سویلین آفیسر۔ اصل وطن یوپی:(۔
>مضمون بہت اچھا تھا۔ حضور کے علم کی وسعت اور قابلیت میں ذرا بھر کلام نہیں<۔۱۷۲
‏tav.12.13
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
حیدرآباد میں اسلام اور کمیونزم کے موضوع پر لیکچر
یکم تبوک ۱۳۲۹ہش/ ستمبر ۱۹۵۰ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے حیدرآباد کے تھیوسافیکل ہال میں اسلام اور کمیونزم کے موضوع پر ایک حقیقت افروز لیکچر دیا جو قریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہا۔
صدر جلسہ مکرم محمد حافظ صاحب بار ایٹ لاء ریٹائرڈ اے۔ ڈی۔ ایم و ڈپٹی کلکٹر تھے۔ حضور نے اسلام اور کمیونزم کے اختلاف پر تفصیلی طور پر روشنی ڈالتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات بیان فرمائے:۔
اول:۔ اسلام کی بنیاد ایک ایسے خدا کی ذات پر ہے جو زندہ اور فعال ہے لیکن کمیونزم کے بانی اپنی کتب میں واضح طور پر کہتے ہیں دنیا کا کوئی خدا نہیں بلکہ وہ خدا تعالیٰ تمسخر کرتے ہیں اور اس کی ذات پر ایمان لانے والوں کو بیوقوف قرار دیتے ہیں۔ ابتدائی ایام میں روس میں ایسے تماشے بھی دکھائے جاتے تھے جن میں خدا تعالیٰ کو ایک مجرم کی حیثیت میں ۔۔۔۔۔ پیش کیا جاتا تھا اور پھر اس مجسمہ کو پھانسی کے تختہ پر لٹکایا جاتا تھا ایسی صورت میں ایک مسلم کہلانے والے کا کمیونزم کے ساتھ جوڑ ہی کیا ہوسکتا ہے؟
دوم۔ کمیونزم مذہب کا مخالف ہے اور اس کا سارا سسٹم ایسا ہے جو مذہب کو تباہ کرنے والا ہے۔ ہمارا مشن اس وقت قریباً تمام ممالک میں ہیں لیکن روس میں ہم نے ایک دفعہ اپنا مبلغ بھیجا تو اسے سخت دکھ دئے گئے اور آخر انہوں نے اپنے ملک سے باہر نکال دیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ کمیونزم میں مذہب کی کوئی جگہ نہیں۔
سوم۔ اسلام کی بنیاد روحانی صفائی پر ہے لیکن کمیونزم یہ کہتی ہے کہ روح کوئی چیز نہیں اور یہ کہ دنیوی مسائل کو کلی طور پر مادیات کے ساتھ حل کیا جاسکتا ہے اس کا خیال ہے روحانیت کو پیش کرنے سے غرباء کو نقصان پہنچتا ہے اور ان کے حقوق تلف ہوتے ہیں۔
چہارم:۔ اسلام کی بنیاد نبوت پر ہے لیکن کمیونزم کے نزدیک سارے نبی نعوذباللہ جھوٹے اور مفتری تھے بلکہ مذہب کے بانی ان کے نزدیک ۔۔۔۔۔ امراء کے ایجنٹ تھے تاکہ امراء ترقی کرتے جائیں اور غرباء ہلاک ہوتے جائیں۔
پنجم۔ اسلام کی بنیاد کلام الٰہی پر ہے لیکن کمیونزم کے نزدیک یہ کوئی چیز نہیں۔
ششم:۔ اسلام کی بنیاد بعث بعد الموت پر ہے لیکن کمیونزم اس کے بالکل خلاف ہے گویا کمیونزم ہمارے پنج ارکان اسلام کے ہی خلاف ہے۔
اور جب اس کا اسلام کے ساتھ اس قدر بنیادی اختلاف ہے تو ایک باغیرت اور سمجھدار انسان کس طرح کہہ سکتا ہے کہ میں مسلمان بھی ہوں اور کمیونسٹ بھی۔
جماعت کے دوستوں کے علاوہ جلسہ میں تین سو کے قریب غیر احمدی معززین بھی موجود تھے جو بے حد متاثر ہوئے اور صدر جلسہ نے بھی اپنے صدارتی ریمارکس میں تقریر کی بہت تعریف کی۔۱۷۳
حضرت مصلح موعود کا رقم فرمودہ کا ایک اہم مکتوب
جناب ہدایت اللہ صاحب بنگوی افسر جلسہ سالانہ انگلستان مولف کتاب کے نام( تحریر فرماتے ہیں۔
>خاکسار فارن منسٹری میں ملازم تھا ۱۹۵۰ء میں خاکسار کی تبدیلی پاکستانی سفارتخانہ فرانس میں ہوگئی جو ابھی کھلا نہ تھا۔ اگست کے دوسرے ہفتہ میں میں نے دفتر سے ۱۵۔ دن کی رخصت حاصل کی تاکہ پنجاب پنجاب میں ربوہ اور دیگر مقامات پر جاکر حضور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور اپنے عزیز و اقرباء سے مل آئے۔ جب سفر کے لئے تیار ہوا تو پتہ لگا کہ حضرت صاحب تو زمینوں پر سندھ تشریف لے آئے ہیں چنانچہ خاکسار بجائے پنجاب کے سیدھا ناصر آباد )سندھ( حضور کی ملاقات کے لئے چلا گیا اور تمام رخصت وہیں پر گزار دی۔ حضور اکثر ذرہ نوازی فرماتے شام کو سیر کو جاتے ہوئے بھی خاکسار کو ساتھ لے لیتے نیز اکثر اوقات سندھ کی زمینوں کے ایجنٹس/ منیجروں وغیرہ کے اجلاس حضور کی صدارت میں ہوتے تو اس میں بھی اس عاجز کو بلا کر شامل کرلیتے اور یوں یہ مبارک دن بہت جلد گزر گئے۔ چلنے سے پیشتر اس عاجز نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور کچھ نصائح اس عاجز کو اپنے ہاتھ سے رکھ کر عطا فرماویں جس پر ازراہ بندہ پروری حضور نے کمال شفقت سے ایک خط اپنے ہاتھ سے لکھ کر مورخہ ۱۹۵۰-۰۸-۱۳ عطا فرمایا جس کی نقل پیش خدمت ہے۔ بندہ ۲۴۔ اگست ۱۹۵۵ء کو بذریعہ سمندری جہاز پیرس کے لئے روانہ ہوا اور پھر حضور سے ۱۹۵۵ء میں ہیگ کے مقام پر جبکہ حضور علاج کے لئے تشریف لائے تھے خاکسار نے حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ فالحمدلل¶ہ علیٰ ذالک۔
‏SECRATORY GENERAL
خاکسار ہدایت اللہ بنگوی
‏JAMMAT AHMADIYYA
1985۔08۔11
‏K)۔(U (LONDON)
‏ad] gROAD[ta PARK DEN WIMBLE ۔152
18۔SW LONDON,
حضرت مصلح موعود کا مکتوب
ناصر آباد اسٹیٹ 1950۔8۔13
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزیزم چوہدری ہدایت اللہ صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ`
آپ فرانس جارہے ہیں۔ سیر کے لئے نہیں ملک و قوم کی خدمت کے لئے۔ اس غرض کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھئے کامیابی کی کلید ثابت ہوگی۔ ہمارے زمانے کی خطرناک بیماریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کشش میری طرف سے ہے نتیجہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے حقیقتاً یہ اصل درست ہے مگر اس کا استعمال غلط ہورہا ہے۔ اس یقین نے قوت عملیہ کو بے کار کردیا ہے۔ لوگ دماغ پر پورا زور نہیں ڈالتے کیونکہ نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے الزام اس پر لگے گا۔ یہ بری الذمہ رہیں گے۔ علاوہ جناب باری میں گستاخی کرنے کے قوم اور ملک کو تباہ کرنے کا بھی یہ عقیدہ ذمہ دار ہورہا ہے۔ جس طرح خوارج کے دعوٰ¶ پر کہ الحکم للہ والامر شوری بیننا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ کلمہ الحکمہ ارید بہ الباطل۔ یہ ایک سچی بات ہے جسے بے محل استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی سچی ہے کہ کوشش انسان کی اور نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے مگر اس سچی بات کو آج کل بہت غلط طور پر استعمال کیا جارہا ہے اور اسلام اور مسلمان تباہ ہورہے ہیں۔ مسلمان کارکن اپنے دماغ اور دل کا صحیح استعمال نہیں کرتے اور اپنی ناکامیوں کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کردیتے ہیں اور مجرم بدی بن جاتا ہے اور خدا تعالیٰ جو پاک اور قدوس ہے مجرم بن جاتا ہے یہی قاعدہ دینی امور اور انفرادی جدوجہد پر بھی لگتا ہے۔ اگر مسلمان اس غلطی کی اصلاح کرلیں اور بدنتیجہ کو اپنی غلطیوں کا نتیجہ سمجھیں تو ملت و ملک بہت سی تباہیوں سے بچ جائیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
کراچی میں ایک خاص خطبہ جمعہ
جماعت احمدیہ کراچی نے انہی دنوں وکٹوریہ روڈ میگزین لین میں ایک شاندار دو منزلہ مسجد قریباً ایک لاکھ روپے کی لاگت سے تعمیر کی تھی۔ اس مسجد کی تیاری اور تعمیر کے انچارج شیخ عبدالحق صاحب ایس` ڈی` او تھے جنہوں نے نہایت محنت اور اخلاص کے ساتھ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔۱۷۴
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے ۸۔ تبوک ۱۳۲۹ہش/ ستمبر ۱۹۵۰ء کو اس مسجد میں خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا جس کے آغاز میں حضور نے کراچی کی مخلص جماعت کو مبارکباد دیتے ہوئے فرمایا کہ:۔
>سب سے پہلے تو میں جماعت کے دوستوں کو اس بات کی مبارکباد دیتا ہوں کہ ان کو خدا تعالیٰ نے یہاں مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی۔ میں نے دو دفعہ یہاں تقریر کی ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ دونوں دفعہ ایک ہی ہال میں تقریر ہوئی تھی یا الگ الگ ہال تھے بہرحال اوپر کے برآمدوں اور نیچے کے برآمدوں کو ملا کر یہ مسجد ان ہالوں سے بڑی نظر آتی ہے۔ بہرحال اوپر کے برآمدوں اور نیچے کے برآمدوں کو ملا کر یہ مسجد ان ہالوں سے بڑی نظر آتی ہے۔ جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے کوئی جگہ بناتا ہے تو آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ اس کی ترقی کے سامان بھی پیدا کردیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وقتاً فوقتاً اس قسم کے الہام ہوتے رہتے تھے کہ آپ اپنے مکانات کو وسیع کریں تاکہ آنے والے لوگ وہاں آکر رہیں۔ چنانچہ ان الہامات میں سے ایک یہ بھی الہام تھا کہ وسع مکانک اپنے مکان کو وسیع کرو۔ میں ہمیشہ ہی جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا رہوں کہ اپنی حیثیت کے مطابق ان کو مسجدیں بناتے رہنا چاہئے لیکن افسوس ہے کہ جماعت ہمیشہ ہی اپنی توفیق سے زیادہ بڑی جگہ کی تلاش میں رہتی ہے۔ یہ مسجد میں غالباً نہ بنتی اگر آج سے آٹھ دس سال پہلے مجھے متواتر یہاں آنے کا موقع نہ ملتا اور جماعت پر یہ زور دینے کا موقع نہ ملتا کہ جس طرح بھی ہو زمین خریدلو چنانچہ میرے ایک ایسے ہی سفر کے زمانہ میں یہ زمین دیکھی گئی اس وقت بھی بعض مقامی دوستوں کی تجویز تھی کہ اس سے بڑی جگہ لینی چاہئے مگر میں نے کہا کہ زمین جو بھی ملتی ہے لے لو اور بڑی کا انتظار نہ کرو ایسا نہ ہو کہ یہ بھی ہاتھ سے جاتی رہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج خداتعالیٰ کے فضل سے یہ جگہ آباد ہے اور یہاں ایک شاندار مسجد بنی ہوئی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جماعت کا ایک حصہ اس کی تائید میں تھا اور دوسرا حصہ اس بات کی تائید میں تھا کہ کوئی اور بڑی جگہ تلاش کی جائے مگر اللہ تعالیٰ نے جماعت پر فضل کیا اور ان کو ہدایت دی کہ وہ چھوٹی چیز پر قناعت کریں تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد ان کے لئے بڑی چیز کے سامان پیدا کرے۔ دنیا میں کوئی مسجد ایسی نہیں بن سکتی جس میں زیادہ سے زیادہ افراد جو مبارک ہوں آسکیں۔ خانہ کعبہ کی مسجد کے برابر شاید کوئی مسجد نہیں لیکن کچھ دن ایسے بھی آتے ہیں جب خانہ کعبہ میں بھی نمازی سما نہیں سکتے اور بازاروں اور دکانوں پر کھڑے ہوکر لوگ نمازیں پڑھتے ہیں۔ مسجد نبوی جو مدینہ منورہ کی ہے اس کا بھی یہی حال ہے کہ اس میں بھی بعض اوقات نمازی پوری طرح سما نہیں سکتے۔ پس یہ خیال غلط ہے کہ ہم آئندہ کی تمام ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی مسجد بنائیں اور جب تک ان ضرورتوں کے مطابق مسجد نہ بن سکے ہم اپنی نماز کے لئے کوئی انتظام نہ کریں۔ میں تو سمجھتا ہوں یہ اسی مسجد کی برکت ہے کہ آج سے چار سال پہلے موجودہ نمازیوں سے پانچواں حصہ بھی جماعت نہیں تھی بلکہ جو لوگ مجھے اس وقت نظرآرہے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دسواں حصہ بھی جماعت نہیں تھی صرف ایک کمرہ جماعت نے کرایہ پر لیا ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے جب میں جمعہ کے لئے جاتا تو زیادہ سے زیادہ ایک وقت میں تین صفتیں ہوا کرتی تھیں بلکہ ایسے جمعے بھی گزرے ہیں جب دو صفیں بھی نہیں بنتی تھیں اور وہ کمرہ اس مسجد کے برآمدہ کے کوئی تیسرے حصہ کے برابر ہوگا۔ حد سے حد نصف ہوگا جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے گھر بناتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس گھر کی آبادی کے بھی سامان پیدا کیا کرتا ہے۔ اب اس خیال میں نہ رہو کہ یہ مسجد ہم نے بنالی ہے اور ہمارا فرض ہے ہوگیا ہے جیسا کہ اس وقت نظر آرہا ہے اس مسجد کے بنتے ہی یہ مسجد بھر بھی گئی ہے<۔۱۷۵
پھر حضورؓ نے یہ قیمتی نصیحت فرمائی کہ:۔
>جماعت نے جب یہ جگہ بنائی ہے تو اسے اب یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ کراچی میں جہاں جہاں احمدی زیادہ ہیں اور وہ اس مسجد سے دور رہتے ہیں وہاں بھی چھوٹی چھوٹی مساجد بنادے کیونکہ دوسروں کے گھروں میں جاکر نماز پڑھنا بعض دفعہ فتنہ کا موجب ہوجاتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے جس شخص کے گھر پر نماز پڑھی جاتی ہے بعض دفعہ جب اس سے نماز پڑھنے والا کسی بات میں اختلاف کرتا ہے تو وہ غصہ میں آکر کہہ دیتا ہے کہ تم میرے گھر پر نہ آیا کرو حالانکہ وہ اس کے گھر پر نہیں جاتا بلکہ مسجد میں جاتا ہے۔ اگر وہ اسے اپنا گھر قرار دیتا تو یہ اس کے مکان پر نہ جاتا۔ اس رنگ میں دین کی بھی ہتک ہوتی ہے اور آنے والے شخص کی بھی ہتک ہوتی ہے۔ پس پہلے تو مجبوری کی حالت میں یوں کرنا چاہئے کہ جہاں جہاں جماعت کے دوست اکٹھے ہوسکیں وہاں کسی دوست کے مکان پر اکٹھے ہوکر نمازیں پڑھ لیا کریں۔ پھر اس کے بعد کوشش کرنی چاہئے کہ ہرمحلہ میں ایک چھوٹی سی مسجد بنالی جائے چاہے وہ ایک مرلہ کی ہی کیوں نہ ہو۔ بلکہ اگر میونسپل قانون میں اجازت ہو تو معمولی کچی اینٹوں کی ہی مسجد بنالی جائے<۔۱۷۶
حصرت اقدس نے ان تمہیدی کلمات کے بعد بتایا کہ:۔
>کچھ عرصہ سے میرے کانوں میں )یہ امر(۱۷۷ پڑرہا ہے اور یہاں آکر بھی متفرق صورتوں اور متفرق جہات سے میرے کانوں میں پڑا ہے کہ کراچی میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے مال یا دولت کی وجہ سے مغرور ہوکر سلسلہ کے لئے بدنامی اور فتنہ کا موجب بنے ہوئے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں ان کے متعلق کئی قسم کی رائیں ہیں لیکن جو مجھ پر اثر ہے وہ یہ ہے کہ کافی حصہ جماعت کا ایسا ہے جو ان کی دولت یا مال کی وجہ سے یہ خیال کرتا ہے کہ بڑے لوگ ہم سے الگ ہوگئے ہیں یہ سلسلہ کا بڑا نقصان ہوا ہے<۔۱۷۸
ازاں بعد حضور نے زبردست قوت و شوکت سے بھرے ہوئے الفاظ میں اس خیال کی لغویت اور بطلان پر تفصیلی روشنی ڈالی چنانچہ فرمایا:۔]>[خداتعالیٰ کا قائم کردہ خلیفتہ اور یہ دو دو چار چار یا پانچ پانچ ہزار روپیہ کمانے والے آپس میں نسبت ہی کیا رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کی تو اتنی بھی حیثیت نہیں جتنی ہاتھی کے مقابلہ میں ایک مچھر کی ہوتی ہے۔ شاید تم میں سے بعض لوگ یہ خیال کرتے ہوں کہ خلیفہ بیمار رہتا ہے اور وہ بڈھا بھی ہوگیا ہے اب شاید وہ جلد ہی مرجائے گا پھر ان لوگوں کے مقابل پر ہمارا کیا حال ہوگا میں ایسے لوگوں سے یہ کہتا ہوں کہ اردو کا محاورہ ہے کہ >ہاتھی زندہ لاکھ کا اور مردہ سوا لاکھ کا<۔ ہم وہ لوگ ہیں جو مر کر زیادہ طاقتور ہوا کرتے ہیں۔ ہماری زندگی میں خداتعالیٰ ہمارے دشمن کو بالعموم محفوظ رکھتا ہے کیونکہ وہ ارحم الراحمین ہے لیکن ہماری موت کے بعد وہ ہمارے لئے اپنی غیرت دکھاتا ہے جس کے مقابلہ میں کسی قریب ترین عزیز یا عاشق کی غیرت بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ پس لوگوں کی کوئی ہستی نہیں بلکہ مجھے تعجب آتا ہے کہ تم ان کی طرف کیوں توجہ کرتے ہو۔ ان کے افعال اور ان کی باتیں محض ایک نشان دکھانے کے لئے زندہ رکھی جاتی ہیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ عجائب گھروں میں مرے ہوئے سانپ رکھے جاتے ہیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ عجائب گھروں میں مردہ بچھو رکھے جاتے ہیں۔ جس طرح عجائب گھروں میں مردہ سانپ اور مردہ بچھو رکھے جاتے ہیں اسی طرح خدائی سلسلہ میں ایسے لوگ رکھے جاتے ہیں تاکہ لوگ ان کو دیکھ کر نصیحت حاصل کریں۔ وہ اس لئے نہیں رکھے جاتے کہ ان کو کوئی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ وہ اس لئے نہیں رکھے جاتے کہ خداتعالیٰ کے سلسلے کے مقابلہ میں ان کو کوئی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ بلکہ وہ اس لئے رکھے جاتے ہیں تاکہ لوگ انہیں دیکھ کر ہوشیار رہیں اور وہ اس حقیقت کو ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھیں کہ بعض لوگ چند قدم چل کر ایسے خطرناک گڑھے میں گرجاتے ہیں<۔۱۷۹
>حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو پوزیشن ۱۹۰۸ء میں تھی اس سے اب سینکڑوں گنے زیادہ ہے اور دنیا کے بہت سے ایسے ممالک میں اب احمدیت قائم ہے جن ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک بھی احمدی نہیں تھا۔ تو بات وہی ہے کہ ہاتھی زندہ لاکھ کا اور مردہ سوا لاکھ کا بلکہ سوا لاکھ بھی انسانی نقطہ نگاہ کے لحاظ سے کہا گیا ہے ورنہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے لحاظ سے تو کروڑوں کروڑ بھی کہا جائے تو کم ہے۔ پس شاید تم میں سے کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ اگر میں مرگیا تو کیا ہوگا؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آخر ہر انسان نے مرنا ہے اور میری صحت تو شروع ہی سے کمزور چلی آرہی ہے۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے چند دن پہلے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بلایا اور میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ڈاکٹر صاحب آپ کچھ اس کی طرف بھی توجہ کریں مجھے تو اس کی صحت کا سخت فکر رہتا ہے ایسی صحت کے ساتھ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ کچھ عرصہ بھی زندہ رہے گا یا نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اس چند دنوں بعد وفات پاگئے اور میں جو ہر وقت بیمار رہتا تھا اب بھی خداتعالیٰ کے فضل سے زندہ ہوں۔ مجھ سے بہت زیادہ قوی اور مضبوط انسان مجھ سے پہلے گزر گئے۔ حافظ روشن علی صاحبؓ مجھ سے بہت زیادہ قوی تھے اور ان کی عمر بھی میرے قریب قریب تھی وہ بڑے مضبوط اور طاقتور تھے مگر ۹۲۹ء میں میرے دیکھتے ہی دیکھتے فوت ہوگئے۔ میر محمد اسحٰق صاحبؓ مجھ سے بہت زیادہ قوی اور مضبوط تھے اور دو سال مجھ سے چھوٹے تھے مگر ۱۹۴۴ء میں وہ بھی فوت ہوگئے اور میں جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ اب مرا کہ اب مرا اب اپنی عمر کے باسٹھویں سال میں سے گزررہا ہوں بہت سے تندرست اور سکول میں میرے ساتھ پڑھنے والے نوجوان جو بچپن میں ہر میدان میں مجھے شکست دیا کرتے تھے اور جو مجھ سے بہت زیادہ قوی اور مضبوط تھے وہ قریباً سارے کے سارے فوت ہوچکے ہیں شاید ان میں سے کوئی ایک دو ہی اب زندہ ہوں۔ پس یہ امر تو خدا تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے اور جب یہ اس کا قائم کردہ سلسلہ ہے تو یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ میری موت کا وقت آجائے اور دنیا یہ کہے کہ مجھے اپنے کام میں کامیابی نہیں ہوئی۔ میری وفات خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اس دن ہوگی جس دن میں خدا تعالیٰ کے نزدیک کامیابی کے ساتھ اپنے کام کو ختم کرلوں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی وہ پیشگوئیاں پوری ہوجائیں گی جن میں میرے ذریعہ سے اسلام اور احمدیت کے غلبہ کی خبر دی گئی ہے۔ اور وہ شخص بالکل عدم علم اور جہالت کا شکار ہے جو ڈرتا ہے کہ میرے مرنے سے کیا ہوگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ میں تو جاتا ہوں لیکن خدا تمہارے لئے قدرت ثانیہ بھیج دے گا۔ مگر ہمارے خدا کے پاس قدرت ثانیہ ہی نہیں اس کے پاس قدرت ثالثہ بھی ہے اور اس کے پاس قدرت ثالثہ ہی نہیں اس کے پاس قدرت رابعہ بھی ہے۔ قدرت اولیٰ کے بعد قدرت ثانیہ ظاہر ہوئی اور جب تک خدا اس سلسلہ کو ساری دنیا میں نہیں پھیلا دیتا اس وقت تک قدرت ثانیہ کے بعد قدرت ثالثہ آئے گی اور قدرت ثالثہ کے بعد قدرت رابعہ آئے گی اور قدرت رابعہ کے بعد قدرت خامسہ آئے گی اور قدرت خامسہ کے بعد قدرت سادسہ آئے گی اور خداتعالیٰ کا ہاتھ لوگوں کو معجزہ دکھاتا چلا جائے گا اور دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت اور زبردست سے زبردست بادشاہ بھی اس سکیم اور مقصد کے راستہ میں کھڑا نہیں ہوسکتا جس مقصد کے پورا کرنے کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو پہلی اینٹ بنایا اور مجھے اس نے دوسری اینٹ بنایا۔ رسول کریم~صل۱~ نے ایک دفعہ فرمایا کہ دین جب خطرہ میں ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کے لئے اہل فارس میں سے کچھ افراد کھڑے کرے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان میں سے ایک فرد تھے اور ایک فرد میں ہوں لیکن رجال کے ماتحت ممکن ہے کہ اہل فارس میں سے کچھ اور لوگ بھی ایسے ہوں جو دین اسلام کی عظمت قائم رکھنے اور اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے کھڑے ہوں۔ پس ہمارا مقابلہ کرنے والا ہمارا مقابلہ نہیں کرتا خداتعالیٰ کا مقابلہ کرتا ہے<۔۱۸۰
آخر میں منصب خلافت کی حقیقی اور بلند شان ایک نہایت لطیف مثال سے واضح کی چنانچہ فرمایا:۔
>کیا تمہیں دنیا میں کوئی شخص ایسا نظر آتا ہے خواہ وہ کروڑپتی ہو` حاکم ہو` وزیر ہو` بادشاہ ہو جو خدا تعالیٰ کو مار سکے پھر یہ کس طرح خیال بھی کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اب تو ہم نے سینما دیکھنے سے روکا ہوا ہے اس سے پہلے تم بھی دیکھتے تھے اور میں نے بھی سینما دیکھا ہے۔ اگر تم سینما کی تصویر پر گولی مارو تو کیا وہ اس ایکڑ کو جالگے گی جس نے اس میں کام کیا ہے وہ تو اس وقت ہالی وڈ یا بمبئی یا کراچی میں زندہ پھر رہا ہوتا ہے اگر تم دس ہزار گولی بھی مارو تو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اسی طرح ہم بھی تصویریں ہیں اور ہم پر حملہ کرنے سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ اگر تم دو لاکھ توپیں چلادو اور اگر تم تصویر کی دھجیاں بھی اڑادو تب بھی تم اس شخص کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ جو چیز تمہارے سامنے ہے وہ محض ایک نشان اور تصویر ہے اصل چیز تو آسمان پر ہے اور وہ تمہارے قبضہ و تصرف سے باہر ہے۔ پس تمہیں اصل حقیقت کو دیکھنا چاہئے اور اس پر غور کرنا چاہئے۔ ہم اصل نہیں ہیں اور اگر ہم اصل ہوتے تو دنیا ہمیں کبھی کی فنا کرچکی ہوتی۔ ہم تصویریں ہیں اس لئے دنیا ہمیں جتنا بھی نقصان پہنچاتی ہے دین کا کچھ نہیں بگڑتا۔ تصویروں میں بعض دفعہ بادشاہ کا جلوس بھی دکھایا جاتا ہے اب اگر کوئی شخص بادشاہ کے جلوس پر گولیاں برسائے تو کیا بادشاہ مرجائے گا؟ اس طرح ہم بھی تصویریں ہیں۔ ہم کو خدا تعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے تاکہ اس کی حکومت دنیا میں قائم ہو۔ جس طرح تصویر پر گولی چلانے والا اصل کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اسی طرح اگر کوئی شخص ہم پر گولی چلاتا ہے تو گو ہم مرجاتے ہیں ہم ختم ہوجاتے ہیں لیکن اس مشن کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا جس کو قائم کرنے کے لئے اس نے ہمیں کھڑا کیا ہے۔ بلکہ اگر کوئی بادشاہ کے جلوس پر گولی چلاتا ہے تو بادشاہ کو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ میرے مخالف ہیں اور وہ پہلے سے بھی زیادہ سخت تدابیر اختیار کرتا ہے۔ پس اپنے اندر خداتعالیٰ کی محبت اور اس کے ساتھ تعلق پیدا کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام یا ان کے خلفاء بے شک بوجہ خدا تعالیٰ کا نمائندہ ہونے کے ادب کے قابل ہیں لیکن وہ مقصود نہیں ان کے لئے اس نے یہ سکیم نہیں بنائی بلکہ اپنے لئے بنائی ہے۔ پس یہ سمجھ لو کہ تم جس کام کے لئے کھڑے ہو وہ خدا تعالیٰ کا ہے اور اس کے نام کو تم نے روشن کرنا ہے باقی ساری چیزیں اظلال کے طور پر ہیں اور اظلال آتے بھی ہیں اور جاتے بھی ہیں ہاں خداتعالیٰ یہ ضرور کرتا ہے کہ جب ظل کی کوئی شخص ہتک کرتا ہے تو وہ اسے اپنی ہتک قرار دیتا ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ تم کسی کے دوست کی تصویر کو جوتیاں مارو اور وہ اسے برداشت کرے۔ اسی طرح ہم ہیں تو انسان تو نے اس کو جوتی نہیں ماری بلکہ مجھ کو جوتی ماری ہے` تو نے اس کو گالی نہیں دی بلکہ مجھ کو گالی دی ہے` تو نے اس کو ذلیل نہیں کیا بلکہ مجھ کو ذلیل کیا ہے۔ اس لئے ایسا آدمی بچتا نہیں آدم سے لے کر اب تک ایسا آدمی نہیں بچا اور قیامت تک نہیں بچ سکتا<۔۱۸۱
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
کراچی پریس کانفرنس
قیام کراچی کے دوران دوسرا اہم واقعہ یہ ہے کہ حضورؓ نے ۲۱۔ تبوک/ ستمبر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا جس میں مسمانان عالم کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا کہ ان کا مستقبل فریضہ تبلیغ کی ادائیگی سے وابستہ ہے۔
حضور کا بیان انگریزی میں تھا جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے:۔
اسلامی دنیا میں ان دنوں بیداری اور نئی زندگی پیدا ہونے کے آثار نمودار ہیں۔ ہر جگہ کے مسلمانوں میں بیداری نظر آرہی ہے اور وہ اس امر کے لئے کوشاں ہیں کہ وہ ان خطرات کو جن کے بوجھ کے نیچے وہ کچھ عرصہ سے دبے ہوئے ہیں اپنے اوپر سے اتار پھینکیں۔ البتہ یہ بیداری جو ان میں پیدا ہوئی ہے وہ فی الحال قومی بیداری ہے۔ بے شک چند مسلمان ایسے پائے جاتے ہیں جو ایک متحد اسلامی دنیا کا خواب دیکھ رہے ہیں مگر ان کے خیالات اس وقت تک محض سطحی ہیں جن کو وہ تاحال کسی مستقل شکل میں نہیں ڈھال سکے۔ اس وجہ سے ان خیالات کے پس پشت قربانی کی روح موجود نہیں ہے۔ یہ امر کسی سے مخفی نہیں کہ محض خواہشات بغیر ضروری عزم کے کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا سکتیں۔ ادھر حالات یہ ہیں کہ کوئی مسلم حکومت نہ اس بات کے لئے تیار رہے اور نہ ہی خواہشمند ہے کہ وہ اسلامی دنیا کے اتحاد کے لئے اپنے قومی فوائد کو خیرباد کہہ سکے۔ پان اسلامی تحریک کے پیچھے بعینہ وہی خیالات کام کررہے ہیں جن کو جمہوریت کے دلدادہ ممالک یعنی یورپ اور امریکہ ایک متحد سیاسی محاذ قائم کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں لیکن بعض یورپین مصنفین اسلام کے خلاف اس قدر زہر اگل چکے ہیں کہ پان اسلامک کا محض تصور ہی یورپ اور امریکہ کے ملک کے باشندے کو کپکپا دینے کے لئے کافی ہے۔ اسلام جو فی الواقع اسلامی دنیا کے لئے ایک قوت متحرکہ ہے یا کم ازکم ہونی چاہئے اس کو مغربی اقوام تحقیر اور بے اعتمادی کی نظر سے دیکھتے ہیں ان حالات میں میرا پیغام مسلمان نوجوانوں کے لئے اور خصوصیت سے صحائف نویس احباب کے لئے یہ ہوگا کہ وہ اسلام کو نظر عمیق کے ساتھ مطالعہ کریں اور اس کی تعلیم کو اپنے اندر ایسے رنگ میں جذب کریں کہ جس کا اثر ان کی تحریروں میں نمایاں ہو۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ غیر مسلم اسلام کی خوبیوں سے واقف ہوسکیں گے ان کو یہ بھی چاہئے کہ اپنے غیر مسلم ہم پیشہ لوگوں سے اسلام کی تعلیم کے متعلق اور خصوصیت سے اس پہلو کے متعلق کہ اسلام غیر مذاہب کے ساتھ کس رویہ کو اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے کھلے اور آزادنہ طور پر تبادلہ خیالات کریں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ چند سالوں میں ہی اسلام کے متعلق جو غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں وہ رفع ہوجائیں گی اور ان لوگوں کو جو اسلام کو اپنی لاعلمی کی وجہ سے شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یقین ہوجائے گا کہ اتحاد المسلمین کی تحریک بھی ایسے ہی بے لوث اور پاکیزہ ہے جیسا کہ مختلف عیسائی اقوام کو متحد کرنے کی تحریکیں۔
البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مغربی یورپین ممالک میں تحریک کی بنیاد سیاسی اصولوں پر ہے لیکن پان اسلامک کی تحریک کی بنیاد محض مذہبی اصولوں پر ہے مگر اس کے اسباب اس روپیہ میں پائے جاسکتے ہیں جو یورپین اقوام خود اسلام کے متعلق رکھتی ہیں۔ گزشتہ سات سو سالوں کی تاریخ اس امر پر شاہد ناطق ہے کہ یورپین اقوام نے جو مسلمانوں پر غلبہ حاصل کیا اس کی وجہ نہ کئی سیاسی اختلاف تھا اور نہ یہ کہ ان کے ساتھ بے انصافیاں کی گئی تھیں بلکہ اس کی وجہ صرف مذہبی تعصب تھا۔
اسلامی سلطنت کے خلاف جو بغاوت جنوبی اٹلی اور سسلی میں کھڑی کی گئی ممکن ہے وہ اپنے اندر سیاسی پہلو رکھی ہو مگر جو صلیبی جنگ اور لڑائیاں سپین والوں نے جنوبی سپین کی اسلامی سلطنت کے خلاف کیں ان کو سیاست کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ہی ان فتوحات کے متعلق کہا جاسکتا ہے جو عیسائیوں نے مراکو` الجیریا` ٹریپولی` لیبیا` آذربائیجان` بخارا اور ایسے ہی اور ملکوں میں حاصل کیں۔
بے شک برطانیہ اور چند دیگر یورپین سلطنتوں نے جو فتوحات بعد کی صدیوں میں حاصل کیں وہ محض سیاسی فتوحات تھیں لیکن جو لڑائیں تیرھویں` چودھویں اور پندرھویں صدی میں لڑی گئیں ان کی وجوہات ہرگز ہرگز سیاسی نہ تھیں۔
پان اسلامک تحریک یقیناً ان عیسائی ادیبوں اور سیاستدانوں کی تحریروں اور ریشہ دوانیوں کا ردعمل ہے جنہوں نے سات سو سال متواتر نہ صرف اسلام کے خلاف سخت زہر اگلا بلکہ ان کی انتہائی کوشش رہی کہ وہ مختلف اسلامی سلطنتوں کے درمیان نسلی اور تاریخی وجوہ پر اختلاف کے بیج بوئیں اس لئے پان اسلامک تحریک کے موجد اور بانی مبانی ہرگز قابل ملامت نہیں قرار دئے جاسکتے۔
اس جگہ اس حقیقت کا اظہار نامناسب نہ ہوگا کہ آخری صدی کے دوران میں عیسائیوں کی آپس کی لڑائیوں میں جہاں کہیں بھی وہ لڑی گئی ہوں ہمیشہ ہی یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ >عیسائی تمدن کے محافظ بنو!< یہاں تک کہ دوسری عالمگیر جنگ کے دوران میں ایک ہندوستانی نمائندہ نے )جو اب کٹر مسلم لیگی اور مشہور پاکستانی ہے( اپنی تقریر میں یورپ میں کہا کہ عیسائی تمدن خطرہ میں ہے اور ہندوستان اس کی حفاظت میں ضرور لڑے گا۔ پس اگر یورپ اور امریکہ یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ آپس میں متحد رہیں اور عیسائی تمدن کی حفاظت میں جنگیں کریں اور دوسروں کو اس میں شمولیت کی دعوت دیں تو پھر مسلمانوں کو آپس میں متحد رہنے اور اسلامی تمدن کی حفاظت کے لئے جنگیں کرنے کا کیوں حق حاصل نہیں؟
اگر عیسائی تمدن کی چیخ و پکار کو ایک سیاسی تحریک قرار دیا جاسکتا ہے نہ کہ صلیبی جنگ۔ اور جس کا مدعا اور مقصد یہ قرار دیا جاتا ہے کہ ناانصافیوں اور حقوق تلفیوں کو دور کیا جائے تو پھر پان اسلامک تحریک کو کیوں ایک مذہبی جہاد سمجھا جاتا ہے اور اسے بھی کیوں ایک سیاسی جدوجہد نہیں تصور کیا جاتا؟
اس سوال کے علمی پہلو کی طرف بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مختلف اسلامی ممالک کا وجود یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر ملک اپنے اپنے فوائد اور جدا جدا خواہشات رکھتا ہے۔ پس جب تک ہر اسلامی ملک مختلف نام سے پکارا جائے گا تب تک ان کے فوائد بھی جدا جدا رہیں گے۔ اگر تمام اسلامی ممالک سیاسی` معاشرتی` تمدنی اور اقتصادی لحاظ سے ایک مرکز پر جمع ہوجائیں تو اس وقت مختلف حکومتوں کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ اسلامی ممالک مثلاً پاکستان` افغانستان` ایران` سیریا` سعودی عرب` عراق` مصر اور انڈونیشیا باوجود وسعت آبادی کے لحاظ سے چھوٹے ہونے اور اپنی اپنی خودمختارانہ سلطنت رکھنے کے اس امر کے اقراری ہیں کہ وہ اس نقطہ پر تاحال نہیں پہنچے کہ جہاں پر سب کا کامل اتحاد ہوسکے۔ ان حالات میں اتحاد تب ہی حاصل ہوسکتا ہے کہ ہر ایک سب کی خاطر قربانی کرسکے۔
ہمیں اس معاملہ میں آہستہ آہستہ مگر احتیاط سے قدم اٹھانا چاہئے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے عزم بالجزم سے کام لینا چاہئے اگر ہم ایسا کریں گے تو وہ دن دور نہیں کہ جب >اسلامی تمدن< ایک اصلیت ہوگی جو ہر مسلمان کے اندر ایک ایسا جوش و خروش پیدا کردے گی جو >عیسائی تمدن< کے نعرے کے پیدا کردہ جوش سے بہت زیادہ ہوگا۔ پہلا قدم جو ہمیں اس بارے میں اٹھانا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو >پان اسلامک< کے حامی اور پکے مسلمان کہلانے سے ہرگز نہ ڈرنا چاہئے۔ سیاسی ویزا میں اپنے حقوق حاصل کرنے کی سعی کرنا ہمارا پیدائشی حق ہے اور اس کو ہرگز مذہبی جنون نہیں کہا جاسکتا۔ یہ مجنونانہ حالت تب ہی پیدا ہوسکتی ہے کہ جب کہ دنیا میں انصاف اور حسن معاملگی کا خاتمہ ہوچکا ہوتا ہے۔ ہر ہاتھ دوسروں کے حق غصب کرنے میں کوشاں ہوتا ہے۔
دوسرا قدم یہ اٹھانا چاہئے کہ ہم ان خیالات کو مسلم اور غیر مسلم ممالک میں کثرت سے پھیلائیں تاکہ مسلمان پورے طور پر اس زمانے کی ضروریات کو سمجھ سکیں اور غیر مسلم مسلمانوں کی جائز خواہشات کا صحیح اندازہ لگا سکیں۔ اس کے پہلو بہ پہلو اسلامی تعلیمات کی اشاعت غیر مسلم ممالک اور غیر مسلموں میں ازبس ضروری ہے۔ جیسا کہ آپ لوگوں کو علم ہے کہ احمدیہ جماعت جس کے امام ہونے کا مجھے فخر حاصل ہے گزشتہ چالیس سال سے اشاعت اسلام کے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ ہمارے مشن اس وقت تمام عیسائی ممالک مثلاً امریکہ` انگلستان` فرانس` ہالینڈ` جرمنی` سوئٹزرلینڈ اور بہت سے مغربی افریقہ کے ممالک میں ہیں اور اس وقت تک عیسائیوں میں سے تقریباً تیس ہزار افراد مشرف بہ اسلام ہوچکے ہیں۔ ان نو مسلموں میں سے بعض نے اپنی زندگیاں اسلام کے لئے وقف کردی ہیں۔ امریکہ کے ایک نومسلم اور جرمنی کے ایک نومسلم اس وقت پاکستان میں اسلامی تعلیم کا اس نظریہ سے مطالعہ کررہے ہیں کہ حصول علم سے فراغت کے بعد اپنے ملک میں تبلیغ اسلام کے فرائض سرانجام دیں۔ نومسلموں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور انشائاللہ چند سالوں میں یہ سلسلہ عروج تک پہنچ جائے گا۔مادیات کا یہ زمانہ ہم سے یہ حقیقت فراموش نہیں کراسکتا کہ جب کبھی بھی ظاہری طاقت کا مقابلہ سچائی سے پڑا ہے سچائی ہی ہمیشہ غالب رہی ہے۔ مجھے کئی مغربی سیاستدانوں سے گزشتہ دو سالوں میں ملنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے ان کو یہ ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے کہ جہاں کہیں بھی کمیونزم کا مقابلہ مغربی تمدن سے ہوا ہے تو کمیونزم دس میں سے نو جگہ کامیاب ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی ممالک قوت بازو سے کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں برخلاف کمیونزم کے کہ وہ مزعومہ اصول کو پیش کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے مغربی اقوام کے سازوسامان طاقتیں انحطاط پر ہیں مگر روس روز افزوں ترقی پر ہے۔
مغربی اقوام جب تک اس نصیحت پر عمل پیرا نہ ہوں گی ان کا قدم تنزل کی طرف جاتا رہے گا۔ مسلمانوں کا بھی یہی حشر ہوگا اگر انہوں نے اسلام اور اس کے زرین اصولوں کی اشاعت کا کام غیر مسلم ممالک میں اپنے ہاتھوں میں فوری طور پر نہ لیا کیونکہ ان کا مستقبل اسی سے وابستہ ہے۔ وہ جو اس کارخیر میں حصہ نہیں لے سکتے ان کے راستہ میں تو روک نہ بنیں جو اس کام کو کرسکتے ہیں اور کررہے کررہے ہیں۔۱۸۲
مسلم لیگی حکومت کا معاندانہ رویہ اور حضرت مصلح موعودؓ کی راہ نمائی
پنجاب میں احرار اور ان کے ہمنوا علماء ۱۹۴۸ء سے جو آگ احمدیوں کے خلاف بھڑکا رہے تھے وہ ۱۹۵۰ء میں اور بھی شدت اختیار کرگئی
حتیٰ کہ مسلم لیگی حکومت کے بعض افسروں نے بھی مخالفین پاکستان سے گٹھ جوڑ کرکے درپردہ ایک مخالفانہ تحریک چلانی شروع کردی جس پر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کو بھی اپنے خطبات کے ذریعے جماعت کو اصل صورت حال سے بار بار آگاہ کرکے پرزور طور پر یہ تلقین کرنا پڑی کہ اس کا فرض اولین ہے کہ وہ اپنے خلاف جھوٹے پراپیگنڈا کی قلعی کھولنے کے لئے عوام کو احمدیت کے صحیح اسلامی عقائد سے باخبر کرے۔ کیونکہ پاکستان کی سالمیت` قیام امن اور جماعت احمدیہ کی ترقی کا اس کے سوا کوئی اور حل ممکن نہیں تھا ان دنوں سرکاری افسران کس طرح معاندانہ روش اختیار کئے ہوئے تھے اس کی تفصیل حضور ہی کے الفاظ میں ہدیہ قارئین کی جاتی ہے۔ فرمایا:۔
)۱( >گزشتہ دنوں بعض افسروں نے سرکلر جاری کیا تھا کہ ان کے محکمہ کے تمام ملازم یہ فارم پر کرکے بھجوائیں کہ وہ کس کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور احمدی ہونے کی صورت میں یہ بھی لکھیں کہ قادیانی احمدی یا لاہوری احمدی۔ اس سرکلر کی عبارت ظاہر کرتی ہے کہ اس سے کوئی نیا فتنہ کھڑا کرنا مقصود تھا۔ بعض غیر احمدی اخباروں نے بھی اس پر نوٹس لیا اور لکھا کہ اس تجویز سے صاف پتہ لگتا ہے کہ بعض فرقوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنا مقصود ہے۔ کسی فرد کے خلاف بے شک کارروائی کی جائے اس میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر کسی فرد کے خلاف کارروائی کرنا مقصود ہے تو پھر اس کے فرقہ سے کیا مطلب؟ وہ خواہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ مجرم ہے تو آپ اس کے خلاف کارروائی کریں لیکن پہلے یہ دریافت کرنا کہ تمہارا فرقہ کونسا ہے اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ کسی فرد کی شرارت کی وجہ سے اس کے خلاف کارروائی کرنا مقصود نہیں بلکہ کسی خاص فرقہ میں ہونے کی وجہ سے اس کے خلاف کوئی شرارت کرنا مقصود ہے۔ ان واقعات کو دیکھتے ہوئے ہماری جماعت کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے اندر ایک بیداری پیدا کرلیتی اور اس آدمی کی مانند جو آتش فشاں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا ہوتا ہے اپنے آپ کو تیار کرلیتی خواہ کوئی دوبارہ غلط ڈائری لکھ لے اور گورنمنٹ کے پاس جھوٹی رپورٹ کردے واقعہ یہی ہے کہ تبلیع کے بغیر ہمیں چارہ نہیں )مگر اپنے رسوخ سے کام لے کر تبلیغ کرنا یا جبر کرنا یہ ہمارے مذہب میں جائز نہیں(۔ پس ایک طرف تبلیغ کرنی چاہئے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہئیں تب ہی ہم کامیاب ہوسکتے ہیں اور اپنے مقصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔ تبلیغ تمہاری تعداد کو بڑھائے گی اور دعائیں خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچیں گی۔ تبلیغ سے ہر درجہ اور حلقہ کے لوگ احمدی ہوں گے یا پھر انہیں کم از کم یہ پتہ لگ جائے گا کہ احمدی کیسے ہوتے ہیں۔ بے شک وہ احمدی نہ ہوں لیکن انہیں یہ تو پتہ لگ جائے گا کہ احمدیت کی تعلیم کیا ہے۔ اور جب انہیں احمدیت کی تعلیم کا پتہ لگ جائے گا تو پھر اگر کوئی شخص احمدیوں کے خلاف ان کے کان بھرنے کی کوشش کرے گا تو وہ فوراً کہہ دیں گے کہ ہم جانتے ہیں کہ احمدی ایسے نہیں ہیں۔ لیکن اگر وہ احمدیت کی تعلیم سے واقف نہیں تو جس طرح کوئی ان کے کان بھرے گان کے پیچھے لگ جائیں گے۔ گویا تبلیغ کے ذریعہ ہمیں دو فائدے حاصل ہوں گے` اول جو لوگ صداقت کو قبول کرنے کی جرات رکھتے ہیں وہ صداقت کو قبول کرلیں گے اور جو صداقت کو قبول کرنے کی جرات نہیں رکھتے وہ ہمارے حالات سے واقفیت کی بناء پر کلمہ خیر کہا کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔ دعائوں سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے<۔۱۸۳]4 [rtf
)۲( >پاکستان میں ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور مجلسوں میں لوگوں کو اکسایا جاتا ہے کہ وہ ہمارے آدمیوں کو قتل کردیں` ہماری جائدادوں کو لوٹ لیں اور دوسرے لوگوں کو یہ تحریک کی جاتی ہے کہ وہ اپنے مکانات پر نشان لگالیں تا قتل عام کے وقت انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔ سارے پاکستان میں ایسا ہورہا ہے ۔۔۔۔۔۔ گورنمنٹ کا کام امن قائم کرنا ہے گورنمنٹ کا کام اس قسم کے فتنوں کو دبانا ہے مگر وہ دیکھ رہی ہے اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ پولیس کے آدمی جاتے ہیں اور وہ ان مجالس میں جاکر ڈائریاں لیتے ہیں لیکن وہ اس قسم کی باتوں کا ڈائریوں میں ذکر نہیں کرتے۔ بعض جگہوں میں تو ڈائریاں لی ہی نہیں جاتیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ کی مقامی پولیس دل سے ان کے ساتھ ہے اور بعض جگہ پولیس نے ڈائریاں لی ہیں لیکن ضلع حکام نے حکومت تک ان باتوں کو پہنچایا نہیں۔ ایک جلسہ میں ایک شخص نے کہا کہ تم میں سے کون ہے جو احمدیوں کو قتل کرے۔ ایک آدمی نے اٹھ کر کہا میں حاضر ہوں۔ پولیس نے ڈائری نہیں لکھی لیکن ایک مجسٹریٹ نے جو وہاں موجود تھا اپنی ڈائری میں یہ بات لکھ دی کہ میرے سامنے مقرر نے یہ سوال کیا کہ تم میں سے کون کون فلاں فلاں احمدیوں کو قتل کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا میں اس کام کے لئے حاضر ہوں اور اپنا نام پیش کرتا ہوں جب پولیس کے افسروں سے پوچھا گیا کہ کیوں پولیس کی ڈائری میں یہ بات نہیں آئی تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ آدمی پاگل تھا اس لئے اس واقعہ کو نہیں لکھا گیا۔ یعنی جب شرارت کا پتہ لگ گیا تو یہ کہہ دیا گیا کہ وہ پاگل تھا۔ حالانکہ اگر کھڑا ہونے والا پاگل تھا تو کیا تقریر کرکے اشتعال دلانے والا بھی پاگل تھا۔ مگر ہم نے اپنے طور پر تحقیق کی ہے وہ شخص ہرگز پاگل نہیں ایک کام کاج کرنے والا آدمی ہے< ۔۔۔۔۔۔۔۔
)۳( >اور جگہوں کو تو جانے دو اسی جگہ پر جب میں نے تقریر میں کہا کہ اگر تم تبلیغ کرو تو بلوچستان جیسے چھوٹے سے صوبے کو احمدی بنالینا کوئی مشکل امر نہیں تو پولیس کے بعض نمائندوں نے کتنا جھوٹ بولا انہوں نے گورنمنٹ کی ڈائریاں بھیجیں اور ان کی نقل دوسرے صوبجات میں بھی بھجوائی گئی کہ امام جماعت احمدیہ نے تقریر کی ہے کہ گورنمنٹ کے محکموں میں جو بڑے بڑے احمدی افسر ہیں وہ اپنے ماتحتوں کو مجبور کرکے احمدی بنائیں اور اگر وہ احمدی نہ ہوں تو انہیں دق کرکے محکمہ سے نکال دیں۔ اس قسم کی ڈائریوں تک ہی بس نہیں کی گئی فوجی حکام کو بھی ورغلانے کی کوشش کی گئی کہ انہوں نے کیا کارروائی احمدی افسروں کے خلاف کی ہے مگر جس طرح سول میں اچھے افسر بھی ہیں اسی طرح فوج میں شریف افسر ہیں ان افسروں نے ان رپورٹوں پر کوئی توجہ نہ دی اور کہہ دیا فوج میں امن ہے ہم ایسی تحریروں پر کارروائی کرکے خود فساد پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہمارے دشمن جب اس کارروائی میں ناکام رہے تو انہوں نے پہلے افسروں پر جو بالا افسر تھے ان کے پاس رپورٹیں کروائیں مگر ان کی طرف سے بھی یہ جواب دیا گیا کہ کوئی فساد بھی نظر آئے تو کسی کے خلاف کارروائی کی جائے جب فساد ہے ہی نہیں تو ہم خود فساد کیوں پیدا کریں۔ ہاں اگر فساد پیدا کروانا ہے تو اور بات ہے۔ مجھے ایک احمدی افسر نے بتایا کہ جب یہ ڈائری میرے پاس پہنچی کہ خطبہ جمعہ میں امام جماعت احمدیہ نے یوں کہا ہے تو میں نے کہا میں خود احمدی ہوں اور میں خود وہاں موجود تھا میں نے وہ خطبہ جمعہ سنا ہے وہاں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی تم جھوٹ بول رہے ہو۔ اس پر وہ پولیس کا نمائندہ فوراً بات بدل گیا اور کہنے لگا مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔ غرض جہاں پاکستان میں ایک شریف عنصر ہے وہاں ایسا متعصب عنصر بھی ہے جسے پاکستان کے بھلے سے غرض نہیں اسے صرف اپنے دلی بغض اور کینہ کے نکالنے سے غرض ہے اور وہ پاکستان کو تباہ کرنا زیادہ پسند کرتا ہے بہ نسبت اس کے کہ اسے کوئی احمدی زندہ نظر آئے اور ایسا عنصر جھوٹ` دھوکے اور فریب سے ہرگز پرہیز نہیں کرتا۔ جو افسر شرافت اور انصاف اور پاکستان کی محبت سے معاملہ کرنا چاہتے ہیں وہ بھی ایسے موقع پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ خواہ ایسی رپورٹوں پر کارروائی نہ کریں مگر ایسے جھوٹوں کو کوئی سزا بھی نہ دیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو یہ سوال انتظامی نہیں رہے گا بلکہ سیاسی ہوجائے گا اور انہیں اپنا دامن چھڑوانا مشکل ہوجائے گا۔ پس ان کا انصاف نصف راستہ تک چل کر کھڑا ہوجاتا ہے<۔۱۸۴
چوہدری محمدظفراللہ خاں صاحب کی دینی غیرت اورعشق رسول عربیﷺ~
۲۴۔ ستمبر ۱۹۵۰ء کو نیویارک ٹیلی ویژن پروگرام کے دوران مسٹر بی انجیامن کوہن اسسٹنٹ سیکرٹری اقوام متحدہ نے آنحضرت~صل۱~ )فداہ ابی وامی( کا ذکر مبارک نہایت بیہودہ انداز سے کیا جس سے یہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے زبردست احتجاج کیا جس کے نتیجہ میں اس نے معافی مانگ لی اور اس ناقابل فراموش واقعہ کی خبر اخبار دی سول اینڈ ملٹری گزٹ GAZETTE) MILTARY AND CIVIL (THE نے ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء کی اشاعت میں دی جس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے:۔
‏ Pakistan's 24, Spetember On (APP) 19 ۔Oct ۔YOURK <NEW television a witnessed Khan, Zafrulla Mohammad Sir Minister, Foreign the Platform", People's <The called programme deton the Culbertson, Ely ۔Mr being speakers Secretary Assistant Cohen, Benjamin ۔Mr and player, bridge۔Nation United General
‏ said ۔success ۔N۔U the of talking Culbertson ۔Mr his to travelled had ۔N۔U the respects certain in that۔N۔U the to he not and view of point
‏ going Mohammed "Like replied: Cohen ۔Mr this "To۔him to come not would mountain the when mountain the to
‏ General ۔Secretary the to letter a in Minister, Foreign Pakistan's and statement this against protested ۔N۔U the fo and calumnious as it labelled Muslim to offensive eeply and responsible ۔high a from came it when specially ۔sentiment of dignitary enlightened organisation, international greatest the۔world civilised the of consence the represent to claiming
‏ not was there that out pointed further letter The the for foundation slightest the the which on ineident alleged the in proverb a become almost has which ۔saying۔based been has ۔West
‏ taught Islma that letter his in lear it made dammahoM Sir offence the and prophets, the all of reverence and respect though Cohen, ۔Mr of utterance the by sentimers Muslim against۔grevious was inadvertently committed
‏ Ministher Foreign that assssured replay his in Cohen ۔Mr Khan), Zafrulla Mohammad (Sir him, by anticipated already as that lofty whose Muslims to offence causse to intention his not was it۔respected and honoured fully he spirit religious
‏ foreign the thanked and apologised profusely also Cohen ۔Mr correct to offered and eignoranc his dispelling for Minister his of effect unformate >the۔programme television next the in quotation
ترجمہ:۔ نیویارک ۱۹۔ اکتوبر )اے پی پی( ۲۴۔ ستمبر ۱۹۵۰ء کو پاکستان کے وزیرخارجہ چودھری محمد ظفراللہ خاں نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام موسومہ >عوامی پلیٹ فارم< کا ملاحظہ فرمایا۔ جن لوگوں نے اس پروگرام میں حصہ لیا۔ ان میں ایل کلبرٹسن اور مسٹر بی انجامن کوہن اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل یونائیٹڈ نیشن۔ شامل تھے۔
اس پروگرام میں اقوام متحدہ کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر کلبرٹسن نے کہا:۔
کہ۔ >بعض معاملات میں اقوام متحدہ میرے نظریات تک پہنچی ہے۔ میں اس تک نہیں گیا<
اس کے جواب میں مسٹر کوہن نے کہا )حضرت( محمد~)صل۱(~ کی طرح جو پہاڑ اپنی سمت آتا نہ دیکھ کر خود اس کی جانب بڑھے تھے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ چودھری محمد ظفر اللہ خاں نے مسٹر کوہن کے اس بیان کے خلاف احتجاج کیا ہے اس سلسلہ میں انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک مکتوب ارسال کیا ہے۔ جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ
مسٹر کوہن کا یہ بیان` مسلمانوں کے جذبات کو مجروح اور انہیں مشتعل کرنے کا موجب ہوا ہے۔ خصوصاً
>ایسی صورت میں جب کہ یہ بیان دنیا کی سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم جو مہذب دنیا کی نمائندگی کرتی ہے( کی انتہائی اعلیٰ اور ذمہ دار شخصیت کی طرف سے آیا ہے اس کے اثرات اور بھی زیادہ گہرے اور گھنائونے ہوسکتے ہیں<
چودھری صاحب نے اپنے مکتوب میں مزید لکھا ہے کہ یہ واقعہ )جس پر مغرب کی مذکورہ بالا ضرب المثل مبنی ہے( کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔
اپنے مکتوب میں چودھری صاحب نے اس امر کی وضاحت کی کہ اسلام` تمام انبیائؑ کے احترام کی تلقین کرتا ہے اور مسٹر کوہن نے مسلمانوں کے جذبات پر جو حملہ کیا ہے۔ وہ بجاطور پر خطرناک ہے۔
چودھری صاحب کے مکتوب کے جواب میں مسٹر کوہن نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ان کا مقصد مسلمانوں کے جذبات پر حملہ نہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی قدر اور احترام کرتے ہیں۔ مسٹر کوہن نے پاکستان کے وزیر خارجہ سے معذرت ظاہر کی ہے۔ اور ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ کہ انہوں نے انہیں )مسٹر کوہن( کو صحیح راستہ بتایا ہے۔
مسٹر کوہن نے یہ پیش کش کی ہے کہ ٹیلی ویژن کے کسی اگلے پروگرام میں وہ اس اقتباس کی تصحیح کردیں گے۔ )رائٹر(
اوکاڑہ اور اس کے ماحول کی آتشیں فضا
مسلم لیگی حکومت کی طرف سے ملک دشمن عناصر کی پشت پناہی کے خوفناک نتائج ماہ اخاء ۱۳۲۹ہش/ اکتوبر ۱۹۵۰ء کے شروع میں رونما ہونے شروع ہوگئے جبکہ مغربی پاکستان میں ہر طرف جماعت احمدیہ کی مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور خصوصاً اوکاڑہ اور اس کے گردونواح میں احمدیوں کے قتل عام کے کھلم کھلا وحظ کئے جانے لگے چنانچہ الفضل کے نامہ نگار نے مرکز احمدیت میں یہ اطلاع دی کہ
>یکم اکتوبر کو احراریوں نے بعض احمدیوں کا جب کہ وہ کسی چک کی طرف جارہے تھے جلوس بناکر اس کا تعاقب کیا۔ سات افراد کے منہ پر سیاہی ملی` ان پر مٹی اور کیچڑ پھینکا اور انہیں دھکے دیتے ہوئے اوکاڑہ ریلوے سٹیشن پر لے آئے۔ چند پولیس والوں نے ان کو بچانا چاہا تو شرپسند عنصر نے ان تانگوں پر بھی حملہ کردیا جن میں احمدی اور پولیس کانسٹیبل سوار تھے۔ اس کے بعد احراریوں نے شہر بھر میں جلوس نکالا۔ احمدیوں کو گالیاں دیں اور پولیس والوں پر احمدیوں کی پاسداری کا الزام لگا کر انہیں کوسا۔ یہ جلوس دیر تک مسجد کے سامنے ناچتا رہا۔ اسی شام کو چوہدری غلام قادر صاحب نمبردار پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ اوکاڑہ اور شیخ غلام قادر صاحب پر احراریوں نے حملہ کیا اور ریلوے لائن کے نزدیک سخت پتھرائو کیا جن سے دونوں احمدی مجروح ہوگئے<۔۱۸۵
اس فتنہ انگیزی نے چند دنوں میں ہی کیا صورت پکڑلی؟ اس کا نقشہ اوکاڑہ کے ایک غیر احمدی دوست جناب محمد عابد صاحب جالندھری نے انہی دنوں درج ذیل الفاظ میں کھینچا:۔
>ہفتہ عشرہ کے عرصہ تک بعض ناعاقبت اندیش اور خود غرض لیڈروں کی غلط لیڈر شپ کی بناء پر ایک طوفان بدتمیزی برپا رہا۔ اور احراری غنڈوں نے اسلام کے نام پر اخلاق سوز۔ نہیں نہیں۔ بلکہ اسلام سوز حرکات کا ارتکاب کیا۔ مگر ان کے متعلق کچھ تحریر کرنے سے قبل میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نہ مرزائی ہوں اور نہ ہی مرزائیت سے مجھے کوئی لگائو ہے بلکہ ایک حقیقت نگار کی حیثیت سے جو کچھ میری ان آنکھوں نے اس غنڈہ گردی کے دوران میں دیکھا میں بقول کسے >قلم کی عصمت کو ماں بہن کی عصمت سے کم نہ سمجھتے ہوئے< اس کا تفصیلی جائزہ لوں گا<۔
ان ابتدائی الفاظ کے بعد لکھا:۔
>یکم اکتوبر۔ حقیقت یہ ہے کہ اکتوبر کی یکم کو جبکہ چند مرزائی مبلغ اوکاڑہ سے دو اڑھائی میل دور واقعہ ایک دیہہ چک نمبر ۵ میں بغرض تبلیغ روانہ ہوئے تو شہر سے ۲۰` ۲۵ غنڈے ان کے پیچھے ہولئے اور وہاں ان کی تمام مساعی کو ناکام بناتے رہے اور واپسی پر راستہ میں کوٹ نہال سنگھ کے قریب ان بیچاروں کے منہ سیاہ کرکے ان کا تمسخر اڑاتے ہوئے شہر کی طرف لے آئے جہاں اسٹیشن کے قریب شہر کے امن کو خاک میں ملانے والے بعض دیگر افراد نے بھی >مرزائیت مردہ باد< اور >مرزائے قادیان مردہ باد< و دیگر اسی قسم کے ہتک آمیز نعرے لگائے اور مرزائی مبلغین پر پتھرائو کیا۔
اس شور وغوغا کو سن کر پولیس وہاں پہنچ گئی اور مرزائی مبلغین کو اپنی حفاظت میں لے لیا مگر جب پولیس کے تانگہ پر غنڈہ عنصر نے حملہ کردیا تو مجبوراً پولیس نے آٹھ نو حملہ آوروں کو زیر دفعہ ۱۵۱/۱۰۷ گرفتار کرلیا۔
ان گرفتاریوں کے فوراً ہی بعد شہر میں زبردستی ہڑتال کروا دی گئی مگر حکام بالا نے نہایت ہوشمندی اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے گرفتار شدگان کو رہا کردیا اور اس طرح شہر میں فرقہ واریت کی سلگتی ہوئی آگ کو کسی حد تک ٹھنڈا کردیا۔
۲۔ اکتوبر:۔ یہ دوسرا دن بخیر و عافیت گزر گیا اور اگرچہ اس دن بظاہر امن رہا اور کسی قسم کا کوئی ناگوار واقعہ پیش نہ آیا مگر اس حقیقت کو کسی صورت جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ کشیدگی اور کھچائو اس دن بھی کسی حد تک پایا جاتا تھا۔
۳۔ اکتوبر: ۔ ۳۔اکتوبر کا دن بھی ۲ بجے تک امن و امان کے ساتھ گزر گیا مگر ۲/۲۱ بجے کے قریب جبکہ پولیس نے نقص امن کے اندیشہ میں حافظ فضل الٰہی سابق صدر مومن کانفرنس کو گرفتار کرلیا تو شہر کی فضا پھر سے مکدر ہوگئی اور کوئی تین چار بجے کے قریب ۴۔ اکتوبر کو عام ہڑتال اور رات کو رضوی چوک اوکاڑہ میں ایک جلسہ عام کا اعلان کردیا۔
جلسہ میں مقررین نے نہایت اشتعال انگیز اور تہدید آمیز تقریریں کرکے عوام کے جذبات کو کافی حد تک اکسایا اور یہی اکساہٹ دوسرے دن یعنی ۴۔ اکتوبر کو ایک مرزائی کے قتل پر منتج ہوئی۔
۴۔ اکتوبر:۔ اسی دن کے لئے عام ہڑتال کا اعلان کیا گیا چنانچہ صبح سے ہی غنڈوں اور نافہم چھوٹے چھوٹے بچوں کے گروہ درگروہ بازاروں کے چکر کاٹنے لگے اور اگر کسی غریب خوانچہ فروش نے غلطی سے یا پھر اپنے بچوں کی بھوک اور افلاس سے تنگ آکر کوئی شے فروخت کرنی چاہی تو ان غنڈوں نے اس غریب کی ساری پونجی کو لوٹ لیا اور جو کسی کے ہاتھ لگا لے کر چلتا بنا۔ اسی پر اکتفا نہیں بلکہ سارا دن یہ لوگ بازاروں اور گلیوں میں چھوٹے چھوٹے جلوسوں کی شکل میں آوارہ گردی کرتے رہے اور مرزائیوں کے خلاف نہایت اشتعال انگیز نعرے لگاتے رہے یہاں تک کہ مسجد احمدیہ کے دروازے پر جاکر ان لوگوں نے نہایت تہدید آمیز الفاظ استعمال کئے اور مسجد کے صحن میں گندگی تک پھینکنے سے گریز نہ کیا۔
شام کے تین بجے ایک جلوس عام کا اعلان کیا گیا تھا مگر جناب سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس کی بروقت مداخلت اور چک نمبر ۴۰ میں ایک مرزائی کے قتل نے جلوس نکالنے کی جرات نہ ہونے دی۔ اسی دن شام کو منٹگمری سے سپیشل پولیس فورس منگوائی گئی اور شہر کے تمام اہم ناکوں پر پولیس کی چوکیاں بٹھا دی گئیں<۔۱۸۶
ماسٹر غلام محمد صاحب کا واقعہ شہادت
اس رپورٹ میں جس شہید احمدیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ ماسٹر غلام محمد صاحب تھے جو چک ۳۔ آر/ ۴۸ میں دیہاتی سکول کے ٹیچر تھے اور تقسیم ملک سے قبل جماعت احمدیہ پھمبیاں ضلع ہوشیار پور میں سیکرٹری مال تھے۔۱۸۷
رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء میں آپ کے واقعہ شہادت کے حالات میں لکھا ہے:۔
>یکم اکتوبر ۱۹۵۰ء کو ایک احمدی مولوی نور دین سات دوسرے احمدیوں کے ساتھ تبلیغی مہم پر چک نمبر ۵ میں گیا۔ یہاں کے غیر احمدیوں نے ان مبلغوں کو گھیر لیا۔ پھر ان پر کیچڑ پھینکی۔ ان کے چہروں پر کالک ملی اور گندے پانی میں سے انہیں ہنکا کر ریلوے سٹیشن اوکاڑہ تک پہنچایا۔ پولیس میں اس واقعہ کی رپورٹ لکھوائی گئی جس پر ایک شخص مولوی فضل الٰہی زیر دفعات ۱۴۷` ۳۴۲ زیر حراست لے لیا گیا۔ اس گرفتاری کے خلاف احتجاج کے طور پر اوکاڑہ میں دکانیں بند ہوگئیں اور ۳۔ اکتوبر کی رات کو ایک جلسہ عام ہوا جس میں ہزاروں اشخاص شامل ہوئے۔ بہت سے مقررین نے تقرریں کیں جو بے انتہا اشتعال انگیز تھیں۔ ایک مقرر نے جلسے کے نوجوان حاضرین سے اپیل کی کہ مرزائی فتنہ سے قوم کو نجات دلائو۔ دوسرے دن محمد اشرف نے جو تقریریں سن چکا تھا ایک چھرے سے مسلح ہوکر غلام محمد کا تعاقب کیا جبکہ وہ اوکاڑہ جارہا تھا۔ محمد اشرف نے غام محمد کو ایک نہر کے قریب جالیا اور اس کے چھرا گھونپ دیا۔ غلام محمد کا زخم کاری تھا۔ چنانچہ وہ تھانے کو لے جانے سے پہلے ہی مر گیا۔ محمد اشرف ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اس نے بیان دیا:۔
>پہلے یہ کہا کہ ستمبر میں پھر کہا کہ اکتوبر کی تیسری تاریخ کو اوکاڑہ میں ایک جلسہ ہوا جس میں رضوان بشیر احمد` مولوی ضیاء الدین` قاضے عبدالرحمن` چوہدری محبوب عالم اور صدر جلسہ نے جو غالباً قاضی تھے پرجوش تقریریں کیں جن میں بتایا کہ مرزائی نبی کریم~)صل۱(~ کو گالیاں دیتے ہیں ہم حضورﷺ~ کی عظمت کے لئے اپنی جانیں دے دیں گے۔ تقریر میں یہ کہا گیا کہ جو لوگ ان کو )احمدیوں کو( پہچان کر نابود کرنے پر آمادہ ہیں وہ اپنے ہاتھ اٹھائیں۔ جلسے میں علم دین غازی کا ذکر بھی کیا گیا اور اس کی سرگزشت سنائی گئی۔ میں نے اس سے پہلے بھی علم دین غازی کی سرگزشت پڑھی تھی اور ایک دفعہ اس کے مقبرے پر بھی گیا تھا۔ اس کے بعد جلسہ ختم ہوگیا۔ میں گھر واپس آگیا۔ تقریروں کے الفاظ رات بھر میرے دماغ میں گونجتے رہے۔ صبح اٹھ کر میں سائیکل پر چک نمبر ۴۸ گیا جہاں ماسٹر تفریحی چھٹی پر اپنے گھر گیا ہوا تھا۔ میں چک میں ٹھہرا رہا تاوقتیکہ وہ سکول میں نہ آگیا۔ گائوں کے چوک کی ایک دکان پر میں نے ایک سگریٹ پیا۔ جب میں باہر نکال ماسٹر سکول میں نہ تھا مجھے یقین تھا کہ ماسٹر مرزائی ہے۔ اور میں اسی نیت سے آیا تھا۔ چک میں میں نے ایک سید سے پوچھا کہ آیا حضور نبی کریمﷺ~ کے زمانے میں ہمارے بچوں کو پڑھانے پر کوئی کافر مقرر تھا؟ اس ماسٹر کو کیا حق ہے کہ وہ ہمارے چک میں مقیم ہے۔ زمین الاٹ کرا رکھی ہے اور بچوں کو پڑھا رہا ہے۔ اس کے بعد میں نے ایک لڑکے سے پوچھا کہ ماسٹر کہاں گیا ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ چک ۳۔ آر/۴۰ کو گیا ہے۔ میں نے پوچھا سائیکل پر یا پیدل؟ جواب ملا سائیکل پر۔ میرے پاس اس وقت ایک چھرا تھا میں نے اس کو دو میل کے فاصلے پر جا لیا۔ وہاں میں نے اپنے سائیکل سے اتر کے اس کے سائیکل کو دھکا دیا اور اسے گرا لیا۔ میں نے ماسٹر کو چھرے سے ایک ضرب لگائی اور وہ بھاگ کر چھوٹی نہر کے پاس میں گھس گیا۔ چھرا ٹھیک نہ رہا میں نے اسے درست کیا اور پھر پانی میں اور ضربیں لگائیں۔ میں اس ک مار ہی رہ رہا تھا کہ ادھر ادھر سے کچھ لوگ جمع ہوگئے اور انہوں نے مجھے روکا۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے نہ روکو میں ایک کافر کو قتل کررہا ہوں۔ اور ایک اجنبی شخص نے مجھ سے سوالات کئے میں نے اس کو بھی یہی بتایا کہ میں نے ایک کافر کو ہلاک کردیا ہے۔ پھر میں اوکاڑہ چلا گیا<۔۱۸۸
‏]sub [tagپنجاب پریس کا جانبدارانہ رویہ اور >تسنیم< کی معذرت
>ناعاقبت اندیش< اور >خود غرض لیڈروں< کے اس ظلم وستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی بجائے پنجاب پریس خصوصاً >آزاد<۱۸۹ اور >تسنیم<۱۹۰ لاہور نے اصل حقائق کو مسخ شدہ صورت میں نہایت درجہ رنگ آمیزی سے شائع کیا جس پر اخبار >الفضل< نے سختی سے نوٹس لیا اور بالاخر ادارہ >تسنیم< کو حسب ذیل الفاظ میں معذرت شائع کرنا پڑی:۔
>لاہور ۱۰۔ اکتوبر۔ قیم جماعت اسلامی ضلع منٹگمری اطلاع دیتے ہیں کہ تسنیم کے نامہ نگار اوکاڑہ نے قادیانیوں کے متعلق جو خبریں بھیجیں ہیں وہ جذباتی اور خلاف واقعہ ہیں اس لئے نامہ نگار مذکور کو تسنیم کی نامہ نگاری سے علیحدہ کردیا۔ ادارہ کو ان خبروں پر افسوس ہے جو نامہ نگار مذکور نے قادیانیوں کی اشتعال انگیزی کے متعلق بھیجی ہیں۔ تسنیم جس دعوت اور مسلک کا داعی ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہمارے کالموں میں دانستہ کوئی ایسی چیز شائع نہ ہو جو خلاف واقعہ ہو<۔۱۹۱
افسوس >تسنیم کے علاوہ کسی اور اخبار کو اس اخلاقی جرات کی توفیق نہ ہوسکی حالانکہ محمد عابد صاحب جالندھری کے الفاظ میں ان اخبارات نے یا پھر ان کے نامہ نگاروں نے حق و صداقت کا منہ چڑانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا<۔۱۹۲
‏tav.12.14
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
اخبار تنظیم )پشاور( کا پرزور نوٹ اور حکومت سے مطالبہ
جہاں تک صوبہ سرحد کا تعلق ہے اس کے اخبارات نے انتہائی غیر جانبدارانہ روش اختیار کی بلکہ پشاور کے ہفت روزہ >تنظیم< نے اپنی ۲۶۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء کی اشاعت میں >احرار کی پاکستان دشمن سرگرمیاں< کے زیر عنوان مندرجہ ذیل پرزور نوٹ سپرد اشاعت کیا:۔
>کسے معلوم نہیں کہ مجلس احرار بھی کانگرس کی طرح مسلمانوں کے محبوب مطالبہ پاکستان کی روز اول سے شدید مخالفت کرتی رہی ہے۔ پاکستان کو پلیدستان اور قائداعظم~رح~ کو اول درجہ کا فرقہ پرست کہنے والی اس نام نہاد اور پاکستان دشمن جماعت نے قیام پاکستان کے بعد ملک کے قومی اتحاد کے شیرازہ کو بکھیرنے کے لئے پنجاب میں مذہبی تبلیغ کے نام سے گزشتہ عرصہ میں جو کانفرنسیں اور جلسے کئے ان احرار مبلغوں نے نہ صرف شیعہ سنی مناقشات کو ہوا دی بلکہ جماعت احمدیہ کے خلاف ہلاکت آفرین ہر اگلا۔ اس کی تفصیل ہم کسی گزشتہ اشاعت میں دے چکے ہیں۔ احرار نے اپنے یہ تبلیغی جلسے پنجاب کے ان اہم مرکزی مقامات اور دیہات میں کئے جہاں کے نوجوان پاکستانی افواج میں ملک و ملت کی خدمت کررہے ہیں اور آئندہ بھی یہی علاقے ملک کی خدمت کے لئے نوجوانوں کی بھرتی دے سکتے ہیں۔ پنجاب کے سادہ لوح دیہاتیوں میں پاکستان کی فوجی قوت اور قومی اتحاد کو کمزور کرنے کے لئے مرزائیت اور احمدیت کو کافر اور خارج از اسلام بے دین فرقہ ظاہر کرکے عوام سے کہا گیا کہ تمہیں یہ کیا معلوم ہے کہ اس وقت پاکستان کے جتنے اہم سرکاری شعبے ہیں ان میں شیعوں اور احمدیوں کی حکمرانی ہے اور خاص کر پاکستان کی طرف سے سرظفراللہ کا بطور وزیر خارجہ تقرر مسلمانوں کے لئے مذہبی اور ملکی نقطہ نظر سے شدید خطرہ و نقصان کا باعث ہے۔ اسلام کسی حالت اور کسی صورت میں احمدیوں سے اشتراک عمل کی اجازت نہیں دیتا۔
لہذا مسلمانو! احمدیوں کی خفیہ ریشہ دوانیوں اور سرظفراللہ کے ہندوئوں سے کشمیر کے سودا کے سازباز وغیرہ مسلم دشمن حرکات سے بروقت خبردار رہو۔ اگر سر ظفراللہ اسی طرح وزارت خارجہ کے اہم عہدہ پر فائز رہا تو بس یہی سمجھو کہ تمہارا اسلام اور کلچر وغیرہ سب مٹ جائیں گے حالانکہ سر ظفر اللہ کی سلامتی کونسل میں نہ صرف پاکستان بلکہ تمام اسلامی ممالک کے مسائل سے گہری` بے لوث اور ٹھوس ترجمانی کے باعث تمام عرب ممالک سر ظفراللہ پر اپنے اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں اور مسلم ممالک کے حقوق کی نگہداشت کے لئے اقوام متحدہ کے ادارہ میں سرظفراللہ کی موجودگی کو اسلامی ممالک کی خوش قسمتی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ نیز پاکستان کے قیام اور بعد میں پاکستان کے استحکام کے لئے مسلم جماعت احمدیہ کو جو بے مثال اور ناقابل فراموش قربانی ادا کرنی پڑی ہے اس کے پیش نظر چاہئے تو یہ تھا کہ اس جماعت کی جو بے مثال اور ناقابل فراموش قربانی ادا کرنی پڑی ہے اس کے پیش نظر چاہئے تو یہ تھا کہ اس جماعت کی جو اپنا ناموس اور گھربار اور کروڑوں روپیہ کی جائداد اور اپنا مرکز چھوڑ کر پاکستان پہنچی تھی ۔۔۔۔۔ قدر کی جاتی ۔۔۔۔۔۔ یقیناً پاکستان کے لئے اس جماعت کی قربانیاں باقی مسلمانان ہند کے مقابلہ میں اگر زیادہ قابل قدر نہیں تو اس درجہ حقیر اور خلاف انسانیت سلوک کے قابل نہیں کہ احرار کی فتنہ انگیز تقاریر سے متاثر ہوکر اوکاڑہ میں وہاں کے غنڈوں کے ہاتھوں نہ صرف کہ چند احمدیوں کے منہ کالے کئے گئے بلکہ مسجد احمدیہ میں گندگی تک پھینکی گئی اور غنڈوں کا انتقامی جوش ایک بے گناہ احمدی مسلمان کی شہادت بھی بنا۔ ابھی اوکاڑہ کی فضا احمدیوں کے مزید کشت و خون کے لئے مکدر بیان کی جاتی ہے۔ گو عارضی طور پر وہاں پولیس کی چوکیاں بٹھا کر امن قائم کردیا گیا ہے۔
ضرورت ہے کہ آنریبل ڈاکٹر لیاقت علی خان صاحب وزیراعظم پاکستان اپنی اولین توجہ اوکاڑہ کے تازہ سانحہ پر دیں اور وہابیوں` شیعوں اور احمدیوں کو کفر و الحاد کی سندیں دینے والی پاکستان دشمن احرار جماعت کی اس قسم کی فتنہ انگیز تقریروں پر کڑی پابندی عائد کی جائے اور سانحہ اوکاڑہ کا اصل پس منظر معلوم کیا جائے کہ آیا وہ کونسے اسباب تھے کہ پورے چار دن اوکاڑہ کے غنڈوں نے امن و قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر وہاں کے احمدیوں پر عرصہ حیات تنگ کئے رکھا۔ چونکہ پاکستان کا قیام ایک جمہوری اور قومی ریاست کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا ہے اس لحاظ سے ہمارا مطالبہ ہے کہ ہر پاکستانی کو ملکی قانون کے اندر رہتے ہوئے پوری مذہبی آزادی حاصل ہونی چاہئے۔ سانحہ اوکاڑہ کے اصل محرک جو لوگ ہیں انہوں نے اسلامی اصولوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا ہے اور ان کے اس فعل سے پاکستان کے قومی اتحاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ ایسی مجرمانہ اور غیر ذمہ دارانہ حرکات کا آئندہ کے لئے مکمل سدباب کرے اور پاکستان میں رہنے والی تمام ایسی نام نہاد مذہبی جماعتوں کی تقریر و تحریر پر پابندی عائد کی جانی ضروری ہے جو فرقہ وارانہ جذبات کی انگیخت کا باعث ہوں<۔
حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے جماعت احمدیہ کو اپنے اندر روحانی انقلاب برپا کرنے کی تلقین
شہید احمدیت ماسٹر غلام محمد صاحب کے المناک واقعہ شہادت پر حضرت مصلح موعودؓ نے ۶۔ اخاء ۱۳۲۹ہش کو ایک عارفانہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حضور نے جماعت پر واضح کیا کہ
نبیوں کی جماعتوں کو پتھر` کنکر اور کانٹوں پر سے ہی گزرنا پڑتا ہے۔ مگر یاد رکھو کہ جب تم خدا کے لئے اپنے آپ کو بدل دو گے تو خدا تمہارے لئے ساری دنیا کو بدل دے گا۔ چنانچہ فرمایا:۔
>آج میں اختصار کے ساتھ اس امر کی طرف جماعت کو خصوصاً جماعت کے نوجوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت بہت سخت ہوتی جاتی ہے۔ وہ لوگ جو کل تک ہماری جماعت کی تعریف میں رطب اللسان تھے آج ان کے خون کے پیاسے نظرآرہے ہیں۔ آپ لوگوں نے اخبار میں اوکاڑہ کے واقعات پڑھے ہوں گے کہ وہاں ہمارے ایک دوست کو شہید کردیا گیا ہے۔ اب پردہ ڈالنے کے لئے یہ کہا جارہا ہے کہ قتل کرنے والے کی مخالفت کی بناء کوئی لین دین کا جھگڑا تھا مگر ساتھ ہی یہ تسلیم کیا جارہا ہے کہ وہ جھگڑا دو سال کا پرانا تھا حالانکہ اگر یہ بات درست بھی تسلیم کرلی جائے کہ دو سال پہلے کا کوئی جھگڑا تھا تب بھی اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت اس کا قتل کرنا درحقیقت ان مولویوں کی انگیخت کا نتیجہ تھا جنہوں نے ہماری جماعت کے خلاف تقریریں کیں۔ ورنہ اگر صرف یہی جھگڑا اختلاف کا باعث تھا تو اس نے گزشتہ دو سال میں یہ فعل کیوں نہ کیا۔ اگر ایک شخص دیکھے کہ کوئی اس کے بچہ کو پیٹ رہا ہے اور وہ اس وقت خاموش رہے لیکن دو سال کے بعد مارنے والے کو پیٹنے لگے اور کہے کہ میں اس لئے پیٹ رہا ہوں کہ اس نے آج سے دو سال پہلے میرے بچہ کو مارا تھا تو کون شخص اس کی بات کو تسلیم کرے گا یہ شخص کہے گا کہ اب اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد تمہارا پیٹنا اگر اشتعال کی وجہ سے ہے تب بھی اس اشتعال کو کسی اور چیز نے تازہ کردیا ہے۔ اسی طرح اس اشتعال کو زندہ کرنے والا` اس اشتعال کو تازہ کرنے والا اور اس اشتعال کو ابھارنے والا مولویوں کا لوگوں کو حرش دلانا اور ان کا احمدیوں کے خلاف تقریریں کرنا تھا۔ اور یہ ایک جگہ کا حال نہیں ہر جگہ یہی ہورہا ہے۔ ان حالات میں پہلی نصیحت تو میں جماعت کے دوستوں کو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ان امور کو ابتلاء شر نہ سمجھیں بلکہ دینی ترقی کا ذریعہ سمجھیں۔ یہ بزدلوں اور بے ایمانوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ مصائب کے آنے پر گھبرا جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کے ابتداء میں ہی منافق کی یہ علامت بیان فرمائی کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ ٹھہر جاتا ہے اور جب آرام اور راحت کا وقت آتا ہے تو چل پڑتا ہے۔ مومن وہ ہوتا ہے جو مصائب کے وقت اور بھی زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ احزاب کے موقع پر جب مسلمانوں سے کہا گیا کہ لوگ اکٹھے ہورہے ہیں اور وہ تمہیں مارنے کی فکر میں ہیں تو انہوں نے کہا یہ تو ہمارے ایمانوں کو بڑھانے والی بات ہے کیونکہ ہمارے خدا نے پہلے سے ان واقعات کی خبر دے رکھی تھی۔ اس سے ہمارے ایمان متزلزل کیں ہوں گے وہ تو اور بھی بڑھیں گے اور ترقی کریں گے۔ پس ایسے امور سے مومنوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مدارج کو بلند کرنے کے سامان پیدا کررہا ہے ہم میں سے کون ہے جس نے ایک دن مرزا نہیں مگر ایک موت کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ طبعی موت ہوتی یہ اور دوسری موت کے متعلق فرماتا ہے کہ ایسے مرنے والے ہمیشہ سے زندہ ہیں بلکہ فرماتا ہے کہ تم ان کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو رزق مل رہا ہے یعنی ان کی روحانی ترقیات کے سامان متواتر ہوتے چلے جائیں گے۔ دشمن تو یہی دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ تم کو مٹا دے اور وہ تم کو غمگین بنا دے مگر جب وہ دیکھتا ہے کہ تمہیں مارا جاتا ہے تو تم اور بھی زیادہ دلیر ہوجاتے ہو` تم اور بھی زیادہ خوش ہوجاتے ہو اور کہتے ہو کہ خدا نے ہماری ترقی کے کیسے سامان پیدا کئے ہیں تو اس کا حوصلہ پست ہوجاتا ہے<۔
نیز فرمایا:۔
>حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہلے ایک تھے پھر ایک سے دو ہوئے` دو سے چار ہوئے` چار سے آٹھ ہوئے` آٹھ سے سولہ ہوئے` سولہ سے بتیس ہوئے` بتیس سے چونسٹھ ہوئے` چونسٹھ سے ایک سو اٹھائیس ہوئے اور اسی طرح ہم بڑھتے چلے گئے۔ کب وہ وقت آیا کہ ہمارا دشمن کمزور تھا اور ہم طاقت ور تھے۔ ہماری تاریخ میں کوئی وقت ہم پر ایسا نہیں آیا کہ دشمن کمزور ہو اور ہم طاقتور ہوں یا کب وہ وقت آیا کہ ہمارے پاس سامان تے اور دشمن کے پاس سامان نہیں تھے۔ ہمیشہ ہمارے دشمن کے پاس ہی سامان تھے اور ہمارے پاس کوئی سامان نہیں تھے یا کب وہ وقت آیا کہ دشمن نے ہمیں امن دینے کا ارادہ کیا ہو اور اس کے اس ارادہ کی وجہ سے ہم بچے ہوں۔ ہمیشہ ہی دشمن نے ہمارے قتل کے فتوے دیئے لیکن ہمیشہ ہی خدا نے ہم کو بچایا اور خدا تعالیٰ نے ہم کو بڑھایا۔ پس وہ کونسی نئی چیز ہے جس سے تم گھبراتے ہو یا کونسی نئی بات ہے جو تمہیں تشویش میں ڈالتی ہے۔ کیا کوئی نبی دنیا میں ایسا آیا ہے جس کی جماعت نے پھولوں کی سیج سے گزر کر کامیابی حاصل کی ہو۔ پتھر اور کنکر اور کانٹے ہی ہیں جن پر سے نبیوں کی جماعتوں کو گزرنا پڑا اور انہی پر سے تم کو بھی گزرنا پڑے گا۔ جس طرح ایک بکری کے بچہ کے پیر میں جب کانٹا چبھ جاتا ہے تو گلہ بان اس کو اپنی گود میں اٹھا لیتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کرتے ہوئے اگر تمہارے پائوں میں کانٹا بھی چبھے گا تو ایک غریب اجڑی نہیں` ایک کمزور گلہ بان نہیں بلکہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا خدا تم کو اپنی گود میں اٹھا لے گا۔ لیکن اگر تم ڈرتے ہو تو تم اپنے ایمان میں کمزور ہو اور ان نتائج کے دیکھنے کے اہل نہیں جو انبیاء کی جماعتیں دیکھی چلی آئی ہیں۔ تم اپنی سستیوں اور غفلتوں کو دور کرو۔ مایوسیوں کو اپنے قریب بھی نہ آنے دو۔ تمہیں خدا تعالیٰ نے شیر بنایا ہے تم کیوں یہ سمجھتے ہو کہ تم بکریاں ہو۔ جدھر تمہاری باگیں اٹھیں گی ادھر ہی اسلام کے دشمن بھاگنے شروع ہوجائیں گے اور جدھر تمہاری نظریں اٹھیں گی ادھر ہی صداقت کے دشمن گرنے شروع ہوجائیں گے۔ بے شک خدا تعالیٰ کے دین کے قیام کے لئے تم ماریں بھی کھائو گے۔ تم قتل بھی کئے جائو گے تمہارے گھر بھی جلائے جائیں گے مگر تمہارا قدم ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا اور کوئی طاقت تمہاری ترقی کو روک نہیں سکے گی۔ الٰہی سنت یہی ہے کہ اس کی جماعتیں مرتی بھی ہیں` اس کی جماعتیں کچلی بھی جاتی ہیں۔ اور اس کی جماعتیں بظاہر دنیوی نقصان بھی اٹھاتی ہیں مگر ان کا قدم ہمیشہ ترقی کی طرف بڑھتا ہے۔ اور یہی وہ معجزہ ہوتا ہے جو سنگدل سے سنگدل دشمن کو بھی ان کے آگے جھکا دیتا ہے اور انہیں فتح اور کامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔ پس اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرو۔ نمازوں پر زور ددو۔ دعائوں پر زور دو۔ شب بیداری پر زور دو۔ صدقہ و خیرات پر زور دو۔ دین کی خدمت پر زور دو۔ تبلیغ پر زور دو اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو۔ جب تم خدا کے لئے اپنے آپ کو بدل لو گے تو خدا تمہارے لئے ساری دنیا کو بدل دے گا<۔
راولپنڈی میں چوہدری بدرالدین صاحب کی شہادت
ماسٹر غلام محمد صاحبؓ کی دردناک شہادت کا زخم بالکل تازہ ہی تھا کہ صرف چند روز بعد جماعت احمدیہ راولپنڈی کے ایک سادہ مزاج اور خاموش طبع بزرگ اور صحابی چوہدری بدرالدین صاحبؓ لدھیانوی گولی مار کر شہید کردیئے گئے۔
چوہدری صاحب موصوف ۱۸۹۰ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم قادیان میں پائی۔ ایک روایت کے مطابق انہوں نے ۱۸۹۹ء کے لگ بھگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی۔ عرصہ دراز تک جماعت احمدیہ لدھیانہ کے سیکرٹری مال اور سیکرٹری امور عامہ رہے۔ آپ کو یہ بھی فخر حاصل تھا کہ ایک بار حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ اور حضرت ام المومنینؓ مالیر کوٹلہ تشریف لے جاتے ہوئے آپ کے مکان واقع سرائے نواب متصل اسٹیشن لدھیانہ میں قیام فرما ہوئے تھے۔ فسادات ۱۹۴۷ء میں آپ گوالمنڈی راولپنڈی میں پناہ گزین ہوگئے تھے۔ راولپنڈی میں احرار کانفرنسوں نے سخت اشتعال پھلا دیا تھا۔ ۱۰۔ اخاء ۱۳۲۹ہش/ اکتوبر ۱۹۵۰ء کو ساڑھے چھ بجے شام گوالمنڈی کے باغیچہ میں آرہے تھے کہ فائر بریگیڈ کیپاس ایک شخص ولایت نے ان پر پیچھے سے فائر کیا اور گولی ان کی پشت کو چیرتی ہوئی پیٹ کی طرف سے نکل گئی۔۱۹۴ اتفاق سے اس وقت ایک سب انسپکٹر پولیس نے جو کسی کام کے تعلق میں باہر سے راولپنڈی آئے ہوئے تھے قاتل کو گولی چلاتے دیکھ لیا اور اسے موقع پر ہی گرفتار کرکے اس کا پستول چھین لیا۔ اور جیسا کہ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کے فاضل ججوں نے اپنی رپورٹ میں ذکر کیا ہے >عینی شاہدوں میں سے ایک نے جس پر سیشن جج اور ہائی کورٹ دونوں نے اعتبار کیا ہے یہ بتایا کہ جب مجرم کو عین موقع پر گرفتار کیا گیا تو اس نے خود یہ اعتراف کیا تھا کہ میں نے بدر دین کو اس لئے ہلاک کیا ہے کہ وہ احمدی ہے<۔۱۹۵
چوہدری بدر الدین صاحب گولی لگنے سے گر پڑے۔ ان کے ایک داماد ڈاکٹر میر محمد صاحب قریشی نے آپ کو فوراً ایمبولینس کار کے ذریعہ سول ہسپتال پہنچایا مگر آپ جانبر نہ ہوسکے اور اگلے دن گیارہ بجے کے قریب اپنے حقیقی مولا کے پاس پہنچ گئے۔ فان للہ وان الیہ راجعون۔
بیہوشی کے عالم میں بھی آپ کی زبان پر مسنونہ دعائیں اور کلمہ طیبہ جاری رہا۔۱۹۶ آپ اپنے خاندان میں کے لئے احمدی تھے مگر آپ نے اپنے پیچھے چونتیس افراد کا کنبہ بطور یادگار چھوڑا۔
اخبارات کی جھوٹی` گمراہ کن اور متضاد خبریں
چوہدری صاحب کی المناک شہادت پر گوالمنڈی راولپنڈی کے تمام غیر احمدی معززین و شرفاء نے قاتل کی اس ناجائز کارروائی کو نہایت ہی ظالمانہ فعل قرار دیا۔۱۹۷ مگر اس دفعہ بھی پنجاب کے اخبارات نے جن میں احرار اور جماعت اسلامی کے ترجمان پیش پیش تھے۔ اصل واقعہ شہادت کے متعلق بالکل غلط گمراہ کن اور متضاد اطلاعات شائع کیں حتیٰ کہ تسنیم نے ۱۳۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء کے پرچہ میں یہ خبر وضع کی کہ >رسول کریم~صل۱~ کی شان میں گستاخی کرنے پر ایک قادیانی کو گولی کا نشانہ بنا دیا<۔ اس کے برعکس >تسنیم< مورخہ )۱۵۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء( میں ہی مجلس احرار راولپنڈی کے سیکرٹری کی اطلاع چھپی کہ یہ قتل روزنامہ تعمیر راولپنڈی کی ۱۳۔ اکتوبر کی شائع شدہ خبر کے مطابق ایک مکان کی وجہ سے جھگڑا ہونے پر ہوا ہے اور پاکستان ٹائمز نے ۱۴۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء کی اشاعت میں یہ بتایا کہ کبوتر بازی کا جھگڑا تھا جو قتل پر منتج ہوا ہے۔ حالانکہ قاتل نے واضح رنگ میں یہ اعتراف کیا تھا کہ میں نے ایک احمدی کو قتل کیا ہے کیونکہ علماء نے ہم کو یہی بتایا ہے کہ یہ لوگ اسلام کے دشمن اور واجب القتل ہیں۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے جماعت کو تبلیغ حق کا خصوصی ارشاد
حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ شہادت پر بھی ۱۳۔ اخاء کو خطبہ دیا جس میں اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ جب ہم ۱۹۴۷ء
میں قادیان سے ہجرت کرکے آئے تو میں نے جماعت کو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی تھی اور کہا تھا کہ لوگ آج تمہاری تعریفیں کرتے ہیں حتیٰ کہ اخبار >زمیندار< تک میں احمدی جماعت کی بہادری کی تعریفیں ہورہی ہیں لیکن ان عارضی تعریفوں پر مت جائو اور یاد رکھو کہ تم ان حالات میں سے گزرنے پر مجبور ہو کہ جن حالات میں سے پہلے نبیوں کی جماعتیں گزری ہیں۔ تمہیں خون بہانے پڑیں گے۔ تمہیں جانیں دینی پڑیں گی۔ اس پر کچھ افراد اور جماعتوں نے کہا کہ آج کل جماعت کی بہت تعریف ہورہی ہے اس وقت تو تبلیغ بالکل نہیں کرنی چاہئے۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ آنے والے ہیں کہ یہی تعریف کرنے والے تمہیں گالیاں دیں گے اور تم اس وقت کہو گے کہ آج ہماری بہت مخالفت ہے اس لئے ہمیں تبلیغ نہیں کرنی چاہئے۔ گویا کچھ دن تو تم تبلیغ سے اس لئے غافل ہوجاتے ہین کہ لوگ تمہاری تعریف کرتے ہیں اور کچھ دن تم تبلیغ سے اس لئے غافل ہوجاتے ہو کہ لوگ تمہاری مخالفت کرتے ہیں۔ پھر وہ دن کب آئے گا جب تم تبلیغ کرو گے؟
حضرت امیرالمونین نے ان درد بھرے کلمات کے بعد احباب جماعت کو نہایت پرجوش الفاظ میں دوبارہ تاکیدی حکم دیا کہ وہ پیغام احمدیت پہنچانے کی طرف پوری توجہ دیں چنانچہ فرمایا:۔
>یاد رکھو یہ واقعات تمہیں بیدار کرنے کے لئے ہیں۔ تم کب سمجھو گے کہ تم ایک مامور کی جماعت ہو۔ تم کب سمجھو گے کہ تم دنیا سے نرالے ہو۔ تم کب سمجھو گے کہ خدا تمہارے خون کے قطروں سے دنیا کی کھیتیوں کو نئے سرے سے سرسبز و شاداب کرنا چاہتا ہے۔ جب تک تم یہ نہیں سمجھو گے نہ خدا تعالٰی کی مدد تمہارے پاس آئے گی اور نہ تم ترقی کا منہ دیکھ سکو گے۔ تم مت سمجھو کہ تبلیغ کے نتیجہ میں بہت کم لوگ سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی تبلیغ کے نتیجہ میں بعض کے نزدیک مکہ میں صرف ایس اور بعض کے نزدیک تین سو آدمی اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ گویا تیرہ سال کی تبلیغ سے ان دونوں میں سے جو تعداد بھی سمجھ لو اسی سمجھو یا تین سو سمجھو صرف اتنے لوگ ہی اسلام میں داخل ہوئے۔ لیکن جب وقت آیا تو دو سال کے اندر اندر سارا عرب مسلمان ہوگیا۔ اصل میں یہ چیز بطور امتحان کے ہوتی ہے۔ تبلیغ خدا اس لئے کرواتا ہے تابعد میں تم خوش ہو کہ کہہ سکو کہ ہماری محنت اور ہماری قربانی اور ہماری جدوجہد اور ہماری تبلیغ کے نتیجہ میں دنیا مسلمان ہوئی ہے ورنہ دنیا کو مسلمان کرنا خدا کا کام ہے۔ جس دن خدا یہ دیکھ لے گا کہ اسلام اور احمدیت کے پھیلانے کے لئے جماعت نے ہر قسم کی قربانیاں کرلی ہیں۔ اس نے اپنے مالوں کو بھی قربان کردیا ہے۔ اس نے اپنی جانوں کو بھی قربان کردیا ہے۔ اس نے اپنی عزتوں کو بھی قربان کردیا ہے۔ اس نے اپنے رشتہ داروں کو بھی قربان کردا ہے۔ اس نے اپنے اوقات کو بھی قربان کردیا ہے۔ اس نے اپنے وطنوں کو بھی قربان کردیا ہے تو وہ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ جائو اور دنیا کے دلوں کو بدل دو اور لوگوں کو ان کے پاس کھینچ کر لے آئو۔ اور جب خدا کی مدد آجائے تو لوگ اس کے سلسلہ میں داخل ہونے سے رک نہیں سکتے۔ وہ آپ فرماتا ہے اذا جاء نصر اللہ والفتح ورایت الناس ید خلون فی دین اللہ افواجا فسبح بحمد ربک واستغفرہ انہ کان توابا جب خدا دیکھتا ہے کہ اس جماعت نے تبلیغ کا حق ادا کردیا ہے تو وہ خود لوگوں کے دلوں کو بدل دیتا ہے ورنہ صرف تبلیغ سے لوگوں کے دلوں کو بدلا نہیں جاسکتا۔ اگر محمد رسول اللہ~صل۱~ کی تبلیغ سے ہی مسلمان لوگ ہوتے تو صرف عرب کے لئے ہی شاید کئی صدیاں درکار ہوتیں۔ آپ کی تبلیغ سے ایک چھوٹی سی جماعت تیار ہوئی اور باقی لوگوں کے دلوں کو فرشتوں نے خود بدل ڈالا۔ پس اس بات کو عجیب نہ سمجھو کہ تمہاری تبلیغ کے نتیجہ میں دنیا کس طرح احمدی ہوجائے گی۔ تمہاری تبلیغ صرف تمہارے ایمان کو ثابت کرے گی۔ تمہاری تبلیغ صرف تمہارے یقین کو ثابت کرے گی۔ تمہاری تبلیغ صرف تمہارے تعلق باللہ کو ثابت کرے گی۔ تمہاری تبلیغ صرف اس بات کو ثابت کرے گی کہ تم خدائی قانون کے معترف ہو۔ جس دن یہ مقام تمہیں حاصل ہوگیا اور جس دن تم نے یہ ثابت کردیا کہ خدا تعالیٰ کے حکم کی تکمیل میں تم کسی سے نہیں ڈرتے اس دن وہ آپ ہی آپ لوگوں کے دلوں کو بدل دے گا جیسے رسول کریم~صل۱~ نے اس زمانہ کے متعلق خبریں دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ دن ایسے ہوں گے کہ رات کو لوگ کافر سوئیں گے اور صبح اٹھیں گے تو مسلمان ہوں گے۔ پھر خدا لوگوں کے دلوں کو بدلے گا اور وہ انہیں کھینچتے ہوئے تمہاری طرف لے آئے گا۔ دو ارب دنیا کے دلوں کو بدلنا تمہارے اختیار میں نہیں خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ خدا تعالیٰ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم اپنے دلوں کو بدل دو اور یہی تبلیغ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ تبلیغ یہ نتیجہ پیدا نہیں کرتی کہ دنیا مسلمان ہوجائے تبلیغ یہ نتیجہ پیدا کرتی ہے کہ تم مسلمان ہوجائو۔ اگر تم تبلیغ نہیں کرو گے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تم ڈرتے ہو کہ لوگ ہمیں دکھ دیں گے لیکن جب تمہارے اندر تبلیغ کا جوش پیدا ہوجاتا ہے اور وہ جوش ثابت کردیتا ہے کہ تم لوگوں سے نہیں ڈرتے تو خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے کہتا ہے مخالفت کا زمانہ ختم ہوگیا۔ کفر کا زمانہ جاتا رہا۔ جائو اور ہمارے مامور کی ڈیوڑھی پر سر رکھ دو کہ اس کے بغیر تمہاری نجات نہیں۔ اور جب خدا کہتا ہے تو دنیا آپ ہی آپ کھچی چلی آتی ہے۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ہمیں یہی نظارہ نظر آتا ہے۔ عیسائیت کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا۔ ایک دن عیسائیوں کے پادری روم کے گڑھوں اور ان کی غاروں میں پناہ لئے بیٹھے تھے۔ شام کے وقت ان کے قتل کے فتوے جاری تھے اور صبح کو تمام روم میں ڈھونڈورا پیٹا جارہا تھا کہ بادشاہ نے آج رات خواب میں دیکھا ہے کہ عیسائیت سچا مذہب ہے اس لئے روم کا بادشاہ عیسائی مذہب میں شامل ہوگیا ہے۔ آئندہ حکومت کا مذہب عیسائیت ہوگا۔ آج سے جو عیسائیوں کو دکھ دے گا یا ان کو قتل کرے گا وہ پکڑا جائے گا اور اسے سزا دی جائے گی۔ شام کو وہ اس غم سے سوتے ہیں کہ نہ معلوم صبح تک ہم میں سے کون زندہ رہے اور کون مارا جائے۔ اور صبح کو اٹھتے ہی تو وہ دنیا کے بادشاہ بنے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کا دشمن غاروں کی طرف بھاگ رہا ہوتا ہے۔ یہی حال محمد رسول اللہ~صل۱~ کے ساتھ ہوا۔ اور جو کچھ اب تک ہوتا رہا وہی تمہارے ساتھ ہوگا مگر مجھے افسوس ہے کہ میرے بار بار توجہ دلانے کے باوجود تم اب تک اس بات کو نہیں سمجھ سکے۔ تم ہی بتائو کہ کس ذریعہ سے میں تم کو سمجھائوں اور وہ کونسا طریق ہے جس سے میں تم پر اس حقیقت کو واضح کروں۔ آخر تم حضرت عیٰسی علیہ السلام کو راست باز سمجھتے ہو اور تم محمد رسول اللہ~صل۱~ کو خدا تعالیٰ کا راستباز انسان سمجھتے ہو۔ اور ان سے جو کچھ گزرا وہ تمہارے سامنے ہے۔ لیکن اگر تم پھر بھی نہ سمجھو تو میں کیا طریق عمل اختیار کروں۔ اگر تم اتنی وضاحت کے باوجود بھی نہ سمجھو تو پھر تمہیں سمجھانا میرے بس کی بات نہیں میں تو خدا تعالیٰ سے پھر یہی کہہ سکتا کہ میں نے جو کچھ کرنا تھا وہ کرچکا مگر میں انہیں یقین نہیں دلا سکا اب تو آپ ہی ان کو سمجھا کیونکہ ان کو سمجھانا میرے بس کی بات نہیں<۔۱۹۸
حواشی
۱۔
سرمہ چشم آریہ صفحہ ۳۱ حاشیہ طبع اول۔
۲۔
الفضل ۴۔ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۸۔
۳۔
الفضل یکم نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۸۔
۴۔
الفضل ۴۔ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۵۔
الفضل ۲۔ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۶۔
اجتماع کے پہلے روز خدام کی تعداد ڈیڑھ ہزار تھی اور ۸۹ خیمے نصب ہوئے۔ اجتماع میں دینی معلومات اور پیمائشی ذہنی کے امتحانات ہوئے جن کے دلچسپ پرچے الضل ۲۔ نبوت و ۲۴۔ نبوت ۱۳۲۸ہش میں چھپ چکے ہیں۔ پیمائش ذہنی کا پرچہ شعبہ نفسیات تعلیم الاسلام کالج نے مرتب کیا تھا۔ خدام کے ساتھ ساتھ اطفال کے علمی اور ورزشی مقابلوں کے پروگرام جاری رہے۔ پہلے دن احمدی بچوں نے اپنے مقام اجتماع میں ۲۶ خیمے لگائے۔ )الفضل یکم نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۳(
۷۔
اس پہلے پرچہ میں >اسلام ایک رحمت کا پیغام ہے< کے عنوان سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا ایک قیمتی نوٹ بھی شائع ہوا۔
۸۔
حضرت مصلح موعودؓ کے اس خیال کے پیچھے صرف یہ جذبہ کار فرما تھا کہ بھارت کو تبلیغ اسلام کے ذریعہ پھر سے مسلم ہند یعنی پاکستان بنانے کا رستہ کھلا رہے چنانچہ فرماتے ہیں:۔
>ہم ہندوستان کو چھوڑ نہیں سکتے۔ یہ ملک ہمارا ہندوئوں سے زیادہ ہے۔ ہماری سستی اور غفلت سے عارضی طور پر یہ ملک ہمارے ہاتھ سے گیا ہے۔ ہماری تلواریں جس مقام پر جاکر کند ہوگئیں وہاں سے ہماری زبانوں کا حملہ شروع ہوگا اور اسلام کے خوبصورت اصول کو پیش کرکے ہم اپنے ہندو بھائیوں کو خود اپنا جزو بنالیں گے مگر اس کے لئے ہمیں راستہ کو کھلا رکھنا چاہئے<۔ )الفضل ۶۔ شہادت ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۔ ۷۔
>الرحمت< چونکہ ہندوستان کے لئے جاری کیا گیا تھا اس لئے برصغیر کے ماحول کو اشاعت اسلام کے لئے سازگار بنانے کا مسئلہ اولیت رکھتا تھا ورنہ حضور ایک بین الاقوامی تبلیغی جماعت کے آسمانی راہ نما تھا اس لئے امن کے معاملہ میں بھی علاقائی یا ملکی سطح کی بجائے مستقل طور پر ایک عالمی مسلک رکھتے تھے جو حضور کے الفاظ میں یہ ہے:۔
>ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ ساری دنیا کی ایک حکومت قائم ہوتا باہمی فسادات دور ہوں اور انسانیت بھی اپنے جوہر دکھانے کے قابل ہو مگر ہم اس کو آزاد قوموں کی آزاد رائے کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں۔ )الفضل ۲۲۔ اخاء ۱۳۲۴ہش/ اکتوبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۱۔
۹۔
>الرحمت< الفضل ۲۱۔ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۳` ۴۔
۱۰۔
الفضل ۲۔ اخاء ۱۳۲۸ہش/ اکتوبر ۱۹۴۹ء۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے >الفضل کا یہ اعلان پڑھتے ہی درویشان قادیان کو پہلے تار دیا پھر فون کرکے اس بات کی تسلی کرلی کہ آپ کا پیغام صحیح صورت میں درویشوں تک پہنچ گیا ہے۔
۱۱۔
الفضل ۲۵۔ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۳ کالم ۳۔
۱۲۔
>یخرج ھمہ و عمہ دوحہ اسمعیل< بدر ۱۶۔ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ و الحکم ۱۰۔ فروری ۹۶ء صفحہ ۱۱(
۱۳۔
طبری` ابن ہشام` زرقانی` تاریخ خمیس۔
۱۴۔
آپ نے جماعت لائل پور میں دس روپے چندہ الگ بھی دیا۔
۱۵۔
ابن سعد۔
۱۶۔
الفضل ۸۔ اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۳` ۴` ۵۔
۱۷۔
روزنامہ الفضل ۱۹۔ اخاء ۱۳۲۸ہش/ اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۱۸۔
روزنامہ الفضل ۸۔ اخاء ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۵۔
۱۹۔
حفیظ الرحمن صاحب ڈرافٹس مین آج کل انگلستان میں ہیں آپ لکھتے ہیں:۔ >میں ۱۴۔ جولائی ۱۹۴۹ء کو ربوہ میں آیا۔ میرے سپرد دفتر تعمیرات کی پلیننگ برانچ کی گئی یعنی صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کی تمام پختہ عمارت کے نقشہ جات کے ڈیزائن تیار کرنا میرے ذمہ لگایا گیا۔ سب سے پہلا نقشہ مسجد مبارک ربوہ کا تیار کیا گیا۔ دفتر تعمیر کے ایک کچے مکان میں رات کے وقت گیس کی روشنی کی گئی اور خاکسار نے محترم قاضی عبدالرحیم صاحبؓ بھٹی کی ہدایات کے مطابق نقشہ تیار کیا۔ کیونکہ منظوری کے لئے نقشہ جلد کمیٹی میں پیش ہونا تھا اس لئے رات کے وقت کام کیا گیا۔ پھر یہ نقشہ کمیٹی کی منظوری کے لئے بھجوا دیا گیا اور ڈپٹی کمشنر مسٹر بٹر نے اس پر منظوری کے دستخط کئے<۔
۲۰۔
اصحاب احمد جلد ۱ صفحہ ۷۴` ۷۶ مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے طبع اول جنوری ۱۹۵۹ء۔
۲۱۔
حضور اگرچہ ۱۹۔ تبوک ۱۳۲۸ہش/ ستمبر ۱۹۴۹ء کو وارد ربوہ ہوئے مگر جلد ہی حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کی بیماری کی وجہ سے لاہور تشریف لے گئے جہاں ۲۳۔ تبوک کو مسجد احمدیہ دہلی دروازہ میں خطبہ دیا۔ اس کے بعد اگلا جمعہ حضور نے ربوہ میں پڑھایا جو رہائش ربوہ کا پہلا جمعہ تھا۔ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی مرکزی سالانہ رپورٹ ۲۸۔۱۳۲۹ہش/ ۴۹۔۱۹۵۰ء سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۔ تبوک تا ۷۔ نبوت ۱۳۲۸ہش حضور لاہور میں قیام فرما رہے لیکن اس دوران خطبہ جمعہ کے لئے باقاعدگی سے ربوہ تشریف لاتے رہے۔ )صفحہ ۶(
۲۲۔
الفضل ۶۔ اخاء ۱۳۲۸ہش/ اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۳` ۴` ۵۔
۲۳۔
روزنامہ الفضل مورخہ یکم فتح ۱۳۲۸ہش/ یکم دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۴` ۵۔
۲۴۔
روزنامہ الفضل یکم فتح ۱۳۲۸ہش/ دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۵۔
۲۵۔
مکمل متن کے لئے ملاحظہ ہو الفضل جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۷۔
۲۶۔
روزنامہ الفضل ۲۵۔ اخاء ۱۳۲۸ہش/ اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۲۷۔
تابعین اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ ۷۷ طبع اول ماہ نومبر ۱۹۷۱ء۔
۲۸۔
انسائیکلو پیڈیا آف بریٹینکا زیر لفظ سکاٹ لینڈ۔
۲۹۔
مساوات لاہور ۱۳۔ جون ۱۹۷۳ء صفحہ ۶۔
۳۰۔
الفضل ۲۷۔ اخاء ۱۳۱۹ہش/ اکتوبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۲۔
۳۱۔
رپورٹ مرسلہ بشیر آرچرڈ زیر عنوان SCOTLAND> IN <TABLIGH
۳۲۔
الفضل ۲۰۔ امان ۱۳۲۸ہش صفحہ ۴ گلاسگو میں آپ ابتداًء FODT CROFT CRESCENT, MILK CASTLE 69 میں رہتے تھے بعد ازاں دوسرے مقامات میں رہائش پذیر ہوئے۔ مثلاً۔
2۔S GLASGOW ROAD, LANGCIDE 279 ۔1
1۔S GLASGOW ROAD HOUSE MANSION 36 ۔2
۳۳۔
الفضل ۱۹۔ ہجرت ۱۳۲۸ہش صفحہ ۲۔
۳۴۔
الفضل ۱۲۔ احسان ۱۳۲۸ہش صفحہ ۵۔
۳۵۔
پمفلٹ عبدالرحمن صاحب دہلوی )حال کارکن نظارت امور عامہ( نے جماعت احمدیہ کوئٹہ سے چندہ جمع کرکے شائع کرایا تھا اور اس کے ڈاک خرچ کا ایک حصہ شیخ محمد اقبال صاحب )خلف الرشید حضرت شیخ کریم بخس صاحبؓ( نے ادا کیا۔ یہ پمفلٹ یک ورقہ اور ایک طرف چھپا ہوا تھا اور اس کی پہلی قسط جو دو ہزار پر مشتمل تھی ۱۸۔ وفا ۱۳۲۸ہش/ جولائی ۱۹۴۹ء کو مسٹر بشیر آرچرڈ کے پاس پہنچی جیسا کہ ان کی ایک تبلیغی رپورٹ میں درج ہے۔
‏h1] ga[t ۳۶۔
بعنوان DIGNITARIES> HIGH AND POPE THE TO CHALLANGE <A
۳۷۔
بعنوانDIGNITARIES> HIGH AND POPE THE TO CHALLANGE <A
۳۸۔
‏ PEACE AND ISLAM
۳۹۔
‏ AWAKE CHRISTIAN
۴۰۔
رسالہ البشریٰ فلسطین اخاء و نبوت ۱۳۳۲ہش صفحہ ۱۶۲ تا ۱۷۶۔
۴۱۔
ان میں سے مسٹر بی۔ ٹارزویکا TORZEVERA) ۔B ۔(MR کو پہلے ایمان نصیب ہوا۔ سیدنا حضرت المصلح الموعود نے ۱۸۔ امان ۱۳۳۰ہش کو ان کی نسبت اپنے قلم مبارک سے لکھا >انعام اللہ نام رکھیں<۔
۴۲۔
یاد رہے ان ایام میں آپ کے مکان کا ہفتہ وار کرایہ ہی تین پونڈ تھا۔
۴۳۔
گلاسگو مشن کی ابتدائی فائل سے پتہ چلتا ہے کہ دیگر ذرائع کے علاوہ احمدیہ ٹریڈنگ کمپنی )بازار گنڈا والا امرتسر( کی طرف سے بھی آپ کو پرانی ٹکٹیں بھجوائی جاتی تھیں۔ ۲۶۔ شہادت ۱۳۳۰ہش کی رپورٹ میں آپ نے ٹکٹوں کی فروخت` مسلم ہیرلڈ کی اشاعت اور اپنی دیگر تبلیغی مساعی کا ذکر کیا جس پر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا >رسالہ بھی مل گیا اللہ تعالیٰ برکت ڈالے<۔
۴۴۔
الفضل ۲۲۔ اخاء ۱۳۳۱ہش/ اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۔
۴۵۔
ان دنوں آپ نائب امام )انگلستان مشن( کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
۴۶۔
ملخصاً از رپورٹ بشیر احمد خاں صاحب رفیق ۲۷۔ تبوک ۱۳۲۸ہش/ ستمبر ۱۹۵۹ء )غیر مطبوعہ(
۴۷۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی!! ان دنوں آپ >ریویو آف ریلیجنز< میں قلمی خدمات بجا لارہے ہیں۔
۴۸۔
الفضل ۶۔ امان ۱۳۳۹ہش/ مارچ ۱۹۶۰ء صفحہ ۴۔
۴۹۔
اس سفر میں کار چلانے کی سعادت مکرم بشیر احمد خاں صاحب رفیق کو حاصل ہوئی۔
۵۰۔
لب سڑک ایک عوامی قیام گاہ ہے جس کے اردگرد کوئی آبادی نہیں۔ گلاسگو جانے والے لوگ اکثر یہیں رات گزارتے ہیں۔
۵۱۔
روزنامہ الفضل ۱۵ اور ۱۳۔ ظہور/ اگست ۱۳۴۶ہش/ ۱۹۶۷ء حضور کے اس تاریخی سفر کی مفصل روداد خلافت ثالثہ کی تاریخ میں آرہی ہے۔ )مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۹۔ ظہور ۱۳۴۶ہش صفحہ ۳(
۵۲۔
پیغام کا متن >تاریخ احمدیت< جلد ۱۳ صفحہ ۸۵ تا ۹۴ میں درج ہے۔
۵۳۔
مثلاً بمبئی` شاہجہانپور` بنارس` دہلی` سہارنپور` کانپور` پٹنہ` جے پور شہر` کلکتہ` لکھنو` مظفرپور` کٹک` پوری` بھدرک` مونگھیر` بھاگلپور` سکندرآباد دکن` میرٹھ` الہ آباد` بریلی` علی گڑھ` موسیٰ بنی مائنز` فیض آباد` میلسی )بہار(
۵۴۔
مثل نمبر ۲۶ دفتر خدمت درویشاں ربوہ۔
۵۵۔
روزنامہ الفضل ۲۰۔ ہجرت ۱۳۲۸ہش/ مئی ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۵۶۔
اصل خط شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے۔
۵۷۔][ حضور کا یہ ارشاد بھی شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے نیز الفضل میں شائع شدہ ہے۔
۵۸۔
روزنامہ الفضل ۷۔ صلح ۱۳۲۹ہش/ جنوری ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
۵۹۔
روزنامہ الفضل ۳۱۔ فتح ۱۳۲۸ہش/ دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۱ و ۸۔
۶۰۔
اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲۹۔ دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۶۔
۶۱۔
خبر کا متن ضمیمہ میں ملاحظہ ہو۔
۶۲۔
سیرت خاتم النبین~صل۱~ حصہ دوم طبع اول صفحہ ۴۲۴ تا صفحہ ۴۳۰ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔
‏]1h [tag ۶۳۔
الفضل ۳۱۔ فتح ۱۳۲۸ہش صفحہ ۴۔
۶۴۔
الفضل ۱۰۔ صلح ۱۳۲۹ہش صفحہ ۳` ۴۔
۶۵۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد ۱۳ صفحہ ۴۵` ۴۶۔
۶۶۔
جلسہ سالانہ کے تفصیلی کوائف روزنامہ الفضل ۱۱` ۱۳` ۱۶۔ صلح ۱۳۲۹ہش میں شائع شدہ ہیں۔
۶۷۔
والد ماجد مولوی قمر الدین صاحب۔
۶۸۔
اشتہار >جلسہ الوداع< مشمولہ >تبلیغ رسالت< جلد ہشتم صفحہ ۷۶۔
۶۹۔
روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۱۳ صفحہ ۴۵۲۔
۷۰۔
روایات صحابہ جلد نمبر ۱۳ صفحہ ۴۴۰ تا صفحہ ۴۵۵ و جلد ۱۴ صفحہ ۱ تا ۳۴ میں آپ کی بیان فرمودہ روایات محفوظ ہیں۔
۷۱۔
الفضل ۳۰۔ امان ۳۲۸ہش صفحہ ۵ کالم ۲۔
۷۲۔
الفضل ۱۳۔ وفا ۱۳۲۸ہش/ صفحہ ۴۰ کالم ۱۔
۷۳`۷۴۔
رجسٹر روایات صحابہ جلد ۷ صفحہ ۲۳ )غیر مطبوعہ(
۷۵۔
الفضل ۱۷۔ وفا ۱۳۲۸ہش صفحہ ۴ کالم ۱۔
۷۶۔
رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر ۴ صفحہ ۲۳۔
۷۷۔
الفضل ۱۷۔ وفا ۱۳۲۸ہش صفحہ ۶ ملخصاً از مضمون مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری` ملاحظہ ہو الفضل ۵۔ ظہور ۱۳۲۸ہش صفحہ ۶۔
۷۸۔
مولوی صدر الدین صاحب فاضل )مجاہد ایران( اور مولوی عبدالمنان صاحب شاہد مربی اصلاح و ارشاد آپ ہی کے بیٹے ہیں۔
۷۹۔
لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۲۸۳ )مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب نو مسلم( طبع اول فروری ۱۹۶۶ء۔
۸۰۔
مولف کتاب لاہور تاریخ احمدیت اور اخبار الفضل )۲۳۔ ظہور ۱۳۲۸ہش( کے مطابق حضرت سیخ صاحب کا سن بیعت ۱۹۰۰ء ہی ہے۔
۸۱۔
‏h2] [tag الفضل ۲۴۔ ۱۳۲۸ہش۔
۸۲۔
ملاحظہ ہو بدر ۲۴۔ مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۴ و تاریخ احمدیت جلد سوم طبع اول صفحہ ۵۳۷۔
۸۳۔
لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۲۸۵ )مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ( ۸۴۔
تاریخ احمدیہ )سرحد( ۱۸۷` ۸۸ مولفہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ سرحد۔
۸۵۔
یہ مباحثہ ۷۔ جون ۱۹۱۴ء کو حضرت مولوی غلام حسن صاحب کے مکان پر ہوا تھا۔
۸۶۔
لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۲۸۴ )مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب فاضل نو مسلم(
۸۷۔
لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۲۸۴ )مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب فاضل نو مسلم(
۸۸۔
اولاد:۔ ۱۔ شیخ نذیر احمد صاحب مرحوم` ۲۔ شیخ بشیر احمد صاحب مرحوم سینئر ایڈووکیٹ و سابق جج ہائی کورٹ مغربی پاکستان` ۳۔ شیخ محمد اسلم صاحب مرحوم` ۴۔ شیخ محمد اسحق صاحب ۵۔ ہاجرہ بیگم مرحومہ` ۶۔ سلیمہ بیگم مرحومہ` ۷۔ آمنہ بیگم صاحبہ` ۸۔ محمودہ بیگم صاحبہ۔
۸۹۔
بروایت حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ سرحد تاریخ احمدیہ سرحد صفحہ ۱۱۷۳(
۹۰۔
الفضل ۱۴۔ اخاء ۱۳۲۸ہش صفحہ ۵` الرحمت لاہور ۵۔ فتح ۳۲۸ہش صفحہ ۲۔
۹۱۔
بروایت حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ تاریخ احمدیہ سرحد صفحہ ۱۷۳(
۹۲۔
روایت مرزا غلام رسول صاحب )رجسٹر روایات صحابہ جلد ۱۴ صفحہ ۳۶۶(
۹۳۔
الفضل ۴۔ اخاء ۱۳۲۸ہش صفحہ ۵ کالم ۳` ۴۔
۹۴۔
بیان عبداللہ خاں صاحب بھٹی بی۔ اے` بی ٹی نائب امیر وفد المجاہدین آگرہ )الفضل ۳۔ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۲ کالم ۱` ۷۔ )بیان میں سہواً غیاثی کی بجائے غیاٹی چھپ گیا تھا جس کی تصیح کردی گئی ہے(
۹۵۔
روزنامہ الفضل ۲۶۔ اخاء ۱۳۲۸ہش صفحہ ۶۔
۹۶۔
>الرحمت< ۵۔ فتح ۱۳۲۸ہش/ دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۹۷۔
الفضل ۱۴۔ اخاء ۱۳۲۸ہش صفحہ ۵` ۶۔
۹۸۔
اولاد۔ مرزا عبدالحفیظ صاحب` مرزا عبداللہ جان صاحب` مرزا منصور احمد صاحب` مرزا منظور احمد صاحب` مرزا بشیر احمد صاحب۔ ان کے علاوہ تین بیٹیاں آپ کی یادگار ہیں۔
۹۹۔
رجسٹر بیعت۔
۱۰۰۔
الفضل ۱۳۔ وفا ۱۳۲۸ہش صفحہ ۲ کالم ۳ )نوٹ سید رضا حسین احمدی عرائض نویس کلکٹری اٹاوہ یوپی(
۱۰۱۔
ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۳` ملفوظات مسیح موعود جلد نمبر ۸ صفحہ ۱۹۸` ۱۹۹ میں بھی آپ کا ذکر ملتا ہے۔
۱۰۲۔
مثلاً خانزادہ عبدالعلی خان آف اٹاوہ۔ حافظ سلیم احمد صاحب اٹاوی حال ربوہ۔
۱۰۳۔
الفضل ۱۱۔ نبوت ۱۳۲۸ہش۔
۱۰۴۔
بحوالہ فہرست بعنوان >واذا الصحف نشرت<۔ مرتبہ میاں عبدالعظیم صاحب تاجر کتب قادیان صفحہ ۱۸۔
۱۰۵۔
اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۱۱۶ )از ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان(
۱۰۶۔
الحکم ۱۰۔ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۶ کالم ۳ میں آپ کا نام فہرست مبائعین میں مرقوم ہے۔
۱۰۷۔
الفضل ۳۰۔ اخاء ۱۳۲۸ہش صفحہ ۱۔
۱۰۸۔
الحکم ۱۴۔ فروری ۱۹۰۲ء۔
۱۰۹۔
الحکم ۱۰۔ جنوری ۱۹۰۲ء )روداد بیعت(
۱۱۰۔
یہ واقعات ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے کی تالیف >اصحاب احمد< جلد اول صفحہ ۱۱۶ تا صفحہ ۱۴۳ سے ماخوذ ہیں۔
۱۱۱۔
مفصل حالات کے لئے ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۱۱۶ تا ۱۷۵ مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے ایضاً الفضل ۲۰۔ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۴` ۵۔ الرحمت ۲۸۔ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۱۱۲۔
والد ماجد مولوی غلام احمد صاحب ارشد سابق درویش قادیان۔
۱۱۳۔
الحکم ۲۴۔ اگست ۱۹۰۷ء۔
۱۱۴۔
روزنامہ الفضل یکم فتح ۱۳۲۸ہش۔
۱۱۵۔
روزنامہ الفضل یکم فتح ۱۳۲۸ہش صفحہ ۶۔
۱۱۶۔
روزنامہ الفضل ۱۶۔ تبلیغ ۱۳۲۹ہش مطابق ۱۶۔ فروری ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
۱۱۷۔
روایات صحابہ )غیر مطبوعہ( جلد نمبر ۷ صفحہ ۲۴۸۔
۱۱۸۔
حضرت حافظ صاحبؓ کی آخری رپورٹ )جس میں مخالفت احمدیت کے لئے تائیدی نشانات اور اپنی بیماری کا ذکر ہے( الفضل ۱۱۔ امان ۱۳۲۹ہش/ مارچ ۱۹۵۰ء میں درج شدہ ہے۔
۱۱۹۔
نقل مطابق اصل۔
۱۲۰۔
روزنامہ الفضل ۱۲۔ تبلیغ ۱۳۲۹ہش/ ۱۲۔ فروری ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
۱۲۱۔
روزنامہ الفضل ۲۳۔ تبلیغ ۱۳۲۸ہش/ فروری ۱۹۴۹ء۔
‏h1] gat[ ۱۲۲۔
الفضل ۲۸۔ اخاء ۱۳۲۸ہش۔
۱۲۳۔
الفضل ۸۔ صلح ۱۳۲۹ہش۔
۱۲۴۔
اصحاب احمد جلد ۱ صفحہ ۱۰۷` صفحہ ۱۱۵ )مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے۔
۱۲۵۔
الفضل ۱۴۔ صلح ۱۳۲۹ہش۔
۱۲۶تا۱۲۹۔
الفضل ۲۶۔ صلح` ۵۔ امان` ۲۴۔ نبوت ۱۳۲۸ہش۔
۱۳۰۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان بابت ۳۰۔۱۳۹۲ہش/ ۵۱۔۱۹۵۰ء صفحہ ۳۸ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ لجنہ اماء اللہ حصہ دوم صفحہ ۱۲۴۔ ۱۲۶ )از حضرت سیدہ ام متین صاحبہ حرم سیدنا حضرت مصلح موعودؓ(
۱۳۱۔
الفضل ۴۔ صلح ۱۳۲۸ہش صفحہ ۱۔
۱۳۲۔
الفضل ۲۰۔ صلح ۱۳۲۸ہش صفحہ ۱۔
۱۳۳۔
کنزے صاحب کیا ہی بدقسمت انسان ہیں کہ انہوں نے یہ نصیحتیں خلیفہ موعود کی زبان مبارک سے سنیں اور بجائے صدق و اخلاص میں قدم آگے بڑھانے کے اسلام ہی سے پلٹ گئے ہیں۔
۱۳۴۔
الفضل ۲۔ امان ۱۳۲۸ہش صفحہ ۲۔
۱۳۵۔
الفضل ۵۔ احسان ۱۳۲۸ہش صفحہ ۵۔
۱۳۶۔
الفضل ۵۔ شہادت ۱۳۲۸ہش صفحہ ۳۔
‏]h1 [tag ۱۳۷۔
انقلاب ۱۴۔ اپریل ۱۹۴۹ء صفحہ ۱۔
۱۳۸۔
الفضل ۲۱۔ ظہور ۱۳۲۸ہش صفحہ ۳` ۴۔
۱۳۹۔
>انقلاب< لاہور ۱۸۔ مئی ۱۹۴۹ء۔
۱۴۰۔
روزنامہ الفضل ۱۰۔ تبوک ۱۳۲۸ہش صفحہ ۴۔
۱۴۱۔
روزنامہ الفضل ۲۵۔ فتح ۱۳۲۸ہش صفحہ ۱۱` ۱۲۔
۱۴۲۔
روزنامہ الضل ۲` ۶۔ اخاء ۱۳۲۸ہش۔
۱۴۳۔
الیوم )البیروت( ۲۲ کانون الاول بحوالہ البشریٰ المجلد ۱۶۔ ربیع الاول۔ ۱۳۷ ھجریہ دسمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۲۳۷۔
۱۴۴۔
یاد رہے کہ حضور ان دنوں لاہور میں فروکش تھے۔
۱۴۵تا۱۴۷
الفضل ۶۔ وفا` ۲۔ تبوک` ۲۱۔ فتح ۱۳۲۸ہش۔
۱۴۸۔
الفضل ۳۱۔ فتح ۱۳۲۸ہش صفحہ ۸۔
۱۴۹۔
اخبار انقلاب نے اپنے ۳۔ جون ۱۹۴۹ء کے شمارہ میں سیرت خاتم النبین~صل۱~ حصہ سوم پر حسب ذیل تبصرہ کیا:۔
سیرت خاتم النبین~صل۱~
)حصہ سوم جزء اول
صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے کی کتاب >سیرت خاتم النبین~صل۱(~ کے دو حصے شائع ہوچکے ہیں اور تمام حلقوں نے ان کی تعریف کی ہے۔ اب اس کتاب کا تیسرا حصہ شائع ہوا ہے جس میں غزوہ بنو قریظہ کے بعد سے آنحضرت~صل۱~ کے تبلیغی خطوط تک کے واقعات درج کئے گئے ہیں اور یہ حصہ کوئی سوا دو سو صفحے پر ختم ہوا ہے۔ مرزا بشیر احمد صاحب کا علم و فضل کسی تعریف و تعارف کا محتاج نہیں۔ اس کے علاوہ آپ کا انداز تحریر بے حد سادہ` سلیس اور دلنشیں ہے۔ چونکہ سیرت پر آپ کی نظر بہت وسیع ہے اس لئے آپ کی کتاب میں بے شمار ایسے واقعات بھی ملیں گے جو سیرت کی عام کتابوں میں حذف کر دیئے گئے ہیں۔ مرزا صاحب اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہیں کہ جب کوئی مسلمان مولف آنحضرت~صل۱~ کی سیرت پر کتاب لکھتا ہے تو اس کا مقصد محض تاریخی واقعات بیان کرنا نہیں ہوتا بلکہ حضور~صل۱~ کی حیات طیبہ کے تمام شعبوں کو اجاگر کرنا اور حضور~صل۱~ کی تعلیمات کی طرف پڑھنے والوں کو متوجہ کرنا مقصود حقیقی ہے چنانچہ کتاب زیر تبصرہ میں فاضل مولف نے جابجا اس مقصد کو مدنظر رکھا ہے اور بیان سوانح کے ساتھ ساتھ ازدواج` مساوات اسلامی` تعلقات آقا و خادم` تقسیم دولت` مساوات اقتصادی` فلسفہ دعا` معجزات` دین و سیاست اور بعض دوسرے مسائل پر اسلامی نقطہ نگاہ سے اور سیرت مقدسہ کی روشنی میں بحث بھی کردی ہے گوا پڑھنے والے کو نہ صرف حضورﷺ~ کی سیرت مقدسہ کے واقعات معلوم ہوجاتے ہیں بلکہ اسوہ حسنہ کی پیروی کا راستہ بھی مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔<
۱۵۰۔
اسلام اور ملکیت زمین صفحہ ۲۶۲` ۲۶۳۔
۱۵۱۔
>اسلام اور ملکیت زمین< صفحہ ۲۰۴` ۲۰۶ )اس کتاب کا ۱۳۳۰ہش/ ۱۹۵۱ء میں سندھی ایڈیشن بھی چھپ گیا(
۱۵۲۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء صفحہ ۱` ۲ و الفضل ۱۱۔ شہادت ۱۳۲۹ہش صفحہ ۴۔
۱۵۳۔
رپورٹ صفحہ ۶۔
‏h1] gat[ ۱۵۴۔
رپورٹ مشاورت ۱۳۲۹ہش صفحہ ۱۲۔
۱۵۵۔
رپورٹ مشاورت ۱۳۲۹ہش صفحہ ۱۳۔
۱۵۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۴` صفحہ ۲۰۔
۱۵۷۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۳ تا ۴۵۔
۱۵۸۔
الفضل ۳۱۔ مئی ۱۹۵۰ء۔
۱۵۹تا۱۶۲۔
الفضل ۶۔ احسان` ۲۷۔ ظہور` ۱۳۔ تبوک` ۲۲۔ تبوک ۱۳۲۹ہش۔
۱۶۳۔
سفر کوئٹہ کے ضروری کوائف مولانا محمد یعقوب صاحب طاہرؓ نے الفضل ۲۷۔ ظحور ۱۳۲۹ہش/ اگست ۱۹۵۰ء میں شائع کردیئے تھے جن سے مخلصین جماعت احمدیہ کوئٹہ کی اپنے امام ہمام سے والہانہ عقیدت و الفت کا بھی پتہ چلتا ہے۔
۱۶۴۔
الفضل ۲۴۔ احسان ۱۳۲۹ہش صفحہ ۶۔
۱۶۵۔
الفضل ۲۷۔ ظہور ۱۳۲۹ہش۔
۱۶۶۔
البقرہ : ۱۲۹۔
۱۶۷۔
‏ IDEAS
۱۶۸`۱۶۹۔
)ملخص( الفضل لاہور ۹۔ ظہور ۱۳۲۹ہش صفحہ ۳ تا ۵۔
۱۷۰۔
ان دنوں میاں بشیر احمد صاحب پاسپورٹ آفیسر امیر جماعت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
‏]1h [tag ۱۷۱۔
مکتوب محررہ ۲۔ ظہور ۱۳۲۹ہش۔
۱۷۲۔
ماخوذ از ریکارڈ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ۳۔ ظہور ۱۳۲۹ہش۔
۱۷۳۔
الفضل ۱۳۔ تبوک ۱۹۲۹ہش صفحہ ۲۔
۱۷۴۔
الفضل ۲۲۔ تبوک ۱۳۲۹ہش۔
۱۷۵۔
الفضل ۲۲۔ ستمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۳۔
۱۷۶۔
الفضل ۲۲۔ ستمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
۱۷۷۔
واوین کے درمیان وضاحتی الفاظ ناقل کے ہیں۔
۱۷۸۔
الفضل ۲۲۔ ستمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۵۔
۱۷۹۔
الفضل ۲۲۔ ستمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۵` ۶۔
۱۸۰۔
الفضل ۲۲۔ ستمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۶۔
۱۸۱۔
الفضل ۲۲۔ ستمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۷۔
۱۸۲۔
الفضل ۸۔ اخاء ۱۳۲۹ہش/ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۴` ۷۔
۱۸۳۔
الفضل ۵۔ جولائی ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
۱۸۴۔
الفضل ۵۔ جولائی ۱۹۵۰ء صفحہ ۳` ۴۔
۱۸۵۔
الفضل ۶۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۔
۱۸۶۔
الفضل ۱۷۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
۱۸۷۔
الفضل ۱۱۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۔
‏h1] [tag ۱۸۸۔
رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء صفحہ ۲۴` ۲۵۔
۱۸۹۔
مجلس احرار کا ہفت روزہ ترجمان۔
۱۹۰۔
جماعت اسلامی کا روزنامہ۔
۱۹۱۔
بحوالہ روزنامہ الفضل ۱۱۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۔
۱۹۲۔
الفضل ۱۷۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
۱۹۳۔
الفضل ۱۰۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۳ تا ۵۔
۱۹۴۔
الفضل ۱۲۔ اخاء و ۱۶۔ نبوت ۱۳۲۹ہش۔
۱۹۵۔
رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء صفحہ ۲۷ )اردو ایڈیشن(
۱۹۶۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۶۔ نومبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۶ )مضمون محمود احمد صاحب ناصر اسسٹنٹ انسپکٹر آف ورکس ریلوے کیملپور(
۱۹۷۔
الفضل ۷۔ نومبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۷ )مضمون چوہدری کرم الٰہی صاحب ظفر مبلغ اسلام سپین(
۱۹۸۔
الفضل ۱۷۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
‏tav.12.15
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
مصلح موعودؓ کے سفر بھیرہ سے لیکر حادثہ آتشزدگی تک
تیسرا باب )فصل اول(
حضرت مصلح موعودؓ کے سفر بھیرہ سے لے کر احمدیہ مسجد سمندری کے حادثہ آتشزدگی تک
)ماہ نبوت ۱۳۲۹ہش/ نومبر ۱۹۵۰ء۔ احسان ۱۳۳۰ہش/ جون ۱۹۵۱ء(
حضرت مصلح موعودؓ کا سفر بھیرہ

ذکر بھیرہ کی سرزمین تاریخ احمدیت میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اسی میں حضرت حاجی الحرمین حکیم الامت خلیفتہ المسیح الاول مولانا نور الدین جیسا نورانی اور پاک وجود پیدا ہوا۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک بار فرمایا کہ >بھیرہ کو قادیان سے ایسی مناسبت ہے جیسے کہ مدینہ کو مکہ سے۔ کیونکہ بھیرہ سے ہم کو نصرت ملی ہے<۔۱
حضرت مصلح موعودؓ ایک مدت سے بھیرہ تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے تھے اور آپ نے نہ صرف اپنی حرم محترم اور حضرت خلیفہ اولؓ کی صاحبزادی حضرت امتہ الحی صاحبہ سے ان کی زندگی میں دلی آرزو اور خواہش کا اظہار فرمایا چنانچہ جلسہ ۱۹۲۹ء کے موقع پر اعلان فرمایا:۔
>یہ بھی ارادہ ہے کہ آنے والے سال میں اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں کا ٹور کروں۔ برہما کے دوستوں کا خیال ہے کہ میرے جانے سے اچھی تبلیغ ہوسکتی ہے۔ بنگال کے دوستوں کو بھی مدت سے خواہش ہے کہ میں وہاں جائوں۔ اگر یہ سفر تجویز ہو تو راستے کے بڑے بڑے شہروں میں ٹھہر سکتے ہیں۔ اور اگر یہ سفر کامیاب ہو تو اور علاقوں میں بھی جاسکتے ہیں۔ بھیرہ جانے کا ارادہ مدت سے ہے کیونکہ وہ حضرت خلیفہ اولؓ کا وطن ہے<۔۲
حضورؓ کی یہ مبارک خواہش ہجرت قادیان کے چوتھے سال ۲۶۔ ماہ نبوت ۱۳۲۹ہش )مطابق ۲۶۔ نومبر ۱۹۵۰ء( کو پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس روز حضور دارالہجرت ربوہ سے صبح سات بج کر دس منٹ پر بذریعہ کار بھیرہ کے لئے روانہ ہوئے۔ حضور کی قیادت میں جانے والا قافلہ پانچ کاروں اور ایک بس پر مشتمل تھا جس میں جماعت احمدیہ بھیرہ کے ممتاز احمدیوں کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے ناظر` تحریک جدید کے وکلاء` جامعہ احمدیہ` جامعتہ المبشرین` مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے محترم اساتذہ اور دیگر اکابر سلسلہ و بزرگان جماعت تھے۔ علاوہ ازیں ایک بس قبل ازیں ربوہ سے سید دائود احمد صاحب کی قیادت میں بھی روانہ ہوئی جس میں حضرت امیر المومنینؓ کے صاحبزادگان` خاندان مہدی موعودؑ کے دیگر ارکان اور جامعہ احمدیہ` جامعتہ المبشرین اور مدرسہ احمدیہ کے بعض طلباء شامل تھے۔
حضور معہ قافلہ آٹھ بجے کے قریب امیر جماعت ہائے احمدیہ سرگودہا مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ کے ہاں پہنچے۔ مرزا صاحب موصوف نے حضور اور دیگر ارکان قافلہ کو چائے پیش کی۔ جس کے بعد حضور ۹ بج کر ۵ منٹ پر بھیرہ جانے کے لئے بھلوال کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن ابھی ۲۵ میل کے قریب ہی سفر طے ہوا تھا کہ نہر کے ایک پل کے قریب ہی )جو سڑک کو کاٹتی ہوئی گزر رہی تھی( ملک صاحب خان صاحب نون معہ رفقاء کار سڑک پر راستہ روکے ہوئے کھڑے نظر آئے۔ اور حضور کی کار جونہی ٹھہری اپنے گائوں فتح آباد چلنے کے کچھ اس اخلاص و لجاجب کے ساتھ التجاء کی کہ حضور اس تاریخی سفر کے دو حصے ہوگئے۔ بس اور ایک کار تو سیدھی بھیرہ پہنچی اور تین کاریں فتح آباد پہنچیں۔ یہاں حضور نے کوئی بیس منٹ کے قریب آرام فرمایا۔
بھیرہ والوں پر بھی اپنے وطن کی عظمت کا انکشاف شاید آج ہی ہوا تھا کہ ان کے وطن کی زمین میں کیسا بے بہا نگینہ پیدا ہوا تھا جس کی آب و تاب دیکھنے کے لئے مصلح موعود جیسا جلیل القدر اور موعود خلیفہ راشد آرہا ہے۔ مکرم فضل الرحمن صاحب بسمل بی۔ اے` بی ٹی بھیرہ کے بیان کے مطابق >شہر میں مخالفین نے جامع مسجد کے قریب بسوں کے اڈہ پر شورش برپا کرنے کا پروگرام بنایا تھا لہذا حضور کی کار اور ہمراہی قافلہ کو ایک اور راستہ سے شہر میں داخل کیا گیا۔ جب حضور کو اس کا علم ہوا تو حضور نے فرمایا کہ شورش والی جگہ سے گزرنے میں کوئی حرج نہ تھا اگر لوگ دکھ بھی دیتے تو میں برداشت کرتا<۔ بہرحال قافلہ کی کاریں اور بسیں جونہی شہر میں داخل ہوئیں یوں دکھائی دیتا تھا جیسے سارے کا سارا بھیرہ ہی خیر مقدم کے لئے لپک پڑا ہے۔ قافلہ جدھر سے بھی گزرا سڑکوں` گلیوں اور راستوں کے دونوں طرف لوگ پرے جمائے کھڑے تھے اور محمود کی زیارت کے شیدائی پروانہ وار گرتے پڑتے نظر آتے تھے۔ بیسیوں طلباء جامعتہ المبشرین اور جامعہ احمدیہ و مدرسہ احمدیہ کے اپنے اپنے ذرائع سے پہلے ہی یہاں پہنچ چکے تھے اور آس پاس کی جماعتوں کے احباب بکثرت اس تقریب میں شرکت کی برکت حاصل کرنے کے لئے صبح ہی سے موجود تھے۔
سیدنا حضرت امیر المومنین کار سے اترتے ہی۳ سب سے پہلے حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کے آبائی مکان میں تشریف لے گئے جس کا بیشتر حصہ پہلے ہی مسجد پر مشتمل تھا اور جس کے باقی حصے اب بھی تمام مسجد ہی کے نام وقف ہیں۔
اسی مکان کے ایک کونے میں احباب جماعت نے حضور کو کرم دین۴ نامی تنور والے کی رہائش گاہ بھی دکھائی جس کو اللہ تعالیٰ نے غیر احمدی ہونے کے باوجود محض حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کی محبت اور عظمت کی وجہ سے تعصب و تنفر کے اس تند وتیز جھکڑوں میں ثابت قدم رہنے کی توفیق دی تھی۔
جب مکہ و مدینہ شریف سے واپسی پر سارے بھیرہ والوں نے حضور کا مجلسی اور تمدنی بائیکاٹ کردیا تھا۔ حتیٰ کہ تنور والوں نے روٹی تک پکانے سے انکار کردیا لیکن کرم دین نے ہر قسم کے لالچ اور رعب و داب کی پروانہ کرتے ہوئے حضور سے بائیکاٹ کرنے سے انکار کردیا تھا حضور نے بھی اس کے اس اقدام کی قدر کی اور اس کو اپنے آبائی مکان کا ایک حصہ دے دیا جس میں اس کے خاندان کے بعص لگ اب بھی رہتے ہیں۔ اس واقعہ کا دوہرانا تھا کہ حضور کی آنکھوں میں وہ زمانہ پھر گیا اور آپ نے خواہشکی گو اس کا لڑکا غیر احمدی ہی ہے لیکن اسے کہا جائے کہ وہ میرے لئے روٹی اپنے ہاتھ سے پکائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور احمدیت کے اس عظیم الشان خلیفہ نے اسی کرم دین کے بیٹے غلام احمد کے ہاتھ سے پکی ہوئی روٹی کھائی جس کے باپ نے کبھی احمدیت کے شیدائی اور آپ کے شفیق استاد سے مصائب کے دور میں وفا کی تھی۔
حضور دیر تک مسجد نور میں کھڑے ہوکر حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کے خاندانی حالات` جائداد اور اوائل زندگی کے واقعات کے متعلق بھیرہ کے عمر رسیدہ احباب سے دریافت فرماتے رہے۔ پھر اس مسجد میں شکرانے کے دو نفل ادا کئے۔ پھر صدر مقامی مخدوم محمد ایوب صاحب کی استدعا پر مسجد میں سنگ مرمر کا ایک >یادگار کتبہ< نصب فرمایا جس پر حضور کی بھیرہ میں تشریف آوری کا ذکر تھا اور اسکے بعد دعا فرمائی۔
مکانات کے ملاحظہ کے بعد سیدنا حضرت خلیفہ اولؓ کا وہ مطب دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے جو رہائشی مکانات میں تبدیل کیا جاچکا تھا۔ بچے` بوڑھے` جوان پروانوں کی طرح گرے پڑتے تھے۔ مستورات دو رویہ چھتوں پر سے پھول نچھار کررہی تھی۔ راستے میں مختلف موڑوں پر دروازے نصب تھے جن پر سنہری حروف میں اھلا و سھلا و مرحبا لکھا ہوا تھا اور فضا ہر دو منٹ بعد >اسلام زندہ باد< >احمدیت زندہ باد< >حضرت امیر المومنین زندہ باد< کے پرجوش نعروں سے گونج اٹھتی تھی۔ الغرض ایک عجیب بابرکت ہماہمی تھی جس نے عقیدتوں کو پر لگا دیئے تھے۔
مطب کے دیکھنے کے بعد حضور محمد افضل صاحب ملک کے مکان پر تشریف لے آئے۔ یہیں جماعت کی طرف سے وسیع پیمانے پر دعوت طعام کا انتظام تھا۔ کھانا تناول کرنے کے بعد حضور نے تھوڑے دیر تک آرام فرمایا مگر یہ آرام محض بیٹھنے تک ہی محدود تھا کیونکہ اس کے دوران بھی حضور سے تعارف کا سلسلہ جاری رہا اور حضور بھیرہ اور بھیرہ والوں کے متعلق استفسارات فرماتے رہے۔
نماز ظہر کے لئے حضور جماعت احمدیہ بھیرہ کی دوسری مسجد میں تشریف لے گئے اور ظہر و عصر کی نمازیں پڑھائیں۔ نمازوں کے معاًبعد امیر جماعت مقامی کی استدعا پر پہلے آپ نے ایک سنگ یادگار اس مسجد میں نصب فرمایا اور پھر دعا کے بعد برسرمنہ تشریف لے آئے۔
حافظ مبارک احمد صاحب نے تلاوت کلام پاک کی اور جناب ثاقب زیروی نے رسول اکرم~صل۱~ کی شان میں ایک نعت پڑھی۔ بعد ازاں مخدوم محمد ایوب صاحب بی۔ اے )علیگ( صدر جماعت احمدیہ بھیرہ نے مقامی جماعت کی طرف سے سپاسنامہ پیش کیا۔
حضرت امیر المومنین کا اہل بھیرہ سے پرمعارف اور ایمان افروز خطاب
سپاسنامہ کے بعد حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے ایک پرمعارف اور نہایت ایمان افروز خطاب فرمایا جو پانچ منٹ کم دو گھنٹہ تک
جاری رہا۔۵ حضور نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
>ایک ربع صدی سے زیادہ عرصہ ہوا یعنی قریباً تیس سال ہوئے جب سے میرے دل میں اس شہر میں آنے کا شوق ہوا۔ بھیرہ بھیرہ والوں کے لئے ایک اینٹوں اور گارے یا اینٹوں اور چونے سے بنا ہوا ایک شہر ہے مگر میرے لئے یہ اینٹوں اور چونے کا بنا ہوا شہر نہیں تھا بلکہ میرے استاد جنہوں نے مجھے نہایت محبت اور شفقت سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا اور بخار کا بھی ترجمہ پڑھایا ان کا مولد و مسکن تھا۔ بھیرہ والوں نے بھیرہ کی رہنے والی مائوں کی چھاتیوں سے دودھ پیا ہے اور میں نے بھیرہ کی ایک بزرگ ہستی کی زبان سے قرآن کریم اور حدیث کا دودھ پیا۔ پس بھیرہ والوں کی نگاہ میں جو قدر بھیرہ شہر کی ہے میری نگاہ میں اس کی اس سے بہت زیادہ قدر ہے۔
بچپن سے ہی میری صحت کمزور تھی اور میں اکثر بیمار رہتا تھا جس کی وجہ سے میں پڑھنے میں بھی کمزور تھا۔ میری آنکھوں میں ککرے تھے اور گلے میں سوزش رہتی تھی اس لئے نہ تو میں پڑھ سکتا تھا اور نہ دیکھ سکتا تھا۔ اس وقت حضرت خلیفہ اول مولوی نور الدین صاحبؓ نے جو بھیرہ کے رہنے والے تھے مجھے بلا کر کہا میاں! تم مجھ سے قرآن پڑھا کرو۔ تمہیں نہ دیکھنے کی تکلیف ہوگی اور نہ پڑھنے کی تکلیف ہوگی کیونکہ میں ہی بولا کروں گا اور میں ہی کتاب دیکھا کروں گا چنانچہ میں نے آپ سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنا شروع کردیا۔ میں قرآن کھول کر سامنے رکھ لیتا تھا اور مولوی صاحبؓ پڑھتے بھی جاتے تھے اور ترجمہ بھی کرتے جاتے تھے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیا یہ میری ذہانت کا نتیجہ تھا یا ان کے اخلاص اور محنت کا کہ چودہ پندرہ سال کی عمر میں چھ ماہ کے اندر تھوڑا تھوڑا وقت پڑھنے کے بعد قرآن کریم کا ترجمہ ختم ہوگیا۔ پھر جب میری عمر بیس بائیس سال کی ہوئی تو آپ نے مجھے بلایا اور کہا۔ میاں! تم مجھ سے بخاری شریف پڑھا کرو چنانچہ میں نے بخاری شریف پڑھنی شروع کردی۔ گلے کی سوزش کی وجہ سے مجھ سے پڑھا نہیں جاتا تھا اور آنکھوں میں ککروں کی وجہ سے میں کتاب کو دیکھ نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ آپ خود ہی پڑھتے جاتے تھے اور خود ہی ترجمہ کرتے جاتے تھے دو اڑھائی ماہ میں چھٹیاں وغیرہ نکال کر میں نے بخاری کا ترجمہ ختم کرلیا۔ پھر عربی کے کچھ ابتدائی رسالے بھی میں نے آپ سے پڑھے۔ پس یہ علم تھا جو آپ نے مجھے سکھایا اور جس کی وجہ سے میرے اندر مزید مطالعہ کا شوق پیدا ہوا۔ آپ جو کچھ مناسب سمجھتے تھے بیان کردیتے تھے اور اگر میں سوال کرتا تو مجھے روک دیتے تھے۔ ہمارے ایک ہم جماعت تھے۔ تھے تو وہ بڑے عمر کے لیکن دوبارہ کلاس میں شامل ہوئے تھے ان کا نام حافظ روشن علی صاحب تھا۔ آپ حضرت نوشہ کے خاندان میں سے تھے جن کا مزار رنمل تحصیل پھالیہ ضلع گجرات میں ہے اور گدی کے مالکوں میں سے تھے آپ بڑے عالم تھے انہی کے داماد )حضرت مبارک احمد صاحب( نے ابھی قرآن کریم کی تلاوت کی ہے جب مولوی صاحبؓ کوئی معنے بیان کرتے تو چونکہ حافظ روشن علی صاحب ذہین اور خالص علم حاصل کرچکے تھے اس لئے آپ اعتراض کرنا شروع کردیتے تھے اور کہتے ان معنوں پر یہ یہ اعتراض پڑتا ہے میری عمر اس وقت ۲۰` ۲۱ سال کی تھی۔ میں نے جب حافظ صاحب کو اعتراض کرتے دیکھا تو میرے دل میں بھی ایک گدگدی سی اٹھی اور میں بھی اعتراض کرنے لگا۔ مولوی صاحب کو مجھ سے بہت محبت تھی ایک وہ دن تک تو آپ نے برداشت کیا پھر فرمایا۔ میاں تمہارا معاملہ اور ہے اور حافظ صاحب کا معاملہ اور ہے یہ ہے مولوی۔ ان کا طریق ہوتا ہے بال کی کھال نکالنا لیکن تم مولوی نہیں تم نے تو دین حاصل کرنا ہے۔ پھر فرمایا میاں! یہ تو دیکھو مجھے تم سے کتنا عشق ہے اگر میں ان معنوں سے جو بیان کرتا ہوں زیادہ معنے جانوں تو تمہیں نہ بتائوں اگر مجھے کوئی اور معنے معلوم ہوتے تو میں ضرور بتا دیتا۔ اگر میں نے تمہیں کوئی اور معنے نہیں بتائے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ مجھے صرف اتنے ہی معنے آتے ہیں۔ پھر فرماتے۔ میاں! اتنا تو سوچو کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی امت میں سے اللہ کا بندہ میں ہی ہوں یا تم بھی ہو۔ کیا یہ میرا ہی فرض ہے کہ اسلام پر جو اعتراض پڑتا ہے اس کا جواب دوں۔ اور جن معنوں کو میں سمجھ نہیں سکا وہ بھی بتائوں یا تمہارا بھی فرض ہے کہ تم خود سوچو اور اسلام پر پڑنے والے اعتراضات کا جواب دو۔ تم سوال نہ کیا کرو بلکہ خود سوچا کرو اور ان اعتراضات کے خود جواب دیا کرو۔
آپ نے جو کچھ مجھے پڑھایا میں اس کی بھی قدر کرتا ہوں لیکن جو آپ نے مجھے نہیں پڑھایا وہ میرے لئے زیادہ قیمتی ہے کیونکہ جونہی یہ آواز کہ >کیا صرف میرا ہی فرض ہے کہ اسلام پر پڑنے والے شبہات کا جواب دوں یا تمہارا بھی فرض ہے۔ کیا رسول کریم~صل۱~ کی امت میں میں ہی اللہ کا بندہ ہوں یا تم بھی اللہ کے بندے ہو<۔ میرے کانوں میں پڑی اس نے میرے اندر ایک آگ لگا دی۔ گویا اسرافیل فرشتے نے صور پھونکا ہے میں نے پوچھنا بند کردیا اور سوچنا شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے علم کے سمندر سکھا دیئے۔ اب اگر کوئی اسلام کا دشمن اسلام پر ہی اعتراض کرے تو میں انہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے قرآن کریم سے ہی رد کرسکتا ہوں۔
چونکہ بھیرہ آنے کا شوق مجھے مدت سے تھا اس لئے یہاں آکر میں خوش بھی ہوں کہ میری ایک دیرینہ خواہش پوری ہوئی۔ مگر بھیرہ کی دیواروں میں داخل ہونے کے بعد میرے دل کے زخم دوبارہ ہرے ہوگئے بھیرے کی ہی ایک لڑکی امتہ الحی سے جو حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اولؓ کی بیٹے تھیں میری شادی ہوئی اور ہم دونوں میں بہت محبت تھی۔ بے وقوف لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اسلام اور روحانیت کے یہ معنے ہیں کہ میاں کو بیوی سے محبت نہ ہو اور بیوی کو میاں سے محبت نہ ہو لیکن جو لوگ اسلام اور روحانیت کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اسلام ہی ایک مذہب ہے جو خاوند کو بیوی سے اور بیوی کو خاوند سے محبت کا حکم دیتا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں رسول کریم~صل۱~ بعض دفعہ جس گلاس میں ہم پانی پیتیں اسی گلاس میں اسی جگہ ہونٹ رکھ کر پانی پیتے اور فرماتے میں یہ بتانے کے لئے ایسا کرتا ہوں کہ مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔ پھر حصرت عائشہؓ فرماتی ہیں ایک دفعہ میرے سر میں شدید درد ہورہا تھا میں تڑپ رہی تھی رسول کریم~صل۱~ تشریف لائے آپﷺ~ نے فرمایا عائشہ! صبر کرو لوگ بیمار ہوا ہی کرتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں شدت درد سے مجھے تکلیف ہورہی تھی اور رسول کریم~صل۱~ کی بات کو جو مجھے دین سکھانے کے لئے تھی سمجھی نہیں مجھے غصہ آگیا کہ مجھے شدید درد ہورہا ہے اور بجائے اس کے کہ آپ مجھ سے ہمدردی کا اظہار کرتے آپﷺ~ کہتے ہیں صبر کرو لوگ بیمار ہوا ہی کرتے ہیں۔ میں نے غصہ سے کہا یا رسول اللہ~صل۱~ آپ کو کیا میں مرجائوں گی تو دوسری شادی کرلیں گے۔ حضرت عائشہؓ تکلیف میں کہتی تھیں۔ ہائے میں۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا اچھا عائشہؓ اگر یہ بات ہے تو ہائے تو نہیں ہائے میں۔ اور چند دن کے بعد آپ بمار ہوکر فوت ہوگئے۔ حضرت عائشہؓ جب تک زندہ رہیں ہمیشہ ہی اس بات پر افسوس کیا کرتی تھیں کہ میں نے یہ فقرہ کہا اور رسول کریم~صل۱~ کو صدمہ پہنچا کہ میں نے آپ کی محبت پر شبہ کیا ہے کاش میں یہ فقرہ نہ کہتی اور رسول کریم~صل۱~ سے پہلے مر جاتی تو یہ صدمہ نہ دیکھتی۔ غرض ناواقف اور جاہل لوگوں نے یہ سمجھا کہ ایک مسلمان کے معنے ہیں کہ وہ کوئی پتھر دل کا انسان ہے۔ گویا مسلمان وہ ہے جس میں محبت اور وفا کے جذبات پائے ہی نہیں جاتے حالانکہ رسول کریم~صل۱~ محبت اور وفا کا مجسمہ تھے۔ ایک دفعہ آپ ایک مجلس میں بیٹھے صحابہ سے باتیں کررہے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا۔ یارسول اللہ~صل۱!~ آپ کی بیٹی آپ کو بلا رہی ہے کیونکہ اس کا لڑکا بیمار ہے۔ آپ باتوں میں مشغول تھے آپ نے فرمایا اچھا آتا ہوں اور پھر باتوں میں لگ گئے تھوڑی دیر کے بعد پھر ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا یارسول اللہ~صل۱~ آپ کی بیٹی یاد فرماتی ہیں۔ لڑکے کی حالت زیادہ خراب ہے۔ آپ نے فرمایا اچھا آتا ہوں لڑکے کی حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی ہے۔ آپ تشریف لے گئے اور اپنے نواسہ کو گود میں لے لیا۔ تھوڑی دیر میں اس کی جان نکل گئی آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپ کے پاس ایک انصاری تھے وہ بھی ملانوں کی ذہنیت کے تھے۔ انہوں نے کہا آپ خدا تعالیٰ کے رسول ہیں اور رو رہے ہیں بھلا رسول کو جذبات سے کیا تعلق۔ آپﷺ~ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر خواہ وہ رسول ہو یا غیر رسول محبت کے جذبات پیدا کئے ہیں اگر خدا تعالیٰ نے تمہیں محبت کے جذبات سے محروم رکھا ہے تو میرے پاس اس کا کیا علاج ہے۔
غرض آج سے چھبیس ستائیس یا اٹھائیس سال پہلے امتہ الحی مرحومہ سے جب ہم دونوں باتیں کیا کرتے تھے میں کہا کرتا تھا کہ میں تمہیں تمہارے ابا کے وطن لے جائوں گا پھر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت میں یہاں نہ آسکا اور امتہ الحی مرحومہ فوت ہوگئیں۔ اور جب مجھے بھیرہ آنے کا موقع ملا تو ان کی وفات پر چھبیس سال گزر رہے ہیں۔ پس جونہی میں بھیرہ میں داخل ہوا وہ باتیں مجھے یاد آگئیں۔ کہ میں نے امتہ الحی مرحومہ سے ان کے ابا کا وطن دکھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت تھی کہ جب تک وہ زندہ رہیں مجھے یہاں آنے کا موقع نہ ملا اور جب مجھے یہاں آنے کا موقع ملا تو بھیرے کی بیٹی اور میری بیوی امتہ الحی مرحومہ فوت ہوچکی تھی۔ بہرحال جیسے اللہ تعالیٰ کی مشت ہوتی ہے اسی طرح ہوتا ہے۔ میں امتہ الحی مرحومہ کو بھیرہ لاسکا یا نہ لاسکا یہ سب رسمی باتیں ہیں۔ انسان کے اندر محبت کے جذبات ہوتے ہیں جن کی وجہ سے یہ چیز پیدا ہوتی ہے لیکن اگر فلسفیانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ کوئی بات نہیں۔ رسول کریم~صل۱~ جب بدر کی جنگ میں تشریف لے گئے تو جو لوگ قید ہوکر مسلمانوں کے قبضہ میں آئے ان میں آپ کا ایک داماد بھی تھا جس کو کفار جبراً جنگ کے لئے ساتھ لے گئے تھے۔ آپ نے قیدیوں سے کہا تم فدیہ دو اور رہائی حاصل کرلو۔ آپ کے داماد نے کہا میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہاں مکے جاکر کچھ انتظام کردوں گا۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا بہت اچھا یہ نوجوان ایک شریف الطبع انسان تھا باوجود اس کے کہ لوگ اسے کہتے رسول کریم~صل۱~ کی بیٹی کو دکھ دو وہ دکھ نہ دیتا وہ کہتا میں مسلمان نہیں اور محمد رسول اللہ~صل۱~ سے کوئی عقیدت نہیں رکھتا لیکن پھر بھی ان کی لڑکی کو کیوں ماروں چنانچہ وہ باوجود دوسروں کے اکسانے کے رسول کریم~صل۱~ کی بیٹی کو دکھ نہیں دیتا تھا۔ جب وہ واپس مکے گیا تو گھر میں کوئی چیز نہ تھی جو فدیہ کے طور پر دی جاتی۔ رسول کریم~صل۱~ کی بیٹی کے پاس ایک سونے کا ہار تھا۔ جو شادی کیموقع پر والدہ کی طرف سے اسے دیا گیا تھا اس نے اپنے خاوند کو وہ ہار دے کر کہا یہ ہار لے لو اور اسے فدیہ کے طور پر بھجوا دو۔ مسجد میں جاکر جب دوسرے لوگوں نے فدئے پیش کرنے شروع کئے تو ایک شخص رسول کریم~صل۱~ کے پاس آیا اور عرض کیا یارسول اللہ~صل۱!~ آپ کے داماد نے یہ ہار بطور فدیہ بھجوایا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ نے جب ہار پر سے کپڑا اٹھایا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اگر آپ خوشی سے منظور کرلیں کہ یہ ہار واپس کردیا جائے تو میں اس کی سفارش کرتا ہوں۔ ہار تو ہار ہی ہے مگر اس میں اتنا فرق ہے کہ یہ ہار میری مرحومہ بیوی کے ہاتھ کا تحفہ ہے جو اس نے اپنی بیٹی کو دیا تھا اور میری بیٹی کے پاس بس یہی ہار اپنی والدہ کی ایک یادگار ہے اس کے سوا اور کوئی یادگار نہیں۔ مجھے یہ ہار دیکھ کر صدمہ ہوا کہ خاوند کی جان بچانے کے لئے میری بیٹے نے ایک ہی چیز جو اس کے پاس والدہ کی یادگار تھی بطور فدیہ بھیج دی ہے۔ اگر آپ لوگ خوشی سے اسے معاف کردیں تو میں یہ ہار واپس کردوں- صحابہ کرامؓ تو رسول کریم~صل۱~ پر جانیں قربان کرنے کے لئے تیار تھے۔ ہار کی بھلا حیثیت ہی کیا تھی صحابہؓ نے عرض کیا اس سے زیادہ خوشی ہمارے لئے اور کیا ہوگی کہ ہم اس ہار کو جو حضرت خدیجہؓ نے اپنی بیٹی کو بطور تحفہ دیا تھا اسے واپس کردیں۔ چنانچہ رسول کریم~صل۱~ نے وہ ہار واپس کردیا۔ اب دیکھو سونے میں کیا رکھا تھا۔ رسول کریم~صل۱~ نے اپنا وطن چھوڑا` جائدادیں چھوڑیں` مکان چھوڑے اور مشیت الٰہی کے مقابلہ میں ان کی کچھ پروا نہ کی۔ پھر آپ کی شان تو بڑی تھی۔ صحابہؓ نے بھی اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کے لئے قربان کردیا لیکن سونے کے اس ہار کو دیکھ کر رسول کریم~صل۱~ کو صدمہ پہنچا اس لئے کہ یہ حضرت خدیجہؓ کا دیا ہوا ہار تھا۔ سونے کا سوال نہیں اگر وہ مٹی کا بھی بنا ہوا ہوتا تو آپ کو تکلیف ہوتی کیونکہ اس کا جذبات کے ساتھ تعلق تھا۔ پس امتہ الحی نے مرنا تھا اور وہ مر گئی۔ میں پہلے مرجاتا یا وہ پہلے مر گئی اس میں کوئی فرق نہیں یہ خدا تعالیٰ کا قانون تھا جو پورا ہوا لیکن یہ جذبات کی چیز ہے کہ جب ہم دونوں باتیں کیا کرتے تھے تو میں ان سے وعدہ کیا کرتا تھا کہ میں تمہیں تمہارے ابا کا وطن دکھائوں گا لیکن جب وقت آیا کہ میں نے بھیرہ دیکھا تو وہ ہستی جس سے میں وعدہ کیا کرتا تھا کہ میں اسے اسس کے ابا کا وطن دکھائوں گا وہ دنیا سے گزر چکی تھی۔
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں مجھے یہاں آنے کی دیرینہ خواہش تھی۔ مقامی جماعت کے بعض دوست ڈرتے تھے کہ کہیں دوسرے لوگ شورش نہ کریں اور انہوں نے چاہا کہ میں بھیرہ نہ چلوں لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ آخر یہاں کے لوگ میری وجہ سے شورش کیوں کریں گے۔ آخر کوئی کسی کے خلاف ہوتا ہے تو اس لئے کہ وہ اس کا کام بگاڑتا ہے میں نے ان کا کیا بگاڑا ہے کہ وہ میرے خلاف ہوں گے۔ اگر کوئی شخص میرے یہاں آنے کی وجہ سے شورش کرے گا تو وہ غلط فہمی کی بناء پر ہوگی۔ وہ اس خیال سے شورش کرے گا کہ میں )نعوذ باللہ( محمد رسول اللہ~صل۱~ کا دشمن ہوں مجھ کو تو یہ مخالفت اچھی لگتی ہے کہ یہ میرے آقا ~)صل۱(~ کی محبت کی وجہ سے ہے۔ آخر دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہاں کسی سے میرا زمین کا جھگڑا ہے یا مکان کا جھگڑا ہے۔ میں گورداسپور کا رہنے والا ہوں اور ہجرت کے بعد ضلع جھنگ میں مقیم ہوں۔ اور جہاں تک جائداد کا سوال ہے یہاں کے کسی رہنے والے کو مجھ پر شکوہ نہیں ہوسکتا۔ اگر کسی کو مجھ پر کوئی شکوہ ہے تو کسی جائداد کے جھگڑے کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ شکوہ مولویوں کی ان باتوں سے ہے کہ میں )نعوذ باللہ( محمد رسول اللہ~صل۱~ کو گالیاں دیتا ہوں مجھے مارنے کو تیار ہوجاتا ہے یا مجھ پر پتھرائو کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ وہ اس لئے ایسا کرتا ہے کہ وہ اپنی غلط محبت کی وجہ سے مجھے رسول کریم~صل۱~ کا دشمن سمجھتا ہے۔ میرے لئے تو یہ بھی خوشی کا موجب ہے کہ وہ میری مخالفت کی وجہ سے شورش کرتے ہیں جو انہوں نے عملاً نہیں کی۔ یا وہ مجھ پر حملہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں جو عملاً انہوں نے نہیں کیا۔ اگر وہ عملاً بھی ایسا کرتے تب بھی میں خوش ہوتا کہ ان کے اندر میرے آقا محمد رسول اللہ~صل۱~ کی محبت تو ہے۔ آخر میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اتباع میں سے ہوں آپ کو شعر کی صورت میں ایک الہام ہوا اس کے الفاظ میں پہلے سنا دیتا ہوں اور پھر اس کا ترجمہ کردوں گا۔ اس وقت لوگ بڑی مخالفت کرتے تھے میں ابھی بچہ ہی تھا۔ لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام ایک دعوت سے واپس تشریف لارہے تھے آپ جب بازار میں سے گزر رہے تھے لوگ چھتوں پر کھڑے ہوکر آپ کو گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے مرزا دوڑ گیا مرزا دوڑ گیا۔ اسی اثناء میں میں نے ایک بڈھا کو دیکھا جس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا اور اس پر تازہ ہلدی لگی ہوئی تھی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ہاتھ کٹے زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ وہ بڈھا اپنا صحیح ہاتھ کٹے ہوئے ہاتھ پر مار کر کہہ رہا مرزا نٹھ گیا مرزا نٹھ گیا۔ میں حیران تھا کہ آخر یہ کیوں کہتا ہے مرزا نٹھ گیا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود~ع~ لاہور شہر میں جارہے تھے کہ پیچھے سے کسی نے حملہ کیا اور آپ زمین پر گر گئے۔ اس طرح لوگوں کو پتھرائو کرتے ہم نے کئی دفعہ دیکھا ہے۔ غرض ان دنوں مخالفت بڑے زوروں پر تھی اور قدرتی طور پر جماعت کے بعض دوستوں کو بھی غصہ آجاتا تھا کہ آخر یہ لوگ بلاوجہ ایسا کیوں کرتے ہیں اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو الہام ہوا۔ ~}~
اے دل تو نیز خاطر ایناں نگہدار
کاخر کنند دعوی حب پیمبرم
یعنی حضرت مسیح موعودؑ کے دل میں خدا تعالیٰ یہ الفاظ ڈالتا ہے اور فرماتا ہے اے ہمارے مامور! یہ مسلمان جو تمہیں گالیاں دیتے ہیں تو پھر بھی ان کا لحاظ کر آخر یہ تمہیں کیوں گالیاں دیتے ہیں تمہیں مارنے کو کیوں دوڑتے ہیں اور تم پر حملہ آور کیوں ہوتے ہیں۔ یہ لوگ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی محبت کی وجہ سے تمہیں مارتے اور گالیاں دیتے ہیں اس لئے ان کا لحاظ رکھنا بھی بڑا ضروری ہے۔ غرض ہماری جو مخالفت ہوتی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس کے پیچھے کیا بات ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ لوگ جو تمہیں گالیاں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمہاری چائے بھی شراب سے بدتر ہے )گویا شراب پینا جائز ہوسکتا ہے لیکن ہماریی چائے پینا جائز نہیں( اگر انہیں پتہ لگ جائے کہ میرے اندر محمد رسول اللہ~صل۱~ کی محبت کا جو شعلہ جل رہا ہے وہ ان کے لاکھوں لاکھ کے اندر بھی نہیں جل رہا تو وہ فوراً تمہارے قدموں میں گر جائیں گے۔ یہ لوگ مخالفت اسی لئے کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ میں اور میرے ساتھی محمد رسول اللہ~صل۱~ کے مخالف ہیں یہ مخالفت بعض غلط فہمیوں کے نتیجہ میں ہے اسی لئے جب میں نے سنا کہ لوگ میرے آنے پر شورش کریں گے تو مجھے غصہ نہیں آیا مجھے یہ سن کر کہ لوگ میری مخالفت کی وجہ سے شورش کریں گے خوشی ہوئی کہ ابھی میرے آقا محمد رسول اللہ~صل۱~ کی محبت کی چنگاری ان کے اندر سلگ رہی ہے اگرچہ وہ کسی غلط فہمی کی بناء پر ایسا کررہے ہیں لیکن اس کا موجب رسول کریم~صل۱~ کی محبت ہی ہے اس لئے ہمیں بجائے غصہ میں آنے کے تبلیغ کی طرف توجہ دینی چاہئے اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہئے۔ اگر کسی شخص کا بھائی بیمار ہوجاتا ہے تو وہ اسے زہر دے کر مارا نہیں کرتا` وہ اسے گلہ گھونٹ کر مارا نہیں کرتا بلکہ اس کا علاج کرتا ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم بجائے ناراض ہونے کے اس مخالفت کو رفع کرنے کی کوئی تدبیر کریں۔ اگر لوگ مخالفت کرتے ہیں اور مجھے یا بانی سلسلہ احمدیہ کو یا تمہیں برا بھلا کہتے ہیں تو جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ تمہارے بھائی ہیں اور کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں پس تم بجائے ناراض ہونے کے دعائیں کرو` ان مخالفت کرنے والوں کو اصل حقیقت سے واقف کرو جب تم انہیں اصل حقیقت سے واقف کردو گے تو انہیں پتہ لگ جائے گا کہ ہم محمد رسول اللہ~صل۱~ کے دشمن نہیں بلکہ آپﷺ~ کے سچے عاشق ہیں اور وہی لوگ جو تمہیں مارنے پر آمادہ ہیں تمہاری خاطر مرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے۔ آخر مکہ والوں نے رسول کریم~صل۱~ کی کتنی مخالفت کی تھی۔ وہ رسول کریم~صل۱~ کی مخالفت اسی لئے کرتے تھے کہ وہ سمجھتے تھے یہ شخص دین حقہ یعنی ان کے آباء واجداد کے دین کی مخالفت کرتا اور اسے بگاڑتا ہے۔ لیکن جب انہیں پتہ لگ گیا کہ رسول کریم~صل۱~ ہی دین حقہ لائے ہیں تو وہی مکہ والے جو آپ کو مارنے کے درپے تھے آپ کی خاطر قربانیاں کرنے اور اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔ رسول کریم~صل۱~ کے اشد ترین دشمن عتبہ` عاص اور ابوجہل تھے اور ان کے ساتھ لگا ہوا ابوسفیان تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول اکرم~صل۱~ کی ابتداء سے مخالفت کی۔ ایسی شدید مخالت کی جس کی مثال دنیا کے پردہ پر نظر نہیں آتی۔ ابوجہل کی مخالفت کا یہ حال تھا کہ رسول کریم~صل۱~ ایک چٹان پر بیٹھے ہوئے کسی مسئلہ کے متعلق سوچ رہے تھے۔ صبح کا وقت تھا۔ ابوجہل پاس سے گزرا اس نے جب آپﷺ~ کو چٹان پر اس طرح خاموش بیٹھے دیکھا تو شیطان نے اس کے دل میں شرارت پیدا کی۔ اس نے آپﷺ~ کو گالیاں دیں برا بھلا کہا اور پھر آپﷺ~ کو ایک تھپڑ مارا اور کہا تو باز نہیں آتا اپنی باتوں سے۔ رسول کریم~صل۱~ چپکے بیٹھے کسی مسئلہ کے متعلق سوچ رہے تھے۔ جب ابوجہل نے آپﷺ~ کو تھپڑ مارا آپ نے صرف اتنا کہا میں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ تو میرا دشمن ہوگیا ہے میں نے تو تمہیں صرف خدا تعالیٰ کا پیغام سنایا ہے۔ آپﷺ~ نے یہ فرمایا اور چٹان پر بیٹھ گئے۔ حضرت حمزہؓ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ آپ نہایت ہی دلیر` بہادر اور مضبوط پہلوان تھے۔ آپ ہر وقت شکار میں لگے رہتے تھے اور دین کے متعلق سوچنے کا کبھی آپ کو خیال بھی نہیں آتا تھا۔ جب ابوجہل نے محمد رسول اللہ~صل۱~ کو مارا تو آپ کی ایک پرانی لونڈی اس واقعہ کو دیکھ رہی تھی۔ پرانی لونڈیاں اور خادم بھی گھر کے فرد بن جاتے ہیں۔ اس لونڈی نے جب یہ ناظرہ دیکھا تو اسے بہت دکھ ہوا۔ وہ مسلمان تو تھی نہیں وہ سارا دن کام کرتی جاتی تھی اور رسول کریم~صل۱~ اور آپﷺ~ کے دوسرے بزرگوں کو یاد کرکے بڑبڑاتی جاتی تھی کہ آمنہؓ کے بچے نے ان کا کیا بگاڑا ہے کہ وہ یونہی اسے مارتے ہیں اور وہ انہیں کچھ بھی تو نہیں کہتا۔ سارا دن اس کے سینہ کے اندر آگ لگی رہی۔ رسول کریم~صل۱~ اس پتھر پر سے اٹھے اور اپنے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت حمزہؓ شکار کے لئے باہر گئے ہوئے تھے۔ شام کو وہ توپچی بنے نیزہ اور تلوار لٹکائے ہوئے تیر کمان پکڑے ہاتھ میں شکار لٹکائے گھر واپس آئے۔ حضرت حمزہؓ کا گھر میں داخل ہونا تھا کہ وہ لونڈی کھڑی ہوگئی اور اس نے کہا تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو ہر وقت اسلحہ سے مسلح رہتے ہو کیا تمہیں معلوم نہین کہ صبح ابوجہل نے تمہارے بھتیجہ سے کیا کیا۔ حضرت حمزہؓ نے کہا کیا بات ہے۔ یہ سوال سن کر لونڈی رو پڑی اور اس نے کہا میں دروازہ میں کھڑی تھی کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ اس پتھر پر بیٹھے ہوئے تھے اور چپ کرکے بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوجہل پاس سے گزرا اور بغیر کچھ کہے اس نے آپﷺ~ کے منہ پر تھپڑ مارا اور برا بھلا کہا۔ آپﷺ~ نے صرف اتنا کہا کہ اے لوگو میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے میں نے تمہیں کیا دکھ دیا ہے کہ تم مجھے مارتے ہو میں صرف خدا تعالیٰ کا پیغام تمہیں سناتا ہوں۔ پھر وہ لونڈی غصہ میں آکر کہنے لگی خدا کی قسم محمدﷺ~ نے ابوجہل کو کچھ بھی تو نہ کہا تھا۔ ایک جاہل عورت کی زبان سے یہ بات سن کر حمزہ کو غیرت آگئی اور فوراً واپس لوٹے۔ شام کا وقت تھا۔ ابوجہل سرداروں کی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے اردگرد دوسرے سرداران مکہ بیٹھے تھے۔ رسول کریم~صل۱~ کی بدگوئیاں ہورہی تھیں۔ حضرت حمزہؓ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اور سیدھے اس جگہ پہنچے جہاں ابوجہل دوسرے سرداروں کے ساتھ بیٹھا محمد رسول اللہ~صل۱~ کی بدگویاں کررہا تھا۔ ہاتھ میں تیر کمان تھی آپ نے اس کا ایک سرا پکڑ کر ابوجہل کے منہ پر دے مارا اور کہا تو بڑا بہادر بنا پھرتا ہے میری لونڈی نے مجھے بتایا ہے کہ میرا بھتیجا آج صبح جب ایک پتھر پر بیٹھا تھا تو نے اسے تھپڑ مارا اور اس نے تمہیں کچھ جواب نہ دیا۔ اب میں تمہیں مارتا ہوں اگر تم بہادر ہو تو میری مار کا جواب دو۔ یہ واقعہ ایسا اچانک ہوا کہ ابوجہل گھبرا گیا اس کے ساتھی جوش سے کھڑے ہوئے اور حضرت حمزہؓ کے ساتھ لڑنے کو اٹھے مگر ابوجہل پر صداقت کا اثر تھا وہ کہنے لگا جانے دو مجھ سے ہی صبح غلطی ہوگئی تھی۔ حضرت حمزہؓ واپس آئے اور اس مکان کا پتہ لے کر جہاں ان دنوں آنحضرت~صل۱~ مقیم تھے وہاں پہنچے اور عرض کیا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں۔ یہ ابوجہل کی دشمنی کا حال تھا۔ بلاوجہ رسول کریم~صل۱~ کی دشمنی کیا کرتا تھا۔ اگر یہ ہوتا کہ آپ توحید کا وعظ کررہے ہوتے اور ابوجہل پاس سے گزرتا اور آپ کا وعظ سن کر غصہ میں آجاتا تو کچھ جواز بھی نکل سکتا تھا لیکن آپ خاموش پتھر پر بیٹھے کسی مسئلہ کے متعلق سوچ رہے تھے اور ابوجہل نے بلاوجہ آپ کو پتھر مارا۔ یہ ابوجہل کی مخالفت کی حالت تھی۔ اس کا بیٹا عکرمہؓ بھی اس کے نقش قدم پر چلتا تھا اور وہ آپﷺ~ کی دشمنی میں انتہاء کو پہنچا ہوا تھا۔ بیسیوں مسلمانوں کو اس نے مارا اور قتل کیا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی اور رسول کریم~صل۱~ ایک فاتح کی حیثیت میں مکہ میں داخل ہوئے اور آپﷺ~ نے چند افراد کو جو تعداد میں سات کے قریب تھے اور جنہوں نے مسمانوں کو مارا تھا ان کو انسانیت کے خلاف جرائم کرنے کی وجہ سے مار دینے کا حکم دیا۔ یورپ والوں نے بھی بعض لوگوں کو اسی قسم کے جرموں کی بناء پر قتل کیا یا پھانسی پر لٹکایا چنانچہ گزشتہ جنگ کے اختتام پر ہی جب بعض سرکردہ جرمن لیڈروں پر مقدمہ چلایا گیا تو یہ کہا گیا کہ انہیں جنگ کے بدلہ میں نہیں بلکہ ان انسانیت سوز جائم کے عوض میں پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے جو ان سے سرزد ہوئے۔ اسی طرح رسول کریم~صل۱~ نے بھی فتح مکہ کے بعد ان سات افراد کے متعلق یہ احکام جاری کئے کہ اگر یہ لوگ خانہ کعبہ کے پردوں کو پکڑ کر بھی کھڑے ہوں تب بھی انہیں قتل کردیا جائے چنانچہ وہ لوگ مکہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ان سات افراد میں عکرمہؓ بھی تھا۔ ان کی بیوی دل سے مسلمان ہوچکی تھی وہ رسول کریم~صل۱~ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ~صل۱~ میں دل سے مسلمان ہوں میرا خاوند مکہ چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ وہ اسلام کا کتنا دشمن ہی سہی لیکن پھر بھی آپ کا بھائی ہے۔ کیا یہ بہتر ہوگا کہ وہ کسی اور ملک میں جاکر کسی غیر کے ماتحت رہے اور وہاں دھکے کھاتا پھرے یا یہ بہتر ہے کہ آپ اسے معاف کردیں اور وہ آپ کے زیر سایہ زندگی بسر کرے۔ آپﷺ~ نے فرمایا اچھا ہم اسے معاف کرتے ہیں وہ واپس آجائے ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے اس کی بیوی نے پھر عرض کیا۔ یا رسول اللہ~صل۱!~ وہ بڑی غیرت والا شخص ہے اگر اپ یہ کہیں گے کہ وہ مسلمان ہوکر یہاں رہے تو وہ یہاں نہیں رہے گا۔ اگر آپ اجازت دیں کہ وہ کافر ہوتے ہوئے بھی یہاں رہ سکتا ہے تو وہ واپس آجائے گا۔ آپﷺ~ نے فرمایا بہت اچھا ہم اسے مسلمان ہونے کے لئے نہیں کہیں گے وہ اپنے مذہب پر قائم رہ سکتا ہے۔ عکرمہؓ کی بیوی رسول کریم~صل۱~ سے یہ عہد لے کر عکرمہ کی تلاش میں گئی۔ عکرمہ حبشہ کی طرف بھاگا جارہا تھا وہ جہاز میں سوار ہونے کو تیار تھا کہ اس کی بیوی وہاں پہنچی۔ وہ جگہ مکہ سے سات دن کے فاصلہ پر تھی بیوی نے خاوند سے کہا تم کہاں جارہے ہو۔ یہاں تمہارا اپنا بھائی حاکم ہے۔ کیا یہ بہتر ہے کہ تم اس کے ماتحت ہو یا یہ بہتر ہے کہ تم غیر کی غلامی کرو۔ عکرمہ نے کہا کیا تجھے علم نہیں کہ مجھے قتل کردینے کے احکام جاری ہوچکے ہیں۔ اس نے کہا تم محمد رسول اللہ~صل۱~ کو نہیں جانتے تمہارے سینہ میں کفر کی آگ بھڑک رہی ہے میں جانتی ہوں کہ جو کچھ انہوں نے مجھ سے کہا ہے۔ انہوں نے سچ کہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر عکرمہؓ مکہ واپس آجائے تو میں اسے معاف کردوں گا۔ عکرمہؓ نے کہا اچھا انہوں نے اگر معاف بھی کردیا تو وہ مجھے مسلمان ہونے کے لئے کہیں گے لیکن میں تو مسلمان نہیں ہوں گا۔ بیوی نے کہا۔ نہیں عکرمہؓ۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ تمہیں مسلمان ہونے کے لئے بھی نہیں کہیں گے تم اپنے مذہب پر قائم رہ کر مکہ میں رہ سکتے ہو۔ عکرمہؓ نے کہا۔ کیا یہ سچ ہے۔ بیوی نے کہا ہاں یہ بالکل سچ ہے میں نے خود محمد رسول اللہ~صل۱~ سے بات کی ہے۔ عکرمہؓ نے کہا۔ اچھا میں چلتا ہوں لیکن میں محمد رسول اللہ~صل۱~ کے منہ سے یہ باتیں سنوں گا تب مانوں گا۔ رسول کریم~صل۱~ مجلس میں بیٹھے کہ عکرمہ کی بیوی اسے ساتھ لئے حاضر ہوئی۔ عکرمہؓ نے کہا محمد~)صل۱(~ )عکرمہؓ ابھی ایمان نہیں لایا تھا اور وہ آپﷺ~ کو اسی نام سے پکارتا تھا( میری بیوی کہتی ہے کہ آپﷺ~ نے مجھے معاف کردیا ہے۔ آپﷺ~ نے فرمایا تمہاری بیوی ٹھیک کہتی ہے۔ عکرمہؓ نے کہا میری بیوی نے ایک اور بات بھی کہی ہے اور وہ یہ ہے کہ مین مکہ میں اپنے مذہب کو مانتے ہوئے بھی رہ سکتا ہوں مجھے اپنا مذہب تبدیل کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ آپﷺ~ نے فرمایا تمہاری بیوی ٹھیک کہتی ہے عکرمہؓ نے کہا اشھدان لا الہ الا اللہ واشھدان محمدا عبدہ و رسولہ۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا عکرمہؓ میں نے تجھے مسلمان ہونے کے لئے نہیں کہا عکرمہؓ نے کہا عکرمہ نے اتنا بلند حوصلہ اور ایثار خدا تعالیٰ کے رسول~صل۱~ کے سوا اور کسی میں نہیں ہوسکتا۔ جب میں نے اپنے کانوں یہ بات سن لی کہ آپ نے مجھ جیسے شدید دشمن کو بھی معاف کردیا ہے تو میں آپﷺ~ کی رسالت پر ایمان لے آیا ہوں اب آگے دیکھو عکرمہؓ میں کتنی جلدی فرق پڑتا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ نے اسے فرمایا عکرمہؓ ہم صرف تمہارے قصوروں کو ہی نظر انداز نہیں کرتے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ تم کچھ مانگ لو اگر ہماری طاقت میں ہوا تو ہم تمہاری خواہش کو پورا کردیں گے تو اس کے منہ سے یہ بات سجتی تھی کہ مجھے دو سو اونٹ دے دیں۔ میرے مکان مجھے واپس دے دیں۔ لیکن وہ کلمہ پڑھتے ہی بدل چکا تھا۔ اس نے عرض کیا یارسول اللہ~صل۱~ میں آپ سے صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ آپ خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ میں نے آپﷺ~ سے لڑائیاں کرکے جو گناہ سیڑے ہیں خدا تعالیٰ وہ گناہ مجھے معاف کردے۔ پھر اسی عکرمہؓ نے مسلمان ہونے کے بعد وہ قربانی دکھائی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اسلامی فوجیں قیصر کی فوجوں سے ¶لڑنے کیلئے گئیں تو ایک جگہ پر دشمن کو زور حاصل ہوگیا دشمن نے ایک ٹیلہ پر عرب تیر انداز بٹھا دئے جو صحابہؓ کو پہچانتے تھے اور انہیں ہدایت تھی کہ صحابہؓ کو چن چن کر ان کی آنکھوں پر تیر ماریں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اکثر صحابہؓ اندھے ہوگئے۔ مسلمانوں کو فکر پڑی کہ صحابہؓ کی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ حضرت عکرمہؓ` حضرت ابوعبیدہؓ کے پاس گئے۔ حضرت ابوعبیدہؓ اسلامی فوج کے کمانڈر تھے اور کہا صحابہؓ کی یہ حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے جب تک ہم اچانک حملہ کرکے انہیں خوفزدہ نہیں کریں گے یہ پیچھے نہیں ہٹیں گے آپ مجھے اجازت دے دیں کہ میں تیس آدمی ساتھ لے کر کفار کے لشکر کے قلب پر حملہ کروں تا وہ تتر بتر ہوجائے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا یہ بات خلاف عقل ہے کہ ۶۰ ہزار دشمن کے مقابلہ پر تیس آدمی جائیں۔ حضرت عکرمہؓ نے کہا آخر ہہم مر ہی جائیں گے اور کیا ہوگا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا میں اتنی بڑی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو بلایا اور ان سے کہا عکرمہؓ یوں کہتا ہے۔ خالد~رضی۱~ نے کہا عکرمہؓ نے ٹھیک کہا ہے جب تک دشمن پر ہمارا رعب نہیں پڑے گا وہ پیچھے نہیں ہٹے گا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا اس کے یہ معنے ہوں گے کہ میں تیس مسلمان مروا دوں۔ خالدؓ نے کہا آخر آدمی مرا ہی کرتے ہیں۔ تب حضرت ابوعبیدہؓ نے عکرمہؓ کی بات مان لی۔ ہاں اتنا کردیا کہ تیس آدمی کی بجائے ساٹھ آدمی ان کے ساتھ کردئے تا دشمن کے ہر ہزار کے مقابلہ میں ایک مسلمان ہوجائے۔ دوسرے دن ان ساٹھ افراد نے اپنے گھوڑوں کی باگیں اٹھائیں اور ساٹھ ہزار دشمن میں گھس گئے۔ پہلی صاف والے ابھی تلوار ہی اٹھا رہے تھے کہ یہ وہ صف گزر چکے تھے۔ جب دوسری صف والے تلواریں اٹھانے لگے تو یہ تیسری صفت میں پہنچ چکے تھے۔ دشمن فوج کا کمانڈر جس سے قیصر نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر اس نے مسلمانوں کے مقابلہ میں فتح حاصل کی تو وہ اسے اپنی لڑکی بیاہ دے گا۔ وہ تخت پر بیٹھا ہوا تھا یہ وہاں پہنچے لشکر کو بھی ہوش آچکی تھی یہ مرتے گئے لیکن پیچھے نہ ہٹے۔ جب یہ عین اس جگہ پر پہنچے جہاں کمانڈر بیٹھا تھا تو وہ گھبرا کر بھاگ اٹھا لیکن ساٹھ کے ساٹھ یا تو زخمی ہوگئے یا مرگئے اتنے میں جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ان کے ساٹھ جانباز سپاہی لڑرہے ہیں تو انہوں نے دشمن پر حملہ کردیا اور دشمن کو جب خبر پہنچی کہ ان کا کمانڈر بھاگ گیا ہے تو وہ بھی بھاگ گئے۔ فتح کے بعد جب تلاش کیا گیا تو سوائے چند کے جو شدید زخمی تھے باقی سب مرچکے تھے۔ گرمی کا موسم تھا شدت پیاس کی وجہ سے زخمیوں کی زبانیں باہر نکل رہی تھیں۔ بعض سپاہی پانی کی کپیاں لے کر وہاں پہنچے۔ جب وہ حضرت عکرمہؓ کے پاس گئے تو آپ کو سخت پیاس لگی ہوئی تھی انہیں پانی پینے کے لئے کہا گیا جب وہ پانی پینے لگے تو ان کی نظر اپنی داہنی طرف پڑی آپ نے دیکھا کہ حضرت فضلؓ )حضرت عباسؓ کے بھائی( شدت پیاس کی وجہ سے تڑپ رہے ہیں۔ آپ نے ان کی طرف اشارہ کیا اور کہا پہلے انہیں پانی دو۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے اپنے پہلو میں ایک اور زخمی دیکھا جو شدت پیاس کی وجہ سے تڑپ رہا تھا انہوں نے اس کی طرف اشارہ کیا کہ پہلے اسے پانی پلائو۔ دس آدمی زخمی پڑے ہوئے تھے ان دسوں کے پاس جب آدمی چھاگل لے کر گئے تو انہوں نے دوسرے کی طرف بھیج دیا تاکہ اسے پہلے پانی پلایا جائے۔ جب وہ آدمی دسویں کے پاس پانی لے کر گیا تو وہ مرچکا تھا۔ نویں کے پاس گیا تو وہ بھی مرچکا تھا۔ آٹھویں کے ¶پاس گیا تو وہ بھی مرچکا تھا۔ اسی طرح وہ ہر ایک کے پاس سے ہوتا ہوا دوبارہ عکرمہؓ کے پاس گیا تو وہ شہید ہوچکے تھے۔ اب دیکھو کجا یہ کہ ابوجہل کی دشمنی کی یہ حالت تھی کہ اس نے انتہائی مخالفت کی اور کجا یہ کہ جب اسکے بیٹے عکرمہؓ کو پتہ لگ گیا کہ اس کے باپ نے غلطی کی تھی تو وہی عکرمہؓ جو اپنی ذاتی عزت اور وجاہت کی خاطر اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتا ہوا رسول کریم~صل۱~ سے لڑائی کیا کرتا تھا اس نے اپنے آپ کو رسول کریم~صل۱~ کی خاطر اس طرح قربان کیا کہ اس کی نظیر کم ملتی ہے۔ خالدؓ بن ولیدد کو دیکھ لو مسلمان ان کے ناملیتے تھکتے نہیں لیکن وہ بھی رسول کریم~صل۱~ کا اشد ترین دشمن تھا۔ عمرو بن العاصؓ کی بھی مسلمان تعریف کرتے ہیں کہ وہ بہترین جرنیل تھے لیکن وہ بھی رسول کریم~صل۱~ کے اشد ترین دشمن تھے۔ ان کو دیکھو اور ان کی اولادوں کو دیکھو احد کے واقعات کو دیکھو وہ شخص جس کی وجہ سے فتح مبدل بہ شکست ہوگئی تھی وہ خالد بن ولیدؓ ہی تھے۔ وہ حملہ جس کی وجہ سے مسلمان لشکر میں کہرام مچ گیا تھا وہ خالد کا ہی کیا ہوا تھا اور خالد ہی ہے جس کے متعلق رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیںnsk] ga[t سیف من سیوف اللہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ وہی خالدؓ اسلام کی لڑائیوں میں اتنا زخمی ہوا کہ جب وہ مرنے لگا تو اس نے کہا میرے سر سے لے کر پائوں تک کوئی ایسی جگہ نہیں جس میں تلوار کا نشان نہ ہو لیکن یہ وہی خالد تھا جس نے اسلامی لشکر کو پسپا کردیا تھا اور رسول کریم~صل۱~ کو زخمی کردیا تھا۔ دوسرا جرنیل جس نے خالدؓ کے ساتھ مل کر مسلمان لشکر پر حملہ کیا وہ عمروؓ بن عاص تھا جس نے بعد میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں مصر فتح کیا لیکن جنگ احد کے وقت یہی دونوں تھے جنہوں نے حملہ کرکے صحابہؓ کو زخمی کرکے رسول کریم~صل۱~ پر پھینک دیا اور آپﷺ~ کو بھی زخمی کردیا۔ حضرت عمروؓ بن عاص کے بیٹے حضرت عبداللہ عمروؓ آپ سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے )جو لوگ حدیث سے واقف ہیں وہ عبداللہ بن عمروؓ اور عبداللہ بن عمرؓ میں فرق نہیں کرتے۔ درحقیقت یہ دونوں الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے بہت سی روایات مروی ہیں( حضرت عمرو بن العاصؓ جب فوت ہونے لگے تو آپ رو رہے تھے حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے کہا باپ کیا آپ بھی روتے ہیں۔ اگر آپؓ کفر کی حالت میں مرتے تب تو کوئی بات تھی خدا تعالیٰ نے آپ کو اسلام نصیب کیا اور اب تو آپ کے لئے بشارت ہی بشارت ہے۔ حضرت عمروؓ بن عاص نے کہا بیٹا تمہیں معلوم نہیں اسلام کے ساتھ میری دو کیفیتیں رہی ہیں جب تک میں مسلمان نہیں ہوا تھا رسول کریم~صل۱~ کے ساتھ مجھے اتنا بغض تھا اور اسلام کے ساتھ مجھے اتنی دشمنی تھی کہ میں نے کبھی آنکھ اٹھا کر آپ کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ اگر میں اس وقت مرتا اور کوئی شخص مجھ سے یہ پوچھتا کہ آپﷺ~ کی شکل کیا تھی تو میں آپﷺ~ کی شکل نہ بتا سکتا۔ پھر جب اسلام لایا تو مجھے آپﷺ~ سے اتنا عشق پیدا ہوا اور میرے اندر آپﷺ~ کی اس قدر محبت جاگزین ہوئی کہ میں آپ کے رعب کی وجہ سے آپ کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا۔ اگر اب مجھ سے کوئی پوچھے کہ آپ کی شکل کیا تھی تو میں نہیں بتا سکتا۔ کفر کی حالت میں بغض کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل نہ دیکھی اور اسلام کی حالت میں محبت اور عشق کی وجہ سے آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ رسول کریم~صل۱~ کے وقت میں اگر فوقت ہوجاتا تو کوئی فکر نہ تھا لیکن آپﷺ~ کی وفات کے بعد کئی غلطیاں مجھ سے سرزد ہوگئی ہیں میں نہیں جانتا ان غلطیوں کی وجہ سے قیامت کے دن بھی آپﷺ~ کا دیدار نصیب ہو یا نہیں۔ اور وہ یہ کہہ کر پھر رونے لگ گئے۔
ہماری جماعت کے لوگ مخالفت سے گھبراتے اور غصہ میں آجاتے ہیں لیکن مخالفت کی وجہ سے گھبرانے اور غصہ میں آجانے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ لوگ مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ یہ لوگ اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ ہم رسول کریم~صل۱~ کے مخالف ہیں اور نعوذ باللہ آپﷺ~ کو گالیاں دیتے اور اسلام کو بگاڑتے ہیں۔ گویا وہ مخالفت رسول کریم~صل۱~ کی محبت اور اس غلط فہمی کے نتیجہ میں کرتے ہیں کہ ہم اسلام کے دشمن ہیں ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں اور ساتھ ہی ساتھ تبلیغ کرنی چاہئے۔ آخر ہم ان کی غلط فہمیوں کو کیوں دور نہیں کرتے۔ اگر ایک مولوی ہمارے متعلق یہ کہتا ہے کہ ہم حضرت امام حسینؓ کی ہتک کرتے ہیں تو تم نے کیوں لوگوں کو یہ نہیں بتایا کہ ہم حضرت امام حسینؓ کی ہتک نہیں کرتے بلکہ ان کی تم سے بھی زیادہ عزت کرتے ہیں۔ اگر تم نے انہیں یہ بتایا ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے تو یہ کہا ہے۔ ع
خاکم نثار کوچہ آل محمدﷺ~ است
تو وہ حقیقت سمجھ جاتے اور مولویں سے کہتے کہ کیا یہ فقرہ کہنے والا شخص حضرت امام حسین کا دشمن یا ہتک کرنے والا ہوسکتا ہے لیکن تم گھروں میں بیٹھے رہے اور گھر بیٹھے بیٹھے تم نے سمجھا لیا کہ لوگوں نے اس کے معنے سمجھ لئے ہیں۔ پھر فرض کرو اگر دشمن یہ کہتا ہے کہ مرزا صاحب )علیہ الصٰوۃ والسلام( نے مولویوں کو گالیاں دی ہیں تو تم ان کے سامنے گالیوں کی ایک فہرست رکھ دیتے کہ یہ گالیاں مولویوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دی ہیں۔ یہ سب گالیاں کتابوں میں چھپی ہوئی ہیں تم وہ کتابیں ان کے سامنے رکھ دیتے اور انہیں بتاتے کہ کیا یہ مولویوں کا کام ہے تو ساری بات ان کی سمجھ میں آجاتی۔ مثلاً اگر کوئی کسی کو حرام زادہ کہے اور وہ اسے کہے بے ایمان یہ بات مت کہو اور پہلا شخص جس نے اسے حرام زادہ کہا ہے اس سے لڑنے لگ پڑے۔ اب اگر تیسرا شخص پاس سے گزرتا ہے اور وہ اس سے دریافت کرتا ہے میاں تم لڑکے کیوں ہو اور وہ وہ کیسا ہے اس نے مجھے بے ایمان کہا ہے تو اگر پہلا شخص اسے یہ بتا دیتا ہے کہ اس نے مجھے حرام زادہ کہا ہے اور قرآن و حدیث نے ایسا کہنے سے منع فرمایا ہے تو وہ کہے گا یہ تو قرآن اور حدیث کی بات کہتا ہے یہ گالی نہیں گالی وہ ہے جو تم نے دی۔ پس اگر تم لوگوں کے پاس جاتے ہو اور انہیں بتاتے ہو کہ مولویں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو یہ یہ گالیاں دی ہیں اور ان کے جواب میں آپ نے انہیں یہ کہا ہے کہ قرآن کریم نے ان سے منع فرمایا ہے تو وہ مولویوں کے پاس جاتے اور انہیں کہتے مرزا صاحب کو تم نے یہ یہ گالیاں دی ہیں اب اگر انہوں نے اس کے جواب میں کچھ کہا ہے تو شریعت میں اس کا نام گالی نہیں۔ اس پر مولوی یا تو یہ کہہ دیتے کہ یہ ہماری کتابیں نہیں یا یہ فتویٰ دیتے کہ ہمارے ماں باپ اور آباء و اجداد جھوٹے اور مفتری تھے لیکن یہ صاف بات ہے کہ وہ یہ فتویٰ ہرگز نہیں دیں گے کہ ہمارے ماں باپ جھوٹے اور مفتری تھے۔ اگر ایک اہل حدیث تمہارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ مرزا صاحب نے مولویوں کو گالیاں دی ہیں تو تم جھٹ انہی کی کتابیں اس کے سامنے رکھ دو اور کہو کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دوسرے علماء اہل حدیث نے مرزا صاحب کو یہ یہ گالیاں دی ہیں اور مرزا صاحب نے انہیں ان گالیوں سے منع فرمایا ہے لیکن جب ایک مولوی یونہی شور مچا دیتا ہے کہ مرزا صاحب نے مولویوں کو گالیاں دی ہیں تو لوگوں کو چونکہ پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے باپوں نے مرزا صاحبؑ کو کیا کچھ کہا ہے اس لئے وہ مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں تم ان کے پاس جائو اور ان کے سامنے ان کی کتابیں رکھ دو اور بتائو کہ تمہارے علماء نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو یہ یہ گالیاں دی ہیں اور کیا یہ اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے۔ بعض غیر اسلامی گالیاں ہیں اور بعض غیر اسلامی نہیں مثلاً احمق ہے کسی کو احمق کہنا شرافت کے تو خلاف ہے لیکن اسلام کے خلاف نہیں۔ لی