• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تاریخ احمدیت ۔ جلد 14 ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تاریخ احمدیت ۔ جلد 14 ۔ یونی کوڈ

‏tav.14.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
تحقیقاتی عدالت کی مفصل رو داد
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت
جلد 14
۱۹۵۳ء )۱۳۳۲ ہش( کے ایام ابتلاء میں پاکستانی احمدیوں کا مثالی نمونئہ صبر و رضا اور اس کی عظیم برکات اور تحقیقاتی عدالت کی مفصل رو داد
مئولفہ
دوست محمد شاہد
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
مقدمہ
فروری ۱۹۵۳ء کے آخر میں مغربی پاکستان خصوصاً اس کے صوبہ پنجاب میں فسادات کے شعلے بھڑک اٹھے جس پر ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو لاہور میں مارشل لاء کا نفاذ عمل میں آیا۔ بعد ازاں جسٹس حمد منیر اور جسٹس ایم آر کیانی جیسے فاضل ججان پر مشتمل تحقیقاتی عدالت نے اس شورش کے عوامل اور دیگر ضروری احوال و کوائف کی نہایت محنت و عرقیزی سے چھان بین کی اور اپنی مفصل رپورٹ میں فسادات کی تفصیلات پر روشنی ڈالی اور ان کے پیچھے کارفرما عناصر کو بے نقاب کیا۔
ان فسادات میں لاقانونیت` ہنگامہ آرائی اور بدامنی کے اثرات و نتائج تین واضح صورتوں میں بھر آئے۔
اول۔
اخلاق سوز مظاہرے۔
دوم۔
پاکستان کے خلاف بغاوت۔
سوم۔
جماعت احمدیہ کے خلاف وسیع پیمانے پر تشدد۔
اخلاق سوز مظاہرے
ان مظاہروں میں اخلاق اور انسانیت کی اقدار کو کس بے دردی سے پامال کیا گیا؟ اس کا اندازہ مندرجہ ذیل بیانات سے بخوبی لگ سکتا ہے۔
۱۔
جناب نصر اللہ خاں صاحب عزیز مدیر تسنیم` جناب ممتاز احمد خاں صاحب مدیر آفاق جناب خلیل احمد صاحب مدیر مغربی پاکستان` جناب محمد حبیب اللہ صاحب اوج مدیر احسان` جناب محمد علی صاحب شمسی مدیر سفینہ نے متفقہ بیان دیا کہ:۔
>تحفظ ختم نبوت کے مقصد سے ہر مسلمان کو ہمدردی ہے۔ ختم نبوت مسلمان کے ایمان کا جز ہے لیکن اس مقدس مقصد کے نام پر بھنگڑے` سوانگ رچانا` مغلظ گالیاں نکالنا اور اخلاق سوز حرکتیں کرنا مسلمانوں کے لئے باعث شرم ہے~<ف۱~
۲۔
روزنامہ >آفاق< لاہور نے متعدد اداریوں میں اس اخلاف اسلام ذہنیت کی پرزور مذمت کی مثلاً لکھا:۔
نبی کے نام پر
>آج کل لاہور میں بعض بے فکرے نوجوان تحریک ختم نبوت کی آر میں اور نبی~صل۱~ کے نام پر جو حرکات کررہے ہیں` کیا کسی حق گو عالم` لیڈر` رہنما اور ذی اثر انسان میں ہمت ہے کہ ان کی روک تھام کے لئے میدان میں نکلے اور )ان نوجوانوں کو جن کا خون گرم ملت کے ہزار کام آسکتا ہے( اس لہو و لعب اور غیر شریفانہ انداز سے روکے` بعض نوجوانوں کا سوانگ بنانا` ڈنڈے بجانا` بھنگڑا پانا اور اچھل کود کرنا۔ کیا ان تمام حرکات کو کوئی صحیح العقیدہ مسلمان تحریک ختم نبوت یا سرور کائنات کے مقدس نام سے کسی طرح وابستہ کرسکتا ہے اور یہ سب کچھ ہو اسی نام پر رہا ہے` کیا یہ تمام حرکات بجائے خود توہین سرور کائنات کی ذیل میں نہیں آتیں؟ بینو او توجروا۔~ف۲~
۳۔
اسی اخبار میں اپنی ۲۳ مارچ ۱۹۵۳ء کی اشاعت صفحہ ۲ میں لکھا:۔
>کوئی شک نہیں کہ تحفظ ناموس رسولﷺ~ پر ہم دنیا کی پیاری سے پیاری چیز قربان کرنا ہی اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ لین ایثار و قربانی جیسی پاکیزہ اور قابل رشک چیزوں کے ساتھ ہی کسی طرح بھی ہڑبونگ` ہلڑ اور فساد کا پیوند نہیں لگا سکتے۔ نامور رسالت کا صحیح پاس اسی دل کو ہوسکتا ہے جو رسولﷺ~ کی شان رحمت کے حدود کو بھی سمجھتا ہو وہ رحمت جو عالمین کو محیط ہے جس کے دامن حیات آفریں میں طائف کے پتھر مارنے والے بھی ¶دعائے نیک کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور مکہ کے جانی دشمن بھی یہ پیام سنتے ہیں لاتثریب علیکم الیوم۔ ہڑبونگ` ہلڑ اور فساد کو رحمت اللعالمین نے کسی طرح کی صورت میں بھی جائز قرار نہیں دیا۔۔۔۔۔ ختم نبوت کے مسئلے کا تعلق` ایمان و اعتقاد کی پاکیزگی` کبھی کسی اکراہ کی روا دار بھی نہیں چہ جائیکہ فتنہ و فساد اس سے وابستہ ہوجائے<
۴۔
اخبار >مغربی پاکستان< لاہور نے ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کے اداریہ میں لکھا:۔
>خدا اور محمدﷺ~ کے نام کے ساتھ انتہائی غلیظ اور قابل نفرت گالیاں دی جاتی ہیں تشدد کے مظاہرے کئے جاتے ہیں` گاڑیاں روک لی جاتی ہیں اور ہر ہجوم کی طرف سے ہر طرح کی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ ہم مسلمانان پنجاب سے گذارش کلریں گے کہ وہ مذہب کے معنے غلط نہ سمجھیں اور مذہب کو اس طرح نہ اچھالیں کہ آپ ختم ہوکر رہ جائیں۔ علماء نے آپ کو غلط بات بتائی ہے۔ خدا کے لئے ہر شخص مذہب کلا ٹھیکیدار نہیں ہوسکتا۔ مذہب ہر شخص کا اپنا اپنا ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص مسلمان نہیں تو کیا آپ کا اسلام یہ سبق دیتا ہے کہ آپ اسے زبردستی مسلمان بنائیں یا اسے اٹھا کر اپنے ملک سے باہر پھینک دیں۔ ذرا اپنے اعمال کا جائزہ لیجئے۔ کیا آپ مسلمان ہیں؟ ٹھنڈے دل سے غور کیجئے صرف پچھلے چند دن کے اعمال ہی پر نظر ڈالیے۔ کیا یہ سچے مسلمان کے اعمال ہوسکتے ہیں؟ پھر مذہب کے نام پر یہ ہڑبونگ کیوں مچائی جارہی ہے؟ ہم خدا کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ احراریوں کی اس ہڑبونگ` اس راست اقدام` اس ختم نبوت کو اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کا نام بدنام کیا جارہا ہے۔ اس کا تعلق ضرور کسی سیاسی اغراض سے ہے۔۔۔۔۔ احراری لیڈر ہوں یا دوسرے جو لوگ بھی مذہب کے نام پر آپ کو اشتعال دلاتے ہیں اور اس طرح آپ کے نازک جذبات سے کھیلتے ہیں تو وہ یقیناً پاکستان کے بدترین دشمن ہیں۔~<ف۳~
۵۔
راولپنڈی کے مشہور اخبار >تعمیر< کو اپنے اداریہ میں یہاں تک لکھنا پڑا کہ:۔
>سرور کائنات~صل۱~ کے علم کو بلند رکھنے کے لئے کون مسلمان ہے جو اپنا سب کچھ قربان کر دینے سے گریز کرے گا؟ لیکن اس مقدس علم کے نیچے فحش اور بازاری گالیاں سن کر رحمہ للعالمین کے نام پر لوٹ مار` توڑ پھوڑ اور آتش زدگی کی وارداتیں اور ساری دنیا کے لئے امن و سلامتی کے پیغام لانے والے کے پرستار ہونے کے دعویداروں کی جانب سے تشدد اور بدامنی دیکھ کر کس مسلمان کا سر ندامت سے نہیں جھک جائے گا۔~<ف۴~
۶۔
حکومت پاکستان نے ۲۷ فروری ۱۹۵۳ء کو حسب ذیل اعلامیہ جاری کیا:۔
>ملک کے بعض حصوں میں احمدیہ فرقہ کے متعلق جو فرقہ وارانہ تحریک چل رہی ہے اور بڑھ رہی ہے لوگوں کو اس کی خاص خاص باتوں کا اچھی طرح علم ہے۔ اس ایجی ٹیشن کے چلانے والوں نے اب حکومت کو یہ تحکمانہ چیلنج دیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ ڈائریکٹ ایکشن شروع کردیں گے۔ یہ ایجی ٹیشن احراریوں نے شروع کیا تھا اور گو بعد میں بعض دوسرے عناصر نے بھی اس کی حمایت شروع کردی لیکن اب بھی احراری اس کی حمایت کررہے ہیں اور وہی اسے چلا رہے ہیں۔ لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے احرار مسلسل اور سختی کے ساتھ مسلمانوں کی تحریک آزادی کی مخالفت کرتے رہے اور انہوں نے ان لیڈروں اور جماعتوں سے تعاون کرنے سے انکار کردیا تھا جو حصول پاکستان کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ تقسیم سے قبل بہت سے احرار لیڈروں نے کانگرس اور ان جماعتوں کا ساتھ دیا اور ان سے گہرا تعاون کیا جو مسلمانوں کی جنگ آزادی میں قائداعظم مرحوم کے مقابلہ پر صف آرا تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اپنی انتشار پسند سرگرمیوں کو ترک نہیں کیا۔ ہمارے پاس اس امر کی معتبر شہادتیں ہیں کہ احرار اب بھی پاکستان کے نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ احرار لیڈروں نے پاکستان کے دشمنوں کے اشاروں پر اور ان کی مدد سے مسلمانوں میں انتشار پھیلانے اور پاکستان کے استحکام کو نقصان پہنچانے کی ہرامکانی کوشش کی ہے~<ف۵~
۶۔
وزیر دفاع جناب سکندر مرزا صاحب نے ۲۶ فروری ۱۹۵۳ء کو خواجہ ناظم الدین وزیراعظم پاکستان کو خفیہ مکتوب لکھا کہ:۔
>آپ کے ذاتی دشمنوں نے جن میں ملا بھی شامل ہیں جو مسائل کھڑے کردیئے ہیں اگر سختی سے نہ دبائے گئے تو ملک کی پوری انتظامیہ کو تباہ کرکے رکھ دیں گے۔ کافی عرصے سے میں اپنی انٹیلی جینس کے آدمیوں کو کراچی میں جلسوں وغیرہ میں بھیج رہا ہوں جہاں آپ کو اور حکومت کو کھلے عام جو گالیاں دی جاتی ہیں وہ انتہائی اشتعال انگیز اور تیز و تند نویعت کی ہیں۔۔۔۔۔ کیا مذہب اسی کا نام ہے کہ سب سے بڑی اسلامی ریاست کی انتظامیہ کی بنیادوں کو تباہ کردیا جائے؟ قاہرہ میں سر ظفر اللہ خاں کا استقبال پورے احترام اور عزت کے ساتھ کیا گیا۔ وہ تمام عرب ممالک کے سربراہوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں جن کی نظر میں ان کی بہت عزت بھی ہے لیکن کراچی میں عام جلسوں میں انہیں گالیاں دی جارہی ہیں اور ان کی تصویر پر تھوکا جارہا ہے۔ گزشتہ رات ایک گدھے کے جسم کے ساتھ ملا کر ان کا کارٹون بنایا گیا ہے۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ دنیا بھر کے دارلحکومتوں میں رپورٹ نہیں ہورہا ہوگا؟ پھر ایسی صورت میں بین الاقوامی طور پر پاکستان کی کیا پوزیشن باقی رہ جاتی ہے؟ اور کیا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس تمام خرافات کے کیا نتائج نکل رہے ہیں۔۔۔۔۔ خدا کے واسطے ایک جر¶ات مند لیڈر بنئے اور فیصلہ کن اقدام اٹھایئے۔ صرف ایک دفعہ آپ یہ کرکے دیکھئے بدمعاشوں کے علاوہ پوری قوم اپ کے گرد ہوگی اور پاکستان کا وقار پھر رفعتوں کو چھونے لگے گا ملک بچ جائے گا۔~<ف۶~
پاکستان کے خلاف بغاوت
یہ شورش ایک مقدس کی نعرہ کی آڑ میں بپا کی گئی تھی جو کھلی بغاوت پر منتج ہوئی جس نے ملک کے دانشوروں اور محب وطن طبقوں کی آنکھیں کھول دیں اور انہیں بر ملا تسلیم کرنا پڑا کہ یہ ختم نبوت نہیں بلکہ ختم پاکستان کی تحریک ہے جو پاکستان اور اسلام دشمن طاقتوں کی سازش کا نتیجہ ہے` جیسا کہ مندرجہ ذیل بیانات ے عیاں ہے۔
۱۔
روزنامہ >مغربی پاکستان< نے >نوحہ غم< کے زیر عنوان ایک اداریہ میں لکھا:۔
>اب تو شاید عوام کو بھی اس امر کا احساس ہوچکا ہوگا کہ یہ >راست اقدام< مذہب کی محبت کی وجہ سے شروع نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کا مقصد کچھ اور ہی ہے۔۔۔۔۔ مذہب اور مذہب الام جس کی بلندی کے سامنے دنیا کی تمام بلندیاں پست ہیں یہ کبھی اجازت نہیں دیتا کہ اس قسم کی ہنگامہ آرائی کی جائے۔<
>دشمن ہماری اس حرکت پر خندہ زن ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے اور وہ اندی ہی اندر بہت شاداں و فرحاں بھی ہیں کہ اس ہنگامہ آرائی سے یقیناً پاکستان کمزور ہوجائے گا اور وہ اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو ایک ہی ضرب میں ختم کردیں گے۔~<ف۷~
۲۔
وزیراعلیٰ پنجاب جناب میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ نے اپنی ۱۵ مارچ ۱۹۵۳ء کی نشری تقریر میں کہا:۔
>حفاظت ناموس رسول کے مقدس نعرے کی آڑ میں بعض شر پسند اور پاکستان دشمن عناصر نے ایسی وحشیانہ حرکات کیں جن سے اسلام کے نام کو دھبہ لگا اور پاکستان کے مفاد اور وقار کو شدید نقصان پہنچا۔ ان عناصر نے ہماری پاک مسجدوں کو غلط سیاست کی کھلی سازش کا اکھاڑا بنانے تک سے دریغ نہ کیا۔ وہ لوگ جو کل تک پاکستان کے الم نشرح دشمن تھے۔ امن پسند اور بھولے شہروں کی آنکھوں میں خاک ڈالنے میں کامیاب ہوگئے` ریل گاڑیوں کی پٹڑیاں اکھاڑ دی گئیں تاکہ خوراک کی نقل و حرکت مسدود ہوجائے۔ تار اور ٹیلیفون کے سلسلے کو منقطع کرنے کی کوشش کی گئی۔ بیوپاریوں اور محنت مزدوری کرنے والوں کو کام کے سلسلے کو منقطع کرنے کی کوشش کی گئی۔ بیوپاریوں اور محنت مزدوری کرنے والوں کو کام سے جبراً روکا گیا۔ دکانیں اور گھر لوٹے گئے۔ عورتوں کی بے عزتی ہوئی` قتل و غارت کا بازار گرم ہوا۔ غرضیکہ ہر ممکن طریق سے بدامنی اور انتشار` دہشت اور ہراس پھیلانے کی کوشش کی گئی تاکہ صوبہ کی اقتصادی اور شہری زندگی ختم ہوجائے۔
آپ نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا کہ یہ تمام کاروائی ایسے وقت میں عمل میں لائی گئی جبکہ ہمارا ملک خصوصاً صوبہ پنجاب ایک نازک اقتصادی دور سے گزر رہا تھا۔ ایک طرف قدرتی حوادث اور نہروں میں پانی کم ہونے کے باعث خوراک کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا دوسری طرف عالمگیر بحران نے تجارت کا بازار سرد کر رکھا تھا۔ اس مصیبت کے وقت پنجاب میں خلفشار پیدا ہوتا کوئی اتفاقی سانحہ نہ تھا۔ بلکہ ایک خوفناک سازش تھی۔ ہر آزاد قوم کا شیورہ ہے کہ مصیبت کے وقت اتافق اور اعتماد سے کام لے۔ ایسے موقع پر سراسیمگی اور خلفشار پھیلانا ملک کے دشمنوں کیسوا اور کسی کا کام نہیں ہوسکتا۔ ان دشمنوں ککے وجود سے آپ اور آپ کی حکومت بے خبر نہیں تھی۔ یہ لوگ پاکستان کے شروع سے مخالف تھے اور ہر مرحلے پر اس کی ترقی اور بہبودی کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے ہیں۔۔۔۔۔ ان کی کھلی بغاوت کا کم از کم ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ ملک کے دشمن بے نقاب ہوگئے اور قوم نے انہیں ان کے اصلی رنگ اور روپ میں دیکھ لیا ہے اب یہ خواہ کسی بھیس میں آئیں یا کسی لائحہ عمل کی آڑ لیں ان کا فریب نہ چل سکے گا لیکن افسوس ان لوگوں پر ہے جو لاعلمی اور نادانی کے باعث ان غداروں کی سازش کا شکار ہوگئے۔ جو ان کے دھوکے میں آکر اپنی قوم اور ملک کا اور خود اپنا مفاد بھول گئے اور ان کی شیطنت کا آلئہ کار بن گئے۔~<ف۸~
وزیر اعلیٰ صاحب نے اس کے بعد ۲۰ مارچ ۱۹۵۳ء کو پنجاب اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا:۔
>اس تحریک کے علمبرداروں نے نام نہاد راست اقدام جسے میں کھلی بغاوت کہتا ہوں شروع کرکے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔۔۔۔۔ تحریک کے پہلے تین چار دنوں میں کوئی خاص ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا لیکن بعد ازاں یہ تحریک پاکستان دشمن سیاسی عناصر اور شر پسند غنڈوں کے ہاتھوں میں چلی گئیiq]< ga~[tف۹~
۳۔
گورنر پنجاب جناب ابراہیم اسمٰعیل چندیگر نے ۲۱ مارچ ۱۹۵۳ء کو ایک نشری تقریر کی جس میں اس ایچی ٹیشن کو >کھلی بغاوت< قرار دیتے ہوئے کہا:۔
>بدامنی کی یہ تحریک بظاہر ختم نبوت کے تحفظ کے لئے شروع کی گئی لیکن جو مطالبات اس تحریک کے نام پر پیش کئے گئے وہ سراسر سیاسی تھے۔ عوام کو دھوکہ دینے کے لئے انہیں مذہبی رنگ دیا گیا۔۔۔۔۔ اس مسئلہ کو بدامنی اور قانون شکنی کی دلیل بناتا اور ڈائریکٹ ایکشن کی ابتدا کرنا ایک خطرناک سازش تھی جس کی بیشتر ذمہ داری جماعت احرار پر عائد ہوتی ہے۔ یہ وہ جامعت ہے جو شروع سے پاکستان کی دشمن رہی اور قیام پاکستان سے اب تک شاید ہی کوئی ایسا حربہ ہو جو اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال نہ کیا ہو۔۔۔۔۔ شر پسند عناصر نے نہ صرف صوبے کے امن و امان کو تہ و بالا کرنے کی کوشش کی بلکہ قومی اور انفرادی نقصانات کا ایک طویل سلسلہ بھی شروع کردیا۔ افسوس کا مقام ہے کہ یہ سب کچھ ناموس رسولﷺ~ اور اسلام کے نام پر کیا جارہا تھا۔~<ف۱۰~
۴۔
جناب خواجہ ناظم الدین وزیراعظم پاکستان نے پاکستان پارلیمنٹ میں بجٹ اجلاس کے دوران تقریر کرتے ہوئے فرمایا۔
>جن لوگوں نے اس کی راہنمائی کی اور جو اکثریت میں تھے زیادہ تر احراری گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔۔۔۔۔ یہی لوگ اور ان کے نمائندے ہیں جنہوں نے قائداعظم کو )نعوذ باللہ( کافراعظم اور پاکستان اور >پلیدستان< کہا۔ جنہوں نے پاکستان کی شدید مخالفت کی اور قیام پاکستان کے بعد بھی سرحد پار کے ساتھ اپنے روابط قائم رکھے۔<
>انہوں نے غیر اسلامی چالیں اور عیاریاں اختیار کیں اسلام دانستہ دروغ بانی اور جھوٹ پراپیگنڈا کا ہرگز روا دار نہیں۔ اس جھوٹے پروپیگنڈے کے علاوہ جو ان لوگوں نے پاکستان کے وزیر خارجہ کے خلاف کیا۔ انہوں نے تو یہ کہنے مںی تمال نہیں کیا کہ میں قادیانی ہوگیا ہوں اور میرے ایک بیٹے نے ایک قادیانی لڑکی سے شادی کی ہے حالانکہ انہیں خود معلوم تا کہ یہ باتیں قطعاً غلط ہیں میں سوال کرنا چاہتا ہوں کہ جس حالت میں اسلام بہتان کی اجازت نہیں دیتا ایسی بہتان آمیز تحریک اسلامی کیونکر ہوسکتی ہے اور پھر ان حرکات کو بھی پیش نظر رکھیئے جو اس تحریک کے دوران کی گئیں۔ شہری دفاع کے مقاصد کے لئے لوگوں کو جو اسلحہ سپرد کئے گئے اور جو تربیت دی گئی وہ فوج اور پولیس کے خلاف استعمال کی گئی۔ ٹیلیفون کے تار کوٹ ڈالے گئے` سڑکیں توڑ دی گئیں۔ مواصلات کے سلسلے میں خلل ڈالا گیا۔ ڈاک خانے جلائے گئے۔ موٹر بسیں تباہ کردی گئیں` ریلوے ٹرینیں روکی گئیں۔ لوگوشیڈ میں انجن بیکار کردیئے گئے اور ایک کی پٹڑیاں اکھاڑ ڈالی گئیں۔~<ف۱۱~
اشتہار۔ ناشر محکمہ اشتہارات فلم و مطبوعات حکومت پاکستان کراچی ۱۹۵۳ء مطبوعہ ناظر پرنٹنگ پریس کراچی
۵۔
کراچی کے سات ممتاز علماء نے انہیں دنوں ایک متفقہ بیان میں تسلیم کیا کہ:۔
پنجاب میں جو ہولناک حوادث رونما ہوئے۔۔۔۔۔ وہ دشمنان پاکستان کی سوچی سمجھی ہوئی ایک سازش کے نتائج تھے جس کا مدعا یہ تھا کہ تباہ کاری اور دہشت انگیزی کو اس حد تک پہنچایا جائے کہ ملک بھر میں بغاوت اور لاقانونی اور غنڈے پن کی آگ بھڑک اٹھے جس میں یہ مملکت جل کر خاک سیاہ ہوجائے۔~<ف۱۲~
۶۔
اخبار >سفینہ< لاہور نے لکھا:۔
>احرار نے تحفظ ناموس رسولﷺ~ کے لئے یہ جھگڑا شروع نہیں کیا بلکہ ان کا مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے یہ لوگ پاکستان کے دشمن ہیں اور اس کے ساتھ مسلمانوں کی وحدت مںی بھی ان کے لئے ناقابل برداشت ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر پہلے تو ان کے ملی شیراز کو درہم برہم کریں اور اس کے ساتھ پاکستان کو بھی ختم کریں۔~<ف۱۳~
۷۔
جناب حامد علی خاں )الحمراء۔ ۳۔ ماڈل ٹائون لاہور( نے ۳ مارچ ۱۹۵۳ء کے ایک مکتوب میں اس بغاوت کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:۔
کانگرس کے احراری ایجنٹ پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے آج کل یکایک ختم نبوت کے علمبردار بن گئے ہیں۔ جب کشمیر گفتگو روع ہوتی ہے یہ لوگ جو متحدہ ہند مںی نہرو` گاندھی` پٹیل وغیرھم کے ابدی غلام بننے کی تحریک کے پشت پناہ تھے ظفر اللہ خاں کی قادیانیت کے خلاف اینٹوں` ڈنڈوں اور مغلظات کا جہاد شروع کردیتے ہیں جو کام تبلیغ سے ہونا چاہئے اسے فحش گالیوں سے انجام دینے کا خیال اسلام کے ان محافظوں کا عجیب و غریب کارنامہ ہے۔ کشمیر کے بعض علاقوں میں قادیانی عقیدے کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ احرار جو یکایک ان کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں غالباً ہندوستان کی خفیہ خدمت ہے تاکہ جب پاکستان کے مولوی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے لیں تو ہندوستان دنیا بھر کو بتا سکے کہ کشمیر کے بیشتر حصوں میں اکثریت مسلمانوں کی نہیں۔ غیر مسلموں کی ہے۔ جنہیں پاکستان خود غیر مسلم کہتا ہے علاوہ ازیں اس تحریک کی کامیابی سے پاکستان تمام مغربی ممالک میں انتہاء درجے کا تنگ نظر متعصب ملک بھی قرار پائے گا۔ یہ بھی بھارت کی خدمت ہے تاکہ ہندوستان سے پاکستان کی علیحدگی خود جرم عظیم ثابت کی جاسکے۔<]01 ~[pف۱۴~
۸۔
مولوی محمد احسن شاہ صاحب صدر انجمن خدآم الصوفیہ راولپنڈی نے ایک ٹریکٹ میں لکھا:۔
>تاریخ اسلام کے اوراق اس امر کے شاہد ہیں کہ جب بھی مسلمان سلطنتوں پر زوال آیا` اور جب بھی اسلامی حکومتیں تباہی سے دو چار ہوئیں ان میں غیروں سے زیادہ اپنوں کا ہاتھ تھا۔ بغداد اور اسپین کی مسلمان حکومتوں کا زوال اور سلطنت مغلیہ کی تباہی سب اپنوں ہی کی مرہون منت تھی۔ آج بھی پاکستان کی اسلامی مملکت کو اگر کسی سے خطرہ ہے تو اپنوں سے۔ غیر کے مقابلہ میں آج بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط ہیں مگر خود اپنے ہی جب دشمنی پر اتر آئیں اور بغل میں چھری گھونپنے کی کوشش کریں تو ہر سچے مسلمان اور محب وطن پاکستانی کا مقدس فرض ہوجاتا ہے کہ وہ ان وطن کے دشمنوں کے اصلی چہروں پر سے پردہ اٹھائے اور پاکستانی عوام پر صاف اور کھلے طور پر عیاں کرے کہ ان لوگوں کی اصل حقیقت کیا ہے۔ جنہوں نے اپنے وطن دشمن اور گھنائونے چہروں کو تفت اور علمیت دینی کے نقابوں سے ڈھانپ رکھا ہے۔ اسی مقصد کے لئے ایک سچے مسلمان اور ایک وفادار پاکستانی شہری کی حیثیت سے میں اس فرض کو ادا کررہا ہوں۔ میں نے ان تقدس مابوں کے بھرم کھول دینے کی جر¶ات رندانہ کی ہے جو >اسلام خطرے میں ہے< کا نعرہ لگا کہ ملک کے امن و امان کو تہ و بالا کررہے ہیں اور دانستہ طور پر بیرونی دشمنوں کے آلئہ کار بن کر ان کے لئے رستہ ہموار کررہے ہیں۔
یہ نام نہاد رہبر اور تقدس ممماب جو کچھ اس سے پہلے کرتے رہے ہیں وہ سب پر ظاہر ہے۔ خراساں کے بعد عراق کا دروازہ تاتاریوں پر ان حضرات ہی نے تو کھولا تھا آخر غرناطہ قرطبہ` بغداد` قسطنطیہ` اصفہان اور دلی کی اینٹ سے ینٹ بجوانے میں اپنوں ہی کا تو ہاتھ تھا۔
تقسیم ملک سے پہلے جو تقدس ممماب پاکستان کی مخالفت کیا کرتے تھے وہ ایک عرصہ تک خاموش رہے اور اس وقت کا انتظار کرتے رہے جب کہ وہ کسی مذہبی نعرے کی آڑ لے کر مسلمانان پاکستان کو مشتعل کرکے اپنا سیاسی انتقام لے سکیں اور اس طرح پاکستان کی آزادی کو ختم کروا سکیں۔ موقع مل گیا اور عرصہ سے سوچی سمھی ہوئی سکیموں پر عمل درآمد کرنے کا وقت آگیا۔
اس ناپاک مقصد کے لئے ختم نبوت کے مقدس عقیدہ کو بہانا بنایا گیا اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے فائدہ اٹھا کر ختم نبوت کے نام پر ملک میں ایک تحریک سول نافرمانی کا آغاز کردیا گیا` لوگوں کو قانون شکنی پر ابھارا گیا` انہیں لوٹ مار اور غنڈہ گردی کی تلقین کی اور اس طرح جہاں پاکستان کے امن پسند شہریوں کے جان و مال کے لئے خطرہ پیدا کیا وہاں پر لگے ہاتھوں خود پاکستان کی داخلی و خارجی آزادی کو معرض خطر میں ڈال دیا۔۔۔۔ پنجاب کی حکومت اور راولپنڈی کے حکام نے ہمیشہ اور ہر حال میں اس تحریک کا احترام کیا۔ اس کا ثبوت اس بات سے مل سکتا ہے کہ صوبہ کے کسی شہر مںی بھی اس وقت تک دفعہ ۱۴۴ یا کرفیو کا نفاذ نہیں کیا گیا جب تک کہ انتشار پسند` وطن دشمن` غنڈہ عناصر اور اپنی سیاسی اغراض کے لئے اس تحریک کو آلہ کار بنانے والوں نے پرامن شہریوں کے شہر حقوق کے لئے ایک عظیم خطرہ پیدا نہیں کردیا` حکومت کی فراخ دلانہ پالیسی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر تحریک ختم نبوت کی آڑ میں۔۔۔۔۔ لوٹ مار اور غنڈہ گردی کی گئی` قانون کا مضحکہ اڑایا گیا` جس طرح حکومت کے ملازمین پر قاتلانہ حملے کئے گئے` موٹر لاریوں اور مکانات کو آگ لگائی گئی اور حکومت کے نظم و نسق میں ایک منظم سازش ابتری پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔<
>وہ لوگ جو کل تک پاکستان کے قیام کو غلط سمجھتے تھے اور آج بھی اپنی روش پر قائم ہیں` جو آج بھی غیر ملکی طاقتوں کے آلئہ کار بن کر بے مثال قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی آزادی کو ختم کروانا چاہتے ہیں` جو ایک مذہبی تحریک کے پردے میں اپنی سیاست کی دوکان چمکانا چاہتے ہیں۔ جنہیں پاکستان سے زیادہ ہندوستان عزیز ہے۔ جو نازک حالات کا فائدہ اٹھا کر لوٹ مار اور غنڈہ گردی کرنا چاہتے ہیں۔ جو پرامن شہریوں کے جان و مال کے لئے ایک عظیم خطرہ ہیں اس موقع کو ہاتھ سے کھونا نہیں چاہتے تھے انہوں نے ایک مقدس مطالبہ کو سول نافرمانی کی شکل دے دی۔<
>ختم نبوت کی اس نام نہاد تحریک میں مندرجہ ذیل عناصر برسر پیکار ہیں:۔
۱۔
وہ سادہ لوح مسلمان جو >عقیدہ ختم نبوت< میں اندھا یقین رکھتے ہیں اور جن کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ان مولویوں نے اپنے ساتھ لگایا ہوا ہے۔
۲۔
وہ لوگ جو اس تحریک کو اپنی سیاسی اغراض کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
۳۔
وہ لوگ جو ملک میں بدامنی پھیلا کر لوگوں کو اپنی حکومت سے بدگمان کرنا چاہتے ہیں۔
۴۔
وہ لوگ جو اس تحریک کی آڑ میں اپنا سیاسی انتقام لینا چاہتے ہیں۔
۵۔
وہ لوگ جو اس بدامنی کا فائدہ اٹھا کر لوٹ مار اور غنڈہ گردی کرنا چاہتے ہیں۔
سب سے پہلے مجھے ان سادہ لوح مسلمان سے کچھ کہنا ہے جن کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ان لوگوں نے اپنا آلئہ کار بنا رکھا ہے۔
میرے بھائیو! >عقیدہ ختم نبوت< پر ہر مسلمان کا ایمان ہے۔ ہماری حکومت کے تما اراکین اس بات پر متفق ہیں اور ان کا ایمان ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کے بعد کوئی نبی نہ آیا ہے اور نہ آئے گا۔ مگر انصاف سے بتائیے` اپنے دلوں کو ٹٹولیئے اور کہئے کہ کیا ختم نبوت پر ایمان رکھنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ لوگ جو اس عقیدہ پر ایمان نہیں رکھتے ان کے گھروں کو آگ لگا دی جائے؟ انہیں قتل کردیا جائے` اور انہیں نوکریاں سے نکال دیا جائے؟ اس ملک میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کے علاوہ دوسری قومیں بھی آباد ہیں ان میں ہندو` عیسائی` پارسی اور یہودی بھی ہیں یہ لوگ تو ہمارے پیارے نبیﷺ~ پر ایمان ہی نہیں رکھتے ختم نبوت تو ایک علیحدہ چیز ہے۔ یہ لوگ تو رسول کریمﷺ~ کو نبی ہی نہیں مانتے۔ کیا صرف اس لئے ان کے گھروں کو آگ لگا دی جائے` ان کے بچوں کو قتل کردیا جائے` انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے` اور انہیں نوکریوں سے برطرف کردیا جائے؟
اور کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے والے اور آپ کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھانے والے بزرگ کون ہیں؟ ان کا مقصد کیا ہے اور وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ آیئے میں آپ کو بتائوں کہ وہ کیا ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔
ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس تحریک کو اپی سیاسی اغراض کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں> قوم ان کو دھتکار چکی ہے۔ قوم نے ان کو اعتماد کا اہل نہیں سمجھا اور قوم انہیں نااہل سمجھتی ہے۔ اس لئے یہ لوگ اب آپ کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر اس کھوئی ہوئی شہرت و عظمت کو بحال کرنا چاہتے ہیں جو یہ اپنی نااہلیوں اور نالئقیوں سے کھو چکے ہیں۔
ان کے بعد کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس تحریک کی آڑ لے کر ملک میں بدامنی پھیلا کر لوگوں کو اپنی حکومت سے بدگمان کرنا اور اپنی پارٹی کی حکومت کے لئے راستہ صاف کرنا چاہتے ہیں یہ لوگ آئینی طور پر تو تمام عمر برسراقتدار نہیں آسکتے اور نہ ہی دنیا کے کسی ملک میں آئے ہیں اور اسی لئے تشدد کے حربے استعمال کرکے حکومت کا تختہ الٹنا چہتے ہیں۔ ان کا اصلی چہرہ شاید آپ کی نظر سے پوشیدہ ہو` مگر میں آپ کو نقاب الٹ کر ان کے درشن کرواتا ہوں۔ یہ ہیں اپ کے دشمن` آپ کے نظام کے دشمن` آپ کے ملک کے دشمن اور اسلام کے دشمن کمیونسٹ۔
یہ اگر خدا کو نہیں مانتے مگر وقت پڑنے پر مذہب کی آڑ لینے میں دریغ نہیں کرتے۔ ظاہر ہے کہ خدا کے نہ ماننے والے کے دل میں ختم نبوت کے عقیدہ سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے مگر یقین جانیئے کہ جس مشتعل جلوس نے راولپنڈی شہر کے تھانے پر پتھر برسائے تھے اور جو ہجوم تھانے کو آگ لگانے کی غرض سے آیا تھا اس کی قیادت ایک کمیونسٹ نوجوان کررہا تھا۔
اس کے بعد آیئیاپنے ان دوست نما دشمنوں کی طرف جو اس تحریک کی آڑ میں اپنا سیاسی انتقام لینا چاہتے ہیں ان میں احراری حضرات قابل ذکر ہیں۔
>مجلس احرار کے بزرگوں نے جس طرح ہندوئوں کے سرمایہ کے بل بوتے پر مسلمانوں کے مطالبہ پاکستان کی مخالفت کی وہ آپ سے پوشیدہ نہیں۔ قیام پاکستان سے قبل بھی مجلس احرار کے لیڈر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لئے ختم نبوت کے نعرے کو استعمال کیا کرتے تھے۔ پاکستان کی مخالفت کے لئے بھی ان حضرات نے اسی نعرے کو استعمال کیا اور ایک جماعت کی حیثیت سے مسلمانوں کے مطالبہ کی مخالفت کی۔ اس مقصد کے لئے اس کے لیڈر غیر مسلموں اور مسلمانوں کے دشمنوں سے بھاری رقمیں رشوت کے طور پر وصول کیا کرتے تے مگر ان کی تمام تر مخالفتوں کے باوجود پاکستان بن گیا۔ پاکسان کی تشکیل کے کافی عرصہ بعد تک تو یہ احراری حضرات خاموش رہے اور جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ ان کا ماضی بھول گئے ہیں تو پھر دوبارہ ختم نبوت کے سلسلہ کو آڑ بنا لیا اور سادہ لوح مسلمانوں کو ساتھ ملا کر تحریک سول نافرمانی کا آغاز کردیا۔ یہ لوگ بڑے عرصے سے ایسے موقع ی تلاش میں تھے۔ یہ موقع مل گیا اور اپنا سیاسی انتقام لینے کے لئے ان بزرگوں نے ملک میں بدامنی شروع کرا دی۔ یہ جب بھی پاکستان کے دمن تھے اور آج بھی ہیں۔ یہ اس وقت بھی پاکستان کی مخالفت کا صلہ انعام کی صورت میں ہندوئوں سے وصول کیا کرتے تھے اور آج بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مجلس احرار نے دلی طور پر پاکستان کے قیام کو قبول نہیں کیا اور وہ اس حقیقت کو اس طرح ملک میں بدامنی پھیلا کر ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ ملک میں ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ دشمن طاقتوں کو پاکستان کی آزادی ختم کرنے کا موقعہ مل جائے۔~<ف۱۵~
۹۔
پاکستان کے ایک ممتاز صحافی مسٹر زیڈ۔ اے سلہری نے واضح الفاظ میں یہ حقیقت پیش کی کہ:۔
>قادیان کے خلاف تحریک کی اصلیت کچھ بھی ہو` لیکن یہ کہنا پڑے گا کہ اس تحریک نے حکومت کے خلاف ایک کھلی بغاوت کی شکل اختیار کرلی تھی۔ اس تحریک نے تمام پنجاب میں ہلچل پیدا کردی اور صوبے کا سارا انتظام متزلزل ہوکے رہ گیا جس کے ساتھ قتل و غارت گی اور بیہمانہ کاروائیوں کا بازار گرم ہوگیا اور جائیداد کا بھی زبردست نقصان ہوا۔~<ف۱۶~
جماعت احمدیہ کے خلاف وسیع پیمانے پر تشدد
شورش پسندوں نے جس زور اور شدت سے حکومت پاکستان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اسی درجہ طاقت و قوت کے ساتھ معصوم اور نہتے احمدی ان کے غیض و غصب اور تشدد کا نشانہ بنے۔ اس طرح پاکستان کے ازلی مخالفوں نے جماعت احمدیہ سے قیام پاکستان کے جہاد میں شرکت کا انتقام لینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس زمانہ میں جبکہ ظاہر بین نگاہیں سمجھ رہی تھیں کہ تحریک احمدیت کا نام و نشان تک صفحئہ ہستی سے مٹ جائے گا` جماعت کے اوالعزم امام حضرت مصلح موعود نے ۳ مارچ ۱۹۵۳ء کو جماعت احمدیہ کے نام پیغام دیا کہ:۔
>آپ بھی دعا کرتے رہے ہیں میں بھی دعا کرتا ہوں۔ انشاء اللہ فتح ہماری ہے کیا آپ نے گزشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا۔ سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لئے دوڑا آرہا ہے۔ وہ میرے پاس ہے۔ وہ مجھ میں ہے۔ خطرات ہیں اور بہت ہیں۔ مگر اس کی مدد سے سب دور ہوجائیں گے۔ تم اپنے نفسوں کو سنبھالو اور نیکی اختیار کرو۔ سلسلہ کے کام خدا خود سنبھالے گا۔~<ف۱۷~
یہ پیغام خدا کے موعود و مقدس خلیفہ نے القائے ربانی کے تحت دیا تھا جس کے بعد خدا تعالیٰ کی تائیدات سماوی کے غیبی سامان پیدا ہوئے مگر جماعت احمدیہ بے شمار مصائب و مشکلات کے طوفانوں میں بھی گھر گئی تھی جس کے دوران خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستانی احمدیوں نے انتہائی مخالفت کے باوجود صبر و رضا اور ایثار و قربانی کا بے مثال نمونہ دکھلایا جو اس کا واضح ثبوت تھا کہ یہ جماعت خدا تعالیٰ کی قائم کردہ ہے اور انہی قدموں پر چل رہی ہے جن پر خدائی جماعتیں ہمیشہ چلتی آئی ہیں اور ترقی کرتی رہی ہیں۔
سیدنا حضرت مسیح معوود علیہ الصلٰوٰہ والسلام فلسفہ ابتلاء پر بصیرت افروز روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
>ابتلاء جو اوائل حال میں انبیاء اور اولیاء پر نازل ہوتا ہے اور باوجود عزیز ہونے کے ذلت کی صورت میں ان کو ظاہر کرتا ہے اور باوجود مقبول ہونے کے کچھ مردود سے کرکے ان کو دکھاتا ہے یہ ابتلاء اس لئے نازل نہیں ہوتا کہ ان کو ذلیل اور خوار اور تباہ کرے یا صفحئہ عالم سے ان کا نام و نشان مٹا دیوے کیونکہ یہ تو ہرگز ممکن ہی نہیں کہ خداوند عزوجل اپنے پیار کرنے والوں سے دشمنی کرنے لگے اور اپنے سچے اور وفا دار عاشقوں کو ذلت کے ساتھ ہلاک کر ڈالے بلکہ حقیقت میں وہ ابتلاء کہ جو شیر ببر کی طرح اور سخت تاریکی کی مانند نازل ہوتا ہے اس لئے نازل ہوتا ہے کہ تا اس برگزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند مینار تک پہنچا دے۔ اور الٰہی معارف کے باریک دقیقے ان کو سکھاوے۔ یہی سنت اللہ ہے۔ جو قدیم سے خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے زبور میں حضرت دائودؑ کی ابتلائی حالت میں عاجزانہ نعرے اس سنت کو ظاہر کرتے ہیں اور انجیل میں آزمائش کے وقت میں حضرت مسیح کی غریبانہ تضرعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں اور قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں جناب فخر الرسلﷺ~ کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتہالات اسی قانون قدرت کی تضریح کرتے ہیں اگر یہ ابتلاء درمیان میں نہ ہوتا تو انبیاء اور اولیاء ان مدارج عالیہ کو ہرگز نہ پاسکتے کہ جو ابتلاء کی برکت سے انہوں نے پالئے۔ ابتلاء نے ان کی کامل وفاداری اور مستقل ارادے اور جانفشانی کی عادت پر مہر لگا دی اور ثابت کر دکھایا کہ آزمائش کے زلازل کے وقت کس اعلیٰ درجہ کا استقلال رکھتے ہیں۔ اور کیسے سچے وفا دار اور عاشق صادق ہیں کہ ان پر آندھیاں چلیں اور سخت سخت تاریکیاں آئیں اور بڑے بڑے زلزے ان پر وارد ہوئے اور وہ ذلیل کئے گئے` اور جھوٹوں اور مکاروں اور بے عزتوں میں شمار کئے گئے اور اکیسے اور تنہا چھوڑے گئے یہاں تک کہ ربانی مددوں نے بھی جن کا ان کو بڑا بھروسہ تھا کچھ مدت تک منہ چھپا لیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی مربیانہ عادت کو بہ یکبارگی کچھ ایسا بدل دیا کہ جیسے کوئی سخت ناراض ہوتا ہے اور ایسا انہیں تنگی و تکلیف میں چھوڑ دیا کہ گویا وہ سخت مورد غضب ہیں اور اپنے تئیں ایسا خشک سا دکھلایا کہ گویا وہ ان پر ذرا مہربان نہیں بلکہ ان کے دشمنوں پر مہربان ہے اور ان کے ابتلائوں کا سلسلہ بہت طویل کھینچ گیا۔ ایک کے ختم ہونے پر دوسرا اور دوسرے کے ختم ہونے پر تیسرا ابتلاء نازل ہوا۔ غرض جیسے بارش سخت تاریک رات میں نہایت شدت و سختی سے نازل ہوتی ہے ایسا ہی آزمائشوں کی بارشیں ان پر ہوئیں پر وہ اپنے پکے اور مضوط ارادہ سے باز نہ آئے اور سست اور شکستہ دل نہ ہوئے بلکہ جتنا مصائب و شدائد کا بار ان پر پڑتا گیا اتنا ہی انہوں نے آگے قدم بڑھایا اور جس قدر وہ توڑے گئے اسی قدر وہ مضبوط ہوتے گئے اور جس قدر انہیں مشکلات راہ کا خوف دلایا گیا اسی قدر ان کی ہمت اور شجاعت ذاتی جوش میں آتی گئی۔ بال¶اخر وہ ان تمام امتحانات سے اول درجہ کے پاس یافتہ ہوکر نکلے اور اپنے کامل صدق کی برکت سے پورے طور پر کامیاب ہوگئے اور عزت اور حرمت کا تاج ان کے سر پر رکھا گیا اور تمام اعتراضات نادانوں کے ایسے احباب کی طرح معدوم ہوگئے کہ گویا وہ کچھ بھی نہیں تھے غرض انبیاء و اولیاء ابتلاء سے خالی نہیں ہوتے بلکہ سب سے بڑھ کر انہیں پر ابتلاء نازل ہوتے ہیں اور انہیں کی قوت ایمانی ان آزمائشوں کی برداشت بھی کرتی ہے عوام الناس جیسے خدا تعالیٰ کو شناخت نہیں کرسکتے ویسے اس کے خالص بندوں کی شناخت سے بھی قاصر ہیں بالخصوص ان محبوبان الٰہی کی آزمائش کے وقتوں میں تو عوام الناس بڑے بڑے دھوکوں میں پڑ جاتے ہیں گویا ڈوب ہی جاتے ہیں اور اتنا صبر نہیں کرسکتے کہ ان کے انجام سے منتظر رہیں۔ عوام کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ جل شانہ جس پودے کو اپنے ہاتھ سے لگاتا ہے اس کی شاخ تراشی اس غرض سے نہیں کرتا کہ اس کو نابود کردیوے۔ بلکہ اس غرض سے کرتا ہے کہ تاوہ پودا پھول اور پھل زیادہ لاوے اور اس کے برگ اور بار مںی برکت ہو۔ پس خلاصہ کلام یہ کہ انبیاء اور اولیاہ کی تربیت باطنی اور تکمیل روحانی کے لئے ابتلاء کا ان پر وارد ہونا ضروریات سے ہے اور ابتلاء اس قوم کے لئے ایسا لازم حال ہے کہ گویا ان ربانی سپاہیوں کی ایک روحانی وردی ہے` جس سے یہ شناخت کئے جاتے ہیں۔~<ف۱۸~
تاریخ احمدیت کی جلد ۱۴ میں ۱۹۵۳ء کے دور ابتلاء کا چار حصوں میں تذکرہ کیا جارہا ہے۔
پہے حصہ میں ان زہرہ گداز روح فرسا درد انگیز اور صبر آزما واقعات کی تفصیل درج ہے جو مظلمو احمدیوں کو مختلف صوبوں اضلاع اور مقامات میں پیش آئے
یہ تفصیل ایک تو ان مکتوبات سے اخذ کی گئی ہے جو اس زمانہ میں حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس یا مرکز میں موصول ہوئے` دوسرے ان چشم دید بیانات سے جو فسادات کے بعد سلسلہ احمدیہ کے محقق و فاضل جناب مہاشہ ملک فضل حسین صاحب~ف۱۹~ مرحوم نے حضور کی خصوصی ہدایت پر بڑی محنت اور عرقیزی سے جمع فرمائے تھے۔ علاوہ ازیں تحقیقاتی عدالت کی مطبوعہ رپورٹ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے
دوسرا حصہ سیدنا حضرت مصلح موعود کی حیرت انگیز محنت و ریاضت عدیم المثال رہنمائی پیغامات` مرکز سے اطلاعات کا انتظام اور خاندان حضرت مسیح موعود کے بے نظیر صبر و استقلال جیسے اہم امور پر مشتمل ہے۔
تیسرا حصہ تحقیقاتی عدالت میں وکلاء احمدیت کی شاندار نمائندگی اور حضرت مصلح موعود کے ایمان افروز بیان سے متعلق ہے
چوتھے حصہ میں اس جماعتی ابتلاء کی عظیم الشان برکات اور اس کے نتیجہ میں رونما ہونے والے نصرت خداوندی کے نشانات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
حصہ اول
پہلا باب
اضلاع راولپنڈی` گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کی
احمدی جماعتوں کے واقعات
فصل اول
راولپنڈی شہر
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں راولپنڈی شہر کے متعلق لکھا ہے کہ:۔
>یہاں بھی فسادات کے آغاز سے پیشتر واقعات کی رفتار بالکل صوبے کے دوسرے قصبوں ہی کی مانند تھی۔۔۔۔۔ آل پارٹیز مسلم کنونشن کے بعد احراری دوسرے مذہبی فرقوں کے مبلغوں اور پیروئوں کا تعاون حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مساجد احمدیوں کے خلاف پراپیغندا کا مرکزا بن گئیں اور جمعہ کے خطبات تو احمدی عقائد کی مذمت و مخالفت کے لئے وقف ہی کردیئے گئے۔~<ف۲۰~
پھر لکھا ہے:۔
>جب ۶ مارچ کو سیالکوٹ اور لاہور کے واقعات کے متعلق مبالغہ آمیز افواہیں پھیلیں اور یہ اطلاع موصول ہوئی کہ حکومت پنجاب نے مطالبات منظور کر لئے ہیں اور کراچی کو اس منظوری کی اطلاع دے دی ہے تو صورت حالات بے حد نازک ہوگئی۔ فوری نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے خیال کیا حکومت نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ چنانچہ جلوس زیادہ جارحانہ ہوگئے ان کی تعداد بھی بڑھ گئی اور ان کو لاٹھی چارج سے منتشر کرنا پڑا۔
۶ مارچ کو لیاقت باغ میں ایک اور جلسہ منعقد ہوا۔ ایک ہجوم نے جلسے کے بعد منتشر ہوکر مری روڈ کا رخ کیا اور احمدیوں کی ایک مسجد اور ایک چھوٹی موٹر کار کو آگ لگا دی۔ اسی شام کو کچھ دیر بعد لوٹ مار اور آتش زنی کے مزید واقعات بھی رونما ہوئے۔ احمدیہ کمرشل کالج` نور آرٹ پریس اور پاک ریسٹوران شہر کے مختلف حصوں میں واقع تھے۔ لیکن لوگ زبردسی ان میں گھس گئے۔ اور انہوں نے مختلف اشیاء کو لوٹنے جلانے اور تباہ کرنے کی کوشش کی۔ ایک غیر احمدی نوجوان نور آرٹ پریس میں ملازم تھا۔ اس کو احمدی سمجھ کر چھرا مارا گیا اور وہ اسی زخم کی وجہ سے ہلاک ہوگیا۔ جب صورت حالات سخت خطرناک ہوگئی تو ۷ مارچ کو فوج طلب کر لی گئی۔~<ف۲۱~
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں راولپنڈی کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے۔ یہ واقعات کا اجمالی تذکرہ ہے۔ ذیل میں اس کی کسی قدر تفصیل بعض چشم دید بیانات کی روشنی میں دی جاتی ہے۔
بیت احمدیہ راولپنڈی
قائد مجلس خدام الاحمدیہ راولپنڈی چوہدری عبد الغنی رشدی~ف۲۲~صاحب بیت احمدیہ )واقع مری روڈ حال شاہراہ رضا شاہ پہلوی( کے سامنے ایک چھت پر کھڑے تھے آپ کے ایک بیان میں لیاقت باغ کے جلسہ کی انتہائی اشتعال انگیز تقریروں کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:۔
>اتنے میں گولڑہ کا قافلہ جلسہ گاہ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ عوام اس کی طرف بھاگے۔ اور پھر جلوس کی شکل میں یہ قافلہ مری روڈ کی طرف چلا۔ اس کی راہنمائی۔۔۔۔۔ کررہا تھا۔ یہ جلوس نہایت اشتعال انگیز نعرے لگا رہا تھا۔ جب یہ جلوس بیت انجمن احمدیہ )واقع مری روڈ۔ راولپنڈی۔ ناقل( کے قریب پہنچا تو وہاں آکر رک گیا اور نعرے لگانے شروع کردیئے۔ دو آدمیوں نے جلوس کو آگے بڑھانے کی کوشش کی مگر جلوس زیادہ مشتعل ہوگیا اتنے میں قرب و جوار کے مکانوں سے بیت احمدیہ پر سنگباری شروع ہوگئی اور جلوس نے بھی پتھروں کے ذریعہ بیت احمدیہ کے دروازے توڑنے شروع کئے۔ جب دروازہ ٹوٹ گیا تو کچھ لوگ اندر گھس گئے اور اندر سے اخبارات اٹھا لائے۔ کچھ لوگ اتنے میں باہر سے آکر اوپر گیلری میں چڑھ گئے اور اس عرصہ میں بیت کے سامنے ایک معزز غیر احمدی کی کار تھی۔ اس کو کسی شخص نے چلا کر موڑا کہ ایک لڑکے نے اینٹ ماری اور بہت سے لوگ اس پر پل پڑے اور کار کے شیشے توڑ دیئے۔ شیشے توڑنے والوں میں ایک سانولے رنگ کا داڑھی والا شخص بھی تھا۔ ہم نے جو کہ چھت پر یہ نظارہ دیکھ رہے تھے ایک شخص کو تھانے اطلاع کرنے کے لئے بھیج دیا کیونکہ پولیس ابھی تک نہ آئی تھی اور جو دو چار سپاہی پہلے موجود تھے وہ بھی غائب ہوچکے تھے۔ ہجوم میں سے ایک لڑکے نے کار کا ڈھکنا اٹھا کر ماچس کی تیلیاں جلا کر آگ لگانے کی کوشش کی مگر جب آگ نہ لگ نہ سکی تو کار کو الٹا دیا گیا اور جو پٹرول نکلا اسے آگ لگا دی۔ اسی پٹرول کی مدد سے اور بیت کے اندر سے جو گھاس وغیرہ نکالا گیا تھا اس سے بیت کے دروازے کو آگ لگا دی۔ اسی عرصہ میں کافی لوگ بیت کے اندر گھس چکے تھے اور انہوں نے گیراج کی طرف کا دروازہ بھی توڑ دیا تھا۔ پھر میں اس کے بعد تھا نہ کی طرف گیا کیونکہ آگ کے شعلے بہت بلند ہوچکے تھے۔ راستہ میں چند لوگ بیت ک ابورڈا اٹھائے ہوئے آئے اور انہوں نے وہ چوہدری مولیٰ داد صاحب کے مکان کے قریب گندے نالہ میں پھینک دیا۔۔۔۔۔ جلوس تریباً پانچ بجے )بعد نماز عصر۔ ناقل( بیت کے سامنے پہنچا تھا اور آگ پانچ بج کر دس منٹ پر لگائی گئی۔ پہلا شخص پانچ بج کر پندرہ منٹ پر تھا نہ گیا۔ پھر میں اس کے دس منٹ بعد پہنچا۔ مگر پولیس اور فائر بریگیڈ پونے چھ بجے موقعہ پر پہنچے۔ جب آگ لگائی جارہی تھی تو اس وقت ایک شخص کی آواز جو کہ اوٹ میں تھا آرہی تھی کہ شاباش مجاہدو۔ لوٹو۔<
بیت احمدیہ مری روڈ راولپنڈی کے اندر اس وقت سید اعجاز احمد شاہ صاحب انسپکٹر بیت المال ربوہ بھی تھے۔ آپ کا تحریری بیان ہے کہ:۔
>قریب پانچ بجے شام جلسہ نعروں پر ختم کرکے جلوس کی شکل میں ہجوم مری روڈ پر چل پڑا اور انجمن احمدیہ واقع مری روڈ پر جو لیاقت باغ سے دس منٹ کے فاصلہ پر واقعہ ہے آکر رکا۔۔۔۔۔ اس وقت انجمن حمدیہ میں عاجزانہ اور عاجز کے علاوہ دس اور احمدی دوست موجود تھے۔~ف۲۳~
جن میں تین ضعیف العمر اور ایک سولہ سترہ سالہ لڑکا تھا جلوس کی انجمن کی طرف پیش قدمی کی اطلاع سن کر خاکسار نے انمجن احمدیہ سے باہر ایک احمدیہ کے مکان پر یہ اطلاع بھجوا دی کہ جلوس کا رخ انجمن کی طرف ہے اور انجمن میں موجود دوستوں سے غرض کیا کہ >تمام دروازے کھڑکیاں انجمن کی بند کردیں اور کوئی دوست جلوس کو دیکھنے کی بھی کوشش نہ کرے۔۔۔۔۔ جلوس انجمن کے سامنے آکر رکا اور نعرے بلند کرتا رہا۔ جلوس کے ایک ہجوم نے ہلہ بول دیا۔ عین اس وقت جبکہ عمارت کے دروازوں سے یہ سلوک جاری تھا انجمن کے ملحقہ مکانات کی طرف سے پتھرائو شروع ہوگیا۔۔۔۔۔ انجمن احمدیہ کی بیرونی عمارت کو آگ لگا دی گئی۔ چنانچہ آگ چشم زون میں لگ گئی۔ آگ کے دھوئیں اور تپش کی وجہ سے جب ہم نے دیکھا کہ حملہ آور سب کے سب عمارت سے باہر بھاگ گئے ہیں اور اب اندر رہنا خطرہ سے خالی نہیں تو احمدی احباب انجمن سے ملحقہ ایک مکان کی دیوار پر چڑھے۔۔۔۔۔ ہمارے ساتھ جو بزرگ معمر احمدی دوست تھے ان کو نوجوان سہارا دے کر دوسرے مکان میں لائے دوسرے مکان والوں نے تمام دروازے بند کر رکھے تھے مگر ہمارے کہنے سننے پر انہوں نے دروازہ کھول دیا اور ہمارے ساتھی دوسری طرف نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ باہر ہجوم کے کچھ نوجوان موجود تھے جنہوں نے ہمارے دو ایک آدمیوں کو پکڑا اور دھول دھپے مارے۔۔۔۔۔ یہ تمام کاروائی قریباً نصف گھنٹہ میں ہوئی۔<
اس آتشزدگی سے بیت کی عمارت کا جو نقصان ہوا وہ تریباً اٹھائیس سو روپیہ کا تھا اور اس کے اندر جو سامان ضائع یا لوٹا یا جلایا گیا )جیسے اخبار۔ کتابیں۔ دریاں۔ قناتیں چارپائیاں سائبان وغیرہ( اندازاً پندرہ سو روپیہ مالیت کا ہوگا۔
علاوہ ازیں اس کے ملحقہ مکان میں بعض اور احمدی بھی رہتے تھے ان کا جو سامان برباد ہوا وہ )۱۱۲۵( سوا گیارہ سو روپیہ کا تھا۔ اس طرح یہ سارا نقصان قریباً ساڑھے پانچ ہزار روپیہ کا ہوا
اس سلسلہ میں جناب ملک برکت اللہ خاں صاحب کا حلفیہ بیان حسب ذیل ہے۔
>میں برکت اللہ خاں ولد ملک نیاز محمد خاں۔ عارضی سکونت راولپنڈی حلفیہ طور پر بیان دیتا ہوں کہ:۔
۶ مارچ ۱۹۵۳ء بروز جمعہ پڑھنے کے لئے حسب معمول بیت احمدیہ واقع مری روڈ گیا۔ نماز پڑھے جانے کے بعد حسب معمول میں نماز عصر تک وہیں رہا۔ نماز عصر پڑھنے کے بعد ایک صاحب چوہدری یوسف علی صاحب کی دعوت چائے پر میں ان کے مکان پر جو کہ بیت احمدیہ کے بالمقابل کی گلی میں ہے چلا گیا۔ تقریباً ۵ بجے شام ایک بڑا ہجوم جس کی تعداد ۱۵۰۰ سے ۲۰۰۰ کے درمیان ہوگی لیاقت باغ کی طرف سے بیت احمدیہ کی طرف آیا پہلے کچھ حصہ سیدھا آگے گزر گیا لیکن پھر ایک شخص نے بیت احمدیہ کی منڈیر پر چڑھ کر ہاتھوں کے اشاروں سے ہجوم کو روکا۔ اور پھر بیت کے ملحقہ گلی کی جانب بھیجنا شروع کیا۔ چند لڑکے بیت کی بیرونی منڈیر پر بیٹھ گئے۔ ہجوم کا اگلا اور فعال حصہ دیہاتی اور اجڈ قسم کے لوگوں کی اکثریت پر مشتمل تھا جو کہ باہر سے منگوائے گئے` معلوم ہوتے تھے۔ ہجوم عجب شور و غل کرتا ہوا آرہا تھا۔ اور اگلے حصہ میں لوگ بھانگڑا قسم کا ناچ کرتے ہوئے آرہے تھے۔
بیت احمدیہ کے دروازے سے بند تھے۔ ہجوم نے پتھر اور روڑے دروازوں پر مارنے شروع کردیئے۔ جس سے گلی سے ملحقہ دروازہ بالکل ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد دو نوجوانوں عمارت کے چھجے پر چڑھ گئے اور جو بورڈ آویزاں تھے ان کو اتار پھینکا۔ علاوہ ازیں عمارت کا بڑا دروازہ بھی ہجوم نے کھول لیا۔ ایک کاریت کے بالکل ساتھ کھڑی تھی۔ ہجوم نے اس پر پتھرائو کرنا شروع کردیا۔ ایک شخص نے جو کہ غالباً کار کے مالک کا ملازم ڈرائیور ہوگا کار کو سٹارٹ کرکے ہجوم کی زد سے باہر نکالنے کی کوشش کی لیکن ہجوم نے کار کے سامنے اور بازووں پر جمع ہوکر سڑک کے عین درمیان میں روک لیا اور کار پر تیز پھترائو کرنا شروع کردیا۔ ڈرائیور نے جان کو خطرہ میں دیکھ کر کوشش ترک کردی۔ ازاں بعد کچھ لوگوں نے بیت کے بڑے دروازے سے چٹائیاں نیز تین سائیکلیں نکال کر اور کار کو الٹا کر اس پر رکھ دیں اور کار کی گدیاں نکال کر کار کو الٹا کر اس پر رکھ دیں اور کار کی گدیاں نکال کر کار کو آغ لگا دی۔
ہوم کے آنے تک تین سپاہی باوردی بیت کے بالمقابل ۶۰ فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوئے تھے لیکن ان کے آجانے کے بعد وہ غائب ہوگئے۔ کار کو آگ لگانے کے بعد چند لوگوں نے اس دروازے اور کمرے کو آگ لگانی شروع کر دی جو ہجوم نے پتھرائو کرکے توڑا تھا۔ یہ آگ کار کی گدیوں اور اخبارات وغیرہ کے ذریعہ لگائی گئی۔ آن کی آن میں پورا کمرہ اور باہر کا چھجا شعلوں کی لپیٹ میں آگیا۔ دوسرے بڑے دروازے سے کافی لوگ بیت کے اندر داخل ہوتے اور باہر نکلتے رہے۔ جس مکان کے چوبارہ میں کھڑا ہوا تھا اس کے تقریباً بالمقابل مکان کے چوبارے پر سے ایک چودہ پندرہ سال لڑکا ہجوم پر پتھر برساتا رہا۔ شائد ہجوم کو یہ باور کروا کر مزید مشتعل کرنے کے لئے کہ یہ پتھر احمدی مار رہے ہیں۔
نماز جمعہ کے بعد مجھے یہ بھی علم ہوا تھا کہ ایک P۔S۔D کو سول کپڑوں میں بیت کے ساتھ کی عمارت میں جو کہ D۔W۔P کا دفتر ہے بٹھایا گیا تھا لیکن نصف گھنٹہ تک نہ تو پولیس جائے واردات پر پہنچی اور نہ ہی فائر بریگیڈ کا انجن۔ اور ہجوم اپنی من مانی کرتا رہا حالانکہ دو نوجوانوں مسمی محمد فاضل اور محمود احمد )ابن چوہدری یوسف علی صاحب مذکور( نے علی الترتیب یکے بعد دیگرے پولیس سٹیشن پر جاکر بھی اطلاع دی۔ جو کہ جائے وقوعہ سے صرف دو یا تین منٹ کے فاصلہ پر ہے۔ اتنی دیر تک ہجوم کا ایک حصہ اس گلی میں بھی آگیا جس میں وہ مکان واقع تھا۔ جس میں میں موجود تھا۔ اور گلی کو دونوں طرف سے ہلاک کر لیا۔ ایک بوڑھا۔۔۔۔۔ ہجوم کو ہاتھوں کے اشارے سے بتلا رہا تھا کہ اس مکان میں رہنے والا احمدی ہے۔۔۔۔۔ بال¶اخر میں یہ بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں مندرجہ بالا بیان اگر ضرورت ہو تو حاضر عدلت ہوکر حلفاًدینے کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔<
‏ad] g[taفقط الراقم
برکت اللہ خان ولد ملک نیاز محمد خاں
پتہ:۔ معرفت میاں عطاء اللہ صاحب وکیل بی اے ایل ایل بی
کالج روڈ راولپنڈی شہر۔
مکان امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی
جلوس اسی دن رات کے ۹ بجے بابو اللہ بخش صاحب امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی کے مکان پر بھی حملہ آور ہو۔ اس نے مکان کے دو دروازوں کو توڑ دیا۔ بیٹھک کا سامان میز کرسیاں پارچات اور قرآن شریف کے تین نسخے اور دیگر کتابیں جماعت احمدیہ کے مختلف شعبوں کے فائل وغیرہ بازار میں پھینک کر آگ لگا دی۔ اس طرح قریباً پانچ سو روپیہ کا نقصان پہنچایا۔ بلوائیوں نے بیٹھک سے آگے اندرون خانہ میں جانے کی بھی ازحد کوشش کی مگر خدا تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کردیئے کہ حملہ آور اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکے۔
نور آرٹ پریس
فسادیوں نے اسی روز نور آرٹ پریس پر بھی حملہ کیا اور اس کو آگ لگا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ اس وحشیانہ یلغار سے اس پریس کے احمدی مالک )مولوی علی محمد صاحب اجمیری( کو بارہ ہزار روپیہ کا نقصان ہوا۔
پاک ریسٹورنٹ
‏]text [tagاسی روز ایک اور احمدی دوست عزیز احمد صاحب سیالکوٹی کے پاک ریسٹورنٹ واقعہ ٹرنک بازار پر بھی دھاوا بولا گیا۔ اور اسے بے دردی سے لوٹا گیا اور باقی ماندہ سامان کو توڑ پھوڑ کر بیکار بنا دیا گیا
اس حادثہ کے بعد عزیز احمد صاحب نے ڈپٹی کمشنر صاحب راولپنڈی کی خدمت میں اس مضمون کی عرضداشت پیش کی کہ:۔
>میر ریسٹورٹن یعنی پاک ریسٹورنٹ واقعہ ٹرنک بازار راولپندی جو یہاں کے تمام ہوٹلوں سے امتیازی حیثیت رکھتا تھا اور جس سے دو بڑے مہاجر کنبوں کی شکم پری ہورہی تھی اور جس کی آمدنی سے گورنمنٹ پاکستان کے خزانہ میں ۲۹۶ روپیہ انکم ٹیکس اور مبلغ ۳۰۰ روپے سالانہ سیلز تیکس جاتا تھا مئورخہ ۴ مارچ کو بوقت شام مجلس احرار کے کارکنوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوگیا ہے۔ ہوٹل کا تمام سامان مع سوڈا واٹر فیکٹری کے لوٹ لیا گیا ہے اور ہوٹل کے کمروں کو توڑ پھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ ایک عالی شان ریسٹونٹ جوشہر میں اپنی مثال آپ تھا کھنڈ رات میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ الخ<
شافی کیمسٹ شاپ
راولپنڈی کے بوہڑ بازار میں ایک احمدی چوہدری محمد بشیر صاحب کی انگریزی ادویات کی بہت بڑی دوکان جو >شافی کیمسٹ شاپ< کے نام سے مشہور تھی بلوائیوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوگئی۔ چنانچہ چوہدری محمد بشیر صاحب کا بیان ہے کہ:۔
>رات کے ساڑے گیارہ بجے بازار کے چپڑاسی )چوکیدار( نے اطلاع دی کہ میری دوکان تالہ توڑ کر لوٹی جا چکی ہے۔ اس وقت ہر طرف ہنگامہ آرائی تھی۔ پولیس باہر پھر رہی تھی لیکن کسی کو منع نہیں کرتی تھی دوسرے دن صبح دس بجے کے قریب میں دوکان پر آیا تو سہ چیزیں بکھری ہوئی تھیں۔ باہر جلی ہوئی اشیاء کی راکھ سڑک پر بکھری ہوئی ادویات جلا ہوا دوسرا سامان پڑا ہوا تھا۔ اس وقت پولیس کا پہرا بیٹھا ہوا تھا۔ دوکان کے اندر ٹوٹے ہوئے شیشے` گری ہوئی ادویات اور الماریاں ٹوٹی ہوئی حالت میں تھیں۔
‏Refrijrater خراب پڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔ نقصان کا اندازہ ۳۴۰۰ کے قریب ہے جس کی تفصیل جماعت کو دے دی گئی تھی اور اس کی کاپیاں حکام بالا کو بھیج دی تھیں۔<
نیشنل میڈیکل ہال
بوہڑ بازار میں ہی انگریزی ادویات کی ایک اور دکان >نیشنل میڈیکل ہال< تھی جس کے مالک ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب~ف۲۴~ )پسر حضرت مولوی قطب الدین صاحب( تھے۔ یہ دوکان کس طرح حملہ آوروں کے ہاتھوں غارت ہوئی اس کی تفصیل ڈاکٹر صاحب موصوف کے الفاظ میں درج ذیل ہے۔
>میری دکان واقعہ بوہڑ بازار کو بروز اتوار دن کے قریباً بارہ بجے سے لے کر ۳ بجے تک تمام سامان۔ ادویہ کی الماریاں` فرنیچر` میزیں کرسیاں اور دکان کی ہر ایک چیز دکان سے باہر نکال کر آگ لگا دی اور محلہ کے اکثر لوگوں نے اس واقعہ کو دیکھا۔ میں خود دکان پر نہ تھا` کیونکہ حفاظت کا کوئی سامان نہ تھا۔۔۔۔۔ میری دکان مکمل طور پر خالی کردی گئی ہے۔ ایک پیسہ کی چیز دکان میں نہیں رہی۔ بجلی کمپنی کا میٹر جو دکان میں تھا اور متعلقہ بجلی کی وائرنگ تمام کی تمام توڑ پھوڑ کر پھینک دیا گیا۔ دکان بالکل خالی ہے۔ نقصان کا اندازہ بارہ ہزار روپیہ ہے۔<
برلاس سائیکل ورکس
ایک اور احمدی دوست سردار محمد صاحب کی سائیکلوں کی دکان پر بلوائیوں نے حملہ کرکے اسے لوٹ لیا اور ان کو قریباً ڈیڑھ ہزار روپیہ کا نقصان پہنچایا۔
‏tav.14.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
پنجاب موٹر سٹور
راولپنڈی کا >پنجاب موٹر سٹور< بھی چونکہ ایک احمدی بشیر احمد صاحب کا ابن خواجہ غلام نبی صاحب آف ڈیرہ دون کی ملکیت تھا اس لئے یہ بھی شورش پسندوں کی چیرہ دستی و سفا کی نذر ہوگیا۔
صرافہ شاپ
‏]txte [tagشیخ حبیب اللہ صاحب کی دکان صرافہ بھی بلوائیوں کے ہتھے چڑھنے سے نہ رہ سکی۔ چنانچہ شیخ صاحب کے والد شیخ محمد عبد اللہ صاحب اورسیر نے لکھا:۔
>راولپنڈی میں میرے لڑکے حبیب اللہ کے پاس ایک دکان صرافہ بازار میں تھی جس میں میرا لڑکا صرافی کا کام کیا کرتا تھا۔ بھرے بازار میں صرف ایک مختصر سی دکان تو مخالفین کو پہلے ہی کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی مگر تحریک کے ایام میں ان کی مرادیں برآئیں۔ ۵ تاریخ کی رات تھی اور گیارہ بجے کا وقت )جیسا کہ مجھے میرے ایک غیر احمدی عزیز نے بتلایا ہے جو کہ ہماری دکان کے بالکل قریب رہائش رکھتا ہے( کہ مشتعل ہجوم چوک کی طرف سے اشتعال انگیز نعروں کے ساتھ آیا۔ آناً فاناً ایک دو تین۔ زبردست ہتھوڑوں کی چوٹوں کی آواز سنائی دی۔ میرے عزیز کو یقین ہوگیا کہ اب حبیب کی دکان گئی۔ دکان کا دروازہ۔۔۔۔۔ ہتھوڑے کی چوٹوں سے جلد ہی ٹوٹ گیا۔ اندر جاکر ہجوم نے شوکیس اور تصاویر کو تو بری طرح تباہ کیا` اور چاندی کا کچھ زیور جو شوکیس میں تھا اور دکان کی کچھ اشیاء جو کسی کے ہاتھ لگیں اٹھا کر لے گیا۔ چند منچلے آدمی سیف کو توڑنے میں لگ گئے۔ تو بعض کا خیال بغیر وقت ضائع کئے دکان کو نذر آتش کرنے کا ہوگیا۔ بازار کے چوکیدار نے اپنی بساط کے مطابق ان کو منع کرنے کی سعی کی مگر جب دیکھا کہ سیف کو توڑنے کے بعد یہ اپنے ارادہ سے باز کم ہی آئیں گے تو فوراً ایک پڑوسی دکاندار کو اس کے گھر پر اطلاع دی۔ وہ بھاگا بھاگا آیا اور ان لوگوں کو سمجھایا کہ >مرزائی< کو جلاتے جلاتے تم لوگ کئی مسلمانوں کو بھی جلائو گے۔ یہ آگ سارے بازار کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اسی اثناء میں بارڈر پولیس پہنچ گئی۔ پھر کیا تھا مذہبی دیوانے جدھر کسی کا سینگ سمایا بھاگ دوڑے۔
احمدیہ کمرشل کالج
احمدیہ کمرشل کالج کشمیری بازار راولپنڈی کے پروپرائٹر قاضی بشیر احمد~ف۲۵~ صاحب بھٹی تحریر فرماتے ہیں۔
>ہمارے مکان احمدیہ کمرشل کالج کی طرف وہ جلوس شام کے بعد پہنچ گیا )جو کشمیری بازار رتہ روڈ پر واقع ہے اور کوتوالی کے متصل اور جس کے ساتھ ہی احاطہ تحصیل میں اے۔ آر۔ پی کا ہیڈ آفس بھی تھا( ہم گھر کے سب افراد عورتیں بچے ابھی مغرب کی نماز سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ وہ جلوس آپہنچا اور آتے ہی کالج کے دروازے اینٹ پتھر سے توڑنے شروع کردیئے جلوس آنے سے تھوڑا وقت پہلے ہی میں نے اپنے لڑکے حمید احمد کوتوالی بھیجا کہ جلدی سے چوہدری کرم داد صاحب سٹی انسپکٹر کو اطلاع کر دو کہ جلوس اس طرف آرہا ہے۔ وہ گیا لیکن باوجود اس کے تین چار بار بڑے اصرار اور تاکید سے غرض کرنے کے انہوں نے ایک سب انسپکٹر اور دو پولیس مین اس وقت بھیجے جب جلوس دروازے وغیرہ توڑ پھوڑ کر اندر داخل ہوچکا تھا اور )ٹائپ( مشینوں` بنچ کرسیوں اور میز وغیرہ کو توڑ کر مع ضروری ریکارڈ اور ٹائپ مشینوں کے پرزہ جات کے` قران مجید مترجم )مولانا( احمد رضا خان صاحب )بریلوی( مع تفسیر حاشیہ کی وہ کاپیاں سڑک پر نالی کے پاس رکھ کر آگ لگا دی تھی` جو ایک غیر احمدی عالم جناب اعجاز ولی صاحب نے برائے درستی کاپیاں مجھے دی تھیں جن میں سے کچھ کی تصحیح باقی تھی باقی مکمل ہوچکی تھیں۔
خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی کا نشان اس وقت یہ ظاہر ہوا کہ جس کمرے کے تینوں دروازے توڑ کر جلوس والے اندر داخل ہوگئے تھے اس کے ساتھ والے کمرہ ہی میں ہم سب اپنے بال بچوں سمیت اکٹھے کھرے سب کچھ توڑ پھوڑ کی آوازیں سن رہے تھے اور درمیان میں صرف ایک دروازہ کو ایک ٹھوکر ہی مار دیتا تو دروازہ کھٹ سے کھل جاتا اور وہ اندر داخل ہو جاتے لیکن اس خدائے ذوالجلال والاکرام نے جو اپنے عاجز بندوں کی عاجزانہ پکار کو سننے اور قبول فرمانے والا ہے عین وقت پر گویا دوڑ کر ہماری مدد فرمائی اور ان بلوائیوں پر ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ کالج کے کمرے کے اندر دس منٹ سے زیادہ نہ ٹھہر سکے اور جلدی نکلنے کی کوشش کی کہ اتنے میں مسلح پولیس بھی آگئی جس کا ذکر اوپر کرچکا ہوں اور انہوں نے ان کو اشارہ کرکے بٹھا دیا۔ جب ہمیں شام کے قریب پتہ لگا کہ بیت احمدیہ کو آگ لگا دی گئی ہے اور جلوس اب اس طرف آنے والا ہے تو میں نے اپنے بچوں )قاضی کبیر احمد۔ قاضی حمید احمدیہ سے کہا کہ ٹائپ مشینین کالج سے نکال کر اندر رکھ لیں۔ کیا پتہ وہ سچ مچ ہی نقصان کر دیں مگر دل میں ایک قسم کا اطمینان بھی تھا گو سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہم دیکھ رہے تھے۔ نیر احمد بوجہ سخت بیمار ہونے کے چلنے پھرنے یے بھی ان دنوں معذور تھا۔ پہلے ہم نے ضروری سامان اور ٹرنک وغیرہ اوپر کی منزل میں رکھ لئے مگر پھر خیال آیا کہ ساتھ ہی اور پیچھے بھی مخالفین کے مکانات ہیں۔ کہیں اوپر سے دشمن کو راستہ نہ دے دیں۔ پھر سارا سامان وغیرہ نیچے کمرے ہی میں کئے گئے اور قاضی نصیر احمد صاحب کو بڑی مشکل سے نیچے لے آئے لیکن جب جلوس آ ہی پہنچا تو پھر جلدی سے قاضی نصیر احمد کو اوپر بڑی مشخل سے پہنچایا اور سب عورتوں اور بچوں کو بھی >اس ہنگامہ میں بلوائیوں نے راولپنڈی کی بعض اور بھی احمدی دکانوں کو لوٹا مثلاً دہلی کریانہ ہائوس` احمدیہ کریانہ سٹور` کشمیر ہوٹل گنج مندی وغیرہ۔
ایک معزز غیر احمدی نوجوان کا درد ناک قتل
خواجہ غلام نبی صاحب~ف۲۶~ گلکار انور )آزاد کشمیر حکومت کے پہلے صدر( کا تحریری بیان ہے کہ:۔
>یوں تو کئی مہینوں سے روزانہ احرار کی طرف سے ہمارے محلہ میں احمدیوں کے خلاف جلسے ہوتے رہے اور جلوس ہمارے مکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہمارے خلاف >مرزائی مردہ باد< کے نعرے لگاتے تھے۔
۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو راولپنڈی میں مجلس احرار کے پروگرام کے ماتحت تمام شہر میں احمدیوں کے خلاف جلوس نکالے گئے۔ بیت احمدیہ راولپنڈی کو آگ لگا دی گئی۔ اور اسی روز ہمارے مکان واقعہ موہن پورہ راولپنڈی پر دوبارہ حملہ کیا گیا۔ پہلی بار مکان کے دروازوں اور کھڑکیوں کو آگل لگانے کی کوشش کی گئی جس پر محلہ میں ہمارے قریبی ہمسایوں نے یہ کہہ کر انہیں باز رھا کہ ان کا مکان جلنے کے ساتھ سارا محلہ جل جائے گا جس پر وہ چلے گئے۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد پھر ہجوم آیا اور دروازے توڑنے لگا۔ اس کا ایک حصہ چھت کے راستہ اندر گھس کر لوٹنا اور مارنا چاہتا تھا جیسا کہ ہمیں معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ ہمارے متعلق یہ سکیم طے پاگئی تھی کہ کچھ چھت پر سے آئیں گے اور کچھ دروازے توڑ کر اندر گھس آئیں گے اور نعوذ باللہ ہماری مستورات کو جبراً لے جائیں گے اور مجھے اور میرے بھیتجے ارشاد محمد اور بھائی غلام احمد کو قتل کرکے سامان کو لوٹیں گے اور بعد میں مکان کو آگ لگا دیں گے مگر خداوند کریم نے ہم پر اپنا فضل و کرم کیا کہ وہ اپنی سکیم میں کامیاب نہ ہوسکے۔ جس وقت ہجوم پر بورش کررہا تھا تو میری بیوی زیب النساء بیگم نے کمال جر¶ات اور بہادری اور بلند حوصلگی سے ان کو للکارا اور کہا کیا یہی اسلام ہے کہ تم لوگوں کو لوٹتے اور مارتے پھرتے ہو< انہوں نے پتھر پھینکنے شروع کئے۔ اس پر میری بیوی اور بھانجی مریم سلمہا نے ان پر پتھر اوپر سے پھینکے تاکہ وہ پسپا ہوجائیں۔ چنانچہ جب ہمارے چھت پر سے اینٹوں کی جوابی بوچھاڑ ہوئی وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔
اسی رات جبکہ ہم پر دوبار حملہ ہوچکا تھا میرے ایک غیر احمدی عزیز محمد مقبول صاحب جو نور آرٹ پریس کے مینجر تھے ہمارے متعلق اطلاع پاکر دریافت حال کے لئے آئے اور صرف دس بارہ منٹ ہمارے ہاں بیٹھے رہے اور پانی کا ایک گلاس بھی پیا اور جب باہر گئے تو ابھی تین چار فرلانگ بھی نہ گزرے تھے کہ ایک ٹولی نے انہیں مجھے سمجھ کر )کہ یہی گلکار ہے( چھرے مار مار کر شدید زخمی کردیا اور کپڑے بھی اتار لیے اور نقدی بھی ہتھیا لی۔ اس کے ایک روز بعد وہ میونسپل ہسپتال میں فوت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ رجعون۔ حالانکہ مرحوم نے ان کو بار بار کہا کہ وہ >مرزائی< نہیں ہیں مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔
افسوس کہ ہم میں سے کوئی بھی ان کو نہ دیکھ سکا۔ یہ بھی فیصلہ ہوچکا تھا کہ جمعہ کے روز وہ ہمارے معاملہ میں کامیاب نہ ہوسکے تو سینچر )ہفتہ( کو تیسری بار حملہ کرکے وہ ہمیں ختم کردیں گے لیکن ہم ساری رات عجز و انکسار کے ساتھ دعائوں میں لگے رہے۔ اللہ تعایٰ نے ایسا سامان کردیا کہ ہم وہاں سے بچ نکلے اور کرنل عطاء اللہ کے ہاں ملری کے ذریعہ پہنچائے گئے جس کا ہمیں وہم و گمان بھی نہ تھا۔ کرنل صاحب کے ہاں سوا مہینہ مقیم رہے۔<
فصل دوم
ضلع گوجرانوالہ
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے:۔
>۲ مارچ کو دس بجے ڈپٹی کمشنر~ف۲۷~ کے کمرہ عدالت میں سرکاری اور غیرسرکاری آدمیوں کا ایک اجلاس ہوا۔ سٹی مسلم لیگ کا عہدیداروں نے اس اجلاس میں موقع پا کر لیگ کے اندر اپنے مخالفین کی مذمت کی۔ اور حکام ضلع کے ساتھ سرگرم تعاون کرنے سے انکار کردیا۔ اس مرحلے پر لاہور جانے والی ٹرینوں کو ان ہجوموں نے روکنا شروع کیا جو لاہور جانے والے رضا کاروں کی مشایعت کے لئے ریلوے اسٹیشن پر جمع ہوجاتے تھے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پولیس کا ایک دستہ ساتھ لے کر ریلوے اسٹیشن پر گئے۔ اور انہوں نے پچاس رضا کاروں کے ایک دستے کو ٹرین سے اتار کر گرفتار کرلیا۔ اس پر ہجوم میں جوش پھیل گیا اور اس نے دو دفعہ ٹرین کو روکا۔ جب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ٹرین کو روانہ کردینے کی دوسری کوشش کی تو ان پر حملہ کیا گیا جس سے وہ اور چار پولیس مین زخمی ہوگئے۔ جن میں ایک سب انسپکٹر بھی تھا۔ اسی دن شام کو پانچ ہزار کے ایک جوش میں بھرے ہوئے ہجوم نے ریلوے اسٹیشن سے کچھ فاصلے پر سندھ ایکسپریس کو روک لیا۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس چھ پیادہ کانسٹیبلوں کو ساتھ لے کر اس مقام پر پہنچے لیکن ان اینٹوں اور پتھروں کی بوچھاڑ کی گئی چونکہ اس وقت اندھرا ہوچکا تھا اور اگر ہجوم منتشر نہ ہوتا تو تشدد پر اتر آیا۔ اور ٹرین کے مسافروں کی پریشانی کا باعث ہوتا۔ اس لئے سپرنٹنڈنٹ پولیس نے تین پیادہ کانسٹیبلوں کو حکم دیا کہ بارہ رائونڈ ہوا میں چلائیں۔ اس سے ہجوم منتشر ہوگیا اور کسی قسم کا جانی نقصان نہ ہوا۔ اس کے بعد معززین شہر کا ایک اجلاس ریلوے اسٹیشن پر طلب کیا گیا۔ اگرچہ ان میں سے ہر ایک اس غنڈے پن کی مذمت کر رہا تھا لیکن کسی قسم کی عملی امداد کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ کہ مبادا وہ کافر یا مرزائی قرار دیا جائے۔
چونکہ مجلس عمل کے عہدیداروں نے مجلس عمل کی حمایت کا عہد کر رکھا تھا اس لئے مجلس عمل کے ڈکٹیٹر نے مسٹر منظور حسن ایم ایل اے سیکرٹری سٹی مسلم لیگ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک دتے کی قیادت کرکے اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کریں۔ لیگ کے صدر شیخ آفتاب احمد نے تجویز کی کہ شیخ منظور حسن کی قرضی اور بناوٹی گرفتاری کا انتظام کیا جائے تاکہ یہ نہ سمجھا جائے کہ تحریک کو لیگ کی حمایت حاصل ہے۔ اس پر اتفاق ہوگیا۔ شیخ منظور حسن گرفتار کئے گئے۔ اور انہیں پولیس کی ایک جیپ میں بٹھا کر ضلع کے ایک دور دست گوشے میں اتار دیا گیا۔ اور کہا گیا کہ وہ چند روز تک گوجرانوالہ واپس نہ آئیں لیکن لوگ اس چال کو سمجھ گئے۔ اور دوسرے دن کوئی دو سو آدمی شیخ آفتاب احمد کے مکان پر پہنچے اور ان سے کہنا لگے کہ ایک جلوس میں شامل ہوں۔ وہ زبردستی ایک مکان سے باہر نکالے گئے اور ان کو ایک جلوس کے ساتھ چلنے پر مجبور کیا گیا۔ جو مسجد شیرانوالہ باغ کو جارہا تھا۔ اس وقت تک مسٹر منظور حسن گوجرانوالہ واپس آچکے تھے اور حکومت کے خلاف کئی تقریریں کیں۔ اور سات مسلم لیگ کونسلروں کو ساتھ لے کر ایک جلوس کی قیادت کی۔ یہ سب لوگ گرفتار کر لئے گئے۔
چیف منسٹر کا بیان مئورخہ ۶ مارچ لاہور کی ہدایات کے مطابق شہر بھر میں نشر کردیا گیا۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس کو اطلاع ملی کہ ۷ مارچ کو احمدیوں کے جال و مال پر حملوں کا خطرہ ہے۔ اس صورت حالات پر فوج سے گفتگو کی گئی۔ فوج نے تجویز کی کہ دفعہ ۱۴۴ کے ماتحت عام جلسے اور جلوس ممنوع قرار دیئے جائیں۔ لیکن سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ڈپٹی کمشنر نے اس تجویز کو قبول نہ کیا اور اس کی بجائے فیصلہ کیا کہ فوج اور پولیس کر شہر میں گشت کریں۔ اس کے بعد شہر میں لاقانونی کے کسی واقعہ کی اطلاع نہیں آئی۔ سوائے اس کے کہ ایک احمدی کی دکان لوٹنے کی کوشش کی گئی۔
۷ مارچ کو موضع نندپور میں شورش پسندوں کے ایک پرغیظ ہجوم نے ایک شخص محمد حسین کو یہ سمجھ کر قتل کر دیا کہ وہ احمدی ہے۔ تفتیش سے معلوم ہوا کہ متوفی کے ایک دشمن نے اس کو قتل کرانے کے لئے چال چلی تھی۔
۸ مارچ کو مقامی ایم ایل اے مسجد شیرانوالہ باغ میں طلب کئے گئے اور ان سے درخواست کی گئی کہ لاہور جاکر ہدایات لائیں۔ یہ ایم ایل اے چیف منسٹر صاحب سے ملے لیکن کوئی قطعی ہدایات نہ لائے۔
گوجرانوالہ میں فوج کی ایک کمپنی ۵ مارچ کو۔ دو بٹالین ۶ مارچ کو اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کنٹسیبلری کے دو ریز رد دستوں کو لے کر ۸ مارچ کو پہنچ گئے۔
جب فوج آئی تو ان نعروں سے ان کا خیر مقدم کیا گیا >پاکستان فوج نے سیالکوٹ میں گولی چلانے سے انکار کردیا۔ زندہ باد پاکستانی فوج زندہ باد< شورش پسند ہر جگہ یہ اعلان کررہے تھے کہ وہ کفر کے خلاف جہاد میں مصروف ہیں۔ اور کئی مقامت پر ایسے پوسٹر لگائے گئے جن میں پولیس اور فوج سے اپیل کی گئی تھی کہ گولی نہ چلائیں۔ بلکہ جہاد میں شامل ہوجائیں۔
ضلع میں کوئی ایک درجن احمدیوں کو مجبور کردیا گیا کہ اپنے عقیدے سے توبہ کرلیں۔~<ف۲۸~
احمدیوں کے بیانات
۱۔ جناب میر محمد بخش صاحب~ف۲۹~ ایڈووکیٹ )امیر جماعت احمدیہ گوجرانوالہ( تحریر فرماتے ہیں:۔
شہر گوجرانوالہ میں بھی ایسی کانفرنسیں جن کے نتیجہ میں محلہ وار اجلاس کئے گئے۔ جن میں پاس کیا گیا کہ احمدیوں کا اقتصادی بائیکاٹ کیا جاوے اور ان کو اپنے مردے عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کرنے دیئے جائیں۔۔۔۔۔ جس کے نتیجہ میں بازار میں دوکانوں پر دو قسم کے بورڈ احرار نہ لگوائے جن میں یہ تحریر ہوتا تھا کہ:۔
>مرزائیوں کا مکمل بائیکاٹ کرو۔ مرزائیوں کے برتن علیحدہ ہیں< علاوہ اس کے بعض بعض احمدیوں کی دکانات کے بورڈ پر بھی احرار نے لکھوا دیا کہ یہ دکان مرزائی کی ہے اور ان کے سامنے پکٹنگ لگوائی گئی کہ کوئی غیر احمدی ان سے سودا نہ خریدے اور اگر کوئی خریدتا تو اسے واپس کردیا جاتا تھا۔
۲۲ فروری ۱۹۵۳ء کو مطالبات نہ مانے جانے کے بعد مجلس عمل کے راست اقدام شروع کرنے کے بعد >مجاہدین< جلوس بنا کر کچہری میں آتے اور تمام کچہریوں کے گرد چکر لگاتے۔ ختم نبوت زندہ باد۔ مرزائیت مردہ باد۔ حکومت مردہ باد کے نرے لگاتے اور جو گرفتار ہونے کے لئے آتے وہ اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کردیتے۔ ایسے جلوس ۴ مارچ سے ۱۵ مارچ تک جاری رہے۔ جلوس میں باوجود باغیانہ اور اشتعال انگیز نعرے لگائے جانے کے مقامی حکام ایسے جلوسوں کو روکنے کی کوشش نہ کرتے۔ بال¶اخر ملٹری حکام نے آکر سول حکام کو ۱۵ مارچ کو توجہ دلائی کہ ایسے جلوس بن ہونے چاہئیں۔ تب جاکر مقامی حکام نے سختی سے ایسے جلوسوں کو بند کردیا۔
پہلے چند بچے کسی احمدی کے مکان کے سامنے آکر احمدیوں کو گندی گالیاں دیتے اور اشتعال انگیز نعرے لگاتے۔ پھر ان سے بڑی عمر کے لڑکے آجاتے اور دروازوں پر پتھرائوں شروع کردیتے اور بال¶اخر معمر لوگ آتے اور مکانات کے دروازے وغیرہ توڑ کر مکینوں کو ڈانگوں اور چھروں وغیرہ سے ڈراتے ور کہتے کہ احمدیت سے تائب ہو جائو ورنہ قتل کردیئے جائو گے اور تمہاری مستورات اٹھالی جائیں گی۔ اگر کوئی ایسا کرنے سے انکار کرتا تو اس کے مکان کا سامان توڑ پھوڑ دیا جاتا اور لوٹ لیا جاتا اور بعض اوقات آگ لگا دی جاتی۔ عام طور پر حملہ آور ایک محلہ کے دوسرے محلہ میں جاکر حملہ کرتے۔ تاکہ پہچانے نہ جائیں اور محلہ والے پاس کھڑے ہوکر تماشا دیکھتے ماسوائے چند شرفاء کے جو حملہ آوروں کو منع کرتے لیکن حملہ آور ان کو بھی مار ڈالنے کی دھمکی دیتے جس کی وجہ سے وہ بھی خاموش ہوجاتے۔ حملہ کرنے سے پہلے افواہیں پھیلائی جاتیں کہ فلاں احمدی کے مکان پر فلاں وقت حملہ کیا جائے گا تاکہ خوف و ڈر کی وجہ سے وہ مکان چھوڑ جائے۔
پولیس چوکیوں پر اطلاع دینے پر پولیس والے جان بوجھ کر جائے واردات کی بجائے دوسرے محلہ میں چلے جاتے اور رپورٹ کردیتے کہ کوئی خطرہ نہیں ہے جس کی وجہ سے مقامی حکام بالا سمجھتے کہ احمدیوں کو شہر میں کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔ پولیس کا چھوٹا عملہ حملہ آوروں کی پیٹھ ٹھونکتا۔ اور ان کو حملہ کے لئے اکساتا تھا۔<
۲۔ جناب شیخ نیاز احمد صاحب ریٹارڈ انسپکٹر پولیس شورش کے دنوں میں گوجرناوالہ میں اپنے آبائی مکان میں فروکش تھے اور فالج اور دیگر عوارض میں مبتلا ہونے کے باعث صاحب فراش تھے اور چلنے پھرنے سے معذور۔ انہی ایام میں آپ نے اپنے خط میں لکھا تھا:۔
>یہاں گوجرانوالہ میں لاقانونیت انتہائی صورت اختیار کرچی ہے۔ علی الاعلان غنڈے بلا روک ٹوک لوٹ مار کررہے ہیں اور ملا نے کوچہ بہ کوچہ کھلم کھلا تقریریں اشتعال انگیز کرتے ہیں جس میں وہ لوٹ اور ہر قسم کی سختی احمدیوں سے کرنے کی پر زور الفاظ میں تحریک کرتے ہیں۔ مقامی افسران بھی ان سے ملے ہوئے ہیں۔ سارے شہر میں کہیں بھی پولیس کا آدمی نظر نہ آئے گا۔ اور غنڈے بغیر کسی رکاوٹ کے من مانی سختیاں احمدیوںا پر کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ ہمارے مکان پر نہایت شدت سے حملے کئے گئے ہیں۔ غنڈے سینکڑوں کی تعداد میں ڈھول بجاتے ہوئے لاٹھیوں اور پتھروں سے مسلح۔ گندی گالیاں دیتے آتے ہیں اور آتے ہی دھاوا کرتے ہیں۔ دروازوں کو زور زور سے توڑتے ہیں۔ اینٹیں اور پتھر مار کر سخت تشویشناک حالت برپا ہوجاتی ہے میرے مکان کے روشندان۔ شیشے وغیرہ ٹوٹ گئے ہیں۔ مکان اینٹوں سے بھرا ہوا ہے۔<
۳۔ عبد الحمید صاحب تیلر ماسٹر کا تحریری بیان ہے:۔
>مورخہ ۶ مارچ بروز جمعہ صبح سے ہمارے گھر ٹولیاں آنی شروع ہوگئیں۔ ہم نے دروازہ بند کر لیا تھا۔ وہ بار آکر بدزبانی کرتے اور دروازہ کو اینٹیں اور لاٹھیاں مارتے تھے اور ساتھ ہی کہتے تھے۔ آج رات کو ان کا مکان بھی جلا دیں گے اور ان کی بے عزتی کریں گے اور یہ ٹولیاں ہر دس منٹ کے بعد چکر لگاتی تھیں اور دروازے پر آکر بدزبانی کرتے تھے ہمارا ایک غیر احمدی رشتہ دار ہمارے گھر آیا تو مجمع نے اس کو ہمارے گھر میں نہ آنے دیا اور وہ بیچارہ واپس چلا گیا۔ اس مجمع یا ٹولیوں میں ہمارے محلہ کا کوئی آدمی شامل نہ تھا۔ سب دوسرے محلوں سے آئے ہوئے تھے۔ محلہ والے گھروں سے باہر نکل کر تماشا ضرور دیکھ رہے تھے۔<
‏]body [tag۴۔ عبد اللطیف صاحب آف گوجرانوالہ نے بیان دیا کہ:۔
>کمترین کے مکان پر جب جلوس آیا تو ہم گھر پر مجوود تھے۔ اہل جلوس خشت باری کرکے چلے گئے۔ دوسرے روز جلوس پھر آیا مگر اس وقت ہم گھر میں موجود نہ تھے۔ صرف عوریں تھیں اور اندر سے تلا الگا ہوا تھا۔ جس وقت جلوس ہمارے گھر کے نزدیک آیا ان کے ہاتھوں میں لوہے کے سریا تھے۔ انہوں نے ہمارے گھر کا دروازہ توڑا۔ پھر بیٹھک کا توڑا۔ اس کے بعد میٹر توڑا۔ پھر بجلی کی تاریں کاٹ ڈالیں اور لوٹ مار شروع کردی۔ اس وقت جو حالت عورتوں کی تھی وہ خدا ہی جانتا ہے۔ میرے پاس کارخانہ میں ایک لڑکے نے آکر اطلاع دی کہ تمہارے گھر کا دروازہ توڑ دیا گیا ہے۔ میں وہیں سے سدیھا پولیس چوکی گھنٹہ گھر گیا اور وہاں اطلاع دی۔ چوہدری اسمٰعیل تھانیدار ملک صاحب سے ٹیلیفون کررہے تھے کہ اسلام آباد میں جو مرزائی تھے وہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ باقی تھوڑی سے کسر ہے۔ جب ٹیلیفون کرچکے تو میں نے دروازہ کھولا اور ان سے عرض کیا کہ میرا دروازہ توڑ دیا گیا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ شائد میرے بال بچہ کو مار نہ دیں۔ چلئے کچھ انتظار کریں۔ انہوں نے کہا میں کیا کرسکتا ہوں۔اتنے جلوس کے آگے میری کیا پیش جاتی ہے۔ تب میں نے کہا اگر کوئی قتل ہوگیا یا مارا گیا تو اس کے آپ ذمہ دار ہوں گے۔ پھر سائیکل پر اپنے گھر آگیا۔ اس وقت جلوس والے دروازے وغیرہ توڑ پھوڑ کرکے جاچکے تھے۔<
۵۔ جناب مولیٰ بخش صاحب` محمد لطیف اور محمد حسین صاحب کا مشترکہ بیان:۔
>ہمارے مکانات واقع گلی مولوی سراج الدین ایک دوسرے سے ملحق ہیں۔ فروری کے اوائل میں ہمارے کانوں میں یہ آوازیں پڑتی تھیں کہ ۲۶ فروری آرہی ہے جو کہ آپ کے لئے شدید اور سخت ہے۔ چنانچہ ۲۵ فروری کی رات کو قریباً ساڑھے نو بجے ایک سو سے زائد افراد پر مشتمل ایک ہجوم ہمارے مکانوں کے سامنے آکر بے پناہ شور کرنے لگ گیا اور ہمارے دروازوں اور کھڑکیوں پر اینٹیں اور پتھر برسانے لگا۔ ہم نے انہیں بہتیرا سمجھایا کہ ان حرکتوں سے باز آجائو آخر ہم نے آپ کا کیا بگاڑا ہے لیکن انہوں نے ہماری ایک نہ سنی بلکہ شرارت میں بڑھتے ہی گئے۔ کبھی جلوس کی شکل میں سامنے بازار چلے جاتے اور کبھی شور مچاتے مکانوں کے سامنے آجاتے اور دروازے اور کھڑکیاں بڑے زور سے کھٹکھٹانے لگتے۔ گندی اور فحش گالیاں دیتے۔ یہ حالت تقریباً پون گھنٹہ رہی۔ بعد میں محلہ میں بسنے والے شریف لوگوں نے بیچ میں پڑ کر ان کو ہم سے دور کیا اور کہا یہ طریق کار شریفانہ نہیں۔ ان کے مجبور کرنے پر ہجوم چلا گیا۔ متذکرہ بالا وقوعہ کے بعد بھی وقتاً فوقتاً ہمارے دروازوں کو پیٹا جاتا رہا اور گندی اور فحش گالیاں دی جاتی رہیں۔ چنانچہ ایک رات ہمارے صدر دروازے پر آویزاں لیٹر بکس بالکل توڑ پھوڑ دیا اور ایڈریس کے بورڈ کو اتار لیا گیا سب سے آخر میں مارچ کی ۷ تاریخ کو رات کے قریباً پونے دس بجے ہمارے )مولیٰ بخش( مکان پر پٹرول چھڑک کر باہر سے آگ لگا دی گئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مہربای سے ہمیں )محمد حسین( فوراً پتہ چل گیا اور آگ پر قابو پا لیا گیا۔ چونکہ یہ کام نہایت سرعت سے اور ہم سب نے مل کر کیا اس لئے کسی قسم کا جانی اور مالی نقصان نہیں ہونے پایا۔ ثم الحمد اللہ۔ آگ کی خبر سامنے ایک ہمسایہ کے ذریعہ سارے محلہ میں پہنچ گئی اور محلہ کے سرکردہ اشخاص شیخ برکت علی۔ شیخ عاشق حسین اور میاں عبد الحمید صاحب نے تھانہ میں رپورٹ کردی۔ تھانہ سے بروقت ذمہ دار حکام تشریف لائے اور انہوں نے موقع پر آگ لگنے کی جگہ کو دیکھا۔ اور جائزہ لیا اور تسلیم کیا کہ آگ پٹرول سے لگائی گئی ہے۔ آگ لگانے والوں نے ہمارے مکانوں کے دروازوں کو باہر سے کنڈیاں لگا کر بند کردیا۔ تاہم جلد باہر نہ نکل سکیں۔ لیکن خوش قسمتی سے ایک دروازہ کی کنڈی کھلی رہ گئی۔ اس کے ذریعہ ہم جلد مکان سے نکل آئے۔ الخ۔<
۶۔ مکرم معراج دین صاحب پنساری کا بیان ہے:۔
>میری دکان پر آکر لوگ گالیاں دیتے۔ آس پاس کی دکانوں پر آدمی بٹھا کر ہماری دکان سے سودا نہ لینے کی تلقین کی جاتی۔ بکے ہوئے سودے واپس کرائے جاتے۔ باقاعدہ پکٹنگ کی جاتی۔ احمدیت سے تائب ہونے کی دھمکیاں دی گئیں۔ بصورت دیگر قتل کرنے` دکان لوٹنے اور آگ لگانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ بلکہ بعض دفعہ چھرے بھی دکھائے جاتے۔ میرا والد میرا سخت تھا۔ اور مجھے تکالیف پہنچانے میں اس نے بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی حتیٰ کہ میرے قتل کی بھی کوشش کی لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیں ان تمام مصائب برداشت کرنے کی توفیق بخشی۔ اور ہم بفضل خدا احمدیت پر قائم رہے۔ الحمدلل¶ہ۔ مکان اور دکان پر خشت باری کی جاتی رہی۔ میری دکان کی کئی دن تک بند رہی اور ہم اپنے مکان میں محبوس رہے۔ بعض عورتوں نے ہمارے مکان پر آکر ہماری عورتوں کو احمدیت سے تائب ہونے کی تلقین کی مگر انہوں نے کہا کہ ہم ایسا کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ مرنا تو ایک ہی دفعہ ہے۔<
۷۔ مکرم میاں محمد الدین صاحب بوٹ میکر کا بیان ہے کہ:۔
>میری دکان دروازہ اٹھا کر سنگھ کے اندر احرایوں کے گڑھ میں واقع ہے۔ میری دکان پر اکثر احراری آتے رہتے۔ مجھے تبلیغ کرتے۔ میرے جوابات کا جواب نہ پاکر مجھے احمدیت سے تائب ہونے کو کہتے اور بس نہ چلتا تو میرا سودا خراب کرتے۔ دوسروں کو مجھ سے سودا خریدنے سے منع کرتے۔ جب پھر بھی میں ان کا کہنا نہ مانتا تب مارنے کی دھمکیاں دیتے۔ بعض اوقات چھرے دکھاتے اور کہتے یہ تیرے لئے ہی بنوا رکھے ہیں۔ جب میں نے اس کی بھی پرواہ نہ کی تب میری دکان کے تالوں پر پاخانہ لگا جاتے )اور کافی عرصہ تک روزانہ لگاتے رہے( جو بازر کا بھنگی بھی صاف نہ کرتا اور آخر کار میں خود ہی صاف کیا کرتا۔ پھر مجھے سخت مارتے بھی رہے حتیٰ کہ میرا منہ اور چھاتی کئی دن تک سوجی رہی اور بعض چوٹوں کا مجھ پر ابھی تک اثر ہے۔ میری بیوی ہر روز سہمی رہتی کہ نہ جانے آج میرے خودن کا کیا بنتا ہے۔ ایک دن میرے بچے مبشر احمد )جس کی عمر ۷`۸ سال کی تھی( کو اٹھا کر لے گئے اور کہنے لگے کہ احمدیت سے تائب ہوجائو ورنہ ہم اس کو مار ڈالیں گے۔ میرا بچہ میرے سامنے روتا رہا۔ لیکن میں نے صبر کیا اور احمدیت کو نہ چھوڑا۔ ان تمام واقعات کی حکومت کے ذمہ وار افسران کو اطلاع دی جاتی رہی لیکن افسران نے کچھ بھی نہ کیا۔ سوائے اس مشورہ کے کہ میں دکان چھوڑ جائوں لیکن میں نے دکان نہ چھوڑی۔ دوران تحریک میں ایک دن وہ میرے گھر گئے اور بتایا کہ تمہاری جماعت کے تمام بڑے بڑے افراد احمدیت کو چھوڑ چکے ہیں۔ تم بھی چوڑ دو لیکن میں نے ایسا نہ کیا بلکہ احرار کے دفتر میں چلا گیا اور ان سے بعض مسائل پر گفتگو کی لیکن ان پر کسی بات کا اثر نہ ہوا۔ میرے بچہ کو سکول میں مارا بھی گیا لیکن اس نے صبر کیا۔ غرضیکہ کوئی ایسی تکلیف نہ تھی جو مجھے نہ دی گئی ہو۔ ایک دن میں ایک شدید دشمن سے ڈر گیا اور نماز ظہر میں سخت رویا کہ مولیٰ کریم اب میں کیا کروں۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہی شخص اس دن سے میرا دوست بلکہ میرا محافظ بن گیا۔ الحمدلل¶ہ کہ میں احمدیت پر قائم ہوں۔<
۸۔ مکریم شیخ صاحب دین کا بیان ہے کہ:۔
>سات اور آٹھ مارچ کی درمیانی رات کو قریباً دس بجے شب کے ۱۶` ۱۷ شریروں کا ایک ٹولہ جو کہ چھروں سے مسلح تھا نعرے لگاتے ہوئے ہمارے کارخانہ اور رہائشی مکان کی طرف سوچی سمجچی ہوئی کے ماتحت حملہ کرنے کی غرض سے آیا۔ ہمارے مکان سے تیس چالیس گز کے فاصلہ پر بعض شریف اہل محلہ جو بیدار تھے اور ایک طرح سے پہرہ دے رہے تھے انہیں روک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر رعب ڈالا اور وہ واپس چلے گئے۔ لیکن صبح ہونے پر اہل محلہ نے غالباً شریر لوگوں کے کہنے پر ہمیں یہ کہا کہ فضا بہت خراب ہے اور ہماری طاقت سے باہر ہوچکا ہے۔ اب آپ خود اپنی حفاظت کا انتظام کرلیں۔ یا شہر چھوڑ دیں۔ ہم نے کہا ہم جگہ نہیں چھوڑ سکتے۔ اللہ ہی ہماری حفاظت کرے گا۔ وہی ہافظ و ناصر ہے۔ چنانچہ اسی مولیٰ نے ہماری ہماری حفاظت فرمائی اور ہم جانی نقصان سے محفوظ رہے۔ البتہ مالی نقصان ضرور ہوا ہے۔ وہ اس طرح کہ اس تمام دوران شورش میں ہمارے پاس بیرون جات یا شہر سے کوئی بیوپاری ہمارے کارخانہ میں نہیں آیا کیونکہ خفیہ بھی اور ظاہراً بھی ہم پر پکٹنگ لگی رہی ہے۔ الخ<
۹۔ مکرم محمود احمد جان صاحب کا بیان ہے کہ:۔
>۵ مارچ ۱۹۵۳ء کی رات کو ہمارے کارخانہ ایم اے رشید اینڈ سنز کرشن نگر گوجرانوالہ میں لوگوں نے دو دفعہ آگ لگائی لیکن دونوں دفعہ ہی جلدی قابو پا لیا گیا۔ اندازاً نقصان تین چار سو روپیہ کا ہوا۔ اسی رات پولیس کو اطلاع دی گئی تھی۔ پولیس بعد میں چکر لگاتی رہی مگر اس کے بعد بھی دو تین دفعہ لوگ جلوس کی شکل میں ہمارے کارخانہ کے ارد گرد چکر لگاتے رہے اور گالیاں نکالتے رہے۔<
۱۰۔ محلہ اسلام آباد کے ایک احمدی کا بیان ہے:۔
۷۔ مارچ ۱۹۵۳ء کو ہم مع بچوں کے سارا دن گھر میں قیدیوں کی طرح گھرے ہوئے تھے اور ہمیں بعض غیر احمدی رشتہ دار ہمیں کھانے کی اشیاء مہیا کرتے رہتے تھے۔ قریباً تین یا چار بجے بعد دوپہر اندازاً پانچ سو غنڈوں کا ایک ہجوم جماعت احمدیہ کے خلاف گندے نعرے مارتا ہوا ہماری گلی میں داخل ہوا۔ ہمارے ہمسارے مرد عورت دروازوں کے آگے کھڑے ہوکر تماشہ دیکھنے لگ گئے۔ اور ہجوم نے لاٹھیوں سے مسلح تھا ہماری کھڑکیاں اور دروازے توڑنے شروع کردیئے۔ شیشے کے ٹکڑے صحن میں پہنچ رہے تھے۔ ہم بیٹھک اور ڈیوڑھی کے دروازے کو اندر سے بند کرکے کوٹھے پر چڑھ گئے اور پچھلی طرف سے ہم نے اترنے کی کوشش کی مگر پچھلی طرف سے سب ہمسایوں نے کنڈیاں لگا رکھی تھیں۔ آخر چوتھے مکان پر سے میرا بیٹا اترا۔ میں نے اس کو کہا کہ پولیس چوکی گھنٹہ گھر میں جاکر رپورٹ کردے۔ ہمارے گھر کو لوٹ رہے ہیں۔ اور ہمیں مارنے اور قتل کرنے کے درپے ہیں۔ میں خود اپنے ایک رشتہ دار کے گھر چلا گیا۔ میری بیٹی` بہو نے ایک قریبی رشتہ دار کے گھر جاکر پناہ لی۔ ہجوم نے ڈیوڑھی کے دروازے کو بڑے زور سے لاٹھیوں کے ساتھ حملہ کیا جس سے ڈیوڑھی کے باہر کا دروازہ کھل گیا۔ ماب نے بیٹھک کا دروازہ بھی توڑ لیا اور تمام کھڑکیاں شیشے اور سمانا چکنا چور کردیا اور تمام سامان جو قریباً دو صد کا تھا برباد کردیا اور پھر مسمی وار و اور عمر حیات نے جس کو ہمارے ایک رشتہ دار نے ہماری حفاظت کے لئے بھیجا تھا۔ آکر ماب کو باہر نکالا۔
کوئی پولیس کا سپاہی ہماری مدد کو نہیں آیا۔ اس وقت گوجرانوالہ میں کوئی گورنمنٹ موجود نہ تھی۔ پولیس چوکیوں میں بیٹھی ہوئی تماشا دیکھ رہی تھی۔ حتیٰ کہ اس کے بعد بھی چار پانچ روز تک ایسا ہی حال رہا۔ پھر ملٹری کی آمد کی وجہ سے لوگوں کو ڈر محسوس ہوا۔ اور ہم نے آرام کا سانس لیا۔<
۱۱۔ ریل بازار کے ایک احمدی دکاندا کا بیان ہے:۔
>ہماری دکان ریل بازار میں واقع ہے۔ ۲` ۳ نومبر ۱۹۵۲ء کو مجلس عمل کی کانفرنس ہوئی۔ جس میں احمدیوں کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ اس فیصلہ کے ماتحت دکانوں پر اس مضمون کے بورڈ مولوی احراری نے لگوائے کہ >مرزائیوں کا بائیکاٹ کرو< اور ہمارا مکمل بائیکاٹ کیا گیا۔ اور بازار میں دکانداروں اور دلال وغیرہ نے اس تحریک میں مکمل حصہ لیا جو آج تک جاری ہے۔ جو گاہک سودا لیتے تھے انہیں منع کرتے تھے کہ سودا اس دکان سے نہ لو اور واپس کروا دیتے تھے۔ اور جو نہ واپس کرتے تھے ان کی ہتک کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں ایک مولوی جو کہ احراری ہے ہماری دکان کے ساتھ بٹھا دیا تاکہ لوگوں کو اشتعال دلا سکے۔ اس کے بعد ۲۷ فروری ۱۹۵۳ء سے ہر روز ہماری دکان کے آگے سے جلوس نکلتا جو کہ دکان کے سامنے کھڑا ہوکر فحش گالیاں اور نعرے لگاتا لیکن کوئی آدمی بھی ہماری ندد نہ کرتا۔ ۳۰ مارچ کو جلوس کی شکل میں آتے اور شیشے وغیرہ توڑتے۔ چنانچہ ۵ کھڑکیوں اور تین روشندانوں کے شیشے دان توڑ دیئے اس کے علاوہ فحش گالیاں نکالتے اور پتھر وغیرہ مارتے۔ ہماری دکان کو کئی ماہ سے بہت نقصان ہورہا ہے۔ کوئی خرید و فروخت نہیں۔<
۱۲۔ ایک احمدی کلاتھ مرچنٹ کا بیان ہے:۔
>اوائل ۱۹۵۲ء سے ہی یار آشنا چلتے پھرتے بری نظر سے دیکھتے اور گالیاں دیتے ہوئے دکان پر آکر بھی گالیاں دینے لگے اور رعجب جماتے۔ ہرکہ دمہ بھی یہی سمجھنے لگا کہ احمدی ایک ذرہ سے بھی حقیر ہیں ایذا رسانی میں حدود سے تجاوز کرنے لگے حتیٰ کہ بائیکاٹ شروع ہوگیا۔ غالباً چھ ماہ تک دکان سے کوئی مال فروخت نہ ہونے دیا گیا۔ میں تھوک بزازی کی دکان کرتا ہوں اور انکم ٹیکس گزار ہونے کے باوجود ادنیٰ ادنیٰ آدمی دکان پر پکٹنگ کرتے اور گندی گالیاں سامنے کھڑے ہوکر دیتے۔۔۔۔۔ ایک شخص سوئیاں بیچنے والا پٹھان مستقل پکٹنگ پر مقرر تھے۔۔۔۔۔ پٹھان سخت جوشیلا تھا۔ چاقو دکھایا کرتا تھا ملحقہ دکاندر اس کو شاباش کہتے اور اس کی حمایت کرتے۔ جب کوئی دکان سے مال خریدتا معاً ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا۔ پکتنگ والے مال واپس کرواتے اور بازار راہ گیروں سے بھر جاتا۔ تمام شہر میں ہر دکان پر >مرزائیوں کا مکمل بائیکاٹ کرو< کے بورڈ آویزاں تھے۔ مخالفوں نے ہماری دکان کے دروازے پر مرزائی اور گندی گالیاں لکھیں۔ میرا ایک گھر دکان کے بالا خانہ میں تھا۔ فساد کے شدید آثار دیکھ کر )یعنی گھر میں اینٹیں پتھر پڑنے لگے۔ گھر والوں کو گالیاں دینے لگے وغیرہ وغیرہ( اس کو اپنے دوسرے گھر میں جو مالک پورہ میں تھا اکٹھا کردیا۔ اب عوام الناس اس گھر میں بھی پتھر روڑے مارنے لگے اور گالیاں دینے لگے۔ گھر سے چل کر آنا اور پھر دکان پر دن گزارنا اور پھر گھر واپس جانا یہ تینوں سخت مصیبتیں تھیں۔ راستہ بھر میں حملہ کا خوف` گندی گالیاں اور اینٹ پتھر کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔ دکان پر بھی اینٹ پتھر پڑنے لگے تھے۔ گالیاں اور لوٹ مار کا خوف بھی۔ غرضیکہ وہ نہایت خوف اور تکلیف کا وقت تھا۔ رات کو حملہ کا خوف نیند اچاٹ۔ اسی دوران میں مارچ ۱۹۵۳ء آگیا۔ جلوس نکلنے شروع ہوگئے۔ جلوس دکان پر ٹھہرتے` ماتم کرتے` گالیاں دیتے` تکلیف انتہاء کو پہنچ گئی۔ ۵ مارچ کی صبح کو دکان پر آئے تو کسی نے کہا کہ دکان کے اندر بیٹھو۔ باہر نہ بیٹھو۔ حملہ ہوجائے گا اور کچھ لوگوں نے کہا کہ آج تم پر حملہ ہوگا۔ ہم نے دیکھا تو احمدی دوستوں کی دکانیں بھی بند تھیں۔۔۔۔۔ گھر آگئے۔ دروازہ بند کیا اور محصور ہوکر رہ گئے۔ اسی شب محلہ میں جلسہص ہوا۔ غالباً مولوی۔۔۔۔ نے فرمایا کوئی مرزائی زندہ نہ رہے۔ بلکہ ان ک ابچہ بھی۔ اگلے دن صبح کو چھ سات سو افراد کا جتھہ میرے بھائی اور بہنوں کے گھروں پر جو ملحق تھے آیا اور کہا کہ ہم پہلے تم کو ختم کرتے ہیں۔ پھر مرزائی کو۔ وہ چونکہ غیر احمدی ہیں اور بہت سرمایہ دار۔ روتے ہوئے اور چیخیں مارتے ہوئے میرے گھر آگئے۔ اور کہا خدا کے لئے ہم کو بچائو اور گھر سے باہر نکل کر کہہ دو کہ میں مسلمان ہوں۔ مگر میری بڑی بیوی فاطمہ نے کہا کہ ہمارے ٹکڑے ہو جانے دو ہم ایسا نہیں کہیں گے۔ اس اثناء میں جتھہ اندر ہوگیا اور نعرے مارتے ہوئے مجھے مسجد میں لے گئے اور کلمہ طیب پڑھوایا۔ تمام مسجد بھری ہوئی تھی اور لوگ نعرے لگا رہے تھے کہ مسلمان ہوگیا۔<
۱۳۔ ایک احمدی خوشنویس مکرم محمد یوسف صاحب کا بیان ہے:۔]>[۴ مارچ ۱۹۵۳ء کو ہم دونوں میاں بیوی احراریوں اور مودودیوں کی دھاندلی اور ادھم سے مرعوب ہوکر گکھڑ اپنے ہم زلف کے ہاں چلے گئے مگر وہاں بھی ہم سے وہی سلوک ہوا جس سے ڈر کر یہاں سے گئے تھے۔ آخر ۷ مارچ کو ایک بجے کے قریب میرا بھتیجا گیا اور کہا کہ تمہارا گھر لوٹا گیا ہے۔ ہم میاں بیوی تانکہ پر سوار ہوکر ڈھائی بجے کے قریب گوجوانوالہ اپنے گھر پہنے۔ مکان اور ٹرنکوں کے تالے سب ٹوٹے ہوئے دیکھے۔ ابھی ہم جائزہ ہی لے رہے تھے کہ کیا نقصان ہوا کہ ایک ہجوم ہاتھوں میں لکڑیاں اور سوٹیاں اور پتھر روڑوں سے مسلح دروازہ اور کھڑکیوں پر اپنا غصہ نکالنے لگا۔ ہم نے اندر سے دروازہ اور کھرکیاں بند کی ہوئی تھیں۔ اس ہجوم سے ایک کمبخت دوسرے مکان کو پھلانگ کر اور دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگیا۔ اور نیچے آکر ہمارا باہر کا دروازہ کھول دیا۔ ہجوم بدستور اینٹوں` پتھروں اور لکڑیوں اور سوٹوں سے مکان کو توڑنے میں مشغول تھا۔ کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔ ناچار میں دروازے میں گیا اور کہا کہ اپ لوگوں کا اس طرح اودھم مچانا اور حملہ کرنے کا کیا منشا ہے؟ ہجوم بولا کہ ہم تم کو مسلمان بنانے آئے ہیں۔ میں بیٹھک سے قرآن کریم لے کر کھڑا ہوگیا۔ جو کچھ میں نے ہجوم سے کہا وہ آگے چل کر بیان کروں گا۔ اس پر ہجوم چلا اجتا ہے قریباً چار بجے میری بیوی پھر جائزہ لینے لگی۔ اور میں نماز عصر پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ نماز پڑھ کر فارغ ہی ہوا تھا کہ باہر پھر شور و شغب اور نعروں کی گونج اور تڑاک پڑاک کی آواز آئی جو پتھروں` لکڑیوں اور اینٹوں سے مکان کو توڑنے سے پیدا ہورہی تھی۔ میں نے جاکر دروازہ کھول دیا اور ہجوم سے کہا کہ آئو اندر آئو اور جو کچھ رہ گیا ہے تم لوٹ لو۔ ہجوم سے گلی اٹی ہوئی تھی۔ مجھے کہنے لگے ہم نے تم کو مسلمان بنانا ہے۔ میں ابھی کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ چار نوجوانوں نے میری دونوں بغلوں میں ہاتھ ڈال کر دروازہ سے گلی میں اتار لیا اور کہا کہ مسجد میں لے جائیں گے۔ میرے مکان سے قریباً تین فرلانگ پر >زینت المساجد< ہے۔ اس میں لے گئے۔ راستہ میں مجھ سے پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے۔ میں نے کہا محمد یوسف۔ بس گلیوں اور بازاروں میں جلوس کا ہیرو بن گیا۔ محمد یوسف زندہ باد۔ چٹو وٹا ہائے ہائے۔ جلوس بڑھتا گیا حتیٰ کہ مسجد میں جاتے وقت قریباً ڈھائی ہزار کا مجمع بن گیا۔ مکانوں پر عورتیں اور مرد دیکھ رہے تھے۔ مسجد میں خوب رونق ہوگئی اور میں مسجد کے صحن میں بیٹھ گیا۔ جب منتظمین نے ہجوم کو بٹھادیا تب میں نے عرض کیا۔ مولوی صاحبان! آپ کے مبلغ مجھے کشاں کشاں جو یہاں لائے ہیں اب آپ اپنی کاروائی شروع کریں ~}~
عشق از پردہ عصمت بیرون آرد زلیخارا
پچاس ساٹھ مولوی کھڑے تھے اور خلقت بھی منتظر تھی کہ کب سنگباری کا حکم کون دیتا ہے؟ ہجوم ڈنڈوں سے مسلح۔ آنکھیں لال لال نکالے حکم کا منتظر تھا۔ لگے مولوی صاحب آواز سے دینے کہ بلائو مولوی صابر کو۔ بلائو مولوی فلاں کو کہ وہ اپنا کام کریں۔ ہر طرف سے آواز آئی کہ مطلوبہ مولوی یہاں نہیں ہیں۔ آخر ایک مولوی صاحب کو ہجوم نے آ کے کہا کہ مولوی صاحب آپ آگے آئیں۔ مولوی صاحب سر سے ننگے۔ آنکھ میں پھولا۔ داڑی لمبی مکر کرڑ برڑی۔ سر پر عمامہ ندارد۔ قرآن کریم لے کر میرے پاس بیٹھ گئے اور لگے قرآن کریم کی ورق گردانی کرنے۔ جب مطلب کی جگہ کی تلاش میں ذرا دیر ہوئی تو میں نے قرآن کریم مولوی صاحب سے لے لیا اور اٹھ کھڑا ہوا اور ہجوم کو مخاطب کرکے غرض کی کہ پہلے میری عرض سن لیں۔ اگر کوئی کسر رہ گئی۔ کوئی کمی رہ گئی تو آپ بعدازاں پوری کرلیں۔ میں نے قرآن کریم کو دائیں ہاتھ سے بند کیا۔ ]ksn [tag اعوذ اور بسم اللہ پڑھ کر اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ پڑھا۔ اور کہا کہ قسم ہے مجھے اس اللہ تعالیٰ کی جس کے قبضئہ قدرت میں میری جان ہے۔ جس جگہ قرآن کریم اترا ہے اس کو کہتے ہیں ام القریٰ اور جس پر نازل ہوا اس کو کہتے ہیں ابو الانبیاء اور اس کتاب )قرآن کریم( کو کہتے ہیں ام الکتاب۔ میں رسول اکرم~صل۱~ کو خاتم الانبین مانتا ہوں اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر میرا ایمان ہے۔ اگر کسی مولوی صاحب کو میرے اسلام میں شک ہو تو وہ اپنے آپ کو جن شرائط کے ماتحت مسلمان سمجھتے ہیں تحریر کریں۔ میں اس پر دستخط کردوں گا۔ ہجوم پر ایک سناٹا چھا جاتا ہے۔ مولوی صاحبان ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہیں۔ میں نے پگڑی سر سے اتار دی اور کہا کہ پہلے احرار نے میرے مکان کو لوٹا۔ بعد ازاں ایک ہجوم نے میرے مکان کو توڑنے میں کوئی سر اٹھا نہ رکھی اس کو بھی یہی عرض کیا آپ کے یہ مبلغ جاتے ہیں اور مجھے لے آتے ہیں۔ اگر میرے قتل سے آپ صاحبان دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں تو بندہ حاضر ہے۔ یہ مسجد یہ شہادت زہے قسمت۔ ایک مولوی صاحب نے قرآن کریم ایک مسجد کی الماری میں رکھ دیا اور مجھے مسجد کے اندر کرکے دروازے تمام بند کردیئے۔ نماز عصر سے فارغ ہوکر جستہ جستہ آدمی دروازوں سے جھانک جھانک کر آنے شروع ہوئے۔ مختلف اعتراض کرتے رہے جو کچھ مجھے آیا جواب دیا۔ آخر میری رہائی کی تجاویز ہونے لگیں۔ چونکہ ہمارے امیر صاحب کا گھر نزدیک تھا خطرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے تجویز کی کہ انہیں وہاں پہنچا دیائے جائے خیر مجھے وہاں پہنچا دیا گیا اور امیر صاحب قبلہ کو ان الفاظ میں میرا محافظ بنایا کہ لو صاحب آپ اپنا بندہ سنبھالو۔<
۱۴۔ حضرت حکیم نظام جان صاحب قادیانی~ف۳۰~ کا خود نوشت بیان ہے کہ:۔
>ہمارا مکان اور دکان عین چوک گھنٹہ گھر میں واقع ہیں وہ گلی جس کے کونے پر یہ مکان دکان واقع ہیں شروع میں حکام ضلع نے احمدیوں کے لئے مخصوص کی تھی گو پانچ مکانوں سے زائد پر احمدی قابض نہ ہوسکے لیکن لوگوں میں یہ گلی مرزائیوں کی گلی ہی کے نام سے مشہور ہے اور ہماری دکان کا اشتہار چونکہ الفضل میں باقاعدہ شائع ہوتا رہتا ہے اس لئے ہم خاص طور پر شناسا تھے کہ >یہ مرزائی ہیں<۔
جن دنوں زمیندار اخبار میں ۲۲ فروری تک کی مہلت کا اعلان بڑے طمطراق سے شائع ہوا کرتا تھا ایک دیہاتی ٹائپ کا ملا ہماری دکان پر برابر بیٹھنے لگا۔ وہ الفضل پڑھتا اور سلسلہ پر اعتراضات کرنے کے علاوہ ہمیں آنے والے خطرناک طوفان سے بھی خوف دلا کر بتاتا کہ اب مرزائیت چند روز ہے۔ اب نہ یہ سلسلہ رہے گا نہ اس سلسلہ کے داعی۔ اب سب امت مسلمہ تمہارے خلاف اٹ کھری ہوئی ہے۔ اب تم لوگوں کا بچنا مشکل ہے بہتر ہے کہ تم مسلمان ہوجائو۔ ہم نے اسے کہا کہ ان باتوں سے تم ڈرا کر ہمیں احمدیت سے روکنا چاہتے ہو یہی باتیں ہمارے ایمان کو زیادہ کرنے والی ہیں۔ تم ۷۲ فرقوں نے اکٹھے ہوکر خود بخود ۷۳ ویں اور ناجی فرقہ کی نشان دہی کردی ہے ایک بن کر حملہ کرنے کا ارادہ کرکے فرعون اور جنگ احزاب کا نقشہ پیش کردیا ہے اور کسر کیا رہ گئی ہے۔ وہ ملا بہت کہا کرتا۔ ہم لوگ تمہیں قتل کردیں گے۔ مکان جلا دیں گے۔ اسباب لوٹ لیں گے بہتر ہے کہ تم مسلمان ہوجائو مگر ہم یہی کہتے رہے کہ وقت خود بخود نتائج ظاہر کردے گا اور بتا دے گا کہ حق پر کون اور ناراستی پر کون ہیں۔ خدا تعالیٰ کن کے ساتھ ہے اور کون خدا تعالیٰ کے دشمن ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ ہم یہیں رہیں گے۔ مگر تم ایسے نہ رہو گے۔
لاہور سے آمدہ خبروں کی وجہ سے شہر میں کشیدگی اور اضطراب بڑھتا جاتا رہا۔ا ہمارے خلاف نفرت اور بغض کے مظاہرے تو ان بورڈوں سے ہوتے ہی تھے جو قریباً ہر دکان پر۔ اسلامیان پاکستان کا متفقہ مطالبہ۔ کے محرک تھے۔ مرزائیوں کا مکمل بائیکاٹ کرو۔ اور مرزائیوں کے برتن علیحدہ ہیں۔ لگائے گئے تھے۔ بعض ہوٹل والوں نے برتن بھی علیحدہ رکھ لئے تھے۔ ان بورڈوں سے خواہ مخواہ احمدیوں کے خلاف نفرت اور تعصب بڑھتا تھا اور مقرروں نے تقریروں میں یہ کہا ہوا تھا کہ مرزائی چہڑوں اور کتوں سے بھی بدتر ہیں۔ اب اس کا ردعمل برتوں کی علیحدگی اور سوشل بائیکاٹ کے بورڈوں کے سامنے آجانے سے کدورت کی شکل اختیار کر رہا تھا۔۔۔۔۔
جمعہ کی نماز کے وقت تک ایسی حالت ہوگئی تھی کہ مسجد میں جانا خالی از خطرہ نہ دکھائی دیتا تھا۔ جونہی ہم لوگوں پر ان کی نظر پڑتی وہ مرزائی مرزائی پکارتے۔ گالیاں نکالتے` گند بکتے آولزے کستے۔ کوئی گندی سے گندی گالی نہ رہی جو ہمیں دی نہ جاچکی۔ اور کوئی گندے سے گندے الفاظ نہ رہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت نہ کہے گئے۔
مسجد میں نماز جمعہ کے لئے بہت کم احمدی جاسکے۔ ہمارا قیانہ صحیح نکلا جمعہ کے بعد جلوس نکلنے لگے۔ خطبوں میں خوب ابھارا گیا تھا۔ شہر بھر میں آگ پھیل گئی اور جلوس نکلنے لگے۔ ہماری دکان مکان سے ملحق ہے۔ جب جلوس آتے تو ہم دکان کو کھلا چھوڑ کر پیچھے مکان میں چلے جاتے مگر جمعہ کی نامز کے بعد جبکہ ملک محمد افضل صاحب ہماری دکان پر بیٹھے تھے۔ مسجد سے خطبہ سن کر آنے والے جلوس نے دکان کے سامنے کچھ اس طرح پرے جمالئے کہ ملک صاحب نے دکان بند کر لینے کا مشورہ دیا۔ وہ لوگ اب زیادہ بپھرتے اور گند پر اترتے آرہے تھے۔ ہم نے دکان بند کرلی۔ اور مکان میں محبوس ہوگئے۔
پولیس نے ٹرانسپورٹ کمپنی سے دو دو بسیں مانگی ہوئی تھیں جن پر گرفتر شدگان کو باہر لے جاکر چھوڑا جاتا تھا۔ مظاہرین نے دھمکا کر اور جلانے کی دھمکی دے کر وہ بسیں خود حاصل کرلیں۔ اور ان پر بیٹھ کر شہر میں نعرے لگاتے۔ شور مچاتے۔ گالیاں بکتے۔ جب اور جہاں جی چاہتا دندناتے پھرتے۔
اندر بیٹھے بیٹھے طبیعت تنگ آنے لگی۔ لوگوں کے بچے باہر ہنستے کھیلتے اور شور مچاتے پھرتے اور ہمارے بچے گھروں میں مقید۔ باہر نکلنے کا یارا نہیں۔ وہ حیران ہو ہو کر سوچتے یہ دو دن میں کیا ہوگیا کہ ہمارا نکنا ہی بند ہوگیا۔ ہم انہیں دلاسا دیتے کہ آج کل دنیا ہم پر تنگ ہورہی ہے۔ یہ کھیلنے اور ہنسنے کے نہیں۔ بلکہ رونے اور دعائیں کرنے کے دن ہیں۔ دعا کرو کہ ہم امتحان میں کامیاب اور ایمان میں ثابت قدم رہیں۔ خدا اس آزمائش کو جلد ٹال دے۔ دشمنوں کو ہدایت بخشے اور وہ صحیح انسان بن کر ہم سے پیش آویں۔ جب یہ مصیبت ٹل جائے گی پھر تم پہلے کی طرح ہنس کھیل سکو گے۔ باہر آجا سکو گے۔
ہفتہ کو بھی چھوٹی لڑک ریحانہ اسکول چلی گئی تھی۔ سکول میں لڑکیوں نے مل کر اسے خوب مارا۔ خوب مارا۔ خوب مارا۔ وہ کیوں؟ اس لئے کہ یہ مرزائی ہے۔ وہ بیچاری روتی اور مار کھاتی رہی۔ کسی کے دل میں رحم نہیں آیا کسی نے اسے نہیں چھڑایا۔ کسی نے اس کی مدد نہیں کی۔ کیونکہ وہ >مرزائی تھی اور مرزائیوں< کو ہلاک بھ کردیا جائے تو کو مضائقہ نہیں۔
حکام بے بس تھے۔ انتظامیہ بے بس تھی۔ لوگوں میں حکومت اور احمدیت کے خلاف نفرت اور غصہ بڑھ رہا تھا۔ اشتعال پھیلا جا رہا تھا۔ مگر کوئی جلسے جلوسوں پر پابندی یا دفعہ نمبر ۱۴۴ کا نفاذ نہ تھا۔ غنڈے اور بچے آتے اور علی الاعلان دروازے توڑتے۔ پتھر برساتے اور گالیاں دیتے مگر کوئی پولیس نہ آتی۔
ہنگامہ پسند تو جلسوں ہی میں باقاعدہ یہ اعلان کررہے تھے کہ پولیس ہمارے ساتھ ہے۔ اور اس بات نے فسادی ہجوموں کو ہمست و جر¶ات دلادمی تھی۔ خوف حکومت ہی ختم ہوگی اتھا۔ پولیس عنقا ہوکر نہ جانے کہاں جا چھپی تھی۔
جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کو کرشنا نگر میں واقع ایک احمدی کے کارخانہ کو آگ لگائی گئی۔ اور اب اس سے شہ پاکر فسادی ہمارے مکان کے سامنے جمع ہوکر اس تجویز پر عمل کرنے کی تجویزیں کرتے۔ انہوں نے ہزار کوشش اور طریق سے ہمیں نیچے اتارنے کی کوشش تھی۔ ایسی ایسی گالیاں دی تھیں کہ ہم کسی طرح جواب دینے کو سامنے آئیں۔ مگر وہ ناکام رہے تے۔ اب آگ ہی ایک صورت رہ گئی تھی اس مکان سے ہمیں باہر نکالنے کی۔
ہم نے رات کو پولیس چوکی میں دن بھر کی رو داد کی رپورٹ دے کر انتظام کے لئے کہا تو جواب ملا کوئی فکر نہ کریں۔ ہم لوگ انتظام کرنے لگے ہیں۔ چوک میں پولیس کی ایک پکٹ قائم کردی جائے گی جو فسادیوں کو روکے گی۔ لیکن ہم سمجھتے تھے یہ محض الفاظ ہی الفاظ ہیں ورنہ اس سیل عظیم میں پولیس سب سے پہلے بہہ گئی تھی۔
دن بھر اکا دکا محبوس احمدیوں کا دھمکا دھمکا کر احمدیت سے پھرانے کی کوشش کی گئی۔ مکان جلانے کی دھمکیاں۔ قتل کردینے کی دھمکیاں۔ سامان لوٹ لینے کی دھمکیاں۔ عزت و ناموس برباد کر دینے کی دھمکیاں۔ انسان دھمکیوں سے مرعوب اس وقت نہیں ہوتا جب وہ دنیاوی تعلقات کو یکسر نظر انداز کردے۔ بھول ہی جائے کہ نہ اس کا مکان ہے نہ سامان۔ نہ بیوی ہے نہ بیٹی۔ اور اگر سمجھے ہیں تو پھر یہ خیال نہ کرے کہ عزت و ناموس برباد کرنے اور مکان لوٹنے جلانے کی قوتیں اور قدرتیں انسان اور خود سر بھٹکے ہوئے فسادیوں کے ہاتھ میں ہیں۔
یہی ایک دھمکی نہیں تھی جو ارتداد کے لئے استعمال ہوئی بلکہ بعض جگہوں پر غلط طور پر مشہور کیا گیا کہ سب بڑے بڑے احمدی )نعوذ باللہ( ارتداد کرچکے ہیں۔ ان کے مقابل پر تمہاری پوزیشن ہی کیا ہے۔ تم بھی احمدیت سے الگ ہوجائو۔ مولوی شریف احمد صاحب امینی مبلغ بمبئی کی ساس صاحبہ ہفتہ کو آئیں۔ ڈرتے ڈرتے دروازہ کھلوایا اور کہنے لگیں میں آپ لوگوں کا پتہ کرنے آئی تھی۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ حکیم نظام جان نے بھی احمدیت سے توبہ کرلی ہے سو تم بھی کرلو۔۔۔۔۔ ہم نے احمدیت کی سچائی کا اور ثابت قدم رہنے کا یقین دلایا اور کہا کہ یہ لوگ تم کو دھوکا دے رہے ہیں۔ ان کے دھوکہ میں نہآنا۔
جس وقت پولیس چکی میں دن بھر کی کاروائی کی رپورٹ دینے کو بڑے لڑکے فضل الرحمن کو بھیا گیا تو اس وقت انچارج چوکی فون پر کسی سے بات کررہا تھا اور اطمینان کا اظہار کر رہا تھا کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ دو تین احمدی اور >مسلمان< ہوگئے ہیں۔ یہ باتیں بتائی ہیں کہ مرکزی حکومت نہ بھی چاہتی تھی تو بھی پنجاب کے بعض حکام فسادیوں کے ساتھ تھے۔
کالج کے نونہالوں نے اتوار کو بھی چھتی لی اور اپنا فرض پورا کرنے ہمارے مکان تلے نعرے۔ گالیاں دینے اور پتھر چلانے لگے۔ نکلو باہر کہاں ہو تم۔ مرزائی کتے ہائے ہائے۔ مگر اس طرف ایک ہی چپ لگی تھی۔ گو ہم نے کچھ نہ کچھ جواب کا انتطام کیا ہوا تھا مگر شہر میں ایسے بھی غریب احمدی تھے جو ذرا سی حرکت سے ان ظالموں کا نشانہ ستم بن کر ختم ہوسکتے تھے۔
پہلے پہل فسادیوں کو خیال تھا کہ ہم لوگ مسلح ہیں مگر جب اتنے دن تک ہم نے کوئی جوابی قدم نہ اٹھایا تو انہیں حیرت ہونے لگی کہ ہم کیسے انسان ہیں کہ اس عظیم ہنگامے سے بھی متاثر نہیں ہوتے۔ آخر چند نوجوان جر¶ات کرکے دروازہ کھلوانے پر اتر ہی آئے۔ کہنے لگے ہم تمہیں مسلمان بنانے آئے ہیں۔ دروازہ کھولو۔۔۔۔۔ ہمارے ایک ہی جواب پر کہ تم سے زیادہ مسلمان ہیں وہ دروازہ زور زور سے کھٹکھٹاتے اور توڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ جب ہم کسی صورت دروازہ کھولتے نظر نہ آئے تو انہوں نے ہماری بھینس جو گلی میں بندھی تھی کھولنے کا پروگرام بنایا۔ جب وہ بھینس کی طرف بڑھے تو میں نے بندوق نکال کر ان کا نشانہ سیدھا کیا۔ ہماری دکان کے سامنے بیٹھنے والا درزی جو اب تک محض نظارہ کر رہا تھا دوڑ کر ان کے پاس آیا اور حقیقت سے آگاہ کرکے بھاگ جانے کا مشورہ دیا۔ ہمارا تو ارادہ ہی نہیں تھا کہ گولی چلائی جائے کیونکہ یہ پھر نئے فساد کا پیش خیمہ اور مزید تباہی کا باعث بن سکتی تھی مگر اس سے یہ ہوا کہ ہماری خاموشی کا جو وہم غیر مسلح ہونے کا ان کے دل میں بیٹھ رہا تھا وہ دور ہوگیا اور پھر انہیں جر¶ات نہ ہوسکی کہ وہ آکر دروازہ توڑیں۔
اسی دن بابو عبد الکریم صاحب پوسٹماسٹر اور ملک محمد افضل صاح کے مکانوں کو لوٹ لیا گیا۔ اس کے بعد فوج کے آجانے سے حالت آہستہ آہستہ سدھرنے لگی۔ اسی دن مرکز سے ایک خط آیا کہ مضبوطی سے ایمان پر قائم رہیئے۔ مصیبتوں کے بادل عنقریب چھٹ جائیں گے۔۔۔۔۔ بدھ کو پہلے روز ہم نے دکان کھولی۔ وہی پہلے سے اہتمام کے ساتھ۔ یوں محسوس ہوا گویا نئی زندگی مل گئی۔ ہر گزرنے والا یوں نظریں اٹھا اٹھا دیکھتا گویا اسے ہماری زندگی پر یقین نہیں۔ جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو۔ جیسے انہیں امید ہی نہیں تھی کہ یہ دکان جو ایک بار بند ہوگئی ہے پھر بھی کبھی کھلے گی۔
وہ ملا جو فسادات سے قبل ہی احمدیت کی تباہی کے خواب دیکھا کرتا تھا اس کی بیوی فوت ہوکر گھر ویران کر گئی۔ جس کی معرفت آیا کرتا تھا اس کی بیوی بھی فوت ہوگئی۔ اس کی ساری کمائی بیماری پر لگ گئی تھی۔ اب بچوں کا بوجھ آن پڑا۔ جس دکان پر بیٹھ کر سکیمیں سوچی جاتی تھیں وہ دکان اس سے چھن گئی مگر احمدیت کا سورج جب ان بادلوں کے چھٹ جانے کے بعد نظر آیا تو وہ پہلے سے زیادہ آب و تاب سے نکلا۔<
۱۵۔ مکرم محمد شفیع صاحب کھوکھر مالک >دہلی کلاتھ ہائوس< کا بیان ہے کہ:۔
>جب احرار شورش زوروں پر تھی اور ہر طرف سے مخالفت کا زور دن بدن بڑھتا گیا سب دکاندار اور رشتہ دار بلکہ شہر کا اکثر حصہ ہماری مخالفت میں اٹھ کھڑا ہوا اور یہاں تک کہا گیا کہ ہم دکان بند کرا دیں گے۔ ہماری دکان کے سامنے کھڑے ہوکر گاہکوں کو کہا کہ ان مرزائیوں سے سودا مت لو۔ بعض دفعہ کپڑا کٹوایا ہوا وپس کرا دینا۔ ہم خاموشی سے کاٹا ہوا کپڑا واپس کرلیتے۔ اور بعض احراری دکان کے سامنے کھڑے ہوکر فحش گالیاں دیتے مگر ہم نہایت صبر سے کام لیتے ہوئے دن گزار جاتے۔ الحمدلل¶ہ پھر بھی شام کو کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھا کر ہی جاتے اسی طرح ہر روز جلوس نکلتے اور ہماری دکان کے سامنے خاص کر کھڑے ہوکر ناچتے کودتے اور گالیاں نکالتے۔ ایجی ٹیشن کے شروع ہونے سے قبل کئی دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہماری دکان لوٹی گئی ہے مگر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہا کہ یا الٰہی آپ تقدیر کو ٹال بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دن ایک نہایت ہی مشتعل ہجوم ہماری بند دکان دیکھ کر تالے توڑنے لگا۔ مگر ہمارے سامنے حلوائی دکاندار جو ہمارے ہمدرد اور جوان بلکہ پہلوان ہیں وہ کھڑے ہوگئے کہ ایسا ہرگز نہیں کرنے دیں گے۔ اس طرح وہ دکان بفضل خدا بچ گئی۔ ویسے بھی ہم کافی مال نکال کر ادھر ادھر کر چکے تھے۔ ایک روز ایک بڑا بھاری جلوس نکلا۔ اس روز بڑا خطرہ پیدا ہوگیا کہ آج یہ ضرور دکان پر حملہ کریں گے مگر اللہ تعالیٰ نے جو ہر مشکل میں اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔ اس موقعہ پر بھی اپنی رحمت کا نشان دکھایا اتفاق سے قریباً دس بارہ عورتیں برقعہ پوش راستہ نہ ملنے کی وجہ سے ہماری دکان کے سامنے چبوترے پر ایک لائن کی شکل میں کھڑی ہوگئیں۔ اس طرح ان کا حوصلہ نہ پڑا اور جلوس نکل گیا۔ دن بدن خطرہ بڑھتا گیا اور ہم نے دکان پر آنا بند کر دیا اور گھر میں محبوس ہوگئے بلکہ مسجد میں جانا بھی بند ہوگیا۔ گھر پر پیغام جانے لگے احمدیت چھوڑ دو ورنہ خیر نہیں بلکہ رشتہ دار بھی دھمکانے لگے۔ ہاں ابھی دکان پر کاروبار کرتے ہی تھے کہ ایک روز زبردستی کہا گیا کہ تم اپنے بورڈ پر مرزائی کلاتھ ہائو لکھواء۔ خاکسار نے کہا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ جمعہ کے دن جب کہ چھتی ہوتی ہے انہوں نے سفید پینٹ بورڈ پر پھیر کر اس کے اوپر مرزائی کلاتھ ہائو لکھ دیا۔ خیر میں نے کہا کہ چلو دیکھو۔ اس طرح بھی خدا رزق دیتا ہے یا نہیں۔ بفضل خدا پھر بھی گاہک سودا لیتے ہی رہے۔ دوران فساد میں دو دفعہ ہماری چوری بھی ہوئی۔ وہ ایسے کہ ایک روز مولوی نما چند آدمی آئے۔ مجھے دھیان میں لگا کر سمر کا ایک ٹکڑا لے گئے جو قریباً۔ /۱۵۰ روپے کا تھا۔ ایک دو آدمی آئے اور کپڑا کٹوا کر جھگڑا کرکے چل دیئے۔ ایک تو کپڑا کٹوا کر چھوڑ گئے دوسرے ایک پاپلین کا تھان اٹھا کر لے گئے۔ اب ان کے پیچھے جانا یا ان کو پکڑنا ہمارے بس کی بات نہ تھی کیونکہ اگر پکڑتے تو جھگڑا شروع ہوجاتا۔ غرضیکہ ہر طرح کی تکلیف اٹھا کر بھی مخالفین کے لئے فساد کا کوئی موقعہ پیدا نہ ہونے دیا۔
ہم بارہ دن تک اپنے گھر پر محبوس رہے۔ آخر کے تین دن تو نہایت خطرناک حالت میں گزرے۔ آخری دی سے پہلی رات کو میری لڑکلی عزیزہ زہرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ نے خواب دیکھا۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام زمین اور آسمان کے درمیان تشریف فرما ہیں۔ اور حضور پر نور کے بدن مبارک سے نور کی شعائیں نکل کر سارے آسمان اور زمین کو روشن کررہی ہیں اور بے شمار مخلوق کہہ رہی ہے کہ یہ مسیح موعود آگئے۔ اسی روز صبح کو عزیزہ زہرہ کا بڑا لڑکا جو آٹھ سال کی عمر کا ہے۔ کہنے لگا امی سانپ آئے۔ بین بجی اور بھاگ گئے اور سپاہی آگئے۔ اسی روز صبح میری طبیعت کی گھبراہٹ جو تھی وہ بالکل جاتی رہی۔ میں نے سب کو گھر میں کہا کہ فکر نہ کرو۔ کوئی نہ کوئی سامان حفاظت کا ضرور ہوجائے گا۔ بفضل خدا اسی دن شام کو چار بجے فوج آگئی۔ اور آتے ہی انہوں نے حفاظت کے سامان کردیئے۔<
‏tav.14.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
۱۶۔ مکرم جناب اقبال محمد خان صحب )سابق اسسٹنٹ میٹرولوجسٹ محکمہ موسمیات پاکستان( فرماتے ہیں:۔
>میں کراچی سے تبدیل ہوکر ۴ مارچ کی صبح کو آٹھ بجے لاہور آیا اور تقریباً پونے سات بجے شام اپنے مکان گوجرانوالہ پہنا۔ تو گھر میں سنا کہ احراری ہر روز شرارتیں شہر میں کررہے ہیں۔ چنانچہ وہ ہمارے مکان پر بھی گاہ بہ گاہ آتے اور شور و غوغا کرکے چلے جاتے۔ میرے گھر پر علاوہ میرے ذیل کے افراد تھے۔ میری لڑکی۔ میرے ایک لڑکے کی بیوی۔ میرا ایک لڑکا قریباً ۱۳` ۱۴ برس کا جو اسلامیہ ہائی سکول گوجرانوالہ میں ساتویں جماعت میں تعلیم پاتا تھا ایک پوتا اور دو پوتیاں یہ تینوں بچے چھ برس سے کم عمر کے تھے۔ میری گوجرانوالہ میں آمد کے بعد فسادی بچے جوان اور بوڑھے دن رات میں ایک سے تین مرتبہ روزانہ آتے اور گالی گلوچ بکتے۔ نازیبا فقرے دہراتے۔ چونکہ ہم اپنے مکان کو ہر وقت بند رکھتے تھے اور ضرورت کے وقت ہم باہر بھی جاتے تھے مگر مکان کو اندر سے کنڈی یا قفل سے بند رکھتے تھے۔ ہمارے محلہ میں شیخ غلام ربانی صاحب سیکرٹری ڈسٹرکٹ بورڈ گوجرانوالہ میرے مکان کے قریب ہی رہتے تھے اور ایک شخص مسمی جلال گوجر جو میرے مکان کے سامنے رہتا تھا یہ دونوں چھ اور سات مارچ ۱۹۵۳ء کو بوقت شب آئے اور بتایا کہ حالات سخت مخدوش ہیں اور فسادیوں کو آج تک دبایا جاتا رہا ہے مگر اب وہ ان کے اختیار سے باہر نکلتے جارہے ہیں۔ ڈر ہے کہ فسادی ان کے خلاف بھی نہ ہوجائیں۔ اس لئے انہوں نے مشورہ دیا کہ گھر چھوڑ کر کسی اور جگہ چلے جاویں ورنہ جانی نقصان ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ میں نے ۶ مارچ کو ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں اس بارے میں سوچوں گا اور ۷ مارچ کو میں نے پھر ان کی ہمدردی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بس میں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں۔ موت نے یا دن آنا ہی ہے۔ اگر ان لوگوں کے ہاتھوں میں میری اور میرے خاندان کی موت ہے اور اللہ تعالیٰ کو بھی یہی منظور ہے تو میں راضی بہ رضاء الٰہی ہوں۔ آپ اپنے آپ کو خطرہ میں ہماری وجہسے نہ ڈالیں۔ وہ لوگ مجھے بہت سمھاتے رہے۔ مگر آخر مایوس ہوکر چلے گئے۔ ہم لوگ دعائوں میں لگے رہے۔ ۸ مارچ کو قریباً دس بجے میرے گھر میں ایک نابینا اور اس کے ساتھ ایک بچہ بطور مہمان آگئے۔ ان کے آنے کے چند منٹ بعد میرا لڑکا سکول سے آگیا۔ اس نے بتایا کہ ماسٹر صاحب نے اسے فسادات کی وجہ سے چھٹی دے دی ہے اور راستے میں اس نے ایک احمدی کے گھر میں لوٹ کھسوٹ ہوتے دیکھی ہے۔ اور مجمع کہہ رہا ہے کہ وہ اب ہمارے گھر پر بھی دہاوا بولنے والے ہیں۔ میں نے اسی وقت مکان کے باہر کی طرف کھلنے والے تمام دروازے مقفل کر دیئے اور ریڈیو` کلاک جیسی چیزیں ہاتھوں ہاتھ ایک کوٹھری میں بند کرکے قفل لگا دیا ہمارے گھر میں ہر وقت پانی غسل خانہ کے سکاوے۔ حمام اور بالٹیوں وغیرہ میں بھرا رہتا تھا تاکہ اگر فسادی آگ لگائیں تو پانی کی مدد سے آگ بجھائی جاسکے۔ چارہ کرنے کا گنڈاسہ گھر میں تھا اور ایک چھری اور ایک ہاکی تھی۔ یہ تینوں ہم نے تیار رکھے ہوئے تھے کہ اگر فسادی دروازے کھڑکیاں توڑ کر گھر لوٹ مار کے لئے داخل ہوں گے تو ان سے مقابلہ کیا جاوے گا ایک مسہری کے بانس کے ایک سرے پر کپڑے لپیٹ کر اوپر سے تار لپیٹی ہوئی تھی۔ ایک ماچس اور تیل کی بوتل یہ تینوں چیزیں صحن میں تیار رکھی تھیں۔ تاکہ اگر فسادی چھت پر چڑھ کر صحن میں اترنے کی کوشش کریں تو نیچے سے ہی ان کا آگ کے ساتھ مقابلہ کیا جاوے۔ ابھی یہ سب چیزیں بمشکل مناسب جگہوں پر رکھی بھی نہ تھیں کہ کم و بیش تین چار سو آدمی شور کرتے ہوئے میرے مکان پر پہنچ گئے اور قریب¶ دو گھنٹہ تک دروازے۔ کھڑکیاں توڑ کر مکان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے اور نازیبا نعرے لگاتے رہے۔ پڑوسیوں کے مکانوں کے راستے ہمارے مکان کی چھت پر آنے کی کوشش کی مگر انہوں نے اپنے مکانوں میں داخل ہونے سے منع کردیا۔ میرے مکان کی کھڑکیاں جو لب سڑک کھلتی تھیں اور کھڑکیوں کے دروازہ اور سوراخوں سے ہمیں دیکھتے تھے اور ہم سب لوگ خاموشی کے ساتھ دعائوں میں لگے ہوئے تھے بچے سہمے ہوئے تھے اور میرے ایک ہاتھ میں گنڈاسہ تھا اور میں کمرے میں ٹہل رہا تھا اور بچوں اور مستورات کو آہستہ آہستہ تلقین بھی کر رہا تھا کہ دل نہیں ہارنا۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا۔ اگر فسادی مکان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تو ڈرنا نہیں۔ جر¶ات سے ان کا مقابلہ ہاکی چھری اور لاٹھی سے کرنا۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کی مدد کرے گا اور ان شریروں کو معلوم ہو جائے گا کہ مومن کس قدر دلیر ہوتا ہے۔ اس وقت ایک شخص کھڑکی کے سوراخ میں سے کھڑکی کے ساتھ آنکھ لگائے دیکھ رہ اتھا تو میرے لڑنے نے کہا کہ چرخے کا تکلا )جو بطور ہتھیار ہم نے تیار کر رکھا تھا( اس سوراخ میں ڈال کر اس کی آنکھ پوڑ دو۔ میں نے اسے جواب دیا کہ ہم حملہ نہیں کریں گے۔ البتہ دفاع جرم نہیں۔ جو مکان میں داخل ہوگا اس کو اس گنڈاسے سے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔ ہاتھ پائوں گردن جو بھی اس کھڑکی کے راستے مکان کے اندر آوے گی تو اس کو گنڈاسہ انشاء اللہ تعالیٰ مکان کے اندر رکھے گا اور جسم کا باقی حصہ مکان سے باہر رکھے گا۔۔۔۔۔ مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ میری اور میرے خاندان کی مدد کرے گا۔ کھڑکی کے سوراخ میں سے تاکنے والے شخص نے میری بایتں سنیں۔ اور میرے ٹہلنا اور گنڈاسے کو جوش میں حرکت دینا دیکھا تو چلا چلا کر کہنے لگا >ارے بابا تاں ٹوکا )گنڈاسہ( لئے پھردا اے )ارے لوگو بڈھا مراد اقبال محمد خاں بعمر ۵۸ سال( تو گنڈاسہ لئے پھر رہا ہے۔ اس کے چند منٹ بعد ہی وہ لوگ یہ کہتے ہوئے منتشر ہوگئے کہ تم نے دروازے نہیں کھولے۔ وہ لوگ چار بجے سہ پہر کو پھر آویں گے ان لوگوں کے چلے جانے کے بعد میرے مہمان گھرجاک )جو گوجرانوالہ شہر سے قریباً دو میل کے فاصلہ پر گائوں ہے( چلے گئے۔ اور میں امیر صاحب جماعت احمدیہ گوجرانوالہ کے مکان پر گیا اور ان کو مذکورہ بالا قصہ سنایا تب انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ میں ایس پی اور ڈی سی کو سارا ماجرا بتائوں۔ وہ مجھے بتانے لگے کہ وہ خود ابھی ابھی ڈی سی کو مل کر آتے ہیں۔
چنانچہ میں ایس پی او ڈی سی کے پاس رپورٹ کرنے کے لئے روانہ ہوا۔ راستے میں میرے بڑے بھائی رہتے تھے۔ میں ان سے ملا۔ )وہ ریٹائرڈ انسپکٹر پولیس اور ضلع گوجرانوالہ کے رضا کاروں کے کمانڈر بھی ہیں( ان کا داماد جو گوجرانوالہ کا ڈی آئی ایس تھا وہ بھی وہاں موجود تھے میرے بھائی نے مشورہ دیا کہ چار بجے جب مجمع مکان پر آوے تو تم ان سے کہہ دو کہ ہم احمدی نہیں ہیں۔ میں نے فوراً نہیں کہا کہ مرنا صرف ایک دفعہ ہے۔ یہ مجھ سے نہ ہوگا۔۔۔۔۔ میں اپنے گھر واپس آگیا اور میرا داماد جو گھرجاک میں رہتا ہے مذکورہ مہمانوں ے خبر سن کر میرے مکان پر آیا ہوا تھا اور میرے بال بچوں کو میرے بھائی کے گھر چلے جانے کو تیار کر رہا تھا۔۔۔۔۔ میرے بال بچے میری اجازت کے بغیر گھر چھوڑنے کو رضامند نہ تھے۔ میں نے گھر پہنچ کر بال بچوں کو اپنے داماد کے ہمراہ اپنے بھائی کے گھر روانہ کردیا۔ اور خود مکان میں تنہا نماز پڑھنے لگ گیا قریباً پانچ بجے شام موٹروں کی آواز میرے کان میں پڑی۔ تب میں نے مکان کی چھت پر چڑھ کر دیکھا کہ پولیس اور ملٹری اور محلہ کے لوگ جمع ہیں۔ ملٹری والوں نے میرے مکان کے ارد گرد پہرے لگائے ہوئے ہیں۔ وہ لوگوں سے باتیں کررہے تھے کہ مکان اندر سے بند ہے اور مکان میں کوئی آواز بھی نہیں آتی۔ مجھے چھت پر دیکھ کر انسپکٹر پولیس نے مجھے نیچے آنے کو کہا اور مکان میں کوئی آواز بھی نہیں آتی۔ مجھے چھت پر دیکھ کر انسپکٹر پولیس نے مجھے نیچے آنے کو کہا۔ چنانچہ میں نیچے ایا۔ انہوں نے مجھ سے سارا ماجرا سنا۔ انہوں نے بتلایا کہ یہ صاحب فرسٹ کلاس مجسٹریٹ ہیں۔ وہ خود انسپکٹر پولیس ہیں اور ملٹری کے افسران وغیرہ سے بھی تعارف کرایا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں گزیٹڈ آفیسر ہوں۔۔۔۔۔ غلام ربانی صاحب مذکور بھی دیگر محلوں والوں کے ہمراہ اس وقت موجود تھے۔ مجسٹریٹ صاحب نے فرمایا کہ اگر ذرا سا بھی کوئی واقعہ اس وقت کے بعد ہوا تو پولیس اسٹیشن میں اطلاع کردینا الخ۔<
مکرم میاں عبد الرحمن صاحب صابر~ف۳۱~ قائد خدام الاحمدیہ گوجرانوالہ کا بیان ہے کہ:۔
>مئورخہ ۷ مارچ بعد دوپہر میری بیوی اپنے ایک سالہ بچے کو دودھ پلا رہی تھی اور میں دوسرے بچے کو سینے پر لٹا رہا تھا کہ بلوائیوں کا ایک ہجوم آیا جس نے آتے ہی ہمارے مکان کے دروازوں پر پتھر۔ ڈنڈے اور اینٹیں مارنی شروع کردیں۔ ہمارے ایک ہمسایہ نے انہیں کہا کہ وہ تو یہاں ہیں نہیں۔ لیکن انہوں نے اس کی بات نہ مانی۔ اور مانتے بھی کیے جبکہ ہم اندر سے نظر آرہے تھے۔ ہمارا ایک دروازہ مضبوط تھا اور ایک کمزور لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مضبوط دروازہ ہی ٹوٹ گیا اور اس وقت ہم نے سمجھا کہ بس ہم گئے۔ لیکن عین اسی وقت گوجرانوالہ کے ایک معزز غیر احمدی دوست قاضی محمد شریف صاحب شوق اور ان کے بھائی آگئے اور انہوں نے ہجوم کو بڑی حکمت عملی سے قابو میں کرلیا جس کی وجہ سے ہجوم مکان کے اندر نہ آسکا۔ اس طرح محض خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہماری جان و مال اور عزت و آبرو اور سب سے بڑھ کر قیمتی شے ہمارا ایمان بچا رہا۔ اس ہجوم کے روکے جانے کے بعد ایک مولوی صاحب میرے پاس آئے اور بزعم خویش مجھے مسلمان ہونے کو کہا۔ میں نے کہا مولوی صاحب! مسلمان تو میں پہلے سے ہوں۔ اس وقت میری بیوی زینب دوسرے کمرہ میں تھی گو اس کی جسمانی ساخت اور صحت کمزور ہے اور بظاہر اس کی طرف سے کمزوری دکھانے کا اندیشہ ہوسکتا تھا۔ لیکن اس وقت وہ بھوکی شیرنی کی طرح صحن کی طرف جھپٹی اور نہایت بارعب الفاظ میں کہا >خبردار ڈولیو نہ۔ مرنا اکو واری اے< )خبردار! ڈگمگایو مت۔ مرنا ایک ہی دفعہ ہے ناقل(
اس کے ان الفاظ سے میرے جسم میں ایک لہر سے دوڑ گئی۔ زاں بعد وہ مولوی صاحب اور ان کے ساتھی خاموشی سے چلے گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت بظاہر حالات ہماری حفاظت کے تمام ذرائع ختم ہوچکے تھے۔ مثلاً میرا حقیقی بھائی اس حملہ سے چند منٹ پہلے ہی باہر چلا گیا تھا۔ اور اس تمام واقعہ کے بعد گھر آیا۔ ایسے موقعہ پر ہمسایوں سے جو توقع ہوسکتی تھی وہ بھی رائیگاں گئی۔ جس دروازے پر بوجہ مضبوطی اعتماد تھا وہ بھی ٹوٹ گیا اور بظاہر ہماری حالت یہی تھی ~}~
حیلے سب جاتے رہے اک حضرت تواب ہے
چنانچہ خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم ار ذرہ نوازی سے ہماری شب و روز کی التجائوں کو سنا اور ہماری بے کسی کے پیش نظر غیب سے ہماری مدد کی۔<
۱۸۔ مکرم نور محمد صاحب امینی بنگوی کا بیان ہے کہ:۔
>میں بنگہ ضلع جالندھر کا مہاجر ہوں۔۔۔۔ جن دنوں مخالفت اور فسادات کا زور شور ہوا تھا می نے چند یوم اپنے مکانوں کا دروازہ بند کرکے اندر ہی رات دن بسر کئے تھ۔ غیر احمدی لڑکے جوان اور بچے اکٹھے ہوکر میرے مکان کے پاس آکر گالیاں نکالتے اور دروازہ پر اینٹیں اور پتھر مارتے۔ میں اور میرے اہل و عیال صبر سے کام لے کر دعائوں میں میں مصروف رہتے تھے۔ ایک جبکہ مخالفت کا زور تھا اور خطرہ بڑھ گیا تھا میری بیوی کے دو حقیقی بھائی جو غیر احمدی ہیں اور احمدیت کے سخت مخالف اور دشمن ہیں اور میرے مکان کے قریب میں رہتے ہیں انہوں نے یرے پاس ایک لڑکا بھیجا۔ وہ لڑکا کہنے لگا کہ مجھے ان دونوں نے بھیجا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تم اگر اب اپنی خیر چاہتے ہو اور جان بچانا چاہتے ہو تو احمدیت سے توبہ کرلو۔ میں نے یہ سن کر لڑکے سے کہا کہ تم ان کو جا کر کہہ دو کہ وہ مجھے یہ تحریر کردیں کہ توبہ کرنے سے مجھے موت نہیں آئے گی۔ جب بے ایمان ہوکر بھی موت آئے گی تو پھر بے ایمانی کی موت سے ایمانداری کی موت نہایت عمدہ اور حد درجہ بہتر ہے۔ یرا یہ جواب سن کر وہ لڑکا چلا گیا۔ اس کے بعد پھر میرے پاس کوئی نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ نے دعائوں کی برکت سے مجھے اور میرے اہل و عیال کو ہر طرح اپنی پناہ اور حفاظت میں رکھا۔<
۱۹۔ مکرم ماسٹر امجد علی صاحب صدر مدرس گونا چور کا بیان ہے کہ:۔
>۷ مارچ ۱۹۵۳ء کو دو بجے کے قریب اپنے مکان پر پہنچا۔ اڑھائی بجے کے قریب ہمارے مکان پر سات آٹھ صد نوجوان کا ہجو جن کے ہاتھوں میں دو دو تین تین ہاتھ لمبے ڈنڈے تھے ہمارے مکان پر حملہ آور ہوئے۔ آتے ہی انہوں نے گالیاں نکالنی شروع کردیں۔ اور ڈنڈوں سے دروازہ اور کھڑکیاں توڑنی شروع کردیں۔ چنانچہ انہوں نے کھڑکیوں کے اوپر کے تمام چھجے اور ایک کھرکی توڑ ¶دی۔ اور پتھرائو سے کئی شیشے توڑ دیئے۔ کھڑکی کے توڑنے کے بعد ایک آدمی نے کھڑکی کے اندر ہاتھ بڑھا کر کھرکی کے سامنے کی چارپائی پر سے ایک بستر باہر کھینچ لیا۔ تمام مستورات اور بچے اوپر کی منزل پر کھڑے ان کی تمام کاروائی دیکھ رہے تھے۔ میری بیوی نے اوپر سے انہیں کہا کہ لو لوٹ مارا اگر تمہارا اسلام یہی ہے اور لوٹ مار کی اجازت دیتا ہے تو ٹھہرو میں نیچے آکر دروازہ کھول دیتی ہوں۔ تما مکان کو لوٹ لو۔ اس کے بعد کسی آدمی کے کہنے پر اس لڑکے نے بستر کھڑکی کے اندر پھینک دیا۔ اور ایسی فحش کلامی کرتے ہوئے جس کے اظہار کی اخلاق بھی اجازت نہیں دیتا۔ چلے گئے۔<
۲۰۔ مندرجہ بالا بیانات میں ضمناً بعض احمدی مستورات کے جذبہ ایمانی اور غیرت دینی کا کئی بار تذکرہ ہوچکا ہے۔ اب آخر میں دو اور احمدی خواتین کی ثابت قدمی۔ استقلال اور ایمانی پختگی کا قابل فخر واقعہ مبارک احمد صاحب ناصر سابق دیہاتی مبلغ ترگڑی ضلع گوجرانوالہ کے الفاظ میں لکھا جاتا ہے:۔
>گوجرانوالہ کے محلہ گوبند گڑھ میں مستری امام دین صاحب کے گھر صرف ان کی دو بہوئیں تھیں۔ صادقہ بیگم صاحبہ اور خورشید بیگم صحبہ ان ہر دو کے بچے ان کے اپس ہی تھے جو کہ اول الذکر کے چاروں اور دوسری کے دو اور ساتھ ہی گھر میں ایک رشتہ دار نوجوان لڑکی سخت بیماری تھی۔ جب یہ شورش شروع ہوئی تو انہوں نے بازار سے نئی لوہے کی کنڈیاں منگوا کر دروازوں کو خود لگائیں۔ مکان کا کل قیمتی سامان گیلری میں بند کرکے اس کی سیڑھی توڑ ڈالی تاکہ کوئی آدمی گیلری پر نہ چڑھ سکے۔ اس طرح سامان کو محفوظ کرلیا۔
محلہ کے قریبی آدمی متواتر روزانہ ہر تین چار گھنٹہ کے بعد ان کے پاس آتے اور اپنی طرف سے محبت اور پیار سے یہ کہتے کہ تم صرف احمدیت سے انکار کردو۔ اس سے تمہاری بے عزتی بھی نہ ہوگی۔ اور نقصان بھی نہ ہوگا۔ لیکن ان ثابت قدم احمدی خواتین نے ہر دفعہ یہی جواب دیا کہ ہم مرجائیں گی لیکن احمدیت سے انکار ہرگز نہ کریں گی یہی سلسلہ متواتر کئی روز تک چلتا رہا۔ ازاں بعد محلہ کے گیر احمدیوں نے بھی کہا کہ تم ہمارے گھروں میں چلی چلو۔ ہم وہاں تمہاری اچھی طرح حفاظت کریں گے مگر انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہم اپنے گھر ہی میں رہیں گی۔ خواہ کچھ بھی ہو۔ اس طرح ان کی غیر احمدی رشتہ دار مستورات نے بھی احمدیت سے پھسلانے کی کئی مرتبہ کوشش کی اور کہتی رہیں کہ یہاں کئی گھرانوں نے احمدیت کو چھوڑ دیا ہے۔ تم تو اکیلی ہو۔ اپنے آپ کو بچا لو۔ لیکن ان کا یہی جواب رہا کہ ہم مریں گی بھی تو احمدیت کی راہ میں ہی مریں گی۔~<ف۳۲~
ضلع میں شورش کے دوسرے مراکز
رپورٹ تحقیقاتی عدالت میں لکھا ہے:۔
>ضلع میں شورش کے دوسرے مراکز حسب ذیل تھے:۔
۱۔
کاموکے:۔ یہاں احمدیوں اور حکومت کے خلاف مظاہرے اور جلوس مرتب کرنے والے لطیف احمد چشتی اور حافظ عبد الشکور تھے۔ جو سرمایہ ضبط کیا گیا اس کی مقدر دس ہزار سات سو بہتر روپے تھی۔
۲۔
وزیر آباد:۔یہاں تحریک کی تنظیم کرنے والے مولوی عبد الغفور ہزاروی اور کا مریڈ عبد الکریم تھے۔ یہاں ریل کی پٹڑی پر لکڑی کا ایک لٹھ رکھ کر ایک ٹرین رو کی گئی۔جو سرمایہ یہاں ضبط کیا گیا اس کی مقدار دو ہزار پانچ سو ساٹھ روپے تھی۔
۳۔
حافظ آباد:۔یہاں ابو الحسن محمد یحیٰ اور مولوی فضل الٰہی نے عوام کے جذبات کو بھڑکایا۔
۴۔
گکھڑ:۔یہاں ٹرینیں روکی گئیں۔۔۔۔۔
۵۔
نوشہرہ ورکاں:۔ ایک پرانا کانگریسی ڈاکٹر محمد اشرف یہاں گڑبڑ کا ذمہ دار تھا۔
۶۔
سوہدرہ:۔ یہاں مولوی عبد المجید اہل حدیث نے عامجلسوں کا اہتمام کیا~ف۳۳~
فصل سوم
ضلع سیالکوٹ
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں ضلع سیالکوٹ کے اندر احمدی احراری نزاع کی ابتدائی تاریخ پر روشنی ڈلنے کے بعد یکم مارچ ۱۹۵۳ء کی نسبت لکھا ہے:۔]>[۔۔۔۔ یکم مارچ ۱۹۵۳ء کو شہر نے کامل ہڑتال کی اور دس ہزار اشخاص کا ایک ہجوم ریلوے اشتیشن پر رضا کاروں کے اس پہلے دستے کو الودعا کہنے کے لئے جمع ہوا جو زیر سرکردگی مولوی محمد یوسف >ڈائریکٹ ایکشن< میں اپنی خدمت پیش کرنے کے لئے روانہ ہو رہا تھا۔ اس ہجوم نے بزار میں گشت لگایا۔ احمدیوں کے خلاف نعرے لگائے اور حکومت بالخصوص وزیراعظم پاکستان کو گالیاں دیں۔~<ف۳۴~
صدر انجمن احمدیہ کے عدالتی بیان میں ہے:۔
>۱۳ اور ۴ مارچ ۱۹۵۳ء کو مجلس عمل کے ممبروں کی گرفتاری کی وجہ سے حالات نے متشددانہ صورت اختیار کرلی اور حکام کو گولی چلانی پڑی اور فوج بلائی گئی۔ فوج کی آمد سے قبل دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلوس نکلتے رہے۔ اور پولیس کی انتہائی کوششوں کے باوجود شر پسند لوگ منتشر نہ ہوئے اور قاتلانہ ہتھیاروں کے ساتھ احمدیوں پر حملے جاری رہے۔ اور سات اشخاص کو جن میں خواتین بھی شامل تھیں شدید ضربات آئیں اور شہر میں دس احمدیوں کو خوفزادہ کرکے احمدیت سے منحرف کیا گیا۔
تھانہ پسرور میں دس احمدیوں کو خوفزدہ کرکے یہ اعلان کرنے پر مجبور کیا گیا کہ انہوں نے احمدیت ترک کردی ہے۔ اس ۔۔۔۔۔ بارہ میں متعلقہ پویس اسٹیشن کے افسر کے پاس شکایت کی گئی لیکن اس نے دخل دینے سے انکار کردیا۔ اس قسم کے لاانتہاء واقعات ضلع کے دوسرے مقامت میں ظہور پذیر ہوئے۔
سیالکوٹ کے احمدیوں کے ایک وفد نے خواجہ محمد صفدر صاحب پریزیڈنٹ مسلم لیگ سے ملاقات کی اور انہیں اس مشتعل حالات سے مطلع کیا۔ خواجہ صاحب نے جواب دیا کہ اگرچہ انصاف اور شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ اور دوسرے مسلم لیگی بے خوف ہوکر احمدیوں کی مدد کریں مگر دولتانہ صاحب کے گزشتہ دورہ پر میں نے ان سے کہا تھا کہ حالات خطرناک ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن وزیراعلیٰ نے مجھے یہ جواب دیا کہ خدشہ کی کوئی بات نہیں۔ مولویوں کے ہمارے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور وہ صوبائی حکومت کے خلاف کوئی مصیبت کھڑی نہیں کریں گے۔<
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں ۳ مارچ کے حالات کا ذکر بایں الفاظ میں کیا گیا ہے:۔
>دوپہر تک ہجوم بے انتہاء بڑھ گیا اور ٹریفک ڈیوٹی کے پولیس کانسٹیبلوں پر حملے کرنے لگا۔ اس کے بعد اس نے ایک جلوس کی صورت اختیار کرلی اور اس شخص کی نعش کو ساتھ لے کر جو دار الشہابیہ میں مارا گیا تھا گشت کرنے لگا۔ یہ ہجوم سٹی مسلم لیگ کے دفتر میں پہنچا اور اس کی لائبریری لوٹ لی۔ خواجہ محمد صفدر ایم اے صدر سٹی مسلم لیگ کو ان کے دفتر سے نکالا گیا۔ ان کا منہ کالا کیا گیا۔~ف۳۵~ اور ان کو بازاروں میں پھرایا گیا۔ آخر کرنل خوشی محمد نے ان کو چھڑایا۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ۳ تاریخ کے ایک بجے بعد دوپہر سے لے کر ۴ تاریخ کے ایک بجے بعد دوپہر تک چوبیس گھنٹے کا کرفیو نافذ کردیا تھا۔ لیکن چونکہ پولیس اور فوج کی نفری کم تھی اس لئے یہ کرفیو عمل میں نہ لایا جاسکا اور کمشنر نے اس کے اوقات تبدیل کرکے دس بجے شب سے ساڑھے چار بجے صبح تک کردیئے۔ اسی شام کو ایک غیر احمدی دوست عبد الحی صاحب قریشی کو جنہوں نے ہجوم کو تشدد سے منع کیا تھا زدو کوب کیا گیا اور اس کا گھر لوت لیا گیا۔۔۔۔۔ تیسرے پہر ایک ہجوم نے ایک اے۔ ایس۔ آئی اور ایک کانسٹیبل پریورش کی۔ اے۔ ایس۔ آئی کا ریوالور اور کانسٹیبل کی بندوق چھین لی۔ دو احمدیوں کے چھرا گھونپ دیا گیا اور تین دوسرے احمدیوں کے مکانات ہجوم نے لوٹ لئے۔~<ف۳۶~
سیالکوٹ شہر کے واقعات
‏text] g[taان مستند رپورٹوں کی مزید تفصیل معلوم کرنے کے لئے سیالکوٹ شہر کے مخلص احمدیوں کے بعض بیانات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ مکرم مرزا محمد حیات صاحب )مہاجر قادیان( صدر حلقہ واٹر ورکس سیالکوٹ رقمطراز ہیں:۔
>میرے حلقہ واٹر ورکس میں چوہدری عبد الرشید صاحب` محمد لطیف خان صاحب حضرت خیفہ عبد الرحیم صاحب۔~ف۳۷~ چوہدری محمد لطیف صاحب` سیٹھی کرم الٰہی صاحب حکیم پیر احمد شاہ~ف۳۸~ صاحب اور مولوی برکت علی صاحب کے مکان پر باقاعدہ خشت باری جاری رہی۔ میرے اور چوہدری عبد الرشید صاحب کے مکان کے شیشے اکثر ٹوٹ گئے۔ سیٹھی کرم الٰہی صاحب کے باہر کی لکڑی کی سیڑھی جلا دی گئی۔ ہمارے مکانوں کے ارد گرد نوجوانوں کے جلوس آتے جاتے رہتے تھے۔ اور گندے نعرے بلند کرکے اپنی مائوں بہنوں کو اپنی بے حیاتی کا نمونہ دکھایا کرتے تھے۔<
>مورخہ ۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو میرا لڑکا مرزا محمد اصغر جس کی عمر قریباً گیارہ سال ہے جب اپنی گلی میں گیا تو اس کو چند نوجوانوں نے گھیر لیا اور ان میں سے ایک نے اس کا بازو پکڑا اور اسے چاقو مارنے لگا۔ تب میرے لڑکے نے آواز دی۔ ابا جی! مجھے چاقو مارنے لگا ہے۔ یہ آواز سن کر میں نے بھی زور سے آواز دی۔ فکر نہ کر۔ میں آرہا ہوں۔ جب میں نے بندوق اٹھائی تب اسے دیکھتے ہی وہ نوجوان میرے لڑکے کو چھوڑ کر بھاگ گئے<
۲۔ مکرم محمد احمد صاحب نظام فوٹو گرافر )محلہ اسلام پورہ( کا خود نوشت بیان ہے کہ:۔
>ہمارے بھائی صاحب محلہ اسلام آباد میں رہتے تھے۔ اور ہم محلہ اسلام پورہ میں رہتے ہیں۔ جب میں اپنے بھائی کے گھر آرہا تھا تو میں نے دیکھا راستہ میں ناصر پال کے مکان کے گرد بہت سے غنڈے` ڈنڈے` تلواریں اور کلہاڑیاں لئے ہوئے پھر رہے ہیں۔ جب میں ناصر پال کے مکان کے کونے پر پہنچا تو وہاں سے میں نے گلی میں جانا تھا۔ ان غنڈوں میں سے ایک لڑکا مجھے جانتا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ لیا اور شور مچا دیا کہ وہ مرزائی جارہا ہے۔ وہ غنڈے جو ناصر پال کے مکان کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے تھے وہ سب میرے پیچھے بھاگے یہاں تک کہ انہوں نے مجھے میرے گھر کے پاس ہی جاکر گھیر لیا اور میرا سائیکل بھی انہوں نے چھین لیا۔ چھ سات لڑکے تھے جنہوں نے مجھے لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے مارا۔ چاقو کا بھی وار کیا مگر مجھے خدا تعالیٰ نے بچا لیا۔ چاقو میرے سینہ پر تھا کہ میں نے ایک ہاتھ سے چھڑا کر پاس ہی اپنے ایک غیر احمدی دوست کے گھر میں جا گھسا۔ خون سے میرے کپڑے لت پت تھے۔ اور میرا چہرہ پہچانا نہ جاتھا تھا۔ جس غیر احمدی کے گھر میں گھسا تھا وہ بھی مجھے دھکے دے کر باہر نکال رہے تھے یہاں تک کہ دروازہ اس زور سے بند کیا تھا کہ مشکل سے کھلتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے میری مدد کی اور زور لگانے سے دروازہ کھل گیا اور میں اندر چلا گیا۔ دروازہ بند کرکے مکان کے ایک کونے میں بیٹھ گیا لیکن غنڈوں نے شور مچایا کہ مرزائی کو باہر نکال دو ورنہ مکان کو آگ لگا دی جائے گی۔ میں کمرے میں بھاگتا پھرتا تھا جس سے ان کے مکان کا فرس خون سے بھر گیا تھا۔ اسی دوران گلی میں کئی ایک رحم دل آدمی اور دوست جمع ہوگئے جنہوں نے مجھے اندر سے نکالا۔ جب میں باہر آگیا تب بھی غنڈے حملہ کرنے سے باز نہ آئے اور انہوں نے مجھ پر وار کئے۔ اس کے بعد مجھے کلمہ پڑھوایا۔۔۔۔۔ پھر وہ غنڈے چلے گئے اور شیخ مہر دین احمدی کے گھر جاکر انہیں بھی زخمی کیا۔<
۳۔ جناب ناصر احمدی صاحب پال تحریر فرماتے ہیں:۔
>۲ مارچ سے قبل کئی دنوں سے یہ شور بپا تھا کہ ہمارا مکان سب احمدیوں سے بڑا ہے اور یہ بہت کٹر قسم کے احمدی ہیں۔ انہیں اس دفعہ بالکل ہی صاف کردیا جائے گا۔ بہر کیف ہم نے بھی اپنے بچائو کی خاطر مناسب تیاری کرلی تھی۔ اور راشن وغیرہ بھی ایک ہفتہ کے لئے اندر ڈال لیا تھا۔ چنانچہ ۳ مارچ سے محلہ کے باہر گولی وغیرہ چلی اور ایک دو نعشیں اٹھائی گئیں تو لوگوں میں انتقام کی آگ اور بھڑکنے لگی اور ہمارے مکان کے گرد غنڈے قسم کے لوگ اکٹھے ہونے شروع ہوگئے۔ بال¶اخر تقریباً ایک بجے کے قریب ایک بہت بڑا ہجوم آیا۔ جس نے ہمارے دروازوں سے اندر داخل ہونے کی کوشش کی۔ مگر وہ ناکام رہا۔ لیکن جب وہ ہمارے تیسرے دروازے کے راستہ داخل ہونے میں کامیاب ہونے ہی والے تھے اور انہوں نے اسے توڑ ہی ڈالا تھا کہ ہم تینوں بھائیوں نے چھت پر چڑھ کر ان سے کہا کہ تم لوگ یہاں سے چلے جائو ورنہ ہم اپنی حفاظت اور تمہارے حملہ کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں ہم رائفل اور بندوق بھی چھت پر لے آئے ہیں۔ اس پر ہجوم نے ہمارا رخ چھوڑ دیا۔<
یہ تو عوام کا حال تھا۔ اب ان کے خواص یا سرغنوں کی شجات و مردانگی کا حال بھی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں پڑھ لیجئے۔ ایک جگہ سیالکوٹ کے بلوائیوں کی ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:۔
>ایک آدمی چھرا گھماتا اور ناچتا ہوا باہر نکلا اور گولی کھانے کے لئے سینہ تان کے کھڑا ہو گیا لیکن میں نے اس کو بتایا کہ جب تک وہ فیتے کے دوسی طرف رہے گا اس کو گولی نہیں ماری جائے گی۔ لیکن جونہی اس نے فیتہ عبور کیا اسے گولی مار دی جائے گی۔ جب گولی چلنی شروع ہوئی تو مجھے وہ کہیں نظر نہ آیا۔ وہ کہیں ہجوم میں غائب ہوگیا تھا پہلی فائرنگ کے بعد ایک مولوی نے سامنے آکر فوج اور پولیس کو گالیاں دیں اور ان کو کافر کہا۔ میں نے بگلر سے کہا کہ بگل بجائے۔ چنانچہ جونہی اس مولوی نے بگل کی آواز سنی وہ ہجوم پر سے پھلانگتا ہوا پیچھے کی طرف بھاگ گیا۔~<ف۳۹~
۴۔ مکرم صفدر خاں صاحب محلہ بھابھڑیاں میں مقیم تھے` مظاہرین نے ان کو انہی کے مکان پا جا پکڑا۔ وہ بیچارے اپنی جان بچانے کے لئے ادھر ادھر دوڑے بھاگے مفسدین کی گرفت سے نہ نکل سکے۔ یہ ایک شخص کے چبوترے پر پناہ لینے کے لئے جا چڑھے لیکن اس نے بھی دھکا دے کر انہیں مظاہرین ہی کے حوالہ کردیا۔ جنہوں نے ان پر پے در پے تیز دھار والے آلے سے حملہ کرکے ان کو سخت مجروح کیا اور انہیں مردہ سمجھ کر چلے گئے۔ بعد میں انہیں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں خدا تعالیٰ نے انہیں شفا عطا فرمائی۔ انہی کے متعلق ایک اور دوست کا بیان ہے کہ یہ مفسدین کے حملہ سے بچنے کے لئے اپنے ایک معتمد علیہ سید ہمسایہ کے ہاں گئے۔ اور اس سے پنجتن پاک کا واسطہ دے کر پناہ مانگی مگر اس نے بجائے پناہ دینے کے ان کی کلائی کو دانتوں سے کاٹ کھایا اور زخمی کرکے مفسدین کے حوالہ کردیا۔ خود صفدر خان صاحب نے لکھا ہے:۔
>میں جب ہسپتال گیا سوائے چند چیزوں کے باقی تمام سامان میرے مکان پر تین دن تک موجود تھا۔ اس کے بعد لوگ میرا سامان لوٹ کر لے گئے۔<
۵۔ جناب شیر محمد صاحب~ف۴۰~ عالی صدر بازار سیالکوٹ نے انہی دنوں اپنی ایک چھٹی میں لکھا:۔
>جیسا کہ حضور کی پہلی چٹھی میں ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے احمدیوں کی مدد کے لئے بارش کی طرح نازل ہورہے ہیں )یہ نظارہ( یہاں دوستوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ باوجود )صحیح( تنظیم نہ ہونے کے اللہ تعالیٰ کی نصرت کس طرح شامل حال رہی۔ جن دوستوں نے )دبائو میں آکر( ارتداد اختیار کیا وہ بھی اس تنظیم کے نہ ہونے کی وجہ سے تھا ورنہ عقائد ان کے اب بھی وہی ہیں الخ<
۶۔ محمد حسین صاحب کلاتھ مرچنٹ نے لکھا ہے کہ:۔
>مئورخہ ۴ مارچ کو قریباً ۱۱ بجے دن تھانہ صدر سیالکوٹ کے سامنے جب ہجوم بے قابو ہوگیا تو فوج نے گولی چلائی اور لوگ بھاگے۔ قریباً تین چار آدمیوں کا ایک ریلا جب ہماری گلی سے بھاگتا ہوا گزرا تو کسی شرارتی نے ان کو کہا کہ وہ سامنے مرزائی کا گھر ہے )اس محلہ میں صرف میں ہی احمدی رہتا ہوں( بس پھر کیا تھا سارا ہجوم میرے گھر پر پل پڑا۔ اور اینٹوں کی بوچھاڑ شروع کردی اور میرے مکان کی ڈیوڑھی کا دروازہ توڑنا شروع کردیا اور ساتھ ہی مکان کو آگ لگانے کی تیاری بھی شروع کردی۔ اس وقت میں اپنے بال بچوں سمیت دعا میں مشغول تھا۔ وہ چونکہ بڑا نازک وقت تھا اور میں یہ سمجھ چکا تھا کہ اب لوگ ڈیوڑھی توڑ کر مکان کے اندر گھس آئیں گے اور مار دیں گے۔ اس وقت میں نے اپنے بیوی بچوں کو صرف اور صرف یہ وصیت کی احمدیت یعنی حقیقی اسلام ایک نور ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ دنیا میں غالب آککر رہے گا۔ اور یہ کہ احمدیت مجھے ورثہ میں نہیں ملیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے سلسلہ احمدیہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ یہ لوگ مجھے اب مار دیں گے اور اگر آپ پر یہ ظلم کریں جو یقیناً کریں گے تو کمزوری نہ دکھانا اگر تمہاری بوٹیاں بھی اڑا دیں تب بھی حضرت مسیح موعود۔۔۔۔۔ کی شان کے خلاف کوئی لفظ زبان پر نہ آنے پائے۔ اس پر سب نے لبیک کہا۔ ادھر میں گھبرایا ہوا یہ وصیت کررہا تھا۔ ادھر اللہ تبارک و تعالیٰ کے فشتے میری مدد کو پہنچ چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے اس مشتعل ہجوم کو بغیر کوئی نقصان پہنچانے کے واپس بھگا دیا تھا۔ میں حوصلہ کرکے ڈیوڑھی کی طرف گیا اور اندر سے کان لگا کر آواز سننے لگا۔ لیکن وہاں کوئی ہوتا تو آواز آتی۔ وہ لوگ تو بھاگ چکے تھے۔ دروازہ کھولا تو باہر اینٹوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور اینٹیں مار مار کر ڈیوڑھی توڑنے کی کوشش کی۔ اندر کا ایک کنڈا کھل بھی گیا تھا لیکن تالہ جو کہ بہت مضبوط تھا نہ کھل سکا۔ باہر نکل کر دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ دروازہ بند کرکے اوپر آیا اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ پھر وہ رات بڑی بے چینی سے گزری۔ ہمارے ہمسائے جو کہ سب کے سب غیر احمدی تھے ہماری زندگی سے مایوس ہوچکے تھے اور سمجھتے تھے کہ رات کو آگ آکر ہمیں مار ڈالیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر طرح سے ہماری حفاظت فرمائی۔ اور ہم کو باعزت و سلامت رکھا۔ الحمدلل¶ہ۔<
۷۔ مکرم شیخ عبد الرحیم صاحب پراچہ~ف۴۱~ سیالکوٹ نے اپنی سرگزشت بایں الفاظ لکھ کردی:۔
>مارچ ۱۹۵۳ء میں جبکہ احرار ایجی ٹیشن زوروں پر تھی خاکسار نے مع اہل و عیال )دو لڑکیاں ایک اہلیہ اور ایک میں( سیالکوٹ چوک پوربیاں گلی پنڈتاں کا مکان نمبر ۴۲۵/۸ جو کہ میرے نام آلاٹ ہے میں نے رہائش اختیار کی ہوئی تھی یکم مارچ سے ہی ہم پر اپنے پڑوس میں رہنے والے احراریوں کی طرف سے اینٹیں پڑنی شروع ہوگئی تھیں مگر ہم ارد گرد رسی باندھ کر اوپر رضائیاں ڈالتے تھے تاکہ جو بھی پتھر آئے ان سے ٹکرا کر گر جائے اور اس کا زور ٹوٹ جائے۔ غالباً ۳ مارچ کو جبکہ گولی چل رہی تھی اور جلوس نکلا ہوا تھا ہمارے پڑوس میں ایک احراری مولوی رہتا تھا۔ اس کے ساتھ کئی اور آدمیوں نے اپنے مکان کی چھت پر کھڑے ہوکر مجھے بلایا اور کہا کہ ایک جلوس نکلا ہوا ہے جو پٹھان صفدر کو قتل کر آیا ہے اور وہ اب تمہاری طرف آرہا ہے۔ اس لئے ہم آپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ آپ اسی وقت بال بچوں کو لے کر یہاں سے نکل جائںی۔ بعد میں ہمیں نہ کہنا کہ خبر نہیں ہوئی۔ میں نے جواب دیا کہ ادھر جلوس نکلا ہوا ہے اور دوسری طرف گولی چل رہی ہے۔ ایسے حالات میں کسی طرف بھی جاے کے لئے تیار نہیں اور ہم گھر میں ہی مریں گے یا زندہ رہیں گے۔ بعد میں وہ کہنے لگے تم چلے جائو۔ عورتوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ میں نے جواب دیا کہ میں عورتوں کو چھوڑ کر کسی طرف بھی نہیں جاسکتا۔ پہلے میں مروں گا۔ بعد میں میرے بال بچوں کی طرف کوئی دیکھے گا۔ اس پر وہ چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ان کی عورتیں آئیں اور انہوں نے کہا کہ اپنی جا بچانی فرص ہے۔ ہمارا مشورہ یہی ہے کہ آپ >مسلمان< ہوجائیں۔ میں نے جواب دیا کہ مسلمان تو ہم پہلے سے ہی ہیں۔ اپ کے کلمہ اور ہمارے کلمہ میں` آپ کے قرآن میں` آپ کی نماز میں اور ہماری نماز میں کیا فرق ہے؟ آپ ہر روز ہمیں دیکھتے ہیں پھر انہوں نے نیچے جاکر دوسرے پڑوسیوں کو بتایا کہ وہ تو کوئی بات بھی نہیں مانتا۔
نیچے سے سب پڑوسیوں نے مل کر ہمیں بلانا شروع کیا اور کہا کہ تم نیچے اترو۔ ورنہ نیچے سے آگ لگا دیں گے۔ میں نے اوپر سے جواب دیا میری تو تمہارے ساتھ کوئی دشمنی نہیں اگر آپ لوگوں نے ہمیں قتل کرنا ہے تو اوپر آجائیں۔ اگر آگ لگانی ہے تو گلا دیں۔ ہمارا مکان جلے گا تو ساتھ ہی آپ کا بھی جلے گا۔۔۔۔۔ جو سقہ ہم کو پانی دیتا تھا اس کو بھی حملہ والوں نے پانی دینے سے روک دیا اور جو خاکروب ہمارے ہاں صفائی کرتی تھی اس کو بھی انہوں نے روک مگر وہ چونکہ عیسائی تھی اس نے ان کی پرواہ نہ کی اور برابر کام کرتی رہی۔ نیز فساد کے دنوں میں میریبڑی لڑکی میٹرک کا امتحان دے رہی تھی۔ امتحان کا سنٹر گورنمنٹ لیڈی اینڈرسن ہائی سکول میں تھا جو ہمارے گھر سے کافی فاصلہ پر تھا۔ ہر روز صبح کو میں اپنی لڑکی کو لے جاکر سنٹر میں چھوڑ آتا اور بعد میں پھر واپس لایا کرتا تھا۔ ایک دن جبکہ میں جارہا تھا ایک جلوس میرے پیچھے بڑی تیزی سے آیا۔ اور کسی نے کہا کہ یہ مرزائی جارہا ہے۔ اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے ہمت دی۔ میں وہیں کھڑا ہوگیا اور انہیں للکارا کہ ائو جس نے آنا ہے۔ مگر اس کے بعد پھر کسی کو جر¶ات نہ ہوئی کہ میری طرف بڑھے۔ اس طرح خدا تعالیٰ نے نصرت بالرعب سے میری جان بچالی۔ الحمدللہ۔<
چوہدری عبد الرشید صاحب حلقہ واٹر ورکس کا بیان ہے کہ:۔
>ایک دن شام کے وقت میرے مکان کو جبکہ میں گھر پر ہی تھا غنڈوں نے گھیر لیا۔ اور آگ لگانے کی کوشش کی۔ اس وقت میں اور میرے تایا چوہدری محمد علی صاحب موجود تھے۔ ہمیں بے حد فکر ہوئی۔ اس وقت سوائے خدا تعالیٰ کے ہمارا اور کوئی مددگار نہ تھا مگر ہن نے اپنے امام ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے مکان پر رہتے ہوئے ہی اپنی جان دینے کی ٹھان لی۔ مگر قربان جائوں اس عالم الغیب پر کہ اچانک ایک جیب کار اور ٹینک میں چند فوجی افسر اور مسلح گارڈ نے آکر ان تمام اشخاص کو گھیرے میں لے لیا۔ اس طرح ہماری جانیں اور مکان بیخر و بخوبی بچ گئے۔<
>ہمارے محلہ کی ایک قصائی عورت نے )جو ان دنوں نوجوانوں اور لڑکوں کو اکٹھا کرکے ہمارے مکان پر پتھرائو کرواتی رہتی تھی( ایک دن شام کے وقت باہر کے دروازوں کو بہت زور سے کھٹکھٹایا۔ چنانچہ میں نے دروازہ کھولنے کے لئے دروازہ کے کنڈے کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ اچانک میرے دل کو کسی غیبی طاقت نے روک دیا۔ چنانچہ میں نے دروازہ کھولنے کی بجائے دروازہ کے اوپر جو گیلری ہے اس میں جاکر کھڑکی کھول کر جب دیکھا تو دو لڑکے نوجوان چاقو کھولے اس انتظار میں کھڑے ہیں کہ میں جونہی دروازہ کھولوں وہ مجھ پر بے دریغ وار کردیں۔ مگر الحمدلل¶ہ کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس موقع پر بھی بچا لیا۔<
>ایک روز عشاء کے وقت مجھے تایا صاحب نے کہا کہ آئو نماز باجماعت گھر میں ہی ادا کرلیں۔ ہم پہلے ہی دو تین روز )خطروں کی وجہ سے( بیت الذکر نہ جاسکتے تھے۔ پہلے تو میں تیار ہوگیا مگر اس کے معاً بعد میرے منہ سے نکلا کہ اپ اکیلے نماز پڑھ لیں مگر اس سے قبل گھر کے برتن بالٹی وغیرہ پانی سے بھر دیں۔ چنانچہ انہوں نے پانی بھر کر نماز پڑھنی شروع کردی اور میں نے مکان کی ایک کھڑکی کے ذریعہ مکان کی حفاظت کی خاطر باہر دیکھنا شروع کیا ہی تھا کہ اسے میں لوگوں نے آکر مکان کی ایک بیٹھک کو پٹرول وغیرہ سے آگ لگا دی۔ چنانچہ اسی وقت میں نے اور تایا صاحب نے بھرے ہوئے پانی سے آگ پر فوری طور پر قابو پالیا۔<
ضلع سیالکوٹ کے دوسرے مقام کے واقعات
جو کچھ سیالکوٹ شہر میں ہوا وہی کچھ ضلع سیالکوٹ میں بھی ہوا کیونکہ شہر سیالکوٹ کی طرح ضلع سیالکوٹ کے لئے بھی الگ مجلس عمل بنائی گئی تھی اور احمدیوں کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کا باقاعدہ انتظام کیا گیا تھا جیسا کہ تحقیقاتی عدالت کی رورٹ میں لکھا ہے:۔
‏]qi >[tagمجلس عمل پنجاب کی ہدایت کے مطابق اس ضلع میں ایک مجلس عمل مرتب کی گئی۔ اس مجلس عمل نے رضا کاروں کی بھرتی اور سرمائے کی فراہمی کا کام شروع کردیا۔ صاحبزادہ فیض الحسن ضلع میں جلسوں کا ایک سلسلہ جاری کرکے شدید پراپیگنڈا کرنے میں مصروف رہے۔~<ف۴۲~
اسی شدید پراپیگنڈے کا یہ فوری اثر ہوا کہ ضلع سیالکوٹ کے وہ دیہات اور قصبات جہاں احمدی مسلمان اور غیر احمدی مسلمان باہمی شیر و شکر ہوکر بس رہے تھے ان میں کسی قسم کا عناد اور عداوت نہ تھی مگر جب اہرار کا پراپیگنڈا شدت اختیار کرگیا تو ضلع بھر میں جابجا فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی مگر صرف ان قصبات میں جہاں احمدی توڑی تھے۔ جن دیہات اور قصبات میں کوئی احمدی نہ تھا یا جن میں ان کی اچھی خاصی آبادی تھی ان تمام مقامات میں ہر طرح امن و امان رہا اور کسی قسم کا بھی کوئی فتنہ کھڑا نہ ہوا۔
پسرور
سب سے پہلے ہم ضلع سیالکوٹ کے مشہور قبصبہ پسرور کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ وہ مقما ہے جہاں پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں ممتاز محمد دولتانہ خود گئے اور مجمع عام میں تحریک کی برملا حمایت کی جس سے اس تحریک کے داعیوں اور حامیوں کی کافی حوصلہ افزائی ہوئی۔ عدالتی رپورٹ میں بھی لکھا ہے کہ:۔
>۲۰ جولائی ۱۹۵۲ء کو پسرور کے مقام پر ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کنونشن میں چیف منسٹر صاحب نے ایک تقریر کی۔ جس میں انہوں نے اعلان یا کہ وہ تحریک ختم نبوت کی پوری حمایت کرتے ہیں بشرطیکہ قانون و انتظام کو کوئی خطرہ درپیش نہ ہو۔~<ف۴۳~
اس تقریر کے بعد پسرور میں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہوا کہ الامان الحفیظ!
اس قصبہ میں گنتی کے چند احمدی رہتے تھے ان غربیوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ان کی مخالفت اس زور اور شدت سے ہوئی اور ایسا منظم بائیکاٹ کیا گیا کہ ان کی زندگی خطرے میں جاپڑیں اور یہ سب کچھ محض اس لئے ہورہا تھا کہ احمدی کسی طرح تنگ آکر اپنے عقائد کو خیر باد کہہ کر ان کی ہاں میں ہاں ملا دیں۔ اور ان کے ہم خیال و ہم عقیدہ بن جائیں۔
بعض شورش پسند لیڈر ضلع سیالکوٹ میں جابجا اس قسم کی تقریریں کرتے ہوئے برملا یہ کہہ چکے تھے کہ:۔
>اگر مرزائی اسلام قبول نہیں کریں گے تو ہم اس مقصد کے حصول کے لئے انتہائی کوشش کریں گے اور ایسی صورت میں یہ لوگ زمینوں` کارخانوں اور بنگلوں کی الائمنٹیس کھو بیٹھیں گے بلکہ ربورہ بھی ان کے قبضہ سے نکل جائے گا۔~<ف۴۴~
پسرور کے احمدیوں کے ماحول کا اندازہ لگانے کے لئے ہائی سکول پسرور کے ایک احمدی ٹیچر کی ایک چٹھی کا مختصر سا اقتباس کافی ہے۔ یہ چٹھی انہوں نے اپنے ایک عزیز کے ہاتھ ربوہ بھجوائی تھی کیونکہ اس وقت جس قسم کی مخالفت احمدیوں کی ہورہی تھی انہیں اندیشہ تھا کہ مبادا ان کے خطوط ڈاکخانہ کے متعصب عملہ کے ہاتھوں تلف ہوجائیں۔ آپ نے لکھا:۔
>خلاصہ سابقہ خطوط کا یہ ہے کہ میں آج اپنے ۹ چھوٹے بڑے بچوں سمیت تیرہ روز سے گھر میں بند ہوں۔۔۔۔۔ بروز جمعہ ۳ بجے سے لے کر ۷ بجے شام تک سینکڑوں آدمیوں عورتوں اور بچوں کے جلوس نے میرے گھر کے سامنے ماتم کیا اور وہ فحش بکا کہ چوڑھے چمار بھی شرمائیں۔ اس کا بھی اثر نہ دیکھ کر اب میرا مکمل بائیکاٹ ہے۔ کھانا پینا` دوا` خاکروب تک کی بندش ہے۔ اب دو دفعہ کوشش کی گئی ہے کہ ناگہانی حملہ کرکے قتل کردیں مگر شام سے صبح تک کی چوکسی کو مولیٰ نے حفاظت کا ذریعہ بنا دیا۔ شہر میں مجسٹریٹ اور ایس پی موجود ہیں۔ چوبیس گھنٹوں میں ایک آدھ بار ان کا آدمی آتا ہے۔ اور پوچھ جاتا ہے کوئی تکلیف تو نہیں؟ کل بعض اشیاء بھی خرید کر دے گئے۔ ان کی ہمدردی صرف اس حد تک ہے۔ مگر عملاً شہر پر غنڈوں کی حکومت ہے۔ جلوس آزادانہ پھرتا ہے۔ پولیس یا ملٹری چوکی میں بیٹ کر >اپنی< حفاظت کرتی ہے۔
ڈسکہ
محترم محمد ابراہیم صاحب~ف۴۵~ عابد نائب امیر حلقہ امارت ڈسکہ نے انہی دنوں بذریعہ چٹھی ڈسکہ کے کوائف مرکز میں بھجوائے تھے جن میں لکھا:۔
>ہمارے ضلع میں شورش انتہائی زوروں پر ہے۔ گائوں سے بھی لوگ جتھوں کی صورت میں آتے نہیں بلکہ لائے جاتے ہیں۔ گائوں والے مایوس ہوکر واپس جاتے ہیں کیونکہ آئو بھگت اور خاطر تواضع نہیں کی جاتی۔ ڈسکہ میں ہڑتالیں بھی ہوتی ہیں اور جلوس بھی نکالے جاتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔رات گئے تک نعرے لگائے جاتے ہیں۔ عورتیں جلوس کے ساتھ پیٹتی جاتی ہیں اور فحش گالیاں نکالتی ہیں۔ لڑکوں کے غول کے غول گلی کوچوں میں پھرتے ہیں اور بیہد گندے نعرے لگاتے پھرتے ہیں۔ احمدیوں کے گھروں کے سامنے سیاپا کیا جاتا ہے۔ عورتیں احمدی مردوں پر آوازیں کستی ہیں اور مردوں کو چھیڑتی ہیں تاکہ کوئی فساد کی صورت پیدا ہوسکے۔۔۔۔۔ ناچتے کودتے اور شور مچاتے ہیں۔ احمدی حضرات پر عورتیں بچے اور مرد اینٹیں اور پتھر پھینکتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ چوہدری نزیر احمد کی کوٹھی پر بھی پتھر پھینکے گئے ہیں۔ ہماری جماعت سے چند دوستوں نے کمزوری کدھا کر ان میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے۔ باقی دوست ڈٹے ہوئے ہیں اور کامل صبر کا نمونہ دکھا رہے ہیں۔ احمدی دوستوں کے پاس ان کے غیر احمدی رشتہ داروں کے وفود بار بار جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احمدی اب زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس لئے ہمارے ساتھ مل جائو۔ اس کے علوہ طرح طرح کے دنیاوی لالچ بھی دیتے ہیں۔ لڑکیوں کا لالچ` روپیہ کا لالچ` ممبریوں کا لالچ۔ میرے پاس جو وفود آئے انہوں نے مجھے کمیٹی کی ممبری کی آفر بھی کی اور خرچ کرنے کا وعدہ بھی کرتے تھے۔ الغرض بار بار اس طرح تنگ کیا جارہا ہے۔ بعض اوقات ایک احمدی کو پندرہ سولہ آدمی اٹھا کر لے جاتے ہیں اور مسجد میں جاکر کہتے ہیں کہ مسلمان ہوجائو۔< احمدیوں کا بائیکاٹ کیا گیا ہے حتیٰ کہ بھینگوں کو بھی غلاظت اٹھانے سے منع کیا گیا ہے۔ ہماری بیت احمدیہ پر بھی قبضہ کئے بیٹھے ہیں۔ مقامی حکام نے کسی قدر ضرور تعاون سے کام لیا ہے۔ جو بڑا شخص جلوس میں شامل نہیں ہوتا اس کو زبردستی اٹھا کر لایا جاتا ہے۔ اور شامل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ خوف اور ہراس بہت پھیلایا جاتا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ احمدی کیمپوں میں جمع کئے جارہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ ربوہ جل رہا ہے اور لاکھوں پٹھان ربوہ پر حملہ کرنے آرہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں حکومت ابھی اعلان کرنے والی ہے وغیرہ وغیرہ جھوٹ سے ازحد کام لیا جارہا ہے۔ ایک احمدی کو ملتے ہیں اور اسے کہتے ہیں فلاں احمدی >مسلمان< ہوگیا ہے۔ تم بھی ہوجائو۔< الخ
جناب عزیز اللہ صاحب گرد اور قانون گو نے بیان دیا:۔
>شورش )احرار( کا دور نہایت ہی تکلیف دہ تھا۔ میرا` دیوتی پر ڈسکہ سے گوجرانوالہ جاتے ہی بسوں کے اڈوں پر بائیکاٹ کیا جاتا۔ مجبوراً سائیکل پر سفر آمد و رفت کرنا پڑتا۔ راستہ میں جلوس نعرے لگاتے ہوئے ملتے سخت نفرت کی نگاہ سے ہم لوگ دیکھے جاتے تھے۔ بلکہ نقصان جان پہنچانے کے درپے بھی ہوتے۔۔۔۔۔ گوجرانوالہ میں ہمارے لئے اچھوتوں کی طرح علیحدہ برتن ہوٹلوں میں رکھے گئے۔۔۔۔۔ ڈسکہ میں ہمارا کئی ہفتہ تک مکمل بائیکاٹ کیا گیا سبزی ترکاری اور دیگر اشیائے خوردنی ہمیں قطعاً خریدنے کی بندش تھی۔ عورتیں سیاپے کرتیں۔ پتھر گھروں میں مارے جاتے۔ احمدیت کے خلاف گندی سے گندی گالیاں دی جاتیں۔ ہمارے گھروں میں کوئی عورت یا بچہ داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ سخت نگرانی رکھی جاتی تھی۔ قسمت کی ماری ایک مہاجر لڑکی جو کہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھی اور اکثر ساگ وغیرہ قیمتاً دے جایا کرتی تھی۔ بوجہ غربت اپنا اور اپنے والدین کا پیٹ پالا کرتی تھی۔ اتفاق سے شورش کے دوران میں ہمارے گھر میں سگ لے آئی۔ جب ساگ دے کر گلی میں واپس گئی تو محلہ والوں میں وہ جو تحریک کے علمبردار تھے انہوں نے اس غریب کا منہ کالا کیا اور گھر گھر یہ کہتے ہوئے پھرایا کہ دوبارہ تو ان کافر مرزائیوں کے ہاں نہیں جائو گی؟ الخ
موضع دھیدو والی
میاں عبد الرحمان صاحب ولد امام دین صاحب قادیانی نے ڈسکہ سے لکھا کہ:۔
>موضع دھیدو والی میں یہاں شیر محمد صاحب موچی جو احمدی ہیں ان کو دس دن سے اندر بند کر رکھا ہوا ہے ان کے پاس نہ آتا ہے نہ دانہ۔ وہ چپ اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ڈسکہ میں میں بھی اور میرے بال بچے بھی پانچ دن بھوکے رہے۔ اس کے بعد دو سیر آٹا ملا ہے جسے ہم نے کھایا اور خدا کا شکر ادا کیا۔<
بمبانوالہ
جناب حمید احمد صاحب دیہاتی مبلغ نے مرکز کو اطلاع دی کہ:۔
>ڈسکہ کے قریب موضع بمبانوالہ کی رپورٹ آئی ہے کہ وہاں آج عورتوں نے جلوس نکالا اور احمدی عورتوں کو مارا لیکن احمدی عورتوں نے کمال بہادری سے کہا کہ خواہ جہان سے مار دو مگر احمدیت سے نہیں ہٹیں گی۔<
اہمد مسعود نصر اللہ خاں صاحب نے ڈسکہ سے لکھا کہ:۔
>رات چوہدری محمد عبد اللہ صاحب بمبانوالہ سے آئے ہیں انہیں قتل کی دھمکی دی گئی ہے اور ان کے گھر کے سامنے دس بارہ آدمی لاٹھیوں اور کلہاڑیوں وغیرہ سے مسلح بیٹھے رہے۔ عبد اللہ خان صاحب اور ان کا لڑکا موقع پاکر ڈسکہ آگئے۔< الخ
ملیانوالہ
جناب فضل الٰہی صاحب ریٹائرڈ پوسٹماسٹر صاحب~ف۴۶~ تحریر فرماتے ہیں:۔
>میں موضع گورداسپور میں موضع بنی پور کا مہاجر ہوں اور آج کل موضع ملیانوالہ متصل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ رہائش رکھتا ہوں~ف۴۷~ گزشتہ بدامنی کے ایمان میں ہمارے ارد گرد تو بہت کچھ گڑبڑ تھی مگر ہمارے گائوں ملیانوالہ میں مئورخہ ۵۳۔ ۳۔ ۸ تک بالکل امن تھا مئورخہ ۵۳۔ ۳۔ ۹۔ کو اچانک معلوم ہوا کہ باہر کا ایک جتھہ احمدیوں کے گھروں پر ہمارے گائوں پر حملہ آور ہورہا ہے چونکہ ہمیں حضرت خلیفہ ثانی کی ہدایات مل چکی تھیں کہ گھر نہ چھوڑے جائیں ہم دروازے بند کر کے بیٹھ گئے جتھہ آیا جو عموماً موضع بمبانوالہ کے گائوں کے اوباش لوگوں پر مشتمل تھا۔ اس جتھہ کی راہنمائی وہاں کا مولوی۔۔۔۔۔ کررہا تھا اور دیگر مولوی اس کی اقتدا میں تھے ہمارے گائوں کے اشرار بھی ساتھ شامل ہوگئے اور خاص کر میرے گھر کے سامنے انہوں نے خوب سیاپا کیا۔ مغلظ اور گند سے بھری ہوئی گالیاں ہمارے امام کو دی گئیں اور ہماری بہو بیٹیوں کے نام لے لے کر گند اچھالا گیا ۵۳۔ ۳۔ ۱۰ کو ہمیں معلوم ہوا کہ گائوں کا نمبردار۔۔۔۔۔ جو سابقہ گائوں گہوکلا تھانہ کاہنوں واں ضلع گورداسپور کا رہنے ولا ہے۔ اور اس طرف ایک کافی عرصہ نمبر ۱۰ میں رہا اور اس کا عموماً کام عورتیں اغوا کرنا تھا اور یہاں احمدیوں کا جانی دشمن تھا۔ ارد گرد بدمعاشوں کو ہمارے گھروں پر حملہ آور ہونے کی دعوت دے رہا تھا۔ گائوں میں بھی اس نے خوب طور پر خفیہ ہدایات جاری کیں کہ جب باہر کا جتھہ احمدیوں پر حملہ آور ہو تو سارا گائوں ان کا ساتھ دے اور وہ یہ کام ڈسکہ کے تحصیلدار۔۔۔۔۔ اور تھانہ دار۔۔۔۔ کی ہدایات کے حوالہ سے ترتیب دے رہا تھا۔ مقامی تحصیلدار اور تھانہ دار کی امداد ان لوگوں کو ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھی مگر اس کا ثبوت کچھ تو اس دن پولیس کی آمد کے بعد کچھ میری گرفتاری کے بعد جیل میں ملا۔ ۳/۱۰ کو ارد گرد کے دیہات بمبانوالہ۔ جنڈو ساہی۔ کوٹ جنڈو گوجرہ کے جتھے ہم پر حملہ آور ہوئے اور ہمارے گائوں نے ان کی پوری امداد کی عین اسی وقت ڈسکہ سے ۶ سپاہی خاں عبدا لعزیز خان ASI کی قیادت میں آگئے اور مجھے تسلی دی کہ آ فکر نہ کریں ہم سب کچھ ٹھیک کرلیں گے مگر میری موجودگی میں ہی اس جتھہ کے چند سپاہیوں نے گائوں کے لوگوں کو بھڑکایا اور احمدیوں کے خلاف ہر ممکن اقدام کیلئے کہا دوسری طرف مجھے کہا گیا کہ ہمارے لئے فوراً کھانا تیار کرائو مگر کھانا ہمارا اپنا سپاہی تیار کرے گا۔ چنانچہ مجھ سے دو مرغ آدھ سیر گھی ۔/۵ روپیہ کرایہ ٹانگا طلب کیا جو میں نے اسی وقت مہیا کردیا آٹا۔۔۔۔۔ نمبردار نے اپنے گھر سے دیا۔ یہ کھانا غلام علی لوہار کی دکان میں تیار ہوا۔ دوری طرف اے ایس آئی صاحب نے گائوں کے باہر جاکر اتنے بڑے ہجوم کو اکیلے ہی روکنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہا اے ایس آئی کے باہر جاکر اتنے بڑے ہجوم کو اکیلے ہی روکنے کی کوشس کی مگر وہ ناکام رہا اے ایس آئی سائیکل پر فوراً گائوں کی طرف اپنی گارد کی طرف بھاگا اور سپاہیوں کو فوراً میرے گھر کے سامنے کھڑا کردیا۔ اے ایس آئی صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ مجمع قریباً ۳۰۰۰ کا تھا جس میں ۵۰۰ آدمی مختلف آواز سے مسلح تھے اور میرے گھر کو نیست و نابود کرنے کو آئے تھے۔ سب احمدی میری بیتھک میں ممع تھے جن میں ۲ احمدی اپنی جانیں بچا کر جنڈو ساہی سے آکر میرے پاس پناہ گزیں تھے۔ پولیس کی موجودگی میں ہجوم نے میرے گھر کے دروازے توڑنے کی کوشش کی مگر پولیس کی مداخلت سے وہ کامیاب نہ ہوئے یہ سب ہجوم نہر کے کنارے چلا گیا مگر دوبارہ پلٹا کہ میرے گھر کو کم از کم آگ ہی لگا دی جاوے مگر اے ایس آئی صاحب نے پولیس کو رائفلیں سیدھی کرنے کا حکم دیا تو ہجوم خوفزدہ ہوکر منتشر ہوگیا۔ اے ایس آئی عبد العزیز کا رویہ بہت اچھا اور نیک نیتی پر تھا۔ اگرچہ اس کے بعض کانسٹیبل شرارتیوں کے ساتھ تھے۔ شام کے وقت پولیس چلی گئی ۳/۱۱ کو صبح ہی ایک سپاہی آیا کہ رائو صاحب آپ کو بلاتے ہیں مگر امیر جمات ڈسکہ کو ساتھ لے کر آنا۔ اس دن بھی ہمیں اطلع آچکی تھی کہ آج ۸ گائوں کے فسادی میرے گھر پر حملہ آور ہورہے ہیں اور یہ سب لوگ میرے گھر کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں اور اس میں سب سے زیادہ ہاتھ اسی۔۔۔۔۔ نمبردار۔۔۔۔۔ تحصیلدار اور۔۔۔۔۔ تھانیدار کا ہے میں گھر کو جس میں چھوٹے چھوٹے بچے اور عورتیں تھیں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا مگر اے ایس آئی صاحب کا حکم تھا۔ گھر کو اللہ کے سپرد کرکے میں امیر صاحب کو ساتھ لے کر رائو صاحب کے پاس گیا۔ مگر مجھے دیکھتے ہی رائو صاحب نے کہا کہ چوہدری نذیر احمد صاحب اس کو منع کر لو یہ علاقہ میں اشتعال پھیلا رہا ہے اور کل جب جتھہ گزر گیا تو اس نے کہا کہ کتے آئے تھے اور بھونک کر چلے گئے۔ میں نے کہا کہ رائو صاحب میں تو گھر بار کی مصائب میں مبتلاء تھا مجھے یہ الفاظ کہاں سوجھتے ہیں۔ میں نے یہ الفاظ ہرگز نہیں کہے مگر رائو صاحب کا پارہ Hihgest ڈگری پر تھا اے ایس آئی صاحب نے مجھے بعض ناملائم الفاظ بھی کہے۔ جب ان کی طبیعت میں کچھ سکون ہوا تو کہا کہ کل اگر میں پولیس نہ بھیجتا تو تم سب قتل ہوجاتے میں نے تم کو قتل سے بچا دیا ہے اور آج پھر بہت سے دیہات تم پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ چنانچہ اسی وقت پھر اے ایس آئی عبد العزیز صاحب کو حکم دیا کہ کل ۶ کانسٹیبل تھے آج ۸ لے کر جائو۔ ۶ رائفلوں والے اور ۲ ہتھکڑیاں والے اور مجھے کہا کہ تم شام سے پہلے گائوں میں نہ جانا۔ چنانچہ ان کی ہدایت کے ماتحت میں ڈسکہ میں ہی ٹھہر گیا اور پولیس گائوں میں چلی گئی۔ میری غیر حاضری میں پولیس نے پھر احمدیوں سے ۲ مرغ آدھ سیر گھی۔ اور ۔/۵ روپیہ کرایہ طلب کیا۔۔۔۔۔ احمدیوں نے معذوری ظاہر کی سپاہیوں نے احمدیوں کو ڈانٹا کہ اب تم قتل بھی ہوجائو گے تو ہم تمہاری امداد نہیں کریں گے اور آئندہ بھی تمہاری امداد کو تمہارے گائوں میں نہیں آئیں گئے۔ گائوں کے نمبردار۔۔۔۔ نے باہر کے حملہ آوروں کو فوراً اطلاع دی کہ پولیس آگء ہے۔ چنانچہ وہ لوگ ہمارے گائوں پر حملہ آور ہونے کی بجائے میترانوالی کی طرف چلے گئے۔ اے ایس آئی عبد العزیز صاحب نے اس دن بھی بڑی شرافت کا مظاہرہ کیا۔ گائوں کے لوگوں اور نمبردار کو خوب ڈانٹ ڈپٹ کی کہ خبردار اگر تم نے احمدیوں کو کوئی گزند پہنچایا۔ میں جب ڈسکہ سے آیا تو پولیس جاچکی تھی اور نمبردار گائوں کے لوگوں کو اکٹھا کررہا تھا۔ چنانچہ عصر کے وقت سے لے کر عشاء کے وقت تک میرے گھر کے سامنے سیاپا اور بدمعاشی ہوتی رہی اس ہجوم کا سرغنہ وہی نمبردار۔۔۔۔۔ اور اس کا لڑکا۔۔۔۔۔ تھے اس دن ہم اپنی نمازیں بھی ادا نہ کرسکے۔ رات مجھے اطلاع ملی کہ نمبردار مذکور مجھے قتل کرانے کی سازش کررہا ہے۔ حتیٰ کہ قاتل بھی مقرر کردیا گیا ہے۔ اور راستہ ہماری چھتوں پر سے ہوکر ہمارے صحن میں کودنے کا بنایا گیا ہے۔۔۔۔۔۔ میں بندوق لے کر ساری رات دروازے بند کرکے بیٹھا رہا ۱۲ مارچ کو پھر نمبردار نے گائوں کے لوگوں کو تحصیلدار اور تھانیدار کا حکم سنا سنا کر گھروں سے نکالا۔ باہر کے دیہات کو بھی پیغام بھیجا مگر اس سے باہر سے شام تک سخت گندے الفاط استعمال کرتے اور بھنگڑا ڈالتے رہے۔ اس دن مجھے اطلاع ملی کہ میں باہر پاخانہ کو بھی نہ نکلوں ورنہ مجھے لوہاروں کی دکانوں کے سامنے قتل کردیا جاوے گا۔ چونکہ نمبردار کی دشمنی میرے ساتھ حد سے زیادہ تھی کیونکہ پنچائت کے انتخاب میں وہ میرے مقابلہ میں ہار چکا تھا۔ اور باوجود کئی سفارشوں کے بھی کامیاب نہیں ہوا تھا اس لئے نمبردار کی دشمنی صرف میرے ہی گھر تک محدود تھی۔ میں ۹ مارچ سے ۱۵ مارچ تک گھر کے دروازے بند کرکے بیٹھا مصائب کو برداشت کرتا رہا ۱۷ مارچ کو صبح ہی پولیس کانسٹیبل آیا کہ۔۔۔۔ تھانیدار تم کو بلاتے ہیں میں خوفزادہ تو تھا ہی ڈرتا ہوا گیا۔۔۔۔۔ کہہ رہے تھے لوگوں پر غلے چلاتے ہو غلے۔ اب معلوم ہوجائے گا غلے کس طرح چلائے جاتے ہیں تم بڑے آدمی ہو۔ بہت بڑے اب سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔۔۔۔۔ مجھے ۲ بجے کے قریب تحصیلدار۔۔۔۔۔ کے پیش کیا گیا تحصیلدار صاحب نے کہا کہ ڈی سی صاحب نے تمہاری بندوق ضبط کرلی ہے۔ بندوق کہاں ہے میں نے جواب دیا کہ گھر پر ہے۔ کہا کہ فوراً ایک رقعہ اپنے لڑکے کے نام تحریر کرو کہ وہ ہمارے کانسٹیبل کو بندوق معہ کارتوس دے دے۔۔۔۔ میرے رقعہ لکھ دینے پر کانسٹیبل بندوق معہ کارتوس لے آیا۔ عشاء کی نماز تک میں تھا نہ میں رہا۔ کل ۱۸ مارچ کو ۹ بجے صبح تھانہ میں حاضر ہوجائو۔ ۱۸ مارچ کو میں وقت مقررہ پر تھانہ حاضر ہوگیا۔ قریباً ڈھائی بجے بعد دوپہر ایک کانسٹیبل کے ہمراہ مجھے سیالکوٹ بھیج دیا گیا کہ تم کو ایس پی کے پیش کرنا ہے قلعہ پر لے جاکر ڈی سی کے حکم کے ماتحت مجھے گرفتار کر لیا گیا ۱۹ مارچ کو میرا چالان ۲۲/۲۱ کے ماتحت کردیا گیا اور مجھے جیل میں بھیج دیا گیا۔ جیل میں ایک نئی دنیا دیکھی۔ گھبراہٹ بہت زیادہ تھی۔ مجھ پر غوندگی کا اثر زیادہ تھا اور ۳۶ گھنٹہ میں ۲ تولہ پیشاب آتا تھا۔ جیل میں ہی اسی تحریک کے گرفتار کئی قسم کے لوگ تھے۔ مولوی لوگ کہتے تھے کہ غنڈوں نے ہماری تحریک کو ناکام بنا دیا اور غنڈے کہتے تھے مولویوں نے ہمیں دھوکہ دے کر گرفتار بلا کردیا۔ دونوں فریقوں کی کشمکش بہت زیادہ تھی عام لوگ کہتے تھے کہ مولویوں نے حکومت سے بہت بڑی رقم کھا لی ہے اور ہم کو بلا میں پھنسا دیا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ مولویوں نے چندہ اکٹھا کرنے کی جو رسید بکیں چھپوائی تھیں وہ ۔/۱ ۔/۵ ۔/۱۰ ۔/۵۰ کی تھیں اور جب کسی سے چندہ وصول کیا جاتا تو اس کی رسید دے کر اپنے سامنے ہی چاک کروا دی جاتی تھی کہ پولیس کے ابو نہ آجاوے۔ ۔۔۔۔۔اس طرح حاجی۔۔۔۔۔ سیالکوٹ والا نے ۲۴ ہزار روپیہ ہضم کیا اور اس طرح جو رقم جس نے حاصل کی وہی ہضم کرگیا۔ جیل میں مولوی عبد الحی اور مولوی عبدا لتواب ڈسکلہ والے دو رت ایک ہی چکی کوٹھڑی میں میرے ہمراہ رہے انہوں نے وہاں میرے ساتھ ذکر کیا کہ ۔۔۔۔۔تحصیلدار اور
‏tav.14.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔تھانہ دار روزانہ شام کو ہمیں بلاتے اور ٹی پیسٹری کھلاتے۔ دن بھر کی کار گزری سنتے اور اگلے دن کی ہدایات دیتے تھے اور یہ سب تحریک ڈسکہ میں ان ہی دو صاحبوں ہدیات کے ماتحت چلتی رہی مگر حیرانی ہے کہ ہماری گرفتاری کے وقت ہر دو افسروں نے ہمیں منہ بھی نہ دکھایا اور اندر سے ہی کہلا بھیجا کہ ان کو سیالکوٹ لے جائو۔ حالانکہ ساری پولیس اور ساری تحصیل ہمارے ساتھ تھی مگر اس وقت کسی نے امداد نہ کی وغیرہ وغیرہ۔ عام لوگ کہتے تھے کہ مولویوں نے زہر ہلا ہل شربت صندل بنا کر ہمیں پلا دیا اور حکومت کے خلاف ہمیں بھڑکایا۔ رقمیں خود کھا گئے اور اب یہی مولوی خود معافیاں مانگ کر باہر جارہے ہیں اور ہم بلا میں پھنسے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ایک مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈسکہ والا مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چونڈہ والا عام نوجوانوں کو تلقین کرتے کہ خبردار معافی ہرگز نہ مانگنا ورنہ قومی غدار کہلائو گے اور جب یہ مولوی علیحدہ بیٹھتے تو میرے سامنے ہی کہتے کہ بھائی فوراً معافی مانگ کر باہر چلیں چنانچہ موقع آنے پر سب مولویوں نے معافی مانگ کر رہائی حاصل کرلی۔ جب میں جیل میں ۱۹ مارچ کو گیا تو وہاں معلوم ہوا کہ ۳ مارچ سے ۱۱ مارچ تک جتنے لوگ گرفتار ہوئے ان کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سپرنٹنڈنٹ جیل نے غازی اور مجادہ قرار دے کر ہر قسم کی سہلوت مہیا کی ہر بوڑھے کو ۲/۱ سیر دودھ اور ایک ٹکیہ مکھن روزانہ ہر نوجوان کو ۴/۱ سیر دودھ اور ہر کشتی لڑنے والے کو ۲/۱ سیر دودھ اور ایک تکیہ مکھن روزانہ ہر نوجوان کو ۴/۱ سیر دودھ اور ہر کشتی لڑنے والے کو ۲/۱ سیر دودھ اور ایک ٹکیہ مکھن اور تیل مالش کے لئے مہیا کیا۔ جاتے ہی پہلے دن زردہ اور پلائو سے ان کی تواضع کیا۔ اگلے دن حلوہ کھلایا اور ان کو کہا کہ پھانسی کی کوٹھڑیوں کی طرف اور اخلاقی قیدیوں کے ورکشاب کی طرف نہ جانا باقی سب جیل تمہاری ہے۔ مزے سے رہو اور اگر کسی کو تکلیف ہو تو فوراً مجھے کہو۔ سالن کو تیل کے بگھار کی جگہ مکھن کا بگھار لگتا تھا۔ ان سہولتوں کے ہوتے ہوئے ان لوگوں نے سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ ظالمانہ سلکو کیا اس کو گندی گالیاں نکالنی شروع کیں حتیٰ کہ ۱۲ مارچ سے ۱۴ مارچ تک جیل میں خوب ہنگامہ رہا۔ گرفتاران نے جیل کے کمبل جلا دیئے۔ برتن توڑ دیئے۔ پھولوں والے پودے برباد کردیئے۔ جیل کے دروازے توڑ دیئے جس پر ایس پی اور دی سی معہ دستہ پویس آئی اور ان لوگوں کو قابو کیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب میر محمد الدین صاحب لیفٹیننٹ کرنل آئے جن کے آنے پر جیل کا انتظام نہایت اعلیٰ ہوگیا۔ جیل میں ہم چار احمدی تھے۔ شیخ عبد الرحمن صاحب وکیل` محمد رفیق جراح` مستری ابراہیم اور خاکسار۔ جیل کے ملازم یعنی نمبردار اور سپاہی دوسرے لوگوں کے بہکانے پر ہم پر سختی کا سلوک کرتے اور ۱۵ دن تک ہم چاروں احمدیوں کو سنگین کوٹھڑیوں میں اکیلے اکیلے بند رکھا گیا اور سخت واچ کی جاتی کہ ہم احمدی کسی دوسرے احمدی سے بات بھی نہیں کرسکتے تھے۔ میر صاحب کے آنے پر ہم احمدیوں کو اکٹھا ایک کوٹھڑی میں کردیا گیا۔ ہم چکی نمبر ۳ میں کوٹھڑی نمبر ۱۵ میں بند تھے کہ انہی دنوں راولپنڈی سے قریباً ۱۴۰ سیاسی قیدی تبدیل ہوکر آئے۔ ان کا سرغنہ ایک مولوی۔۔۔۔۔ غالباً راجہ بازار راولپنڈی کا تھا یہ مولوی فاضل اور شاید منشی فاضل بھی تھا۔ ایک دن جبکہ یہ سب لوگ اکٹھے کھڑے باتیں کر رہے تھے اور ان کو معلوم نہیں تھا کہ کوئی احمدی بھی اس تحریک میں گرفتار ہوکر جیل میں آسکتا ہے۔۔۔۔۔ کہہ رہا تھا کہ اب تو ملٹری بھی ہمارے ساتھ تھی مگر ہم سے کچھ نہ ہوسکا۔ چنانچہ جب ہمارا جتھہ گرفتار کے لئے نکلا تو فوی سپاہیوں کی طرف سے ہمیں پیغام ملا کہ جب فوج کا دستہ تم کو روکنے کے لئے آگے بڑھے تو تم نے ہم پر حملہ کر دینا اور رائفلوں پر ہاتھ ڈال دینا۔ ہم رائفلیں چھوڑ کر بھاگ جاویں گے اور پھر تم نے رائفلوں کو جس طرح چاہو استعمال کرلینا۔ اس بات کی تصدیق راولپنڈی کے دوسرے لوگوں سے بھی ہوئی۔ مولوی صاحب نے کہا کہ افسوس ہمارے آدمیوں نے کچھ نہ کیا۔ ایک رات ایک ملنگ کو جو قاتل تھا ہماری کوٹھڑی میں بند کردیا۔ وہ ۳` ۴ دن ہمارے ساتھ رہا۔ ایک دن ایک مولوی نے کہا کہ ملنگا تم نے آدمی قتل کرکے خدا کا گناہ کیا تو اس نے کہا کہ علی کا دشمن کافر تھا میں نے مار دیا۔ اس مولوی نے کہا کہ اگر تم کو کوئی مرزائی مل جاوے تو پھر کہنے لگا کہ مرزائی کو تو چن چن کر مارنا چاہئے اسی مولوی نے کہا کہ تم تو ۳` ۴ دن سے مرزائیوں میں رہتے اور سوتے ہو۔ کہنے لگا کہ نہیں یہ تو مسلمین ہیں۔ نمازیں پڑھتے۔ تہجد پڑھتے ہر وقت عبادت کرتے ہیں۔ یہ کس طرح مرزائی ہوسکتے ہیں یہ تو بڑے پکے مسلمین ہیں۔ اب مجھے پورا مہینہ جیل میں ہوگیا کئی لوگ ضمانت پر جیل سے جاچکے تھے مگر مجھے معلوم ہوا کہ ڈسکہ کا تھانیدار میرے ساتھ خاص دشمنی کی وجہ سے ریمانڈ پر ریمانڈ لیتا جارہا ہے اور چالان عدالت میں پیش نہیں کرتا یعنی اس کا مقصد یہ ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ عرصہ جیل میں اسی طرح رہ جائوں چنانچہ بصد مشکل ۲۰ مارچ کو میری ضمانت ہوئی اگرچہ اس وقت بھی ایس آئی میرا ریمانڈ لے چکا تھا باہر آکر مجھے معلوم ہوا کہ مجھ پر جو الزام لگائے گئے ہیں ان میں بڑا الزام یہ تھا کہ میں رسول پاکﷺ~ کو گالیاں نکالتا ہوں اور رسول پاکﷺ~ کی ہر وقت توہین کرتا ہوں۔ لوگوں کو اشتعال دلاتا ہوں وغیرہ ۔ میرے خلاف چوٹی کے گواہ وہی نمبردار۔۔۔۔۔ تھا اور باقی گائوں کے سات کمی تھے یعنی دو جلاہ۔ دو ترکھان۔ ایک موچی۔ ایک ملاں اور ایک دھوبی۔ حالانکہ گائوں میں گوجر۔ راجپوت۔ آرائیں اعوان اور چیمہ زمیندار قومیں آباد تھیں۔ چونکہ گائوں کے کمی اس نمبردار سے سخت خائف تھے اس لئر وہی گواہ اس کے کہنے پر گواہی کے لئے تیار ہوئے اور وہ بھی میرے رہا ہونے پر کہہ رہے تھے کہ نمبردار نے ہمیں گرفتار کرا دینے کی دھمکی دی ہے اور رائو نے بھی ڈرایا اور دھمکایا ہے ورنہ ہم ہرگز گواہی دینا نہیں چاہتے۔ چنانچہ میرے خلاف صرف دو گواہ ایک نمبردار اور دوسرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلاہ گزرے اور دونوں کے بیانات متضاد سے متضاد تر ہیں اور عدالت نے حکومت کی نئی پالیسی کے ماتحت مجھ سے ایک تحریر لی اور رہا کردیا اب بھی سلما گائوں اس نمبردار کے خلاف ہے مگر نمبردار بدستور میرے خلاف اپنی کاروائیوں میں لگا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چونڈہ کا ایک مولوی جو میونسپل کمشنر بھی تھا ہماری ساتھی والی کوٹھڑی میں بند تھا اس نے بتایا کہ تھانہ پھلوارہ کا تھانیدار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے بالمقابل سٹیج بناکر احمدیوں اور حکومت کے خلاف تقریریں کرتا تھا اور اب وہی تھانیدار عدالت میں میرے خلاف گواہیاں دلوا رہا ہے اگر میں قید ہوگیا تو تھانیدار مذکور کو بھی ساتھ ہی لوں گا اور میں ۵۰ گواہ تھانیدار کے خلاف گزاروں گا کہ یہ بھی حکومت کے خلاف اور احمدیوں کے خلاف مجھ سے کئی گنا زیادہ تقریریں کرتا تھا۔ اس طرح شکر گڑھ کا ایک مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو یک چسم تھا کہنے لگا کہ میرا قصور صرف اتنا ہے کہ میں نے دو احمدیوں کی جان بچائی اور مقامی تھانیدار نہیں چاہتا تھا کہ میں احمدیوں کی امداد کروں اور اس کے عوض میرا اس نے چالان کردیا۔ جیل میں سیالکوٹ کے مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھے ان کے ہمنشیں ہمیں بتاتے کہ مولویوں نے قریباً ۸۰۰۰۰ روپیہ دولتانہ صاحب سے لیا ہے۔ اور یہ روپیہ چیدہ چیدہ مولوی کھا گئے ہیں کاندھلوی صاحب نے کہا کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ یہ سب سیاست کی خاطر کیا جارہا ہے تو میں ہرگز اس تحریک میں حصہ نہ لیتا۔ جیل میں یہ عام مشہور تھا کہ دولتانہ صاحب نے اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے پانی کی طرح روپیہ بہایا ہے۔ بہت سے مولوی ہمارے ساتھ جب بھی گفتگو کرتے تو یہی کہتے کہ بھائی احمدیوں کے ساتھ ہمیں کوئی پرخاش نہیں ہم تو صرف گورنمنٹ کے ساتھ ٹکر لینا چاہتے تھے اور ادس میں بھی دولتانہ صاحب نے ہمیں دھوکہ دیا۔ کبھی وہ احمدیوں کے حق میں بیان دیتا رہا اور کبھی ہمارے حق میں بیان دیتا رہا اور حقیقاً وہ سیاست میں خود غرضی کے گھوڑے پر سوار اپنا کوئی کام نکالنا چاہتا تھا۔ کوئی کہتا اس نے روئی میں سے بہت سا روپیہ نکالا اور مولویوں میں تقسیم کیا۔ کوئی کہتا حکومت کے محاصل میں سے ایک رقم حال کی اور دو لاکھ اپنی گرہ سے خرچ کیا اور لوگوں میں تقسیم کیا۔ احمدیوں کو صرف نشانہ بنایا گیا اصل غرض اس کی سنٹرل حکومت کے ساتھ ٹکر تھی۔ غرضیکہ کئی قسم کی باتیں جیل میں سنتے تھے۔ راولپنڈی والے کسی ایک خفیہ سازش کا نام لیتے تھے جو ہم باوجود کوشش کے معلوم نہ کرسکتے کہ وہ کیا سازش تھی۔ کیونکہ وہ لوگ معلوم کرچکے تھے کہ ہم تین چار وہاں احمدی موجود ہیں ہم میں سے کسی کو دیکھ کر وہ خاموش ہوجاتے تھے۔ اور یہ الفاظ تو ہر وقت ہر سیاسی قیدی کی زبان پر ہوتے تھے کہ حکومت ہمارے ساتھ ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہماری تحریک کامیاب نہ ہو۔ بلکہ متفقہ طور پر وہاں کے لوگوں کی یہ صدا ہوتی تھی کہ اگر یہ تحریک فیل ہوسکتی ہے۔ چنانچہ جس دن یہ اعلان ہوا کہ خواجہ صاحب کی وزارت مستفعی ہوگئی ہے تو سب معاندین نے خوشی منائی کہ یہ چال صرف ظفر اللہ خاں کو وزارت سے علیحدہ کرنے کی چلی گئی ہے۔ پولیس کی نسبت تو ہر شخص جیل کا کہتا تھا کہ پولیس مکمل طور پر ہمارے ساتھ ہے۔
ہمارے گائوں ملیانوالا کے ارد گرد سب دیہات میں گرفتاریاں ہوئیں مگر ملیانوالہ میں کوئی گرفتاری سوائے میرے نہیں ہوئی کیونکہ یہاں ایک احمدی کو پھانسنے کے لئے نمبردار اور تھانیدار کی سازش تھی۔ حالانکہ جتنی شرارت بدمعاشوں نے ملیانوالا میں کی کسی دیگر گائوں میں شاید ہی ہوئی ہو۔ ہمارے گھروں پر پتھر برسائے گئے اور پھر مشہور کردیا جاتا کہ احمدی عورتیں جلوس پر پتھر برساتی ہیں۔ ہم میں سے چھ کس کو زبردستی تشدد کرکے احمدیت سے منحرف کیا گیا اور زبردستی ان کے ہاتھوں میں جھنڈا دیا گیا۔ اور یہی حال ہمارے ارد گرد کے دیہات میں ہوا۔ جو احمدیت سے انکار نہیں کرتا تھا اس کو قتل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اور گھر بار کو آگ لگانے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں اور ۳/۳ سے ۳/۵ تک نہ کوئی قانون تھا اور نہ کوئی حکومت۔ تحصیلدار اور تھانیدار کے چپڑاسی اور سپاہی نمبرداروں کو بلا کر لے جاتے تھے اور پھر ہدایات حاصل کر کے جتھے نکالتے تھے۔ بلکہ نمبرداروں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ جلوس نکالیں۔ تھانیدار نے میرے روبرو لوگوں کو کہا کہ ہمیں جلوس کو روکنے کا حکم نہیں ورنہ ایک دن میں جتھے روک دیئے جاویں۔ سنا گی اکہ دولتان کی طرف سے خاص آدمی ہدیات لے کر افسران کے پاس آتے تھے اور گوجرانوالہ کا ڈی سی تو خود جلوس کے ہمراہ ہوکر نعرے لگاتا تھا۔ اگرچہ لوگ اس کو بھی گالیاں نکالتے تھے۔
خاکسر فضل الٰہی از ملیانوالہ
متص ڈسکہ ضلع سیالکوٹ<
ڈہگری پریاں
‏]txet [tag
مکرم بشیر احمد صاحب ولد سلطان احمد صاحب درویش نے لکھا کہ:۔
>بندہ ایک ایسے گائوں میں آباد ہے کہ جو دو اڑھائی سو مسلم جاٹوں کی آبادی پر مشتمل ہے گائوں کے معتبر آدمی گرفتار ہونے کی وجہ سے باقی لوگ سخت جوش میں ہیں اور دن بدن زیادہ تکلیف کا موجب بن رہے ہیں۔ یہاں ہماری زمین وغیرہ کوئی نہیں۔ معمولی سی دکان پر گزارہ ہے لیکن اب بیس دن سے دکان بالکل بند ہے۔ پانی بالکل بند ہے۔ دور سے لانا پڑتا ہے۔۔۔۔۔ ان حالات میں جبکہ ہماری طرف سے ناکہ بندی ہے ایک منٹی بھی یہاں گزارنا مشکل ہے۔۔۔۔۔۔ باہر اندر جانا سخت خطرہ کا موجب ہے۔ رات دن اپنے گھر پر ہی بیٹھ کر وقت گزار رہے ہیں۔< الخ
اسی گائوں کے ایک اور احمدی محمد منیر صاحب نے لکھا:۔
>اس گائوں میں ہم صرف دو گھر تھے۔ ان )مخالف( لوگوں نے ۴ مارچ سے ہمارا پانی بند کردیا ہے یہاں تک کہ ایک غیر مسلم کے کنویں سے بھی پانی نہیں لینے دیتے تھے اور اگر ہم پیاس کی شدت کی وجہ سے پانی لینے جاتے تھے تو ہمیں گالیاں دی جاتیں۔ ڈرایا دھمکایا جاتا جس کی وجہ سے ہمیں واپس گھر خالی لوٹنا پڑتا۔ جب ہم گھر آتے تو بچوں کی یہ حالت ہوتی تھی کہ وہ پیاس کی شدت کی وجہ سے رو رہے ہوتے۔ ۴ تاریخ کو ہمیں بالکل اندر بند کردیا گیا۔ ہمارے قتل اور لوٹنے کے منصوبے بنائے گئے جس کی وجہ سے ہمیں ازحد پریشان ہونا پڑا۔ ہمارے پاس سوائے دعا کے کوئی ہتیھار نہ تھا جس کو ہم استعمال کرتے۔ اگر کبھی پاس کی جماعت کوشش بھی کرتی تو سخت )محاصرہ( کے باعث وہ )کوئی چیز( نہ پہنچا سکتے تھے۔ ۶ مارچ بروز جمعہ گائوں کے شریر لوگوں کی ایک پارٹی جو ۱۵ افراد پر مشتمل تھی ہمارے دروازہ پر آئی۔ اور ہمیں مجبور کیا گیا کہ ہمارے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کرو۔ ورنہ ہم قتل کردیں گے۔ اور پھر پکڑ کر گھسیٹنا شروع کردیا لیکن پھر بھی ہماری طرف سے نکار کیا گیا۔ آخرکار وہ لاچار ہوکر چکے گئے۔ زیادہ خطرہ ہوجانے کے باعث ہم نے تھانہ پھلورہ میں اطلاع دی کہ ہمیں ناجائز )طور پر( تنگ کیا جارہا ہے۔ تھانیدار صاحب مع تین سپاہیوں کے گائوں میں آئے لیکن انہوں نے کچھ بھی نہ کیا بلکہ مخالفت کی آگ کو اور بھڑکایا گیا اور تھانیدار صاحب کی موجودگی میں انہوں نے جلوس نکالا۔ جلوس میں انہوں نے جو گند اچھالا اور حضرت مسیح موعود۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے متعلق جو نازیبا الفاظ استعمال کئے میری زبان زیب نہیں دیتی کہ میں ان کو قلم بند کروں۔ مگر پھر بھی بغرض اطلاع اتنا لکھ دینا مناسب سمجتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی مصنوعی لاش بنا کر سخت بے حرمتی کی گئی جس کو دیکھ اور سن کر حضور اقدس کے ماننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔ اسی وقت سجدہ میں گر کر دعا کی گئی کہ اے خدا تو ان لوگوں کو ہدایت دے<۔ الخ
موضع ترسکہ
موضع ترسکہ تحیل ڈسکہ کی جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ غلام غوث صاحب نے مئورخہ ۱۱ مارچ ۱۹۵۳ء کو اپنے ایک خط میں لکھا کہ:۔
>ہمارے علاقہ میں شورش بہت زیادہ ہے۔ گائوں گائوں میں جلوس نکالے جاتے ہیں احمدیوں کے گھروں کے آگے بکواس کرتے اور نعرے لگاتے ہیں۔ کل ۱۰ مارچ کو ہمارے گائوں میں بھی مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساکن ہوانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے جلوس نکالا۔ چار احدیوں نے کمزوری دکھائی مگر ان کی بیویوں نے بہت اچھا نمونہ دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم کو طلاق دے دو۔ ہم احمدیت نہیں چھوڑیں گی۔ آج کچھ سکون ہے مگر ہمارا پانی گائوں والوں نے روک رکھا ہے۔ باہر کے کنووں سے لاتے ہیں۔< الخ
پھر ۱۲ مارچ کے خط میں تحریر کیا:۔
>مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساکن ہوانہ تھانہ ڈسکہ و مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساکن وہیر کے نے ہمارا پانی بند کردیا۔ اب ہم بڑی مشکل سے باہر کے کنووں سے پانی لاتے ہیں۔ ہماری عورتوں کو ڈر کی وجہ سے قضائے حاجت جانے کی بھی سخت تکلیف ہے اور ۱۰ مارچ کو مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے آکر جلوس نکالا۔ گلیوں اور احمدیوں کے گھروں کے )سامنے( نعرے لگاتے اور پیٹتے رہے جس سے ہمارے چھوٹے بچے ر کے مارے سہمے رہے۔ آگے اب ہر وقت دن رات سخت گھبراہٹ ہے۔ چاروں طرف سے یہی آوازیں آتی ہیں کہ )احمدیوں کے( گھروں کو لوٹیں گے اور آدمیوں کو شہید کردیں گے۔<
موضع ویرووالہ
جماعت احمدیہ ویرووالہ کے سیکرٹری مال محمد ابراہیم صاحب نے اطلاع دی کہ:۔
>ہم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم اہمدیت چھوڑ دیں۔ جب ہم نے یہ قبول نہ کیا تب یہ لوگ جامکے چیمہ اور آلو مہار سے احرار کا جلوس لے آئے۔۔۔۔۔ اور کہنے لگے کہ تم احمدیت کو خیرباد کہہ دو ورنہ سارا گائوں مل کر تمہارا خاتمہ کردے گا۔ ہم نے کہا کہ اگر ہمارے بچہ بچہ کو آپ لوگ شہید کردیں گے تو ہم پھر بھی یہ بات کہنے کو تیار نہیں ہوں گے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا۔ اچھا کل ہم تم کو مار دیں گے۔< الخ~ف۴۸~
سمبڑیال
جناب خواجہ محمد امین صاحبنے سمبڑیال سے لکھا کہ:۔
>بعض مہاجر احمدی مستورات نے بعض مردوں سے زیادہ دلیری دکھائی ہے۔ مختاراں زوجہ محمد الدین سکینہ شکار ماچھیاں حال سمبڑیال اور حسن بی|بی بیوہ صابر خاں مرحومہ ہمارے گھر پر آئیں۔ ان کو صحابہؓ و صحابیاتؓ کی مثالیں دے کر سمجھایا گیا تو اس قدر دلیر ہوگئیں کہ بالکل مرنے کو تیار ہوگئیں۔< الخ
منڈیکے بریاں۔ دہہ۔ نین کے تورولے ترسکہ
گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ سے مکرم سید نذیر حسین صاحب~ف۴۹~ نے لکھا:۔
>آج تک جو خبریں ہم تک پہنچی ہیں جو ہماری تحقیق میں درست ہیں عرض خدمت ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موضع منڈیکے بیریاں جو چونڈہ کے قریب ہے وہاں چوہدری محمد ابراہیم صاحب احمدی کو جو صرف ایک ہی گھر احمدیوں کا ہے۔ لوگوں نے جمع ہوکر قتل کی دھمکی دی۔ اس نے کہا مجھے صرف چند منٹ اجازت دے دو۔ پھر قتل کرلینا۔ اس کے چاہ پر ایک چھوٹی سی بیت الذکر ہے۔ اس نے وضو کرکے دو رکعت نماز گزاری۔ بعد میں ان کو کہا کہ آئو اپنا کام کرلو۔ وہ کہنے لگے بیت الذکر سے باہر آئو۔ اس نے کہا کہ میں بیت الذکر سے باہر نہیں آئوں گا۔ تکرار کے بعد انہوں نے کہا کہ اسے قتل نہ کرو۔ اس کا بائیکاٹ کردو۔ اس کے اپنے چاہ سے بھی اور دیگر چاہ وغیرہ سے پانی روک دیا۔ پھر اس نے موضع کھرپہ سے جہاں چوہدری محمد حسین صاحب احمدی ہیں پانی منگوانا شروع کیا۔ آخر پندرہ تاریخ کو پولیس نے آکر پوری طرح اس کی امداد کی۔<
>موضع دہہ جہاں صرف ایک ہی احمدی تھا اس کو بہت تنگ کیا گیا لیکن وہ بھی خدا کے فضل سے بالکل قائم ہے اور قائم رہے گا۔ اب وہاں کی حالت درست ہے۔<
>موضع نین کے تورولے میں بھی ایک احمدی عبد الحق تھا۔ اس نے بہت مردانگی دکھائی۔ دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اب وہاں بھی حالات درست ہیں۔ دشمن عنصر نے معافی مانگی۔<
>موضع ترسکہ متصل بھا گورایہ میں احمدیوں کو بہت تکلیف دی گئی اور مولویوں نے ان کو جبراً احمدیت سے پھرانا چاہا۔ انہوں نے بھی بزدگی سے کام لیا۔ ان کے ساتھ چند ساعت کے لئے مل گئے اور مولویوں نے کہا کہ اب تمہارا نکاح دوبارہ کیا جائے گا۔ جب وہ گھروں پر نکاح کے واسطے گئے تو احمدی مستورات کو دروازوں پر پایا۔ مستورات نے بڑی دلیری سے کہا باہر کھڑے رہو۔ اندر مت آئو۔ مولوی لوگوں نے کہا کہ تمہارے آدمی مسلمان ہوگئے ہیں۔ اب تمہارے نکاح دوبارہ کریں گے۔ ہم اور کچھ نہیں کہتے۔ ان نیک بیبیوں نے کہا کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے بلکہ مرتد ہوگئے ہیں اور ہمارا نکاح ان سے نہیں ہوسکتا۔ مولوی اب ان کو لے جاکر کسی اور جگہ نکاح کریں۔ ہم کو تو اگر ٹکڑے بھی کردیں تو بھی ہم خدا کے فضل سے احمدی ہی رہیں گی۔ اس وقت ان کی بہادری کو دیکھ کر وہ احمدی مرد بھی دلیر ہوگئے۔ اور مولوی لوگوں کو جواب دے دیا اب حالات بہتر ہیں۔<
چونڈہ
چونڈہ سے چوہدری فیروز الدین صاحب انسپکٹر تحریک جدید نے رپورٹ بھیجی کہ:۔
>موضع چونڈہ تھانہ پھلوہ کے حالات حسب ذیل ہیں۔ گائوں ہذا میں پچھلے دنوں بڑے زور شور سے پراپیگنڈا ہوتا رہا لیکن اب مردوں کے علاوہ مستورات کے ذریعہ بھی جتھہ جلوس کی شکل میں احمدیوں کے مکانات کے پاس آکر بیہودہ بکواس کی جارہی ہے۔ سب کے دروازے دھکے دے کر توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تمام افراد جماعت کو اکا دکا مل کر ہراساں کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جماعت منظم ہے لیکن غلط افواہوں کی وجہ سے جو کہ منادی کے ذریعہ کہہ رہے ہیں کہ ربوہ پر نزدیک کے دیہات والوں کا حملہ ہوگیا ہے اور مرزائی >مسلمان< ہورہے ہیں۔ یہ پراپیگنڈا سن کر بعض احمدی ہراساں ہیں ایک احمدی مسمیٰ مولیٰ بخش جٹ تلونڈی جھنگلاں والے کے مکان پر پتھر پھینکے گئے اور اس کے گھر کی چر دیواری میں ایک کنویں سے اس کو پانی بھرنا بند کردیا ہے۔ اور پانی نکالنے والی بھونی اتر کر لے گئے ہیں۔<
>ایک موچی محمد شریف کی جھگی کو آگ لگا کر جلایا گیا ہے جو کہ گائوں سے باہر کی بیری کے درختوں کے پاس تھی۔ پچاس ساٹھ آدمیوں کے جتھے سے چند آدمیوں نے مل کر اس کو جھنجھوڑا اور وہ بیچارہ اپنی جان بچا کر گھر آگیا۔ تھانہ والے کسی قسم کا تعاون نہیں کرتے ایک تھانیدار اور تین چار سپاہی اس جگہ متعین ہیں۔ جس جگہ ٹھہرے ہیں وہاں سے باہر نکل کر دیکھتے ہی نہیں۔<
شہزادہ
قریشی عبد الرحمن صاحب~ف۵۰~ کی طرف سے مرکز میں )موضع شہزادہ کی نسبت( مندرجہ ذیل اطلاع موصول ہوئی کہ:۔
>اس گائوں میں صرف تین احمدیوں کے گھر ہیں۔ باقی سارا گائوں مخالف اور ایذا دہ پر کمربستہ ہے۔ ایک مکان والے کی بیوی غیر احمدی تھی۔ وہ بچوں کو لے کر سسرال چلی گئی لیکن اس کا مرد ثابت قدم رہا۔ ایک گھر والوں کا پانی بند کردیا ہے اور دوسرے ماسٹر صاحب کی عدم موجودگی میں ان کے گھر پر حملہ کردیا اور مستورات کو گھر سے نکل جانے کی دھمکی دی۔ لیکن ان کی مستورات نے حضور کے ارشاد کے مطابق یہ جواب دے دیا کہ >ہم اپنے پیارے آقا کے حکم کے ماتحت یہیں رہں گی۔ نکلیں گی نہیں۔ خواہ ہمیں قتل کردو۔ اور ان تینوں گھر والوں کا بازار سے سودا سلف لینا بالکل بند کردیا گیا ہے۔ اور ہر قسم کی ضروریات زندگی سے محروم کردیا گیا ہے۔ اسی طرح تنگ کرنے کے دورے ذرائع بھی سب اختیار کئے گئے ہیں۔<
کھیوہ باجوہ
محمد منیر صاحب امیر جماعت احمدیہ کھیوہ باجوہ نے لکھا کہ:۔
>دن بدن زیادہ خطرے کی افواہیں پھیلتی گئیں پسرور بھی میرے ہی حلقہ امارت میں تھا۔ اور وہاں مخالفین کا بہت زور تھا۔ ان دنوں تھانیدار نے بھی جواب دے دیا لیکن جب ملتری نے انتظام ہاتھ می لے لیا تو خطرہ کم ہونا شروع ہوگیا ورنہ پہلے یہی تھا کہ آج کلا سوالہ میں جلوس جائے گا اور پھر وہاں سے کھویہ بھی جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ کا خاص فضل رہا کہ صرف اور صرف پسرور تک ہی فتنہ و فساد محدود رہا۔ بعض افراد کلا سوالہ سے نکلے اور ہمارے گائوں میں آگئے اور جماعت چوہڑ منڈہ میں چند غنڈوں نے ہمارے پریذیڈنٹ دین محمد کو قتل کردینے کی دھمکیاں دیں۔ اس نے میرے پاس رپورٹ کی تو میں پسرور تھانہ میں گیا۔ تھانیدار صاحب نے میرے ساتھ تین ملٹری کے سپاہی اور ایک حوالدار کردیا۔ چوہڑ منڈہ تھانہ سے تقریباً آٹھ میل ہے۔ وہاں حوالدار نے ان سے باز پرس کی تب انہوں نے انکار کردیا کہ ہم نے کوئی بات نہیں کی۔ حوالدار نے ان سے وعدہ لیا کہ اگر اس کے بعد کوئی شکایت ان کی طرف سے ہمیں پہنچی تو تم ذمہ دار ہوگے اور صرف تمہیں ہی گرفتار کرکے لے جایا جائے گا۔ اس کے بعد بالکل امن ہے۔ اور کلا سوالہ سے جو دوست نکلے علاقہ مجسٹریٹ نے خود آکر کلا سوالہ کے لوگوں سے کہا کہ ان کو خود جاکر واپس لائو ورنہ اگر کوئی ان کا نقصان ہوا تو تم ہی ذمہ دار ہوگئے۔ تب کلاسولہ والے خود آکر ان کو تانگہ میں بٹھا کرلے گئے باقی تمام علاقہ میں خیریت ہے۔ خطرہ تو ہمیں بھی بہت ہوچکا تھا لیکن کسی نے بعد میں کوئی مظاہرے نہیں کئے۔<
کلا سوالہ
عبد الغنی صاحب عبد قائد مجلس خدام الاحمدیہ کلا سوالہ نے لکھا کہ:۔
کلا سوالہ پسرور سے چار میل کے فاصلہ پر ہے اور احرار اور مخالفین تحصیل پسرور کا مرکز ہے۔ بروز جمعہ پسرور میں نماز جمعہ کے موقعہ پر یہ اعلان ہوا کہ کل ۷ مارچ کو پسرور سے ایک جلوس جو کئی دیہات میں سے ہوتا ہوا اور احمدیوں کو مسلمان یا ختم کرتا ہوا کلا سوالہ پہنچے گا۔ شام کو ۶ بجے پولیس کی طرف سے زبانی مجھے یہ اطلاع ملی کہ جلوس کل کلا سوالہ آرہا ہے اور پولیسی اس کا انتظام نہیں کرسکتی۔ آپ خود کوئی انتظام کرلیں۔ یہ خبر سن کر بفضلہ تعالیٰ ہم ہر طرح سے مطمئن تھے اور ہمارے دلوں میں کسی قسم کی گھبراہٹ نہ تھی۔ ہم نے اپنے لئے مناسب انتظام ہر طرح سے کرلیا۔ اس کے بعد ایک چٹھی پسرور سے جماعت احرار کی جانب سے کلا سوالہ کے دیگر معززین کے نام آئی کہ ہمارا جلوس پہنچ رہا ہے۔ اگر آپ نے ہمارے جلوس میں شمولیت نہ کی تو تمہاری جان و مال بھی خطرہ میں ہوگا۔ کلا سوالہ میں دو جماعتیں ہیں۔ اہلحدیث اور حفنی جماعت حنفی جماعت کا چونکہ زور ہے اور چٹھی بھی ہنفی جماعت کے آدمیوں کو ہی ملی تھی۔ حنفی جماعت یہاں کی بہت امن پسند ہے۔ وہ دوست اس چھٹی کو لے کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ کل یہ جلوس آرہا ہے۔ کوئی مناسب تجویز کی جائے تاکہ جلوس خیرت سے گزر جائے اور شود و شر بھی نہ ہو میں نے کہا کہ آپ کے خیال میں کیا ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ تم اپنی جماعت کو سنبھال لو۔ وہ کسی قسم کی جلوس میں مداخلت نہ کریں۔ ہم پوری کوشش کریں گے کہ جلوس پرامن طور پر گزر جائے۔ چنانچہ خاکسار نے جماعت کی مستورات اور بچوں کو دو جگہوں میں محفوظ کرکے مردوں کو دو مناسب جگہوں پر۔۔۔۔۔ بٹھا دیا۔
اس دن اکثر نظریں ہماری طرف اس حسرت سے اٹھ رہی تھیں کہ آج دو بجے تک یہ )احمدی( لوگ تو ختم ہوجائیں گے اور ان کے مال اسباب پر ہم قابض ہوں گے۔ اکثر لوگ ہمارے مال مویشی دیکھ دیکھ کر پسند بھی کررہے تھے کہ آج دو بجے کے بعد یہ سب کچھ ہمارا ہوجائے گا۔ لوگوں کی زبانی سنا کہ یہ احمدی لوگ خوش کیوں نظر آتے ہیں مگر ان کو یہ پتہ نہیں کہ ان کی زندگی صرف دو بجے تک ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے چہرے اور ہمرے دل سوئے چند نام کے احمدیوں کے بہت شگفتہ اور دلیر تھے۔ بندہ نے اپنی جماعت کو صبر اور برداشت کی بہت تلقین کی اور حضور کے ارشادات جو صبر کے متعلق تھے پڑھ کر سنائے اور کہا کہ ہر طرح امن کو قائم رکھنا ہے اور خدام کی قصبہ کے باہر ڈیوٹی لگا دی ایک خادم کو پسرور میں مقرر کردیا کہ وہ بار بار یہ اطلاع دے کہ جلوس کس تعداد میں ہے اور کیا کرتا آرہا ہے۔ کچھ خدام کو قریب کی جماعتوں کو اطلاع دینے کے لئے بھی مقرر کردیا۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا۔ لوگ تو جلوس کی آمد کی گھڑیاں گن رہے تھے۔ بارہ بجے` ایک بجے` دو بجے مگر جلوس نہ آیا۔ آیا تو کون آیا؟ ایک وفد! وہ بھی اس لئے کہ وہ رات والا رقعہ واپس لے جائے جس می یہ لکھا ہوا تھا کہ تمہارے مال جان خطرہ میں ہیں۔ مگر رقعہ ان کو نہ ملا۔ سارا دن بالکل بخیرت گزر گیا۔ اور پانچ بجے شام فوج کے بہت سے سپاہی` علاقہ مجسٹریٹ صاحب اور سپیشل پولیس نے آکر لوگوں کو بہت ڈانٹا مگر ہم نے کلا سوالہ کے شریف غیر احمدیوں کی سفارش کردی کہ یہ لوگ بہت امن پسند ہیں<
داتہ زیدکا
چوہدری بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ داتہ زیدکا نے لکھا کہ:۔
>اللہ تعالیٰ کے فصل سے ہمارے حلقہ میں بالکل امن و امان ہے۔ البتہ غلط افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اور غلط پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ افواہیں جو پھیلائی جاتی ہیں )باہر غیر احمدیوں کے دیہات میں( وہ یہ ہیں کہ احمدیوں نے غیر احمدیوں کو مارپیٹ رہے ہیں۔ بالخصوص میں مویشی چھوڑ کر ان کے کھیتوں کو برباد کردیا ہے۔ اور غیر احمدیوں کو مار پیٹ رہے ہیں۔ بالخصوص یہ خبریں میرے حلقہ امارت کے متعلق )جہاں احمدیوں کی کافی آبادی ہے۔ ناقل( پھیلائی جاتی ہیں۔ تاکہ باہر کے دیہات مشتعل ہوکر ہمارے خلاف جتھہ بندی کرکے امن عامہ کو برباد کردیں۔<
حواشی
~ف۱~
‏]h1 ~[tagف۲~
روز نامہ آفاق ۴ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۳ کالم نمبر ۳
~ف۳~
روزنامہ >مغربی پاکستان< لاہور ۶ مارچ ۱۹۵۳ء
~ف۴~
روزنامہ تعمیر ۱۱ مارچ ۱۹۸۳ء صفحہ ۳
~ف۵~
روزنامہ جنگ کراچی ۱۹۵۳ء
~ف۶~
معیار ۱ تا ۸ مئی ۱۹۷۶ء صفحہ ۴۴` ۴۵
~ف۷~
روزنامہ >مغربی پاکستان< لاہور مئورخہ ۷ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۱
~ف۸~
پمفلٹ >پنجاب میں امن و امان قائم رکھے< صفحہ ۱ تا ۳ ناشر محکمہ تعلقات عامہ پنجاب مارچ ۱۹۵۳ء
~ف۹~
>اخبار نوائے وقت< لاہور ۲۲ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۴
~ف۱۰~
اخبار نوائے وقت ۲۳ مارچ ۱۹۵۳ء
~ف۱۱~
تقریر خواجہ ناظم الدین صاحب وزیراعظم
~ف۱۲~
روزنامہ >جنگ< کراچی ۲۷ مارچ ۱۹۵۳ء
~ف۱۳~
اخبار سفینہ لاہور ۲۷ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۲
~ف۱۴~
ماہنامہ >چراغ راہ< کراچی فروری ۱۹۵۴ء صفحہ ۴۸ مدیر نعیم صدیقی صاحب
~ف۱۵~
اعلان حق صفحہ ۳ تا ۱۲ مطبوعہ تعمیر پرنٹنگ پریس راولپنڈی
~ف۱۶~
اداریہ ٹائمز آف کراچی )۹ دسمبر ۱۹۵۴ء(۔ اس اداریہ کا مکمل اردو ترجمہ رسالہ >ترجمان القرآن< لاہور جنوری ۱۹۵۵ء صفحہ ۲ تا ۹ میں شائع شدہ ہے۔
~ف۱۷~
ہفت روزہ >فاروق< لاہور۔ ۴ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
~ف۱۸~
سبز اشتہار صفحہ ۱۱` ۱۴ مطبوعہ یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ریاض ہند پریس امرتسر
~ف۱۹~
وفات ۱۸ ستمبر ۱۹۷۵ء
~ف۲۰~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< صفحہ ۵۔ ۱۸۴ )مقرر کردہ زیر پنجاب ایکٹ ۲ ۱۹۵۲ء( برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء اردو۔ مطبوعہ انصاف پریس لاہور۔
~ف۲۱~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو صفحہ ۱۸۵
~ف۲۲~
ولادت ۱۹۲۰ء وفات ۲۳ نومبر ۱۹۷۶ء
~ف۲۳~
مولانا رشید احمد صاحب چغتائی سابق مبلغ بلاد عربیہ ۲۰۔ چوہدری غلام قادر صاحب آف ربوہ۔ ۳۔ چوہدری سردار خان صاحب ساکن ٹہری تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی۔ ۴۔ چوہدری ریاض احمد صاحب ساکن پنجگرائیں ضلع سیالکوٹ ۵۔ حکیم آل احمد صاحب ترکستانی۔ ۶۔ مایو غلام حیدر صاحب پنشر ریلوے گارڈ۔ ۷۔ میاں عبد السمیع صاحب بدوملہی۔ وغیرہ
‏h1] gat~[ف۲۴~
وفات ۱۸ مئی
~ف۲۵~
~ف۲۶~
~ف۲۷~
ضلع گوجرانوالہ )ناقل(
~ف۲۸~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۸۱۔ ۱۸۳
~ف۲۹~
وفات ۱۴ فروری ۱۹۷۷ء
~ف۳۰~
ولادت:۱۸۸۹ء وفات:۱۳ مئی ۱۹۷۲ء
~ف۳۱~
~ف۳۲~
ریکارڈ مرتبہ ملک فضل حسین صاحب۔
~ف۳۳~
تحقیقاتی رپورٹ صفحہ ۱۸۴
~ف۳۴~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو صفحہ ۱۷۵
‏]1h ~[tagف۳۵~
صدر انجمن احمدیہ کے عدالتی بیان میں کہا گیا ہے کہ >صدر سٹی مسلم لیگ کے ساتھ یہ توہین آمیر برتائو اس لئے کیا گیا کہ بلوائیوں کے نزدیک خواجہ صاحب نے ڈپٹی کمشنر کو سختی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔<
~ف۳۶~
رپورٹ ۱۷۷۔ ۱۷۸ صفحہ
~ف۳۷~
ولادت ۱۸۹۳ء وفات ۹ نموبر ۱۹۶۲ء
~ف۳۸~
ولادت ۱۸۹۳ء وفات ۱۹ اپریل ۱۹۷۵ء
~ف۳۹~
بیان لیفٹینٹ کرنل خوشی محمد صاحب )رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو صفحہ ۱۷۸(
~ف۴۰~
وفات ۱۸ دسمبر ۱۹۶۳ء
~ف۴۱~
وفات ۱۸ جنوری ۱۹۸۹ء
~ف۴۲~
رپورٹ صفحہ ۱۷۵
~ف۴۳~
رپورٹ صفحہ ۱۷۴
~ف۴۴~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۳۶۲
~ف۴۵~
وفات ۲۷ جنوری ۱۹۸۱ء
~ف۴۶~
برادر اکبر چوہدری عبد الواحد صاحب نائب ناظر اصلاح و ارشاد ربوہ
~ف۴۷~
بعد میں ربوہ مقیم ہوگئے تھے۔ )وفات( ۳۱ دسمبر ۱۹۷۶ء
~ف۴۸~
اس کارڈ پر ۹ مارچ ۱۹۵۳ء کی مہر ثبت ہے۔
~ف۴۹~
‏h2] [tagوفات ۲۸ جولائی ۱۹۵۵ء
~ف۵۰~
شہید سکھر۔ وفات یکم مئی ۱۹۸۴ء
دوسرا باب
اضلاع شیخو پورہ` لائلپور )فیصل اباد( اور
جھنگ کی احمدی جماعتوں کے واقعات
فصل اول
ضلع شیخوپورہ
۱۹۵۳ء کے ہنگاموں میں ضلع شیخوپورہ کے احمدیوں کو بھی مصائب و آلام سے دوچار ہونا پڑا اس دور کو احمدیوں نے کس طرح گزارا` اس کا کسی قدر اندازہ مندرجہ زیل تفصیل سے ہوسکتا ہے۔
شیخوپورہ شہر
یہ شہر دو ہفتے تک بدامنی اور فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنا رہا۔ احمدیوں کا شدید بائیکاٹ کیا گیا۔ ملک محمد ظریف صاحب کو چھرا گھونپا گیا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو بچالیا۔ دس ہزار افراد نے شیخ گلزار احمد صاحب پٹواری کے مکان کا محاصرہ کیا اور پھر انہیں احمدیت سے توبہ کرنے کے لئے مجبور کیا گیا مگر انہںو نے صاف کہہ دیا کہ میں >تائب< ہونے کی بجائے شہید ہونے کو ترجیح دوں گا۔ مخالفین کو جب مایوسی ہوئی تو انہیں حیلوں` بہانوں سے جیل میں ڈال دیا گیا۔ جہاں سے وہ ۱۲ مارچ ۱۹۵۳ء کو دو ہزار روپے کی ضمانت پر رہا ہوئے۔
قاضی بشیر احمد صاحب معتمد مقامی مجلس خدام الاحمدیہ کو ارتداد پر مجبور کیا گیا اور دھمکی دی گئی کہ شام تک قتل کر دیئے جائو گے اور تمہارا مکان اور دکان جلا دی جائے گی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بدزبانی بھی کی اس پر ان کی والدہ جوش میں آگئیں اور کہا کہ میرے گھر کی اللہ تعالیٰ خود حفاظت کرے گا۔ ہمارا ذرا سا بھی نقصان نہ ہوگا خواہ تم کتنا ہی زور لگا لو۔ نصف گھنٹہ کے بعد شہر کے بعض بدقماش لوگوں نے مکان کو نرغے میں لے لیا اور برہنہ ہو کر ناچنے اور گالیاں دینے لگے۔ اگلے دن بھی ۲۰۰ کے قریب آدمی مکان کے سامنے آکر نعرے لگانے اور کہنے لگے کہ احمدیت سے توبہ کرلو ورنہ آج تمہارا خاتمہ کردیا جائے گا۔ بعض نے مکان کے صدر دروازہ کے بیچ میں کانے اور مٹی کا تیل لا کر رکھ دیا اس پر قاضی بشیر احمد صاحب نے مکان کی پچھلی جانب پہلے اپنی والدہ صاحبہ اور ہمشیرہ صاحبہ کو اتار کر حکیم ظفر الدین احمدی صاحب ولد حکیم عبد الجلیل صاحب بھیروی کے گھر بھیج دیا اور پھر مکان کو تالا لگا کر خود بھی حکیم صاحب کے گھر یہ کہتے ہوئے چل دیئے کہ >اگر میرا گھر مسیحؑ کو سچا ماننے کی خاطر جلایا جا رہا ہے تو بے شک خوشی سے جلائو اور اگر ایک احمدی کی حیثیت سے مجھے یہ دکھ دے رہے ہو تو مجھے یہ دکھ اور تکلیف بادشاہی سے افضل ہیں۔< خدا تعالیٰ نے ان الفاظ سے مخالفین پر ایک رعب اور ہیبت طاری کردی اور وہ کوئی نقصان نہ کرسکے۔
شاہ کوٹ
یہاں ایک احمدی دوست کا مکان لوٹا گیا۔
سٹھیالی
چک نمبر ۱۲۹ گرمولا اور جید چک میں بعض احمدیوں کی فصلیں تباہ کردی گئیں۔
سانگلہ ہل
میں ہر روز جلوس نکلتے اور مظاہرے ہوتے تھے اور احمدیوں کی دکانوں پر پکٹنگ لگائی گئی۔ اور مکمل بائیکاٹ کیا گیا۔ چک چہور ۱۱۷ کے وہ احمدی جو سانگلہ ہل میں کاروبار کرتے تھے۔ دو تین روز تک شہر نہ جاسکے۔ ۸ مارچ کو جب سانگلہ ہل میں پہلی بار بازار گئے تو جلوس والے >خون کا بدلہ خون سے لیں گے< کے نعرے لگا رہے تھے۔
سانگلہ ہل کے قریبی دیہات میں بھی شورش کے اثرت ظاہر ہوئے مثلاً کوٹ رحمت خان اور موضع کوتلی چک ۱۱۷ میں جلوس نکلے اور گالیاں دی گئیں۔ ان دنوں سانگلہ ہل کے قریب وجوار کے بعض احمدی چہور مغلیاں ۱۱۷ میں آگئے جن کو اس گائوں کے احمدیوں نے اپنے ذاتی اثر و رسوخ سے ان کے دیہات میں دوبارہ بسایا۔ چک چہور ۱۱۷ پر بھی حملہ کرنے کا مشورہ کیا گیا مگر اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو محفوظ رکھا۔
ہمراجنپور چک نمبر ۴۰ میں احمدیوں کے صرف دو گھر تے جو محصور ہوکر رہ گئے شر پسند عناصر غول کے غول ان کے گھروں کے ارد گرد جمع ہوجاتے اور جو منہ میں آتا بکتے چلے جاتے تھے۔
واربرٹن میں شیخ محمد عبد اللہ صاحب اسٹیشن ماسٹر واربرٹن کاہزروں روپے کا سامان جو ان کی عمر بھر کا اندوختہ تھا` نہایت بے دردی سے لوٹ لیا گیا۔
منڈی مریدک۔ اس جگہ بھی احمدیوں کا بائیکاٹ کیا گیا اور وہ ئی روز تک اپنے گھروں میں بند رہے البتہ وہ نمازوں میں ایک دوسرے سے ملتے اور صبر و شکر کا عہد کرتے نیز حضور کے روح پرور پیغامات پڑھتے۔ شیخ محمد بشیر صاحب آزاد سابق امیر جماعت منڈی مریدکے نے اہل قصبہ کی فلاح و بہوبد کے لئے بہت سی خدمات انجام دی تھیں اور عوام پر ان کا گہرا اثر تھا۔ مگر انہیں بھی نہ صرف اپنے مکانوں میں محصور ہونے پر مجبور کردیا گیا بلکہ ایک رات اپنے ایک نمائندے کے ذریعے انہیں پیغام بھیجا گیا ہ لوگ آگ لگانا چاہتے ہیں` وہ احمدیت سے علیحدگی اختیار کرکے >مسلمان< ہوجائیں۔ شیخ صاحب نے کہا کہ حملہ ہونے کی صورت میں ہم لڑتے ہوئے مارے جائیں گے یہ موقعہ خدا کبھی کبھی دیتا ہے۔ ہمیں تو صرف بھوکا پیاسا رکھا جارہا ہے۔ قرون اولیٰ میں مسلمانوں کو ایسی ایسی روح فرسا تکالیف دی گئیں کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ پھر کیا دوبارہ ایمان لانے تک کی زندگی کا کچھ پتہ ہے؟ مرنا تو ایک دن ہے لہذا بجائے بے ایمان ہوکر مرنے کے` ایمان واری سے کیوں نہ مرا جائے؟ شیخ صاحب اور ان کے اہل خانہ کی یہ رات خاص طور پر دعائیں کرتے اور شہادت کے لئے تیاری میں گزری۔
احمدیوں کا یہ بائیکاٹ مسلسل کئی دن تک جاری رہا۔ بال¶اخر معززین منڈی نے فیصلہ کیا کہ احمدیوں کو سودا کھانے پینے کا دے دیا جائے ورنہ ہم یزیز ثابت ہوں گے۔
گوجر ڈاکخانہ چوہڑکانہ کے احمدیوں کا بائیکاٹ کیا گیا۔ گھروں پر سنگباری کی گئی اور احمدیوں سے بات کرنے والے کے لئے پچاس روپے جرمانہ مقرر کردیا گیا۔
سید والا میں بھی احمدیوں کا سخت بائیکاٹ ہوا۔ جو لوگ احمدیوں کی دکانوں سے سودا لیتے ان کا منہ کالا کردیتے۔ احمدیوں کو ختم کرنے کے برملا نعرے لگائے گئے۔ سب احمدی اپنے اپنے گھروں کے کواڑ بند کرکے بیٹھے رہے۔
گرمولا نزد ڈھاباں میں تین چار احمدی رہتے تھے جن میں سے ایک احمدی کو دھمکی دی گئی کہ بیعت چھوڑ دو ورنہ قتل کردیں گے اور لوٹ لیں گے مگر اس احمدی نے جواب دیا کہ مجھے بیشک قتل کر دو میں بیعت نہیں چھوڑ سکتا۔
بہوڑو چک ۱۸ میں سٹھیالی کے احمدیوں کو گالیاں دی گئیں۔
ننکانہ صاحب۔ جلسوں جلوسوں میں انتہائی بدزبانی کا مظاہرہ کیا گیا احمدیوں کو تنگ کرنے کے لئے نئی سے نئی راہیں اختیار کی گئیں ایک دن یہ منادی کرائی گئی کہ >مرزائی استانی نے ہماری لڑکی کو مار مار کر اس کی ہڈیاں توڑ دی ہیں< حالانکہ اس میں ذرہ برابر بھی صداقت نہیں تھی لیکن اس کی آڑ میں ایک احمدی استانی کو معطل کردیا گیا اور دوسری احمدی استانیاں گھروں میں محبوس ہوکر رہ گئیں۔ کیونکہ جب وہ باہر جاتیں تو اوباش ان کا پیچھا کرتے اور تالیاں بجاتے تھے۔ مقامی پولیس سب کچھ دیکھتی مگر کاموش تماشائی بنی رہتی۔
رات کے وقت ایک جلسہ عام میں امیر جماعت ننکانہ صاحب محمد شفیع صاحب کی نسبت یہ بہتان تراشی کی گئی کہ ربوہ سے ایک جیب آکر اس کو اسلح دے گئی ہے ابھی تلاشی لی جاوے۔ چنانچہ پولیس نے رات کو احمدیوں کے مکانوں کا گھیرائو کر لیا مگر کچھ برآمد نہ ہوا۔ ننکانہ صاحب ان دنوں افواہوں کا مرکز ہوا تھا۔
ایک دنافواہ پھیلائی گئی کہ جڑانوالہ کے امیر جماعت ڈاکٹر محمد انور صاحب کو چھرا گھونپ دیا گیا ہے۔ واربرٹن کے احمدی اسٹیشن ماسٹر قتل کر دیئے گئے ایک لاکھ کا جتھہ ربوہ کی طرف جارہا ہے ننکانہ کے احمدی ربوہ چلے گئے ہیں۔ جو باقی ہیں وہ تھانہ میں کیمب لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
‏]81 [pآنبہ` بلڑکے اور کرم پورہ میں جہاں جہاں اکے دکے احمدی آباد تھے وہاں وہاں فتنہ نے انتہائی صورت اختیار کرلی مگر خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت سے غیر معمولی نصرت کے سامان کرکے حفاظت فرمائی مثلاً ایک جگہ جب نرغے میں پھنسے ہوئے احمدی نے یہ کہہ دیا کہ جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرلو۔ احمدیت مجھ سے نہیں چھوٹتی۔ تو وہاں فوراً پولیس پہنچ گئی۔ حالانکہ یہ جگہ تھانہ سے ۱۲ میل کے فاصلہ پر ہوگی۔ دوسری جگہ جب اشرار برے ارادے سے نکل ائے تو کچھ غیر احمدی شرفاء مسلح ہوکر حفاظت کے لئے پہنچ گئے اور تمام رات اس احمدی کے گھر کا پہرہ دیا۔
سریانوالہ
جناب فضل دین صاحب اس گائوں میں اکیلے احمدی تھے۔ ۷ مارچ کو ۱۲ بجے دوپہر ایک مشتعل ہجوم نے ان کے مکان کا محاصرہ کرلیا۔ اور قتل و غارت کی دھمکیںا دے کر احمدیت سے منحرف کرنا چاہا۔ مگر انہوں نے بڑی جر¶ات مندی سے کہا قتل کرنا چاہتے ہو تو قتل کر لو گھر لوٹنا چاہتے ہو تو لوٹ لو` میں احمدیت کو نہیں چھوڑ سکتا۔ اس پر ایک غیر احمدی معزز دوست نے بلوائیوں کو لعن طعن کی اور کہا کہ اس اکیلے احمدی پر دبائو ڈال رہے ہو پہلے قرب و جوار کے احمدیوں کو برگشتہ کر لو پھر اس کو بھی اہلسنت کرلینا۔ اس دوران میں سورج غروب ہوگیا اور گائوں والوں نے ان کے مکمل بائیکاٹ کا فیصلہ کرکے اعلان کردیا کہ ہم صبحہ کو اس کا خاتمہ کردیں گے یہ کہہ کر شریر چلے گئے اور فضل دین صاحب ساری رات دعائوں میں مصروف رہے صبح ہوئی تو ان سے کہا گیا کہ گائوں سے نکل جائو۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنا مکان چوڑ کر کہیں نہیں جاسکتا جس طرح مرضی ہوکرو۔ اسی اثناء میں واربرٹن سے دو سپاہی پہنچ گئے اور انہوں نے اعلان کروا دیا کہ کوئی شخص اس احمدی کو تکلیف نہ دے اس طرح خدا نے اپنے اس مظلوم بندے کی حفاظت کا خود سامان کردیا۔
چک چوہڑ شاہ تحصیل ننکانہ میں احمدیوں کا محاصرہ کیا گیا۔
بھینی شرق پور کے احمدیوں کے خلاف مخالفین نے شرق پور میں سخت اشتعال پھیلانے کی کوشش کی۔ ڈھامکے میں مکرم چوہدری عطاء ربی صاحب احمدی کو لوٹنے کے لئے منصوبہ بنایا گیا۔ مگر موضع ملک پور کے معزز غیر احمدی نمبردار چوہدری شاہ محمد صاحب ان کو اپنے گائوں میں لے گئے۔ ترڈے والی میں سید اصغر حسین صاحب کو ان کے غیر احمدی بھائی نے پناہ دی۔ سکنہ مہلن وال میں شیخ محمد انور صاحب کے گھر پر حملہ کیا گیا مگر ان کے غیر احمدی بھانجے نے بیچ میں ہوکر اس حملہ کو ناکام بنا دیا۔ نانوں ڈگر ٹھٹھہ تاجریاں اور شاہ مسکین میں بھی حملہ کی سکیمیں بنائی گئیں۔ مگر بحمد اللہ خیریت رہی۔ بلکہ عین شورش کے ایام میں نانو ڈوگر میں دو سعید روحیں داخل احمدیت ہوئیں۔
سید والہ
میاں عبد السلام صاحب احمدی زرگر حال جرمنی کا بیان ہے۔
۱۹۵۳ء کی شورش کے ایام میں خاکسار سید والہ ضلع شیخو پورہ میں مقیم تھا۔ اور خدام الاحمدیہ سید والہ کا قائد مجلس تھا۔ شروع شروع میں جب ہمارے خلاف تحریک شروع ہوئی تو دیواروں پر پوسٹروں کے ذریعے ہمارے خلاف مطالبات لکھے گئے۔ >مرزائیت کو اقلیت قرار دو<۔ ظفر اللہ خاں کو وزارت خارجہ سے ہٹائو<۔ کلیدی آسامیوں سے ان کو ہٹائو وغیرہ وغیرہ۔
اس کے ساتھ ہی منبروں پر ہمارے خلاف وعظوں کے ذریعہ بھڑکانا شروع کیا گیا۔ تقریباً روزانہ ہی ہمارے خلاف زہر اگلتے اور منافرت پھیلاتے رہے۔ مخالفین میں ایک نوجوان خلیل احمد بی اے بی ٹی بھی تھے جو خوب لوگوں کو بھڑکاتے اور کہتے کہ یہ ہاتھ ناموس ختم نبوت کے لئے لوہے کے کڑے پہنیں گے` یہ عورتوں کی طرح چوڑیاں پہننے والے نہیں۔ ان ختم نبوت کے منکروں کو پاکستان سے ختم کرکے رہیں گے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر سامعین خوب نعرے لگاتے اور جوش و خروش بڑھتا گیا آخرکار ہمارا مکمل بائیکاٹ کیا گیا اور پانی بند` سودا سلف بند۔ بونا بند تھا مگر کئی ایسے معزز اور شریف غیر احمدی دوست بھی تھے جو خفیہ طور پر ہمیں سودا سلف گھر پہنچا جاتے تھے۔ بائیکاٹ اور منافرت روز بروز زور پکڑتی گئی اور >مرزائیوں< کے مال کو لوٹنا اور مارنا کار ثواب قرار دیا گیا تو ان حالات کو دیکھ کر خاکسار اور خاکسار کا بھائی غلام اللہ اسلام مرحوم دونوں نے ربوہ آکر اپنی نقدی خزانہ صدر نجمن احمدیہ میں جمع کرا دی اور لوگوں کا جو زیور سونے چاند کا بنا ہوا تھا اور سونا بھی ربوہ میں عزیزم ضیاء الدین احمد صاحب ولد میاں روشن الدین صاحب کی پیٹی میں رکھ دیا اور خود دونوں بھائی اسی دن واپس سید والہ کے لئے چل پڑے۔ صبح پہلی بس پر ہم سید والہ پہنچ گئے۔ اور ساتھ ہی مشہور ہوگیا کہ عبد السلام اور غلام اللہ ٹیکسی پر ربوہ سے اسلحہ لے آئے ہیں۔ اور ہمارے سید والہ پہنچنے کے دو دن بعد متعصب لوگوں اور ہماری برادی نے یہ بات پھیلا دی کہ جس طرح ہندوئوں کو ملٹری یہاں سے لے گئی تھی اسی طرح ان مرزائیوں کو یہاں سے لے جائے گی۔ اور جو کچھ تم نے ان سے لینا ہے فوری طور پر وصول کرلو۔ اسی طرح لوگ باہر سے بھی اور شہر کے اندر سے بھی جن لوگوں نے ہمیں زیورات دیئے ہوئے تھے مانگنے شروع کردیئے۔ اس پر ہم نے اپنے والد میاں غلام محمد صاحب مقامی پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کو ربوہ روانہ کیا کہ آپ وہاں جاکر زیورات اور چند ہزار روپے جو ہم نے دیئے تھے لے آئیں۔ والد صاحب ربوہ پہنچے اور رات ربوہ گزاری اور صبح مال نکلوا کر واپس سید والہ جانے کے لئے روانہ ہوئے۔ جب جڑانوالہ پہنچے سارا شہر بند تھا۔ لائیلپور بھی ہڑتال تھی۔ اور جلوس نکل رہے تھے۔ اور ہمارے اور حکومت پاکستان کے خلاف نعرے بازی ہو رہی تھی جو جلوس جڑانوالہ پھر رہا تھا اس کی راہنمائی ایک احراری غلام رسول صاحب کر رہے تھے۔ والد صاحب نے منہ پر اپنی پگڑی سے ٹھاٹھہ باندھ لیا اور ہاتھ میں بیگ تھا۔ مال اور رقم نقد واسکٹ میں تھی اور اڈا پر ایک ٹیکسی میں آکر بیٹھ گئے۔ ٹیکسی ڈرائیور باگ علی نامی تھا۔ جس نے جلوس کو جاکر بتلا دیا کہ میری ٹیکسی میں >مرزائی< بیٹھا ہے۔ تب سارا جلوس ادہ کی طرف امڈ آیا۔ جب جلوس ٹیکسی کے پاس پہنچا تو پہلی نظر غلام رسول صاحب کی والد صاحب پر پڑی۔ خدا تعالیٰ ے اس کے دل کو بدل دیا اور اس نے والد صاحب کو دیکھتے ہی کہا کہ واہ میاں صاحب آپ اس آگ میں کیوں آگئے؟ پھر جلوس سے مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ چھوڑو یار یہ تو میرا چچا ہے` مرزائی نہیں۔ اس طرح جلوس کو لے گیا۔ اور جلوس کو دوسرے بازار روانہ کرکے والد صاحب کو ساتھ لیا اور ریلوے کی پل سے گزار کر پیدل راستے سے سید والہ کی سڑک پر روانہ کیا اور اس طرح خدا تعالیٰ نے والد صاحب کو اس کے ذریعہ بال بال بچا لیا۔ جو لوگ زویر لینے کے لئے خود ہمارے گھر آئے تھے ہم نے ان کا مال واپس دینا شروع کردیا۔ بازار بند ہوتا اور شہر میں کرفیو لگا ہوا تھا۔ بائیکاٹ مکمل تھا اور باہر سے جو لوگ ہمیں لوٹنے کے لئے جتھوں کی صورت میں آت۔ وہ باہر سے ہی لوٹ جاتے ہم لوگ تو کرفیو کی وجہ اور سخت مخالفت کی وجہ سے گھر میں رہتے تھے مگر مخالفوں نے خود ہی یہ افواہ پھیلا دی کہ عبد السلام محاذ کشمیر میں فوجی ٹریننگ لے کر آیا ہے اور قادیان میں بھی دو تین ماہ ٹریننگ لے کر آیا تھا۔ اس لئے نہ سمجھو کہ یہ اندر ڈر کے مارے خاموش بیٹھے ہیں۔ وہ تو اندر بم بنا رہے ہیں۔ تم ان کے گھر حملہ کرنے یا لوٹنے کی کوشش نہ کرنا۔ ورنہ وہ تمہارے سارے جتھہ کو تباہ کردے گا۔ اس طرح دشمن میں خوف وہ ہراس پھیل گیا۔ اور خدا تعالیٰ نے ان کے حملوں سے ہمیں محفوط رکھا۔ فالحمدلل¶ہ۔ پھر خدا تعالیٰ کا فضل یہ بھی ہوا کہ ہمارے خدام اور انصار بہت ہی مستعد ہوگئے۔ اور جو کہنے اور سمجھانے پر بھی بیت الذکر میں نہ جاتے تھے وہ اتنے مستعد ہوئے کہ جب حضور کی طرف سے سرکلر چٹھیاں آتیں تو اشارہ کرتے ہی سب افراد جماعت منٹوں میں بیت الذکر میں نماز کے وقت آجاتے۔ اور بہت گریہ و زاری سے دعائیں کرتے۔ بائیکاٹ اور نعرے بازی اور کرفیو بدستور تھا۔ کہ اچانک خبر سنی کہ مارشل لاء ملک میں لگ گیا ہے۔ حالات پر سکون ہوئے تو جو لوگ ہمارے مارنے اور لوٹنے کے درپے تھے وہ پہلے تو کچھ دنوں تک ہمارے ساتھ ندامت کے مارے منہ نیچے کرکے ہماری دکانوں سے گزر جاتے مگر پھر آہستہ آہستہ بولنا اور سلام دعا شروع کردی۔ خدا کی شان! خلیل احمد صاحب بی اے۔ بی تی گریجوایٹ جو لوگوں کو بھڑکاتے تے قیام امن کے بعد ربوہ پہنچے اور ربوہ میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے چوتھی صف میں بیٹھے تھے کہ اچانک ان پر میری نظر پڑگئی۔ میں نے ان کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھتا رہا۔ نماز جمعہ کے بعد میں ان کے پاس گیا اور وہ میرے گلے لگ گئے اور معانقہ کیا۔ میں نے کہا کہ آپ کو کدھر! کہنے لگے کہ میں نے حق پالیا ہے۔ احمدیت سچی ہے۔ میں نے اپنے دل سے عہد کیا تھا کہ اگر احمدی اس حملہ سے بچ گئے تو میں ایمان لے آئوں گا۔ لہذا میں آج سے احمدی ہوں۔ اور بیعت کرنا آیا ہوں۔ چنانچہ وہ بیعت کرکے گئے۔ اور پھر اپنے والدین کو تبلیغ کی۔ اور وہ بھی احمدی ہوگئے۔ اس کے بھائی بھی۔ یعنی وہ چار پانچ افراد گھر کے احمدی ہوگئے۔ اس طرح ان کی تبلیغ سے اور بھی کئی سعید روحیں داخل جماعت احمدیہ ہوگئیں~ف۱~
فصل دوم
ضلع لائلپور )فیصل آباد(
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے:۔
>جنوری ۱۹۵۳ء تک اس ضلع میں بھی احراری احمدی نزاع کی کیفیت دوسرے اضلاع ہی کی مانند تھی۔ یکم دسمبر کو یوم میلاد النبی کے موقعہ پر احراریوں نے ایسے جھنڈے بلند کئے جن پر یہ دو مطالبات لکھے تھے کہ احمدیوں کو اقلیت قرر دیا جائے اور چوہدری ظفر اللہ کان کابینہ سے برطرف کئے جائیں۔ اس کے بعد یہ معمول ہوگیا کہ قبل نماز اور بعد نماز کی تقریروں میں یہی مطالبات دہرائے جانے لگے۔ تقریریں نہ صرف احمدیوں ے بلکہ حکومت کے بھی خلاف تھیں۔۔۔۔ اس دوران میں رضا کار برابر بھرتی کئے جات رہے جو قران پر حلف اٹھاتے اور اپنے خون سے ڈائریکٹ ایکسن کے عہدنامے پر دستخط کرتے تھے۔۔۔۔۔ اس تحریک کو بہت سے مسلم لیگیوں کی بھی حمایت حاصل تھی۔ حقیقت میں لیگ کے بہت سے کونسلر جماعت احرار سے تعلق رکھتے تھے اور اس تحریک کی حمایت میں عوام پر اثر ڈال رہے تھے۔۔۔۔۔ یہ خبر موصول ہوئی کہ لاہور میں مارشل لاء اعلان کردیا گیا ہے۔ شام کو چیف منسٹر کا یہ اعلان پہنچا کہ حکومت پنجاب نے شورش پسندوں کے مطالبات کو تسلیم کرلیا ہے۔ ان کو حکومت پنجاب کی رائے کے ساتھ مرکز میں بھیج دیا ہے۔ اور صوبے کا ایک وزیر ان مطالبات کو کابینہ کے سامنے بوجہ احسن پیش کرنے کی غرض سے کراچی جارہا ہے۔
شورش پسندوں نے اس اعلان سے یہ سمجھ لیا کہ حکومت نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی مہم تیز کردی اور اس کے بعد مسلم لیگی ایم۔ ایل۔ اے اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کرنے لگے۔۔۔۔ اس دوران میں کسی احمدی کے جان و مال کو نقصان نہیں پہنچا۔ نہ شہر میں نہ صنعتی رقبے میں کسی جائیداد کی توڑ پھوڑ کی گئی۔ پرائیویٹ طور پر گولی چلانے کے صرف دو واقعات ہوئے۔ دونوں میں اہمدیوں نے غلط فہمی کے ماتحت گولی چلا دی تھی۔ اور دونوں موقعوں پر بعض بچے زخمی ہوئے~<ف۲~
عدالتی بیان صدر انجمن احمدیہ میں ہے کہ:۔
>مارچ ۱۹۵۳ء میں اس خوف سے کہ راست اقدام کے نتیجہ میں سخت شورش برپا کی جائے گی مقامی احمدیوں کا ایک وفد راجہ جہاں داد خان صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس کی خدمت میں حاضر ہوا اور ا سغرض سے صحیح حالات ان سے بیان کئے ¶کہ احمدیوں کو پناہ دی جائے اور ان کی حفاظت کی جائے۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس نے وفد کی شکایات کی طرف مطلقاً توجہ نہ دی۔ وفد مایوس لوٹا۔ ۲۲ فروری کو راست اقدام کا نفاذ کیا جانا تھا۔ اس تاریخ کے بعد احمدیوں کی دکانوں اور مکانوں کی فہرستیں پولیس نے طلب کیں` جو مہیا کی گئیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان فہرستوں کا استعمال شورش پسندوں نے احمدیوں کی دوکانوں کا سراغ لگانے کے لئے کیا۔ جامع بیت الذکر لائلپور شورش پسندوں کا مرکز تھی جہاں احمدیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے خفیہ منصوبے تیار کئے جاتے تھے۔ سہر میں جلوس چکر لگاتے پھرتے تھے اور >مرزائی کتا ہائے ہائے< کے نعرے لگاتے پھرتے تھے۔ مسٹر ابن حسن صاحب ڈپٹی کمشنر کے نوٹس میں یہ بات لائی گئی کہ شورش پسندوں کرفیو اور دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کررہے ہیں اور مسجد میں اپنے پروگران ترتیب دیتے ہوئے جلسہ کے انتظام کررہے ہیں۔ اس پر انہیں ان شورش پسندوں کو جو مسجد میں جمع تھے منتشر کرنے کے لئے قانونی اقدامات کرنے پڑے۔ ایک احمدی ایڈووکیٹ مسٹر محمود احمدی کے سامنے راجہ جہاں داد پسرنٹندنٹ پولیس نے یہ تجویز پیش کی کہ احمدیوں کے لئے شہر سے باہر ایک رفیوجی کیمپ کھول دیا جائے اور یقین دلایا کہ۔۔۔۔۔ احمدی وہاں محفوظ رہیں گے۔ لیکن یہ تجویز احمدیوں نے منظور نہ کی اور اپنے مکانوں کو نہ چھوڑا۔
شہر میں مکمل لاقانونیت تھی جبکہ شورش پسند ہزاروں کی تعدد میں جلوس کی شکل میں گھومتے پھرتے تھے۔ سرکاری عمارتوں پر خشت باری کرتے تھے۔ اور احمدیوں کی دکانیں اور مکان لوٹتے تھے۔ ایک بہت بڑا ور تند ہجوم سپرنٹنڈنٹ پولیس کو ہار پہنا کر جیل کی طرف لے گیا اور ڈپٹی کمشنر صاحب اس کے ساتھ جانے پر مجبور ہوگئے۔ پولیس کہیں دکھائی نہ دیتی تھی اور اگر احمدی اس کے پاس پہنچ بھی جاتے تھے تو وہ احمدیوں کی مدد کرنے سے انکار کردیتی تھی۔
کرفیو کے اوقات کے دوران میں غلام محمد احمدی کا مکان لوٹا گیا اور اسے زبردستی مسجد میں لے جایا گیا جہاں اسے مجبور کیا گیا کہ وہ احمدیت سے >ارتداد< اختیار کرے۔<
لائلپور )فیصل آباد( شہر کے واقعات
۱۔ میاں فضل دین صاحب دکاندار )گلی نمبر ۳ کارخانہ بازار( کا بیان ہے:۔
>۴ مارچ کو قریباً ۲` ۳ صد کا جتھہ میرے مکان پر حملہ کے لئے پہنچا۔ دیوڑھی کا دروازہ بلوائیوں نے توڑ دیا اور مکان کے اندر گھس گئے اور جو کچھ گھر میں تھا لوٹ کر لے گئے۔ میں مع مستورات چھت پر چلا گیا اور سیڑھیوں کا دروازہ بند کرلیا۔ تقریباً نصف گھنٹہ کی لوٹ کے بعد جتھہ واپس چلا گیا۔ پولیس میں رپورٹ کی گئی مگر کوئی آدمی پولیس کی طرف سے موقعہ دیکھنے کے لئے بھی نہ پہنچا۔<
مزید فرماتے ہیں:۔
>موجودہ فسادات کے دنوں میں ۷ مارچ کو میں باہر گیا ہوا تھا چار بجے شام جلوس ہمارے مکان پر آیا۔ چند افراد نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میری والدہ گھر تھیں۔ انہوں نے دروازہ کھولا۔ چار پانچ افراد مکان کے اندر داخل ہوگئے اور میری بندوق` کیمرہ` ٹارچ کپڑے وغیرہ اٹھا کر لے گئے پولیس میں رپورٹ کی گئی۔ پولیس نے تفتیش کی تو بندوق ایک شخص محبوب نامی برادر ملک چیف گلاس ہائوس کے پاس سے نکلی۔ بندوق ابھی تک پولیس کے قبضہ میں ہے۔ محبوب مذکور جماعت اسلامی کا ممبر ہے۔<
۲۔ والدہ صاحبہ ٹھیکیدار فتح دین~ف۳~ صاحب نے بیان دیا کہ:۔
>مئورخہ ۷ مارچ کو میں اور میرا لڑکا جس کی عمر ۲۷ سال کی تھی گھر میں تھے حملہ آوروں نے )جن کی تعداد ۵۰۰ کے قریب تھی( حملہ کیا یہ وقت تین بجے شام کا تھا۔ میرے گھر میں ایک شارٹ کن کمرہ میں سامنے لٹک رہی تھی۔ حملہ آوروں نے اٹھا لی اور کہا کہ تم لوگ یہاں سے نکل جائو ورنہ مار دیا جائے گا۔ کارکانہ بازار میں )ہمارے نزدیک( ایک احمدی چوہدری فضل الدین کا گھر تھا۔ ہم اس مکان میں اکٹھے ہوگئے میرے گھر کا سب سامان لوٹ لیا گیا۔ میرے لڑکے نے تھانہ میں فون کیا تو دو سپاہی آئے جبکہ سامان لوٹا جا چکا تھا۔ کچھ آدمی وہاں تھے۔ پولیس نے ان کو کچھ نہیں کہا۔ مجھے یہ کہا کہ جائو اپنے گھر میں۔ کوئی فکر نہ کرو۔
حملہ آور مجھے کہتے تھے کہ ہم تمہیں مار دیں گے اور جب تیرے لڑکے تجھے اٹھانے آئیں گے تو ان کو بھی مار دیں گے۔ تب میں نے وہاں سے آجانا ہی مناسب سمجھا۔ پولیس نے ہماری کوئی مدد نہیں کی۔<
‏tav.14.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
۳۔ عبد الحمید صاحب منی ولد کریم بخش صاحب ساکن گلی نمبر ۵ محلہ پرتاپ نگر لائل پور لکھتے ہیں کہ:۔
>میں نے عرصہ تین سال سے پرانی غلہ منڈی میں سائیں محمد بشیر احمد کمیسن ایجنٹ کی دکان پر بطور مینم کام کرتا تھا۔ مارچ ۱۹۵۳ء میں احمدیوں کا مکمل بائیکاٹ کرنے کی مہم جاری ہوئی۔ احراری لیڈر میر غلام نبی۔ حکیم غلام محمد۔ چوہدری عبد الحمید آرھتیاں نے سائیں محمد بشیر احمد کو مجبور کیا کہ مجھے ملازمت سے >مرزائی< ہونے کی وجہ سے علیحدہ کردے۔ سو ۴ مارچ کو مجھے علیحدہ کر دیا اور اس وت سے بیکار ہوں۔ مجھے اب تک ملازم نہیں ہونے دیتے۔<
۴۔ چوہدری غلام جیلانی صاحب نے )جو ان ایام میں گلی نمبر ۲ محلہ سنت پورہ لائل پور میں قیام پذیر تھے~(ف۴~ تحریر فرمایا:۔
>مارچ ۱۹۵۳ء کے پہلے ہفتہ میں دوبارہ منظم طور پر غنڈہ گردی شروع کی گئی۔ یکم مارچ ۱۹۵۳ء کو قریباً پانچ صد افراد کا ہجوم میرے مکان پر حملہ آور ہوا۔ انہوں نے اینٹیں برسائیں اور دروازہ توڑ کر اندر داخل ہونا چاہا مگر کوٹھے سے میرے رائفل دکھانے پر وہ باز رہے پولیس کو اطلاع دی گئی مگر چوہدری سردار علی اے ایس آئی انچارج چوکی جھنگ بازار نے صاف جواب دیا کہ میں آپ کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ آپ ربوہ چلے جائیں۔ ہر روز کئی کئی دفعہ جلوس آئے اور مکان کے آگے نعرے لگاتے اور گالیاں نکالتے مگر ہم اپنے مکان کے کواڑ بند کرکے ہفتہ بھر مقیدر ہے۔ ہمارا مکمل بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ اس لئے کھانے پینے کی اشیاء بھی میسر نہیں آتی تھیں۔ میری لڑکی شمیم شوکت جو کہ سٹی مسلم گرلز ہائی سکول میں پڑھتی ہے۔ اس کو دینیات کی استانی نے محض احمدی ہونے کی وجہ سے پیٹا اور دوسری لڑکیوں کو بھی احمدی لڑکیوں کو پیٹنے کی تلقین کی۔ ۲۰ اپریل ۱۹۵۳ء کو پولیس نے میرے مکان کی بلا وجہ تلاسی لی لیکن کوئی چیز قابل مواخذہ قبضہ میں نے لے سکی۔ الخ<
۵۔ میاں محمد اسماعیل صاحب اپنے تحریری بیان میں ۲۱ جولائی ۱۹۵۲ء کو فسادیوں کے حملہ اور غارت گری کا واقعہ بتانے کے بعد لکھتے ہیں:۔
>جب احرار نے ۱۹۵۳ء میں نئے سرے سے منظم ہوکر احمدیت کے خلاف تحریک جاری کی اور ۲۸ فروری سے جلسے جلوس شروع ہوگئے۔ تب ۶ مارچ کی شام کو میرے مکان محلہ لکڑ مندی لائلپور پر ہزاروں احراریوں نے حملہ کردیا۔ ہم اس وقت مکان میں ۶ مرد اور ۴ عورتیں تھیں۔ جن کے نام یہ ہیں۔
۱۔ محمد اسماعیل ۲۔ بشیر احمد ۳۔ ضمیر احمد ۴۔ شریف احمد ۵۔ صدیق احمد ۶۔ مبارک احمد )پسران خود( ۷۔ رحمت بی بی اہلیہ خود ۸ بشیراں بیگ اہلیہ بشیر احمد ۹۔ صفیہ بیگم بنت خود ۱۰۔ بشیر فاخرہ بنت بشیر احمد
سات بجے شام سے ۹ بجے رات تک ہمارا بلوائیوں سے مقابلہ ہوتا رہا۔۔۔۔۔ )مگر جب ہماری اینتیں ختم ہونے کو تھیں عین اس وقت( ۹ بجے رات کے پولیس آگئی اور اس نے آکر ہجوم کو منتشر کردیا۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر طرح محفوظ رکھا<
۶۔ جناب فصل عمر صاحب ولد عبد اللہ صاحب کا بیان ہے:۔
>میں ماہ مارچ میں حشمت اللہ ڈپو ہولڈر کے پاس اس کے ڈپو واقعہ گٹوشالہ میں ملازم تھا۔ مورخہ ۸ مارچ قریب ساڑے سات بجے صبح میں نے ڈپو کی طرف پانچ صد آدمیوں کا جلوس آتے دیکھا۔ جلوس کو میں نے دیکھ کر ڈپو کی دکان کو تالا لگا دیا۔ اور پڑوس میں غیر احمدیوں کے پاس پناہ لی۔ نعمت خاں نے میری مدد کے لئے مجھے ایک کمرہ میں بند کرکے اسے تالا لگا دیا۔ جتھہ ڈپو میں میری تلاش میں پہنچا تو اس کو کسی نے بتا دیا کہ میں کمرہ میں بند ہوں۔ بلوائیوں نے تالا کو توڑ دیا اور مجھے گھسیٹ کر باہر نکالا اور زد و کوب کرنا شروع کردیا۔ مگر عین اس وقت ملٹری کا ٹرک اس طرف آگیا جس کو دیکھ کر وہ بھاگ گئے۔<
۷۔ مولوی فضل الدین صاحب بنگوی~ف۵~ دکاندار کارخانہ بازار شہر لائلپور ایک حلفیہ بیان میں لکھتے ہیں:۔
‏iq] g>[ta۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو مخالفین احمدیت احرار وغیرہ نے جلوس نکالا جس میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خلاف نہایت ہی فحش گالیاں اور نعرے لگا رہے تھے اور سہر لائل پور میں ہڑتا کروا دی گئی تھی۔
اس جلوس نے کارخانہ بازار میں احقر فضل الدین بنگوی نمک فروش کی دکان کو فحش نعرے لگاتے ہوئے دن دہاڑے لوٹ لیا۔ اور ۱۹۵۱ء کی طرح نمک کا ڈھیر جو کہ ۳۰` ۴۰ من کے قریب تھا اور دکان کا سب سامان ترازو اور بٹے اور بوریاں اور ٹاٹ سب اٹھا کر لے گئے اور بوجہ ہڑتال کے میں دکان پر نہیں آیا۔ بلکہ اپنے گھر پر ہی رہا تھا تاکہ جلوس والوں کو فتنہ فساد کا موقعہ نہ ملے مگر باوجود اس کے پھر بھی شر پسند دکان سے سب مال اور سامان وغیرہ کو لوٹ کر لے گئے۔
پھر اس کارخانہ بازار سے گزر کر جلوس ریلوے اسٹیشن لائلپور کی طرف روانہ ہوا اور ان کے راستہ میں احقر کا مکان تھا جس پر انہوں نے خشت باری کی۔ اس دوران میں ہمارے ہمسایہ مکرمی محمد الدین صاحب بٹ نے بندہ کو اور میرے بال بچوں کو اپنے گھر میں پناہ دے کر ہماری پوری پوری حفاظت کی اور جلوس میں اپنے واقف کاروں کو جو شامل تھے *** ملامت کرکے پیچھے ہٹا دیا۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء فی الدنیا والاخرہ۔
پھر یہ جلوس آگے ریلوے لائن پر جاکر اسٹیشن کے قریب نہایت ہی اشتعال انگیز نعرے لگانے لگا جس پر پولیس نے ان کو منتشر ہونے کو کہا مگر جلوس منتشر نہ ہوا۔ جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کی۔ پھر بھی جلوس منتشر نہ ہوا۔ آخر شام چار بجے کے قریب پولیس نے گولی چلائی۔
۷ مارچ ۱۹۵۳ء کو باوجود کرفیو کے شرپسندوں نے شام کو جلوس نکالا۔ افسران نے ان کو روکا مگر وہ باز نہ آئے جس پر چنیوٹ بازار میں گولی چلا کر ان کو منتشر کیا گیا۔~<ف۶~
۷۔ مولانا محمد اسماعیل صاحب دیالگڑھی~ف۷~ مربی ضلع لائلپور کی ذاتی دائری میں لکھا ہے:۔
۴ مارچ ۱۹۵۳ء
درس دیا۔ آج دن بھر ہڑتال رہی جس کے متعلق رات مفسدین نے اعلان کرایا دن بھر غنڈوں اور ہلڑ بازوں کے ہجوم گندے اور مشتعل نعرے لگاتے ہوئے گھومتے رہے۔
۵ مارچ ۱۹۵۳ء
درس دیا۔ شہر کی حالت آج بھی خراب رہی۔ گو ہڑتال نہیں تھی لیکن لوگوں میں اشتعال شدید پایا جاتا تھا۔ جگہ جگہ لوگوں کی ٹولیاں فسادات کے متعلق باتیں کرتی پائی گئیں کہ احمدیوں کی لوٹ لینا مار دینا بالکل جائز ہے
۶ مارچ ۱۹۵۳ء
آج احمدی احباب کو مشورہ دیا گیا کہ چونکہ فسادیوں کے ارادے بہت گندے اور امن شکن ہیں اس لئے احمدی احباب اپنے اپنے گھروں کی حفاظت کریں۔ اور نماز جمعہ بھی گھر پر ہی ادا کریں۔ بیت الذکر~ف۸~ میں صرف چند آدمی جمعہ کے لئے آئے۔ باقی اپنے گھروں کی حفاظت کرتے رہے۔ عصر کی نماز کے بعد قریباً چار ہزار آدمیوں کا ہجوم ہماری بیت الذکر پر حملہ آور ہوا۔ ۲۵ منٹ تک انہوں نے ہماری بیت الذکر کو گھیرے رکھا۔ خشت باری کی۔ آگ لگانے کے مشورے کئے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناکام رہے۔ حملہ کے وقت خاکسار کے ہمراہ علی محمد خادم بیت الذکر` بھائی غلام محمد جلد ساز۔ مستری محمد صدیق اور شیخ عبد المجید بیت الذکر میں تھے۔
۷ مارچ ۱۹۵۳ء
آج ربوہ کی طرف سے آنے والی چناب ایکسپریس کو فسادیوں کے ہجوم نے طارق آباد کے قریب روک لیا۔ شور کوٹ کی طرف سے آنے والی گاڑی کو بھی سگنل سے باہر روک لیا گیا۔ جب ہجوم کوٹ مار` ریل کی پٹریوں کو جلانے اور اکھاڑنے میں مصروف ہوگیا تو پولیس کو مجبور ہوکر گولی چلانا پری جس کے بعد شہری کی حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی۔ اور خطرہ بڑھ گیا۔ چھ بجے شام سے کرفیو لگا دیا گیا لیکن لوگوں نے کرفیو کا مذاق اڑایا۔
۸ مارچ ۱۹۵۳ء
کل فسادیوں اور لوٹ مار کرنے والوں پر جو گولی پولیس کو تنگ آکر چلانی پڑی اور اس میں جو تین آدمی ہلاک ہوئے وہ چونکہ احراریوں کے عظیم الشان >شہداء< تھے اس لئے بہت بڑے جلوس کے ہمراہ ان کا جنازہ اٹھایا گیا اور خوب مظاہرہ کیا گیا تاکہ فضا زیادہ سے زیادہ خراب ہو اور ملک کا امن بالکل برباد ہوجائے۔
آج شام جب کرفیو لگایا تو ساتھ اعلان کردیا گیا کہ اگر کسی نے قانون کی ہتک کی تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ فسادیوں کے ایک ہجوم نے کرفیو توڑا جس پر ملٹری کو گولی چلانا پڑی۔
۹ مارچ ۱۹۵۳ء
کرفیو آرڈر ۳ بجے بعد دوپہر تک لگایا گیا تھا لیکن سمندری روڈ پر فسادیوں کے اجتماع اور ملٹری فائرنگ کی وجہ سے کرفیو کل صبح پانچ بجے تک بڑھا دیا گیا۔
۱۰ مارچ ۱۹۵۳ء
لائلپور کے دی سی کے تدبر اور نیک نیتی سے قیام امن کی کوششوں سے احرار کا فتنہ دب گیا۔ کرفیو آرڈر نے فسادیوں کے حوصلے توڑ دیئے۔
مضافات لائلپور کے واقعات
تحقیقاتی عدالت )فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء( کی رپورٹ میں ضلع لائلپور کے متعلق لکھا ہے:۔
>ضلع کے جن دوسرے قصبوں پر شورش کا اثر ہوا وہ یہ تھے` چک جھمرہ` جڑانوالہ` ڈچکوٹ سمندی` تاندلیانوالہ` گوجرہ` ٹوبہ ٹیک سنگھ اور کمالیہ وغیرہ۔ لیکن ان مقامات پر قوت کے استعمال کی ہرگز ضرورت نہیں پری اور احمدیوں کے جان و مال کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔~<ف۹~
لیکن عدالتی بیان صدر انجمن احمدیہ میں لکھا ہے کہ:۔
>لائلپور کے مضافات اور دوسرے چکوں میں احمدیوں پر آلات قتل سے حملے کئے جاتے تھے جس کے نتیجہ میں بارہ احمدیوں کو شدید ضربات پہنچیں اور بہت سے احمدیوں کا پولیس نے خلاف قانون چالان کیا۔<
ضلع لائلپور کے متعلق رپورٹ اور عدالتی بیان دونوں میں بہت ہی اختصار سے کام لیا گیا ہے حالانکہ شہر لائلپور کی طرح ضلع لائلپور کے قصبات و دیہات میں بھی احمدیوں کے خلاف انتہائی دلازار ہنگامے کھڑے کئے گئے جیسا کہ مندرجہ زیل بیانات سے عیاں ہوگا:۔
چک جھمرہ
۱۔ بیان جناب محمد یوسف صاحب بی اے بی ٹی:۔
میں ڈی۔ بی ہائی سکول چک جھمرہ کا سیکنڈ ماسٹر ہوں اس قصبہ میں تحریک ختم نبوت کے سلسلہ میں مقامی مجلس احرار نے نہایت اشتعال انگیزی سے کام لیا۔ کوئی مہینہ بھر سے احمدیوں کا مکمل بائیکاٹ تھا۔ نہ انہیں بازار سے سودا ملتا تھا نہ وہ کسی جگہ آزادانہ آجاسکتے تھے۔ دن بھر جلوس نکلتے جن میں جماعت احمدیہ کے بزرگوں کو فحش ترین گالیاں دی جاتیں اور احمدی گھروں کے سامے ان کی بہو بیٹیوں کے نام لے لے کر گندے نعرے لگائے جاتے۔ مئورخہ ۷ مارچ بروز ہفتہ یہ اشتعال انگیزی انتہا تک پہنچ گئی۔ تقریباً ساڑھے چار بجے بعد دوپہر اچانک شہر میں ہلڑ مچ گیا۔ لوگ ادھر سے ادھر دوڑنے بھاگنے لگے۔ شور میں صاف آوازیں آرہی تھیں کہ >مجلس عمل< نے فیصلہ دے دیا ہے کہ مرزائیوں کو لوٹ لو۔ مار دو۔ ان کے مکان جلا دو۔
میرے مکان کے سامنے ایک مخالف رہتے ہیں۔ یہ مشتعل ہجوم کو اور زیادہ اشتعال دلانے کے لئے میرے مکان کی طرف اشارہ کرکے پکارنے لگے۔ >اے مسلمانو! تم ان مجاہدوں کی اولاد ہو جو فولادی قلعے توڑ دیتے تھے۔ کیا تم سے یہ معمولی کھڑکیاں دروازے نہیں ٹوٹتے۔<
ہجوم میں کچھ اس قدر جوش و خروش تھا کہ بس یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا ایک لمحہ میں ہی یہ لوگ دروازے توڑ کر اوپر آنا چاہتے ہیں اور ہم سب کو تہ تیغ کر ڈالیں گے۔ میرے بیوی بچے بے اختیار ہوکر چیخ پکار کرنے لگے۔ اس مکان کی نچلی منزل میں ایک مہاجر کنبہ رہتا ہے۔ یہ گریہ و زاری دیکھ کر ان کی ایک عورت نے میری بیوی سے اصرار کیا کہ ہم سب سے نیچے چلیں تاکہ وہ ہمیں اپنے مکان کی پچلھی کوٹھڑی میں مقفل کردے اس طرح شاید بچائو کی کوئی صورت پیدا ہوجائے مگر سامنے کی ایک اور ہمسائی نے اسے دیکھ لیا اور وہ پکاری کہ تو انہیں کب تک چھپائے گی۔ لوگ تو ابھی پہنچ رہے ہیں۔ چنانچہ ہم نے نیچے جانے سے انکار کردیا۔ اس اثناء میں شام کا دھندلکا ہوگیا اور ہم ایک ایک کرکے مکان کھلا چھوڑ کر نکل گئے اور ای لمبے راستے سے کھیتوں میں سے ہوتے ہوتے موضع بھگوان سنگھ والا میں جہاں کہ ایک احمدی زمیندار خاندان بستا ہے گرتے پڑتے پہنچ گئے۔ دوسرے روز دو اور احمدی خاندان اسی صورت حالات میں وہاں پناہ گزین ہوئے۔ ۴/۳ روز بعد قدرے امن ہون یپر ہم واپس اپنے گھروں میں آگئے۔ بائیکاٹ پھر بھی جاری رہا اور جلوس نکلتے رہے مگر جوش و خروش کافی مدھم پڑ چکا تھا۔ مقامی چوکی پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل سید محد یوسف شاہ اور ایک اور کانسٹیبل منسی سدے خاں گاہ گاہ جماعت احمدیہ کے افراد کی خبر گیری کرتے رہے۔ ۳ اپریل بروز جمعہ اچانک پولیس افسران میرے مکان پر آئے اور تمام مکان کی تلاشی لے لی مگر کسی قسم کا قابل اعتراض لٹریچر برآمد نہ ہوا۔<
۲۔ بیان جناب مولوی عبد النی صاحب عربک ٹیچر ڈی۔ بی۔ ہائی سکول چک جھمرہ:۔
>میرا مکان جو کہ ریلوے لائن کے بالکل سامنے ہے اور سرکاری گندم کے گودامکے باکل متصل ہے میرے پڑوس میں دو آدمی رہتے ہیں۔ یہ دونوں احراری ہیں۔ اور انہوں نے لوگوں کو احمدیت کے خلاف سخت اشتعال دلایا۔ ایک کا لڑکا چاقو میرے بچوں کو دکھاتا تھا اور بچوں کو دھمکی دیتا تھا کہ تمہارا پیٹ چاقو سے پھاڑ دوں گا۔ کئی دفعہ اس نے میرے بچوں کو زدوکوب کیا۔ ہمارے مکان پر جلوس والے چار پانچ مرتبہ آئے۔ صرف ایک دفعہ پولیس کے دو پساہی ساتھ تھے ورنہ پولیس جلوس کے ساتھ نہیں ہوتی تھی۔ میرے مکان کے سامنے جلوس والے گندی گالیاں نکالتے اور دروازے کھرکیاں توڑنے کی کوشش کرتے لیکن ہم دروازے اور کھڑکیوں کو اندر سے مضبوطی کے ساتھ دھکیل کر کھڑے رہتے۔ ایک مرتبہ انہںو نے دروازے کی چق توڑ پھور ڈالی۔ کھرکی کھول لی اور میری بیوی اور بیٹی کو دیکھ کر کہنے لگے کہ ۔۔۔۔۔ ہم مرزائیوں کی بیٹیاں نکال کر لے جائیں گے اور مکانوں کو آگ لگا دیں گے۔
۸ مارچ بروز اتوار دوپہر کے وقت میرے مکان پر قریباً پچاس آدمیوں نے حملہ کرکے سخت گالیاں دیں اور ہم کو قتل کر دینے کی دھمکیاں دیں۔ دو گھنٹے بعد میرے بیوی بچے محبوب الٰہی کے مکان پر چلے گئے اور ان کے بچوں کے ساتھ ایک نزدیکی موضع میں ایک احمدی کے گھر پہنچ گئے۔ جب جھمرہ سٹیشن پر ملٹری آگئی تب واپس اپنے گھروں میں آگئے اور ہم کو دیکھ کر پھر لوگوں نے ہمیں مغلظ گالیاں دیں لیکن ہم نے صبر کیا۔<
۳۔ بیان سیدنا عبد اللہ شاہ صاحب جنرل مرچنٹ:۔
>دکان لے لٹ جانے کے خوف سے مجھے اکثر ایام میں اسے بند ہی رکھنا پڑتا تھا۔ ۴ مارچ کو حالات نہایت شدت اختیار کرگئے۔ ریلوے سٹیشن چک جھمرہ پر مشتعل لوگوں نے کئی مسافر گاڑیاں روک رکھی تھیں۔ اور اس قدر شور و غوغا برپا تھا کہ کان پری آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ ۷ مارچ کو حالات اور بگڑ گئے اور کوئی چار بجے شام کے قریب تو اچانک یہ نعرے لگنے لگے۔
>مجلس عمل نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ مرزائیوں کے مکان جلا دو۔ مرزائیوں کو لوٹ لو۔ مار دو۔<
حر لحظہ مکان پر حملہ کا خوف تھا۔ باہر راستے رکے ہوئے تھے کسی طرف جان بچا کر نکل جانا ناممکن نظر آتا تھا۔ مجبوراً خدا کا نام لے کر بیوی سمیت مکان میں دبکا بیٹھا رہا۔ کچھ رات گزرنے پر ایک ہمدرد ہمسائے نے آکر اطلاع دی کہ آپ فوراً مکان سے نکل جائیں سخت خطرہ ہے۔ چنانچہ میں اپنے بیوی بچوں اور ضعیف والد صاحب کو ساتھ لئے رات کی تاریکی میں مکان سے نکل گیا اور ہم چھپتے چھپاتے راتوں رات ۷/۱ میل فالہ طے کرکے نہایت خسرحالی میں موضع ستھوئی والہ میں پہنچ گئے۔ جہاں میرے ایک رشتہ دار رہتے ہیں۔ دوسرے دن اطلاع ملی کہ واقعی ہمارے مکان سے نکل جانے کے بعد حملہ آور آئے اور دروازہ توڑنے کی کوشش کی۔ چکیں جلا ڈالیں۔ ایک ہمسایہ کے گھر کے راستے سے اوپر کوٹھے پر چڑھ گئے۔ مگر ہمیں موجود نہ پاکر غیظ و غضب کی حالت میں واپس لوٹے۔ ہم ستھوئی والہ میں تقریباً ۶` ۷ دن پناہ گزین رہے۔ حالت قدرے درست ہونے پر واپس اپنے گھر آئے۔ ابھی تک اس بائیکاٹ اور اشتعال انگیزی کا میرے کاروبار پر بہت بڑا اثر ہے۔۔۔۔ مورخہ ۳ اپریل کو اچانک میرے مکان کی مکمل تلاشی ہوئی مگر پولیس کو کوئی قابل اعتراض چیز نہ ملی۔<
چک نمبر ۲۶۱/ ج۔ ب تحصیل لائلپور
۴۔ بیان چوہدری عبد الرحمن صاحب:۔
>میں چک نمبر ۲۶۱ کا باشندہ ہوں۔ اس چک میں تین گھر احمدیوں کے ہیں۔ مورخہ ۴ مارچ بوقت چار بجے شام میرے گائوں کے تین چار صد آدمیوں نے جلوس بنایا اور میرے گھر آئے۔ جلوس میں شامل آدمیوں نے میرے گھر کی کچی دیوار گرا دی۔ تور گرا دیا۔ چبوترا اکھیڑ دیا۔ گالیاں نکالیں۔ گھر میں پتھر پھینکے۔ میری دو لڑکیوں کو مارا۔ دوسرے دو احمدیوں کے گھروں پر بھی گئے۔ مگر ان کے گھر میں داخل نہ ہوئے۔ باہر سے ہی پتھر مارتے رہے۔ ڈچکوٹ تھانہ میں رپورٹ کی۔ تھانیدار نے گائوں کے دس سرکدہ آدمیوں کو بلایا۔ سمجھایا اور اس طرح امن ہوگیا۔<
چک نمبر ۱۹۴ B۔R تحصیل جڑانوالہ
۵۔ بیان حکیم رحیم بخش صاحب:۔
>میرے چک میں قریباً تیس گھر احمدیوں کے ہیں اور ان احمدیوں کی برادری کے قریباً ساٹھ گھر ہیں۔ مارچ کے پہلے ہفتہ میں تین مولوی کار میں دیہات کا دورہ کررہے تھے۔ کار میں لائوڈ سپیکر تھا۔ یہ کار مولویوں سمیت ہمارے چک میں قریباً دو بجے دوپہر آئی۔ ان مولویوں نے نہایت اشتعال انگیز تقریریں کیں۔ لوگوں کو کہا کہ وہ احمدیوں کو ماریں اور لوٹیں مگر برادری کے نیک اثر کی وجہ سے گائوں میں شرارت پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔<
قریباً ۴` ۵ مارچ کو ہمارے گائوں کے قریباً دس احمدی طلبا لکڑیانوالہ ڈی۔ بی مڈل سکول میں گئے تو سکول کے طالب علموں نے ان کو مارا۔ پولیس کو رپورٹ دی ہیڈ ماسٹر نے ہم سے کہا کہ لڑکوں کو سکول نہ بھیجا کریں۔ حالات قابو سے باہر ہیں۔ مورخہ ۳ اپریل کو بغیر کسی وجہ کے میرے گھر کی تلاشی لی لیکن پولیس کوئی چیز قابل مئواخذہ و اعتراض قبضہ میں نہ لے سکی۔<
ڈچکوٹ
۶۔ بیان جناب محمد عبد اللہ صاحب:۔
>میں منڈی ڈچکوٹ میں دکان آرہت کرتا ہوں۔ دکان مذکورہ میں میرا حصہ دار غیر احمدی مسمی غلام مرتضیٰ تھا۔ غیر احمدیوں نے میرے حصہ دار کو مجبور کرکے جبراً مجھے دکان سے علیحدہ کروا دیا۔ اور بائیکاٹ کردیا۔ اب میں نے اسی سہر میں دوسری جگہ دکان حاصل کرلی ہے لیکن میرا مکمل بائیکاٹ ہے اور کسی گاہک کو میرے پاس نہیں انے دیا جاتا۔ مورخہ ۵ مارچ کو میرے گائوں چک نمبر ۱۳۲ میں جلوس نکالا گیا اور میرے گھر پر حملہ کے لئے آئے مگر بعض لوگوں اور پروسیوں کے روکنے سے وہ شرارت سے باز رہے۔<
سمندری
۷۔ چوہدری محمد نواز صاحب آرھتی نے انہی دنوں بتایا کہ:۔
میں احمدی ہوں جو کہ بمقام سمندری آرہت کرتا ہوں۔ مارچ ۱۹۵۳ء کو شورش میں میرا پورا پورا بائیکاٹ کیا گیا اور۔۔۔۔۔ تقریباً چار ہزار روپیہ جو کہ میرا غیر احمدی اصحاب کے زمہ واجب الوصول تھا میرے خلاف پراپیگنڈا کرکے روپیہ ضبط اور خرو برو کروا دیا گیا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ کسی غیر احمدی دوست کو اب تک بھی میری دکان پر آنے نہیں دیا جاتا۔ اس ناجائز فعل سے مجھے سخت نقصان ہوا ہے۔<
جڑانوالہ
۸۔ جماعت احمدیہ جڑانوالہ کو ایام فسادات میں کن صبر آزما حالات سے دوچار ہونا پڑا؟ اس کا کسی قدر نقشہ جڑانوالہ کے تین احمدیوں کے بیانات سے سامنے آسکتا ہے:۔
‏body] [tag۹۔ شیخ عبد الرحیم صاحب صاحب صراف جڑانوالہ نے بیان دیا کہ مجھے جو فسادات گزشتہ میں تکالیف پہنچیں` بعض یہ ہیں:۔
سب سے پہلے میرا بائیکاٹ کردیا گیا جو اب تک جاری ہے۔ ایک شخص۔۔۔۔۔ جس کی دکان بزازی ریل بازار میں ہے اس نے میرے ۔/۸۸ روپے دینے تھے۔ اس کی طرف میں نے اپنے بھائی کو قرض وصول کرنے کے لئے بھیجا مگر اس نے کہا اگر مجھ سے روپے مانگے تو میں آپ کا پیٹ پھاڑ دوں گا۔ اس طرح میرا پانچ سو روپیہ مختلف اشکاص نے نہیں دیا۔ ایک دفعہ میں نے ٹال سے ایندھن منگوایا اور ایندھن گھر میں رکھوا لیا۔ ٹال والا زبردستی ۱۵ افراد کے ساتھ آکر گھر سے ایندھن اٹھوا کر لے گیا۔ اس طرح میں ایک دفعہ گوشت لین یکے لئے گیا تو انہوں نے گوشت دینے سے انکار کردیا اور ایک شخص احراری دکان پر بیٹھا بتاتا تھا کہ یہ شخص مرزائی ہے اس کو گوشت نہ دو۔ اگر دیا تو جوتوں سے مرمت ہوگی۔ اسی طرح ایک دن سبزی لینے گیا تو سبزی والے نے انکار کردیا۔ کچہری بازار میں میری دکان ہے اور یہاں پر اکثر صرافوں کی دکانیں ہیں۔ اس لئے برادری کی طرف سے میرا ابھی تک مکمل بائیکاٹ ہے اگر کوئی باہر سے گاہک دکان پر آجائے تو اس کو یہ کہہ کر دکان سے لے جاتے ہیں کہ آپ کو شرم نہیں آتی کہ مسلمان ہوکر مرزائی کی دکان پر جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک بیوپاری جس کا نام عبد المجید زرگر گجرانوالہ کا ہے وہ تمام صرافوں کی دکانوں کو چاندی کا مال تیار کرکے سپلائی کرتا ہے۔ میری برادری نے اس کو آرڈر دیا ہے کہ تم نے عبد الرحیم کو مال دیا تو ہم آپ سے قطع تعلق ہوجائیں گے۔۔۔۔۔ اس وقت میری دکان کی حالت یہ ہے اور کاروبار پر اتنا اثر پڑتا ہے کہ کوئی ڈرتا دکان پر قدم نہیں رکھتا۔ میرے پاس جو کچھ نقدی وغیرہ تھی اسی کو کھا رہا ہوں۔ گڑ بڑ کے دوران میں میرے گھر کے سامنے سے جلوس گزرتے رہے اور گھر کے سامنے ٹھہر کر بہت گالیاں دیتے۔ گڑبڑ کے بعد میرے گھر کی تلاشی لی گئی مگر کوئی چیز قابل اعتراض برآمد نہ ہوئی۔<
۱۰۔ ایک بیوہ احمدی خاتون محترمہ سردار بیگم صاحبہ نے اپنی دردناک آپ بیتی مندرجہ ذیل الفاظ میں لکھوائی:۔
>میرے خاوند چوہدری دوست محمد خان صاحب ایم۔ اے علی گڑھ( بی ٹی گولڈ میڈلسٹ جڑانوالہ گورنمنٹ ہائی سکول میں سیکنڈ ہیڈ ماسٹر تھے۔ عرصہ چار سال کا ہوگیا ہے۔ وہ وفات پا چکے ہیں۔ میں ہوشیار پور کے ایک معزز گھرانہ سے تعلق رکھتی ہوں اور اب میں جڑانوالہ میں مقیم ہوں۔ میرے پاس چھوٹا لڑکا جس کی عمر آٹھ نو سال کی ہے رہتا ہے۔ اور پانچویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ جس دن سے احمدیوں کے خلف مولویوں نے اعلان کردیا کہ ان کو مارا پیتا جائے اور ان کو دکھ دینا اور مارنا کار ثواب ہے اس دن سے میرے بچے کو اسکول میں دوسرے بچے دکھ دیتے تھے۔ جس وقت اس کو اکیلا دیکھتے تو اسے چڑاتے۔ ایک دن میرے بیٹے کو خوب پیٹا گیا اور اور اسے کہا گیا کہ جب تک تم چوہدری ظفر اللہ خاں اور بانئی سلسلہ احمدیہ کو گالیاں نہیں نکالو گے ہم تمہیں مارنا بند نہیں کریں گے۔ آخر ان لڑکوں نے میرے بچے کو اس وقت چھوڑا جب میرے بچے نے چوہدری ظفر اللہ کو غدار کہہ دیا اور بری مشکلوں سے چوٹ کر روتا روتا گھر آیا۔ ایک دن بڑے بڑے لڑکے اس کی جوتی اٹھا کر لے گئے۔ جلوس نکلنے کی وجہ سے سب دکانیں بند تھیں۔ اسی لئے اور جوتی خریدی بھی نہ جاسکی اور نہ ہی میرے پاس کوئی آدمی جوتا لا کر دینے والا موجود تھا۔
ایک رات کچھ لڑکے میرے مکان میں داخل ہوئے۔ پھولوں کے گملے اور چند برتن اٹھا کر لے گئے۔ ان کے علاوہ اور بھی نقصانات ہوئے۔
ہر روز کئی کئی جلوس نکالے جاتے اور ہمارے گھر کے سامنے آکر خوب مظاہرہ کرتے اور خوب ناچتے۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور ہم احمدیوں کا سیاپا کیا جاتا۔ ایک لڑکے کا منہ کالا کرکے اس کو چارپائی پر لٹا کر اسے اٹھاتے پھرتے اور کہتے کہ یہ ظفر اللہ کا جنازہ ہے۔ ایک آدمی کو جوتوں کا ہار پہنا کر جلوس کے آگے نچایا جاتا اور اسے گالیاں دی جاتیں کہ یہ مرزا غلام احمد ہے اور ہمارے گھر کے چاروں طرف گھومتے۔ گندی گالیاں دی جاتیں جو لکھی بھی نہیں جاسکتیں۔ میں اور میرا چھوٹا بچہ دروازے بند کرکے اندر بیٹھے رہتے۔ پھر مکان پر پتھرائو کیا جاتا۔ بہت زور سے پتھر ہمارے مکانوں اور کھڑکیوں پر آکر لگتے۔ ہمارے روشندانوں کے شیسے سب توڑ دیئے گئے جن کی اب تک مرمت نہیں کروائی جاسکتی۔
ایک عورت جو میرے گھر میں کام کرتی تھی اسے روپوں کا لالچ دے کر ہمارے گھر میں کام کرنے سے روک دیا گیا۔ ہم احمدیوں سے بائیکاٹ کیا گیا اور سودا سلف دینے سے دوکانداروں کو منع کردیا گیا۔ ایک دن میرا بچہ سبزی لینے گیا۔ دکاندار نے اسے سبزی دے کر پیسے لئے اور بعدازاں سبزی چھین لی۔ اور بچہ روتا روتا گھر آگیا۔ ہمارے پاس آٹا ختم ہوگیا تھا اور آٹا پسایا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ اس لئے ہم دو دن بغیر آئے کے رہے۔
دودھ والی سے کہا گیا کہ ان کو دودھ نہ دیا کرے مگر وہ وفادار نکلی اور خفیہ طور پر دودھ دے جاتی۔ بھنگن کو بھی بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہم چائے پی کر اندر خاموشی سے بیٹھے رہتے۔ ایک ہماری گھر کی طرف آ کے کچھ اشارے کرتے رہے مگر واللہہاعلم کیا وجہ ہوئی منتشر ہوکر چلے گئے۔ شاید پولیس والے گشت پر آتے نظر آئے ہوں۔ ہماری کھڑکیوں کو جالی لگی ہوتی تیںھ۔ یہ سب کچھ ہمیں نظر آتا تھا۔ مجھے ساری ساری رات جاگنا پڑتا جس کی وجہ سے میری صحت خراب ہوگئی اور ابھی تک مکمل درست نہیں ہوئی۔ نوکرانی کے ہٹانے جانے سے سارا کام خود کرنا پڑتا۔ دھوبی کے پاس ہمارے کپڑے گئے ہوئے تھے۔ اس نے کپڑے دینے سے انکار کردیا۔
ایک دن پولیس نے ہمارے مکان پر چھاپہ مارا اور تلاشی لی۔ صرف میں اور میرا چھوٹا بچہ اس وقت گھر پر تھے۔ لوگ ہمارے گھر کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ پولیس نے مجھے یہ موقع نہ دیا کہ میں کسی عزیز کو بلا لیتی۔ جس طرح ڈاکوئوں کے گھر میں داخل ہوتے ہیں )اسی طرح ہمارے گھر میں داخل ہوئے۔ ناقل( بچہ کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس وقت مجھ پر بہت خوف طاری ہوا۔ پولیس نے گھر کا چپہ چپہ چھان مارا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ¶گھر میں سے کوئی بھی قابل اعتراض چیز نہ نکلی۔ جس وقت پولیس نے چھاپہ مارا اس وقت عصر کا وقت تھا میں نماز پڑھنے لگی تھی۔ انہوں نے کہا ہمارے ساتھ ہوکر گھر کی تلاسی دلائو۔ میں نے کہا پہلے مجھے عصر کی نماز پڑھ لینے دو سپاہیوں نے مجھے ایسا کرنے سے روکا لیکن تھانیدار نے کہا بی بی پڑھ لو۔ ایک دن مجھے ہمسایوں میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ آپ بہنوں جیسی ہیں اس لئے آپ کے لئے بہتر ہے کہ آپ مکان چھوڑ کر کہیں چلے جائیں یا احمدیت سے انکار کردیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی یہاں خیر نہیں۔ پبلک کے تمہارے متعلق بہت برے ارادے ہیں۔ میں نے کہا میں نہ مکان چھوڑ کر جاسکتی ہوں اور نہ احمدیت سے انکار کرسکتی ہوں لیکن میرے دل میں خوف ضرور تھا کہ کہیں ان لوگوں کو میرے جواب سے طیش نہ آجائے۔
یہ ہیں مشکلات جن کا ہمیں سامنا کرنا پڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک لمبا عرصہ تک حبس اور خوف و ہراس کی حالت میں رہے۔<
۱۱۔ جناب محمد حسین صاحب سیکرٹری امور عامہ جڑانوالہ اپنے ایک بیان میں لکھتے ہیں کہ:۔
>ان دنوں عبد الرشید ولد عبد الرحمن مہاجر طالب علم کو دو دفعہ پیٹا گیا۔ ایک دفعہ بازار میں بعض دکانداروں نے پیٹا۔ جب وہ اپنے کام سے وہاں سے گزر رہا تھا اور دوسری دفعہ جب وہ سکول میں تعلیم کے لئے گیا اس کا سر پھٹ گیا۔
افتخار احمد طالب علم کو جس کی عمر قریباً آٹھ سال ہے سکول میں لڑکوں نے مار مار کر مجبور کیا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو گالیاں دو اور چوہدری ظفر اللہ خاں کو غدار کہو۔ اسے اس وقت تک پیٹتے رہے جب تک اس نے مجبور ہوکر چوہدری ظفر اللہ خان کو غدار نہ کہا۔ نہ ماسٹر ے شکایت سنی اور نہ کسی لرکے نے اسے بچایا۔ بچہ کئی دن تک سکول نہ گیا۔
گل سکول میں احمدی لڑکیوں کو روانہ گالیاں دی جاتی رہیں یہاں تک کہ سید عنائت علی شاہ زیروی کی لڑکی امتحان میں سے اٹھ کر گھر چلے آنے پر مجبور ہوگئی۔ اور آئندہ تعلیم سے محروم ہوگئی۔ میاں محمد شریف صاحب اور چوہدری سردار احمد صاحب کی لڑکیوں کو بھی سکول چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ استانی کو جب شکایت کی گئی تو اس نے )الٹا( ہماری لڑکیوں کو ڈانٹا اور کہا تم کو جتنا پیٹا جائے تھوڑا ہے۔ تم نے ہزاروں مسلمانوں کو گولیوں سے مروایا ہے۔ ڈاکٹر محمد انور صاحب امیر جماعت احمدیہ جڑانوالہ کی چھوٹی بچی جو بازار سے کچھ سودا لانے کے لئے جا رہی تھی کسی نے اسے دھکا دیا اور پانچ روپیہ کا نوٹ اس سے چھین لیا۔~<ف۱۰~
اسی طرح ڈاکٹر صاحب کے بچے محمد اکرم عمر ۶ سال کو بازار میں لڑکوں نے پیٹا۔ نیز میاں عبد الرحیم صاحب صراف کے بچے کو بازار سے گزرتے وقت پیٹا۔<
چک نمبر ۱۱۹ گ / ب
۱۱۔ میاں فضل دین صاحب قوم جٹ پیسہ زمیندار نے باقرار صالح مندرجہ ذیل بیان دیا کہ:۔
>ہمارے گائوں چک نمبر ۱۱۹ گ / ب میں عرصہ دو سال سے زیادہ شدت کے ساتھ ہمارے خلاف ہر قسم کی شرارت کی جارہی ہے۔ مورخہ ۱۴ جولائی ۱۹۵۲ء کو ایک مخالف نے بلا کر ہماری بے عزتی کی اور ڈرایا کہ احمدیت سے توبہ کرو ورنہ تم سب قتل کردیئے جائو گے ہم اپنے عقائد پر ڈٹے رہے جس پر اولاً ہمارے ساتھ تمام تعلقات منقطع کرلئے۔ ہمارا حقہ پانی بند کردیا گیا۔ کنویں سے پانی لینے سے روک دیا گیا۔ فرداً فرداً سب احمدیوں کو زدوکوب کرنا شرو کردیا۔ موجودہ شورش میں تمام گائوں کے گائوں نے قرآن کریم اپنی لڑکیوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ ہم لڑکیوں سے برا کریں اگر ہم ایک ایک مرزائی قتل نہ کریں۔ یہ واقعہ ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کا ہے ایک شخص نے ہمیں کہا کہ تم نے ہمارے مولوی پکڑوائے ہیں۔ اب ہم سے بھلا ایک گھر مرزائیوں کا ختم نہ ہوسکے گا۔ چنانچہ سب لوگ جلوس کی شکل میں ہمارے گھر کے سامنے اکٹھے ہوگئے اور نہایت فحش قسم کی گالیاں دینی شروع کردیں۔ ہم اندر سے دروازے بند کرکے بیٹھے رہے۔ بعد میں ان میں سے ایک نے کہا کہ ایک مرزائی نے تھانہ میں جاکر رپورٹ لکھوا دی ہے۔ یہ سن کر سب جلوس منتشر ہوگیا۔ اس طرح ہم بچ گئے۔ پھر ہم رات کو ۸ بجے بچ بچا کر تھانہ جڑانوالہ میں پہنچے۔ انچارج صاحب وہاں گئے اور پچیس آدمیوں کے انگوٹھے اس تحریر پر لگوائے کہ وہ آئندہ شورش نہ کریں گے۔ اس سے پندرہ روز پہلے خاکسار فضل الدین کو بلا کر جوتے لگائے گئے۔ نذیر احمد کو اس قدر زدوکوب کیا گیا کہ وہ بے ہوش ہوگیا۔ محمد شریف احمدی کے پیٹ میں چاقو گھونپ دیا گیا مگر خدا کے فضل سے جان سے سب بچ گئے۔<
چک نمبر ۵۶۔ ۵۷
۱۲۔ میاں عاشق محمد خان صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چک ۵۶۔ ۵۷ نے بیان کردیا کہ:۔
>چک ۵۶۔ ۵۷ گ۔ ب تحصیل جڑانوالہ ضلع لائلپور کی جماعت احمدیہ کے خلاف یکم مارچ تا ۵ مارچ مختلف قسم کے مشورے اور خفیہ اجلاس ہوتے رہے۔ فیصلہ ہوا کہ جو کچھ جمعہ کے خطبہ میں امام مسجد کہے گا اس پر عمل ہوگا۔ جمعہ کے خطبہ میں مولوی۔۔۔۔۔ نے کہا کہ مجاہد اسلام لاہور وغیرہ شہروں میں اپنی چھاتیوں پر گولیاں کھا رہے ہیں لیکن تم ہو اپنے گھروں میں خواب غفلت میں سو رہے ہو۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس فرقئہ مرزائیہ کے ہر فرد کو موت کے گھاٹ اتار دو۔ کفن سر پر باندھو۔ اگر مارے گئے تو شہید ورنہ غازی۔ ثواب آخرت کے علاوہ اس دنیا کی لوٹ سے حصہ پائوں۔ مرزائیوں کی عورتیں تم پر بلا نکاح حلال ہیں۔ اب ہماری ٹکر حکومت اور مرزائی دونوں سے ہے۔ انشاء الل¶ہ ہم ان کو مٹا کے چھوڑیں گے۔۔۔۔۔ بعد نماز جمعہ ایک خوفناک جلوس نکالا گیا جس میں ۸/۷ صد نفوس شامل ہوئے کافی تعداد کے پاس مہلک ہتھیار تھے۔ احمدیوں کے بزرگوں کو دل کھول کر گالی گلوچ کیا گیا اور ہر احمدی کے بند دروازے )کیونکہ احمدیوں نے خوف سے دروازے بند کر لئے تھے( کے سامنے پکارا گیا کہ تمہیں ایک دو دن کی مہلت دی جاتی ہے کہ اپنے غلط عقیدہ کو بدل دو۔ ورنہ تمہارے گھر بار لوٹ لئے جائںی گے۔ تمہاری عورتوں کی بے عزتی کی جائے گی اور تمہیں قتل کردیا جائے گا اور کہا کہ تمہاری عورتوں کی تقسیم اب ہی کرلی ہے۔۔۔۔۔ افراد جماعت کو پابند مسکن کردیا اور باہر کی دنیا سے ان کا سلسلہ پیغام رسانی توڑ دیا گیا۔ ہر قسم کی تنگی دی گئی۔ ۹ مارچ کو پروگرام پر عمل پیرا ہونے کے لئے بعد دوپہر جلوس نکالا گیا۔ جلوس نہایت خوفناک صورت اختیار کئے ہوئے تھا۔ ان کے ارادے نہایت برے تھے لیکن قدرتاً تمام گائوں میں افواہ پھیل گئی کہ عاشق محمد خان احمدی چک نمبر ۵۶ نے تھانہ میں اطلاع کی ہوء ہے اور پولیس آرہی ہے۔ اس افواہ نے دشمنوں کے منصوبہ کو عملی رنگ اختیار نہ کرنے دیا اور جلوس کو خود ہی پولیس کے خوف سے منتشر کردیا۔۔۔۔۔ اور فیصلہ کیا گیا کہ آج کا دن پولیس کا اتنظار کرلو اور احمدیوں کے قتل` لوٹ مار اور عورتوں کی بے عزتی کو کل پر چھوڑ دو۔ اے ایس آئی چک ۵۵ گ / ب ۱۰ بجے قبل دوپہر پہنچ گئے اور نمبردار )وغیرہ( سے وعدہ لیا کہ ہم ہر قیمت پر گائوں میں امن قائم رکھیں گے۔
افسوس باوجود بحالی امن کا اقرار کرنے کے پھر بھی اس جماعت پر یلغار کی گئی جیسا کہ اسی چک کے متعلق محمد حسین خان سیکرٹری امور عامہ جڑانوالہ نے تحریری شہادت دی کہ:۔
>چک نمبر ۵۵۔ ۵۶ میں احمدیوں کو گھیر لیا گیا۔ تقریباً ساری جماعت کو قتل کرنے کی دھمکی سے مجبور کرکے دستخط لے لئے کہ وہ احمدیت سے باز آتے ہیں۔ ماسٹر عاشق محمد صاحب اور سید عنایت علی شاہ صاحب کو بہت پریشان کیا۔ مکان میں بند رکھا۔ قتل کرنے کو تیار ہوگئے۔ ان کی طرف سے جڑانوالہ میں اطلاع آجانے پر ہم نے پولیس بھجوا دی۔ پولیس نے حالات پر قابو پا لیا۔<
چک نمبر ۳۶ تھانہ ستھیانہ
۱۳۔ جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ ضلع لائلپور کا بیان ہے:۔
>چک نمبر ۳۶ ستھیانہ میں چند احمدی گھر ہیں۔ مولویوں نے وہاں جا کر تقریریں کیں۔ احمدیوں پر حملہ ہوا۔ بارہ احمدی سخت زخمی ہوئے۔ ٹکوے` بلم` کلہاڑے ان پر استعمال ہوئے۔ چار کی حالت ایسی تھی کہ قریب الموت تھے۔ ۲۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو یہ واقعہ ہو۔ ۲۹ مارچ کو راقم مع ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈاکٹر رشید احمدی صاحب ایمولینس کار لے کر پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب نے چار آدمیوں کی حالت انتہائی مخدوش پاکر انہیں شہر دلائل پور کے ہسپتال میں منتقل کردیا۔ ۳۵ غیر احمدی زیر دفعہ ۱۴۹ / ۳۰۷ زیر چالان ہیں لیکن دوسرے تیسرے روز بعد احمدی مجروحین اور ان کے لواحقین کا بھی اسی دفعہ میں چالان کردیا گیا۔ دونوں مقدے عدالت میں ہیں۔ اس لئے ان کے متعلق کوئی رائے زنی نہیں کی جاسکتی۔
۱۵۔ حمید احمد صاحب ساکن چک نمبر ۳۶ گ / ب تحصیل جڑانوالہ ضلع لائلپور نے لکھا کہ:۔
>میرے چک میں احمدیوں کے ۶` ۷ گھر ہیں۔ ہمارے گائوں کے مولویوں نے بہت اشتعال پیدا کیا اور گائوں میں ماہ مارچ ۱۹۵۳ء میں قریباً ہر روز جلسہ کیا اور احمدیہ جماعت کے خلاف بہت گند اچھالا۔ سخت بدزبانی کرتے۔ اسی اشتعال پھیلانے کی وجہ سے پولیس نے سرکردہ چار مولویوں کو گرفتار کرلیا اور اس طرح چک میں امن برقررا رکھنے میں پولیس کامیاب ہوئی۔ یہ چاروں مولوی چند دن کے بعد رہا ہوکر واپس گائوں میں آگئے اور باقاعدہ تنظیم کے ساتھ حملہ کی تیر شروع کردی۔ ہم احمدیوں کا گائوں کے لوگوں سے بائیکاٹ کروایا۔ جلوس صبح شام نکالتے` نہایت فحش ناقابل برداشت اور انتہائی شر انگیز اور اشتعال انگیز گالیاں نکالتے رہے۔ اور گھروں میں پتھر پھینکتے رہے اور پولیس نے ہماری رپورٹ پر دو سپاہی چک میں تقریباً دس یوم رکھے۔ اور اس طرح ان دنوں ہم ان کے خطرناک ارادوں سے محفوظ رہے۔ مورخہ ۲۸ مارچ کو رہا شدہ مولویوں نے پروگرام کے مطابے ہمارے آدمیوں پر حملہ کیا۔ جبکہ وہ خراس پر آٹا پیسنے گئے اور اس طرح ۱۶ آدمیوں کو برچھوں` کلہاڑیوں اور ڈانگوں سے زخمی کیا۔ پولیس موقع پر پہنچ گئی اور )ان کے ۳۵ آدمیوں کا چالان کیا۔ دو تین یوم بعد ہمارے خلاف بھی لڑائی کا جعلی پرچہ کرا دیا گیا۔ اور ہمارے آدمیوں کا چالان کردیا۔ تین ماہ تک ہماری ضمانتیں نہ ہوئیں اور گھر پر کوئی کام کرنے والا نہ رہا۔ وقوعہ کے ڈال ماہ بعد ہمارے ایک احمدی محمد یعقوب کے گائوں والوں نے نقب زنی کی واردات کرا دی۔ الخ<
جلیانوالہ متصل گوجرہ
ماسٹر محمد شفیع صاحب~ف۱۱~ اسلم نے جلیانوالہ متصل گوجرہ کا مندرجہ ذیل واقعہ انہی دنوں حضرت مصلہ موعود کی خدمت میں لکھا کہ:۔
>ہمارے گائوں جلیانوالہ میں گو اندر ہی اندر کھچڑی پک رہی تھی مگر بظاہر امن تھا کہ ۶ مارچ کو گوجرے میں حالات زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے دس بارہ مستورات ہمارے ہاں چلی آئیں تاکہ غنڈہ عناصر سے محفوظ رہ سکیں اس پر ہمارے گائوں میں ای آگ لگ گئی اور سرکردہ لوگ ہمیں کہنے لگے کہ تم نے ان عورتوں کو پناہ کیوں دی ہے چنانچہ سارے گائوں میں مخالفت بھڑک اٹھی۔۔۔۔۔ مستورات کے یہاں آنے میں ایک لطیفہ یہ ہوا کہ ایک عورت اپنا ایک ٹرنک ساتھ لے آئی جو کسی قدر لمبا تھا اور قدرے وزنی بھی۔ گائوں کے لوگوں نے سمجھا کہ اس میں اسلحہ ہے اور یہ مرزائیوں نے ہمارے لئے شہر سے مستورات کے بہانے منگوایا ہے اس وہم سے وہ لوگ اپنے مزموم ارادوں سے باز رہے۔<
جناب ملک فضل حسین صاحب کی تحقیق کے مطابق ضلع لائلپور میں
>اس قسم کی مار دہاڑ اور جبر و تشدد وہیں ہوا جہاں کہ احمدی اقلیت میں تھے۔ کمزور و لاچار تھے۔ برعکس اس کے جس جگہ بھی احمدی اکثریت میں تھے۔ یا ان کی اچھی خاصی آبادی تھی یا جہاں تھوڑے ہوتے ہوئے بھی ان کے دلوں میں جر¶ات و مردانگی کا مادہ کافی موجود تھا۔ وہاں کسی قسم کا فتنہ و فساد اور ہنگامہ آرائی نہ ہوسکی۔ بطور مثال سمندری سے تین میل دور چک نمبر ۴۷۹ کا ذکر کافی ہوگا۔ اس گائوں میں احمدی بمشکل دس پندرہ ہوں گے۔ جب احرار نے ان کو جلوس کے ذریعہ تنگ اور پریشان کرنا چاہا تو بقول چوہدری عبد المجید خان صاحب >انہوں نے جلوس کے سامنے نکل کر کہا کہ روز روز کا جھگڑا آج ہی ختم کر لو۔ لڑ کر دیکھ لیتے ہیں۔ ان کے اس چیلنج نے دشمن کو بے حوصلہ کردیا۔ اور پھر وہاں نہ جلوس نکلا اور نہ گڑ بڑ ہوئی۔<
فصل سوم
ضلع جھنگ
جھنگ مگھیانہ میں شورش کے دوران اصل خطرے کے ایام ۶` ۷ مارچ کے تھے جن میں فتنہ و فساد انتہائی عروج پر تھا۔ اور اندیشہ تھا کہ جانی و مالی نقصان احمدیوں کا ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے شریروں کا رخ دوسری طرف پلٹ گیا احمدی محفوظ رہے البتہ ان کے خلاف بائیکاٹ اور پکٹنگ کی تحریک بہت شدید تھی ان دنوں احمدیوں کی بیس کے قریب دکانیں سہر میں تھیں۔ جو ان کو بند رکھنا پڑیں۔ ان کی اور کھماچوں~ف۱۲~ کے احمدی مہاجرین کی کئی ایک چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں بند رہیں کیونکہ مزدوروں کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ اور احمدیوں سے لین دین کرنے والے شخص کے لئے یکصد روپیہ جرمانہ مقرر کیا گیا۔ میاں بشیر احمد صاحب )نائب امیر جماعت( احمدیہ مگھیانہ۔ ایجنٹ سٹینڈرڈ ویکم آئل کمپنی جھنگ( کی دکانیں ان ایام میں کھلی رہیں مگر سوائے پٹرول پمپ کے کوئی کاروبار نہ ہوا کیونکہ پکتنک جاری تھی اور پٹرول بھی پنجاب ٹرانسپورٹ کے سوا کسی نے نہیں لیا۔ ان کی دکان اور پمب کے سامنے ہی روزانہ جلوس آکر اکھاڑا لگاتا اور وہیں سے منتشر ہوجاتا۔ بال¶اخر مقامی حکام کے تعاون سے پکٹنگ ناکام ہوگئی۔ اور احمدیوں کا کاروبار پھر سے چل نکلا۔
اقتصادی بائیکاٹ کے علاوہ بھنگیوں اور حجاموں کو احمدیوں کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ احمدی احباب نے ان تمام حرکتوں کا صبر و استقلال سے مقابلہ کیا۔~ف۱۳~
شور کوٹ ان ایام میں بدامنی سے محفوظ رہا ور جلوس پر امن رہے اور ان میں کسی قسم کا کوئی نازیبا نعرہ نہیں لگایا گیا جو مقامی حکام کے تعاون اور ہسن انتظام کا نتیجہ تھا۔ ایک شخص نے ازراہ شرارت حکیم محمد زاہد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کے خلاف تحصیلدار صاحب کی عدالت میں بیان دیا کہ انہوں نے ہماری عورتوں کو گالیںا دی ہیں مگر یہ واقعہ سراسر فرضی تھا چنانچہ وہ بری کردیئے گئے۔~ف۱۴~
بستی وریام گڑھ مہاراجہ` پیر عبد الرحمان بس سٹینڈ اور تھانہ بھوانہ کی احمدی جماعتوں میں بھی خیریت رہی۔~ف۱۵~ ربوہ۔ احمد نگر اور چنیوٹ اور اس کے ماحول پر کیا بیتی؟ اس کی کسی قدر تفصیل اب بیان کی جاتی ہے۔
ربوہ اور اس کا ماحول پر فتن ایام میں
جہاں صوبہ پنجاب کی بہت سی احمدی جماعتوں کو مارچ ۱۹۵۳ء کے فتنئہ محشر اور ہنگامئہ قیامت سے دوچار ہونا پڑا` وہاں ربوہ اور اس کا ماحول بھی بائیکاٹ محاصرہ اور قتل و غارت کی دھمکیوں کے تکلیف وہ ابتلاء میں گزرا۔ یہ ایام بہت صبر آزما تھے اور کئی تلخ یادیں چھوڑ گئے۔ اس دور کے احوال و کوائف تاریخ وار درج کئے جاتے ہیں:۔
۳ مارچ
۳ مارچ ۱۹۵۳ء کو صبح چھ بجے مولانا محمد محمد اسماعیل صاحب دیالگڑھی مربئی سلسلہ احمدیہ نے لائلپور سے یہ تحریری اطلاع بھجوائی کہ:۔
>حالات نہایت مخدوش ہیں۔ ہر احمدی گھر ر ہر لحظہ حملہ متوقع ہے کل چناب ایکسپریس ۳۰۔ ۳۵ منٹ تک چنویٹ میں روکے رکھی اور ہر دبہ میں احمدیوں کی تلاشی لی گئی تاکہ انہیں باہر نکل کر مار دیا جائے۔ چنیوٹ پولیس یا فوج کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ گاری جب لائلپور پہنچی تو سگنل سے باہر روک لی گئی اور تین گھنٹہ تک روکے رکھی بال¶اکر گولی چلانا پری۔<
۴ مارچ
۴ مارچ اس دن چنیوٹ گورنمنٹ گرلز سکول کی معصوم احمدی بچیوں کو جوتیوں سے پیٹا گیا۔ رات کو لڑکوں کا جلوس شہر میں گشت کرتا اور ہندوستان زندہ باد اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگاتا رہا۔
۵ مارچ
۵ مارچ۔ صبح کو لائلپور جانے والی چناب ایکسپریس جب ربوہ ٹھہری تو انجن پھولوں سے سجا ہوا تھا اور سواریوں کے ہاتھ میں مطبوعہ اور دستی اشتہارات تھے جن پر >بناوٹی نبی مردہ باد< >مرزائیوں کو اقلیت قرار دو< >ظفر اللہ کو اتار دو< >مجاہد بنو< کے الفاظ درج تھے گاڑی میں نعرے بھی لگائے گئے۔ جن سے ملک میں ابھرنے والے فتنہ کے نئے رجحانات کی نشان دہی ہوتی تھی۔
مرکز میں لاہور اور سیالکوٹ سے بعض احمدیوں کی شہادت کی اطلاعیں پہنچیں جس پر شام کو وزیر اعظم پاکستان` پنجاب کے چیف سیکرٹری` ہوم سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کو تار دیئے گئے جن میں لاہور اور سیالکوٹ کے احمدیوں کی تشویشناک صورت حال سے مطلع کیا گیا تھا۔ ایک تار حفاظت ربوہ کے انتظامات کے لئے ڈپٹی کمشنر صاحب جھنگ کو بھی دیا گیا۔
انسپکٹر صاحبو پولیس اور ایس۔ ڈی۔ ایم صاحب چنیوٹ نے بعض احمدیوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے بچوں کا سر دست ہنگامی حالات میں ربوہ کے سکول میں آنا اور جانا بند کردیں۔ خطرہ ہے کہ کوئی نقصان نہ ہوجائے۔
آج بھی چنیوٹ میں جلوس نکلا جس میں دو تین ہزار مرد اور سو کے قریب عورتیں بھی شامل تھیں چنیوٹ گرلز سکول کی احمدی بچیوں کی فہرست بنائی گئی اور استانیوں نے مشورہ کیا کہ ان کو غنڈوں کے حوالہ کیا جائے گا۔
۶ مارچ
۶ مارچ۔ جناب شیخ محمد حسین صاحب~ف۱۶~ پنشنر سیکرٹری مال و قائم مقام امیر جماعت احمدیہ چنیوٹ نے سب انسپکٹر صاحب پولیس تھانہ صدر چنیوٹ اور پریزیڈنٹ صاحب میونسپل کمیٹی چنیوٹ کو تحریری درخواست دی کہ۔
>جماعت احمدیہ کی بیس پچس لڑکیاں ایم بی گرلز مڈل سکول محلہ گڑھا میں تعلیم حاصل کررہی ہیں اور اب امتحان سالانہ قریب آگیا ہے۔ گرلز سکول میں استانیو کی موجودگی میں حنفی مسلمان لڑکیاں` احمدی۔۔۔۔۔ لڑکیوں کو ہر قسم کی طعن تشنیع اور گلی گلوچ کا مظاہرہ کرکے سخت تنگ کرتی ہیں اور دہشت بھی پیدا کرتی ہیں کہ ہم مرزائیوں کو مار ڈالںی گے یہ کریں گے وہ کریں گے۔ لہذا مئودبانہ گزارش ہے کہ فوری طور پر ہماری بچیوں کی حفاظت کا انتظام فرمایا جائے اور دوسری لڑکیوں کو ایسی شینع حرکات کرنے سے روکنے کا انتظام فرمایا جائے مگر اس درخواست پر کوئی کاروائی نہ کی گئی۔اسی روز جماعت احمدیہ چنیوٹ کے ایک وفد نے انچارج صاحب تھانہ چنیوٹ کو یہ عرض داشت بھی پیش کی کہ آج جمعہ کی نماز سب احمدی اپنی بیت الذکر میں ادا کریں گے۔ خبریں آرہی ہیں کہ مشتعل نوجوانوں کو شرارت کے لئے اکسانے کے علاوہ چاقو` چھرے وغیرہ سے مسلح کرنے کی کوشش ہورہی ہے اس لئے احمدی حلقوں اور احمدیہ بیت الذکر کی حفاظت کا بندوبست کرکے ممنون فرمائیں۔ انچارج صاحب نے احمدی وفد سے وعدہ کیا کہ میں ابھی دو تین سپاحی احمدیہ بیت الذکر کے لئے بھیجتا ہوں مگر موقعہ پر نہ صرف ایک سپاہی بھی نہیں بھیجا گیا بلکہ پولیس نے احمدی حلقوں کا گشت کرنا بند کردیا۔
نماز جمعہ کے بعد شیخ محمد حسین صاحب اور چوہدری جمال الدین صاحب~ف۱۷~ ۔M۔D۔A سے ملے انہوں نے دوران گفتگو کہا >آپ اطمینان سے اپنے گھروں کو بند کرکے بیٹھے رہیں اگر میں نے پولیس کو لگایا تو اشتعال زیادہ ہوگا میں نے شہر کے بڑے بڑے لوگوں کو تنبیہ کردی ہے کہ احمدیوں کو کچھ نہ کا جائے اور نہ نقصان کیا جاوے اگر کسی احمدی کا نقصان ہوا تو ایک نہیں ہزار گولی چلائوں گا۔ آپ گھروں میں بیٹھیں جوس اور بازار میں نہ جائیں۔<
اس ملاقات کے چند منٹ بعد دس پندرہ ہزار کا ایک جلوس M۔D۔A کے پاس پہنچا اس میں احمدیوں کو شدید گالیاں دی جارہی تھیں اور اشتعال انگیز نعرے لگا رہے تھے۔
کانڈیوال میں صرف ایک گھر احمدی کا تھا جسے لوٹنے کی کوشش کی گئی۔
اسی روز قریباً ۱ بجے دوپہر کیپٹن چوہدری محمد حسین صاحب چیمہ~ف۱۸~ )مقیم وار النصر ربوہ( چنیوٹ سے بذریعہ لاری ربوہ آرہے تھے کہ ایک شخص نے جولاری میں بیٹھا ہوا تھا دریا عبور کرتے ہی کہا کہ ۸ تاریخ کو ربوہ پر حملہ ہوگا اس حملہ میں فرنٹیئر کے پٹھان بھی شامل ہوں گے۔<
۷ مارچ
۷ مارچ۔ ربوہ کے اسٹیشن ماسٹر بابو بشیر احمد صاحب سے صبح کو بذریعہ تار کسی نے پوچھا کہ >سنا ہے مرزا بشیر الدین کو لاہور میں گولی مار دی گئی ہے< اسٹیشن ماسٹر صاحب نے تردید کی تو پھر اس نے کسی اور سٹیشن سے رابطہ قائم کیا اسے جواب ملا کہ بات درست ہے مگر بشیر احمد جھوٹ بولتا ہے بابو صاحب نے یہ بات بھی سنی۔
پولیس افسر صاحب چنیوٹ نے بعض احمدیوں سے کہا >اب ہمیں بہت خطرہ ہوگیا ہے اس لئے آپ اپنی حفاظت خود کریں۔< چنیوٹ کے ایک احمدی عطاء اللہ خاں صاحب نے اطلاع دی کہ >انچارج تھانہ اے ڈی ایم وغیرہ وغیرہ عاجز آچکے ہیں تمام احمدیوں کے گھر خدا کے بھروسہ پر ہیں۔<
قبل ازیں لالیاں کے حالات کنٹرول میں تھے مگر چنیوٹ کے ۱۵` ۱۶ افراد نے لالیاں میں بھی یکایک اشتعال کی فضا پیدا کردی۔ چنانچہ ۷ مارچ کی صبح یہاں ڈھائی ہزار کے ایک ہجوم نے چناب ایکسپریس کو روک لیا اور انجن پر چڑھ کر مختلف قسم کے نعرے لگائے گئے۔ مولوی عبد الحق صاحب بدوملہی کے بیان کے مطابق یہ نعرے تھے۔ >ہندوستان زندہ باد۔ پاکستان مردہ باد< پولیس سب کچھ دیکھنے کے باوجود بے بس ہوکر کھڑی رہی۔
۸ مارچ
۸ مارچ۔ ربوہ کے جنوب مشرقی جانب ایک گائوں چھنیاں ہے جس کے معزز غیر احمدیوں نے ان ایام میں بہت اچھا نمونہ دکھایا۔ اور نہ صرف اہل ربوہ کو اس گائوں سے باقاعدگی کے ساتھ دودھ پہنچتا رہا بلکہ ربوہ کے بعض احمدی دکاندار وہاں روزانہ جاتے اور دودھ لاتے رہے۔ ۸ مارچ کو ایک سیاہی نے انہیں یہ کہہ کر بائیکاٹ پر اکسانا چاہا کہ ربوہ میں خطرہ ہے۔ دودھ وغیرہ کوئی چیز وہاں لے کر نہ جائو لیکن چھنی کے شرفاء قطعاً بائیکاٹ پر آمادہ نہ ہوئے۔
محلہ دار الیمن ربوہکے بعض احمدی احباب اپنی مستورات اندرون شہر چھوڑ گئے تھے۔ ۸ مارچ کو یہ دوست اپنی خواتین بحفاظت واپس اپنے محلہ میں لے آئے۔ سوائے ایک کے جن کی نسبت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس )جنرل پریذیڈنت( نے حضور کی خدمت میں اگلے روز اطلاع دی کہ >آج انہوں نے تحریر لکھ دی ہے کہ وہ آج مستورات کو واپس لے جائیں گے۔ پریذیڈنٹ محلہ کو ہدایت کردی گئی ہے کہ وہ ان ی واپسی پر رپورٹ کریں۔<
لالیاں سے ڈاکٹر فضل حق صاحب صدر جماعت احمدیہ نے اطلاع دی کہ
>آج صبح سے لوگ جمع ہونے شروع ہوئے اس وقت جلوس نکل رہا ہے اور نعرے لگ رہے ہیں پبلک میں اشتعال پایا جاتا ہے۔ شرفاء پرامن رہنے کی تلقین کررہے ہیں لیکن مفسدہ پرداز باز نہیں آرہے۔۔۔۔۔ جماعت کے حوصلے خدا کے فضل و کرم سے بلند ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے ہمیں معلوم نہیں کہ ان کے کیا ارادے ہیں ہم ہر قربانی کے لئے تیار ہیں۔<
حضرت مصلع موعود نے اس رپورٹ پر اپنے دست مبارک سے لکھا >جزاکم اللہ احسن الجزاء۔<
۹ مارچ
۹ مارچ۔ مرکز کی طرف ے چھ کارکنان گوجرانوالہ` لائلپور` لاہور` سیالکوٹ` چیوٹ اور سرگودہا ک ومفصل ہدایات دے کر روانہ کئے گئے۔
شام کو نظارت امور عامہ میں حسب ذیل رپورٹ موصول ہوئی کہ:۔
>ربوہ کا سب سے پہلے بائیکاٹ کوٹ امیر شاہ~ف۱۹~ کے آدمیوں نے کیا پہلے پہلے دودھ بند کیا پھر دوسری اشیاء۔ صرف چارہ بعض ہمارے دوست لے آتے تھے آج شام کو جب ہمارے ربوہ کے دوستر یعنی غلام حسین غڈے والے کے آدمی چارہ لینے کے لئے گئے تو گائوں کے آدمیوں نے انہیں چارہ کاٹنے سے منع کردیا اور کہا کہ۔۔۔۔۔ شاہ کا آدمی رجوعہ سے آیا ہے کہ ربوہ والوں کا پورا پورا بائیکاٹ کردیا )گیا( ہے اس لئے چارہ وغیرہ نہیں مل سکتا۔<
مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مبلغ بلاد عربیہ و پرنسپل جامعہ احمدیہ ان دنوں احمد نگر کے پریذیڈنٹ تھے۔ آپ نے فسادات کے دوران نہ صرف احمد نگر اور اس کے قریب و جوار میں آباد احمدیوں کو چوکس` مستعد اور بیدار رکھا بلکہ مرکز کو احمد نگر اور اس کے ماحول لالیاں` کوٹ قاضی۔ مل سپرا یکوکے۔ کوٹ امیر شاہ وغیرہ کی رپورٹ بھجواتے رہے۔ ۹ مارچ سے آپ نے حضرت سیدنا المصلح الموعود خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت اقدس میں براہ راست روزانہ دو وقت اطلاعات پہنچانے کا انتظام بھی کردیا۔
اس روز حضور کی خدمت بابرکت میں آپ کی حسب ذیل پہلی رپورٹ موصول ہوئی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدکم اللہ نبصرہ
السلام علیکم ورحمہ اللہ وربکاتہ
احمد نگر میں جماعت کے افراد کو اپنی حفاظت اور مستعدی کے لئے کہا گیا ہے خدام الاحمدیہ کے ماتحت نوجوانوں کی تنظیم کی جاچکی ہے۔ بہت سے انصار بھی اس تنظیم سے ملحق ہیں` مضبوط آدمی یہاں پر ۸۰ ہیں۔ کل تعداد مردوں کی ۱۵۰ کے قریب ہے۔
مقامی غیر احمدی صاحبان کے چار پانچ لیڈر ہیں۔ دو یہاں کے پیروں میں سے ہیں۔ ایک سربراہ نمبردار~ف۲۰~ ہیں اور یاک برانچ پوسٹماسٹر ہیں۔~ف۲۱~ وہ مسلم لیگ کے بھی ممبر ہیں۔ تین دن قبل ہمارا ایک اجتماع ہوا تھا۔ جس میں ان لوگوں نے اقرر کیا تھا کہ ہم ہر حالت میں جماعت احمدیہ کے ساتھ ہیں اور کسی صورت میں فساد میں حصہ نہ لیں گے اور نہ کسی کو حصہ لینے دیں گے۔ ہم نے بھی اپنی طرف یپورے طور پر ان کی حفاظت کا یقین دلایا تھا۔
کل صبح ان میں سے ایک نے کہا کہ ہمارے بعض لوگ ڈر کی وجہ سے احمد نگر سے باہر جا رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ سب لوگوں کوجمع کریں میں انہیں ہر طرح تسلی دلاتا ہوں۔ وہ ب پیر خادم حسین صاحب کے مکان پر جمع ہوئے۔ جماعت کی طرف سے چھ سات آدمی ہم وہاں گئے اور باہمی سمجھوتہ ہوا کہ احمد نگر میں ہم سب مل کر ہر قیمت پر امن قائم رکھیں گے۔ اس سے انہیں بھی اطمینان ہوگیا۔ انہوں نے چار ممبر اپنی طرف سے مقرر کئے۔ اور چار ہمارے مقرر ہوئے جن کا کام )امن قائم کرنا ہوگا۔ غیر احمدیوں نے اس کمیٹی کے صدر کے لئے مجھے ہی منتخب کیا ہے۔ ہماری طرف سے اس کمیٹی میں چوہدری غلام حیدر~ف۲۲~ صاحب` قریشی محمد نذیر صاحب~ف۲۳`~ چوہدری علی شیر صاحب اور مولوی ظفر محمد صاحب~ف۲۴~ اور خاکسار مقرر ہوئے ہیں۔
جماعتی مقامی انتظامات میں عام تنظیم اور خدام کی اعلیٰ نگرانی قائد احمد نگر مولوی عبد المنان صاحب~ف۲۵~ قادر آبادی کے سپرد ہے۔ اور مولوی شریف احمد صاحب خالد گجراتی دفاعی انتظامات کے نگران ہیں۔۔۔۔۔
کل شام سے پانچ سپاہی پھر احمد نگر میں آگئے ہیں انہیں اپنی نگرانی میں ایک کمرہ میں ٹھہرایا گیا ہے۔ ان کے کھانے وغیرہ کا انتظام جماعت کا زیر انتظام کیا جارہا ہے۔ آج غیر احمدی حلقوں میں ایک افواہ ہے کہ میانوالی کے پھانوں کا تین ہزار کا ایک جتھہ پیدل آرہا ہے اور وہ جتھہ سرگودہا پہنچ چکا ہے۔
ایک غیر احمدی نے خبر دی ہے کہ مہر محمد محسن صاحب~ف۲۵~ نے اس تحریک میں شامل ہونے سے انکار کردیا ہے۔ اس وقت چنیوٹ سے دو تین آدمی گائوں کے لوگوں میں پراپیگنڈا کررہے ہیں اور جھٹی خبروں سے انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان کا پورا پتہکرکے انشاء اللہ اطلاع دی جائے گی۔
آج سے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ انشاء اللہ حضور کی اقدس میں روزانہ دو وقت احمد نگر کی رپورٹ براہ راست بھی بھیجی جایا کرے گی انشاء اللہ
یہاں پر مردوں` عورتوں اور بچوں سب میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورا حوصلہ اور ہمت ہے۔ حضور کے اعلانات روزانہ بیت الذکر میں سنائے جاتے ہیں۔
خاکسار خادم ناچیز ابو العطاء جالندھر ۱۲ بجے دن ۵۳۔ ۳۔ ۹
‏tav.14.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
اسی روز چنیوٹ سے جمال الدین صاحب کی یہ رپورٹ پہنچی کہ:۔
>موضع کوٹ خدایا جو چنیوٹ سے تین میل پر ہے وہاں صرف ایک دو گھر احمدی ہیں اور انہیں کل سے سخت پریسان کیا جارہا ہے۔ انہوں نے ایک درخواست انچارج تھانہ چنیوٹ کے نام ارسال کی ہے مگر وہ فوری توجہ اور ضروری امداد کے مستحق اور خطرہ میں ہیں۔<
راہ گزارتے احمدیوں پر آوازے کسے جاتے ہیں` گالیاں دی جارہی ہیں اور مختلف افواہیں گرم ہیں۔ لوٹ مار اور قتل و غارت آگ کی دھمکیاں دی جارہی ہیں عملی طور پر چنیوٹ میں کوئی نقصان احمدیوں کا نہیں ہوا۔<
لالیاں کے احمدی اس روز شدید خطرے سے دوچار ہوگئے کیونکہ مخالفین نے بیت الذکر میں جمع ہو کر احمدیوں کے مکانوں کو جلانے اور لوٹنے کا جو منصوبہ باندھا تھا اس کا آغاز کردیا گیا چنانچہ ڈاکٹر فضل حق صاحب پریذیڈنٹ جماعت نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں اس منصوبہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد لکھا۔
>ہماری` دعائوں سے خاص طور پر امداد فرمائیں۔ مقامی دوستوں کے رشتہ دار اکٹھے ہوکر ان کے پاس جاتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں تم قتل کئے جائو گے ورنہ تم ہمارے ساتھ مل جائو انہیں دن رات ڈرا دھمکا رہے ہیں۔ مہاجروں کو بھی دھمکی دے رہے ہیں ہم ساری رات جاگتے رہتے ہیں کاروبار بند پڑے ہیں مگر ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل یقین ہے انشاء اللہ ہم اللہ تعالیٰ کے رستہ میں ہر قربانی کے لئے تیار ہیں آپ ہماری پشت نہیں دیکھیں گے۔ بہر کیف آج ان کے ارادے انتہائی خطرناک ہیں اللہ تعالیٰ فتنہ پردازوں کے ارادوں میں ان کو ناکام کرے ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس قربانی کا موقع دیا ہے حضور دعائوں میں یاد رکھیں میں آج اپنا چندہ مبلغ پچاس روپیہ بھی سیکرٹری مال شیخ مہر یار صاحب کے ذریعہ بھیج رہا ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ کے حضور بھی اس لحاظ )سے( سرخرو ہوجائوں میر سے ذمہ کوئی بقایا نہ ہو۔ برادرم منیر احمد صاحب ولد میاں احمد دین صاحب زرگر بھی اخلاص سے کام کر رہے ہیں۔<
۱۰ مارچ
۱۰ مارچ۔ چنیوٹ` رجوعہ` چھتی اور کھچی وغیرہ مقامات سے اطلاعات کی فراہمی چوہدری صلاح الدین احمد صاحب~ف۲۶~ سابق ناظم جانیداد کے سپرد تھی جو اپنی رپورٹیں ان دنوں باقاعدہ ناظر اعلیٰ صاحب کو اس کی نقل حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے حضور بھجواتے تھے۔ چوہدری صاحب موصوف نے رپورٹ دی کہ:۔
>آج ملک احمد خاں صاحب کو چھٹیاں دے کر رجوع بھیجا گیا۔۔۔۔۔ سید غلام محمد شاہ سابق ایم ایل اے ابن سید سردار حسین شاہ و مہر شاہ سے ملاقات ہوئی۔ میری چٹھی پڑھ کر ان ہر دو نے اس اممر سے انکار کیا کہ انہوں نے لوگوں کو دودھ وغیرہ لے جانے سے روکا ہے اور نہ ہی انہوں نے کسی قسم کے بائیکاٹ کی ترغیب دلائی ہے۔ سید غلام محمد شاہ صاحب نے یہ بھی کہا کہ شاید ان کے والد صاحبنے مزارعان وغیرہ کو اس ضمن میں کچھ کہا تھا نیز اس نے کہا کہ >آپ بھی ہم سے ناراض ہیں اور چنیوٹ والوں نے بھی کل ہمارا جنازہ نکالنا ہے۔ اس وجہ سے کہ ہم گرفتار نہیں ہوئے۔<
>بھتہ جات سے چار پتھیرے جو چنیوٹ کے ہیں وہاں بھجوائے گئے۔ انہوں نے وہاں اپنے رشتہ داروں سے کہا کہ اگر ۱۱ مارچ ۱۹۵۳ء کو کوئی خطرہ ہے تو کیا ہم وہاں سے چلے جائیں ان کے رشتہ داروں نے جواب دیا کہ ربوہ پر کون حملہ کرسکتا ہے اور کس کی طاقت ہے۔ پتھیروں نے کہا کہ پھر بھی اپنے ذمہ دار آدمیوں سے پوچھ لو ہم بھی بیچ میں یونہی نہ مارے جائیں۔ چنانچہ انہوں نے شرارتی عناصر سے پوچھا جنہوں نے جواب دیا کہ ربوہ پر حملہ کیسے ہوسکتا ہے چنیوٹ والے تو سب بزدل ہیں اور ربوہ کی طرف کوئی منہ نہیں کرتا۔<
>جس قدر اطلاعات حاصل ہوئی ہیں ان سے میرا تاثر یہ ہے کہ ۱۱ مارچ ۱۹۵۴ء والی بات یعنی حملہ کی صورت بہت مشکل ہے ویسے دیہات میں زہر پھیلانے کی کوشش جاری ہے۔
چنیوٹ سے آمدہ )صبح سات بجے( کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ:۔
>سنا ہے کہ رجوعہ سے آنے والے لوگوں نے شہر کے کارکنوں سے مل کر یہ پروگرام بنایا ہے کہ احمدیوں کو مجبور کرکے کیمپ کی صورت میں تبدیل کرا دیا جائے اور شہر سے نکلوا دیا جائے<
>باہر سے بلائے گئے رضا کاروں اور عوام کے ذریعہ سے فساد` لوٹ مار وغیرہ کرانے کا پروگرام بن رہا ہے اور علانیہ کہا جارہا ہے کہ پولیس کا جبکہ پہرہ شہر پر نہیں ہے۔ رائیفلوں والے اب جاچکے ہیں اب کس کا ڈر ہے اور کب تل انتظار کرو گے۔<
احمدیوں کو کیمپ میں رکھے کی تجویز انتہائی شر انگیز تھی جس کا فوری نوٹس حضرت مصلح موعود نے لیا اور ارشاد فرمایا` فوراً اس کے متعلق ڈی سی کو لکھا جائے اور تار دی جائے۔< چنانچہ دفتر امور عامہ کی طرف سے اس کی تعمیل کی گئی۔
میاں فرز علی صاحب ملازم تعلیم الاسلام ہائی سکول نے تحریری بیان دیا کہ وہ صبح بجے چنیوٹ کی منڈی میں گئے تے۔ تین چار آدمیوں نے انہیں زدو کوب کیا اور پکڑ منڈی سے باہر نکال دیا۔
اسی روز ساڑھے آٹھ بجے شام ربوہ میں ایک سہہ رکنی اصلاحی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کے سیکرٹری مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعہ احمدیہ مقرر ہوئے۔ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں ربوہ کے داخلی انتظام کے سلسلہ میں متعدد اصلاحی فیصلے کئے گئے اور قرار پایا کہ )۱( اجلاس کے لئے آئندہ کورم دو ممبران کا ہوگا )۲( بعد نماز عصر کمیٹی کا بشرط ضرورت اجلاس ہوگا )۳( سرسری بیان لے کر فیصلہ کردیا جائے گا۔ )۴( اجلاس بیت مبارک میں ہوا کرے گا۔
۱۱ مارچ
۱۱ مارچ۔ پچھلے چند دنوں سے ربوہ پر حملہ ہونے کی افواہیں زور شور سے پھیل چکی تھیں اس لئے اس روز مولانا ابو العطاء صاحب نے احمد نگر سے خاص طور پر لالیاں` کوٹ قاضی` مل سپرا یکوکے اور کوٹ امیر ساہ وغیرہ دیہات میں بعض احمدی و غیراحمدی معزز دوستوں کو خبر رسانی کے لئے بھیجا۔ احمد نگر کے مقامی غیر احمدیوں سے معلوم ہوا کہ ابھی تک انہیں کوئی پختہ اطلاع نہں البتہ عورتوں کے ذریعے یہ افواہ پہنچی کہ گیارہ مارچ کو ربوہ پر حملہ ہوگا۔ اس متوقع خطرہ کے پیش نظر سیدنا حضرت مصلح موعود نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت مولانا ابو العطاء صاحب اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو مشورہ کے لئے طلب فرمایا چنانچہ حضور نے قائم مام ناظر امور عامہ کے ایک مراسلہ پر اپنے قلم مبارک سے لکھا >میاں بشیر احمد صاحب` مولوی ابو العطاء` شاہ صاحب مجھ سے جلد ملیں تا ڈیفنس کے بارے میں غور کر لیا جائے۔<
اطلاع ملی کہ ایک باوردی شخص جو اپنے آپ کو گورنمنٹ کا آدمی ظاہر کرتا ہے اور گھوڑا سوار ہے۔ ربوہ سے ۶/۵ میل کے فاصلہ پر موضع ڈاور کی طرف پھر رہا ہے اور لوگوں کو ربوہ کی طرف دودھ لانے سے روک رہا ہے اس نے یہ افواہ بھی پھیلائی ہے کہ ربوہ والوں نے دودھ پہنانے والی خواتین میں سے ایک کو بری طرح ہلاک کردیا ہے۔ حالانکہ اس میں کوئی صداقت نہ تھی۔
‏]20 [p۱۲ مارچ
۱۲ مارچ۔ پتہ چلا کہ موضع کچھی اور ملحقہ دیہات کے لوگوں پر ربوہ کا معاشی بائیکاٹ کرنے کے لئے سخت دبائو ڈالا جارہا ہے مگر اس میں انہیں کامیابی نہیں ہوسکی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض دیہات میں یہ مشہور کیا جارہا ہے کہ ربوہ میں گندم اور مکی کی گاڑیاں آگئی ہیں نیز دودھ گھی وغیرہ بھی بذریعہ ریل بہتات کے ساتھ پہنچ رہا ہے اس لئے بائیکاٹ کرنے والے صرف اپنا نقصان کررہے ہیں۔
چنیوٹ سے چوہدری جمال الدین احمد صاحب نے مفصل رپورٹ بھجوائی کہ یہاں آج احمدیوں کے خلاف مکمل اقتصادی بائیکاٹ شروع ہوگیا ہے۔ اس دن دکانوں پر بورڈ لگایا گیا کہ >مرزائی اصحاب سے سودا مانگ کر شرمندہ نہ ہوں< بازار میں والنیٹرز گھومنے سے لگے جو دکانداروں کو احمدیوں کے پاس سودا فروخت کرنے سے منع کرتے تھے اور ۵۰ روپے جرمانہ کی دھمکی دیتے یا دکان لوٹ لینے کی۔ احمدی دکانداروں کو سودا اور پھل دینے سے منع کردیا گیا۔ ایک احمدی بابا فض الٰہی صاحب آٹا پسوانے کے لئے گئے تو مشین والوں نے انکار کردیا۔
فضا یکدم زیادہ خراب ہوگئی۔ اشتعال بڑھ گیا۔ بعض احمدی دکانوں پر پتھرائو کیا گیا کھلم کھلا تشدد یعنی احمدیوں کو قتل کرنے یا مرتد کرنے کے لئے دھمکیاں دی جانے لگیں۔ اور ان کے مکانوں کو نذر آتش کرنے کے ارادے ظاہر کئے جانے لگے اور شہر مکمل طور پر انارکی کی لپیٹ میں آگیا جس کا اثر ارد گرد کے دیہات میں بھی پوری سرعت سے پھیل گیا۔
سیکرٹری صاحب امور عامہ جماعت احمدیہ چنیوٹ نے بھی اس دن جو ابتر اور تشویشناک حالات مرکز میں ارسال کئے ان کے آخر میں لکھا کہ >ایسے حالات میں جماعت بے بس ہے چند روز میں بھوک کا شکار ہونا شروع ہوجائیں گے نیز اپنے گھروں میں ہر وقت اندر ہی خطرناک حالات کی بناء پر رہتے ہیں مجبوری کے وقت بازار میں جاتے ہیں ہماری حالت قابل رہم ہونے والی ہے خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ جلد مدد کے لئے پہنچے۔
حضرت مصلح موعود نے اس رپورٹ پر اپنے قلم مبارک سے تحریر فرمایا:۔
>احمدی ہوکر کیا آپ سمجھتے تھے کہ آپ کے گلے میں ہار پہنائیں گے کیا محمد رسول اللہ~صل۱~ کے گلے میں ہار پڑے تھے<؟
۱۳ مارچ
۱۳ مارچ۔ چنیوٹ میں بعد نماز جمعہ جلوس نکالا جس میں شامل ہونے والوں کی تعدد قریباً ۳ ہزار تھی۔ ملٹری کے سپاہی اڈے سے گزرے تو ان کے خلاف نعرے لگائے گئے۔
شیخ محمد حسین صاحب قائم مقام امیر جماعت احمدیہ چنیوٹ نے سب انسپکٹر صاحب کو جماعت کے خلاف اقتصادی بائیکاٹ کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں مجبور ہوں میری پشت پر کوئی نہیں۔ سپاہی جواب دے چکے ہیں فورس طلب کی تھی وہ مل نہیں رہی ایک دوسرے تھانیدار صاحب نے فرمایا کہ آپ اپنے آدمیوں کو ربوہ کیوں نہیں بھیج دیتے؟
ساڑھے چار بجے شام کی رپورٹ موصول ہوئی کہ >غیر احمدی مستورات اپنے تعلق ولے گھروں کو ازراہ ہمدردی آگاہ کررہی ہیں کہ آج حملہ ہوگا اور رات کو آگ وغیرہ لگے گی۔
آج لالیاں میں باہر سے آنے والے ایک مولوی صاحب نے خطبہ جمعہ میں یہ کہہ کر اشتال دلایا کہ فلاں جگہ اتنے مسلمان سارے گئے اور فلاں جگہ اتنے۔ تم یہاں کیا کررہے ہو کم از کم مرزائیوں سے بائیکاٹ ہی کر دو پھر لوگوں سے اقرار لیا اور ہاتھ اٹھوائے۔ لالیاں کے مقامی خطیب نے کہا کہ لوگ ہاتھ اٹھاتے ہیں عمل نہیں کرتے اس پر ایک مہاجر نے کہا کہ جو عمل نہ کرے اس کو سزا دی جائے یاد رہے ایک رپورٹ کے مطابق انہی دنوں اہل چنیوٹ نے لالیاں والوں کو مہندی اور چوڑیاں بھجوائیں۔
پولیس کے بعض سپاہی احد نگر میں متعین تھے جو فراغت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور رسالے پڑھتے رہتے تھے ان میں سے بعض نے روز یہ اظہار کیا کہ ہم پر وفات مسیح کا مسئلہ تو بالکل کھل گیا ہے اور حضرت مرزا صاحب کا مبلغ اسلام ہونا بھی ہمیں مسلم ہے مگر مسئلہ نبوت ابھی تک واضح نہیں ہوا۔
احمد نگر کے احمدیوں نے گناہی حالات کی وجہ سے اس روز جمعہ بھی گھروں میں ہی ادا کیا اور حضرت مصلح موعود کا تازہ خطبئہ ربوہ کا خلاصہ احباب تک پہنچا دیا گیا۔
۱۴ مارچ
۱۴ مارچ۔ جامعہ محمدیہ شریف10] p~[ف۲۷~ )ضلع جھنگ( کے طلبہ نے ربوہ اور احمد نگر کے مضافات میں درہ کرکے لوگوں کو احمدیوں کے سوشل بائیکاٹ کی تلقین کی۔ بعض جگہ انہوں نے یہ بھی کہا وزیراعلیٰ پنجاب )میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ( ہمارے ساتھ ہیں۔
چنیوٹ میں جلوس نکالا گیا نیز احمدیوں کا بائیکاٹ کرنے پر زور دیا گیا اور دکانداروں سے کہا گیا کہ جو >مرزائیوں< کو سودا دیتا پکڑا گیا اس کا منہ کالا کردیا جائے گا۔
برجی اور دیگر دیہات میں یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ جو شخص ربوہ جاتا ہے قتل کردیا جاتا ہے۔ جو بالکل سفید جھوٹ تھا۔
معلوم ہوا کہ میانوالی سے جس جتھہ کے چنیوٹ پہنچنے کی خبریں آرہی تھیں اسے سرگودھا سے ہی واپس کردیا گیا ہے نیز جتھہ کے بعض لوگوں کو گرفتار کرکے شاہ پور میں چھوڑ دیا گیا ہے۔
۱۵ مارچ
۱۵ مارچ۔ ماحول ربوہ کی بعض اطلاعات سے معلوم ہوا کہ عوام میں احراری ایجیٹیشن کے خلاف نفرت کی ایک رو پیدا ہورہی ہے اور یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ احرار نے یہ قدم اٹھا کر برا کام کیا ہے۔
۱۶ مارچ
۱۶ مارچ۔ اس دن ربوہ کے ایک احمدی دودھ فروش بعص دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ربوہ کے قریبی گائںو )ستی والا( سے دودھ لئے آرہے تھے۔ کہ ۵` ۶ آدمیوں نے ان پر حملہ کرکے دودھ کا برتن چھین لیا۔ اور پھر پورے گائوں کو اکٹھا کرلیا ہجوم میں کوئی کہتا ان کو قتل کردو۔ کوئی کہتا ان کو گڑھا کھود کر دفن کردو۔ ایک شخص جو اپنے آپ کو سپاہی ظاہر کرتا تھا کہنے لگا کہ اگر انہیں یہاں قتل کردیا جائے تو حکومت ذمہ دار نہ ہوگی۔ بہت دیر تک یہ ہنگامہ جاری رہا۔ آخر بڑی مشکل سے یہ لوگ ربوہ پہنچے مولوی عبد العزیز صاحب بھامڑی محتسب ربوہ نے اس واقعہ کی اطلاع حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پہنچاتے ہوئے لکھا:۔
>اس دفعہ کی اطلاع انچارج تھانہ لالیاں کو کررہا ہوں کہ وہ انسداد فرمائیں یہاں C۔P گارد کو توجہ دلائی جائے تو وہ پرواہ نہیں کرتی کہ یہ کام تھانہ والوں کا ہے کوٹ امیر شاہ کے ایک شخص۔۔۔۔۔ نے آکر کہا تھا کہ مجھے روکتے اور دودھ گراتے ہیں۔ C۔P کے سپاہی نے کہا یہاں آکر کیوں بتاتے ہو چنانچہ دوسرے روز۔۔۔۔ )اس( کا منہ کالا کرکے اسے کوٹ امیر شاہ میں مارا گیا۔ کسی مشتبہ آدمی کو بھی C۔P اسے احمد نگر گارد کے پاس بھیجنا پڑتا ہے۔<
لالیاں سے تحریری اطلاع پہنچی کہ ایک شخص نے جو ایک مقامی بااثر شخصیت کا کار دار تھا ڈاکٹر فضل حق صاحب پریذیڈنٹ کے بیٹے عطاء الحق سے کہا کہ
>ہوش کرو۔ چند دن اور گھوم پھر لو قتل کر دیئے جائو گئے۔<
ان ہر دو ناخوشگوار واقعات کے علاوہ مضافات ربوہ میں عام طور پر یہ دن سکون و امن سے گزرا۔
۱۷ مارچ
۱۷ مارچ۔ اس روز ڈاکٹر فضل حق صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ لالیاں کا خطہ حضور کی خدمت میں موصول ہوا جس میں یہ خوشخبری لکھی تھی >اب اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کھل گئے۔ بالکل سکون ہے ہڑتال بھی ختم ہوگئی ہے۔
احمد نگر میں مقیم تین سپاہی بعص ایسے دیہات میں گئے جہاں ابھی تک ربوہ کی طرف دودھ لانے میں روکاوٹیں کھری کی جارہی تھیں۔ بائیکاٹ کی پشت پناہی کرنے والوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ مزاحمت نہ ہوگی۔ اس کاروائی کے نتیجہ میں ربوہ کے معاشرتی مہاصرہ کے باقی ماندہ اثرات بھی ختم ہوگئے اور دودھ بلا روک ٹوک آنے لگا۔ فالحمد اللہ علی ذالک۔ بایں ہمہ ملک کے مختلف مقامات پر یہ خبریں بدستور پھیلائی جاتی رہیں۔ کہ ربوہ میں ایک لاکھ جتھہ جارہا ہے بلکہ کمال ڈیرہ سندھ میں یہ خبر گشت کررہی تھی کہ ربوہ پر حملہ بھی ہوچکا ہے۔
۱۸ مارچ
۱۸ مارچ۔ پتہ چلا کہ ضلع سیالکوٹ وغیرہ میں یہ پراپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ معاذ اللہ ربوہ کو جلا دیا گیا ہے اور سب احمدی قتل کردیئے گئے ہیں۔ اس پراپیگنڈا کا علم ماسٹر حمید احمد صاحب~ف۲۸~ سنیاسی مقیم ربوہ کے ایک غیر احمدی رشتہ دار کے ذریعہ ہوا جو اس دن دوپہر کے قریب ان کی خیریت دریافت کرنے کو ربوہ پہنچے تے۔
۲۰ مارچ
۲۰ مارچ۔ نماز جمعہ کے بعد چنیوٹ میں جلوس نکالا گیا جس میں گوجرانوالہ` سیالکوٹ اور جڑانوالہ کے رضا کار بھی شامل تھے۔ جلوس میں یرملایہ دھمکی دی گئی کہ حکومت اس وقت ہمارے مطالبات منظور کرے گی جب احمدیوں کے گھر جلائے جائیں گے۔
۲۱ مارچ
۲۱ مارچ۔ چنیوٹ کے احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کی مہم تیز تر کردی گئی احمدیوں کی دکانیں کھلی تھیں مگر گاہکوں کو وہاں سے سودا خریدنے نہ دیا جاتا ایک احمد ٹرنک ساز نواب الدین صاحب نے بتایا کہ گاہوں کو یہ کہہ کر روکا جاتا ہے کہ یہ مرزائی کی دکان ہے اس سے سودا نہ خریدیں۔ ایک احمدی کسی غیر احمدی دکاندار سے سودا خریدنے گئے اس نے سودا دے دیا مگر دوسروں نے اسے روک دیا وہ احمدی گھر چلے گئے تھوڑی دیر بعد یہ دکاندار گھی وغیرہ خود احمدی کو دینے جا رہا تھا کہ لوگوں نے اسے زبردستی منع کردیا۔
۲۱۔ ۲۲ مارچ کی درمیانی شب کو چنیوٹ میں ڈھول بجا کر جلوس نکالا گیا جس میں احمدیت` حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور وزیراعظم پاکستان کے خلاف گند اچھالا گیا اور گندے نعرے لگائے گئے۔

۲۳ مارچ
۲۳ مارچ۔ چنیوٹ سے رپورٹ ملی کہ >سوشل بائیکاٹ تاحال جاری ہے مندی کے سب آڑہتیوں کی کمیٹی نے منڈی سے احمدیوں کو سودا دینے کے خلاف آڑہتیوں سے وعدے لے رکھے ہیں۔ لہذا منڈی سے احمدیوں نہ گندم نہ سبزی دی جاتی ہے ویسے دالیں اور سبزی وغیرہ بچوں کے ذریعہ شرفاء سے لے لی جاتی ہے۔ غنڈوں کے ڈر سے شرفاء بھی احمدیوں کے بڑے آدمیوں کو سودا نہیں دیتے چپکے سے کہہ دیتے ہیں کہ کسی بچہ کو بھیج دینا۔
حوالہ جات
~ف۱~
)تلخیص( مراسلہ غیر مطبوعہ
~ف۲~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۶۸ تا صفحہ ۱۸۹
~ف۳~
ان دنوں آپ گلی نمبر ۴ بازار منٹگمری لائل پور میں رہتے تھے
~ف۴~
بعدازاں ربوہ میں مقیم ہوگئے تھے اور یہیں وفات پائی وفات ۵ مارچ ۱۹۷۶ء
~ف۵~
ولادت ۲۰ جون ۱۹۰۰ء وفات ۸ اگست ۱۹۸۹ء
~ف۶~
اخبار >اعلان< )لائلپور( مئورخہ ۲۲ اپریل ۱۹۵۱ء نے صفحہ ۲ پر لکھا کہ >کارخانہ بازار میں جو فضل الدین مرزائی نمک فروش کا اڈہ ہے ہم اس کی تبلیغ برداشت نہیں کرسکتے۔ لہذا ہم پولیس کو مطلع کرتے ہیں کہ وہ کل صبح نو بجے سے پہلے پہلے کارخانہ بازار سے مرزائیت کے نمک فروشی کے اڈے کو اٹھا دیں ورنہ ہم خود انتظام کریں گے۔<
یہ انتظام کس طرح کیا گیا >اس کا ذکر تحقیقاتی عدالت کے فاضل ججوں نے بایں الفاظ کیا:۔
>لائلپور میں >یوم )تشکر( ۲۰ اپریل ۱۹۵۱ء کو منایا گیا جہاں ایک بہت بڑے جلسے میں غلام نبی جانباز نے ایک احمدی دکاندار فضل دین کو دھمکی دی کہ تمہارا حشر برا ہوگا۔ چنانچہ ۷ مئی کو دن دہاڑے اس کا دکاندار پر اس کی دکان کے اندر ہی حملہ کیا گیا< )رپورٹ صفحہ ۲۹
~ف۷~
وفات ۱۴ اگست ۱۹۸۳ء
~ف۸~
اصل ڈائری میں جو شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے >بیت الذکر کی بجائے مسجد کا لفظ ہے )ناقل(
~ف۹~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۸۹ )اردو(
~ف۱۰~
ڈاکٹر صاحب موصوف نے محترم ملک فضل حسین صاحب کو بتلایا کہ کسی شخص نے میری بچی کو دھکا دیا اور پانچ روپے کا نوٹ چھین کر کہنے لگا کہ مرزائیوں کا سب کچھ چھین لینا جائز ہے اور اپنی راہ چلتا بنا۔ کسی نے اسے نہ ٹوکا۔ وہ بچی روتی ہوئی گھر آئی اور یہ واقعہ سنایا۔
~ف۱۱~
وفات
~ف۱۲~
بنگہ ضلع جالندھر کے نواح میں ایک گائوں
~ف۱۳~
ملحض مکتوب چوہدری عبد الغنی صاحب امیر جماعت احمدیہ مگھیانہ بحضور حضرت مصلح موعود )۱۹ مارچ ۱۹۵۳ء مکتوب میاں بشیر احمد صاحب جھنگ مگھیانہ بحضور حضرت المصلح الموعود )۱۶ مارچ ۱۹۵۳ء( رپورٹ مولوی عبد الرحیم صاحب عارف مربی جھنگ مگھیانہ بنام حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب )۶ مارچ ۱۹۵۳ء(
~ف۱۴~
مکتوب بحضور حضرت مصلح موعود مرسلہ حکیم عبد الرحمان صاحب شمس سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ شور کورٹ )مورخہ ۱۱ مارچ ۱۹۵۳ء(
~ف۱۵~
کارڈ مولوی عبد الرحیم صاحب عارف بنام حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ ربوہ )۱۸ مارچ ۱۹۵۳ء(
~ف۱۶~
وفات جون ۱۹۷۶ء
~ف۱۷~
وفات ۱۸ مئی ۱۹۸۷ء
~ف۱۸~
حال لنڈن
~ف۱۹~
ایک گائوں جو کہ ربوہ سے متصل شمالی جانب واقع ہے۔
~ف۲۰~
عیسیٰ صاحب
~ف۲۱~
رحمت علی صاحب
~ف۲۲~
سپرٹنڈنٹ جامعہ احمدیہ وفات )۲۴ مئی ۱۹۸۱ء(
~ف۲۳~
استاد جامعہ احمدیہ وفات ۲ جنوری ۱۹۷۰ء
~ف۲۴~
استاد جامعہ احمدیہ )وفات ۲۹ اپریل ۱۹۸۲ء
~ف۲۵~
مربئی سلسلہ احمدیہ )وفات( ۱۵ اکتوبر ۱۹۸۸ء صفحہ ۴ >مہر محمد حسن< ایم ایل اے لالیاں۔
~ف۲۶~
وفات ۲۴ فروری ۱۹۸۷ء
~ف۲۷~
دریائے چناب کے دوسرے کنارے چنیوٹ جھنگ سڑک پر ایک سنی درگاہ۔ مہتم و بانی مولوی محمد ذاکر صاحب۔ تاریخ بنیاد ۱۸ محرم الحرام ۱۳۵۲ھ مطابق ۱۴ مئی
~ف۲۸~
۱۹۳۳ء
وفات ۹ مئی ۱۹۸۹ء
‏tav.14.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
ساہیوال` لاہور کی احمدی جماعتوں کے واقعات
۳۔ شیخ عبد الحمید صاحب نے انہیں دنوں مزنگ سے ایک پوسٹ کارڈ میں سحب ذیل روداد لکھی کہ:۔
>جمعہ کے روز بعداز دوپہر ہمارے مکان پر بھی حملہ ہوگیا۔ بمشکل جانیں بچا کر اور ملٹری کا انتظام ہوجانے پر رات کے وقت شیخ بشیر احمد صاحب کی کوٹھی پر بچوں کو لے کر پہنچے۔ میرے پاس اس مکان میں میرا اپنا راشن ڈپو بھی تھا۔ وہ ڈپو اور مکان کا تمام کارآمد سامان لوٹ لیا گیا۔ باقی سامان کو برلپ سڑک رکھ کر جلا دیا گیا۔ اسی لوٹ کے باعث ہمارے پس اوڑھنے کے لئے ایک چادر تک بھی باقی نہیں رہی۔ مکان کے در و دیوار تک کو بھی جہاں تک حملہ آوروں سے ممکن ہوسکا نقصان پہنچانے کی پوری پوری کوشش کی گئی۔ اب اس مکان میں رہنا ناممکن ہوگا۔<
شیخ صاحب کے مکان کے بالکل قریب ہی مزنگ کی پولیس چوکی ہے۔ مگر باوجود اس یک غنڈوں نے چھاپہ مار کر ایک بے کس اکیلے اور لاچار احمدی کا گھر بار تباہ و برباد کرکے ہی چھوڑا اور انہیں مالی طور پر گیارہ ساڑھے گیارہ ہزار روپیہ کا نقصان پہنچا گئے۔ اور وہ پولیس جو فساد سے قبل انہیں ہر طرح تسلی و تشفی دیتی رہی تھی وقت پڑنے پر ان کے کام نہ آسکی۔
۴۔ جماعت حلقہ گنج )مغلپورہ( لاہور کے صدر صاحب نے ایک تحریری بیان میں فسادات لاہور کا پس منظر بتاتے ہوئے لکھا:۔
>مذکورہ بالا حالات نے ہمارے حلقہ کی فضاء کو بھی کماحقئہ متاثر کیا۔ یہاں یک لوگ بھی احمدیوں کے خلاف ہوگئے۔ سب سے پہلا واقعہ باغبانپورہ میں ماسٹر منظور احمد صاحچب کی شہادت کا رونما ہوا۔ جو اخبارات میں آچکا ہے۔ اس سے اگلے روز احمدیوں کے گھروں پر شریروں اور بدمعاشوں نے جلوس کی شکل میں آ آکر ہمارے خلاف نعرے لگائے۔ پتھر پھینکے اور گالیاں دینی شروع کردیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ احمدی اپنے گھروں میں محصور ہوگئے۔ ہماری جماعت نے متعدد بار تھانہ مغلپورہ میں جاکر حالات کی نزاکت کی اطلاع دی اور مدد طلب کی مگر تھانہ والوں نے صاف الفاظ میں جاکر اپنی معذوری کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگ سب خالف ہیں۔ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمعہ کی صبح کو ہمارے حلقہ راج گڑھ کے ایک نہایت مخلص دوست` محمد شفیع صاحب جب بیت الذکر سے صبح کی نماز ادا کرکے گھر جارہے تھے راستہ میں روز روشن میں چاقوئوں سے شہید کردیئے گئے۔۔۔۔۔ ساہوواڑی میں ایک احمدی دوست محمد عظیم تھے شریر لوگوں نے ان کے مکان پر جاکر ان کو ڈرایا۔ دھمکایا اور ان سے زبردستی احمدیت سے توبہ کرائی۔ وہاں کے مولوی صاحب نے ان کا دوبارہ نکاح پڑھ کر چھوہارے بھی تقسیم کئے۔۔۔۔۔ گلی نمبر۱ مکان نمبر۲ رام گڑھ میں احمدیوں کا کا ایک اکیلا مکان تھا۔ اس پر حملہ کیا گیا دروازے توڑ دیئے گئے اور چاقوئوں اور چھروں سے مسلح ہوکر غنڈے قتل اور لوٹ کے ارادہ سے اندر داخل ہوگئے )مگر( محلہ کے بعض معززین نے بمشکل ان کو نکالا اور پھر تھانہ میں مدد کے لئے اطلاع کی۔ )چونکہ( اس وقت مارش لاء لگ چکا تھا۔ اس لئے فوج کے کہنے پر پولیس کی گارد وہاں جاکر ان کو بحفاظت مغلپورہ لائی۔ جمعہ کے روز احمدیوں کی حالت نہایت خطرہ میں تھی۔ وہ سمٹ سمٹا کر محصور ہوگئے تھے متواتر کئی راتوں سے وہ جاگ رہے تھے اور غنڈے باہر دروازے توڑ رہے تھے پتھر مار رہے تھے۔ گالیاں دیتے اور اس فکر میں تھے کہ جس طرح ہوسکے احمدیوں کو ختم کیا جائے۔ احمدی ایک دوسرے کی خیر و عافیت بھی نہیں معلوم کرسکتے۔ باوجود اس کے کہ ڈیڑھ بجے مارشل لاء لگ گیا تھا پھر بھی محلہ کے اندرونی حصوں کو خطرہ بدستور تھا۔ جمعہ اور ہفتہ کی )درمیانی( شب کو جماعت گنج کے پریزیڈنٹ میاں عبد الحکیم صاحب کی والدہ )جو کہ غیر احمدی تھیں( کو شہید کیا گیا اور ان کا روپیہ اور مال اسباب لوٹ لیا گیا۔ ان کے نقصان کا اندازہ نقدی مع دیگر سامان مبلغ بارہ ہزار روپیہ ہے۔ بابو عبد الکریم صاحب حلقہ گنج مغلپورہ کے مکان کو اسی رات پہلے لوٹا گیا اور پھر لوٹنے کے بعد آگ لگائی گئی۔ ان کے نقصان کا اندازہ ۔/ ۳۷۰۶ روپیہ ہے۔ احمدیوں کے مکانوں کا پتہ محلہ کے بعض شریروں نے باہر سے آنے والے بدمعاشوں کو بتایا۔۔۔۔۔ مستری محمد اسماعیل صاحب اور عبد الرزاق صاحب جو کہ ریلوے کوارٹر مغلپورہ میں رہتے ہیں ان کے کوارٹروں پر حملہ کیا گیا اور ان کو لوٹا گیا۔ عبد الرزاق صاحب کمپونڈر ریلوے کا اندازہ نقصان ۳۴۸ روپے تھے ان کے بڑے بھائی کو شریروں نے محض اس لئے مارا کہ وہ ان کے بال بچوں کو محفوظ جگہ لے جانے کے لئے آیا تھا۔ حالانکہ وہ خود غیر احمدی تھا مستری محمد اسمٰعیل صاحب ملازم ریلوے کا سامان لوٹ لیا گیا اور ان کی بھینس بھی کھول کر لے گئے تھے۔ بھینس تو بعد میں پولیس نے برآمد کرا دی۔ مگر دیگر نقصان جس کا اندازہ ۱۵۰۰ روپے ہے وہ نہیں پورا کیا گیا۔< الخ
رام گلی
۵۔ جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی کا بیان ہے کہ:۔
>میرا مکان برانڈ رتھ روڈ رام گلی نمبر ۳ میں واقع ہے۔ جس کے چار دروازے رام گلی نمبر ۴ میں کھلتے ہیں یہاں یہ مکان >رہنمائے تعلیم بلڈنگ< کے نام سے مشہور ہے میرے نام مکان کا نچلا حصہ الاٹ ہے۔ اوپر کے حصوں میں تین غیراحمدی ہمسائے آباد ہیں۔
۱۔ فسادت سے بہت پہلے ایک صاحب میرے پاس آئے۔ اور کہنے لگے۔ >میں اسی محلہ میں رہتا ہوں۔ اور آپ سے یہ کہنے آیا ہوں۔ کہ جب موقع آیا۔ تو ہم لوگ سب سے پہلے آپ کے مکان کو آکر آگ لگائیں گے۔ آپ ہوشیار ہیں۔<
میں نے ان سے کہا >کیا آپ کا اسلام یہی کہتا ہے کہ جو اپنا مخالف ہوا اسے پھونک دو< فرمانے لگے >جی ہاں ہمارا اسلام یہی کہتا ہے< میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ >بہتر ہے اس وقت تو آپ تشریف لے جائیں۔ جب موقع ہوگا تو آپ تشریف لے آئیں۔ اور مکان کو آگ لگادیں< میں فسادات کے موقع پر ان کا منتظر رہا۔ مگر اس وقت یا اس کے بعد آج تک ان کو نہیں دیکھا۔ صورت آشنا ہوں۔ نام نہیں جانتا۔
۲۔ فسادات سے پہلے متعدد مرتبہ نہایت گندے اور فحش اشتہارات ہاتھ سے لکھے ہوئے میرے ذاتی لیٹر بکس پر اور میری گلی کے کھمبوں پر چسپاں کئے گئے۔ جو محلے کے شریف اصحاب نے اتار کر پھاڑ دیئے۔
۳۔ فسادات سے دو چار دن پہلے ایک صاحب میرے آئے اور کہنے لگے۔ >امیر صاحب جماعت احمدیہ لاہور کا حکم ہے کہ آپ اپنے گھر کے تمام افراد کے نام اور عمر وغیرہ ایک کاغذ پر لکھ دیں۔ تاکہ وہ نام پولیس میں دے کر حفاظت کی تدابیر کی جائیں۔< میں نے ان سے کہا کہ >امیر صاحب کا تحریری حکم لے آیئے۔ میں ان کا خط پہچانتا ہوں۔ پھر آپ کو لکھ دوں گا۔< مگر وہ پھر نہیں آئے۔
۴۔ فسادات کے دنوں میں لوگوں کی ٹولیاں کم تردن میں اور بیشتر راتوں کو آتیں۔ اور کتنی کتنی دیر تک میرے مکان کے سامنے کھڑے ہوکر نہایت اشتعال انگیز نعرے لگاتیں۔ اور چلی جاتیں یہ سلسلہ رات کے ایک اور دو بجے تک جاری رہتا۔ ہم لوگ کواڑ مضبوطی سے بند کئے اندر گھر میں بیٹھے رہتے۔ اور سب کچھ سنتے رہتے۔
۵۔ فسادات کے ایام میں اس امر کی برابر خبریں ملتی رہیں کہ لوگ ارادہ کررہے ہیں۔ کہ رات کو پٹرول ڈال کر تمہارے مکان کو آگ لگا دیں اور بوتلیں لئے پھر رہے ہیں۔
۶۔ آخر ۶ مارچ کو وہ لوگ آگئے۔ اور مکان کو پھونک دینا چہاا۔ مگر مشکل یہ آپری کہ مکان کی اوپر کی منزلوں میں دوسرے غیر احمدی حضرات رہتے تھے۔ اور نیچے کی منزل کو آگ لگاتے سے اوپر تک تمام مکان جلتا تھا۔ اس لئے وہ لوگ اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اور مجبوراً چھوڑ کر چلے گئے۔ اوپر کی منزل میں جو غیر احمدی رہتے ہیں۔ انہوں نے فسادیوں سے یہ بھی کہا۔ >تم تم آگ لگا کر چل دو گے۔ مگر میں سرکاری ملازم ہوں جب بعد میں سرکار مجھ سے جواب طلب کرے گی۔ کہ تم نے کیوں نہ روکا۔ تو میں کیا جواب دوں گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا۔ کہ میں مارا جائوں گا پھر میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ ان کے گھر میں سوائے قران شریف اور دینی کتابوں کے کچھ نہیں۔ تم قران شریف کے نسخوں کو کس طرح جلا سکتے ہو؟ جو قران شریف ان کے پاس ہیں ان میں سے ایک قران انہوں نے مجھے بھی پڑھنے کے لئے دیا تھا۔ اور وہ میرے پاس ہے۔< اس پر انہوں نے کہا۔ کہ اچھا وہ قرآن شریف ہمیں لاکر دکھائو۔ میں نے ان صاحب کو چند دن پہلے تفسیر کبیر کی پہلی جلد پڑھنے کے لئے دی تھی۔ وہ انہوں نے لاکر بلوائیوں کو دے دی کہ لو دیکھ اس پر بلوائی تفسیر کبیر اپنے ساتھ لے گئے۔ اور مکان کو چھوڑ گئے۔ بعد کے ایام میں ایک شخص ان میں سے آیا اور بڑی خاموشی کے ساتھ وہ تفسیر کبیر ان کو واپس کرگیا۔ جو انہوں نے مجھے دے دی۔ فسادات کے ان تمام ایام میں محلہ اور گلی والوں کا برتائو میرے ساتھ بالعموم نہایت شریفانہ رہا۔ جو کچھ شورش مچائی۔ وہ عام طور پر باہر کے لوگوں نے مچائی۔
میں نے ان تمام واقعات میں سے کسی واقعہ کی رپورٹ پولیس میں نہیں کی۔ نہ کبھی پولیس کو اپنی امداد کے لئے بلایا۔ الحمدلل¶ہ میرا کوئی نقصان ان فسادات کے ایام میں نہیں ہوا۔
خاکسار
)شیخ( محمد اسماعایل پانی پتی
مکان نمبر ۱۸ رام گلی نمبر ۳ لاہور
۴ جولائی ۱۹۵۳ء
۷۔ حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری اپنی کتاب تجلی قدرت میں لکھتے ہیں:۔
>۱۹۵۳ء میں جب میں ناصر آباد )سندھ( میں کام کررہا تھا اس وقت ساری مذہبی پارٹیاں ہمارے خلاف ہوگئیں اور پھر حکومت بھی خلاف ہوگئی۔ اس وقت برخوردار مسعود احمد بھی لاہور میں کام کرتا تھا۔ اکبری منڈی میں دکان تھی آسٹریلیا بلڈن میں ایک سو ستر روپیہ پر نچلا حصہ کرایہ پر تھا۔ اس مکان کے مالک آسٹریلین بلڈنگ والے خاندان کے ممبر تھے۔ میں چونکہ اس وقت سندھ میں تھا اور کہتا تھا کہ ابا جان! آج ہم مہاجر بن گئے۔ اس وقت دکان کا قرضہ دو لاکھ کے قریب بازار کے ذمہ تھا اور گودام میں جو مکان کے ساتھ تھا ستر ہزار کا مال پڑا ہوا تھا۔ اس نے کہا آج ہمارے پاس کچھ نہیں رہا۔ آج مہاجر ہوگئے۔
اس خواب کے ذریعہ مجھے پریسانی ہوگئی۔ میں نے صدقہ بھی دیا اور دعا بھی کی اور مسعود احمد کو خط لکھا کہ تمہارے گھر میں کوئی بچہ پیدا ہونے کی تو امید نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں میں نے اس غرض سے دریافت کیا تھا کہ اگر پیدا ہونے والی لڑکی ہو تو چونکہ لرکی جہیز میں کچھ لے جتی ہے۔ میں نے سمجھا کہ یہ خواب اس طرح بھی پورا ہوسکتا ہے۔ جب اس نے مجھے یہ جواب دے دیا۔ ادھر خطرات بڑھ رہے تھے۔ میں نے دعائیں شروع کر رکھی تھیں۔ چنانچہ مارکیٹ میں جو دکان تھی خطرہ پیدا ہوا کہ لوٹ لی جاوے گی تو مسعود احمد صاحب اپنے گھاتہ جات کو گھر لے آئے اور دکان بند کردی۔ ان کا دکان پر آنا جانا بھی بند ہوگیا۔
دکان کو بند ہوئے ابھی دو تین روز ہوئے تھے کہ شریروں نے دکان کے تالے توڑ کر جلا دی اور سمجھا کہ بازار میں جو حساب کتاب تھے وہ کاپیاں حساب کی بھی جل گئی ہوں گی۔ اور وہ بھی نہیں لے سکیں گے۔ مکان پر یہ حالت ہوگئی کہ جرنیلی سڑک سے فٹ پاتھ کے قریب کوچے میں دروازہ تھا۔ دن میں دو دو تین تین دفعہ ہزار ہزار آدمی سڑک پر پہنچ کر گالیاں دیتے تھے لیکن کوچے کا دروازہ نہیں توڑتے تھے اور آپس میں کہتے تھے کہ اندر صرف دو آدمی ہیں اور ان کے پاس اسلحہ ہے۔ جتنے کارتوس ہوں گے اتنے تو یہ مار سکتے ہیں نکلنے کے بعد پھر ان کو قابو کیسا جاسکتا ہے۔
جب یہ حالت ہوگئی تو مسعود احمد نے اپنی بیوی سے یہ بات کہی مالک مکان کی بیوی سے یہ بات جاکر کہو کہ ہمارا ستر ہزار کا مال آپ کے مکان میں پڑا ہے ہم یہ سب سامان آپ کے سپرد کرتے ہیں۔ براہ مہربانی اپنی موٹر میں پولیس لائن تک پہنچا دیں۔ ان کی بیوی نے اپنے خاوند سے جاکر دریافت کیا انہوں نے جواب دیا کہ جماعت کے سب لوگوں کے لئے تاریخ مقرر ہے۔ اس دن یہ سب قتل ہوجاویں گے۔۔۔۔ میں اپنی بیس ہزار کی موٹر کیسے تڑوا لوں۔
یہ جواب سن کر جب وہ واپس آئی اور مسعود احمد کو بتایا تو مسعود احمد خود مالک مکان کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ ساری جماعت کے لوگ قتل ہوجائیں گے یہ بالکل غلط بات ہے۔ خدانخواستہ چند آدمی شہید ہوجائیں تو ہوجائیں۔ باقی آپ کا یہ خیال غلط ہے۔ اگر آپ مہربانی کرتے تو ہم یہ سب سامان آپ کے پاس چھوڑ کر چلے جاتے مگر انہوں نے بھی حامی نہ بھری یہ واپس اپنے مکان میں آگئے۔
ایک رات گزری تھی کہ صبح کو قریشی محمد اقبال صاحب لائن افسر موٹر لے کر وہاں پہنچے اور ان کی موٹر کے آگے پیچھے دو مشین گنوں والی موٹریں تھیں اور انہوں نے آکر کہا کہ فوراً جلدی جلدی چلے آئو۔ مکان کو اسی طرح رہنے دو۔ کوئی سامان زویر کچھ نہیں لیا۔ صرف چار جوڑے کپڑوں کے رکھے اور وہاں سے چلے گئے۔ اور پولیس لائن جاکر مجھے خط لکھ دیا کہ آج ہمارے پاس صرف چار جوڑے کپڑوں کے رہ گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ سے ان کو پولیس لائن میں گئے ابھی دو دن ہی ہوئے تھے کہ مارشل لاء لگ گیا اور فوج نے حکومت سنبھال لی۔ خطرہ کے دور ہوتے ہی مسعود احمد صاحب واپس اپنے گھر چلے گئے تو سارا سامان بدستور پڑا تھا۔ چار پانچ روز کے بعد جب بزار میں امن ہوگیا تو ہم نے دکان کھولی۔ جن جن لوگوں کے پاس روپیہ تھا ان سے مطالبہ کیا تو انہوں نییہی کہا کہ ہمیں بہی کھاتہ دکھائو۔ ان کو کہہ دیا گیا کہ آئو دیکھ لو۔ بہ کھاتہ دیکھ کر لوگ حیران تھے کہ دکان تو ساری جلا دی گئی تھی یہ بہی کھاتہ کہاں پڑا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے دکان بھی بچا دی مکان بھی اور جان بھی محفوظ رکھ لیا۔ اس واقعہ کا اثر مالک مکان پر ایسا ہوا کہ انہوں نے سلسلہ کی کتابیں دیکھنی شروع کردی اور اپنے خاندان کے لوگوں کو احمدیوں سے ملا کرتے تھے۔~ف۱۴~
۷۔ حضرت ڈاکٹر حافظ عبد الجلیل صاحب~ف۱۵~ شاہ جہانپوری کیمسٹ و ڈرگسٹ اندروں موچی دروازہ لکھتے ہیں کہ:۔
‏iq] >[tagمیری دکان ۶ مارچ کو لوٹی گئی اور بری طرح صفائی کی گئی یہاں تک کہ دوائیاں لوٹنے اور توڑنے کے بعد میز` کرسی تمام سامان دکان کا ضائع کیا اور گھروں کو لے گئے دکان کا فرش اور دیواریں ضائع ہونے سے خراب ہوگئیں اور چھوٹی الماریاں اٹھا کر لے گئے اور بڑی الماری کے شیشے توڑ گئے۔ یہ نہایت سفاکی اور بربریت کا نمونہ پیش کیا گیا۔ ان دنوں بعض سائیکل سوار گزرتے تو وہ ساتھیوں سے کہتے کہ یہ دکان مرزائی کی ہے نوٹ کر لو۔ وغیرہ وغیرہ۔ افسوس کا مقام ہے کہ جب یہ واقعہ ہوا دن کے اڑھائی بجے تھے اور پولیس اسٹیشن میری دکان سے قریباً ۵۰ گز کے فاصلہ پر واقعہ ہے۔ باوجود پولیس کو علم ہونے کے ٹس سے مس نہ ہوئی اور اپنے فرض منصبی کو بھلا دیا۔ جب میں نے متعدد بار پولیس والوں سے پوچھا تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہمارے افسران کی طرف سے ہم کو یہی حکم ہے کہ نہ وردی پہنیں اور نہ ہی ہاتھ اٹھائیں۔ اس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ ان پولیس والوں کی بے پرواہی سے ہم غریب لٹ گئے۔<
آپ نے جو نقصان کی تفصیل سرکاری حکام کے سامنے پیش کی وہ قریباً اڑھے تیس ہزار روپیہ کی تھی۔ بوائیوں نے تو آپ کو جان سے مار ڈالنے کا بھی ¶تہیہ کرلیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان موذیوں سے بچایا۔
بھاٹی گیٹ
۸۔ حضرت میاں معراج دین صاحب پہلوان~ف۱۶~ بھاٹی گیٹ لاہور کا بیان ہے کہ۔
>۶ مارچ ۱۹۵۳ء۔۔۔۔۔ قتل غارت کرنے اور لوٹ مار اور آتشزدگی کرنے کا آخری دن تھا۔ ۶ مارچ کی صبح کو سب دوستوں نے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیئے تو یہ بات قرار پائی کہ دپٹی کمشنر صاحب کی خدمت میں جاکر یہ کہیں کہ حالت بہت خراب ہوچکے ہیں آپ کوئی انتظام کریں لوگوں کے ارادے ہمارے متعلق بہت خطرناک ہیں۔ اگر کوئی روک تھام نہ کی گئی تو نتیجہ اس کا تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ چنانچہ وفد کے چار دوست کچہری کی طرف روانہ ہوگئے اور بعد میں لحظ بلحظ ہجوم بڑھتا گیا اور حالات درندگی۔ وحشت اور دیوانگی لئے ہوئے خراب سے خراب تر ہوگئے۔ اور ادھر یہ ہوا کہ ہمارے نوجوانوں کے بعض شریف اور ہمدرد دوست اپنے اپنے گھروں میں ان کو بچوں اور عورتوں سمیت لے گئے۔ محلہ پڑنگاں میں صرف ہم چار افراد رہ گئے۔ )معراج دین خاکسار۔ حکیم سراج دین صاحب اور ان کا لڑکا مبارک احمد طالب علم ٹی آئی کالج اور ایک لڑکا ناصر احمد طالب علم ٹی آئی کالج۔( مذکورہ بالا حالات کے پیش نظر ہمیں بھی گھر میں دروازے بند کرکے بیٹھنا پڑا۔
نو بجے کے قریب ہمارے ایک عزیز غیر احمدی نے ہمیں آکر یہ خبر دی کہ اونچی مسجد کے قریب ایک سائیکل سوار نوجوان کو قتل کردیا گیا ہے۔ ہمیں یہ سن کر ایک دھکا سا لگا کہ مبارک احمد کی سائیکل لے کر نوجوان عبد الستار ابھی ابھی کالج کی طرف گیا تھا۔ کہیں وہی غریب نہ ہو۔ پھر ہم نے اسی عزیز مذکور سے کہا کہ اچھی طرح دیکھ کر آئوں کہ مقتول کون ہے؟ وہ گئے اور آکر کہا کہ مستری نذر محمد صاح کا لڑکا جمال احمد ہے جسے قتل کردیا گیا ہے۔ یہ سن کر ہمیں سخت صدمہ ہوا۔ مگر ہم جبور کچھ نہیں کرسکتے تھے کچھ نہیں کرسکتے تھے چاروں طرف درندگی پھیلی ہوئی تھی۔ انا للہ وانا الیہ رجعون پڑھ کے وہیں بیٹھ رہے اس کے بعد فرداً فرداً محلہ کے بعض آدمی آتے رہے اور کہتے رہے کہ ہم بے بس ہیں کچھ نہیں کرسکتے کوئی کہتا کہ ہم کار لے آتے ہیں اور تمہیں کسی محفوظ جگہ پہنچا آتے ہیں۔ کوئی کہے کہ آپ اپنے مکان کے ساتھ والے مکان پر اوپر سے کود کر چلے جائیں اور پھر فلاں گلی میں چلے جائیں اور پھر فلاں مکان میں چلیں جائیں تو آپ محفوظ ہوجائیں گے۔ اور ہم مشتعل فسادیوں سے کہہ دیں گے کہ وہ تو یہاں نہیں ہیں کہیں جاچکے ہیں وغیرہ وغیرہ مضحکہ خیز تجویزیں بتاتے رہے۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہم یہ تماشہ دکھانا نہیں چاہتے کہ بھاگتے اور چھپتے پھریں اس وقت کون ہے جس کی نظر ہم پر لگی ہوئی ہیں ہم تو اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر یہیں رہیں گے وہی ہماری مدد کرے گا۔ اور ہمارے پاک امام حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہی ارشاد ہے کہ اپنی اپنی جگہ پر رہو اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعائیں کرتے رہو وہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔ آپ لوگوں کی اس ہمدردی کا بہت بہت شکریہ۔ پھر ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کرکے ہم نے پڑھیں اور دعائیں کرتے رہے۔
ڈیڑھ یا دو بجے دن کے مارشل لاء لگ چکا تھا مگر اندرون شہر اس کا کوئی اثر نہ تھا۔ بدستور اسی طرح شور و غوغا اور ٹولوں کے ٹولے جلوسوں کی شکل میں پھر رہے تھے۔<
۹۔ مستری نذر محمد صاحب )محلہ پڑنگاں اندرون بھاٹی دروازہ( نے اپنے جواں سال اور نہایت پیارے احمدی بچے کی شہادت کا درد ناک واقعہ بتاتے ہوئے لکھا۔
>۶ مارچ کی صبح کو نو بجے حکیم سراج الدین صاحب نے مجھے بلایا۔ میں ان کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تین چار آدمی ڈپٹی کمشنر صاحب کے پاس جاکر کہیں کہ وہ ہم کو پولیس دیں۔ ہم کو بہت خطرہ ہے ان دوستوں کے کہنے پر میں نے بچوں کو ۵ مارچ کو جمعرات کے دن ڈبی بازار اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کے ہاں بھیج دیا ہوا تھا۔ گھر میں میں اور میرا لڑکا جمال احمد ہی تھے۔ ۶ مارچ کی صبح کو ہمیں لوگ آکر کہنے لگے کہ تم کو قتل کردیا جائے گا۔ تم اب یہاں سے چلے جائو۔ ہم نے کہا ہم نہیں جائیں گے۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے لڑکے کو کہا کہ تم داتا گنج کے پاس میرے ایک دوست غیر احمدی امام بخش کا گھر ہے۔ وہاں چلے جائوں کیونکہ میں کچہری چلا ہوں۔ شائد تمہیں اکیلا پاکر کوئی نقصان پہنچائیں۔ ہم کچہری گئے۔ مگر وہاں ڈپٹی کمشنر صاحب نہ ملے کیونکہ وہ آئے ہی نہ تھے۔ پھر میں ڈاکٹر رفیق صاحب جو کہ ڈینٹل سرجن ہیں ان یک مکان میں آیا تو وہاں ہمارے محلہ کے احمدی مولوی عبد الرحیم صاحب کمپائونڈر اور میاں محمد اقبال صاحب زرگر موجود تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد مولوی عبد الرحیم صاحب کا لڑکا وہاں آیا۔ اس نے کہا کہ جمال احمد شہید کردیا گیا ہے۔ اور اس کی لاش بھی اٹھا کر لے گئے ہیں۔۔۔۔۔ میں اپنی دکان )آرہ مشین( پر گیا تو وہاں کے غیر احمدی ہمسائے کہنے لگے تم یہاں سے چلے جائو۔ فسادی تمہیں دو تین دفعہ دیکھ گئے ہیں۔ وہ تمہیں قتل کردیں گے۔ ہم تمہاری دکان کی حفاظت کریں گے۔ مگر جب جمعہ کے وقت حفاظت کرنے والے چلے گئے تو بلوائیوں نے پیچھے سے آکر آگ لگا دی۔ جس سے ہماری )عمارتی لکڑی کی( دکان مشینری۔ لکڑی۔ درخت وغیرہ سب جل کر راکھ ہوگئے۔۔۔۔۔ جب مارشل لاء کی وجہ سے کچھ امن ہوگیا تو ہم گھر آئے دیکھا ہمارے گھر کا سارے کا سارا سامان لٹ چکا تھا حتیٰ کہ کپڑے کا ایک ٹکڑا تک نہ بچا تھا۔ جمال احمد کے قتل کی رپورٹ محمد صادق نے دے دی جس کا اوپر ذکر آیا ہے۔ گھر کی )لوٹ کی( رپورٹ میں نے جاکر میاں محمد شفیع صاحب کو دی۔ جو کہ ہمارے علاقہ کے تھانیدار تھے اور بھاٹی گیٹ کی پولیس چوکی کے انچارج تھے الخ۔<
ہترم نذر محمد صاحب ایک اور بیان میں تحریر فرماتے ہیں:۔
>میرا لڑکا۔۔۔۔۔ جمال احمد نہایت خوبصورت شریف طبع اور نیک صالح تھا یہ تعلیم الاسلام کالج فسٹ ائیر میں تعلیم حاصل کرتا تھا۔ جس دن انہوں نے شہید کیا اس دن نماز جمال احمد نے بہت لمبی پڑھی میں نے اس سے پوچھاکہ جمال احمد تم نے نماز بت لمبی پڑھی ہے تو وہ خاموش ہوگیا۔<
حالات لاہور پر ایک طائرانہ نظر
تفصیلی بیانات قلمبند ہوچکے اب جماعت حمدیہ لاہور کی مالی اور جانی قربانیوں کا جائزہ لینے کے لئے ۳ تا ۶ مارچ ۱۹۵۳ء تک کے حالات لاہور پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جاتی ہے۔ یہ جائزہ مندرجہ ذیل علاقوں پر مشتمل ہے:۔
راوی روڈ۔ رتن چند روڈ۔ بھاٹی گیٹ۔ چوک مسجد وزیر خاں۔ گمٹی بازار۔ بیرونی دہلی دروازہ موجن لال روڈ۔ نئی انار کلی۔ پرانی انار کلی۔ نیلا گنبد۔ میو ہسپتال۔ خواجہ دل محمد روڈ۔ فلیمنگ روڈ۔ ریلوے روڈ۔ نسبت روڈ قلعہ گوجر سنگھ۔ میکلیگن روڈ۔ میکلوڈ روڈ۔ میس روڈ۔ ٹمپل روڈ۔ مزنگ روڈ۔ عزیز روڈ۔ مصری شاہ۔ کاچھو پورہ۔ سلطان پورہ۔ محلہ وسن پورہ۔ گنج مغلپورہ۔ باغبانپورہ۔ نئی آبادی دھرمپورہ۔
راوی روڈ
۶ مارچ کو ملک برکت علی صاحب کی ٹمبر کی دکان اور مکان نذر آتش کردیا گیا۔ تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح ملک محمد طفیل اینڈ سنز ٹمبر مرچنٹ کا قیمتی سامان بھی جل کر راکھ ہوگیا۔
رتن چند روڈ
بلوائیوں نے ۶ مارچ کو محمد یونس کی نمبر کی دکان جلا دی۔
بھاٹی گیٹ
جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے اس حلقہ کے احمدیوں کو بھی بلوائیوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہونا پڑا علاوہ ازیں ۶ مارچ کوایک نہایت مخلص احمدی نوجوان جمال احمد صاحب طالب علم تعلیم الاسلام کالج شہید کردیئے گئے۔ انا للہ وانا الیہ رجعون۔
چوک مسجد وزیر خان
۶ مارچ ۱۹۵۳ء بروز جمعہ قریباً ۱۱ بجے دن بلوائیوں نے مسعود احمد صا اور محبوب عالم اینڈ سنز کے مکان کو لوٹنے کے بعد آگ لگا دی۔ اسی طرح نیلا گنبد میں دکان >محبوب عالم اینڈ سنز< کا سامان لوٹ کر لے گئے اور عمارت کو نذر آتش کردیا۔
گمٹی بازار
یہاں حافظ رحمت الٰہی صاحب کی دکان تھی جو لوٹی اور جلائی گئی۔
بیرون دہلی دروازہ
۶ مارچ کو ایک غضبناک ہجوم نے جو ایک سو افراد پر مشتمل تھا۔ احمدیہ بیت الذکر دہلی دروازہ پر حملہ کیا اور سلسلہ احمدیہ کے مشہور مبلغ مولانا ابو البشارت عبد الغفور صاحب بلوائیوں میں گھر گئے۔
عبد القدیر صاحب ہارون )ولد ڈاکٹر عبد الحمید صاحب چغتائی( کو قریباً سو افراد خاندان سمیت ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کی صبح کو عوام کے بے پناہ جوش و خروش کی بناء پر ۳/۶۸ ماڈل ٹائوں میں منتقل ہونا پڑا اور اسی رات کا مکان نذر آتش کردیا گیا۔
موہن لال روڈ
ہدایت اللہ صاحب کارکن انشاء پریس موہن لال روڈ لاہور کا مکان لوٹ لیا گیا اور چارپائیاں اور بستر جلا دیئے گئے۔ بعد ازاں ایک مولوی صاحب نے تمام محلہ میں یہ فتویٰ دے دیا کہ یہ لوگ واجب القتل ہیں اور ان کا سامان لوٹنا اور جلانا جائز ہے
نئی انار کلی
۶ مارچ کو ایچ نیاز احمد صاحب کی کپڑے کی مشہور فرم >الفردوس< بی / ۸۵( فساد کی نذر ہوگئی اور اس کا نہایت قیمتی سامان` کپڑے اور فرنیچر لوٹ لیا گیا۔
پرانی انار کلی
اس حلقہ کے معزز اور شریف غیر احمدی ہمسایوں نے محبت اور روا داری کا بہت عمدہ نمونہ دکھایا جس کی وجہ سے افراد جماعت ہر قسم کے جانی اور مالی نقصان سے محفوظ رہے` تاہم انہیں ہراساں اور پریشان کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی اور جلوسوں میں نہایت گندے نعرے لگائے جاتے تھے۔ اس حلقہ میں مندرجہ ذیل احمدی رہائش پذیر تھے۔
شیخ عبد اللطیف صاحب` شیخ عبد الرشید صاحب` شیخ عبدا لرحیم صاحب )۱۶ بھگوان سٹریٹ( چوہدری اکبر علی صاحب )۱۶ نابھہ روڈ( منور احمد صاحب )۵۲ مدنی چند سٹریٹ(۔ میاں شریف احمد صاحب )۳ لاج روڈ(۔ محمد یونس صاحب )۱۸ چرچ روڈ(۔ چوہدری عبد الغنی صاحب )۱۲ پام سٹریٹ( ڈاکٹر اعجاز احمدی صاحب )کپور تھلہ ہائوس(
مقدم الذکر چار احمدیوں کے سوا باقی سب کو دو تین روز کے لئے اپنے مکانات چھوڑ کر جانا پڑا۔ بلوائیوں نے ان کے مکانات پر نشان دہی کی اور ان کو لوٹنا اور آگ لگانا چاہا مگر ہمسایوں کی مخالفت کے باعث وہ اس منصوبے میں ناکام رہے۔ ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو چوہدری اکبر علی صاحب کے مکان کو نذر آتش کرنے کی دھمکی دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ مکان میرا نہیں بلکہ حکومت پاکستان کا ہے اس کا بعد محلے میں سے بعض لوگوں نے آپ کو احمدیت سے توبہ کرنے کی نصیحت< کی مگر آپ نے انکار کیا تو انہوں نے دو چار دن کے لئے مکان چھوڑنے کو کہا ان کے بیٹے منور علی~ف۱۸~ صاحب کو پیٹا گیا بلکہ احمد آوروں نے ان پر چاقو سے وار کرنے کی بھی کوشش کی۔ چوہدری اکبر علی صاحب نے انہیں للکارا اور وہ بھاگ گئے۔
نیلا گنبد
۶ مارچ کی تاریخ نیلا گنبد اور خواجہ دل محمد روڈ کے احمدیوں کے لئے قیامت سے کم نہیں تھی چنانچہ اس روز حکیم عبد الرحیم صاحب کی دکان پر ایک احمدی مرزا کریم بیگ صاح ولد جواہر بیگ صاحب کو شہید کرنے اور ان کی نعش جلا دینے کے بعد حکیم صاحب کا مکان و دکان لوٹ کی گئی۔
نور علی خاں صاحب )ولد حکیم یوسف علی خان صاحب( کا دواخانہ >مفرح حیات< )قائم شدہ ۱۹۳۰ء( تباہ کردیا گیا مکان و دکان ڈاکٹر نور محمد صاحب` قاضی محمد صادق صاحب ٹوپی والا کی دکان مستری موسیٰ اینڈ سنز کی دکان اور رہائشی مکان سب نہایت بے دردی سے جلائے اور لوٹ لئے گئے۔ محمد احمد صاحب کا سب سامان لوٹ لیا گیا اور ان کی کار نذر آتش کردی گئی۔ یہ جمعہ کے روز ۱۱ بجے صبح کا واقعہ ہے۔
میو ہسپتال
حملہ آوروں نے ۶ مارچ کو عبد العزیز صاحب کا >پاک ریز ایکس ریز کلینک< لوٹا اور عمارت کو آگ لگا دی۔
گوالمنڈی ریلوے روڈ
چوہدری عبد اللطیف صاحب )ولد حاجی عبد الکریم صاحب( کا گودام چوک برف خانہ کے چھ کمروں میں تھا جسے بلوائیوں نے ۶ مارچ لوٹا اور جلا دیا۔
اسی طرح عبد الرشید صاحب کے مکان کا قیمتی سامان حملہ آوروں کے ہاتھوں لٹ گیا۔
نسبت روڈ
۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو بلوائیوں نے سمیع اللہ بھٹی صاحب کی دکان >شفا میڈیکو< ۶۹۔ نسبت روڈ لاہور )چوک میو ہسپتال( کو پہلے جی بھر کے لوٹا اور پھر نذر آتش کردیا۔
قلعہ گوجر سنگھ
‏]text [tagڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب کے بھائی اور ہمشیرہ کا مکان لوٹا اور سامان جلایا گیا۔ محمود الٰہی صاحب سیلز انسپکٹر ریلوے )سعید رام پارک عبد الکریم روڈ( کے مکان میں لوٹ مار اور آتشزدگی کی واردات ہوئی۔
میکلیگن روڈ
۶ مارچ کو ہجوم نے عبد الکریم خان صاحب بی اے کے گھر کا سامان جلا دیا۔
میکلوڈ روڈ
اکبر علی صاحب کی دکان کارنر سٹور ۵ مارچ ۱۹۵۳ء کو بلوائیوں نے جلا کر خاکستر کرڈالی۔
۱۹ میسن روڈ]0 [rtf
۶ مارچ ۴ بجے شام دو سو سے زائد بلوائی چاند بیگم صاحبہ کے مکان میں ڈیڑھ گھنٹہ تک لوٹ مار کرتے رہے اور تمام قیمتی سامان ہتھیا لے گئے اور دروازے اور کھڑکیاں توڑ ڈالیں۔
۶۵۔ ٹمپل روڈ
شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت لاہور کی کوٹھی کے علوہ اس حلقہ کے دوسرے احمدی بھی حملہ آوروں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنے۔ مثلاً عبد الحمید صاحب ناظم دفتر جماعت احمدیہ کے مکان پر بلوائیوں نے شدید حملہ کیا اور مکان کا تمام سامان لوٹ لیا اور فرنیچر وغیرہ مع قیتمی کتب کے جن میں قران مجید کے چند نسخے بھی تھے بر لب سڑک جلا دیا گیا ان کا راشن ڈپو بھی لوٹ لیا گیا۔
مزنگ روڈ
۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو بلوائیوں نے کوٹھی نمبر ۶۴ کی بالائی منزل پر حملہ کیا اور مسعود احمد خان صاحب )کلرک پنجاب سول سیکرٹریٹ لاہور( محمود احمد خان صاحب ایم اے )ایکسائز انسپکٹر سنٹرل ایکسائز( مسعود ابراہیم صاحبہ ایم۔ اے بی ٹی )سیکنڈ ہیڈ مسٹرس گورنمنٹ ہائی سکول فار گرلز فیروز پور روڈ( کا قیمتی سامان اٹھا کر لے گئے۔
عزیز روڈ مصری شاہ
حکیم محمد الدین صاحب کا >محمد دواخانہ< لوٹ لیا گیا۔
کاچھو پورہ چاہ میراں روڈ
۳ مارچ کو مستری اللہ بخش صاحب دکاندار سائیکل مرمت کو ان کے رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں نے مجبور کیا کہ وہ وقتی طور پر احمدیت چھوڑ دیں مگر انہوں نے جواب دیا >میری لڑکیاں اور بچے میری آنکھوں کے سامنے اٹھا کر لے جائو اور انہیں کی طرف سے چیرنا شروع کر دو اور سارے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو تب بھی احمدیت چھوڑنے کو کبھی تیار نہیں ہوسکتا۔<
مورخہ ۵ مارچ کو مستری صاحب مع ماسٹر غلام نبی صاحب مصری شاہ کے تھانہ میں گئے اور کہا کہ ہماری حفاظت کے لئے کیا انتظام کرسکتے ہیں۔ جواب ملا کہ ہم تمہاری کوئی حفاظت نہیں کرسکتے ہمیں تھانہ سے باہر نکلنے کی بھی اجازرت نہیں تم یہاں سے آدھ گھنٹہ کے اندر اندر نکل جائو ورنہ قتل کر دیئے جائو گے اس کے بعد یہ لوگ اپنے رشتہ داروں کی مدد سے نکلے بہت ے لوگ ہاتوں میں چھرے لے کر ان کے قتل کے لئے بیٹھے تھے۔ فتنہ پردازوں نے ان کے مکان کو آگ لگا دی جو مستری صاحب کے غیر احمدی والدین نے بجھا دی۔
سلطان پورہ
شیخ فیروز دین صاحب اور عبد الحمید صاحب کا کارخانہ کا نقصان کیا گیا۔
محلہ وسن پورہ
اس محلہ میں صوفی عطاء اللہ صاحب کا مکان` جو گلی ۱۶ عمر دین روڈ پر واقعہ تھا` غارت گری کا نشانہ بنایا گیا۔
گنج مغلپورہ
حلقہ گنج مغلپورہ مارچ ۱۹۵۳ء میں >کربلا< کا منظر پیش کررہا تھا۔ جہاں کئی احمدیوں کو جام شہادت نوش کرنا پڑآ۔ سب سے پہلا واقعہ ماسٹر منظور احمد صاحب کی شہادت کا رونما ہوا۔ اس کے اگلے روز احمدیوں کے گھروں پر پتھر پھینکنے اور گالیاں دینا شروں کی گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ احمدی اپنے گھروں میں بند ہوگئے۔ ۶ مارچ کی صبح کو قلعہ راج گڑھ کے ایک نہایت مخلص احمدی مکرم محمد شفیع صاحب بیت الذکر مغل پورہ سے نماز فجر ادا کرکے گھر واپس تشریف لے جارہے تھے کہ انہیں سفاکانہ طور پر چاقوئوں سے شہید کردیا گیا۔ احمدی متواتر کئی راتوں سے جاگ رہے تھے۔ اس روز ان کی حالت نہیات خطرہ میں تھی۔ وہ سمٹ سمٹا کر تین چار جگہ میں محصور ہوگئے۔ شریر اور فتنہ پرداز ان کے دروازے توڑتے` پتھر مارتے اور گالیاں دیتے تھے۔ اور اس فکر میں تھے کہ جس طرح ہوسکے احمدیوں کو ختم کیا جائے۔ احمدیوں کے لئے ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرنا بھی ناممکن ہوگیا۔ بلکہ ڈیڑھ بجے کے قریب مارشل لاء لگ جانے کے باوجود محلہ کے اندرونی حصوں کو بدستور خطرہ لاحق تھا۔
بابو عبد الکریم صاحب کا مکان لوٹا گیا اور پھر اسے آگ لگا دی گئی۔ مستری محمد اسماعیل صاحب )عبد الرزاق صاحب کمپونڈر کے ریلوے کوارٹر پر بھی حملہ کرکے اس کو لوٹا گیا۔ عبد الرزاق صاحب کے غیر احمدی بڑے بھائی کو محض اس لئے مارا پیٹا گیا کہ وہ ان کے بال بچوں کو محفوظ جگہ پہنچانے آئے تھے۔ مستری محمد اسماعیل صاحب ریلوے کا سامان لوٹ لیا گیا اور دو بھینسیں کھول کرلے گئے۔ ایک طالب علم عبد الرشید صاحب ولد ماسٹر چراغ دین صاحب نبی پورہ میں رہتے تھے۔ وہ اپنی بھاوج اور اس کے بچوں کو محفوظ جگہ پہنچانے کے لئے گھر جا رہے تھے کہ راستہ پر اسی نوے آدمیوں کے ایک ہجوم نے حملہ کرکے اتنا زدو کوب کیا کہ وہ بے چارے گر گئے۔ قریب تھا ان کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا جاتا کہ کسی نے ان لوگوں سے کہہ دیا کہ ملٹری آگئی اس پر وہ لوگ بھاگ گئے اور اس معصوم بچے کی جان بچ گئی۔
جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب میں میاں عبد الحکیم صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ گنج مغلپورہ کی )غیر احمدی( والدہ صاحبہ قتل کر دی گئیں اور روپیہ پیسہ اور مال و اسباب لوٹ لیا گیا۔
باغبان پورہ
مکرم ماسٹر منظور احمد صاحب کی دردناک شہادت کے بعد یہاں فسادات زور پکڑ گئے اور تھانے والوں نے کہا کہ عوام بھپرے ہوئے ہیں۔ ہم کچھ مدد نہیں کرسکتے اس پر بعض دوست اپنے گھروں میں رہے اور بعض دوستوں نے اور جگہ پناہ لی۔
مستری محمد اسماعیل صاحب۔ ماسٹر منظور احمد صاحب شہید۔ فضل دین صاحب۔ خدا بخش صاحب
دھرم پورہ
اس حلقہ میں احمدیوں کے مالی نقصان کی تفصیل یہ ہے کہ محمد یٰسین صاحب فیروز پوری اپنا مکان بند کرکے دوسری جگہ چلے گئے تھے۔ ان کے جانے کے بعد ان کے مکان میں ریشمی پارچات` نقدی اور کچھ برتن اور راشن چوری کر لیا گیا۔
محمد رفیق صاحب کفش ساز کی دکان لوٹی گئی اور کچھ سامان باہر نکال کر نذر آتش کردیا گیا۔ بابو غلام محمد صاحب ریٹائرڈ کلرک آرڈیننس ڈپو کی دکان میں موجود ایف اے۔ بی اے کی کورس کی تمام کتابیں تلف کردی اور اکثر گم کردی گئیں۔ اور پرچون کی دکان کی مختلف اشیاء لوٹ لی گئیں۔ شام سندر گلی نمبر ۲ میں محمد یاسین خاں صحب اکیلے احمدی تھے جنہیں فسادات کے دوران اپنا مکان مقفل کرکے اپنے بھائی کے گھر جانا پڑا۔ لوگوں نے ان کی چھت پر سے ہوکر اندرونی تالا توڑا۔ اور سامان نکال کر لے گئے۔
شیخ محمد علی صاحب انبالوی کے ایک خط سے پتہ چلتا ہے کہ:۔
>لاہور میں ایک احمدی حالدار عبد الغفور صاحب ولد الٰہی بخش )ساکن موضع اول خیر کوٹ شہاب دین شاہدہ( ڈیوٹی کے دوران ۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو شہید کر دیئے گئے۔ اس شہید کے چھوٹے بھائی عبد الحمید صاحب قادیان میں درویش تھے۔<
شاہدہ کے واقعات
لاہور کے نواحی علاقوں میں سے ایک مشہور قصبہ شاہدرہ ہے۔ وہاں کے نہایت ہی کمزور۔ بے بس۔ اور لاچار احمدیوں کے ساتھ جس قسم کا تشددانہ سلوک ہوا۔ اس کے لئے انہی مجبور اور مظلوم لوگوں میں سے دو اصحاب کی مندرجہ ذیل چھٹیاں پڑھ لینا کافی ہوگا۔
ماسٹر غلام محمد صاحب ٹیچر ہائی سکول شاہدہ نے لکھا کہ:۔
>۶ مارچ کو ہمیں صبح سے ہی خبریں آنی شروع ہوگئی تھیں کہ جمعہ کے بعد ¶شاہدرہ کے احمدیوں کو قتل کر دیا جائے گا اور ان کی عورتوں کی بے حرمتی کرکے قتل کر دیا جائے گا۔ اور اس مطلب کے لئے لاہور سے بھی مولویوں کا جتھہ آئے گا۔ ابھی جمعہ کا وقت نہیں ہوا تھا کہ بازار سے شور اٹھا کہ جتھہ آگیا ہے۔ میں اس وقت پویس چوکی کی طرف جا رہا تھا اور ہسپتال کے موڑ پر تھا۔ چنانچہ شور سن کر واپس آگیا۔ بال بچوں کو اطلاع دی جتھہ آیا ہے۔ نعرے لگ رہے تھے۔ ظفر اللہ مردہ باد۔ ناظم الدین مردہ باد۔ ایک مصنوئی جنازہ چارپائی پر اٹھایا ہوا تھا اور ہائے ہائے کررہے تھے۔ میرے مکان کے دروازے کو اس قدر زور زور سے دھکے دیئے کہ اس کے قبضے اکھڑ گئے اور دروازہ پر پتھر اور اینٹیں زور زور سے چلائی گئیں فحش گالیاں دے رہے تھے۔ اس قدر گالیاں اور اس سے پیشتر ایسی مکروہ گالیاں میرے کانوں نے نہ سنی تھیں میری حویلی کی دیواروں کی اینٹیں اکھاڑ کر کافی دیوار گرا دی۔ دو دفعہ جلوس آیا اور مکروہ حرکتیں کرتا رہا اور کہتا رہا کہ جمعہ کے بعد تم کو قتل کردیا جائے گا ورنہ مرزا کو چوڑ دو اور مسلمان ہوجائو۔ یہ جلوس لمبے لمبے چھروں اور کلہاڑوں سے مسلح تھا۔۔۔۔۔ خیر جلوس چلا گیا۔ جلوس کے بعد میں پولیس چکی میں دوڑ گیا۔ اس وقت چوکی میں صرف دو سپاہی اور ایک حوالدار تھے۔ میں نے حوالدار کو کہا کہ جمعہ کے بعد ہمیں قتل کر دیا جائے گا آپ کوئی انتظام کریں۔ اس نے کہا میں کچھ نہیں کرسکتا میرے پاس کچھ نہیں۔ آپ اپنے گھر جاویں اور اپنا خود انتظام کریں۔ اس کے بعد میں اپنے پریذیڈنٹ صاحب کے پاس ان کے مطلب میں گیا۔ اس وقت ان کے پاس بعض لوگ بیٹھے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اب تم قتل کئے جائو گے۔ صرف بچنے کی صورت یہی ہے کہ مسلمان ہو جائو یا کہیں چھپ جائو۔ لیکن جہاں چھپو گے ان کی بھی خیر نہیں۔ یہ باتیں سن کر میں گھر آگیا۔ اور گھر والوں کو بتایا کہ مرنے کے لئے تیار ہو جائو۔ ڈاکٹر بخاری نے مجھے اس سے پیشتر کہا تھا کہ خطرہ کی صورت میں میرے گھر آجائو۔ چنانچہ ہم نے ان کی ہمشیرہ کے کہنے پر ان کے گھر چلے گئے اور اپنا گھر خالی چھوڑ دیا۔<
۲۔ حکیم مختار احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ شاہدہ نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں لکھا:۔
>مورخہ ۶ مارچ کو جماعت احمدیہ شاہدرہ پر دشمنوں نے اچانک حملہ کیا اور تمام احدیوں کے گھروں کو گھیر لیا۔۔۔۔۔ قریباً دس بارہ ہزار کا مسلح جلوس نکلا جو بندوقوں` چھروں برچھیوں اور آگ لگانے کے سامان سے مسلح تھا۔ تمام رستے انہوں نے بند کر دیئے تھے اور پولیس مقامی ان کی ہمنوا تھی۔ کوئی چارہ نہ دیکھتے ہوئے میرے غیر احمدی چند دوستوں نے مجھے کہا کہ اس وقت بچائو کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم باہر جاکر لوگوں کو کہتے ہیں کہ حکیم مختار احمد ہمارا ہم خیال ہوگیا ہے جب ہم حالات بہتر دیکھیں۔ تو پھر تم کو باہر بلا لیں گے تم باہر آجانا۔ چنانچہ آدھ گھنٹہ کے بعد مجھے باہر بلایا گیا۔ میرے مکان سے باہر آتے ہی ان لوگوں نے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ )حکیم مختار احمد زندہ باد( اس آواز نے تمام شہر میں سکون پیدا کر دیا اور لوگوں نے مجھے گھیرے میں لے لیا۔ پھر مجھے ایک جامع مسجد میں لے گئے میرے رفقاء نے وہاں بھی خود ہی شور مچا دیا کہ حکیم مرزائی نہیں رہا۔ ھر مجھے کہا گیا کہ جمعہ کا خطبہ پڑھو۔ چنانچہ میں نے منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا۔ اس میں میں نے یہ کہا کہ میں رسول کریم صلعم کو خاتم النبین مانتا ہوں اور کلمہ پڑھ کر کہا اسی کلمہ کا قائل ہوں۔ اس کے علاوہ احمدیت کے خلاف یا حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف کوئی بات نہیں کہی اور نہ کسی نے کہلوائی کیونکہ میرے ساتھیوں نے جو مجھے بچانا چاہتے تھے میرے ایک ایک فقرہ پر نعرے لگائے تاکہ شور پڑا رہے اور کسی اور طرف کسی کا دھیان نہ ہو۔ پھر ہم لوگ مسجد سے باہر آگئے اور لوگ دوسرے احمدیوں کو پکڑ کر لاتے رہے اور میں ان سے یہ کہتا تھا کہ جو کچھ میں نے کہا ہے اپ کو منظور ہے وہ بھی حقیقت کو سمجھ گئے تھے۔ سب نے یہی کہا کہ ہاں ہم کو منظور ہے۔ اس پر لوگ نعرے لگاتے رہے۔۔۔۔۔ اس کے بعد جب ملٹری کا انتظام ہوگیا تو تمام جماعت اپنی پہلی سطح پر آگئی ہے۔ ہماری دونوں بیوت الذکر پر مخالفین نے قبضہ کر لیا تھا۔ وہ بھی ان سے واپس لے لی گئی ہیں۔ دوسرے جمعہ کی نماز میں نے پڑھائی تھی۔ سب احمدیوں اور غیر احمدیوں نے میری اقتدار میں نماز پڑھی تھی~<ف۱۹~
کوٹ رادھا کشن
جناب محمد فقیر اللہ خان صاحب )ریٹائرڈ( ڈپٹی انسپکٹر سکولز نے تحقیقاتی عدالت میں حسب ذیل درخواست پیش کی کہ:۔
>یہاں احمدیوں کے صرف تین گھر ہیں۔ کئی دنوں سے ہم سن رہے تھے کہ ہر یاک و قتل کردیا جائے گا۔ مخالفت کی ہوا اس قدر مسموم ہوچکی تھی کہ لوگ بری نظر سے ہمیں دیکھنے لگے۔ پہلے جلے ہوئے۔ احراری لیکچراروں نے احمدی جماعت اور ہمار بزرگوں کے خلاف جس قدر ہو سکا گندہ دہنی سے کام لیا اور >زمیندار< کی روزانہ اشاعت نے ہمارے خلاف بہت زہر اگلا۔ جلوس جو بڑی شان سے نکالے جات تھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہماری زندگیاں امن میں نہیں ہیں۔۔۔۔۔ مخبر نے ہمیں خبر دی کہ یہاں سے نکل جائو ورنہ خیر نہیں۔ چنانچہ میں مع اہل و عیال ۸ مارچ کو لاہور جانے کے خیال سے اسٹیشن کوٹ رادھا کشن کے پلیٹ فارم پر جا پہنچا۔ جلوس نکل رہا تھا۔ اس کے سینکڑوں افراد پلیٹ فارم کا جنگلا پھاند کر میری طرف لپکے۔ مرزائی` مرزائی پکارتے ہوئے مجھے نرغہ میں لے لیا۔ میں پلیٹ فارم کے ایک طرف ٹہل رہا تھا۔ میں نے اپنا رخ اسٹیشن ماسٹر صاحب کے کمرہ کی طرف کر لیا۔ اگر عملہ اسٹیشن تعاون نہ کرتا تو میں یقیناً سخت خطرہ میں تھا۔ خبر پاتے ہی پولیس کے کچھ سپاہی بھی آگئے لیکن وہ ہجوم کے پیچھے ہی رہے۔ دراصل پولیس خود خائف تھی۔ ملٹری کے کارندے پہنچ چکے تھے۔ گاڑی کے آنے کی خبر پاتے ہی کہ ملٹری کا دستہ اس کے ساتھ لاہور پہنچے۔ اور بڑے اطمینان کے ساتھ لاہور میں پھرنے اور رہنے لگے۔ مارشل لاء اپنا قبضہ جما چکا تھا۔ اگر مارشل لاء نافذ نہ ہوتا تو یقیناً احمدیوں کے گھرانے بری طرح ذبح کئے جاتے۔ ان کے مکانا نذر آتش ہوتے۔ میں نے لاہور پہنچ کر اپنی سرگزشت تحریر کرکے سپرنٹنڈنٹ صاحب کی خدمت میں بیجی۔ دوسری درخواست واپس آکر یہاں سے بھیجی۔ مہربای فرما کر میری دونوں درخواستیں دتر پولیس سے برآمد کرا کر ملاحظہ فرمائیں۔ پولیس نے کیا کاروائی کتنے عرصہ کے بعد کی پولیس بالکل بے کار ہوچکی تھی۔ عوام الناس سے ڈرتی تھی۔<
فسادات پنجاب اور حکومت کی پالیسی
صوبہ پنجاب کی چند احمدی جماعوں کے دردناک اور زہرہ گداز واقعات بیان ہوچکے ہیں اب آخر میں یہ بتانا مقصود ہے کہ اس دور میں پنجاب کی دولتانہ حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ باوجودیکہ فتنہ و فساد جنگل کی آگ کی طرح پورے صوبہ کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھے وہ اپنی سیاسی مصلحت کی بناء پر حالات کو چھپاتی تھی اور قیام امن کے لئے یہ پراپیگنڈا کررہی تھی کہ صوبہ میں امن و امان ہے اور شورش کچل دیا گیا ہے چنانچہ سیدنا حضرت مصلح موعود نے ۳ ماہ وفا ۱۳۳۲ بش بمطابق ۳ جولائی ۱۹۵۳ء کو ناصر آباد سندھ میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:۔
>ان دنوں گورنمنٹ کی پالیسی یہ تھی کہ حالات کو چھپایا جائے اور دبایا جائے اور لوگوں پر یہ ظاہر کیا جائے کہ ہر طرح امن ہے اور اس میں وہ معذور تھی کیونکہ پولٹیکل اصول کے مطابق یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اگر فتنہ و فساد کے خبریں پھیلیں تو لوگوں میں اور بھی جوش پھیل جاتا ہے پس گورنمنٹ کے اکثر حکام کی یہ کاروائی کسی بدنیتی پر مبنی نہیں تھی بلکہ مصلحت اس بات کا تقاضا کرتی تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ باہر کی جماعتیں مرکز اور پنجاب کے حالات سے ناواقف رہیں یہاں تک کہ جب حکومت نے دیکھا کہ خطوں کے ذریعہ ناظر دعوٰہ و تبلیغ باہر کی جماعتوں کو اپنے حالات سے اطلاع دیتے ہیں تو انہوں نے ان خطوط کو بھی کسی قانونی عذر کے ماتحت روک دیا۔۔۔۔۔ ان دنوں پنجاب کے اکثر اضلاع کے احمدیوں کی حالت ایسی ہی تھی جیسے لومڑ کا شکار کرنے کے لئے شکاری کتے اس کے پیچھے پیچھے دوڑے پھرتے ہیں۔ اور لومٹر اپنی جان بچانے کے لئے کبھی ادھر بھاگتا ہے اور کبھی ادھر بھاگتا ہے ان ایام میں لاریاں کھڑی کر کرکے احمدیوں کو نکالا جاتا اور انہیں پیٹا جاتا۔ اسی طرح زنجیریں کھینچ کر گاڑیاں کو روک لیا جاتا اور پھر تلاشی لی جاتی کہ گاڑی میں کوئی احمدی تو نہیں اور اگر کوئی نظر آتا تو اسے مارا پیٹا جاتا۔ اسی طرح ہزاروں ہزار کے جتھے بن کر دیہات میں نکل جاتے اور گائوں کے دس دس پندرہ پندرہ احمدیوں پر حملہ کردیتے یا اگر ایک گھر ہی کسی احمدی کا ہوتا تو اسی گھر پر حملہ کر دیتے` مال و اسباب لوٹ لیتے۔ احمدیوں کا مارتے پیٹتے اور بعض شہروں میں احدیوں کے گھروں کو آگ بھی لگائی گئی بیسیوں پر احمدیوں کے لئے پانی روک دیا گیا اور وہ تین تین چار چار دن تک ایسی حالت میں رہے کہ انہیں پانی کا ایک قطرہ تک بھی نہیں مل سکا۔ اسی طرح بعض جگہ ہفتہ ہفتہ دو دو ہفتے وہ بازار سے سودا ابھی نہیں خرید سکے۔ بیرونی جاعتیں ان حالات سے ناواقف تھیں۔ وہ گورنمنٹ کے اعلانوں کو سن کر کہ ہر طرح امن ہے اور خیریت ہے خوش ہوجاتی تھیں۔ حالانکہ جس وقت خیریت کے اعلان ہوتے تھے وہی سب سے زیادہ احمدیوں کے لئے خطرے کا وقت ہوتا تھا لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے حکومت کے اکثر افسروں کی نیت نیک تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ملک میں یہ خبریں پھیلیں کہ لوگ احمدیوں پر سختی کررہے ہیں تو دوسرے جگہوں کے لوگ بھی ان پر سختی کرنے لگ جائیں گے اس لئے امن کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ متواتر یہ اعلان کئے جائیں کہ جگہ امن ہے تاکہ شر دب جائے اور لوگ سمجھ جائیں کہ جب سب جگہ امن ہے تو ہمیں فساد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پس ہم ان میں سے اکثر کی نیت پر شبہ نہیں کرتے۔ ہمیں سیاسیات کا علم ہے اور ہم نے تاریخ کا بھی مطالعہ کیا ہوا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ تمام حکومتیں ایسا ہی کرتی ہیں کیونکہ علم النفس کے ماتحت لوگوں کے جوش اسی وقت ٹھنڈے ہوتے ہیں جب انہیں معلوم ہوا کہ سب جگہ امن ہے اگر انہیں پتہ لگے کہ بعض مقامات پر امن نہیں تو وہ خود بھی امن سے نہیں بیٹھتے کیونکہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے کوئی شورش نہ ی تو لوگ ہمیں طعنہ دیں گے کہ تم نے کچھ بھی نہیں کیا اسی وجہ سے حکومتوں کا عام دستور یہی ہے کہ ابتداء میں جو خبریں نکل جائیں سو نکل جائیں۔ بعد میں وہ یہ پروپیگنڈا شروع کردیتی ہیں کہ سب جگہ ان قائم ہوگیا ہے تاکہ ایک جگہ کے لوگ دوسری جگہوں کی خبریں سن کر بیٹھ جائیں اور فتنہ و فساد کو ترک کردیں بہرحال ان حالات میں سے دو اڑھائی ماہ کے قریب ہماری جماعت گزیر۔ با اوقات ہمیں بیرونی جماعتوں کی طرف سے چھٹیاں پہنچتی تھیں کہ الحمدلل¶ہ پنجاب میں امن قائم ہوگیا ہے اور جماعت کے خلاف شورش دب گئی ہے۔ مگر اسی وقت ہمیں پنجاب کی مختلف اطراف سے یہ اطلاعات پہنچ رہی ہوتی تھیں کہ فلاں کا گھر لوٹ لیا گیا ہے۔ فلاں جگہ عورتوں اور بچوں پر جملے کئے جارہے ہیں اور انہیں بچا بچا کر محفوظ مقامات پر پہنچایا جارہا ہے۔ فلاں کا گھر جلا دیا گیا ہے مگر باہر کی جماعتوں کی طرف سے مبارکباد اور خوشی کے خطوط پہنچ رہے ہوتے تھے۔ کہ الحمدلل¶ہ گورنمنٹ کے العانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اب ہر طرح خیریت ہے۔ پس آپ لوگ اس مصیبت کا اندازہ نہیں لگا سکتے جس میں سے پنجاب کے لوگوں کو گزرنا پا۔ کیونکہ سندھ` سرحد اور بنگال میں ان فسادات کا ہزارواں حصہ بھی ظاہر نہیں ہوا جو پنجاب میں ظاہر ہوئے۔ اس وجہ سے یہاں کے لوگ امن میں رہے اور خیریت سے رہے لیکن باوجود اس کے کہ ان فسادات نے پنجاب میں انتہائی نازک صورت اختیار کرلی تھی۔ وہ تغیرات جو گورنمنٹ میں پیدا ہوئے ان کی وجہ سے بھی اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ حکام کا ایک حصہ ایسا تھا جو دیانت دار تھا اور اپنے فرائض کو ادا کرنا چاہتا تھا۔ یہ فتنہ آخروب گیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس فتنہ کی روح ابھی باقی ہے اور اللٰہی ہی بہتر جانتا ہے کہ اگر آئندہ فتنہ اٹھے تو وہ شاید پنجاب کی بجائے سندھ میں پیدا ہو یا بنگال میں پیدا ہو یا ممکن ہے پنجاب میں ہی پیدا ہو کیونکہ ہمیں نظر یہ آتا ہے کہ اس دفعہ جو فتنہ اٹھا ہے یہ خالص مذہبی نہیں تھا بلکہ سیاسی تھا۔ ہمارے ملک میں حکومت لیگ کی ہے اور لیگ کی حکومت جب سے پاکستان بنا ہے برابر چلتی چلی جارہی ہے اور بظاہر آثار ایسے نظر آتے ہیں کہ ایک لمبے عرصہ تک مسلم لیگی کی حکومت ہی قائم رہے گی لیکن بدقسمتی سے لیگ کے کارکنوں کا ایک حصہ جس نے پاکستا بننے کے وقت بڑی قربنای کی تھی۔ اپنے دوسرے ساتھیوں سے اختلاف ہو جانے کی وجہ سے لیگ سے علیحدہ ہونے پر مجبور ہوگیا مگر چونکہ اس وقت نیا نیا پاکستان بنا تھا ملک کا بیشتر حصہ یہ چاہتا تھا کہ ہمارے ملک میں زیادہ پارٹیاں نہ بنیں اور نظم و نسق ایک ہی ہاتھ میں رہے چاننچہ باوجود اس کے کہ یہ جدا ہونے والے مشہور آدمی تھے اور انہیں خیال تھا کہ اکثریت ان کا ساتھ دے گی۔ لوگوں نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی قربانیاں بری تھیں وہ ملک کے خیر خواہ بھی تھے۔ انہیں لوگوں میں رسوخ بھی حاصل تھا۔ اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم لیگ سے الگ ہوگئے تو لیگ کا اکثر حصہ ہمارے ساتھ شامل ہوجائے گا لیکن لوگوں کے دلوں میں جو یہ احساس پیدا ہوچکا تھا کہ زمانہ نازک ہے ہمیں اس نازک زمانہ میں اپنے اندر تفرقہ پیدا نہیں کرنا چاہئے یہ اتنا مضبوط ثابت ہوا کہ وہ لیگ سے باہر نکل کر ایک عضو بے کار بن کر رہ گئے اور اکریت نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا جب انہوں نے دیکھا کہ ہم سیاسیات کے ذریعہ لیگ کو شکست نہیں دے سکے بوجہ اس کے کہ مسلمانوں میں اتحاد کا جذبہ موجود ہے اور وہ اپنی حکومت کے قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں تو انہوں نے سوچا کہ اب ہمیں کوئی اور تدبیر اختیار کرنی چاہئے اور ایسے رستہ سے حکومت کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جس میں عوام کی تائید ہمارے ساتھ شامل ہو۔ چنانچہ اس غرض کے لئے انہوں کے علماء کو چنا تاکہ لوگوں کو یہ محسوس نہ ہو کہ یہ حکومت اور لیگ کی مخالفت ہے بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ یہ مخالفت صرف مذہب اور لامذہبی کی ہے اور اس غفلت اور جہالت میں وہ اپنے اصل مئوقف کو چھوڑ دیں اور ایسے مواقع پیدا کردیں جو بعد میں ان لوگوں کے لئے حکومت سنبھالنے کے موجب بن جائیں۔~<ف۲۰~
حوالہ جات
~ف۱~
رپورٹ صفحہ ۱۹۰
~ف۲~
تحقیقاتی رپورٹ صفحہ ۱۹۰ و صفحہ ۱۹۱
‏h1] gat~[ف۳~
اصل رپورٹ میں بیت الذکر کی جائے مسجد کا لفظ ہے )ناقل(
~ف۴~
حضرت مسیح موعودؑ کے رفقاء میں سے تھے ولادت ۱۸۸۵ء بیعت ۱۸۹۷ء وفات یکم اپریل ۱۹۶۶ء
~ف۵~
جمال احمد صاحب )ابن مستری محمد صاحب( شہید کی عمر ۱۷ سال ۵ دن تھی اپ کو پہلے لاہور میں امانتاً دن کیا گیا پھر سیدنا حضرت مصلح موعود کی جازت سے ۵ نومبر ۱۹۵۴ء کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک کئے گئے )لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۵۶۴ مئولفہ مولانا شیخ عبد القادر صاحب )اشاعت فروری ۱۹۶۶ء(
~ف۶~
آپ نہایت مخلص احمدی تھے
~ف۷~
رپورٹ تحقیقاتی عدلت صفحہ ۱۷۱
643 ۔Pg II Vol Encyclopaedia Collier's مطبوعہ امریکہ وہ برطانیہ ۱۹۶۷ء
~ف۸~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۳۱۳
~ف۹~
جہاں شیخ بشیر احمد صاحب مقیم تھے
~ف۱۰~
حضرت ام دائود صالحہ خاتون صاحبہ بیگم حضرت سید محمد اسحٰق صاحب وفات ۸ ستمبر ۱۹۵۳ء
~ف۱۱~
ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور مراد ہیں
~ف۱۲~
مراد صاحبزادی امہ القیوم بیگم صاحبہ
~ف۱۳~
سختی سے رد کرنا
~ف۱۴~
>تجلی قدرت< صفحہ ۱۷۴ تا صفحہ ۱۷۷ )طبع اول`( مئولفہ حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری
~ف۱۵~
ولادت ۱۸۹ء بیعت ۱۹۰۴ء وفات یکم دسمبر ۱۹۷۰ء
~ف۱۶~
ولادت ۱۸۸۰ء وفات ۲۲ مارچ ۱۹۶۵ء
~ف۱۷~
اسی حلقہ میں عبدالرحیم صاحب ڈسپنسر کا مکان بھی تھا جو ۶ مارچ کو لوٹ لیا گیا
~ف۱۸~
میاں منور علی صاحب اب انگلستان میں قیام پذیر ہیں اور سلسلہ کی خدمت بجا لارہے ہیں۔
~ف۱۹~
خط جناب حکیم مختار احمد صاحب شاہدرہ ۱۸ مارچ ۱۹۵۳ء بحضور سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی مصلح الموعود
~ف۲۰~
)خطبہ جمعہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرمودہ ۳ جولائی ۱۹۵۳ء بمقام ناصر آباد سندھ بحوالہ روزنامہ >المصلح< کراچی ۱۴ جولائی ۱۹۵۳ء صفحہ ۲`۳(
‏tav.14.8
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
مشرقی پاکستان کی احمدی جماعتوں کے واقعات
چوتھا باب
ریاست بہاولپور` صوبہ سرحد` صوبہ سندھ
اور
مشرقی پاکستان~ف۱~ کی احمدی جماعتوں کے واقعات
حضرت مصلح موعود کے بیان فرمودہ پانچ ایمان افروز واقعات
فصل اول
‏]daeh [tagریاست بہاولپور
اگرچہ ریاست بہاولپور میں حکومت نے قائم رکھنے کی کوشش کی مگر شہری آبادیوں اور ان مقامات پر جہاں احمدی اکے دکے تھے نچلے درجہ کے حکام کی جانبداری اور بزدلی کے باعث شور و سربلند رہا اور فضا بہت مسموم رہی۔
صادق آباد
یہاں منڈی میں چوہدری محمد شریف صاحب` چوہدری محمد امین صاحب کمیشن ایجنٹ کی واحد احمدی دکان تھی جس کو مشتعل ہجوم نے زبردستی بند کرا دیا اور پولیس بالکل خاموش رہی۔
ہارون آباد اور ملحقہ چکوک
شہر ہارون آباد اور اس کے ملحقہ چکوک نمبر r۔۴ / ۵۵` چک نمبر ۷۹ نہر ہاکڑا۔ چک نمبر r۔۴ / ۷۶` چک نمبر ۱۵۲ ہاکڑا۔ چک نمبر r۔۴ / ۵۳ چک نمبر r۔۷ / ۱۶۰ چک نمبر r۔۶ / ۹۳ اور چک نمبر r۔۳/۱۲ کے احمدیوں کو تکالیف پہنچائی گئیں اور چک نمبر r۔۳ / ۱۲ کے احمدیوں پر حملہ بھی کیا گیا۔
چک نمبر L۔۲ / ۱۵۲ میں شر پسندوں نے اشتعال انگیز نعرے لگائے اور بعض احمدیوں کو پکڑ کے دھمکی دی گئی کہ یا تو مسلمان ہو جائو ورنہ ہم تم کو مار ڈالیں گے۔ ایک احمدی پیر محمد صاحب نے کمال جر¶ات ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہ کہ >بے شک تم مجھے مار ڈالو لیکن احمدیت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اس لئے میں احمدیت کو جان سے عزیز سمجھتا ہوں اور احمدیت کو نہیں چھوڑوں گا۔< اس پر ایک شخص نے کہا کہ اچھا اس کو کل تک مہلت دی جائے لیکن وہ لوگ پھر واپس نہ ائے۔
بہاولنگر شہر و ضلع
ریاست کے ادر مخالفت کا زیادہ تر زور ان دنوں ضلع بہاولنگر میں تھا جہاں احمدی زمینداروں کی فصلیں فروخت ہونا بند ہوگئیں اور ان کی دکانوں پر پکٹنگ بٹھا دی گئی جس سے جماعت کو ہزاروں روپے ماہوار کا نقصان ہوا۔ بہاولنگر میں تین چار احمدی گھر تھے جن میں امیر ضلع بہاولنگر شیخ اقبال الدین صاحب بھی سامل تھے۔ جن کے مکان پر پتھرائو ہوا اور آپ کئی دن گھر میں محصور اور بیرونی حالات سے بے خبر رہے۔
فصل دوم
صوبہ سرحد
ان دنوں صوبہ سرحد میں مسلم لیگی حکومت تھی اور اس کے وزیراعلیٰ خان عبد القیوم کاں تھے جنہوں نے اپنی حب الوطنی` فرض شناسی اور حسن تدبیر و انتظام کی بہت اعلیٰ اور قابل تعریف مثال قائم کی انہوں نے امن و امان کے قیام کے لئے نہ صرف سرحد اسمبلی میں بلکہ مانسہرہ` ایبٹ آباد` بالا کوٹ وغیرہ مقامات پر نہایت زور دا اور مئوثر تقریریں کیں چانچہ سید عبدالرحیم ساہ صاحب نے پھگلہ ضلع مانسہرہ سے ۲۱ مارچ ۱۹۵۳ء کو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں لکھا کہ:۔
اسی طرح پیر محمد زمان شاہ صاحب نے مانسہرہ سے ۱۵ مارچ ۱۹۵۳ء کے مکتوب میں حضور کو اطلاع کہ >۱۴ مارچ وزیراعلیٰ کی تقریر مانسہرہ میں ہوئی یہ تقریر بڑے جوش سے اور رعب و دبدبہ سے کی گئی۔ نہایت معقول تقریری تھی۔ دلائل سے بھی لوگوں کو سمجھایا کہ یہ تحریک سیاسی تحریک ہے اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ سب مسلمان رسول خدا کو خاتنم النبین یقین کرتے ہیں۔ پنجاب کا بتایا کہ یہ شرارت پنجاب سے شروع ہوئی ہے اور اب پنجاب میں گولی چل رہی ہے۔ مسلمان مسلمان کو مار رہا ہے ایسا نہ ہو کہ یہاں بھی گورنمنٹ کو سخت کاروائی کرنی پڑے۔ دو دن پہلے بھی تم پر گولی چلنی تھی مگر حکام نے تم سے مہربای کی اس تقریر کا اثر لوگوں پر اچھا معلوم ہوتا تا۔<
وزیراعلیٰ سرحد خان عبدالقیوم خاں صاحب نے تقریریں ہی نہیں کیں بلکہ اپنی کامیاب حکمت عملی اور مضبوط اقدامات کے ساتھ صوبہ بھر میں بدامنی اور شورش اور فساد کو کچل کے رکھ دیا اور خدا کے فضل و کرم سے صوبح سرحد کے اضلاع پساور` کیمیل پور` اٹک` مردان` ہزارہ` کوہاٹ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خاں کی احمدی جماعتیں اس شور و شر میں جانی و مالی نقصانات سے بالکل محفوظ رہیں اور پشاور` اچینی پایاں` بازیدخیل` شیخ محمدی` چارسدہ` مردان` ایبٹ آباد` مانسہرہ` پھگلہ` ٹل` کوہاٹ اور بنوں کی جماعتوں کے احوال و کوائف خاص طور پر مرکز پہنچے۔
فصل سوم
صوبہ سندھ
صوبہ سرحد کی طرح سندھ حکومت نے بھی امن برقرار رکھا اور فرض شناسی کا ثبوت دیا۔ سندھی پریس نے احراری ایجی ٹیشن کی پرزور مذمت کی۔ سندھ کے مشہور لیڈر پیر پگاڑہ صاحب نے اس سلسلہ میں ایک پرزور بیان دیا:۔
‏Pir Movement, Ahmedi Anti the to reactions his to as asked theWhen of sections such also as Jamaat own his that declared haveSahib to ought him to listen to inclined were as community separateSindhi and divide to intended movement any with do to Jamaatnothing his that say to happy saw He ۔other the from Pakistani one۔movement disuptive that from aloof self it Kept man, a to refugeehad some that regrtted however, He, ۔community a as sindhis theAlso set to trying were Habitat their Sind made had who "Sind"Maulanas do" to allowed be not would "They this but fir on andIndus Pakistan to strength of source a becone "Must He: machinerymaintained Government the If ۔Affairs nantion's the run who thoxe ownto my on shall society the Maulanas, mischievous witj deal incannot ytilibisrespon whole the myself upon take to prepared am I cannot,part We ۔so do to me allows Government the only if behalf, ofthis handful a allow freedom, and security our of interests the "Iin ۔country whole the to fire set to moagers ۔mischief and fanatics
‏Observer Sind The ۔1
‏1953 19, March
1 ۔No ۔C 1 ۔Mo ۔P
یعنی پیر صاحب سے دریافت کیا گیا کہ اینتی احمدیہ تحریک کے متعلق آپ کا ردعمل کیا ہے؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ میری اپنی جماعت اور سندھی فرقہ کے وہ لوگ جو ان کی باتوں کو سننے کے حق میں ہیں ان سب کا ایک ایسی تحریک سے جو ایک پاکستانی کو دوسرے پاکستانیوں سے جدا کرتی ہے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بیان کرنے میں خوشی محسوس ہورہی ہے کہ میری ساری جماعت )مسلم لیگ( اس فساد انگیز تحریک سے بالکل الگ تھلگ رہی ہے۔ اسی طرح تمام سندھی بھی اس سے الگ رہے ہیں مگر انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ پناہ گزین مولانا` جنہوں نے سندھ کو اپنا وطن بنا رکھا ہے وہ دریائے سندھ کو آگ لگانا چاہتے ہیں مگر ان کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے اصرار سے کہا کہ سندھ کو پاکستان کے لئے طاقت دینے کا ذریعہ بنایا جائے گا۔ اور یہ ان لوگوں کے لئے طاقت بخش ثابت ہوگا جو قوم کی باگ ڈور کو سنبھالتے ہیں۔ اگر گورنمنٹ کی مشینری شرارت پسند علماء کو قابو میں نہیں رکھ سکتی۔ تو معاشرہ ان کو قابو کرے گا۔ میرا اپنا تو یہ حال ہے کہ میں اس معاملے میں ساری ذمہ داری اپنے سر لینے کو تیار ہوں بشرطیکہ گورنمنٹ پاکستان بھی مجھے یہ ذمہ داری سنبھالنے کی اجازت دے دے۔ ہم اپنی حفاطت اور آزادی کے تحفظ کی خاطر چند ایک سر پھرے مذہبی دیوانوں کو اور مفسدانہ طبع لوگوں کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ سارے ملک کو آگ لگا دیں۔~ف۲~
پیر پگاڑو صاحب کا یہ بیان سندھ کے سب اخباروں میں شائع ہوا۔ علاوہ ازیں جناب علی احمد صاحب بروہی ایڈیٹر >منشور< اور جنرل سیکرٹری انجمن مدیران جرائد سکھر نے >ختم نبوت یا ختم پاکستان< کے عنوان سے ایک پوسٹر شائع کیا جس میں لکھا کہ:۔
>ختم نبوت ہر مسلمان کا ایمان ہے اور جو لوگ اس حقیقت کو نہیں مانتے ان کو سمجھانا اور دلیل دے کر قائل کرنا چاہئے۔ لیکن بعض حضرات تبلیغ کرنے کی بجائے اشتعال انگیز تقریریں کررہے ہیں اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیل کر ان کو قانون توڑنے اور گرفتار ہونے پر ابھار رہے ہیں۔ چنانچہ پنجاب میں لوٹ مار کرنے ڈاک خانے جلانے قومی دولت تباہ کرنے اور بدامنی پھیلانے کے بڑے دردناک واقعات ہوئے ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے دشمن۔۔۔۔۔ ختم نبوت کی تحریک کی آڑ میں پاکستان کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ دشمنوں کے جال میں نہ ائیے ان کی یہ سازش ناکام بنائیے۔<
خدا کے فضل و کرم سے صوبہ سندھ کے احمدی ۱۹۵۳ء کے المناک ابتلاء میں بہت حد تک محفوظ رہے البتہ مندرجہ ذیل چند مقامات پر بعض احمدیوں کو وقتی تکالیف کا سامان کرنا پڑا۔
۱۔
میر پور خاص ضلع تھرپارکر میں بعض شریر ایم۔ این۔ سنڈیکیٹ کی رہائش گاہ کے گرد جمع ہوئے اور فتنہ کھڑا کرنا چاہا۔ مگر ڈپتی سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ایک معزز غیراحدی فقیر محد صاحب منگریو کی مداخلت پر یہ معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
۲۔
میرپور خاص سے پانچ چھ میل پر ڈیرہ غاز خان کے ایک احمدی اللہ بخش صاحب اور ان کے والد پر حملہ کیا گیا اور ان کو لاٹھیاں ماری گئیں حملہ آوروں نے کہا کہ یہاں سے بھاگ جائو۔
۳۔
نوکوٹ ضلع تھرپارکر میں ایک احمدی نوجوان کو پیٹا گیا۔ ایک سندھی احمدی نصرت آباد میں کام کرتے تھے جن کی نسبت جھوٹی رپورٹ کی گئی کہ اس نے ڈاک پر چھاپہ مارا ہے حالانکہ وہ نوکوٹ میں موجود ہی نہ تھا۔
۴۔
سکھر میں بعض پنجاب علماء نے شورش پیدا کرنے کے لئے قدم رکھا مگر جلدی بھگ گئے۔
۵۔
مکرم علی محمد نجم صاحب نمائندہ جماعت آبا و اسٹیٹ ضلع تھرپارکر سندھ نے ۱۷ مارچ ۱۹۵۳ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے ملاقات کی اور پھر مرکز کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ ایک بااثر زمیندار یہ اشتعال انگیز باتیں کررہا ہے کہ احمدیوں کو قتل کرکے ان کی زمینو پر قبضہ کر لو ان لوگوں کی لالچی نظریں جماعت احمدیہ کنری کی فیکٹری اور زمینوں پر ہیں۔
۶۔
پتھورو ضلع تھرپارکر میں ایک ہی احمدی تھے۔ لوگوں نے ان پر سختی کی اور امداد کے لئے مجبور کیا مگر انہوں نے سختی برداشت کی مگر ان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔
۷۔
چک نمبر ۱۷۰ ضلع تھرپارکر میں فتنہ کے ان ایام میں >انی مھین من اراداھانتک۔< کا نشان ظاہر ہوا۔ ڈگری کے قریب ایک سکول کا عربی ٹیچر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان اقدس میں انتہائی بے باکی سے گالیاں دیتا اور ایک احمدی طالب علم جمیل )ابن حکیم نور محمد صاحب ٹنڈو غلام علی ضلع بدین( کو زدوکوب کرتا تھا۔ احمدی طالب علم نے اپنے والد کی نصیحت پر عمل کرکے صبر کیا۔ چند دن کے بعد وہ تیچر ایک شرمناک اخلاقی جرم میں پکڑا گیا اور جوتوں سے اس کی پٹائی کی گئی۔
۸۔
کنری ضلع تھرپارکتر سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک احمدی جو اکیلے گائوں میں رہتے تھے۔ کنری آنے کے لئے گھر سے نکلے۔ تو چند غیر احمدی ان کا رستہ روک کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے یا احمدیت کو ترک کردو یا ہم تمہیں ختم کردیں گے۔ احمدی دوست نے انہیں جواب دیا کہ ہم مرنے سے نہیں ڈرتے اگر ہمیں اس لئے مارنا چاہتے ہو کہ ہم کلمہ بھی پڑھتے ہیں اور نماز` روزہ` حج زکٰوٰہ پر عامل ہیں تو بے شک مار لو۔ اس بات کا ایسا فوری اثر ہوا کہ انہوں نے رستہ چھوڑ دیا۔
۹۔
دارالعلوم ٹنڈوالہ یار ضلع حیدر آباد سندھ کے دیو بندی علماء نے ان دنوں احمدیوں کے خلاف نہ صرف اشتعال انگیز تقریریں کیں بلکہ جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ چوہدری عنایت الرحمن صاحب )زمیندار انجینئرنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی( کو قتل کرنے کے وعظ کئے۔ ایک دوست امجد علی خان صاحب کو جو تین ماہ قبل احمدی ہوئے تھے۔ قتل کی دھمکی دی گئی مگر انہوں نے دلیری سے جواب دیا کہ حق کے لئے جان چلی جائے تو پروا نہیں۔
۱۰۔
گوٹھ مولیٰ بخش )ڈاکخانہ ویہ ماہ کھنڈ ضلع نواب شاہ( کے احمدیوں پر حلہ کی افواہ پھیلائی گئی مگر خدا کے فضل سے امن رہا۔
۱۱۔
کمال ڈیرہ ضلع نواب شاہ کے علاقہ میں یہ افواہ پھیلائی گئی کہ ربوہ پر بھی حملہ ہوا ہے۔ تحصیل کنڈیارہ میں دو مخالف پارٹیوں نے احمدیوں کے خلاف شرارت کا ارادہ کیا مگر تحصیلدار صاحب نے یہ منصوبہ ناکام بنا دیا۔
فصل چہارم
مشرقی پاکستان )حال بنگلہ دیش(
فسادات پنجاب کے دوران مشرقی پاکستان میں امن و امان رہا۔ مولانا سید اعجاز احمد صاحب فاصل مبلغ مشرقی پاکستان نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ۲ مارچ ۱۹۵۳ء کو بذریعہ مکتوب اطلاع دی کہ مشرقی پاکستان کے انگریزی اور بنگلہ پریس نے احرار ایجی ٹیشن کی پرزور مذمت کی البتہ عوامی لیگ کے آرگن >اتفاق< نے اغماض برتا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا بھی اس فتنہ میں ہاتھ ہے۔ مولانا نے یہ بھی عرض کیا کہ:۔
>اخبار الفضل کے بند ہوجانے کی وجہ سے مرکز سلسلہ اور جماعت کے صحیح حالات سے ہم لوگ بالکل بے خبر ہورہے ہیں۔ براہ کرم حضور مرکز سلسلہ اور جماعت کے تازہ کوائف و حالات سے ہم لوگوں کو باخبر رکھنے کا کوئی موزوں انتظام فرمئیں۔<
اس پر حضور کے ارشاد پر مرکز کی طرف سے اطلاعات بھجوانے کا باقاعدہ انتظام کیا گیا۔ ان پر فتن ایام میں مشرقی پاکستان کے احمدیوں نے پریس اور ملک کے دوسرے حلقوں کو ضروری لٹریچر پہنچا دیا اور انفرادری و اجتماعی دعائیں کیں اور روزے رکھے۔ جیا کہ جناب احسان اللہ شکوار صاحب سیکرٹری تعلیم و تبلیغ انجمن احمدیہ مشرقی پاکستان کے ۹ مارچ ۱۹۵۳ء کے مکتوب کے درج ذیل الفاظ سے معلوم ہوتا ہے:۔
>بفضلہ تعالیٰ مشرقی پاکستان کے تمام اخبارات ہماری تائید میں ہیں۔ اخبارات کے اداریہ کو ترجمہ کرکے حضور کی خدمت میں ارسال کیا جارہا ہے۔ ہم حالات کے موافق کام کررہے ہیں۔ تمام اخباری دفتر میں )۱( قیام پاکستان اور جماعت احمدیہ~ف۳~ ۲۰( جناب اصغر بھٹی کے مضمون۔ )۳( پاکستان کس راہ پر۔< ان سب کا بنگلہ میں ترجمہ دیا گیا ہے۔ اور ڈھاکہ نرائن گنج شہر میں اور باہر بھی بذریعہ جہاز` ریل` لانچرز ڈاک کی ترسیل جاری ہے۔ نرائن گنج میں دو روزے رکھے گئے اور اجتماعی دعا بھی جاری ہے۔ مشرقی پاکستان کی تمام جماعتوں کو بھی روزے رکھنے اور اجتماعی دعا کرنے کے لئے تاکید کی گئی۔<
اخبارات کے بعض شذرات
۱۔ اخبار >ڈھاکہ< نے ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو اپنے اداریہ میں احرار کے فتنہ کے ¶خلاف حسب ذیل شذرہ لکھا:۔
قادیانی اور احرار
)ترجمہ( موجودہ بین الاقوامی حالات پر نگاہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کو تنگ دائرہ میں محدود کرنے کے لئے فضا میں مکدر کئے جانے کی کوشش ہورہی ہے۔ اسی نقطئہ نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ اس لئے وہ غیر رسمی طور پر پاکستان کے خلاف ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی عوام کو متحد اور متفق رہنا ہی پاکستان کی حفاظت کا باعث ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان ایک نئی حکومت ہے۔ اس کی مضبوطی اور ترقی لازمی ہے۔ لیکن اب تک ممکن نہ ہوسکا۔ اس لئے ہم سب کو متفق ہوکر اس کی مضبوطی اور ترقی لازمی ہے۔ لیکن اب تک ممکن نہ ہوسکا۔ اس لئے ہم سب کو متفق ہوکر اس کی مضبوطی اور استحکام کی کوشش کرنی چاہئے۔ ان حالات میں احمدیوں کے خلاف احراری فتنہ حکومت اور اسلام کے سب سے بڑے مفاد کے لئے ضر ہے۔ خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ ۱۶ فروری کو احرار ایک عام جلسہ میں جمع ہوئے اور وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خاں کو وزارت سے برطرف کئے جانے کی اور قادیانی فرقہ کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کی آواز اٹھائی۔ اور ڈائریکٹ ایکشن عمل میں لانے کے عزم کئے ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان کو بطور چیلنج کے یہ اعلان کیا گیا۔
حکومت نے اس قسم کے فتنہ برپا کرنے والے گیا رہ مولویوں کو گرفتار کر لیا۔ اور ان گرفتاریوں کی وجہ سے احراریوں میں غیظ و غضب پھیل گیا۔ اور چھوٹ چھوٹی جماعتوں میں جلوس نکالے گئے اب تک حکومت نے ایک ہزار احراریوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ احراریوں اور احمدیوں کے روزنامہ کی اشاعت بند کردی گئی ہے۔ حالات قابو میں کر لئے گئے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ ہمارا کسی کسی جگہ احمدیوں کے ساتھ اختلاف ہے لیکن اس کے باوجود بنیادی اصولوں میں ان کے ساتھ ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔ ہستی باری تعالیٰ پر ایمان ہی احمدیوں یا قادیانیوں کا اصل اصول ہے۔۔۔۔۔ احرار کی ماضی کی تاریخ ہر پاکستانی کو یاد ہے انہوں نے پاکستانی تحریک کے خلاف جو کاروائی کی اس بناء پر ہم موجودہ حرکات کو پاکستان کے استحکام کے خلاف دشمنوں کی تائید سمجھتے ہیں۔
اب احرایوں کو چاہئے کہ وہ اپنی غلطیوں کا اقرار کریں اور اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ اسلام اور حکومت کے خلاف ان کی یہ بغاوت پاکستانی معاف نہیں کریں گے۔
)۲(۔ مشہور اخبار >آزاد< )بنگالی( کی اشاعت مورخہ ۱۳ مارچ ۱۹۵۳ء میں حسب ذیل اداریہ شائع ہوا۔
حسرت ناک انجام
میاں ممتاز دولتانہ نے ۱۰ مارچ کے ایک بیان میں کہا ہے کہ احمدیوں کے خلاف تحریک کے بہانے پر فساد برپا کرنے والے باغیوں نے موجودہ حکومت کا تختہ الٹ دینے کی سازش کی تھی اور یکدم مسلمانوں کے اندر تفرقہ ڈال کر پاکستان کے امن اور یک جہتی پر حملہ کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ تاہم مرکزی اور صوبائی حکومت حسب ضرورت کاروائی کے لئے مستعد ہیں۔ ملکی آئین اور نظم و نسق برقرار رکھنا نیز ہر ایک کی جان و مال کی حفاظت حکومت کا اولین فرض ہے۔
دولتانہ کے مذکورہ بیانات کے ساتھ اطلاعات پسند عناصر کے کسی فرد کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ لیکن چند ماہ سے ملک کی مختلف جگہوں میں جو ہنگامہ آرائی ہوئی اس پر ہر پاکستانی کو فکر لاحق ہوگئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہں کہ گزشتہ سال کے گیارہ فروری کے واقعہ اور کراچی اور پنجاب کے موجودہ ہنگامے کے وقت دیکھا گیا کہ سول گورنمنٹ نے مجبور ہوکر امن عامہ کی حفاظت اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کی خاطر ملٹری کو بلایا۔ اور اسے معاملہ سونپ دیا۔ دولتانہ کے بیان سے ظاہر ہے کہ شروع شروع میں انہوں نے ہنگامہ برپا کرنے والوں کے ساتھ سمجھوتہ کی کوشس کی۔ فقط اسی کوشش میں ہی وہ ناکام نہیں ہوئے بلکہ ملکی آئین اور نظم و نسق کو برقرار رکھنے میں بھی سخت ناکام ہوئے۔ بال¶اخر ملٹری کو بلا کر اس کے ہاتھ میں معاملہ سونپ دیا۔ ہر بار ملکی آئین کی حفاظت کے لئے فوج کو بلانا اور مارشل لاء جاری کرنا کوئی قابل تعریف بات نہیں۔ امن و امان اور ملکی یکجہتی برباد کرنے والوں کو کھلی چھٹی دینے سے عام زندگی میں امن پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اب حکام اور سول کو اس معاملہ میں غور و خوص کرنے کی ضرورت ہے۔
اتنے دن تو صرف طلباء پر ہی قانون شکنی کا الزام تھا۔ اب تو نام نہاد علماء بھی اسی کی تقلید کررہے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ حکم نے بھی اپنی لیاقت کا ثبوت دیا۔ اخباری جرنلسٹ کے ایک گروہ کی کاروائی قابل تعریف نہیں بلکہ انہوں نے تو ملکی یکجہتی برباد کرنے میں مدد دی۔ سیاسی چال بازوں کا نام لینا بھی ضروری ہے۔ یہ سب مل کر ایک *** چکر بن گیا۔ اور اس میں پھنس کر عوام کی زندگی اور ملک کی بہبودی برباد ہونے لگی تھی۔ نازیبا حرکت اور قانون شکنی و کسی طبقہ کی تائید حاصل نہیں لیکن جس فعل سے امن و امان اور ملکی نظم و نسق کی بربادی کا خطرہ ہو اسی قسم کی تحریک کو ابتداء ہی میں سختی سے دبا دینا حکومت کے لئے ضروری ہے نام نہاد علماء کے فتنہ سے ملک کا امن و امان اور مفاد خطرہ میں پر جائیں گے۔ دولتانہ کو پہلے ہی اسے بھانپ لینا چاہئے تھا۔ لیکن الٹا انہوں نے ان کے ساتھ مفاہمت اور سمجھوتہ کی کوشش کی۔ یہ ان کی کمزوری اور ناعاقبت اندیشی کی علامت ہے۔ ماضی سے بے نیاز ہوکر عہد جدید کی واقفیت کا گھمنڈ جس کو لاحق ہے۔ اس کے ساتھ جس طرح مفاہمت نہیں ہوسکتی اسی طرح عہد حاضر سے ناواقف قدامت پسندوں کے ساتھ بھی کسی طرح سمجھوتہ نہیں ہوسکت۔ کیا دولتانہ کو یہ بات نہیں سوجھی۔ کہ جمہوریت کے نام پر کسی کے ساتھ نار و اسلوک یا کسی پر کوئی تعلیم زبردستی ٹھونس دینا جیسا کہ جمہوری اصول کے خلاف ہے اسی طرح مذبی لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنا اور ملکی یکجہتی کو توڑنا بھی جمہوریت کے خلاف ہے۔ کوئی بھی اس کی تائید نہیں کرسکتا۔ متفرق فرقوں میں جو جنگ کی آوازیں کسی جارہی ہیں کیا واقعی یہ نمونہ کی لڑائی ہے یا سیاسی ہیر پھیر۔ مختلف گروہوں میں جو نمازی خیالات نمودار ہورہے ہیں وہ ملک کے لئے مستقبل میں خطرہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہم سب کسی توجہ ادھر مبذول کراتے ہیں۔ حسرت ناک انجام سے ملک کو بچانا` تعلیم یافتہ طبقہ` حقیقی علماء اور حکومت کے کارندوں کا فرض ہے۔ ہم سب کی خدمت میں اس کے لئے غور و فکر کی گزار ش کرتے ہیں۔ )ترجمہ(
فصل پنجم
حضرت مصلح موعود کے بیان فرمودہ بعض واقعات
اب آخر میں ۱۹۵۳ء کے بعض ایسے ایمان افروز واقعات درج کئے جاتے ہیں جن کا تذکرہ سیدنا حضرت مصلح موعود نے اپنی زبان مبارک سے فرمایا جو حضور کی زندگی میں ہی سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں محفوظ ہوگئے۔
پہلا واقعہ
فرمایا احمدی جماعت سیاسی جماعت کبھی نہیں ہوئی۔ وہ ساری دنیا میں صرف مذہبی کام کرتی ہے۔ زیادہ تر احمدی پاکستان میں رہتے ہیں۔ مگر یہاں بھی کبھی اس نے کسی سیاسی پارٹی سے تعلقات قائم نہیں کئے۔ انہیں صرف اپنے اصول کے مطابق حکومت سے تعاون کرنا تا ہے اس موقع پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ۱۹۵۳ء میں جبکہ سارے پنجاب میں فساد تھا حکومت کے پاس رپورٹیں کی جاتی تھیں کہ احمدیوں نے اپنا بچائوں کے لئے بڑا سامان رکھا ہوا ہے۔~ف۴~ اس لئے گورنمنٹ کی طرف سے کبھی کبھی سی آئی ڈی کے افسر ربوہ آجاتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک سی آئی ڈی کا افسر آیا ایک پٹھان لڑکے کو اس نے دیکھا کہ وہ بیوقوف سا ہے اور اس کی تعلیم اچھی نہیں ہے۔ اس لئے اس نے خیال کیا کہ اس نوجوان سے بات معلوم ہوجائے گی چنانچہ اس نے اسے کہ تم مجھے وہ جگہ دکھائو جہاں تم نے لڑائی کا سامان رکھا ہوا ہے۔ اس لڑکے نے کہا تم میرے ساتھ آجائو چانچہ اس لڑکے نے اس سی آئی ڈی افسر کو ساتھ لیا اور ایک مسجد میں لے گیا۔ وہاں قرآن کریم کا درس ہورہا تھا۔ اس لڑکے نے کہا یہ ہماری لڑائی کی تیاری ہے۔ اس افسر نے کہا یہ کیا تیاری ہے۔ میں نے تو پوچھا کہ وہ جگہ دکھائوں جہاں تمہارے ہتھیار پڑے ہوئے ہیں۔ وہ لڑکا اسے پھر ایک اور مسجد میں لے گیا۔ وہاں بھی قران کریم کا درس ہورہا تھا۔ اس افسر نے کہا تم نے پھر غلطی کی ہے۔ تم مجھے وہ جگہ بتائو جہاں تم نے مقابلہ کے لئے سامان جمع کیا ہوا ہے۔ تم لوگ کمزور ہو اس لئے تم نے مقابلہ کے لئے ضروری تیاری کی ہوگی۔ وہ لڑکا کہنے لگا اچھا آئو میں تمہیں اور جگہ دکھائوں۔ جہاں ہمارا فوجی سامان پڑا ہے۔ وہ افسر خوش ہوگیا اور اس کے ساتھ ہولیا۔ چنانچہ وہ پھر اسے ایک اور مسجد میں لے گیا۔ وہاں بھی قرآن کریم کا درس ہورہا تھا۔ وہ آخر کہنے لگا تم مجھے پھر ایسی جگہ لے آئے ہو جہاں قران کریم کا درس ہورہا ہے اس لڑکے نے کہا ہمیں تو یہی فوجی سامان دیا جاتا ہے اور یہ میں نے تمہیں دکھا دیا ہے اس لڑکے نے کہا ہمیں تو یہی فوجی سامان دیا جاتا ہے اور میں نے تمہیں دکھا دیا ہے۔ باقی رہا ظاہری سامان۔ سو ہمیں تو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ سر جھکائو اور مار کھائو۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے سر سے ٹوپی اتاری اور اپنے سر پر چپت مار کر سر جھکا لیا اور کہا ہمیں تو بس یہی سکھایا جاتا ہے کہ مخالف کے آگے اپنا سر جھکا دو وہ افسر کہنے لگا اس طرح تو لوگ تمہیں مار دیں گے۔ وہ پٹھان لڑکا کہنے لگا پھر کیا ہوگا ہمیں شہادت نصیب ہوگی اور کیا ہوگا۔ اس پر وہ افسر مایوس ہوکر چلا گیا۔ وہ افسر سمجھتا ہوگا کہ شاید لڑکا بہت بیوقوف ہے لیکن تھا وہ بڑا عقلمند۔ دین کے لئے مارا جانا عزت کی بات ہوتی ہے۔ ذلت نہیں ہوتی۔ قران کے ذریعہ مقابلہ کرنا ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ تلوار اور بندوق قرآن کریم کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جس کے ساتھ قرآن ہے اس کے ساتھ سب کچھ ہے۔ اور جس کے ساتھ قرآن نہیں ساری کے توپ خانے` ہوائی جہاز اور گولہ بارود بھی اس کے پاس موجود ہوں تو اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتے۔ جس کے پاس قران کریم ہے اور جس کیپاس خدا ہے اسے دنیا کے کسی توپ خانے ہوائی جہاز` بندوقوں اور تلواروں کی ضرورت نہیں کیونکہ دنیوی توپ خانے` بندوقیں اور تلواریں خدا تعالیٰ کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔~<ف۵~
دوسرا واقعہ
>۱۹۵۲ء میں جب فسادات ہوئے تو بعض احمدی دوسرے احمدیوں کی خبر لینے کے لئے پچاس پچاس میل تک خطرہ کے علاقہ میں سے گزر کر گئے اور انہوں نے احمدیوں کی مدد کی۔ ایک عورت ہمارے پاس سیالکوٹ کے علاقہ سے آئی۔ اور اس نے بتایا کہ ہمارے گائوں میں دو تین احمدی ہیں جن کو لوگ باہر نکلنے نہیں دیتے اور اگر نکلیں تو ان کو مارتے ہیں۔ آخر میں نے سوچا کہ میں خود ان کے حالات سے آپ کو اطلاع دوں۔ چنانچہ میں پیدل چل کر سیالکوٹ پہنچی اور پھر سیالکوٹ سے ربوہ آئی۔ اس پر میں نے اسی وقت ایک قافہ تیار کیا جس میں کچھ ربوہ کے دوست تھے اور کچھ باہر کے اور میں نے انہیں کہا کہ جائو اور ان دوستوں کی خبر لو۔ اسی طرح سیالکوٹ کی جماعت سے بھی کہو کہ وہ ان کا خیال رکھے۔~<ف۶~
تیسرا واقعہ
>لاہور میں ہی ایک گھر پر غیر احمدی حملہ کرنے آگئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم نے اس مکان کو جلا دینا اور احمدیوں کو مار ڈالنا ہے۔ اس پر ایک غیر احمدی عورت اس مکان کی دہلیز کے آگے لیٹ گئی اور کہنے لگی پہلے مجھے ٹکڑے ٹکڑے کرلو۔ پھر بیشک آگے بڑھ کر احمدیوں کو مار لینا ورنہ جب تک میں زندہ ہوں میں تمہیں آگے نہیں بڑھنے دوں گی اس طرح ایک دوست نے سنایا کہ ان کے گھر پر حملہ ہوا اور مخالفین کا بہت بڑا ہجوم ان کے مکان کی طرف آیا۔ وہ اس وقت برآمدہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں وہ کیا دیکھتے ہیں کہ جب حملہ کرنے والے قریب آئے تو ایک نوجوان جو ان کے آگے آگے تھا گالیاں دیتے ہوئے مکان کی طرف بڑھا اور کہنے لگا ان مرزائیوں کو مار دو مگر جس وقت وہ لوگ مکان کے پاس پہنچے تھے تو وہ نوجوان سب کو مڑنے کے لئے کہہ دیتا اور اس کے مڑ جانے کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی مڑ جاتے تھے۔ آخر کچھ دیر کے بعد وہ سب لوگ واپس چلے گئے۔ اتنے میں ان کے دوسرے پھاٹک کی طرف سے ایک مستری داخل ہوا جو ان کے ماتحت کام کرتا تھا اور جسے انہوں نے ہی ملازم کروایا تھا۔ تو انہوں نے اس سے پوچھا کہ ان لوگوں کے آگے آگے کون نوجوان تھا۔ میں نے دیکھا ہے کہ پہلے وہ گالیاں دیتے ہوئے آگے بڑھتا مگر پھر وہ اور اس کا ساتھی دونوں مر جاتے اور ان کے مڑ جانے کی وجہ سے باقی ہجوم بھی مڑ جاتا۔ وہ کہنے لگا یہ دونوں میرے بیٹے تھے۔ میں نے انہیں بلا کر کہا تھا کہ مجھے پتہ ہے کہ کل ان کے مکان پر حملہ ہونا ہے مگر انہوں نے مجھ پر یہ احسان کیا ہوا ہے کہ انہوں نے مجھے بھی ملازم کروایا ہے۔ اور تمہیں بھی۔ اب تمہارا فرض ہے کہ تم اس احسان کا بدلہ اتارو۔ یہ لڑکے ہوشیار تھے۔ انہوں نے پتہ لگا لیا کہ کس وقت حملہ ہونا ہے اور خود ان میں شامل ہوکر آگے آگے ہوگئے اور کہنے لگے چلو ہم بتائیں کہ تم نے کس گھر پر حملہ کرنا ہے۔ مگر جب وہ گالیاں دیتے ہوئے قریب آتے تو کہتے مرزائی کے گھر میں کیا رکھا ہے۔ چلوم ہم تمہیں اور گھر بتاتے ہیں جن کے سفی روپوں سے بھرے پڑے ہیں اور جہاں بڑا سامان ہے۔ اور اس طرح وہ ان کو واپس لے گئے اور آپ کا گھر بچ گیا۔~<ف۷~
چوتھا واقعہ
گوجرانوالہ کے ایک احمدی کا یہ واقعہ حضور نے کئی بار بیان فرمایا:۔
>ایک پرانے احمدی تھے جو ستر پچھتر سال کی عمر کے تھے۔ ان کے پاس بھی گائوں کے لوگ پہنچے اور کہنے لگے کہ چلو اور مسجد میں چل کر توبہ کرو۔ اس نے کہا ہم تو ہر روز توبہ کرتے ہیں۔ آج مجھ سے نئی توبہ کونسی کروانے لگے ہو۔ وہ کہنے لگا میں اپنے سارے گناہوں سے تمہارے سامنے توبہ کرتا ہوں۔ لوگ خوش خوش واپس چلے گئے اور انہوں نے اپنے مولوی سے جاکر کہا کہ ہم تو اس سے توبہ کروا آئے ہیں۔ اس نے کہا کس طرح وہ کہنے لگے اس نے سب کے سامنے کہہ دیا ہے کہ میں اپنے سارے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں۔ وہ کہنے لگا اس قسم کی توبہ تو وہ تم سے بھی زیادہ کرتے ہیں۔ اگر اس نے واقعہ میں احمدیت سے توبہ کرلی ہے تو پھر اسے مسجد میں لائو اور میرے پیچھے نماز پڑھائو۔ چنانچہ وہ پھر اس کے پاس گئے۔ وہ انہیں دیکھ کر کہنے لگا کہ اب پھر تم کیوں آگئے ہو۔ انہوں نے کہا ہم اس لئے آئے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ مسجد میں چل کر نماز پڑھیں تاکہ ہمیں یقین ہو کہ اپ نے احمدیت سے توبہ کرلی ہے۔ وہ کہنے لگا میں نے تو اس لئے توبہ کی تھی کہ مرزا صحب کہتے تھے نمازیں پڑھو` روے رکھو` زکٰوٰہ دو` حج کرو` جھوٹ نہ بولو` شراب نہ پیئو` جوا نہ کھیلو` کچنیاں نہ نچوائو۔ اب تم نے جب توبہ کروائی تو میں خوش ہوگیا کہ چلو نمازیں بھی چھوٹیں` روزے بھی گئے` زکٰوٰہ بھی معاف ہوئی۔ حج بھی گیا۔ اب دن رات شراب پئیں گے۔ جوا کھیلیں گے۔ کنچنیوں کے ناچ دیکھیں گے مگر تم تو پھر نمازیں پڑھانے کے لئے آگئے ہو۔ اگر نمازیں ہی پڑھانی تھیں تو یہ نمازیں تو مرزا صاحب بھی پڑھایا کرتے تھے پھر توبہ کرنے کا فائدہ کیا ہوا۔ وہ شرمندہ ہوکر اپنے مولوی کے پاس آئے اور انہوں نے یہ سارا واقعہ اسے سنایا۔ وہ کہنے لگا میں نے تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس نے ضرور کوئی چلااکی کی ہے ورنہ اگر اس نے توبہ کی ہوتی تو یہاں آکر ہمارے پیچھے نماز کیوں نہ پڑھتا۔ اس شخص کے بیٹے کے دل میں ایمان زیادہ تھا۔ اسے جب اپنے باپ کا یہ واقعہ معلوم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوا اور اس نے اپنے باپ کو کہا کہ تم نے اتنی کمزوری بھی کیوں دکھائی۔ کئی بیٹے مخلص ہوتے ہیں اور ماں باپ کمزور ہوتے ہیں اور کئی اں باپ مخلص ہوتے ہیں اور بیٹے کمزور ہوتے ہیں لیکن بہرحال اصل خوبی یہی ہے کہ قوم کو ہزاروں بلکہ لاکھوں سالوں تک توکل اور یمان کی زندگی نصیب ہو اور اس کے افراد خدا تعالیٰ کے دامن کو ایسی مضبوطی سے پکڑے رکھیں کہ ایک لمحہ کے لئے بھی اس سے جدا ہونا انہیں گوارا نہ ہو۔~<ف۸~
پانچواں واقعہ
فرمایا:۔
>گزشتہ شورش میں بعض جگہ ہماری جماعت کی مستورات نے ایسی بہادری دکھائی کہ جب شرارتی عنصر نے انہیں پکرا اور احمدیت سے منحرف کرنا چاہا تو انہوں نے کہا کہ تم ہمیں مار دو ہمیں اس کی پرواہ نہیں بلکہ اگر تم ہمارے جسم کے ستر ستر ٹکڑے ٹکڑے کر دو تب بھی ہمیں خوشی ہے کیونکہ ہمارے ستر ٹکڑے ہی خدا تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ہوں گے۔~<ف۹~
حواشی
~ف۱~
۱۹۷۰ء سے اس خطہ میں بنگلہ دیش کے نام سے مستقل حکومت قائم ہوچکی ہے
~ف۲~
اخبار Observer Sind The کراچی ۱۹ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
~ف۳~
مئولفہ مولانا جلال الدین صاحب سم سابق مبلغ بلاد عربیہ و انگلستان
~ف۴~
اس ضمن میں امیر شریعت احرار سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی تقاریر کے بعض اقتباس ملاحظہ ہوں۔ )۱( >میں مطالبہ کرتا ہوں کہ ربوہ کی خود مختار ریاست پر چھاپہ مارئیے اسی ہزار ایکٹر رقبے کے ایک ایک مربع فٹ میں ایک ایک مربع فٹ میں ہزاروں فتنے مدفون ہیں` ہزاروں سازشیں ہیں۔ خطرناک منصوبے ہیں۔ ملت اسلامیہ کی تخریب کے سامان ہیں۔۔۔۔۔ حکومت اب بھی رتوں رات چھاپے مارے تو اسے بہت کچھ مل سکتا ہے< )تقریر لاہور مئی ۱۹۵۰ء(
)۲( >قادیانی نبی کے امتیوں نے ربوہ میں ایک متوازی حکومت قائم کررکھی ہے اور ان کے اس نظام کے تحت ربوہ میں اسلحہ تیار ہورہا ہے۔ زمین دوز قلعے تعمیر ہورہے ہیں۔۔۔۔۔ دریائے چناب کے کنارے ربوہ کو ایک قلعہ بند شہر بنایا جارہا ہے پاکستان کی آزاد حکومت میں اس متوازی حکومت کا قیام ناقابل برداشت ہے< )تقریر لاہور۔ اگست ۱۹۵۲ء( )خطبات امیر شریعت صفحہ ۵۲۔ صفحہ ۱۰۹( مرتبہ مرزا غلام نبی صاحب جانباز ناشر مکتبہ نبصرہ بیرون دہلی گیٹ لاہور طبع اول(
~ف۵~
روزنامہ الفضل ۳ شہادت ہشہ ۱۳۳۸ ۳ اپریل ۱۹۵۹ء صفحہ ۴ کالم ۴۔۴
~ف۶~
الفضل ۲۸ جون ۱۹۵۶ء صفحہ ۲ ایضاً ۳ اکتوبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۴
~ف۷~
>الفضل< ۲۸ جون ۱۹۵۶ء صفحہ ۲۔ ۳
~ف۸~
روزنامہ الفضل ۳ اخاء ہشہ ۱۳۰۲۷ مطابق ۳ اکتوبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۴ الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۵۸ء صفحہ ۱ ایضاً خالد جنوری ۱۹۵۵ء مشعل راہ طبع دوم صفحہ ۸۱۰ صفحہ ۸۱۱۔ ناشر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ۔
~ف۹~
>المصلح< ۲۸ وفاہشہ ۱۳۳۲ ۲۸ جولائی ۱۹۵۳ء صفحہ ۴
‏tav.14.19
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
خاندان مہدی موعودؑ اور مرکز سلسلہ کے اہم واقعات
حصہ دوم
سیدنا حضرت مصلح موعود
اور خاندان مہدی موعودؑ
اور مرکز سلسلہ کے اہم واقعات
پہلا باب
حضرت مصلح موعود کی اولوالعزمی
جناب الٰہی کی طرف سے سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کو بتایا گیا تھا کہ مصلح موعود >اپنے کاموں میں اولوالعزم نکلے گا~<ف۱~
یہ عظیم الشان خبر ۱۹۵۳ء کے انتہائی تلخ` پرفتن اور تشویش انگیز دور میں بھی اس شان سے پوری ہوئی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ حضور اپنی عمر کے چونسٹھویں سال میں داخل ہوچکے تھے اور ان دنوں کمزور بھی تھے اور بیماری بھی بایں ہمہ آپ کو مسلسل چھ ماہ کے قریب رات کے دو دو تین تین بجے تک کام کرنا پڑا کوئی رات ہی ایسی آئی ہوگی جب آپ چند گھنٹے سو سکے ہوں ورنہ اکثر رات جاگتے جاگتے کٹ جاتی تھی۔]01 ~[pف۲~حضور کی یہ عدیم النظیر اولوالعزمی اور بے مثال جفا کشی آئندہ نسلوں کے لئے قیامت تک مشعل راہ کا کام دے گی۔
حضرت مصلح موعود کے روح پرور پیغامات
ان پرفتن ایام میں جبکہ ہر طرف تاریکی ہی تاریکی دکھائی دیتی تھی حضرت مصلح موعود کا مقدس وجود ایک عظیم الشان نور تھا جس کی برکت سے جماعت )کے نیک دل بزرگوں( نے اپنے قلوب و اذہان پر فرشتوں کے نزول کو دیکھا اور انتہائی خطرات کے باوجود سکینت` اطمینان اور بشاشت ایمان کے انوار سے معمور رہی۔
‏]ydbo [tagسیدنا حضرت مصلح موعود نے اپنی دعائوں اور تدابیر کو انتہاء تک پہنچانے کے علوہ جماعت احمدیہ کو پے در پے اپنے روح پرور پیغامات سے نوازا۔ ان پیغامات نے پژمردہ دلوں میں زندگی کی برقیلہر دوڑا دی۔ ان تاریخی پیغامات کا آغاز ۲۸ فروری ۱۹۵۳ء کو اور اختتام ۲۷ مارچ ۱۹۵۳ء کو ہوا۔ یہ پیغامات جو اس دور کی تاریخ کا ایک قیمتی سرمایہ ہے زیل میں درج کئے جاتے ہیں:۔
پہلا پیغام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی عبد المسیح الموعود
برادران جماعت احمدیہ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ نے سنا ہوگا کہ حکومت پاکستان نے مجبور ہوکر احرار ورکرز کو کراچی میں گرفتار کر لیا ہے۔ اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی گرفتاریاں شروع ہیں۔ چونکہ اس ایجی تیشن کا موجب احرار کی طرف سے جماعت احمدیہ کو ظاہر کیا جارہا تھا۔ اس لئے ممکن ہے کہ بعض کمزور طبع احمدی ان خبروں کو سن کر مجالس یا ریلوے سفروں میں یا لاری کے سفروں میں یا تحریر یا تقریر کے ذریعہ سے ایسی لاف زنی کریں جس میں کہ ان واقعات پر خوشی کا اظہار ہو۔ اور بعض طبائع میں اس کے خلاف غم و غصہ پیدا ہو۔ اس لئے میں تمام احباب کو ان کے اخلاقی اور مذہبی فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے دن جب آتے ہیں تو مومن خوشی اور لاف و گزاف سے کام نہیں لیتے بلکہ دعائوں اور استغفار سے کام لیتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے گند بھی صاف کرے اور ان کے مخالفوں کو بھی سمجھ دے کہ آخر وہ ان کے بھائی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوٰہ والسلام کا ایک الہام~ف۳~ ہے کہ ~}~
>اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار
کاخر کندد دعویٰ حب پیمبرم<
یعنی اے دل تو ان مسلمانوں کے جذبات کا بھی خیال رکھا کہ جو تیرے مخالف ہیں کیونکہ آخر وہ بھی میرے آقا اور پیغمبر محمد رسول~صل۱~ کی محبت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔
ہم میں خواہ کتنے ہی اختلاف ہوں ہم اس امر کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ سب مسلمان کہلانے والے ہمارے آقا کی امت سے ہیں۔ اور امت خواہ کتنی بھی گنہگار ہو ان کی تکلیف کا رنج صاحب امت کو ضرور ہوتا ہے۔ جس طرح اولاد خواہ کتنی ہی غلطی کرے ان کی تکلیف کا اثر والدین پر ہوتا ہے پس ہمیں ان لوگوں کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے جو غلط فہمیوں میں مبتلا ہوکر ہماری مخالفت کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے درخواست کرنی چاہئے کہ وہ ان کو ایسے راستہ پر چلنے کی توفیق دے کہ وہ خود بھی عذابوں سے بچیں۔ اور حکومت کے لئے بھی پریشانی کا موجب نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو آزادی اور حکومت بخشی ہے۔ ہماری کوشس ہونی چاہئے کہ حکومت کو ضعف نہ پہنچے۔ اور خدا تعالیٰ سے دا کرنی چاہئے کہ ہمیں اور دوسرے پاکستانی مسلمانوں کو وہ ایسے اعمال کی توفیق دے کہ جس سے پاکستان مضبوط ہو۔ اور غیروں میں ہماری عزت بڑے۔ اور ہم عالم اسلام کی تقویت اور اتحاد کا موجب بن جائیں۔
والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد۔ خلیفہ المسیح الثانی
ربوہ ۲۸ فروری ۱۹۵۳ء
دوسرا پیغام
>اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم<
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الفضل کو ایک سال کے لئے بند کردیا گیا ہے۔ احمدیت کے باغ کو جو ایک ہی نہر لگتی تھی اس کا پانی روک دیا گیا ہے۔ پس دعائیں کرو۔ اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔ اس میں سب طاقت ہے۔ ہم مختلف اخباروں میں یا خطوں کے ذریعہ سے آپ تک سلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ اور انشاء اللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے۔ آپ بھی کرتے رہیں۔ میں بھی دعا کرتا ہوں۔ انشاء اللہ فتح ہماری ہے۔ کیا آپ نے گزشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا۔ سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے۔ وہ میرے پاس ہے۔ وہ مجھ میں ہے۔ خطرات ہیں اور بہت ہیں۔ مگر اس کی مدد سے سب دور ہوجائیں گے۔ تم اپنے نفسوں کو سنبھالو۔ اور نیکی اختیار کرو سلسلہ کے کام خدا خود سنبھالے گا۔
خاکسار
مرزا محمود احمد ۵۳۔ ۳۔ ۳~ف۴~
ایک ضمنی نوٹ
مولانا محمد شفیع صاحب اشرف~ف۵~ سابق مدیر فاروق و مبلغ انڈونیشیا کا بیان ہے کہ:۔
>۲۷ فروری ۱۹۵۳ء کو حکومت پنجاب کے ایک حکم کے مطابق روزنامہ >الفضل< جو اس وقت لاہور سے شائع ہوتا تھا ایک سال کے لئے جبراً بند کر دیا گیا تھا۔ اس وقت اتفاق سے لاہور ہی میں ہمارے ایک اور دوست کے پاس ایک ہفت روزہ اخبار >فاروق< کے نام کاڈیکلریشن تھا۔ فیصلہ کیا گیا کہ >الفضل< کی بندش سے جو فوری طور پر خلاد پیدا ہوگیا ہے اسے پورا کرنے کے لئے فی الحال >فاروق< سے فائدہ اٹھا لیا جائے۔ ان دنوں یہ عاجز نیا نیا شاہد کا امتحان پاس کرکے جامعہ احمدیہ سے فارغ ہوا تھا۔ اور وکالت تبشیر تحریک جدید میں رپورٹ کرچکا تھا۔ جہاں میری تقرری اس وقت سیرا لیون کے لئے ہوچکی تھی۔
۶ مارچ کی شام کو اچانک حضرت سید زین العابدین ولی اللہ صاحب~ف۶~ جو اس وقت ناظر دعوٰہ و تبلیغ تھے کے دستخطوں سے مجھے یہ ارشاد موصول ہوا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تمہیں >فاروق< کا ایڈیٹر مقرر فرمایا ہے۔ تم کل فوراً لاہور جاکر کام شروع کر دو اور جانے سے پہلے حضور اقدس سے مل کر جائو۔
اس ہدایت کی تعمیل میں اگلی صبح ۹ بجے خاکسار قصر خلافت حاضر ہوا۔ حضور کی خدمت میں اپنے حاضر ہونے کی اطلاع بھجوائی۔ دفتر کی طرف سے اوپر جانے والی سیڑہیوں میں میں کھڑا تھا کہ حضور نفس فنیس فوراً ہی تشریف لائے۔ دروازہ خود کھولا۔ حصور اس وقت ننگے سر تھے۔ ململ کا سفید کھلا کرتہ اور شلوار پہنے ہوئے` ہاتھ میں ایک کاغذ تھا۔ خاکسار نے سلام عرض کیا اور مصافحہ کا شرف حاصل کیا۔ حضور نے فرمایا فضل بند ہوگیا ہے۔ اب فاروق جاری ہورہا ہے تم ابھی لاہور جاکر فرواً کام شروع کر دو اور میرا یہ پیغام جاتے ہی صفحہ اول پر شائع کر دو۔ بعد میں تمہیں اور ہدایات ملتی رہیں گی۔ یہ فرماتے ہی وہ کاغذ جس پر حضور کا اپنے قلم سے لکھا ہوا پیغام تھا مجھے عطا فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ میں ایک دفعہ اسے حضور کے سامنے ہی پڑھ لوں۔ تاکہ حضور کی تحریری پڑھنے میں اگر مجھے کوئی مشکل ہو تو وہ دور ہوجائے اور اخبار میں شائع کرتے وقت کوئی غلطی نہ ہوجائے۔ چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں اسی وقت خاکسار نے حضور اقدس کو ایک گونہ اطمینان ہوا اور مجھے لاہور جانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اور فرمایا کہ میں اپنے کام کی رپورٹ جلد جلد حضور کی خدمت میں بھجتا ہوں۔ چنانچہ اسی وقت خاکسار لاہور کے لئے روانہ ہوگیا۔ اور وہ پیغام جس میں یہ ذکر تھا کہ خدا میری مدد کے لئے دوڑتا ہوا آرہا ہے >فاروق< کے پہلے شمارہ کے صفحہ اول پر جلی قلم سے شائع کردیا گیا۔ >فاروق< کے اس پہلے پرچہ پر تاریخ اشاعت ۴ مارچ درج ہے۔ ویسے یہ شائع ۲ مارچ ہی کو ہوا تھا۔ اس کے بعد ابھی تین دن بھی نہ گزرے تھے کہ لاہور میں مارشل لاء لگ گیا۔ اور فی الحقیقت اس وقت یہی معلوم ہوتا تھا کہ خدا اپنے مظلوم اور بے گناہ بندوں کی حفاظت کے لئے دوڑ کر آگیا ہے۔ تین دن قبل حضور کے اس پیغام کی اشاعت اور اس کے بعد معاً بعد کے حالات ہر احمدی کے ایمان و استقامت کو بڑھانے اور اللہ تعالیٰ کی ہستی پر توکل اور یقین اور خدائی نصرت و تائید کا ایک نہایت عظیم الشان منہ بولتا نشان تھے۔۔۔۔۔ اگرچہ ہفت روزہ >فاروق< کی زندگی اس وقت کے حالات کی وجہ سے بہت مختصر ثابت ہوئی لیکن اس کی پہلی اشاعت میں ہی حضور کے اس تاریخی پیغام نے اس سلسلہ کی تاریخ میں زندہ جاوید بنا دیا ہے۔~<ف۷~
تیسرا پیغام
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میری طبیعت ابھی خراب ہے۔ مگر کھانسی کو کل آرام رہا۔ ضعف زیادہ رہا۔ درس القرآن بعد از عصر حسب قاعدہ دیا گیا۔ جماعتوں کی طرف سے جو اطلاعات ملی ہیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ لاہور سیالکوٹ` لائلپور کے شہروں اور سیالکوٹ کے بعض دیہات میں شورش زیادہ رہی۔ ملتان میں بھی افواہیں پھیلیں` لیکن خیریت رہی۔ اکثر جگہ افسران کا انتظام اچھا رہا۔ بعض جگہ انہوں نے بزدلی دکھائی۔ کراچی میں امن رہا۔ سندھ میں افسران نے جلد جلد دورے کرکے معاملات کو سنبھالے رکھا۔ صوبہ سرحد کے افسران و حکام نے خوب مستعدی سے فتنہ کا مقابلہ کیا۔ بلوچستان میں اصل بلوچیوں نے پرامن طریق اختیار کیا۔ صرف وہاں کے پنجاب عنصر میں ہی تحفظ ختم نبوت کے نام پر سیاسی اغراض کے حصول کا جوش پایا جاتا ہے۔ بنگال بالکل پرامن ہے۔ اخبارات اور سیاسی پارٹیاں حتیٰ کہ بااثر علماء تک اچھا نمونہ دکھا رہے ہیں۔ فالحمدلل¶ہ وجزاہم اللہ۔
اخبار فاروق مل گیا ہوگا۔ ہم روزانہ اخبار کی فکر میں ہیں۔ آپ لوگ صبر سے کام لیں۔ دعائوں میں لگے رہیں۔ فتنہ کی جگہوں سے بچیں۔ ایک دوسرے کی خبر لیتے رہیں۔ مرکز سے تعلق بڑھانے چاہئیں۔ افسروں سے تعاون کریں۔ اور خدا تعالیٰ پر پورا توکل کریں کہ وہ جو آخر تک صبر سے کام لے گا اور ایمان پر قائم رہے گا` وہی دائمی جنت کا وارث ہوگا اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے گا۔ خوش قسمت ہو تم کہ جنت تمہارے قریب کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے تمہارے لئے کھولے گئے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہارے لئے اتر رہے ہیں اور اس کی نصرت بارش کی طرح برس رہی ہے جس کی آنکھیں ہیں وہ دیکھتا ہے اور جو اندھا ہے اسے تو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ تم اپنی آنکھیں کھولو` اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھو۔ تم سے پہلے لوگ تم سے بہت زیادہ مصیبتوں کا شکار ہوئے مگر انہوں نے اف تک نہ کی اور ہمت ے آگے بڑھ گئے۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی گود میں انہوں نے جگہ پائی۔ تمہارے لئے بھی وہی برکتیں موجود ہیں۔ صرف آگے بڑھنے اور اٹھانے کی ضرورت ہے۔ خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو۔
میں نے آج رات ایک خواب دیکھا جو اسی بارہ میں معلوم ہوتا ہے میں نے دیکھا کہ حضرت خلیفئہ اول بیٹھے ہں اور ان کے سامنے ان کے لڑکے میاں عبد السلام بیٹھے ہیں۔ یہ موجود عمر اور اسی طرح کی داڑھی ہے مگر زیادہ تراشی ہوئی۔ بجائے حضرت خلیفئہ اول کی طرف منہ کرنے کے پہلو بدل کر بیٹھے ہیں اور حضرت خلیفئہ اول ان پر خفا ہورہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ایسی بے ہودہ نظمیں سنا کر دماغ پریشان کردیا ہے۔ میں نے بیٹھ کر دیکھا تو عزیزم عبد السلام کی پیٹھ کے پیچھے دو کاغذ پڑے ہیں میں نے ایک کو اٹھا کر دیکھا تو اس پر کئی شعر لکھے ہیں۔ ایک مصرعہ ہے >آہستہ آہستہ آخر یہ کرسچین گھر پر آیا )یا پہنچا<( میں اسے پڑھ کر ہنس پڑا اور میں نے حضرت خلیفئہ اول سے کہا کہ یہ میاں عبد السلام کی تقریر تو نہیں وہ آپ کو مومن جی کے شعر سنا کر خوش کررہے تھے۔ پھر میں نے کہا کہ مومن جی )اصل نام خدا بخش پٹیالہ کے رہنے والے بوجہ سادہ طبیعت کے لوگ مومن جی کہتے ہیں مگر جاگتی دنیا میں انہوں نے شاید کبھی شعر نہیں کہا یا میں نے نہیں سنا( کچھ ایسے پڑھے لکھے تو ہیں نہیں جوش میں آتے ہیں تو شعر کہنے لگ جاتے ہیں جن کا نہ وزن ہوتا ہے۔ نہ مضمون۔ یہ لڑکے ان کے شعروں پر مذاق اڑاتے ہیں۔ اسی وجہ سے میاں عبد السلام نے آپ کو یہ شعر سنا دیئے تھے۔ یہ بات سن کر حضرت خلیفئہ اول بھی ہنسنے لگ گئے اور سمجھ گئے کہ میاں عبد السلام کا یہ فعل ان کو خوش کرنے کے لئے تھا۔ پھر پوچھنے لگے آخر اس مصرعہ کا مطلب کیا ہوا۔ میں نے کہا کہ انہوں نے کہیں سنا ہوگا کہ مسیح کو کرائسٹ کہتے ہیں وزن کی تو خیر انہیں ضرورت ہی نہیں۔ ذرا شعر کو انگریزی سے آراستہ کرنے کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کو کرائسٹ کہنا چاہا مگر چونکہ کرائسٹ نہیں آتا تھا کرسچین لکھ دیا اور مطلب یہ ہے کہ مسیح آہستہ آہستہ اپنے مقام پر پہنچ گیا۔ اس پر آپ اور ہنسے۔ اس کے بعد یکدم حضرت خلیفئہ اول غائب ہوگئے اور ان کی جگہ حضرت )اماں جان( آگئیں اور آپ نے کہا کہ میاں! تم نے یہ کیا لکھا ہے کہ تم سپاہی تو نہیں ہو مگر ہم تم کو سپاہیوں کی گجہ کھڑا کریں گے< میں نے کہا یہ میں نے مومن جی کی نسبت کہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک دن میں گھوڑے پر سوار تھا کہ گھوڑے نے یکدم منہ زوری اختاری کی اور قریب تھا کہ مجھے لے کر بھاگ جاتا اتنے میں آگے بڑھ کر مومن جی نے اس کی باگ منہ کے پاس سے پکڑ لی۔ اس پر گھوڑا اور بدکا۔ اس نے زور سے چھلانگ لگائی مگر مومن جی ساتھ ہی اچھلے اور باگ نہ چھوڑی۔ گھوڑی نے اپنی اگلی ٹانگیں اٹھا کر ان کو کچلنا چاہا۔ اس پر میں نے زور سے کہا کہ چھوڑ دو گھوڑے کو چھوڑ دو ورنہ مرجائو گے لیکن انہوں نے مضبوطی سے گھوڑ کو پکڑے رکھا۔ چھوڑا نہیں۔ آخر تھوڑی دیر شرارت کرکے گھوڑا ٹھیک ہوگیا تب میں نے کہا کہ >مومن جی تم سپاہی تو نہیں ہو مگر ہم تم کو سپاہی کی جگہ کھڑا کریں گے< پھر میری آنکھ کھل گئی۔ اس رئویا میں مومن جی کے لفظ سے خاص شخص مراد نہیں بلکہ سادہ لوح مومن مراد ہے۔ جس طرح رسول کریم~صل۱~ نے وحیہ کلبی کی صورت میں جبریل کو دیکھا تھا۔ اسی طرح جماعت )نیک لوگوں( مومن جی کی صورت میں دکھائی گئی ہے اور مطلب یہ ہے کہ مومن ایک طرف تو اتنا سادہ لوح ہوتا ہے کہ جوش ایمانی میں یہ بھی نہیں دیکھتا کہ اس کے شعر میں وزن ہے یا نہیں اپنے دل کے جوش کے اظہار کے لئے بے پرواہ ہوکر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ لوگ اس پر ہنستے ہیں مگر اس کی سنجیدگی میں فرق نہیں آتا وہ خدا کی باتیں پہنچاتا جاتا ہے۔ دوسری طرف نرم اور سادہ اور کمزور ہونے کے باوجود اسلام اور اس کے نظام کی قیمت اس کے دل میں اتنی ہوتی ہے کہ وہ اپنی جان کے خوف سے بے پرواہ ہوکر خدمت دین میں لگ جاتا ہے اور مصائب سے ڈرتا نہیں۔ مشکلات سے گھبراتا نہںی حتیٰ کہ اپنے لوگ بھی سمجنھے لگ جاتے ہیں کہ اب وہ مارا جائے گا۔ کچلا جائے گا لیکن خدا تعالیٰ اس کے اخلاص کو ضائع ہونے نہیں دیتا۔ فرشتے اس کی مدد کو اترتے ہں اور وہ آفتوں سے اسے بچاتے ہیں اور خودسری کی روہ کو توڑنے میں وہ کمایاب ہوجاتا ہے تب آسمانی گروہ کو کہنا پڑتا ہے کہ تم سپاہی تو نہیں ہو مگر تم کو سپاہیوں کی جگہ کھڑا کریں گے۔
والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد
)امام جماعت احمدیہ(
اس بلیٹن کے ساتھ جناب نظر صاحب دعوت و تبلیغ نے مندرجہ ذیل ہدایت دی:۔
>یہ بلیٹن جس کے پاس پہنچے وہ آگے دوسروں تک پہنچائے اور پہنچاتا چلا جائے تاکہ جماعت کی گھبراہٹ دور ہو اور وہ حالات سے واقف رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔
اطلاع ملی ہے کہ سیالکوٹ میں دو احمدی شہید کردیئے گئے ہیں۔~<ف۸~
زین العابدین۔ ولی اللہ
ناظر دعوت و تبلیغ ۵۳/ ۳۲ /۳ / ۵
چوتھا پیغام
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
افسوس کے ساتھ اطلاع دیتا ہوں کہ الفضل کے بند ہوجانے اور ریلوں اور لاریوں کی روک کی وجہ سے تین دن سے نہ آپ کو ہماری خبر ہے اور نہ ہمیں آپ کی۔ لاہور` سیالکوٹ اور راولپنڈی میں بعض احمدی شہید کئے گئے ہیں اور بعض کی دکانوں کو لوٹا گیا اور جلایا گیا۔ افسوس ہے کہ بلیٹن بھی آپ کو ارسال نہیں کیا جاسکا۔
ناظر امور عامہ لاہور الفضل کے لئے کوشش کرنے گئے تھے۔ مگر جاکر اپنے گھر بیٹھ گئے کیونکہ الفضل کے فون سے اطلاع ملی ہے کہ انہیں کچھ معلوم نہیں کہ وہ الفضل کے لئے کیا کررہے ہیں۔
ریلوں اور لاریوں میں احمدیوں پر حملے کئے جارہے ہیں لیکن اصل خطرناک بات یہ ہے کہ اب یہ لوگ اپنے اصل مقاصد کی طرف آرہے ہیں۔ سرکاری عمارتوں اور سرکاری مال پر حملہ کیا جارہا ہے سرگودہا اور جھنگ کے بعض مقامات پر ہندوستان زندہ باد اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ سکھیکھی~ف۹~ پر ایک ٹرین پر چڑھے ہوئے افراد نے پاکستانی فوج مردہ باد کے نعرے لگائے اس سے ملک دشمنی اور غداری کی روح کا صاف پتہ چلتا ہے۔
مگر اس حالت میں بھی بعض جگہوں سے خطوط مل رہے ہیں۔ پھر نہ معلوم جماعت کیوں خاموش ہے اور خطوں کے ذریعے سے اطلاع نہیں دیتی؟۔
خدائی جماعتوں پر یہ دن آیا کرتے ہیں پس گبھرانے کی بات نہیں۔ اپنے لئے اور اپنے ملک اور حکومت کے لئے دعا کرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ ہو۔ والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد )امام جماعت احمدیہ(
۸ مارچ ۱۹۵۳ء
جس جس کو یہ خط ملے۔ تحریراً و تقریراً تمام جماعتوں میں پھیلائے۔
پانچواں پیغام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حالات پہلے سے درستی پر آرہے ہیں۔ ساٹھ فیصدی جگہوں سے خبریں یہی آرہی ہیں کہ ہالات درست ہورہے ہیں۔ ۲۵ فیصدی کے قریب خبریں یہ ہیں کہ فسادات ابھی اپنے دستور پر قائم ہیں اور پندرہ فیصدی جگہوں سے یہ خبریں ہیں کہ فساد یا تو نیا پیدا ہورہا ہے یا بڑھ رہا ہے۔ بہرحال ان ساری خبروں کا نتیجہ یہ ہے کہ نصف سے زیادہ فساد دب چکا ہے اور خدا کے فضل سے امید ہے کہ ہفتہ عشرہ تک یہ فساد دب جائے گا۔ قریب میں گندم پیدا ہونے والی ہے اور زمیندار مجبور ہوگا کہ وہ گندم کی کٹائی کرے اس طرح کپاس ک کاشت کا وقت بھی قریب آرہا ہے غالباً ان دنوں میں مولوی زمینداروں کو مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ اپنا کام چھوڑے اور اگر وہ زمیندار کو مجبور کرے گا تو اگلی دور فصلیں اس قدر تباہ ہوجائیں گی کہ پنجابی کو نہ پہننے کو کپڑا ملے گا۔ نہ کھانے کو روٹی ملے گی اور اس تباہی کی زمہ داری کل طور پر مولویوں اور مودودیوں پر ہوگی۔ گو یہ فتنہ پرداز لوگ غصے سے اس وقت اندھے ہورہے ہیں۔ پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اتنی جر¶ات کرنی ان کے لئے مشکل ہوگی۔ کیونکہ تین چار مہینے کے بعد اس کے نتائج نکلنے پر پبلک اس قدر مخالفت ہوجائے گی کہ وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل ہی نہ رہیں گے۔ پس ہمت اور استقلال سے کام لو۔ اصل چیز جر¶ات اور ایمان ہے۔ ہمارے مخالفوں میں سے احمدیوں کو مارنے والوں کو بھی یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر میں نے مارا تو پھانسی چڑھوں گا یا اگر مقامی حکام مجھے نہیں پکڑیں گے تو ملک کی تباہی کو دیکھتے ہوئے مرکز دخل دے گا اور میں گولیوں کا شکار بنوں گا پس مارنے والے کے دل میں مرنے والے سے کم ڈر نہیں بلکہ اسے موت کے علاوہ کبھی کبھی خدائی سزا کا بھی خیال آسکتا ہے۔ پس ہمت اور بہادری سے کام لو اور اپنی عاقبت و بگاڑو نہیں۔
خدا تعالیٰ نے غیر معمولی ثواب کے مواقع آپ کے لئے بہم پہنچائے ہیں۔ اس موقعہ کو بزدلی اور کمزوری سے جو شخص ضائع کرتا ہے۔ وہ بہت بدبخت آدمی ہے۔ کاش وہ پیدا نہ ہوتا تاکہ اس کی سیاہی سے دنیا و اغدار نہ ہوتی۔
اب مودودی آگے آرہے ہیں~ف۱۰~ ان پر نگاہ رکھو اور ان کے تمام حالات سے دفتر کو آگاہ رکھو ان کے لیڈروں کے ناموں سے اطلاع دو ان کے تقریر کرنے والوں سے مطلع کرو اور ان کی تقاریر کا خلاصہ ہمارے پاس بھجوائو۔ وہ پولیس اور افواج کو ہمارے خلاف مسموم کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات کی بھی نگرانی رکھو۔~<ف۱۱~
چھٹا پیغام
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نعحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
احباب جماعت کو معلوم ہے کہ اس وقت جماعت پر ایک نازل موقعہ آیا ہوا ہے۔ گورنمنٹ اپنی طرف سے کوشش کررہی ہے کہ فتنہ کو دور کرے۔ درحقیقت یہ گورنمنٹ کا ہی کام ہے لیکن بعض دفعہ بعض کمزور طبائع ایسی باتیں بھی کر بیٹھا کرتی ہیں کہ گورنمنٹ کی تدابیر کو بطور طعن مخالفوں کے سامنے کردیتی ہیں یا اور قسم کی باتیں کردیتی ہیں جو بعض جوشیلی طبیعتوں کے لئے اشتعال کا موجب ہو جایا کرتی ہیں اور فساد پھر پیدا ہوجاتا ہے اور حکومت کے لئے مشکل پیدا ہوجاتی ہے پس میں دوستوں کو ان کے فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایسے موقعہ پر قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق صبر اور دعا سے کام لیں اور کچھ کہنا ہے تو اپنے خدا سے کہیں۔ لوگوں کے سامنے ایسی کوئی بات نہ کریں کہ جس سے اشتعال پیدا ہو اور فساد کی صورت پیدا ہوکر حکومت کے لئے مشکلات کا موجب ہو۔
والسلام
خاکسار۔ مرزا محمود احمد۔ خلفیہ المسیح
حواشی
~ف۱~
اشتہار حضرت مسیح موعود ۱۵ جولائی ۱۸۸۸ء
~ف۲~
الفضل ۹ فروی ۱۹۵۵ء صفحہ ۵
~ف۳~
یہاں >الہام< کا لفظ سہواً لکھا گیا ہے۔ دراصل یہ شعر حضور علیہ السلام کا رقم فرمودہ ہے جو حضور کی کتاب >ازالئہ اوہام< میں درج ہے۔ )صفحہ ۱۶۴ طبع اول(
~ف۴~
ہفت روزہ >فاروق لاہور< جلد ۱ نمبر ۱ مئورخہ ۴ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ اول
~ف۵~
وفات ۲۹ مارچ ۱۹۸۹ء
~ف۶~
وفات ۱۶ مئی ۱۹۶۷ء
~ف۷~
غیر مطبوعہ )ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت(
~ف۸~
یہ اطلاع حافظ ثابت ہوئی )مرتب(
~ف۹~
نقل مطابق اصل
~ف۱۰~
مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ >ان گرفتاریوں کا پس منظر< ناشر اے قادرصاحب مطبوعہ کلیم پیرس کراچی ۱۹۵۳ء
‏]h1 ~[tagف۱۱~
بلیٹن ۲ ۱۹۵۳ء بحوالہ >بدر< ۷ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۲
دوسرا باب
جماعتوں کی صورتحال سے باخبر رہنے کا انتظام
حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے اس دور میں کمال حکمت عملی سے ایسا نظام قائم فرما رکھا تھا کہ پاکستانی جماعتوں کے بدلتے ہوئے حالات بلکہ بعض اوقات کی ان کی خبرئیات و تفصیلات تک آپ تک پہنچ جاتی تھیں۔ ایک طرف مرکزی اداروں میں سے خصوصاً امور عامہ کے کارکن نظارت دعوت و تبلیغ کے مبلغین کرام` نظارت بیت المال کے انسپکٹر صاحبان ان دنوں سرتاپا جدوجہد بنے رہے۔ دوسری طرف مقامی جماعتوں کے امراء صدور اور دیگر ذمہ دار عہدیداران نے حتی الامکان اپنے پیارے آقا اور مرکز سلسلہ کو اپنے کوائف سے آگاہ رکھا جیسا کہ مفصل ذکر آچکا ہے۔
ربوہ کے بعد جس مقام پر ان ایام میں خاندان مہدی موعود کے اکثر قابل احترام بزرگ اور وجود قیام پذیر تھے وہ لاہور کا رتن باغ تھا جو جماعت لاہور سے متعلق اطلاعات کا اہم ترین مرکز تھا۔
مرکز سے سائیکلو سٹائل خطوط کا خاص انتظام
‏text] ga[tسیدنا حضرت مصلح موعود نے اپنے مشہور پیغام مورخہ ۳ مارچ ۱۹۵۳ء میں الفضل کی بندش کا ذکر کرنے کے بعد وعدہ فرمایا تھا کہ:۔
>ہم مختلف اخباروں میں یا خطوں کے ذریعہ سے آپ تک سلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور انشاء اللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے۔~<ف۱~
حضرت اقدس نے اس وعدہ کی تکمیل کے لئے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ ۳ مارچ ہی کو اپنی نگرانی میں دفتر اطلاعات کا قیام فرمایا اور اس کا انچارج راقم الہروف )دوست محمد شاہد( کو مقرر کیا۔ یہ دفتر احاطئہ قصر خلافت میں قائم کیا گیا۔ ۲۰ مارچ کو اس کا نام حضور نے بدل دیا اور اسے دفتر ریکارڈ سے موسوم فرمایا۔ اس نئے دفتر کے حسب ذیل فرائض تھے:۔
۱۔
ایجی ٹیشن سے متعلق اندرون ملک سے آنے والی ڈاک کا ریکارڈ رکھنا۔
۲۔
تازہ اطلاعات کا خلاصہ تیار کرکے حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں پیش کرنا۔
۳۔
حکام وقت کو حالات سے باخبر رکھنے اور مشرقی پاکستان کی احمدی جماعتوں کو مرکزی کوائف سے مطلع کرنے کے لئے الگ الگ اطلاعات کا انتخاب کرنا اور پھر بالترتیب حضرت مولانا عبدالرحیم~ف۲~ صاحب درد ناظر امور عامہ اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس~ف۳~ ناظر تالیف وت تصنیف کو بھجوانا۔
۴۔
احمدی جماعتوں کو مرکزی اور جماعتی اطلاعات سے باخبر رکھنے کی خاطر ضروری معلومات مرتب کرنا۔
موخر الذکر معلومات سیدنا حضرت مصلح موعود نہایت احتیاط اور باقاعدگی سے ملاحظہ فرماتے اور حضور کی منظور کے بعد ان کو نظارت دعوت و تبلیغ میں بھجوا دیا جاتا تھا جہاں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ ان کو اپنی نگرانی میں سائیکلو سٹائل کراتے اور پھر اولین فرصت میں بیرونی جماعتوں میں بھجوا دیتے تھے۔
جناب محمد یوسف صاحب سابق کارکن نظارت دعوت و تبلیغ حال آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ کا بیان ہے کہ:۔
>جماعتوں سے رابطہ کے لئے خطوط بھیجنے کا ہی ذریعہ باقی رہ گیا چنانچہ خطوط کے ذریعے احباب جماعت سے رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ان خطوط کی چھپائی اور ترسیل کا کام میرے ذمہ ہوا۔ میں ان دنوں صیغہ نشر و اشاعت میں تھا مجھے ایک دفتری~ف۴2]~ [rtf اور ایک مددگار کارکن ملا ہوا تھا۔ خط کا مضمون مغرب کے قریب مل جاتا۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر ہم لوگ دفتر پہنچ جاتے۔ میں موصولہ مضمون کو سٹینسل پر لکھتا اور پھر خود سائیکلو سٹائل مشین پر اسے چھاپتا تھا یہ مشین پرانی طرز کی تھی )جو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ سے عاریتاً حاصل کی تھی( اس لئے چھپائی پر بہت وقت صرف ہوتا تھا۔
جماعتوں کے کچھ پتے چھپے ہوئے موجود تھے کچھ ہاتھ سے لکھے جاتے یہ سب کچھ تیار کرکے لفافے ڈاک کے ذریعہ بھیجنے کے لئے کبھی نماز فجر تک کبھی اس سے پہلے تیار کر لیتے۔ اگر کبھی کا جلدی ختم ہوجاتا تو نماز فجر سے قبل کچھ آرام کرلیتے صبح پھر دفتر کے وقت حاضر ہوکر پورا وقت دفتر کے کام میں مصروف رہتے۔
چونکہ قریباً ساری رات ہی جاگنا پڑتا تھا اس لئے بھوک بھی لگ جاتی تھی اس کے لئے ہم نے یہ انتظام کیا کہ چائے یا قہوہ جو بھی میسر آئے گھر سے لے آتے اور جب بھوک محسوس ہوتی تو اسے گرم کرکے پیتے` کھانے پینے کی چیزیں بوجہ فسادات ربوہ نہیں آرہی تھیں چائے یا قہوہ کے ساتھ کبھی چنے ابلے ہوئے اور کبھی یہ میسر نہ آتے تو خالی چائے یا قہوہ پی کر گزارا کر لیتے تھے۔<
‏]ydob [tagان خطوط میں جماعتی خبروں کے علاوہ مرکزی اداروں کے اعلانات اور بعض دیگر اہم رپورٹیں بھی شامل کی جاتی تھیں۔ حضرت مصلح موعود کی واضح ہدایت یہ تھی کہ اس میں کوئی ہراس پھیلانے والی خبر نہیں ہونی چاہئے۔ حضور نے اس پر سختی سے کاربند رکھنے کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ناظر اعلیٰ کو خاص طور پر اس امر کی تاکید فرما رکھی تھی۔
یہ خطوط اپنی افادیت کے اعتبار سے مرکزی خبرنامہ کی حیثیت رکھتے تھے جن سے سب پاکستانی جماعتوں کا رابطہ اپنے مرکز سے قائم رہا اور یہ جہاں جہاں بھی پہنچے جماعتوں میں استقلال اور بشاشت اور صبر کی نئی روح پیدا ہوگئی۔
یہ انتظام ۳۰ مارچ ۱۹۵۳ء تک یعنی کراچی سے روزنامہ >المصلح< کے شرح ہونے تک جاری رہا اور ساتھ ہی دفتر اطلاعات بھی ختم کردیا گیا۔
ذیل میں بعض بلیٹن معہ ضروری ہدایات کے درج کئے جاتے ہیں:۔
>اطلاعات<
)بلیٹن ۴ جماعت کے لئے(
برادران! السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
>ربوہ ۱۰ مارچ۔ حضرت اقدس۔۔۔۔۔ ایدہ اللہ نبصرہ العزیز ی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ نزلہ نسبتاً آرام ہے۔ مگر گلے میں درد ہے۔ اور سر درد کی تکلیف ہے۔ احباب کرام دعا فرما دیں۔
حضور انور نے آج اور کل ڈیرہ اسماعیل خاں` لاہور` شیخو پورہ` ضلع لائل پور` ڈھاکہ` گجرات اور راولپنڈی کے متعدد احباب کو شرف ملاقات بخشا۔
سیالکوٹ کے متعلق بعض احمدیوں کے جانی نقصان کی خبریں مشہور ہوگئی تھیں۔ لیکن چوہدری نذیر~ف۵~ احمد صاحب کا تار موصول ہوا ہے کہ تمام احباب خیریت سے ہیں۔ فالحمدلل¶ہ۔
کراچی کے مسٹر شریح الدین )نگران ایڈہاک کمیٹی( سیکرٹری سٹوڈنٹس فیڈریشن` اخبار سند آبزور` ڈان ایوننگ سٹار سب نے موجودہ ہنگامہ کی مذمت کی ہے۔ نیز مشرقی پاکستان سے بھی خبر ملی ہے کہ وہاں کا انگریزی و بنگلہ پریس پنجاب ایجی ٹیشن کے خلاف آواز بلند کررہا ہے۔
کراچی جماعت نے >المصلح< کا روزانہ ڈیکلریشن حاصل کر لیا ہے۔ نیز ایک برقی پریس بھی وہاں خریدنے کے انتظامات کے جارہے ہیں۔
ربوہ میں ڈاک تار اور فون کا انتطام حسب دستور باقاعدہ موجود ہے۔ گاڑیاں قریباً وقت پر آا رہی ہیں اور آج سے ربوہ اور سرگودہا کے درمیان بسوں کی ایک سپیشل سروس بھی شروع ہورہی ہے۔
بعض شر پسند عناصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ اور ربوہ کے متعلق مختلف قسم کی افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ ان مکروہ ہتھکنڈوں کے استعمال کی غرض جماعت کو پریشان کرنا ہے۔ ان عناصر کو معلوم ہونا چاہئے کہ احمدیوں کو پریشان کرنے کا یہ طریق نہ اب تک کامیاب ہوا ہے۔ ور نہ انشاء اللہ کبھی آئندہ کامیاب ہوسکتا ہے۔
جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں۔ مرکز احمدیت میں ہر طرح خیریت ہے۔ احباب جاعت اپنے اپنے حالات کے معتلق ڈاک کے ذریعہ باقاعدگی سے اطلاع دیتے رہیں۔ انشاء اللہ مرکز پوری زمہ داری سے اس سلسلہ میں اپنے فرائض کی سرانجام دہی کرے گا۔
اللہ تعالیٰ آپ کا ہر دم حامی و ناصر ہو۔ اور مسرتوں کی لازوال دولت سے مالا مال فرما دے۔
)دستخط( زین العابدین ولی اللہ
۵۳/ ۳۲۔ ۳۔ ۱۱ ایڈیشنل ناظر اعلیٰ<
اطلاعات۔ ربوہ ۱۲ مارچ ۱۹۵۳ء حضرت اقدس۔۔۔۔۔ ایدہ اللہ نبصرہ العزیز کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ >نقرس کی تکلیف شروع ہے۔ پائوں میں جو زخم تھا۔ وہ ابھی باقی ہے احباب صحت کاملہ کے لئے دعا فرماویں۔ آج حضور انور نے سیالکوٹ` گوجرانوالہ` شیخوپورہ کے اضلاع شہر پشاور اور ریاست بہاولپور کے بعض خدام کو شرف ملاقات بخشا۔
آج اور کل مرکز میں کوٹ رحمت خاں` پریم کوٹ` مانگٹ اونچے` لائلپور` گجرات` ڈسکہ` میانوالی` ملتان` مگھیانہ اور دوسرے مقامات سے جماعتوں کی خیریت کے متعلق اطلاعات موصول ہوئیں۔ ان خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے فضل سے اکثر جماعتیں موجودہ حالات میں بڑے صبر و استقلال سے کام لے رہی ہیں۔ اور خدا کے فضل سے سراسیمگی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ لاہور لائلپور اور رالوپنڈی کی جماعتوں نے مصائب کے طوفانوں میں ہمت و استقلال کا نہایت عمدہ نمونہ دکھایا ہے۔
راولپنڈی میں بعض سرکاری افسروں نے ہمارے احمدی ملازمین کو یہ >پیشکش< کی کہ وہ ان کی حفاظت کے لئے ایک محفوظ کیمپ قائم کرا دیتے ہیں۔ مگر انہوں نے کہا کہ وہ اپنے آقا کے حکم کی تعمیل میں اپنے اپنے گھروں میں مرجانا منظور کرسکتے ہیں۔ مگر کیمپ میں جانا منظور نہیں کرسکتے۔
ایک جماعت نے لکھا >یہاں کی جماعت میں خدا کے فضل سے کوئی گھبراہٹ نہیں۔ لیکن ہمیں ہر وقت مرکز کا خیال ہے۔< پچھلے دنوں ایک جگہ سے کسی دوست نے لکھا۔ کہ یہاں شرارت بڑھ رہی ہے۔ اس پر حضرت اقدس۔۔۔۔۔ ایدہ اللہ تعالیٰ نبصرہ العزیز نے یہ جواب رقم فرمایا:۔
>ان شرارتوں کو پکڑنے والا آسمان پر زندہ خدا موجود ہے<
زندہ خدا کس طرح شرارتوں کو پکڑتا ہے۔ اور انسانی تدبیریں خدائی تقدیروں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتی ہیں۔ اس کا نظارہ پہلے ہم نے ہزاروں مرتبہ کیا ہے۔ کیا اس کے بعد بھی ہمیں کوئی فکر امنگیر ہوسکتا ہے۔ نہیں اور ہرگز نہیں۔
احباب ربوہ کی خدمت میں ہدیہ سلام پیش کرتے ہیں۔ اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ شر پسندوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ آپ ہمیں اپنی خیریت کے متعلق جلدی جلدی اطلاع دیا کریں۔ کیونکہ تاخیر سے تشویش ہوتی ہے۔
)دستخط( زین العابدین ولی اللہ
ناظر دعوت و تبلیغ ربوہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام علی عبدہ المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ۔ خدا کرے کہ آپ اور دیگر جملہ برادران احمدیت بخیر و عافیت ہوں۔
سیدنا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ الودود کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ حضور کے پائوں میں تکلیف کچھ زیادہ ہے مگر کھانسی مں کمی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے آقا کو صحت کاملہ و عاجلہ بخشے اور ہزاروں برکتوں اور کامرانیوں کے ساتھ لمبی عمر عطا فرماوے آج اور کل حضور پر نور نے خانیوال` لائلپور` سرگودہا` لالہ موسیٰ` چک پنیار` کراچی` محمد آباد اسٹیٹ سندھ اور جہلم کے بعض خدام کو شرف ملاقات بخشا۔
مربی دین حق مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نے گولڈ کوسٹ )افریقہ( سے یہ خوشکن اطلاع دی ہے کہ کماسی میں جماعت احمدیہ کے بیرون پاکستان میں سب سے پہلے کالج کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید خبر دی ہے کہ اس تقریب پر علاقہ کے بڑے بڑے رئوسا کے علاوہ شنانٹی کے بادشاہ بھی شامل ہوئے۔ سنگ بنیاد کی تقریب کا آغاز کلام پاک کی تلاوت سے کیا گیا۔
وکیل المال ثانی تحریک جدید تحریر فرماتے ہیں کہ ۳۱ مارچ ۱۹۵۳ء کو سیدنا حضرت۔۔۔۔۔ ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں سو فیصدی چندہ ادا کرنے والے مخلصین جماعت کی پہلی فہرست بغرض دعا پیش کی جائے گی۔ آپ تما احباب جماعت کو اس کی اطلاع دے دیں اور پرزور تحریک فرما دیں کہ احباب اپنے وعدوں کو حتی الوسیع جلد تر ادا فرمائیں۔
ہم میں سے کسے معلوم نہیں کہ تحریک جدید کے ذریعہ دنیا کے تمام بیرونی ممالک میں تبلیغ دین حق کا وسیع کام ہورہا ہے۔ )بیوت الذکر۔ ناقل( تعمیر ہورہی ہیں اور رسول خدا~صل۱~ کی عزت و ناموس کے قیام کے لئے دنیا کی مختلف زبانوں میں لٹریچر شائع کیا جارہا ہے پس ہر فرد جماعت کا اولین فرض ہے کہ وہ اس مقدس کام کو جاری رکھنے اور اس کو وسیع کرنے میں ہر ممکن کوشش سے کام لیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ حصہ لے۔
مشکلات ضرور ہیں مگر ان مشکلات پر قابو پانے کا بھی یہی طریق ہے کہ ہم خدا کے دین کی اشاعت کریں اس طرح خدا عرش سے ہماری حفاظت کرے گا اور ہمیں اپنی برکتوں سے نوازے گا۔
براہ کرم تمام احباب جماعت تک یہ مکتوب بھی پہنچا دیں اور احباب ربوہ کا ہدیہ سلام بھی۔ خدا آپ سب کے ساتھ ہو اور خدمت دین اور خدمت رقوم کی توفیق بخشے آمین۔ والسلام
ناظر دعوٰہ و تبلیغ ربوہ
۳۲/ ۵۳۔ ۳۔ ۱۷
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام علی عبدہ المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حضرت اقدس۔۔۔۔۔ ایدہ اللہ نبصرہ العزیز کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ مظہر ہے کہ کھانسی کو آرام ہے۔ ٹانگ کی درد میں اضافہ~ف۶~ ہے اور پائوں کی درد میں بھی قدرے تخفیف مے اللہ تعالیٰ حضور کو صحت کاملہ و عاجلہ بخشے۔ آج حضور نے سیالکوٹ` گوجرانوالہ` چکوال اور لاہور کے بعض خدام کو شرف ملاقات بخشا اور اوکاڑہ` سکھر` گوگیرہ` کنری` کوٹ رحی یار خاں` پندی گھیپ` لیاقت پور اور دوسری جماعتوں کا متعدد خطوط حضور کی خدمت میں موصول ہوئے۔
الحمدلل¶ہ کہ بحیثیت مجموعی حالات پہلے سے بہتر ہورہے ہیں۔ ہمارے محبوب وطن اور محبوب جماعت پر منڈلانے والے بادل اب آہستہ آہستہ چھٹ رہے ہیں اور خدا کے فضل سے مطلع صاف ہورہا ہے۔ لیکن ابھی حالات پوری طرح تسلی بخش نہیں۔ احباب کو ہوشیار رہنا چاہئے اور دعائیں جاری رکھنی چاہئیں۔
لاہور کی ایک معزز غیراحمدی خاتون نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے بذریعہ مکتوب یہ استفسار کیا ہے کہ آپ نے ۱۹۱۷ء میں اپنی ایک تقریر میں جو یہ فرمایا تھا کہ ان کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور۔ ان کا خدا اور ہے اور ہمارا او۔ ہمارا حج اور ہے اور ان کا حج اور۔< اس عبارت کا کیا مقصد ہے؟
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے قلم مبارک سے آج اس کا مندرجہ ذیل جواب رقم فرمایا ہے:۔
>یہ تقریر ایسی ہی ہے جیسے کہ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا کہ جو سورٰہ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی حالانکہ ساے حنفی سورہ فاتحہ نہیں پڑھتے۔ بعض دفعہ زور دینے کے لئے یہ الفاظ کہے جاتے ہیں اور مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ لوگ مغز کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ یہی مراد اس تقریر کی ہے یعنی عام طور پر مسلمان نماز جلد جلد پڑھتے ہیں حج کو غریب جاتے ہیں۔ جن پر حج فرض ہے وہ نہیں جاتے۔ پس مراد یہ نہیں کہ مسائل الگ الگ ہیں بلکہ نماز` حج` زکٰوٰہ ہماری اور دوسروں کی ایک ہے۔ میری تقریر کا منشاء اس بات پر زور دینا ہے کہ ان لوگوں میں اسلام کی شرائط پوری کرنے کی طرف سے سستی ہے تم شرائط کو پورا کرو۔<
براہ کرم اپنی اور جملہ احباب کی خیریت سے اطلاع دیں اور مندرجہ بالا مکتوب ان تک پہنچا کر شکست کا موقعہ بخشیں۔
اللہ تعالیٰ آپ سب پر اپنی بے انتہا رحمتوں کے دروازے کھولے اور مشکلات و مصائب کے راستے ہمیشہ کے لئے بند کردے۔ آمین
والسلام
ناظر دعوٰہ و تبلیغ۔ ربوہ ۳۲/ ۵۳۔ ۳۔ ۱۹
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام علی عبد المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ >پائوں کا زخم مند مل ہورہا ہے اور دوسرے عوارض میں بھی افاقہ ہے۔< فالحمدلل¶ہ علی ذالک
آج حضور پر نور نے نہایت ہی لطیف پیرایہ میں دوستوں کو دعا اور انابت الی اللہ کی طرف توجہ دلائی اور ارشاد فرمایا کہ ہمارا فض ہے کہ ہم خوشی غمی` رنج و راحت اور عسر یسر میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہی رجوع کیا کریں اور ہر حال میں اسی سے مدد و نصرت کے طلب گار ہوں کیونکہ وہی ہمارا سہارا ہے۔
حضور نے خطبہ کے آغاز میں فرمایا کہ دنیا میں جب کبھی کسی شخص کو کوئی تکلیف یا خوشی پہنچتی ہے تو وہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کی طرف دوڑتا ہے اور فطرتاً چاہتا ہے کہ وہ انہیں بھی اپنے رنج اور راحت میں شریک کرے۔ اسی فطری جذبہ کے ماتحت شادی بیاہ پر تمام رشتہ دار اکٹھے ہوجاتے ہیں اور موت کے مواقع پر بھی برادریوں کا اجتماع ہوتا ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ جذبہ خدا تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک بچہ کو باہر کھیلتے ہوئے اگر شیشے کا چمکتا ہوا ٹکڑا بھی مل جاتا ہے تو وہ خوشی میں دوڑ کر فرواً ماں کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اماں مجھے یہ ٹکڑا ملا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بچے کو ذرا سی بھی تکلیف پہنچاتا ہے تو اس صورت میں بھی وہ اپنی ماں کی طرف بھاگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میری ماں مجھے بچائے گی۔
یہ مثال بیان کرنے کے بعد حضور نے فرمایا کہ جس طر بچہ مصیبت اور خوشی کے وقت اپنی ماں کی طرف بھاگتا ہے۔ اسی طرح ایک سچا مومن بھی اپنی تکلیف اور خوشی کی گھڑیوں میں اپنے مالک حقیقی اور اپنے قار مطلق خدا کی طرف بھاگتا اور اس کے آستانہ پر اپنا سر رکھ دیتا ہے۔
اسی لئے ہمارا آقا سیدنا حضرت رسول مقبول~صل۱~ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم ہر تکلیف اور مصیبت کے وقت انا للہ وانا الیہ رجعون پڑھیں جس کے یہ معنی ہیں کہ ہماری مصیبت کو دور کرنے والا خدا کے سوا کوئی نہیں اس لئے ہم اس کی طرف جاتے اور اسی سے مدد کی درخواست کرتے ہیں۔ اسی طرح حضور نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب تمہیں کوئی خوشی اور راحت پہنچے تو الحمدلل¶ہ کہو جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے خدا یہ انعام تیری ہی وجہ سے ہمیں عطا ہوا ہے اور تو ہی ہماری شکر گزاری کا حقیقی حقدار ہے۔ مگر فرمایا کہ جس طرح فاتر العقل بچے خوشی اور غمی میں اپنی ماں کی طرف نہیں دوڑتے اسی طرح فاتر العقل انسان بھی دعا اور عبادت سے غافل رہتے ہیں لیکن وہ لوگ جو عقل و دانش کے مالک ہوتے ہیں ان کے لبوں پر خوشی کے وقت بھی خدا کا ذکر ہوتا ہے اور مصیبت کے وقت بھی اسی کی یاد ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔ براہ کریم یہ مکتوب تمام احباب جماعت تک پہنچا دیں اور کوشش کریں کہ احباب جماعت پنجوقتہ نمازوں کے علاوہ ان ایام میں تہجد کا بھی التزام کریں اور اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ ذکر الٰہی اور دعائوں کے لئے وقف رکھیں۔
خدا تعالیٰ ہمیں بے شمار رحمتیں اور برکتیں دینے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ اے کاش ہم اس کے وفا دار ثابت ہوں اور اس کے دامن سے لپٹ کر ان برکتوں کے طالب ہوں جو ہمیشہ صادقوں کے لئے مقدر ہیں۔ والسلام
ناظر دعوٰہ و تبلیغ ربوہ ۳۲/ ۵۴ ۳۔ ۲۰
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام علی عبد المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ الودود کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ >عام طبیعت اچھی ہے پائوں میں درد ہے< اللہ تعالیٰ حضور کو صحت کاملہ و عاجلہ بخشے۔
احباب یہ خبر سن کر بے حد خوشی محسوس کریں گے کہ درس قرآن کی وہ پاک محفل جس سے جماعت کئی دنوں سے محروم تھی کل ہفتہ سے پھر شروع ہوگئی ہے چنانچہ کل حضور نے سورٰہ مریم ع کی بعض آیات کی لطیف تفسیر بیان فرمائی اور بائبل کے مقابل قرآن مجید کے نظریات کی صداقت کو تاریخ اور عقل کی روشنی میں ثابت کر دکھایا کہ مسیح کی پیدائش جیسا کہ بائبل میں آیا ہے دسمبر میں نہیں ہوئی بلکہ ایسے موسم میں ہوئی جب کھجوریں پکتی ہیں۔
نیروبی )افریقہ( سے مبلغ احمدیت جناب شیخ مبارک احمد صاحب نے بذریعہ مکتوب احباب جماعت کو یہ مژدہ سنایا ہے کہ قرآن کریم کے سوا حیلی ترجمہ کے آخر مسودات پریس کے سپرد کر دیئے گئے ہیں اور خدا کے فضل سے امید ہے کہ ماہ ڈیڑھ ماہ تک قرآن کریم کا ترجمہ چھپ کر تیار ہوجائے گا۔ احباب دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ جناب شیخ صاحب موصوف کی اس دینی خدمت کو قبول فرماوے اور قرآن کی روشن تعلیمات کی بدولت افریقہ کا تاریک براعطم جگمگا اٹھے۔
شیخ صاحب موصوف نے اپنے مکتوب میں نیروبی کے مشہور روزنامہ ڈیلی کرانیکل کے تراشے بھی ارسال کئے ہیں جن میں پنجاب کی موجودہ ایجی ٹیشن کا ذکر ہے اور لکھا ہے کہ اس ایجی ٹیشن کی وجہ سے افریقہ کے غیر مسلم عناصر پر یہ اثر ہے کہ پاکستان کے عوام میں مذہبی آزادی نہیں ہے اور جبر و اکراہ سے کام لیا جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان میں باہمی اختلافات اس قدر بڑھ گئے کہ انہیں مضبوطی سے دبانے کی ضرورت ہے۔
یہ لوگ کی بدقسمتی ہے کہ چند فتنہ پرداز لوگوں کی وجہ سے ہمارا محبوب وطن بدنام ہوگیا ہے یقیناً یہ چند لوگوں کا ذاتی فعل ہے اس سے پاکستانی حکومت پر الزام لگانا ظلم ہوگا۔
سرحد کے وزیراعلیٰ خان عبدالقیوم خان صاحب نے حالیہ سرحد اسمبلی کے اجلاس میں ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ صوبہ کے امن کو ہر قیمت پر برقرار رکھیں گے۔ وزیراعلیٰ نے مسلم لیگی ممبروں سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں جاکر لوگوں کو سمجھائیں کہ مذہب کی آڑ میں خلاف اسلام حرکات کا ارتکاب کرنے والے پاکستان کے دشمن ہیں۔
آج کی ڈاک میں احباب جماعت نے گزشتہ ہنگامہ کے سلسلہ میں کئی ایمان افروز واقعات کی اطلاع دی ہے جن کو پڑھ کر خدا تعالیٰ کی نصرت کا زندہ یقین حاصل ہوتا ہے۔ مثلا ضلع شیخو پورہ کے احمدی دوست لکھتے ہیں کہ ایک جگہ چند تنہا اور بے ک احمدیوں پر بے حد سختی کی گئی اور ان کو محاصرہ میں لے لیا گیا۔ ایک احمدی نے کہا کہ اپ لوگ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کہ گزریں احمدیت تو مجھ سے نہیں چھوٹ سکتی۔ احمدی دوست یہ الفاظ کہنے ہی پائے تھے کہ وہاں پولیس پہنچ گئی حالانکہ یہ جگہ تھانہ سے ۱۲ میل کے فاصلہ پر ہے۔
بعض دوسرے مقامات پر احمدیوں کو بچانے کے لئے غیراحمدی شرفا حفاظت کے لئے آگئے اور شر پسند عناصر کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا چنانچہ ایک احمدی خاتون نے لکھا ہے کہ وہ اپنے مکان پر اپنے بچوں سمیت رہتی تھیں کہ تین دفعہ مکان پر حملہ کرنے کی تیاری کی گئی مگر انہیں خدا نے بتایا کہ وہ محفوظ رہیں گی چنانچہ جب آخری بار جلوس آیا تو محلہ کے شریف لوگ از خود اس خیال سے مقابلہ کے لئے آگے آگئے کہ ایک عورت سے نکلوا دینا ایک مسلمان کی شرافت سے بعید یہ۔
اسی طرح ایک احمدی دکاندار جمعہ پڑھنے کے لئے گئے ہوئے تھے کہ اس اثناء میں ہجوم نے دکان پر دھاوا بول دیا مگر ساتھ ہی بعض شریف غیراحمدی دکاندار تھے انہوں نے ہجوم کا مقابلہ کیا اور اس طرح سے اسے ناکامی اٹھانی پڑی۔
بعض مقامات پر محض عزم و استقلال کے اطہار سے مخدوش فضا بدل گئی مثلاً شیخوپورہ کے ایک گائوں میں بعض لوگوں نے احمدیوں کو قتل کی دھمکی دی مگر انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں ذبح کردیں ہمارے بچوں کو تہ تیغ کردیں مگر ہم صداقت کو نہیں چھوڑیں گے اس پر یہ لوگ اپنے ارادوں کو تکمیل سے دستکش ہوگئے۔
غرضیکہ اسی ہنگامہ کے دوران میں خدا تعالیٰ نے بعض جگہوں پر غیر معمولی اسباب نصرت پیدا کرکے اپنے بندوں کی اپنے ہاتھ سے مدد فرمائی جس کے لئے ہم اس کا جس قدر بھی شکریہ ادا کریں بہت کم ہے۔
ضلع سرگودہا کے ایک احمدی دوست اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ مودودیوں اور بعض دوسرے مخالفین جماعتوں میں کچھ ایسے نوجوان پھیلا رہے ہیں جو شرارت کی غرض سے جھوٹے طور پر احمدیت کی طرف منسوب ہوجاتے ہیں۔
براہ کرم یہ مکتوب تمام احباب جماعت تک پہنچا دیں اور اپنے علاقہ کی خیریت سے جلد جلد اطلاع دیتے رہیں۔ والسلام
ناظر دعوٰہ و تبلیغ ربوہ ۳۲/ ۵۳ ۳۔ ۲۲
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام علی عبدہ المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ >انگوٹھے کا زخم ابھی ہے۔ مگر طبیعت نسبتاً اچھی ہے۔< خدا تعالیٰ ہمارے مقدس آقا کو صحت کاملہ و عاجلہ بخشے اور حافظ و ناصر ہو۔
پنجاب کے گزشتہ ہنگامہ میں جماعت کی بعض احمدی مستورات نے ہمت و استقلال کا جو قابل رشک نمونہ دکھایا ہے ناممکن ہے کہ احمدیت کی تاریخ میں انہںی فراموش کیا جاسکے۔ اس سلسلہ میں آج کی ڈاک سے گوجرانوالہ اور شہزادہ ضلع سیالکوٹ سے دو اور واقعات کی اطلاع ملی ہے۔ ان دو واقعات کا خلاصہ یہ ہے کہ ان دو جگہ پر احمدی مستورات اکیلی تھیں کہ بہت بڑا ہجوم حملہ آور ہوگیا اور اس نے قتل و غارت کی دھمکی دی مگر اندر سے صرف ایک ہی آواز آئی اور وہ یہ کہ ہم اپنے آقا کے حکم کے ماتحت گھر میں رہیں گے احمدیت کو نہیں چوڑیں گے خواہ ہمیں قتل کردیا جائے یا ہمارا سامان لوٹ لیا جائے۔ اس آواز میں کچھ ایسا اثر تھا کہ ہجوم کا رخ پلٹ گیا اور شر پسند لوگ واپس چلے گئے۔
لاہور کے ایک احمدی دوست جنہیں حالیہ فسادات میں دکان کے جل جانے کی وجہ سے تقریباً بیس ہزار روپیہ کا نقصان ہوا ہے سیدنا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اخلاص و عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ >جو مال ہمارا گیا ہے ہم خوش ہیں کہ احمدیت کے نام پر گیا ہے۔ ان تمام واقعات سے جو ہماری آنکھوں نے دیکھے ہمارا ایمان اور بھی مضبوط ہوا۔ حضور دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ ایمان کی حالت میں موت نصیب کرے۔< آمین
بیرونی جماعتوں سے آمدہ خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی تک بہت سی جگہوں پر افواہیں پھیلانے کی باقاعدہ مہم جاری ہے مثلاً سیالکوٹ کے ایک حصہ میں یہ افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ ربوہ کو جلا دیا گیا ہے اور جو احمدی وہاں تھے انہیں یا تو زندہ جلا دیا گیا یا قتل کردیا ہے اسی ضلع کے بعض دوسرے مقامات پر یہ چرچا کیا جارہا ہے کہ ۵ لاکھ پٹھان ربوہ پر حملہ کرنے آرہے ہیں۔ تعجب ہے کہ اگر نعوذ باللہ ربوہ واقعی جل چکا ہے تو > ۵ لاکھ پٹھانوں< کویہاں حملہ کے لئے آنے کی کیا ضرورت پڑی ہے؟ دوستوں کو جھوٹی افواہوں کی طرف سے بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔
سیکرٹری صاحب مجلس مشاورت کی طرف سے جماعتوں کو یہ اطلاع بھجوائی جارہی ہے کہ قواعد کے لحاظ سے جماعتوں کو پہلے جتنی تعداد میں نمائندے بھجوانے کا حق تھا اس دفعہ انہیں اس سے نصف تعداد میں نمائندے بھجوانے چاہئیں۔ نیز یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اگر وقتی حالات کے ماتحت امیر یا صدر کو اپنی جگہ چوڑنا مناسب نہ ہو تو وہ اپنی جگہ کوئی دوسرا ذمہ دار نمائندہ مشاورت کے لئے بھجوا سکتے ہیں۔
ضلع سرگودہا کے ایک احمدی دوست کی اطلاع کے مطابق مودودی ہماری جماعتوں میں بعض ایسے نوجوان پھیلا رہے ہیں جو فتنہ پیدا کرنے کی غرض سے احمدیت قبول کرلیتے ہیں اور درپردہ مخالف ہوتے ہیں۔ امید ہے دوست اس قسم کے منصوبوں سے ہوشیار رہیں گے۔
براہ کرم یہ مکتوب تمام احباب جماعت تک پہنچا دیں۔ والسلام
ناظر دعوٰہ و تبلیغ۔ ربوہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام علی عبدہ المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ >پائوں کے زخم میں ابھی کچھ تکلیف ہے اور کھانسی بھی ہے۔< اللہ تعالیٰ ہمارے آقا کو صحت کاملہ و عاجلہ بخشے۔ آچ حضور پر نور نے ضلع شیخوپورہ` جھنگ اور سرگودہا کے بعض خدام کو شرف ملاقات بخشا اور باوجود علالت طبع کے عصر کے بعد قرآن کا درس بھی دیا۔][صوفی محمد رفیع صاحب سکھر سے اطلاع دیتے ہیں کہ سندھ کے مشہور لیڈر پیر پگاڑو نے اپنے ایک بیان میں حالیہ ایجی ٹیشین کی پرزور مذمت کی ہے۔ پیر پگاڑو کا یہ اعلان سندھ کے کئی اخبارات نے شائع کیا ہے۔
دوستوں کی اطلاع کے لئے لکھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آج سے ۴۷ سال قبل اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:۔
>یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کردے گا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکیں گی اور ایک بڑا درخت ہوجائے گا۔ پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلائوں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلائوں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٰ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔ وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی۔ اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت سے پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازہ ان پر کھولے جائیں گے۔<
)الوصیت صفحہ ۸` ۹ طبع اول دسمبر ۱۹۰۵ء(
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ روح پرور کلام احباب جماعت تک پہنچا دیں اور انہیں صبر و استقامت سے کام لینے اور اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرنے کی تلقین کریں اور دوستوں کو تحریک کریں کہ وہ ان ایام میں قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے مطالعہ کی طرف خاص توجہ دیں اور دعائوں پر بہت زور دیا جائے اور جو دوست روزہ کی توفیق رکھتے ہوں وہ روزہ بھی رکھیں کیونکہ روزہ کی حالت میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔
والسلام
ناظر دعوت و تبلیغ۔ ربوہ ۳۲/ ۵۳ /۳ / ۲۵
‏tav.14.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
خاندان مہدی موعودؑ اور مرکز سلسلہ کے اہم واقعات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام علی عبدہ المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
سیدنا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ الودود کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ >نقرس کا دورہ پھر شروع ہوگیا ہے۔ دائیں پائوں کا انگوٹھا متورم ہوگیا ہے اور حرکت مشکل ہو گئی ہے۔< اللہ تعالیٰ حضور انور کو صحت کاملہ و عاجلہ بخشے۔
احباب یہ سن کر خوشی محسوس کریں گے کہ مولوی احمد شاہ صاحب نائیجریا میں پانچ سال تک تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دینے کے بعد ۶ اپریل کو بذریعہ بحری جہاز کراچی پہنچ رہے ہیں۔ مولوی صاحب موصوف کے ساتھ جرمنی کے ایک نومسلم دوست عمر ہوفر صاحب بھی تشریف لارہے ہیں۔ عمر ہوفر صاحب ربوہ میں قرآن مجید اور اسلامیات کی تعلیم حاصل کریں گے اور پھر اپنے ملک کو نور اسلام سے منور کرنے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ان بھائیوں کو خیریت سے یہاں پہنچائے۔
سیر الیون کے مبلغ مولوی محمد صدیق صاحب شاہد کے ہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلی بچی~ف۷~تولد ہوتی ہے۔ دوست دعا فرمائیں کہ نومولدہ دین کی خادمہ بنے اور والدین کے لئے قرٰہ العین ثابت ہو۔
جرمنی سے اطلاع ملی ہے کہ جرمنی کے مبلغ چوہدری عبداللطیف صاحب نے نیورمبرگ کے ایک ہال میں اسلامی تعلیمات کے موضوع پر کامیاب لیچکر دیا۔ صداقت کے فرائض جرمنی کے ڈاکٹر ویزر نے سرانجام دیئے۔ چوہدری صاحب موصوف کی کوششوں سے ایک جرمن لیڈی کے حلقہ بگوش اسلام ہونے کی بھی اطلاع موصول ہوئی ہے۔
سیون سے آمدہ خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مبلغ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب منیر نہایت تندہی سے تبلیغ اسلام میں مصروف ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں سیلون گورنمنٹ کے محکمہ خوراک کے ایک رکن محکمہ جنگلات کے ایک اعلیٰ ممبر` ریلوے کلرک` پوسٹ آفس کے ملازمین اور ایک اساتذہ سے بھی ملاقات کی اور ان تک اسلام کا پیغام پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ مولوی صاحب کے مقاصد اور مساعی میں برکت دے۔
مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب نے جاکرتا )انڈونیشیا( سے اطلاع دی ہے کہ انڈونیشیا کی جماعتیں پاکستان سے متعلقہ خبروں کے باعث کئی دنوں سے دعائوں پر خاص زور دے رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔ لاہور سے شیخ بشیر احمد صاحب اور ان کے رفقاء اور محمد عبد اللہ ایم۔ ایس سی اور ان کے رفقاء کے متعلق خبر موصول ہوئی ہے کہ وہ خدا کے فضل سے بری ہوگئے ہیں اور خیریت سے ہیں۔ فالحمدلل¶ہ علی ذالک۔
براہ کرم یہ مکتوب احباب جماعت تک پہنچا دیں۔ والسلام
ناظر دعوٰہ و تبلیغ۔ ربوہ ۳۲/ ۵۳ ۳۔ ۲۶
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام علی عبدہ المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سیدنا وامامنا حضرت المصلح الموعود ایدہ اللہ الودود کی صحت کے متعلق آج شام کی رپورٹ یہ ہے کہ >نقرس کی درد کا خاصہ شدید دورہ ہوا ہے اور حضور چل پھر نہیں سکتے۔< اللہ تعالیٰ ہمارے محبوب آقا کو ہر تکلیف سے محفوظ رکھے اور صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین
مکرم شیخ ناصر احمد صاحب مبلغ سوئیٹرز لینڈ نے سوئٹرز لینڈ سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں چند استفسارات بغرض جواب تحریر کئے ہیں۔ شیخ صاحب موصوف کے پیش کردہ استفسارات اور حضور انور کے لطیف جوابات آپ کے اضافہ علم کی خاطر درج ذیل ہیں۔
۱۔ سوال۔ اگر شراب کا استعمال ہر صورت اور ہر مقدار میں برا ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس کی حرمت اسلام سے پہلے کسی نبی کے ذریعہ نہ ہوئی اور اگر پہلے جائز تھی تو کیا بائبل کی رو سے انبیاء بھی اس کا استعمال کرتے تھے؟
جواب۔ >کیا ہر زمانہ میں ایک سی ضرورت ہوتی ہے اس طرح تو دنیا کی تمام حکومتوں کے قوانین رد کرنے ہوں گے۔<
۲۔ سوال۔ قرآن کریم میں جانوروں کے خون کی حرمت کا ذکر ہے۔ کیا یہ حرمت صرف اس وجہ سے ہے کہ خون کا استعمال بطور خوراک کے صحت کے لئے مضر ہے؟
جواب۔ >کسی نے صحت کا ذکر نہیں کیا۔ اس کا اثر روحانیت پر پڑتا ہے۔ کبھی مردار خور اور خون کھانے ولا اروحانیت کے مقام تک نہیں پہنچا۔<
۳۔ سوال۔ بعض عیسائیوں کر ہر سال ایسٹر کے دنوں میں مسیح علیہ السلام کے واقعہ صلیب کی یاد میں عین ان مقامات پر زخم پھوٹتے ہیں جہاں حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم مبارک پر کیل ٹھونکے گئے تے۔ بعض لوگ ایسے واقعات کو اپنے مذہب کی صداقت کے طور پر پیش کرتے ہیں اس کی توضیح فرمائی جائے۔
جواب۔ >محض دھوکہ ہے اس قسم کے قصے قبروں کے مجاوروں نے بھی بنا رکھے ہیں ان کو کیوں نہیں مانتے؟<
۴۔ سوال۔ نمازوں کے اوقات میں مغربی ممالک میں مسلمانوں کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ جب تک موجودہ صنعتی نظام رائج ہے کام کے دوران میں نماز کی چھٹی کا ملنا ممکن ہے۔ اس مشکل کا حل کیا ہو؟
جواب۔ >کون سا کام بغیر مشکلات کے ہوتا ہے جہاں ناقابل تلافی مشکل ہو وہاں جمع کا مسئلہ موجود ہے پھر مشکل ہے۔<
ربوہ میں الحمدلل¶ہ خیریت ہے اور عموماً جماعتوں کی طرف سے بھی خیریت کی اطلاع آرہی ہے۔ گو مودودی اصحاب مختلف رنگوں میں فتنہ کو ہوا دے رہے ہیں۔ دوستوں کو ہوشیار اور محتاط رہنے اور دعائوں کی تلقین کرتے رہیں۔ والسلام
شیخ عبد القادر مولوی فاضل~ف۸~
ربوہ ۳۲۵۳ ۳۔ ۲۸
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی عبدہ المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سیدنا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحت کے متعلق آج شام کی رپورٹ یہ ہے کہ >پائوں میں درد ابھی باقی ہے<۔ اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کو صحت کاملہ و عاجلہ بخشے۔
آج حضور پر نور نے لاہور` بقا پور` دوالمیال` لالہ موسیٰ` سرگودہا` وزیرآباد اور لائلپور کے بعض خدام کو شرف ملاقات بخشا۔
ضلع لائلپور کے ایک دوست ایک مکتوب میں مقامی جماعت کے کوائف کے متعلق لکھتے ہیں کہ:۔
>کہیں کہیں یہ افواہ بھی پھیلائی جاتی ہے کہ فلاں فلاں آدمی احمدیت سے تائب ہوگیا ہے۔ ایسی دو تین اطلاعیں ہمارے پاس آئیں۔ ہم نے آدمی بھیج کر پتہ کیا تو ان افواہوں میں ذرہ بھی صداقت نظر نہ آئی بلکہ اپنے دوستوں کو پہلے سے زیادہ احمدیت پر پابد پایا۔<
یہی دوست مقامی جماعت کی اپنی حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:۔
>نمازوں میں حاضری کافی ہوتی ہے۔ دعائیں بہت کی جاتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے پر زور دیا ہے تا لوگ ہمارے اخلاق کی وجہ سے خود بخود ہماری طرف کھچے چلے آئیں۔ حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ کی کتب سے اخلاق کے بارہ میں اقتباسات پڑھ کر سنائے جاتے ہیں اور آنحضرت~صل۱~ کے حسن خلق اور حسن معاملات کا تذکرہ کرکے اخلاق کی درستی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے سو الحمدلل¶ہ کہ جماعت اخلاق میں ترقی کررہی ہے اور اپنی حالت میں بہتری پیدا ہورہی ہے۔ جس کا غیر از جماعت لوگوں پر بہت اچھا اثر ہے۔<
یہی دوست آخر میں لکھتے ہیں:۔
>ہم نے ان ابتلائوں کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کے واضح نشانات بلکہ خود زندہ خدا کو دیکھ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صداقت پر زندہ رکھے اور اسی پر موت دے۔<
مرکز سلسلہ میں خدا کے فضل و کرم سے ہر طرح خیر و عافیت ہے۔ آپ یہ مکتوب اپنے حلقہ احباب تک پہنچاویں اور دعائوں کی تلقین کرتے رہیں۔
اللہ تعالیٰ ہر دم آپ کا حامی و ناصر ہو۔ والسلام
خاکسار احمد خان نسیم
مجلس قیام امن۔ احمد نگر
۵۳/ ۳۲ ۳ / ۲۹
>دفتر اطلاعات< سے متعلق بعض مراسلات
دفتر اطلاعات سے متعلق سیدنا حضرت مصلح موعود` حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور پرائیوٹ سیکرٹری صاحب کے مراسلات درج زیل کئے جاتے ہیں۔
>دفتر اطلاعات
۱۔ کل بھی کچھ خط بھجوائے تھے ان کے متعلق ہدایت ہے کہ پڑھ کر پھر متعلقہ دفاتر میں بھجوانے ہیں کیونکہ جواب انہوں نے بھجوانے ہیں نیز کوئی ہراس پھیلانے والی خبر نہ بھجوائی جائے۔<
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
منسلکہ بلیٹن تو ایسا ریکارڈ ہے جس میں سے عندالضرورت حکام صوبائی )ہوم سیکرٹری۔ آئی جی( اور مرکزی حکام )رائم منسٹر) وزیر داخلہ اور وزیراعظم اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب( کو حضور کی ہدایت کے ماتحت چٹھی لکھتے وقت اس سے ضروری اقتباس حاصل کرنا ہے۔ یہ جماعتوں کے لئے مقصود نہیں۔ بلکہ اس سے ضرورت کے مطابق معلومات اخذ کرنی ہیں اور اسی غرض کے لئے اس کی آٹھ نو کاپیاں کروائی گئی ہیں۔ مولوی دوست محمد صاحب یہ حضور کو دکھا چکے ہیں۔ اطلاعاً عرض ہے۔
اس تعلق میں اختلاف اس بات پر ہے کہ حکام سے خط و کتابت نظارت امور عامہ کرے گی نہ کہ کوئی اور نظارت۔
چوہدری اعجاز نصر اللہ صاحب کو بلا کر ان سے تبادلہ خیال کیا گیا ہے اور یہی صورت مناسب ہے کہ ایسی اطلاعات دفتر میں بطور ریکارڈ رہیں گی۔ عند الضرورت حکام کے ساتھ خط و کتابت کرتے وقت مناسب اقتباس وہ لے لیں گے۔ اس تعلق میں دریافت طلب یہ امر ہے کہ آیا یہ اطلاعات کا ریکارڈ مولوی دوست محمد صاحب کے پاس رہے گا یا نظارت امور عامہ کے پاس۔ اعجاز صاحب کا خیال ہے کہ یہ ریکارڈ مولوی دوست محمد صاحب کے پاس رہے۔ اور وہ عند الضرورت ان سے لے لیں گے۔
جہاں تک مجھے یاد ہے حضور نے یہ بھی فرمایا تھا کہ حکام کو ساتھ کے ساتھ مظالم کے متعلق اطلاعات دی جانی بھی ضروت ہیں اندریں صورت نظارت امور عامہ کی طرف سے بذریعہ چٹھی حکام کو ساتھ لکھا جانا چاہئے۔
والسلام
خاکسار
)دستخط حضرت سید( زین العابدین ولی اللہ )شاہ صاحب(
۵۳/ ۳۲ ۔ ۳۔ ۱۲ ایڈیشنل ناظر اعلیٰ<
۳۔ ۱۶/۱۲۷
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مکرمی مولوی دوست محمد صاحب فاضل
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
آج تقسیم کار کے متعلق حضرت صاحب نے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ امور متعلقہ بنگال )یعنی جن امور کا بنگال پر اثر پڑتا ہو۔ وہ خطوط میں سے نقل کرکے مولوی جلال الدین صاحب شمس کو بھجوایا جایا کریں اور وہ امور جن کا ملک کے نظم و نسق پر اور مرکزی حکومت پر اثر پڑتا ہے اور ان کے ساتھ تعلق ہے وہ خطوط میں سے نقل کرکے مولوی عبدالرحیم صاحب درد ناظر امور عامہ کو بھجوائے جایا کریں اور اس کے علوہ عام امور جو جماعت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور انہیں ہوشیار کرنے یا ان کی ہمت افزائی وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ نقل کرکے سید ولی اللہ شاہ صاحب کو بھجوائے جائیں تاکہ یہ ہرسہ اصحاب اپنے اپنے دائرہ میں مناسب کاروائی کر سکیں اور ریکارڈ بھی رکھ سکیں۔
والسلام
خاکسار )دستخط( مرزا بشیر احمد ناظر اعلیٰ<][۵۳۔ ۳۔ ۱۶
۴۔ ۳۔ ۱۶/ ۱۲۳
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مکرمی مولوی دوست محمد صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
آئندہ ابتدائی خطوط مرتب کرنے میں جہاں اس بات کو نوٹ کیا جائے کہ فلاں جگہ افسروں کا رویہ اچھا نہیں رہا وہاں لازماً اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ اگر کسی جگہ افسروں کا رویہ اچھا رہا ہو تو اس کا بھی ذکر کیا جائے تاکہ دونوں پہلو آجائیں یعنی نقص کا پہلو اصلاحی غرض سے اور تعریف کا پہلو ہمت افزائی اور شکر گزاری کے لحاظ سے۔ آئندہ اس ہدایت کو ضرور مدنظر رکھیں۔
والسلام
)دستخط( مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۳۔ ۱۶ ناظر اعلیٰ<
۵۔ ۳۔۲۱/ ۹۲۲۷ D/P
>بسم اللہ الرحمن الرحیم<
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
مکرمی مولوی دوست محمد صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آئندہ سےآپ کے دفتر کا نام دفتر >ریکارڈ< ہوگا دفتر اطلاعات نہیں ہوگا۔
خاکسار عبد الرحمن انور پرائیویٹ سیکرٹری
۵۳۔ ۳۔ ۲۰ حضرت خلیفہ المسیح الثانی
۶۔ ۵۳۔ ۳۔ ۲۱ / ۴۰۲۰۱۔ ۱
مکرم مولوی دوست محمد صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جہاں خان صاحب کے ایک خط کا اقتباس جس کے متعلق حضور نے ارشاد فرمایا ہے >روزانہ خطوط میں یہ مضمون جائے۔< نقل کرکے آپ کی خدمت میں ارسال ہے۔
والسلام
)دستخط( مرزا بشیر احمد
ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ
۵۳۔ ۳۔ ۲۱
۷۔
نقل اقتباس خط جہان خان صاحب
پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چک نمبر ۹ شمالی ضلع سرگودہا
>مندی بھلوال چک نمبر ۹ شمالی سے ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر ہے وہاں تین چار دکاندر مودودی جماعت کے ہیں ان کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنی جماعت کو باقاعدہ چندہ وغیرہ دیتے ہیں مگر یہ لوگ منافق طرز کے ہیں ہم اور باتیں بھی معلوم کرنے کی کوشش کریں گے دوسرے مجھے خود چٹھی لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ دشمن نے کچھ ایسے نوجوان پھیلا رکھے ہیں جو باہر جماعتوں کے حالات معلوم کریں اور وہ جھوٹے احمدی بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ دو تین دن ہوئے۔ یہاں ایک نوجوان ہمارے پاس آیا اور بیٹھ کر کچھ دیر کے بعد کہنے لگا کہ میں نے احمدی ہونا ہے مجھے احمدی بنا دو اور خط لکھ دو کہ حضرت صاحب بیعت کرلیں یا حضرت صاحب کے پاس خط دے کر مجھے بھیج دو۔ ہم نے سمجھ لیا کہ دشمن کا آدمی ہے پھر اچھی طرح معلوم کرنے سے پورا شک ہوگیا کہ یہ آدمی خراب ہے اس لئے جناب کی آگاہی کے لئے کھا جاتا ہے کہ ایسے نئے احمدیوں سے باخبر رہیں۔ دوسرے لاہور والی جماعت اس شورش سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے کیونکہ پرسوں ہی مجھے ایک ٹریکٹر عراق بغداد سے آیا ہے جس کا عنوان ہے میاں بشیرالدین محمود احمد کے نام کھلی چٹھی۔ جس میں ساری جماعت کو فتنہ محمودی قرار دیا ہے اس ٹریکٹ کے چھپنے کی کوئی تاریخ نہیں ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹریکٹ اسی موقعہ کے لئے انہوں نے چھپوا کر رکا تھا۔ جو باہر ملکوں سے جماعت کے نام بھیج رہے ہیں۔<
۸۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری
مولوی دوست محمد صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
موجودہ ہنگامی ڈاک کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے دریافت کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ یہ حضور کی ابتداء ہدایت تھی لیکن جبکہ اب حضور چٹھی پر جس کا نام لکھیں پہلے ان کو چٹھی جایا کرے پھر وہ خود اس چٹھی کو دفتر ریکارڈ میں بھیج دیا کرے گا۔ چنانچہ فرمایا وہ خود بھی ان چٹھیوں کو جن پر ان کا نام ہوتا ہے بعد ملاحظہ دفتر ریکارڈ میں بھیج دیتے ہیں اطلاعاً عرض ہے۔
خاکسار
عبد الرحمن انور
۵۳۔ ۳۔ ۲۸<
۹۔ >ہوالناصر
مکرمی مولوی دوست محمد صاحب دفتر ریکارڈ
السلام علیکم
)۱( صرف آپ کی اطلاع کے لئے لکھا جاتا ہے کہ لاہور سے خبر ملی ہے۔ کل رات مودودی صاحب مع اپنے بیس تیس ساتھیوں کے گرفتار ہوگئے ہیں۔
)۲( نیز کراچی سے اطلاع ملی ہے کہ المصلح کے چھپنے کا انتظام ہوگیا ہے انشاء اللہ پرسوں سے نکلنا شرعو ہوجائے گا۔
)۳( پرسوں شام کو ریڈیو نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ حکومت پنجاب نے حضرت صاحب کو سیفتی ایکٹ کے ماتحت ہدایت کی ہے کہ موجودہ ایجی ٹیشن کے متعلق کچھ نہ لکھا جائے اور نہ کوئی تقریر کی جائے۔
مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۳۔ ۲۹<
۱۰۔
>ہوالناصر مکرمی مولوی دوست محمد صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
روزانہ خط بہت احتیاط سے تیار ہونا چاہئے اس میں ایک تو لازماً حضرت صاحب اور ربوہ کی خیریت درج ہو اور خاص خاص بیرونی خبریں درج ہوں مگر کوئی بات ایسی نہ ہو جو تشویش پیدا کرنے والی ہو یا حکام کی نظر میں قابل اعتراض سمجھی جائے۔ اس معاملہ میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہر شک والی بات چھوڑ دیں۔
ویسے اپنے طور پر ریکارڈ ساری اطلاعات کا دفتر میں رہنا چاہئے۔
خاکسار
مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۳۔ ۲۹
حواشی
~ف۱~
فاروق ۴ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
~ف۲~
وفات ۷ دسمبر ۱۹۵۵ء
~ف۳~
وفات ۱۳ اکتوبر ۱۹۶۶ء
~ف۴~
محمد لطیف صاحب خال کارکن جائیداد
~ف۵~
وفات ۲۱ دسمبر ۱۹۳۶ء
~ف۶~
)نقل مطابق اصل(۔ اصل لفظ افاقہ ہے سہو کتابت کی وجہ سے اضافہ لکھا گیا ہے۔ مرتب
~ف۷~
نام عائشہ الٰہی صاحبہ )بیگم مولوی مقصود احمد صاحب سابق مبلغ تنزانیہ حال نظارت اشاعت ربوہ(
~ف۸~
وفات ۱۸ نومبر ۱۹۶۶ء
تیسرا باب
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ کا نوٹس
۱۲ مارچ ۱۹۵۳ء کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے حسب ذیل نوٹس جاری کیا:۔
53۔3۔12 Dated 104 ۔No
‏Esquire, Mansoor۔M۔G From
‏S,۔C۔P
‏Jhang, Magistrate, District۔Addl
۔Chiniot at Camp
‏To
‏Secretary The
‏Masih, Khalifatul the To
۔Rabwah
‏Sir,
‏the all gnitageled after that you inform to bonour the have beenI have I me, to Magistrate District a of powers excerciseessential will you that Jang Magistrate, District the by outdirected to Rabwah from telegrams of despatch the over control statefull and infer, comment, not do which India, including Action"stations "Direct the to regard in adversely, conditions the۔province this in movement
‏and inferences comments, such that apreciate will you hope I۔country the of peace to detrimental are you by deussi statements
‏possession my in have I that mention to me for needless is toIt you ask now I facts the corroborating evidence documentry۔over control full exvercise
‏etc etc have I
‏Sir,
‏servant, obedient most Your
‏S, ۔C ۔P Mansoor ۔M ۔G ۔Sd/
‏Magistrate, District ۔Addl
۔Chiniot at Jhang
ترجمہ:۔
نمبر ۱۰۴ مئورخہ ۵۳۔ ۳۔ ۱۲
منجانب جی۔ ایم منصور پی۔ سی۔ ایس
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ۔ چنیوٹ کیمپ۔
بخدمت سیکرٹری صاحب
خلیفہ المسیح ربوہ
جناب عالی!
میں آپ کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے تمام خصوصی اختیارات مجھے تغویض ہوجانے کے بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ نے مجھے ہدایت دی ہے کہ آپ کے یہ گوش گزار کردوں کہ وہ تمام تار جو ربوہ سے بیرونی سٹیشنوں بشمول انڈیا کو ارسال کئے جائں ان میں اس صوبہ میں جاری >راست اقدام< کی تحریک کے سلسلہ میں کوئی تبصرہ نہ ہو` کوئی نتیجہ نہ اخذ کیا گیا ہو۔ اور حالات پر کوئی مخالفانہ بیان نہ ہو۔ ایسے تاروں کی ترسیل پر آپ مکمل کنٹرل قائم کریں گے۔
مجھے امید ہے کہ آپ کو اس امر کا احساس ہوگا کہ ایسے تبصرے` نتائج یا بیانات کا ذکر اگر آپ کی طرف سے ہوگا تو ملک کے امن کے لئے مضر ثابت ہوگا مجھے اس امر کے بیان کرنے کی چنداں حاجت نہیں کہ میرے پاس ایسی تحریری شہادت موجود ہے جس سے وہ امور ثابت ہوجاتے ہیں جن پر مکمل کنٹرول قائم کرنے کے بارے میں میں آپ کو اب ہدایت دے رہا ہوں۔
میں ہوں نہایت تابعدار
آپ کا خادم
دستخط۔ جی۔ ایم۔ منصور پی۔ سی۔ ایس
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ )چنیوٹ(
جواب]0 [rtfحضرت مصلح موعود کی ہدایت پر نظارت امور عامہ نے اس نوٹس کا حسب ذیل جواب دیا:۔
‏From
‏Amma, Umoor Nazir
۔Rabwah Pakistan, Community Ahmadiyya
۔1953 March, 12th Dated 196 ۔No
‏To
‏Esq, Mansoor, ۔M ۔G
۔S۔C۔P
‏Jhang, Magistrate District Additional
۔Chiniot at Camp
‏Sir,
‏have I ۔received been just has 53۔3۔12 dated 104 ۔No letter Your۔follows: as same the to reply to Honour the
‏and situation present eht of gravity the appreciate fully do authoritiesWe the with cooperation full of policy the following ourare facilitate to However, order, In ۔poer our in lies it as far andas nature the know me let kindly to your ask would I ۔beencooperration has objection which to telegrams of telegram the of contents۔senders the of names the as well as taken
‏also are we whether clear it make not does letter your ofFurther, state the regarding information telegraphic any send to ournot of members the gnicfa dangers the and prevailing Deputyaffairs the to Punjab the in places different at Government,comunity Punjab the of Secretaries concerned, theCommissioners of officials the or Punjab, Police of General inspector￿instruction your under come also telegrams such Do ۔Government Central
‏mentioned above two the about know us let Kindly very will you hope besI our of you Assuring ۔convenience earliest your at questions۔operation۔co
‏be to honour the have I
‏Sir,
۔servant tneobedi most Your
‏Khan) Nasrullah (Ijaz
‏Amma Umoor Nazir
۔Rabwah
منجانب ناظر امور عامہ
جماعت احمدیہ پاکستان ربوہ
نمبر ۱۹۶۔ مئورخہ ۱۲ مارچ ۱۹۵۳ء
بخدمت جناب جی۔ ایم۔ منصور صاحب پی۔ سی۔ ایس
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ۔ چنیوٹ کیمپ۔
جناب عالی!
آپ کا مراسلہ نمبر ۱۰۴ مورخہ ۱۲ مارچ ۱۹۵۳ء ابھی ملا۔ اس کا جواب درج ذیل )سطور میں( ملاحظہ فرمائیے۔
موجودہ صورتحال کی نزاکت کا ہمیں پوری طرح احساس ہے اور جہاں تک ہمارے اختیار میں ہے ہم حکومت سے مکمل تعاون کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ تاہم اس تعاون کوسہل بنانے کی غرض سے میں جناب سے درخواست کروں گا کہ جس تار یا تاروں کو قابل اعتراض سمجھا گیا ہے ان کی نوعیت اور مواد سے مجھے مطلع کیا جائے۔ نیز تار بھیجنے والوں کے اسماء سے بھی اطلاع دی جائے۔
علاوہ ازیں آپ کے مراسلہ سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ آیا جو حالات اب پیدا ہوگئے ہیں اور جو خطرات ہماری جماعت کے افراد کو مختلف مقامات پر درپیش ہیں ان کے بارے میں متعلقہ ڈپٹی کمشنروں` پنجاب گورنمنٹ کے سیکرٹریوں` انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب یا مرکزی حکومت کے عہدہ داروں کو تار کے ذریعہ اطلاعات دینے کی بھی مما ہے؟ کیا ایسے تاروں پر بھی آپ کی ہدایات حاوی ہیں؟
مجھے امید ہے کہ آپ مہربانی فرما کر مندرجہ بالا دونوں وضاحت طلب امور کے بارے میں جلد از جلد مطلع فرمائیں گے۔ آخر میں پھر ہم آپ کو اپنے بہترین تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔
میں ہوں
جناب کا ادنیٰ خادم )اعجاز نصر اللہ خاں(
ناظر امور عامہ ربوہ
جناب گورنر صاحب پنجاب کا نوٹس
ابھی اس مراسلہ پر چند دن ہی گزرے تھے کہ صوبہ کی مرکزی مشینری بھی حرکت میں آگئی اور ہوم سیکرٹری حکومت پنجاب نے جناب گورنر صاحب پنجاب کی طرف سے ۱۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو حضرت مصلح موعود کے نام پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ ۱۹۴۹ء کی دفعہ نمبر ۵ کے تحت ایک نوٹس جاری کردیا جو حضرت مصلح موعود کے اس پیغام کی بناء پر دیا گیا تھا جو >فاروق< لاہور ۴ مارچ ۱۹۵۳ء کے صفحہ )ایک( پر شائع ہوا اور جس میں بشارت دی گئی تھی کہ خدا میری مدد کے لئے دوڑا آرہا ہے۔ یہ نوٹس حسب ذیل الفاط میں تھا۔
‏BDSB - 5306
‏view a with that satisfied is Punjab the of ronrevoG the of,Whereas Head the Ahmad, Mahmud Din۔ud۔Bashir Mirza preventing publicto the to prejudicial manner a in acting from sect, directAhmadiyya' to necessary is it order, public of maintenance the and anysafely making from abstain to Ahmad Mahmud Din۔ud۔Bashir Mirza said thethe to relating report or statement any publishing or anyspeech or agitation Ahmadiyya۔anti the or controversy Ahmadiyya۔betweenAhrar enmity or hatred of feeling promote to likely classes;matter various
‏of (d) esualc conferred powers the of exercise in therefore, 1949,Now, Act, safety Public Punjab the of 5 section of (1) section۔aforesaidsub the direct to pleased is punjab the of Governor speechthe any making from abstain to Ahmad Mahmud Din۔ud۔Bashir theMirza to relating report the or statement any publishing oror agitation Ahmadiyya۔anty the or controversy Ahmadiyya۔betweenAhrar enmity or hatred of feelings promote to likely matter any۔classes dirrerent
‏Punjab the of Governor the of reord By
‏Ahmad, Din Ghiasud ۔S (Sd)
‏Punjab Govt, to Secretary Home
‏1953 March, 18th Dated
نمبر ۵۳۰۶۔ بی ڈی ایس بی
ہر گاہ کہ گورنر پنجاب کو یہ قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد سربراہ فرقہ احمدیہ کو ایسے طرز عمل سے روکا جائے جو عوامی حاظت کے خلاف ہو اور امن عامہ میں خلل انداز ہونے کا موجب ہو اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہر کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد موصوف کو ہدایت کی جائے کہ وہ احرار۔ احمدی تنازع یا جماعت احمدیہ کے خلاف ایجی ٹیشن یا اور کسی امر کے بارے میں جس سے مختلف طبقات کے مابین منافرت یا دشمنی کے جذبات کے ابھرنے کا امکان ہو تقریر کرنے یا بیان یا رپورٹ شائع کرنے سے احتراز کریں۔
لہذا پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ مجریہ ۱۹۴۹ء کی دفعہ ۵ کی زیلی دفعہ اجز )د( کے تفویض کردہ اختیارات کے مطابق گورنر پنجاب متذکرہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کویہ حکم دیتے ہیں کہ وہ احرار ۔ احمدی تنازعہ یا جماعت احمیہ کے خلاف ایجی ٹیشن یا اور کسی امر کے بارے میں جس سے مختلف طبقات کے درمیان منافرت یا دشمنی کے جذبات ابھرنے کا امکان ہو کوئی تقریر کرنے یا بیان دینے یا رپورٹ شائع کرنے سے احتراز کریں۔
بحکم گورنر پنجاب
)دستخط( ایس۔ غیات الدین احمد۔
ہوم سیکرٹری گورنر پنجاب
مئورخہ ۱۸ مارچ ۱۹۵۳ء
حضرت مصلح موعود کا پرشوکت جواب
حکومت پنجاب کی خصوصی ہدایت پر ۱۹ مارچ ۱۹۵۳ء کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس جھنگ ربوہ پہنچے اور گورنر پنجاب کا یہ نوٹس حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بغرض تعمیل پیش کیا حضور نے نوٹس تو لیا مگر ساتھ ہی نہایت پر جلال انداز میں ارشاد فرمایا:۔
>آپ اس وقت اکیلے مجھ سے ملنے آئے ہیں اور کوئی خطرہ محسوس کئے بغیر میرے پاس پہنچ گئے ہیں اسی لئے کہ آپ کو یقین ہے کہ گورنمنٹ آپ کی پشت پر ہے پھر اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ گورنمنٹ کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے حکومت آپ کی مدد کرے گی۔ تو کیا میں جو خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ ہوں مجھے یقین نہیں ہونا چاہئے کہ خدا میری مدد کرے گا۔ بے شک میری گردن آپ کے گورنر کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ کے گورنر کی گردن میرے خدا کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کے گورنر نے میرے ساتھ جو کچھ کرنا تھا وہ کر لیا اب میرا خدا اپنا ہاتھ دکھائے گا۔~<ف۱~]2 [rtf
ہزایکسی لینی گورنر صاحب کو جوابی مراسلہ
حضرت مصلح موعود نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس ضلع جھنگ کے واپس جانے کے بعد عزت ممماب گورنر صاحب کو اپنے مبارک دستخط سے حسب ذیل جوابی مراسلہ بھی بھیجا۔
‏Form
‏Ahmad, Mahmud ۔B۔M
‏Community, Ahmadiyya the of Head
۔Jhang Dist, Rabwah,
۔1953 March, 20th Dated
‏To
‏Excellency His
‏Punjab the of Governer The
۔erohaL
‏Excellency, Your
‏served Jhang ۔P ۔S ۔D the March, 19th Thursday of afternoon the YourOn under Punjab Secretary Home the by signed notice a me Subon of (d) Clause 1949 Act safety the under order ofExcellency's reson the understand not do I Though ۔5 Section of (1) ofSection Maududi Maulvi like aggressors when specially notice literaturethis distributing vigorously more even are Islami۔i۔takenJamaat actions all that declaring and Community Ahmadiyya the tsniaandag cruel and unjust are lawlessness suppress to Government the takenby been has action no still and fail them make will they spreadthat being are rumours further, And ۔know I as far as them thatagainst or burnt been having Rabwah or murder my about either day theevery in anxiety great cause which over all recanted have Ahmadies۔Ahmadies the of minds
‏cause the is misunderstanding some that think I circumstances the asIn not, or misunderstanding any is there whether But ۔notice this fothe of Government the of orders the obey to us on enjoines toIslam me ordered has who God to honour my of matter the obey will I day۔Government the obey
‏vindicate and you to truth the reveal may He that God to pray I۔times difficult these in Pakistan help and honour my
‏be, to honour the have I
‏Sir
‏obedient most Your
‏servant,
‏Din۔ud۔Bashir (Mirza
‏Ahmad) Mahmud
‏Ahmadiyya the of Head
۔community
از ایم۔ بی۔ محمود احمد
امام جماعت احمدیہ ربوہ )ضلع جھنگ(
مئورخہ ۲۰ مارچ ۱۹۵۳ء
بخدمت جناب عزت ممماب گورنر صاحب پنجاب۔ لاہور
جناب عالی
جمعرات مورخہ ۱۹ مارچ کو بعد دوپہر ڈی۔ ایس۔ پی جھنگ نے ایک حکم نامہ سے مجھے اطلاع دی ہے جس پر آں عزت ممماب کے حکم کے تحت ہوم سیکرٹری پنجاب کے دستخط تھے اور جو سیفٹی ایکٹ مجریہ ۱۹۴۹ء کی دفعہ ۵ کی ذیلی دفعہ اجز )د( کے تحت جاری کیا گیا تھا۔
مجھے اس )نوٹس( حکم نامہ کے جاری کئے جانے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی بالخصوص جب کہ جماعت اسلامی کے مولوی مودودی صاحب جیسے جارح افراد پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے جماعت احمدیہ کے خلاف لٹریچر تقسیم کرنے میں مصروف ہیں اور اس امر کا برملا اعلان کررہے ہیں کہ حکومت نے لاقانونیت کو دبانے کے لئے جو اقدامات کئے ہیں وہ تمام کے تمام غیر منصفانہ اور ظالمانہ ہیں اور یہ کہ انہوں نے ان کو ناکام کردینے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ تاہم جہاں تک میرا علم ہے ان کے خلاف کوئی اکروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں روزانہ اس امر کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں کہ مجھے قتل کردیا گیا ہے یا ربوہ کو جلا دیا گیا ہے یا یہ کہ ہر جگہ کے احمدی اپنے عقائد سے دستبردار ہوگئے ہیں اور ان افواہوں سے احمدیوں کو بے حد فکر لاحق ہورہا ہے۔
ان امور کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ یہ نوٹش کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے لیکن اس قطع نظر کہ یہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے یا نہیں چونکہ اسلام کا یہ حکم ہے کہ حکومت وقت کے احکام کی تعمیل کی جائے میں اپنے علم اور سمجھ کے مطابق ہر طرح ان کے احکام کی تعمیل کروں گا اور اپنی عزت کا معاملہ خدا پر چھوڑتا ہوں جس نے مجھے حکومت کے احکامات کی تعمیل کا ارشاد فرمایا ہے۔
میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ پر حق کھول دے` میری عزت کی لاج رکھے اور ان پریشان کن حالات میں پاکستان کی مدد فرمائے۔ میں ہوں جناب کا تابعدار )مرزا بشیر الدین محمود احمد( امام جماعت احمدیہ
اخبارات میں ذکر
اس نوٹس کی خبر پنجاب پریس نے بڑے طمطراق سے شائع کی۔ چنانچہ اخبار نوائے وقت )لاہور( نے لکھا:۔
مرزا بشیر الدین محمود کے نام حکم
لاہور ۲۷ مارچ۔ ایک سرکاری اعلان مظہر ہے کہ حخومت پنجاب نے تحریک قادیان کے امیر مرزا بشیر الدین محمود کو حکم دیا ہے کہ وہ احرار اور قادیانیوں کے اختلاف یا قادیانیوں کے خلاف تحریک کے بارے میں کسی قسم کا بیان` تقریر یا اطلاع یا کوئی ایسا مواد شائع نہ کریں جس سے مختلف طبقوں میں نفرت یا دشمنی کے جذبات پیدا ہونے کے اندیشہ ہو۔ یہ حکم پنجاب سیفٹی ایکٹ کی دفعہ ۵ کے ماتحت دیا گیا ہے۔~ف۲~
ہوم سیکرٹری صاحب پنجاب کو اطلاع
ہوم سیکرٹری گورنمنٹ پنجاب جناب غیاث الدین احمد صاحب نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس جھنگ کو ہدایت کی تھی کہ وہ جناب گورنر صاحب پنجاب کا نوٹس پہنچانے کے علاوہ )حضرت( امام جماعت احمدیہ سے یہ بھی کہیں کہ آپ تمام احمدیوں کو حکم دیں ک وہ احراری تنازع یا جماعت احمدیہ کے خلاف شورش کے بارے میں نہ لکھیں نہ کہیں۔
سیدنا حضرت مصلع موعود نے اس ضمن میں ہوم سیکرٹری صاحب پنجاب کے نام حسب ذیل چٹھی لکھی۔
‏From
‏Ahmad, Mahmud Din۔ud۔Bashir Mirza
‏Community, Ahmadiyya the of Head
۔Jhang Dist, Rabwah,
‏1953 March, 20th Dated
‏To
‏Punjab, of secretary Home
۔Lahore
‏Sir, Dear
‏convey to him instructed you that Jhang ۔P ۔S ۔D the by told was sayI not should the that Ahmadies all instuct should I that me controversyto Ahmadiyya۔Ahrar about report or statement any publish Excellenceor His as that him told have I ۔agitation Ahmadiyya۔Anti aboutor anything publishing or saying from refrain to me ordered cannothas I etc hatred of feelings promote to likely are which somethingmatters contain may write I whatever that possible is It ۔that do
‏objectionable be may opinion, my in objectionable not though which,۔Government the of opinion the in
‏issue to me asked Jhang ۔C ۔D back weeks three about that know atYou But ۔it did I and peaceful remain to community the to orders۔not am I now which agent free a was I time that
‏be, to honour the have I
‏Ahmad) Mahmud Din۔ud۔Bashir (Sd)(Mirza
منجانب مرزا بشیر الدین محمود احمد
امام جماعت احمدیہ ربوہ ضلع جھنگ
مورخہ ۲۰ مارچ ۱۹۵۳ء
بخدمت جناب ہوم سیکرٹری صاحب پنجاب۔ لاہور
جناب من! ڈی ایس پی صاحب جھنگ نے مجھے بتلایا ہے کہ آپ نے انہیں یہ ہدایت دی تھی کہ وہ مجھے اس امر سے مطلع کریں کہ میں تمام احمدیوں کو حکم دوں کہ وہ احرار۔ احمدی تنازع یا جماعت احمدیہ کے خلاف ایجی تیشن کے بارے میں نہ تو کوئی بات کہیں اور نہ کوئی بیان یا رپورٹ شائع کریں۔ میں ے انہیں جواب دیا ہے کہ چونکہ ممماب گورنر صاحب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں کوئی ایسی بات نہ کہوں نہ شائع کروں جس سے اشتعال پیدا ہونے کا امکان ہے اس لئے میں اس حکم کی تعمیل سے معذور ہوں۔ کیونکہ اس امر کا امکان ہے کہ جو کچھ میں لکھوں وہ اگرچہ میری دانست میں قابل اعتراض نہ ہو لیکن حکومت کی نگاہ میں وہ قابل اعتراض ٹھہرے۔
آپ جانتے ہیں کہ قریباً تین ہفتہ قبل ڈی۔ سی۔ جھنگ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں اپنی جماعت کے افراد کو پر امن رہنے کی ہدایت جاری کروں اور میں نے ایسی ہدایت جاری کردی تھی۔ اس وقت ایسی ہدایت جاری کرنے پر مجھ پر کوئی پابندی نہ تھی لیکن اب مجھ پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
خاکسار
دستخط )مرزا بشیر الدین محمود احمد(
خدائی نشان کا ظہور
سیدنا حضرت مصلح موعود نے ۱۹ مارچ ۱۹۵۳ء کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس جھنگ کو قوت یقین سے لبریز جن الفظ میں قبل ازوقت خبر دے دی تھی۔ وہ چند دنوں کے اندر اندر ایسے حیرت انگیز طریق پر پوری ہوئی کہ ایک عالم انگشت بدنداں رہ گیا۔ پاکستان کی مرکزی حکومت کے حکم سے مسٹر آئی آئی چندریگر کو جو اس وقت گورنر پنجاب تھے برطرف کردیا گیا اور ان کی جگہ میاں امین الدین صاحب گورنر پنجاب مقرر ہوئے جنہوں نے یکم مئی ۱۹۵۳ء کو یہ ظالمانہ نوٹس واپس لے لیا۔ اس درست اور مبنی پر انصاف اقدام پر جماعت احمدیہ کی طرف سے گورنر صاحب پنجاب اور حکومت پاکستان کو مبارکباد دی گئی اور اس حقیقت پر ایک بار پھر مہر تصدیق ثبت ہوگئی کہ
جو خدا کے ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زار و نزار
خطبہ جمعہ میں نوٹس پر عارفانہ تبصرہ
حضرت مصلح موعود نے اگلے سال سال ۴ احسان ۱۳۳۳ ہش ۴ جون ۱۹۵۴ء کے خطبہ جمعہ کے دوران چندریگر صاحب کے نوٹس پر عارفانہ تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:۔
>انسان کے ساتھ جو والدین کا تعلق ہے وہی تعلق حکومت کا ہے۔ اگر حکومت کہتی ہے کہ تم فلاں جگہ کھڑے ہوجائو تو ہم اس کے حکم کی اطاعت کریں گے اور اس جگہ کھڑے ہوجائیں گے اگر وہ کہتی ہے فلاں کام کرو تو ہم کردیں گے۔ لیکن اگر وہ کہے کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق فلاں بات مت کہو تو ہم اس کی اطاعت نہیں کریں گے یہاں حکومت کے قوانین ختم ہوجاتے ہیں اس کے بعد وہ بے شک ڈنڈا چلائے لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے تم اس کی اطاعت نہ کرو تم وہی کہو جو میں کہتا ہوں مثلاً اگر تم کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ قادر ہے تو بے شک حکومت یہ قانون بنا دے کہ تم خدا تعالیٰ کو قادر نہ کہو کیونکہ ایسا کہنے سے ان لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کو قادر تسلیم نہیں کرتے پھر بھی خدا تعالیٰ کا حکم یہی ہوگا کہ تم اسے قادر کہتے رہو۔
گزشتہ سال میں نے ایک اعلان میں کہا تھا کہ خدا تعالیٰ ہماری مدد اور نصرت کو آرہا ہے وہ چلا آرہا ہے وہ دوڑتا آرہا ہے۔ اس پر حکومت نے مجھے نوٹس دیا کہ تم نے ایسا کیوں کہا؟ اس سے دوسرے لوگوں کو اشتعال آیا ہے۔ ہاں نوٹس دینے والے افسر نے اتنی اصلاح کرلی کہ اس نے کہا تم احرار کے متعلق کوئی ذکر نہ کرو۔ اگر وہ مجھے یہ حکم دیتے کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ مدد کو آرہا ہے یا یہ کہو کہ وہ مدد کو نہیں آتا تو دنیا کی کوئی طاقت مجے اس بات کو تسلیم کرلینے پر آمادہ نہ کرسکتی۔ اس لئے کہ وہ اس طرح کا حکم دے کر قران کریم پر حکومت کرنا چاہتے اور یہ ایسا حکم تھا جس کا ماننا جائز نہ ہوتا۔ اگر کوئی حکومت یہ کہے کہ تم خدا تعالیٰ کواک نہ سمجھو تو ہم کہیں گے عقائد کے بارے میں تمہاری حکومت نہیں چلتی۔ تمہاری حکومت ایسے اموت میں چلے گی جو دنیوی ہوں۔ مثلاً کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ تم لوگوں کو خوب مارو تو حکومت اس پر ایکشن لے سکتی ہے لیکن اس لحاظ سے نہیں کہ وہ ایسا عقیدہ کیوں رکھتا ہے بلکہ اس وجہ سے کہ وہ اس عقیدہ کو عملی جامعہ پہنا رہا ہے حکومت اعمال پر کنٹرول کرسکتی ہے عقائد پر نہیں۔ قرآن کریم میں بہت زیادہ زور ماں باپ کی اطاعت پر دیا گیا ہے لیکن جب عقیدہ کے بارے میں ان کی بات بھی نہ ماننے کا ہکم ہے تو اور کسی کی بات کیوں مانی جائے۔ پس جو چیزیں خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض کی گئی ہیں انہیں پورا کرو۔ جب انسان ایسے امور میں دخل دے جن میں اسے دخل نہیں دینا چاہئے تو اس کی اطاعت مت کرو لیکن اگر کوئی حکومت یا فرد اپنے غرور مسیت تک تو مومن خدا تعالیٰ کے پاس چلا جاتا ہے اور مسجد کسی ملاں کو بچاتے یا نہ بچائے خدا تعالیٰ اپنے مومن بندہ کو ضرور بچا لیتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو نہایت واضع ہے۔ پس ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ یہ یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ اسے بچائے گا چاہے کوئی اسے پھانسی پر ہی چڑھا دے وہ پھانسی پر بھی یہ یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ اسے بچائے گا۔ جب تک کوئی شخص اس قسم کا یقین نہیں رکھتا اس کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا ہے~<ف۳~
حضرت چوہدری محمدظفراللہ خان صاحب کی غیرایمانی کا ایک واقعہ0] [rtf
احراری ایجی ٹیشن کے دوران چوہدری ظہور احمد صاحب~ف۴~ آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ اور ملک محمد عبد اللہ صاحب~ف۵~ مولوی فاضل کارکن نظارت تالیف و تصنیف کو کوئی بار مرکز سلسلہ کے نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے کراچی میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان~ف۶~ صاحب وزیر خارجہ پاکستان سے ملاقات کا موقعہ ملا۔ بلکہ ملک صاحب موصوف تو محض اسی >جرم< کی پاداش میں ڈیڑھ ماہ تک جھنگ اور لاہور میں قید بھی رہے۔2] fts~[ف۷~
محترم ملک صاحب کا بیان ہے کہ:۔
>ایک بار میں جب چوہدری صاحب خدمت میں حاضر ہوا تو حالات بہت نازک تھے اور یہ خبر گرم تھی کہ ربوہ سے تمام چیدہ چیدہ افراد گرفتار کر لئے جائں گے اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا نام سرفہرست ہے )گو ایسا واقعہ ہوا نہیں تھا(
جناب چوہدری صاحب کو کہیں سے اطلاع مل گئی تھی۔ اس ملاقات میں جب پیغامات وغیرہ ختم ہوگئے اور میں واپس آنے لگا تو چوہدری صاحب نے مجھے دوبارہ بٹھا لیا۔ اور فرمایا کہ مجھے ایسی خبر ملی ہے۔ بعض اوقات صوبائی حکومت ازخود ایسا سخت قدم اٹھا لیتی ہے اور مرکزی حکومت کو بعد میں اطلاع ملتی ہے آپ میری طرف سے حضور کی خدمت میں یہ گزارش کردیں کہ اگر خدانخواستہ کوئی ایسا واقعہ ہوگیا تو میں ایک منٹ کے لئے بھی اپنے عہدہ پر نہیں رہوں گا اور مستعفی ہوکر ربوہ آجائوں گا۔ چوہدری صاحب کی آواز اس وقت بہت گلوگیر تھی۔ خود میری کیفیت بھی چوہدری صاحب کے اس بے پایاں اخلاص کی وجہ سے بے حد متاثر تھی۔ نیز چوہدری صاحب نے فرمایا کہ حضرت اقدس کا خیال ہے کہ میں ربوہ کی گرمی میں نہیں رہ سکوں گا۔ یہ سب باتیں عام حالات کی ہیں۔ خاص حالات میں انسان ہر طرح کی قربانی کرلیتا ہے۔ میں نے جناب چوہدری صاحب کا یہ پیغام ربوہ آتے ہی حضور کی خدمت میں دے دیا۔~ف۸~
قصر خلافت کی تلاشی
یکم اپریل ۱۹۵۳ء کا واقعہ ہے کہ جناب ابرار احمد صاحب سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس ضلع جھنگ مع دی ایس جھنگ بھاری گارد کے ساتھ قصر خلافت میں آگئے۔ چونکہ حضرت مصلح موعود کی عظیم شخصیت ان دنوں احرار کے ہم نو افسروں کی تنقید کا اصل مرکز بنی ہوئی تھی اور آپ کا وجود مقدس مخالفین احمدیت اور دشمنان پاکستان کی نگاہ میں خارکی طرح کھٹک رہا تھا اس لئے ضلع کے ایک ذمہ دار پولیس افسر کی مع گارد آمد سے عام طور یہ سمجھا گیا کہ حکومت حضرت مصلح موعود کو گرفتار کرنا چاہتی ہے مگر جیسا کہ بعد میں پتہ چلا پولیس افسر صاحب گرفتاری کے لئے نہیں۔ بلکہ قصر خلافت کی تلاشی کے لئے بھجوائے گئے تھے۔
چنانچہ مولوی عبدالرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ المسیح الثانی( کا چشم دید بیان ہے کہ:۔
>۱۹۵۳ء میں جب ۔P۔S۔D صاحب ربوہ قصر خلافت میں آئے اور پولیس کی گارد بھی آئی تھی خطرہ تھا کہ کہیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو گرفتار کرنے کا منصوبہ نہ ہو۔ انہوں نے حضور سے ملاقات کا کہا۔ حضور نے احتیاًط حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو بھی ساتھ ہی بلانے کا فرایا۔ جب ۔P ۔S ۔D صاحب کو جو لدھیانہ کے شہزادہ فیملی سے تعلق رکھتے تے۔ اوپر بلانا تھا تو اس سے پہلے حضور نے مجھے یاد فرمایا میں اس وقت پرائیویٹ سیکرٹری تھا۔ میں سیڑھیوں سے چڑھ کر مشرقی برآمدہ میں اوپر گیا جہاں حضور بیٹھ کر ملاقات فرمایا کرتے تھے حضور سامنے کے کمرہ سے جو حضور کا بیڈ روم تھا۔ مجھے اسی کمرہ میں لے گئے۔ پھر کمرہ سے نکل کر غربی لمبے برآمدہ میں ساتھ لے گئے اور مجھے فرمایا کہ تم کو صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ خطرہ ہے کہ یہ لوگ مجھے گرفتار کرنے نہ آئے ہوں۔ اس لئے تم اپنی ذمہ داری کو سمجھنا کہ تم میرے پرائیویٹ سیکرٹری ہو۔ اور صرف اس قدر فرما کر حضور مجھے واپس شرتی جانب کے برآمدہ میں لے آئے اور فرمایا۔ ۔P ۔S ۔D صاحب کو بلا لو۔ چناچنہ ۔P ۔S ۔D صاحب آئے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی ہمراہ تھے۔ وہ اندر گئے تو میں سیڑھیوں میں آگیا اور اندر سے دروازہ بند کر لیا گیا۔ حضور نے مشرقی برآمدہ میں ان سے ملاقات کی۔ تھوڑا عرصہ کی خاموشی کے بعد جب کچھ خوش گفتاری اور ہنسنے کی آوازیں میرے کاموں میں آئیں تو میرے دل کو کسی حد تک تسلی ہوئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ حضرت صاحب کے مکان کی تلاشی لینے آئے تھے ۔P۔S۔D صاحب تکلف برتتے تھے کہ وہ تو مجبوراً حکومت کے احکام کی تعمیل میں آگئے ہیں ورنہ تلاشی کی ضرورت نہیں۔ لیکن حضور نے ان کو مجبور کیا اگر تلاشی لئے بغیر دیں گے کہ آپ نے تلاشی لی ہے تو حضور نے فرمایا میں حکومت کو اطلاع دے دوں گا کہ انہوں نے فرضی رپورٹ کی ہے تلاشی نہیں لی چنانچہ انہوں نے اپنے ہمراہی انسپکٹر کو کہا کہ وہ تلاشی لے چنانچہ اس نے تلاسی لی تاکہ ان کی رپورٹ درست ہو۔~<ف۹~
خود حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے ۱۵ اگست ۱۹۵۸ء کے خطبہ جمعہ میں اس احم واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
>انہی ایام میں جب کہ ابھی فتنہ کے آثار باقی تھے۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس ضلع جھنگ ڈی۔ ایس۔ پی کو ساتھ لے کر میرے مکان کی تلاشی کے لئے آئے چونکہ سپرنٹنڈنٹ پولیس ڈی۔ ایس۔ پی سے گورنر پنجاب کے نوٹس والا واقعہ سن چکے تھے۔ اور وہ دیکھ چکے تھے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے چند دنوں کے اندر اندر میری بات کو پورا کردیا۔ اور مسٹر چندریگر کو پنجاب سے رخصت کردیا گیا۔ اور پھر اس سے پہلے میری طرف سے یہ بھی شائع ہوچکا تھا کہ میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑا چلا آرہا ہے اس لئے وہ اتنے متاثر تھے کہ مجھے کہنے لگے ہمیں حکم تو یہ ہے کہ عورتوں والے حصہ کی بھی تلاشی لی جائے مگر مجھے کسی تلاشی کی ضرورت نہیں میں گورنمنٹ کو لکھ دوں گا کہ میں نے تلاشی لے لی ہے۔ میں نے کہا اگر آپ ایسا لکھیں گے تو میں اخبار میں اعلان کردوں گا یہ بالکل غلط ہے۔ انہوں نے کوئی تلاسی نہیں لی۔ آپ اندر چلیں اور ایک ایک چیز کو دیکھیں تاکہ آپ کے دل میں کوئی شبہ نہ رہے چنانچہ وہ اندر گئے اور انہوں نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس نے کہا کہ وہ کاغذات کو دیکھ لیں۔~<ف۱۰~
لاہور کے اخبار >نوائے وقت< )۴ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۱( اور بعض دیگر مشہور اخبارات میں اس خانہ تلاشی کی خبریں بڑے جلی عنونوں سے شائع ہوئیں۔
مخلص احمدیوں کی تلاشیاں اور گرفتاریاں
یکم اپریل ۱۹۵۳ء کو قصر خلافت کی تلاشی کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے مرکزی دفاتر کی تلاشی لی گئی اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ گو گرفتار کرکے ضمانت پر رہا کردیا گیا نیز پریس ایمرجنسی پاورز ایکٹ کی دفعہ ۱۸ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ حکومت پنجاب نے اس سلسلہ میں حسب ذیل اعلان جاری کیا:۔
>ربوہ میں احمدیہ فرقہ کے ناظم دعوت تبلیغ سید زین العابدین کے خلاف پریس ایمرجنسی پاورز ایکٹ کی دفعہ ۱۸ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اس سے پہلے پولیس نے سید زین العابدین احمدیہ فرقہ کے امیر مرزا بشیر الدین حمود اور نائب ناظم دعوت تبلیغ مسٹر عبد المجید کے دفتر اور مکان کی تلاشی لی اور کئی دستاویزات پر جن میں بعض ناجائز خبرنامے بھی شامل ہیں قبضہ کرلیا سید زین العابدین کو گرفتار کرکے بعد میں ضمانت پر رہا کردیا گیا~<ف۱۱~
اس واقعہ کا ذکر جناب ابرار ااحمد صاحب )سابق سپرنٹنڈنٹ پولیس ضلع جھنگ( نے اپنی سوانح میں بھی کیا ہے چنانچہ >ربوہ< کے زیر عنوان لکھا ہے۔
>۳۰ مارچ کو میں شہزادہ حبیب احمد ڈی ایس پی کے ہمراہ ربوہ گیا جہاں میاں زین العابدین ولی اللہ ناظم دعوت تبلیغ کی گرفتاری صوبائی حکم کے تحت عمل میں لائی گئی۔ اگلے روز میں نے باری گارد کے تاون سے ربوہ میں جماعت احمدیہ کے تمام دفاتر کی تلاشی لی کیونکہ پریس ایمرجنسی پاورز ایکٹ ۱۹۳۱ء کے تحت تھانہ لاریاں )لالیا۔ ناقل( مقدمہ ۳۴ مورخہ ۳۰ مارچ ۱۹۵۳ء درج ہوا تھا۔ چند بولیٹن قبضہ میں لئے آئندہ تفتیش کے سلسلہ میں مرزا بشیرالدین محمود صاحب امیر جماعت احمدیہ سے ۲۴ اپریل ۱۹۵۳ء کو ہمراہ ڈی ایس پی ملنے گیا۔ اس تحریک میں جہاں صوبائی حکومت ٹوٹی مرکزی حکومت بھی ۱۲ اپریل ۱۹۵۳ء کو ختم ہوگئی۔ مسٹر محمد علی بوگرا ملک کے نئے وزیراعظم مقرر ہوئے اس مرحلہ پر تحریک بھی سرد پڑگئی تھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔~<ف۱۲~
یکم اپریل کو ربوہ کے علاوہ لاہور کے بعض احمدیوں کی بھی تلاشی لی گئی۔
چنانچہ لاہور میں جناب ثاقب صاحب زیروی مدیر لاہور کے گھر اور دفتر پر چھاپہ مارا گیا۔ مارشل لاء والوں کا اصل ارادہ تو جناب ثاقب صاحب کو گرفتار کرنے کا تھا مگر وہ باجوود انتہائی کوشش کے کامیاب نہ ہوسکے اور ان کی بجائے ان کے بھائی محترم محمد بشیر صاحب زیروی کو ٹرک میں بٹھا کر میڈیکل ہوسٹل نیلا گنبد کے کیمپ میں لے گئے۔ اس روز لاہور سے مندرجہ ذیل احمدیوں کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔
مرزا مظفر احمدصاحب )ابن حضرت مرزا قدرت اللہ صاحب( محمد صالحع صاحب۔ ملکج برکت علی صاحب۔ محمد یحییٰ صاحب )نیلا گنبد( شیخ فضل حق صاحب۔ حکیم سراج دین صاحب~ف۱۳~
چند روز بعد )۴ اپریل کو( راولپنڈی کے ایک مخلص احمدی رشید احمد صاحب بٹ کے مکان کی تلاشی لی گئی اور ایک دیسی پستول اور کارتوس برآمد کرکے مقدمہ رجسٹر کرلیا گیا ہے۔~ف۱۴~
‏po] ga[t
حواشی
~ف۱~
خطبہ فرمودہ ۱۵ اگست ۱۹۵۸ء مطبوعہ الفضل ۵ ستمبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۲
~ف۲~
نوائے وقت ۲۹ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
~ف۳~
خطبہ جمعہ فرمودہ ۴ احسان ۱۳۳۳ء ہش۔ الفضل ۲۴ احسان ۱۳۳۳ء ہش ۲۳ جون ۱۹۵۴ء
~ف۴~
سابق ناظر دیوان صدر انجمن احمدیہ ربوہ۔ وفات ۲۴ جون ۱۹۸۲ء
~ف۶۔ ۵~
ریٹائرڈ لیکچرار تعلیم الاسلام کالج آپ کے خود نوشت حالات اسیری شامل ضمیمہ ہیں
~ف۷~
وفات ۱۱ ستمبر ۱۹۸۵ء
~ف۸~
غیر مطبوعہ مکتوب جناب ملک محمد عبد اللہ صاحب ربوہ )مورخہ ۲۰ مارچ ۱۹۷۵ء(
~ف۹~
خطہ مطبوعہ خط مولوی عبد الرحمن صاحب انور
~ف۱۰~
خطبہ جمعہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرمودہ ۱۹۵۸ء بحالہ روز نامہ >الفضل< ۵ ستمبر ۱۹۵۸ء۔
~ف۱۱~
>نوائے وقت< لاہور ۴ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ کالم ۴۔ ۵
~ف۱۲~
نقوش زندگی صفحہ ۱۴۱۔ صفحہ ۱۴۲ ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لاہور- حیدرآباد۔ کراچی۔
‏]1h ~[tagف۱۳~
اخبار نوائے وقت لاہور ۳ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
~ف۱۴~
نوائے وقت لاہور ۷ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۱۔ وفات حکیم سراج الدین صاحب ۱۲ دسمبر ۱۹۷۰(
چوتھا باب
حضرت مرزا شریف احمد اور حضرت مرزا ناصراحمد صاحب کی گرفتاری` قید بامشقت اور جرمانہ
یکم اپریل ۱۹۵۳ء کو پیش آنے والے واقعات میں المناک ترین واقعہ` جس نے دنیا بھر کے احمدیوں کو تڑپا دیا یہ تھا کہ رتن باغ
لاہور سے حضرت مسیح موعودؑ کے لخت جگر حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت مصلح موعود کے فرزند اکبر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلی الاسلام کالج لاہور گرفتار کے لئے گئے~ف۱~ اور فوجی عدالت نے انہیں مارشل لاء ضوابط ۱۳ کے تحت بالترتیب ایک سال قید بامشقت اور پانچ ہزار روپیہ جرمانہ اور پانچ سال قید بامشقت اور پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزا دی۔~ف۲~ اور قریباً دو ماہ کے بعد ۲۸ مئی ۱۹۵۳ء کو رہا کئے گئے۔~ف۳~
صبر و تحمل اور توکل کے حیرت انگیز نمونے
جناب بشارت احمد صاحب جوئیہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل کا بیان ہے کہ:۔
>میں یہاں اپنے ہم پیشہ دو افسروں کا ذکر کروں گا۔ نام مصلحتاً نہیں لے رہا مگر واقعات بالکل درست ہیں اور عین ان کے بیان کے مطابق ہیں۔ ایک لیفٹینٹ )جواب بریگیڈیر ہیں( نے بتایا کہ ۱۹۵۳ء میں ان کے وقت حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو جو اس وقت لاہور میں پرنسپل تعلیم الاسلام کالج تھے رتن باغ کی عمارت سے گرفتار کرنے کے لئے وارنٹ دیئے گئے۔ یہ افسر وقت مقررہ پر رتن باغ گئے تو انہوں نے مکان کی دوسری منزل کے لئے ایک کمرہ سے پردوں سے نکلتی ہوئی روشنی کو دیکھ کر کچھ تعجب کا اظہار کیا گھنٹی بجائی۔ ایک خادم پانچ منٹ کے اندر اندر نیچے اترا۔ جب حضرت مرزا صاحب کے متعلق معلوم کیا کہ کیا کررہے ہیں تو جواب ملا کہ >نماز پڑھ رہے ہیں۔< یہ صاحب بہت حیران ہوئے پھر سنبھلے بہت جلد حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب حضور کو وارنٹ گرفتاری دکھائے تو حضور نے فرمایا اگر اجازت ہو تو میں اٹیچی کیس لے لوں پھر گھر والوں کو خدا حافظ کہا اور ساتھ چل پڑے۔ اس افسر کو دو ایک روز کے بعد ایک بڑے عالم دین~ف۴~ کی گرفتاری کے وارنٹ ملے وقت گرفتاری تقریباً پہلے ولا۔ ان کے گھر پہنچے گھنٹی اور دروازے کھٹکھٹاتے رہے مگر کافی دیر تک کوئی جواب نہ ملا کافی وقت کے بعد ایک نوکر آنکھیں ملتا ہوا آیا۔ جب مولانا کے متعلق معلوم کیا تو جواب ملا سو رہے ہیں۔ کافی تگ و دو کے بعد مولانا سے ملاقات ہوئی۔ جب وارنٹ گرفتاری دکھائے تو اسلامی اور عربی اصطلاحات میں کوسنے لگے بڑی بحچ مباحثہ کے بعد جب ان مولانا کو گاڑی میں لے چلے تو یہ لیفٹینٹنٹ دل ہی دل میں سوچے رہے کہ ایک >کافر< تو تہجد پڑھ رہا تھا اور توکل کا اعلیٰ نمونہ خاموشی سے پیش کرتا میں دوسری طرف بزغم خود یہ عالم دین` تحمل` توکل اور بردباری سے قطعاً عاری۔
دوسرے واقعہ کا تعلق اس دور سے ہے جب اس گرفتاری سے متعلقہ حضور رحمتہ اللہ کے مقدمہ کا فیصلہ ہوچکا تھا اور آپ کو سزا سنائی گئی۔ یہ واقعہ سنانے والے ایک کیپٹن صاحب تھے جو اس بلوچ رجمنٹ سے ہی تعلق رکھتے تھے جس میں خاکسار بھی تعینات تھا وہ ایک روز میرے گھر تشریف لائے ۱۹۶۶ء کی بات ہے۔ باتوں باتوں میں انہیں میرے احمدی ہونے کا علم ہوا۔ یہ کیپٹن صاحب پوچھنے لگے کہ آج کل آپ کے خلیفہ کون ہیں جب میں نے حضرت مرزا صاحب کا نام لیا تو یکدم سکتے میں آگئے کہنے لگے میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اپ کی جماعت واقعی خدائی سایہ کے نیچے اور روحانی ہاتھں میں ہے پھر انہوں نے یہ واقعہ بتایا۔ ان کی ڈیوٹی ۱۹۵۳ء کے مارشل لاء میں تھی ان کے فرائض میں ایک کام یہ تھا کہ جن لوگوں کے مقدمات کے فیصلے مکمل ہوتے تو کسی افسر کو مقرر کرتے کہ جیل میں جاکر اسے سزا سنا آئیں جن افسروں کو یہ کام دیا جاتا وہ اپنے عجیب و غریب مشاہدات بیان کرتے کہ ایک صاحب جن کو سزا سنائی گئی۔ غیظ و غضب میں آگئے ایک اور صاحب سکتے میں آگئے۔ بلکہ شدید مایوس ہو گئے۔ بعض اپنی بے گناہی اور معصومیت کا واسطہ دینے لگتے وغیرہ وغیرہ۔
میرے پلٹن وال اس کیپٹن کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اگر موقعہ ملا تو وہ بھی کسی کو سزا سنائیں اور دیکھیں کہ کس قسم کے تاثر کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک )بعد دوپہر( ایک فائل ان کو ملی جس میں ایک قیدی کے خلاف فیصلہ درج تھا اور کوئی افسر فوری طور پر موجود نہیں تھا۔ انہوں نے اس موقعہ کو غنیمت جانا اور خود جیل پہنچ گئے۔ فائل سے نام پڑھا۔ یہ نام گرامی حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمتہ اللہ تعالیٰ کا تھا۔ یہ کیپٹن ان سے بالکل واقف نہ تھے علیک سلیک کے بعد چرج شیٹ اور سزا انگریزی میں پڑھ کر سنائی ان کیپٹن صاحب کے دماغ میں تھا کہ دیکھیں ان صاحب کا ردعمل دیگر لوگوں کی نسبت کیسا ہوگا جب یہ کیپٹن صاحب ساری کاروائی انگریزی میں سنا چکے تو حضرت مرزا صاحب نے جانے کی اجازت چاہی` نہ تعجب نہ حیرانگی` نہ گھبراہٹ نہ کوئی تاثر` نہ فکر` نہ غم` کیپٹن صاحب تو کسی عجیب و غریب رد عمل کے منتظر تھے۔ فوراً بولے آپ شاید انگریزی نہ سمجھے ہوں میں اردو می پڑھ کر سنتا ہوں۔ اس پر اس کوہ وقار اور متوکل انسان نے فرمایا >کیپٹن صاحب آپ کی مہرمانی میں آکسفورڈ کا گریجویٹ ہوں<۔ تو الٹا ان کیپٹن صاحب پر کپکپی کا عالم طاری ہوگیا۔ سزا اور جرمانہ بہت شدید تھے گو جرم صرف ایک خاندانی زیبائشی خنجر کو گھر میں رکھنے کا تھا۔~<ف۵~
‏tav.14.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
خاندان مہدی موعودؑ اور مرکز سلسلہ کے اہم واقعات
عکس
بھارتی پریس کے تبصرے
اس غیر دانشمندانہ اقدام کا نہایت افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ اس کے نتیجہ میں پاکستان کی بیرونی دنیا میں سخت بدنامی ہوئی جو پاکستا کے ہر محب وطن احمدی کے لئے مزید قلبی و ذہنی اذیت کا موجب بنی۔
‏]ydob [tag۱۔ اخبار >ریاست< دہلی نے >احمدی جماعت کا کارخانہ اسلحہ سازی< کے زیر عنوان لکھا:۔
>پچھلے دنوں اخبارات میں ایک اطلاع شائع ہوئی تھی کہ احمدی جماعت کے لاہور کے ہیڈ کوارٹر کی مارشل لاء کے حکام نے تلاشی لی اور وہاں سے اسلحہ سازی کا کارخانہ اور تیار شدہ اسلحہ ملا۔ جس کے جرم میں احمدی جماعت کے پیشوا کے صاحبزادے اور بھائی کو مارشل لاء کے ماتحت پانچ اور ایک برس قید اور پانچ پانچ ہزار روپیہ جرمانہ کی سزائیں ہوئیں۔ اس سلسلہ میں لاہور کے ایک دوست نے اصل حالات بھیجے ہیں جو یہ ہیں۔
احمدی جماعت کے موجودہ پیشوا کے بڑے لڑکے مرزا ناصر احمد آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایم اے ہیں۔ اور آپ لاہور کے ٹی۔ آئی۔ کالج کے پرنسپل تھے اور آپ کی شادی موجودہ نواب مالیر کوٹلہ کے چچا کی صاحبزادی سے ہوئی اور جب شادی ہوئی تو آپ کے خسر نے آپ کو زیورات اور تحائف کے ساتھ ایک خنجر بھی دیا جس کا دستہ سنہری تھا اور جو مالیر کوٹلہ کے شاہی خاندان کی نادر اشیاء میں سے تھا۔ قانون کے مطابق ہندوستان کے ہر والئے ریاست اور اس کے خاندان کے لوگ ایکٹ اسلحہ سے مستثنیٰ ہیں اور اس لحاظ سے مرزا ناصر احمد کی بیوی بھی نواب مالیر کوٹلہ کی قریبی عزیزہ ہونے کے باعث قانوناً ایکٹ اسلحہ سے مستثنیٰ ہیں۔ مگر لاہور کے مارشل لاء کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ جب تلاسی ہوئی تو یہ خنجر )جس کی پوزیشن ایکٹ اسلحہ کے مطابق بھی آلو` ساگ یا گوشت کاٹنے والی ایک چھری سے زیادہ نہ ہونی چاہئے تھی( بیگم مرزا ناصر احمد کے زیورات میں پڑا تھا جس کو فوجی حکام نے حاصل کرکے مرزا ناصر احمدی پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا اور آپ کو پانچ سال قید سخت اور پانچ ہزار روپیہ جرمانے کی سزا دی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کا یہ گریجویٹ اور لاکھوں احمدیوں کے پیشوا کا بیٹا آج لاہور کے سنٹرل جیل میں بطور قیدی کے اب بان بٹ رہا ہے۔
یہ کیفیت تو مرزا ناصر احمد اور آپ کے مقدمہ اور سزا کے متعلق ہے۔ اب دوسرا واقعہ سنیئے۔ مرزا شریف احمد احمدی جماعت کے بانی مرزا غلام احمد کے صاحبزادے اور احمدی جماعت کے موجود پیشوا کے حقیقی بھائی ہیں۔ یہ بزرگ جن کی عمر باسٹھ برس کی ہے لاہور میں بندوق سازی کے ایک کارخانہ کے مالک ہیں اور یہ کارخانہ پاکستان گورنمنٹ سے لائسنس حاصل کرکے جاری کیا گیا۔ چنانچہ اس فرم کو ایک فوج افسر نے نمونہ کے طور پر ایک کرچ دی۔ کیونکہ پاکستان گورنمنٹ اس نمونہ کی کرچیں تیار کرانا چاہتی تھی۔ اور اس کرچ کے متعلق جو خط و کتاب محکمہ فوج سے ہوئی وہ مرزا شریف احمد کے پاس موجود ہے۔ جسے عدالت میں داخل کیا گیا مگر مرزا شریف احمد کو اس کرچ کے ناجائز رکھنے کے جرم میں ایک سال قید سخت اور پانچ ہزار روپیہ جرمانے کی سزا دی گئی۔
مارشل لاء کی فوجی عدالت کا ایسے مقدمات میں پانچ پانچ ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا دینا تو خیر قابل درگزر ہے کیونکہ پاکستان اقتصادی بدحالی میں مبتلا ہے اور اس طریقہ سے روپیہ حاصل کرکے یہ ملک اپنے فوجی اخراجات کسی نہ کسی حد تک پورے کرسکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اوپر کے دو مقدمات کو اگر کسی انصاف پسند عدالت یا غیر جانبدار ملک کے سامنے پیش کیا جائے تو پاکستان گورنمنٹ کی کیا پوزیشن ہو۔ اور کیا دنیا کا کوئی معقولیت پسند شخص اس شرمناک دور استبداد کو برداشت کرسکتا ہے اور کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ مذہبی پاگل پن میں پاکستان کے عوام کے علاوہ وہاں کے حکام بھی مبتلا ہیں جو چھری رکھنے کے جرم میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو پانچ پانچ برس قید سخت کی سزا دے رہے ہیں۔
اوپر کی سزائوں کے متعلق ہم نے غور کیا ہے اور غور کرنے کے بعد ہماری رائے ہے کہ یہ سزائیں احمدی جماعت کی بنیادوں کو زیادہ مضبوط کرنے کا باعث ہوں گی اور احمدیوں کو خدا کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ان بے گناہوں کو قربانی کا موقعہ نصیب ہوا اور ایسی قربانیاں یقیناً احمدیت میں ایک دوامی زندگی پیدا کرنے کا باعث ہوسکتی ہیں~<ف۶~
۲۔ اخبار >ہندو< نے بعنوان >پاکستان نے گھٹنے ٹیک دیئے< حسب ذیل نوٹ پسرد قلم لکھا کہ:۔
>پاکستان میں مذہبی تنگدلی نے ان احمدیوں کے خلاف طوفان کھڑا کردیا جو پاکستان بنانے میں سب سے آگے تھے۔ اس مذہبی جنون نے بھیانک شکل اختیار کرلی اور پچھمی پنجاب سے بڑی بھیانگ خبریں آرہی ہیں لیکن ایسا نظر آتا ہے کہپاکستنا سرکاری کو بھی اس جنون کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔ چنانچہ پہلی اپریل کو مارشل لاء افسروں نے لاہور میں احمدیوں کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپہ مارا اور احمدیوں کے خلیفہ کے بھائی شریف احمد اور بیٹے ناصر احمد کو گرفتار کرلیا۔ چار اور احمدی لیڈر مظفر احمد۔ محمد صالح` محمد بشیر اور محمد یحییٰ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ احمدیوں کے خلیفہ کے بیٹے کے گھر کی تلاشی لینے پر ایک خنجر نکلا ہے۔ وہ لاہور کے تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل تھے۔ خنجر رکھنے کے جرم میں انہیں پانچ برس قید اور پانچ ہزار روپیہ جرمانہ یا جرمانہ ادا نہ کرسکنے پر مزید سات سال قید کی سزا دی گئی۔
احمدیوں کے اتنے بڑے لیڈر کو ذرا سے جرم کے لئے اتنی کڑی سزا دے کر غالباً پاکستان سرکار مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو انصاف پسند ثابت کرنا چاہتی ہے لیکن اس سے ایک بات واضح ہے کہ پاکستان مسلمانوں کے مذہبی جنوں کے سامنے پاکستان سرکار کو بھی گھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں۔ احمدیوں کی حالت عجیب ہے۔ ایک تو ہو لوٹ مار۔ قتل اور تباہی کا شکار بنے۔ دوسرے اب سرکاری بھی ذرا ذرا سے بہانے ڈھونڈھ کر انہیں اپنی سخت گیری کا شکار بنانے لگی ہے۔~<ف۷~
قید و بند میں رضا بالقضا کا ایمان افروز مظاہرہ
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )خلیفہ المسیح الثالث( نے بیان فرمایا کہ:۔
>جب ہمیں ۱۹۵۳ء میں ظالمانہ طریق پر پکڑ کر لے گئے تھے تو ہمارے پہننے کے لئے کھدر کے موٹے کپڑے لے آئے کہ تمہیں سی کلاس دینی ہے دل میں سوچا کہ خدا کے لئے یہ کھدر کیا کانٹوں کے کپڑے دیں تو وہ بھی پہن لیں گے۔ مگر لطف یہ کہ پتہ نہیں وہ کپڑے کس سے اور کہاں سے لائے گئے تھے۔ چنانچہ ہم نے وہ کپڑے پہنے تو زور سے سانس لینے پر ان کے دھاگے ٹوٹ گئے اور سلائی کھل گئی یوں لگتا تھا کہ چھوٹی چھوٹی گڑیوں کو پہنانے والے کپرے ہیں ہم نے کہا ہم راضی برضائے الٰہی ہیں۔~<ف۸~
پہلی چشم دید شہادت
اس سلسلہ میں دو اور اہم چشم دید شہادتیں درج کی جاتی ہیں۔ پہلی اور تفیصلی شہادت مکرم محمد بشیر صاحب زیروی کی ہے آپ تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
جس دن میری گرفتاری ہوئی اسی دن حضور انور اور حضرت میاں شریف احمد صاحب کی گرفتاری عمل میں آئی۔ جس کے بعد چند دن ہم نے اکٹھے سنٹرل جیل میں گزارے اور بفضلہ تعالیٰ ان پرآشوب دنوں کا ایک ایک لمحہ )جو آپ کے ساتھ گزرا( میرے لئے ہمیشہ ہی از دیاد ایمان کا باعث ہوا آج کی صحبت میں انہی یادوں کا دہرانا مقصود ہے۔۔۔۔۔
جس دن جماعت کے بعد اکابر کے گھروں کی تلاشیاں اور گرفتاریاں ہوئیں۔ اسی دن بھائی جان )ثابق صاحب زیرو( کے گھر اور دفتر کی بھی تلاشی ہوئی۔ ان میں اس عاجز کے علوہ حضور پر نور اور حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب بھی تھے۔ جب ہمیں میڈیکل ہوسٹل کے نیلا گنبد کے بڑے گیٹ پر کھلے کیمپت سے لے کر جیل بھیجنے کے لئے اکٹھا کیا گیا تو وہاں اس عاجز کی ملاقات حضرت میاں صاحبان سے ہوئی۔ دیکھتے ہی زمین پیروں تلے سے نکل گئی اور ذہن پر بوجز اور بڑھ گیا اور اپنا سارا دکھ بھول کر سارا ذہن اس طرف منتقل ہوگیا کہ حکام کی یہ کتنی بڑی جسارت ہے۔ لیکن جلد ہی دل نے یہ کہہ کر حوصلہ بڑھایا۔ کہ ان کا آنا ہم سب کے لئے بابرکت ثابت ہوگا کیونکہ ہم بھی اب اس زمرے میں شامل ہوں گے جن کے لئے الل¶ہ تعالیٰ کے بے شمار فضل نازل ہوں گے۔ نیز اگر جیل میں ایک ہی جگہ ہوئے تو آپ کی مقبول دعائوں سے حصہ پائیں گے اور ان کے طفیل اس مصیبت سے جلد چھٹکارا حاصل ہوگا۔ رفتہ رفتہ یہ احساس پختہ ہوگیا کہ آپ کی گرفتاری ہماری رستگاری کا باعث بنے گی لیکن اس کے باوجود بے چینی تھی کہ ہر لمحہ بڑھ رہی تھی۔ وہاں سے ہمیں ایک ٹرک میں بٹھا کر جیل کی طرف لے گئے۔ حضرت میاں ناصر احمد صاحب نے ٹرک میں بیٹھے ہی بلند آواز میں قرآنی دعا لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین کا ورد شروع کردیا۔ جس سے دلوں میں سکینت و اطمینان کی لہر دوڑنا شروع ہوگئی۔ عمر کے لحاظ سے حضرت میاں شریف احمد صاحب ہم سب میں بڑے تھے اور صحت کے لحاظ سے بھی کمزور مگر حوصلہ کے اعتبار سے ازحد مطبوط و مستحکم کہ جب ہمارے چہروں کو پریشان یا ہمیں اضطراب سے دعائیں کرتے دیکھتے تو فوراً ہماری دلی گھبراہٹ کو بھانپ جاتے اور حضرت میاں ناصر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ صاحب سے فرماتے یہ بچے تو مجھے دل چھوڑتے معلوم ہوتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ چنانچہ حضرت میاں صاحب ہمیں اپنے مخصوص انداز میں ہر آنے والے کے لئے تیار کرتے رہتے۔ مجھے ان کی یہ ادا کبھی نہیں بھولے گی کہ جب ہم میں سے ایک نوجوان نے اپنے بیان میں کسی قدر جھوٹے ملایا تو حضرت میاں شریف احمد صاحب بیتاب ہوگئے۔ اس کے بعد آپ بار بار فرماتے >بیٹا ہم خدا کی خاطر یہاں آئے ہیں۔ یہ ہمارے ایمانوں کی آزمائش ہے۔ اگر ہم آزمائش میں پورے نہ اترے تو ہم جیسا بدنصیب کوئی نہ ہوگا۔ اور اگر اس آزمائش میں کامیاب ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں گے اگر ہم نے جھوٹ بولا تو اس کی نصرت سے محروم ہوجائیں گے خواہ کتنی بڑی سزا مل جائے مگر سچ کا دامن کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑنا۔ اللہہ اللہ کیسی صداقت شعار تھیں یہ ہستیاں کہ جہان بڑے بڑے جبہ پوش اور دیندار سمجھے جانے والے لوگ بڑے بڑے جھوٹ گھڑتے ہیں اور حیلوں بہانوں کا ایک طومار ماندھ کر اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں بھی یہ ہمیں ہر حالت میں اور ہر قیمت پر سچ بولنے کی تلقین فرماتی تھیں۔ آپ نے ہمیں اس تکرار سے اس بات کی تلقین کی کہ بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا جیسے آپ کو اس معاملہ میں کچھ وہم سا ہوگیا ہے۔ ایک دفعہ میں نے عرض کیا کہ حضرت میاں صاحب! آپ میری طرف سے بالکل مطمئن رہیں کیونکہ میرا کیس ہی ایسا ہے کہ بغیر سچ بولے میر اگزارا ہی نہیں اور دوسرے مجھے جھوٹ بولنا آتا ہی نہیں۔ آپ اطمینان رکھیں میں انشاء اللہ ہر حال میں سچ ہی بولوں گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تو اسی لمحہ میں ہمارے ساتھ ہوگئی تھی جب مارشل لاء حکام کے ذہن میں خیال بھی گزرا ہوگا کہ اب گرفتاریوں میں توازن قائم رکھنے کے لئے جماعت احمدیہ کے افراد کو بھی پکڑا جائے۔ بلکہ یہ جسارت بھی کہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی ہاتھ ڈالا جائے ہمارے گھر سے مارشل لاء والے دراصل بھائی جان )ثاقب زیروی( کو گرفتار کرنے کے لئے آئے تھے مگر قدرت نے مجھ سے ایک ایسی غلطی کروائی جس سے ا کی ساری توجہ میری طرف منتقل ہوگئی اور مجھے گرفتار کر لیا گیا اور باوجود ارادے اور پروگرام کے بھائی جان )ثابق زیروی( پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔ اس کے بعد مجھے ٹرک میں بٹھا کر میڈیکل ہوسٹل نیلا گنبد کے کیمپ میں لایا گیا وہاں ایک اور احمدی نوجوان مکرم محمد یحییٰ صاحب )جو غالباً حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ والے( کے خاندان سے تھے۔ سے ملاقات ہوئی۔ ہم دونوں نے مل کر ظہر کی نماز باجماعت ادا کی اور خو گریہ و زاری سے دعا کی توفیق ملی۔ جس سے ذہنی بوجھ قدرے ہلکا ہوا۔
عصر کے بعد ہمیں باہر لایا گیا۔ تو ان دو مقدس ہستیوں کی زیارت ہوئی تو انہیں دیکھ کر دلوں کو ایک گو نہ تسلی ہوئی کہ ہم اکیلے نہیں ہیں ہمارے رستگار بھی ہمارے ساتھ ہی ہیں۔ جیل کے سامنے گاڑی سے اترتے ہی میرے شہر کے ایک دوست میرے سامنے تھے جن کے ذریعہ بھائی جان کو فوری طور پر یہ اطلاع مل گئی۔ کہ ہم کہاں ہیں اور کرفیوں کے باوجود انہوں نے فوراً ہی وہ اطلاع حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کو پہنچا دی جیل میں ہمیں ایسی کوٹھڑیوں میں بند کیا گیا جن کے سامنے والی کوٹھڑیوں میں ایسے پابجولاں قیدی بند تھے جن کو عدالتوں کی طرف سے >سزائے موت< سنائی جاچکی تھی اور اب وہ اپنی اپیلوں کے فیصلوں کے انتظار میں تھے۔ لہذا وہ ساری رات وقفہ وقفہ سے مختلف قسم کے دعائیہ نعروں میں گزارتے اور اس طرح ہمیں بھی دعا کی طرف متوجہ کرتے رہتے۔
پہلی رات نہایت ہی کرب میں گزری صبح ہوئی ہمیں ان کوٹھڑیوں سے باہر نکالا گیا۔ ہم ضروری حاجات سے فارغ ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہوئے۔ اور باہر اپنے کمبل بچھا کر بیٹھ گئے حضرت میاں ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے میری اداسی دیکھ کر فرمایا سورٰہ ملک یاد ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور یاد ہے فرمایا سنائو چنانچہ اس عاجز نے سنائی۔ پھر فرمایا کوئی خواب آئی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور آئی ہے۔ >فرمایا سنائو< چنانچہ میں نے عرض کیا کہ حضور میں نے دیکھا ہے۔
>کہ ہمارے لئے ایک ریلوے لائن تیار ہوئی ہے جس کے بائیں پہلو سے ایک چھوٹی سی لائن تیار ہوئی ہے جیسے کہ ٹرالی وغیرہ کے لئے ہوتی ہے وہ صرف میرے لئے ہے۔ اس کے آگے جو مین لائن ہے۔ اس کے ساتھ کچھ لوگ پگلھا ہوا مزید لوہا دائیں جانب چمٹا رہے ہیں۔<
یہ سنتے ہی آپ نے فرمایا کہ آپ تو انٹیروگیشن (Interogation) میں رہا ہوجائیں گے مگر اس سے آگے آپ خاموش ہوگئے۔ اس طرح جیسے کہ کچھ حصہ تعبیر کا ان کے ذہن میں اپنے متعلق ہو جس کو آپ بیان نہیں فرمانا چاہتے۔ یہ محسوس کرکے میں نے عرض کیا کہ حضور آپ کے لئے بھی تو اس میں رہائی کی خوشخبری ہے کیونکہ ریلوے لائن منزل مقصود کی طرف لے جاتی ہے اور ہماری منزل اس وقت >رہائی< ہی ہے۔ فرمایا درست ہے مگر آپ نے پھر بھی آگے تعبیر بیان نہیں فرمائی۔ اصل میں میرے ذہن سے خواب میں لائن کے ساتھ جو مزید لوہا لگایا جارہا تھا اس کی تعبیر اوجھل تھی۔ جو سزا کی طرف اشارہ تھا۔ یعنی باقیوں کو سزا تو ہوگی مگر وہ بھی جلد رہا ہوجائیں گے اور پوری سزا نہیں گزاریں گے۔ اتنے میں ناشتے کا وقت ہوگیا چنانچہ جیل سے ہمارا ناشتہ آگیا جو کالے ابلے ہوئے چنوں )بالوں سے بھی زیادہ سیاہ( کا تھا۔ میں نے ان چنوں کی طرف کچھ ترچھی سی نگاہوں سے دیکھا کہ کیا اب ہمیں یہ کھانے ہوں گے۔ حضرت میاں صاحب فوراً میرے چہرے کے تاثرات ہی سے میرے دل کی کیفیت اور میرا تردد بھانپ گئے اور فوراً ان کو چادر پر ہاتھ سے بکھیرنے کے بعد انہیں خود مزے لے لے کر کھانا شروع کردیا۔ آپ کھاتے بھی جاتے تھے۔ اور فرماتے بھی جاتے تھے۔ >بشیر صاحب! دیکھئے یہ تو بے حد لذیذ ہیں۔ اللہ اللہ! آپ نے ہمیں کس کس طرح تکلیف کے ان دنوں کو حوصلہ اور بشاشت سے گزارنے کے بعد آداب سکھائے ان کا ہاتھ دسترخوان کی طرف بڑھ جانے کے بعد بھلا کس کی مجال تھی جو نہ کھائے چنانچہ میں نے بھی کھانا شروع کردیا۔ اپنے اس عمل سے گویا آپ نے بڑے لطیف انفاز میں مجھے یہ بات ذہن نشین کرا دی کہ ہم جیل میں ہیں اور پھر مارشل لاء کی جیل میں۔ گھر پ نہیں ہیں۔ اس لئے ہمیں بشاشت کے ساتھ حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈھل جانا چاہئے غالباً اسی دن کو دوپہر سے حضرت اقدس کے گھر سے کھانا شروع ہوگیا۔ جو اس قدر ہوتا تھا۔ کہ ہم سب سیر ہو کر کھا لیتے تھے۔ تو پھر بھی بچ جاتا تھا )گویا کہ جیل میں بھی ہم لوگ حضرت مسیح موعودؑ کے لنگ سے ہی کھاتے تھے(۔
یہاں بھی ہماری دلجوئی مدنظر رہی کھانا آتا تو آپ سارا کھانا میرے سپرد فرما دیتے اور فرماتے >ساقی صاحب< اسے تقسیم کریں اور خود میرے گھر سے آیا ہوا کھانا لے بیٹھتے کہ میں تو یہ کھائوں گا` جو نہایت ہی سادہ سا ہوتا تھا اور جس میں بعض اوقات صرف ڈبل روٹی کے چند ٹکڑے ہوتے میرے اصرار کے باوجود میرا وہ سادہ سا کھانا حضور خود تناول فرماتے ہیں اور رتن باغ سے آیا ہوا کھانا ہم کھاتے )الحمدلل¶ہ چنوں کے اس ناشتے کے بعد جیل سے ہم نے کچھ نہیں کھایا۔(
ممکن ہے کہ قارئین کے لئے یہ باتیں معمولی ہوں مگر مجھ ناچیز و حساس کے لئے جیل میں یہ اتنی بڑی تھی کہ میرے قلب و روح اس پر آج بھی اس روح پر فتوح کی عظمتوں کو دھراتے رہتے ہیں۔ یہ وقت تھا جب ہر شخص رب نفسی رب نفسی! کے عالم میں تھا۔ مگر حضور پر نور ہمارے لئے شفقتوں کا پہاڑ بن گئے۔ اللہ تعالیٰ حضور کے درجات میں بیش بہا اضافہ فرمائے اور اعلیٰ علین میں اپنے قرب میں جگہ دے اور کروٹ کروٹ راحتیں نصیب کرے۔
حضور پر نور اور حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب جب تک ہمارے پاس رہے ایک لمحہ کے لئے بھی ہمیں اداس اور غمگین نہیں ہونے دیا اور ہمی واقعات سنا سنا کر ہمارے حوصلے بلند فرماتے رہے گویا جیل میں بھی ہر روز مجلس علم و عرفان جمتی رہی۔
ایک دن مجھے پریشان سا دیکھ کر نہایت ہ بے تکلفی سے فرمانے لگے بشیر! >تمہیں پانچ سال قید ہوگی< یہ سن کر میں نے بھی اسی بے تکلفی سے عرض کیا کہ میاں صاحب! آپ خدا کے فضل سے خود بھی بزرگ ہیں پھر بزرگوں کی اولاد بھی ہیں۔ میرے حق میں اس پاکیزہ منہ سے تو کلمہ خیر ارشاد فرمائیں فرمانے لگے میرا مطلب ہے Worst" "Think
جیل میں میں نے آپ کو ایک لمحہ کے لئے بھی پریشان نہیں پایا۔ بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا۔ کہ جیل میں اس مرد بحران کی صحت روز بروز بہتر ہورہی ہے۔
میں نے ایک دن عرض کیا کہ چونکہ میری گرفتاری اچانک اور بالکل غیر متوقع تھی اور میرے وہم و گمان میں بھی نہ آسکتا تھا کہ کبھی میں بھی گرفتار ہوجائوں گا اس لئے پہلے پہل میں بہت پریشان ہوگیا۔ اور میری بھوک پیاس ختم ہوگئی۔ لہذا ناشتہ بھی نہ کر پایا۔ مارشل لاء حکام نے گو کھانا دیا بھی مگر ماسوائے کپ چائے کے میں کچھ نہ کھا سکا۔ یہ سن کر حضور نے فرمایا۔ >جب مجھے گرفتار کیا گیا تو میں نے پہلے نہایت ہی اطمینان سے غسل کیا پھر سیر ہوکر ناشتہ کیا کیونکہ ایسے وقتوں میں مجھے خوب بھوک لگتی ہے۔ اس کے بعد کپڑے تبدیل کئے نیز فرمایا خدا کے فضل سے میرے جوہر بحران میں کھلتے ہیں۔ اور میری اندرونی طاقتیں نمایاں ہونا شروع ہوجاتی ہیں ہر وقت خوش رہتے اور ہمیں خوش رکھنے کی کوشش فرماتے اور ہمارے ذہنوں میں یہ احساس پیدا کرتے رہتے کہ یہ آزمائش اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اس میں کامیابی کے بعد ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کی بے شمار بارشیں ہوں گی۔ لہذا ہمیں استقلال کے ساتھ اور دعائوں کے ساتھ ان لمحات کو مسکراتے ہوئے گزارنا چاہئے۔ اللہ اللہ کیا ہی پاکیزہ اور پیارا دل تھا۔ جو ہر وقت سلسلہ پر ہر طرح قربان ہونے کے لئے مستعدد رہتا تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ حضور پر نور جیل میں دعائیں نہیں کرتے تھے۔ دعائیں کرتے تھے۔ دعائیں تو وہ ہر سانس کرتے تھے مگر اس طرح کہ ان کی کسی حرکت سے یہ ظاہر نہ ہو کہ ان پر کسی قسم کی گھبراہٹ ہے دراصل آپ کے اپنے رب سے راز و نیاز تنہائی میں ہوتے تھے۔ میں نے بھی اسی غلط فہمی میں ایک دن آپ کو کرب سے دعا کی طرف راغب کرنے کے لئے عرض کیا >حضور اگر اجازت دیں تو یہ عاجز آپ کو دبائے فرمایا ہاں ہاں چنانچہ میں نے دبانا شروع کیا پھر میں نے عرض کیا کہ حضور کچھ سنائوں بھی فرمایا ضرور سنائیں چنانچہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ دعائیہ اشعار جو مجھے یاد تھے سنانے شروع کئے۔ میں اشعار سناتا رہا۔ اور حضور بڑے انہماک سے سنتے رہے اور ان کا اثر اپنے دل و دماغ پر لیتے رہے اور ساتھ ساتھ دعائیں بھی فرماتے رہے۔ )یاد رہے اس وقت ہمارے سوا ہمارے پاس اور کوئی نہ تھا( جب میں اشعار پڑھتے پڑھتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر پر پہنچا۔ ~}~
میرے زخموں پر لگا مرہم کہ میں رنجور ہوں
میری فریادوں کو سن میں ہوگیا زار و نزار
تو آپ کی کیفیت کچھ اور ہی ہوگئی اور میں چپکے سے باہر چلا گیا اور حضور دیر تک اپنے رب سے راز و نیاز فرماتے رہے اور یہی میرا مقصد تھا۔ اور انہی دعائوں ہی کے طفیل ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن گئے۔
جمعہ کے دن تھا اس دن میری انٹیروگیشن (Interogation) تھی اور حضرت میاں صاحبان کی ٹرایل تھی۔ اس عاجز کی پردہ پوشی کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سامان فرمایا کہ اسی کار میں جس میں آپ کو سنٹرل جیل سے بوسٹل جیل میں لایا گیا۔ اس عاجز کو بھی لایا گیا۔ راستے میں حضور ہدایات دیتے رہے۔ کہ کسی سے بھی فضول باتیں نہیں کرنی بلکہ کوشش کریں کہ کسی سے کوئی بات ہی نہ ہو۔ نیز استغفار پر زور دیں۔ گویا اپنے سے زیادہ میری فکر تھی۔
بوسٹل جیل پہنچے تو بھائی جان )ثاقب زیروی( پہلے ہی پہنچ چکے تھے دن رات کی دوڑ و دھوب نے ان کی صحت پر بھی بہت برا اثر ڈالا تھا۔ ویسے >لاہور~<ف۹body]~ gat[ کی بندش کے باعث بھی کچھ کبیدہ خاطر تھے مگر خدا کے فضل سے حوصلہ بہت بلند تھا اور اپنے رب کے فضلوں پر یقین محکم چنانچہ دیر تک میرا بھی حوصلہ بڑھاتے رہے اور فرمایا بالکل فکر نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب ٹھیک ہوگا۔ نیز نصیحت کی کہ اگر کوئی سوال کرے تو Orthodox ہوکر اس کا جواب نہ دینا۔ ممکن ہے کوئی ماہر نفسیات آج تم پر سوال کرے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ تھوری دیر کے بعد ایک تھانیدار صاحب میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے کہنے لگے کہ بھائی اپ کیوں گرفتار ہوئے؟ میں نے عرض کیا کہ بس گرفتار کرلیا گیا۔ اور کیوں ہوئے یہ تو آپ لوگ بہتر سمجھتے ہیں۔ کہنے لگے مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے پاس ایک تحریر تھی جسے تم نے پھاڑ کر کھا لیا۔ چونکہ اس میں جھوٹ کی ملاوٹ تھی میں نے فوراً اسے اصل واقعہ بیان کرکے عرض کیا کہ یہ اصل بات ہے مگر باقی آپ نے اپنی طرف سے ملایا ہے۔ آپ لوگ کیوں اپنی طرف سے جھوٹ ملا کر لوگوں کو سزائیں دلواتے ہیں۔ اگر مجھے سزا ہوگئی تو آپ کو کیا ملے گا؟ کچھ تو خدا کا خوف کرو۔ کہنے لگے اگر آپ سے زیادرتی ہوئی ہے تو وہ مارشل لاء کی طرف سے ہے۔ پولیس کی طرف سے نہیں چاننچہ بعد میں معلوم ہوا کہ میری رہائی میں ان کی رپورٹ کا بھی دخل تھا۔
>بریگیڈیر مرزا< انٹیروگیشن (Interogation) پر مامور تھے وہ نہایت شریف انسان تھے۔ انہوں نے مجھ سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد مشورے کے طور پر کہا کہ اگر آپ کا ٹرائل ہو تو وہاں یہ کہنا کہ میں نے یہ مضمون ایک اور مضمون لکھنے کے لئے نقل کیا تھا )غالباً وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ میں واقعات سے ہٹ کر بھی کچھ کہہ سکتا ہوں کہ نہیں( میں نے یہ عرض کیا کہ نہیں جناب! یہ بات واقعات کے خلاف ہے۔ اصل بات اتنی ہی ہے۔ جو میں نے آپ سے پہلے عرض کردی ہے کہ میں نے یہ مضمون اس لئے نقل کیا تھا کہ میرا ارادہ تھا کہ اسے >الفضل< کو بعینہ بھیج دوں گا کیونکہ اسی قسم کی ایک قسط پہلے بھی >الفضل< میں شائع ہوچکی تھی۔ مگر میں نے اسے نقل تو کرلیا مگر الفضل کو بھیج نہ سکا اور اسی طرح پچھلے چھ ماہ سے میرے پاس پڑا تھا۔ بار بار انہوں نے مختلف پیرائوں میں چکر دے کر اصل واقعہ کے خلاف مجھ سے کہلوانے کی کوشش کی مگر میں نے وہی کہا جو اصل بات تھی اور سچ کا دامن نہ چھوڑا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بریگیڈیر صاحب نے نہ صرف اس عاجز کی سفارش کردی بلکہ اس انسپکٹر پولیس کو جو مجھے گرفتار کرکے لایا تھا بھائی جان کے سامنے ہی بہت سخت سست کہا بلکہ بہت بے عزتی کی۔ میرے اس کیس کی تفصیلات تو اور بھی ہیں مگر یہاں چونکہ مقصود اپنے کیس کی تفصیلات بیان کرنا نہیں ہے بلکہ مقصد حضرت میاں صاحبان کی زندگی کے ان پہلوئوں کے ذکر خیر سے روحوں کو سیراب کرنا ہے۔ جن کو میں نے جیل میں اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور جن کا میں عینی شاہد ہوں اس لئے میں اپنے کیس کی مزید تفصیلات یہیں چھوڑتا ہوں۔
اس عاجز کو حضرت میاں صاحبان کی معیت میں بہتر گھنٹے سے زیادہ ہی رہنے کا موقع ملا اور میں نے آپ کو بہت قریب سے خوب خوب ہی دیکھا ہر لمحہ اور ہر آن ان کی رفاقت ہمارے ایمانوں میں اضافہ کا باعث بنی رہی۔ اور آج تک میرے دل و دماغ کپر کالنقش فی الحجر ہے اس کے بعد آپ بی (B) کلاس میں چلے گئے۔ جس سے ہم خوش تو تھے کیونکہ آپ کا سی (C) کلاس میں ہونا ویسے بھی آپ کے مقام و منصب کے منافی تھا۔ لیکن ہم آپ کی رفاقت حسنہ سے محروم ہوگئے۔ جس کے باعث ہم ملول بھی تھے۔ مگر اب ہمارے حوصلے اتنے بلند تھے کہ ہمارے لئے جو کچھ بھی ہونے والا تھا ہم اس کے لئے انشراح صدر سے پوری طرح تیار تھے۔
یہ بات کسے نہیں معلوم کہ جب کسی پر کیس بن جائے تو خواہ پیر ہو یا فقیر سیاست دان ہو یا عالم دین کوئی کاروباری انسان ہو یا ملازم وکیل صاحبان ان کو جیے جیسے بیان پرھاتے اور سکھاتے ہیں۔ ساتھ کے ساتھ ویسی ہی تبدیلیاں ان کے بیانوں میں ہوتی چلی جاتی ہیں۔ کیونکہ ان کی غرض تو صرف سزا سے بچنا ہوتا ہے۔ خواہ اس سے بچنے کے لئے کتنا ہی جھوٹ بولنا پڑے۔ مگر ہمارے کیس تو مارشل لاء کے کیس تھے۔ اور پھر ۱۹۵۳ء کے مارشل لاء کے۔ جس میں سزا ایسی دی جاتی تھی کہ سننے والوں کے سن کر ہی دل ہل جتے تھے۔ ایسے وقت میں ہمیں ان دونوں بزرگوں کی طرف سے ہمیشہ یہ تلقین کی جاتی کہ صرف سچ ہی بولنا ہے۔ خواہ کتنی بھی سزا کیوں نہ ہوجائے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے ایسے برگزیدہ بندوں ہی کا شیوہ ہوتا ہے۔ جن کی نگاہوں میں اپنے رب کی رضا کے حصول کے سوا کوئی شے نہ ہو۔ یہ خدا کا فل ہے کہ آپ کے ارشادات کے مطابق اس عاجز کو سچ ہی بولنے کی توفیق ملی۔ اور جھوٹ بولنے والوں کا منہ سیاہ ہوا۔
یہ عاجز تین دن کے بعد ہی رہا ہوگیا اور حضرت میاں صاحبان کو سزائیں سنا دی گئیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی دن خواب میں ظاہر فرما دیا تھا۔ عین اسی کے مطابق یہ عاجز تو انٹیروگیشن )(Interogation میں رہائی پاگیا اور حضرت میاں صاحبان چند ماہ بعد رہا ہوگئے۔
میں نے ان تین دنوں میں ان پاک وجودوں سے یہ سیکھا کہ کس طرح استقلال کے ساتھ مصائب کا مقابلہ کیا جاتا ہے اور پھر یہ دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ حق کی حمایت کرتا ہے یہ دن جماعت کے ہر ایک فرد کے لئے بے حد آزمائش کے دن تھے ہر دل بے چین اور ہر آنکھ خدا کے حضور گریاں تھی` مگر مومن کس طرح ان آزمائشوں سے گزرتے ہیں۔ اس کا صحیہ نمونہ ان دو پاک وجودوں میں ہم نے پایا۔ ان دونوں وجودوں نے ایسے ایسے طریقوں سے سچ کی تلقین فرمائی کہ ہمیں سچ مچ ایک مضبوط اور مستحکم چٹان بنا دیا۔~<ف۱۰~
دوسری شہادت
مکرم ملک عبدالرب صاحب )ابن حضرت ملک غلام نبی صاحب~(ف۱۱~ ساکن دارالرحمت غربی ربوہ کا تحریری بیان ہے کہ:۔
>۱۹۵۳ء میں جبکہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب )خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ( اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو قید کیا گیا۔ میں اس وقت مچھ جیل )بلوچستان( میں تھا۔ ازاں بعد مجھے سنٹرل جیل لاہور میں منتقلکیا گیا۔ چند دنوں کے بعد مجھے راشن کا منشی بنا دیا گیا۔ میرے ہمراہ دو غیراحمدی تھے جن کی ڈیوتی جیل میں مولانا ختر علی خاں صاحب کے ساتھ تھی۔ انہوں نے ایک روز مجھے بتایا کہ حضرت صاحب )حضرت خلیفہ المسیح الثانی۔۔۔۔۔( کے بیٹے اور بھاء بھی یہاں قید ہیں تو میں دوڑتا ہوا حضور کی کوٹھری کی طرف گیا چونکہ میں منشتی تھا اس لئے مجھے آنے جانے میں کوئی روک نہ تھی۔
مچھ جیل میں میں چاہتا تھا کہ مجھے لاہور جیل منتقل نہ کیا جائے مگر یہ خدائی تصرف تھا کہ مجھے ان دنوں لاہور سنٹرل جیل میں لے جایا گیا جبکہ حضور اور میاں شریف احمد صاحب بھی وہاں تھے۔ اس طرح خدا نے حضور سے ذاتی تعلق کا ایک موقعہ پیدا کردیا۔
آپ کا کمرہ بہت چھوٹا سا تھا۔ میں روزانہ ملاقات کے لئے جاتا۔ اپنے کام سے فارغ ہوکر میں حضور کے پاس جاکر بیٹھا رہتا۔ حضور اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے چہرے پر کرب` گھبراہٹ یا بے چینی کا کسی کا تاثر میں نے ہیں دیکھا۔ ہر وقت حضور کا چہرہ ہشاش بشاش رہتا تھا۔ حضور زیادہ تر اپنے کمرہ میں ہی رہتے یا کبھی کبھار کوٹھری سے باہر چھوٹے سے صحن میں ہوتے۔
کئی مرتبہ جب حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو دبانا چاہا۔ میاں صاحب حضور کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں کہ >میری بجائے میاں کو دبائو< اس وقت تو ا ساشارہ کا مطلب پتہ نہ چلا مگر ۱۲ سال بعد جبکہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب مسند خلافت پر متمکن ہوئے` حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی خدا داد بصیرت کا پتہ چلا۔ چنانچہ اس طرح قریباً روزانہ ہی حضور کو دبانے کا موقعہ ملتا۔ حضوت اکثر اپنے راشن کا کچھ حصہ جو بسکٹ اور گھی وغیرہ پر مشتمل ہوتا خاکسار کو مرحمت فرما دیتے۔
حضور کی رہائی کے چند دن بعد ہم بھی رہا کردیئے گئے۔ حضور اس وقت رتن باغ میں تھے حضور کو اطلاع ہوئی تو حضور فوراً تشریف لے آئے۔ حضور کے ہاتھوں پر راکھ تھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ حضور خود برتن دھوتے دھوتے تشریف لے آئے۔ حضور نے خود ہی پانی وغیرہ بنا کر ہمیں پلایا کیونکہ حضرت بیگم صاحبہ ہسپتال میں بیمار تھیں۔
جیل کے دنوں کی رفاقت کی وجہ سے حضور نے قبل از خلافت اور بعداز خلافت جس شفقت اور محبت کا سلوک مجھ سے فرمایا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مجھے اتنا پیار یمیرے والدین نے بھی شاید نہ دیا ہو۔
چنانچہ جب بھی حضور سے ملا تو حضور نے اپنے رفقاء سے میرا تعارف >جیل کے ساتھی< کے نام سے کروایا۔ جب حضور سے ملنا ہوتا اکثر بغیر نام لکھوائے حضور سے ملا اور جونہی حضور کو میری آمد کی اطلاع ہوئی حضور نے فوراً مجھے شرف ملاقات بخشا۔
اسی طرح حضور نے ۱۹۶۶ء میں میری شادی کے موقعہ پر میری برات میں بھی شکرت فرمائی اور از راہ شفقت دعوت ولیمہ میں بھی شرکت فرمائی۔
یہ اسی خاص تعلق اور شفقت کا بھی نتیجہ تھا کہ جب میری دوسری بچی پیدا ہوئی اور میں نے نام رکھوانے کے لئے حاضر ہوا تو حضور نے دریافت فرمایا کہ دوسری بھی بچی پیدا ہوئی ہے۔ اب لڑکے کے لئے دعا کریں؟ میں نے عرض کیا کہ ضرور چنانچہ حضور نے دعا فرمائی اور ۷ دسمبر ۱۹۷۱ء کو اللہ کے فضل اور حضور کی خاص دعائوں کے نتیجہ می بچہ پیدا ہوا جس کا نام حضور نے ازراہ کرم >ملک عبدالقیوم< رکھا۔
حضور کی عنایات اور محبت کا کہاں تک ذکر کروں کہ
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے
والسلام
ملک عبدالرب ۱۰ اکتوبر ۱۹۸۰ء
ملک محمد عبداللہ صاحب کی نظر بندی
ملک محمد عبداللہ صاحب مولوی فاضل ان دنوں نظارت تالیف و تصنیف کے مصنف کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ حضرت مصلح موعود نے صوبہ پنجاب کے حالات کی اطلاع حضرت چوہدری محمدظفر اللہ خان صاحب تک پہنچانے کا کام آپ کے سپرد فرمایا ہوا تھا کہ اسی دوران آپ کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ آپ ڈیڑھ ماہ تک پہلے پندرہ دک جھنگ میں اور بعدازاں لاہور میں نظر بند رکھے گئے۔
چنانچہ ملک صاحب موصوف تحریر فرماتے ہیں۔
محترم مکرم حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا قیام کراچی میں تھا۔ پنجاب میں جو حالات جماعت کے خلاف پیدا کئے جارہے تھے اور جو کار روائیاں کی جاتی تھیں ان کی اطلاع جناب چوہدری صاحب کراچی دینے کے لئے خاکسار کو تجویز کیا گیا۔ چنانچہ مارچ کی ۸` ۹ تاریخ کو حضرت مصلح موعدو نے شام کے وقت اس عاجز کو قصر خلافت میں بلایا۔ وہاں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی موجود تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ صبح تم نے کراچی جانا ہے اور کچھ ضروری خطوط وہاں پہچنانے ہیں۔ اس کے لئے ایک بڑی جیبوں والی صدری تیار کروائیں اور صبح چناب ایکسپریس سے پہلے یہاں پر آجائیں۔ چنانچہ میں نے رات ہی کو ایک صدری تیار کروا لی اور صبح حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے کاغذات صدری کی بڑی جیب میں ڈالے اور پہلی مرتبہ حضور نے خود اپنے دست مبارک سے اس جیب پر بکسوآ10] ~[pف۱۲~ لگا کر اسے بند کیا اور دعا کے بعد اس عاجز کو رخصت کیا۔
میں نے وقفہ وقفہ کے بعد چار دفعہ کراچی کا سفر کیا۔ وقفہ صرف دو تین دن کا ہوتا تھا۔ کراچی سے دوسرے دن ہی واپسی ہوجاتی تھی جب میں تیسری دفعہ کراچی جانے لگا تو حضور مصلح موعود نے فرمایا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ پنجاب پولیس آپ کا تعاقب کررہی ہے۔ اس لئے دو آدمیوں کو میرے ساتھ سفر میں ملتان چھائونی تک کردیا۔ ایک چوہدری فیروز دین صاحب جو اب انسپکٹر تحریک جدید ہیں اور دوسرے چوہدری نصیر احمد صاحب۔ یہ بھی اس وقت تحریک جدید کے کارکن تھے۔ دو آدمیوں کے ساتھ کرنے کے متعلق حضور نے فرمایا کہ اگر راستہ میں کسی جگہ گرفتاری ہوجائے تو ایک آدمی میرے پیچھے جائے گا کہ پولیس اپ کو کہاں لے جاتی ہے اور دوسرا آدمی واپس آکر مرکز میں اطلاع دے گا۔
اس کے بعد جب میں چوتھے سفر سے کراچی سے واپس آیا ان ایام میں میری رہائش کوارٹرز صدر انجمن احمدیہ میں تھی۔ میں مغرب کی نماز بیت مبارک میں ادا کرکے آرہا تھا کہ ایک شخص نے بتلایا کہ آپ کے کوارٹر پر چار سپاہی اور ایک پولیس آفیسر کھڑے ہیں۔ یہ وسط اپریل کی بات ہے۔ صحیح تاریخ اب یاد نہیں رہی۔ پولیس آفیسر کا نام شیر ابرار احمد تھا۔ انہوں نے مجھے بتلایا کہ آپ کی نظر بندی کے احکام ہیں۔ رات کوارٹر ہی میں قیام کیا اور صبح یہ مجھے لاہور لے گئے شیخ صاحب بہت شریف پولیس افسر تھے۔ سفر کے دوران میری ضرورت کا بہت خیال رکھتے ہے۔ لاہور میں ایک بہترین ہوٹل میں کھانا کھلایا۔ لاہور میں سیکرٹریٹ میں وہ مجھے برآمدہ میں چھوڑ کر خود اپنے بڑے افسر ہوم سیکرٹری سے ملنے گئے۔ میں دروازہ کے قریب ہی کھڑا تھا۔ ایک افسر نے انہیں کہا کہ آپ نظر بند کو بغیر کسی نگرانی کے ہی چھوڑ آئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں ان کا ذمہ دار ہوں۔ یہ بہت شریف لوگ اور قانون کے پابند ہیں۔ اور یہ نظر بند ہیں` قیدی تو نہیں ہیں۔
ہوم سیکرٹری صاحب نے مجھے بی کلاس دینے کا فیصلہ کیا اور لاہور سے مجھے جھنگ میں لایا گیا۔ پندرہ دن میں جھنگ میں رہا۔ تھانے ہی میں ایک کوٹھری میں مجھے رکھا گیا۔ صبح شام صحن میں پھرنے کی اجازت تھی۔ کھانے کا انتظام جماعت جھنگ نے کیا۔ اس کے بعد جھنگ سے مجھے لاہور لے جایا گیا اور وہاں پانچ دن میں سنٹرل جیل میں رہا۔ یہاں ایک ہندو نظر بند تھے۔ بخشی صاحب انہیں کہتے تھے۔ بڑے زندہ دل اور ادب نواز آدمی تھے۔ جیل کے حکام ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ معلوم ہوا کہ وہ بڑے اچھے خاندان سے ہیں اور پنڈت نہرو تک کے پیغام ان کے لئے آتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اسی جیل کے ایک حصہ میں حرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب تھے۔۔۔۔۔ جیل میں ہمارا رابطہ کھانا لانے والے قیدیوں کے ذریعہ قائم تھا لیکن پانچ دن کے بعد مجھے یہاں سے بوسٹل جیل میں تبدیل کردیا گیا۔ بوسٹل جیل میں بچوں کا ایک سکول ہے اس سے ملحق دو کمرے پختہ بنے ہوئے تھے جن کے آگے برآمدہ اور ایک وسیع صحن تھا۔ یہاں مجھے اکیلے رکھا گیا۔ سکول کے احاطہ کی طرف ایک بڑا آہنی گیٹ تھا۔۔۔۔۔ یہ حصہ اور کمرے جن میں میں فروکش تھا۔ معلوم ہو اکہ یہ خان عبدالغفار سرحدی گاندھی کے لئے بنایا گیا تھا۔ وہ یہاں پر نظر بند تھے اور تھوڑا عرصہ ہوا کہ انہیں یہاں سے تبدیل کیا گیا ہے۔
بوسٹل جیل کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ ان دنوں شیخ نذیر احمد صاحب تھے جو ایک نوجوان آدمی تھے۔ بڑے خوش اخلاق اور ملنسار طبیعت کے مالکے تھے۔ ہر دوسرے تیسرے روز عصر کے بعد تشریف لاتے اور کافی دیر باتیں کرتے رہتے۔ بار بار دریافت کرتے کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔ کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتلائیں۔ میں نے انہیں ایک دن کہا کہ تکلیف یہ ہے کہ میں یہاں سارا دن بیکار رہتا ہوں۔ مجھے کوئی کام دے دیں۔ اس پر میں نے کہا کہ مجھے کچھ کتابیں ہی منگوا دیں اور کوئی ایک اخبار۔ چنانچہ اس بات کا انہوں نے دو ایک دن میں ہی انتظام کر دیا۔ جزاہم اللہ تعالیٰ۔
بوسٹل جیل میں کھانے کا انتظام معقول تھا۔ میری بی کلاس تھی۔ دونوں وقت کھانے میں گوشت ہوتا تھا۔ اور ناغہ کے دن انڈے ہوتے تھے۔ ایک وقت چپاتی کے ساتھ چاول بھی ہوتے تھے۔ عصر کے وقت روزانہ دودھ اور کھانڈ مہیا کرتے اور ہفتہ میں دو تین بار موسم کا پھل بھی دیتے تھے۔ ڈیڑھ ماہ کے بعد رمضان کے ایام میں مجھے رہا کردیا گیا۔
اس عرصہ میں حضرت مصلح موعود کی شفقت اور احسان ناقابل فراموش ہے۔ میرے متعلق آپ کا دفتر امور عامہ والوں کو بار بار ارشاد ہوتا کہ اس کا خیال رکھا جائے۔ اور میری بیوی بچوں کے متعلق الگ تاکید کی جاتی۔ میری اہلیہ صاحبہ گھر سے بہت کم باہر نکلتی ہیں۔ میری نظر بندی کے دوران حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضور مصلح موعود کے ہاں جاتی تو وہ انہیں بڑی تسلی اور تشفی فرماتے۔ اسی طرح حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب روزانہ کورٹر پر تشریف لاکر خیریت اور ضروریات کے متعلق پوچھتے۔ ربوہ میں جب شام کے وقت پولیس میرے مکان پر آتی تو حضرت اقدس کو بھی فوراً اطلاع ہوئی کہ مجھے نظر بند کر لیا گیا ہے۔ مگر قاضی عبدالرحمن صاحب سیکرٹری بہشتی مقبرہ نے ہضور کا یہ پیغام مجھے دیا کہ پریشانی اور گھبراہٹ کی ضرورت نہیں اور آپ کے بیوی بچوں کا ہر طرح خیال رکھا جائے گا۔ میں اس وقت پولیس کے ہمراہ کوارٹر کے سامنے سڑک پر کھڑا تھا۔ میں نے مکرم قاضی صاحب سے کاغذ کا ٹکڑا اور پنسل لی اور کاغذ پر حدیث شریف کے یہ الفاظ لکھ دیئے کہ >فزت ورب الکعبہ~<ف۱۳~ اور قاضی صاحب سے درخواست کی کہ میرا یہ پیغام حضور تک پہنچا دیں۔ جب میں نظر بندی سے رہا ہوکر ربوہ آیا تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجھے فرمایا کہ آپ کے >فزت ورب الکعبہ< کے الفاظ خوب تھے اور حضور نے اسے بڑا پسند فرمایا۔
اسی زمانہ کا ذکر ہے کہ حضرت مولوی محمد دین صاحب انجمن احمدیہ )جو اس وت آپ ناظر تعلیم تھے( جو میرے ساتھ بڑی ہی شفقت اور مہربانی کا برتائو رکھتے ہیں۔ اور آپ کا مکان میرے مکان کے قریب ہی تھا۔ آپ نے مجھے بتلایا کہ جن دنوں تم نظر بند تھے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی لاہور میں نظر بند تھے۔ ایک دن امور عامہ کا کوئی کارکن صاحبزادہ صاحب سے لاہور میں ملاقات کرکے آئے۔ اور وہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں آئے۔ میں بھی حضور کے پاس بیٹھا تھا۔ اس کارکن نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی خیریت اور حالات کی اطلاع دی تو حضور نے فرمایا یہ تو ٹھیک ہے۔ وہ ملک عبد اللہ غریب کے متعلق بھی پتہ کریں کہ ان کا کیا حال ہے۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ غریب کا لفظ مجھے خاص طور پر یاد ہے۔ اللہ اللہ! کس قدر مہربان اور شفیق آقا ہے کہ اپنے فرزند کی خیریت کی خبر کے ساتھ ایک ادنیٰ خادم کا کس قدر خیال ہے کہ اس کی خبر گیری کی تاکید کی جاتی ہے۔
نظر بندی سے رہا ہوکر جب میں ربوہ آیا تو مغرب کی نماز کے بعد حضور نے بیت المبارک میں جب مجھے دیکھا تو شرف مصافحہ بخشا اور میری خیر و عافیت کے متعلق دریافت فرماتے رہے۔ بعدازاں چند دن کے بعد مجھے قصر خلافت میں بلا کر شرف ملاقات بخشا اور نظر بندی کے تفصیلی کوائف سنے میں نے عرض کیا کہ نظر بندی کے دوران لاہور میں صرف ایک دفعہ ایک آفسر میرے اس آئے تھے۔ انہوں نے چند منٹ میرے ساتھ باتیں کیں۔ اور دریافت کیا کہ آپ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے کراچی ملنے جاتے تھے۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ جناب چوہدری صاحب سے میری واقفیت ایک لمبے عرصہ سے ہے۔ اور ملکی تقسیم سے پہلے قادیان میں ان کی سکنی اراضی کا نگران اور فروخت کنندہ رہا ہوں اور قادیان میں جب بھی چوہدری صاحب تشریف لاتے یں ان سے متعدد بار ملاقات کرتا۔ اب کراچی میں بھی۔ میں جب جاتا ہوں تو اگر موقعہ ملے تو ان سے ملاقات ہوتی ہے۔ اس کے بعد کوئی بات نہیں ہوئی۔~ف۱۴~
حضرت مصلح موعود کے ایک خطبہ جمعہ کی ضبطی
۶ اپریل ۱۹۵۳ء کو حکومت پنجاب نے حضرت مصلح موعود کا ایک خطبہ جمعہ~ف۱۵~ ضبط کرلیا۔ یہ خطبہ مولوی سلطان احمد صاحب پیر کوٹی زور و نویس نے مرتب کیا تھا اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے اسے نور آرٹ پریس راولپنڈی میں چھپوانے کے لئے بھجوایا تھا۔ مگر ۱۹ مارچ کے نوٹس کے پیش نظر ایک خصوصی تار کے ذریعہ اس کی چپوائی اور اشاعت رکوا دی گئی تھی۔ پریس میں یہ خبر دی گئی کہ گویا یہ خطبہ نور آرٹ پریس راولپنڈی سے چھپ کر شائع ہوچکا تھا حالانکہ یہ بالکل خلاف واقعہ بات تھی۔ یہ تفصیلات ہمیں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے درج ذیل مراسلہ سے بھی ملتی ہیں جو آپ نے ۷ اپریل ۱۹۵۳ء کو انسپکٹر جنرل صاحب پولیس پنجاب کے نام لکھا
‏From
‏Shah, Ullah Wali Abedin Zainul Syed
‏Tabigh,۔o۔Dawat Nazir
۔Rabwah Commuinty Ahmadiyya
‏1953 April 7th Dated
‏To
‏Punjab Police of general inspector The
۔Lahore
‏Sir,
‏ page6, on Gazette Military and liCiv the of issue today's <In Juma Khutba the that notification Government the read have I printed was Community Ahmadiyya the of Head the by delivered been has same the that and Rawalpindi Press Art Noor the at the have I connection this In ۔Government the by proscibed send indeed did I that fact the notice your to bring to honour before but Rawalpindi at printing for Khutba said۔afore the the publication its before and completed was printing its the under notice a received Community ayyidamAh the of head of result a As ۔Punjab Governor the from Act Safety Punjab printing aforesard the stop to directed immediately was I that the to telegram express an sent I wherecupon publication and and printing the stop to Rawalpindi Press Art Noor Manager received Manager said the ۔Khutba said the of publication ۔completed was it before printing stopped and time in telegram my Manager the after only Press Art Noor the reached Police The never thus was Khutba the ۔telegram said the received had away taken were it of copies printed۔part the and published >۔police the by
‏ the that regrettable extremely is it circeumstanees the Under notification said the in stated fully and rightly been not have facts members and Head the before humiliated myself finding am I and said the of printing the allowed I that showing community our of ۔instructions timely and clear of spite in Khutaba
‏bed to honour the have I
۔Sir
۔servant obedient most Your
)۔(Sd/
‏Shah) hallU Wali Abedin Zainul (syed
۔Rabwah Tabligh ۔o۔Dawat Nazir
از سید زین العابدین ولی اللہ شاہ۔ ناظر دعوت و تبلیغ
جماعت احمدیہ ربوہ مورخہ ۷ اپریل ۱۹۵۳ء
بخدمت انسپکٹر جنرل صاحب پولیس۔ پنجاب۔ لاہور
جناب عالی
سول ملٹری گزٹ کی آج کی اشاعت کے صفحہ ۶ پر میں نے گورنمنٹ کا یہ اعلامیہ پڑھا ہے کہ جماعت احمدیہ کے سربراہ نے جو خطہ دیا وہ نور آرٹ پریس راولپنڈی میں شائع ہوا اور گورنمنٹ نے اسے بحق سرکار ضبط کرلیا ہے۔ اس سلسلہ میں میں جناب کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ صمیں نے متذکرہ بالا خطبہ چھپوانے کے لئے راولپنڈی ضرور بھجوایا تھا لیکن اس کی چھپوائی مکمل ہونے اور اس کی اشاعت سے قبل جماعت احمدیہ کے سربراہ کو گورنمنٹ پنجاب کی طرف سے سیفٹی ایکٹ کے ماتحت ایک نوٹس موصول ہوا۔ چنانچہ مجھے فوراً ہدایت دی گئی کہ میں متذکرہ صدر خطبہ کی چھپوائی اور اشاعت کو فی الفور روک دوں۔ بناء بریں میں نے نور آرٹ پریس راولپنڈی کے مینجر کو ایکسپریس تار کے ذریعہ ہدایت کی کہ متذکرہ خطبہ کی چھپوائی اور اشآعت فوراً روک دیا۔ پولیس` نور آرٹ پریس میں اس تار کے ملنے کے بعد پہنچی جو مینجر کو دیا گیا تھا۔ اس طرح مذکورہ خطبہ کی اشاعت ہوئی ہی نہیں اور جزوی طور پر جتنا حصہ چھپ چکا تھا اس کی مطبوعہ کاپیاں پولیس لے گئی۔
ان حالات میں یہ امر نہایت درجہ قابل افسوس ہے کہ مذکورہ حکمنامہ میں واقعات کو صحیح اور مکمل طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ اور مجھے امام جماعت احمدیہ اور اپنی جماعت کے ممبران کے سامنے اس وجہ سے شرمندگی اٹھانی پڑی کہ میں نے واضح اور بروقت ہدایات مل جانے کے باوجود متذکرہ خطبہ کی چھپوائی کیوں ہونے دی۔
میں ہوں جناب کا ادنیٰ خادم
دستخط )حضرت( سید زین العابدین
ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ ربوہ
حواشی
~ف۱~
نوائے وقت لاہور ۳ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ نمبر ۱
~ف۲~
نوائے وقت لاہور ۷ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۱ ۹ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ
~ف۳~
المصلح کراچی ۲۹ مئی ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
~ف۴~
جناب سد ابو الاعلفی مودودی صاحب امیر جماعت اسلامی جنہیں ۲۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو گرفتار کیا گیا تا )ناقل(
~ف۵~
الفضل ۵ اکتوبر ۱۹۸۳ء صفحہ ۴ یہ اشعار شعبہ تاریخ کو محترمہ بشری طیبہ صاحبہ اہلیہ صہاب صدیق یوسف صاحب آف جدہ کے ذریعہ سے موصول
~ف۶~
اخبار >ریاست< دہلی مئورخہ ۲۷ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ کالم نمبر ۱
~ف۷~
>ہندو< )جالندھر اور نئی دہلی( ۱۲ اپریل ۱۹۵۳ء
~ف۸~
الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۷۲ء صفحہ نمبر ۳
~ف۹~
>ہفت روزہ لاہور<
~ف۱۰~
خالد ربوہ >سید ناصر نمبر< صفحہ ۴۵ تا صفحہ ۲۵۱
~ف۱۱~
تاریخ وفات یکم جنوری ۱۹۸۰ء
~ف۱۲~
‏Pin Safty
~ف۱۳~
رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ یہ تاریخی کلمات صحابی رسولﷺ~ حضرت حرامؓ بن ملحان نے اس وقت کہے تھے جبکہ آپ کو غزوہ احد کے ایک بدبخت کافر نے نیزہ مارا اور آپ کے جسم مبارک سے خون مبارک سے خون کا فوارہ چھوٹ گیا اور آپ شہید ہوگئے۔ )صحیح بخاری مصری ج ۲ ص ۲۰ )حالات غزوہ احد(
~ف۱۴~
)غیر مطبوعہ مکتوب جناب ملک محمد عبداللہ صاحب ریٹائرڈ لیکچرار تعلیم الاسلام کالج ربوہ مورخہ ۲۰ مارچ ۱۹۷۵ء سابق قائد مال مجلس انصار اللہ مرکزیہ ربوہ(
~ف۱۵~
بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصلح موعود نے یہ خطبہ جمعہ ۶ یا ۱۳ مارچ ۱۹۵۳ء کو ارشاد فرمایا تھا
پانچواں باب
۱۹۷۳ء کے شہدائے احمدیت` ایسٹرن راہ مولا اور مرکز کو کوائف بھجوانے والے حضرات
شہدائے احمدیت )۱۹۵۳ء(
۱۹۵۳ء کے فسادات کے دوران مندرجہ ذیل عشاق احمدیت نے جام شہادت نوش کیا۔
۱۔
مکرم ماسٹر منظور احمد صاحب مدرس باغبانپورہ لاہور ۵ مارچ ۱۹۵۳ء
۲۔
مکرم محمد شفیع صاحب برما والے مغلپورہ۔ لاہور۔ ۶ مارچ ۱۹۵۳ء
۳۔
مکرم جمال احمد صاحب طالب علم تعلیم الاسلام کالج بھاٹی گیٹ لاہور ۶ مارچ ۱۹۵۳ء
۴۔
مکرم مرزا کریم بیگ صاحب فلیمنگ روڈ۔ لاہور ۶ مارچ ۱۹۵۳ء
۵۔
مکرم حوالدار عبدالغفور صاحب ولد الٰہی بخش صاحب لاہور ۸ مارچ ۱۹۵۳ء
۶۔
لاہور کے ایک علاقہ میں ایک احمدی عطار ۸ مارچ ۱۹۵۳ء ۱۹۵۳ء۔ نام معلوم نہیں۔
)ان کے علاوہ مولوی عبدالحکیم صاحب صدر جماعت احمدیہ گنج مغلپورہ کی بوڑھی والدہ جو غیراحمدی تھیں نہایت بے رحمی سے قتل کردی گئیں(
اسیران راہ مولیٰ )۱۹۵۳ء(
ان ایام کرب و بلا کو اسیر راہ مولیٰ ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:۔
لاہور
۱۔ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب )خلف الرشید حضرت مسیح موعودؑ(
۲۔
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج لاہور
۳۔
‏ind] ga[tمرزا مظفر احمد صاحب )ابن مرزا قدرت اللہ صاحب(
۴۔
محمد بشیر صاحب زیروی۔
۵۔
محمد صالح صاحب۔
۶۔
محمد یحییٰ صاحب۔
۷۔
ملک برکت علی صاحب۔
۸۔
حکیم سراج دین صاحب۔
ربوہ
۹۔ ملک عبدالزب صاحب
۱۰۔
جناب ملک محمد عبد اللہ صاحب فاضل کارکن نظارت تصنیف و اشاعت ربوہ
ضلع سیالکوٹ
۱۱۔ چوہدری فضل الٰہی صاحب ملیانوالہ نزد ڈسکہ
۱۲۔
شیخ عبدالرحمن صاحب وکیل۔
۱۳۔
محمد رفیق صاحب جراح۔
۱۴۔
مستری ابراہیم صاحب۔
مقامی جماعتوںکے کوائف بھجوانے والے احباب
ذیل میں مغربی پاکستان کے ان مخلصین کی ایک فہرست دی جاتی ہے جنہوں نے ۱۹۵۳ء کے پرآشوب زمانہ میں مرکز احمدیت کو مقامی احمدیوں کے حلات و کوائف سے باخبر رکھا اور جن کی رپورٹیں سیدنا حضرت مصلح ومعود یا سلسلہ احمدیہ کے مرکزی اداروں کو موصول ہوئیں۔
‏sub] g[taضلع راولپنڈی
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۔ بابو اللہ بخش صاحب جماعت احمدیہ راولپنڈی۔
۲۔
جناب میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ راولپنڈی۔
۳۔
قاضی بشیر احمد صاحب بھٹی کشمیری بازار راولپنڈی۔
۴۔
چوہدری بشیر احمد صاحب پسر چوہدری فقیر صاحب مرحوم راولپنڈی۔
۵۔
پیر انور الدین صاحب راوپنڈی
۶۔
محمد عالم صاحب ڈھوک رتہ راولپنڈی شہر۔
۷۔
خواجہ غلام نبی صاحب گلکار راولپنڈی۔
‏in] ga[t۸۔
سید اعجاز احمد شاہ صاحب مقیم راولپنڈی انسپکٹر بیت المال راولپنڈی )حقہ صوبہ سرحد۔ و اضلاع جہلم` راولپنڈی` کیمل پور` میانوالی(
۹۔
غلام احمد صاحب پریذیڈنٹ چنگا بنگیال تحصیل گوجر خان
ضلع گوجرانوالہ
۱۔ میر محمد بخش صاحب امیر جماعت احمدیہ ضلع گوجرانوالہ۔
۲۔
میاں غلام احمد صاحب` میاں نصیر احمد صاح سوداگران چرم وزیر آباد
۳۔
شیخ نیاز محمد صاحب پنشنر انسپکٹر پولیس گوجرانوالہ۔
‏]ni [tag۴۔
محمد علی صاحب مانگٹ اونچے~ف۱۶~
۵۔
شریف صاحب کشمیری گلی گوردوارہ گوجرانوالہ۔
۶۔
میاں جھنڈا خاں صاحب پریذیڈنٹ پھلوکی براستہ قلعہ دیدار سنگھ۔
۷۔
بشیر احمد صاحب سیکرٹری مال " " " ~"ف۱۷~
۸۔
مبارک احمد صاحب ناصر سابق دیہاتی مبلغ ترگڑی
۹۔
محمد الدین صاحب قائد خدام الاحمدیہ و سیکرٹری دعوٰہ و تبلیغ ترگڑی۔
‏]ni [tag۱۰۔
غلام رسول صاحب دیہاتی مبلغ مدرسہ چٹھہ ڈاکخانہ کوٹ ہرا ضلع گوجرانوالہ۔
۱۱۔
ضیاء الدین صاحب پریذیڈنٹ حافظ آباد
۱۲۔
مولوی محمد حسین صاحب عربی ٹیچر گلی شیر سنگھ آبادی حاکم رائے گوجرانوالہ۔
۱۳۔
چوہدری ظفر علی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ گکھڑ۔
۱۴۔
چوہدری محمد حسین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ بھڑی شاہ۔
۱۵۔
محمد عبداللہ صاحب باجوہ پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کامونکی۔
۱۶۔
نصراللہ خاں صاحب سیکرٹری مال انجمن احمدیہ تولیکی۔
۱۷۔
چوہدری محمد شریف صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ فیروزوالہ
۱۸۔
چوہدری فضل احمد صاحب باجوہ کوٹ عنایت خاں تھانہ صدر وزیرآباد
ضلع سیالکوٹ
۱۔ خادم علی صاحب نائب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کلاس والا تحصیل پسرور
۲۔
ماسٹر مولیٰ داد صاحب پریذیڈنٹ شہزادہ ڈاکخانہ خاص براستہ چونڈہ
۳۔
غلام فرید صاحب پریذیڈنٹ چک دھار والی۔
۴۔
عنایت اللہ صاحب امیر جماعت بہاولپور ضلع سیالکوٹ
۵۔
میاں محمد ابراہیم صاحب عابد نائب امیر حلقہ امارت ڈسکہ
۶۔
ملک سراج الدین صاحب سمیڑیال
۷۔
خواجہ محمد امین صاحب
۸۔
سید نذیر حسین صاحب گھٹیالیاں۔
۹۔
ڈاکٹر شیر محمد عالی صاحب صدر بازا سیالکوٹ چھائونی
۱۰۔
عبدالحمید بٹ صاحب سیکرٹری مال نارووال۔
۱۱۔
غلام رسول صاحب پریذیڈنٹ موضع سلدیاں تھانہ نارووال
۱۲۔
میر محمد ابراہیم صاحب پنشنر پریذیڈنٹ و سیکرٹری مال جماعت احمدیہ پسرور
۱۳۔
بابو قاسم الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ سیالکوٹ
۱۴۔
محمد ابراہیم صاحب سیکرٹری مال ویرد والہ
۱۵۔
حکیم اللہ دتہ صاحب امیر جماعت احمدیہ درگانوالی
۱۶۔
سرور محمد خاں صاحب
۱۷۔
عبدالحمید صاحب بٹ سیکرٹری مال جماعت احمدیہ نارووال
۱۸۔
مسعود نصر اللہ خاں صاحب سیکرٹری امور عامہ ڈسکہ۔
۱۹۔
چوہدری دین محمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت چوڑ منڈا
۲۰۔
ماسٹر محمد شریف صاحب میانوالی خانانوالی۔
۲۱۔
عنایت اللہ خاں صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ دھرگ
۲۲۔
عبدالغفور صاحب ظفر وال۔
۲۳۔
محمد نصیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کھیوہ باجوہ
۲۴۔
مرزا غلام نبی صاحب پورن نگر سیالکوٹ۔
۲۵۔
حکیم مرزا محمد حیات صاحب سیکرٹری وصایا و صدر حلقہ واٹر ورکس سیالکوٹ۔
۲۶۔
محمد منیر صاحب ڈوگریاں ہریاں ڈاکخانہ خاص تحصیل پسرور
۲۷۔
بشیر احمد صاحب " " "
۲۸۔
چوہدری غلام غوث صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ ترسہ تحصیل ڈسکہ
۲۹۔
خورشید عالم صاحب عزیز پور ڈگری
۳۰۔
عبدالغنی صاحب عبد قائد ملس خدام الاحمدیہ کلاسوالہ
۳۱۔
فیروز الدین صاحب امرتسری انسپکٹر تحریک جدید ۔مقیم سیالکوٹ(
۳۲۔
قریشی نورالحسن صاحب سیکرٹری مال جماعت احمدیہ کوٹلی ہر نرائن ڈاک خانہ پیرو چک
‏tav.14.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
خاندان مہدی موعودؑ اور مرکز سلسلہ کے اہم واقعات
ضلع شیخو پورہ
۱۔
چوہدری محمد انور حسین صاحب ایڈووکیٹ امیر ضلع شیخو پورہ
۲۔
غلام اللہ صاحب اسلم سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ سید والا
۳۔
چوہدری منظور حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ سانلگہ ہل چہور چک ۱۱۷
۴۔
محمد نذیر صاحب بچیکی۔
۵۔
قاضی عبد الحمید صاحب احمدی سیکرٹری مال کوٹ رحمت خاں
۶۔
محمد اسماعیل صاحب چہور چک ۴۵
۷۔
محمد شفیع صاحب ننکانہ صاحب۔
۸۔
شیخ محمد علی صاحب انبالوی مندی چوہڑکانہ
۹۔
شیخ محمد عبداللہ صاحب واربرٹن
۱۰۔
احمد دین صاحب پٹیالہ دوست محمد
۱۱۔
شیخ محمد بشیر صاحب آزاد انبالوی رائس ڈیلر منڈی مریدکے
۱۲۔
غلام سرور صاحب قائد خدام لااحمدیہ چک ۷۹ پھاہے والی
۱۳۔
عمر دین صاحب امیر جماعت احمدیہ کوجر ڈاکخانہ چوہڑکانہ
۱۴۔
سید لال شاہ صاحب امیر جماعت احمدیہ واربرٹن
۱۵۔
محمد صادق صاحب چک ۱۷ بہوڑو۔
۱۶۔
فضل حسین انسپکٹر تحریک جدید مقیم سید والا
۱۷۔
شیخ گلزار احمد صاحب پٹواری شیخو پورہ
۱۸۔
مولوی مہر الدین صاحب مبلغ دعوت و تبلیغ بھینی شرقپور
۱۹۔
قاضی بشیر احمد صاحب جنرل سیکرٹری مجلس خدام الاحمدیہ شیخوپورہ
۲۰۔
فضل الدین صاحب احمدی دکاندار موضع سریانوالہ۔
ضلع لائلپور~ف۳~
۱۔
حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ ضلع لائلپور~ف۴~
۲۔
مولانا محمد اسماعیل صاحب دیالگڑی مبلغ جماعت احمدیہ لائلپور~ف۵~
۳۔
اقبال حسین صاحب ہیڈ ماسٹر ڈی بی ہائی سکول ٹوبہ ٹیک سنگھ
۴۔
محمد حسین صاحب چک نمبر ۱۰/۶۶۹ گ ب ڈاککانہ خاص تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ
۵۔
عبدالعزیز صاحب آرہتی پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ گوجرہ
۶۔
غلام حسین صاحب پریذیڈنٹ کرتار پور چک نمبر b۔/r ۲۷۵
۷۔
حکیم غوث محمد صاحب سیکرٹری مال کرتار پور چک نمبر b۔/r ۲۷۵
۸۔
حکیم رحیم بخش صاحب مبلغ لاٹھیانوالہ نمبر ۱۹۲
۹۔
منشی خدا بخش صاحب چک نمبر ج۔ب/ ۳۶۷ جلیانوالہ
۱۰۔
نعمت اللہ صاحب پٹواری مال چک نمبر ۲۴۳ گ/ ب براستہ ماموں کانجن
۱۱۔
علی احمد صاحب سیکرٹری مال چک نمبر ۶۴۴
۱۲۔
محمد جعفر صاحب مدرس بگھرال ساکن ڈھومپال
۱۳۔
نعمت خاں صاحب ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ سیشن جج چک۔ ۲۳ رکھ برانچ
۱۴۔
محمد دین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چک ۵۶۴ تحصیل جڑانوالہ
۱۵۔
عنایت اللہ صاحب امیر جماعت احمدیہ بہاولپور
۱۶۔
خواجہ محمد احمد صاحب مسلم شراکت جڑانوالہ
۱۷۔
عبدالمجید خاں صاحب سمندری
۱۸۔
شیخ محمد یوسف صاحب بیت فضل لائلپور
۱۹۔
منشی بشیر احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چک ۹۶ گ/ ب
۲۰۔
غلام رسول صاحب سیکرٹری جماعت احمدیہ چک ۲۰۹ تحصیل سمندری
۲۱۔
محمد مشتاق صاحب چک نمبر ۱۱۷ گ/ ب براستہ تاندلیانوالہ
۲۲۔
عبدالرحمن صاحب چک ۵۰ ج / ب سٹھیالہ ضلع لائلپور
۲۳۔
حاکم علی صاحب پریذیڈنٹ چک ۵۵/ ۵۶ گ/ ب تحصیل جڑانوالہ
۲۴۔
فتح محمد صاحب سندھ ویجی ٹیبل آئل لمیٹڈ گوجرہ
۲۵۔
محمد شریف صاحب جڑانوالہ
۲۶۔
ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلام جلیانوالہ ڈاکخانہ گوجرہ
۲۷۔
محمد مشتاق صاحب چک نمبر ۱۱۷ گ/ ب رام سنگھ والی براستہ تاندلیانوالہ
۲۸۔
نجات احمد صاحب پریذیڈنٹ گوالہ
۲۹۔
بشیر احمد صاحب سیکرٹری مال چک ۱۹۵ جنڈانوالہ
۳۰۔
ڈاکٹر محمد انور صاحب پریذیڈنٹ جڑانوالہ
۳۱۔
غلام محمد صاحب چک ۴۳۸ گ ب۔ برتھ ڈاکخانہ تاندلیانوالہ
۳۲۔
چوہدری سردار خاں صاحب پریذیڈنٹ کتھو والی چک ۳۱۲ ج/ ب
۳۳۔
عبدالحئی صاحب آئرن مرچنت منڈی بازار تاندلیانوالہ منڈی
۳۴۔
مولوی بشیر احمد صاحب زاہد۔ لال دین صاحب سردار احمد صاحب )چک نمبر b۔/r ۶۹ گھسیٹ پورہ(
۳۵۔
انور احمد صاحب سیکرٹری مال جماعت احمدیہ چک نمبر b۔/r ۶۱ ضلع فیصل آباد
۳۶۔
محمد یعقوب صاحب جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ چپ نمبر ۱۲۱ ج/ ب گوکھووال۔
۳۷۔
بشیر احمد صاحب سیکرٹری مال چک ۱۹۵۔ رکھ جنڈا والا
۳۸۔
عبدالرحمن صاحب پریذیڈنٹ چک ۴۶۹ تحصیل سمندری
۳۹۔
عبدالغنی صاحب صراف منڈی پیر محل
۴۰۔
محمد حسین خاں صاحب سیکرٹری امور عامہ جڑانوالہ
۴۱۔
رشید احمد صاحب ساہی سیکرٹری جماعت احمدیہ قادر آباد چک نمبر ج۔ب/ ۳۵۴ براستہ گوجرہ
۴۲۔
غلام محمد صاحب چک ۴۳۸
۴۳۔
نور محمد صاحب پریذیڈنٹ چک شیرکا۔
۴۴۔
عبدالحمید صاحب پریذیڈنٹ جماعت دنجواں
۴۵۔
نذیر احمد صاحب سیکرٹری مال چک نمبر ۶۱
ضلع جھنگ
۱۔
شیخ محمد حسین صاحب پنشنر قائم مقام امیر جماعت احمدیہ چنیوٹ
۲۔
جمال الدین احمد صاحب چنیوٹ
۳۔
عطاء اللہ خان صاحب "
۴۔
عبدالکریم صاحب سیکرٹری امور عامہ چنیوٹ
۵۔
چوہدری عبدالغنی صاحب امیر جماعت احمدیہ جھنگ
۶۔
میاں محمد بشیر احمد صاحب ایجنٹ اسٹینڈرڈ آئل کمپنی جھنگ
۷۔
سراج الدین صاحب فضل سٹریٹ مگھیانہ
۸۔
مولوی عبدالرحیم صاحب عارف مگھیانہ
۹۔
عبدالرحمن صاحب محلہ گوہر شاہ جھنگ مگھیانہ
۱۰۔
ڈاکٹر فضل حق صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ لالیاں
۱۱۔
مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ احمد نگر
۱۲۔
ماسٹر غلام حیدر صاحب سپرنٹنڈنٹ مدرسہ احمدیہ احمد نگر
۱۳۔
مولوی ظفر محمد صاحب استاذ مدرسہ احمدیہ "
۱۴۔
حکیم عبد الرحمان صاحب شمس سیکرٹری جماعت احمدیہ شور کوٹ شہر
ضلع لاہور
۱۔
شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور
۲۔
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب لاہور
ریاست بہاولپور
۱۔
چوہدری خورشید احمد صاحب لیاقت پور امیر جماعت ہائے احمدیہ ضلع رحیم یار خاں
۲۔
‏ind] ga[tشیخ اقبال الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ بہاولنگر
۳۔
رحمت علی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چک نمبر /p ۶۵ ضلع رحیم یار خاں
۴۔
عزیز محمد خاں صاحب سپرنٹنڈنٹ دفتر چیف انجینئر بہاولپور
۵۔
چوہدری فرزند علی صاحب صادق نائب امیر جماعت ہائے احمدیہ ضلع رحیم یار خاں۔ کوٹ فرزند علی ضلع رحیم یار خاں
۶۔
منیر احمد صاحب سیکرٹری مال چک نمبر r۔ ۴/ ۵۵ منڈی ہارون آباد ضلع بہاولنگر
۷۔
غلام قادر صاحب سیکرٹری جماعت احمدیہ چک نمبر ۴۔۷ ۱۶۰ ڈاکخانہ فقیر والی ضلع بہاولنگر
۸۔
محمد عبداللہ صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کوٹ فرزند علی ضلع رحیم یار خاں
صوبہ سندھ
۱۔
حضرت صوفی محمد رفیع صاحب )ریٹائرڈ( ڈی ایس پی سکھر
۲۔
مولانا غلام حسین صاحب ایاز سابق مجاہد احمدیت سنگاپور مبلغ سلسلہ کنری
۳۔
قریشی عبدالرحمن احب ٹیچر ریلوے ہائی سکول سکھر
۴۔
فضل الرحمن صاحب ٹیچر ریلوے ہائی سکول سکھر
۵۔
فضل الدین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ ناصر آباد اسٹیٹ
۶۔
شیخ احمد دین صاحب پراونشنل سیکرٹری تبلیغ سندھ کنری
۷۔
ملک عنایت اللہ صاحب سیکرٹری تعلیم و تربیت بدین
۸۔
ملک بشیر احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ جیکب آباد سندھ
۹۔
چوہدری عنایت الرحمن صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ ٹنڈوالہ یار
۱۰۔
سلطان احمد صاحب سیکرٹری مال جماعت گوٹھ مولا بخش ضلع نواب شاہ سندھ
‏in] [tag۱۱۔
محمد عثمان صاحب جیمس آباد
۱۲۔
حضرت حکیم محمد موھیل صاحب کمال ڈیرہ سندھ
صوبہ سرحد
۱۔
حضرت قاضی محمد یوسف صاحب ہوتی مردان امیر جماعت احمدیہ سرحد
۲۔
شہاب الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ مردان
۳۔
غلام سرور خاں صاحب بالا کوٹ ہزارہ
۴۔
مولوی عبدالکریم صاحب پشاور
۵۔
سید عبدالرحیم شاہ صاحب پھگلہ تحصیل مانسہرہ
۶۔
‏]ind [tagمحمد احمد خاں صاحب ولد خان میر صاحب افغان تل ضلع کوہاٹ
۷۔
پیر محمد زمان شاہ صاحب مانسہرہ۔
۸۔
ریٹائرڈ صوبیدار سلیم اللہ صاحب )سلیم برادرز( نوشہرہ
۹۔
عبداللطیف صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ داتہ )ہزارہ(
۱۰۔
محمد علی صاحب درانی وکیل پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چار سدہ
حوالہ جات
~ف۱~
آپ ۹ مارچ ۱۹۵۳ء کو موضع مانگٹ سے بذریعہ سائیکل ربوہ آئے تا مرکز کے حالات کا پتہ کریں اور مقامی جماعت کے کوائف مرکز تک پہنچائیں۔
~ف۲~
اس جماعت کی طرف سے ۱۲ مارچ ۱۹۵۳ء کو عطاء الرحمن صاحب آف اودھو وال بطور نمائندہ ربوہ پہنچے اور حالات سے مطلع کیا۔
~ف۳~
~ف۴~
~ف۵~
حال فیصل آباد
چھٹا باب
مجلس مشاورت ہشہ ۱۳۳۲ء مطابق ۱۹۵۳ء
مجلس مشاورت ہشہ ۱۳۳۲ء مطابق ۱۹۵۳ء کے لئے ۳۔ ۴۔ ۵ شہادت اپریل کی تاریخیں مقرر تھیں مگر سیدنا حضرت مصلح موعود کے نام گورنر صاحب پنجاب کے نوٹس )مورخہ ۱۷ مارچ ۱۹۵۳ء( کے باعث ملتوی کردی گئی~ف۱~ لیکن جب حخومت پنجاب نے یہ نوٹس واپس لے لیا تو حضور نے فیصلہ فرمایا کہ ۱۶ مئی کو شوریٰ کا صرف ایک روزہ اجلاس منعقد ہو۔ اس ضمن میں حضور نے ۶ مئی ۱۹۵۳ء کو حسب ذیل اعلان جاری فرمایا:۔
مجلس شوریٰ ۱۹۵۳ء کے متعلق ضروری اعلان
تمام جماعت ہائے احمدیہ پاکستان و ممالک غیر کو اطلاع دی جاتی ہے کہ چونکہ گورنمنٹ نے سیفٹی ایکٹ کا نوٹس جو میرے نام جاری کیا تھا واپس لے لای ہے۔ اس لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ ۱۹۵۳ء ایکٹ کا نوٹس جو میرے نام جاری کیا تھا واپس لے لیا ہے۔ یہ شوریٰ بہت مختصر ہوگی اور اس میں )اول( بجٹ پر غور کیا جائے گا )دوم( اس امر پر غور کیا جائے گا کہ موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطبائع سے اشتال کو دور کرنے اور پاکستان کے مختلف فرقوں می ہم آہنگی پیدا کرنے کی غرض سے احمدیہ جماعت کے تبلیغی پروگرام میں اگر ضروری سمجھا جائے تو مناسب تبدیلی کی جائے اور ایسے طریق اختیار کئے جائیں جو جامعت احمدیہ کی طرف سے قیام امن میں امداد دینے کے لئے مناسب اقدام ہوں اور اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ ذمہ داریوں میں بھی کسی قسم کا خلل نہ آئے )سوم( کوئی ایسا امر جو صدر انجمن احمدیہ یا تحریک جدید میرے مشورہ کے بعد مجلس میں پیش کرنا چاہیں۔
تمام احباب کو یاد رکھنا چاہئے کہ چونکہ نمبر ۲ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر گفتگو کرتے وقت جماعت کے مختلف نمائندوں کو ایسے امور کے متعلق بھی گفتگو کرنی پڑے گی جن کے متعلق پبلک میں گفتگو کرنا نامناسب ہوگا یا شاید بعض لوگ ایسے اہم مسئلہ کے متعلق عام مجلس میں رائے دینے سے بھی ہچکچائیں۔ اس لئے یہ بھی اعلان کیا جاتا ہے کہ اس شوریٰ میں سوائے نمائندوں کے اور کسی شخص کو آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس لئے شوریٰ کے دن کوئی غیر نمائندہ دوست باہر سے تشریف نہ لائیں کیونکہ انہیں شوریٰ کے لئے زائرین کا ٹکٹ نہیں مل سکے گا۔
مناسب تو یہ تھا کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ شوریٰ پنجاب سے باہر منعقد کی جائے۔ لیکن چونکہ گرمی کدم زیادہ ہوگئی ہے اور میری صحت کمزوری ہورہی ہے باہر کسی جگہ فوراً رہائش اور جلسہ گاہ کا انتظام بھی مشکل ہوگا اس لئے مجبوراً ربوہ میں ہی اس شوریٰ کے انعقاد کا فیصلہ کرتا ہوں۔
سیکرٹری شوریٰ کی طرف سے الگ نوٹس سب جماعتوں کو جلد بھجوا دیا جائے گا۔
خاکسار مرزا محمود احمد )خلیفہ المسیح(
ربوہ ۶ مئی ۱۹۵۳ء~ف۲~
یہ مجلس مشاورت حسب پروگرام ۱۶ ماہ ہجرت / مئی کو ربوہ میں منعقد ہوئی جس میں حضور نے بجٹ پر مشورہ طلب کرنے کے علاوہ ۱۹۵۳ء کی ایجی ٹیشن اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے حالات پر روشنی ڈالی۔ اس مشاورت کی روداد طبع نہیں ہوئی۔ نہ اس کا کوئی ریکارڈ ہے البتہ اس موقعہ کے لئے حضرت مصلح موعود کا ایک رقم فرمودہ نوٹ جو حضور نے کچی پنسل سے تحریر فرمایا تھا محفوظ شکل میں موجود ہے۔ جس سے کسی قدر اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس اہم مجلس میں حضور نے کیا کیا ارشاد فرمایا۔
مولوی عبدالرحمن صاحب انور )سیکرٹری مجلس مشاورت( کو یہ نوٹ مشاورت کے اختتام پر اس میز سے ملا تھا جو اس وقت حضرت مصلح موعود کے سامنے رکھا تھا۔
مشاورت ۱۹۵۳ء کیلئے حضرت مصلح موعود کا رقم فرمودہ نوٹ
>ہمارے آدمیوں کی گرفتاریاں کیمپ بنانے کی کوشش
تبلیغ کا ارادہ ظاہر کرنے پر گرفتاری
رسالہ چھاپنے کے لئے جانے پر گرفتاری
میرا نوٹس
حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کی ضبطی تلاشیوں میں مانگٹ اوچے کا واقعہ
ایک جگہ احمدیوں پر حملہ۔ بہت سے زخمی ہوئے مگر احمدیوں کو ساتھ پکڑا گیا۔~ف۳~
منافقت
۱۔ رپورٹ پولیس اور فوج کو
۲۔ میاں شریف احمد صاحب کے خلاف سازش
۳۔ منافق گروہ ربوہ میں
اس کے مقابل اخلاص کا اظحار۔ چندہ کی طرف توجہ
عورتوں کا اخلاص
مبلغین میں سے مولوی محمد اسماعیل صاحب کا اچھا نمونہ ان سے اتر کر مولوی عبدالغفور صاحب ایک احمدی کے حالات پوچھنے پر ایک فوجی افسر کے
دوسری قسم کے میں اصلاح اور سلسلہ اور ملک کے فائدہ کے لئے مشورہ دوں گا ڈر کر نہیں اور اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور سے نہیں ڈروں گا اور احمدیت کی عظمت اور سچائی کے ثبوت کے لئے اپنی جان لڑا دوں گا۔<
سیدنا حضرت مصلح موعود کا اہم بیان
اس مجلس مشاورت کا ایک خوشنما اور شیریں پھل ایک اہم بیان کی شکل میں ظاہر ہوا جو اس مجلس کی درخواست پر حضرت مصلح موعود نے جاری فرمایا اور جس کا مکمل متن یہ ہے:۔
‏head1] g[taہمارے عقائد
ہم اس دنیا کا بادشاہ قادر مطلق لافانی اور لاثانی اللہ تعالیٰ کو سمجھتے ہیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ صرف اسلام اللہ تعالیٰ کا سچا دین ہے اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی کتاب ہے اور اس میں فرشتوں` آسمانی صحیفوں` بعثت انبیاء` بعث بعدالموت اور تقدیر خیر و شر کا جس طرح ذکر آیا ہے۔ وہ سب حق اور درست ہے۔ اور ہم اس پر کامل ایمان رکھتے ہیں ہم محمد~صل۱~ کو تمام نبیوں کا سردار سمجھتے ہیں اور خاتم النبین تسلیم کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ آپ پر نازل شدہ شریعت بنی نوع انسان کے لئے آخری شریعت ہے۔ جسے کوئی انسان تو بدل ہی نہیں سکتا بلکہ خود خداوند کریم نے بھی اسے تبدیل نہ کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ شریعت محمدی کا کوئی حکم قیامت تک منسوخ نہیں ہوگا اور اس کا ہر حکم جملہ شرائط کے ساتھ اور جملہ شرائط کے مطابق قیامت تک قابل عمل رہے گا۔
قرآن کریم کے بعد ہم رسول اللہ~صل۱~ کی سنت متواترہ اور احادیث صحیحہ کی پابدی اپنے اوپر لازمی اور ضروری سمجھتے ہیں۔ اور اس سے ذرا بھی انحراف کو گناہ سمجھتے ہیں۔ ہم رسول اللہ~صل۱~ کے صحابہ کرام و اہل بیت اظہار کو تعیلمات قرآنی اور اخلاق محمدی کے مطابق ایک اعلیٰ اسوہ سمجھتے ہیں۔ جو شخص ان کے طریق سے منحرف ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ سے منحرف ہوتا ہے۔
ہم وہی نماز پڑھتے ہیں۔ اور وہی روزے رکھتے ہیں۔ اور وہی زکٰوٰہ ادا کرتے ہیں۔ وہی حج ادا کرتے ہیں۔ اور اسی قبلہ کو تمام مسلمانوں کا مرکز و مامن سمجھتے ہیں۔ جو قرآن مجید سنت رسول و احادیث نبوی اور اقوال صحابہ سے ثابت ہے۔ ہم خود بھی امت محمدیہ میں شامل ہیں۔ اور سلسلہ احمدیہ کے بانی بھی اس امت میں شامل تھے وہ بھی رسول اللہ~صل۱~ کا کلمہ پڑھتے تھے۔ اور ہم احمدی بھی رسول اللہ~صل۱~ کے سوا کسی کا کلمہ نہیں پڑھتے۔ جو شخص ایسا نہ کرے ہمارے عقیدہ میں قرآنی تعلیم کے خلاف عمل کرنے والا اور اسلام سے انکار کرنے والا ہے۔
ہم ہر کلمہ کو امت محمدیہ کا جزو سمجھتے ہیں۔ ہم ہر اس شخص کو امت محمدیہ کا فرد اور جزو قرار دیتے ہیں جو کلمہ طیبہ پڑھتا ہو اور کعبہ مکرمہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتا ہے۔ ہم تمام بنی نوع انسان کی ہمدردی اور خدمت کو خصوصاً تمام مسلمانوں کی ہمدردی اور خدمت کو خواہ وہ کسی ملک میں رہتے ہوں۔ یا کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ہم اس پر ہمیشہ عمل کرتے آئے ہیں۔ اور ہمیشہ عمل کرتے رہیں گے۔ ہماری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ سب انسانوں سے عموماً اور تمام مسلمانوں سے خصوصاً خوشگوار اور رودارانہ تعلقات رکھیں۔ اور انشاء اللہ اللہ تعالیٰ ہم آئندہ بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ اور ہر قسم کے فتنے سے بچیں گے اور کوشش کریں گے کہ ہماری کسی غلطی کی وجہ سے طبائع میں اشتعال پیدا نہ ہو۔
جماعت احمدیہ سیاسی جماعت نہیں ہے۔
ہم سیاسی جماعت نہیں اور من حیث الجماعت سیاست سے بچے رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں۔ کہ من حیث الجماعت وہ ہمیں ان امور سے بچائے رکھے۔ تاکہ اس دور میں جبکہ عام طور پر دنیا دین کو چھوڑ رہی ہے۔ ہمیں اسلام کی خدمت کی توفیق ملتی رہے۔ اور غیر مسلم اقوام کی طرف لانے کا کام ہم سے سرانجام پاتا رہے۔
حکومت اور ملک کو مضبوط کرنا ہمارا اصول ہے
جماعت احمدیہ کا اصول ہے کہ حکومت اور ملک کو مضبطو کیا جائے۔ اور مسلمانوں کے فرقوں میں مودت اور یگانگت پیدا کی جائے۔ قرارداد مقاصد متعلقہ دستور اساسی پاکستان یا تفصیلات دستور اساسی پاکستان میں جو اساسی اصول منظور ہوچکے ہیں یا ہوں ان کو نظر انداز کئے بغیر ہم سمجھتے ہیں کہ ان دنوں ملک میں جس قسم کی تشویش و شورش پیدا کردی گئی ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے جماعت احمدیہ کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسا قدم اٹھائے جو طبیعتوں میں سکون پیدا کرنے اور اشتعال ٹھنڈا کرنے میں ممد ہو۔
تحریر و تقریر میں انتہائی نرمی اختیار کی جائے
پس ہم جماعت ہائے احمدیہ افراد جماعت سے درخواست کرتے ہیں۔ کہ وہ )۱( جماعتی جلسوں کو )بیت الذکر~(ف۴~ یا اپنے ہاں یا کرایہ پر لئے ہوئے ہال یا اپنے پرائیویٹ احاطوں یا کرایہ پر لئے ہوئے احاطوں تک محدود رکھیں۔ تاکسی قسم کے اشتعال کا موقعہ پیدا نہ ہو۔ )۲( جہاں پبلک جلسوں کی ضرورت پیش آجائے )اور اگر حکام کی طرف سے اجازت کی ضرورت ہو اور جازت مل جائے( تو ایسے جلسوں میں متنازعہ عقائد کو زیر بحث نہ لایا جائے اور کسی ایسے طریق کو روانہ رکھا جائے۔ جس کے نتیجہ میں فتنہ اور اشتعال پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ بلکہ تمام مواقع پر تقریر و تحریر میں انتہائی نرمی اور شفقت اختیار کی جائے۔ اور اعلیٰ اخلاص شرافت` مروت رواداری اور محبت کے طریق کو مدنظر رکھتے ہوئے خیالات کا اظہار کیا جائے۔
۲۔ اس عرصہ میں پاکستان کے اندر مباحثہ اور مناظرہ کے طریق کو بالکل بند کردیا جائے جماعتہائے احمدیہ اور افراد جماعت اس امر کی پوری احتیار کریں۔ کہ مسلمانوں کے دیگر فرقوں کے ساتھ متنازعہ عقائد پر مباحثہ اور مناظرہ نہ کیا جائے۔ تبدیلی عقیدہ کی غرض سے جماعت کی طرف سے کوئی اقدام نہ کیا جائے اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ جماعت کی طرف سے اخبارات رسائل اور کتب میں احمدیہ عقائد کی تشریح اور توضیح پر کوئی روک ہوگی یا اعتراضات کا مناسب جواب نہ دیا جائے گا۔ لیکن کوئی غیر احمدی کی خریداری یا مطالعہ پر مجبور نہیں۔ اور نہ یہ مراد ہے۔ کہ شخصی گفتگو میں سوال کے جواب میں عقائد کی وضاحت سے پرہیز کیا جائے۔
سرکاری ملازم حکومت کی حدایات کی پوری پابندی کریں
‏tav.14.13
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
خاندان مہدی موعودؑ اور مرکز سلسلہ کے اہم واقعات
سرکاری آفیسروں اور ملازمین پر خصوصیت سے ان ہدایات کی پابندی لازم ہے۔ جو حکومت کی طرف سے ان کے متعلق جاری ہوں۔ اور جن امور میں ان پر حکومت کی طرف سے پابندی عائد کی جائے ان کی تعمیل میں سرمو فرق نہ آنا چاہئے۔ ایمان اور دیانت کا یہی تقاضا ہے۔ کہ جب کوئی شخص حکومت کی ملازمت اختیار کرتا ہے۔ تو ملازمت کا قبول کرنا ہی اس کی طرف سے عہد ہوتا ہے۔ کہ وہ اپنے فرائض کو سرگرمی اخلاص اور دیانت کے ساتھ ادا کرتا رہے گا اور حکومت کی جاری شدہ تمام ہدایات کی پوری پابندی کرے گا۔ اس عہد کی خلاف ورزی اسے حکومت کی طرف سے بھی قابل مواخذہ بناتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے روبرو بھی وہ جوابدہ ہوتا ہے اور اپنے ایمان اور تعلق باللہ کو خطرہ میں ڈالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کا اور امت محمدیہ کا حافظ و ناصر ہو۔ اور ہمیں اس راستہ پر قائم رکھے۔ جو اس کی رضا کا رستہ ہے آمین~ف۵~]ybod [tag
ریڈیو پاکستان کراچی کا نشریہ
۱۶ جون ۱۹۵۳ء کو ریڈیو پاکستان کراچی نے یہ خبر نشر کی کہ >حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنے ایک اعلان میں جماعت احمدیہ کے افراد کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے عام مجلسوں میں اعتقادی اختلافات کو زیر بحث نہ لائیں آپ نے فرمایا جماعت احمدیہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے جماعت کے ان افراد کے متعلق جو سرکاری ملازم ہیں آپ نے فرمایا کہ حکومت وقتاً فوقتاً جو ہدایات جاری کرتی رہتی ہے وہ ان سب پر عمل کریں۔~<ف۶text]~ ga[t
پاکستانی پریس میں بیان کی اشاعت
یہ مکمل بیان ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان )ا ب پ( کے ذریعہ >المصلح< )کراچی( کے علاوہ >ملت< لاہور )۱۸ جون ۱۹۵۳ء میں بھی شائع ہوا اور ملک میں اس کی خاصی شہرت ہوئی۔ حتیٰ کہ پنجاب کے بعض مشہور اخبارات نے بھی اس کا خیرمقدم کیا۔
)۱( روزنامہ >آفاق< لاہور مئورخہ ۲۱ جون ۱۹۵۳ء نے >قادیانیوں کے امام کا بیان< کے زیر عنوان حسب ذیل ادریہ سپرد قلم کیا۔
>قادیانیوں کے امام مرزا بشیر الدین محمود صاحب کا ایک بیان اخبارات میں آیا ہے۔ اس بیان میں مرزا صاحب نے نہایت شرح صدر کے ساتھ ان تمام شکوک و اعتراضات کو رفع کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ جو عام طور پر ان کی جماعت کے متعلق کئے جاتے ہیں اور دو جنہوں نے گزشتہ ایام میں ایک نہایت خطرناک صورت اختیار کرلی تھی۔ مرزا صاح کا ارشاد ہے کہ وہ
۱۔
رسول اللہ~صل۱~ کو خاتم النبین اور آپ کی شریعت کو آخری مانتے ہیں۔
۲۔
وہی اعتقاد رکھتے ہیں جو توحید` نبوت اور قیامت کے متعلق عام مسلمانوں کا ہے۔
۳۔
وہ۔ وہی اعمال بجا لاتے ہیں جو دوسرے مسلمان بجا لاتے ہیں۔
۴۔
وہ مسلمانوں کے خصوصاً اور عام انسانوں کے عموماً ہمدرد اور بہی خواہ ہیں۔
۵۔
وہ کلمہ گواہل قبلہ کو امت محمدیہ کا فرد اور جزو سمجھتے ہیں۔
یہ پنگانہ نکات اپنی جگہ بہت خوب ہیں اور انہیں پڑھ کر اکثر مسلمان ایک سے زائد بار سوچیں گے کہ اگر ان لوگوں کے عقائد یہی ہیں تو قدر مشترک بہت زیادہ ہے۔
لیکن مرزا صاحب اگر ان نکات کے ساتھ ہی ایک نکتہ کی وضاحت اور بھی فرما دیتے تو اختلافات کی وہ خلیج جو عام مسلمانوں اور ان کی جماعت کے درمیان دیر سے حائل ہے اور پچھے دنوں بہت وسیع ہوگئی تھی` بڑی حد تک پٹ سکتی تھی اور وہ نکتہ یہ ہے کہ جو مسلمانوں مرزا غلام احمد صاحب کو نہیں مانتے` ان کا مقام و منصب قادیانیوں کے نزدیک کیا ہے؟ قادیانی حضرات ان سے دین و دنیا کے معاملات میں ایسا تعاون کرسکتے ہیں جو باوجود فروعی اختلافات رکھنے کے مسلمانوں کے دوسرے فرقوں میں نظر آتا ہے` اگر اس کا جواب اثبات میں ہو تو پھر امام جماعت احمدیہ کا بیان بڑی حد تک موثر ہوجاتا ہے۔ رہی یہ بات کہ خاتم النبین کے معنوی تصور میں قادیانی حضرات کونسی تاویل کرتے ہیں اس کا جواب مولانا عبدالماجد نے یہ دیا تھا کہ تاویل خواہ کیسی ہی رکیل ہو` کذب و انکار کے مترادف نہیں ہوتی۔ ہمیں معلوم نہیں کہ عامہ المسلمین کے نزدیک مولانا دریا بادی کا ارشاد کس حد تک قابل قبول ہے؟ لیکن مرزا غلام احمد کے نہ ماننے والے کے متعلق قادیانیوں کا نقطئہ نظر معلوم ہوجائے تو اختلاف کی حدیں بری حد تک سمٹ سکتی ہیں ورنہ اس بیان سے متعلق وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ جس مقصد کے لئے یہ شائع کیا گیا ہے اسے بوجہ احسن پورا کرسکے گا بیننوا وتوجروا2] f~[stف۷~
۲۔ میاں محمد شفیع صاحب نے اخبار >آثار< )لاہور( ۲۰ جون ۱۹۵۳ میں لکھا:۔
>۶۳ سالہ۔ ذہین و فطین مرزا بشیرالدین محمود احمد نے مسلمانوں کے متعلق اپنی جماعت کے مئولف کی` ایک بیان میں وضاحت کی ہے۔ انہوں نے بانی سلسلہ اور جماعت کے مذہبیعقائد کی بھی اس بیان میں توضیح کی ہے۔
)کیا اچھا ہوتا کہ لاہور کے اخبارات میں اس بیان کا مفصل متن چھاپ دیتے تاکہ عوام اور خواص اسے پڑھ کر خود کوئی رائے قائم کرسکتے(
پاکستان کے مذہبی طبقوں کا اس بیان کے متعلق کیا ردعمل ہوگا؟ میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میرے نزدیک اس بیان کا اہم ترین حصہ وہ ہے جس میں مرزا صاحب نے اپنی جماعت کے ارکان کو تلقین کی ہے کہ وہ تبدیلی عقیدہ کی غرض سے کوئی اقدام نہ کریں اور کہ وہ مسلمانوں کے دیگر فرقوں کے ساتھ متنازعہ عقائد پر مباحثہ اور مناظرہ نہ کریں اور یہ کہ رسول اکرم~صل۱~ کو وہ خاتم النبین تسلیم کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان پر خدا کے جو احکام نازل ہوئے وہ آخری تھے~<ف۸~
۳۔ اخبار >سول اینڈ ملٹری گزٹ< نے لکھا:۔
‏]16 Gesture[p Welcome
‏a and beliefs Ahmadiyya the about statement detailed a issuing theIn controversies, religious all stop to community his to hasdirective Ahmad Mahmud Din۔ud۔Bashir Mirza movement, Ahmadiyya the of theHead of easing the towards contribution helpful most a made۔agitatoin Ahmadiyya ۔anti recent the of result a as created thebitterness by out chalked way the from breadth hair's an by even hisDeviation to according is, leader, Ahmadiyya the says Sunnah, and narbyQu upon looked are "Kalima" the recite who those All ۔sin a Holycreed, the of "Ummat" the of part and to belonging as community dispelhis to way long a go should declarations These ۔AhmadiesProphet the between differences are there That ۔misunderstandings۔true perfectly is points religius certain on Ulema orthodox the ptjerand among differences greater even great, equally are there beBut would there differences, those to in probing start we If sects,۔confusion of Babel a to reduced be dluow Pakistan and them to end ifno objective highest the is mind, our to "Milat", the of StateSolidarity nationat a weaken and solidarity national sacrifice To ۔ofIslam interpretation other no be should There ۔"Kufr" greatest the is۔mind our in clear quite are we ۔that And ۔Pakistan in "Kunfr" and AhmadiyyaIslam the that doubt We ۔teachings Qurainc the of essence the accordingis ۔who Ulema the pacify all at will clarifications Chief's۔Heaven in even about quarrel to something need would ۔Iqbal otthought for food find should opinion public of sections sensible differences,But our despite united, stand to learn we Unless ۔it punlgein can publing wire outside And ۔people free a as doomed are passionswe sectrian up working by configation, a into Pakistan۔sects two any between
1953) ۔6 ۔18 Lahore ۔Gazette" Military & ("Civil
خوش کن اقدام
)ترجمہ( جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے جماعت کے عقائد سے متعلق ایک مفصل بیان جاری کرکے مذہبی مناقشات کو دور کرنے اور حالیہ اینٹی احمدیہ تحریک کے ذریعہ پیدا کی گئی تلخی کو رفع کرنے کے لئے ایک نہایت مفید اقدام کیا ہے۔ امام جماعت احمدیہ نے کہا ہے کہ قرآن مجید اور سنت کے طریق کار ے ذرہ بھر انحراف ان کے نزدیک گناہ ہے تمام کلمہ گو آپ کے اور آپ کی جماعت کے نزدیک مسلمان ہیں اور آنحضرت~صل۱~ کی امت میں شامل اور اس کا حصہ ہیں آپ کا یہ اعلان غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے ایک بہت ہی دور رس قدم ہے۔ یہ درست ہے کہ احمدیوں اور قدامات پسند علماء کے مابین بعض مذہبی امور میں اختلاف ہے تاہم دیگر فرقوں کے درمیان اس سے بھی بڑھ کر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اگر ہم ان اختلافات کی چھان بین کرنے لگیں تو ان کی کوئی انتہاء نہ ہوگی اور پاکستان انتشار کا ملغوبہ بن کر رہ جائے گا۔
ہمارے خیال میں ملت کی یکجہتی اسلام کا سب سے بڑا مطمح نظر ہے اس قومی یک جہتی کو کھونا اور ملک کو کمزور کرنا سب سے بڑا کفر ہے۔ پاکستان میں اسلام اور کفر کی اس کے سوا کوئی توجیہہ نہیں ہونی چاہئے اور ہم اس بات کے کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہی قرآنی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ ہمیں شبہ ہے کہ احمدیہ جماعت کے سربراہ کی یہ تصریح ان علماء کرام کو تسلی دے سکے گی؟ جو علامہ اقبال کے نظریہ کے مطابق جنت میں بھی کسی ایسی چیز کی تلاش میں ہوں گے جو جھگڑے کا باعث ہو۔ تاہم عوام کے اندر دانشور طبقہ کے لئے اس میں یقیناً لمحہ فکریہ کی گنجائش ہے۔
جب تک ہم اپنے تمام اختلافات کے باوجود متحد نہیں ہوجاتے` ایک آزاد قوم کے حیثیت سے ہمارا مستقبل مخدوش ہوجائے گا بیرونی دنیا کی کوئی بھی طاقت کسی بھی دو فرقوں کے درمیان فرقہ وارانہ اشتعال پھیلا کر پاکستان کو ایک نہ بھجنے والی آگ میں دھکیل سکتی ہے۔
بعض دوسری شخصیات کے تاثرات
پاکستان کے ایک معروف اہل قلم جناب ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے لکھا:۔
جماعت احمدیہ کے موجودہ امام جناب میاں محمود احمد صاحب غیر معمولی فہم و فراست اور علم و تدبر کے مالک ہیں۔ نزاکت وقت کو محسوس کرتے ہوئے آج سے ایک ہفتہ پہلے )جون ۱۹۵۳ء کے آخر میں( آپ نے ایک طویل بیان اخبارات کے حوالے کیا جس میں اعلان فرمایا:۔
اول:۔ کہ ہم مسلمان ہیں۔ دیگر مسلمان سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔ ہمارا رسول ایک` کتاب ایک` قبلہ ایک` تمدن ایک` روایات ایک اور سب کچھ ایک۔
یہ ایک نہایت مبارک اقدام ہے۔ اللہ کرے کہ احمدی و غیر احمدی کے مصنوعی اختلافات ختم ہوجائیں اور ہم سب مل کر پاکستان کے استحکام اور قرآنی اقدار کے احیاء کے لئے کام کریں۔
گزشتہ ستر برس میں احمدی کو غیر احمدی سے جدا کرنے کے لئے کئی ہزار صفحات سپرد قلم ہوئے اور انہیں ملانے کے لئے شاید ایک لفظ بھی کسی زبان سے نہ نکلا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے جنازے اور نمازیں ایک دوسرے سے الگ ہوگئیں۔ رشتے کٹ گئے اور کفر و اسلام کے پہاڑ درمیان میں حائل ہوگئے۔ جناب مرزا میاں محمود احمد صاحب کا یہ بیان اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ مصالحت کی طرف یہ پہلا جر¶ات مندانہ قدم ہے۔~<ف۹~
۱۹۵۳ء کی احراری تحریک کے سرگرم لیڈر اور اخبار زمیندار کے ایڈیٹر مولانا اختر علی خاں صاحب نے تحقیقاتی عدالت میں بیان دیا کہ:۔
>احمدیوں نے۔۔۔۔۔ اپنے تحریری بیان میں جو اعلانات کئے ہیں اور جنہیں مئی ۱۹۵۳ء میں جس طرح شائع کیا گیا۔ ان سے تنازعہ ختم ہوجاتا ہے اور احمدیوں کو اب دائرہ اسلام سے خارج نہیں سمجھا جاسکتا۔ اگر احمدیوں کے خلاف تحریک دبارہ شروع ہو تو میں اس میں یقیناً شامل نہیں ہوں گا۔~<ف۱۰~
حوالہ جات
~ف۱~
>المصلح< کراچی ۲ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
~ف۲~
المصلح ۹ ہجرت ہشہ ۱۳۳۳۲ء )۹ مئی ۱۹۵۳ء( صفحہ ۲
~ف۳~
۳۷ گ۔ب متصل ستیانہ بنگلہ تحصیل جڑانوالہ ضلع لائلپور کے احمدی مراد ہیں )بروایت مولانا محمد اسماعیل صاحب دیالگڑی( سابق مبلغ لالپور )فیصل آباد(
~ف۴~
متن میں مسجد کا لفظ ہے )ناقل(
~ف۵~
روزنامہ المصلح کراچی مورخہ ۱۸ اہسان ہشہ ۱۳۳۳۲ء ۱۸ جون ۱۹۵۳ء صفحہ ۳۔ ۸ الفضل ۲ احسان ہشہ ۱۳۳۳۵ء` ۱۹۵۶ صفحہ ۳
~ف۶~
روزنامہ المصلح )کراچی( ۱۷ جون ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
~ف۷~
آفاق ۲۱ جون ۱۹۵۳ء صفحہ ۳
~ف۸~
>آثار< لاہور ۲۰ جون ۱۹۵۳ء صفحہ ۳ >لاہور کی ڈائری< )اخبار کے مینجنگ ایڈیٹر مولوی اختر علی خاں(
~ف۹~
حرف محرمانہ مئولفہ ڈاکٹر غلام جیلانی صاحب برق صفحہ ۱۴` ۱۵ سن اشاعت ۱۹۵۴ء بہ اہتمام شیخ نیاز حمد پرنٹر و پبلشر علی پرنٹنگ پریس ہسپتال روڈ لاہور۔]~[ف۱۰~
اخبار ملت )لاہور( ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۳ء صفحہ ۲ کالم ۴
‏tav.14.14
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
تحقیقاتی عدالت میں وکلائے احمدیت کی کامیاب نمائندگی
حصہ سوم
تحقیقاتی عدالت میں
وکلائے احمدیت کی کامیاب نمائندگی
اور
حضرت مصلح موعود کا
بصیرت افروز بیان اور اس کے اثرات
پہلا باب
فسادات پنجاب کی تحقیقات کیلئے عدالت کا قیام][گورنر پنجاب جناب میاں امین الدین صاحب نے ۱۹ جون ۱۹۵۳ء کو ایک آرڈیننس جاری کیا۔ جس کے تحت فسادات پنجاب کی تحقیقات کے لئے ایک عدالت قائم کیا۔ اور چیف جسٹس محمد منیر اور جسٹس ایم۔ آر کیانی کو اس کا ممبر مقرر کیا گیا۔ اور ہدایت کی گئی کہ وہ مندرجہ ذیل امور کی چھان بین کریں:۔
۱۔
وہ کیا کوائف تھے جن کی وجہ سے ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو لاہور میں مارشل لاء کا اعلان کرنا پرا۔
۲۔
فسادات کی ذمہ داری کس پر ہے؟
۳۔
صوبے کے سول حکام نے فسادات کے حفظ ماتقدم یا تدارک کے لئے جو تدابیر اختیار کیں` آیا وہ کافی تھیں یا ناکافی؟
عدالت نے اپنے دائرہ تحقیقات میں شروع میں ہی غیر معمولی وسعت پیدا کرلی اور حکومت پنجاب` صوبہ مسلم لیگ` مجلس احرار` مجلس عمل اور جماعت اسلامی کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ ربوہ اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کو بھی کاروابی عدالت میں فریق بنا لیا۔ اور ہدایت کی کہ وہ تحققیات کے دائر شرائط کے متعلق تحریری بیانات داخل کریں جن میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
تحقیقاتی عدالت نے دوران تحقیقات متعلقہ اداروں سے مندرجہ ذیل دس سوالات کے جوابات بھی طلب کئے۔
۱۔
ظہور مسیح و مہدی کا ذکر قرآن مجید اور احادیث میں۔
۲۔
کیا مسیح جن کا آئندہ ظہور تسلیم کیا گیا ہے وہی عیسیٰ بن مریم ہوں گے یا کوئی اور؟
۳۔
)الف( کیا مسیح اور مہدی کا درجہ نبی کا ہوگا؟ )ب( انہیں وحی و الہام بھی ہوگا؟
۴۔
کیا ان میں سے ایک یا دونوں قرآن یا سنت کے کسی قانون کو منسوخ کریں گے؟
۵۔
پیغمبر کو کس طریق پر وحی آئی تھی۔ اور کیا حضرت جبرائیل مرئی صورت میں آنحضرت~صل۱~ کے سامنے آتے تھے؟
۶۔
آل مسلم پارٹیز کنونشن نے خاتم الانبیاء کی جو تشریح اور وضاحت کی ہے کیا وہ مسلم عقیدہ کا ہمیشہ جزو رہی ہے؟
۷۔
قرآن اور سنت کے وہ حوالے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی سیاسی اور مذہبی نظام میں غیر مسلموں کو ایک غیر ملکی عنصر کے طور پر قرار دیا گیا ہے۔اور اگر ایسا ہے تو جس حد تک ان کو الگ رکھا گیا ہے اس کی تائید میں تاریکی حوالے پیش کئے جائیں۔ اسی طرح اس پر روشنی ڈالی جائے کہ کیا غیر مسلموں کو پبلک میں اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی اجازت تھی یا نہیں؟ اور کس حد تک ایک قوم یا فرد کے گناہ دوسری قوم یا فرد پر ڈالے جاسکتے ہیں؟
۸۔
ڈائریکٹ ایکش کا جواز
۹۔
احمدیوں کی مطبوعات جو عامہ المسلمین کے مذہبی جذبات و احسانات کی توہین کرتی ہیں۔
۱۰۔
دیگر مسلمانوں کی مطبوعات جن سے احمدیوں کے عقائد کی توہین ہوتی ہے۔
ان دس سوالات کے علاوہ جو تمام متعلقہ جماعتوں سے کئے گئے تحقیقاتی عدالت نے بالخصوص صدر انجمن احمدیہ کو ضابطہ کی کاروائی کے آغاز ہی میں حسب ذیل سات سوالات کے تحریری جوابات داخل کرنے کی ہدایت کی:۔
سوال نمبر۱:۔ جو مسلمان مرزا غلام احمد صاحب کو نبی بمعنیٰ ملہم اور مامورین اللہ نہیں مانتے کیا وہ مومن اور مسلمان ہیں؟
سوال نمبر۲:۔ کیا ایسے شخص کافر ہیں؟
سوال نمبر۳:۔ ایسے کافر ہونے کے دنیا اور آخرت میں کیا نتائج ہیں؟
سوال نمبر۴:۔ کیا مرزا صاحب کو رسول کریم~صل۱~ کی طرح اور اسی ذریعہ سے الہام ہوتا ہے۔
سوال نمبر۵:۔ )ا( کیا احمدیہ عقیدہ میں یہ شامل ہے کہ ایسے اشخاص کا جنازہ جو مرزا صاحب پر یقین نہیں رکھتے Infructious ہے۔
)ب( کیا احمدیہ عقائد میں ایسی نماز جنازہ کے خلاف کوئی حکم موجود ہے؟
سوال نمبر۶:۔ )ا( کیا احمدی اور غیراحمدی میں شادی جائز ہے؟
)ب( کیا احمدی عقیدہ میں ایسی شادی کے خلاف ممانعت کا کوئی حکم موجود ہے؟
سوال نمبر۷:۔ احمدیہ فرقہ کے نزدیک امیر المومنین کی Siginficance کیا ہے؟
تحقیقاتی عدالت کی طرف سے درج ذیل مزید دس سوالات کے جوابات صدر انجمن احمدیہ ربوہ کو داخل کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ سوالات دوسرے فریقوں کے تحریری بیانات کی روشنی میں مرتب کئے گئے تھے:۔
۱۔
انہوں نے اسلام میں امتیوں پر وحی اور نزول جبرائیل کے وجود کو تسلیم کیا ہے حالانکہ نہ غیر نبی پر وحی نازل ہوسکتی ہے نہ بعد رسول کریم~صل۱~ کے جبرائیل نازل ہوسکتا ہے۔ ایسے عقیدے والا رسول کریم صلعم کی ہتک کرتا ہے۔
۲۔
انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور رسول کریم~صل۱~ کی ہتک کی ہے
۳۔
انہوں نے مسیح موعودؑ ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور مسیح ناصری کی وفات کا اعلان کرکے مسلمانوں کی دل شکنی کی ہے۔
۴۔
انہوں نے ایک نئی امت بنائی ہے اور اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور خارج ازاسلام کہا ہے اس لئے مسلمانوں کو اشتعال آتا ہے۔
۵۔
انہوں نے اپنے مخالفوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے روکا ہے ان کا جنازہ پڑھنے سے روکا ہے اور ان کو لڑکیاں دینے سے روکا ہے۔
۶۔
انہوں نے ایک غیرمسلم حکومت کی اطاعت کرنے کی تعلیم دی ہے اور اس کی تائید میں جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے۔
۷۔
انہوں نے مسلمان حکومتوں اور مسلمان تحریکوں سے کبھی ہمدردی نہیں کی۔
۸۔
‏ind] ga[tانہوں نے مسلمانوں کو عموماً اور مسلمان علماء کو خصوص سخت گالیاں دی ہیں۔
۹۔
انہوں نے مسلمانوں سے الگ رہنے کی کوششیں کیں مثلاً ربوہ بنایا۔
۱۰۔
احمدی پاکستان کے مخالف ہیں اور عقلاً بھی وہ مخالف ہونے چاہیں کیونکہ وہ ایک امام کو مانتے ہیں اور اس طرح وہ ایک متوازی حکومت بنانے کے مجرم ہیں۔
نازک مرحلہ
یہ مرحلہ کئی اعتبار سے فسادات کے ایام سے بھی بڑھ کر نازک` بلکہ حضرت مصلح موعود کے الفاظ میں جماعت احمدیہ کے لئے >موت اور زندگی کا سوال~<ف۱~ تھا۔ جب کے دو پہلو ابتداء ہی میں تشویش پیدا کررہے تھے:۔
اول:۔ تحقیقاتی عدالت کے اعلان سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس تحقیقات کا مقصد اس سے زیادہ سمجھتی ہے جتنا کہ حکومت کے ابتدائی اعلان سے ظاہر ہوتا تھا اور اس نوعیت کی تحقیقات میں یہ زبردست خطرہ تھا کہ بعض لوگ حقائق کو بگاڑ کر اس انکوائری کو مذہبی اختلافات اچھالنے کا موجب ہی نہ بنادیں۔ خصوصاً جبکہ یہ دونوں فاضل جج صاحبان اپنے مسلک کے اعتبار سے احمدیت سے اختلاف رکھتے تھے۔
دوم:۔ عوام میں علماء نے ایک خاص منصوبے کے تحت جماعت احمدیہ کے خلاف بغض و عناد کا زہر بھر دیا تھا۔ اور مارشل لاء میں ماخوذ علماء اور زعماء کی نظر بندی کو احمدیت کے خلاف نفرت اور اشتعال پیدا کرنے کا ایک ذریعہ بنا لیا گیا اور تمام جماعتیں اس روح کے ساتھ مجتمع ہوگئیں کہ تحقیقاتی عدالت میں احمدیوں کو فسادات کا ذمہ دار ٹھہرا کر انہیں غیرمسلم افلیت قرار دلوا دیا جائے۔ چنانچہ جناب سید یزدانی جالندھری کا بیان ہے کہ:۔
>مارچ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں احمدیوں کے خلاف فرقہ وار فساد ہوا۔۔۔۔۔ احمدو کے خلاف فرقہ ور فساد تو مارشل لاء نے چند لمحوں میں ختم کردیا۔ جہاں تک آئندہ کا تعلق تھا مستقبل قریب میں کوئی نیا فرقہ وار فساد کرا سکنا ان کو ناممکن نظر آرہا تھا۔ اس لئے کچھ منفی طبع مولوی بہت پریسنا تھے۔ اور اسی قسم کے نئے امکانات پیدا کرنے کی سوچ رہے تھے کہ اتنے میں خبر آئی کہ حکومت نے احمدیوں کے خلاف برپا شدہ فسادات کی تحقیقات کے لئے ہائی کورٹ کے دو حج >منیر انکوائری کمیٹی< کے نام سے مقرر کردیئے ہیں جن کے سامنے ہر مکتب فکر کے مولویوں کو اپنا نقطئہ نگاہ پیش کرنے کی عام اجازت ہوگی۔ اس سے انہوں نے یہ سمجھ کر کہ اب احمدیوں کو دائرہ اسلام سے آئینی طور پر خارج قرار دلانے کا موقعہ ہاتھ آگیا ہے۔ کچھ مولویوں نے خود اپنے درمیان شدید اختلاف عقائد رکھتے ہوئے اس منفی کام کے لئے منظم ہونا قبول کرلیا اور وقت آنے پر اس کمیٹی کے روبرو پیش ہونے لگے۔
مولانا محمد علم الدین سالک بری سختی سے حنفی عقائد کے پابند تھے اور عقائداً احمدیوں سے شدید اختالف رکھتے تھے اور یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں تھی۔ ایک دن ایک مولوی صحب جو اتفاق سے دیو بندی بھی تھے۔ مولانا کے پاس تشریف لے گئے اور درخواست کی کہ انکوائری کمیٹی کے ہاتھوں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دلانے کے لئے وہ اس کمیٹی کے روبرو خود پیش ہوں اور اپنے دوسرے رفقاء علماء کو بھی ایسا کرنے کے لئے کہیں بعد میں مولانا نے جو کچھ بتایا اس کے مطابق ان مولوی صاحب اور مولانا کے درمیان حسب ذیل گفتگو ہوئی۔
مولانا علم الدین سالک مرحم۔ >میں آپ کے ساتھ دینے کو تیار ہوں۔ لیکن آپ یہ فرمائیں کہ آپ کی اور میری کوشش سے اگر احمدی خارج از اسلام قرار دے دیئے جائیں تو کیا تمام عالم اسلام کی تطہیر ہوجائے گی اس کے بعد کوئی کافر عنصر مسلمانوں میں باقی تو نہیں رہ جائے گا۔ غیر ممالک میں احمدی تبلیغی مشنوں کے بدلے کیا انتظام ہوگا۔
مولوی صاحب۔ نہیں۔ یہ تو ہماری ابتداء ہے انشاء اللہ رفتہ رفتہ ہم سب کافر عناصر کو مسلمانوں سے خارج کرا لیں گے۔ پہلے احمدیوں سے نپٹ لیں۔ دوسروں کی پھر سوچیں گے۔
مولانا علم الدین سلاک مرحوم۔ شیعوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ ان کو مسلمانوں میں شامل رہنے دیں گے؟
مولوی صاحب۔ ہم سمجھتے ہی کہ احمدی لوگ ختم نبوت کو نہیں مانتے۔ مگر وہ بانی جماعت احمدیہ کو امتی نبی اور تابع شریعت محمدی بتا کر اپنے حق میں کچھ منطقی صورت پیدا کرلیتے ہیں۔ شیعہ فرقہ >امام< کو نبی سے بڑا مانتا ہے۔ اور وہ امام کی آمد کا منتظر ہے اس سے حصور سرور کائنات کی دوہری توہین ہوتی ہے۔ یعنی اس کے عقیدہ کے مطابق امام ضرور آئے گا اور امام نبی سے بڑا ہوگا۔ چنانچہ حضرت نعمت اللہ شاہ~ف۲~ ولی نے محض اس بناء پر صرف شیعہ فرقہ کو منکر ختم نبوت قرار دے کر کافر گردانا ہے۔ شیعوں کے بعد اہل حدیث کا نمبر آتا ہے یہ فرقہ حضور سرور کائنات کے مقام کو گھٹاتا اور قبروں کی عزت سے منع کرتا ہے۔ ان قبروں میں حضور سرور کائناتﷺ~ اور صحابہ اجمعین کے روضے بھی آتے ہیں۔ پھر اس فرقہ کو کس طرح مسلمان شمار کیا جاسکتا ہے؟ پس مسلمانوں کی مکمل تطہیر اس وقت ہوگی جب احمدی` شیعہ` اہلحدیث تینوں فرقہ غیر اسلام اقلیتیں بنا دی جائیں گی۔ لیکن اس کام کی ابتداء احمدیوں سے ہونی چاہئے<
مولانا علم الدین سالک فرمانے لگے کہ مولوی صاحب کی گفتگو جب اس مقما پر پہنچی تو مجھے خیال آیا کہ دیو بندی فرقہ نے بڑے بڑے جید علماء پیدا کئے جنہوں نے اسلام کی عظمت کو چار چاند لگائے اور اب بھی اس کے ایسے علماء موجود ہیں یہ مولوی صاحب خود بھی دیو بندی ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ ایک دوسرے دیو بندی مولوی صاحب سے ان کی شدید دشمنی ہے اس لئے میں نیمولوی صاحب سے کہا:۔
>غالباً آپ نے مسلمانوں کے تمام عقائد پر غور نہیں کیا ورنہ شائد آپ بریلوی فرقہ کو بھی غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے حق میں ہوتے۔ خیر اس بات کو چھوڑیئے۔ آپ یہ فرمائیں کہ فلاں )دیو بندی( مولوی صاحب کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے کیا وہ اس قابل ہیں کہ ان کو مسلمانوں کے زمرہ میں رہنے دیا جائے۔<
اس پر مولوی صاحب بہت جزنر ہوئے اور فرمایا:۔
>اس مولوی میں ایمان کا یکسر فقدان ہے۔ اس سے بھی نپٹ لیں گے مگر سب کے بعد بات اس وقت احمدیوں کی ہورہی ہے۔ آپ ان کے خلاف گواہی دیجئے اور ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دلا کر مسلمانوں کی تطہیر کا آغاز کرا دیجئے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے گا۔<
مولانا علم الدین سلاک فرمانے لگے میں نے مولوی صاحب کی گفتگو سے دو نتیجے اخد کئے۔
۱۔
عقائد کی بناء پر مسلمانوں کے کسی فرقہ کو بھی ائینی طور پر غیر مسلم قرار دے دیا گیا تو تخریب اسلام کی یہ ابتداء ہوگی۔ آئندہ مختلف موقعوں پر کوئی اسلامی فرقہ اس قسم کی انتقامی کاروئی سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ جس سے عالم اسلام انتشار کا شکار ہوکر رہ جائے گا۔
۲۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلا وار احمدیوں پر ہے۔ اس لئے احمدی فرق دوسرے فرقوں الخصوص شیعہ اور اہل حدیث کے درمیان ایک بفر سٹیٹ State) (Buffer کی حیثیت رکھتا ہے۔ احمدی مغلوب ہوگئے اور ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ تو اس کے بعد دوسرے دو فرقوں کی شامت آنا ضروری ہے۔ چنانچہ میں نے مولوی صاحب سے معذرت کر دی کہ میں گواہ کے طور پر پیش نہیں ہوسکتا۔ اس منفی کام میں مجھے علیحدہ ہی رہنے دیجئے۔~<ف۳~
بالکل اسی قسم کا ایک واقعہ جناب ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ایم۔ اے۔ پی۔ ایچ۔ ڈی۔ نے اپنے رسالہ >اقبال اور ملا< میں درج کیا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
>پاکستان کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے مجھ سے حال ہی میں بیان کیا کہ ایک ملائے اعظم اور عالم مقتدر سے جو کچھ عرصہ ہوا بہت تذبذب اور سوچ بچار کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے ہیں میں نے ایک اسلامی فرقے کے متعلق دریافت کیا۔ انہوں نے فتویٰ دیا کہ ان میں جو غالی ہیں وہ واجب القتل ہیں اور جو غالی نہیں وہ واجب التعزیر ہیں۔ ایک اور فرقے کی نسبت پوچھا جس میں کروڑ پتی تاجر بہت ہیں فرمایا کہ وہ سب واجب التل ہیں۔ یہی عالم ان تیس بتیس علماء میں پیش پیش اور کرتا دہرتا تھے۔ جنہوں نے اپنے اسلامی مجوزہ دستور میں یہ لازمی قرار دیا کہ ہر اسلامی فرقے کو تسلیم کر لیا جائے سوائے ایک کے جس کو اسلام سے خارج سمجھا جائے۔ ہیں تو وہ بھی واجب القتل` مگر اس وقت علی الاعلان کہنے کی بات نہیں موقع آئے گا تو دیکھا جائے گا انہیں میں سے ایک دوسرے سربراہ عالم دین نے فرمایا کہ ابھی تو ہم نے جھاد فی سبیل اللہ ایک فرقے کے خلاف شروع کیا ہے اس میں کامیبی کے بعد انشاء اللہ دوسروں کی خبر لی جائے گی۔~<ف۴~
لاہور میں ذیلی دفتر کا قیام
صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے معاملہ کی نزاکت و اہمیت کے پیش نظر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی کوٹھی )واقع ٹمپل روڈ لاہور( کے اندر ایک دفتر قائم کردیا۔ ان دنوں قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ناظر اعلیٰ تھے اور حضرت مصلح موعود نے تحقیقاتی عدالت کے سے متعلقہ امور کی نگرانی آپ ہی کے سپرد فرما رکھی تھی۔ آپ نے حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد ناظر امور عامہ کی معیت میں اپنے اہم فرائض کو ساتھ آٹھ ماہ تک جس بصیرت` خوش اسلوبی اور جانفشانی سے ادا کیا اس کا اندازہ صرف وہی مخلصین جماعت لگا سکتے ہیں جنہیں اس زمانے میں آپ کے ماتحت کام کرنے کا موقعہ نصیب ہوا۔ علاوہ ازیں اس دور کے ریکارڈ میں آپ کے قلم مبارک سے جو ہدایات اور ارشادات اور خط و کتابت موجود ہے اس سے قطعی طور پر پتہ چلتا ہے کہ آپ نے حضرت المصلح الموعود کے احکام کی بجا آوری میں جزئیات اور تفصیلات تک کو بھی ملہوظ رکھا ہے بلاشبہ یہ ایک عظیم معرکہ تھا جس میں آپ کی عظیم اشان خدمات ہمیشہ زریں الفاظ سے لکھی جائیں گی۔
جناب منظور احمد صاحب~ف۵~ قریشی کا تحریری بیان ہے کہ:۔
>جماعت احمدیہ نے جن دنوں اپنا کیس تحقیقاتی عدالت کے روبرو پیش کیا میں اس زمانہ میں چوک نسبت روڈ لاوہر پر بطور ٹائپسٹ کام کرتا تھا۔ ہماری جماعت نے مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت لاہور کی کوٹھی واقع ۱۳۔ ٹمپل روڈ لاہور میں اپنا دفتر قائم کیا ہوا تھا۔ جماعت کو بعض ٹائپسٹ کی ضرورت پیش آئی تو لاہور سے مجھے اور ایک اور صاحب خلیل احمد قریشی )پنجاب سیکرٹریٹ( کو اور ربوہ سے حس محمد خاں صاحب عارف کو بلوایا گیا۔
ہم روزانہ صبح کوٹھی پر پہنچ جاتے تھے۔ ہمیں مسودہ دیا جاتا تھا اور ہم اسے ٹائپ کرتے جاتے تھے اورپھر اصلاح کرکے دوبارہ ٹائپ کرایا جاتا تھا۔ ٹائپ شدہ مسودہ پر حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ اور ملک عبدالرحمن صاحب خادم ایڈووکیٹ گجرات وغیرہ نظر ثانی فرماتے اور تصحیح و ترمیم اور اضافہ کے بعد اسے دوبارہ ٹائپ کیا جاتا تھا۔ یہ کام رات گئے تک ہوتا رہتا تھا۔ تقریباً دس رو زتک یا زیادہ ہم صبح سے شام تک کام کرتے رہتے تھے۔
ہم تینوں نے تمام ٹائپ کا کام ہاتھ میں لے لیا۔ مسودے بنتے رہے اور ٹائپ ہوتے رہے۔ مگر جو بیان صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی طرف سے دائر ہونا تھا وہ میرے حوالے کیا گیا اور میں نے اسے بہت ہی احتیاط سے ٹائپ کیا اور وہی داخ عدالت کیا گیا۔ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد اور شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت لاہور نے میری بہت تعریف کی اور میرے کام کو بہت پسند فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے یہ سعادت عطا کی اور مجھے ان بزرگوں کی دعائوں میں شامل کیا۔
محترم شیخ صاحب نے مجھ سے کئی مرتبہ ٹائپ کا معاوضہ لینے کے لئے اصرار فرمایا لیکن میں نے قطعی انکار کردیا کہ یہ سلسلہ کا مبارک کام تھا اور اس کے ثواب میں حصہ دار ہونا میرے نزدیک ایک عظیم سعادت تھی۔~<ف۶~
حصرت سیدنا المصلح الموعود کی خدمت اقدس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
‏sub1] [tagسیدنا!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
آج شیخ بشیر احمد صاحب کا خط لاہور سے آیا ہے کہ کام کی سہولت کے لئے مختلف شعبوں کے انچارج نامزد ہوجانے چاہئیں تا ذمہ داری کا زیادہ احساس ہو اور باہم تعاون بھی رہے۔
انتظام تو پہلے سے موجدو ہے لیکن اگر حضور پسند فرماویں تو کا زیادہ تعین کے ساتھ مندرجہ ذیل تنظیم جاری کردی جائے؟
۱۔
مرکزی دفتر کا انچارج ناطر اعلیٰ بمعیت ناظر امور خارجہ
)ارشادات حضرت مصلح موعود >درست ہے(<
۲۔
مقدمہ کی قانونی پیروی کے انچارج شیخ بشیر احمد صاحب بمعیت چوہدری اسد اللہ خان صاحب جو شیخ صاحب کی غیر حاضری میں انچارج بھی ہوں گے۔ عمومی نائب خادم~ف۷~ صاحب ہوں گے۔ >درست ہے بشرطیکہ میری سکیم میں رخنہ نہ پڑے۔<
)ارشاد حضرت مصلح موعود(
۳۔
دینی اور علمی حوالہ جات و تبصرہ جات کے انچارج شمس صاحب~ف۸~ بمعیت مولوی ابو العطاء صاحب و مولوی صدیق صاحب۔ خادم صاحب بھی حسب ضرورت امداد کریں گے۔
‏left] gat>)[درست ہے< ارشاد حضرت المصلح الموعود(
۴۔
دفتر کے انچارج چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب۔ نقول کے حصول کا کام بھی انہی کے سپرد ہوگا۔
>)دست ہے< ارشاد حضرت مصلح موعودؑ(
۵۔
تمام کام حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ کی ہدایات کے ماتحت اور حضور کے استصواب کے ساتھ کیا جائے گا۔
خاکسار
مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۹۔ ۱۷
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
سیدنا!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
شیخ بشیر احمد صاحب کے ایک سابقہ خط کی بناء پر تنظیم اور تقسی کار کے متعلق حضور کی ہدایات کی روشنی میں اک نوٹ تیار کرکے جملہ کارکنان کی خدمت میں بھجوایا گیا ہے۔ اس پر شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنے تازہ خط مئورخہ ۲۳ اگست ۱۹۵۳ء میں دو امور کے متعلق مزید وضاحت چاہی ہے تاکام میں مزید سہولت پیدا ہونے کا رستہ کھلے۔
۱۔ پہلی بات شیخ صاحب یہ چاہتے ہیں کہ چونکہ وہ مقدمہ کی قانونی پیروی کے انچارج ہیں اور انہوں نے عدالت میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے پیروی کرنی ہوتی ہے اس لئے اس امر کی صراحت ہونی چاہئے کہا گر کسی امر میں قانونی تکمیل کی غرض سے شیخ صاحب کوئی بات شمس صاحب یا چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب سے کہیں تو وہ اس کی تعمیل کریں تاکام میں روک اور تعویق نہ پیدا ہو۔
میرے خیال میں یہ درست ہے اس کی صراحت کردینی چاہئے باقی رہا دینی امور کی حفاظت کا سوال سودہ ذیل کے حصہ میں آجاتی ہے۔
۲۔ دوسری وضاحت یہ چاہتے ہیں کہ شیخ صاحب کی قانونی قیادت کے متعلق جو حضور کا یہ نوٹ ہے کہ:۔
>درست ہے بشرطیکہ میری سکیم میں رخنہ نہ پڑے۔<
اس سے کیا مراد ہے تاشیخ صاحب پوری پابندی اختیار کرسکیں سو اس کے متلق بھی بات واضح ہے کہ حضور کی طرف سے اس وقت تک جو ہدایات جاری ہوچکی ہیں یا آئندہ ہوں وہی حضور کی سکیم ہے مثلاً:۔
)الف( عدالت کے سامنے کے جواب میں جو کچھ حضور کی منظور کے بعد عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ اس کی روح اور مقصد کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔
)ب( جماعت اور خلافت کے وقار کے خلاف کوئی بات نہ کہی جائے۔
)ج( اگر فریق مخالف کی طرف سے کوئی مزعومہ تضاد حضور اور حضرت مسیح موعودؑ کے بیانات میں پیش کیا جائے یا حضور کی اپنی تحریروں اور اعلانوں میں کوئی مزعومہ تضاد پیش کیا جائے تو ایسے تضاد کو تسلیم نہ کیا جائے اور بہرحال ایسے امر کا جواب حضور سے پوچھ کردیا جائے۔
)د( دینی اور مذہبی امور اور حوالہ جات کو پی شکرتے ہوئے چوہدری اسد اللہ خان صاحب کو آگے کردیا جائے یا وہ نہ ہوں تو خادم صاحب اور شمس صاحب کے مشورہ سے کام کیا جائے۔
وغیرہ وغیرہ مطابق ہدایت بالا کہ کوئی بات حضور کی کسی جاری شدہ ہدایات کے خلاف نہ ہو۔
خاکسار
مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۹۔ ۲۹
)ارشاد حضرت مصلح موعود(
>مرے نزدیک تو ٹھیک جواب ہے۔<
شیخ صاحب` چوہدری اسد اللہ خان صاحب` درد صاحب` خادم صاحب` شمس صاحب اور چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب کے نام ہدایت جاری کی گئی۔
مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۹۔ ۳۰
جماعت احمدیہ کا لائحہ عمل
تحقیقاتی عدالت کے طریق کار کی روشنی میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے ابتداء ہی میں ایک مفصل لائحہ عمل مرتب کر لیا تھا جو حسب ذیل الفاظ میں تھا:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
‏]head1 [tagتحقیقاتی کمیشن برائے گزشتہ فسادات کے متعلق جماعت احمدیہ کا لائحہ عمل
جون و جولائی ۱۹۵۳ء
حکومت پنجاب نے جو تحقیقاتی کمیشن گزشتہ فسادات کے بارے میں تحقیق کرنے کے لئے مقرر کیا ہے۔ اور کمیشن نے اپنے کام کے متعلق جو طریق کار تجویز کرکے شائع کیا ہے۔ اس کے ماتحت کمیشن کے سامنے جماعت احمدیہ کی صحیح پوزیشن واضح کرنے اور جماعت کی مظلومیت کو آشکار کرنے کے لئے مندرجہ ذیل لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے۔
۱۔ پنجاب کے جن اضلاع میں فسادات کا زور رہا ہے اور جماعت کے افراد کے خلاف عملی اقدامات کرکے جانوں یا مالوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ )یعنی لاہور` فائل` سیالکوٹ` گوجرانوالہ راولپنڈی` ملتان اور منٹگمری( ان کے امراء کو پہلے بھی لکھا جاچکا ہے اور مزید تاکید سے لکھا جائے کہ وہ اپنے علاقہ میں فسادات کے وجبات )قریب و بعید( اور فسادات کی نوعیت اور فسادات کے دوران میں جماعت احمدیہ کے جانی اور مالی نقصانات وغیرہ وغیرہ کے بارے میں مکمل اور تفصیلی رپورٹ کریں۔ یہ رپورٹ ۱۰ جولائی ۱۹۵۳ء تک ضرور مرکز میں پہنچ جائے۔ اس رپورٹ میں مخالفوں کی کاروایوں اور ریشہ روانیوں اور اشتعال انگیزیوں اور ان کے نتائج کو اچھی طرح بے نقاب کیا جائے۔ اور نیز بتایا جائے کہ کون کون لوگ اس فتنہ میں پیش پیش رہے ہیں۔
۲۔ خاص آدمی مقرر کر کے مخالفوں کے اخبارات اور رسائل وغیرہ سے ایسی تحریریں معہ ضروری حوالہ جات جمع کی جائیں جن میں جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال انگیز پراپیگنڈا کیا گی اہو۔ اور افراد جماعت کے خلاف عوام الناس کو ابھارا اور اکسایا گیا ہو۔ ایسے حوالہ جات خصوصیت سے ۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۳ء سے تعلق رکھنے والے جمع کئے جائیں تا مخالفوں کی اشتعال انگیزی بالکل عریاں ہوجائے نیز حضرت امام جماعت کو جو دھمکی آمیز خطوط آتے رہے ہیں اور ان میں سے بعض کی رپورٹ حکومت کو بھجوائی جاتی رہی ہے اس کا ریکارڈ جمع کیا جائے۔
۳۔ صیغہ نظارت امور عامہ و خارجہ ربوہ اپنے ریکارڈ سے مدد لینے کے علاوہ اوپر کی ہر دو قسم کے مواد سے مدد لے کر کمشن کے اعلان کے مطابق دو قسم کی مفصل رپورٹیں تیار کرے جن میں سے اکی رپورٹ میں فسادات کے موحیات اور محرکات اور بواعث )قریب و بعید( کی مکمل تشریح اور تعین درج کی جائے۔ اور جماعت کی مظلومیت کو آشکارا کیا جائے اور بتایا جائے کہ ختم نبوت وغیرہ کے مقدس عقیدہ کو )جس پر جماعت احمدیہ دل و جان سے ایمان لاتی ہے( محض اکی بہانہ بنایا گیا ہے۔ ورنہ مخالفین کی اصل غرض جماعت احمدیہ کے خلاف عوام الناس کو اکسا کر اپنے مخصوص مفاد حاصل کرنا اور جماعت کو نقصان پہنچانا تھی۔ حالانکہ جماعت احمدیہ ختم نبوت کے عقیدہ پر پورا پورا ایمان لاتی ہے۔ اور ساٹھ ستر سال اپنے عقائد کی معقول تشریح پیش کرتی چلی آئی ہے۔ یہ بھی اشارہ کردیا جائے کہ مجلس احرار کی اصل غرض پاکستان کو کمزور کرنا اور ہندوستان کے لئے رستہ صاف کرنا تھی دوسری رپورٹ میں گزشتہ فسادات میں جماعت کے جانی و مالی نقصانات کی تفصیل صحیح صحیح صورت میں پیش کی جائے یہ دو رپورٹیں ۱۰ جولائی ۱۹۵۳ء تک مکمل ہوکر ان پر بحث ہوجانی چاہئے۔ اس لئے یہ کام بلا توقف شروع کردینا چاہئے۔
۴۔ نظارت امور عامہ جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش ہونے کے لئے ایک قابل وکیل مقرر کرے۔ )چوہدری اسد اللہ خان صاحب یا شیخ بشیر احمد صاحب یا کوئی اور( جو مکمل تیاری کے بعد جماعت کی طرف سے مقرر تواریخ پر پیش ہو۔ اس وکیل کی مدد کیلئے دو جونیئر وکیل )چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب اور شیخ نور احمد صاحب( بطور سو لیسٹر مقرر کئے جائیں۔ جو تمام ضرور ریکارڈ اور شہادات ¶کا مطالعہ کرکے وکیل کی بحث کے لئے مواد تیار کرے۔ حسب ضرورت ملک عبدالرحمن صاحب خادم سے بھی مدد لی جائے۔
۵۔ جماعت کی طرف سے چند سمجھ دار اہل الرائے اور باحیثیت اصحاب کو بطور گواہ تیار کیا جائے جو کمیشن کے سامنے پیش ہوکر فسادات کے موجبات اور تفصیلات اور جماعت کے نقصانات وغیرہ کے بارے میں شہادت دیں۔ اس گواہی کے لئے ناظر صاحب امور عامہ )درد صاحب( میاں ناصر احمد صاحب۔ شیخ نور احمد صاحب` چوہدری اسد اللہ خان صاحب یا شیخ بشیر احمد صاحب )یعنی ان دونوں میں سے جو بطور وکیل مقرر ہو اس کے علاوہ دوسرا( چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ سیالکوٹ` شیخ محمد احمد صاحب لائلپور` میر محمد بخش صاحب گوجرانوالہ` میاں عطاء اللہ صاحب پنڈی` چوہدری محمد شریف صاحب منٹگمری )برائے اوکاڑہ( اور ملتان کا کوئی نمائندہ۔ مثلاً عبدالرحمن صاحب کلاتھ مرچنٹ یا میاں عبدالرحیم صاحب پراچہ اور ملک عبدالرحمن صاحب خادم` درد صاحب اور خادم صاحب عمومی گاہ ہوں گے اور باقی اپنے اپنے علاقہ کے مخصوص گواہ ہوں گے۔ ان کی طرف سے بروقت درخواست بھجوا دینی چاہئے۔ اسی طرح اگر کوئی باحیثیت شریف غیراحمدی گواہ مختلف علاقوں سے تیار کئے جاسکیں تو اس کے لئے ضروری کوشش کی جائے۔ ایسے لوگوں کی جماعت کے حق میں گواہی بہت مفید ہوسکتی ہے۔ ایسے احباب اپنی شہادت براء راست پیش کریں۔
۶۔وکلاء اور گواہ صاحبان تیاری میں مندرجہ ذیل امور کو خصوصیرت سے مدنظر رکھیں۔
)الف( فسادات کا پس منظر کیا تھا اور وہ کونسی وجوہات تھیں جنہوں نے بال¶اخر فساد کی صورت پیدا کردی )پریس` خطبات` خیفہ ریشہ دوانیوں وغیرہ سب کو مدنظر رکھا جائے۔
)ب( فسادات کی نوعیت اور تفصیل کیا تھی اور فسادیوں کا طریق کار کیا تھا۔ جس سے منظم اور سوچی سمجھی ہوئی سکیم پر روشنی پڑتی ہو۔
)ج( کون کون سے لوگ فسادات میں پیش پیش تھے اور ان کا طریق کار کیا تھا۔
)د( فسادات کے ساتھ احرار اور مودودیوں کا خاص تعلق کیا رہا ہے۔
)ھ( علاقہ میں احمدیوں کا جانی اور مالی نقصان کیا ہوا ہے ۱۹۵۲ء` ۱۹۵۳ء ہر دو کے متعلق تفصیل تیار ہونی چاہئے۔
)و( علاقہ کے کن کن احمدیوں کو جبر اور تشدد سے احمدیت سے منحرف کیا گیا۔
)ز( فسادات کے دوران میں علاقہ کے سرکاری حکام کا رویہ کیا رہا۔
)ح( علاقہ کے شریف غیراحمدی احباب کا شریفانہ رویہ کیا رہا۔
)ط( آئندہ کے متعلق امکانی خطرات اور ان کے انسداد کے لئے کیا تجاویز مناسب ہیں۔
۷۔ چونکہ کمشن نے پندرہ جولائی تک رپورٹیں اور گواہوں کے نام مانگے ہیں اس لئے رپورٹیں ۱۰ جولائی تک تیار ہوجانی چائیں اور گواہوں کی طرف سے درخواست چلی جانی چاہئے تا اس کے بعد ایک دو دن میں وکلاء اور دیگر واقف کاروں سے مشورہ کرکے بروقت داخل کرائی جاسکے۔ وکلاء اور گواہوں کو بلا توقف تیاری کی ہدایت بھجوا کر )ایک اطلاع پہلے بھی جاچکی ہے( کام پر لگا دیا جائے۔ اور ان کے کام کی مسلسل نگرانی رکھی جائے تاکسی قسم کی غفلت نہ ہو۔
۸۔ معاوضہ پر کام کرنے والوں کے ساتھ ان کے معاوضہ کا ابھی سے فیصلہ کرلینا چاہئے تابعد میں کوئی غلط فہمی نہ پیدا ہو مثلاً وکیل )چوہدری اس اللہ خان صاحب یا شیخ بشیر احمد صاحب( اور جونئیر وکیل )شیخ نور احمد صاحب( کے معاوضہ کا فیصلہ کیا جاوے اور حضرت صاحب یا انجمن سے بروقت منظور حاصل کرلی جائے۔
۹۔ جملہ کاروائی کے ساتھ ساتھ حضرت صاحب کی خدمت میں رپورٹ بھجوائی جاتی رہے۔
۱۰۔ یہ لائحہ عمل صرف سرسری ہے۔ جو مجمل صورت میں تیار کیا گیا ہے۔ دفتر مرکزی اور وکلاء اور گواہان اور امراء صاحبان کا یہ فرض ہوگا کہ کمشن کی ٹرمز آف ریفرنس دیکھ کر اور پھر کمشن کے تجویز کردہ طریق کار کا مطالعہ کرکے جو مزید کاروائی ضروری ہو وہ بروقت سرانجام دے کر عند اللہ ماجور ہوں تا دنیا پر جماعت احمدیہ کی بریت اور مظلومیت ثابت ہو اور مکالفین کے مظالم آشکارا ہوجائیں۔
بحث کے خطوط کا مختصر خاکہ
صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے اس مسئلہ پر بھی گہرا غور و فکر کیا کہ وکلاء احمدیت کی طرف سے بحث کی لائن کیا ہونی چاہئے؟ اس سلسلہ میں جو مختصر خاکہ تیار کیا گیا وہ درج ذیل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
عدالتی کمشن کے لئے بحث کی لائن کا مختصر خاکہ
۱۔
اسلام اور احمدیت کی باہمی نسبت کیا ہے؟ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں بلکہ اسلام ہی کے احیاء اور تجدید کا دوسرا نام ہے۔
۲۔
بانی سلسلہ احمدیہ کا منصب اور جماعت کے عقائد )مسیح اور مہدی کا عقیدہ( بانی سلسلہ کی بعثت قران اور حدیث کی پیشگوئیوں کے مطابق ہوئی ہے۔
‏in] gat[۳۔
بانی سلسلہ احمدیہ نے کب دعویٰ کیا؟ جماعت احمدیہ کے آغاز کی تاریخ اور مولویوں کی مخالفت کی ابتداء اور ناگوار فتویٰ بازی۔
۴۔
امت محمدیہﷺ~ میں وحی اور الہام کا سلسلہ
۵۔
نزول جبرئیل اور وحی کی اقسام
۶۔
بانی سلسلہ احمدیہ کا ظلی اور امتی نبوت کا دعویٰ اور عقیدہ ختم نبوت کی تشریح
۷۔
سابق علماء اسلام کی طرف سے ختم نبوت کی تشریح۔ ہر زمانہ سے مثالیں پیش کی جائیں۔
۸۔
مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ کی بنیاد بغاوت اور تشریعی نبوت کا دعویٰ تھی نہ کہ کچھ اور۔
۹۔
کفر و اسلام غیر احمدیوں کی حقیقت۔ اسلام اور کفر کی دو تعریفیں ہیں۔ اک ظاہری اور ایک حقیقی۔
۱۰۔
کفر کے فتویٰ میں غیر احمدیوں کی طرف سے ابتداء ہوئی۔
۱۱۔
خدا کے نزدیک آخرت میں قابل مواخذہ ہونے کا اصول محض عقیدہ کا غلط ہونا نہیں بلکہ صاحب عقیدہ پر اتمام حجت اور عقیدہ میں دیانتداری ہے۔
۱۲۔
اقتداء نماز کا مسئلہ۔ اور اس میں بھی غیر احمدیوں کی طرف سے ابتدائی ہونی نماز میں بہرحال زیادہ متقی امام کو ترجیح دی جاتی ہے۔
۱۳۔
جنازہ کا مسئلہ اور اس میں بھی غیر احمدیوں کی طرف سے ابتداء ہوئی۔
۱۴۔
احمدیوں کے جنازوں کے ساتھ غیر احمدیوں کا اخلاق سوز سلوک۔
۱۵۔
رشتہ ناطہ کا مسئلہ اور اس میں بھی غیر احمدیوں کی طرف سے ابتداء ہوئی رشتہ میں خیالات اور عقائد کی ہم آہنگی دیکھی جاتی ہے۔
۱۶۔
جہاد کے مسئلہ کے متعلق جماعت احمدیہ کا عقیدہ جماعت احمدیہ کے نزدیک کوئی اسلامی حکم منسوخ نہیں اور نہ قیامت تک ہوسکتا ہے۱۷۔
سخت کلامی کے الزام کی تردید اور تشریح اور اس بارے میں خود بانی سلسلہ احمدیہ کا اعلان۔
۱۸۔
حضرت مسیحؑ ناصری اور امام حسینؑ کی ہتک کا غلط الزام اور اس کی تشریح۔
۱۹۔
آنحضرت صلعم پر فضیلت کا مفتریانہ الزام۔ آپ کے مقابل پر بانی سلسلہ احمدیہ کا مقام خادم اور شاگرد کا تھا۔
۲۰۔
ملک میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کا باطل الزام اور اس کی تردید۔
۲۱۔
کوئٹہ کا خطبہ اور ملازمتوں پر قبضہ کرنے کا غلط الزام اور اس کی تشریح۔
۲۲۔
حکومت برطانیہ کے ساتھ ساز باز کا اتہام اور برطانیہ کی وفاداری کی تشریح اور اس بارے میں جماعت کا اصولی نظریہ۔
۲۳۔
پاکستان بننے کی مخالفت کا الزام۔ جماعت نے ہر حال میں مسلمانوں کا ساتھ دیا۔
۲۴۔
متوازی حکومت قائم کرنے کا الزام۔ جماعتی تنظیم سے غلط استدلال۔
۲۵۔
ربوہ کا مرکز علیحدہ قائم کرنے کا سوال۔ مرکز کا قیام جماعتی تنظیم کا حصہ ہے مگر پھر بھی ربوہ کی رہائش مقررہ شرائط کے ماتحت دوسروں کے لئے بھی کھلی ہے۔
۲۶۔
قتل مرتد کا مسئلہ۔ مرتد کے لفظ کی تشریح۔
۲۷۔
جماعت احمدیہ کا حق شہریت اور شہریت کا اسلامی نظریہ۔
۲۸۔
ہر جماعت کو اپنے عقائد اور خیالات کی تبلیغ کا حق ہے۔ تبلیغ کے متعلق جماعت احمدیہ کا پرامن نظریہ۔ خیالات کا پرامن تبادلہ ملک کی ذہنی اور علمی اور عملی ترقی کے لئے مفید ہے۔ )اختلاف امی رحمہ(۔
۲۹۔
جماعت احمدیہ کی شاندار اسلامی خدمات )اندرون ملک میں اور بیرون ملک میں(۔
۳۰۔
جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کے متعلق غیر از جماعت لوگوں کے تریفی اعلانات۔
۳۱۔
جماعت احمدیہ کی مخالف پارٹیاں اور ان کی ہم آہنگی۔
۳۲۔
جماعت اسلامی کے نظریات اور امن شکن کاروائیاں۔
۳۳۔
احرار اور مجلس عمل کے نظریات اور امن شکن کاروائیاں۔
۳۴۔
راست اقدام کے نظریہ کی حقیقت اور اسلام کی رو سے اس کا عدم جواز۔
۳۵۔
گزشتہ فسادات میں جماعت اسلامی اور احرار اور مجلس عمل کی ذمہ داری۔
۳۶۔
فسادات کا بروقت انسداد نہ کرنے کے متعلق حکومت کی ذمہ داری )اور صوبہ کی حکومت کی خاص ذمہ داری۔(
۳۷۔
فسادات ایک منظم اور سوچی سمجھی سکیم کے ماتحت ہوئے۔
۳۸۔
فسادات کا بھیانک نقشہ اور اگر خدانخواستہ یہ فسادات کامیاب ہوتے۔ تو ان کے نتائج ملک کے لئے تباہ کن ہوتے۔
۳۹۔
اگر حکومت وقت پر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتی تو رسول انتظام کے ماتحت بھی فسادات کا انسداد کرسکتی تھی مگر حالات پیش آمدہ میں مارشل لاء کا نفاذ ناگریز ہوگیا۔
۴۰۔
اس قسم کے فسادات کا بیرونی دنیا پر انتہائی طور پر ناگوار اثر۔
حضرت مصلح موعود کی ہدایات
حضرت اقدس المصلح الموعود نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو اپنے خطوط میں قدم قدم پر بیش بہا اور قیمتی ہدایات سے نوازا۔ مثلاً ۱۳ اگست ۱۹۵۳ء کو تحریر فرمایا۔
۵۳۔ ۳۔ ۱۳
عزیزم!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
>یہ موقعہ ایسا ہے کہ ایک ایسا ہی شخص جماعت کی نمائندگی کرسکتا ہے جس کا دل گداز اور ایمان سے پر ہو بغیر ایمان کی زیادتی اور عقیدت کی فراوانی کے کوئی شخص اس فرض کو اس وقت ادا نہیں کرسکتا۔ کمیشن کی کاروائی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود اور ان کے خلفاء کے رویہ اور نیتوں کے متعلق حملے کئے جائیں گے۔۔۔۔۔ اس وقت تو وہ شخص کھڑا ہونا چاہئے جس کا دل سلسلہ کی غیرت سے بھرپور ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ کی ہتک کی باتوں کو دیکھ کر پائوں سے سر تک شعلہ اٹھتا ہوا محسوس کرے بات کرتے وقت اس کی آواز میں لرزش اور آنکھوں میں چمک اور پانی ہو یہ وہ شخص ہے جو اس وقت کا حق ادا کرسکتا ہے۔۔۔۔۔ ہم حق پر ہیں خدا ہمارے ساتھ ہے۔ ہم کسی سے ڈرتے نہیں نہ کسی انجام سے خوف کرتے ہیں لیکن بات کو صحیح طور پر پیش کرنا ہمارے ذمہ ہے اور خدا تعالیٰ کے آگے ہمیں جواب دنیا پڑے گا۔<
حضرت مصلح موعود کا ایک اہم مکتوب
اس سلسلہ میں سیدنا حضرت مصلح موعود کا درج ذیل مکتوب خاص اہمیت رکھتا ہے یہ مکتوب حضور نے اپنے حرم حضرت سیدہ ام متین صاحبہ مد ظلہا العالی کو املاء کرایا تھا۔ جو سندھ سے ۷ جولائی ۱۹۵۳ء کو موصول ہوا۔
السلام علیکم ورحمہ اللہ
نذیر علی صاحب آئے۔ تین خط انہوں نے دیئے سوال پہلے پڑھ چکا تھا۔ کورٹ کے ڈیکلریشن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس انکوائری کا مقصد اس سے زیادہ سمجھتے ہیں جتنا کہ گورنمنٹ کے اعلان سے معلوم ہوتا تھا اور اس انکوائری میں خطرہ ہے کہ بعض لوگ بات کو بگاڑ کر اس انکوائری کو مذہبی اختلاف اچھالنے کا موجب نہ بنائیں۔ حجز دونوں ہوشیار ہیں لیکن بعض دفعہ وکلاء ہوشیاء ججوں کو بھی ادھر سے ادھر سے جاتے ہیں۔۔۔۔۔ ہماری طرف سے یہ مواد پوری طرح مہیا ہونا چاہئے کہ دو تین سال سے یہ کاروائی ہورہی تھی مگر حکومت نے کچھ نہیں کیا کوئٹہ کا قتل سب سے پہلے ہوا۔ جلسہ خلیفہ المسیح کے گھر کے سامنے کیا گیا اس میں تقریریں یہ کی گئیں کہ مرزا صاحب نے تو ایسے دعوے نہیں کئے تھے مگر ان کے لڑکے نے ایسی باتیں کرنی شروع کیں کیونکہ وفات یافتہ کے متعلق لوگوں کے جوش کام نہیں آسکتے لیکن زندوں کے متعلق آسکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک احمدی ڈاکٹر میجر محمود جو کسی مریض کو دیکھ کر آرہا تھا اور جس نے ہجوم دیکھ کر اپنی کار کھڑی کرلی تھی مشتعل ہجوم نے پہچان کر ہزاروں آدمیوں کے جلسے سے صرف چند گز کے فاصلہ پر لے جاکر مار دیا۔ لیکن باوجود اس کے کہ واقعہ جلسہ گاہ کے قریب ہوا ہزاروں آدمیوں کے پاس ہوا پھر مجرم نہیں پکڑے گئے۔ پھر اوکاڑہ میں ایک احمدی کو مار دیا گیا یہ بھی مولویوں کے اکسانے پر ہوا خود مجرم نے اقرار کیا کہ مولویوں نے کہا تھا کہ ان لوگوں کو ختم کرنا ثواب کاکام ہے۔ اس کے بعد راولپنڈی میں واقعہ ہوا۔ دن دھاڑے ایک احمدی کو جاتے ہوئے پبلک سیرگاہ پر مار دیا گیا اور وہاں بھی وہی وجہ احمدیوں کے اشتعال دلانے کی تھی یہ چر قتل چار سال میں ہوئے اور ایک نوعیت کے ہوئے لیکن جو انگیخت کرنے والے تھے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی بلکہ ان کی امداد کی گئی۔ چنانچہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد دو سال ہوئے غیاث الدین صاحب کو جو اسوقت گورنر کے سیکرٹری تھے ان کو ملے تو انہوں نے بتایا کہ آپ لوگ قربان علی خان صاحب انسپکٹر جنرل پولیس سے بھی ملیں انہوں نے بڑے زور سے گورنمنٹ میں رپورٹ کی ہے کہ جب تک منبع کو نہیں پکڑا جائے گا۔ یہ فسادات دور نہیں ہوں گے۔ احمدی کم ہیں اگر عوام الناس نے مولیوں کے جوش دلانے پر ایک ایک احمدی کو مارا اور خود پھانسی بھی چڑھ گیا تو نتیجہ کیا نکلے گا نہ انصاف قائم ہوگا نہ امن۔ جو لوگ اکسا رہے ہیں ان کو پکڑنا چاہئے چنانچہ ان کی تحریک پر احمدیہ جماعت کا ایک وفد قربان علی خان صاحب سے بھی ملا اور انہوں نے اسی کے خیالات کا اظہار کیا )اس وفد میں غالباً شیخ بشیر احمد صاحب اور درد صاحب شامل تھے۔ وہ تفصیلات بتا سکتے ہیں( اگر مصلحت کا تقاضا ہو تو غیاث صاحب کا نام چھوڑا جاسکتا ہے۔ کیونکہ شاید ان پر الزام آئے کہ گورنمنٹ سیکرٹ آوٹ کئے ہیں لیکن باوجود ان تمام کوششوں کے نتیجہ کچھ نہ نکلا اور گورنمنٹ نے کوئی ایکشن نہ لیا اور جب چیف سیکرٹری سے ہمارے وفد ملے تو انہوں نے کہا کہ وہ قانون لائو جس کے ماتحت ہم اڈیٹروں یا لیڈروں کے خلاف کاروائی کرسکتے ہیں جب کہا گیا کہ قانون کے ذمہ دار تو آپ ہیں تو انہوں نے کہا کہ کوئی عام قانون نہیں جس کے ماتحت ہم ان لوگوں پر ہاتھ ڈال سکیں اور خاص قانونوں کو ہم استعمال نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس سے اشتعال بڑھے گا۔ جب ۱۹۵۲ء کے وسط میں ۱۴۴ دفعہ لگائی گئی تو مختلف مقامات کے وفد جب حکومت کے افسروں سے ملے تو انہوں نے بتایا کہ ہم کو ایک طرف یہ اختیارات دیئے گئے ہیں دوسری طرف ہم کو مئوثر قدم اٹھانے سے روکا گی اہے اور یہ بھی کہا گی اہے کہ سیفٹی ایکٹ کو استعمال نہیں کرنا جو ۱۴۴ دفعہ توڑے اگر مناسب ہو تو اس کے خلاف قدم اٹھانا ہے۔ چند دنوں کے بعد ہی اس ہدایت کو واپس لے لیا گیا اور دولتانہ صاحب نیاعلان کیا کہ ہم نے ایسی کوئی ہدایت نہیں دی تھی جو قدم اٹھایا ہے ضلع کے افسروں نے اپنی ذمہ داری سے اٹھایا ہے۔ )یہ تقریر چھپی ہوئی ہے تلاش کریں( چنانچہ فوراً سب لوگ چھوڑ دیئے گئے اور شورش پھر تیزی ہونی شروع ہوگئی جب افسران ضلع کو پھر توجہ دلائی گئی تو بعض افسران نے تو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ کوئی شور وغیرہ نہیں ہے۔ آپ کو وہم ہے۔ ضلع گوجرانوالہ کے P۔S نے صاف لفظوں میں ہمارے وفد سے کہا کہ شورش ہے لیکن ہم کچھ کرنے کو تیار نمہیں ہم نے جب امن قائم کرنا چاہا تو ہم کو پبلک کی نظروں میں ذلیل کردیا اور علی الاعلان حکومت نے پردے پردے میں ہمیں condemnd کیا اب جو کچھ کہنا ہے جاکر پنجاب حکومت سے کہو ہم کچھ کرنے کوتیار نہیں اور آخر میں یہاں تک کہا کہ بے شک جاکر میر انام لے دو کہ میں نے یہ بات کہی ہے۔ بعض افسروں نے یہاں تک کہا ہمیں پولیس کے محکمہ سے ہدایت آئی ہے کہ گورنمنٹ نے پولیس کو بدنام کیا ہے آئندہ ایسے مواقع سے پولیس کو الگ رکھو۔ اس سپرنٹنڈنٹ کی ملاقات کے بعد ہمارا وفد پھر چیف سیکرٹری سے ملا اور ان کو بتایا کہ پولیس کی یہ روایت ہے اور ڈپٹی کمشنر احرار کے ساتھ تعلق رکھنا ہے وہ دو دو گھنٹے اس کے پاس بیٹھے رہتے ہیں اور جب ہمارا وفد جاتا ہے تو اس کو ملنے سے انکار کردیتا ہے۔ چیف سیکرٹری نے یہی کہا کہ ہماری اطلاعات یہی ہیں کہ فساد کوئی نہیں ہوگا اپ کو یونہی وہم ہورہا ہے اور ہم ڈپٹی کمشنر سے کہہ دیں گے کہ وہ آپ کے وفد سے بھی ملا کرے اور حرار سے اس طرح کے بے تکلفانہ تعلقات نہ رکھا کرے بلکہ ہم سارے اضلاع میں ایسی ہدایات بھجوا دیں گے لیکن بعد میں گوجرانوالہ سے بھی معلوم ہوا کہ نہ وہاں کوئی ہدایت دی گئی اور نہ دپٹی کمشنر کو۔ بلکہ الجھایا گیا اور نہ اور کسی ضلع میں ہدایت دی گئی ہے۔ چنانچ اس ضلع میں شدید فساد ہوا اور لوگوں کو مجبور کرکے احدمیت سے پھر جانے کا اعلان کروایا گیا گو اب وہ سب واپس آچکے ہیں سوائے ایک کے جو معافی مانگ رہا ہے مگر ابھی تک جماعت نے اسے معاف نہیں کیا۔ سپرنٹنڈنت پولیس گوجرانوالہ نے جو کچھ کہا تھا اس کے مطابق عمل کیا تمام فسادات کے دوران میں کسی قسم کا کوئی علاج نہیں کیا کسی احمدی کی حفاظت نہیں کی اور گویا پولیس کو تمام اعتراضات سے بالا رکھا۔ لائلپور کے سپرنٹنڈنٹ پولیس نے ایک رپورٹ کے موقعہ پر جماعت احمدیہ کے وفد اور ڈپٹی کمشنر کی موجودگی میں کہا احمدی غلط کہہ رہے ہیں کوئی فساد نہیں ہورہا۔ یہ بالکل خلاف واقعہ باتیں کہہ رہے ہیں جب جماعت احمدیہ کے وفد نے زور دیا کہ فلاں جگہ پر فساد ہورہا ہے اور احمدیوں کی دکان لوٹی جارہی ہے تو پسرنٹنڈنٹ پولیس نے ڈپٹی کمشنر کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر ان کی بات ٹھیک ہے تو میری داڑھی منڈا دیجئے اور مجھے ذلیل کروایئے۔ اس کے بعد جب اسی موقعہ پر ہماری جماعت کے آدمی اور وہ سپرنٹنڈنٹ جمع ہوئے اور اسے دکھایا گیا کہ یہ دکان دیکھو ٹوتی ہوئی اور ٹوٹی ہوئی ہے کیا اب تم تیار ہو کہ اپنی داری منڈوائو اور ذلیل ہو تو ہنس کر چلا گیا۔ تمام اضلاع میں پولیس فسادوں سے پہلے احمدیوں کی لسٹیں مانگیں کہ ہمیں تمہاری حفاظت کا حکم آیا ہے بعض لوگ جو امام جماعت احمدیہ سے مشورہ لینے کے لئے گئے تو انہوں نے مشورہ دیا کہ ہرگز لسٹیں نہ دینا یہ دشمنوں تک پہنچ جائیں گی چنانچہ ایسی جگہوں پر احمدی بالعموم لوٹے جانے سے بچ گئے لیکن جہاں جہاں جماعت احمدیہ کے افسروں نے سادہ لوحی سے لسٹیں دے دیں وہاں گیر معروف احمدیوں تک کے مکان لوٹے گئے اور لاہور کے ایک غیر احمدی نے ہمیں بتایا کہ اس نے وہی لسٹ جو جماعت احمدیہ نے پولیس کو دی تھی فسادیوں کے ہساتھ میں دیکھی۔ اگر کورٹ اس نام کو ظاہر نہ کرے اور پوچھنا ہو تو مخفی پوچھے تو ہم اس کا نام بھی بتا سکتے ہیں اگر اسے خطرہ نہ ہو تو ممکنہے کہ وہ صحیح گواہی دے دے )مولوی عبدالغفور صاحب سے اس شخص کے نام کا پتہ لیا جاسکتا ہے لنڈے بازار اور کشمیری بازار کے قریب کا رہنے والا ہے غیر احمدی ہے لیکن چندہ دیتا ہے اس کی دکان بھی احمدیت کے الزام کے نیچے لوٹنے لگے تھے۔( یہ رپورٹ سندھ آنے سے چند دن پہلے مجھے ملی تھی۔
سیالکوٹ میں فسادات شروع ہونے سے پہلے ہماری جماعت کا وفد مسلم لیگ کے پریذیڈنٹ خواجہ محمد صفدر صاحب سے ملا اور کہا کہ ہماری جماعت ہمیشہ لیگ کی مدد کرتی رہی ہے اب یہ نازک وقت ہم پر آیا ہے کیا ہماری جماعت یہ سمجھے کہ اس وقت لیگ بھی وفاداری دکھائے گی اور ہماری مدد کرے گی یا وہ دشمنوں سے مل کر ہم پر حملہ کرے گی انہوں نے کہا انصاف کا تو یہی تقاضا ہے کہ ہم آپ کی مدد کریں لیکن دولتانہ صاحب آرہے ہیں میں ان سے مل کر آپ کی بات کا جواب دوں گا۔ دولتانہ صاحب کے جانے کے بعد انہوں نے بتایا کہ دولتانہ صاحب بات ٹلا گئے ہیں اور کہا کہ جب تک مرکزی ہماری اس بات میں راہ نمائی نہ کرے ہم کچھ نہیں کرسکتے Order Laws صوبوں سے متعلق ہیں )اسی سلسلہ میں دولتانہ صاحب سے جو وفد ملا تھا اس کی باتیں بھی نوٹ کی جائیں( راولپنڈی میں جو قتل ہوا۔ قاتل نے شروع میں یہ بیان دیا کہ مولویوں نے جو تقریریں کی تھیں اس کے نتیجہ میں میں نے مارا ہے لیکن پولیس نے اس بیان کو حذف کردیا اور اس کو ذاتی جھگڑے کی شکل دینی چاہی ایک دوسرا پولیس افسر بیان کے وقت چوکی پر موجدو تھا افسران بالا کو توجہ دلانے پر اس کا بیان لیا گیا اور اس نے سچی بات بتا دی مگر پھر بھی یہ بیان شامل نہ کیا گی اجب سپرنٹنڈنٹ پولیس کو مل کر اس طرف توجہ دلائی گئی تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ آپ کے فائدے کے لئے ہم نے اس بیان کو حذف کردیا اس سے شور پڑے گا اور آپ کے خلاف ایجی ٹیشن بڑھے گی۔ ہاں ہم نے انسپکٹر جنرل صاحب پولیس کو اپنی رپورٹ میں یہ بات لکھ دی ہے۔ اوکاڑہ میں ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پویس نے اور لائلپور میں سپرنٹنڈنٹ پولیس نے عوام سے گلے میں ہار ڈلوائے اور وہی نعرے لگائے جو پبلک لگاتی تھی۔ اسی طرح بعض اور لوگوں کے متعلق بھی رپورٹیں ملی ہیں۔ ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں چوہدری مسعود اہمد جو وہاں کی ایک نہایت ہی معزز فیملی کا ممبر ہے انہی فسادات کے سلسلہ میں تھانیدار نے اس کو بلا کر ذلیل کیا اور باوجود اس کے گھر پر مظاہرہ ہونے کے اس کی کسی قسم کی مدد نہ کی اسی طرح بعض ایسے احمدیوں کو پکڑوایا اور دھمکیاں دیں جو اپنی جگہ پر اکیلے وکیلے تھے اور کسی قسم کا زور ان کا نہیں تھا۔ جب مرکز احمدیہ کی طرف سے آئی جی پولیس میاں انور علی صاحب کو اس کے متعلق شکایت کی گئی تو صرف یہ کاروائی ہوئی کہ ایک احمدی فوجی افسر جو ڈسکہ سے گزرتے ہوئے چوہدری مسعود احمد صاحب سے ملا تھا اور اس نے اسے تسلی دی تھی کہ گھبرانے کی بات نہیں یہ دن گزر جائیں گے۔ اس کے خلاف پولیس نے فوج میں رپورٹ کی۔ اور لوگوں سے تاریں بھی دلوائیں کہ اس فوجی افسر نے بڑا اشتعال دلایا ہے اور بڑا اسلحہ بھی مسعود کو دیا ہے چنانچہ وہ فوجی افسر اپنے عہدہ سے معطل کیا گیا اور اس کے خلاف انکوائری کی گئی۔ تب ہم نے سمجھ لیا کہ آئی۔ جی کو کسی قسم کی شکایت کرنا نقصان دہ ہے اس کا نتیجہ نیک نہیں نکل سکتا۔ آئی جی صاحب کے پاس سپرنٹنڈنٹ گوجرانوالہ کی بھی شکایت کی گئی تھی اور اس کا نتیجہ بھی یہی نکلا تھا کہ اس کے بعد سختی بڑھ گئی تھی۔ جماعت مودودی نے >قادیانی مسئلہ< کے نام سے ایک کتاب شائع کی جو کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے اور کئی لاکھ شائع ہوچکی ہے۔ لیکن حکومت پنجاب نے فوراً ہی امام جماعت احمدیہ کو نوٹس دے دیا کہ ایسے مسائل کے متعلق وہ کوئی تحریر نہیں شائع کرسکتے اور ان کی غرض یہ تھی کہ جماعت احمدیہ کے خلاف زہر پھیلتا رہے اور وہ کوئی جواب نہ دے سکے جب حکومت کو توجہ دلائی گئی کہ آخر یہ نوٹس کس بناء پر ملا ہے تو چیف سیکرٹری صاحب نے جواب دیا کہ الفضل میں ان کا ایک مضمون چھپا ہے جس میں ان کا یہ فقرہ درج ہے کہ گھبرائو نہیں فتح آخر ہماری ہوگی چونکہ ایسے مضامین سے ملک کا امن بالکل برباد ہوسکتا ہے۔ اس لئے ان کو نوٹش دیا گیا۔ عدالت اس جواب سے سمجھ سکتی ہے کہ دراصل نوٹس کا یہ موجب نہیں تھا۔ بلکہ اس کا موجب کچھ اور ہی تھا ربوہ سے لوگوں کی اطلاع کے لئے احمدویوں کے اطمینان کے لئے بذریعہ خطوط اطلاعات بھجوائی جاتی تھیں کہ وہ صبر سے کام لیں اور دعائوں سے کام لیں حکومت نے اس بناء پر ناظر دعوت تبلیغ اور امام جماعت احمدیہ کی تلاشی لی اور بعد میں امام جاعت احمدیہ سے اس بات کا جواب طلب کیا کہ فلاں فلاں خط سائیکلو سٹائل پر کیوں شائع ہوا یہ چار مضمون تھے۔ لطف یہ ہے کہ ان میں سے دو خود گورنمنٹ کی درخواست پر شائع کئے گئے تھے ایک ہوم سیکرٹری اور ڈپٹی کمشنر کی درخواست پر ایک ہوم سیکرٹری اور چیف سکرٹری کی درخاست پر۔ ایک دعہ تھانیدار اس کی تحقیقات کے لئے آیا اور دوسری دفعہ ڈی۔ ایس۔ پی اس کی تحقیقات کے لئے آیا۔ امام جماعت احمدیہ نے جب توجہ دلائی کہ ڈپٹی کمشنر خود میرے پاس یہ درخواست لے کر آیا تھا کہ یہ اعلان شائع کرو۔ ہوم سیکرٹری کی یہ خواہش ہے پھر یہ شاعء میں نے نہیں کیا۔ محکمہ نے کیا ہے پھر اس کے بارے میں مجھ سے کیوں پوچھا جاتا ہے اور جو دوسرا اعلان شائع ہوا ہے اس کے متعلق ڈی۔ ایس۔ پی صاحب سے کہا کہ اس کے شائع کرنے کے متعلق آپ نے آکے مجھے ہوم سیکرٹری کا پیغام پہنچایا تھا لیکن میں نے یہ جواب دیا تھا کہ میں گورنمنٹ کی تحریر کے بغیر ایسا شائع کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ سفیٹی ایکٹ کا نوٹس دیتے ہی مجھ سے یہ درخاست کرنا بتاتا ہے کہ مجھ کو سیفٹی ایکٹ میں پھنسانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اس کے بعد مشورہ کے نتیجہ میں مولوی عبدالرحیم صاحب درد ناظر امور عامہ ہوم سیکرٹری سے ملے اور انہوں نے کہا ہم نے ایسی کوئی چٹھی نہیں بھجوائی۔ شاید چیف سیکرٹری نے بھجوائی ہو پھر انہوں نے درد صاحب کو چیف سیکرٹری سے ملوایا اور چیف سیکرٹری نے کہا کہ ہاں میں نے ایسی ایک چٹھی بھجوائی ہے ایسا علان کرنے میں کیا حرج ہے۔ درد صاحب نے کہا کہ اس میں یہی حرج ہے کہ امام جماعت احمدیہ کو جن باتوں کے ذکر کرنے سے آپ نے سیفٹی ایکٹ کے ماتحت منع کیای ہے انہی کے متعلق آپ ان سے اعلان کروانا چاہتے ہیں پس آپ تحریر دے دیں تو میں ان سے علان کروانے کی کوشش کروں گا۔ چیف سیکرٹری نے کہا اچھا پھر مسودہ بناکر بھجوا دیں میں اس کی تصدیق کروں گا اس تصدیق شدہ مسودہ کو شائع کرنے کے خلاف اب یہ کاروائی کی جارہی ہے اور باوجود اس کے کی جارہی ہے کہ تھانیدار کو لکھ کر یہ دے دیا گیا کہ یہ اعلان گورنمنٹ کی کواہش پر اور چیف سیکرٹری کے حکم سے کیا گیا ہے۔ کیا یاں انور علی صاح الہور میں چیف سیکرٹری صاحب سے نہیں پوچھ سکتے تھے۔ جو یہاں جھنگ میں ڈی۔ ایس۔ پی سے تحقیقات کروا رہے ہیں۔ اس پر ڈی۔ ایس۔ پی صاحب نے کہا کہ ہم تو حکم کے بندے ہیں۔ جو کچھ افسروں نے لکھ بھیجا ہے اس کی تعمیل ہم نے کرنی ہے اس پر امام جماعت احمدیہ نے ان کو کہا کہ یاد رکھیں ایک بالا حکومت بھی آسمان پر ہے وہ ان ظلموں کا بدلہ لے گی۔
ملک عبداللہ صاحب کا واقعہ بھی لکھیں کہ ایک ایسے اشتہار کی بناء پر جس کو روک دیا گیا تھا ان کو سیفٹی ایکٹ کے ماتحت گرفتار کر لیا گیا پھر وہ واقعہ بھی لائیں کہ زمیندار کے بدلہ میں آثار کی اجازت دے دی گئی لیکن >الفضل< کی اجازت نہ دی گئی پھر میاں شریف احمد صاحب اور ناصر احمد صاحب کا واقعہ بھی لائیں پھر ان Accidents کو بھی لائیں جو ان دنوں میں ظہور پذیر ہوئے۔ ربوہ کے ارد گرد مکمل بائیکاٹ کیا گیا ایک ہفتہ تک نہ دودھ ملا نہ ترکاری ملی اور نہ اور ضروریات زندگی جو ارد گرد سے ملتی تھیں ملیں۔ بچوں` بوڑھوں اور بیماروں نے سخت تکلیف سے یہ دن گزارے۔ بعض غیر احمدی ملازموں یا تعلق داروں سے بہت تھوڑی مقدار میں چیزیں مہیا ہوسکیں جو % ۵ کو بھی کافی نہ تھیں۔ کئی دن تک کئی جگہ پر احمدیوں کو پانی میسر نہ آسکا۔ نلکوں سے ان کو روک دیا گیا۔ بعض جگہ پر ہفتہ ہفتہ دو ہفتہ تک کھانے پینے کی چیزیں لوگوں کو نہ ملتی تھیں ریل میں اگر کوئی احمدی مل جاتا تو اس قتل کی دھمکیاں دی جاتیں ریل سے پھینک دینے کی دھمکیاں دی جاتیں )مولوی اسماعیل دیالگڑھی کا واقعہ اور بہت سے واقعات( ان واقعات کو پوری طرح ان واقعات سے جمع کریں جو مولوی دوست محمد صاحب کے پاس تھے۔ یہ احتیاط سے کام کرنے چاہیں ہمارے لئے موت اور زندگی کا سوال ہے۔<
‏tav.14.15
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
تحقیقاتی عدالت میں وکلائے احمدیت کی کامیاب نمائندگی
تحقیقاتی عدالت سے متعلق ضروری خط و کتابت
مندرجہ ذیل گشتی مراسلہ بصیغہ رجسٹری حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد ناظر امور عامہ نے ۲ جولائی ۱۹۵۳ء کو مندرجہ ذیل احباب کے نام ارسال کیا اس مراسلہ کا متن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے قلم کا رہن منت تھا۔
‏in] [tag۱۔
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )پرنسپل تعلیم الاسلام کالج لاہور(
۲۔
شیخ نور احمد صاحب )لاہور(
۳۔
شیخ محمد احمد صاحب )لائلپور~(ف۹~ امیر جماعت احمدیہ لائلپور~ف۱۰~
۴۔
چوہدری انور حسین صاحب )شیخو پورہ( امیر جماعت احمدیہ شیخوپورہ
۵۔
میر محمد بخش صاحب امیر جماعت احمدیہ گوجرانوالہ
۶۔
چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ )سیالکوٹ( ایڈووکیٹ سیالکوٹ
۷۔
میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ راولپنڈی
۸۔
ملک عبدالرحمن صاحب خادم ایڈووکیٹ گجرات
۹۔
چوہدری محمد شریف صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ )منٹگمری~(ف۱۱~
۱۰۔
چوہدری محمد حسین صاحب جماعت احمدیہ ملتان
۵۳۔ ۷۔ ۲/ ربوہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمد ونصلی علی رسولہ الکریم
مکرمی محترمی!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
آپ کو معلوم ہے کہ حکومت پنجاب نے صوبہ کے گزشتہ فسادات کی تحقیق کے لئے ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا ہے جس کے ممبر جسٹس محمد منیر اور مسٹر جسٹس کیانی امیر مقرر ہوئے ہیں اور حکومت نے اس تحقیق میں جماعت احمدیہ اور مجلس احرار جماعت اسلامی اور صوبائی مسلم لیگ کو بھی پارٹی بنایا اور شہادت کے لئے بلایا ہے۔ سو اس تعلق میں آپ کو بھی جماعت کی طرف سے شہادت کے لئے منتخب کیا گیا۔ پس آپ مہربانی کرکے اس بارے میں مکمل تیاری کرلیں۔ تاآخری فیصلہ ہونے پر آپ کو پیش کیا جاسکے۔
منجملہ دیگر متعلقہ امور کے ذیل کے امور کے متعلق خاص طور پر تیاری ہونی چاہئے۔
۱۔
فسادات کا پس منظر کیا تھا۔ اور وہ کون سی وجوہات تھیں۔ جنہوں نے بال¶اخر فساد کی صورت پیدا کردی )پریس۔ خطبات اور خفیہ ریشہ دوانیاں وغیرہ سب کو مدنظر رکھا جائے(
۲۔
فسادات کی نوعیت اور تفصیل کیا تھی۔ اور فسادیوں کا طریق کار کیا تھا۔ )جس سے منظم اور سوچی سمجھی سکیم پر روشنی پڑے(
۳۔
آپ کے علاقہ میں احمدیوں کا جانی اور مالی نقصان کیا ہوا ۱۹۵۲ء` ۱۹۵۳ء )ہر دو نقصانات کو شامل کیا جائے اور حتی اولسیع پوری تفصیل دی جائے( نیز مارشل لاء نے جن لوگوں کو نقصانات کا معاوضہ دیا ہے اس کی تشریح کی جائے کہ کتنوں میں سے کتنے احمدی تھے اور ان کے نقصان کے مقابلہ میں یہ معاوضہ کیا حیثیت رکھتا ہے۔
۴۔
کون کون سے لوگ فسادات میں آگے تھے۔
۵۔
علاقہ کے سرکاری حکام کا کیا رویہ رہا۔
۶۔
فہرست ان لوگوں کی جنہیں فسادات میں تشدد کرکے جماعت احمدیہ سے منحرف کرایا گیا۔
۷۔
فسادات کے ساتھ مودودیوں کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق۔
ان امور کے متعلق معین اور مفصل تیاری ہونی چاہئے تاآپ کمیشن کے سامنے پختہ صورت میں شہادت دے سکیں اور ہر قسم کی جرح کے لئے تیار ہیں۔
ناظر امور عامہ۔ ربوہ
حسب ذیل چٹھی متعلقہ ہدایات تحقیقاتی کمیشن بھی انہیں دنوں نظارت امور عامہ کی طرف سے لکھی گئی اور مندرجہ ذیل امراء جماعت کو دستی پہنچائی گئی۔
۱۔
چوہدری محمد انور حسین صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت شیخو پورہ۔
۲۔
شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت لائل پور حال )فیصل آباد(
۳۔
ملک عبدالرحمن صاحب خادم " " گجرات
۴۔
میر محمد بخش صاحب امیر جماعت گوجرانوالہ۔
۵۔
بابو قاسم الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ سیالکوٹ۔
۶۔
مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر صوبائی پنجاب سرگودہا۔
۷۔
میاں اللہ بخش صاحب امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی۔
۸۔
چوہدری محمد حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ ملتان۔
۵۳۔ ۷۔ ۲
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
بخدمت امیر صاحب!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
آپ کو اخبارات سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ حکومت پنجاب نے گزشتہ فسادات کے متعلق ایک تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کیا ہے جس کے ممبر جسٹس منیر اور جسٹس کیانی ہوں گے اس تحقیق میں جماعت احمدیہ اور مجلس احرار جماعت اسلامی~ف۱۲~ اور صوبائی مسلم لیگ کو بھی ایک پارٹی بنایا گیا ہے پس ضروری ہے کہ اس تحقیق کے پیش نظر بہت جلد پوری پوری تیاری کی جائے۔ تیاری میں ذیل کے امور مدنظر رہنے چاہئیں۔
۱۔
آپ کے علاقہ میں فسادات کا پس منظر کیا تھا؟ اور وہ کون سے وجوہات تھیں جنہوں نے بال¶اخر فساد کی صورت پیدا کردی )پریس اور خطبات اور خفیہ ریشہ دوانیاں وغیرہ سب کو مدنظر رکھا جائے( نیز احتیاطاً فتویٰ کفر وغیرہ میں غیر احمدیوں کی طرف سے پہل ثابت کرنے کے لئے فتاوی جمع کئے جائیں۔
۲۔
فسادات کی نوعیت اور تفصیل کیا تھی اور فسادیوں کا طریق کار کیا تھا۔ جس سے منظم اور سوچی سمجھی ہوئی سکیم پر روشنی پرے۔
۳۔
کون لوگ فسادات میں آگے آگے تھے۔
۴۔
آپ کے علاقہ میں جماعت کا جانی اور مالی نقصان کیا کیا ہوا )۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۳ء ہر دو کے نقصانات کو شامل کیا جائے اور حتی الوسیع پوری تفصیل دی جائے( نیز مارشل لاء والوں کے منظور کردہ معاوضہ پر روشنی ڈالی جائے کہ کل افراد میں کتنے احمدی تھے اور یہ معاوضہ اصل نقصان کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟
۵۔
علاقہ کے سرکاری حکام کا رویہ کیا رہا؟
۶۔
فہرست ان احمدیوں کی جن پر تشدد کرکے جماعت سے منحرف کرایا گیا۔
۷۔
اگر علاقہ میں کوئی غیر احمدی معزز ہمارے حق میں شہادت کے لئے تیار ہوسکیں تو انہیں تیار کیا جائے اس کا بہت اچھا اثر ہوسکتا ہے۔
۸۔
فسادات میں مودودیوں کا براہ راست یا بالواسطہ جو تعلق ثابت ہو اس کے متعلق تیاری کی جائے ان امور کے متعلق معین اور مفصل ہونی چاہئے تاکمیشن کے سامنے پیش کی جاسکے۔ یہ رپورٹ خاص آدمی کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ ۱۰ جولائی تک ہمارے پاس پہنچ جائے۔
)ناظم امور عامہ ربوہ(
ہدایات حضرت مصلح موعود )مورخہ ۵ جولائی ۱۹۵۳ء
فرمایا:۔
۱۔
وکلاء شیخ صاحب تو ہوں گے ہی۔ دو تین آدمی لگنے چاہئیں تاکہ اگر ایک کسی معذوی کی وجہ سے کام نہ کرسکے تو دوسرے صاحب ساتھ ہوں۔ گجرات کے ظہورالدین بہت اچھے ہیں جیسا کہ شیخ صاحب نے نوٹ کیا ہے۔ خصوصاً وقار کے لحاظ سے۔ جو نیئر وکیل Paid ہونا چاہئے )یونہی (Commentry سے کام کرنے والا نہ ہو اور اتنے بھی جمع نہ ہوں کہ کام نہ ہوسکے۔
۲۔
خادم صاحب بطور گواہ اچھے رہیں گے۔ میاں عطاء الل¶ہ صاحب شاید موزوں نہ ہوں چوہدری انور حسین صاحب کا غالباً زیادہ اثر نہ ہوگا۔ شیخ محمد احمد صاحب خواہ کام نہ کریں ان کا مشورہ بہت اچھا ہے۔
۳۔
۴کورٹ کو خواہ وسیع اختیار دیا گیا ہے اور قانون شہادت کی پابندی لازمی نہیں لیکن ہماری طرف سے اس معاملہ میں احتیاط ہونا لازم ہے۔ تاایسا نہ ہو کہ ہارا کیس Weak ہوجائے یعنی سنی سنائی بات پر واقعہ کا انحصار نہ رکھا جائے۔ گواہ ایسا ہونا چاہئے جو اپنے آپ دیکھی بات یا بیتی بیان کرسکے ہاں جہاں صرف یہ بتلانا مقصود ہو کہ یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے تو عمومی رنگ میں یہ کہا جاسکتا ہے مگر بہتر اور محتاط طریق یہی ہے کہ معین اور مخصوص شہادت ہو۔
۴۔
احرار کا ذکر کرتے ہوئے عناد یا طعنہ زنی یا جارحان طریق نہ اختیار کیا جاوے وقار کے ساتھ بے شک جذبات اور افسوس میں ڈوبی ہوئی بات ہو لین بتایا یہ جاوے کہ احرار نے یہ کہا یا کیا۔
۵۔
دوسرا فریق بے شک یہ کوشش کرے گا کہ ہر قسم کی باتیں زیر تنقیح آئیں لیکن ہماری طرف سے واقعاتی رنگ غالب ہونا چاہئے۔
۶۔
حکومت کے افسران کے متعلق یہ یاد رہنا چاہئے کہ حتی الواسیع کسی کا نام نہ آئے سوائے اس کے کہ جرح میں پوچھا جاوے تو بتانا پڑے اس میں دشمنی اور عناد کی بات نہ کی جاوے اگر کچھ کہنا ہی ہو تو مختلف افسروں کا رویہ بیان کرکے اس طرف توجہ دلائی جاوے کہ فلاں افسر کا رویہ مختلف تھا۔ خواہ مخواہ تعریف بھی نہ ہو۔ افسروں کو جو خط کھے گئے وہ بے شک پیش کی جائیں۔
۷۔
ہماری طرف سے مقدمہ ایسے رنگ میں پیش کیا جاوے کہ عدالت مجبور ہوکہ فریق مخالف کے متعلق سخت Remarks کرے اگر خود بھڑاس نکال لی جاوے تو عدالت اپنے آپ کو کسی حد تک سبکدوش سمجھتی ہے۔
۸۔
‏ Statemen مختصر ہو لمبی نہ ہو۔
۹۔
‏ Presention ہمارا بہت Careful ہونا چاہئے۔ ان کی اشتعال انگیزی کو نمایاں کیا جائے۔ حوالہ جات و اقتباسات کے ساتھ۔
۱۰۔
غیر احمدی چونکہ پوری طرح ہمارے نقطہ نظر کو سمجھ نہیں سکتا اس لئے ہمارے اپنے آدمی کو پیش ہونا چاہئے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مکرمی~ف۱۳~
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
‏in] gat[۱۔
کیا آپ نے قائد صاحب خدام کو کچھ والنٹیر لینے کے لئے لکھ دیا ہے یا ابھی نہیں لکھا ہے تو کیا جواب آیا ہے؟
۲۔
ارشاد صاحب کلرک ہیں` چپڑاسی نہیں ان سے بھی لکھنے پڑھنے کا کام لینا چاہئے۔
۳۔
مہاشہ صاحب اور مولوی عبدالغفور صاحب اور مسعود صاحب ہر قسم کے حالے نکال کر آپ کو دے سکتے ہیں ان کی ڈیوٹی لگادیں۔
۴۔
نوٹ وغیرہ جو شیخ صاحب طلب فرمائیں آپ اور شیخ نور احمد صاحب تیار فرمائیں۔ اگر کسی اور آدمی کی ضرورت ہو اطلاع دیں تا اس کا بھی انتظام کردیا جائے۔
۵۔
دوست محمد صاحب اپنے کاغذات لے کر آچ ربوہ سے یہاں پہنچ جائیں گے۔ تعجب ہے آج عدالت میں گئے ہی نہیں میرے نزدیک وہاں جانا نہایت ضروری ہے۔
خاکسار
۵۳۔ ۷۔ ۹ عبدالرحیم درد
جواب وصول پایا بوقت چار بجے شام۔
خاکسار مرزا سمیع احمد ظفر
۵۳۔ ۷۔ ۹
ارشاد مبارک حضرت مصلح موعود بنام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
عزیزم مکرم~ف۱۴~
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
نوٹ مع ہدایات واپس ارسال ہے ان کو دیکھ لیں اور بہت احتیاط کے ساتھ کام کریں۔ معاملہ نہایت نازک اور اہم ہے میرے نزدیک چوہدری صاحب کی بہت سی باتیں وزنی ہیں۔ قانونی اور تجربانی نقطہ نگاہ سے ہم ان کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ہم اپنی بات بھی نہیں چھوڑ سکتے مگر ہم کورٹ سے یہ بھی امید نہیں کرسکتے کہ وہ برسراقتدار حکومت کے خلاف واضح الفاظ میں کوئی رائے ظاہر کرے۔ پس ہمیں پختہ اور ثابت شدہ حقائق احرار اور مودودیوں کے خلاف پیش کرنے چاہئیں اور جو واقعات چیف سیکرٹری۔ ہوم سیکرٹری یا آئی جی سے گزرے ہیں ان کو بیان کردینا چاہئے۔ گورنمنٹ کا براہ راست نام سے نہیں لینا چاہئے نتیجہ واضح آپ ہی ہوجاتا ہے۔ خواجہ ناظم الدین صاحب کا خط پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ مفید ہے۔
میں چوہدری صاحب سے اس بات میں متفق ہوں کہ میاں عطاء اللہ کو بطور وکیل یا گواہ پیش کرنا مفید نہیں ہوگا۔ وہ بہت ذکی الحس ہیں اور بعض دفعہ انسان ان کی افسردگی کو دور کرنے کے لئے اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کر بیٹھتا ہے۔
)دستخط حضرت صاحب(
موصولہ لاہور ۵۳۔ ۷۔ ۱۵
‏]2bus [tagحضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے خطوط
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
۱۔
درد صاحب اور شمس صاحب تو اس وقت لاہور روانہ ہورہے ہیں لیکن تجویز ہے کہ مولوی صدیق صاحب بھی ضروری کتابیں لے کر شمس صاحب کی امداد اور وقت پر حوالہ جات کی تلاش کے لئے چند دن کے واسطے لاہور چلے جائیں اس کے لئے حضور کی اجاز کی ضرورت ہے۔
۲۔
احمدی علماء کی شہادت کا معاملہ وکلاء پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ اگر پسند کریں اور ضرورت ہو تو شمس صاحب اور خادم صاحب کو پیش کردیں۔ ویسے شہادت والے امور تحریری بیان کریں تو پیش کرہی دیئے گئے ہیں۔
خاکسار مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۹۔ ۲
فرمایا مولوی صدیق صاحب چلے جائیں۔
)ارشاد حضرت مصلح موعود(
ھوالناصر
سیدنا!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
حضور کر ارشاد کے ماتحت شیخ بشیر احمد صاحب کو ان کی فیس کے متعلق پوچھا گیا تھا۔ ان کا جواب لف ہذا ہے بعد ملاحظہ واپس ارسال فرمایا جاوے۔
خاکسار
مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۹۔ ۱۹
‏2301 Phone
‏Road Temple ۔13
‏Ahmad Bashir ۔Sh
53 ۔9 ۔13 Lahore
‏Court federal Adocate Senior
‏Court High Adovcate and

مراسلہ شیخ بشیر احمد صاحب
محترمی حضرت میاں صاحب
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
مکرمت نامہ ملا۔ عبدالغفار صاحب میری موجودگی میں کوہ مری واپس نہیں آئے اور نہ ہی آپ کا کوئی ملفوف بصیغہ رجسٹری مجھے ارسال کیا ہے۔
میں نے جہاں تک میرا حافظہ میری راہنمائی کرتا ہے کسی فرد سے بھی بالواسطہ یا بلاوسطہ معاوضہ کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی میرے ذہن میں کبھی یہ خیال آیا ہے اس لئے جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے یہ سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی ستاری غیر معمولی حالات میں میرا ساتھ دیتی جا رہی ہے اور اپنے فضل اور احسان سے مجھے برابر رزق دیتی جارہی ہے اگرچہ قطعاً میں اس کا مستحق نہیں دعا فرمائیں مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جو اس کی ناراضگی کا موجب ہو اور مجھے ایسے اعمال کی توفیق ملتی جائے جو اس کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنتی رہیں میرے گناہ معاف فرمائے اور انجام بخیر ہو۔
امید ہے کہ میرا پہلا خط آپ کو مل چکا ہوگا۔ میرے ساتھ کوئی ایسا عمل نہیں کہ اگر اردو میں خط لکھوں تو نقل ہی کرا سکوں اس لئے انگریزی میں لکھ دیتا ہوں۔ اگرچہ کئی مرتبہ ندامت کا بھی احساس ہوتا ہے کہ اردو خط کا جواب انگریزی میں بھجوا رہا ہوں۔ آپ کی کریمانہ طبیعت ہے امید کرتا ہوں کہ بار خاطر نہ ہوگا۔
خاکسار شیخ بشیر احمد عفی عنہ
مکتوب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
ھوالناصر
سیدنا!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
کل کے نوائے وقت میں مولوی مودودی کے اس بیان کی نقل چھپی ہے۔ جو مودودی صاحب نے جماعت احمدیہ کے خلاف عدالت میں دیا ہے۔ شاید اور اخباروں میں بھی چھپے۔ چونکہ مودودی کو ملمع سازی کا فن آتا ہے۔ اور تحریر عموماً واضح اور متعلقہ امور پر مشتمل ہوتی ہے اس لئے بعض دوست جو جلدی میں یکطرفہ رائے کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ گھبرا جاتے ہیں۔۔۔۔ اس کا ازالہ ہونا چاہئے سو اس صورت میں اس بات پر غور ہونا چاہئے کہ کیا اس کے جواب میں اپنا جواب چھاپ دیا جائے۔ ہمارا جواب دو ٹکڑوں میں ہے۔ ایک حوالوں کے انکار و اقرار کی صورت میں اور دوسرا مفصل تبصرہ تیار کردہ شمس صاحب۔ ہر دو جوابوں کو حضور دیکھ کر منظور فرما چکے ہیں۔
والسلام
خاکسار مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۱۰۔ ۱۲
حضور نے ارشاد فرمایا >اطلاع ہوئی جزاہم اللہ<
ارشاد حضرت مصلح موعود بقلم سیدہ ام متین صاحبہ
میں متواتر کہہ چکا ہوں۔ کہ آپ وکیلوں سے اس بارے میں پوچھئے کہ چھپوایا جائے یا نہیں اگر ان کے نزدیک چھپوانے میں حرج نہ ہو۔ تو عدالت کے سامنے یہ معاملہ پیش کردیں کہ اب دوسرے لوگ چھاپ رہے ہیں تو ہم بھی چھاپنے پر مجبور ہیں۔<
مکتوب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
ھوالناصر
سیدنا!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کل لاہور کے وکلاء دوست کہہ گئے تھے کہ اب جواب میں ہماری طرف سے بھی جوابات کی اشاعت ہونی چاہئے خصوصاً مودودی صاحب کے بیان کا جواب۔
آج محترمی مرزا عبدالحق صاحب کے ساتھ بات ہوئی تو انہوں نے اس کی پرزور تائید کی کہ اب پبلک میں جواب کا انتظار ہے۔ خصوصاً انہوں نے کہا کہ ساتھ سوالوں والا مفصل جواب المصلح بھی شائع ہوجانا چاہئے۔
سو اگر حضور اجازت دیں تو کیا سات سوالوں والا جواب المصلح میں اشاعت کے لئے بھجوا دیا جائے۔ یہ جواب حضور کا دیکھا ہوا بلکہ تیار کیا ہوا ہے۔ البتہ جنازہ والے سوال میں اس نوٹ کے دینے کی ضرورت ہوگی کہ امام احمدی ہونا چاہئے۔
خاکسار مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۱۰۔ ۱۷
‏body] gat[چھپوا دیا جائے آخر امام کا جھگڑا اس وقت پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے فتویٰ تو دیا ہی نہیں گیا۔ آئندہ غور کرنے کا لکھا ہے۔ اس کے لئے امام کا کیا سوال ہے۔
بعض دیگر اہم خطوط
تحقیقاتی عدالت کے سلسلہ میں بعض دیگر اہم خطوط درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
بخدمت محترم مکرم حضرت میاں صاحب!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
۔۔۔۔۔ اس وقت حسب ذیل عملہ یہاں کام کررہا ہے۔
۱۔
مکرم درد صاحب
۲۔
مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس
۳۔
مولوی محمد صدیق صاحب
۴۔
مرزا عبدالسمیع صاحب کلرک
۵۔
سید دائود احمد صاحب کلرک
۶۔
چوہدری نورالدین صاحب کلرک
۷۔
عابد حسین صاحب ٹائپسٹ
۸۔
سلیم اللہ مددگار کارکن لائبریری
۹۔
باورچی
۱۰۔
ڈرائیور۔ جو آج واپس چلا گیا۔
۱۱۔
مولوی عبدالغفور صاحب لاہور
۱۲۔
مولوی محمد اشرف صاحب۔ لاہور
۱۳۔
ان کے علاوہ دو تین اور احباب مثلاً ایک مزید ٹائپسٹ اور دوسرے کارکن ہوتے ہیں
۱۴۔
باہر سے جب وکلاء آجاویں تو مزید خرچ ہوتا ہے۔
۱۵۔
خاکسار۔ غلام مرتضیٰ لاہور۔ ۵۳۔ ۱۱۔ ۴
۲۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
تاریخ/ ربوہ ۔۔۔۔۔
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ
بخدمت مکرم محترم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
حضور ایدہ اللہ بنصرہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ حضور کارا وہ کل دوپہر کو لاہور کے لئے روانہ ہونے کا ہے۔ آپ اور ملک غلام فرید صاحب اور مرزا مبارک احمد صاحب بھی لاہور جائیں گے۔ نیز فرمایا کہ غالباً مکرم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو مقامی امیر اس عرصہ میں تجویز کرنا ہوگا۔
خاکسار عبدالرحمن انور۔ پرائیویٹ سیکرٹری
۵۴۔ ۱۔ ۱۱ حضرت خلیفہ المسیح الثانی
۳۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
سیدنا!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
۱۔
خاص خاص دوستوں کو دعا کی تحریک کردی ہے۔
۲۔
مگر کئی دوست پوچھتے ہیں کہ کیا ہم اپنے طور پر شہادت کے موقع پر لاہور جائیں تو اس میں کوئی روک تو نہیں سو اس بارے میں ہدیات فرمائی جائے۔
۳۔
میری ذاتی رائے یہ کہ کمرہ عدالت کے اندر جانے کا تو سوال ہی نہیں بلکہ باہر کے احاطہ میں بھی غالباً پولیس لوگوں کے ہجوم کو روکے گی اور ویسے بھی اس موقعہ پر جماعت کی طرف سے کسی قسم کا Demonstration وغیرہ نہیں ہونا چاہئے اور تعداد کی غیر معمولی کثرت بھی ایک رنگ کا مظاہرہ ہی ہوتا ہے۔ غالباً عدالت بھی اسے پسند نہیں کرے گی اور اس سے بالمقابل مظاہرہ کی بھی بجیاد قائم ہوتی ہے۔
۴۔
البتہ حضور کر ارشاد سے جامعہ مبشرین کے طلبہ اور اساتذہ جارہے ہیں اور باقی انتظام حسب ضرورت لاہور کے دوستوں کے ذریعہ ہوجائے گا جس کے لئے عزیز میاں مبارک احمد انتظام کررہے ہیں۔
۵۔
میں نے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کو علی الحسب ۔/۵۰۰ RS دے دیا ہے اور اس قدر رقم زائد بھی لے جارہا ہوں جو ملک غلام فرید صاحب کے سپرد کردی ہے۔
خاکسار مرزا بشیر احمد
۵۴۔ ۱۔ ۱۲
۴۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
درد صاحب نے کہا تھا کہ اطلاع کردی جائے کہ
۱۔
گواہی بیٹھ کر ہوتی ہے جس کے لئے چیف جج فوراً گواہ کو کہہ دیتے ہیں کہ بیٹھئے۔
۲۔
ہر سوال خواہ جج کی طرف سے ہو یا کسی وکیل کی طرف سے اس کا جواب جج کی طرف مخاطب ہوکر دیا جاتا ہے گو سوال سننے کے وقت سوال کرنے والے وکیل کی طرف منہ کر لیا جاتا ہے۔
۳۔
ہر سوال اور جواب پر جج صاحب خود سوال و جواب ملا کراتے ہیں اور اس کے لئے ہر سوال اور ہر جواب کے بعد خفیف سا وقفہ ہوتا ہے۔
۴۔
شیخ صاحب کہتے ہیں کہ گواہ اپنے پاس ضروری نوٹ رکھ سکتا ہے۔
۵۔
شیخ صاحب خود جج صاحبان سے کہہ دیں گے کہ چونکہ سب حوالہ جات یاد نہیں ہوتے اس لئے وہ حسب ضرورت بعد میں پیش کردیئے جائیں گے۔
۶۔
میاں مبارک احمد رستہ دیکھنے اور چوہدری اسد اللہ خاں صاحب سے مقامی دوستوں میں سے کس کس کو رکھ لیا جائے۔
۷۔
محمد اقبال صاحب سب انسپکٹر نے بھی اپنی ڈیوٹی ہائی کورٹ میں لگوا لی ہے۔
خاکسار مرزا بشر احمد
۵۴۔ ۱۔ ۱۳
>پانچ آدمی اگر ہوں تو آپ` ملک صاحب` ناصر احمد` مولوی ابو العطاء اور اندر پہرہ کے لئے مبارک احمد یا ظہیر مگر سمجھا دیا جائے صرف آنکھ سے کام لیں کورٹ کا ادب مدنظر رکھیں۔<
)ارشاد حضرت مصلح موعود(
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری
۵۔ تاریخ/ ربوہ ۔۔۔۔۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
نمبر
بخدمت مکرم محترم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ حضور جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد لاہور روانہ ہورہے ہیں۔ آپ اور دیگر علماء کرام ساتھ ہوں گے یعنی مولوی ابو العطاء صاحب` مولوی سیف الرحمن صاحب` مولوی محمد یعقوب صاحب` ملک غلام فرید صاحب اور مولوی نذیر احمد علی صاحب کو کراچ تار بھجوائی جارہی ہے کہ وہ جمعہ کی شام تک لاہور پہنچ جائیں۔
نیز حضور نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر باورچی کا اپنا انتظام کرلیا جاوے تو لوگوں کی دلجمعی کا موجب ہوگا اور کھانا بھی اچھا مل سکے گا۔
نیز فرمایا جامعہ المبشرین کے طلبہ کی اس دفعہ ضرورت نہ ہوگی۔
خاکسار عبد الرحمن انور
۵۴۔ ۱۔ ۲۷
۶۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
تاریخ/ ربوہ ۔۔۔۔۔
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ
نمبر
بخدمت مکرم محترم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ملک غلام فرید صاحب اور مولوی نذیر احمد علی صاحب کو اطلاع بذریعہ تار دے دی جاوے کہ وہ جمعہ کے دن لاہور پہنچ جائیں۔ حضور بھی اس تاریخ لاہور پہنچ رہے ہیں۔
خاکسار
عبدالرحمن انور
۵۴۔ ۱۔ ۲۷
پرائیویٹ سیکرٹری
حضرت خلیفہ المسیح الثانی
تار دی گئی۔ مرزا بشیر احمد صاحب
۷۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بخدمت اقدس حضرت میاں صاحب
السلام علیکم ورحمہ اللہ
مکرمی شیخ بشیر احمد صاحب بحث کررہے ہیں اور نہایت اطمینان سے کررہے ہیں اور حضور کے فرمودہ نوٹ کے متعلق حوالہ جات پیش کررہے )ہیں(
والسلام
خاکسار۔ غلام مرتضیٰ
‏pm ۱۵۔ ۲ at ۵۳۔~ف۱۵~ ۲۔ ۳
۸۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بخدمت اقدس حضرت میاں صاحب
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
آج مئورخہ ۲۴ فروری ۱۹۵۴ء بوقت دس بجے صبح مکرم شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنی بحث ختم کی۔ اس کے بعد مسٹر یعقوب علی صاحب نے جواب دیا اور اس کے بعد چوہدری محمد حسین چیمہ وکیل انجمن احمدیہ اشاعت اسلام نے۔۔۔۔۔ اپنا کیس پیش کیا۔ چیف صاحب نے فرمایا کہ لنچ کے بعد مذہبی حصہ کی بحث شروع ہوگی۔ عدالت سوالات کرے گی اور ہر فریق کو اس کے جوابات دینے ہوں گے۔ چنانچہ آج بعد دوپہر مولانا مرتضیٰ احمد میکش نے مجلس عمل کی طرف سے~ف۱۶~ شروع کیا۔ چیف صاحب نے بھی فرمایا کہ یہ مذہبی حصہ بحث کا ہفتہ تک یعنی ۲۷ فروری ۱۹۵۴ء تک ختم ہوجائے گا۔ شیخ بشیر احمد صاحب نے آج Aggressive تبلیغ کے متعلق بحث کی اور بلوچستان والے خطبہ جمعہ کی وضاحت بھی کی۔ دوران بحث میں کیانی صاحب نے فرمایا کہ تبلیغ کرنا ذپ مذہبی فرض سمجھتے ہیں۔ اس لئے ہم اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں دے سکتے ہاں یہ فیصلہ ہمارا کام ہے کہ آیا ایک خاص تحریر Aggressive تبلیغ ہے یا نہیں۔ شیخ صاحب کی بحث کے دوران میں کیانی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ اگر آپ ایک دوست کی حیثیت سے میرے پاس آکر تبلیغ کرتے ہیں تو میکش صاحب کو س پر معترض نہیں ہونا چاہئے۔ چیف صاحب نے بھی ان کی تائید کی بہرحال شیخ صاحب نے نہایت مئوثر طریق پر بحث کی۔
میکش صاحب نے آج بعد دوپہر مذہبی حصہ پر حوالہ جات پیش کئے۔ کل سوال نمبر ۷ اور Religion Politics سوال پر بحث ہوگی۔ بظاہر نظر آتا ہے کہ کل بارہ بجے تک میکش صاحب اور مولوی مظہر علی اظہر اپنی بحث ختم کرلیں گے اور بعد دوپہر ہماری باری شروع ہوجائے گی۔
آج ٹیلیفون پر آپ کو اطلاع دینے کی کوشش کی لیکن Connection نہ مل سکا۔
والسلام` خاکسار
غلام مرتضی از لاہور
۵۴۔ ۲۔ ۲۴
نوٹ منجانب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب۔
>فوری بحضور سیدنا مرسل ہو آخری فقرہ میں شاید جلدی آنے کا اشارہ ہے گو شاید جاتے جاتے بحث ختم ہوجائے۔ چوہدری صاحب بھی کل صبح یہاں آرہے ہیں۔
خاکسار مرزا بشیر احمد
۵۴۔ ۲۔ ۲۵
بوقت صبح
)جواب منجانب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب(
>حضور نے فرمایا ہے کہ لاہور فون کرکے معلوم کیا جائے کہ کیا اب بھی ہمارے وہاں انے کی ضرورت رہ گئی ہے۔<
خاکسار
عبدالرحمن
۵۴۔ ۲۔ ۲۵
۹۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
لاہور میں شیخ بشیر احمد صاحب کے نمبر پر فون کیا جائے کہ چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب کا خط آیا ہے کہ بحث جلدی جلدی ختم ہورہی ہے اور غالباً ہماری بحث کی باری آج بعد دوپہر آجائے گی اس پر حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ اب کیا ہمارے وہاں آنے کی ضرورت رہ گئی ہے نیز کہہ دیا جائے کہ غالباً اگر آج دوپہر کو ہماری بحث شروع ہو تو موجودہ رفتار کے لحاظ سے آج شام تک یا ک دوپہر تک ختم بھی ہوجائے گی۔
ارجنٹ فون کیا جائے اور فون پر درد صاحب یا شیخ صاحب یا خادم صاحب یا چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب کو بلایا جائے اور ان کا جواب نوٹ کرلیا جائے۔ ایک وقت میں صرف دو آدمیوں کا نام دیا جاسکتا ہے اگر گھر پر نہ ملیں تو بار روم ہائی کورٹ کے نمبر پر بلا لیا جائے وہ چیف جج کے کمرے میں ہوں گے۔
‏]da [tagخاکسار
مرزا بشیر احمد
۵۴۔ ۲۔ ۲۵
۱۰۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
سیدنا!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
خط والا آدمی لاہور پہنچ گیا ہے اور اس پر لاہور سے شیخ بشیر احمد صاحب نے حسب ذیل فون کیا ہے:۔
>خادم صاحب نے دوپہر سے بعد بھی ختم نبوت پر بحث کی اور بعض آیات اور حوالہ جات پیش کئے اور ابھی یہ بحث ختم نہیں ہوئی انشاء اللہ ہماری بحث ہفتہ تک تو یقینی جاری رہے گی اور اس کے آگے بھی جاری رہنے کی امید ہے۔ خادم صاحب نے اچھی بحث کی ہے بہتر یہی ہے کہ حضور تشریف لے ہی آویں۔ ججوں نے کہا ہے کہ ختم نبوت کے موضوع کو بہت اہمیت دی گئی ہے اس لئے ہم اس موضوع پر مفصل بحث سننا چاہتے ہیں۔ حضور کے خط میں جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان کا امکان نہیں ہے حضور تشریف لے آئیں۔
نیز کہا مولوی ابو العطاء صاحب سے کتاب تحقیق الجہاد لیتے آئیں۔
خاکسار
مرزا بشیر احمد
۵۴۔ ۲۔ ۲۵
تحقیقاتی عدالت کی ابتدائی کاروائی
روزنامہ >آفاق< لاہور کی ۶ اگست ۱۹۵۳ء کی اشاعت میں لکھا ہے:۔
>پنجاب صمیں رد قادیانیت کی تحریک کے سلسلہ میں حالیہ فسادات کی تحقیقات کرنے والا کمیشن ختم نبوت کے متعلق عقائد کا اختلاف معلوم کرنے کے لئے قادیانی فرقہ اور مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کے سترہ ممتاز علماء کے بیانات کمیشن کے لاہور کے اجلاس میں بند کمرہ میں قلمبند کرے گا۔ تحقیقات عدالت نے سات سوالوں پر مشتمل ایک سوال نامہ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے نام جاری کی اہے۔ اور انہیں ہدایت کی گئی ہے۔ کہ وہ جماعت ¶احمدیہ کے عقائد کے حوالہ سے اور فرقہ احمدیہ کے سربراہ سے مشورہ کے بعد سترہ اگست تک ان سوالات کے جواب پیش کریں۔ تحقیقاتی عدالت نے آج کے اجلاس میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو حکم دیا ہے۔ کہ مارشل لاء کے دوران میں خاص فوجی عدالتوں نے مولانا اختر علی خاں مولانا ابو العلیٰ مودودی مولانا عبدالستار نیازی اور مسٹر احمد سعید کرمانی کے خلاف مقدمات میں جو احکامات اور فیصلے صادر کئے تھے۔ ان کی مصدقہ نقول عدالت میں پیش کی جائیں۔ تحقیقاتی عدالت نے جو چیف جسٹس مسٹر محمد منیر اور مسٹر جسٹس ایم آر کیانی پر مشتمل ہے مسٹر عبدالرزیز خاں ایڈووکیٹ جنرل کو مزید حکم دی اہے کہ رد قادیانیت کی تحریک اور حالیہ فسادات کے معلق اگر پنجاب کے محکمہ تعلقات عامہ میں کوئی فائل رکھی گئی ہو۔ تو وہ بھی عدالت مںی پیش کی جائے۔
عدالت نے صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی جانت سے مسٹر بشیرا حمد اور جماعت اسلامی کی جان سے مسٹر صفدر حسن صدیقی کو اجازت دے دی ہے۔ کہ وہ مطلوبہ دستاویزات کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
جن سترہ علماء کے بیانات قلمبند کئے جائیں گے ان کے نام یہ ہیں۔ مولانا ابو العلیٰ مودودی اسیر جماعت اسلامی۔ مولانا عطا اللہ شاہ بخاری مجلس احرار۔ مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری صدر جمعیت علمائے پاکستان۔ مولانا دائود غزنوی اہل حدیث۔ مولانا محمد ذاکر تنظیم اہل سنت والجماعت۔ مولانا نور الحسن شاہ بخاری۔ مولانا حافظ کفایت حسین ادارہ تحفظ حقوق شیعہ۔ پیر قمر الدین جمعیت الشائخ۔ مسٹر قیصر مصطفیٰ اسلام لیگ۔ مولانا محمد ادریس جامعہ اشرفیہ۔ مولانا احمدی علی صدر جمعیہ علمائے اسلام مغربی پاکستان۔ مولانا سید سلیمان ندوی۔ مولانا عبدالماجد بدایوانی اور مفتی محمد شفیع دیوبندی کراچی۔ مفتی محمد ادریس جامعہ اشرفیہ سوالنامہ عدالت نے اس لئے جاری کیا ہے۔ کہ وہ اس مسئلہ پر مسلمانوں کے مختلف مکتبہ ہائے فکر کے علمائے کے عقائد میں ہامی اختلاف معلوم کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ عدالت اپنے آپ کو اس متنازعہ مذہبی مسئلہ پر فیصلہ صادر کرنے کا اہل نہیں سمجھتی۔ لیکن چونکہ حالیہ فسادات اس مسئلہ پر قادیانیوں اور مسلمانوں کے باہمی عقائد میں اختلاف ہی کا نتیجہ تھے۔ اس لئے عدالت نے ضروری سمجھا کہ اس کے متعلق مختلف فرقوں کے درمیان عقائد کا اختلاف معلوم کیا جائے۔
تحقیقاتی عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو مزید حکم دیا ہے کہ مولانا اختر علی خان` مولانا مودودی` مولانا عبدالستار نیازی` اور مسٹر ابو عید کرمانی کے بیانات کی نقول بھی عدالت میں پیش کی جائیں۔
عدالت نے مولانا عبدالستار نیازی کی یہ درخواست بھی منظور کرلی ہے۔ کہ انہیں اپنا بیان پیش کرنے کے لئے ۱۷ اگست تک کی مہلت دی جائے۔ فریقین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے بیانات مری میں تحقیقاتی عدالت کے دفتر میں یا لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے دفتر میں پیش کریں۔
عدالت نے فریقین سے مزید درخواست کی کہ وہ ۱۷ اگست سے پہلے اپنے گواہوں کی فہرست اور ایسے لوگوں ر جرح کے متعلق درخاستیں پیش کردیں۔ جو عدالت کی کاروائی سے تعلق نہیں رکھتے۔ عدالت کی ہدایت کے مطابق گواہوں کی فہرست میں ہر گاوہ کے متعلق اس کی گواہی کا منشا بیان کیا جائے۔~<ف۱۷~
حضرت مصلح موعود کا ایک اور مکتوب
مندرجہ ذیل خط سیدنا حضرت مصلح موعود نے ۷ اگست ۱۹۵۳ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے نام سندھ سے تحریر فرمایا:۔
۵۳۔ ۸۔ ۷
عزیزم
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
کل ڈاک اور سول]10 ~[pف۱۸~ میں یہ حیرت ناک خبر ملی کہ کمیشن نے مولویوں والے سوالات~ف۱۸~ احمدیوں سے کئے ہیں۔ آج تار تو دے دی گئی ہے مگر نہ معلوم تار کے راستے خراب ہیں پہنچے گی یا نہیں۔ اب آدمی کے ہاتھ یہ خط بھجوایا جارہا ہے۔ مرے نزدیک فوراً کمیشن کے سامنے یہ درخواست دے دینی چاہئے۔
۱۔ علماء سے یہ سوال کیا جائے۔ کیا جماعت کے بانی اور جماعت احمدیہ پر کفر۔ ارتداد۔ زندیقیت۔ الحاد۔ بے ایمانی۔ خباثت۔ شرارت۔ شیطان کے چیلے ہونے ابو جہل کی نسل سے ہونے۔ ان کے نکاحوں کے ٹوٹنے۔ ان کی اولاد ولد الزنا ہونے ان کے مسجدوں میں داخل ہونے سے مسجد کے پلید ہوجانے۔ ان کے مقبروں میں دفن ہونے کے جائز نہ ہونے اور اگر دفن ہوجائیں تو مردے نکال کر باہر پھینک دینے کے فتوے علماء نے ۱۸۹۱ء اور اس کے بعد دیئے ہیں یا نہیں اور اگر احمدیوں نے ان کے ان فتووں کا کوئی جواب دیا ہے و کیا پورے دس سلا ان فتوں کے سننے کے بعد نہیں دیا۔ )اگر علماء کو ان کار ہوتو ہمیں یہ فتوے پیش کرنے کی اجازت دی جائے(
۲۔ کیا مسلمانوں کے ہر فرقہ کے دوسرے فرقہ کے خلاف کفر۔ الحاد۔ زندقہ۔ ارتداد وغیرہ کے فتوے موجود نہیں ہیں۔ )اگر علماء کو انکار ہو تو ہم کو یہ فتوے پیش کرنے کی اجازت دی جائے(
۳۔ کیا خوارج جن کی عمان میں بھی حکومت تھی اور زنجبار میں بھی حکومت ہے اور جن کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ تعلقات ہیں اور جن کے ہم مذہب افراد کراچی میں بھی موجود ہیں۔ کیا ان کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ ہر کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہوجاتا ہے اور جہنمی ہوتا ہے اور یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کبائر کے مجرم تھے اور اس وجہ سے ان کے آباء نے حضرت عثمانؓ کو مسلمانوں کے مقبرہ میں دفن ہونے سے روک دیا تھا۔ آخر کئی دن کے بعد رات کے وقت مقبرہ کے کونے میں ان کو دفن کیا گیا۔ کیا ان لوگوں کے خلاف اور ان کی حکومتوں کے خلاف علماء نے فتوے دیئے اور ان کی حکومتوں سے قطع تعلق کرنے کا مشورہ دیا اور ان کے خلاف ہنگامے کئے گئے )اگر ان واقعات سے علماء کو انکار ہو تو ہم اسلامی لٹریچر پیش کرنے کو تیار ہیں(
۴۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ بہاء اللہ نے قران کے منسوخ ہونے کا اعلان کیا۔ کیا رسول کریم~صل۱~ کی شریعت کے ختم ہوجانے کا اعلان کیا اور اپنے خدا کے مظہر ہونے کا اعلان کیا اور بہاء اللہ کی قبر کو سجدہ کرنے کو ان کے نائب عبد البہاء نے جائز کہا ہے۔ بہاء اللہ کے اتباع سینکڑوں کی تعداد میں کراچی میں موجود ہیں اور سینکڑوں کی تعداد مںی پاکستان کے دوسرے حصوں میں موجود ہںی کیا ان لوگوں کے خلاف علماء نے فتوے دیئے۔ کوئی ہنگامہ برپا کیا۔ اور ایجی ٹیشن کئے اور کب کئے )اگر جو عقائد ہم نے بہائیوں کی طرف منسوب کئے ہیں اس بیان کی صحت سے علماء کو انکار ہو تو ہم لٹریچر پیش کرنے کو تیار ہیں۔(
۵۔ شیعہ مذہب کی رو ے حضرت ابوبکرؓ` حضرت عمرؓ` حضرت عثمانؓ` تینوں فاسق تھے۔ صحابہ کی اکثریت فاسق تھی۔ رسول کریم~صل۱~ کی بیویواں بھی قابل اعتراض تھیں۔ کیا علماء نے ایسے عقیدے رکھنے والوں کے خلاف کوئی احتجاج کیا یا ان عقائد کو برداشت کے قابل سمجھ لیا اگر سیعہ عقائد کے متعلق ہمارا یہ بیان غلط ہے تو ہم شیعہ لٹریچر سے اس کے حوالے پیش کرنے کو تیار ہیں۔
ہم یہ بھی لکھ دینا چاہتے ہیں کہ شیعوں کا ایک گروہ جو اقلیت میں ہے۔ ان عقائد سے پاک ہے۔
۶۔ کیا علماء کو یہ معلوم ہے کہ نہیں ہے کہ شیعہ مذہب کے عقیدہ مںی رجعت کا ایک عقیدہ ہے جس کی رو سے امام مہدی کے زمانہ میں تمام انبیاء دوبارہ ظاہر ہوں گے اور ان کی اطاعت کریں گے اور تمام صحابہؓ کو زندہ کیا جائے گا اور ان کو کوڑے لگوائے جائیں گے۔ کیا علماء کے نزدیک یہ عقیدہ اشتعال دلانے والا نہیں۔ اگر ہے تو اس کے خلاف انہوں نے کیا احتجاج کیا اور کیا ہنگامے کئے۔
۷۔ کیا علما کے نزدیک مسیح ناصر زندہ ہیں اور دوبارہ دنیا پر آئیں گے اور کیا وہ اس وقت نبی ہوں گے یا نہیں ہوں گے اور ان کے منکر مومن ہوں گے۔ کافر ہوں گے اگر کافر کہلائیں گے تو کیا ان کے خلاف احتجاج اور ہنگامہ خیزی جائز ہوگی۔ اور کیا اس عقیدہ میں رسول اللہ~صل۱~ کی ہتک ہے یا نہیں اور رسول اللہ~صل۱~ پر ایمان لانے والوں کے دل دکھتے ہیں یا نہیں۔
ہم ان سوالات سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ احمدیوں کے متعلق اگر کوئی بات ہے تو وہ پرانی بات ہے نئی پیدا نہیں ہوتی تیس سال سے کوئی ایسا لٹریچر شائع نہیں ہوا جس سے قیاس بعید کرکے بھی ایسے الفاظ نکالے جاسکیں۔
دوسرے احمدیہ جماعت کی طرف سے کوئی ایسا لفظ جس کو کھینچ تان کر بھی اشتعال انگیز کہا جاسکے اس وقت تک استعمال نہیں کیا گیا۔ جب تک ۱۰ سال تک متواتر خلاف اخلاق` خلاف شریعت` خلاف انسانیت الفاظ احمدیوں کے خلاف استعمال نہیں کئے گئے۔
۸۔ یہ کہ اس کے مشابہ صورتیں مسلمانوں کے ہر فرقہ میں پائی جاتی ہیں۔ لیکن علماء نے اس پر کوئی ہنگامہ خیزی ہوئی جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ احمدیت کے خلاف شورش محض سیاسی تھی اور محض ظفر اللہ خاں کے وزیر ہونے کی وجہ سے تھی اور سیاسی اغراض کے ماتحت سیاسی لوگوں نے شروع کروائی تھی۔
۹۔ یہ کہ ایسے لٹریچر کے متعلق شور کرنا جو کبھی بھی مسلمانوں میں شائع نہیں کیا گیا بلکہ صرف احمدیہ جماعت کے دو فرقوں کے اختلاف کے متعلق پرائیویٹ طور پر شائع کیا گیا اور جس میں استعمال ہونے والے الفاظ ان اصطلاحات کے مطابق نہیں تھے جو کہ مسلمانوں میں رائج ہیں بلکہ ان اصطلاحاات کے مطابق تھے جو کہ صرف احمدیوں کے نزدیک مسلمہ تھیں اس لٹریچر کے غلط معنے کرنے اور ان اصطلاحات کے وہ معنے کرنے جو کہ اس وقت عام مسلمانوں میں رائج تھے مگر احمدی ان معنوں کے خلاف تھے صاف بتاتا ہے کہ اشٹعال کی وجہ موجود نہیں تھی بلکہ اشتعال پیدا کیا گیا اور عوام الناس کو بھڑکایا گیا۔ اگر اشتعال حقیقی ہوتا تو وہ عوام الناس میں پہلے ہوتا مگر یہ اشتعال تو کئی سال جلسے کر کرکے شہر بہ شہر پھر پھر کے مولویوں نے پیدا کیا اور غلط باتیں منسوب کرکے پیدا کیا۔
حوالہ جات
~ف۱~
مکتوب حضرت مصلح موعود بنام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب موصولہ ۷ جولائی ۱۹۵۳ء
~ف۲~
یہ سہو ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی چاہئے ملاحظہ ہو آپ کی کتاب تفہیمات الٰہیہ جلد ۲ صفحہ ۲۹۴ اکیڈیمی شاہ ولی اللہ حیدر آباد ۱۹۶۷ء
~ف۳~
رسالہ >انقلاب نو<۔ لاہور۔ جلد نمبر ۴ شمارہ نمبر ۸/۷ صفحہ نمبر ۳۳ یکم اپریل تا ۳۱ اپریل ۱۹۷۴ء
~ف۴~
>اقبال اور ملا< طبع ہفتم صفحہ ۱۸۔ ۱۹ ناشر بزم اقبال` نرسنگھ داس گارڈن` کلب روڈ` لاہور۔
~ف۵~
)والد ماجد ڈاکٹر قریشی لطیف احمد صاحب ہارٹ سپیشلسٹ فضل عمر ہسپتال( ولادت ۱۵ جولائی ۱۹۱۳ء۔ مولد ریاست الور۔ تعلیم اجمیر شریف میں حاصل کی۔ پھر فوج میں ملازم ہوگئے قیام پاکستان کے بعد لاہور آگئے ۲۵ دسمبر ۱۹۴۷ء سے لے کر ۱۶ مارچ ۱۹۸۷ء تک لاہور میں ٹائپ کا کام کیا۔ آپ کے ادارہ کا نام ٹائپ کارنر تھا۔ آپ مولانا عبد المالک خاں صاحب مربی سلسلہ کے سمنبدھی تھے۔ آخر عمر آپ اپنے صاحبزاد ڈاکٹر قریشی لطیف ¶احمد صاحب کی کوٹھی ۵۳/۱۸ دارالعلوم وسطی ربوہ میں قیام پذیر رہے ۷ جنوری ۱۹۹۵ء کو وفات پائی۔
~ف۶~
تحریری بیان مئورخہ ۳ جولائی ۱۹۹۰ء
~ف۷~
خالد احمدیت ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی )ناقل(
~ف۸~
صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی سالانہ رپورٹ ۵۴۔ ۱۹۵۳ء صفحہ ۱۱ میں لکھا ہے۔
>فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کی کاروائی کے سلسلہ میں ۱۹۴۷ء سے قبل کے اخبارات و رسائل قادیان سے منگوائے گئے اور ان میں سے سفید مطلب حوالہ جات عدالت میں پیش کرنے کے لئے مہیا کئے گئے۔
نیز تحقیقاتی عدالت کی کاروائی کے سلسلہ میں علماء سلسلہ و طلباء جامعہ المبشرین ربوہ طلباء جامعہ احمدیہ احمد نگر کثرت سے تلاش حوالہ جات کی غرض سے لائبریری میں آتے رہے جنہی مطلوبہ لٹریچر بہم پہنچایا جاتا رہا۔ اس سلسلہ میں لائبریری کا تمام عملہ کئی کئی گھنٹے دن کو اور رات کو بھی زائد وقت دیتا رہا اور لائبریری کھلی رکھی جاتی رہی عدالتی کاروائی کے سلسلہ میں مولوی محمد صدیق صاحب انچارج لائبریری اور ایک مددگار کارکن لائبریری )سلیم اللہ صاحب( بہت ہی ضروری کتب لے کر اکتوبر ۱۹۵۳ء سے ۱۱ مارچ ۱۹۵۴ء تک پانچ ماہ لاہور میں رہے اور وہاں دن رات کام میں مصروف رہے۔ اس عرصہ میں دن اور رات کے کسی حصہ میں جب بھی ضرورت پڑی۔ ربوہ سے لائبریری کے کارکنان لاہور کتب بھجواتے رہے۔<
~ف۹~
~ف۱۰~
حال فیصل آباد
~ف۱۱~
حال ساہیوال
~ف۱۲~
سہواً اسلامی کی بجائے اسلام لکھا ہے
~ف۱۳~
مکتوب بنام چوہدری غلام مرتضی صاحب وکیل۔
~ف۱۴~
~ف۱۵~
سہواً ۵۳ء لکھا گیا ہے اصل میں ۱۹۵۴ء
~ف۱۶~
یہاں کوئی لفظ چھوٹ گیا ہے ناقل۔
~ف۱۷~
آفاق لاہور ۶اگست ۱۹۵۳ء صفحہ ۱ کالم ۴۔ ۶
~ف۱۸~
روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور
~ف۱۹~
یہ سات سوالات تھے جن کے جوابات حضرت مصلح موعود نے تحریر فرمائے تھے جیسا کہ آگے ذکر آرہا ہے۔
دوسرا باب
حضرت مصلح موعود نے صرف ہدایات پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے قلم مبارک سے تین نہایت اہم دستاویزات تحریر فرمائیں جو تحریری بیانات کی شکل میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے داخل عدالت کی گئی تھیں۔ جن کی تفصیل یہ ہے:۔
تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات
یہ جوابات ایڈووکیٹ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے ذریعہ ۲۹ اگست ۱۹۵۳ء کو عدالت میں داخل کئے گئے اور بعدازاں ان کو پہلے اخبار >المصلح< کراچی مورخہ ۱۱ نومبر ۱۹۵۳ء میں نذر اشاعت کیا گیا۔ اور پھر دارالتجلید اردو بازار لاہور نے مندرجہ بالا عنوان ہی سے رسالہ کی شکل میں اس کو بہت کثرت سے شائع کیا۔
اس نہایت ہم دستاویز کا متن درج ذیل ہے۔
ذیل میں ان سات سوالات کا جواب درج کیا جاتا ہے جو حکومت پنجاب کے مقرر کردہ تحقیقاتی کمیشن نے گزشتہ فسادات کی تحقیق کے تعلق میں صدر انجمن احمدیہ ربوہ سے کئے تھے اور صدر انجمن احمدیہ نے ان سوالوں کا جواب تیار کرا کے اپنے وکیل کے ذریعہ عدالت میں داخل کیا:۔
سوالنمبر۱:جو مسلمان مرزا غلام احمد صاحب کو نبی بمعنی ملہم اور مامور من اللہ نہیں مانتے کیا وہ مومن اور مسلمان ہیں؟
جواب>:مسلم< اور >مومن< قرآن مجید کے محاورات کو دیکھتے ہوئے دو الگ الگ معنے رکھتے ہیں۔ >مسلم< نام امت محمدیہ کے افراد کا ہے اور >ایمان< دراصل اس روحانی اور قلبی کیفیت کا نام ہے جس کو کوئی دوسرا جان نہیں سکتا۔ خدا تعالیٰ ہی اس سے واقف ہوتا ہے۔
جہاں تک لفظ >مسلم< کا تعلق ہے قران کریم کی آیت ھو سمکم المسلمین )سورہ حج ع ۱۰( کے مطابق امت محمدیہ کا ہر فرد مسلم کہلانے کا مستحق ہے۔ اس تعریف کی تاکید اس حدیث صحیح سے بھی ہوتی ہے کہ >من صلی صلوتنا واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذالک المسلم الذی ذمہ اللہ وذمہ رسولہ )بخاری بحوالہ مشکٰوٰہ کتاب الایمان صفحہ ۱۲ مطبع اصح المطابع( یعنی جو شخص بھی ہمارے قبلہ )یعنی کعبہ( کی طرف منہ کرکے مسلمانوں کی سی نماز پڑھے اور مسلمانوں کا ذبیحہ کھائے پس وہ مسلمان ہے جس کو خدا اور اس کے رسول کی حفاظت حاصل ہے۔
باقی رہا >مومن< سو کسی کو مومن قرار دینا درحقیقت صرف خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ عام اصطلاح میں >مسلم< اور >مومن< ایک معنوں میں استعمال ہوجاتے ہیں لیکن درحقیقت >مومن< خاص ہے اور >مسلم< عام۔ پس ہر مومن >مسلم< ضرور ہوا لیکن ہر مسلم کا >مومن< ہونا ضروری نہیں۔
مندرجہ بالا تشریح کے مطابق جو شخص رسول کریم~صل۱~ کو مانتا ہے اور آپ کی >امت< میں سے ہونے کا اقرار کرتا ہے وہ اپنے کسی عقیدہ یا عمل کی دانستہ یا نادانستہ غلطی کی وجہ سے اس نام سے محروم نہیں ہوسکتا۔ ظر ہے کہ اس تشریح کے مطابق اور قران کریم کی آیت >ھو سمکم المسلمین< کے تحت کسی شخص کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو نہ ماننے کی وجہ سے غیر مسلم نہیں کہا جاسکتا۔
ممکن ہے ہماری بعض سابقہ تحریرات سے غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اس کے متعلق ہم کہہ دینا چاہتے ہیں کہ ہماری ان بعض سابقہ تحریرات میں جو اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں وہ ہماری مخصوص ہیں۔ عام محاورہ کو جو مسلمانوں میں رائج ہے استعمال نہیں کیا گیا۔ کیونکہ ہم نے اس مسئلہ پر یہ کتابیں غیر احمدیوں کو مخاطب کرکے شائع نہیں کیں بلکہ ہماری یہ تحریرات جماعت کے ایک حصہ کو مخاطب کرکے لکھی گئی ہیں اس لئے ان تحریرات میں ان اصطلاحات کو مدنظر رکھنا ضروری نہیں تھا جو دوسرے مسلمانوں میں رائج ہیں۔
ہمارے اس عقیدہ کی تائید کی کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو نہ ماننے والا مسلمان >مسلمان< ہی کہلائے گا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے الہامات سے بھی ہوتی ہے چنانچہ ملاحظہ ہو اپ کا الہام
>مسلماں را مسلماں باز کردند<
)حقیقہ الوحی صفحہ ۱۰۷ مطبوعہ ۱۹۰۷ء(
یعی آپ کی بعثت کی غرض مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنانا ہے ایک دوسرے الہام میں خدا تعالیٰ نے حضرت بانئی سلسلہ احمدیہ کو یہ دعا سکھلائی ہے:۔
>رب اصلح امہ محمد<
)تحفہ بغداد صفحہ ۲۳ مطبوعہ ۱۳۱۱ھ
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی تمام کتابوں میں ان تمام مسلمانوں کو جو آپ کی جماعت میں داخل نہیں >مسلمان< کہہ کر ہی خطاب کیا ہے کیونکہ وہ اسلام کی عمومی تعریف کے مطابق کلمہ طیبہ پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں۔~ف۱~ اسی طرح موجودہ امام جماعت احمدیہ بھی ان کو مسلمان کے لفظ سے خطاب کرتے ہیں۔
)مثلاً ملاحظہ ہو الفضل ۱۹ مئی ۱۹۴۷ء والفضل ۱۸ ستمبر ۱۹۴۷ء وغیرہ(
ہاں آنحضرت صلعم نے بھی فرمایا ہے >یاتی علی الناس زمان لا یبقی من الاسلام الا اسمہ< )مشکٰوٰہ کتاب العلم( یعنی لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا صرف نام رہ جائے گا۔ یہ حدیث اسی زمانہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے چنانچہ جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی بھی موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو جو ان کی جماعت میں شامل نہیں ہیں صرف رسمی اور اسمی مسلمان قرار دیتے ہیں چنانچہ وہ مسلمانوں کی دو قسمیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
>دنیا میں جو مسلمان پائے گئے ہیں یا آج پائے جاتے ہیں ان سب کو دو حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے ایک قسم کے مسلمان وہ خدا اور رسول کا اقرار کرکے اسلام کو بحیثیت اپنے مذہب کے مان لیں مگر اپنے اس مذہب کو اپنی کلی زندگی کا محض ایک جزو اور اک شعبہ ہی بنا کر رکھیں اس مخصوص جزو اور شعبے میں تو اسلام کے ساتھ عقیدت ہو۔ لیکن فی الواقعہ ان کو اسلام سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ دوسری قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اپنی پوری شخصیت کو اور اپنے سارے وجود کو اسلام کے اندر پوری طرح دے دیں۔ ان کی ساری حیثیتیں ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت میں گم ہوجائیں۔۔۔۔۔ یہ دو قسم کے مسلمان حقیقت میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ چاہے قانونی حیثیت سے دونوں پر لفظ مسلمان کا اطلاق یکساں ہو۔<
)رسالہ موسومہ روداد جماعت اسلامیحصہ سوم صفحہ ۷۸ تا ۸۰(
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:۔
‏iq] g>[taیہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے ۹۹۹ فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق و باطل کی تمیز سے آشنا ہیں نہ ان کا اخلاقی نقطئہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے۔<
)مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم بار ششم صفحہ ۱۰۵` ۱۰۶(
اسی طرح موجودہ دور کے مسلمانوں کے متعلق اہلحدیث کا خیال بھی ملاحظہ فرمایا جاوے۔ نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالوی اپنی کتاب اقتراب الساعہ کے صفحہ ۱۲ پر تحریر فرماتے ہیں۔
>اب اسلام کا صرف نام۔ قرآن کا فقط نقش باقی رہ گی اہے۔ مسجدیں ظاہر مںی تو آباد ہیں لیکن ہدایت سے بالکل ویران ہیں۔ علماء اس امت کے بدتران کے ہیں جو نیچے آسمان کے ہیں۔ انہی میں سے فتنے نکلتے ہیں انہی کے اندر پھر کرجاتے ہیں۔<
)اقتراب الساعہ صفحہ ۱۲(
پھر جناب علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے موجودہ مسلمانوں کے متعلق اپنا خیال ان اشعار میں بیان فرمایا ہے کہ:۔
شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغاں بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو؟
)بانگ درا ایڈیشن دواز دہم صفحہ ۲۲۶ جواب شکوہ(
پھر صرف نام کے طور پر اسلام کے باقی رہنے کے متعلق مولانا خالی کا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمایا جاوے ~}~
رہا دین باقی نہ اسلام باقی
اک اسلام کارہ گیا نام باقی
)مسدس حالی مطبوعہ تاج کمپنی صفحہ ۲۶(
پھر سید عطاء اللہ صاحب بخاری کمیونزم اور اسلام کا مقابلہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے متعلق حسب ذیل بیان دیتے ہیں:۔
>مقابلہ تو تب ہو کہ اسلام کہیں موجود بھی ہو۔ ہمارا اسلام؟ ہم نے اسلام کے نام پر جو کچھ اختیار کر رکھا ہے وہ تو صریح کفر ہے۔ ہمارے دل دین کی محبت سے عاری۔ ہماری آنکھں بصیرت سے ناآشنا اور کان سچی بات سننے سے گریزاں ~}~
بیدلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بیکسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
ہمارا اسلام؟
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
‏tav.14.16
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
تحقیقاتی عدالت میں وکلائے احمدیت کی کامیاب نمائندگی
یہ اسلام جو ہم نے اختیار کر رکھا ہے کیا یہی اسلام یہ جو نبی نے سکھایا تھا؟ کیا ہماری رفتار` گفتار کردار میں وہی دین ہے جو خدا نے نازل کیا ہے۔۔۔۔۔ یہ روزے یہ نمازیں جو ہم میں سے بعض پڑھتے ہیں ان کے پڑھنے میں ہم کتنا وقت صرف کررہے ہیں؟ جو مصلے پر کھڑا ہے وہ قرآن سنانا نہیں جانتا اور جو سنتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ کیا سن رہے ہیں اور باقی ۲۳ گھنٹے ہم کیا کرتے ہیں؟ میں کہتا ہوں گورنری سے گداگری تک مجھے ایک بات ہی بتلائو جو کہ قرآن اور اسلام کے مطابق ہوتی ہے؟ ہمارا تو سارا نظام کفر ہے۔ قرآن کے مقابلہ میں ہم نے ابلیس کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے۔ قرآن صرف عویذ کے لئے قسم کھانے کے لئے ہے۔<
)تقریر سید عطاء اللہ شاہ بخاری آزاد ۹ دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۱` ۲(
مندرجہ بالا حوالہ جات سے کفر و اسلام کے مسئلہ کے متعلق جماعت احمدیہ کا مسلک اور اس کے مقابلہ پر موجودہ زمانے کے دوسرے مسلمانوں فرقوں کا طریق واضح اور عیاں ہے۔
سوالنمبر۲:کیا ایے شخص کافر ہیں؟
جواب>:کافر< کے معنے عربی زبان میں نہ ماننے والے کے ہیں۔ پس جو شخص کسی چیز کو نہیں مانتا اس کے لئے عربی زبان میں >کافر< کا لفظ ہی استعمال ہوگا۔ پس ایسے شخص کو جب تک وہ یہ کہتا ہے کہ میں فلاں چیز کو نہیں مانتا اس کو اس چیز کا کافر ہی سمجھا جائے گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام آئمہ اہل بیت کا انکار کرنے والوں کے متعلق فرماتے ہیں:۔
>من عرفنا کان مومنا۔ من انکرنا کان کافرا۔ من لم یعرفنا ولم ینکرنا کان ضالا۔<
)الصافی شرح الاصول الکافی باب فرض الطاعہ الائمہ کتاب الحجہ جزو ۳ صفحہ ۶۱ مطبوعہ نولکشور(
یعنی جس نے ہم آئمہ اہل بیت کو شناخت کرلیا وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے اور جو ہمیں نہ مانتا ہے اور نہ انکار کرتا ہے وہ ضال ہے۔
اس ارشاد سے حضرت امام صاحب کی یہ مراد نہیں ہوسکتی کہ ایسا شخص امت محمدیہ سے خارج ہے بلکہ جیسا کہ ہم نے اوپر تشریح کی ہے یہی مراد ہوسکتی ہے کہ آئمہ اہل بیت کے درجہ کا منکر ہے ہمارے نزدیک آنحضرت~صل۱~ کے بعد کسی مامور من اللہ کے انکار کے ہرگز یہ معنے نہیں ہوں گے کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ اور رسول کریم~صل۱~ کے منکر ہوکر امت محمدیہ سے خارج ہیں یا یہ کہ وہ مسلمانوں کے معاشرہ سے خارج کردیئے گئے ہیں۔
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:۔
اول:ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت~صل۱~ کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔
دوم:دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔
)حقیقہ الوحی صفحہ ۱۷۹ مطبوعہ ۱۹۰۷ء(
یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ اس قسم کے فتووں میں بھی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ یا آپ کی جماعت کی طرف سے ابتداء نہیں ہوئی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ غیر احمدی علماء نے اپنے فتووں میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو آپ کے ابتدائے دعویٰ ۹۱۔ ۱۸۹۰ء سے ہی نہ صرف کافر قرار دیا بلکہ مرتد` زندیق` ملحد` ابلیں` دجال` کذاب وغیرہ الفاظ بھی استعمال کئے اور اس قسم کے اور بہت ے گندے ناموں سے آپ کو یاد کیا گیا۔ اس قسم کے فقرے لکھے گئے اور کتابیں چھاپی گئیں اشتہارات اور پفلٹوں کے ذریعہ سے ان فتووں کو لوگوں میں پھیلا دیا گی اور ظاہر ہے کہ جو شخص کسی پر اس طرح پہلے حملہ کرتا ہے وہ پھر اس قسم کے جواب کا مستحق بھی ہوجاتا ہے اور اس صورت میں اسے اپنے اپ کو ملامت کرنی چاہئے دوسرے کو الزام دینے کا اسے کوئی حق نہیں رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں:۔
)ا( ایما رجل قال لاخید کافر فقد باء بھا احدھما۔
)ترمذی کتاب الایمان صفحہ ۱۰۶(
)ب( nsk] gat[ اذا کفر احدکم اخاہ فقد باء بھا احدھما
)صحیح مسلم بحوالہ کنورز الحقائق للمنادی مطبوعہ مصریہ حاشیہ جامع الصگیر جلد ۱ صفحہ ۱۶(
یعنی جو شخص اپنے بھائی کو کافر کہے تو ان میں سے ایک ضرور کافر ہوگا اگر وہ شخص جسے کافر کہا گیا ہے کافر نہیں ہے تو کہنے والا کافر ہوگا۔
)ج( مااکفر رجل رجلا قط الاباء بھا احدھما۔
)ابن حبان فی صحیحہ بحوالہ جامع الصگیر مصنفہ حضرت امام سیوطی مطبوعہ مصر جلد ۲ صفحہ ۱۴۳(
یعنی دو )مسلمان آدمیوں میں سے ایک آدمی اگر دوسرے کو کافر قرار دے تو لازمی ہے کہ ان میں سے ایک ضرور کافر ہوجائے گا۔
غرضیکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی طرف سے اس قسم کے فتووں میں کبھی ابتداء نہیں ہوئی چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ:۔
>پھر اس جھوٹ کو تو دکھو کہ ہمارے ذمہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم نے بیس کروڑ مسلمانوں اور کلمہ گویوں کو کافر ٹھہرایا حالانکہ ہماری طرف سے تکفیر میں کوئی خود ہی ان کے علماء نے ہم پر کفر کے فتوے لکھے اور تمام پنجاب اور ہندوستان میں شور ڈالا کہ یہ لوگ کافر ہیں اور نادان لوگ ان فتووں سے ایسے ہم سے متنفر ہوگئے کہ ہم سے سیدھے منہ سے کوئی نرم بات کرنا بھی ان کے نزدیک گناہ ہوگیا کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا؟ اگر کوئی ایسا کاغذ یا کوئی اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتویٰ کفر سے پہلے سائع ہوا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے تو وہ پیش کریں۔ ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو ٹہھرا میں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگائیں کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے اس قدر خیانت اور جھوٹ اور خلاف واقعہ تہمت کس قدر دلآزار ہے ہر یاک عقلمندر سمجھ سکتا ہے اور پھر جبکہ ہمیں اپنے فتووں کے ذریعہ سے کافر ٹھہرا چکے اور آپ ہی اس بات کے قائل بھی ہوگئے کہ جو شخص مسلمان کو کافر کہے تو کفر الٹ کر اس پر پڑتا ہے۔ تو اس صورت میں کیا ہمارا حق نہ تھا کہ بموجب انہی کے قرار کے ہم ان کو کافر کہتے۔<
)حقیقہ الوحی مطبوعہ ۱۹۰۷ء ۱۲۰۔ ۱۲۱(
پھر اس بات کے ثبوت میں کہ فتویٰ کفر کی ابتداء علماء کی طرف سے ہوئی نہ کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے ذیل کے چند فتوے بطور مثال درج ہیں۔
)ا( مولوی عبدالحق صاحب غزنوی جو مولانا دائود غزنوی صاحب کے غم بزرگوار تھے( نے لکھا ہے کہ:۔
>اس میں شک نہیں کہ مرزا قادیانی کافر ہے چھپا مرتد ہے گمراہ ہے گمراہ کنندہ` ملحد ہے۔ دجال ہے وسوسہ ڈالنے والا۔ وسوہ ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والا<
)فتویٰ علماء ہندو پنجاب اشاعہ السنہ جلد ۱۰۷۱۳ صفحہ ۱۰۴ مطبوعہ ۱۸۹۰ء(
اس قسم کا فتویٰ پنجاب و ہند کے قریباً دو صد مولویوں سے لے کر شائع کیا گیا۔
)ب( اس فتوے سے بھی کئی سال پہلے علماء لدھیانہ نے ۱۸۸۴ء میں تکفیر کا مندرجہ ذیل فتویٰ صادر کیا۔ جس کا ذکر قاصے فضل احمد صاحب کورٹ انسپکٹر لدھیانہ نے اپنی کتاب کلمہ فضل رحمانی )مطبوعہ دہلی پنچ پریس لاہور ۱۳۱۴ھ صفحہ ۱۴۸( میں کیا ہے۔
باہمی تکفر کے بارے میں علماء کے چند فتوے درج ذیل ہیں:۔
>من انکر امامہ ابی بکر الصدیق فھو کافر وکذلک من انکر خلافہ عمر۔<
)فتاوی عالمگیر یہ جلد ۲ صفحہ ۲۸۳ مطبع مجید کانپور(
یعنی جو شخص حضرت ابوبکر صدیقؓ کی امامت اور حضرت امامؓ کی خلافت کا انکار کرے وہ کافر ہے۔
اسی طرح جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے بے علم و بے عمل مسلمان کو جس کا علم و عمل کافر جیسا ہو اور وہ اپنے آ کو مسلمان کہتا ہو کافر ہی قررا دیا یہ اور اس کا حشر بھی اکفروں والا بتایا ہے یعنی اس کو نجات سے محروم اور قابل مواخذہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔
>ہر شخص جو مسلمانوں کے گھر پیدا ہوا ہے جس کا نام مسلمان کا سا ہے جو مسلمانوں کے سے کپڑے پہنتا ہے اور جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہے بلکہ مسلمان درحقیقت وہ شخص ہے جو اسلام کو جانتا ہو اور پھر جان بوجھ کر اس کو مانتا ہو ایک کافر اور ایک مسلمان میں اصل فرق نام کا نہیں کہ وہ رام پرشاد ہے اور یہ عبداللہ ہے اس لئے وہ کافر ہے اور یہ مسلمان<
)خطبات مودودی صفحہ ۶(
اسی طرح دوسرے مسلمان فرقوں کے علامء ایک دوسرے کو کافر اور جہنمی کہتے ہیں شیعہ اثنا عشر ی کے متعلق علماء اہلسنت والجماعت اور علماء دیوبند متفقہ طور پر مندرجہ ذیل فتویٰ صادر کرتے ہیں:۔
>شیعہ اثنا عشریہ قطعاً خارج از اسلام ہیں۔ شیعوں کے ساتھ مناکحت قطعاً ناجائز اور ان کے ذبیحہ حرام۔ ان کا چندہ مسجد میں دینا ناروا ہے۔ ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو اپنے جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں۔<
)فتویٰ شائع کردہ مولوی عبدالشکور صاحب مدیر النجم لکھنئو(
)نوٹ:(۔ اس فتویٰ میں دیگر علماء کے علاوہ دیوبند کی تصدیق بھی شامل ہے جس کی شہادت مولانا محمد شفیع صاحب مفتی دیوبند سے لی جاسکتی ہے۔
مندرجہ بالا فتویٰ کی عبارت سے خالص مذہبی اختلافات ہی ظاہر نہیں ہوتے بلکہ شیعہ فرقہ کے خلاف شدید غیظ و غضب کا اظہار پایا جاتا ہے علاوہ ازیں اہلسنت والجماعت کے مسلمہ گزشتہ بزرگان و اولیائے نے بھی حضرات شیعہ کے بارے میں فتویٰ کفر دی اہے حالہ جات ذیل ملاحظہ ہوں۔
)ا( حضرت مجدد الف ثانی سرہندی رحمہ اللہ علیہ کا فتویٰ کفر برخلاف اصحاب شیعہ اثنا عشریہ۔
)مکتوبات امام ربانی جلد نمبر ۱ صفحہ ۷۱ مکتوب پنجاہ چہارم(
)ب( حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ کا فتویٰ )غنیہ الطالبین مع زبدٰہ السالکین صفحہ ۱۵۷ و تحفہ دستگیر یہ اردو ترجمہ( غنیہ الطالبین شائع کردہ ملک سراج دین اینڈ سنز لاہور یا چہارم مطبوعہ پنجاب پریس صفحہ ۱۲۰` ۱۴۱ باب بعنوان محمد مصطفیٰﷺ~ کی امانت کی فضیلت اور بزرگی(
اسی طرح اہلسنت والجماعت کے بریلوی فرقہ کے علماء مندرجہ ذیل فتویٰ علمائے دیوبند کے خلاف صادر کرچکے ہیں۔
)ا( حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی اور علماء حرمین شریفین کے دستخطوں سے یہ فتویٰ شائع ہوا ہے۔
>وبا بحملہ ھولاء الطوائف کلھم کفار مرتدون خارجون عن الاسلام باجماع المسلمین۔<
)حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین مع سلیس ترجمہ اردو مسمی بنام تاریخ بین احکام و تصدیقات اعلام ۱۳۲۵ مطبع اہل سنت والجماعہ بریلی ۱۳۲۶ھ بار اول صفحہ ۲۴ مصنفہ مولوی احمد رضا خاں بریلوی(
یعنی یہ سب گروہ )یعنی گنگوھیہ` تھانویہ` دیوبندیہ وغیرہ مسلمانوں کے اجماع کی رو سے کفار مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور اس کتاب کے ٹائیٹل بیچ پر لکھا ہے۔
>جس )رسالہ ہذا( میں مسلمانوں کو آفتاب کی طرح روسن کو دکھایا کہ طائفہ قادیانیہ` گنگوھیہ` تھانویہ نانو تو یہ و دیوبند یہ وامثالہم نے خدا اور رسولﷺ~ کی شان کو کیا کچھ گھٹایا علمائے حرمین شریفین نے باجماع امت ان سب کو زندیق و مرتد فرمایا ان کو مولوی درکنار مسلمان جاننے یا ان کے پاس بیٹھنے ان سے بات کرنے زہر و حرما و تباہ کن اسلام بتلایا۔
)ب( پھر اسی کتاب میں مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دیوبند` مولوی اشرف علی صاحب تھانوی مولوی محمودالحسن صاحب و دیگر دیوبندی خیال کے علماء کی نسبت یہ فتویٰ درج ہے کہ:۔
>یہ قطعاً مرتد اور کافر ہیں اور ان کا ارتداد و کفر اشد درجہ تک پہنچ چکا ہے ایس اکہ جو ان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و کفر میں شک کرے وہ بھی انہی جیسا مرتد و کافر ہے۔۔۔۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے انہیں نماز نہ پرھنے دیں۔۔۔۔۔ جو ان کو کافر نہ کہے گا وہ خود کافر ہوجائے گا اور اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہوجائے گی اور جو اولاد ہوگی از روئے شریعت ترکہ نہ پائے گی۔<
یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ یہ فتویٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب آف بریلی کا شائع کردہ ہے جو فرقہ حنفیہ بریلویہ کے بانی اور مولانا ابو الحسنات صاحب صدر جمعیہ العلماء پاکستان و صدر مجلس عمل نیز ان کے والد مولوی دیدار علی صاحب کے پیر و مرشد تھے اس فتویٰ کے بارے میں مولانا ابو الحسنات صاحب ے دریافت کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ ان کے پیر و مرشد کے اس فتویٰ کے بعد کہ دیو بندی بالاجماع کافر ہیں انہیں کیا شبہ ہے؟ آیا یہ کہ ان کے پیر نے غلطی کی تھی یا یہ کہ اجماع کوئی دلیل نہیں ہوتا؟
)ج( >دہابیہ دیوبند یہ اپنی عبارتوں میں تمام اولیاء انبیاء حتفی کہ حضرت سید الاولین والاخرین~صل۱~ کی اور خاص ذات باری تعالیٰ کی اہانت و ہتک کرنے کی وجہ سے قطعاً مرتد و کافر ہیں اور ان کا ارتداد و کفر سخت` سخت` سخت اشد درجہ تک پہنچ چکا ہے ایسا کہ جوان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و کفر میں شک کرے وہ بھی انہی جیسا مرتد و کافر ہے مسلمانوں کو چاہئے کہ ان سے بالکل ہی محتزز مجتنب رہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی ان کو نماز نہ پڑھنے دیں اور نہ ہی اپنی مسجدوں میں گھسنے دیں نہ ان کا ذبیحہ کھائیں اور نہ ہی ان کی شادی و غمی میں شری ہوں نہ اپنے ہاں ان وک آنے دیں یہ بیمار ہوں تو عیادت کو نہ جائیں مریں تو گاڑنے توپنے میں شرکت نہ کریں مسلمانوں کے قبرستان میں نہ دیں۔ )ملاحظح ہو تین سو علماء اہلسنت والجماعت کا متفقہ فتویٰ مطبوعہ حسن برقی پریس اشتیاق منزل نمبر ۶۳ ہیو روڈ لکھنئو(
اسی پر بس نہیں بلکہ علماء کرام و مفتیان اہلسنت والجماعت نے اہلحدیث مسلمانوں کے متعلق بھی اسی قسم کا فتویٰ دیا ہے کہ:۔
>بدعت کفر والے شقی ان کے کفر پر آگاہی لازم ہے اسلام کے نام کو پردہ بناتے ہیں۔ مرتد ہیں باجماع امت اسلام سے خارج ہیں جو ان کے اقوال کے متعقد ہوگا کافر و گمراہ ہوگا کچھ شک نہیں کہ یہ خارجی ہیں اور ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔۔۔۔۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنا ان کے جنازہ کی نماز پڑھنا ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا اور تمام معاملات میں ان کا حکم بعینہ وہی ہے جو مرتد کا۔< )فتویٰ علماء کرام مشتہرہ در اشتہار شیخ مہر محمد قادری باغ مولوی انوار لکھنئو ۳ شوال ۱۳۵۴ھ جس پر ستتر علماء کے دستخط ہیں جن میں مولوی سید احمد ناظم انجمن حزب الاحناف )برادر حقیقی مولوی ابو الحسنات صاحب( مولانا ابو الحسنات` سید محمد احمد خطیب مسجد وزیر خاں مولوی عبدالقادر بدایونی اور پیر جماعت علی شاہ صاحب مجددی محدث علی پور بھی شامل ہیں۔
سوالنمبر۳:ایسے کافر ہونے کے دنیا اور آخرت میں کیا نتائج ہیں؟
جواب:اسلامی شریعت کی رو سے ایسے کافر کی کوئی دنیوی سزا مقرر نہیں وہ اسلامی حکومت میں ویسے ہی حقوق رکھتا ہے جو ایک مسلمان کے ہوتے ہیں اسی طرح وہ عام معاشرہ کے معاملہ میں بھی وہ وہی حقوق رکھتا ہے رکھتا ہے جو ایک مسلمان کے ہیں۔ ہاں خالص اسلامی حکومت میں وہ حکومت کا ہیڈ نہیں ہوسکتا۔ باقی رہ اخروی نتائج۔ سو ان نتائج کا حقیقی علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے بالکل ممکن ہے کہ کسی حکومت کی وجہ سے ایک مسلمان کہلانے والے انسنا کو تو خدا تعالیٰ سزا دے دے اور کافر کہلانے والے انسان کو اللہ تعالیٰ بخش دے۔ اگر >کافر< کے لئے یقینی طور پر دائمی جہنمی ہونا لازمی ہے تو پھر کسی کو کافر قرار دینا صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔
سوالنمبر۴:کیا مرزا صاحب کو رسول کریم~صل۱~ کی طرح اور اسی ذریعہ سے الہام ہوتا تھا؟
جواب:ہمارے نزدیک حضرت بانی سلسلہ احمدیہ بہرحال رسول کریم~صل۱~ کے خادم تھے رسول کریم~صل۱~ کی اصل وحی قرآن مجید ہے قرآن کریم کی وحی کے متعلق ہمیں قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حفاظت کے خاص سامان کئے جاتے ہیں ہمارے نزدیک حضرت محمد~صل۱~ سے پہلے جو نبی گزرے ہیں ان کی وحی بھی اس رنگ کی فہیں ہوتی تھی اور حضرت بانی جماعت احمدیہ تو رسول کریم~صل۱~ کے خادم تھے آپ کی وحی بھی قرآن کریم کے تابع تھی بہرحال وہ ذرائع جو اللہ تعالیٰ اس وحی کے بھیجنے کے لئے استعمال کرتا تھا وہ ان ذرائع سے نیچے ہوں گے جو قرآن کریم کے لئے استعمال کئے جاتے تھے لیکن یہ محض ایک عقلی بات ہے واقعاتی بات نہیں جس کے متعلق ہم شہادت دے سکیں بعض قرآنی آیات اور رسول کریم~صل۱~ کے درجہ پر قیاس کر کے یہ جواب دے رہے ہیں حقیقت کو پوری طرح معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں البتہ ہم ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر وہے الٰہی ہوتی تھی اور قرآن کریم سے ثابت ہے کہ وحی الٰہی نہ صرف ماموروں بلکہ غیر ماموروں کو بھی ہوتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولدہ کی طرف وحی نازل ہوے کا ذکر آیا ہے )ملاحظہ ہو سورہ قﷺ رکوع ۱ پارہ ۲۰( اور حضرت مریم علیہ السلام کے متعلق بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ملائکہ ان کے پاس خدا تعالیٰ کا کلام لے کر آئے
)سورہ آل عمران و مریم ۳ ۲(
پس وحی اور فرشتوں کا اترنا مامور من اللہ کے علاوہ غیر ماموروں کے لئے بھی ثابت ہے ہندوستان میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے والے اور اس کی بنیاد قائم کرنے والے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ~}~
ومبدم روح القدس اندر عینے می ومد
من نمے گویم مگر من عیسیٰ ثانی شدم
)دیوان حضرت خواجہ معین الدین اجمیری(
یہ عرض کرنا مناسب ہے کہ مسلمانوں کی اصطلاح میں >روح القدس< حضرت جبرئیل کا نام ہے
)ملاحظہ ہو لغت کی مستند ترین کتاب مفردات القرآن مصنفہ امام راغب زیر لفظ روح صفحہ ۲۰۵ مطبع یمنیہ مصر و تفسیر روح المعانی جلد اول صفحہ ۲۶۰` صفحہ ۲۶۱ مطبوعہ مصر اور تفسیر صافی جلد اول پارہ اول صفحہ ۴۳( )نیز تفسیر کبیر مصنفہ حرت امام رازی جلد نمبر ۲ صفحہ ۴۵۸ و جلد ۳ صفحہ ۶۹۱ مطبوعہ مصر و تفسیر مدارک النزیل النفی جلد نمبر ۱ صفہہ ۹۶ مطبوعہ مصر(
ان کے علاوہ اسلام میں سینکڑوں اولیاء اللہ مثلاً سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ اور حضرت سید احمد صاحب سرہندی مجدد الف ثانی رحمہ اللہ علیہ و غیر ہم علیٰ قدر مراتب ملہم من اللہ تھے۔
وحی تین طریقوں سے ہوتی ہے ان کا ذکر قرآن کریم کی آیت ماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا اومن ورا حجاب او یرسل رسولا فیوحی باذنہ مایشا
)سورٰہ شوریٰ ع ۵ پارہ ۲۵(
میں بیان ہوا ہے۔ آنحضرت~صل۱~ اور تمام انبیاء و اولیاء پر انہی طریقوں سے وہی نالز ہوتی ہے البتہ آنحضرت~صل۱~ کی وحی اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وحی میں ایک فرق تو یہ ہے کہ آنحضرت~صل۱~ پر وحی شریعت جدیدہ والی نالز ہوتی تھی اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وحی غیر تشریعی اور ظلی ہے یعنی یہ نعمت آپ کو آنحصرت~صل۱~ کی پیروی اور آپ کے فیض سیملی ہے ماسوا اس کے دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ قرآنی وحی کے ماننے کے لئے بانی سلسلہ احمدیہ کی تصدیق کی ضرورت نہیں بلکہ اگر قرآن مجید حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تصدیق نہ کرتا ہو تو ہم ہرگز ان پر ایمان نہ التے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی وحی اور آنحضرت~صل۱~ کی وحی میں بلحاظ مرتبہ فرق کیا ہے آپ فرماتے ہیں:۔
>سنو! خدا کی *** ان پر جو دعویٰ کریں کہ وہ قرآن کی مثل لا سکتے ہیں قرآن کریم معجزہ ہے جس کی مچل کوئی انس و جن نہیں لا سکتا اور اس میں وہ معارف اور خوبیاں جمع ہیں جنہیں انسانی علم جمع نہیں کرسکتا بلکہ وہ ایسی وحی ہے کہ اس کی مثل اور کوئی وحی نہیں اگرچہ رحمان کی طرف سے اس کے بعد کوئی اور وحی بھی ہو اس لئے کہ وحی رسانی میں خدا کی تجلیات ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلی جیسا کہ خاتم الانبیاء~صل۱~ پر ہوئی ہے ایسی کسی پر نہ پہلے ہوئی نہ پیچھے ہوگی۔<
)اردو ترجمہ از عربی عبارت الہدیٰ والتبصرہ لن یری ۳۲(
سوالنمبر۵: )ا( کیا احمدیہ عقیدہ میں یہ شامل ہے کہہ ایسے اشخاص کا جنازہ جو مرزا صاحب پر یقین نہیں رکھتے Infructuous ہے؟
)ب( کیا احمدیہ عقائد میں ایسی نماز جنازہ کے خلاف کوئی حکم موجود ہے؟
جواب: )۱( احمدیہ کریڈ میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو شخص حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو نہیں مانتا اس کے حق میں نماز جنازہ ~"Infructuous"ف۲~ ہے۔
)ب( دوسری شق کا جواب یہ ہے کہ گو اس وقت تک جماعتی فیصلہ یہی رہا ہے کہ غیر از جماعت لوگوں کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے لیکن اب اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر اپنے قلم سے لکھی ہوئی ملی ہے جس کا حوالہ ای مرتبہ ۱۹۱۷ء میں دیا گیا تھا اور ہضرت امام جماعت احمدیہ نے اس کے متعلق اسی وقت اعلان فرما دیا تھا کہ اصل تحریر کے ملنے پر اس کے متعلق غور کیا جائے گا لیکن وہ اصل خط اس وقت نہ مل سکا۔ اب ایک صاحب2] ¶~[stfف۳~ نے اطلاع دی ہے کہ ان کے والد مرحوم کے کاغذات میں سے اصل خط مل گی اہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا مکفر یا مکذب نہ ہو اس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں کیونکہ جنازہ صرف دعا ہے۔
لیکن باوجود جنازے کے بارے میں جماعت کے سابق طریقہ کے گیر احمدی مرحومین کے لئے دعائیں کرنے میں جماعت نے کبھی اجتناب نہیں کیا چنانچہ حضرت امام جماعت احمدیہ اور کابرین جماعت احمدیہ نے بعض وفات یافتہ اصحاب کے لئے دعا کی ہے چاننچہ جی معین الدین سیکرٹری حکومت پاکستان کے والد صاحب )جواحمدی نہ تھے( کی وفات پر حضرت امام جماعت احمدیہ ان کے گھر تعزیت کے لئے تشریف لے گئے اور ان سے میاں معین الدین کے ماموں صاحب نے >فاتحہ< کے لئے کہا تو آپ نے فرمایا کہ فاتحہ میں تو دعا مانگنے والا اپنے لئے دعا کرتا ہے یہ موقعہ تو وفات یافتہ کے لئے دعا کرنے کا ہوتا ہے اس پر متوفیٰ نے رشتہ داروں سے مل کر متوفی کے لے دعا فرمائی اسی طرح سر عبدالقادر مرحوم کی وفات پر جب حضرت امام جماعت احمدیہ تعزیت کے واسطے ان کی کوٹھی پر تشریف لے گئے تو ان کے حق میں بھی دعا فرمائی۔
اس جگہ یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ ممانعت جنازہ کے بارے میں بھی سبقت ہمارے مخالفین نے ہی کی چنانچہ مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کا فتویٰ ۱۸۹۰ء میں بایں الفاظ اشاعہ السنہ میں شائع ہو چکا ہے:۔
>اب مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے دجال کذاب سے احتراز کریں اور نہ ان کے پیچھے اقتداء کرں اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں۔
)رسالہ اشاعت السنہ نمبر ۵ جلد نمبر ۱۳ مطبوعہ ۱۸۹۰ء(
اسی طرح ۱۹۰۱ء میں مولانا عبدالاحد صاحب خانپورہ لکھتے ہیں:۔
>جب طائفہ مرزائیہ امرتسر میں بہت خوار و ذلیل ہوئے جمعہ و جماعات سے نکالے گئے اور جس مسجد میں جمع ہوکر نمازیں پڑھتے تھے اس میں سے بے عزتی کے ساتھ بدر کئے گئے اور جہاں قیصری باغ میں نماز جمعہ پڑھتے تھے وہاں سے حکماً روک دیئے گئے تو نہایت تنگ ہوکر مرزائے قادیان سے اجازت مانگی کہ مسجد نئی تیار کریں تب مرزا نے ان کو کہا کہ صبر کرو! میں لوگوں سے لح کرتا ہوں اگر صلح ہوگئی تو مسجد بنانے کی حاجت نہیں اور نیز اور بہت سے ذلتیں اٹھائیں معاملہ و برتائو مسلمان سے بند ہوگیا عورتیں منکوہہ و مخطوبہ بوجہ مرزائیت کے چھن گئیں مردے ان کے بے تجہیز و تکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دبائے گئے۔<
)اظہار مخاوعہ مسلیمہ قادیانی بجواب اشتہار مصالحت پولوس ثانی صفحہ ۲ مئولفہ مولوی عبدالاحد خانپورہ مطبوعہ مطبع چودھویں صدی راولپنڈی ۱۹۰۱ء(
اس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ احمدیوں نے مسجد نہیں چھوڑیں بلکہ ان کو مسجدوں سے نکالا گیا احمدیوں نے نکاح سے نہیں روکا بلکہ ان کے نکاح توڑے گئے احمدیوں نے جنازہ سے نہیں روکا بلکہ ان کو جنازہ سے باز رکھا گیا لیکن باوجود اس کے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے آخری کوشش یہی کی باقی مسلمانوں سے صلح ہوجائے لیکن جب باوجود ان تمام کوششوں کے ناکامی ہوئی تو جیسا کہ مولوی عبدالاہد صاحب کی مندرجہ بالا عبارت میں اقرار کیا گیا ہے تب بامر مجبوری فتنے سے بچنے کے لئے رسول کریم~صل۱~ کے مطابق جوابی کاروائی کرنی پڑی-
پھر ہم اس سلسلہ میں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ دیگر فرقوں نے بھی اکی دوسرے فرقہ والوں کے جنازہ کی حرمت و امتناع کے فتوے دیئے ہیں چنانچہ علمائے اہلسنت والجماعت وعلمائے دیوبند نے شیعہ فرقہ والوں کے جنازہ کو نہ صرف حرام اور ناجائز قرار دیا ہے بلکہ ان کو اپنے جنازہ میں شریک ہونے کی بھی ممانعت کی ہے چنانچہ مولانا عبدالشکور صاحب مدیز النجم کا فتویٰ ملاحظہ ہو۔ آپ لکھتے ہیں:۔
>ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو اپنے جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں ہے ان کی مذہبی تعلیم ان کی کتابوں میں یہ ہے کہ سنیوںں کے جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں ہے ان کی مذہبی تعلیم ان کی کتابوں میں یہ ہے کہ سنیوں کے جنازہ میں شریک ہوکر یہ دعا کرنی چاہئے کہ یاللہ! اس قبر کو آگ سے بھر دے اس پر عذاب نازل کر۔<
)ملاحظہ ہو رسالہ موسومہ بہ علمائے کرام کا فتوفی درباب ارتداد شعیہ اثنا عشریہ صفحہ ۴(
‏body] )[tagب( نیز مولانا ریاض الدین صاحب مفتی دارلاعلوم دیوبند لکھتے ہیں:۔
>شادی غمی جنازہ کی شرکت ہرگز نہ کی جائے ایسے عقیدہ کے شیعہ کافر ہی نہیں بلکہ اکفر ہیں۔<
)فتویٰ علمائے کرام صفحہ ۴(
)ج( اس کے بالمقابل شیعہ صاحبان کے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے شیعہ صاحبان کو یہ ہدایت فرمائی کہ اگر کسی غیر شیعہ کی نماز جنازہ میں شامل ہونا پڑ جائے تو متوفیٰ کے لئے مندرجہ ذیل دعا کرے۔
>قال ان کان جاحدا للحق فقل اللھم املا جوفہ نارا وقبر فارا وسلط علیہ الحیات والعقارب وذالک قالہ ابو جعفر علیہ السلام لامرہ سوء من بنی امیہ صلی علیھا۔<
ملا حصہ و شیعہ حضرات کی مستند ترین کتاب فروع الکانی کتاب الجنائز جلد ۱ صفحہ ۱۰۰ باب الصلٰوٰہ علی الناصب مصنفہ حضرت محمد یعقوب کلینی مطبوعہ نولکشور(
اے اللہ! اس کا پیٹ آگ سے بھر دے اور اس پر سانپ اور بچھو مسلط کر یہی وہ دعا ہے جو حضرت امام جعفر صادق نے بنوامیہ کی ایک غیر شعہ عورت کے بارے میں کی تھی۔
سوالنمبر۶: )ا( کیا احمدی اور غیر احمدی میں شادی جائز ہے؟
)ب( کیا احمدی عقیدہ میں ایسی شادی کے خلاف ممانعت کا کوئی حکم موجود ہے؟
جواب:کسی احمدی مرد کی غیر احمدی لڑکلی سے شادی کی کوئی ممانعت نہیں البتہ احمدی لڑکی کے غیر احمدی مرد سے نکاح کو ضرور روکا جاتا ہے لیکن باوجود اس کے اگر کسی احمدی لڑکی اور غیر احمدی مرد کا نکاح ہوجائے تو اسے کالعدم قرار نہیں دیا جاتا اور اولاد کو جائز سمجھا جاتا ہے۔
اس تعلق میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہماری طرف سے ممانعت کی ابتداء نہیں ہوئی بلکہ اس میں بھی غیر احمدی علماء نے ہی سبقت کی اور اس میں شدت اختیار کی۔
)ا( چنانچہ سب سے پہلے مولوی محمد عبداللہ صاحب اور مولوی عبدالعزیز صاحب مشہور مضتیان لدھیانہ نے یہ فتویٰ دیا:۔
>خلاصہ مطلب ہماری تحریرات قدیمہ و جدیدہ کا یہی ہے کہ جو شخص )یعنی مرزا غلام احمد( مرتد ہے اور اہل اسلام کو ایسے شخص سے ارتباط رکھنا حرام ہے ایسے ہی جو لوگ اس پر عقیدہ رکھتے ہیں وہ بھی کافر ہیں اور ان کے نکاح باقی نہیں رہے جو چاہے ان کی عورتوں سے نکاح کرے۔<
)ملاحظہ ہو رسالہ اشاعہ السنہ جلد ۱۳ صفحہ ۵ مطبوعہ ۱۸۹۵ء(
)ب( جب عقیدت فرقہ قادیانی بسبب کفر و الحاد و زندقہ وارتداد ہوا تو بمجر داس عقیدت مندی ان کی بیویاں ان کے نکاحوں سے باہر ہوگئیں اور جب تک وہ توبہ نصوح نہ کریں تب تک ان کی اولادیں سب ّ*** ہوں گی۔
)مہر صداقت المعوف باحکام شریعت صفحہ ۱۰ مطبوعہ ۱۳۳۵ ہجری(
علاوہ ازیں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کلہ دراصل غیر احمدیوں سے ممانعت نکاح کی بنا احمدیت سے بعض اور عداوت رکھنے والوں کے اثر سے لڑکیوں کو بچانا تھا کیونکہ تجربے نے یہ بتایا ہے کہ وہ احمدی لڑکیاں جو غیر احمدیوں میں بیاہی جاتی ہیں ان کو احمدیوں سے ملنے نہیں دیا جاتا احمدی تحریکوں میں چندے دینے سے روکا جاتا ہے اور بعض گھرانے تو اتنے جاہل ہوتے ہیں کہ لڑکی پر اس وجہ سے سختی کرتے ہیں کہ وہ نماز کیوں پڑھتی ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ اس طرح ہم پر جادو کرتی ہے حقیقتاً نکاح کا مسئلہ ایک سوشل قسم کا مسئلہ ہے ایسے مسائل میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکلی کو کہاں آرام رہے گا اور کہاں اسے مذہبی امور میں ضمیر کی آزادی ہوگی اور اس پر ناجائز دبائو تو نہیں ڈالا جائے گا جس سے اس کے عقائد دینیہ خطرے میں پڑجائیں لیکن باوجود مخالفت کے اگر کوئی احمدی اپنی لڑکی کا نکاح غیر احمدی مرد سے کردے تو اسکے نکاح کو کالعدم قرار نہیں دیا جاتا۔
پھر یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ رشتہ ناطہ کے مسئلہ میں بھی ہماری جماعت اپنے طرز عمل میں منفرد نہیں بلکہ مسلمانوں کے دوسرے فرقے اور جماعتیں بھی اس طرز عمل کو اختیار کئے ہوئے ہیں بلکہ بعض تو آپس میں ایسی شدت اختیار کرچکے ہیں وہ دوسرے کے آدمی سے ازدواجی تعلق کو >حرام< اور اولاد کو ناجائز قرار دیتے ہیں چاننچہ اہلسنت والجماعت شیعہ اثنا عشریہ سے مناکحت کو حرام قرار دیا ہے:۔
)ا( علماء دیوبند اور علماء اہلحدیث کا فتویٰ ملاحظہ ہو:۔
>سنی لڑکلی شیعہ کے گھر پہنتے ہی طرح طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بن کر مجبور ہوجاتی ہے کہ شیعہ ہوجائے یہ خرابی علاوہ اس ارتکاب حرام کے ہے جو ناجائز نکاح کے سبب ہوتا ہے۔۔۔۔۔ لہذا شیعوں نے ساتھ مناکحت قطعاً ناجائز انکار ذبیحہ حرام۔ ان کا چندہ مسجد میں لینا ناروا ہے ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں۔<
)ملاحظہ ہو علماء کرام کا فتویٰ اور باب ارتداد شیعہ اثنا عشریہ شائع کردہ مولانا محمد عبدالشکور صاحب مدیر النجم صفحہ ۱` ۳(
)ب( نیز بریلوی فرقہ جس کے ساتھ مولانا ابو الحسنات صاحب صدر مجلس عمل کا تعلق ہے کے نزدیک بھی شیعہ سے مناکحت >زنا< سے مترادف ہے چنانچہ رد الرفضہ >میں لکھا ہے< بالجملہ ان افضیوں بترائیوں کے باب میں کم یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفار۔ مرتدین ہیں ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خاص زنا ہے اگر مرد سنی اور عورت ان خبیثوں ہی کی ہو جب بھی ہرگز نکاح نہ ہوگا۔ محض >زنا< ہوگا اور اولاد >ولد الزنا< ہوگی۔
)روالرفضہ >تصنیف< حضت مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی مطبوعہ ۱۳۲۰ء صفحہ ۱۶(
ہم نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں کہ اس فتویٰ میں حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب بانی فرقہ بریلویہ کا ہے شیعہ حضرات کو نہ صرف کافر قرار دیا گیا ہے بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں سے بھر بدتر قرار دیا گیا ہے کیونکہ قرآن مجید کی رو سے کتابیہ عورت کے ساتھ مسلم مرد کا نکاح جائز ہے لیکن حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کے نزدیک شیعہ عورت ک ساتھ سنی مرد کا نکاح قطعاً حرام اور
)ج( اسی طرح اہل شیعہ کے نزدیک اہلست والجماعت سے مناکحت ناجائز ہے چنانچہ حضرات شیعہ کی حدیث کی نہایت مستند کتاب الفروع الکافی میں لکھا ہے:۔
عن الفضل بن یسار قال قلت لابی عبداللہ علیہ السلام ان لا اتی اختا عارفہ علی راینا ولیس علی راینا بالبصرہ الا قلیل فازوجھا من لا یری راینا قال لا۔
)الفروغ الکافی من جامع الکافی جلد ۲ کتاب النکاح صفحہ ۱۴۲ مطبوعہ نولکشور(
یعنی فضل بن یسار سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام ابو عبداللہ سے عرض کیاکہ میری اہلیہ کی ایک بہن ہے جو ہماری ہم خیال ہے لیکن بصرہ میں جہاں ہم رہتے ہیں شیعہ لوگ بہت تھوڑے ہیں یا میں اس کا کسی غیر شیعہ سے بیاہ کردوں؟ حضرت امام نے فرمایا >نہیں<
)د( اسی طرح >امیر جماعت اسلامی< کے نزدیک ایسے لوگوں کے لئے ان کی جماعت میں کوئی جگہ نہیں جو اپنی لڑکی یا لڑکے کی شادی کرتے وقت دین کا خیال نہ رکھیں۔
)روئیداد جماعت اسلامی حصہ سوم صفحہ ۱۰۳(
سوالنمبر۷:احمدیہ فرقہ کے نزدیک امیر المومنین کی Significance کیا ہے؟
جواب:ہمارے امام کے عہدے کا اصل نام >امام جماعت احمدیہ< اور >خلیفہ المسیح< ہے لیکن بعض لوگ انہیں >امیر المومنین< بھی لکھتے ہیں اور ایسا ہی ہے جیسا کہ مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی امیر جماعت اسلامی کہلاتے ہیں یا سید عطاء اللہ شاہ بخاری >امیر شریعت< کہلاتے ہیں غالباً مودودی صاحب اور ان کی جماعت نے یہ مراد نہیں لی ہوگی کہ باقی لوگ اسلامی جماعت سے باہر ہیں یا کافر ہیں۔ نہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ماننے والوں نے یہ مراد لی ہوگی کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری شریعت پر حاکم ہیں اور وہ جو کچھ کہتے ہیں وہی شریعت ہوتی ہے۔
جب کوئی احمدی امام جماعت احمدیہ کے لئے >امیر المومنین< کا لفظ استعمال کرتا ہے تو اس کی مراد یہی ہوتی ہے کہ آپ ان لوگوں کے جو بانی سلسلہ احمدیہ کو مانتے ہیں >امیر< ہیں لوگ اپنی عقیدت میں اپنے لیڈروں کے کئی نام رکھ لیتے ہیں بعض تو کلی طور پر غلط ہوتے ہیں بعض جزوی طور پر صحیح ہوتے ہیں بعض کلی طور پر صحیح ہوتے ہیں اور کوئی معقول آدمی ان باتوں کے پیچھے نہیں پڑتا جب تک کہ ایسی بات کو ایمان کا جزو قرار دیگر اس کے لئے دلائل اور براہین نہ پیش کئے جائیں سابق مسلمانوں نے بھی بعض آئمہ کو >امیر المومنین< کے الفاظ سے یاد کیا ہے چنانچہ مولانا محمد ذکریہ شیخ الحدیث مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور اپنی کتاب )موسومہ مقدمہ او جز السالک شرح موطا امام مالک کے صفحہ ۱۴ مطبوعہ یحیویہ سہارنپور ۱۳۴۸ء میں امام قطان اور یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
>مالک امیر المومنین فی الحدیث< یعنی امام مالک فن حدیث میں >امیر المومنین< ہیں۔
اسی طرح حضرت سفیان ثوری کے متعلق حضرت حافظ ابن حجر عسقلانی امام شعبہ اور امام ابن علقمہ اور امما ابن معین اور بہت سے علماء کی سند پر اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں
>سفیان امیر المومنین فی الحدیث< یعنی حضرت سفیان ثوی فن حدیث میں امیر المومنین ہیں۔<
)تہذی التہذیب مطبوعہ دائرہ المعارف حیدر آباد دکن جلد نمبر ۴ صفہح ۱۱۳(
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے سابق امیر مولانا محمد علی صاحب مرحوم کو بھی ان کے بعض اتباع >امیر المومنین< لکھتے ہیں۔ پروفیسر الیاس برفی صاحب نے اپنی کتاب >قادیانی مذہبی< مطبوعہ اشرف پرنٹنگ پریس لاہور بار ششم صفحہ ۳ تمہید اول میں موجودہ نظام صاحب دکن کو >امیر المومنین< لکھا ہے
مزیدبرآں بعض لوگ اس قسم کے نام رکھ لیتے ہیں جیسے >ابو الاعلیٰ< حالانکہ >الاعلیٰ< اللہ تعالیٰ کا نام ہے۔
ایڈووکیٹ صدر انجمن احمدیہ ربوہ
‏Lahore Murree/
‏Sadr the of Adovocate
‏1953 August 29th Dated
۔rabwah Ahmadiyya Anjuman
تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کا جواب
اس نہایت اہم بیان میں مندرجہ ذیل تین سوالوں کے جواب حضرت مصلح موعود نے سپرد قلم فرمائے:۔
۱۔
وہ حالات جن کی وجہ سے مارشل لاء نافذ کرنا پڑا۔
۲۔
صوبجاتی گورنمنٹ نے جو ذرائع فسادات کے نہ ہونے دینے کے لئے اختیار کئے آیا وہ کافی تھے یا نہیں؟
۳۔
صوبجاتی حکومت نے جب یہ فساد ظاہر ہوگئے تو ان کے دبانے کے لئے جو تجاویز اختیار کیں آیا وہ کافی تھیں یا نہیں تھیں؟
یہ تحریری بیان غیر مطبوعہ ہے اور بجنہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے۔~ف۴~
اعوذ باللہ من الشیطن الرحیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
‏]ybod [tagسوالات:۔
۱۔
وہ حالات جن کی وجہ سے مارشل لاء نافذ کرنا پڑا۔
۲۔
صوبہ جاتی گورنمنٹ نے جو ذرائع فسادات کے نہ ہونے دینے کے لئے اختیار کئے۔ آیا وہ کافی تھے۔ یا نہیں۔
۳۔
صوبہ جاتی حکومت نے جب یہ فساد ظاہر ہوگئے۔ تو ان کے دبانے کے لئے جو تجاویز اختیار کیں۔ آیا وہ کافی تھیں یا نہیں تھیں۔
جوابات:۔
مارشل لاء کے جاری کرنے کی ضرورت جن امور کی وجہ سے پیش آئی وہ وہ واقعات تھے۔ جو فروری کے آخری ہفتہ اور مارچ کے ابتدائی ہفتہ میں لاہور میں ظاہر ہوئے اور جنہیں صوبجاتی حکومت مئوثر طور پر دبا نہ سکی۔ اگر یہ واقعات ظاہر نہ ہوتے۔ یا اگر صوبجاتی حکومت ان کو دبانے میں کامیاب ہوجاتی تو مارشل لاء کے جاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اس سوال کا جواب دینے میں کچھ نہ کچھ ذکر حکومت کا بھی آجاتا ہے کیونکہ ایسے بڑے پیمانہ پر فسادات جن کو پولیس نہ دبا سکے اور انتظامی عملہ ناکام ہوجائے دو ہی وجہ سے پیدا ہوا کرتے ہیں یا توصیغہ خبررسانی کی شدید غفلت اور ناقابلیت کی وجہ سے یا عملہ انتظام کی عدم توجہ کی وجہ سے۔ کیونکہ ایسے موقعہ پر جب کہ سول اور پولیس ناکام ہوجائے اور فوج کو دخل دینا پڑے۔ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آبادی کی ایک کثیر تعداد اس میں شامل تھی یا آبادی کی ایک معقول تعداد ایسی منظم صورت میں فساد پر آمادہ تھی کہ فساد کی وسعت کی وجہ سے عام قنون کے ذریعہ سے اسے دبایا نہیں جاسکتا تھا۔ اور یہ دونوں حالتیں یکدم نہیں پیدا ہوسکتیں۔ ایک لمبے عرصہ کی تیری کے بعد پیدا ہوسکتی ہیں۔ اور ایک لمبے عرصہ کی تنظیم کے بعد یا ایک لمبے عرصہ کی تنظیم کے بعد یا ایک لمبے عرصہ کے اشتعال کے بعد ہی رونما ہوسکتی ہیں۔ دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کہیں بھی سول معاملات میں فوج کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی جب تک کہ معاملہ ہاتھوں سے نہیں نکل جاتا اور یہ ہمیشہ ہی عرصہ دراز تک نفرت کے جذبات کے سلگتے رہنے اور ایک عرصہ تک مخفی تنظیم کے بعد ہی ہوتا ہے۔
تیسری صورت وہ ہوا کرتی ہے۔ جبکہ کوئی ظالم شخص اپنے اشتعال سے مجبور ہوکر بلا ضرورت فوج کو استعمال کرتا ہے تاریخ میں اس کی بھی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن موجودہ مارشل لاء اس تیسری قسم میں شامل نہیں اس لئے لاء اینڈ آرڈر کہ ذمہ دار پنجاب حکومت تھی اور پنجاب حکومت نے ۵ اور ۶ )مارچ( کو یہ محسوس کرلیا تھا۔ کہ اب ہم امن کو اپنے ذرائع سے قائم نہیں رکھ سکتے اور مرکز کو دخل دینے کی ضرورت ہے پس چونکہ اس فیصلہ کی بنیاد صوبائی حکومت کے ساتھ تعلق رکھتی تھی اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ مرکزی یا فوجی افسروں نے فوری اشتعال کے ماتحت ایک کام کرلیا۔ حالانکہ اس کی صرورت نہیں تھی۔ پس لازماً یہی ماننا پڑے گا۔ کہ وہ حالات جو فروری کے آکری یا مرچ کے شروع میں ظاہر ہوئے۔ ایک لمبی انگیخت کے نتیجہ میں تھے اور ایک باضابطہ تنظیم کے ماتحت تے جس کی وجہ سے باوجود اس کے کہ ہزاروں کی تعداد میں پولیس موجود تھی۔ سینکڑوں کی تعداد میں انتطامی افسر موجود تھے۔ پھر بھی وہ لاہور کے فسادات کو روکنے کے قابل نہیں ہوئے۔
یہ بھی بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ کہ جیسا کہ شہادتوں سے ثابت ہے۔ لاہور میں فسادات میں مصہ لینے والے صرف لاہور کے باشندے نہیں تھے۔ بلکہ زیدہ تر حملے کرنے والے لوگ وہ تھے۔ جو کہ باہر سے منگوائے گئے تھے۔ پس اس بات کو دیکھ کر لاہور کے مارشل لاء کے جاری کرنے کے موجبات کو صرف لاہور تک محدود نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ پنجاب کے دوسرے علاقوں پر بھی ¶نظر ڈالنی پڑے گی اگر بیرونجات سے سنکڑوں کی تعداد میں جتھے نہ آتے تو پولیس کے لئے انتظام مشکل نہ ہوتا۔ پولیس کا انتظام زیادہ تر اس بات پر مبنی ہوتا ہے کہ وہ لوکل آدمیوں کی طبیعتوں اور ان کے چال چلن کو جانتی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ کس محلہ میں کون کون لوگ سے اس قسم کی سرارت کرسکتے ہیں اور پھیلا سکتے ہیں۔ پس وہ ان کو گرفتار کرلیتی ہے اور اس طرح شورش کی جڑ کو کچل دیتی ہے لیکن گزشتہ فسادات میں پارٹیشن کے زمانہ کے فسادات سے سبق سیکھتے ہوئے ان فسادات کو بانیوں نے جہاں جہاں بھی فساد ہوا۔ وہاں باہر سے آدمی لا کر جمع کر دیئے تھے۔ تاکہ پولیس ان سے معاملہ کرتے وقت صحیح اندازہ نہ کرسکے اور مقامی شورش پسند لوگ جن کو وہ جانتی ہے ان کی گرفتاری سے شورش کو دبا ن سکے۔ پنجاب کے دوسرے علاقوں میں بھی جہاں جہاں شورش کی گئی۔ اسی رنگ میں کام کیا گیا۔ کہ جس گائوں میں شورس کرنی ہوتی تھی۔ وہاں ارد گرد کے گائوں سے آدمی لائے جاتے تھے اور مقامی گائوں والے بظاہر خاموش بیٹھے رہتے تھے۔ پس جو کچھ لاہور میں ہوا۔ وہ کبھی نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر اضلاع میں اس کی بنیاد نہ رکھی جاتی۔ اور اگر حکومت اس فتنہ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے تمام اضلاع میں تعاون پیدا کردیتی تو یہ فسادات یا تو رونما نہ ہوتے یا ظاہر ہوتے ہی دبا دیئے جاتے۔
ہم اس بات میں نہیں پڑنا چاہتے۔ کہ زید یا بکر کس پر ان فسادات کی زیادہ ذمہ داری ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں۔ کہ نہ اس طرح ہمارے مقتول واپس لائے جاسکتے ہیں۔ نہ ہمارے جلائے ہوئے مکان بنائے جاسکتے ہیں نہ ہمارے لوٹے ہوئے مال ہم کو واپس دیئے جاسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے۔ کہ فساد کرنے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ لوگ جن کا فساد میں فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ ظاہر ہوجائے کہ وہ فساد میں شامل ہیں تو وہ اس فائدہ سے محروم ہوجاتے ہیں دوسرے وہ لوگ فساد کروانا چاہتے ہیں اور فساد کروانے کی عزت خود حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کا فائدہ اسی میں ہوتا ہے کہ ان کا نام آگے آئے اور لوگوں کو معلوم ہو۔ کہ وہ اس کام میں حصہ لے رہے ہیں۔ اگر گورنمنٹ کا کوئی براہ راست دخل ان فسادات میں تھا تو گورنمنٹ پہلے گروہ میں آجاتی ہے۔ اگر کسی وقت بھی یہ ظاہر ہوجاتا۔ کہ وہ ان فسادات کو انگیخت کررہی ہے تو جس غرض سے وہ ان فسادات میں حصہ لے سکتی تھی۔ وہ اس غرض سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہوجاتی تھی۔ اس لئے لازماً اگر حکومت بحیثیت حکومت یا اس کے کچھ افسران فسادات میں حصہ لینا چاہتے تھے تو وہ یقیناً اسے مخفی رکھتے تھے اور جو بات مخفی رکھی جاتی ہے اس کا پتہ لگانا آسان نہں ہوتا فسادات کے دنوں میں ہماری جماعت کو مختلف قسم کی رپورٹیں ملتی تھیں کبھی ایک افسر کے متعلق۔ کبھی دوسرے افسر کے متعلق۔ کبھی صوبجاتی حکومت کے متعلق کبھی مرکزی حکومت کے متلق۔ کبھی ہمیں یہ خیال یدا ہواتا تھا۔ کہ فلاں افسر یا صوبجاتی حکومت اس کی ذمہ دار ہے کبھی ایک دوسری رپورٹ کی بناء پر ہم یہ سمجھتے تھے۔ کہ کوئی دوسرا افسر اور مرکزی حکومت اس کی ذہ دار ہے کبھی ایک دوسری رپورٹ کی بناء پر ہم یہ سمجھتے تھے۔ کہ کوئی دوسرا افسر اور مرکزی حکومت اس کی ذمہ دار ہے )چونکہ ہمارے آدمی حکومت کے ذمہ دار عہدوں پر فائز نہیں تھے۔ اس لئے( ہمیں حقیقت حال کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لئے ہماری جماعت کا طریقہ یہی تھا۔ کہ ہر قسم کے افسروں سے تعاون کرنا اور بعض دفعہ یہ خیال کرتے ہوئیبھی کہ وہ ان فسادات میں حصہ لیتے ہیں ان کے پاس اپنی شکایت لے جانا۔ اور اگر کسی کے منہ سے کوئی بات )انصاف~(ف۵~ کی نکل جائے تو اس کی تعریف کردینا۔ تاکہ شائد اسی تعریف کے ذریعہ سے آئندہ اس کے شر سے نجات مل جائے ہماری مثال تو اس جانور کی سی تھی۔ جس کے پیچھے چاروں طرف سے شکاری کتے لگ جاتے ہیں اور وہ مختلف طریقوں سے اپنی جان بجانے کی کوشش کرتا ہے۔ پس ہم معین صورت میں کسی شخص پر الزام نہیں لگا سکتے۔ مارشل لاء سے پہلے بھی ہم پر سختیاں کی گئیں اور ہمارے لئے یہ نتجہ نکالنا بالکل ممکن تھا۔ کہ اس کا اصل موجب کون شخص تھا ہاں ہم شہادتوں کو دیکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں۔ کہ صوبجاتی حکومت میں قطعی طور پر بے عملی پائی جاتی تھی۔
ہمیں یہ سن کر نہایت ہی تعجب ہوا ہے۔ کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ کا صرف یہی خیال تھا کہ )اول( ان کو اس امر کے متعلق وہی کاروائی کرنی چاہئے جس کے متعلق ان کے ماتحت رپورٹ کریں۔
)ب( جب کوئی معاملہ زیر بحث آئے تو ان کے لئے یہ کافی تھا کہ وہ اپنے افسروں کے ساتھ تبادلہ خیا کے بعد درست یا غلط کوئی حکم دے دیں۔ ان کے نزدیک س بات کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ یہ بھی دیکھیں کہ وہ حکم نافذ بھی ہوا ہے یا نہیں۔
)ج( ان کے نزدیک انصاف کا تقاضا اس سے پورا ہوجاتا تھا کہ اگر ظالم اور مظلوم دونوں کو ایک کشتی میں سوار کردیا جائے اور اس طرح دنیا پر ظاہر کیا جائے کہ وہ سب قسم کے لوگوں کو ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں اور یہی کیفیت ہم کو لاہور کے انتظامیہ حکام میں نظر آتی ہے اور یہیں فساد سب سے زیادہ ہوا ہے گواہیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت لاہور میں جو ذمہ دار افسر تھا۔ اس کے نزدیک بھی اوپر کے ہی اصول قابل عمل تھے اور انہی پر وہ عمل کرتا رہا ہے۔ شاید جرمنی کے مشہور چانسلر پرنس بسمارک کا یہ قول ہے کہ >افسر اس لئے مقرر کئے جاتے ہیں کہ وہ دیکھتے رہیں کہ ان کا ماتہت عملہ قواعد اور حکام کی پابندی کرتا ہے۔ >مگر ان شہادتوں کے پڑھنے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ افسر اس لئے مقرر کئے جاتے ہیں کہ وہ ایک فیصلہ کریں اور پھر کبھی نہ دیکھیں کہ اس پر عمل ہوا ہے یا اس لئے مقرر کئے جاتے ہیں کہ وہ اس انتظار میں رہیں کہ ان کے ماتحت افسر کوئی کاروائی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ کاروائی کرنا چاہیں۔ تو پھر مناسب طور پر وہ اس کاروائی کو بستہ میں لپیٹ دینے کی کوشش کریں اور اگر وہ کوئی کاروائی کرنا چاہیں۔ تو پھر مناسب طور پر وہ اس کاروائی کو بستہ میں لپیٹ دینے کی کوشس کریں اور اگر وہ کوئی کاروائی نہ کروانا چاہیں تو وہ اس انتظار میں رہیں کہ کبھہ وہ عمل کی طرف متوجہ ہوں گے یا نہیں۔ جہاں تک ہماری عقل کام دیتی ہے دنیا کی ادنیٰ سے ادنیٰ حکومت بھی ان اصول کے ماتحت نہیں چل سکتی۔ پس ہمارے نزدیک حکومت کی بے حسی اور عدم توجہی اور عدم تنظیم ان فسادات کی ذمہ دار ہے۔ لیکن اصل ذمہ داری ان لوگوں پر آتی ہے جو کہ اپنے ارادوں کو ظاہر کرتے تھے لوگوں کو فساد کے لئے اکساتے تھے اور اس بارہ میں تنظیم کررہے تھے۔ یہ کہہ دینا کہ کوئی شخص ایسے الفاظ نہیں بولتا تھا۔ جن سے وہ قانون کی زد میں آئے درست نہیں۔ کیونکہ اول تو اخباروں کے کٹنگز اور تقریروں کے حوالوں~ف۶~ سے معلوم ہوت اہے کہ ایسے الفاظ بولے جاتے تھے۔ دوسرے ایسے مواقع پر یہ نہیں دیکھا جاتا۔ کہ الفاظ کیا بولے جاتے تھے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کس ماحول میں وہ بولے جاتے تھے اور کیا ذہنیت وہ لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتے تھے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ایک خاص ذہنیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک خاص سکیم کے ماتحت جو فتنہ و فساد کو پیدا کرنے میں محد ہوسکتی ہے۔ کچھ الفاظ بولے جاتے تھے جن میں رائج الوقت قانون سے بچنے کی بھی کوشش کی جاتی تھی تو یقیناً الفاظ خواہ کچھ ہی ہوں اس بات کو ماننا پڑے گا کہ فساد کے لئے لوگوں تو تیار کیا گیا اور متواتر تیار کیا گیا اور پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ عین فساد کے دنوں میں جلسوں کی حد سے نکل کر ایک مقررہ تنظیم کے ماتحت سارا فساد آگیا تو ماننا پڑتا ہے کہ جو لوگ جلسوں میں محتاط الفاظ استعمال کرتے بھی تھے اپنی خلوت میں دوسرے کام کرتے تھے۔ اگر ایسا نہیں تھا تو اچانک شورش ایک انتطام کے ماتحت کس طرح آگئی اور اس کو باقاعدہ لیڈر کہاں سے مل گئے آخر وہ کیا بات تھی کہ جلسوں میں تو محض لوگوں کو ختم نبوت کی اہمیت بتائی جاتی تھی لیکن فسادات کے شروع ہوتے ہی جتھے لاہور کی طرف بڑھنے شروع ہوئے۔ ایک شخص نے آکر مسجد وزیر خان میں راہنمائی اور راہبری سنبھال لی۔ اور لوگ اس کا حکم ماننے لگ گئے اور دوسروں نے دوسرے علاقوں میں باگ ڈور سنبھال لی۔ جس دن شورش کرنی ہوتی تھی مختلف طرف سے جتھے نکلتے تھے لیکن شورش ایک یا دو مقامت پر کی جاتی تھی جب گرفتاریاں ہوتی تھیں تو شورش پسند لیڈر وہاں سے بھاگتے تھے اور ان کو پناہ دینے کے لئے پہلے سے جگہیں موجود ہوتی تھیں۔ حکومت کو بیکار بنانکیے لئے ریلوں اور لاریوں پر خصوصیت کے ساتھ حملے کئے جاتے تھے۔ تمام بڑے شہروں میں گائوں کی طرف سے جتھے آتے تھے جیسے لائلپور میں گوجرہ اور سمندری وغیرہ سے اور سرگودہا میں میانوالہ اور سیکسر کے علاقوں سے اور لاہور میں راولپنڈی` لائلپور اور دوسرے شہروں میں گویا لاہور میں تو لائلپور` راولپنڈی` سرگودہا اور ملتان کے شہروں کو استعمال کیا جارہا تھا اور لائلپور` سرگودہا` راولپنڈی ملتان وغیرہ میں ارد گرد کے دیہات کے لوگوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ کیا ی بات بغیر کسی تنظیم کے ہوسکتی تھی اور کیا یہ تنظیم بغیر کسی منظم کے ہوسکتی تھی۔ پس یہ حالات صاف بتاتے ہیں کہ تقریروں میں کچھ اور کہا جاتا تھا گو جوش کی حالت میں وہ بھی اصل حقیقت کی غمازی کر جاتی تھیں لیکن پرائیویٹ طور پر اور رنگ میں تیاری کی جارہی تھی۔
س فسادات کی اصل ذمہ دار جماعت اسلامی۔ جماعت احرار اور مجلس عمل تھی۔ ان کے کارکنوں نے متواتر لوگوں میں یہ جوش پیدا کیا کہ احمدی اسلام کو تباہ کررہے ہیں۔ پاکستان کے غدار ہیں۔ غیر حکومتوں کے ایجنٹ ہیں گویا وہ دو ہی چیزیں جو پاکستان مسلمانوں کو پیاری ہوسکتی ہیں۔ یعنی اسلام اور پاکستان دونوں کی عزت اور یاک دونوں کی ذات احمدیوں سے خطرہ میں ہے۔ ظاہر ہے کہ ان تقریروں کے نتیجہ میں عوام الناس میں اتنا اشتعال پیدا ہوجانا ضروری تھا کہ وہ اپنی دونوں پیاری چیزوں کے بچانے کے لئے اس دشمن کو مٹا دیتے۔ جس کے ہاتھوں سے ان دونوں چیزوں کو خطرہ بتایا جاتا تھا ضرورت صرف اس بات کی تھی کہ انڈر گرائونڈ طور پر کچھ ایسے لوگ بھی مقرر کئے جاتے جو اس طوفان کو ایک خاص انتظام کے ماتحت اور ایک خاص لائن پر چلا دیتے۔ جب طبائع میں اشتعال پیدا ہوجائے تو وہ لیڈر کی اطاعت کے لئے پوری طرح آمادہ ہوجاتے ہیں اس طرح تنظیم کے لئے رستہ کھول دی اگیا تھا ان لوگوں کو یہ اتفاقی سہولت میسر آگئی کہ پنجاب کے صوبہ کی حکومت دانسہ یا نادانستہ ایسے طریق عمل کو اختیار کرنے لگی جو دنیا کی کسی مہذب حکومت میں بھی استعمال نہیں کیا جاتا اور جس کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں اس دوران میں بدقسمتی سے پاکستان کی مرکزی حکومت میں ایک ایسا وزیراعظم آگیا جو مذہبی جوش رکھتا تھا اور علماء کا حد سے زیادہ احترام اس کے دل میں تھا اور انتہاء درجہ کا سادہ اور طبیعت کا شریف تھا اتفاقی طور پر کچھ علماء اس کے پاس پہنچے اور اس کے ادب اور احترام کو دیکھ کر انہوں نے محسوس کیا کہ کامیابی کا ایک اور راستہ بھی ان کے سامنے کھل سکتا ہے۔ ہمیں ان فسادات کے دنوں میں جو کچھ معلومات حاصل ہوئیں یا ہوسکتی تھیں۔ خواہ مخالفوں کے کیمپ سے یا اپنے وفود سے۔ جو کہ پاکستان کے وزیراعظم سے ملے یہی معلوم ہوسکا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم سادہ اور شریف آدمی تھے ہمیں کبھی بھی ان کے متعلق یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ شرارت یا فساد کے لئے کوئی کام کرتے تھے مگر علماء کا ادب اور احترام اور ان کی سادگی اور دوسری طرف علماء کا فساد پر آمادہ ہو جان ان کو دھکیل کر ایسے مقام پر لے گیا۔ جبکہ وہ نادانستہ طور پر اس فساد کو آگ دینے والے بن گئے۔ پاکستان میں اس وزیراعظم کے آنے سے پہلے علمائے کے دل میں یہ طمع نہیں پیدا ہوا کہ آئندہ حکومت ان سے ڈر کر ان کی پالیسیاں چلائے گی لیکن اس وزیراعظم کے زمانہ میں یہ طمع علماء کے دل میں پیدا ہوگیا۔ مولانا مودودی~ف۷~ جوکہ پہلے کانگریسی تھے پھر ہندو نواز تھے اور پاکستان بننے کے وقت پاکستان کے مخالف تھے۔ آخری دن تک ان کی پاکستان میں آنے کی تجویز نہیں تھی وہ پاکستان کے مسلمانوں کے مفاد کے خلاف سمجھتے تھے۔ ان کی جماعت کی بنیاد سرے سے ہی سیاسی ہے اور ان کا نظریہ یہی ہے کہ جس طرح ہو حکومت پر قبضہ کیا جائے اور پھر ان کے سمجھے ہوئے اسلامی نطام کو چلا جائے ان کے اس نظریہ کی وجہ سے دوسری پارٹیوں سے مایوس شدہ سیاسی آدمی ان کی طرف رجوع کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ پارٹی جو جلد سے جلد حکومت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے اس کے ذریعہ سے ہم کو بھی رسوخ حاصل ہوجائے گا۔ اور چونکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ بعد میں اسلامی نظام قائم کیا جائے گا اس لئے مذہب کی طرف مائل ہونے والے لوگ بھی ان کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان کا انجمن اخوان المسلمین کے ساتھ متعلق بھی ظاہر کرتا ہے کہ درحقیقت ان کا مطلوب بھی سیاست ہے ان کا طریق عمل بھی بالکل اسی رنگ کا