• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 27

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 27


1
تبلیغی جہاد میں شامل ہونے والے واقفینِ زندگی اپنے ناموں سے اطلاع دیں
(فرمودہ 25 جنوری 1946ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘اللہ تعالیٰ نے آج پھر مجھے خطبہ دینے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ گو ابھی صحت ایسی اچھی تو نہیں کہ مَیں بیٹھ کر سجدہ کر سکوں بلکہ تکیوں پر ہی سجدہ کرتا ہوں۔ سجدہ کرنے کے لئے اگر بیٹھوں تو کھڑا نہیں ہو سکتا اور اگر کھڑا ہوں تو بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تین چار دن سے مَیں بغیر کَرُچز 1(Crutchs)کے چلتا ہوں جس کی وجہ سے گھٹنوں میں درد محسوس ہوتا ہے۔ لیکن ڈاکٹری مشورہ یہی تھا کہ جب اس درد سے آرام آ جائے تو مجھے تھوڑا تھوڑا چلنا چاہئے تاکہ جوڑ اپنی جگہ پر رُک نہ جائیں۔ مَیں نے سمجھا کہ اس حالت میں جبکہ مَیں چلنے لگ گیا ہوں مجھے خطبہ کے لئے ضرور جانا چاہئے۔ سیڑھیاں کَرُچز کے سہارے چڑھ لوں گا اور منبر تک بغیر کسی سہارے کے چلا جاؤں گا۔ اگر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور خطبہ سے مجھے کوئی خاص تکلیف پھر دوبارہ نہ ہو جائے اور وہ اپنے فضل سے موجودہ تکلیف کو برداشت کرنے کی طاقت عطا فرمائے تو مَیں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ جلد ہی باہر کے کاموں کی دیکھ بھال شروع کر دوں گا۔ میری یہ بیماری نہ صرف اس لئے تکلیف دہ تھی کہ بیماری تکلیف دہ ہوتی ہے بلکہ یہ اس لئے بھی بہت زیادہ تکلیف کا باعث ہوئی کہ یہ ایسے موقع پر آئی جبکہ ہمارے مبلغین کے وفود غیر ممالک کو جانے والے تھے۔ اور جلسہ سالانہ بھی قریب تھا۔ وفود کا باہر بھیجنا کوئی معمولی کام نہیں۔ ایک نادان اور کوتاہ بین انسان کے نزدیک کسی وفد کا بھیجنا کوئی اہم کام نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے موقع پر بے انتہا کوشش اور متواتر سُرعت کے ساتھ تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے گزشتہ ایام میں پچیس مبلغ غیر ممالک میں بھیجے ہیں اور آٹھ نو کے قریب تیار ہیں جو جلدی ہی باہر جانے والے ہیں۔ لیکن ان کے چلے جانے پر ہمارا کام پورا نہیں ہو جائے گا بلکہ ان پچیس مبلغوں کے جانے کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے اپنے گھر کے پچیس نئے دروازے کھولے ہیں اور جو لوگ ان دروازوں میں سے داخل ہوں گے وہ اپنی ضروریات کو ہمارے سامنے پیش کریں گے۔ چنانچہ ایک ملک سے مبلغین کی طرف سے دو تاریں آئی ہیں۔ ایک تار میں انہوں نے لکھا ہے کہ ہمیں دس مبلغ بہت جلد بھیجے جائیں۔ کرایہ اور دیگر اخراجات کا انتظام ہم کریں گے۔ اور دوسری تار میں انہوں نے یہ اطلاع دی ہے کہ جماعت نے مطلوبہ مبلغین کے لئے کرایہ اور دوسرے اخراجات کے لئے کئی ہزار روپیہ جمع کر لیا ہے۔ اب ہمیں فوراً مبلغین بھیج دئیے جائیں۔ اسی طرح ایک اور جماعت سے اطلاع آئی ہے جو ہے تو اس جماعت کی قدرت اور طاقت سے باہر۔ لیکن رپورٹ آئی ہے کہ اس ملک کی جماعت میں ایک جوش پیدا ہو گیا ہے اور آپس میں انہوں نے تجویز کی ہے کہ ڈیڑھ لاکھ یا اس سے زیادہ روپیہ جمع کیا جائے اور پھر خلیفۂ وقت کو اپنے ملک میں آنے کی دعوت دی جائے تاکہ مصلح موعود والی خواب میں وہ بھی شریک ہو جائیں۔ کیونکہ مَیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ مَیں دوسرے ملکوں کی طرف جا رہا ہوں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس خواب میں ان کے ملک کا بھی حصہ ہو اور وہ بھی اس میں شریک ہو جائیں۔
ایک اَور جگہ سے تار آئی ہے کہ وہاں انگریزی پڑھانے والے مدرّسین کی بہت ضرورت ہے اور بی۔ اے۔ بی ٹی پاس لوگوں کی وہاں بہت کھپت ہے۔ گو یہ تبلیغ کا حصہ نہیں لیکن اشاعتِ اسلام اور تبلیغ احمدیت میں یہ لوگ بہت مُمد و معاون ہو سکتے ہیں۔ یہ سب امور ایسے ہیں جو فوری طور پر کام کی طرف توجہ چاہتے ہیں۔ بہرحال ہم ان کی اس مانگ کو پیچھے نہیں ڈال سکتے لیکن اس وقت ہمارے پاس ایسے مبلغ موجود نہیں جن کو ہم فوری طور پر ان کےپاس بھیج دیں۔ نئے مبلغ اس صورت میں ان کے پاس بھیجے جا سکتے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہؤا ہے اور ان کو ابھی تک بلایا نہیں گیا ان میں سے کچھ مولوی فاضل ہوں یا بعض انگریزی اعلیٰ تعلیم رکھتے ہوں۔ مثلاً بی۔ اے یا ایم۔ اے ہوں۔ اگر ایف۔ اے یا انٹرنس پاس ہوں تو انہیں بھی کام پر لگایا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو وہاں بھیج دیا جائے اور وہاں کے مبلغین ان کو خود تیار کر لیں۔ لیکن یہ کہ ہم ان کو تیار شدہ مبلغ دیں یہ ہمارے لئے فِی الْحال مشکل ہے۔
مجھے اس بیماری میں دل کو کمزور کرنےو الی دوائیاں دی گئی ہیں۔ کیونکہ اس مرض کا علاج ایسی ہی دوائیوں سے ہوتا ہے اور چونکہ مجھے دن میں ہر چار چار گھنٹے کے بعد دوائی دی جاتی تھی اس لئے طبعی طور پر میرے حافظے پر ان دوائیوں کا اثر پڑا۔ اور مَیں بعض دفعہ بات کرتا کرتا بھول جاتا کہ کیا کہنے لگا تھا۔ اور بعض دفعہ دو منٹ کے بعد بات بالکل بھول جاتی تھی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اس بیماری میں ایسی دوائیاں پلائی جاتی تھیں جو مجھے ایک قسم کے نشے میں رکھتی تھیں۔ گو دوائی تو نشہ آور نہیں تھی لیکن اس دوائی سے دل کی کمزوری، ضعف اور نقاہت اتنی ہو جاتی تھی کہ مَیں مدہوش سا رہتا تھا۔ شاید ہمیں اللہ تعالیٰ اس بیماری سے بھی کوئی سبق دینا چاہتا ہے اگر ہم اس سے فائدہ اٹھائیں۔
اب مَیں اس پہلی تقریب پر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں(جلسہ سالانہ پر تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو خطاب کرنے کی توفیق مل گئی تھی۔ اس کے بعد مَیں کوئی خطبہ یا تقریر نہیں کر سکا۔ اس لحاظ سے یہ پہلی تقریب ہے)کہ سترہ اٹھارہ ممالک میں ہمارے مبلغین اب گئے ہیں۔ اور ان میں سے ایک ملک میں ان کے پہنچتے ہی وہاں سے تار آئی ہے کہ ہمیں دس مبلغین کی فوری ضرورت ہے۔ ان مبلغین کے اخراجات اور کرایہ کے ذمہ دار ہم ہوں گے۔ مَیں تمام ایسے واقفین کو جن کو بلایا نہیں گیا گو وہ اعلیٰ تعلیم نہ رکھتے ہوں ۔ لیکن وہ سمجھتے ہوں کہ وہ مبلغ کا کام سنبھال لیں گے اس غرض کے لئے بُلاتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ وہ اپنے ناموں سے ہمیں اطلاع دیں۔ ہم عموماً اس وقت تک اعلیٰ تعلیم کے لوگوں کو لیتے رہے ہیں یعنی عربی کے لحاظ سے مولوی فاضل اور انگریزی کے لحاظ سے بی۔ اے یا ایم۔ اے ۔ بعض ایف اے بھی تھے۔ لیکن دینی لحاظ سے وہ اچھا علم رکھتے تھے۔ ایسے لوگوں کو ہم لے لیتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ دنیوی علم تو خود پڑھ سکتے ہیں اور دینی تعلیم، قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیثیں ہم ان کو پڑھا دیتے ہیں۔ اگر کوئی ایسے نوجوان ہوں جو انٹرنس یا ایف۔اے پاس ہوں لیکن وہ قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہوں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی کتب کا مطالعہ رکھتے ہوں، دینی امور سے واقفیت رکھتے ہوں تو ایسے نوجوانوں کو بھی جلد ہی باہر بھیجا جا سکتا ہے۔ پس یہ وقت ہے کہ جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں وقف کرکے اس کامیابی اور کامرانی کو حاصل کر سکتے ہیں جو اس زمانہ میں احمدیت کے لئے مقدر ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا ایک حوالہ آج ہی خدام الاحمدیہ نے شائع کیا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کو کتنی حسرت تھی اس بات کی کہ مسلمان اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ آپ فرماتے ہیں مَیں نے بعض اخبارات میں پڑھا ہے کہ فلاں آریہ نے اپنی زندگی آریہ سماج کے لئے وقف کر دی ہے اور فلاں پادری نے اپنی عمر مشن کو دے دی ہے۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ کیوں مسلمان اسلام کی خدمت کے لئے اور خدا کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف نہیں کرتے۔2رسول کریم ﷺ کے مبارک زمانہ پر نظر کر کے دیکھیں تو ان کو معلوم ہو کہ کس طرح اسلام کی زندگی کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی اس وقف سے مراد بھی درحقیقت وہی صحابہ کا وقف ہے۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں زندگی وقف کرنے کا سوال ہی نہیں تھا کیونکہ اس زمانہ میں ہجرت فرض تھی۔ خواہ کسی حصہ میں کوئی شخص ایمان لاتا اس کے لئے حکم تھا کہ فوراً ہجرت کر کے مدینہ پہنچو اور خدمتِ اسلام کے لئے اپنی جان اور مال لگا دو۔
ہمارے وقف اور صحابہؓ کے وقف میں فرق صرف اتنا ہے کہ ہم واقفین اپنے ملک سے باہر بھیجتے ہیں۔ لیکن صحابہؓ دوسرے ملک سے اپنے ملک میں بلائے جاتے تھے۔ اس زمانہ میں وقف کی یہ صورت تھی کہ ہجرت کر کے مدینہ پہنچ جاؤ۔ ہمارے زمانہ میں وقف کی یہ صورت ہے کہ اپنا وطن اور اپنا گھر بار چھوڑ کر غیر ممالک میں اشاعتِ اسلام کے لئے چلے جاؤ۔ دونوں صورتوں میں گھر بار چھوڑنا پڑتا ہے، وطن سے بے وطن ہونا پڑتا ہے اور باہر جا کر دشمنوں سے جہاد کرنا پڑتا ہے۔ پس ہمارے واقف جو حقیقی طور پر اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں وہ بھی مہاجر ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے وطن اور اپنے گھر بار چھوڑ دئیے اور دنیا کے گوشے گوشے میں اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ ہماری جماعت میں بھی بہت سے نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف نہیں کیں۔ اگر وہ اپنی زندگیاں وقف کریں تو میرے نزدیک وہ سلسلہ کے لئے مفید وجود ثابت ہو سکتے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ تبلیغِ اسلام کے لئے دس آدمیوں کی ضرورت ہو اور وہ بھی پوری نہ ہو۔ اور دوسری طرف جنگ یورپ میں اپنی قوموں کی عزت کو برقرار رکھنے کے لئے لکھوکھہا آدمیوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہو۔ اب جبکہ اسلامی جنگ شروع ہوئی ہے تو قدرتی بات ہے کہ باہر سے مانگ پر مانگ آئے گی۔ ابھی پیچھے ہی ایک ملک کے مبلغین نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اگر ہمیں بارہ مبلغ اَور مل جائیں تو دس سال کے اندر اندر ملک کی اکثریت احمدیت میں داخل ہو جائے گی۔ وہ تمام قسم کے اخراجات خود برداشت کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ صرف ہم سے کام کرنے والے آدمی مانگتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ افریقہ میں ایک لاکھ شلنگ کا ایک فنڈ قائم کیا گیا ہے کہ جس کی آمد سے ہمارے وہاں کے مبلغ لٹریچر وغیرہ شائع کریں گے۔ یہ کتنی بیداری اور کتنا جوش ہے جو اِن ممالک میں احمدیت کے لئے نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کے جوش اور اخلاص میں ترقی دے۔ آمین
دوسری سکیم مَیں نے وقف تجارت کی جماعت کے سامنے پیش کی تھی۔ ابھی تک اِس تحریک میں ساٹھ ستّر نوجوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔ میرے نزدیک اس میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان ابھی تک فوجوں سے فارغ نہیں ہوئے ۔ لیکن اس کے باوجود یہ تعداد کم ہے۔ اگر یہاں کے لوگ جو فارغ ہیں وہی اپنے آپ کو پیش کرتے تو یہ تعداد سینکڑوں تک پہنچ جاتی۔ انہیں دینی فائدہ بھی ہوتا اور وہ دنیوی فائدہ بھی اٹھاتے۔
تجارت ایک ایسی چیز ہے جس سے یہ دونوں چیزیں حاصل ہو سکتی ہیں۔ جس جگہ پر لاکھوں لاکھ روپیہ ہمارا سالانہ خرچ ہونا تھا اس کی بجائے ہمیں کئی لاکھ روپیہ اس طرح سے مل جائے گا اور تبلیغ بھی ہوتی رہے گی۔ تجارت کے لئے رستے کُھل رہے ہیں اور دوسرے ممالک کے لوگ ہمیں لکھ رہے ہیں کہ آپ آدمی بھیجیں ہم ان کی ہر قسم کی امداد کریں گے۔ اسی طرح ہندوستان کے متعلق بھی ارادہ ہے کہ تجارت کے ذریعہ تبلیغ کے دائرہ کو وسیع کیا جائے۔ اگرہماری یہ سکیم کامیاب ہو جائے اور انشاء اللہ تعالیٰ ضرور کامیاب ہو گی تو ہمیں مفت میں پانچ ہزار مبلغ مل جائیں گے۔ بجائے اس کے کہ ہم پانچ ہزار مبلغین پر لاکھوں لاکھ روپیہ خرچ کریں۔ ان کے ذریعہ ہمیں لاکھوں روپیہ کی آمد شروع ہو جائے گی۔ فرض کرو فی مبلغ ہمیں سو روپیہ دینا پڑے تو ایک سال کے لئے ہمیں ساٹھ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے۔ حالانکہ بعض شہر ایسے ہیں جہاں ایک سو میں گزارہ نہیں ہو سکتا جیسے بمبئی یا کلکتہ ہے۔ ایسے شہروں میں تین یا چار سو روپیہ ماہوار خرچ دینا پڑے گا۔ لیکن اگر یہی فرض کریں کہ فی مبلغ ایک سو روپیہ ماہوار دیں تو ایک مہینہ کا خرچ پانچ لاکھ روپیہ بنتا ہے اور ایک سال کا خرچ ساٹھ لاکھ روپیہ بنتا ہے۔ لیکن اگر ہمارے پانچ ہزار نوجوان تجارتی اصول پر اپنی زندگیاں وقف کریں تو ہمیں یہ ساٹھ لاکھ روپیہ خرچ کرنے کی بجائے پندرہ یا بیس لاکھ روپیہ سالانہ وہ نوجوان بھجوائیں گے۔ گویا ایک صورت میں ہمیں پندرہ بیس لاکھ روپیہ کی سالانہ آمد ہوتی ہے اور دوسری صورت میں ہمیں ساٹھ لاکھ روپیہ سالانہ کا خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کتنی مفید اور جماعت کی مالی حالت کو درست کرنے والی یہ سکیم ہے۔ لیکن اس سکیم کی طرف جماعت نے ابھی تک پوری توجہ نہیں کی۔
تیسری چیز جس کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ تعلیم ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ جب مَیں کسی چیزکے متعلق تحریک کروں تو اس کے معاً بعد اس چیز کی ضرورت محسوس ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ اب تعلیم کے لحاظ سے اعلیٰ تعلیم والوں کا مطالبہ ہم سے بے انتہاء طور پر شروع ہو گیا ہے۔دو ملک والوں نے لکھا ہے کہ ہمیں بائیس مبلغین دئیے جائیں اور ابھی ان کے علاوہ سترہ اٹھارہ ملک ایسے ہیں جہاں ہمارے مبلغین اب گئے ہیں اور ابھی ان کے مطالبے باقی ہیں۔ اس لحاظ سے ہمیں چار پانچ سو مبلغین کی ضرورت ہے۔ اور یہ علاقے ایسے ہیں جن میں ایسے مبلغین کی ضرورت ہے جو بی۔ اے یا ایم۔ اے ہوں۔ پھر ہمارے محکمے اتنے وسیع ہو گئے ہیں کہ تین سال کے اندر اندر کارکنوں کی تعداد دُگنی ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں بہت سے کارکنوں کی ضرورت ہے۔ تحریک جدید نے ابھی اپنے آپ کو منظّم نہیں کیا۔ وقف زندگی کرنے والے نوجوان اس میں اکثر کام کرتے ہیں۔ اگر ان کو انہی کاموں پر روک رکھا جائے تو بیرونجات کے مبلغین میں کمی آ جائے گی۔ اسی لئے مَیں نے بار بار تعلیم پرزور دیا ہے کیونکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت کو دن بدن تعلیم یافتہ آدمیوں کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ غیرتعلیم یافتہ آدمی باہر نہیں بھیجے جا سکتے۔ نہ ہی ان کے سپرد کوئی ذمہ داری کا کام کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سلسلہ کی بعض اَور سکیمیں جاری ہیں ان کے لئے بھی ہمیں اعلیٰ تعلیم یافتہ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح سلسلہ کے دفاتر کے لئے بہت سے کارکنوں کی ضرورت ہے۔ اور ہمارے بعض دفاتر کے کام اسی لئے پوری طرح نہیں ہو رہے کہ ان میں کارکنوں کی کمی ہے۔ اور نئے آدمی ہمیں اس لئے نہیں مل رہے کہ ہمارے اندر تعلیم کی کمی ہے۔ ہندوؤں کے اندر اس زمانہ میں بھی پندرہ پندرہ بیس بیس روپے کے کلرک مل رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر تعلیم اتنی زیادہ ہے کہ وہ تمام کے تمام عمدہ نوکریاں حاصل نہیں کر سکتے اور جو فارغ رہ جاتے ہیں وہ پندرہ پندرہ بیس بیس روپے کی ملازمت اختیار کر لیتے ہیں۔ ہماری جماعت میں ہندوؤں سے تعلیم نسبتاً کم ہے گو دوسرے مسلمانوں کی نسبت زیادہ ہے اس لئے ہماری ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں میں دوسری قوموں کی نسبت زیادہ بیداری ہے اور ہماری جماعت کے نوجوان دوسری مسلم جماعتوں کے نوجوانوں سے محنتی زیادہ ہیں اس لئے گورنمنٹ کے محکموں میں ان کو عزت مل جاتی ہے۔ جس محکمہ میں ایک احمدی ہو افسر اس کو کہتے ہیں کہ اَور احمدی بلاؤ۔ ایک محکمہ کے افسر نے مجھ سے ذکر کیا کہ مَیں اپنے محکمہ میں احمدیوں کو تلاش کر کر کے رکھتا ہوں حالانکہ مَیں احمدی نہیں ہوں اور نہ ہی احمدیت سے مجھے کوئی دلچسپی ہے لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ احمدی محنتی اور دیانتدار ہوتے ہیں اس لئے مَیں احمدیوں کو دوسروں پر ترجیح دیتا ہوں۔ پس اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں جو احمدیوں کو ان کے محنتی اور دیانتدار ہونے کی وجہ سے بڑی محبت سے ملازم رکھتے ہیں۔ تو کچھ تعلیم یافتہ طبقہ تو ملازمت میں چلا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دوسری قوموں کی نسبت ہماری جماعت میں ملازمت پیشہ لوگ زیادہ ہیں ۔ اور کچھ حصہ ایسا ہے جو تجارت میں لگا ہؤا ہے اور وہ تجارت کو پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ آزاد کام کرنے کے عادی ہیں۔ پس ان دو چیزوں کی وجہ سے ہمیں تعلیم یافتہ آدمی کم ملتے ہیں۔ یعنی ایک تو ملازمت اور دوسرے تجارت یا صنعت و حرفت۔ ان دونوں سے جو بچتے ہیں وہ اتنے تھوڑے رہ جاتے ہیں کہ سلسلہ کی ضرورت ان سے پوری نہیں ہوتی۔ اور ہماری جماعت میں ابھی تعلیم کی اتنی کمی ہے کہ جب کسی علاقہ سے کسی واقف کو قادیان میں باہر بھیجنے کے لئے بلایا جاتا ہے تو علاقے کا علاقہ شور مچانا شروع کر دیتا ہے کہ آپ یہیں اس کو وقف سمجھ لیں۔ اس کے علاوہ کوئی شخص اس علاقہ میں کام کرنے والا نہیں ہے۔ اگر ہماری جماعت میں تعلیم زیادہ ہو تو یہ دقتیں پیش نہ آئیں۔ اگر ہماری جماعت میں زیادہ مولوی فاضل ہوں تو ہماری مشکلات بہت حد تک دور ہو سکتی ہیں۔ اب تو جامعہ احمدیہ میں طلباء کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ لیکن پھر بھی ایک طرف سارے پنجاب کے مولوی فاضل ہوں اور دوسری طرف ہمارے۔ تو پھر بھی ہمارے مولوی فاضل ان سے کئی گُنا زیادہ ہوں گے۔ لیکن باوجود اس کے پھر بھی ہمارے کاموں کے لئے کم ہیں۔ آجکل آٹھ نو طالب علم مولوی فاضل کا امتحان دیتے ہیں لیکن غیر احمدی امتحان دینے والے جو پہلے کم ہوتے تھے اب بڑھ گئے ہیں۔ اسی لئے مَیں نے دوبارہ تحریک کی ہے کہ دوستوں کو اپنے بچوں کو اعلیٰ دینی تعلیم دلانے کے لئے انہیں مدرسہ احمدیہ میں داخل کرانا چاہئے۔ اس پر تیس پینتیس لڑکے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ جن میں سے کچھ داخل ہونے کے بعد کِھسکنے شروع ہو گئے لیکن پھر بھی پچیس چھبیس باقی ہیں۔ لیکن ان پچیس سے ہمارا کام نہیں بنتا،پچاس سے بھی کام نہیں بنتا، سَو سے بھی کام نہیں بنتا بلکہ ہمیں ہزاروں آدمیوں کی ضرورت ہے۔ مَیں نے اس سے پیشتر جماعت کو بتایا تھا کہ اگر سو لڑکا ہر سال جامعہ احمدیہ سے تحصیل ِعلم کے بعد فارغ ہو تو دس سال میں جا کر ہم ہزار مبلغ تیار کر سکتے ہیں لیکن اگر ہر سال بمشکل پچیس طلباء جامعہ سے فارغ ہوں تو اس لحاظ سے تو ہم دنیا کی مانگ کو کسی صورت میں پورا کر ہی نہیں سکتے۔ اب دنیا کے چاروں طرف سے مبلغین کی مانگ آنے والی ہے اور مبلغین کا کام بہت وسیع ہونے والا ہے۔ ابھی ابھی ایک جگہ سے دس مبلغین کی اور دوسری جگہ سے بارہ مبلغین کی مانگ آئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو اس سےز یادہ کی ضرورت ہے کیونکہ مانگنے والا ڈرتا ہے کہ کہیں زیادہ مطالبہ سے کام نہ بگڑ جائے۔ بے شک انہوں نے اس وقت بارہ مبلغوں کا مطالبہ کیا ہے لیکن جب ہم ان کو بارہ مبلغ دے دیں گے تو وہ کہیں گے اصل بات یہ ہے کہ اگر آپ چوبیس مبلغ دے دیں تو پھر کام ہو جائے گا۔ جب چوبیس مبلغ دے دئیے جائیں گے تو پھر کہیں گے کہ ٹھیک اندازہ نہیں ہو سکا اور اندازہ کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔ اگر آپ چھتیس مبلغ ہمیں دے دیں تو کام ہو جائے گا۔ جب ان کو چھتیس مبلغ دے دئیے جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم سے غلطی ہو گئی تھی۔ اصل میں سَو مبلغوں کی ضرورت ہے اگر آپ سَومبلغ دے دیں تو پھر یہ کام ضرور ہو جائے گا۔ آخر ملکوں میں تغیر پیدا کرنا اور ان کے مذہب کو بدلنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لئے بہت بڑی جد و جہد اور بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور غیر ممالک کی جماعتوں کا تو ہمیں یہ بھی فائدہ ہے کہ وہ تبلیغ کا خرچ خود اٹھاتی ہیں اور ہم پر بار نہیں بنتیں اور بعض ملک مبلغین کا کرایہ وغیرہ بھی خود برداشت کرتے ہیں۔ ہمارا کام صرف ایسے آدمی بھیجنا ہوتا ہے جو وہاں جا کر کام کریں۔ شام، فلسطین اور مصر سے جو آمد ہوتی ہے وہ ہماری اس رقم سے جو ہم ان کے لئے خرچ کرتے ہیں کم نہیں ہوتی اور ہمیں کچھ اپنے پاس سے ادا نہیں کرنا پڑتا۔ گویا وہ حقیقت میں آپ ہی اپنی رقم خرچ کرتے ہیں۔ پس اس وقت ایسے تعلیمیافتہ آدمیوں کی ضرورت ہے جو غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے بھیجے جا سکیں۔ جیسا کہ مَیں نے تحریک جدید کے شروع میں کہا تھا کہ اس کے کاموں کو چلانے کے لئے بہت سے آدمیوں کی ضرورت ہو گی۔ روپیہ پیدا کرنے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے،تبلیغ کرنے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے، صنعت و حرفت کرنے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے، تجارت کے کاموں کو چلانے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے۔ پس آج آدمیوں کی ہمیں سخت ضرورت ہے لیکن ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو مخلص اور تعلیم یافتہ ہوں۔ تعلیم کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے نزدیک سکولوں اور کالجوں میں لڑکوں کی تعداد آٹھ دس گنے بڑھ جانی چاہئے تھی۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے سکول نے پہلے سے ترقی کی ہے۔ آج سے چھ سات سال پہلے ہمارے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں چھ سات سو کے قریب طالب علم تھے اور اب اس میں سولہ سو سے کچھ اوپر طالب علم ہے لیکن درحقیقت جماعت کی ضرورتوں کے مطابق یہ ترقی کچھ بھی ترقی نہیں ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت افسوس ہؤا کہ ہمارے کالج میں جو احمدی لڑکے داخل ہوئے ہیں ان میں اکثر ایسے ہیں جو تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوئے ہیں۔ کل کو احمدی والدین کالج کے پروفیسروں پر الزام لگائیں گے کہ انہوں نے ہمارے بچوں کو کچھ پڑھایا نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے لڑکے خود تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوئے ہیں۔ اس نکھد3 ڈویژن کے پاس شدہ لڑکوں کے فیل ہونے پر پروفیسروں پر کیا الزام آ سکتا ہے۔ مَیں نے جماعت کے دوستوں کو بار بار توجہ دلائی ہے کہ والدین کو بچپن میں بچوں کی پوری نگرانی کرنی چاہئے۔ جو والدین بچوں کی نگرانی نہیں کرتے اور ان کی تعلیم کی فکر نہیں کرتے وہ قتلِ اولاد نہیں کرتے تو اَور کیا کرتے ہیں۔ یہ قتلِ اولاد نہیں تو اَور کیا ہے کہ انسان بچوں کی محبت کی وجہ سے ان کو تعلیم سے غافل رکھے۔ صرف کامیابی ہی مقصود نہیں ہوتی، جنت میں جانے والا انسان ادنیٰ درجہ میں جائے تو اس پر اسے خوش ہونا نہیں چاہئے۔ جو بچوں کی روحانی تربیت مکمل نہیں کرتے ان کی اولاد جنت میں گئی تو ادنیٰ درجہ کی جنت میں جائے گی۔اور جو تعلیم میں غفلت کرتے ہیں ان کی اولاد کے لئے دنیاوی جنت میں سوائے چپڑاسیوں کی جنت کے اَور کوئی جگہ نہیں ہے۔ پس ایسے لوگوں کے لئے نہ دنیا میں عزت ہے اور نہ آخرت میں۔
ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے درس کےد وران میں بیان فرمایا کہ دوزخ عارضی چیز ہے اور کچھ مدت کے بعد دوزخیوں کو دوزخ سے نکال لیا جائے گا اور انہیں اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کر دے گا۔ (جیسا کہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے) ایک امیر آدمی بھی اس درس میں شامل تھا کہنے لگا مولوی صاحب! جَزَاکَ اللہ۔ پہلے اس بات کا علم نہ تھا اور ڈر رہتا تھا کہ ہمیشہ کی دوزخ میں پڑیں گے۔ اب یہ بات سن کر سر سے بوجھ اُتر گیا ہے کہ آخر تو سب جنت میں اکٹھے ہو جائیں گے۔ اس پر حضرت خلیفۂ اول نے فرمایا کہ مَیں تمہیں پچیس روپے دیتا ہوں تم باہر نکل کر پانچ جوتیاں کھا لو۔ اس پر وہ بہت سٹ پٹایا اور کہنے لگا مولوی صاحب! شرم کی بات ہے، آپ نے غصہ ہو کر ان طالب علموں میں میری بے عزتی کر دی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہیں ان طالب علموں کے سامنے اتنی بات پر اعتراض ہے تو جہاں تمہارے باپ دادے، پڑدادے سب جمع ہوں گے اور دوزخ میں تمہیں سب کے سامنے پچاس ہزار سال تک جوتیاں پڑیں گی کہ تم دوزخ کے عارضی ہونے پر خوش ہو گئے ہو وہاں تمہیں شرم نہ آئے گی؟ لیکن ہمارے لوگ کہتے ہیں شکر ہے لڑکا پاس تو ہو گیا ہے۔ ان کو یہ علم نہیں کہ جوں جوں تعلیم آگے چلتی ہے مشکل ہوتی چلی جاتی ہے۔ سکولوں کا نتیجہ عام طور پر ستّر یا پچھتر فیصدی ہوتا ہے لیکن کالج میں جا کر وہی نتیجہ پینتالیس فیصدی ہو جاتا ہے حالانکہ کالج میں پڑھنے والے تو وہی طلباء ہوتے ہیں جو ان سکولوں سے جاتے ہیں۔ جہاں ان کا نتیجہ ستّر یا پچھتر فیصدی ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ طالب علم کالج میں جا کر کُند ذہن ہو جاتے ہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ معیارِ تعلیم بلند ہو جاتا ہے۔ پس جو لڑکا پہلے ہی سکول میں تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونے کا عادی ہو وہ کالج میں جا کر کیا ترقی حاصل کر سکتا ہے۔ ایف۔ اے اور بی۔ اے میں تو پھر بھی بعض لڑکے فرسٹ ڈویژن حاصل کرتے ہیں لیکن ایم۔ اے میں جا کر فرسٹ ڈویژن حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بعض یونیورسٹیاں ایسی ہیں کہ جن میں آج تک کوئی طالب علم ایم اے کا فرسٹ ڈویژن میں پاس نہیں ہؤا۔ ہمارا ایک احمدی لڑکا ہے اس نے انٹرنس (Intrance) میں ریکارڈ قائم کیا ہے۔ ایف اے میں بھی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ بی۔ اے میں بھی ریکارڈ قائم کیا۔ سنا گیا ہے کہ جب وہ لڑکا ایم۔ اے میں آیا تو ہندو پروفیسروں نے غصے سے اسے کہا کہ دیکھو! ہم تمہاری خبر لیں گے۔وہ اب شاید کوئی الزام لگا کر خبر لیں گے۔ لیکن اس سال خبر آئی ہے کہ ایک ہندو لڑکے کو انہوں نے سو فیصدی نمبر دئیے ہیں تاکہ آئندہ کوئی لڑکا یہ نہ کہہ سکے کہ اس نے ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اگر سو فیصدی نمبر بھی حاصل کر لے گا تو اتنے نمبر لینے والا ایک لڑکا پہلے موجود ہو گا۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس طرح انہوں نے اس احمدی لڑکے کا رستہ بند کر دیا ہے۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ جوں جوں طالب علم کالج کی اوپر کی کلاسوں میں جاتا ہے تعلیم سخت ہوتی جاتی ہے۔ اگر انٹرنس سے ہی طلباء تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوں تو وہ ایف۔ اے میں جا کر فیل ہو جائیں گے۔ اور اگر کچھ طالب علم پاس بھی ہو جائیں تو وہ بی۔ اے میں جا کر فیل ہو جائیں گے۔ وہ شخص جو اپنے لڑکے کے تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونے پر خوش ہوتا ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے گنّا چِھیلیں تو رَس تو ہمارا دشمن لے جائے اور چھلکا ہم لے آئیں۔ جس کا کچھ حصہ ہم جلا دیں اور کچھ حصہ سے پچھی 4وغیرہ بنا لیں۔ تم خود ہی بتاؤ کہ کون فائدہ میں رہا۔ ہم یا ہمارا دشمن؟ ہم دشمن کا مقابلہ اسی صورت میں کر سکتے ہیں جبکہ ہم اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیں۔ خالی تھرڈ ڈویژن میں کسی بچے کا پاس ہو جانا کوئی خوشی کی بات نہیں بلکہ اس بات پر خوش ہونا بھی بہت شرم کی بات ہے۔ تعلیم کی کمی کی ذمہ داری صرف والدین اور جماعت پر ہی نہیں بلکہ سکول والوں پر بھی ہے کیونکہ لڑکے دن کا اکثر حصہ سکول میں گزارتے ہیں۔ سکول والے کیوں ان کی نگرانی نہیں کرتے اور کیوں ان کو محنت سے کام کرنے کی تاکید نہیں کرتے؟ والدین تو ان اوقات میں اپنے بچوں کی نگرانی نہیں کر سکتے۔ پس میرے نزدیک بہت حد تک اس معاملہ میں سکول پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس نے کیوں نگرانی نہیں کی۔ بلکہ مَیں سمجھتا ہوں کہ ننانوے فیصدی ذمہ داری اس کی اساتذہ پر ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے سکول کے طالب علم نکمے ہوتے ہیں لیکن آریہ سکولوں کے طالب علم ہوشیار ہوتے ہیں۔ کیااحمدی گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے نَعُوْذُ بِاللہ ان پر نحوست چھا جاتی ہے؟ کیا احمدی گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے ان کا دماغ خراب ہو جاتا ہے؟ مَیں اس بات کو کبھی مان نہیں سکتا کہ بچوں کےدماغ اچھے نہیں بلکہ مَیں کہتا ہوں تمہاری دس سال کی پڑھائی نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ جب وہ لڑکا قادیان میں رہتا ہے، اس کے والدین بھی قادیان میں رہتے ہیں تو جب وہ لڑکا سکول سے غیر حاضر ہوتا ہے استاد کیوں سو رہتے ہیں؟ کیوں اس کے والدین کو نہیں کہتے کہ تمہارے لڑکے میں فلاں خرابی ہے اس کو دور کرو۔ کیوں استادوں پر افیون کھانے والے کی سی حالت طاری رہتی ہے؟ اور کیوں نہیں وہ پانچویں چھٹے دن بولتے کہ ان لڑکوں میں یہ خرابی ہے؟ اور کیوں مقامی لڑکوں کے والدین کے سامنے اس بات کا ذکر نہیں کرتے؟ اور جو لڑکے بورڈر ہیں ان کے تو وہ خود ذمہ دار ہیں۔ ان کے والدین نےانہیں ان کے سپرد کیا ہے وہ ان کی تعلیم اور ان کے اخلاق کے ذمہ دار ہیں۔ پس بورڈروں کے لئے ان کے پاس کیا بہانہ ہے؟ کیونکہ وہ تو چوبیس گھنٹے انہی کے پاس رہتے ہیں۔ ایسے بہانے کرنے سے تو بہتر ہے کہ زمین پھٹ جائے اور یہ بہانے کرنے والے اس میں سما جائیں۔ اگر بے حیائی سے کام لیا جائے تو اَور بات ہے لیکن اگر یہ استاد لڑکوں کی نگرانی کرنا چاہتے تو کیا وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے ؟ اور جو لڑکے باوجود ان کےسمجھانے کے اپنی اصلاح نہ کرتے وہ ان کے والدین سے کہتے اگر وہ بھی اصلاح کے لئے کوشش نہ کرتے تو مقامی انجمن سے کہتے۔ بار بار جلسے کرتے اور ان کے والدین کو توجہ دلاتے۔
ہٹلر نے دس سال میں اپنی قوم کے خیالات بدل ڈالے اور ان میں ایک ایسی روح بھر دی کہ وہ اس کے لئے جان پر کھیلنے کو تیار ہو گئے۔ ہر ایک بات کا انتظام خلیفہ یا انجمن کرے یہ نہیں ہو سکتا۔ آخر یہ اساتذہ کس مرض کی دوا ہیں؟ ان کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ دو پوستی ایک بیری کےد رخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے پاس سے ایک سپاہی گزرا تو ان میں سے ایک نے اس سپاہی کو آواز دی۔ میاں سپاہی! خدا کے واسطے میری بات سننا۔ سپاہی سمجھا کہ کوئی بے چارہ مصیبت میں مبتلا ہو گا۔ جب وہاں گیا تو دیکھا کہ دو آدمی وہاں لیٹے ہوئے ہیں۔ سپاہی نے ان سے پوچھا کیوں بھئی! تم نے مجھے کس لئے بلایا ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا۔ میاں سپاہی! تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ یہ بیر جو میری چھاتی پر پڑا ہے ذرا تکلیف کر کے میرے منہ میں ڈال دینا۔ سپاہی کو بہت غصہ آیا۔ ایک تو بات ہی غیر معقول تھی اوردوسرے وہ تھا بھی سپاہی۔ اس نے اسے گالیاں دینی شروع کیں۔ خبیث، بدمعاش، تُو نے مجھے سو گز سے بلایا۔ کمبخت! تیرے ہاتھ موجود نہیں کہ تُو چھاتی سے بیر اٹھاکر منہ میں ڈال لے۔ اس کا ساتھی بولا میاں سپاہی! یہ ایسا کمبخت ہے کہ اس کی بات کچھ نہ پوچھو ساری رات کُتّا میرا منہ چاٹتا رہا ہے اس نے ہشت تک نہیں کی۔ یہی حال ہمارے ان اساتذہ کا ہے۔ ہر کام میں کہتے ہیں کہ انجمن کچھ نہیں کرتی، خلیفہ ہماری مدد نہیں کرتا۔ ان سے کوئی پوچھے کہ پڑھانا تم نے ہے یا ہم نے؟ کیا ہمارے پاس کوئی اور کام نہیں ہےہم اپنے محکموں میں کام کریں یا تمہارا کام کریں؟ یہ تمہارا فرض تھا کہ اگر لڑکے کام نہیں کرتے تھے تو تم ان کے ماں باپ کو بلاتے اور ان کو ان کے حالات سے آگاہ کرتے۔ محلّوں میں جلسے کرتے اور ان کو اس کی طرف متوجہ کرتے۔ آخر محبت اور پیار کے ساتھ ہزاروں باتیں ہو جاتی ہیں پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ تم ان کو محبت اور پیار سے بار بار کہتے، ان کے والدین کو توجہ دلاتے تو وہ لڑکے سُدھر نہ جاتے۔ اگر بفرضِ محال بار بار توجہ دلانے کے بعد بھی کچھ رہ جاتے جو اس طرف متوجہ نہ ہوتے تو پھر تم ان کو قواعد کے مطابق سزائیں دیتے۔ یہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ آرام سے بیٹھے رہیں اور ان کا کام کوئی اَور کر دے۔ پس میرے نزدیک اس کی کُلّی طور پر ذمہ داری سکول کے عملہ پر ہے اور کالج کے لڑکوں کی ذمہ داری کالج کے عملہ پر ہے۔ اگر سکول یا کالج کا نتیجہ خراب ہو اور کالج یا سکول کا عملہ اس پر عُذر کرے تو مَیں تو کہوں گا یہ منافقانہ بات ہے۔ اگر لڑکے ہوشیار نہیں تھے ، اگر لڑکے محنت نہ کرتے تھے اور اگر لڑکے پڑھائی کی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے تو ان کا کام تھا کہ وہ ایک ایک کے پاس جاتے اور ان کی اصلاح کرتے۔ اگر وہ متوجہ نہ ہوتے تو ان کے والدین کو اس طرف متوجہ کرتے اور ان کو مجبور کرتے کہ وہ تعلیم کو اچھی طرح حاصل کریں۔
ہماری جماعت کے لئے اعلیٰ تعلیم کا حصول اب نہایت ضروری ہے۔ اگر ہم میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ ہوں گے تو ساری سکیم فیل ہو جائے گی کیونکہ کام پر کام نکل رہے ہیں جس کی وجہ سے مانگ پر مانگ آ رہی ہے۔ صنعت و حرفت کا محکمہ ہے۔ اس کے ماتحت محکمہ والے نئی نئی سکیمیں بنا کر لاتے ہیں۔ مَیں کہتا ہوں اس کے لئے آدمی لاؤ مگر چونکہ آدمی نہیں ہوتے اس لئے سکیم رہ جاتی ہے۔ اگر پچاس سکیموں کے چلانے کا اس وقت موقع ہوتا ہے تو آدمیوں کی قلت کی وجہ سے بمشکل ایک یا دو سکیمیں چلتی ہیں اور اس طرح ایک دن کا کام بیس پچیس دن میں ہوتا ہے۔ پس ہمیں آدمیوں کی ضرورت ہے اور آدمیوں کی ضرورت کا ایک حصہ ماں باپ پورا کر سکتے ہیں اور دوسرا حصہ سکول اور کالج کے لوگ پورا کر سکتے ہیں۔ جامعہ احمدیہ، مدرسہ احمدیہ اور دوسرے باہر کے احمدیہ مدارس اس حصہ کو پورا کر سکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ صحیح رنگ میں کوشش کریں اور اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ اگر آدمی نہ ملے تو لڑائی کس طرح لڑی جا سکتی ہے۔ آخر یہ تو بات نہیں کہ پھونکیں مارنے سے کام ہو جائے گا۔ ہماری جماعت کی موجودہ حالت میں آدمیوں کے نہ ملنے کی وجہ سے ویسی ہی مثال ہے جیسے بخارا میں مولویوں نے کیا۔ جب روس نے بخارا پر حملہ کیا تو مولویوں نے یہ فتویٰ دے دیا کہ آگ سے عذاب دینا منع ہے اور چونکہ توپوں میں آگ استعمال ہوتی ہے اور بندوقوں میں بھی۔ اس لئے جو شخص توپ اور بندوق استعمال کرے گا وہ کافر ہو جائے گا۔ اس وجہ سے بخارا والوں نے ان کے مقابل پر توپیں اور بندوقیں نہ بنائیں۔ جب روس نے حملہ کر دیا تو چونکہ بخارا والے توپیں اور بندوقیں نہیں چلا سکتے تھے اس لئے وہ تلواریں اور نیزے لے کر میدانِ جنگ میں ان کے مقابل پر آئے۔ ان کے میدانِ جنگ میں آنے پر توپچیوں نے گولے برسانے شروع کر دئیے۔ بھلا توپ کے آگے تلوار کا کیا کام۔ دو تین گولوں سے ہی کئی آدمی مارے گئے اور باقی سب ڈر کر بھاگ آئے اور انہوں نے علماء کو کہا کہ وہ تو قابو نہیں آتے، بہت سخت ہیں۔ علماء نے کہا اچھا ہم وہ آلے لے کر جن سے بکریوں کے لئے پتے جھاڑے جاتے ہیں جائیں گے اور کافروں کے پاؤں میں ڈال ڈال کر ان کو کھینچیں گے۔ چنانچہ وہ گئے اور انہوں نے قرآن کریم کی آیتیں پڑھ پڑھ کر ان کی طرف پھونکیں مارنی شروع کر دیں۔ ابھی دو چار گولے ہی پڑےتھے کہ مولوی بھاگ نکلے اور میدان صاف ہو گیا۔ واپس آ کر کہنے لگے کہ بہت خبیث شیطان معلوم ہوتے ہیں جن پر قرآن بھی اثر نہیں کرتا۔ ہماری جماعت کو ہر ایک عقلمند تسلیم کرتا ہے اور سب کو یہ اعتراف ہے کہ یہ عقلمندوں کی جماعت ہے۔ پھر بھی عقل و شعور رکھتے ہوئے معلوم نہیں کیوں جماعت ان مولویوں کی طرح اپنی جہالت کا ثبوت مہیا کر رہی ہے۔ آخر جماعت کو عقلمندی سے کام لینا چاہئے۔ جہاں روپے کی ضرورت ہے وہاں ہماری جماعت کو روپیہ دینا پڑے گا، جہاں آدمیوں کی ضرورت ہے وہاں ہماری جماعت کو آدمی پیدا کرنے ہوں گے۔ روس کو دیکھو۔ انہیں آدمیوں کی ضرورت تھی۔ جنگ سے پہلے روس کی آبادی سترہ کروڑ تھی۔ اڑھائی کروڑ کی آبادی انہوں نے ‘‘لبھی چیز خدا دی نہ دھیلے دی نہ پا دی’’ کے مقولہ کے مطابق مختلف علاقوں پر قبضہ کر کے بڑھالی۔ یہ بیس کروڑ ہو گئے۔ جنگ میں اس کے ایک کروڑ کے قریب لوگ مر گئے لیکن پانچ کروڑ کی نئی نسل انہوں نے پیدا کر لی ہے اور اب روس کی آبادی کا اندازہ 24، 25 کروڑ کا ہے۔ گویا ایک کروڑ آدمی کے مرنے کے باوجود بھی انہوں نے اپنے ملک کی آبادی بڑھا لی ہے۔ یہ زندہ قوموں کی علامت ہے۔ بعض لوگ یہ کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ بچے ہوں تو خرچ کس طرح چلے گا اس لئے نسل کم کی جائے لیکن زندہ قومیں اس کی پروا نہیں کرتیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں آدمیوں کی ضرورت ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کمی کو پورا کریں۔ اسی طرح اگر تعلیم یافتہ آدمیوں کی ضرورت ہو تو پھر وہ اس کمی کو پورا کرتی ہیں۔ اگر تجارت اور صنعت و حرفت کی ضرورت ہو تو اس طرف متوجہ ہو جاتی ہیں۔ غرض جس چیز کی بھی ضرورت ہو زندہ قومیں فوراً اس طرف متوجہ ہو کر اس کمی کو پورا کر لیتی ہیں۔ اور درحقیقت بیداری کے معنے یہی ہیں کہ جہاں کہیں سوراخ ہو اس کو بند کر دیا جائے۔ مگر یہاں یہ حالت ہے کہ استاد کہتے ہیں ، والدین اس طرف متوجہ نہیں ہوتے اور والدین کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے لڑکے ان کو سونپ دئیے ہیں اب ان کا فرض ہے کہ وہ ان کی اصلاح کریں۔ اور والدین کا یہ کہنا ایک حد تک صحیح بھی ہےکیونکہ انہوں نے اپنی اولاد ان کے سپرد کر دی ہے۔ اب استادوں کا کام ہے کہ ان کی طرف متوجہ ہوں اور ان کی اصلاح کریں۔ اگر ان کی اصلاح نہیں ہوئی اور اگر وہ اپنا کام صحیح طور پر نہیں کرتےاور نالائق ثابت ہوتے ہیں تو یہ ان اساتذہ کی نالائقی کا ثبوت ہو گا۔ اساتذہ کو تو چاہئے تھا کہ وہ لڑکوں اور ان کے والدین کو بار بار سمجھاتے۔ کبھی کسی محلے میں جلسے کرتے اور کبھی کسی محلہ میں۔ جس محلہ میں جلسہ کرتے اس محلہ کے طالب علموں کے والدین کوبلاتے اور انہیں بتلاتے کہ آپ کا لڑکا اتنےدن سکول سے غیر حاضر رہا ہے۔ اس میں یہ یہ کمزوری اور خامی ہے۔ اس طرح والدین کو بھی ان کی کمزوری اور خامی کا علم ہوتا ۔ اگر تم اس طرح نہیں کرتے تو والدین کو کیا پتہ کہ وہ روزانہ سکول کا کام کرتا ہے یا نہیں۔ یا جو کام اس کو سکول سے ملا ہے اس نے کیا ہے یا نہیں۔ اگر والدین کو ان کی ان خامیوں کا علم ہو تو وہ پھر اس کی طرف متوجہ ہوں گے۔ شروع میں شاید نہ بھی ہوں لیکن تم انہیں اس بات پر مجبور کردو کہ یا تو ہمیں اجازت دو کہ ہم مار پیٹ کر ان کی اصلاح کریں اور یا پھر خود ان کو باقاعدہ بناؤ۔ اس طرح یقیناً لڑکے سُدھر جائیں گے۔
دیکھو! جب چندے کی تحریک شروع ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اسے ایک پیسہ سے شروع کیا تھا مگر اب کم ہی ایسے ہوں گے جو چندہ نہ دیتے ہوں یا جو چندوں میں سُستی کرتے ہوں ورنہ اکثریت ہماری جماعت میں ایسے ہی لوگوں کی ہے جو دو آنے فی روپیہ یا تین آنے فی روپیہ یا چار آنے فی روپیہ بلکہ پانچ آنے فی روپیہ تک چندہ دے دیتے ہیں۔(یعنی چندہ عام اور دوسرے چندے تحریک جدید وغیرہ کے ملا کر) یہ سب ترقی آہستہ آہستہ ہوئی ہے۔ مَیں مانتا ہوں کہ یکدم کوئی تغیر نہیں ہو سکتا لیکن یہ تمہارا کام تھا کہ تم جلسے کرتے، والدین کو توجہ دلاتے، بار بار محلوں میں جاتے اور لوگوں کو بتاتے کہ ہمارے سکول کا نتیجہ خراب ہوتا ہے،ہمیں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے آپ لوگ کیوں اپنے بچوں کی نگرانی نہیں کرتے ؟ کیوں ان کی پڑھائی کی طرف توجہ نہیں رکھتے؟ کیوں وہ آوارگی کی طرف مائل رہتے ہیں؟ یا تو آپ اس کا انتظام کریں یا ہمیں سزا کی اجازت دیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو اساتذہ کے لئے کوئی نہ کوئی رستہ ضرور نکل آئے گا یا تو والدین اس کی خود اصلاح کریں گے یا ان کو سزا کی اجازت دے دیں گے۔ لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ ہمیں تعلم یافتہ آدمیوں کی ضرورت ہے سکول والے ہمارے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے عدمِ تعاون کررہے ہیں اور ہماری امداد کرنے کی بجائے انہوں نے سٹرائیک کی ہوئی ہے۔ جو نکمے اور نکھد لڑکے ہوتے ہیں وہ ہمیں دیتے ہیں۔ نہ وہ تعلیمی لحاظ سے اچھے ہوتے ہیں، نہ ان کو محنت کی عادت ہوتی ہے۔ جب ان کو کسی کام پر لگایا جاتا ہے تو وہ بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ معاہدے پر دستخط کرتے ہیں پیاسا رہوں گا، ایک پیسہ تک سلسلہ سے نہ لوں گا، جنگلوں میں جاؤں گا، پہاڑوں میں جاؤں گا، جہاں جانا پڑے مجھے کوئی عذر نہ ہوگا، اپنی جان و مال اور عزت کی قربانی کروں گا۔ لیکن جب اس کو کسی جگہ مقرر کیا جاتا ہے تو وہاں سے بھاگ جاتا ہے اور ساتھ ہی خط بھی لکھ دیتا ہے کہ چالیس روپے میں گزارہ نہیں ہو سکتا تھا اس لئے مَیں اس کام کو چھوڑنے پر مجبور ہوں۔ مجھے معاف کیا جائے اور مجھے واقفین میں ہی سمجھا جائے۔ کُجا وہ وعدہ جو اس نے ہمارے ساتھ کیا تھا اور کُجا اس کا یہ فعل۔ ایک واقف نے لکھا کہ مَیں اداس ہو گیا تھا اور وہاں میرا دل نہیں لگتا تھا اس لئے مَیں وہاں سے گھر آ گیا ہوں مجھے معاف کیا جائے۔ امید ہے کہ میرے وقف کو توڑا نہیں جائے گا۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ ایسے شخص کا وقف کس طرح قائم رہ سکتا ہے۔ میدان سے بھاگ کر اپنے ماں باپ کی بغل میں بیٹھا رہے یا بیوی کے پاس وقت گزارے اور اس کا وقف بھی قائم رہے یہ تو عقل کے بالکل خلاف ہے۔ ہر واقف مجاہد ہے اور مجاہد پر اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی ذمہ داریاں ڈالی ہوئی ہیں۔ ان کو پورا کرنے والا ہی مجاہد کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔ میرے نزدیک نوجوانوں میں محنت سے کام نہ کرنے کی عادت کی ذمہ داری استادوں اور والدین پر عائد ہوتی ہے کہ کیوں انہوں نے بچوں کو محنت اور مشقت کا عادی نہیں بنایا۔
ہمارا مقابلہ تو اُن قوموں سے ہے جن کے نوجوانوں نے چالیس پچاس سال تک شادی نہیں کی اور اپنی عمریں لیبارٹریوں میں گزار دیں اور کام کرتے کرتے میز پر ہی مر گئے اور جاتے ہوئے بعض نہایت مفید ایجادیں اپنی قوم کو دے گئے۔ مقابلہ تو ایسے لوگوں سے ہے کہ جن کے پاس گولہ بارود اور دوسرے لڑائی کے ہتھیار نہ رہے تو انہوں نے امریکہ سے ردّی شدہ بندوقیں منگوائیں اور انہی سے اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔ انگلستان والوں نے کہا کہ بے شک جرمن آ جائے ہم اس سے سمندر میں لڑیں گے۔ اگر سمندر میں لڑنے کے قابل نہ رہے تو پھر اس سے سمندر کے کناروں پر لڑیں گے۔ اور اگر سمندر کے کناروں پر لڑنے کے قابل نہ رہے تو ہم اس سے شہروں کی گلیوں میں لڑیں گے اور اگر گلیوں میں لڑنے کے قابل نہ رہے توہم گھروں کے دروازوں تک مقابلہ کریں گے اور اگر پھر بھی مقابلہ نہ کر سکے تو کشتیوں میں بیٹھ کر امریکہ چلے جائیں گے۔ مگر اس سے جنگ کرنا ترک نہیں کریں گے۔ ہمارا مقابلہ تو ایسے لوگوں سے ہے اور ہمیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسے نوجوان دئیے جاتے ہیں جو کہتے تو یہ ہیں کہ ہم بھوکے رہیں گے، کہتے تو یہ ہیں کہ ہم جنگلوں اور پہاڑوں اور ویرانوں میں جائیں گے، کہتے تو یہ ہیں کہ ہم وطن سے بے وطن ہوں گے، کہتے تو یہ ہیں کہ ہم اپنی ہر ایک عزیز چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار رہیں گے لیکن جب ان کو کام پر لگایا جاتا ہے تو کوئی کہہ دیتاہے کہ میرا چالیس روپے میں گزارہ نہیں ہو سکتا تھا اس لئے بھاگ آیا ہوں، کوئی کہہ دیتا ہے کہ میرا وہاں دل نہیں لگتا تھا اس لئے مَیں کام چھوڑنے پر مجبور ہؤا۔ اور ساتھ ہی لکھ دیتا ہے کہ سلسلہ میرے اس فعل پر بُرا نہ منائے اور میرا وقف قائم رکھا جائے ۔ جاتا تو وہ اپنے ماں باپ یا بیوی کی معیت میں وقت گزارنے کے لئے ہے کیونکہ وہ اداس ہو گیا تھا لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا ہے کہ میرا وقف قائم رکھا جائے۔ ایسے نوجوان ہیں جو ہمیں دئیے جاتے ہیں۔ ان سے کسی نے کام کیا لینا ہے ۔ ہمیں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے کہ جہاں ان کو کھڑا کیا جائے وہ وہاں سے ایک قدم بھی نہ ہلیں سوائے اس کے کہ ان کی لاش ایک فٹ ہماری طرف گرے تو گرے لیکن زندہ انسان کا قدم ایک فٹ آگے پڑے پیچھے نہ آئے۔ ہمیں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو قوموں کی بنیاد کا کام دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ کے متعلق فرماتا ہے کہ ان میں سے ہر آدمی کفن بر دوش ہےمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ5 کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے اسلام کی راہ میں اپنی جانیں دے دی ہیں اور کچھ انتظار کر رہے ہیں۔ یہ وقف ہے جو دنیا میں تغیر پیدا کیا کرتا ہے۔
پس اساتذہ اور والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کی پورے طور پر نگرانی کریں اور انہیں محنت کا عادی بنائیں۔ نماز، روزہ اور دیگر اسلامی احکام کا ان کو پابند کریں۔ دین کے کاموں کے متعلق ان کے اندر دلچسپی پیدا کریں۔ اساتذہ طالب علموں کے ماں باپ کو انگیخت کریں کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کا پورا پورا خیال رکھیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مائیں ہی اپنے بچوں کے آئندہ اچھے یا بُرے مستقبل کی ذمہ دار ہوتی ہیں کیونکہ بچہ اکثر اخلاق چھوٹی عمر میں سیکھتا ہے۔ اگر مائیں کڑی نگرانی کریں اور ان کے اندر کوئی بری عادت پیدا نہ ہونے دیں تو وہ بڑے ہو کر بہت حد تک بری عادات سے محفوظ رہتے ہیں۔ لیکن اگر بچپن میں ہی بچے کو چوری کی یا جھوٹ بولنے کی یا کوئی اَور بری عادت پڑ جائے اور والدین پیار کی وجہ سے اسے اس عادت سے باز نہ رکھیں تو وہ بڑا ہو کر اس عادت کو نہیں چھوڑ سکتا۔ ہمارے ملک میں مشہور ہے کہتے ہیں کہ کوئی ماں تھی اس کا لڑکا چور ہو گیا۔ پھر چور سے ڈاکو بنا۔ ایک دفعہ ڈاکہ میں اس سے قتل ہو گیا۔ اس قتل کی وجہ سے اسے پھانسی کی سزا ملی۔ جب اسے پھانسی دینے لگے تو اس نے کہا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ مَیں اپنی ماں سے ایک بات کر لوں۔ اس پر ماں کو بلایا گیا۔ جب وہ آئی تو اس نے کہا مَیں اس سے کان میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا اسی طرح کر لو۔ اس نے اپنا منہ ماں کے قریب لے جا کر زور سے اس کے کلّے کو کاٹا۔ ماں چیخیں مارتی ہوئی پیچھے کو بھاگی۔ لوگوں نے اس کو *** ملامت کی کہ تم بڑے بد کردار آدمی ہو ، تمہیں پھانسی مل رہی ہے اور پھر بھی تم نے اس سے عبرت حاصل نہیں کی اور تمہارا دل نرم نہیں ہؤا۔ اب تم نے ماں کے کلّے پر کاٹ کھایا ہے۔ اس نے کہا۔ آپ لوگوں کو علم نہیں کہ مجھ کو یہ پھانسی میری ماں کی وجہ سے مل رہی ہے۔ میرا کلّہ کاٹنا پھانسی کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا۔ اصل بات یہ ہے کہ میری ماں کو میری جگہ پھانسی ملنی چاہئے تھی۔ پھر اس نے بتایا کہ مَیں چھوٹا بچہ تھا لیکن آوارہ پھرا کرتا تھا۔ اگر کوئی شخص میری ماں سے میرے متعلق کوئی شکایت کرتا تو میری ماں اس سے لڑتی تھی کہ میرا بچہ تو ایسا نہیں۔ یہ لوگ دشمنی سے ایسا کہتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں ان کو میرے بچے سے دشمنی ہو گئی ہے میرا بچہ تو نالائق نہیں۔ مَیں مدرسے سے پنسل، کاغذ، قلم، دوات وغیر چُرا کر لاتا تو میری ماں مجھے کہتی یہاں نہ رکھو کوئی دیکھ لے گا وہاں رکھو۔ اگر کوئی شخص میری چوری کے متعلق شکایت کرتا تو میری ماں اسے گالیاں دیتی کہ ناحق میرے بچے کو بدنام کر رکھا ہے۔ ان باتوں سے مَیں چور بنا اور پھر چور سے ڈاکو بنا۔ پھر ڈاکہ میں مجھ سے یہ قتل ہؤا جس کی وجہ سے مجھے پھانسی پر لٹکایا جا رہا ہے۔ اس قتل کی ساری ذمہ داری میری ماں پر ہے۔ اس لئے اس کا کلّہ کاٹا جانے کی بجائے درحقیقت پھانسی کی سزا اسے ملنی چاہئے تھی نہ کہ مجھے۔ اسی طرح بعض لڑکے اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتے ہیں اور ماں باپ روکتے ہیں کہ زندگی وقف نہ کرو بلکہ کسی دوسری جگہ ملازمت کر لو۔ چندہ سے دین کی خدمت کرتے رہنا حالانکہ جہاں آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے وہاں چندہ سے کام نہیں بنتا۔ میرے نزدیک اس کی ایک حد تک ذمہ داری لجنہ اماء اللہ پر بھی ہے۔ اگر لجنہ اماء اللہ دین کی ضرورتوں اور وقف کی اہمیت کو اچھی طرح عورتوں کے ذہن نشین کرا دے تو سال کے اندر اندر جس طرح کہتے ہیں کہ زمین نے اپنا کلیجہ نکال کر باہر رکھ دیا اسی طرح عورتیں بھی اپنا کلیجہ نکال کر باہر رکھ دیں۔ عورتوں کا کلیجہ اولاد ہوتی ہے ۔ اگر مائیں اپنے لڑکوں کو زندگی وقف کرنے اور دوسرے دینی کاموں میں حصہ لینے کی تحریک کریں تو مَیں سمجھتا ہوں کہ بہت زیادہ نوجوان اپنے آپ کو وقف کرنے لگ جائیں۔
اسلامی تاریخ میں ایک واقعہ آتا ہے کہ اسلامی لشکر کو ایک جگہ کچھ شکست ہوئی۔ حضرت عمرؓ نے تمام آدمی جومہیا کئے جا سکتے تھے اس لشکر کی مدد کے لئے بھیج دئیے مگر لشکر پھر بھی کم تھا۔ ایرانی لشکر کی تعداد ایک لاکھ تھی او رمسلمانوں کے لشکر کی تعداد تیس ہزار تھی اور جس مقام پریہ جنگ ہو رہی تھی اس مقام کےد رمیان اور مدینے کے درمیان کوئی روک نہ تھی۔ اسلامی جرنیل نے اس وقت ایک تقریر کی کہ تم آج اسلام کے احیاء اور بقا کے ذمہ دار ہو۔ اگر تم آج شکست کھا گئے تو تمہارے اور مدینے کے درمیان کوئی فوج نہیں جو اس لشکر کو روک سکے۔ اگر دشمن یہاں سے نکل گیا تو سیدھا مدینے پر جا کر حملہ کرے گا۔ اس وقت خنساء نامی ایک مشہور شاعرہ عورت نے اپنے تینوں لڑکوں کو بلایا اور کہا۔ تمہارا باپ بدکار تھا۔ مَیں اپنے بھائی سے قرض لا لا کر اسے دیتی رہی۔ آخر وہ مر گیا اور تم چھوٹے چھوٹے رہ گئے۔ مَیں نے محنت مزدوری کر کے تمہیں پالا اور اپنی ساری زندگی پاکیزگی اور پاکدامنی سے گزاری اور تم ان تمام باتوں کے گواہ ہو۔ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر خنساء نے کہا تمہیں معلوم ہے کہ مَیں نے تمہیں بہت محنت و مشقّت سے پالا ہے۔ اور اس کے بدلے میں تم سے کوئی خدمت نہیں لی؟ انہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے۔ پھر ماں نے کہا تم میرے تین بچے ہو اور تمہارے بغیر میرا دنیا میں کوئی نہیں اور میری محبت تمہاری خدمت سے ظاہر ہے۔ دیکھو! آج اسلام پر ایسا وقت ہے کہ اسے لڑائی کے لئے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اس لئے تم لڑائی میں جاؤ ۔ اگر شام کو فتح پا کر لَوٹے تو زندہ لَوٹنا نہیں تو تمہاری لاشیں میدانِ جنگ میں پڑی ہوئی نظر آئیں۔ اگر تم نے میرا یہ حکم نہ مانا تو مَیں قیامت کے دن تمہیں دودھ نہیں بخشوں گی۔ لڑکوں نے کہا۔ ہاں اماں ہمیں منظور ہے۔ یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گئے۔6سب سے بڑی مصیبت جو مسلمانوں کو اس جنگ میں پیش آئی وہ یہ تھی کہ ایرانی اس جنگ میں لڑائی کےسد ھائے ہوئے ہاتھی مقابلہ پر لے آئے تھے ۔ جب کوئی گھوڑا یا اونٹ ہاتھیوں کے سامنے آتا تھا تو بھاگ جاتا تھا۔ ایک مسلمان جرنیل آیا اور اس نے ان تینوں میں سے دو بھائیوں کو کہا کہ تم میرے ساتھ مل کر چلو۔ ہم سامنے سے ہاتھیوں پر حملہ کر دیں۔ گو موت یقینی ہے لیکن امید ہے کہ اس طرح باقی مسلمان بچ جائیں گے۔ انہوں نے کہا ہمیں منظور ہے۔ ہاتھی پر سامنے سے حملہ کرنا بہت مشکل ہوتاہے کیونکہ جو لڑائی کے لئے سدھائے ہوئے ہاتھی ہوتے ہیں وہ آدمی کو سونڈ میں لپیٹ کر زمین سے اٹھا کر دے مارتے ہیں۔ انہوں نے جاتے ہی سردارِ لشکر کے ہاتھی پر حملہ کر دیا ۔ دونوں بھائیوں میں سے ایک ہاتھی کے دائیں طرف ہو گیا اور دوسرا بائیں طرف اور وہ جرنیل خود سامنے کھڑا ہوگیا۔ جب سامنے سے جرنیل حملہ کرتا تو ہاتھی دائیں بائیں منہ پھیرتا۔ جب ہاتھی دائیں طرف منہ کرتا تو دائیں طرف والا اس کی سونڈ پر تلوار مارنے کی کوشش کرتا۔ ہاتھی اسے اپنی سونڈ سے اٹھا کر زمین پر دے مارتا۔ پھر جب ہاتھی بائیں طرف منہ کرتا تو دوسرا بھائی اس کی سونڈ پر تلوار مارنے کی کوشش کرتا۔ ہاتھی اسے بھی اپنی سونڈ سے اٹھا کر زمین پر دے مارتا لیکن وہ دونوں بھائی اس کے پہلوؤں سے نہ ہٹے حتّٰی کہ انہوں نے اسے بُری طرح زخمی کر دیا۔ آخر ہاتھی گھبرا کر پیچھے بھاگا۔ اس ہاتھی کا بھاگنا تھا کہ دوسرے اس کے ساتھ کے ہاتھی بھی بھاگ نکلے اور ہاتھیوں کے بھاگنے سے دوسرے لشکر میں کھلبلی مچ گئی اور سارا ایرانی لشکر بھاگ نکلا اور اسلامی لشکر نے فتح پائی۔ پس یہ بھی عورتیں تھیں جنہوں نے اپنے بچوں کا میدانِ جنگ میں شہید ہونا پسند کیا اور ناکامی کی صورت میں ان کا منہ دیکھنا پسند نہ کیا۔ اور آج وہ عورتیں ہیں کہ بچوں کو زندگی قربان کرنے کی تعلیم دینا تو الگ رہا انہیں زندگی وقف کرنے سے روکتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ عورتوں میں جذباتی رنگ بہت غالب ہوتا ہے ۔ اگر ان کے جذبات سے اپیل کی جائے تو وہ نیکی میں کہیں سے کہیں نکل جاتی ہیں۔
ایک جنگ میں حضرت سعدؓ کمانڈرتھے ۔ ان کو ایک نو مسلم سپاہی کے متعلق شکایت پہنچی کہ اس نے شراب پی ہے۔ حضرت سعدؓ نے اسے قید کر دیا۔ حضرت سعدؓ کے سُرین پر گمبھیر 7تھا۔ اس لئے سواری پر نہ بیٹھ سکتے تھے۔ آخر عرشہ بنوایا گیا اور عرشے پر نیم دراز ہو کر حضرت سعدؓ احکام جاری فرماتے رہے۔ جہاں حضرت سعدؓ کا خیمہ تھا اس کے پاس ہی وہ سپاہی قید تھا۔ جس وقت لڑائی کے نعرے بلند ہوتے یا لڑائی کے میدان سے کوئی افسوسناک آواز آتی تو یہ نَو مسلم غصے کی وجہ سے زنجیر کو کھینچتا اور کہتا اے کاش! مَیں آج جنگ میں شریک ہوتا۔ کوئی مسلمان ایسا ہے جو مجھے آزاد کر دے گو مَیں گنہگارتو ہوں لیکن اسلام کا درد میرے سینے میں دوسروں سے کم نہیں۔ مگر مسلمان سپاہی اس کو آزاد کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ حضرت سعدؓ کی ناراضگی سے ڈرتے تھے۔ آخر ان کی بیوی نے کہا کہ خواہ کچھ ہو جائے مَیں اس کی زنجیر کھول دیتی ہوں۔ مجھ سے اس کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی۔ انہوں نے اس کی زنجیر کھول دی اور اسے آزاد کر دیا۔ وہ منہ پر نقاب ڈال کر مسلمانوں میں شامل ہو گیا۔ مسلمان لشکر کے ساتھ مل کر وہ جس جگہ بھی حملہ کرتا باقی لشکر کے دل بھی بڑھ جاتے تھے۔ جب شام کو لڑائی بند ہوئی تو وہ بھاگ کر اپنی جگہ پر آ گیا اور حضرت سعدؓ کی بیوی نے اس کو پھر زنجیر لگا دی۔ حضرت سعدؓ کو شک پڑتا تھا کہ آج حملہ کے وقت فلاں آدمی معلوم ہوتا تھا کیونکہ حملہ تو اسی طرح کرتا تھا۔ پھر کہتے وہ تو قید ہے وہ نہیں کوئی اَور ہو گا۔ اگلےد ن پھر جب لڑائی شروع ہوئی تو حضرت سعدؓ کی بیوی نے اسے کھول دیا اور وہ پھر مسلمان لشکر میں جا ملا اور نہایت شجاعت اور بہادری سے دشمن کے لشکر پر حملہ کرتا رہا۔ آخر شام کو جب مسلمانوں کو فتح ہوئی اور حضرت سعدؓ کو شک پڑ گیا کہ حملہ کےو قت مجھے وہی سپاہی معلوم ہوتا تھا جسے مَیں نے قید کیا ہؤا ہے۔ بیوی سے کہا تمہاری شرارت معلوم ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے تم نے اسے کھول دیا تھا۔ مَیں تمہیں قانون شکنی کی سزا دوں گا۔ بیوی نے کہا آپ جو سزا چاہیں مجھے دیں لیکن میری غیرت نے یہ برداشت نہ کیا کہ میرا خاوند تو محض لڑائی کا نظارہ دیکھتا رہے اور جس شخص کو اسلام کا اس قدر درد ہو کہ وہ لڑائی کی آوازوں پر زنجیر کو توڑنے کی کوشش کرے اسے اس طرح قید رکھا جائے۔ بیوی کی یہ دلیرانہ بات سن کر حضرت سعدؓ کا غصہ جاتا رہا اور انہوں نے اس نومسلم کو معاف کر دیا۔8
پس عورتوں میں جذباتی رنگ غالب ہوتا ہے۔ لجنہ اماء اللہ کا فرض تھا کہ وہ عورتوں کے سامنے بیان کرتی کہ آج اسلام کو ان کے نوجوان لڑکوں کی ضرورت ہے، آج اسلام کو ان کے خاوندوں کی ضرورت ہے، آج اسلام کو مالوں کی ضرورت ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ ہر چیز بِلا دریغ پیش کر دیں۔ اگر یہ طریق اختیار کیا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ لو گ جو ایمان میں کمزور تھے وہ بھی اعلی اخلاص کا نمونہ پیش کرتے۔ ایک شخص نے مجھے بتایا کہ مجھے تو میری بیوی نے پختہ احمدی بنایا ہے۔ جب مَیں تنخواہ لے کر آتا تو وہ مجھے کہتی کہ کیا آپ چندہ دے آئے ہیں؟ مَیں کہتا کل دے دوں گا تو وہ کہتی مَیں اس مال سے کھانا نہیں پکاؤں گی۔ اس پر بسا اوقات مجھے آدھی آدھی رات کو جا کر چندہ دینا پڑا اور جب مَیں رسید دکھاتا تب وہ کھانا پکاتی، نہیں تو کہہ دیتی کہ مَیں حرام روپیہ سے کھانا نہیں پکاؤں گی۔پس اگر عورتیں ہمارا ساتھ دیں اور وہ بچوں سے کہیں کہ اگر تم زندگی وقف نہ کرو گے، اگر تم اپنے اندر دینداری پیدا نہ کرو گے تو مَیں تمہیں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی اور مَیں خدا سے کہوں گی کہ اس نے میرا حق ادا نہیں کیا، میرا بیٹا میرا عاق ہے اس نے میرا کہا نہیں مانا تو تھوڑے ہی عرصے میں کایا پلٹ سکتی ہے۔ اگر مائیں یہ طریق اختیار کریں تو ننانوے فیصدی لڑکوں کی اصلاح ہو جائے اور ننانوے فیصدی لڑکے تعلیم میں تیز ہو جائیں اور ان کے اندر بیداری اور قربانی کی روح پیدا ہو جائے۔
مَیں اس موقع پر جماعت کی عورتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے لڑکوں کو تحریک کریں کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف کریں اور جن لڑکوں کو سلسلہ قبول نہیں کرتا ان کو تحریک کریں کہ وہ اپنے خرچ سے بچا ہؤا روپیہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئےد یں۔ اگر ان کے لڑکے اس کام کے لئےتیار نہ ہوں تو ہر ماں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بیٹے سے کہہ دے کہ تم نے میرا حق ادا نہیں کیا اور مَیں قیامت کے دن خدا کے سامنے تمہارے متعلق کہہ دوں گی کہ یہ میرا نافرمان بیٹا ہے اس نے میرا کہا نہیں مانا۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ سلسلہ کے کاموں کو عظیم الشان طور پر چلانے کا وقت آ گیا ہے۔ لیکن ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک عورتیں ہمارے ساتھ تعاون نہ کریں۔ جس دن عورتیں یہ طریق اختیار کریں گی تم سمجھ لو کہ لڑکوں کی اصلاح کرنا بہت آسان ہو جائے گا اور وہ زندگی کے ہر شعبہ میں بیداری سے کام کرنے لگیں گے۔ پس تعلیم کی ترقی ہماری جماعت کے لئے از حد ضروری ہے۔ تعلیم انسان کو صحیح راستہ تلاش کرنے اور حقیقت کے سمجھنے میں بہت مدد دیتی ہے اور جو کام بھی انسان کرے اس کے لئے اس میں آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ ایک دوست نے ذکر کیا کہ میرا دادا احمدی تھا لیکن باپ غیر احمدی ۔ مَیں نے خیال کیا کہ میرا دادا بزرگ آدمی تھا وہ ناحق پر نہیں ہو سکتا۔ کوئی صداقت ضرور ہو گی جس کی وجہ سے اس نے احمدیت کو قبول کیا۔ چنانچہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی کتب کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا اور مَیں احمدی ہو گیا۔ اب یہ نتیجہ اس کی تعلیم کا نکلا ۔ اگر غیر تعلیم یافتہ ہوتا تو اسے ایسا خیال بھی نہ آتا۔ خیال آتا تو اَن پڑھ ہونے کے سبب سے کتب نہ پڑھ سکتا۔ پس جماعت کو اس وقت سینکڑوں نہیں ہزاروں تعلیم یافتہ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ صدر انجمن احمدیہ کے لئے بہت سے کارکنوں کی ضرورت ہے۔ تحریک جدید کے لئے بہت سے کارکنوں کی ضرورت ہے۔ علاوہ ان کے پانچ ہزار واقفینِ تجارت کی ضرورت ہے اور ہماری یہ ضرورت پوری ہو نہیں سکتی جب تک جماعت تعلیم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط نہ کرے۔ ہماری جماعت میں اس قدر بی۔ اے اور ایم۔ اے ہونے چاہئیں کہ ہم پہلے اپنی ضرورت کو پورا کریں اور جو ہماری ضرورت سے بچیں وہ ہم گورنمنٹ کو دے سکیں۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت سُرعت کے ساتھ جماعت کی ترقی کےد روازے کھل رہے ہیں اور وہ چیز جو ہمیں دور نظر آتی تھی بہت جلد آنے والی ہے۔ جس رنگ میں لوگوں میں بیداری اور توجہ پیدا ہو رہی ہے وہ بتاتی ہے کہ یوسف گم گشتہ کی خوشبو اب آ رہی ہے۔ یہ ہماری ہی کوتاہی اور غفلت ہو گی کہ ہم قافلہ نہ لے جائیں اور وہاں سے یوسف کو اپنے گھر نہ لے آئیں۔ ’’ (الفضل 30جنوری 1946ء)
1: کَرُچز : CRUTCHS: بیساکھی
2: ملفوظات جلد 1 صفحہ 369
3: نکھد: نکمّا ، ادنیٰ (اردو جامع فیروز اللغات)۔
4: پچھی: گنّے کا چِھلکا، پھوگ۔
5: الاحزاب: 24
6: اسد الغابة جزء خامس صفحہ 443 ۔ مطبوعہ طہران 1377 ھ
7: گمبھیر: ایک قسم کا پھوڑا۔
8: تاریخ ابن اثیر جلد 2 صفحہ 475،476۔ مطبوعہ بیروت 1965ء

2
عرش کا مالک خدا تم سے دین کے لئے قربانی طلب کرتا ہے
( فرمودہ یکم فروری 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘چونکہ یہ دن دوائی کی باری کے ہیں اور ان دواؤں سے مجھے ضعف کی شکایت ہو جاتی ہے اس لئے مَیں زیادہ بول نہیں سکتا۔ صرف اختصاراً جماعت کو مَیں پھر اس مضمون کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کی طرف مَیں نے گزشتہ جمعہ میں بھی توجہ دلائی تھی۔ بالخصوص اس امر کی طرف مَیں جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت متواتر مبلغین کی مانگیں آ رہی ہیں۔ بیرون ہند سے ہی نہیں بلکہ ہندوستان سے بھی۔ او ربعض لوگ اپنے خرچ پر بھی مبلغ رکھنے کے لئے تیار ہیں مگر ہمارا مبلغین کا خزانہ بالکل خالی ہو چکا ہے۔ وہ مبلغ جو باہر گئے ہیں ابھی ان کے قائم مقام بھی ہمارے پاس پورے نہیں قریباً پچیس مبلغ باہر جا چکے ہیں لیکن ان کے قائم مقام ہمارے پاس صرف دس ہیں جو اس وقت تعلیم پا رہے ہیں اور ان میں سے بھی بعض ایک لمبے عرصہ کے بعد تعلیم سے فارغ ہوں گے۔ چنانچہ جو طالب علم آئندہ نکلنے والے ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو تین سال کے اندر بھی فارغ نہیں ہو سکتے۔ کچھ چار سالوں میں فارغ ہوں گے اور کچھ پانچ سالوں میں۔ پس جماعت کے وہ نوجوان جن کے دلوں میں باہر جانے والے لوگوں کے کارنامے پڑھ پڑھ کر گدگدیاں پیدا ہوتی ہیں اور انہیں خواہش ہوتی ہے کہ کاش! ہم بھی یہ کام کر سکتے، ان کو مَیں بتانا چاہتا ہوں کہ نیک تحریکیں بھی دَورہ کے طور پر آیا کرتی ہیں۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جب کوئی شخص نیکی کا کام کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سفید نقطہ لگ جاتا ہے اور جب کوئی بُرا کام کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے ۔ اسی طرح سیاہ اور سفید نقطے بڑھتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ اگر کسی کی نیکیاں غالب آ جاتی ہیں تو اس کا سارا دل سفید ہو جاتا ہے اور اگر کسی کی بدیاں غالب آ جاتی ہیں تو اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ 1 پس جب کسی شخص کے دل میں نیکی کی تحریک پیدا ہو اس کو چاہئے کہ جلد اس کی طرف قدم اٹھائے ورنہ اگر بار بار تحریک کے باوجود اس کا قدم نہ اٹھا تو نتیجہ یہ ہو گا کہ رسول کریم ﷺ کے اس فرمان کے مطابق ایک دن اس کا دل پورے طور پر سیاہ ہو جائے گا۔ ہماری جماعت کے لئےیہ خطرہ بہت زیادہ ہے۔ اس لئے کہ متواتر اور متواتر اور متواتر ہر جمعہ اور ہر تقریب پر ان کو خدا تعالیٰ کے دین کی طرف بلائے جانے کے لئے آواز بلند کی جاتی اور دینِ اسلام کے لئے قربانی کرنے کے لئے تحریک کی جاتی ہے۔ ہر ذریعہ کو استعمال کر کے، اسلامی اور قرآنی شواہد کو استعمال کر کے، صحابہؓ کی بے نظیر قربانیوں کا نمونہ بتا کر، رسول کریم ﷺ کی خواہشات کو بیان کر کے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی تحریرات کو پیش کر کے، آپ کے زمانہ کے صحابہؓ کی قربانیاں پیش کر کے ، عقل کے ساتھ، زمانہ کے حالات اور زمانہ کے مفاسد دکھا دکھا کر، غرض ہررنگ میں تحریک کی جاتی ہے اور جب بھی وہ تحریک ہوتی ہے نوجوانوں کے دلوں میں ہمیشہ خیال پیدا ہوتا ہو گا کہ ہم بھی اس پر عمل کریں۔ لیکن پھر اردگرد کی مشغولیتیں، دوستوں کی مجلسیں اور اپنے عزیزوں اور ماں باپ کی حاجتیں حائل ہو جاتی ہوں گی۔ ان کے دل کا سفید نقطہ مُرجھانا شروع ہو جاتا ہو گا اور اس کی جگہ سیاہ نقطہ لگ جاتا ہو گا۔ اور ہر دفعہ جب یہ تحریک ہوتی ہو گی بجائے ان کو نیکی کی طرف توجہ دلانے کے ان کے سفید نقطہ کو آہستہ آہستہ سیاہ نقطہ میں تبدیل کر دیتی ہو گی۔ پس جہاں یہ بار بار کی تحریکیں جماعت کے ایک حصہ میں بیداری پیدا کرنے کا موجب ہیں وہاں دوسرے حصہ کے لئے خطرناک بھی ہیں کیونکہ وہ انہیں نظر انداز کرنے کے بعد اپنے دل پر سیاہ نقطہ لگانے کا موجب ہو جاتے ہیں۔ پس جماعت کے دوستوں کو جن کے دلوں میں ان تحریکوں سے کوئی نیکی کا ارادہ پیدا ہوتا ہے چاہئے کہ جلد از جلد اپنے مقصود اور نیک ارادوں کو پورا کرنے کے لئے قدم اٹھائیں۔ دنیا میں انسان پیدا بھی ہوتے ہیں اورمرتے بھی ہیں، دنیا میں مغلوب بھی ہوتے ہیں اور غالب بھی ہوتے ہیں مگر سب سے زیادہ خوش قسمت وہ لوگ ہوتے ہیں جو نبی کے زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور سب سے زیادہ خوش قسمت وہ قوم ہوتی ہے جو اس کے ابتدائی زمانہ میں ایمان لا کر خدا تعالیٰ کے نبی کے ساتھ ہر قسم کی قربانی میں شریک ہو جائے۔ اس کے مقابلہ میں سب سے زیادہ بد قسمت لوگ وہ ہوتے ہیں جنہوں نے نبی کا زمانہ پایا لیکن اس کو نہ مانا۔ اور پھر سب سے زیادہ بد قسمت وہ شخص ہوتا ہے جس نے نبی کا زمانہ پایا اور خدمت کے مواقع بھی آئے لیکن اس نے خدمت نہ کی اور آسمانی تحریک اور آسمانی آواز کو کمزور کرنے کا موجب ہو گیا۔
پس مَیں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ کام کا وقت ہے باتیں بنانے کا وقت نہیں۔ خدا تعالیٰ تمہارے دلوں پر نگاہ کئے بیٹھا ہے۔ دنیا کے بادشاہ نہیں بعض دفعہ ایک معمولی انسان بھی آواز بلند کرتا ہے تو لوگ اپنے جوابوں کے ذریعہ فضا میں ایک گونج پیدا کر دیتے ہیں۔ کسی جگہ گاندھی جی کی آواز اٹھتی ہے تو لوگ پروانہ وار اس کی طرف بھاگتے ہیں۔ کسی مجلس میں مسٹر جناح کی آواز اٹھتی ہے تو لوگ پروانہ وار اس کی طرف دوڑتے ہیں۔ مگر تم جانتے ہو تمہیں کس کی آواز بُلا رہی ہے؟ میری نہیں، کسی اَور انسان کی نہیں، کسی اَور بشر کی نہیں بلکہ عرش پر بیٹھے ہوئے خدا نے ایک آواز بلند کی ہے۔ تمہیں پیدا کرنے والا رب تمہیں اپنے دین کے لئے قربانی کرنے کے لئے بلاتا ہے ۔ دنیوی لیڈروں کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی لبیک کا نتیجہ موت یا فتح ہو سکتی ہے اور دائمی موت بھی نتیجہ ہو سکتی ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کی آواز کا جواب دینے والوں کے لئے سوائے زندگی کے کچھ نہیں۔ اس کو کوئی شیطانی طاقت مار نہیں سکتی ۔کیونکہ جو پیدا کرنے والے کے لئے مارا جاتا ہے وہ ہمیشہ ہی زندہ کیا جاتا ہے۔
ہے تو یہ ایک کہانی اور تمسخر کی بات مگر ہندو بزرگوں نے لوگوں کو نیکی کی ترغیب دلانے کے لئے حقیقت کو ایسے واقعات میں بیان کیا ہے۔ ان میں ایک کہانی مشہور ہے کہ ایک راجہ تھا اس کی اولاد نہیں ہوتی تھی۔ کسی نے اسے بتایا کہ برہما جو اصل خدا کا نام ہے اور جو سب سے بڑا خدا ہے اور جو اولاد دینے والا ہے اس کی پرستش کرو (ہندوؤں میں خدا تعالیٰ کے جس قدر نام ہیں وہ سب اس کی طاقتوں یا ملائکہ کے نام ہیں لیکن آہستہ آہستہ ان کو خدا کا درجہ دے دیا گیا اور انہی کی پرستش شروع کر دی گئی اور برہما کو چھوڑ دیا گیا۔ اب شاید صرف ایک جگہ برہما کا معبد ہے اور کہیں بھی نہیں) چنانچہ اس نے برہما کی پرستش شروع کر دی۔ کچھ عرصہ کے بعد اس کے گھر لڑکا پیدا ہؤا ۔ جب لڑکے نے ہوش سنبھالا تو باپ کے دل میں خیال آیا کہ برہما نے جو کام کرنا تھا کر لیا اب مارنا تو شِو جی نے ہے۔ اس لئے اب برہما کو چھوڑ کر شِو جی کی پرستش شروع کر دینی چاہئے۔ چنانچہ اسی خیال سے اس نے برہما کو چھوڑ کر شِو جی کی پرستش شروع کر دی۔ جب لڑکابڑا ہؤا اور اس نے یہ باتیں سنیں کہ میری پیدائش اس رنگ میں ہوئی تھی تو اس نے برہما کی پرستش شروع کر دی۔ باپ نے اس کو بہت منع کیا لیکن اس نے باپ کی بات کو نہ مانا اور کہا کہ جس نے احسان کیا ہے مَیں تو اس کی پرستش کو نہیں چھوڑ سکتا۔ آخر باپ بیٹے میں لڑائی شروع ہوئی اور اس نے اتنا طول پکڑا کہ باپ کےد ل میں ضد اور غصہ پیدا ہو گیا اور اس نے بیٹے کے خلاف شِو جی سے دعا مانگی کہ یہ میرا باغی ہو گیا ہے اور باوجود منع کرنے کے آپ کی پرستش نہیں کرتا بلکہ برہما کی پرستش کرتا ہے۔ آپ اس کی جان نکال لیں۔ چنانچہ شِو جی نے اس کی جان نکال لی۔ جب برہما کو معلوم ہؤا کہ وہ جو میری پرستش کرتا تھا اس کو میری پرستش کرنے کی وجہ سے مارا گیا ہے تو اس نے کہا کہ مَیں اسے دوبارہ زندہ کروں گا۔ چنانچہ اس نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا۔ شِو جی نے غصے میں آ کر اسے پھر مار دیا۔ برہما نے اسے پھر زندہ کیا۔ شِو جی نے اسے پھر مار دیا اور برہما نے اسے پھر زندہ کر دیا او رغالباً یہ سلسلہ اس وقت سے لے کر اب تک جاری ہے اور آسمان پر برہما جی اسے زندہ کرتے ہیں اور شِو جی اسے مارتے ہیں۔
یہ ہے تو ایک کہانی مگر اس میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کی راہ میں مارا جائے تو خدا اس کو دوبارہ دنیا میں زندہ کر دیا کرتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی قیمتی حقیقت ہے کہ خدا کے پرستار مرا نہیں کرتے۔ وہ مرتے ہیں تو پھر زندہ کر دئیے جاتے ہیں۔ کئی لوگ ہیں جنہوں نے خدا کے لئے جانیں دیں اور وہ بے نسل تھے ،جوان تھے، ابھی ان کی شادیاں بھی نہیں ہوئی تھیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو گئے مگر ان کا نام آج تک زندہ ہےا ور قیامت تک زندہ رہے گا۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک حضرت عثمان بن مظعونؓ بھی تھے جو رسول کریم ﷺ کے مقرب صحابی تھے۔ وہ ابھی نوجوان تھے پندرہ سولہ سال کی عمر تھی کہ اسلام لائے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے راستہ میں اس قدر تکالیف برداشت کیں کہ کسی نے جوش میں آ کر آپ کی ایک آنکھ نکال دی۔ انہوں نے ہجرت کی اور رسول کریم ﷺ کے ساتھ جہاد میں شامل ہوئے اور جنگ اُحد کے موقع پر شہید ہو گئے۔ رسول کریم ﷺ کو وہ نہایت ہی پیارے تھے۔ اس قدر پیارے کہ رسول کریم ﷺ کے بیٹے حضرت ابراہیم جب فوت ہوئے تو آپ نے ان کو غسل دے کر قبر میں ڈالتے ہوئے یہ الفاظ فرمائے کہ جا اپنے بھائی عثمان بن مظعونؓ کے پاس۔2 گویا رسول کریم ﷺ نے عثمان بن مظعونؓ کو اپنا بیٹا قرار دیا۔ عثمان بن مظعونؓ بغیر شادی کے اور بغیر اولاد کے فوت ہوئے تھے۔ لیکن آج اگر اس زمانہ میں دنیا کی سطح پر نوے فیصدی آبادی عثمان بن مظعونؓ کی اولاد ہوتی۔ ایسے عثمان بن مظعونؓ کی جس کو رسول کریم ﷺ کی صحبت نصیب نہ ہوئی ہوتی، ایسے عثمان بن مظعون کی جس کو رسول کریم ﷺ کے ساتھ اسلام کی قربانیوں کی توفیق نہ ملی ہوئی ہوتی، ایسے عثمان بن مظعون کی جسے رسول کریم ﷺ کے لئے جان قربان کرنے کی توفیق نہ ملی ہوئی ہوتی تو یقینی اور قطعی طور پر وہ نوے فیصدی آبادی دنیا کی نہ جانتی کہ آج سے تیرہ سو سال پہلے ہمارا ایک دادا تھا جس کا نام عثمان بن مظعونؓ تھا۔ اگر کسی نہ کسی رنگ میں وہ عثمان بن مظعونؓ کا نام بھی سنتے تو ان کے دلوں میں کوئی جذبہ پیدا نہ ہوتا اور نہ کوئی تحریک ہوتی کہ وہ اس کے لئے دعا کریں۔ لیکن آج جبکہ تیرہ سو سال گزر چکے ہیں، جبکہ عثمان بن مظعونؓ کے جسمانی تعلق کو دنیا سے ختم ہوئے تیرہ سو سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے صرف اس قربانی کی وجہ سے جو انہوں نے رسول کریم ﷺ کے لئے کی، اس قربانی کی وجہ سے جو انہوں نے رسول کریم ﷺ کے لائے ہوئے دین کے لئے کی۔ جب بھی ایک مومن عثمان بن مظعونؓ کا نام لیتا ہے تو اسکی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔
بہرحال مرنے والے مرتے ہیں، بعض بغیر نسل کے مر جاتے ہیں اور بعض اولادیں چھوڑ کر مرتے ہیں مگر باوجود اس کے کہ دنیا میں ان کی اولاد زندہ ہوتی ہے آخر وہ بے نسل ہی ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کی اولاد ان کے ناموں سے واقف نہیں ہوتی۔ مگر جو خدا تعالیٰ کے لئے مارے جاتے ہیں، بے نسل ہوتے ہوئے بھی ان کی نسل دنیا میں باقی رہتی ہے اور ہرمومن اپنے آپ کو ان کی اولاد میں سےسمجھتا ہے اور ہر مومن کے دل سے ان کے لئے دعائیں بلند ہوتی ہیں جو ان کےد رجات کو بڑھاتی رہتی ہیں۔ پس وہ لوگ جو خدائے واحد کے لئے اپنی زندگی دیتے ہیں وہ موت قبول نہیں کرتے بلکہ زندگی قبول کرتے ہیں۔ اور جو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے جان دینے سے دریغ کرتے ہیں وہ زندگی حاصل نہیں کرتے بلکہ موت کو قبول کرتے ہیں۔
پس تمہارے سامنے دونوں راہیں ہیں زندگی کی بھی اور موت کی بھی۔ تم میں سے ہر عقلمند اپنے لئے خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ کیا وہ موت کو پسند کرتا ہے یا زندگی کو۔ کیا وہ خدا تعالیٰ کے حضور اس کے دین کے لئے اپنی جان پیش کر کے اس کی محبت اور ابدی زندگی کو حاصل کرنا چاہتا ہے یا بظاہر اپنی جان بچا کر *** کی موت اور گمنامی کی ذلت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ’’
(الفضل 3 فروری 1946ء)
1: سنن ابن ماجہ کتاب الزّھد باب ذکر الذنوب
2: کنز العمال جلد 11 صفحہ 737 مطبوعہ حلب 1974ء

3
قادیان کے الیکشن میں مردوں نے عورتوں کے مقابلہ میں آدھا کام بھی نہیں کیا
( فرمودہ 8 فروری 1946ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ آج مَیں ایک ایسے امر کے متعلق جو بظاہر دنیوی معلوم ہوتا ہے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ دوستوں کو معلوم ہے کہ آجکل پنجاب اسمبلی کے الیکشن شروع ہیں اور بعض احمدی دوست بھی بطور امیدوار کھڑے ہوئے ہیں۔ جن جن حالات میں اور جس جس پارٹی کے متعلق ہم نے مناسب سمجھا اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ بعض جگہ ہم نے مسلم لیگ کی مدد کی ہے اور بعض جگہ یونینسٹ(Unionist) پارٹی کی مدد کی۔ اس وقت مناسب نہیں کہ ان حالات کا مفصّل طور پر ذکر کیا جائے کیونکہ اگر اس وقت تفصیل کے ساتھ ان باتوں کا ذکر کیا جائے تو ان پارٹیوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ الیکشن کے بعد جس وقت نقصان کا اندیشہ نہ رہے گا اس وقت ان حالات کو تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ بیان کیا جائے گا۔ اگر اب ان حالات کو بیان کیا جائے تو بہت سے اختلافات پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ کشمیر ایجی ٹیشن کے وقت ہم نے جو خدمات کیں ان کا ریکارڈ موجود ہے لیکن بعد میں انہی لوگوں میں سے جو ہم سے امداد اور مشورہ لیتے تھے اور ایک حد تک اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ بعض ایسے بدل گئے کہ انہوں نے اپنے علاقوں میں یہ بحث شروع کر دی کہ احمدیوں کو کشمیر کی انجمنوں میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت کئی لوگ میرے پاس آئے جن میں سے بعض احمدی بھی تھے کہ آپ بھی ان کے اسرار جو آپ کے پاس ہیں ظاہر کر دیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ لوگ احمدیوں سے کتنی امداد لیتے رہے ہیں اور اب کس طرح احسان فراموشی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ لیکن مَیں نے ان کو جواب دیا کہ جب تک وہ براہ راست ہماری خدمات کاانکار نہ کریں مَیں ان کے اسرار کو ظاہر کرنا پسند نہیں کرتا۔ اس دوران میں بعض آدمیوں نے اعلان کر دیا کہ احمدیوں نے ہماری کوئی مدد نہیں کی۔ تو مَیں نے بعض خطوط نکال کر اپنے دوستوں کو دے دئیے کہ یہ خطوط ان کے جواب میں شائع کر دو۔ مگر بعض ایسے تھے جنہوں نے براہ راست کوئی ایسی بات نہیں کہی اس لئے مَیں نے ان میں سے کسی کے خطوط ظاہر نہیں کئے۔ او ربعض آج تک ہمارے پاس محفوظ ہیں کیونکہ مَیں سمجھتا ہوں یہ بات وفاداری کے خلاف ہے۔ اگر وہ شرافت کے معیار سے گر گئے ہیں تو ہمیں ان کی نقل نہیں کرنی چاہئے اور ہمیں شرافت کے معیار سے نہیں گرنا چاہئے۔ اسی طرح اب بھی بعض سے گفتگوئیں ہوئی ہیں اور بعض سے تحریریں لی گئی ہیں لیکن وہی لوگ اب طرح طرح کی مخالفتیں کر رہے ہیں۔ مَیں ان تمام باتوں کے باوجود الیکشن کے دوران میں کسی کے متعلق کوئی بات ظاہر کرنا نہیں چاہتا اور نہ سلسلہ کے کسی کارکن کو اس بات کی اجازت دیتا ہوں۔ بے شک وہ ہم پر اعتراض کرتے جائیں، ہمیں بُرا بھلا کہتے رہیں کہ ایسے نالائقوں سے کسی نے کیا مدد لینی ہے۔ کوئی عقل مند ایسے گردن زدنیوں سے مدد لینے کی کب خواہش رکھتا ہے مگر چونکہ اس وقت الیکشن میں ایسے لوگوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اس لئے مَیں ان کے متعلق باوجود ان کی مخالفت کے کسی قسم کا ذکر کرنا نہیں چاہتا ۔ لیکن ایک حصہ ایسا بھی ہے جو ہماری جماعت سے اچھے تعلقات رکھتا ہے اور وہ احسان اور نیکی کی قدر کو جانتا ہے اس کے متعلق ہمیں کوئی شکایت نہیں۔
اس کے بعد مَیں آج جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قادیان میں الیکشن ختم ہو چکا ہے اور جو کچھ کیا جا سکتا تھا یا جو کچھ کیا جا سکا ہے وہ سب ہو چکا ہے۔ اور جو بھی کمی کوشش میں رہ گئی ہے اب اس کا ازالہ نہیں ہو سکتا لیکن جو جد و جہد بھی ہوئی ہے اس کا میرے دل پر اثر پڑا ہے کہ مردوں نے عورتوں سے آدھا کام بھی نہیں کیا۔ اور مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے کہ قادیان کے مردوں نے اعلیٰ نمونہ قربانی کا پیش نہیں کیا۔ الیکشن کے پہلے ہی دن ستاسی سے لے کر ایک سو پچاسی تک ایسے آدمی ووٹ دینے کے لئے نہ آئے جو یہاں موجود تھے۔ مگر اپنے کسی کام کے لئے اِدھر اُدھرچلے گئے اور پھر وہ واپس وقت پر نہ پہنچے۔ خلیل احمد صاحب ناصر جو واقف زندگی ہیں، قادیان کے الیکشن کے انچارج تھے اور ان کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے اس بارہ میں غفلت سے کام لیا۔ ایسی غفلت اور سستی سے کہ ایک واقف سے اس کا ہزارواں حصہ بھی سستی کی امید نہیں کی جا سکتی۔ جب پہلے دن میں نے پوچھا تو اس وقت تک ایسے نقشے بھی تیار نہیں تھے جن سے یہ پتہ لگ سکے کہ کتنے آدمی حاضر ہیں، کتنے غیر حاضر ہیں، کتنے فوت شدہ ہیں، کتنے باہر ہیں جن کے آنے کی امید ہے اور کتنے ایسے ہیں جن کے آنے کی کوئی امید نہیں۔ مجھے جب وہ ملے اور مَیں نے ان سے پوچھا کہ ووٹوں میں اتنی غیر معمولی کمی کی وجہ کیا ہے؟ مجھے نقشہ لا کر دکھاؤ۔ تو انہوں نے کہا مَیں نقشہ لا کر دکھاتا ہوں۔ پھر وہ گئے اور ایسے گئے کہ رات بھی گزر گئی اور اگلا دن بھی گزر گیا اور دوسرے دن شام کو نقشہ میرے پاس لائے اور وہ بھی آئندہ الیکشن کے متعلق اور وہ بھی ناقص۔ چنانچہ ان کے حساب کےر و سے تین سو ووٹر گزر سکتا تھا مگر جب میاں بشیر احمد صاحب نے سب محلوں کے پریذیڈنٹوں کو بلا کر ساری رات بیٹھ کر نقشہ تیار کروایا تو پانچ سَو سے اوپر ووٹ موجود تھا اور وہ گزر بھی گیا۔ اصل بات یہ تھی کہ نقشہ ان کے پاس تیار نہ تھا۔ میرے پوچھنے پر وہ نقشہ تیار کیا گیا اور پھر وہ نقشہ اس دن کا تھا جس دن کا پولنگ(Polling) ابھی ہؤا نہ تھا۔ اور گزشتہ پولنگ(Polling) کا نقشہ پھر بھی تیار نہ ہؤا تھا بلکہ جب مَیں نے اس طرف توجہ دلائی تو کہا گیا کہ وہ الیکشن کے بعد بنا دیا جائے گا۔ بھلا الیکشن کے بعد اس نقشہ کے تیار کرنے سے کیا فائدہ ہو سکتا تھا۔ کہتے ہیں
مشتے کہ بعد از جنگ یاد آید برکلّۂ خود باید
کہ وہ گھونسہ جو جنگ کے بعد یاد آئے اپنے منہ پر مارنا چاہئے یعنی اگر بعد میں خیال آئے کہ مَیں دشمن کے فلاں جگہ گھونسہ مارتا تو وہ ہار جاتا تو ایسی صورت میں وہ گھونسہ خود اپنے کلّہ پر مارنا چاہئے کہ کیوں اسے وہ تجویز وقت پر نہیں سُوجھی۔ لیکن مردوں کے مقابلہ میں عورتوں نے قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔ گو حساب نہ جاننے کی وجہ سے ان سے بعض غلطیاں ہوئیں لیکن ان کا مجھے وقت پر پتہ لگ گیا اور مَیں نے ان غلطیوں کو دور کرنے کے متعلق ہدایات دے دیں ۔ جن کے مطابق انہوں نے نہایت تن دہی اور محنت سے کام کیا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ جو روح ہماری عورتوں نے دکھائی ہے اگر وہی روح ہمارے مردوں کے اندر کام کرنے لگ جائے تو ہمارا غلبہ سو سال پہلے آ جائے۔ اگر مردوں میں بھی وہی دیوانگی اور وہی جنون پیدا ہو جائے جس کا عورتوں نے اس موقع پر مظاہرہ کیا ہے تو ہماری فتح کا دن بہت ہی قریب آ جائے۔ عورتوں نے اس دیوانگی سے کام کیا ہے کہ ان میں سے بعض کی شکلیں تک پہچانی نہیں جاتیں۔ انہوں نے کھانے کی پروا نہیں کی، انہوں نے سونے کی پروا نہیں کی، انہوں نے آرام کی پروا نہیں کی اور ایسی محنت سے کام کیا ہے کہ مَیں سمجھتا ہوں ان میں سے کسی کا تین سیر، کسی کا چار سیر اور کسی کا پانچ سیر وزن کم ہو گیا ہے۔ مگر مردوں نے عورتوں کے مقابل پر بہت کم کام کیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت ہی ذلیل کام کیا ہے۔ اور دفتر امور عامہ نے تو ایسے رنگ میں کام کیا ہے کہ گویا اس نے سلسلہ سے کوئی پرانی دشمنی نکالی ہے۔ ایک ہی کام کے متعلق محلہ کے پریذیڈنٹوں کو، خدام الاحمدیہ کے زعماء کو اور لجنہ اماء اللہ کو بِلا سوچے سمجھے اندھا دھند چٹھیاں لکھی گئیں اور اس سے گڑ بڑ پیدا ہو گئی۔ پھر عملی کام کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی۔ اگر دفتر امور عامہ صحیح طور پر کام کرتا تو میرے نزدیک پندرہ سو ووٹ نیا بن سکتا تھا جو سستی کی وجہ سے نہیں بنایا گیا۔ اور پھر ایک کافی تعداد ایسے ناموں کی بھی ہے جو بالکل غلط طور پر چَھپے ہیں۔ قادیان میں چار ہزار آٹھ سو ووٹوں میں سے تین ہزار چھ سو ووٹ گزرا ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ بارہ سو ووٹ ایسے ہیں جو رد ّی گئے ہیں۔ مجھے قادیان کے چار ہزار آٹھ سو ووٹ بتائے گئے تھے اور میرا ا ندازہ پانچ ساڑھے پانچ ہزار کا تھا لیکن مَیں نے سمجھا کہ چار ہزار آٹھ سو ووٹ مجھے اس لحاظ سے بتائے گئے ہیں کہ فوجیوں کے ووٹ اس کے علاوہ ہیں۔ اس وجہ سے مجھے کُریدنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ فوجیوں کے ووٹ بھی اس چار ہزار آٹھ سو میں شامل ہیں تو مَیں ووٹوں کی کمی کی وجہ دریافت کرتا۔ میرے نزدیک قادیان میں چھ ہزار کے قریب ووٹ تھے جس میں سے چار ہزار آٹھ سو ووٹ بنوایا گیا اور اس میں سے تین ہزار چھ سو کے قریب گزرا اور اس طرح بارہ سو کے قریب ووٹ ضائع گیا۔ اور ایک ہزار سے زائد کے ووٹ بنوائے ہی نہیں گئے حالانکہ ایک ہزار ووٹ کوئی معمولی چیز نہیں۔ بعض علاقوں میں ہمارے آدمی پندرہ پندرہ دن تک دَوڑ دھوپ کرتے رہے اور موٹریں اور لاریاں کام کرتی رہیں مگر باوجود اتنی دوڑ دھوپ کے سو ووٹ بھی نہیں ملے۔ پس یہ ایک ہزار ووٹ جو ضائع ہؤا ہے دفتر امور عامہ کی غفلت اور کوتاہی سے ہؤا ہے بلکہ میرے نزدیک ایک ہزار سے بھی زائد ووٹ تھا جو ضائع ہؤا۔ مجھے کثرت سے مردوں اور عورتوں کی طرف سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ان کے گھروں میں بہت سے ووٹ رہ گئے ہیں۔ ایک دوست جن کا مکان یہاں ہے اور وہ خود آجکل دہلی میں رہتے ہیں انہوں نے بتایا کہ ہمارے گھر کے چھ ووٹ تھے۔ ان میں سے صرف دو امور عامہ نے بنائے ہیں۔ ایک اور دوست نے بتایا ہے کہ ہمارے گھر کے چار ووٹ تھے ان میں سے صرف ایک ووٹ بنا ہے ۔ اسی طرح ایک دوست نے بتایا کہ ہمارے گھر میں چار ووٹ بن سکتے تھے لیکن صرف ایک بنا ہے۔ پس قادیان میں بارہ سو کے قریب ووٹ رہ گئے ہیں۔ اگر پوری محنت اور کوشش سے کام لیا جاتا تو قادیان سے ہی چھ ہزار ووٹ بن سکتے تھے۔ اور بعض ووٹ اس وجہ سے ضائع گئے ہیں کہ ان کے لکھنے میں احتیاط سے کام نہیں لیا گیا۔ بعض جگہ زوجہ کی بجائے دختر لکھا گیا ہے اور دختر کی بجائے زوجہ لکھا گیا ہے۔ قانوناً تو یہ جائز ہے کہ اگر ووٹر کا نام یا ولدیت وغیرہ کسی قدر غلط چھپ گئی ہو تو وہ ووٹ دے سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن دختر کے لئے یہ کہنا کتنا مشکل ہے کہ وہ اپنے باپ کی زوجہ ہے۔ یا زوجہ کے لئے یہ کہنا کتنا مشکل ہے کہ مَیں فلاں کی لڑکی ہوں۔ اگر کوئی عورت ایسا کہے تو اس کا مذاق تو بہرحال بن جائے گا مگر قانوناً اس پر کوئی اعتراض عائد نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اس کی غلطی نہیں بلکہ لکھنے والے کی غلطی ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ان غلطیوں میں گورنمنٹ اور دفتر امور عامہ کے کارکنوں کا قصور ہے کیونکہ انہوں نے فہرستیں توجہ سے تیار نہیں کیں۔ اوپر نیچے جب نام لکھے جاتے ہیں تو اس قسم کی غلطیاں عموماً واقع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً جب فہرست میں کوئی شخص یہ لکھتا چلا جائے کہ فلاں زوجہ فلاں، فلاں زوجہ فلاں، فلاں زوجہ فلاں، تو اس دوران میں اگر کسی کی دختر آ جائے تو اسے بھی جلدی میں زوجہ ہی لکھ دے گا۔ یا کوئی شخص لکھتا جا رہا ہے فلاں دختر فلاں، فلاں دختر فلاں، فلاں دختر فلاں۔ درمیان میں آگیا کہ فلاں زوجہ فلاں تو اسے بھی عادت کی وجہ سے دختر ہی لکھ دے گا۔ یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب انسان ایک ہی رنگ میں کوئی بات لکھتا چلا جائے اور درمیان میں کوئی اَور بات آ جائے تو اسے بھی وہ پہلی چیز کی ذیل میں شمار کر لیتا ہے۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے دفتر امور عامہ والوں نے ستائیس آدمیوں کی ایک فہرست بنائی کہ فلاں لیگی اور فلاں یونینسٹ کی مدد کرنے کا جماعت نے فیصلہ کیا ہے۔ وہ فہرست پہلے امور عامہ کے کلرک نے تیار کی پھر اسے سپرنٹنڈنٹ نے دیکھا پھر اسے ناظر امور عامہ نے چیک کیا۔ اس کے بعد وہ میرے پاس آئی تو مَیں نے اس میں تین غلطیاں نکالیں۔ کسی جگہ مسلم لیگی کو یونینسٹ لکھا تھا اور کسی جگہ یونینسٹ کو مسلم لیگی لکھ دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ اوپر سے لکھتے چلے آئے کہ فلاں لیگی، فلاں لیگی اور درمیان میں جب ایک یونینسٹ آیا تو اسے بھی لیگی لکھ دیا گیا۔ اسی طرح جب اوپر سے لکھتے آئے کہ فلاں یونینسٹ، فلاں یونینسٹ، فلاں یونینسٹ اور درمیان میں ایک مسلم لیگی کا نام آگیا تو اسے بھی یونینسٹ لکھ دیا۔ اب ستائیس آدمیوں کی فہرست تھی۔ تین آدمیوں نے اسے تیار کیا اور پھر بھی اس میں تین غلطیاں نکل آئیں۔ جب ستائیس آدمیوں کی فہرست میں سے تین غلطیاں نکل سکتی ہیں تو جہاں ہزاروں نام ہوں وہاں تو غلطی کا بہت زیادہ امکان ہے مگر پھر بھی ہمیں اپنے فائدہ کے لئے ان غلطیوں کو دور کرانے کی کوشش وقت پر کرنی چاہئے تھی۔ اگر ایسی کوشش ہوتی تو یقیناً ہمارا ووٹ چھتیس سو سے بہت زیادہ ہوتا۔ بہرحال امور عامہ نے اندازاً چوبیس سو ووٹ ضائع کئے ہیں اور کم سے کم دو ہزار ووٹ تو بہر صورت ضائع ہؤا ہے۔ پس مجھے افسوس ہے کہ ہمارے مردوں نے قربانی کا وہ مظاہرہ نہیں کیا جو عورتوں نے کیا ہے۔ باہر کے لوگوں نے بھی قادیان کے لوگوں سے اچھا نمونہ پیش کیا ہے۔ باہر سے آنے والے دوست بہت لمبا سفر طے کر کےا ور بڑی مشکل سے رخصت حاصل کر کے قادیان پہنچے اور ووٹ دیا۔ ان باہر سے آنے والے لوگوں کو جن میں سے کوئی سندھ سے، کوئی بمبئی سے، کوئی بہار سے، کوئی بنگال سے، کوئی صوبہ سرحد سے اور یا کسی مختلف علاقہ جات پنجاب سے آئے تھے فریقِ مخالف پر بھی اور پولنگ آفیسرز پر بھی بہت گہرا اثر پڑا ہے۔ اور جو قربانی عورتوں نے کی اس کا بھی دیکھنے والوں اور فریق مخالف کے نمائندوں اور پولنگ آفیسرز پر بہت ہی گہرا اثر پڑا ہے۔ جو عورتیں پولنگ آفیسر کی امداد کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے آئی تھیں وہ اس قدر متاثر ہوئیں کہ ان کے یہ الفاظ تھے کہ ہم نہیں سمجھ سکتیں کہ یہ جماعت کیسی ہے اور اس میں قربانی کی یہ روح کیسے پیدا ہو گئی ہے۔ بعض عورتیں ایسی حالت میں ووٹ دینے کے لئے آئیں کہ ان کو بچہ ہونے والا تھا اور دردِ زہ شروع تھا۔ بعض ایسی تکلیف کی حالت میں آئیں کہ ووٹ دیتے ہی وہ بے ہوش ہو گئیں۔ بعض ایسی تھیں کہ ان کو بچہ ہوئے صرف بارہ گھنٹے گزرے تھے کہ وہ اسی حالت میں سٹریچر(Stretcher) پر لیٹ کر ووٹ دینے کے لئے آ گئیں۔ ایک واقعہ ہو تو انسان اسے نظر انداز کر سکتا ہے مگر یہاں تو ایک درجن سے زائد ایسی عورتیں تھیں کہ بعض کو دردِ زہ لگی ہوئی تھی اور وہ ووٹ دینے کے لئے آ گئیں۔ او ربعض ایسی تھیں کہ ان کو بچہ ہوئے چند گھنٹے گزرے تھے اور وہ ووٹ دینے کے لئے آ گئیں اور بعض عورتیں ایسی بیماری کی حالت میں ووٹ دینے کے لئے آئیں کہ وہ بیٹھ بھی نہ سکتی تھیں۔ ان کو ڈولی میں لایا گیا اور ایک رشتہ دار نے دائیں طرف سے اور دوسرے نے بائیں طرف سے ا ن کو پکڑا ہؤا تھا کہ کہیں گِر نہ پڑیں۔ ایک درجن سے زیادہ مثالیں اس قسم کی قربانی کی موجود ہیں او راس قربانی کا اس قدر اثر تھا کہ وہ عورتیں جو مخالف پارٹی کی طرف سے بطور ایجنٹ کے تھیں وہ بھی عورتوں کی اس قربانی پر حیرت کا اظہار کر رہی تھیں۔ مگر اس کے مقابل پر قادیان کے مردوں نے پہلے دن کم ا زکم ستاسی ووٹ ضائع کر دئیے اور وہ بجائے وقت پر پہنچ کر ووٹ دینے کے اِدھر اُدھرچلے گئے۔ ان کی نظر میں بے شک ان ووٹوں کی قیمت نہ ہو لیکن وہ شخص جس کی عقل صحیح طور پر کام کرتی ہو۔ وہ جانتا ہے کہ ان ووٹوں کی قیمت کئی ہزار کے برابر تھی۔ شاید یہ لوگ بٹالہ یا کسی گاؤں سے سودا وغیرہ خریدنے کے لئے چلے گئے اور اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھتے ہوئے انہوں نے وقت پر پہنچنے کی کوشش نہ کی۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے تو ان کا فرض تھا کہ مرتے یا جیتے بہرحال وقت پر قادیان پہنچ جاتے۔ مجھے افسوس ہے کہ ان لوگوں نے قومی بیداری کا ثبوت نہیں دیا۔ وہ شخص جس کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے وہ اس کو ہر حالت میں پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ایک احمدی دکاندار جن کا نام محمد اکرام ہے اور بھائی محمود احمد صاحب کی دکان کے ساتھ ان کی دکان ہے وہ پہلے لاہور میں رہتے تھے۔ جب پہلا الیکشن ہؤا ہے اس وقت کانگرس نے الیکشنوں کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور جو شخص ووٹ دینے کے لئے جاتا وہ اسے گالیاں دیتے، پتھر مارتے اور بُرا بھلا کہتے ۔ جس کی وجہ سے لوگ ووٹ دینے سے رُک گئے۔ ان دنوں لاہور میں ہمارا غالباً ایک ہی ووٹ تھا۔ اب تو خدا تعالیٰ کے فضل سے لاہور میں ہمارے سینکڑوں ووٹ ہیں لیکن اس وقت صرف ایک ہی ووٹ تھا۔ اس وقت دو مسلمان امیدوار کھڑے ہوئے تھے ۔ ایک ملک برکت علی صاحب ایڈووکیٹ اور ان کے مقابلہ پر محرم علی صاحب چشتی ۔ چشتی صاحب مرزا سلطان احمد صاحب کے دوست تھے۔ لیکن سلسلہ سے بہت عِناد اور تعصب رکھتے تھے لیکن غالباً مرزا سلطان احمد صاحب کی سفارش پر جماعت نے ان کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ جب کانگرسیوں کی طرف سے پتھر پڑے اور گالیاں دی گئیں تو سب ووٹر بھاگ گئے۔ اس وقت سارے الیکشن میں غالباً صرف اسّی ووٹ گزرے تھے۔ اور وہ بھی ایسے جو غوغائیوں کے اجتماع سے پہلے وہاں چلے گئے تھے۔ اور جب یہ حالت ہو اُس وقت ایک ایک ووٹ بھی بہت بڑی قیمت رکھتا ہے۔ جب یہ کانگرسی سب لوگوں کو ووٹ دینے سے روک رہے تھے۔ شیخ محمد اکرام صاحب بھی اپنا ووٹ محرم علی صاحب چشتی کے حق میں دینے کے لئے گئے تو کانگرسیوں نے انہیں بھی گالیاں دینی شروع کیں۔ اور ان پر پتھر پھینکنے شروع کئے لیکن یہ بڑھتے گئے اور کہتے جاتے تھے کہ مجھے تو اپنے امام کا حکم ہے اس لئے مَیں نے ووٹ ضرور دینا ہے۔ یہ چلے جا رہے تھے کہ ان کے ایک پتھر لگا اور اس پتھر کے لگنے کی وجہ سے خون بہنے لگا لیکن یہ گزرتے چلے گئے اور یہی کہتے گئے کہ مجھے تو اپنے امام کا حکم ہے اس لئے مَیں نے ضرور جانا ہے۔ آخر پتھر مارنے والوں میں سے ایک نے کہا کہ یہ احمدی ہے اس نے تو ضرور جانا ہے۔ یہ رُکے گا نہیں اسے کچھ نہ کہو۔ اس بات کا محرم علی صاحب چشتی پر اس قدر اثر ہؤا کہ وہ بعد میں کہا کرتے تھے کہ مَیں تو اس ایک ووٹ کی وجہ سے احمدیت کا قائل ہو گیا ہوں۔ اور مَیں مانتا ہوں کہ جو قربانی اس جماعت کے افراد میں پائی جاتی ہے وہ دوسرے لوگوں میں نہیں۔ حتّٰی کہ جب الیکشن پٹیشن ہوئی اور مجھے گواہ کے طور پر بلایا گیا تو انہوں نے عدالت میں میرے سامنے اس خیال کا اظہار کیا کہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ ایک شخص کو گالیاں دی جائیں، پتھر مارے جائیں لیکن وہ یہی کہتا چلا جائے کہ مَیں نے ووٹ ضرور دینا ہے کیونکہ مجھے میرے امام کا حکم ہے کہ فلاں شخص کو ووٹ دو۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باہر سے آنے والے دوستوں نے بھی قربانی کی ہے اور بعض کی قربانی واقع میں حیران کُن ہے۔ بعض دوست پونا سے ووٹ دینے کے لئے آئے، بعض کراچی اور بمبئی سے ووٹ دینے کے لئے آئے۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قادیان کے مردوں نے قربانی کا اعلیٰ نمونہ پیش نہیں کیا۔٭
شاید لوگ سمجھتے ہوں کہ یہ دنیوی کام ہے او ردنیوی کاموں کے لئے قربانی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، قربانی تو دین کے لئے ہوتی ہے۔ مَیں ایسے لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہمارے راستہ میں آجکل قرآن کریم کی آیات پڑھ کر روکیں ڈالی جاتی ہیں یا حدیث کے غلط معنے کر کے ہمارے راستہ میں روکیں ڈالی جاتی ہیں؟ ہمارے راستہ میں تو پبلک یا گورنمنٹ کے افسروں کو برانگیختہ کر کے روکیں پیدا کی جاتی ہیں اور دشمن اپنے منصوبوں کے ذریعے حکومت کے افسروں کو ساتھ ملا کر ہمارے مقاصد سے ہمیں دور رکھنا چاہتے ہیں۔ پس اگر گورنمنٹ میں ہمارے نمائندے موجود ہوں جو ہماری آواز کو بلند کریں۔ تو یہ روکیں کم ہونی شروع ہو جائیں گی۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ آجکل دشمن کس راستہ سے حملہ کرتا ہے۔ جس راستہ سے وہ حملہ کرے اسے مسدود کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آخر وجہ کیا ہے کہ جو حق گورنمنٹ ہمیں خود دیتی ہے اس کو نہ لیا جائے۔
قادیان سے بعض مُخْرَجِیْن نے ایک اشتہار نکالا ہے جس کے پڑھنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ کسی بڑے مخلص احمدی نے اسے شائع کیا ہے۔ اس اشتہا رمیں انہوں نے یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اپنی جماعت کو سیاست میں حصہ لینے سے منع
٭گو بعد کے دو دنوں میں اس کی تلافی انہوں نے کی اور سید محمود اللہ شاہ صاحب اور ان کے عملہ اور طلباء نے عورتوں کے انتظام میں جس قدر مردوں کی امداد کی ضرورت تھی اسے پورا کیا۔ جَزَاھُمُ اللہُ اَحْسَنَ الْجَزَاء ۔ لیکن میرے دل پر پہلے دن کے پولنگ کے نقص اور ووٹوں کی تیاری کے نقص کا بہت اثر ہے۔
فرمایا ہے۔ اس لئے احمدیوں کو الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہئے کیونکہ یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے منشاء کے خلاف ہے۔ اگر یہ بات درست ہے جو اس میں لکھی گئی ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ کل کو خدا تعالیٰکے فضل سے جب کسی ملک کے سب لوگ احمدی ہو جائیں تو احمدی علماء فتویٰ دے دیں کہحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اپنی جماعت کو سیاست میں حصہ لینے سے منع کیا ہؤا ہے اس لئے کوئی احمدی بادشاہ نہیں ہو سکتا نہ وزیر ہو سکتا ہے، نہ کوئی پارلیمنٹ کا ممبر ہوسکتا ہے۔ اس لئے باہر کے کسی ملک سے ہندو یا عیسائی منگوائے جائیں جو آ کر احمدیوں کے ملک پر حکومت کریں۔ خود احمدیوں کو سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔ کیا کوئی عقل مند اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا یہی منشاء تھا؟
اصل بات یہ ہے کہ جب حکومت انگریزوں کے ہاتھ میں تھی تو ان کی مرضی تھی کہ وہ کسی کو اس کا کچھ حصہ دیں یا نہ دیں۔ اگر بغیر ان کی رضامندی کے زور اور سختی کے ساتھ مطالبہ کیا جاتا تو ٹکراؤ ہو جاتا۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اپنی جماعت کو روکا کہ یہ مناسب نہیں کہ حکومت سے ٹکراؤ پیدا کیا جائے کہ اس سے تبلیغ کی طرف سے توجہ ہٹتی ہے جو ہمارا اصل مقصد ہے۔ لیکن اب صورتِ حالات اَور ہے۔ اب انگریز خود کہتے ہیں کہ حکومت تم سنبھال لو اور جتنا کسی کا کوئی حصہ نکلتا ہے وہ اپنا حصہ ہم سے لے لے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اس بات سے منع فرمایا کہ اگر انگریز تمہیں کوئی چیز دینا بھی چاہیں تو تم لینے سے انکار کر دینا۔ بہرحال پہلے حالات اور آج کے حالات مختلف ہیں۔ اس وقت انگریز کہتے تھے کہ ہم ہندوستان کے حاکم اور بادشاہ ہیں لیکن آج انگریز کہتے ہیں کہ ہندوستانی ہی ہندوستان کے حاکم اور بادشاہ ہیں۔ اور جب صورتِ حالات یہ ہے تو ہمارا اپنے حقوق کے لئے جد و جہد کرنا سیاست میں حصہ لینا نہیں ہے بلکہ اپنے اس حصہ کو لینے کی کوشش کرنا ہے جس کو دینے کے لئے خود انگریز تیار ہے۔ فرض کرو کہ ملک میں یہ تحریک پیدا ہو جائے کہ گورنمنٹ کی زمینیں چھین لو تو ہم کہیں گے یہ سیاست ہے۔ ہماری جماعت کو اس میں حصہ نہیں لینا چاہئے ۔ لیکن اگر گورنمنٹ خود کہے کہ اتنے مربعے ہیں اور یہاں کے لوگ انہیں بانٹ لیں تو ہم اپنا حصہ ضرور لیں گے اس وقت کوئی شخص ہمیں اپنے حق سے محروم نہیں کر سکے گا۔ یا فرض کرو ایک کارخانہ کے مزدور اس وجہ سے سٹرائک کر دیں کہ کارخانہ کا مالک انہیں روپیہ کی بجائے سَوا روپیہ یومیہ مزدوری نہیں دیتا تو ہم احمدیوں کو سٹرائیک کرنے سے روکیں گے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اس سے منع فرمایا ہے۔لیکن اگر کارخانہ کا مالک خود ہی ان کو روپیہ کی بجائے سَوا روپیہ یومیہ مزدوری دینا چاہے تو کوئی احمدی بھی ایسا نہ ہو گا جو انہیں روکے کہ روپیہ کی بجائےسَوا روپیہ تم نہ لو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانہ میں انگریز ملک پر قابض تھے اور وہ حکومت کا کوئی حصہ بھی ہندوستانیوں کو نہیں دیتے تھے۔ ایسی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے سیاست میں حصہ لینے سے منع فرمایا کہ تم اپنی توجہ دین کی طرف رکھو اور ان مطالبات کے پیچھے پڑ کر اپنی توجہ دوسری طرف مت پھیرو۔ لیکن اب جبکہ انگریز خود بلاتے ہیں کہ آؤ اور آ کر اپنا حصہ لے لو تو ہم بھی اپنا حصہ لینے کے لئے آگے بڑھتے ہیں۔ اگر اپنا حق جو کہ مل رہا ہو لینے کو سیاست سمجھا جائے تو ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ پر مکہ میں جہاد فرض نہ ہؤا اور مدینہ آتے ہی آپ پر جہاد فرض ہو گیا۔ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ مکہ کے حالات اَور تھے اور مدینہ کے حالات اَور۔ مکہ میں آپ بطور رعایا کے تھے لیکن مدینہ میں آپ کی حیثیت ایک بادشاہ کی تھی۔ اسی طرح پہلے انگریز یہ کہتے تھے کہ ہندوستان کے حاکم ہم ہیں کسی دوسرے کا یہ کام نہیں کہ ہمارے معاملات میں دخل دے ۔ لیکن اب حکومت کا اکثر حصہ انگریزوں نے ہندوستانیوں کو دے دیا ہے۔ پس ہم تو اپنے حصے کا تصفیہ کر رہے ہیں اور یہ چیز جماعت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اور بے شک یہ بظاہر دنیوی نظر آتی ہے لیکن جماعت کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے بہت ہی ضروری چیز ہے۔
پس مردوں کا فرض تھا کہ قربانی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے لیکن افسوس ہے کہ انہوں نے اچھا نمونہ پیش نہیں کیا۔ آج ہی بعض کاموں کے لئے مَیں نے میاں بشیر احمد صاحب کو ایک کام کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے آدمی دن رات کام کرنے کی وجہ سے تھک کر چُور ہو چکے ہیں اور سائیکل بھی کوئی نہیں ملتا ۔ اس میں شک نہیں کہ خود میاں بشیر احمد صاحب اور قادیان کے بعض اَور دوست ان کے ساتھ رات کے تین تین بجے تک کام کرتے رہے ہیں اور اگر محلوں کے پریذیڈنٹ بھی ساتھ شامل کر لئے جائیں تو ان سب کی تعداد بیس پچیس کے قریب ہو جاتی ہے لیکن قادیان کی آبادی اس وقت بارہ ہزار کی ہے۔ اتنی آبادی میں سے صرف بیس پچیس آدمیوں کا کام کرنا سب کو بری نہیں کر دیتا۔ بے شک یہ بیس پچیس آدمی ایسے ہوں گے جو تھک کر چُور ہو گئے ہوں۔ باقی تو سب ترو تازہ ہیں۔ اگر ابھی سب کو قَسم دے کر پوچھا جائے کہ جس جس نے الیکشن کے کام میں حصہ لیا ہے وہ کھڑا ہو جائے تو دس فیصدی لوگ بھی کھڑے نہیں ہوں گے۔ باقی سب لوگ ایسے ہی ہیں جو اپنے کاموں میں مشغول رہے۔ یا دن کو الیکشن کا کام کیا تو رات کو آرام سے سو رہے۔ اس لئے وہ اگر سچے دل کے ساتھ کام کرنا چاہیں تو بخوبی کر سکتے ہیں۔ تھکاوٹ کا عذر ان کی طرف سے پیش نہیں ہو سکتا۔ پس مَیں دوستوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اصل کام آج سے شروع ہونے والا ہے اور اب وہ دن ہیں کہ بیرونجات میں دن رات ایک کر کے لوگوں کو یہ سمجھایا جائے کہ تمام امیدواروں میں سے بہترین امیدوار چودھری فتح محمد صاحب ہی ہیں۔ ان کے بعد دوسرا مسلم لیگی ممبر ہے۔ لیکن چونکہ اس کی کامیابی کی امید کم ہے اس لئے بلحاظ مسلمان ہونے کے اور مسلمانوں کے صحیح خیالات کی ترجمانی کرنے کے چودھری صاحب سے بہتر امیدوار ان کو کوئی نہیں مل سکتا۔ دوسرے چودھری صاحب زمیندار ہیں اس لئے زمینداروں کے حالات سے وہ سب سے زیادہ آگاہ ہو سکتے ہیں۔ پھر مسلم لیگی ممبر کے ووٹوں میں دو تین ہزار کی کمی ہے جس کو پورا کرنا سخت مشکل امر ہے۔ چودھری صاحب کو اس وقت اَڑتالیس سو کے قریب ووٹ مل چکے ہیں اور میاں بدر محی الدین صاحب کو بتیس سَو کے قریب اور لیگی امیدوار کو ساڑھے بائیس سو کے قریب ۔ گویا اگر مسلم لیگ والے اپنے ممبر کو کامیاب بنانا چاہیں تو انہیں یہ ستائیس سو کا فرق پورا کر کے پھر اتنا ہی ووٹ اَور حاصل کرنا ہو گا جو ایک امر محال ہے۔ اس لئے لیگ والوں کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ بجائے اپنے آدمی کو کامیاب بنانے کے ایسے آدمی کی مدد کریں جو ان کا ہم خیال ہے اورمسلم لیگ کے مقاصد سے دلچسپی رکھتا ہے۔ لیکن اگر اس کے برخلاف وہ میاں بدر محی الدین صاحب کو کوئی موقع کامیاب ہونے کا دیں تو ان سے ضلع کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک عرصہ تک ممبر رہ چکے ہیں مگر انہوں نے اس ضلع کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ پس بجائے اس کے کہ مسلم لیگی لوگ اس فرق کو پورا کرنے کی کوشش کریں انہیں چودھری صاحب کی مدد کرنی چاہئے کیونکہ وہ قریباً دو ہزار ووٹ میاں بدر محی الدین صاحب سے زیادہ حاصل کر چکے ہیں اور ان کی کامیابی کی امید بہت زیادہ ہے بہ نسبت مسلم لیگی ممبر کے۔ اسی طرح وہ لوگ جن کی اِردگرد کے گاؤں میں جہاں پولنگ ہو رہا ہے واقفیت ہو یا رشتہ داری ہو تو انہیں بھی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ووٹ چودھری صاحب کے لئے حاصل کریں۔ پھر دَوڑ بھاگ کے لئے بہت سے سائیکلسٹوں کی ضرورت ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس وقت بھی قادیان میں ایک سَو سے زائد سائیکل ہوں گے۔ تین چار سال ہوئے کہ مَیں نے قادیان کے سائیکلوں کا اندازہ کرایا تھا اس وقت قادیان میں سائیکلوں کی تعداد تین چار سو کےقریب تھی۔ پس اگر دوست قومی مفاد کی اہمیت کو سمجھیں تو آج ہی سو آدمی ایسا مل سکتا ہے جو سائیکلوں کے ساتھ مختلف مقامات پر یہ تمام خدمات سر انجام دینے کے لئے چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ 1مومن ہر چیز میں سے خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تاکہ وہ چیز پاک ہو جائے۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنا زیور غریب عورتوں کو پہننے کے لئے دیتی ہےتو اس زیور پر زکوٰة واجب نہیں۔ اس کا غریبوں کو دینا ہی زکوٰة ہے ۔ یا جو شخص اپنی سواری کا گھوڑا کسی غریب کو سواری کے لئے دیتا رہے یا خدا کی راہ میں اس پر سفر کرتا رہے تو وہی اس کے مال کو پاک کرنے کا موجب ہے۔ اسی طرح جو شخص اپنے روپے میں سے غریبوں کو کچھ حصہ دیتا ہے وہ اپنے روپے کو پاک کرتا ہے۔ کیا تم باقی سب چیزوں کو تو پاکیزہ اور حلال رکھنا پسند کرتے ہو لیکن سائیکل کو پاک کرنے کی تمہیں ضرورت نہیں؟اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہاری روٹی حلال ہو، تمہارا روپیہ حلال ہو، تمہارا کپڑا حلال اور پاکیزہ ہو تو کیا وجہ ہے کہ تم اپنے سائیکل کا حلال اور پاکیزہ ہونا پسند نہیں کرتے۔ سائیکل کی زکوٰة یہی ہے کہ اسے بوقت ضرورت دینی اورملی خدمات کے لئے دیا جائے۔ لیکن اگر تم ایسا نہیں کرتے تو یقیناً سمجھ لو کہ جتنی دیر تم اس سائیکل پر سوار ہو گے تم ایک حرام چیز سے کام لے رہے ہو گے۔
پس مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان باقی چار پانچ دنوں میں بے انتہا آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اگر اس وقت قربانی نہ کی گئی تو جماعت کو بہت بڑی ندامت کا سامنا ہو گا۔ ہمیں سائیکلوں کی ضرورت ہے اور سائیکل سواروں کی ضرورت ہے اور جن کے پاس سائیکل نہ ہوں لیکن ان کی قوم کے آدمی ان علاقوں میں ہوں جن میں پولنگ ہو رہا ہے اور وہ سمجھتے ہوں کہ وہ اپنی قوم کے آدمیوں پر اثر ڈال لیں گے تو انہیں بھی اپنے نام پیش کرنے چاہئیں۔ مَیں اس معاملہ میں کسی کو حکم نہیں دیتا۔ صرف اہمیت بیان کرنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں اور ان امور کی اہمیت بیان کرنا میرا فرض ہے۔ ابھی سری گوبند پور، فتح گڑھ چوڑیاں اور ڈیرہ بابا نانک میں پولنگ باقی ہے۔ جن دوستوں کی وہاں رشتہ داریاں ہوں انہیں بھی اپنے ناموں سے اطلاع دینی چاہئے یا ایسے لوگ جو سمجھتے ہوں کہ ہمارے اندر یہ ملکہ ہے کہ ہم لوگوں پر اثر ڈا ل لیں گے اور انہیں اپنی بات منوا لیں گے۔ ان کو بھی اپنے نام لکھوا دینے چاہئیں۔
عورتوں سے تو پہلے ہی تم پھسڈّی 2 نکلے ہو۔ اب کوشش کر کے ان کے برابر تو ہو جاؤ۔ امیر تیمور نے ایک دفعہ مولویوں کو عورتوں سے پیچھے جگہ دی۔ جب انہوں نے کچھ کہنا چاہا تو اس نے کہا کہ تم عورتوں سے بھی پیچھے ہو چکے ہو اس لئے تمہیں جگہ بھی ان کے پیچھے ملے گی اسی طرح تم بھی اب عورتوں سے پیچھے رہ چکے ہو۔ کوشش کرو کہ ان دنوں میں اس کمی کو پورا کر کے ان کے برابر ہی ہو جاؤ کیونکہ اَلْفَضْلُ لِلْمُتَقَدِّمِ فضلیت تو تقدم حاصل کرنے والے کو ہوتی ہے۔ عورتوں نے الیکشن میں قربانی کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کے اس ذکر کو ہمیشہ تازہ رکھا جائے اور بار بار جماعت کے سامنے اس واقعہ کو لایا جائے۔ انہوں نے بے نظیر قربانی اورنہایت اعلیٰ درجہ کی جان نثاری کا ثبوت دے کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ مردوں سے قومی کاموں میں آگے نکل گئی ہیں۔ مردوں کو مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ قومی کاموں میں سست ہیں اور قومی قربانی کے مفہوم کو پورے طور پر نہیں سمجھتے۔ دین کے لئے قربانی کا ذکر آئے تو وہ اس کے لئے تیار نظر آتے ہیں لیکن قومی مفاد کو برقرار رکھنے کے لئے اگر کسی قربانی کا مطالبہ کیا جائے تو اس کی طرف پوری توجہ نہیں دیتے۔ لوگوں کی اسی ذہنیت کی وجہ سے گورنمنٹ نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ کوئی شخص خدا کے غضب سے ڈرا کر ووٹ حاصل نہیں کر سکتا۔ دوسرے مسلمانوں کو دیکھ لو ۔ان کو خدا تعالیٰ کے غضب اور دوزخ اور جہنم سے ڈرایا جائے تو کس قدر ان میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے اور اچھے کام کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں لیکن قومی مفاد کا نام لے کر ہزار شور مچاؤ ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ قوم تباہ ہو یا باقی رہے، قوم غلام بنے یا آزاد رہے، حکومت ہندوؤں کے ہاتھ میں جائے یا عیسائیوں کے ہاتھ میں، ملک کو نقصان ہو تو بے شک ہو وہ ٹس سے مس نہیں ہوں گے۔ لیکن جب ان کو کہا جائے کہ خد اتعالیٰ قیامت کے دن تمہیں جہنم میں ڈالے گا تو فوراً چوکس ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ حالانکہ دنیا میں ہزاروں کام ایسے ہیں جو دوزخ کے ڈر سے ہی نہیں کئے جاتے بلکہ کئی اور باتیں ان کاموں کی محرک ہوتی ہیں۔ کیا تمہیں روزانہ یہ نظارہ نظر نہیں آتا کہ تم دن میں بیسیوں کام کرتے ہو، کوئی کام خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہو، کوئی کام ماں باپ کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہو، کوئی کام بیوی کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہو اور کوئی کام رشتہ داروں کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہو۔ اسی طرح ہر شخص اپنے تعلق والوں کو خوش کرنے کے لئے مختلف قسم کے کام کرتا ہے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جُبِلَتِ الْقُلُوْبُ عَلٰی حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ اِلَیْھَا۔3انسان کے قلب میں اپنے محسن کے لئے محبت ڈال دی گئی ہے۔ کوئی شخص خدا تعالیٰ کو اپنا محسن سمجھ کر اس سے محبت کرتا ہے، کوئی رسول کو اپنا محسن سمجھ کر اس سے محبت کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے خداتعالیٰ نے مجھ پر احسان کیا ہے مَیں کیوں نہ اس سے محبت کروں۔ خدا تعالیٰ کے رسول نے مجھ پر احسان کیا ہے مَیں کیوں نہ اس سے محبت کروں۔ میرے ماں باپ نے مجھ پر احسان کیا ہے مَیں کیوں نہ اس کی مدد کروں۔ میری ماں نے مجھ پر احسان کیا ہے مَیں کیوں نہ اس کی مدد کروں۔ میری بہن نے مجھ پر احسان کیا ہے مَیں کیوں نہ اس کی مدد کروں۔ میرے دوستوں نے مجھ پر احسانات کئے ہیں مَیں کیوں نہ ان کی مدد کروں۔ غرض مختلف قسم کے احسانات کی وجہ سے وہ ان کی مدد کرتا ہے۔ وہ یہ خدمتیں اور مددیں دوزخ سے بچنے کے لئے نہیں کرتا۔ تم دن اور رات میں جتنے کام کرتے ہو اگر ان کو گِننا شروع کرو تو دوزخ کے خوف کی وجہ سے تم نے زیادہ سے زیادہ آٹھ دس کام ہی کئے ہوں گے اور دوسرے تعلقات کی وجہ سے بہت زیادہ کئے ہوں گے۔ رسول کریم ﷺ بھی فرماتے ہیں بعض کام مستحب ہوتے ہیں اور بعض مباح مثلاً اگر تم نے کالا کوٹ نہ پہنا، اگر سبز کوٹ نہ پہنا، اگر زرد کوٹ نہ پہنا تو کیا تمہیں ان کے نہ پہننے کی وجہ سے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا؟ اگر نہیں تو پھر جب تم بازاروں میں پھرتے ہوئے کبھی ایک دکان پر جاتے ہو اور کہتے ہو کالے رنگ کا کپڑا کوٹ کے لئے چاہئے اور جب وہاں سے نہیں ملتا تو دوسری دکان پر جا کر پھر یہی کہتے ہو کہ کالے رنگ کا کپڑا چاہئے اور جب یہاں سے بھی نہیں ملتا تو تیسری دکان پر جاتے ہو اور کہتے ہو کالے رنگ کا کپڑا چاہئے۔ تو کس غرض سے مختلف دکانوں کا چکر کاٹتے ہو؟ صرف اپنی خواہش پورا کرنے کے لئے۔ یا تمہاری بیوی کہتی ہے کہ مجھے پھول دار کپڑا یا نینون 4 کا دوپٹہ چاہئے اور تم سارے بازار میں پھول دار کپڑا اور نینون کا دوپٹہ ڈھونڈتے پھرتے ہو۔ کیا اگر تمہاری بیوی یہ کپڑے نہ پہنے تو خدا اس کو جہنم میں ڈالے گا۔ یا کیا تم اپنی بیوی کو جہنم سے بچانے کے لئے یہ کپڑے خریدتے ہو؟ نہیں۔ بلکہ اس لئے خریدتے ہو کہ یہ تمہاری بیوی کی خواہش ہے اور اسی خواہش کو پورا کرنے کے لئے تم ہر دکان پر پھرتے ہو اور ان کپڑوں کو تلاش کرتے ہو۔ پھر کبھی تمہارا بچہ کہتا ہے کہ مجھے فلاں قسم کی مٹھائی چاہئے اور تم اس قسم کی مٹھائی خریدنے کے لئے بازار میں جاتے ہو۔ تم اِس لئے تو مٹھائی خریدنے نہیں جاتے کہ اگر نہ خریدی تو خدا اور رسول ناراض ہو گا بلکہ اِس لئے کہ تمہارے بچے نے خواہش کی تھی۔ اگر تم بچوں کے لئے قربانی کرتے ہو، اگر تم بھائیوں اور بہنوں کے لئے قربانی کرتے ہو، اگر تم ہمسایوں کے لئے قربانی کرتے ہو، اگر تم اپنے ماں باپ کے لئے قربانی کرتے ہو، اگر تم اپنے دوستوں کے لئے قربانی کرتے ہو تو اِس سے بڑھ کر تمہیں قوم کے لئے قربانی کرنی چاہئے۔ یہ قربانیاں ادنیٰ ہیں اور قوم کے لئے قربانی اعلیٰ ہے۔ بے شک سب سے بڑی قربانی خدا اور رسول کے لئے ہے مگر یہاں خدا اور رسول راستے میں حائل تو نہیں۔ یہ تو خدا اور اس کا رسول نہیں کہتا کہ اگر کام کیا تو دوزخ میں ڈالے جاؤ گے۔ جہاں خد ا اور رسول کچھ نہیں کہتے وہاں قومی کام سب سے مقدم ہوتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ جو چاہو کرو اور جس میں فائدہ ہے کرو تو پھر جس کام میں قومی فائدہ ہو وہ ہمیں کرنا چاہئے کیونکہ خدا اور رسول اس کے راستہ میں حائل نہیں۔ پس مَیں دوستوں کو وقت پر اطلاع دیتا ہوں۔ آج آٹھ تاریخ ہے اور تیرہ تاریخ تک ووٹنگ ہو گی۔ پانچ دن باقی ہیں۔ آج کا دن تو ضائع ہو گیا مگر ابھی وقت ہے۔ اب اِس میں ایک منٹ بھی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ جن جن دوستوں کے دلوں میں خدمت کا جوش ہے وہ اپنے آپ کو پیش کریں اور جن جن کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی ہے اور اُن کے پاس سائیکلیں ہیں وہ اپنے سائیکل پیش کریں۔ اور اگر کوئی اَور سواری مثلاً گھوڑا وغیرہ اُن کے پاس ہے تو اسے پیش کریں تا آدمیوں اور سواروں کی جو کمی ہے وہ پوری ہو جائے۔ ’’ (الفضل 15 فروری 1946ء )
1: البقرة : 4
2: پھسڈّی: کم درجہ، ناقص، شکست خوردہ، پست
3: اَلْجَامِعُ الصَّغِیْرلِلسَّیُوْطِی صفحہ 218۔ مطبوعہ بیروت 2002ء
4:نینون: ایک قسم کا باریک سوتی کپڑا جس پر آنکھ کی مانند تارے تارے سے بنے ہوتے ہیں ،
پھول دار کپڑا

4
خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں اور التجائیں کی جائیں کہ ہماری کاغذی ناؤ کو پار لگا دے
( فرمودہ 15 فروری 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ حضرت علیؓ کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ عَرَفْتُ رَبِّیْ بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ 1 مَیں نے اپنے رب کو بڑے بڑے پختہ ارادوں کی ناکامیوں اور ان کی شکستوں کی وجہ سے پہچانا ہے۔ یہ ہے تو ایک چھوٹا سا فقرہ لیکن درحقیقت اس میں انسانی زندگی کی تاریخ کا نچوڑ بیان کر دیا گیا ہے۔ انسان اپنے ارادوں کی پختگی پر ایسا اعتبار کرتا ہے کہ بسا اوقات وہ خدا تعالیٰ کو بالکل ہی بھول جاتا ہے۔ غیر مومن اور ایک دہریہ کی بات تو الگ رہی، ایک رسمی مومن کی بات تو الگ رہی، ایک کمزور مومن کی بات تو الگ رہی، مَیں نے اپنی ساری زندگی میں جو کہ مذہبی ماحول میں گزری ہے اور ان تمام تعلیمات کے باوجود جو قرآن کریم کے متعلق ہمارے پیشرو دیتے رہے ہیں یا مَیں دیتا رہا ہوں بالعموم احمدیوں کے منہ سے بھی یہ بات سُنی ہے کہ یہ بات تو ضرور ہو کر رہے گی۔ ہم نے یہ بھی کر لیا ہے، وہ بھی کر لیا ہے، یوں بھی کر لیا ہے، وُوں بھی کر لیا ہے اب اِس کے اندر تبدیلی کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔ اور مَیں نے اپنی زندگی میں ہمیشہ اِن دعووں کو کُلّی طور پر تو نہیں لیکن جزوی طور پر غلط ہوتے بھی دیکھا ہے۔ کیونکہ درمیان میں بیسیوں چیزیں ایسی آ جاتی ہیں جن کو انسان اپنے عزم اور ارادہ سے دھوکا کھاتے ہوئے بالکل نظرانداز کر دیتا ہے۔ بیسیوں دفعہ ایسا ہؤا ہے کہ مَیں نے کسی کو کہا کہ فلاں کام کر دو اور کچھ دیر کے بعد اس نے اطلاع بھجوا دی کہ کام ہو گیا لیکن بعد میں معلوم ہؤا کہ نہیں ہؤا۔ اس سے پوچھا گیا کہ کام کیوں نہیں ہوا؟ تو اُس نے جواب دیا کہ مَیں نے تو فلاں کو کہہ دیا تھا۔ حالانکہ کہہ دینے کا نام تو ‘‘ ہو گیا’’ نہیں ہوتا۔ کہہ دیا تو محض ایک ارادہ ہے اور ارادہ کے لئے ضروری نہیں کہ وہ پورا بھی ہو جائے۔ تو لوگ محض ارادہ کا نام وقوع سمجھ لیتے ہیں اور بعض دفعہ اس ارادہ کو پورا کرنے کے لئے ایک فعل کرتے اور سمجھ لیتے ہیں کہ انجام کے راستہ میں کوئی روک باقی نہیں رہی اس شخص کی طرح جو کسی کو ایک کام کہہ کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ کام ہو گیا ہے اورجب بعد میں کام نہ ہونے پر پوچھا جائے تو کہہ دیتا ہے کہ مَیں نے تو اُسے کام کرنے کے لئے کہہ دیا تھا لیکن اُس سے سُستی ہوئی۔ ایسی حالت میں جب سُستی کا امکان ہمیشہ موجود ہوتا ہے تو کسی مومن کو حق کیا ہے کہ وہ خدائی اپنے ہاتھ میں لے لے اور کہہ دے کہ فلاں بات بالکل یقینی ہے۔ شاید میری زندگی کا ایک بہت بڑا عُقدہ جماعت کے لوگوں کو یہی سمجھانا رہا ہے کہ اس قسم کا اعتماد انسانی افعال پر نہیں کرنا چاہئے اور یہ کہ خدا تعالیٰ کے خانہ کو ہمیشہ خالی رکھنا چاہئے۔ اور اس کی تقدیر پر ایمان رکھنا چاہئے لیکن ابھی بہت کم لوگ ایسے ہیں جن میں یہ مادہ نظر آتا ہے کہ اپنی ساری تدبیروں کے باوجود وہ یہ سمجھیں کہ ہماری تدبیریں خدا تعالیٰ کی تقدیر سے ٹکرا کر بعض دفعہ پاش پاش ہو جایا کرتی ہیں۔
ہماری قومی زندگی کا موجودہ دَور بھی ایک بہت بڑی اہمیت رکھنے والا ہے کیونکہ تحریک جدید کے ذریعہ ہم نے دنیا بھر کی تبلیغ کے لئے ایک نقشہ بنایا ہے۔ بیسیوں نوجوان اِسی غرض کے لئے تیار کئے ہیں کہ وہ بیرونی ممالک میں جائیں اور ایسے رنگ میں تبلیغ کریں کہ اشاعتِ اسلام بھی ہو، اُن کے گزارے کی صورت بھی نکل آئے اور علمی طور پر بھی ان ممالک پر احمدیت کا رُعب چھا جائے۔ لیکن ہمارا یہ دَور اب تک صرف تمہیدی دَور گزرا ہے۔ جماعت نے چندے دئیے، نوجوانوں نے زندگیاں وقف کیں، پڑھنے والوں نے پڑھا، لٹریچر لکھنے والوں نے کچھ لٹریچر تیار کیا اور بعض نوجوانوں کو غیر ممالک میں تبلیغِ اسلام کے لئے روانہ کیا گیا۔ لیکن اِس کے بعد ابھی یہ مرحلہ باقی ہے کہ باہر جانے والے ایسے طور پر کام کرنے میں کامیاب ثابت ہوں کہ ان کے ذریعہ غیر ممالک میں ایسی آواز پیدا ہو جائے کہ لوگوں کے قلوب ہِل جائیں اور وہ ان کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ پھر یہ بھی سوال ہے کہ وہ اپنے گزاروں کے لئے ایسے راستے نکال سکیں کہ جن سے تبلیغ کو وسیع سے وسیع تر کیا جا سکے۔ مَیں نے جو قدم اٹھایا ہے وہ دنیا کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی معنے ہی نہیں رکھتا۔ دنیا میں دو اَرب کے قریب آدمی ہے۔ اگر ایک ہزار آدمیوں کے لئے ایک مبلغ رکھا جائے تو یہ سمجھ لو کہ دو لاکھ مبلغین کی ہمیں ضرورت ہے لیکن ہم نے اِس وقت تک جو مبلغین بھیجے ہیں اگر اُن میں پُرانوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو چالیس کےقریب تعداد بنتی ہے۔ جہاں دو لاکھ کی ضرورت ہو وہاں چالیس مبلغ بھلا کیا کام دے سکتے ہیں۔ ہمارے ملک کے زمیندار کی اوسط خوراک پانچ چھٹانک سمجھی جاتی ہے۔ پانچ چھٹانک کے معنی ہوئے پچیس تولے۔ اور رتّیوں کے لحاظ سے قریباً چوبیس سَو رَتی بنی۔ اور چاولوں کے لحاظ سے یہ قریباً اُنیس ہزار چاول بنے۔ شہری لوگوں کی خوراک تو کم ہوتی ہے یہاں تک کہ بعض لوگ ایک یا ڈیڑھ چھٹانک پر ہی گزارہ کر لیتے ہیں لیکن ایک محنت کش مزدور کی عام خوراک اُنیس ہزار چاول ہوتی ہے۔ اب تینتیس مبلغین کو دو لاکھ کے مقابل میں رکھ کر دیکھ لو کہ کیا نسبت بنتی ہے۔ اگر ہزار مبلغ ہوں تو دوسواں حصہ ہو گا۔ اگر سَو مبلغ ہوں تو ہزارواں حصہ ہو گا۔ اور اگر تینتیس مبلغ ہوں تو وہ دو لاکھ کا چھ ہزارواں حصہ بنیں گے۔ دوسرے لفظوں میں ایک عام آدمی کی خوراک کے مقابل پر ہم دنیا کو روحانی خوراک کے تین چاول پیش کرتے ہیں۔ کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ایک محنت کش اور مزدور پیشہ زمیندار کو تم تین چاول صبح اور تین چاول شام دے کر زندہ رکھ سکتے ہو۔ اگر ایک محنت کش مزدور کو تم تین چاول صبح اور تین چاول شام دے کر زندہ نہیں رکھ سکتے تو تم دنیا کو بھی تینتیس مبلغین کے ساتھ کسی صورت میں زندہ نہیں رکھ سکتے۔ مگر یہاں تو سوال زندہ رکھنے کا نہیں بلکہ سوال زندہ کرنے کا ہے۔ زندہ رکھنے کے لئے تو بے شک پانچ چھٹانک غذا کافی ہو جائے گی لیکن مُردہ نہ سہی نیم مُردہ کو بھی زندہ کرنے کے لئے یہ غذا کافی نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لئے کئی سیر غذا کے خلاصہ کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ایسی حالت میں جو سٹیمولینٹ (Stimulant)2 استعمال کئے جاتے ہیں وہ سیروں خوراک کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ پس زندہ کرنے اور زندہ رکھنے میں فرق ہے۔ ہماری جماعت کے مبلغ اس لئے نہیں گئے کہ وہ لوگوں کو زندہ رکھیں بلکہ اس لئے گئے ہیں کہ وہ لوگوں کو زندہ کریں۔ اس لئے ان کی مثال دنیا کے مقابلہ میں ایسی بھی نہیں جیسی تین چاولوں کی ہوتی ہے بلکہ ان کی مثال تو ایک چاول کے ہزارویں حصہ کی بھی نہیں رہ جاتی۔ جس طرح ایک شخص کا روٹی کی بجائے صرف سانس لے لینا اسے زندہ نہیں رکھ سکتا اسی طرح یہ مبلغ دنیاکی ضروریات کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے۔ یہ ایک بیج ہے جو زمین میں بویا گیا مگر وہ بیج نہیں جو کسی ملک کی ضروریات کومدنظر رکھتے ہوئے بویا جاتا ہے۔ گورنمنٹ بیج بوتی ہے تو وہ یہ امر مدنظر رکھتی ہے کہ اِتنا بیج ہو جو آٹھ دس یا پندرہ بیس سال میں سارے ملک کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ لیکن ہمارا یہ بیج اِس قسم کا بھی نہیں بلکہ ہمارا بیج اِس قسم کا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی پیدائش کے وقت دنیا میں بویا اور وہ لاکھوں لاکھ سال میں ترقی کو پہنچا۔ اگر اس تدریجی ترقی کے ساتھ یہ بیج بڑھا تو اس کے لئے لاکھوں یا ہزاروں سال کی ضرورت ہو گی۔ لیکن دنیا میں کوئی مذہب بھی آج تک ہزارہا سال تک زندہ نہیں رہا۔ موجود تو رہا ہے مگر زندہ نہیں رہا۔ ہندو مذہب ہندوؤں کے مقولہ کے مطابق لاکھوں سال سے ہے اور یورپین لوگوں کی تحقیقات کے مطابق یہ مذہب اڑھائی تین ہزار سال سے ہے ۔ مگر مذہب کا موجود ہونا اَور چیز ہے اور مذہب کا زندہ ہونا اَور چیز ہے۔ وہ حقیقتیں جو رِشی لائے تھے، وہ حقیقتیں جو کرشنؑ اور رامچندرؑ لائے تھے وہ اب کہاں ہیں؟ وہ زندگی کا ثبوت جو حضرت کرشنؑ اور حضرت رامچندرؑ پیش کیا کرتے تھے وہ اب کہاں ہے؟ وہ ان کا خدا تعالیٰ سے مکالمہ مخاطبہ اب کہاں ہے؟ اور کن لوگوں کے ساتھ ہے؟ یہ نہ سہی وہ کون سے ہندو ہیں جو ویدوں پر عمل کرتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ آج ساری ہندو دنیا میں ایک انسان بھی ایسا نہیں جو کہہ سکے کہ وہ ویدوں کی تعلیم کے مطابق باطنی طور پر تو الگ رہا ظاہری طور پر ہی عمل کر رہا ہے۔ عیسائی مذہب اُنیس سو سال سے موجود ہے لیکن موجود ہونا اَور چیز ہے اور زندہ ہونا اَور چیز ہے۔ حضرت مسیح ؑ تو دنیا کو للکار کر چیلنج دیتے ہیں کہ اگر تم میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہو گا تو تم ہؤاؤں کو کہو گے تھم جاؤ تو وہ تھم جائیں گی ، تم دریاؤں کو کہو گے کہ ٹھہر جاؤ تو وہ ٹھہر جائیں گے، تم پہاڑوں کو کہو گے کہ چلو تو وہ چلنے لگ جائیں گے۔ 3 ہم مانتے ہیں کہ یہ استعارے کا کلام ہے۔ پہاڑ سے مراد ہمالیہ نہیں، دریاؤں سے مراد گنگا جمنا یا انڈس نہیں اور ہواؤں سے مراد وہ ہوائیں نہیں جو درختوں کو ہلاتی ہیں بلکہ یہ سب استعارے کا کلام ہے۔ مگر استعارہ کے رو سے جو معنے ہواؤں کے ہیں، جو معنے دریاؤں کے ہیں، جو معنے پہاڑوں کے ہیں وہ معنے بھی تو آج پورے نہیں ہو رہے۔ وہ کونسا تغیر ہے جو عیسائیت کے ذریعہ دنیا میں ہو رہا ہے؟ عیسائیت نے تو یہ کہہ کر کہ شریعت ایک *** ہے ساری شریعتوں کو بیکار قرار دے دیا ہے۔ صرف دس احکام بتلائے ہیں مگر کیا اُن دس احکام پر بھی عیسائی عمل کر رہے ہیں؟ ہم مان لیتے ہیں کہ ایک حصہ کمزور ہوتا ہے جو شرعی احکام پر عمل نہیں کرتا لیکن آخر کچھ حصہ تو اس پر عمل کرتا ہے مگر عیسائیوں میں تو وہ حصہ بھی نہیں ملتا۔ اول تو وہ ہیں ہی دس احکام اور پھر ان پر بھی وہ عمل نہیں کر سکتے۔ اس کے مقابل پر ایک کمزور سے کمزور مسلمان بھی دن بھر میں پچاس احکام پر عمل کر لیتا ہے حالانکہ بڑے سے بڑا عیسائی حضرت مسیح کے دس احکام پر بھی عمل نہیں کرتا۔ پس عیسائیت ہے تو سہی لیکن عیسائیت زندہ نہیں۔ اس کی لاش پڑی ہوئی ہے۔ اسی طرح حضرت موسیٰؑ، حضرت زرتشتؑ اور دوسرے انبیاء کی تعلیم پر عمل بالکل مفقود ہے۔ پس ہزارہا سال تک کوئی قوم اور کوئی مذہب زندہ نہیں رہ سکتا، چِھلکا رہ جاتا ہے، فُضلہ رہ جاتا ہے مگر حقیقت باقی نہیں رہتی۔
مَیں جب بھی دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے کوئی مذہب بھی تین چار سَو سال سے زیادہ زندگی والا نظر نہیں آتا۔ رسول کریم ﷺ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ فَیْجُ الْاَعْوَجِ 4 کہ اسلام کی سب سے اچھی صدی پہلی ہو گی۔ اس کے بعد دوسری ہو گی اور پھر تیسری صدی ہو گی اس کے بعد بد اخلاق جماعت ہو گی۔ رسول کریم ﷺسے بڑھ کر شان والا اَور کون آدمی ہو گا مگر آپ کی تعلیم بھی تین چار سَو سال تک ہی چلی۔ آگے نہیں۔ پس جو قوم کامیاب بننا چاہتی ہے اُس کو اِس خیال میں نہیں پڑنا چاہئے کہ اس کے لئے ہزارہا سال کام کرنے کے لئے پڑے ہیں۔ کیونکہ آج تک ہزار سال تک ایک قوم بھی زندہ نہیں رہ سکی اور ہمارے اندر کوئی ایسی خصوصیت نظر نہیں آتی کہ ہم ہزارہا سال تک مذہب کو زندہ رکھنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔ ابھی تو مزید تربیت کی ضرورت ہے تاکہ جماعت صحابہؓ کے مقام تک پہنچے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسے آدمی ہم کو ملے ہیں جو صحابہؓ کے مقام تک پہنچے لیکن ہماری جماعت ابھی جماعتی لحاظ سے صحابہؓ کے مقام تک نہیں پہنچی اور ابھی جماعت کو اُس مقام تک پہنچنے کے لئے بہت بڑی جدو جہد اور قربانی کی ضرورت ہے۔ مگر صحابہؓ کی قربانیاں بھی اسلام کو تین سو سال تک ہی زندہ رکھ سکیں۔ پھر فَیْجِ اَعْوَج آ گیا۔ اگر ہم صحابہؓ کے مقام پر بھی پہنچ جائیں تب بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم تین سو سال تک زندہ رہ سکیں گے۔ حضرت مسیح ناصری کی تعلیم میں تو ڈیڑھ سَو سال بعد ہی شرک پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔ پس ہمارے لئے ایک تھوڑا سا وقت مقدر ہے اس تھوڑے سے وقت میں کیا تینتیس مبلغ دو لاکھ مبلغوں کا کام کر سکتے ہیں؟ یقیناً جب تک غیر معمولی کوشش ہماری طرف سے نہ ہو، جب تک غیر معمولی فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہ ہو اُس وقت تک یہ کام کبھی نہیں ہو سکتا۔ ہاں خدا تعالیٰ کا فضل جب نازل ہو تو دنیا میں آپ ہی آپ ایک نئی زندگی پیدا ہو جاتی ہے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان رات کو مومن سوئے گا۔ اور صبح کو اُٹھے گا تو کافر ہو گا اور رات کو کافر سوئے گا اور صبح اُٹھے گا تو مومن ہو گا۔5 اس کے یہی معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ان دنوں بڑے زور سے جاری ہو گی۔ ایک شخص کا رات کو مومن سونا اور صبح کو کافر اُٹھنا یہ تو ہمارے کام میں داخل نہیں اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام اس کام کے لئے دنیا میں آئے۔ یہ تو دشمنوں کا حصہ ہے۔ ہمارا حصہ یہ ہے کہ ایک شخص رات کو کافر سوئے اور صبح اُٹھے تو مومن ہو۔ یہ تقدیر ہمارے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور اس کو کھینچنا ہمارا اصل کام ہے۔ اس غرض کے لئے جو آدمی ہم نے تیار کر کے باہر بھیجے ہیں جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں بلکہ آٹے میں جتنا نمک ہوتا ہے اس سے یقیناً بہت کم ہیں اور درحقیقت اسے تبلیغی جد وجہد کہنا بھی غلط ہے۔ پھر نہ معلوم جب انہوں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو کس طرح کام کریں گے۔ ان کےد ماغ کتنے روشن ہوں گے، ان کے اندر عرفان کس حد تک پیدا ہو گا، ان کا ایمان انہیں کتنی قربانی پر آمادہ کرے گا اور پھر ان کی آواز میں کتنا اثر ہو گا کہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں۔ ان کے قلوب ان کی طرف کھنچ جائیں اور وہ ایمان کی طرف قدم اٹھانے کے لئےتیار ہو جائیں۔ یہ سار اکام ایسا ہے جو ہمارے قبضہ میں نہیں بلکہ اس میں سے کچھ حصہ تو ہمارے مبلغین کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور کچھ حصہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ ہماری مثال تو ایسی ہی ہے جیسے کسی نے کاغذ کی ناؤ بنائی اور دریا میں چھوڑ دی۔ اب یہ کاغذ کس حد تک پانی کے حملہ سے بچا رہتا ہے اور کس طرح خدا تعالیٰ ہلکی ہلکی ہواؤں کو چلاتا اور کاغذ کی ناؤ کو پار اتار دیتا ہے۔ یہ سارا کام اسی کا ہے ہمارے بس کی بات نہیں۔ مثل مشہور ہے کہ کاغذ کی ناؤ آج نہ ڈوبی کل ڈوبے گی۔ ہماری ناؤ بھی کاغذ کی ہے اور ہم اس کے متعلق یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناؤ آج نہ ڈوبی کل ڈوبے گی۔ آگے یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اسے دوسرے کنارے پر سلامتی کے ساتھ پہنچا دے۔ اور یہ محض اس کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے ہماری کوششوں سے نہیں۔ پس ہمیں خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں اور التجائیں کرنی چاہئیں کہ وہ اس ناؤ کو سلامتی کے ساتھ دوسرے کنارے پر پہنچا دے۔ جہاں تک انسانی تدابیر اور کوششوں کا سوال ہے کاغذ کی ناؤ کا دوسرے کنارے پر جانا تو الگ رہا وہ اپنے کنارہ سے چلے بغیر ہی ڈوب جایا کرتی ہے۔
ایک بہت بڑا کام ہمارے سپرد ہے اور ہمیں کبھی بھی اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ دنیا بھر کے دلوں کو بدل ڈالنا معمولی بات نہیں۔ درحقیقت زمین وآسمان کو پیدا کرنا آسان ہے مگر دنیا کے قلوب کو بدل ڈالنا آسان بات نہیں۔ مَیں نے یہ بات یونہی نہیں کہی۔ مجھ سے پہلے بزرگوں نے بھی یہ بات کہی ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ فرمایا۔ اگر تمہیں کوئی شخص کہے کہ اُحد پہاڑ اپنی جگہ سے ہِل گیا ہے تو مان لینا لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ فلاں شخص کی طبیعت بدل گئی ہے تو نہ ماننا۔ گویا حضرت عمرؓ نے ایک آدمی کی طبیعت کے بدل جانے کو ایک پہاڑ کے ہِل جانے سے زیادہ مشکل قرار دیا ہے اور مَیں نے تو ساری دنیا کے قلوب کو بدلنے کی اہمیت بتائی ہے۔ پس جو نسبت مَیں نے آسمان اور زمین کی ساری دنیا کے قلوب سے لگائی ہے وہ غلط نہیں ہے۔ واقع یہی ہے کہ قلوب کو بدلنا کوئی معمولی بات نہیں۔ ہمارا چند پیسے چندوں میں دے دینا یا ہمارے چند نوجوانوں کا زندگی وقف کر دینا محض ایسا ہی ہے جیسے لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہو جانا۔ قلوب جب بھی بدلتے ہیں آسمانی تقدیر کے ساتھ بدلتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض معقول باتیں ہوتی ہیں لیکن ضدی طبائع کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہیں اور بعض غیر معقول باتیں ہوتی ہیں لیکن وہ اس طرح اثر کرتی چلی جاتی ہیں جس طرح موافق ہوا کے باعث بادبانی کشتی اُڑتی چلی جاتی ہے۔
پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ آجکل خدا تعالیٰ کے حضور خاص طور پر دعائیں کریں۔ مگر دعائیں اس رنگ میں نہیں ہونی چاہئیں جس رنگ میں عام طور پر لوگ کرتے ہیں بلکہ حقیقی رنگ میں دعا کرنی چاہئے اور حقیقی دعا وہ ہوتی ہے کہ جب قلوب پر اثر ہوتا ہے تو آپ ہی آپ دل اور زبان سے دعا نکلتی چلی جاتی ہے۔ انسان کام بھی کرتا جاتا ہے اور دعا بھی نکلتی جاتی ہے۔ تم سجدہ چوبیس گھنٹے نہیں کر سکتے، تم رکوع چوبیس گھنٹے نہیں کر سکتے، تم قیام چوبیس گھنٹے نہیں کر سکتے، تم قعدہ چوبیس گھنٹے نہیں کر سکتے لیکن چوبیس گھنٹے تمہارے دل میں ایک جوش رہ سکتا ہے اور ا س کی وجہ سےدعا تمہارے دل پر جاری رہ سکتی ہے۔ شاید تم میں سے کوئی کہے کہ انسان تو رات کو سو جاتا ہے پھر چوبیس گھنٹے کس طرح کوئی دعا جاری رہ سکتی ہے؟ لیکن یہ اعتراض علم کی قلت کا نتیجہ ہے۔ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ علم تصوف کی رُو سے بھی اور علمُ النفس کی رُو سے بھی کہ انسان جن خیالات میں سوتا ہے وہ خیالات ساری رات نیند میں بھی جاری رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اس بات پر خاص طور پر زور دیا ہے کہ رات کو سوتے وقت آیتُ الکرسی اور آخری تین سورتیں پڑھ کر ہاتھ پر پُھونک مارو اور پھر ہاتھ اپنے جسم پر پھیر لو اور پھر خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگتے ہوئے سوؤ کہاَللّٰھُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَیْکَ وَ وَجَّھْتُ وَجْھِیْ اِلَیْکَ وَ فَوَّضْتُ اَمْرِیْ اِلَیْکَ وَ الْجَأْتُ ظَھْرِیْ اِلَیْکَ رَغْبَةً وَّ رَھْبَةً اِلَیْکَ لَامَلْجَأَ وَلَامَنْجَأَ مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ ۔ اَللّٰھُمَّ اٰمَنْتُ بِکِتَابِ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَ نَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ۔ 6 اور اس کے بعد کوئی بات نہ کرو۔ آخر کیوں رات کو سوتے وقت یہ الفاظ پڑھنے کے لئے کہا گیا اور کیوں یہ کہا گیا کہ اِس کے بعد کوئی بات نہ کی جائے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ جن خیالات میں انسان رات کو سوتا ہے وہی خیالات ساری رات اس کے دماغ میں چکر لگاتے رہتے ہیں حالانکہ وہ سو رہا ہوتا ہے۔ یہ مت خیال کرو کہ رات کو دماغ خالی ہوتا ہے۔ دماغ رات کو بھی سوچتا رہتا ہے۔ صرف اِتنا فرق ہے کہ دماغ کا بیرونی حصہ جس کی وجہ سے انسان بیرونی دنیا کی باتیں سنتا ہے وہ سویا ہوا ہوتا ہے لیکن اندرونی حصہ برابر کام کر رہا ہوتا ہے۔ تم کہو گے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ انسان کو علم بھی نہ ہو اور دماغ بھی اپنا کام کر رہا ہو؟ مَیں یہ بات سمجھانے کے لئے ایک موٹی مثال دیتا ہوں۔ تم ایک چیز کھاتے ہو، اُس کے بعد تمہیں پتہ نہیں ہوتا کہ تمہارے معدے میں کیا ہو رہا ہے،تمہیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ تمہارے جگر میں کیا ہو رہا ہے، تمہیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ تمہارےدل میں کیا ہو رہا ہے اور دس پندرہ دن کے بعد وہ کھانا ایک بیماری کی شکل میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ اُس کی وجہ یہی ہے کہ جسم کے ایک حصہ کو اس کا علم تھا اور دوسرے کو اُس کا پتہ نہیں تھا۔ ظاہر اِس بات سے ناواقف تھا کہ اندر زہر کی ایک فیکٹری بن گئی ہے لیکن باطن اس فیکٹری کو جانتا تھا۔ پس یہ عجیب بات نہیں ۔ روزانہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ہم ظاہری علم کے لحاظ سے نہیں جانتے لیکن ہمارا اندر اُنہیں جانتاہے اور بعض ایسی ہوتی ہیں جن کو ہم ظاہر میں بھی جانتے ہیں۔ اسی طرح رات کے وقت انسان جن خیالات میں سوتا ہے وہی ساری رات اس کے قلب میں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ پس جب طبیعت میں جوش پیدا ہو جائے اور انسان خواہ کسی حالت میں ہو دعا کرتا رہے تو وہ دعا ضرور قبول ہو جاتی ہے۔ مَیں نے خود کئی دفعہ دیکھا ہے مَیں کام بھی کرتا رہتا ہوں اور دعا بھی دل سے نکلتی چلی جاتی ہے۔ اُس وقت مجھے یقین ہوتا ہے کہ یہ دعا ضرور قبول ہو گی۔ بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمارے لئے بھی اسی طرح دعا کریں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ قلب کی یہ کیفیت انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی۔ یہ نتیجہ ہوتی ہے دوسری دعاؤں کا۔
بہرحال افراد کی ضروریات بھی خدا تعالیٰ پوری کرتا ہے اور قوم کی ضروریات بھی خدا تعالیٰ پوری کرتا ہے لیکن اسلام کی ضروریات کو پورا کرنا تو وہ اپنا فرض سمجھتا ہے کیونکہ اسلام کو اس نے بھیجا۔ رسول کریم ﷺ کو اس نے بھیجا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو اس نے بھیجا۔ پس جس ہستی نے رسول کریم ﷺ کو بھیجا اور قرآن شریف کو نازل کیا، جس ہستی نے دونوں کے نام کو دوبارہ روشن کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو بھیجا اُس ہستی کے متعلق یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ہم سے زیادہ دنیا کی اصلاح کی فکر مند نہیں۔ یقیناً وہ ہم سے زیادہ فکر مند ہے۔ سوال صرف اِس قدر ہے کہ ہم اس کے آلہ کار بن جائیں تاکہ ہمارے ذریعہ وہ مقصد پورا ہو جائے ۔اس کے لئے ہمیں اُس کے حضور جُھک کر اِيَّاكَ نَعْبُدُ 7کے ماتحت اپنی زندگیاں وقف کر دینی چاہئیں اور اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ 8کے ماتحت اپنی دعاؤں کو وقف کر دینا چاہئے۔ اگر ہم ایسا کر دیں تو یقیناً اِس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ ایسا صراطِ مستقیم پیدا فرما دے گا جس سے احمدیت دنیا میں غالب آ جائے گی، رسول کریم ﷺ کا نام دنیا میں پھر روشن ہو جائے گا۔ قرآن کریم پھر بولنے والی کتاب بن جائے گی جو لوگوں سے باتیں کرے گی، اُن کی اصلاح کرے گی اور ان کے اندرونی نقائص کو دور کر دے گی۔ مگر ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر تبدیلی پیدا کر کے اپنے آپ کو اُس کے فضلوں کے مستحق بنائیں۔ اور خدا تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر دعا کریں کہ وہ ہمیں اِس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اپنا آلۂ کار بنا لے، وہ ہماری زبانوں میں اثر پیدا کرے، وہ ہماری آنکھوں میں اثر پیدا کرے، وہ ہمارے ہاتھوں میں اثر پیدا کرے تاکہ اگر ہم کچھ لکھیں تو وہ لوگوں کےد لوں میں اُتر جائے۔ کسی طرف آنکھ اٹھائیں تو اس کے دل میں نرمی پیدا ہو جائے، کوئی بات کریں تو لوگ اس کے ماننے پر آمادہ ہو جائیں۔ اور پھر وہ ہمارے قلوب کی ایسی حالت کر دے کہ جب ہم خواہش کریں کہ فلاں علاقہ اسلام میں داخل ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے فوراً آمین کہیں اور خدا تعالیٰ عرش سے حکم نازل کرے کہ ایسا ہو جائے۔ ہم تو اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہدایت پا جائیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اس خواہش کو ‘‘ہدایت پا جائیں’’ کی بجائے ‘‘ہدایت پا گئے’’ کی صورت میں بدل سکتا ہے۔ اگر ہماری یہ خواہش اخلاص پر مبنی ہے اور ہمارا اسلام کی ترقی کے لئے مبلغین کو باہر بھیجنا تقویٰ پر مبنی ہے تو اِس صور ت میں خدا تعالیٰ جس بات کا پہلے سے ارادہ کر چکا ہے اُس کا ظہور میں آ جانا کوئی مشکل امر نہیں۔ پس دوستوں کو ان دنوں میں خصوصیت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنی چاہئیں اور اپنی ذات کی بھی اصلاح کرنی چاہئے۔ ہم نے اپنے نوجوانوں کو اگر وہ ہم میں سے کسی کے بیٹے نہیں تو بہرحال وہ کسی ماں اور کسی باپ کے بیٹے ہیں دنیا میں بھیجا ہے۔ تن تنہا بغیر سامانوں کے، بغیر ہتھیاروں کے، بغیر تجربہ کے اور بغیر اُن علوم کے جن کو پیش کئے بغیر یورپین لوگ بات ہی نہیں مانتے۔ مَیں نے جیسا کہ پہلے بھی مثال دی ہے ہم نے اُن کو ایسی صورت میں بھیجا ہے جیسے کاغذ کی ناؤ کو دریا میں بہا دیا جاتا ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور گر جائیں اور اُس کی مدد مانگیں۔
مَیں نے ایک گزشتہ خطبہ جمعہ میں خنساء ؓ کا ایک قصہ سنایا تھا۔ اُس وقت جو حصہ سنایا تھا وہ اُس مضمون کے ساتھ تعلق رکھتا تھا کہ جب ایک جنگ میں مسلمانوں کے لئے خطرناک صورت پیداہو گئی تو خنساءؓ نے اپنے تینوں بیٹوں کو بلایا اور کہا مَیں نے تمہیں بیوگی کی حالت بڑی بڑی مصیبتوں میں رہ کر پالا اور تمہاری پرورش کی ہے۔ مَیں اپنا دودھ قیامت کے دن تمہیں معاف نہیں کروں گی جب تک تم فتح پا کر نہ لَوٹو گے یا مارے نہ جاؤ گے۔ لیکن دوسرا حصہ وہ ہے جو آج کے مضمون سے تعلق رکھتا ہے۔ خنساءؓ نے اپنے بیٹوں کو بھیج تو دیا لیکن اُنہیں بھیج کر وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو گئی اس نے اپنے بیٹوں کو موت کے لئے بھیجا اور اسلام کی طرف سے جو اُس پر ذمہ داری تھی اُسے ادا کر دیا۔ اِس کے بعد اُس پر جو دوسری ذمہ داری تھی یعنی مامتا کی اُس نے اُسے ادا کیا۔ وہ اُن کو موت کے منہ میں بھیج کر خود خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر گئی اور کہا اے میرے رب! مَیں نے اپنی جوانی دکھ میں گزاری ہے کیونکہ میرا خاوند بدمعاش آدمی تھا۔ پھر مَیں نے اپنا بڑھاپا دکھ میں گزارا کیونکہ تین بچوں کی پرورش کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اب اے میرے رب! جب مجھے آرام ملنے کا موقع تھا مَیں نے اپنے تینوں بچوں کو جو میری ساری عمر کی کمائی ہیں تیرے دین کی خدمت کے لئے یہ کہہ کر بھیج دیا ہے کہ جاؤ یا تو فتح پا کر واپس آنا یا وہیں مر جانا۔ لیکن اے میرے رب! اب میری مامتا تیرے عرش کے آگے اپیل کرتی ہے کہ اُن کو زندہ ہی واپس لانا۔ چنانچہ وہ زندہ ہی واپس آئے اور فتح پا کر آئے۔
اب بھی جب کہ بعض ماؤں نے اپنے بچوں کو گھر سے نکال کر باہر پھینک دیا ہے، جب نوجوانوں نے اپنی زندگیاں دینِ اسلام کے لئے وقف کر دی ہیں اور باپوں نے اپنی نسلیں خدا تعالیٰ کے لئے دے دی ہیں اور جتنی اسلام کے لئے قربانی کی ذمہ داری تھی وہ بعضوں نے پوری کر دی اور بعض پوری کرنے کی کوشش کر رہےہیں تو ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے جھک کر کہیں کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنی عمر کی کمائی تیرے دین کے لئے دے دی ہے۔ اب تُو خود ہی اُن کی حفاظت کر اور اُن کو بامراد واپس لا کہ ہمارے دل بھی خوش ہوں اور تیرے دین کی بھی ترقی ہو۔ یہی وہ ذمہ داری ہے جو ہم پر عائد ہے۔ اُسی طرح جس طرح خنساءؓ پر تھی۔ بلکہ دین کا رشتہ دنیا کے رشتہ سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ اگر خنساء ؓاپنے جسمانی بچوں کی بقا اور ان کی حفاظت کے لئے اس قدر بیتاب ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور جھک گئی تھی توپھر ہمارا تو یہ فرضِ اولین ہے کہ ہمارے دلوں میں ایک جوش پیدا ہو اور ہم ان نوجوانوں کے لئے جو دین کے لئے باہر چلے گئے ہیں یا باہر جانے والے ہیں خدا تعالیٰ کے حضور التجا کریں کہ اے ہمارے رب! تُو اُن کو صحیح راستہ دِکھلا، اُن کے کاموں میں برکت دے، اُن کو کامیابی عطا فرما اور اُن کو فاتح بنا کر واپس لا۔ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے مدد نہ آئی تو ہمارے کام کی مثال ایسی ہی ہو گی جیسے کوئی شخص سارا دن مزدوری کرے اور شام کو اپنی مزدوری دریا میں ڈال دے۔ اگر ہم اخلاص کے ساتھ یہ کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ایسی کیفیت پیدا کر دے گا کہ ہمارے دل بولنے لگ جائیں گے اور رات اور دن وہی خیالات ہمارے دلوں میں جاری رہیں گے۔ ہم دنیا کے کام کر رہے ہوں گے اور دعائیں ہمارے دلوں سے نکلتی چلی جائیں گی۔ ایک بڑھئی اپنی لکڑی چیر رہا ہو گا اور ساتھ ہی اس کے دل سے آواز نکل رہی ہو گی۔ کلہاڑی کھٹ کھٹ کر رہی ہو گی اور ساتھ ہی اس کے دل کی آہٹ خدا تعالیٰ کے سامنے پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہو گی کہ اے خدا! ہمارے مبلغین کو آرام سے رکھیو اور ان کی مدد اور نصرت فرمائیو۔ اور جب ایک طبقہ کی حالت ایسی ہو جائے گی کہ ان کے دل بولنے لگ جائیں گے جیسے صوفیاء کہا کرتے تھے کہ فلاں کا دل بولنے لگ گیا ہے تو ہماری کامیابی یقینی ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دل باتیں کرنے لگ جاتا اور کلمہ پڑھنے لگ جاتا ہے حالانکہ دل بولنے کے یہ معنے نہیں ہوتے بلکہ دل بولنے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ دل میں سے دعائیں خود بخود پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور ارادے کا سوال ہی نہیں رہتا۔ رات اور دن دل میں ایک فکر پیدا ہو جاتا ہے اور رات اور دن دل دعا میں لگا رہتا ہے۔ جب یہ صورت پیدا ہو جائے تو خدا تعالیٰ بندے کے قریب ہو جاتا ہے اور اسی کا نام صوفیاء نے دل کا بولنا رکھا ہے۔ نادانوں نے دل بولنے کے معنے یہ سمجھ لئے ہیں کہ زبان سے جس طرح آدمی کلام کرتا ہے اِسی طرح دل بھی بولنے لگ جاتا ہے مگر یہ معنے نہیں۔ جب یہ صورت پیدا ہو جائے گی اُس وقت ہمارے لئے کامیابی بالکل یقینی ہو جائے گی۔ مگر ایسی صورت پیدا کرنے کے لئے پہلے زبان سے دعائیں کرنی چاہئیں جو کامیابی کا پہلا قدم ہے۔ غرض دوستوں کو اِس طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس مشکل کام کو ہمارے لئے آسان کر دے اور ہم سُرخرو ہو کر اس کی خدمت میں حاضر ہوں۔’’ (الفضل 20 فروری 1946ء )
1: موسوعہ کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم جلد 2 صفحہ 1735مطبوعہ بیروت
1996ء میں یہ الفاظ ہیں‘‘عَرَفْتُ اللہَ بِفَسْخِ الْعَزَائِم’’
2: سٹیمولینٹ: خون کی روانی کو بڑھانے والی چیز۔ محرک
3: متی باب 17 آیت 20۔ (مفہوماً)
4: بخاری کِتَاب فَضَائِل اَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺ بَابُ فَضَائِل اَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺ (الخ) میں
یہ الفاظ ہیں۔‘‘ خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ۔’’
5: مسلم کِتَابُ الْاِیْمَانِ بَاب اَلْحَثُّ عَلَی الْمُبَادَرَةِ بِالْاَعْمَالِ (الخ)
6: بخاری کِتَاب الدَّعْوَاتِ بَاب اَلنَّوْم عَلَی الشِّقِّ الْاَیْمَنِ
7،8 : الفاتحة: 5


5
چندہ تحریکِ جدید میں حصہ لے کر عظیم الشان ذمہ داری کے کام کے لئے بہت بڑے اخراجات کی ضرورت پوری کی جائے
(فرمودہ 22 فروری 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘پہلے تو مَیں جماعتوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اِس دفعہ الیکشن کی وجہ سےتحریک جدید کے چندوں کی آخری تاریخ لمبی کر دی گئی تھی۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو تاریخ مقرر کی گئی تھی اُس میں بھی لوگوں کے لئے کام کا ختم کرنا مشکل ہو گا کیونکہ بعض جگہوں پر پندرہ تاریخ کو الیکشن ختم ہوئے ہیں۔ بعض جگہوں پر سترہ اٹھارہ تاریخ کو اور بعض جگہ پر بیس تاریخ کو۔ پھر لوگ الیکشن ختم کر کے اپنے گھروں کو واپس گئے ہوں گے اور کچھ دن اپنی تکانیں دور کی ہوں گی۔ اس لئے بجائے 28 فروری کے مَیں تحریک جدید کے وعدوں کی آخری تاریخ دس مارچ مقرر کرتا ہوں۔ جو وعدے دس مارچ تک ہمیں پہنچ جائیں گے یا وہ وعدے اور خطوط جن پر ڈاکخانہ کی دس مارچ کی مہریں لگی ہوئی ہوں گی اُن تمام وعدوں کو قبول کر لیا جائے گا۔ سوائے ہندوستان کے اُن علاقوں کے جہاں اردو نہیں بولی جاتی کہ اُن علاقوں میں حسبِ قاعدہ اپریل تک کے وعدے قبول کئے جائیں گے اور ہندوستان سے باہر کے وعدے جون کے آخر تک تبدیل کئے جائینگے۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست اپنے اِس نازک فرض کو پہچانتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا کریں گے اور جن لوگوں نے پہلی تحریک میں حصہ لیا ہے جہاں تک ممکن ہو سکے پہلے سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کریں گے۔ اِسی طرح جنہوں نے پہلی تحریک میں حصہ نہیں لیا اور وہ دفتر دوم میں پچھلے سال شامل ہوئے تھے وہ اپنے وعدے اِس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ان کے وعدے اُنیس سال کے لئے ہیں جلد از جلد اپنے وعدوں کو لکھوا دیں گے۔ اور وہ جو ابھی تک اس نئی تحریک میں شامل نہیں ہوئے وہ بھی اس میں شامل ہونے کی کوشش کریں گے۔
ہماری جماعت کے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑا کام ہے۔ ہمارے مبلغ بیرونجات میں گئے ہیں او راب وہاں خرچ کا سلسلہ باوجود انسانی قربانی کے زیادہ سے زیادہ بڑھتا چلا جائے گا۔ پھر کئی ممالک میں ہمارے لئے تبلیغ کے نئےر استے کھل رہے ہیں۔ مثلاً ملایا میں ہمارے مبلغ پہلے قید تھے، جاوا میں قید تھے، سماٹرا میں قید تھے اور راستے بند تھے جس کی وجہ سے ان کو خرچ نہیں بھیجا جا سکتا تھا لیکن اب راستے کھل گئے ہیں اور اب پھر ان کو خرچ بھیجنا شروع کیا جائے گا۔ تحریک جدید کے جو مبلغ گزشتہ عرصہ میں قید رہے ہیں اُن کا ماہوار خرچ جب سے کہ وہ قید ہوئے ہیں ہماری طرف سے خزانہ میں الگ جمع کر دیا جاتا تھا تاکہ وہ جب بھی آزاد ہوں ان کی رقوم ادا کی جا سکیں۔ لیکن صدر انجمن احمدیہ سے غفلت ہوئی اور شروع میں اس نے اس طرف توجہ نہیں کی بعد میں میرے کہنے پر صدر انجمن احمدیہ کے مبلغین کا بھی اسی طرح انتظام کیا گیا۔ یہ مَیں نہیں جانتا کہ انہوں نے صرف اُسی دن سے اُن کا روپیہ جمع کیا ہے جس دن مَیں نے حکم دیا تھا یا جب سے کہ وہ قید ہوئے۔ بہرحال انہوں نے بھی اپنے مبلغین کا خرچ علیحدہ جمع کرنا شروع کر دیا تھا۔ جہاں تک تحریک جدید کے مبلغین کا سوال ہے ان کی رقوم ہمارے خزانے میں الگ ان کے نام سے جمع ہوتی رہی ہیں۔ اس لئے جونہی روپیہ بھیجنے کی اجازت ہو گئی ہم ان کے نام پر جمع کی ہوئی رقوم میں سے ان کا خرچ انہیں بھیج دیں گے لیکن گزشتہ تبلیغ اور اس تبلیغ میں ایک فرق ہے۔ اب ہم زیادہ زور سے تبلیغ کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے ہم نے صرف مختلف جگہوں پر مبلغ بٹھائے ہوئے تھے لیکن اب ہمارا منشاء یہ ہے کہ ہر جگہ لوگوں کے لئے لٹریچر بھی مہیا کریں تاکہ اس کے ذریعہ لاکھوں آدمیوں تک سلسلہ کا پیغام پہنچ سکے۔ پس یہ عظیم الشان ذمہ داری کا کام جو ہمارے سامنے آنے والا ہے اس کے لئے ہمیں تیار رہنا چاہئے۔ بعض تبلیغ کے نئے راستے کُھلے ہیں، بعض کُھل رہے ہیں اور بعض کُھلنے والے ہیں۔ امریکہ کی طرف ہمارا مبلغ روانہ ہو گیا ہو گا یا کل پرسوں تک اِنْشَاءَ اللہ روانہ ہو جائے گا۔ کیونکہ جہاز والوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ بائیس سے پچیس تک جو جہاز جائے گا اُس میں خلیل احمد صاحب ناصر کو جگہ دے دی جائے گی۔ پس یا تو اُن کو آج جگہ مل گئی ہو گی یا کل پرسوں اور اترسوں تک مل جائے گی۔ اور اِس طرح امریکہ کی طرف ہمارا تحریک جدید کا پہلا مبلغ روانہ ہو جائے گا۔ گو تبلیغ کا کام ابھی شروع نہیں ہو گا کیونکہ خلیل احمد صاحب ناصر کو پاسپورٹ طالب علم کی حیثیت سے ملا ہے۔ وہ وہاں کسی یونیورسٹی میں داخل ہوں گے اور اس کے بعد اگر گورنمنٹ نے اجازت دی تو وہ وہاں رہ سکیں گے ورنہ پھر کسی دوسرے ملک میں واپس آ کر اُنہیں دوبارہ پاسپورٹ لے کر جانا ہو گا۔ دو اَور مبلغ بھی تیار ہیں جن کے متعلق محکمہ کی طرف سے سستی برتی گئی ہے اور اب تک ان کے پاسپورٹ مکمل نہیں کئے گئے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ کیوں ابھی تک ان کے پاسپورٹ مکمل نہیں ہوئے تو منتظم صاحب نے جواب دیا کہ ابھی ان دونوں کے متعلق غور کیا جا رہا ہے کہ آیا وہ پاسپورٹ کے لئے درخواست دیں یا نہ دیں۔ گویا انہوں نے ایک سال درخواست دینے کے لئے غور کرنے پر لگا دیا۔ جس کی وجہ سے ان دونوں کو پاسپورٹ نہیں مل سکے۔ اور چونکہ مبلغ کی حیثیت میں پاسپورٹ حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اس لئے اب وہاں ہمیں کسی اَور ذریعہ سے جانا ہو گا۔ اور چونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اِس لئے خدا تعالیٰ ہمیں کوئی نہ کوئی تدبیر ضرور سمجھا دے گا یا کسی نہ کسی رنگ میں ان کے افسروں کی عقلوں پر پتھر ڈال دے گا۔ جس کی وجہ سے ہمارے آدمی باوجود مخالفت کے ان ملکوں میں گُھس ہی جائیں گے۔
پس ایک وسیع کام ہمارے سامنے ہے۔ اس لئے ہمیں اب ہر قدم آگے کی طرف ہی بڑھانا چاہئے اور تحریک جدید کا دَور اول ہمیں شاندار طور پر ختم کرنا چاہئے۔ اس سال کو ملا کر آٹھ سال باقی رہ جاتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اس عرصہ میں ہم دورِ دوم کو اتنا مکمل کر لیں کہ اس کی آمد دورِ اول سے بڑھ جائے۔ ابھی تو دورِ دوم کے وعدے بہت کم ہیں۔ پچھلے سال پچپن یا ساٹھ ہزار کے وعدے ہوئے تھے جن میں سے صرف بیالیس ہزار روپیہ وصول ہوا۔ ضرورت یہ ہے کہ اس دَور کو ہم پہلے سے بھی زیادہ شاندار بنانے کی کوشش کریں۔ اس دفعہ دفتر چونکہ زیادہ کوشش کر رہا ہے اس لئے امید ہے کہ پچھلے سال سے وعدے زیادہ ہوں گے۔ اس کے بعد تحریک جدید کے دَورِ سوم اور چہارم اور دَورِ پنجم آئیں گے اور ہم دین کے لئے قربانیاں کرتے چلے جائیں گے۔ جس دن ہم نے دین کے لئے جد و جہد چھوڑ دی اور جس دن ہم میں وہ لوگ پیدا ہو گئے جنہوں نے کہا کہ دَور اول بھی گزر گیا، دَورِ دوم بھی گزر گیا، دَورِ سوم بھی گزر گیا، دَورِ چہارم بھی گزر گیا، دَورِ پنجم بھی گزر گیا، دَورِ ششم بھی گیا، دَورِ ہفتم بھی گزر گیا۔ اب ہم کب تک اس قسم کی قربانیاں کرتے چلے جائیں گے، آخر کہیں نہ کہیں اس کو ختم بھی تو کرنا چاہئے وہ اقرار ہو گا ان لوگوں کا کہ اب ہماری روحانیت سرد ہو چکی ہے اور ہمارے ایمان کمزور ہو گئے ہیں۔ ہم تو امید رکھتے ہیں کہ تحریک جدید کے یہ دَور غیر محدود دَور ہوں گے اور جس طرح آسمان کےستارے گِنے نہیں جاتے۔ اسی طرح تحریک جدید کے دَور بھی گِنے نہیں جائیں گے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے کہا کہ تیری نسل گِنی نہیں جائے گی اور حضرت ابراہیمؑ کی نسل نے دین کا بہت کام کیا۔ یہی حال تحریکِ جدید کا ہے۔ تحریک جدید کا دَور چونکہ آدمیوں کا نہیں بلکہ دین کے لئے قربانی کرنے کے سامانوں کا مجموعہ ہے اِس لئے اس کے دَور بھی اگر نہ گِنے جائیں تو یہ ایک عظیم الشان بنیاد اسلام اور احمدیت کی مضبوطی کی ہو گی۔
اس کے بعد مَیں اُس امر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کے متعلق دوستوں کو کل معلوم ہی ہو چکا ہے۔ یعنی چودھری فتح محمد صاحب اِس حلقے سے ہمارے صوبہ کی اسمبلی کی ممبری کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے منتخب ہو گئے ہیں۔ سوال اِس وقت چودھری صاحب کی کامیابی کا نہیں یا اِس بات کا نہیں کہ اسمبلی کی ممبری میں ایک احمدی کامیاب ہو گیا ہے۔ اسمبلی میں پہلے بھی احمدی ممبر کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ مثلاً چودھری ظفر اللہ خان صاحب، چودھری اسد اللہ خان صاحب اور پیر اکبر علی صاحب بھی اسمبلی کے ممبر رہے ہیں۔ پس خالی اس بات کا سوال نہیں کہ ایک احمدی اسمبلی کا ممبر ہو گیا بلکہ ہمیں جو خوشی ہے وہ یہ ہے کہ قادیان کے علاقہ سے جس کے متعلق آج سے گیارہ سال پہلےا حرار نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے احمدیت کو یہاں کچل دیا ہے اِس حلقے میں سے لیگ کے ٹکٹ پر نہیں ، یونینسٹ کے ٹکٹ پر نہیں بلکہ خالص احمدیت کے ٹکٹ پر ایک احمدی کامیاب ہوا ہے۔ ہم نے لیگ سے ٹکٹ طلب کیا تھا مگر انہوں نے نہیں دیا۔ ہم نے یونینسٹ سے صرف اِتنا کہا تھا کہ تم صرف اپنے ہاتھ شرارت سے روک لو اور افسرانہ دخل اندازی سے باز آ جاؤ مگر اُنہوں نےکہا ہم ایسا نہیں کر سکتے اور اُنہوں نے ہمارے خلاف سارا زور لگایا بلکہ تمام پنجاب میں گورنمنٹ کا زور کسی بھی تحصیل میں اُتنا نہیں لگا جتنا بٹالہ کی تحصیل میں۔ وہ تمام کارروائیاں جو ہمارے خلاف کی جا سکتی تھیں کی گئیں۔ حتّٰی کہ مجھے مرزا ناصرا حمد نے سنایا کہ گورداسپور میں یونینسٹ پارٹی کے ایک آدمی نے جو لوگوں میں اپنے آپ کو وزیر اعظم کا پرسنل اسسٹنٹ قرار دیتا تھا (گو مرزا ناصر احمد کے سامنے اُس نے اِس سے انکار کیا) کہا کہ جو زور ہم نے یہاں یونینسٹ نمائندہ کی تائید میں لگایا ہے سارے پنجاب میں اُتنا زور کہیں نہیں لگایا۔ مگر باوجود اس کے خدا تعالیٰ نے احمدیت کو کامیاب کر کے بتا دیا کہ احرار کا یہ دعویٰ کہ ہم نے قادیان کے مرکز میں احمدیت کو کچل دیا ہے کتنا جھوٹا ہے۔ آج سے گیارہ سال پہلے یہاں کا کوئی احمدی ڈسٹرکٹ بورڈ کا بھی ممبر نہیں تھا لیکن آج گورنمنٹ کی شدید مخالفت کے باوجود پنجاب کی اسمبلی میں احمدی ممبر آ گیا ہے۔ دراصل خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت سے ہی لیگ کو روک دیا کہ وہ ہمیں ٹکٹ نہ دے کیونکہ اگر ہم لیگ کا ٹکٹ لے کر جیت جاتے تو لوگ کہتے احمدی تو مُردہ ہیں لیگ کی مدد سے کامیاب ہو گئے ہیں۔ اگر یونینسٹ سمجھوتہ کر لیتے تو لوگ کہہ دیتے کہ احمدیت تو مر ہی چکی ہے یہ تو گورنمنٹ کی مدد سے کامیاب ہوئے ہیں۔ یا ایک طاقتور پارٹی کی مدد سے کامیاب ہو گئے ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ نے ان دونوں باتوں سے ہمیں محروم کر دیا۔ اُس وقت ہم سمجھتے تھے کہ ہمارے ساتھ بُرا سلوک ہوا ہے مگر خدا تعالیٰ نے بعد میں سمجھا دیا کہ ہمارے ساتھ اچھا ہوا، بُرا نہیں ہوا۔ کیونکہ اس ذریعہ سے ثابت ہو گیا کہ احمدی ممبر احمدیت کے زور پر آگے نکلا۔ چنانچہ 6368 ووٹ ہم نے حاصل کئے مگر چونکہ کچھ ووٹوں میں گڑ بڑ بھی ہوئی ہے اس لئے گورنمنٹ کے حساب سے 6266 ووٹ ہم نے حاصل کئے ہیں۔ ان میں سے احمدی ووٹ 5000 ہیں۔ گویا خدا تعالیٰ نے جماعت کو اتنی ترقی دی کہ آج پانچ ہزار ووٹ صرف ایک تحصیل میں ہیں۔ اگر عام نسبت کو مدنظر رکھا جائے یعنی اس بات کو کہ ہمارے ملک میں ووٹر آبادی کا دسواں حصہ ہیں توصرف تحصیل بٹالہ میں پچاس ہزار احمدی ثابت ہوتے ہیں مگر ہماری جماعت کے ووٹ دینے والوں کی نسبت اس سے زیادہ ہے۔ اس لئے اس قدر اندازہ لگانا درست نہیں۔ پس یہاں صرف ممبری کا ہی سوال نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی تعداد اور اس کی عظمت کو بھی ظاہر کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ووٹ اس تحصیل میں 6800 تھا مگر بہت سے ووٹ ضائع ہو گئے جس کی وجہ یہ تھی کہ تجربہ نہیں تھا۔ اگر کوشش کی جاتی تو سات ہزار سے بھی زیادہ احمدی ووٹ ہوتے۔ درحقیقت ہماری تعداد اس تحصیل میں قادیان کو ملا کر میرے خیال میں بیس پچیس ہزار کے قریب ہے۔ لیکن اگر سات ہزار ووٹ ہوتے تو گورنمنٹ کے حساب کی رو سے ہماری تعداد ستّر ہزار ہوتی۔ پھر گورداسپور میں بھی ہمارا دو ہزار کے قریب ووٹ موجود تھا جو ثبوت ہے اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو روز بروز ترقی دیتا چلا جاتا ہے۔ اور یہ ایک ایسا ثبوت ہےجو ہمارا پیش کیا ہوا نہیں بلکہ گورنمنٹ کی آراء شماری اس کا ثبوت پیش کرتی ہے۔
مَیں نے پچھلے سے پچھلے خطبہ جمعہ میں جماعت احمدیہ کے متعلق اعتراض کیا تھا کہ انہوں نے پوری قربانی سے کام نہیں لیا اور جیسے کمزور انسان کا قاعدہ ہوتا ہے کہ جب اسے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اپنے سے نچلے سے اس کا بدلہ لیتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے بھی بجائے اس کے کہ اس پر فخر کرتے اور خوش ہوتے کہ ہمیں تو جھاڑ پڑ گئی لیکن ہماری عورتیں تو کچھ کر کے آ گئیں انہوں نے گھروں میں جا کر عورتوں کو طعنے دینے شروع کر دئیے کہ تمہاری وجہ سے ہمیں جھاڑ پڑی ہے۔ گویا مطلب یہ تھا کہ تم بھی کام نہ کرتیں تو کیا ہی اچھا ہوتا ہماری ناک تو بچ جاتی۔ حالانکہ یہ کتنی غلطی تھی۔ اپنی ناک کو اونچا کر کے عزت حاصل کرنی چاہئے یا دوسرے کی ناک کٹوا کر عزت حاصل کرنی چاہئے۔ مجھے عورتوں نے یہ بات بتائی کہ ہمارے مرد یُوں طعنہ دیتے ہیں تو مَیں نے انہیں کہا ہارے ہوئے طعنے ہی دیا کرتے ہیں تم پروا نہ کرو۔ مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عورتوں نے واقع میں نہایت اعلیٰ کام کیا ہے۔
بعد میں مجھے ایک اَور مثال کا پتہ لگا جو حیرت انگیز تھی اور جس نے قادیان کی مثالوں کو بھی مات کر دیا۔ ہمارے جو آدمی الیکشن کے کام کے لئے گئے ہوئے تھے اُن میں سے ایک نے سنایا کہ ایک گاؤں میں ایک احمدی عورت ووٹر تھی جس کا ہمیں علم نہیں تھا۔ ووٹ دینے کی مقررہ تاریخ سے ایک یا دو دن پہلے اُسے اسقاطِ حمل ہو گیا اور چونکہ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ وہ ووٹر ہے اِس لئے ہم نے وہاں کوئی سواری نہ بھجوائی اس دن جب کئی گھنٹے ووٹنگ پر گزر گئے تو ایک آدمی نے آ کر بتایا کہ فلاں جگہ ایک عورت بیہوش پڑی تھی اور لوگ اس کو اٹھا کر اس کے گاؤں واپس لے گئے ہیں۔ اس کی باتوں سے پتہ لگتا تھا کہ وہ ووٹ دینے آئی تھی۔ چنانچہ ہمارے آدمی وہاں گئے لیکن وہ وہاں نہیں تھی۔ اس پر انہوں نے فوراً اس کے لئے اس کے گاؤں میں سواری بھیجی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اپنی اس بیماری کی حالت میں ہی چل پڑی اور اپنے گاؤں سے دو میل دور آ کر بیہوش ہو کر گر پڑی۔ گاؤں والوں نے اسے اٹھایا اور واپس لے گئے۔ لیکن جب اسے ہوش آیا تو وہ اُٹھ کر پھر دوڑنے لگی اور کہا کہ مَیں نے تو ووٹ دینا ہے۔ اس اثناء میں سواری بھی پہنچ گئی اور وہ اس پر سوار ہو کر ووٹ دینے آ گئی۔ اس نے بتایا کہ مَیں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ خلیفة المسیح نے کہا ہے کہ جس سے ممکن ہو وہ ووٹ دینے کے لئے ضرور پہنچ جائے اِس لئے مَیں اپنا سارا زور لگانا چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح ووٹ دے آؤں۔
اس عرصہ میں بیرونجات سے آنے والے لوگوں میں سے بھی بعض کی مثالیں بڑی شاندار معلوم ہوئی ہیں۔ کل ہی مجھے ایک فوجی کا خط ملا ہے وہ انبالہ میں تھا۔ یہاں سے اسے تار گیا کہ تمہارا ووٹ ہے لیکن گورنمنٹ کی طرف سے جو چٹھی جاتی ہے وہ نہیں گئی۔ وہ خط میں لکھتے ہیں کہ جب تار وہاں پہنچا تو دفتر کا افسر جو ہندو تھا چونکہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ مَیں ووٹ کے لئے جاؤں اس نے تار دبا دی۔ کرنل چُھٹی پر جا رہا تھا۔ جب وہ چلا گیا تو اس نے مجھے تار دکھائی۔ مَیں نے وہ تار اپنے نچلے افسر کو دی۔ اس نے کہا مَیں تو رخصت نہیں دے سکتا بڑے افسر کے پاس جاؤ۔ مَیں اس بڑے افسر کے پاس گیا تو اس نے کہا کرنل کی موجودگی میں چُھٹی مل سکتی تھی مگر اب کیا ہو سکتا ہے۔ پھر اس نے کہا یہ تو بناوٹی تار ہے۔ مَیں نے کہا میرا ووٹ ہے اور وہاں سے تار آیا ہے بناوٹی نہیں۔ انہوں نے کہا کچھ بھی ہوتمہیں چُھٹی نہیں مل سکتی۔ مَیں وہاں سے آ کر سیدھا سٹیشن کی طرف بھاگا اور ریل میں سوار ہوا۔ امرتسر پہنچا تو بٹالہ کی ریل روانہ ہو چکی تھی۔ وہاں سے دوڑ کر لاری لی۔ جب لاری بٹالہ پہنچی تو قادیان کی ریل روانہ ہو چکی تھی۔ اس پر میں بٹالہ سے قادیان پیدل روانہ ہوا اور دَوڑتے ہوئے قادیان پہنچ کر اپنا ووٹ دیا۔ انہوں نے جگہ کا نام تو نہیں بتایا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ قادیان میں ہی آئے تھے کیونکہ وہ لکھتے ہیں کہ مَیں ووٹ دے کر خلیل احمد صاحب ناصر کے پاس جو انچارج تھے آیا اور کہا کہ ایسا واقعہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کوئی بات نہیں۔ تم چلے جاؤ۔ مَیں واپس آیا تو پہلے مجھے قید کر دیا گیا کہ تم بغیر چُھٹی کیوں گئے تھے پھر میرا رَینک توڑ کر مجھے سپاہی بنا دیا گیا۔ اب دیکھو یہ دوست فوجی تھے اور جانتے تھے کہ اگر مَیں بِلا اجازت چلا گیا تو مجھے قید کی سزاملے گی مگر باوجود اس کے وہ بھاگ کر یہاں آ پہنچے اور ووٹ دیا۔ یہی اخلاص ہے جو قوموں کو کامیاب کیا کرتا ہے۔
لوگ تو مسلمانوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ تم جنت کا لا لچ دے کر یا دوزخ سے ڈرا کر کام لیتے ہو حالانکہ ہم کسی کو دوزخ سے ڈرانے کے قائل ہی نہیں۔ نہ مذہبی طور پر اور نہ سیاسی طور پر۔ اگر ہم دشمن کو دوزخ سے ڈرائیں تو احمدیوں کو تو ووٹ ملنا بالکل ہی ناممکن ہو جائے کیونکہ احمدیوں کی تعداد دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت ہی کم ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ہمیں یہ ضرورت ہی نہیں کہ ہم کسی کو دوزخ سے ڈرائیں یا جنت کا لالچ دلا کر کام کرائیں کیونکہ ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے قومی بیداری اس قسم کی پیدا ہو چکی ہے کہ یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ فلاں کام دنیوی ہے اکثر لوگ اس کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ دُنیوی حقوق کو محفوظ کرنا بھی ثواب کا کام ہوتا ہے۔ اسی طرح میرے خطبہ کے بعد قادیان والوں نے بھی فرض شناسی سے کام لیا اور انہوں نے چالیس کے قریب سائیکل چند گھنٹوں کے اندر اندر میاں بشیر احمد صاحب کے پاس پہنچا دئیے۔ اسی طرح بہت سے آدمیوں نے اپنی خدمات پیش کیں اور فوراً بیرونجات میں چلے گئے۔ آج الیکشن کے سلسلہ میں ہمارے کارکن مجھے ملنے آئے تو انہوں نے کہا کہ گاؤں کے احمدیوں نے تو کمال کر دیا۔ وہ سارے علاقہ میں ٹڈی دل کی طرح پھیل گئے تھے۔ بالخصوص گاؤں کے لوگوں نے۔ اور ان میں سے بھی خصوصیت کے ساتھ ونجواں کھوکھر اور لودھی ننگل، خان فتح، ننگل، اٹھوال، گلانوالی، دھرم کوٹ، قلعہ ٹیک سنگھ وغیرہ وغیرہ ۔ تلونڈی والوں نے بھی اچھا کام کیا ہے لیکن اتنا نہیں جتنی ان سے امید کی جاتی تھی۔ مگر بہرحال انہوں نے بھی اچھا کام کیا ہے۔ نکمّوں میں سے نہیں تھے۔ (میرا یہ ذکر الیکشن سے پہلے کی رپورٹ پر تھا۔ بعد میں انہوں نے جیسا کہ بتایا گیا ہے اچھا کام کیا ہے) بعض اَور جماعتوں نے بھی بہت عمدہ کام کیا ہے لیکن اس وقت مجھے اُن کے نام یاد نہیں رہے۔ فَجَزَاھُمُ اللہُ اَحْسَنَ الْجَزَاء۔ ان سب نے اس بات کا ثبوت دے دیا ہے کہ جب مومن کام کرنے پر آتا ہے تو وہ ہر قسم کے عواقب سے نڈر ہو کر کام کرتا ہے۔ ونجواں میں مخالفین کی شرارت پر پولیس نے احمدیوں کے ووٹوں کو روکنے کی کوشش کی۔ مگر نوجوان مقابلہ کے لئے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے تو اپنے آدمی لے کرجانے ہیں خواہ پولیس دخل اندازی ہی کیوں نہ کرے۔ پولیس نے ایک دو ووٹروں کو روکے رکھا اور باقیوں کو چھوڑ دیا لیکن جب ہمارے دوسرے آدمی پہنچ گئے تو باقیوں کو بھی انہوں نے چھوڑ دیا۔ بہرحال جماعت نے نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے۔ جہاں تک الیکشن کروانے کا سوال تھا جماعت نے اپنی قربانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور بے مثال قربانی پیش کر کے جماعت کی ترقی کے لئے ایک راستہ کھول دیا ہے۔ اب ہمارے سامنے ایک دوسرا مرحلہ ہے اور وہ یہ کہ چودھری صاحب وہاں جا کر ایسے رنگ میں کام کریں جو احمدیت کی شان کے مطابق ہو۔
ہمارے ملک کی یہ خاص مصیبت ہے کہ لوگ پارٹی بازیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر ایک ہندو کسی جگہ جاتا ہےتو وہ مسلمانوں کا گلا کاٹنے کی کوشش کرتا ہے، اگر ایک مسلمان کسی جگہ جاتا ہے تو وہ ہندوؤں کا گلا کاٹنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر کوئی سکھ جاتا ہے تو وہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کا گلا کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔غرض ہر فرقہ کا آدمی دوسرے فرقہ کے آدمی کا گلا کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک ضلع کا آدمی دوسرے ضلع میں جاتا ہے تو دوسرے ضلع کے لوگوں کی ضرورتوں سے بالکل بے پروا ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک قوم کا آدمی دوسری قوم کے آدمیوں کا خیال نہیں کرتا۔ مَیں یہ تو بڑی لمبی اور دُور کی باتیں کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے سوا اور کسی کا بھی فکر نہیں ہوتا۔ پس ہمیں وہاں کھیل کُود اور لڑائی جھگڑے کے لئے جانے کی ضرورت نہیں۔ اس کی بھی ضرورت نہیں کہ ہم وہاں جا کر اپنی جماعت کے لئے حقوق مانگیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہماری جماعت کو جب نقصان پہنچ رہا ہو تو اس نقصان کو دور کرنے کی کوشش کرنے کے لئے وہاں ہمارا نمائندہ ہونا ضروری ہے لیکن اصل کام یہ ہے کہ ہمارا نمائندہ ایسے رنگ میں کام کرے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں اور سکھوں کا آپس میں سمجھوتا ہو جائے اور یہ قومیں مل جل کر کام کریں اور صوبہ کی ترقی میں ممد و معاون ہوں اور یہ صوبہ ایسی مثال قائم کرے کہ سارے ہندوستان کے لوگوں کے اندر تعاون اور محبت کی روح پیدا ہو جائے تاکہ ہمارا ملک جو اپنی بدبختی سے غلامی کے جُوئے کے نیچے دبا چلا جا رہا ہے۔ خدا تعالیٰ اس کے افراد کو بھی آزادی کا سانس لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ جہاں تک ہو سکے گا ہم بھی اپنے نمائندہ کو اِس بارہ میں ہدایات دیتے رہیں گے۔ لیکن اصل بات یہی ہے کہ جو کام کرنے والا ہوتا ہے زیادہ تر اس کی اپنی ہی روح کام کرتی ہے۔ ورنہ سب قسم کی ہدایات دینے کے بعد بھی اگر انسان کے اندر ذاتی جوش نہ ہو تو ساری ہدایات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ جیسے مثل مشہور ہے کہ ‘‘پرنالہ اوتھے دا اوتھے’’
پس ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہمارے پہلے نمائندہ کو جو احمدیت کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا ہے گو اَب وہ مسلم لیگ کے ساتھ جماعتی ہدایت کے مطابق شامل ہو گیا ہے احمدیت کا اچھا نمونہ بننے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کو دوسروں کے لئے مثال بنائے اور اس کے ذریعہ سے ملک کے فسادات اور جھگڑے دور ہوں اور ہر قوم اپنا حق پائے۔ اس کے ذریعہ سے نہ غیر قوموں کو کوئی تکلیف پہنچے اور نہ اپنوں کو۔ وہ اپنے لئے بھی مفید ہو اور غیروں کے لئے بھی۔ اور ایک ایسی اچھی مثال قائم کرنے والا ہو کہ پنجاب کی فضا بدل جائے اور پھر باقی ہندوستان کے صوبے بھی اس سے ہدایت پائیں۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جائیں تو ہمارا وہ سارا وقت جو ان کے لئے جد و جہد میں صَرف ہوا (اور جو اس خیال کے ماتحت دینی کاموں میں ایک حد تک کمی کر کے صَرف کیا گیا کہ اگر اس کا اچھا نتیجہ نکلا تو یہ بھی دین کی ترقی کا موجب ہو گا۔ اور اخلاق اور نیکی کے پھیلانے کا ذریعہ ہو گا) نیک نتائج پیدا کرنے والا ہو گا۔ اور ہمارے دلوں میں اس وقت کے صَرف کرنے پر ملامت پیدا نہیں ہو گی۔ لیکن اگر ہمارا ممبر بھی ایک عام ممبر ہی ہوا، اگر ہمارا ممبر بھی اسی قسم کے جھگڑوں میں پڑا رہا جس میں دوسرے لوگ مبتلا ہیں اور اگر وہ اس مقصد میں کامیاب نہ ہوا جو ہمارا اصل مقصد ہے تو ہمارے دل ہمیں ملامت کریں گے کہ ہم نے اپنے وقت کو بلاوجہ ضائع کیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس ملامت اور حسرت سے بچائے اور ایسے سامان پیدا کرے کہ ہمارے ممبر کی وجہ سے دوسرے ممبروں میں بھی صلح، آشتی اور نیکی اور تقویٰ کی روح پیدا ہو جائے۔ اگرچہ بظاہر ایک آدمی ایک سو پچھتر میں سے کوئی بڑا کام نہیں کر سکتا لیکن اپنے اخلاق کے زور اور تعلیم کی برتری سے وہ یقیناً نیک نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ممبر کو ایسے مواقع بہم پہنچائے جن سے وہ ہمارے فائدہ کا موجب ہو نہ کہ نقصان کا اور وہ قوم اور ملک کی بہترین خدمت کرنے والا ثابت ہو۔’’ (الفضل یکم مارچ 1946ء )

6
ہمیں جہادِ صغیر سے ہٹ کر جہادِ کبیر کی طرف توجہ کرنی چاہئے
( یکم مارچ 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ رسولِ کریم ﷺ جب بھی کسی دشمن کے حملہ کےد فاع کے لئے باہر تشریف لے جاتے اور اُس حملہ کے دفاع سے فارغ ہو کر واپس آتے تو فرماتے ہم چھوٹے جہاد سے فارغ ہو گئے ہیں۔ اب آؤ ہم بڑے جہاد میں مشغول ہوں۔1 حالانکہ وہ جہاد مذہبی تھے مگر چونکہ ان میں ایک دنیوی رنگ پایا جاتا تھا اور گو حقیقتاً مذہب کی خاطر وہ جنگیں تھیں مگر دشمن اپنے سیاسی غلبہ اور سیاسی زور کے حصول کے لئے اسلام کو تباہ کرنا چاہتا تھا اور اِدھر اس حملہ کو دور کر کے اسلام کو بھی سیاستاً ایک غلبہ حاصل ہوتا تھا اِس لئے آپ نے اِس جہاد کا نام جہادِ اصغر رکھا۔ لیکن اس کے بالمقابل آپ خالص تبلیغ اور خالص تربیت کو۔جہادِ اکبر قرار دیتے تھے۔
ہماری جماعت کو بھی بعض دفعہ بعض کام ایسے کرنے پڑتے ہیں جو بظاہر دنیوی رنگ رکھتے ہیں۔ گو جس انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو۔ خدا تعالیٰ کی طرف اس کی رغبت ہو وہ اپنی ہر ایک چیز دین کی طرف بدل کر لے جاتا ہے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے میرے شیطان کو بھی مسلمان کر دیا ہے۔2 وہ جو بات بھی مجھے کہتا ہے اسلام ہی کی کہتا ہے۔ درحقیقت اس کے معنی یہ تھے کہ جیسے کہتے ہیں‘‘ ہر کہ در کانِ نمک رفت نمک شُد’’ رسول کریم ﷺ کا تقویٰ اور نیکی ایک اتنا بڑا سمندر تھا کہ شیطان کی باتیں بھی اس میں پڑ کر نیک ہی بن جاتی تھیں جیسے سیپی میں گرنے والا قطرہ بھی موتی بن جایا کرتاہے۔ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ مگر مَیں نے جو یہ مثال دی ہے۔ اپنی زبان کے محاورہ کے مطابق دی ہے۔ کہتے ہیں کہ سیپ میں پانی کا قطرہ گر کر موتی بن جاتا ہے۔ پس جو بات بھی رسول کریم ﷺ کے دل میں داخل ہوتی تھی نیک بن جاتی تھی۔ کیونکہ جس شخص کے دل میں نیکی ہو گی اس کے دل پر عَلیٰ قدرِمراتب ہر چیز کا ایک نیک اثر پڑے گا۔ رسول کریم ﷺ تمام انسانوں سے چاہے وہ سابق زمانہ میں گزرے ہوئے ہوں اِس زمانے میں ہوں یا آئندہ زمانہ میں آنے والے ہوں۔ اعلیٰ مرتبہ رکھتے تھے۔ آپ انبیاء کے بھی سردار تھے اور بنی نوع انسان کی پیدائش کے مقصود تھے۔ اس لئے آپ کا مرتبہ تو بہرحال بڑا ہی تھا۔ مگر آپ سے اتر کر جو انبیاء و صلحاء گزرے ہیں۔ وہ بھی اپنے رنگ میں اس بات کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں کہ ان پر جو برائی پڑتی وہ نیکی کا رنگ اختیار کر لیتی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ ایک گلی میں سے گزر رہے تھے۔ وہاں ایک کُتّا مرا پڑاتھا ان کے ساتھ ان کے جو حواری تھے وہ وہاں سے جلدی جلدی دوڑے اور کہا کتنی سخت بدبو ہے اور کتنی گندی چیز ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کھڑے ہو گئے اور فرمایا اس کے دانت تو دیکھو کیسے موتیوں کی طرح روشن ہیں۔ تو نیک آدمی کو نیک چیز نظر آتی ہے اور بد آدمی کو بد چیز نظر آتی ہے۔ ایک کمزور معدے والا انسان مٹھائی بھی کھاتا ہے تو بیمار ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک مضبوط معدے والا مرچیں بھی کھاتا ہے تو زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ غریبوں کے بچے بازاروں میں پڑے ہوئے خربوزوں کے چِھلکے کھا جاتے ہیں اور وہ زیادہ موٹے اور تر و تازہ ہوتے جاتے ہیں لیکن آسودہ حال لوگوں کے بچے اگر اس کاایک سَو پچاسواں حصہ بھی کھا لیں تو شدید پیچش میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بسا اوقات اس کے نتیجہ میں وہ مر جاتے ہیں۔ کیونکہ ا س کے اندر بیماری ہوتی ہے اور اس کے اندر صحت ہوتی ہے۔ اس کے اندر تازہ خربوزہ بھی بیماری پیدا کر دیتا ہےاور اس کے اندر خربوزے کا چِھلکا بھی طاقت پیدا کر دیتا ہے۔ کیونکہ وہ صحت کا سمندر ہے اور یہ بیماری کا سمندر ہے۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ چونکہ نیکی کا سمندر تھے اس لئے جو چیز بھی آپ کے دل میں پڑتی تھی نیک ہو جاتی تھی۔
یہی حال قوموں کا ہے۔ جن قوموں کے اندر خدا تعالیٰ روحانیت پیدا کرتا ہے دنیوی باتیں بھی اُن کے لئے دین بن جاتی ہیں کسی بزرگ نے کہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اکثر اس بات کو دُہرایا کرتے تھے کہ نیکی اور تقویٰ یہ ہے کہ‘‘ دست در کار و دل بایار’’3 یعنی نکمے نہ بیٹھو، فضول وقت ضائع نہ کرو۔ لوگوں پر بار نہ بنو۔ کماؤ اور کھاؤ۔ مگر جس وقت تم بظاہر سَودا دے رہے ہو تمہار ادل اس وقت خدا تعالیٰ سے باتیں کر رہا ہو۔ تمہاری مادی آنکھیں گاہک پر ہوں لیکن دل کی آنکھیں اپنے مولیٰ کے چہرے پر ہوں۔ ایسے آدمی کا ہر کام ہی دین ہو جاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں۔ اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت اور اس سے تعلق کے اظہار کے لئے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ بھی ڈالتا ہے تو وہ صدقہ ہو جاتا ہے۔4 یہ مطلب نہیں کہ وہ ویسا ہی صدقہ ہو گا جیسے غرباء کو دیا جاتا ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور وہ اس کی نیکی لکھی جاتی ہے۔ اور گو وہ اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لئے اپنی بیوی سے حسن سلوک کرتا اور اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ چونکہ اس نے اپنی بیوی کے منہ میں اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے لقمہ ڈالا تھا کہ خدا تعالیٰ نے یہ وجود میرے سپرد کیا ہے اور اس نے اس سے حُسنِ سلوک اور پیار کرنےکا حکم دیا ہے اِس لئے اس کا یہ فعل ایک نیکی ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے نفس کے لئے ایسا کرتا تو گناہ بن جاتا اور اگر وہ محض اخلاقاً ایسا کرتا تو ایک مباح چیز ہو جاتی۔ یہ بھی وہی مثال ہے کہ جب نیک چیز کے اندر بُری چیز پڑتی ہے تو وہ بھی نیک ہو جاتی ہے۔ تو بعض بندے ہر چیز کو خدا تعالیٰ کے لئے بنا لیتے ہیں۔ مگر پھر بھی مارج ہوتے ہیں۔5 بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا جب وہ خدا تعالیٰ کی خاطر ہو بیشک نیکی ہے مگر جہاد کے لئے اپنا مال دینا اس سے بڑھ کر نیکی ہے کیونکہ اس کا ظاہر بھی نیک ہے اور باطن بھی نیک ہے۔ اس کے ظاہر میں بھی نفس کی خواہش نہیں اور اس کے باطن میں بھی نفس کی خواہش نہیں۔ پس بہرحال جو خالص دین کے کام ہوں گے وہ زیادہ اہمیت رکھنے والے اور خدا تعالیٰ کے زیادہ قریب کر دینے والے ہوں گے۔
ہماری جماعت کے لوگوں نے پچھلے دنوں یہاں بھی اور باہر بھی الیکشن کے کاموں میں حصہ لیا ہے۔ جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کے خوف کو مدنظر رکھا انہوں نے خدا تعالیٰ کے نزدیک اِحْتِسَابًاہی ایسا کیا مگر پھر بھی اس کے ساتھ کچھ دنیوی اغراض وابستہ تھیں۔ اب ہم اس کام سے فارغ ہو چکے ہیں اس لئے مَیں کہتا ہوں کہ آؤ جس طرح رسول کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ہم ایک چھوٹے جہاد سے فارغ ہو گئے ہیں آؤ اب ہم بڑے جہاد کی طرف مائل ہوں اسی طرح ہم بھی بڑے جہاد کی طرف مائل ہوں۔ سب سے بڑا جہاد انسان کا یہی ہوتا ہے کہ اپنے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرے اور اپنے ہمسائیوں کو خدا تعالیٰ کی طرف راجع کرے۔ پس اصلاحِ نفس اور اشاعتِ دین یہی سب سے بڑا جہاد ہے۔ اور تقویٰ کے تمام مدارج بندوں کی اصلاح اور خدا تعالیٰ سے بندوں کی صلح کرانے میں ہی مرکوز ہیں۔ یہی ایک کام ہے جو تمام انبیاء کرتے چلے آئے ہیں اور یہی تمام انبیاء کی بعثت کا مقصود تھا۔ اگر اس کام میں ہم کوتاہی کریں تو ہماری زندگی بالکل لغو اور فضول ہو جاتی ہے۔ اور اگر اس کو پورا کر لیں تو ہماری زندگی خدا تعالیٰ کے عین منشاء کے مطابق ہوتی اور ہماری موت ہماری زندگی سے زیادہ مبارک ہوتی ہے کیونکہ یہ بیج بونے کا وقت ہے اور وہ فصل کاٹنے کا وقت ہے۔ زمیندار بیج بوتے وقت بھی خوش ہوتا ہے اور فصل کاٹتے وقت بھی۔ لیکن فصل کاٹتے وقت تو اس کا دل بلّیوں اچھل رہا ہوتا ہے۔ پس مَیں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اب جب کہ ہم الیکشن کے کام سے فارغ ہو چکے ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم اس سے زیادہ اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ کریں اور اپنے نفس کی اصلاح اور سلسلہ کی تبلیغ کی طرف متوجہ ہوں۔ تبلیغ کا کام اتنا بڑا اور وسیع کام ہے کہ اس کے لئے ہمارے پاس ابھی پورے سامان بھی نہیں بلکہ ان سامانوں کا ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ ہم میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر، ماں باپ کو چھوڑ کر اور اپنے وطن کو چھوڑ کر غیر ملکوں کے راستے اختیار کئے ہیں اور وہ وہاں غیر زبان میں غیر قوموں کے لوگوں کو خدا تعالیٰ کی باتیں سناتے ہیں۔ کیا ہم لوگ یہ بھی نہیں کر سکتے کہ اپنے ملک میں رہ کر اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کی باتیں اپنے ملک کے لوگوں کو سنائیں؟ کیا ایک انگریز کا یا کیا ایک امریکن کا یا کیا ایک جرمن کا یا کیا ایک فرانسیسی کا یا کیا ایک سپینش یا ایک ویسٹ افریقن یا ایک ایسٹ افریقن یا ایک ارجنٹائنا کے رہنے والے کا یا ایک برازیل کے رہنےو الے کا ہم پر زیادہ حق ہے یا ایک ہندوستانی ہمسائے کا ہم پر زیادہ حق ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہم اس بات پر تو خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے اپنے مبلغ دنیا کے کناروں تک پہنچا دئیے مگر اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ ہم اپنے ہمسائے کو جو جہنم میں گِر رہا ہے وہاں سے ہٹا کر جنت کے دروازہ پر کھڑا کر دیں؟ یقیناً ہمارے دل میں اگر اپنے ہمسائے کی ہمدردی نہیں یقیناً اگر ہمارے دل میں اپنے ملک کے لوگوں کی ہمدردی نہیں تو ہماری بیرونی تبلیغ ایک تمسخر کہلائے گی، ایک رِیاء کہلائے گی، اور کوئی شخص بھی یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ جو شخص اپنے ہمسائے کو گمراہی میں گِرتے دیکھتا ہے لیکن اس کے لئے کوشش نہیں کرتا اور انگلستان مبلغ بھجوا رہا ہے وہ مخلص ہے۔ ہم اس وقت مخلص کہلانے کے مستحق ہوں گے جب ہم مبلغین کو باہر بھیجنے کے ساتھ اپنے ہمسائیوں کی خرابی پر بھی نظر رکھیں اور جو مبلغ ہم نے باہر بھیجے ہیں۔ اس وقت تک ہم ان کے کام میں بھی حصہ دار نہیں ہوں گے جب تک ہم اپنا وقت تبلیغ پر خرچ نہ کریں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہر ایک سمجھنے والا یہی سمجھے گا کہ دنیا میں نام پیدا کرنے کے لئے انہوں نے بیرونی ممالک کی تبلیغ میں حصہ لیا ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اگر آٹھ میل کےفاصلہ پر آگ لگے تو تم فوراً اس طرف آدمی دوڑاؤ اور اس میں حصہ لو لیکن جب تمہارے ہمسایہ کے گھر میں آگ لگے تو تم بیٹھے رہو۔ اورپھر کہو کہ ہم نے محض انسانی بھلائی اور نیکی اور ہمدردی کی غرض سے آٹھ میل دور آدمی بھیجے تھے۔ اگر تم نے بھلائی اور نیکی کی غرض سے وہاں آدمی بھیجے تھے تو پھر تمہیں یہاں کیا ہو گیا تھا۔ اگر تمہارے اندر تقویٰ ہوتا تو تم ضرور یہاں بھی آدمی بھیجتے۔ لیکن تمہارا صرف وہاں آدمی بھیجنا اور یہاں نہ بھیجنا بتاتا ہے کہ تم وہاں کسی خاص غرض کے لئے گئے تھے۔ پس اپنے ملک کے لوگوں تک تبلیغ پہنچانا احمدیت کے اہم ترین فرائض میں سے ہے جسے نظر انداز کرکے ہم اپنے تمام کاموں کو شبہ میں ڈال دیتے ہیں۔ ہماری نماز بھی مشتبہ ہو جاتی ہے، ہماری زکوٰة بھی مشتبہ ہو جاتی ہے، ہماری تبلیغ بھی مشتبہ ہو جاتی ہے اور ہمارے چندے بھی مشتبہ ہو جاتے ہیں۔
مَیں متواتر مختلف طریقوں سے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ اب تک جماعت نے پورے طور پر اس کام کی طرف توجہ نہیں کی۔ نہ قادیان کے لوگوں نے اور نہ باہر کے لوگوں نے۔ قادیان کے لوگوں کے لئے یہ مزید فکر کی بات ہے کیونکہ قادیان کے لوگوں کو ایک ایسے ماحول میں رہنے کا موقع ملا ہوا ہے کہ آہستہ آہستہ ان کی تبلیغ کی روح کچلی جا رہی ہے اور ان کی نسلوں میں بھی نمایاں کمزوری نظر آتی ہے۔ بیرونی لوگوں میں اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کے رشتہ دار غیر احمدی ہوتے ہیں۔ جب کسی کے والدین مرتے ہیں تو ان کی اولادوں میں سے جو کمزور ایمان والے ہوتے ہیں وہ اپنے رشتہ داروں کے اثر کے نیچے غیر احمدی ہو جاتے ہیں اور جو مضبوط ایمان والے ہوتے ہیں وہ احمدیت پر قائم رہتے ہیں مگر بہرحال وہاں صرف دو ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں یا مرتد ہونے والے لوگ ہوتے ہیں یا نہایت ہی مخلص اور جوشیلے ہوتے ہیں۔ تیسری قسم نہیں ہوتی۔ مگر قادیان میں ایک تیسری قسم بھی پیدا ہو گئی ہےجو زیادہ خطرناک ہے۔ قادیان میں بعض لوگوں کی نسلیں احمدیت سے بالکل مستغنی نظر آتی ہیں۔ وہ مرتد تو نہیں ہوتیں، نعرے لگانے کے لئے ساتھ ہوتی ہیں مگر دین کے لئے جو جوش اور ولولہ چاہئے اور جس کے بغیر روحانیت زندہ نہیں رہ سکتی ان میں نہیں پایا جاتا۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ وہ دشمن کے نرغہ میں گِھرے ہوئے نہیں بلکہ دوستوں میں رہتے ہیں اور امن میں رہتے ہیں۔ امن میں رہنے کی وجہ سے جو دین کی ضروریات ہیں ان کو محسوس نہیں کرتے اور دشمن کے نرغہ میں ہونے کی وجہ سے جو گرمی اور جوش پیدا ہوتا ہے وہ ان میں نہیں ہے۔ پس قادیان کے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ایسے راستے سوچیں کہ جن پر چل کر ان کی زندگی بےکار نہ ہو اور روحانی لحاظ سے وہ مُردار نہ ہوں۔ صرف میرا خطبہ اس کے لئے کافی نہیں۔ مقامی انجمن کو چاہئے کہ وہ جماعت میں بیداری پیدا کرے۔ وہ مختلف محلّوں میں جلسے کرے اور لوگوں سے طریق پوچھے کہ وہ کس طرح اس دیوار کو توڑ سکتے ہیں جو ہمارے اردگرد حائل ہو گئی ہے۔ جس طرح ہر بدی اپنے ساتھ نیکی رکھتی ہے اسی طرح ہر نیکی بھی اپنے ساتھ بدی رکھتی ہے۔ جب بیماری کے جرمز(Germs) پیدا ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے لئے جسم میں ہی سامان پیدا کر دیتا ہے اور بیماری کے ساتھ صحت کے سامان بھی پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جب صحت ہوتی ہے تو اس کے مقابلہ میں بیماری کے سامان بھی پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ پس ہر نعمت اپنے ساتھ خطرہ رکھتی ہے۔ ہر فرشتے کے مقابلہ میں ایک شیطان ہے۔ جس طرح ہر شیطان کے مقابلہ میں ایک فرشتہ ہے۔ تمہیں صرف یہی قانون اپنے سامنے نہیں رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے شیطانوں کی سرکوبی کے لئے فرشتے بنائے ہیں بلکہ تمہیں یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ فرشتوں کے کام کوخراب کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے شیطان بھی بنائے ہیں۔ اگر نیکی سامنے آئے تو سمجھو کہ اس کے مقابلہ میں بُرائی بھی کھڑی ہے اور اگر بُرائی سامنے آئے تو تمہیں مطمئن رہنا چاہئے کہ اسے دور کرنے والے اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھی مقرر کئے ہیں۔ خطرے کے وقت میں اطمینان رکھنا صرف یہی نیکی نہیں بلکہ اطمینان کے وقت گھبرانا بھی نیکی میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ مومن کا ایمان خوف اور رجا کے درمیان ہوتا ہے مگر ان دونوں کے موقعے الگ الگ ہوتے ہیں۔ ہر مومن کے لئے جب امن پیدا ہوتا ہے تو وہ خوف کے مقام پر ہوتا ہے اور جب خوف پیدا ہوتا ہے تو وہ رجا کے مقام پر ہوتا ہے۔ خطرہ ہو تو مومن کے دل میں یہ اطمینان ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے لیکن جب آرام آتا ہے تو وہ مطمئن نہیں ہوتا بلکہ گھبراتا ہے اور کہتا ہے کہ شیطان میرے دروازے پر کھڑا ہے مجھے جلدی اس کا انتظام کرنا چاہئے۔ پس اسے آرام کے وقت میں خوف ہوتا ہے اور خطرے کے وقت میں اطمینان ہوتا ہے۔ یہی وہ حقیقی تقویٰ کا مقام ہے جس کے ساتھ انسان کا ایمان محفوظ ہوتا ہے۔ پس قادیان کے لوگوں کے لئے بہت زیادہ خطرہ ہے۔ اس لئے کہ چاروں طرف سے احمدیت کی آوازیں اٹھتی ہیں اور ان کےاٹھنے کی وجہ سے دشمن کے اعتراضات جن سے طبیعت میں ایک گرمی اور جوش پیدا ہوتا ہے اور انسان کے اندر تبلیغی مادہ کی روح پیدا ہوتی ہے مدھم پڑ جاتے ہیں۔ احرار یہاں جلسے کرتے ہیں لیکن وہ جلسے ایسے نہیں کہ جن سے تبلیغ کا جوش پیدا ہو بلکہ وہ ایسے جلسے ہیں جن سے اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ چند لوگ باہر سے آتے ہیں اور لاؤڈ سپیکر لگا کر گالیاں دے جاتے ہیں۔ یا کچھ اَئِمَّةُ الْکُفْر ہیں جو اپنی مخالفت میں انتہاء کو پہنچے ہوئے ہیں۔ مگر بیرونجات میں ہزارہا لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے اعتراضات اخلاص پر مبنی ہوتے ہیں وہ اپنے اعتراضات بات کو سمجھنے کے لئے کرتے ہیں۔ اس لئے سننے والا ان کے اعتراضوں سے غصہ میں نہیں آتا بلکہ سننے والے کے دل میں یہ شوق پیدا ہوتا ہے کہ اس کو تبلیغ کر کے ہدایت کی طرف کھینچے۔ پس قادیان کے لوگوں کو بجائے غافل ہونے کے زیادہ کوشش کی ضرورت ہے۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ وہ اپنی تبلیغ کا دائرہ کس طرح وسیع کریں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر مقامی انجمن صحیح طور پر کام کرے اور صحیح طور پرآدمیوں کو منظّم کرے تو قادیان کے اردگرد بھی ابھی تبلیغ کی بہت سی گنجائش باقی ہے۔ ہزارہا آدمی ہمارے اردگرد موجود ہیں جو ہدایت پا سکتے ہیں اور جن کو ہدایت دینے کے لئے کوشش کرنا نہایت ضروری ہے۔ یہاں تو میدان ہمارے ہاتھ میں ہے۔ لیکن بیرونی جماعتوں کے اردگرد کا میدان غیروں کے ہاتھ میں ہے وہاں ہماری مثال ایسی ہی ہے جیسے سمندر میں کارک6 پھینک دیا جاتا ہے۔ جماعت وہاں کی لہروں میں تیرتی پھرتی ہے اور جہاں اسے لہر پھینکتی ہے اُدھر چلی جاتی ہے۔ ابھی اَور جماعتیں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتیں جتنی ایککِیلے کی ہوتی ہے۔ ایک کِیلاجس سے جانور باندھا جاتا ہے۔ اس کیلے کی حیثیت اتنی تو ہوتی ہے کہ وہ اپنی جگہ پر گڑا ہوتا ہے لیکن ہماری تو اتنی بھی حیثیت نہیں۔ ہماری حیثیت قادیان سے باہر محض ایک کارک کی سی ہے جو سمندر میں تیرتا پھرتا ہے جس کی اپنی کوئی جگہ نہیں ہوتی بلکہ اس کو جو جگہ دی جائے وہ اسے قبول کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح بیرونجات کی جماعتوں کو بھی جو جگہ غیر دیتے ہیں انہیں قبول کرنی پڑتی ہے ان کی اپنی جگہ کوئی نہیں۔ سوائے چند ایک جماعتوں کے اور وہاں بھی وہی خطرہ پیدا ہے جو قادیان میں پیدا ہو چکا ہے۔ پس دونوں صورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں کی تنظیم کرنی چاہئے۔ ان لوگوں کی حفاظت کے لئے بھی جو دشمن کے نرغے میں ہیں اور ان کے لئے بھی جن کے اردگرد تو ان کے دوست ہیں لیکن وہ شیطان کے نرغے میں آئے ہوئے ہیں۔
مَیں نے پہلے بھی کئی دفعہ تحریک کی ہے لیکن وہ ہَوا میں اُڑ گئی۔ کچھ لوگوں پر اثر ہؤا اور کچھ بیداری پیدا ہوئی لیکن حقیقتاً وہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اس بات کا عہد کر لے کہ وہ سال میں کم از کم ایک احمدی بنائے گا تو مَیں سمجھتا ہوں کہ پچاس ساٹھ سال تو الگ رہے چھ سات سالوں میں ہی اتنا عظیم الشان تغیر پیدا ہو جائے گا کہ اس کی مثال ڈھونڈنی مشکل ہو گی۔ لاکھوں کی جماعت ہو اور سَو آدمی کام کرنے کا ارادہ کرے اور باقی غافل رہیں تو اس سے کیا بنتا ہے۔ اس کا علاج یہی ہے کہ مَیں نے جو دفتر بیعت قائم کیا ہے وہ مبلغین کے ذریعہ اور جماعتوں کے تبلیغی سیکرٹریوں کے ذریعہ جماعتوں کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے جماعتوں سے یہ عہد لیں کہ ہم نے بحیثیت مجموعی تم سے اتنے احمدی اس سال لینے ہیں۔ اور یہ صرف جماعتوں سے ہی بحیثیت جماعت عہد نہ لیا جائے بلکہ جماعتوں سے بحیثیت جماعت الگ عہد لیں اور افراد سے بحیثیت افراد الگ عہد لیں اور پھر وہ اس کی نگرانی کریں۔
وجہ کیا ہے کہ ایک جماعت اپنا چندہ پورا دیتی ہے تو سمجھ لیتی ہے کہ اس نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ حالانکہ اصل چندہ تو نیکی کا چندہ ہے۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ ان چندوں کے ساتھ ساتھ وہ کس حد تک اپنے جوشوں کو قائم رکھتے ہیں، کس حد تک وہ اپنی اصلاح کرتے ہیں اور کس حد تک وہ تبلیغ کرتے ہیں اور پھر کس حد تک اس کے نتائج نکلتے ہیں۔ اگر اس رنگ میں تبلیغ کی جائے اور ان چندوں کی طرح یہ چندے بھی باقاعدگی سے ادا کئے جائیں اور ہر فرد یہ چندہ ادا کرے تو ان چندوں کی طرح جن کی تعداد بیرونجات و مرکز کے چندوں کو ملا کر پچیس لاکھ سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ بھی پچیس لاکھ سالانہ تک پہنچ سکتی ہے۔ پس یہ کام ایسا مشکل نہیں صرف ارادے، عزم اور صحیح طریقے کی ضرورت ہے۔ پس مَیں مقامی کارکنان کو بھی توجہ دلاتا ہوں اور قادیان کے افراد اور انجمن کو بھی کہ وہ قادیان کے اردگرد کی تبلیغ کو وسیع کرنے کے متعلق سوچیں، سکیمیں بنا کر میرے سامنے پیش کریں اور پھر ان پر عمل کریں۔ اسی طرح مَیں بیرونجات کی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وقت نازک ہے۔ اس سال میں سے کچھ دن ضائع ہو گئے ہیں اس لئے ہماری ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ الیکشن میں جماعت اگرچہ دینی اثر کے ماتحت لگی رہی مگر بہرحال وہ دنیوی کام تھا۔ ہمیں اب اس جہاد صغیر سے ہٹ کر جہاد کبیر کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کے نام کو جلد سے جلد ہندوستان اور ہندوستان سے باہر تمام دنیا میں پھیلا دیں اور ہماری آنکھیں اس نظارے کو دیکھ لیں کہ زین العابدین کی طرح بیمار و بے کس دین خدا تعالیٰ کے حضور میں بھی اور دنیا کی نگاہ میں بھی پھر نئے سرے سے طاقتور اور آزاد ہو گیا ہے۔ ’’ (الفضل 7 مارچ 1946ء )
1: موضوعات مُلّا علی قاری صفحہ 40 مطبوعہ دہلی 1346ھ
2: مسلم کتاب صفات المنافقین باب تحریش الشیطان (الخ)
3: ملفوظات جلد 5 صفحہ 81
4: بخاری کتاب الایمان باب مَا جاءَ ان الاعمال بالنّیّة
5: مَارج: بھڑکنے والا شعلہ
6: کارک: ایک درخت کی چھال جس سے بوتلوں وغیرہ کے ڈاٹ بنائے جاتے ہیں۔
(اردو جامع فیروز اللغات)

7
اسمبلی کے الیکشن کے متعلق چند اہم امور
( فرمودہ 8 مارچ 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
(1) جو مقصد ہمارے سامنے ہے اس کے لئے تو ہم اربوں روپیہ صَرف کریں گے: ‘‘آج مَیں الیکشن کے بارہ میں پھر کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ کچھ دن ہوئے مجھے اپنے کمرہ میں بلند آواز سے کسی کے بولنے کی آواز آئی۔ مَیں نے سمجھا کہ شاید ہماری جماعت کا کوئی جلسہ ہو رہا ہے مگر چونکہ مجھے اُس کا علم نہیں تھا اِس لئے مَیں نے برآمدہ کی طرف باہر نکل کر سننا چاہا کہ کیسا جلسہ ہے۔ مَیں نے مسجد اقصیٰ کی طرف دیکھا لیکن وہاں خاموشی تھی۔ پھر برآمدے کی دوسری طرف گیا تو معلوم ہوا کہ شاید سکھوں کے گوردوارہ میں کوئی تقریر ہو رہی ہے ۔مَیں تھوڑی دیر وہاں ٹھہرا تو مَیں نے سنا کہ بڑے زور و شور سے یہ کہا جا رہا تھا کہ غریب قوم کے چندوں کا روپیہ الیکشنوں میں اُڑایا جا رہا ہے۔ ہماری زبان کی ایک مثال ہے کہ‘‘ داتا دے اور بھنڈاری کا پیٹ پھٹے۔’’ روپیہ کسی کا، خرچ کوئی کرتا ہے اور فکر کسی اَور کو ہو رہی ہے۔ وہ غریب جماعت جس کا چندہ ہے اگر فرض بھی کر لو کہ وہ خرچ ہو رہا تھا تو وہ قوم تو اس کام کے لئے خود بھاگی بھاگی پھر رہی تھی کام کر رہی تھی اور رات دن اس میں مشغول تھی لیکن جو جماعت میں شامل نہیں تکلیف ان کو ہو رہی تھی۔ حالانکہ اگر ہم نے دنیا میں اپنے نظام کی کوئی مضبوطی پیدا کر لی ہے اور جو حقوق ملک کو ملنے ہیں ان میں حصہ لیا ہے تو لازمی طور پر ہم کو ایک سخت جدو جہد بھی اس کے لئے کرنی پڑے گی کیونکہ ہم اقلیت ہیں اور ہمارے افراد ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر ہماری جماعت کسی ایک ضلع یا دو ضلعوں میں جمع کر دی جائے تو الیکشنوں پر ہمارا کچھ بھی خرچ نہ آئے کیونکہ کثرت احمدی ووٹروں کی ہو گی۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ ہماری جماعت کے چالیس پچاس ہزار کے درمیان ووٹر ہیں۔ اس حلقہ میں چودھری فتح محمد صاحب کے ووٹ صرف چھ ہزار دو سو تھے۔ اگر تین ممبروں کے سوال کو اڑا دیا جائے تو چار ہزار دو سو ووٹ میں سے جو مسلم لیگ کو ملے اگر آدھے بھی دوسروں کو مل جاتے اور آدھے چودھری فتح محمد صاحب کو تو پھر یہ آٹھ ہزار تین سو ووٹ لے کر جیت جاتے یا ہمارے حساب سے آٹھ ہزار پانچ سو ووٹ لے کر۔ کیونکہ ہمارے دو سو ووٹ غائب ہو گئے ہیں یا دوسرے فریق کے حساب میں گِنے گئے ہیں اور یہی درست معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ جس وقت ووٹ گنے جاتے ہیں اس وقت فریقین کو ہاتھ نہیں لگانے دیا جاتا سرکاری افسر گناکرتے ہیں۔ اس لئے ہمیں شبہ ہے کہ ہمارے دو سو ووٹ دوسرے کے ووٹوں میں شمار ہو گئے ہیں یا کر لئے گئے ہیں۔ بہرحال ہمارے حساب سے چودھری صاحب آٹھ ہزار پانچ سو پر جیت جاتے اور ان کے حساب سے آٹھ ہزار تین سو پر۔ گورداسپور میں تو تناسب اس سے بھی کم ٹھہرتا ہے کیونکہ وہاں ووٹوں کی تعداد کم ہے۔ وہاں پانچ ہزار ووٹ والا جیت جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ چھ ہزار فرض کر لو۔ ہماری جماعت کے چونکہ پینتالیس پچاس ہزار ووٹ ہیں اس حساب سے ہمیں چھ سیٹیں آپ ہی آپ آ جاتی ہیں لیکن بوجہ اقلیت ہونے کے اور سارے پنجاب میں پھیلے ہونے کے ہم اپنے حقوق نہیں لے سکتے ورنہ حقوق کے لحاظ سے ہمیں چھ سیٹیں ملنی چاہئیں لیکن باوجود بڑی کوشش کے ہم صرف ایک سیٹ جیت چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے باہر کے تمام ووٹ پھیلے ہوئے ہیں اس لئے ہماری جماعت دوسری جگہوں پر جیت نہیں سکتی۔ اگر نوّے سیٹوں میں ہمارے دو دو ہزار ووٹ پھیلے ہوئے ہوں تو دو ہزار والے کسی صورت میں بھی جیت نہیں سکتے حالانکہ اس طرح ایک لاکھ اسّی ہزار ووٹ بنتا ہے لیکن اتنی بڑی تعداد ہو جانے پر بھی ہم ایک سیٹ بھی نہیں لے سکیں گے۔ اس وقت ہمارے ووٹروں کی تعداد پچاس ہزار ہے۔ اس کو سارے پنجاب میں تقسیم کریں تو ایک ایک سیٹ کے لئے صرف پانچ پانچ سَو ووٹ بنتے ہیں اور پانچ سَو ووٹوں سے کون جیت سکتا ہے۔ پس اگر ہم نے زیادہ ووٹ حاصل کرنے ہیں تو اس کے لئے ہمیں لازماً بڑی جد و جہد کی ضرورت ہو گی اور اس جد و جہد کے لئے روپیہ بھی خرچ کرنا پڑے گا۔ کہا جاتا ہے کہ یونینسٹ نے جو پچیس لاکھ روپیہ لوگوں سے جمع کیا تھا وہ سارے کا سارا خرچ ہو گیا ہے۔ لیکن جیتے ان کے صرف دس آدمی ہیں بلکہ اب تو اس پارٹی میں صرف چھ رہ گئے ہیں۔ پچیس لاکھ تو انہوں نے فنڈ سے خرچ کیا اور جو نمائندوں نے خود خرچ کیا وہ الگ ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ کا روپیہ بھی خرچ ہوا ہے۔ دوسرے ممبر تو زیادہ تر اپنے زور اور طاقت پر کھڑے ہوتے ہیں لیکن ہماری جماعت میں ابھی ایسے مالدار آدمی نہیں کہ وہ اپنے زور اور طاقت پر کھڑے ہو سکیں۔ اگر وہ کھڑے ہوں گے تو لازمی بات ہے کہ وہ سامان نہ ہونے کی وجہ سے ہار جائیں گے۔ اس لئے اگر ہم نے اپنے آدمی کھڑے کرنے ہیں تو یقیناً جماعت کو ان پر روپیہ خرچ کرنا پڑے گا۔
پس یہ سوال ہی غلط ہے کہ کیوں غریب آدمیوں کا چندہ ضائع کیا جا رہا ہے۔ اول تو ہم کہتے ہیں تم کو اس سے کیا تکلیف ہو رہی ہے۔ دینے والے ہم، خرچ کرنے والے ہم عجیب بات ہے کہ جن کا روپیہ ہے ان کو تو احساس ہی نہیں ہوتا اور جن کا روپیہ نہیں وہ خوانخواہ شور مچا رہے اور اپنی ہمدردی ظاہر کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کے متعلق ایک دوسری مثال بھی ہے کہ ‘‘ماں سے زیادہ چاہے کُٹنی1 کہلائے’’یعنی جو شخص اصل تعلق والے سے زیادہ محبت کا اظہار کرتا ہے اُسے کُٹنا کہا جاتا ہے لیکن اس کے علاوہ یہ بات ہی غلط ہے کہ چندے کا روپیہ الیکشن پر خرچ کیا گیا ہے۔ اب ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی بڑھ چکی ہے اور اتنی طاقت پکڑ چکی ہے کہ اس کے پاس چندے کے علاوہ آمد کے اَور بھی ذرائع ہیں اور وہ آمد خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر سال بڑھتی چلی جاتی ہے۔ چندے کے سارے روپے کو اشاعتِ اسلام پر لگا دینے کے باوجود پھر بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری دوسری آمدنیوں سے اتنا روپیہ مل سکتا ہے اور ملنا شروع ہو گیا ہے جس کے ذریعہ سے ہم اپنے ایسے حقوق پر جن کا ملنا جماعت کی ترقی کے لئے ضروری ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے روپیہ خرچ کر سکتے ہیں۔ او رایسی سکیمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے سامنے ہیں کہ جن کے بعد ہماری یہ ترقی خدا تعالیٰ کے فضل سے اَور بھی بڑھ جائے گی۔ یہ تو ہزاروں کے خرچ پر شور مچاتے ہیں حالانکہ جو مقصد ہمارے سامنے ہے اور جس کام کا ہم نے بیڑا اٹھایا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہزاروں کا بھی سوال نہیں اربوں ارب روپیہ خرچ آئے گا۔ ہم نے دنیا میں یونیورسٹیاں بھی بنانی ہیں، کالج اور سکول بھی بنانے ہیں اور ہم نے دنیا میں مبلغین کا جال بھی پھیلانا ہے۔ آخر احمدیت قادیان کے اردگرد تک تو نہیں رہے گی۔ احمدیت نے تو ساری دنیا میں پھیلنا ہے۔ پس ہمارا مقصد صرف یہی نہیں کہ یہاں ایک کالج بنا دیا جائے یا ایک سکول بنا دیا جائے یا چند مبلغ تبلیغ کے لئے مقرر کر دئیے جائیں بلکہ ہمارا مقصد ساری دنیا میں کالج بنانے کا ہے، ہمارا مقصد ساری دنیا میں یونیورسٹیاں بنانے کا ہے اور ہمارا مقصد ساری دنیا میں سکول بنانے کاہے اور ہمارا مقصد ہزارہا بلکہ لکھوکھہا مبلغین کو ساری دنیا میں پھیلانے کا ہے۔ ان کے لئے اربوں ارب روپیہ کی ضرورت ہو گی بلکہ ہم تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسی طاقت کے امیدوار ہیں کہ جس کا مقابلہ بڑی بڑی حکومتیں بھی نہ کر سکیں اور یہ مقصد اپنا حق لینے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ ان لوگوں کو جن کا کوئی تعلق نہیں خواہ مخواہ تکلیف ہو رہی ہے۔لیکن ہم عَلَی الْاِعْلَان کہتے ہیں کہ خواہ سَو سال تک ہم ہارتے چلے جائیں ہم ہر دفعہ قادیان کی سیٹ کے لئے لڑیں گے کیونکہ یہ ہماری مرکزی جگہ ہے اور ہم اس جگہ کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اگر سارے پنجاب میں دوسری جگہوں پر دوسری پارٹیاں ہم سے مدد لیتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اس جگہ کے متعلق ہمارایہ حق تسلیم نہ کیا جائے کہ یہ سیٹ ہمیں بہرحال ملنی چاہئے تا دشمن یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم نے قادیان میں احمدیوں کو شکست دے دی ہے۔ بلکہ ہر پانچ سال کے بعد یہ بات واضح ہوتی رہے کہ ان کا قادیان کے متعلق فتح کا ڈھنڈورا پیٹنا بالکل غلط ہے۔ آخر جماعت کا اعتبار مجھ پر ہے اور وہ مجھے چندہ دیتی ہے۔ اس خرچ پر دوسروں کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہے۔ پھر یہ ایک واضح بات ہے کہ الیکشن میں اپنے آدمیوں کے پھیلانے میں اور لاریوں وغیرہ کے حاصل کرنے میں بہت کچھ خرچ ہوتا ہے اور اس دفعہ تو لاریوں پر خصوصاً بہت خرچ ہوا ہے۔ بعض لاریوں والے سَو سَو روپیہ روزانہ مانگ لیتے تھے اور ایک نے تو اس سے بھی زیادہ مانگا۔ عام طور پر پنجاب میں ایک ماہ یا اس سے زیادہ لینے کے لئے ساٹھ روپے روزانہ کے خرچ سے ایک ایک لاری ملتی رہی ہے۔ چنانچہ کئی امیدواروں نے اس خرچ پر ایک ایک ماہ تک لاریاں لیں۔ اس قسم کے اخراجات چونکہ ضروری ہوتے ہیں اس لئے ہر امیدوار نے یہ خرچ کئے۔ اور جس نے نہیں کئے وہ بری طرح ہار گیا۔ اگر جماعت اس بوجھ کے اٹھانے میں جھجک محسوس کرے گی تو مَیں اِنْشَاءَ اللہ خود اس بوجھ کو اٹھاؤں گا۔ ہمارا مقصد یہ نہیں کہ ہم جیت جائیں اور پچھلی دفعہ بھی ہمارا مقصد یہ نہیں تھا۔ بلکہ پچھلی دفعہ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہم نے احرار سے زیادہ ووٹ لینے ہیں اس کے لئےمَیں نے دوستوں سے کہا تھا کہ تم ساری تحصیل میں پھیل جاؤ، اپنے دوستوں سے ملو اور کوشش کرو کہ وہ احمدی امیدوار کو ووٹ دیں۔ رشتہ داروں کے پاس جا کر کوشش کرو اور ان کو اس بات پر آمادہ کرو کہ وہ احمدی امیدوار کو ووٹ دیں تاکہ ہمارے ووٹ احرار سے زیادہ ہو جائیں اور ان کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہو جائے کہ ہم نے احمدیوں کو ان کے مرکز میں شکست دے دی ہے۔ گو اس الیکشن میں میاں بدر محی الدین صاحب جیت گئے لیکن ہمارے امیدوار کے ووٹ احرار سے تقریباً تین سو زیادہ تھے۔ اس طرح دنیا کو یہ معلوم ہو گیا کہ احرار کا یہ دعویٰ کہ ہم نے قادیان کو فتح کر لیا ہے بالکل غلط تھا۔ اگر فتح کر لیا ہوتا تو احمدیوں کو ووٹ ان سے زیادہ کیوں ملتے۔ پس یہاں ہمارے ایک نمائندہ کے جیتنے کا سوال نہیں بلکہ یہ ایک جماعتی کام ہے ۔ اگر اس کے لئے چندہ بھی کرنا پڑے تو مَیں سمجھتا ہوں کہ ہر مخلص احمدی کا فرض ہو گا کہ اس میں حصہ لےاور ہر الیکشن پر ثابت کر دے کہ احرار کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ انہوں نے قادیان کو فتح کر لیا ہے۔ لیکن علاوہ اس ذریعہ کے جو مَیں نے بتایا ہے اَور ذرائع بھی ہیں۔ چندے کے علاوہ ہماری جماعت کو اَور بھی آمد ہوتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ میرے ذہن میں یہ بھی سکیم ہے کہ جماعت کے اندر بھی یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ وہ ان اخراجات میں حصہ لے جو عام چندہ ہے اس سے ہمیں خرچ کی ضرورت نہیں۔ لیکن اس کے لئے خاص طور پر جماعتوں سے چندہ لینا ان کی اپنی بیداری کے لئے ضروری ہے۔ جب ہر احمدی اس میں حصہ لے گا تو اس کو احساس ہو گا کہ یہ میرے فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے۔ چندے کی غرض صرف یہی نہیں ہوتی کہ روپیہ فراہم ہو جائےبلکہ یہ بھی ہوتی ہے کہ انسان کے اندر احساس پیدا ہو جائے کہ اس کام کو پورا کرنا میرے ذمہ ہے۔ پس ایک سکیم میرے ذہن میں یہ بھی ہے کہ آئندہ اس کے لئے چندہ مانگا جائے تا جماعت میں بیداری پیدا ہو ۔
پچھلی دفعہ الیکشن میں بٹالہ کے حلقہ کے سکھوں نے اپنی بیداری کا ایک حیرت انگیز نمونہ دکھایا تھا۔ وہ ایک عجیب نظارہ تھا کہ نہ صرف سینکڑوں بلکہ ہزاروں سکھ پیدل چلتے اور گاتے ہوئے اپنے پنتھک امیدوار کے لئے جاتے۔ اَور لوگ تو کھانا کھاتے تھے کوئی کہتا تھا فلاں جگہ پر ووٹ دینے جانا ہے ہمیں تانگہ یا لاری کے لئے کرایہ دو۔ مگر ان کا یہ حال تھا کہ وہ پیدل جاتے اور وہاں پہنچ کر اپنے امیدوار کے ہاتھ میں ہر ووٹر ایک ایک روپیہ دیتا چلا جاتا۔
پس اگر کوئی قومی کام ہو تو قوم کو وہ بوجھ اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ لیکن اس وقت تو یہ بات ہی غلط ہے کہ یہ روپیہ قومی چندے سے خرچ ہوا ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس اَور ایسے ذرائع بھی ہیں جن سے علاوہ چندے کے اَور آمد ہوتی رہتی ہے لیکن آئندہ میرا ارادہ ہے کہ اس قسم کے کاموں کے لئے بھی چندے کی تحریک کی جائے تاکہ جماعت میں احساسِ ذمہ داری پیدا ہو۔
(2) الیکشن سے ہم نے کئی سبق سیکھے: دوسری بات مَیں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ الیکشن سے ہمیں ایک بہت بڑا فائدہ ہوا ہے اور بہت سے سبق ہم نے حاصل کئے ہیں۔ ہماری جماعت کے لوگوں نے مقامی حالات کے مطابق جو فیصلے کئے تھے اکثر انہی کو مرکز نے منظور کر لیا تھا۔ گویا ہم نے فیصلے نہیں کئے بلکہ خود ان جماعتوں نے جو مشورہ کر کے ہمیں اپنا فیصلہ بتایا ہم نےاسی کا اعلان کر دیا تھا۔ ممکن ہے کوئی جگہ ایسی بھی ہو جہاں ہمارا کوئی ووٹر نہ ہو۔ لیکن بعض جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں ہماری جماعت کا تین چار ہزار کے قریب ووٹ ہے۔ تحصیل بٹالہ میں ہی اس دفعہ چھ ہزار آٹھ سو ووٹ احمدیوں کا تھا۔ اصل میں ووٹ تو آٹھ ہزار کے قریب تھا لیکن بعض نقائص کی وجہ سے کچھ ووٹ خراب ہو گئے اور کچھ ووٹ بنائے ہی نہیں گئے۔ ہمارے دوستوں نے ہر جگہ اپنے ووٹوں کو استعمال کیا اور اکثر مقامات پر ہمارے ووٹ مسلم لیگ کو ملے۔ البتہ کچھ جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں بعض دوسرے مصالح کی وجہ سے ہم نے یونینسٹ پارٹی کی مدد کی۔ خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ یونینسٹ کے دس گیارہ ممبر جو کامیاب ہوئے ہیں ان میں سے پانچ چھ ممبر ایسے ہیں جو محض ہماری امداد کی وجہ سے جیتے ہیں۔ اس کے مقابل پر ہم نے مسلم لیگ کی تو بہت زیادہ امداد کی ہے۔ اس الیکشن میں ہمیں یہ تجربہ ہؤا ہے کہ جس طرح ہر قربانی کے لئے عادت کی ضرورت ہے اسی طرح الیکشن کے لئے بھی لوگوں میں قربانی کی عادت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ چندہ دینے اور زندگیاں وقف کرنے کی چونکہ جماعت میں عادت پیدا ہو چکی ہے اس لئے مَیں نے دیکھا ہے کہ چندے کی تحریک کرو تو جماعت نہایت اعلیٰ اخلاص کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کرو تو نوجوان اپنی زندگیاں فوراً وقف کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ آہستہ آہستہ جماعت میں ان باتوں کی عادت پیدا ہو گئی ہے اِس لئے ہر موقع پر ان کا قدم ترقی کی طرف اٹھتاہے۔ لیکن ہر نیا کام ایک قسم کا امتحان بن جاتا ہے۔ مجھے کئی دفعہ خیال آیا ہے کہ چندے میں اور زندگیاں وقف کرنے میں اور بعض دوسری قسم کی قربانیوں میں کوئی بڑی سے بڑی جماعت بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگر کانگرس بھی زندگیاں وقف کرنے کا مطالبہ کرے تو میرے خیال میں اتنے لوگ زندگیاں وقف نہ کریں جتنے ہمارے نوجوان کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے نوجوانوں کو قید ہونا پڑے تو وہ گھبرائیں گے کیونکہ یہ ان کے لئے ایک نیا کام ہو گا۔ لیکن اگر عادت پڑ جائے تو کانگرس ہم سے بہت پیچھے رہ جائے گی۔ پس صرف عادت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر عادت پیدا ہو جائے تو ہمارے آدمی اس معاملہ میں کانگرس کے آدمیوں سے بیس گُنے زیادہ جرأت دکھائیں گے کیونکہ ہمارے اندر وہ ایمان موجود ہے جو ان میں نہیں۔ انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ ہر نئے کام سے ہچکچاتا ہے اور وہ کام اس کے لئے امتحان بن جاتا ہے۔
اس الیکشن کے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگوں نے کمزوریاں دکھائی ہیں۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ جماعت کے مُعْتَد بہ حصہ نے کمزوری دکھائی ہے، مَیں یہ بھی نہیں کہتا کہ چالیس پچاس ہزار میں سے پانچ ہزار نے کمزوری دکھائی ہے، مَیں یہ بھی نہیں کہتا کہ دو تین ہزار نے کمزوری دکھائی ہے۔ مگر دو تین سو آدمی ضرور ایسا ہے جس نے کمزوری دکھائی ہے۔ وہ کمزوریاں تین قسم کی ہیں۔
ایک تو یہ کہ بعض لوگوں نے اخلاص کے لباس میں اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کیا ہے۔ اگر ان کو کسی یونینسٹ امیدوار سے ہمدردی تھی تو انہوں نے یونینسٹ کے حق میں رائے دی اور اگر ان کو کسی مسلم لیگ کے امیدوار سے ہمدردی تھی تو انہوں نے مسلم لیگ کے امیدوار کے حق میں رائے دی ۔ اورسلسلہ کے مفاد کو مدنظر نہیں رکھا بلکہ ذاتی ہمدردی کو اخلاص کا رنگ دے کر یہ ظاہر کیا کہ گویا وہ جماعتی نظام کی اِتباع کی وجہ سے اس پارٹی کے امیدوار کے حق میں رائے دے رہے ہیں۔ حالانکہ خود ان کے ذاتی تعلقات ان سے تھے جن کی وجہ سے وہ ان کی تائید کر رہے تھے اور یہ ممکن تھا بلکہ غالب امر تھا کہ اگر ان کی مرضی کے خلاف فیصلہ کیا جاتا تو ان کو ٹھوکر لگتی۔ گو ایسے آدمیوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن پھر بھی ایک مخلص جماعت میں ایسے آدمیوں کا پایا جانا بہت تکلیف دِہ بات ہے۔ اور بعض ایسے آدمیوں کے متعلق جو کہ ذمہ دار آدمی ہیں اور اچھی شہرت رکھنے والے ہیں یہ یقین کرنے کی کافی وجوہ ہیں کہ انہوں نے اپنے ذاتی اغراض کو جماعتی فائدہ پر مقدم کیا اور اسے شکل یہ دی کہ گویا وہ جماعتی اتباع اور اخلاص کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔
دوسرا نقص یہ دیکھا گیا کہ باوجود مرکز کا حکم پہنچ جانے کے بعض جماعتوں نے اس میں اختلاف کیا۔ جماعتوں نے کثرتِ رائے سے مشورہ کر کے جو فیصلہ ہمیں بتایا اس کے مطابق ہم نے فیصلہ کر دیا لیکن جب فیصلہ ہو گیا تو انہوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا۔ مثلاً تحصیل گوجرانوالہ کے احمدیوں کی دو پارٹیاں بن گئیں۔ ایک پارٹی مسلم لیگ کی تائید میں تھی اور دوسری پارٹی یونینسٹ کو ووٹ دینا چاہتی تھی۔ دو دفعہ مَیں نے آدمی بھیجا مگر یہ لوگ صلح سے فیصلہ نہ کر سکے۔ قومی کاموں میں جدھر اکثریت ہو اقلیت کو اپنی رائے ان کی رائے کے ماتحت کر دینی چاہئے سوائے دین کے معاملہ کے۔ اگر دین کے معاملہ میں اکثریت دین کے خلاف کوئی فیصلہ کرے مثلاً یہ کہے کہ خدا تعالیٰ کو ایک نہ مانو تو اس معاملہ میں اکثریت کی رائے کی پروا نہیں کی جائے گی۔ لیکن دنیوی معاملات میں اکثریت کی رائے کا خیال رکھا جانا ضروری ہوتا ہے۔ خصوصاً ایسے وقت میں جبکہ اکثریت کے فیصلہ کو قبول کرنے سے قومی مفاد کو نقصان پہنچنے کا کوئی شدید احتمال نہ ہو۔ یہ ایسی صاف بات ہے کہ جس کو ہر عقل مند انسان اچھی طرح سمجھ سکتا ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ تحصیل گوجرانوالہ میں نہ اقلیت نے اکثریت کی رائے کا کوئی خیال کیا اور نہ اکثریت نے فتنہ دور کرنے کی نیت سے اقلیت کی بات کو مانا۔ جب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا تو اکثریت کو ہی خاموشی اختیار کر لینی چاہئے تھی۔ پس مَیں اقلیت اور اکثریت دونوں کو ملزم گردانتا ہوں۔ جب اکثریت نے دیکھا تھا کہ کچھ لوگ قومی نظام کو توڑ رہے ہیں تو وہ کہہ دیتے کہ ہم اکثریت میں ہونے کے باوجود تمہارے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ لیکن اقلیت نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ ضرور اپنی بات منوا کر رہیں گے اور اکثریت نے اس بات پر اصرار کیا کہ ہماری اکثریت ہے ہم اپنی بات ضرور منوائیں گے۔ حالانکہ اقلیت کا یہ فرض تھا کہ وہ اکثریت کے فیصلہ کی اتباع کرتی اور اپنی ذاتی اغراض کو پسِ پُشت ڈال دیتی۔ اور اگر اقلیت اس بات پر مُصر تھی تو اکثریت کا فرض تھا کہ دانائی کو کام میں لاتے ہوئے اقلیت کے پیچھے چل پڑتی تاکہ تفرقہ پیدا نہ ہوتا۔ جس طرح فرض تو بیٹے کا ہے کہ وہ اپنے باپ کی بات مانے لیکن کبھی باپ ہی اپنے بیٹے کی بات مان لیتا ہے۔ اسی طرح اس جھگڑے کو اس صورت میں بھی طے کیا جا سکتا تھا کہ دونوں فریق کہہ دیتے کہ نہ ہم کسی کے حق میں ووٹ دیتے ہیں نہ آپ کسی کے حق میں ووٹ دیں۔ دونوں اپنے اپنے گھر بیٹھ جاتے۔ ہم بھی کہتے کہ ہم تمہیں معاف کر دیتے ہیں کیونکہ تم لوگوں نے تفرقہ کا دروازہ کھولنے سے اپنے تئیں روکا ہے۔ لیکن ان لوگوں نے خوب پارٹی بازی کی اور جماعتی اتحاد کو نقصان پہنچایا۔ مَیں نے وہاں کے لوگوں کو اس لئے سزا نہیں دی کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے مسلم لیگ کی یا کچھ لوگوں نے یونینسٹ پارٹی کی کیوں تائید کی بلکہ مَیں نے اس لئے ان کو سزا دی ہے کہ ایک دنیوی معاملہ کے لئے انہوں نے جماعت کے اندر تفرقہ پیدا کیا۔ مَیں نے ان کو یہ سزا دی ہے کہ تحصیل گوجرانوالہ کا کوئی شخص میرے ساتھ ملاقات نہیں کر سکتا۔ اسی طرح مجلس شوریٰ میں ان کو حقِ نمائندگی سے محروم کیا جاتا ہے۔ آخر ووٹ دینا مقدم نہ تھا۔ مقدم بات یہ تھی کہ احمدیوں کا آپس میں اتحاد قائم رہے۔ پس ہم نے اس لئے ان کو سزا نہیں دی کہ کیوں ان میں سے کچھ لوگوں نے مسلم لیگ کی تائید کی یا کیوں ان میں سے کچھ لوگوں نے یونینسٹ پارٹی کی تائید کی۔ اگر مسلم لیگ کی تائید کی وجہ سے ان کو سزا دی جاتی تو یونینسٹ کی تائید کرنے والوں کو سزا نہیں ہونی چاہئے تھی؟ اور اگر یونینسٹ کی تائید کی وجہ سے سزا دی جاتی تو مسلم لیگ کی تائید کرنے والوں کو سزا نہیں ہونی چاہئے تھی۔ لیکن سزا دونوں پارٹیوں کی تائید کرنے والوں کو دی گئی ہے کیونکہ ہمارے نزدیک ایسے اختلاف کی صورت میں اس بات کی اہمیت نہیں رہتی کہ وہ مسلم لیگ کو ووٹ دیں یا یونینسٹ کو۔ ہم نے ان کو سزا اس لئے دی ہے کہ انہوں نے کیوں اس معاملے کو اس قدر اہمیت دی کہ جماعت میں لڑائی پیدا کر دی۔ الیکشن میں ووٹ دینا کوئی دینی معاملہ نہ تھا۔ دینی معاملہ یہ تھا کہ وہ اپنے اندر اتحاد قائم رکھتے۔ قومی اتحاد احکامِ دینیہ میں سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا2تم اللہ تعالیٰ کی رسّی کو پورے زور سے پکڑ لو تو تمہارے اندر کمزوری پیدا نہیں ہو گی۔ اور جو جماعت نظام کی رسّی کو چھوڑ دے گی وہ کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکے گی۔ پس یہ سزا ان کو نظام کی رسّی چھوڑنے کی وجہ سے دی گئی ہے۔ اکثریت جس کے حق میں فیصلہ کیا گیا تھا۔ ان میں سے بعض نے مجھے لکھا ہے کہ ہمیں تو معاف کیا جائے ہم نے تو شور و شر نہیں کیا۔ مَیں نے ان کو جواب دیا ہے کہ بے شک تم نے شور و شر نہیں کیا لیکن جب تمہیں علم ہو گیا تھا کہ مَیں نے اس تفرقہ کو ناپسند کیا ہے تو تمہارا فرض تھا کہ تم تفرقہ نہ ہونے دیتے۔ تم دوسری پارٹی سے کہہ دیتے کہ نہ ہم اِدھر ووٹ دیتے ہیں نہ آپ اُدھر ووٹ دیں۔ گورنمنٹ کا کوئی قانون آپ لوگوں کو ووٹ دینے پر مجبور نہیں کرتا تھا لیکن اب ووٹ دے کر اور جماعت میں تفرقہ پیدا کر کے معافی مانگنا کیا معنے رکھتا ہے۔ یہ کمزوریاں ہیں جو جماعت کے ایک طبقہ سے ظاہر ہوئی ہیں۔ مگر ان باتوں کا معلوم ہو جانا بھی ہمارے لئے ایک خوش قسمتی کی بات ہے ۔ اگر یہ باتیں جماعت میں رائج ہو جاتیں تو پھر ان کا دُور کرنا بہت مشکل ہو جاتا۔ اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ ابھی جماعت کے لئے الیکشنوں کا امتحان باقی ہے۔ روپے کا امتحان آیا تو ہم نے شاندار کامیابی حاصل کی، وقف زندگی کا امتحان آیا تو ہم نے شاندار کامیابی حاصل کی، تحریک جدید کا امتحان آیا تو ہم نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ اب الیکشن کے امتحان میں بھی انشاء اللہ ہم ہی جیتیں گے۔ یہ اچھا ہوا کہ ہمیں اپنی کمزوریوں کا علم ہو گیا ہے۔
غرض اس موقع پر تین قسم کی کمزوری دکھائی گئی ہے۔بعض لوگوں نے جماعتی نظام کے خلاف کیا اور تفرقہ کی صورت پیدا کی ہے یعنی انہوں نے الیکشن کو مقدم اور جماعتی نظام کو مؤخر کر دیا۔ اور بعض جگہ ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے کیا تو وہی جو جماعتی طور پر پاس ہوا تھا مگر وہ جماعتی فیصلے جماعتی فیصلے نہیں تھے۔ اصل میں ذاتی فیصلے تھے اور بعض جگہ پر یہ تیسری بات بھی نمایاں ہوئی کہ بعض لوگوں نے جماعتی نظام کو توڑ دیا۔ جماعت نے کثرت رائے سے ایک فیصلہ کیا اور بعض لوگوں نے کثرت رائے کے خلاف عمل کیا۔ اس قسم کے آدمی بہت کم ہیں اور شاید ایک درجن کے قریب ہوں گے مگر بہرحال ایک درجن ایسے آدمیوں کے پیدا ہو جانے کو بھی میری طبیعت برداشت نہیں کر سکتی۔ اصل چیز تو یہ ہے کہ اگر دس کروڑ آدمی جماعت میں ہوں یا سو کروڑ ہوں اور جماعتی طور پر ایک فیصلہ ہو جائے تو ایک شخص بھی اس کے خلاف نہ جائے۔ کُجا یہ کہ چند لاکھ کی جماعت میں سے دس بارہ یا پندرہ بیس ایسے ہوں جو اپنے مقامی جماعت کے فیصلہ اور مرکز کی تائید کے بعد بھی اس کے اُلٹ کرنے لگ جائیں۔ دنیا میں بھی یہی دستور ہے کہ جب اکثریت کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اقلیت بھی اس کا ساتھ دیتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم میں بعض اس کے خلاف ہوں۔ ڈیمو کریسی کے یہی معنی ہوتے ہیں۔کونسلوں میں بھی وہپ(Whip) 3مقرر کرتے ہیں اور وہپ یہی ہوتا ہے کہ پارٹی ایک فیصلہ کرتی ہے جس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے یہ پارٹی کا فیصلہ ہے۔ اس کے بعد وہپ جاری کر دیا جاتا ہے اور اس پارٹی کے ہر ممبر کو وہ فیصلہ بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہر ممبر پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ پارٹی کے فیصلہ کی تائید کرے اور اس کے خلاف نہ چلے۔ سیاسی معاملات میں بھی یہ طریق جاری ہے۔ دنیوی معاملات میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ دینی معاملات میں بے شک خواہ اکثریت یہ کہے کہ ہم اسلام کو جھوٹا سمجھتے ہیں تب بھی اس کی اتباع ضروری نہیں ہو گی کیونکہ یہ آخرت کا معاملہ ہے اور ہر انسان اپنے اعمال کے متعلق خدا تعالیٰ کے حضور جواب دِہ ہو گا لیکن اگر دین کا معاملہ آئے تو کثرت کی اتباع کرنی چاہئے سوائے اس کے کہ اس سے کوئی دینی رخنہ پیدا ہوتا ہو یا اخلاقی طور پر کوئی نقص ہو یا دنیوی طور پر کسی شدید نقصان کا احتمال ہو۔ پس تین نقائص ہیں جو اس دفعہ ہمیں معلوم ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ بعض سرکردہ آدمی بھی نفسانیت کے پیچھے چلے اور حقیقتاً انہوں نے سلسلہ کے مفاد کو نہیں دیکھا اور ظاہر یہ کیا ہے کہ وہ گویا جماعتی فیصلہ کی اتباع کر رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ کچھ لوگوں نے اس موقع کو فساد اور جھگڑے کا موجب بنایا اور جماعتی اتحاد کو الیکشن کے تابع کر دیا۔ کچھ لوگوں نے جماعتی فیصلہ کے خلاف بھی عمل کیا۔ اب ہمارا یہ کام ہے کہ عقل اور تدبیر سے کام لیتے ہوئے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے اس مرض کا علاج کریں جو ہمیں اپنی زندگی میں معلوم ہو گیا ہے۔ اور کوشش کریں کہ جماعت ایسے مقامِ فرمانبرداری پر کھڑی ہو جائےکہ اگر مقامی جماعت کی اکثریت کوئی فیصلہ کرے یا ساری جماعت کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کرے تو اس فیصلہ کی سارے کے سارے پیروی کریں او ران میں سے کوئی ایک بھی اس کے خلاف نہ جائے اور ان چیزوں کو جو دنیوی ہیں جماعتی نظام کے توڑنے کا موجب نہ بنائے۔ ورنہ یہ ایسی ہی بات ہو گی جیسے کوئی شخص مکھی کی خاطر اپنا گھوڑا مار ڈالے۔ ایک طرف دین ہے اور دوسری طرف دنیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا کے لئے اتنے جھگڑے ہوں کہ دین پر اس کا خطرناک اثر پڑے ایسی صورت میں تو ایک دنیوی کام کو نہ کرنا ہی اچھا ہے جس سے دین میں تفرقہ پیدا ہوتا ہو۔ مثلاً جب جھگڑا پیدا ہو گیا تھا تو گوجرانوالہ کے لوگ ووٹ ہی نہ دیتے۔ اگر گوجرانوالہ کی جماعت ہوشیار ہوتی تو یہ فیصلہ کرتی کہ چلو ہم گھر میں بیٹھ جاتے ہیں آپس میں کیوں لڑائی کریں، ہمیں کوئی قانون مجبور نہیں کرتا کہ ووٹ دیں۔ پس ضروری ہے کہ جماعت کے اندر ایسا اخلاص پیدا کیا جائے کہ وہ مداہنت کا رنگ اختیار نہ کرے۔ ظاہر تو یہ کیا جائے کہ ہم سلسلہ کی فرمانبرداری اور اسلام کی خیر خواہی کر رہے ہیں اور سلسلہ کو فائدہ پہنچا رہے ہیں لیکن درحقیقت ذاتی تعلقات ان کو ایک فیصلہ پر ابھار رہے ہوں۔
(3) احرار کو ووٹ کیوں دئیے: تیسری بات جس کا بہت کچھ چرچا رہا ہے اور جس کی وجہ سے جماعت کے لوگوں کے دلوں میں بھی ایک خلش پیدا ہو رہی ہے اس کے متعلق بھی مَیں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ڈسکہ کے علاقہ میں جماعت نے احرار کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلہ کی وجہ سے دو قسم کی خلش پیدا ہو رہی ہے۔ ایک یہ کہ احرار کو ووٹ کیوں دیا جبکہ وہ ہم کو گالیاں دینے والے ہیں۔ دوسرے یہ کہا جاتا ہے کہ احرار کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا گیا ہےکہ احمدیوں نے جھوٹ بولا ہے ہم نے ان سے قطعاً کوئی مدد نہیں مانگی۔ انہوں نے ہمیں بدنام کرنے کے لئے ہمیں ووٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ چنانچہ پرسوں سرحد سے ایک خط آیا جس میں لکھا تھا کہ اشتہارات کے ذریعہ اور لیکچروں کے ذریعہ یہ کہا گیا ہے کہ احمدیہ جماعت جو کہتی ہے کہ ہم نے احراریوں کو مدد دی ہے یہ بالکل غلط ہے۔ نہ انہوں نے ہمیں مدد دی ہے اور نہ ہم نے ان سے مدد طلب کی ہے وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اس معاملے میں اس وقت تک میری زبان بند تھی کیونکہ مَیں ایک معاہدہ کی رو سے اس کا پابند تھا کہ الیکشن تک اس بات کو ظاہر نہ کروں لیکن اب جبکہ الیکشن ختم ہو چکے ہیں مَیں ساری حقیقت بیان کرتا ہوں کہ کس طرح یہ واقعہ ہوا۔ بات یہ ہے کہ نواب محمد دین صاحب جو نارووال کے علاقہ سے امیدوار تھے ان سے پہلے وہاں ان کے لڑکے مسٹر محمد نقی امیدوار کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے بوجہ اپنے تعلقات کے یونینسٹ پارٹی سے ٹکٹ مانگا تھا اور یونینسٹ پارٹی نے غور کرنے کے بعد یہی فیصلہ کیا تھا کہ اگر کوئی شخص واقع میں اس علاقہ کی سیٹ جیت سکتا ہے تو وہ محمد نقی ہی ہے ۔ لیکن چونکہ ہماری ہمدردیاں لیگ کے ساتھ تھیں بلکہ ہر جگہ اس قسم کے احکام جاری کئے گئے تھے کہ لیگ کے لئے کوشش کرو اس لئے ملک خضر حیات خان صاحب نے نواب صاحب کو بلا کر کہا کہ اگرچہ اس سیٹ کے لئے محمد نقی مناسب ہے لیکن مَیں نے یہ سنا ہے کہ احمدی جماعت کا مسلم لیگ سے کوئی سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ اگر نقی الیکشن کے ایام آنے پر پھسل جائے اور دوسرے فریق کی طرف چلا جائے یا بیٹھ جائے۔ تو ہماری سیٹ خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس لئے مجھے تسلی دلواؤ کہ ایسا نہیں ہو گا۔ چنانچہ نواب محمد دین صاحب میری بیماری کے ایام میں قادیان آئے۔ مَیں چارپائی پر لیٹا ہؤا تھا اور اسی حالت میں مجھے ملے اور کہا کہ اس قسم کا خدشہ ملک صاحب نے بیان کیا ہے۔ آیا مَیں انہیں یقین دلا دوں کہ ایسا نہیں ہو گا۔ اور آیا واقع میں کوئی ایسا معاہدہ ہوا ہے یا نہیں؟ مَیں نے کہا معاہدہ والی بات غلط ہے۔ لیکن اگر وہ آپ کو ٹکٹ دے دیں اور پھر بعد میں لیگ سے ہمارا معاہدہ بھی ہو جائے تو ہم کسی احمدی کو جھوٹ بولنے پر مجبور نہیں کریں گےاور محمد نقی کو معاہدہ کی پابندی سے مستثنیٰ کر دیں گے۔ ہم کہیں گے کہ چونکہ اس نے پہلےسے معاہدہ کیا ہے اس لئے اس پر یہ فیصلہ اثر انداز نہیں ہوتا (چنانچہ ایسا ہی واقعہ بھلوال کی تحصیل میں ہوا ہے۔ وہاں شیخ فضل حق صاحب پراچہ لیگ کی طرف سے کھڑے تھے۔ پہلے ان کے خلاف فیصلہ ہوا تھا۔ اس وقت میرے پاس ملک صاحب خان صاحب نون آئے جو خود بھی اس حلقہ سے امیدوار تھے انہوں نے کہا کہ کیا مجھے اجازت ہے کہ مَیں فلاں صاحب سے جو مقابل پر کھڑے ہیں معاہدہ کر لوں؟ کیونکہ ان کی کامیابی کے زیادہ امکانات ہیں۔ مَیں نے کہا اجازت ہے۔ جب مَیں نے اجازت دے دی تو وہ وہاں گئے اور غالباً احمدیت کے سوال کی وجہ سے انہوں نے سمجھا کہ مجھے ووٹ کم ملیں گے اس لئے تیسرے امیدوار سے کہا کہ تم کھڑے رہو۔ مَیں تمہاری مدد کروں گا اور خود کھڑا نہ ہوں گا۔ اس امیدوار نے ان سے کہا قسم کھاؤ کہ میری مدد پر قائم رہو گے۔ چنانچہ انہوں نے قسم کھائی۔ اسی اثناء میں مسلم لیگ کے بعض لیڈروں سے جو باتیں ہو رہی تھیں۔ اس کے نتیجہ میں جماعتی فیصلہ یہ ہوا کہ شیخ فضل حق صاحب پراچہ کی مدد کی جائے۔ چنانچہ شیخ فضل حق صاحب پراچہ کی مدد کے متعلق جماعتوں کو ہدایتیں چلی گئیں۔ اس پر ملک صاحب آئے کہ مَیں نے تو آپ کے کہنے کے بعد قسم کھائی تھی پھر مَیں کیا کروں؟ کیا میرے لئے کوئی ایسی راہ کھلی ہے جس سے مَیں بجائے ان کی مدد کرنے کے جماعت کے ساتھ مل کر لیگ کی مدد کروں؟ مَیں نے کہا ایسی کوئی راہ نہیں کھلی۔ آپ نے ان کی مدد کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے اور قسم بھی ہماری اجازت کے بعد کھائی ہے اس لئے کوئی صورت بھی ایسی نہیں کہ آپ اس معاہدہ کو توڑسکیں اس لئے آپ اس حکم سے مستثنیٰ رہیں گے۔ آپ کا خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے کہ اپنا معاہدہ پورا کریں خواہ باقی جماعت دوسری طرف ووٹ دے۔ چنانچہ ملک صاحب خان صاحب نون یونینسٹ امیدوار کی مدد کرتے رہے اور باقی جماعت لیگ کی مدد کرتی رہی۔ پس معاہدہ کی خلاف ورزی ہمارے اصول کے خلاف ہےبشرطیکہ معاہدہ حقیقی ہو۔ مثلاً جماعت کی اجازت سے ہو، جماعت کی اجازت کے بغیر ہو تو اسے ہم معاہدہ ہی نہیں کہتے۔ کیونکہ جماعت کے کسی فرد کو جماعت کے مشورہ اور اس کی اجازت کے بغیر کسی ایسے معاہدہ کی اجازت نہیں ہوتی جو قومی امور پر اثر انداز ہو۔ لیکن اگر جماعت کی اجازت سے کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو ہم اس کو بدلنے نہیں دیتے۔ خواہ کچھ ہو جائے ۔جب نواب صاحب اٹھنے لگے تو مَیں نے کہا اگر یونینسٹ پارٹی ہم سے یہ سلوک کرے گی کہ ہم کو ایک ٹکٹ دے دے تو ہم بھی اس کے ساتھ سلوک میں پیچھے نہیں رہیں گے۔ ہم ڈسکہ کی جماعت کو مشورہ دیں گے کہ وہ بھی یونینسٹ امیدوار کو ووٹ دے۔ چنانچہ نواب صاحب نے یہ بات ملک خضر حیات خاں صاحب تک پہنچا دی اور یونینسٹ پارٹی نے عزیزم محمد نقی صاحب کو ٹکٹ دے دیا۔ لیکن جب ان کے مقابل پر نواب محمد ممتاز صاحب دولتانہ کھڑے ہوئے تو چونکہ وہ بڑی پوزیشن کے آدمی تھے اس لئے یونینسٹ پارٹی نے نواب محمد دین صاحب سے کہاکہ یہ بچہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گا بہتر ہو گا کہ آپ کھڑے ہو جائیں۔ چنانچہ نواب صاحب کھڑے ہو گئے اور چونکہ ہم نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ڈسکے کی جماعت کے ووٹ یونینسٹ امیدوار کوووٹ دیں گے اس لئے ہم اپنے وعدے کے مطابق اس کے پابند تھے کہ یونینسٹ امیدوار کوووٹ دیں۔ یونینسٹ کی طرف سے چودھری غلام رسول صاحب ذیلدار کھڑے کئے گئے تھے لیکن دسمبر میں شبہ پیدا ہونا شروع ہوا کہ وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ چنانچہ اس دوران میں سر ظفر اللہ خاں صاحب ملک خضر حیات خان صاحب کو ملنے گئے تو انہوں نے چودھری صاحب سے ذکر کیا کہ چودھری غلام رسول صاحب کی کامیابی کی امید کم نظر آتی ہے۔ دوسرے وہاں صاحبزادہ فیض الحسن صاحب آلو مہاری کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ مَیں آپ کے ساتھ مل جاتا ہوں مجھے آپ مدد دیں۔ اگر مَیں صاحبزادہ فیض الحسن صاحب کے حق میں فیصلہ دے دوں تو کیا جماعت اس پر تیار ہو جائے گی کہ صاحبزادہ صاحب کی مدد کرے؟ چودھری صاحب نے کہا کہ جب تک مَیں مرکز میں اطلاع نہ دوں او رمشورہ حاصل نہ کر لوں اس بارہ میں مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن مَیں سمجھتا ہوں جبکہ آپ کی پارٹی کو ووٹ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے تو جس کو بھی آپ کہیں گے ہم ان کو ووٹ دے دیں گے۔ ہمارا تو آپ سے وعدہ ہے نہ کہ غلام رسول صاحب سے یا فیض الحسن صاحب آلو مہاری سے۔ اگر آپ ان کو کھڑا کر دیں گے تو ہم ان کو ووٹ دے دیں گے۔ لیکن وہ جماعت احمدیہ کے مقررہ معاہدہ کی پابندی کا عہد کریں۔ ملک صاحب نے کہا مَیں انہیں یہ بات سمجھا دوں گا لیکن آپ یہ بات مرکز میں پہنچا دیں۔ سر ظفر اللہ خاں صاحب نے آ کر مجھے یہ بات بتائی۔ مَیں نے کہا۔ آپ نے صحیح جواب دیا ہے۔ ہمارا وعدہ یونینسٹ پارٹی سے ہے۔ اگر یونینسٹ پارٹی صاحبزادہ فیض الحسن صاحب کو کھڑا کرے تو خواہ ہمیں وہ امیدوار پسند ہو یا نہ ہو ہم اپنا وعدہ پورا کرنے کے پابند ہیں اور ہم اپنا وعدہ ضرور پورا کریں گے۔
اس کے بعد جنوری میں صاحبزادہ فیض الحسن صاحب اور خان بہادر قاسم علی صاحب قادیان تشریف لائے اور چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کی معیت میں مجھ سے ملے۔ صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ میرے چانسز (chances)زیادہ ہیں۔ اگر ملک خضر حیات خان صاحب میری سفارش کر دیں۔ تو کیا آپ کی جماعت مجھے ووٹ دے دے گی؟ مَیں چونکہ جماعت سے پہلے ہی مشورہ کر چکا تھا اور اکثر دوستوں نے یہی بتایا تھا کہ اگر ہماری جماعت ان کو ووٹ دے تو اُن کی کامیابی کا زیادہ امکان ہے اس لئے مَیں نے صاحبزادہ صاحب سے کہا کہ اگر آپ جماعتی معاہدہ کے لئے تیار ہوں تو ہماری جماعت آپ کو ووٹ دے دے گی۔ بشرطیکہ ملک خضر حیات خاں صاحب آپ کی سفارش کر دیں کیونکہ ہمارا وعدہ اصل میں ان سے ہے۔ صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ مَیں جماعتی معاہدہ لکھ کر دینے کو تیار ہوں اور ملک صاحب کی تحریر آپ کو جا کر بھجوا دوں گا۔ میرے معاہدہ کے متعلق یہ شرط ہو گی کہ الیکشن کے آخر تک اسے ظاہر نہ کریں۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ ہمارا یہ طریق نہیں کہ ہم معاہدات کو یونہی ظاہر کریں۔ ہمارے ساتھ چالیس پچاس آدمیوں کے معاہدے ہوئے ہیں لیکن ہم نے کسی ایک کے معاہدہ کو بھی شائع نہیں کیا۔ پھر صاحبزادہ صاحب نے کہا۔ مَیں نے سنا ہے کہ نارووال کی تحصیل سے نواب صاحب کھڑے ہوئے ہیں اور نارووال کی تحصیل کے راجپوتوں میں میرے بہت سے مرید ہیں۔ مَیں ان سے کہوں گا کہ وہ نواب صاحب کے حق میں ووٹ دیں۔ مَیں نے ان سے کہا کہ ہم کسی لالچ کی وجہ سے آپ کو ووٹ نہیں دے رہے اور نہ ہم سودا کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہمارا ملک صاحب سے وعدہ تھا کہ جو آدمی بھی آپ کا کھڑا ہو گا ہم اس کو ووٹ دیں گے ہم اپنا وعدہ پورا کریں گے۔ آپ کے مریدوں کے ووٹ حاصل کرنا ہمارے مدنظر نہیں۔ وہ بے شک ہمارے خلاف ووٹ دیں۔ (چنانچہ اکثر ووٹ راجپوتوں کے ہمارے خلاف ہی گئے ہیں) پھر صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ اگر آپ احرار کی شدید مخالفت کے باوجود میرے حق میں فیصلہ کریں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ جماعت احرار بھی آپ سے تعاون کے لئے ہاتھ نہ بڑھائے۔ مَیں نے کہااس بات کا بھی سوال نہیں۔ آپ کی جماعت تعاون کا ہاتھ بڑھائے یا نہ بڑھائے ہم نے تو ملک صاحب سے وعدہ کیا ہوا ہے۔ وہ جس کے حق میں فیصلہ کر دیں گے ہم اسے ووٹ دیں گے خواہ اس کے تعلقات ہمارے ساتھ اچھے ہوں یا بُرے۔ پھر صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ مَیں جاتا ہوں اور ملک صاحب سے فیصلہ کر کے آپ کو اطلاع دوں گا۔
(اِس جگہ عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب کی شہادت بھی درج کرتا ہوں جن سے صاحبزادہ فیض الحسن صاحب میری ملاقات سے پہلے ملے تھے۔ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘جب صاحبزادہ فیض الحسن صاحب آلو مہاری اواخر جنوری 1946ء میں قادیان آئے تو حضرت ۔۔۔خَلِیْفَةُ الْمَسِیْحِ الثَّانِیْ اَیَّدَہُ اللہُ بِنَصْرِہٖ کے پاس جانے سے قبل میرے مکان پر بھی تشریف لائے تھے۔ اس وقت ان کے ساتھ مکرم چودھری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور خان بہادر چودھری قاسم علی صاحب آف ڈسکہ بھی تھے۔ مکرمی چودھری صاحب نے میرے ساتھ صاحبزادہ صاحب کا تعارف کرایا۔ جس پر مجھے حیرانی ہوئی کہ وہ اتنی مخالفت کے باوجود کس طرح تشریف لائے ہیں۔ لیکن ابھی مَیں نے کوئی بات نہیں کی تھی کہ چودھری صاحب نے از خود ہی فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب اپنے لئے حلقہ ڈسکہ کے احمدی ووٹروں کی امداد حاصل کرنے کے واسطے قادیان آئے ہیں اور مَیں حضرت صاحب کی ملاقات سے قبل انہیں آپ کے پاس لے آیا ہوں۔ اس پر مَیں نے احرار پارٹی کی شدید مخالفت کے پیشِ نظر صاحبزادہ صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ نے اس بارے میں اپنی پارٹی کے ساتھ بھی بات کر لی ہے؟ صاحبزادہ صاحب نے فرمایا۔ ہاں مَیں نے بات کر لی ہے اور خصوصیت سے مولانا مظہر علی صاحب اظہر کا نام لیا کہ مَیں ان کے ساتھ بات کر کے ہی قادیان آیا ہوں۔ مَیں نے کہا۔ فیصلہ تو حضرت صاحب فرمائیں گے لیکن اس قدر مَیں یقین رکھتا ہوں کہ چونکہ یہ ایک سیاسی کام ہے اس لئے مذہبی اختلاف کی بناء پر انکار نہیں کیا جائے گا۔ چودھری صاحب نے فرمایا۔ مَیں نے بھی صاحبزادہ صاحب سے یہی کہا ہے۔ اس کے بعد چودھری صاحب نے مکرمی سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ کی طرف پیغام بھجوایا کہ جو معاہدہ الیکشن میں امداد لینے والے امیدواروں سے لکھایا جاتا ہے اس کی نقل بھجوا دیں تا وہ صاحبزادہ صاحب کو دکھا دیا جائے۔ چنانچہ پیغام جانے پر مکرمی ناظر صاحب امور عامہ اس معاہدہ کا مسودہ خود اپنے ساتھ لے کر تشریف لے آئے اور صاحبزادہ فیض الحسن صاحب نے ہم سب کےسامنے اسے پڑھا اور پڑھنے کے بعد فرمایا کہ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جس کی وجہ سےمجھے اس معاہدہ کے لکھ دینے سے انکار ہو۔ اس کے بعد صاحبزادہ صاحب حضرت صاحب کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔ فقط خاکسار مرزا بشیر احمد’’
اس کے کچھ دن بعد مَیں کھانا کھا رہا تھا کہ فون آیا کہ پریمیر(Premier) صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ جس بات کے لئے ملک خضر حیات خاں صاحب نے مجھے فون کیا وہ تو اَور تھی گو الیکشن کے سلسلے میں ہی تھی۔ مگر اسی سلسلہ میں انہوں نے بتایا کہ صاحبزادہ فیض الحسن صاحب میرے پاس آئے تھے لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ مَیں نے ان سے کہا مَیں نے تو وعدہ آپ سے کیا تھا۔ اب آپ جس کے حق میں فیصلہ کر دیں ہم اسے ووٹ دیں گے۔ اسی فون میں یا غالباً دوسرے فون میں (میرا خیال ہے کہ دوسرے فون میں جو کچھ دنوں کے بعد ملک خضر حیات خان صاحب نے کیا) انہوں نے کہا کہ صاحبزادہ صاحب کہتے ہیں کہ مَیں تحریر تو نہیں دے سکتا۔ آپ میری طرف سے ضمانت دے دیں۔ مگر مَیں ان کی ضمانت کس طرح دےسکتا ہوں کیونکہ مَیں انہیں پوری طرح جانتا نہیں۔ مَیں نے ملک صاحب سے کہا۔ ہمارا وعدہ تو آپ سے ہے۔ آپ جس کے متعلق فیصلہ کریں گے ہم اس کے حق میں ووٹ دے دیں گے۔ آخر جب دو فروری تک کوئی فیصلہ نہ ہوا تو سیالکوٹ کے نمائندے میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھ سے اس بارہ میں مشورہ طلب کیا۔ مَیں نےانہیں سارا معاملہ بتا کر کہا کہ چودھری اسد اللہ خان صاحب کے پاس چلے جائیں مَیں نے انہیں سب معاملہ سمجھا دیا ہے۔ وہ ملک صاحب سے پوچھ کر آخری فیصلہ آپ کو بتا دیں گے۔ جو وہ کہیں وہی میری رائے سمجھی جائے۔ چنانچہ مَیں نے سب بات لکھ کر چودھری اسد اللہ خان صاحب کو بھجوا دی۔ جب چودھری صاحب نے ملک خضر حیات خان صاحب سے دریافت کیا کہ صاحبزادہ فیض الحسن صاحب کے متعلق کیا فیصلہ ہوا ہے؟ تو ملک صاحب نے یا ان کے سیکرٹری نے چودھری صاحب سے کہا کہ صاحبزادہ صاحب کہتے ہیں کہ مَیں تحریر نہیں دے سکتا۔ آپ ضمانت دے دیں اور ہم ضمانت نہیں دے سکتے۔ ویسے وہ ہمارے ہی آدمی ہیں۔ اگر آپ پسند کریں تو ان کو ووٹ دے دیں۔ شیخ بشیر احمد صاحب نے یہ بات مجھے فون پر کہی۔ تو مَیں نے ان سے کہا کہ ملک خضر حیات خان صاحب سے کہیں کہ ہماری پسند اور ناپسند کا تو سوال ہی نہیں ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم آپ کے آدمی کو ووٹ دیں گے اور ہم اپنا وعدہ پورا کریں گے۔ اس طرح غالباً تین فروری کو صاحبزادہ فیض الحسن صاحب کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ یونینسٹ پارٹی کی طرف سے ہوا اور چودھری اسد اللہ خان صاحب نے وہاں کی جماعتوں کو یہ ہدایت کی کہ وہ اپنے ووٹ صاحبزادہ فیض الحسن صاحب کو دیں۔
یہ واقعات ہیں جن کی بناء پر صاحبزادہ صاحب کو جماعت نے ووٹ دئیے۔ جماعت کا یونینسٹ پارٹی سے یہ وعدہ تھا کہ ان کا جو نمائندہ وہاں کھڑا ہو گا۔ جماعت اسے ووٹ دے گی۔ یونینسٹ نے صاحبزادہ صاحب کو اپنا لیا اور جماعت نے اپنے وعدہ کے مطابق صاحبزادہ صاحب کو ووٹ دئیے۔ ہم نے یونینسٹ پارٹی سے یہ شرط نہیں کی تھی کہ اگر وہ آدی ہماری مرضی کے مطابق ہو گا تو اسے ووٹ دیں گے اور اگر ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہو گا تو اسے ووٹ نہیں دیں گے۔ یونینسٹ پارٹی نے صاحبزادہ صاحب کو کھڑا کیا۔ ہم نے انہیں ووٹ دے دئیے۔ پھر صاحبزادہ صاحب خود یہاں آئے اور جماعتی معاہدہ کرنے کے لئے آمادگی کا اظہار کیا۔ اس کے گواہ خان بہادر قاسم علی صاحب اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب ہیں۔ (خان بہادر قاسم علی صاحب احمدی نہیں ہیں) چونکہ الیکشن گزر چکا ہے اور صاحبزادہ صاحب کے یہ الفاظ تھے کہ الیکشن کے دوران مَیں اس بات کو ظاہر نہ کیا جائے کیونکہ مجھے نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ الیکشن کے بعد آپ جس طرح چاہیں اسے استعمال کریں۔ اور دوسرے ان کی پارٹی نے یہ کہا ہے کہ انہوں نے احمدیوں سے کوئی مدد وغیرہ نہیں مانگی اور نہ احمدیوں نے ان کی مدد کی ہے،احمدیوں نے محض احرار کو بدنام کرنے کے لئے ایسا کیا ہے۔ اس لئے مَیں اس حقیقت کا اظہار کر رہا ہوں اور مَیں جماعت کے دوستوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ احرار کو اگر ہم نے ووٹ دئیے ہیں تو سیاسی معاملہ میں دئیے ہیں نہ کہ کسی دینی معاملہ میں۔ اس سے پہلے مولوی ظفر علی خان صاحب کو جو کہ سنٹرل اسمبلی کے ممبر ہوئے ہیں ہماری جماعت نے ووٹ دئیے تھے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیوی معاملے میں اگر ایک احراری مسلمان قوم کے لئے زیادہ مفید ہو سکتا ہے تو ہم احراری کو کیوں ووٹ نہ دیں۔ ہر مسلمان جو سیاسیات کے لحاظ سے مسلمان کہلاتا ہے اگر ہم اس کے متعلق یہ سمجھتے ہوں کہ وہ زیادہ اچھا کام کر سکتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے ووٹ دیں خواہ وہ شیعہ ہو یا سُنّی۔ یا وہابی ہو یا غیر وہابی۔ اسی طرح اگر ہم ایک مسلم لیگی کے متعلق سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے لئے مفید کام کر سکتا ہے تو ہمیں اس کے احمدی نہ ہونے کی وجہ سے اسے ووٹ دینے میں کوئی دریغ نہیں ہو سکتا۔ اور نہ کسی اَور پارٹی کے آدمی کو جو مسلمانوں کے لئے مُضِر نہ ہو۔
(4)غیب سے سلسلہ کی ترقی کےسامان: چوتھی بات مَیں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ غیب سے ہمارے سلسلہ کی ترقی کے سامان پیدا کر رہا ہے۔ چنانچہ انہی دنوں خدا تعالیٰ نے بعض ایسے سامان پیدا کئے ہیں جو انسان کو تعجب میں ڈالتے ہیں۔ دنیامیں بعض علاقے ایسے ہیں جہاں ہم لوگوں کا جانا خصوصاً ہندوستانیوں کا جانا قریباً ناممکن ہے۔ اور جو ہندوستانی پہلے سے وہاں گئے ہوئے ہیں وہ بھی کئی قسم کی تکالیف اٹھاتے رہتے ہیں۔ جیسے ساؤتھ افریقہ ہے۔ ساؤتھ افریقہ والے نئے ہندوستانیوں کو وہاں نہیں آنے دیتے اور پرانے ہندوستانی باشندوں پر اتنی سختی کرتے ہیں کہ ریسٹوران اور ہوٹلوں میں ہر جگہ یہ لکھا ہوتا ہے کہ ہندوستانی یہاں نہیں آ سکتے۔ ریل گاڑیوں پر لکھا ہوتا ہے کہ ہندوستانیوں کو یہاں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ ان کے لئے بعض مخصوص ڈبّے ہوتے ہیں جن پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ ہندوستانیوں کے لئےہیں۔ ہوٹلوں کے باہر لکھا ہوتا ہے کہ ہندوستانیوں کو ان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ یا لکھا ہوتا ہے کہ فلاں کمرے میں ہندوستانی بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں۔ ایسی جگہ پر ہمارے کسی آدمی کا پہنچنا بالکل ناممکن تھا۔ سالہا سال سے ہم حسرت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے کہ کوئی ذریعہ وہاں آدمی بھجوانے کا نکل آئے تو ہم وہاں اپنا مبلغ بھیج دیں لیکن کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تھا۔ پیر کے دن اچانک مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب جنہوں نے انگلستان میں ڈاکٹری پاس کی اور وہیں اپنی جوانی کے ایام میں رہے ہیں اچانک قادیان میں آ پہنچے ہیں۔ مجھے اس سے پہلے نیر صاحب کا خط آیا تھا کہ ڈاکٹر سلیمان صاحب قادیان آ رہے ہیں اور مَیں حیران تھا کہ ڈاکٹر سلیمان صاحب کے آنے کی نہ شمس صاحب نے اطلاع دی ہے اور نہ کسی اَور نے۔ یہ بات کیا ہے؟ مگر ابھی نیر صاحب کو اس بارہ میں کوئی خط نہیں لکھا گیا تھا کہ ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب اچانک قادیان پہنچ گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی ساری عمر انگلستان میں گزاری ہے۔ انہوں نے ڈاکٹری پاس تو کی تھی لیکن ڈاکٹری پیشہ اختیار نہیں کیا۔ ان کے والد صاحب امیر آدمی تھے اور اتنی جائیداد انہوں نے چھوڑی ہے کہ وہ اسی پر گزارہ کرتے ہیں۔ ان کے والد کیپ ٹاؤن کے علاقہ کے ویسے ہی لیڈر تھے جیسے مسٹر گاندھی نٹال کے۔ اور دونوں مل کر کام کیا کرتے تھے۔ جب ڈاکٹر صاحب مجھے ملے تو انہوں نے بتایا کہ مسٹر گاندھی کئی دفعہ ہمارے گھر آ کر ٹھہرتے اور کئی دفعہ ہم ان کے گھر جا کر ٹھہرتے۔ ان کےد وسرے بھائی بھی احمدی ہیں لیکن ہمشیرہ احمدی نہیں۔ امیر آدمی ہونے کی وجہ سے گزارے سے بے فکر ہیں۔ کیونکہ جائیداد کے کرایہ کی آمد انہیں کافی ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب بہت دیر سے احمدی ہیں۔ جب مَیں ولایت گیا تو یہ کچھ دنوں کے لئے اتفاقاً وطن گئے ہوئے تھے۔ اس لئے ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ اب پہلی دفعہ مَیں نے ان کی شکل دیکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مَیں اصل میں ساؤتھ افریقہ جا رہا تھا اور مَیں نے وہیں کا پاسپورٹ لیا ہوا تھا ۔ جب کلکتہ پہنچا تو ارادہ ہوا کہ ہندوستان میں ٹھہر جاؤں۔ کیونکہ کلکتہ کی غلاظت دیکھ کر مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ مَیں نے ارادہ کیا کہ کوئی علاقہ تجویز کر کے ہندوستان کے لوگوں کو صفائی کے ساتھ رہنے کی عادت ڈالوں اور ساتھ ہی تبلیغ بھی کروں۔ وہ چونکہ پہلی دفعہ یہاں آئے تھے اس لئے ان کو بات آہستگی سے سمجھانی پڑتی تھی۔ مَیں نے کہا اس قسم کے نیک ارادے لے کر یہاں بڑے بڑے پادری آئے لیکن ہم لوگوں کو صفائی سکھاتے سکھاتے وہ خود تھک گئے۔ سینکڑوں سال کی عادتیں آہستہ آہستہ ہی ہٹتی ہیں۔ ایک آدمی کس طرح اتنا بڑا کام کر سکتا ہے۔ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ آپ جن لوگوں کو صفائی سکھانا چاہتے ہیں کیا کبھی ان کی معذوریاں بھی آپ نے سوچی ہیں؟ آپ کا ملک مالدار ہے جہاں آپ نے عمر گزاری ہے۔ وہ ملک بھی مالدار ہے لیکن ہمارے ملک کا یہ حال ہے کہ فی آدمی ڈیڑھ آنہ روزانہ آمد ہوتی ہے۔ کسی کے پاس چار کنال زمین ہے، کسی کے پاس گھماؤں ، کسی کے پاس دو گھماؤں اور کسی کے پاس پانچ چھ سات یا آٹھ گھماؤں۔ اور کثرت ایسے لوگوں کی ہے جن کے پاس سات آٹھ گھماؤں سے بھی کم زمین ہے اور وہ بھی پھیلی ہوئی۔ کسان بیچارہ صبح چار بجے اٹھتا ہے، سات آٹھ گھنٹے ہل چلاتا ہے، پھر بھینسوں کو نہلاتا ہے، جانوروں کو چارہ ڈالتا ہے۔ اور چونکہ اکثروں کے پاس اتنی زمین نہیں ہوتی کہ اس سے چارہ نکال سکیں اس لئے کُھرپا لے کر باہر نکل جاتے ہیں ۔کچھ گھاس سڑک کے اس کنارے سے کاٹا اور کچھ اُدھر سے کاٹا اور پھر کچھ تیسری جگہ سے کاٹا اور کئی گھنٹہ کی محنت کے بعد کچھ گھاس اپنے بیلوں کو لا کر ڈالتے ہیں۔تب ان کے بیل زندہ رہتے ہیں اور ان کے بچوں کو روٹی ملتی ہے اور وہ بھی دو وقت کی نہیں۔ کبھی ایک وقت کی ملتی ہے اور کبھی دو وقت کی۔ اب بتائیں جس کو سارا دن کام کرنے کے بعد پیٹ بھر کر کھانے کے لئے روٹی بھی نہ ملے اس کو کپڑا کہاں سے ملے گا؟ جس بیچارے کے پاس صرف ایک تہہ بند ہے اس کے پاس ہمت کہاں کہ وہ کپڑوں کو صاف رکھے؟ وہ تو کام سے تھک کر اور چُور ہو کر لیٹتا ہے اور اسے چار بجے تک ہوش ہی نہیں آتا۔ چار بجے اٹھتے ہی وہ پھر باہر چلا جاتا ہے۔ کبھی آپ نے اس کا بھی خیال کیا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے۔ پھر انہوں نے کہا۔ یہاں کی گورنمنٹ مجھے بوجہ ساؤتھ افریقن ہونے کے ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دیتی۔ مَیں بھی چاہتا ہوں کہ وہیں اپنے وطن میں رہوں اور سلسلہ کی تبلیغ کروں۔ مَیں نے کہا کیا کسی طرح ہم اپنا مبلغ وہاں بھیج سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہاں۔ وہاں انہیں استاد کر کے بھیج سکتے ہیں؟ مَیں کہوں گا کہ مجھے اپنے لئے دین کے استاد کی ضرورت ہے اس طرح وہ میرے استاد بن کر جا سکتے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ آپ جائیں اور استاد کے لئے درخواست دے دیں۔ اجازت ملنے پر ہم وہاں اپنا مبلغ اِنْشَاءَ اللہ بھیج دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میری جائداد کافی ہے وہ مبلغ ہمارے مکانات میں رہے گا اور اس کےسارے اخراجات بھی وہیں سے چل جائیں گے۔ یہاں سے کسی قسم کی ضرورت نہ ہو گی۔ اور تبلیغ کے لئے وہاں اِنْشَاءَ اللہ اچھا موقع نکل آئے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ساؤتھ افریقہ میں اچھی حیثیت والے جاوا کے لوگ ہیں جو کسی وقت جاوا سے جلاوطن کئے گئے تھے۔ ان کے حقوق ہندوستانیوں سے زیادہ ہیں۔ اس پر مَیں نے تجویز کی کہ ہو سکا تو ہم ایک جاوی احمدی کو مبلغ بنا کر بھجوائیں گے جسے انہوں نے پسند کیا۔ پرسوں پھر مَیں نے ان سے ذکر کیا کہ کیا آپ وہاں پر پریکٹس کریں گے یا کوئی اَور کام کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ مَیں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ مَیں اپنی زندگی تبلیغ کے لئے صَرف کروں گا۔ کھانے کی مجھے فکر نہیں ،کھانے کے لئے خدا تعالیٰ نے کافی دیا ہوا ہے۔ ہاں غریبوں کے لئے مفت پریکٹس کروں گا اور اپنی قوم میں احمدیت کو پھیلانے کے لئے تبلیغ میں لگ جاؤں گا اور یہ مفت پریکٹس بھی تبلیغ میں ممد ثابت ہو گی۔ ایک تو مَیں خود مبلغ ہوں گا اور دوسرے مبلغ کو بھی وہاں منگوانے کی کوشش کروں گا اور مجھے امید ہے کہ اِنْشَاءَ اللہ اجازت مل جائے گی جیسا کہ پادریوں کو ملتی ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ان کو بلانے کی اجازت ہو اور ہمیں نہ ہو۔ پھر مجھ سے انہوں نے کہا کہ مَیں خود بھی بخوبی تبلیغ کر سکتا ہوں لیکن چونکہ مَیں نے یہاں سے مکمل تعلیم حاصل نہیں کی اور میرے دماغ پر بائیبل چھائی ہوئی ہے اور مَیں نے اپنی ساری عمر انگریزوں کے ساتھ ہی بسر کی ہے اس لئے ڈرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی بات ایسی میرے منہ سے نکل جائے جو احمدیت کے خلاف ہو اور پھر اس کو بعد میں مٹانا مشکل ہو جائے اور لوگ کہیں کہ پہلے مبلغ نے ہمیں یہ بات سکھائی تھی اب اس کے خلاف کیوں کہتے ہو۔ اس لئے مناسب ہے کہ ایک مبلغ ہو جو ان لوگوں کو صحیح تعلیم پہنچائے۔ مَیں اس کی ہر طرح مدد کروں گا اور پھر اس کے ذریعہ مجھے بھی علم حاصل ہو جائے گا۔
اب دیکھو یہ خدائی سامان ہیں ۔نہ ارادہ نہ خیال ، مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ آ رہے ہیں۔ اچانک ان کا یہاں آنا معلوم ہوا اور اچانک خدا تعالیٰ کی طرف سے ساؤتھ افریقہ میں تبلیغِ احمدیت کے سامان پیدا ہو گئے۔ اسی طرح اب ایک دوست کا امریکہ سے خط آیا ہے۔ وہ ایک مخلص نوجوان ہے۔ اس خط میں اس نے ایک سکیم لکھی ہے ۔ اگر اس کو ہم جاری کر سکے تو ہمارے مبلغین کا امریکہ پہنچنا بہت آسان ہو جائے گا اور ان کا وہاں کا خرچ بھی ہمارے ذمہ نہ ہو گا۔ اگر اس سکیم کے متعلق ہماری ہر طرح تسلی ہو گئی تو ہم اس کو جاری کرنے کا جلد اِنْشَاءَ اللہ انتظام کریں گے۔ غرض اللہ تعالیٰ غیب سے ہمارے لئے ترقی کے سامان پیدا کر رہا ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ جوش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں لگ جائیں۔ ہمارے مبلغوں کے لئےز یادہ سے زیادہ جگہیں اور زیادہ سے زیادہ مقامات اپنی گودیں کھولتے جا رہے ہیں اور ہمارا کام دن رات بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ان تمام مقامات کے لئے مبلغ مہیا کرنا ہمارا کام ہے کیونکہ فی الحال بیرونی ممالک کے لوگ مبلغ تیار نہیں کر سکتے۔ مبلغ کے لئے تمام دینی علوم کا جاننا اور اپنی جماعت کے تمام مسائل سے آگاہ ہونا ضروری ہے اور یہ بات فِی الْحال باہر کسی جگہ پیدا نہیں ہوئی۔ پس ابھی سَو یا دو سَو سال تک قادیان سے ہی مبلغ باہر بھیجے جائیں گے۔ پھر جب احمدیت بیرونی ممالک میں کثرت کے ساتھ پھیل جائے گی اور احمدیت کو اللہ تعالیٰ غلبہ دے دے گا تو باہر والے بھی مبلغ تیار کر لیں گے۔ جب تک وہ زمانہ نہیں آتا ہمیں اپنے بچے اشاعت دین کے لئے قربان کرنے ہوں گے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر کوئی قربانی کی روح دیکھی ہی تھی تبھی تو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو ہمارے درمیان بھیجا۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے جگر گوشوں کو دین کی اشاعت کے لئے قربان کرتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ کی اس حُسن ظنی کو پورا کریں جو اس نے ہمارے متعلق کی۔او راپنے آقا کی بات کو جھٹلائیں نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس امتحان میں پورا اتارے۔ آمین ’’
(الفضل 20 مارچ 1946ء)
1: کُٹنی: عیّارہ۔ چالاک۔ عورتوں کو ورغلانے والی۔ دلّالہ
2: آل عمران: 104
3: وہپ: (Whip)(i)اطلاع نامہ جس میں اراکین سے کسی متوقع ووٹنگ کے لئے حاضر
ہونے کو کہا گیا ہو(ii)سیاسی جماعت کا نظم و ضبط اور ہدایات۔
(Oxford English Urdu Dictionary,Oxford University Press)

8
جماعتی اخبارات و رسائل کی خریداری اور تبلیغ کے متعلق ہدایات
( فرمودہ 15 مارچ 1946ء بمقام ناصر آباد سندھ)
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘جس طرح تیل اپنے اندر جلنے کی طاقت رکھتا ہے لیکن جب تک اسے دِیا سلائی نہ لگائی جائے وہ جل نہیں سکتا اسی طرح انسانی طبیعت ایسی واقع ہوئی ہے کہ جب تک اس کے لئے بیداری اور ہوشیاری کے سامان پیدا نہ ہوں اس وقت تک وہ بیداری کی طرف مائل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کے لئے بیداری کا ایک ذریعہ بیان فرمایا ہے وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا1 یعنی اے مسلمانو! تم سارے کےسارے مضبوطی سے اللہ تعالیٰ کی رسّی کو پکڑو اور اس اعتصام کی وجہ سے تمہارے اندر ایک بیداری رہے گی۔ اور اس بیداری کی وجہ سے تمہارے اندر ایک نور پیدا ہو گا جس سے تم خدا تعالیٰ کو دیکھ لو گے۔ انسان خدا تعالیٰ کو اس کی صفات اور اس کے کاموں سے دیکھتا ہے۔ جب انسان خدا تعالیٰ کے رسّے پر مضبوطی کے ساتھ ہاتھ ڈالتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں سے خواہ دینی ہوں یا دنیوی پورے طور پر فائدہ اٹھاتا ہے جو اس نے اپنےبندوں کے لئے پیدا کی ہیں۔ خدا تعالیٰ کی رسّی وہ رسّی نہیں جو بان سے بٹی جاتی ہے بلکہ خدا کی رسّی وہ نظام ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور ماموروں کے ذریعہ دنیا میں قائم کرتا ہے۔ جب لوگ اپنے آپ کو اس نظام سے منسلک کر لیتے ہیں تو ان میں بیداری اور ہوشیاری پیدا ہو جاتی ہے۔ پس اس حَبْلُ اللہ سے مراد یہ ہے کہ ہم جہاں بھی ہوں اپنے نظام سے پختہ تعلق رکھیں اور اس کی ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کے رسے کو پکڑنے کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ سارے کے سارے مسلمان گھر بار چھوڑ کر ایک مرکز میں آ بیٹھیں اور خلیفہ وقت کے ساتھ ہی نمازیں پڑھیں۔ یہ بات ناممکن ہے۔ سب سے بڑی مثال اس اعتصام کی رسول کریم ﷺ کے زمانے کی ہے مگر رسول کریم ﷺ کےز مانہ میں دس پندرہ ہزار مسلمان مدینہ میں رہتے تھے۔ حالانکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر گزر چکی تھی۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر صحابی ایسے تھے جو مختلف علاقوں سے آئے۔ رسول کریم ﷺ کی شکل مبارک دیکھی، آپ کے منہ سے باتیں سنیں اور چند دن رہ کر اپنے وطن کو واپس چلے گئے۔ اور ایسے اشخاص بہت کم تھے جو رسول کریم ﷺ کی مجلس سے اٹھنے کا نام نہ لیتے ہوں اور رات دن آپ کی مجلس میں حاضر رہتے ہوں۔ مدینے کے تمام لوگ ایسے نہ تھے کہ وہ تمام نمازیں آپ کے ساتھ ادا کرتے ہوں بلکہ لوگوں کی کثرت کی وجہ سے بعض اَور مساجد بھی تعمیر کی گئی تھیں جن میں لوگ نمازیں ادا کرتے تھے۔ سب سے بڑی فوج جو رسول کریم ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر تیار کی وہ دس ہزار تھی۔ اسی طرح غزوہ تبوک کے موقع پر بھی فوج کی تعداد دس ہزار تھی۔ اس لحاظ سے سمجھا جا سکتا ہے کہ مدینہ کی آبادی چالیس پچاس ہزار کے درمیان ہو گی۔ لیکن یہ تمام فوج مدینہ کی ہی نہ تھی بلکہ آپ نے اردگرد کے علاقوں سے بھی فوج کے لئے آدمی جمع کئے تھے۔ بہرحال تمام مسلمان مدینہ میں ہی جمع نہیں ہو گئے تھے بلکہ اپنے اپنے وطنوں میں تبلیغِ اسلام کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم ایسا نہیں کہ جب کوئی مامور یا خلیفہ آئے تو اس کے ماننے والے سب کے سب اپنے وطنوں کو چھوڑ کر وہاں جمع ہو جائیں اور دن رات اس کی مجلس میں بیٹھے رہیں اور اس کی باتیں سنتے رہیں۔ بلکہ ہمیشہ لوگ اپنی اپنی جگہوں پر رہتے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ آتے ہیں اورمرکز سے دین کی باتیں سیکھ کر واپس جاتے ہیں اور اس آواز کو بلند کرتے ہیں جو مرکز سے اٹھائی گئی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ2کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو الٰہی دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرے اور مرکز سے دین سیکھ کر آئے اور واپس آ کر اپنے لوگوں کو دین سکھائے اور یہ لوگ قائم مقام ہوں گے اس مامور یا خلیفہ کے جس تک ان کا پہنچنا مشکل ہے۔ جیسے لوگ کہتے ہیں کہ خط سے نصف ملاقات ہو جاتی ہے۔ اگر ایک خط سے نصف ملاقات ہو جاتی ہے تو ایک شاگرد جو اپنے خلیفہ کے منہ سے باتیں سن کر آئے اور واپس آ کر دوسرے لوگوں کو سنائے وہ بہرحال نصف ملاقات سے زیادہ ملاقات ہو گی۔ صحابہؓ کے متعلق ہم پڑھتے ہیں کہ وہ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں آتے، مسائل پوچھتے اور واپس جا کر اپنی قوم کو وہ مسائل بتاتے اور اپنی قوم میں وہ رسول کریم ﷺ کے نائب ہوتے تھے۔
ایک ذریعہ تو اعتصام کا یہ ہے اور ایک اَور ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہمارے لئے بنا دیا ہے۔ وہ پریس ہے۔ اخبار ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ اخباری حالات اور مذہبی خیالات کا لوگوں تک پہنچانا بہت آسان ہو گیا ہے۔ خط تو کبھی کبھی آتے ہیں لیکن اخبار روزانہ آتے ہیں۔ خط میں مضمون بھی تھوڑا ہوتا ہے لیکن اخباروں اور رسالوں میں مضامین بہت تفصیل کے ساتھ شائع ہوتے ہیں او رہر شخص نصف ملاقات سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اس طرح وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًاپر عمل کر سکتا ہے ۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ اکثر جماعتیں سلسلہ کا اخبار ‘‘الفضل’’ منگوانے میں کوتاہی سے کام لیتی ہیں اور اس کی اہمیت کو پورے طور پر نہیں سمجھتیں۔ سندھ کی باقی جماعتوں کے متعلق تو مَیں یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ ان کے ہاں ‘‘الفضل’’ کا پرچہ آتا ہے یا نہیں، ناصر آباد کے متعلق مجھے معلوم ہے کہ یہاں الفضل کا پرچہ آتا ہے اور جب ہمارا پرچہ لیٹ ہو جاتا ہے تو ہم وہ پرچہ منگوا کر پڑھ لیتے ہیں۔ پس میرے نزدیک یہ بہت ضروری بات ہے کہ ہر جماعت کم از کم الفضل کا ایک پرچہ ضرور منگوائے تاکہ ان کو جماعت کے نئے نئے مسائل کے متعلق علم ہوتا رہے اور مرکز کے احکام ان تک پہنچتے رہیں۔ اسی طرح سلسلہ کے بعض رسائل ایسے ہیں جو ہفتہ واری ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ماہوار ہیں۔ ان ماہواررسالوں میں سے ایک رسالہ ریویو آف ریلیجنز ہے۔ جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة وا لسلام کی یہ خواہش تھی کہ اس کے کم از کم دس ہزار خریدار ہوجائیں لیکن مجھے تعجب آتا ہے کہ جماعت نے اس کی طرف سے بالکل توجہ ہٹا لی ہے اور اس کی اشاعت بہت محدود ہوتی جا رہی ہے۔ اگر جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس خواہش کا کوئی احساس ہو تو دس ہزار خریدار کوئی مشکل چیز نہیں۔ جب ہمارےاخبار الفضل کا خطبہ نمبر 3800 چھپتا ہے اور روزانہ 2900 چھپتا ہے تو یہ کوئی مشکل امر نہیں کہ ایک ماہوار رسالہ کے دس ہزار خریدار نہ مل سکیں۔ اس رسالہ کا اتنی تھوڑی تعداد میں شائع ہونا اس بات کی علامت ہے کہ جماعت نے اپنی ذمہ داری کو پورے طور پر نہیں سمجھا۔
پنجاب میں ہماری جماعت کی تعداد چار پانچ لاکھ کے قریب ہے اور سارے ہندوستان میں چھ سات لاکھ کے قریب ہے۔ اگر پانچ آدمی فی کنبہ سمجھ لئے جائیں تو قریباً ایک لاکھ خاندان بنتا ہے۔ اور اگر فی خاندان ایک مرد شمار کریں تو پانچ لاکھ مرد ہماری جماعت کے ہندوستان میں ہوں گے۔ اور اگر یہ سمجھا جائے کہ لاکھ مردوں میں سے چالیس فیصدی یا تیس فیصدی یا کم از کم بیس فیصدی ایسے ہیں جو اخبار پڑھ سکتے ہیں تو بیس ہزار آدمی ایسے ہوں گے جو اخبار پڑھ سکتے ہیں۔ حالانکہ ہماری تعلیمی اوسط اس سے بہت زیادہ ہے۔ اور اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ بیس ہزار میں سے دس ہزار آدمی ایسے ہیں جو اس رسالہ کے خریدنے کے ناقابل ہیں تو پھر بھی دس ہزار آدمی ایسے باقی رہ جاتے ہیں جو یہ رسالہ خرید سکتے ہیں۔ اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ اس دس ہزار میں سے بھی صرف پانچ ہزار آدمی ایسا ہے جو اس رسالہ کو خرید سکتا ہے اور اگر جماعت کے دوست کوشش کرتے تو پانچ ہزار خریدار غیر احمدیوں میں سے بنا سکتے تھے۔ مگر افسوس ہے کہ جماعت نے اپنی ذمہ داری اس معاملہ میں سمجھی ہی نہیں۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ جُوں جُوں جماعت کے اخبارات اور رسائل زیادہ ہوتے جا رہے ہیں لوگوں کی توجہ ان کی طرف سے کم ہوتی جا رہی ہے حالانکہ وہ اخبارات اور رسائل جماعت کے دوستوں کے لئے اعتصام کا ایک ذریعہ ہیں اور دینی علم میں زیادتی کا باعث ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جتنا شور ابتداء میں کسی تعلیم کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے وہ بعد میں نہیں رہتا ہے۔ سب سے پہلے جب رسول کریم ﷺنے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کہا تو کفار نے اسے بہت اچنبھا سمجھا اور بہت شور مچایا حالانکہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ قرآن کریم کی ایک سطر کے برابر ہے۔ پھر اس کے بعد سورۂ بقرہ پر اِتنا شور نہیں پڑا جتنا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کے اعلان پر پڑا تھا۔ سورہ بقرہ اڑھائی پارے کے قریب ہے اور اگر فی صفحہ سولہ سطریں سمجھی جائیں اور سورہ بقرہ تقریباً تیس چالیس صفحوں میں ہے۔ اگر چالیس صفحے فرض کئے جائیں تو 640 سطریں ہو گئیں لیکن جو شور ابتدا میں ایک سطر سے پڑا تھا وہ چھ سو چالیس سطروں سے نہیں پڑا۔ اسی طرح جب مسائل کثرت کے ساتھ سامنے آنے شروع ہو جاتے ہیں تو کمزور طبیعتیں سستی کی طرف مائل ہو جاتی ہیں کہ کس کو یاد کریں اور کس کو نہ کریں۔ یہ ان کی طبیعت کی کمزوری کی علامت ہوتی ہے۔ ان کو چاہئے کہ وہ جس قدر یاد کر سکیں کر لیں اور جو نہ یاد ہو اسے چھوڑ دیں ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَايُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا3 یعنی اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ پس جتنی طاقت ہو اتنا ہی یاد کر لیا جائے۔ مگر اس کی بجائے طبائع میں غفلت پیدا ہو جاتی ہے اور لوگ بالکل چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں کرتے۔ عربی میں ایک مثل ہے مَا لَا یُدْرَکُ کُلُّہٗ لَا یُتْرَکُ کُلُّہٗ کہ جو چیز ساری حاصل نہیں کی جا سکتی وہ ساری چھوڑی بھی نہیں جا سکتی۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ اخباروں، رسالوں اور کتابوں کی کثرت کی وجہ سے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ ہم کیا کچھ پڑھیں ہم سے کچھ بھی نہیں پڑھا جاتا او رجو اخبار خریدتے ہیں وہ اسے سنبھال کر نہیں رکھتے۔ مَیں نے تو اپنے اخبار سنبھال کر رکھنے کی دفتر کو سخت تاکید کی ہوئی ہے تاکہ کم از کم دفتر میں تین چار فائل تو ہوں تاکہ ہماری اولاد باری باری ایک دوسرے سے مانگ کر پڑھ سکے۔
آج لوگوں کے نزدیک ‘‘الفضل’’ کوئی قیمتی چیز نہیں۔ مگر وہ دن آ رہے ہیں اور وہ زمانہ آنے والا ہے جب الفضل کی ایک جلد کی قیمت کئی ہزار روپیہ ہو گی۔ لیکن کوتہ بین نگاہوں سے یہ بات ابھی پوشیدہ ہے۔ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں جو باتیں ہوتی تھیں وہ اس زمانہ کے لوگوں کے نزدیک اتنی اہم نہ تھیں جتنی اہمیت ان کی بعد میں ہوئی۔ بڑے بڑے بادشاہ ایک صحابی یا تابعی یا تبع تابعی کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھتے اور بڑے ادب کے ساتھ پوچھتے
کیا آپ نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا تھا؟ یا کیا آپ نے فلاں دیکھنے والے کو دیکھا تھا۔ یا اس کے دیکھنے والے کو دیکھا تھا؟ آپ کا قد کیسا تھا؟ آپ کا جسم کیسا تھا؟ آپ کس طرح چلتے تھے؟ ایک زمانہ وہ تھا کہ رسول کریم ﷺ خود اپنے آپ کو دکھایا کرتے لیکن لوگ آپ کی طرف توجہ نہ کرتے۔ یا ایک زمانہ وہ آیا کہ آپ کو دیکھنے والوں کو دیکھنے کے لئے لوگ ہزاروں میل سے دوڑے جاتے تھے۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ رسول کریم ﷺ خود لوگوں کو باتیں سناتے لیکن لوگ آپ کی باتیں سننے کے لئے تیار نہ ہوتے۔ یا پھر وہ زمانہ آیا کہ بڑے بڑے بادشاہ آپ سے باتیں سننے والوں یا سننے والوں سے باتیں سننے کے لئے جاتے تھے۔ پس لوگوں کو یہ عادت ہے کہ ابتدا میں وہ قیمتی چیز کی قدر نہیں کرتے۔ لیکن جب ترقی کا زمانہ آتا ہے تو پھر بڑی بڑی قیمتیں دے کر خریدتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہؤا ہے کہ پٹھانکوٹ کے ایک دکاندار کے پاس قادیان کے کسی آدمی نے کئی من الفضل ردّی میں بیچ دیا۔ جب وہ شخص جس نے یہ اخبار فروخت کیا تھا پکڑا گیا تو اُس نے بتایا کہ یہ اخبار کئی مَن اس کے پاس پڑا ہے جو اُس نے ردّی میں لوگوں سے خریدا ہے۔ اگر اس بیچنے والے یا اس کے پاس اخبار بیچنے والوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی پیشگوئیوں پر ایمان ہوتا اوراَگر انہیں یقین ہوتا کہ آئندہ زمانہ میں احمدیت کو بڑی بڑی ترقیات ملنے والی ہیں۔ تو وہ اسے ردّی کے بھاؤ نہ بیچتے بلکہ سنبھال کر رکھتے کہ آئندہ اگر ان کی اولاد میں دین کا جوش نہ بھی ہؤا اور اس سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا تو بھی اس کی قیمت ہزاروں ہزار روپیہ پڑنے والی ہے۔ ہم اس وقت اسے فروخت کریں گے۔ اس کے پڑا رہنے سے ہمارا کیا حرج ہے۔
رسول کریم ﷺ کا وصال ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ آپ کے تبرکات لوگوں نے ہزاروں ہزار روپے کو مانگنے شروع کر دئیے۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا جس کا نام کعب بن زہیر تھا۔ یہ شخص مسلمانوں کا سخت مخالف اور جانی دشمن تھا۔ اسلام کے خلاف بہت گندے شعر کہتا اور مسلمانوں پر اپنے اشعار میں طرح طرح کے بے ہودہ الزامات لگاتا اور ان کی تشہیر کرتا۔ جب مکہ فتح ہؤا تو ایسے خاص الخاص پانچ آدمیوں کے متعلق قتل کا اعلان کیا گیا کہ وہ جہاں پائے جائیں انہیں قتل کر دیا جائے۔ ان میں سے ایک یہ شخص بھی تھا۔ مکہ میں تو وہ رہ نہیں سکتا تھا کیونکہ مکہ فتح ہو چکا تھا اور اس میں اسلام کی حکومت قائم ہو چکی تھی اور ملک کے دوسرے علاقوں کو بھی مسلمان فتح کرتے جا رہے تھے۔ وہ ایک قبیلہ سے دوسرے قبیلہ میں مارا مارا پھرتا۔ جب مسلمان اس کے نزدیک پہنچتے تو وہ اگلے قبیلہ میں چلا جاتا۔ آخر ایک قبیلہ کے لوگوں نے اسے کہا کہ تُو کب تک اس طرح بھاگتا پھرے گا۔ مسلمان تو دریا کی طرح بڑھے آ رہے ہیں تُو کہاں تک بھاگتا جائے گا؟ اس نے کہا پھر کیا کروں؟ انہوں نے کہا کہ تُو مدینے جا اور جا کر معافی مانگ۔ اس نے کہا کہ مَیں نے مسلمانوں پر بہت ظلم کئے ہیں اور مَیں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے معاف نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کیا یہ تیرے لئے کم سزا ہے کہ قبیلہ قبیلہ میں مارے مارے پھرتا ہے، تُو جہاں جاتا ہے مسلمان وہاں پہنچ جاتے ہیں اور تجھے اگلے قبیلے میں بھاگنا پڑتا ہے، اس ذلت سے موت بہتر ہے۔ آخر اس نے رسول کریم ﷺ کی مدح میں ایک قصیدہ کہا اور بھیس بدل کر رسول کریم ﷺ کی مجلس میں جا پہنچا اور عرض کی کہ مَیں کچھ شعر سنانا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا سناؤ۔ اس نے شعر سنانے شروع کئے۔ جیسا کہ عرب کے شعراء کا طریق تھا کہ پہلے وہ اپنی معشوقہ کا ذکر کرتے تھے، پھر اس کے بعد اونٹنی کا ذکر کرتے اور پھر اونٹنی کے ذکر کے بعد اپنے مطلب کی طرف آتے۔ اسی طرح اس نے اپنے قصیدہ کو شروع کیا۔ پہلے تو آہستہ آہستہ شعر سنانے شروع کئے تاکہ کوئی شخص اس کی آواز نہ پہچان لے۔ ہوتے ہوتے اس کی بناوٹی آواز جاتی رہی اور اصل آواز ظاہر ہو گئی۔ لوگوں نے اس کی آواز پہچان لی لیکن رسول کریم ﷺ کے ادب کی وجہ سے خاموش رہے۔ اسی حالت میں اس نے یہ شعر کہا ؂
نُبِّئْتُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ اَوْعَدَنِیْ وَ الْعَفْوُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ مَاْمُوْلٗ
جس کا مفہوم یہ تھا کہ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تمہارے لئے محمد رسول اللہ (ﷺ) نے قتل کا حکم دے دیا ہے۔ مگر مَیں نے انہیں جواب دیا کہ مجھے تم یہ تو بتاؤ کہ دنیا میں کوئی شخص محمد رسول اللہ (ﷺ) جیسا معاف کرنے والا ہے۔ جب اس نے یہ شعر پڑھا تو انصاری لوگوں نے اسے پہچان لیا اور اپنی تلواریں میانوں سے نکال لیں لیکن رسول کریم ﷺ کے ادب کی وجہ سے کچھ کر نہ سکتے تھے اور منتظر تھے کہ آپ اشارہ کریں تو اس کا سر کاٹ دیں۔ مگر رسول کریم ﷺ اس کے شعر سنتے رہے۔ اس نے کچھ شعر اسلام کی تعریف میں سنائے اور کچھ شعر قرآن کی تعریف میں۔ جب اس نے یہ شعر پڑھا کہ :
مَھْلًا ھَدَاکَ الَّذِیْ اَعْطَاکَ نَافِلَةَ الْقُرْاٰنَ فِیْھَا مَوَاعِیْظُ وَ تَفْصِیْلٗ
تو آپ نے اپنی چادر اُتار کر اس پر ڈال دی۔ پچھلے زمانے میں یہ دستور تھا کہ بادشاہ جسے معاف کرتے اس پر اپنی چادر ڈال دیتے تھے۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا تھا کہ ہم نے اسے معاف کر دیا ہے اور اب یہ شخص ہماری پناہ میں ہے۔ اسی دستور کے مطابق رسول کریم ﷺ نے اپنی چادر اس پر ڈال دی۔ جب صحابہؓ نے یہ نظارہ دیکھا تو انہوں نے اپنی تلواریں میانوں میں رکھ لیں اور خاموشی کے ساتھ بیٹھ گئے۔ یہ قصیدہ آج تک قصیدہ بُردہ کہلاتا ہے۔ یعنی وہ قصیدہ جس کے پڑھنے پر رسول کریم ﷺ نے اسے چادر عطا فرمائی تھی۔ یہ شخص رسول کریم ﷺ کے بعد کچھ عرصہ زندہ رہا۔ حضرت معاویہؓ نے اسے اس چادر کے لئے بیس ہزار دینار پیش کئے لیکن اس نے دینے سے انکار کیا۔4 حضرت معاویہؓ رسول کریم ﷺ کے سالے تھے اور ایک مدت تک رسول کریم ﷺ کے گھر میں بھی رہے۔ اور ان کے لئے موقع تھا کہ وہ جتنے تبرکات چاہتے جمع کر لیتے کیونکہ ان کی بہن اُمّ حبیبہؓ رسول کریم ﷺ کے گھر میں تھیں اور وہ اکثر اپنی بہن کے پاس آتے جاتے بلکہ اپنی بہن کے پاس رہتے بھی تھے۔
اُمّ حبیبہؓ اور حضرت معاویہؓ کی عمر میں کافی فرق تھا۔ اُمّ حبیبہؓ حضرت معاویہؓ سے عمر میں کافی بڑی تھیں۔ ایک دن رسول کریم ﷺ گھر میں داخل ہوئے تو حضرت اُمّ حبیبہؓ حضرت معاویہؓ کو گود میں لِٹا کر پیار کر رہی تھیں۔ رسول کریم ﷺ سے شرمانے کی وجہ سے حضرت معاویہؓ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ رسول کریم ﷺ نے اُمِّ حبیبہؓ سے پوچھا ۔ کیا یہ تمہیں پیارا ہے؟ حضرت اُمّ حبیبہؓ نے جواب دیا ہاں یَا رَسُوْلَ اللہ! مجھے پیارا ہے۔ بھائی جو ہؤا۔ آپ نے فرمایا۔ اگر تمہیں پیارا ہے تو ہمیں بھی پیارا ہے۔ حضرت معاویہؓ کے لئے اتنا موقع تھا تبرکات کے جمع کرنے کا۔ اور ضرور انہوں نے تبرکات جمع کئے ہوں گے مگر پھر بھی حضرت معاویہؓ نے اس شخص کو بیس ہزار دینار پیش کئے کہ یہ چادر تم مجھے دے دو۔ لیکن اس نے جواب دیا کہ مَیں تبرک کی قیمت نہیں ڈالوں گا۔ بیس ہزار دینار قریباً ایک لاکھ روپیہ بنتا ہے اور یہ رقم وہ شخص دے رہا تھا جو رسول کریم ﷺ کے گھر میں رہتا تھا۔ یہ رقم وہ شخص دے رہا تھا جس کے پاس رسول کریم ﷺ کے بہت سے تبرکات ہوں گے۔ یہ رقم وہ شخص دے رہا تھا جس کو رسول کریم ﷺ کے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ رقم وہ شخص دے رہا تھا جو آپ کا قریبی رشتہ دار تھا۔ پس ابتداء میں بعض چیزوں کی قیمت و قدر لوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہوتی ہے لیکن بعد میں جب ان چیزوں کی حقیقت لوگوں پر واضح ہو جاتی ہے تو وہ لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ صَرف کر کے اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔
پس آج ‘‘الفضل’’ لوگوں کی نظر میں وہ اہمیت نہیں رکھتا جو آئندہ اس کو حاصل ہونے والی ہے۔ پس اس بارہ میں پھر یہاں کی جماعتوں کو اور دوسرے صوبوں کی جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اخبار کا خریدنا ہر جماعت اور ہر مستطیع کے لئے ضروری ہے۔ جو ایسا کرتا ہے حَبْلُ اللہ کو پکڑنے پر قادر ہو جاتا ہے۔ جو ایسا نہیں کرتا اس کا ہاتھحَبْلُ اللہ سے جدا ہو جاتا ہے اور اس کے تباہ ہونے کا خطرہ ہے۔ جو لوگ اخبار منگوائیں انہیں مَیں نے کئی بار یہ ہدایت دی ہے کہ جمعہ کے دن ‘‘الفضل’’سے میرا خطبہ پڑھ کر سنایا جائے تاکہ جماعت کو علم ہوتا رہے کہ ان کا امام ان سے کیا مطالبہ کرتا ہے۔ مَیں نہیں جانتا کہ اس پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے۔
اس کے بعد اسی سلسلہ میں مَیں تبلیغ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ پچھلےسال بھی مَیں نے جماعت کو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی تھی۔ چنانچہ اس سال کنری میں جلسہ بھی ہوا ہے اور اس جلسہ کے نتیجہ میں کچھ سندھی آدمیوں نے بیعت بھی کی۔ لیکن ابھی بہت بڑا کام باقی ہے اور ایک بہت بڑی خلیج ہے جو ہمارے اور سندھیوں کے درمیان حائل ہے۔ اس خلیج کو دور کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس وقت مسجد میں سو ڈیڑھ سو کے قریب آدمی ہوں گے لیکن ان میں سے سندھی کتنے ہیں؟ صرف پانچ چھ ہوں گے۔ ممکن ہے ایک دو اس سے زیادہ ہوں ۔ مگر کیا پانچ چھ فیصدی ہونے کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے اپنے فرض کو ادا کر دیا ہے؟ نہیں۔ بلکہ یہ تعداد صاف طور پر بتاتی ہے کہ ہم اس فرض کے ادا کرنے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔ اس وقت چاہئے یہ تھا کہ 150 میں سے 130 یا 140 سندھی ہوتے اور دس پندرہ پنجابی ہوتے۔ اگر یہ حالت ہو جائے کہ ہمارے جلسہ یا جمعہ میں 100 میں سے 95 سندھی ہوں اور پانچ دوسرے آدمی ہوں اور 1000 میں سے 950 سندھی ہوں اور پچاس دوسرے آدمی ہوں۔ اور 10000 میں سے 9500 سندھی ہوں اور 500 پنجابی یا دوسرے آدمی ہوں تو ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہمارا قدم اب ترقی کی طرف اٹھ رہا ہے۔ کیونکہ جب سندھ میں کوئی غیر احمدی مولوی لیکچر دے گا تو سننے والے زیادہ سندھی ہوں گے نہ کہ پنجابی۔ اسی طرح ہم جب کوئی لیکچر وغیرہ دیں تو یہ بات ضروری ہے کہ ہمارے لیکچر میں بھی سندھی زیادہ ہوں۔ اور یہ تبھی ہو سکتا ہے کہ ہم ان کو اپنے قریب کرنے کی کوشش کریں۔ ان کے نہ سننے کی وجہ یہی ہےکہ ان کو احمدیت سے واقفیت نہیں ہے۔ اگر ان کو یہ معلوم ہو جائے کہ اسلام کی خستہ حالی کا علاج اب صرف احمدیت ہی ہے اور یہ تمام بلائیں جو روز بروز مسلمانوں پر وارد ہو رہی ہیں ان کا واحد علاج احمدیت ہی ہے تو وہ یقیناً احمدیت کی باتیں بڑے شوق سے سنیں گے۔ سندھ میں پچاسی فیصدی آبادی مسلمانوں کی ہے لیکن حکومت میں زیادہ ہاتھ ہندوؤں کا ہے۔ مسلمانوں میں سے سات مسلمان ہندوؤں کے ساتھ جا ملے ہیں اور مسلمان حکومت ایک تمسخر بنی ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد قائم نہیں رہا ہے اور اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے غیروں کے ہاتھوں میں ایک کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ یہی حال پنجاب میں ہے۔ مسلم لیگ کے پچھتّر نمائندے تھے اور اب تو اسّی ہو گئے ہیں لیکن باوجود اسّی نمائندے ہونے کے مسلمانوں کو کچھ مل نہیں رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے سات آٹھ نمائندے ہندوؤں کے ساتھ جا ملے اور ان سے مل کر گورنمنٹ بنا لی۔ یہ تمام حالات اس وجہ سے پیدا ہو گئے ہیں کہ مسلمانوں میں اتحاد نہیں رہا اور اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے طاقت اور جتھا سے محروم ہو گئے ہیں۔ اگر مسلمانوں کی طاقت اور جتھاہوتا تو کیا مجال تھی کہ کوئی شخص ان کی بات کو ردّ کرتا۔ مسلمانوں میں اس وقت یہ بہت بڑا مرض پیدا ہو گیا ہے کہ ہر شخص اپنے ذاتی تعلقات کو قومی مفاد سے مقدم رکھتا ہے اور اس بات کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ اس کے اس فعل سے اسلام اور مسلمانوں پر کیا کیا مصیبت آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کو نہایت ہی حقیر چیزوں کے بدلے بیچا جا رہا ہے۔ کوئی شخص چند روپوں کی خاطر اللہ تعالیٰ کو بیچ رہا ہے ، کوئی شخص آٹے کی خاطر اللہ تعالیٰ کو بیچ رہا ہے ، کوئی شخص ایک لحاف کی خاطر خدا کو بیچ رہا ہے ، کوئی شخص ایک چادر کی خاطر اللہ تعالیٰ کو بیچ رہا ہے، کوئی شخص چاولوں کی ایک مٹھی کے پیچھے خدا کو بیچ رہا ہے اور کوئی شخص زمین کے لئے خدا کو بیچ رہا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غضب سے کوئی خائف نہیں ہوتا بلکہ اس کے احکام کی بے حرمتی کرتے ہوئے اپنے ذاتی مفاد کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر شخص اسی نظریہ کا قائل نظر آتا ہے کہ مجھے قومی مفاد سے کیا غرض ہے میرے لئے اپنی دوستیاں ہی کافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے رسول کی ناراضگی سے میرا کیا بگڑ سکتا ہے کیونکہ دنیاوی طاقت جس کا نام حکومت رکھا جاتا ہے وہ میرے ساتھ ہے۔ مسلمانوں میں یک جہتی نہ ہونے کی وجہ سے دن بدن زیادہ اختلافات رونما ہوتے جاتے ہیں۔ ایک مولوی کی رائے کے خلاف اگر مسلمان لیڈر کوئی بات کریں تو مولوی صاحب اس جماعت سے علیحدہ ہو جاتے اور ہزاروں ہزار آدمی اپنے ساتھ ملا کر ایک نئی پارٹی کھڑی کر دیتے ہیں۔ اگر کسی لیڈر کی رائے کے خلاف اکثریت کوئی فیصلہ کر دے تو وہ لیڈر ایک اور جماعت کھڑی کر دیتا ہے اور اسی وجہ سے مسلمانوں کا رُعب دن بدن اٹھتا جا رہا ہے۔
لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے لوگوں کی آواز کا کوئی اثر نہیں۔ جب بھی کوئی بات پیدا ہوتی ہے تو وہ فوراً ننگے ہو جاتے ہیں اور ان کا فتنہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی تمہاری جماعت میں بھی کوئی فتنہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ لیکن مَیں ان اعتراض کرنے والوں پر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ فتنہ کا ظاہر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ فتنہ پیدا کرنے والے اپنے آپ کو پوشیدہ نہیں رکھ سکے اور ننگے ہو گئے ہیں۔ وہ فتنہ جو اندر ہی اندر کام کرتا رہے وہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے اس فتنہ سے جو ظاہر ہو جائے۔
پس ان فتنوں کا ظاہر ہو جانا بھی ہمارے لئے مفید ہے۔ ان سے ہمارا کوئی نقصان نہیں۔ دوسرے مسلمانوں میں جب کوئی فتنہ کھڑا ہوتا ہے تو وہ مسلمانوں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ جَمعیةُ الْعُلَمَاء والے اختلاف پیدا ہونے کی وجہ سے کانگرس کے ساتھ مل گئے اور ایک بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی اپنے ساتھ مسلم لیگ سے نکال کر لے گئے۔ لیکن ہماری جماعت سے جب کوئی مولوی نکلتا ہے تو اکیلا ہی کُکڑوں کُوں کر کے نکل جاتا ہے اور جماعت میں کوئی فتنہ پیدا نہیں کر سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جماعت میں بیداری ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ مولوی ہو گا تو اپنے گھر ہو گا ہمارا اب اس سے کیا تعلق۔ افریقہ سے شیخ مبارک احمد صاحب کا خط آیا ہے جسے پڑھ کر مجھے بے انتہاء خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایمان کے کیسے اعلیٰ مقام پر کھڑا کیا ہے۔ شیخ مبارک احمد نے مجھے لکھاہے کہ اس علاقہ میں بعض وحشی قبیلہ کے لوگ احمدی ہوئے تھے۔ مَیں چار پانچ ماہ کے لئے باہر دَورہ پر گیا ہؤا تھا۔ میرے بعد بعض رئیسوں نے یہ سمجھ کر کہ مَیں باہر دورہ پر ہوں۔ان حبشیوں کو مرتد کرنا چاہا۔ وہ ان کے پاس گئے اور ان سے کہا دیکھو! فلاں رئیس مرتد ہو گیا ہے، فلاں بڑا آدمی مرتد ہو گیا ہے، تم بھی ہمارے ساتھ مل جاؤ۔ سب با اثر اور با رسوخ لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ لیکن انہوں نے جو جواب دیا وہ پڑھ کر مجھے حیرت آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کیسا پختہ ایمان عطا کیا ہے۔ وہ نہ کبھی قادیان آئے اور نہ انہوں نے ہماری کتابیں پڑھیں لیکن جو جواب انہوں نے ان رئیسوں کو دیا۔ اس سے ان کے ایمان کا پتہ لگتا ہے۔ انہوں نے کہا ہمیں احمدیت کا پتہ مولوی مبارک احمد صاحب سے لگا ہے۔ لیکن اگر مولوی مبارک احمد صاحب بھی احمدیت سے مرتد ہوجائیں تو ہم ان کی پروا نہیں کریں گے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ احمدیوں میں کمزور آدمی نہیں ہیں۔ احمدیوں میں بھی کمزور تو ہیں لیکن آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ ہم پِسے ہوئے آٹے کی روٹی کھاتے ہیں لیکن کبھی کبھار آٹے میں سے گندم کا دانہ نکل آتا ہے۔ اس پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آٹا خراب ہے۔ اسی طرح ہم میں بھی بعض کمزور انسان ہیں لیکن ان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ مجھے شیخ مبارک احمد صاحب کی تحریر پڑھ کر وَجد آ گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان میں کس قدر زبردست طاقت رکھی ہے۔
پس احمدیت ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے مسلمانوں میں حقیقی اتحاد قائم ہو سکتا ہے اور مسلمان تمام مصائب سے نجات پا سکتے ہیں۔ یہ کس قدر ظلم کی بات ہو گی کہ ہم مسلمانوں کی اس خستہ حالی کو دیکھ کر ان کے علاج کی کوشش نہ کریں۔ اور ہم اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو نہیں سکتے جب تک کہ ہم منظم طور پر تبلیغ کے لئے جد و جہد نہیں کرتے۔ اس علاقہ میں ہمارے ایک یا دو یا چار مبلغ کیا کام کر سکتے ہیں۔اور پھر سندھیوں کا خود تبلیغ کرنا ہمارے پنجابی مبلغوں سے بہت زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے۔ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ہر علاقہ کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے کچھ آدمی قادیان بھجوائیں۔ وہ وہاں سے تعلیم حاصل کر کے پھر واپس جا کر اپنے اپنے علاقوں میں تبلیغ کریں۔ اگر سندھی طلباء قادیان آئیں اور وہاں سال دو سال رہ کر دینی تعلیم حاصل کریں اور پھر واپس آ کر سندھ میں تبلیغ کریں تو یہ طریق زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے۔ ہمارے پنجابی مبلغ کے لئے سب سے بڑی دقّت یہ ہو گی کہ وہ زبان نہیں جانتا ہو گا۔ اور اگر وہ سیکھ بھی لے تو اس کا لہجہ سندھیوں سے بالکل جداگانہ ہو گا۔ پنجابی اردو بھی بولے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ پنجابی بول رہا ہے۔ ہمارا پنجابی خواہ کتنی ہی عربی پڑھ لے لیکن جب وہ عربی بولے گا تو یوں معلوم ہو گا کہ گویا وہ پنجابی بول رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بولنے کا دارو مدار لہجہ پر ہے۔ مصر کے ایک احمدی دوست قادیان آئے۔ وہ تاجر ہیں ، کوئی بڑے عالم نہیں ہیں۔ ان کے اعزاز میں ایک جلسہ ہؤا جس میں ہمارے مبلغین نے عربی میں تقریریں کیں۔ کسی دوست نے ان سے کہا دیکھو ! ہمارے عالموں نے بھی عربی میں تقریریں کیں تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے وہ پنجابی بول رہے ہیں۔ میرا یہ اپنا تجربہ ہے کہ لہجہ کے بدل جانے سے زبان کا سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ انگلستان جاتے ہوئے ہم عدن میں اُترے۔ وہاں مَیں نے ایک عرب دکاندار سے عربی میں کھجوروں کا بھاؤ دریافت کیا۔ اس نے جو جواب دیا مَیں اسے سمجھ نہ سکا۔ مَیں نے دوبارہ یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ میری بات سمجھا نہیں پھر اس سے وہی سوال کیا۔ اس نے پھر مجھے وہی جواب دیا۔ مَیں پھر اس کی بات نہ سمجھ سکا۔ اسی طرح دو چار دفعہ ہم میں سوال و جواب ہؤا۔ حافظ روشن علی صاحب مرحوم میرے پاس ہی کھڑے تھے۔ وہ اس سوال و جواب کو سن کر بے اختیار ہنسنے لگے۔ مَیں نے حافظ صاحب سے پوچھا کہ آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ عربی بول رہے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ آپ پنجابی بول رہے ہیں اور صرف اندازہ لگا کر جواب اردو میں دے رہا ہے۔ لیکن آپ اس کے لہجہ کی وجہ سے سمجھ رہے ہیں کہ وہ عربی بول رہا ہے۔ لیکن ایسی خراب زبان بول رہا ہے کہ آپ اسے سمجھ نہیں سکتے حالانکہ وہ عربی نہیں اردو میں جواب دے رہا ہے۔ پس لہجوں کا فرق بہت بڑا فرق ہے۔ ایک سندھی جب سندھی زبان بولے گا تو وہ سندھی ہی ہو گی لیکن ایک پنجابی جب سندھی زبان بولے گا تو وہ سندھی پنجابی معلوم ہو گی۔ پس اگر ان لوگوں میں تبلیغ کی جائے تو میرا خیال ہے کہ بہت جلد وہ احمدیت کی طرف متوجہ ہوں گے۔ کیونکہ یہ لوگ مذہبی جذبات رکھتے ہیں۔ خصوصاً گاؤں کے لوگوں کے جذبات تو بالکل مذہبی ہیں۔
حُروں نے جو قربانی مذہبی جذبات کے ماتحت کی ہے وہ کسی اَور صوبہ کے لوگوں میں نظر نہیں آتی۔ ان کی عورتوں اور ان کے مردوں نےا یک شاندار قربانی کا مظاہرہ کیا۔ اگر یہ لوگ احمدیت قبول کر لیں تو وہ اس سے بڑھ کر قربانی کا نمونہ دکھا سکتے ہیں۔ پس سندھیوں میں تبلیغ کرنے کے لئے یہ بہت ضروری بات ہے کہ ہر سال کچھ سندھی طالب علم قادیان جائیں اور سال دو سال کی تعلیم کے بعد واپس آ کر سندھیوں میں تبلیغ کریں۔ اس وسیع علاقے میں جس کی آبادی ساٹھ ستّر لاکھ ہے اور جس کےسات ضلعے ہیں ہمارے ایک یا دو مبلغ کیا کر سکتے ہیں۔ اس کی مثال تو ایسی ہی ہے کہ کوئی شخص دریا کو روکنے کے لئے اس کے دہانہ میں گندم کا دانہ رکھ دے اور سمجھ لے کہ دریا رُک جائے گا۔ ایسا کرنے والے کو سب لوگ بے وقوف خیال کریں گے۔ اگر دریا کو روکنا ہو تو اس کے مطابق انتظامات کرنے پڑتے ہیں۔ ہم نے قادیان کے اِردگرد تھوڑے سے علاقہ میں پندرہ بیس مبلغ رکھے ہیں مگر پھر بھی وہ تھوڑے معلوم ہوتے ہیں۔ پس اگر ہم سندھ میں مؤثر طور پر تبلیغ کرنا چاہتے ہیں تو اس کا یہی ذریعہ ہے کہ ہر سال کچھ طالب علم قادیان جائیں اور ان کو ضروری مسائل سکھا کر یہاں مقرر کر دیا جائے۔ اور اگر کسی بڑے مولوی سے ٹکر ہو جائے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے مولوی غلام احمد صاحب کو یا اور جو مبلغ یہاں ہو اسے بُلا لیا جائے۔ تبلیغ کے لئے اس بات کی ضرورت نہیں کہ انسان بہت بڑا عالم ہو بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان کے اندر تبلیغ کے لئے جوش ہو۔ صرف پڑھائی کچھ کام نہیں آتی جب تک کہ اس کا استعمال نہ ہو۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ زراعت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں سے بسا اوقات معمولی معمولی زمیندار بعض باتوں میں زیادہ علم رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ دن رات کام کرنے کی وجہ سے ان کا تجربہ صرف کتابی علم رکھنے والوں سے بعض باتوں میں بڑھ جاتا ہے۔
ہمارے ایک احمدی دوست جن کا نام شیر محمد تھا اور وہ بنگہ کے رہنے والے تھے یکّہ چلایا کرتے تھے۔ وہ بالکل اَن پڑھ تھے لیکن ان کے ذریعہ اتنے احمدی ہوئے کہ کئی مبلغ بھی ان سے پیچھے ہیں۔ اس وقت سلسلہ کا اخبار الحکم ہی تھا اور ہفتہ وار نکلتا تھا۔ باوجود اس کے کہ وہ پڑھے لکھنے نہ تھے لیکن الحکم باقاعدہ منگواتے تھے۔ اخبار پاس رکھتے۔ جب یکہ چلاتے تو یکّہ میں بیٹھنے والوں سے پوچھ لیتے کہ آپ میں سے کوئی پڑھا ہؤا ہے؟ جو شخص کہتا کہ مَیں پڑھا ہؤا ہوں اسے اخبار دیتے اور کہتے یہ پرچہ میرے نام آیا ہے ذرا پڑھ کر سنا دیں کہ اس میں کیا لکھا ہے ۔ یکّے میں انسان کو دھکّے لگتے ہیں اور ہر ایک سواری دوسری سواری سے اجنبی ہوتی ہے۔ گھرسے باہر ہونے کی وجہ سے طبیعت اداس ہوتی ہے۔ اگر ایسی حالت میں اخبار مل جائے تو طبیعت بہل جاتی ہے۔ پس ہر شخص اس بات پر راضی ہو جاتا ۔ وہ ٹائیٹل پیج سے شروع کراتے اور آخر تک پڑھوا کر چھوڑتے۔ درمیان میں خود ہی سوال کرتے چلے جاتے کہ یہ بات کس طرح لکھی ہے؟ پڑھنے والا پھر اسے دوبارہ پڑھتا۔ وہ ایک ایک بات پر سوال کر کے اسی طرح بار بار دہرواتے کہ مسئلہ سننے والوں کے ذہن نشین ہو جاتا۔ اور جب سواریاں ٹانگہ سے اترتیں تو بعض ان میں سے اسی وقت کہہ دیتیں کہ میرا بھی بیعت کا خط لکھوا دیں۔ اور بعض پیج لے کر چلے جاتے اور بعد میں خود تحقیق کر کے احمدی ہو جاتے۔ جب ان کی مجھ سے ملاقات ہوئی تھی اس وقت تک پندرہ بیس آدمی ان کے ذریعہ احمدی ہو چکے تھے اور اس کے بعد وہ پندرہ بیس سال تک زندہ رہے اور اس عرصہ میں بھی کئی آدمی ان کے ذریعہ احمدی ہوئے ۔اور پھر ان کے ذریعہ سے آگے احمدیت پھیلی۔ اگر کوئی آدمی کام کرنا چاہے تو اس کے لئے تعلیم کی کمی روک نہیں ہو سکتی۔
پس ہماری جماعت کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ڈالی ہے۔ اس لئے اس اپنے مقصد کو ہر وقت مدنظر رکھنا چاہئے اور اس کا تمام تر انہماک دنیاوی مشاغل میں ہی نہیں ہونا چاہئے کہ دین کی خدمت کے لئے کوئی وقت نہ بچے۔ جس طرح زمیندار کو کوئی کام کرنے کے لئے کہا جائے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ مجھے تو مرنے کی بھی فرصت نہیں لیکن جس دن اس کی بیوی یا اس کا بیٹا بیمار ہو جائے تو اسے ان کے علاج معالجہ کے لئے فرصت مل جاتی ہے۔ جس طرح اپنے مال سے ہر احمدی پر چندہ دینا فرض ہے اسی طرح اس پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ وقت کا بھی چندہ دے، اپنے اخلاق کا بھی چندہ دے، اپنے علم کا بھی چندہ دے اور ہر قسم کی بد دیانتی، بے ایمانی اور جھوٹ سے اجتناب کرے۔ جو شخص ان چیزوں سے اجتناب نہیں کرتا اس کا مالی چندہ دینا اسے کیا فائدہ دے سکتا ہے۔ اس زمانہ میں جھوٹ اس قدر عام ہو گیا ہے کہ اس کی تعریف ہی بدل گئی ہے۔ ایک آدمی جھوٹ بولتا ہے مگر سمجھتا یہ ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے۔ اسی الیکشن کے سلسلہ میں ایک صاحب مجھے ملنے کے لئے آئے۔ ان کے ساتھ ہمارے وہاں کے امیر جماعت بھی تھے۔ انہوں نے اپنی تعریف شروع کی کہ مَیں بہت راست باز ہوں۔ آپ کے امیر صاحب مجھے اچھی طرح جانتے ہیں کہ مَیں جو وعدہ کرتا ہوں اسے پورا کرتا ہوں۔ مجھے احمدیوں کے ووٹوں کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ امیر صاحب سے میرے تعلقات ہیں۔ مَیں نے امیر صاحب سے کہا کہ آپ لوگوں سے میرے تعلقات ہیں اس لئے آپ لوگ مجھے ہی ووٹ دیں۔ پھر انہوں نے کہنا شروع کیا کہ مَیں نے مسلم لیگ کو آپ سے وابستہ کرنے کے لئے بہت کوشش کی ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں مسلم لیگ کے ایک بڑے لیڈر سے ملا اور ان سے کہا کہ آپ احمدیوں کو خوش کریں ورنہ ہمارا جیتنا محال ہے۔ اور مَیں نے کہا کہ میرے حلقہ میں 1327 ووٹ احمدیوں کے ہیں۔ اگر وہ ووٹ مجھے نہ ملیں تو مَیں جیت نہیں سکتا اس لئے آپ لوگ احمدیوں کو خوش کریں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مَیں نہیں جانتا کہ احمدیوں کے ووٹ میرے علاقہ میں ایک ہے یا دو ہیں یا دس ہیں یا بیس ہیں لیکن مَیں نے 1327 اس لئے بتائے کہ ان پر رُعب پڑے اور تیرہ سو کے اوپر 27 کا عدد اس لئے بڑھایا کہ انہیں یقین ہو جائے کہ یہ گِن کر آیا ہے یونہی اندازہ سے نہیں بتا رہا۔ اب دیکھئے کہ وہ اسی مجلس میں اپنے سچا ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے اور اسی مجلس میں اپنا جھوٹ بیان کر رہے تھے لیکن ہماری جماعت کی یہ حالت نہیں ہونی چاہئے بلکہ ہماری حالت ایسی ہونی چاہئے کہ دوسرے لوگ ہمارے نمونہ سے متأثر ہوں۔ مومن کے لئے سچ بہت پیاری چیز ہے اور وہ اس کو کسی حالت میں چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اگر ہماری جماعت سختی کےساتھ سچ پر کاربند ہو جائے تو ساری تبلیغ خود بخود ہو جاتی ہے۔ جب لوگ دیکھیں گے کہ یہ لوگ دنیاوی معاملات میں سچ بولتے ہیں تو سمجھیں گے کہ دینی معاملات میں بھی سچ ہی بولتے ہوں گے۔ پس ہماری جماعت کو تبلیغ کے تمام ذرائع کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی ترقی کے ذرائع پیدا کر دئیے ہیں اور دن بدن زیادہ پیدا کرتا جا رہا ہے اور دنیا میں ایک تزلزل پیدا ہو چکا ہے۔ اس وقت موقع ہے کہ اسلام پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے۔ پس دوستوں کو تبلیغ کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کی تمام کمزوریوں کا سدّ باب کرکے اسلام اور احمدیت کے پھیلانے کے سامان پیدا کرے۔’’ (الفضل 28 مارچ 1946ء)
1: آل عمران: 104
2: آل عمران: 105
3: البقرة: 287
4:سیرت ابن ہشام جلد4صفحہ 144تا158مطبوعہ مصر1936ء و تاریخ ابن اثیر جلد2
صفحہ 274تا276مطبوعہ بیروت 1965ء

9
سندھ کو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کی جائیدادوں کے لئے منتخب کیا ہے۔ محنت اور قربانی سے سلسلہ کی آمد کو بڑھانا چاہئے
( فرمودہ 22 مارچ 1946ءبمقام محمد آباد سندھ )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘جو کام اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے سپرد کیا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے لئے جن سامانوں کی ضرورت ہے ان کا مہیا کرنا ہماری طاقت سے باہر ہے۔ ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑی قربانی کرتی ہے۔ اتنی بڑی قربانی کہ اس کی مثال دنیا کی کسی جماعت میں نہیں پائی جاتی۔ ہندوستان میں ہماری تعداد پانچ چھ لاکھ ہے۔ اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ ہے یعنی ہم فی دو سو دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں ایک ہیں۔ لیکن جتنی قربانی ہماری جماعت کرتی ہے اس کا سواں حصہ بھی دوسرے مسلمان نہیں کرتے۔ ہماری صدر انجمن کا سالانہ چندہ آٹھ لاکھ ہے اور تین لاکھ تحریک جدید کا چندہ ہے۔ اس کےعلاوہ دوسرے چندے جیسے کالج، سکول اور مساجد وغیرہ کے بھی لاکھ ڈیڑھ لاکھ سالانہ ہو جاتے ہیں بلکہ اس سے زیادہ۔ یہ ساڑھے بارہ لاکھ ہو گیا۔ اس کے علاوہ بہت سے چندے ایسے ہیں جو مرکز میں بھیجے نہیں جاتے بلکہ مقامی طور پر خرچ کر لئے جاتے ہیں۔ مثلاً افریقہ کے ایک علاقہ کا چندہ گزشتہ سال تیس ہزار سے زائد تھا۔ وہ چندہ مرکز میں نہیں بھیجا جاتا بلکہ وہیں کے سکولوں، مدارس اور تبلیغی کاموں میں خرچ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہماری جماعتیں بڑے بڑے شہروں میں مساجد بنواتی ہیں تو اس کا خرچ بھی وہ خود برداشت کرتی ہیں مثلاً کلکتہ کی جماعت نے اسّی ہزار روپیہ مسجد کے لئے جمع کیا ہے۔ اگر ان چندوں کو بھی ملا لیا جائے تو پندرہ لاکھ سے اوپر ہماری جماعت کے سالانہ چندے ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے مقابلے میں دوسرے مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ ہےاگر وہ بھی اسی طرح قربانی کریں جس طرح ہماری جماعت قربانی کرتی ہے تو وہ کئی ارب روپیہ جمع کر سکتے ہیں۔ غیر احمدیوں میں بعض آدمی ایسے ہیں کہ اگر وہ ہمت کریں تو وہ ایک ایک آدمی اپنی دولت کی زیادتی کی وجہ سے ہماری جماعت سے زیادہ چندہ دے سکتا ہے۔ لیکن اگر اس بات کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو بہرحال چونکہ وہ ہم سے دو سو گُنے زیادہ ہیںاس لئے ان کا چندہ بھی ہم سے دو سو گُنا ہونا چاہئے۔ جس کے معنے یہ ہوئے کہ ان کی آمد تیس کروڑ روپیہ سالانہ ہونی چاہئے لیکن ہندوستان میں پچھلے پچاس سال میں کسی ایک سال میں بھی ایک کروڑ مسلمانوں نے جمع نہیں کیا ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں وہ اخلاص نہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو عطا کیا ہے۔ اگر ان کے اندر بھی وہی اخلاص پیدا ہو جائے تو ان کا چندہ یقیناً گورنمنٹ آف انڈیا کے بجٹ سے بڑھ جائے۔ گورنمنٹ آف انڈیا کی آمد ایک ارب روپیہ سالانہ ہے۔ مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ ہے اور اگر پانچ روپے سالانہ چندہ فی آدمی رکھ لیا جائے تو پچاس کروڑ روپیہ بن جاتا ہے لیکن چونکہ ان میں کئی آدمی بڑے بڑے مالدار بھی ہیں اس لئے بغیر تکلیف کے ایک ارب روپیہ سالانہ جمع کر سکتے ہیں اور ایک ارب روپیہ سالانہ گورنمنٹ آف انڈیا کی آمد ہے۔ گورنمنٹ ٹیکسوں کے ذریعہ حکومت کے دباؤ سے یہ روپیہ وصول کرتی ہے لیکن ہمارے سب چندے طوعی ہوتے ہیں۔ نہ ہمیں جبر کرنے کی طاقت ہے نہ ہم نے جبر کرنا ہے۔ روپیہ دو ہی طرح جمع ہو سکتا ہے یا تو حکومت کے دباؤ سے یا پھر لوگوں کا ایمان اتنا اعلیٰ ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر چیز قربان کرنا اپنی سعادت سمجھیں۔ پس احمدیوں کا دوسروں کے چندوں سے بڑھ جانے کی وجہ یہی ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے حلاوتِ ایمان بخشتی ہے۔ ہمارا ایک احمدی جو بھوکوں مر رہا ہو وہ اپنے ایمان کی وجہ سے بیوی، بچوں کا پیٹ کاٹ کر روپیہ دو روپیہ ماہوار چندہ دے دیتا ہے۔ لیکن ایک غیر احمدی کے لئے جو مالی لحاظ سے بہت اچھا ہو روپیہ دو روپیہ ماہوار دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی شخص قومی کام کے لئے ایک سو روپیہ دے دے تو اخباروں میں شور مچ جاتا ہے کہ فلاں رئیس نے ایک سو روپیہ قومی کام کے لئے دیا ہے حالانکہ جو شخص ایک سَو مربعے کا مالک ہے اس کے لئے ایک سَو روپیہ دینا کونسی قربانی ہے۔ ہمارے ہاں ایک غریب آدمی بھی کئی سو روپیہ چندہ دے دیتا ہے جو اس کی حیثیت سے بہت بڑھ کر ہوتا ہے لیکن اس کا نام کسی اخبار میں نہیں چھپتا۔ اور اگر وہ دے کر اس روپیہ کا دوبارہ نام بھی لے تو ساری جماعت بُرا مناتی ہے کہ تم نے خدا تعالیٰ کو دیا ہے کسی پر احسان نہیں کیا۔ لیکن باوجود اتنی قربانیوں کے ہمارے ذمہ جو کام ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے مقابل میں ہمارے سامان بہت تھوڑے ہیں اور وہ کام صرف اس روپے سے نہیں چل سکتا۔
اس سال تحریک جدید کےد فتر دوم میں ستّر ہزار کے وعدے آئے ہیں اور دفتر اول میں دو لاکھ پنتالیس ہزار کے وعدے آئے ہیں۔ اور دونوں دفتروں کے وعدے تین لاکھ پندرہ ہزار بنتے ہیں اور ابھی ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے وعدے باقی ہیں۔ اگر وہ شامل کر لئے جائیں تو یہ پونے چار لاکھ کے وعدے ہو جائیں گے ۔لیکن کیا تحریک جدید اس روپے سے تمام غیر ممالک میں تبلیغی مراکز قائم کرانے میں کامیاب ہو سکتی ہے؟ ہمیں اس وقت ہزاروں بلکہ لاکھوں مبلغوں کی ضرورت ہے جن کو ہم غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے مقرر کریں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں اس بات کو بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ ہم ان ممالک کے اخراجات اس چندے سے پورے کر سکتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ غیر ممالک کے اخراجات ہمارے ملک کی نسبت پانچ چھ گنے ہیں۔ ہمارے مبلغ یہاں ایک سو روپیہ میں گزارہ کر لیتے ہیں لیکن چین اور دوسرے ممالک میں ایک مبلغ کا پانچ سو میں بھی گزارہ ہونا مشکل ہے۔ یہی حال ایران کا ہے۔ وہاں بھی چیزیں بہت زیادہ مہنگی ہیں۔ یہاں روپے کی دو سیر کھانڈ بِکتی ہے لیکن وہاں دس روپے سیر کھانڈ ملتی ہے۔ یہاں ہمارا مبلغ دال روٹی کھا کر پچاس روپے میں بھی گزارہ کر لیتا ہے لیکن وہاں دال روٹی کھا کر بھی پانچ سو میں بھی گزارہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن چونکہ ہم نے ان ممالک میں تبلیغ کرنی ہے اس لئے وہاں کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہوں گے۔ اگر ہم ایک ہزار مبلغ فِی الْحال رکھیں تو ہمیں پانچ لاکھ روپیہ ماہوار یا ساٹھ لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے۔ دفتر اول کے ابھی آٹھ سال باقی ہیں اور دفتر اول کا چندہ دفتر دوم سے بہت زیادہ آ رہا ہے۔ جب یہ آٹھ سال ختم ہوں گے تو سارا بوجھ دفتر دوم پر ہو گا مگروہ ابھی بہت کم ہے، اتنا کم کہ سب ضرورت کا چھٹا حصہ بھی اس سے پورا نہیں ہو سکتا حالانکہ ہماری یہ سکیم ہے کہ دفتر اول کے بعد دفتر دوم آئندہ ان تمام اخراجات کا متحمل ہو۔ تحریک جدید کے روپیہ سے جو زمین خریدی گئی ہے اس سے ابھی کوئی خاص آمد نہیں ہو رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک زمین کی درستی اور زمینوں کے پچھلے قرضہ کے ادا کرنے میں مشغول ہیں اور ابھی ایک دو سال تک یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اس کے بعد ہمیں اِنْشَاءَ اللہ معقول آمدنی ان زمینوں سے شروع ہو جائے گی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارے کارکن اخلاص اور رغبت سے کام کریں اور پوری احتیاط سے فصلوں کے بونے اور کاٹنے کا خیال رکھیں۔ مگر یہ رقم جیسا کہ مَیں بار بار بتا چکا ہوں ابھی ایک مضبوط ریزرو فنڈ بنانے میں جمع ہو گی۔ منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا پانچ کروڑ کا ریزرو فنڈ بیرونی مشنوں کو مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے۔ جس کے لئے مَیں تیاری میں لگا ہؤا ہوں۔ غرض ان زمینوں کی آمد سے ہمیں بیرونی مشنوں کے قائم رکھنے میں بہت مدد ملے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام تمام دنیا کی طرف آئے ہیں اور ہم نے ساری دنیا کو آپ کا پیغام پہنچانا ہے اور ہمیں ساری دنیا میں اس آواز کو بلند کرنے کے لئے کم از کم بیس ہزار مبلغ چاہئیں۔ اور بیس ہزار مبلغ کے لئے کم از کم پچاس کروڑ روپے کی سالانہ ضرورت ہے۔ کیونکہ جب ہم بیس ہزار مبلغ باہر تبلیغ کے لئے روانہ کریں گے تو ہمیں ان کو واپس بلانے کے لئے بھی بیس ہزار مبلغ کی ضرورت ہے کیونکہ ایک مبلغ کو متواتر کئی سال تک اس کےر شتہ داروں اور اس کے بیوی بچوں سے جُدا رکھنا بہت تکلیف دِہ امر ہے۔ اس لئے ہمیں یہ بھی انتظام کرنا ہو گاکہ پہلے مبلغ تین سال کے بعد واپس آ جائیں اور ان کی جگہ اور نئے مبلغ چلے جائیں۔ پس بیس ہزار مبلغین کا مختلف علاقوں میں پھیلانا ایک ایسا کام ہے جو صرف چندے کی رقوم سے نہیں ہو سکتا۔ اگر ہماری جماعت بہت زیادہ قربانی کرے اور چندہ کے فراہم کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھے تو پھر بھی وہ رقم بیس تیس لاکھ سے زیادہ نہ ہو گی۔ لیکن جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں کروڑوں کروڑ روپیہ کی ضرورت ہے ۔
اگر ہماری جماعت تجارت کی طرف متوجہ ہو جائے اور تجارت کے ایک حصہ پر ہماری جماعت قابض ہو جائے تو اس کی مالی حالت بھی اچھی ہو جائے اور غیر ممالک میں تبلیغ کا کام جو اسے مشکل نظر آتا ہے وہ بھی بہت آسان ہو جائے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ دوسری اقوام کے لوگ تجارت سے کمایا ہؤا روپیہ اپنی عیاشیوں ، کنچنیوں کے ناچ گانے میں خرچ کر رہے ہیں۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں روپیہ ان کی جیبوں سے ان کاموں کے لئے نکل آتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے ان کی جیبیں خالی ہیں اور ان سے ایک پیسہ بھی نہیں نکل سکتا۔ پس ضروری ہے کہ کچھ روپیہ تجارت سے بھی آئے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس میدان پر صرف شیطان کا قبضہ ہو۔ ہم نے تجارت اور صنعت کو فروغ دینے کے لئے قادیان میں بعض کارخانے بھی جاری کئے ہیں اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی کھولی ہے۔
تاجروں کے بعد زمینداروں کا بھی یہی حال ہے۔ ان کے مال کا اکثر حصہ بھی عیاشیوں میں خرچ ہوتا ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ کچھ بوجھ خدا تعالیٰ کے دین کو پھیلانے کے لئے زمینداروں پر بھی پڑے مَیں نے تحریک جدید کے لئے یہاں زمینیں خریدی تھیں۔ ان کی قیمت اس وقت تک قریباً پندرہ لاکھ روپیہ ادا کی جا چکی ہے۔ اگر ہم یہی روپیہ مختلف تجارتوں پر لگاتے اور اگر ہمیں پندرہ فیصدی نفع ہوتا تو بھی ہمیں سَوا دو لاکھ روپیہ سالانہ آمدنی ہوتی لیکن ہمیں ابھی تک صرف ایک لاکھ کی سالانہ آمد ہو رہی ہے۔ اس کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کارکن سُستی اور غفلت سے کام کرتے ہیں اور اپنےفرائض پوری تن دہی سے سر انجام نہیں دیتے۔ اس دفعہ محمد آباد میں یہ پہلا سال ہے کہ مجھے محمد آباد کے کارکنوں کے کام سے خوشی ہوئی ہے اور مجھے ان کے کام میں ترقی نظر آئی ہے۔ اس سال محمد آباد کے کارکنوں نے پچیس فیصدی اپنے کام میں ترقی کی ہے لیکن جہاں ہم ان لوگوں سے سو فی صدی ترقی کی امید رکھتے ہیں۔ وہاں پچیس فیصدی ترقی ہمارے دل کو تسلی نہیں دے سکتی۔ ہاں اس ترقی پر اظہارِ خوشنودی بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر بھی کہ اس نے ہمارا قدم درستی کی طرف اٹھایا۔
پنجاب کی زمین سندھ کی زمین کے مقابلہ میں بے انتہا آمدنی پیدا کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے لوگ سندھی لوگوں کی نسبت زیادہ محنتی ہیں۔ ایک دوست جو کہ زراعت کے محکمہ میں افسر ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے لائلپورمیں دو مربعے ہیں او رانہوں نے دونوں 6400 روپے سالانہ ٹھیکہ پر دئیے ہوئے ہیں۔ یعنی انہیں فی مربع 3200 روپیہ ملتا ہے۔ اگر ہمیں بھی 3200 روپیہ فی مربع آمد ہو تو تحریک جدید کے 400 مربعوں سے ہمیں بارہ تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد ہو جائے۔ لیکن ہمیں ابھی تک ایک لاکھ روپیہ کی آمد ان زمینوں سے ہوتی ہے ۔ یہ ایام قیمتوں کی زیادتی کے ہیں۔ اگر قیمتیں گر جائیں اور پیداوار کی یہی حالت رہے تو پھر تو پچاس ساٹھ ہزار کی آمد کا اندازہ رہ جاتا ہے لیکن تحریک کے واقفین اور دوسرے کارکن عقل اور قربانی اور محنت سے کام لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پنجاب کے برابر آمد یہاں سے پیدا نہ کر سکیں۔ بہرحال اس سال مَیں کارکنوں کے کام پر خوش ہوں اور ان کے اچھے کام کی تعریف کرتا ہوں۔ پہلے تمام سالوں سے اس سال فصلیں اچھی ہیں اور آئندہ فصلوں کی تیاری بھی اچھی ہے۔ اب ایک بات کی نگرانی باقی ہے کہ جس طرح انہوں نے پہلے محنت اور کوشش سے کام کیا ہے اسی طرح اب فصلوں کے کاٹنے میں بھی حفاظت سے کام لیں اور پوری پوری نگرانی کریں کہ فصل کا کوئی حصہ بھی ضائع نہ ہو۔ اگر کارکنوں نے پوری طرح نگرانی کی تو مجھے امید ہے محمد آباد کی فصل تمام اسٹیٹوں سے بڑھ جائے گی۔ اور اگر ان اسٹیٹوں کی فصل بھی اس کے برابر ہو گئی یا اس سے بڑھ گئی تو مَیں سمجھوں گا کہ محمد آباد کے کارکنوں نے فصل کی پوری طرح حفاظت نہیں کی۔
اگر آج ہم زراعت کی طرف متوجہ ہیں تو محض اس لئے کہ ان جائیدادوں کے ذریعہ قرآن کریم اور حدیث اور اسلام کی تائید کے لئے کتابیں پھیلا سکیں۔ اگر ہم تجارت کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو محض اس لئے کہ ہماری اتنی آمد ہو جائے کہ اس سے ہم اسلام اور احمدیت کی تمام دنیا میں اشاعت کر سکیں۔ پس ہمارا زراعت اور تجارت کی طرف متوجہ ہونا دنیوی معاملہ نہیں بلکہ دینی ہے۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کہ ہم ہندوستان میں دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں دو سو کے مقابلہ میں ایک ہیں اور دنیا کی آبادی دو ارب ہے اس لئے ہم دنیا کے مقابلے میں چار ہزار کے مقابلہ میں ایک ہوئے اور چونکہ ہماری اس تعداد میں سب عورتیں اور بچے وغیرہ شامل ہیں۔ اور اگر ہر گھر کے پانچ فرد سمجھے جائیں اور ان میں سے صرف ایک مرد بالغ عاقل سمجھا جائے تو بیس ہزار کے مقابلہ میں ہم ایک ہوئے۔ اور چونکہ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی عقل تیز نہیں ہوتی یا تبلیغ کرنے میں سُست ہوتے ہیں یا جاہل ہوتے ہیں تبلیغ کر نہیں سکتے۔ تو اس لحاظ سے ہم دو لاکھ کے مقابلہ میں ایک ہوئے۔ اب دو لاکھ کے مقابلہ میں ایک آدمی کیا کر سکتا ہے۔ پس ضرورت ہے اس امر کی ہے کہ جماعت کی تعداد کو جلدی جلدی بڑھایا جائے۔ جب تک تعداد زیادہ نہیں ہوتی تبلیغ کا عام ہونا بہت مشکل ہے۔ اس دفعہ تبلیغ میں بھی محمد آباد سب سے بڑھ گیا ہے۔ سندھیوں میں سب سے زیادہ محمد آباد کے لوگوں نے تبلیغ کی ہے اور تیرہ چودہ آدمی بیعت بھی کر چکے ہیں اور سُرعت کے ساتھ ترقی کی طرف قدم اٹھتا نظر آ رہا ہے۔ اس دفعہ محمد آباد باقی اسٹیٹوں سے دو لحاظ سے اول نمبر پر رہا ہے۔ اول فصلوں کے لحاظ سے۔ جیسی فصل اس دفعہ محمدآباد میں ہے ایسی فصل ہماری کسی اَور اسٹیٹ میں نہیں ہے۔ یہاں یہ سوال نہیں کہ محمد آباد ایک دنیوی کام میں سب سے بڑھ گیا ہے بلکہ ہم اس کامیابی کو اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ محمد آباد نے خدا کے نام کی جائیداد کو باقی اسٹیٹوں سے زیادہ کامیاب بنانے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص خدا کے کام آنے والی جائیداد کی آمدنی میں ایک پیسہ کی بھی زیادتی کرتا ہے گویا وہ ایک پیسہ اپنی آمدنی سے خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور جو شخص خدا تعالیٰ کی فصل کو زیادہ کرتا ہے تو جو آمدن اس زائد فصل سے ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے دفتر میں اسی کے نام لکھی جاتی ہے۔ گویا اس نے اپنے پاس سے خدا کی راہ میں خرچ کی۔ پس اس اسٹیٹ کے لوگوں کا فصل کو بڑھانا دنیوی لحاظ سے بھی گو فائدہ مند ہے لیکن دینی لحاظ سے بھی کارکنوں کےلئے ثواب کا موجب ہے اللہ تعالیٰ ہمارے نوجوانوں کو ہمت دے اور ان کی محنت میں برکت دے۔ دوسرے تبلیغی لحاظ سے محمد آباد اول نمبر پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے ان کے ذریعہ دین کی اشاعت اور تبلیغ اسلام کی خوشبو دور دور تک پھیلے۔ ہمارے لئے تبلیغی لحاظ سے سندھ بہت اعلیٰ جگہ ہے۔ سندھ وہ ملک ہے جہاں اسلام ہندوستان میں سب سے پہلے آیا۔ جہاں مقامی روایات کے مطابق رسول کریم ﷺ کے بعض صحابہ تشریف لائے او رجہاں آپ کے صحابہؓ فوت ہوئے۔ ناصر آباد کے پاس ایک گاؤں ہے جس کا نام دیہہ صحابو 1ہے یعنی صحابی کا گاؤں۔ وہاں ایک صحابیؓ کی قبر بھی ہے اور عین میری زمین میں ہے۔ اسی طرح بمبئی کے پاس ایک جگہ تھانہ ہے وہاں بھی صحابہؓ کی قبریں بیان کی جاتی ہیں۔
اہلِ عرب میں تبلیغ کرنے کا سب سے اچھا رستہ سندھ ہے۔ ہم پنجاب سے عرب میں تبلیغ نہیں کر سکتے۔ ہم بنگال سے بھی عرب میں تبلیغ نہیں کر سکتے۔ ہم یو۔ پی سے بھی عرب میں تبلیغ نہیں کر سکتے۔ ہم افغانستان سے بھی عرب میں تبلیغ نہیں کر سکتے۔ اگر ہم عرب میں تبلیغ کر سکتے ہیں تو سندھ کے رستے سے ہی کر سکتے ہیں کیونکہ ہندوستان کی تمام تجارت عرب سے سندھ کے ذریعہ ہوتی ہے۔ عرب کی کھجوریں، چٹائیاں، رسیاں اور اسی قسم کی دوسری چیزیں کراچی آ کر اُترتی ہیں۔ کراچی سے غلہ، کھانڈ اور باقی اشیاءِ تجارت عرب کو جاتی ہیں۔ یہ تجارت زیادہ تر کشتیوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔ عربوں کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے جہالت کےز مانہ میں آ کر ہم کو ظلمت سے نکالا، ہمیں اللہ تعالیٰ سے ملایا، رسول کریم ﷺ سے روشناس کرایا۔ یہ ان کی اتنی بڑی نیکی ہے کہ جس کا کسی طرح بدلہ نہیں دیا جا سکتا۔ اور اب جبکہ عرب خدا تعالیٰ سے دور جا چکے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ سے ملائیں۔ اور عربوں کو تبلیغ کرنے کا سب سے اچھا ذریعہ یہی ہے کہ ہم سندھیوں کو احمدی بنائیں۔ اگر سندھی لوگ کثرت سے احمدی ہو جائیں تو ہماری آواز بہت ہی آسانی کے ساتھ عربی ممالک میں پہنچ سکتی ہے کیونکہ عرب کا اور سندھ کا سمندر ملا ہوا ہے۔ عرب سے سندھ کو اور سندھ سے عرب کو کثرت سے کشتیاں آتی جاتی رہتی ہیں۔ اگر کشتیاں چلانے والے یا کشتیوں کے مالک احمدی ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ عربی ممالک میں احمدیت کی آواز نہ پہنچے۔ اگر ہم کشتیوں کی تجارت پر قابض ہو جائیں تو ہم بہت مؤثرپیرائے میں عرب میں تبلیغ کر سکتے ہیں خواہ عربی ممالک میں ہمارے مبلغوں کو داخلہ کی اجازت نہ بھی ہو۔ کیونکہ دوسرے رستوں سے تو ہمارے مبلغوں کو حکومت روک سکتی ہے لیکن تُجّار کے رنگ میں کام کرنے والوں کو حکومت کس طرح روک سکتی ہے۔ اگر حکومت ان کشتیوں کی آمد و رفت روک دے تو اسے وہ چیزیں نہ مل سکیں گی جو ان کو ہندوستان سے پہنچتی ہیں اور حکومت مجبور ہو گی کہ ان کشتیوں کو اپنے ساحل پر آنے دے۔
پس یہ عربی ممالک میں تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کشتیوں کی تجارت میں احمدیوں کا ہاتھ ہو۔ ہماری جماعت کو اس علاقہ کی اہمیت کو جاننا چاہئے۔ صرف یہی نہیں کہ سندھ عرب کا دروازہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سلسلہ کو سندھ میں جائیدادیں عطا کی ہیں اور یہ بات بھی بلاوجہ نہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو ہندوستان میں بلا وجہ نہیں بھیجا اسی طرح اللہ تعالیٰ کا سندھ میں ہمیں جائیدادیں عطا کرنا بلاوجہ نہیں۔ کیوں نہ اللہ تعالیٰ نے پنجاب میں یا یو۔پی میں ہمارے لئے زمین خریدنے کے سامان کر دئیے۔ پنجاب میں بھی زمینیں بِکتی ہیں اور یو۔پی میں بھی اچھی اچھی زمینیں مل سکتی تھیں۔ پھر یہاں سندھ میں لانے کی کوئی وجہ تو ضرور ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ زمینیں ایک خواب کی بناء پر خریدی گئی ہیں۔ جب مَیں نے وہ خواب دیکھا تھا اس وقت ابھی سکھر بیراج نہیں بنا تھا اور نہ اس قسم کی کوئی خاص سکیم تھی۔ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں ایک نہر کے کنارے ایک بند پر کھڑا ہوں اور مَیں دیکھتا ہوں کہ اس علاقے میں طغیانی آ گئی ہے اور گاؤں کے گاؤں غرق ہونے شروع ہو گئے ہیں اور مَیں حیرت کے ساتھ یہ نظارہ دیکھ رہا ہوں کہ اتنے میں میرے ساتھیوں میں سے کسی نے مجھے آواز دی کہ پیچھے کی طرف سے پانی بہت قریب آ گیا ہے۔ مَیں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو دیکھا کہ تمام قصبے اور گاؤں زیرِ آب ہو رہے ہیں او رپانی بہت قریب آ گیا ہے۔ جس کنارے پر مَیں کھڑا ہوں۔ وہاں کچھ اَور اشخاص بھی میرے ساتھ کھڑے تھے۔ تھوڑی دیر میں پانی اَور بھی زیادہ قریب آ گیا ہے اور اس نے وہ کنارا بھی اُکھاڑ پھینکا جس پر مَیں کھڑا تھا اور مَیں نہر میں تیرنے لگ گیا ہوں۔ یہ نہر دُور تک چلی جاتی ہے اور اب ایک دریا کی شکل میں تبدیل ہو گئی ہے۔ مَیں کوشش کرتا ہوں کہ کسی جگہ میرے پَیر لگ جائیں۔ آخر مَیں تیرتا تیرتا فیروز پور کے آگے نکل گیا اور بار بار کوشش کے باوجود میرے پاؤں کہیں نہیں لگے۔ اُس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ نہر ،ستلج سے جا ملی ہے اور اب یہ دریا سندھ دریا میں ملنے کے لئے جا رہا ہے تب میں بہت گھبرایا اور مَیں نے دعا شروع کی کہ یا اللہ! سندھ میں تو میرے پَیر لگ جائیں۔ یا اللہ! سندھ میں تو میرے پَیر لگ جائیں۔ اس دعا کے بعدمَیں دیکھتا ہوں کہ یکدم ایک اونچی جگہ پر میرے پیر لگ گئے ہیں۔
جب سندھ کا علاقہ آباد ہونا شروع ہؤا تو یہ خواب مجھے یاد آ گئی اور اس خواب کی بناء پر مَیں نے یہاں زمینیں خرید لیں۔ جس وقت مَیں نے یہ خواب دیکھی تھی اُس وقت سندھ کے آباد ہونے کے کوئی آثار نہ تھے اور جتنے بڑے بڑے انجینئر تھے وہ سب سکھر سے نہریں نکالنے کے خلاف تھے۔ آخر لارڈ لائڈ 2نے جو کہ بمبئی کا گورنر تھا چند انجینئروں کو اپنے ساتھ متفق کیا اور سکھر بیراج کی سکیم منظور کروا لی اور اسی کے نام سے اس بیراج کا نام لائڈ بیراج ہے۔ غرض یہ جائیداد ایک معجزہ اور ایک نشان ہے۔ اس کا ہر ایکڑ خدا تعالیٰ کے کلام کی تصدیق کر رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ اس جگہ جائیداد کا پیدا ہونا ایک الٰہی سکیم کے مطابق ہے۔ اور ہمیں چاہئے کہ اس جائیداد کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کریں۔ پس اگر کسی دوست کو معلوم ہو کہ کسی جگہ اس علاقہ میں اَور زمین ملتی ہے تو اسے ہمیں اطلاع دینی چاہئے۔ اس وقت ہماری زمینیں ضلع میر پور خاص اور ضلع حیدر آباد میں ہی ہیں لیکن مَیں چاہتا ہوں کہ سندھ کے تمام علاقوں میں ہماری زمینیں پھیل جائیں کیونکہ جہاں ہماری زمینیں ہوں گی وہاں ہمارے کارکن بھی رہیں گے اور ان کے ذریعہ سندھیوں میں احمدیت پھیلے گی۔ پس دوستوں کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے کہ جہاں کہیں کسی جائیداد کا پتہ لگے کہ وہ سلسلہ کے لئے فائدہ بخش ہو سکتی ہے فوراً مجھے یا تحریک جدید کو اطلاع دیں۔
اس کے بعد مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سلسلہ کے لئے قربانی کرنے والوں کی یادگار کو تازہ رکھنے کے لئے مَیں نے سلسلہ کی جائیداد کے مختلف گاؤں کے نام بزرگوں کے ناموں پر رکھنا تجویز کیا ہے۔ رسول کریم ﷺ چونکہ ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہیں اس لئے آپ کے نام پر اس گاؤں کا نام جو تحریک کی جائیداد کا مرکز ہے محمد آباد رکھا گیا ہے۔ صدر انجمن احمدیہ کی جائیداد کے مرکز کا نام احمد آباد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے نام پر رکھا گیا ہے۔ محمد آباد آٹھ ہزار ایکڑ کا رقبہ ہے۔ اس لحاظ سے میرا خیال ہے اس میں چھ سات گاؤں اَور آباد ہو سکتےہیں۔ اگر بارہ سَو ایکڑ کا ایک گاؤں بنایا جائے تو سات گاؤں اس رقبہ میں آباد ہو سکتے ہیں۔ اس وقت جو آبادیاں یہاں قائم ہو چکی ہیں ان میں سے ایک کا نام پہلے سے حضرت خلیفہ اول کے نام پر نور نگر ہے۔ اب شمالی حلقہ کی ایک آبادی جو سٹیشن کے پاس ہے اس کا نام کریم نگر رکھا گیا ہے۔ اور مغربی طرف کی دو آبادیوں میں سے ایک کا نام لطیف نگر صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی یاد میں، اور ایک کا نام روشن نگر حافظ روشن علی صاحب کی یادگار میں رکھا گیا ہے۔ پہلے مَیں نے ان ناموں کے ساتھ آباد لگایا تھا مگر پھر اسے نگر میں تبدیل کر دیا تاکہ محمد آباد نام کے لحاظ سے بھی اپنے حلقہ میں ممتاز ہو۔ جس طرح رسول کریم ﷺ سورج ہیں اور یہ لوگ ستارے ہیں اسی طرح محمد آباد بطور سورج کے ہو اور اس کے اِردگرد باقی گاؤں بطور ستاروں کے ہوں۔ میرا ارادہ بعض اَور نام بھی رکھنے کا ہے۔ مثلاً برہان نگر مولوی برہان الدین صاحب کے نام پر اور اسحاق نگر میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کے نام پر۔ اسی طرح ایک دو گاؤں احمد آباد کی زمین میں بھی آباد ہو سکتے ہیں ان کے ساتھ بھی نگر لگایا جائے گا۔ اور جو گاؤں احمد آباد میں آباد ہوں گے ان کے نام بھی سلسلہ کے لئے قربانی کرنے والوں کے نام پر رکھے جائیں گے۔ ان گاؤں کے نام بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہوں گے کیونکہ ایک وہ دن تھا کہ قادیان میں اگر تین چار سَو روپیہ چندہ آ جاتا تھا۔ تو بڑی ترقی سمجھی جاتی تھی۔ اور آج یہ دن آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سلسلہ کو لاکھوں لاکھ کی جائیدادیں دی ہیں اور قربانی کرنے والوں کے نام پر گاؤں آباد ہو رہے ہیں۔ اسی طرح میرا خیال ہے کہ ایک گاؤں کا نام تحریک نگر رکھا جائے جو تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کی یادگار ہو۔ پس اگر کسی دوست کو اضلاع حیدر آباد، نواب شاہ، سکھر، دادو، کراچی یا میر پور خاص میں کسی اچھی زمین کا علم ہو تو وہ ہمیں فوراً اطلاع دے۔ خواہ وہ قیمتاً ملتی ہو یا مقاطعہ3 پر ملتی ہو۔ اگر ہمارے قریب ہو تو تھوڑی زمین بھی خریدی جا سکتی ہے لیکن اگر دُو رہو تو پندرہ سو یا دو ہزار ایکڑ سے کم نہ ہو کیونکہ اس سے تھوڑی زمین کا انتظام بہت مہنگا پڑتا ہے۔ لیکن اگر ہماری اسٹیٹوں کے قریب تھوڑی زمین بھی ہو تو وہ خریدی جا سکتی ہے اور پھر تبادلوں کے ذریعہ اسے ساتھ ملایا جا سکتا ہے۔
زمین کےعلاوہ میرا ارادہ ہے کہ حیدر آباد اور ایسے ہی دوسرے علاقوں میں کارخانے جاری کئے جائیں۔ تحقیقات کے لئے کہ کہاں کہاں کارخانے مفید ہوں گے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے ایک کارکن کو مقرر کیا ہے۔ اب واپس جا کر اس کی رپورٹ دیکھ کر فیصلہ ہو سکے گا کہ کس کس جگہ کس کس قسم کے کارخانے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ سندھ کو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کی جائیدادوں کے لئے انتخاب کیا ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس انتخاب کی قدر کرنی چاہئے اور محنت اور قربانی سے سلسلہ کی آمد کو بڑھانا چاہئے۔ پس مَیں تمام کارکنوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں اور انہیں کَمَاحَقُّہٗ ادا کریں اور سستی اور غفلت سے سلسلہ کی جائیداد کو کسی رنگ میں نقصان کی طرف نہ لے جائیں۔ اسلام کو دوبارہ تمام ادیان پر غالب کرنے کی اللہ تعالیٰ نے جو داغ بیل ڈالی ہےاس میں وہ ممد ہوں اور روک نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اسلام سے باغی قومیں ہمارے ذریعہ اسلام میں داخل ہوں اور اسلام کی بنیاد ایسی مضبوط اور شاندار طور پر قائم ہو کہ غیر مسلموں کی فوقیت کُلّی طور پر مٹ جائے۔ اور وہ ایسے نظر آئیں جیسے سورج کے مقابلہ میں ایک جگنو ہوتا ہے۔’’
(الفضل 2 اپریل 1946ء)
1:دیہہ صحابو: ناصر آباد ضلع عمر کوٹ سے تقریبًا آدھا کلومیٹر دور ایک گاؤں۔
2: لارڈ لائڈ(The Lord LLOYD) (1941-1879)
اس کا پورا نام جارج ایمبروز لائیڈ تھا ۔دسمبر1918ءمیں اسے بمبئی کے گورنر کے طور پر
مقرر کیا گیا۔(Wikepedia, the free Encylopedia “The Lord LLOYD”)
3: مقاطعہ: اِجارہ۔ ٹھیکہ

10
یاد رکھو جھوٹ ایک کیڑا ہے جو قوم کے برگ و بار کو کھا جاتا اور اسے بڑھنے نہیں دیتا
( فرمودہ 29 مارچ 1946 ء بمقام ناصر آباد سندھ)
تشہد، تعوّذ او رسورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘کل انشاء اللہ پانچ بجے کی گاڑی سے جانے کا ارادہ ہےاِس لحاظ سے یہ جمعہ اِس دَورے کا آخری جمعہ ہے۔ مَیں نے گزشتہ خطبات میں جماعت کو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی تھی۔ آج مَیں اختصار کے ساتھ ایک تربیتی امر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ انسانی تربیت کے لئے جس حد تک اخلاق کا تعلق ہے ان میں سے سچ تبلیغ کے لئے سب سے بڑا حربہ ہے۔ اگر ہماری جماعت سچ پر کاربند ہو جائے تو ہماری تبلیغ بہت مؤثر اور نتیجہ خیز ہو سکتی ہے ۔ اس زمانہ میں جھوٹ اس قدر عام ہو گیا ہے کہ سچی بات کا تلاش کرنا محال ہو گیا ہے۔ مجالس میں عَلَی الْاِعْلَان جھوٹ بولا جاتا ہے اور اگر کوئی شخص وہاں سچ بول دے تو ساری مجلس کی فضا بدل جاتی ہے۔ عدالتوں میں لوگ اپنی دوستی اور لالچ کی خاطر خوب جھوٹ بولتے ہیں اور ایسے طور پر بنا بنا کر جھوٹ بولتے ہیں کہ جج کو ان کے جھوٹ کا علم نہ ہو سکے اور جب عدالت سے باہر نکلتے ہیں تو اپنی چالاکی اور ہوشیاری دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں کہ ہم نے جج کو یوں دھوکا دیا، ہم نے اس طرح بات کو بدلا کر بیان کیا۔ گویا دوسرے لفظوں میں وہ اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم ایسے اچھے جھوٹے ہیں کہ ہمارے جھوٹ کا جج کو بھی پتہ نہیں لگ سکتا۔ جج عَالِمُ الْغَیْب تو ہوتا نہیں کہ اس کو گواہوں کے سچے یا جھوٹے ہونے کا علم ہو جائے اس نے تو گواہوں کی شہادتوں کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
ایک بزرگ کے متعلق واقعہ آتا ہے کہ انہیں اسلامی حکومت کی طرف سے ساری مملکت کا قاضی القضاة مقرر کیا گیا۔ یہ اتنا بڑا عہدہ ہے کہ بعض باتوں میں بادشاہ کو بھی اس کے حکم کے ماتحت چلنا پڑتا ہے کیونکہ دین کے معاملہ میں جو حکم قاضی القضاة کی طرف سے جاری کیا جائے بادشاہ پر بھی اس کی فرمانبرداری لازمی ہوتی ہے۔ اور اگر کسی شخص کو بادشاہ کے خلاف کوئی شکایت ہو تو وہ قاضی القضاة کے پاس اس کی شکایت کر سکتا ہے اور بادشاہ کو اس کی جواب دہی کے لئے قاضی القضاة کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔ چونکہ اب بے دینی عام ہو گئی ہے اس لئے اب لوگوں کو اپنے عہدوں کی ذمہ داریوں کا احساس پورے طور پر نہیں رہا ۔اور اگر کسی شخص کو کوئی دنیوی عہدہ ملے تو وہ خوشی کے مارے پُھولا نہیں سماتا اور وہ ذمہ داریاں جو اس پر اس عہدہ کی وجہ سے عائد ہوتی ہیں وہ اس کی نظر سے اوجھل رہتی ہیں۔ اور اگر اسے وہ عہدہ نہ ملے تو تأسف اور رنج اس کی طبیعت کو ایک عرصہ تک پریشان کئے رکھتا ہے۔ جب اس بزرگ کو قاضی القضاة کا عہدہ دیا گیا تو ان کے دوست انہیں اس بات کا احساس کرانے کے لئے کہ ہم بھی آپ کی خوشی میں شامل ہیں ان کے گھر پر مبارک دینے کے لئے آئے۔ جب وہ ان کے مکان پر پہنچے تو دیکھا کہ وہ بچوں کی طرح زار و قطار رو رہے ہیں۔ ان کے دوستوں نے انہیں اس طرح روتے دیکھا تو پوچھا کہ کیا کوئی حادثہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے آپ اس طرح چیخیں مار رہے ہیں؟ اور ساتھ ہی کہا۔ ہم نے تو کوئی ایسا المناک واقعہ نہیں سنا۔ ہم تو آپ کے قاضی القضاة ہونے کی خبر سن کر آپ کو مبارک دینے کے لئے آئے ہیں۔ اپنے دوستوں کی یہ بات سن کر انہوں نے پھر زور زور سے رونا شروع کر دیا اور کہنے لگے یہ مبارک دینے کا موقع ہے یا افسوس کرنے کا۔ جس کو آپ لوگ خوشی کا موقع سمجھتے ہیں اسی لئے تو مَیں رو رہا ہوں۔ یہ رونے کی بات نہیں تو اَور کیا ہے۔ مَیں عدالت میں بیٹھا ہوں گا۔ ایک شخص مدعی ہونے کی حیثیت سے میرے سامنے آئے گا اور کہے گا کہ ایک سال ہؤا مجھ سے فلاں شخص نے اتنا روپیہ قرض لیا تھا اور اب واپس نہیں دیتا۔ او رجو شخص مدعا علیہ ہونے کی حیثیت سے میرے سامنے آئے گا وہ کہے گا کہ مَیں نے تو روپیہ لیا ہی نہیں یا کہہ دے گا کہ لیا تو تھا لیکن واپس کر چکا ہوں۔ اب مدعی کو بھی علم ہے کہ سچ کیا ہے اور مدعا علیہ کو بھی علم ہے کہ سچ کیا ہے لیکن مجھ ایک تیسرے شخص کو اس بات کے لئے مقرر کیا گیا ہے کہ معلوم کروں کہ سچ کیا ہے حالانکہ مجھے معلوم نہیں کہ کون جھوٹ بول رہا ہے اور کون سچ کہہ رہا ہے۔ روزانہ ایک اندھا عدالت کی کرسی پر اس لئے بیٹھے گا کہ وہ دو سجاکھوں کے درمیان فیصلہ کرے۔ مَیں روتا اس لئے ہوں کہ جو مجھ سے غلط فیصلے ہوں گے ان کے متعلق قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے حضور کیا جواب دوں گا۔
ہمارے زمانہ میں تو عدالتوں میں سچ بالکل ہی مفقود ہو چکا ہے۔ مدعی اور مدعا علیہ دونوں خوب دل کھول کر جھوٹ بولتے ہیں اور بعض لوگ تو بغیر کسی خطرہ کے اور بغیر کسی وجہ کے بے تحاشا جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں اور جھوٹ بولنا ان کی عادت ثانیہ ہو چکا ہوتا ہے۔ میرے نزدیک ہماری جماعت بھی ابھی سچائی کے اس اعلیٰ مقام پر کھڑی نہیں ہوئی جس پر اسے کھڑا ہونا چاہئے تھا۔ اور ابھی ہمارے تمام افراد میں سو فیصدی سچ بولنے کی عادت پیدا نہیں ہوئی۔ کل ہی ہماری اسٹیٹوں کے مینجروں کا اجلاس ہؤاجس میں اسٹیٹوں کی ترقی کے لئے تجاویز سوچنا مدنظر تھا۔ کچھ عرصہ ہؤا محکمہ زراعت نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر ایک ایکڑ کے آٹھ حصے کر دئیے جائیں اور اسے علیحدہ علیحدہ طور پر پانی لگایا جائے تو بہت کم پانی خرچ ہوتا ہے اور اس طرح زیادہ زمین کاشت کی جا سکتی ہے۔ مَیں نے اس تجویز پر عمل کرنے کی مینجروں کو ہدایت کی تھی کہ پہلے سال ایکڑ کے دو حصے کر لو۔ پھر اگلے سال تک کم سے کم چار حصے کر لینا۔ کل مَیں نے پوچھا کہ اس تجویز پر کہاں تک عمل ہو چکا ہے؟ تو مجھے جواب دیا گیا کہ اس سال سو فیصدی اس پر عمل ہو چکا ہے۔ مَیں نے کہا جب اس پر سو فیصدی عمل ہو چکا ہےتو پھر کیا بات ہے کہ پانی نہیں بچا اور کاشت میں بھی اضافہ نہیں ہؤا اور پیداوار پہلے کی نسبت کم ہے؟ پہلے تم اسی پانی سے ایک ہزار ایکڑ کاشت کرتے تھے۔ پھر تم نے کہا کہ اگر تھوڑا سا رقبہ کم کر دیا جائے تو پیدوار بڑھ جائے گی اور تم نے ہزار کی بجائے نو سو ایکڑ زمین کاشت کی اور اب ہوتے ہوتے چھ سات سو ایکڑ رہ گئی ہے لیکن اس کے باوجود پیداوار نہیں بڑھی اس کا سبب کیا ہے؟ یا تو محکمہ زراعت والے جھوٹ کہتے ہیں یا پھر آپ لوگوں نے اس تجویز پر پورے طور پر عمل نہیں کیا۔ محکمہ زراعت والے جو دلیل دیتے ہیں وہ معقول ہے اور ہر انسان سمجھ سکتا ہے کہ اگر ایک ایکڑ کو ایک ہی طرف سے پانی دیا جائے تو پانی زیادہ خرچ ہو گا۔ بہ نسبت اس کے کہ اس کے چار حصے کر کے انہیں علیحدہ علیحدہ رستوں سے پانی دیا جائے۔ میری اس بات کے جواب میں سب نے کہا کہ ہم نے توایکڑ کے چار ٹکڑے کر دئیے ہیں لیکن پتہ نہیں کہ پانی کیوں نہیں بچا۔ آخر مَیں نے عزیزم داؤد سے پوچھا کہ تم بتاؤ کہ کیا وجہ ہے کیوں پانی نہیں بچتا اور کاشت کیوں زیادہ نہیں ہو رہی؟ تو وہ کہنے لگا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ ایک ایکڑ کے چار ٹکڑے کر دئیے گئے ہیں لیکن پانی ایک ہی منہ سے دیا جاتا ہے۔ میرا چاروں ٹکڑوں کے متعلق پوچھنے سے بھی مقصد یہی تھا کہ چاروں حصوں کو الگ الگ پانی دیا جاتا ہے یا ایک ہی طرف سے۔ لیکن وہ جواب میں یہ کہتے جاتے تھے کہ ہم نے چار ٹکڑے کر دئیے ہیں۔ یہ بات تو ٹھیک تھی کہ انہوں نے واقع میں چار ٹکڑے کر دئیے تھے لیکن پانی ان چاروں کو ایک ہی طرف سے ملتا تھا۔ ان کا یہ کہنا کہ ہم نے چار ٹکڑے کر دئیے ہیں مجھے دھوکا دینے کے لئے تھا کہ مَیں ان کے ان الفاظ سے دھوکا کھا جاؤں۔ جب ان کو علم تھا کہ ہم چار ٹکڑے کرنے کی غرض کو پورا نہیں کر رہے تو ان کو چاہئے تھا کہ وہ صاف کہہ دیتے کہ چار حصے تو کر دئیے ہیں لیکن ابھی پانی ایک ہی طرف سے جاتا ہے۔ بس بات ختم ہو جاتی۔ خواہ مخواہ میرے دو گھنٹے ضائع کرا دئیے۔ اس بات کو دیکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی احمدیوں میں بعض ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر وہ اس قسم کا فقرہ بولیں جس کے لفظ بظاہر کم ہوں مگر مفہوم غلط ہو تو وہ اس میں حرج نہیں سمجھتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سچائی کو دنیا میں قائم کریں گے۔ مجھے ان کی اس حرکت سے سخت تکلیف ہوئی ہے۔ مومن کا کام ہے کہ جو بات اس سے پوچھی جائے اسے صاف طور پر بیان کرے تا کہ پوچھنے والا کسی نتیجہ پر پہنچ سکے۔ لیکن آجکل حالت یہ ہے کہ عوام کے نزدیک اس قسم کا جھوٹ ،جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اور سچ بولنے کی وجہ سے جو شرمندگی اور ندامت اٹھانی پڑتی ہے اس کو برداشت کرنے کے لئے لوگ تیار ہی نہیں ہوتے۔ جھوٹ بول کر سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آگیا گو ہے تو وہ شرم کا مگر شریعت میں ایسی باتوں کو بیان کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایک دفعہ نماز میں میری ہوا خارج ہو گئی اور مَیں نماز چھوڑ کر وضو کرنے کے لئے چلا گیا۔ جب مَیں وضو کر کے آیا تو ایک شخص آگے بڑھ کر مجھے کہنے لگا۔ سُبْحَانَ اللہ آپ نے کمال جرأت دکھائی۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ مَیں بے وضو ہی نماز پڑھاتا رہتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود وضو کے ٹوٹ جانے پر بے وضو ہی پڑھ لیتا ہو گا تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے۔ پس آج لوگ ذرا سی شرمندگی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اور مَیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ جس وقت تک ہماری جماعت ہر رنگ میں اچھا نمونہ قائم نہیں کرتی اس وقت تک کوئی بڑی تبدیلی پیدا کرنا ایک مشکل امر ہے۔ اگر ہمارے کارکن سچائی کے پابند ہو جائیں تو ہمیں معاملات کی حقیقت سمجھنے میں وہ مشکلات پیش نہ آئیں جو اَب ہمیں پیش آتی ہیں۔ مَیں قریباً ڈیڑھ گھنٹہ ضائع کر کے اس نتیجہ پر پہنچا کہ انہوں نے ایک ایکڑ کے چار حصے تو کر دئیے ہیں مگر پانی ایک راستہ سے ہی دیتے ہیں اور جن لوگوں نے یہ میرا وقت ضائع کیا اور سچ نما جھوٹ بولنے کی کوشش کی وہ قریباً سارے واقف زندگی ہیں جو اَور بھی قابلِ افسوس امر ہے۔ جھوٹی عزت کی خاطر انہوں نے میرے سامنے جھوٹ بول دیا۔ چونکہ سچ کا قیام میرے نزدیک نہایت ہی ضروری چیز ہے اس لئے جب تک میرے ساتھ معاملہ ہے چاہے میرا کوئی بڑے سے بڑا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اگر اس کا بھی جھوٹ ثابت ہو جائے تو مَیں اس کے جھوٹ کو بھی نہیں چھپاؤں گا۔ اسے کھلے بندوں اس کی غلطی کی طرف متوجہ کروں گا تا اسے اپنی اصلاح کی فکر ہو۔ اگر مَیں ان کے جھوٹ کو ظاہر نہ کروں تو آئندہ ایسے آدمیوں کو جھوٹ پر زیادہ جرأت ہو جاتی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے جھوٹ کا کسی کو پتہ نہیں لگ سکتا۔ اور اگر ان کا جھوٹ ظاہر کر دیا جائے تو انہیں اپنی اصلاح کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔
سچائی تو انسانی اخلاق میں سے ایک بنیادی چیز ہے اور جو شخص اپنے مکان کی بنیاد ہی ٹیڑھی رکھے اس کی اوپر کی عمارت کیونکر سیدھی رہ سکتی ہے۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ ایک شخص کے والدین اسے بی۔ اے یا ایم۔ اے تک پڑھاتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کا لڑکا پڑھنے کے بعد تحصیلدار یا ای۔ اے۔ سی۔ یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس یا آئی۔سی۔ ایس بنے گا۔ لیکن وہ زندگی وقف کر کے ان کی تمام امیدوں کے گلے پر چُھری پھیر دیتا ہے اور دین کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اور اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ خواہ اسے افریقہ بھیجا جائے یا امریکہ بھیجا جائے یا جاوا، سماٹرا بھیجا جائے یا چین یا جاپان بھیجا جائے۔غرض جہاں بھی اسے بھیجا جائے وہ بغیر کسی عذر کے وہاں جائے گا۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اسے حکومتیں تکلیف دیں گی اور کس طرح اسے دوسروں لوگوں کے ہاتھوں تکلیف اٹھانی پڑے گی لیکن وہ ان سب باتوں کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود اگر اس کا قدم سچ پر نہ پڑے تو کتنے افسوس کی بات ہے۔ حالانکہ سچائی ایک ایسی چیز ہے جس کی امید ہم ایک عام آدمی سے بھی رکھتے ہیں اور سچائی ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ تمام جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں۔ لمبے لمبے مقدمات جو مدعی اور مدعا علیہ دونوں کے مال کو گُھن کی طرح کھاتے ہیں بہت جلد ختم ہو سکتے ہیں۔ لیکن حالت یہ ہے کہ مدعی بھی سچ میں جھوٹ ملانے کی کوشش کرتا ہے اور مدعا علیہ بھی سچائی کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے۔
سیالکوٹ کا ایک واقعہ ہے کہ دو فریقوں میں ایک جھگڑا چلا آتا تھا۔ ایک فریق نے دوسرے کو صلح کی دعوت دی اور ان کو اپنے ہاں بُلا کر ان میں سے ایک آدمی کو قتل کر دیا۔ ان قتل کرنے والوں میں سے کچھ احمدی تھے اور کچھ غیر احمدی۔ ہماری ہمدردی لازماً مقتول کے وارثوں کے ساتھ تھی اور ہم نے ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کر دیا لیکن مقتول کے وارثوں نے چند ایسے آدمیوں کے نام قاتلوں میں لکھوائے جو اس واقعہ کے دن گاؤں میں ہی نہ تھے یا جائے وقوعہ پر نہ تھے۔ محض عداوت اور دشمنی کی بناء پر ان کو اس قتل میں شریک بتایا گیا ۔ جب ہم نے دیکھا کہ وہ عداوت کی وجہ سے کچھ ایسے آدمیوں کے نام قاتلوں کی فہرست میں شامل کر رہے ہیں جو بالکل بے گناہ ہیں اور جو اس واقعہ کے دن یہاں موجود ہی نہ تھے اور صریح غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں تو ہماری ہمدردی ان کےساتھ بھی نہ رہی ۔کیونکہ اگر ایک انسان کو قتل کرنا ظلم ہے تو اسی طرح ایک ایسے شخص کو جس کا اس قتل میں دخل نہیں۔ اس پر الزام لگانا بھی تو ویسا ہی ظلم ہے۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ لوگوں کو کیا ہوتا جا رہا ہے جب کسی شخص سے اس کے دوست کے متعلق کوئی شہادت پوچھو تو وہ شروع کرتے ہی کہنا شروع کرے گا کہ اصل یوں ہے اور پھر اِدھر اُدھر کی رطب و یابس باتیں جن کا اصل بات سے کوئی تعلق نہیں بیان کرتا چلا جائے گاتاکہ قاضی کا دماغ پراگندہ ہو جائے اور وہ اصل بات تک نہ پہنچ سکے۔ جب پوچھا جائے کہ فلاں شخص فلاں جگہ گیا تھا؟ تو بجائےاس کےکہ جواب میں یہ کہا جائے کہ ہاں گیا تھا یا نہیں گیا تھا۔ وہ اپنے دوست کو بچانے کے لئے لمبی کہانی شروع کر دے گا کہ اصل بات یوں ہے اور پانچ سات منٹ تک ایک بے معنی کہانی سناتا چلا جائے گا تاکہ پانچ سات منٹ میں سننے والے کا دماغ پراگندہ ہو جائے او راسے اصل بات بھول جائے۔ حالانکہ مومن کا یہ شیوہ ہوتا ہے کہ جب اس سے کوئی بات پوچھی جائے تو وہ سیدھا سادہ جواب دیتا ہے اور حق پوشی اور دروغ گوئی کے قریب بھی نہیں جاتا۔
مَیں ہر سال جب یہاں آتا ہوں تو یہاں کے لوگوں کو اپنے سوالات پیش کرنے کا موقع دیتا ہوں لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ محض جھوٹی باتیں پیش کرتے ہیں۔ اسی سال محمد آباد کے ایک شخص نے میرے سامنے یہ بات پیش کی کہ مینیجر صاحب نے کپاس کے موقع پر سب فصل کپاس قرض میں لے لی اور پھر گندم کے موقع پر گندم بھی قرض میں وصول کر لی۔ایسا انتظام کیا جائے کہ گندم تو ہمارےکھانے کے لئے رہنےد ی جائے۔ مَیں نے اسے کہا یہ بات تو بِالبداہت باطل ہے۔ اگر تمہارا قرضہ ختم ہو چکا ہے ۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ مینیجر صاحب تم سے قرضہ کا مطالبہ کریں۔ یہ بات پیش کرنے والا ایک پنجابی احمدی مزارع تھا۔ مَیں نے اسے کہا کہ آخر آپ اتنا قرض کیوں لیتے ہیں جو واپس نہ ہو سکے؟ یہ سلسلہ کا مال ہے اور اس کے نمائندوں کا فرض ہے کہ قرض وصول کریں۔ اگر آپ اپنی پیداوار سے زیادہ قرض لیں گے تو لازماً پیداوار بھی جائے گی اور قرض بھی سر پر کھڑا رہے گا۔ آپ یہ بتائیں کہ کیا جب کپاس مینیجر نے وصول کی تو آپ کے ذمہ کوئی قرض نہ تھا۔ اگر تھا تو یہ لازمی بات ہے کہ اس قرض کو مینیجر گندم کے موقع پر وصول کرنے کی کوشش کرے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ آپ کے کھانے کے برابر گندم آپ کے پاس چھوڑ دینی چاہئے تھی۔بتلائیے آپ کی گندم کتنی ہوئی تھی؟ کتنے آپ کے افراد ہیں او رکتنی مینیجر نے وصول کی؟ انہوں نے بتایا کہ 81 من گندم تھی ۔تین افراد گھر کے ہیں۔ 32 من مینیجر نے وصول کی اور 49 من چھوڑ دی۔ مَیں نے کہا آپ کے گھر کا خرچ زیادہ سے زیادہ تیس من ہو گا او رچھوڑی 49 من ہے۔ پھر آپ کو کیا گِلہ ہے؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ اور افسر نے رجسٹر پیش کر کے کہا کہ ہماری بات بھی سن لی جائے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کپاس پر ہم نے ان کی سب کپاس قرض میں وصول کر لی او ران کے پاس کچھ نہ رہا۔ یہ رجسٹر ہے اس میں دیکھ لیں کہ ان کی کپاس کی قیمت 280 روپیہ ہوتی ہے۔ یہ رقم سابق قرض میں ہم نے ان سے وصولی کر لی لیکن وصولی کے تیسرے چوتھے دن یہ آکر پھر تین سو روپیہ قرض لے گئے ۔ گویا عملاً انہوں نے کپاس پر قرض واپس نہیں کیا بلکہ بیس روپے اَور قرض لے گئے۔ مَیں نے شکایت کنندہ سے پوچھا کیا یہ ٹھیک ہے؟ انہوں نے کہا ہاں یہ ٹھیک ہے۔ اس کے بعد افسر نے کہا باقی رہی گندم سو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے 32 من گندم ان سے لے لی گو جیسا کہ آپ نے خود کہا ہے کہ پھر بھی ان کے پاس کافی گندم موجود تھی مگر اس کے علاوہ یہ حقیقت ہے کہ چند دن بعد ہی یہ بیس من گندم پھر قرض لے گئے کہ میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں اور چھ سات سو روپیہ جو انہوں نے قرض لیا تھا اس کے مقابل پر ان کی دونوں فصلوں میں سے صرف 12 من گندم وصول ہوئی یعنی کوئی سو روپیہ۔ اس کی بھی شکایت کنندہ نے کھسیانے ہو کر تصدیق کی۔ اس پر مَیں نے ان سے کہا کہ آپ کا مطلب یہ ہؤا کہ آپ سلسلہ سے قرض لیتے جائیں اور وصولی آپ سے بالکل نہ کی جائے۔ مگر باوجود اس کے شکایت آپ کو یہ ہے کہ کپاس بھی لے لی اور گندم بھی لے لی۔ حالانکہ واقع یہ ہے کہ کپاس کے موقع پر آپ نے کپاس کی قیمت سے زیادہ روپیہ لیا اور گندم کے موقع پر صرف ساتواں حصہ گندم کا قرض میں دیا۔ اب دیکھو! یہ احمدی میرے پاس مینیجر صاحب کے ظلم و تعدی کی ایک کہانی بنا کر لایا۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس نکلی۔ کسی انسان کے ساتھ ہمدردی تو اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب سننے والے کو یقین ہو کہ وہ شخص سچ بولنے والا ہے اور واقع میں اس وقت کسی مصیبت میں مبتلا ہے۔ لیکن جب ایک آدمی کی ہر بات میں جھوٹ پایا جائے تو کسی کے دل میں اس کے لئے ہمدردی پیدا نہیں ہو سکتی۔ جب بھی وہ کوئی بات بیان کرے گا، سننے والا کہے گا۔ لگا ہے مجھے دھوکا دینے۔ ایسے حالات پیدا کر کے وہ شخص خود اپنے آپ کو اس قابل بنا لیتا ہے کہ اس سے ہمدردی نہ کی جائے۔
ہمارے ملک میں ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک لڑکا جنگل میں جانور چرانے جایا کرتا تھا۔ ایک دن اسے یہ شرارت سوجھی کہ گاؤں کے لوگوں سے مذاق کرنا چاہئے۔ ایک ٹیلے پر چڑھ کر اس نے شور مچانا شروع کیا شیر آیا شیر آیا دوڑیو۔ گاؤں کے لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کر اور لٹھ لے کر دوڑے دوڑے وہاں پہنچے مگر وہاں جا کر دیکھا کہ لڑکا کھڑا ہنس رہا ہے اور شیر وغیرہ کا نام و نشان نہیں۔ جب انہوں نے اس سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟ تو وہ کہنے لگا مَیں تو تمہارے ساتھ مذاق کر رہا تھا۔ لوگ غصے اور ناراضگی کا اظہار کر کے واپس آ گئے۔ لیکن چند دنوں کے بعدسچ مچ وہاں شیر آ نکلا۔ لڑکے نے شور مچانا شروع کیا شیر آیا شیر آیا دوڑیو لیکن اب گاؤں کے لوگوں کی حالت بالکل اَور تھی۔ اب کنویں پہ بیٹھا ہؤا شخص حُقّہ پیتا جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا ایک دفعہ تو تم نے ہم کو بیوقوف بنا لیا کیا اب بھی ہم بیوقوف بن سکتے ہیں؟ ایک دانے پیسنے والا شخص دانے پیستا جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ کہتا جا رہا تھا کہ ایک دفعہ تو تم نے ہمیں دھوکا دے لیا کیا اب بھی ہم تمہارے دھوکے میں آ سکتے ہیں؟ جب رات ہوئی تو وہ لڑکا گھر نہ پہنچا۔ گھر والوں نے تلاش شروع کی۔ آخر ایک جگہ سے اس کی ہڈیاں پڑی ہوئی ملیں۔ معلوم ہؤا کہ اس دفعہ واقع میں شیر آیا تھا اور بوجہ امداد نہ پہنچنے کے لڑکا اس کے حملہ سے بچ نہیں سکا تھا۔ پس جب جھوٹ کا ماحول پیدا ہو جائے تو انسان دھوکا کھا جاتا ہے کہ کہیں یہ شخص مجھے فریب نہ دے رہا ہو۔ انسان کی عادت ہے کہ جب اس کے سامنے ایک کثیر تعداد جھوٹ بولنے والوں کی آئے تو باقی جو سچ بولنے والے ہوں ان کے متعلق بھی اسے شبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ کہیں یہ بھی جھوٹ نہ بول رہے ہوں۔ فرض کرو میرے پاس دس آدمی آتے ہیں ان میں سے پہلے نو آدمی جھوٹ بولتے ہیں اور دسواں آدمی سچ بولتا ہے لیکن ان پہلے نو آدمیوں کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے میری طبیعت پر یہ اثر ہو گا کہ یہ دسواں بھی جھوٹ بول رہا ہے۔ اور اگر اس دسویں آدمی کو واقع میں کوئی تکلیف ہے بھی، تو بھی مَیں اس کی امداد کرنے کو تیار نہیں ہوں گا کیونکہ مَیں یہ سمجھوں گا کہ جہاں پہلے نو آدمی مجھے بیوقوف بنانے آئے تھے یہ دسواں بھی مجھے بیوقوف بنانے آیا ہے۔
پس یاد رکھو جھوٹ قوموں کے لئے ایک کیڑا ہے جو ان کے برگ و بار کو کھا جاتا ہے اور انہیں بڑھنے نہیں دیتا۔ یہاں سب آدمیوں کے سامنے مَیں نے ان باتوں کا ذکر اس لئے کیا ہے تا تمہیں اپنی اصلاح کی فکر ہو ۔کیونکہ میرے ذکر کرنے کی وجہ سے تم شرمندگی محسوس کرو گے اور آئندہ کوشش کرو گے کہ تمہیں دوبارہ شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ اور اگر اس دفعہ مَیں تمہاری چالاکی کو نظر اندازکر دیتا تو آئندہ تمہیں جرأت پیدا ہوتی اور تم اپنی اصلاح کی طرف متوجہ نہ ہوتے۔ یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان کو کسی معاملہ میں شرمندہ ہونا پڑے تو نفس میں مقابلہ کی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ آئندہ کے لئے اس فعل سے اجتناب کرتا ہے۔ پس مَیں افسروں کو اور ماتحتوں کو اور مزارعین کو سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سچائی کو اپنا شیوہ بنائیں اور لوگوں کے سامنے اپنا اچھا نمونہ پیش کریں جو احمدیت کی تبلیغ میں ممد ہو۔ اور ایسا نمونہ نہ پیش کریں جو احمدیت کی تبلیغ میں روک بنے۔ سچائی سے اگر شکست بھی ہو تو وہ ہزار فتح سے بہتر ہے اور وہ فتح جو جھوٹ سے حاصل ہو وہ ہزار شکست کے برابر ہے۔ آجکل یہ بات لوگوں کے منہ پر عام ہے کہ اس زمانہ میں جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں۔ یہ بات ان کی بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے سچائی کے رستہ کو تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اور جھوٹ کا رستہ چونکہ آسان ہے اس لئے اس کی طرف مائل ہو گئے۔ اگر ہر ایک شخص عہد کرے کہ مَیں جھوٹ نہیں بولوں گا اور جھوٹ سے حرام کمائی نہیں کروں گا اور جھوٹ کے تمام رستے اپنے اوپر بند رکھوں گا تو وہ ضرور سچائی کے رستہ کی طرف قدم اٹھائے گا اور سچائی کے رستہ کی تلاش کرے گا۔ اور یہ قدرتی بات ہے کہ جب انسان کسی چیز کی جستجو کرتا ہے تووہ چیز اسے مل جاتی ہے۔ یہ کہنا کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں اس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو جھوٹ بولنے پر مجبور کیا ہے اور سچ کا رستہ انسان کے لئے بند کر دیا ہے۔ یہ خیال ان کا کم فہمی کی وجہ سے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ تو رَبُّ الْعَالَمِیْن اور اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن ہے۔ اس نے انسانوں کے لئے سچ کا رستہ کھلا رکھا ہے لیکن جو شخص جھوٹ کے رستے کو پسند کرتا ہے اس پر سچ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ پس یہ بات بالکل غلط ہے کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں۔ جو شخص سچائی سے اپنی روزی کمانے کا اللہ تعالیٰ سے عہد کرے یہ ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ اسے بھوکا رکھے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق قدم اٹھاتا ہے۔ مشکلات تو ہر رستہ میں انسان کو پیش آتی رہتی ہیں ۔ ہمارے سامنے اس کی مثال موجود ہے کہ انسان سچائی سے ہی کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ پہلے مسلمان سچائی کا پابند ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں غالب آئے تھے او رہر حکومت ان کی ناراضگی سے ڈرتی تھی لیکن آج مسلمان دنیا بھر میں غلام ہیں۔ ہندو ، سکھ، عیسائی، پارسی سب کے بوٹ ان کے سر پر ہیں۔ یہاں سندھ میں اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن حکومت ہندوؤں کی ہے۔ صوبہ سرحد میں اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن غلبہ ہندوؤں کا ہے۔پنجاب میں اکثریت مسلمانوں کی ہے مگر حکومت ہندوؤں کی ہے۔ آج مسلمان جھوٹے اور ڈرپوک ہیں۔ پہلے مسلمانوں میں بہادری تھی۔ وہ سچ اور راستبازی اور دیانتداری کے لئے اپنی جان دے دیتے تھے لیکن ان چیزوں کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ جب کوئی مسلمان کہتا تھا کہ مَیں مر جاؤں گا تو لوگوں کو یقین ہو جاتا تھا کہ یہ واقع میں مر جائے گا۔ اس لئے لوگ اس کے رستہ سے ہٹ جاتے تھے اور اس کا رستہ چھوڑ دیتے تھے۔ آج ہزاروں بلکہ لاکھوں مسلمان کہتے ہیں کہ ہم مر جائیں گے لیکن ان کی یہ آواز کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ پس سچ سے ہی کامیابی ہے اور سچ سے ہی انسان کا رُعب قائم رہتا ہے۔ اگر ہمارے افسروں اور ماتحتوں میں ہمارے مزارعوں اور کاشت کاروں میں سچائی کی وہ روح نہیں جو ہم قائم کرنا چاہتے ہیں تو مَیں انہیں بتا دیتا ہوں کہ ان کو ابھی حقیقی ایمان نصیب نہیں۔ انسان دنیا کو دھوکا دے سکتا ہے مگر خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ پس مَیں آج کے خطبہ میں تمام کارکنوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں اس قسم کی کمزوریاں نہیں ہونی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کو ان سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
اس کے بعد مَیں بچوں کی تعلیم کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ہمارے یہاں تعلیمی حالت اچھی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بعض اسٹیٹوں کے لئے استاد ہی نہیں ملتے تھے اس لئے بچوں کی تعلیم کا وہاں انتظام نہیں ہو سکا۔ لیکن اب ہم انتظام کر رہے ہیں ۔اور جس جگہ استاد موجود ہیں وہاں دوستوں کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے بچے پڑھنے کے لئے جاتے ہیں یا نہیں؟ مجھے افسوس ہے کہ زمیندار لوگ بچوں کی پڑھائی کا پورے طورپر خیال نہیں رکھتے۔ بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنا ان پر بہت بڑا ظلم ہے بلکہ اپنے ہاتھ سے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک لڑکا بی۔ اے یا ایم۔ اے تک ہی تعلیم حاصل کرے بلکہ اپنی مادری زبان پڑھ لکھ لینا بھی بعض حالات میں بہت مفید ہوتا ہے۔ جو بچہ اپنی مادری زبان اچھی طرح پڑھ لکھ سکتا ہے وہ اپنی زندگی اچھے رنگ میں گزار سکتا ہے۔ انگریزوں میں ایم۔اے، بی۔ اے کے لئے لوگ اس کثرت سے کوشش نہیں کرتے۔ ایم۔ اے اور بی۔ اے کی ڈگری کی اہمیت تو ہمارے لئے ہے۔ جو غیر ممالک والے ہیں۔ انگلستان والوں کی تو انگریزی مادری زبان ہے۔ اس لئے ان کے ہاں بی۔ اے، ایم۔ اے وغیرہ کو یہ اہمیت حاصل نہیں۔ ان میں سے بہت ابتدائی پڑھنا لکھنا سیکھتے ہیں اور پھر خود بخود ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔ پس سب سے ضروری بات یہ ہے کہ انسان اپنی مادری زبان پڑھ لکھ سکے۔ اس سے آگے ترقی کرنا اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے۔ اب ہم اِنْشَاءَ اللہ جلدی ہی مدرّسین کا انتظام کر دیں گے اور جس جگہ مدرسین نہیں ہیں وہاں کے لئے قادیان جا کرمدرّسین بھجوا دیں گے۔ میرا ارادہ تو یہ تھا کہ یہاں ایک ہائی سکول قائم کیا جائے تاکہ ہمارے بچوں کی پڑھائیاں خراب نہ ہوں اور وہ لوگ جو اپنے بچوں کو میٹرک تک پڑھانا چاہتے ہوں ان کے لئے آسانی پیدا ہو جائے۔ لیکن افسوس کہ ابھی تک پرائمری تعلیم کا بھی احساس نہیں۔ زمینداروں سے جب بچوں کے پڑھانے کے لئے کہا جائے تو وہ کہتے ہیں اگر ہمارے بچے پڑھنے بیٹھ جائیں تو ہمارے جانور کون چرائے اور ہمارے ہل کون چلائے۔ ایسے لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ ایک ادنیٰ چیز کی خاطر اپنے بچوں کو اعلیٰ چیز سے محروم کر رہے ہیں۔ ان کے بچوں کی پیدائش سے پہلے بھی تو ان کے جانور چرنے کے لئے باہر جاتے تھے اور ان کے بچوں کے ہل چلانے سے پہلے بھی تو وہ ہل چلاتے تھے۔ اگر خدا تعالیٰ انہیں یہ بچے نہ دیتا تو پھر بھی وہ خود اپنے کام کرتے۔ اب اگر خدا نے انہیں یہ بچے دے دئیے ہیں تو انہیں چاہئے کہ چند سال قربانی کریں اور انہیں تعلیم کے لئےفارغ کر دیں۔ مَیں نے بار بار تعلیم کی طرف توجہ دلائی ہے لیکن پھر بھی لوگ اس میں سستی سے کام لیتے ہیں۔ مَیں تم سے یہ تو نہیں کہتا کہ تم دوسرے کے بچے پر رحم کرو۔ مَیں تم سے یہ بھی نہیں کہتا کہ تم ہمسائے کے بچے کو نہ مارو بلکہ مَیں تو تمہیں یہ کہتا ہوں کہ تم اپنے بچے کی جان پر ظلم نہ کرو ا ورا س کی تعلیم کی فکر کرو۔ کیااس میں بھی کسی عقلمند کو کوئی کلام ہو سکتا ہے؟ پس مَیں زمینداروں سے کہتا ہوں کہ جہاں تم نے اتنے سال یہ محنت و مشقت برداشت کی ہے وہاں دو چار سال اَور برداشت کر لو۔ خود ہل چلاؤ اور خود جانوروں کے چارے کا انتظام کرو اور بچوں کو تعلیم کے لئے فارغ رہنے دو۔ دو چار سال کے بعد چاہو تو انہیں اپنے کام میں ہی اپنے ساتھ لگا لینا اور چاہے انہیں کسی جگہ ملازم کرا دینا۔ یہ دو چار سال کی تکلیف ہے اسے برداشت کرو اور بچوں کے مستقبل کو اپنے ادنیٰ کاموں کی خاطر تاریک نہ کرو۔’’
(الفضل 13 اپریل 1946ء )


11
تعلیم الاسلام کالج کے لئے دو لاکھ روپے کی اپیل
(فرمودہ 5 ؍اپریل 1946ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘ مَیں نے گزشتہ ایام میں تعلیم الاسلام کالج کے متعلق جماعت سے چندہ کی اپیل کی تھی۔ تعلیم الاسلام کالج کی ایف۔ اے کلاسز کو کھلے ہوئے دو سال ہو گئے ہیں اور ا س سال ہمارے لڑکے ایف۔ اے اور ایف۔ ایس۔ سی کے امتحانات دیں گے۔ اس کے بعد ان میں سے جو کامیاب ہوں گے ان کو بی۔ اے اور بی۔ ایس۔ سی پاس کرنی ہو گی کیونکہ اس کے بغیر ان کی تعلیم مکمل نہیں سمجھی جا سکتی۔ بی۔ اے اور بی۔ ایس۔ سی کی کلاسز کے متعلق ایک لمبے عرصہ تک میرے اوربعض کارکنان کے درمیان اختلاف رہا۔ وہ بی۔ ایس۔ سی کی جماعتیں کھولنے کے مخالف تھے۔ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ اس وقت نہ تو عملہ دستیاب ہو سکتا ہے اور نہ ہی سامان۔ لیکن مجھے اصرار تھا کہ اگر ہم نے ان جماعتوں کو نہ کھولا تو ہمارے ایف۔ ایس۔ سی کے پاس شدہ طالب علم یا تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے اور یا پھر قادیان چھوڑ کر ان کو باہر جانا پڑے گا جہاں غالباً بہت سے لڑکے کالج میں داخل نہیں ہو سکیں گے کیونکہ بی۔ ایس۔ سی جماعتوں میں کم گنجائش ہوتی ہے او رپھر ایک کالج کے طلباء کو دوسرے کالج والے داخل نہیں کرتے۔ اس طرح ہم ان کو ر استہ میں ہی چھوڑ دیں گے اور یہ مناسب نہیں ۔ جب تک تو مَیں یہ اصرار کرتا رہا کہ اس کلاس کو جاری کرنا چاہئے اس وقت تک کالج کمیٹی کے ممبر اس بات پر مُصِر رہے کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ مَیں نے دیکھا ہے جب کسی کی بات مان لی جائے تو پھر اس کے دل میں اُلٹ احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ شاید یوں ہونا چاہئے۔ چنانچہ لمبے عرصہ کے اختلاف کے بعد جب مَیں نے یہ کہا کہ اس سال بی۔ ایس۔ سی کی کلاسز جاری نہ کی جائیں تو تیسرے دن ہی ممبروں کی چِٹھیاں آنی شروع ہو گئیں کہ اسے ضرور جاری کرنا چاہئے۔ اس طریقِ کار کی وجہ سے ہمارا کام کئی مہینے پیچھے جا پڑا لیکن بہرحال جب وہ لوگ بھی اسی رائے کے ہو گئے تو مَیں نے اپنا پہلا فیصلہ واپس لے لیا کیونکہ مَیں خود اس بات پر مُصر تھا کہ یہ جماعتیں کھولی جائیں۔ اس کے لئے اخراجات کا جو اندازہ لگایا گیا ہے وہ دو لاکھ پانچ ہزارروپے کا ہے۔ مَیں نے فِی الْحال دو لاکھ روپے کی اپیل جماعت کے سامنے کی ہے۔ فی الحال اس لئے کہا ہے کہ ہمارا مقصد یہ نہیں کہ بی۔ اے اور بی۔ ایس۔ سی کلاسز پر اپنا کام ختم کر دیں۔ ابھی ہم نے دو کام اَور کرنے ہیں۔ ایک ایم۔ اے اور ایم۔ ایس۔ سی کلاسز جاری کرنی ہیں اور دوسرے ڈاکٹری کی ایف۔ ایس۔ سی کی کلاسز جاری کرنی ہیں۔ ان تینوں کلاسز کو کھولنے کے لئے غالباًتین چار لاکھ روپے کی اَور ضرورت ہو گی اور پانچ سات لاکھ روپے کی ریزرو فنڈ کے طور پر ضرورت ہو گی تا عام اخراجات اس کی آمد سے چل سکیں۔ پس مَیں نے جو فِی الْحال کہا ہے اس سے کسی کے دل میں یہ شبہ پیدا نہ ہو کہ اس دو لاکھ کی رقم سے تمام کام ہو جائے گا۔ یہ دو لاکھ اس سال کے لئے چاہئے اگلے سال یا دو سال بعد ایک یا دو قسطوں میں ہی مزید روپیہ کی ضرورت ہو گی۔ درحقیقت ایک اچھے کالج کے لئے پچیس لاکھ روپے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم ڈیڑھ لاکھ روپیہ پہلے چندہ سے لے چکے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ روپیہ اَور بھی اس پر خرچ کیا جا چکا ہے اور دو لاکھ کی اب ضرورت ہے۔ یہ پانچ لاکھ ہو گیا۔ تین لاکھ کی پھر ضرورت ہو گی تو یہ آٹھ لاکھ روپیہ ہو جائے گا۔ اس کے بعد ہمیں پندرہ سولہ لاکھ روپے کی ریزرو فنڈ کی ضرورت ہو گی جس سے لاکھ سَوا لاکھ روپیہ سالانہ آمدنی ہوتی رہے اور کالج مضبوطی کے ساتھ قائم رہ سکے ۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ ہمارے لئے ہائی کلاسز کو جاری کرنا بھی مشکل تھا۔
یہاں آریوں کا مڈل سکول ہؤا کرتا تھا۔ شروع شروع میں اس میں ہمارے لڑکے جانے شروع ہوئے تو آریہ ماسٹروں نے ان کے سامنے لیکچر دینے شروع کئے کہ تم کو گوشت نہیں کھانا چاہئے، گوشت کھانا ظلم ہے۔ وہ اس قسم کے اعتراضات کرتے جو کہ اسلام پر حملہ تھے۔ لڑکے سکول سے آتے اور یہ اعتراضات بتلاتے۔ یہاں ایک پرائمری سکول تھا اس میں بھی اکثر آریہ مدرس آیا کرتے اور یہی باتیں سکھلایا کرتے تھے۔ پہلے دن جب مَیں اس سرکاری پرائمری سکول میں پڑھنے گیا اور دوپہر کو میرا کھانا آیا تو مَیں سکول سے باہر نکل کر ایک درخت کے نیچے جو پاس ہی تھا کھانا کھانے کے لئے جا بیٹھا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ اس روز کلیجی پکی تھی اور وہی میرے کھانے میں بھجوائی گئی۔ اس وقت میاں عمر الدین صاحب مرحوم جو میاں عبد اللہ صاحب حجام کے والد تھے وہ بھی اسی سکول میں پڑھا کرتے تھے لیکن وہ بڑی جماعت میں تھے اور مَیں پہلی جماعت میں تھا۔ مَیں کھانا کھانے بیٹھا تو وہ بھی آ پہنچے اور دیکھ کرکہنے لگے ‘‘ہیں ماس کھاندے او ماس’’ حالانکہ وہ مسلمان تھے۔ اس کی یہی وجہ تھی کہ آریہ ماسٹر سکھلاتے تھے کہ گوشت خوری ظلم ہے اور بہت بری چیز ہے۔ ماس کا لفظ مَیں نے پہلی دفعہ ان سے سنا تھا اس لئے مَیں سمجھ نہ سکا کہ ماس سے مراد گوشت ہے چنانچہ مَیں نے کہا یہ ماس تو نہیں کلیجی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ماس گوشت کو ہی کہتے ہیں۔ پس مَیں نے ماس کا لفظ پہلی دفعہ ان کی زبان سے سنا اور ایسی شکل میں سنا کہ گویا ماس خوری بری ہوتی ہے اور اس سے بچنا چاہئے۔ غرض آریہ مدرّس اس قسم کے اعتراضات کرتے رہتے اور لڑکے گھروں میں آ آکر بتاتے کہ وہ یہ اعتراض کرتے ہیں ۔ آخر یہ معاملہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا جس طرح بھی ہو سکے جماعت کو قربانی کر کے ایک پرائمری سکول قائم کر دینا چاہئے۔ چنانچہ پرائمری سکول کھل گیا اور یہ سمجھا گیا کہ ہماری جماعت نے انتہائی مقصد حاصل کر لیا ہے۔ اس عرصہ میں ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب مرحوم و مغفور ہجرت کر کے قادیان آ گئے۔ انہیں سکولوں کا بڑا شوق تھا چنانچہ انہوں نے مالیر کوٹلہ میں بھی ایک مڈل سکول قائم کیا ہؤا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مَیں چاہتا ہوں اس کو مڈل کر دیا جائے۔ مَیں وہاں سکول کو بند کر دوں گا اور وہ امداد یہاں دے دیا کروں گا۔ چنانچہ قادیان میں مڈل سکول ہو گیا۔ پھر بعد میں کچھ نواب محمد علی خان صاحب اور کچھ حضرت خلیفة المسیح الاول کے شوق کی وجہ سے فیصلہ کیا گیا کہ یہاں ہائی سکول کھولا جائے۔ چنانچہ پھر یہاں ہائی سکول کھول دیا گیا۔ لیکن یہ ہائی سکول پہلے نام کا تھا کیونکہ اکثر پڑھانےو الےا نٹرنس(Intrance) پاس تھے اور بعض شاید انٹرنس فیل بھی۔ مگر بہرحال ہائی سکول کا نام ہو گیا۔ زیادہ خرچ کرنے کی جماعت میں طاقت نہ تھی اور نہ ہی یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا مگر آخروہ وقت بھی آ گیا کہ گورنمنٹ نے اس بات پر خاص زور دینا شروع کیا کہ سکول اور بورڈنگ بنائے جائیں۔ نیز یہ کہ سکول اور بورڈنگ بنانے والوں کو امداد دی جائے گی۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اول کے عہد خلافت میں یہ سکول بھی بنا اور بورڈنگ بھی۔ پھر آہستہ آہستہ عملہ میں اصلاح شروع ہوئی او رطلباء بڑھنے لگے۔ پہلے ڈیڑھ سو تھے پھر تین چار سو ہوئے پھر سات آٹھ سو ہو گئے اور مدتوں تک یہ تعداد رہی۔ اب تین چار سالوں میں آٹھ سو سے یکدم ترقی کر کے سکول کے لڑکوں کی تعداد سترہ سو ہو گئی ہے اور مَیں نے سنا ہے کہ ہزار سے اوپر لڑکیاں ہو گئی ہیں۔ گویا لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد ملا کر قریباً تین ہزار بن جاتی ہے۔ پھر مدرسہ احمدیہ بھی قائم ہوا اور کالج بھی۔ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے مدرسہ احمدیہ میں بھی میری گزشتہ تحریک کے ماتحت طلباء بڑھنے شروع ہو گئے ہیں اور پچیس تیس طلباء ہر سال آنے شروع ہو گئے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ بڑھتا رہا تو مدرسہ احمدیہ اور کالج کے طلباء کی تعداد بھی چھ سات سَو تک یا اس سے زیادہ تک پہنچ جائے گی اور اس طرح ہمیں سو مبلغ ہر سال مل جائے گا۔ جب تک ہم اتنے مبلغین ہر سال حاصل نہ کریں ہم دنیا میں صحیح طور پر کام نہیں کر سکتے۔
1944ء میں مَیں نے کالج کی بنیاد رکھی تھی کیونکہ اب وقت آ گیا تھا کہ ہماری آئندہ نسل کی اعلیٰ تعلیم ہمارے ہاتھ میں ہو۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ ہماری جماعت میں بہت چھوٹے عہدوں اور بہت چھوٹی آمدنیوں والے لوگ شامل تھے۔ بے شک کچھ لوگ کالجوں میں سے احمدی ہو کر جماعت میں شامل ہوئے لیکن وہ حادثہ کے طور پر سمجھے جاتے تھے ورنہ اعلیٰ مرتبوں والے اور اعلیٰ آمدنیوں والے لوگ ہماری جماعت میں نہیں تھے سوائے چند محدود لوگوں کے۔ ایک تاجر سیٹھ عبدالرحمان حاجی اللہ رکھا صاحب مدراسی تھے لیکن ان کی تجارت ٹوٹ گئی تھی۔ ان کے بعد شیخ رحمت اللہ صاحب ہوئے۔ ان کے سوا کوئی بھی بڑا تاجر ہماری جماعت میں نہیں تھا اور نہ کوئی بڑا عہدیدار ہماری جماعت میں شامل تھا۔ یہاں تک کہ حضرت خلیفہ اول ایک دفعہ مجھے فرمانے لگے دیکھو میاں! قرآن کریم اور احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ انبیاء پر ابتدا میں بڑے لوگ ایمان نہیں لائے۔ چنانچہ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی صداقت کا ایک ثبوت ہے کہ ہماری جماعت میں کوئی بڑا آدمی شامل نہیں۔ چنانچہ کوئی ای۔ اے۔ سی ہماری جماعت میں داخل نہیں۔ گویا اس وقت کے لحاظ سے ای۔ اے۔ سی بہت بڑا آدمی ہوتا تھا مگر اب دیکھو کئی ای۔ اے۔ سی یہاں گلیوں میں پھرتے ہیں اور ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ لیکن ایک زمانہ میں اعلیٰ طبقہ کے لوگوں کا ہماری جماعت میں اس قدر فقدان تھا کہ حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ ہماری جماعت میں کوئی بڑا آدمی داخل نہیں چنانچہ کوئی ای اے سی ہماری جماعت میں داخل نہیں۔ گویا اس وقت کے لحاظ سے ہماری جماعت ای۔اے۔ سی کی بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی لیکن اب تو کئی آئی۔ سی۔ ایس بھی ہماری جماعت میں شامل ہیں۔ اسی طرح چودھری ظفر اللہ خان صاحب فیڈرل کورٹ کے جج ہیں۔ نواب اکبر یار جنگ بہادر نظام دکن کے ہائی کورٹ کے جج تھے۔ پھر بڑے بڑے تاجر بھی اب خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہیں۔ ان میں سے ایسے بھی ہیں جو اپنے اخلاص کا ثبوت دیتے رہتے ہیں اور ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اخلاص دکھلائیں تو بہت بڑی رقمیں دے سکتے ہیں۔ باقی رہا اعلیٰ عہدے دار سو اس جنگ کے دوران میں فوج میں ہمارے کنگز کمیشن والے افسر جو پانچ سو سے دو ہزار بلکہ زیادہ تنخواہ لیتے تھے دو سو سے زیادہ تھے۔ پہلے ہماری جماعت میں صوبیدار بھی بہت کم نظر آتے تھے لیکن اس وقت کئی کرنیل ہماری جماعت میں ہیں۔ کئی میجر ہماری جماعت میں ہیں اور کیپٹن اور لیفٹیننٹ تو درجنوں ہیں اور پھر ہر محکمہ میں ہیں۔ ہوائی جہازوں کے محکمہ میں بھی ہیں، جہازوں کے محکمہ میں بھی ہیں، برّی فوج میں بھی ہیں۔ مثلاً انفنٹری میں، آرٹلری میں، آرڈیننس میں اور سپلائی میں۔ چنانچہ ہمارے فوجی دوست بتلاتے ہیں کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جہاں بھی ہماری تبدیلی ہوتی ہے کوئی نہ کوئی احمدی وہاں موجود ہوتا ہے اور شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا احمدی ساتھی نہ ملے کیونکہ سارے ہندوستانی افسر دس ہزار کے قریب ہیں اور ان میں سے دو سو سے اوپر احمدی ہیں۔ مسلمان افسروں میں سے تقریباً چھ سات فیصدی احمدی ہیں۔ گویا وہ اتنی کثیر تعداد میں ہیں اور اتنا زبردست ان کا حصہ ہے کہ وہ ہر جگہ اپنے آپ کو احمدیوں ہی میں گِھرے ہوئے پاتے ہیں۔ عراق، ایران، فلسطین، اٹلی، یونان، برما، ملایا، جاوا، جاپان۔ غرض کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں ہمارے فوجی کنگز کمیشن آفیسر موجود نہیں۔ کسی جگہ کرنیل ہیں، کسی جگہ میجر اور کسی جگہ کیپٹن اور لیفٹیننٹ اور قدرتی طور پر ان لوگوں کےد لوں میں جن کو یہ عہدے ملے ہیں خواہش پیدا ہوتی ہو گی کہ وہ اپنی اولادوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیں۔ چنانچہ ایسی تعلیمی دوڑ کی وجہ سے اب کالجوں میں پہلے سے دُگنے طالب علم داخل ہوں گے اور یہ لازمی بات ہے کہ کالج میں داخل ہونے والے طلباء اپنے اردگرد کے حالات سے ضرور متأثر ہوتے ہیں۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو اردگرد کے بد اثرات سے محفوظ کر کے احمدیت کے ماحول میں تربیت دیتے ہوئے ان کے دلوں میں احمدیت کو راسخ کرتے ہوئے ترقی کی طرف لے جائیں تا احمدیت کو زیادہ سے زیادہ مضبوطی حاصل ہو۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں نے عیسائیت کو دیکھتے ہوئے بھی اس کےا چھے طریق کو اختیار نہ کیا۔ عیسائیت نے جتنی تعلیم دی ہے پادریوں کے ذریعہ دی ہے۔ یورپ میں جتنے بھی کالج ہیں پادریوں کے قائم کئے ہوئے ہیں اور وہ سو فیصدی پادریوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے باوجود ہر قسم کی اعلیٰ تعلیم پا جانے کے نوجوانوں کے دلوں میں عیسائیت کی محبت مٹتی نہیں۔ بعض لوگ دہریہ بھی ہو جاتے ہیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی محبت اور دین ِعیسوی کی برتری کا احساس ان کے دلوں میں قائم رہتا ہے۔ وہ یہ تو کہتے ہیں کہ دینِ عیسوی میں کچھ نقائص ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں جتنے مذاہب ہیں ان سب سے بہتر عیسوی مذہب ہے مگر مسلمانوں میں یہ نہیں ہؤا۔ اس لئے کہ مسلمانوں نے جہاں تعلیم کا انتظام کیا وہاں صرف مذہبی تعلیم کا انتظام کیا حالانکہ طب بھی تو تعلیم تھی۔ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ سو فیصدی مسلمان مولوی بن جاتے۔ اگر سارے مولوی بن جائیں گے تو روزی کمانے والا کون ہو گا۔ اور ان مولویوں یا مدرّسین کو خرچ دینے والا کون ہو گا۔ قومی ترقی کا یہی ذریعہ تھا کہ کچھ لوگ قانون کے ماہر ہوتے، کچھ انجینئر ہوتے، کچھ طبیب اور ڈاکٹر ہوتے اور کچھ اَور علوم میں مہارت حاصل کرتے۔ مگر مسلمانوں نے بحث مباحثہ کے خیال سے منطق او رفلسفہ تو اپنی تعلیم میں شامل کر لیا مگر باقی ساری تعلیموں کو خارج کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لئے بجائے اپنے تعلیمی اداروں میں بھیجنے کے دوسرے اداروں میں بھیجنا پڑا اور چونکہ وہ مخالف ماحول میں رہے اس لئے مذہب کی محبت ان کے دلوں میں نہ رہی ۔ ایک طرف اگر مولویوں کا گروہ مدارس سے نکل کر مذہبی تعلیم دیتا تھا تو دوسرا تعلیم یافتہ گروہ مذہب کے خلاف لوگوں کو اُکساتا تھا۔ اس طرح ایک ہی وقت میں دو دریا چل رہے تھے جو باہم ملنے کا نام تک نہ لیتے تھے۔ لیکن عیسائیت کا ایک ہی دریا چل رہا تھا۔ انہی کالجوں میں سے نکلنے والے پادری کہلاتے تھے اور انہی کالجوں میں سے نکلنے والے انجینئر کہلاتے تھے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیت کی تعلیم بھی آخر ناکام رہی مگر اس طرح انہوں نے اٹھارہ سَو سال تک اپنے سلسلہ کو ممتد کر لیا لیکن مسلمانوں نے جو طریقہ اختیار کیا اس سے وہ چند سو سالوں میں ہی بگڑ گئے اور دینی اور دنیوی علماء میں لڑائی شروع ہو گئی۔ دین کے علماء نے فنون اور حرفے والوں کو کہنا شروع کر دیا کہ تم دہریہ اور دین سے خارج ہو اور حرفت اور صنعت والوں نے مولویوں کو یہ کہنا شروع کر دیا کہ تم قُلْ اَعُوْذِئیے اور کھڑکنّے ہو۔ غرض ایک دوسرے کا نام رکھنے لگ گئے۔ مگر عیسائیت میں یہ بات نہ تھی۔ گو آج اٹھارہ سو سال کے بعد اُلٹی گنگا چلنی شروع ہو گئی ہے لیکن اٹھارہ سو سال تک انہوں نے اس سے گزارہ کیا ہے۔ پہلے پادری کالجوں میں جا کر لڑکوں کو عیسائیت کا قائل کیا کرتے تھے مگر اب پادری خود دہریہ ہونے لگ گئے ہیں مگر ہر چیز میں آخر خرابی تو آ ہی جایا کرتی ہے ۔ بہرحال یہ تو نظر آتا ہے کہ عیسائیت میں خرابی پہلے آئی اور اس کی تعلیم کے انتظام میں بعد میں خرابی پیدا ہوئی۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بغاوت کہیں پہلے شروع کر دی تھی مگر علماء نے عیسائیت سے بغاوت بہت بعد میں شرو ع کی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بغاوت کے یہ معنے ہیں کہ مسیحیوں نے سچے مذہب کو چھوڑ دیا مگر عیسائیت سے علماء کی بغاوت کے یہ معنے ہیں کہ جس قسم کا عیسوی مذہب پیش کیا جاتا تھا اس سے علماء بھی منکر ہو گئے ۔ یہ انکار بہت بعد میں پیدا ہؤا لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار بہت پہلے پیدا ہو چکا تھا کیونکہ عیسوی تعلیم رسول کریم ﷺ کی بعثت سے بھی پہلے بگڑ چکی تھی۔ لیکن اس قوم کے علماء اور صنّاعوں وغیرہ نے عیسوی مذہب کو جس حالت میں بھی وہ تھا کئی سَو سال بعد چھوڑا۔ بلکہ درحقیقت رسول کریم ﷺ کی بعثت کے بارہ سو سال بعد انہوں نے اس سے انحراف شروع کیا۔ یہ نتیجہ تھا اس بات کا کہ انہوں نے اپنی قوم کو گو ہر قسم کے علوم کی تعلیم دی مگر اس کی نگرانی پادریوں کے ہاتھ میں رکھی۔ لیکن یہ نقطہ نظر مسلمانوں سے اوجھل رہا اس لئے جلد ہی مسلمان ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ ہمارے سامنے مسلمانوں اور عیسوی امت کا کام موجود ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ان دونوں کے نیک حصوں کو لے کر ان سے فائدہ اٹھائیں اور ان کی غلطیوں سے بچیں۔
جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں اعلیٰ درجے کا طریقِ تعلیم یہ ہے کہ تعلیم دنیوی، دینی علماء کے ہاتھوں سے ہو تا کہ مذہب سے لگاؤ قائم رہے ۔ لوگوں نے تو انجینئر بننا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ انجینئرنگ کی تعلیم دینے والا مولوی یا واقفِ زندگی نہ ہو۔ ہاں اگر ہم یہ کہیں کہ تم نے انجینئر نہیں بننا تو وہ ضرور ہم سے اختلاف کریں گے کہ انجینئرنگ میں کیا قباحت ہے کہ تم ہمیں انجینئر نہیں بننے دیتے۔ لیکن اگر ہم کہیں کہ انجینئر تو بنو لیکن ایک واقف تحریک جدید سے پڑھ کر یا ایک عالمِ دین سے پڑھ کر۔ تو یقیناً ایک کمزور سے کمزور ایمان والا بھی اس سے تعلیم حاصل کرنے سے انکار نہیں کرے گا اور یقینی طور پر جو تعلیم وہ حاصل کرے گا اس کے نتیجہ میں اس کا دین محفوظ رہے گا۔ پس اب جب کہ بیداری پیدا ہو چکی ہے اور جب کہ تعلیم کا احساس پیدا ہو چکا ہے اور جب کہ ہماری جماعت کو ایسے ذرائع حاصل ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلا سکے اگر ہمارے پاس کالج نہ ہو اور اعلیٰ درجے کا کالج نہ ہو اور انتہائی تعلیم دینے والا کالج نہ ہو تو ہمارا قدم دوسری اقوام کی نسبت پیچھے رہ جائے گا۔ مثلاً ایک شخص انگلستان جانے کا ارادہ کرے اور کہے کہ مَیں لنگڑے گدھے پر سوار ہو کر انگلستان جاؤں گا تو ہر دیکھنے والا اور ہر سننے والا اس پر ہنسے گا اور اسے ایک تماشہ سمجھے گا ۔ لوگ کہیں گے یہ اول تو راستہ میں ہی مر جائے گا اور اگر پہنچے گا بھی تو بڈھا ہو کر۔ کیونکہ جن راستوں سے ایک گدھا انگلستان پہنچ سکتا ہے وہ سات آٹھ ہزار میل کا ہے۔ ایک لنگڑا گدھا دن میں زیادہ سے زیادہ اسے پانچ چھ میل لے جائے گا اور اگر وہ روزانہ بھی سفر کرے گا تو بیس دنوں میں زیادہ سے زیادہ سَو میل چلے گا۔ سَو دنوں میں پانچ سو میل ، دو سو دنوں میں ہزار میل اور سولہ سَو دنوں میں آٹھ ہزار میل طے کرے گا ۔ اگر وہ پانچ سال متواتر چلتا رہے تب جا کر انگلستان پہنچے گا۔ لیکن انسان تھک بھی جاتا ہے، بیمار بھی ہوتا ہے اس لحاظ سے پانچ سال کی بجائے پندرہ سال سمجھنے چاہئیں۔ پس اس زمانے میں اگر کوئی شخص لنگڑے گدھے پر انگلستان جانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ احمق ہے کیونکہ جب لوگ ریلوں میں جا رہے ہیں، ہوائی جہازوں میں جا رہے ہیں، بحری جہازوں میں جا رہے ہیں، اس وقت وہاں گدھے پر جانے کی کوشش کرنا کسی احمق کا ہی کام ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم تعلیم پھیلانے کے لئے وہ ذرائع استعمال نہ کریں گے جو اعلیٰ سے اعلیٰ اور جلد سے جلد تعلیم دلانے والے ہوں تو دوسری اقوام کے مقابلہ میں ہم ٹھہر نہیں سکتے اور اس وقت تک کام چلانے والے نئے لوگ ہمیں نہیں مل سکتے۔
یہ پچھلی غفلت کا ہی نتیجہ ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کو نئے کارکن نہیں ملتے۔ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مَیں نے تحریک جدید کے واقفین میں سے پانچ چھ گریجوایٹ نائب ناظر کے طور پر لگا دئیے ہیں تاکہ کام میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ لیکن صدر انجمن احمدیہ کے ناظروں نے اس طرف کبھی بھی توجہ نہیں کی تھی اور انہیں کبھی یہ خیال ہی نہ آیا تھا کہ ہم نے بھی بیمار ہونا اور مرنا ہے۔ مگر باوجود صدر انجمن احمدیہ کو تحریک جدید کے چھ سات آدمی دے دینے کے ابھی ہم اس کی تمام ضروریات کو پورا نہیں کر سکے اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہمیں ابھی اَور ایسے پچیس آدمیوں کی ضرورت ہے مگر ہماری جماعت میں سے ہر سال صرف چار پانچ گریجوایٹ نکلتے ہیں۔ کچھ ان میں سے نوکری اختیار کر لیتے ہیں اور کچھ تجارت کر لیتے ہیں باقی اگر کوئی بچے تو وہ ہمارے پاس آ سکتا ہے۔ فرض کرو ہمیں ہر سال ایک آدمی مل جاتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ سو سال میں جا کر ہماری یہ ضروریات پوری ہوں گی۔ اس کے علاوہ اَور بھی بہت سی جگہیں ہیں جہاں ہمیں گریجوایٹس کی ضرورت ہے۔ اور اگر تمام ضروریات کو شامل کیا جائے تو ہمیں تین چار سو گریجوایٹس کی ضرورت ہے۔ کالج میں پڑھانےوالے گریجوایٹ چاہئیں، تبلیغ کے لئے باہر جانےو الے گریجوایٹ چاہئیں، صیغوں کے انچارج گریجوایٹ چاہئیں اور یہ ضروریات اسی وقت پوری ہو سکتی ہیں جب ڈیڑھ دو سو نوجوان ہر سال کالجوں میں سے بی اے پاس ہو کر نکلیں۔ اگر اتنی تعداد سالانہ نکلے تب دس پندرہ سالوں میں ہماری ضروریات پوری ہو سکتی ہیں ۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم اپنا کالج مکمل کریں او رکوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ طالب علم یہاں داخل ہوں تاکہ ہم اپنے کالج سے سو گریجوایٹ سالانہ نکال سکیں او ربیرونی کالجوں میں داخل ہونے والے بھی سو کی تعداد میں نکلیں تب جا کر ہماری ضروریات ایک معقول عرصہ میں پوری ہو سکتی ہیں۔ لیکن جس طرح کام روزانہ بڑھتا چلا جاتا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے تو یہ اندازہ بھی کافی نہیں۔ مَیں نے خدا تعالیٰ کا ہمیشہ یہ سلوک دیکھا ہے کہ جو کام ہم شروع کرتے ہیں اس میں زیادتی ہی زیادتی ہوتی چلی جاتی ہے۔ مثلاً ہر سال ہم جلسہ گاہ کو بڑھا دیتے ہیں لیکن پھر بھی وہ جگہ تنگ ہو جاتی ہے۔ پہلے مسجد میں جلسہ ہوتا تھا لیکن اب ہم ہر سال جلسہ گاہ کو وسیع کرتے ہیں۔ پس یہ اہم ضروریات ہیں جن کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔
مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے پورے طور پر اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھا۔ کالج کے چندہ کی اپیل پر پندرہ سولہ دن ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک چالیس ہزار کے قریب وعدے آئے ہیں اور صرف اُنگلیوں پر شمار کئے جانے والے افراد کے وعدے آئے ہیں۔ چھبیس ہزار کے وعدے تو صرف چار آدمیوں کی طرف سے ہیں۔ دو نے دس دس ہزار کےو عدے کئے ہیں۔ ایک نے پانچ ہزار کا اور ایک نے ایک ہزار کا۔ ایک تو دس ہزار کا وعدہ میرا ہے، دوسرا دس ہزار دینے کا وعدہ سیٹھ محمد صدیق صاحب کلکتے والے اور ان کے بھائی سیٹھ محمد یوسف صاحب نے کیا ہے۔ تیسرے پانچ ہزار کا وعدہ سیٹھ عبد اللہ بھائی کی طرف سے ہے اور چوتھے ایک ہزار کا وعدہ شیخ امام دین صاحب کا ہے جو بمبئی کی طرف تجارت کرتے ہیں۔ گویا اس میں چھبیس ہزار کے وعدے صرف چار آدمیوں کے ہیں۔ چھ ہزار کا وعدہ قادیان کی لجنہ کا ہے۔ اس طرح بتیس ہزار ہو گئے ۔ اگر قادیان کی لجنہ کو ایک فرد شمار کیا جائے تو پانچ افراد نے بتیس ہزار چندہ دیا ہے اور پانچ لاکھ افراد نے چھ سات ہزار۔ میرے نزدیک اس کی بہت بڑی ذمہ داری بیت المال پر بھی ہے ۔ بیت المال والے اتنی کوشش نہیں کرتے جتنی تحریک جدید والے کرتے ہیں۔مَیں جس دن تحریک جدید کے چندہ کی تحریک کرتا ہوں اسی دن شام کو پیغام پہنچ جاتا ہے کہ آپ کی تحریک سے اتنے وعدے آئے اور یہ اثر ہؤا۔ اس تحریک کو کئے ہوئے سولہ دن ہو گئے ہیں لیکن بیت المال والوں نے مجھے ابھی تک یہ بھی نہیں بتایا تھا کہ کیا حال ہے۔ مَیں نے خود دریافت کیا تو اَب جمعہ میں آتے ہوئے ان کا جواب پہنچا۔ یہ قدرتی بات ہے کہ اگر مجھے بتایا جاتا کہ تحریک کا کیا اثر ہؤا ہے تو میرے اندر زیادہ جوش پیدا ہوتا اور مَیں زیادہ زور سے تحریک کرتا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ خودقادیان اب اتنا بڑا ہو چکا ہے اور اتنا کام یہاں پیدا ہو چکا ہے کہ قادیان والوں کو ہی چندے کا کثیر حصہ برداشت کرناچاہئے۔ موجودہ حالات کے لحاظ سے قادیان والے اگر صحیح قربانی کریں تو پچاس ہزار کے قریب چندہ دے سکتے ہیں مگر تاجروں کا حصہ ایسا ہے جو چندہ دینے میں بہت سُست ہے۔ مَیں نے بیت المال کو توجہ دلائی تھی کہ ان کی آمد کی صحیح تشخیص کرنی چاہئے ورنہ وہ ہمارے لئے ناسور بن جائیں گے جو باقی جماعت کو کھانا شرو ع کر دیں گے مگر بیت المال نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ انہیں چاہئے کہ وہ ہر دکاندار کے پاس ایک کلرک بٹھا دیں جو دن بھر یہ دیکھتا رہے کہ اس کی کتنی بِکری ہوئی ہے اور پھر اس سے پوچھا جائے کہ جب تمہاری آمد زیادہ ہے تو پھر تم چندہ کیوں کم دیتے ہو؟ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس طریق پر اگر دس ہزار روپیہ بھی خرچ کرنا پڑے تب بھی بیت المال کو یہ روپیہ خرچ کرنا چاہئے۔ اگر اس کا کوئی اَور فائدہ نہیں ہو گا تو کم از کم اس طرح حقیقت تو کھل جائے گی اور معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے تاجروں کی کیا حالت ہے۔ اب تو یہ کیفیت ہے کہ ہمارے تاجر سلسلہ کا ہزاروں روپیہ دبا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ دس روپے چندہ دیتے ہیں اور پھر اپنے اردگرد دیکھتے ہیں کہ ہماری اس قربانی پر لوگ کتنی واہ وا کرتے ہیں۔
قادیان ہمیشہ چندوں میں اول رہا ہے اور اب بھی اول ہے مگر امراء کی وجہ سے نہیں جو سارا روپیہ اپنے نفس پر خرچ کرتے ہیں یا زمینیں خریدتے اور جائیدادیں بناتے ہیں بلکہ غرباء کی وجہ سے اول ہے جو اپنے پیٹ کاٹ کر اور اپنے بیوی بچوں کے پیٹ کاٹ کر چندہ دیتے اور سلسلہ کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔ پس ہمیں اس روپیہ کے لئے فکر نہیں بلکہ فکر ہے اس جذام کی جو امراء اور تاجروں کے جسم میں پیدا ہو رہا ہے کہ اگر وہ ہمارے اندر پیدا ہو گیا تو ہم باقی جسم کو کس طرح بچائیں گے۔ مَیں تو کہوں گا کہ بے شک بیت المال والے ان سے روپیہ لے کر دریائے بیاس میں پھینک دیں۔ مگر ان کی جیبوں میں سے ضرور نکال لیں تا وہ بے ایمان ہو کر نہ مریں۔ اگر قادیان کے لوگ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تو بہت سے لوگ اس میں حصہ لے سکتے ہیں اور ان کو لینا چاہئے۔ باقاعدہ تاجروں کے علاوہ یہاں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ایک کام مستقل طور پر نہیں کرتے، کبھی ایک کام کرتے ہیں اور کبھی دوسرا کام کر لیتے ہیں۔ ان میں سے بعض بہت بڑی آمد پیدا کر رہے ہیں۔ ان کا بھی چندہ میں بہت کم حصہ ہے۔ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتے ۔ اسی طرح بیرون جات کے بہت سے تاجر بھی اپنی ذمہ داریوں کو بہت کم سمجھتے ہیں۔ اس وقت ہزارہا احمدی تاجر ہیں اور پھر مَیں نے جو تحریک کی ہے کہ ہماری جماعت کو زیادہ سے زیادہ تجارت کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اس کے نتیجہ میں بھی ہم ہزارہا اَور تاجر پیدا کریں گے لیکن ان تاجروں میں سے اکثر سست ہیں۔ بہت کم ہیں جو چست ہیں۔ اور جو چست نظر آتے ہیں ان میں سے کئی ایسے ہیں کہ اگر وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں تو ان کے چندے ان کی آمدنیوں کے لحاظ سے بہت کم ہوں گے۔ پھر ہزارہا ہمارے افسر ایسے ہیں جن کو بڑی تنخواہیں ملتی ہیں۔ اگر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تو انہیں معلوم ہو گا کہ باوجود دوسرے چندوں میں شامل ہونے کے پھر بھی وہ ابھی کافی مقدار میں چندے دے سکتے ہیں اور جلد دو لاکھ کی رقم پوری کر سکتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ پس مَیں قادیان کے لوگوں کو خصوصاً اور باہر کے لوگوں کو عموماً، اسی طرح قادیان اور باہر کی جماعتوں میں سے تاجروں کو خصوصاً خواہ وہ دکاندار ہوں یا کبھی کبھی تجارتی کام کرنے والے، توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے ۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے ان سے روپیہ ضرور لیا جائے خواہ بیاس میں پھینک دیا جائے لیکن لینا ان سے ضرور چاہئے۔ اسی طرح مَیں ان کو بھی کہتا ہوں کہ وہ روپیہ جو وہ کما کر اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں اور غریبوں پر خرچ نہیں کرتے اور لوگوں کی بہتری اور بہبودی کے لئے نہیں لگاتے وہ یاد رکھیں کہ قرآن کریم فرماتا ہے ایسے لوگ جو روپیہ کما کر اپنے گھروں میں لے جاتے ہیں اور دین کی راہ میں خرچ نہیں کرتے قیامت کے دن وہ روپیہ پِگھلایا جائے گا اور پھر ا س سے ان کے ماتھوں اور پیٹھوں پر نشان لگایا جائے گا۔ 1
مَیں نے ہمیشہ کہا ہے کہ اسلام روپیہ کمانے سے منع نہیں کرتا لیکن جو لوگ روپیہ کمانے میں ہی لذت سمجھتے ہیں اور اسے خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے بلکہ گھروں میں رکھ چھوڑتے ہیں ان کو سمجھنا چاہئے کہ الٰہی سلسلہ میں ایسے لوگوں کا کوئی کام نہیں اور ایسے لوگوں کا ایمان کبھی بھی قائم نہیں رہتا۔ اسلام مال کمانے سے منع نہیں کرتا مگر مال دار ہونے سے منع کرتا ہے۔ مال کمانا اَور چیز ہے اور مال دار ہونا اَو رچیز ہے۔ بے شک کماؤ ، کچھ خود کھاؤ کچھ اولاد پر خرچ کرو۔ کچھ ان کی تعلیم پر خرچ کر و، کچھ غرباء کو دو۔ اگر ایسا کرو تو یہ کمائی بابرکت ہو گی اور خدا کے سامنے تمہیں مجرم نہیں بنائے گی۔ لیکن اگر اس کمائی سے تمہارے اندر حرص پیدا ہوتی ہے کہ مَیں نے جو دس روپے چندہ دینا ہے اگر نہ دوں تو اگلے ہفتہ دس سے پندرہ بن جائیں گے اور بلیک مارکیٹ ہیں۔پچیس تیس بن جائیں گے۔ پھر اگلے ہفتہ میں پچاس بن جائیں گے۔ پھر پچھتّر بن جائیں گے۔ پھر اگلے ہفتہ دو سو بن جائیں گے۔ پھر اگلے ہفتہ پانچ سو بن جائیں گے اور پھر اس سے اگلے ہفتہ ایک ہزار بن جائیں گے۔ اور جب وہ ہزار پر پہنچتا ہے تو دس روپے اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے اور کہتا ہے مَیں تو بڑی غلطی کرنے لگا تھا۔ تو ایسا انسان یقیناً مجنون ہے۔ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہماری جماعت میں تو بڑے بڑے مالدار نہیں ہیں ہم میں یہ نقص کس طرح پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ امارت ایک نسبتی امر ہے۔ جس شخص کے پاس دس روپے ہیں اس سے وہ شخص زیادہ مالدار ہے جس کے پاس بیس روپے ہیں اور جس کے پاس سو روپے ہیں اس سے زیادہ مالدار وہ شخص ہے جس کے پاس دو سو روپے ہیں۔ پس دولت اور امارت ایک نسبتی امر ہے۔ اس لحاظ سے ہماری جماعت میں سے بھی جس کے پاس دوسروں کے مقابلہ میں نسبتاً زیادہ روپیہ ہے وہ مالدار ہو گا خواہ اس کے پاس دس یا بیس یا سو یا دو سو روپے ہوں۔ بہرحال اسلام دولت کمانے سے منع نہیں کرتا لیکن دولت جمع رکھنے سے اور اسے غرباء پر خرچ نہ کرنے سے ضرور منع کرتا ہے۔ اسلام بالشوزم کی طرح یہ نہیں کہتا کہ امیروں کو لوٹ لو لیکن یہ ضرور کہتا ہے کہ جو ان میں سے اپنا روپیہ جمع کرتے اور بڑھاتے ہی جاتے ہیں لیکن اس کا مناسب حصہ دین اور غرباء پر خرچ نہیں کرتےاُن کو گندے اور خراب عضو کی طرح اپنے جسم سے کاٹ کر الگ کرو۔ بالشوزم بھی ان کو اپنے اندر شامل نہیں کرتی اور اسلام بھی ان کو اپنے اندر شامل نہیں کرتا۔ ہاں بالشوزم ان کا روپیہ لُوٹ لیتی ہے اور پھر ان کو الگ کر دیتی ہے لیکن اسلام ان کو بھی اور ان کے مالوں کو بھی گندہ قرار دے کر جہنم میں پھینک دیتا ہے۔
پس جہاں میں تعلیم پر زور دیتا ہوں اور جہاں میں صنعت و حرفت کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں وہاں مَیں جماعت کے دوستوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان پر چندے کی جو ذمہ داری عائد ہے اس میں کوتاہی نہ کریں۔ ورنہ دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہو گی۔ یا تو ان کے مالوں میں بے برکتی ہو جائے گی اور ان کے دیوالے نکل جائیں گے اور یا ان کا ایمان ضائع ہو جائے گا۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ جماعت اپنے فرائض کو پورے طور پر ادا کرے گی اور یقین رکھتا ہوں کہ اگر وہ اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کرتی رہی تو اس کے بعد ہم بہت بڑے بڑے کام قریب کے زمانے میں کر سکتے ہیں اور خدا چاہے گا تو بفضلہٖ تعالیٰ کر کے رہیں گے۔’’ (الفضل 16 اپریل 1946ء )
1: وَ الَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۔ يَّوْمَ يُحْمٰى عَلَيْهَا فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْ۔
(التوبة: 34 ،35)


12
احمدیت کی اشاعت کے لئے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو وقف کرنا رضاء ِالٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے
( فرمودہ 12 ؍اپریل 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘قادیان کے اور باہر کےسکولوں کے امتحانات یا تو ہو چکے ہیں یا عنقریب ختم ہونے والے ہیں۔ ہم نے یہ قانون پاس کیا ہؤا ہے کہ مدرسہ احمدیہ میں مڈل پاس لڑکے لئے جائیں اور چار سال میں وہ مدرسہ احمدیہ کا ابتدائی کورس پاس کر کے پھر جامعہ احمدیہ میں داخل ہوں۔ مَیں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ ہماری جماعت جس حد تک پہنچ چکی ہے وہ ایک ایسا مقام ہے جس میں درحقیقت ہمیں ہندوستان اور اس سے باہر تبلیغ کرنے کے لئے ایک سو مبلغ سالانہ کی ضرورت ہے۔ ایک سو مبلغ سالانہ کے معنے یہ ہیں کہ اگر آج سے ایک سو مبلغ ہمیں حاصل ہوں تو دس سال کے بعد ایک ہزار مبلغ ہم کو میسر آ سکتے ہیں حالانکہ دنیا کی آبادی اور اس کی وسعت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تعداد کچھ بھی چیز نہیں۔ درحقیقت دنیا میں صحیح طور پر تبلیغ کرنے کے لئے ہمیں اس سے بہت زیادہ مبلغین کی ضرورت ہے۔ مگر کم سے کم ہمارا پہلا قدم اتنا تو ہونا چاہئے کہ ہم ہندوستان اور اس سے باہر تبلیغ کے لئے ایک ہزار مبلغین کا اندازہ رکھیں۔ اس وقت ہمارے ہندوستانی اور غیر ہندوستانی مبلغ جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں ساٹھ ستّر کے قریب تو افریقہ میں ہیں اور پچیس کے قریب افریقہ کے علاوہ دوسرے ممالک میں ہیں۔ غیر ممالک میں جو مقامی مبلغ مقرر کر لئے جاتے ہیں اُن کی تعداد کا سوائے افریقہ کے کوئی صحیح اندازہ نہیں۔ بہرحال یہ 85 کے قریب مبلغ تو باہر کے ہو گئے۔ ستّر اسّی کے قریب ہندوستان میں بھی ہمارے مبلغ موجود ہیں اور پچاس کے قریب دیہاتی مبلغ تیار ہو رہے ہیں۔ ان سب کو اگر شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد دو سو کے قریب بن جاتی ہے مگر ان دو سَو مبلغین میں سے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ مبلغ بہت کم ہیں۔ وہ مولوی فاضل یا گریجوایٹ جن کو ہم نے باقاعدہ تعلیم دلوائی ہے اگر ان سب کا اندازہ کیا جائے تو وہ ساٹھ ستّر سے زیادہ نہیں نکلیں گے۔ باقی سب ایسے ہی ہیں جنہیں وقتی ضرورت کے ماتحت تبلیغ کے کام پر لگا لیا گیا ہے۔ جہاں تک تبلیغ کے کام کا سوال ہے وہ اس کام کو بخوبی کر سکتے ہیں مگر جہاں تک سلسلہ کے مسائل کوکَمَاحَقُّہٗ سمجھنے کا سوال ہے وہ خود بھی ان مسائل کو کَمَاحَقُّہٗ نہیں سمجھ سکتے۔ کُجا یہ کہ دوسروں کو سمجھانے کی قابلیت اپنے اندر رکھتے ہوں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں کوئی بھی جماعت ایسی نہیں ہو سکتی جس کے تمام افراد علمی لحاظ سے ایک ہی سطح پر ہوں۔ ضرور اُن میں سے کچھ زیادہ علم رکھنے والے ہوتے ہیں اور کچھ کم علم رکھنے والے ہوتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں حضرت ابو بکرؓ بھی تھے، حضرت علیؓ بھی تھے، حضرت عمرؓ جیسے انسان بھی تھے مگر ساتھ ہی بعض اس قسم کے بھی صحابہؓ تھے جو مسائلِ اسلامیہ کو کَمَاحَقُّہٗ سمجھنے کی استعداد اپنے اندر نہیں رکھتے تھے۔ چند موٹے موٹے مسائل سمجھ لیتے اور اسی پر وہ اکتفا کرتے تھے جیسے حضرت بلالؓ تھے۔ یا فقہی مسائل کو سمجھنے کا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتے تھے۔ گو ظاہری علم ان کا زیادہ تھا جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تھے۔ بہرحال کسی جماعت میں بھی سارے افراد یکساں طور پر ترقی یافتہ نہیں ہوتے۔ ہمارے ملک میں بھی مثل مشہور ہے کہ
خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد
یعنی خدا تعالیٰ نے انسان کی پانچ انگلیوں کو بھی برابر نہیں بنایا۔ ان میں بھی کوئی چھوٹی ہے اور کوئی بڑی۔ مگر جہاں یہ حقیقت ہے کہ کسی جماعت کے تمام افراد علمی لحاظ سے ایک ہی سطح پر نہیں ہوتے وہاں اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ نہ کچھ سطح کا برابر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے انسان کی پانچوں انگلیوں کو برابر نہیں بنایا۔ لیکن اگر ایک انگلی بغل کے پاس ہوتی اور ایک انگلی ہاتھ کے سرے پر تو کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ اس فلسفہ کے ماتحت کہ خدا نے پانچ انگلیوں کو برابر نہیں بنایا بغل والی انگلی ہتھیلی کے ساتھ والی انگلی سے مل کر کوئی کام کر سکتی؟ یقیناً وہ کوئی کام نہیں کر سکتی تھی۔ کیونکہ پہلی صورت میں انگلیوں میں فرق تو ہے مگر زیادہ فرق نہیں اور دوسری صورت میں دونوں انگلیوں کے درمیان اتنا بڑا فرق پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ کسی صورت میں بھی آپس میں مل کر کام نہیں کر سکتیں۔ پس دو چیزوں میں فرق تو بے شک ہوتا ہے مگر وہ فرق ایسا ہی ہونا چاہئے کہ بڑی چیز اپنے آپ کو نیچا کر سکے اور نیچے والی چیز اپنے آپ کو اونچا کر سکے۔ چنانچہ دیکھ لو خدا تعالیٰ نے پانچوں انگلیاں بے شک برابر نہیں بنائیں مگر لقمہ اٹھاتے اور منہ میں ڈالتے وقت وہ پانچوں انگلیاں برابر ہو جاتی ہیں۔ بڑی انگلی نیچے جھک جاتی ہےاور چھوٹی انگلی اونچا ہونے کی کوشش کرتی ہے اور اِس طرح ساری انگلیاں باوجود آپس میں فرق رکھنے کے برابر ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح جماعتوں کے افراد میں اگر باہمی فرق اتنا زیادہ ہو کہ وہ آپس میں مل ہی نہ سکیں۔ ایک زمین کی کہتا ہو اور دوسرا آسمان کی۔ تو ایسی جماعت کبھی عمدگی سے کام نہیں کر سکتی۔ ہاں اگر فرق تو ہو لیکن وقت آنے پر اوپر کے درجہ والا نیچے جھک جائے اور چھوٹے درجے والا اوپر اٹھنے کی کوشش کرے تو وہ جماعت یقیناً کامیاب ہو جاتی ہے۔ جیسے ایک بچہ کو جب باپ پیار کرنے لگتا ہے تو ایک طرف بچہ اپنی ایڑیوں کے بل کھڑا ہو جاتا ہے اور دوسری طرف باپ اس کو پیار کرنے کے لئے نیچے کی طرف جھکتا ہے۔ لیکن اگر بچے کا قد چیونٹی کے برابر ہوتا تو تم سمجھ سکتے ہو کہ نہ باپ اِس قدر نیچے جھک سکتا اور نہ بچہ اس قدر اونچا ہو سکتا کہ وہ اپنے باپ کے پیار کو حاصل کر سکتا۔ اتنا بڑا فرق جب بھی پیدا ہو جائے قومی ہلاکت اور تباہی کا موجب بن جاتا ہے۔ اور جب کسی جماعت کے افراد کے اندر اتنا بڑا فرق سخت مُضِر ہوتا ہے تو مبلغین کے اندر اگر اسی قسم کا تفاوت پیدا ہو جائے تو وہ کیوں مُضِر نہیں ہو گا۔
بہرحال جب تک ہماری ساری جماعت علمی معیار کے لحاظ سے بلندی تک نہیں پہنچ جاتی اور جب تک ہماری جماعت موجودہ علمی حالت سے کئی گنا زیادہ ترقی حاصل نہیں کر لیتی اس وقت تک ہمیں اَور بھی زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بڑے بڑے علماء ہماری جماعت میں ہر وقت تیار رہیں اور اتنی بڑی تعداد میں رہیں کہ جماعت کو ضرورت کے وقت وہ آسانی کے ساتھ سنبھال سکیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے یا اتنی بڑی تعداد میں اپنی جماعت میں علماء پیدا نہیں کریں گے کہ وہ ضرورت کے وقت جماعت کو سنبھال سکیں اس وقت تک ہر ٹھوکر کے وقت جماعت کے گرنے کا خطرہ ہو گا۔ اور علمی لحاظ سے بھی جماعت کبھی اتنی ترقی نہیں کر سکے گی کہ ضرورت کے وقت اس کے افراد آپ آگے بڑھیں اور جماعتی بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیں۔ پس ضروری ہے کہ جماعت کے بڑھنے کے ساتھ ہی علماء کی تعداد بھی ہماری جماعت میں بڑھتی چلی جائے۔ اس وقت ہماری جماعت میں علماء پیدا کرنے کا ذریعہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک زمانہ ایسا بھی آنے والا ہے جب ہماری ضروریات کے لئے صرف مرکزی مدارس ہی نہیں ہندوستان کے کالج اور سکول بھی کافی نہیں ہوں گے اور ہمیں دنیا کے گوشہ گوشہ میں مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ قائم کرنے پڑیں گے۔ بلکہ ہر برِاعظم میں ہمیں ایک بہت بڑی یونیورسٹی قائم کرنی پڑے گی جو دینیات کی تعلیم دینے والی ہو اور جس سے تبلیغ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جا سکے۔ مگر جب تک ہمارا یہ خواب پورا نہیں ہوتا اور جب تک ہمیں ایسے سامان میسر نہیں آتے اس وقت تک ہمیں کم سے کم اتنا تو کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس جگہ جو مدرسہ عطا فرمایا ہے اور جو جماعت میں علماء پیدا کرنے کا واحد ذریعہ ہے اس کی ترقی کے زیادہ سے زیادہ سامان مہیا کریں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اس مدرسہ کی طرف ابھی تک پوری توجہ نہیں کی۔ مَیں نے پچھلے سال جماعت کو مدرسہ احمدیہ کی طرف توجہ دلائی تھی۔ جس کے نتیجہ میں جماعت میں بیداری پیدا ہوئی اور تیس بتیس کے قریب لڑکے مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں شامل ہوئے۔ گو دوران سال میں یہ تعداد کچھ کم ہو گئی کیونکہ بعض لڑکے ایسے تھے جنہیں ماں باپ نے واپس بُلا لیا اور بعض لڑکے ایسے تھے جو خود ہی بھاگ گئے۔ اس طرح آٹھ دسکے قریب تعداد میں کمی واقع ہو گئی۔ مگر پھر بھی جو تعدادباقی رہی وہ پہلے سالوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ تھی۔ پہلے ہر سال صرف تین چار لڑکے مدرسہ میں داخل ہوتے تھے مگر اس تحریک کے نتیجہ میں قریباً تیس بتیس ہو گئے۔ ان میں سے اگر پچیس چھبیس لڑکے بھی پاس ہو جائیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہمیں آج سے چند سال کے بعد پچیس چھبیس مبلغ ملنے شروع ہوجائیں گے۔ یہ حالت پہلی حالت سے یقیناً بہتر ہے کیونکہ پہلے یہ تعداد دو تین پر آ کر رُک چکی تھی مگر اب پھر یہ تعداد بڑھتے بڑھتےپچیس چھبیس تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ گو باقی تمام پنجاب کی نسبت ہمارے علماء بہت زیادہ ہیں پھر بھی ہماری ضروریات کے لحاظ سے یہ تعداد بہت کم ہے۔ سارے پنجاب میں جس قدر مولوی فاضل پاس ہوتے ہیں ان میں سے چالیس فیصدی احمدی ہوتے ہیں مگر یہ نسبت بھی ایسی ہے جس میں ہم پہلے مقام سے اب گر گئے ہیں۔ پہلے یہ حالت ہؤا کرتی تھی کہ احمدی اگر اَسّی فیصدی ہوتے تھے تو غیر احمدی بیس فیصدی ہوتے تھے۔ آہستہ آہستہ ہماری تعداد گرتی گئی اور ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ گویا دونوں طرف سے فرق پیداہونا شروع ہو گیا۔ ہماری طرف سے مولوی فاضل کا امتحان دینے والے کم ہوتے چلے گئے اور اُن کی طرف سے مولوی فاضل کا امتحان دینے والے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ ہم اَسّی فیصدی سے گر کر چالیس فیصدی پر آ گئے۔ اب میری طرف سے جو تحریک کی جا رہی ہے کہ دوستوں کو اپنے بچے مدرسہ احمدیہ میں داخل کرنے چاہئیں۔ اگر یہ تحریک کامیاب طور پر جاری رہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ چند سالوں میں ہی ہم خد اتعالیٰ کے فضل سے پچاس ساٹھ بلکہ ستّر فیصدی تک پہنچ سکتے ہیں۔ بہرحال گو تعداد ہماری زیادہ ہے مگر کام کرنے والوں کے لحاظ سے یہ تعداد زیادہ نہیں۔ ہماری جماعت میں سے پچاس ساٹھ طلباء مولوی فاضل کے امتحان میں ہر سال ضرور کامیاب ہونے چاہئیں بلکہ پچاس ساٹھ مولوی فاضل بھی بہت کم ہیں کیونکہ ہماری ضروریات اس سے زیادہ ہیں۔ پھر ہمارے سامنے ترقی کا جو وسیع پروگرام ہے اس کے لحاظ سے قطعی طور پر علم کا وہ معیار کافی نہیں سمجھا جا سکتا جو اس وقت ہماری جماعت میں پایا جاتا ہے۔ جب تک صرف احمدیت کو سمجھنے کا سوال تھا ، جب تک احمدیت کو سمجھ کر لوگوں کے کانوں تک اس کی آواز کو پہنچانے کا سوال تھا اس وقت تک ہمیں اور قسم کے علوم کی ضرورت تھی، اگر ہم قرآن کریم کو سمجھ سکتے اور دوسروں کو سمجھا سکتے تھے۔ اگر ہم احمدیت کو سمجھ سکتے اور دوسروں کو سمجھا سکتے تھے تو یہ بات ہمارے لئے کافی تھی کیونکہ احمدیت کی غرض اس سے پوری ہو جاتی تھی۔ لیکن اگر ہم نے دنیا میں باہر نکلنا ہے، اگر ہم نے عرب علماء سے بھی ٹکر لینی ہے اور اگر مروّجہ علوم کے بڑے بڑے ماہرین کا ہم نے مقابلہ کرنا ہے تو پھر لازمی طور ہمیں اپنے ظاہری علوم کا معیار بھی بڑھانا پڑے گا۔ ہم جس قسم کے علماء تیار کرتے رہے ہیں یا تیار کر سکتے تھے وہ ایسے ہی تھے کہ جہاں علمی لحاظ سے وہ قرآن کریم اور احادیث کو علماءِ ازہر سے بہتر سمجھتے تھے وہاں اگر عربی زبان میں گفتگو کرنے کا سوال آ جاتا تھا یا بعض خاص قسم کی اصطلاحات کا سوال آ جاتا تھا تو دوسرے لوگ ہمارے علماء سے بہت بڑھے ہوئے تھے۔ اور چونکہ عام طور پر لوگ ظاہر کی طرف دیکھتے ہیں مغز کی طرف ان کی نظر نہیں جاتی اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ظاہر ایک بیرونی چیز ہے جس کی طرف ہر شخص کی نگاہ فوراً اٹھنے لگتی ہے اور مغز اندر کی طرف ہوتا ہے جسے ظاہر بیں نگاہ نہیں دیکھتی۔ اس لئے وہ لوگ جو ظاہری علوم کے دلدادہ تھے ہمارے مبلغین سے پوری طرح متأثر نہیں ہوتے تھے۔ اب چونکہ ہم نے ان علاقوں میں بھی اشاعتِ احمدیت کے لئے اپنی کوششوں کو تیز تر کرنا ہے اس لئے ہمیں پہلے سے بہت زیادہ علماء کی ضرورت ہے۔ اور ہمیں اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ہم اپنی جماعت کے ایک طبقہ کو زیادہ اعلیٰ درجہ کے علمی معیار پر پہنچا سکیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باطنی طور پر ان کو اعلیٰ معیار پر پہنچانا ہمارے قبضہ میں ہے لیکن ظاہری طور پر اعلیٰ معیار پر پہنچانا اس وقت دوسروں کےقبضہ میں ہے۔ اور ہم اس وقت تک اس رَو کا مقابلہ نہیں کر سکتے جب تک ہماری جماعت میں بھی ایسا طبقہ موجود نہ ہو جو ظاہری علوم کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کے معیار کو حاصل کئے ہوئے ہو۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس معیار پر جلد سے جلد پہنچیں اور ہماری جماعت میں اعلیٰ درجہ کے علوم کے ماہرین کی ایک کافی تعداد پیدا ہو جائے تاکہ ہماری جماعت میں نئے علماء کی ضرورت کا سوال بہت حد تک حل ہو جائے۔
مجھے معلوم نہیں کہ اس وقت تک جماعت کے لوگوں نے میری تحریک پر کیا توجہ کی ہے۔ اصل طریق یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی تحریک کی جائے تو اس کے نتائج سے امام کو آگاہ رکھا جائے کیونکہ تمام کام امام کی آواز پر ہؤا کرتا ہے۔ مَیں نے اخبارات میں مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر اور جامعہ احمدیہ کے پرنسپل کی طرف سے اس قسم کے اعلانات تو دیکھے ہیں کہ دوستوں کو اپنے لڑکے یہاں تعلیم کے لئے بھجوانے چاہئیں مگر مجھے کسی نے بتایا نہیں کہ اس بارہ میں لڑکوں کی طرف سے کوئی درخواستیں آئی ہیں یا نہیں ۔اور اگر آئی ہیں تو کتنی ہیں۔ اگر مجھے بتایا جاتا تو مَیں اندازہ لگا سکتا کہ حالات امید افزا ہیں یا مایوس کُن۔ بہرحال میرا فرض ہے کہ مَیں چند سال تک متواتر جماعت میں بیداری پیدا کرتا چلا جاؤں یہاں تک کہ لوگوں پر اس کی اہمیت واضح ہوجائے اور وہ خود بخود اس طرف توجہ کرنا شروع کر دیں۔ اس سال پھر مَیں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لئے پیش کریں۔ مَیں نے بتایا تھا کہ ان کے دو ہی مالک ہیں۔ ایک سچا مالک ہے اور ایک جھوٹا مالک ہے۔ ایک خدا ان کا مالک ہے اور ایک شیطان ان کا مالک ہے۔ تم مجبور ہو اس بات پر کہ بہرحال ان دو میں سے ایک کے سپرد اپنی اولاد کو کر دو۔ اگر تم کسی کے سپرد نہیں کرو گے تو بہرحال تمہاری اولاد یاخدا کی طرف چلی جائے گی یا شیطان کی طرف چلی جائے گی۔ اگر تم اپنی اولادوں کو خدا کے سپرد نہیں کرو گے تو یقیناً وہ شیطان کے قبضہ میں چلی جائیں گی۔ اور اپنی اولادوں کو خدا کے سپرد کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے پاس ہر وقت اتنے علماء موجود رہیں جو خدا تعالیٰ کی آواز کو ہر احمدی اور ہرغیر احمدی کے کان میں ڈالتے رہیں۔ جب تک ہماری آواز دنیا میں چاروں طرف پھیل نہیں جاتی اور جب تک ایسا ماحول پیدا نہیں ہو جاتا کہ احمدیت اس میں زندہ رہ سکے اس وقت تک ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہمارا صرف بیج بو دینا کافی نہیں بلکہ اس بیج کے لئے مناسب ماحول کی بھی ضرورت ہے۔ دنیا میں خالی بیج کافی نہیں ہوتا بلکہ بیج کے نشو و نما کے لئے زمین کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ہوا کی بھی ضرورت ہے، پانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ساری چیزیں مل کر نتیجہ پیدا کرتی ہیں۔ صرف اتنا کافی نہیں ہوتا کہ بیج بو دیا اور اُٹھ کر گھر چلے آئے۔ اسی طرح ایک احمدی کا جب تک ماحول بھی احمدی نہ ہو اس کی احمدیت دائمی طور پر زندہ نہیں رہ سکتی۔
احمدیت کی زندگی کی یہی صورت ہے کہ ایک احمدی بچہ جن بچوں کےسا تھ کھیلتا ہے وہ یا تو احمدیت قبول کرنے والے ہوں یا احمدیت کی آواز سے متاثر ہوں۔ جن استادوں سے وہ تعلیم حاصل کرتا ہے وہ یا تو احمدی ہوں یا احمدیت کی آواز سے مرعوب ہوں۔ جن دفاتر میں وہ کام کرنے کے لئے جاتا ہے ان میں کام کرنے والے اور اس کے دائیں بائیں اور اِردگرد بیٹھنے والے یا تو احمدی ہوں یا احمدیت کی آواز سے مرعوب ہوں۔ جن بازاروں میں وہ سودا سلف لینے کے لئے جاتا ہے اُن بازاروں میں تاجر اور دکاندار یا تو احمدی ہوں یا احمدیت کی آواز سے مرعوب ہوں۔ اسی طرح وہ اہلِ حرفہ اور اہلِ پیشہ جو اس کے گھر پر کام کرنے کے لئے آتے ہیں یا یہ ان کے گھر پر کام کرانے کے لئے جاتا ہےوہ سب کے سب یا تو احمدی ہوں یا احمدیت کی آواز سے متاثر ہوں۔ اگر ایک مزدور اس کے گھر پر مزدوری کے لئے آتا ہے یا یہ اس کے پاس کسی کام کے سلسلہ میں جاتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ مزدور احمدی ہو یا احمدیت سے متاثر ہو۔ اگر ایک سقّہ اس کے مکان پر پانی ڈالنے کے لئے آتا ہے یا یہ اس کے مکان پر یہ کہنے کے لئے جاتا ہے کہ میرے گھر میں پانی ڈال دیا کرو تو وہ یا تو احمدی ہو یا احمدیت کی آواز سے متاثر ہو۔ اسی طرح ایک نائی اس کے پاس حجامت بنانے کے لئے آتا ہے یا یہ اس کے پاس حجامت بنوانے کے لئے جاتا ہے یا ایک درزی اس کے پاس کپڑوں کی سلائی لینے کے لئے آتا ہے یا یہ اس درزی کے پاس کپڑوں کو سلانے کے لئے جاتا ہے یا ایک دھوبی اس کے پاس کپڑے لینے کے لئے آتا ہے یا یہ دھوبی کے پاس کپڑے دینے کے لئے جاتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ نائی اور وہ درزی اور وہ دھوبی یا تو احمدی ہو یا احمدیت کی آواز سے متاثر ہو۔ یا مثلاً ایک لوہار کسی کام کے لئے اس کے پاس آتا ہے یا یہ اس لوہار کے پاس جاتا ہے یا ایک ترکھان اس کے مکان کی مرمت کے لئے آتا ہے یا یہ اس ترکھان کے مکان پر جاتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ لوہار اور ترکھان یا تو احمدی ہوں یا احمدیت کی آواز سے مرعوب ہوں۔ جب تک ہم اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی احمدی نہیں بنا لیتے، جب تک ہمارے دائیں اور ہمارے بائیں کام کرنے والے احمدی نہیں بن جاتے یا احمدیت کی آواز سے مرعوب نہیں ہو جاتے ا س وقت تک لازماً کان میں دو قسم کی آوازیں پڑتی رہیں گی اور دو قسم کی آوازیں ہمیشہ انسان کو یا تو گمراہ کر دیتی ہیں اور یا اس میں ہسٹیریا(HYSTERIA) کا مرض پیدا کر دیا کرتی ہیں۔
پرانے زمانہ میں لوگ کہا کرتے تھے کہ دو کشتیوں میں قدم رکھنے والا سلامت نہیں رہ سکتا۔ یہ بھی صحیح ہے لیکن اس سے بھی زیادہ صحیح وہ حقیقت ہے جو موجودہ زمانہ میں علم النفس کے ماہرین نے ثابت کی ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ دو قسم کی آوازوں کا کان میں پڑنا دو کشتیوں میں قدم رکھنے سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ کشتیاں اِدھر اُدھر ہوں تو زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ انسان کی ٹانگیں چِر جائیں لیکن جس شخص کے کان میں ہمیشہ دو قسم کی آوازیں آتی رہیں گی وہ یقیناً پاگل ہو جائے گا اور کسی شخص کا مر جانا اس سے ہزار درجہ بہتر ہوتا ہے کہ وہ پاگل ہو کر زندہ رہے۔ پس جب تک ہم اپنے ماحول کو درست نہیں کر لیتے اس وقت تک ہماری اولادیں شیطانی حملوں سے کبھی محفوظ نہیں رہ سکتیں۔ ہم خود انہیں دھکّے دے کر شیطان کی گود میں ڈالنے والے ہوں گے۔
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری جماعت میں اس کا احساس پیدا ہو اور جن لوگوں کو خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے وہ اپنی اولادوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کریں۔ اس وقت تک امراء اس تحریک میں حصہ لینے سے بہت حد تک محروم چلے آ رہے ہیں اور انہوں نے بہت ہی کم بچے دین کی خدمت کے لئے وقف کئے ہیں۔ اگر ہم شمار کریں تو غرباء تو درجنوں کی مقدار میں ایسے نکل آئیں گے جنہوں نے اپنے بچوں کو خدمتِ دین کے لئے اس رنگ میں وقف کیا۔ لیکن اگر امراء کو گننے لگیں تو وہ دو چار سے زیادہ نہیں نکل سکیں گے۔ یہ ایک ایسا نمونہ ہے جسے دشمن کے سامنے پیش کر کے ہم اس پر اپنی فوقیت یا اپنی قربانیوں کی عظمت ثابت نہیں کر سکتے۔ غرباء کا نمونہ اگر ہم پیش بھی کریں تو وہ کہہ دے گا کہ یہ بھوکے مرتے تھے، ان کے پاس اپنی تعلیم کا اَور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ جماعت نے وظائف مقرر کر دئیے اور وہ پڑھتے چلے گئے۔ اس میں انہوں نے قربانی کونسی کی ہے۔ اس وقت ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم غلط کہتے ہو۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہے اخلاص او رایمان کے ماتحت کیا ہے کیونکہ اخلاص اور ایمان ایک ایسی چیز ہے جو ہم کسی کو دکھا نہیں سکتے۔ اگر وہ سارے کے سارے اخلاص سے کام لینے والے ہوں، سارے کے سارے ایمان کا اعلیٰ مقام رکھتے ہوں تب بھی دشمن کے مقابلہ میں کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بے شک ہم نے ان کے لئے اپنا روپیہ خرچ کیا ہے لیکن اگر ہم روپیہ خرچ نہ کرتے تب بھی ان لوگوں میں ایسا اخلاص تھا کہ وہ ضرور قربانی کرتے اور اپنے بچوں کو بہرحال اس مدرسہ میں داخل کرتے؟ یہ ایک دل کی بات ہو گی جسے ہم ثابت نہیں کر سکیں گے اور ہمیں اپنے دشمن کے مقابلہ میں ضرور خاموش ہونا پڑے گا۔ اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ احمدیت نے غریبوں میں تو اخلاص پیدا کیاہے لیکن امیروں میں پیدا نہیں کیا۔ وہ کہے گا تم میں کھاتے پیتے لوگ بھی تھے۔ اگر احمدیت نے لوگوں کےد لوں میں واقع میں اخلاص پیدا کیا تھا تو وجہ کیا ہے کہ جو لوگ کھاتے پیتے ہیں انہوں نے اپنی اولادیں دین کی خدمت کے لئے وقف نہیں کیں۔ مَیں جانتا ہوں کہ ہم اس کا جواب دے سکتے ہیں مگر مَیں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہم اس کا جواب دے کر دشمن کو ساکت نہیں کر سکتے۔ ہم سُرخرو ہو کر اس کے سامنے سے نہیں اٹھ سکتے۔ ہمیں ضرور شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔ ہمارے جسم پر ضرور پسینہ آ جائے گا، ہماری زبان ضرور لڑکھڑانے لگ جائے گی اور ہمارا دل ضرور دھڑکنے لگ جائے گا۔ کیونکہ یہ وہ بات ہے جس کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم اس کا سو فیصدی درست جواب دے سکتے ہیں۔ آخر جماعت اس کے معنے تو نہیں کہ اس کے غریب اچھے ہوں یا جماعت اس کے معنے تو نہیں کہ اس کے امیر اچھے ہوں۔ یا جماعت اس کے معنے تو نہیں کہ اس کے مرد اچھے ہوں۔ یا جماعت اس کے معنے تو نہیں کہ اس کی عورتیں اچھی ہوں۔ یا جماعت اس کے معنے تو نہیں کہ اس کے بچے اچھے ہوں ۔یا جماعت اس کے معنے تو نہیں کہ اس کے متوسط الحال لوگ اچھے ہوں۔ یا جماعت اس کے معنے تو نہیں کہ اس کے علماء اچھے ہوں۔ یا جماعت اس کے معنے تو نہیں کہ اسکے جہلاء اچھے ہوں بلکہ جماعت اس کے معنے ہیں کہ اس کا ہر گروہ بحیثیت جماعت اچھا ہو۔ وہی جماعت اچھی کہلا سکتی ہے جس کے امراء بھی بحیثیت جماعت اچھے ہوں۔ شاذ و نادر کے طور پر اگر ان میں سے کوئی بگڑا ہؤا ہو تو یہ اَور بات ہے۔ ورنہ صحیح معنوں میں جماعت وہی کہلا سکتی ہے جس کے عام طور پر امراء بھی اچھے ہوں اور جس کے عام طور پر غرباء بھی اچھے ہوں۔ جس کے عام طور پر علماء بھی اچھے ہوں اور جس کے عام طور پر جہلاء بھی اچھے ہوں، جس کے عام طور پر مرد بھی اچھے ہوں اور جس کی عام طور پر عورتیں بھی اچھی ہوں، جس کے عام طور پر بچے بھی اچھے ہوں اور جس کے عام طور پر بوڑھے بھی اچھے ہوں۔ اگر کسی جماعت کا کسی ایک گروہ پر اثر پڑتا ہے دوسروں پر نہیں تو وہ یقیناً آسمانی جماعت نہیں کہلا سکتی۔ اس لئے کہ وہ محدود اثر رکھنے والی ہو گی۔ وہ قومی جماعت تو کہلا سکتی ہے مگر خدائی نہیں۔ خدائی جماعت وہ ہوتی ہے جو ہر گروہ کو مخاطب کرتی اور اپنے ہر مخاطب کو اپیل کرتی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء کی جماعت غرباء کی جماعت ہوتی ہے مگر اس کے صرف اتنے ہی معنے ہوتے ہیں کہ انبیاء کی جماعتوں میں غرباء کثرت سے شامل ہوتے ہیں۔ یہ معنے نہیں ہوتے کہ امراء ان میں شامل ہی نہیں ہوتے۔ چنانچہ دیکھ لو۔ رسول کریم ﷺ پر جو لوگ ایمان لائے وہ محض غرباء میں سے نہیں آئے بلکہ امراء میں سے بھی آئے۔ چنانچہ حضرت ابو بکرؓ بھی آئے، حضرت عثمانؓ بھی آئے اور یہ دونوں مالدار تھے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ بھی مالدار خاندان میں سے تھے۔یہی حال حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ کا تھا کہ وہ بھی اچھے مالدار خاندانوں میں سے تھے۔ اسی طرح غرباء بھی آئے، عورتیں بھی آئیں ، بچے بھی آئے، بوڑھے بھی آئے ، جوان بھی آئے۔ غرض سب کے سب آئے جو ثبوت تھا۔ اس بات کا کہ یہ کوئی خاص قسم کی پولٹیکل باڈی(Political - Body) نہیں تھی ۔ اگر پولٹیکل باڈی ہوتی تو اُنہی کی ہمدردی کھینچتی جن کو فائدہ پہنچانے کے لئے وہ کھڑی ہوئی تھی۔ مگر چونکہ یہ مذہب تھا اور مذہب کا تعلق ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہے اس لئے اس میں مرد بھی شامل ہوتے ہیں اور عورتیں بھی، امیر بھی شامل ہوتے ہیں اور غریب بھی، عالم بھی شامل ہوتے ہیں اور جاہل بھی، آزاد بھی شامل ہوتے ہیں اور غلام بھی۔ کیونکہ مذہب کا تعلق نہ امیر سے ہوتا ہے نہ غریب سے۔ نہ بوڑھے سے ہوتا ہے نہ جوان سے۔ نہ آزاد سے ہوتا ہے نہ غلام سے، نہ عالم سے ہوتا ہے نہ جاہل سے بلکہ سب سے اس کا تعلق ہوتا ہے اور ہر شخص خواہش رکھتا ہے کہ مَیں اس میں داخل ہو کر نجات حاصل کروں۔ مگر جو قومی جماعت ہوتی ہے وہ چونکہ مخصوص لوگوں سے تعلق رکھتی ہے اس لئے سب لوگ اس میں شامل نہیں ہوسکتے۔ احمدیت بھی اسی وقت دنیا پر اپنا رعب اور اثر پیدا کر سکتی ہے جب اس کا ہر طبقہ اپنے ایمان اور اخلاص کا ثبوت دے۔ محض غریبوں کا اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کر دینا یا ان کا اپنی اولادوں کو اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کر دینا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہو سکتا کہ احمدیت نے ہر طبقہ پر اپنا اثر ڈال لیا ہے۔ لازماً اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہماری جماعت کے امراء احمدیہ نظام کی خوبی کے پوری طرح قائل نہیں۔ وہ اپنے پرانے نظام کےہی دلدادہ ہیں اور وہ چاہتےہیں کہ ان کے پلاؤ کھاتے بیٹے ہمیشہ پلاؤ ہی کھاتے رہیں اور ان کے مخمل پہننے والے بچے ہمیشہ مخمل ہی پہنتے رہیں۔چونکہ وہ احمدیہ نظام کو اس کے خلاف پاتے ہیں اس لئے وہ اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
پس آج مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اگر احمدیت ایک اچھی چیز ہے، اگر احمدیت کی اتباع فائدہ بخش ہے اور اگر احمدیت کی اتباع انسان کو دین و دنیا میں سُرخرو کرنےوالی ہے تو امراء اور درمیانی طبقہ کے لوگ مجھے بتائیں کہ وہ اپنے بچوں کو اس عظیم الشان خدمت سے محروم کر کے ان کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں یا دوستی؟ اور کیا وہ اپنے بچوں کو اس طرف نہ بھیج کر اپنے ساتھ اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ محبت کر رہے ہیں یا ان پر خطرناک ظلم کر رہے ہیں؟ اگر احمدیت ایک اچھی چیز ہے اور اگر احمدیت کی اشاعت کے لئے اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو وقف کرنا خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے تو یقیناً قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے حضور وہ لوگ سُرخرو ہوں گے جنہوں نے اپنے بچے خدمتِ دین کے لئے پیش کئے ہوں گے اور یقیناً وہ بچے بھی سُرخرو ہوں گے جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے وقف کی ہوں گی۔ اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کرنے میں کوتاہی سے کام لیا ہو گا وہ خدا تعالیٰ کے حضور شرمندہ ہوں گے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی شرمندہ ہوں گے جنہوں نے نہ خود دین سمجھنے کی کوشش کی اور نہ اپنی اولادوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کیا۔ مَیں تو سمجھتا ہوں کہ اگر امراء اس طرف توجہ کریں تو انہیں بہت کچھ سہولت بھی ہے۔ وہ اپنی جائیداد کا کچھ حصہ ایسی اولاد کے لئے وقف کر سکتے ہیں۔ کلکتہ کے ایک احمدی دوست ہیں جنہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ میرا ایک بچہ جس کو مَیں نے خدمتِ دین کے لئے پیش کیا ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ اس کے لئے اپنی پچھتر ہزار کی ایک جائیداد وقف کر دوں تاکہ اس کی آمد اس کے کام آتی رہے۔ مَیں نے کہا یہ بہت عمدہ بات ہے۔ آپ ایسا ضرور کریں لیکن میرے نزدیک زیادہ بہتر یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ آپ یوں کریں کہ اپنی اس جائیداد کو ایک بچہ کے لئے وقف کر دیں۔ آپ اس جائیداد کو اس رنگ میں وقف کریں کہ آئندہ میری اولاد میں سے جو بھی اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کرے گا، اس جائیداد کی آمد اس کے لئے وقف رہے گی۔ اگر آپ اس طرح جائیداد کو وقف کریں گے تو اس کا فائدہ صرف ایک نسل تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ آپ کی آئندہ آنے والی نسلیں بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں گی۔ اب دیکھو یہ کیسااچھا طریق ہے۔ جو اس دوست نے اختیار کیا اور اگر ایک شخص ایسا کر سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ دوسرے لوگ بھی ایسا نہ کریں۔ مَیں نے دیکھا ہے حضرت خلیفہ اول بارہا فرمایا کرتے تھے کہ آخر وجہ کیا ہے کہ اگر کسی کے دو بیٹے ہوں اور ان میں سے ایک دنیا کمائے تو وہ اپنی کمائی کا ایک حصہ اپنے اس دوسرے بھائی کو نہ دے جس نے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہؤا ہو۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اس کی بڑی کثرت سے مثالیں ملتی ہیں یہاں تک کہ سب انصار نے یکدم اپنی ساری جائیدادیں مہاجرین کو پیش کر دیں اور انہیں اپنے ساتھ شریک کر لیا۔ رسول کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے تو آپ نے انصار سے فرمایا کہ اے انصار! مہاجرین یہاں اجنبی ہیں، باہر سے آئے ہوئے ہیں اور یہاں ان کے کوئی رشتہ دار نہیں۔ مَیں چاہتا ہوں کہ تمہیں آپس میں بھائی بھائی بنا دوں۔ چنانچہ آپ نے ایک ایک انصاری کو لیا اور اسے ایک ایک مہاجر کے ساتھ وابستہ کر دیا اور کہا کہ لو اب تم بھائی بھائی بن گئے ہو۔1 انہوں نے بھی اس اخوّت کو اتنی اہمیت دی کہ بعض نے اصرار کرنا شروع کر دیا کہ آؤ ہم اپنی جائیدادیں آپس میں تقسیم کر لیں کیونکہ جب ہم آپس میں بھائی بھائی بن چکے ہیں۔ تو اب ان جائیدادوں میں صرف ہمارا حصہ ہی نہیں بلکہ تمہارا حصہ بھی ہے۔ ایک شخص نے تو حد ہی کر دی وہ اپنے مہاجر بھائی کو گھر لے گیا اور کہا کہ میری دو بیویاں ہیں اور تم ابھی کنوارے ہو۔ ان دونوں میں سے جو بھی تمہیں پسند ہو مَیں اس کو طلاق دینے کے لئے تیار ہوں۔ تم اس سے شادی کر لو۔2 یہ الگ بات ہے کہ اس شخص کا یہ جوش انتہائی حد تک کو پہنچا ہؤا تھا۔ نہ مہاجر نے ایسا کیا اور نہ رسول کریم ﷺ نے اسے ایسا کرنے کے لئے کہا۔ مگر یہ بات ان کے اخلاص پر تو دلالت کرتی ہے۔ یہ بات بتاتی ہے کہ وہ کس طرح آپس میں بھائی بھائی بن گئے تھے اور پھر کس طرح انہوں نے اپنی جائدادوں میں دوسروں کو شریک بنا لیا۔ اگر بغیر کسی جسمانی رشتے کے انصار اپنے مہاجر بھائیوں کو آدھا آدھا مال دینے کے لئے تیار تھے تو کیا ایک ماں باپ سے پیدا ہونے والے بیٹے ایسا نہیں کر سکتے کہ ان میں سے جو شخص دنیا کما رہا ہو وہ اپنی کمائی کا آدھا حصہ اپنے اس بھائی کو دے دیا کرے جس نے اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہؤا ہو۔ وہاں تو صرف ایک ہی رشتہ تھا یعنی انصار اور مہاجرین کےد رمیان صرف روحانی رشتہ تھا جسمانی نہیں۔ پھر جہاں جسمانی اور روحانی دونوں رشتے ہوں وہاں ایک دوسرے کے لئے کس قدر قربانی کرنی چاہئے۔ مَیں تو سمجھتا ہوں اگر کسی باپ کے دو بیٹے ہوں تو ان دونوں کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنے باپ سے کہیں کہ اے ہمارے باپ! آپ ہم میں سے جس کو چاہیں دین کی طرف بھیج دیں اور جس کو چاہیں دنیا کمانے پر لگا لیں۔ ہم میں سے جو شخص دنیا کمائے گا وہ اپنی کمائی کا آدھا حصہ ہمیشہ اس بھائی کو دے دیا کرے گا جس نے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہو گا تاکہ اگر وہ کسی اَور طرح دین کی خدمت نہیں کر سکتا تو اسی رنگ میں حصہ لے کر اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرے۔ اگر قربانی اور ایثار سے کام لیا جائے تو مَیں سمجھتا ہوں اس قسم کا عزم کر لینا کوئی مشکل بات نہیں۔
اور اس کی مثالیں ہمیں اَور قوموں میں بھی مل سکتی ہیں۔ چنانچہ ہندوؤں میں اس کی ایک موٹی مثال موجود ہے۔ لالہ ہنسراج صاحب پرنسپل ڈی۔ اے۔وی۔ کالج لاہور جن کا ہندوؤں کی تعلیم میں سب سے زیادہ حصہ ہے وہ غریب ماں باپ کے بیٹے تھے۔ ایسے غریب ماں باپ کے کہ ان کا تعلیم پانا بھی مشکل تھا۔ ان کا ایک بھائی ڈاکخانہ میں ملازم تھا اور وہی ان کو تعلیمی اخراجات دیتا تھا۔ چنانچہ اسی کی مدد سے انہوں نے کالج کی تعلیم حاصل کی۔ اسی دوران میں پنڈت دیانند صاحب کی یادگار میں ڈی۔اے۔وی کالج قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور انہوں نے اپنے آپ کو قوم کی خدمت کے لئے وقف کر دیا۔ چونکہ انہوں نے قومی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا تھا ان کے بھائی نے کہا کہ مَیں ہمیشہ ان کو اپنی آدھی تنخواہ دیتا رہوں گا تاکہ یہ قوم پر بوجھ نہ بنیں۔ چنانچہ لالہ ہنسراج صاحب ساری عمرڈی۔ اے۔ وی کالج کے پرنسپل رہے اور انہوں نے اسے ادنیٰ حالت سے بہت بڑی ترقی تک پہنچا دیا۔ مگر قوم سے وہ کوئی روپیہ نہیں لیتے تھے۔ ہمیشہ ان کا بھائی اپنی تنخواہ میں سے نصف روپیہ ان کو بھجوا دیا کرتا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعد میں اس کی تنخواہ زیادہ ہو گئی تھی مگر بہرحال ایک ڈاکخانہ کے ملازم کی تنخواہ چار پانچ سو سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اس تنخواہ کا آدھا حصہ وہ برابر ان کو دیتا رہا اور اسی پر ان کا گزارہ رہا۔ یہ درست ہے کہ ہندوؤں کے پاس روپیہ حاصل کرنے کے اَور بھی ذرائع ہوتے ہیں۔ چونکہ ہندو مالدار قوم ہے اس لئے اگر کسی کے پاس تھوڑا سا روپیہ بھی ہو تو قومی احساس رکھنے والے بینکروں کو وہ روپیہ دے کر ہزاروں روپے کی جائیدادیں پیدا کر لیتے ہیں۔ مسلمان ایسا نہیں کر سکتے۔ لیکن بہرحال ہندوؤں میں سے ایک شخص نے یہ مثال پیش کر دی کہ وہ اپنے دوسرے بھائی کو جس نے قوم کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہؤا تھا ساری عمر اپنی آدھی تنخواہ دیتا رہا۔
یہ وہ نمونہ ہے جو سب سے پہلے رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ نے مدینہ میں پیش کیا جبکہ سارے شہر کے انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے آدھی آدھی جائیدادیں پیش کر دی تھیں۔ اگر رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ یہ نمونہ دکھا سکتے ہیں تو کیا وہی مثال رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ کا مثیل کہلانے والے احمدی اپنے نمونہ سے پیش نہیں کر سکتے؟ اور کیا آج ہر بھائی اپنے دوسرے بھائی کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ بھائی! اگر تجھے دین کی خدمت کا شوق ہے تو بے شک خوشی سے جا اور یہ کام کر، مَیں ہمیشہ اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ تجھے دیتا رہوں گا تاکہ قوم پر تُو بوجھ نہ بنے اور اپنا کام عمدگی کے ساتھ کرتا رہے؟ مَیں سمجھتا ہوں ایک طرف ماں باپ کے دلوں میں یہ تحریک پیدا ہونی چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو اسلام کی خدمت کے لئے اِدھر بھیجیں اور دوسری طرف خود بچوں کے دلوں میں یہ تحریک پیدا ہونی چاہئے کہ وہ اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور اپنے ماں باپ کو مجبور کریں کہ وہ انہیں اس طرف بھیجیں۔ یہ ایمان کا معاملہ ہے اور ایمان میں چھوٹے اور بڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔
رسول کریم ﷺ نے جب دعویٰ ٔ نبوت فرمایا اور آپؐ نے تبلیغ شروع کی تو لوگوں نے ہچکچانا اور بھاگنا اور اعراض کرنا شروع کر دیا۔ آپ نے سوچ بچار اور غور و فکر کے بعد ایک دن لوگوں کی دعوت کی اور ارادہ فرمایا کہ جب یہ لوگ کھانا کھا چکیں گے تو مَیں انہیں اسلام کی تبلیغ کروں گا۔ چنانچہ وہ لوگ آئے اور انہوں نے کھانا کھایا مگر جب کھانے سے فارغ ہونے کے بعد آپ تقریر کرنے لگے تو لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ رسول کریم ﷺ کو بہت ہی افسوس ہؤا کہ لوگوں کو سمجھانے کے لئے جو تدبیر اختیار کی گئی تھی وہ کارگر ثابت نہ ہوئی۔ حضرت علی ؓ کی عمر اُس وقت گیارہ سال تھی۔ انہوں نے کہا یَا رَسُولَ اللہ! آپؐ نے ان کو پہلے کھانا کھلا دیا اور تقریر بعد میں کی۔ اگر آپ پہلے تقریر کرتے اور انہیں کھانا بعد میں کھلاتے تو وہ کھانے کے انتظار میں ضرور بیٹھے رہتے اور آپ کی باتیں بھی سن لیتے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ ہے تو بچہ مگر اس کی بات معقول ہے۔ چنانچہ آپ نے ان کی پھر دعوت کی۔ جب وہ جمع ہو گئے تو آپ نے کھانا تقسیم کرنے سے پہلے ان کو اسلام کا پیغام پہنچانا شروع کر دیا۔ روٹی کی خاطر وہ مجبوراً بیٹھے رہے اور انہیں آپ کی باتیں سننی پڑیں۔ آپ نے بڑے زور سے تقریر کرنے کے بعد فرمایا۔ دیکھو! اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وقت بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود اور ان کی ترقی کے لئے ایک عظیم الشان دروازہ کھولا گیا ہے۔ اب تمہارے لئے موقع ہے کہ تم آگے بڑھو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے اعلیٰ مدارج حاصل کرو۔ آج باقی ساری دنیا سے زیادہ تمہارے لئے ترقی کے دروازے کُھلے ہیں اور خدا نے تمہیں اپنے فضل سے ایک بہت بڑا قیمتی موقع عطا فرمایا ہے۔ اب تمہارا فرض ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ اور ترقی کے سامانوں سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو۔ پھر آپؐ نے فرمایا۔ مَیں اللہ تعالیٰ کا پیغام تم کو پہنچا چکا ہوں۔ کیا تم میں سے کوئی سعید روح ہے۔جو آپ آگے بڑھے اور اللہ تعالیٰ کی آواز پر لَبَّیْک کہے؟وہ لوگ جو اپنے دلوں میں یہی سوچ رہے تھے کہ کھانا کب تقسیم ہوتا ہے، بِلاوجہ ہمارا وقت کیوں ضائع کیا جا رہا ہے وہ اس بات کا کیا جواب دے سکتے تھے۔ وہ خاموش رہے۔ رسول کریم ﷺ نے ایک دو دفعہ پھر پوچھا مگر جب کسی نے جواب نہ دیا تو حضرت علیؓ جو اُس وقت گیارہ برس کے بچے تھے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا یَا رَسُولَ اللہ! مَیں حاضر ہوں۔
تو حقیقت یہ ہے کہ ایمان بچے اور بڑے میں کوئی فرق نہیں کیا کرتا۔ بہت سے نوجوان صحابہؓ میں ایسے پائے جاتے ہیں جن کے ماں باپ ان کے شدید ترین مخالف تھے۔ وہ بارہ بارہ، چودہ چودہ اور پندرہ پندرہ سالوں کی عمر کے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا۔ اور جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارے ماں باپ ہمیں اس مذہب میں شامل ہونے سے روک رہے ہیں تو انہوں نے اپنی ماؤں کو چھوڑ دیا، اپنے باپوں کو چھوڑ دیا اور اپنے وطنوں کو چھوڑ دیا اور غریب الْوطنی کی زندگی بسر کی۔ اس کے بعد بھی جب انہوں نے دیکھا کہ ابھی تک ہمارے ماں باپ کی اس دشمنی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ جو وہ اسلام سے رکھتے ہیں تو انہوں نے اپنے ماں باپ کی شکلیں تک دیکھنا گوارا نہ کیا۔ وہ گئے اور انہوں نے اسلام کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیں۔
پس یہ تحریک صرف بڑوں کے لئے نہیں بچے بھی اس تحریک کے مخاطب ہیں۔ اگر ماں باپ اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کرنے کو تیار نہیں اور بچوں کے دلوں میں ذاتی طور پر یہ جذبہ پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربان کر دیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ اے ہمارے باپ! یا اے ہماری ماں! آپ ہمیں دین کی تعلیم کے لئے آزاد کر دیں ۔ہمیں دنیوی کاموں پر لگانے کا ارادہ آپ ترک کر دیں اور دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیں ۔ اور اگر بچوں میں یہ تحریک پیدا نہ ہو تو ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ خود اپنے بچوں پر زور ڈالیں اور انہیں کہیں کہ دنیوی تعلیم کو چھوڑو اور خدا کے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرو ۔ کیا پتہ کہ تم اپنی تعلیم کے مکمل ہونے تک زندہ بھی رہتے ہو یا نہیں مگریہ وہ تعلیم ہے کہ اگراس تعلیم کے حصول کے دوران میں بھی تم مر گئے تو تم مجاہد کہلاؤ گے۔ ایک شخص جو مدرسہ ہائی یا تعلیم الاسلام کالج میں پڑھتا ہے بغیر اس نیت اور ارادہ کے کہ وہ اس تعلیم کے نتیجہ میں دین کی خدمت کرے گا وہ اگر مر جاتا ہے پیشتر اس کے کہ اپنی تعلیم کو مکمل کرے تو وہ ایک ایسا بیج ہے جو ضائع گیا۔ مگر وہ جو دین کی خدمت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس نیت سے تعلیم حاصل کر رہا ہے وہ اگر تعلیم کے دوران میں ہی مر جاتا ہے تو وہ ایسا بیج نہیں جو ضائع چلا گیا بلکہ ایک گٹھلی ہے جو یہاں سے نکالی گئی اور اگلے جہان میں بودی گئی۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کے متعلق الہام ہؤا کہ ‘‘کابل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا۔’’3 جب دنیا نے کابل کی سر زمین میں ان کی زندگی کا پودا کاٹ کر پھینک دیا تو اللہ تعالیٰ ان کی روح کو لے کر اپنی جنت میں لے گیا اور اس نے قادیان کے باغ ِجنت میں ان کو داخل کردیا۔ پس مَیں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ بڑے بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور چھوٹے بھی۔ اگر ماں باپ اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کرنے کو تیار نہ ہوں تو بچوں کو چاہئے کہ وہ ان سے روٹھ کر بیٹھ جائیں اور کہیں کہ پہلے ہماری بات مانی جائے پھر ہم راضی ہوں گے۔ اگر بچے اپنے ماں باپ سے کپڑوں کے لئے روٹھ سکتے ہیں، اگر بچے اپنے ماں باپ سے کھانے پینے کی چیزوں کے لئے روٹھ سکتے ہیں، اگربچے اپنے ماں باپ سے جوتی اور بوٹ کے لئے روٹھ سکتے ہیں،اگر بچے اپنے ماں باپ سے روٹھ کر انہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابّا جب تک آپ فلاں کپڑا مجھے خرید کر نہیں دیں گے مَیں کھانا نہیں کھاؤں گا، یا اماں جب تک مجھے فلاں چیز نہ دی گئی مَیں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ تو کیا وہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین کے لئے اپنے ماں باپ سے روٹھ نہیں سکتے؟ کیا وہ اپنے ماں باپ سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کرنے کا موقع دیا جائے ورنہ ہم روٹھےرہیں گے اور کوئی چیز نہ کھائیں گے نہ پئیں گے۔
ستیہ گرہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ گاندھی جی کی ایجاد ہے حالانکہ ستیہ گرہ وہ چیز ہے جو بچوں نے آدم کےو قت سے ایجاد کی ہوئی ہے۔ گاندھی جی کی ستیہ گرہ تو ہم نے 1918ء یا 1919ء میں سنی ہے مگر ہم تو خود اپنے بچپن کے زمانہ میں کئی دفعہ ستیہ گرہ کیا کرتے تھے۔ بسا اوقات کسی بات پر خفا ہو کر ہم کھانا کھانا چھوڑ دیتے تھے اور گھر والے ہمیں منانے کی کوشش کرتے تھے۔ اس ستیہ گرہ میں کئی دفعہ ہم اپنی بات ماں باپ سے منوا لیا کرتے تھے اور کئی دفعہ گاندھی جی کی طرح ہم شکست کھا کر روزہ توڑ دیا کرتے تھے۔ بہرحال یہ ایک ایسی چیز ہے کہ دنیا میں ہمیشہ سے ہوتی چلی آئی ہے۔ پس اگر ماں باپ کے دلوں میں یہ رغبت نہیں پائی جاتی کہ وہ اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لئے پیش کریں تو کیوں بچے خود صحن میں ستیہ گرہ کر کے نہیں بیٹھ جاتے اور کیوں اپنے ماں باپ سے نہیں کہتے کہ آپ ہماری زندگیوں کو کیوں تباہ کرتے ہیں اور کیوں ہمیں خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے جانے نہیں دیتے۔ آخر کام تو سامانوں سے ہی ہؤا کرتے ہیں۔ روحانی کام ہوں یا جسمانی سب میں اسباب اور سامان ضروری ہوتے ہیں۔ اس قانون کے مطابق ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ روحانی ترقی کے اللہ تعالیٰ نے جو سامان پیدا کئے ہیں ان سے فائدہ اٹھائیں اور ان کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم ان سامانوں کو حاصل نہیں کرتے تو یقیناً ہم اپنی کامیابی کو دور پھینکتے چلے جاتے ہیں۔ خدائی کام تو بہرحال ہو کر رہیں گے اور اسلام دوسرے اَدیان پر ضرور غلبہ حاصل کرے گا۔ یہ وہ خدائی تقدیر ہے جو کبھی ٹل نہیں سکتی ۔لیکن اگر ہم اسلام کے غلبہ اور اس کی فتح کے دن کو ہر قسم کے اسباب سے کام لے کر اپنے قریب نہیں کر سکتے تو کم از کم ہمیں اس دن کو اور زیادہ دور تو نہیں کرنا چاہئے۔
اس وقت ساری دنیا سے ہمیں آوازیں آ رہی ہیں اور لوگ پکار پکار کر ہم سے اپنی ضروریات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ آوازیں اتنی کثرت اور اس قدر تواتر کے ساتھ آ رہی ہیں کہ ہم ان کا جواب دیتے دیتے تھک گئے ہیں۔ آدمی ہمارے پاس نہیں کہ ہم مختلف ممالک کو مہیا کر سکیں او رمطالبات ہیں کہ وہ روز بروز بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ درجنوں آدمیوں کا افریقہ سے مطالبہ ہو رہا ہے اور درجنوں آدمیوں کی دوسرے غیر ممالک میں ضرورت ہے۔ ابھی سماٹرا اور جاوا کے راستے کھلنےو الے ہیں اور وہاں ہمیں درجنوں آدمی بھجوانے کی ضرورت ہو گی۔ ان علاقوں سے جو خطوط آئے ہیں ان میں دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم نے اس جنگ میں اپنی آنکھوں سے وہ نظارے دیکھے ہیں جن کا قیامت کے متعلق پہلے ہم خیال کیا کرتے تھے۔ ان نظاروں کو دیکھنے کے بعد اب ہم سمجھتے ہیں کہ احمدیت کی اشاعت کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنا ہمارے لئے آسان ہے۔ پہلے ہمیں پتہ نہیں تھا کہ دنیا کن کن حالات میں سے گزرنے والی ہے لیکن اب جبکہ ان حالات کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے ہمیں اپنی زندگیاں بالکل حقیر معلوم ہوتی ہیں اور دنیا کا عیش اور آرام ہماری نگاہ میں بالکل بے حقیقت ہو گیا ہے کیونکہ ہم چار سال تک ایک دوزخ میں رہے ہیں اور ہم نے وہ نظارے دیکھے ہیں جنہوں نے دنیا کی محبت ہم پر سرد کر دی ہے۔یہ وہ ممالک ہیں جن میں رہنے والوں کے دل بالکل ہلے ہوئے ہیں اور وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں زیادہ زور کے ساتھ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی جائے۔ چنانچہ اب جوں جوں رستے کھلتے چلے جائیں گے ہمیں ان ممالک کی طرف زیادہ سے زیادہ لوگ بھجوانے پڑیں گے۔ اسی طرح یورپ اور دوسرے ممالک کے لئے بھی ہمیں درجنوں آدمیوں کی ضرورت ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں خود بخود ایسے سامان پیدا کر رہا ہے جو اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے نہایت خوش کن ہیں اور آسمان سے ایک ایسی ہوا چل رہی ہے جو لوگوں کے قلوب کو صداقت کی طرف مائل کر رہی ہے۔ ایک طرف افریقہ کے حبشیوں میں سے زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام کے متعلق اپنی رغبت کا اظہار کر رہے ہیں تو دوسری طرف عربوں میں باوجود ان کی شدید مخالفت اور تکبر کے ایک طبقہ ایسا پیدا ہو رہا ہے جو احمدیت کے اصول کو درست سمجھتا اور اس کی تعلیم سے رغبت رکھتا ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہماری جماعت کے ایک دوست مصر گئے تو انہوں نے اَزہر یونیورسٹی کے ایک بہت بڑے عالم سے جو وہاں کے وائس پریذیڈنٹ اور مفتیوں کی مجلس کے صدر ہیں سے سوال کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں وہ یہ دلائل دیتے ہیں۔ آپ بتائیں کہ اصل حقیقت کیاہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں؟ اس عالم نے بڑی دلیری سے جواب دیا کہ قرآن کریم سے تو یہی پتہ لگتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ نیز انہوں نے مُتَوَفِّیْکَ کے معنوں کے متعلق لکھا کہ جہاں تک ہم عرب لوگ اس لفظ کی حقیقت کو سمجھتے ہیں تَوَفِّیْ کے معنے قبضِ روح کے ہی ہیں۔ ان سے یہ بھی سوال کیا گیا تھا کہ اگر تَوَفِّیْ کے معنے موت کئے جائیں اور کہا جائے کہ قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ کی وفات ثابت ہے تو اس سے احمدیہ جماعت کو تقویت پہنچے گی۔ انہوں نے بڑی دلیری سے اس کے جواب میں لکھا کہ مجھے احمدیت کے پھیلنے یا نہ پھیلنے سے کوئی غرض نہیں۔ اگر احمدیت پھیلتی ہے توبے شک پھیل جائے قرآن کریم سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ اب دیکھو یہ کتنا دلیرانہ بیان ہے کہ ہر قسم کی ملامت سے بے خوف ہو کر انہوں نے کہہ دیا کہ دنیا خواہ کچھ کہے حقیقت یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں کیونکہ قرآن کریم سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ غرض ایک عظیم الشان تغیر ہے جو دنیا میں پیدا ہو رہا ہے اور ایک رَو ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے چلائی جا رہی ہے۔ پچھلے سال ازہر یونیورسٹی کے ایک بہت بڑے عالم نے بیعت کی تھی۔ اب تازہ اطلاع یہ آئی ہے کہ ازہر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے چار طلباء احمدی ہو گئے ہیں مگر انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے نام ابھی ظاہر نہ کئے جائیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں یہاں سے نکال دیاجائے۔ ایک انگریز نَو مسلم کی اطلاع ہے کہ چار نہیں چھ سات کے قریب طالب علم احمدی ہو چکے ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک عظیم الشان رَو احمدیت کی تائید میں چل رہی ہے۔ ازہر وہ یونیورسٹی ہے جہاں تعلیم حاصل کرنےو الے یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں کوئی شخص ان کو سکھانے والا نہیں ہو سکتا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے سال سے ایک عجیب تغیر پیدا ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال ایک شخص نے بیعت کی تھی اور اس سال چار طلباء نے بیعت کی ہے بلکہ انگریز نَو مسلم کی روایت کے مطابق چھ سات طلباء احمدی ہو چکے ہیں۔ ممکن ہے اصل حقیقت یہ ہو کہ چار نے بیعت کی ہو اور دو تین بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ بہرحال یہ بڑھتی ہوئی رفتار بتا رہی ہے کہ علم کا وہ منبع جو دنیا میں چوٹی کی حیثیت رکھتا ہے اس کے طلباء میں بھی یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ اگر ہمیں اپنی روح کی تسکین کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے دین کا علم صحیح طور پر حاصل کرنا ہے اور اگر ہمارا مقصد خدا تعالیٰ کا قُرب اور اس کی رضا کا حصول ہے تو یہ مقصد احمدیت کے سوا اور کہیں حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہ رَو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں پیدا کی جا رہی ہے اور جس کے نتیجہ میں لوگوں کی توجہ ہماری طرف پھر رہی ہے اس کی وجہ سے ہماری ذمہ داریوں میں اَور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ اور ہمارا فرض ہے کہ ہم آنے والے حالات کے لئے اپنے آپ کو پوری طرح تیار کریں اور اپنے پاس علماء کی ایسی جماعت تیار رکھیں جو ضرورت کے وقت ہم ان کی طرف روانہ کر سکیں۔ آخر یہ لازمی بات ہے کہ جب یہ آواز اَور زیادہ ممالک میں پھیلے گی۔ جب ازہر کے طلباء باہر نکلیں گے اور وہ لوگوں کو بتائیں گے کہ ہم احمدی ہیں تو لوگوں کی پیاس اور زیادہ بڑھنی شروع ہو جائے گی اور ان میں کُرید اور جستجو کا مادہ پہلے سے زیادہ ترقی کر جائے گا۔ وہ جو پہلے احمدیت کو تنفّر کی نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے اب محبت اور پیار سے دیکھنے لگ جائیں گے اور ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو گا کہ آؤ ہم بھی دیکھیں احمدیت کیا چیز ہے۔ پھر جیسا کہ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کی سنت چلی آتی ہے یہ بیج اِنْشَاءَ اللہ ترقی کرے گا اور زیادہ سے زیادہ بڑھتا چلا جائے گا۔ آج اگر چار یا سات ازہر کے تعلیم یافتہ آدمی احمدی ہیں تو کل یہ تعداد دس تک پہنچ جائے گی؟ پھر دس سے بیس تک پہنچ جائے گی۔ پھر بیس سے پچیس تک پہنچ جائے گی اور پھر پچاس سے سینکڑوں تک پہنچ جائے گی؟ اور اتنی بڑی تعداد میں ازہر کے تعلیم یافتہ احباب کا احمدیت میں شامل ہونا یقیناً مصر میں ایک زلزلہ کے مترادف ہو گا۔ کیونکہ مصر ہمیشہ دعویٰ کرتا ہے کہ جامعہ ازہر دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے اور جامعہ ازہر دنیا کے تمام مسلمانوں کی حفاظت کا کام سر انجام دے رہی ہے۔ اس دعویٰ کے ساتھ جب لوگوں میں یہ بات پھیلنی شروع ہوئی کہ ازہر کے طلباء او رعلماء سب احمدی ہوتے چلے جا رہے ہیں تو یہ اتنا بڑا زلزلہ ہو گا کہ مَیں سمجھتا ہوں مصر میں اتنا بڑا زلزلہ پچھلے ہزار سال میں بھی نہیں آیا ہو گا۔ لوگ حیران ہوں گے کہ احمدیت کیا چیز ہے اور کیوں لوگوں میں اس کی قبولیت زیادہ سے زیادہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں یہ لازمی بات ہے کہ جب احمدیت کی آواز اردگرد کے علاقوں میں پھیلے گی اور لوگوں میں یہ بات مشہور ہو گی کہ جامعہ ازہر میں پڑھنے والے احمدی بن رہے ہیں تو اَور ہزاروں لوگوں اور اردگرد کےتمام علاقوں میں بھی جستجو پیدا ہو گی کہ آؤ ہم بھی دیکھیں وہ کونسی چیز ہے جس نے ازہر پر بھی غلبہ پانا شروع کر دیا ہے۔ ہم بھی اس کی تحقیق کریں اور معلوم کریں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ اس وقت جب لوگ ہم سے مطالبہ کریں گے کہ آپ اپنے آدمی بھجوائیں جو ہمیں احمدیت کی حقیقت سمجھائیں۔ کیا چیز ہے جو ہم ان کو پیش کریں گے ؟ کیا ہم ان کو یہ کہلا کر بھیجیں گے کہ ابھی ہم اپنے امراء میں جوش پیدا کر رہے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے لئے مدرسہ احمدیہ میں داخل کریں۔ جب امراء کی اصلاح ہوجائے گی اور وہ اپنے لڑکوں کو مدرسہ احمدیہ میں بھجوانا شروع کر دیں گے تو ہم پہلے چار سال ان کو مدرسہ احمدیہ میں تعلیم دلوائیں گے پھر جامعہ احمدیہ میں تعلیم دلوائیں گے اور پھر ایک عرصہ کے بعد جب ہمارے پاس علماء تیار ہو جائیں گے تو ہم انہیں تمہارے پاس بھجوا دیں گے؟ اگر ہم ان کو یہ جواب دیں گے تو ہمارا یہ جواب ایسا ہی ہو گا جیسے کہتے ہیں کہ ایک امیر کے پاس کوئی فقیر آیا اور اس نے کچھ صدقہ مانگا۔ وہ امیر تھا بخیل،اس نے اپنے نوکر کو آواز دی اور پھر اپنی عظمت اور جلال کے اظہار کے لئے بڑے بڑے نام لینے شروع کر دئیے اور کہا کہ اے ہیرے! تُو موتی سے کہہ اور اے موتی! تُو زمرد سے کہہ اور اے زمرد! تُو سونا سے کہہ اور اے سونے! تُو چاندی سے کہہ اور اے چاندی! تُو اِس فقیر کو کہہ کہ جا چلا جا میرے پاس کچھ نہیں۔ نام تو اس نے کتنے ہی لئے مگر آخر میں کہہ دیا کہ میرے پاس کچھ نہیں۔ یہی ہم کریں گے کہ جس جس ملک سے مبلغین کا مطالبہ ہو گا ہم اس بخیل امیر کی طرح انہیں یہی کہہ سکیں گے کہ ابھی ہم اپنی جماعت کے دوستوں کو تیار کر رہے ہیں اور ان کے دلوں میں ایمان پیدا کر رہے ہیں، جس دن ان کے دلوں میں ایمان پیدا ہو گیا اور انہوں نے ہماری تحریک پر لبیک کہا ہم تمہاری ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام شروع کر دیں گے۔ کیا وہ ہمیں یہ جواب نہیں دیں گے کہ اگر تم ابھی اپنی جماعت میں ایمان ہی پیدا کر رہے ہو تو ہم نے کیوں بیوقوفی کی کہ تمہارے پاس آئے؟ ہم نے تو سمجھا تھا کہ تمہارے پاس ایمان ہے۔ ایسی صورت میں دنیا ہمارے ان فقرات کا وہی جواب دے گی جو اس فقیر نے امیر کو دیا تھا۔ جب امیر نے اپنے نوکروں کے بڑے بڑے نام لے کر کہا کہ میرے پاس کچھ نہیں۔ تو وہ فقیر کہنے لگا اے خدا ! تُو جبرائیل سے کہہ اور اے جبرائیل! تُواسرافیل سے کہہ اور اَے اسرافیل! تُو میکائیل سے کہہ اور اے میکائیل! تُو عزرائیل سے کہہ ، وہ اس بخیل امیر کی جان نکال لے۔ ہم کو بھی دنیا کی طرف سے ایسا ہی جواب ملے گا اور ہم شرمندہ ہوں گے کہ ہم نے ان کے مطالبہ کو پورا نہ کیا۔ پس ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہئے تا جب بھی غیر ممالک کی طرف سے کوئی مطالبہ آئے ہم فوراً اس مطالبہ کو پورا کر سکیں۔
یاد رکھیں! مومن جماعت وہ ہؤا کرتی ہے جس کے سپاہی ہر وقت تیار کھڑے رہتے ہیں۔ صرف دروازہ کھلنے کی دیر ہوتی ہے۔ دروازہ کھلتا ہے تو وہ اندر پہنچ جاتے ہیں۔ مگر ہماری حالت یہ ہے کہ دروازے کھل رہے ہیں اور ہم سپاہیوں کو بھرتی کرنے کی فکر میں اِدھر اُدھر پِھر رہے ہیں۔ مَیں جماعت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایسے نازک موقع پر مومنوں کو غداری سے کام نہیں لینا چاہئے۔ آج ہر شخص کو چاہئے کو وہ آگے بڑھے اور اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دے۔ مگر چونکہ ہر شخص پہلے دن ہی اسلام کی خدمت نہیں کر سکتا بلکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ اسے کچھ مدت تک تعلیم دلائی جائے اس لئے ہم پہلے کچھ عرصہ تک انہیں دینی تعلیم دلائیں گے اور پھر اصل کام پر مقرر کریں گے۔ بہرحال ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جو میٹرک پاس ہوں یا مڈل پاس دین کی خدمت کے لئے ہمارے سامنے پیش کریں۔ ان میں سے بعض کو مدرسہ احمدیہ میں اور بعض کو جامعہ احمدیہ کی سپیشل کلاس میں داخل کیا جائے گا تاکہ ان کو جلد سے جلد دین کی خدمت کے لئے تیار کیا جا سکے۔ جب یہ نوجوان تعلیم حاصل کر لیں گے تو ہم اس دن کا انتظار کریں گے جب باہر سے مطالبات آئیں اور ہم ان کو بیرونی ممالک میں اعلائے کلمۂ اسلام کے لئے بھجوا سکیں۔ لیکن اس کے علاوہ ہمیں فوری طور پر بھی ایسے گریجوایٹوں اور مولوی فاضلوں کی ضرورت ہے جن کو قلیل سے قلیل عرصہ میں کاموں پر لگایا جا سکے۔ اس وقت ہمیں کئی قسم کے کارکنان کی ضرورت ہے مگر آدمیوں کی قلّت کی وجہ سے ہمارے بہت سے کام ادھورے پڑے ہوئے ہیں۔ اگر مولوی فاضل یا گریجوایٹ ہمیں مل جائیں تو ہم اس قسم کی ضروریات کو آسانی کے ساتھ پورا کر سکتے ہیں۔
پس مَیں آج کے خطبہ کے ذریعہ ایک دفعہ پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں ۔ اس وقت ہماری بیچارگی حد سے بڑھی ہوئی ہے اور ہماری حالت اُحد کے ان مُردوں کی طرح ہو رہی ہے جن کے کفن کے لئے اتنا تھوڑا کپڑا تھا کہ اگر ان کے سر ڈھانکتے تھے تو پیر ننگے ہو جاتے تھے اور اگر پَیر ڈھانکتے تھے تو سر ننگے ہو جاتے تھے۔ ہم ایک جگہ اپنا مبلغ بھجواتے ہیں تو دوسری جگہ کی مانگ کو پورا نہیں کر سکتے۔ دوسری جگہ کی مانگ کو پورا کرتے ہیں تو پہلی طرف سے ہمیں غافل رہنا پڑتا ہے۔ پس آج انتہائی ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ نوجوان جو مولوی فاضل یا گریجوایٹ ہیں اپنے آپ کو خدمتِ سلسلہ کے لئے پیش کریں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت سے مولوی فاضل اور گریجوایٹ اپنی زندگیاں وقف کر چکے ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ پھر بھی ابھی بعض مولوی فاضل اور گریجوایٹ چھپے بیٹھے ہوں اور انہوں نے اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش نہ کیا ہو۔ کہتے ہیں جب مرتبان میں سے دوائی ختم ہو جاتی ہے تو تلاش کرنے سے اس کے کونوں میں سے کچھ نہ کچھ نکل آیا کرتی ہے۔ پس بے شک بہت سے گریجوایٹ اور مولوی فاضل جو ہماری جماعت میں پائے جاتے تھے اور جو اس کام کے لئے فارغ ہو سکتے تھے ختم ہو چکے ہیں اور اب ایک دو سال تک ہمیں نئے گریجوایٹوں اور مولوی فاضلوں کا انتظار کرنا ہو گا۔ لیکن پھر بھی ممکن ہے کہ ابھی بعض گریجوایٹ اور مولوی فاضل رہتے ہوں جنہوں نے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش نہ کیا ہو۔ اور کچھ ایسے گریجوایٹ اور مولوی فاضل بھی ہو سکتے ہیں جو اس سال امتحان دینے والے ہوں۔ بہرحال جو بچے کھچے مولوی فاضل اور گریجوایٹ ہوں، اسی طرح وہ گریجوایٹ اور مولوی فاضل جو اس سال امتحان دینے والے ہوں ان سب کو چاہئے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں۔ اگر پچھلے سالوں کے مولوی فاضل اور گریجوایٹ اور کچھ ایسے مولوی فاضل اور گریجوایٹ ہمیں مل جائیں جو اس سال امتحان دینے والے ہوں تو ہم ان سب کو تیار کر کے اس دن کا انتظار کر سکتے ہیں جس دن ہمیں زیادہ شان اور زیادہ زور کے ساتھ دشمن پر دھاوا بولنا پڑے گا۔ آخر یہ کام نہ چند روپوں کا ہے نہ چند افراد کا ہے۔ جس طرح جرمنوں اور انگریزوں کی جنگ میں کئی کروڑ فوجی شامل ہوئے تھے اسی طرح اس روحانی جنگ میں بھی ہمیں کروڑوں افراد دھکیلنے پڑیں گے۔ بے شک ہماری موجودہ حالت ایسی نہیں کہ ہم اس جنگ میں کروڑوں افراد دھکیل سکیں لیکن ہمیں کام تو ایسے رنگ میں کرنا چاہئے کہ ایک دن کروڑوں تک پہنچ جانے کی امید کی جا سکے۔ بہرحال جب تک وہ دن نہیں آتا ہمارا فرض ہے کہ ہمارے پاس موجودہ وقت میں جو انتہائی طاقت ہے اسے صَرف کر دیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور سُرخرُو ہو جائیں۔ اگر ہم اس وقت اپنی انتہائی طاقت خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لئے صَرف کر دیں گے تو ہماری یہ انتہائی طاقت اس بات کی ضامن ہو گی کہ جس دن ہمارے پاس کروڑوں افراد آئیں ، اس دن ہم اپنے کروڑوں افراد بھی اس خدمت کے لئے پیش کر دیں گے اور اس میں ایک لمحہ کا بھی تأمل نہیں کریں گے۔ دنیا محض الفاظ پر تسلی نہیں پا سکتی۔ وہ ہمارے عمل کو دیکھتی اور اس سے نتائج اخذ کرتی ہے۔ اگر ہم اپنے اندر جنون کا رنگ پیدا کر کے دنیا کو دکھا دیں گے اور اگر ہم پاگلوں کی طرح ان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بیتاب پھر رہے ہوں گے تو ان کی روح مطمئن ہو گی۔ وہ تسلی سے بیٹھ جائیں گے اور کہیں گے انہوں نے اپنے دل نکال کر ہماری طرف پھینک دئیے ہیں، انہوں نے اپنے جگر نکال کر ہماری طرف پھینک دئیے ہیں، انہوں نے اپنی انتڑیاں نکال کر ہماری طرف پھینک دی ہیں۔ اس سے زیادہ قربانی کی ہم ان سے امید نہیں کر سکتے۔ یہ ایک ایسا خوشکن احساس ہو گا جس کے ماتحت وہ تسلی سے بیٹھ جائیں گے اور انہیں ہمارے متعلق کوئی شکوہ پیدا نہیں ہو گا۔ لیکن اگر وہ دیکھیں گے کہ ہم آرام سے بیٹھے ہیں اور ان کی ضروریات پورا کرنے کا ہمیں کوئی فکر نہیں۔ تو لازماً دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور رونما ہو گی۔ یا تو وہ اپنے کفر پر تسلی پا کر بیٹھ جائیں گے اور یا ایک نئی قسم کی احمدیت ایجاد کر کے اپنے اندر داخل کر لیں گے۔ اور یہ دونوں باتیں نہایت خطرناک نتائج پیدا کرنے والی ہیں۔
پس دونوں گروہوں کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے۔ بڑوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور نوجوانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ ماں باپ کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے فرائض کا احساس کریں اور بچوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی آئندہ زندگی کا فکر کریں تاکہ پیشتر اس کے کہ ہم پر وہ شرمندگی کا دن آئے کہ جماعتیں ہم سے آدمی طلب کریں اور ہم ان کی مانگ پورا کرنے سے قاصر ہوں۔ غیر ممالک کی طرف سے مبلغین کا مطالبہ ہو اور ہم کہیں کہ ہمارے پاس کوئی مبلغ نہیں۔ ہم اپنے آپ کو پوری طرح تیار کر لیں اور دنیا کی ضروریات پورا کرنے کا ہمارے پاس مکمل سامان موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کی امداد کرے اور آپ کے ایمان اور اخلاص میں برکت پیدا کرے تاکہ اس اہم کام کی طرف آپ متوجہ ہوں اور دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر کے آپ لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کریں۔’’ (الفضل یکم مئی 1946ء )
1: مسلم کتاب الجھاد باب رد المھاجرین الی الانصار منائحھم (الخ)
2: ترمذی کتاب البر و الصلة باب ما جاء فی مواساة (الاخ)
3: تذکرہ صفحہ 484 ایڈیشن چہارم


13
رسول کریم ﷺ کی صداقت کی ایک زبردست دلیل
( فرمودہ 19 ؍اپریل 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےاَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا۔1تُو نے اپنے رب کے اس اظہار کو نہیں دیکھا کہ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ اس نے کس طرح سائے کو لمبا کر دیا ہے۔ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا۔ اگر چاہتا تو وہ اس کو ساکن بنا دیتا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا۔ پھر ہم نے سورج کو اس پر ایک دلیل بنایا ہے۔ یہ ایک زبردست صداقت رسول کریم ﷺ کی ہے۔ جس وقت سے رسول کریم ﷺ نے دنیا میں ظہور فرمایا ہے اس وقت سے برابر آپؐ کا سایہ کسی نہ کسی شکل میں ممتد ہوتا چلا جاتا ہے۔ آپؐ کی زندگی میں ایک ساعت بھی تو ایسی نہیں آئی کہ آپؐ کی تعلیم نے پیچھے قدم ہٹایا ہو۔ پہلے ہی دن جب آپ پر الہام نازل ہؤا اور آپؐ اس بات سے گھبرائے کہ یہ کام مَیں کیونکر سر انجام دے سکوں گا، دلوں کا فتح کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ تو آپؐ گھبرائے ہوئے اپنے گھر تشریف لائے اور اپنی بیوی کو یہ خدشہ بتایا کہ اتنی بڑی ذمہ داری خدا نے مجھ پر ڈال دی ہے اب مَیں کیا کروں؟ اس پر پہلا ہی جواب جو آپؐ کی بیوی نے آپؐ کو دیا وہ یہ تھا کہ کَلَّا وَاللہِ لَا یُخْزِیْکَ اللہُ اَبَدًا 2 ہرگز نہیں، ہرگز نہیں مجھے خدا کی قسم ہے کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی نہیں چھوڑے گا۔ گویا جس وقت آپؐ نے اپنے خدشات کا اظہار فرمایا خدا تعالیٰ نے معاً آپؐ کے سایہ کو بڑھا دیا اور آپؐ کی بیوی آپؐ کے مذہب میں شامل ہو گئی۔
عورتیں بظاہر تردّد کرنے والی اور مُتَشَکِّک طبیعت کی ہوتی ہیں مگر حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کی بات کو سُنتے ہی کہا کہ پہلا سایہ تو مَیں آپؐ کا بنتی ہوں۔ پس فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ دیکھتے نہیں کہ ہم کس طرح تیرے سایہ کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ پھر حضرت خدیجہؓ آپؐ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ وہ عربوں میں سے یہودی اور اسرائیلی علوم کے ماہر تھے۔ جب حضرت خدیجہؓ نے رسول کریم ﷺ کو ان کے سامنے پیش کیا اور سارا واقعہ سنایا تو انہوں نے کہا بس ان پر وہی فرشتہ اُترا ہے جو موسیٰ پر اُترا تھا۔3 اس طرح ورقہ نے کہا کہ لو مَیں بھی اس سایہ میں شامل ہوتا ہوں۔ یہی حقیقت اللہ تعالیٰ اس آیت میں بیان فرماتا ہے کہ اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ تم دیکھتے نہیں کہ ہم آپ کے سایہ کو کس طرح بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے ہی دن جب آپؐ دوسرے آدمی کے پاس پہنچے تو آپؐ کا سایہ اَور لمبا ہو گیا۔ پھر جب گھر میں آ کر اس بات کا ذکر میاں اور بیوی نے کیا تو ایک آزاد کردہ غلام کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ مجھے بھی اپنے سایوں میں شامل کر لیجئے۔ جوانی کے قریب پہنچے ہوئے علیؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ مَیں بھی آپؐ کا سایہ بنتا ہوں۔ آپؐ کے بچپن کے دوست ابو بکرؓ نے جب یہ واقعہ سنا تو وہ دوڑتے ہوئے آئے اور انہوں نے کہا یَا رَسُولَ اللہ! مَیں بھی آپ پر ایمان لاتا ہوں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہاَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ۔ دنیا میں نبیوں کی مخالفتیں تو ہؤا ہی کرتی ہیں اور آپؐ کی بھی سخت مخالفت ہوئی لیکن رسول کریم ﷺ کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائی ایام میں ہی وہ لوگ جو آپؐ کے اردگرد رہتے تھے یا جن کی رائے کوئی قیمت رکھتی تھی آپؐ کے ساتھ شامل ہو گئے اور اس طرح آپؐ کا سایہ فوراً ہی ممتد ہو گیا۔ ایک دن بھی تو رسول کریم ﷺ پر ایسا نہیں گزرا کہ آپؐ کا سایہ لمبا نہ ہؤا ہو۔ یہ نہیں ہؤا کہ آپؐ کے دعویٰ پر ایک دن گزر گیا ہو اور آپؐ کا کوئی تابع نہ ہؤا ہو۔ دو دن گزر گئے ہوں اور آپؐ کا کوئی تابع نہ ہؤا ہو۔ دس دن گزر گئے ہوں اور آپؐ کا کوئی تابع نہ ہؤا ہو۔ یا مہینہ دو مہینے گزر گئے ہوں اور آپؐ کا کوئی تابع نہ ہؤا ہو۔ بلکہ پہلے ہی دن جب آپؐ اللہ تعالیٰ کے الہام کا ذکر فرماتے ہیں فوراً آپؐ کا سایہ لمباہو جاتا اور حضرت خدیجہؓ آپؐ پر ایمان لے آتی ہیں۔ پھر اسی دن جب آپؐ چل کر باہر ورقہ بن نوفل کے پاس پہنچتے ہیں تو ورقہ بن نوفل آپؐ پر ایمان لے آتا ہے۔ گھر میں آپؐ نے بات کی تو علیؓ اور زیدؓ ایمان لے آئے او رپھر اسی شام یا دوسری شام حضرت ابو بکرؓ بھی آپؐ پر ایمان لانے والوں میں شامل ہو گئے۔ گویا نہ صرف خدا تعالیٰ نے فوراً آپؐ کا سایہ پیدا کر دیا بلکہ وہ اس سایہ کو لمبا کرتا چلا گیا ۔پھر بڑھتے بڑھتے اَور بھی کئی جماعتیں اس سایہ میں شامل ہونی شروع ہوئیں۔ مدینہ میں خبر پہنچی تو وہاں کے کئی افراد دوڑتے ہوئے آئے اور آپؐ پر ایمان لے آئے۔
پھر فرماتا ہے وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا اگر خدا تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت تیرے شاملِ حال نہ ہوتی اور تُو خدا تعالیٰ کا سچا رسول نہ ہوتا تو چاہئے تھا کہ تیرے سایہ کو بڑھانے اور اس کو ترقی دینے کی بجائے خدا تعالیٰ تیرے سایہ کو چھوٹا کر دیتا۔ کیا تُو خدا تعالیٰ کی اس مدد کو نہیں دیکھتا کہ وہ تیرے سایہ کو لمبا کرتا چلا جاتا ہے؟ اور کیا تیرے منکروں اور دشمنوں کو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ ہم کس طرح تیرے سایہ کو لمبا کرتے جا رہے ہیں؟
پھر بعض سائے ایسے ہوتے ہیں جو اتفاقی حادثہ کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں اور گو وہ سائے بھی بڑھتے اور ترقی کرتے ہیں لیکن جس قدر وہ سائے ممتد ہوتے چلے جاتے ہیں صاف ظاہر ہوتا جاتا ہے کہ دنیوی ذرائع اور مادی سامان اس کو لمبا کرنے میں کام کر رہے ہیں۔ الٰہی تائید اور نصرت کا اس میں ہاتھ نہیں۔ مگر فرماتا ہے ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا تمہارا سایہ صرف لمبا ہی نہیں بلکہ ہم سورج کو بھی اس پر دلیل بنا رہے ہیں۔ یعنی ہر شخص کو نظر آ رہا ہے کہ یہ سایہ مصنوعی ذرائع سے پیدا نہیں ہؤا۔ دنیا میں سایہ لیمپوں سے بھی بنایا جا سکتا ہے۔ ایک درخت کے پیچھے لیمپ رکھ دو تو ا س کا سایہ بن جائے گا، موم بتّی جلا دو تب بھی سایہ بن جائے گا مگر موم بتّی اور لیمپ خدائی ذرائع نہیں انسانی ذرائع ہیں ۔ لیکن سورج ایک ایسی چیز ہے جو محض خدائی ذریعہ ہے۔ پس فرماتا ہے ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا ۔ تیری ترقی الٰہی سامانوں اور نصرتوں کی وجہ سے ہے نہ کہ انسانی سامانوں اور مادی ذرائع کی وجہ سے۔ کیا دشمن اس بات کو دیکھتا نہیں کہ ایک طرف تیری ترقی پر ترقی ہو رہی ہے اور دوسری طرف تیری ترقی مادی سامانوں اور انسانی ہاتھوں سے نہیں بلکہ خدائی ہاتھ تجھ کو بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ تُو ہمارا سچا رسول ہے۔
اس کے بعد فرماتا ہے کہ ہم سایہ کو کھینچ لیں گے اور تین سو سال بعد اسلام پر رات آنے لگے گی ۔مگر اس کے بعد پھر دن چڑھے گا۔وَ جَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا4اور مسلمان سورج کے نئے طلوع کےذ ریعہ سے بیدار ہونے لگیں گے۔ اس آیت کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں احمدیت بھی رسول کریم ﷺ کا ایک سایہ ہے۔ ہرشخص جو احمدیت میں داخل ہوتا ہے اور ہر شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام پر ایمان لاتا ہے وہ محمد رسول اللہ ﷺ کےسایہ کو اَور زیادہ ممتد کرتا ہے۔ اسی طرح ہر تائیدِ سماوی اور ہر الٰہی نصرت جو ہمیں حاصل ہوتی ہے وہ صاف طور پر اس حقیقت کو واضح کر رہی ہے کہ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا ۔ یہ سب کچھ خدائی نصرت اور تائید سے ہو رہا ہے۔ انسانی سامانوں سے نہیں ہو رہا۔ آخر وہ کونسی چیز ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے دنیا کی اتباع کی ہے یا کونسا مسئلہ ہے جس کے متعلق رائج الوقت خیالات کی اصلاح کرنے کی آپ نے کوشش نہیں کی۔ بیسیوں مسائل ہیں جن کے متعلق قرآنی تعلیم کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے موجودہ زمانہ کی رَو کے بالکل خلاف اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے اور لوگوں کے پیچھے چلنے کی بجائے دنیا کو اپنے پیچھے چلایا ہے۔
موجودہ زمانہ میں اقتصادیات کی طرف لوگوں کا بہت بڑا رُجحان ہے۔ اور پنڈت جواہر لال نہرو ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ مذاہب کی آپس کی جنگ درحقیقت یونہی ہے۔ اصل جھگڑا روٹی کا ہے۔ اگر اس جھگڑے کا فیصلہ ہو جائے تو مذاہب کی جنگ بالکل ختم ہو جائے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے انشورنس اور سُود کو منع کرکے بظاہر لوگوں کے لئے روٹی کے سامان بالکل بند کر دئیے ہیں۔ اگر دنیا میں روٹی کا ہی جھگڑا ہوتا تو چاہئے تھا کہ اس تعلیم کی وجہ سے لوگ حضرت مرزا صاحب سے دُور بھاگتے اور کہتے کہ یہ شخص ہماری روٹی بند کرتا ہے ،ہمیں سُود سے منع کرتا ہے، ہمیں انشورنس سے روکتا ہے، ہمیں ہر قسم کی ٹھگیوں اور دھوکا بازیوں سے مجتنب رہنے کی تعلیم دیتا ہے اور یہ چیز ایسی ہے جسے ہم برداشت نہیں کرسکتے۔ مگر ہؤا یہ کہ اس تعلیم کے باوجود لاکھوں لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی طرف کھنچے چلے آئے۔
دوسرے نمبر پریہ زمانہ عورتوں کی آزادی کا ہے۔ مسلمانوں کے قدیم سے قدیم خاندان بھی پردہ چھوڑتے چلے جاتے ہیں اور پردہ کے خلاف دنیامیں ایک عام رَو چل رہی ہے لیکن حضرت مرزا صاحبؑ نے کہا کہ اسلام نے اپنے متبعین کو جو پردہ کا حکم دیا ہے ہمیں بہرحال اس پر عمل کرنا ہو گا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے باوجود اس کے کہ ہماری جماعت میں دوسروں سے زیادہ تعلیم ہے پھر بھی اسلامی احکام کے مطابق پردے کا طریق ہماری جماعت میں رائج ہےا ور ہمیشہ کثرت کے ساتھ عورتیں اس سلسلہ میں داخل ہوتی رہتی ہیں۔ ان میں ایسی بھی ہیں جو ایسے خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں جن میں پردہ کا طریق رائج نہیں تھا۔ مگر احمدیت قبول کرنے کے بعد انہوں نے بھی پردہ اختیار کر لیا۔ پچھلے سے پچھلے سال ایک معزز خاندان جو صوبہ پنجاب سے باہر کا ہے اور جس کا نام مَیں نہیں لینا چاہتا اُس کی ایک لڑکی ہماری مستورات سے ملی اور آہستہ آہستہ اس کے ہماری مستورات کے ساتھ گہرے تعلقات قائم ہو گئے اور احمدیت کی حقیقت اسے سمجھ آ گئی مگر وہ بار بار ہماری مستورات سے کہتی کہ مجھ سے پردہ نہیں کیا جا سکتا اور سینمانہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ دو چیزیں میرے راستہ میں روک ہیں۔ مگر آخر صداقت اس کے دل میں اتنا گھر کر گئی کہ اس نے ان تمام روکوں کے باوجود احمدیت قبول کر لی۔ میری بیوی نے مجھے سنایا کہ وہ بُرقع پہنے ہوئے تھی۔ اس کے آنسو جاری تھے اور وہ یہ کہہ رہی تھی کہ اب تو بُرقع پہننا ہی پڑے گا۔ غرض عورتیں جن کا اس وقت رعب داب پھیل رہا ہے اور جن کی حکومت نئے سرے سے قائم ہو رہی ہے۔ ان کی آزادی کی تحریک کے خلاف آپ ؑنے پردے کے حکم کی تصدیق فرمائی۔
اسی طرح عورتیں کثرت ازدواج کے سخت خلاف ہوتی ہیں۔ مگر اسلام کہتا ہے کہ ضرورت کے موقع پر ایک سے زیادہ بیویاں کی جا سکتی ہیں۔ خواہ وہ ضرورت قومی ہو یا فردی۔ بعض لوگ صرف فردی ضرورت کو اہم سمجھتے ہیں حالانکہ اسلام نے فردی اور قومی دونوں ضرورتوں کے ماتحت کثرتِ ازدواج کو جائز رکھا ہے۔ اس حکم پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے خاص طور پر زور دیا اور فرمایا کہ جو عورت اس حکم کے خلاف چلتی ہے اس کے ایمان میں کمزوری پائی جاتی ہے۔5 مگر باوجود اس کے کثرت سے عورتیں احمدیت میں داخل ہوئیں اور ہمیشہ داخل ہوتی رہتی ہیں اور وہ تسلیم کرتی ہیں کہ یہ مسائل بالکل درست ہیں ۔
پھر یہ زمانہ سٹرائیکوں کا ہے۔ جتّھے بنا بنا کر حکومتوں کے خلاف کھڑے ہو جانایا مالکوں اور کارخانہ داروں اور اُستادوں وغیرہ سے اپنے مطالبات منوانے کے لئے سٹرائیک (Strike) کر دینا ایک عام بات ہے اور اسے اپنے مطالبات منوانے کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے سٹرائیک سے بھی منع فرما دیا۔ گویا یہ جماعت جو دنیا میں ترقی کرنے والی تھی اس کے خلاف بھی حکم دے دیا۔ مگر باوجود اس کے ہماری جماعت میں کثرت سے طلباء داخل ہوتے ہیں اور دوسرے لوگوں کی نسبت ان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے حالانکہ سٹرائیکوں میں طلباء کا ہی زیادہ تر دخل ہوتا ہے۔ اس طرح مزدور پیشہ لوگ بھی ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں حالانکہ ان کے خلاف حکم دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس وجہ سے بڑی بڑی تکالیف بھی اٹھائیں اور ہمیشہ اٹھاتے رہتے ہیں مگر وہ اس کی پروا نہیں کرتے۔ ابھی گزشتہ دنوں نیوی کی بغاوت ہوئی ہے۔ اس میں احمدیوں کو مارا گیا، پیٹا گیا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ بھی سٹرائیک میں حصہ لیں مگر وہ اَڑے رہے اور انہوں نے کہا کہ ہم سٹرائیک میں حصہ نہیں لے سکتے کیونکہ ہماری جماعت کے یہی احکام ہیں۔
غرض جتنی تحریکیں اس زمانہ میں چل رہی ہیں ان ساری تحریکوں کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة وا لسلام نے وعظ فرمایا۔لیکن باوجود اس کے ایک یہاں سے ایک وہاں سے ایک اِس ملک سے اور ایک اُس ملک سے، ایک اِس طبقہ سے اور ایک اُس طبقہ سے، ایک اِس جماعت سے اور ایک اُس جماعت سے ہماری طرف کِھنچا چلا آیا اور یہ جماعت برابر اپنا قدم آگے ہی آگے بڑھاتی چلی گئی۔ دنیا کی کوئی مخالفت اس کو زیر نہیں کر سکی۔ نہ علماء کی مخالفت اس کو زیر کر سکی ہے نہ فقہاء کی مخالفت اس کو زیر کر سکی ہے۔ نہ فلسفیوں کی مخالفت اس کو زیر کر سکی ہے، نہ پروفیسروں کی مخالفت اس کو زیر کر سکی ہے۔ نہ گورنمنٹ کی مخالفت اس کو زیر کر سکی ہے۔ نہ رعایا کی مخالفت اس کو زیر کر سکی ہے۔ نہ قوموں کی مخالفت اس کو زیر کر سکی ہے اور نہ مذہبوں کی مخالفت اس کو زیر کر سکی ہے۔ ہر جگہ ہم ٹکرائے اور ہر جگہ ہمارے خیرخواہوں نے ہم کو مشورہ دیا کہ فلاں مسئلہ جو آپ بیان کرتے ہیں اسے ترک کر دیں کیونکہ طبائع میں سخت اشتعال پایا جاتا ہے۔ یا فلاں تحریک جو آپ کر رہے ہیں اس کا نتیجہ نہایت خطرناک نکلے گا۔ لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نے ان باتوں کو نظر انداز کر دیا، پھینک دیا اور ردّ کر دیا اور صرف ایک بات کو سامنے رکھا کہ جو کچھ خدا کا حکم ہے اس کو ہم اپنے مدنظر رکھیں گے، چاہے ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ کاٹ کر پھینک دیا جائے۔ جب ہم خدا کے حکم کے ماتحت یہ سمجھتے ہوئے کہ اگر خدا نے ہمیں دوزخ میں گرنے کا حکم دیا ہے تو یہ دوزخ ہی ہمارے لئے جنت ہے۔ اپنے آرام اور اپنی آسائش اور اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے ہم اس دوزخ میں گر گئے۔ تو ہم نے دیکھا کہ دوسرے لوگ تو تپتی ہوئی ریتوں پر پڑے سِسک رہے ہیں اور ہم جنہوں نے ایک نظر آنے والے دوزخ میں اپنے آپ کو گرایا تھا ہم نے اپنے آپ کو ایک سرسبز و شاداب اور ٹھنڈے گلستان میں پایا۔ پس فرماتا ہے ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا تمہاری ترقیات جس قدر ہوں گی انسانی تدابیر سے باہر ہوں گی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تدبیر مادی نہیں کی جائے گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ تدبیر مادی کے سامان بھی خدا تعالیٰ خود مہیا کرے گا تم نہیں کرو گے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ترقی دے کر اب ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے کہ دنیا ہماری طاقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گی اور ہمارے لئے اس مقام کے حصول میں اب بہت تھوڑی دیر باقی ہے۔
جیسا کہ پچھلے سال ستمبر کے ایک خطبہ میں مَیں نے بیان کیا تھا اب ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں جسے ٹرننگ پوائنٹ(Turning Point) کہتے ہیں۔ یا ہماری مثال ویسی ہی ہے جیسے کسی عورت کے ہاں جلد ہی بچہ پیدا ہونے والا ہو۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب ترین عرصہ میں وہ وقت آنے والا ہے کہ دنیا ہماری جماعت کو ایک مستقل جماعت اور باقاعدہ جماعت تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ اور ہمارا وجود اس بات کا ثبوت ہو گا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو خدا تعالیٰ نے ایک سایہ دار درخت بنایا ہے۔ جو سایہ قرآن کریم کی اس پیشگوئی کے ماتحت کہ اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّدنیا میں روز بروز بڑھتا چلا جائے گا۔ ورنہ اگر محمد رسول اللہ ﷺ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتے تو وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا کیا خدا تعالیٰ میں یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ اس کو ساکن کر دیتا۔ اگر اس سایہ کے بڑھانے میں انسانی تدابیر کام کر رہی ہوتیں خدا تعالیٰ کا اس سلسلہ میں کوئی دخل نہیں تھا تو چاہئے تھا کہ خدا تعالیٰ اس کو ترقی کرنے سے محروم کر دیتا۔ مگر فرماتا ہے بجائے اس کے کہ وہ اس کو ساکن کرتا وہ اس پر دلیل بن گیا ہے اور اپنی نصرتوں اور تائیدات سے اس کو بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ اور جس سلسلہ کو خدا تعالیٰ مٹاتا نہیں بلکہ بڑھا رہا ہے۔ اس کےسچا اور خدائی ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے جب مکہ فتح کیا تو جن شدید ترین دشمنوں نے مسلمانوں کو قتل کیا تھا اُن میں سے بعض افراد کے متعلق اس موقع پر رسول کریم ﷺ نے یہ حکم دے دیا کہ وہ جہاں بھی مل جائیں ان کو قتل کر دیا جائے۔ انہی میں ایک ہندہ بھی تھی۔ جب اسے معلوم ہؤا کہ رسول کریم ﷺ نے مجھے قتل کرنے کا حکم دےد یا ہے۔ تو وہ عورتوں میں چھپی چھپی آپ کے پاس پہنچ گئی۔ جب عورتوں کی بیعت ہونے لگی تو وہ بھی ان عورتوں کے ساتھ مل کر الفاظ بیعت دہراتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم اقرار کرو کہ ہم شرک نہیں کریں گی۔ ہندہ ایک نہایت ہی جابر عورت تھی اور اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو قتل کر کے ان کا کلیجہ نکال کر چبا جاتی اور سمجھتی کہ مَیں بہت اچھا کام کر رہی ہوں۔ جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کہو ہم شرک نہیں کریں گی تو ہندہ اپنی جوشیلی فطرت کے اُبھار کو روک نہ سکی اور وہ جھٹ بول اٹھی کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! کیا اب بھی ہم شرک کریں گی؟آپؐ اکیلے تھے اور ہم ایک زبردست قوم تھے، آپؐ اکیلے نے توحید کی آواز کو بلند کیا اور ہماری ساری قوم نے مل کر آپؐ کے مقابلہ میں بتوں کی عظمت قائم کرنے کا تہیّہ کیا۔ ہمارا اور آپؐ کا مقابلہ ہؤا اور اس مقابلہ میں ہم نے اپنا سارا زور صَرف کر دیا مگر اس کے باوجود ہم گھٹتے چلے گئے اور آپؐ بڑھتے چلے گئے۔ ہم ہارتے چلے گئے اور آپؐ جیتتے چلے گئے۔ اگر ہمارے بتوں میں کچھ بھی طاقت ہوتی تو کیا یہ ہو سکتا تھا کہ آپؐ ہمارے مقابلہ میں جیت جاتے۔ آپؐ کا ہمارے مقابلہ میں اکیلے ہوتے ہوئے جیت جانا ثبوت ہے اس بات کا کہ ہمارے بت بالکل بیکار ہیں اور خدائے واحد کی ہی اس دنیا پر حکومت ہے جس نے آپؐ کی مدد کی اور ہم سب کو آپؐ کے مقابلہ میں شکست دی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہندہ ہے؟ ہندہ بھی جانتی تھی کہ اسلام کی حکومت صرف مجھ پر نہیں بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ پر بھی ہے اس نے کہا ہاں ہندہ ہوں مگر مسلمان ہندہ۔ اب آپ کا پہلا حکم مجھ پر چل نہیں سکتا۔ 6تو الٰہی مدد کا ہونا ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ وہ شخص راستباز ہے۔ اور الٰہی مدد کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ باوجود دنیوی مخالفت کے ایک قوم بڑھتی چلی جاتی ہے اور کوئی روک اس کی ترقی میں حائل نہیں ہو سکتی۔
بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت کا ایک بہت بڑا نشان ہے کہ اس نے ہمیں ادنیٰ حالت سے بڑھایا اور کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ یہی جگہ ہے جہاں آج سے بتیس سال پہلے یہ کہا گیا تھا کہ ایک بچہ کے ہاتھ میں جماعت کے تمام کاموں کی باگ ڈور دے دی گئی ہے، یہ لوگ اپنی تباہی کے آپ سامان پیدا کر رہے ہیں ۔ کچھ زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ یہاں تباہی اور بربادی کے آثار پوری طرح ظاہر ہو جائیں گے۔ قادیان بالکل ویران ہو جائے گا اور وہ سکول جو اس وقت نظر آ رہا ہے اس پر عیسائیوں کا قبضہ ہو گا۔ مگر اب وہ سکول جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ فقرہ کہا گیا تھا سکول نہیں بلکہ کالج بن چکا ہے اور اس سال اِنْشَاءَ اللہ ڈگری کالج بن جائے گا۔ اور وہ بچہ جسے قوم کو تباہ کرنے والا قرار دیا گیا تھا اب بچہ نہیں بلکہ بوڑھا ہے۔ بڑے بڑے بوڑھوں نے اس بتیس سال کے عرصہ میں اس بچے کا مقابلہ کیا مگر اپنا سر پھوڑنے کے سوا اُنہیں اور کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہؤا۔ ٭
پس خدا کے اس عظیم الشان نشان کو دیکھو، سوچو اور سمجھو اور اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی پیدا کرو کہ جس کے نتیجہ میں تمہارا خدا تم سے اَور بھی زیادہ خوش ہو جائے۔ اور وہ تمہیں اور تمہاری اولادوں کو محمد ﷺ کا ممتد سایہ بنا دے اور تمہیں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ تم محمد رسول اللہ ﷺ کے سایہ کو ہمیشہ قائم رکھنے اور اس کو آگے سے آگے بڑھانے کا موجب بنو تاکہ شمس ہونے کی دلیل ہمیشہ قائم رہے۔ اور تمہارے لئے الٰہی نصرتیں ہمیشہ ظاہر ہوتی رہیں اور انسانی تدابیر تمہارے مقابلہ میں ہمیشہ ناکام ہوتی رہیں۔’’
(الفضل 2 مئی 1946ء )
٭: پیغام نے آج اس قول کا انکار کیا ہے مگر یہ انکار ہی اس کے جھوٹے ہونے کا ثبوت ہے۔ مَیں بتیس سال سے اس روایت کو جو مجھ سے بعض احمدیوں نے بیان کی دہراتا چلا آیا ہوں۔ مگر آج تک اس کا انکار نہیں کیا گیا۔ اب بتیس سال کے بعد اس کا انکار کیا جاتا ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ اس عرصہ کے بعد خیال کر لیا گیا ہے کہ یا وہ راوی مر چکے ہوں گے یا بات بھول گئے ہوں گے۔ اگر یہ انکار کرنے کے قابل بات تھی تو کیوں بتیس سال کے بعداب اس کا انکار کیا جاتا ہے۔
1 : الفرقان: 46
2، 3: بخاری کتاب بَدْءُ الْوَحْی باب کَیْفَ کَانَ بَدْء الْوَحْی اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ
4: الفرقان: 48
5:مجموعہ اشتہارات جلد1 صفحہ 86(مفہومًا)
6: تفسیر رازی جلد 29 صفحہ 307۔ مطبوعہ طہران 1328ھ

14
ہمیں اپنے آدمی قربانی کے تنور میں پتوں کی طرح جھونکنے پڑیں گے
( فرمودہ 26 ؍اپریل 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ جب قوموں میں تنزل واقع ہو جاتا ہے، جب قوموں پر جہالت غالب آ جاتی ہے، جب قوموں کے دلوں سے دین کی محبت چلی جاتی ہے تو اس وقت ان کی حالت اپنی پہلی حالت سے بالکل مختلف ہو جاتی ہے اور کامیابی کے سامان اور کامیابی کے ذرائع دور سے دور تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جیسے مُٹھی میں سے ریت نکلتی چلی جاتی ہے اس طرح بامراد ہونا اور مظفر و منصور ہونا ان کے ہاتھوں سے نکلتا چلا جاتا ہے۔ اور جب خدا تعالیٰ کسی قوم کی آنکھوں کو کھول دیتا ہے ، جب وہ اس کے حوصلوں کو بلند کر دیتا ہے اور جب وہ اس کے ایمان کو مضبوط کر دیتا ہے تو اس قوم میں صحیح قربانی اور صحیح قسم کا ایثار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ دن بدن اپنے کاموں میں ترقی کرتی جاتی ہے۔ یہ ایک قانون ہے جو ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور ہمیشہ تک جاری رہے گا۔ خدا تعالیٰ کی سنتیں کبھی بدلا نہیں کرتیں۔ اور خدا تعالیٰ جس امر کا فیصلہ اپنے قانونِ قدرت کے مطابق کرتا ہے وہ آخر تک اسی طرح چلتا چلا جاتا ہے۔
تُرک ایک بہادر قوم مشہور ہے اور بڑے بڑے کارہائے نمایاں اس نے اپنے وقت میں دنیا میں کئے ہیں لیکن پیچھے ایک ایسا زمانہ اس قوم پر آیا کہ اس کی ہمتیں سُست پڑ گئیں اور اس کے بڑے افراد میں قربانی اور ایثار کا مادہ نہ رہا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ ڈینیوب دریا 1کے کناروں اور یورال2 کے کناروں اور بحیرۂ ہند کے کناروں سے سمٹتے سمٹتے وہ ایک چھوٹی سی حکومت رہ گئی۔ اس کے کام کرنے والوں کے اندر سے دیانت اور امانت دونوں مٹ گئے اور اس کے بڑے آدمیوں میں سے قربانی اور ایثار کے نشان محو ہو گئے۔ جب کوئی قوم دنیا کی طرف جاتی ہے تو اگر اس کے اندر دین کی بنیاد ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ اس سے دنیا بھی چھین لیتا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ایک قوم سچے دین کی خدمت کے لئے مقرر کی گئی ہو اور وہ اپنے فرائض میں سُستی کرے اور دین کی بجائے دنیا کی طرف مائل ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ اس کے پاس دنیا بھی رہنے دے ۔ جو اقوام بے دین ہیں اور جن کو روحانیت کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں وہ بے شک دنیوی ذرائع سے ترقی کرتی جاتی ہیں لیکن جن قوموں کو خدا تعالیٰ نے دین کی خدمت سپرد کی ہوتی ہے وہ کبھی دُنیوی ذرائع سے ترقی نہیں کرتیں۔ وہ جب بھی دین کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہو جاتی ہیں خدا تعالیٰ ان کی دنیا بھی چھین لیتا ہے۔ مسلمانوں سے یہی ہؤا۔ عام طور پر لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یورپ ترقی کر رہا ہے اور کوئی شخص نہیں کہتا کہ چونکہ اس نے مذہب چھوڑ دیا ہے اس لئے اس پر تنزل آنا چاہئے۔ ہندو قوم مال اور صنعت و حرفت میں ترقی کر رہی ہے اور کوئی شخص نہیں کہتا کہ چونکہ اس قوم نے دین چھوڑا ہؤا ہے اس لئے اس پر تنزل اور ادبار آنا چاہئے۔ اسی طرح شنٹو ازم کو ماننے والے جاپانی ترقی کرکے کتنا اونچا نکل گئے تھے۔ اب حماقت اور بے وقوفی سے زبردست قوموں سے ٹکراؤ کر کے انہوں نے اپنی ہلاکت کا سامان کر لیا ورنہ اس طرح جلدی جلدی وہ ترقی کےر استہ پر قدم زن ہو رہےتھے کہ دنیا انہیں دیکھ کر حیران تھی۔ حالانکہ شنٹو ازم کوئی سچا مذہب نہیں۔ مُردوں کی روحوں کو پُوجنا بھلا کونسی عقلمندی پر دلالت کرتا ہے مگر وہ قوم دنیوی امور میں عقلمند ہونے کے باوجود دین کے معاملہ میں اس قدر جاہل تھی کہ جس طرح یورپ سے لوگ خدا کے ایک بندے اور عورت سے پیدا ہونے والے انسان کو خدا کہتے ہیں اسی طرح جاپانی ایک بندے کو خدا بنا بیٹھے اور مُردوں کی ارواح کو پُوجتے تھے۔ اگر خدا تعالیٰ کو چھوڑ دینے کے نتیجہ میں دنیا میں بھی تباہی واقع ہو جاتی ہے تو چاہئے تھا کہ جاپانی قوم پر وبال آتا اور وہ ترقی نہ کرتی۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جاپانی قوم برابر ترقی کرتی چلی گئی تھی۔ اسی طرح یہودی لوگ دین سے بالکل بے بہرہ ہو چکے ہیں لیکن باوجود اس کے وہ دنیا میں اتنی ترقی کر چکے ہیں کہ مالیات کا صیغہ اب یہودیوں کے ہاتھ میں ہی ہے۔ دنیا میں بظاہر انگلستان، امریکہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی وغیرہ حکومتیں کر رہے تھے مگر دراصل مالیات کے ذریعہ یہودی دنیا میں حکومت کر رہے تھے اور ان کی اس حکومت کو دیکھ کر ہی ہٹلر اور مسولینی نے یہودیوں کو تباہ کرنے کا ارادہ کیا۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ باوجود اس کے کہ ظاہری طور پر ہم بادشاہ ہیں درحقیقت بادشاہت ان کے اختیار میں ہے اور وہ جس طرف چاہتے ہیں تجارت کو مروڑ دیتے ہیں، جس طرف چاہتے ہیں صنعت و حرفت کو مروڑ دیتے ہیں، جس طرف چاہتے ہیں علوم و فنون کو مروڑ دیتے ہیں اور جس طرح چاہتے ہیں سیاسیات پر اثر ڈال کر مالیات کو مروڑ دیتے ہیں۔ اس لئے اس قوم کو اپنے ملک سے نابود کر دینا چاہئے۔ پس باوجود اس کے کہ دین کو انہوں نے چھوڑ دیا تھا پھر بھی دنیوی لحاظ سے ان کو بہت بڑی عظمت حاصل ہوئی۔ ان مثالوں کی وجہ سے قدرتی طور پر اور جائز طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیوی کوششوں کے ذریعہ عیسائی ترقی کر سکتے ہیں۔ اگر دنیوی کوششوں کے ذریعہ یہودی ترقی کر سکتے ہیں، اگر مذہب چھوڑنے کے باوجود ہندو مذہب ترقی کر سکتا ہے، اگر مذہب چھوڑنے کے باوجود شنٹو ازم ترقی کر سکتا ہے تو مذہب چھوڑنے کے باوجود مسلمان کیوں ترقی نہیں کر سکتے؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ ان مذاہب سے خدا پہلے ہی دُور ہو چکا ہے۔ جس گھر کو خدا تعالیٰ نے چھوڑ دیا ہے اگر وہ ویران ہوتا ہے تو اس پر خفا ہونے کی کوئی وجہ نہیں لیکن جس گھر میں خدا بَستا ہے اگر اس گھر کو کوئی قوم ویران کرے گی تو یقیناً خدا اس سے ناراض ہو گا۔ جس مذہب سے خدا مٹ گیا اس کی مثال بالکل اس ملازم کی سی ہے جس نے اپنے آقا کی ملازمت کو ترک کر دیا ہو۔ وہ شخص جس نے نوکری چھوڑ دی ہے اس کے کاموں میں غفلت واقع ہونے سے آقا ناراض نہیں ہوتا ۔ لیکن جو شخص نوکر ہے اگر وہ اپنے کاموں میں غفلت برتتا ہے تو اس کا آقا اس پر ضرور ناراض ہوتا ہے۔ پس مسلمانوں کی دنیوی حالت اس لئے بگڑی کہ انہوں نے خدا کو چھوڑ دیا۔ باوجود اس کے کہ وہ ایک سچے مذہب کے حامل تھے۔
یہی حالت اب احمدیوں کی ہے۔ اس وقت احمدیہ جماعت کو اللہ تعالیٰ نے ایک سچے مذہب کا حامل بنایا ہے۔ اگر ہماری جماعت کے افراد دیانتداری اور اخلاص کے ساتھ دین کے حامل نہیں ہوں گے تو خدا تعالیٰ احمدیوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کرے گا جو ایک بادشاہ اپنے باغیوں کے ساتھ کیا کرتا ہے۔
مَیں متواتر اور بار بار جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ ہمارے تبلیغی ادارے کمزور ہو رہے ہیں اور تبلیغ کی وسعت جو ہمارے ذمہ لگائی گئی ہے اس کا اندازہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کے لئے ہمیں اپنے آدمیوں کو قربانی کے تنور میں اس طرح جھونکنا پڑے گا جس طرح بھٹی والا اپنی بھٹی میں پتّے جھونکتا ہے۔ مگر باوجود اس کے مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں پوری طرح بیداری پیدا نہیں ہو رہی۔ مَیں مایوس تو نہیں کیونکہ ہر چیز آہستہ آہستہ آتی ہے لیکن مَیں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ جماعت کی سُستی کی وجہ سے ہمارے کاموں کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ مَیں نے پچھلے سال جماعت کو مدرسہ احمدیہ میں داخلہ کی طرف توجہ دلائی تھی اور کہا تھا کہ اگر تم اپنے لڑکوں کو اس مدرسہ میں داخل نہیں کرو گے تو آخر اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کے لئے ہم کہاں سے مبلغ لائیں گے۔ اُس سال خدا تعالیٰ نے جماعت کو توفیق عطا فرمائی اور چالیس کے قریب لڑکے مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں داخل ہوئے لیکن آج جب مَیں نے پتہ لیا تو معلوم ہؤا کہ اس سال صرف چھ لڑکے داخل ہوئے ہیں اور چونکہ کچھ لڑکے بعد میں نکل بھی جاتے ہیں اس لئے اس کے معنے یہ ہوں گے کہ قریباً قریباً اس جماعت کا بند کر دینا زیادہ اچھا ہے بہ نسبت اس کو جاری رکھنے کے۔ کیونکہ دو تین لڑکوں کے لئے کسی سکول یا جماعت کے کھولنے کے کوئی معنے ہی نہیں ہو سکتے۔ لیکن دوسری طرف یہ حالت ہے کہ جماعتیں ہم سے آدمی ضرور مانگتی ہیں۔ جب بھی کوئی شخص ملتا ہے یہی کہتا ہے کہ یہاں کے ناظر بڑے سُست ہیں، انجمن بڑی سُست ہے۔ ہم چِٹھیاں لکھتے رہتے ہیں لیکن ہماری طرف کوئی آدمی نہیں بھیجتے۔ مَیں حیران ہوں کہ ایسے لوگوں کے دماغ میں کوئی فتور ہے یا روحانیت کی کمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیا ہے کہ اتنی موٹی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ہم اپنے لڑکے نہیں بھجوائیں گے تو وہ لوگ مبلغ کہاں سے بھیجیں گے۔
کئی احمقوں کو مَیں نے دیکھا ہے وہ لٹھ لے کر عورت کو مارنا شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تُو نے روٹی کیوں نہیں پکائی؟ حالانکہ وہ گھر میں آٹا ہی نہیں لائے ہوتے۔ وہ غصہ میں مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیتے ہیں لیکن انہیں یہ خیال ہی نہیں آتا کہ آٹا تو ہم نے لا کر نہیں دیا۔ یا اوپلے تو ہم نے لا کر نہیں دئیے اور مطالبہ یہ کر رہے ہیں کہ ہمارے لئے روٹی کیوں تیار نہیں کی گئی۔ یا مثلاً کسی چیز میں میٹھا کم ہو تو وہ اپنی بیوی سے لڑنے لگ جائیں گے حالانکہ واقع یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو پیسے ہی نہیں دئیے ہوتے کہ وہ ان سے میٹھا خرید سکتی۔ یہی حال اس وقت جماعت کا نظر آتا ہے۔ ہر فرد ِبشر شور مچا رہا ہے کہ ہائے ہمیں مولوی نہیں بھیجتے، ہمیں مولوی نہیں بھیجتے حالانکہ الزام ان پر آتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دین کی بجائے دنیا کی طرف بھیجتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہمیں مولوی بھیجو، ہمیں مولوی بھیجو۔ ہم اگر ہندوؤں کو نوکر رکھنا شروع کر دیں اور ان کا نام مولوی رکھ دیں تو ایسے لوگ ہمیں کئی مل جائیں گے۔ ہر قوم میں ایسے لوگ ہیں کہ اگر چالیس پچاس روپے ان کو دے دئیے جائیں تو وہ غیر مذہب کی ملازمت کے لئے بھی تیار ہو جائیں گے۔ کئی ہندو ہیں جو اس معاوضہ پر کام کرنے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں۔ لیکن کیا تم اس بات پر خوش ہو سکتے ہو کہ تمہاری طرف ہندو مبلغ بھجوا دئیے جائیں۔ اگر تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہاری طرف ہندو بھجوائے جائیں، اگر تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہاری طرف چُوڑھے بھجوا دئیے جائیں، اگر تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہاری طرف بھنگی بھجوائے جائیں، اگر تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہاری طرف سانسی بھجوائے جائیں ، اگر تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہاری طرف عیسائی مبلغ بھجوائے جائیں تو بڑے شوق سے اپنے لڑکے دین کی تعلیم کے لئے نہ بھجواؤ اور کہہ دو کہ کسی مذہب و قوم کا آدمی ہو ، اس کا نام مبلغ رکھ کر ہمیں بھجوا دو۔ لیکن اگر تمہاری مراد مبلغ سے ایک احمدی مبلغ ہے، اگر تمہاری مراد مبلغ سے ایک مسلمان مبلغ ہے، اگر تمہاری مراد مبلغ سے ایک علم ِدین پڑھا ہؤا انسان ہے تو وہ لوگ نہیں آ سکتے جب تک تم اپنے بیٹوں کو اس طرف نہیں بھجواتے۔ ہر دفعہ جو تم شکایت کرو گے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ تم عقل کا منہ چِڑا رہے ہو اور ہر دفعہ جو تم شکایت کرو گے اس کے معنے یہ ہوں گے کہ تم حقائق سے آنکھیں بند کر رہے ہو کیونکہ مبلغ لڑکوں سے ہی تیار ہو سکتے ہیں۔ جب تک کوئی جماعت اپنے لڑکے دین کی خدمت کے لئے دینے کو تیار نہیں اس وقت تک اس جماعت کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ ہم سے مبلغ مانگے۔ مگر آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔ کب تک ہم جماعت کو بیدار کرتے جائیں گے اور وہ خاموش بیٹھی رہے گی۔ یہ مثال تو وہی ہوگئی ہے جیسے غالب نے کہا کہ ؂
ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گے کیا
ایک شخص حالِ دل سنائے چلا جاتا ہے اور دوسرا کہتا ہے کیا کہا؟ وہ پھر اپنا حال سنانا شروع کر دیتا ہے اور آدھ گھنٹہ ضائع کر دیتا ہے مگر دوسرا اس آدھ گھنٹہ میں بھی اِدھر اُدھر متوجہ رہتا ہے اور جب وہ خاموش ہوتا ہے تو کہتا ہے اچھا آپ نے کیا کہا؟ یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے ہماری جماعت کے لوگ سمجھ نہ سکتے ہوں کہ اگر تم اپنے بیٹوں کو مدرسہ احمدیہ میں نہیں بھیجتے تو تمہیں سلسلہ کی طرف سے مبلغ بھی نہیں مل سکتے۔ تمہارے ہی بیٹے ہیں جو مبلغ بن سکتے ہیں۔ عیسائیوں کے بیٹے اسلام کے مبلغ نہیں بن سکتے، ہندوؤں کے بیٹے اسلام کے مبلغ نہیں بن سکتے، سکھوں کے بیٹے اسلام کے مبلغ نہیں بن سکتے۔ اور اگر تمہارے بیٹے بھی دنیوی کاموں کے لئے وقف رہیں گے تو پھر اسلام کا خانہ بالکل خالی ہے۔ پھر ہم سے مبلغ بھی مت مانگو بلکہ کہو کہ دین کا دروازہ ہم نے اپنے اوپر بند کر لیاہے۔ یہ کیوں کہتے ہو کہ مبلغ دو، مبلغ دو۔ یہ چیز اتنی انتہاء درجہ خلافِ عقل ہے کہ مَیں حیران ہوں وہ کونسا ذریعہ ہے جس سے مَیں جماعت کو سمجھاؤں۔ سوتے کو جگانا آسان ہوتا ہے لیکن جاگتے ہوئے کو جگانا ناممکن ہوتا ہے۔ اگر تم واقع میں سوئے ہوئے ہوتے تو میرے وعظ اور نصیحت سے کبھی کے جاگ چکے ہوتے لیکن تم تو جاگتے ہوئے مچلے بن رہے ہو۔ اب میرے پاس کونسا ذریعہ ہے جس سے مَیں مچلے کو جگا سکوں۔ مچلے کو جگانے کی کسی انسان میں طاقت نہیں ہوتی بلکہ مچلے کو تو خدا بھی نہیں جگاتا۔ آخر خدا تعالیٰ نے ابو بکرؓ کو ہدایت دی، ابو جہل کو نہیں دی۔ عمرؓ کو ہدایت دی، عتبہ کو نہیں دی۔ عثمانؓ کو ہدایت دی ،شیبہ کو نہیں دی۔ علیؓ کو ہدایت دی، ولید کو نہیں دی۔ جب تک تم میں یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ دین کی بھی کوئی قیمت ہے، جب تک تمہارے نزدیک خدا تعالیٰ کے کلام کے معنے کرنے کی کوئی قیمت نہیں۔ لیکن اگر تمہارا بیٹا چاندی کا چمکتا ہؤا روپیہ تمہارے پاس لے آئے تو تم خوش ہوتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ حقیقی چیز ہے جو ہمارے بیٹے نے کمائی ہے تب تک تم سے دین کی خدمت کی امید رکھنا عبث اور فضول ہے۔
حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ایک مولوی کے متعلق بعض دوستوں نے میرے پاس شکایت کی کہ وہ آپ کے بڑے دوست ہیں اور آپ ان کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ انہوں نے ایک لڑکی کی شادی پر شادی کر دی ہے۔ آپ فرماتے تھے مَیں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے، ضرور کوئی غلط فہمی ہو گی۔ چنانچہ جب وہ ملنے کے لئے آئے تو مَیں نے ان سے کہا مولوی صاحب! مجھے آپ پر بڑی حُسنِ ظنی ہے لیکن مجھے آپ کی نسبت ایک شکایت پہنچی ہے جو مَیں بیان کر دیتا ہوں۔ مَیں سمجھتا یہی ہوں کہ یہ شکایت غلط ہو گی۔ وہ شکایت مجھے یہ پہنچی ہے کہ کسی شخص نے آپ کے متعلق یہ افتراء کیا ہے کہ آپ نے ایک لڑکی کی شادی پر شادی کر دی ہے۔ وہ کہنے لگے مولوی صاحب! پہلے ساری بات مجھ سے پوچھ لیں پھر کوئی بات کریں۔ مجھے اس کی بات سے شبہ پڑا کہ چونکہ مُلّا آدمی ہے کوئی غلطی کر بیٹھا ہے۔ معلوم ہوتا ہے زمینداروں نے مارا پیٹا ہو گا یا ڈنڈے لے کر کھڑے ہو گئے ہوں گے کہ یہ نکاح پڑھو ورنہ ابھی تمہاری گردن توڑ دیں گے۔ چنانچہ مَیں نے کہا۔ آخر ہؤا کیا کچھ فرمائیے! تاکہ مجھے بھی پتہ لگے کہ آپ کو کیا حالات پیش آئے تھے۔ انہوں نے جواب دیا۔ مولوی صاحب آپ ہی سوچئے جب انہوں نے چڑیا جتنا سفید روپیہ نکال کرمیرے سامنے رکھ دیا تو مَیں کیا کرتا۔ گویا کتنا بڑا ظلم ہے کہ لوگ میری شکایت کرتے ہیں حالانکہ جب انہوں نے ایک چمکتا ہؤا روپیہ میرے سامنے لا کر رکھ دیا تو اس کے بعد یہ ہو کس طرح سکتا تھاکہ مَیں اپنے ایمان کو بچا لیتا ۔ ایک طرف خدا تعالیٰ تھا اور ایک طرف روپیہ۔ اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ نَعُوْذُ بِاللہ روپیہ کے سامنے خدا تعالیٰ کی کیا حقیقت ہے کہ روپیہ کو تو چھوڑ دیا جاتا اور خدا تعالیٰ کو نہ چھوڑا جاتا۔ اسی طرح ہماری جماعت کا ایک حصہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر ان کا بیٹا چمکتا ہؤا روپیہ کما کر لاتا ہے تو اس کے مقابلہ میں دین کی تبلیغ اور اسلام کے بچاؤ کا کام کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا۔ ہم اپنے بیٹے کو ایسے لغو کام پر کس طرح لگا سکتے ہیں کہ وہ ساری عمر لوگوں کو قرآن پڑھاتا اور بُھولے بھٹکوں کو دین کی طرف بلاتا رہے۔ ہم اسے کسی ایسے کام پر کیوں نہ لگائیں جس سے وہ چمکتا ہؤا روپیہ ہمارے پاس لائے۔
شاید تم میں سے ہر شخص حضرت خلیفہ اول کی مثال سُن کر مسکرا دیتاہو گا کہ وہ شخص کیسا احمق تھا جس نے کہا کہ جب لوگوں نے چِڑیا جتنا روپیہ میرے سامنے لا کر رکھ دیا تو مَیں کیا کرتا۔ مگر تم اپنے نفسوں میں غور کرو اور سوچو کیا تمہیں محسوس نہیں ہوتا کہ یہی کام تم بھی کر رہے ہو۔ ہر وہ شخص جو اپنی اولاد میں سے ایک حصہ کو دین کی طرف نہیں بھیجتا وہ گویا چِڑیا جتنے روپیہ کو محمد ﷺ کے احکام اور آپ کی تعلیم پر مقدم سمجھتا ہے اور اس کی مثال وہی ہے جیسے کہ کسی شاعر نے کہا کہ ؂
عجب طرح کی ہوئی فراغت گدھوں پہ ڈالا جو بار اپنا
گویا دین کا کام ایسا ہے جو گدھوں پر ڈال دینا چاہئے۔ اور ان کا کام یہ ہے کہ وہ اس بوجھ کو گدھوں پر لاد کر خود دنیا کے کاموں میں مشغول ہو جائیں اور کہیں کہ ؂
عجب طرح کی ہوئی فراغت گدھوں پہ ڈالا جو بار اپنا
یاد رکھو! اگر تم خدا تعالیٰ کے سامنے منہ دکھانے کے قابل بن کر جانا چاہتے ہو، اگر تم نہیں چاہتے کہ قیامت کے دن تمہارے چہروں پر کول تار3(Coaltar) مَلا جائے، اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہیں ذلت اور نامرادی کا منہ دیکھنا پڑے اور اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہیں قیامت کے دن تمام اگلی اور پچھلی نسلوں میں شرمندہ اور ذلیل ہونا پڑے تو تمہیں اپنی ذمہ داریوں کو جلد سے جلد سمجھنا چاہئے اور دین کی حفاظت کے لئے اپنی نسلوں کو پیش کرنا چاہئے۔
یہ مت خیال کرو کہ مَیں یا کوئی اَور عقلمند یہ سمجھ لے گا کہ تم جو اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لئے پیش نہیں کرتے ۔ اگر کسی وقت جہاد کا زمانہ آ گیا تو تم اپنے بچوں کو فوراً اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں دینے کے لئے پیش کر دو گے۔ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ایسے لوگ یقیناً اس وقت بھگوڑوں میں سے ہوں گے اور سب سے پہلے میدانِ جہاد سے پیٹھ موڑ کر بھاگ جائیں گے کیونکہ جو شخص چھوٹی قربانی نہیں کر سکتا وہ کبھی بڑی قربانی نہیں کر سکتا۔ آخر مبلغ مارا نہیں جاتا، اسے ایسی تکلیفیں نہیں پہنچتیں جیسے جہاد میں پہنچتی ہیں۔ پھر جو لوگ ان تکالیف کو برداشت نہیں کر سکتے جو لوگ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ سو کی بجائے چالیس میں ان کےبیٹے گزارہ کریں جو لوگ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ اپنے بیٹوں کو تجار ت کی بجائے تبلیغ پر لگائیں ان سے یہ کیونکر امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو آگ میں جھونکنے کے لئے تیار ہوں گے۔ ہرگز نہیں۔ جو شخص تیاری کیا کرتا ہے وہی موقع پر کامیاب ہوتا ہے اور جو شخص فصل بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ جو بوتا نہیں وہ کاٹتا بھی نہیں۔ پس اب وقت ہے کہ تم ہوشیار ہو جاؤ اور اب وقت ہے کہ تم دنیا داری کی روح کو بالکل کچل دو ورنہ تمہارا وہ دعویٰ جو بیعت کے وقت تم اپنے امام کے ہاتھ پر کرتے ہو کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے وہ ایک جھوٹ ہے، وہ ایک لاف ہے، وہ ایک بے دینی کا کلمہ ہے اور وہ تمہاری بے ایمانی پر دلالت کرتا ہے۔’’
(الفضل 30؍ اپریل 1946ء )
1: ڈینیوب: (Danube) وسطی اور جنوب و مشرقی یورپ کا دریا۔ یہ 1750 میل لمبا ہے۔ والگا(وولگا)
کے بعد یورپ کا سب سے بڑا دریا ہے۔ اس کے زرخیز میدان بہت سے حملہ آوروں کے لئے باعثِ کشش بنے۔)اردوجامع انسائیکلو پیڈیا جلد 1صفحہ635مطبوعہ لاہور1987ء)
2: یورال: (Ural): روس کا 1574 میل لمبا دریا جو یورپ اور ایشیا کے درمیان رسمی جغرافیائی سرحد کا حصہ ہے۔ اس کا کچھ حصہ جہاز رانی کے قابل ہے۔
(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 2 صفحہ 1905 مطبوعہ لاہور 1988ء)
3: کول تار: (Coaltar) تار کول

15
ساری دنیا کے کناروں سے آواز آ رہی ہے آدمی، آدمی، آدمی بھیجو
( فرمودہ 3 مئی 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے ہمارا ایک مبلغ امریکہ پہنچ چکا ہے۔ سرِدست اُس کا پاسپورٹ صرف تعلیم کے لئے ہے یعنی اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ وہاں یونیورسٹی میں داخل ہو اور اپنی پڑھائی جاری رکھے۔ اس لئے تعلیم کے مکمل ہونے کے بعد سوائے خاص صورتوں کے اُسے گورنمنٹ کے قاعدہ کے مطابق ہندوستان واپس آنا پڑے گا۔ لیکن ہم نے اس امید کے ماتحت انہیں وہاں بھجوا دیا تھا کہ جب جنگ کا زور کم ہو گا تو ہم بعض اَور مبلغ امریکہ بھجوا دیں گے اور اگر اس مبلغ کو اجازت نہ بھی دی گئی تب بھی واپس آ کر وہ دوبارہ امریکہ میں داخلہ کی کوشش کر سکتا ہے۔ اب ایک اَور مبلغ کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے ڈالر ایکسچینج کی منظوری حاصل ہو گئی ہے اور وہ ویزا کے متعلق کوشش کرنے گئے ہیں۔ اگر امریکن گورنمنٹ نے انہیں ویزا دے دیا تو قریب ترین عرصہ میں وہ بھی وہاں پہنچ سکیں گے۔
امریکہ کا ملک اتنا وسیع ہے کہ وہ ہندوستان سے قریباً دو گنا ملک ہے۔ ہندوستان کا رقبہ تیس لاکھ مربع میل ہے اور امریکہ کا رقبہ پچاس لاکھ مربع میل سے بھی اوپر ہے۔ اتنے وسیع رقبہ میں اور ایسے لوگوں میں جو رات اور دن دُنیوی کاموں میں مشغول رہتے ہیں،تبلیغ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ ہمارا مشن اِس وقت صرف شکاگو میں ہے اور شکاگو امریکہ کے شمال میں واقع ہے۔ گویا امریکہ میں ہماری تبلیغ کی مثال کو یوں سمجھنا چاہئے جیسے ہندوسان میں کوئی مشن کشمیر میں کھول دیا جائے یا شملہ میں کھول دیا جائے اور امریکہ اور انگلستان میں یہ رپورٹیں شائع ہوں کہ ہندوستان کا مشن یوں کام کر رہا ہے۔ اب بظاہر وہاں کاہر شخص یہ سمجھے گا کہ یہ مشن کراچی میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، حیدر آباد سندھ میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، ملتان میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، لاہور میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، پشاور میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، دہلی میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، الٰہ آباد میں بھی تبلیغ کر رہا ہے ، لکھنؤ میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، بنارس میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، کلکتہ میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، ڈھاکہ میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، شیلانگ1 میں بھی تبلیغ کر رہا ہے۔ اسی طرح اُڑیسہ اور مدراس اور بمبئی وغیرہ سب جگہ تبلیغ کر رہا ہے حالانکہ باقی سب علاقوں کو یہ پتہ بھی نہیں ہو گا کہ کوئی مشن ہندوستان میں کام کر رہا ہے کیونکہ کہاں کشمیر اور کہاں مدراس اور پشاور اور کلکتہ اور کراچی اور ملتان اور ڈھاکہ وغیرہ ۔مگر چونکہ رپورٹوں میں ہندوستان کے مشن کا نام شائع ہو گا لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ مشن ہندوستان میں بڑا بھاری کام کر رہا ہے۔ یہی حال بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک حال امریکہ کی تبلیغ کا ہے۔ ہماری جماعت کے لوگ جب سنتے ہیں کہ ہمارا ایک مشن یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں کام کر رہا ہے تو وہ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اس ایک مشن کے ذریعہ سارے امریکہ میں ہماری آواز پہنچ رہی ہے اور اب اس کا فتح کرنا بالکل آسان ہو گیا ہے حالانکہ ہمارا مشن شمال کے ایک شہر شکاگو میں ہے جو مشرقی اور مغربی ممالک سے ایک ایک ہزار میل کے فاصلہ پر ہے اور جنوبی ممالک سے دو ہزا رمیل کے فاصلہ پر ہے ۔ جیسے برما کے مشن کا پنجاب پر یا بمبئی پر یا مدراس پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا اسی طرح شکاگو کے مشن کا مشرقی اور مغربی اور جنوبی ممالک پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ صرف اردگرد کے تین چار سو میل کے حلقہ میں ہمارے مبلغ کو جب فرصت ملے تو وہ چلا جاتا ہے۔ اور یہ فرصت بھی درحقیقت مصنوعی فرصت ہوتی ہے ورنہ اگر لاہور کے مبلغ کو اپنے علاقہ کے لئے فرصت نہیں مل سکتی جس کی آبادی شکاگو سے چھٹا حصہ کم ہے اور جس کی شہرت اور اہمیت شکاگو کے ہزارویں حصہ کے برابر بھی نہیں تو شکاگو کے مشنری کو اردگرد کے علاقوں کے لئے کہاں فرصت مل سکتی ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ شکاگو کے مشنری کو اس محلہ سے باہر نکلنے کے لئے ہی کہاں وقت مل سکتا ہے۔ جس میں وہ رہتا ہے۔ شکاگو کی آبادی پچاس لاکھ سے اوپر ہے۔ گویا جتنی آبادی صوبہ سرحد کی ہے اس سے کہیں زیادہ صرف ایک شہر شکاگوکی آبادی ہے اور جتنی آبادی سارے صوبہ سندھ کی ہے اس کے قریب قریب اس کی آبادی ہے۔ صوبہ سندھ کی آبادی ساٹھ لاکھ ہے او رصوبۂ سرحد کی آبادی چھتّیس لاکھ۔ گویا سندھ کی آبادی کے قریباً برابر اور صوبۂ سرحد کی آبادی سے قریباً ڈیوڑھی امریکہ کے صرف ایک شہر شکاگو کی آبادی ہے۔ پس وہ شہر، شہر نہیں بلکہ درحقیقت ایک ملک ہے اور ایک ملک میں کبھی بھی ایک مبلغ کافی نہیں ہو سکتا۔ کُجا یہ کہ لوگ یہ کہیں کہ جب ہم نے صوبہ سرحد میں ایک مبلغ رکھا ہؤا ہے تو کیا وہ عرب اور ایران اور افغانستان کی خبر نہیں رکھ سکتا۔ جس طرح وہ بیوقوفی کا فقرہ ہو گا اسی طرح یہ بھی ایک احمقانہ خیال ہے کہ جب ہم نے شکاگو میں ایک مبلغ رکھا ہؤا ہے تو کیا وہ سارے امریکہ کی خبر نہیں رکھ سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی اَور علاقہ کا تو ذکر ہی کیا ہے ہمارا ایک مبلغ صرف شکاگو کے دسویں حصہ کی بھی خبر نہیں رکھ سکتا۔ ایک مبلغ اگر صحیح طور پر کام کرے اور محنت اور دیانتداری کے ساتھ اپنے وقت کا استعمال کرے تو وہ صرف تین چار لاکھ کی آبادی کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے لیکن جو پچاس ساٹھ لاکھ کی آبادی کا شہر ہو اس میں ایک مبلغ نہیں بلکہ چودہ پندرہ مبلغ ہونے چاہئیں۔ تب اس میں ہلچل پیدا ہو سکتی ہے۔ اور جب کسی ایک مبلغ کے ذریعہ ایک شہر میں بھی آواز نہیں پہنچ سکتی تو وہ علاقے جو پندرہ پندرہ سو یا دو دو ہزار یا اڑھائی اڑھائی ہزار میل کے فاصلہ پر ہیں اُن تک ہماری آواز کہاں پہنچ سکتی ہے اور ان کو یہ پتہ بھی کس طرح لگ سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں اسلام کا کوئی مبلغ رہتا ہے۔
ہماری تبلیغ کی مثال تو وہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی مچھر ایک بیل کے سینگ پر بیٹھ گیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بیل سے کہنے لگا۔ بھائی بیل! مَیں بھی حیوان ہوں اور تم بھی حیوان۔ ہماری اور تمہاری آپس میں برادری ہے۔ یہ آدمی ہم پر بھی ظلم کرتے ہیں اور تم پر بھی۔ ہمیں بھی مارتے ہیں اور تمہیں بھی۔ اس لئے ہمارا اور تمہارا تو جوڑ ہے لیکن ان کا اور ہمارا کوئی جوڑ نہیں۔ مَیں اس وقت تھک کر تمہارے سینگ پر بیٹھ گیا تھا۔ اگر تمہیں بوجھ معلوم ہو تو بتا دینا مَیں اُڑ جاؤں گا۔ بیل نے اسے کہا مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں ہؤا کہ تم میرے سینگ پر بیٹھے کب تھے۔ یہی حال وہاں کی تبلیغ کا ہے۔ اگر ہم امریکہ کے لوگوں سے کہیں کہ بتاؤ ہماری تبلیغ کا وہاں کتنا زور ہے؟ تو وہ جائز اور صحیح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ آپ کا کوئی مبلغ ہمارے ہاں کام کر رہا ہے۔ آخر دو ہزارمیل کا فاصلہ کوئی معمولی فاصلہ نہیں ہوتا۔ یہاں سے دو ہزار میل کے فاصلہ پر مکہ مکرمہ ہے۔ مگر کیا اس جگہ کے کسی مولوی کا ہمیں پتہ لگ سکتا ہے حالانکہ مکہ مکرمہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں حج کے لئے اکثر لوگ آتے جاتے ہیں۔ لیکن شکاگو کی طرف تو کسی کا جانا ضروری نہیں ۔ وہ حج کا مقام نہیں ہے کہ امریکہ کے لوگ وہاں اکثر آتے جاتے ہوں۔ ایسی صورت میں بہرحال ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم پے در پے اپنے علماء اور مبلغین کو امریکہ میں بھجوائیں اور تبلیغ کو صحیح پیمانہ پر وسیع کریں۔ فِی الْحال میری سکیم کے مطابق تین آدمی امریکہ کے لئے مقرر ہو چکے ہیں۔ ایک دوست پہنچ چکے ہیں، ایک دوست کا پاسپورٹ مکمل ہو چکا ہے لیکن امریکن گورنمنٹ کا ویزا ابھی نہیں ملا ٭ اور جب تک ویزا نہ ملے اس وقت تک اطمینان نہیں ہو سکتا ۔ اور ایک کا پاسپورٹ ابھی تیار ہونے والا ہے۔ لیکن یہ تینوں مبلغ اگر وہاں پہنچ بھی جائیں تب بھی اس شہر کے لئے کافی نہیں ہو سکتے۔ ہمیں امریکہ جیسے ملک کے لئے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہو گی لیکن کم سے کم مشن جن کا میرے نزدیک امریکہ میں قائم کرنا نہایت ضروری ہے نو ہیں۔ امریکہ کا مغربی ساحل قریباً دو ہزار میل لمبا ہے۔ اس ساحل پر ہمیں تین مرکز قام کرنے چاہئیں۔ ایک مرکز شمال میں ہو، ایک مرکز وسط میں اور ایک مرکز جنوب میں۔ اسی طرح مشرق میں ہمارا ایک مرکز شمال میں ہو، ایک مرکز وسط میں ہو اور ایک جنوب میں۔ وسطی امریکہ کے شمالی حصہ میں شکاگو میں ہمارا پہلے سے مرکز ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ہمیں اس علاقہ میں بھی دو اَور مرکز قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مرکز وسطی وسط میں ہو اور ایک مرکز وسطی جنوب میں۔ اگر ہم امریکہ میں نو مرکز قائم کر دیں تب ہمارے یہ تبلیغی مراکز ایسے ہوں گے جو ایک ایک ہزار میل کے فاصلہ پر آ سکیں گے یا دونوں جہات کو مدنظر رکھتے ہوئے پانچ پانچ سو میل کے فاصلہ پر آ سکیں گے
٭خطبہ کے بعد معلوم ہؤا کہ ویزا مل چکا ہے۔
اور ایسی صورت ہو جائے گی جیسے ہمارا ایک مشنری ملتان میں ہو اور ایک دہلی میں۔ ملتان اور دہلی میں جو فاصلہ ہے ویسا ہی فاصلہ ان نو مشنوں میں ہو گا جو امریکہ میں قائم کئے جائیں گے لیکن یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب تمام مشن قائم کر دئیے جائیں ۔اگر امریکہ میں ہمارے نو مشن ہوں اور ہر مشن میں چھ مشنری کام کر رہے ہوں تو چوّن مشنریوں کی ہمیں صرف امریکہ کے لئے ضرورت ہو گی۔ اگر اس طرح ہم اپنے مشن وہاں قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہماری آواز کا امریکہ میں پہنچ جانا ممکن ہو سکتا ہے۔ گو یقینی پھر بھی نہیں ہو گا کیونکہ کروڑوں کی آبادی ہے۔لیکن بہرحال اگر سامان اور ذرائع ہمیں میسر آ جائیں تو ہم اپنی آواز ان نو مشنوں کے ذریعہ سے تمام امریکہ تک پہنچا سکتے ہیں لیکن یہ صرف ایک ملک کا معاملہ ہے۔ اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک ملک کی تبلیغ کے لئے بھی پورے سامان نہیں۔
مَیں نے متواتر اور مسلسل جماعت کو ان امور کی طرف توجہ دلائی ہے مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک جماعت کے ایک طبقہ میں اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کا پورا احساس پیدا نہیں ہؤا۔ اس وقت یہاں (مسجد اقصیٰ میں)چار ہزار سے اوپر احمدی موجود ہیں۔ اگر چار ہزار احمدی مردوں میں ہی بیداری پیدا ہو جائے تو کیا یہ چار ہزار احمدی یہ سامان مہیا نہیں کر سکتے؟ اسی طرح قادیان میں اِس وقت تین ہزار سے اوپر مرد عورت طالب علم موجود ہیں۔ اگر تین ہزار طالب علموں کے اندر ہی دین کی خدمت کا احساس پیدا ہو جائے اور وہ دنیا کی خواہشوں اور کششوں کو نظر انداز کر دیں تو کیا چند سالوں کے اندر اندر یہ تین ہزار طالب علم ہی ہمارے لئے مبلغوں کی ایک معقول تعداد بہم نہیں پہنچا سکتے؟یقیناً مہیا کر سکتے ہیں لیکن چار مشکلات ہیں جو اس راستہ میں حائل ہیں۔
اول: طالب علم خود ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں دنیا کا غلبہ اور دنیا طلبی کا مرض بہت وسیع ہو گیا ہے۔
دوم: اساتذہ میں سے بھی ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جو ان کوورغلاتا رہتا ہے اور کہتا ہے کہ تبلیغ کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بعد میں ملازمت اختیار کر کے تبلیغ کے لئے چندہ دیتے رہنا یہی بڑا کام ہے۔ یہ دوسرا شیطان ہؤا ۔
تیسرا: شیطان باپ ہوتا ہے جو اپنے بچے سے کہتا ہے کہ دیکھو میاں! مَیں نے تمہیں اِتنا عرصہ تعلیم دلائی ہے اب میرے لئے گزارہ کی کوئی صورت نہیں۔ تمہارا کام یہ ہے کہ کماؤ اور میرے گزارہ کا بندوبست کرو۔
چوتھی: شیطان ماں ہوتی ہے۔ جس وقت وہ تمام شیطانوں کو مار کر یہ سمجھتا ہے کہ مَیں ہر قسم کے شیطانی جال سے آزاد ہو گیا ہوں اُس وقت ماں کے آنسو اس کو پھر اسی شیطان کی بغل میں بٹھا دیتے ہیں۔ جب وہ روتے ہوئے کہتی ہے کہ بیٹا میں کیا کروں گی تو ماں کی مَیں اس کی ساری انانیت اور جرأت اور بہادری کو کچل کر رکھ دیتی ہے۔ مگر باوجود ان چار شیطانوں کے بہت سے نوجوان ہیں جو ان کے پھندوں سے آزاد ہو کر خدا تعالیٰ کی فوج میں شامل ہو گئے ہیں اور درحقیقت یہی وہ لوگ ہیں جو جماعت کی بنیاد قرار دئیے جا سکتے ہیں۔
مجھے حیرت آتی ہے جب میں کورل آئی لینڈز (Coral Islands) کی حقیقت پر غور کرتا ہوں۔ مَیں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ کورل آئی لینڈز کیڑوں کی موت کے نتیجہ میں تیار ہوئے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا کیڑا مرتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ ایک جزیرہ بن جاتا ہے جس میں انسان بود و باش اختیار کرتا ہے۔ اگر ایک کیڑے میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ مَیں مر کر دنیا میں کوئی کام کر جاؤں اور اپنے وجود سے ایک ایسی بنیاد قائم کر دوں جو سینکڑوں سال تک لوگوں کے کام آتی چلی جائے تو کیسا ذلیل اور ناپاک وہ انسان ہے جو یہ خواہش نہیں رکھتا کہ مَیں اگر مرتا ہوں تو بے شک مر جاؤں لیکن مَیں ایک ایسی بنیاد قائم کر جاؤں جو اس زندگی سے ہزاروں درجے بہتر ہے جو بیکاری میں بسر ہوتی ہے، یا بے دینی اورعیاشی میں گزر جاتی ہے۔ کیسا شاندار وہ فقرہ ہے جو ہندوستان کے ایک مسلمان بادشاہ کے منہ سے نکلا۔ مَیں سمجھتا ہوں سترھویں صدی کے آخری حصہ اور اٹھارھویں صدی کے ابتدائی حصہ میں ہندوستان کے تمام مسلمان بادشاہوں میں سے صرف وہی ایک بادشاہ تھا جو غیرت مند تھا۔ باقی سارے مسلمان بادشاہ (خواہ مسلمان لیڈر اور مسلمان اخبارات مجھے کتنا ہی بُرا بھلا کہیں) ایسے ہی تھے جنہوں نے موقع پر غداری اور بے غیرتی کا مظاہرہ کیا۔ خواہ وہ دہلی کے بادشاہ تھے یا حیدر آباد کے بادشاہ تھے یا اودھ کے بادشاہ تھے یا بنگال اور ارکاٹ2 کے بادشاہ تھے۔ وہ سارے کے سارے بے غیرتی اور بے دینی کا مظاہرہ کرنے والے تھے۔ اگر کسی شخص نے غیرت کا صحیح مظاہرہ کیا تو وہ وہی شخص تھا جس کے نام پر مسلمان اپنی بدبختی سے کُتّوں کا نام رکھتے ہیں یعنی سلطان ٹیپو۔ مجھے اس وقت یاد نہیں کہ اس کا نام کیا تھا شاید حیدر الدین یا اس سے ملتا جلتا لیکن بہرحال اس کے نام کے ساتھ ٹیپو کا لفظ ایسے طور پر مشہور ہے جسے پنجابی میں اَلْ کہتے ہیں اور جو عوام الناس میں نام کے حصہ کے طور پر مشہور ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے اس زمانہ میں ٹیپو کے کوئی معنے بھی ہوں لیکن اب ہمارے ملک میں کتّوں کا نام ٹیپو رکھا جاتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک مسلمان بادشاہ کی ہتک کر رہا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام پر لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ آپ عیسائیوں کے خوشامدی تھے اور اسلام اور مسلمانوں کی عظمت نَعُوْذُ بِاللہ آپ کےد ل میں نہیں تھی۔ یہ الگ سوال ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کے مامور تھے اور آپ نے اسلام اور مسلمانوں کی عظمت قائم کرنے کے لئے وہ کچھ کیا جو گزشتہ تیرہ سو سال میں اور کسی مسلمان نے نہیں کیا۔ لیکن مَیں اس وقت دنیوی حُبِّ وطنی اور حُبِّ قومیت کے لحاظ سے آپ کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ مجھے یاد ہے جب مَیں چھوٹا تھا تو چونکہ عام طور پر مَیں یہی سنتا تھا کہ لوگ اپنے کُتّوں کو ٹیپو ٹیپو کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس لئے مَیں سمجھتا تھا کہ ٹیپو کُتّے کا ہی نام ہوتا ہے۔ ایک دن ایک کُتّا میرے سامنے آیا۔ مَیں نے اپنی انگلی آگے کی اور کہا ٹیپو ٹیپو ٹیپو ٹیپو۔ میری زبان سے یہ الفاظ ابھی نکلے ہی تھے کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑے غصہ سے یہ آواز آئی کہ کیا کرتے ہو ؟ تمہیں شرم نہیں آتی۔ ایک مسلمان بادشاہ کا نام ایک کتّے کو دیتے ہو۔ اس دن مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہؤا کہ ٹیپو کسی مسلمان بادشاہ کا نام ہے۔ بعد میں سکولوں میں تاریخ پڑھی تو حقیقت واضح ہوئی اورپتہ لگا کہ وہ کون تھا۔ جب ٹیپو انگریزوں سے لڑ رہا تھا، جب ٹیپو ہندوستان کے تمام مسلمان بادشاہوں سے اپنی مدد کے لئے خط و کتابت کر رہا تھا، جب ہندوستان کے مسلمان بادشاہ چھوڑ،وہ ہندوستان کے باہر کے مسلمان اور غیر مسلم بادشاہوں سے بھی خط و کتابت کر رہا تھا۔ چنانچہ نپولین سے بھی وہ خط و کتابت کر رہا تھا، اسی طرح ایران کے بادشاہ اور ٹرکی کے بادشاہ سے بھی خط و کتابت کر رہا تھا اور مسلمان بادشاہوں کو لکھ رہا تھا کہ اگر ہندوستان سے اسلام اور مسلمانوں کی عظمت چلی گئی تو عیسائیت غالب آ جائے گی اور پھر عیسائیت کے غلبہ سے تمہیں بھی نقصان پہنچے گا۔ تم جو بھی شرطیں طے کرو، مجھے سب منظور ہیں۔ لیکن آؤ اس موقع پر ہم متحد ہو کر عیسائیت کو اس ملک سے نکال دیں۔ اس وقت کسی کی غیرت جوش میں نہ آئی اور کوئی بادشاہ اس کی مدد کے لئے نہ اٹھا۔ نپولین اپنے سیاسی مصالح کے ماتحت اس کی مدد کے لئے آنے پر تیار ہؤا لیکن خود مسلمانوں نے اسے شام میں شکست دے دی۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اگر نپولین آتا تو وہ اچھا سلوک کرتا۔ ممکن ہے وہ انگریزوں سے بھی بدتر سلوک کرتا لیکن سلطان ٹیپو نے اس سے بھی دریغ نہیں کیا کہ وہ نپولین کو اپنی مدد کے لئے بلائے۔ جب حیدر آباد اور دوسری مسلمان ریاستوں کی مدد سے انگریزی فوج ٹیپو پر غالب آ گئی تو آخر سلطان ٹیپو اپنے قلعہ میں محصور ہو گیا۔ ایک دن امراء میں سے بعض نے انگریزوں سے رشوت لے کر اس قلعہ کا دروازہ کُھلوا دیا۔ وہ ایک جگہ فصیل کے پاس کھڑا انگریزی فوجوں سے اپنی فوج کو لڑا رہا تھا۔ خندق پاس تھی اور وہ اپنے سپاہیوں کو مختلف احکام دے رہا تھا کہ اس کا ایک جانباز سپاہی دوڑتا ہواآیا اور اس نے کہا حضور! کسی غدار نے قلعہ کا دروازہ کھول دیا ہے اور ایک بہت بڑی انگریزی فوج آپ کی طرف بڑھتی چلی آ رہی ہے۔ اب ایک ہی صورت نکلتی ہے کہ آپ کسی طرح جان بچا کر یہاں سے نکل جائیں۔ اُس وقت ٹیپو نے نہایت ہی حقارت اور غصہ کی نگاہ سے اسے دیکھا اور کہا کیا فضول مشورہ دیتے ہو!! ایک شیر کی دو گھنٹہ کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔ یہ کہا اور تلوار کھینچ کر میدان میں کُود پڑا اور وہیں ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
درحقیقت بات یہی ہے کہ ہر غیرت مند انسان کی ایک گھنٹہ کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔اگر ہندوستان کے ایک شکست خوردہ مسلمان بادشاہ اسلام کی عزت بچانے کے لئے ایک گھنٹہ کی موت کو سو سال کی زندگی پر ترجیح دیتا ہے تو وہ کیسا احمدی ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ میری چالیس یا پچاس یا ساٹھ یا سو سال کی زندگی جس میں مَیں نوکری اور دوسروں کی غلامی کے سوا کوئی اَور کام نہیں کر سکوں گا، وہ اسلام کے لئے مر جانے سے زیادہ بہتر ہے۔ یقیناً ایسا انسان نادان ہے۔ یقیناً وہ مجنون ہے۔ یقیناً اس کی عقل پر پردہ پڑا ہؤا ہے اور یقیناً اسلام کی راہ میں ایک منٹ لڑتے لڑتے مر جانا انسان کی اس سو سالہ زندگی سے لاکھوں اورکروڑوں بلکہ اربوں گُنا زیادہ بہتر ہے جو کسی اَور کام میں صَرف ہو۔ اور یہ کام ایسا نہیں جو ہماری جماعت نہ کر سکے۔ سینکڑوں نوجوان ہیں جنہوں نے اسلام کے لئے اپنی زندگیاں پیش کر کے اس بات کا ثبوت مہیا کر دیا ہے کہ یہ کام ہماری طاقتوں اور قوتوں کے اندر ہے اور ہمارے اخلاص اور ایمان کا یہی تقاضا ہے کہ ہم ان قربانیوں میں حصہ لیں۔ اگر سینکڑوں نوجوان ایک کام کر سکتے ہیں تو وہ سینکڑوں اور ہزاروں نوجوان کیوں ایسا نہیں کر سکتے جو ابھی اس تحریک میں حصہ نہیں لے سکے۔ پروانے آگ میں جلتے چلے جاتے ہیں مگر بعد میں آنے والے پروانے پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ وہ اَو رزیادہ جوش اور زیادہ زور کے ساتھ آگ میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کیا انسان ہی ایسے گندے مقام پر ہے کہ قربانی کرنے والوں کی قربانی کو دیکھ کر اس میں جوش پیدا نہیں ہوتا اور وہ اس سے بھی زیادہ جوش سے آگے نہیں بڑھتا جس جوش سے ایک پروانہ آگ کی طرف بڑھتا ہے۔ پھر صرف امریکہ کا ہی سوال نہیں اَور ممالک میں بھی جوں جوں ہمارے مبلغ جا رہے اور تبلیغ کے راستے کُھل رہے ہیں ہمیں اس بات کی ضرورت محسوس ہو گی کہ ہم ان کی طرف زیادہ سے زیادہ مبلغین بھجوائیں اور ان کے مطالبات کو پورا کریں۔ ابھی پرسوں تار آیا ہے کہ ہمارے وہ مبلغ جو فرانس کے لئے مقرر کئے گئے تھے اور جو انگلستان میں اب تک ویزا کا انتظار کر رہے تھے ان کو فرانسیسی گورنمنٹ نے ویزا دے دیا ہے اور وہ چند دنوں میں ہی فرانس کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔ ہم نے فرانس میں دو مبلغ بھیجے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فرانس جیسے ملک میں دو مبلغ کافی ہو سکتے ہیں؟ وہ فلسفہ کا ملک، وہ دہریت کا ملک، وہ عیاشی کا ملک جن کی راتیں بھی دن ہوتی ہیں اور جن کے دن تو کچھ ایسی چیز ہوتے ہیں جن کو ہم پہچان بھی نہیں سکتے۔ ان کی اصلاح اور بیداری کے لئے دو مبلغ کیا کام کر سکتے ہیں۔ مَیں نے پیرس دیکھا ہوا ہے اور مَیں نے پیرس کا وہ میدان بھی دیکھا ہے جس کا نام پیرس کے لوگوں نے شانزا لیز ا(Shanzelize)یعنی جنت کی گلی رکھا ہؤا ہے۔ واقع یہ ہے کہ اگر کسی انسان کی آنکھیں بند کر کے اس کو اس میدان میں لایا جائے اور اس کے بعد اس کی آنکھوں پر سے پٹی اتار دی جائے تو تاریک ترین رات کے نصف میں سے گزرتے ہوئے بھی اس کے واہمہ میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ اس وقت رات ہے۔ وہ یہی سمجھے گا کہ دن ہے کیونکہ ہزاروں ہزار کینڈل پاور کے ہزاروں ہزار لیمپ جل رہے ہوتے ہیں اور کسی انسان کے واہمہ میں بھی نہیں آ سکتا کہ مَیں اس وقت رات میں سے گزر رہا ہوں۔ جن لوگوں نے اپنے آرام اور اپنی آسائش اور اپنی عشرت کے لئے ایسے ایسے سامان مہیا کئے ہوئے ہیں، ان کو جگانے کے لئے دو آدمی کہاں کافی ہو سکتے ہیں۔ یقیناً جب یہ مبلغ وہاں جائیں گے تو ہم سے اَور آدمی مانگیں گے،پھر اَور آدمی مانگیں گے، اور پھر اَور آدمی مانگیں گے۔ اس کے علاوہ اٹلی میں ہمارے دو مبلغ پہنچ چکےہیں۔ ہمارا پہلا مبلغ جو اٹلی میں مقیم تھا وہ بیمار پڑا ہے کیونکہ ٹکر لگ کر اس کی آنکھ پر چوٹ آئی تھی جس سے اس کی بینائی کو صدمہ پہنچا۔ اب سنا ہے اس کی بینائی درست ہو گئی ہے اور وہ خطرے سے نکل گیا ہے لیکن ابھی کام نہیں کر سکتا۔ ایک تار میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کسی نو مسلم نے ہالینڈ میں اس بات کا انتظام کیا ہے کہ شمس صاحب ہالینڈ جا کر کچھ دن رہ سکیں۔ ہم نے تین مبلغ جرمنی کے لئے مقرر کر کے یہاں سے بھجوائے ہوئے ہیں مگر چونکہ جرمن مشن قائم کرنے میں ابھی کچھ دیر ہے اور ہالینڈ میں فوری طور پر ضرورت محسوس ہوئی ہے اس لئے مَیں نے ہدایت بھجوا دی ہے کہ جرمنی کے مبلغوں میں سے دو مبلغ ہالینڈ چلے جائیں۔ جرمنی کی فوجی طور پر ابھی اس طرح نگرانی کی جا رہی ہے کہ غیروں کو وہاں جانے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی۔ کہتے ہیں مختلف سوسائٹیوں کی طرف سے ہزاروں ہزار درخواستیں گورنمنٹ کے پاس آئی ہوئی ہیں مگر ابھی تک اس نے کسی درخواست پر غور نہیں کیا۔ پس چونکہ ہمارے وہ مشنری جو جرمنی کے لئے تجویز کئے گئے تھے ابھی لندن میں ہیں اور وہ رستہ کُھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس لئے مَیں نے اس تار کے پہنچنے پر کہ ہالینڈ میں انتظام کیا جا چکا ہے انہیں تار بھجوا دیا ہے کہ جرمنی کے مشنریوں میں سے فِی الْحال دو کو ہالینڈ بھجوا دیا جائے۔ کیونکہ ہالینڈ کے مشن کا انڈونیشیا یعنی جاوا اور سماٹرا سے بھی گہرا تعلق ہے۔ جاوا اور سماٹرا میں ہماری ہزاروں کی جماعت ہے اور چونکہ ہالینڈ کی تبلیغ کا سماٹرا اور جاوا پر اس طرح اثر ہو سکتا ہے جس طرح انگلستان کی تبلیغ کا ہندوستان پر اثر ہو سکتا ہے۔ اس لئے مَیں نے ہدایت دے دی ہے کہ سرِ دست جرمنی کے مبلغ ہالینڈ چلے جائیں۔ پھر جب نئے مبلغ مہیا ہو جائیں گے تو ان کو جرمنی بھجوا دیا جائے گا۔ مگر یہ کہنا تو آسان ہے لیکن نئے مبلغین کا مہیا کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ پھر یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نئے مبلغ کہاں سے آئیں گے؟ اگر ہمارے نوجوانوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر دین کی بھٹی میں گِر کر جل جانے کی خواہش پیدا نہیں ہو گی اور اگر وہ یکے بعد دیگرے اس جہاد کے میدان میں اس طرح کُودتے ہوئے نہیں چلے جاتے کہ ہر شخص کو یہ محسوس ہو کہ ان کے نزدیک موت اور حیات بالکل یکساں چیز ہے تو یہ کام کبھی سر انجام نہیں دیا جا سکتا۔
دیکھو کفر کے لئے بھی لوگوں نے جو قربانیاں کی ہیں وہ کچھ کم نہیں۔ جس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی تمام یورپین ممالک سے لڑائی کر رہا تھا، جس وقت جرمنی اور انگلستان اور فرانس اور آسٹریا اور اٹلی اور یونان وغیرہ سارے ملکوں کی فوجیں شام میں جمع ہو گئیں اور اکیلے صلاح الدین ایوبی پر حملہ کر رہی تھیں۔ جس کا ملک اتنا ہی تھا جتنی ہندوستان کی ایک ریاست ہوتی ہے مگر وہ انسان اپنی جانوں پر کھیل جانے والے تھے۔ وہ انسان ایمان کی خاطر ہر قسم کی قربانی کرنے والے تھے۔ ایک تن تنہا چھوٹی سی ریاست پر سارے یورپ کی فوجوں نے حملہ کر دیا اور صرف یورپین فوجیں ہی نہیں بلکہ یورپ کے بادشاہ بھی وہاں چلے گئے اور انہوں نے چاہا کہ وہ سب متحد ہو کر اسلام کو کچل ڈالیں۔ انگلستان کا بادشاہ رچرڈ 3اور فرانس کا بادشاہ فلپ بھی وہاں جا پہنچا۔ اسی طرح جرمنی، آسٹریلیا، اٹلی اور یونان وغیرہ کے سب گرینڈ ڈیوک (Grand Duke) بھی وہاں جا پہنچے۔ انگلستان کا بادشاہ چاہتا تھا کہ یہ فتح میرے نام پر ہو اور فرانس کا بادشاہ چاہتا تھا کہ یہ فتح اس کے نام پر لکھی جائے لیکن خدا چاہتا تھا کہ یہ فتح صلاح الدین ایوبی کے نام پر لکھی جائے اور آخر وہی ہؤا جو ہمارے خدا نے چاہا۔ یورپ کی فوجیں شکست کھا کر واپس لَوٹیں اور وہ اپنے ارادوں میں بری طرح ناکام رہیں۔ یہ تو جملہ معترضہ تھا ۔ ان ایام میں جب فلپ نے دیکھا کہ رچرڈ کا زور بڑھتا چلا جا رہا ہے تو اس نے اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کے لئے قرامطہ کے بادشاہ سے سمجھوتہ کیا کہ ہم دونوں مل کر سلطان صلاح الدین ایوبی کو شکست دینے کی کوشش کریں۔ چونکہ سلطان صلاح الدین ایوبی سنّی بادشاہ تھا اور قرامطہ شیعوں میں سے ایک بگڑی ہوئی قوم تھی جو مصر کے فاطمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور چاہا کہ سلطان صلاح الدین کے خلاف فلپ کے ساتھ مل جائیں اور اس کو شکست دینے کی کوشش کریں۔ انہوں نے خیال کیا کہ اس کو شکست دینے کے بعد ہمارا علاقہ اور ہمارا اثر اَور زیادہ وسیع ہو جائے گا۔چنانچہ انہوں نے آپس میں معاہدہ کیا اور آخری شرطیں طے کرنے کے لئے فلپ اور قرامطہ کا امام دونوں ایک پوشیدہ پہاڑی مقام پر جمع ہوئے۔ وہ قرامطہ کا ہی ایک قلعہ تھا جس میں فلپ قرامطہ کے امام سے ملنے کے لئے آیا۔ جب دونوں اکٹھے ہوئے تو فلپ نے قرامطہ کے امام سے کہا آپ کو پتہ ہے مَیں فرانس کا بادشاہ ہوں اور اپنے ساتھ بہت بڑی فوجیں رکھتا ہوں لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ آپ کے پاس کتنی طاقت ہے جس کے ذریعہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو شکست دینے میں آپ میری مدد کر سکتے ہیں۔ چونکہ ہم اس وقت آپس میں معاہدہ کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں اس لئے مجھے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آپ میں کتنی طاقت ہے۔ قرامطہ کے امام جس محل میں بیٹھے ہوئے تھے اس کے چاروں طرف جیسے بورڈنگ تحریک جدید کی عمارت ہے اس طرز کی عمارت تھی۔ کئی منزلہ مکانات تھے اور ہر منزل پر کھڑکیوں اور دروازوں کے چھجوں پر ننگی تلواریں لئے سپاہی پہرہ دے رہے تھے گویا نیچے سے اوپر تک جس قدر منزلیں تھیں ان میں سے ہر منزل کے ہر دروازے او رہر کھڑکی کے آگے ایک ایک چھجہ تھا اور ہر چھجہ پر ایک ایک سپاہی ننگی تلوار لئے کھڑا تھا۔ جب فلپ نے کہا مَیں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ کی کیا طاقت ہے اور آپ میری کتنی مدد کر سکتے ہیں تو قرامطہ کے امام نے کہا آپ میری طاقت دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کہہ کر اس نے اوپر آنکھ اٹھائی اور دو سپاہیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو اوپر کی منزل پر پہرہ دے رہے تھے اپنے سر کو نیچے جھکا دیا۔ اس کا اپنے سر کو نیچے جھکانا تھا کہ ان دونوں سپاہیوں نے نیچے چھلانگ لگا دی اور گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ فلپ نے یہ نظارہ دیکھا تو قرامطہ کے امام نے کہا شاید آپ کو خیال ہو کہ ان لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ نیچے گرنے کا کیا نتیجہ ہو گا اور انہوں نے شاید نادانی سے موت قبول کر لی۔ اگر ان کو علم ہوتا کہ ہم نیچے گِر کر ہلاک ہو جائیں گے تو ایسا نہ کرتے۔ مَیں اس شبہ کا بھی ازالہ کرنا چاہتا ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کو میری ذات سے کتنا اخلاص ہے۔ یہ کہہ کر اس نے پھر اوپر کی ایک کھڑکی کی طرف اپنی آنکھ اٹھائی اور دو سپاہیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے سر کو نیچے جھکا دیا۔ اس کا سر جھکانا تھا کہ پھر دو سپاہی گرے اور گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ فلپ اس نظارہ سے ایسا مرعوب ہؤا کہ اس کا دل گھٹنے لگا اوراس نے کہا مَیں اس وقت بیٹھ نہیں سکتا پھر کسی وقت آپ کی ملاقات کے لئے آؤں گا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے دلوں میں ایمان نہیں تھا محض ایک بناوٹ تھی اور اسلام کے اندر رخنہ ڈالنے کے لئے شیطانی تدابیر سے انہوں نے ایک جماعت قائم کی تھی مگر ان لوگوں کے اندر بھی اتنا جوش تھا کہ اپنے امام کے ایک اشارہ پر وہ اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ کیا ایک احمدی کو اس سے کم قربانی دکھا کر اپنےد عویٰ ایمان کو ثابت کرنے کا یقین ہو سکتا ہے؟ اگر قرامطہ صرف فلپ کو یقین دلانے کے لئے اپنی جانیں دے سکتے ہیں تو کیا ہم اسلام کو بچانے کے لئے اس سے زیادہ جوش اور اخلاص کے ساتھ اپنی جانیں نہیں دے سکتے؟
بہرحال اب فرانس میں بھی ہمارے مبلغ جا رہے ہیں۔ پچھلے مہینے اٹلی میں ہمارا مشن قائم ہؤا تھا اس مہینہ فرانس میں قائم ہو گیا اور خدا تعالیٰ چاہے تو ہالینڈ میں بھی قائم ہو جائے گا۔ پھر سپین اور دوسرے ممالک میں ہمارے مبلغین جائیں گے اور ہر ملک جہاں ہمارے مبلغ جائیں گے وہاں سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئے مانگ آنی شروع ہو جائے گی۔ اس وقت سب سے زیادہ مانگ جہاں سے آ رہی ہے اور جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ کچھ عرصہ تک یہ مانگ برابر بڑھتی چلی جائے گی وہ افریقہ کا ملک ہے۔ وہاں ترقی کے ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ جو اندازہ ہم کرتے ہیں وہ غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ ابھی ہمارے نئے مبلغوں کے جانے پر وہاں سے رپورٹ آئی ہے کہ ان مبلغین کو ایسے علاقوں میں بھجوایا جا رہا ہے جہاں احمدی تو دیر سے موجود تھے مگر ان میں کوئی تنظیم نہیں تھی۔ ایسے ہی ایک علاقہ میں ہمارے ایک مبلغ مولوی عبد الخالق صاحب روانہ کئےگئے ہیں۔ گولڈ کوسٹ کے ملک میں جہاں کے علاقہ کی رپورٹ ہے دو بڑی قومیں ہیں ایک اشانٹی اور دوسری فینٹی۔ جہاں تک لڑائی جھگڑے اور طاقت کا سوال ہے اشانٹی والے زیادہ مضبوط ہیں اور فینٹی قوم کے لوگ کمزور ہیں۔ جب بھی کوئی لڑائی ہوتی ہے اشانٹی قوم والے جیت جاتے ہیں اور فینٹی قوم والے ہار جاتے ہیں۔ ہماری جماعت کا مرکز فینٹی قوم میں ہے اور مرکزی انجمن میں بھی زیادہ تر اسی قوم کے لوگ شامل ہیں۔ اشانٹی علاقہ شمال میں فرانسیسی علاقہ سے ملتا ہے اور اس پر عربی اثر بھی ہے۔ وہ لوگ سارے کے سارے حبشی ہیں بلکہ عرب آمیزش سے ایک ایسا طبقہ بھی ان میں موجود ہے جس کی شکلیں عرب لوگوں سے ملتی جلتی ہیں۔ ان لوگوں میں زیادہ تر بُت پرست ہیں۔ پرسوں مولوی عبد الخالق صاحب کا مجھے خط آیا کہ مَیں اس علاقہ میں گیا تو لاری کے پہنچنے سے قبل ہی بہت سے لوگ ہجوم کر کے جمع تھے۔ جب میری لاری پہنچی تو انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ اَلْحَمْدُ لِلہِ اَلْحَمْدُ لِلہِ۔ مَیں حیران ہؤا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ اتنے میں یکدم انہوں نے پوچھا کہ ہمارا مبلغ کہاں ہے؟ تب مجھے معلوم ہؤا کہ یہ لوگ احمدیہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ مجھے ایک مکان پر لے گئے، بڑی عزت سے ٹھہرایا اور ایک گھنٹہ تک باتیں ہوتی رہیں۔ آخر انہوں نے کہا کہ ‘‘اوہان ہن’’ سے بھی آپ مل لیں۔ مَیں نے کہا ‘‘ اوہان ہن’’ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا کہ ‘‘اوہان ہن’’ ہمارے ملک کا بادشاہ ہے۔ مَیں نے کہا۔ بادشاہ کیا ؟ یہ تو انگریزی علاقہ ہے۔ مگر بہرحال مَیں نے کہا بہت اچھا مَیں ان سے مل لیتا ہوں۔ جب مَیں اس کے محل پر پہنچا تو اس نے میرا استقبال کیا۔ درمیان میں ترجمان بیٹھ گیا اور ہم باتیں کرتے رہے۔ بعد میں مَیں نے تحقیقات کی تو معلوم ہؤا کہ انگریزوں نے اشانٹی قبائل والوں کو تلوار کے زور سے فتح نہیں کیا جب باقی ملک انہوں نے فتح کر لیا تو اشانٹی والوں نے انگریزوں سے معاہدہ کر لیا۔ چنانچہ قانون ان کا اپنا چلتا ہے، مجسٹریٹ ان کے اپنے ہوتے ہیں اور زمین بھی ان کی اپنی ہے۔ انگریزوں کا براہِ راست کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس جگہ پر سب سے زیادہ کثرت بُت پرستوں کی ہے۔ دوسرے نمبر پر عیسائی ہیں اور تیسرے نمبر پر مسلمان ہیں۔ گویا بُت پرستوں اور عیسائیوں کی کافی تعداد ہے لیکن مسلمان کمزور ہیں۔
تھوڑا ہی عرصہ ہؤا گولڈ کوسٹ کے علاقہ میں عیسائیوں نے ایک بہت بڑی میٹنگ کی تھی جس میں اس بات پر بہت زور دیا گیا تھا کہ مسلمانوں نے باقی علاقوں میں بہت بڑی تنظیم کر لی ہے۔ اب شمال کے علاقوں میں ہمیں متحدہ حملہ کر دینا چاہئے تاکہ احمدیوں کے پہنچنے سے پہلے پہلے ہم سب علاقہ کو عیسائی بنا لیں۔ پہلے وہاں صرف رومن کیتھولک والوں کا مشن تھا مگر اب تو اور بھی بہت سے عیسائی مشن کھل چکے ہیں اور سب نے مل کر اسلام پر دھاوا بول دیا ہے۔ عیسائی اپنی ان کوششوں میں مشغول ہی تھے کہ ہمارے مبلغ عیسائیت کے زہر کے ازالہ کے لئے پہنچ گئے۔ اس علاقہ میں چھوٹے چھوٹے گاؤں ہوتے ہیں۔ کوئی پانچ گھر کا،کوئی دس گھر کا، کوئی بیس گھرکا ، کوئی پچاس گھر کا۔ جہاں ‘‘اوہان ہن’’رہتا ہے وہ بھی ایک معمولی قصبہ ہے۔ مگر مولوی عبد الخالق صاحب لکھتے ہیں مَیں نے دیکھا کہ اس قصبہ میں مسلمانوں کی تو صرف ایک مسجد ہے اور وہ بھی بہت شکستہ اور خراب حالت میں لیکن عیسائیوں کے اس چھوٹے سے گاؤں میں چھ بڑے بڑے شاندار گرجے ہیں جو لوگوں کی طبائع پر بہت بڑا اثر ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایک معمولی قصبہ میں جب اتنے زیادہ گرجوں کو مَیں نے دیکھا تو مجھ پر گہرا اثر پڑا اور مَیں نے اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگنی شروع کر دیں کہ یا اللہ! اس ملک میں عیسائیوں نے اتنا قبضہ جما لیا ہے کہ اب ان کا مقابلہ کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ یہ وہ ملک ہے جس پر پہلے مسلمانوں کا قبضہ تھا اور مسلمانوں نے ہی اس کو فتح کیا لیکن آج چاروں طرف عیسائیت ہی عیسائیت پھیل رہی ہے۔ مَیں حیران ہوں کہ اس کا کس طرح مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں رات جب مَیں سویا تو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں اپنے قصبہ واقع ضلع گجرات میں ہوں اور ہمارا مزارع آ کر کہتا ہے کہ کیکر پھر نکل آیا ہے۔ مَیں اس سے کہتا ہوں کہ اب کی دفعہ کیکر کو اس طرح جڑ سے کاٹو کہ وہ پھر نہ نکل سکے۔ اس سے مجھے خیال پیدا ہؤا کہ شاید اللہ تعالیٰ کوئی ایسا سامان کر دے جس سے عیسائیت کمزور ہو جائے اور اسلام کی ترقی کے آثار اس ملک میں ظاہر ہو جائیں۔ پھر مَیں اَور علاقوں میں گیا تو دورہ کرتے ہوئے مَیں نے ہر جگہ یہی دیکھا کہ عیسائیت کا زور ہے اور وہ جگہ جگہ اپنے سکول اور مشن قائم کر کے اسلام کی اشاعت میں روکیں پیدا کر رہے ہیں۔ اس پر میرے دل میں خیال آیا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں یہاں زمین دے دے تو ہم اس جگہ اپنی ایک یونیورسٹی قائم کر دیں۔اور جس طرح پرانے زمانے میں مسلمانوں نے یہاں یونیورسٹی بنائی تھی اور ہزاروں طلباء اس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرتے تھے اُس طرح ہم بھی ایک ایسی یونیورسٹی قائم کر دیں جہاں اسلام کے مبلغ تیار ہؤا کریں اور وہ اس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے سارے علاقوں میں پھیل جایا کریں۔ یہ خیال مجھ پر اس قدر غالب آ گیا کہ جب مَیں باہر گیا تو پھر مَیں نے گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنی شروع کر دیں اور آخر یہ خیال مجھ پر اس قدر غالب آتا چلا گیا کہ مَیں اس کے اظہار سے رُک نہ سکا۔ مَیں نے کہا کہ بے شک آج ہمارے پاس سامان کم ہیں اور احمدی بہت کمزور ہیں۔ لیکن کیا کوئی صورت ایسی نہیں ہو سکتی کہ ہمیں آج زمین کا ایک وسیع ٹکڑا مل جائے جس پر کسی آئندہ زمانے میں ہم ایک یونیورسٹی کی بنیاد رکھ سکیں؟ چنانچہ مَیں نے اپنے ترجمان سے کہا کہ آج تو ہماری طاقت نہیں کہ ہم کوئی یونیورسٹی قائم کر سکیں لیکن اگر آج ہمیں زمین کا کوئی وسیع ٹکڑا مل جائے تو ہو سکتا ہے کہ آئندہ کسی وقت ہم اپنی یونیورسٹی قائم کر لیں۔ تم مجھے بتاؤ کہ کیا کوئی ایسی صورت ہو سکتی ہے کہ ہمیں اس غرض کے لئے زمین مل جائے؟ اس نے کہا کیوں نہیں۔ آپ ‘‘اوہان ہن’’ سے ملیں اور اپنی اس خواہش کا اظہار کریں۔ وہ بادشاہ ہے اور آپ کو اس غرض کے لئے زمین دے سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ کیا وہ دے دے گا۔ آپ اس سے ذکر کریں۔ وہ علاقے گو چھوٹے چھوٹے ہیں مگر خواہ دس مربع میل کا کوئی حاکم ہو، وہ اپنے علاقہ میں بادشاہت کے اختیارات رکھتا ہے۔ اس علاقہ کا اوہان ہن احمدی ہو چکا ہے۔ اس کا باقی خاندان تو سب کا سب بُت پرست ہے لیکن وہ خود احمدی ہے۔ ترجمان نے مجھ سے کہا کہ آپ اس سے کہیں وہ ضرور زمین دے گا۔ چنانچہ دوسرے دن ہم مل کر اس کے پاس گئے اور مَیں نے کہا۔ میرے دل میں خیال آیا ہے کہ اگر آج ہمیں یہاں زمین کا کوئی ٹکڑا مل جائے تو آئندہ کسی وقت ہم اس پر اپنی عمارتیں کھڑی کر کے سکول قائم کر دیں اور پھر رفتہ رفتہ اس سکول کو وسیع کرتے جائیں لیکن ہمارے پاس عمارتوں کے لئے فوری طور پر کوئی سامان نہیں۔ اگر زمین ہو گی تو جماعت کو تحریک ہوتی رہے گی کہ اس زمین کو آباد کیا جائے۔ اور پھر ممکن ہے آج سے چالیس یا پچاس سال کے بعد اس پر ہم عمارتیں کھڑی کر لیں۔ میری خواہش ہے کہ اس وقت ہمیں زمین مل جائے۔ عمارتیں وغیرہ ہم بعد میں بنا لیں گے۔ کیا آپ اس بارہ میں کچھ مدد کر سکتے ہیں؟ اس نے کہا۔ ہاں۔ مَیں اس غرض کے لئے آپ کو زمین دے سکتا ہوں۔ چنانچہ اس نے دوسرے ہی دن اپنے کونسلروں کو بلوایا او ران کے سامنے یہ تجویز پیش کی۔ اتنے میں ہم بھی وہاں پہنچ گئے۔ اس کے مشیروں نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ بے شک انہیں زمین دے دی جائے۔ چنانچہ وہ اس وقت ہمیں ساتھ لے گئے۔ وہاں ایک نالا بہتا ہے جس کے قریب بہت عمدہ زمین ہے اور ہوسا قوم جو اسلام کی تبلیغ کرنے والی ہے اس کی بھی وہاں بستیاں ہیں۔ انہوں نے وہاں جا کر ایک مربع میل یعنی پونے آٹھ سَو ایکڑ زمین ہمیں دے دی۔ مَیں نے پھر کہا کہ آپ نے جو یہ زمین دی ہے اس کے متعلق یہ امر یاد رکھیں کہ ہم اسے فوراً آباد نہیں کر سکیں گے۔ معلوم نہیں آج سے چالیس یا پچاس سال کے بعد ہم اس زمین کو آباد کریں۔ سرِ دست ہمارے پاس کوئی روپیہ نہیں جس سے ہم اس زمین پر اپنی عمارتیں کھڑی کر سکیں اس لئے اگر اس زمین کو آباد کرنے میں ہماری طرف سے دیر ہو تو آپ ہمیں طعنہ نہ دیں۔ وہ کہنے لگا مَیں یہ زمین اب احمدیہ جماعت کو دے چکا ہوں۔ آپ خواہ پچاس سال کے بعد اس پر کوئی عمارت بنوائیں یا سو سال کے بعد۔ اب زمین آپ کی ہو چکی۔ چنانچہ مولوی عبد الخالق صاحب نے لکھا ہے کہ سرکاری طور پر کاغذات تیار کئے جا رہے ہیں جب مکمل ہو گئے تو قبالہ4 قادیان بھیج دوں گا۔
اب بظاہر حالات خدا تعالیٰ نے وہاں ہماری ترقی کا ایک سامان پیدا کر دیا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس کے متعلق بعد میں کیا صورت رونما ہو ۔ ممکن ہے حکام کو پتہ لگے تو انگریزی حکومت زور دے کر اس حکم کو منسوخ کرا دے لیکن بظاہر اوہان ہن نے اس بارہ میں قطعی فیصلہ کر دیا ہے، نشانات لگائے جا رہے ہیں اور انسپکٹروں سے اس نے کہہ دیا ہے کہ تین چار دن کے اندر اندر نشان لگا کر کاغذات کو سرکاری لحاظ سے مکمل کر دیا جائے اور میرے دستخط بھی کروا لئے جائیں اور پھر ان کو قبالہ دے دیا جائے۔ اب ظاہر ہے کہ جب اس علاقہ میں زمین لے لی گئی تو لازماً کچھ عرصہ کے بعد ہمیں وہاں عمارتیں بھی بنانی پڑیں گی، سکول بھی جاری کرنا پڑے گا اور پھر سکول کے لئے اور علاقہ کی تبلیغ کے لئے ہمیں مدرّس بھی بھجوانے پڑیں گے اور مبلغ بھی بھجوانے پڑیں گے۔ اگر وہاں کے لوگ ناواقف ہوتے ہوئے اور بُت پرستوں میں سے نو وارد احمدی ہوتے ہوئے یہ قربانی کر سکتے ہیں تو کیا ہم ان کو یونہی چھوڑ دیں گے؟ اگر ان لوگوں کے اندر اسلام کی ترقی کا درد ہے تو ہمارے اندر کیوں نہیں ہو گا؟ اور اگر وہاں کے لوگ اسلام اور احمدیت کے لئے قربانی کر رہے ہیں تو ہمیں ان سے بہت زیادہ قربانیاں کرنی پڑیں گی۔ پس افریقہ میں جس قدر مبلغ پہلے بھجوائے جا چکے ہیں ان سے کئی گُنا زیادہ مبلغین کی ہمیں اس ملک کے لئے ضرورت ہے۔ افریقہ کے علاقہ میں ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ انٹرنس(Entrance) پاس نوجوان بھی وہاں کام دے سکتے ہیں، گریجوایٹوں اور ایم اے پاس لوگوں کی ضرورت نہیں ۔ کچھ مولوی فاضلوں کی بے شک ضرورت ہے لیکن زیادہ مولوی فاضلوں کی نہیں۔ ہر علاقہ میں اگر دو دو تین تین مولوی فاضل ہو جائیں تو کافی ہیں۔ باقی سب جگہوں میں معمولی عربی پڑھے ہوئے نوجوان بھی کام دے سکتے ہیں اور انٹرنس پاس بھی کام دے سکتے ہیں۔ بہرحال مَیں سمجھتا ہوں قریب ترین عرصہ یعنی دو تین سال میں ہی ہمیں ڈیڑھ دو سو آدمی وہاں رکھنے پڑیں گے۔ اس وقت بارہ کے قریب مبلغ وہاں پہنچ چکے ہیں۔ ایک گریجوایٹ کو ولایت میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسے افریقہ بھجوا دیا جائے گا جہاں وہ سینئر کیمبرج سکول یا میٹرک سکول قائم کرے گا اور یہ سکول گولڈ کوسٹ کے علاقہ میں قائم کیا جائے گا کیونکہ ہماری سب سے زیادہ جماعت اس جگہ ہے۔ مگر یہاں پھر وہی آدمیوں کا سوال آ جاتا ہے اور ایک ایک قدم پر یہ سوال ہمارے سامنے آ ئےگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روپیہ کا سوال بھی ہمارے سامنے آتا ہے مگر روپیہ کا سوال ایک ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر سچا اخلاص اور دین کا حقیقی جوش رکھنے والے لوگ موجود ہوں تو روپیہ کا سوال خود بخود حل ہو جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کو آخر کون خرچ دیا کرتا تھا؟ آپ نے ان سے یہی کہا کہ جاؤ تبلیغ کرو اور جب بھوک لگے تو لوگوں سے مانگ کر کھا لیا کرو۔ بدھؑ نے بھی اپنے پیروؤں کو یہی تعلیم دی کہ کشکول اٹھاؤ ، خدا تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچاؤ اور جب کھانے کا وقت آئے تو لوگوں سے اپنے لئے کھانا مانگو اور کھاؤ۔ تم ان کا کام کرتے ہو ۔کیا ان کا فرض نہیں کہ وہ تمہاری ضرورت کو پورا کریں اور تم کو کھانا کھلائیں؟ پس حقیقت یہ ہے کہ جب اخلاص سے کام لیا جائے تو روپیہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اصل سوال آدمیوں کا ہے۔ روپیہ ایک تابع چیز ہے اگر مل جائے تو اس سے اپنے کام کو وسیع کیا جا سکتا ہے لیکن اگر روپیہ پاس نہ ہو تو اس کے یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ تبلیغ کو بند کر دیا جائے کیونکہ تبلیغ روپیہ کی محتاج نہیں۔ تبلیغ کے لئے ایمان اور اخلاص کی ضرورت ہے۔ اگر روپیہ ہو گا تو ہم اپنے مبلغوں کو روپیہ دے دیں گے اور اگر روپیہ ہمارے پاس نہیں ہو گا تو حضرت مسیح ؑ کی طرح ہم انہیں یہی کہیں گے کہ جاؤ او رلوگوں کو خدا تعالیٰ کی بادشاہت کی خبر دو۔ اور جب تمہیں بھوک لگے تو لوگوں سے روٹی مانگو اور کھاؤ۔ تمہارا کام یہ ہے کہ تم انہیں خدا تعالیٰ کی بادشاہت کی خبر دو۔ اور ان کا کام یہ ہے کہ وہ تمہارا پیٹ بھر دیں۔ یہ سودا ان کے لئے بہرحال سَستا ہو گا کیونکہ جو کچھ وہ دیں گے وہ ایک حقیر اور ذلیل چیز ہو گی۔ اگر دو روٹیاں وہ ایک مبلغ کے پیٹ میں نہ ڈالتے تو وہ سڑ جاتیں یا کُتّا ان کو کھا جاتا۔ لیکن اگر ان کو یہ روحانی تعلیم نہ ملتی اور وہ اس حالت میں مر جاتے تو دوزخ میں جاتے۔
پس آدمی اور آدمی اور آدمی، ساری دنیا کے کناروں سے یہی آواز آ رہی ہے کہ ہماری طرف آدمی بھیجو، ہماری طرف آدمی بھیجو، ہم تھوڑے ہیں مگر اتنے تھوڑے نہیں کہ ان ضرورتوں کو پورا نہ کر سکیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے اندر ایمان ہو، ہمارے اندر اخلاص ہو، ہمارے اندر تقویٰ ہو اور ہمارے دلوں میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے حصول کی تڑپ ہو۔ اگر ایمان اور اخلاص اور تقویٰ اور خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہر وقت ہمارے مدنظر ہو اور ہمارا دین اور دنیا کا کوئی کام بھی ان سے خالی نہ ہو تو پھر آدمی ہی آدمی ہو جائیں گے۔ لیکن اگر ہمارے اندر تقویٰ نہ ہو تو ہماری ایسی ہی مثال ہو گی جیسے ایک انگریز شاعر نے کہا کہ :
Water water Every where
and not a drop to drink
پانی، پانی، چاروں طرف پانی ہے مگر پینے کے لئے ایک قطرہ بھی نہیں۔ ایک شخص سمندر میں بہتا چلا جا رہا تھا اور چونکہ سمندر کا پانی پینے کے ناقابل ہوتا ہے اس نے کہا میرے چاروں طرف پانی ہی پانی ہے مگر پینے کے لئے ایک قطرہ بھی میرے پاس نہیں۔ یہی حالت نَعُوْذُ بِاللہ ہماری ہوگی کہ ہمارے چاروں طرف آدمی ہی آدمی ہوں گے مگر کام کے آدمی ہمیں میسر نہیں ہوں گے۔ لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے مَیں امید کرتا ہوں کہ وہ خدا جس نے ہمیں سہارا دیتے ہوئے اس حد تک پہنچایا ہے کہ ایک بیج سے اس نے لاکھوں درخت پیدا کر دئیے ہیں وہ اس تاریکی اور ظلمت کے وقت میں جبکہ کام کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے ہمیں ضائع نہیں کرے گا اور ہمیں چھوڑے گا نہیں۔ بلکہ وہ خود لوگوں کےد لوں میں اخلاص اور ان کے دماغوں میں فکرِ صحیح پیدا کرے گا؟ اور جماعت کے لوگوں کو ہمت بخشے گا کہ وہ آگے بڑھ کر اس مَقْتَل میں جہاں خدا تعالیٰ کے عشّاق اور دین کے خدام شہید کئے جاتے ہیں اپنی گردنیں رکھتے چلے جائیں گے۔ اور یہ پروا نہیں کریں گے کہ ان کا انجام کیا ہو گا۔ کیونکہ ہر شخص پورے یقین اور وثوق کے ساتھ اس ایمان پر قائم ہو گا کہ میرا آخری مقام بجز خدا تعالیٰ کی گود کے اَور کوئی نہیں ہو سکتا۔’’ (الفضل 8 مئی 1946ء )
1:شیلانگ:بھارت کےشمال مشرقی صوبہ آسام کا دارالخلافہ۔
2:ارکاٹ: مشرقی وسطی مدراس کا قصبہ۔ اٹھارھویں صدی میں جنوبی ہند پر غلبے کے لئےفرانس اور انگلستان کی کشمکش میں اس شہر کو بہت اہمیت حاصل ہوئی۔
(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 1 صفحہ 88۔ لاہور 1987ء)
3: رچرڈ: (Richard 1) 1157ء- 1199ء
1189ء سے وفات تک انگلستان کا بادشاہ رہا ۔16سال کی عمر میں رچرڈ نے اپنی فوج کی کمانڈ
کرتے ہوئے اپنے والد ، بادشاہ ہنری دوم کے خلاف ہونے والی بغاوت کو کچلا، تیسری صلیبی جنگ کے دوران مرکزی عیسائی کمانڈر تھا۔
( Wikipedia the free Encylopedia “ Richard 1 of England”)
4: قبالہ: بیع نامہ

16
احمدی زمیندار پہلے کی نسبت غرباء کے لئے زیادہ غلہ جمع کریں
( فرمودہ 10 مئی 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘اللہ تعالیٰ نے ہمارے دین کا نام اسلام رکھا ہے اور اسلام کے معنے سپرد کر دینے کے ہوتے ہیں اور اسلام کے معنے امن دینے کے بھی ہوتے ہیں۔ گویا اسلام میں سارے اسلام کا خلاصہ آ گیا۔ یہ متفقہ بات ہے کہ اسلام نے دو باتوں یعنی تعلق باللہ اور شَفْقَت عَلَی النَّاس کا حکم دیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا تعلق ہو جائے اور بنی نوع انسان پر شفقت کرے۔ اور اِسی چیز کا نام مذہب ہے۔ پس اسلام ایک ایسا لفظ چُنا گیا ہے جس میں یہ دونوں معنے ہیں کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دو اور دوسروں کو امن دو۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ہمارے مذہب کا نام اسلام رکھ کر اس نام سے ہی مذہب کی ساری حقیقت کھول دی۔ یہ کتنا بڑا معجزہ ہے ہمارے دین کا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے مذہب کا نام اسلام رکھا جس کے اندر مذہب کی تمام حقیقت آ گئی ہے۔ اور ہماری کتاب کا نام کَلَامُ اللہ رکھا اور کَلَامُ اللہ کے معنے یہ ہیں کہ جو کچھ اس میں ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بندے کااس میں کچھ حصہ نہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ قرآن کریم کی ہر آیت اورہر حرکت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ مگر دوسری کتب میں بہت کچھ تَدَاخُل ہے۔ جب وہ درست تھیں تب بھی ان میں تَدَاخُل تھا۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا تذکرہ ہے۔ اس میں بے شک الہامات ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی فقرہ ہوتا ہے کہ آج رات مجھے یہ الہام ہؤا۔ یہ فقرہ اللہ تعالیٰ کا نہیں ہوتا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا زائد کردہ ہوتا ہے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب توریت میں ایسے فقرات اس وقت بھی موجود تھے جب وہ صحیح تھی۔ پس وہ کتاب شروع میں بھی مکمل الہامی نہیں تھی۔ اسی طرح انجیل کا حال ہے۔ لیکن قرآن کریم میں یہ کہیں پتہ نہیں ملتا کہ فلاں رات مجھے یہ الہام ہؤا۔ شروع سے لے کر آخر تک کَلَامُ اللہ ہے۔ پس ایک ہی مذہب ہے جس میں خدا تعالیٰ کے حقوق او ر بنی نوع انسان کے حقوق ادا کئے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کا نام اسلام رکھا ہے۔ یعنی اپنی جان کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دینا او ربنی نوع انسان کو امن بخشنا۔ اور ایک ہی کتاب ہے جس میں کسی انسان کا قول نہیں اور اس کے نام کَلَامُ اللہ میں ہی اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بلکہ یہ زائد بات بھی کہہ لو کہ ہم جس نام سے خدا تعالیٰ کو پکارتے ہیں اس نام سے کوئی اور مذہب اسے نہیں پکارتا۔ باقی سب نام مرکّب ہیں جو دوسروں کے لئے بھی استعمال ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہندو پرم ایشور کہتے ہیں۔ جس کے معنے ہیں بڑی روح۔ گاڈ (God)بھی مرکب استعمال ہوتا ہے لیکن یہ نام مرکّب نہیں۔ پھر رسول کریم ﷺ کا نام بھی اسم بامسمّٰی ہے۔ جیسے اللہ کے معنے ہیں تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہستی۔ اسی طرح محمدؐ کے معنے ہیں جس کی مذمت کوئی نہ کر سکے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ کو ایک دفعہ دشمنوں نے گالیاں دیں۔ تو صحابہؓ بڑے جوش میں آ گئے۔ آپؐ نے فرمایا کیوں جوش میں آتے ہو وہ مجھے کب گالیاں دیتے ہیں وہ تو مُذَمَّمْ کو گالیاں دیتے ہیں۔ مَیں تو محمد ہوں۔1 عرب کے لوگ یہ جانتے تھے کہ ان کا نام محمدؐ ہے اور محمدؐ نام لے کر گالی دینا مضحکہ خیز ہے۔ اس لئے عرب کے لوگ آپؐ کو مُذَمَّمْ کہہ کر گالی دیتے۔ پس ہمارے رسول کریم ﷺ کو بھی وہ نام ملا جس کے ساتھ کوئی گالی نہیں دے سکتا۔ اور ہمارے خدا کا وہ نام ہے جو کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ او رہمارے مذہب کا وہ نام ہے جس میں وہ دونوں خصوصیات شامل ہیں جن کے لئے مذہب آیا کرتا ہے۔ اور ہماری کتاب کو وہ نام ملا ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس میں صرف اور صرف الہام ہی درج ہے۔ مگر کیا ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ جس طرح اُنگلی کو اگر کوئی تکلیف پہنچے تو تمام جسم کو اس سے تکلیف ہوتی ہے اسی طرح مسلمانوں میں سے کسی کو تکلیف پہنچے تو ضرور ہے کہ باقیوں کو بھی تکلیف پہنچے۔2
پچھلے سال گندم کا بھاؤ آٹھ نو روپے مَن کے درمیان تھا۔ اب نو اور گیارہ کے درمیان ہے۔ قادیان میں ساڑھے دس روپے من کے حساب سے بھی گندم بِکی ہے او رگیہوں کی اتنی قیمت ادا کر کے ہر ایک کہاں گندم خرید سکتا ہے۔ ہندوستان میں چپڑاسی کی تنخواہ آٹھ روپے ہوتی تھی۔ آجکل بیس روپے ہے۔ نو دس روپے مہنگائی الاؤنس مل جاتا ہے۔ اگر ہر ایک کے گھر میں اوسطاً دو بچے ہوں تو ایک گھر کے افراد کی تعداد چار بن جاتی ہے۔ اگر ایک فرد ماہوار پندرہ سیر گندم کھائے توا یک ماہ میں ساٹھ سیر یعنی پندرہ روپے کی گندم خرچ ہو گی۔ اس کے علاوہ دوسری ضروریات بھی ہوتی ہیں۔ دال، سالن ، کپڑے وغیرہ۔ پھر بعض دفعہ بیماری بھی آ جاتی ہے۔ اور ان پر باقی رقم خرچ ہو جاتی ہے۔ ایسے حالات میں غرباء پر جو کچھ گزرتی ہے وہ یقیناً ایک مصیبت ہوتی ہے۔ مگر ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کیا ہماری جماعت اس مصیبت سے آزاد ہے؟ اگر ہے تو پھر بےشک ہماری جماعت آرام سے سوئے۔ لیکن اگر حقیقتاً ہماری جماعت غریبوں کی ہےاور اگر اس وقت ہمارے کچھ بھائی فاقہ کشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور دوسروں کے دلوں میں درد پیدا نہ ہو تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اسلام پر عمل کیا ہے۔ پچھلے سالوں میں ہم غرباء کو پانچ پانچ ماہ کا غلہ دیتے رہے ہیں اور اس سے قیمت نصف پر آ جاتی ہے۔ اگر چہ یہ مدد بہت کم ہے لیکن اس طرح ہم ان کے بوجھ کو ایک حد تک کم کر دیتے ہیں۔ جماعت کے دوستوں نے ہمیشہ اس تحریک میں حصہ لیا ہے لیکن مَیں دیکھتا ہوں کہ انہوں نے پورے جوش سے حصہ نہیں لیا حالانکہ یہ ایمان کی ادنیٰ علامت ہے کہ غرباء کا خیال رکھا جائے۔ اسی طرح قادیان کے افرا دنے بھی پورے طور پر قربانی نہیں کی۔
حقیقت میں مومن وہ ہوتا ہے جو اپنے مومن بھائی کا مصیبت کے وقت حصہ دار ہو۔ احادیث میں آتا ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ جہاد کے لئے تشریف لے گئے تو رستہ میں کھانے کی کمی واقع ہو گئی۔ آپؐ نے فرمایا جس کے پاس جو کچھ ہے وہ لے آئے۔ چنانچہ آپؐ نے سب چیزیں جمع کر لیں اور ان سب کو ملا کر بطور راشن سب میں برابر تقسیم کرنا شروع فرما دیا۔3 لوگ سمجھتے ہیں کہ انگریزوں نے راشن سسٹم جاری کیا ہے حالانکہ رسول کریم ﷺ آج سے تیرہ سو سال پہلے اس پر عمل فرما چکے ہیں۔ آپ نے سب چیزیں جمع کر کے برابر برابر تقسیم کرنی شروع کر دیں۔ مثلاً اگر فی کس پانچ کھجوریں حصہ میں آتی تھیں تو جس شخص نے دس کھجوریں دی تھیں اس کو بھی پانچ ہی دی جاتیں اور جس نے ایک کھجور بھی نہ دی تھی اس کو بھی پانچ کھجوریں دی جاتیں۔ پس جب زندگی اور موت کا سوال ہوتا ہے اُس وقت مالدار اور غیر مالدار کا سوال نہیں رہتا بلکہ ہر فرد جو اپنے دوسرے بھائی کی کچھ مدد کر سکتا ہے اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بھائی کی جان بچانے کی کوشش کرے۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم لوگوں نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے اور بیرونی جماعتوں نے تو اس کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں ۔ حالانکہ غلہ کی قیمت کے بڑھ جانے سے زمینداروں کی حالت پہلے کی نسبت بہت اچھی ہو گئی ہے اور اس سال پچھلے سالوں کی نسبت گندم کی قیمت میں بھی پچیس فیصدی کا اضافہ ہو گیا ہے۔ عام طور پر زیادہ خرچ کھانے کا ہی ہوتا ہے۔ لیکن گندم زمیندار کے گھر کی ہوتی ہے وہ اپنے لئے ایک سال کا خرچ گندم میں سے رکھ لیتا ہے اور باقی بیچ ڈالتا ہے۔ فرض کرو ایک زمیندار کی آمد پہلے ایک سو روپیہ تھی تو اَب گرانی کی وجہ سے اس کی آمد کئی سو روپیہ ہو گئی ہے۔ گو اس سال بے شک فصلیں کم ہوئی ہیں لیکن گندم کی قیمت میں جو پچیس فیصدی کا اضافہ ہو گیا ہے وہ اس کمی کو پورا کر دیتا ہے۔ بہرحال زمینداروں کو اس معاملہ میں کوئی نقصان نہیں رہا۔ مصیبت تو ان لوگوں کے لئے ہے جو گندم خرید کر کھاتے ہیں۔
مَیں نے پچھلے سالوں میں بھی تحریک کی تھی کہ زمینداروں میں سے جس کی گندم سو من ہو وہ ایک من غرباء کے لئے دے دے۔ مَیں سمجھتاہوں کہ ہماری جماعت کا تین چار ہزار کے قریب مربع ہے۔ اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ اس میں سے ایک ہزار مربع میں گندم بوئی گئی تھی اور دس من فی ایکڑ اوسط رکھ لی جائے تو اڑھائی لاکھ من گندم ہو جاتی ہے۔ اگر سو مَن پر ایک من غلہ لیا جائےتو اڑھائی ہزار من گندم ہمیں مربع والے زمینداروں سے نہایت آسانی کے ساتھ مل سکتی ہے۔ اور یہ گندم قادیان کے غرباء کے لئے کافی ہے۔ ہمیں چھوٹے زمینداروں پر بوجھ ڈالنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ لیکن یہ حیرت کی بات ہے کہ زمینداروں نے اس تحریک میں بہت کم حصہ لیا ہے اور زمینداروں کی نسبت شہریوں نے بہت زیادہ حصہ لیا ہے۔ شاید اس لئے کہ شہریوں میں تعلیم زیادہ ہےاور تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ حقیقت کو جلدی سمجھ جاتے ہیں اور انہیں غریبوں کی تکلیف کا بہت احساس ہوتا ہے۔ پس مَیں اس سال زمینداروں کو خصوصاً تحریک کرتا ہوں کہ وہ پہلے کی نسبت غریبوں کی زیادہ سے زیادہ امداد کریں۔
زمینداروں کے سوا دوسرے دوستوں کو بھی پوری توجہ کے ساتھ اپنی طاقت کے مطابق حصہ لینا چاہئے۔ جو لوگ بازار سے گندم خرید کر کھاتے ہیں ان کے لئے مَیں نے ان کے گھر کے سالانہ خرچ پر چالیس مَن پر ایک من کا چندہ رکھا ہے۔ یعنی جو شخص اپنے گھر کے سالانہ خرچ کے لئے چالیس من گندم خریدے وہ ایک من غرباء کے لئے دے۔ اور جو شخص بیس من خریدے وہ بیس سیر دے۔ اور جو شخص دس من خریدے وہ دس سیر دے۔ اور اگر وہ سالانہ خرچ کے برابر نہ خریدے تب بھی اسے اپنے ایک سال کے غلہ کے خرچ کے مطابق چالیسواں حصہ دینا چاہئے۔ چالیسواں حصہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم چالیس دن میں سے ایک دن اپنے بھائی کے لئے فاقہ کرتے ہو۔ کیا یہ بہتر ہے کہ تم چالیس دنوں میں سے ایک دن فاقہ کرو۔ یا یہ بہتر ہے کہ تم خود چالیس دن کھاؤ لیکن تمہارا بھائی چالیس دن فاقہ کرے۔ میرے نزدیک تمہارا چالیسواں حصہ اپنے غریب بھائیوں کے لئے دینا کوئی قربانی نہیں بلکہ یہ تو لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونے کے مترادف ہے۔ تم اپنے اس طریق سے خدا تعالیٰ کے غضب کو دور کرو گے۔ اس کی رحمت کو اپنی طرف کھینچ سکو گے۔
ایک بات مَیں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کی آمدنیاں زیادہ ہوں لیکن ان کو غلے کی ضرورت کم ہو وہ اس بات کا خیال نہ کریں کہ ہم نے چونکہ تھوڑا غلّہ خریدا ہے اس لئے ہم اِس کا چالیسواں حصہ ہی دیں گے بلکہ ان کو اپنی آمدنی کے مطابق غرباء کے لئے گندم دینی چاہئے۔ اسی طرح مَیں عورتوں پر بھی ذمہ داری ڈالتا ہوں کہ وہ گندم بچانے کی کوشش کریں۔ اگر عورتیں گندم بچانے کی کوشش کریں تو بہت کچھ بچا سکتی ہیں۔ بعض دفعہ گھر میں پُھلکے موجود ہوتے ہیں لیکن خاوند کو خوش کرنے کے لئے عورت کہتی ہے کہ مَیں ابھی آپ کو دو گرم گرم پھلکے پکا دیتی ہوں ۔ اسی طرح اَور بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں اگر ان کا خیال رکھیں اور عورتیں کفایت شعاری سے کام لیں تو اخراجات کو کم کر کے اپنے لئے ثواب کا موقع پیدا کر سکتی ہیں اور اپنی طرف سے اس تحریک میں حصہ لے سکتی ہیں۔
مَیں کئی سال سے اس طرف توجہ دلا رہا ہوں اور اس سال پھر اس خطبہ کے ذریعہ سے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ مصیبت کا سال ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کے غریب بھائی فاقوں سے بے حال ہو جائیں۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ مصیبت کے وقت جو لوگ اپنا مال دوسروں کے لئے خرچ کرتے ہیں انہیں کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے قُرب کی راہیں کھولتا ہے۔ جب ایک طرف تکلیف اور مصیبت کے دروازے کھلتے ہیں تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کھلتے ہیں۔ پس کوشش کرو کہ ان مصیبت کے ایام میں تم اللہ تعالیٰ کی رحمت کو زیادہ سے زیادہ جذب کر سکو۔ زمینداروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے لئے ثواب حاصل کرنے کا خاص موقع پیدا ہؤا ہےانہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ لائلپور، شیخوپورہ، سرگودھا، منٹگمری، ملتان اور سندھ کے زمیندار خاص طور پر میرے مخاطب ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے یہ آسانیاں پیدا کی ہیں کہ ان کو نہروں سے پانی ملتا ہے اور ان کی فصلوں میں بارش کے نہ ہونے سے کوئی خاص کمی نہیں ہوتی۔ وہاں ان کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے غریب بھائیوں کی امداد کریں۔ سَو میں سے ایک مَن کی شرط تو مَیں نے چھوٹے زمینداروں کے لئے رکھی ہے اور جو بڑے زمیندار ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے رستے میں اپنی توفیق کے مطابق حصہ لیں۔ بڑے بڑے زمیندار جن کی گندم ہزار دو ہزار یا چار ہزار من یا دس ہزار من ہوتی ہے ان کے لئے سَو من پر ایک من دے دینا کوئی قربانی نہیں۔ جو شخص دس ہزار من غلّہ فروخت کرتا ہے اس کو اتنا روپیہ آتا ہے جو اس کی ضرورتوں سے بہرحال زیادہ ہوتا ہے۔ جب اس کو روپیہ زیادہ آتا ہے تو اس کو قربانی بھی اپنی حیثیت کے مطابق کرنی چاہئے۔ سو من میں سے ایک من کی شرط تو چھوٹے زمینداروں کے لئے ہے۔ دراصل چھوٹے زمیندار کو بہت ہی کم بچتا ہے۔ کیونکہ اس نے گندم میں سے کمّی کو بھی دینا ہوتا ہے، اس کی گندم میں اس کے بیلوں کا بھی حصہ ہوتا ہے اور اس میں سےاس نے گورنمنٹ کو بھی کچھ دینا ہوتا ہے۔ دراصل اسے سَو من میں سے صرف چالیس من ہی بچتا ہے۔ پس گندم خریدنے والے سے سَو منوالے زمیندار کی حالت اچھی نہیں ہوتی۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت اپنی ذمہ داری کو سمجھے تو پانچ چھ ہزار من غلہ بغیر کسی تکلیف کے جمع ہو سکتا ہے۔ لیکن اب تک جو غلہ غرباء کے لئے جمع ہوتا ہے اس کی اوسط پندرہ سو من ہوتی ہے۔ اس پندرہ سَو من میں سے تین سو من تو ہمارے خاندان کا ہی ہوتا ہے۔ اور باقی بارہ سو من ہمالیہ سے لے کر راس کماری تک اور کراچی سے لے کر پشاور تک تمام جماعت کا ہوتا ہے۔ کتنی قلیل مقدار ہے جو جماعت کی طرف سے دی جاتی ہے حالانکہ بہت سے گھروں میں مائیں اپنے بچوں کو کھلونوں کی جگہ آٹے کی گڑیاں بنا کر کھیلنے کے لئے دے دیتی ہیں۔ اگر وہ گڑیوں والا آٹا ہی جمع کیاجائے تو کئی سَو آدمیوں کی جان بچ سکتی ہے جو روٹی نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان کے دل میں بنی نوع انسان کے لئے درد ہو۔ درد کے بغیر انسان کوئی چھوٹی سے چھوٹی قربانی بھی نہیں کر سکتا۔ پس اگر تم حقیقی مسلم ہو اور اسلام کے لئے درد رکھتے ہو تو تمہیں اسلام کے مفہوم کو ہر وقت اپنے مدنظر رکھنا چاہئے۔ اسلام کے معنے ہیں اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دینا اور اس کے بندوں پر رحم کرنا لیکن وہ تمام لوگ جو اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کے سپرد نہیں کرتے وہ مسلم کہلانے کے مستحق نہیں۔ اسی طرح وہ تمام لوگ جو خدا تعالیٰ کے بندوں پر رحم نہیں کرتے وہ مسلم کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں
برعکس نہند نام زنگی کافور
بھلا حبشی کا نام کافور رکھنے سے کیا بنتا ہے۔ اسی طرح کئی آدمیوں کا نام سوہنا ہوتا ہے لیکن شکل دیکھو تو آنکھیں بند کرنے کو جی چاہتا ہے۔ پس مسلم کہلانے سے کوئی شخص مسلم نہیں ہو سکتا۔ جو شخص اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کے سپرد نہیں کرتا اور اس کے بندوں پر رحم نہیں کرتا اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی بد صورت انسان ہو اور اس کا نام حسین رکھ لیا جائے۔ کیا اس کا نام حسین رکھنے سے واقع میں وہ حسین ہو جائے گا؟ مسلم نام اس شخص کا ہے۔ جو کلی طور پر اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دے اور کلی طور پر بنی نوع انسان کی ہمدردی میں مشغول رہے۔ اگر آج اس میں تھوڑی طاقت ہے تو وہ احمدیو ں کی خدمت کرے۔ اور اگر کل اسے زیادہ طاقت اور توفیق ملے تو وہ دوسروں کی بھی خدمت کرےاور جب اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اَور زیادہ طاقت حاصل ہو جائے تو وہ ساری دنیا پر احسان کرے اور ساری دنیا سے عدل و انصاف کا معاملہ کرے اور اس زمین پر اَن داتا بن جائے۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ رَبُّ الْعَالَمِیْن ہے وہ بھی ربوبیت کی صفت اپنے اندر پیدا کرے اور جس طرح اللہ تعالیٰ رحمان اور رحیم ہے وہ بھی اپنے اندر رحمان اور رحیم کی صفت پیدا کرے۔ مَیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں حقیقی مسلم بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ مسلم ہونے کی حالت میں ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو تقویت دے اور ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے ۔اور ہمیں توفیق بخشے کہ ہمارے آپس کے تعلقات برادرانہ اور مخلصانہ ہوں اور ہم ایک دوسرے کے لئے محبت کے جذبات رکھیں۔ اور ہم اپنے نفس کی قربانی کرنے والے ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سُرخرو ہو کر پیش ہو سکیں۔ اٰمِیْن اَللّٰھُمَّ اٰمِیْن۔ ’’ (الفضل 21 مئی 1946ء )
1: بخاری کتاب الْمَنَاقب باب مَا جَاءَ فِیْ اَسْمَاءِ رَسُوْلِ اللہ ﷺ
2: بخاری کِتَابُ الْاَدبِ باب تَعَاون الْمُؤْمِنِیْنَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا
3: بخاری کِتَابُ الشِّرْکَةِ باب الشِّرْکَة فِی الطَّعَامِ وَ النَّھْدِ وَ الْعُرُوْضِ (الخ)

17
ہندوستان میں تغیرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اندر تبدیلی پیدا کی جائے
( فرمودہ 17 مئی 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘دنیا میں بہت سے انبیاء آئے ہیں ان میں سے بعض کے تھوڑے یا بہت حالات موجود ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام ایسے زمانہ میں آئے جبکہ حکومتیں اور بادشاہتیں نہیں تھیں اِس لئے قرآن کریم میں ان کے متعلق یہ ذکر تو نہیں آتا کہ اس زمانہ کے لوگوں نے ان کو تکلیفیں اور اذیتیں دیں۔ مگر یہ ذکر ضرور آتا ہے کہ ان کے خلاف دوسرے لوگوں کے دلوں میں غم و غصہ پیدا ہوتا تھا۔ لیکن چونکہ اس وقت تک دشمنیاں اور بُغض نکالنے کا جبری طریق ایجاد نہیں ہؤا تھا اس لئے لوگ ان کو کوئی ایذا نہ دے سکے۔ لوگ یہ تو چاہتے تھے کہ آدمؑ تباہ و برباد ہو جائے لوگ یہ تو چاہتے تھے کہ آدمؑ پر تباہی و بربادی نازل ہو مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ اس کو کس طرح تباہ و برباد کریں۔ چونکہ وہ منظّم نہیں تھے اس لئے وہ جانتے نہیں تھے کہ اپنے غصہ کو کس طرح نکالیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو کس طرح برباد کریں۔ انہوں نے اپنے جوش نکالنے کے لئے حضرت آدم علیہ السلام سے صلح اور دھوکا دہی سے کام لیا اور اس مقام سے ان کو نکال دیا جہاں اللہ تعالیٰ نے ان کو قائم کیا تھا۔ گویا سوائے دھوکا دہی اور فریب دہی کے کوئی اَور ذریعہ اختیار نہ کر سکے اور اس کی وجہ یہی تھی کہ ان میں کوئی منظّم بادشاہت نہ تھی۔ اس لئے ان کا دماغ اس طرف جا ہی نہ سکتا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو قتل کر دیں یا پھانسی پر لٹکا دیں یا قید کر دیں۔ چونکہ یہ طریقے ان کو معلوم ہی نہ تھے اس لئے انہوں نے وہ طریقے اختیار کئے جو ماتحت یا برابر کے لوگ اختیار کیا کرتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں کی حالت بہت کچھ بدل چکی تھی اور وہ اِس حد تک ترقی کر چکے تھے کہ ان میں قبائل بندی پیدا ہو چکی تھی اور وہ جتّھا بندی کر کے لٹھ بازی کر لیتے تھے اور تکلیفیں اور مصیبتیں دینے کی جرأت اور طاقت ان میں پیدا ہو چکی تھی۔ مگر ابھی تک کوئی منظّم حکومت یا بادشاہت اُن کے اندر بھی موجود نہ تھی اور ان میں کوئی ایسا نظام نہ تھا کہ وہ لوگوں کو پھانسی یا قتل کی سزا دیں یا کسی کو قید کر دیں۔ اگر وہ کسی کو تکلیف دینا چاہتے تو لٹھ بازی اور پتھراؤ سے کام لیتے۔ حضرت نوح علیہ السلام کےز مانہ کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ آیا۔ اُس وقت حکومتیں قائم ہو چکی تھیں اور جماعتیں منظّم ہو چکی تھیں۔ اگر کسی کو کسی شخص کے خلاف غصہ پیدا ہوتا تھا تو وہ اسے حکومت کے ذریعہ سزا دلوانے کی کوشش کرتا تھا۔ جیسا کہ لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ تُو ہمارے بتوں کے خلاف باتیں کرتا ہے ہم تمہارے خلاف حکومت سے فریاد کریں گے۔ چنانچہ ان لوگوں نے حکومت کے پاس حضرت ابراہیمؑ کے خلاف شکایت کی اور حکومت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قید میں ڈال دیا اور پھر فیصلہ ہؤا کہ ابراہیم کو آگ میں ڈال کر جلا دیا جائے۔ اس وقت قانون کا پنجہ اس قدر مضبوط ہو چکا تھا کہ وہ افراد کو سزا دینے سے ذرا بھی نہ جھجکتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ جیسے آجکل حکومت کے جج بالکل نڈر ہو کر پھانسی کا حکم سنا دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہمیں مارنے کی کسی میں طاقت نہیں۔بہرحال یہ سلسلہ ترقی کرتا گیا اور مخالفتیں بھی نئی نئی شکلیں اختیار کرتی گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں مخالفت کا زور اَور بھی بڑھ گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کو بہت دردناک تکلیفیں دی گئیں۔ حضرت دانیال علیہ السلام کو شیروں کے آگے ڈال دیا گیا اور بنی اسرائیل میں سے بعض کے سروں پر آرے رکھ کر اُن کو چِیر دیا گیا۔ جیسا کہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے۔ پھر حضرت مسیح علیہ السلام کا زمانہ آیا۔ دشمنوں نے آپ کو صلیب پر لٹکا دیا اور آپ کے خلفاء اور صحابہ میں سے بھی بعض کو قتل کیا اور بعض کو صلیب پر لٹکا دیا۔ پھر رسول کریم ﷺ کا زمانہ آیا اور مخالفت اپنے پورے زور کے ساتھ نمودار ہوئی۔ کئی صحابہ قتل کئے گئے۔ بعض کا مُثلہ کیا گیا ، کئی ایک کو اس طرح شہید کیا گیا کہ دو اونٹوں سے ان کی ٹانگیں باندھ کر ان اونٹوں کو مختلف جہات میں دوڑایا گیا اور اس طرح چِیر کر اُن کو دو ٹکڑے کر دیا گیا، عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار کر ان کو مار دیا گیا، بعض صحابہؓ کو تپتی ہوئی ریت پر لٹایا گیا، بعض کو سخت پتھروں والی زمین پر گھسیٹا گیا، بعض کے سینوں پر جُوتوں سمیت ناچا گیا۔ غرض وہ تمام قسم کی مصیبتیں اور اذیتیں جو مختلف انبیاء کے زمانے میں ان کے دشمنوں نے ان کو دیں وہ سب رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جمع ہو گئیں۔ پس زمانہ کے بدلنے کے ساتھ تکالیف کا رنگ بھی بدلتا چلا جاتا ہے۔
ہمارے زمانہ میں چونکہ غیر حکومت تھی اور وہ ظالم کے ہاتھ کو بہت حد تک روکتی تھی اس لئے لوگ براہِ راست ہم پر مظالم نہیں کر سکے۔ لیکن جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں لوگوں نے حکومت کے ذریعہ ان پر اور ان کے صحابہ پر مظالم کئے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے دشمنوں نے آپ کو حکومت کے ذریعہ دکھ دینے کی کوشش کی۔ جلسوں میں آپ کے خلاف شور مچایا گیا، آپ کے خلاف قتل کی سازشوں کا الزام لگایا گیا، آپ پر قتل کے جھوٹے مقدمات کئے گئے، حکومت کو آپ سے بدظن کرنے کی کوششیں کی گئیں کہ یہ شخص ملک میں فساد ڈلوانے کی نیت رکھتا ہے اور ملک کے امن کو برباد کرنا چاہتا ہے۔ غرض بہت سی جھوٹی رپورٹیں کر کے حکومت کے ذریعے آپ کو تکالیف میں ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ اور ہندوستان سے باہر جہاں انگریزوں کی حکومت نہ تھی ہمارے کئی آدمی قتل کئے گئے اور نہایت بے دردی سے سنگسار کئے گئے۔ ہندوستان میں ہماری جماعت کی حالت پہلے نبیوں کی جماعتوں سے مختلف ہے۔ اگر ہماری جماعت کو ان مصائب کا سامنا نہیں کرنا پڑا جن مصائب کا پہلے انبیاء کی جماعتوں کو سامنا کرنا پڑا تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہمارے مخالفین کو ہمارے خلاف غصہ کم تھا بلکہ اس لئے کہ ان میں طاقت نہیں تھی کہ وہ ہم پر براہِ راست مظالم کرسکتے کیونکہ ایک اجنبی حکومت ہمارے ملک پر حکمران تھی۔ اس لئے وہ اپنے غصہ کا اس رنگ میں اظہار نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن اسی زمانہ میں ہندوستان کے پہلو میں افغانستان نے متواتر ہمارے کئی آدمیوں کو مارا۔ مصر میں ہمارے ایک احمدی کے گھر کو اس کے دشمنوں نے آگ لگا دی اور اسے قسم قسم کے دکھ دئیے۔ اور اسی زمانہ میں دوسرے ممالک میں ہمارے مبلغین پر کئی قسم کے مظالم توڑے گئے ۔ روس میں ہمارے مبلغین کو مارا پیٹا گیا اور انہیں زنجیروں سے قید کر کے کئی قسم کے مظالم کا نشانہ بنایا گیا لیکن باوجود اس کے ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ بڑھتی چلی گئی اور کبھی ایسا نہیں ہؤا کہ مخالفت نے ہمارے قدم کو آگے بڑھنے سے روک دیا ہو۔
آج ہماری جماعت کو قائم ہوئے ستاون سال گزر چکے ہیں۔ اس عرصے میں ہماری جماعت روز بروز زیادہ ترقی کرتی چلی گئی۔ احرار کے فتنہ کے موقع پر مخالفین کی طرف سے انتہائی زور لگایا گیا کہ ہماری جماعت کو نیست و نابود کیا جائے اور گورنمنٹ کے افسروں نے بھی ان کی مدد کی۔ لیکن اس کے باوجود وہ ہمیں نقصان پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے بعد مصری کا فتنہ کھڑا ہؤا ۔ گورنمنٹ کے افسروں نے اس کی مدد کی اور مذہبی معاملات میں دخل اندازی کی۔ چونکہ حکومت کے افسر بھی آخر انسان ہوتے ہیں اِس لئے دوسروں کے ورغلانے میں آ جاتے ہیں لیکن یہ تمام حوادث ہمارے قدم میں ذرا بھی لغزش پیدا نہ کر سکے بلکہ ہمارا قدم ہمیشہ ترقی کی طرف ہی اٹھتا رہا۔ اب مَیں دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے حالات بدلنے والے ہیں اور مَیں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں آئندہ بہت سے تغیرات کا احتمال ہے کیونکہ انگریزوں نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ ہندوستان سے چلے جائیں گے۔ اب ہمارے اپنے ملک کی حکومت ہم پر حکمران ہو گی۔ اس لئے ممکن ہے کہ ہمارے لئے تکلیفوں کے نئے دروازے کھل جائیں کیونکہ غیر حکومت کو ہم سے کوئی رقابت اور بُغض نہ تھا لیکن اپنی حکومت میں ایک ایسا عنصر موجود ہے جسے ہم سے رقابت اور دشمنی ہے۔ ہمارا تجربہ ہے کہ اس سے قبل جب کبھی بھی ہمارے خلاف فساد یا کسی قسم کی ناپسندیدہ حرکات کچھ لوگوں نے کیں او رہم نے ان کے لیڈروں کو توجہ دلائی تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ مقامی مخالفتوں میں ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ چنانچہ حال ہی میں کانگرس کے ایک لیڈر کے سامنے ہم نے یہ بات پیش کی کہ ہم نے براہِ راست کبھی بھی کانگرس سے ٹکر نہیں لی لیکن کانگرسی افراد نے ہمیشہ ہمارے خلاف دوسرے فریق کی امدا دکی ہے۔ چنانچہ احرار کے مقابلہ میں کانگرس نے ہمارے خلاف احرار کی مدد کی اور کانگرسی افسر اور کانگرسی وکلاء اور کانگرسی سرمایہ ان کی مدد کرتا رہا۔ جب یہ بات پیش کی گئی تو اس لیڈر نے جواب دیا کہ مقامی جھگڑوں میں ایسی باتیں ہو ہی جایا کرتی ہیں حالانکہ مقامی بات ہو یا مرکزی، دیانت اور انصاف اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ معاملہ کی اچھی طرح غور سے چھان بین کی جائے اور صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فلاں نے ظلم کیا ہے تو اس کے فعل پر نفرت کا اظہار کیا جائے کہ اس نے نہایت خیانت کا کام کیا ہے لیکن بجائے اس کے کہ کانگرسیوں کے فعل پر نفرت کا اظہار کیا جاتا کہہ دیا گیا کہ مقامی اختلافوں کے نتیجہ میں ایسا ہو جاتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک انصاف اور تقویٰ اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں۔
اصل چیز جوشوں کا اظہار ہے خواہ کسی رنگ میں کیا جائے۔ ممکن ہے کہ ہمیں اپنی حکومت سے آرام بھی ملے لیکن فِی الْحال زیادہ خطرہ اس بات کا ہے کہ ہم ان کے ذریعہ مصائب کا نشانہ بن جائیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اور ان تغیرات کو مدنظر رکھتے ہوئے جماعت کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی چاہئے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر بعض لوگ ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ خود ہی معاہدہ کرتے ہیں کہ ہم دوسروں سے سَودا نہیں خریدیں گے، خود ہی اس پر دستخط کرتے ہیں۔ لیکن جب ایک پیسے کا فرق دیکھتے ہیں تو دوسروں کے پاس چلے جاتے ہیں اور اُن سے سودا خرید لیتے ہیں۔ جب تک یہ حالت ہے جماعتی نظام کس طرح چل سکتا ہے۔ جو شخص ایک پیسہ یا دو پیسے یا آنہ یا دو آنے کی قربانی نہیں کر سکتا ہم اس سے کس طرح امید کر سکتے ہیں کہ ضرورت کے وقت وہ اپنے بیوی بچوں کی قربانی پیش کر دے گا۔ ایسے لوگوں کی مثال اس مولوی جیسی ہے جس نے کہا تھا کہ انہوں نے چڑیا جتنا سفید روپیہ میرے سامنے نکال کر رکھ دیا تو مَیں کیا کرتا۔ کل اگر کچھ ہندو محلہ دا رالرحمت پر حملہ کر دیں اور احمدیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں تو ایسے کمزور لوگ کہہ دیں گے کہ ہم کیا کرتے۔ ہمیں تو ہندوؤں نے ساٹھ ساٹھ روپے دے دئیے تھے۔ ایسے لوگ جماعتی نظام کے لئے سخت نقصان دِہ چیز ہیں۔ انسان کی اصل حقیقت اور اس کے اخلاص کا پتہ تو قربانی سے چلتا ہے۔ ایک روپے یا دو روپے یا دس روپے یا بیس روپے کا تو سوال ہی نہیں۔ اگر انسان کا ایمان مضبوط ہو تو وہ جان کی بھی پروا نہیں کرتا۔ جس دن یہ روح جماعت میں پیدا ہو جائے گی اس دن جماعت تمام خطرات اور ہلاکتوں میں سے صحیح سالم بچ کر نکل جائے گی۔ لیکن جب تک یہ روح پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک خطرہ لاحق رہے گا۔ پس مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کو اس خطبہ کے ذریعہ ہوشیار کرنا چاہتا ہوں تا کمزور لوگ اپنی اصلاح کریں اور بچ جائیں۔ منافقوں نے تو گرنا ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ ابتلا اسی لئے لاتا ہے تاکہ کمزوروں اور منافقوں کا بھانڈا پھوڑ دے اور کھرے اور کھوٹے میں امتیاز کر دے۔ لیکن ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ان کو بھی وعظ و نصیحت کرتے رہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء جب وعظ و نصیحت کرتے ہیں تو کئی کمزور اور منافق لوگ اپنی کمزوری اور نفاق کو دور کر دیتے ہیں۔ پس اب جبکہ ابتلاؤں اور امتحانوں کے دن قریب آ رہے ہیں جماعت کو پوری توجہ سے احمدیت کی تعلیم پر کاربند ہونا چاہئے اور جماعتی نظام کا پوری طرح خیال رکھنا چاہئے۔ شیطان چاہتا ہے کہ تمہارے احمدیت کے جامہ کو پھاڑ دے، تمہیں امتحان میں ناکام کر دے اور تمہیں ایمان سے محروم کر دے۔ آج جو لوگ روپے پیسے سے منہ پھیرتے ہوئے احمدیت کے لئے قربانی کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو بھوکا نہیں رکھے گابلکہ دنیا کی تمام دولت ان کے ہاتھوں میں دے دے گا لیکن امتحان ضروری ہے۔ اگر کچھ لوگوں کے دلوں میں کمزوری یا منافقت پائی جاتی ہے تو ان کی وجہ سے ہماری فتح رُک نہیں سکتی۔ اللہ تعالیٰ اس بات کا آسمان پر فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ ہم کو ضرور فتح دے گا اور جو لوگ بوجہ کمزوری یا منافقت، احمدیت کو کمزور کرنا چاہیں گے اللہ تعالیٰ ان کو اسی طرح باہر نکال کر پھینک دے گا جس طرح کُتّے کی لاش شہر سے نکال کر باہر پھینک دی جاتی ہے۔ ہمیں ان لوگوں سے ہمدردی ہے اس وقت تک جب تک ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا علاج ہو سکتا ہے اور یہ لوگ تقویٰ حاصل کر سکتے ہیں اوراپنے ایمان اور انجام کو درست کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں علم ہو جائے کہ اُن کا مرض اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے شقاوت مقدر ہو چکی ہے تو پھر ہمیں ایسے لوگوں کی موت یا ہلاکت کا کوئی رنج نہیں ہو گا بلکہ ہم سمجھیں گے کہ یہ لوگ دوزخ کا ایندھن تھے سو دوزخ میں چلے گئے۔ ہمیں ایسے لوگوں سے اسی وقت تک ہمدردی ہے جب تک ہم ان کے متعلق اصلاح کی امید رکھتے ہیں لیکن جب وہ خود ہی اپنے آپ پر ایمان کے دروازے بند کر لیں اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی شقاوت ظاہر کردے تو پھر ہمارا ایسے لوگوں سے ہمدردی کرنا جرم ہو گا۔ جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ فسق و فجور کرنے والوں کو لوگوں کے سامنے کوڑے لگائے جائیں اور تمہارے دلوں میں ان کے لئے رحم پیدا نہ ہو۔1 اس وقت رحم کے پیدا ہونے کو اللہ تعالیٰ نے جرم قرار دیا ہے۔ پس ان کمزور اور منافق لوگوں کی وجہ سے ہماری فتح رک نہیں سکتی۔ البتہ وہ اپنا انجام ضرور خراب کر لیں گے۔ احمدیت کو قائم ہوئے ستاون سال ہو چکے ہیں۔ اس ستاون سال کے عرصہ میں دنیا نے احمدیت کو تباہ کرنے کی کوشش کی مگر اس کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت موجود ہے کہ مخالفین اپنے اس عمل میں ہمیشہ ناکام رہے اور یہ درخت زیادہ سے زیادہ پھیلتا چلا گیا۔ اس ستاون سال کے تجربہ کے بعد ہم بڑے بے ایمان ہوں گے اگر ہمارے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہو کہ اگر مصائب اور ابتلا آئے تو جماعت کا کیا بنے گا۔ ہمارے پیش نظر یہ سوال نہیں کہ جماعت کو فتح حاصل ہو گی یا نہیں؟ کیونکہ یہ تو یقینی بات ہے کہ احمدیت کو فتح ہو گی اور شکست کا تو خیال بھی ہمارے دلوں میں نہیں آ سکتا۔ ہمیں اگر خیال ہے تو اس بات کا کہ زیادہ سے زیادہ آدمی احمدیت قبول کریں، احمدیت کی تبلیغ روز بروز وسیع ہوتی جائے اور ہمارے وہ بھائی جو عملی طور پر کمزور ہیں اور حقیقی احمدی نہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ ٹھوکر سے بچائے کیونکہ اگر عملاً نہیں تو کم از کم دنیا کے سامنے تو وہ اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں۔ جب وہ اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں تو ہمیں ان کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے ایمانوں کا امتحان اور جائزہ لیتے رہیں کہ آیا آنے والے خطرات میں ان کا نفس اپنے مقام پر قائم رہنے کی طاقت رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے اندر کمزوری دیکھے تو اپنی اصلاح کرے اور خدا تعالیٰ سے دعا کرے کہ اے خدا! میرے گناہ اور خطائیں معاف فرما اور میری توبہ قبول فرما۔ اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری کمزوریاں دور کر دے گا اور تمہیں حقیقی ایمان بخشے گا۔ اور اگر تم دیکھتے ہو کہ تمہارا ایمان مضبوط ہے اور کبھی کمزور نہیں ہؤا، روپے کے لالچ اور دنیوی تعلقات سے کبھی متزلزل نہیں ہؤ ا اور تم جماعتی اور قومی نظام کے پوری طرح پابند ہو تو تمہیں پھر بھی اپنے ایمان کی زیادتی اور مضبوطی کے لئے دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ کی برکتیں اور رحمتیں جتنی بھی مل جائیں تھوڑی ہوتی ہیں۔’’ (الفضل 22 مئی 1946ء )
1:اَلزَّانِيَةُ وَ الزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ١۪ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ (النور:3)

18
مسلمانوں کی چار نہایت اہم غلطیاں جو اُن کے سیاسی حقوق و مفادات کے لئے مہلک ثابت ہو رہی ہیں
( فرمودہ 24 مئی 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘مجھے پرسوں سے پھر نقرس کا دَورہ ہے اور پاؤں کے علاوہ گُھٹنے میں بھی درد شروع ہو گیا ہے۔ اِس درد کے ازالہ کی تدبیر تو کی جا رہی ہے اور مَیں دوائی استعمال کر رہا ہوں لیکن اِس دوا کے استعمال کے ساتھ ڈاکٹروں نے پچھلے دورہ کے وقت سے یہ ہدایت کی ہوئی ہے کہ مجھے چلنا پھرنا نہیں چاہئے بلکہ لیٹے رہنا چاہئے۔ یوں بھی وہ دوا بہت مُضْعِف ہے اور چلنے پھرنے سے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں دل پر بار نہ پڑ جائے۔ مگر مَیں نے جمعہ کی خاطر یہی پسند کیا کہ مَیں یہاں آؤں اور خطبہ جمعہ اور نماز پڑھاؤں۔
آج جس مضمون کے متعلق مَیں کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ ایک حد تک میرے راستہ سے ہٹ کر ہے یعنی بجائے خالص مذہبی مضمون ہونے کے وہ ایک حد تک سیاسی مضمون ہے۔ گو اس کا اثر چونکہ ہماری جماعت کی آئندہ بہبود پر بھی ہے اِس لئے ایک رنگ میں وہ مذہبی بھی ہو جاتا ہے۔
دوستوں کو معلوم ہے کہ گزشتہ ایام میں وزراء کے کمیشن نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی سمجھوتہ کے متعلق ایک فیصلہ شائع کیا ہے۔ یہ فیصلہ مختلف اقوام کے زیر بحث ہے اوروہ اس میں سے ان اثرات کو اخذ کر رہے ہیں جو ان کی قوموں پر پڑنے والے ہیں۔ جب تک ایک اکثریت کو اقلیت نہ بنا دیا جائے اس وقت تک اکثریت کو تو کوئی خطرہ ہی نہیں ہوتا۔ اکثریت صرف اس بات پر شور مچایا کرتی ہے کہ اس کو اَور زیادہ حقوق مل جائیں۔ یا بعض دفعہ وہ پوری طرح تسلی یافتہ ہوتی ہے مگر پھر بھی وہ اس لئے شور مچاتی ہے کہ کہیں اقلیت اس کے اطمینان کو دیکھ کر بعض اَور مطالبات نہ پیش کر دے۔ اس لئے کانگرس کے لئے تو یہ امر بالکل غیر اہم ہے۔ سو میں سے پچھتّر جن کی تعداد ہو ان کے لئے شور مچانے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ بلکہ پچھتّر کی بجائے اگر بہتّر یا ستّر یا باسٹھ یا ساٹھ فیصدی بھی ان کی تعداد ہوتی تب بھی ان کے لئے خطرہ کی کوئی بات نہیں تھی۔ اصل خطرہ تو اقلیت کے لئے ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اگر اسے سارے حقوق مل جائیں تب بھی اس کی جان خطرہ سے آزاد نہیں ہو سکتی۔ اگر کسی ملک کی اکثریت پچھتّر فیصدی ہے اور اقلیت پچیس فیصدی ،اور پچیس فیصدی اقلیت ایسی ہے جو اکثریت سے اتحاد نہیں رکھتی بلکہ اقلیت اور اکثریت دونوں آپس میں منافرت اور بُغض رکھتی ہیں تو ایسی صورت میں اگر اقلیت کو اس کا ایک ایک حق مل جائے تب بھی پچیس، پچیس ہی ہوں گے اور پچھتّر، پچھتّر ہی ہوں گے۔ بلکہ اگر اکثریت بہت بڑی فیاضی اور مہربانی سے اقلیت کو اس کے حقوق سے بھی زیادہ دے دے اورپچیس کی بجائے اسے تیس یاپینتیس یا چالیس فیصدی نیابت دے دے تب بھی اقلیت کے حقوق کی حفاظت کچھ زیادہ نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ کسی اسمبلی کے ساٹھ ممبروں کی رائے بھی وہی وقعت رکھتی ہے جو پچھتّر ممبروں کی رائے وقعت رکھتی ہے۔ بلکہ کسی اسمبلی کے اکیاون ممبروں کی رائے بھی وہی وقعت رکھتی ہے جو پچھتّر ممبروں کی رائے وقعت رکھتی ہے۔ بلکہ بعض صورتوں میں تو یوں کہنا چاہئے کہ کسی اسمبلی کے سَوا پچاس ممبروں کی رائے بھی وہی وقعت رکھتی ہے جو سَو میں سےپچھتّر ممبروں کی رائے وقعت رکھتی ہے۔ سَو میں سے سَوا پچاس ممبر تو ایک طرف نہیں ہو سکتے۔ لیکن اگر کسی اسمبلی کے ممبرچارسَو ہوں تو اس کا سوا پچاس حصہ دو سَو ایک ممبر ہو جائیں گے اور دو سَو ایک ممبر بھی اسی طرح ایک سَو ننانوے کو شکست دے سکتا ہے جس طرح تین سَو شکست دے سکتا ہے۔ تو اکثریت کے لئے خطرہ کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا۔ اکثریت اگر شور مچاتی ہے تو یا تو وہ حریص ہوتی ہے اور زیادہ طلبی عادتاً اختیار کر لیتی ہے یا اکثریت ڈرپوک ہوتی ہے اور اسے جو کچھ ملے اس پر وہ مطمئن نہیں ہوتی بلکہ ڈرتی ہے کہ نہ معلوم آئندہ کیا ہو جائے۔ یا اس کے نتیجہ میں مجھے کسی وقت کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ اور یا پھر اکثریت ہوشیار ہوتی ہے اور وہ محض ڈرانے کے لئے تاکہ اقلیت کچھ اور حقوق نہ مانگنے لگ جائے، شور مچانے لگ جاتی ہے۔ اِن وجوہ کے سوا اکثریت کے شور مچانے کی اور کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ پس جہاں تک کانگرس کے لیڈروں کا سوال ہے مَیں حیران ہوں کہ وہ کس خیال میں ہیں ۔ اگر وہ ناتجربہ کار ہوتے تو مَیں سمجھتاکہ وہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں مگر وہ ناتجربہ کار نہیں بلکہ اچھے سیاستدان ہیں۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ وہ اتنی موٹی بات بھی نہ سمجھ سکیں کہ ہمارے حقوق بہرحال محفوظ ہیں۔ لیکن جہاں تک مسلم لیگ کا سوال ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلم لیگ کی حیثیت اس فیصلہ کے مطابق بہت کچھ گر گئی ہے کیونکہ جن باتوں کا انہوں نے مطالبہ کیا تھا وہ باتیں ان کو حاصل نہیں ہوئیں۔ اگر وہ اُن کا کم سے کم آخری مطالبہ تھا تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم لیگ کو اس کا کم سے کم مطالبہ حاصل نہیں ہؤا۔ اور اگر وہ ان کا زیادہ سے زیادہ مطالبہ تھا تو پھر بے شک مسلم لیگ کے لئے یہ سوچنے کا موقع ہے کہ اس کے مطالبات اور موجودہ فیصلہ میں کتنی کمی ہے۔ اور آیا اس کمی کے ہوتے ہوئے وہ اس فیصلہ کو قبول کر سکتی ہے یا نہیں۔
جہاں تک مَیں نے اس سکیم پر غور کیا ہے میرے نزدیک اس میں یقیناً ایسی خامیاں ہیں جن خامیوں کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق پوری طرح محفوظ نہیں رہ سکتے۔ یا یہ کہو کہ اس وقت ملک کی جیسی فضا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف جو خیالات لوگوں کے دلوں میں پائے جاتے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق پوری طرح محفوظ نہیں ہو سکتے۔ ورنہ اگر آپس میں بھائی چارہ ہو، ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے محبت اور پیار رکھتے ہوں اور دوسرے کے دکھ کو اپنا دکھ اور دوسرے کے سُکھ کو اپنا سُکھ سمجھتے ہوں تو پھر یہ سوال ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں کوپچیس فیصدی نمائندگی کیوں ملی ہے۔ آدھی نمائندگی کیوں نہیں ملی۔ بلکہ مَیں کہتا ہوں اگر اس قسم کی محبت پیدا ہو جائے اور پھر مسلمانوں کو کچھ بھی ملے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ اگر آپس میں رواداری پائی جاتی ہو، ایک دوسرے سے محبت اور پیار قائم ہو، بُغض اور تنافر کا دلوں میں نشان تک نہ پایا جاتا ہو، تو پھر پچیس فیصدی کیا ایک فیصدی کا بھی کوئی سوال نہیں رہتا۔ اقلیت بڑی خوشی سے اکثریت کو کہہ سکتی ہے کہ آپ ہمارے نمائندے ہیں آپ جو چاہیں فیصلہ کر دیں ہمیں منظور ہے۔ خرابی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ملک کی ذہنیت اس قسم کی نہیں۔ ابھی تک وہ باتیں سیاست کی کرتے ہیں مگر سوچتے مذہب کے اثر کے ماتحت ہیں۔ ہر لفظ جو ان کے منہ سے نکلتا ہے سیاسیات میں ڈوبا ہؤا ہوتا ہے لیکن ہر فکر جو ان الفاظ کے پیچھے کام کر رہا ہوتا ہے وہ خالص مذہبی ہوتا ہے۔ گویا ایک دوغلی سی کیفیت ہمارے ملک میں پیدا ہو چکی ہے ۔اور لوگوں کی ویسی ہی مثال ہے جیسے پرانے زمانہ میں بَنیے آپس میں لڑا کرتے تھے۔ ہم نے خود اس قسم کی بَنیوں کی لڑائی دیکھی ہے۔ بَنیا چونکہ تاجر پیشہ ہوتا ہے، بہادری کی روح اس میں نہیں ہوتی، جب لڑائی ہوتی ہے تو ایک بھی پنسیری اُٹھا لیتا ہے اور دوسرا بھی۔ ایک شخص گالی دیتا ہے تو دوسرا پنسیری اٹھائے کُودنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے اب کے گالی دے تو مَیں اس پنسیری سے تیرا سر پھوڑ دوں گا۔ وہ پھر گالی دیتا ہے تو یہ پھر کُود کر کہتا ہے اب کے گالی دے تو تجھے مزا چکھاؤں۔ اس طرح ایک گالیاں دیتا جاتا ہے اور دوسرا یہی کہتا رہتا ہے کہ اب کے گالی دے تو تجھے بتاؤں کہ کس طرح گالی دی جاتی ہے۔ دو منٹ کے بعد پہلا شخص پھر اشتعال میں آ کر گالی دے دیتا ہے اور یہ پنسیری اٹھا کر پھر کُودنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے اگر اب کی دفعہ گالی دی تو تیرا سر پھوڑ دوں گا۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ ایسی حالت میں بعض دفعہ ایک شخص اشتعال میں آ کر آگے کی طرف بڑھتا ہے تو دوسرا شخص کود کر فوراً پیچھے ہٹ جاتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتا جاتا ہے کہ اب کے گالی دے تو تجھے مزہ چکھاؤں۔ اس قسم کا نظارہ سخت تکلیف دِہ ہوتا اور اخلاق کی گراوٹ پر دلالت کیا کرتا ہے۔ ہمارے ملک کی دو بڑی قومیں ہیں اور جہاں تک انصاف کا سوال ہے، جہاں تک عقل کا سوال ہے وہ دونوں سیاست کے لحاظ سے ایک دوسری سے متحد ہو سکتی ہیں۔ مگر جب ذہنیت اس قسم کی ہو کہ ایک نے بھی پنسیری اٹھائی ہوئی ہو اور دوسرے نے بھی پنسیری اٹھائی ہو اور جب ان میں سے ایک شخص حملہ کے لئے آگے بڑھنے لگے تو دوسرا شخص یہ سوچ رہا ہو کہ مَیں اب کود کر کتنا پیچھے ہٹوں گا۔ تو ایسی حالت میں آپس میں کہاں اتحاد ہو سکتا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ منہ سے تو سیاست کی باتیں کی جاتی ہیں مگر ان باتوں کے پس پردہ مذہب کا اثر غالب ہوتا ہے اور جب کیفیت یہ ہو تو اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے۔ سننے والوں میں سے ناواقف لوگ بے شک دھوکا کھا جائیں گے اور وہ سمجھیں گے کہ یہ سیاست کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ محض سیاسی باتیں نہیں بلکہ مذہبی تعصب بھی ان کے دلوں پر اثر ڈال رہا ہے۔ ان حالات میں ملک کے لئے جو خطرات پیدا ہو سکتے ہیں وہ ظاہر ہیں۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ مسلمان واقع میں مسلمان ہوتے۔ اگر مسلمان واقع میں مسلمان ہوتے تب بھی ان کے لئے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ جو قوم مرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے اس قوم کو کبھی کوئی مار نہیں سکتا۔ مسلمان اپنے متعلق کہتے ہیں ہم دس کروڑ ہیں اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دعویٰ صحیح ہے اور وہ واقع میں دس کروڑ ہی ہیں۔ لیکن مَیں کہتا ہوں دس کروڑ نہیں۔ اگر مسلمان پانچ کروڑ ہوتے بلکہ مَیں کہتا ہوں پانچ کروڑ بھی نہیں اگر مسلمان دو کروڑ ہوتے بلکہ دو کروڑ بھی نہیں، اگر مسلمان ایک کروڑ بھی ہوتے تب بھی اُنتالیس کروڑ آدمی کبھی اِن پر جابرانہ حکومت نہیں کر سکتے تھے۔ سوال صرف اس بات کا ہوتا ہے کہ کیا لوگ اپنی زندگی کو زیادہ قیمت دیتے ہیں یا اپنے اصول کو زیادہ قیمت دیتے ہیں؟ جس قوم کے لوگ اپنے اصول کو زیادہ قیمت دیتے ہیں اُس قوم کو کوئی مار نہیں سکتا۔ اور جس قوم کے لوگ اپنی زندگی کو زیادہ قیمت دیتے ہیں اس قوم کو کوئی بچا نہیں سکتا۔ ہمارے ہندوستان میں مسلمانوں کی طرف سے پاکستان کا شور مچایا جاتا رہا ہے مگر اس تمام شور کے باوجود خود مسلمانوں میں سے ہی ایک طبقہ ہمیشہ خریدا جاتا رہا ہے۔ ہندوستان کا کوئی صوبہ بھی تو ایسا نہیں جس میں کونسل کے ممبر یا باہر کے مسلمانوں میں سے کچھ خریدے نہ گئے ہوں۔ آخر یہ فرق کیوں ہے؟ کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ فرق اس لئے ہے کہ مسلمانوں کے اخلاق کمزور ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب مسلمانوں کے اپنے اخلاق کمزور ہیں تو پھر کمزور اخلاق والوں کو کونسا قانون بچا سکتا ہے۔
میرے نزدک جو غلطی ابتدا میں ہی مسلم لیگ سے ہوئی وہ یہ تھی کہ صرف سیاسی حقوق کی حفاظت اصل چیز سمجھ لی گئی اور وہ اصولی چیزیں جو کسی قوم کو بچایا کرتی ہیں مسلمان لیڈروں نے ان کی طرف توجہ نہیں کی۔ ہندوؤں کا بھی پہلے یہی حال تھا مگر گاندھی جی نے اِس میں تغیر پیدا کیا۔ ورنہ پہلے کانگرس بھی صرف سیاسیات کا شور مچایا کرتی تھی۔ گاندھی جی نے اِس نقص کو دیکھا اور انہوں نے سمجھا کہ خالص سیاسی شور کوئی چیز نہیں اصل چیز قومی کیریکٹر ہے۔ تم فوج چاہے کتنی بھرتی کر لو لیکن اگر سپاہیوں میں بہادری کی روح نہیں تو وہ فوج تمہارے کس کام آ سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں ایک لطیفہ مشہور ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کس حد تک درست ہے مگر کہتے ہیں مہاراجہ کشمیر نے ایک دفعہ کشمیریوں کی ایک فوج تیار کی۔ لڑائی کا وقت آیا تو انگریزی حکومت نے مہاراجہ صاحب کشمیر کو لکھا کہ آپ بھی اپنی فوج لڑنے کے لئے بھجوائیں۔ مہاراجہ کشمیر نےفوج کے افسر کو بلایا اور اُسے کہا سرحد پر فوج کی ضرورت ہے تمہاری فوج کو جانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ افسر نے کہا مَیں سپاہیوں کو حکم سے اطلاع دیتا ہوں۔ سپاہیوں کو اطلاع دے کر وہ پھر آیا او رمہاراجہ صاحب سے کہنے لگا ۔ ہم آپ کے نمک خوار ہیں اور ہم لڑنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ آخر ہم تنخواہ کس بات کی لیتے رہے ہیں لیکن حضور! رعایا کی صرف اِس قدر عرض ہے کہ ہم نے سنا ہے کہ پٹھان بڑے سخت ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے ساتھ پہرہ کا انتظام ہو جائے تو ہم جانے کے لئے حاضر ہیں۔ اب چاہے لطیفہ ہی ہو مگرلطائف بھی تو حقائق کے بیان کرنے کا موجب ہو جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بغیر اخلاق کے کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ بغیر جرأت کے کوئی فوج لڑ نہیں سکتی اور بغیر قومی کیریکٹر قائم کرنے کے کوئی قوم دوسری پر غالب نہیں آسکتی۔ گاندھی جی نے اس نکتہ کو سمجھا اور انہوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ دنیا میں سیاسیات کا شور مچانا شروع کر دیا بلکہ قومی کیریکٹر کو مضبوط کرنے کے لئے بھی اُنہوں نے کئی قسم کی تدابیر سے کام لیا۔ مثلاً اسی چیز کو لے لو کہ انہوں نے اپنی قوم کو چرخہ کاتنے پر لگا دیا۔ اب بظاہر یہ ایک لغو بات ہے اور ہے بھی لغو، مگر گاندھی جی نے جس غرض کے ماتحت اس طریق کو رائج کیا تھا وہ ایک نہایت ہی اعلیٰ غرض تھی اور اس کے لحاظ سے انہوں نے یہ لغو کام نہیں کیا بلکہ قوم کے کیریکٹر کو مضبوط بنانے کے لئے ایک شاندار کام کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ مَیں جن لوگوں کو انگریزوں کے ساتھ لڑنے کے لئےتیار کرنا چاہتا ہوں وہ رات اور دن انگریزوں کی غلامی میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اور خواہ تقریروں میں وہ یہی کہتے کہ ہم انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دیں گے، ہم ایک منٹ کے لئے بھی انگریزوں کی غلامی برداشت نہیں کریں گے مگر انگریز کی غلامی ان کی ذہنیت پر اس قدر غالب ہوتی کہ وہ ٹائی لے کر گھنٹوں شیشہ کے آگے کھڑے رہتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ٹائی یوں تو نہیں ہو گئی یا وُوں تو نہیں ہو گئی۔ اب ٹائی کا یوں ہونا یا وُوں ہونا کس اثر کا نتیجہ تھا؟ یقیناً انگریز کی غلامی کے اثر کانتیجہ تھا۔ کیونکہ ہمارے باپ دادا نے تو کبھی ٹائی نہیں لگائی تھی ۔ پھر وہ ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے کوٹ کے کپڑے کا رنگ اور ہماری ٹائی کا رنگ آپس میں مخالف تو نہیں۔ یہ قانون آخرکس کا تھا کہ کوٹ اور ٹائی کا رنگ آپس میں مخالف نہیں ہونا چاہئے؟ یقیناً انگریز کا تھا۔ ورنہ ہمارے باپ دادا تو نہ سوٹ پہنا کرتے تھے اور نہ ٹائی وغیرہ لگایا کرتے۔ پھر وہ ہمیشہ اس امر کو اپنے مدنظر رکھتے کہ ہمارے رومال اور ہمارے بُوٹ اور ہمارے بٹن اور ہمارے کالر ایٹی کیٹ (Etiquette)کے مطابق ہیں یا نہیں۔ گاندھی جی نے اس حالت کو دیکھا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ مَیں ان لوگوں کو بالکل دوسری جانب لے جاؤں۔ جس کی شکل موجودہ شکل سے بالکل مختلف ہے۔ چنانچہ یا تو ایک ہندوستانی خالص انگریز یا خالص جرمن بن رہا تھا اور یا پھر انہوں نے اسے بڑھیا بنا کر چرخہ کاتنے کی طرف متوجہ کر دیا۔ انہوں نے کہا مَیں لوگوں سے یہ کیا جھگڑاکرتا پھروں کہ تم اِس بات کی کوئی پروا نہ کرو کہ تمہاری ٹائی کا رنگ سرخ ہے یا سفید۔ یا تمہاری ٹائی اِدھر جاتی ہے یا اُدھر۔ یا تمہارے بُوٹ کو پالش کیا ہےیا نہیں۔ انہوں نے کہا مجھے اس بحث سے کوئی غرض نہیں۔ آؤ مَیں ان کو ایک اُلٹ راستے پر لے چلوں تاکہ انگریز کی غلامی کا خیال بھی ان کے دلوں سے نکل جائے۔ چنانچہ جس طرح ایک انگریز ٹائی کے پیچھے پڑا ہؤا تھا انہوں نے ایک ہندوستانی کو سُوت کاتنے پر لگا دیا اور اسے کہہ دیا کہ تم سارا دن بیٹھے چرخہ چلاؤ اور چُوں چُوں کی آواز نکالتے رہو۔ انہوں نے سمجھا کہ جو شخص میری اس سکیم پر عمل کرے گا انگریزی فیشن کی پابندی کو وہ خود بخود ترک کر دے گا۔ اور آپ ہی آپ سُوٹ اتار کر پھینک دے گا ورنہ یہ ایک عجیب مضحکہ انگیز صورت بن جائے گی کہ سوٹ پہنا ہؤا ہے، ٹائی لگائی ہوئی ہے اور زمین پر بیٹھے چرخہ چلا رہے ہیں۔ پس گاندھی جی نے صرف سیاسی حقوق کے متعلق اپنی قوم کی آواز بلند نہیں کی بلکہ انہوں نے ان کی غلامی کی ذہنیت بدلنے کے لئے بھی کئی قسم کی تدابیر سے کام لیا۔ جیسے چرخہ کاتنے کی تحریک لوگوں کی اخلاقی ذہنیت بدلنے کا ایک ذریعہ تھی۔ اسی طرح انہوں نے کھدر بھنڈار جاری کیا۔ گو بعض کانگرسیوں نے بھی کمال کر دیا کہ انہوں نے کھدر کےسُوٹ اور کوٹ پتلون بنوا کر پہننے شروع کر دئیے۔ مگر گاندھی جی کا یہ منشاء نہیں تھا۔ گاندھی جی کا اصل منشاء کھدر بھنڈار سے یہی تھا کہ کسی طرح انگریزوں کی نقل اور ان کی غلامی کا مادہ ہندوستانیوں کے دلوں میں سے نکل جائے۔ اسی طرح انہوں نے اور بھی کئی قسم کی تدابیر کیں اور صرف سیاسیات کی طرف اپنی توجہ مبذول نہیں رکھی بلکہ اخلاقیات کی طرف بھی انہوں نے اپنی توجہ مبذول کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ آج کانگرس کو جو طاقت حاصل ہے وہ طاقت اسے پہلے حاصل نہیں تھی۔ پہلے وہ صرف سیاسی شور مچایا کرتے تھے مگر اب انہوں نے اپنے اخلاق میں بھی ایک تبدیلی پیدا کر لی ہے۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں نے کانگرس کے اس طریقِ عمل سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ مسلمان گزشتہ کئی سال سے صرف سیاسی شور مچا رہے ہیں۔ اپنی اخلاقی اور تمدنی اصلاح کی طرف انہوں نے کوئی توجہ نہیں کی۔ گاندھی جی نے صرف سیاسی شور نہیں مچایا بلکہ لوگوں کی تمدنی اصلاح کی بھی کوشش کی اور کھدر بھنڈار جاری کر دئیے۔ وہ جانتے تھے کہ میرے چیلے جو میری اطاعت کرنے والے ہیں وہ کھدر بھنڈار سے سبق حاصل کر کے اقتصادی سکیم کی طرف متوجہ ہو جائیں گے۔ چنانچہ برلا وغیرہ نے سبق سیکھا اور انہوں نے اپنی قوم کو بہت بڑا فائدہ پہنچایا۔ اسی طرح کانگرس کے دوسرے ممبر جو کھدر بھنڈار کے مخالف تھے اور اسے ایک لغو کام سمجھتے تھے انہوں نے بھی اپنی توجہات اقتصادی تنظیم کی طرف پھیر دیں اور ہندو قوم کہیں سے کہیں جا پہنچی۔ یہ ساری چیزیں ایسی تھیں جن سے ایک قوم نیچے سے اوپر چلی جاتی ہے مگر مسلمانوں کی غفلت کا یہ نتیجہ ہے کہ ان کی طرف سے ہمیشہ سیاسی شور مچایا جاتا رہا لیکن کبھی بھی ان امور کی طرف انہوں نے توجہ نہیں کی جو قوم کی حقیقی کامیابی کے لئے ضروری تھے۔ یہ شور تو مچایاجاتا رہا کہ پاکستان، پاکستان، پاکستان۔ مگر یہ کبھی خیال نہیں کیا گیا کہ مسلمان کے اندر جرأت اور بہادری پیدا کی جائے، ان کی اخلاقی حالت کی درستی کی کوشش کی جائے، ان کی اقتصادی حالت کی درستی کی کوشش کی جائے اور ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ ان کی غلامی کی روح بالکل کچلی جائے۔ ایک ہندو انگریز کا جس قسم کا غلام تھا۔ آج اس سے وہ بہت کم غلام ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ وہ انگریز کی غلامی سے بالکل آزاد ہو گیا ہے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ انگریز کی غلامی سے بہت حد تک نکل چکا ہے اور اب پہلے کی نسبت وہ بہت کم غلامی کی روح اپنے اندر رکھتا ہے۔ لیکن ایک مسلمان ابھی انگریز کا ویسا ہی غلام ہے جیسے پہلے تھا بلکہ شاید اس میں غلامی کی روح اب کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہو۔ ان امور کی اصلاح ضروری تھی مگر ان کی طرف توجہ نہیں کی گئی حالانکہ ان کے بغیر کبھی کوئی قوم کامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے۔
جب کسی قوم کی اخلاقی حالت گر جائے تو وہ لالچ اور فریب اور دھمکیوں سے بہت جلد متاثر ہو جاتی ہے اور جب تک مسلمانوں کے اندر یہ نقص موجود رہے گا کہ وہ دھمکیوں سے مرعوب ہو جائیں گے وہ لالچ اور حرص کا مقابلہ کرنے کی طاقت اپنے اندر نہیں پائیں گے۔ اس وقت تک ان کی ترقی کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی۔ یہ صحیح ہے کہ الیکشن کے موقع پر مسلمانوں میں بہت بڑا جوش پایا جاتا تھا اور انہوں نے اس جوش کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔ مگر مسلمانوں کا جوش ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ گزشتہ بیس سال میں مسلمانوں نے اتنے پلٹے کھائے ہیں کہ ان کو دیکھتے ہوئے ان کے کسی جوش کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جا سکتی۔ وہ بڑے جوش سے ایک کام کا آغاز کرتے ہیں مگر ذرا بھی ان کو لالچ دے دیا جائے تو ان کا تمام جوش و خروش سرد ہو جاتا ہے اور وہ اپنے پہلے طریق کے بالکل خلاف چلنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اَور تو اَور مسلم لیگ کے کئی ممبر جن سےہمارا تبادلۂ خیالات ہوتا رہتا ہے۔ وہ بھی بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی شکایتوں کی بناء پر اپنی پارٹی بدلنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اور پھر ان میں سے بعض کو ہمیں سمجھانا پڑتا ہے کہ یہ طریق تمہارے لئے مناسب نہیں۔ اس قسم کے حالات میں اگر کوئی قوم مقابلہ کے لئے کھڑی ہو تو کس طرح ہو۔ آخر وہ کونسے ہتھیار ہوں گے جن سے جنگ کی جائے گی جبکہ وہ اخلاقی طور پر غالب نہیں اور جبکہ وہ ہر جگہ خریدے جا سکتے ہیں۔
دوسری چیز یہ تھی کہ مسلمانوں کی آواز کو غیر ممالک کے لوگوں تک پہنچایا جاتااور ان پر مسلمانوں کے مطالبات کی اہمیت کو واضح کیا جاتا۔ مگر اس بارہ میں بھی بہت بڑی غفلت سے کام لیا گیا اور مسلمانوں کی آواز کو صحیح طور پر بیرونی ممالک کے لوگوں تک پہنچایا ہی نہیں گیا۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہندو ہندوستان میں اپنی آواز بلند کرتے ہیں لیکن امریکہ میں بھی اگر کوئی مضمون نکلتا ہے تو ہندوؤں کی تائید میں، مسلمانوں کی تائید میں نہیں نکلتا۔ انگلستان کے اخبارات میں بھی اگر مضامین شائع ہوتے ہیں تو ننانوے فیصدی ہندوؤں کی تائید میں ہوتے ہیں۔ پھر امریکہ اور انگلستان کا ذکر جانے دو اپنے گھر میں یعنی فلسطین، شام اور مصر میں بھی جب مضامین نکلتے ہیں تو ان میں اکثر ہندوؤں کی تعریف میں ہوتے ہیں۔ ٹرکی میں بھی اگر مضامین نکلتے ہیں تو اکثر ہندوؤں کی تائید میں ہوتے ہیں۔ آخر وجہ کیا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے خلاف رائے رکھتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے پروپیگنڈا کی قیمت کو سمجھا اور ہر جگہ اپنے نمائندے بھجوائے لیکن مسلمانوں نےپروا نہیں کی۔ وہ اس خیال میں مست رہے کہ بس ہم جو بھی ارادہ کریں گے اسے پورا کر کے رہیں گے۔ ہمیں اس بات کی پروا نہیں کہ دنیا کی رائے ہمارے مخالف ہے یا موافق۔ سیدھی بات ہے کہ دنیا کی رائے بڑی بھاری اہمیت رکھتی ہے۔ ہماری زبان میں مثل مشہور ہے کہ اگر تم کسی انسان کو کُتّا کہنا شروع کر دو تو تھوڑے دنوں کے بعد ہی لوگ اسے کُتّا سمجھنا شروع کر دیں گے۔ اگر کسی کو بُرا کہو تو اسے بُرا کہنے لگ جائیں گے۔ اچھا کہو تو اچھا کہنے لگ جائیں گے۔ چونکہ ہر ملک میں ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا اس لئے آج یہ حالت ہے کہ ایک مسلمان بھی دوسرے مسلمان کے خلاف رائے رکھتا ہے۔ اور ہر ملک میں گاندھی جی یا کانگرس کی تائید میں ہی آواز اٹھتی ہے۔ اگر مسلمانوں کی تائید میں کوئی آواز اٹھتی ہے تو وہ اول تو بہت محدود ہوتی ہے اور پھر کبھی بھی وہ اس جوش و خروش سے بلند نہیں ہوتی جس جوش و خروش سے کانگرس کی تائید میں آواز بلند ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک بڑی بھاری کمزوری تھی جس کی وجہ سے آج کمیشن بڑی دلیری سے مسلمانوں کے حقوق کو تلف کرنے کے لئےتیار ہو گیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دنیا کی آواز میری تائید میں ہے۔ لیکن اگر ہندو کے حقوق کو مَیں نے تلف کیا تو ساری دنیا میں میرے خلاف شور مچ جائے گا۔
تیسری چیز یہ ہے کہ ساری دنیا میں سیاسی جھگڑے ہیں لیکن مذہبی جھگڑے صرف چند ملکوں میں ہیں جن میں سے ایک ہندوستان بھی ہے۔ اس وجہ سے دوسری دنیا سیاسی جھگڑے سننے کے لئے تو تیار ہو جاتی ہے لیکن مذہبی جھگڑے کا اگر اس کے پاس ذکر کیا جائے تو وہ اس کے سننے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ ایک امریکہ کا آدمی یہ محسوس بھی نہیں کر سکتا کہ مذہبی اختلاف کی وجہ سے کوئی قوم دوسری قوم پر ظلم کر سکتی ہے۔ ایک انگلستان کا آدمی یہ محسوس بھی نہیں کر سکتا کہ مذہبی اختلاف کبھی ایسی خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کو اپنےمظالم کا تختۂ مشق بنا لے۔ ایک فرانس کا آدمی یہ کبھی خیال بھی نہیں کر سکتا کہ مذہبی اختلافات بھی اس قابل ہیں کہ ان کی اہمیت کو محسوس کیا جائے۔ یہی حال اَور ممالک کا ہے اِلَّا مَا شَاءَ اللہ کہ ان میں سے کوئی ملک بھی مذہبی جھگڑوں کو کسی قسم کی اہمیت نہیں دیتا۔ اسی لئے جب کبھی کوئی سیاسی مسئلہ ان کے سامنے آتا ہے تو دوسری قوموں کے سیاست دان صرف اس نقطۂ نگاہ سے اس پر غور کرتے ہیں کہ ڈیما کریسی یعنی جمہوریت کے اصول کے مطابق اس مسئلہ کی کیا قیمت ہے۔ جو مسئلہ جمہوریت کے نقطۂ نگاہ سے انہیں صحیح معلوم ہوتا ہے اس کی وہ تائید کر دیتے ہیں اور جو مسئلہ جمہوریت کے نقطۂ نگاہ سے انہیں صحیح معلوم نہیں ہوتا اس کو وہ رد کر دیتے ہیں۔ مثلاً جمہوریت کہتی ہے کہ اگر کسی ملک کے چار آدمی ہوں تو ان میں سے تین جو کچھ کہیں گے وہ درست ہو گا۔ اور ایک شخص جو کچھ کہے گا وہ درست نہیں ہو گا۔ چونکہ ہندوستان میں مسلمان ایک ہے اور ہندو تین ۔اس لئے امریکہ جب مسلمانوں کی آواز کو سنتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ بالکل فضول مطالبہ ہے۔ ہندو جو کچھ کہتے ہیں وہ درست ہے۔ اسی طرح انگلستان والا جب سنتا ہے کہ مسلمان کہتے ہیں کہ ہمارے مطالبات مانے جائیں تو وہ ہنستے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے ہم ایک کی بات مانیں یا تین کی بات مانیں۔ تین کے مقابلہ میں ایک کا آواز اٹھانا تو بیوقوفی ہے۔ اور اگر اس کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ ڈیما کریسی نہ رہی بلکہ بادشاہت ہو گئی۔ یہی حال فرانس والوں کا ہے۔ وہ بھی جب مسلمانوں کے حالات سنتے ہیں تو جمہوریت کے اصول کے مطابق وہ ہندوؤں کی تائید کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مذہبی نقطۂ نگاہ ان کے نزدیک کسی توجہ کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ ان کے اپنے ملک میں مذہب کو اس طرح نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ مذہب کا کوئی احساس بھی ان کے دلوں میں نہیں رہا۔ اور چونکہ وہاں مذہبی اختلاف کی وجہ سے کوئی قوم دوسری قوم پر ظلم نہیں کرتی۔ اس لئے جب مسلمان مذہبی اختلاف کی بناء پر اپنے خدشات ان کے سامنے بیان کرتے ہیں تو وہ مان ہی نہیں سکتے کہ مسلمانوں کو کوئی حقیقی خطرہ درپیش ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انگریزی حکومت کو لمبا کرنے کے لئے بعض افسر ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے رہتے ہیں۔ اور تو اَور خود انگلستان میں ایسی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں بڑے زور سے یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ہمارے آئی۔ سی۔ ایس ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑواتے رہتے ہیں تاکہ ہماری حکومت لمبی ہو جائے اور کئی انگریز بڑی دلیری سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ محض ہمارے افسروں کی شرارت کا نتیجہ ہے ورنہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں کونسا جھگڑا ہو سکتا ہے۔ لیکن کانگرس جب اپنی آواز بلند کرتی ہے تو اس کا غیر ممالک پر نمایاں اثر ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہے ہم ہندوؤں کے نمائندہ نہیں اور جب وہ کہتی ہے کہ ہم ہندوؤں کے نمائندہ نہیں تو دوسرے الفاظ میں دنیا پر یہ اثر ڈالا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں ہندو مسلم کوئی سوال نہیں۔ پھر کانگرس نے ہوشیاری یہ کی کہ پریذیڈنٹ مولانا ابولکلام آزاد کو بنا دیا۔ اسی طرح سیکرٹری وغیرہ عہدوں پر بعض مسلمان مقرر کر دئیے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جب بھی کانگرس کے کسی کام کی رپورٹ دنیا کے سامنے جاتی ہے تو اس میں لکھا ہوتا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد اور مسٹر راجندر پرشاد نے فلاں کام کیا۔ اس کا طبعی طور پر لوگوں پر یہ اثر پڑتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اس میں ساری قومیں شامل ہیں۔ ہندو بھی شامل ہیں، مسلمان بھی شامل ہیں، سکھ بھی شامل ہیں۔ پھر مسلمان کس طرح کہتے ہیں کہ یہ محض قومی آرگنائزیشن ہے۔ لیکن مسلمانوں نے شروع سے اس کے خلاف طریقِ عمل رکھا۔ انہیں چاہئے تھا کہ غیر قوموں سے بھی میل جول رکھتے۔ ہندوستان میں ہزاروں نہیں لاکھوں لاکھ ہندو ایسے ہیں جو حقیقی معنوں میں اپنی قوم سے دُکھیا ہیں۔ اگر ان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی تو آج نتیجہ بالکل اَور نکلتا۔ مثلًا مسلم لیگ کی بجائے نیشنل لیگ بنا لیتے اور اس کے اصول اس قسم کے رکھتے جن کا طبعی نتیجہ مسلمانوں کے حق میں نکلتا جس طرح کانگرس نے اپنے اصول ایسے رکھے ہیں جن کا طبعی نتیجہ ہندوؤں کے حق میں نکلتا ہے۔ تو ہر دیکھنے والا سمجھتا کہ یہ کوئی مذہبی جماعت نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت ہے جو تمام کمزور طبقوں کی حفاظت کا کام سر انجام دینے کے لئے کھڑی ہوئی ہے اور اس کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوتی کہ مَیں اس میں شامل ہو جاؤں۔ اسی طرح مسلم لیگ اگر اس رنگ میں کام کرتی کہ اس نے مظلوموں کو فائدہ پہنچانا ہے تو بے شک اَور قوموں کو بھی فائدہ پہنچتا مگر مسلمان چونکہ سب سے زیادہ مظلوم تھے اس لئے ان کو اَوروں سے زیادہ فائدہ پہنچتا۔ اگر ان اصول کے مطابق کام کیا جاتا تو اس انجمن میں کئی ہندو بھی شامل ہو جاتے، کئی سکھ بھی شامل ہو جاتے اور اچھوت اقوام میں سے تو لاکھوں لوگ اس میں شامل ہو جاتے لیکن مسلمان لیڈروں نے کبھی اس طرف توجہ نہیں کی۔ وہ ہمیشہ دوسروں سے الگ ہو کر کام کرتے رہے۔ حالانکہ اگر وہ دوسری قوموں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرتے تو آج ان کے پاس ایک بہت بڑی فوج ہوتی۔ ہندوؤں نے اس راز کو سمجھا اور انہوں نے ایک ایک کر کے تمام قوموں کو اپنےساتھ ملا لیا۔ ایک طرف اچھوتوں کو انہوں نے اپنے ساتھ ملایا دوسری طرف مسلمانوں میں سے بعض لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ تیسری طرف سکھوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ چوتھی طرف اینگلو انڈینز (Anglo Indians)اور کرسچینز (Christians)کو اپنے ساتھ ملایا اور اس طرح متحدہ طور پر اپنے مطالبات کو انگریزوں کے سامنے رکھا۔ مسلمانوں کو سوچنا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عیسائی اٹھتے ہیں تو ان کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، اچھوت اٹھتے ہیں تو باوجود اس کے کہ وہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ ہندوؤں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں پھر بھی وہ مسلمانوں کے خلاف آواز بلند کرتے اور ہندوؤں سے ہی اپنے تعلقات رکھتے ہیں۔ یہی حال دوسری اقوام کا ہے کہ وہ بھی ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی ہیں۔ آخر اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ اگر اس وجہ کو تلاش کر کے دور کیا جاتا اور پھر تمام کمزور اور مظلوم اقوام کو اکٹھا کیا جاتا تو یقیناً ان کی آواز میں شدت پیدا ہو جاتی۔
پھر اگر مسلمانوں کی آواز مذہبی نقطۂ نگاہ سے یورپین ممالک میں نہیں سنی جاتی تھی تو مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ وہ مذہب کو کسٹم کے رنگ میں پیش کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہی بات جو یورپ، مذہب کے نام سے سننے کے لئے تیار نہیں تھا کسٹم کے نام سے سننے کے لئے تیار ہو جاتا اور اس کی معقولیت کو تسلیم کرتا۔ تم کسی یورپین کے سامنے مذہب کا ذکر کرو اور کہو کہ فلاں مطالبہ مذہبی نقطہ نگاہ سے ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے تو وہ کہے گا کہ یہ لغو بات ہے ۔لیکن اگراسی کا نام تم رسم و رواج رکھ دو تو سارا یورپ کہنے لگ جائے گا کہ یہ بڑی معقول بات ہے۔ پس اگر وہ مذہب کی بجائے رسم و رواج نام رکھ لیتے یا طریقہ نام رکھ لیتے یا اقتصادی درستی کا اسے ایک ذریعہ قرار دے دیتے تو مَیں سمجھتا ہوں اس طریق سے سارے یورپ کو اپنے مطالبات کا قائل کیا جا سکتا تھا۔ مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ گائے کی قربانی مذہبی نقطۂ نگاہ سے ہمارے لئے ضروری ہے تو سار ا یورپ کہے گایہ بالکل لغو بات ہے کیونکہ یورپ کے نزدیک مذہب کے نام پر کسی قسم کی قربانی ایک لغو حرکت ہے۔ پس اگر یہ مطالبہ کیا جائے کہ ہمیں قربانی کے لئے گائے ذبح کرنے کی اجازت ہونی چاہئے کیونکہ ہمارا مذہب ہمیں اس قربانی کی تعلیم دیتا ہے تو سارا یورپ کہے گایہ لغو مطالبہ ہے۔ لیکن اگر اس بات کو اس رنگ میں پیش کیا جائے کہ مسلمان غریب ہے، اس کے پاس کھانے کے لئے گوشت نہیں ہوتا مگر اپنی صحت قائم رکھنے کے لئے مجبور ہوتا ہے کہ گوشت کھائے اور اس کے پاس سوائے گائے ذبح کرنے کے اَور کوئی چارہ نہیں۔ ہندو چاہتے ہیں کہ مسلمان کو نقصان پہنچے، ان کی صحتیں بگڑ جائیں اور انہیں کھانے کے لئے گوشت میسر نہ آئے تو سارے یورپ کے لوگ کہہ اٹھیں گے کہ یہ بڑی معقول بات ہے مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے کی ضرور اجازت ہونی چاہئے۔ تو ذرا سی شکل بدل دینے سے پروپیگنڈا کی شکل بدل جاتی ہے۔ ایک شکل میں یورپ اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا، امریکہ اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو گا، انگلستان اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو گا لیکن اگر اسے دوسری شکل دے کر یہ کہنے لگ جاوے کہ ہماری دقتیں سیاسی دقتیں ہیں، ہماری دقتیں اقتصادی دقتیں ہیں، ہماری دقتیں تنظیمی دقتیں ہیں تو سارا یورپ ان باتوں کی قیمت دینے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ غرض اسلامی نقطہ نگاہ کبھی بھی سیاسی طور پر دنیا کےسامنے پیش نہیں کیا گیا۔ اقتصادی طور پر دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا گیا، تنظیمی طور پر دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا گیا بلکہ مذہبی طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ اور اس وجہ سے کہ ہمیشہ اس کو مذہبی رنگ میں پیش کیا گیا قوموں نے تُھو تُھو کرنا شروع کر دیا۔ یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کے مطالبات کو نظر انداز کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ اسلامی ممالک میں بھی ان کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ لوگوں نے یہی سمجھا کہ یہ مولویوں کے جھگڑے ہیں ان کو کوئی اہمیت نہیں دینی چاہئے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ باوجود اس کے کہ کمیشن کے فیصلہ میں مسلمانوں کے حقوق کو ایک حد تک تلف کیا گیا ہے۔ چاہے دانستہ تلف نہیں کیا گیا دنیا کی عام رائے کمیشن کی تائید میں ہی ہے مخالف نہیں۔ میری ذاتی رائے یہی ہے کہ کمیشن نے اپنی طرف سے یہ ضرور کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کو ایک حد تک محفوظ کر دیا جائے مگر بوجہ اس کے کہ وہ تجاویز خود کمیشن کی سوچی ہوئی تھیں ان کی سکیم ویسی کارآمد نہیں جیسے وہ سکیم کار آمد ہو سکتی تھی جو خود مسلمانوں کی طرف سے پیش کی جاتی۔
چوتھا نقص جو مسلمانوں کی کوششوں میں واقع ہؤا ہے یہ ہے کہ تمام قومیں مختلف تجاویز رکھتی ہیں تا اگر ایک تجویز ختم ہو جائے تو دوسری تجویز سامنے آ سکے جو پہلی تجویز کے قائم مقام ہو۔ اس وجہ سے کانگرس والے ہمیشہ ان لوگوں سے تعلقات رکھتے رہے ہیں جو ان کی پیش کردہ تجاویز سے نیچے اتر کر دوسرے نمبر کی سکیم پیش کر سکیں۔ چنانچہ کانگرس نے آزاد مسلم کانفرنس کے اراکین کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا اور پھر خود کانگرس کے لیڈر ان کو اپنے ساتھ لے کر کیبنٹ مشن (Cabinet Mission)سے ملاقات کراتے رہے۔ اگر یہ لوگ کانگرسی نہیں تھے تو کانگرس والوں کو کیا شوق تھا کہ وہ ان کو اپنے ساتھ رکھتے اور کیبنٹ مشن سے ان کی ملاقات کراتے۔ صاف ظاہر ہے کہ کانگرس کا آزاد مسلم کانفرنس والوں کو اپنے ساتھ رکھنا اور ان کی کیبنٹ مشن سے ملاقات کرانا بھی اس غرض سے تھا کہ اگر کمیشن مسلمانوں کے متعلق ہماری سکیم نہ مانے تو دوسرے نمبر کی کوئی اَور سکیم کمیشن کے سامنے آجائے جو بہرحال اَور سکیموں سے بہتر ہو گی۔ مگر مسلم لیگ والوں کا شروع سے یہ رویہ رہا ہے کہ ہماری سکیم کے خلاف جو شخص بھی کوئی آواز بلند کرے گا خواہ وہ ہم سے ایک فیصدی اختلاف ہی کیوں نہ رکھتا ہو وہ کشتنی اور گردن زدنی ہو گا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جب وزارتی کمیشن نے فیصلہ کیا کہ پاکستان اصل شکل میں مسلمانوں کو نہیں دے سکتے تو اس سے نیچے اُتر کر مسلمانوں کے فائدہ کے لئے ان کے سامنے کوئی سکیم نہیں تھی اور انہیں خود سوچنی پڑی۔ اور یہ ظاہر بات ہے کہ کمیشن کے ممبر مسلمانوں کے فائدہ کے لئے وہ کچھ سوچ نہیں سکتے تھے جو خود مسلمان اپنے فائدہ کے لئے سوچ سکتے تھے۔ اگر مسلم لیگ اپنی اس غلطی کا تدارک کرتی اور وہ ان لوگوں کو ہم آہنگ بنا لیتی جو گو پاکستان کی پوری طرح تائید کرنے والے نہیں تھے لیکن سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے پاکستان سے نیچے اُتر کر بعض اَور ذرائع بھی ہو سکتے ہیں اور وہ ان ذرائع کو ایک سکیم کی صورت میں پیش کرتے یا مسلم لیگ ان کی آواز کمیشن تک پہنچا دیتی۔ تو کمیشن کو مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے متعلق خود کچھ سوچنے کی تکلیف گوارہ نہ کرنی پڑتی۔ ممبرانِ کمیشن سمجھتے کہ اگر مسلم لیگ کی سکیم کو ہم نے قبول نہیں کیا تو مسلمانوں کے ایک اَور طبقہ کی طرف سے پاکستان سے نیچے اُتر کر ایک اور سکیم ہمارے سامنے پیش کی جا رہی ہے۔ آؤ ہم اس کو قبول کر لیں۔ اس طرح مسلمانوں کے حقوق موجودہ صورت سے بہت زیادہ محفوظ ہو جاتے یا کم سے کم وہ باتیں جو اَب مشن کے ذہن میں نہیں آئیں اس سکیم کے پیش ہونے کی صورت میں اس کے ذہن میں آ جاتیں اور ا س کے ممبر سمجھتے کہ مسلمانوں کے حقوق اس اس رنگ میں زیادہ محفوظ ہو سکتے ہیں۔ یہ طریق یقیناً زیادہ مفید ہوتا اور یقیناً اس کے نتائج مسلمانوں کے حق میں بہت بہتر ثابت ہوتے۔ کانگرس نے ہمیشہ یہ طریق استعمال کیا ہے اور ہمیشہ اپنی بغل میں ایک دشمن کو بھی رکھا ہے۔ یہ سیدھی بات ہے کہ اپنی بغل میں کوئی دشمن نہیں رکھ سکتا اور اگر رکھتا ہے تو وہ ضرور اس کی کوئی سیاسی چال ہو گی کہ ظاہر میں تو اس کو دشمن قرار دیاجائے لیکن اندرونی طور پر وہ اس کا ہم خیال ہو اور اس کے منہ سے ایسی باتیں نکلوائی جائیں جو اس کو فائدہ پہنچانے والی ہوں۔ غرض کانگرس نے ہمیشہ یہ سیاسی چال چلی اوراس نے بعض لوگوں کو اپنے سے سوا ظاہر کر کے کمیشن کے سامنے پیش کیا تا اگر ان کی سکیم منظور نہ ہو تو وہ کہہ سکیں کہ اگر کانگرس مسلمانوں کے حقوق کے متعلق جو کچھ سکیم پیش کرتی ہے اُسے آپ منظور نہیں کر سکتے تو آزاد مسلم کانفرنس والے جو کچھ کہتے ہیں وہ مان لیا جائے۔ یہ تو نہ کانگرس میں شامل ہیں نہ مسلم لیگ میں۔ جو کچھ یہ کہتے ہیں وہی دے دیا جائے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ درمیان میں رہنے والے نہیں تھے بلکہ کانگرس کے طرفدار تھے۔ اسی طرح مسلم لیگ کی طرف سے اگر یہ نہ کیا جاتا کہ جو شخص ذرا بھی مسلم لیگ کی سکیم سے اختلاف کرے گا اسے سوادِ مسلمین سے خارج قرار دیا جائے گا تو یقیناً اسلام اور مسلمانوں کے لئے یہ رواداری بہت زیادہ مفید ہوتی کیونکہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے اسلامی نقطۂ نگاہ پاکستان سے نیچے اُتر کر کمیشن کے سامنے آ جاتا او رکمیشن کو خود اپنی طرف سے کوئی نیا نقطۂ نگاہ پیش نہ کرنا پڑتا جو لازماً اتنا ہمدردانہ نہیں ہو سکتا جتنا ہمدردانہ وہ نقطۂ نگاہ ہو سکتا تھا جو خود مسلمانوں کے ایک طبقہ کی طرف سے پیش کیا جاتا۔ غرض میرے نزدیک چار اہم غلطیاں ہیں جو مسلمانوں سے ہوئیں اور جن کا خمیازہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کب تک اور کن کن صورتوں میں اُنہیں بُھگتنا پڑے گا۔ ابھی تو باہم گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے اور نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا کیا نتیجہ برآمد ہو۔
اس مضمون کا دوسرا حصہ مَیں ابھی بیان نہیں کرتا کیونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے لیکن میرے نزدیک اب بھی اس فیصلہ میں بعض ایسی اصلاحیں کرانے کی کوشش کی جا سکتی ہے جن سے مسلمانوں کے حقوق بہت حد تک محفوظ ہو سکتے ہیں اور وہ خطرہ جو اِس وقت مسلمانوں کو درپیش ہے کم ہو سکتا ہے۔ فِی الْحال مَیں صرف اتنا ہی بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک چار چیزیں ہیں جن کی مسلمانوں کو ضرورت تھی اور جن کی طرف عدمِ توجہ کی وجہ سے انہیں نقصان پہنچا۔ ضرورت تھی اس بات کی کہ مسلمان اپنا قومی کریکٹر مضبوط کرتے، ضرورت تھی اس بات کی کہ مسلمان غیر ممالک میں پروپیگنڈا کی اہمیت کو سمجھتے، ضرورت تھی اس بات کی کہ مسلمان سیاسی طور پر غیر قوموں سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرتے اور ضرورت تھی اس بات کی کہ مسلمان اس امر کو سمجھتے کہ تھوڑا بہت اختلاف جو قوم میں شقاق اور افتراق پیدا کرنے کا موجب نہ ہو اس کا برداشت کرنا قوم کے لئے مُضِر نہیں ہوتا بلکہ ترقی کے لئے مفید ہوتا ہے۔ اب بھی مسلمان اگر ان امور کی اہمیت کو محسوس کر لیں تو آئندہ ان کے بچاؤ کی بہت کچھ صورت پیدا ہو سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آئندہ خطبہ جمعہ میں یا ایک علیحدہ مضمون کی صورت میں مَیں وہ امور بیان کروں گا جن کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے نزدیک اب بھی وزارتی کمیشن کے فیصلہ میں ایک حد تک اصلاح کی صورت پیدا کی جا سکتی ہے۔’’ (الفضل 3 جون 1946ء )

19
احباب اپنی قربانیوں کا جائزہ لیں اور دین کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے لئے اپنے چندوں میں اضافہ کریں
( فرمودہ 31 مئی 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘دنیا پر بھی ایک نازک زمانہ آ رہا ہے اور ہماری جماعت پر بھی ایک نازک سے نازک تر زمانہ آ رہا ہے۔ دنیا پر تباہی اور بربادی کے لحاظ سے اور ہماری جماعت پر اس تباہی اور بربادی کو اپنی قربانی اور اپنے ایثار سے دور کرنے کے لحاظ سے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نجات اور دنیا کے لوگوں کا تکالیف سے بچنا یہ صرف احمدی جماعت کی قربانی کےساتھ وابستہ کیا ہؤا ہے۔ ایک آدمی دریا یا تالاب میں ڈوبنے لگتا ہے تو چاروں طرف سے لوگ اس کو بچانے کے لئے بھاگ پڑتے ہیں اور لوگوں کے اندر اتنا شدید جذبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ ایسے موقع پر بعض لوگ جو تیرنا نہیں جانتے وہ بھی جوش میں آ کر کُود پڑتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ دوسرے کو بچانا تو الگ رہا وہ خود اپنی جان کو بھی نہیں بچا سکتے۔ کسی انسان کے گھر میں آگ لگ جاتی ہے تو سینکڑوں آدمی اس طرف دوڑ پڑتے ہیں بلکہ بعض تو بجائے مدد کرنے کے رستہ میں روک بن جاتے ہیں کیونکہ آدمی اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ چلنے پھرنے کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ ایک انسان کی جسمانی موت جس موت سے اسے کوئی چارہ نہیں تھا، ایک گھر کا تباہ ہو جانا، جس گھر کو تباہی سے ہمیشہ کے لئے کسی صورت میں بھی بچایا نہیں جا سکتا اس کے لئے تو سینکڑوں اور ہزاروں انسان دیوانہ وار بھاگتے چلے جاتے ہیں اور جن میں طاقت اور قوت نہیں ہوتی وہ بھی اندھا دھند قربانی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن روحانی موت اور روحانی غرق اور روحانی اِحراق کو دیکھتے ہوئے لاکھوں اور کروڑوں انسان آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اپنے تباہ ہونے والے بھائی، ایسے تباہ ہونے والے بھائی کی مدد سے دریغ کرتے ہیں جس کی تباہی دائمی اور ابدی ہے۔ وہ اس جان کے بچانے کی تو کوشش کرتے ہیں جس نے آج نہیں تو کل مر جانا ہے۔ وہ اس گھر کے بچانے کی تو کوشش کرتے ہیں جس نے آج نہیں تو کل گر جانا ہے مگر وہ اس روح کو بچانے کی کوشش نہیں کرتے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہمیش کی زندگی مقرر فرمائی ہے۔ وہ اس گھر کو بچانے کی کوشش نہیں کرتے جو دائمی ہے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں۔ ہر انسان جو پیدا ہوتا ہے اس کا ایک گھر دوزخ میں بنایا جاتا ہے اور ایک جنت میں۔ انسان جُوں جُوں نیکیوں میں بڑھتا چلا جاتا ہے اس کی جنتی گھر کے ساتھ وابستگی ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کا دوزخی گھر دوزخیوں کو دے دیا جاتا ہے اور اگر وہ بدیوں کی طرف جاتا ہے تو اس کا جنتی گھر اور جنتیوں کو مل جاتا ہے یا اس کو مل جاتا ہے جس پر اس نے ظلم کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ تو جب ایک شخص روحانیت سے دور ہو کر ایسے کام کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوتے ہیں تو گویا اس کا جنت کا گھر گرایا جا رہا ہوتا ہے۔ ایسا گھر جس کو اگر بچا لیاجائے تو وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے محفوظ رہے۔ اگر ایک شخص گمراہی کےگڑھے میں گرتا ہے تو گویا ایک ایسی جان غرق ہونے لگتی ہے جس کے لئے ہمیشہ ہمیش کی زندگی مقدر کی گئی تھی۔ اگر اسے بچا لیا جائے تو ایک ایسی جان کو بچایا جا سکتا ہے جس کے لئے کوئی موت نہیں۔ مگر لوگ معمولی معمولی صدموں اور تکلیفوں پر تو بے کل ہو جاتے ہیں لیکن اس عظیم الشان بات کے متعلق لوگوں میں بے چینی اور کرب کم پیدا ہوتا ہے۔
اس زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جس قسم کی مذہب سے دُوری اور منافرت پیدا ہو چکی ہے اس کی مثال پہلے زمانہ میں نہیں ملتی۔ گویا جنت کے گھر گرائے جا رہے ہیں اور دوزخ کی آبادی کے سامان پیدا کئے جا رہے ہیں۔ مگر وہ جو دس روپے کے ایک جھونپڑے کو بچانے کے لئے ایک محلہ سے دوسرے محلہ کو دوڑتے ہیں وہ جنت کا مکان بچانے کے لئے اس قسم کی قربانیاں کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ بلکہ ہماری جماعت بھی جسے محض اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑا کیا گیا ہے ابھی پورے طور پر اپنے فرض کی ادائیگی کی طرف متوجہ نہیں۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں آدمی ایسے ہیں جو مالی امداد تو دیتے ہیں مگر اتنی کم دیتے ہیں جو اُن کی عام مالی حالت سے بہت کچھ گری ہوئی ہوتی ہے۔ اسی طرح مختلف قسم کی تحریکیں جو سلسلہ کی طرف سے کی جاتی ہیں ان کی طرف اتنی توجہ نہیں ہوتی جتنی توجہ کی وہ مستحق ہوتی ہیں۔ مثلاً تحریک جدید ہی ہے۔ تحریک جدید کا کام اب اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ درحقیقت اس کا بوجھ بادشاہتیں بھی اچھی طرح نہیں اٹھا سکتیں۔ کونسا مسلمان بادشاہ ہے جس نے دنیا کے چاروں کونوں میں مبلغینِ اسلام بھجوائے ہوں۔ یہ کام ایسا ہے کہ نہ ترکوں کو اس کی کبھی توفیق ملی، نہ ایران کو کبھی یہ توفیق حاصل ہوئی، نہ مصر کو کبھی یہ توفیق ملی، نہ مراکش کے بادشاہ کو یہ توفیق ملی، نہ عرب کے بادشاہ کو یہ توفیق ملی اور نہ اب ان دوسری اسلامی حکومتوں کو یہ توفیق ملی یا مل رہی ہے جو قریب زمانہ میں قائم ہوئی ہیں۔ صرف احمدیہ جماعت ہی ہے جس کی طرف سے ساری دنیا میں مبلغ بھجوائے گئے ہیں یا بھجوائے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنی زندگیوں کو نہایت سادگی سے بسر کرتے اور ایسی تکلیف سے گزارہ کرتے ہیں کہ اس تکلیف کا اندازہ بھی دوسرا شخص نہیں لگا سکتا۔
ایک معمولی سی بات ہے جس سے انسان کسی قدر ان کی حالت کو سمجھ سکتا ہے۔ گو تکلیف کا احساس پورے طور پر نہ کر سکے۔ گورنمنٹ کی طرف سے جو طالب علم امریکہ جاتے ہیں ان میں سے ہر طالب علم کو وہ ڈیڑھ سو ڈالر ماہوار خرچ دیا کرتی ہے۔ گویا وہاں کے اخراجات کے لحاظ سے ڈیڑھ سو ڈالر فی کس مقرر ہے لیکن ہمارے مبلغ جو تین بچوں اور بیوی سمیت وہاں رہتے تھے ان کو سلسلہ کی طرف سے صرف ایک سو ڈالر ماہوار جایا کرتا تھا۔ گویا گورنمنٹ نے ایک طالب علم کا جو خرچ مقرر کیا ہؤا ہے اُس کا چھٹا حصہ ان کو ملا کرتا تھا۔ ایک احمدی دوست امریکہ سے آئے تو انہوں نے سب سے زیادہ زور جس امر پر دیا تھا وہ یہی تھا کہ اگر ہم نے امریکہ میں تبلیغ کرنی ہے تو ہمیں کچھ نہ کچھ اخراجات تو مبلغین کو دینے چاہئیں۔ انہوں نے اپنے طور پر اندازہ لگاتے ہوئے کہا کہ ہمارے مبلغ کی ایسی حالت نہیں کہ وہ اعلیٰ طبقہ میں تبلیغ کر سکے بلکہ اس کا لباس ایسا نہیں کہ وہ اوسط درجہ کے لوگوں میں بھی تبلیغ کر سکے۔ وہ غرباء میں ہی پھرتے ہیں اور لباس کی وجہ سے کھاتے پیتے لوگوں کے سامنے نہیں ہو سکتے۔ اب دیکھو تبلیغ کے کام میں یہ کتنی بڑی روک ہے۔ امریکہ کے اخراجات کے لحاظ سے سو سے لے کر ڈیڑھ سو ڈالر تک تو صرف کھانے پینے کے لئے چاہئے، باقی تبلیغ کے اخراجات کے لئے ٹریکٹوں کی چھپوائی اور ان کی اشاعت کے لئے ریل اور بسوں اور موٹروں کے کرایہ کے لئے، اسی طرح مختلف قسم کی کتابیں تقسیم کرنے اور لوگوں کے مطالعہ کے لئے، ایک لائبریری قائم کرنے کے لئے الگ اخراجات کی ضرورت ہے۔ ان تمام اخراجات کو اگر مدنظر رکھا جائے اور ایک مبلغ سے یہ امید کی جائے کہ وہ صحیح طور پر تبلیغ کرے تو اسے تین سو ڈالر ماہوار دینے چاہئیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمیں ایک مبلغ کو ہزار روپیہ مہینہ دینا چاہئے۔ لیکن یہ ہماری طاقت میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے مبلغوں سے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگیاں اتنی سادہ بنائیں کہ اس سے زیادہ سادہ ہونا ان کے لئے ناممکن ہو۔ مگر سادگی کی حد تک تو انسان جا سکتا ہے۔ اس سے نیچے نہیں جا سکتا۔ ہم ان سے یہ تو مطالبہ کر سکتے ہیں کہ چونکہ آجکل تنگی اور مصیبت کے دن ہیں تم گوشت کھانا چھوڑ دو۔ ہم یہ بھی مطالبہ کر سکتے ہیں کہ تم دال کھانا بھی چھوڑ دو اور صرف چٹنی سے روٹی کھا لیا کرو۔ مگر ہم ان سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتے کہ تم کچھ کھاؤ ہی نہیں۔ آخر اخراجات کی تنگی ایک حد تک ہی چل سکتی ہے۔ اگر ہم اپنے مبلغ کو ایک ہزار روپیہ ماہوار نہیں دے سکتے تو ہمیں اس سے اُتر کر اسے پانچ سو یا چھ سو روپیہ ماہوار تو دینا چاہئے۔ مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم بازار سے لوٹ کر کھا لیا کرو۔ اگر بازار سے آٹھ آنے کو روٹی ملتی ہے تو تم آٹھ آنے خرچ کرنے کی بجائے چوری چُھپے روٹی اٹھا کر لے آیا کرو۔ یا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمہیں اگر کپڑا نہیں ملتا تو ننگے رہا کرو یا دوسروں کے کپڑے چُرا کر پہننا شروع کر دو۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ تم تبلیغ بند کر دو۔ یا اگر تبلیغ کے لئے جاؤ تو بغیر ٹکٹ کے ریل میں سوار ہو جایا کرو۔ اسی طرح ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ تم ایک محلہ سے دوسرے محلہ میں نہ جاؤ یا اگر جاؤ تو بس میں زبردستی بیٹھ جایا کرو۔ ہم بہرحال معقول مطالبہ کر سکتے ہیں، غیر معقول نہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان ملکوں کے اخراجات کو مدنظر رکھیں۔ ان ممالک میں اخراجات اِس قدر زیادہ ہیں کہ ہمارے ملک کے اخراجات پر ان ممالک کے اخراجات کا قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے اخراجات اَور رنگ کے ہیں اور ان کے اخراجات اَور رنگ کے۔
گزشتہ دنوں انگلستان کی ایک خبر شائع ہوئی تھی۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان ممالک میں اخراجات کی کیا نوعیت ہے۔ انگلستان امریکہ سے بہت سستا اور غریب ملک ہے۔ مگر پچھلے دنوں انگلستان میں مزدوروں نے سڑائیک کر دی اور سڑائیک کی وجہ ان کا یہ مطالبہ تھا کہ ہماری مزدوری میں آٹھ شلنگ روزانہ کی زیادتی کی جائے۔ یہاں اگر مزدوروں کو بتایا جائے کہ انہیں آٹھ روپیہ روزانہ مزدوری ملا کرے گی۔ تو مَیں سمجھتا ہوں ان پر شادیٔ مرگ کی سی کیفیت طاری ہو جائے اور دس فیصدی کے ہارٹ فیل ہو جائیں۔ جنگ کے دنوں میں انہیں بارہ چودہ آنے مزدوری ملتی رہی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے انہیں چھ سات آنے ملا کرتے تھے۔ آٹھ شلنگ کی روزانہ زیادتی ان کے ذہن میں بھی کہاں آ سکتی ہے۔ یہاں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی آٹھ روپیہ مہینہ کی آمد ہوتی ہے۔ چونکہ قادیان میں غرباء کے لئے غلہ کا انتظام کیا جاتا ہے اور یہ ضروری ہوتا ہے کہ ہمیں ان کی آمد کا صحیح علم ہو تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ وہ امداد کے مستحق ہیں یا نہیں۔ اس لئے جب ان کی آمد کا پتہ لگایا جاتا ہے تو کافی تعداد ایسے لوگوں کی نکلتی ہے جن کی آمد9، 10، 12 اور 15 کے اندر اندر چکر لگا رہی ہوتی ہے۔ گویا ہمارے ملک میں ایک غریب خاندان کی جتنی ماہوار آمد ہوتی ہے وہاں اتنی رقم کا روزانہ تنخواہ کے طور پر نہیں،تنخواہ کی زیادتی کے طور پر مطالبہ کیا جاتا ہے اور زیادتی تنخواہ سے بہرحال کم ہوتی ہے۔ کسی کی پچیس روپیہ تنخواہ ہو تو وہ یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ مجھے ساٹھ روپیہ تنخواہ دی جائے وہ یہ تو کہتا ہے کہ میری تنخواہ پچیس کی بجائےتیس روپے ماہوار کر دی جائے یا پچیس کی بجائے پینتیس یا چالیس کر دئیے جائیں مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھےپچیس کی بجائے ساٹھ یا اسّی روپیہ تنخواہ دی جائے۔ تو زیادتی کا مطالبہ ہمیشہ اصل تنخواہ سے کم ہوتا ہے۔ پس جن کا مطالبہ یہ تھا کہ ہماری مزدوری میں آٹھ شلنگ روزانہ کی زیادتی کی جائے سمجھ لو کہ ان کی تنخواہ تو بارہ تیرہ شلنگ کے قریب روزانہ ہو گی۔
امریکہ میں اس سے بھی زیادہ تنخواہیں ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ بعض مزدور اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جن کی تنخواہیں اپنے فن میں مہارت رکھنے کی وجہ سے زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے اور ہر ملک میں ایسا ہوتا ہے مگر پھر بھی امریکہ میں ڈیڑھ سَو ڈالر سے لے کر تین سَو ڈالر تک عام مزدور لیتا ہے اور جو اپنے فن میں خاص طور پر ماہر ہوتے ہیں یا اعلیٰ درجہ کے مستری ہوتے ہیں وہ تو بہت زیادہ تنخواہیں لیتے ہیں۔ گویا امریکہ میں ایک عام مزدور پانچ سَو سے لے کر ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ لیتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ڈپٹی کی تنخواہ چھ سو روپیہ ہوتی ہے اور ڈپٹی ہونا یوں سمجھا جاتا ہے کہ گویا وہ عرش پر پہنچ گیا ہے۔ ایک غریب آدمی اگر ڈپٹی سے بات کرنے لگے تو وہ اپنا منہ دوسری طرف پھیر لے گا اور کہے گا یہ بیوقوف اور جاہل اِتنا بھی نہیں جانتا کہ میں ڈپٹی ہوں۔ غرض ہمارے ملک میں ڈپٹی ہو جانا ایک بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے حالانکہ ایک ڈپٹی کی امریکہ کے مزدور سے آدھی تنخواہ ہوتی ہے۔ پس ان ملکوں میں گزارہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ مگر ہم ان ممالک میں بھی اپنے مبلغین کو اتنا تنگ گزارہ دیتے ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں۔
پھر جنوبی امریکہ میں شمالی امریکہ سے بھی زیادہ اخراجات ہوتے ہیں۔ مگر ہم جنوبی امریکہ کے مبلغ کو بھی بہت تھوڑا گزارہ بھجواتے ہیں۔ اس کی یہ وجہ نہیں کہ ہم روپیہ خود جمع کرتے جاتے ہیں اور انہیں گزارہ کے لئے ایک معمولی سی رقم بھجوا دیتے ہیں۔ ہمارے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ ہم ان کو بھیج دیتے ہیں۔ مگر پھر بھی وہ ان کے اخراجات کے مقابلہ میں بہت کم ہوتا ہے۔ مَیں نے بتایا ہے کہ جنوبی امریکہ میں شمالی افریقہ سے بھی زیادہ اخراجات ہیں۔ مگر اس کے باوجود ہم وہاں کے مبلغ کو چار سال تک صرف ساٹھ روپیہ مہینہ بجھواتے رہے ہیں۔ اس سے اندازہ کر لو کہ وہ کیسی تنگی سے گزارہ کرتے ہیں۔ جس ملک کے مزدور کو پانچ سو سے ہزار روپیہ تک تنخواہ ملتی ہو اس ملک میں ساٹھ روپیہ مہینہ لے کر کوئی شخص کیسے گزارہ کر سکتا ہے۔
اسی طرح اَور کئی ایسے ممالک ہیں جن میں ہم اپنے مبلغین کو پندرہ پندرہ، بیس بیس روپیہ ماہوار بھجواتے رہے ہیں۔ حالانکہ پندرہ بیس روپیہ میں یہاں بھی انسان معقول گزارہ نہیں کر سکتا۔ اور غیر ملکوں میں تو جہاں بہت زیادہ گرانی ہے۔ پندرہ بیس روپے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے۔ مگر ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ کیا ہمیں اپنے مبلغوں سے دشمنی ہے؟ یا کیا تبلیغ کے فریضہ سے ہمیں دشمنی ہے؟ یا کیا ہم میں اتنی عقل نہیں کہ ہم اپنے ملک اور ان ملکوں کے فرق کو سمجھ سکیں؟ یہ سب باتیں غلط ہیں۔ ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے فریضۂ تبلیغ سے دشمنی نہیں بلکہ دلچسپی ہے اور دوسروں سے بہت زیادہ دلچسپی ہے۔ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے بے وقوف بھی نہیں بلکہ بُہتوں سے زیادہ سمجھ اور عقل رکھنے والے ہیں۔ پھر ہمیں اپنے مبلغوں سے بھی دشمنی نہیں۔ وہ مبلغ ہمیں اپنے عزیزوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں کیونکہ وہ خدا کے لئے اور اس کے دین کی اشاعت کے لئے باہر گئے ہوئے ہیں۔ پھر ہم کیوں ایسا کرتے ہیں؟ اس لئے کہ جماعت اپنی ذمہ داری کو پوری طرح نہیں سمجھتی اور جو چندہ جمع کرتی ہے وہ ہماری ضروریات کے لئے کافی نہیں ہوتا۔ اب ایک ہی صورت ہے کہ یا تو ہم تبلیغ بند کردیں یا تبلیغ کو کم کر دیں اوریا پھر اس قسم کے مظالم کو جاری رکھیں ۔ کئی لوگ جو بیرونی ممالک سے واپس آئے ہیں انہوں نے انہی الفاظ میں مجھ سے سوال کیا ہے کہ کیا اس ظلم کی اِسلام اجازت دیتا ہے؟ اس وقت مَیں جبکہ میرا نفس اس سوال سے شرمندہ تھا صرف یہی جواب دے سکا کہ ہاں! اگر کوئی شخص خود اس ظلم کو خوشی سے برداشت کرتا ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ہم جبری طور پر ایسا کریں تو یہ ظلم ہو گا۔ لیکن اگر وہ خود اپنی گردن ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ بے شک میری گردن کاٹ دو۔ تو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ پس یہ ظلم تو ہے مگر ہمارا نہیں۔ بلکہ وہ ظلم ہے جس میں مظلوم خود اپنی خوشی سے شریک ہے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے فرمایا کہ ؂
در کوئے تُو اگر سرِ عشاق را ز نند اول کسے کہ لاف تعشق زندمنم1
اگر تیرے کوچہ میں عاشقوں کے سر کاٹے جاتے ہوں اور اے خدا! تُو یہ فیصلہ کر دے کہ جو شخص بھی یہ کہے گا کہ مَیں عاشق ہوں اس کا سر کاٹ دیا جائے گا۔ تو
اول کسے کہ لافِ تعشّق زندمنم
اے میرے رب! اگر مجھے یہ پتہ لگ جائے کہ تُو نے ایسا حکم دے دیا ہے تو سب سے پہلے مَیں یہ کہوں گا کہ مَیں عاشق ہوں، مَیں عاشق ہوں۔
تو جو شخص خود اپنا سر کٹوانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے بے شک وہ ظلم نظر آئے لیکن درحقیقت وہ ظلم نہیں ہوتا۔ وہ سچی قربانی ہوتی ہے۔ وہ عاشقانہ اقدام ہوتا ہے۔ اس میں نہ ہم اس کی قدر کا اندازہ کر سکتے ہیں اور نہ معاملہ کرنے والے کو ظالم کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے معاملات کو مَیں دیکھتا ہوں کہ ان میں بھی جماعت پورے جوش کےساتھ حصہ نہیں لے رہی۔ حالانکہ اب ہمارے کام بہت وسیع ہو چکے ہیں۔ شروع میں صرف شمالی امریکہ میں ہمارا مشن تھا لیکن اس کے بعد جنوبی امریکہ میں بھی ہمارا مشن کھل گیا۔ اسی طرح مشرقی افریقہ میں بھی مشن قائم ہو چکا ہے۔ پہلے وہاں صرف ایک آدمی تھا لیکن اب کئی آدمی جا رہے ہیں۔
فرانس میں بھی ہمارا مشن قائم ہو گیا ہے مگر وہاں اخراجات کی جو کچھ حالت ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ فرانس کے مبلغ نے لکھا ہے کہ یہاں صرف روٹی پر اوسطاً سَوا پونڈ کے قریب ایک شخص کا روزانہ کا خرچ ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ چالیس پونڈ ماہوار میں وہاں ایک آدمی صرف روٹی کھا سکتا ہے۔ اب تو وہ ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں لیکن اگر رہائش کے لئے الگ مکان مل جائے اور وہ کھانے کا اپنے طور پر انتظام شروع کر دیں اور اس طرح یہ خرچ آ دھا ہو جائے تب بھی بیس پونڈ ماہوار صرف ایک شخص کی روٹی کے لئے چاہئے۔ اس کے بعد مکان کا سوال ہے۔ اس کے لئےد س پونڈ فرض کر لو۔ پھر کپڑوں کا سوال آئے گا۔ اس ملک کے لحاظ سے اس غرض کے لئےبھی ہمیں دس پونڈ رکھنے چاہئیں۔ پھر اردگرد کے علاقوں میں پھرنے، لوگوں کو تبلیغ کرنے اور ٹریکٹ اور کتابیں وغیرہ شائع کرنے کے لئے اگر تیس پاؤنڈ رکھے جائیں تو یہ کل اخراجات ستّر پونڈ ماہوار بن جاتے ہیں۔ غرض ایک مبلغ کا ذاتی خرچ جس میں کھانے اور مکان اور کپڑوں کے اخراجات سب شامل ہیں کم سے کم چالیس پونڈ ماہوار ہے۔ مگر ہم نے ایک مبلغ کے لئے آٹھ یا دس پونڈ مقرر کئے ہوئے ہیں۔ گویا جس چیز سے وہ آٹھ دن صرف روٹی کھا سکتا ہے وہ ہم اسے مکان اور کپڑے اور روٹی اور تبلیغ کے اخراجات کے لئے دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان بعض وقت بھوکا بھی رہ سکتا ہے لیکن کسی شخص سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کھانے کو کُلّیةً ترک کر دے۔ وہ بھوک اور پیاس کی تکلیف تو ایک حد تک برداشت کر سکتا ہے مگر زندگی کے قیام کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے اس کو وہ چھوڑ نہیں سکتا۔
ابھی ہمارے ایک مبلغ نے اٹلی سے لکھا ہے کہ یہاں اس قدر تنگی اور قحط ہے کہ اول تو ہمارے پاس پیسے ہی نہیں ہوتے کہ روٹی مل سکے اور اگر پیسے پاس ہوں تو روٹی نہیں ملتی۔ اور اگر مل جائے تو کافی نہیں ہوتی اور چند دن کے بعد ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ انسان بھوک سے بے تاب ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس نے لکھا ہے کہ آج بھوک کی شدت کی وجہ سے میری ایسی حالت ہو گئی کہ مجھے سوائے اس کے اَور کوئی چارہ نظر نہ آیا کہ مَیں جنگل میں چلا گیا اور مَیں نے درخت کے پتے کھا کر گزارہ کیا۔
غرض اٹلی میں بھی ہمارا مشن قائم ہو چکا ہے۔ فرانس میں بھی ہمارا مشن قائم ہو چکا ہے۔ سپین میں ہمارے مبلغین کے جانے کی اطلاع آ چکی ہے۔ ہالینڈ میں بھی ہمارا مشن قائم ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ انگلستان میں بھی ہمارا مشن قائم ہے۔ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں بھی ہمارا مشن قائم ہے۔ ارجنٹائن میں بھی ہمارا مشن قائم ہے۔ شام میں بھی ہمارا مشن قائم ہے۔ ایران میں بھی ہمارا مشن قائم ہے۔ نو یہ ہوئے ۔آٹھ دس مشن ویسٹ افریقہ میں ہیں یہ سترہ ہو گئے۔ ایک مشن ایسٹ افریقہ میں ہے۔ ایک مشن ماریشس میں ہے۔ دو مشن سماٹرا میں ہیں۔ پانچ مشن جاوا میں ہیں۔ ایک مشن ملایا میں ہے۔ اسی طرح اَور کئی مقامات پر ہمارے مشن قائم ہیں اگر سب کو ملا لیا جائے تو مَیں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مشنوں کی تعداد تیس کے قریب بن جاتی ہے۔ اور ان مبلغین کی تعداد جو ان مشنوں میں کام کر رہے ہیں پچاس کے قریب ہے۔ اگر ہم ایک شخص کو کم سے کم خرچ کھانے اورکپڑے کے لئے دیں اور کم سے کم خرچ تبلیغ اور لٹریچر کی اشاعت کے لئے دیں تو پانچ سو روپیہ سے کم کسی صورت میں بھی خرچ نہیں آ سکتا۔ اور یہ بھی ہمارا کم سے کم اندازہ ہے ورنہ امریکہ جیسے ملک میں تو پانچ سو سے صرف روٹی کپڑے کا گزارہ ہو سکتا ہے اور وہ بھی نہایت ادنیٰ صورت میں۔ باقی اخراجات اس کے علاوہ ہوں گے۔ بہرحال اگر فی کس پانچ سو روپیہ ماہوار خرچ کا اندازہ رکھا جائے تو تین لاکھ روپیہ کی رقم صرف پچاس مبلغین کے اخراجات کی ہی بن جاتی ہے۔ حالانکہ تحریک جدید کی ساری آمد تین لاکھ روپیہ سے کم ہے اور اس میں سے بھی ڈیڑھ لاکھ روپیہ صرف ہندوستان پر خرچ ہو رہا ہے۔ کئی طالب علم ہیں جن کو وظائف دئیے جاتے ہیں، کئی مدرِّس ہیں جن کو گزارے دئیے جا تے ہیں او رپھر دفاتر کو چلانے کے لئے بھی ایک معقول رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم باہر کے مشنوں کو ابھی اَور زیادہ نہ بڑھائیں تب بھی تین لاکھ روپیہ وہ اور ڈیڑھ لاکھ روپیہ یہ۔ ساڑھے چار لاکھ روپیہ سالانہ ہمیں ان اخراجات کے لئے چاہئے۔ مگر تحریک جدید کی ساری آمد اڑھائی لاکھ روپیہ کے قریب ہوتی ہے۔ اسی لئے مَیں نے کہا تھا کہ اب جماعت کے دوستوں کو دفتر دوم کی طرف توجہ کرنی چاہئے تاکہ ہماری ان ضروریات کے پورا ہونے میں کوئی روک واقع نہ ہو۔ مَیں نے کہا تھا کہ اگر ہماری جماعت کے وہ افراد جو دفتر اول میں حصہ نہیں لے سکے وہ دفتر دوم میں حصہ لینا شروع کر دیں او رمتواتر اُنیس سال تک حصہ لیتے چلے جائیں اور دوسری طرف نئے شامل ہونے والے یہ کوشش کریں کہ ان کی تعداد بھی پانچ ہزار تک پہنچ جائے اور اڑھائی لاکھ سالانہ دفتر دوم کی آمد شروع ہو جائے تو اس طرح آٹھ سال میں پندرہ بیس لاکھ روپیہ ریزرو فنڈ کے طور پر جمع ہو سکتا ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی۔ اب دوسرا سال گزر رہا ہے مگر اس سال کےو عدے بھی ابھی اَسّی ہزار سے کم ہیں۔ جب ہماری جماعت کی یہ حالت ہے کہ وہ بار بار توجہ دلانے کے باوجود اپنے فرائض کا صحیح احساس نہیں کرتی تو اتنا بڑا کام جو ہمارے سپرد ہے کس طرح کیا جا سکتا ہے۔
یہ بات غلط ہے کہ ہماری جماعت کے پاس روپیہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری جماعت کی مالی حالت اب ایسی ہے کہ اگر قادیان میں ہی چندہ کی تشخیص اور اس کی وصولی کی صحیح طور پر کوشش کی جائے تو اب جو کچھ قادیان سے چندہ وصول ہو رہا ہے اس سے پچاس ساٹھ ہزار روپیہ سالانہ زیادہ آ سکتا ہے۔ اسی طرح بیرونجات کے چندوں میں جو کمی ہے اگر اس کی اصلاح کی جائے تو ہماری آمد میں قریباًپانچ چھ لاکھ روپیہ کی زیادتی ہو سکتی ہے۔ اور چونکہ اس وقت ہمارے روپیہ کا اکثر حصہ تبلیغ میں خرچ ہو رہا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنی تعداد میں بڑھتی چلی جائے گی۔ اس لئے اگر پانچ سات سال تک یہ روپیہ برابر تبلیغ پر خرچ ہوتا رہا تو یہ ہماری آمد کو اتنا بڑھا دے گا کہ یہی پانچ چھ لاکھ پچیس چھبیس لاکھ بن کر ہمارے پاس آ جائے گا۔ مگر تجارت وہی کرتا ہے جس کے پاس سرمایہ سے کوئی چیز خریدی ہوئی ہوتی ہے۔ جس شخص نے کوئی چیز خریدی ہی نہیں وہ بیچے گا کیا او راسے نفع کیا حاصل ہو گا۔ ہم بھی اگر اس وقت بیج کے طور پر اپنا روپیہ زمین میں پھینکتے چلے نہیں جاتے تو روپیہ ہمارے پاس آئے گا کہاں سے؟ جو زمیندار فصل بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ اگر آج ہم کچھ بوتے نہیں تو دین کی فصل کاٹنے کی امید بھی نہیں رکھنی چاہئے۔
اسی طرح مَیں نے کالج کے لئے چندہ کی تحریک کی تھی۔ درحقیقت ہمارا کالج نوجوانوں میں روحانیت اور دین پیدا کرنے کے لئے ایک نہایت ہی ضروری چیز ہے۔ اب جبکہ ہماری جماعت کی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ تھی، امراء بھی ہماری جماعت میں زیادہ تھے اور سامان بھی ہمیں پہلے سے زیادہ میسر تھے۔ دو باتوں میں سے ایک بات لازمی تھی۔ یا تو ہمارے طالب علم بیرونی کالجوں میں تعلیم پانے پر مجبور ہوتے اور یا پھر وہ عیاشیوں میں مبتلا ہو جاتے۔ پس درحقیقت اب وقت آ گیا تھا کہ کالج قائم کیا جاتا۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ اب وقت آ گیا تھا کہ اگر کالج قائم نہ کیا جاتا تو ہماری آئندہ نسل اسلام سے غافل اور بے دین ہو جاتی۔ پس مَیں نے کالج کی تحریک کی اور وہ قائم ہؤا۔ اب کالج خدا تعالیٰ کے فضل سے بی۔ اے کے سالوں میں داخل ہو رہا ہے اور یونیورسٹی کی طرف سے اس کی اجازت آ چکی ہے۔ چنانچہ دو تین دن ہوئے یونیورسٹی نے اجازت دے دی ہے کہ کالج میں بی۔ اے اور بی۔ ایس۔ سی کی کلاسز کھول دی جائیں۔ آجکل ہر چیز روپیہ سے بنتی ہے۔ ہم نے بجٹ بنایاتو کالج کا کم سے کم بجٹ دو لاکھ پانچ ہزار روپیہ کا تیار ہؤا۔ مَیں نے جماعت کے دوستوں سے کالج کے لئے تین لاکھ روپیہ کی اپیل کی تھی مگر مجھے افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ میری اس تحریک پر تین ماہ گزر رہے ہیں۔ اب تک صرف ایک لاکھ دو ہزار کےو عدے آئے ہیں اور چونکہ سارے وعدے پورے نہیں ہوتے اس لئے یوں سمجھنا چاہئے کہ ایک لاکھ دو ہزار میں سے صرف اسّی نوّے ہزار وصول ہوں گے۔ حالانکہ ہمیں ضرورت دو لاکھ کی ہے اور وہ بھی اس سال ضرورت ہے۔ ہم اس چندہ کو اگلے سالوں تک پھیلا نہیں سکتے کیونکہ اگلے سالوں کے لئے ہمارے ذہن میں بعض اَورسکیمیں ہیں جو جاری کی جانے والی ہیں۔ یہ مَیں نے اس لئے کہا ہے کہ ممکن ہے کوئی شخص کہہ دے کہ اگر جماعت کی طرف سے ابھی دو لاکھ کے وعدے نہیں آئے تو اس میں گھبراہٹ کی کونسی بات ہے۔ جو کمی رہے گی وہ اگلے سال پوری ہو جائے گی۔ ایسا خیال درست نہیں۔ اگر ہم اس سال کی سکیم کو اگلے سال پر ترک کر دیں گے تو اگلے سال کی سکیم کو کہاں لے جائیں گے۔ ہمارے لئے بہرحال ضروری ہے کہ ہم اپنےفرائض کی اہمیت کو سمجھیں اور جس چیز کی فوری طور پر ضرورت ہو اسے فوری طور پر مہیا کریں۔ ہمارے سامنے ایک بہت بڑا کام ہے اور بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہم پر عائد ہوتی ہے۔ جس عمارت سے ہم نے دنیا کو اسلام کے مقابلہ میں شکست دینی ہے اور جس کفر کا ہم نے مقابلہ کرنا ہے اس کے ایک ایک شہر کی یونیورسٹی پر ڈیڑھ ڈیڑھ، دو دو کروڑ روپیہ لگا ہؤا ہے۔ ہندوؤں نے بنارس یونیورسٹی پر ہی ڈیڑھ دو کروڑ روپیہ خرچ کیا ہؤا ہے اور ان کے جو دوسرے کالج ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح لاہور کے آریہ سماج کالج کے متعلق پچھلےد نوں مَیں نے پڑھا کہ اس کی جائیداد کی موجودہ قیمت ڈیڑھ کروڑ روپیہ ہے۔ حالانکہ آریہ سماج کے پنجاب میں پندرہ بیس اور بھی کالج ہیں۔ پھر اگر آریہ سماج کی اَور جائیدادوں اور شدھی کے صیغوں کے اخراجات کو شامل کر دیا جائے تو مَیں سمجھتا ہوں آریہ سماج کا پنجاب میں سات آٹھ کروڑ روپیہ لگ چکا ہے۔ پھر اگر سناتن دھرمیوں اور عیسائیوں اور سکھوں کو ملا لیا جائے تو مَیں سمجھتا ہوں کہ ان کی مختلف کوششوں پر اب تک تیس کروڑ سے کم روپیہ صَرف نہیں ہؤا ہو گا۔ اور یہ صرف پنجاب کی حالت ہے۔ اس کے بعد سارے ہندوستان کو لو، پھر سارے ایشیا کو لو،پھر ساری دنیا کو لو اور اندازہ لگاؤ کہ اب تک لوگ ان کاموں پر کتنا روپیہ صَرف کر چکے ہیں؟ اس کے مقابلہ میں بے شک ہمارے مبلغ کم خرچ کر سکتے ہیں، بے شک ہمارے مبلغ آدھے پیٹ سے روٹی کھا سکتے ہیں، بے شک ہمارے آدمی چھ گھنٹے کی بجائے اٹھارہ گھنٹے کام کر سکتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے ان کو انسان بنایا ہے۔ ہم ان سے یہ تقاضا نہیں کر سکتے کہ تم فرشتوں کی طرح بن جاؤ او رانسانی حوائج اور ضروریات سے بالا ہو جاؤ۔ آخر قربانی ایک حد تک چلے گی۔ اس سے زیادہ نہیں۔ پھر قربانی کا مطالبہ کرنے والے کے لئے بھی تو ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنا منہ شیشہ میں دیکھے کہ مَیں جو دوسروں سے قربانی کا مطالبہ کر رہا ہوں خود کیا کر رہا ہوں۔ ایک شخص جو روپیہ میں سے ایک آنہ دے کر بھوکا نہیں سوتا اور کہتا ہے کہ کیوں ہمارا مبلغ چھ گھنٹے کی بجائے بارہ گھنٹے کام نہیں کرتا؟ کیوں وہ دو روٹیاں کھانے کی بجائے ایک روٹی کھا کر گزارہ نہیں کرتا؟ کیوں اگر اسے پورے کپڑے میسر نہیں آتے تو وہ صرف تہہ بند باندھ نہیں لیتا؟ کیا ایسے انسان کو یہ الفاظ اپنی زبان سے نکالتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ اور کیا اسے محسوس نہیں ہوتا کہ مَیں تو روپیہ میں سے ایک آنہ دین کے حوالہ کرتا ہوں اور اسے یہ کہتا ہوں کہ وہ اپنا جسم ہی نہ دے بلکہ اپنی روح بھی دین کے حوالے کر دے؟ لیکن ہمارے مبلغین اور واقفین کو اس سے بھی دریغ نہیں۔ وہ اپنی جانیں خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں مگر جس چیز کی خدا تعالیٰ نے ان کو طاقت ہی نہیں دی اس چیز کا ان سے مطالبہ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ انسان آخر دوسرے کو وہی دے سکتا ہے جو اس کے پاس ہو۔ جو چیز اس کے پاس ہی نہیں اور جسے خدا نے اپنے قبضہ میں رکھا ہؤا ہے وہ کسی دوسرے کو دے کس طرح سکتا ہے۔ بہرحال جماعت کو اپنی اصلاح کرنی پڑے گی اور بہرحال مطالبہ صرف ایک سے نہیں بلکہ دونوں سے ہو گا۔ ہم نوجوانوں سے بھی مطالبہ کریں گے کہ آؤ اور اپنی جانیں قربان کر دو اور ہم جماعت سے بھی مطالبہ کریں گے کہ آؤ اور اپنے اموال قربان کر دو۔
اسی طرح غرباء کے لئے غلہ فنڈ کی مَیں نے تحریک کی تھی ۔ مجھے تعجب آتا ہے کہ سارے ہندوستان کے لئے نہیں، سارے پنجاب کے لئے نہیں صرف قادیان کے غرباء کے لئے اور وہ بھی سارے سال کے لئے نہیں صرف پانچ چھ ماہ کے اخراجات کے لئے مَیں نے غلہ کی تحریک کی تھی مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اب تک اس کی طرف پورے طور پر توجہ نہیں کی۔ دو چار دن سے مَیں نے لسٹ نہیں دیکھی مگر میرے خطبہ کے پندرہ دن بعد تک اِس مدمیں صرف دو سو روپیہ آیا تھا او ران دو سَو میں سے بھی ایک سو صرف ایک شخص کا تھا۔ اب تو شاید کچھ زیادہ روپیہ آ گیا ہو ۔ کیونکہ کچھ دنوں سے میرے پاس ناقص طور پر رپورٹ پہنچتی رہی ہے۔ وعدے بھی اڑھائی ہزار کے قریب ہیں جن میں سے صرف میرا وعدہ دو ہزار کا ہے اور باقی پانچ سو کا وعدہ ساری جماعت کی طرف سے ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا کہ بے شک یہ تنگی کے دن ہیں لیکن تنگی کا ہی وقت ہے جب انسان زیادہ قربانی کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے اور وہی وقت انسان کے ایمان کی آزمائش کا بھی ہوتا ہے۔ یوں تو آجکل ہر ایک کے لئے تنگی اور قحط کے ایام ہیں لیکن جسے بہت زیادہ تنگی ہو اس کے لئے تھوڑی تنگی والے کو قربانی کرنی چاہئے۔ مَیں نے بتایا تھا کہ سندھ کی گندم اِدھر آنہیں سکتی۔ یہی صورت ہو سکتی ہے کہ ہم پنجاب کی گندم سے فائدہ اٹھائیں۔ مگر اس سال بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے گندم کی فصل بالکل تباہ ہو گئی ہے خصوصاً وہ زمینیں جو بارانی تھیں ان کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ میری اپنی گندم بھی بہت کم ہوئی ہے۔ چنانچہ اس سال صرف ایک سَو اَسّی من گندم مجھے ملی ہے۔ اس کمی کی وجہ سے پہلے تو میرا ارادہ ہؤا کہ مَیں بھی پہلے جتنا ہی غلہ دوں مگر پھر میرے دل نے مجھے ملامت کی کہ خدا تعالیٰ کی رحمت پر بدظنی نہیں کرنی چاہئے۔ اگر ایک لحاظ سے کمی واقع ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے لحاظ سے اس کمی کو پورا کر سکتا ہے۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ اس سال پچھلے سالوں کی نسبت میری گندم بہت کم ہوئی ہے جہاں پچھلے سالوں میں مَیں ایک سو من غلہ دیا کرتا تھا وہاں اس سال مَیں نے دو سو من غلہ غرباء کے لئے دیا ہے۔ مَیں نے کہا بہرحال خدا تعالیٰ نے ہمیں ایسے سامان عطا فرمائے ہیں کہ اگر ہمارے پاس اپنا غلہ نہ ہو تو ہم روپیہ سے اپنے لئے غلہ خرید سکتے ہیں لیکن وہ جو اپنی ضروریات کے لئے غلہ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا یقیناً ہم سے زیادہ حق دار ہے۔ اور اگر کبھی فاقے کا سوال آئے اور یہ دریافت کیاجائے کہ وہ جو دوسرے اوقات میں کھاتا رہا ہے وہ فاقہ کرے ؟یا وہ جسے دوسرے اوقات میں کھانے کے لئے کم ملتا تھا وہ فاقہ کرے تو یقیناً ہم یہی کہیں گے کہ جو شخص کھاتا رہا ہے وہ اب فاقہ کرے اور جو فاقہ کرتا رہا ہے وہ اب کھائے۔ جب تک اموال کی اس رنگ میں تقسیم نہیں ہو گی کبھی بھی دنیا میں انصاف قائم نہیں ہو گا اور کبھی بھی بنی نوع انسان میں محبت قائم نہیں ہو گی۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ہمیشہ اچھا کھائے اور مصیبت کے وقت بھی کہے کہ چونکہ مَیں ہمیشہ اچھا کھانا کھاتا رہا ہوں اس لئے اب بھی مجھے اچھا کھانا ملنا چاہئے۔ ہم کہیں گے اب تمہارا فرض ہے کہ تم مصیبت برداشت کرو اور اپنے غریب بھائی کو کھانا کھلاؤ۔
درحقیقت اگر غور کیا جائے تو ہماری جماعت میں اس قسم کے غرباء کا حصہ کم ہے جو محض جماعت پر بار ہوں اور خود کسی قسم کی قربانی میں حصہ نہ لیتے ہوں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض کمزور بھی ہیں اور ہمیں اس دوران میں یہ تجربہ بھی ہؤا ہے کہ بعض ایسے لوگ بھی ہمارے پاس امداد کے لئے آ جاتے ہیں جو درحقیقت امداد کے مستحق نہیں ہوتے۔ لیکن بالعموم فاقہ کرنے والے غرباء بھی چندہ دیتے اور اپنی بساط کے مطابق دل کھول کر دیتے ہیں۔ دنیا میں تو یہ جھگڑے ہوتے ہیں کہ میاں بیوی کی لڑائی ہوتی ہے تو بیوی کہتی ہے مجھے زیور بنوا دو اور میاں کہتا ہے مَیں کہاں سے زیور بنوا دوں میرے پاس تو روپیہ ہی نہیں۔ لیکن مَیں نے اپنی جماعت میں سینکڑوں جھگڑے اس قسم کے دیکھے ہیں کہ بیوی کہتی مَیں اپنا زیور خدا تعالیٰ کی راہ میں دینا چاہتی ہوں مگر میرا خاوند کہتا ہے کہ نہ دو کسی اَور وقت کام آ جائے گا۔ غرض خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایسا اخلاص بخشا ہے کہ اَور عورتیں تو زیور کے پیچھے پڑتی ہیں اور ہماری عورتیں زیور لے کر ہمارے پیچھے پھرتی ہیں۔ مَیں نے تحریک وقف کی تو ایک عورت اپنا زیور میرے پاس لے آئی۔ مَیں نے کہا مَیں نے سرِ دست تحریک کی ہے کچھ مانگا نہیں۔ اس نے کہا یہ درست ہے کہ آپ نے مانگا نہیں لیکن اگر کل ہی مجھے کوئی ضرورت پیش آ گئی اور مَیں یہ زیور خرچ کر بیٹھی تو پھر مَیں کیا کروں گی۔ مَیں نہیں چاہتی کہ مَیں اس نیکی میں حصہ لینے سے محروم رہوں۔ اگر آپ اس وقت لینا نہیں چاہتے تو بہرحال یہ زیور اپنے پاس امانت کے طور پر رکھ لیں اور جب بھی دین کو ضرورت ہو خرچ کر لیا جائے۔ مَیں نے بہتیرا اصرار کیا کہ اس وقت مَیں نے کچھ مانگا نہیں مگر وہ یہی کہتی چلی گئی کہ مَیں نے تو یہ زیور خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا ہے۔ اب مَیں اسے واپس نہیں لے سکتی۔ یہ نظارے غرباء میں بھی نظر آتے ہیں اور امراء میں بھی۔ لیکن امراء میں کم اور غرباء میں زیادہ۔ یہی ایثار اور یہی حوصلہ ہے جو ہمیں امید دلاتا ہے کہ ہم کفر کے میدان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے فتح پائیں گے کیونکہ جب کسی قوم میں مخلص زیادہ ہو جاتے ہیں اور کمزور کم تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو کبھی ضائع نہیں کرتا ۔لیکن کچھ لوگوں کے مخلص ہونے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ باقی لوگ اپنےفرائض کو بھول چکے ہیں۔
پس مَیں جماعت کے تمام دوستوں کو شہریوں کو بھی اور گاؤں کے رہنے والوں کو بھی، تاجروں کو بھی اور ملازم پیشہ لوگوں کو بھی، اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اپنی قربانیوں کا جائزہ لینا چاہئے اور سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو دیکھتے ہوئے اپنے چندوں میں اضافہ کرنا چاہئے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ملازم پیشہ لوگ ہر قسم کی تحریکات میں بہت زیادہ حصہ لیتے ہیں لیکن تاجر بہت کم حصہ لیتے ہیں اِلَّا مَا شَاءَ اللہ۔ بعض تاجر بے شک بہت بڑی قربانی کر رہے ہیں مگر بالعموم سو میں سے پانچ تاجر ایسے ہوتے ہیں جو قربانی کرتے ہیں اورپچانوے تاجر ایسے ہوتے ہیں جو چندہ تو دیتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا پلہ ہلکا رہے اور ان کا پلہ بھاری رہے۔ اسی طرح زمینداروں میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو قربانی کرتا ہے اور ایک طبقہ ایسا ہے جو اپنے فرائض سے غافل ہے۔ مگر اَب وہ دن آ گیا ہے کہ یا تو ہماری جماعت کو پوری طرح قربانی کرنے پڑے گی اور یا اس میدان سے اپنے منہ پر کالک لگا کر بھاگنا پڑے گا۔ آخر جو کام روپیہ سے ہو سکتے ہیں وہ روپیہ کے بغیر کس طرح ہو سکتے ہیں۔ لوگوں کے لئے بہرحال ضروری ہو گا کہ وہ مالی قربانی کریں اور سلسلہ کے کاموں میں کوئی روک واقع نہ ہونے دیں ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر روپیہ نہ ہؤا تو یہ نہیں ہو گا کہ ہمارے مبلغ دین کی خدمت سے منہ موڑ لیں۔ لیکن اس صورت میں وہ ان لوگوں کی ذاتی قربانی ہو گی، جماعت کی نہیں۔ اور برکت کی بات یہ ہوتی ہے کہ قربانی جماعت کی طرف منسوب ہو۔ امریکہ کا مبلغ امریکہ میں کام کر رہا ہو۔ وہ اپنی بیوی اور اپنے بچوں سے دور ہو۔ ہر قسم کی تکالیف اور مصائب برداشت کر رہا ہو لیکن ہر شخص اسے دیکھ کر یہ نہ کہے کہ وہ تبلیغ کر رہا ہے بلکہ یہ کہے کہ جماعت تبلیغ کر رہی ہے کیونکہ جماعت اس کی ہر قربانی میں شامل ہو تو یہ جماعتی تبلیغ ہو گی۔ مغربی افریقہ میں ہمارے مبلغین کو دیکھنے والا صرف ان کو نہ دیکھے بلکہ جب وہ جماعت کی تنظیم اور جماعتی قربانی اور جماعتی امداد پر نظر ڈالے اور جب اسے نظر آئے کہ کس طرح ان مبلغین کو جماعت کی طرف سے ہر قسم کا لٹریچر اور نشر و اشاعت کا سامان پہنچ رہا ہے، اسی طرح ہر قسم کی امداد جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں فوراً جماعت کی طرف سے پہنچ جاتی ہے تو وہ یہ نہ کہے گا کہ دس یا پندرہ افراد مغربی افریقہ میں تبلیغ کر رہے ہیں بلکہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گا کہ جماعت احمدیہ مغربی افریقہ میں تبلیغ کر رہی ہے۔ اگر جماعت کے تمام افراد کام میں لگ جائیں اور ہر شخص کی نگاہ اسی طرف اٹھے۔ جس طرف مبلغ کی نگاہ ہو اور اس کا مال بھی اور اس کی جان بھی اور اس کا وقت بھی اور اس کی عقل بھی اور اس کا فہم بھی سب کا سب ان لوگوں کے لئے وقف ہو جو خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت اور اس کے کلمہ کے لئے مختلف ممالک میں مختلف کوششوں میں مصروف ہوں تو ہر دیانتدار شخص ان کو دیکھتے ہوئے گو اُن کی ذاتی قربانی سے بھی متاثر ہو گا مگر وہ یہ کہے بغیر نہیں رہ سکے گا کہ گو بظاہر ان ممالک میں یہ چند افراد تبلیغ کر رہے ہیں لیکن درحقیقت ساری جماعت تبلیغ کر رہی ہے۔ یہی چیز ہے جو ہمارے لئے خوشی کا موجب ہو سکتی ہے ورنہ خدا تعالیٰ کے دین کو اس بات کی کیا پروا ہو سکتی ہے کہ اس میں ایک لاکھ شامل ہیں یا ایک کروڑ۔ خدا تعالیٰ کے محبوب وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ہر چیز اس کے دین کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ قطع نظر اِس سے کہ وہ پچاس ہوں یا ساٹھ۔ کیونکہ ایسے لوگ یقیناً اسلام کو غالب کرکے رہیں گے۔ یقیناً کفر کو مغلوب کرکے رہیں گے اور افسوس اُن پر ہو گا جو اِس فتح میں حصہ دار نہیں ہوں گے۔’’
(الفضل 22 جون 1946ء )
1: درثمین فارسی صفحہ 143

20
انتخابات کی فہرستوں کی تیاری کے ضمن میں نہایت ضروری ہدایت
( فرمودہ 7 جون 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘میرے دانتوں میں چونکہ درد ہے اور بولنے سے تکلیف زیادہ ہو جاتی ہے اس لئے مَیں صرف چند منٹ اور وہ بھی آہستہ آواز سے خطبہ کہہ سکوں گا مگر پیشتر اِس کے کہ مَیں اُس مضمون کو بیان کروں جو آج بیان کرنا چاہتا ہوں مَیں نظارت امور عامہ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ مَیں نے بار بار ہدایت دی ہے کہ لڑکوں میں اخلاق اور آداب کی عادت پیدا کرنی چاہئے لیکن باوجود اس کے ماں باپ اور افسران اس طرف توجہ نہیں کرتے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ابھی چند دن ہوئے مَیں نے رات کی مجلس میں اس طرف توجہ دلائی تھی کہ حرکات اور گفتگو میں وقار کی عادت ہونی چاہئے۔ جلدی سے کُود کر آگے آنا اور دوسروں پر گرنا ناواجب بات ہے۔ لیکن میری اس تقریر کے چند دنوں کے اندر ہی یہ تو کہنا درست نہیں ہو سکتا کہ میری آنکھوں کے سامنے کیونکہ اُس طرف میری پیٹھ تھی لیکن میری موجودگی میں بند کی طرف آتے ہوئے لڑکے اِس طرح کُود کر آگے آئے کہ وہ پہرہ داروں پر گرے اور پہرہ دار مجھ پر گرے۔ مَیں نظارت امور عامہ کے سپرد یہ معاملہ کرتا ہوں۔ وہ تحقیقات کریں کہ یہ لڑکے جو میرے سامنے بیٹھے ہیں کس سکول کے ہیں۔ پھر جس سکول کے یہ لڑکے ثابت ہوں اس کے افسران کو تنبیہہ کریں۔ ان لڑکوں کے متعلق مَیں حکم دیتا ہوں کہ تین مہینہ تک یہ اس مسجد کے صرف جنوب مشرقی کونہ میں بیٹھ سکتے ہیں کسی اَور حصہ میں نہیں بیٹھ سکتے۔’’
اس موقع پر حضور نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
‘‘ وہ کونہ جو نظر آ رہا ہے اس کے آخری حصہ میں ان کو بیٹھنے کی اجازت ہو گی۔ قریب آنے کی اجازت نہیں ہو گی اور امور عامہ اِس بات کا ذمہ دار ہو گا کہ اس کے آدمی آئندہ اس امر کی نگرانی رکھیں کہ یہ لڑکے امام کے راستہ میں یا اس کے قریب تو نہیں بیٹھتے۔
اس کے بعد مَیں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ الیکشن پھر ہونے والے ہیں اور ان کے لئے لسٹیں بن رہی ہیں۔ میرے پاس جو رپورٹیں آتی رہتی ہیں ان سے مجھے یہ بات نہایت افسوسناک طور پر معلوم ہوئی ہے کہ جماعتیں پورے طور پر اس کام کی طرف توجہ نہیں کر رہیں۔ اَور تو اَور قادیان کی جماعت کا یہ حال ہے کہ ناظر امور عامہ نے مجھے لکھا کہ مَیں بعض محلوں میں گیا تو باوجود اس کے کہ اعلان پر ڈیڑھ مہینہ گزر چکا ہے ایک پریذیڈنٹ نے کہا کہ ہم غور کر رہے ہیں کل یا پرسوں کام شروع کر دیں گے۔ مجھے اس پر ایک اپنا غور کرنے کا لطیفہ یاد آ گیا مگر وہ تو ایسا غور تھا کہ اگر اس میں کوئی غلطی ہو جاتی تو کوئی قومی نقصان نہیں تھا، زیادہ سے زیادہ ہمیں ایک وقت کھانے کی تکلیف ہو جاتی مگر یہ غور بڑا خطرناک ہے۔ مَیں ایک دفعہ دریا پر سیر کے لئے گیا یہاں قدرت اللہ صاحب مرحوم ایک مخلص احمدی تھے وہ اَن پڑھ تھے اور بھیل قوم میں سے تھے لیکن آدمی اخلاص والے تھے چونکہ ہمارے ساتھ قافلہ بہت بڑا ہوتا ہے مجھے ایک دو دن کے بعد معلوم ہؤا کہ آٹا ختم ہو رہا ہے۔ باورچی میرے پاس آیا اور اس نے اطلاع دی کہ کل صبح آٹا ختم ہو جائے گا آج ہی کوئی انتظام کرنا چاہئے ورنہ کل تکلیف ہو گی۔ مَیں نے ان کے اخلاص اور محبت کو دیکھ کر چاہا کہ یہ کام ان سے لیا جائے۔ یوں بھی اُن سے بے تکلفی تھی کیونکہ وہ ہمارے ہاں کام کرتے رہے تھے۔ مَیں نے ان کو بلایا اور کہا میاں قدرت اللہ صاحب! مَیں آپ کے سپرد ایک کام کرنا چاہتا ہوں مگر وہ کام ذرا جلدی کرنے والا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ یہاں بیسیوں مہمان آتے رہتے ہیں اور ہمارا قافلہ بھی بہت بڑا ہے۔ باورچی نے یہ اطلاع دی ہے کہ کل صبح آٹا ختم ہو جائے گا۔ آپ گندم کی دو بوریاں اُٹھوا کر لے جائیں اور کسی خراس سے پِسوا لائیں۔ پھیرو چیچی کے اِردگرد کئی خراس ہیں آپ کے سپرد مَیں یہ کام اس لئے کر رہا ہوں کہ آپ واقف ہیں یہ کام ذرا جلدی کر لیں گے۔ بہرحال آج شام تک یہ کام ہو جانا چاہئے کیونکہ کل صبح ہمیں آٹے کی ضرورت ہو گی۔ وہ بوریاں اُٹھوا کر لے گئے اور مجھے یہ بات بھول گئی۔ دوسرے دن شام کو باورچی نے کہلا بھیجا کہ آج صبح اور شام کے لئے تو ہم نے آٹا مانگ کر گزارہ کر لیا ہے مگر آخر یہ حالت کب تک چلے گی۔ ایک وقت میں 25،30 سیر آٹا پکتا ہے اور گاؤں میں سے اتنا آٹا میسر آنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ لوگوں نے گھروں میں چکیاں رکھی ہوئی ہوتی ہیں او روہ اتنا آٹا ہی پیستے ہیں جتنی ان کو ضرورت ہوتی ہے زیادہ ذخیرہ اپنے پاس نہیں رکھتے۔ اس لئے ہمیں دقّت پیش آ رہی ہے۔ گاؤں سے مسلسل اتنا آٹا مل نہیں سکتا اور اپنا آٹا اب تک نہیں پہنچا۔ مَیں نے ایک آدمی کو کہا کہ جاؤ اور دیکھو کہ میاں قدرت اللہ صاحب کہاں گئے ہیں۔ وہ گندم کی دو بوریاں اُٹھوا کر لے گئے تھے مگر اب تک واپس نہیں آئے۔ خدا کرے خیر ہو۔ آدمی گیا اور اس نے واپس آ کر کہا کہ میاں قدرت اللہ صاحب ملے نہیں۔ مَیں نے کہا خیر ہو شاید آج رات تک پہنچ جائیں۔ وہ دن بھی گزرا تو تیسرے دن باورچی نے پھر شکایت کی کہ اس وقت بھی ہم نے آٹا قرض لے کر پکایا ہے مگر گاؤں والے آخر کب تک ہمیں آٹا مہیا کر سکیں گے۔ اس پر پھر میاں قدرت اللہ صاحب کی تلاش کی گئی تو وہ اپنے گھر میں ملے۔ باہر سے آدمی نے اُن کو آوازیں دینی شروع کیں کہ میاں قدرت اللہ صاحب! میاں قدرت اللہ صاحب! آپ اندر بیٹھے ہیں اور وہاں شور پڑا ہؤا ہے کہ آٹا نہیں، آپ بوریاں اُٹھوا کر لائے تھے اور آپ کو کہا گیا تھا کہ جلدی آٹا پِسوا کر لائیں مگر آپ نے کچھ خبر ہی نہیں دی کہ آخر ہؤا کیا۔ ہم لوگ گاؤں والوں سے قرض لے کر آٹا کھا رہے ہیں۔ کسی سے پانچ سیر لیا ہے، کسی سے تین سیر لیا ہے، کسی سے دو سیر لیا ہے، اِس طرح دو دن ہمیں لوگوں سے آٹا مانگتے گزر گئے ہیں اور آپ ابھی تک واپس نہیں پہنچے۔ انہوں نے اندر سے ہی آواز دی کہ فکر تو مجھے بھی بہت ہے اور پھر پنجابی میں یہ فقرہ کہا کہ ‘‘اسیں غور کر رہے ہاں کہ کِتّھے پِسوائیے’’۔ یعنی ابھی ہم یہی غور کر رہے ہیں کہ دانے کہاں سے پِسوائے جائیں حالانکہ ان سے پچاس گز پر کئی پَن چکیاں تھیں اور وہ اگر چاہتے تو بڑی آسانی سے آٹا پِسوا سکتے تھے۔ مگر انہوں نے اس غور میں دو تین دن گزار دئیے کہ آٹا اِس پر پِسوائیں یا اُس پر پِسوائیں۔ مجھے یہ بات معلوم ہوئی تو مَیں نے کہا انہیں غور کرنے دو۔ وہ تو ہمارے جانے کے بعد بھی اس پر غور کر کے کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ سرِ دست کوئی اَور آدمی چلا جائے اور آٹا پِسوا لائے۔ چنانچہ آدمی گیا اور آٹا پِسوا کر لے آیا۔ یہ بھی ویسا ہی غور ہے جیسا میاں قدرت اللہ صاحب مرحوم کا غور تھا۔ مگر اُس غور میں تو کوئی زیادہ حرج نہیں تھا کیونکہ گاؤں والوں سے آٹا مل جاتا۔ وہاں احمدیوں کا سو دو سو گھر ہے اگر دو دو چار چار سیر آٹا بھی ایک ایک گھر سے قرض لیا جاتا تو چار پانچ دن تک گزارہ ہو جاتا۔ بعد میں اپنا آٹا آجاتا تو لوگوں سے مانگا ہؤا آٹا انہیں واپس کیا جا سکتا۔ لیکن اگر ہمیں گاؤں والوں سے آٹا نہ مل سکتا تب بھی کیا ہوتا؟ یہی ہوتا کہ ایک دو وقت کا فاقہ آ جاتا اور فاقہ ایسی چیز نہیں جو انوکھی ہو۔ دنیا میں اَور بھی کئی لوگ فاقہ کرتے ہیں۔ مگر یہ کام ایسا نہیں کہ اگر اس کے متعلق ہمارا غور لمبا ہو جائے تو بعد میں اس سے پیدا شدہ نقصانات کا ازالہ ہو سکے یا ان نقصانات کو برداشت کیا جا سکے۔
ہماری جماعت کو سمجھنا چاہئے کہ ہماری حالت اِس وقت بتیس دانتوں میں زبان کی طرح ہے۔ اور ہماری تھوڑی سی غفلت ہمارے کاموں کو اس طرح نقصان پہنچا سکتی ہے کہ بعد میں ہمارے لئے اس کا ازالہ بالکل ناممکن ہے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ بعض دفعہ غور اتنا لمبا چلا جاتا ہے کہ کام کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اہم امور میں غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ غور کا سلسلہ ختم ہی نہ ہو اور قومی کاموں کو نقصان پہنچ جائے۔ مگر عام طور پر لوگوں میں یہ نقص پایا جاتا ہے کہ جب بھی کوئی بات ہو وہ کہتے ہیں ہم غور کر رہے ہیں اور پھر وہ وقت کبھی آتا ہی نہیں جب ان کے غور کا سلسلہ ختم ہو۔ گویا یہ ایک ایسا لفظ ہے جو بظاہر تو نہایت اچھا ہے لیکن جس مفہوم میں لوگ اس کو استعمال کرتے ہیں وہ نہایت گندہ ہے۔ وہ الفاظ ایسے استعمال کرتے ہیں جو طبیعت پر نیک اثر ڈالنے والے ہوتے ہیں اور سننے والے سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ بڑے مدبر ہیں، انہیں غور اور فکر کی بڑی عادت ہے لیکن ان کا اصل مقصد کچھ اَور ہوتا ہے اور وہ اس اچھے اورنیک لفظ سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کوئی شخص نماز پڑھا کرتا تھا ۔ ایک دن اس سے کسی نے پوچھا کہ تم نماز کیوں پڑھتے ہو؟ اس نے کہا مَیں نماز اس لئے پڑھتا ہوں کہ سجدہ میں ہوا اچھی طرح خارج ہو جاتی ہے۔ جس طرح اس شخص نے ایک اچھا لفظ اپنے لئے اختیار کر لیا تھا کہ مَیں نماز پڑھتا ہوں لیکن دراصل اس کا مقصد نماز سے تمسخر اور استہزا تھا۔ اسی طرح عام طور پر غور کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے مگر اس کے معنے غور کے نہیں ہوتے بلکہ اس کے معنے سستی اور غفلت، بے توجہی اور عدمِ اعتنائی کے ہوتے ہیں۔ لیکن لفظ غور و فکر کا استعمال کیا جاتا ہے تا سننے والے سمجھیں کہ یہ لوگ بڑے نیک ہیں، بڑا غور اور فکر کرتے ہیں حالانکہ اس کے اصل معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ کوئی کام نہیں کر رہے۔
امام ابو حنیفہؒ ایک دفعہ بازار میں سے گزر رہے تھے کہ کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ کو بھی کسی نے ایسی نصیحت کی ہے جس سے آپ کو فائدہ ہؤا ہو؟ انہوں نے کہا ہاں ایسی نصیحت کی کہ ساری عمر مجھے وہ نصیحت نہیں بھول سکتی۔ لوگوں نے پوچھا وہ کیا نصیحت تھی۔ جس نے آپ کو فائدہ دیا؟ انہوں نے فرمایا مَیں ایک دفعہ بازار میں سے گزر رہا تھا، بارش ہو رہی تھی کہ ایک بارہ تیرہ سال کا لڑکا دوڑتا ہؤا میرے پاس سے گزرا۔ مَیں نے اسے کہا بچے! ذرا آرام سے چلواگر پھسل گئے تو چوٹ لگے گی۔ میری یہ بات سن کر وہ بچہ کھڑا ہو گیا۔ اس نے میری طرف دیکھا او رمجھے پہچان کر کہا۔ حضور! آپ آرام سے چلئے۔ مَیں پھسل گیا تو کوئی بڑی بات نہیں ایک معمولی لڑکا ہوں پھسلا تو ہڈی پسلی ٹوٹ جائے گی۔ لیکن اگر آپ پھسلے تو ساری اُمت پھسل جائے گی اُس کا مطلب یہ تھا کہ آپ احتیاط سے فتویٰ دیا کریں۔ اگر آپ کوئی علمی غلطی کر بیٹھے تو لاکھوں آدمیوں کو نقصان پہنچ جائے گا۔ وہ دن گیا اور آج کا دن آیا اُس بچہ کی یہ بات مجھے آج تک نہیں بُھولی کہ امام صاحب! آپ احتیاط سے چلیں، آپ پھسلے تو ساری امت پھسل جائے گی۔
ہماری جماعت کے افراد کو بھی یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے دین کی محافظ ہے۔ اگر ہم پھسلے تو عالمِ اسلام کی تمام عمارت پھسل جائے گی، آسمان پھسل جائے گا، زمین پھسل جائے گی اور ہم خدا تعالیٰ کے سامنے اپنی اس کوتاہی کے ذمہ دار ہوں گے۔ اس لئے ہماری جماعت کے دوستوں کو سستی اور غفلت سے ہمیشہ بچنا چاہئے۔ خصوصاً کارکنوں کو مَیں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں ان لسٹوں کی تیاری میں پوری محنت اور تندہی سے کام لینا چاہئے۔ چونکہ الیکشن کی لسٹیں باہر بھی تیار ہو رہی ہیں۔ اس لئے قادیان سے باہر کی جماعتوں کو بھی مَیں توجہ دلاتا ہوں کہ ان کے علاقوں میں کونسلوں کے انتخاب کے لئے جو نئی لسٹیں بن رہی ہیں وہ انہیں احتیاط اور توجہ سے بنوانی چاہئیں اور اس بارہ میں وقت کی جس قدر قربانی کی ضرورت ہو وہ انہیں قربان کرنا چاہئے۔ مجھے تعجب ہے کہ ابھی گزشتہ دنوں صدر انجمن احمدیہ کے ایک ادارہ سے انتخابات کے کام کے لئے ایک آدمی مانگا گیا تو اس نے آدمی دینے سے انکار کر دیا۔ میری ایک بیوی اس سال امتحان دے رہی ہیں۔ 15 جون کو ان کا امتحان ہونے والا ہے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ کام کرنا صرف تمہارے سپرد نہیں اور لوگوں کا بھی فرض ہے کہ کام کریں۔ تم اس وقت چھٹی لے لو کیونکہ تمہارا امتحان قریب ہے۔ ان کی جگہ اتفاقاً ایک استانی مقرر کی گئیں۔ اس پر محکمہ کو لکھا گیا کہ فلاں استانی کو کچھ دنوں کے لئے فارغ کر دیا جائے کیونکہ ان سے سلسلہ کا ایک اور ضروری کام لینا ہے۔ محکمہ نے جواب دیا کہ ہم اس استانی کو فارغ نہیں کر سکتے۔ میرے نزدیک اس قسم کی ذہنیت رکھنے والے افسر خود اس قابل ہیں کہ ان کو فارغ کر دیا جائے۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ قومی کام کیا ہوتا ہے اور وہ کتنی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ اتنا ہی جانتے ہیں کہ ہم افسر ہیں اور ہماری مرضی ہے کہ ہم لوگوں سے جو چاہیں کام لیں۔ چاہے وہ مرضی ایسی ہی ہو جیسے آبِ زمزم میں پیشاب کرنے والے نالائق کی مرضی تھی۔ اس قسم کے لوگ اپنی گندی ذہنیتوں سے دوسروں کو بگاڑنے کا موجب ہوتے ہیں اور بالا افسران اور صدر انجمن احمدیہ کا فرض ہے کہ ان کی اصلاح کریں۔ وہ ایسے پھوڑے ہیں جو چِیر کر درست کرنے کے قابل ہیں۔ قومی کاموں میں ہمیشہ بڑے کام کے مقابلہ میں چھوٹے کام کو قربان کیا جاتا ہے اور یہ ایک ایسا اصل ہے جو ترقی کرنے والی قومیں ہمیشہ اپنے مدنظر رکھتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانہ میں سارے کام لوگ کرتے چلے جاتے تھے اور کبھی وہ یہ سوال نہیں اٹھاتے تھے کہ یہ کام ہم کیوں کریں، ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ جانتے تھے کہ ہمیں جو کچھ کہا جاتا ہے سلسلہ کے لئے کہا جاتا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کام کو سر انجام دیں۔ آخر غور کرنا چاہئے کہ کیا اس زمانہ میں ہیڈ ماسٹروں کو یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ ہمارا نتیجہ اچھاہو، یا کیا اس زمانہ کے ہیڈ ماسٹروں اور افسروں کے دل پتھر کے تھے؟۔ اور آجکل کے ناظر اور ہیڈ ماسٹر اور مدرّس بڑے نرم دل ہیں جن کو کوئی ٹھیس نہیں لگنی چاہئے؟ ان کا نتیجہ اگر خراب نکلتا تھا تو بے شک نکلتا لیکن آجکل کے ہیڈ ماسٹروں اور مدرّسوں کا نتیجہ خراب نہیں نکلنا چاہئے۔ یقیناً جو کچھ پہلوں نے کیا وہ بُرا نہیں تھا بلکہ اچھا تھا اور جو شخص اس طریق سے ہٹتا ہے وہ اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت مہیا کرتا ہے کہ پہلوں کے دلوں میں فرشتہ بیٹھا تھا لیکن اس کے دل میں شیطان آ گُھسا ہے۔ او رہمارا فرض ہے کہ اگر ہم دیکھیں کہ کسی شخص کے دل میں شیطان گُھس گیا ہے، اُس کی ملّی اور مذہبی روح کمزور ہو گئی ہے اور انفرادیت کی روح اس میں ترقی کر رہی ہے تو اس خرابی کا سر کچلنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ جب کسی قوم کے افراد میں انفرادیت کی روح ترقی کر جاتی ہے اور انتظامی روح کمزور ہو جاتی ہے تو وہ پراگندہ ہو جاتے ہیں اور ان کی کچھ بھی وقعت باقی نہیں رہتی۔ پس مَیں ناظر اعلیٰ اور صدر انجمن احمدیہ کو اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس قسم کی روح کی اصلاح کریں۔ اب صرف آٹھ دس دن باقی ہیں ۔ اگر ہر محکمہ اسی قسم کا رویہ دکھائے تو کام کس طرح چلے۔ تب تو چاہئے کہ سو ڈیڑھ سو کارکن صرف ہنگامی کاموں کے لئے رکھے جائیں جن سے یہ کام لیا جائے۔ پس یا تو صدر انجمن احمدیہ ایسا ریزولیوشن پاس کرے کہ سو ڈیڑھ سو کارکنوں کو ہنگامی کاموں کے لئے رکھا جاتا ہے۔ وہ اَور دنوں میں فارغ رہیں گے لیکن جب ہنگامی طور پر کوئی ضرورت پیش آ جائے گی تو ان سے کام لیا جائے گا۔ ورنہ انجمن اپنے افسروں کی ذہنیت کو بدلے جو سلسلہ کا کام پیش آنے پر یہ جواب دے دیتے ہیں کہ ہم اس کام کے لئے کسی کو فارغ نہیں کر سکتے۔ سلسلہ کے کام کا تو ہر شخص ذمہ دار ہے کُجا یہ کہ وہ شخص جو سلسلہ سے روٹی لے کر کھاتا ہو وہ اپنے آپ کو سلسلہ کے کاموں کا ذمہ دار نہ سمجھے۔ اگر دوسرے لوگ سلسلہ کے کاموں کے ذمہ دار ہیں تو وہ لوگ جو سلسلہ سے تنخواہ لے کر روٹیاں کھاتے ہیں وہ کیوں ذمہ دار نہیں۔ کیا یہ بات کسی معقول انسان کے ذہن میں آ سکتی ہے کہ ایک تاجر تو سلسلہ کے کاموں کا ذمہ دار ہے، ایک مزدور تو سلسلہ کے کاموں کا ذمہ دار ہے، ایک لوہار تو سلسلہ کے کاموں کا ذمہ دار ہے، ایک ترکھان تو سلسلہ کے کاموں کا ذمہ دار ہے مگر وہ لوگ جن کی روٹی انجمن کے خرچ پر چلتی ہے وہ اس کے کاموں کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ یقیناً کوئی شخص ایسی غیر معقول بات تسلیم نہیں کر سکتا۔ لیکن پھر بھی ہر جماعت میں کچھ کمزور لوگ ہوتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ انجمن کے بعض اپنے آدمی سلسلہ کے کام نہیں کرتے تو اُن کو ٹھوکر لگ جاتی ہے اور وہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ جب انجمن والے یہ کام نہیں کرتے تو ہم کیوں کریں۔ گو اُن کا یہ جواب ان کی بے ایمانی پر دلالت کرتا ہے کیونکہ انجمن خدا نہیں۔ اگر انجمن ساری کی ساری مرتد ہو جائے، اگر انجمن ساری کی ساری گمراہ ہو جائے، اگر انجمن ساری کی ساری بے دین ہو جائے تب بھی ہم کہیں گے کہ ہمیں اس کی کیا پروا ہو سکتی ہے۔ ہم کہیں گے کہ جہاں دس شیطان پہلے موجود تھے وہاں بیس شیطان اَور پیدا ہو گئے ہیں۔ بہرحال اگر ہمارا خداتعالیٰ سے تعلق ہے تو ہمیں انجمن کی کوئی پروا نہیں ہو سکتی۔ مومن اکیلا اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سامنے ذمہ دار سمجھتا ہے۔ ایک بڑھئی سلسلہ کے کاموں کا ویسا ہی ذمہ دار ہے جیسے صدر انجمن احمدیہ ،ایک ڈاکٹر سلسلہ کے کاموں کا ویسا ہی ذمہ دار ہے جیسے صدر انجمن احمدیہ اور ایک لوہار سلسلہ کے کاموں کا ویسا ہی ذمہ دار ہے جیسے صدر انجمن احمدیہ۔ پس ہمیں اس کی تو پروا نہیں ہونی چاہئے کہ انجمن کیا کرتی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کمزور دل لوگ اس کو بہانہ بنا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب صدر انجمن احمدیہ فلاں کام نہیں کرتی تو ہم کیوں کریں۔ اس قسم کے بیماروں کو بچانے کے لئے اگر صدر انجمن احمدیہ بعض آدمیوں میں یہ نقص دیکھتی ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم سلسلہ کے فلاں کام کے ذمہ دار نہیں تو اسے اپنے ان ساتھیوں کی دماغی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ دوسروں کے لئے کسی فتنہ کا موجب بن جائیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک سب لوگ برابر ہیں لیکن اس کے باوجود اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ایک بڑا شخص بُرا نمونہ دکھلائے گا تو اس کا بد اثر دوسروں پر بھی پڑے گا اور وہ بھی عمل میں سُست ہو جائیں گے۔ مثلاً نماز کے متعلق جس طرح ایک باپ خدا تعالیٰ کے سامنے ذمہ دار ہے اسی طرح ایک بیٹا خدا تعالیٰ کے سامنے ذمہ دار ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر باپ نماز پڑھنے میں سُست ہو گا تو بیٹا بھی لازماً سُست ہو جائے گا۔ یوں خدا تعالیٰ کے سامنے دونوں ذمہ دار ہیں۔ باپ بھی ذمہ دار ہے اور بیٹا بھی ذمہ دار ہے۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں، باپ بھی خدا تعالیٰ کا بندہ ہے اور بیٹا بھی خدا تعالیٰ کا بندہ ہے۔ لیکن باپ سُست ہو گا تو بیٹا بھی ضرور سُست ہو جائے گا۔ یا مثلاً خدا تعالیٰ کے سامنے جس طرح ایک ماں شرعی امور کے متعلق جواب دِہ ہے اسی طرح بیٹی خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دِہ ہے۔ ماں بھی خدا تعالیٰ کی بندی ہے او ربیٹی بھی خدا تعالیٰ کی بندی ہے لیکن اگر ماں سُست ہو گی تو بیٹی پر بھی اس کا ضرور اثر پڑے گا اور وہ بھی نماز روزہ میں سُست ہو جائے گی۔ پس انجمن کو اپنے کارکنوں کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اگر ان میں قومی روح نہیں ہو گی تو گو مومنوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ وہ کہیں گے انجمن جو چاہے کرے ہم خدا تعالیٰ کے سامنے ذمہ دار ہیں لیکن کمزور لوگ یہ ضرور کہیں گے کہ جب یہ لوگ جو اس کام پر خاص طور پر مقرر ہیں فلاں کام نہیں کرتے تو ہم کیوں کریں۔ ان کا یہ فقرہ تو بے ایمانی کا ہو گا مگر یہ بے ایمانی ایسی ہو گی جو اپنے اندر وسعت رکھتی ہے۔ پہلے ایک شخص بے ایمان ہو گا پھر دو شخص بے ایمان ہوں گے۔ پھر دس اور بیس بے ایمان ہوں گے۔ پس صدر انجمن احمدیہ کو اپنے کارکنوں کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ ایسے ہنگامی کاموں کے وقت دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ صورت ہو سکتی ہے کہ انجمن بڑا وسیع عملہ رکھے اور سو ڈیڑھ سو کارکن صرف ہنگامی ضروریات کے لئے مہیا کرے۔ اور اگر یہ نہیں ہو سکتا تو پھر دوسری صورت یہی ہو سکتی ہے کہ صدر انجمن احمدیہ ہر وقت یہ امر اپنے مدنظر رکھے کہ ایسے ہنگامی کاموں او راہم قومی ضروریات کے لئے اگر آدھے یا دو تہائی آدمی بھی کسی وقت فارغ کرنے پڑیں تو بے شک فارغ کر دئیے جائیں اور جو لوگ باقی رہیں وہ دوسروں کا بوجھ اُٹھا لیں۔ دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ ایک زمیندار گھر میں دو آدمی ہوتے ہیں تو ان میں سے ایک ہل چلاتا ہے اور دوسرا جانوروں کے لئے چارہ وغیرہ کا انتظام کرتا ہے۔ اگر کسی وقت چارہ کا انتظام کرنے والابیمار ہو جاتا ہےتو دوسرا شخص ہل بھی چلاتا ہے اور چارے کا بھی انتظام کرتا ہے۔ اسی طرح اگر دو ہالی ہوں اور ان میں سے ایک بیمار ہوجائے تو عارضی طو رپر دوسرا شخص اپنے اوپر زائد بوجھ ڈال لیتا ہے۔ اپنا ہل بھی چلاتا ہے اور دوسرے کی زمین میں بھی ہل چلاتا ہے۔ اسی طرح ہسپتال میں بعض دفعہ ڈاکٹر بیمار ہو کر آٹھ دس دن کی رخصت پر چلا جاتا ہے تو کمپونڈر(Compounder) اس کی جگہ کام کرتے رہتے ہیں۔ اور اگر کمپونڈر بیمار ہو جائے تو ڈاکٹر اس کا کام سنبھال لیتا ہے۔ یہی طریق دنیا میں ہر جگہ جاری ہے اور ہر محکمہ میں یہی ہوتا ہے کہ اگر بیماری یا کسی ہنگامی ضرورت کی وجہ سے ایک دو کارکن چند دنوں کے لئے چلے جائیں تو باقی کارکن ان کا بوجھ اپنے اوپر لے لیتے ہیں۔ جب ہر محکمہ میں ایسا ہوتا ہے تو کیامدرّس ایسا نہیں کر سکتے؟ اگر ان میں نیکی اور تقویٰ ہو اگر ملّی اور مذہبی کاموں کو بخوشی سر انجام دینے کی روح ان میں پائی جاتی ہو تو یہ ہرگز کوئی ایسی بات نہیں جس پر ان کے دلوں میں اعتراض پیدا ہو۔ وہ اپنے آدمیوں میں سے ایک دو کو فارغ کر سکتے ہیں اور اس کی جگہ خود کام کر سکتے ہیں۔ جس طرح ہسپتال میں اگر ایک ڈاکٹر آٹھ دس دن کی چُھٹی پر چلا جاتا ہے تو کمپونڈر اس کا کام سنبھال لیتے ہیں۔ کمپونڈر چلا جائے تو ڈاکٹر اس کی جگہ کام کرنے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے۔ جس طرح ہل چلانے والا بیمار ہو جاتا ہے تو دوسرا شخص جو چارہ لانے کا کام کیا کرتا تھا وہی ہل بھی چلاتا ہے اور چارہ بھی لاتا ہے اُسی طرح مدرّسوں میں بھی ایسا ہو سکتا ہے کہ اگر چند مدرّس ہنگامی ضروریات کے لئے فارغ کرا لئے جائیں تو باقی مدرّس ان کا بوجھ اٹھا لیں اور کام کو نقصان نہ پہنچنے دیں۔ آخر مدرّس سارا وقت کام نہیں کرتے زیادہ سے زیادہ چار گھنٹے کام کرتے ہیں اور باقی وقت فارغ رہتے ہیں۔ اگر چند دنوں کے لئے انہیں دو چار مدرّسوں کی جگہ چار گھنٹہ کی بجائے چھ گھنٹہ بھی کام کرنا پڑے تو یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ جو شخص تین گھنٹے کام کرتا ہے وہ چار گھنٹے بھی کام کر سکتا ہے اور جو چار گھنٹے کام کرتا ہے وہ پانچ گھنٹے بھی کام کر سکتا ہے اور کسی قسم کا حرج واقع نہیں ہو سکتا۔ بہرحال یہ ساری باتیں ہو سکتی ہیں مگر نیت بخیر ہونی چاہئے۔ جب نیت درست ہو تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ فلاں ناظر نے کیا کیا یا فلاں نائب ناظر یا افسر صیغہ یا ہیڈ ماسٹر نے کیا کیا۔ انسان سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے سامنے میں ذمہ دار ہوں۔ مجھے اس امر کی کیا پروا ہے کہ زید نے کیا کیا یا بکر کیا کر رہا ہے۔ لیکن جب نیت خراب ہو جائے تو ایمان خراب ہو جاتا ہے اور پھر ایسے شخص کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا۔ پیچھے ہٹتے ہٹتے وہ جہنم میں جا پڑتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں جب ایمان مضبوط ہو تو ہر شخص اپنی ذمہ داری کو آپ محسوس کرتا ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ میرا دوسرا ساتھی غفلت اور کوتاہی سے کام لے رہا ہے تو بجائے طعنہ زنی کرنےا ورہنسی مذاق سے کام لینے کے وہ آگے بڑھتا ہے اور کہتا ہے یہ خدا کا کام ہے۔ مَیں نے اس کام کو بگڑنے نہیں دینا۔ تب وہ خود ذمہ دار بن کر کام کو کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے۔
دنیا کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ میدانِ جنگ میں کرنیل مارا گیا تو میجر نے کمان سنبھال لی۔ میجر مارا گیا تو کیپٹن نے کمان سنبھال لی، کیپٹن مارا گیا تو لیفٹیننٹ نے کمان سنبھال لی۔ لیفٹیننٹ مارا گیا تو صوبیدار نے کمان سنبھال لی، صوبیدار مارا گیا تو جمعدار نے کمان سنبھال لی حالانکہ جمعداروں کی فوجی لحاظ سے کوئی خاص تربیت نہیں ہوتی مگر بیسیوں مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ جمعداروں نے فوج کی کمان سنبھال لی اور وہ بڑی حفاظت سے اس کو واپس لے آئے۔ اسی طرح مومنوں میں سے جو لوگ بڑے سمجھے جاتے ہیں اور مرکزی کاموں پر مقرر ہیں وہ اگر اپنے کاموں میں کوتاہی کریں تو پھر ہر ادنیٰ سے ادنیٰ مومن کا فرض ہے کہ وہ اس بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے اور خدا تعالیٰ کے دین کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچنے دے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر حجت تمام کرنے کے لئے ہی محمد رسول اللہ ﷺ کو اَن پڑھ رکھا ہے۔ ورنہ کیا خدا تعالیٰ میں طاقت نہیں تھی کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کو ایسی اعلیٰ درجہ کی دنیوی تعلیم دلاتا کہ کوئی شخص ظاہری تعلیم میں بھی آپؐ کا مقابلہ نہ کر سکتا؟ یا کیا خدا تعالیٰ میں طاقت نہیں تھی کہ وہ آپ کو بڑا مالدار بنا دیتا؟خدا تعالیٰ یہ سب کچھ کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ یہ بتانے کے لئے کہ کبھی اسلام کے کاموں میں یہ عذر نہ کرنا کہ ہم پڑھے لکھے نہیں۔ تمہارا رسول جو دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا تھا اور جو اولین و آخرین کا سردار تھا وہ بھی اَن پڑھ تھا۔ جب اس نے اَن پڑھ ہو کر دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا تو تم اَن پڑھ ہو کر خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کیوں نہیں کر سکتے۔
پس دینی کاموں میں کبھی یہ سوال نہیں کرنا چاہئے کہ مجھ سے بالا آدمی کیا کرتا ہے۔ مومن ہر ایک بالا ہوتا ہے اور مساوات کے معنے بھی یہی ہیں۔ چنانچہ نمازوں میں یہی ہوتا ہے کہ بادشاہ اور گدا، امیر اور غریب سب ایک صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی سبق سکھایا ہے کہ جب ضرورت پیش آ جائے اس وقت تمہیں یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ فلاں بڑا آدمی کیا کام کر رہا ہے۔ ہم نے بڑے اور چھوٹے کا امتیاز اپنی مسجد میں نہیں رکھا۔ اس لئے اگر ایک ایسا شخص جو تمہیں بظاہر بڑا نظر آتا ہے دین کے کاموں میں کوتاہی کرتا ہے تو تم جو بظاہر چھوٹے سمجھے جاتے ہو تمہارا فرض ہے کہ اس بوجھ کو اٹھا لو اور اسلام کے جھنڈے کو نیچا نہ ہونے دو۔ پس ہماری جماعت کے دوستوں کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے اور انہیں کبھی یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ صدر انجمن احمدیہ کے ناظر یا نائب ناظر یا ہیڈ ماسٹر یا ہیڈ مسٹرس وغیرہ کیا کرتے ہیں۔ اگر وہ کام کریں تو اچھی بات ہے۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری عمدگی سے ادا کرتےہیں تو ہمارے بھائی ہیں۔ اور اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے تو وہ ہمارے نزدیک ویسے ہی ہیں جیسے غیر لوگ۔ ہمارا ان سے اتنا ہی تعلق اور پیار ہے جتنا ان لوگوں کے دلوں میں تقویٰ پایا جاتا ہے۔ اگر کسی وقت تقویٰ ان کے دلوں سے نکل جاتا ہے اور خشیت اللہ کی روح ان میں نہیں رہتی تو دوسرے لوگوں کو چاہئے کہ وہ دین کا کام خود سنبھال لیں اور چاہے کچھ ہو جائے سلسلہ کے کسی کام میں کوئی رخنہ واقع نہ ہونے دیں۔ کیونکہ دین کے کام میں رخنہ پیدا ہونا مومن کی برداشت سے باہر ہوتا ہے۔ وہ بہرحال خدا تعالیٰ کے کام کو نقصان نہیں پہنچنے دیتا چاہے اس کوشش میں اس کی جان چلی جائے۔’’ (الفضل 15 جون 1946ء )



21
کیا تم آنے والی جنگ کے لئے تیاری کر رہے ہو؟
(فرمودہ14 جون 1946ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘دنیا میں لوگ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے بھی بڑی بڑی تیاریاں کرتے ہیں تب جا کر اُنہیں تسلی ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کے ادا کرنے کا سامان پیدا کر لیا ہے۔ ایک دفعہ قادیان سے میاں شریف احمد صاحب جو میرے چھوٹے بھائی ہیں شکار کے لئے یوپی گئے۔ وہاں ایک احمدی آفیسر تھے۔ ضمنی طور پر مَیں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ان کے بڑے لڑکے جو اس وقت فوج میں کیپٹن ہیں ایک ابتلاء میں ہیں اور دعا کے لئے لکھ رہے ہیں۔ جن دوستوں کو توفیق ملے وہ ان کے لئے ضرور دعا کریں۔ وہ ایک جگہ تبدیل ہو کر گئے تھے وہاں پہلے ایک پارسی آفیسر تھا۔ جس نے بہت کچھ غبن کر لیا تھا۔ ان کے چارج لینے کے بعد اس نے ان پر الزام لگا دیا کہ انہوں نے غبن کیا ہے۔ بہرحال حقیقت ایک حد تک کھل گئی کیونکہ اس کی پہلی رپورٹیں ایسی نکل آئیں جو ان کی آمد سے پہلے کی تھیں اور جن میں اس نے مال میں کمی کو تسلیم کیا ہؤا تھا۔ اِسی لئے گورنمنٹ نے ان پر مقدمہ نہیں چلایا بلکہ پارسی افسر پر مقدمہ چلایا ہے۔ لیکن پھر بھی جب تک پوری طرح صفائی نہ ہو جائے وہ خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس خطرہ سے انہیں محفوظ رکھے۔ ان کے والد ایک نہایت ہی مخلص احمدی تھے۔ انہوں نے میاں شریف احمد صاحب کو دعوت دی کہ آپ شکار کے لئے ہمارے ہاں آئیں۔ چنانچہ میاں شریف احمد صاحب ان کی دعوت پر شکار کے لئے گئے ۔ گرمیوں کا موسم تھا، انہوں نے جاتے ہی کہا کہ چلئے شکار کھیلیں۔ انہوں نے کہا شکار اِس طرح تھوڑا کیا جاتا ہے آپ ذرا صبر کیجئے، پہلے پوری طرح تیاری کر لیں پھر شکار کے لئے بھی چل پڑیں گے اس میں جلدی کی کونسی بات ہے۔ چنانچہ ایک دو دن انہوں نے تیاری میں لگا دئیے۔ آخر میاں شریف احمد کے اصرار پر وہ شکار کے لئے نکلے اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ رتھیں تیار کی گئیں، ان میں برفیں رکھی گئیں، پھلوں کے ٹوکرے لادے گئے، کھانوں کے بہت سے توشہ دان رکھے گئے اور پھر وہ ایک رتھ میں آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے اور شکار کے لئے قافلہ چل پڑا۔ یہ ایک عجیب نظارہ تھا کہ جنگل میں سے کھانوں اور مختلف قسم کے ساز و سامان سے آراستہ رَتھیں گزر رہی ہیں، پان لگتے جا رہے ہیں، برفوں سے ٹھنڈے کئے ہوئے پھل کھائے جا رہے ہیں او رمقصد یہ ہے کہ شکار کیا جائے۔ میاں شریف احمد صاحب نے ان سے کہا کہ یہ دعوت ہوئی یا شکار ہؤا؟ وہ کہنے لگے وہ بھی کیا شکار ہے کہ ٹانگیں تڑوا کر انسان شام کو واپس آ جائے اور نہ کچھ کھائے نہ پئے۔ اب دیکھو یہ نتیجہ تھا اس احساس کا جو ان کے اندر پایا جاتا تھا کہ اگر ہم نے شکار کے لئے جانا ہے تو شکار پر جانے سے پہلے ہمیں اس کے لئےتیاری بھی کرنی چاہئے۔ جب کسی انسان کے اندر یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے تو وہ چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے بھی تیاری شروع کر دیتا ہے اور یہی روح اسے بڑے کاموں کے لئے بھی مختلف قسم کی تیاریوں پر آمادہ کر دیتی ہے۔
اس دوران میں مجھے انہی کا ایک اَور واقعہ بھی یاد آ گیا۔ وہ ترقی کرتے کرتے ڈپٹی کمشنر کے عُہدہ پر جا پہنچے تھے اور گورنمنٹ کی طرف سے ایک ریاست کے منتظم مقرر ہوئے تھے۔ یہ 1934ء کی بات ہے جب گورنمنٹ نے مجھے کریمنل لاء امنڈمنٹ ایکٹ (Criminal Law Amendment Act)کے ماتحت نوٹس دیا تھا۔ مَیں نے اس نوٹس کے متعلق اپنے خطبات میں اظہارِ نفرت کیا اور جماعت کو توجہ دلائی کہ گورنمنٹ ہم سے یہ ظالمانہ سلوک اس لئے کر رہی ہے کہ ہماری جماعت چھوٹی ہے۔ اور وہ سمجھتی ہے کہ ہم اس جماعت سے جو سلوک بھی کر لیں وہ جائز ہے کیونکہ یہ جماعت ہم سے بدلہ لینے کی قوت نہیں رکھتی۔ لیکن گورنمنٹ کو یاد رکھنا چاہئے کہ گو ہم اس سے بدلہ نہیں لے سکتے لیکن ہمارا خدا اس سے بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے ۔ اس لئے گورنمنٹ کو یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا۔ بے شک ہمارے پاس توپیں نہیں لیکن خدا دوسروں کی توپیں اُن کی طرف پھیر دے گا اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ ایک بیکس جماعت کو ستانا اور اس پر ظلم کرنا کتنی خطرناک بات ہے۔ چنانچہ اس کے چند سال بعد ہی جرمنی نے جنگ شروع کر دی اور خدا تعالیٰ نے ہمارا بدلہ لینے کے لئے دوسری قومیں انگریزوں سے لڑوا دیں۔ پھر مَیں نے اپنی جماعت کو اس طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ گورنمنٹ کا یہ فعل یونہی نہیں۔ گورنمنٹ محسوس کرتی ہے کہ یہ ایک منظم جماعت ہے اور اس کے بڑھ جانے سے کئی قسم کے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اور گو یہ حماقت اور نادانی کا احساس ہے لیکن بہرحال گورنمنٹ میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ ایسا نہ ہو یہ جماعت بڑھ جائے اور ہمارے لئے کسی قسم کا خطرہ پیدا ہو جائے۔ اس وقت ہمارے یہ عزیز دوست جو اَب فوت ہو چکے ہیں ایک ریاست کے افسر تھے گویا نواب کے قائم مقام تھے اور گورنمنٹ کی طرف سے اس کام پر مقرر کئے گئے تھے ۔ جب مَیں نے یہ خطبہ پڑھا ہے اس وقت وہ دورہ پر گئے ہوئے تھے اور جیسے مَیں نے ان کے شکار کی کیفیت بتائی ہے ویسی ہی کیفیت ان کے دورہ کی ہؤا کرتی تھی۔ چونکہ وہ ایک اچھے خاندان میں سے تھے اور ان کے والد بھی بڑے زمیندار تھے اور بڑا زمیندار ہونے کی وجہ سے جو تعیُّش اور راحت و آرام کے سامان یو۔پی میں ہوتے ہیں ایک پنجابی زمیندار ان کا خیال بھی نہیں کر سکتا۔ وہاں اصلی ریاست ہوتی ہے اور بڑے زمیندار ایک قسم کے راجے سمجھے جاتے ہیں۔ بڑے تکلّف سے وہ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور ہر قسم کے عیش کے سامان ان کو میسر ہوتے ہیں۔ بچپن میں وہ ایک بڑے زمیندار کے گھر میں پلے تھے اور ہرقسم کے آرام کے سامان ان کو حاصل تھے۔ پھر گورنمنٹ سروس میں آئے تو پہلے ای۔اے۔ سی بنے پھر ڈپٹی کمشنر کے عہدہ کے برابر کام کرتے رہے اورپھر ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے ۔ لیکن پیشتر اس کے کہ چارج لیتے مشیتِ ایزدی کے ماتحت فوت ہو گئے۔ جب میرا خطبہ شائع ہؤا ہے اس وقت وہ اس ریاست کا دورہ کر رہے تھے جس کے وہ افسر تھے اور جیسے ریاستیوں کا دستور ہوتا ہے کہ بہت سے فوجی سپاہی ساتھ ہوتے ہیں، پہرہ دار ساتھ ہوتے ہیں، دفتر کا عملہ ساتھ ہوتا ہے، خیمے ساتھ ہوتے ہیں اور پھر جنگلوں میں خیمے لگتے اور آفیسر اردگرد پھیل جاتے ہیں اِسی طرح وہ بھی بہت بڑے عملہ اور سپاہیوں اور پہرہ داروں کےساتھ ریاست کا دورہ کر رہے تھے۔ جب دن بھر کے کام سے فارغ ہو کر وہ شام کے قریب اپنے خیمہ میں آئے اور انہوں نے ڈاک دیکھی تو میرا خطبہ ان کی نظر سے گزرا۔ انہوں نے خود مجھے لکھا کہ رات کے وقت مجھے آپ کا خطبہ پہنچا اور جب مَیں نے اسے پڑھا تو مجھے نہایت ہی ندامت اور شرمندگی محسوس ہوئی کہ ساری عمر تو مَیں نے آرام اور آسائش میں گزار دی ہے اب اسلام کے لئے قربانی کرنے کا وقت آیا ہے تومیرے جیسا آرام پسند انسان کدھر جائے گا۔ وہ کہتے ہیں اس خیال کے آنے پر مجھ پر کرب کی حالت طاری ہو گئی اور مَیں بے تاب ہو گیا کہ کہیں اس امتحان میں مَیں بے ایمان ثابت نہ ہو جاؤں۔ اس وقت مَیں نے اپنے نفس سے کہا کہ ابھی امام کی طرف سے کوئی آواز تو نہیں آئی لیکن مجھے اس کے لئے تیاری تو شروع کر دینی چاہئے۔ پھر مَیں نے سوچا کہ مَیں کیا کام کر سکتا ہوں اور کونسا ذریعہ ہے جس سے مَیں اپنے نفس کو مارنے کا کام لے سکتا او رتکلیف برداشت کر سکتا ہوں۔ مَیں نے کہا کہ اگر مَیں لڑائی میں شامل نہیں ہو سکتا تو کم از کم پہرہ تو دے سکتا ہوں مجھے اسی کی مشق کرنی چاہئے۔ چنانچہ مَیں نے بندوق اٹھائی اور اپنے خیمہ کے اردگرد ساری رات پہرہ دیتا رہا۔ اس وقت جتنے افسر اور سپاہی وہاں موجود تھے انہوں نے جب دیکھا کہ مَیں اپنے خیمہ کے اردگر د پہرہ دے رہا ہوں تو انہوں نے سمجھا کہ مَیں پاگل ہو گیا ہوں۔ چنانچہ ساری ریاست میں یہ بات پھیل گئی کہ فلاں افسر پاگل ہو گیا ہے۔ تو دیکھو یہ ایک حِس تھی جو ان میں کام کر رہی تھی۔ وہ شکار پر جانے کے لئے بھی تیاری کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ شکار ہی کیا ہؤا جس کے لئے انسان کوئی تیاری نہ کرے اور شام کو تھکا ماندہ واپس آ جائے۔ یہ عادت اس وقت بھی ان کے کام آ گئی جب انہوں نے امام کی آواز سنی کہ جماعت کے لئے قربانی کا وقت قریب آ گیا ہے تو انہوں نے سمجھاکہ کوئی کام بغیر تیاری کے نہیں ہو سکتا۔ مجھے ابھی سے اس کے لئے تیاری شروع کر دینی چاہئے۔ چنانچہ وہ شخص جس کے لئے دوسرے لوگ خود پہرہ دے رہے تھے ، جس کے اردگرد بیسیوں پولیس کے افسر موجود تھے آپ بندوق پکڑ کر خیمہ کے اردگرد ساری رات پہرہ دیتا رہا۔واقع یہ ہے کہ کوئی کام تیاری کے بغیر ہو نہیں سکتا۔
مَیں نے جماعت کو متواتر اور بار بار توجہ دلائی ہے کہ آخر ہمارے کام کس طرح ہوں گے۔ محض ایک شخص کی آواز سن کر واہ وا کہہ دینا یا کسی کا نام لے کر کہہ دینا کہ فلاں شخص بڑا اچھا کام کر رہا ہے اس سے دوسروں کی ذمہ داری ادا نہیں ہوتی بلکہ بڑھ جاتی ہے۔ اگر کسی شخص کو اس کی ذمہ داری سے آگاہ نہ کیا جائے یا وہ شخص اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی اہلیت نہ رکھے تو وہ خدا تعالیٰ کے سامنے عذر کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے اگر غلطی ہوئی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے اپنی ذمہ داریوں کی طرف کسی شخص نے توجہ نہیں دلائی۔ یا میری عقل اتنی ناقص تھی کہ مَیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی اہلیت اپنے اندر نہیں رکھتا تھا۔ لیکن تمہارے متعلق یہ بات نہیں کی جا سکتی۔ تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ دنیا کا کوئی ذریعہ نہیں جو مَیں نے باقی چھوڑا ہو۔ ہر ذریعہ سے مَیں نے جماعت کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ہر اہم پہلو مَیں نے جماعت پر اس کی تمام تفاصیل کے ساتھ واضح کیا ہے اور ہر قربانی کی طرف مَیں نے اس کو بلایا اور بار بار بلایا ہے۔ مَیں نے جماعت پر اس کی ذمہ داریوں کو مالی لحاظ سے بھی واضح کیا ہے، جانی لحاظ سے بھی واضح کیا ہے، وقت کی قربانی کے لحاظ سے بھی واضح کیا ہے، علم کے لحاظ سے بھی واضح کیا ہے، وطن کے لحاظ سے بھی واضح کیا ہے، سیاست کے لحاظ سے بھی واضح کیا ہے،اقتصاد کے لحاظ سےبھی واضح کیا ہے۔ غرض زندگی کا وہ کونسا شعبہ ہے جس کے متعلق مَیں نے بار بار اور بار بار توجہ نہیں دلائی۔ جس کی اہمیت مَیں نے واضح نہیں کی اور جس کی ضرورت مَیں نے جماعت پر منکشف نہیں کی۔ مَیں نے ہر پہلو کو اختیار کیا اور ہر ذریعہ جس سے کام لیا جا سکتا تھا اس سے مَیں نے کام لیا۔ تم میں سے کئی ہیں جن کے لئے میرا وجود نجات کا باعث بنا مگر تم میں سے کئی ہیں جن کے لئے میرا وجود عذاب کا بھی باعث ہے کیونکہ تم خدا کے سامنے اپنی کوتاہیوں کے متعلق اب کوئی عذر پیش نہیں کر سکتے۔ پس میرا وجود جہاں تم میں سے بُہتوں کے لئے ہدایت کا باعث ہے وہاں میرے وجود نے تمہارے لئے کوئی عذر بھی باقی نہیں چھوڑا۔ تم اپنی بریت کے لئے خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی پہلو بھی تو پیش نہیں کر سکتے اور کسی ایک امر کے متعلق بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں اِس کا پتہ نہیں تھا یا اُس کا پتہ نہیں تھا۔ قیامت کے دن خدا تعالیٰ مجھے تمہارے سامنے پیش کر دے گا اور کہے گا اس نے تمہیں تمام باتوں سے ہوشیار کر دیا تھا مگر تم پھر بھی ہوشیار نہ ہوئے ، اور تم نے اپنی ذمہ داریوں کا کچھ بھی احساس نہ کیا۔اور تم میں سے بعض کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے بشیر بنا کر بھیجا ہے اور تم میں سے بعض کے لئے خدا نے مجھے نذیر بنا کر بھیجا ہے کیونکہ میرے ذریعہ سے تم پر حجت تمام ہو گئی ہے اور قیامت کے دن تم خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر پیش نہیں کر سکتے۔ دن بدن سلسلہ کے مقاصد قریب سے قریب تر آتے جا رہے ہیں اور وہ دن اب بالکل قریب آ پہنچا ہے جب دنیا دیکھے گی کہ احمدیت اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی ہے یا نہیں۔ شیطان بڑی بے تابی سے اس دن کا انتظار کر رہا ہے جب احمدیہ جماعت اس کے ساتھیوں کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر میدانِ جنگ سے پیٹھ موڑ کر بھاگ جائے گی۔ اور فرشتے بھی بڑی بے تابی سے اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب شیطان کو شکست فاش دے کر تم واپس لَوٹو گے۔ تمہارے قدم میں کوئی تزلزل پیدا نہ ہو گا، تمہاری قوتوں میں اضمحلال رونما نہ ہو گا اور تم دشمن کو میدان سے ہمیشہ کے لئے بھگا دو گے۔ یہ دونوں الگ الگ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اور دونوں تمہارے کام کے نتائج کے منتظر ہیں۔ یہ تمہارے اختیار میں ہے کہ تم شیطان کومایوس کرو یا فرشتوں کو۔ تمہیں دیکھنا چاہئے کہ آیا تمہارے کاموں کی وجہ سے شیطان معقول طور پر یہ امید کر سکتا ہے کہ تم میدان سے بھاگ نکلو گے؟ یا تمہاری تیاریاں فرشتوں کو جائز طور پر یہ امید دلانے کا موجب بن سکتی ہیں کہ تم خدا تعالیٰ کے جانباز ا وربہادر سپاہی ثابت ہو گے اور اسلام کی فتح کا جھنڈا لہراتے ہوئے واپس لوٹو گے؟ دونوں میں سے کسی ایک چیز کا فیصلہ تم کر سکتے ہو۔ مَیں نہیں کر سکتا۔خدا تعالیٰ ہر وقت کر سکتا ہے کیونکہ وہ دلوں کے حالات کو جاننے والا ہے۔ اور باقی دنیا کام کے بعد کوئی نتیجہ نکال سکتی ہے پہلے نہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ کے بعد تمہیں بھی یہ طاقت حاصل ہے کہ تم اپنے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے فیصلہ کرو کہ تمہارے کام شیطان کو امید دلانے والے ہیں یا فرشتوں کو امید دلانے والے ہیں۔ تم اسلام کی فتح کا موجب بنو گے یا اسلام کی شکست کا موجب بنو گے۔ کیونکہ تمام کام قلب سے تعلق رکھتے ہیں اور تم اپنے قلبی حالات کا جائزہ لے کر آسانی سےفیصلہ کر سکتے ہو کہ تم اس قسم کی تیاری کر رہے ہو جو اسلام کی فتح کا موجب ہو گی یا اس قسم کی تیاری کر رہے ہو جو اسلام کی شکست کا موجب ہو گی۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ کوئی ملک بھی تو ایسا نہیں جہاں ایک شور برپا نہیں اورجہاں احمدیت کے لئے آوازیں بلند نہیں ہو رہیں۔ اسی ہفتہ میں متعدد جگہوں سے جو خطوط آئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر ملکوں میں شور مچا ہؤا ہے اور وہ اسلام اور احمدیت کے متعلق زیادہ سے زیادہ اپنی رغبت کا اظہار کر رہے ہیں۔ ابھی مشرق کی طرف سے ایک چِٹھی آئی ہے جس میں ایک ڈچ اور ایک جرمن کے متعلق لکھا ہے کہ وہ اسلام کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک احمدی ہوچکا ہے اور دوسرا احمدیت کے بہت قریب ہے اور وہ ارادہ کر رہے ہیں کہ ہم اپنے ممالک میں تبلیغ کے لئے چلے جائیں۔ اسی طرح ہمارے پرانے نو مسلم جن سے جنگ کی وجہ سے ہمارا تعلق کٹ گیا تھا اور جن سے اس دوران میں ہماری خط و کتابت بھی نہیں رہی تھی، ہم سمجھتے تھے کہ چونکہ وہ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے اب اسلام کی تعلیم ان کے دلوں سے مٹ چکی ہو گی اور وہ پھر اپنے آبائی مذہب کی طرف لوٹ گئے ہوں گے مگر جنگ کے ختم ہونے پر اب پھر ان کی طرف سے خطوط آنے شروع ہو گئے ہیں۔ جنگ کے دوران میں بھی البانیہ کے ایک فوجی افسر کی طرف سے خط آیا تھا کہ احمدیت کا لٹریچر مجھے جلد بھجوایا جائے کیونکہ لوگ سخت متمنی ہیں۔ لیکن ہم انہیں لٹریچر بھجوا نہیں سکتے تھے کیونکہ جنگ کی وجہ سے اجازت نہیں تھی لیکن اس سے پتہ لگتا تھا کہ ایمان کی چنگاری ابھی ان کے دلوں میں سُلگ رہی ہے۔ اب اسی ہفتہ میں اور نو مسلموں کی طرف سے بھی چٹھیاں آنی شروع ہو گئی ہیں۔ چنانچہ ایاز صاحب جو ہنگری اور پولینڈ کے مبلغ رہ چکے ہیں ان کے ذریعہ جو لوگ اسلام میں داخل ہوئے تھے ان میں سے ایک نو مسلم کی چٹھی آئی ہے۔ جس میں اس نے اپنا اور ایک اور دوست کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ ہم فلاں جگہ ہیں اور ٹرکی یا اَور کسی قریب کے ملک میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ بھی اس بارہ میں ہمارے لئے کوشش کریں اور تبلیغ کے متعلق ہدایت دیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں اسلام کی سچی محبت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اور لوگوں تک بھی اسلام کا پیغام پہنچائیں۔ اسی طرح کل اٹلی کے مبلغ مولوی محمد شریف صاحب کی طرف سے خط آیاہے کہ یوگو سلاویہ کے تین بڑے بڑے آدمی جن میں سے ایک انجینئر ، ایک ڈاکٹر اور ایک اَور تعلیم یافتہ شخص ہے اس بات کے لئے تیار ہیں کہ قادیان آئیں اور احمدیت سیکھ کر تبلیغ کا کام کریں۔ اسی طرح روم کے ایک بڑے آدمی کے متعلق انہوں نے لکھا ہے کہ وہ احمدیت کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ یہ خبریں ہیں جو مختلف ممالک کی طرف سے آ رہی ہیں۔ مگر یہ خبریں ہمارے لئے کس طرح خوشی کا موجب ہو سکتی ہیں؟ بے شک ایک نادان انسان ان خبروں کو پڑھتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ لیکن عقلمند انسان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب وہ ایسی خبریں سنتا ہے تو اس کا دل اپنی کمزور حالت کو دیکھ کر رنج سے بھر جاتا ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت بیرونی ممالک کے مشنوں کا موجودہ بوجھ بھی مشکل سے اٹھا رہی ہے۔ پس نئے ممالک جو ہم سے مبلغ مانگ رہے ہیں ہم ان کا کیاعلاج کر سکتے ہیں اور کونسا ذریعہ ہے جس سے ہم ان کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تکلیف دہ نظارہ ہے کہ ہماری کیفیت بالکل وہی ہو رہی ہے جو ایک جنگ میں مسلمان سپاہیوں کی تھی۔
ایک جنگ کا واقعہ ہے۔ اس میں بعض مسلمان شدید زخمی ہوئے او روہ پیاس کی شدت کی وجہ سے زمین پر تڑپنے لگ گئے۔ ایک صحابی جس کے پاس پانی کی چھاگل تھی اس نے جب بعض صحابہؓ کو میدان جنگ میں شدتِ پیاس کی حالت میں تڑپتے دیکھا تو وہ بے تاب ہو گیا۔ اور پانی کی چھاگل لے کر ان میں سے ایک کے قریب گیا اور چھاگل اس صحابی کے آگے کی تاکہ وہ اس سے پانی پی سکے۔ جب اس نے دیکھا کہ ایک مسلمان پانی کی چھاگل لئے میرے قریب کھڑا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ مَیں اس سے پانی پی کر اپنی پیاس بجھاؤں تو اس نے اپنے پہلو میں ایک دوسرے مسلمان زخمی کی طرف اشارہ کیا۔ مطلب یہ تھا کہ اسے مجھ سے زیادہ پیاس ہے تم مجھے پانی نہ پلاؤ بلکہ میرے دوسرے ساتھی کی طرف چھاگل لے جاؤ اور اسے پانی پلاؤ۔ یہ صحابی چھاگل لے کر اس دوسرے کے قریب پہنچا تو اس نے اپنے پہلو میں پڑے ہوئے ایک تیسرے شخص کی طرف اشارہ کیا کہ وہ پانی کا مجھ سے بھی زیادہ محتاج ہےتم اس کے پاس پانی لے جاؤ او رمجھے مت پلاؤ۔ وہ تیسرے کے پاس پہنچا تو اس نے چوتھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میرا فلاں بھائی مجھ سے بھی زیادہ پانی کا محتاج ہے تم جاؤ اور اس کو پانی پلاؤ۔ اس طرح ہر شخص نے بجائے خود پانی پینے کے اپنے پہلو کی طرف اشارہ کر کے اسے دوسرے بھائی کی طرف بھیج دیا۔ وہ دس بارہ آدمی تھے جو میدانِ جنگ میں زخمی پڑے تھے۔ انہوں نے باری باری اسے اپنے سے پرے بھیجنا شروع کیا او رکہا کہ ہمارا دوسرا ساتھی ہم سے زیادہ پانی کا محتاج ہے۔ جب وہ آخری زخمی سپاہی کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکا تھا۔ اور جب وہ پھر واپس لَوٹا تو اس نے دیکھا کہ ان میں سے ہر سپاہی پیاس کی شدت سے فوت ہو چکا تھا۔1 مگر اس کام میں تو ایک خوشی بھی تھی۔ ہر مرنے والا یہ سمجھتے ہوئے مرا کہ مَیں اسلام کے لئے قربان ہو رہا ہوں۔ مَیں اپنے آرام کو اپنے بھائی کے لئے قربان کر رہا ہوں اور دیکھنے والوں کے لئے بھی خوشی تھی کہ یہ ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے جس کے ذریعہ ہم اپنی اولادوں کو ہمیشہ زندہ رکھ سکتے ہیں اور انہیں بتا سکتے ہیں کہ تمہارے باپ دادا کس طرح قربانی کیا کرتے تھے۔
مگر ہمارا حال ایسا ہے کہ اس میں ہمارے لئے کوئی بھی خوشی کی بات نہیں۔ اگر ہم مختلف ممالک کے لئے تبلیغ کا سامان مہیا نہیں کریں گے تو وہ کونسا سبق ہو گا جو اس ذریعہ سے ہم اپنی اولادوں کے لئے چھوڑ جائیں گے اور وہ خوش ہوں گے کہ ہمارے باپ دادا بڑی قربانی کرنے والے تھے۔ ان پیاس سے مرنے والوں کا ذکر سن کر تو آج بھی ہر شخص کا دل خوشی سے بھر جاتا ہے اور وہ کہتا ہے میرے باپ دادا کتنے بزرگ تھے کہ موت کی حالت میں بھی وہ اپنی ضروریات پر دوسرے کی تکلیف کو مقدم رکھتے تھے اور اپنی جان دوسروں کو دینے کے لئے تیار رہتے تھے۔ لیکن ہم کیا کہیں گے اور کونسا نمونہ اپنی نسلوں کے لئے چھوڑ جائیں گے۔ کیا ہماری نسلیں یہ کہیں گی کہ ہمارے بزرگ اتنے بلند پایہ اور اتنا شاندار کام کرنے والے تھے کہ لوگ ان سے تبلیغ کے لئے آدمی مانگتے تھے اور وہ نہیں دیتے تھے؟ سلسلہ ان سے تبلیغ کے لئے روپیہ مانگتا تھا اور وہ روپیہ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔ ان کو اپنے آرام اور اپنی آسائش کا تو ہر وقت خیال رہتا تھا لیکن خدا اور اس کے رسول کا نام پھیلانے کے لئے ان کے دلوں میں کوئی جوش پیدا نہیں ہوتا؟ یا اتنا جوش پیدا نہیں ہوتا تھا جتنا ضروری تھا؟ آخر غور کرو کہ کیا ہم ان باتوں پر فخر کر سکتے ہیں؟ یا کیا ہماری اولادیں ان باتوں پر فخر کر سکتی ہیں۔ یا اگر ہماری طرف سے یہ باتیں پیش کی جائیں تو کیا ہماری اولادیں بلند حوصلہ ہو سکتی ہیں؟ یا کیا ان باتوں کے ذریعہ وہ اپنے ایمانوں کو تازہ کر سکتی ہیں۔ اس قسم کی باتیں تو ہمارے سر آئندہ نسلوں میں نیچا کر دیں گی اور ان کی ہمتوں کو پست اور قوتوں کو مضمحل کر دیں گی۔ جب تک کسی کے کان میں امام کی طرف سے آواز نہیں آتی اس وقت تک ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ مجھے ابھی آواز نہیں آئی۔ اگر آواز آئی تو مَیں سب کچھ اسلام کے لئے قربان کر دوں گا ۔
لیکن آواز آنے کے بعد کسی کا پیچھے رہ جانا یقیناً افسوس کی بات ہوتی ہے۔ رسول کریم ﷺ جب بدر کی جنگ کے لئے تشریف لے گئے تو بعض کا خیال تھا کہ اس وقت کوئی بڑی جنگ نہیں ہو گی،محض کفار کے ایک تجارتی قافلہ سے مقابلہ ہو گا۔ اور گو رسول کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے علم ہو چکا تھا کہ لڑائی ہو گی مگر آپؐ نے اس کو ظاہر نہیں کیا۔ اس وجہ سے بہت سے مخلص صحابہؓ مدینہ میں ہی رہ گئے، ساتھ نہیں گئے۔ وہاں پہنچے تو لڑائی ہو گئی اور لڑائی بھی ایسی شان کی کہ جس نے مکہ کی شان و شوکت کو بالکل ہلا دیا اور لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ مکہ کی طاقت ایسی نہیں جس کا مقابلہ نہ ہو سکے۔ جب یہ خبریں مدینہ میں پہنچیں اور لشکر ِاسلام بدر سے واپس لَوٹا تو لوگ ان صحابہؓ کے اردگرد جو لڑائی میں شامل ہوئے تھے جمع ہو جاتے اور کہتے لڑائی کا کوئی حال سناؤ۔ وہ سناتے کہ ہم اس اس طرح رسول کریم ﷺ کے اردگرد لڑے اور ہم نے اپنی جانیں اسلام کے لئے قربان کیں۔ دشمن اتنی زیادہ تعداد میں تھا اور ہماری تعداد اس قدر قلیل تھی ۔ پھر باوجود اس کے کہ وہ بڑے بڑے ماہر اور تجربہ کار جرنیل تھے ہمارے بچے نکلےا ورانہوں نے ابو جہل کو جو تمام فوج کا سپہ سالار تھا مار گرایا۔ مَیں نکلا تو فلاں کو قتل کر دیا۔ فلاں نے فلاں کو قید کر لیا۔ وہ لوگ جو مجلس میں بیٹھے ہوتے تھے وہ ان باتوں کو سنتے تو لطف اٹھاتے اور ان کی بہادری کی ان کو داد دیتے۔ لیکن مخلصین کا دل ان واقعات کو سن کر اندر ہی اندر پگھلتا رہتا اور انہیں افسوس ہوتا کہ قربانی کا ایک موقع آیا تو ہم پیچھے رہ گئے اور یہ لوگ دوڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے قُرب کے میدان میں بڑھ گئے۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک مالک انصاریؓ بھی تھے ۔ جس وقت صحابہؓ اپنے واقعات سناتے اور دوسرے لوگ اُن کو داد دیتے ہوئے کہتے کہ کمال کر دیا، حد کر دی، اتنی قربانی کسی اَور نے کیا کرنی ہے، تم نے تو ایثار کا بے مثال نمونہ دکھایا ہے۔ اس وقت مالکؓ غصہ سے بھر جاتے اور کہتے یہ کونسی بات ہے؟ مَیں ہوتا تو بتاتا کہ لڑائی کیا چیز ہے۔ اب بظاہر یہ ایک جھوٹی لاف زنی ہے، بظاہر یہ بزدل آدمی کا کام ہے کہ وہ خود تو کوئی کام نہیں کرتا لیکن جب کوئی دوسرا کام کرتا ہے تو اسے طعنہ دینے لگ جاتا ہے۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حقیقی مخلص اور بہادر انسان کے منہ سے بھی مجبوراً ایسے فقرے نکل جاتے ہیں۔ چونکہ عام طور پر صحابہؓ کو یہ خیال تھا کہ لڑائی نہیں ہو گی اور رسول کریم ﷺ کسی خطرہ میں نہیں جا رہے اس لئے بہت سے صحابہؓ باوجود اخلاص اور بہادری کی روح اپنے اندر رکھنے کے پیچھے رہ گئے تھے۔ چنانچہ بدر کے موقع پر جب لڑائی کی صبح آئی تو رسول کریم ﷺ کی خدمت میں صحابہؓ حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! میدان جنگ سے پیچھے فلاں جگہ ہم نے ایک سٹیج تیار کر دیا ہے آپ وہاں بیٹھئے اور خدا تعالیٰ سے اسلام اور مسلمانوں کی فتح کے لئے دعائیں مانگئے۔ پھر انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت ہم اس جنگ میں کامیاب نہ ہو سکیں اور سب کے سب مارے جائیں۔ صحابہؓ نے یہ نہیں کہا کہ ہم شکست کھا جائیں یا بھاگ جائیں کیونکہ وہ شکست کھانا اور بھاگنا جانتے ہی نہیں تھے۔ انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللہ! ہو سکتا ہے کہ ہم سب کے سب مارے جائیں۔ یَا رَسُوْلَ اللہ!ہم نے آپ کی حفاظت کے لئے سب سے تیز تر اونٹنی جو ہمارے قافلہ میں تھی چُن کر وہاں باندھ دی ہے۔ اسی طرح ایک دوسری اونٹنی ابو بکرؓ کے لئے باندھ دی ہے جو ہم سب میں سے زیادہ قابلِ اعتبار آدمی ہے اور جس کے متعلق ہم ہر طرح یقین رکھتے ہیں کہ وہ آپ کی حفاظت کرے گا۔ یَارَسُوْلَ اللہ!اگر ہم سب کے سب مارے جائیں تو آپؐ اور ابو بکرؓ ان اونٹوں پر سوار ہو کر مدینہ چلے جائیں۔ وہاں ہمارے ایسے بھائی موجود ہیں جو قربانی اور اخلاص میں ہم سے کم نہیں۔ مگر ان کو پتہ نہیں تھا کہ جنگ ہونے والی ہے۔ یَا رَسُوْلَ اللہ!اگر اُنہیں پتہ ہوتا کہ جنگ ہونے والی ہے تو وہ پیچھے رہنے والوں میں سے نہ ہوتے۔ پس آپ اُن کے پاس جائیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے مرنے کے بعد اسلام کے جھنڈے کو کھڑا رکھیں گے اور ہر قسم کی قربانی سے کام لیں گے۔2
پس صحابہؓ نے بھی شہادت دی ہے کہ مدینہ میں پیچھے رہنے والوں میں کثرت ایسے لوگوں کی تھی جو بدری صحابہؓ سے کم نہیں تھے بلکہ رسول کریم ﷺ اور دین اسلام کی حفاظت کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ مالکؓ بھی انہیں میں سے ایک تھے۔ جب وہ دیکھتے کہ صحابہؓ اپنی بہادری کے واقعات سنا رہے ہیں اور لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ ہم نے یوں قربانیاں کیں تو وہ بے تاب ہو کر کہتے مَیں ہوتا تو تمہیں دکھاتا کہ کس طرح لڑائی کی جاتی ہے۔ بے شک تم نے بڑا کام کیا لیکن پھر بھی اگر مَیں ہوتا تو تمہیں دکھاتا کہ بڑا کام کسے کہتے ہیں۔ عام طور پر جیسا کہ مَیں نے کہا ہے ایسے لوگ بزدل ہوتے ہیں، کمینے ہوتے ہیں اور دوسرے کی بہادری دیکھ کر اس کو برداشت نہیں کر سکتے مگر وہ واقعہ ایسا تھا کہ صحابہؓ میں سے مخلصین کی ایک جماعت پیچھے رہ گئی تھی اور جنگِ بدر میں شریک ہونے والے صحابہؓ بھی سمجھتے تھے کہ اگر ان کو موقع ملتا تو وہ ویسی ہی قربانیاں کرتے جیسی ہم نے کی ہیں۔ وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ پس مالکؓ اور ان جیسے لوگ یہ باتیں اخلاص او رتقویٰ سے کہتے تھے اور حقیقی عشق کی بناء پر ایسے دعوے کرتے تھے نہ کہ لاف و گزاف سے۔ ایسے لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ نے اُحد کا موقع پیدا کر دیا۔ جب بعض مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے اسلامی لشکر تتّر بتّر ہو گیا۔ تو جہاں رسول کریم ﷺ کھڑے تھے وہاں کفار نے حملہ کر دیا۔ آپؐ کے اِردگرد جو صحابہؓ حفاظت کے لئے کھڑے تھے ان میں سے بعض زخمی ہو کر گر گئے اور بعض شہید ہو گئے۔ خود رسول کریم ﷺ کے بعض دانت ٹوٹ گئے اور آپؐ بے ہوش ہو کر ایک گڑھے میں جا گرے۔ آپؐ پر بعض اَور صحابہؓ کی لاشیں آ پڑیں جس سے لوگوں نے یہ سمجھا کہ رسول کریم ﷺ بھی شہید ہو گئے ہیں۔3 اس وقت تھوڑے بہت سپاہی جو میدان جنگ میں موجود تھے اور زیادہ گھبرا گئے ۔ اور حضرت عمرؓ تو ایک پتھر کی چٹان پر بیٹھ کر رونے لگ گئے۔ اتنے میں وہی مالکؓ جو کہا کرتے تھے کہ اگر مَیں ہوتا تو دکھاتا کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں ٹہلتے ٹہلتے حضرت عمرؓ کے پاس سے گزرے۔ جب اس جنگ کے شروع میں اسلام کو فتح ہوئی تھی اس وقت مالکؓ نے یہ سمجھ کر کہ بھگوڑوں کا پیچھا کیا کرنا ہے۔ ایک طرف الگ ہو کر کھجوریں کھانی شروع کر دی تھیں کیونکہ انہیں بھوک لگی ہوئی تھی۔ چند کھجوریں ان کے پاس تھیں اور وہ ایک پہاڑی کے دامن میں ٹہل ٹہل کر کھجوریں کھا رہے تھے اور آخری کھجور ان کے ہاتھ میں تھی۔ جب وہ ٹہلتے ٹہلتے ادھر آئے اور انہوں نے دیکھا کہ عمرؓ ایک پتھر پر بیٹھ کر رو رہے ہیں تو انہوں نے کہا عمرؓ !یہ کیا بیوقوفی کی بات ہے؟ خدا تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی اور اسے کفار پر غلبہ عطا فرمایا ہےکیا تمہیں اسلام کے غلبہ پر رونا آتا ہے کہ اس طرح ایک چٹان پر بیٹھ کر آنسو بہا رہے ہو؟ انہوں نے کہا مالکؓ !شاید تمہیں پتہ نہیں کہ بعد میں کیا ہؤا۔ مالکؓ نے کہا کیا ہؤا؟ حضرت عمرؓ نے کہا معلوم ہوتا ہے تم فتح کے وقت پیچھے آگئے تھے اور تمہیں بعد کے حالات کا علم نہیں۔ بعد میں دشمن نے پھر حملہ کر دیا۔ مسلمان اس وقت غافل تھے نتیجہ یہ ہؤا کہ تمام آدمی تتّر بتّر ہو گئے اور صرف چند آدمی رسول کریم ﷺ کے گرد رہ گئے۔ مگر کفار کا حملہ اس قدر بڑھا کہ آپ کے اردگرد جو صحابہؓ کھڑے تھے وہ بھی یا تو زخمی ہو کر گرگئے یا شہید ہو گئے اور رسول کریم ﷺ بھی آخر شہید ہو گئے۔ مالکؓ کے ہاتھ میں اُس وقت آخری کھجور تھی اور وہ اسے اپنے منہ میں ڈالنے ہی والے تھے۔ جب انہوں نے یہ بات سُنی تو کھجور اپنے ہاتھ سے پھینک دی اور کہا میرے اور جنت کے راستہ میں اس کھجور کے سوا کیا حائل ہے۔ پھر تعجب سے عمرؓ کو دیکھا اور کہا عمرؓ ! اگر یہ بھی ہو گیا ہے تو پھر بھی رونے کی کونسی بات ہے۔ عمرؓ !ہمارا محبوب جس جگہ گیا ہےہم کو بھی اس جگہ جانا چاہئے یا اس جگہ بیٹھ کر رونا چاہئے یہ کہہ کر تلوار اپنے ہاتھ میں لی اور دشمن پر حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں کفار کی تعداد تین ہزار تھی اور تین ہزار کے لشکرپر اگر اکیلا شخص حملہ کرے تو اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ پاگل تھا۔ یہ درست ہے اور وہ لوگ رسول کریم ﷺ اور اسلام کی محبت میں واقع میں پاگل تھے۔اگر آج ہمیں ایسے پاگل مل جائیں تو اسلام کی فتح میں ہمیں کوئی شک باقی نہ رہے اور ہمارے دلوں میں کبھی کوئی بے اطمینانی پیدا نہ ہو۔ مالکؓ محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت میں مجنون تھا اور اس نے وہی نمونہ دکھایا جو ایک پاگل دکھاتا ہے او رجو محبت کا پاگل بھی دکھایا کرتا ہے۔ اُنہوں نے تلوار لی اور دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ مگر اکیلے کی تین ہزار کے مقابلہ میں کیا طاقت ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے جب بعد میں حالات بدل دئیے اور رسول کریم ﷺ کو بھی افاقہ ہو گیا تو ایک پہاڑی کے دامن میں آپؐ نے اپنے آدمی جمع کئے اور فرمایا جاؤ اور تلاش کرو۔ اگر کوئی مسلمان زخمی ہوں تو ان کی خدمت کرو اور انہیں راحت اور آرام پہنچانے کی کوشش کرو۔ اور جو لوگ فوت ہو گئے ہیں اُن کو پہچانو اور اُن کی لاشیں جمع کرو تاکہ جنازہ پڑھا جائے۔ صحابہؓ رسول کریم ﷺ کی اس ہدایت کے مطابق مسلمان شہداء اور زخمیوں کی تلاش کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ اور انہیں مختلف جگہوں پر پڑی ہوئی کئی لاشیں ملیں۔ حضرت عمرؓ کی روایت کے مطابق وہ یہ تو سن چکے تھے کہ جب مسلمانوں کی فوج تتّر بتّر ہو چکی تھی مالکؓ اکیلے دشمن پر جا پڑے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ مالکؓ ضرور مارے گئے ہوں گے مگر باوجود تلاش کے انہیں مالکؓ کی لاش نہ ملی۔ وہ لوگ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اَور مسلمانوں کی لاشیں تو مل گئی ہیں مگر مالکؓ کی لاش ہمیں نہیں ملی۔ رسول کریم ﷺ نے پھر یہ ہدایت دی کہ مالکؓ کی لاش تلاش کی جائے۔ چنانچہ انہوں نے پھر تلاش شرو ع کر دی اور آخر ایک لاش کے کئی ٹکڑے اُنہیں الگ الگ مقامات پر ملے۔ جب اُن ٹکڑوں کو جوڑا گیا تو ایک لاش بن گئی۔ مگر ا س لاش کو پہچاننے والا کوئی نہیں تھا۔ کیونکہ نہ آنکھیں نظر آتی تھیں، نہ ناک نظر آتا تھا، نہ کان نظر آتے تھے، نہ چہرے کا گوشت نظر آتا تھا۔ ہر چیز ٹکڑے ٹکڑے ہو کر مسخ ہو چکی تھی۔ آخر ایک انگلی سے مالک کی بہن نے پہچانا کہ یہ انگلی میرے بھائی کی ہے۔4 یہ وہ لوگ تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔مِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۔5 مسلمانوں میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں جنہوں نے جو کچھ کہا تھا اسے پورا کر کے دکھا دیا ہے اور کچھ ایسے ہیں جنہوں نے جو کچھ کہا تھا اسے پورا کر کے دکھانے کا موقع اُنہیں نہیں ملا۔ وہ ابھی انتظار کر رہے ہیں جب موقع آئے گا وہ بھی اپنی ہر چیز خدا اور اس کے رسول کے لئے قربان کر دیں گے۔ مالکؓ نے کہا تھا تم نے کیا کام کیا۔ مَیں ہوتا تو تم کو دکھاتا کہ اسلام کے لئے کس طرح لڑنا چاہئے۔ چنانچہ مالکؓ نے جو کچھ کہا تھا اسے پورا کرکے دکھا دیا۔ وہ زمین کے ذرات جن پر مالکؓ کے خون کے قطرات گرے، وہ زمین کے ذرات جن پر مالکؓ کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہر طرف پھیل گیا، وہ زمین کے ذرّات جن پر مالکؓ کی قبر بنی اور وہ خاک جو مالکؓ کی نعش کے اوپر ڈالی گئی اور جس خاک میں مالکؓ کی نعش مل کر خاک ہو گئی۔ اس خاک کا ایک ایک ذرہ شہادت دے رہا ہے کہ خدا کے عاشقوں اور اس کے دین کے عاشقوں کو کسی قسم کے خطرہ کی پروانہیں ہو سکتی۔ وہ اپنی جان کو ایک بے حقیقت چیز کی طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں اور اسلام کے لئے کسی قسم کی کوتاہی سے کام نہیں لیتے۔ آج مالکؓ کا ذرہ ذرہ ان لوگوں کو مجرم بنا رہا ہے جو قربانیوں میں حصہ لینے سے ہچکچاتے ہیں اور قیامت کے دن خدا ان کو ایسے لوگوں کے خلاف شاہد بنا کر کھڑا کرے گا اور ان سے کہے گا کہ دیکھو! تم نے بھی ویسا ہی اقرار خدا اور اس کے رسول سے کیا تھا جیسے مالکؓ نے کیا تھا۔ مگر تم اپنے اقرار کو وقت پر پورا نہ کر سکے اور مالکؓ نے اپنے اقرار کو پورا کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں پر حجت تمام فرمائے گا اور مالکؓ کو بطور شاہد اُن کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمائے گا کہ مَیں نے تم کو اور مالکؓ کو الگ الگ جسم نہیں دئیے تھے۔ تم کو اور مالکؓ کو الگ الگ قسم کی قوتیں نہیں دی تھیں، تم کو اور مالکؓ کو الگ الگ قسم کے اختیارات نہیں دئیے تھے۔ جو کچھ مَیں نے مالک ؓ کو دیا تھا وہی تم کو دیا تھا۔ مگر دیکھو! اس نے کیا کام کیا اور تم نے کیا کیا۔عذر انسان بنایا ہی کرتا ہے مگر کیا ہر عذر قبول ہو جاتا ہے؟ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِيْرَةٌۙ۰۰وَّ لَوْ اَلْقٰى مَعَاذِيْرَهٗ۔6انسان عذر کرے گا مگر وہ سزا سے بچ نہیں سکےگا۔ چاہے ہزاروں عذر کرے کیونکہ ہر عذر اس قابل نہیں ہوتا کہ اسے قبول کیا جائے۔
پس مت خیال کرو کہ تم اپنے عذروں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کو خوش کر سکتے ہو۔ مت سمجھو کہ تم اپنے عذروں کے ذریعہ سے محمد ﷺ کے سامنے اپنی گردن اونچی کر سکتے ہو۔ اگر تمہارے اندر مالی اور جانی قربانی کا وہ مادہ نہیں جس کی اس زمانہ میں ضرورت ہے تو تم نہ خدا کو منہ دکھانے کے قابل سمجھے جا سکتے ہو اور نہ آئندہ آنے والی نسلوں میں عزت کے ساتھ یاد رکھے جانے کے مستحق ہو سکتے ہو۔ قربانیوں کے دن قریب سے قریب تر آ رہے ہیں اور خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے مختلف ممالک میں ایسے دل تیار کر رہا ہے جو احمدیت کی آواز سننے کے لئے بیقرار ہیں۔ آخر وہ کونسی طاقت ہے جو مختلف ملکوں میں لوگوں کو اُکسا رہی ہے کہ جاؤ اور قادیان سے مبلغ مانگو۔ پھر کیا ہو سکتا ہے کہ ہم ان ممالک میں اپنے مبلغ نہ بھیجیں؟ یا ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے مبلغ تو بھیجیں لیکن ان کو خرچ نہ بھیجیں؟ ہم اگر ا س وقت اپنی انتہائی طاقت صَرف نہیں کر دیتے تو یقیناً ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہوں گے کہ نہ صرف آئندہ نئے مشن قائم کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہو گی بلکہ پہلے مشن بھی ہمیں مجبوراً بند کرنے پڑیں گے۔ تحریک جدید کی مالی حالت اتنی کمزور ہے کہ اس کا قیاس کر کے بھی ایک مخلص انسان کا دل گھٹنے لگتا ہے کیونکہ تحریک جدید کے چندہ سے اس کے اخراجات کا بجٹ زیادہ ہے۔ جس قدر آمد ہوتی ہے خرچ اس سے زیادہ ہو رہا ہے اور ابھی بہت سارا پچھلا قرضہ بھی باقی ہے جو ادا ہونے والا ہے۔ اسی طرح مبلغوں کی بھی ابھی کمی ہے۔ گو جب سے مَیں نے اس بات پر زور دیا ہے
اصل مسودہ میں اس جگہ عبارت نہیں پڑھی جاتی۔
سینکڑوں نئی درخواستیں خدا تعالیٰ کے فضل سے آ چکی ہیں اور بہت سے نئے مبلغ رکھے گئے ہیں لیکن پھر بھی مبلغین کی ہمیں ہمیشہ ضرورت رہے گی۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ سلسلہ کی اس ضرورت کو مدرسہ احمدیہ، جامعہ احمدیہ، واقفین تحریک جدید، تعلیم الاسلام کالج کے طلباء اور بیرونی کالجوں کے احمدی طالب علم بڑی آسانی سے پورا کر سکتے ہیں۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اپنے وقت کو ضائع ہونے سے بچائیں اور جلد از جلد اس کام کا اپنے آپ کو اہل ثابت کریں۔ لیکن اس کے علاوہ او رضروریات کے لئے بھی ہمیں روپیہ کی ضرورت ہے۔
جہاں تک مَیں نے غور کیا ہے مَیں سمجھتا ہوں ہماری جماعت میں ابھی چندہ کی بہت گنجائش پائی جاتی ہے اور جتنا چندہ اس وقت جماعت دیتی ہے اگر وہ صحیح طور پر کوشش کرے تو اس سے دُگنا چندہ دے سکتی ہے۔ اگر ہمارے کمزور اپنی کمزوری کو چھوڑ دیں، ہمارے سُست اپنی سُستی کو چھوڑ دیں اور ہماری جماعت کے مخلص اَو رزیادہ قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جائیں تو بڑی آسانی سے موجودہ جماعت کے افراد سے ہی دُگنا چندہ اکٹھا ہو سکتا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اگلے دو تین سال تک کے اخراجات کا بوجھ موجودہ جماعت ہی برداشت کر سکتی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی اگر تبلیغ پر زور دیا جائے تو دو تین سال کے بعد نئے آدمیوں کے شامل ہو جانے کی وجہ سے ہمارے اندر وہ طاقت پیدا ہو جائے گی جواَب نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شخص جوش سے تبلیغ کرے اور اپنی طاقت کے مطابق قربانی کرے بلکہ اگر ہو سکے تو اپنی طاقت سے بڑھ کر قربانی کرنے کی کوشش کرے اور جماعت کی تعداد کو تبلیغ پر زور دے کر زیادہ سے زیادہ بڑھائے۔ دنیا میں کنویں کبھی کام نہیں دے سکتے جب تک آسمان سے بارش نازل نہ ہو۔ اسی طرح کسی جماعت کا اپنا چندہ اُس وقت تک کافی نہیں ہو سکتا جب تک باہر سے بھی اس کے چندہ کے اضافہ کی صورت پیدا نہ ہو۔ جس طرح کنویں بغیر بارشوں کے قائم نہیں رہ سکتے اِسی طرح کوئی جماعت بغیر تبلیغ کے زندہ نہیں رہ سکتی ، چاہے کسی جماعت کے دس کروڑ افراد ہوں یا دس ارب۔ جب تک اس میں باہر سے نئے آدمی آ کر شامل نہ ہوں اُس وقت تک اس کا ایمان مضبوط نہیں ہو سکتا۔
پس اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے بھی تبلیغ ایک نہایت ضروری چیز ہے۔ علاوہ اس کے کہ یہ رحم ہے اُن لوگوں پر جو ہدایت اور نور سے محروم ہوں۔ یہ رحم ہے اپنے آپ پر کیونکہ خدائی سنت یہ ہے کہ کوئی جماعت اپنے ایمان کو قائم نہیں رکھ سکتی جب تک اس میں نو مسلم داخل نہ ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ آدم سے لے کر اب تک خدا تعالیٰ کی یہ عادت چلی آئی ہے اور قیامت تک چلتی چلی جائے گی۔ اور یہ سنت اپنے اندر بہت بڑی حکمتیں رکھتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے اندر اخلاص پیدا کیا جائے اور تبلیغ پر زیادہ سے زیادہ زور دیا جائے۔ اگر یہ دو خاصیتیں تم اپنے اندر پیدا کر لو تو تمہارے متعلق سمجھا جا سکتا ہے کہ تم آنے والی جنگ کے لئے تیاری کر رہے ہو۔ تب تم میں سے بُہتوں کو مالکؓ کی طرح قربانی کرنے کی توفیق مل جائے گی اور بُہتوں کو اگر مالکؓ کی طرح نہیں تو اتنی قربانی پیش کرنے کی توفیق ضرور مل جائے گی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں اِتنے نمبر مل جائیں گے جتنے نمبر امتحان میں پاس ہونے والے کے لئے مقرر ہوتے ہیں۔’’
(الفضل 20 جون 1946ء )
1: اَلْاِسْتِیْعَابُ فِیْ مَعْرِفَةِ الْاَصْحَاب جلد 3 صفحہ 191۔ مطبوعہ بیروت 1995ء
2: سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 272،273 مطبوعہ مصر 1936ء
3: سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 84 ، 85، 88۔ مطبوعہ مصر 1936ء
4: سیرت ابن ہشام جلد 3صفحہ 88مطبوعہ مصر 1936ء میں حضرت انس بن نضر کا ذکر ہے۔
5: الاحزاب: 24
6: القیٰمة : 15، 16

22
ذرا ذرا سی بات پر خلع اور طلاق تک نوبت پہنچا دینا نہایت بھیانک اور ناپسندیدہ طریق ہے
(فرمودہ 21 جون 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘انسانی زندگی کے اہم ارکان میں سے میاں بیوی کے اجزا ہوتے ہیں۔ دنیوی زندگی کے لئے انسان کے لئے جو چیزیں لازمی ہیں اور جن کے ذریعہ انسان آرام اور سکینت حاصل کر سکتا ہے وہ میاں بیوی کے تعلقات ہیں۔ میاں بیوی کے تعلقات سے جو سکون اور آرام انسان کو ملتا ہے وہ اُسے کسی اَور ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان وجودوں کو ایک دوسرے کے لئے سکینت اور تسکین کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اِسی طرح بائبل میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کے لئے حوّا پیدا کی تاکہ وہ آدم کے آرام اور سکینت کا موجب ہو۔ یعنی حوّا کے بغیر آدمؑ کے لئے تسکین اور آرام کی صورت اور کوئی نہ تھی۔ لیکن یہی دو وجود جو ایک دوسرے کے لئے تسکین ،آرام اور راحت کا موجب ہیں کبھی کبھی انہیں دو وجودوں کو لڑائی اور جھگڑے کا موجب بنا لیا جاتا ہے اور راحت اور سکون کی بجائے انسان کے لئے اس کا مدمقابل یعنی خاوند کے لئے بیوی اور بیوی کے لئے خاوند دنیا میں سب سے زیادہ تکلیف دینے کا موجب بن جاتا ہے۔ ہزاروں خاوند ایسے ہیں جو اپنی بیویوں کے لئے بدترین عذاب ثابت ہوتے ہیں اور ہزاروں بیویاں ایسی ہیں جو اپنے خاوندوں کے لئے بد ترین عذاب ثابت ہوتی ہیں۔ اسلام نے ایسے حالات میں ہمارے لئے ایسی اعلیٰ راہنمائی کی ہے کہ درحقیقت ان احکام کی موجودگی میں ہمارے لئے گھبراہٹ اور تشویش کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کے لئے کتنے لوگ تیار ہوتے ہیں؟ غیر مسلم تو پہلے ہی اسلامی تعلیم پر اعتراض کرتے رہتے ہیں ۔ وہ مسلمان بھی جو اسلامی تعلیم کو ماننے والے ہیں اسلامی تعلیم سے بہت دور جا چکے ہیں اور قرآنی تعلیم کی طرف آنا پسند ہی نہیں کرتے بلکہ دوسری عدالتوں کے ذریعہ اپنا فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔ اگر کسی مرد اور عورت میں جھگڑا پیدا ہو جائے او ران کو کہا جائے کہ قرآن کی تعلیم کے مطابق اس جھگڑے کو دور کرنے کی کوشش کرو تو رشتہ دار درمیان میں کُود پڑتے ہیں اور کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ان باتوں پر عمل کرنے سے کہیں گزارہ ہوتا ہے۔ ہم ان کے مطابق کیسے فیصلہ کریں۔ گویا اُن کے نزدیک قرآن کریم ایک افسانوں کی کتاب ہے جسے لائبریری کی زینت کے لئے رکھنا چاہئے لیکن اس پر عمل نہیں کرنا چاہئے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم ناقابلِ عمل ہے ایسا شخص اسلام کے دائرہ میں رہتا ہی کیوں ہے؟ ایسے شخص کو اسلام کی تعلیم کو چھوڑ دینا چاہئے اور کوئی ایسا مذہب تلاش کرنا چاہئے جس کی تعلیم اسے قابل عمل نظر آئے تاکہ کم از کم اُس کی ضمیر تو آزاد رہے۔ وہ جب اسلام کی تعلیم کو غلط اور ناپسندیدہ خیال کرتا ہے تو پھر ضمیر کو مارتے ہوئے اس کو کیوں پکڑے ہوئے ہے اور کیوں اسے چھوڑتا نہیں ؟
مَیں اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت میں میاں بیوی کے جھگڑے پہلے کی نسبت زیادہ پیدا ہو رہے ہیں۔ جہاں تک جھگڑوں کا سوال ہے جھگڑوں کا پیدا ہونا بُرا نہیں کیونکہ یہ انسانی خاصہ ہے کہ میاں بیوی میں کبھی کبھار رنجش بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن جھگڑا پیدا ہونے کے بعد اسلامی تعلیم کو نظر انداز کر دینا یہ بہت بُری چیز ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ لوگ ایسے حالات میں بالعموم اسلام کی تعلیم کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ظلم کی حد تک پہنچ جاتے ہیں اور اسلامی تعلیم کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ میرے لئے یہ صورت بہت ہی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ہمارے لئے رسول کریم ﷺ کامل اسوہ ہیں۔ ہم آپؐ کو دیکھتے ہیں کہ آپ نہ صرف خاوند تھے بلکہ آپ نبی بھی تھے، آپؐ پِیر بھی تھے اور آپ آقا بھی تھے۔ لیکن باوجود ان تمام باتوں کے آپ کی حالت یہ تھی کہ ایک دفعہ آپ نے اپنی ایک بیوی کو ایک راز کی بات بتائی اور حکم دیا کہ کسی اَور کو نہ بتانا لیکن انہوں نے اپنی بعض سہیلیوں سے جو کہ رسول کریم ﷺ کی بیویوں میں سے ہی تھیں اس بات کا ذکر کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً بتا دیا کہ آپ کی اس بیوی نے وہ راز آپ کی بعض دوسری بیویوں کو بھی بتا دیا ہے۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے ان کی تنبیہہ کے لئے یہ فیصلہ فرمایا کہ مَیں مسجد میں ہی رہوں گا اور گھر میں بیویوں کے پاس نہیں جاؤں گا۔ آپؐ نے مسجد میں خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا۔1 آپؐ کے حکم پر مسجد میں آپؐ کے لئے خیمہ لگا دیا گیا او رآپؐ اُسی میں رہنے لگے۔ مکہ والے اپنی بیویوں سے نرمی کا سلوک نہیں کیا کرتے تھے بلکہ جس طرح پنجابی عورتوں کی درستی کا ایک ہی علاج جانتے ہیں کہ ڈنڈا لیا اور مار مار کر سیدھا کر دیا۔ اسی طرح مکہ والے بیویوں سے سختی سے پیش آتے تھے اور ان کی عورتوں کو یہ جرٔات نہیں ہوتی تھی کہ کسی بات میں مشورہ دے سکیں یا مرد کے سامنے بول سکیں۔ مدینہ میں مکہ کی نسبت کسی حد تک عورتوں کو زیادہ آزادی تھی۔ گو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے ذریعہ جو آزادی عورتوں کو دلائی وہ اس پہلی آزادی سے بہت بڑھ کر ہے۔ بہرحال مدینے کی عورتیں کبھی کبھار اپنے مردوں کے سامنے بول لیتی تھیں لیکن مکہ والوں میں ابھی وہی سختی باقی تھی۔ جب رسول کریم ﷺ نے مسجد میں ڈیرا لگا لیا تو صحابہؓ میں چہ میگوئیاں ہونی شروع ہو گئیں کہ آپؐ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ چنانچہ ایک صحابیؓ گھبرائے ہوئے حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے۔ حضرت عمرؓ مدینہ سے دو تین میل باہر ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں اُن دنوں ہمیں گزارے کی تنگی تھی اِس لئے ہم لوگ روزانہ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں حاضر نہ ہو سکتے تھے بلکہ ہم نے باریاں مقرر کی ہوئی تھیں۔ ایک ساتھی جاتا اور وہ سارا دن رسول کریم ﷺ کی صحبت میں رہتا اور شام کو واپس آ کر رسول اللہ ﷺ کی مجلس کی ساری باتیں اپنے ساتھی کو سناتا۔ دوسرے دن وہ کام کرتا اور اس کا وہ ساتھی جو پہلے دن نہیں گیا تھا رسول کریم ﷺ کی مجلس میں جاتا ، آپؐ کی باتیں سنتا اور شام کو واپس آ کر تمام باتیں اپنے ساتھی کو سناتا۔ جس دن یہ واقعہ ہؤا اس دن حضرت عمرؓ کے ساتھی کی باری تھی۔ جب وہ مدینہ سے واپس گئے تو اُنہوں نے حضرت عمرؓ سے کہا۔ عمر! تجھے پتہ ہے کہ مدینہ میں کیا ہو گیا ہے؟ حضرت عمرؓ نے پوچھا کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا رسول کریم ﷺ نے اپنی تمام بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ اُن کی یہ بات سن کر حضرت عمرؓ بہت گھبرائے کیونکہ رسول کریم ﷺ کے نکاح میں حضرت عمرؓ کی بیٹی حفصہؓ بھی تھیں۔ حضرت عمرؓ مدینہ گئے اور جاتے ہی حضرت حفصہؓ کے گھر میں داخل ہوئے۔ جب پہنچے تو حضرت حفصہؓ بیٹھی رو رہی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے جاتے ہی حضرت حفصہؓ سے کہا۔ بیوقوف! کیامَیں تمہیں منع نہیں کیا کرتا تھا کہ تم رسول اللہ ﷺ کا ادب کیا کرو او رتم عائشہؓ کی نقلیں نہ کیا کرو۔ عائشہؓ کا مقام اَور ہے اور تمہارا مقام اَور ہے۔ لیکن تم نے میری بات نہ مانی اور اب نتیجہ نکل آیا۔ پھر حضرت حفصہؓ سے پوچھا کہ کیا یہ بات سچ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے سب بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ حضرت حفصہؓ نے کہا۔ نہیں طلاق تو نہیں دی البتہ ناراض ہوکر چلے گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ وہاں سے نکلے اور رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اندر آنے کی اجازت مانگی۔ رسول کریم ﷺ نے آپ کو اندر آنے کی اجازت دی تو آپ اندر داخل ہوئے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں جب مَیں اندر گیا تو آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے اور چٹائی کُھردری تھی۔ میرے جانے پر آپؐ اٹھ کر بیٹھ گئے مگر حالت یہ تھی کہ تمام جسم پر چٹائی کے نشان پڑے ہوئے تھے۔ مَیں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! آرام اور آسائش کے تمام سامان قیصر و کسریٰ کے پاس ہیں اور وہ اپنے زندگی کے دن نہایت تعیُّش اور آرام کے ساتھ بسرکر رہے ہیں اور آپؐ کے لئے آرام کا کوئی سامان نہیں۔ آپؐ کے لئے یہ چٹائی ہے جس کے نشان آپ کے تمام جسم پر پڑ گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں مَیں نے یہ بات جان بوجھ کر کہی تاکہ اگر آپؐ کی طبیعت میں کوئی غصہ ہو تو وہ دور ہو جائے۔ میری بات پر آپؐ ہنس پڑے۔ مَیں نے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! کیا یہ صحیح ہے کہ آپ نے اپنی تمام بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپؐ نے فرمایا نہیں طلاق تو نہیں دی۔ پھر حضرت عمرؓ نے عرض کیا۔ یَا رَسُوْلَ اللہ! مَیں تو حفصہؓ کوسمجھاتا رہتا ہوں کہ تم عائشہ کی نقلیں نہ کیا کرو او رآپ کا بہت ادب و احترام کیا کرو۔ پھر کہا یَا رَسُوْلَ اللہ!آپ سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ہم مکہ والوں کے سامنے ہماری بیویاں بولتی نہ تھیں۔ ایک دن کسی بات پر میری بیوی مجھے مشورہ دینے لگی تو مَیں نے اسے کہا تُو اپنی حیثیت تو دیکھ۔ تیرا کیا کام ہے کہ تُو مجھے مشورہ دے۔ لیکن ہماری عورتوں کو بھی آہستہ آہستہ مدینے کی عورتوں نے خراب کر دیا۔ ایک دن مَیں بات کر رہا تھا کہ میری بیوی نے مجھے کسی معاملہ کے متعلق مشورہ دینے کی کوشش کی۔ جب مَیں نے اُسے روکا تو اُس نے مجھے جواب دیا کہ رسول اللہ کے گھر میں ان کی بیویاں آپؐ کو مشورہ دیتی ہیں تو تم کون ہو ہمیں روکنے والے؟ اس طرح حضرت عمرؓ نے نہایت لطیف پیرایہ میں اس طرف اشارہ کیا کہ آپؐ نے ہی عورتوں کو آزادی دی ہے۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو وہ معافی کی حقدار ہیں۔2 مگر باوجود ان تمام باتوں کے رسول کریم ﷺ نے عورتوں کے حقوق کی نہایت اعلیٰ طور پر حفاظت کی۔ یہاں تک کہ آپؐ نے اپنی آخری تقریر میں بھی یہی وصیت کی کہ عورتوں سے حسنِ سلوک سے پیش آنا 3اور اپنے غلاموں کو اپنے بھائیوں کی طرح رکھنا او ران سے ایسا کام نہ لینا جو ان کی طاقت سے باہر ہو۔4
بہرحال اسلام نے عورتوں کے حقوق کی جتنی حفاظت کی ہے کسی اَور مذہب نے نہیں کی۔ لیکن چونکہ انسان ایک ایسا مرکّب وجود ہے جس میں مختلف قسم کی عادات اور خواہشات موجود ہوتی ہیں اس لئے میاں بیوی میں کبھی نہ کبھی اختلاف بھی پیدا ہو جاتا ہے اور ان کے تعلقات ایک ہی حال پر نہیں رہ سکتے۔ اگر یہ اختلاف بہت شدت کا رنگ پکڑ لے تو ایسے مواقع کے لئے اسلام کا حکم ہے کہ مرد عورت کو طلاق دے دے یا عورت مرد سے خلع کرا لے۔ لیکن طلاق اور خلع سے پہلے کچھ احکام بیان کئے ہیں جن کو مدنظر رکھنا مرد، عورت اور قاضیوں کا فرض قرار دیا ہے تاکہ طلاق یا خلع عام نہ ہو جائے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اِنَّ اَبْغَضَ الْحَلَالِ عِنْدَ اللہِ الطَّلَاقُ 5یعنی حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک طلاق ہے۔ جب طلاق حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے تو ایک مومن جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہے وہ اس چیز کے کس طرح قریب جا سکتا ہے جس کے متعلق وہ سمجھتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ ہر کام جو جائز ہے ضروری نہیں کہ اسے کیا بھی جائے۔ تم میں سے ہر ایک شخص جانتا ہے کہ بنارس، کلکتہ، مدراس یا بمبئی جانا حلال ہے لیکن کتنے ہیں جو ان جگہوں میں گئے ہیں؟ اگر حلال کے یہی معنے ہیں کہ اسے ضرور کیا جائے تو پھر تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ جن لوگوں کے پاس ان شہروں میں جانے کے لئے روپیہ نہ تھا وہ اپنی جائیدادیں بیچ ڈالتے اور اس حلال کام کو ضرور سر انجام دیتے۔ لیکن لوگوں کا اس پر عمل نہ کرنا بتاتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو بات حلال ہے ضروری نہیں کہ اس پر عمل کیا جائے۔ جگہ ، مناسب موقع اور محلّ کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ اگر ایک حلال کام کے کرنے سے ناپسندیدگی کے سامان پیدا ہوتے ہیں تو اس کام سے بہرحال اجتناب کیا جائے گا۔ مثلاً پیاز کھانا حلال ہے لیکن مسجد میں پیاز کھا کر جانامنع ہے کیونکہ وہاں لوگوں کو اس کی بُو سے تکلیف ہوتی ہے۔ اسی طرح انسان کے لئے یہ حلال ہے کہ وہ سبز رنگ کا کپڑا پہنے یا اُودے 6رنگ کا کپڑا پہنے یا زرد رنگ کا کپڑا پہنے۔ اگر کسی کا دوست کہے کہ یہ زرد رنگ کا کپڑا خرید لو تو وہ کہتا ہے۔ مجھے زرد رنگ اچھا نہیں لگتا۔ اب اس کے نزدیک حلال وہ چیز ہے جو اس کی پسند کے مطابق اور اس کی طبیعت کو اچھی لگتی ہے۔ کھانے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ حلال اور طیب چیزیں کھاؤ۔ لیکن بعض لوگ بینگن نہیں کھاتے۔ بعض لوگ کدو کو پسند نہیں کرتے۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ آپ بینگن کیوں نہیں کھاتے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں پسند نہیں۔ یا دوسرے شخص سے پوچھا جائے کہ آپ کدو کیوں نہیں کھاتے؟ تو وہ کہتا ہے میری بیوی اس کو ناپسند کرتی ہے۔ اسی طرح جب لوگ مکان تیار کرتے ہیں تو اپنے مذاق اور اپنی طبیعت کے مطابق بناتے ہیں ۔ کوئی ایک منزلہ مکان بناتا ہے، کوئی دو منزلہ اور کوئی سہ منزلہ۔ کوئی مکان میں باغیچہ لگانا پسند کرتا ہے اور کوئی بغیر باغیچہ کے۔ اب یہ ساری چیزیں حلال ہوتی ہیں لیکن وہ سب پر عمل نہیں کرتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ ہر حلال بات پر عمل کرنا ضروری نہیں لیکن جب بیوی کو طلاق دینے کا معاملہ پیش آ جائے تو یہ کہتے ہوئے کہ بیوی کو طلاق دینا جائز ہے۔ فوراً بے سوچے سمجھے طلاق دے دی جاتی ہے حالانکہ بعض حلال چیزیں انسان اپنے نفس کی خاطر ، بعض اپنے دوستوں کی خاطر اور بعض سوسائٹی کی خاطر ہمیشہ چھوڑتا رہتا ہے۔ درحقیقت ایسے موقع پر ایک مومن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اس حلال کو خدا کی خاطر چھوڑ دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ چونکہ یہ کام میرے خدا کو پسند نہیں اِس لئے مَیں یہ کام نہیں کرتا تا میرا خدا مجھ پر ناراض نہ ہو۔
پس رُشد اور ہدایت یہ نہیں کہ طلاق کو عام کیا جائے بلکہ رشد اور ہدایت یہ ہے کہ طلاق سے بچنے کی کوشش کی جائے۔ حلال کے معنے یہ ہیں کہ چاہو تو کر سکتے ہو۔ قانون کے لحاظ سے منع نہیں۔ لیکن تمہیں دوسروں کے خیالات، دوسروں کے جذبات، دوسروں کی ہمدردی اور دوسروں کے پیار کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے۔ جس حلال پر عمل کرنے سے دوسروں کے خیالات، دوسروں کے جذبات، دوسروں کی ہمدردی اور دوسروں کے پیار کا خون ہوتا ہو، وہ حلال نہیں بلکہ ایسا حلال ایک جہت سے حلال ہے اور دوسری جہت سے حرام ہے۔ جب لوگ اپنے دوستوں کی ناراضگی، سوسائٹی کی ناراضگی اور قوم کی ناراضگی کا خیال رکھتے ہیں تو کیا خدا تعالیٰ کی ناراضگی ہی ایسی چیز ہے جس سے انسان کو بے پروا ہونا چاہئے؟ کیا خدا تعالیٰ کا وجود ہی ایسا کمزور ہے کہ جس کی ناراضگی انسان کے لئے قابل اعتناء نہیں؟ جب دنیوی اور سفلی عشق رکھنے والے لوگ اپنے محبوب کی چھوٹی سے چھوٹی خفگی سے ڈرتے ہیں اور اس کو ناراض ہونے کا موقع نہیں دیتے۔ تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مومن جس نے ایمان کی حلاوت پائی ہو وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے انتہائی طور پر خائف نہ ہو۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ اور حضرت ابو بکرؓ کی کسی بات پر تکرار ہو گئی ۔ یہ تکرار بڑھ گئی۔ حضرت عمرؓ کی طبیعت تیز تھی اِس لئے حضرت ابو بکرؓ نے مناسب سمجھا کہ وہ اس جگہ سے چلے جائیں تاکہ جھگڑا خوامخواہ زیادہ نہ ہو جائے۔ حضرت ابو بکرؓ نے جانے کی کوشش کی تو حضرت عمرؓ نے آگے بڑھ کر حضرت ابو بکرؓ کا کُرتہ پکڑ لیا کہ میری بات کا جواب دے کر جاؤ۔ جب حضرت ابو بکرؓ اس کو چُھڑا کر جانے لگے تو آپ کا کُرتہ پھٹ گیا۔ آپ وہاں سے اپنے گھر کو چلے آئے۔ لیکن حضرت عمرؓ کو شبہ پیدا ہؤا کہ حضرت ابو بکرؓ رسول کریم ﷺ کے پاس میری شکایت کرنے گئے ہیں۔ وہ بھی پیچھے پیچھے چل پڑے تاکہ مَیں بھی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں اپنا عذر پیش کر سکوں لیکن راستے میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ حضرت عمرؓ یہی سمجھے کہ آپ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں شکایت کرنے گئے ہیں۔ وہ بھی سیدھے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں جا پہنچے۔ وہاں جا کر دیکھا تو حضرت ابو بکرؓ موجود نہ تھے لیکن چونکہ ان کے دل میں ندامت پیدا ہو چکی تھی اِس لئے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! مجھ سے غلطی ہوئی کہ مَیں ابوبکرؓ سے سختی سے پیش آیا ہوں۔ حضرت ابو بکرؓ کا کوئی قصور نہیں۔ میرا ہی قصور ہے۔ جب حضرت عمرؓ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت ابو بکرؓ کو جا کر کسی نے بتایاکہ حضرت عمرؓ رسول کریم ﷺ کے پاس آپ کی شکایت کرنے گئے ہیں۔حضرت ابو بکرؓ کے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ مجھے بھی اپنی براءت کے لئے جانا چاہئے تاکہ یکطرفہ بات نہ ہو جائے اور مَیں بھی اپنا نقطہ نگاہ پیش کر سکوں۔ جب حضرت ابو بکرؓ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں پہنچے تو حضرت عمرؓ عرض کر رہے تھے کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! مجھ سے غلطی ہوئی کہ مَیں نے ابو بکرؓ سے تکرار کی او ران کا کُرتہ مجھ سے پھٹ گیا۔ جب رسول کریم ﷺ نے یہ بات سُنی تو غصہ کے آثار آپ کے چہرہ پر ظاہر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا اے لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ جب ساری دنیا میرا انکار کرتی تھی اور تم لوگ بھی میرے مخالف تھے اس وقت ابو بکرؓ ہی تھا جو مجھ پر ایمان لایا اور ہر رنگ میں اس نے میری مدد کی۔ پھر افسردگی کے ساتھ فرمایا کیا اب بھی تم مجھے اور ابو بکرؓ کو نہیں چھوڑتے؟ آپ یہ فرما رہے تھے کہ حضرت ابو بکرؓ داخل ہوئے۔ یہ ہوتا ہے سچے عشق کا نمونہ کہ بجائے یہ عذر کرنے کےکہ یَا رَسُوْلَ اللہ! میرا قصور نہ تھا عمرؓ کا قصور تھا آپؓ نے جب دیکھا کہ رسول کریم ﷺ کے دل میں خفگی پیدا ہو رہی ہے، آپ سچے عاشق کی حیثیت سے یہ برداشت نہ کر سکے کہ میری وجہ سے رسول کریم ﷺ کو تکلیف ہو۔ آتے ہی رسول کریم ﷺ کے سامنے گُھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! عمرؓ کا قصور نہیں تھا میرا قصور تھا۔7 دیکھو حضرت ابو بکرؓ کس قدر سچے عاشق تھے کہ آپ یہ برداشت نہ کر سکے کہ آپ کے معشوق کے دل کو تکلیف ہو۔ آپ یہ دیکھ کرکہ رسول کریم ﷺ حضرت عمرؓ پر ناراض ہوئے ہیں، خوش نہیں ہوئے۔ عام طور پر لوگوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ جب وہ اپنے مد مقابل کو جھاڑ پڑتی دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ خوب جھاڑ پڑی لیکن اس سچے عاشق نے یہ پسند نہ کیا کہ رسول کریم ﷺ کے دل کو تکلیف ہو۔ خواہ کسی وجہ سے ہو۔ آپ نے کہا مَیں مجرم بن جاتا ہوں لیکن مَیں اپنے معشوق کا دل رنجیدہ نہیں ہونے دوں گا۔ اور نہایت لجاجت سے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! عمرؓ کا قصور نہیں میرا قصور ہے۔ اگر حضرت ابو بکرؓ رسول کریم ﷺ کے دل کے ملال کو دور کرنے کی خاطر مظلوم ہونے کے باوجود ظالم ہونے کا اقرار کرتے ہیں تا آپ کے دل کو تکلیف نہ پہنچے۔ تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مومن بندہ اپنے خدا کی خوشنودی کے لئے وہ کام نہ کرے جو اسے خدا تعالیٰ کی رضا کے قریب کر دے۔ بے شک رسول کریم ﷺ ہمیں بہت پیارے ہیں اور ہم خدا تعالیٰ کے بعد کسی سے اتنی محبت کرنے کو تیار نہیں۔ لیکن پھر بھی خدا خدا ہے اور رسول کریم ﷺ رسول کریم ﷺ ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ آپ کا بہت بلند مرتبہ ہے جو کسی اَور انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس کے باوجود آپ عبد ہیں اور اللہ تعالیٰ معبود ہے۔ آپ مخلوق ہیں اور اللہ تعالیٰ خالق ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے احسانات کے نیچے ہیں اور اللہ تعالیٰ محسن ہے، آپ فانی تھے اور اللہ تعالیٰ غیر فانی اور ازلی ابدی ہے۔ آپؐ اللہ تعالیٰ کے محتاج تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کی حاجتوں کو پورا کرنے والا ہے۔ آپ کمزور تھے اور اللہ تعالیٰ بے انتہاء طاقتوں کا مالک ہے۔ پس جب حضرت ابو بکرؓ کا دل رسول کریم ﷺ کا ملال دیکھ کر تڑپ جاتا ہے تو ایک مومن رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث پڑھ کر یا سن کر کہ اِنَّ اَبْغَضَ الْحَلَالِ عِنْد اللہِ الطَّلَاقُ کس طرح آسانی سے جرأت کر سکتا ہے کہ اس کی خلاف ورزی کرے۔ جب شریعت کہتی ہے کہ تم اس اَبْغضُ الْحَلَالِ کو اختیار کرنے سے پرہیز کرو۔ تو ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ ایسے امور میں کمی پیدا کرنے کی کوشش کرے اور اس بات کو میاں بیوی کے تعلقات کی کشیدگی کے وقت بھول نہ جائے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ طلاق اور خلع درحقیقت ایک ہی معنے رکھتے ہیں۔ اگر مرد عورت کو چھوڑتا ہے تو وہ طلاق کہلائے گی۔ اور اگر عورت ہی اس سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اسے آزاد کر ے تو وہ خلع کہلائے گا اور خلع بھی اَبْغَضُ الْحَلَالِ کے ماتحت ہی آئے گا۔ جہاں تک انسانی حقوق کا سوال ہے طلاق اور خلع دونوں ہی مسلمانوں کے اندر سے تلف ہو چکے تھے اور مسلمان اس پر کسی صورت میں بھی عمل کرنے کو تیار نہ ہوتے تھے۔ جس کی وجہ سے عورتوں کے لئے از حد مشکلات کا سامنا تھا۔ احمدیت نے ان دونوں حقوق کو قائم کیا اور عورتوں کو ان تکالیف سے نجات دی جو ان حقوق کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کو پہنچتی تھیں۔ اور ساتھ ہی اس حدیث کے مضمون کو بھی لوگوں کے سامنے بوضاحت بیان کیا اور بتایا کہ ان دونوں رستوں کو اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اَبْغَضَ الْحَلَالِ ہے۔ لیکن چونکہ یہ حق ابھی نیا نیا حاصل ہؤا ہے اورہمارے ملک میں یہ رواج ہے کہ ہر نئے حق کو لوگ خوب استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں اِسی وجہ سے ہماری جماعت نے ان دونوں رستوں کے اختیار کرنے میں جلد بازی سے کام لیاہے اور جماعت کا ایک حصہ طلاق اور خلع کی طرف مائل ہے حالانکہ قرآن کریم کا یہ حکم ہے کہ جب میاں بیوی میں کوئی جھگڑا پیدا ہو جائے تو اس کو دور کرنے کے لئے حَکم مقرر کئے جائیں۔ جو کوشش کریں کہ ان کی رنجش دور ہو جائے اور وہ پہلے کی طرح پیار اور محبت کی زندگی بسر کرنے لگیں۔ لیکن اگر ایسے ہی حالات پیدا ہو جائیں کہ صلح کی صورت نہ ہو سکے تو پھر خلع کی صورت میں قاضی کے سپرد یہ معاملہ کیا جائے اور وہ اس کا فیصلہ کرے۔ یونہی ذرا ذرا سی بات پر خلع اور طلاق تک نوبت پہنچا دینا نہایت ہی افسوسناک امر ہے۔ اور یہ اتنا بھیانک اور ناپسندیدہ طریق ہے کہ ہر شریف آدمی کو اس سے نفرت ہونی چاہئے۔ میاں بیوی کا اتحاد معمولی اتحاد نہیں اور میاں بیوی کے تعلقات معمولی تعلقات نہیں۔ میاں بیوی کے تعلقات ایسے ہیں کہ باپ بیٹے کے تعلقات بھی ایسے نہیں۔ مرد اپنے جسم کے وہ حصے جن کو وہ اپنےباپ اور اپنی ماں کے سامنے بھی ظاہر نہیں کر سکتا اپنی عورت کے سامنے ظاہر کر دیتا ہے۔ اسی طرح عورت اپنے وہ اجزا جن کا دیکھنا اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر حلال نہیں اپنے خاوند پر ظاہر کر دیتی ہے۔ اس قسم کے تعلقات کے بعد اگر ایک مرد اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے یا عورت خلع کرانا چاہتی ہے تو اُن دونوں نے میاں بیوی کے تعلقات کی حقیقت کو نہیں سمجھا۔ ان کے نزدیک یہ ایک کھیل ہے جو کھیلا گیا۔ ایک عورت جو خلع کرانا چاہتی ہے یا ایک مرد جو اپنی بیوی کو طلاق دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے۔ ان دونوں نے اسلامی تعلیم کو ایک تمسخر سمجھا ہے۔ وہ عورت جو خلع کرانا چاہتی ہے آخر خلع کیوں کرائے گی؟ اسی لئے کہ وہ کسی اَور مرد سے شادی کرے۔ گویا دوسرے الفاظ میں اس کا یہ مفہوم ہو گا کہ وہ اپنے آپ کو منڈی میں بیچنا چاہتی ہے حالانکہ اسلام نے اس کی بہت بڑی عزت قائم کی ہے۔ اور وہ مرد جو طلاق دے کر عورت کی عزت کو برباد کرنا چاہتا ہے غیر مسلم لوگوں سے بھی اخلاق میں پیچھے ہے کیونکہ ہر سوسائٹی میں اور ہر مذہب اور ہر طبقہ میں خواہ وہ مہذب ہو یا غیر مہذب، متمدن ہو یا غیر متمدن، عورت کی عزت کو تسلیم کیا گیا ہے اور اسے ایک مقدس وجود قرار دیا گیا ہے۔ پس اگر ایک مرد بلاوجہ اپنی عورت کو طلاق دیتا ہے تو وہ غیر مسلم لوگوں سے بھی اخلاق میں پیچھے سمجھا جائے گا۔ اور اگر کوئی عورت بِلا وجہ خلع لینا چاہتی ہے تو اس نے بجائے اپنی عزت کرانے کے اپنے آپ کو بازار میں بیچنے کا ارادہ کیا اور اپنے مقدس مقام کو وہ بھول گئی ہے۔ پس وہ تمام لوگ جو ان چیزوں کی اہمیت کو نہیں سمجھتے وہ قومی اخلاق کو برباد کرنے والے ہیں۔ جماعت کا فرض ہے کہ وہ طلاق اور خلع کے خراب نتائج پر زور دے اور اس کو عام ہونے سے روکے۔ میرے پاس بعض مقدمات آتے ہیں تو مجھے حیرت آتی ہے کہ کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کو لوگ انشقاق کا موجب بنا لیتے ہیں۔ مرد کہتا ہے کہ میری بیوی جاتے ہوئے ایک ٹرنک ساتھ لے گئی ہے اور بیوی کہتی ہے کہ انہوں نے میری مُرکیاں لے لی ہیں واپس نہیں کرتے۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے تعلقات کو خراب کرنا عقلمندوں کا کام نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک اگر بیوی میں کوئی غلطی ہے تو اُس کی اخلاقی اصلاح کرنی چاہئے لیکن اسے چھوڑ دینے پر آمادہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہیڈ ماسٹر لڑکوں کو سبق دیتا ہے ۔ کیا جو لڑکے سبق یاد نہیں کرتے اُنہیں سکول سے نکال دیتا ہے؟ اِسی طرح انسانوں میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں، کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں، کمزوریاں بھی ہوتی ہیں لیکن مومن کا کام ہے کہ اُن کو دور کرنے کی کوشش کرے اور وہ جنس جسے اللہ تعالیٰ نے مقدس بنایا ہے اسے بازار میں بکنے والی جنس نہ بنا دے۔
پس مَیں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اسے ایسے جھگڑے نہایت سنجیدگی کے ساتھ سلجھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور مَیں قاضیوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں ایسے معاملات میں نہایت احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ مَیں حیران ہوں کہ قاضیوں نے بھی ان معاملات کو محض ایک تمسخر سمجھ لیا ہے، مقدمات کو لمبا کرتے چلے جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اصلاح کی صورت پیدا ہو، وقت کے زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ دلوں میں شکوک و شبہات بھی زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔ مَیں قاضیوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ ایسے معاملات میں وہ کسی فریق کے وکیل کو قریب بھی نہ آنے دیں اور وہ بجائے قاضی کے باپ بننے کی کوشش کریں اور لڑکے کو اپنا بیٹا سمجھیں اور لڑکی کو اپنی بیٹی سمجھیں۔ جس طرح باپ اپنے بچوں کو سمجھاتا ہے اسی رنگ میں ان کو سمجھائیں اور شریعت کے مسائل انہیں بتائیں اور انہیں طلاق اور خلع کے نقصانات بتائیں کہ اس کے عام ہونے سے قوم کے اخلاق گر جاتے ہیں۔ جن کی اولاد موجود ہو گی جب وہ بڑے ہوں گے تو اُن پر کیا اثر پڑے گا کہ ہمارے ماں باپ نے معمولی سی بات پر جدائی اختیار کر لی تھی اور وہ اپنے ماں باپ سے کونسا نیک نمونہ حاصل کریں گے اور ایسی اولاد کیسے ترقی حاصل کر سکتی ہے۔ پس یہ چیزیں اخلاق کو سنوارنے والی نہیں بلکہ اخلاق کو بگاڑنے والی ہیں۔ جماعت کو ان کی اہمیت سمجھنی چاہئے کیونکہ میرے نزدیک یہ اہم امور سے بھی بالا چیز ہے۔ جب بھی قاضی کے پاس کوئی ایسا معاملہ پیش ہو اس کا دل کانپ جانا چاہئے کہ کہیں مَیں کوئی ایسا فیصلہ نہ کر دوں جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو۔ اور اسے معاملہ کے تمام پہلوؤں پر غور کر کے فیصلہ کرنا چاہئے اور یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جب کوئی ایسا جھگڑا ہو جائے تو نہ مرد کے ماں باپ اور نہ ہی عورت کے ماں باپ اس میں دخل دینے کی کوشش کریں اور وہ قاضی پر پورا اعتماد رکھیں۔ اگر انہیں فیصلہ میں کوئی سقم معلوم ہو تو وہ ہمیں لکھ سکتے ہیں۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ اس فیصلہ میں واقع میں کوئی سُقم موجود ہے یا نہیں۔ اس طرح آہستہ آہستہ قاضیوں کی بھی عقل تیز ہو جائے گی۔
شادی کے بعد ماں باپ کے حقوق ختم نہیں ہو جاتے بلکہ شادی کے بعد بھی ماں باپ کے حقوق اولاد پر ہوتے ہیں۔ اگر ایک عورت ایسی ہے کہ اس کے پاس سوائے ایک لڑکی کے اَور کوئی بچہ نہیں جو اس کی خدمت کر سکے۔ جب وہ اس لڑکی کی شادی کر دیتی ہے تو اب اس کے داماد کا فرض ہے کہ یا تو اس لڑکی کو اپنی ماں کی خدمت کا موقع دے اور اسے اس کے پاس رہنے دے۔یا اگر وہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ اس کی بوڑھی والدہ کا بھی بوجھ اٹھائے۔ کیونکہ اصل میں یہ بوجھ اس کی بیوی کے ذمہ تھا۔ لیکن جب وہ یہ چاہتا ہے کہ میری بیوی میرے ساتھ رہے تو اسے اپنی ساس کا بوجھ بھی اٹھانا چاہئے۔ اسی طرح اگر لڑکے کے والدین بوڑھے ہیں اور انہیں خدمت کی ضرورت ہے تو لڑکی کا فرض ہے کہ ان کی خدمت کرے اور ان سے نرمی کے ساتھ پیش آئے۔ یہ ذمہ داریاں میاں بیوی دونوں پر عائد ہوتی ہیں۔ بعض لوگ ایسے موقع پر اپنے اخراجات کی تنگی کا عذر پیش کرتے ہیں لیکن میرے نزدیک یہ عذر اپنے اندر کوئی معقولیت نہیں رکھتا۔ میرا یہ تجربہ ہے کہ غریبوں کے گھروں میں اکثر بچے زیادہ ہوتے ہیں۔ آخر وہ بھی اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ میرے پاس غرباء کی جو درخواستیں غلّے کے لئے آئیں ان میں سے اکثر آدمی ایسے تھے جن کے چھ سات سے آٹھ نو بچے تھے۔ مَیں حیران ہؤا کہ جو بھی درخواست کرتا ہے اسی کے آٹھ نو بچے ہوتے ہیں۔ مَیں یہ سمجھا کہ یہ لوگ مبالغہ سے کام لیتے ہیں لیکن ج