خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 5
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
پیش لفظ
یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ فضل عمر فائوندیشن احباب جماعت کی خدمت میں خطبات محمود جلد پنجم پیش کرنے کی توفیق پارہا ہے۔ زیر نظر جلد ۱۹۱۶ ء اور ۱۹۱۷ء کے خطباتِ جمعہ پر مشتمل ہے۔
حضرت مصلح موعود کے خطبا ت علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘ پر شاہد ناطق ہیں۔ حضرت مصلح موعود کا دَورِ خلافت جو کم و بیش ۵۲ سال پر محیط ہے ایک تاریخ سازدَورتھا۔ اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی تعلیم وتربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ یہ جماعت کا ایک نہایت ہی قیمتی سرمایہ ہے جسے فضل عمر فائونڈیشن نے یکجا کر کے کتابی صورت میں محفوظ کرنے کا بیڑہ اُٹھا رکھا ہے۔
خطبات کی چار جلدیں پہلے چھپ چکی ہیں۔ اس کے بعد بوجوہ حسب پروگرام طباعت کا تسلسل قائم نہ رہ سکا جس کے لئے ادارہ معذرت خواہ ہے۔ آئندہ پوری کوشش کی جائے گی کہ یہ سلسلہ جاری رہے اور یہ روحانی مائدہ جماعت کے دوستوں کے ہاتھوں میں برابر پہنچتا رہے۔
یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ ابتداء میں خطبات لکھنے کے لئے باقاعدہ زود نویس یا کوئی اورجماعتی انتظام نہیں تھا۔ بعض احباب اپنے شوق اور عقیدت سے خطبات لکھ کر چھپواتے رہے اِس وجہ سے ممکن ہے بعض مقامات پر بات اُس طرح واضح نہ ہوئی ہوجس طرح واضح ہونی چاہئے یا جس طرح حضور نے واضح فرمائی ہو۔
جو خطبات باوجود تلاش کے اخبارات ورسائل میں نہیں مل سکے اُن کے لئے ہم دوستوں کو دعوتِ عام دیتے ہیں۔ا گر ان کی نظر میں کوئی خطبہ آئے تو ہمیں آگاہ فرمائیں تا اگلی جلد یا آئندہ ایڈیشن میں اس کو بھی شامل کر لیا جائے۔
اِس جلد کی تیاری اور کتابت وغیرہ کا بیشتر کام مکرم بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) اقبال احمد صاحب شمیم کی نگرانی میں ہوا جنہوں نے بطور سیکرٹری فضل عمر فائونڈیشن بڑے ہی خلوص سے خدماتِ دینیہ سرا نجام دیں۔ مرحوم نے ریٹائرمنٹ کے بعد بہت تھوڑے عرصہ کے لئے اپنی خدمات پیش کی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بہت لمبا عرصہ بڑی بے لوث خدمات بجالانے کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اُن سے رحمت و مغفرت کا سلوک فرمائے اور بلند درجات سے نوازے۔ آمین
مکرم برادرم ملک یوسف سلیم صاحب شاہد ایم ۔ اے انچارج شعبہ زود نویسی اور برادرم مکرم حبیب الرحمن صاحب زیروی اسسٹنٹ لائبریرین خلافت لائبریری بھی خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے Missing خطبات کی تلاش میں بڑی محنت سے کام لے کر ادارہ کی گراں قدر معاونت فرمائی۔
اِس جلد کی ترتیب و حواشی کا ابتدائی کام مکرم مولانا نور الحق صاحب انور (مرحوم) نے سرانجام دیا اور بعد میں حوالہ جات پر نظر ثانی کا کام برادرم مکرم ظہیر احمد خان صاحب مربی سلسلہ نے بہت محنت سے انجام دیا۔مکرم عبدالباسط صاحب شاہد اور مکرم سلطان احمد صاحب شاہد (مربیان سلسلہ) نے بھی اِس جلد کی تیاری میں بہت مفید مشوروں سے نوازا اور ان کی ماہرانہ رائے اور تجربہ سے بھی خاکسار نے بہت فائدہ اُٹھایا۔
خاکسار ان سب دوستوں اور بزرگوں کا دلی شکریہ ادا کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ ان کے علم اور فضل میں برکت ڈالے اور بے انتہا فضلوں اور رحمتوں سے نوازتا رہے۔ آمین
والسلام
خاکسار
ناصر احمد شمس
سیکرٹری فضل عمر فائونڈیشن
۱
اسراف سے بچو
(فرمودہ ۷؍ جنوری ۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:۔
۱؎
اِس کے بعد فرمایا:۔
’’یہ چندآیات جو میں نے اِس وقت پڑھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمن کی تعریف بیان فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ وہ یوں کیا کرتے ہیں۔ یوں تو بہت سے لوگ ہیں جو بڑے شوق سے اپنے لڑکے کا نام عبدالرحمن رکھتے ہیں اور بہت ہیں کہ جب ان سے پوچھا جائے کہ کون ہو؟ تو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ’’ہم اللہ کے بندے ہیں‘‘ اور لوگوں کے دعویٰ کرنے کو چھوڑد وواقعہ میں بھی سب لوگ خدا ہی کے بندے ہیں اور جتنی بھی چیزیں دنیا کی ہیں خواہ وہ انسان ہیں یاحیوان، چرند یا پرند،سب خدا ہی کے بندے ہیں کیونکہ وہ کونسی چیز ہے جو خدا کے سوا کسی اور نے پیدا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی سب کوپیدا کیا ہے پس اس لحاظ سے سب خدا ہی کے بندے ہیں۔ پھر اِس لحاظ سے کہ خدا ہی سب کو قائم رکھنے والا ہے اور اسی کے اختیار میں ہر ایک جاندار اور بے جان کا قائم رکھنا ہے، اسی کے بندے ہیں۔ پھر اس لحاظ سے بھی کہ ہرایک چیز خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کی فرمانبرداری کرتی ہے۔ گو خدا کو بھی بعض لوگ نہیں مانتے مگر جو اس کے قوانین ہیں ان سے ذرہ بھر نکلنا بھی کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کی بھی طاقت میں نہیں ہے۔ مثلاً آنکھوں سے دیکھنا اور کانوں سے سننا خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اب یہ کوئی نہیں کر سکتا کہ آنکھوں سے سننے کا کام لے اور کانوں سے دیکھنے کا۔ تو خدا کے قانون سے کوئی نہیں نکل سکتا اس لئے بھی سب عبادُالرحمن ہیں۔ لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بار بار فرمایا ہے کہ عبادُالرحمن بن جائو۔ چنانچہ پاک روحوں کے لئے فرماتا ہے ۲؎ میرے بندوں میں داخل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی وہ خدا تعالیٰ کے بندے تھے کیونکہ خدا ہی نے ان کو پیدا کیا تھا خدا ہی ان کا رازق تھا، خدا ہی ان کا مالک تھا، خدا ہی ان کو قائم رکھتا تھا۔ پھر جو فرمایا تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا بندہ ہونا دو رنگ میں ہوتا ہے۔غرض ایک لحاظ سے توتمام انسان خدا کے بندے ہیں لیکن ایک لحاظ سے بعض بندے ہوتے ہیں اور بعض نہیں ہوتے۔ اس لحاظ سے تو خدا کے بندے وہ کہلاتے ہیں جو اس کے تمام احکام کی فرمانبرداری اور اطاعت کرتے ہیں۔ اور جو نہیں کرتے وہ اس لحاظ خدا کے بندے نہیں ہوتے بلکہ شیطان کے بندے ہوتے ہیں، اپنے نفس کے بندے ہوتے ہیں اور انسانوں کے بندے ہوتے ہیں۔
اِن آیات میں خدا تعالیٰ نے عبادا لرحمن کی تعریف فرمائی ہے اور یہاں وہی لوگ مراد ہیں جن کا ذکر میں ہے اور یہاں عبد سے مراد عابد ہے۔ غرض ان آیات میں عبادُالرحمن کی کچھ باتیں خدا تعالیٰ نے بتائی ہیں کہ جن میں وہ پائی جائیں وہ عبادُالرحمن ہوتے ہیں۔ ا ِس وقت میری غرض ان میں سے ایک بات کو بیان کرنا ہے جو سب سے آخری آیت میں بیان فرمائی ہے۔ خدا تعالیٰ نے عبا دالرحمن کی ایک تعریف یہ فرمائی ہے کہ جب وہ انفاق یعنی خرچ کرتے ہیں تو یہ دو باتیں ان کے مدنظر ہوتی ہیں۔ اوّل یہ کہ خرچ کرنے میں اسراف نہیں کرتے۔ دوئم بخل نہیں کرتے۔ مال کو جمع نہیں کرتے۔ قتر کے معنی مال کے جوڑنے اور جمع کرنے کے ہیں۔ قاتر وہ جومال کو جمع کرتے رہتے ہیں۔ جمع کرنے سے ہی بخل کے معنی لئے گئے۔ کیونکہ انسان مال جمع تبھی کر سکتا ہے جب خرچ نہ کرے اور اسی کو بخیل کہتے ہیں پس قاتر کے اصل معنی یہ ہیں کہ جو مال جمع کرے اوران لوگوں پر خرچ نہ کرے جن پر خرچ کرنا اس کے ذمہ ہے۔
اس آیت میں خرچ نہ کرنے والے کی نسبت خدا تعالیٰ نے کیا عجیب لفظ رکھا ہے یہ نہیں فرمایا کہ وہ جو اپنے رشتہ داروں اور محتاجوں وغیرہ پر خرچ نہیں کرتا وہ بُرا ہے کیونکہ جس کے پاس مال نہ ہووہ بھی تو خرچ نہیں کرتا ،پھرکیا وہ خدا کے بندوں سے نکل جائے گا؟مثلاً ایک شخص خود بھوکا ہے اس سے کوئی محتاج آکر مانگتا ہے کہ مجھے کھانے کو دو لیکن وہ کچھ نہیں دیتا تو کیا ایسا آدمی بھی خدا کے حضور بخیل ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ نہیں۔ ہاں ایک ایسا شخص جس کے پاس دینے کے لئے ہے مگر نہیں دیتا وہ بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک ملزم ہے ۔تو یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ عبدالرحمن وہ نہیں ہوتا جو خرچ نہیںکرتا بلکہ قتر کا لفظ رکھا جس کے معنے ہیں مال جمع کرنے کے۔ اور قاتر اُس کو کہتے ہیں جو مال جمع کرے اور رشتہ داروں، مسکینوں اور محتاجوں پر خرچ نہ کرے۔ پس اِس ایک ہی لفظ میں یہ بھی بتا دیا کہ جس کے پاس مال نہ ہو اُس پر کوئی اعتراض نہیںاعتراض صرف اُس پر ہے جس کے پاس مال ہے اور وہ بجائے حاجت مندوں پر خرچ کرنے کے اُسے جوڑتا ہے۔ اِسی طرح اِس لفظ کے ذریعہ سے یہ بھی بتا دیا کہ خالی مال جوڑنا منع نہیں بلکہ اگر کسی شخص کے پاس اس قدر مال ہو کہ وہ ان لوگوں پر خرچ کرنے کے بعد جن کا خرچ اس کے ذمہ ہے اور غرباء کی مدد کرنے کے بعد بھی مالدار ہے تو اُس کامال جمع کرنا گناہ نہیں۔ خیر اِس جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی عبدالرحمن بننا چاہے تو اس کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے وقت دو باتوں کا لحاظ کرے۔ اوّل یہ کہ وہ اپنے مال میں اسراف نہ کرے۔ اس کا کھانا صرف تکلف اور مزے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ قوت، طاقت اور بدن کو قائم رکھنے کیلئے ہوتا ہے اس کا پہننا آرائش کیلئے نہیں ہوتا بلکہ بدن کو ڈھانکنے اور خدا تعالیٰ نے جواُسے حیثیت دی ہوتی ہے اس کے محفوظ رکھنے کے لئے ہوتا ہے۔ چنانچہ صحابہؓ کا طرزِ عمل بتاتا ہے کہ وہ اسی طرح کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ ایک دفعہ شام کو تشریف لے گئے تو وہاں بعض صحابہ نے ریشمی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ (ریشمی کپڑوں سے مراد وہ کپڑے ہیں جن میںکسی قدرریشم تھا ورنہ خالص ریشم کے کپڑے سوائے کسی بیماری کے پہننے مردوں کو منع ہیں) آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اِن لوگوں پر خاک پھینکو ۔اور ان سے کہو کہ تم اب ایسے آسائش پسند ہو گئے ہو کہ ریشمی کپڑے پہنتے ہو۔ اس پر ان میں سے ایک نے اپنا کرتا اٹھا کر دکھایا تو معلوم ہواکہ اس نے نیچے موٹی اون کا سخت کرتا پہنا ہوا تھا۔ اس نے حضرت عمر کو بتایا کہ ہم نے ریشمی کپڑے اس لئے نہیں پہنے کہ ہم اِن کو پسند کرتے ہیںبلکہ اِس لئے کہ اِس ملک کے لوگوں کی طرز ہی ایسی ہے اور یہ پچپن سے ایسے امراء کو دیکھنے کے عادی ہیں جو نہایت شان وشوکت سے رہتے تھے۔ پس ہم نے بھی ان کی رعایت سے اپنے لباسوںکو ملکی سیاست کے طور پر بدلا ہے ورنہ ہم پر ان کا کوئی اثر نہیں۔۳؎ پس صحابہ کا عمل بتاتا ہے کہ اسراف سے کیا مراد ہے۔ اس سے یہی مراد ہے کہ مال ایسی اشیاء پر نہ خرچ کرے جن کی ضرورت نہیں اور جن کا مدعا صرف آرائش و زیبائش ہو۔
غرض خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ عبادالرحمن وہ ہوتے ہیں جو اپنے مالوں میں اسراف نہ کرتے ہوں۔ وہ اپنے مالوں کو ریاء اور دکھاوے کیلئے خرچ نہ کرتے ہوں بلکہ فائدہ اور نفع کیلئے صَرف کرتے ہوں۔ پھر اپنے مالوں کو ایسی جگہ دینے سے نہ روکیں جہاں دینا ضروری ہو اور ان کا قوام ہو یعنی درمیانی ہو۔ نہ اپنے مالوں کو اِس طرح لٹائیںجواللہ تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت نہ ہو اور نہ اِس طرح روکیں کہ جائز حقوق کو بھی ادا نہ کریں۔ یہ دو شرطیں عبادالرحمن کیلئے مال خرچ کرنے کے متعلق ہیںلیکن بہت لوگ ہیں جو یا تو اسراف کی طرف چلے جاتے ہیں یا بخل کی طرف۔
اِسراف کی مرض اِس زمانہ میں بہت بڑھی ہوئی ہے۔ بخل کی مرض بھی ہے مگر یہ مسلمانوں میں کم ہے اور آجکل تو مسلمان کی تعریف اور علامت ہی یہی مقرر کی گئی ہے کہ جو کچھ اس کے پاس آتا ہو کھا پی جائے اور جس قدر مال اُس کے پاس ہو سب خرچ کر دے۔ بخل ہنود کی طرف منسوب کیا جاتا ہے مگر مسلمان وہی سمجھا جاتا ہے جو دین و دنیا کے لئے کچھ نہ بچائے اور سب کچھ کھا جائے لیکن کیا اُلٹ بات ہے۔ ادھر قرآن کریم تو کہتا ہے کہ مسلم وہ ہے جو اسراف نہ کرے مگر آجکل مسلمان وہ سمجھا جاتا ہے جو سب کچھ بیچ کر کھا جائے جتنا کوئی زیادہ اسراف کرے اتنا ہی ولی اللہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن وہ ہوتا ہے جو کبھی اسراف نہیں کرتا۔ مگر اِس زمانہ میں بہت لوگ ایسے ہیں کہ جتنی انکی آمدنی نہیں ہوتی اس سے زیادہ خرچ کر دیتے ہیں اور بہت ایسے ہیں جب ان کوکہا جائے کہ تم اپنی بیوی بچوں کو کیوں خرچ نہیں دیتے تو کہہ دیتے ہیں کہ تنخواہ تھوڑی ہے ہم شریف آدمی ہیںاپنے اخراجات چلائیں یا ان کو دیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اسی کا نام شرافت ہے تو پندرہ کروڑتنخواہ والا بھی بیوی بچوں کے لئے کچھ نہیں بچا سکتا کیونکہ یورپ نے عیش و عشرت کے سامان اس کثرت سے پیدا کردیئے ہیں کہ جس قدر بھی روپیہ ہو بہت جلدی صَرف ہوجاتا ہے لیکن وہ لوگ جو بیوی بچوں کے لئے خرچ کرنے والے ہوتے ہیں وہ تو دس دس اور پندرہ پندرہ روپے کے ملازم ہو کر بھی کرتے ہیں اور جو نہیں کرنا چاہتے وہ سینکڑوں روپیہ کی آمدنی کے ہوتے ہوئے بھی نہیں کرتے اور دوسرے ہی فضول اخراجات میں روپیہ کو ضائع کر دیتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص کو اپنے باپ کی بہت سی دولت مل گئی اُس نے اپنے دوستوں اور آشنائوں کو بلا کر پوچھا کہ مجھے دولت کو خرچ کرنے کا طریق بتائو۔ کسی نے کچھ بتایا، کسی نے کچھ بتایا لیکن اُسے کوئی پسند نہ آیا۔ ایک دن وہ بازار سے گزر رہا تھا کہ بزاز کے کپڑے پھاڑنے کی اُسے آواز آئی جس کو اس نے بہت پسند کیا اور اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ میرے سامنے کپڑے کے تھان لا کر پھاڑاکرو۔ اِس طرح اُس نے کپڑے پھڑوانے شروع کئے اور چرچر کی آواز سننے لگااور ہزار ہاروپیہ اس پر خرچ کر دیا ۔تو خرچ کرنے کے لئے تو وہ بھی کہتا تھا کہ کپڑے کے پھٹنے کی بڑی مزیدار آواز ہے جو کانوں کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہے لیکن کیا یہ بھی کوئی خرچ کرنا تھا۔ پس کسی مال کو ناجائز اور فضول طور پر خرچ کرناکوئی بھی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر کسی کے پاس کروڑوں کروڑ روپیہ بھی ہو تو وہ بھی سب کچھ خرچ کر کے کنگال اور نادار بن سکتا ہے اور ایسا اکثر دنیا میں ہوتا ہے۔ ہاں روپیہ کا جائز طور پر اور ٹھکانے پر خرچ کرنا مشکل ہے اور بہت مشکل ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا یہ قول ہے کہ روپیہ کمانا آسان ہے مگر خرچ کرنا بہت مشکل ہے۔ واقعہ میں یہ بہت ہی سچا قول ہے۔ دنیا میں بہت لوگ ہیں جو بہت بہت روپیہ کماتے ہیں لیکن اُنہیں خرچ کرنا نہیں آتا اس لئے کنگال ہی رہتے ہیں اور بہت ایسے ہیں جو کم کماتے ہیں مگر چونکہ اُنہیں خرچ کرنا آتا ہے اس لئے آسودہ رہتے ہیں۔
غرض مسلمانوں میں یہ ایک بہت بڑی مرض ہے اور یہ مرض یہاں بھی بعض لوگوں میں ہے یہاں ایک شخص نے لڑکوں کے افسر کو کہا تھا کہ میرا لڑکا جو خرچ کرنے کے لئے مانگے اُسے دے دینا اور دکانداروں کو بھی کہہ گیا کہ کوئی چیز مانگے تو دے دینا۔ اس لڑکے نے بیس روپیہ کی ایک مہینہ میں فرنی وغیرہ ہی کھا لی۔ اِس قسم کے بہت سے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ لڑکے بہت زیادہ فضول خرچی کرتے ہیں۔ شاید دکاندار ایسے لڑکوں کے ساتھ یہ برادرانہ محبت سمجھ کر کرتے ہوں مگر میں تو کہتا ہوں یہ برادران یوسف کاسلوک ہے وہ بھی اپنے بھائی کو بیچ کرکھا گئے تھے اور اس قسم کے لوگ بھی بیچ کر کھا جانا چاہتے ہیں اور کوئی محبت اور برادرانہ ہمدردی نہیں کرتے۔ برادرانہ سلوک تو یہ ہے کہ کھانے والوں کو مفت دیں اور ان سے کچھ نہ لیں۔ لیکن اس طرح کرنا کہ پہلے دیتے جانا اور پھر قیمت لینے کے لئے اس کے پیچھے پڑنا کوئی ہمدردی نہیں ہے ۔گو بعض لوگ جو غریب ہیں اُنہیں اُدھار لینا پڑتا ہے اور انہیں دینا چاہئے لیکن ایسی صورت میں جبکہ ان کے گھر آٹا نہ ہو اور وہ فاقہ کشی کر رہے ہوں یا کپڑا نہ ہو اور سخت حاجتمند ہوںیا اور کوئی ایسی ہی ضروری بات ہو ایسا دیا ہوا قرض اگر ادا نہ کر سکے تو دوسرے ادا کرنے کی طرف توجہ کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی کسی کو مٹھائی کھلاوے اور پھر ایسے قرض کے لئے چارہ جو ہو تو کسی کو کیا ضرورت ہے کہ اُس کا قرض ادا کرے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسراف نہ کرو۔ اس لیے اسراف کرنا اور اسراف کرنے والے کی مدد کرنا دونوں گناہ ہیں۔ مثلاً جیسا شراب پینے والا گنہ گار ہے ایسا ہی پلانے والا بھی گنہ گار ہے۔جو دکاندار قرض پر مٹھائی دے کر دوسرے کو مسرف بناتا ہے وہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے خود مٹھائی کھلائی ہے۔ اس شخص نے مانگی میں نے دے دی۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ میں نے خنزیر خود نہیںکھایا بلکہ اَور کو کھلایا ہے تو کیا کھلانے والا بدتر نہیں ہوگا؟ ضرور ہو گا۔
میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگوں میں ابھی تک اسراف کی مرض چلی آتی ہے لیکن یہ لطف کی بات ہے کہ اسراف کرنے والوں کا پتہ دیر سے معلوم ہوتا ہے مگر بخل کرنے والے پر بہت جلدی آواز ے کسے جاتے ہیں۔ اسراف کرنے والے کے ساتھی پہلے پہلے اسے کوئی ہدایت نہیں کرتے لیکن جب وہ تباہ ہو چکتا ہے تو وہ بھی کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ اس نے احتیاط نہیںکی۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اب جو تم یہ کہتے ہو پہلے اس کے ساتھ کیوں شامل ہوتے تھے۔ ایسی باتوں پر بولنے کی مجھے تو عادت نہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل تو عام طور پر کہہ دیا کرتے تھے لیکن میں انتظار کرتا ہوں اور کرنے والے کو کسی رنگ میں سمجھا دیتا ہوں ۔پھر انتظار کرتا ہوں شاید بعض لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ مجھے اُن کے حالات کا پتہ نہیں لیکن خدا کے فضل سے مجھے ان کی نسبت اِتنا پتہ ہوتا ہے کہ اگر اُنہیں اِس کا پتہ ہو جائے تو حیران ہو جائیں۔ بہت لوگ ہیں جن کی عادتیں جتنی مجھے معلوم ہیں اُتنی اُنہیں خود بھی نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے معاملات میں خاموش رہا کرتے تھے یہی بات مجھے پسند آئی ہے اِس لئے میں اِسی کی پیروی کرتا ہوں۔
پس تم لوگوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ خود اسراف سے بچو اور دوسروں کو بچائو۔ حضرت خلیفۃ المسیح ہمیشہ فرماتے تھے کہ ایسی چیزیں جن کاانسان محتاج نہیںمثلاً مٹھائی وغیرہ کسی کو قرض نہیں دینی چاہئے لیکن اب تک بعض لوگوں کو نصیحت نہیں حاصل ہوئی۔ اب میں کہتا ہوں کہ اگر ایسا آدمی ہے جو مصیبت میں ہے تو اُسے قرض بے شک دو یہ اچھا کام ہے۔ مثلاً کوئی آٹے والا ہے یہ کسی غریب اور مفلس کو آٹا قرض دیتا ہے تو وہ قابل تعریف ہے کیونکہ وہ اپنے بھائی کی مددکرتا ہے اسی طرح اگر کوئی کپڑے والا کسی ایسے آدمی کو کپڑا قرض دیتا ہے جو کمانے والا ہے تو وہ قابل شکریہ ہے اس کا قرضہ اگر وہ ادا نہ سکے تو دوسروں کا فرض ہے کہ اُس کی جگہ ادا کردیں۔ اِسی طرح اگر کوئی اور ضروری چیز قرض دیتا ہے تو اچھا کرتا ہے۔ لیکن ایسی اشیاء جیسے مٹھائی اور دودھ ہے قرض دینا دوسرے کو اسراف کی عادت ڈالنا ہے۔ ایسا مت کرو کیونکہ اِس کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلتا۔ اور وہ جو اسراف کراتا اور دوسرے پر بوجھ لادتا ہے وہ بھی اچھا نہیںکرتا۔
خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو اسراف اور بخل دونوں سے بچائے اور ان کے درمیانی راستہ پر چلنے کی توفیق دے۔‘‘ اٰمِیْنَ یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۔ (الفضل ۲؍ فروری ۱۹۱۶ئ)
۱؎ الفرقان: ۶۲ تا ۶۸ ۲؎ الفجر: ۳۰ ،۳۱
۳؎ طبری جلد۴ صفحہ۴۳۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء
۲
صفاتِ الٰہیہ کو نہ سمجھنے سے تمام خرابیاں پیدا ہوتی ہیں
(فرمودہ ۱۴؍ جنوری ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اورسورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
؎۱
پھر فرمایا:۔
اِس آیت کریمہ میں جو میں نے ابھی پڑھی ہے اسلام کے سِوا باقی جس قدر مذاہب ہیں ان کے دو حصے کئے گئے ہیں اور اِن میں سے ایک کا نام ’’اہل کتاب‘‘ رکھا ہے اور دوسرے کا جیسا کہ دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے مشرک نام ۔یعنی جو کسی آسمانی کتاب کو مانتے ہیں انہیں اہل کتاب کہا گیا ہے اور جو کسی کتاب کو نہیں مانتے انہیں مشرکین قرار دیا گیا ہے اور ان دونوں کے ساتھ معاملہ اور برتائو کرنے میں فرق رکھا ہے۔ بعض لوگوں کو اِس فرق سے یہ دھوکا لگا ہے کہ چونکہ قرآن شریف میں بار بار اہل کتاب کے نام سے ایک گروہ کو پکارا گیا ہے اِس لئے انہیں قرآن شریف نے کافر قرار نہیں دیا۔ حالانکہ قرآن شریف کی ان آخری سورتوں سے ہی جن کولوگ نماز میں پڑھنے کیلئے یاد کرتے ہیں اہل کتاب کا کافر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ سورۂ بیّنہ شروع ہی اس طرح سے ہوتی ہے کہ ۲؎ توا ہل کتاب کو بھی کفر کرنے والے قرار دیا گیا ہے۔
تھوڑے ہی دن ہوئے کہ میرے سامنے ایک غیر احمدی کاسوال پیش کیاگیا کہ قرآن شریف تو اہل کتاب کو بھی کافر نہیں کہتا مگر تم لوگ ہم کو کافر کہتے ہو حالانکہ ہم تمہارے بہت قریب ہیں۔ایک مسیحی جو اہل کتاب ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا کہتاہے، قرآن شریف کو جھوٹا مانتا ہے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا نہ صرف فروع میں ہی فرق ہے بلکہ اصول تک میں بھی اختلاف ہے لیکن وہ کافر نہیں تو کیا وجہ ہے کہ غیر احمدی جو نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، حج کرتے ہیں اور اسلام کے اصولوں کے منکر نہیں ہیں۔ اُن کو تم کافر قرار دیتے ہو۔ میرے نزدیک اس کا سوال کم سمجھی کا نتیجہ ہے۔ قرآن مجید صاف طور پر اہل کتاب اور مشرکین دونوں کو کافر قرار دیتا ہے جیسا کہ میں نے ابھی ایک آیت سے بتا یا ہے ہاں ان میں امتیاز کرنے کے لئے ان کے دو نام رکھ دئیے ہیں۔ یعنی ایک اہل کتاب اور دوسرے مشرک۔ پس کافر ہونے کے لحاظ سے ِان دونوں میں کوئی تخصیص نہیں جیسے کافر اہل کتاب ہیں ویسے ہی مشرک بھی ہیں۔ البتہ کافر ہونے کی حالت میں ہی ان کی دو قسمیں کر دی گئی ہیں۔ ہم بھی اسی لحاظ سے غیر احمدیوں کو مشرک کافر نہیں کہتے بلکہ اہل کتاب کافر کہتے ہیں اور جو تخصیص قرآن شریف نے مشرکوں کے مقابلہ میں اہل کتاب سے رکھی ہے وہی ہم غیر احمدیوں سے رکھتے ہیں اور ہم تو خواہ کسی کتاب کے الہامی ماننے والے ہوں اُنہیں بھی اہل کتاب ہی کہتے ہیں۔ غرض کافر تو اہل کتاب ومشرک دونوں ہوتے ہیں لیکن امتیاز کیلئے ان کی الگ الگ شاخیں قرار دے دی گئی ہیں۔ ایک اہل کتاب کافر اور دوسرے مشرک کافر ۔اور ان دونوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں فرق رکھا گیا ہے جو یہ ہے کہ اہل کتاب کی نسبت خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے۔ ان کا تیار کیا ہوا طعام تمہارے واسطے کھانا جائز ہے اور تمہارا پکا ہوا کھانا ان کے لئے اِس سے زیادہ یہ کہ اہل کتاب کا ذبح کھانا بھی جائز ہے۔ اِسی طرح اگرکوئی اہل کتاب اپنی لڑکی کسی مسلمان کو بیاہ دینے کے لئے تیار ہو تو ا س سے نکاح کر لینا جائز ہے لیکن ایک مشرک جس کی تعریف ہے کہ وہ کسی الہامی کتاب کے ماننے کا دعویدار نہ ہو ا ُس کے متعلق یہ باتیں جائز نہیں ہیں۔ یعنی نہ تو ان کے کھانے کوئی مسلمان کھا سکتا ہے اور نہ ان کی لڑکی سے شادی کر سکتا ہے۔ پس یہ فرق ہے اہل کتاب اور مشرکین میں۔
اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ یہ فرق کیوں رکھا گیا ہے کیونکہ اب ایک اورنیا گروہ اہل کتاب کا نکلا ہے یعنی غیر احمدی۔اس لئے ان کی طرف سے یہ سوال ہوتا ہے۔ چنانچہ پہلا سوال کرنے والے نے ہی ایک یہ بھی کیا ہے کہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب کے ساتھ سلوک کرنے میں فرق کیوں رکھا گیا ہے؟برہمو جو کسی کتاب کو نہیں مانتے وہ تو اہل کتاب نہیں ہیں حالانکہ وہ شرک نہیں کرتے اور عیسائی جو اہل کتاب ہیں وہ اتنا بڑا شرک کرتے ہیں کہ جس کی نسبت خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ قریب ہے کہ ان کے اس شرک کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑے لیکن باوجود اس کے وہ تو اہل کتاب ہیں اور برہمو کے مقابلہ میں ان کے ساتھ معاملات میں بڑافرق رکھا گیا ہے۔ میرے نزدیک اِس فرق میں بہت بڑی حکمتیں ہیں جن کے سمجھنے کے لئے پہلے اِس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ سوائے اس مذہب کے جو اپنے وقت کے لوگوں کے لئے خدا کی طرف ہدایت کے لئے مقرر ہوتا ہے باقی سب مذاہب جن کی اصل ہی کوئی نہ ہو یا ابتدا ء میں تو درست ہوں لیکن بعد میں خراب ہو گئے ہوں شرک سے کبھی خالی نہیں ہوتے کیونکہ کوئی مذہب اُسی وقت بگڑتا ہے جب اس کے پیرو ان صفاتِ الٰہیہ کے سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں اور جب صفات الہیہ کے سمجھنے میں نقص پیدا ہو گا تو ساتھ ہی شرک پیدا ہو گا۔ پس کوئی جھوٹا مذہب شرک کی آمیزش سے خالی نہیں ہو سکتا ۔اور جو مذہب شرک کی آمیزش سے بکلی پاک ہے وہ ضرور سچا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ بعض جھوٹے مذاہب میں شرک ظاہر طور پر ہو اور بعض میں مخفی طور پر۔
اب جبکہ یہ بات ثابت ہو گئی کہ شرک تمام جھوٹے مذاہب میں ہوتا ہے اور قرآن کریم سے بھی ثابت ہے کہ مسیحی اور یہودی جن کو نام لے کر اہل کتاب کہا ہے وہ مشرک ہیں جیسا کہ فرمایا کہ۳؎ یہودی کہتے ہیں کہ عزیز اللہ کا بیٹا ہے اور نصارٰی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ پھر اسی ذکر کے ساتھ دوسری آیت میں فرمایا کہ ۴؎ پس قرآن کریم کے نزدیک سوائے اسلام کے سب مذاہب میں شرک ہے اور جس طرح غیر اہل کتاب مشرک ہیں اسی طرح دوسرے لوگ بھی مشرک ہیں ۔ اب یہ سوال پیدا ہو تاہے کہ جب اسلام کے سوا سب ہی مشرک ہیں تو پھر ناموں میں کیوں فرق کیا؟سو اِس کا جواب یہ ہے کہ ناموں میں فرق شناخت کے لئے کیا جاتا ہے کہ ایک جماعت دوسری سے الگ ہو جائے اور پہچانی جائے۔ تمام نام اِسی لئے رکھے جاتے ہیں تا ایک چیز دوسری چیز سے علیحدہ معلوم ہو جائے اور لوگ اسے شناخت کر سکیں چونکہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ ان مذاہب میں جو کسی کتاب کو آسمانی مانتے ہیں اور ان میں جو کسی الہامی کتاب کو نہیں مانتے فرق کیا جائے اور کسی آسمانی کتاب کے ماننے والوں سے بعض نرمیاں کی جائیں۔ اس لئے ان کا ایک الگ نام رکھا تاکہ فوراً اُس نام سے ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ گروہ فلاں فلاں رعایات کا مستحق ہے۔ اور نام میں اُس خصوصیت کو بیان کر دیا جو اُس میں پائی جاتی ہے یعنی اہل کتاب ہونا۔ پس جس طرح انسان حیوانوں میں سے ہی ہے لیکن دوسرے حیوانوں سے فرق کرنے کے لئے اسے انسان کہہ دیتے ہیں یعنی دو اُنس رکھنے والا۔ ایک خدا سے اور ایک بندوں سے اور یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو اور جانوروں میں نہیں پائی جاتی۔ اسی طرح اہل کتاب گو مشرک مذاہب میں سے ہی ہیں لیکن ان کو اہل کتاب اس خصوصیت کے اظہار کے لئے کہا گیا جو اِن کے سِوا دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی۔ اور جس طرح حیوانوں میں سے بعض حیوانوں کو انسان کہنے سے وہ جانداروں کی فہرست سے خارج نہیں ہوجاتے اسی طرح مشرکوں میں سے بعض مشرکوں کو اہل کتاب کہنے سے وہ مشرکوں کی فہرست سے خارج نہیں ہو جاتے۔ ہاں صرف ان کی ایک خصوصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ کیوں اہل کتاب کے ساتھ دوسرے مذاہب کی نسبت نرم معاملہ کا حکم دیا گیا ہے؟ توا س کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کبھی کسی کی ذرا سی نیکی کو ضائع نہیں کرتا اور جس کسی میں جس قدر بھی نیکی ہو گی اُس کا اُسے ضرور بدلہ دیتا ہے۔
اسلام میں ایک سچے مومن کے لئے خدا تعالیٰ نے کچھ نشان مقرر کئے ہوئے ہیں اور وہ یہ کہ وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لائے، فرشتوں ، کتابوں اور نبیوں پر ایمان رکھتا ہو۔ پھر خیرو شر، جزا و سزا، بہشت و دوزخ پر ایمان لاتا ہو لیکن اور کوئی جو اِن باتوں میں سے جس قدر زیادہ کو مانتا ہے اُسی قدر وہ اسلام کے قریب ہوتا ہے اس لئے ایک ایسا شخص جو کسی کتاب کو مانتا ہے بہ نسبت اس کے جو کسی کتاب کو نہیں مانتا اسلام کے قریب ہے کیونکہ ایک انسان جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی کسی کتاب کوبھی نہیں مانتا وہ الہام کا قائل نہیں ہوتا۔ اور جب الہام کاقائل نہیں ہوتا تو انبیاء کا بھی قائل نہیں ہوتاکیونکہ نبی وہی ہوتا ہے جس کو الہام ہوتا ہو۔ لیکن جب الہام ہی نہ ہوا تو کوئی نبی کہاں ہوا اس لئے ایک مشرک صرف خدا تعالیٰ کا قائل ہوتا ہے لیکن اہل کتاب خدا اور نبیوں کا قائل ہوتا ہے۔ یعنی مشرک سے ایک درجہ آگے ہوتا ہے۔ پھر ایسے لوگ جو الہام کے قائل نہیں ہوتے وہ فرشتوں کو بھی نہیں مانتے کیونکہ الہام فرشتہ کے ہی ذریعہ ہوتا ہے۔ پس جو قوم نبیوں کو بھی مانتی ہے اور فرشتوں کو بھی مانتی ہے ضرور ہے کہ اُس کے مقابلہ میں ایک ایسی قوم جو نہ نبیوں کو مانتی ہے اور نہ فرشتوں کو ،کم درجہ رکھتی ہو اور پہلی میں دوسری کی نسبت ایمان کی زیادتی ہو۔ چونکہ خدا تعالیٰ کسی کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا بلکہ جس قدر کسی کا زیادہ ایمان ہوتا ہے اُسی قدر اُسے زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے اس لئے اہل کتاب کو جن میں مشرکین سے زیادہ ایمان ہے اِسی دنیا میں مسلمانوں کے زیادہ قریب رکھ دیا۔ کیونکہ غیر اہل کتاب یعنی مشرکین میں سے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کے قائل نہیں ہوں گے اور اگر خدا تعالیٰ کے قائل نہیں ہوں گے توا لہام کے قائل نہیں ہوںگے اور جب الہام کے قائل نہیں ہوں گے تو انبیاء اور ملائکہ کے بھی نہیں ہوں گے۔ لیکن جو اہل کتاب ہیں خواہ کسی کتاب کے ماننے والے ہیں وہ خدا، نبیوں اور اکثر حصہ فرشتوں کے بھی ضرور قائل ہوں گے۔ بعض ایسے بھی ہیں جو فرشتوں کو نہیں مانتے لیکن بہت کم۔ تو اہل کتاب میں چونکہ مشرکین کی نسبت ایمان کے تین جزو زیادہ ہیں یعنی وہ (۱) نبیوں (۲) کتاب پر اور(۳) ملائکہ پر ایمان لاتے ہیں اِس وجہ سے ان کے ساتھ سلوک میں زیادتی رکھی گئی ہے۔ ان کی لڑکیوں کا نکاح میں لینا اِس لئے جائز رکھا گیا ہے تاکہ اس طرح ان کے ساتھ مودّت اور پیار بڑھے کیونکہ جس کی لڑکی کسی کے ہاں آئے گی ضرور ہے کہ اُس کے تعلقات بھی اس سے بڑھیں ۔اِس سلوک کے ذریعہ اہل کتاب کے ساتھ خدا تعالیٰ نے تمدنی اور معاشرتی تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔ اسی طرح کھانا کھا نا ہے جب کوئی کسی کے ہاں کھانا کھائے گا تو ضرور ہے کہ ان کی آپس میں محبت اور اُلفت بڑھے اور ان کے دنیاوی تعلقات مضبوط ہوں۔ پس ایک وجہ تو اہل کتاب کے ساتھ خصوصیت سے سلوک کرنے کی یہ ہے اور دوسری یہ کہ وہ انسان جو خداتعالیٰ کا توقائل ہے لیکن کسی بات کو نہیں مانتااس کے اعمال کی کوئی حدبندی نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ کہتا ہے کہ سب کام اپنی عقل کے مطابق کرنے چاہئیں۔ اگر اُس کی عقل میں چوری کرنا ناجائز ہے تو ناجائز ہے لیکن اگر اسکی عقل اس کے جائز ہونے کا فتویٰ دیتی ہے تواس کے لئے جائز ہے کیونکہ وہ آپ ہی خدا ہوتا ہے اور آپ ہی اچھی بُری چیز کا فیصلہ کرتا ہے۔ مثلاً اگر بیٹھے بیٹھے اس کے خیال میں یہ بات آجائے کہ فلاں آدمی کو قتل کر دینا ایک بہت عمدہ بات ہے تواب اُس کے لئے اُس کے قتل کے جواز کا فتویٰ مل گیا کیونکہ کوئی شریعت اُس کے لئے نہیں ہے جو اسے اس بات سے روکے اور اسکی حد بندی کرے ۔لیکن اگر کوئی کسی کتاب کے ماننے والا ہو تو اس کے یہ کہنے پر کہ میں فلاں کتاب کو مانتا ہوں فوراً پتہ لگ جائے گا کہ اس کے خیالات کیا اور کسی حد کے اندر ہونگے ۔ اور اگر کوئی کسی کتاب کو بھی نہ مانتا ہو تو اس کے خیالات کا بالکل کوئی پتہ نہیں لگے گا۔ اسلام چونکہ ایسی باتوں کو سخت ناپسند کرتا ہے جن میں کوئی حد بندی نہ ہو اور نہیں چاہتا کہ مسلمان ایسے لوگوں سے تعلق رکھیں جن کے حالات اور خیالات کا انہیں پتہ نہ ہو اِس لئے اس قسم کے لوگوں کے ساتھ اسلام نے تعلق رکھنے کی اجازت نہیں دی۔ ہاں جن لوگوں نے اپنے آپ کو کسی کتاب کے ماتحت کر دیا ہے اور اس کتاب کے ذریعہ ان کے خیالات کی حدبندی ہو گئی ہے ان سے اجازت دے دی ہے ۔کیونکہ ایک یہودی، ایک عیسائی اور ہندو کے خیالات اور حالات کا دائرہ معلوم ہوتا ہے اور آسانی سے اِس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی ہر ایک بات اس دائرہ کے اندر اندر ہو گی۔ لیکن ایک ایسا شخص جو کسی کتاب کا قائل ہی نہیںاس کے خیالات کے دائرہ کا کوئی علم نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے لئے کوئی دائرہ مقرر نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر وقت خود نیا دائرہ تجویز کرتا ہے اور ایسا شخص معاملات میں بہت خطرناک ہوتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ بعض لوگ کہہ دیں گے ایک مسلمان کہلانے والا بھی اپنے دائرے کو اس قدر وسیع کرتا ہے کہ سب کچھ ہی اس کے اندر آجاتا ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ ایسا شاذونادر ہوتا ہے ورنہ اکثر ایک مذہب کے ماننے والے کا حال اس کے اپنے اقرار سے معلوم ہو جاتا ہے اور ایسے شخص کی بدیاں بھی محدود ہی ہوتی ہیں ۔تو اسلام نے اِس بات کو مدنظر رکھ کر اہل کتاب کے ساتھ تو اس قسم کے تعلقات رکھنے کی اجازت دے دی ہے لیکن غیر اہل کتاب کے ساتھ نہیں دی اگر کوئی مسلمان ایک عیسائی یا یہودی یا ہندو عورت سے شادی کرتا ہے تو وہ اس کی نسبت جانتا ہے کہ یہ کچھ اس کے خیالات ہوں گے اور اس طرح کرے گی۔ مثلاً یہ کہ ان مذاہب میں جھوٹ بولنا ناجائز ہے اِس لئے اگر وہ اپنے مذہب کی پابند ہو گی تو اس سے پرہیز کرے گی۔ لیکن اگر کوئی دہریہ یا برہمو عورت ہو اور وہ جھوٹ بولے تو اُس کا مذہب اُسے اِس سے نہیں روکے گا کیونکہ درحقیقت اُس کا مذہب اُس کی اپنی عقل ہے اور وہ پہلے بنائے ہوئے قواعد کو اپنے ذہنی خیالات سے ہر وقت توڑ سکتی ہے اور نئے اصول تجویز کر سکتی ہے۔
پس چونکہ ہر ایک اہل کتاب کے خیالات اور حالات کا دائرہ معلوم ہوجاتا ہے اِس لئے ان کے ساتھ تعلق رکھنے کی اسلام نے اجازت دے دی ہے لیکن غیر اہل کتاب کا چونکہ معلوم نہیں ہوتا اس لئے اُن کے ساتھ تعلق رکھنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ ان سے تعلقات رکھنے سے خطرناک نقصانات کا احتمال ہے اور اسلام ایسی بات کے کرنے سے روکتا ہے جس میں نقصان زیادہ اور نفع کم ہو۔ چونکہ اِس میں نقصان زیادہ ہے اِس لئے اِس سے روک دیااوریہ اسلام کی مسلمانوں پر ایک بہت بڑی رحمت ہے۔ تو یہ دووجوہات ہیں جن کیلئے اہل کتاب کا حق غیر اہل کتاب کی نسبت زیادہ رکھا گیا ہے اور ان کے ساتھ سلوک کرنے میں یہ فرق قرار دے دیا ہے۔
اِسی کے متعلق ایک اور سوال اس شخص نے کیا ہے اور وہ یہ کہ جب قرآن شریف نے اہل کتاب اور غیر اہل کتاب میں اِس لئے فرق رکھا ہے کہ اِن کی ایمانیات میں فرق ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہندوئوں ، یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ سلوک کرنے میں بھی فرق نہیں رکھا گیا کیونکہ ایمانیات کے لحاظ سے توان میں بھی ایک دوسرے سے فرق ہے۔ عیسائی یہودیوں کی نسبت اور یہودی ہندوئوں کی نسبت اسلام سے قریب ہیں اور پھر غیر احمدی ان سب کی نسبت احمدیوں کے قریب ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان کے ساتھ بھی اِسی لحاظ سے سلوک میں فرق نہیں رکھا گیا؟ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے یہ سوال اِس لئے کیا ہے کہ اس نے دنیا کے معاملات اور خداتعالیٰ کے افعال پر غور نہیں کیا۔ اصل بات یہ ہے کہ سہولت اور کام کے چلانے کے لئے کچھ دائرے اور حدود مقرر کی جاتی ہیں اور گو ان دائروں کے اندر آنے والے افراد میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے لیکن وہ سب اسی ایک ہی دائرہ میں سمجھے جاتے ہیں۔ مثلاً آدمیوں اور گدھوں میں امتیاز کے لئے ایک حد مقرر ہے مگر آدمیوں میں بھی بعض گدھے ہوتے ہیں۔ چنانچہ بعض بیوقوفوں کو لوگ گدھے کہتے ہیں لیکن اگر کہیں بہت سے آدمی بیٹھے ہوں اور ان میں ہی کچھ ایسے لو گ بھی ہوں جن کو گدھے کہا جاتا ہے تو ان سب کو گننے والا انسان گدھوں کو بھی انہیں میں شمار کرے گا نہ کہ انہیں گدھے قرار دے کر ان سے خارج سمجھے گا۔ اسی طرح ہر ایک چیز میں ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی دو چیزیں ایک جیسی نہیں ہو سکتیں اور کوئی د و چیزیں بالکل ایک ہی رنگ کی ،ایک ہی شکل کی، ایک ہی قدوقامت کی نہیں ہو سکتیں۔ ایک ہی اخلاق اور ایک ہی طبیعت کے دو آدمی نہیں ہو سکتے۔ پھر ایک ہی شکل ،ایک ہی آواز کے دو آدمی نہیں مل سکتے ضرور کچھ نہ کچھ ان میں فرق ہو گا۔ پس اگر فرق کے لحاظ سے ہر ایک انسان اور ہر ایک چیز کا نام الگ الگ قرار دیا جاتا تو نہ معلوم کس قدر ان کے نام ہو جاتے جس سے انتظامِ دنیا میں بہت سی ابتری پھیل جاتی۔ پھر کوئی دو کافر اور دو مومن اعمال کے لحاظ سے ایک دوسرے کے بالکل برابر نہیں ہو سکتے اس لئے ہر ایک کے لئے الگ الگ نام ہونا چاہئے تھا۔ پھر عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوئوں میں تو ایک دوسرے سے بڑا ہی فرق ہے اس لئے ان میں سے ہر ایک کا بھی علیحدہ نام ہوتا۔ پھر اسلام کے فروعات کے لحاظ سے ہر ایک مسلمان میں فرق ہو گا اِس لئے ہر ایک کے ساتھ سلوک اور تعلق کے لئے الگ الگ قاعدہ قرآن شریف میں بتایا جاتا لیکن اِس کے لئے موجودہ قرآن شریف کیا اگر اس سے کروڑ گنا بھی زیادہ ہوتا تو بھی اس میں یہ سب باتیں نہ آسکتیں کہ فلاں کے ساتھ فلاں سلوک کیا جائے اور فلاں کے ساتھ فلاں۔ تویہ کہنا کم فہمی کا نتیجہ ہے۔
دنیا میں ہی دیکھ لو ہر ایک قسم کے لئے ایک حد بندی ہوتی ہے اور باوجود اس کے افراد کے اختلاف کے سب کو اسی میں سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً سکول کے لڑکے ایک ہی امتحان دیتے ہیں لیکن ان کے لئے الگ الگ ڈویژن مقرر ہوتے ہیں اور پھر ان ڈویژنوں میں پاس ہونے والے لڑکوں میں بھی فرق ہوتا ہے۔ مثلاً فرض کر لو کہ تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونے والوں کے لئے یہ حد ہے کہ جو ایک سَو سے دو سَو تک نمبر حاصل کرے وہ اس ڈویژن میں پاس ہو گا۔ اب جو لڑکے ۱۰۱یا ۱۰۲ یا ۱۰۴ اور اسی طرح دو سَو تک نمبر لیں گے وہ سب تھرڈ ڈویژن میں ہی پاس ہونے والے سمجھے جائیں گے نہ کہ ہر ایک کے فرق کے لحاظ سے اس کا الگ ڈویژن مقرر ہو گا۔ (چونکہ سوال کرنے والا ایک طالب علم ہے اِس لئے میں نے یہی مثال دی ہے) اسی طرح الٰہی قانون ہے۔ خدا تعالیٰ نے تمام انسانوں کا نام انسان رکھا ہے حالانکہ اِن میں ایک دوسرے سے ضرور کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے۔ہاں کچھ فرق بڑے ہوتے ہیں اور کچھ چھوٹے ۔ خدا تعالیٰ نے بڑے فرقوں کے لحاظ سے الگ الگ نام رکھ دیا ہے۔ پس اِس لحاظ سے سب اہل کتاب کا ایک ہی نام ہے۔ باقی رہی ہر ایک کی حالت سو اِس کے مطابق اس سے سلوک ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایسا اہل کتاب ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نکالتا ہے یا قرآن شریف کی بے ادبی کرتا ہے تو کبھی کوئی سچا مسلمان یہ پسند نہیں کرے گا کہ اُس کی لڑکی اپنے نکاح میں لے لے۔ یااُس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھائے۔ اِس قسم کا سلوک ہر ایک کی حالت کے مطابق ہو گا۔ لیکن اسلام نے ایک اصول کے رنگ میں ان میں اور غیر اہل کتاب میں فرق رکھ دیا ہے۔ ایک غیراحمدی اور ایک مسیحی میں بلحاظ اس کے کہ وہ بھی نبیوں کو مانتا ہے اور ایک عیسائی بھی نبیوں کو مانتا ہے کوئی فرق نہیں ہے۔ ہاں انبیاء کے افراد کا خیال کریں تو فرق معلوم ہوتا ہے۔ یعنی ایک عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مسیح موعود دونوں کو نہیں مانتا اور ایک غیر احمدی صرف حضرت مسیح موعود کو نہیں مانتا اس لئے کچھ فرق تو ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک کسی گروہ کا نام رکھنا بڑے فرق کی وجہ سے ہوتا ہے اور اگر چھوٹے چھوٹے فرقوں پر بھی نام رکھے جائیں تو دنیا کا کوئی کام بھی نہ چلے اور اہل دنیا کے لئے یہ ایک بہت ضرر دِہ بات ہو اور خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ضرر دینے والی بات نہیں آتی۔ پھر مسلمانوں میں ہی کئی فرقے ہیں لیکن سب مسلمان ہی کہلاتے ہیںیہ کوئی نہیں کہتا کہ ان کے نام الگ الگ کیوں نہیں رکھے گئے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر اِس طرح نام رکھے جاتے تو کام ہی نہ چلتا۔ اصل بات یہ ہے کہ بڑے بڑے اختلاف کی وجہ سے نام رکھے جاتے ہیں اور اگر اِس معترض کو بُرا لگتا ہے کہ کوئی اسے حق سے دور کیوں قرار دیتا ہے تو ہم کہتے ہیںکہ ہم کب چاہتے ہیں کوئی حق سے دور ہو ہم بھی تو یہی چاہتے ہیں کہ سب لوگ حق کو قبول کر لیں اور ہم میں مل جائیں۔ پس جسے یہ بات بُری لگتی ہے اسے چاہئے کہ وہ حق کو قبول کرلے۔ پھر اُسے کبھی ہم حق سے دور نہ کہیں گے۔ہمیں کسی کو کافر کہنے کا شوق نہیں ہاں اگر کوئی اپنے اعمال سے کافر بنتا ہے تو بنے۔ لیکن اگر ہم غیر احمدیوں کے نزدیک جھوٹے ہیں اور کسی کو کافر کہتے ہیں تو اُسے بُرا کیوں لگتا ہے۔دیکھو عیسائی ہمیں کافر کہتے ہیں لیکن ہم اُن کے اِس کہنے سے نہیں چڑتے کیونکہ ہم اُنہیں سچا نہیں سمجھتے۔ پس اگر غیر احمدی ہمارے کافر کہنے سے چڑتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہم کو سچا سمجھتے ہیں۔ ہم ان کو کہتے ہیں کہ جب وہی اسلام ہے جو ہمارے پاس ہے تو تم اِسے قبول کر لو۔ پھر ہم تمہیں کافر نہیں کہیں گے بلکہ اپنا بھائی سمجھیں گے۔
خدا تعالیٰ تمام لوگوں کو توفیق دے کہ وہ سچی راہ کو قبول کریں اور قسم قسم کے فتنوں میں پڑ کر صداقت اور راستی کو نہ چھوڑیں۔ ‘‘ (الفضل ۵؍ فروری ۱۹۱۶ئ)
۱؎ المائدہ: ۶ ۲؎ البینۃ:۲ ۳؎ التوبۃ: ۳۰
۴؎ التوبۃ: ۳۱
۳
دعوت الیٰ اللہ رضائے الٰہی کا موجب ہے
(فرمودہ ۲۸؍ جنوری ۱۹۱۶ئ)
تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت کی:۔
۱؎
اور پھر فرمایا:۔
’’کھوئی ہوئی چیز انسان کو جب ملے وہ بہت خوش ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کی کوئی چیز ڈھونڈ کر لائے تو اُسے ایسی خوشی ہوتی ہے کہ وہ ڈھونڈ کر لانے والے کو انعام دیتا ہے پس کھوئی ہوئی چیز ملنے پر طبعاً خوشی ہوتی ہے۔ حضرت مسیح ناصری نے گناہ کے بخشنے کے متعلق یہ مثال بیان فرمائی ہے کہ ایک شخص تھا اس کے کچھ بیٹے تھے، اُس کا بہت مال تھا، اُس نے وہ مال سب بیٹوں میں تقسیم کر دیا اور کہا کہ جائو کھائو پیو اور اِس روپیہ سے تجارت کرو۔ باقی بیٹے تو مال کما کر لائے مگر ایک نے وہ سب مال کھا پی لیا اور بجائے کما کر لانے کے جو اصل تھا وہ بھی ضائع کر دیا اور آوارہ ہو گیا۔ آخر ایک جگہ جا کر اُس نے ملازمت کر لی۔ ایک دن اُسے خیال آیا کہ میں جو یہاں مصیبت میں پڑا ہوا ہوں اور میری یہ حالت ہو گئی ہے میں اپنے باپ ہی کے پاس کیوں نہ چلا جائوں کیونکہ جیسا میں یہاں کھاتا ہوں ایسا تو میرے باپ کے غلاموں اور ان جانوروں کو بھی مل جاتا ہے جو اُس کے پاس رہتے ہیں۔ جب وہ واپس آیا تو اپنے باپ کے نوکروں کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ ایک نوکر نے جا کر اُس کے باپ کو خبر کی کہ تمہارا جو بیٹا چلا گیا تھا فلاں جگہ شرمندہ ہو کر بیٹھا ہے۔ باپ نے اُسے بلایا۔ جب وہ آیا تو اُس کے باپ نے کہا کہ بکرا لائو میں قربانی کروں۔ اس کے دوسرے بھائیوں نے کہا کہ ہم تو مال کما کر لائے تھے ہمارے لئے تو تُو نے قربانی نہیں کی اور جو مال کما کر نہیں بلکہ ضائع کر کے گھر آیا ہے اس کے لئے تو قربانی کرتا ہے؟ وہ کہنے لگا تم تو زندہ تھے مگر یہ میرے لئے اب زندہ ہوا ہے اِس لئے اِس خوشی میں بکرا کی قربانی کرتا ہوں کیونکہ جو زندہ ہے وہ تو زندہ ہی ہے اُس کا تو غم نہیں مگر جو مر کر زندہ ہوا اِس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ ایسے ہی اگر انسان مال محنت سے کما کر لائے اور وہ گم ہو کرپھر مل جائے تو اسے بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ انسان کے جس قدر جذبات ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے ظل ہیں۔ البتہ اللہ تعالیٰ میں وہ صفات زیادہ شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں اور انسان میں کم۔ جب انسان بھی اپنی کھوئی ہوئی چیز پر انعام دیتا ہے تو اگر خدا تعالیٰ کی کھوئی ہوئی چیز کوئی اس کے پاس ڈھونڈ کر لادے تو وہ تو اُسے یقینا بڑا انعام دے گا۔
مُفْلِحُوْنَ کہہ کر یہ بتایا کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے مذہب کی طرف لانے والے ہوں گے وہ بڑے بڑے انعام پائیں گے۔ دوسرے گمشدہ وہ لوگ ہیں جو دین سے جاہل، سچے دین کو چھوڑنے والے اور انبیاء کی مخالفت کرنے والے، قرآن کریم کو چھوڑنے والے ہیں۔ پس جو خدا کی گمشدہ مخلوق کو خدائے تعالیٰ کے پاس لاتا ہے خدا تعالیٰ ضرور اُسے بڑے بڑے انعام دیتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشریح ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی سفر پر چلتے وقت بیان فرمائی آپ نے فرمایا کہ اگر ایک روح بھی تیرے ذریعہ سے ہدایت پا جائے گی تو دنیا وَ مَافِیْھَا کی سب نعمتوں سے بہتر ہو گا۔ ۲؎ دنیا کی نعمتیں تو محدود اور ایک خاص وقت تک ہی ہیں لیکن جب خدا تم سے راضی ہو جائے گا تو یقینا غیر محدود نعمتیں غیر محدود زمانہ تک تمہیں ملیں گی۔ جو خدا کی تعلیم سے بھاگنے والوں کو واپس خدا کی طرف لائیں گے خدا تعالیٰ یقینا اُن کو کامیاب اور مظفر و منصور کر ے گا وہ کبھی نا کام و نامراد نہیں ہو ںگے۔ اُس کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے یہ ایک عمدہ ذریعہ ہے۔ ایک باپ کا اگر چھوٹا بچہ بھی جس کے اعضاء بھی اچھے اور مضبوط نہ ہوں گم ہو جائے اور پھر اُسے مل جائے توا ُسے کس قدر خوشی اور راحت ہوتی ہے۔ اِسی طرح کسی بندہ کے راہ راست پر آجانے سے خدا تعالیٰ کو بھی بہت خوشی ہوتی ہے۔ پس قومی ترقی کیلئے اصلاح وارشاد بڑا ذریعہ ہے۔ بلکہ یہ ترقی حاصل کرنے کا بڑا عجیب ذریعہ ہے ایک تو یہ مصائب کو ٹال دیتا ہے اور دوسرے یہ سُود درسُود ہو کر واپس ملتا ہے۔ ایسے لوگوں کو فائدے ہی فائدے ہیں ان کا مال بڑھتا ہی ہے کم نہیں ہوتا۔ کیونکہ جو ترقی اور فائدہ خدا کی طرف سے آتا ہے وہ ۷۰گنا کے قریب ہو تا ہے اس سے پہلی بات تو یہ ہو گی کہ جماعت بڑھے گی پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کو اور بڑھاتا ہوں ۔۳؎ اللہ تعالیٰ کے رستہ کی طرف لانا اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ جن قوموں نے اِس کام کو اپنے ہاتھوں میں لیا وہ کبھی ذلیل و رُسوا نہیں ہوئیں بلکہ وہ کامیاب اور مظفر و منصور ہی ہوئی ہیں۔ جب خدا تعالیٰ ترقی کا وعدہ کرتا ہے تو پھر اور کون اسے روک سکتا ہے۔
اِس وقت ہماری جماعت نے خدا تعالیٰ کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچانے کا ذمہ لیا ہے لیکن ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو یہ کہہ دیتے ہیں کہ لوگ ہماری بات کو نہیں سنتے اِس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اِس راہ میں کوشش کرتے ہیں وہ ضرور کامیاب ہوتے ہیں بلکہ اس آیت میں یہ بھی فرمایا یعنی ان کی کوششیں کامیاب ہوتی ہیں اور اُن کو ان کی کوششوں کا بدلہ دیا جاتا ہے۔ خواہ کوئی مسلمان ہو یانہ ہو، مانے یا نہ مانے۔ اس آیت میں یہ الفاظ نہیں کہ اگر کوئی مسلمان ہی ہو تو تب تمہیں بدلہ دیا جائے گا بلکہ یہ فرمایاکہ جو کوشش کرے گا اُسے بدلہ دیا جائے گا خواہ کوئی اس کی بات کو مانے یا نہ مانے۔
ہماری جماعت میں کم لوگ ہیں جن کے ذریعہ سلسلہ میں لوگ آئے ہیں۔ا کثر حصہ وہ ہے جو اِس کام میں پوری طرح اپنا فرض ادا نہیں کرتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کا کام ہے۔ بعض ایسے ہیں جن کے ذریعہ ایک بھی جماعت میں نہیں آیا۔ بلکہ ۸۰ فیصدی ایسے لوگ ہوں گے جن کے ذریعہ کوئی بھی فردسلسلہ میں نہیں آیا۔ لیکن جو کوشش کرتے ہیں اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وہ ضرور کامیاب ہوں گے۔
میں جب خلیفہ ہوا مجھے یہ افسوس ہوا کہ میں نے تو ارادہ کیا ہوا تھا کہ دنیا میں پھر کر لوگوں کو ہدایت کی دعوت دوں گا اب خلافت کی وجہ سے یہ کام نہیںہو سکتا۔ انہی ایام میں خدا تعالیٰ نے ایک عیسائی نوجوان کو بھیج دیا کئی دن تک بحث ہوتی رہی آخر خدا تعالیٰ نے اُسے مسلمان بناد یا۔ اِسی طرح خدا تعالیٰ نے مجھے سمجھایا کہ یہ ضروری نہیں کہ باہر ہی جا کر لوگوں کو سمجھایا جائے جہاں ہم کسی آدمی سے کام لینا چاہتے ہیں وہیں لے سکتے ہیں۔ گو خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت ترقی کر رہی ہے مگر ترقی کی رفتار بہت ہی سست ہے۔ ابھی وہ برکات نہیں نازل ہوئیں کہ جن کی وجہ سے فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہوں۔
مجھے یہ تحریک اس لئے ہوئی کہ ایک انگریز نے ایک رسالہ لکھا ہے اور کہتا ہے کہ یہ جماعت تو اسلامی سمندر میں ایک کیڑا کے برابر ہے۔ واقعہ میں اُس کی یہ بات صحیح ہے اِس میں شک نہیں کہ ہم ایک قطرہ کی طرح ہیں مگر بعض وقت ایک قطرہ اپنا اثر تمام پانی پر ڈال دیتا ہے۔ مثلاً سنکھیا ہی ہے کتنی تھوڑی سی چیز ہے مگراِس کا تھوڑا سا کھا لینا بھی انسان کو ہلاک کر دیتا ہے اور کثرت سے اِس قسم کی زہریلی دوائیں ہیں کہ تنکے کے اُوپر جس قدر حصہ آتا ہے و ہی کھاتے ہیں۔ا گر اس سے زیادہ کھایا جائے تو بڑا خطرناک ہوتا ہے ۔پھر ایک دیا سلائی کتنی چھوٹی سی چیز ہے مگر تمام جنگل کو جلا دیتی ہے اور شہروں کو خاک سیاہ کر سکتی ہے۔ پھر ہمارے لئے تو خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں اور بڑے بڑے وعدے بھی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسیح د مشق کے مشرق کی طرف نازل ہو گا۔۴؎ تعبیر نامہ میں مشرق کی طرف جانا یا مشرق سے آنا ترقی کی علامت ہوتی ہے۔ اِس سے یہ مطلب تھا کہ اسلام کی ترقی ہو گی۔ یعنی روحانیت ان لوگوں سے نکل گئی ہو گی وہ آکر ان میں روحانیت پیدا کریں گے۔ اور پھر تلوار سے نہیں بلکہ دلائل سے فتح یاب ہوں گے۔ دراصل اس پیشگوئی کا مطلب یہی تھا مگر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری الفاظ کے بھی پورا کرنے کی کوشش کی۔
پس صداقت کے مدعیوں کو ہمت و استقلال سے کام لینا چاہئے ۔جب یہ وعدے ہیں کہ لوگ مان لیں گے تو پھر ہمیں چاہئے کہ اِس پیشگوئی کے ظاہری اور باطنی لفظوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ جو یہاں ہیں اگر وہی اصلاح وارشاد کا کام پوری طرح سرا نجام دیں اور ہماری جماعت کا ہر فرد اِس کوشش میں رہے کہ میں ایک آدمی کو سچا مسلمان بنا لوں گا تو اس طرح جماعت بہت جلد دُگنی ہو سکتی ہے۔
کہتے ہیں کہ جس شخص نے شطرنج کی کھیل نکالی تھی وہ بادشاہ کے پاس اسے تحفۃً لے گیا۔ بادشاہ نے کہا کہ اسے لاکھ روپے دے دو۔ اِس نے کہا حضور! میں لاکھ نہیں لیتا آپ شطرنج کے خانوں میں اس طرح روپیہ رکھیں کہ پہلے خانہ میں ایک روپیہ، دوسرے میں دو، تیسرے میں تین حتیٰ کہ یہ تمام خانے پُر ہو جائیں۔ بادشاہ نے کہا اِس پاگل کو سمجھائو کہ اِس طرح تمہیں نقصان ہو گا۔ خیر اس نے اس کی تجویز مان لی اور خزانچی سے کہا کہ تم ہر خانہ میں پہلے سے دُگنا رکھتے جائو۔ وہ رکھتا گیا ۔رکھتے رکھتے اس روپیہ کی تعداد لاکھ سے بڑھ گئی۔ خزانچی نے بادشاہ کو کہا کہ حضور! خزانہ تو خالی ہو گیا ہے اور ابھی خانے پُر ہونے باقی رہتے ہیں۔
پس یہ بالکل صحیح بات ہے کہ اگر ایک احمدی اپنے ساتھ ایک آدمی لائے پھر جو آنے والا ہے وہ کسی اَور کو لائے تو اِس طرح ہزار سے دو ہزار ، دو ہزار سے چار ہزار اِسی طرح کروڑوں تک تعداد پہنچ سکتی ہے۔ صرف اخلاص اور محبت کی ضرورت ہے جب تک اخلاص نہ ہو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ جس میں اخلاص ہو گا وہ خود بخود کوشش کرے گا۔ جب خدا تعالیٰ نے جو یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ لوگ کبھی ناکام و نامراد نہیں ہو ںگے تو تم کیونکر ناکام ہو سکتے ہو۔ا للہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے مردوں، عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں میں یہ جوش اور اخلاص پیدا کرے۔‘‘ آمین (الفضل ۱۶؍ جون ۱۹۶۵ئ)
۱؎ اٰل عمران: ۱۰۵
۲؎ بخاری کتاب الجہاد باب دعاء النبی ﷺ الی الاسلام والنبوۃ
۳؎ البقرہ : ۲۶۲
۴؎ سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب فتنۃ الدجال وخروج عیسٰی ابن مریم (الخ)
۴
تمام احمدی ہوشیار ہو جائیں
(فرمودہ ۴؍ فروری ۱۹۱۶ئ)
تشہد ، تعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’آج ایک خاص بات کے متعلق میں اپنی جماعت کے لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ بات تو وہ بہت ضروری ہے اور چاہتی ہے کہ اس کے متعلق مفصل بیان کیا جائے لیکن پرسوں سے مجھے تپ ہے اور ایک پھوڑا بھی ران پر نکلا ہوا ہے جس کی وجہ سے میں زیادہ کھڑا نہیں ہو سکتا اِس لئے مختصر بیان کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ خاص فضل اور احسان ہوتا ہے کہ وہ ان کی ہدایت کے لئے سامان مہیا کر دیتا ہے۔ یہ سامان تو بہت سے ہیں مگرا ن کے مفصل ذکر کرنے کی اِس وقت گنجائش نہیں۔ ان سامانوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ آنے والی مصیبتوں اور بلائوں سے قبل از وقت ایسے بندوں کو جن پر وہ خوش ہوتا ہے اطلاع دے دیتا ہے تاکہ وہ اس اطلاع سے فائدہ اُٹھا کر اپنی اصلاح کر لیں، صدقہ و خیرات کریں، دعائیں مانگیں جس سے بلا ٹل جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ کی یہ ہمیشہ سے سنت ہے کہ وہ اپنے ایسے بندوں پر جن کے دلوں میں اُس کی محبت اور عظمت ہوتی ہے مگر کوئی کمزوری ایسی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ تکالیف اور مصائب میں مبتلا ہونے والے ہوتے ہیں ان پر یہ رحم اور فضل کرتا ہے کہ انہیں قبل از وقت اطلاع دے دیتا ہے تاکہ وہ اپنی اصلاح کر کے گناہوں کا خمیازہ اُٹھانے سے بچ جائیں۔
اِس وقت کئی دنوں سے متواتر بعض لوگوں کو قادیان میں بھی اور باہر بھی ایسی متوحش خوابیں آرہی ہیں جن کا تعلق خاص قوم اور جماعت سے ہے اور جن سے پتہ لگتا ہے کہ کوئی ایسی مشکلات آنے والی ہیں جو جماعت سے تعلق رکھتی ہیں۔ میں نے بھی بعض خوابیں اِنہی دنوں میں اِسی قسم کی دیکھی ہیں۔ یہ خوابیں کیوں آرہی ہیں؟ ہم کوئی نبی نہیں کہ ہماری نبوت کے ثبوت کے لئے خدا بتا رہاہے بلکہ اِن کی یہی غرض ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ ہوشیار ہو جائیں اور اس آنے والے وقت سے پہلے اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کر لیں اور ایسے تضرع سے دعائیں مانگیں، صدقہ و خیرات کریں کہ خدا تعالیٰ اِن مشکلات کو ٹلا دے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیساکہ گورنمنٹیں بھی جب کسی بات کو ناپسند کرتی ہیں اور وہ ایسے لوگوں کی طرف سے سرزد ہوتی ہیں جن پر وہ خوش ہوتی ہیں تو اُنہیں پہلے یہ اطلاع دے دیتی ہیں کہ یہ بات تم نے اچھی نہیں کی آئندہ احتیاط کرنا۔ تو خدا تعالیٰ بھی جس قوم پر خوش ہوتا ہے اُس کو قبل از وقت یہ اطلاع دے دیتا ہے کہ ایک مصیبت آنے والی ہے اس سے بچنے کا سامان کر لو۔ یعنی صدقہ و خیرات دو، دعائیں کرو اور اپنے حالات میں تبدیلی پیدا کرو تاکہ وہ ٹل جائے۔ پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ اس سے فائدہ اُٹھائیں۔
بعض لوگوں کے متعلق تو مجھے خاص طور پر بھی دکھایا گیا ہے میں نے دو آدمیوں کے متعلق جو ہماری ہی جماعت کے ہیں دیکھا ہے کہ وہ دہریہ ہو گئے ہیں۔ لیکن اکثر خوابیں عام طور پر ہیں۔ بعضوں نے زلزلہ دیکھا ہے، بعضوں نے بارش کو دیکھا ہے، بعضوں نے آگ اور اولوں کو دیکھا ہے، بعضوں نے چوروں اور ڈاکوئوں کو دیکھا ہے، بعضوں نے طاعون کے رنگ میں دیکھا ہے، ایک نے آسمان سے آگ کا برسنا دیکھا ہے غرض مختلف لوگوں نے مختلف رنگ میں خوابیں دیکھی ہیں اورخدا تعالیٰ نے کئی طریق پر مطلع کیا ہے ۔پس آپ لوگ اس وقت کے آنے سے پہلے اپنے آپ کو اس قابل بنا لیں کہ خدا تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ اس وقت یہ معلوم نہیں کہ وہ مصیبت کیا ہے قحط ہے یا زلزلہ ہے یا طاعون ہے یا کوئی اور قسم کا امن وا مان کا خطرہ ہے مگر جو کچھ ہے خدا تعالیٰ نے اپنا فضل اور رحم کر کے اس کے ظاہر ہونے سے پہلے رئویا میں ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو بتا دیا ہے اِس لئے سب جماعت کو ہوشیار ہو جانا چاہئے۔ دیکھو! اگر کسی سوئے ہوئے آدمی کے گھر چور پڑتے ہیں تو سب کچھ لے جاتے ہیں لیکن جنہیں پہلے اطلاع ہوتی ہے اور وہ جاگتے ہوتے ہیں وہ اپنا مال بچا لیتے ہیں۔ چوروں کے آنے سے پہلے کسی اَور جگہ رکھ لیتے ہیں یا اور کوئی حفاظت کے لئے سامان کر لیتے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ جو کسی آنے والی مصیبت کے متعلق رئویا میں بتاتا ہے وہ ایسی ہی ہوتی ہے جو اس قوم سے ٹلنے والی ہوتی ہے۔ اور اگر ٹلنے والی نہ ہو تو بتاتا ہی نہیں کیونکہ ایسی صورت میں اس کا رئویا میں بتانا لغو اور فضول ٹھہرتا ہے۔ ہماری جماعت کے لوگوں کو بتانے سے خدا تعالیٰ کا منشاء اور ارادہ یہی ہے کہ اگر یہ لوگ توبہ کریں، صدقہ اور خیرات دیں اور دعائیں کریں تو اِن سے یہ مصیبت ٹل جائے۔ پس اتنے لوگوں کو رئویا میں بتایا جانا جن کی تعداد بیس پچیس کے قریب ہے اور بعضوں کو بار بار بتایا جانا ثابت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ اگر یہ لوگ اصلاح کر لیں توا ن سے مصیبت ٹل جائے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ ساری دنیا سے ہی یہ مصیبت ٹل جائے مگر کم از کم وہ لوگ جو اپنے ہیں ان کے متعلق ہمیں خاص طور پر فکر ہے ا س لئے ہماری جماعت کے وہ لوگ جو یہاں کے رہنے والے ہیں اور وہ جو باہر کے رہنے والے ہیں خاص طور پر اِن دنوں میں دعائوں میں لگ جائیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بشارت دے اور خود بتا دے کہ اب وہ مصیبت کے ایام ٹل گئے ہیں۔ جن لوگوں کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ صدقہ دیں اور سب لوگ دعائوں میں مشغول رہیں اور اپنی اصلاح کی طرف خاص توجہ رکھیں۔
اللہ تعالیٰ یہاں کے اور باہر کے اُن تمام لوگوں کو جو ہماری جماعت میں داخل ہیں اور جنہوں نے حضرت مسیح موعود کو مانا ہے ہر ایک قسم کی بلائوں اور مصیبتوں سے بچائے اور اپنی حفاظت میں رکھے۔ ‘‘ (الفضل ۸؍ فروری ۱۹۱۶)
۵
فتنے اور آزمائشیں روحانی ترقی کے لئے ضروری ہیں
(فرمودہ ۱۸؍ فروری ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذاور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
۱؎
پھر فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے پھر مجھے آپ لوگوں کے سامنے بولنے کی توفیق دی۔ مجھے اِس وقت بھی تپ ہے اور راستہ میں چکر بھی آگیا تھا پہلے تو میرا ارادہ کچھ بولنے کا نہ تھا کل میں نے ڈاکٹر صاحب سے اتنی اجازت لی تھی کہ جمعہ کی نماز میں شامل ہو جائوں لیکن جب چلنے لگا تو خدا تعالیٰ نے اتنی ہمت دے دی کہ خطبہ بھی میں ہی پڑھا دوں۔
انسان اور حیوان میں بہت بڑا فرق ہے اور وہ بڑا فرق دنیاوی لحاظ سے تمدن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور دینی لحاظ سے اِس فرق کو مذہب کہتے ہیں تو دوطرح کا فرق ہے۔ دنیاوی لحاظ سے تویہ ہے کہ انسان میں تمدن ہے اور حیوان میں نہیں ہے اور دینی لحاظ سے یہ کہ انسان کے ساتھ ایک دین لگا ہوا ہے اور حیوان کے ساتھ نہیں ہے۔ گو حیوان کے ساتھ بھی ایک طرح کی اطاعت اور فرمانبرداری تو ہے اور ایک رنگ میں وہ عبادت بھی کرتا ہے لیکن اس کے افعال میں قدرت نہیں۔ اسے بھلائی بُرائی کے انتخاب کا اختیار نہیں دیا بلکہ جس طریق پر اسے چلا دیا گیا ہے اسی پر وہ چلتا رہے گا۔ لیکن انسان کے کاموں میں قدرت اور اندازہ کا دخل ہوتا ہے اور اس کے لئے بُرا اور بھلا دونوں رستے کھلے ہوتے ہیں تاکہ ان میں سے جسے چاہے اختیار کر لے اور یہ بات انسان کے اختیار میں ہوتی ہے کیونکہ بھلے اور بُرے راستے کا اختیار کرنا اس کے انتخاب پر چھوڑا جاتا ہے اور قبل از وقت اسے بتا دیا جاتا کہ بھلا راستہ کونسا ہے اور بُرا کونسا، سکھ کس میں ہے اور دُکھ کس میں، آرام کس میں ہے اور تکلیف کس میں، فائدہ کس میں ہے اور نقصان کس میں تو انسان اور حیوان میں دو فرق ہیں۔ دنیاوی لحاظ سے جو فرق ہے اسے تمدن کہا جاتا ہے یعنی انسان اپنی نسل اور قوم کے فوائد کیلئے دوسرے انسانوں سے مل کر کام کرتا ہے۔ چونکہ ایک انسان کے کام سے دوسرے کو نفع پہنچتا ہے اِس لئے تمام انسان مل کر یا انسانوں کا ایک بہت بڑا حصہ مل کر ایک دوسرے کے فائدہ اور نفع کی کوشش کرتا ہے لیکن حیوانوں میں یہ بات نہیں ہے یہ صرف انسانوں میں ہی ہے۔ دوسرے انسان کو اچھے اور بُرے، نیک اور بد، نفع اور نقصان میں تمیز کرنے اور اپنے اختیار سے ان دونوں راہوں میں سے ایک پر چلنے والا بنایا گیا ہے لیکن یہ بات حیوانوں میں نہیں ہے۔ پس جو انسان، انسان ہو کر اِن دونوں قسم کے فرقوں کو نہیں جانتا وہ جانور سے ممتاز نہیں ہو سکتا اور وہ انسان ہی نہیں ہے۔ بلحاظ جسمانی تعلقات کے اگر انسان میں تمدن نہیں ہے اور بلحاظ روحانی تعلقات کے اگر انسان مذہب اور دین کا پابند نہیں ہے تواس میں اور سؤر، بندر، ریچھ وغیرہ جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تمدن کے متعلق اِس وقت ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت ہے۔ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو دنیا کے علوم اور فوائد میں منہمک ہیں۔ ہمیں سوائے اس کے کہ اِس وقت جبکہ تمدن مذہب اور دین میں داخل ہو جائے اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے میں اِس وقت مذہب کے متعلق ہی کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔
روحانی لحاظ سے انسان اور حیوانوں میں مذہب کا فرق ہے انسان کسی نہ کسی مذہب کا قائل ہوتا ہے اور حیوان نہیں ہوتے۔ ان کے لئے کوئی تازہ شریعت نہیں آتی بلکہ ان کی فطرت میں ہی ابتداء سے جو کچھ ودیعت کر دیا گیا ہے وہی ہے مگر انسان کو وحی اور الہام کے ذریعہ سے شریعت سے آگاہ کیا جاتا ہے اور حیوانوں میں سے ہر ایک کو ایسی وحی کی جاتی ہے جو اس کی فطرت کے متعلق ہوتی ہے۔مگر انسانوں میں سے ایک حصہ کو وحی سے ممتاز کیا جاتا ہے۔ یوں تو فطرتاً ہر ایک انسان کو بھی وحی کی جاتی ہے مگر وہ وحی جو مذہب کے متعلق ہوتی ہے وہ ہر ایک کو نہیں ہوتی بلکہ اُنہی انسانوں کو ہوتی ہے جو حقیقت میں عابد اور عبد بنتے ہیں اورپھر جو اس وحی پر عمل کرتے ہیں اور جو مدعا اس میں پایا جاتا ہے اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ دوسرے انسانوں کے لئے نمونہ ہوتے ہیں اور ان میں سے ممتاز کئے جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کا نام بند ہ اور انسان رکھا ہے
درحقیقت وہی انسان ہوتا ہے جوا پنے اندر دو اُنس رکھے۔ ایک خدا سے اور ایک اس کے بندوں سے ۔اور وہی عبد ہے جو عبودیت میں اپنے جسم اور روح کو لگا دیتا ہے۔
کہنے کو تو جانور بھی کہہ سکتا ہے کہ میں انسان ہوں۔ لوگ طوطے کو سکھاتے ہیں کہ کہو ’’میاں مٹھو‘‘۔ لیکن اگر کوئی اسے یہ سکھا دے کہ ’’میں انسان ہوں‘‘ تو وہ یہی کہنے لگ جائے لیکن اس کے کہنے سے وہ انسان نہیں بن جائے گا کیونکہ انسان کے اندر جو خواص اور باتیں ہونی چاہئیں وہ اس کے اندر نہیں ہیں۔ کیا یہ طوطے کی شکل وصورت کا قصور ہے کہ وہ باوجود اس کے کہ کہتا ہے کہ میں انسان ہوں انسان نہیں ہو سکتا ؟اور کیا اگر موجودہ انسان طوطے کی شکل ہوتے تو انسان نہ ہوتے؟ پھر کیا اگر حیوان انسان کی شکل کا ہوتو وہ انسان ہو سکتا؟ مثلاً بہت سے بندر اور مچھلیاں ایسی ہیں کہ انسان کی شکل سے بہت بڑی مشابہت رکھتی ہیں مگر انسان نہیں ہیں۔ ان کا منہ، سر، کان، اُنگلیاںوغیرہ انسانوں کی طرح کی ہوتی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ان کو انسان نہیں کہا جاتا؟ اور مچھلیوں اور آدم کی اولاد میں وہ کیا فرق ہے جوان کو علیحدہ رکھتا ہے یہی کہ وہ مذہب کی اس رنگ میں پابند نہیں ہیں۔ جس رنگ میں انسان پابند ہیںان کو وہ سمجھ اور عقل نہیں ہے جو انسانوں کو متمدن اور عقل مند بناتا ہے۔ پس اگر انسانی شکل کسی حیوان کی ہو جائے تو وہ انسان نہیں ہو سکتا اور اگر انسان کی موجودہ شکل بدل کر کسی اور طرح کی بناد ی جائے تو وہ حیوان نہیں ہو جاتا۔ کئی آدمی ایسے ہوتے ہیں جو بہت بد شکل ہوتے ہیں اوربندر کی طرح ان کی صورت ہوتی ہے مگر وہ بندر نہیں ہوتے۔
پس وہ چیز جو انسانوں اور حیوانوں میں مَابِہِ الْاِمْتِیَاز ہے اگر اِسی کے حاصل کرنے یا حاصل کردہ کے قائم رکھنے میں انسان کوشاں نہ ہو تو کیا وہ انسان ہو سکتا ہے؟ ایسا انسان صرف لفظی انسان ہے حقیقی نہیں اور حیوانوں سے بدتر ہے کیونکہ حیوان جس قانون کے ماتحت رکھے ہوتے ہیں وہ اس میں نافرمانی نہ کر سکتے ہیں اور نہ کرتے ہیں مگر انسان کو جس قانون کا پابند قرار دیا جاتا ہے وہ اس کی مخالفت میں کھڑاہو جاتا ہے اور مخالفت کرتا ہے۔ ایسی حالت میں وہ انسانیت سے بالکل دور جا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی انسان انسانیت کو چھوڑتا ہے تو ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ حیوانوں سے بدتر ہو جاتا ہے۔ ایک کتے اور ایک چڑیا کی خدا تعالیٰ کے حضور قدر ہوتی ہے مگرا س کی نہیں ہوتی۔ایک کتے کی خدا تعالیٰ کے نزدیک قدر ہوتی ہے مگر انسان کی نہیں ہوتی ۔ایسے موقع پر خداتعالیٰ کے سامنے انسان ایک بدترین مخلوق ہوتا ہے۔
مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کہانی کے رنگ میں سنایا کرتے تھے اور اس قسم کی باتیں لکھنے والوں نے لکھی ہیں۔ معلوم نہیں سچی ہیں یا جھوٹی ۔ بعض باتیں نصیحت کے طور پر لکھی جاتی ہیں اور بعض کی کچھ اصلیت بھی ہوتی ہے اور بعض کی نہیں۔ اسی طرح کسی نے لکھا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے وقت جو طوفان آیا تو ایک چڑیا کا بچہ پہاڑ کی چوٹی پر پیاسا تھا۔ ماں باپ اُس سے جدا ہو چکے تھے اور بہت سخت پیاسا ہو رہا تھا۔ طوفان جو بڑھتا گیا تو آخر اُس پہاڑ کی چوٹی تک بھی پہنچا اس وقت اس چڑیا کے بچہ نے پانی پی لیا۔ یہ واقعہ سچا ہے یا جھوٹا اِ س سے ہمیں بحث نہیں لیکن اِس میں جو حکمت ہے وہ بہت سچی ہے اور وہ یہی ہے کہ جب انسان خدا کے مقرر کردہ قوانین کو توڑ کر اس کے مقابلے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے تو اُس وقت خدا تعالیٰ کے نزدیک حیوانوں کی قدر ہوتی ہے مگر اس کی نہیں ہوتی۔ کیوں؟ اِس لئے کہ حیوان خدا تعالیٰ کے نافرمان نہیں ہوتے اور یہ ہوتا ہے۔ پھر حیوانوں کی خاطر خدا تعالیٰ انسانوں کے تباہ کرنے کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور انہیں ہلاک کر دیتا ہے۔ اُس وقت انسان کی جان بے قیمت اور بے حقیقت ہو جاتی ہے۔
غرض انسان اُسی وقت تک انسان ہے جب تک کہ اس میں انسانیت قائم ہے اور روحانی لحاظ سے انسانیت یہی ہے جس سے اس میں اور حیوانوں میں فرق ہے کہ اس کی روح ترقی کر کے اسے خدا تعالیٰ کا مقرب بنا دے۔ اگر کوئی انسان اس قرب کو حاصل نہ کرے یا اس کے حاصل کرنے کی کوشش نہ کر ے اور اس راہ میں صبر اور استقلال کو کام میں نہ لائے تو وہ انسان نہیں ہے۔ انسان کو حیوان سے جو یہ امتیاز حاصل ہے تو یہ اس پر ایک ایسا انعام ہے جو اس دنیا کی کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے بلکہ جب کوئی انسان اس انعام کو حاصل کر لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے قرب میں پوری پوری ترقی کرنی شروع کر دیتا ہے تو اس کے لئے ایسے درجے کھل جاتے ہیں جو فرشتوں کو بھی حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شب معراج میںجہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے وہاں جبرائیل نہیں جا سکے۔ جبرائیل ہر کارہ تھے اور بھیجنے والا خدا اور جس کو خط بھیجا گیا تھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ گو جبرائیل کا درجہ دوسرے انسانوں کے مقابلہ میں کتنا ہی بڑا ہو مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں ہر کارے کی حیثیت تھی کیونکہ ان کے ذریعہ خداتعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کیا کرتا تھا۔ یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی عزت تھی۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک ایک وحی کے ساتھ ہزاروں فرشتے اُتر ا کرتے تھے۔ یہ اسی لئے کہ خدا تعالیٰ اتنے فرشتوں کو ایک کلام کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیج کر بتاتا تھا کہ یہ ہمارا ایسا پیارا ہے کہ اس کے مقابلہ میں جو ہمارے بڑے پیارے ہیں وہ بھی ادنیٰ ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس شان کا کلام ہوتا اُسی قدر زیادہ فرشتے ساتھ آتے۔ ورنہ فرشتے اِس لئے نہیں آتے تھے کہ کلام کے پہنچانے میں کوئی ڈر تھا اس لئے حفاظت کے لئے ساتھ فرشتے بھیجے جاتے تھے۔ کلام تو یوں بھی محفوظ ہی تھا اور کسی کی کیا طاقت تھی کہ اس میں کچھ دخل دیتا ۔تو انسان بہت قرب اور مدارج حاصل کر سکتا ہے اور اِس قدر حاصل کر سکتا ہے کہ ملائک کے لئے بھی وہ مدراج نہیں ہیں۔
پس جب انسان کیلئے اتنے مدارج ہیں تو ضرور ہے کہ اس کیلئے خطرات بھی اتنے ہی بڑے ہوں کیونکہ بڑے انعام کے ساتھ بڑے ہی خطرات ہوتے ہیں۔ یہ آیات جو میں نے پڑھی ہیں ان میں اِسی طرف خدا تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے فرمایا خدا کے لئے مومن ہونا اور اس کی فوج میں داخل ہونا اور اس کا مقرب اور پیارا ہونا کوئی ایسی چھوٹی سی چیز نہیں ہے کہ منہ سے کہا اور ہو گیا۔ صرف کے کہنے سے کوئی مومن نہیں ہو جاتا۔ دیکھو دنیاوی گورنمنٹیں جب سپاہیوں کو بھرتی کرتی ہیں توا ن کے ہر ایک عضو کا معائنہ کراتی ہیں۔ آنکھ، کان، ناک، ہاتھ پائوں، قد، چال چلن وغیرہ تک دیکھتی ہیں اور بڑی شرائط کے بعد فوج میں داخل کرتی ہیں۔تو کیا خدا کی فوج میں داخل ہونے کے لئے کسی امتحان کی ضرورت نہیں؟ اور کیا یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ صرف کہہ دینے سے کوئی مومن ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ جس طرح خدا تعالیٰ ہر ایک بات کو جاننے والا ہے اور اس کے قرب کے ذرائع بہت وسیع ہیں حتیٰ کہ ختم ہی نہیں ہوتے اسی طرح اس کا امتحان بھی بہت بڑا ہے اس لئے جو انسان اس بات کے لئے کھڑا ہو کہ میں خدا کا قرب حاصل کروں اور صحیح معنوں میں انسان بنوں وہ یہ مت سمجھے کہ صرف منہ سے اٰمَنَّا کہنے سے وہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکے گا بلکہ اس کے لئے بڑی آزمائش میں سے گزرنا ہو گا اور جب وہ اس میں پکا ثابت ہو گا تو اس قابل سمجھا جائے گا کہ خدا کاقرب حاصل کرے ورنہ اس کا زبانی دعویٰ کسی کام کا نہیں ہو گا۔
اِن آیتوں سے پہلے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ یہ فرما کر خدا تعالیٰ نے انسان کو ڈانٹا ہے کہ دیکھو دھوکاانسان کو دیا جا سکتا ہے اور انسان بسا اوقات دھوکا کھا بھی جاتا ہے کیونکہ وہ ہر ایک چیز کے متعلق علم نہیں رکھتا لیکن خدا چونکہ ہر ایک چیز کا علم رکھتا ہے اس لئے وہ کسی دھوکا دینے والے کا دھوکا نہیں کھا سکتا۔ اس کے سامنے کسی کے دھوکا سے یہ کہہ دینے سے کہ میں ایمان لے آیا وہ مومن نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یعنی اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ اللہ بہت بڑا جاننے والا ہے۔
دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی سے محبت جتلاتے ہیں، دوستی ظاہر کرتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر کہہ دیتے ہیں کہ میں آپ کے قربان جائوں ۔اور سننے والا بھی سمجھتا ہے کہ واقعہ میں اس کو مجھ سے بڑا پیار اور محبت ہے اور یہ میرے لئے جان قربان کرنے کے لئے تیار ہے لیکن جب کوئی موقع پیش آتا ہے تو محبت ،پیار اور دوستی کی ساری حقیقت کھل جاتی ہے۔ مگر خد اتعالیٰ نے جو دلوں کا واقف ہے اور انسان کی ہر ایک پوشیدہ سے پوشیدہ بات کو جانتا ہے وہ کہاں فریب کھا سکتا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے اور اپنے جاننے کا ثبوت اس طرح دیتا ہے کہ انسان کو فتنہ میں ڈالتا ہے۔ بہت انسان ایسے ہوتے ہیں جو خود بھی نہیں جان سکتے کہ ہماری محبت خدا تعالیٰ سے جھوٹی ہے یا سچی۔ ان پر بھی خدا تعالیٰ فتنہ میں ڈال کر کھول دیتا ہے کہ تم اپنے نفس کے متعلق نہ سمجھتے تھے مگر ہم خوب جانتے تھے اور اب تم کو بھی معلوم کرا دیا ہے۔
کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے نفس کے دھوکا میں آکر اپنے آپ کو بہادر سمجھتا ہے مگر تھوڑے سے خطرہ اور ڈر سے اسے اپنی بُزدلی کا علم ہو جاتا ہے۔ بار ہا ایسا ہوتاہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ فلاں سے مجھے بڑی محبت ہے مگر ذرا سی بات سے اُس سے ایسا دور ہو جاتا ہے کہ گویا کبھی تعلق ہی نہ تھا۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو بڑا عالم سمجھتا ہے مگر ذرا سی بات پر اس کے علم کی قلعی کھل جاتی ہے۔ تو انسان اپنے نفس کو غلط سمجھتا ہے مگر خداتعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے اور اس کے اَنَااللّٰہُ اَعْلَمُ کا ثبوت یہ ہے کہ وہ انسان کے نفس کو فتنہ میں ڈال کر بتا دیتا ہے کہ میں زیادہ جاننے والا ہوں۔
فرمایا کہ ہم نے پہلے لوگوں کو بڑی بڑی آزمائشوں میں ڈالا تھا اور اُن کی بڑی بڑی آزمائشیں کی تھیں۔ پس ضرور ہے ان سے پچھلوں کی بھی اسی طرح آزمائشیں کی جائیں۔ پس ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو فتنہ میں ڈال کر سچے اورجھوٹے اور صادق اور کاذب کو الگ الگ کر دے۔
غرض انسان کے لئے جس طرح خداتعالیٰ کے قرب کے دروازے کھلے ہیں اور اس کے لئے انسانیت کے قائم رکھنے کے لئے ذرائع موجود ہیں اور اس پر یہ احسان کیا ہے کہ اسے انسان بنا کر باقی تمام مخلوق پر فضیلت بخشی ہے۔ اسی طرح اس کے لئے قربِ الٰہی حاصل کرنے کے لئے بڑی بڑی کوششوں کی بھی ضرورت ہے اور بڑے بڑے کٹھن امتحانوں سے گذرنا پڑتا ہے تب جا کر اسے حقیقی انسانیت کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے وہ شکل تو انسان کی ہوتی ہے مگر درحقیقت وہ حیوان ہوتا ہے۔
اِس زمانہ میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمدن کو قائم رکھنے کے لئے کس قدر جدوجہد اور کوشش کی جا رہی ہے اور کیسی کیسی قربانیاں کی جاتی ہیں اور وہ لوگ جو دنیاوی رنگ میں انسانیت کے فرق کو نمایاں کر رہے ہیں کس قدر اِس میں کوشاں ہیں۔ آج ہی مجھے اخبار میں ایک خبر پڑھ کر سخت حیرت ہوئی ہے کہ یورپ کی عورتوں کا اتنا حوصلہ ہے کہ ہمارے مردوں کا بھی اتنا نہیں ہے۔ ابھی انگلستان میں بھرتی ہو رہی ہے۔ اس کے متعلق واقعہ ہے کہ ایک بڑھیا کے پاس بھرتی کرنے والا گیا اور اسے کہا کہ تمہارا کوئی لڑکا بھرتی ہوا ہے یا نہیں؟ اس نے کہا میرے ۹ لڑکے ہیں جن میں سے اِس وقت تک آٹھ بھرتی ہو چکے ہیں ان میں سے چار لڑائی میں مارے گئے ہیں۔ دو زخمی پڑے ہیں اور دو لڑائی پر ہیں۔ اب ایک باقی ہے اگر اس کی بھی بادشاہ کو ضرورت ہے تو حاضر ہے بھرتی کر لو میری طرف سے کوئی عذر نہیں ہے۔ دیکھو کیا ہمت اور حوصلہ ہے تو یہ قومیں تمدن قائم رکھنے کے لئے نسل، مال، دوست اور مدد سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ اس مقابلہ کا حال ہے جو انسانوں کا حیوانوں کے مقابلہ میں جسمانی طور پر کہلاتا ہے۔
لیکن بتلاؤ کہ حیوانوں کے مقابلہ میں جو روحانی فرق ہے اس کو قائم رکھنے کے لئے کس قدر کوشش اور محنت کی ضرورت ہے۔ روحانی مقابلہ یعنی مذہب کے سامنے اس جسمانی مقابلہ یعنی تمدن کی حیثیت ہی کیا ہے اور یہ چیز ہی کیا ہے اِس کا اثر تو زیادہ سے زیادہ انسان کی بڑی سے بڑی سَو سَوا سَو سال تک کی زندگی سے ہے۔ مگر مذہب کا اثر نہ صرف اس زندگی کے ساتھ ہے بلکہ اس زندگی کے ساتھ بھی ہے جو اَبدالآباد تک کی ہے۔ پھر تمدن کے لئے جو کوشاں ہے وہ اگر اس جدوجہد میں مر جائے تو اس کے لئے کوئی انعام اور فائدہ نہیں مگر جو خداتعالیٰ کے قرب کے حاصل کرنے اور صداقت اور راستی کے پھیلانے کے لئے اپنی جان قربان کر دے اس کا انعام کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ ملک اور قوم کی حفاظت کرتے ہوئے جو مارا جاتا ہے اس کی ذاتِ خاص کو اس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا۔ اگر اُس کا تمام ملک تباہ ہو جائے تو اسے کوئی نقصان نہیں اور اگر بچ جائے تو اسے کوئی نفع نہیں۔ مگر مذہب کے لئے جو کوئی اپنی جان اور مال قربان کرتا ہے اگر وہ مر جاتا ہے یا مارا جاتا ہے تو اس کا انعام بجائے بند اور ضائع ہونے کے اور بڑھ جاتا ہے کیونکہ تمدن کے لئے جانیں قربان کرنے والوں کو انعام دینے والے انسان ہیں جن کی طاقت اور قدرت موت سے ورے ورے انعام دے سکتی ہے۔ مگر وہ جو مذہب کے لئے قربان ہوتے ہیں اُن کا انعام دینے والا خدا ہے جس کا دست تصرف اِس دنیا میں بھی ہے اور موت کے بعد آگے بھی۔ اِس لئے وہ موت کے بعد بھی انعام و اکرام دیتا ہے۔
ہماری جماعت کے لئے اِس زمانہ میں وہ مشکلات نہیں ہیں جو پہلے زمانہ میں اور قوموں کے لئے تھیں۔ گو میں سمجھتا ہوں کہ مشکلات کسی نہ کسی رنگ میں ہیں لیکن پہلے جیسی مشکلات ابھی نہیں ہیں لیکن تعجب نہیں کہ وہی مشکلات ہماری قوم کو بھی آ جائیںجو پہلی قوموں کو پیش آتی رہی ہیں کیونکہ کوئی قوم اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اُسے اتنی ہی قربانیاں نہ کرنی پڑیں مگرجتنی پہلی قوموں کو کرنی پڑی تھیں۔ پس ہماری ترقی کے لئے ضرور ی ہے کہ ابتلاء آئیں اور ایسے ایسے ابتلاء آئیں جن میں جان ، مال ، اولاد، وطن وغیرہ چھوڑنے پڑیں۔ اِس میں شک نہیں کہ ہمارے لئے خدا کے فضل سے بڑی آسانیاں ہیں۔ کیونکہ ہندوستان میں ایک ایسی گورنمنٹ قائم ہے جس کی وجہ سے ہر طرح کا امن و امان ہے۔ مگر مسیح موعود صرف ہندوستان کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ تمام دنیا کے لیے آئے تھے اور ہماری جماعت صرف ہندوستان میں ہی نہیںہے بلکہ افغانستان اور دیگر ممالک میں بھی ہے۔ افغانستان میں ہماری جماعت کے لئے وہ آسانیاں نہیں ہیں جو ہمیں یہاں میسر ہیں بلکہ اُن کے لئے بہت مشکلات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ہمارے دو آدمی شہید ہو گئے ہیں مگر تم کوئی قوم ایسی نہ دیکھو کہ کہ وہ ایک غالب قوم بنی ہو اور اُس کے صرف دو ہی آدمی شہید ہوئے ہوں۔
قوم اِس طرح بنا کرتی ہے کہ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا ،تیسرے کے بعد چوتھا ،اور اِسی طرح سینکڑوں اور ہزاروں قربان ہوتے ہیں اور جب ایک حصۂ قوم پر مشکل اور مصیبت آتی ہے تو دوسرا حصہ اُس کا ہاتھ بٹا تاہے۔ ایک حصہ اپنی جانیں قربان کرتا ہے تو دوسرا حصہ مال قربان کرتا ہے۔ صحابہ کرام کو دیکھو مہاجرین نے اپنے ملک چھوڑے، جائیدادیں چھوڑیں، وطن سے بے وطن ہوئے تو انصار نے اپنی جائیدادیں اور مال اُنہیں بانٹ دئیے۔۲؎ غرض اگر قوم کے ایک حصہ کو ایک رنگ میں قربانی کرنی پڑتی ہے تو دوسرے کو دوسرے رنگ میں۔اور ایک حصہ پر ایک رنگ میں ابتلاء آتا ہے تو دوسرے حصہ پر دوسرے رنگ میں۔
میرا منشاء یہ ہے کہ ہماری جماعت کو ہر وقت ہر ایک قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ یہ اور بات ہے کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت پر کسی اَور رنگ میں ابتلاء لے آئے۔ یا اپنے فضل سے ایسے ابتلاء لائے جو سخت نہ ہوں۔ مگر انسان کا کام یہی ہے کہ وہ ہر وقت اس بات کے لئے تیار رہے کہ اگر مجھے کسی وقت وطن، مال، اولاد اور جان قربان کرنا پڑے تو کر دوں گا۔ دیکھو جو سپاہی جنگ میں جاتے ہیں وہ سارے کے سارے مارے نہیں جاتے۔ مگر پھر بھی کوئی سپاہی ایسا نہیں ہوتا جو نہ سمجھے کہ جنگ پر میرے لئے موت ضروری ہے اور میں مرنے کے لئے جا رہاہوں نہ کہ زندہ واپس آنے کے لئے۔ اور جب تک ہر ایک سپاہی کو یہ خیال نہ ہو اُس وقت تک وہ کوئی عزت، کوئی انعام اور کوئی رتبہ حاصل نہیں کر سکتا۔ لڑائی پر وہی لوگ جاتے ہیں جو موت کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم سر پر کفن باندھ کر جار ہے ہیں۔ پھر بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو لڑائی پر جاتے ہیں مگر زندہ واپس آجاتے ہیں۔لکھا ہے کہ خالدبن ولید جب فوت ہونے لگے تو آپ کے دوست آپ کو دیکھنے کے لئے آئے ۔اس نے دیکھا کہ آپ رو رہے ہیں پوچھا کیوں روتے ہیں؟ کہا مجھے شہادت کی بڑی خواہش تھی لیکن افسوس کہ حاصل نہ ہوئی اور بہت سے لوگوں میںکوئی ایک لڑائی میں شریک ہوا تو شہید ہو گیا۔ کوئی دوسری میں شریک ہوا تو شہید ہو گیا اور کوئی تیسری میں شہید ہو گیا مگر میں اِس قدر لڑائیوں میں شریک ہوا کہ میرے سر سے لے کر پائوں تک زخم لگے مگر آج میں بستر پر پڑا جان دے رہا ہوں، مجھے میدانِ جنگ میں موت نصیب نہ ہوئی۔۳؎ یہ ان کا اخلاص تھا کہ اس طرح کی موت کو وہ پسند کرتے تھے ورنہ میرے نزدیک وہ کئی شہادتیں پا چکے تھے۔ تولڑائی پر جانے والا بھی زندہ واپس آسکتا ہے۔ مگر جانتے ہو خالد ،خالد کیوں بنا؟ اِس کی شہادت اُن کی وفات کے وقت کی گفتگو دے رہی ہے کہ وہ ہر جنگ میں اِس نیت اور اِس ارادہ سے شامل ہوئے کہ مرنے کے لئے جا رہا ہوں نہ کہ زندہ واپس آنے کے لئے۔ اُن کی عزت ، رتبہ، درجہ اور قبولیت اِسی واسطے تھی کہ ہر ایک لڑائی کے وقت اُنہوں نے یہی سمجھا کہ میری جان دراصل میری نہیں ہے اور میں جان دینے چلا ہوں نہ کہ اسے واپس لانے کے لئے اور یہ میرے لئے پاس بطور امانت تھی جسے سپرد کرنے جا رہا ہوں۔ یہ بات اور تھی کہ اُنہو ں نے خدا کو اپنی جان ہر بار ہی دی اور خدا نے انہیں واپس دے دی لیکن اِس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اُنہو ںنے اپنی طرف سے جان دینے میں کوئی کمی نہ کی اور ہر بار ہی ہتھیلی پر رکھ کر دینے کے لئے نکلے۔
تم لوگ یہ بات خوب یاد رکھو کہ بڑے انعاموں کے لئے قربانیاں بھی بڑی ہی کرنی پڑتی ہیں اور یہ قربانیاں صرف مال سے ہی نہیں ہوتیں بلکہ اور بھی بہت طرح سے ہوتی ہیں۔ اب تو ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص چندہ دیتا ہے وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں نے اپنی طرف سے کافی قربانی کر دی ہے لیکن بڑے بڑے انعام اس طرح نہیں ملا کرتے۔ وہ قومیں جنہوں نے بڑے انعامات حاصل کئے ہیں اُنہوں نے اپنا سب کچھ۔ کیا مال ،کیا جان، اور کیا اولاد، کیا وطن، کیا جائیدادیں، قربان کیا ہے۔ اِس وقت اگر ایسی ضرورت نہیں کہ اِس طرح کی قربانیاں کی جائیں تو ہر ایک یہ نیت تو کر لے کہ اگر کبھی ضرورت پڑی تو میری عزت، میرا وطن، میرا مال، میری اولاد، میرا علم اور میری جان غرضیکہ کسی چیز کو خدا کی راہ میں قربان کرنے سے میں دریغ نہ کرو ں گا اور جو کچھ بھی ہوگا سب کچھ خدا کے لیے قربان کرنا پڑے گا تو کر دوں گا اور جب مومن ایسی نیت کر لے تو خدا تعالیٰ اُس کو توفیق بھی دے گا۔ اِس وقت ہم میں سے بعض ایسے ہیں کہ جن کو کوئی چھوٹا سا ابتلاء آتا ہے تو گھبرا جاتے ہیں۔ بعض لکھتے ہیں کہ میری تجارت بند ہو گئی اس سے سخت ابتلاء ہے بعض لکھتے ہیں کہ احمدی ہونے کی وجہ سے لڑکی نہیں ملتی جس سے بہت بڑا ابتلاء ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں کہتا ہوں بھلا یہ باتیں چیز ہی کیا ہیں اُن کے مقابلہ میں جو پہلو کو پیش آئیں اور ان کے مقابلہ یہ حیثیت ہی کیا رکھتی ہیں۔
پس تم یہ مت سمجھو کہ تمہارے لئے اسی قسم کے ابتلاء ہیں بلکہ میں تو دیکھتا ہو ں حضرت مسیح موعودؑ نے لکھا ہے کہ ابتلاء پر ابتلاء آئیں گے بہت ہیں جو مرتد ہو جائیں گے اور بہت ہیں جو مرتد ہونے کے قریب ہو جائیں گے۔ آپ کے الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے لئے ابتلائوں کا ابھی خاتمہ نہیں ہوا بلکہ اور بڑے ابتلاء ہیں جن میں جماعت کو ہر قسم کی قربانیاں کرنی پڑیں گی پھر جا کر انعام حاصل ہوں گے لیکن موجودہ صورت میں تم اُدھر اس عورت کے حوصلہ پر غور کرو جس کا پہلے میں نے ذکر کیا اور اِدھر اپنی طرف دیکھو کہ اگر کسی کو تبلیغ کے لئے کہیں باہر بھیجنے کا منشاء ہو تو اُس کی ماں، بیوی اور رشتہ دار شور مچا دیتے ہیں کہ اِتنی دُور نہ بھیجا جائے ہمارے لئے یہ مشکل ہے، یہ تکلیف ہے۔ چنانچہ ایک شخص کو ہم نے کہیں بھیجنے کا ارادہ کیا تو اس کے رشتہ داروں نے کہنا شروع کر دیا کہ اِسے باہر نہ بھیجو اِس کے علاوہ جو آپ کی مرضی ہے کرو۔ دیکھو اُدھر تو ایک عورت اپنے ملک کے لئے آٹھ بیٹے دے چکی ہے اور نویں کے لئے کہتی ہے کہ اس کو بھی لے لو لیکن اِدھر دین کے لئے اتنی کمزوری دکھائی جاتی ہے ۔ یاد رکھو اور اِس بات کو خوب یاد رکھو کہ بڑی کامیابیوں اور بڑی فتوحات کے لئے بڑی ہی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے تو اتنے دشمن ہیں کہ ان کے مقابلہ میں ہم ایک قطرہ بھی نہیں ہیں پھر بتائو کہ ہمیں کتنی بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے اور ہمیں کتنی ہمت اور کیسی کوشش سے کام لینا چاہئے۔
پس جب تک ہر ایک احمدی یہ نہ سمجھ لے کہ میرے ہی ذمہ سب کام ہیں اُس وقت کامیابی نہیں ہو سکتی۔ ہماری جماعت کو بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے اور اس کے لئے جماعت کو تیار رہنا چاہئے۔ اب وہ زمانہ آگیا ہے جبکہ ہمارے تعلقات دُور دراز ملکوں کے لوگوں سے بڑھنے شروع ہو گئے ہیں۔ ہم تو خد اکے فضل سے ہر طرح کے امن میں ہیں مگر ممکن ہے کہ ہمارے اَور ملکوں کے بھائی امن میں نہ رہیں اورممکن ہے کہ ان کے ابتلاء میں ہمیں بھی حصہ لینا پڑے۔( مثلاً وہ وہاں سے ہجرت کر کے یہاں آئیں تو ہم ان کو اپنے اموال میں شریک کریں یا وہاں ان کی آزادیٔ مذہب کے لئے بذریعہ اپنی محسن گورنمنٹ کے چارہ جوئی کریں) اس کے لئے جماعت کو تیار رہنا چاہئے اور ہر ایک کو اپنے دل میں یہ نیت کر لینی چاہئے کہ خد اکے حضور میری جو قربانی بھی مقدر ہے اُس کے لئے میں تیار رہوں۔پھر ساتھ ہی ایسے ابتلائوں میں ثابت قدم رہنے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا بھی مانگنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ انسان پر بعض ابتلاء ایسے رنگ میں آتے ہیں کہ اگر انسان ان کے لئے یہ دعا کرے کہ یہ مجھ سے ٹل جائیں تو خدا تعالیٰ ایسے انسان کو اپنے سے بہت دور پھینک دیتا ہے۔ کیونکہ وہ کہتا ہے کہ تم اس سے گھبراتے ہو اور ثابت قدم نہیں رہ کر دکھاتے اس لئے مجھ سے دور ہو جائو تو یاد رکھو کہ ایسے ابتلائوں کے لئے یہ دعا نہیں کرنی چاہئے کہ ہم سے ٹل جائیں بلکہ مومن کو چاہئے کہ ایسی دعائوں میں لگا رہے کہ اے خدا! اگر کوئی ایسے ابتلاء مجھ پر آنے والے جو میری طاقت اور ہمت سے بڑھ کر ہوں تو مجھے توفیق دیجئے کہ میں ان میں ثابت قدم رہوں اور ان میں پورا اُتروں۔ جب تک کسی انسان میں ایسا ایمان نہیں ہوتا اُس وقت تک وہ انسان ہی نہیں ہے اور بندر، سؤر اور کتے سے بھی بدتر ہے۔
یہ تو ایک بات تھی جو میں نے بیان کر دی ہے اِس کے علاوہ ایک اور بات ہے اور وہ یہ کہ قاضی عبداللہ صاحب کا ولایت سے خط آیا ہے کہ میرا پہلا لیکچر ہوا جو بہت مقبول ہو اہے۔ مجھے تو اس بات پر تعجب ہی تھا کہ قاضی صاحب ولایت جا کر کریں گے کیا کیونکہ انہوں نے یہاں کبھی کوئی لیکچر نہ دیا تھا اور نہ کبھی کسی مضمون پر بولے تھے اُنہیں بہت حجاب تھا۔ چوہدری فتح محمد صاحب کی امداد کے لئے پہلے تو اور کئی تجویزیں دل میں آئیں مگر پھر یکلخت میرے دل میں یہ پڑا کہ قاضی صاحب کو بھیج دوں۔ میرے ان کو بھیجنے کے سوائے اِس کے اور کوئی وجہ نہ تھی کہ اِنہوں نے یہاں تعلیم پائی تھی، حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت میں رہے تھے میں نے خیال کیا کہ خدا تعالیٰ ایسے انسان میں خود برکت ڈال دے گا۔ چنانچہ آج ہی ان کا خط آیا ہے کہ ایک کامیاب لیکچر ہوا ہے اور لیکچر کے بعد ایک گھنٹہ تک سوال و جواب ہوتے رہے ہیں جن کا بہت عمدہ اثر ہوا اور لیکچر بہت پسند کیا گیا۔ چوہدری فتح محمد صاحب وہاں سے چل پڑے ہیں آپ لوگ ان کے لئے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ انہیں بخیریت یہاں پہنچائے۔ آج ولایت سے دو اَور آدمیوں نے بیعت کے فارم پُر کر کے بھیجے ہیں اور اب وہاں بارہ احمدی ہو گئے ہیں۔ غیر احمدی اس بات سے چڑا کرتے ہیں کہ تم لوگ مرزا صاحب کو حضرت مسیح سے افضل کیوں کہتے ہو؟ لیکن ہم کہتے ہیں حضرت مسیح نے تین سال کے عرصہ میں صرف تیرہ حواری تیار کئے تھے جن میں سے ایک مرتد ہو گیا تھا۔ مگر اب دیکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک شاگرد نے اِس سے نصف عرصہ میں یعنی ڈیڑھ سال میں بارہ احمدی بنا لئے ہیں کیا اب بھی کسی کو مسیح موعودؑ کا مسیح سے افضل ہونا معلوم نہیں ہوتا؟
اخیر میں میَں پھر اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ گو ہم نے تبلیغ کے لئے باہر مبلغ بھیجے ہوئے ہیں لیکن یہ انتظام ایک بہت چھوٹے پیمانہ پر ہے اصل تبلیغ وہی ہے جو ہر ایک احمدی کرتا ہے اور جو سمندر کی لہروں کی طرح ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلتی جاتی ہے۔ پس ہر ایک شخص خواہ باتوں سے ،خواہ کتابوں اور اشتہاروں سے جس طرح بھی ہو سکے تبلیغ کرے۔ اور جب قوم کا ہر ایک فرد مبلغ ہو اُس وقت کامیابیاں ہوتی ہیں۔ اِس لئے اِس بات کی بہت بڑی ضرورت ہے کہ ہر ایک شخص سمجھے کہ تبلیغ کا سارا بوجھ اُسی کے سر پر ہے اور اس کے سِوا اور کوئی نہیں ہے جس نے یہ کام کرنا ہے۔ پھر وہ ہر ایک قربانی کے لئے تیار رہے۔ جب قوم کی ایسی حالت ہو جائے گی تو خدا تعالیٰ سے انعام پر انعام ملنے شروع ہو جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے انعام بہت عجیب چیز ہوتے ہیں۔ا ن کے ملنے سے پہلے انسان ان کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَاعَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ۴؎ کہ خدا تعالیٰ کے انعام ایسے ہیں جو نہ کسی نے دیکھے اور نہ سنے اور نہ کسی کے دل میں ان کے متعلق خیال آیا۔
اِسی طرح خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے ۵؎ کہ انسان کو اس چیز کا پتہ ہی نہیں جسے خدا نے اُس کی آنکھوں کی ٹھنڈک تیار کیا ہے۔ اس کو اس کا علم ہی نہیں لیکن افسوس کہ خد اتعالیٰ کے انعاموں کے حاصل کرنے کی بہت کم کوشش کرتے ہیں۔خدا تعالیٰ اپنے فضل اور رحم کے ماتحت آپ سب لوگوں کو کامل ایمان کے درجہ پر پہنچائے تا تم خدا کے مقابلہ میں کسی چیز کی پرواہ نہ کرو۔ ‘‘ (الفضل ۲۲؍ فروری ۱۹۱۶ئ)
۱؎ العنکبوت: ۲ تا۴
۲؎ بخاری باب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم+ مسلم کتاب الجھاد باب ردّ المھاجرین الی الانصار
۳؎ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد۲ صفحہ۱۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۵ء
۴؎ بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ السجدۃ۔ باب قولہ تعالیٰ فلا تعلم نفس (الخ)
۵؎ السجدۃ: ۱۸
۶
ہر ایک بات میں حضرت مسیح موعودؑ کو حَکَم مانو
(فرمودہ ۲۵؍ فروری ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اورسورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی۔
۱؎
’’ہر ایک دانا انسان جب کوئی کام کرنے لگتا ہے تو پہلے اس کام کے کئی ایک پہلوئوں پر غور کر لیتا ہے۔ یعنی اس کے نتیجہ اور انجام کو دیکھتا ہے۔ پھر اس کی خوبی اور عمدگی کو دیکھتا ہے ۔پھر ان ذرائع پر غور کرتا ہے جن کی وجہ سے وہ اس کام کے پورا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے لیکن جو لوگ ان باتوں کو سوچے سمجھے بغیر کوئی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں وہ اکثر درمیان میں ہی ٹھوکر کھا کے رہ جاتے ہیں کیونکہ جب تک کوئی مقصد مقرر نہ ہو، مقصود کے حاصل کرنے کے ذرائع مقرر اورمعین نہ ہوں اِس کے فوائد اور نتائج دل میں مستحضر نہ ہوں تب تک انسان کبھی بھی اطمینان اور تسلی سے کوئی کام نہیں کر سکتا ۔اور اگر کرے گا تو اس کا حال ایک اندھے کی طرح کا ہو گاجو اِدھر اُدھر ٹھوکریں کھاتا ہے اور دھکّا لگنے سے کبھی اِدھر لڑھک جاتا ہے اور کبھی اُدھر۔ پس ہر ایک شخص جو یہ چاہتا ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو اور اپنے مدعا کو حاصل کرلے اُس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی کوشش اور محنت کے شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھ لے کہ اس مدعا کے حاصل کرنے سے مجھے کیا فائدہ ہو گا اور میرے لئے کیا نتیجہ مرتب ہو گا ۔پھر ساتھ ہی اس کے حصول کے ذرائع کو معلوم کرے کہ وہ کیا ہیں اور ان کو جمع کرے۔ اگر کوئی ان باتوں پر غور کر کے پھر اپنی محنت اور کوشش کا آغاز کر ے اور اس پر استقلال دکھائے تو وہ ضرور کامیاب ہو جاتا ہے۔
ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسان ایسے ہیں کہ عبادتیں کرتے ہیں ،محنتیں، مصیبتیں برداشت کرتے ہیں، دکھ اور تکلیفیں جھیلتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ ہم کیوں عبادتیں کرتے ہیں ان سے کیا مقصد اور مدعا ہے ان کاکیا نتیجہ نکلنا چاہئے۔ یہ لوگ تو اتنا بھی نہیں جانتے کہ ہمیں عبادت کس طرح کرنی چاہئے۔ جس کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے لوگ شروع سے غلطی میں پڑتے ہیں اور اس غلطی پر مر جاتے ہیں لیکن انہیں پتہ ہی نہیں لگتا کہ ہم غلطی کر رہے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہیں اپنی عبادت اور ریاضت کے نتیجہ کا علم اور پتہ ہی نہیں ہو تا اور وہ نہیں جانتے کہ ہمیں کیا ملنا چاہئے اور ہم کس چیز کے لئے کوشش کر رہے ہیں اس لئے اگر ان کو عبادت اور بندگی سے کوئی نتیجہ نہیں حاصل ہوتا تو وہ گھبراتے نہیں اور نہ ہی اپنے دل میں فکر اور تردد محسوس کرتے ہیں۔ا گر انہیں خدا کا قُرب حاصل نہیں ہوتا ،اس کی مدد اور نصرت نہیں ملتی،اس کی طرف سے تسلی تشفّی نہیں ہوتی تو ان کے دل میں کرب اور تکلیف نہیں پیدا ہوتی۔ کیوں؟ اس لئے کہ اُنہوں نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ سچی عبادت کا کیا نتیجہ ہوتا ہے اور اس سے کس طرح تسلی اور تشفّی حاصل ہوتی ہے اور کس طرح اس کی مدد اور نصرت ملتی ہے۔ چونکہ اس بات کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں ہوتا اس لئے ساری عمر عبادت کرتے کرتے مر جاتے ہیں لیکن انہیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ ہم غلط عبادت کر رہے ہیں۔ دیکھو ایک شخص ہندوئوں میں پیدا ہوتا ہے ساری عمر عبادت میں گزار دیتا ہے، بیسیوں بُری خواہشوں کو دباتا ہے اور بیسوں بُرے ارادوں سے باز رہتا ہے، قسم قسم کے جذبات کو قابو میں رکھ کر تپسیا۲؎ کرتا ہے اوراسی حالت میں مرجاتا ہے لیکن اسے کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ جو کوشش اور محنت میں کر رہاہوں یہ ٹھیک اور درست نہیں ہے اس لئے مجھے کوئی اور طریق اختیار کرنا چاہئے۔ اور اسے کیونکر یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے جبکہ وہ جانتا ہی نہیں کہ مجھے اس عبادت کے نتیجہ میں کیا حاصل ہونا ہے اوروہ کیا مقصد اور مدعا ہے جس کے حصول کے لئے میں یہ کوشش کر رہا ہوں۔
اگر دنیا میں لوگ اپنے مدعا اور مقصد کو سمجھ کر عبادت کریں تو ایک انقلاب آجائے اور کروڑوں انسان مذاہب کی تحقیقات پر لگ جائیں۔ موجودہ صورت میں جو ضد، ہٹ اور اختلاف اور اصرار ہے اس لئے ہے کہ لوگوں نے مذہب کی غرض، عبادت کے ذرائع اور اس کے فوائد پر غور نہیں کیا۔ جس طرح ماں باپ کو کرتے دیکھا اُسی طرح کرنے لگ گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں اپنے اپنے مذہب کی تحقیق اور تنقید کی طرف توجہ نہ رہی لیکن جب کسی کے پیش نظر عبادت کا مقصد اور اس کے ذرائع کا حاصل کرنا ہو گا تو وہ ضرور مذاہب کی تحقیق کی کوشش اور سعی کر ے گا۔
مثلاً ایک شخص نیت کرتا ہے کہ میں بٹالہ جائوں گا۔ اب فرض کرو کہ وہ یہاں سے مشرق کی طرف چل پڑا اور سری گو بند پور پہنچ گیا۔ وہاں جا کر جب وہ پوچھے گا کہ اس شہر کا کیا نام ہے؟ تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ تو سری گو بند پور ہے اور مجھے بٹالہ جانا ہے مجھے اس طرف نہیں آنا چاہئے تھا۔ پھر وہ اور طرف چلے گا اور اگر اسے دس گیارہ میل چل کر کوئی شہر دکھائی نہ دے گا تو اُسے معلوم ہو جائے گا کہ میں غلط راستہ پر چل رہا ہوں کیونکہ قادیان سے بٹالہ اتنی ہی دور ہے لیکن اب تک نہیں آیا اس لئے پتہ لگا کہ میں کسی اور راستہ پر پڑ گیا ہوں۔ اب پھر وہ اور طرف چلے گا اور خواہ اسے کتنے ہی چکر کاٹنے پڑیں گے تا ہم وہ بٹالہ پہنچ جائے گا کیونکہ اس کا ارادہ یہ ہے کہ بٹالہ پہنچے۔ لیکن جس کی کوئی نیت اور ارادہ ہی نہ ہو کہ مجھے کہاں پہنچنا ہے اُس کی مثال اِسی طرح کی ہے کہ ایک انسان گھر سے نکل کر اندھا دھند جدھر منہ کیا اُدھر ہی چل پڑا۔ یہ اگر پچاس سَو میل بھی چلتا جائے تو بھی اسے کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوگا کہ میں غلط راستہ پر چل رہا ہوں۔ا گر وہ جنگلوں اور وحشی جانوروں کی طرف جا رہا ہے تو اسے خیال نہیں اور اگر شہروں اور باغوں کی طرف جا رہا ہے تواسے توجہ نہیں ۔کیوں؟ اِس لئے کہ اس نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ میں کہاں جا رہا ہوں اور کیوں جا رہا ہوں اور مجھے کس طرف جانا چاہئے ۔لیکن جب انسان اس بات پر غور کرے کہ میرا کیا مدعا ،کیا مقصد اور کیا غرض ہے اور اس کے حاصل کرنے کیلئے کیا ذرائع اور کیا سامان ہیں تو وہ اگر غلطی بھی کرے تو جلدی متنبہ ہو جاتا ہے اور اصلاح کی طرف لوٹ آتا ہے۔
میں نے جو یہ آیت پڑھی ہے اِس میں خدا تعالیٰ نے اپنے قرب کے حاصل ہونے اور اپنے پاس کسی بندہ کے درجہ حاصل کرنے کا ذریعہ بتا یا ہے۔ فرمایا۔لوگ اِس بات کی بہت خواہش کرتے ہیں کہ خدا کا قرب حاصل ہو جائے، ایمان نصیب ہو جائے (ایمان ان عقائد کا نام ہے جن کے تسلیم کرنے سے انسان خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آجاتا ہے اور ہر قسم کے دکھ اور تکالیف سے بچ جاتا ہے) ایسے لوگوں کو بتائو۔ ۔ پس تیرے رب کی قسم! یہ ایمان کو اُس وقت تک نہیں پا سکیں گے یہاں تک کہ جتنے اختلافات ان کے اندر پیدا ہوتے ہیں ان کو تیری طرف نہ لوٹائیں۔ پھرجو تیرا فیصلہ ہو اُس کے قبول کرنے میں ان کے دل تنگی محسوس نہ کریں۔ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فیصلہ کو قبول تو کر لیتے ہیں مگران کے دل اس پر راضی نہیں ہوتے۔ مثلاً ایک عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں باغ یا فلاں مکان یا اتنا روپیہ فلاں کو دیا جائے۔ اب دینے والے کو یہ بُرا تولگتا ہے اورنہیں چاہتا کہ دیوے ۔اور لینے والا سمجھتا ہے کہ مجھے کم دلایا گیا ہے جتنا میرا حق تھا اتنا نہیں ملا۔ لیکن وہ فیصلہ دونوں کو ماننا پڑتا ہے اور گورنمنٹ ان کے اس طرح عمل کرنے سے خوش ہو جاتی ہے اور یہ نہیں کہتی کہ تم اس فیصلہ کے نفاذ سے دل میں کیوں بُرا مناتے ہو۔ اس لئے اگر کوئی دل میں ناراض اور ناخو ش ہو تو گورنمنٹ اُس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کرتی لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے جو حَکَمْ بنا کر بھیجا ہے اس کی وہ عزت اور وہ شان ہے کہ اگر اس کے فیصلہ کو تم مان تو لو مگر دل میں بُرا سمجھو گے تو ہم تمہیں اپنا قرب نہیں دیں گے اور تم ایمان حاصل نہیں کر سکو گے۔ اس کے فیصلہ کو تو تمہیں اس طرح ماننا چاہئے کہ تمہارے دل بھی غمگین نہ ہوں اور ذرا بھی تنگی محسوس نہ کریں۔ تم یہ یقین کر لو کہ اس نے جو فیصلہ کیا ہے وہی حق اور درست ہے اور اِسی طرح ہونا چاہئے تھا اور یہ بات نہ صرف تمہارے مونہوں سے نکلے بلکہ تمہارے دل میں بھی یہی بات ہو۔ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو منہ سے تو کہتے ہیں کہ یہ بات درست ہے مگر ان کے دل نہیں مانتے اس لئے اس پر عمل نہیں کرتے۔ اسی بات کے دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے یہاں دو باتیں بیان فرمائی ہیں ایک یہ کہ اس کے کسی فیصلہ سے تمہارے دلوں میں تنگی محسوس نہ ہو اور دوسرے یہ کہ تم اس کی فرمانبرداری بھی کر کے دکھلائو۔
یہ وہ ذریعہ ہے جو خداکے قرب کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت فرمایا اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ جو بھی خدا کا نبی ہے اِسی سے تعلق رکھتا ہے اور جو نبی آتا ہے اس کا فیصلہ اسی کے مطابق ان لوگوں کو ماننا ضروری ہے جو اس کو قبول کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے کئی جگہ لکھا ہے کہ جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھے سچا سمجھتا ہے اُس کے لئے ضروری ہے کہ میرے فیصلوں اور حکموں کو بھی مانے ورنہ وہ میری بیعت میں داخل نہیں ہے۔ پس یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی خاص نہیں ہے بلکہ ہر ایک رسول سے متعلق ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ ۳؎ کہ کوئی رسول نہیں بھیجا جاتا مگر اس لئے کہ اُس زمانہ کے لوگ اس کی اطاعت کریں اور اگر کوئی اس کی اطاعت نہیں کرتے تو وہ مومن نہیں ہیں۔ پس خدا تعالیٰ نے فرما دیا کہ نبی کی طرف سے جو فیصلہ ہو ا س کو خوشی سے قبول کرنا چاہئے اور اگر کوئی اُسے خوشی سے قبول نہیں کرتا تو وہ مومن نہیں ہے۔
بظاہر تو یہ بڑی مشکل بات معلوم ہوتی ہو گی کہ کس طرح ایک انسان کے ہر ایک فیصلہ کو اس طرح قبول کیا جائے کہ اس کے متعلق دل میں بھی ذرا تنگی محسوس نہ ہو اور کسی قسم کی ناخوشی نہ ہو۔ مگر میرے نزدیک یہ ایک بہت بڑی رحمت ہے۔ دنیا میں لوگ بڑے بڑے لوگوں کے فیصلے مانتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہمارا فیصلہ کوئی بڑا عقل مند اور دانا کرے۔ خدا تعالیٰ نے یہ فرما کر بتا دیا کہ اے لوگو! ہم تمہارے لئے اس مصیبت اور تکلیف کو باقی نہیں چھوڑتے کہ تم اپنے فیصلوں کے لئے انسانوں کو ڈھونڈتے پھرو اور پھر بھی حسبِ دلخواہ تمہیں نہ ملیں۔ ہم خود ایک انسان کو مقرر کر دیتے ہیں جو تمہارے فیصلے کر دے گا۔ پس خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی ایسے انسان کا مقرر ہونا کوئی تکلیف دینا نہیں بلکہ رحمت برسانا ہے اور غلامی کرانا نہیں بلکہ حریت پیدا کرنا ہے یہ پابندی کرانا نہیں بلکہ آزادی دلانا ہے کیونکہ ایک نبی کے ماننے والے کو یہ ضرورت نہیں رہتی کہ وہ کسی بات کے متعلق فیصلہ کرانے کے لئے کسی منصف کی تلاش میں نکلے بلکہ وہ ہر ایک بات کا فیصلہ خواہ وہ اعمال سے متعلق ہو،یا افعال سے خواہ انتظامی امور سے تعلق رکھتی ہو خواہ جسمانی سے خواہ ایمان سے تعلق رکھتی ہو خواہ اعتقاد سے وہ رسول کر دیتا ہے۔ا ب اسے کسی اور کے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی لیکن بہت لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اس بات کو سمجھا نہیں ہوتا اس لئے ٹھوکر کھاتے ہیں۔
بہت لوگ ہیں جولکھتے ہیں کہ ہمیں سمجھ آگئی ہے کہ حضرت مرزا صاحب سچے تھے لیکن لاہوری ان کے متعلق کچھ اور کہتے ہیں اور تم کچھ اور۔ ہم کس کی بات کو مانیں اور کس کی بات کو نہ مانیں۔ میں ایسے لوگوں کہتا ہوں کہ تم قرآن شریف کو قبول کرو۔ سلسلہ احمدیہ کے انتظام کے لئے پہلے حضرت مولوی صاحب تھے اور اب میں ہوں۔ نہ کبھی مولوی صاحب نے کہا اور نہ میں کہتا ہوں کہ عقائدِ احمدیت اس لئے قبول کرو کہ میں کہتا ہوں۔ عقائد تو وہی ہیں جو حضرت مرزا صاحب مقرر فرما گئے ہیں اِس لئے میں کہتا ہوں کہ اگر ہماری کوئی بات سچی ہے تو اسے قبول کر لو ورنہ غلط قرار دے کر چھوڑ دو۔ پس تمام باتوں کے فیصلہ کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ جو بات حضرت مسیح موعود ؑنے فرمائی ہے اُسے قبول کرو اور جو اُس کے خلاف ہے اُسے چھوڑ دو۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص اتنی مدت حضرت صاحب کی صحبت میں رہا ہے اُس نے فلاں بات کہی ہے۔ ’’اکمل‘‘ نے یہ لکھا ہے’’ قاسم‘‘ نے یہ کہا ہے ۔ فلاں ایڈیٹرنے یہ کہا ہے فلاں ایم اے یہ کہتا ہے ہم کس کی مانیں؟ میں کہتا ہوں کہ ہر ایک اختلاف کی بنا ء ہمیشہ سے اِسی بات پر رکھی گئی ہے کہ ان لوگوں کی باتوں اور رائوں کو سامنے رکھا جاتا ہے جو کسی بات کے متعلق فیصلہ دینے کا اختیار نہیں رکھتے اور ان کی بات کے پیچھے چلا جاتا ہے جو ٹھوکر کا باعث ہوتے ہیں۔ اِس ٹھوکر سے بچنے کا طریق یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو مأمور کیا گیا ہے اُس کی بات کو قبول کیا جائے اور اس کے علاوہ خواہ کوئی بڑا ہو یا چھوٹا اُس کی بات اگر اس مأمور من اللہ کی بات کے مطابق ہے تو اسے قبول کر لو اور اگر ا س کے خلاف ہے تو پھینک دو۔
حضرت مسیح موعودؑ کے فیصلہ کوماننے سے اصل میں قرآن اور حدیث کے فیصلہ کو مانا جاتا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ قرآن اور حدیث کو ردّ کرنے کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ ان کے اصل اور درست معنی بیان کرنے کے لئے آئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قرآن کی تفسیر کی ہے وہ حدیث ہے اور ایک تفسیر قرآن کریم کے الفاظ سے سمجھ میں آتی ہے اور یہ تفسیر وہی سب سے زیادہ سمجھ سکتا ہے جس کو خد اتعالیٰ خود سمجھائے ۔اور پھر ا س سے بڑھ کر اور کون سمجھ سکتا ہے جس پر قرآن کریم نازل ہوا ہے اِس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل، آپ کی سنت و عمل قرآن کریم کی تفسیر ہے لیکن آپ کے بعد جب زمانہ گزرتا گیا تو لوگوں نے اپنے اپنے عقل اور فہم کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنی شروع کر دی اس لئے اختلاف پڑنے شروع ہو گئے اور ہزارہا اختلاف پڑ گئے۔ اب ہر ایک مومن کے لئے مشکل ہو گیا کہ وہ کس بات کو غلط قرار دے اور کس کو مانے۔ اکثر لوگ چونکہ خیالات کے پابند ہوتے ہیں اِس لئے ضروری ہوا کہ انہیں غلط خیالات سے ہٹا کر حقیقت اور اصلیت کی طرف لانے والا کوئی پیدا ہو۔ وہ حضرت مسیح موعودؑ پیدا ہوئے۔ اِس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسیح موعود حَکَمْ ہو گایعنی اس لئے مبعوث کیا جائے گا کہ جو اختلاف پڑ گئے ہوں گے اس کے ذریعہ دُور ہو کر سب لوگ ایک دین پر جمع ہو سکیں گے ۔اور قرآن کی اپنی عقل کے مطابق جو لوگوں نے تفسیریں کر کے اختلاف ڈال دئیے ہیں وہ صحیح اور درست تفسیر کر کے ان کو دور کر ے گا۔
پس ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس لئے نہیں مانتے اور دوسروں کو منواتے کہ آپ قرآن کو منسوخ کر کے کوئی اور شریعت لائے تھے بلکہ اِس لئے کہ آپ قرآن کریم کی سچی اور درست تفسیر کرنے والے تھے۔ اسی طرح قرآن شریف کو ہم اس لئے نہیں مانتے اور دوسروں سے منواتے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے بلکہ اِس لئے کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے۔ پس ہر ایک بات اور اختلاف کافیصلہ خدا تعالیٰ کا کلام ہی کر سکتا ہے اور وہی کرتا ہے۔ مگر خداتعالیٰ کا کلام اس سے بڑھ کر اور کون سمجھ سکتا ہے جس پر کہ وہ نازل ہوا اور پھر اس سے بڑھ کر زیادہ اور کون سمجھ سکتا ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میرے باپ کا نام اس کے باپ کا نام اور میری ماں کا نام اُس کی ماں کا نام ہو گا۴؎ اور میری ہی قبر میں دفن کیا جائے گا۔ ۵؎ اس سے زیادہ اور کسی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا قرب ہو سکتا ہے اور ا س سے زیادہ کسی کا کیا حق ہے کہ قرآن کو سمجھ سکے۔ پس حضرت مسیح موعودؑ سب سے بڑھ کر قرآن کو سمجھنے والے تھے اور خدا نے اُنہیں سمجھایا تھا اِس لئے جو فیصلہ اُنہوں نے کر دیا وہی فیصلہ درست اور صحیح ہے۔
ہماری جماعت پر تو خدا کا بڑا ہی فضل اور کرم ہے۔ زید اور بکر کو ٹھوکر لگ سکتی ہے مگر ہماری جماعت کو نہیںلگ سکتی کیونکہ اُن کے لئے کوئی حَکَمْ نہیں ہے مگر ہمارے لئے حضرت مسیح موعودؑ حَکَمْ ہیں۔اور حضرت مسیح موعودؑ خدا تعالیٰ کے کلام کے مطابق فیصلہ کرنے والے ہیں کیونکہ خدا ہی نے انہیں حَکَمْ قرار دیا ہے اور پھر سب کا مطاع ٹھہرایا ہے۔ آپ کے سوا اور کون ہے جس کی نسبت حَکَم اور عدل کہا گیا ہو اور جس کی نسبت خدا نے کہا ہو کہ اس کے فیصلے صحیح اور درست ہیں۔ پھر آپ کے سوا اور کون ہے جس نے دعویٰ کیا ہو کہ میں اُس گروہ میں سے ہوں جس کو خدا تعالیٰ مرنے تک کسی اجتہادی غلطی پر نہیں رہنے دیتا ۔اور پھر آپ کے سوا اور کون ہے جس کی نصرت اور تائید خدا تعالیٰ نے کی اور جس کی صداقت کو ظاہر کر دیا۔ کوئی نہیں۔ پس جب ایسا انسان ایک ہی ہے اور وہ ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہے تو ہم اس کے ہوتے ہوئے اور کسی کی بات کو کیوں مانیں۔
اس بات کو یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ تم ہر ایک بات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ مانو۔ جو اس لئے آیا تھا کہ اختلافات کو مٹا دے اور تمام اختلافی باتوں کا فیصلہ کر دے۔ اور یہ وہ عظیم الشان انسان ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے قرآن میں خبر دی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے،پہلے تمام نبیوں نے خبر دی ہے۔ پس یہی وہ انسان ہے جس کا ہر ایک فیصلہ بلاچون وچرا کے مان لینا چاہئے کیونکہ اگر وہ سچا ہے اور واقعی سچا ہے تو اس کا ہر ایک فیصلہ اور ہر ایک بات سچی ہے۔ اور جب ہر ایک بات سچی ہے تو اس کے ماننے میں کیا انکار ہو سکتا ہے۔
پس اگر ہمارے اِس سلسلہ میں داخل ہونے کی اور اِس بوجھ کو اپنے سر پر لینے کی یہ غرض ہے کہ ہمیں ایمان حاصل ہو جائے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ خدا کے رسول کی اطاعت کا جُؤا اپنی گردنوں پر رکھو ۔اور اگر یہ نہیں بلکہ تم زید و بکر کی باتوں کو ماننے والے ہو اور ان کے پیچھے چلنے والے ہو تو تمہیں سوائے ضلالت اور ہلاکت کے اور کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ جسے اپنے ایمان کی ضرورت ہے اور جو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اپنے تصور میں اس بات کو لائے کہ کیا جبکہ وہ خد اتعالیٰ کے حکم کو ردّ کرتا ہے تو کامیاب ہو سکے گا؟ ہرگز نہیں۔ خدا تعالیٰ نے تمام عقائد کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیصلہ پر رکھی ہے۔ اگر تم آپ کے فیصلہ کو مانو گے تو کوئی وجہ نہیں کہ تمہیں ٹھوکر لگے۔ زید کھڑا رہے یا گرے۔ بکر کھڑا رہے یا گرے مگر تم کھڑے رہو گے کیونکہ مسیح موعود کھڑا ہے ۔اور کھڑی چیز کو پکڑنے والا نہیں گرتا بلکہ جو گرنے والی چیز کو پکڑتا ہے وہ گرتا ہے۔ جس شخص کو خدا نے سہارا دے کر کھڑا کیا ہے وہ نہیں گر سکتا کیونکہ خدا نہیں گرتا۔ پس تمہیں اسی کے سہارے کھڑا ہونا چاہئے جو ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والا ہے اور اسی کی ہر ایک بات ماننی چاہئے۔ حضرت مسیح موعودؑو ہی کہتا ہے جو رسول کریم ﷺ نے کہا۔ اور رسول کریم ﷺ نے وہی کہا جو خدا تعالیٰ نے انہیں کہا۔ اور خدا تعالیٰ غلطی نہیں کرتا کیونکہ وہ علیم اور خبیر ہے ۔ہر ایک بات کا علم رکھتا ہے اور ہر ایک بات کو جانتا ہے اس لئے مسیح موعودعلیہ السلام ہی کی بات ایسی ہے جو بِلا چون وچرا ماننے کے قابل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اِس بات کی سمجھ دے کہ وہ عقائد میں حضرت مسیح موعودؑ کے اقوال و افعال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور قرآن کریم پر ہو نہ کہ کسی اور انسان کے اقوال پر کیونکہ اس طرح ٹھوکر لگتی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ بعض لوگوں کی سمجھ اور عقل دوسروں سے اعلیٰ ہوتی ہے مگر وہ ایسے انسان نہیں کہے جا سکتے جو غلطی نہ کرتے ہوں۔ یا نہ کر سکتے ہوں اور بالکل پاک ہوں۔ امام مالکؒ، امام حنبلؒ، امام شافعیؒ کا اسلام میں بہت بڑا درجہ ہے اور واقعہ میں وہ اِسی قابل ہیں لیکن بعض باتیں ایک نے کہی ہیں جن میں نقص ہے لیکن دوسرے نے ان کو تو درست لکھا ہے مگر کسی اور بات میں غلطی کر گیا ہے۔ اسی طرح بعض کی کوئی بات غلط ہے اور بعض کی کوئی۔ تو تمام اقوال اور افعال صرف خدا کے مأموروں کے ہی درست ہوتے ہیں ان کے سوا اور کسی کے نہیں ہوتے اس لئے ایمانات کی بنیاد مأمور من اللہ کے اقوال پر ہی ہونی چاہئے۔ خدا تعالیٰ ہمارے اعتقادات کو اپنی مرضی کے مطابق درست رکھے تاہم ٹھوکر نہ کھائیں اور ہمارے قدم ایسی مضبوط چٹان پر قائم ہوں کہ جہاں سے کبھی نہ ہل سکیں۔‘‘
(الفضل ۲۹ فروری ۱۹۱۶ئ)
۱؎ النسائ: ۶۶
۲؎ تپسیا: مشقت کی عبادت، سخت ریاضت
۳؎ النسائ: ۶۵
۴؎ ترمذی کتاب الفتن باب ماجاء فی المہدی+ ابوداؤد کتاب الفتن باب کتاب اوّل کتاب المہدی
۵؎ مشکوٰۃ باب نزول عیسیٰ علیہ السلام صفحہ ۴۸۰ مطبوعہ کراچی ۱۳۶۸ھ
۷
ہماری جماعت صفاتِ الٰہیہ کی مظہر بنے
(فرمودہ ۳؍ مارچ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ جن خوبیوں اور جن صفاتِ حسنہ کا مالک ہے کوئی بھی نظیر ان کی کسی اور جگہ نہیں ملتی لیکن وہ خدا خدا ہے اور باقی مخلوق اس لئے مخلوق میں جو صفات اور خوبیاں ہوں گی وہ سب اس خدا ہی کی ہوں گی اور اس کی صفات کا ظل ہوں گی۔ پس خدا تعالیٰ میں جو صفات اور خوبیاں اور حسن ہے انسان میں اس کا ظل ہے۔ا نسان ان صفات پر اور ان خوبیوں پر اور اس حسن پر جو اس میں ہیں خدا تعالیٰ کی صفات کا اندازہ نہیں لگا سکتا کیونکہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے اسی کا اندازہ لگا سکتا ہے اس لئے اس جگہ انسان جو بھی اندازہ لگائے گا وہ غلط ہو گا۔ کیونکہ یہ اس ظل پر جو اس نے دیکھا ہے اس خدا کی صفات کا جس کی صفات کا یہ ظل ہیں خیال کرے گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کو سے شروع کیا نَحْمَدُ سے شرو ع نہیںکیا تاکہ بتادے کہ جس قدر بھی خوبیاں اور صفات ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ میں جمع ہیں اِسی لئے وہ ہر طرح کی کامل حمد کے لائق ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگ بہت ہیں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق طرح طرح کے عیوب جمع کرتے ہیں۔ اس کو زبان سے نہیں تو اعمال سے یا دیگر عقائد سے بے قدرت تسلیم کیا جاتا ہے،اس کو جھوٹا کہا جاتا ہے، اس کو مجبور ظالم اور بے رحم گردانا جاتا ہے غرض طرح طرح کے الزام خدا پر لگائے جاتے ہیں۔ یہ الزام اُس کے نہ ماننے والوں کی طرف سے نہیں بلکہ ماننے والوں اور اس کی ہستی کا اقرار کرنے والوں کی طرف سے ہیں۔ وہ ان الزامات کو سمجھتے ہیں کہ یہ اس کی صفات ہیں اس لئے وہ ان کو بھی اُسی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ایک مسلمان جو کہنے والا ہے اُس کا فرض ہے کہ وہ ان تمام بدیوں اور الزامات کوجو اللہ تعالیٰ پر لگائے جاتے ہیں اور اس کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں دور کرے۔
نبی اور مأمور اِسی غرض کیلئے دنیا میں آتے ہیں تا وہ ان الزامات اوربدیوں کو جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی گئی ہیں دور کریں ۔سچے سلسلہ کی یہی نشانی ہے کہ اس کے ماننے والے ان الزامات کو دور کریں۔ جس طرح حضرت نوحؑ کی آمد، حضرت ابراہیم ؑ کی آمد، حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسیٰؑ اورہمارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے نبیوں کی آمد جو مختلف ملکوں میں مختلف اوقات میں مبعوث ہوئے اِسی لئے ہوئی کہ وہ ان الزامات کو جو لوگوں نے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر چھوڑے تھے دُور کریں اُسی طرح ہمارے حضرت مسیح موعودؑ بھی اِسی غرض کے لئے بھیجے گئے ۔ جس طرح پہلے نبیوں کی جماعتیں خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے اِسی غرض کے لئے قائم کی گئیں اُسی طرح ہماری جماعت بھی اِسی غرض کے لئے قائم کی گئی ہے۔ پس جس طرح ان لوگوں نے جو پہلے نبیوں کی جماعت سے تھے اپنا فرض ادا کیا۔ اسی طرح ہمارا بھی فرض ہے کہ ہماری کوششیں مختلف طریقوں سے اور محنتیں چھوٹی ہوںیا بڑی اِسی غرض کے لئے ہونی چاہئیں۔ ہمارے لئے فرمایا کہ تم خدا سے مدد مانگو، اُس سے دعا کرو کیونکہ تم خود کوئی چیز نہیں کہ اس کام کوبجا لائو۔ہاں خد اسے دعا کرو ۔تم ایک تلوار کی طرح ہو جب خدا اس تلوار کے قبضے کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس تلوار کو چلائے گا تو وہ تلوار جس پر پڑے گی اُس کو کاٹتی چلی جائے گی۔
ہمارا جلسہ اِسی غرض کے لئے دہلی میں قرار پایا ہے۔ دعا کرو کہ خدا تعالیٰ اس جلسے کو کامیاب کرے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے کہ دہلی میں ولیوں، بزرگوں، شہیدوں اور صالح لوگوں کی بہت قبریں ہیں حتیٰ کہ جس قدر پاک لوگ اِس خاک میں مدفون ہیں زندوں سے زیادہ ہوں گے ان کی روحیں حق کے ظہور کے لئے تڑپ رہی ہیں وہاں یہ سلسلہ ضرور پھیلے گا۔
حضرت مسیح موعودؑ جب دہلی تشریف لے گئے تھے تو وہاں کی جماعت نے عرض کیا یہاں کے لوگ بالکل پرواہ نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ارے میاں! اگر مسیح نے ہندوستان ہی میں آنا تھا تو پھردہلی میں آتا نہ کہ پنجاب کے کسی گائوں میں جہاں بات کرنے کا بھی سلیقہ نہیں۔ گویا وہ لوگ کی بجائے اَلْحَمْدُ لِدِھْلِیْ کہا کرتے یعنی تمام خوبیاں وہ دہلی میں جمع کرتے ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ عالم ہو سکتے ہیں تو دہلی میں سے، ولی،شہید، صالح اور نیکوکار ہو سکتے ہیں تو دہلی سے ۔ اُنہوں نے دہلی کو تمام صفات کا جامع بنا لیا ہے اور اس قدر متکبر ہوئے ہیں کہ وہ خیال کرتے ہیںکہ دہلی میں رہ کر ہمیں کسی بات کے سننے کی حاجت ہی نہیں تو وہاں کے لوگ بہت بے پرواہ ہیں۔ دعا کرنی چاہئے ا للہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں میں تحریک کرے کہ وہ اپنے دلوں کو طرح طرح کی آلودگیوں اور نخوت اور تکبر سے صاف کر کے ہمارے جلسہ میں آویں اور پھر دعا کرنی چاہئے کہ ہمارے واعظوں کے دلوں میں کسی قسم کا تکبر نہ ہو، کسی قسم کا عجب نہ ہو ۔ پھر دعا کرنی چاہئے کہ ہمارے واعظوں کی تبلیغ میں اثر ہو۔ اور پھر دعا کرنی چاہئے کہ اس اثر سے وہ لوگ فائدہ بھی اُٹھائیں۔ اور پھر دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو توفیق دے کہ وہ اس اثر کو دوسروں تک پہنچائیں۔ جلسہ آج جمعہ کے بعد شروع ہو گا چار دن تک رہے گا ان چاروں دنوں میں دعا کرنی چاہئے۔ ‘‘ (الفضل ۷؍ مارچ ۱۹۱۶ئ)
۸
دو دو چار چار بیویاں کرو!
(فرمودہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اور سورۃفاتحہ کے حضور نے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
۱؎
پھر فرمایا:۔
’’ اسلام کے معنی کامل فرمانبرداری کے ہیں اور اگر کوئی شخص مسلم کہلاتا ہے اور اپنی خواہشوں اور اپنے اغراض اور خیالات کو اسلام کے احکام پر مقدم کرتا ہے تو وہ نام کا مسلم ہے لیکن خدا کے حضور مسلم نہیں کہلا سکتا۔ جب مسلم کے معنے فرمانبردار ، متبع، مطیع اور ہر ایک بات کے ماننے والے کے ہیں تو پھر ایسا شخص جو اسلام کے احکام کو نہیں پکڑتا اور اس کے فرمانوں کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرتا وہ مسلم نہیں ہو سکتا۔ ایسے شخص کا کیا حق ہے کہ وہ مسلم کہلائے۔ مسلم وہی ہے جو خدا کے آگے اپنی گردن ڈال دے اور اُس کے تمام کام خدا کے احکام کے ماتحت ہو جائیں اور وہ ان باتوں کو پسند کرے جنہیں خدا تعالیٰ نے پسند کیا ہے یہی مسلم کی تعریف ہے اس تعریف کے ماتحت یہ شخص مسلم ہے۔
لوگ اپنی پسند کے ماتحت آنے والے احکام کے لئے بڑی خوشی سے فرمانبرداری کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر کسی بینے سے قرضہ لیا ہوا ہو تو وہ سُود سے بچنے کی بڑی کوشش کریں گے اور کہیں گے یہ تو ہمارے مذہب کے خلاف ہے ہمارے مذہب نے تو اسے جائز نہیں رکھا لیکن اگر لڑکیوں کو حصہ دینا ہو تو کہہ دیں گے ہم شریعت کے پابند نہیں ہم رواج کے پابند ہیں۔ غرض یہ کہ اُنہوں نے شریعت کو ایسے بنا چھوڑا ہے کہ مطلب کی بات کو لے لیا اور جو خلافِ منشا ء ہوئی اسے چھوڑ دیا۔
اِسی طرح ایک سے زیادہ شادی کرنے کے متعلق باتیں بنائی ہیں۔ اس وقت ہندوستان میں یورپ کی ہوا چل رہی ہے اور یوں بھی اسلام سے دور ہوتے ہوتے اس سے بہت بُعد ہو گیا ہے اس لئے لوگ دوسری شادی کرنے کے بہت مخالف ہیں۔ ایک شخص احمدی نے مجھے لکھا ہے کہ میرے اولاد نہیں ہے اس لئے میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میرے اس خیال کی وجہ سے میری بیوی کے والدین نے اسے روک لیا ہے اور بھیجتے نہیں ہیں۔ کہتے ہیں ہم تب اپنی لڑکی کوبھیجیں گے جب تم یہ لکھ کر دو کہ تم دوسری شادی نہیں کرو گے۔
قرآن شریف فرماتا ہے تم شادی کرو جو تمہارے پسند ہو۔ ہاں اگر عدل نہ ہو سکے تو ایک کرو۔ ورنہ دو دو تین تین چار چار کرنے کی اجازت ہے تو کیونکر ایک شخص احمدی رہ سکتا ہے جبکہ وہ خدا کے اس حکم کے خلاف کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو حکم دیتا ہے کہ اگر تم عدل نہ کر سکو تو اس صورت میں ایک کرو۔ موانع کی موجودگی میں ایک کی اجازت دی ہے لیکن موانع نہ ہونے کی صورت میں تمہیں د ودو، تین تین، چار چار کی اجازت ہے۔
میری دوسری شادی پر لاہور کے ایک شخص نے جو سید کہلاتا ہے اعتراض کیا۔ اُس کو نہیں معلوم کہ جس کی اولاد ہونے کا وہ فخر کرتا ہے اور جس کی بیٹی کی نسل ہونے سے وہ سید بنا ہے اُس کے والد کی تو ۹ بیویاں تھیں۔۲؎ اگر دو شادیاں کرانے کے لحاظ سے ایک شخص شہوت پرست، عیاش کہلا سکتا ہے تو ۹ شادیاں کرانے والے کی نسبت اُس کا کیا خیال ہو گا۔ لیکھرام کی طرح اس نے سمجھا تھا کہ اس نے بڑا بھاری اعتراض کیا ہے لیکن جس طرح لیکھرام کے اعتراض نے اس معزز مکرم کی شان کا کچھ نہیں بگاڑا اِس شخص کے اعتراض نے میرا بھی کچھ نہیں بگاڑا۔ اس نے اپنے آپ کو لیکھرام کے مشابہہ کیا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت دی۔اس نے نادانی سے کہا کہ یہ شخص عیاشی چاہتا ہے لیکن ہم اسے کہتے ہیں کہ اس کے اس اعتراض کرنے میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان، حضرت امام حسینؓ، حضرت عبداللہ بن جعفر قریباً پانچ سَو صحابہ ہمارے ساتھ شامل ہیں وہ سب اِسی اعتراض کے نیچے آئیں گے۔ لیکھرام اور اس کے بھائیوں نے بڑے بڑے اعتراض کئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جو اس قدر لوگوں کی ہدایت کے لئے آوے اور پھر وہ اس طرح کرے (جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا) یہ کیونکر اچھا کام ہو سکتا ہے لیکن باوجود اس اعتراض کو دیکھتے ہوئے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو چکا تھا اِس نے مجھ پر یہی اعتراض کیا۔ افسوس اِس نے میرے پر یہ اعتراض کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہ چھوڑا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا جو عورت اپنے خاوند کی دوسری شادی پر چڑتی ہے اور بُرا مناتی ہے، ناپسند کرتی ہے، غصے میں آتی ہے، تو خاوند کے لئے ضروری ہے کہ اُس کی اِس چڑ کو دُور کرنے اور توڑنے کے لئے دوسری شادی کرے۔۳؎ اگر کوئی شخص اس کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اِس پر اعتراض کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے برخلاف کرتا ہے لیکن باوجود اِس کے بہت سارے احمدی اِس کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ خواہ وہ محمد حسین کے مجھ پر اعتراض کرنے کو بُرا ہی مناتے ہوں اور جوش میں آتے ہوں لیکن جب خود ان پر بات آتی ہے تو وہ بھی اِسی اعتراض کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ اسلام کے تو یہی معنے ہیں کہ اپنے اُوپر بھی ان احکام کو چلائے جو احکام اسلام نے دیئے ہیں۔
بہت سارے نبیوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں۔ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت یعقوبؑ، حضرت موسی ؑ،حضرت دائود، حضرت سلیمان ؑ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں۔ بڑے بڑے نبیوں میں کثرت سے ایسے نبی گزر چکے ہیں اگر فہرست لی جائے تو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے والے نبی زیادہ ہوں گے۔ خود حضرت مسیح ؑکی نسبت بھی چار شادیاں بیان کی جاتی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اِس قدر اولوالعزم انبیاء ایک سے زیادہ شادیاں رکھتے تھے کیا یہ اُن کا فعل عیاشی پر مبنی تھا؟ اگر کہو کہ نہیں ضرورت کے ماتحت اُنہوں نے شادیاں کی تھیں۔ ایک یا دو یا چار نبی ہوتے تو کہہ سکتے تھے کہ مصلحت کے ماتحت اُنہوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں ۔ یہاں اگر کل چالیس یا پچاس نبی ہیں تواِ ن میں سے پچیس یا تیس ایسے نظر آئیں گے کہ اُنہوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں۔ اِس میں کیا حکمت ہے کہ خدا تعالیٰ نے جن پاک بزرگوں کو اپنی خلعتِ نبوت سے سرفراز فرمایا اُن میں سے اکثر کو ایک سے زیادہ شادی کے لئے ہی ضرورت پیش آئی۔ اِدھر قرآن شریف بھی دو دو چار چار کا حکم دیتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی خاص حکمت پوشیدہ ہے باوجود اِس کے کہ نسل موجود ہے اور پھر شادیاںکی جاتی ہیں۔
اگر کوئی شخص کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اولاد کیلئے شادیاں کرتے تھے تو ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے ہیں اور زند ہ ہیں پھر ایسے وقت میں آپؐ نے اور نکاح کیا۔ پھر اور اعتراض ہے۔ اور کو تو چار چار کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ۹ کی اجازت کیوں دی گئی۔
بہت لوگوں کا خیال ہے کہ۹تک عام اجازت ہے۔ لیکن مسیح موعود علیہ السلام نے چارکا ہی فتویٰ دیا ہے۔ میں نے بار ہا آپ سے چار کے متعلق ہی سنا ہے آپ چار ہی فرمایا کرتے تھے۔ حضرت مولوی صاحب (نور الدین) کا ایک وقت میں ۹ کے جواز کا خیال تھا چنانچہ اُنہوں نے ایک دفعہ ایک روایت بھجوا دی کہ فلاں بزرگ کی چار سے زیادہ بیویاں تھیں۔ میر محمد اسحق صاحب وہ روایت لئے ہوئے میر ے پاس آئے اور کہنے لگے آج اِس مسئلہ پر خوب بحث ہو گی۔ مولوی صاحب نے یہ ایک حدیث حضرت صاحب کو دکھانے کے لئے بھجوائی ہے۔ پس وہ اسے حضرت صاحب کو دکھانے کے لئے لے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد جب واپس آئے تو سر نیچے ڈالا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ حضرت صاحب کے سامنے جب وہ عبارت پیش کی تو آپ نے فرمایا یہاں کہاں لکھا ہے کہ ۹ بیبیاں ایک وقت میں تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چار کی نسبت ہی فرمایا کرتے تھے۔ تو ہم بھی یہی کہیں گے کہ اِدھر چار کی اجازت اُدھر ۹کی اس میں کیا حکمت ہے۔
اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اولاد کی خواہش تھی تو آپ کو چار بیویاں کرنی چاہئے تھیں لیکن آپ نے ۹ کیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ آپ خواہ بیس بیویاں بھی کر لیں تو بھی آپ کے نرینہ اولاد نہ ہو گی تو پھر کس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور لوگوں سے زیادہ 9 کی اجازت دی؟ معلوم ہوا کہ کوئی اَور حکمت ہے۔ چونکہ اسلام ہدایت لے کر آیا تھا اس لئے تبلیغ فرضِ اسلام تھا۔ کیونکہ تبلیغ کے ذریعہ سے ہدایت پہنچ سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ شادیاں کرنے میں یہی حکمت تھی۔ اگرچہ سیاسی اغراض بھی تھیں۔لیکن سب سے بڑھ کر یہی غرض تھی کہ انہوں نے زیادہ شادیاں کر کے عورتوں کے متعلق علم کو محفوظ کر دیا۔ آپؐ کی بیویاں اسلام کی دوسری عورتوں کے لئے مبلّغہ ہوئیں انہوں نے اسلام اور ان کے متعلق احکام پہنچائے۔ چار عورتوں کی گواہی دو مردوں کی گواہی کے برابر ہوتی ہے لیکن بعض ایسے فیصلے بھی ہوتے ہیں کہ ان میں چار گواہ مردوں کی ضرورت ہوتی ہے پس ایسے فیصلے میں آٹھ عورتوں کی گواہی کی ضرورت ہوئی۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۹ کر کے اسے طاق کر دیا اور گواہی کامل ہو گئی۔ غرض نصف حصہ دین کا جو عورتوں کے متعلق تھا اِس طرح پورا ہوا۔
دوسری حکمت اس میں نسل کی ترقی کی بھی ہے کہ نسل کے بڑھنے سے خدا کے نام لیوا پیدا ہوں گے اور اسلام کے مبلغ بنیں گے اور اسلام دوسرے مذاہب کو اپنے اندر جذب کر لے گا۔ تاریخ پڑھ کر دیکھ لو کہ ترقی کرنے والی قوم کی پہلے نسل کی ترقی ہوئی ہے۔ یورپ کے لوگ جزیروں میں جا کر آباد ہوئے ہیںا ن کی نسل کی ترقی ہوتی گئی اور اصلی باشندوں کی نسل کی کمی ہوتی گئی۔ غرض جس قوم کی ترقی ہونے لگی ہے اس کی نسل بڑھی ہے اور دوسری قوم کی نسل کم ہوئی ہے۔ فارس میں مسلمان آئے، کاکیشیا، ارض روم، افغانستان، بلوچستان، بخارا، جاوا، سماٹرا، سیلون جب یہ قوم اپنی ترقی کے زمانہ میں پہنچی ان کی نسل بڑھی، ان تمام علاقوں میں عرب نسلیں پائی جاتی ہیں۔ا گرچہ یہی عرب رسول اللہ ؐسے پہلے موجود تھے۔ کیوں ان کی ترقی اُس وقت نہ ہوئی اور کیوں ان کی نسلیں اُس وقت نہ پھیلیں؟ اِس کی یہی وجہ ہے کہ کسی قوم کی ترقی کے ساتھ اس کی نسل کی بھی ترقی ہوتی ہے اس لئے اسلام نے نسل کی ترقی کے لئے چار تک بیویاں کرنے کا حکم دیا ہے۔ جب نسل کی ترقی ہو گی تو اس کے ساتھ دوسری ترقی بھی ہو گی۔ تو اس طرف اشارہ کر دیا کہ نسل بڑھائو تاکہ بڑے ؓبڑے اعلیٰ قسم کے شخص پیدا ہوں اور وہ اسلام کو قائم کریں۔ نسل بڑھنے سے تبلیغ کرنے والے بھی بڑھ جاویں گے۔ جن جن ممالک میں مسلمانوں نے اس بات پر کہ ایک سے زیادہ شادیاں کر یں عمل نہیں کیا۔ وہاں پھر اسلام بھی نہیں پھیلا۔ عرب اس بات کو خوب جانتے تھے اور اُنہوں نے اِس بات پر خوب عمل کیا۔ اِسی لئے جہاں جہاں عرب حکومت قائم ہوئی وہاں دوسری نسلیں مٹ گئیں۔ ہندوستان میںمغل پٹھان لوگوں کی سلطنت ہوئی اُنہوں نے اس بات پر عمل نہ کیا اگرچہ اُنہوں نے دوسری قوموں پر ظلم کیا، جبر بھی کیا لیکن پھر بھی یہاں دوسری قومیں کم نہیں ہوئیں لیکن عرب لوگوں کی سلطنت کے ماتحت باوجود اعلیٰ درجے کے امن اور ۴؎ پر عامل ہونے کے جہاں گئے اسلام وہاں بڑی ترقی کر گیا اور دوسری قومیں وہاں نابود ہو گئیں۔ ہندوستان میں اسلامی سلطنت سات سَو سال تک رہی لیکن اسلام یہاں اس قدر نہ پھیلا جتنا کہ پھیلنا چاہئے تھا۔ا گر مسلمان یہاں بھی کثرت سے شادیاں کرتے تو سارا ہندوستان مسلمان ہو جاتا۔ بادشاہوں نے یہاں شادیاں کثرت سے کیں لیکن عیاشی کے لئے۔
جہاں عورت کے حقوق دوسری شادی کرنے پر نہ دئیے جائیں تو وہ شادی عیاشی کے لئے ہوتی ہے۔ ایک شادی کی جاتی ہے اور دوسری سے تعلق توڑ لیا جاتا ہے۔ راجوں اور نوابوں کا یہی حال ہے۔ مگر اسلام نے جو شرائط لگائی ہیں ان سے عیاشی نہیں ہو سکتی۔ اسلام تو کہتا ہے کہ خواہ دوسری عورت سے تمہیں کتنی ہی محبت ہو لیکن تمہیں ذرا ذرا بات میں دونوں سے ایک جیسا سلوک چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہؓ سب بیویوں سے پیاری تھیں۔ یہ بات پوشیدہ نہ تھی سب جانتے تھے ۔ اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ میں تمہارا وظیفہ بڑھانا چاہتا ہوں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کو برابر حصہ دیتے تھے تم مجھ کو زیادہ حصہ دینے والے کون ہو۔ صحابہ بھی اِس بات کو جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ سے زیادہ پیار رکھتے ہیں اور سب عورتوں سے ایک جیسا سلوک کرتے ہیں۔ اس لئے جب حضرت عائشہؓ کی باری ہوتی تھی تو ہدیہ آپ کے پیش کیا کرتے تھے۔۵؎ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سخت بیماری میں بھی اپنی مرضی سے حضرت عائشہؓ کے گھر نہ رہے تھے بلکہ سب بیویوں سے پوچھ لیا تھا کہ مجھے آنے جانے میں تکلیف ہوتی ہے اگر تم کہو تو میں عائشہؓ ہی کے ہاں رہوں۔ ۶؎ یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ کس قلب کا وہ انسان تھا باوجود اس کے کہ آپ حضرت عائشہؓ رضی اللہ عنہ سے بوجہ تقوی،فراست ، سمجھ،دانائی کے محبت کرتے تھے لیکن پھر بھی دوسری عورتوں کا لحاظ تھا اور پھر کسی کو ترجیح نہیں دیتے تھے۔
نادان انسان کہتا ہے کہ یہ عیاشی ہے لیکن یہ قربانی ہوتی ہے۔ بہت لوگ ہیں کہ ان کے اولاد بھی نہیں ہوتی لیکن وہ دوسری شادی نہیں کرتے اِس خوف سے کہ یہ بڑا مشکل امر ہے۔ طرح طرح کے انتظام اور تکالیف بڑھ جاتی ہیں، قسم قسم کی ناپسند باتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ عیاشی میں انسان یک سُوئی کی طرف جھک پڑتا ہے لیکن اسلام کی شادیاں ایک طرف جھکنے نہیں دیتیں بلکہ وہ قربانی چاہتی ہیں۔
لیکھرام اس حکمت کو نہ سمجھا اور نہ ہی محمد حسین نے اس حکمت کو پایا۔ اس نے مخالف قوم میں پیدا ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا۔ محمد حسین نے میرے پر اعتراض کر کے گویا بِالواسطہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل پر اعتراض کیا۔ غرض لوگوں نے اس حکمت کو سمجھا نہیں اسلام نے ایسی پابندیاں اور قیود لگائی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان پابندیوں اور قیود کے ماتحت شادی کرتا ہے وہ اسلام کی ترقی کے لئے شادی کرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے جلال کے اظہار کے لئے یہ قیود اپنے اوپر وارد کرتا ہے۔
خدا تعالیٰ جب دشمن کا دل دکھانا چاہتا ہے تو اسی طرح کرتا ہے۔ وہ ایک شادی سے اتنا غصہ میں آیا ابھی تو اس میں دو کی اَور گنجائش ہے جو ایک کی برداشت نہ کر سکا وہ دو اَور کے لئے تو اور بھی زیادہ رنج اٹھائے گا اورگھبرائے گا۔ جس شخص کی شادی سے یہ غرض ہو کہ اسلام کی آبادی بڑھے، اسلام ترقی کرے، اسلام کے نام لیوا اور اسلام کے پھیلانے والے بڑھیں اُس کے لئے اِس سے بڑھ کر اور خوشی کی چیز کیا ہو سکتی ہے۔ ایک نسل کی ترقی سے دوسری پیچھے آنے والی نسلوں کی بھی ترقی ہوتی ہے۔
ہمارے مخالفوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ دوسری شادی پر اعتراض کرتے ہیں مگر ہمارے احمدی بھی اِس مرض میں مبتلا ہیں جیسے میں نے پہلے واقعہ سنایا اس صورت میں جبکہ ہم خود اِن شادیوں کو ناپسند کریں اور ان پر اعتراض کریں تو عیسائی اور دوسرے لوگ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے میں سچے ہیں۔ پس ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ ان احکام کی فرمانبرداری کرے جو قرآن شریف نے بیان فرمائے ہیں۔ اس صورت میں جبکہ وہ ان احکام کی فرمانبرداری کرے گا مسلمان کہلا سکتا ہے۔
ایک اور بات یاد آگئی۔ میری شادی پر تو اس شخص نے اعتراض کیا ہے لیکن طلاق کی نسبت تو سخت ممانعت ہوئی ہے۔ طلاق دینے کیلئے تو بہت ساری شرطیں لگائی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طلاق کی نسبت فرماتے ہیں کہ یہ اَبْغَضُ الْحَلَالِ ہے۔۷؎ خد ا اس حلال کو ناپسند کرتا ہے اسی وقت اجازت دیتا ہے کہ جب گزارے کی کوئی صورت ہی نہ رہے۔ ان کے امیر قوم مولوی محمد علی نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دی۔ وہ بیوی قادیان آئی تھی اُس کا بیان تھا کہ مولوی صاحب پڑھا کرتے تھے یاوکالت کی تیاری کر رہے تھے تو انہوں نے اسے طلاق دی اور کہا میں اِس وقت خرچ برداشت نہیں کر سکتابعد میں پھر شادی کر لوں گا۔ پھر وہ کہتی تھی کہ مولوی صاحب اب مجھ سے شادی کر لیں اور اُس عہد کو پورا کریں میں اپنے بعض حقوق بھی چھوڑنے کے لئے تیار ہوں۔ وہاں تو اَبْغَضُ الْحَلَالِ بھی اعلیٰ درجے کی چیز بن جاتی ہے اور یہاں وہ چیز بھی جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اور دوسرے انبیاء نے عمل کر کے بتایا بُری سمجھی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو بچاوے۔ کرنا نہ کرنا اور چیز ہے لیکن اگر کوئی عورت یا اس کا رشتہ دار اس بات کو بُرا مانتا ہے تووہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اپنے سچے راستوں پر چلنے کی توفیق دے۔‘‘ آمین (الفضل ۱۴؍ مارچ ۱۹۱۶ئ)
۱؎ النسائ: ۴
۲؎ بخاری کتاب النکاح باب کثرۃ النساء
۳؎ مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ ۶۹،۷۰ مطبوعہ ۱۹۶۷ء
۴؎ البقرۃ: ۲۵۷
۵،۶؎ بخاری کتاب المناقب باب فضل عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا
۷؎ سنن ابی داؤد کتاب الطلاق باب فی کراھیۃ الطلاق
۹
ترقی اسلام کے لئے کثرت سے دعائیں کرو
(فرمودہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضو رنے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
۱؎
پھر فرمایا:۔
’’جن جماعتوں کا کام تبلیغ ہوتا ہے اور جو اپنے ذمہ خدا تعالیٰ کا پیغام دنیا کو پہنچانالیتی ہیں ان کے کام سے زیادہ مشکل دنیا میں اور کوئی نہیں ہوتا۔ کسی بات کے متعلق ہر ایک انسان اپنے علم، طاقت اور محنت سے کچھ نہ کچھ کام کر سکتا ہے لیکن کسی کے دل سے خیالات کا نکالنا اور ان کی جگہ نئے خیالات کا داخل کرنا کسی انسانی طاقت و ہمت کا کام نہیں ہے۔ ایک شخص جو تلوار لے کر اُٹھتا ہے وہ اس کے زور سے اپنے آگے آنے والے لوگوں کو ہٹا سکتا ہے۔ کیونکہ ان تک اس کا ہاتھ پہنچ سکتا ہے۔ اِسی طرح ایک ڈاکٹر ایک مریض کا علاج کرتا ہے کیونکہ اس کے لئے اس کے پاس سامان مہیاہیں بیماری کی علامتیں اس کو بتاتی ہیں کہ مریض فلاں عارضہ میں مبتلا ہے لیکن روحانی بیماریوں کی علامات کچھ ایسی باریک اور پوشیدہ ہوتی ہیں کہ اگر ایک انسان کی تشخیص کے لئے ہی ساری عمر خرچ کی جائے تب ممکن ہے کہ پتہ لگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا دل اور اس کے خیالات پوشیدہ ہوتے ہیں اور چونکہ خیالات پوشیدہ ہوتے ہیں اس لئے جب تک ان کو معلوم نہ کیا جائے علاج نہیں ہو سکتا اور چونکہ پوشیدہ خیالات کا معلوم کرنا انسان کا کام نہیں ہے اس لئے اصلاح کرنا بھی اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان بہت سوچ سمجھ کر کسی کے سامنے ایک بات اس لئے پیش کرتا ہے کہ اس کو ہدایت ہو جائے مگر بجائے اس کے کہ اس کو ہدایت ہو وہ زیادہ گمراہ ہوجاتا ہے اوربجائے قریب ہونے کے دور ہو جاتا ہے بجائے سمجھنے کے اس کی پہلی عقل بھی ماری جاتی ہے۔ بجائے ہدایت پانے کے ضلالت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ تو تبلیغ کا کام سب سے زیادہ مشکل کام ہے اور یہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے اور وہی اس کو کر سکتا ہے ا س لئے وہ جماعت جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کام کو لے کر کھڑی ہوئی ہو اُس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گر جائے اور اس سے مدد چاہے کیونکہ دل کے خیالات جاننے والا اور ہدایت کا رستہ دکھانے والا صرف وہی ہے۔ وہی مبلغ کی زبان میں اثر ڈالتا ہے، وہی مبلغ کو ایسی باتیں سمجھا دیتا ہے جن سے سننے والوں کو ہدایت نصیب ہوتی ہے اور وہی علاج بتاتا ہے جس سے روحانی مریض شفا پا سکتے ہیں۔ میں نے حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں بیسیوں آدمیوں سے سنا ہے ۔ہوں گے تو ہزاروں مگر میں نے بیسیوں سے سنا ہے کہ ہم جو اعتراض اور شکوک اپنے دل میں لے کر آئے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کوئی اتفاقاً تقریر فرمائی تو اُس میں ہمارے سب اعتراضوں کے جواب آگئے اور ہمیں ہدایت نصیب ہو گئی۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے۔ اس سے جب کسی انسان کو تعلق ہوتا ہے تو وہ خود اس کو ایسی باتیں بتا دیتا ہے اور اس کی زبان پر جاری کر دیتا ہے جس سے لوگوں کے شکوک رفع ہو جاتے ہیں اور وہ ہدایت پا لیتے ہیں۔ پس چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اس لئے مبلغ جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہروقت دعائوں میں لگی رہے۔
ہماری جماعت کا کام اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانا اور اس کے جلال اور عظمت کو ظاہر کرنا ہے اس لئے ہماری جماعت کو دعائوں پر بہت زور دینا چاہئے۔ بڑے بڑے لیکچرار کچھ کام نہیں کر سکتے۔ کیا عیسائیوں، آریوں، برہموئوںاور دہریوں میں بڑے بڑے لیکچرار نہیں ہیں؟ ضرور ہیں اور وہ ایسی چکنی چٹری باتیں کرتے ہیں کہ ایک صادق انسان بھی حیران ہو جاتا ہے کہ ان کا کیا جواب ہے۔ لیکن کیا ان کے ذریعہ کسی کو ہدایت نصیب ہو سکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔ ہدایت دینا خدا تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ جب تک وہ کسی کو ہدایت نہ دے کوئی اور سبیل نہیں ہو سکتی۔ اس لئے مبلغ کا کام ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگے اور یہ نہ صرف مبلغ کا کام ہے بلکہ ہماری جماعت کے ہر ایک فرد کا کام ہے۔ ہماری تمام جماعت تو تمام دنیا کے مقابلہ میں آٹے میں نمک اور دریا کے مقابلہ میں قطرہ بھی نہیں لیکن اس قلیل جماعت کا تمام دنیا سے مقابلہ ہے۔ اس صورت میں خیال تو کرو کہ تمہیں کس قدر چستی کی ضرورت ہے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ بہت لوگ غافل ہیں اور اپنی دعائوں میں اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی ہدایت کے لئے دعا مانگنا بھی ہمارا فرض ہے۔ اور یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ جو لوگ تبلیغ کے لئے کوشش کر رہے ہیں ان کو کس قدر مشکلات کا سامنا ہے اور کس قدر مدد کی ضرورت ہے۔ چندہ تو بہت لوگ دیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ تبلیغ میں کتنے کوشش کرتے ہیں۔ روپیہ سے تبلیغ نہیں ہوا کرتی بلکہ خدا کے فضل سے ہوتی ہے۔ اور اس فضل کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر ایک احمدی خواہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، چھوٹا ہو یا بڑا، سب مل کر خدا تعالیٰ کے حضور دعائوں میں لگے رہیں۔اگر تمام مل کر ایک دعا کریں تو کیونکر ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی دعا کو رد کر دے۔خدا تعالیٰ تو بہت رحیم ہے لیکن افسوس کہ بہت لوگ اس کی شان کو نہیں سمجھتے۔ دیکھو بچہ جب کسی تکلیف میںماں باپ کو پکارتا ہے تو ان کے دل میں رحم پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن خدا تو انسان کے لئے ماں باپ سے بھی زیادہ پیار کرنے والا ہے اس کے حضور جب پکارا جائے تو وہ کیوں نہ رحم کرے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے انسان سے پیار کو ایک مثال سے بتایا ہے۔ ایک جنگ میں کچھ عورتیں قید ہو کر آئی تھیں۔ ان میں سے ایک کا بچہ اُس سے جدا ہو گیا۔ وہ اِس تلاش میں گھبرائی ہوئی اِدھراُدھر پھرتی تھی اور جب کسی بچہ کو دیکھتی تو اپنے بچہ کی یاد میں اسے اٹھا کر چھاتی سے لگا لیتی۔ جب اُس کو اپنا بچہ مل گیا تو اُسے چھاتی سے لگا کر آرام سے بیٹھ گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح اِس عورت کو اپنے بچہ سے محبت ہے اور جب تک وہ اسے مل نہیں گیا آرام سے نہیں بیٹھ سکی اِسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر خدا تعالیٰ کو انسان سے محبت ہے۔۲؎ جب کوئی انسان اس سے جدا ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کو اس سے زیادہ درد ہوتا ہے جتنا کہ ماں کو اپنے بچہ کے کھوئے جانے سے ہوتا ہے اور جب کوئی انسان اس کی طرف جھکے توا سے ماں باپ سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ اِس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا انسان سے جب ایسا تعلق ہے تو اس کا رحم اور شفقت بھی اسی نسبت سے ہو گی۔ پس جب ایک ماں بچہ کی پکار پر بیتاب ہو جاتی ہے تو خدا تعالیٰ کے حضور جب لاکھوں انسان دن رات پکارنے پر لگے رہیں گے تو کیونکر ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی دعا کو ردّ کر دے۔ ایک دن نہیں تو دوسرے دن، دوسرے دن نہیں تو تیسرے دن،تیسرے دن نہیں تو چوتھے دن کبھی تو قبول کرے گا۔ پھر ایک کی نہیں تو دوسرے کی، دوسرے کی نہیں تو تیسرے کی، تیسرے کی نہیں تو چوتھے کی، کسی نہ کسی کی تو سنے گا اور قبول کرے گا۔ پس خیال کرو کہ جہاں لاکھوں انسان دعائیں کرنے والے ہوں اور متواتر دن رات کرتے ہوں وہاں ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی دعا قبول کرے۔ پس ہماری جماعت کے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ بہت توجہ سے دعائوں میں لگ جائیں اور جس طرح انسان کو اپنا نام یاد رہتا ہے یا اپنے ماں باپ یاد رہتے ہیں اسی طرح وہ اس بات کے لئے بھی دعائیں کرنے کو یاد رکھیں اور کسی وقت غافل نہ ہوں ورنہ اتنے بڑے مقابلہ میں ہم کہاں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ایک انسان کا سمجھانا ہی نہایت مشکل کام ہے چہ جائیکہ تمام دنیا کو سمجھایا جاسکے۔
ایک دفعہ یہاں ایک شخص آیا۔ عرب تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گفتگو کر تا رہا۔ آپ نے بہت سمجھایا مگر کچھ نہ سمجھا آخر آپ نے فرمایا یہ ضدی ہے اسے ہدایت نہیں ہو گی۔ جب آپ نے اُس کو چھوڑ دیا تو الہام ہوا کہ اُس کے لئے دعا کرو ہدایت پا جائے گا۔۳؎ آپ نے دعا کی اور دوسرے دن وہی باتیں سن کر جو پہلے سن چکا تھا اور جن سے اُسے کچھ اثر نہ ہوا تھا اس کا شرح صدر ہو گیا اور اس نے بیعت کر لی۔ پھر وہ یہاں سے چلا گیا اور خوب تبلیغ کرتا رہا۔ اس کے خط بھی آتے تھے تو دیکھو اُس نے ہدایت پائی مگر اِس طرح کہ جب خدا کی مدد آئی۔ پس جو کام دعا کرتی ہے وہ اور کوئی کوشش نہیں کر سکتی۔ کیونکہ خد ا تعالیٰ جس قدر انسان کے قریب ہے اتنا وہ خود بھی اپنے قریب نہیں ہے۔ چونکہ انسان کی ہدایت کے لئے وہی ہستی ہو سکتی ہے جو اس کے بہت قریب ہو اس لئے خدا ہی اسے ہدایت دے سکتا ہے۔
دیکھو ایک شخص ایک سیکنڈ میں کنویں میںگرنے والا ہو اگر کوئی ذرا دور سے اس کے بچانے کے لئے دَوڑے گا تو وہ گر جائے گا اور اگر کوئی پاس ہی کھڑا ہو تو وہ اسے بچا لے گا۔ یہی حال خدا تعالیٰ کا ہے خداتعالیٰ تو گرنے والے سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے اس لئے اسی سے عرض کرنی چاہئے کہ آپ ہی ان گرنے والوں کو بچائیے۔ وہ لوگ جو ضلالت میں گر کر ہلاک ہو رہے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور عرض کریں کیونکہ وہی ان کو بچا سکتا ہے۔ خدا تعالیٰ چونکہ اپنے بندوں کو انعام اور مدارج دینا چاہتا ہے اس لئے ان کے ذریعہ کام کراتا ہے ورنہ اصل میں وہ کرتا آپ ہی ہے۔ا نسان کا اپنی محنت اور کوشش پر بھروسہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ کیا ایک شخص تلوار لے کر کروڑ دو کروڑ کے لشکر میں چلا جائے تو کوئی خیال کر سکتا ہے کہ وہ ان پر فتح پا لے گا؟ ہرگز نہیں۔ حالانکہ تلوار کا مارنا آسان ہے بہ نسبت عقائد کے بدل دینے کے۔ پس جب انسان تلوار سے اتنے دشمنوں کو قتل نہیں کر سکتا تو اتنے لوگوں کے عقائد اور خیالات کو بدل دینا کہاں اس کی طاقت میں ہے۔ ہمارے جو مبلغ دیگر ممالک میں گئے ہوئے ہیں ان کی مشکلات کا اندازہ بھی اس سے ہو سکتا ہے کہ ان کے سامنے اتنے بڑے ملک میں اتنے مذاہب کا مقابلہ ہے اور وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ اسلام بہت سی قربانیاں چاہتا ہے۔ ایک چھوٹے سے مذہب کے پھیلانے میں بہت آسانی ہے کیونکہ اس کے لئے کوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی۔ پھر اس کے پیروئوں کو لوگوں کے کھینچنے کے لئے کسی قسم کے سامان میسر ہیں مگر ہمارے پاس تو وہ سامان بھی نہیں اور نہ اسلام میں وہ آسانیاں ہیں جو ایک اور مذہب میںہو سکتی ہیں ہمارے پاس تو صرف صداقت ہی ہے۔ لیکن جو شخص گمراہی میں پڑا ہوا ہو اُس کو اُس وقت تک یہ بھی نظر نہیں آتی جب تک اللہ تعالیٰ ہی اُس کو نہ دکھا ئے اِس لئے ہمیں اگر کوئی چیز کامیاب کر سکتی ہے تو وہ دعا ہے اور جب دعا قبول ہو جائے تو پھر لاکھوں انسان فوراً ہدایت پا لیتے ہیں۔ صحابہ کرام بھی تبلیغ کرتے تھے مگر ان کی اصل تبلیغ دعا ہی تھی۔ میں یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہوں کہ چند سال میں کس طرح کروڑوں انسان مسلمان ہو گئے لیکن سوائے اس کے نہیں کہ دعائوں کے ذریعہ ہوئے ورنہ اُس وقت تو بہت دِقتیں تھیں۔ جب کوئی مسلمان ہوتا تو اسے جان دینے کے لئے نکلنا پڑتا، زکوٰۃ کے علاوہ اور ٹیکس بھی ادا کرنے پڑتے، اپنی عادتیں چھوڑنی پڑتیں، خیالات بدلنے پڑتے، رشتہ داروں اور عزیزوں سے منہ موڑنا پڑتا مگربا وجود اس کے ایک قلیل عرصہ میں کروڑوں انسان اسلام لے آئے۔ اس کے متعلق سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام نے دعائیں کیں اور خدا تعالیٰ نے ان کی دستگیری فرمائی۔ ہماری جماعت کی ترقی کا باعث بھی دعائیں ہی ہو سکتی ہیں۔ جب تک دعائوں پر ایسا زور نہ دیا جائے گا کہ اپنی مجموعی اور انفرادی دعائوں میں، رات اور دن کی دعائوں میں اسلام کے پھیلنے کے لئے دعائیں کی جائیں اس وقت تک ترقی مشکل ہے۔ اور جو ترقی کی اب رفتار ہے اگر یہی رہی تو کئی لاکھ سال کی ضرورت ہے مگر اتنی تو کسی قوم کی عمر بھی نہیں ہوتی۔ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ سلسلہ کے لئے تیرہ سَو سال کے بعد جب ایک ایسے مصلح کی ضرورت پڑی جس نے ایک نئی قوم کی بنیاد ڈالی تو اور کونسا سلسلہ ہو سکتا ہے جو اتنے لمبے عرصہ تک چلا جائے گا۔ پس اس بات کی ضرورت ہے کہ اشاعت ِاحمدیت کے لئے وہی طریق اختیار کیا جائے جو پہلے لوگوں نے اختیار کیا تھا۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیاء نے دعائیں کیں۔ باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جو اثر تھا وہ اور کسی کی زبان میں نہ ہو اور نہ ہو سکتا ہے مگر آپ بھی دعائوں میں ایسے مشغول ہوتے کہ خدا تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے ۴؎ شائد توا ن کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے اپنے آپ کو ہلاک کرے گا۔ پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعائوں میں ایسے مشغول ہوتے تو ہمارے لئے کتنی ضرورت ہے۔ ہماری جماعت کے کم لوگوں نے اس بات کو اپنے لئے فرض سمجھا ہے اور جنہوں نے سمجھا ہے انہوں نے کم سمجھا ہے۔ اس لئے میں سب لوگوں کو جگاتا ہوں اور ہوشیار کرتا ہوں کہ اپنی سب دعائوں سے مقدم اِس دعا کو رکھو۔ جب بھی کوئی دعا کرو چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے یہ دعا ضرور کرو تب کامیابی ہو سکتی ہے ورنہ جو مشکلات ہیں اُن پر غالب آنا آسان کام نہیں۔ ایک طرف لاہوری ہمارے راستے میں روک ہیں۔ ہمارے مبلغ جہاں جاتے ہیں وہاں ہی ان کے آدمی پہنچ کر ہمارے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے ہیں۔ دوسرے تمام دنیا سے ہمارا مقابلہ ہے اس لئے کئی قسم کی تکلیفیں درپیش ہیں۔ کہیںجائیدادیں چھینی جاتی ہیں، کہیں نکاح فسخ کرائے جاتے ہیں، کہیں لڑکوں کو سکولوں سے روکا جاتا ہے۔ اِسی طرح کی اور بہت سی تکلیفیں ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کچھ عرصہ سو گئے تھے اور اب پھر جاگے ہیں اس لئے سمجھ لو کہ ہمارے لیے کس قدر جاگنے کی ضرورت ہے۔ پس تمام جماعت کو چاہئے کہ دعائوں میں لگ جائے۔ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور تائید آتی ہے تو کوئی چیز مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی۔ کیا کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ سیلاب آیا ہے اور اسے گھاس پھونس نے روک لیا ہو۔ ہر گز نہیں۔ خدا تعالیٰ کا فضل تو سیلاب سے بھی زیادہ زور کے ساتھ آتا ہے اس کے مقابلہ کی کسی کی کیا طاقت ہو سکتی ہے۔ پس اِس نسخہ کو استعمال کرو۔ دعا خدا کے فضل کو کھینچتی ہے اور خدا کے فضل کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔
خدا تعالیٰ اِن لوگوں کو جو دعائوں میں سست ہیں تو فیق دے تاکہ ہم سب مل کر دعائیں کریں اور خدا تعالیٰ ہماری مشکلات کو دور کر کے ہماری کوششوں کو مؤثر بنائے۔ ‘‘آمین۔
(الفضل ۲۵؍ مارچ ۱۹۱۶ئ)
۱ ؎ البقرۃ: ۱۸۷
۲؎ بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الواحد
۳؎ اخبار الحکم جلد۱۷ نمبر ۱۲ مورخہ ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ء
۴؎ الشعرائ: ۴
۱۰
فروعی مسائل میں جھگڑے نہ کرو
(فرمودہ ۲۴؍ مارچ ۱۹۱۶ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
۱؎
پھر فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ کا ہم پر بہت بڑا فضل ہؤا ہے کہ مسلمان بالکل پراگندہ ہو گئے تھے ان میں سے ہر ایک شخص دوسرے کے مخالف چل رہا تھا کسی کا کسی سے کوئی اتحاد، کوئی محبت، کوئی پیار اور کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ کہلاتے تو تھے مسلمان مگر اسلام کوئی نہ تھا۔ ہر شخص کا مذہب علیحدہ تھا۔ لوگ چھِلکے کے پیچھے پڑے ہوئے تھے اور مغز کی کسی کو فکر نہ تھی۔ درخت کے اوپر فدا ہو رہے تھے مگر درخت ایسا تھا جو پھل نہیں دیتا تھا۔ وہ سواری کے پیچھے پڑے ہوئے تھے مگر یہ کسی کو فکر نہ تھی کہ منزلِ مقصود پہنچنا بھی ہے یا نہیں ۔ ہر ایک کی مذہبی پہلو سے حالت بدترین ہو رہی تھی۔ اور یہ کوئی دور کی بات نہیں، وہ لوگ جنہوں نے یہ نہیں دیکھا اب جا کر غیر احمدیوں کو دیکھ لیں کہ ان کا کیا مذہب ہے، کیا طریق ہے، کیا رنگ ہے، کیا ڈھنگ ہے۔ نہ تو ان میں اسلام ہے اور نہ کوئی مسلم ہے۔ ہر شخص کی رائے اُس کا مذہب اور ہر شخص کا خیال اُس کا دین ہے۔
ایسی دردناک حالت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے جیسا کہ اس کی قدیم سے سنت ہے ایک ایسے انسان کو مبعوث فرمایا جس کے کلام کو اپنا کلام اور جس کے فیصلہ کو اپنا فیصلہ قرار دیا۔ اس انسان کے ذریعہ وہ مذہب جس کی اس طرح حالت ہو گئی تھی جس طرح ریت میں دریا خشک ہو جاتا ہے اسی طرح نمودار ہو گیا۔ جس طرح ریت کے اوپر بہنے والا دریا لہریں مارتا ہے۔ لوگوں نے سمجھ لیا تھا کہ یہ دریا خشک ہو گیا ہے مگر خدا تعالیٰ نے اپنے ایک بندے ہی کے ذریعہ بتا دیاکہ خشک نہیں ہؤا لوگوں نے اس پر مٹی ڈال کر اُسے چھپا دیا تھا ورنہ وہ تو اسی زورو شور سے جاری ہے جس طرح پہلے تھا۔ سوا للہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے وہ مذہب جو شکوک وشبہات سے پُر ہو گیا تھا۔ پھر یقین اور اطمینان دلانے والا ہو گیا اور وہ جماعت جو پراگندہ ہو چکی تھی بلکہ جماعت کہلانے کی مستحق ہی نہ رہی تھی اُس کو خدا تعالیٰ نے ایک جماعت بنا دیا۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایک فضل تھا جس کی قدر وہی کر سکتا ہے جس کی آنکھیں ہوں اور جس نے دیکھا ہو کہ قومیں کس طرح ہلاک اور تباہ ہؤ ا کرتی ہیں۔ پھر اُس شخص کو اِس کی قدر ہو سکتی ہے جو تاریخ سے واقف ہواور یہ بھی جانتا ہو کہ اسلام کس حالت میں ہو گیا تھا جسے حضرت مسیح موعودؑ نے آکر کھڑا کیا ہے۔ گویا اسلام کو کھڑا کرنا قبر میں ڈالے ہوئے مُردے سے بھی بڑھ کر تھا۔ نادان سمجھتے ہیں کہ خدا مُردہ جسم کو زندہ نہیں کر سکتا۔ انسان جب ایک دفعہ مر جاتا ہے اور اس کی زندگی ختم ہو جاتی ہے تو پھر کبھی زندہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر وہ اپنی آنکھیں کھو لیں ور اس بات پر غور و فکر کریں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ کسی مُردہ کے زندہ کرنے سے کسی قوم کازندہ کرنا نہایت مشکل ہے۔ مُردہ انسان آسانی سے زندہ ہو سکتا ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک قوم مر جائے اور اس کو زندہ کیا جائے۔ اس دلیل کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ دیکھو ہم ایک مُردہ قوم کو زندہ کریں گے اور یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ ایک دن ہم مُردہ انسان کو بھی زندہ کریں گے۔
تو یہ خدا کا بڑا ہی فضل ہے کہ مسلمان جو ایک مُردہ قوم تھی اس میں سے ایک زندہ قوم کھڑی ہو گئی اِس لئے خدا تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کیا جائے تھوڑا ہے لیکن کئی ایسے آدمی ہیں جب ان پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو گھبرا جاتے ہیں اور کہہ اٹھتے ہیں کہ کس طرح یہ مصیبت دور ہو گی۔ ایسے لوگوں کو میں کہتا ہوں کہ جائو ان لوگوں کو دیکھو جو مسلمان کہلاتے ہیں اور اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا دل توا لگ رہا ان کی زبانیں بھی اس بات کے لئے گواہی دے رہی ہیں کہ اسلام مر چکا ہے اس میں باکل جان نہیں ہے اور وہ اس قدر مایوس ہو گئے ہیں کہ کہتے ہیں اب کوئی اسلام کو زندہ نہیں کر سکتا۔ چونکہ وہ اپنے دلوں کو مردہ دیکھتے ہیں۔ علماء صوفیاء اور گدی نشینوں کو مردہ پاتے ہیں۔ اپنے امراء اور رشتہ داروں کو دیکھتے ہیں کہ دین کی طرف سے مردہ ہو گئے اس لئے وہ نا امید ہو چکے ہیں اور یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ ان کے گھروں میں نہ ان کے بازاروں میں نہ ان کی مسجدوں میں نہ ان کے حجروں میں کہیں بھی زندہ خدا کا نام نہیں ہے وہ خدا کا نام لیتے ہیں مگر صرف زبان سے، وہ خدا کا کلام پڑھتے ہیں مگر صرف زبان سے،ان کا جسم چلتا پھرتا نظر آتا ہے مگر اصل میں گوشت کی قبر ہے جس میں ان کی مردہ روح پڑی ہے۔ ایسے نظارہ کو دیکھ کر اگر وہ کہتے ہیںکہ اسلام کے لئے کوئی زندگی نہیں ہے تو ٹھیک کہتے ہیں کیونکہ ان کی حالت ہی یہاں تک پہنچ چکی ہے۔
لیکن باوجود اِس کے خدا تعالیٰ نے اپنا ایک برگزیدہ انسان بھیج کر ایک ایسی جماعت تیار کر دی ہے جس کے دل زندہ اور روح زندہ ہے ،جس کی ہمت بلند اور حوصلہ پختہ ہے۔ ہر ایک وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لاتا اور دل سے یقین رکھتا ہے گو اس کے پاس مال نہیں، دولت نہیں حتیٰ کہ سونے کے لئے اپنی جگہ بھی نہیں، وہ جب سوتا ہے تو یہی سمجھتا ہے کہ صبح ہمارے لئے کوئی عظیم الشان فتح کی خوشخبری لائے گی اور سارا دن محنت مشقت کرتا ہے اور شا م کے وقت اتنا نہیں کما سکتا کہ اُس کے بال بچے پیٹ بھر کے کھائیں مگر شام کے لئے اس کا دل خوشی سے اُچھلتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ دن نہیں ڈوبے گا جب تک کہ میں خوشی کی کوئی بات نہیں سن لوں گا۔ وہ سب سے زیادہ مصیبت زدہ اور مشکلات میں گھبرایا ہوا ہو کر خوشخبری اور کامیابی کا امیدوار ہے یہ کیا بات ہے؟ یہی کہ زندہ قوم ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو زندگی کا بگل پھونکا گیاتھا یہ اس کے ذریعہ کھڑی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ اِس طرف اس قدر امید ہے اور اُس طرف ایسی مایوسی۔
اب اگر کوئی اس زندہ قوم کو مارنا چاہے توا سے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ کتنے بُرے فعل کے ارتکاب کا اردہ رکھتا ہے۔ ایک مومن کے قتل کرنے کی سزا خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے ۲؎ کہ اس کی سزا جہنم ہے لیکن جو ایک قوم کو مارتا ہے اس کو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کے لئے کتنا بڑا عذاب ہو گا۔ مگر بہت ہیں جو کسی انسان کے قتل کرنے کی دلیری نہیں کریں گے اور ۹۹ فیصدی ایسے ہو ں گے کہ جب ان کو قتل کرنے کی ترغیب دی گئی ہو توا ن کے دل دھڑکنے لگ جائیں اور کپکپی شروع ہو جائے۔ مگراس کے مقابلہ میں کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایسے بہت کم انسان ملیں گے جو زندہ قوموں کے مارنے سے ڈریں حالانکہ اس فعل کی سزا انہیں بہت ہی بڑھ کر ملے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سوئے ہوئے فتنے کو جگانے والے پر خدا کی *** ہو۔۳؎ ایک زمانہ میں فتنہ بھی سو جاتا ہے۔ جس طرح نور اور ظلمت اکٹھے نہیں ہو سکتے جہاں ظلمت ہو گی وہاں نور نہیں ہو گا اور جہاں نور ہو گا وہاں ظلمت نہیںہو گی اسی طرح جس وقت خدا تعالیٰ کا نور کسی قوم کو زندہ کرتا ہے تواس وقت ظلمت یعنی فتنہ سو جاتا ہے اور فتنہ اس وقت جاگتا ہے کہ جب اس کا مقابلہ کرنے کے لئے نور موجود نہیں ہوتا اور جب نور موجود ہو خواہ کتنا ہی تھوڑا ہو اس وقت ظلمت مقابلہ پر نہیں ٹھہر سکتی تو سوئے ہوئے فتنہ کو جگانے سے یہی مراد ہے کہ جب کوئی نبی آتاہے اور ایک ایسی جماعت تیار کر جائے جو راستی اور حق قائم کرنے والی ہوتی ہے تو فتنہ سو جاتا ہے۔ ایسے وقت میں بعض لوگ اس جماعت کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی سوئے ہوئے فتنہ کو جگانا ہے۔ اِسی کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں فتنہ سویا ہوا ہے اب اگر کوئی اسے جگائے تو اس پر خدا کی *** ہو۔ آپؐ نے اس کے لئے یہ بددعا کی ہے۔ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نہ کسی کو گالی دیتے تھے اور نہ کسی پر *** بھیجتے تھے۔ پس جب آپ نے ایسے شخص پر *** کی ہے تو معلوم ہوا کہ وہ بہت ہی خطرناک گناہ گار ہے۔ تو فتنہ کے جگانے والا اور زندہ قوموں کے مارنے والا بہت ہی خطرناک انسان ہے۔
مسلمانوں کی اِس وقت کی حالت دیکھو کیسی تاریک ہے۔ مساجد میں اوّل تو کوئی داخل ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوں تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایسے فساد اور جھگڑے ہوتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ التحیات میں اگر کوئی انگلی اٹھاتا تو اسکی انگلی توڑ دی جاتی، اگر کوئی آمین بِالجہر کہتا ہے توا س کی شامت آجاتی۔ مارنے لگ جاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ کتا بھونکتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے نہ دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی آمین بِالجہر فرمایا کرتے تھے۴؎ پھر بعض جگہ اگر کسی نے آمین دل میں کہی تو کہہ دیا کہ مردے قبروں میں پڑے ہیں حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے اور صحابہ کرام سے بھی ثابت ہے۔ غرض بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلاف اور جھگڑے شروع ہو جاتے تھے۔
خدا تعالیٰ نے ان باتوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دُور کیا۔ ہماری مساجد میں حضرت مسیح موعودؑ کے وقت اور اب بھی ایک ہی صف میں ایسے آدمی ہوتے ہیں جن میں سے کوئی آمین بِالجہر کہتا ہے اور کوئی دل میں کوئی رفع یدین کرتا ہے اور کوئی نہیں۔ اسی طرح گو کم رہ گئے ہیں تاہم ابھی تک ایسے بھی لوگ ہیں جو ناف کے ینچے ہاتھ باندھتے ہیں لیکن کوئی کسی پر اعتراض نہیں کرتا۔ کیوں؟ اِس لئے کہ یہ ایسی باتیں نہیں ہیں جن پر جھگڑا کیا جائے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ سوئے ہوئے فتنہ کو جگاتا ہے۔
میں نے یہ جو آیتیں پڑھی ہیں ان میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو اسی طرف متوجہ کیا ہے کہ وہ باتیں جو اصول دین سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود جماعت میں اختلاف کا باعث ہوں ان پر جھگڑا نہیں چاہئے۔ فرمایا۔ اے مومنو! ایک وقت تم پر ایسا آتا ہے جبکہ تم دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہوتے ہو۔ اس وقت تمہیں چاہئے کہ تمہاری ساری توجہ دشمن کے مقابلہ پر جم کر کھڑے رہنے کی طرف ہو اور خدا کے حضور بہت دعائوں میں لگے رہو (ذکر کے معنی تسبیح و تمجید کے بھی ہیں اور یاد کرنے سے مراد پکارنا بھی ہوتا ہے جیسے کہ اُردو میں بھی محاورہ ہے) اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم کامیاب اور مظفر و منصور ہو جائو گے اور یہ بھی یاد رکھنا کہ ایسے وقت میں خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا اور آپس میں کسی قسم کا جھگڑا نہیں کرنا۔ یہاں خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ ہی یہ حکم دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جھگڑا مذہبی معاملات کے متعلق ہی ہے۔ فرمایا اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم کمزور ضعیف ہو جائو گے، تمہاری طاقت، تمہارا رُعب مٹ جائے گا۔ ریح کے معنی ہر پاکیزہ اور عمدہ چیز (۲) قوت (۳) غلبہ (۴) خوشی کے ہیں۔ اس لئے یہ معنی ہوئے کہ اگر تم آپس میں جھگڑا کرو گے تو تمہاری خوشی، غلبہ، قوت مٹ جائے گی اور تمہارے اندر کوئی اچھی بات نہ رہے گی۔
ہر ایک کام کے لئے ایک وقت ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم دشمن کے مقابلہ پر کھڑے ہو تو اُس وقت اگر کوئی مذہبی اختلاف ہو جائے تو اُس پر جھگڑنا نہیں بلکہ اس وقت تمہارے یہی مدنظر ہونا چاہئے کہ جس طرح بھی ہو سکے دشمن کو کچل دیا جائے کیونکہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کے فیصلہ کا وہ وقت ہوتا ہے جبکہ دشمن مقابلہ سے بھاگ جائے اور امن و اطمینان حاصل ہو جائے۔
ہاں ایسی باتیں جن کی وجہ سے دین میں حرج واقعہ ہوتا ہو تو اُن کا فیصلہ ایسے موقع پر بھی کر لینا ضروری ہے۔ مثلاً کوئی شخص نماز نہ پڑھے اور جب اسے کہا جائے کہ نماز پڑھو تو کہہ دے کہ دیکھو! یہ دشمن سے مقابلہ کا وقت ہے اِس وقت یہ بات کر کے اختلاف میں نہ ڈالو تو ایسے شخص کا مقابلہ کرنا چاہئے کیونکہ وہ مسلمان نہیں بلکہ دشمن اسلام ہے۔ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ امرو نہی کے متعلق مسلمانوں کو سخت تاکید کی گئی ہے اورخدا تعالیٰ نے یہودیوں کی تباہی کی ایک یہ وجہ بھی بتائی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو امربِالمعروف و نہی عن المنکر نہیں کیا کرتے۔ پس جبکہ ایک طرف خدا تعالیٰ یہ حکم دیتا ہے اور دوسری طرف یہ بھی فرماتا ہے اور یہ بھی دین کے متعلق ہے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم امت محمدیہ کی تباہی کا وہی وقت بتاتے ہیں جبکہ علماء اَمْر بِالْمَعْرَوْف وَنَہِی عَنِ الْمُنْکَر کا وعظ چھوڑ دیں گے۔ تو بظاہر اس میں اختلاف معلوم ہوتا ہے۔ مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ باتیں جو قوم میں اختلاف کا باعث ہو کر اس کی تباہی کا موجب ہوتی ہیں اور فروعی مسائل سے تعلق رکھتی ہیں انہیں اس وقت تک چھوڑ دینے کا حکم ہے جب تک دشمن پر کامیابی نہ حاصل ہو جائے۔ پہلے بڑا کام دشمن کا مقابلہ ہے اس کے بعد چھوٹی چھوٹی باتوں کو دیکھا جائے گا۔ ان دونوں قسم کے احکام کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑے بڑے دینی مسائل جو اصولِ دین سے، عقائد سے، عبادات و سیاست اسلامیہ سے تعلق رکھتے ہیں یا ان کا اثر ایسے مسائل پر پڑتا ہے جن سے اسلام میں رخنہ پڑ سکتا ہے ان سے روکنے کا حکم ہے کیونکہ ایسے لوگ مسلمان نہیں بلکہ دشمن اسلام ہیں۔ مگر جو ایسے مسائل ہوں جن کا نہ روحانیت پر اثر پڑتا ہو اور نہ جن سے دین میں حرج واقعہ ہوتا ہو ایسے مسائل کو چھیڑنے والا سوئے ہوئے فتنہ کو جگاتا ہے۔
ہماری جماعت میں اس قسم کا کوئی فتنہ نہ تھا مگر اب پھر جھگڑے شروع ہو گئے ہیں۔ باہر سے خط آتے ہیں رفع یدین کرنا چاہئے یا نہیں؟ آمین اُونچی آواز سے کہنی چاہئے یا دل میں؟ اگر کوئی آمین اونچی آواز سے نہ کہے تو کہتے ہیں مردہ کھڑے ہیں۔ حالانکہ وہ نہیں دیکھتے کہ اگر وہ مردہ ہیں تو نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی مردہ ہی ہوئے کیونکہ کان لگا کر سننے والے بھی آپ کی آمین کی آواز کو نہیں سن سکے۔ پھر وہ نہیں جانتے کہ ان کے الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے صحابہ کرام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ تک پہنچتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھنے والے بہت ایسے تھے جو آمین اُونچی آواز سے نہیں کہتے تھے لیکن آپ نے کبھی ان کو کہنے کے لیے نہیں کہا اور بہت ایسے تھے جو اونچی آواز سے کہتے تھے مگر آپ نے کبھی اُن کونہیں روکا۔
ہماری جماعت کے لئے تو ایسے مسائل پر جھگڑنے کی کوئی وجہ ہی نہیں کیونکہ وہ انسان جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حَکَم عَدل فرمایا اور جس کو خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہِ ۵؎ اسے مسیح موعود لوگوں کو کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرنی چاہتے ہو توا ُس کا یہی طریق ہے کہ میری اتباع کرو۔ ایسے انسان کا کوئی حکم نہ مانے گا تو اور کس کا مانے گا۔ آپ نے ان سب باتوں کے متعلق فیصلہ کر دیا ہے کہ قرآن کریم میں جو صریح احکام ہیں اُن کو مانو اور حدیث کے صریح احکام کو مانو۔ا گر حدیث میں کوئی ایسا حکم ہے جو کسی اصولِ دین کے خلاف ہو تو وہ درست نہیں ہو سکتا۔ اس کو قرآن شریف پر عرض کرو۔ اگر قرآن کریم اس کی تصدیق کرے تو قبول کر لو اور اگر ردّ کرے تو ردّ کردو۔ پھر فروعات کے متعلق آپ کا فیصلہ ہے کہ اگر کسی بات کے متعلق ایک ہی عمل موجود ہے تو اسی طرح ٹھیک ہے اور اگر مختلف ہیں تو معلوم ہوا کہ مختلف اوقات اور مختلف حالات کے ماتحت مختلف طریق ہی رائج رہے ہیں اور چونکہ اس ملک میں امام ابوحنیفہؒ کے پیروزیادہ ہیں اس لئے ایسے امور میں اپنی رائے پرا ن کے فیصلہ کو ترجیح دے لو۔ تاکہ فروعی باتوں کی وجہ سے جھگڑا نہ ہو ورنہ امام ابوحنیفہؒ کوئی نبی یا رسول یا حَکم یا مأمور نہ تھے کہ ضرور انہی کی بات مانی جائے جیسے میری رائے ویسی ان کی رائے ہے۔ پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت دونوں طریق سے آمین کہی جاتی رہی ہے اور یہ بات ثابت ہے تو معلوم ہوا کہ دونوں طریق سے جائز ہے۔ آپ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ بعض انسانوں کو جوش ہوتا ہے اس لئے وہ اُونچی آواز سے آمین کہتے ہیں اور بعض کی طبیعت میں انکسار ہوتا ہے ان کو دل ہی میں کہنے سے مزا آتا ہے۔ اور چونکہ طبائع مختلف ہوتی ہیں اس لئے شریعت نے دونوں طریق سے جائز رکھا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ ایسے ہی مسائل کے متعلق جھگڑا کرنا خدا تعالیٰ کے غضب کا موجب ہوتا ہے اور انہیں کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ جھگڑا نہ کرو۔
وہ لوگ جو ایسے مسائل میں جھگڑا کرتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احتیاط کو دیکھیں۔ کعبہ کے اِردگرد کچھ زمین ہے جو کعبہ کی چھت میں شامل نہیں مگر حج کے موقع پرطواف کے وقت اُس کے گرد ہی گُھوما جاتا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے آپ سے عرض کی میں کعبہ میں نماز پڑھنا چاہتی ہوں تو آپؐ نے فرمایا کہ اسی جگہ پڑھ لو۔ یہ بھی خانہ کعبہ کی چار دیواری کے اندر ہے۔ آپ کی احتیاط دیکھو۔ آپ نے فرمایا۔ا ے عائشہؓ! اگر تیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو میں کعبہ کے احاطہ کو توڑ کر اس کو اِسی میں شامل کر دیتا اور دو دروازے بنا دیتا ایک سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے نکل جاتے۔۶؎ تو باوجود اس کے کہ وہ جگہ کعبہ میں شامل تھی اور جب قریش نے کعبہ کا احاطہ بنانے کے لیے چندہ جمع کیا تو چندہ کے تھوڑا ہونے کی وجہ سے ساری جگہ کو احاطہ میں شامل نہ کیا جا سکا اور جو جگہ بچ رہی اُس پر نشان لگا دئیے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو شامل نہ کیا۔ پھر علماء کی احتیاط دیکھو بعد میں ا س پر عمارت بنا دی گئی لیکن جب بنو امیہ کی حکومت ہوئی تو اس عمارت کو گرا کر پہلی طرح ہی کر دیا گیا اور کہا کہ جس کام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اُسے کوئی اور کیوں کرے۔ اس کے بعد جب عباسی حکومت کا دَور آیا تو ایک بادشاہ نے امام سے پوچھا کہ کیا اس زمین کو بھی شامل کر لیا جائے؟ تواس نے کہا کہ اصل کعبہ تو اتنا ہی ہے جتنی جگہ پر نشان لگے ہوئے ہیں مگر اس کو بچوں کاکھیل نہ بنائو اِسی طرح رہنے دو جس طرح بنا ہؤا ہے۔ا گر تم نے اس کو شامل کر لیا تو کوئی اور آئے گا جواس کو گرا دے گا۔ یہ احتیاط تھی جو کعبہ کے متعلق کی گئی۔ آمین کا مسئلہ اس کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے تو اس کے اختلاف کرنے والے سوئے ہوئے فتنہ کو جگانے والے ہوتے ہیں۔
آمین اُونچی آواز سے کہنا یا نیچی سے، رفع یدین کرنا یا نہ کرنا، اُنگلی اُٹھانا یا نہ اُٹھانا، ان سب باتوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فیصلے کر دئیے ہیں جو شخص آپ کو مسیح موعود مانتا ہے وہ آپ کے فیصلوں کو قبول کر ے گا اور جو فیصلوں کو قبول نہیں کرتا وہ جھوٹ بولتا ہے کہ میں آپ کو مانتا ہوں۔
ہماری جماعت کو بہت محتاط ہونا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محدثین کی بہت قدر کی ہے۔ آپ نے بخاری کو اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہِ الْبَارِیْ۷؎ قرار دیا ہے۔ جو شخص امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ہتک کرتا ہے وہ توبہ کرے کیونکہ یہ بہت بُرا کام ہے۔امام بخاریؒ نے جو کچھ لکھا ہے وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا اور اس کے رسول کی طرف سے لکھا ہے ان کا اپنا اجتہاد اس میں شامل نہیںہے۔ اس لئے جو شخص ان کی احادیث کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی ہتک کرتا ہے کیونکہ وہ حدیثیں آپؐ کی زبان سے نکلی ہوئی ہیں اور خشک حدیثیں نہیں ہیں۔ جو شخص ان احادیث کو مانتا ہے وہ امام بخاری کو نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہے پس ہر ایک کو چاہئے کہ احتیاط سے کام لے۔ جب کسی قوم میں امن و امان آجاتا ہے تو ایسی ایسی باتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ کیا جب احمدیوں کی چھوٹی چھوٹی جماعتیں مختلف جگہوں میں رہتی تھیں ،اپنی مسجدیں نہ تھیں، مخالفین تنگ کرتے اور تکلیفیں پہنچاتے تھے اُس وقت بھی ایسی باتیں یاد آتی تھیں؟ ہر گز نہیں۔ لیکن اب ایسی ایسی باتوں پر بحث و مباحثے شروع ہو گئے ہیں گویا انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ ہمارے دشمن نہیں رہے اور ہم آرام میں ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ غلط ہے۔ ہمارے تو وہ تمام لوگ دشمن ہیں جو دنیا کے کسی گوشہ میں بستے ہیں اور حق و صداقت کے مخالف ہیں اور ہرایک احمدی کے وہ سب دشمن ہیں جو شیطان کے پیچھے چلتے ہیں۔ پس جب تک شیطان دنیا سے نہیں مٹ جاتا اُس وقت تک احمدیوں کو بھی ہتھیار نہیں اُتارنے چاہئیں۔
پس تم لوگ اللہ اور رسول کے فیصلہ پر چلو اور وہ باتیں جو اصولِ دین سے تعلق نہیں رکھتیں اور مختلف صحابہ نے ان پر مختلف طریق سے عمل کیا ہے ان میں سے جس طریق پر کوئی عمل کرتا ہے اچھا کرتا ہے کوئی گناہ کی بات نہیں۔ سب انسانوں کی طبیعت ایک جیسی نہیں ہوتی کسی کے لئے کوئی بات پسندیدہ ہے اور کسی کے لیے کوئی۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان سب طریقوں کو جو پہلے مختلف مذاہب میں مروّج تھے ایک جگہ جمع کر دیا ہے تاکہ کسی کی طبیعت گھبرائے نہیں۔ پس جب خدا تعالیٰ نے طبائع کا اتنا لحاظ رکھا ہے تو بندوں کا کیا مقدور ہے کہ ایسے مسائل میں اختلاف کریں۔ خدا کے فضل سے یہاں کے لوگ ایسی باتوں سے بچے ہوئے ہیں لیکن بیرونجات سے ایسے جھگڑوں کے متعلق خطوط آتے رہتے ہیں۔ میرے نزدیک اس کے متعلق یہ تجویز ہونی چاہئے کہ جو شخص ایسا ہو اس کی طرف توجہ ہی نہ کی جائے کیونکہ ایسی باتوں کا اعمال سے کوئی تعلق نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اس بات کی سمجھ دے کہ کس قدر خطرناک دشمن کے ساتھ ان کا مقابلہ ہے تاکہ وہ ایسے جھگڑوں سے باز آجائیں۔ جو شخص ایسی حالت میں جھگڑا کرتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو اپنے دشمن کی خبر ہی نہیں۔ کیا ممکن ہے کہ شیر سامنے کھڑا ہو اور کسی کو نیند آجائے؟ لیکن جس کے سر پر شیر کھڑا ہے اور وہ سوتا ہے ہو تو معلوم ہؤا کہ اس کو شیر کا علم ہی نہیں۔ اسی طرح جو شخص فتنہ برپا کرتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے دیکھا ہی نہیں کہ کتنے بڑے دشمن سے اس کا مقابلہ ہے۔ جس شخص نے پچاس ساٹھ میل جانا ہو وہ کبھی بے فکر ہو کر راستہ میں سو نہیں سکتا۔ اِسی طرح وہ شخص جو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو کر ایسا کرتا ہے گویا اُس نے اپنے فرض کو سمجھا ہی نہیں۔
ہر ایک احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ جس وقت تک کوئی ایک شخص بھی دنیا پر ایسا موجود ہو گا جو حق کو نہیں مانے گا اُس وقت تک اس کا مقابلہ ختم نہیں ہوگا۔ ادھر خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب تک دشمن سے مقابلہ ہو اُس وقت تک ایسے مسائل میں نہ جھگڑو۔ اور یہ بھی قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار قیامت تک زندہ رہیں گے اِس سے پتہ لگا کہ ایسے مسائل میں کبھی جھگڑا نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ یہ خدا تعالیٰ نے ایک ایسی شرط لگا دی ہے جیسے کوئی کہے کہ جب تک تم زندہ رہو یہ بات کبھی نہ کرنا۔ یہ خدا تعالیٰ نے اس لئے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو ایسی باتوں کی طرف توجہ نہ ہو۔ تا وہ اپنے اصل کام میں لگے رہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قسم کے فتنوں کو دور کرے اور سب لوگوں کو سمجھ دے تاکہ وہ اس طرف سے ہٹ کر اصل کام کی طرف متوجہ ہوں۔ کوئی نادان ہی ہو گا جو ایسے وقت میں ایسے جھگڑوں کی طرف توجہ کرے۔ کیا جس کا بیٹا مر رہا ہواُسے ناخن اُتروانے یا بال کٹانے میں لگا ہوا کسی نے دیکھا ہے ؟ہر گز نہیں۔ بلکہ یہی دیکھا کہ ہر ایک ایسی کوشش میں ہوتا ہے کہ جس طرح بھی ہو سکے اُس کا بیٹا بچ جائے۔ اگر اسلام اِس وقت مر رہا ہے اور بعض ایسے لوگ ہیں جن کی توجہ اِس طرف ہے کہ ناخن بڑے ہو گئے ہیں اُنہیں کٹانا چاہئے، بال پراگندہ ہو گئے ہیں اُنہیں کنگھی کرنی چاہئے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اسلام سے پیار اور محبت نہیں ہے اور نہ ہی اس کی قدر جانتے ہیں اِسی لئے اس کو مرتا ہوا دیکھ کر بھی انہیں گھبراہٹ پیدا نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اپنا رحم کرے اور آپ لوگوں کو اپنے فرائض سمجھنے کی توفیق دے۔‘‘ (الفضل ۲۸؍ مارچ ۱۹۱۶ئ)
۱؎ الانفال: ۴۵،۴۶ ۲؎ النسائ: ۹۴
۳؎ بخاری کتاب الادب باب لم یکن النبی ﷺ فا حشاً ولا مُتَفَحِّشًا۔
۴؎ ترمذی ابواب الصلٰوۃ باب ماجاء فی التّامِیْن
۵؎ تذکرہ صفحہ ۴۶، ۶۱، ۷۸۔ ایڈیشن چہارم
۶؎ بخاری کتاب التمنی باب قول النبی ﷺ لَوْاِسْتَقْبَلْتُ مِنْ اَمْرِیْ (الخ)
۷؎ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۳۷۸
۱۱
سُود ہر صورت میں منع ہے
(فرمودہ ۷؍اپریل ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
۔ ۱؎
پھر فرمایا:۔
’’کھانے پینے کی چیزوں میں سے بعض اشیاء سے اسلام نے منع فرمایا ہے اور ان کے کھانے کی اپنے پیروئوں کو اجازت نہیں دی۔ وہ سب چیزیں اسی قسم کی ہیں جو انسان کے جسم، انسان کی عقل، اخلاق، دین اور روح کے لئے مضر ہو سکتی ہیں اور جب کوئی انسان ان میں سے کسی چیز کو کھاتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کا اثر اس کے جسم پر ہونا شروع ہو جاتا ہے اور انسان کی کمزوری اور نقص کی وجہ سے ایک مدت کے بعد اُس کی روح پر بھی اثر ہونے لگتا ہے اسی وجہ سے اسلا م نے اپنے پیروئوں کو ایسی چیزیں کھانے سے روک دیا ہے۔
ہاں بعض صورتوں میں ان کے کھانے کی اجازت بھی دی ہے اور وہ بھی جب کوئی انسان مجبور اور مضطر ہو جائے لیکن اُس وقت بھی اتنے ہی کھانے کی اجازت دی ہے جتنا اس کیلئے اشد ضروری ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم میں فرمایا ۲؎ اور یہاں فرمایا۔ دونوں جگہ مطلب ایک ہی ہے فرمایا جو مضطر ہو وہ کھا لے مگر یاد رکھو کہ باغی اور عادی نہ ہو۔ باغی قوانین حکومت کو توڑنے والے کو کہتے ہیں۔ وہ انسان جو خدا تعالیٰ کے کسی قانون کو توڑتا ہے وہ بھی باغی ہوتا ہے۔ کھانے کے متعلق اس طرح باغی ہو جاتا ہے مثلاً ایک شخص جان بوجھ کر بھوکا رہے اور جب مضطر ہو جائے توا ن چیزوں میں سے کوئی کھا لے۔ عادی اُس شخص کو کہیں گے جو کسی ایسے ملک میں چلا گیا جہاں اُسے سؤر کے سوا اور کچھ نہیں مل سکتا اور بھوک کی وجہ سے مضطر ہے اُس وقت اس کے لئے اس کا کھانا جائز ہے۔ لیکن اگر وہ یہ کہے کہ اب مجھے موقع مل گیا ہے شائد پھر کبھی ایسا موقع ملے یا نہ ملے اس لئے خوب سیر ہو کر اور پیٹ بھر کر کھا لوں تو وہ عادی ہو گا۔ پس خدا تعالیٰ نے ان اشیاء کو کھانے کی اجازت دینے کے ساتھ یہ دو شرطیں لگا دی ہیں۔
بعض لوگوں کو اس جازت کے حکم کو دیکھ کر دھوکا لگا ہے اور انہوں نے اس کو وسیع کر لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب مضطر کے لئے مردہ،خون، سؤر کا گوشت اورکھانے کی اجازت ہو گئی ہے تو اس سے سمجھ لینا چاہئے کہ دوسرے احکام کے متعلق بھی مضطر کو اجازت ہے۔
چند ہی دن ہوئے کہ ایک شخص نے مجھ سے سُود کے متعلق فتویٰ پوچھا تھا میں نے اسے لکھایا کہ سُود کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتا۔ اب اس کا خط آیا ہے کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ اصل حالت میں تو یہ فتویٰ ٹھیک ہے کہ سُود جائز نہیں لیکن مضطر کے لئے یہ فتویٰ درست نہیں ہے اور ساتھ یہ مثال دی ہے کہ ایک شخص کو شادی کرنے کے لئے روپیہ کی سخت ضرورت ہے روپے کہیں سے اُسے مل نہیں جا سکتے اگر وہ سُودی روپیہ لے کر شادی پر لگائے تو اس کے لیے جائز ہے۔ میں نے پہلے بھی اِسی قسم کے واقعات سنے تھے چنانچہ جو لوگ اہل قرآن کہلاتے ہیں اُنہوں نے اسی قسم کے فتوے دئیے ہیںلیکن اس قسم کے تمام فتوے قرآن کریم کے احکام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے دئیے گئے ہیں۔ انہوں نے سمجھا ہی نہیں کہ قرآن کریم کسی چیز سے کیوں روکتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ گناہ ہے جو براہ راست انسان کی روح پر اثر ڈالتے ہیں ان کا جسم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مثلاً جھوٹ اگر کوئی ساری عمر بولتا رہے تو اس سے اس کے جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ یہ گناہ براہ راست اس کی روح پر اپنا بداثر ڈالے گا۔ دوسرے وہ گناہ ہوتے ہیں جو جسم میں سے ہو کر روح کو خراب کرتے ہیں یعنی ان کا پہلے جسم پر اثر پڑتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ روح پر۔ چنانچہ جن اشیاء کے کھانے کی ممانعت کی گئی ہے وہ ایسی ہی ہیں جو دوسری قسم کے گناہوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ مثلاً اگر کوئی مردہ کھا لے یا خون پی لے تو اس کا پہلے جسم پر اثر پڑ ے گا اور پھر روح پر ۔ یا اگر کوئی کسی ایسے جانور کا گوشت کھا لے جو بتوں وغیرہ کے لئے ذبح کیا جائے تو اس طرح چونکہ اس ذبح کرنے والے کی تائید کرتا ہے اس لئے منع کر دیا تاکہ ایسے لوگ ہی نہ ہوں جن کو اللہ کے سِوا اَوروں کے لئے جانور ذبح کرنے کی جرأت ہو۔ پس یہ تمام احکام ایسے ہیں کہ جن کا گناہ انسان کی روح تک دوسروں کے واسطے سے پہنچتا ہے یعنی یا تو اس کے جسم کے ذریعہ سے یا اور لوگوں کی وجہ سے۔ اب ظاہر ہے کہ ان چیزوں کے منع کرنے سے یا تو انسان کے جسم کی حفاظت مدنظر ہے اور یا دوسروں کی اصلاح۔ اس لئے اگر کوئی ایسا وقت آبنے جبکہ جسم تباہ ہوتا ہو اور سوائے ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے کے وہ بچ نہ سکتا ہو تو ان کے کھانے کی اجازت دے دی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ دوشرطیں بھی لگا دی ہیں کہ اس اجازت سے فائدہ اُٹھانے والا انسان باغی اور عادی نہ ہو۔ پس اگر کوئی شخص ان اشیاء میں سے کوئی ایک کھائے گا تو ایسی حالت میں کھائے گا جبکہ وہ نہایت اضطرار میں ہو گا اور پھر ایک قلیل مقدار میں قلیل عرصہ کے لئے کھائے گا اس لئے وہ نقصان جس کی وجہ سے ان کا کھانا بند کیا گیا تھا وہ اسے نہیں پہنچے گا۔ لیکن وہ چیزیں جو براہ ِراست روح پر اثر ڈالنے والی ہوتیں ہیں ان کو ہر صورت میں خدا تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور کسی حالت میں بھی ان کو جائز قرار نہیں دیا۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر کوئی گناہ گناہ ہی نہ رہتا۔ مثلاً چور چوری کرتا ہے کیوں؟ اس لئے کہ اس کے اپنے گھر مال نہیں ہوتا۔ گوا یسے بھی چور ہوتے ہیں جو مالدار ہوتے ہیں اور عادتاً چوری کرتے ہیں مگر اکثر ایسے ہی لوگ چوری کرتے ہیں جو مفلس اور کنگال ہوتے ہیں اور اضطراب کی حالت میں ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی کسی کو قتل کرتا ہے تو اسی لئے کہ مقتول کی وجہ سے اسے کسی نہ کسی قسم کا اضطرار ہوتا ہے۔ غرضیکہ ہر ایک گناہ کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ وہ اضطرار کے وقت کیا گیا ہے۔ یہی سُود کا حال ہے۔ تجارت کرنے کے لئے توا ب دو سَو برس سے سُود لیا یا دیا جاتا ہے اس سے پہلے تو یہ بھی اضطرار ہی کی حالت میں لیا جاتا تھا۔ کسی شخص کو جب کہیں سے قرضہ نہ ملتا اور ضرورت سے مجبور ہو جاتا تو سُود پر روپیہ لے لیتا۔ ورنہ کسی کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ اپنے پاس روپیہ ہوتے ہوئے یا بغیر سخت مجبوری کے کچھ روپیہ لے کر اس سے زیادہ دیتا۔ تو سُود بھی جائز ہو گیا اور قرآن کریم نے جو حکم دیا تھا کہ نہ لیا کرو وہ نعوذ باللہ لغو ہو گیا کیونکہ جب سُود دیتا ہی وہ ہے جو مضطر ہو اور مضطر کے لئے جائز ہے کہ ایسا کرے تو پھر اس سے منع کرنے کے کیا معنی۔
لیکن یاد رکھو کہ قرآن کریم نے انہی چیزوں کی اضطرار کے وقت اجازت دی ہے جو کھانے پینے کے متعلق ہیں۔ چنانچہ اس آیت میں صاف طور پر فرمایا کہ یعنی ایسا اضطرار جو بھوک کی وجہ سے ہو اس کے لئے اجازت ہے نہ کہ ہر ایک اضطرار کے وقت ہر ایک نہی روا ہو سکتی ہے۔ وہ چیزیں جو کھانے کے متعلق ہیں ان کی تو اسلام نے اضطرار کے وقت اجازت دے دی ہے مگر یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر اضطرار ہو تو چوری بھی کر لو یا کوئی اور کسی قسم کا فعل کر لو۔ فقہاء نے یہ تو اجازت دی ہے کہ اگر علاج کے لئے شراب کی ضرورت پڑے تو مریض کو استعمال کرا دو۔مگر یہ کہیں اجازت نہیں دی کہ اگر کسی کی زندگی سے تمہیں اپنی جان کے متعلق اضطرار ہو تو اُسے قتل کردو۔ پس یہ بات غلط ہے کہ اضطرار کے وقت کوئی ایسی چیز جائز ہو سکتی ہے جس کا اثر براہ راست روح پر پڑتا ہے یا جو کھانے پینے کے متعلق نہیں ہے۔ البتہ ایسے وقت میں ان چیزوں کے کھانے کی اجازت دی گئی ہے جو روح سے براہِ راست تعلق نہیں رکھتیں۔ یا ایسے گناہ جن کا تعلق انسان کے اپنے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذریعہ دوسروں کا تعاون پایا جاتا ہے اور یہ بھی کھانے پینے ہی کے متعلق ہیں ۔اور یہ اجازت اس لئے ہے تاکہ جسم قائم رہے ایسے وقت میں اس بات کا خیال نہیں رکھا جائے گا کہ روح کو کسی قدر نقصان پہنچے گا بلکہ یہ مدنظر ہو گا کہ جسم سلامت رہ سکے۔ پس یہ صرف کھانے پینے کے متعلق مضطر کے لئے اجازت ہے ورنہ اگر ہر ایک بات میں مضطرکو اجازت ہوتی تو کوئی بھی گناہ ،گناہ نہ کہلا سکتا۔
تم اس بات کو خوب یاد رکھو۔ حضرت مسیح موعودؑ سے بھی بار ہا سُود کے متعلق پوچھا گیا۔ آپ نے ہر دفعہ منع فرمایا۔ وہی لوگ جو اَب ہم سے علیحدہ ہو گئے ہیں انہیں میں سے ایک نے دفتر سیکرٹری میں بیٹھے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد ایک دفعہ کہا۔ ’’واہ او مرزیا۔ لوکاں نے بھی بڑا زور لگایا کہ سُود جائز ہو جائے پر تو نے نہ ہی ہون دتا۔ یعنی لوگوں نے (یہ لوگوں کا لفظ محض پردہ کے لئے تھا ورنہ وہ زور مارنے والے بھی وہیں موجود تھے) بڑا زور مارا کہ کسی طرح سُود جائز ہو جائے لیکن آپ نے ہر گز اجازت نہ دی سُود لینا اور دینا دونوں کو برابر گناہ فرمایا۔
شریعت کوئی ٹھٹھا نہیں ہے کہ ہر ایک انسان استنباط کرنے لگ جائے۔ وہ لوگ جنہوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ اضطرار کے وقت سُود جائز ہے جب اُنہیں معلوم ہو گا کہ اضطرار کے ساتھ مخمصہ کا لفظ ہے تو انہیں اپنی غلطی معلوم ہو جائے گی۔ لوگوں نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ ایک بات کے جواز کے لئے جو سبب ہو وہی اگر دوسری جگہ پایا جائے تو اس کے جائز ہونے کا قیاس ہو سکتا ہے۔ مگر ایسا ہو سکتا ہے کہ دوسری جگہ سبب ہی اَور ہو اور سمجھا اَور جائے۔ اوّل تو قرآن کریم کے احکام میں قیاس کا دخل نہیں ہے اور اگر دخل بھی ہو تو قرآن کریم کے الفاظ پر خوب غور وفکر کرنا چاہئے۔ یہ اجازت کھانے پینے کے متعلق ہے نہ کہ ہر ایک بات کے لئے۔ ایک جگہ قرآن کریم میں کفر کے متعلق بھی فرمایا ہے مگر یہ پسندیدہ امر نہیں فرمایا۔ اگر کوئی بہت توبہ اور استغفار کرے گا تو اس کا گناہ معاف ہو گا اور یہ اس لئے فرمایا کہ ایسی حالت میں وہ اسلام سے نکل جاتا ہے ہاں ا س کی توبہ قبول ہو سکتی ہے اور یہ دروازہ ہر وقت کھلا ہے گویا اجازت وہاں بھی نہیں دی گئی۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اور دوسروں کوبھی سمجھ دے تا وہ قرآن کریم کے الفاظ پر غور کریں اور اُس کے احکام کی حکمت اور منشاء کو سمجھیں اپنے ارادہ اور خواہش کے مطابق اس کے الفاظ کو بگاڑ کر اَور مطلب نہ نکالیں۔ ‘‘ (الفضل ۱۱؍ اپریل ۱۹۱۶ئ)
۱؎ المائدۃ: ۴ ۲؎ البقرۃ: ۱۷۴
۱۲
دنیا کی تمام اشیاء انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہیں
(فرمودہ ۱۴ ؍ اپریل ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
۱؎
پھر فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ کی وہ مخلوق جو ہماری نظروں کے سامنے ہے اور جس تک ہماراعلم پہنچ سکتا ہے اُس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تمام مخلوق میں سے ایک ہی ہستی ایسی ہے جو کہ اپنے اندر ارادہ کی قوت رکھتی ہے اور جس کے اندر اس کے استعمال کی طاقت پیدا کی گئی ہے اور وہ انسان ہے۔ بڑے بڑے کرے جو زمین کے علاوہ آسمان پر ہیں یعنی سورج، چاند اور ستارے، پھر زمین اور اس کے اندر کی تمام اشیاء اور خاص کر حیوانات ا ن تمام پر غور کر کے دیکھا جائے تو سوائے انسان کے سب کی سب ایک خاص قانون کے ماتحت چلتی ہیں اور اس سے ذرا بھی اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتیں۔ جس رنگ کا، جس طرز اور جس طاقت کے ساتھ خدا نے ان کو پیدا کیا تھا اس کے علاوہ نہ تو انہوں نے کسی بات میں ترقی کی ہے اور نہ ہی تنزل۔ بے جان چیزیں تو علیحدہ رہیں حیوانات بھی ارادہ اور قدرت نہیں رکھتے اور ان میں بھی ترقی کا مادہ نہیں ہے۔ جس دن سے دنیا کی ابتدا ہوئی ہے شیر غاروں میں ہی رہتے ہیں، بندر درختوں کے اُوپر، مچھلیاں پانی کے اندر زندگی گزار رہی ہیں۔ اِسی طرح پرندے ہوا میں اُڑتے، درختوں پر گھونسلے بناتے چلے آرہے ہیں۔ اس میں کبھی تغیر نہیں ہوا۔ نہ آدم علیہ السلام کے وقت نہ ان کے بعد اور نہ اب بلکہ ایک ہی حالت میں چلے آرہے ہیں۔ بیا۲؎ ایک عمدہ گھونسلا بناتا ہے مگر ایسا ہی حضرت آدمؑ کے زمانہ میں بنایا کرتا تھا۔ اِسی طرح فاختہ جس قسم کا آج گھونسلا بناتی ہے آج سے ہزار، دو ہزار، تین ہزار، چار ہزار سال پہلے بھی ایسا ہی بناتی تھی۔
مگرا نسان کی حالت کبھی ایک حالت پر نہیں رہی بلکہ ہر صدی میں بدلتی رہی ہے۔ کوئی زمانہ ایسا تھا کہ انسان بالکل ننگا رہتا تھا۔ پھر وہ زمانہ آیا کہ درختوں، چھالوں اور پتوں سے اپنا جسم ڈھانکنے لگا۔ پھر جانوروں کی کھالوں کو پہننے لگا۔ پھر کوئی زمانہ ایسا تھا کہ درختوں کی باریک شاخوں سے پتوں میں موریاں نکال کر گھاس کے ریشے ان میں ڈال کر اپنے لئے کپڑے سینے لگا۔ پھر لوہا، روئی دریافت ہوئی اور کپڑے بننے اور سیئے جانے لگے۔ اس سے ترقی کرتے کرتے آج انسان اس حالت کو پہنچا ہے کہ اتنی قسم کے کپڑے تیار ہو گئے کہ کوئی گن بھی نہیں سکتا اسی طرح ایک وقت تھا کہ جبکہ انسان کچی غذائیں کھاتا تھا۔ پھر سورج کی گرمی سے بھون کر کھانے لگا۔ پھر آگ دریافت ہوئی تو اس میں ڈال کر پکانے لگا اس سے ترقی کرتے کرتے آج اس حالت کو پہنچا کہ ہزاروں قسم کے نفیس سے نفیس کھانے تیار کرنے لگا۔ یہی حال پینے کی چیزوں کا ہے اور یہی سوسائٹی کے تعلقات کا۔ غرضیکہ ہر ایک وہ کام جس کا انسان سے تعلق ہے وہ جس حالت میں آج سے سَو سال پہلے تھا آج اس سے بڑھ کر حالت میں ہے اور آج سے ایک سَو سال بعد اور بڑھ کر ہو گا۔ یہ تونسل انسانی کا تغیر وتبدل ہے اِسی طرح ہر انسان میں بھی تغیر ہوتا ہے۔ ایک وہ وقت ہوتا ہے جبکہ انسان بات کرنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا۔ لیکن ایک وقت آتا ہے کہ خوب بول سکتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے جبکہ وہ کچھ پڑھ نہیں سکتا لیکن ایک وقت آتا ہے کہ وہ بڑا عالم اور فاضل ہو جاتا ہے۔ تو جس طرح نسل انسانی مجموعی حالت میں ترقی کرتی ہے اسی طرح ہر ایک انسان بھی ترقی کرتا ہے اور ایک ادنیٰ حالت سے لے کر عظیم الشان درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔
پیدا ہونے کے وقت تما م بچوں کی ایک ہی حالت ہوتی ہے ایک شاعر نے کیا ٰخوب کہا ہے کہ اے انسان! تو جس وقت پیدا ہوا تھاتو رو رہا تھا اور لوگ تجھ پر ہنس رہے تھے (کسی پر ہنسنا اس کی تحقیر کرنے کے معنوں میں بھی آتا ہے) اب توا ن سے بدلہ لے اور وہ اس طرح کہ ایسے اچھے اعمال کر اور لوگوں کو اتنا فائدہ پہنچا کہ جب تو مرے تو لوگ روئیں اور تو ہنسے اور خوش ہو کہ میں خدا کے پاس جار ہا ہوں۔ تو سب بچے روتے ہوئے ننگ دھڑنگ آموجود ہوتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اِسی طرح آئے تھے اور آپ کا بدترین دشمن بھی اِسی طرح آیا تھا مگر آپ نے تو ایسی تر قی کی کہ معراج کے وقت جبرائیل بھی پیچھے کھڑا رہااور آپ سے کہا کہ آپ آگے چلے جا ئیں مجھ میں آگے جا نے کی ہمت نہیں ہے۔ تو فردا ًفرداً بھی انسا نوں کی یہی حالت ہو تی ہے۔انسانوں میں بڑی بڑی ترقیات کے مادے رکھے گئے ہیں اس لئے کوئی انسان ہروقت ایک حالت پر قائم نہیں رہتا اور نہ رہ سکتا ہے اور نہ کوئی قوم رہتی ہے اور نہ رہ سکتی ہے۔ وہ حالت جس کا نام کسی قوم کا ایک حالت میں ٹھہرنا رکھا جا تا ہے وہ اصل میں ٹھہرنا نہیں ہوتا بلکہ گرنا ہو تا ہے یعنی اُس وقت اُس قوم کا گرنا شروع ہو جا تا ہے۔کیونکہ انسان ہر وقت ترقی یا تنزل کر تا رہتا ہے کبھی نیچے کو آتا ہے تو کبھی اوپر کو جاتا ہے یعنی ہر وقت حرکت میں رہتا ہے جب انسا ن خدا تعالیٰ کی عطاکردہ طاقتوںسے کا م لینا چھوـڑدیتا ہے تو نیچے گر نا شروع ہو جاتا ہے۔ جس طرح ایک شخص رسّہ کو پکڑکراوپر چڑھ رہاہووہ جب اپنی طاقت کو کم کرے گا تو نیچے کو آنا شروع ہو جائے گایہی حال انسانی ترقی کا ہوتاہے۔
غرض انسان اور دوسری تمام مخلوق میں یہ فرق ہے کہ انسان اپنے اندر ترقی کی اس قدر طاقتیں رکھتا ہے کہ جن کا اندازہ بھی نہیں ہو سکتا ۔جو شخص کہتا ہے کہ میں نے انسانی ترقی کا پوراپورااندازہ کر لیا ہے وہ جھو ٹا ہے اورخدا نے اس کے جھو ٹ کو اس طرح ثابت کر دیا ہے کہ ایک وقت میں جن باتوں کو انسان اپنی انتہائی ترقی سمجھتے ہیں دوسراوقت اس سے بڑھ کر ترقی دکھا دیتا ہے۔ تمام دنیا میں ایک ہی انسان ہوا ہے جس کی نسبت کو ئی کہہ سکتا ہے کہ اس نے تمام انسانی ترقی کے مدارج حاصل کر لئے ہیںاور وہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیںمگر یہ بھی جھوٹ ہے۔ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جو آج سے تیرہ سَو سال پہلے تھے وہ آج نہیں ہیں بلکہ بہت بڑھ گئے اور ہر وقت بڑھتے رہتے ہیں کیو نکہ کروڑوں انسان دن رات آپ کے لئے ملکر صلی اللہ علیہ وسلم کہنے والے ہیں۔پھر جس قدرنیکی دنیا کو آپ سے پہنچ رہی ہے وہ کیا آپ کو ایک درجہ پررہنے دیتی ہے؟ ہر گز نہیں ۔بلکہ آپ اوپر ہی اوپر جا رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اِسی لئے ۴؎ کا حکم ہوا تھا۔ آپ کی وفات کے وقت جو آپ کا درجہ تھا وہ اس سے دس منٹ پہلے سے زیادہ تھا۔اورہمیشہ زیادہ ہی زیادہ ہو تا جا رہا ہے۔ یہ تو انسان کی حالت ہوئی۔ اس کے مقابلہ میں باقی جس قدر اشیاء ہیں ان میں ترقی کا مادہ ہے ہی نہیں وہ ایک حد کے اندر محدود رہتی ہیں اور پھر وہ ارادے اور قدرت سے کو ئی کام نہیں کر تیں ۔ بلکہ مشین کے طور پر چلتی ہیں۔ شیر کو دیکھ لو جس رنگ میں خد اتعا لیٰ نے پیدا کیا تھا اُسی رنگ میں اب بھی ہے۔ اِسی طرح گدھے کو جس رنگ میں پیدا کیا تھاکہ گھا س کھائے وہ اب بھی گھا س ہی کھا تا ہے اور ویسا ہی ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے وقت تھا۔ اِسی طرح گھوڑا ہے۔ اس تمام نظارہ کو دیکھ کر ہمیں ایک بات معلوم ہو تی ہے اور وہ یہ کہ انسان کے سِوا اور کوئی چیز طاقت اور ارادہ نہیں رکھتی بلکہ ان میںانفعالی طاقت ہو تی ہے یعنی ایک دوسری چیز اپنا اثر ڈال کر ان میں تغیر پیدا کر دیتی ہے اور وہ انسان ہے۔
اس سے پتہ لگا کہ تمام اشیاء جو زمین و آسمان میںیا ان کے درمیان ہیں وہ تمام کی تمام اسی ہستی کی خدمت کے لئے بنائی گئی ہیں اور ان کی خلقت اس لئے ہو ئی ہے کہ انسان ان سے نفع حاصل کرے خواہ سورج ہے یا چاند ہے یا ستارے ہیں یا جو کچھ بھی ہے وہ انسان کے نفع کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ چنانچہ خدا تعالی نے قرآن کریم میں با ربار فرمایا ہے کہ ان اشیاء کو تمہارے نفع کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔
یہ ایک نا دانی کی بحث ہے کہ زمین کے سوا کوئی اور بھی کُرے ہیں یا نہیں جہاں انسان رہتے ہیں کیو نکہ اس بات کی اسے کیا ضرورت ہے وہ اس کرہ سے تعلق رکھتا ہے جس میں وہ رہتا ہے اس لئے وہی اس کے لئے بنا یا گیا ہے۔اور کروں کا دریافت کرنا تو الگ رہا انسا ن کے اندرایسی طاقتیں موجود ہیں جو تما م کی تما م یکدم اس پر خود بھی نہیں کھلتیں بلکہ آہستہ آہستہ کھلتی رہتی ہیں۔اور اس کی ایسی مثال ہے کہ بہت سی اشیاء انسان کی جیب میں ہوںاور اسے ان کا علم نہ ہوہاتھ ڈالتا جائے اور نکالتا رہے۔انسان کی ہستی ایک ایسی زنبیل ہے کہ جو کبھی خالی نہیں ہوتی ہمیشہ کچھ نہ کچھ اس سے نکلتا ہی چلاآتاہے۔
پس جب یہ ثابت ہو گیا کہ دنیا کی سب اشیاء انسان کے لئے اور صرف اسی ہستی کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے اس کی مسخر کر دی گئی ہیں تو سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا اتنا بڑا کا رخانہ اور اس کی تمام اشیاء زمینی اور آسمانی کاپیدا کرنا اور پھر انسان میں اِس قدر روحانی ترقیات کا مادہ رکھنا کہ ختم ہی نہیںہو سکتا کیا یہ سب کچھ اِسی لئے ہے کہ انسان دنیا میں کھائے پیئے اور گزر جا ئے؟ کھا نے پینے کے لحاظ سے تو اور جا نور اس سے بہترہیں۔ایک گھوڑا اتنا کھا سکتا ہے جتنا انسان سر پر اُٹھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اور چیزیں ۔ طاقت، قد، جسم کے لحاظ سے بھی انسان سے بہت بڑی ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ خدا نے انسان کے لئے ان کو مسخر کر دیا ہے۔
اس میں ایک بھید ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا نے انسا نوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ اس کا خاص خد ا سے تعلق ہو۔ باقی جس قدر اشیاء انسان کے لئے پیدا کی ہیں وہ اس لئے نہیں کیں کہ انسان ان پر حکومت کرے اور بس۔بلکہ اس لئے کہ جس قدر سامان وسیع ہواُسی قدر وسیع نتائج نکلتے ہیں۔دیکھوترکیب جس قدر زیادہ مقدار میں ہو تی ہے اُسی قدر زیادہ نتیجہ پیدا کرتی ہے۔دو ضرب دو، چار ہو تے ہیںلیکن ان اعداد کو دو کی بجائے چار کر دیا جائے تو چار ضرب چار، سولہ ہو جائیں گے۔تو جس قدرا عداد بڑھا تے جا ئیں اُسی قدر نتا ئج بڑے نکلتے جا ئیں گے۔چونکہ انسان کے اعمال ہی اس کے روحانی لڑی کے بڑھا نے والے ہو تے ہیں اس لئے جس قدر یہ زیادہ ہوں گے اُسی قدر زیادہ اس کی روحا نیت ہو گی۔ جب انسان کے متعلق بہت سی اشیاء ہو ں گی تو جس قدر زیادہ اشیاء سے معا ملہ کرے گا اُسی قدر زیادہ اس کے اعمال ہوں گے تو دنیا کی تمام اشیاء اس کی ترقی کے لئے پیدا کی گئی ہیں ۔
پس اگر انسان ذرا بھی غور کرے تو اسے پتہ لگ جا تا ہے کہ جب یہ سب اشیاء میر ے لئے پیدا کی گئی ہیں تو ضرور ہے کہ میری پیدائش کی غرض وہ نہیں ہے جو ان کی ہے بلکہ کوئی اور اعلیٰ غرض ہے ۔اِسی بات کو خدا تعالیٰ نے ان آیات میں بیان فرما یا ہے کہ وہ لوگ جو کا فر ہو گئے اور کہتے ہیں کہ خدا ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اسے ہما رے اعمال سے کیا تعلق ہے کہ ہمیں مرنے کے بعد زندہ کرے اور ہم سے کسی بات کے متعلق پرسش ہو۔ وہ گمان کر تے ہیں کہ یہ جو کچھ خدا نے پیدا کیا ہے یہ سب لغو ہے اس کے پیدا کرنے سے اس کی کو ئی غرض اورمنشاء نہیںہے مگر یہ بات نہیں ہے۔ ایسا کہنے وا لے لوگ ہمیشہ نقصان ہی پا ئیںگے۔کیوں؟اس لئے کہ خدا تعا لٰی نے جوکچھ ان کے لئے پیدا کیا تھااُس کو انہو ں نے لغو اور فضو ل سمجھا ۔ لیکن مو من انسان کبھی ایسا گمان نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی اندر کی طاقتیں اسے پکا ر پکار کرکہتی ہیں کہ ہر وقت تجھے آگے بڑھنے اور تر قی کر نے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اور یہ جو کچھ دنیا میں ہے یہ تیری ہی ترقی کے لئے اسباب پیدا کئے گئے ہیں ۔خدا تعا لیٰ فر ماتا ہے کہ ہم نے انسا ن کی ترقی کے لئے زمین و آسمان میںکس قدر اسبا ب پیدا کئے ہیںاور کس طرح ہر ایک چیز کو انسان کے لئے مسخر کر د یا ہے پھر انسا ن کے اندر کس قدر بڑھنے اور ترقی کر نے کی طا قتیں رکھی ہیں۔ کیا اس کا نتیجہ یہی ہو سکتا ہے جو لوگ ایماندار ہیں اور اچھے عمل کر تے ہیں ان کو اور وہ لوگ جو فسا د کرتے ہیںایک ہی جیسا کر دیا جائے؟اگر ایسا ہی ہو تاتو گویا حیوانوں کی طرح ہی انسانو ں کی پیدائش بھی ٹھہرتی۔کیو نکہ تمام حیوانوں کا ایک ہی درجہ ہو تا ہے۔ اگر تمام انسا نو ں کا ایک ہی درجہ ہوتااور ان سے ایک ہی قسم کا سلوک کیا جا تاتو گویا انسان کے لئے اس قدر ساما ن پیدا کرنا اور خود انسان کو پیدا کرنا ایک لغو امر ہو تا۔مگر خدا تعالی توکو ئی لغو بات نہیں کرتا۔
جب یہ بات ہے تو کیا وہ متقیو ں کو فا جروں کے برابر کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک مومن دوسرے کا فر ۔ یا متقی اور فاجر۔یعنی مو منوں کے مقابلہ میں ایک تو کافر ہو تے ہیں اور ایک وہ جو لفظاً تو مومنوں کی جما عت میں داخل ہو تے ہیںمگر عملاً با غی ہوتے ہیںان کو فاجر کہا جا تا ہے ان دو قسم کے لو گو ںکی نسبت بتا دیا کہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اعمال کا کوئی نتیجہ نہیں ہو گاجو سلوک متقیوں سے کیا جا ئے گاوہی ہم سے ہو گا تو غلطی کر تے ہیں۔ کیا ہم ایمان لا نے والے اور نیک اعمال کر نے والوں کو ایسا کر دیں گے؟ ہر گز نہیں صرف وہی لو گ نہیں ہو تے جو دنیا میں لڑائی جھگڑا کرتے ہیںبلکہ کفا ر بھی ہی ہو تے ہیںکیو نکہ ان کے عقائد درست نہیں ہوتے اور جب عقائد درست نہیں ہو تے تو جو ان سے نتائج نکلتے ہیں وہ بھی درست نہیں ہو تے بلکہ بُرے اور خطر ناک ہوتے ہیں خواہ ایسے لوگ کتنا ہی اچھا کام کریں تو بھی عقائد کے نقص کی وجہ سے اس میں نقص ہی ر ہے گا اس لئے وہ مو منوں کے برابر نہیں ہو سکتے۔ دوسرے وہ لو گ جو زبان سے تو ایمان لا نے کا اقرار کر تے ہیںلیکن عملاً اس کا ثبوت نہیں دیتے وہ متقیوں یعنی ایمان لا کرعملی طور پر اس کا ثبوت دینے والوں کے برابر نہیں ہو سکتے ۔ اس کی گواہی زمین و آسمان اور سب اشیاء دے رہی ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہو سکتا۔ اور اگر ایسا ہو جائے تو خدا پر الزام آتا ہے کہ کیا اس نے اتنا بڑا کا رخانہ اور تمام سازو سامان گھوڑے اور گدھے کی طرح کھا پی کر گزر جا نے والے انسا ن کی خاطر پیدا کیا ہے ؟اس قسم کا کا م تو معمولی عقل کا انسان بھی نہیں کرتا چہجائیکہ خدا ایسا کرے کہ انسان کے لئے یہ سب تو پیدا کر دے مگر اس کی غرض کچھ نہ ہوکیا کھانے پینے کے لحاظ سے گھو ڑے اور گدھے وغیرہ حیوانا ت انسان کے برابر نہیں ہیں؟ ضرور ہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان کے لیے تمام دنیا کی اشیاء مسخر نہیں کی گئیںاور صرف انسا ن کے لئے کی ہیں۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ انسان کی پیدائش کی کو ئی اور بہت بڑی غرض ہے۔
غر ض دنیا کی ہر ایک چیز انسا ن کو ہو شیا ر کر رہی ہے خواہ سورج یا چاند یا ستا رے ہوں، خواہ زمین کے اوپر کے نظا رے ہو ں ،خواہ اس کے نفس کے اندر کی طاقتیں ہو ں ،تمام جا نور حتیٰ کہ ایک چڑیا اور طو طا، ایک کتا، ایک بلی، ایک مینا اس کے لئے نصیحت اور سبق ہے۔ یہ ہر چیز اسے کہہ رہی ہے کہ ہم کھا نے پینے کے لحاظ سے تمہا رے برابر ہیں لیکن تجھے جو ہم پر حکومت دی گئی ہے اور ہمیں تیرے لئے مسخر کیا گیا ہے تو اِس میں کوئی بات ضرور ہے اور وہ یہی کہ تا تجھے بتایا جائے کہ ایک دن تیرے تمام اعمال کا محاسبہ ہو گا اور تو خدا تعالیٰ کے حضور اپنے افعال کی جواب دہی کے لئے کھڑا کیا جا ئے گا۔لیکن اس واعظ کے لئے کہیں دور جا نے کی ضرورت نہیں انسان اپنے گھر میں بستر پر آنکھیں بند کر کے اپنے نفس پر غور کرے تو وہی اس کے لئے واعظ ہو گا اور اسے پتہ لگ جا ئے گا کہ دنیا میں میرا کیا درجہ ہے اور دوسری مخلوق کا کیا۔ مجھ سے خدا کا کیا سلوک ہو گا اور دوسری مخلوق سے کیا۔ اِس آیت میںخدا تعالیٰ نے اِسی طرف انسان کو متوجہ کیا ہے اس لئے اس سے وہ نصیحت حا صل کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک بات کا بھی اس سے پتہ لگتا ہے اور وہ یہ کہ بہت لوگ سوال کرتے ہیں کہ ہمیں یہ کیونکر معلوم ہو کہ ہم متقی ہیں یا فا جر اور خدا ہم سے خوش ہے یا نا خوش؟ اس آیت سے یہ سوال بھی حل ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا متقی اور فا جر برابر ہوتے ہیں؟ یعنی نہیں ہوتے ۔اس کے متعلق ہر ایک انسان اپنے نفس سے مطالبہ کر سکتا ہے کہ بتائو تم سے خد ا کا کیا معاملہ ہے؟ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں اپنے مخالف اور موافق لوگ نہ رکھتاہو۔ وہ اپنا اور اپنے مخالفوںکا اور اپنا اور اپنے ساتھیوں کا مقابلہ کر کے دیکھے کہ اگر ہر مصیبت اور تکلیف اور ہر رنج کے وقت خدا مدد کرتا ہے اور کسی حالت میں خواہ رنج کی حالت ہو یا راحت کی وہ مجھے نہیں چھو ڑتا اور ہمیشہ دشمنوں پر فتح دیتا ہے اور برخلاف اس کے دشمنوں کو ذلیل، ناکام اور نا مراد رکھاتا ہے تو وہ سمجھ لے متقی اور فاجر برابر نہیں ہو سکتے ۔ مجھ سے چو نکہ متقیو ں والا سلوک ہو رہا ہے اور میرے مخالفین سے فاجروں والا اس لئے میں متقیو ں میں شامل ہوں۔لیکن اگر اس سے فا جروں والا سلو ک ہو تاہو تو سمجھ لے کہ مجھ میں ضرور نقص ہے اس لئے مجھ سے ایسا سلو ک ہو ر ہا ہے ورنہ نہ ہو تا۔ اس سے ہو شیا ر ہو کر اپنی اصلاح شروع کر دے۔اگر کسی کی خدا تعالیٰ غم کی گھڑیو ں میں مدد کرتا اور خو شی کی گھڑیوں میں ساتھ دیتا ہے، اُس کی کوششوںکو بار آور بنا تا اور اُسے دشمنوں پر غلبہ دیتا ہے تو سمجھ لے کہ میں خدا کی رضا اور اس کے صحیح رستہ پر چل ر ہا ہوں۔ اور اگر ایسا نہیں تو وہ سمجھ لے کہ مجھ میں نقص ہے جس کی اصلاح کر نی چاہئے۔تواِس آیت کی وجہ سے ہر ایک انسان کے لئے اپنے نفس کا موازنہ کر نا آسان ہو گیا۔وہ دیکھ سکتا ہے کہ میں مو منانہ راستہ پر چل رہا ہوں یا کافرانہ پر، متقیا نہ قدم اُٹھا رہا ہوں یا فا جرانہ۔ اس میں شک نہیں کہ مو منوں اور متقیو ں پر بھی مصائب آتے ہیں لیکن ایک مومن کو خدا تعا لیٰ دشمن کے مقابلہ میں کبھی اِس طر ح نہیں گراتاکہ اسے کسی گنا ہ کا مرتکب ہو نا پڑے۔ یہ مو من اور کافر، متقی اور فا جر کے مصائب میں فر ق ہے۔ مومن اور متقی کو کسی بڑی سے بڑی مصیبت کے وقت بھی کسی قسم کے فریب، دغا اور حیلہ سازی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان باتوں پر خدا اُسے کا میابی دیتا ہے۔ مگر ایک کافر اور فا جر پر جب ایک مصیبت آتی ہے تو وہ گناہ کی طرف لوٹتا ہے اور گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ پس جب کوئی شخص مصیبت کے وقت ایسا کرتا ہے وہ دیکھے کہ اس کے اندر گنا ہ کا ما دہ تھا تب ہی وہ گنا ہ کی طرف لو ٹا ہے۔ مو من اور متقی کو کبھی ایسے واقعات پیش نہیں آئیں گے جو اسے بدی کے لئے مضطر کر دیں اور جسے کوئی ایسا مو قع آتا ہے وہ سمجھ لے کہ اس میں نقص ہے۔پس یہ آیت اپنے نفس کا مطالعہ کرنے کا آسا ن طر یق بتا تی ہے اس سے فا ئدہ اُٹھا نا چا ہئے۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ لوگوں کو اور ہماری تمام جماعت کو اس بات کی توفیق دے کہ خداتعالیٰ نے جو سامان اور طاقتیں ہمیں بخشی ہیں ان کو ہم صحیح طور پر استعمال کرکے اُس کا فضل حاصل کرنے کے قابل بنیں اور ایسا نہ ہوکہ ان کے غلط استعمال سے ہمارا قدم کسی اور راہ پر جاپڑے ۔ ‘‘ (الفضل۱۸؍اپریل ۱۹۱۶ئ)
۱؎ ص: ۲۸،۲۹
۲؎ بیا: ایک چھوٹی زرد رنگ کی چڑیا جو گھونسلا بنانے میں مشہور ہے۔
۳؎ دروس الادب صفحہ ۹۰
۴؎ طٰہٰ: ۱۱۵
۵؎ مینا: ایک خوش الحان پرندہ
۱۳
خدا کی اطاعت کرنے والے ہی اُس کے انعامات کے وارث ہو ں گے
(فرمو دہ۲۸؍ اپریل ۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذاور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
۱؎
بعد ازاں پھر فرمایا:۔
’’انسان کو خدا تعا لیٰ نے سب سے بڑے انعامات کا وارث بنایا ہے اور اس کی ترقیات کے لئے بڑے بڑے و سیع را ستے کھو لے ہیں حتی کے انسان ان را ستوں کو محدود نہیں کر سکتا جو طریق یا راستے مدراج کے حصول کے لئے مقرر کئے گئے ہیں چہ جائیکہ ان مدارج کو محدودکر سکے۔ دنیا کے مختلف پیشے اور علوم بھی اگر انسان گننے لگ جا ئے تو وہ بھی ایسی کثرت اپنے اندر رکھتے ہیں کہ ان کا گننا بھی مشکل ہو جا تا ہے۔ہر سورج انسان کے لئے نئے علوم اور ترقیات لاتا ہے۔ پس جب اِس قدر انعاما ت انسان کے لئے مقرر ہیں تو ضرور تھا کہ اس کے لئے ابتلا ء اور مشقتیںبھی مقرر کی جا تیں ۔انعامات کا وارث وہی ہو اکر تا ہے جو اپنے آپ کو ان انعامات کا مستحق ثابت کرے۔ انعام محنت کے بدلے میں اور کسی استحقاق یا کسی خاص حالت کی وجہ سے ملتے ہیں ورنہ ایک جیسے انسا نوں کو انعامات نہیں ملا کرتے۔ پا نچ سات آدمیو ں میں انعام لینے والا و ہی ہو گا جو اپنے اندر کوئی خاص امتیاز ر کھتا ہو گا۔ پس جہاں ایسے وسیع انعامات مقرر ہوئے ہیں وہاں ابتلاء بھی مقرر ہیں جس طرح انسا ن ان انعامات کو جو اس کے لئے مقرر ہیں گن نہیں سکتا اِسی طرح انسان اُن ابتلائو ں کو بھی جو اُسے پیش آنے والے ہیں گن نہیں سکتا جن میں پڑکر انسان ان انعامات کا جو اس کے لئے مقرر ہیں وارث ہو تا ہے۔ خدا تعالی کے جس قدر انعامات غیر محدود ہیں اُسی قدر خدا کے ابتلاء بھی غیر محدود ہیں۔ اگر صداقت کے رد کرنے والے اور خدا تعالیٰ کی درگاہ سے دورہو جا نے والے لوگو ںکو پو چھو کہ کیوں تم نے یو ں کیا؟ تو ہر شخص اپنے لئے جدا جدا با عث بتا ئے گا۔ جو وجہ ایک کی ہو گی وہ دوسرے کی نہیں ہو گی ۔ ایک کے لئے روک اَور ہوگی، دوسرے کے لئے اَور تیسر ے کے لئے اَور، چوتھے کے لئے اَور، پانچویں کے لئے اَور۔ ان میں سے ہر ایک شخص جو اس صداقت کو نہیں مانتا وہ اپنے لئے مختلف وجہیں رکھتا ہے۔
غرضیکہ ہر ایک کے لئے جدا جدا ابتلاء ہیں ۔ یہ آزمائشیں دودرجوں میں منقسم ہیںایک آزمائشیں انعام کی ہو تی ہیں دوسری عذاب کی ہو تی ہیں ۔یا تو ایسی آزما ئشیں ہوتی ہیںکہ وہ انعاما ت کا رنگ رکھتی ہیںیا کوئی بڑا ہو جا تا ہے دولت مل جا تی ہے اس کے لئے ان کی دولت ابتلا ء ہو جا تی ہے۔وہ خیال کر تا ہے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں ایک مفلس نا دار آدمی کو جس کی کچھ بھی لوگوں میں حیثیت نہیں مان لوںاور اس کا فرمانبردار بن جا ئو ں۔عہدہ دار خیال کر تا ہے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے ما تحت کی بیعت کر لیں۔ اِسی طرح کسی کے لیے اس کا آرام اور آسائش سامانِ ابتلاء ہو جا تا ہے۔ہم نے ایسے آرام سے زندگی بسر کی ہے ایسی آسائشوں اور نعمتوں میںپر ورش پا ئی ہے اب اگر دین پر چلیں گے اور کسی کے ماتحت ہوں گے تو یہ آرام اور آسائش نہیںرہے گی۔ اِس طرح آرام اور آسائش بعض لو گوں کے لئے ابتلاء کا موجب بن جا تی ہے۔ایک طالب علم ایک سال میں وظیفہ لیتا ہے تو دوسرے سال کے لئے بھی اس کے دل میں شوق پیدا ہو جا تا ہے کہ وہ اس سال بھی و ظیفہ لے۔ تو بجائے اس کے کہ یہ لو گ اس ما ل، اس دولت، اس بزرگی اور اس بر تری اور عیش و تنعم کے سامان سے فا ئدہ اُٹھائیںاور یہ خیال کر یں کہ وہ خدا جس نے بغیرکسی قسم کی محنت کے، بغیرکسی قسم کی مشقت کے اِس قدر انعامات ہم پر کئے ہیںاگر ہم اُس کی اطاعت اور فرما نبرداری کر یں گے تو کس قدر انعامات حاصل ہو ں گے۔ان لو گو ں نے اِسی قدر پر قناعت کر لی ہے۔
دوسری قسم کے وہ لوگ ہیںکہ ان کے لئے یہ آزمائشیں مصائب کے رنگ میں ہو تی ہیں ۔ وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمیں آگے کو نسا سکھ ملا ہے اور ہم آگے کس آرام میں ہیںکہ اس کو ما ن کر وہ پا لیں گے۔کو ئی خدا کی طرف سے آیا ہو تو ہمیں اس کو ما ننے سے کیا۔ہم آگے ہی دکھوں اور مصیبتوں میں ہیں اس کو مان کر اَور دکھوں اور مصیبتوں میں پڑ جا ئیں گے۔ پس اگر ایک طرف انعامات کے ذریعے سے آزمائشیںہوتی ہیں تو دوسری طرف مصائب اور مشکلات کے ذریعے سے بھی لو گ آزما ئے جا تے ہیں۔
پھر آگے ان دونوں قسموں کی ہزار قسمیں ہیںلیکن اگر انسان ذرا غور کرے کہ کوئی فا ئد ہ نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اس کے لئے محنت نہ کی جائے تو پھر انسان کے لئے اللہ کی راہ میں محنتیں اور مشقتیں کو ئی چیزنہیں ۔ وہ فوائد جن کے لئے انسان کو ا مید ہو تی ہے کہ ہمیں مل جائیں گے، ان کے لئے انسان کس قدر محنت کر تا ہے اور رات دن لگا رہتا ہے۔ اس لئے کہ اس محنت میں ایک فا ئدہ دیکھتا ہے اور اسے یقین ہو تا ہے کہ وہ اسے جلد ملنے والا ہے۔بہت سے لو گ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہیں یہ فا ئدہ حاصل ہے مگر دراصل وہ انہیں حاصل نہیں۔ پس اگر انہیں یہ یقین ہو جا ئے کہ جو کچھ اللہ کا رسول لا یا ہے اگر ہم اس کو مان لیں گے تو اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مستحق ہو جائیں گے تو پھر ان مصائب کو اس رسول سے روکنے کی وجہ نہ بتاتے بلکہ فورا ًاس کو مان لیتے۔
اللہ تعالیٰ فرما تا ہے کہ یہ لوگ سمجھتے نہیںکہ جس با ت کو یہ لوگ ردّکر تے ہیںاس کے ما ننے میں بڑے بڑے انعامات ہیں اور اس کے نہ ماننے میں بڑی بڑی تکلیفیں، مشقتیں اور عذاب۔ وہ قوم جو مصائب کو دیکھ کر کسی فا ئدے کو چھو ڑ دے بجائے آگے قدم ما رنے کے پیچھے رہتی ہے۔ ایک انسان کو اگر ایک راستے پر گزرنے سے کپڑوں اور مال کے لوٹے جا نے کا خطرہ ہو اور دوسرے راستے پر گزرنے سے جان جا نے کا خطرہ ہو تو وہ یہ خیال کر کے کہ’’ جان بچی سو لاکھوں پا ئے‘‘ اُس راستہ کو ترک کرے گا جس میں اس کی جان جانے کا خطرہ بنے اور اُس رستہ کو اختیار کر ے گاکہ جس میں اس کے ما ل کا اندیشہ ہے ۔پس اسی طرح جسے یہ یقین ہو جائے کہ اللہ تعالی کی نافر مانی کر کے اور اس کی بھیجی ہو ئی صداقتو ں کا انکا ر کر کے جو عذاب ملنے والا ہے وہ ان مشقتوں اور تکلیفو ں سے بہت بڑھ کر ہے جو ایک صداقت اور اس کے لا نے والے کو مان کر پڑنے والی ہیں تو پھر انسان ان صداقتوں کا انکا ر نہیں کر سکتا اور ان مصیبتوں اور مشقتوں سے نہیں گھبراتا۔
جو لوگ صداقتوں کے منکر ہوں وہ مجبور ہیں لیکن جو جماعت صداقت قبول کر چکی ہے اور اس پر ایک اور ایک دو کی طرح یہ روشن ہو گیا ہے ایسی جماعت کے پیچھے ہٹنے پر ازحدافسوس ہے۔ ہماری جما عت کے لئے بھی یہ ایک امتحان کا موقع ہے اس کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک حکم ملا اور وہ ایسے برگزیدہ انسان کے ذریعہ آیا جس کی نو حؑ سے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک کے پیغمبروں نے خبر دی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اولیاء اور خداکے برگزیدہ انسان اس کے متعلق بیان کرتے چلے آے تھے بلکہ اس کو دیکھنے کے مشتاق تھے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے وعدے کیے تھے۔ پھر اس کے ساتھ وعدہ تھا کہ جو میرے احکام کی فرمانبرداری کریں گے وہ میرے انعامات کے وارث ہو ں گے۔ کیا ہما ری جما عت نے اِس با ت پر غور کیا کہ کیا وہ مشقتیں جو ان انعامات کے لئے ضروری ہیں برداشت کر چکی ہے؟افسوس آتا ہے جب کہتے ہیں کہ گائوں والے دُکھ دیتے ہیں کیا ایسا انسا ن خدا تعالیٰ کے انعامات کا وارث ہو سکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ فرما تا ہے کہ انسان انسان کو کیا دکھ دے سکتاہے۔فرعون بڑا مشہوراور چالاک بادشاہ تھا۔ اُس نے حضرت مو سیٰ کے مقابلہ کے لیے کچھ آدمی منتخب کئے۔ ان کی یہ حالت تھی کہ فرعون ان کو اپنا مصاحب اور درباری بنا نے کا و عدہ کر تا ہے اور ان کی یہی خواہش ہو تی ہے کہ ہمیں کچھ مل جا ئے۔ ان کے علم کی کمزوری اور ان کی جہا لت کی وجہ سے بادشاہ کے درباریوں میں شامل ہو جا نا کو ئی چیز نہیں دو چا ر روپے مل جائیں۔ ایسی جہالت میں پڑے ہو ئے لو گوں کے سینے خدا کے پیغام کے لئے کھل جا تے ہیں۔و ہی فرعون جس سے پیسے ما نگتے تھے وہ اب ڈراتا ہے دھمکاتا ہے کہ میں تمہارے ہا تھ پا ئو ں کاٹ دوں گا ۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر ہو ا کیا اِس کا نتیجہ موت ہی ہو گا نہ کہ کچھ اور ۔ہم خدا کے پا س ہی جا ئیں گے۔ کیا خو ب وہ جواب دیتے ہیں کہ تم اگر ہمیں ما ر دو گے تو ہمیں تو جنت مل جا ئے گی ۔جس مو ت سے تم ہمیں ڈراتے ہو وہ تو ہمارے لئے جنت کا دروازہ کھو لتی ہے۔ انسان کا عذاب کچھ عذاب نہیں ہو تا ۔ جس انسان سے انسان ڈرتا ہے ڈرنے والے کو کیا معلوم کہ اس کی کس وقت جان نکل جا ئے گی۔
ایک خداکے بزرگ تھے بادشاہ دہلی نے کہا کہ ہم سفر سے وا پس آکر تمہیں مروا ڈالیں گے۔وہ سفر سے جب واپس آنے کے قریب ہو ا تو بزرگ کے شاگردوں نے انہیں کہنا شروع کیا اب تو بادشاہ آتے ہیں کو ئی انتظام کر نا چا ہیے۔ اُنہوںنے کہا ہنوز دہلی دور است۔ پھر جب بادشاہ و ہاں سے چل پڑا تو پھر مریدوں نے کہا کہ حضور! اب تو بادشاہ وہاں سے روانہ ہو چکا ہے کوئی انتظام ہو نا چاہئے۔ انہوں نے کہا ہنوز دلی دُوراست ۔ پھر انہوں نے جب بادشاہ دو چار منزل آگیا عرض کیا کہ حضور! اب تو دو چار منزل آپہنچا۔ کہنے لگے ہنوز دلی دُور است ۔ جب ایک منزل پر پہنچا تو لو گو ں نے کہا حضور !اب تو ایک منزل پر پہنچ چکا حضور کو ئی انتظام فرمائیں۔مطلب یہ کہ امراء و غیرہ سے کہہ کر معا فی مانگ لیں ۔ انہوں نے پھر اپنے پہلے جواب کو ہی دُہرایا ہنوز دلی دور است ۔خد تعالیٰ نے بادشاہ کو ایسے عذاب میں گرفتا ر کیا کہ دلی میں داخل ہو نے سے پہلے بیما ر ہو ا اور ان کے دریافت حال سے پہلے پہلے مر گیا۔ جو انسان خد ا کے حضور میں اپنا معاملہ ڈال دیتا ہے اُس کو انسان بے چارہ کیا دکھ دے سکتا ہے۔
اور اگر منشا ء الٰہی یہی ہو کہ اسے کچھ مشقتیں اور مصیبتیں اُٹھانی پڑیں تو ان سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ۔دونوں بڑی بڑی رحمتوں اور انعامات کا سرچشمہ ہیں۔ ایک انسان جان بچانے کے لئے بھا گتا ہے اور اس بھا گنے میں اسے بڑی تکلیف اٹھا نی پڑتی ہے، پسینہ آجا تا ہے، ٹھوکریں کھا تا ہے ، بھو ک پیاس برداشت کرتا ہے ۔ ایک مکان میں آگ لگ جا ئے تو اُس وقت یہ کھڑکی سے کو د پڑتا ہے، جان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے ، آگ سے بچنے کے لئے کودنا اسے دوبھر معلوم نہیں ہو تا۔ جہا ں انعام ہو اس کے لئے مشقت برداشت کر نا کو ئی مشکل نہیں ۔ پس جو خدا تعالیٰ کے انعامات کا وارث بننا چا ہتا ہے تو اسے کسی کے دکھ دینے کا کیا فکر ہے چھوٹے سے چھوٹا عذاب مو من کے لئے مو ت ہے۔اگردشمن اسے جا نی یا ما لی تکلیف دیتے ہیں تو موت تک دیتے ہیں لیکن مو ت کے بعد پھر تو کو ئی عذاب نہیں۔
صحابہ موت کو معمولی سمجھتے تھے اور یہی ان کی ترقی کا راز تھا ۔ ایک دفعہ ایک شخص کا فروں میں سے نکلااور اس نے بہت سارے مسلمانوں کو شہید کیا۔ حضرت ضراربن ازدرجو مسلمانوں میں بہت بہادر تھے اور جن کا تا ریخ میں بہت ذکر آتا ہے اس کے مقابلے کے لئے نکلے اور تھوڑی دیر کے بعد یہ اس کے سامنے سے بھاگے ۔ مسلمانوں میں بھاگنا ہو تا ہی نہیں تھا سب مسلمان حیران کھڑے تھے کہ انہیں یہ کیا ہو گیاچنانچہ وہ اپنے خیمے میں گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد وا پس آئے تو باقی فوج کے آدمیو ں نے کہا آپ نے یہ کیسی بُزدلی دکھائی اور اسلام کے برخلاف کام کیا اور آپ ایک کافر کے سامنے سے بھا گے ؟ آپ نے کہا کہ میں اس لئے نہیں بھاگا تھا کہ مجھے جان کا خوف تھا بلکہ جب میں اس کافر کے مقابلہ پر نکلا تو جسم پر زِرہ تھی مجھے خیال ہوا کہ یہ زِرہ موت کے خوف سے ہے اگر موت اس زِرہ کے پہننے کے باوجود بھی آ جائے تو اچھی بات نہیں ۔ کیا خدا کو میں جا کر یہ کہو ں گا کہ الٰہی! میں تیری ملا قات کا شائق نہ تھا جو میں نے ایک کا فر کے مقابلہ میں زِرہ پہن لی تھی اِس لئے میں بھا گا کہ میں جلد جا کر زِرہ اُتار دوں اور پھر اس کا فر کا مقابلہ کروں تا اگر مارا جائوں تو خداکے حضور کہہ سکوں میں آپ کی ملاقات کا شائق تھا۔
اِسی طرح حضرت خالد ؓمو ت کے وقت رونے لگے ۔ کسی نے کہا آپ کیو ں روتے ہیں؟ فرمایا میں موت سے نہیں روتا بلکہ اس لیے روتا ہوں کہ میں ہمیشہ جنگ میں اس تمنا سے شامل ہو تا رہا کہ اگر یہاں مارا جائو ںتو شہادت کا رُتبہ پا ئوں لیکن افسوس کہ آج میں بستر پر جان دے رہا ہوں۔۲؎
الغرض مومن کے لئے موت سب سے چھوٹی تکلیف ہے جس کو لوگ سب سے بڑا سمجھتے ہیں ۔ موت تو اُس پردے کے چاک کرنے کا نام ہے جو بندے اورخداکے درمیان ہوتاہے۔ پس جب بڑی مشقت سب سے چھوٹی نکلی تو اور عذاب اور مشقیتں کیا چیز ہیں جس سے وہ ما یو س ہو جائیں ۔ذلیل کر نیوالے عذاب مومن پر نہیں آتے۔ اور جو دکھ اُسے پہنچائے جا تے ہیں وہ اس کے لئے کو ئی تکلیف کا باعث نہیں ہو تے ۔ حضرت ابرہیم ؑکو آگ میں ڈال دیا وہ ان کے لئے گلزار ہو گئی اور جلا نہ سکی۔ خیر وہ تو خدا کے نبی تھے اور سلسلہ کے آخری پیغمبر تھے جو کبھی قتل نہیں ہو تا لیکن اگر کو ئی اور خدا کا پیارا ہوتا اور وہ اس آگ میں جل بھی جا تا تو اس کے لئے وہ جل جا نا بھی گلزار تھا ۔ کا فر کو جو عذاب آتے ہیں وہ ما یو س کر نے والے ہو تے ہیں لیکن مومن کو کوئی ایسا عذاب نہیں آتا جو مایوس کر دینے والا ہو ۔
ہماری جماعت کے لیے یہ بڑی قابل غور بات ہے کہ کن مصائب سے ڈر کر وہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں کو تا ہی کرتے ہیں ۔ کیا کوئی قوم ایسی گزری ہے جس نے بغیر مشقتیں اور تکلیفیں اُٹھانے کے کوئی انعام حاصل کیا ہو؟ اگر ہو تی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی جما عت ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کو ئی انسان نہیں گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی خدا کا پیارا نہیں گزرا ۔اگر مصیبتوں سے بچ کر کوئی جماعت خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتی تو آپ کی جماعت ہی ہوتی۔لیکن برخلاف اِس کے یہ جماعت سب سے زیادہ تکلیفیں اُٹھا نے والی ہوئی ہے۔تو پھر کسی احمدی کے لئے یہ خیال کس طرح صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ بغیر کسی قسم کی محنت، مشقت برداشت کئے خدا تعالی تک پہنچ سکے۔مصائب اور مشقتوں کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی۔ جب تک انسان جان کو دکھوں میں نہ ڈالے اور تکلیفیں برداشت نہ کرے اس وقت تک اسے انعام نہیں مل سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی ملا قات اور رضا کوئی معمولی نہیں جو اس کے لئے انسان کو کو ئی مصیبت اور تکلیف برداشت نہ کرنی پڑے اور وہ یو نہی حا صل ہو جا ئے حالا نکہ وہ اُس وقت تک حاصل ہو ہی نہیں سکتی جب تک انسان طرح طرح کے دکھ اور مصائب برداشت نہ کرے۔اللہ تعالیٰ ہمارے بھائیوں کو اور ہمیں توفیق عطاء فرمائے کہ اس کی رضاء میں کسی قسم کی قربانی کرنے سے گھبرائیںنہیںاور اُس کی رضاء کے لئے ہر طرح کی محنت اور مشقت اختیا ر کر کے ہم اس کو پانے کے قابل ہو ں ۔‘‘ (اٰمِیْنَ یَا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ) (الفضل۶؍مئی ۱۹۱۶ئ)
۱؎ التوبۃ: ۸۱،۸۲
۲؎ اسد الغابۃ جلد۲ صفحہ۹۵ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ء
۱۴
باقاعدہ باجماعت نماز ادا کریں
(فرمودہ۵؍مئی۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعو ذاور سورۃ فا تحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
۱؎
اور فرما یا :۔
’’قرآن کریم کی دوسری سورۃ کے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے مو منوں کی کچھ نشانیا ں بتائی ہیں ۔ ان علامتوں میں سے جو مو منوں کی اللہ تعالیٰ نے بیا ن فر مائی ہیںایک علامت پر کچھ بیا ن کرنا چا ہتا ہوں۔یعنی وہ اقامتُ الصلٰوۃ کرتے ہیں یُصَلُّوْنَ نہیں فرمایا۔ فرمایا ہے۔قرآن کریم کا کو ئی لفظ لغو نہیں۔کو ئی لفظ قافیہ بندی کے لئے نہیں آتا۔ جب خود صلوٰۃ کے لفظ سے ہی یہ مضمون ادا ہو سکتاہے تو قرآن شریف جو اختصار کا سب سے زیادہ خیال رکھتا ہے اس نے کیو ں رکھا؟ یہ ایک سوال ہو تا ہے ایک ایسا شخص جس نے قرآن کریم پر غور نہ کیا ہو وہ بہت آسانی سے جو اب دے گا کہ آخر خدا نے کو ئی لفظ تو رکھنا ہی تھا یہی رکھ دیا لیکن وہ شخص جس نے قرآن کر یم پر غو ر کیا اور تدبر اور اِمعان سے اس کو دیکھا ہو وہ یہ نہیں کہہ سکتا۔ اُسے اقرار کرنا پڑے گاکہ اس لفظ کے رکھنے میں کوئی حکمت ہے ورنہ دو کیو ں رکھے ایک کیو ں نہ رکھ دیا۔ وہ حکمت یہ ہے کہ اس رکو ع میں اصولِ اعمال اور اصولِ عقائد کا بیان ہو رہا ہے اور ان میںاسلام کی تعلیم کا نقشہ کھینچ دیاگیا ہے۔محض یہ نہیں بتایا کہ نماز پڑھنی فرض ہے بلکہ اسلام کا خلاصہ بتایا کہ اسی چیز کا نام اسلام ہے۔جب فرداًفرداًکو ئی بات بیا ن کی جا تی ہے تو صرف ا س کے متعلق بیا ن کر دیا جا تا ہے لیکن جب اصولاً سب کا خلاصہ بیا ن کیا جا تا ہے تو ایسے لفظ رکھے جا تے ہیںجو تمام معنوں پر حا وی ہوں جس طرح زکوٰۃ کے لئے بیا ن ہو ااِس کے ہر حصے اور شعبے کو بیا ن کر دیا ۔ اِسی طرح نما ز کے لئے بھی بیان ہو ا ہے۔
اَقَامَ کے معنی ہو تے ہیںکہ کسی چیز کو اُس کی تمام شرائط سے پورا کر دینا ۔اقامت کے معنی کھڑا کرنا ہے۔اور کھڑا ہو نا چستی کی علامت ہے جس طرح بیٹھ جا نا سستی کی۔جس وقت عربی میں اَقَامَ الْاَمْرَ کہیں گے تو اِس کے یہ معنی ہو ں گے کہ اُس نے کام کی تمام شرائط پو ری کر دی ہیںتو چو نکہ یہاں خلاصہ بیا ن کر نا شروع کیا اِس لئے فرما یا نما ز کے لئے جس قدر احتیاط ہو سکتی ہے اُس سے کا م لیتے ہیں و ضو کرتے ہیں تو پو را کرتے ہیں، نما ز پڑھتے ہیںتو خشوع و خضو ع سے پڑھتے ہیں، رکوع اور سجود بڑے سکون سے کر تے ہیں ، ٹھہر ٹھہر کر اس کو ادا کرتے ہیں، جو باتیں خواہ قرآن نے اُنہیںبیا ن کیا ہو یا احادیث سے ثابت ہوںان تمام شرائط سے وہ نما ز کو ادا کرتے ہیںتب وہ جاکر متقی بنتے ہیں ۔اگر یوں ہی پڑھ لی جا تی ہے تو وہ مصلّی ہے اس لئے کے ماتحت ہم اُس کو یہ نہیں مان سکتے کہ وہ متقی ہے۔ اس تعریف کے ماتحت آکر جو بیا ن کی گئی ہے متقی ہو گیا ۔ پس ہر ایک مسلم کو چاہئے کہ وہ اپنی نماز کے متعلق دیکھے کہ وہ اقا مۃ الصلٰوۃ کرتاہے یا صرف نماز پڑھتا ہے کیو نکہ قرآن شریف متقی کی تعریف میں بتاتا ہے کہ وہ اقامۃ الصلٰوۃ کرتے ہیں ۔پس جو اقامۃ الصلٰوۃکر تے ہیںوہی متقی ہیں۔
اِس زمانے میں بہت سے لوگ ہیں جو اقامۃ الصلٰوۃ کا مقصد نہیں دیکھتے حا لا نکہ نماز کا مطلب تو یہ تھاکہ خداتعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہو۔ وہ غور کریں کہ وہ کون کونسی ایسی با تیں ہیںجو ہماری نماز کو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ بنا تی ہیں اقامۃ الصلٰوۃ یہی تو ہو تی ہے۔بہت ہیںجو ہماری جماعت میں سستی کر تے ہیںاور بہت ہیں جو مسجد میں نہیں آتے اور بہت ہیں جو وقتوں کے پا بند نہیں۔ اور با توں کا تو ہماری جما عت خدا کے فضل سے بہت خیال رکھتی ہے لیکن ابھی ایک سب سے بڑا نقص ان میں یہ ہے کہ مساجد میں نماز نہیں پڑھتے حا لانکہ یہ بھی شرائط اقامۃ الصلٰوۃ میں داخل ہے۔اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس قدر ضروری قرار دیا ہے کہ فرماتے ہیں کہ میرا دل چا ہتا ہے کہ جب صبح یا عشاء کے لیے جماعت کھڑی ہو تو میں کچھ آدمیوں کے سروں پر لکڑیوں کے گٹھے لے کر ان لوگوں کے گھر چلا جا ئوں جو جماعت میں حا ضر نہیں ہوتے۔ اور انہیں گھر کے گرد چن کر گھر کو آگ لگا دوں۔ ۲؎ آپ کیسے رحیم ،کریم ، نرم مزاج اور شفقت رکھنے والے انسان تھے لیکن جما عت کے چھو ڑنے پر اور پھر صبح اور عشاء کی جماعت چھوڑنے پر کہ ایک میں سونے کے وقت ہو نیکی وجہ سے نیند غلبہ کئے ہو ئے ہو تی ہے اور دو سری میں بھی نیندکا غلبہ ہوتا ہے اور انسان اس حا لت میں مجبور ہو تاہے کہ اس سے دیری ہو جا تی ہے یا جماعت جا تی رہتی ہے یہ سزا تجویز فرمائی ہے۔ لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ ان نمازوں (صبح و عشائ) کے لئے تا کید ہے لیکن میرے خیال میں تو آپ نے گویا فرما یا ہے کہ ان نما زوں کے جماعت سے نہ پڑھنے کے لئے اس قدر عذاب دینا ضروری معلوم ہو تا ہے حالانکہ انسان ان میں مجبور ہوتا ہے۔ تو ان نمازوں کے متعلق کس قدر ضروری اور سخت یہ حکم ہو ا جن میں یہ مجبوری نہیں ہو تی اور یہ تنگیا ں نہیں پا ئی جا تی۔ اِس لئے ان میں حاضر نہ ہو نے والا کس قدر سزا کا مستوجب ہے۔یہ نہیں فرمایا گھر کو آگ لگا دوں بلکہ فر مایا آدمیو ں سمیت جلا دوں۔ یہ کلام ایسے انسان کے منہ سے نکلنا جو کرم میں ، رحم میں ، شفقت اور محبت میں سب سے بڑھا ہو ا تھا بتاتا ہے کہ جماعت سے نماز سخت ضروری ہے۔ اور کسی بات کے متعلق آپ نے یہ حکم نہیں فرمایا صرف نماز کے وا سطے ہی یہ حکم دیا لیکن باوجود اس کے بہت لوگ ہیں جو گھروں میں ہی نماز پڑھ لیتے ہیں ۔
میںنے پیچھے کبھی بیان کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر کسی گائوں میں ایک ہی احمد ی ہو اور غیر احمدی اسے مسجد میں نما ز نہ پڑھنے دیتے ہو ں اِرد گرد نزدیک کو ئی اور احمدی نہ ہو تو وہ احمدی اپنے بیوی بچو ںکو جمع کر کے نماز اپنے گھر میں با جما عت پڑھ لیا کرے تا کہ عا دت قا ئم رہے کیو نکہ جب عادت نہ ہو تو انسان مو قع ملنے کے باوجود بھی پھر اس سے رہ جا تا ہے۔ بعض لو گو ں نے اس کا نتیجہ غلط نکال لیا اور سمجھا کہ جماعت میں جا نے کی ضرورت ہی نہیں گھر کے بال بچو ں اور بیو ی کو کھڑا کیا اور گھر میں ہی نماز پڑھ لی ۔ ابھی کل خط آیا ہے جس میں ایک شخص نے کہا تھا کہ میں نے جب لوگوں کو مسجد میں نماز کے لئے تاکید کی تو لو گوں نے کہا کہ تمہیں وہ تقریر یاد نہیں رہی جس میں حضرت صاحب نے حکم دیا ہے کہ گھر میں ایک کمرہ بنا لو اور اپنے بیوی بچوں سے مل کر باجماعت نماز پڑھ لیا کرو۔ حالانکہ اُس تقریر میںمیرا یہ مطلب نہ تھا میں نے تو کہا تھا کہ جہاں صرف ایک ہی احمدی ہو، اِرد گرد غیر احمدی ہی غیر احمدی ہو ں اور اسے مسجد میں نماز نہ پڑھنے دیتے ہوں تو جما عت کی پا بندی کے لئے وہ اپنے بیو ی بچوں کو سا تھ کھڑا کرکے جما عت کر لیا کرے ۔ میر ا ہر گز یہ منشاء نہیں کہ جہا ں مسجدیں ہو ں، پھر اپنی مسجدیں ہو ں یا جس جگہ میں ایک بھی اَور احمدی ہو تو وہاںبھی گھر میں ہی نما ز پڑھ لو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آنے کو ایسا ضروری قرار دیتے ہیں فرما تے ہیں کہ جو شخص مسجد میں نماز پڑھتا ہے اُسے تم مومن سمجھو۔ گویا مسجد میں آنا اُس کے ایمان کی علامت قرار دی ہے۔ پس ہما ری جماعت کو چاہئے کہ کوئی مسجد مقرر کر کے و ہاں جمع ہو ں اور جہاںکوئی مسجد نہ ہو و ہا ں کو ئی کمرہ کرایہ پر لے لیویں اور اِس طرح با جماعت نماز ادا کر یں ۔ ہا ں اگر بعض لوگوں کو اپنے دفاتر کے وقتوں اور رخصت نہ ملنے کی وجہ سے یا کو ئی اور ایسی ہی مجبوری ہو تو اوقاتِ دفاتر کے علاوہ با قی نمازوں کو جما عت کے ساتھ آکر پڑھا کریں۔اور بڑے بڑے شہروں مثلاً لاہور ہے یا امرتسر ہے یا دہلی ہے وہاں چو نکہ لو گ ایک دوسرے سے بہت دور دور ہیں تو وہاں یہ ہو سکتا ہے کہ محلے مقرر کرلیں۔اگر مسجد ہو تو بہت اچھاو گرنہ ایک کمرہ کرا یہ پر لے کر و ہاں اپنے اپنے محلہ میں پڑھ لیا کریں ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک ایک میل فا صلے پر کے گا ئوں میں مسجدیں بنی ہو ئی تھیں و ہاں ان میں لو گ پڑھ لیا کر تے تھے ۔ یہاں قاد یا ن میں تو بہت قریب قریب ہیں میری خواہش ہے کہ اگر یہ درمیان کے مکا نات مل جا ئیں تو بڑی اور چھوٹی مسجد کو ملا کر ایک کر دیا جا ئے۔ہاں با ہر کی مسجد منا سب مو قع پر ہے۔پس قریب کی مسجدوں میں جہاں پہنچ سکے پہنچے اور اگر انسان کو دفتر کی نو کری کی وجہ سے مجبوری ہے اور وہ نہیں آسکتا تو یہ الگ با ت ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ بغیر مجبوری کے کو تاہی نہ کرے۔ میرے نزدیک اس شخص کی نما ز جا ئز نہیں جس کے مکا ن تک اذان کی آواز جا تی ہے اور وہ جماعت کے لئے مسجد میں حاضر نہیں ہوتا۔
حضر ت انس بن ما لک ؓکی نسبت آتا ہے کہ وہ بہت بو ڑھے ہو گئے تھے پھر بھی وہ جما عت کے لئے پہلے ایک مسجد میں جا تے پھر دوسری میں ۔اسی طرح ہر ایک مسجد میں جا تے۔ اگر جماعتیں ہو چکی ہو تیں اور وقت نما ز بھی تنگ ہو نے کو ہو تا تو پھر اکیلے پڑ ھ لیتے۔ تو صحابہ کے عمل کو دیکھو اور ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو دیکھو ۔ آپؐ نے اِس بات پر بہت زور دیا ہے کہ مسجد میں جا کر جما عت سے نما ز پڑھا کر یں۔
یہ بھی غلط طریق ہے کہ گھر میںتکبیر کی آوازآجا تی ہے اس لئے وہیں اپنے مکا ن پر یا دکان کے چبو ترے پرنما ز پڑھ لی۔اگر ایسے ہی ہے تو سب اپنے اپنے گھر میں کھڑے ہو جا یا کریں ۔ امام آے اور اکیلا ہی مسجد میں نما ز پڑھا نی شروع کر دے ۔یہ بہت بُرا طریق ہے ۔ یہ لو گو ں کو غلطی لگی ہے۔ ایک صحابی نے چا ہا کہ اپنے مکا نات کو جو دُور ہیں فروخت کر دیں اور مسجد کے گرد جگہ لے کر مکان بنا لیں۔ تو آپ نے فرمایا ۔تم کو ئی قدم نہیں اُٹھاتے مگر اُس کے لئے ثواب ملتا ہے۔۳؎ اِس خیال پر ایک صحابی کا یہ طرزِ عمل تھا کہ وہ جہاںجا تے شہر کے پرلی طرف مسجد سے دُور مکان لیتے تا کہ مسجد تک آنے کا ثواب ملے۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب نہیں سمجھا مگر اس سے یہ پتہ لگتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس با ت پر اتنا زور دیتے تھے کہ بعض صحابہ نے دُور دُور مکا ن لینے شروع کر دیئے ۔
اِسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوںمیں آنے کا فرق بھی بتایا ہے۔پہلی صف کو دوسری پر ترجیح دی ہے۔اسی طر ح فرما یا ہے جو شخص جما عت کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جا تا ہے وہ اپنے پہلے قدم کے اُٹھانے سے گنا ہ مٹا تا ہے اور اُس کا دوسرا قدم درجہ بڑھا تا ہے۔ اِسی طرح پھر تیسرا گناہ مٹا تا ہے اور چوتھا درجہ بڑھا تا ہے۔اور پھر اسی طرح پھر ایک گنا ہ مٹا تا ہے اور دوسرا درجہ بڑھا تا ہے حتی کہ وہ مسجد میں پہنچ جا تا ہے۔ آپ نے مسجد میں آکر باجماعت نما ز اداکرنے کی بڑی بڑی فضیلتیں بیان کی ہیں۔۴؎
مسجد کی نماز معمولی چیز نہیں یہ ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ جو قومیں مسجدوں کو آباد نہیں کر تیں وہ بڑے بڑے مدارج حا صل نہیں کر تیں ۔ مسجد امیر غریب کا امتیاز مٹا تی ہے۔دونوں پہلوبہ پہلو کھڑے ہو تے ہیں۔ پھر کبھی غریب آگے ہو تا ہے اورامیرپیچھے توامیر کا سر غریب کے پائوں سے لگتا ہے، اِس طرح امیر کا تکبر ٹو ٹتا ہے۔ اور پھر مساجد میں مسلما نوں کو ایک دوسرے کی حالت دیکھ کر پتہ لگتا ہے کہ وہ کس حا لت میں ہیں ۔پھر جب کمزور جما عت کے ساتھ نما ز ادا کرتا ہے تو اَوروں کے ساتھ مل کر اس کی دعا بھی قبول ہو جا تی ہے تو اس مسئلے میں بڑے بڑے فوائد ہیں۔ اسلام کوئی ایسا حکم نہیں دیتا جو ہما ری تکلیف کا باعث ہو ۔ اگر وہ کو ئی حکم دیتا ہے تو وہ ہمارے فائدہ کا ہی دیتا ہے۔ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے فرما نبردار ہوں۔ یہ حق کا اقرار ہے اور صداقت کا بیا ن ہے اوراپنے آپ کو خالق و مالک کے قریب کر تا ہے ۔مساجد کا نام بھی بیت اللہ رکھا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو و ضو کر تا ہے اورخدا کے گھروں میں سے کسی گھر میں نما ز پڑھتا ہے اس کے لئے جنت واجب ہو جا تی ہے۔ عجیب عجیب طرح سے آپ نے جماعت اور مسجد کی جما عت کی فضیلت بیا ن کی ہے اس لئے یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
پس ہما ری جما عت کے لو گ محلے تقسیم کر سکتے ہیں۔ جدا جدا جگہ تقسیم کر سکتے ہیں اور وہ باقاعدہ باجماعت نماز ادا کریں سِوائے اِس کے کہ کوئی مجبوری ہو کیو نکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی کام مالا یطاق سپرد نہیں کیا جا تا۔
اللہ تعالیٰ ہما ری جما عت کو توفیق دے کہ وہ فضیلت جما عت اور مساجد کو سمجھیںاور اس پر عمل پیر ا ہو ں ۔‘‘(اَللّٰھُمَّ رَبَّنَااٰمِیْنَ) (الفضل ۱۳؍مئی۱۹۱۶ئ)
۱؎ البقرۃ: ۲ تا ۴
۲؎ بخاری کتاب الاذان باب وجوب صلوٰۃ الجماعۃ
۳؎ مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوٰۃ باب فضل کثرۃ الخُطا الی المساجد
۴؎ مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوٰۃ باب فضل الصلوٰۃ المکتوبۃ فی جماعۃ و فضل انتظار الصلوٰۃ (الخ)
۱۵
بدظنی ہلا کت کا باعث ہے
(فرمودہ۱۲؍مئی۱۹۱۶ئ)
تشہد ،تعوذاور سورۃ فا تحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :۔
’’بہت سے لوگ دنیا میں اس قسم کے پائے جا تے ہیں کہ اُن کی طبیعت شکر گزاری اور احسان کی شناخت کی طرف مائل نہیں ہو تی۔ جس قدر بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی مہر بانیا ں ہو ں یا بندوں کی طرف سے احسان ہوں اُن کی تسلی نہیں ہوتی وہ کبھی بھی اپنی حالت پر مطمئن نہیں رہتے۔ علاوہ اِس کے اِس قسم کی طبیعت کا انسان نا شکری اور احسان فراموشی کا مرتکب ہو تا ہے ایسے انسان کو کبھی اپنے نفس کے اندر سُکھ معلوم نہیں ہو تاجلن ہی لگی رہتی ہے اور ہر وقت اس کے لئے تکلیف اور دُکھ کے دروازے ہی کھلے رہتے ہیں۔ کیسے ہی اعلیٰ درجہ پر پہنچ جا ئے وہ دکھ میں ہی ہوتا ہے اور یہ عذاب اُس کی اپنی جان پر ہی ہو تا ہے۔ اگر واقع میں بھی کوئی اسے دکھ دینے والا نہیں ہے، اگر اس کے حقوق کی حق تلفی کرنے والی کوئی جماعت نہیںہے توبھی وہ آرام میں نہیں ہے اور خواہ مخواہ دکھ میں ہے اِس قسم کی طبائع کبھی خوش نہیں ہو سکتیں۔بہت مال دار جن کے پاس کروڑوں روپے ہیں ایسے نکلیں گے کہ وہ بادشا ہو ں کی تنخواہیں دے سکتے لیکن ان میں سے بہت ایسے ہوں گے کہ اگر ان سے پو چھوکہ تم مطمئن ہو؟ تو وہ کہیں گے کہ ابھی ہمارا فلاں کام رُکا پڑاہے ، فلانہ ٹھیکہ پورا ہو جائے تو مطمئن ہو جائیں ۔وہ تمام ما ل اور دولت جو بنکوں میں جمع ہے اس کے کسی مصرف کا نہیں بلکہ وہ دکھ میں ہے لیکن یہ دکھ اس کا خود پیدا کردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہو ا مال کے لحاظ سے اَوروں پر فضیلت ہے لیکن اس کا دل ’’ابھی اَور‘‘ کی خواہش میں ہے۔غرض بہت سے لوگ جنت میں ہو کر اپنے آپ کو دوزخ میں ڈالتے ہیں ، آرام میں ہو کر مصیبت میں پڑے ہو ئے ہیں، سُکھوں میں ہو کر دُکھوں میں ہیں۔ میرا اِس سے یہ مطلب نہیں کہ ہر انسان جس جگہ پر ہے اُس سے آگے ترقی نہ کرے۔ اسلام تو کہتا ہے ہر وقت آگے بڑھو۔ میرا مطلب یہ ہے کہ جو ترقی بھی وہ کرتے ہیں اُس میں اُنہیں سُکھ نہیں ہو تا ،کڑھنا ہوتاہے اور یہ کہ ہم ترقی کر یں ،آگے بڑھیں یہ تو مبارک ہے لیکن یہ کہ اپنے آپ کو دُکھی سمجھنا اِسے میں بُرا قرار دیتا ہوں۔ ایک انسان جو اپنی موجودہ حالت پر خوش ہے وہ خیال کر تا ہے کہ اُس پر اللہ تعالیٰ کابڑا احسان ہے یا دنیا والوں میںسے کسی کے احسان سے خو ش ہے اور اس خوشی میں اَور کو شش کرتا ہے اَور آگے بڑھنے کے لئے تیاری کر تا ہے تو وہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن جو اپنی حا لت کو دکھ ہی سمجھتا ہے وہ کبھی آرام میں نہیںہو تا اور احسان فراموشی کے لحاظ سے خواہ خدا کا ہو یا انسانوں کا یہ شخص عذاب کا مستحق ہے۔ ایک لوگوں کا مال چھین لینے والے انسان سے تعلق رکھنے والا انسان کبھی خوش نہیں ہو سکتا لیکن ایک مومن مسلمان کا معاملہ تو ایسے خداکے ساتھ ہے جو ربُّ العٰلمین ہے۔ انسان تو انسان چھوٹے سے چھوٹے کیڑوںکے ساتھ اس کا معاملہ ایسا ہے کہ حمد ہی حمد اُس کی طرف منسوب ہو تی ہے۔ انسان جب ایک گھوڑے یا گدھے کے ساتھ خداکے معاملے پر غور کرتا ہے تو اسے معلوم ہو تا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی ،ذلیل سے ذلیل، حقیر سے حقیر چیز خدا کی شفقت اور احسان کے نیچے ہے۔ اکثر انسانوں کی حرص کو دیکھ کر مجھے خیال پیدا ہو تاہے کہ یہ جو غلہ پیدا ہوتاہے اگر سب کا سب غلہ ہی پیدا ہو تاتو انسان تمام کو اپنے گھرمیں ڈال لیتا اور بیل کو چرنے کے لئے جنگل میں ہانک دیتا اور اس کو ذرا بھی نہ دیتا لیکن اسے توربُّ العٰلمین نے پیدا کیا تھا ، انسان کیلئے دانہ اور جانوروں کے لئے توڑی نکال دی۔اب اگر انسان اسے محروم کر نا چاہے بھی تو اسے محروم نہیں کر سکتا بہر حال اسے دینا ہی پڑے گا ، ہر چیز میں یہی حال ہے۔ چیونٹی کو کیسا علم عطا کیا ہے۔ کیسا تمدن دیا ہے بے نظیر تمدن ہے۔ انسان میں بھی وہ نہیں پایا جاتا۔یہ اس میں فطرتی ہے اور انسان کے اپنے اختیار میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تمدن کے لئے چیونٹی قابل ستائش نہیں لیکن خدا تعالیٰ کی ربو بیت کا پتہ چلتاہے۔ اگر ایک چیونٹی کو ایک دانہ ملتا ہے تو وہ خود نہیں کھا ئے گی قوم کے خزانے میں داخل کر دے گی وہاں سے پھر جب کھا ئے گی تو سب اکٹھی کھائیں گی پھر خواہ کوئی زیادہ کھائے یا کم۔ اور لانے کے لئے یہ نہیں کہیںگی کہ فلاں زیادہ لائی ہے اور فلاں کم ۔ کیونکہ ہر ایک نے دیانت سے کام کیا اس لئے ہر ایک کا حق ہے جتنا کھا سکے کھائے یہی تمدن ہے جس نے انہیں بچایا ہوا ہے ۔کیو نکہ وہ بہت کمزور جا نور ہے۔بہت سے کیڑے تمدن سے قائم ہیں ان میں انسانوںکی طرح ایک مد نیت ہے اوروہ ان میں فطرتاً پیدا کی گئی ہے۔شہد کی مکھیوں اور بھڑوں میں اور بہت سے جا نور اِسی قسم کے ہیں کہ ان میں اور اور ذرائع مقرر ہیں ۔مگر ہر ایک کی پرورش کے لئے سلسلہ اور انتظام پیدا کیا ہے۔ غرض حقیر حقیر چیزوں کو دیکھ کر منہ سے نکلتا ہے۔ حقیر سے حقیر چیز کو اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان کے نیچے لیا ہو ا ہے۔ایسے خدا پر ایمان لانے والا کب خیال کر سکتا ہے کہ میر ے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے کیو نکہ وہ ہر حا لت میں یقین ر کھتا ہے کہ میرے ساتھ بہت اچھا معاملہ ہو رہا ہے۔ باقی رہیں یہ خواہشیں کہ میں اَور ترقی کروں یہ جہنم نہیں ہو تیں یہ خو شی کا موجب ہی ہو تی ہیں اور راحت ہی ہوتی ہیں ،جہنم سے انسان کی کو ئی راحت نہیں رہتی۔ایک بادشاہ کے رات اور دن جب وہ اپنی حالت پر مطمئن نہیں ہو تاانگاروں پر کٹتے ہیں لیکن ایک فقیر جس کے بدن پر کپڑا نہیں ہے وہ جب اپنی حالت پر مطمئن ہو تاہے تو وہ بادشاہ ہرگز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔جنت اور دوزخ انسان کے اپنے ہا تھ میں ہے اور اپنے ہا تھ سے انسان ان دونوں کے دروازے کھو لتا ہے۔خود دوزخ کا دروازہ اپنے اوپر کھو لتا ہے اور پھر چیخ وپکار کرتا ہے۔تم خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور حکمتوں پر غور کرو اور غور کرو کہ تمہیں تمام جہان کی مخلوق سے اعلیٰ بنا یا ہے تو پھر تم کبھی نہیں کڑھ سکتے اور تمہا ری زندگی خوشی کی زندگی ہو سکتی ہے۔ یہ دوزخ تمہاری اپنی پیدا کردہ دوزخ ہے اور جنت بھی تمہاری اپنی پیدا کردہ۔ حدیث میں آتا ہے ہر انسان جو پیدا ہو تا ہے اس کے لئے جنت میںبھی اور دوزخ میں بھی محل بنا ہو ا ہو تا ہے۔ اس حدیث کا یہی مطلب ہے۔ دونوں محل مو جو د ہیں تیار کر کے بتا دیئے ہیں ۔اگر وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ طا قتوں سے کا م نہ لے کر اللہ تعالیٰ پر بد ظنی کر کے دنیا میں زندگی بسر کر تا ہے تو وہ ہلاکت اور کفر کی زندگی ہے اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کو دیکھتا اور ان کی قدر کر تا ہے تو اس کے لئے وہی جنت ہے ۔ نفس کے اندر جو خوشی پیدا ہوتی ہے بیرونی خو شی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگر اس کو آگ میںبھی ڈال دیا جا ئے تووہ آگ بھی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔
بعض دفعہ بیماریا ں بھی خو شی کا موجب ہو جا تی ہیں ۔ ایک عورت کو ایک بیما ری تھی ۔ ایک دن حضرت خلیفہ اوّل کے پاس آئی،بہت ہنسی۔ پو چھا کیو ں ہنستی ہو ؟کہنے لگی میر ا بیٹا مر گیا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد پھر آئی اور پھراسی طرح ہنسنا شروع کیا۔ پھر پو چھا تو کہا کہ میر ا دوسرا بیٹا بھی مر گیا۔ گو اسے ایک بیما ری تھی مگر اس کے لیے راحت ہو گئی ۔ جو ہو نا تھا وہ تو ہو چکا تھا اب اگر وہ رنج محسوس کرتی تو اسے اور تکلیف ہو تی ۔ تو اللہ تعالیٰ کے بندو ں میں ایسی مثا لیں پا ئی جاتی ہیں اسی لئے تو فرما یا ۱؎ ان کو خیال ہو تا ہے کہ ہم نے ایسی ہستی کے ہاتھ میں اپنے آپ کو سپرد کیا ہو ا ہے جو ظالم نہیں۔ دیکھو اگر مسافر جا رہے ہوں اور انہیں ایک راستہ جا ننے والا راستہ بتانے کے لئے مل جائے تو وہ مطمئن ہو جا تے ہیں ۔ یہ تو انسانوں کا حال ہے تو۔۔ کے سپرد جو اپنا معاملہ کر دے اُس کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے اس کو خواہ کس قدر بھی تکالیف آویں تو وہ پرواہ نہیں کرتا ۔کیونکہ وہ خیال کر تا ہے میرا رہنما مجھے ہر حالت میں جنت کی طرف لے جا رہا ہے۔ بہت لو گ ہیں کہ انہوں نے اپنے نفس پر غو ر نہیں کیا۔ ان طاقتوں پر غور کرتے جو خدا نے ان میں پیدا کی ہیں ۔وہ ان احسانات پر غور کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کئے تھے تو اس عذاب میں نہ پڑتے ۔بہت لوگ ہیں جو لکھتے ہیں ہم ہلا ک ہو گئے تباہ ہو گئے ۔کیو ں ہوئے ؟ جب خد ا نے تمہا رے اپنے نفس کے اندر جنت رکھی تھی کہ تم بغیر آنکھیں کھو لنے اور ہا تھ پا ئو ں ہلانے کے اس جنت کو کھول سکتے تھے۔ تکا لیف جو آتی ہیں وہ انسان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں ۔وہ خیال کر سکتا ہے کہ یہ مجھے جگانے کے لئے آتی ہیں۔ مثلاً ایک پہاڑ پر چلتے ہوئے ایک شخص سو جا تاہے اور اس کو اس کا رہبر جگا دیتا ہے تو بے شک اس جگانے سے اسے تکلیف ہو ئی لیکن یہ اسے متنبہ کیا گیا کہ ہو شیا ر ہو جائو ۔خدا تعالیٰ کی طرف سے جو بھی تکلیف آتی ہے وہ بھی ہو شیا ر کرنے کے لئے آتی ہے اور اس سے بتایا جا تا ہے کہ تم اپنے اوپر جنت کے دروازے بند کر نے لگے تھے ہوشیا ر ہو جائو۔ غرض جو لوگ شکایت کرتے ہیں ان کی اپنی غلطی ہے۔ جنت تو ہمارے نفس کے اندر ہے وہ بڑھتی ہے تو اتنی بڑھتی ہے کہ قبر میں بھی سا تھ جا تی ہے،محشر میں بھی ساتھ ہو گی اور پھر استقبال کو بھی آئے گی مگر وہ خدا تعالیٰ پر یقین کرنے سے حاصل ہو تی ہے۔ بہت انسان بد ظنی کرکے اپنے آپ کو ہلاک کر تے ہیں ۔ خدا تعالیٰ پا ک ہے انسان کو اس نے اعلیٰ درجہ کی مخلوق پیدا کیا ہے۔ حقیر سے حقیر چیز کی اتنی ربو بیت ہے تو انسان کی کیوں نہ ہو ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور دوسرے بھا ئیوں کو تو فیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھیں اور اِس دنیا سے اصل جنت کو حا صل کریں ۔‘‘ (اَللّٰھُمَّ رَبَّنَااٰمِیْنَ) (الفضل ۱۶؍مئی۱۹۱۶ئ)
۱؎ البقرہ: ۳۹
۱۶
جما عت کی برکا ت
(فرمودہ ۲۶مئی۱۹۱۶ئ)
(’’مجھے افسو س ہے کہ پچھلا خطبہ جمعہ قلم بند نہ کیا جا سکا جو نہایت اہم نصائح پر مبنی تھا اور جس میں حضور نے جما عت کو بتلایا تھا کہ جب تک اس کے تمام افراد کام میں نہ لگ جا ئیں گے اور تمام ان ذرائع سے کا م نہ لیں گے جو کسی مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہو تے ہیں اُس وقت تک کا میا بی نہیں ہو سکتی ۔ پھر اسی سلسلہ میں جماعت قادیان کو بِالخصوص نصیحت فرما ئی کہ وہ ایثار اور کام میں انہما ک کا نیک نمو نہ دکھائیں ۔یہا ں اور قرب و جوار کے لوگو ں سے تعلقاتِ محبت قائم کر یں، انہیں اپنے کا موں اور تجویزوںمیں شریک کر کے رشتۂ اتحاد مضبوط کریں ۔بہر حال یہ خطبہ بھی اِسی پچھلے خطبہ کے سلسلے میں ہے۔(ایڈیٹر )
تشہد،تعوذاور سورۃ فا تحہ کی تلاوت کے بعد فرما یا:۔
’’بہت لو گو ں نے مختلف مو اقع پر ہجوم دیکھے ہوں گے۔ ہر علا قہ میں قریباًمیلے ہو تے ہیں جہاں لوگ جمع ہو تے ہیں ۔مسلمانوں کے لئے تو ہر جمعہ کو ہجو م ہو تا ہے پھر ہر سال میں عیدین کے مو قع پر تمام اِرد گرد کے لوگ بھی اکٹھے ہو تے ہیں ۔ غرض ہر علاقہ اور ہر ملک کے لو گوں میں مختلف طر ز پر کہیں مذہبی رنگ میں اور کہیں دنیاوی ر نگ میں اجتما عِ مخلوق ہو تا ہے۔ ایسے مو قع پر جب کبھی جگہ تنگ ہو تی ہے تو یہ بات پیدا ہو جا تی ہے کہ لوگ اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ لگ جاتے ہیں کہ گویا ایک دیوار بنی ہو ئی ہے ۔ پھر جب وہ ہجوم کسی طرف چلتا ہے تو تمام لوگ آپس میں ایسے چپکے ہو تے ہیں کہ ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے اور تمام چھوٹے بڑے، کمزور طاقتور سب آگے ہی آگے بڑھے جاتے ہیں چونکہ ہر ایک انسان اس ہجوم میں پھنسا ہو ا ہوتا ہے اس لئے وہ چلنے سے رُک نہیں سکتا۔ اِسی طرح دنیا میں خدا تعالیٰ نے مختلف طبائع اور مختلف مذاق کے انسانوں کا ایک بہت بڑا ہجو م پیدا کیا ہے جس طرح ان ہجوم کے موقع پر انسان ایک دوسرے کے ساتھ چپک جا تے ہیں اور الگ نہیں ہو سکتے اِسی طرح دنیا کے ہجوم میں بھی جب کوئی انسان خواہ کمزور اور ناتوا ںہی کیو ں نہ ہو چلنے والی جماعت کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کر لیتا ہے تو اُس کا قدم آگے ہی آگے پڑتا ہے۔ اس طرح پھنسا ہو اانسان کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا بلکہ اپنی طا قت کے ساتھ نہ سہی دوسروں کے سہارے ہی آگے نکل جا تا ہے۔تو ایک علیحدہ رہنے والے انسان میںاور جو جماعت سے وابستہ ہو تاہے اُس میں یہ فرق ہے۔ علیحدہ رہنے والا انسان جس بات کی کو شش کر تا ہے اس کی کو شش اکثر دفعہ ناکا م رہتی ہے اور بہت دفعہ وہ تھک کر بیٹھ جا تا ہے۔مگر وہ شخص جو جماعت سے وابستہ ہو تا ہے اگر وہ تھک جا ئے اور بیٹھنا بھی چاہے تو بھی نہیں بیٹھ سکتاکیو نکہ وہ جماعت کی رَو میں اِس طرح بہہ رہا ہو تا ہے کہ وہ اسے آگے ہی آگے لئے جا تی ہے اور بیٹھنے نہیں دیتی اور یہی حال دین میں بھی ہو تا ہے اور یہی دنیا میں۔
وہ قومیں جو محنت اور مشقت کی عادی ہو تی ہیں ان میں بڑے سست اور کا ہل لوگ بھی ہوتے ہیںمگر وہ اِس بات کے لئے مجبو ر ہو جاتے ہیں کہ محنت کرنے والوں کے ساتھ خود بھی محنت کریں۔ دیکھو یورپ میں تجارت اور مال کی کثرت کی وجہ سے نیز اِس لئے کہ اکثراشیاء دیگر مما لک سے جا تی ہیں ہر ایک چیز گراں ہوتی ہے وہا ں چو نکہ محنت عام لوگوں میں پھیلی ہوئی ہے اس لئے سست طبائع کو بھی کر نی پڑتی ہے۔ کیوں؟ اِس لئے کہ محنتی لوگوں کی کثرت سے وہاں مال بہت زیادہ ہو گیا ہے اور جب مال زیادہ ہوگیا ہے تو ضرور ہے کہ اشیاء کی گرانی ہو۔ اس گرانی کی وجہ سے ایک سست کو بھی اپنی روٹی کمانے کے لئے ہمارے ہندوستان کے محنتیوں سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ وہاں ۱۲،۱۵ گھنٹے مزدوری کر تے ہیں تو کہیںجا کر پیٹ بھرنے کے لئے روٹی کے پیسے کما تے ہیں اور یہاں چار پا نچ گھنٹہ کا م کرنے سے روٹی میسر آسکتی ہے۔ وہا ں گو مزدوری یہاں کی نسبت زیادہ ملتی ہے مگر اشیاء کی گرانی کی وجہ سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اس لئے سست بھی محنت کر نے کے لئے مجبور ہو جا تے ہیں ۔ گویا عام لوگوں کی محنت کرنے کی رَو میں وہ آگئے ہیںاور پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔ وہ لو گ جو دریائو ں کے پا س رہتے ہیںیا جن کے پاس نہریں اور نالے گزرتے ہیںانہوں نے دیکھا ہو گا کہ کبھی پا نی میں بھنور پڑتاہے اس بھنور میں جو چیز پڑجائے پھر وہ نکل نہیں سکتی اسی طرح عوام کی رَو میں جو انسان آجا تاہے وہ بھی نکل نہیں سکتا اور ایک کمزوراور نا تواں انسان کے آگے بڑھنے اور تر قی کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو طا قتور اور مضبوط چیزوں سے باندھ لے جب وہ آگے چیزیں جا ئیں گی تو وہ بھی آگے ہی آگے جائے گا ۔ دنیا میں چونکہ جماعت سے بڑھ کر اور کو ئی طاقت نہیں ہے اس لیے ترقی کرنے کاسب سے بہتر طریق یہی ہے کہ انسان جماعت سے اپنے آپ کو وابستہ کر لے اس سے سست بھی آگے بڑھنا شروع کر دیتے ہیں ۔گویا جما عت کے لوگ اس کے لئے سہارا ہو جاتے ہیں۔جما عت کے انتظام سے دانائوںنے ایسے ایسے فائدے اُٹھائے ہیں کہ دیکھ کرحیرت آجاتی ہے۔
نپولین ایک بادشاہ گزراہے اس کی نسبت مؤرخوں نے ایک عجیب واقعہ لکھا ہے وہ فرانس کا بادشاہ تھا ۔ اس نے روس پر حملہ کیا ۔روسیوں نے یہ طریق اختیار کیا کہ اپنے گائوں اور شہروں کو جلاتے جا تے اور آگے آگے نکلتے جا تے چونکہ روس کا ملک بہت وسیع ہے اوراس کا شمالی حصہ ایسا خطرناک ہے کہ اگر کوئی واقف کا ر نہ ہو تو برف کی وجہ سے انسان ہلاک ہو جا تے ہیں اِس لئے وہاں تک پہنچ کر نپولین کی بہت سی فوج تباہ ہو گئی ۔ اُس وقت روسیوں نے نپولین کی فوج پر حملے شروع کر دیئے اور اسے بہت تنگ کیا حتی کہ وہ واپس ہونے پر مجبور ہو گئی اور اسے بہت جلدی واپس آنا پڑا ۔ راستہ میں ایک جگہ ایسی تنگ ہو ئی کہ بیٹھنے تک کے لئے جگہ نہ میسر ہو سکتی کیونکہ تمام اِردگرد دلدل تھی ۔اگر زمین پر بیٹھیں تو کپڑے اور ہتھیار کیچڑ سے بھر جا تے تھے اور اگر نہ بیٹھیں تو اتنے تھک گئے تھے کہ چلنے کی طاقت نہ تھی اُس وقت نپولین نے یہ تجویز کی کہ وہاں ایک کرسی تھی اس پر ایک شخص کو بیٹھا دیا ،دوسرے کو اُس کے گھٹنوں پر،تیسرے کو دوسرے کے گھٹنے پرحتی کہ اِس طرح ایک و سیع حلقہ میں لو گوں کو بٹھا دیا ، آخری آدمی کے گھٹنوں پر اُس پہلے شخص کو بٹھا کرکرسی نیچے سے نکال لی اور اُس پر خود بیٹھ گیا۔ اِس طرح تمام فوج نے آرام بھی کر لیا اور سامان بھی خراب نہ ہو ا۔ تو جماعت کے ساتھ وابستہ ہونے میں بہت سی خوبیاں ہو تی ہیں اور بعض تو ایسے فوائد پہنچتے ہیں جن کا پتہ بھی نہیں لگتا کہ یہ بھی کوئی بو جھ تھا جو ہلکا ہو گیا ہے لیکن اگر اس کا م کو فرداً فر داًکرنے لگو تو بہت مشکل پیش آجا تی ہے۔ دنیا میں انسان کے لئے جتنی ضروریاتِ زندگی ہیں اُن کو اگر ایک انسان فرداً فرداً مہیا کرنے لگے تو کس قدر مشکل کا سامنا ہو مگر تمام دنیا کے اجتماع نے ان کا مہیا ہو نا بہت آسان کر دیا ہے۔
ہم نے بچپن میںسکول میں ایک قصہ پڑھا تھا کہ کس طرح مل کرکام کر نے میں بظاہر پتہ بھی نہیں لگتا اور کا م بھی ہو جا تا ہے۔ وہ قصہ والا لکھتا ہے کہ ایک شخص نے اپنے بھتیجے کو کہا کہ کل تمہیں ہم ایک ایسا لڈو دیں گے جو ایک لا کھ آدمیوں نے بنا یا ہو گا اِس بات کو سن کر وہ بہت خو ش ہوا۔ دوسرے دن اِس امید پر کھا نا بھی نہ کھا یا کہ اتنے آدمیو ں کا بنا یا ہو اجو لڈو ہو گا وہ بہت بڑا اور نہا یت عمدہ ہو گااِس لئے اُسی کو کھا ئوں گا ۔ دوسرے دن جب اُس کے سامنے لڈو رکھا گیا تو وہ وہی تھا جو بازار میں بِکتا تھا ۔اس نے کہا کہ آپ تو کہتے تھے کہ ایسا لڈو دیں گے جو لاکھ آدمی نے بنا یا ہو گا اور یہ ایسا ہے کہ ایک انسان بھی ایسے کئی لڈو دن میں بنا سکتا ہے۔ اس نے بتانا شروع کیا کہ دیکھو اِس میں کون کون سی چیزیں پڑی ہیں،پھر ان کے مہیا کرنے میں کتنے آدمیوں کی محنت صَرف ہو ئی ہے، اِس طرح اُس نے بہت سے انسان گنادیئے ۔ واقعہ میں بات بھی ٹھیک ہے اگر فرداً فر داًہر ایک انسان لڈو بنانے کی کوشش کرے تو اسے پتہ لگ جا ئے کہ کس قدر اس کے لئے محنت کی ضرورت ہو تی ہے۔ یو ں تو ایک بہت معمولی چیز سمجھی جا تی ہے اور پیسے کے دو دو خرید لئے جا تے ہیں لیکن اس کا ساراکام خود کرے تو اسے پتہ لگے کہ یہ ایسا مشکل کام ہے کہ حکومتوںکا فتح کرنا بھی ایسا نہیں۔
اِسی طرح روٹی کو دیکھ لو اب تو بازار سے آٹا خرید لیا جا تا ہے اور پکا کر کھا لی جا تی ہے لیکن اگرایک انسان اس کے تمام اسباب کو خود تیا ر کرے اور پھر غلہ جمع کرے تو ممکن ہے اُس کی تمام عمر ختم ہو جائے اور وہ روٹی تیا ر نہ کر سکے۔ اب جس قدر آسانیاں ہیںیہ اِسی اجتماعی قوت کا نتیجہ ہیں جو دنیا میں کام کر رہی ہے۔پس جب کوئی شخص جماعت میں شامل ہو جا تا ہے تو وہ ایک تو یہ کہ اگر وہ سست ہو تو وہ بھی محنت اور مشقت کرنے لگ جا تا ہے دوسرے جو کام اس کے لئے ناممکن ہو تا ہے وہ بھی ممکن ہو جا تا ہے اور ایسے کام جس کو انسان اگر ساری عمر بھی لگا رہے تو نہیں کر سکتا تقسیم عمل میں آکر اس آسانی سے کر لیتا ہے کہ اسے کسی قسم کا دکھ محسوس ہی نہیں ہو تا مگر بہت انسان ایسے ہیں جو سو چتے نہیں اور اس بات کی فکر نہیں کرتے۔
حضرت مظہر جان جاناں کی نسبت لکھا ہے کہ کوئی شخص ان کے پاس تحفہ کے طور پر کچھ لڈو لایاانہوں نے ان میں سے دو اُٹھا کر اپنے ایک مرید کو دیئے اس نے کھا لئے۔ جب وہ شخص چلا گیا تو وہ اس سے پوچھنے لگے کہ وہ لڈو کہا ں ہیں؟ اس نے کہا کہ میںنے تو کھالئے ۔ فرما یا کیا دونوں کھا لئے؟ اس نے کہا ہاں دونوں کھا لئے آپ باربار یہی سوال کرتے وہ بار بار یہی جواب دیتا ۔ آخر اس نے کہا کہ کیا لڈو کھا نے کی کو ئی اور ترکیب تھی جو آپ مجھ سے باربار یہی سوال پو چھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ۔ ہاں۔اس نے کہا کہ مجھے بتائی جاوے ۔ فرمایا ۔ کسی دن بتائیں گے ۔ایک دن پھر جو کوئی شخص لڈو لایا تو آپ نے ان میں سے ایک اٹھا کر کہا کہ آئو تمہیںبتائوں کس طرح لڈو کھا نا چا ہئے۔ لڈو لے کر انہوں نے اپنے آگے رکھ لیااور اس سے ایک ذرا سا لے کرخدا کی حمد اور تقدیس بیا ن کرنا شروع کر دی کہ خدا نے مظہر جان جاناں کے لئے اِس کو اتنے آدمیو ں کے ذریعہ بنا یا ہے۔ سب انسانوں کو گنتے اور خدا کا شکر بجا لاکر بہت چھوٹا سا ٹکڑا منہ میں ڈالتے اِسی طرح کرتے کرتے ظہر سے عصر کی نماز کے لئے اذان ہو گئی ۔ آپ اُٹھ کر نما ز پڑھنے چلے گئے اور لڈو وہیں پڑا رہا۔ اِس سے انہوں نے یہ بتایا ہے کہ انسان ہر وقت کھا تا پیتا ہے مگر اسکا دل کبھی شکر گزار ہو کر خداتعالیٰ کے حضور نہیں گرتا۔ گو انسان کے لئے ہر روٹی کا لقمہ اور ہر پانی کا گھونٹ اللہ تعالیٰ کی آیت ہے جس کا اُسے شکر گزار ہو نا چاہئے لیکن وہ گلاس پر گلاس پیتا اور روٹی پر روٹی کھا تا ہے مگر خیال بھی نہیں کرتاکہ خدانے اُس پر کس قدر فضل اور رحم کیا ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سب انتظام کھا نے پینے کا اُسے خود نہیں کرتا پڑتا ۔ اگر وہ خود کرتا تو پانی کا ایک گھونٹ اور روٹی کا ایک لقمہ بھی اس سے تیار نہ ہو سکتا ۔غرض جماعت کے کاموں اور تقسیم عمل میں بڑی بڑی برکات ہو تی ہیں۔
پیچھے خطبہ جمعہ میں میں نے بتایا تھا کہ کامیابی کے لئے اُن راہوںکو اختیا ر کرنا ضروری ہے جو خدا تعالیٰ نے انسانوں کی کامیابی اور ترقی کے لئے مقرر فرمائی ہیں اوران کے اختیار کئے بغیر کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کوئی انسان ہاتھ پر روٹی رکھے رہنے کی وجہ سے کبھی سیر نہیں ہو سکتا اور پانی کا گلاس پکڑے رکھنے سے اس کی پیاس نہیںبجھ سکتی تا وقتیکہ اس کے منہ میں نہ پڑے ۔ جب چھوٹی چھوٹی باتوںکا یہ حال ہے تو جو بڑی باتیں ہیں یعنی دین کی اشاعت اور صداقت کا پھیلانا اس کے لئے تقسیم عمل کی کیوں ضرورت نہیں ہے۔ ایک قوم کا بڑھا کر اوپر لے جانا اور مردنی چھا ئی ہو ئی قوم میں زندگی کی روح پھونکنا کو ئی چھوٹا سا کام نہیں ہے اس کے لئے ایک جماعت کی کو شش ،سعی اور محنت درکار ہے۔
دیکھو خداتعالیٰ کی طرف سے جس قدر نبی دنیا میں آتے ہیں وہ آکر ایک جماعت تیا ر کرتے ہیں اور ایسی جماعت کا تیا رکرنا نبی کی صداقت کی دلیل ہے اور یہ جماعت آہستہ آہستہ بنتی ہے۔ ایسا نہیں ہو تا کہ جب کوئی نبی آیا ہو تو سب نے اٰمَنَّا و صَدَّقْنَا کہہ دیا ہو آہستہ آہستہ جماعت بنتی ہے۔ اگر نبی کی جماعت نہ ہو توتبلیغ کا کام نہیں پھیل سکتا ۔ دیکھو ساری دنیا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو نہیں پہنچے آپ کے صحابہ ؓہی نے اشاعت اسلام کی ہے اگر وہ لوگ اُس وقت یہ کہتے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی کام ہے ہم کیو ں کریں تو کبھی اسلام اِس طرح نہ پھیلتا اور نہ وہ اس طرح کامیاب ہو تے ۔ انہوںنے جس قدر ترقی کی اِسی وجہ سے کی کہ ہر ایک نے اسلام کی اشاعت کو اپنا فرض سمجھا اور جس رنگ میں کسی سے ہو سکا اُسی رنگ میں اِس کی اشاعت کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا۔ ہماری جماعت کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس بات کو سمجھیں ۔ اگر کوئی فرداً فر داًکام کرتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں کام میرا نہیں فلاںکا ہے تو وہ یاد رکھے کہ کبھی کامیا بی کا منہ نہیں دیکھ سکے گا۔
اِس بات کو خوب یاد رکھو کہ تمہارے لئے وہی دن کامیابی کا ہو گا اور اُسی دن تمہا را دشمن اپنی جگہ چھوڑکر پیچھے ہٹے گا جب کہ تم میں سے ہر ایک انسان یہ سمجھ لے گا کہ سلسلہ کی ترقی کے لئے کوشش کرنا میرا ہی فرض ہے۔ آپ لوگوں میں سے ہر کسی کو نہ صرف یہ سمجھنا چا ہئے کہ یہ کام میر ا بھی ہے بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ کام میرا ہی ہے۔ ہر شخص اپنے مذاق کے مطابق اس کام کو اپنے ذمہ لے لے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض جگہ جب سستی سے کام ہوتا ہے اور اس کے متعلق کسی سے دریافت کیا جا تا ہے تو وہ کہتا ہے وہاں کا فلاں سیکرٹری ہے اس لئے ایسا ہوتا ہے گویا اس کے نزدیک سلسلہ کا کام کرنا صرف سیکرٹری کا ہی فرض ہے وہ صرف نام رکھا لینے سے ہی احمدی ہو گیا ہے اسے کام کر نے کی ضرورت نہیں ہے۔ اِس قسم کے نقائص کی وجہ سے کئی جگہ کی جماعتیں بجائے آگے بڑھنے کے پیچھے ہٹ رہی ہیں ۔ خدا تعالیٰ نے مسلمانو ں کو جماعت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے متعلق کس قدر سمجھا یا ہے ۔سورئہ فاتحہ میں ترقی کے متعلق دعائیں سکھلائی ہیں لیکن تین جگہ متکلّم کی ضمیر آئی ہے اور تینو ں جگہ جمع ہے ایک جگہ بھی واحد نہیں گویااس سے یہ بتاتا ہے کہ اکیلا انسان کچھ نہیں کر سکتا جماعت کے ساتھ ہو کر کام کرنا چاہئے۔ پس کسی جماعت کی ترقی فرداً فر داًکام کرنے سے نہیں ہوا کرتی اورجب تک اس کا ہر ایک فرد اپنا فرض نہ سمجھے کامیا بی نہیں ہو سکتی پس کسی کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ فلاںکام سیکرٹری کاہے بلکہ اسے اپنا سمجھنا چاہئے اگر سیکرٹری کام نہیں کرسکتا تو وہ کرے نہ کہ اس کی کمزوری کو دیکھتا رہے۔ مثلاًاگر ایک شخص فوج میں دشمن کے مقابلہ پر کھڑا ہو اور وہ کمزور ہو تو دوسرے کا فرض ہے کہ وہ اس کی جگہ کھڑا ہوجائے کیو نکہ وہ اگر اس کی جگہ کھڑا نہیں ہو گا تو اس کا اپنی جگہ کھڑا ہو نا بھی لغو ہو گا۔ پس ترقی کے لئے طاقتوروںکافرض ہے کہ کمزوروں کو اپنے سا تھ کھینچ لیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو معلوم ہو کہ ان میں جماعت ہی نہیں۔ اگر ان میں سے بعض افراد گر گئے تو معلوم ہو گا وہ بظاہر جماعت کہلاتے تھے مگر دراصل پرا گندہ تھے لیکن اگر وہ کمزوروں کو بھی اپنے سا تھ رکھیں گے تو ثابت ہو گا کہ ان کی جماعت ہے۔
غرض ابھی ہما رے لئے بہت کام با قی ہے۔ اُس وقت تک کوئی جماعت جماعت نہیں کہلا سکتی جب تک کہ ہر ایک شخص تبلیغ کو اپنا فرض نہ سمجھے اور اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل نہ جائے کہ اگر کو ئی درمیان میں سے سِرکنا چاہے تو بھی نہ سِرک سکے۔
اللہ تعالیٰ یہاںکے لوگوں کو بھی اور باہر کے لو گوں کو بھی اِس بات کے سمجھنے کی توفیق دے کہ جو کام ہمارے سپرد ہے اُس کو سمجھیں اور اُس کے پورا کرنے کی کوشش کریں اور سورئہ فا تحہ میں جو انعام آئے ہیں اُن کا وارث بنائے۔‘‘ (آمین ثم آمین) (الفضل ۳۰؍مئی۱۹۱۶ئ)
۱۷
اصلاح کے لئے محاسبۂ نفس ضروری ہے
(فرمودہ ۲؍جون۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اور سو رۃ فا تحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
۱؎
اور فرمایا: ۔
’’بعض تمدنی غلطیاں جو بظاہر چھوٹی چھوٹی معلو م ہو تی ہیں بہت بڑے خطر نا ک نتائج کا باعث ہو جا تی ہیں اور بہت سے امور ایسے ہیں جنہیں ابتداء ً انسان چھوٹا سمجھتا ہے لیکن نتا ئج کے لحاظ سے بہت بڑے ہو تے ہیں۔مو جودہ جنگ ہی کو دیکھو اس کا وہ محرک جو بظا ہر دنیا کو بتا یا جاتا ہے (وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ اصلیت کیا ہے) ایسا خفیف سا ہے کہ دیکھ کر حیر ت آتی ہے کہ ایسا معمولی امر بھی ایسی خطر ناک جنگ کا با عث ہو سکتا ہے۔ایک ملک کے شہزادہ کو اپنے ملک اور اپنی رعا یا کے لوگوں نے قتل کر دیا ۔ اس ایک قتل پر آگ بڑھنی شروع ہو ئی چو نکہ وہ ولی عہد تھا اس لئے اس کے قا تلوں کا بڑا سخت جرم تھا لیکن اس کے لئے زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا تھا کہ ان کو سخت سے سخت سزا ئیںدی جا تیں ،قتل کئے جا تے ، جا ئدادیں ضبط کی جا تیں ،قید کئے جا تے خواہ وہ ہزاروں ہی ہو تے تب بھی اِس واقعہ کی یہی شکل ہو سکتی تھی لیکن اس کی تحقیقات کرتے ہوئے اس سلطنت کو خیا ل پیدا ہو ا کہ پا س کی جو چھو ٹی ریا ست ہے اُس کی تحریک سے یہ قتل ہو ا ہے اس لئے اُس کو دبا نا چا ہا ۔ ایک اَور سلطنت کے اس ریا ست سے تعلقات تھے اُس نے کہا کیا تم نے اس کو کمزور سمجھ کر دبا نا چاہا ہے ہم اس کے مددگار موجود ہیں۔ جب ادھر سے ایساہؤا توایک اَور سلطنت اس کے مقابلہ کے لئے اُٹھ کھڑی ہو ئی ۔ اِسی طرح ہو تے ہوتے کچھ سلطنتیں ایک طرف ہو گئیں اور کچھ دوسری طرف اور اِس طرح تمام دنیامیں آگ لگ گئی۔ دیکھو ایک آدمی کا قتل تھا۔ گو وہ آدمی بہت بڑا تھا ایک سلطنت کا ولی عہد تھا لیکن پھر بھی ایسا نہیں تھا کہ تمام دنیا میںاس کے لئے آگ لگا دی جا تی اور کُل دنیا پر کشت و خون کے دریا بہا دیئے جا تے۔ایسے انسان جن کا قتل کُل دنیا کا قتل ہو سکتا تھا وہ دو ہی گزرے ہیں ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو سارے جہان کے لئے مبعوث کئے گئے تھے اور ایک حضرت مسیح مو عود ؑ جو انکی غلامی میں ساری دنیا کی طرف بھیجے گئے تھے اِن دو کے سِو ا اور کوئی انسان نہ نبیوںسے ،نہ ولیوں سے، نہ مجددوں سے ایسا نہیں گزرا ۔ حضرت موسٰی ؑ ،حضرت دائود ؑ ، حضر ت سلیمان ؑ اگر قتل کئے جا تے تو یہ بنی اسرائیل کا قتل تھا ۔حضرت مسیح نا صری کا قتل بھی بنی اسرائیل کا ہی قتل تھاصرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسے وجو د تھے کہ آ پ کا قتل سارے جہان کا قتل تھا، پھر آپ کا جو قائم مقام آیا اس کا قتل سارے جہان کا قتل ہو سکتا تھا ۔با قی سب نبیوں میںسے کو ئی ایسا نہیں ہؤا تو کوئی بادشاہ یا بادشاہ بننے والا کہاں ایسا ہو سکتا ہے مگر واقعات تھے جنہوں نے مجبور کر دیا اور وہی صورت رونما ہو ئی ہے جو آجکل ہم دیکھ رہے ہیں۔ شہزادہ کو قتل کرنے والوں نے سمجھ لیا ہو گا کہ خواہ ہمیں کتنا ہی نقصان اُٹھا ناپڑے تا ہم اسکا نفع اس نقصان سے زیادہ ہو گا۔ ان کے ذہن میں یہ خیال کبھی بھی نہیں آیا ہو گا کہ یہ صورت ہو جا ئے گی ۔ لیکن دیکھ لو کہا ں سے کہا ں تک نو بت پہنچ گئی۔ وہ سلطنتیں جو آجکل میدانِ جنگ میںنکلی ہو ئی ہیں وہ بھی یہ خیا ل نہ کر تی تھیں کہ واقعات یہ صورت اختیار کر لیں گے۔ چنا نچہ جنگ شروع ہو نے سے قبل روس کے وزیر نے انگلینڈ کے وزیر اعظم کو لکھا کہ آسٹریاکے سرویہ پر دبائو ڈالنے کی وجہ سے ہم مجبور ہیں کہ اسے مدد دیں لیکن یہ مدد سیاسی رنگ میں ہو گی اور اسی سے کام چل جا ئے گا کیو نکہ واقعات کی صورت ایسی نہیںہے کہ لڑائی تک نوبت پہنچے لیکن خدا کی مصلحت نے نہ چاہا کہ ایساہو اس لئے لڑائی شروع ہو گئی ۔
یہ تومَیں نے اس قسم کے واقعہ کی مثال دی ہے جو ابتدا میں کو ئی بڑ ا نہیں معلوم دیتا تھا مگر تمدنی امور ایسے بھی ہو تے ہیں کہ جن کو انسان پہلے سے ہی جا نتا ہے کہ نقصان دِہ اور مضرّت رساں ہیں مگر پھر بھی ان سے باز نہیں آتا۔ یہ باتیں فرداً فردا ًکچھ ایسی بڑی نہیں دکھا ئی دیتیں مگر مجمو عی طور پر قوم کو تباہ کر نے والی ہو تی ہیں ۔ بعض قوموں میں جھوٹ کی عادت ہو تی ہے جو پھیلتے پھیلتے ان کی زندگی کے ہر ایک شعبہ پر اثر ڈا لنا شروع کر د یتی ہے ۔ بعض میں غیبت ، چغلی ، عیب جوئی وغیرہ کی عادت ہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے بہت خطرنا ک نتائج پیدا کرتی ہے لیکن ان باتوں کو معمولی سمجھا جاتاہے جو ایک بہت بڑی نا دانی ہے ۔ دانا انسان کا کام ہے کہ کسی بُرائی کو چھو ٹا نہ سمجھے کیونکہ اگر کسی ایک کو بھی چھوٹا قرار دے گا تو سب کو چھو ٹا کہتا جا ئے گا ۔لیکن یہ ایسی خرابیا ں ہیں جو ملکوں کی بربادی اور قوموں کی تباہی کا موجب ہوا کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس قسم کی باتوں کی طرف متوجہ کرنے کیلئے ایک گر بتایا ہے۔
یہ جو غلط فہمیاں ہو تیں اور ایک دوسرے پر حملے کئے جاتے ہیں یہ بھی بڑا تباہ کن فعل ہو تا ہے اور قوموں کو ہلاک کر دیتا ہے۔ ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرنا ،عیب جوئی میں لگے رہنا بظاہر انسان کو چھوٹی چھوٹی باتیں معلوم ہو تی ہیںمگر یہ ایسی باتیں ہیں کہ قوم کوتبا ہ کر دیتی ہیں۔
ایک دفعہ صحابہ ایسے پا ک گروہ میں سے بھی دو آدمیوں کی لڑائی سب کی تباہی کا موجب ہونے لگی تھی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبرہو گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتمہ کرا دیا۔ دو شخص تھے ایک انصار میںسے اور ایک مہاجرین میں سے۔ دونوں پانی بھرنے کیلئے گئے اور باتوں باتوں میں تیز کلامی ہو گئی۔ ایک نے دوسرے کو لات مار ی دوسرے نے چپت رسید کر دی نتیجہ یہ ہو ا کہ جنگ تک نو بت پہنچ گئی۔ مہاجر نے مہاجرین کو مدد کے لئے آواز دی اور انصارنے انصار کو۔ دونوں طرف سے تلواریں لے کر آگئے اور قریب تھا کہ مسلمان کافروں کے گلے کاٹنے کی بجائے جو ان کے سامنے پڑے تھے آپس میں ایک دوسرے کے گلے کا ٹ کر ڈھیر کر دیتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہو گیا آپ باہر نکل آئے اور فرما یا کیا تم پھر جا ہل ہو گئے ہو؟ آپ کے آنے سے وہ شرمندہ ہو گئے اور بات دب گئی ۔ تو دیکھنے میں ایک با ت چھوٹی سی معلوم ہو تی ہے مگر اس کے نتائج بڑے خطر ناک پیدا ہو تے ہیں لیکن بہت لوگ اس کا خیال نہیں رکھتے اس لئے ایسی باتیںکر لیتے ہیں مگر آخر کار یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ وہ جو ش اور غضب میں آکر ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو اور اپنی نسل کو تباہ کر لیتے ہیں حالانکہ اگر وہ صبر اور تحمل سے کام لیں تو کام چل جا تاہے اور زیا دتی کرنے والا خود شرمندہ اور نادم ہو جا تاہے۔
تمام جو شوں کا با عث محض غلط فہمی ہو ا کرتی ہے لیکن بہت لوگ ایسے ہیں جنہوں نے یہ معیا ر قائم کیاہو اہے کہ دنیا کی سب کمزوریا ں تو ہمارے اندر ہیں باقی سب انسان مکمل ہو نے چاہئیںاس لئے ایسے لوگ اگر خود کوئی عیب کرتے تو اسے بھول چوک قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان سے غلطی ہو ہی جا تی ہے لیکن اگر وہی دوسرا کرتا ہے تو کہتے ہیں یہ خباثت ہے، شرارت ہے ،بے ایمانی ہے، دشمنی ہے یہ بھول نہیں ہو سکتی ۔اپنے متعلق تو کہا جائے گاکہ کیا بندر، سور بھولا کرتے ہیں میں انسان تھا بھول گیا لیکن دوسرے کے متعلق بھولنا کبھی خیال میں بھی نہیں آتا۔ حالانکہ اگر وہ اپنے نفس میں غور کرتا تو آسانی سے سمجھ سکتا تھا کہ اگر میں بھول سکتا ہوں تووہ بھی بھول سکتا ہے۔ اور اگر بھولنا نا ممکن ہے اس لئے دوسرا خبیث اور شریر ہے تو میں بھی خبیث اور شریر ہوں۔ اصل بات یہی ہے کہ کو ئی انسان نہیں جو نسیان کی مرض کے نیچے نہ ہو۔ حضرت آدمؑ جو خداتعالیٰ کا نا ئب اور خلیفہ تھا اُس کی نسبت خداتعالیٰ فرماتا ہے ۲؎ بھول گیا۔اور بھولا بھی ایسے امرمیں کہ جس کے متعلق اُسے پہلے حکم دیا گیا تھا کہ یوں نہ کرنا۔ توآدم جس کو خداتعالیٰ نے خلیفہ بنا کر دنیا میں بھیجا تھا وہ اگر بھو ل جا تا ہے تو اس کے بیٹے کیو ں نہیں بھول سکتے اور وہ لوگ کیوں نہیں بھول سکتے جو خدا تعالیٰ کے خلیفہ نہیں ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نسیان تھا ۔ آپ ایک دفعہ گھر سے باہر نکلے ۔دو آدمیوں کو لڑتے ہو ئے دیکھا۔ فرمایا مجھے لیلۃ القدر کا نظارہ دکھا یا گیا تھا لیکن تم کو لڑتا ہوا دیکھ کر بھول گیا ہوں ۔ ؎۳ تو جب سب سے بڑا انسان انسانوں سے بڑا کیاملائکہ سے بڑا انسان بھی بھولتا تھا تو اور کون ہے جو نہ بھولے۔ دنیا میں کوئی بھی انسان ایسانہیں ہے جس کو نسیان نہ ہو ، بڑے بڑے حافظہ والے بھی بھولتے آئے ہیں۔
اِس وقت مسلمانوں میں اور بہت سی امراض کے علاوہ ایک یہ بھی مرض ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف عمل کر تے ہیں ۔ قرآن تو اس لئے آیا تھا کہ مسلمانوں کووسط میں چلائے۔ چنانچہ مسلمانوں کو فرمایا ۔ ؎۴ کہ ان کے تمام احکام اور اعمال درمیا نی راستہ پر ہو تے ہیں مگر اِس وقت مسلمانوں نے سب باتوں کی حدود کو اختیار کر لیا ہے اور وسط کو بالکل چھوڑ ہی دیا ہے۔ احمدیوں میں بھی بہت سے تمدنی نقائص ابھی باقی ہیں اور وہ اسی لئے ہیں کہ ابتدا میں چونکہ ان کی تربیت غیر احمدیو ں میں ہو ئی ہے جس کا اثر ابھی تک کچھ نہ کچھ با قی ہے۔ ان میں ایک نقص یہ ہے کہ جب دو شخصو ںکا آپس میں اختلاف ہو تو ایک دوسرے کو کہتا ہے کہ تو جھوٹ بولتا ہے حالانکہ جھو ٹ ایک بہت بڑی بُرائی ہے۔جو شخص دوسرے کو جھو ٹا کہتا ہے اصل میں وہ خود جھو ٹا ہو تاہے کیو نکہ وہ جھو ٹ کو بے حقیقت سمجھتا ہے۔ اگر بے حقیقت اور معمولی بات نہ سمجھے تو کبھی ایسی جرأت اور دلیر ی سے دوسرے کو جھوٹا نہ کہے کیو نکہ جو شخص کسی جرم کو بُرا سمجھتا ہے وہ دوسرے پر اس کو تھوپنے سے بھی ڈرتاہے۔ہما رے خلاف لاہوری مخالفوں نے ایسی ایسی باتیں لکھیں جو بالکل خلافِ واقعہ تھیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ لکھ رہے ہیں اور اس قسم کی باتوں کی کثرت کو دیکھ کر یہ کہنا بے جا بھی نہ تھالیکن میں یہی کہتا رہا کہ ممکن ہے بھو ل سے لکھتے ہوں، نسیان سے لکھ دیا ہو یا تعصب اور بغض کی وجہ سے ان کے دماغ میں بات ہی اسی شکل میں آئی ہو ۔تو جو انسان کسی جرم کو بُرا سمجھتا ہے وہ دوسروںپر بڑھ کر الزام نہیں لگاتا اور جو الزام لگاتا ہے وہ اس جرم کو بے حقیقت سمجھتا ہے لیکن عام طور پر یہی ہو تاہے کہ جب دو آدمی آپس میں لڑیں گے تو ایک دوسرے کو جھو ٹا کہہ دیں گے ۔جب گواہوں سے پو چھا جا ئے گاتو جس کے خلاف ان کی گواہی ہو گی وہ انہیں جھو ٹا قرار دے دیں گے حالانکہ انہیں معلوم ہو نا چاہئے کہ جھوٹ سے پہلے ایک اَور بھی درجہ ہے اور وہ نسیان ہے۔ ایسے شخص جو جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے اور خواہ مخواہ جھوٹ بول دیتے ہیں وہ بہت کم ہوتے ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں نسیان بہت زیادہ ہوتا ہے اور کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کو یہ مرض نہ ہو ۔ حتی کہ نبیوں کو بھی ہو تاہے۔ پس جب تمام انسانوںکو بِلااستثناء کسی ایک کے نبیوں سے لیکر ادنیٰ انسانوں تک کا یہ حال ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ بات جو ہر جگہ پائی جاتی ہے جب تک جھوٹ ثابت نہ ہو جائے وہ نہ کہیں۔ لیکن جب کہیں جھگڑا ہو تاہے ہر فریق یہ خیال نہیں کرتا کہ شاید فلاں سے غلطی ہو گئی ہو یا وہ بھول گیا ہوبلکہ یہی کہتا جا تاہے کہ اُس نے شرارت کی ہے، بے ایمانی دکھا ئی ہے، دشمنی شروع کی ہے اور جھو ٹ بولا ہے۔ پھر دونو ں دعا ئیں کر تے ہیں کہ جھو ٹے پر خدا کی *** پڑے۔ ممکن ہے کہ کسی پر بھی *** نہ پڑے اور دونو ں میں سے کوئی بھی جھوٹ نہ بولتاہو۔ جھوٹ تو وہ ہوتا ہے جو ایک بات کواچھی طرح جانتے ہوئے اُس کے خلاف کہا جائے لیکن جس کو ایک بات جس طرح یاد ہے اُسی طرح بیان کرتا ہے تووہ جھوٹا نہیں ہو سکتاہا ں ممکن ہے کہ نسیان کی وجہ سے اُسے اسی طرح وہ بات یاد رہی ہو جو اصل کے خلاف ہو۔ آپس کے جھگڑے اور اختلاف تو ہر جگہ ہی ہوا کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو نا چاہئے کہ دوسرے کو جھٹ جھوٹا اور شریراور فسادی قرار دے دیا جائے۔
جھگڑ ے تو صحابہ میں بھی ہو ا کرتے تھے ۔حضرت عمر ؓ اور حضرت ابو بکر صدیقؓکا جھگڑا تو حدیثوں سے ثابت ہے ۔ ؎۵ اگر جھگڑے کے یہ معنی ہیں کہ جھگڑنے والا جھوٹا ہوتاہے تو ماننا پڑے گا کہ نَعُوْذُبِاللّٰہِ ان دونوں میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔پھر حضرت عباسؓ اور حضرت علی ؓ کا جھگڑ ا بھی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے، ان میں سے بھی ایک کو جھو ٹا قرار دینا پڑے گا۔ پھر حضرت عمرؓاور عما ر کا جھگڑا ثابت ہے، عمر اور ابن مسعود کا اختلاف ثابت ہے اس لحاظ سے ان میں سے بھی ایک کو جھوٹا کہنا پڑے گا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے قاضی مقرر تھے وہ بھی مقدمات کے فیصلے کے لئے ہی تھے اگر مقدمات نہ ہوتے تو قا ضیوں کے مقرر کرنے کی کیا ضرورت تھی اِس طرح ما ننا پڑے گا کہ صحابہ میں سے نصف نہ سہی تہائی تو ضرور جھوٹ بولنے والے ہو ں گے مگر ہمارا تو یقین اور کامل یقین ہے کہ صحابہ میں سے ایک بھی جھوٹ بولنے والا نہ تھا صرف نسیا ن تھا جس سے کو ئی انسان خالی نہیں اور نہ ہو سکتا ہے۔ اِسی وجہ سے ایک شخص کو ایک بات ایک طرح یاد ہو تی تو دوسرے کو دوسری طرح ۔ ایسی اختلافی باتوں کا فیصلہ شاہدوں کے ذریعہ ہو جا تا ہے کہ کس کی بات ٹھیک ہے اور کس کی بھول اور نسیان کی وجہ سے ٹھیک نہیں اور بھولنے والوں کا اس میںکوئی قصور نہیں ہے۔ دیکھو ایک حا فظِ قرآن نماز پڑھا تے ہو ئے قرآن کریم میں غلطیاں کر جا تا ہے لیکن اس کے غلطی کرنے سے ایسا تو نہیں ہو نا چاہئے کہ اسے گردن سے پکڑ لیا جا ئے اور کہا جائے کہ تم نے شرارت سے غلط آیت بنا لی ہے قرآن کریم میں یہ کہی نہیں ہے کیو نکہ اس نے نسیان اور بھول کی وجہ سے ایسا کیا ہے نہ کہ شرارت سے۔ اور کوئی حافظ دنیا میں نہیں ہے جو غلطی نہ کرے حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن پر قرآن کریم اُترا وہ بھی بھول کی وجہ سے پڑھنے میں غلطی کر جاتے تھے ۔ ایک دفعہ آپ نے نما ز پڑھائی تو قرآن پڑھنے میں غلطی کردی ۔ جب نماز سے فا رغ ہو چکے تو اُبی بن کعب کو فرمایا کہ تم نے مجھے غلط پڑھنے سے رو کا کیوں نہیں؟ انہوں نے عرض کی کہ حضور میں نے سمجھا کہ شائد خداتعالیٰ نے اِسی طرح یہ آیت نازل فرما دی ہے جس طرح حضور نے پڑھا ہے۔آپ نے فرمایا۔نہیں غلطی سے پڑ ھا گیا تمہیں مجھے روکنا چا ہیے تھا۔ ۶؎ تو نسیان سے کوئی آدمی بچاہؤا نہیں ہے مگر جہا ں کسی سے اختلاف ہو تا ہے اس بات کو نظر انداز کر کے جھٹ اُس پر جھوٹ کا الزام لگا د یا جاتا ہے۔
ابھی تھوڑے دنوں کا ذکر ہے ایک معاملہ میرے آگے پیش ہؤ ا تھامیں نے اس کا فیصلہ کیا۔ وہ دونوں فریق ایک دوسرے کی نسبت یہی کہیں کہ وہ جھو ٹ بولتاہے اور ہم جو کہتے ہیں وہ درست ہے۔ پھر گواہوں سے پو چھا گیا تو ان کو بھی جھو ٹا کہہ دیا ۔میں پوچھتا ہوںاگر تم اِسی طرح ایک دوسرے کو جھو ٹا قرار دینے لگو گے تو بتلائو تم میں سچا کون ہؤا۔تم سب میںاختلاف ہوتے ہیں، جھگڑے ہوتے ہیں اگر اِسی بات پر کوئی جھو ٹا ثا بت ہوجاتا ہے توتم سارے کے سارے جھو ٹے ہوئے پھر حضرت مرزا صاحب کر کیا گئے؟ کیا چار لاکھ کی جماعت جو آپ چھو ڑ گئے تھے سب جھو ٹوں کی جماعت تھی؟ اِس طرح ایک دوسرے پر الزام لگا نے والے بِلاو اسطہ نہیں تو بِالواسطہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرنے والے ہیں ۔ مجھے ایسے لو گوں پر بڑا غصہ اور طیش آتا ہے کہ وہ کیوں ایسا کرتے ہیں۔جو شخص یہ کہتا ہے کہ فلاںمیںیہ عیب ہے اور فلاں میں یہ عیب ، توگویا صرف وہی ایک سب جما عت میں نیک رہا اور باقی سب عیب دار ٹھہرے اس سے میں پو چھتا ہو ں کہ کیا حضرت مرزا صاحب اُسی ایک کو پیدا کرنے کے لئے مبعوث ہو ئے تھے اور ان کی اِس قدر کو شش اور سعی کا نتیجہ صرف وہی ایک شخص نکلا؟ ہر گز نہیں۔ وہ اپنی قدر کو دیکھے اور اپنے طرزِ عمل پر غور کرے کہ کس طرف جا ر ہا ہے اور اُس کا ایسا کہنا گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جھو ٹا اور ناکام کہنا ہے اور وہ اپنے عمل سے احمدیت سے خارج ہو جاتا ہے ۔ گو وہ اپنے آپ کو احمدی کہے لیکن چونکہ وہ خدا کے نبی کی پاک جماعت پر حملہ کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ اس جماعت میں پھُوٹ پڑتی ہے اس لئے وہ احمدی نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے دوسرے پر الزام لگانے سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو کیا ہی عجیب گر بتا دیا تھا وَ فِی الْاَ رْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنیْنَ۔ وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْن کہ تم اپنے نفسوں میںہی دیکھو ۔کیا تم نے کبھی کو ئی غلطی نہیں کی؟ تم سے کبھی بھول چوک نہیں ہوئی؟ جب تم سے خو د بھی ایسا ہو جا تا ہے تو پھر جب کوئی دوسرا اِس طرح کرے تو اُس پر کیوں الزام لگاتے ہو۔ واقعہ میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو کبھی بھولا نہ ہو ۔ اور باتیں تو الگ رہیں صبح سے اِس وقت تک تم میں سے ہر ایک شخص کو جو جو واقعات پیش آے اُنہیں کو اگر کوئی بیان کرنے لگے تو ضرور ہے کہ بعض با تیں بھو ل جائے اور دوسرے یاد دلا دیں ۔ اگر کوئی ایسے حافظہ والا ہے جو پورے پورے واقعات بتاسکتا ہے تو اُٹھ کر بتائے۔ وہی شخص جو ایک دوسرے کو جھوٹا کہتے تھے اُٹھ کر بتا دیں لیکن وہ سن لیں کہ ضرور غلطی کریں گے مگروہ کہہ دیں گے کہ انسان ہیں غلطی ہو گئی ہے ۔ میں کہتا ہوں جب تم انسان ہو تو وہ کیا انسان نہیں ہیں؟ پھر انہیں کیوں جھو ٹا کہتے ہو؟ ایسا کرنے والے غلطی کر تے ہیں۔ غلطی نہیںبلکہ بے وقوفی کرتے ہیں۔ میں نے بے وقوفی اِس لئے کہا ہے کہ ان کی اِس کارروائی سے شیطان جماعت کی تباہی کا ہتھیار چلاتا ہے۔ ایسے لوگ خداتعالیٰ کے بتائے ہوئے گر پر عمل کریں خدا تعالیٰ فرماتاہے تم اپنی جا نوں کو دیکھو کیا تم اندھے ہو گئے؟ کیا یہی غلطیاں تم نہیں کرتے ہو اور اپنے آپ کو جھوٹا کہلانا پسند نہیں کرتے۔ مگر دوسرے ایسا کریں تو کہتے ہو کہ جھوٹ بولتے اور شرارت سے کرتے ہیںکیا تم نے انکا دل چیر کر دیکھ لیا ہو تا ہے؟ پھر یہ کیو نکر ممکن ہے کہ تم تو بھول جایا کرو اور وہ تمہا رے جیسے ہی نہ بھولا کریں ۔
حضرت عمرؓ اور عمار کا تیمم کے متعلق جھگڑا ہو ا تھا ۔ حضر ت عمر ؓ کہیں کہ میں کبھی اِس بات کو نہیں مانو نگاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کی بجائے عذر کے وقت تیمم کو جائز قرار دیا ہوحالا نکہ عما ر ٹھیک کہتے تھے۔ ۷؎ دوسرے راویوں سے بھی اُن کی بات کی تصدیق ہو تی ہے مگر حضرت عمر ؓ کو یا د نہیں رہا تھا اور وہ اپنی بات پر اِس قدر مصر تھے کہ لڑنے کو تیا ر ہو جا تے تھے۔ عمار اپنا ایک واقعہ پیش کرتے کہ میںنے ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا لیکن وہ نہیں مانتے تھے۔ بعض دفعہ کوئی بات حافظہ سے اِس طرح اُتر جا تی ہے کہ اس کے متعلق خیال بھی نہیں آسکتا کہ کبھی ہو ئی تھی یہی بات حضرت عمر ؓ کو پیش آئی ۔
اصل بات یہ ہے کہ حافظہ کے لئے آنکھیں ،کان، ناک، زبان ،لمس وغیرہ حواس ہیں اِن کے ذریعہ انسان کوہر ایک بات یاد رہتی ہے۔مثلاً سختی کا چھو نے سے پتہ لگتاہے لیکن بعض لوگوں کے جسم ایسے سخت ہو تے ہیں کہ انہیں چھونے سے پتہ نہیں لگتا۔ اِسی طرح بعض چیزیں دیکھنے سے یاد رہتی ہیںلیکن بعض کی آنکھیں کمزور ہو تی ہیںیا ایسا ہوتاہے کہ ان کی عادت غور سے دیکھنے کی نہیں ہو تی اس لئے انہیں بعض چیزیں یاد نہیں رہتیں۔ مثلا میری آنکھیں کمزور ہیںاس لئے زیادہ دُور کی چیزیں مجھے دکھائی نہیں دیںگی لیکن ایک اور شخص جس کی نظر مجھ سے تیز ہو گی وہ مجھ سے زیادہ دُور کی چیزیں دیکھے گا۔اب اگر کوئی ہم دونوں سے پو چھے کہ تمہا رے سامنے کیا کیا چیزیں ہیں تو ہمارے بیان کرنے میں ضرور اختلاف ہو گا۔پھر جس کی نظر کمزور ہواُسے چیزیں بھی کم یاد رہتی ہیںکیو نکہ اس کے دماغ پر دیکھنے کا اثر کم پڑتا ہے۔ہاں اگر وہ ایک چیز کو بار بار دیکھے تو جس طرح پھیکی سیاہی پر با ر بار قلم پھیرنے سے شوخ سیا ہی ہو جاتی ہے اِسی طرح اس کے بار بار کے تکرار سے اس کے دما غ پر گہرا اثر پڑ تا ہے اس لئے وہ اسے یا د رہتی ہے ۔ اِسی طرح بعض لو گوں کے کان کمزور ہوتے ہیں وہ ایک آدھ دفعہ سنی ہو ئی بات کو یاد نہیں رکھ سکتے مگر بار بار سننے سے خوب یا د رکھتے ہیں وہ لوگ جن کی آنکھیں کمزور ہوتی ہیں اور حافظہ بہت تیز ہو تا ہے اُن کے حافظہ کے تیز ہونے کی یہی وجہ ہے کہ چونکہ وہ آنکھوں کی بجائے کا نوں کو زیادہ استعمال کرتے ہیں اِس لئے شنوائی کا اثر اُن کے دماغ پر بہت گہرا پڑتاہے۔ اِسی طرح ایک بہرہ آنکھوں دیکھی چیز کو بہ نسبت سنی ہوئی کے زیادہ یاد ر کھتا ہے کیو نکہ وہ زیادہ غور سے دیکھنے کا عادی ہو تاہے اور کانوںکا کام بھی آنکھوں سے لیتا ہے۔ اکثر اشیاء کے یاد رکھنے کے متعلق انسان دو چیزوں سے کام لیتا ہے۔ اوّل آنکھوں سے دیکھتا ہے دوم کانوں سے سنتا ہے۔مثلاً ایک شخص کا نام عمر الدین ہے وہ جب سامنے آئے تو کان اُس کا نام سن کر کہتے ہیں کہ یہ عمرالدین ہے اور آنکھیں اُس کی شکل کا نقشہ اُتا رتی ہیں۔اگر یہی شخص ایک پردہ کے پیچھے کھڑا ہو کر اپنا نام بتائے تو ممکن ہے وہ شخص اس کو نہ پہچان سکے جس کے کانوں نے اُس کی آواز کو سنا اور جس کی آنکھوں نے اُس کا نقشہ اُتارا لیکن ایک نابینا انسان جس نے صرف کانوں کے ذریعے اُس کو پہنچانا تھا اُس کی بات سن کر فوراً معلوم کر لے گا ۔ کیوں؟اِس لئے کہ جس وقت اُس نے نام سنا تھا تو بہ نسبت ایک نابینا شخص کے اس کی قوتِ سامعہ نے اُس کے د ماغ پر بہت گہرا اثر ڈ الا تھا پس ان حواس کے ذریعہ حافظہ بعض باتوں کو بھو ل جا تاہے اور بعض کو یاد رکھتا ہے لیکن بھولنے والے کی نسبت یہ کہنا کہ جھو ٹ بولتاہے سوائے اس کے اور کیا نتیجہ پیدا کر سکتا ہے کہ فساد پھیلے ۔ مگر بہت لوگ ایسے ہیں جو کسی جھگڑے یا اختلاف کے وقت ایک دوسرے کی نسبت ایساکہہ دیتے ہیں ۔
میں ایک دفعہ ایک جماعت کے ہاں گیا اب تو وہ بہت مخلص ہے اس کے قریبا سارے ممبر ایسے ہیں جو حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے ہیں مگر تعمیل احکام میں سب سے زیادہ سست ہے۔ وہا ں جا کر مجھے معلوم ہو اکہ یہا ں کے لوگوں میں نا اتفاقی ہے۔میں نے اُن کو بُلاکر پوچھا۔ ہر ایک نے یہی کہا کہ ہم میں کوئی ناراضگی نہیں ہے یہ بات آپ تک غلط پہنچائی گئی ہے۔ میں نے پوچھا فلاں آدمی کیوں مسجد میں نہیں آتا ؟ فلاں کیوں نہیں آتا؟ اِس کا جواب مجھے یہ دیا گیا کہ فلاںکی فلاں سے اور فلاں کی فلاںسے لڑائی ہوئی ہے۔میں نے کہا کہ جب ایک دوسرے کی آپس میں لڑائی ہے تو پھر اتفاق کیسا ؟اور جماعت کیسی ؟ اِس قسم کی نا اتفاقی کو انہوں نے افرادکی نا اتفاقی قراردیا ہو ا تھانہ کہ جماعت کی ۔میں نے اُن میں صفائی کرا دی۔ اُنہیں یہ بات بہت معمولی معلوم ہو ئی تھی لیکن در حقیقت وہ بہت بڑی اور خطرنا ک نتائج پیداکر نے والی تھی۔ تو چھو ٹی سے چھوٹی بات میںبھی بہت احتیا ط کرنی چا ہیے اور فورا ًکسی پر جھو ٹے ہونے کا فتویٰ نہیں لگادینا چاہئے۔ تم لوگ کیوں ایساطریق اختیا رنہیں کرتے جس میں تمہا را بھی فا ئدہ ہو اور کسی کو نقصان بھی نہ پہنچے اور وہ یہ کہ جس طرح خود بھول جا تے اور نسیان کربیٹھتے ہواُسی طرح دوسرے کو سمجھ لیا کرو اور اِس طرح بھی کسی کا حق غصب نہیں ہو سکتا ۔ بات وہی رہتی ہے البتہ احتیاط کا پہلو ہو جاتاہے۔
پس یہ بات خوب یاد رکھو کہ جو بات کسی کے متعلق کہو اپنے نفس میں اُس کے متعلق خوب غو ر کر لو کہ جو الزام دوسرے پر لگاتا ہوںکیامیں اس سے بری ہو ں۔ افسوس کہ بہت کم لوگ اس بات پر غورکرتے ہیںاگر غورکریں تو بہت سے فساد اورجھگڑے دُور ہو جائیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اِس کی سمجھ دے اور دوسروں کی عیب جوئی سے بچا کراپنے نفس کے محاسبہ کی تو فیق بخشے۔‘‘
(الفضل ۱۸؍جون۱۹۱۶ئ)
۱؎ الذّٰریت : ۲۱،۲۲ ۲؎ طٰہٰ: ۱۱۶
۳؎ بخاری کتاب فضل لیلۃ القدرباب رفع معرفۃ القدر لتلاحی الناس
۴؎ البقرہ: ۱۴۴
۵؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لوکنت متخذاً خلیلاً
۶؎ بخاری کتاب الصلوٰۃ باب التوجہ نحوالقبلۃ۔ (الخ)
۷؎ بخاری کتاب التیمم باب التیمم ھل ینفخ فیھما
۱۸
کلام کو بگاڑ کر پیش کر نے والے لوگ کون ہوتے ہیں؟
(فرمودہ ۹؍جون۱۹۱۶ئ)
تشہد ،تعوذ اور سورۃ فا تحہ کے بعدحضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
۔۱؎
اور فرمایا:۔
’’دنیا میںکسی چیز کے یا کسی انسان کے دو قسم کے مخالف ہو تے ہیں ایک وہ جن کی مخالفت اُس چیز کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور بسب اُس کو نا درست اور صداقت سے دور سمجھنے کے اس کا مقابلہ کرتے ہیں ۔دوسرے وہ جو کسی چیز کی مخالفت اِس لئے نہیں کرتے کہ وہ انہیں نا درست معلوم ہوتی ہے بلکہ اُن کی کچھ خود غرضیاں ہوتی ہیںجو انہیں اس کی مخالفت کے لئے کھڑا کر دیتی ہیںایسے لوگ اکثر جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہیں۔لیکن وہ لوگ جو کسی بات کی اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ وہ سچی اور درست نہیں ہے وہ مقابلہ کرتے ہوئے کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ جھو ٹ ہمیشہ وہی انسان بولا کرتا ہے کہ جس بات پروہ قائم ہو تا ہے اُس کی صداقت کا اُسے یقین نہیں ہوتا۔ کیو نکہ اگر وہ صداقت کی خاطر مقابلہ کے لئے کھڑ ا ہو تو پھر کیو نکر ممکن ہے کہ وہ خود جھو ٹ بولے ۔ایک انسان جو صداقت کی خاطر بیوی ، بچے ، عزیز اور رشتہ دار مال و دولت حتی کہ جان تک دے دینے کے لئے تیار ہوتا ہے اُس سے ممکن نہیں کہ جھو ٹ کا کلمہ نکل سکے۔ پس ایک بات کو سچا سمجھ کر اُس پر کھڑ ے ہونے والے مقابلہ کرتے وقت کبھی جھو ٹ سے کام نہیں لیتے لیکن جن لو گوں کا کسی بات کو ماننا اِس لئے نہیں ہو تا کہ وہ سچی ہے خواہ ان کا ظن غالب یہی ہو کہ سچی ہے اوریہ بھی ممکن ہے کہ واقعہ میں بھی وہ اسے سچا سمجھتے ہوں مگر اُس کی طرف داری کا باعث اس کی سچائی اور راستی نہ ہوبلکہ کو ئی اپنی غرض ہو وہ جھو ٹ سے کام لینے سے پرہیز نہیں کرتے ۔میرے اِس بیان کا مطلب یہ ہے کہ ممکن ہے ایک شخص راستی کو راستی سمجھتا ہو مگر اُس کی تائید اِس لئے نہ کرتا ہو کہ اُس کو سچا سمجھتا ہے بلکہ اس کی کو ئی اَور غرض ہو ایسا انسان بھی جھو ٹ سے کام لیتا ہے۔مثلاًایک شخص ہے وہ ایک نبی کو نبی اور خدا کا برگزیدہ بھی ما نتا ہے مگر وہ جو اس کی خدمت اور ادب کرتاہے اِس لئے نہیں کرتا کہ وہ نبی ہے بلکہ اس سے اسے اپنا کو ئی اور فائدہ مد نظر ہے ایسا انسان بھی جھو ٹ کا مرتکب ہو سکتا ہے کیو نکہ وہ ذاتی نفع کیلئے نبی کی خدمت کر رہا ہوتاہے نہ کہ اُس کے نبی ہونے کی وجہ سے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی ایک نظیر اِس بات کے ثبوت کے لئے مو جود ہے۔
جنگ خیبر میں ایک شخص مسلمانو ں کے ساتھ ہو کر اِس زور اور کو شش سے لڑا کہ صحابہ کہتے ہیں ہمیں اُس پر رشک آ گیا لیکن لڑائی ہو نے سے پہلے یا ابتدئے لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی نسبت فرمایا تھا کہ اگر کسی نے دوزخی آدمی دیکھنا ہو تو اُسے دیکھ لے ۔ صحا بہ کہتے ہیں ہم نے یہ بات سنی ہوئی تھی مگر وہ اس دلیری اور جوانمردی سے لڑا کہ خطرناک سے خطرناک مقام پر پہنچ کر حملہ آور ہو تا اور ہر دفعہ ایک دو کو گرا کر ہی آتا ۔ حتی کہ صحابہ ایسے مضبوط ایمان والوں میں سے بعض کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نا حق اِس کی نسبت کہہ دیا ہے کہ یہ دوزخی ہے لیکن ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں اُس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔جہا ں وہ حملہ کرتا میں بھی وہاں پہنچ جا تا حتیٰ کہ وہ سخت زخمی ہوا ۔بعض صحابہ جا کر اسے کہتے تجھے جنت کی خوش خبری ہو مگر وہ آگے سے جواب دیتا مجھے جنت کی بشارت نہ دو بلکہ دوزخ کی دو کیونکہ میں اسلام کے لئے نہیں لڑا مجھے ان لوگوں سے ایک پرانی عدوات تھی اُس کی خاطر لڑا ہوں۔ اِس واقعہ سے دونوں باتیں معلوم ہو جا تی ہیں یہ کہ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان تھا اور آپ کو خدا کا نبی اور بر گزیدہ سمجھتا تھا تبھی تو اُس نے کہا کہ مجھے جنت کی بشارت نہ دوبلکہ دوزخ کی دو کیو نکہ وہ سمجھتا تھا کہ اسلام کے لئے لڑنے والا جنت میں جا تا ہے نہ کہ اپنے اغراض کی خاطر لڑنے والا۔چو نکہ لڑائی میں شامل ہونا اُس کی اپنی اغراض کے لئے تھا اس لئے اُس نے کہا کہ میں جنت میں جا نے کے قابل نہیں ہوں ۔ دوسری بات یہ بھی معلوم ہو گئی کہ اس نے باوجود اسلام کی صداقت کا قائل ہو نے کے اسلام کی اِس لئے تائید نہیں کی تھی کہ یہ ایک صداقت ہے بلکہ اپنی غرض کے لئے لڑا تھا۔ چنانچہ وہی صحابی جو اُس کے ساتھ ساتھ تھے کہتے ہیں کہ جب اسے زخموں کی وجہ سے سخت درد اور تکلیف ہوئی تو اُس نے بر چھی پر اپنا سینہ رکھ کر زور سے دبایا اور اِس طرح اپنے آپ کو ہلاک کرلیا۔ وہ صحابی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دَوڑے ہو ئے آئے اور کہا۔ یاَ رَسُوْلَ اللّٰہ !آپ کو مبارک ہو ۔آپ فلاں آدمی کے معاملہ میں بالکل سچے نکلے اُس نے خود کشی کر لی ۔ ؎۲ تو ایسے انسان بھی ہو تے ہیں جو صداقت کو سمجھ کر صداقت کی خاطر تا ئید نہیںکرتے بلکہ اپنی اغرا ض کو مدنظر رکھ کر ایساکرتے ہیں۔
میں نے بتا یا ہے کہ ایک تو وہ لوگ ہو تے ہیں جو گونا حق پر ہو تے ہیں مگر اپنے آپ کو حق پر سمجھ کر حق کی مخالفت کرتے ہیں اور ایک وہ ہو تے ہیں جو اپنے دشمن کو حق پر سمجھتے ہوئے بعض اغراض کی وجہ سے مخالفت کرتے ہیں۔اور کبھی یہ بھی ہو تا ہے کہ مخالفت کرنے والا کبھی اپنے آپ کو بھی نا حق سمجھتا ہے اور اپنے مخالف کو بھی ایسے سب لوگ جھو ٹ سے کام لے لیتے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہوتاہے جو اپنے آپ کو حق پر سمجھتاہے اور ہوتا بھی حق پر ہی ہے مگر اس کی تائید اس لئے نہیں کرتا کہ وہ حق پر ہے بلکہ اس لئے کرتاہے کہ اُس کواپنے اغراض مدنظر ہوتے ہیں ایسے لوگ بھی جھوٹ بول لیتے ہیں کیو نکہ انہیں سچ کی قدر نہیں ہو تی۔پس گو ایسا آدمی صداقت پر بھی ہو اور اپنے آپ کو صداقت پر سمجھتا بھی ہو جھو ٹ بول لیتاہے۔لیکن جو آدمی سچ مچ حق پر ہو تا ہے اور اسے اس لئے قبول کرتا ہے کہ حق ہے نہ کہ کسی اور نفسانی غرض کے لئے وہ جھو ٹ نہیں بولتا۔ پھر وہ انسان بھی جو باطل پر ہو تاہے اگر اس کی تائید کے لئے اس لئے کھڑاہوتاہے کہ اسے باطل نہیں بلکہ حق سمجھتا ہے وہ بھی جھو ٹ نہیں بولتا لیکن ان کے مقابلہ میں وہ لوگ جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے جھو ٹ بولنے میں کو ئی حرج نہیں سمجھتے۔
غرض سب انسانوں کے دو گروہ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو سچ بولتا ہے اور دوسرا وہ جو جھو ٹ بولنے میں حرج نہیں سمجھتا ۔پھر ان میں سے ہر ایک کے دو گروہ ہیں ایک وہ جو حق پر ہو کر اِس لئے جھو ٹ بولتاہے کہ اس نے حق کو حق کے لئے قبول نہیں کیا ہوتا بلکہ اپنے اغراض کیلئے قبول کیا ہو تاہے اور دوسرا وہ جو نا حق پر ہو کر اِس لئے جھو ٹ بولتاہے کہ اس نے ناحق کونا حق سمجھ کر قبول کیا ہوتاہے۔ پھر سچ بولنے والوں کے دو گروہ ہوتے ہیںایک وہ جو حق کو حق سمجھ کر قبول کرتا ہے وہ بھی کبھی جھو ٹ نہیں بولتا اور دوسرا جو ناحق کو حق سمجھ کر اُس پر جما ہوتا ہے یہ بھی جھوٹ نہیں بولتا۔ وہ گروہ جو اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے مگر حق کی تائید اس لئے نہیں کرتا کہ وہ حق ہے اور دوسرا گروہ جو خود تو نا حق پر ہو تا ہے مگر اپنے فریق مخالف کو حق پر سمجھ کر پھر بعض وجوہا ت سے اُس کی مخالفت کرتاہے ۔ان دونوں گروہوں کے آدمی کثرت سے جھو ٹ بولتے ہیں ۔یوں تو ہمیشہ ہی ان کا یہی حال ہوتا ہے مگر نبیوں کے مقابلہ میں ان کا جھوٹ اور کذب بڑ ے زور سے ظاہر ہوتاہے کیونکہ اُس وقت اِن لوگوں کو اپنی تباہی اور بربادی کا پوراپورا یقین ہو جاتاہے اِس لئے وہ اپنے بچائو کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہتے ہیںاور ان کوششوں میں سے ایک کوشش جھوٹ کا استعمال بھی ہوتاہے۔
آپ لو گو ںکو تو معلوم ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں لو گوں نے کیسے کیسے جھوٹ بولے۔مخالفین نے جھو ٹ بولنے سے ذرا پرہیز نہ کیا۔ وہ لوگ جو اپنے آپ کو راستبازی کے پھیلانے والے کہتے تھے اُنہوں نے جھو ٹ بولنے میں اوّل نمبر حا صل کیا اور اِس طرح اُن کی نسبت پتہ لگ گیاکہ گو وہ اسلام کی تائید کے لئے کھڑے ہوئے ہیں مگر اِس لئے نہیں کہ اسلام سچا مذہب ہے بلکہ اِس لئے کہ اِس میں اُن کی خود غرضی اور نفسانیت کا دخل ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ پران لوگوں نے قِسم قِسم کے الزامات لگائے۔کہا گیا کہ یہ دہریہ ہے حالانکہ وہ خوب جا نتے تھے کہ جس قدر اِس کا خدا پر بھروسہ اور ایمان ہے اور کسی کو نہیں ہے۔وہ اپنی جان و مال، اسباب، عزیز ،رشتہ دار خداکے لئے قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار تھا اوردن رات اسے یہی دُھن تھی کہ خدا کا نام دنیا میں پھیلے اس کو خداکا منکر کہا گیا۔پھر جو خود وحی اور الہام کامد عی تھا اس کے متعلق کہا گیا کہ اس کا عقیدہ برہموئوں کی طرح ہے ۔پھر کہا گیا کہ یہ حضرت مسیحؑ کو گالیاں دیتاہے حا لانکہ یہ کیو نکر ممکن تھا کہ وہ جو آپ مسیحیت کا مدعی ہو وہ حضرت مسیحؑ کو گالیا ں دے اور بُرا بھلاکہے ۔کیا کوئی شریروں اور گندے لو گوں کی طرف اپنے آپ کو نسبت دیا کر تا ہے؟ مصر میں قبطی لوگ رہتے ہیں وہ اپنے آپ کو فرعون کی طرف منسوب کرتے ہیںاوراپنے نام یوسف فرعون، ابراہیم فرعون وغیرہ رکھتے ہیں ۔لیکن وہ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ فرعون بہت نیک اور اچھا آدمی تھامگر فرعون کا نام مسلمانوں کے نزدیک گنداہے اس لئے کوئی مسلمان ایسا نہیں کرے گا۔تو جو شخص اپنے آپ کو کسی کی طرف منسوب کرتا ہے وہ کس طرح اُس کو گندہ کہہ سکتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تو دعویٰ ہی یہی تھاکہ میں مثیل مسیح ہوں پھر آپ حضر ت مسیحؑ کو بُرا بھلا کس طرح کہہ سکتے تھے ۔پھر یہ کہا گیا کہ مرزا صاحب اہل بیت کے دشمن ہیں حالانکہ آپ نے اپنے کمالات کی ابتدء اِس طرح بیان فرمائی ہے کہ ہمارے گھر میں اہل بیت تشریف لائے یعنی وہی جن کو شیعہ پنجتن کہتے ہیں اور اہل بیت قرار دیتے ہیں اور اِس کے بعد علومِ باطنی مجھ پر کھلے ۔ پس جو شخص اپنے علومِ باطنی کے حاصل ہو نے کی بنیا د ہی اِس بات پر ر کھتا ہے کہ اہل بیت ہمارے گھر میں آئے وہ اُن کی ہتک کس طرح کر سکتا ہے۔ غرضیکہ اِس قسم کے اَور بہت سے الزام آپؑ پر لگائے گئے۔
حضرت مسیحؑ سے بھی اُن کے مخالفین نے یہی سلو ک کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ میں بنی اسرائیل کا بادشاہ ہوں۔ اِس سے اُن کی مراد روحانی بادشاہ ہونے کی تھی لیکن انہوں نے شور مچادیا کہ یہ خود بادشاہ بنتاہے اور قیصر کا باغی ہے چنانچہ اُنہوں نے اپنی اِس بات کو مضبوط کرنے کیلئے ایک دفعہ ایک چالاکی کی مگر خدا تعالیٰ کے انبیاء بڑے عقل مند اور دانا ہوتے ہیں حضرت مسیحؑ ان کی چال میں نہ آئے۔انہوں نے آکر پوچھا کہ ہم ٹیکس کس کو دیں؟ یعنی انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ ہمیں منع کر دیں گے کہ قیصر کو نہ دو اِس طرح اِن کو گرفتار کرا دیں گے۔ حضرت مسیحؑؑ نے جواب دیا کہ سکہ پر کس کی تصویر ہے؟ انہوں نے کہا قیصر کی ۔ فرمایا پس جوقیصر کا ہے وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو ۔ ؎۳ یعنی قیصر دنیا وی بادشاہ ہے اِس لئے اُسے سکہ کا ٹیکس دو اور خداکے آگے روحانیت کا ٹیکس ادا کرو۔ پھر حضرت مسیحؑ کو گورنر کے سامنے باغی قرار دے کر پیش کیا گیا۔
اِس وقت جو ہمارا اختلاف ہے اِس میں بھی ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں۔ وہ ایک چھوٹی اور قلیل جماعت ہے لیکن ہیں ضرور۔اِن میںسے شاید ایسے لوگ بھی ہوں جو اپنے آپ کو حق پر سمجھ کر ہماری مخالفت کر رہے ہیں مگر اس میں تو کوئی شک نہیںکہ وہ حق کی خاطر ایسا نہیں کر رہے کیونکہ اگر وہ حق کی خاطر کرتے تو جھو ٹ سے کبھی کام نہ لیتے ۔ وہ با تیں جو قلب اور دل کے متعلق ہیں ان میں وہ اِس لئے معذور سمجھے جا سکتے ہیں کہ شاید دشمنی اور عداوت کی وجہ سے ایک بات کو اُسی رنگ میں دیکھتے ہو ں جس میں کہ بیان کرتے ہیں لیکن ان کا صحیح صحیح واقعات اور کھلی کھلی باتوں کو بگاڑ کر پیش کرنا ثبوت ہے اِس بات کا کہ وہ جھو ٹ بولتے ہیں اور حق کی خاطر مقابلہ نہیں کر رہے ۔ انہوں نے ایسے ایسے افتراء کیے ہیں کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے ۔
پچھلے سال کہا گیا کہ میںنے گورنمنٹ کو لکھا ہے کہ مجھے خلیفۃ المسیح تسلیم کروا دو میں آپ کی بہت مدد کروں گا۔ جب ہما ری طرف سے اِس بات کی تردید کی گئی اور گورنمنٹ کی چٹھی بھی ہماری تائید میں آگئی تو ایک اَور بات بنا لی کہ گورنمنٹ ڈر گئی ہے کہ اِس بات کے ظاہر ہونے سے ان میں فساد پڑجا ئے گا اس لئے اس نے پوشیدہ رکھا ہے حالانکہ اِنہی لو گوں نے ۱۹۱۳ء کے سالانہ جلسہ پر حضرت خلیفہ اوّل کو کہا تھا کہ گورنمنٹ نے اپنے پا س سے تنخواہیں دے کر کچھ آدمی ہمارے درمیان اِس لئے چھوڑے ہوئے ہیںکہ وہ ہم میں پھوٹ ڈلوائیں اور چند بے گناہ آدمیوں کے نام بھی لے دئیے تھے ۔ چنانچہ ۱۹۱۳ء کے جلسہ کی تقریر میں جو چھپی ہوئی ہے حضرت خلیفہ اوّل نے اِس طرف اشارہ بھی کیا تھا۔ تو یاتو اِن کایہ خیال تھا کہ گورنمنٹ نے اپنے پاس سے روپیہ دے کر پھوٹ اور فساد ڈلوانے کے لئے لوگوں کو ہمارے درمیان چھو ڑا ہو اہے یا یہ کہ گورنمنٹ کو پھوٹ ڈلوانے کا ایسا سنہری موقع ہاتھ آیا ہے لیکن وہ ایسا کرنا نہیں چاہتی اور انکار کردیتی ہے کہ ایسی کوئی درخواست وغیرہ نہیں آئی ۔
اِسی طرح اَور بہت سے جھوٹ اِن کی طرف سے مشہور کئے گئے اور جب جواب دئیے گئے تو کوئی نہ کو ئی حجت نکال ہی لی جیسا کہ میں نے ابھی بات سنائی ہے۔ اور میں دیکھتا ہو ں اِن کی اِس دروغ بیانی کا سلسلہ ابھی تک جا ری ہے۔ ایک خط آیا ہے جس میںلکھا ہے کہ ایک شخص نے کتاب حقیقۃ النبوۃسے میری عبارت کا ایک ٹکڑا نقل کر کے رکھا ہو اہے جو یہ ہے کہ بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ نبی دوسرے نبی کا متبع نہیں ہو سکتا اور اِس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے کہ وَمَآ اَرْ سَلْنَامِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّالِیُطَاعَ بِاذْنِ اللّٰہِ ۴؎ اور اس آیت سے حضرت مسیح موعود ؑکی نبوت کے خلاف استدلال کرتے ہیں لیکن یہ سب قلت تدبر کا نتیجہ ہے۔ اِس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت ازالہ اوہام سے یہ لکھی ہو ئی ہے کہ:۔
’’ افسوس کہ مولوی صاحب مرحوم کو یہ سمجھ نہ آیا کہ صاحب نبوتِ تامہ ہر گز اُمتی نہیں ہو سکتا اور جو شخص کامل طور پر رسول اللہ کہلاتاہے وہ کامل طورپر دوسرے نبی کا مطیع اور اُمتی ہو جانا نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے رو سے بکلی ممتنع ہے۔ اللہ جل شانہٗ فرماتاہے وَمَآ اَرْ سَلْنَامِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّالِیُطَاعَ بِاذْنِ اللّٰہِ۔ یعنی ہر ایک رسول مطاع اور امام بنانے کے لئے بھیجا جا تاہے اِس غرض سے نہیں بھیجا جاتا کہ دوسروں کا مطیع اور تابع ہو۔‘‘ ۵؎
یہ دونوں عبارتیں وہ لو گو ں کو دکھا کر کہتا ہے کہ دیکھو! ہمیں میاں صاحب سے کوئی مخالفت نہیں لیکن وہ توحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو گالیاں دیتے ہیں جیسا کہ اِس عبارت میں نادان کہتا ہے پھر ہم کس طرح ان کے سا تھ مل سکتے ہیں ۔لیکن یہ ایک دھو کا ہے جو لوگوں کو میری طرف سے دیا جاتا ہے۔کیو نکہ میں نے حقیقۃ النبوۃ میں ہی اِس بات کو حل کر دیا ہو ا ہے کہ جب کو ئی بات منکشف نہ ہو اُس وقت تک اُس کے خلاف کہنا بُرا نہیں لیکن جب وہ کھل جائے پھر اس کے خلاف کہنا نادانی اور جہا لت ہو سکتی ہے۔ اِس کے متعلق میں نے حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی مثال بھی دی تھی چنانچہ حقیقۃ النبوۃ کی اصل عبارت یہ ہے کہ:۔
ایک بات جب تک پوشیدہ اور پردہ ٔاِخفا میں ہو اُ سے اصل کے خلاف ماننا ایک اور بات ہو تی ہے لیکن پردہ اُٹھ جا نے پر پھر بھی غلطی سے نہ ہٹنا ایک اور بات ہوتی ہے …اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ پچھلی صدیوں میں قریباً سب دنیا کے مسلمانوں میں مسیحؑ کے زندہ ہو نے پر ایمان رکھا جا تا تھا اور بڑے بڑے بزرگ اِسی عقیدہ پر فوت ہوئے اور نہیں کہہ سکتے کہ وہ مشرک فوت ہوئے گو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عقیدہ مشرکا نہ ہے(چنا نچہ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو مشرکانہ عقیدہ قرار دیا ہے) حتی کہ حضر ت مسیح موعودؑ با وجو د مسیح کا خطاب پانے کے دس سال تک یہی خیال کرتے رہے کہ مسیح آسمان پر زندہ ہے۔‘‘ ؎۶
اب ہر ایک عقلمند آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابتداء میں حضرت مسیحؑ کی وفات کے متعلق انکشاف نہ ہونے کی وجہ سے براہین احمدیہ میں اُن کے زندہ ہو نے کے متعلق لکھ دیا تھا لیکن بعد میں جب وفاتِ مسیح کے متعلق انکشاف ہو گیا تو آپ نے اِس عقیدہ کا رکھنا شرک قرار دے دیا اِسی طرح آ پ نے بے شک ایک وقت تک نبی کی وہی تعریف کی جو آجکل کے مسلمان کرتے ہیں لیکن چو نکہ اُس وقت تک آپ پر اِس مسئلہ کا پوری طرح انکشاف نہ ہؤ اتھا اِس لئے آ پ عام مسلمانو ں کے عقیدہ پر ہی قائم رہے مگر جب آپ پر نبو ت کی تعریف کُھل گئی تو آپ نے لکھ دیا کہ:۔
’’نبی اُس کو کہتے ہیں کہ جو خداکے الہام سے بکثرت آئندہ کی خبریں دے مگر ہمارے مخالف مسلمان مکا لمہ الٰہیہ کے قا ئل ہیں لیکن اپنی نادانی سے ایسے مکا لمات کو جو بکثرت پیشگوئیوں پر مشتمل ہو ں نبوت کے نام سے مو سوم نہیں کرتے۔‘‘ ۷؎
گویا وہی عقیدہ رکھنے والوں کو جو ایک وقت میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا نادان قرار دیا ہے اِس کی یہی وجہ ہے کہ جب تک حق نہیں کُھلاتھا وہ عقیدہ رکھنے والے معذور تھے لیکن جب حق کُھل گیا تو ان کے لئے بدلنا ضروری تھا اِسی طرح اِس آیت سے ایک وقت میں حضرت صاحب نے یہ استدلال کیا کہ نبی وہ ہو تا ہے جو دوسرے نبی کا متبع نہ ہو لیکن جب آپ پر اِس کی حقیقت کُھل گئی تو خود ہی یہ فرما دیا کہ:۔
’’نبی کے حقیقی معنوں پر غو ر نہیں کی گئی ۔نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا۔ اور شرفِ مکا لمہ اور مخا طبۂ الٰہیہ سے مشرف ہو ۔ شریعت کا لانا اُس کیلئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحبِ شریعت رسول کا متبع نہ ہو۔ ؎۸
اب جبکہ حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ لکھ دیا ہے تو ایک ایسا شخص جو آپ کا متبع ہونے کا دعوی کرتاہے یہی کہتا جائے کہ نہیں نبی کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو تو اُس کے نادان ہو نے میں کیا شک ہے۔نادان نہیں بلکہ اس کے عاصی اور گنہگار ہونے میں بھی کوئی شک نہیں ۔پس جب حضرت مسیح موعودؑ نے بار بار کی وحی کے ماتحت یہ لکھ دیا ہے کہ نبی کیلئے ضروری نہیں کہ وہ دوسرے نبی کا متبع نہ ہو اب جو شخص کہتا ہے کہ متبع نہ ہو نا ضروری ہے وہ ضرور نادان ہے۔
حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے ابتداء میں جو کچھ لکھا اُس کانام ہم احتیاط رکھیں گے کیو نکہ اُس وقت آپ پر اس کے متعلق کوئی انکشاف نہ ہو اتھا اِس لئے آپ نے عوام کے عقیدے کے مطابق لکھ دیا لیکن آپ کو ہم یہ لکھنے سے نَعُوْذُ بِاللّٰہ نادان نہیں کہہ سکتے ۔دیکھو صحابہ میں سے ایسے لوگ تھے جو شراب پیتے تھے لیکن اُن کو اسلام سے خارج نہ کیا گیا۔ کیوں؟اس لئے کہ اُس وقت شراب کی ممانعت کے متعلق کوئی حکم نہیں نازل ہوا تھا اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔ ہا ں جب حکم نازل ہو گیا اس کے بعد اگر کوئی شراب کو حلال سمجھ کر پیتا تو ضرور اسلام سے خارج ہو جا تا۔ تو بعض ایسی باتیں ہو تی ہیں کہ جب تک خدا تعالیٰ ان کے متعلق کوئی حکم نا زل نہ کرے اُس پر نبی اُسی طرح عمل ہو نے دیتا ہے جس طرح پہلے ہو رہا ہو۔ اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اور حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی شاہد ہے۔
وہ شخص کیسا نا دان ہے جو یہ کہتا ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود ؑکی ہتک کی ہے کیو نکہ اس کا گروہ ہم پر سب سے بڑ ا الزام ہی یہ لگاتاہے کہ ہم غلو کرتے ہیں ۔ اب اس سے کوئی پو چھے کہ کیا غلو کرنے والا بھی ہتک کر سکتا ہے؟ ہتک ہمیشہ وہی کر تا ہے جوا صل درجہ سے کم کر کے دکھانے کی کوشش کر رہا ہو ۔ ہتک کا الزام اُن پر ہے نہ کہ ہم پر کیونکہ بخیال ان کے ہم تو حضر ت مسیح موعود ؑ کے درجہ میں غلو کرنے والے ہیں اور وہ کم کرنے والے۔
پس میرے فقرہ کے وہ معنی کرنے کہ جن کی میرے ہی مضمون میں تردید کی گئی ہے نیک نیتی پر مبنی نہیں ہیں۔میں نے تو بتا دیا ہے کہ ایک بات جب تک پو شیدہ اور پردۂ اِخفاء میں ہوا سے اصل کے خلاف ما ننا ایک اور بات ہو تی ہے لیکن پر دہ اُٹھ جا نے پر پھر بھی غلطی سے نہ ہٹنا ایک اور بات ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص لاہور جائے وہا ں جا کر اسے دکھ پہنچے تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ۔لیکن اگر لاہور جانے سے پہلے رؤیا کے ذریعہ اس بات کا علم ہو جائے کہ وہاں جا کر مجھے دکھ پہنچے گا اور پھر چلاجائے تو یہ اُس کی نا دانی اور بے وقوفی ہو گی ۔ پہلی دفعہ جا نا اُس کی نا دانی نہیں ہو گی کیو نکہ اُسے علم ہی نہیں تھا لیکن جب اُسے بتا دیا گیا تو پھر جا نا اس پر الزام لائے گا۔
یہ تو ان لوگوں کی جہا لت ہے جو ہم پر حضرت مسیح موعود ؑ کی ہتک کا الزام لگاتے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ کیو ں وہ ایسا کہتے ہیں؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایسے لوگ تومجھ پر بھی اسی طرح حملے کرتے ہیں اور انسان کا کلام تو الگ رہا خداکے کلام کو سن کر اور سمجھ کر اور معنی کر لیتے ہیں۔پس جب اللہ تعالیٰ کے کلام کے متعلق ایسا کرنے والے ہیں تو پھر ہمیں کیا تعجب ہے۔ مگر یہ ضرور ہے کہ جو شخص حق کی تا ئید کے لئے کھڑا ہو تاہے وہ جھوٹ بولنے کی جرات نہیں کرتا کیونکہ جھوٹ بہرحالت میں جھوٹ ہی ہے خواہ سچ کی تائید کے لئے ہی کیوں نہ بولا جائے۔
ہم تو حضرت مسیح موعود ؑ کو خدا تعالیٰ کا نبی اور برگزیدہ مانتے ہیں کیا ہم مانتے ہوئے آپ کو نادان کہہ سکتے ہیں ؟ہاں وہ جو آپ کے درجہ کو گھٹا رہے ہیں وہ ایسا کہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔چنانچہ وہ اب اپنے ہا دی اور مرشد کو ’’ایک شخص، ایک شخص‘‘ ایسے حقارت آمیز الفاظ سے یا د کرتے ہیںاللہ تعالیٰ ان لوگوں کو حق دکھائے جو اِس بات کی کو شش میں لگے ہو ئے ہیں کہ ہم کو حق سے پھیر کر باطل کی طرف لے جا ئیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو نشان پر نشان دکھا تاہے مگر باوجو د اس کے جس طرح ایک کیمیا گر ایک آنچ کی کسر سمجھتا ہے اِسی طرح وہ ایک با ر اور کو شش کی کمی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ان کو توڑ دیں گے۔ چو نکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو سب پر غالب رکھے گا اِس لئے ان کی کو ششوں سے ہمیں کوئی فکر نہیں۔ مگر دل چاہتا ہے کہ وہ جو کبھی ہمارے تھے اِن کو بھی خدا حق قبول کرنے کی توفیق دے اور وہ پھر ہما رے ہو جائیںاور اِس طرح ہمارے راستہ سے یہ روک بھی دُور ہو جائے اور ہم اپنا فرض پوری توجہ سے ادا کر سکیں۔‘‘ (الفضل ۲۷؍جون۱۹۱۶ئ)
۱؎ البقرہ :۷۶
۲؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر
۳؎ متی باب ۲۲ آیت ۲۰۔۲۱
۴؎ النسآء : ۶۵
۵؎ ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۰۷
۶؎ حقیقۃ النبوۃ صفحہ ۱۴۱،۱۴۲ ۔ایڈیشن ۱۹۱۵ء
۷؎ چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ ۱۸۹
۸؎ براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۰۶
۱۹
دُعا پر بہت زور دو
(فرمودہ۱۶؍جون۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’دنیا میں دو قسم کی چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں ایک تو وہ جو کچھ عرصہ کے بعد پُرانی ہو جاتی ہیں اور انسان کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر رہتی ہیں اِس لئے آہستہ آہستہ اُن کو چھوڑ دینا پڑتا ہے۔ دوسری وہ چیزیں ہیں جو ہمیشہ نئی کی نئی رہتی ہیں اور ہر زمانہ میں انسان کے استعمال میں آتی رہتی ہیں اُن کے چھوڑ دینے میں انسان کا اپنا نقصان ہوتا ہے۔ اور جو اُنہیں چھوڑتا ہے گویا وہ اپنی کامیابی کو چھوڑتا ہے کیونکہ وہ کبھی پُرانی نہیں ہوتیں۔ جیسے کہ انسان کے پیدائش کے وقت تھیں اور جیسے کہ حضرت آدمؑ کے وقت سے اُن کی ضرورت تھی ویسے ہی موجودہ اور آئندہ زما نے میں بھی اُن کی ضرورت چلی جا تی ہے۔
مختلف عقائد اور مختلف خیالات بھی پُرانے اور نئے ہوتے ہیں ۔کئی خیالات تھے جو کسی زمانہ میں بالکل نئے تھے اور لوگ ان کو نہایت ضروری سمجھتے اور کہتے تھے کہ ترقی اُنہی کے ذریعہ ہو سکتی ہے مگر آج اُنہی کو پرانے خیالات کہا جاتا اور لغو قرار دیا جا تاہے۔ اور جس طرح ظاہری اشیاء نئی اور پُرانی ہو تی ہیں اِسی طرح خیالات اور عقائد بھی نئے اور پرانے ہو تے رہتے ہیںاور پھر ان میں بھی یہی حال ہے کہ بعض عقائد اور خیالات ایسے ہیںکہ ہمیشہ ایک ایسے ہی رہتے ہیں کبھی پرانے نہیںہوتے ۔ وہ دائمی صداقتیں ہوتی ہیں جن کو انسان کسی صورت میں بھی جھو ٹ قرار نہیں دے سکتا ۔ اس قسم کی ہمیشہ نئی رہنے والی چیزوں میں سے ایک بڑی چیز دُعاہے یہ بھی کبھی پُرانی نہیں ہوتی۔کو ئی زمانہ ایسا نہیں آیاکہ انسانو ں نے کہا ہو کہ اب یہ ہمارے لئے مفید نہیں رہی کیو نکہ پُرانی ہو گئی ہے یا اس لئے کہ نئے علوم، نئی ایجا دیں اور نئے اصو ل نکل آئے ہیں اب اِس کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ نہ پہلے کسی زمانہ میں ہوا ہے نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہو گا کہ لو گ دعا سے مستغنی ہو جا و یں بلکہ جتنا انسان ترقی کر تا جا ئے گا اُتنا ہی زیادہ دعا کا محتا ج ہو گا۔ بہت لو گوں نے اِس با ت کو سمجھا نہیں کہ علوم و فنو ن کی تر قی انسانی اعمال کی ترقی اور زیادہ دعا کا محتاج کر دیتی ہے۔یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ ایک شخص کے پاس اتنا بوجھ ہو جسے وہ مشکل سے اُٹھا سکتا ہو تو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی اَور کو اُ ٹھوا نے کے لئے آواز دے۔ مگر ایک ایسا شخص جس کے پاس ایسا بوجھ ہو کہ وہ اکیلا اُٹھا ہی نہ سکے تو ضرور ہے کہ اَور کو بُلائے کیونکہ جس قدر بوجھ زیادہ ہو تا ہے اُسی قدر مدد کی زیادہ ضرورت ہو تی ہے اِسی طرح جس قدر علوم و فنون بڑھے انسان کے اعمال بڑھ گئے۔اور جب اعمال بڑ ھ گئے تو ان کی مدد کی بھی زیادہ ضرورت ہوئی کیونکہ علوم کے بڑھنے کے ساتھ محنت اور مشقت بھی بڑھ گئی۔
دیکھ لیجئے جس وقت انسان صرف شکار پر گزارا کرتے اور لبا س نہیں پہنتے تھے اُس وقت انہیں صرف یہی کرنا پڑتا تھاکہ شکا ر کرتے اورانہیں پتھروں پر بھو نتے اور کھا لیتے بس دن رات میں انہیں یہی مشقت کرنی پڑتی تھی لیکن جب علوم نے ترقی کی تو مشکلا ت اور محنت دونو ں بڑھ گئیں تو علوم کی ترقی ذمہ داریوں اور بو جھو ں کی ترقی ہو تی ہے ۔وہ قومیں جو اِس وقت تر قی پر ہیں اِن کو دیکھو تو پتہ لگے کہ کس قدر کام میں مشغو ل رہتی ہیں لیکن جن قوموں نے ان کے مقابلہ میں ترقی نہیں کی وہ بہ نسبت ان کے کم محنت و مشقت کر تی ہیں کیو نکہ وہ اگر زیادہ محنت کریں تو ان کی زندگی مشکل ہو جا ئے۔ان کا آپس کا مقابلہ بہت زورسے ہو رہا ہے اور یہی بات ان کو دن رات محنت کرنے پر مجبور کر تی ہے۔پس علوم کی ترقی انسانی ذمہ داریوں اور بو جھو ں کو کم نہیں کر تی بلکہ اَور زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ چو نکہ اِس زمانہ میں علوم نے بہت زیا دہ ترقی کر لی ہے اس لئے جس قدر دعا کی ضرورت پہلے زما نہ میں تھی آج اُس سے بہت بڑھ کر ہے لیکن تعجب اور حیرت کا مقام ہے کہ انسان جس وقت سب سے زیادہ دعا کا محتاج ہے اُس وقت سب سے زیادہ غفلت اور لا پر واہی سے کام لے رہا ہے۔ اور یہ ایسی ہی بات ہے کہ جب کسی کو معمولی سی حرارت ہو تو دواپئے لیکن جب تیز تپ ہو جائے تو کہے کہ اب دوا کی ضرورت نہیں حالانکہ وہی وقت دوا پیئے کاہے۔تو گو انسان دعا کا ہمیشہ سے محتا ج چلاآرہا ہے مگر اِس زمانہ میں بہت ہی زیادہ ہے لیکن اِسی زما نہ میں بہت سے لو گ ایسے کھڑے ہو گئے ہیں جو کہتے ہیں کہ دعا ایک لغو اور پرانا خیال ہے صرف زبان کی حرکت سے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے حالا نکہ یہی لو گ دیکھتے ہیں کہ زبان کی حرکت انسان کو کنو یں میں گرا دیتی ہے اور زبان کی ہی حرکت اعلیٰ مدارج پر پہنچا دیتی ہے۔پھر دیکھو گداگر بھی زبان ہی ہِلاتے ہیں کیا انہیں زبان کی اِس حرکت سے مادی نفع نہیں مل جاتا؟ ایک بڑے دنیا دار شخص نے کہا تھاکہ لفظوں سے مادی فائدہ نہیں مل سکتا اس لئے دعاکرنا ایک لغوامر ہے مگر اُس کو یہ خیال نہ آیا کہ ایک محتا ج آکر سوال کر تا ہے اِس سوال کر نے پر پیسہ، دو پیسے، آنہ، دو آنے اس کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں کیا اس کو مادی فا ئدہ حا صل نہیں ہوا؟ ضرور ہوا ہے۔ پس اگر انسان پر گداگر کے الفاظ کا اثر ہو تا ہے اور باوجود اِس کے کہ وہ خود محتا ج ہو تاہے اُس کی دستگیری کرتاہے تو خدا جو کسی کا محتاج نہیںاُس کے حضور اگر کوئی عر ض کرے تو کیا وجہ ہے کہ وہ دستگیری نہیں کرے گا ۔یہ بہت نا دانی اور کم عقلی کی بات ہے اور جو لوگ اِس طرح کہتے ہیں انہوں نے دعا کو ایک ڈھکو سلہ سمجھ رکھا ہے۔اگر یہ لو گ تدبر سے کام لیتے تو اُنہیں دعا کی صداقت کے قبو ل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی کیو نکہ بعض عقائد تو ایسے ہوتے ہیں جن کا نتیجہ عمل کو چاہتا ہے مگر دعا ایک ایسی چیز ہے کہ انسان فوراً اس کا اثر دیکھ سکتا ہے اور ہمیشہ اور ہر زمانہ میں اس کا تجربہ کر سکتا ہے۔ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مخالفین کو چیلنج دیا تھا کہ اگر کسی میں جر أت ہے تو آئے میرے مقابلہ میں دعاکرے اور پھر دیکھ لے کہ کس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ؎۱ یہ ایک نتیجہ تھا اور مشاہدہ تھا جو ہر ایک کھلے طور پر دیکھ سکتاتھا مگر کسی کو اس کی جرأت نہ ہو سکی۔ تو اس مسئلہ میں کسی لمبی چو ڑی تقریر کی ضرورت نہیں ہے۔ انسان جب بھی خداکے حضور جھکے خدا اُس کی دعا کو قبول کر لیتا ہے اور اِس طرح وہ دعا کی صداقت کو دیکھ سکتا ہے اور خود تجربہ کر سکتاہے۔
دعاایک ایسی طاقتور چیز ہے کہ دنیا میں اور کو ئی طاقت اس کا قابلہ نہیں کر سکتی۔ اور بھی بہت بڑی بڑی طا قتیں ہیں مثلاً پانی کی طاقت، بجلی وغیرہ کی طا قت ہے مگر دعا کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ۔ایک بزرگ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ جس جگہ رہتے تھے اُن کے پڑوس میں ایک بڑا امیر رہتا تھا جو ہروقت گانے بجا نے میں مشغول رہتا جس سے انہیں سخت تکلیف ہوتی۔ ایک دن وہ اُس کے پا س گئے اور جا کر کہا دیکھو بھئی! میں تمہارا ہمسایہ ہو ں اِس لئے میرا بھی تم پر حق ہے۔ اوّل تو تمہیں اِس لغوکام سے خود ہی رُک جا نا چاہئے تھا لیکن اگر ایسا نہیں کیا تو اب میری خاطر ہی اِسے ترک کر دو کیو نکہ مجھے اس سے سخت تکلیف ہو تی ہے۔ وہ چونکہ بڑا رئیس اور صاحبِ رسوخ تھا اُس نے کہا تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے؟ ہم کبھی نہیں رُکیں گے۔ انہوں نے کہا اگر آپ اس طرح نہیں رُکیں گے تو ہم بھی مجبور ہیں ہم اور طرح سے روکیں گے۔ اُس نے کہا کیا تم روکو گے؟ کیا تم میں اتنی طاقت ہے؟ میں ابھی سرکا ری گارڈ منگواتاہوں۔ انہو ںنے کہا ہم گارڈ کا بھی مقابلہ کریں گے۔ اُس نے کہا تم ان کا کیا مقابلہ کر سکتے ہو؟ انہوں نے کہا۔ نادان! ہمارا مقابلہ توپوں اور بندوقوں سے نہیں ہو گابلکہ سہام اللیل سے ہو گا۔ لکھا ہے یہ الفاظ انہوں نے کچھ ایسے دردناک لہجہ میں فرمائے کہ اُس کی چیخیں نکل گئیںاور بول اُٹھا۔اس کا مقابلہ نہ میں کر سکتا ہوں اورنہ میرا بادشاہ کر سکتاہے۔آئندہ کے لئے میں اقرار کر تا ہوں کہ آپ کو گانے بجانے کی آواز نہیںسنائے دے گی۔تو دعا میں وہ طاقت ہے کہ کوئی توپ و تفنگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کیوں؟ اِس لئے کہ یہ تیر زمین سے نہیں بلکہ آسمان سے آتے ہیں ۔پھر انسانوں کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ خدا انسانوں سے لے کر خود پھینکتا ہے اور خداکے پھینکے ہو ئے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ کہتے ہیں کہ زمین میں کشش ہے اِس لئے جس قدر بلندی سے کوئی چیز گرے اُسی قدر زور سے گرتی ہے۔ خدا تعالیٰ یوں بھی سب بلندیوں سے بلند تر ہے اس لئے اُس کے ہاں سے آیا ہو ا تیر کو ئی روک نہیں سکتا۔ وہ پہا ڑوں کی روکوں اور قلعوں کی دیواروں کو چیرتا اور سب پردوں کو چاک کرتا ہوا منزلِ مقصود پر پہنچ جاتاہے۔
پس دعا ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو سب سے بڑا اور یقینی ہے۔ اِس سے میرا مطلب یہ نہیں کہ دیگر ذرائع سے کام نہ لیا جا ئے کیو نکہ جو لوگ دیگرذرائع سے کام نہیں لیتے اُن کی دعا بھی قبول نہیں ہو سکتی۔ دعا بھی اُس وقت قبول ہو تی ہے جبکہ دیگر ذرائع سے کا م لیا جائے۔ جس طرح دنیا میں سائل کے لئے یہ ضروری شرط ہے کہ وہ خو د کوئی محنت اور مشقّت نہ کر سکتا ہو یا جس قدر اس کی طاقت ہے اتنی کو شش کرے لیکن کا میا بی نہ ہو تو اس کے لئے سوال کرنا جا ئز ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔ حضرت عمر ؓ جب کسی ایسے سائل کو دیکھتے جو طاقتور اور محنت کرنے کے قابل ہو تا تو جو کچھ اُس نے سوال کر کے لیا ہوتاوہ بھی چھِین لیتے اور کہتے جا ئو جا کر محنت کرو اور کھا ئو کیو نکہ سائل وہی ہو سکتا ہے کہ جس قدر اُس کی ہمت ہو اُتنی کرے اس کے بعد اگر اُسے مدد کی ضرورت ہو تو سوال کرے۔ اِسی طرح خداتعالیٰ سے مدد حاصل کرنے کے لئے پکارنے سے پہلے انسان کے لئے ضروری ہے کہ جتنی اس کی اپنی طاقت اور ہمت ہو اُس کو کام میں لائے اور پھر دعا کرے کہ اے مولیٰ! میں نے اپنی طرف سے سب طاقت اور ہمت خرچ کر لی ہے لیکن میں کمزور اور عاجز ہوں آپ میری مدد کیجئے۔جب اس طرح کوئی دعا کرے گا تو اُس کے قبو ل ہونے میں کوئی روک نہیں ہو سکے گی ۔لیکن اگر کوئی خود ہا تھ پائوں توڑ کر بیٹھا رہے اور کہے کہ جو میں دعا کروں وہ قبول ہو جائے ۔یہ نا ممکن ہے۔
ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ اُس کے پاس بادشاہ آیاجس کو انہوں نے چند ایک نصیحتیں کیں۔مثلاً یہ کہ شراب نہ پینا ،ظلم نہ کرنا ،وہ کہتا گیا بہت اچھا۔ جب انہوں نے کہا کہ شکار کم کھیلا کرنا تو کہنے لگا۔ دعا کرو خدا مجھے ایسا کرنے کی توفیق دے۔ انہوں نے کہا۔ شکار چھوڑنے کی تمہا ری نیت نہیں ہے۔ اور باتوں کے متعلق تم نے دعاکے لئے کیوں نہ کہا اور اس کے بعد کہہ دیا ۔معلوم ہوتاہے اس طرح تم ٹا لنا چاہتے ہو۔ یہی حال آجکل لوگوں کا ہے۔ جس بات کو محنت سے نہ کرنا چاہتے ہوں یا سستی کی وجہ سے نہ کرتے ہوں اُس کے متعلق چاہتے ہیں کہ دعا ہو جائے حالانکہ دعا اُس شخص کے لئے ہتھیار ہے جو اپنی طاقت بھر محنت اور کوشش کرے اور پھر کامیاب نہ ہو سکے یعنی جس قدر اُس سے ہوسکتا ہے وہ محنت کرتا ہے لیکن کامیا ب نہیں ہو سکتا۔یا کسی مجبوری کی وجہ سے محنت کر ہی نہیں سکتا اُس کے لئے دعا ہے جو کمی یا نقص اُس کی محنت میں رہ جا تا ہے وہ دعا کے ذریعہ دُور ہو جا تا ہے۔
ہمارے اِس زمانہ میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے سب سے زیادہ مشکلات پیدا ہو گئی ہیں اس لئے سب زمانو ں سے زیادہ دعا کی ضرورت ہے کیو نکہ مقابلہ کے لئے ہر رنگ کے سامان پیدا ہو چکے ہیں ۔ یعنی شرارت کے، علوم کے،سا ئنس کے، تا ریخ و غیرہ کے اعتراض بڑ ھ رہے ہیں اور پوشیدہ تعلیمیں نکل رہی ہیںلیکن اِن کا مقابلہ کرنے کی ہر ایک انسان میں طاقت نہیں ہے کیونکہ جب تک تمام علوم سے واقف نہ ہو اُس وقت تک جواب نہیں دے سکتا۔اور تمام علوم سے واقف ہو نا کوئی آسان کام نہیں ۔پھر اِس زما نہ کی ترقیوں نے لو گو ںکو خدا تعالیٰ سے بالکل غافل کر دیا ہے اس لئے ان کو سمجھا نا بہت مشکل کام ہو گیا ہے۔اب اِن سامانوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا جو ہمارے ہا تھ میں ہیں بہت مشکل بلکہ نا ممکن ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چا ہئے تھا کیونکہ اِس آخری ز ما نہ میں خدانے جو مصلح بھیجا ہے اُس کا ہتھیار ہی خالص دعا ہے۔پہلے انبیا ء کے وقت اَور ہتھیار بھی استعمال کئے جاتے تھے مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں جب تلوار اُٹھائی گئی اور آپ کو جب سخت تنگ کیا گیاتو اِس کا جواب اُنہیں تلوار سے ہی دیا گیالیکن اِس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ کو تمام ہتھیاروں کی بجائے صرف دعاکا ہی ہتھیار دیا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے زمانہ میںجہاد کو قطعی حرام قرار دے دیا ہے ورنہ جہاد تو کہتے ہی اُس مقابلہ کوہیں جو دشمن کے سخت تنگ کرنے اور تکا لیف دینے پر بطور اپنے بچائو کے کیا جاوے لیکن یہ وہ زمانہ ہے کہ اِس میں اِتنی بھی اجا زت نہیں ہے تاکہ دعا او ر صرف دعا سے ہی اس جماعت کی ترقی ہو ۔کیو نکہ اس زمانہ میں مقابلہ کے سامان کثرت سے پیدا ہو چکے ہیں اور دن بدن ہو رہے ہیں لیکن دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جسے بیکا ر سمجھ کر چھو ڑ دیا گیا ہے اور اِس کے فائدہ رساں ہونے سے انکار کیا گیاہے اس لئے خدا نے چاہاہے کہ دعا کے ذریعہ اِس جماعت کو پھیلائے تا کہ ایک تو جو لوگ اِس کے اثر سے منکر ہیں وہ قائل ہو جا ئیں دوسرے اِس جما عت کے لئے آسانی ہو۔
اِس زمانہ میں یو رپ کے لوگ جس آرام طلبی اور آسائش میں پڑے ہو ئے ہیں ہم انہیں کہاں سمجھا سکتے ہیں سوائے اِس کے کہ ہما رے مبلّغ دعا ئیں کریں اور خدا کا فضل اُن کے دلوں کو پاک کر کے حق کی طرف پھیر دے۔ اِس وقت ہمارے پاس دعا ہی ایک ایسا ہتھیا ر ہے جس کے ذریعہ ہم کامیا ب ہو سکتے ہیں ۔زرتشت نبی کے خلیفہ جا ماسپ کی ایک کتاب ہے جس کا نام جاماسپی ہے اُس میں لکھا ہے کہ ایک نبی آخری زمانہ میں آئے گا اُس وقت شیطان بڑا زور آور حملہ کرے گا۔ وہ نبی اس شیطان سے جنگ کرے گااور کامیا ب ہو جائے گا۔ مگر کس چیز سے؟ تلوار اور بندوق سے نہیں بلکہ دعائوں سے ۔اس کے علاوہ یوں بھی حدیثوں میں آیا ہے کہ مسیح کے دم سے کا فر مریں گے ۔ ؎۲ ان باتوں سے پتہ لگتاہے کہ در حقیقت سامان اِس وقت کچھ نہیں کر سکتے۔
پس جب خدا تعالیٰ نے ہما ری تما م فتوحات کو دعائوں سے وابستہ کر دیا ہے تو اِس بات کی بہت ہی ضرورت ہے کہ ہم خصو صیت کے ساتھ دعائو ں کی طرف متوجہ ہوں ۔ اِس میں شک نہیں کہ ہماری جماعت کے لوگ دوسروں کی نسبت زیادہ دعائوں پر زور دیتے ہیں حتّٰی کہ لوگ ہنستے ہیں ۔ تاہم ابھی ضرورت ہے کہ خوب زور سے دعائیں کی جا ئیں لیکن اس سے پہلے یہ یقین کر لینا چا ہئے کہ دعا ایک ایسی چیز ہے جس کے سامنے کو ئی روک حا ئل نہیں ہو سکتی اور اس کے ذریعہ خطر نا ک سے خطرناک دشمن اِس طرح کچلے جا تے ہیں کہ دیکھنے والے حیران رہ جا تے ہیں۔ پس دعائوں پر بہت زور دو اور جتنا پہلے دیتے ہو اُس سے بھی زیادہ دو کیو نکہ دشمن جس قدرقوی ہو تاہے اُسی قدر زیادہ اُس کے مقابلہ کے لئے تیاری کی جا تی ہے۔ ہمارا دشمن بہت بڑا ہے اور جس قدر روکیں ہمارے راستہ میں ہیں اِتنی پہلے نہ تھیں ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۳؎ کہ وہ ایسا زمانہ ہو گا جب کہ اسلام کو تما م دینوںپر غالب کیا جاوے گاگویا اُس وقت باقی تمام دین بھی ظاہر ہو جائیں گے جن کے ساتھ اسلام کو مقابلہ کرنا ہو گا۔ اب دیکھ لو اِس کے لئے کس قدر محنت اور کوشش کی ضرورت ہے اور وہ محنت یہی ہے کہ ہم دعائوں میں زور سے لگے رہیں۔ہما ری جماعت نے دعائوںکا بہت تجربہ کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے وقت تو دعائوں کے ذریعہ ایسی ایسی کا میابیاں ہو تی تھیں کہ دیکھنے والے حیران اور ششدر رہ جا تے تھے۔ پس دعا ہمارے لئے کو ئی بند لفافہ نہیں کہ گھبرائیں کہ اِس کے اندر کیا ہو گا بلکہ کھلی اور واضح تحریر ہے جس کو ہم نے بار بار پڑ ھا ہے، اِس کے اثرات کو دیکھا اور اس کے نتائج کا مشاہدہ کیا ہے اِس لئے ہما رے لئے اِس کی طرف متوجہ ہو نا کچھ مشکل نہیں ہے۔ کیونکہ جس چیز سے ایک دفعہ انسان فا ئدہ حاصل کر لیتاہے دوسری دفعہ زیادہ رغبت سے اس کی طرف متوجہ ہوتاہے۔ہم میں سے خداکے فضل سے ہر ایک نے دعائو ں کا نتیجہ محسوس کیا ہوا ہے پھر کونسی چیز ہے جو ہمارے راستہ میں روک ہو سکے سوائے اِس کے کہ ہمارے نفس کی سستی اور کاہلی روک ہو۔ لیکن جس کام کے لئے ہم کھڑے ہیں اس میںسستی کا ایک منٹ بھی سخت مضر اور خطرناک ہے۔ کیا کو ئی سمندر میں یاخطرناک جنگل میں سست ہو کر لیٹ سکتاہے؟ ہر گز نہیں ۔ اِسی طرح ہم بھی ایک ایسے جنگل اور بیابان میں ہیں جس کے چاروں طرف درندے ہی درندے نظر آتے ہیں۔ پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ نما زوں کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی دعائوں پر بہت زور دیں۔اور یہ سمجھ لیں کہ جب باربار ایک جگہ دعا پڑتی رہتی ہے توپھر اس کے قبول ہو نے میں کوئی روک نہیں ہو سکتی ۔
مجھے اپنی ساری عمر میں آج تک کوئی ایسا اتفاق نہیں ہواکہ میں نے کوئی دعا کی ہو اور وہ قبول نہ ہوئی ہو ۔اور جہا ں منشائے الٰہی نہ ہو وہا ں دعاکرنے کی توفیق ہی نہیں ملتی ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت صاحب کی آخری بیماری میں مجھ سے دعاکرنے کی توفیق چھینی گئی۔ مجھے اِس سے گھبراہٹ بھی پیداہوئی کہ کیا مجھے آپ سے محبت نہیں ہے کہ آپ کی صحت کیلئے دعاکرنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔پھر میں نے اس بات کیلئے دعاکی کہ مجھے آپ کی صحت کے لئے دعاکرنیکی توفیق ملے لیکن بالکل نہ ملی۔مجھے دعاکرتے وقت کچھ روک سی معلوم ہوئی۔جب میںنے حد سے زیادہ دعاکرنے کی کو شش کر کے دیکھ لیا کہ طبیعت اِس طرف متوجہ نہیں ہو تی تو سمجھا اِس میں خداکی مصلحت ہے۔تو جب کوئی انسان سنجیدگی اور اخلاص سے دعاکرے تو اگر خداکا منشاء قبول کرنے کا نہ ہو تو اُسے توفیق ہی نہیں دیتا اور اگر توفیق دے تو ضرور قبول کر لیتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جب دعا میں اخلاص اور توکل پیدا ہو جائے تو وہ کبھی نہیں ٹلتی یہی بات خدا تعالیٰ نے اس میں فرمائی ہے کہ ۴؎ شکار کو گھیر کر کسی خاص جگہ تک لے جانے کو اِضْطَرَّ کہتے ہیں ۔ تو مُضْطَرّ کے یہ معنی بھی ہوئے کہ ایسا شخص جس کے سب سامان کٹ جا ئیں ۔بعض لو گوں نے اضطرار کو سمجھا ہی نہیں۔ وہ کہتے ہیں رونے، گڑ گڑ اکر دعا ما نگنے کا نام اضطراری دعاہے حالانکہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ مُضْطَرّ اُس انسان کو کہتے ہیںجس کے تمام آسرے اور اُمیدیں کٹ کرصرف خدا ہی خدا کا سہارا رہ جائے ۔ایسے انسان کی دعا قبول ہو تی ہے اِس کے علاوہ خواہ کوئی کتنا روئے یا گڑگڑائے اُس کی دعا قبول نہیں ہو سکتی ۔پس اگر تم لوگ ایسے رنگ میں دعائیں کرو گے تو وہ ردّ نہیں ہو ں گی۔رو کر تو بتوں پر چڑھا وے چڑھا نے وا لے بھی اُن سے دعائیں مانگتے ہیں اس لئے رونا دعاکے قبول ہونے کے لئے شرط نہیںبلکہ پوراپورا توکل اور آسرا سوائے خداکے اور کسی کا نہیں ہو نا چاہئے۔ ہر طرف خداہی خدا نظر آئے۔ایسے وقت جو انسان دعا کرے اُس کی کبھی ردّ نہیں ہوتی اور اگر ردّ ہونی ہو تو اُسے دعا کرنے کی توفیق ہی نہیں ملتی۔ اور جو خداکے برگزیدہ انسان ہوتے ہیں اُن کو قبول نہ ہو نے والی دعا کے متعلق پہلے ہی بذریعہ الہام یا کشف کے بتا دیا جاتاہے۔جیسے حضرت مسیح موعودؑ کو بتایا گیاکہ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَا ئِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَائِکَ۵؎ ان کے علاوہ اور لوگوں کے دلوں میں کچھ ایسی کیفیت پیدا کر دی جا تی ہے کہ دعا کرنے کی طرف پوری توجہ نہیں ہو سکتی اس سے معلوم ہو جا تاہے کہ منشائے الٰہی کچھ اَور ہے۔ غرض یہ بڑا کارآمد اور مفید ہتھیار ہے۔ دیگر سامانوں کے لحاظ سے تو ہما رے پا س کچھ بھی نہیں ۔ نہ حکومت ہے، نہ مال ہے، نہ دولت ہے، نہ فوج ہے ، نہ کو ئی ایسا سامان ہے۔ ہمارے کام جیسے ہو نے چاہئیں اُس کے مقابلہ میں بہت چھوٹے چھوٹے پیمانہ پر چل رہے ہیں ۔ پھر بھی قریباً تمام فنڈ مقروض ہی رہتے ہیں تو دنیا وی سامانوں کے ساتھ ہم اپنے دشمن کا مقابلہ نہیںکر سکتے۔ ہما را مقابلہ اِسی طرح ہو سکتاہے کہ خداکا فضل اور رحمت آکر ہمارے لئے راستہ صا ف کر دے۔ اور یہ تب ہو سکتا ہے جبکہ ہم مضطر ہو کر دعا ئیں ما نگیں اور خدا کے سوا کوئی سہا را اور امیدگاہ خیال نہ کریں ہما رے لئے صرف ایک خدا ہی ہو اور وہی ہر طرف دکھائی دے ۔ جس طرح کسی شا عر نے کہا ہے ۔ ؎
جِدھر دیکھتا ہوں اُدھر تُو ہی تُو ہے
جب ایسا ہو جائے تو خدا ضرور ہما ری دعائیں قبول کرے گا ۔ پس دعا ئوں میں لگ جائو اور اِس بات کا یقین رکھو کہ ضرور قبول ہو جائیں گی۔ اور اس بات کے لئے بھی دعا ما نگو کہ خدا تمہیں یہ دعائیں کرنے کی تو فیق دے۔ جس وقت خدا کا منشاء اور ارادہ انسان کے شامل حال ہو تاہے تو دعا کرنے کے عجیب عجیب طریق اُسے سُوجھ جا تے ہیں ۔بعض دفعہ تو الفاظ اور فقرات سکھائے جاتے ہیں۔
وہی فتنہ جو ہما ری جما عت میں ایک گمنا م ٹریکٹ کے ذریعہ بر پا کرنے کی کوشش کی گئی تھی ابھی وہ ٹریکٹ شائع نہیں ہو ا تھا کہ مجھے شملہ میں رئویا میںدکھا یا گیا کہ ہم کچھ آدمی ہیں جنہیں پہاڑ پر جا ناہے اور ایسا معلوم ہو تاہے کہ راستہ میں جنا ت ہیں جو نظر تو نہیں آتے لیکن ہمارے راستہ میں رُکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ میں اپنے ساتھیوں کو کہتا ہوں کہ وہ تم کو راستہ سے ہٹائیں گے لیکن تم ہر گز نہ ہٹنا اور یہ کہتے ہو ئے آگے بڑھتے جانا کہ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘۔ چنانچہ جس وقت ہم چلے ہیں تو انہوں نے روک ڈالنی شروع کر دی ہے مگر نظر نہیں آتے ۔جب ہم نے کہا کہ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ‘‘ تو وہ بھاگ گئے اور ہمارے راستہ سے روک ہٹ گئی ۔ اس رئویا کے بعد جب میں شملہ سے آیا تو اس ٹریکٹ کے ذریعہ حملہ ہو ا اور حملہ کر نے والے پو شیدہ رہے۔اِس کے جواب میں جو ٹریکٹ لکھا گیا اُس کے ٹائٹل پر یہی الفاظ لکھوائے گئے کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ شائع ہوتا ہے۔
تو خدا تعالیٰ خود دعا ئیں سکھا دیتا ہے مگر اُسی وقت جبکہ انسان مضطر ہو کر اُس کے آستانہ پر گر جائے۔ اللہ تعالیٰ ہما ری جماعت کو اِس بات کی توفیق دے تا یہ ایک ہی ہتھیا ر جو ہمارے لئے مخصو ص کیا گیا ہے اِسے استعمال کر سکیں اور ہمارے راستہ میں جو مشکلات ہیں وہ دُور ہوں اور ہمارے سپرد جو خدمت کی گئی ہے اُس کو پوراکر سکیں۔‘‘آمین
(الفضل ۴؍جو لائی۱۹۱۶ئ)
۱؎ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۸۱،۱۸۲۔ جدید ایڈیشن
۲؎ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال
۳؎ الصف: ۱۰ ۴؎ النمل:۶۳
۵؎ تذکرہ صفحہ ۲۶ ۔ایڈیشن چہارم
۲۰
مبلغین سلسلہ کی دعائوں سے مدد کرو
(فرمو دہ ۲۳؍جون۱۹۱۶ئ)
تشہد ، تعوذ اور سورۃ فا تحہ کے بعدحضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
۱؎
اورفرمایا:۔
’’میں اِس وقت جس مضمون کے متعلق کچھ بیا ن کرنا چاہتا ہوں وہ ہے تو بہت لمبا بلحاظ اِس زمانہ کی ضروریات کے کیو نکہ اِس زمانہ میں جب تک کسی بات کو کھول کر مشرح اور مفصل نہ بیان کیا جائے لوگ کم سمجھتے ہیں ورنہ صحابہ ؓ کے زمانہ میں بہت لمبی لمبی باتیں نہا یت مختصر فقرات اور جملات میں بیان کر دی جا تی تھیں اور سامعین اُسی کو کافی خیال کرتے تھے۔ غرض یہ مضمون تو اس قابل ہے کہ اس کی خوب تشریح کی جا ئے لیکن چونکہ چار پا نچ روز سے مجھے بخار آتا ہے اور ڈاکٹر صا حب نے بولنے کے متعلق فرمایا ہے کہ مضر ہے اس لئے میں اس کو مختصراً بیان کرتاہوں آگے ہر شخص اپنے اپنے فہم اور سمجھ کے مطابق سوچ لے۔
اِس وقت ہمارے کچھ مبلغ بیرو نجات میں کام کر رہے ہیں ایک انگلستان میں ہے، ایک ماریشس میں، ایک پورٹ بلیئرمیں ہے، ایک بنگال میں۔ اِسی طرح پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہیں ۔مدد، تائید اور نصرت کے تو سب ہی محتاج ہیں کیونکہ تمام انسانی کاموں کو اللہ تعالیٰ نے کچھ اس قسم کا بنا یا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سہا رے اور تعاون سے چلتے ہیں مگر ان میں سے جو بیرونی مما لک میں مبلغ ہیں وہ مدد کے زیادہ محتاج ہیں ۔محتاج ہی نہیں بلکہ زیا دہ مستحق ہیں اس بات کے کہ ہماری جما عت کے تمام لوگ اُن کی مدد کریں۔ پھر ان میں سے بھی مدد کے زیادہ مستحق وہ ہیںجن کی تبلیغ ایسے لوگوں میں ہے جو نسلاً بعد نسل اسلا م کے دشمن چلے آرہے ہیں اور جو ایسی روایتوں میں پلے ہیں جن میں اسلام کو نظر حقارت سے دیکھا گیا اور کمزور ترین بیان کیا گیا ہے۔
درحققیت تبلیغ کا کام کسی خاص شخص کا کام نہیں بلکہ ہر ایک احمدی کا فرض ہے پس نا دان ہے اور اپنے فرائض کو نہ سمجھنے والا ہے وہ انسا ن جو یہ خیال کرے کہ فلاں شخص جو تبلیغ کا کام کرتا ہے اپنا کام کر رہا ہے ۔کیو نکہ درحقیقت وہ ایک ایجنٹ ہے جس طرح تاجر کمپنیاں مختلف جگہوں میں اپنے ایجنٹ مقررکرتی ہیں اور ایسا نہیں ہوتا کہ ہر جگہ ما لکان کمپنی جا ئیں اِسی طرح ہما رے مبلغ ہما ری تمام جما عت کے ایجنٹ ہیں ۔کیو نکہ سب کی سب جما عت ہر جگہ جا نہیں سکتی اس لئے یہی ہو گاکہ ساری جماعت کے کچھ قائم مقام ہوں جو مختلف جگہوں میں کام کریں۔ جب صورت حال یہ ہے تو آسانی سے یہ بات سمجھ میںآسکتی ہے کہ ان قائم مقاموں کی کامیابی تمام جما عت کی کامیابی ہے اور ان کی ناکامی تمام جماعت کی نا کامی ہے ۔اگر کسی ملک کی فوج کسی جگہ لڑ رہی ہو تو ملک کے تمام لوگوں پر اُس کی مدد کرنا فرض ہے۔ اِس میں شک نہیںکہ وہ سپاہی جو بندوق اُٹھا ئے مقابلہ کر رہا ہے، اپنی قوتِ بازو دِکھلا رہا ہے لیکن وہ اپنے ملک کے سب لوگوں کا قائمقام ہو کر کھڑا ہے اس لئے اگر وہ گرتا ہے تو اس کا ساراملک گرجا تا ہے اور اگر اسے کامیابی اور فتح حاصل ہوتی ہے تو اُس کا سارا ملک فا تح کہلاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ قومیں جو سمجھدار ہیں اپنے ہر ایک سپاہی کی قربانی کو اپنی قربانی سمجھ کر اُس کے لئے ہر ایک قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں۔مگر وہ ملک کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا جس کے سپاہی دشمن سے لڑنے کے لئے جائیں اور دوسرے لوگ کہیں کہ وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لئے گئے ہیں ہمیں ضرورت نہیں کہ ان کی مدد کریں یا کسی طریق سے لڑائی میں حصہ لیں کیو نکہ جب تک ہر فرد کی طاقت ترازوئوں کے پلڑا میں نہ ڈال دی جائے اُس وقت تک مقابل کے پلڑا سے بھا ری نہیں ہو سکتا۔ پس مبلغین کاکام ان کانہیں بلکہ ہم میں سے ہر ایک کا ہے ۔خواہ وہ مرد ہے یا عورت ، خواہ وہ بڑا ہے یا چھوٹا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی کامیابی یا نا کامی کا اثر تمام جماعت پر پڑتاہے اس لئے ان کی مدد کرنا درحقیقت آپ اپنی مددکرنا ہے۔ پس ہماری جماعت کے تمام لوگوں کو چاہئے کہ ہر رنگ اور ہر ذریعہ سے جو خدا دے مبلغین کی مدد کریں ۔کیونکہ ان کو مدد دینا ان کے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے ہے اور اپنے بھی جسم کیلئے نہیںبلکہ روح کیلئے جو جسم سے بہت زیادہ قیمتی ہے۔
مبلغین کو مدد دینے کے ذرائع تو بہت سے ہیں ۔ مثلاًمال سے مدد کرنا ایک ذریعہ ہے ،ان کو مفید اور فائدہ مند نصائح کرنا دوسرا ذریعہ ہے، ان کے تبلیغی کام کے متعلق مفید مشورے دینا تیسرا ذریعہ ہے،ان کا ہا تھ بٹا نے کے لئے ایسے مضامین لکھنا جو اپنے اندر روحانیت رکھتے اور اسلام کی صداقت پر دال ہوں چوتھا ذریعہ ہے۔ پھر کثرت سے ٹریکٹ چھپوا کر ان کے پاس بھیجناکہ وہ تقسیم کر سکیں پا نچواںذریعہ ہے۔غرض انکی مدد کرنے کے بہت سے ذرائع ہیںلیکن ان سب سے زیادہ زور دار اورمفید و بابرکت ذریعہ جو ہے وہ دعا کا ذریعہ ہے۔ اس ذریعہ سے جس قدر مددکی جا سکتی ہے اور کسی طریق سے نہیں ہو سکتی ۔لا کھوں لا کھ ٹریکٹ چھپواکر ان کو بھیجے جائیں، کرڑوں کروڑروپیہ ان کے لئے خرچ کیا جائے، بے انتہاء مفید سے مفید مشورے اور اعلیٰ سے اعلیٰ نصیحتیں انہیں کی جائیں ،ان کے دل کومطمئن اور بافراغت رکھنے کے لئے ان کے بال بچوں کی خبر گیری میں کو ئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا جائے مگر ان سب سے بڑھ کر دعا مدد دے سکتی ہے کیونکہ یہ سب ذرائع ہوتے ہوئے انسان ناکام ہو جا تاہے مگر دعاکی مدد جس کے ساتھ ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہو تا۔دنیا میں دوسری قومیں مال کے لحاظ سے ہم سے بہت زیادہ دولت مند ہیں مگر باوجود اس کے وہ مذاہب کے میدان میں ہما رے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ اگر عوام کی نگاہ میں ان کی کچھ کامیابی ہے تو یہ کوئی کامیابی نہیں کیونکہ ان کے ذمہ دار اور حقیقت شناس لوگ اِس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ ہما را قدم پیچھے پڑ رہا ہے نہ کہ آگے ۔ اِسی طرح مشورہ دینے اور مفید باتیں بتانے والے بھی غیر اقوام میں بڑے بڑ ے عالی دماغ ہیں، مبلغین کے آرام و آسائش کا خیال رکھنے والے بھی وہ ہم سے زیادہ ہیں، ٹریکٹ بھی لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں شائع کرتے ہیںغرض یہ سب اشیاء دیگر اقوام کے پاس ہم سے بہت زیادہ ہیں اگر کچھ نہیں ہے تو دعا کا ہتھیار نہیں ہے اور مقابلہ کے وقت ہمیشہ انہی سامانوں اور ذرائع سے کامیابی ہوا کرتی ہے جو دشمن کے پاس کم ہوں یا بالکل نہ ہوں ۔ ان سامانوں کے ذریعہ غلبہ نہیں ہو ا کرتاجو دشمن کے پا س زیادہ ہوں۔مثلاً ایک قوم جس کے پاس کروڑروپیہ ہے وہ کہے کہ ہم اپنے دشمن پر جس کے پاس تیس کروڑ روپیہ ہے مالی رنگ میں فتح حاصل کر لیں گے تو یہ بالکل غلط بات ہے کیو نکہ پیشتر اِس کے کہ اس کے دشمن کا روپیہ ختم ہو اس کا اپنا ختم ہو جائے گا اس لئے اس کے لئے کا میابی حاصل کرنے کے لئے یہ ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اس مو جودہ جنگ میں متحدہ سلطنتوں کے مدبر اس بات پر غورو فکر کرتے رہتے ہیں کہ جرمن پر جلد تر فتح پا نے کا کونسا ذریعہ ہو سکتا ہے اس کے لئے وہ ہر ایک قسم کے سامانو ں کو دیکھتے ہیں اور پھر اس بات کا اندازہ لگاتے ہیں کہ کو نسی چیز جرمن کے پاس کم ہے تا اس کے ذریعہ اس پر فتح حاصل کی جائے۔ تو کسی دشمن پر فتح پانے کے لئے وہ ذریعہ نہا یت کا رآمد ،مفید اور جلد فیصلہ کرنے والا ہو تاہے جو دشمن کے پاس نہ ہو یا کم ہو۔ پس اِس وقت ہمارے پاس دعا ہی ایک ایساذریعہ ہے جو ہمارے مخالفین کے پاس نہیں اس لیے اس کے ذریعہ ہم ان پر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ۔
اِس وقت جو آیت میں نے پڑھی ہے اس میں نہا یت لطیف پیرایہ میں خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ دعا ان سب ذرائع سے جن سے کامیا بی حاصل ہو اکرتی ہے بڑھ کر ہے۔ اِس آیت میں ایک لفظ خدا تعالیٰ نے ایسا رکھا ہے جس نے دعاکی ایسی تشریح کر دی ہے جس سے پتہ لگ جاتاہے کہ اس کے مقابلہ میں اور کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی ۔ اللہ تعالیٰ فرما تاہے اے رسول! (محمدصلی اللہ علیہ وسلم) جب تجھ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو کہہ دے میں قریب ہوں۔ یہ آیت سورہ بقرہ میں آئی ہے اور وہ مدنی ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کا وہ وقت تھا کہ صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خداتعالیٰ کے متعلق سوال کرسکتے تھے حالانکہ سورہ ق میں جو کہ مکی ہے خداتعالیٰ فرما چکا ہے۔۔ ۲؎ اِس آیت میں قَرِیْبٌ نہیںبلکہ اَقْرَبُ کا لفظ موجود ہے ۔ پس مکی سورۃمیں خداتعالیٰ نے اپنے آپ کو اَقْرَبُ فرما دیا ہے تو پھر مدنی میں یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی کہ جب میرے بندے میرے متعلق تجھ سے سوال کریں تو یہ جواب دو کہ میں قریب ہوں کیونکہ جب مکی آیت کے ذریعہ انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ خداتعالیٰ بہت ہی قریب ہے تو پھر یہ سوال ہی کوئی نہیں کر سکتا تھااس لئے اس آیت کے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔اور اگر کوئی سوال کرتا بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتا سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لیکن قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور خدا کاکلام بِلا ضرورت یا بے جا نہیں ہو ا کرتااس لئے معلوم ہو ا کہ یہاں خدا تعالیٰ کا سوال بیان کرنا اور پھر اس کا جواب بھی دینا کوئی اور حکمت رکھتا ہے۔ اور یہاں جو قریب کا لفظ آیا ہے اس کا مطلب وہ قرب اور بعد نہیں جو عام طور پر سمجھا جا تا ہے کیو نکہ اس کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ ۔ اگر یہاں بھی یہی مراد ہو تی تو پھر یہ کیوں فرما تا کہ جب لوگ تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یہ جواب دیجئیو ۔گویا پہلے یہ جواب نہیں بتایا گیا تھا اور اب بتایا ہے تو معلوم ہو ا کہ یہاں سوال ہی کوئی اور ہے اوراس کے جواب میں جو قریب کہا گیا ہے وہ بھی کوئی اور معنی رکھتا ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چا ہئے کہ اِن دونوں آیتوں میں خدا تعالیٰ نے ایک عجیب فرق رکھا ہے اور وہ یہ کہ قرب اور بعد ہمیشہ نسبت کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ایک چیز ہمارے قریب ہے مگر وہی دوسرے کے بعید ہے۔ مثلاً یہ بچہ جو اِس وقت منبر کے پاس بیٹھا ہے یہ مجھ سے قریب ہے لیکن جو شخص آخری سرے پر بیٹھا ہے اُس کے بعید ہے اور جو اُس کے قریب بیٹھا ہے وہ مجھ سے بعید ہے ۔تو قریب اور بعید نسبت سے ہوتاہے۔ جب ایک چیز کوقریب کہتے ہیں تو ایک نسبت سے کہتے ہیں دوسری نسبت سے وہی چیز بعید ترین ہو سکتی ہے تو سو رہ ق میں خدا تعالیٰ نے فرمایاہے کہ ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم ہی اس کے متعلق یہا ں تک جا نتے ہیں کہ اس کے دل میں جو کچھ وسوسہ ہو تا ہے اس کو بھی جا نتے ہیں اور ہم ہی اس کے رگ و جان سے بھی قریب تر ہیں۔ اِس میں کی نسبت سے فرمایا ہے لیکن میں قریب کا لفظ کسی نسبت سے نہیں فرمایا بلکہ بِلانسبت فرمایا ہے اور کوئی حد بندی نہیں کی اِس میں ایک لطیف بات ہے اور وہ یہ کہ انسان جو اپنی حاجت خدا تعالیٰ کے حضور بیان کرتا ہے وہ مختلف اوقات میں مختلف اشیاء کے متعلق ہوتی ہے کبھی تو وہ انسانوں کے متعلق ہوتی ہے کبھی حیوان کے متعلق ،کبھی جا ندارو ں کے متعلق ہوتی ہے کبھی بے جا نوں کے متعلق، کبھی خدا کے متعلق ہوتی ہے کبھی ملائکہ کے متعلق، کبھی اس دنیا کے متعلق ہوتی ہے کبھی اگلے جہان کے متعلق ،کبھی اِس زمین پر رہنے والی چیزوں کے متعلق ہوتی ہے کبھی آسمان کی چیزوں کے متعلق۔ غرض انسان کی مختلف احتیاجیں ہیں اور ایسی وسیع ہیں کہ جن کی کو ئی حد بندی نہیں ہو سکتی لیکن انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جب کسی چیز کی اسے طلب ہوتی ہے تواُس کے حاصل کرنے کے متعلق کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرتاہے جو قریب ہو ۔
قریب کی کئی قسمیں ہیں۔ایک یہ بھی قریب ہے کہ کوئی ذریعہ جلدی میسر آجائے۔ مثلاً ایک شخص سفر پر جانا چاہتا ہے اُسے یکہ یا گھو ڑا تلاش کرنا ہے ہو سکتا ہے کہ کوئی یکہ یا گھوڑا اس کے مکان کے قریب ہو اور کوئی دُور ۔ مگر جب قریب یا دُور کا یکہ یا گھوڑا آپس میں یکساں ہوںگے یعنی ایک ایسے وقت پر اور ایک ہی ایسے آرام سے پہنچاتے ہو ں گے تو وہ یہ نہیں کرے گا کہ اپنے مکان کے قریب والے کو نہ لے اور بعید والے کو لے لے بلکہ وہ قریب والے کو لے گااور بعید والے کو چھوڑ دے گا۔ تو ہر ایک انسان اپنا مدعا حاصل کرنے کے لئے جو ذریعہ قریب دیکھتا ہے اُس کو لیتاہے اور بعید کو چھوڑ دیتاہے۔ اِس کے علاوہ قریب ایک اَور رنگ میں بھی ہو تا ہے یعنی وہ ذریعہ جو اپنے مدعا اور منزلِ مقصود کے قریب تر پہنچا دے۔ مثلاًکسی شخص نے ایک جگہ جا نا ہے اسے ایک ایسی سواری ملتی ہے جو اسے منزلِ مقصود سے ایک میل ورے چھو ڑ دیتی ہے، دوسری آدھ میل ، تیسری ایک چو تھا ئی میل اور ایک عین جگہ پر پہنچا دیتی ہے تو وہ ان میں سے اُسی کو اختیار کرے گا جو سب سے قریب پہنچانے والی ہو دوسریوں کو چھوڑ دے گا۔غرض بہت سے قرب ہیں جن کا کسی چیز میں پا یا جانا انسان دیکھتا ہے اور جب وہ سارے قرب کسی میں پا لیتا ہے تو اس کو اپنے مدعا کے حصول کے لئے لے لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے۔ کہ انسان اپنے مختلف مدعائوں کے لئے کوشش کرتا ہے اور ان کے لئے دیکھتا ہے کہ کو نسا ذریعہ اختیا ر کروں جس سے جلدکامیاب ہو جائوں گا۔مثلاً تبلیغ کا کام ہے اس کے متعلق انسان سو چتاہے کہ ٹر یکٹ تقسیم کروں یا لیکچر دوں یا خدا سے دعا کروں کہ وہ لو گوں کے دلوں کو کھو ل دے ۔خدا تعالیٰ فرما تا ہے جب کوئی انسان ذرائع کو سوچتے سوچتے یہا ں تک پہنچے کہ میں دعا کروں تو اُس کو کہہ دو کہ اللہ قریب ہے۔ قَرِیْبٌ اِلَیْہِ نہیں فرما یا اس کے لئے خدا نہ صرف اس انسان کے قریب ہے بلکہ ہر ایک چیز کے قریب ہے اور مدعا حا صل کرنے کا سب سے قریب ذریعہ ہے۔یوں قریب ہو نا ایک اور بات ہے لیکن جس مقصد کو حا صل کرنا ہو اُس کے قریب کر دینا اَور بات ۔مثلاً ایک بچہ جو قریب بیٹھا ہو اسے ایک چیز دی جا ئے کہ فلاں کو دے دو۔جتنے عرصہ میں وہ چیز کو پہنچائے گا اُس سے بہت جلدی بڑا انسان جس کے ہا تھ اُس سے لمبے ہو ں گے باوجود اُس سے دُور بیٹھے ہونے کے پہنچادے گاکیونکہ وہ لڑکے کی نسبت ایک ایسا ذریعہ ہے جو اس چیز کو پہنچانے کے قریب ہے۔ توخدا تعالیٰ فرما تاہے کہ میں تمہا رے قریب ہوں اور وہ مقصد جو تم حاصل کرنا چاہتے ہو اُس کے بھی قریب ہو ں ۔مثلاًکسی نے ولایت میںتبلیغ کا کام کرنا ہے۔ خدا تعالیٰ ولایت کے بھی قریب ہے اور یہاں کے بھی جہا ں وہ شخص رہتاہے۔اس لئے وہ یہا ں سے بات کو سن کر وہا ں فوراً پہنچا سکتا ہے ۔تو اس آیت میں قربِ مکا ن کا ذکر نہیں بلکہ یہ کہ حصولِ مدعا کے لئے جتنے قربوں کی ضرورت ہے وہ سب خدامیں موجود ہیں ۔مثلاً ایک شخص ولایت میں محتاج ہے وہ وہا ں سے ہمیں مدد کے لئے لکھتا ہے کہ میری مدد کرو ۔ اگر ہم اُس کو روپیہ بھیجیں تو پندرہ بیس دن کے بعد اُسے ملے گا لیکن اگر دعاکریں تو ممکن ہے اِدھر ہمارے منہ سے اُس کے لئے دعانکلے اور اُدھر خداتعالیٰ اس کا کو ئی انتظام کردے تو خدا تعالیٰ فرماتاہے کہ میں قریب ہوں اگر کو ئی مدعا حاصل کرنا چاہتے ہوتو مجھ سے کہو۔دیکھو ایک مالدار شخص کو بھی جب مال کی ضرورت ہو گی تو وہ کچھ دیر کے بعد صندوق سے نکا لے گا یا بنک سے ڈرا کرائے گا ۔ایک بیمار ڈاکٹر کے پا س جائے گا ممکن ہے کہ ڈاکٹر موجو د ہی نہ ہو اور اگر ہو تو اسے جواب مل جائے کہ ڈاکٹر صاحب سوئے ہو ئے ہیںلیکن خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لئے نہ ہاتھ کی ضرورت اور نہ پا ئوں کی ،دل ہی دل میں حاضر ہو سکتاہے کیو نکہ خداتعالیٰ فرماتاہے کہ میں قریب ہوں ۔پھر انسان کے قریب ہی نہیں بلکہ جس مدعا اور مقصد کو حاصل کرنا ہو اُس کے بھی قریب ہوں۔ادھر انسان یہ کہتاہے کہ الٰہی! مجھے فلاں چیز مل جائے وہ چیز لاکھوں کروڑوں میل کے فاصلہ پر ہو خدا تعالیٰ اُس پر اُسی وقت قبضہ کر لیتاہے کہ یہ ہمارے فلاں بندے کے لئے ہے کیو نکہ جس طرح خدابندے کے قریب ہے اُسی طرح اُس چیز کے بھی قریب ہے۔ تو کامیابی کے لئے یہ ذریعہ سب سے بڑا اور سب سے زیادہ مفید ہے۔ خدا تعالیٰ فرما تاہے۔میں تمہارے قریب ہوں اور بہت جلد حاصل ہو جانے والا ہوں۔دوسرے ذرائع کے لئے تمہیں بہت کچھ کرنا پڑے گا اور پھر بھی یقینی بات نہیں کہ ان سے کامیا ب ہو جائو لیکن میرے حاصل کرنے کے لئے صرف توجہ اور اخلاص کی ضرورت ہے جب کوئی میرا بندہ اس طریق سے دعا کرتا ہے تو میں اُس کی دعاقبول کرلیتاہوں ۔
قبول کرنے کے دو طریق ہیں ۔ایک یہ کہ بات مان لی ۔مثلاً یہ کہ ہم نے دعا کی کہ اے خدا !فلاں کی مدد کر ۔اِس کو خدانے سن لیا نہ یہ کہ اُس کی مدد بھی کر دی لیکن خداتعالیٰ فرماتا ہے جومجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار قبول کرتاہوں یعنی اِدھر عرض سنتا ہوں اُدھر اُسے پوراکردیتاہوں ۔پس چاہئے کہ وہ میرے احکام کو مانیں اور میری آوازکو سنیں کیونکہ جب میں ہی ایک ذریعہ ہوں تو مجھ پر ہی ایمان لائیں تاکہ اپنے مدعا میں کامیاب ہوں۔کامیابی حاصل کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے یہی سب سے بڑا گر بتایاہے اِس لئے ہماری جماعت کو چاہئے کہ کثرت سے دعائوں کے ساتھ ان مبلغوں کی امداد کرے جو ہمارے لئے اِس قدر مصائب اٹھا رہے ہیں لیکن اس لحاظ سے کہ ہمارے فرض کو وہ ادا کر رہے ہیں، ہما رے لئے ہی تکا لیف برداشت کر رہے ہیں، وہ اپنے بیوی بچوں سے ،مال و جائداد سے ،ملک و وطن سے دُور بیٹھے ہیں مگر تم قریب ہو۔ وہ سب دنیاوی تعلقات کو خدا کے لئے توڑ کر تبلیغ کے لئے گئے ہو ئے ہیں مگر تمہا رے سارے تعلقات وابستہ ہیں۔ تمہیں سمجھنا چاہئے کہ جس طرح اُنہوں نے تمہارے لئے قربانی کی ہے اُسی طرح اُن کا بھی حق ہے کہ تم ان کے لئے قربانی کرو۔ پس تم لو گ جہاں اَور طریق سے ان کی مدد کرو وہاں دعائوں سے بھی ضرور ان کی تائید کرو اور یقین رکھو کہ یہی ایک ذریعہ ہے جس سے تم جلد سے جلد کامیاب ہو سکتے ہو کیو نکہ خدا تعالیٰ فرماتاہے کہ میں تمہا رے بھی قریب ہوں اور تمہا رے مدعا اور مقصد کے بھی قریب ۔جیسے تار برقی ہے ایک جگہ ٹک ٹک ہوتی ہے تو سینکڑوں میلوں پر فوراً خبر پہنچ جا تی ہے۔ خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں توتا ر کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی لیکن اس سے میں نے یہ بتایا ہے کہ یہ تار کا قرب جب اِس قدر مفید اور فائدہ رساں ہے تو خدا تعالیٰ جس کا قرب اِس سے بہت ہی زیادہ ہے وہ کس قدر مفید ہو گا اس کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں لگا سکتا ۔وہ اِدھر سنتا اور اُدھر قبول کر لیتا ہے خواہ کتنے ہی فاصلے پر وہ مدعا ہو ۔
غرض ایسا آسان اور سہل اور کوئی کامیا بی کا طریق نہیں ہے اس لئے ہماری تمام جماعت کو چاہئے کہ ان لوگوں کے لئے جو اپنے بال بچوں، مال اور اموال، خویش و اقارب کو چھوڑ کر ایسے کام کی خاطر دُور دراز ملکوں میں گئے ہو ئے ہیں جس کا کرنا ہمارا بھی فرض ہے اور پھر ایسے لوگوں میں گئے ہیں جن کے اخلاص اور عادات سے واقف نہیں ،ان مشکلات کے ہو تے ہوئے وہ کام کر رہے ہیں بہت دعائیں کی جائیں ۔اللہ تعالیٰ ہماری جماعت میں اِس بات کے احساس کو پیدا کرے تا علاوہ اَور رنگ کی مدد کرنے کے دعا سے بھی ان کی مدد کریں جو محض اللہ کی خاطر اپنے ملک سے بے ملک ،اپنے وطن سے بے وطن ہوئے ہیں ۔خداتعالیٰ ان کی زبانوں میں برکت دے ،دلوں میں ایمان مضبوط کرے اوراعمال میں تقویٰ اور سداد پیداکرے ۔ان کی باتیں سننے والے ان سے مسرور ہوں اور انہیں عظمت کی نگاہ سے دیکھیں ۔دشمن کی نظروں میں وہ ذلیل نہ ہوں اوران کی نظرمیں کوئی بڑے سے بڑا دشمن ایسانہ آئے جس سے وہ مرعوب ہوجائیں ۔‘‘آمین (الفضل ۸؍جولائی۱۹۱۶ئ)
۱؎ البقرہ: ۱۸۷ ۲؎ ق: ۱۷
۲۱
دعائو ں کے قبول ہو نے کے وقت سے فا ئدہ اُٹھا ئو
(فرمودہ ۷؍جولائی۱۹۱۶ء )
تشہد،تعوذ اور سورئہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
۱؎
اور فرمایا:۔
’’ہر ایک کام کا ایک وقت ہو تا ہے اُس وقت جس خوبی اور عمدگی سے وہ کام ہو سکتاہے دوسرے وقت میں اُس خوبی اور عمدگی سے نہیں ہو سکتا اور یہ بات چھوٹے چھوٹے کاموں سے لے کر بڑے بڑے کاموں میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔ہر ایک کام اپنے خاص وقت کے ساتھ وابستہ ہو تاہے اُس وقت میں اگر کیا جائے تو جیسے اعلیٰ درجہ کے نتائج اس سے مترتب ہوتے ہیں دوسرے وقت میں ویسے نہیں ہو سکتے ۔اور بعض کام تو اس قسم کے ہیں اگر انہیں مقررہ وقت پر نہ کیا جائے تو دوسرے وقت میں ہوتے ہی نہیں ۔ہر شخص اپنے کاموں میں اِس بات کو دیکھ لے کہ جس رنگ میں وہ کام کرتاہے یا جو وہ کام کرتاہے اُس میں اگر غور کرے گاتو اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ اصل ہر ایک کام میں جا ری ہے ۔ایک زمینداراپنے زمیندارے پر غورکرسکتاہے وہ مختلف کھیتیاں، غلے اور ترکاریاں بوتاہے مگر یہ نہیں ہو تاکہ تمام سال میں جس وقت وہ بیج ڈالے اُسی وقت وہ کھیتی تیار ہو جائے۔گیہوںکے بونے کے لئے ایک وقت مقرر ہے اگر اُس وقت وہ نہیں بوتا تو کھیتی نہیں ہوسکتی۔ مقررہ وقت پر اگر ادنیٰ بیج ڈالے تو بھی اچھے دانے حاصل کر لیتا ہے مگر بے وقت اعلیٰ درجہ کا بیج ڈالے تو بھی کچھ نہیں ہو گا ۔پھر بعض کھیتیاں تو ایسی ہیں کہ اگر انہیں وقت مقررہ پر بویا جائے تو اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہیں اور اگر دوسرے وقت پر بویا جائے توہو تو جاتی ہیں مگر ادنیٰ درجہ کی ہو تی ہیں۔اور بعض ایسی ہیں اگر انہیں بے وقت بو یا جائے تو سبزہ تو ہو جا تاہے مگر پھل کو ئی نہیں آتا یعنی نتیجہ کچھ نہیں نکلتا ہا ں اگر اپنے وقت پر انہیں بویا جائے تو ان سے بہت فائدہ حاصل ہو سکتا ہے ۔یہی بات تمام پیشوں میں چلتی ہے ۔یعنی ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر ہے ۔لو ہا ر لوہے کو تپاتاہے اس کے تپنے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے۔ اُس وقت کی ضرب جیسی کارآمد اورمفید ہوتی ہے ایسی آگے پیچھے کی نہیں ہوتی۔ اگر زیادہ گرم ہو نے پر ضرب پڑے تو بھی خراب کر دیتی ہے اور اگر تھوڑے گرم پر پڑے تو بھی۔ لوہار خوب سمجھتاہے کہ مجھے کس وقت ضرب لگانی چاہئے تمام کاموں کا یہی حال ہے ۔
دیکھو اب جو لڑائی ہو رہی ہے اس کے متعلق اخباریں پڑھنے والے خوب جانتے ہیں کہ سلطنتوں کے ذمہ دار اشخاص یہی کہتے ہیں کہ ہم اُ س وقت کا انتظار کررہے ہیں جبکہ دشمن کو بالکل کچل دیں ۔یوں تو ہر روز ہی لڑائی ہو تی ہے مگر اس کے خاص خاص وقت بھی مقرر ہو تے ہیں اُس وقت کی ضرب لگی ہوئی دشمن کو ہلاک کر دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کا جرنیل وہی سمجھا جاتا ہے جو ایسے وقت کو معلوم کر سکے ۔
میں نے ہر ایک کام کے لئے جو وقت مقررہ بتایا ہے وہ کو ئی جا دو یا ٹونے کی طرح نہیں ہو تا کہ اس کے آنے سے کوئی خاص اثر پیدا ہو جا تاہے اس لئے وہ کام ہو جاتاہے بلکہ میری اِس سے یہ مراد ہے کہ جس وقت کسی کامیابی کے تمام سامان مہیاہو جاتے ہیں وہی اُس کے کرنے کا وقت ہو تاہے۔اگر گیہوں کا دانہ ایک خاص وقت میں بونے سے اُگتاہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اُس وقت اُس میں کوئی خاص بات پیدا ہو جاتی ہے بلکہ یہ کہ گیہوں کے اُگنے کے لئے جو سامان ضروری ہو تے ہیں وہ اُس وقت مہیا ہو جا تے ہیں اگر وہی سامان کسی دوسرے وقت مہیا ہو سکیں تو اُس وقت بھی ضرور اُگ آئے۔ تو ضروری سامانوں کے مہیا ہو نے کا نام وقت مقررہ ہوتاہے ۔ مثلاً انسان کا معدہ ہے رات بھر آرام پا تاہے صبح کے وقت تمام اعصاب امن اور سکون میں ہو تے ہیں ،پہلی غذا ہضم ہو چکی ہو تی ہے اور وہ وقت ایسا ہو تا ہے جبکہ معدہ چاہتاہے کہ اُس میں غذ ا ڈالی جائے اور اعصاب اِس بات کے منتظر ہو تے ہیں کہ خوراک کو استعمال کر کے طاقت حا صل کریں اِس لئے دانا لوگوں نے یہ مثل بنائی ہے:۔
یک لقمہ صباحی
بہترز مرغ و ماہی
صبح کے وقت ایک لقمہ کھا نا دوسرے اوقات میں مرغ اور مچھلی کھا نے سے بہتر ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اُس وقت اُس لقمہ کو ہضم کرنے کے جیسے ذرائع مو جو د ہو تے ہیں کسی دوسرے وقت میں ویسے نہیں ہو تے۔ تو وقت مقررہ سے مراد سامانوں کا مہیا ہو نا ہو تاہے۔ جب کسی کام کے سب سامان مہیا ہو جاتے ہیں تو وہ اُس کا وقت مقررہ ہو تاہے اور اُس وقت اس کا کرنا بہترین نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوتاہے۔
میں نے پچھلے دو جمعوں میں دعا کے متعلق کچھ بیان کیا تھا اور بتایا تھاکہ یہ کیسی ضروری ہے اور جو کام اِس سے نکل سکتے ہیں وہ اور کسی ذریعہ سے نہیں نکل سکتے ۔آج میں اِس بات کے متعلق کچھ بیا ن کروں گا کہ جس طرح دوسرے تمام کاموں کے لئے ایسے اوقات مقرر ہیں جن میں اُنہیں کرنے سے بڑے بڑے اعلیٰ ثمرات پیدا ہو تے ہیں اسی طرح دعاکے بھی اوقات مقرر ہیں۔ ان وقتوں میں کی ہو ئی دعا بھی بہت بڑے نتائج پیداکرتی ہے۔اور دوسرے اوقات میں اس سے دوگنی چوگنی دعا بھی وہ کام نہیں کرتی جو وقت مقررہ کی ایک سیکنڈ کی دعا کر جا تی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے اِتَّقُوْا دَعْوۃَ الْمَظْلُوْمِ ۔ ؎۲ مظلوم کی دعا سے ڈرو۔ کیوں؟ اس لئے کہ اُس کی دعا قبو ل ہونے کا وہ وقت ہوتاہے کیو نکہ جب وہ اپنے اوپر ہر طرف سے مصائب ہی مصائب دیکھتا اور خداکے سِواکوئی سہا رانہیں پا تا تو اُس کی تمام توجہ خدا ہی کی طرف پھر جا تی ہے اور وہ تمام و کمال خداہی کے آگے گر پڑتاہے ۔اُس وقت وہ جو دعا کرتاہے قبول ہو جا تی ہے کیو نکہ دعا کے قبو ل ہو نے کے سامانوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کا سامان یہ بھی ہے کہ انسان کی ساری توجہ ہر طرف سے ہٹ کر خداہی کی طرف ہو جائے چونکہ مظلوم کی یہی حالت ہو تی ہے اس لئے اس کے لئے یہ بھی ایک ایسا مو قع ہو تاہے جبکہ اس کی دعا تمام روکوں کو چیرتی ہوئی آسمان پر جا پہنچتی ہے ۔
اِسی طرح دعاکے قبول ہو نے کے اَور اوقات بھی ہیں لیکن وہ روحانی ہیںجن کا بیان کرنا کوئی آسان کام نہیں اور پھر ان کا سمجھانا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ وہ ظاہری سامانوں کی حدبندی کے نیچے نہیں ہوتے بلکہ وہ انسانی قلوب کی خاص حا لتیں اورکیفیات ہیںجنہیں وہ انسان محسوس کر سکتاہے جس پر وہ حالت وارد ہو ۔گو خداتعالیٰ نے ان کے سمجھنے اور سمجھانے کے لئے بھی سامان مہیا فرمادئیے ہوئے ہیں مگر پھر بھی ان کا بہت کچھ تعلق ذوق سے ہے اس لئے ہر شخص کے لئے ان کو سمجھنا آسان نہیں ہے ۔
میں جب حضرت خلیفہ اوّل سے بخاری پڑھا کرتاتھاتو ایک رئویا دیکھا جس کا تعلق اِس بات سے تھا کہ ایک حدیث پڑھی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کے متعلق پوچھاگیا کہ کس طرح ہو تی ہے ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مِثْلَ صِلْصِلَۃِ الْجَرَسِ۳؎ مجھے اس سے تعجب ہو ا کہ گھنٹے کی آواز سے وحی کو کیا تعلق ہے؟ رئویا میں میں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا۔ میںنے دیکھا کہ میرا دل ایک کٹورے کی طرح ہے جیسے مراد آبادی کٹورے ہو تے ہیں اُس کو کسی نے ٹھکورا ہے جس سے ٹن ٹن کی آواز نکل رہی ہے اور جوں جوں آواز دھیمی ہوتی جا تی ہے ما دہ کی شکل میں منتقل ہو تی جا تی ہے۔ہو تے ہوتے اس سے ایک میدان بن گیا ہے اس میں سے مجھے ایک تصویر سی نظر آئی جو فرشتہ معلوم ہونے لگا ۔میں اُس میدان میں کھڑا ہو گیا۔اُس فرشتہ نے مجھے بلایا اور کہا کہ آگے آئو ۔جب میں اس کے پاس گیا تو اُس نے کہاکیا میں تم کو سورئہ فاتحہ کی تفسیر سکھا ئوں؟میں نے کہا سکھائو۔ اُس نے سکھا نی شروع کی ۔سکھا تے سکھاتے جب تک پہنچا تو کہنے لگا تمام مفسرین میں سے کسی نے اِس سے آگے کی تفسیر نہیں لکھی سا رے کے سارے یہاں آکر رہ گئے ہیں لیکن میں تمہیں اگلی تفسیر بھی سکھا تا ہوں، چنا نچہ اُس نے ساری سکھائی ۔جب میری آنکھ کھلی تو میں نے اِس بات پر غور کیا کہ اِس کا کیا مطلب ہے کہ تمام مفسرین نے تک کی تفسیر کی ہے آگے کی کسی نے نہیں کی ۔اِس کے متعلق میرے دل میں یہ تأویل ڈالی گئی کہ تک تو بندے کا کام ہے جو اس جگہ ختم ہو جاتاہے آگے سے خداکاکام شروع ہو جا تاہے ۔تو تمام مفسرین کے اس حصہ کی تفسیر نہ لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اُس حصہ کی تفسیر توکر سکتا ہے جو انسانو ں کے متعلق ہے اور جن کاموں کو انسان کرتاہے اُن کو بیان کر سکتاہے مگر اُس حصہ کی تفسیر کرنا اُس کی طاقت سے باہر ہے جس کا کرنا خداتعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہے کہ سو رۃ فاتحہ کے دو حصے ہیں ۔ آدھی بندہ کے لئے اور آدھی خدا کے لئے۔ ۴؎ آدھی میں بندہ طالب اور خدا مطلوب۔ آدھی میں خدا طالب ہے اور بندہ مطلوب ۔ جس حصہ میں بندہ طالب ہے اور خدا مطلوب اُس کے متعلق وہ بتاسکتاہے اور دوسراحصہ جو خدا سے تعلق رکھتاہے اُس کے متعلق کچھ نہیں بتاسکتا اور اس حصہ کی کوئی کیفیت نہیں بیا ن کر سکتا۔اِسی سبب سے سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب فتوح الغیب میں لکھا ہے کہ انسان کا قلبی تعلق جو خدا سے ہو تاہے اُس کی نسبت پیر اپنے مرید کا اور مرید اپنے پیر کا پتہ نہیں لگاسکتا کہ کس قدر ہے۔ ۵؎ تو سے وہ باریک کیفیات شروع ہو تی ہیں جن کو کوئی انسان بیان نہیں کر سکتا اِسی طرح دعاکے متعلق بعض ایسی باتیں ہیں جن کو انسان نہیں بتا سکتا ہاں جس پر وہ وارد ہو تی ہیںوہ انہیں خوب جانتاہے۔ لیکن بعض باتیں خدانے اپنے فضل اور کرم سے انعام کے طور پر لوگوںکو بتا بھی دی ہیں تاکہ وہ لوگ جو قلبی کیفیات سے واقف نہیں ہو تے وہ بھی ان پر عمل کرکے دعاکا مزہ چکھ لیں۔ چنا نچہ ان میں سے ایک مظلوم کی دعا ہو تی ہے۔
بہت لو گ ایسے ہو تے ہیں جو مصائب اور مشکلات کے وقت اپنے لئے یا دوسروں کے لئے بد دعا کر بیٹھتے ہیںاور وہ موقع جو خدانے ان کو دعا کے قبول کرانے کا دیا تھا کھو دیتے ہیںلیکن یہ بہت بڑی غلطی ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔اُس وقت جب کوئی مظلوم ہو کسی قسم کی بددعانہ کرے بلکہ اپنے لئے دعاکرے کیونکہ خدانے اُسے دعا کرنے کے لئے بہت عمدہ موقع دیا ہے اور دعا کے قبول ہونے کا یہ ایک ایسا وقت ہے جسے ہر ایک شخص بخوبی سمجھ سکتاہے۔
اِسی طرح دعاکے قبول ہونے کا ایک اور وقت ہے جس کے معلوم کرنے کے لئے بھی باریک کیفیات سے واقف ہونے کی ضرورت نہیں اَور وہ وقت رمضان کا مہینہ ہے ۔یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس کو خداتعالیٰ نے روزوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے جس سے پتہ لگتاہے کہ اس کا روزوں سے ضرور بہت بڑا تعلق ہے۔اس کے روزوں کے ساتھ بیا ن کرنے کی وجہ یہی معلوم ہو تی ہے کہ جس طرح ایک مظلوم کی ساری توجہ محدود ہو کر ایک ہی طرف یعنی صرف خدا ہی کی طرف لگ جا تی ہے اِسی طرح ماہِ رمضان میں مسلمانوں کی توجہ خدا کی طرف ہو جا تی ہے اور قاعدہ ہے کہ جب کوئی بہت سی چیز محدود ہو جائے تو اس کا زور بہت بڑھ جا تاہے چنانچہ جہاں دریا کا پا ٹ تنگ ہو تاہے وہاں پا نی بڑے زور سے چلتاہے اور جہاں چوڑا ہو تاہے وہا ں ایسا زور نہیں ہوتا ۔کشمیر کے راستے میں جہلم کا دریا پڑتاہے ۔میں نے دیکھا ہے جہاں پہاڑوں سے تنگ ہو کر گزرتاہے وہا ں اگر اس میں بڑی بڑی لکڑیاں ڈال دی جائیں تو بھی اُن کو چورچور کردیتا ہے لیکن جب وہی دریا نیچے آکر چوڑا ہو جا تاہے تو لوگ اُس میں تیرتے اور کشتیاں چلاتے ہیں ۔تو جو چیز پھیلی ہوئی ہو اُس کا زور کم ہو تاہے اور جو محدود ہو اُسکا زیادہ۔ جب کسی انسان کی دعا ایسی حالت میں ہوتی ہے کہ اس کی نظر بہت سی طرفوں میں جا سکتی ہے یعنی کبھی وہ سمجھتاہے کہ فلاں اسباب سے کامیاب ہو جائوں گا کبھی فلاں سے ،کبھی کسی ذریعہ کو کامیابی کی راہ سمجھتاہے کبھی کسی کو ،ایسی حا لت میں اُس کی دعا ایک وسیع میدان میں سے گزرتی ہوئی جا تی ہے مگر جو شخص مظلوم ہو تاہے اُس کی دعا محدود ہو جاتی ہے۔
دعا، خواہش، آرزو اور التجا۔ ان چاروں چیزوں کا بڑا سمندر ہے جس میں پھیل کر انسان کی دعا کمزور ہو جا تی ہے مگر مظلوم کے لئے سارے دروازے بند ہوتے ہیں اور صرف خداہی کی طرف کا دروازہ کھلا ہو تاہے اِس لئے اُس کی دعامیں ایسا زور پیدا ہو جاتاہے کہ وہ ضرور قبول ہو جا تی ہے اور اس کے راستہ میں جو چیز روک بنتی ہے اُسے اُکھا ڑ کر دُور پھینک دیتی ہے تو ایک مظلوم کے لئے وہ سامان مہیا ہو جاتے ہیں جو دعاکے قبول ہو نے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ اگر اُس وقت سے وہ فائدہ اُٹھائے تو اُس کے لیے بڑے نیک نتائج پیدا ہو جاتے ہیں۔ اِسی طرح رمضان کے مہینہ میں وہ اسباب پیدا ہو جا تے ہیں جو دعاکی قبولیت کا باعث ہوتے ہیںاور وہ یہ کہ اس مہینہ میں ایک جما عت کا اتحاد ہو جاتاہے۔ یوں تو دوسرے دنوں میں بھی مسلمانوں میں ایک ایسی جماعت ہوتی ہے جو راتوں کو عبادت کرتی ہے مگر اِس زمانہ میں لوگوں کا اکثر حصہ ایسا ہے جو تمام رات آرام سے پڑا سوتاہے لیکن رمضان کے مہینہ میں سحری کی خا طر سب کو اُٹھنا پڑتاہے اور جب کوئی اُٹھتا ہے تو سوائے اِس کے جو بہت ہی غا فل ہو ہر ایک کچھ نہ کچھ عبادت بھی کرتاہے کیو نکہ وہ سمجھتاہے کہ یہ جو مجھے وقت ملا ہے اِس سے فائدہ ہی اُٹھا لوں۔ تو جس طرح ایک چیز میں محدود ہو کر زور پیدا ہو جا تاہے اِسی طرح ایک جگہ ہر روز ہزاروں لاکھوں آدمیوں کی دعائیں پڑنے سے بھی بہت زور پیدا ہو جا تاہے۔ رمضان میں لاکھوں لاکھ انسانوں کی پے درپے دعائیں جب خدا کے حضور پہنچتی ہیں تو ضرور قبول ہو جا تی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں ردّ کرنے میں بڑا محتاط ہے ۔پس ایسی حالت میں اگر ظاہری سامان نہ بھی ہوں تو بھی خداتعالیٰ قبول کر لیتاہے ۔پھر ان دعاکرنے والوں میں سے بعض بندے ایسے بھی ہو تے ہیں جن کی دعائیں خداکے حضور قبول ہو نی ہو تی ہیں اور بعض کمزور بھی ہو تے ہیں مگر جب سارے مل کر دعائیں کرتے ہیں تو سب کی قبول ہو جا تی ہیں اور کمزور بھی کامیاب ہو جا تے ہیں۔ دیکھو فوجیں لڑتی ہیں ان میں سے سارے سپاہی بہا در نہیں ہو تے مگر ایک پلٹن ایک کمپنی، ایک رجمنٹ ،ایک بٹالین میں سے جب دو تین آدمی بہادری کے تمغے حاصل کر لیتے ہیں تو ساری بٹالین مشہورہو جا تی ہے ۔اب کوئی یہ نہیں کہتا کہ اس کے فلاں فلاں سپاہی بہادر نہیںبلکہ سب کو مجموعی طور پر بہادرکہا جا تا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ خاص انعام خاص اشخاص کو ہی ملتے ہیں مگر عام شہرت میں بزدل بھی شامل ہوتے ہیں۔ اِسی طرح رمضان کے مہینہ میں جب ایک جماعت مل کر دعائیں کرتی ہے تو کمزوروں کی دعائیں بھی قبول ہو جا تی ہیں۔
اِن دنوں کی دعائیں خاص طور پر قبول ہو تی ہیں اس لئے کہ ہزاروں انسانوں کی توجہ مل کر خداتعالیٰ کے حضور پیش ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ ردّ نہیں کرتا۔پھر تمام جماعت کی جما عت ایک کرب کی حالت میں ہوتی ہے ایک نہیں دو نہیں بلکہ سارے کے سارے ایسے وقت میں جو کہ آرام حاصل کرنے کا ہو تا ہے خدا کے حضور کھڑے ہو کر دعا کرتے ہیں پھر کس طرح ممکن ہے کہ اُن کی دعاقبول نہ ہو ۔درد اور کرب کی دعا تو ضرور ہی سنی جا تی ہے چنا نچہ حضر ت یو نس ؑکی قوم کی نسبت لکھا ہے کہ وہ تباہ ہو نے لگی تھی اور اخیر وقت تک حضرت یونسؑ سے ٹھٹھے کرتی رہی لیکن جب عذاب کے آثارظاہرہونے لگے تو وہ اپنے جا نوروں ،بیوی بچوں کو لے کر باہر نکل گئے اور جنگل میں جا کر جا نوروں کے آگے سے چارہ ہٹا لیااور بچوں کو مائو ں سے الگ کر دیا اور مرد عورت سب اعلیٰ لباس اُتار کر سادہ کپڑے پہن کر دعائیں کرنے لگے۔ اُدھر جا نوروں اور بچوں نے چیخنا شروع کر دیا اِدھر مردوں عورتوں نے رو رو کر دعائیں مانگیں اُن کی اِس حا لت کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے اُن کو بخش دیا اور اُن سے عذاب ٹل گیا ۔ ؎۶ حا لا نکہ وہ نہ ٹلنے والا عذاب تھا۔ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کے معاف کرنے کو ایک خاص بات قرار دیا ہے ۷؎ جس کی وجہ یہی تھی کہ وہ سب اکٹھے ہو کر خدا کے حضور جھک گئے تھے۔ رمضان میں مسلمانوں کی حالت بھی گویا یو نسؑ کی قوم کی حالت ہو تی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی کہ الٰہی! میری ساری اُمت تباہ نہ ہو اور خدانے قبول کر لی تھی ۔ ۸؎ میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے تباہ نہ ہونے کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمان رمضان میں جو دعائیں کرتے ہیں وہ قبول کی جاتی ہیں۔
پس رمضان کا مہینہ دعائوںکے قبول ہو نے کے لئے ایک خاص وقت ہے۔ نا دان ہے جو اِس کو غفلت میں کھو دے اور بعد میں افسوس کرنے لگے ۔کسی نے سچ کہا ہے ۔’’مشتے کہ بعد از جنگ یاد آید بر کلہ خود باید زد ۔‘‘جوگھونسا جنگ کے بعد یاد آئے اُسے اپنے سر پر ما رنا چاہئے ۔یہ دس دن ہیں اِن سے فائدہ اٹھا ئو۔اپنے لئے ، اسلام کی ترقی کے لئے،جماعت کی ان مشکلات کے دُور ہونے کے لئے جو اِس کے رستہ میں حائل ہیں۔ خداکے فضل کے شامل حال ہونے کے لئے دعائیں کرنے کا یہ تمہیں موقع ملاہے۔ ماہ رمضان میں ان لوگوں کو بھی جاگنے کا مو قع مل جاتا ہے جنہیں عام طور پر جا گنے کی عادت نہیں ہوتی اس لئے انہیں بھی اس مو قع سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔خدا تعالیٰ کے رحم اور نوازش کو دیکھو انسانوں کے لئے مجبور کر کے ایسے سامان مہیا کرتاہے کہ جن سے انہیں فائدہ ہو ۔یہی رمضان کا مہینہ دیکھو سب کو جا گنے کے لئے مجبو ر کر دیا۔ گویا خود جگاکر کہہ دیا کہ لو جو مجھ سے ما نگناہے مانگ لو ۔ کیسا نادان ہے وہ شخص جو اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھا تا ۔ خداتعالیٰ نے ہمارے لئے سب سامان مہیا کر دئیے ہیں باقی ان سے فائدہ اُٹھا نا یہ ہما را اپنا کام ہے۔
کچھ عر صہ سے میںدیکھ رہا ہوں کہ ہما ری جماعت میں دعائیں کرنے کے متعلق سستی ہو تی جا تی ہے ۔کئی لوگوں کو رئو یا میں بھی اِس سے آگاہ کیا گیاہے کہ قادیان کے لو گ دعائوں میں سست ہو گئے ہیں ۔اس سستی کو میں خود بھی محسوس کر رہاہوں جس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جماعت نے اپنی کامیابیاں دیکھ کر سمجھ لیا ہے کہ بس اب ہمارا کام ہو گیا ہے لیکن کیسا نا دان ہے وہ شخص جو راستہ میں سست ہو جائے ۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسی ایک کچھوے اور خرگوش کی کہا نی مشہور ہے کہ دونوں ایک جگہ سے ایک مقام کی طرف اِس شرط پر روانہ ہو ئے کہ کون پہلے پہنچتا ہے۔ خرگوش جلدی جلدی چھلانگیں مارتاہوا مقررہ مقام سے کچھ ورے جا کر اِس خیال سے سو گیا کہ کچھوا یہاں بہت دیر کو پہنچے گا اُتنا عرصہ میں آرام کر لوں لیکن وہ وہاں ہی سویا رہا جب کہ کچھوا مقررہ مقام تک پہنچ گیا تو اُس کی نیند کھلی ۔تو یہ بہت کم عقلی کی بات ہے کہ انسان اپنی ترقی پر فخر کرکے کہہ دے کہ میری ہمت اور کوشش کی حد ہو گئی ہے ۔ دوسری قوموں کو تو جا نے دو لاہوریوں کو ہی دیکھو ابھی تک تمہا رے راستہ سے دور نہیں ہو ئے۔ پس تمہیں سست نہیں ہو نا چاہئے کیو نکہ مومن کبھی سست نہیں ہو تا ۔
خلافت کے متعلق جب جھگڑا پیدا ہو ا تو میں نے بہت دعائیں کیں کہ الٰہی! اس کے متعلق حق حق سمجھا دے ۔آخری رات کو ارادہ کیا کہ میں وہاں نہیں جائوں گاجب فیصلہ ہو جائے گا تب جائوں گا لیکن جب صبح کو اُٹھا تومیری زبان پر یہ ا لفاظ جاری تھے کہ قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَا ؤُ کُمْ۔ میں نے قُلْ سے پتہ لگا لیا کہ اگر یہ نہ ہوتا تو گویا ہم کو جھاڑ تھی لیکن اب ہماری تائید میں ہے ۔یعنی خدا تعالیٰ فرما تاہے کہ کہدو کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوں تو کیا خدااِس بات کا محتاج ہے کہ تمہا ری ترقی، تمہارے آرام اور تمہاری یکجہتی کے لئے اسباب مہیا کرے اور تم غافل بیٹھے رہو۔پس خوب سمجھ لو کہ اگر تم آہ وبکا اور عجزو انکسار میں سستی کر و گے تو خدا کو تمہا ری کیا پرواہ ہے۔ انسان خدا کا محتاج ہے نہ کہ خدا انسان کا۔ انسان کو خدا کی ضرورت ہے نہ کہ خداکو انسان کی ۔ہم فقیر ہیں اور خدا غنی اِس لئے ہمیں ضرورت ہے کہ اُس کا دروازہ کھٹکھٹائیں نہ کہ وہ ہمیں اپنے فضل اور رحم سے جگائے اورپھر بھی ہم اُس سے کچھ نہ مانگیں۔ پس سستی کوچھوڑ کر دعائیں کرنے کی عادت ڈالو۔ کئی لوگ صرف فرض عبادت کو ضروری سمجھتے ہیں اور دعائیں اور ذِکر الٰہی کرنے سے غافل رہتے ہیں مگر یہ بھی دہریت کی ایک رگ ہے۔ جب کوئی قوم ذکرِ الٰہی کو چھوڑ دیتی ہے تو ایک فضول چیز کی طرح نکال کر پھینک دی جا تی ہے ۔مدرسہ کے افسروں کو چاہئے کہ اپنے اندردعااور ذکرِ الٰہی کرنے کی عادت ڈالیں اور پھر طالب علموں کو اِس میں لگائیں۔ تم سب لو گ چوکس اور ہوشیار رہواور ہمیشہ دعائوں میں لگے رہو۔مگر آجکل خاص دن ہیں ان میں ضرورضرور بہت بہت دعائیں کروتاکہ خداتعالیٰ ان روکوں کو ہٹا دے جو ہمارے راستہ میں ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو سمجھ دے خصوصاً قادیا ن کے لوگوں کو کہ دعا کرنے میں کبھی سست نہ ہوں اور یہ نہ سمجھیں کہ ہمارا کام ہو گیا ہے ۔ ہم ہر وقت خدا تعالیٰ کی مدد اور تائید کے محتاج ہیں اور جتنی جتنی ہماری عمریں بڑھتی جا تی ہیں اُتنی ہی احتیاج بھی ہو تی جاتی ہے اس لئے کبھی سست نہیں ہو نا چاہئے۔ جس قدر امتحان کے دن قریب آتے ہیں اُسی قدر زیادہ محنت کرنی پڑ تی ہے اور اُس وقت سست لڑکے بھی چست بن جا تے ہیں۔ تم بھی کسی وقت سست نہ ہو اور کبھی یہ نہ سمجھو کہ ہمارا کام ختم ہو گیا ہے کیونکہ مو ت تک تمہا را کام ختم نہیں ہو سکتا۔پس خداتعالیٰ کے حضور دن رات ایک کر کے عرض کرو اور دعائوں کو اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے اور سوتے جا گتے غرضیکہ ہر وقت وردِ زبان رکھو۔ دعا صرف زبان سے ہی نہیں کی جا تی بلکہ ہر ایک عضو دعا کرتاہے۔کیا جب آنکھیں عجزو نیا ز سے آنسو بہاتی ہیں تو وہ دعانہیں ہو تی؟ پھر کیا جب عاجزانہ شکل بنتی ہے تو وہ منہ دعا نہیں کرتا؟ یا جب ہاتھ گھٹنو ں پر گرتے ہیں تو دعا نہیں کرتے؟ یا جب کمر خداکے حضور جھکتی ہے تو وہ دعا نہیں کرتی؟ سب اعضاء پائوں، ماتھا، ناک، کان، اُنگلیاں سب دعا کرتی ہیں اور سب سے زیادہ دل دعا کرتاہے ۔پس ہر وقت دعاکی عادت ڈالو۔ عادت سے مراد غفلت کی عادت نہیں بلکہ تکرار کی عادت ہے کہ تمہیں ہر وقت خدا یا د رہے۔جب ایسا کروگے تو خداکے فیض کے دروازے تم پر کھل جائیں گے ۔پھر تم دیکھو گے کہ خدا نے سچ کہا ہے۔ ۔خدا تعالیٰ ہمیں دعائیں کرنے کی توفیق دے اوران کو قبو ل کرکے ہمیں اپنے فضلوں کا وارث بنائے۔‘‘ آمین
(الفضل ۱۵؍جولائی۱۹۱۶ئ)
۱؎ البقرۃ: ۱۸۷
۲؎ بخاری کتاب المظالم باب الاتقا ء والحذر من دعوۃ المظلوم
۳؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی اِلیٰ رسول اللّٰہ ﷺ (الخ)
۴؎ مسلم کتاب الصلوٰۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ (الخ)
۵؎ فتوح الغیب مقالہ نمبر ۱۷ ۔اُردو ترجمہ صفحہ ۳۳مطبوعہ دھلی ۱۹۲۹ء
۶؎ بائبل۔ یونا ہ نبی کی کتاب باب ۳ (مفہوماً)
۷؎ یونس: ۹۹
۸؎ مسلم کتاب الفتن باب ھلاک ھذہ الامۃ
۲۲
گورنمنٹ کی ہر قسم کی مدد کرو
(فرمودہ۱۴؍جولائی۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اورسورئہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
۱؎
پھر فرمایا:۔
’’میں نیت تو یہ کر کے چلا تھا کہ چونکہ رمضان کا مہینہ ہے اِس لئے جیسے میں نے پہلے بیان کیا تھا کہ دعائوں کے قبول ہو نے کے ایسے اوقات مقرر ہیںکہ ان میں کی ہوئی دعا خاص طور پر قبول ہوتی ہے ۔چنا نچہ ان میں سے ایک وقت رمضان کا مہینہ ہے ۔اسی طرح یہ بھی آپ لوگوں کے سامنے بیان کرو ںکہ دعا کون سے رنگ اورکن حالتوں میں کرنے سے زیادہ قبول ہوتی ہے اور اگر اعلیٰ اور عمدہ وقت میںکی جائے تو سونے پر سہاگہ ہو جاتاہے کیونکہ ایک تو وہ وقت ہی قبولیت دعاکا ہوتا ہے دوسرے عمدگی سے دعا کی جا تی ہے اس لئے اِس وقت اِسی کے متعلق بیان کرتاہوں اور پہلی بات کو کسی اور توفیق کے موقع پر چھوڑتاہوں۔
اِس وقت جو میں نے آیت پڑھی ہے اِس میں خدا تعالیٰ نے مسلمانو ں کو ایک خاص بات کی طرف متوجہ کیا ہے۔ فرمایا اللہ عدل، احسان اورکی تاکید کرتا اور حکم دیتا ہے ۔
اور فحشاء ، منکر اور بغی سے روکتا ہے۔ اِس زمانہ میں میں نے دیکھا ہے بغاوت کا مادہ عجیب عجیب رنگ میں پھیلایا جاتاہے اور ایسے ایسے خوش رنگ میں پیش کیا جا تاہے کہ بعض لوگ اس کو مفید اور کارِ ثواب سمجھنے لگ جا تے ہیں۔ ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ لوگ بغاوت کے لفظ تک کو حقارت سے دیکھتے تھے اور بڑے بڑے دُکھ اور تکلیفیں اُٹھا تے تھے مگر وفا داری کو نہیں چھوڑتے تھے مگر آجکل بغاوت کے مفہوم کی کچھ ایسی تعریف بدلی ہے کہ بعض نادان اسے اعلیٰ درجہ کا کام سمجھنے لگ گئے ہیں اور اس کانام خدمت ملکی اور قومی جو ش رکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو اپنی حفاظت کرتاہو ا ما راجائے وہ شہید ہوتا ہے۔۲؎ اس لئے انہوں نے بغاوت کو نہ صرف جائز قرار دے لیا ہے بلکہ بہت مفید اور کارِثواب سمجھ رکھاہے اور اس طرح بہت لوگ دھوکا میں آکر وہ کا م کر گزرتے ہیں جو اُنہیں نہیں کرنا چاہئیں لیکن مَنْ لَا یَشْکُرُ النَّاسَ لَا یَشْکُرُ اللّٰہَ ۔ ؎۳ جو انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی نہیں کرسکتا کیونکہ انسان کے انسان پر بہت تھوڑے احسان ہوتے ہیں جب وہ ان کوہی نہیں ادا کر سکتا تو خدا تعالیٰ کے احسان جو ادا ہی نہیں ہو سکتے اُن کے ادا کرنے کا تو وہ خیال بھی نہیں کر ے گا ۔پس جو شخص انسانوں کی بغاوت کرتاہے ضرور ہے کہ وہ خداکا بھی باغی ہو ۔اور یہ لازماً ہے کہ وہ انسان جو اپنے محسن اور آقا کی بغاوت کرتاہے کبھی خدا کی اطاعت نہیں کر سکتا ۔
صوفیاء تو اطاعت کے معاملہ میں بہت ہی بڑھ گئے ہیں اور انہو ں نے اپنے رنگ میں عجیب عجیب طرز پر مسائل لکھے ہیں ۔ احسان کی قدر کرنے اوراپنے محسن کے شکرگزار ہو نے کے متعلق یہ مسئلہ اُٹھا یا ہے کہ اگر کوئی شخص دین کے معاملہ میںماں باپ کی بغاوت اور نا فرمانی کرے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ بوجہ اس کے کہ اس نے خداکے لئے ماں باپ کی نافرمانی کی بخشاء جائے گا مگر چونکہ اس نے ماں باپ کی نافرمانی کی ہو گی جو اس کے کسی گناہ ہی کا موجب ہے کیونکہ اگر کوئی گناہ نہ ہو تا تو اُسے ایسا موقع ہی پیش نہ آتا کہ اُسے نافرمانی کرنی پڑ تی اِس لئے وہ اُس وقت تک بہشت میں نہیں جائے گا جب تک خدا تعالیٰ اسے نہیں کہے گا کہ چونکہ تم نے میرے لئے ماں باپ کی نافرمانی کی تھی اس لئے میں ہی تمہیں بخشتاہوں ۔خدا جانے یہ بات کہا ں تک درست ہے مگر اس میں اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کی اعلیٰ درجہ کی مثال ہے ۔ باوجود اس کے کہ اطاعت اور فرمانبرداری ایسی ضروری ہے پھربھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اس سے روگردانی کر بیٹھتے ہیں۔وہ اپنے دل میں کچھ خوش کن خیالا ت پیدا کرلیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں ہماری کوششوں سے یہ ہو جائے گایاوہ ہو جائے گا لیکن ان کے یہ خیالات شیخ چلی کے منصوبہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے ۔جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ شیخ چلی نے کہا کہ مجھے یہ جو مزدوری ملے گی اس کے انڈے خرید لوں گا اُن کو فروخت کر کے مرغی پھر بکری ،گھوڑا، اُونٹ وغیرہ خرید تا جائوں گااور اِس طرح تجارت کرتے کرتے جب بہت بڑا مال دار ہو جائوں گا تو بادشاہ کی لڑکی سے شادی کر لوں گاپھر بچے پیدا ہوں گے وہ جب میرے پاس کچھ مانگنے آیا کریں گے تو میں یوں لات ماروں گا ۔جب اُس نے لات ماری تو وہ گھی کا مٹکہ جس کے اُٹھانے کے عوض اُسے مزدوری ملنی تھی زمین پر گر کر ٹوٹ گیا۔ مالک مٹکہ نے اُسے گردن سے پکڑ کر خوب مرمت کی تب اُسے ہو ش آیا۔ تو اِس قسم کے خیالات محض اوہا م ہوتے ہیں کبھی ان سے نتیجہ نہیں نکلا کرتا۔کبھی خفیہ سازشیں اور منصوبے کرنے والے بادشاہ نہیں ہوئے، کبھی ان کی شرارتوں سے حکومتیں نہیں گرجاتیں۔ اگر کوئی حکومت گرتی ہے تو اس کے اَور ہی اسباب ہوتے ہیں ۔آج تک تاریخ میں سے اس قسم کا ایک نمونہ بھی نہیں مل سکتا کہ کسی زمانہ میں خفیہ سازشیں کرنے والوں نے حکومت کے تغیر سے فائدہ اُٹھایا ہو بلکہ ایسا ہی ہو ا ہے کہ آنے والوں نے آکر سب سے پہلے کام ہی یہی کیا ہے کہ ان کو نیست و نا بود کیا ہے ۔کیو نکہ وہ جانتے ہیں کہ جب انہوں نے اس سلطنت سے بغاوت کی جس کے ان پر بہت سے احسانا ت تھے تو ہم میں سے کیوں نہ کریں گے جس کے ابھی یہ رہین منت نہیں ہیں۔ تو ایسے لوگ ہمیشہ ناکام اور نامراد ہی رہتے ہیں۔ اِس زمانہ میں بھی کچھ لوگ ہیں جو خفیہ تدبیریں کرتے ہیں لیکن وہ یاد رکھیں کہ اِن کا بھی وہی انجام ہو گاجو اِن سے پہلوں کا ہوا۔
ہماری جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار اِس طرف متوجہ کیا ہے کہ وہ ہر وقت گورنمنٹ کی وفا دار اور مددگار رہے اور بتایا ہے کہ وہ وقت آتاہے جبکہ شورشیں ہوں گی اور صرف ہماری ہی جماعت گورنمنٹ کی اعلیٰ درجہ کی وفا دار ثابت ہو گی ۔ہمیں اِس معاملہ میں گورنمنٹ سے ہمدردی ہے کہ بعض نا عاقبت اندیش شورش پھیلانا چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی ہما را ایمان بھی تازہ ہو رہا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرستادہ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ بات جو آپ نے بہت پہلے بتائی تھی پوری ہو رہی ہے مگر اس موقع پر آپ نے ہماری جماعت کا یہ فرض رکھا ہے کہ ہم ہر طرح سے گورنمنٹ کی مدد اور تائید کر یں۔ پھر آپ نے سورۃ الناس کی تفسیر لکھتے ہوئے بتایا ہے کہ گورنمنٹ کی وفاداری اور اطاعت کرنا ہمارا فرض ہے آجکل ہو رہا ہے۔ پس یہ وہ وقت ہے جبکہ ہم نے اس بات کا ثبوت دینا ہے کہ ہم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ اپنی جما عت کے متعلق کہا تھا وہ سب سچ ہے ۔
۱۹۰۷ء میں جب فساد ہو ا تھا اور ہندو مسلمانوں نے اپنا اتفاق ظاہر کرنے کے لئے چاندی کے برتنوں میں اکٹھا پانی پیا تھا اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا تھا کہ گورنمنٹ کو اپنی خدمات پیش کرو۔ کہو کہ جو خدمت ہم سے چاہئے ہم وہ دینے کو تیا ر ہیں ۔اِس وقت بھی جبکہ گورنمنٹ ایک عظیم الشان جنگ میں مشغول ہے کچھ شریر لوگ اِس قسم کے منصوبے کر رہے ہیں کہ گورنمنٹ کی توجہ بٹ جائے اِس لئے ہماری جماعت سے جہا ں تک اور جس طرح ہو سکے گورنمنٹ کی مدد کرے تا حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی تمام و کما ل پوری ہو جائے۔ اِس کا ایک حصہ تو پورا ہو چکا ہے اور دوسرا حصہ ہمارے ساتھ تعلق رکھتاہے اس لئے وہ ہمارے ذریعہ پورا ہو گا۔خدا تعالیٰ کی بعض پیشگوئیوں کا پورا ہونا انسانوں سے تعلق رکھتاہے تاکہ و ہ اسے پورا کرکے انعامات کے مستحق ہو جائیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہو ا تھا کہ ہما رے گھرمیں طاعون نہیں پڑے گی۴؎ لیکن باوجو د اِس کے آپ صفائی وغیرہ کی بڑی احتیا ط کرتے تھے اور فرماتے کہ یہ حصہ ہمارے ساتھ تعلق رکھتاہے اس لئے اِس کا پوراکرنا ہمارا فرض ہے ۔تو خداتعالیٰ نے اِس پیشگوئی کا ایک حصہ ہمارے ہا تھ میں رکھا ہے اور دوسرا دشمنوں کے ہاتھ۔ انہوں نے گورنمنٹ برطانیہ کے احسانا ت کی قدر نہ کی اور شرارتیں شروع کر دیں۔اب دوسرا حصہ پو را ہونا ہے جو حضرت مسیح مو عود ؑ کے مریدوں کے متعلق ہے۔پس جب آپ کے دشمنوں نے پیشگوئی کا وہ حصہ جو ان سے تعلق رکھتا ہے پورا کر دیا ہے تو کیسا نادان اور بد قسمت ہے وہ دوست جس کے ہا تھ سے اس کا متعلقہ حصہ پورا نہ ہو ۔
پس میں خاص طور پر اپنی جما عت کو متوجہ کرتا ہوں کہ اِس وقت گورنمنٹ کی خاص طور پر مدد کرنی چاہئے ۔یہ نا دان لوگوں کے غلط اور بیہودہ خیال ہیں کہ گورنمنٹ کو نقصان پہنچا سکیں گے۔ جو کوئی اس سلطنت کا مقابلہ کرے گاوہ خود رُسوا اور ذلیل ہو گا۔یہ گورنمنٹ خدا کی طرف سے یہاں آئی ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ اِس میں پید ا ہوئے ہیں تا اِس کے ذریعہ اسلام کی اشاعت اور ترقی ہو ۔ پس اب اسلام کی اشاعت اِسی سلطنت کے ذریعہ ہو گی ۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے رئویا میں دیکھا تھا کہ یہ قوم گروہ در گروہ جما عت میں داخل ہو رہی ہے اور دوسروں کو کر رہی ہے۔ ؎۵
ہماری جماعت کو چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کو مد نظر رکھے اور جہاں کسی کے دل میں کوئی فاسد خیال دیکھے فوراً نکالنے کی کو شش کرے اور جس طرح بھی ہو سکے گورنمنٹ کی مدد کرے کیو نکہ ایسا کرنا نہ صرف گورنمنٹ کی مدد کرنے کے فرض کو ادا کرنا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کو بھی پو راکرنا ہے۔خد ا تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کے احکام کے سمجھنے اوران پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ہما ری گورنمنٹ جس طرح امن پھیلا نے کاکام کررہی ہے اِسی طرح دین اسلام پھیلانے میں بھی ہما رے کام آئے اور جس طرح دنیاوی لحاظ سے ہمارے سا تھ تعلق رکھتی ہے دینی لحاظ سے بھی تعلق رکھے۔‘‘ آمین
(الفضل ۲۲؍جولائی۱۹۱۶ئ)
۱؎ النحل: ۹۱
۲؎ کنز العمال جلد ۴ صفحہ ۴۱۶ مطبوعہ ۱۹۷۰ء
۳؎ ترمذی کتاب البر والصلۃ باب ماجاء فی قبول الھدیۃ (الخ)
۴؎ تذکرہ صفحہ ۴۲۵۔ ایڈیشن چہارم
۵؎ تذکرہ صفحہ ۴۱۰۔ ایڈیشن چہارم
۲۳
قبولیت دعا کے طریق
(فرمودہ ۲۱؍جولائی۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اورسورئہ فا تحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی :۔
۱؎
’’میںنے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں بیا ن کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تو فیق دی تو میں اِس امر کے متعلق بیان کرنا چا ہتاہو ں کہ انسان کو دعا کس رنگ اور کس طریق میں کرنی چا ہیے جس کے نتیجہ میں قبولیت کا وہ زیادہ اُمید وار ہو ۔اور وہ کیا شرائط ہونی چاہئیں جن کے مطابق کی ہوئی دعا خدا تعالیٰ کے حضور قبول ہو جائے ۔ یوں تو اللہ تعالیٰ بادشاہ ہے اور ہم اس کی رعایا کسی کی درخواست اور عرضی کو قبول کرنا بادشاہ کا اپنا کام ہے۔ رعایا کا نہ یہ فرض ہے اور نہ کام ہے اور نہ حق ہے کہ بادشاہ یا حاکم ضرور ہی اُس کی درخواست کو قبول کر لے۔ اگر وہ ہر بات کو قبول کر لے اور ضرور قبول کر لے توگویا وہ نو کر ہوا اور رعایا آقا، وہ خادم ہو ا اور رعایا مخدوم کیونکہ جو کسی کی ہر ایک بات ماننے پر مجبورہو تاہے وہ آقانہیں بلکہ خادم ہوتا ہے۔ آقا خادم کی بات ماننے کے لئے مجبور نہیں ہو تا بلکہ مختار ہوتاہے۔ اس کے اختیا ر میں ہو تا ہے کہ چاہے تو قبول کرے اس کے لئے وہ مجبو ر نہیں ہوتا اور چاہے تو ردّ کرے اس سے اس پر کوئی الزام نہیں آتا۔ چونکہ خدا تعالیٰ نہ صرف آقا ہے اور ہم خادم بلکہ وہ مالک ہے اور ہم غلام ۔پھر وہ خالق ہے اور ہم مخلوق ۔توجبکہ خادم اور آقا کا تعلق بھی ایسا نا زک ہو تاہے کہ خادم کو یہ کبھی امید نہیں ہو سکتی کہ میر ا آقا میری ہر ایک بات کو ضرور ہی مان لے گا تو ایک انسان کس طرح خیال کر سکتاہے کہ اس کی ہر ایک بات خدا تعالیٰ کو قبول کر لینی چاہئے۔ اگر کوئی خادم یہ دعویٰ کرتاہے کہ اس کی ہر ایک بات اس کا آقامان لیتا ہے تو اس کایہ دعویٰ جھوٹا ہے ۔خادم کو ہمیشہ خدمت کے مقام پر کھڑا رہنا چاہئے اور اپنے رویہ، طریق اور خیالات کو اُسی حد میں محدود رکھنا چاہئے جو اُس کی خادمیت کے منا سب ہے نہ کہ آقا بننا چاہئے۔
پس کسی کا یہ امید کرنا یا ایسا خیال کرنا کہ اگر میری تمام دعائیں خدا قبول کرے اورکسی کو ردّ نہ کرے تب خداخدا ہو سکتاہے ورنہ نہیں اس طرح کی با ت ہے کہ گویا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ وہ انسان خداہے اور خدا اس کا بندہ ۔ یہ آقا ہے اور وہ خاد م۔یہ مالک ہے اوروہ غلام، کیونکہ جو کسی کی ہر ایک بات ماننے کے لئے مجبو ر ہو تاہے وہ بندہ اور غلا م ہو تاہے نہ کہ منوانے والا خادم اور غلام۔ تو یہ امید کرنا ہی باطل ہے کہ میری تمام کی تمام دعائیں قبول ہو جا نی چاہئیں یہ خیال کوئی جا ہل سے جاہل اور نادان سے نا دان انسان کرے تو کرے ورنہ دانا نہیں کر سکتا ۔ گو آجکل کے مسلمانوں میں سے بعض اِسی قسم کے خیالات رکھتے ہیں ۔ بعض لوگ جو مجھے دعا کے لئے لکھتے ہیں انہیں جواب دیا جا تاہے کہ اِنْشَائَ اللّٰہ دعاکی جائے گی مگر کچھ عرصہ کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ ابھی تک وہ کام نہیں ہو ا معلوم ہو تا ہے کہ آپ نے دعانہیں کی اب آپ ضرور دعا کریں۔ہم لکھتے ہیں ہمارا کام دعاکرنا ہے وہ کرتے ہیں آگے کام کرنا خدا کے اختیا ر میں ہے اس میں ہماراکوئی دخل نہیں ۔ اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ آپ نے یہ کیا لکھ دیا آپ تو جو چاہیں خدا سے منوا سکتے ہیں پس ہمارا یہ کام بھی کروا دیجئے ۔ تو اِس قسم کے خیالات ہیں آجکل کے مسلمانوں کے جو اُس جہالت کا نتیجہ ہیں جو اِن میں پھیلی ہو ئی ہے ۔ انہوں نے کسی کے بزرگ ہونے کے یہ معنی سمجھ رکھے ہیں کہ وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہ خدا سے بھی بزرگ ہے جو چاہے کروا سکتاہے حالانکہ بزرگ کے اصل معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں میں سے بزرگ ہے جیسے کہتے ہیں کہ باپ کا بزرگ بیٹا یعنی سب سے بڑا بیٹا ۔ اس کے یہ معنی نہیں ہو ا کرتے کہ وہ اپنے باپ سے بھی بزرگ ہے بلکہ یہ کہ دوسرے بھا ئیوں سے بزرگ ہے۔ اِسی طرح خداکے بزرگ کے یہی معنی ہیں کہ اس کی مخلوق سے بزرگ ہے اور خدا اَوروں کی نسبت اُس کی دعائیں زیادہ قبول کرتاہے۔ جیسے گورنمنٹ کے اعلیٰ حکام ہو تے ہیں اُن کی باتیں دوسروں کی نسبت بہت زیادہ مانی جاتی ہیں مگر یہ نہیں ہو تا کہ گورنمنٹ اُن کی سب کی سب باتیں مان لے۔ تو یہ ایک باطل عقیدہ ہے جو پھیلا ہو ا ہے کہ خدا کو سب دعائیں قبول کر لینی چاہئیں ۔
پچھلے جمعہ کے خطبہ میں جو میں نے یہ کہا تھا کہ ایسے طریق بتائوں گا جن سے دعائیں قبول ہوتی ہیں اس سے شاید کسی کے دل میں یہ بات آئی ہو کہ اگلے جمعہ میں کوئی ایسی ترکیب بتا دی جائے گی جس سے جو چاہیں گے خدا تعالیٰ سے منوا لیں گے اور اب یہ سن کر کہ خدا تعالیٰ ہر ایک دعا قبول کرنے کے لئے مجبو ر نہیں ہے اور نہ ہی کسی عقلمند کو یہ خیال کرنا چاہئے کہ اس کی تمام دعائیں قبول ہو جائیں گی کو ئی کہہ دے کہ پہا ڑ کھو دنے سے چوہا ہی نکلا ہے ۔یعنی جب کسی بڑی چیز کی امید ہو اور بہت چھوٹی چیز حا صل ہو تو یہی کہا جا تاہے ۔ پس اگر کسی نے یہ خیال کیا تھا کہ اگلے خطبہ جمعہ میں کوئی ایسا طریق بتا دیا جائے گا جس سے جو بات چاہیں گے خدا سے قبول کروالیں گے تو وہ اپنے دل سے اِس کو نکال دے کیونکہ یہ کفر ہے۔ اور یہ بات نہ میرے ذہن میں آئی اورنہ ہی کسی ایسے انسان کے ذہن میں آسکتی ہے جو خدا تعالیٰ کی عظمت ، جلال اور قدرت سے واقف ہے۔ میرا مدعا تو یہ تھا کہ ایسا طریق بتایا جائے جس سے نسبتاًخدا تعالیٰ زیادہ دعائیں قبول فرمالے ۔ یہ ہر گز نہیں تھا کہ میں کوئی ایسا گر جا نتا ہوں یا بتاسکتا ہوں یا یہ کہ میرا عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے انسان جو چاہے منوا سکتاہے۔پس میں پہلے اس بات کو صاف کرنا چاہتاہوں کہ میں قطعاً کوئی ایسا گر نہیں جانتا کہ جس سے آقا خادم اور خادم آقا بن جائے ۔ خالق مخلوق ہو جائے اور مخلوق خالق ۔مالک غلام قرار پا جائے اور غلام مالک کیونکہ آقا آقا ہی ہے اور غلام غلام۔ خدا تعالیٰ ازل سے آقا ہے، خالق ہے، مالک ہے، رازق ہے اور ہمیشہ اِسی طرح رہاہے اِسی طرح رہے گا۔ انسان ہمیشہ سے خادم، مخلوق اور مملوک رہا ہے اور اس کی یہی حالت ہمیشہ رہے گی ۔ حتی کہ جنت میں جب اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج پر ہو گا توبھی یہی حالت ہو گی تو اس قسم کا خیال کفر ہے اور میں ہر گز ہرگز اِس کا قائل نہیں ۔ ہا ں ایسے رنگ اور طریق ضرور ہیںکہ جن سے انسان اللہ تعالیٰ کو خوش کرکے جہاں تک آقا اور مالک، خالق اور مخلوق، مالک اور مملوک کا تعلق ہے اپنی بات منو ا سکتا ہے۔ جیسے ایک بچہ اپنے باپ سے اور شاگرد اپنے استاد سے منواسکتا ہے۔ مگر ایسا کوئی بچہ نہیں ہو سکتا جو باپ سے اپنی ہر بات منو ا لے اور نہ کوئی ایسا شاگرد ہو سکتاہے جو استاد سے جو چاہے منظور کروا لے ۔کوئی جا ہل اور نادان باپ یا استاد ہر ایک بات مان لے تو یہ ایک الگ بات ہے جیسا کہ کہتے ہیں کسی پٹھان نے اپنے لڑکے کو پڑھانے کے لئے ایک استاد رکھا تھا ایک دن اُستاد نے لڑکے کے سبق یاد نہ کرنے پر اسے سخت پیٹنا شروع کر دیا ۔ لڑکا تلوار لے کر مارنے پر آمادہ ہو گیا ۔استاد بیچارہ جان بچانے کے لئے بھاگا وہ اُس کے پیچھے دَوڑا ۔ راستہ میں لڑکے کا باپ مل گیا ۔ استاد صاحب نے سمجھا کہ اب جان بچ جائے گی اِس لئے اُس کے پاس جا کر کہنے لگا۔دیکھئے! آپ کا لڑکا مجھے قتل کرنا چاہتاہے اِس کو روکئے۔اُس نے کہا بھا گو مت ٹھہر جائو ،میرے بیٹے کا یہ پہلا وار ہے خالی نہ جانے پائے۔ تو کوئی بے وقوف ہی ایسا کر سکتاہے نہ کہ عقلمند ۔پس میں جو دعائوں کے قبول ہو نے کا طریق بتائونگا وہ ایسا ہی ہو گا کہ جس سے خدا زیادہ دعائیں قبو ل کر لے گا نہ ایسا کہ ہر ایک دعا کو قبول کرلے گا۔
پہلا طریق جس سے دعائیں قبول ہوتیں اور کثرت سے خداتعالیٰ سنتاہے وہ تو اس قسم کاہے کہ ہر ایک انسان اسے اختیار نہیں کر سکتا بلکہ خاص خاص انسان ہی اس پر چل سکتے ہیں کیونکہ وہ انسان کے کسب سے متعلق نہیں بلکہ اس کے رُتبہ اور مرتبہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مرتبہ کا جو انسان ہو تاہے اُسکی نسبت تو میں یہ بھی کہہ سکتاہوں کہ اُس کی ہر ایک دعا قبو ل ہو جاتی ہے۔ابھی میں نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ انسان کی ہر ایک دعا قبول نہیں ہوتی مگر اب میں نے کہا ہے کہ اس مرتبہ کے انسان کی ہر ایک دعا قبول ہو جا تی ہے اِن دونوں باتوں میں اختلاف پایا جا تاہے لیکن جب میں یہ بتائوں گا کہ وہ مرتبہ کیا ہے تو آپ لوگ خود بخود سمجھ جائیں گے کہ کوئی اختلاف نہیںہے۔میں نے اِس مرتبہ اور مقام کا نام آلہ یعنی ہتھیار رکھا ہو ا ہے جس کے ہا تھ میں ہتھیار ہو وہ اُسے جہاں چلائے چلتاہے اور اگر وہ ہتھیار ضرب نہ لگائے تو اس کا قصور نہیں ہو تا بلکہ چلانے والے کا ہو تاہے۔ لیکن کوئی چلانے والا یہ کبھی نہیں چاہتا کہ وہ کوئی ہتھیار چلائے اور وہ نہ چلے بلکہ وہ یہی چاہتاہے کہ میںجہاں بھی چلائوں وہیں چلے۔اِسی طرح انسان پر ایک ایسا وقت آتا ہے جبکہ وہ خدا کے ہا تھ میں بطور ہتھیار کے ہو جا تاہے ۔وہ نہیں کھاتا جب تک کہ خدا اسے نہیں کھلاتا ،وہ نہیں پیتا جب تک کہ خدااسے نہیں پلاتا ۔وہ نہیں سنتا جب تک کہ خدا اسے نہیں سنا تا۔وہ نہیں جا گتا جب تک کہ خدا اسے نہیں جگاتا۔وہ نہیں سوتا جب تک کہ خدا اسے نہیں سلاتا غرضیکہ اُس کی ہر حرکت اور ہر سکون اللہ تعالیٰ کے لئے اور اُسی کے اختیار میں ہوتی ہے ۔ ایسا انسان جو دعا کرتا ہے وہ قبول ہو جا تی ہے کیونکہ وہ اُس کی نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے اُس کے کرنے کا حکم ہو تا ہے اس لئے کر تاہے اور اس کی دعا کا قبول کر لینا خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف نہیں ہے کیو نکہ جو دعا مانگی جا تی ہے وہ دراصل خدا ہی نے منگوائی ہو تی ہے۔ پس چو نکہ منگوانے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہو تاہے اور دینے والا بھی اللہ ہی اِس لئے وہ ضرور قبول ہو جا تی ہے اور ممکن نہیں کہ قبول نہ ہو۔ مثال کے طور پر دیکھئے جب کوئی حاکم اپنے ماتحت کام کرنے والوں کا معا ئنہ کرنے آتے ہیں تو ما تحت اپنی ضروریا ت کو اُن کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ مثلا فرض کرو ایک ڈپٹی کمشنر تحصیل میں آیا اور تحصیل دار نے اپنی ضروریات اُن کے سامنے پیش کیں کہ فلاں چیز کی ضرورت ہے، فلاں سامان خریدنا ہے، فلاں کام کروانا ہے وغیرہ وغیرہ ۔وہ اس میں سے کچھ مان لے گااور کچھ رد ّکر دے گا۔لیکن کبھی یہ بھی ہوتاہے کہ ڈپٹی کمشنر خود کوئی ضرورت دیکھتاہے اور کہتا ہے کہ یہ چیز بھی ہو نی چاہئے اس کے لئے تحصیلدار کو کہتاہے کہ اِس چیز کی منظوری حاصل کرنے کے لئے رپو رٹ کر دو ۔وہ رپورٹ کر دیتا ہے اب یہ کبھی نہ ہو گاکہ ڈپٹی کمشنر اس رپورٹ کو ردّ کردے یا نا منظور کردے کیونکہ اس کے متعلق وہ خود کہہ گیا تھا کہ کرو۔ اِسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنے بندے کی زبان پر خود دعا جا ری کرتاہے پس جب خود کرتا ہے تو پھر اُسے ردّ نہیں کرتا ۔یہ اس بندے کے قرب اور درجہ کے اظہار کیلئے ہو تاہے۔ اور وہ اگر کوئی اور دعا کرنے لگے تو خدا تعالیٰ اس کے دل اور دماغ پر ایسا تصرف کر لیتاہے کہ اس کے منہ سے وہ کلمات ہی نہیں نکلتے جو وہ نکالنا چاہتا تھا بلکہ ایسے کلمات نکلتے ہیں جو قبول ہونے والے ہوتے ہیں۔ تو ایسے انسانوںکے دعا کرنے کے دوطریق ہو تے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام یا کشف یا وحی یا رئویا کے ذریعہ سے انہیں بتا دیا جاتا ہے کہ یہ دعا ما نگو۔ دوسرا یہ کہ اگر وہ کوئی ایسی دعا ما نگنے کی نیت کرے جو قبول نہ ہونے والی ہو تو خداتعالیٰ کی طرف سے ایسا تصرف ہو تاہے کہ ان کی نیت بالکل بدل جاتی ہے اور یہ خواہش ہی بالکل جاتی رہتی ہے کہ دعا کرے پھر جو الفاظ اور جو طریق اُس دعاکے کرنے کے لئے اس کے مد نظر ہو تا ہے وہ بھو ل جاتا ہے اور زبان سے خدا کی طرف سے بنے بنائے الفا ظ جا ری ہو جا تے ہیں جس سے خود بھی حیران رہ جا تا ہے کہ میں کہنا کیا چاہتا تھا اور کہہ کیا رہا ہوں۔ اس قسم کی دعا میں وسعت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے اتنی کہ دو دو گھنٹے گزرجاتے ہیں مگر انسان سمجھتاہے کہ کوئی پانچ چھ منٹ ہو ئے ہو نگے ۔وقت گزرتے ہوئے بھی پتہ نہیں لگتا کیو نکہ وہ ایسا محو ہوتاہے کہ اس دنیا سے اُس کا دل و دماغ بالکل کھنچ جا تاہے اور صرف خدا ہی خدا اسے نظر آتاہے مگر یہ کوئی ایساطریق نہیں ہے جس کے متعلق ہر ایک انسان کو کہہ دیا جائے کہ اس طرح کیا کروکیونکہ یہ مرتبہ سے تعلق رکھتا ہے جس کا پانا کسی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ۔پس جبکہ یہ انسانی اختیار میں ہی نہیں تو اِس پر عمل کرنا یا کرسکنے کے کیا معنی ؟اِس لئے میں یہ طریق بھی نہیں بتائو ں گابلکہ وہ بتائو ں گا جس میںبندے کا اختیار اور تصرف ہو لیکن اِس سے یہ نہیں ہو گا کہ ساری کی ساری دعائیں قبول ہو جا تی ہیں بلکہ یہ کہ زیادہ قبول ہوتی ہیں ۔
پس سب سے پہلا طریق جو میںبتا نا چاہتا ہوں وہ اِسی آیت میں ہے جو میںنے ابھی پڑھی ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے میرے بندے جب میری نسبت سوال کریں یعنی کہیں کہ خد ا کس طرح دعا قبول کرتا ہے؟ تو کہو میں سب سے بہترمدعا کو پو راکرسکتاہوں کیونکہ میری ایک صفت یہ بھی ہے کہ میں ہر ایک چیز کے قریب ہوں دعا کرنے والے کے بھی اور جس مدعا کے لئے دعاکی جائے اُس کے بھی۔
یہاں ایک سوال ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ہر ایک قریب ہونے والا تو فائدہ نہیںاُٹھا سکتا۔ ایک چپڑاسی بادشاہ کے دربار میں جا تاہے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتا کہ کسی کرسی پر بیٹھ سکے۔ اسی طرح چَتر ؎۲ ؎۲ اُٹھا نے والا وزیر سے بھی زیادہ بادشاہ کے قریب بیٹھا ہو تاہے مگر کیا وہ وزیر کی کرسی پر بیٹھنے کی جرأت کر سکتاہے؟ ہر گز نہیں ۔تو انسان کے خدا کے نزدیک ہو نے سے یہ تو نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ اس کی دعابھی قبول کرلے گا اور وہ اس وجہ سے فائدہ حاصل کرلے گا ۔اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے ایک ایسا گر بتایا ہے جس میں اِس سوال کا جواب بھی آجا تاہے اور جو عام طور پر فطرتِ انسانی میں کام کرتانظر آتاہے اور وہ یہ کہ ۔تم میری ہر ایک بات مان لیا کرو اور جو حکم ہم نے تمہارے لئے بھیجے ہیں اُن پر عمل کرواور اپنی تمام حرکات و سکنات کو شریعت کے ما تحت لے آئو تو پھر تمہاری دعامیں قبولیت بہت بڑھ جائے گی۔ کیوں؟ اس لئے کہ خادم کو انعام اُس وقت ملا کرتاہے جب کہ آقا خوش ہوتاہے۔ اگر کوئی خادم اپنے آقا کو نا راض کرکے مانگتاہے تو محروم رہتاہے اس طرح کبھی کسی کو انعام نہیں ملا کرتا کیونکہ نا راضگی کا وقت ایسا نہیں ہو تا جبکہ انعام و کرام دیا جائے ۔چھوٹے بچوں کو ہی دیکھ لو اُنہیں کوئی سمجھ نہیں ہو تی لیکن اگر ماں باپ سے کچھ مانگنے آئیں اور انہیں غصہ میں دیکھیں تو چپکے سے ہو کرالگ بیٹھ جاتے ہیں لیکن جب خوشی میں دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ چیز لے دو وہ لے دو ۔تو بچے بھی سمجھتے ہیں کہ غصہ میں ہماری بات نہیں ما نی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی نا راضگی بِلاوجہ نہیں ہو ا کرتی اسی وقت ہوتی ہے جبکہ اُس کے احکام کی خلاف ورزی کی جائے ۔
پس دعامیں قبولیت حاصل کرنے کا ایک رنگ یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال پر غور کرے کہ کوئی فعل اُس سے شریعت کے خلاف تو نہیں ہو گیا۔ہر ایک کام وہ جو کرے شریعت کے ماتحت کرے جب یہ حالت پیدا ہو جائے گی تو اُس کی دعا قبول ہو جائے گی۔ جس طرح ایک محنتی طالب علم جو اچھی طرح سبق یاد کر کے لاتاہو اُستاد کے نزدیک اُس کی بات زیادہ مانی جاتی ہے بہ نسبت اُس لڑکے کے جو یاد کر کے نہ لاتاہو۔ عام طور پر دیکھا جاتاہے کہ اگر طلباء نے چھٹی لینی ہو تو جو لڑکا لائق ہو اُسے اُستاد کے پا س بھیجتے ہیں تاکہ وہ چھٹی مانگے۔اس کی ایک وجہ ہو تی ہے اور وہ یہ کہ طالب علم سمجھتے ہیں کہ اگر ایسے لڑکوں نے چھٹی مانگی جو سکول کاکام اچھی طرح نہیں کرتے تو استاد کہے گا کہ پڑھا ئی سے بچنے کے لئے چھٹی لیتے ہیں اور اگر لائق لڑکے مانگیں گے تو پھر ایسا خیال نہیں کیا جائے گا چونکہ استاد پہلے بھی اُن پر خوش ہوتاہے اِس لئے رخصت دے دے گا۔ خدا تعالیٰ بھی اُسی کی دعا قبول کرتاہے جو اُس کو راضی رکھتاہے اِس لئے فرمایا میرے بندوں کو چاہئے کہ اگر وہ اپنی دعائوں کو قبول کروانا چاہتے ہیں تو میری باتیں مان لیا کریں ۔اگر یہ میر ے احکام کو قبول کریں گے اور ان پر عمل کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اُن کی دعائیں قبول ہو جائیں گی۔ خدا تعالیٰ نے اپنے آپ کو مومن کا ولی قرار دیا ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے ۔دوست اسے نہیں کہتے جو ہر ایک بات مان لے بلکہ اسے کہتے ہیں جو کچھ مانے اور کچھ منوائے۔ ۳؎ اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو مومن کا ولی فرماتاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سی باتیں بندہ کی میں مان لیتا ہوں اور بہت سی اُسے ماننی چاہئیں۔خدا فرماتاہے کہ جو مجھے پکارتاہے میں اُسکی دعاقبول کرتاہوں مگر اس کے قبول ہونے کا طریق یہ ہے کہ کہ وہ بھی میری باتیں قبول کرے ۔وہ میرے احکام کو مانے پھر اسے جو تکلیفیں اور مصیبتیں پیش آئیں گی اُن کو میں دور کروں گا ۔گویا خدا تعالیٰ ایک عہد کرتاہے کہ تم میری باتیں مانو میں تمہا ری مانوں گا ۔تو دعا کے قبول ہو نے کا یہ پہلا گر خدا تعالیٰ نے اس آیت میں بتا دیا ہے۔
دوسرا گُر بھی اِسی آیت میں ہے اور وہ یہ کہ فرمایا اگر میرے بندے دعا قبول کروانا چاہتے ہیں تواِس کا دوسرا طریق یہ ہے کہ مجھ پر ایمان بھی لائیں ۔ بظاہر معلوم ہوتاہے کہ یہ زائد الفاظ ہیں کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی تمام باتیں مانے گا ضرور ہے کہ وہ ایمان بھی لائیگا اور جو ایمان نہیں لائے گا وہ مانے گا بھی نہیں ۔مثلاًجو نماز پڑھے گا ، روزے رکھے گا، زکوٰۃ دے گا ،حج کرے گا ،وہ یو نہی نہیں کرے گا اور نہ ہی رسمی طور پر ۔کیونکہ رسمی طور پر کرنے کی خدا تعالیٰ نے پہلے ہی نفی فرما دی ہے کیونکہ پہلے یہ نہیں فرمایا کہ اگر تم شریعت کے حکموں پر عمل کرو گے تو میں تمہا ری دعا قبول کروں گا بلکہ لفظ ہی ایسا رکھا ہے جو شریعت پر عمل کرنا بھی ظاہر کر دیتا ہے اور رسم کے طور پر عمل کرنے کا ردّ بھی کر دیتاہے ۔یعنی استجابت۔ اس کے معنی ہیں کہ ایک طرف سے آواز آئے اور دوسرا اس کو قبول کر کے اس پر عمل کرے ۔ نہ کہ کسی کے اپنے نفس میں رحم اور سخاوت ہے تو وہ بھی اس کا مصداق ہو سکے اور نہ ہی رسمی یا عادت کے طو ر پر کام کرنا اس میں داخل ہو سکتاہے کیو نکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میری آواز سنے اور اس پر عمل کرے اس کی دعا قبول ہو گی۔اس طرح ایک نا قص ایمان والا شخص جو رسمی طور پر شریعت کے احکام پر عمل کرتا ہے یا ایک دہریہ جو یو نہی لو گوں کے ڈر سے نما ز پڑھ لیتاہے داخل نہیں ہو سکتا ۔پھر سوال ہوتاہے کہ کے فرمانے کا کیا مطلب ہوا ؟جب پہلے سے ہی یہ شرط موجود ہے کہ دعا اُس وقت قبول ہو تی ہے جبکہ استجابت ہواور استجابت اُس وقت ہوتی ہے جبکہ ایمان بِاللہ ہو تو پھر ایمان لانے کے کیا معنی؟ استجا بت جب ایمان لانے کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی تو پہلے ایمان ہو نا چا ہیے اور بعد میں استجا بت نہ کہ پہلے استجا بت اور بعد میں ایمان اس صورت میں ایک ظاہربیں کو اختلاف نظر آتا ہے لیکن یہ بات غلط ہے۔
یہا ں خدا تعالیٰ پر ایمان لانے سے اُس کی شریعت پر ایما ن لا نا مراد نہیں ہے بلکہ دعا کے قبول ہو نے کا ایک اَور گُر بتایا ہے جس کے نہ سمجھنے سے بہت سے لو گوں نے ٹھو کر کھائی ہے اور ان کی دعائیں ردّ کی گئی ہیں۔ وہ گُر یہ ہے کہ انسان شریعت کے تمام احکام پر عمل کرے اور دعائیں مانگے مگر ساتھ ہی اِس بات پر ایمان بھی رکھے کہ خدا تعالیٰ دعائیں قبول کر تاہے ۔بہت سے لوگ ایسے ہو تے ہیں کہ شریعت کے احکام پر بڑی پا بندی سے عمل کرتے ہیں۔ ان کے دلوں میں خشیتُ اللہ بھی ہو تی ہے ،بڑے خشو ع و خضوع سے دعائیں بھی کرتے ہیں مگر پھر یہ کہتے ہیں کہ فلاں اتنا بڑا کام ہے اس کے متعلق دعا کہاں سنی جا سکتی ہے۔ یا یہ کہتے ہیں کہ ہم گنہگار ہیں ہماری دعا خدا کہاں سنتا ہے اِس قسم کا کوئی نہ کوئی خیال شیطان ان کے دل میں ڈال دیتا ہے جس سے اُن کی دعامیں قبولیت نہیں رہتی ۔اِس نقص سے بچنے کیلئے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اِس با ت پر بھی ایمان رکھو کہ جب تم ہمارے احکام پر اچھی طرح چلو گے تو میں تمہاری دعائیں قبول کر وں گا جب یہ یقین ہو تو پھر دعا قبول ہو تی ہے۔ لیکن اگر کوئی زبان سے دعا تو کرتاہے لیکن اسے یقین نہیں کہ خدا اس کی دعا قبول کرلے گاتو کبھی اس کی دعا قبول نہ ہو سکے گی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ بندہ کے یقین پر دعا قبول کرتاہے ۔اگرکسی کو یقین ہی نہ ہو تو لاکھ ماتھا رگڑے، ناک گھساتے گھساتے دَب جائے،حلق بیٹھ جائے کبھی دعاقبول نہیں ہو گی کیونکہ جس کو خدا پر امید نہیں ہوتی اُس کی دعا وہ نہیں سنتا ۔فرماتا ہے۔ ۴؎ اللہ کی رحمت سے کبھی نا امید نہ ہو ۔اللہ کی رحمت سے نا شکرا انسان ہی نا امید ہوتاہے ورنہ جس نے اپنے اوپر خدا تعالیٰ کے اِس قدر نشان دیکھے ہوں جن کو وہ گن بھی نہ سکتا ہووہ ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال نہیں کر سکتا کہ میرا فلاں کام خدا نہیں کرے گا اور فلاں دعا قبول نہیں ہو گی ۔خواہ اس کی کیسی ہی خطرنا ک حالت ہو اور کیسی ہی مشکلات اور مصائب میں گھرا ہوا ہوپھر بھی وہ یہی سمجھتا اور یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ادنیٰ سے ادنیٰ اشارہ سے بھی یہ سب کچھ دور ہو سکتاہے اور خدا ضرور دور کرے گا۔ اور اگر اُسے دعا کرتے کرتے بیس سال بھی گزر جائیں تو بھی یہی یقین رکھتا ہے کہ میری دعا ضائع نہیں جائے گی اور اُس وقت تک دعا کرنے سے باز نہیں رہتاجب تک کہ خدا تعالیٰ ہی منع نہ کردے کہ اب یہ دعا مت کرو ۔گو اس کی دعا قبول نہ ہو لیکن آخر کار خدا تعالیٰ کے کلام کا شرف تو حاصل ہو گیا کہ خدا تعالیٰ نے فرما دیا کہ اب دعا نہ مانگو۔تو جب تک خدا تعالیٰ نہ کہے اُس وقت تک دعاکرنے سے نہیں رُکنا چاہئے۔دعا قبول نہ ہو تو بھی انسان کو یہ نہیںچا ہیے کہ وہ دعا کرنا چھوڑ دے کیونکہ اگر اب قبول نہیں ہوئی تو پھر سہی پھر سہی۔ دوسری دفعہ نہ ہو تو تیسری دفعہ سہی۔ تیسری دفعہ نہ ہو تو چوتھی دفعہ سہی۔ دیکھو بعض اوقات جب بچہ ماں باپ سے پیسہ ما نگتاہے تو اسے نہیں بھی ملتا۔لیکن اُس کے بار بار اصرار پر مل ہی جاتا ہے اِسی طرح انسان کو کرنا چاہئے ۔اگر ایک دفعہ دعاقبول نہ ہو تو دوسری دفعہ سہی ۔حتیٰ کہ کبھی تو ہو ہی جائے گی اِس لئے مانگنے سے نہیں رُکنا چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ دو قسم کے گداگر ہوتے ہیں ۔ایک وہ جو دروازے پر آکر مانگنے کیلئے جب آواز دیتے ہیں تو کچھ لئے بغیر نہیں ٹلتے ان کو نر گدا کہتے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو آکر آواز دیتے ہیں اگر کوئی دینے سے انکا ر کردے تو اگلے دروازے پر چلے جا تے ہیں ان کو خر گدا کہتے ہیں ۔آپ ؑ فرماتے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کے حضور خر گدا نہیں بننا چاہئے نر گد ا ہونا چاہئے اور اُس وقت تک خدا کی درگاہ سے نہیں ہٹنا چاہئے جب تک کچھ مل نہ چکے ۔اس طرح کرنے سے اگر دعا قبول نہ بھی ہونی ہو تو خدا تعالیٰ کسی اور ذریعہ سے ہی نفع پہنچا دیتاہے ۔ پس دوسرا گر دعا کے قبول کروانے کا یہ ہے کہ انسان نر گدا بنے نہ کہ خرگدا اور سمجھ لے کہ کچھ لیکر ہی ہٹنا ہے خواہ پچاس سال ہی کیوں نہ دُعا کرتارہے یہی یقین رکھے کہ خدا میری دعا ضرور سنے گا۔یہ خیا ل بھی اپنے دل میں نہ آنے دے کہ نہیں سنے گا ۔اگرچہ جس کام یا مقصد کے لئے وہ دعا کرتاہو وہ بظاہر ختم شدہ ہی کیوں نہ نظر آئے پھر بھی دعا کرتا ہی جائے۔
لکھا ہے ایک بزرگ ہر روز دعا مانگا کرتے تھے ۔ایک دن جبکہ وہ دعاما نگ رہے تھے ان کا ایک مرید آکر ان کے پاس بیٹھ گیا ۔اُس وقت اُن کو الہام ہو ا جو اِس مرید کو بھی سنا ئی دیا لیکن وہ ادب کی خاطر چپکا ہو رہا اوراس کے متعلق کچھ نہ کہا ۔دوسرے دن جب انہوںنے دعا مانگنی شروع کی تو وہی الہام ہو ا جسے اس مرید نے بھی سنا ۔اس دن بھی وہ چپ رہا۔ تیسرے دن پھر وہی الہام ہو ا اس دن اس سے نہ رہا گیا اس لئے اس بزرگ کو کہنے لگا کہ آج تیسر ا دن ہے میں سنتا آرہا ہوںہر روز خدا تعالیٰ آپ کو فرماتاہے کہ میں تمہا ری دعا قبول نہیں کروں گا۔جب خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے تو پھر آپ کیوں کرتے ہیں جانے دیں۔ انہوںنے کہا۔نادان!تو تو صرف تین دن خدا کی طرف سے یہ الہام سن کر گھبر ا گیا ہے اور کہتاہے کہ جانے دو دعا ہی نہ کرومگر مجھے تیس سال ہو ئے ہیں یہی الہام سنتے ہوئے لیکن میں نہیں گھبرایا اور نہ ناا مید ہوا ہوں۔ خدا تعالیٰ کا کام قبول کرنا ہے اور میرا کام دعا ما نگناہے توخواہ مخواہ دخل دینے والا کون ہے؟ وہ اپنا کام کر رہا ہے میں اپنا کر رہا ہوں۔ لکھا ہے۔ دوسرے ہی دن الہام ہو ا کہ تم نے تیس سال کے عرصہ میں جتنی بھی دعا ئیں کی تھیں ہم نے وہ سب قبول کر لی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ سے کبھی نا امید نہیں ہو نا چا ہیے۔نا امید ہونے والے پر اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑک اُٹھتا ہے۔ جو شخص نا امید ہو تاہے وہ سوچے کہ کو نسی کمی ہے جو اس کے لئے خدا نے پو ری نہیں کی۔ کیسے کسیے فضل اور کیسے کیسے انعام ہو ئے اور ہو رہے ہیںپھر آئندہ نا امید ہونے کی کیا وجہ ہے۔
پس دعا مانگنے کا ایک طریق تو یہ ہے کہ انسان اپنے تمام اعمال کو شریعت کے مطابق کرے کیوں؟ اس لئے کہ جس طرح ماں باپ بھی اُسی بچے کی باتیں مانتے ہیں جو اُن کی مانے اور پوری پوری فرما نبرداری کرے ۔ جو اُن کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتا اُسکی باتوں کی وہ بھی نہیںکرتے ۔پھر اُستا د اُسی لڑکے کی بات مانتاہے جو محنتی اور اچھی طرح سبق یا د کرنے والا ہو اِسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنے فرمانبردار بندوں کی نافرمان بندوں سے زیادہ مانتاہے۔پس تم لوگ اوّل تو اپنے اعمال کو شریعت کے مطابق بنائو اور دوسرے یہ کہ خدا کے فضل اور رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوبلکہ دعا کرتے وقت یہ پختہ یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ تمہا ری دعا ضرور سنے گااور ضرور سنے گا۔ اور اُس وقت تک دعا کرتے رہو کہ خداکی طرف سے یہ حکم نہ آجائے کہ اب یہ دعا مت مانگو۔ لیکن جب تک خدا تعالیٰ یہ کسی کو نہیں کہتابلکہ یہ کہتا ہے کہ میں تمہا ری دعا قبول نہیں کرتا اُس وقت تک ہر گز ہر گز باز نہ رہوکیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کہ میں تمہا ری دعا قبول نہیں کرتا گویا اشارۃًیہ کہنا ہے کہ اے میرے بندے! تو مانگتا جا۔ میں گو اِس وقت قبول نہیں کرتا لیکن کسی وقت کرضرور لوں گا ۔ورنہ اگر اِس کہنے سے یہ مراد نہ ہو تی بلکہ دعا کرنے سے روکنا ہوتا تو خداتعالیٰ یہ کہہ سکتا تھا کہ’’ یہ دعا مت مانگ‘‘ نہ یہ کہ ’’میں نہیں مانوں گا‘‘۔پس جب تک کان میں یہ الفاظ نہ پڑیں کہ ’’یہ دعا مت مانگ اس کے ما نگنے کی میں تمہیں اجا زت نہیں دیتا ۔‘‘اُس وقت تک نہیں رُکنا چاہئے۔ اِس طرح تو اُن کو مطلع کیا جا تا ہے جنہیں الہام اور کشف کا رُتبہ حاصل ہوتاہے اور جنہیں یہ نہ ہو اُن کو اِس بات سے متنفر کر دیا جا تا ہے جس کے متعلق وہ دعا کرتے ہیں۔
جن پر الہا م اور وحی کا دروازہ کھلا ہو تا ہے اُن کو تو خدا کہہ دیتا ہے کہ ایسا مت کرو لیکن جن کیلئے نہیں ہو تا اُن کے دل میں نفرت پیدا کر دی جا تی ہے اس لئے وہ خود ہی اس دعا کے مانگنے سے بازرہ جاتے ہیں۔ اس کا نام ما یوسی نہیں بلکہ ان کا تو یہ یقین ہو تاہے کہ خدا تعا لیٰ ہمارا فلاں مقصد پورا کر سکتاہے اور ہمیں فلاں چیز دے سکتاہے لیکن ہم خود ہی اسے نہیںلینا چاہتے۔ پس اگر کسی کے دل میں دعا مانگتے ہو ئے اس چیز سے نفر ت پیدا ہو جائے تو اسے بھی دعا کرنا چھوڑ دینا چاہئے ورنہ نہیں رُکنا چاہئے خواہ قبولیت میں کتنا ہی عرصہ کیوں نہ لگ جائے ۔ بعض دفعہ دعا کرتے کرتے کچھ ایسے سامان پیدا ہو جا تے ہیں کہ اگر دعا قبول ہو جائے تو اس سے شریعت کا کوئی حکم ٹو ٹتا ہے اس سے بھی سمجھ لینا چاہئے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ اس دعا سے باز رہنا چاہئے۔ خدا تعالیٰ کے دعا کو قبول کرنے سے انکار کرنے کا یہ بھی ایک طریق ہے ۔یعنی بجائے قول کے خدا تعالیٰ کا فعل سامنے آجاتاہے اس لئے اس کے کرنے سے رُک جا نا چاہئے۔ تو دعا کرنے سے رُکنے کے تین پہلو ہیں ۔
اوّل یہ کہ الہام یا کشف ہو جائے کہ یہ دعا مت کرو۔ یا ہماری طرف سے اس کے کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
دوم یہ کہ جس مقصد کے حصول کے لئے دعاکی جائے اس سے نفرت پید ا ہوجائے ۔
سوئم یہ کہ جس مقصد کیلئے دعا کی جائے وہ شریعت کے محذورات کے ساتھ وابستہ ہوجائے۔
اگر اِن تینوں حالتوں میں سے کوئی حالت بھی نہ ہو تو دعاکرنے سے کبھی نہیں رُکنا چاہئے اور کبھی مایوس نہیں ہو نا چاہئے بلکہ یہی سمجھنا چاہئے کہ خداتعالیٰ نے مجھے یہ جو مانگنے کا موقع دیا ہو ا ہے اِس میں مانگتاہی جائو نگا تاکہ یہ ضائع نہ ہو جائے۔ جب کوئی اس طرح کرے گا توضرور ہے کہ خدا تعالیٰ اُس کی دعا یا تو قبول کرلے گایا ان تینوں طریقوں میں سے کسی سے اُسے روک دے گا(ان تینوں کے علاوہ ابھی تک اور کوئی روک میری سمجھ میں نہیں آئی) لیکن اگر روک بھی دے تو کیا دعا مانگنے کا یہ تھوڑا فائدہ اور نفع ہے کہ خداوند تعالیٰ کے سا تھ مکالمہ و مخاطبہ کا شرف حاصل ہو گیا اور خدا تعالیٰ نے اُسے اِس قابل سمجھا کہ مخاطب کرے۔ آج میں دعا کے قبول ہونے کے صرف یہی دو طریق بتاتاہوں۔ اَور بھی ہیں مگر وقت تنگ ہو رہا ہے اگر خداتعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں ان کو انشاء اللہ بیا ن کردوں گا۔‘‘ (الفضل۲۹؍جولائی۱۹۱۶ئ)
۱؎ البقرہ: ۱۸۷
۲؎ چَتر: بڑی چھتری،چَترشاہی: بادشاہی چھتری
۳؎ حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۱۔ روحانی خزائن جلد ۲۲
۴؎ یوسف: ۸۸
۲۴
قبولیت دعا کے طریق
(فرمودہ ۲۸؍ جولائی ۱۹۱۶ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
؎۱
پھرفرمایا:۔
’’بہت سی باتیں بظاہر ہلکی اور چھوٹی نظر آتی ہیں اور جن لوگوں نے ان کے فوائد سے محروم رہنا ہوتا ہے وہ ان کو بے حقیقت اور معمولی سمجھ کر ان پر سے اندھوں کی طرح گذر جاتے ہیں لیکن ان پر عمل کرنے سے بہت بڑے اور اعلیٰ درجہ کے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ دیکھو سارے پڑھے لکھے آدمی خط لکھتے ہیں لیکن سب کا خط خوبصورت نہیں ہوتا۔ لکھنے والی قلم، سیاہی اور کاغذ ایک ہی طرح کا ہوتا ہے پھر ہاتھ بھی ایک ہی ایسا ہوتا ہے، وہی پانچوں اُنگلیاں سب کی ہوتی ہیں جو ایک خوشنویس کی ہوتی ہیں۔ ایک ہی طرح کے گوشت، ہڈیوں اور نسوں سے بنی ہوتی ہیںمگر جب ایک لکھتا ہے تو ایسا خوبصورت کہ دیکھنے والے کی طبیعت خوش ہوجاتی ہے اور جب دوسرا لکھتا ہے تو ایسا کہ دیکھنے والے کی طبیعت مکدر ہو جاتی ہے۔ دونوں خطوں میں بڑا فرق ہوتا ہے اور دونوں کا اپنے اپنے رنگ میں بڑا اثر پڑتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے اعلیٰ اور عمدہ خط کی طرف انسان کی طبیعت خود بخود کھنچتی ہے گو میرا اپنا خط کوئی ایسا اچھا نہیں لیکن میری ڈاک میں جو خط اچھے لکھے ہوتے ہیں اُن کو میں پہلے پڑھتا ہوں تا کہ آسانی سے پڑھ سکوں اور جو مشکل سے پڑھے جاتے ہیں اُن کو بعد میں پڑھتا ہوں تو خوبصورت خط کا ایک فوری اثر ہوتا ہے لیکن جانتے ہو خط کی خوبصورتی کہاں سے آتی ہے؟ اگر کہو ہاتھ سے تو ہاتھ تو سب کے ہوتے ہیں۔ اگر کہوقلم سے تو قلم بھی سب کے پاس ہوتی ہے۔ اگر کہو سیاہی سے تو سیاہی بھی ہر ایک رکھتا ہے اوراگر کہو کاغذ سے توکاغذ بھی ہر ایک کے پاس ہوتا ہے پھر وہ کیا چیز ہے جس کی موجودگی ایک کے خط کو بہت عمدہ اور خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس کی عدم موجودگی دوسرے کے خط کو بدصورت اور بدنما بنا دیتی ہے؟ یہ دراصل ایک معمولی سی حرکت اور خفیف سا پیچ ہوتا ہے اگر اس کے متعلق کوئی خوشنویس بتائے تو سننے والا حیران ہو کر کہہ دے گا کہ کیا اِس ذرا سی حرکت کے نتیجہ میں ایسا اعلیٰ نتیجہ ہو جاتا ہے لیکن دراصل بات تو یہی ہے کہ نہایت خفیف سی حرکت کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ بہت خوبصورت خط ہوتا ہے اور اسی کی کمی سے بڑا بدصورت نظر آتا ہے۔ اس حرکت کو جاننے والے بڑے بڑے اعلیٰ درجہ کے خوشنویس گذرے ہیں۔ ہندوستان میں ایک خوشنویس تھا جب کوئی فقیر اُس کے پاس مانگنے کے لئے آتا اور وہ اُس پر مہربان ہوتا تو اُسے ایک حرف لکھ کر دے دیتا۔ اُس کا ایک حرف آسانی سے ایک روپیہ کو بِک جاتا۔ جس طرح آجکل قطعے نمائش کے لئے لگائے جاتے ہیں اِسی طرح اُس کے ایک ایک حرف کو زینت کے طور پر لوگ لگاتے تھے لیکن اس میں کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ صرف ہاتھ کی حرکت ہی تھی جو اس کے خط کو خوبصورت کر دیتی تھی۔ اِس کو اگر وہ بیان کرتا تو ہر ایک اس بات کو نہ سمجھ سکتاکہ اتنی سی معمولی حرکت سے ایسا خوبصورت حرف کس طرح لکھا جا سکتا ہے لیکن خوبصورتی کا باعث وہی حرکت تھی۔
تمام پیشوں کا یہی حال ہے ایک ہی لکڑیاں چیرنے والا آرہ اور ایک ہی طرح کے سب آدمی ہوتے ہیں مگر ایک کی بنائی ہوئی چیز ایسی عمدہ ہوتی ہے کہ انسان اُس کی طرف سے آنکھیں نہیں ہٹانا چاہتا اور دوسرے کی ایسی ہوتی ہے کہ دیکھ کر منہ پھیر لیتا اور کہتا ہے کہ اس نے تو لکڑی کو ہی خراب کر دیا ہے اِن دونوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں اتنا بڑا فرق پیدا کرنے والی بھی ایک حرکت ہی ہوتی ہے۔ جسے اگر بیان کیا جائے تو سننے والا حیران رہ جائے کہ یہ اس بات کا موجب کس طرح ہو سکتی ہے۔ اِسی طرح کھانا پکانے والے ہیں ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا پکاتا ہے کہ اگر انسان کو بھوک نہ بھی ہوتو بھی دیکھ کر اشتہاء پیدا ہو جاتی ہے اور ایک ایسا پکاتا ہے کہ اگر سخت بھوک لگی ہوئی ہو تو بھی کھانا دیکھ کر بند ہو جاتی ہے۔ اگر اس اچھا کھانا پکانے والے سے پوچھا جائے کہ تم نے کس طرح پکایا ہے ؟تو یہ نہیں ہوگا کہ وہ ترکیبوں اور احتیاطوں کے کوئی دو تین صفحے لکھا دے گا بلکہ یہی کہے گا کہ جس طرح سب لوگ پکاتے ہیں اُسی طرح میں نے بھی پکایا ہے میں کوئی نئی ترکیب تو نہیں جانتا۔ یا اگر زیادہ کرے گا تو یہ کہہ دے گا کہ نمک مرچ اس طرح ڈالتا ہوں، مسالہ اس طرح بھونتا ہوں، آگ اِس قد رجلاتا ہوں وغیرہ۔ ان باتوں کو سن کر پوچھنے والا سمجھے گا کہ یہ مجھ سے دھوکا کر رہا ہے اور اصل بات نہیں بتاتا۔ اس طرح تو میں پہلے ہی کرتا ہوں لیکن اصل اور درست بات وہی ہوتی ہے جو وہ بتا رہا ہوتا ہے۔ یہی حال عمارت بنانے والوں کا ہے۔ یہی علم پڑھانے والوں کا۔ ایک مدرّس کی بات بہت کم طالب علم سمجھتے ہیں لیکن دوسرے کی ہر ایک سمجھ جاتا ہے اس کو بیان کرنے کی ایک معمولی مشق ہوتی ہے اسے اگر وہ بیان کرے تو لوگ بہت معمولی سمجھیں اِسی طرح اور کئی باتوں کو معمولی سمجھا جاتا ہے لیکن یہی معمولی باتیں بہت بڑے نتائج پیدا کرنے کا موجب ہو جاتی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے سنا۔ آپ کسی عورت کا قصہ بیان فرماتے کہ اُس کا ایک ہی لڑکا تھا وہ لڑائی پر جانے لگا تو اُس نے اپنی ماں کو کہا کہ آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جو میں اگر واپس آؤںتو تحفہ کے طور پر آپ کے لئے لیتا آؤں اور آپ اُسے دیکھ کر خوش ہو جائیں۔ ماں نے کہا اگر تو سلامت آ جائے تو یہی بات میرے لئے خوشی کا موجب ہو سکتی ہے۔ لڑکے نے اصرار کیا اور کہا آپ ضرور کوئی چیز بتائیں۔ ماں نے کہا اچھا اگر تم میرے لئے کچھ لانا ہی چاہتے ہو تو روٹی کے جلے ہوئے ٹکڑے جس قدر زیادہ لا سکو لے آنا، میں انہی سے خوش ہو سکتی ہوں۔ اُس نے اِس کو بہت معمولی بات سمجھ کر کہا کہ کچھ اور بتائیں لیکن ماں نے کہا بس یہی چیز مجھے سب سے زیادہ خوش کر سکتی ہے۔ خیر وہ چلا گیا۔ جب وہ روٹی پکاتا تو جان بوجھ کر اُسے جلاتا تا جلے ہوئے ٹکڑے زیادہ جمع ہوں۔ روٹی کا اچھا حصہ تو خود کھا لیتا اور جلا ہوا حصہ ایک تھیلے میں ڈالتا جاتا۔ کچھ مدت کے بعد جب گھر آیا تواُس نے جلے ہوئے ٹکڑوں کے بہت سے تھیلے اپنی ماں کے آگے رکھ دیئے۔ وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اُس نے کہا اماں! میں نے آپ کے کہنے پر عمل تو کیا ہے مگر مجھے ابھی تک معلوم نہیں ہوا کہ یہ بات کیا تھی؟ ماں نے کہا اُس وقت جبکہ تم گئے تھے اِس کا بتانا مناسب نہ تھا اب میں بتاتی ہوں اور وہ یہ کہ بہت سی بیماریاں انسان کو نیم پختہ کھانا کھانے کی وجہ سے لاحق ہو جاتی ہیں میں نے جلے ہوئے ٹکڑے لانے کے لئے اِس لئے کہا کہ تم ان ٹکڑوںکیلئے روٹی کو ایسا پکاؤ گے کہ وہ کسی قدر جل بھی جائے گی۔ جلی ہوئی کو رکھ دو گے اور باقی کھا لو گے اِس سے تمہاری صحت بہت اچھی رہے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
یہ کیا چھوٹی سی بات تھی لیکن درحقیقت اس کے بچہ کو بچانے کا موجب ہوگئی۔ سپاہی چونکہ جلدی جلدی کھانا پکا کر کھا لیتے ہیں اور اس طرح اکثر کچا رہتا ہے اِس لئے اُنہیں پیچش اور محرقہ وغیرہ امراض اکثر لاحق رہتی ہیں۔ اُس کی ماں نے ایسی بات بتائی جو بظاہر تو بہت معمولی تھی مگر جب اُس نے اِس پر عمل کیا تو بہت بڑا فائدہ اُٹھایا یعنی اِس سے اُس کی صحت سلامت رہی۔
یہ میں نے تمہید کیوں بیان کی ہے؟ اس لئے کہ جو کچھ میں نے پچھلے جمعہ کو بیان کیا تھا اور جو آج کرنے لگا ہوں وہ بظاہر سننے میں بہت معمولی معلوم ہوا ہوگا۔ اگر وہ ایسا ہی معمولی ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ خوبصورت لکھنے والے، عمدہ اشیاء بنانے والے، اعلیٰ کھانا پکانے والے کے ہاتھ کی حرکت ہے۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں وہ کوئی خاص گر جانتے ہیں حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کے پاس بھی وہی گر ہوتا ہے مگر وہ استعمال نہیں کرتے اس لئے ان کی دعائیں ردّ کی جاتی ہیں اور جو استعمال کرتے ہیں ان کی قبول ہوتی ہیں۔ پس تم لوگ ان کو معمولی نہ سمجھو وہ گو معمولی نظر آتی ہیں مگر نتائج اعلیٰ رکھتی ہیں۔ جب تم ان باتوں کو سنو گے جو اَب میں سنانا چاہتا ہوں تو کہو گے کہ یہ معمولی باتیں ہیں ان کو ہم بھی جانتے ہیں مگر جاننا اَور بات ہے او رعمل کرنا اَور بات۔ غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ مرزا صاحب مسیح موعود ہو کر کیا آئے جس دن سے آئے ہیں اُسی دن سے لوگوں پر ہلاکت اور تباہی آ رہی ہے۔ ہم کہتے ہیں ان کا آنا ہلاکت اور تباہی سے نہیں بچا سکتا بلکہ ان کا ماننا بچاتا ہے۔ پس ہمیں یہ بتایا جائے کہ کتنوں نے آپ کو مانا ہے؟ جب آپ کو مانتے نہیں تو پھر تباہیوں سے کس طرح بچیں۔ تو کسی بات کا جاننا یا زبانی ماننا اُس وقت تک کوئی فائدہ نہیں دیتا جب تک کہ اُس پر عمل نہ کیا جائے۔
گذشتہ جمعہ میں میں نے دعا کے قبول ہونے کے لئے دو باتیں بتائی تھیں۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ انسان اپنے اعمال میں پاکیزگی پیدا کرے اور خداتعالیٰ کے ہر ایک حکم کو بجا لائے۔ کیوں؟ اس لئے کہ جس سے انسان خوش ہوتا ہے اُس کو انعام دیتا ہے اِسی طرح جس پر خداتعالیٰ خوش ہوتا ہے اُسی پر انعام کرتا ہے۔ اس طریق کو سن کر بعض لوگ کہہ دیں گے کہ یہ تو ایک بڑی بات ہے ہمیں پہلے اپنے اعمال کی درستی کے لئے ہی دعا کی ضرورت ہے کیونکہ دعا تو تب قبول ہوگی جب کہ اعمال درست ہوں گے اور اعمال اُس وقت تک درست نہیں ہو سکتے جب تک کہ خداتعالیٰ ہماری دستگیری نہ کرے اس لئے کوئی ایسی بات بتاؤ جس پر عمل کرنے سے ہمارے جیسے کمزور ایمان اور کمزور اعمال والے انسانوں کی دعائیں بھی قبولیت کا شرف حاصل کر سکیں کیونکہ ہم کو بہ نسبت دوسروں کے بہت زیادہ ضرورت ہے تا کہ ہمارے اعمال دعا کے ذریعہ درست اور مضبوط ہوں اور ہمیں کامل ایمان حاصل کرنے کی توفیق ملے۔ اس کے لئے میں آج چند ایسی باتیں بھی بیان کرتا ہوں جن کو ہر ابتدائی حالت والا انسان عمل میں لا سکتا ہے اور گو وہ معمولی نظر آتی ہیں لیکن درحقیقت بہت بڑی ہیں اور ان سے بڑے بڑے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔
ان میں سے ایک بات تو وہ ہے جو گزشتہ خطبہ میں میں نے بتائی تھی کہ انسان دعا کرتے ہوئے اِس بات پر کامل ایمان رکھے کہ میں خدا کے حضور سے کبھی ناامید نہیں ہوں گا اور کبھی تہی دست نہیں پھروں گا لیکن اگر کوئی انسان دعا تو کرتا ہے مگر اس کا دل کہتا ہے کہ تیری دعا قبول نہیں ہوگی تو واقعہ میں اُس کی دعا قبول نہیں ہوگی اس لئے ہر ایک انسان اس یقین سے دعا مانگے کہ خداتعالیٰ ضرور سنے گا اور قبول کرے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم انسانوں میں دیکھتے ہیں کہ ان کے جو پیارے ہوتے ہیں ان سے جو نیک سلوک کرتا ہے وہ بھی ان کی نظروں میں پیارا معلوم دینے لگ جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی ایک بچہ کو ہلاکت سے بچائے تو اس بچہ کے ماں باپ اس کے شکر گزار ہوں گے اور اسے یہ نہیں کہیں گے کہ تو نے بچہ کو بچایا ہے نہ کہ ہم کو کہ ہم تیرے مشکور ہوں۔ تو یہ محبت کا تقاضا ہے کہ جو چیز کسی کی محبوب ہوتی ہے تو جب اُس کو کوئی فائدہ پہنچائے یا اُس کی نسبت کوئی اچھی بات کہے تو محب کے دل میں اس کی بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی گر دعا میں بھی انسان استعمال کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس سے بہت زیادہ محبت انسانوں سے ہوتی ہے جو بندوں کو بندوں سے ہوتی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ محبت کی بنیاد تعلق پر ہوتی ہے۔ چونکہ بندوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ابتداء کے لحاظ سے بھی اور انتہاء کے لحاظ سے بھی عارضی تعلق ہوتا ہے اس لئے ان کی محبت خواہ کتنی ہی زیادہ ہو پھر بھی خدا کی محبت سے مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ خداتعالیٰ کی محبت دائمی اور ہمیشہ کے لئے ہے۔
ایک جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے کفار کو شکست ہو چکی تھی، صحابہ قیدیوں اور مال اسباب وغیرہ کو جمع کر رہے تھے پکڑ دھکڑ شروع تھی کہ ایک عورت بھاگی بھاگی پھرتی نظر آئی۔ وہ جس بچہ کو دیکھتی اُسے پکڑ کر پیار کرتی اور پھر دیوانہ وار آگے چل پڑتی۔ اسی طرح چلتے چلتے اُسے اپنا بچہ مل گیا جسے اُس نے پکڑ کر چھاتی سے لگا لیا اور آرام سے بیٹھ گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا۔ کیا تم نے اِس عورت کو دیکھا اپنے بچہ کی محبت سے کس طرح بے تاب ہو رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے اِس سے بھی زیادہ محبت اور پیار ہے۔ ؎۲
تو خداتعالیٰ کی محبت انسانوں کی محبت سے بہت زیادہ ہے۔ پس جس طرح اگر کوئی کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو اس کے محب کے دل میں اس کی بھی محبت اور اُلفت پیدا ہو جاتی ہے اِسی طرح اللہ تعالیٰ کے بندوں پر اگر کوئی احسان، مروت اور رحم کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اُس پر رحم کرتا ہے تو دعاؤں کی قبولیت کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہو اور اس کے لئے دعا کرنی ہو تو اُس وقت کسی ایسے انسان کے جو کسی قسم کے دکھ اور تکلیف میں ہو دکھ کو دور کیا جائے یا دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ جب کوئی شخص خداتعالیٰ کے کسی بندے سے ایسا سلوک کرے گا تو اُس کی وجہ سے خداتعالیٰ اُس کے دکھ کو دُور کر دے گا کیونکہ اس نے اس کے ایک بندہ کا دکھ دور کیا تھا ۔یہ بہت اعلیٰ طریق ہے۔ دعا کرنے سے پہلے کوئی ایسا شخص تلاش کرنا چاہیے جو کسی مصیبت اور تکلیف میں ہو۔ خواہ وہ تکلیف جانی ہو یا مالی۔ عزت کی ہو یا آبرو کی، کسی قسم کی ہو، تم کوشش کرو کہ دُور ہو جائے۔ آگے دُور ہو یا نہ ہو اُس کے تم ذمہ دار نہیں ہو تم اپنی ہمت اور کوشش کے مطابق زور لگا دو اس کے بعد خداتعالیٰ کے حضور جاؤ اور جا کر اپنے مدعا کے لئے دعا کرو۔ اِس طریق کی دعا بہت حد تک قبول ہو جائے گی۔ تم خداتعالیٰ کے کسی بندے کی تکلیف کو دور کرنے کے لئے جس قدر توجہ کرو گے خداتعالیٰ تمہاری تکلیف کو دورکرنے کے لئے اس سے بہت زیادہ توجہ فرمائے گا۔ اور کیا سمجھتے ہو کہ خداتعالیٰ کی توجہ بھی بے نتیجہ ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ممکن ہے کہ تم جس انسان کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرو اس میں تمہیں کامیابی نہ ہو کیونکہ تم بندے ہو اور کسی بندے کے اختیار میں نہیں کہ جو کچھ کرنا چاہے اس میں کامیاب بھی ہو جائے لیکن خداتعالیٰ کی وہ ذات ہے کہ وہ جس بات کو کرنا چاہے وہ ضرور ہی ہو جاتی ہے اس لئے تم کبھی یہ خیال مت کرنا کہ چونکہ تمہاری کوشش کامیاب نہیں ہوئی اس لئے خداتعالیٰ بھی تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا کیونکہ جب خداتعالیٰ تمہارا کام کرنے کاارادہ کرے گا تو وہ ضرور ہو جائے گا۔ وہ ہر چیز کا خالق اور مالک ہے جس طرح چاہتا ہے ان سے کام لے لیتاہے۔ پس تم اِس طریق کو ضرور استعمال کرو۔
اِس کے علاوہ تیسرا طریق یہ ہے کہ وہ انسان جو اس درجہ کو نہ پہنچے ہوں کہ خداتعالیٰ خود انہیں دعائیں سکھائے اور بتائے کہ یہ دعا کرو اور یہ نہ کرو وہ دعا کرنے سے پہلے کثرت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ انسان ہیں جو خداتعالیٰ کے حضور تمام بنی نوع انسان سے زیادہ مقبول ہیں۔ خواہ وہ آپ سے پہلے گذرے یا بعد میں آئے یا آئندہ آئیں گے۔ ہر ایک انسان کی نظر میں اُس کا استاد یا اس کے خاندان کا بزرگ بڑا ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ رنجیت سنگھ کے مرنے پر بڑا واویلا مچا ہوا تھا پا س ایک چوہڑا گذر رہا تھا اس نے کسی کو کہا اتنی بڑی کیا آفت آ گئی ہے کہ سارا شہر پاگل بنا ہوا ہے اس نے کہا مہاراجہ رنجیت سنگھ مر گیا ہے۔ یہ سن کر وہ ایک ٹھنڈا سانس کھینچ کر کہنے لگا۔ باپو جی جیسے مر گئے تو رنجیت سنگھ کون تھا جو نہ مرتا۔ گویا اُس کے نزدیک باپو جی اتنی حیثیت رکھتے تھے کہ رنجیت سنگھ جو اپنے وقت کا بادشاہ تھا کچھ حقیقت نہ رکھتا تھا۔ یہ اس کے دل میں وہی جذبہ کام کر رہا تھا جو اپنے بزرگوں کی محبت اور اُلفت کا ہر ایک انسان میں ہوتا ہے۔ مذاہب میں بھی یہی بات پائی جاتی ہے۔ دیکھو باوجود اس کے کہ حضرت مسیحؑ، حضرت موسٰی ؑ کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ تھے مگر اس محبت اور اُلفت نے جو اپنے استاد یا بزرگ سے ہوتی ہے عیسائیوں کو ایسا مجبور کیا کہ اُنہوں نے ان کو حضرت موسٰی ؑ سے بہت زیادہ بڑھا دیا۔
تو میں نے جو یہ کہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے پہلے آنے والوں اور اپنے سے بعد میں آنے والوں میں سے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ شان رکھنے والے ہیں ان میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی شامل کر لیا ہے۔ حضرت مسیح موعود اپنے موجودہ درجہ میں ہوں یا اس سے بھی بڑے درجہ میں تو بھی آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور غلام ہی کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ آپ کا قرب اور درجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے طفیل ہے اور آپ ہی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔
میں نے بتایا ہے کہ حقیقی محبت استثناء کرتی ہے یعنی جس سے تعلق ہو اُس کو دوسروں سے بڑھ کر دکھاتی ہے۔ مگر ہم کوجس انسان سے اِس زمانہ میں نور ملا ہے ہم اس کو مستثنیٰ نہیں کرتے اور عَلَی اِلْاعْلَان کہتے ہیں کہ سب انسانوں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اعلیٰ اور ارفع ہے اور آپ ایک ایسے مقام پر ہیں کہ گویا سب سے علیحدہ ہو کر ایک اکیلے نظر آ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کلمۂ توحید کے ساتھ آپ کا نام بھی رکھ دیا ہے۔ ایسے انسان کی نسبت جو درود بھیج کر خداتعالیٰ سے برکات چاہتا ہے خداتعالیٰ کی رحمت جوش میں آ کر اُس پر فضل کرنا شروع کر دیتی ہے۔ یہ بات احادیث سے ثابت ہے ۳؎ (وقت کی کمی کی وجہ سے میں یہ نہیں بیان کر سکتا کہ جو طریق میں بیان کر رہا ہوں اس کو میں نے کس آیت اور کس حدیث سے استدلال کیا ہے مگر اتنا بتا دیتا ہوں کہ یہ سب باتیں قرآن کریم اور احادیث سے لی گئی ہیں) تو دعا کے قبول ہونے کے ساتھ درود کا بڑا تعلق ہے۔ وہ انسان جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج کر دعا کرتا ہے اُس کی ہر ایک ایسے انسان سے بڑھ کر دعا قبول ہوتی ہے جو بغیر درود کے کرے۔
انعام دینے کا یہ بھی ایک طریق اور رنگ ہوتا ہے کہ اپنے پیارے اور محبوب کی وساطت اور وسیلہ سے دیا جائے۔ خداتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انعامات کا وارث کرنے اور سب سے بڑا رُتبہ عطا کرنے کے لئے اِس طریق سے بھی کام لیا ہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج کر دعا مانگیں گے اُن کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی۔ دنیا میں کونساانسان ہے جسے خداتعالیٰ کی ضرورت نہیں ہر ایک کو ہے اس لئے ہر ایک ہی اپنی مصیبت کے دور ہونے اور ـحاجت کے پورا ہونے کے لئے خداتعالیٰ سے دعا کرے گا اور جب دعا کرے گا تو اگرچہ وہ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا عادی نہ ہوگا لیکن اپنی دعا کے قبول ہونے کے لئے درود بھیجے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی درجات کا موجب ہوگا اور اس طرح اسے بھی انعام مل جائے گا۔ غرض خداتعالیٰ نے اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرنے کے لئے ایک بات یہ بھی بیان کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج کر پھر دعا کی جائے اور یہ کوئی ناروا بات نہیں۔ یہ اسی طرح کی ہے کہ جو محبوب سے اچھا سلوک کرتا ہے وہ بھی محب کا محبوب ہو جاتا ہے۔
چوتھا گر یہ ہے کہ انسان خداتعالیٰ کی حمد کرے۔ یہ بھی ایک عام طریق ہے جو اسلام کی تعلیم سے بھی معلوم ہوتا ہے اور فطرتِ انسانی میں بھی پایا جاتا ہے۔ دیکھو فقراء جب کچھ مانگنے آتے ہیں تو جس سے مانگتے ہیں اُس کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔ کبھی اُسے بادشاہ بناتے ہیں، کبھی اُس کی بلند شان ظاہر کرتے ہیں ،کبھی کوئی اَور تعریفی کلمات کہتے ہیں حالانکہ جو کچھ وہ کہتے ہیں اُس میں وہ کوئی بات بھی نہیں پائی جاتی مگر مانگنے والا اِس طرح کرتا ضرور ہے اور ساتھ ہی اپنے آپ کو بڑا محتاج اور سخت حاجتمند بھی ظاہر کرتا ہے کیونکہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کرنے سے میں اپنے مخاطب کو رحم اور بخشش کی طرف متوجہ کر لوں گا۔ اور اللہ تعالیٰ کی تو جس قدر بھی تعریف کی جائے وہ کم ہوتی ہے کیونکہ وہی سب خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے اور اِسی لئے دوسرے لوگوں کی جو تعریف ہوتی ہے وہ سچی اور جھوٹی دونوں طرح کی ہو سکتی ہے مگر خداتعالیٰ کی جو تعریف بھی کی جائے وہ سب سچی ہی ہوتی ہے اس لئے جب کبھی دعا کی ضرورت ہو تو دعا کرنے سے پہلے خداتعالیٰ کی حمد کر لینی چاہیے۔ چنانچہ سورہ فاتحہ سے ہمیں یہ نکتہ معلوم ہوتا ہے۔ سورۃ فاتحہ وہ سب سے بڑی دعا ہے جو خداتعالیٰ نے اپنے بندوں کو سکھائی ہے اور ہر روز کئی بار پڑھی جاتی ہے اس میں پہلے خدا نے یہی رکھا ہے کہ ۴؎ فرماتا ہے۔ اس میں یہی گر سکھایا گیا ہے کہ جب کوئی دعا کرنے لگو تو پہلے کثرت سے خداتعالیٰ کی حمد کر لو۔ (حمد تمام خوبیوں اور پاکیزیوں کے جمع ہونے اور سب نقصوں اور کمزوریوں سے منزّہ سمجھنے کا نام ہے اس لئے تسبیح بھی اس میں شامل ہے اور یہ بھی ایک قسم کی حمد ہی ہوتی ہے) خداتعالیٰ کی حمد کرکے دعا کرنے سے بہت زیادہ دعا قبول ہوتی ہے۔پس انسان کو چاہیے کہ دعا کرنے سے پہلے خداتعالیٰ کی حمد کرے، اُس کی عظمت اور جلال کا اقرار کرے اور اس کی تعریف بیان کرے۔ اس طرح دعا بہت زیادہ قبول ہو جاتی ہے۔ وجہ یہ کہ چونکہ بندہ خداتعالیٰ کی صفات کو بیان کرتا اور اپنے آپ کو بالکل ہیچ ظاہر کرتا ہے اس لئے وہ خدا جو رحمن، رحیم، مالک، خالق، قادر ہے اور جس کے خزانوں میں کبھی کمی نہیں آ سکتی اُس کی دعا کو قبول کر لیتا ہے۔ جب ایک انسان کسی انسان کے سامنے اپنے آپ کو محتاج پیش کرتا اور اس کی تعریف و توصیف کرتا ہے تو اُسے رحم آ جاتا ہے اور وہ اس کی کچھ نہ کچھ مدد کردیتا ہے۔ تو خداتعالیٰ کے حضور جب کوئی انسان اپنی حالتِ زار کو پیش کرے اور اُس کی حمد وتعریف بیان کرے تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ اُس کی دعا کو ردّ کر دے۔ پس جب کوئی انسان خداتعالیٰ کی صفات کو بیان کر کے کچھ مانگتا ہے تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا یہ محتاج بندہ جو کچھ مانگتا ہے وہ اسے دیا جائے۔ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے خداتعالیٰ کی محبت جوش میں آتی ہے اِسی طرح حمد کرنے سے اُس کی غیرت جوش میں آتی ہے۔ درود پڑھنے سے تو خداتعالیٰ یہ کہتا ہے کہ یہ بندہ چونکہ ہمارے پیارے بندہ کے لئے دعا کرتا ہے کہ اس پر فضل کیا جائے اس لئے میں اس پر بھی فضل کرتا ہوں اور حمد کرنے کے وقت کہتا ہے کہ یہ میرا بندہ جو میری صفات بیان کر رہا ہے میں اِس پر اپنی صفات ظاہر بھی کر دیتا ہوں تا اِس کو عملی طور پر معلوم ہو جائے کہ جو کچھ وہ میرے متعلق کہتا ہے وہ سب درست ہے۔ تو حمد خداتعالیٰ کی سب صفات کو جوش میں لے آتی ہے اور سب صفات جمع ہو کر ایک طرف جھک جاتی ہیں تا کہ اس بندہ کا کام کر دیں۔
اس کے علاوہ دعا کی قبولیت کے لئے یہ بھی یاد رکھو کہ دعا کرنے سے پہلے اپنے کپڑوں اور بدن کو صاف کرو۔ گو ہر ایک دعا کرنے والا نہیں سمجھتا اور نہ محسوس کرتا ہے مگر جو محسوس کرتے یا کر سکتے ہیں ان کا تجربہ ہے کہ جب انسان دعا کرتا ہے تو اسے خداتعالیٰ کا ایک قرب حاصل ہو جاتا ہے اور اس کی روح اللہ تعالیٰ کے حضور کھنچی جاتی ہے گو دیکھنے والے کو معلوم نہیں ہوتا کہ خدا نظر آ رہا ہے مگر جس طرح خواب میں روح کو جسم سے آزاد کر دیا جاتا ہے اِسی طرح اس وقت خداتعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لئے روح الگ کی جاتی ہے ۔چونکہ روح کی صفائی جسم کی صفائی سے تعلق رکھتی ہے اور روح کی ناپاکی جسم کی ناپاکی سے اس لئے اگر جسم ناپاک ہوتو روح پر بھی اس کا ناپاک ہی اثر پڑتا ہے اور اگر جسم پاک ہو تو روح پر بھی اس کا پاک ہی اثر پڑتا ہے۔
ایک واقعہ لکھا ہے وَاللّٰہُ اَعْلَمُ کہاں تک درست ہے مگر ہے نتیجہ خیز۔ لکھا ہے کسی شہزادی نے ایک معمولی شخص سے شادی کر لی۔ جب وہ دونوں خلوت میں جمع ہوئے تو چونکہ مرد نے کھانا کھا کر ہاتھ نہ دھوئے تھے اس لئے ہاتھوں کی بُو سے اُسے اِتنی تکلیف ہوئی کہ اُس نے کہا اس کے ہاتھ کاٹ دو۔ چنانچہ اُس کے ہاتھ کاٹ دیئے گئے۔ گو خداتعالیٰ پر کسی کے گندہ اور ناپاک ہونے کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا مگر خداتعالیٰ ہر ایک گند اور ہر ایک ناپاکی کو سخت ناپسند کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تمام عبادتوں کے لئے صفائی کی شرط ضروری قرار دی ہے۔ جس طرح وہ شخص جو پیشاب سے بھرے ہوئے کپڑوں کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہے اُس کی نماز قبول نہیں ہوتی اِسی طرح وہ دعائیں جو ایسی حالت میں کی جائیں وہ بھی قبول نہیں ہوتیں بلکہ جب کوئی انسان گندی حالت میں خدا کے حضور پیش ہوتا ہے تو بجائے فائدہ اُٹھانے کے وہاں سے نکال دیا جاتا ہے۔ یہی سر ہے کہ صوفیاء نے دعائیں کرنے کا لباس الگ بنا رکھا ہوتا ہے جسے خوب صاف ستھرا رکھتے اور خوشبوئیں لگاتے ہیں۔ تو دعا کے قبول ہونے کا یہ بھی ایک طریق ہے کہ دعا کرنے سے پہلے انسان اپنے کپڑوں کو صاف ستھرا کر لے۔ جو شخص غریب ہے وہ اس طرح کر سکتا ہے کہ ایک الگ جوڑا بنا رکھے اور اُسے صاف کر لیا کرے۔ اِس طرح دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔
پھر دعا کی قبولیت کے لئے ایک اَور طریق ہے اور وہ یہ کہ دعا کے لئے ایک ایسا وقت اور جگہ انتخاب کرے جہاں خاموشی ہو۔ مثلاً اگر دن کا وقت ہے تو جنگل میں کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں سمجھے کہ کوئی میرے خیالات میں خلل انداز نہیں ہو سکے گا یا رات کے وقت جبکہ سب لوگ سوئے ہوئے ہوں دعا کرے۔ اِس طرح یہ ہوتا ہے کہ خیالات پراگندہ نہیں ہونے پاتے۔ جب کسی ایسی جگہ یا ایسے وقت دعا کی جاتی ہے کہ اِدھر سے آوازیں آتی رہتی ہیں تو دعا کی طرف خاص توجہ نہیں ہو سکتی اِس طرح توجہ کبھی کسی طرف چلی جاتی ہے اور کبھی کسی طرف۔ چونکہ انسان کی طبیعت میں تجسس کا مادہ ہے اس لئے ذرا سی آواز آنے پر جھٹ اِدھر متوجہ ہو جاتا ہے تا معلوم کرے کہ کیا ہوا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے وہ لوگ جن کو جلوت سے خلوت میسر نہیں آ سکتی یا آتی ہے مگر بہت تھوڑی دیر کے لئے، وہ ایسے وقت دعا کریں جب کہ خاموشی ہو یا ایسی جگہ کریں جہاں کسی قسم کا شور نہ ہو۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہے آپ جنگل میں تنہا چلے جایا کرتے تھے۔ اِس بات کا علم اکثر لوگوں کو نہیں ہے مگر آپ اُس راستہ سے جو میاں بشیر احمدکے مکان کے پاس سے گزرتا ہے دس بجے کے قریب سیر کو جانے کے علاوہ اکیلے بھی جایا کرتے تھے۔ ایک دن جو آپ جانے لگے تو میں بھی آپ کے ساتھ چل پڑا۔ تھوڑی دور چلے تو واپس لوٹ آئے اور مسکرا کر فرمانے لگے پہلے تم جانا چاہتے ہو تو ہو آؤ میں بعد میں جاؤں گا۔ اس سے میں سمجھ گیا کہ آپ اکیلے جانا چاہتے تھے میں واپس آ گیا۔ غرضیکہ علیحدہ جگہ اور خاموش وقت میں خاص توجہ سے دعا کی جا سکتی ہے کیونکہ توجہ کے لئے کوئی بیرونی روک نہیں ہوتی اس لئے طبیعت کا زور ایک ہی طرف لگتا ہے اور جیسا کہ میں نے کسی گزشتہ خطبہ میں بتایا تھا جب تمام زور ایک طرف لگتا ہے تو اپنے راستہ کی ہر ایک روک کو بہا کر لے جاتا ہے۔
پھر ایک یہ بھی طریق ہے کہ جب کوئی انسان کسی معاملہ کے متعلق دعا کرنے لگے تو پہلے اپنے نفس کی کمزوریوں کا مطالعہ کرے اور اتنامطالعہ کرے اتنا کرے کہ گویا اُس کا نفس مر ہی جائے اور اسے اپنے نفس سے گھن آنی شروع ہو جائے اور نفس کہہ اُٹھے کہ تو بغیر کسی بالا دست ہستی کی مدد اور تائید کے خود کسی کام کا نہیں ہے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ جب نفس کی یہ حالت ہو جائے تو دعا کی جائے ایسی حالت میں جس طرح ایک بے دست و پا بچہ کی ماں باپ خبرگیری کرتے ہیں اِسی طرح خداتعالیٰ بھی اپنے بندے کی کرتا ہے۔ ماں باپ کو دیکھو جب بچہ بڑا ہو جاتا ہے تو اُسے کہتے ہیں خود کھاؤ پیومگر دودھ پیتے بچہ کی ہر ایک ضرورت اور احتیاج کا انہیں خود خیال اور فکر ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ کے حضور بھی انسان کو اپنے نفس کو اِسی طرح ڈال دینا چاہئے جس طرح دودھ پیتا بچہ ماں باپ کے آگے ہوتا ہے لیکن اگر نفس فرعون ہو اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہو تو اس کی کوئی بات قبول نہیں ہو سکتی اس لئے سب سے پہلے انسان کو چاہیے کہ اپنے نفس کو بالکل گرا دے ۔یہ بندے اور خدا میں تعلق پیدا ہونے کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور اس سے دعا بہت زیادہ قبول ہوتی ہے۔
ایک یہ بھی طریق ہے کہ جب انسان دعا کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ کے انعامات کو اپنی آنکھوں کے سامنے لے آئے کیونکہ انسان سے خواہش اور امید کام کروایا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات کے دیکھنے کے لئے سر سے لے کر پاؤں تک خوب غور کرے اور دیکھے کہ اگر میری فلاں چیز نہ ہوتی تو مجھے کس قدر تکلیف اور نقصان ہوتا۔ مثلاً اس طرح نقشہ کھینچے کہ اگر میرے ہاتھ نہ ہوتے اور کوئی دوست مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتا تو میں کیا کرتا۔ یا پیاس لگی ہوتی تو پانی کس طرح پی سکتا۔ پیشاب کرنا ہوتا تو ازار بند کس طرح کھولتا اور پھر باندھ سکتا۔ غرضیکہ اسی طرح ہر ایک چیز کو دیکھے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے انعام اور فضل کا ایسا نقشہ کھینچے کہ اس کا رُواں رُواں خدا کی محبت اور اُلفت سے پُر ہو جائے۔ اُس وقت اُس کے دل پر جوش اور شوق سے امید ایک ایسی لہر مارے گی کہ وہ جو دعا کرے گا وہ قبول ہو جائے گی۔ کیونکہ جب وہ دیکھے گا کہ مجھے خداتعالیٰ نے بغیر مانگے اور سوال کئے اس قدر انعامات دے رکھے ہیںتو مانگنے سے کیوں نہ دے گا۔ جب اُس کو یہ یقین حاصل ہو جائے گا تو جو مانگے گا وہ مل جائے گا۔
ایک طریق یہ بھی ہے کہ جس طرح خداتعالیٰ کے انعامات کو نظر کے سامنے لانا چاہئے۔ اِسی طرح اُس کے غضب کو سامنے لایا جائے اور جس طرح یہ سوچا تھا کہ اگر میرا فلاں عضو نہ ہوتا تو کیا ہوتااِسی طرح یہ سوچے کہ یہ انعام جو مجھے دیئے گئے ہیں یہ چھین لئے جائیں تو پھر کیا ہو؟ اور یہ بھی دیکھے کہ بہت سے لوگ تھے جن پر میری طرح ہی خداتعالیٰ کے انعام تھے مگر ان سے چھین لئے گئے۔ اس بات کے لئے تباہ شدہ گھر اور ہلاک شدہ بستیاں یا اپنے جسم کا ہی کوئی تباہ شدہ حصہ کافی سبق دے سکتا ہے۔ وہ اسے دیکھے اور پھر دعا کرے یہ دعا خوف اور طمع کی دعا ہوگی جس کو قرآن کریم نے بھی بیان کیا ہے۔ ایک طرف اس کے خوف ہوگا اور دوسری طرف طمع۔ یہ دو دیواریں ہوں گی جو اسے دنیا سے کاٹ کر اللہ کی طرف مائل کر دیں گی اور اس طرح اُس کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔
پھر جب کوئی شخص دعا کرنے لگے تو اپنی حالت کو چست بنائے کیونکہ جس طرح نفس مُردہ ہو تو اس کا اثر جسم پر پڑتا ہے اِسی طرح اگر جسم مُردہ ہو تو اس کا اثر نفس پر پڑتا ہے۔ جب کوئی سستی کی حالت اختیار کرتا ہے تو اس کے نفس پر بھی سستی چھا جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز میں قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ جتنی حالتیں رکھی گئی ہیں وہ سب چستی کی رکھی ہیں۔ تو جسم کی سستی کا اثر روح پر اور خیالات پر ہوتا ہے۔ اس لئے دعا کرنے کے وقت انسان کو چستی کی حالت میں ہونا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ سجدہ میں جائے تو کہنیاں زمین پر گرا دے۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا شوق لگا رہتا ہے کہ میں شریعت کے ہر ایک چھوٹے سے چھوٹے حکم میں بھی معلوم کروں کہ کیا حکمت ہے۔ اِس وجہ سے میں نے اس بات پر غور کرنے کے لئے کہ یہ کیوں حکم ہے کہ سجدہ کرتے وقت کہنیاں زمین پر نہ گرائی جائیں، نوافل میں کہنیاں گرا کر دیکھا ہے اس سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اگر پہلے بڑے زور سے دعا ہو رہی ہو تو اس طرح کرنے سے رُک گئی ہے اور جب کہنیاں اُٹھائی ہیں تو پھر وہی حالت پیدا ہو گئی ہے جو پہلے تھی تو دعا کرتے وقت چستی ہونی چاہئے اور وہ چستی جو امید کی چستی ہوتی ہے نہ کہ کوئی اَور۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زبان سے دعا زیادہ عمدگی سے نکلتی ہے اور مختلف پیراوؤں میں دعا کرنے کی توفیق ملتی ہے۔
پھر ایک طریق یہ بھی ہے کہ جب کسی اہم امر کے متعلق دعا کرنے لگو تو اس سے پہلے چند اور دعائیں کر لو اور پھر اصل دعا کرو۔ خداتعالیٰ نے انسان کے لئے یہ بات رکھی ہے کہ اس کا ہر ایک کام آہستگی سے شروع ہوتا ہے اور جب وہ شروع ہو جاتا ہے تو پھر ترقی کرتا جاتا ہے گویا اس کے کاموں میں تیزی آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہے نہ کہ یکلخت۔ اس لئے بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی مقصد کے لئے دعا کرتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد کامیابی نہ دیکھ کر کرنے سے رہ جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ وہ چاہتا ہے کہ جلدی دعا قبول ہو جائے حالانکہ وہ جلدی نہیں ہونے والی ہوتی اس لئے بہتر یہ ہے کہ کسی اہم معاملہ کے متعلق دعا کرنے سے پہلے اَور دعائیں کی جائیں۔ جب ان کی وجہ سے ان میں تیزی اور چستی پیدا ہو جائے گی اور اس کے خیالات بلند ہو جائیں گے اُس وقت اپنے خاس مقصد کو خداتعالیٰ کے حضور پیش کر دے۔ اس کے لئے ایک اَور بہتر طریق یہ بھی ہے کہ انسان پہلے ایسی دعائیں مانگے جنہیں خداتعالیٰ ضرور قبول کر لیتا ہے۔ دفاتر میں جو ہوشیار کلرک ہوتے ہیں وہ اِسی طرح کیا کرتے ہیں کہ اگر ان کا منشاء ہو کہ ہمارا افسر فلاں درخواست کو نامنظور کرے تو اس کے سامنے چار پانچ ایسی درخواستیں پیش کر دیتے ہیں جن کے متعلق اُنہیںپورا یقین ہو کہ نامنظور کی جائیں گی جب افسر اُن کو نامنظور کر چکتا ہے اور خاص طور پر برافروختہ ہوتا ہے تو نامنظور کرانے والی کو پیش کر دیتے ہیں اِس طرح وہ بھی نامنظور ہو جاتی ہے۔ اور جب کسی درخواست کے متعلق ان کا یہ منشاء ہو کہ منظور ہو جائے تو پہلے ان امور کو پیش کرتے ہیں جن سے افسر خوش ہو جائے جب دیکھتے ہیں کہ خوش ہے تو اُسے بھی پیش کر دیتے ہیں اور اس طرح وہ منظور ہو جاتی ہے۔ اس طرح کام کرنے والے اور ہوشیار کلرک کیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی نکتہ نواز ہے۔ افسر کبھی تو جان بوجھ کر بھی کسی نامنظور کرنے والی درخواست کو منظور کر لیتا ہے کہ اس نے چونکہ ہمیں خوش کیا ہے اس لئے ہم بھی اس کو خوش کر دیں لیکن کبھی وہ نادانی سے ایسا کر بیٹھتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی شان ہی ایسی ہے کہ اُس کو کبھی دھوکا نہیں لگ سکتا اس لئے وہ خوش ہی ہو کر بات قبول کرتا ہے۔ پس کسی خاص معاملہ کے قبول کرانے کے لئے پہلے ایسی دعائیں کرنی چاہئیں جن کو خداتعالیٰ نے قبول ہی کر لینا ہو۔ مثلاً یہ کہ الٰہی دین اسلام کی بڑے زور شور سے اشاعت ہو، تیرا جلال اور قدرت ظاہر ہو، تیرے انبیاء کی عزت اور توقیر بڑھے۔ خداتعالیٰ کہے گا ایسا ہی ہو۔ اس طرح دعائیں کرتے کرتے اپنا مقصد بھی پیش کر دیں کہ الٰہی !یہ بات بھی ہو جائے تو دعا قبول کرانے کا ایک یہ بھی طریق ہے۔ اس طرح کرنے سے تیزی اور چستی پیدا ہو جاتی ہے اس لئے دعا نہایت عمدگی اور خوبی سے کی جا سکتی ہے اور دوسرے اِس سے خداتعالیٰ خوش ہو جاتا ہے اور جب اس کے خوش ہونے کی حالت میں دعا پیش کی جائے گی تو وہ ضرور قبول ہو جائے گی۔
ایک طریق یہ ہے کہ ایسی جگہ دعا مانگی جائے جو بابرکت ہو کیونکہ جگہ کا بھی قبولیت دعا سے خاص تعلق ہوتا ہے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ دنیا کی کسی چیز کا کوئی اثر اور کوئی حرکت ایسی نہیں ہوتی جو ضائع جاتی ہو بلکہ ہر ایک چیز کی خفیف سے خفیف حرکت بھی قائم اور محفوظ رہتی ہے۔ پس جب کسی اچھی چیز سے انسان کا تعلق ہوتا ہے تو اس انسان کا خاص اثر اس پر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مدینہ اور مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کا کسی اور جگہ پڑھنے سے زیادہ درجہ بتایا ہے ۵؎ کیا وہاں کے پتھر اور گارا کوئی خاص قسم کے ہیں؟ نہیں۔ بلکہ جگہیں برکت والی ہیں اور جو اِن میں نماز پڑھتا ہے اُس پر اچھا اثر ہوتا ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ انسان سے برکت چلی جاتی ہے، قومیں بے برکت ہو جاتی ہیں کیونکہ یہ اپنی نادانی اور بیوقوفی سے اس دُرّ بے بہا کو کھو دیتی ہیں مگر بے جان اشیاء میں جو خداتعالیٰ کی طرف سے برکت ڈالی جاتی ہے وہ کبھی نہیں جا سکتی اور ہمیشہ کے لئے رہتی ہے (سوائے نہایت خاص وجوہ کے یا خطرناک بداعمالی کے) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۶؎ کہ جب خدا تعالیٰ کسی قوم پر احسان اور فضل کرتا ہے تو اُس وقت تک اُس میں تغیر نہیں کرتا اور اُسے نہیں ہٹاتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت میں تغیر نہ پیدا کرے۔ تو انسان اپنی بداعمالیوں اور بدافعالیوں کی وجہ سے خداتعالیٰ کے فضل کو اپنے اوپر سے بند کر لیتا ہے لیکن ایک بے جان چیز ایسا نہیں کر سکتی اس لئے اس پر ہمیشہ کے لئے فضل قائم رہتا ہے۔
دیکھو مدینہ کے لوگ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ایسے ہوگئے ہیں کہ جس طرح وہاں کے لوگوں کی دعائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت پوری ہوتی تھیں اُس طرح آج ان کی نہیں ہوتیں۔ مکہ کے رہنے والوں کی بھی یہی حالت ہے۔ وہاں آج بھی دعائیں قبول ہونے کا ویسا ہی اثر ہے جیسا کہ پہلے تھا کیونکہ وہاں کی اینٹیں، گارا اور زمین نہیں بگڑی بلکہ آدمی بگڑ گئے ہیں تو جن جگہوں پر خداتعالیٰ کا فضل نازل ہو جاتا ہے وہ پھر کبھی نہیں رُکتا کیونکہ خداتعالیٰ کا خزانہ ایسا وسیع ہے کہ جس کے خالی ہونے کا کبھی خیال بھی نہیں آ سکتا۔ جن مقامات پر خداتعالیٰ نے فضل کر دیاہے پھر ان سے کبھی منفصل نہیں ہوتا اس لئے خاص مقامات میں دعا خاص طور پر قبول ہوتی ہے۔ پس انسان کو چاہیے کہ جب دعا کرنے لگے تو ایسے ہی مقام کو چن کر کرے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے پاس بھی ایک مصلّٰی تھا۔ آپ فرماتے تھے کہ میں جب کبھی اس مصلّٰی پر بیٹھ کر دعا کرتا ہوں خاص طو رپر قبول ہوتی ہے۔ تو خاص اشیاء میں خاص برکت کی وجہ سے خاص ہی اثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس بات کو پسند فرمایا ہے اور صحابہؓ کرام نے اس پر عمل کیا ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لئے ایک خاص جگہ معین کر دیتے تھے جہاں سوائے عبادت کے اور کام نہیں کئے جاتے تھے ۷؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیت الدعا بنایا ہوا تھا تو یہ بھی دعا کے قبول ہونے کا ایک طریق ہے۔
یہ بہت سے طریق میں نے آپ لوگوں کو بتائے ہیں دیر ہوگئی ہے ورنہ میں ابھی اَور بھی کئی ایک طریق بتا سکتا تھا۔ یہ باتیں گو بظاہر چھوٹی چھوٹی معلوم ہوتی ہیں مگر دراصل چھوٹی نہیں ان کو استعمال کر کے دیکھو تو پتہ لگے گا کہ ان سے کتنے کتنے بڑے نتائج نکلتے ہیں۔ جس طرح ایک ذرا سی کشش بدخط سے خوبصورت خط بنا دیتی ہے اسی طرح یہ باتیں دعا کو قبولیت کے درجہ پر پہنچا دیتی ہیں۔
اِس زمانہ میں ہمارے لئے بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ قسم قسم کے مخالف پیدا ہوگئے ہیں اور قسم قسم کے اعتراض اسلام پر کئے جاتے ہیں ان کے دفعیہ کے لئے ہمیں بہت کوشش اور ہمت کی ضرورت ہے اور اس سے بڑھ کر ہمارے لئے اور کونسا طریق کامیابی کا ہو سکتا ہے کہ ہم خداتعالیٰ کے حضور عرض کریں کہ آپ ہی ہماری مدد کیجئے۔ پس آپ لوگ اپنے اعتقاد، اپنے اعمال میں خاص اصلاح کر لیں تا تمہاراکھانا پینا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا غرضیکہ ہر سکون اور ہر حرکت اسی کے لئے ہو جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خطبہ میں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ اُس وقت کی کی ہوئی دعا قبول ہو جاتی ہے۔ پھر جمعہ سے مغرب تک ایسا ہی وقت آتا ہے۔ پھر رمضان کے آخری عشرہ میں بھی ایسا موقع آتا ہے خدا کے فضل سے آپ لوگوں کو یہ سب موقعے نصیب ہیں اس لئے خوب دعائیں کرو تا خداتعالیٰ اس مبارک مہینہ کے طفیل اور اس بابرکت پیغام کے طفیل جو تم دنیا کو پہنچانا چاہتے ہو تمہارے راستہ سے سب روکیں دور کر دے اور تمہیں اس کام کا پورا پورا اہل بنائے جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے۔‘‘ آمین
(الفضل ۸ـ؍ اگست ۱۹۱۶ئ)
۱؎ البقرۃ: ۱۸۷
۲؎ بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد
۳؎ ترمذی ابواب السفر باب الثناء علی اللّٰہ والصلٰوۃ علی النبیﷺ
۴؎ الفاتحہ: ۲ تا۷
۵؎ بخاری کتاب الصلوٰۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ باب لاتشد الرجال الا الٰی ثلاثۃ مساجد
۶؎ الرّعد: ۱۲
۷؎ مشکوۃ کتاب الصلوٰۃ باب المساجد و مواقع الصلوٰۃ
۲۵
گورنمنٹ بر طانیہ خدا کے فضلوں میں سے
ایک فضل ہے
(فر مودہ ۴؍ اگست۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اور سورئہ فا تحہ کی تلاوت کے بعد فرما یا :۔
’’خدا تعالیٰ کے فضل اور اُس کی حمد کی کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی۔ جب خدا تعالیٰ اپنا فضل اور احسان کر تا ہے تو پھر اس کی انتہا مقرر کرنی یا اُس کو گننے کی کو شش کرنا نا دانی ہو تی ہے۔دیکھو ابھی تھو ڑی دیرہو ئی کہ بارش ہوئی ہے یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضلو ں میں سے ایک فضل ہے لیکن کیا کسی کی طاقت ہے کہ اس کے قطرے گن سکے ؟ہر گز نہیں۔خدا کا ہر ایک جسما نی فضل نمونہ ہوتا ہے روحانی فضل کااورروحانی فضل جسمانی سے بہت زیا دہ وسیع ہو تا ہے۔جب جسما نی فضل کا ہی گننا نا ممکن ہے تو روحانی فضل کا گننا کس طرح ممکن ہو سکتاہے۔پھر خدا کے فضل کی وہ بارشیں جو روحانی رنگ میں ہو تی ہیں کبھی کبھی خاص طور پر بھی ہو تی ہیں۔ جس طرح سخت تپش اور گرمی کے بعد بہت زیادہ بارش ہو تی ہے اِسی طرح رُوحانی طور پر جب دنیا میں تپش ہو تی ہے تو اس کے بعد رُو حا نی بارش بڑے زور سے برستی ہے۔ اور ہو نا بھی ایسا ہی چاہئے کیو نکہ انسان اُس وقت تک کسی چیزسے خوشی اور راحت محسوس ہی نہیں کرتا جب تک کہ اس کے مقابلہ میں اسے دکھ اور تکلیف نہ پہنچ چکی ہو۔ ایک ایسا فقیر جس کی آنکھیں ہو ں وہ کبھی اِس بات پر خوشی کااظہا ر نہیں کرے گاکہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ کیسی نعمت دی ہے لیکن اگر اسے کوئی ایک پیسہ دے دے گاتو وہ بہت خوش ہو گااور دینے والے کا شکریہ ادا کرے گا۔کیوں؟اس لئے کہ آنکھیںتو اس کے پاس پہلے سے ہی تھیںاور پیسہ نیا ملاہے جو کہ اس کے پا س پہلے نہ تھا۔چونکہ اس کی آنکھیں نہیں گئی تھیںاس لئے اسے معلوم ہی نہیں کہ یہ بھی کوئی نعمت ہے۔ لیکن جن لو گوں کو موتیا بند ہو جا تاہے اگرچہ وہ ایک عارضی ہی پردہ ہو تا ہے لیکن جو ڈاکٹر اُس پردہ کو دور کر دیتا ہے اُس کے سامنے اُس کی آنکھیںاونچی نہیں ہو سکتیں۔کس قدر حیرت اور تعجب کا مقام ہے کہ اکثر لو گ اصل آنکھوں کے بنا نے والے کے آگے اپنی گردنیں اونچی ہی رکھتے ہیں ۔کیوں؟اِس لئے کہ اُس نے اُن کو چھین کر نہیں دیںبلکہ پہلے سے ہی دے رکھی ہیں۔مگر ایک ڈاکٹر اُس وقت آنکھیں بناتاہے جبکہ ان سے کچھ عرصہ کے لئے چھینی جا چکتی ہیںاس لئے اس کے شکرگزار ہوتے ہیں۔
تو یہ ایک عام بات ہے کہ جو چیز پہلے نہ ہو اورپھر ملے اُس پر لوگ خوش ہوتے اور اُسے نعمت سمجھتے ہیں اور جو پہلے سے ہی انہیں ملی ہو ئی ہواُس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے ۔خدا تعالیٰ کی بھی یہ ایک سنت ہے کہ ایک زمانہ میں وہ روحانی ترقیات کی طاقت بخشتاہے مگر کچھ مدت کے بعد لو گوں کو اپنی عادت کے مطابق یہ گھمنڈہو جا تاہے کہ خدا نے ہمیں کیا بتانا تھا یہ سب کچھ ہم نے اپنی عقل سے ہی تجویز کیا ہے گویا وہ اپنی نا دانی سے دین کو اپنی ایک ایجا د سمجھ لیتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانو ں پر بھی جب تصنیفات کا ز ما نہ آیا تو ان کے لئے خدا اور رسول اُڑ کر صرف یہی رہ گیا کہ امام ابو حنیفہؒ یہ کہتے ہیں، امام حنبلؒ یہ فرماتے ہیں۔یعنی ان کے دلوں میں خدا اور اُس کے رسول کا کوئی احسان نہ رہابلکہ اماموں کا ہو گیااور وہ یہ سمجھنے لگ گئے کہ اگر یہ امام نہ ہو تے تو آج کچھ نہ ہو تا۔
کہتے ہیں ایک پٹھان نے کسی کتاب میںپڑھا تھاکہ نماز پڑھتے ہوئے ہاتھ نہیں ہلانے چاہئیں ورنہ نماز ٹوٹ جا تی ہے۔پھر اُس نے کہیں یہ پڑھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نماز پڑھتے ہوئے کسی کے آواز دینے پر دروازہ کھول دیا۔تو کہنے لگا محمد(ﷺ )کا نماز ٹوٹ گیا۔گویا اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک امام کے حکم کے ما تحت لا نا چاہاحالا نکہ امام ابوحنیفہؒ وغیرہ جس قدر بھی امام ہو ئے ہیںوہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خوشہ چین ہیں اور آپ باغبان۔امام ما لکؒ ،امام شافعیؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام حنبلؒ یہ سب آپؐ کے خوشہ چین اور جاروب کش ہیں۔آپ کے باغ میں جھا ڑودے کر پھل جمع کر لا نے کے علا وہ اور کیا کرتے ہیں۔ مگر نادانوں اور کم عقلوں کے سامنے یہ جھا ڑو دینے والے تو ہیںاور پھل پیدا کرنے والا اور ان کو پرورش دینے والا پوشیدہ ہے اس لئے اُن کو نہیں دیکھتے۔ایسے ہی وقت میں خدا تعالیٰ اپنے دین کو دنیا سے اُٹھا لیتا ہے اور اِس طرح اُنہیں بتاتا ہے کہ تم نے خدا اور اس کے رسول کی قدر نہ کی اب بتائو تمہا رے پا س کیا ہے؟ اگر کچھ رکھتے ہو تو تم میں کو ئی ابو حنیفہؒ پیدا تو ہو،کوئی فقیہہ اور زاہد تو دکھلائولیکن وہ کچھ نہیں دِکھلا سکتے۔اُس وقت ان کی روحانی امور میں عقلیں ما ری جا تی ہیں۔ دنیاوی لحاظ سے تو بال کی کھال کھینچتے ہیںمگر روحانی طور پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہو تا۔ جب دنیا کی یہ حالت ہو جا تی ہے تو خدا کی بارش نا زل ہو کر بتاتی ہے کہ دیکھو اب ہم اپنا کام کرتے ہیںپھر لوگوں کے چہروں پر تازگی اوربشاشت آجا تی ہے۔ وہی لوگ جومردہ دل ہوتے ہیں زندہ ہو جا تے ہیں،وہ جو دین سے بالکل غافل اور بے پرواہ ہو جا تے ہیں دین پر جان دینے والے بن جا تے ہیں کیونکہ ان کی نگاہیں انسانوں پر نہیں بلکہ خدا پر ہو تی ہیںاور اُس وقت اُن کی یہ حالت ہو تی ہے کہ ؎
جِدھر دیکھتا ہوں اُدھر تُو ہی تُو ہے
اُس وقت ان کے منہ سے بے اختیا ر ؎۱ نکلتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد جس طر ح ڈاکٹر مو تیا بند دُور کرنے سے اُس کا تو احسان یاد رکھا جا تا ہے اور خدا تعالیٰ کوبھلا دیا جا تا ہے اِسی طرح اِس روحانی بارش کے بعد بد قسمت لو گ خدا تعالیٰ کو بھلا کر انسانی عقل و فہم پر بھروسہ کر بیٹھتے ہیں ۔ابھی دیکھ لو کوئی زیا دہ عرصہ نہیں گزرا کہ چند لوگوں نے کہہ دیا مرزا صاحب نے آکر ہمیں کیا دیا؟ صرف وفاتِ مسیح کے مسئلہ کو صاف کیا ہے۔ مگر ان نادانوں نے نہ دیکھا کہ ہم میں اور غیر احمدیو ں میںکیا فرق ہے۔ اگر یہ غور کرتے تو انہیں معلوم ہو جا تا کہ اِن میں اور اُن میں بہت بڑا فرق ہو گیا تھا۔ کیا اِن کے لئے قرآن کریم ایک زندہ کتا ب نہ ہو گئی تھی اور کیا اِن کے لئے رسول کریم ﷺ ایک زندہ رسول نہ ثابت ہو گئے تھے؟ پھر کیا جب یہ قرآن کریم پر غور کرتے تو ان کے ذہنوں میں بجلی کی طرح حقائق اور معارف نہیں ڈالے جاتے تھے؟ اور کیا وہ باتیں جو دوسروں کے لئے ٹھو کرکاباعث ہو تی تھیں ان کے لئے عجیب عجیب نکا ت نہیں ثابت ہو تی تھیں؟ پھر کیا وہی آیتیں جو نَعُوْذُبِاللّٰہِ لغو اور فضول سمجھی جا تی تھیں ان کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرکت ان کے لئے بڑی بڑی حکمت نہیں رکھتا تھا؟ یہ سب کچھ تھا مگر انہوں نے ان باتوں کو اپنی عقل اور سمجھ کا نتیجہ قرار دیا اور یہ کہہ دیا کہ مرزا صاحب کے ذریعہ وفاتِ مسیح کے سِوا ہمیں اور کچھ نہیں ملا۔ اِن لوگوں کو دیکھ کر تم ا ُن لو گوں کی حالت کا قیا س کر لو جو زما نہ نبوت سے بہت دور ہو جا تے ہیں۔ پس جب ان کے منہ سے نہیں نکلتی تو اللہ تعالیٰ اپنا انعام ان سے چھین لیتا ہے پھر انہیں پتہ لگ جا تا ہے کہ ہما ری عقل اور دانائی کچھ کام نہیں دے سکتی۔لیکن جس طرح بارش کے بند ہو نے سے کنو یںبھی خشک ہو جا تے ہیں اِسی طرح روحانی بارش کے بند ہو نے سے تمام روحانی چشمے خشک ہو جا تے ہیں پھر خدا تعالیٰ بارش نا زل فرما تا ہے لیکن نا دان انسان اصل بھیجنے والے کو پھر بھلا دیتے ہیں۔ غرض خدا تعالیٰ روحانی خشکی کے وقت ضرور روحانی بارش نا زل فرما تاہے اور جو لوگ وہ زما نہ پا تے اور اُس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں وہ بڑے خوش قسمت ہو تے ہیںکیو نکہ وہ حمد ہی حمد کا زما نہ ہو تا ہے۔
تمام دنیا کے لئے ایک حمد کا زما نہ تو وہ تھا جبکہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلممبعوث ہو ئے۔ پھر ایک یہ زمانہ ہے جس میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مبعوث ہو ئے ہیںاور جس کے پا نے کا ہمیں موقع ملا ہے اس لئے ہمارے لئے کیا ہی حمد کا زما نہ ہے ۔ ہما رے دل سے کیسے جو ش کے ساتھ حمد نکلتی ہے۔ کیوں؟اس لئے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے شارع دیا تو ایسا کہ تمام انبیا ء اس کے مقابلہ میں طفل مکتب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضر ت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرما یا۔ کہ لَوْکَانَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی حَیَّیْنِ لَمَاوَسِعَھُمَااِلَّااتِّبَاعِیْ ۲؎ اگرموسیٰ اورعیسیٰ زندہ ہو تے تو وہ بھی میرے ہی مدرسہ میں داخل ہوتے۔ دیکھو !موسیٰ علیہ السلام کی کتنی بڑی شان تھی مگر ان کے متعلق بھی آپ نے یہی کہاکہ اگر وہ آج زندہ ہو تے تو میرے سامنے زانوئے ادب خم کرتے۔
لوگوںنے حضرت موسیٰ اور خضر کا یو نہی ایک جھو ٹا قصّہ بنا لیا ہے اصل بات کچھ اور ہے۔ لیکن حضر ت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے پاس کشف میں خضر آیا۔ انہوں نے اسے کہا کہ مجھے بھی موسیٰ نہ سمجھ لینا کہ تمھا ری بات نہ سمجھ سکوں گا۔ میں محمدی سلسلہ کا فرد ہوں میں ان با توں سے خوب واقف ہوں۔ اور حضر ت موسیٰ ؑ کو بھی کشف میں ہی دکھا یا گیا تھا جس طرح حضرت موسیٰ ؑ کو خضر کشف میں دکھائی دیا تھا۔جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ خضر ملائکہ کے رنگ میں تھااسی طرح عبدالقادر ؑ کو بھی کشف میں نظر آیامگر انہوں نے کہا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوںاس لئے تیرا اثر مجھ پر نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی ایک رنگ ہو تا ہے لوگوں نے اپنی نا دانی سے خضر کچھ اور سمجھا ہوا ہے مگر انہوں نے قرآن کریم کی آیات پر غور نہیں کیا اور نہ اِس واقعہ کی حکمت اور اصلیت کو سمجھا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں اور کسی کا درجہ نہیں ہے بلکہ با قی سب انبیاء کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استاد شاگرد جیسا تعلق ہے اِسی لئے آپ نے حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے لئے فرمایا کہ اگر وہ بھی زندہ ہوتے تومیری اتباع کرتے۔اِتباع اُسی وقت کی جا تی ہے جبکہ بہت بڑا فرق ہو۔ تو خدا نے ہمیں ایسی شان کا رسول دیا۔ پھر کون ہے جس کے منہ سے بے اختیارنہ نکلے۔
پھر قرآن کریم ایسی مکمل کتا ب دی کہ جس کا کوئی لفظ، کوئی حرکت، کوئی نقطہ بے موقع نہیں ہے بلکہ ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرکت میں ایسی حکمت اور معرفت بھری ہوئی ہے کہ انسان اگر اس میں غور کرے تو ساری عمر اِسی میں مست رہے اور کوئی چیز اُس کی توجہ کو دوسری طرف نہ کھینچ سکے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا شارع نبی اور قرآن کریم ایسی کامل کتاب ہمیں دی گئی۔
پھر خدا تعالیٰ نے ہم پر یہ کتنا فضل کیا کہ اِس تا ریکی اور ظلمت کے زمانہ میں جس میں ایسے نبی اور ایسی کتاب کو لوگ چھوڑ بیٹھے تھے مسیح موعود علیہ السلام ایسا ہادی اور راہ نما بھیج دیا جس کی نسبت ہر زما نہ میں ہزار ہا ولی ترستے چلے گئے بلکہ جس کے زمانہ کو دیکھنے کی بعض انبیاء نے بھی خواہش کی کیونکہ آپ کا زمانہ خاص فتوحات کا زمانہ تھا۔
اللہ تعالیٰ تو چونکہ سب کا خدا ہے اس لئے میں نے اُس کانام نہیں لیا لیکن اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جس طرح جلوہ فرمایا ہے اس طرح پہلے کسی نبی کے ذریعہ نہیں فرمایا اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایسا خداملا جیسا کسی کو نہیں ملا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں جو ہم پر ہوئے ہیں اِسی لئے قرآن کریم کو سے شروع کیا گیا ہے۔
اِسی طرح ہم پر خدا تعالیٰ کے دنیا وی رنگ میں بھی بڑے فضل ہوئے ہیں ۔ ہم سے پہلی قوموں نے بڑی بڑی تکلیفیںاورمصیبتیں اُٹھا ئی ہیں۔ دیکھوحضرت مسیح جس وقت آئے تو گو انہوں نے تلوار نہ اُٹھائی اور نہ اُن کے مقابلہ میں اٹھائی گئی مگر یہودیوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھا دیا۔مگر تم اپنے مسیح کو دیکھو آپ کو خدا تعالیٰ نے ایک ایسی سلطنت میں پیدا کیا کہ آپ کا کوئی بڑے سے بڑا مخالف بھی بال بیکا نہ کر سکا ۔ آپ اسی سلطنت میں بیٹھ کر تبلیغ کرتے رہے اور تبلیغ بھی نہ صرف اَوروں کو بلکہ اسی سلطنت اور شہنشاہ کو۔ پہلے زمانوں میں کیا مجال تھی کہ کوئی بادشاہ کو تبلیغ تو کر سکے۔ یہ بہت بڑی گستاخی اور بے ادبی سمجھی جاتی تھی لیکن حضر ت مسیح مو عود علیہ السلام نے ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کو ایک خط لکھا جس میں اُسے اسلام کی طرف بلایا اور کہا کہ اگر اِسے قبول کر لو گی تو آپ کا بھلاہو گا ۔یہ سن کر بجائے اِس کے کہ اُن کی طرف سے کسی نا راضگی کا اظہار کیا جا تا اس چٹھی کے متعلق اس طرح شکریہ ادا کیا گیا کہ ہم کو آپ کی چٹھی مل گئی جسے پڑھ کر خوشی ہوئی ۔یہ سب اللہ تعالیٰ کے احسان اور فضل ہیں۔
ہر ایک مومن کو چاہئے کہ اِن کی قدر کرے کیونکہ جو شخص ابتداء میں کہتا ہے اُس کا انجام بھی پر ہی ہو تا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتاہے وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَکہ مومن جس طرح شروع میں حمد کرتے ہیں اُسی طرح انجام کار بھی ان کے منہ سے یہی نکلتاہے کہ بہت لوگ ہوتے ہیںجو اپنی پہلی عمر میں خداتعالیٰ کاشکر اور حمد کرتے ہیںلیکن جب بوڑھے ہوتے ہیںتو اُن کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ خداتعالیٰ فرماتاہے ایک مومن جس طرح خدا کی حمد کہتے کہتے بالغ ہو تا ہے اُسی طرح جانکنی کے وقت بھی اس کے منہ سے یہی نکلتی ہے۔ وہ کبھی مصائب اور آلام میں اس طرح گرفتار نہیں کیا جاتاکہ اُس کے منہ سے حمد نہ نکلے کیونکہ اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کے بہت سے انعام ہوتے ہیںان کی وہ قدر کرتا ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے انعام حاصل کرنا چاہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی زبان پر حمد الٰہی جا ری رکھے۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیںکہ ہمیں کچھ نہیں ملا،ہمیں فلاں تکلیف ہے، فلاں مصیبت ہے اُن کو دئیے ہوئے انعام بھی خداتعالیٰ واپس لے لیتا ہے۔
غالب اُردو کا ایک شاعر گزرا ہے، تھا تو وہ شرابی مگراُس کے کلام میں بعض باتیں عجیب بھی پا ئی جاتی ہیںجن سے معلوم ہو تا ہے کہ اُس کے دل میں سعادت بھی تھی کیونکہ کہیں کہیں اُس کے شعروں سے پتہ لگتا ہے کہ وہ اپنا معشوق خداتعالیٰ کو قرار دیتا ہے۔ ہمیں اُس پر بد ظنی کرنے کی کیا ضرورت ہے ہو سکتا ہے کہ اُس کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت اوراُلفت ہو۔ وہ ایک شعر میں کہتا ہے ؎
تیرے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہر باں کیوںہو
کہ میں خدا کو بے مہر، بے مہر کہتا ہوں تو پھر وہ مجھ پر مہر بانی کیوں کرے۔ تو جو بندہ خداتعالیٰ کی حمد نہیںکرتابلکہ یہ کہتا ہے کہ خدا نے مجھے کیا دیا ہے؟خدا تعالیٰ نے اُس پر جو انعام کیا ہوتا ہے وہ بھی چھین لیتاہے ۔جب انعام چھن جا تا ہے تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ مجھ پر فلاں انعام تھا، فلاں تھا۔ تو اللہ تعالیٰ کے مزید انعام حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی حمد جاری رکھی جائے اور جو نعمتیں اُس کی طرف سے ملی ہیں اُن کے شکریہ میں بے اختیار نکلے۔
میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے یہ حکومت برطانیہ بھی ایک نعمت ہے۔ بعض نادان اور کم عقل ہیںجو اس کے ماتحت رہتے ہوئے کہتے ہیںکہ ہمیں فلاں فلاں حقوق نہیں دیئے گئے، ہمیں فلاں اختیا رات نہیں سپرد کیے گئے، یہ نہیں دیاوہ نہیں دیالیکن انہیں پتہ تب لگے جب کہیں باہرجا کر دیکھیں۔یہاں تو کہہ لیتے ہیں کہ ہمیں فلاں حقوق نہیں دیئے گئے،ہماری فلاں بات نہیں مانی گئی مگر کسی اور جگہ اتنا کہنے کی بھی اجازت نہیں پائیں گے اور یہ کہنے پر پکڑ کر قیدکر دئیے جا ئیں گے۔ یہا ں تو جلسے ہوتے ہیںاور بعض اوقات گورنمنٹ کے خلاف بھی تقریریں کرتے ہیںاور بعض اخباروں میں بھی سخت سخت الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں لیکن گورنمنٹ بہت کچھ برداشت کر جا تی ہے اور جب تک فتنہ فساد کا ڈرنہ ہو دخل نہیں دیتی۔ ایسے وقت میں اُس کیلئے دخل دینا ضروری ہو جا تا ہے کیونکہ اگر اُس وقت بھی دخل نہ دے تو گویا اُس میں حکومت کرنے کا مادہ ہی نہیں سمجھا جا تا۔تو یہ حکو مت بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اِس لئے اِس کی قدر کرنی چاہئے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ سورئہ والناس اِس گورنمنٹ کیلئے بطور پیشگوئی کے ہے۔پھر آپ نے اس کے متعلق یہ دعا کی ہے۔
تاج و تخت ہند قیصر کومبارک ہو مدام
ان کی شاہی میں میں پاتا ہوں رفاہِ روزگار
اِس میں کسی خاص بادشاہ کا نام لے کر دعا نہیں کی گئی کیونکہ بادشاہ تو بدلتے رہتے ہیں اس لئے آپ نے سلطنت کے لئے دعا کی ہے۔
انبیاء کا دل بڑاشکر گزار ہوتاہے ۔ایک معمولی سے معمولی بات پر بھی بڑا احسان محسوس کرتے ہیں۔میں نے دیکھا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں جب دن رات چھپتیں توباوجود اِس کے کہ آپ کئی کئی راتیں بالکل نہیں سوتے تھے لیکن جب کوئی شخص رات کے وقت پروف لاتاتو اس کے آواز دینے پر خود اُٹھ کرلینے کے لئے جاتے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے کہ جَزَاکَ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاء اِس کو کتنی تکلیف ہوئی ہے۔ یہ لوگ کتنی تکلیف برداشت کرتے ہیں خدا اِن کوجزائے خیر دے حالانکہ آپ خود ساری رات جاگتے رہتے تھے۔میں کئی بار آپ کو کام کرتے دیکھ کر سویا اور جب کبھی آنکھ کھلی تو کام ہی کرتے دیکھا حتی کہ صبح ہو گئی۔دوسرے لوگ اگرچہ خدا کے لئے کام کرتے تھے لیکن آپ ان کی تکلیف کو بہت محسوس کرتے تھے۔کیوں؟اس لئے کہ انبیاء کے دل میں احسان کا بہت احساس ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے تمام احسانات کو اپنی طرف کھینچ لیتے تھے۔ کے سِوا اُن کے منہ سے کچھ نکلتا ہی نہیں۔ پس تم لوگ بھی خداتعالیٰ کے انعامات کو دیکھ کر ہی کہا کرو۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے گورنمنٹ برطانیہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک فضل ہے ۔تم لوگ اگر اس کے لئے شکر کرو گے تو یہی نہیں ہو گا کہ تم خدا کے شکر گزار بندے بنو گے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اور انعامات بھی حاصل کر لو گے۔ میرے خیال میں وہ لو گ جو گورنمنٹ کی مخالفت کرتے اور اس کے احسانات کی ناقدری کرتے ہیںوہ اگر گورنمنٹ کے شکر گزار ہوں تو ان پر خدا تعالیٰ کا فضل ہو جائے اور ان کی مشکلات بھی دُور ہو جائیں۔گورنمنٹ کی آجکل مشکلات کے لئے لوگ جلسے کرتے ہیںلیکن ان سے کوئی فائدہ نہیں ہو تا کیونکہ کئی لوگ ایسے بھی ہو تے ہیں جو دل میں کچھ اور رکھتے ہیںاور زبان پر کچھ اَور مگر چونکہ اظہارِ وفاداری کا یہ بھی ایک طریق ہے اگر ہماری جماعت بھی اِس طرح کرے تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن اصل وفاداری اور ہمدردی اُسی کا نام ہے جو دل سے کی جائے ۔گورنمنٹ چونکہ انسانوں کا مجموعہ ہے اور انسان دل کی حالت کو معلوم نہیں کر سکتے اِس لئے جلسے کرنا کوئی معیوب بات نہیں۔ مگر حقیقی وفاداری اِسی کا نام ہے کہ گورنمنٹ کیلئے دعا کی جائے اور پوشیدہ طور پر یہ کوشش کی جائے کہ جس طرح اس نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم اپنے دین کی اشاعت کر رہے ہیںاِس طرح خداتعالیٰ اِسے موقع دے کہ یہ اپنی سلطنت کی توسیع کر سکے۔ اور جس طرح اس نے ہماری دینی رنگ میں حفاظت کی ہے اِسی طرح خداتعالیٰ اِس کی دنیاوی رنگ میں حفاظت کرے بلکہ دین میں بھی اُسی راستہ پر چلائے جس پر ہم چل رہے ہیں۔اِس میں شک نہیں کہ موجودہ جنگ دنیا میں عذاب کے طور پر آئی ہے اور خداتعالیٰ اس طرح اپنا جلال ظاہر کر رہا ہے۔ کیا خداتعالیٰ دعا کرنے سے اپنے جلال کا اظہار چھوڑ دے گا؟ہاں اِس سے یہ ہو گاکہ جب دنیا دعائوں کے ذریعہ خداتعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائے گی تو پھر اُس کو کیا ضرورت ہے کہ ہلاک کرے۔آپ لوگ دعائیں کریں کہ جس طرح گورنمنٹ نے ہم پر احسان کئے ہیںاِسی طرح خداتعالیٰ ان پر کرے اور ہمارے دل ہمیشہ اپنے محسن کے لئے شکرگزار ہوں نا شکرگزار نہ ہو ں تا خداتعالیٰ کے اور فضلوں اور انعاموںکے جاذب بن جائیں۔‘‘ (الفضل۱۹؍اگست۱۹۱۶ئ)
۱؎ الفاتحۃ:۲
۲؎ ابن کثیر جلد ۲صفحہ۲۴۶ حاشیہ، الیواقیت والجواہر جلد۲ صفحہ۲۲
۲۶
دعائوں کی طرف توجہ کرو
(فرمودہ ۱۱؍ اگست۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’کسی کام کے کرنے سے جو انسان اعراض کرتاہے یا کوئی ایسی چیز جس کے حصول کیلئے کوشش نہیں کرتا وہ وہی ہو تی ہے جس کے حاصل کرنے میں کوئی فائدہ اور کوئی نفع نہیں دیکھتایا جس کے حاصل کرنے کے سامان مہیانہیں ہوتے یا جس کے حاصل کرنے کا اسے طریق معلوم نہیں ہوتا۔اگر کسی کام کے کرنے یا کسی چیز کے حاصل کرنے میں اُسے کوئی فائدہ نظر آتا ہو،اس کی ضرورت محسوس کرتا ہو، پھر اس کام کے کرنے یا اس چیز کے حاصل کرنے کا طریق بھی اسے معلوم ہو ،پھر اس کام کے کرنے یا اس چیز کے حاصل کرنے کے ذرائع بھی مہیا ہوں تو کبھی بھی کوئی انسان اس کام کے کرنے یا اس چیز کے حاصل کرنے میں کوتاہی اور غفلت نہیں کرتا۔ سوائے اس کے جس کو بدقسمتی پیچھے کی طرف پھینک دے۔ یا جس کی عقل میں فتور آگیا ہو ۔یا جو بے سمجھی اور نادانی سے سستی کر بیٹھے۔ یا جس کے دل پر غفلت غالب ہو اور گناہوں اور بدافعالیوں کی وجہ سے قلب پر زنگ لگ گیا ہو ورنہ اِن تینوں باتوں کے مہیا ہونے کے بعد کوئی انسان کوشش اور ہمت کرنے سے نہیں رُکا کرتا۔ یعنی اوّل جب کوئی کام یا کوئی چیز اسے ایسی معلوم ہو جس کے حاصل کرنے کی اسے ضرورت ہو اور وہ جس کا محتاج بھی ہو۔ دوم۔ اُس کام کے کرنے یا اُس چیز کے حاصل کرنیکی اُسے ترکیب بھی آتی ہو۔ سوم۔ اُس کے حصول کے سب ذرائع بھی مہیا ہوںتو کبھی کوئی عقل مند انسان سعی کرنے سے نہیں رُکتا۔ لیکن اگر کوئی باوجود ان باتوں کی موجودگی کے کسی کام کے کرنے یا کسی چیز کے حاصل کرنے سے غافل رہے تو ضرور ہے کہ اس کے دل پر زنگ لگ چکاہے اور بداعمالیوں کی زنجیر نے اُسے پیچھے باندھا ہواہے ورنہ کوئی وجہ نہیںکہ وہ اس کے کرنے سے رُکے کیونکہ اگر پھر بھی کسی کے دل پر غفلت اور ہاتھ پائوں میں سستی ہوتو ضرور ہے کہ اس کی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے ورنہ اپنے نفع کو دیکھ کر کبھی کوئی انسان پیچھے نہیں ہٹتا اور پھر جب حاجت مند بھی ہو تو پورا پورا زور لگاتاہے۔ مگر جب باوجود حاجت مند ہونے کے سامانوں کے مہیا ہونے اور طریق کے آنے کی سستی کرتاہے تو ضرور ہے کہ اُس کے قلب پر زنگ لگ گیا ہے۔ اور جس شخص یا جس جماعت کے اعمال میں کسی بات کے متعلق یہ نمونہ نظر آئے اس شخص یا ان لوگوں کو چاہئے کہ اپنے اعمال پر غور کریںاور سوچیں کہ کوئی کل خراب ہے تب ہی مشکلات کے دور ہونے کے لئے دعا کرنے اور اس چیز کے حاصل کرنے میں سستی ہو رہی ہے جس کا حاصل کرنا لازمی اور ضروری ہے۔
میں نے پچھلے چند خطبوں میں دعا کی ضرورت، اس کے مانگنے کی ترکیب اور اس کے قبول ہونے کے ذرائع بیان کئے تھے جس سے ہر ایک شخص آسانی سے سمجھ سکتاہے کہ دعا کے بغیر گزارہ نہیںہے کیونکہ یہی ایک ایسی چیز ہے جو تمام مشکلات اور تمام مصائب سے بچا سکتی ہے۔پھر یہ ایسی چیز ہے کہ اس کی ترکیب استعمال نہایت آسان ہے۔ہر ایک چیز کے حاصل کرنے کے لئے انسان کو کچھ نہ کچھ حرکت کرنی پڑتی ہے لیکن دعا کے لئے کوئی حرکت نہیں کرنی پڑتی۔ اگر کسی انسان کے ہاتھ پائوں میں کیل گاڑ دی جائیں،اُس کی گردن میں موٹے رسّے باندھ دیئے جائیں اور اُس کے تمام جسم پر کوئی ایسا اثر کر دیا جائے کہ اُس کاچمڑا خفیف سے خفیف حرکت بھی نہ کر سکے تو کیا وہ دعا کرنے سے روک دیا جا سکتا ہے؟ہر گز نہیں۔ایسی حالت میں بھی وہ دعا کر سکتا ہے ۔جب دعا ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے حصول کے ایسے طریق ہیںجو قرآن کریم اور حدیث میں نہایت واضح طور پر بیان کر دیئے گئے ہیںاور اس کی حاجت بھی بہت سخت ہے پھر بھی اگر کوئی اس کے متعلق سستی کرتاہے تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ اُس کے دل اور قلب پر اُس کی بداعمالیوں کی وجہ سے زنگ لگ گیاہے اور اس کے گزشتہ گناہ اس کے لئے روک کا موجب بن گئے ہیں اور اس چیز کے حصول میں مانع ہو گئے ہیںکہ جس کے بغیر اسے کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی۔
اللہ تعالیٰ بڑا ر حمن ہے پھر وہ بڑارحیم ہے اُس کی رحمانیت اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ انسان اس کی رحیمیت کا بھی مزا چکھے۔یورپ کے لوگ انسانی فطرت پر غور کرتے ہیں اور اپنے کاموں کو عجیب عجیب طریقوں سے ترقی دیتے ہیں۔میں نے دیکھا ہے خداتعالیٰ کی سنتوں پر انہوں نے خوب غورکیا ہے لیکن افسوس کہ مسلمان اِس طرف سے بالکل غافل ہو گئے۔ یورپ کے تاجر جب اپنے کام کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتے ہیںاور یہ بتاناچاہتے ہیںکہ ہمارا مال اچھا ہے ہم کوئی دھوکا نہیں دیتے اورنہ ہی غلط کہتے ہیں تو وہ نمونہ مفت دینے کااعلان کرتے ہیںکیونکہ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیںجو غلط اور جھوٹ اشتہار دے کر لوگوں کو بدظن کردیتے ہیںاس لئے وہ لوگ جنہیںاپنے مال کے عمدہ ہونے اور مفید ہونے کا یقین ہوتاہے سیمپل (نمونہ) شائع کرتے ہیںاشتہار دیتے ہیںاور اس میں لکھتے ہیںکہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمارا مال قیمتاً منگوائو بلکہ یہ کہتے ہیںکہ ایک پیسہ کا پوسٹ کارڈبھیج کرہم سے اس کانمونہ طلب کرو۔ تمہارا خط آنے پر ہم تمہیں مفت نمونہ بھیج دیں گے۔تم اس کو استعمال کرنا،اگر مفید ثابت ہو تو اَور قیمتاً منگوا لینا ورنہ نہ منگوانا۔اس طرح کرنے کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ لوگوں کو چونکہ صرف ایک پیسہ کا کارڈ لکھنا پڑتاہے اور باقی سب خرچ یعنی دوائی کی قیمت،شیشی کا مول،محصول ڈاک، خط و کتابت کاخرچ مال والوں کو ہی کرنا پڑتا ہے اس لئے بہت سے لوگ نمونہ منگواکر استعمال کرتے ہیں اور جب وہ دیکھتے ہیںکہ اِس تھوڑی سی دوائی سے ہمیں اِس قدر فائدہ ہوا ہے اگر زیادہ کھائیں گے تو ضرور ہے کہ زیادہ فائدہ ہو اِس لئے قیمتاًمنگوا لیتے ہیں اِس طرح کارخانہ والوں کی شہرت بھی ہوجاتی ہے اور فائدہ بھی۔خداتعالیٰ نے بھی اپنے انعام و اکرام دینے کے نمونے مقرر کئے ہوئے ہیں۔انسان کودعا،عبادت اور نیک اعمال کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اپنی رحمانیت کی صفت ظاہر کرتاہے جوکہ بغیر عمل کے، بغیر کوشش کے اور بغیر محنت اورتدبیر کے جاری ہوتی ہے۔یعنی بِلا کام کئے خدا کا فضل نازل ہوتا ہے اور وہ نمونہ کے طور پر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے رحمانیت کوررحمیت سے پہلے رکھا ہے۔چنانچہ فرمایا۔ پہلے رحمانیت کوبیان کر کے پھر رحیمیت کو بیان کیا ہے اس سے انسان کواس طرف متوجہ کیاہے کہ یہ ہمارا نمونہ ہے ہم نے کچھ احسانات بغیر تمہارے کہنے اور کچھ کرنے کے تم پر کئے ہیں تم ان پر غور اور تدبرّ کرواور دیکھو کہ تمہیں ان سے کتنا نفع اور آرام پہنچ رہاہے۔ان کے حاصل کرنے کے لئے نہ تم نے کوشش کی ہے، نہ محنت کی ہے، نہ تدبیر کی ہے محض ہمارے فضل سے تمہیں ملے ہیں۔پس جب بغیر تمہاری کسی محنت، کوشش، تدبیر اوربغیر کسی عمل کے ہم نے یہ انعامات دیئے ہیںتواب اگر تم ہمارے احکامات کے ماتحت کچھ کام کرو گے تو سمجھ لو کہ کتنے بڑے انعام حاصل کر لوگے اور رحیمیت کی صفت تمہیں کیا کچھ نہ دکھائے گی۔تورحمانیت کی صفت نمونہ ہے جوانسان کو خداتعالیٰ کی طرف کھینچنے کے لئے ظاہر ہوتاہے کیونکہ جب کوئی انسان خداتعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر غور کرتاہے اور دیکھتا ہے کہ جب میں نے کچھ نہیں کیا تو خداتعالیٰ نے مجھے آنکھیں، ناک، کان، عقل، دولت، عزت وغیرہ دی ہے تو جب میںکچھ کروں گااورخداتعالیٰ کے حکم مانوںگاپھر وہ کیا کچھ نہ دے گا۔جس طرح ایک دوائی کا نمونہ استعمال کرنے والا کہتا ہے کہ مجھے اِس تھوڑی سی دوائی نے اِس قدر فائدہ دیا ہے کہ اگر میں زیادہ استعمال کروں گاتوزیادہ فائدہ ہو گااس لئے وہ روپیہ خرچ کر کے اَور منگواتا ہے جو پہلے سے زیادہ آجاتی ہے اِسی طرح رحمانیت کی صفت خداتعالیٰ کی طرف کھینچتی ہے اور بتاتی ہے کہ جب رحمانیت کے ماتحت تجھ پر اِس قدر فضل نازل ہوا تو جب رحیمیّت کے نیچے آجائے گاتو اُس وقت کتنا فضل ہوگاکیونکہ اُس وقت توفضل حاصل کرنے کاتیرااستحقاق پیدا ہوجائے گا۔ گو کسی انسان کا خداتعالیٰ پر کوئی حق نہیں ہے مگر خداتعالیٰ نے خودمقرر کردیاہے اور وہ وعدوںکا سچاہے۔پس بِلا استحقاق کے جب اِس قدر فضل ہوتے ہیںتوجب استحقاق ہو جائے اُس وقت توبہت زیادہ ہوجائیںگے۔ جس طرح دوائی دینے والاجب مفت دوائی دیتاہے تو قیمت لے کر کیوں نہ دے گااِسی طرح خداتعالیٰ جب بغیر کام کے دیتاہے توعمل،محنت اور کوشش کرنے سے کیوں نہ دے گا۔تو رحمانیت نمونہ ہے رحیمیت کا۔اس سے خداتعالیٰ کی شان کا علم ہوتاہے اور جتناجتنا کوئی اس صفت کے نیچے آئے اُتنا ہی زیادہ انعام پاتاہے۔
رحیمیت کے انعام خاص شان اوردرجہ رکھتے ہیں۔ رحمانیت کے ماتحت توساری دنیاہے ایک کتااور بلا بھی اسی کے ماتحت ہے لیکن رحیمیت کے انعام خداکے خاص خاص بندوں کوہی ملتے ہیںاورجانتے ہوجو فضیلت ان کوحاصل ہوتی ہے اس کاکوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ رحمانیت کانزول چونکہ سہارے کیلئے ہوتاہے اس لئے سب کوحاصل ہوتی ہے۔جیسے دوائی کانمونہ ہے ہر ایک شخص کودیاجاتاہے جودرخواست کرتاہے لیکن پھرپوری دوائی اُسی کودیتے ہیںجوقیمت ادا کرتاہے اورایسے چند ہی ہوتے ہیں۔اِسی طرح خداتعالیٰ کی رحیمیت بھی خاص ہے اور خاص لوگوں سے ہی تعلق رکھتی ہے اِس سے جو لطف اور سرور وہ اُٹھاتے ہیںوہ اور کوئی نہیں اُٹھا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے ماتحت آنکھ، ناک، کان، زبان وغیرہ سب کوملے ہوئے ہیں اس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی ہمارے ساتھ شریک ہیںمگرپھر وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے آپؐ کوتمام نبیوں سے بڑھا دیاہے۔وہ آپؐ کاپورے طور پررحیمیت کے ماتحت آناہے۔آپ ؐنے خداتعالیٰ کی رحمانیت کودیکھ کر سمجھا کہ یہی ایک بہت بڑی ہستی ہے اور تمام کامیابیاں اور ترقیاں اِسی سے تعلق رکھتی ہیں۔یہ سمجھ کرآپؐ پر رحمانیت نے وہ اثر کیاکہ تمام انسانوں سے بڑھ کر اپنے تمام جوارح کو خداتعالیٰ کی اطاعت میں لگادیااس لئے سب سے بڑے اور کامل رحیمیت کے مظہرآپؐ ہی ہوئے اور سب اگلوں پچھلوں سے بڑھ گئے۔ پس ہرایک انسان کوچاہئے کہ وہ خداتعالیٰ کے رحمانیت کے نمونوں کو دیکھے تااسے رحیمیت کے فضل حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہو۔ لیکن جب احتیاج بھی بہت ہو، سامان بھی میسر ہوں، ترکیب بھی آتی ہوتوپھرسوائے اِس کے کہ انسان کے دل پر اپنے شامت اعمال کی وجہ سے زنگ لگ چکا ہوکوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ وہ دعا کرنے سے باز رہے اور اپنے اعمال میں اصلاح پیدا نہ کرے۔
ہماری جماعت کے لوگوں پرخداتعالیٰ نے بہت فضل کئے ہیں۔ وہ باتیں جوپوشیدہ تھیں ان پر ظاہر کی ہیں، وہ نور جولوگوںکی نظروں سے نہاں تھا اُن پر آشکارا کردیاہے،وہ دروازہ جو دوسروں پر بندتھا ان پر کھول دیا ہے اس لئے ہمارے لئے بہت کچھ آسانیاں ہو گئی ہیں کیونکہ دوسرے لوگ دعا کی حقیقت، خداتعالیٰ کے قرب کے فوائد اور اس کے حاصل کرنے کی ترکیبوں سے واقف نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اس کی حاجت سمجھتے ہیں۔ان کے لئے دنیا کی دولت، مال، عہدہ اور خطاب ہی سب کچھ ہیں اِس لئے اُن کو نہ حاجت ہے نہ ان کے پاس سامان ہیں اور نہ ہی ترکیب استعمال جانتے ہیں اِس لئے وہ ایک حد تک معذور بھی ہیں۔لیکن جن کے لئے خداتعالیٰ نے سب ذرائع مہیا کردیئے ہیں اور سب قسم کے بند کھول دیئے ہیںوہ اگر دعائیں کرنے میں سستی کریںتو کس قدر افسوس کی بات ہے۔
میری اِن خطبات سے یہ مراد نہ تھی کہ میں کوئی علمی مضمون بیان کروںبلکہ یہ تھی کہ اپنی جماعت کو اس طرف متوجہ کروں اور دعا کرنے کی عادت ڈالوں۔ بہت لوگ ہیں جو دعائوں میں سستی کرتے ہیں۔ (بہت سے مراد ایک کثیر حصۂ جماعت مراد نہیں بلکہ یہ کہ ایسے لوگ بھی تھوڑے نہیں) ان کے لئے یہ کافی ہے کہ کسی سے سلسلہ کے متعلق بحث مباحثہ کرلیا جائے مگر وہ اصلاح جو حضرت مسیح موعودؑپیدا کرنا چاہتے تھے اُس سے غافل ہیں۔ اِس قسم کے جوش جن میں محض زبان ہی زبان کام کر رہی ہو کوئی نفع نہیں دیتے۔نفع اِسی سے ہوتا ہے کہ انسان اپنے تمام جوارح پر اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرے اور اُس کی محبت میں گداز ہوجائے اور اُس کی اُلفت میںگرد بن جائے، اگر کوئی شخص یہ نہیں کرتا تو حکم عدولی کرتاہے۔تو صرف زبان سے ہی اقرار کرلینانہ صرف کوئی فائدہ ہی نہیں دیتا بلکہ بہت زیادہ نقصان بھی پہنچاتاہے۔ پھر ہو سکتا ہے کہ کوئی سچے دل سے اقرار کرتا ہو مگر اُسے عمل کی توفیق نہ ملتی ہوتو یہ اُس کے پچھلے گناہوں کے زنگ کی وجہ سے ہو گا۔ جس طرح ایک شخص بیڑیوں سے جکڑ اہوا ہو اور اس کے کھانے کے لئے شیر آرہاہوتو کوئی یہ نہیں کہے گاکہ اُس کے دل میں شیر کا خوف نہیںہے اس لئے خاموش بیٹھا ہے اور بھاگتا نہیںکیونکہ وہ تو بھاگ ہی نہیں سکتا۔اگر وہ بھاگ سکتا تو وہ ضرور بھاگ کر جان بچانے کی کو شش کرتا۔وہ جانتاہے کہ خونخوار شیر مجھے کھا جائے گا مگر چونکہ اس کے پائوں بندھے ہوئے ہیں اس لئے بھاگنے کی طاقت ہی نہیں رکھتا۔ اِسی طرح بعض لوگوں کو ایمان توحاصل ہوتا ہے لیکن ان کے پچھلے گناہ اور نقص اعمال کے راستہ میں حائل ہو جاتے ہیں اوران کے پائوں میں بیڑیوں کی طرح، ان کے ہاتھ میںہتھکڑیوں کی طرح اور ان کے گلے میں طوقوں کی طرح پڑے ہوتے ہیں۔ وہ اِس بات کو جانتے ہوئے کہ ہمیں یوں کرنا چاہئے اس طرح نہیں کر سکتے اور اس سے اپنے دل میںکڑھتے بھی ہیں ،افسوس بھی کرتے ہیں مگر کرتے وہی ہیں جو انہیں نہیں کرنا چاہئے یہ اعمال کے زنگ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اُن کا دل خوب محسوس کرتا ہے مگر کشش بُرائی کی طرف ہی کرتاہے۔ اِس وقت یہی علاج ہے کہ زنگ کو دور کیا جائے اور پائوں کی زنجیروں کے توڑنے اور ہاتھوں کی ہتھکڑیوں کے کاٹنے اور گلے کے طوقوں کو اُتارنے کی کوشش کی جائے۔ جب یہ ہو جائے گا تو پھر ایمان نفع اور فائدہ دیگا اور یہ سب کچھ دعا کے ذریعہ ہوسکتاہے۔
ہماری جماعت میںجو ایسے لوگ ہیں اُن کو اِس طرف توجہ کرنی چاہئے اور اس کا یہی علاج ہے کہ انہیں جس قدر دعا کرنے کی توفیق ملے اُسے اسی کے لئے خرچ کریں لیکن اگر دل قائم نہ ہو تو زبان سے لفظ نکالنے کی جس قدر توفیق ملے اُسی قدر نکالیں۔ اگرلفظ بھی نہ نکال سکتے ہوںتو خیالات کے ذریعہ ہی دعا کی طرف متوجہ رہیں۔زبان سے کہنا اوربات ہوتی ہے اور خیالات کرنا اَور ۔اگر دعا کرنے سے کسی کا قلب منکر ہو اور زبان بھی انکار کرتی ہوکہ لفظ نکالے تو اسے اس طرف خیالات دَوڑانے چاہئیں۔اگرچہ خیالات بہت ہی ادنیٰ ہوتے ہیں جس طرح ایک بہت مریل سا گھوڑا ہوجو چاہے اُس کے اوپر چڑھ بیٹھے یہی حال خیالات کا ہوتا ہے لیکن انسان کم از کم خیالات کے ذریعہ تو دعا کی طرف متوجہ ہو۔ اس سے آہستہ آہستہ اوپر ترقی شروع ہو جاتی ہے ۔
پہلے زمانہ میں مجرموں کو سزا دینے کا یہ طریق ہوتا تھا کہ کسی بڑے اونچے مینا ر پر قید کردیتے تھے۔ایسے قیدیوں کو جو لوگ چھڑانا چاہتے وہ اتنی اونچی جگہ کوئی مو ٹا رسّہ تو پھینک نہ سکتے جس کے ذریعہ وہ نیچے اُتر آئے اس لئے اِس طرح کرتے کہ ایک باریک دھاگے کا گولہ تیر کے ساتھ باندھتے اور اسے کمان کے ذریعہ اوپر پہنچاتے۔ اِس طرح دھاگہ اُس قید ی تک پہنچ جاتا وہ اُس کا ایک سرا خود پکڑتا اور باقی کو نیچے گرادیتا۔پھر وہ اس کے ساتھ ذرا موٹا دھاگہ باندھ دیتے جسے وہ اوپر کھینچ لیتا اِس طرح کرتے کرتے آخر کا ر وہ موٹا رسّہ اُس تک پہنچا دیتے تھے اور وہ نیچے اُتر آتا تھا۔ یہ ترکیب اس لئے ایجاد کی گئی کہ کمزور چیز بڑا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی ۔ یہی حال دعا اور اعمال میں ہوتا ہے۔ وہ انسان جو زیادہ بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔ اُسے چاہئے کہ پہلے تھوڑا اُٹھائے اور جب اسے عادت ہو جائے گی تو زیادہ سے زیادہ اُٹھا تا جائے اور اس طرح کرتے کرتے بڑے سے بڑا بوجھ بھی اُٹھا لے گا ہاں اسے چاہئے کہ ہمت نہ ہارے اور مایوس نہ ہو۔
ہمارے راستہ میں جو مشکلات حائل ہیںان کا انکار کوئی نادان ہی کرے تو کرے ورنہ عقل مند کبھی نہیں کر سکتا۔ہم نے تمام دنیا سے مقابلہ کی ٹھانی ہوئی ہے لیکن نہ ہمارے پاس مال ہے نہ دولت ہے، نہ دنیاوی عزت ہے نہ حکومت ہے،اس صورت میں اگرہم وہ حقیقی ہتھیار جو خداتعالیٰ کی طرف سے ہمیں ملا ہے اس سے بھی کام نہ لیں تو اور کیا صورت ہو گی جس سے ہم کامیاب ہونگے۔ایک جنگل اور بیابان میں بیٹھا ہواانسان غافل نہیں ہوتاکیونکہ وہ جا نتاہے کہ اس میں شیر،چیتے اور ڈاکو رہتے ہیں لیکن وہا ں تو ایک آدھ شیر چیتے کا ڈر ہوتاہے یہاں کروڑوں کروڑ شیر اِس بات کے لئے تیار ہیںکہ ہمیں چیر پھاڑ کر پھینک دیں۔ اگر کہیںایک شیر ہو بلکہ شیر نہ بھی ہو صرف وہم ہی ہو یا ایک ڈاکوئوں کی جماعت ہو، جماعت نہ بھی ہو صرف خیال ہی ہو تو بھی لوگ ہو شیار اور چوکس رہتے ہیں لیکن ہمارے لئے ایک شیر نہیں بلکہ کروڑوں شیر ہیں، ایک ڈاکوئوں کی جماعت نہیں بلکہ بے شمار ڈاکوہیں اِس لئے ہمیں ہوشیار رہنے کی بہت ہی ضرورت اور حاجت ہے اس لئے ہمیں جس رنگ اور جس طریق سے توفیق ملے اُسی سے کوشش اور ہمت کرنی چاہئے۔ پھر جبکہ ہم خداتعالیٰ کے قرب اور اُس کے فضل کے محتاج ہیں اور اس کے حصول کے ذرائع اور طریق بھی معلوم ہیں پھر غفلت کیسی۔اگر کسی میں غفلت ہے تو اس کے پہلے گناہوں کے زنگ کی وجہ سے ہے جسے بہت جلد دور کرنے کی کوشش کرنا چاہئے، اگر دل کے ایک حصہ میں زنگ لگ چکا ہے تو دوسرے حصہ کے ذریعے اُسے کھرچنے کی کوشش کرو۔ایک ہاتھ بندھا ہو تودوسرے سے کھولنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ایک پائوں گڑا ہوا ہو تو دوسرے سے نکالنے کی ہمت کی جاتی ہے۔ تم بھی اِسی طرح کرو۔ اگر قلب پر زنگ ہے تو زبان سے ہٹانے کی کوشش کرو۔ اگر زبان پر ہے تو ہاتھ سے ہٹانے کی کوشش کرو۔اور اگر ہاتھوں پر ہے تو پائوں سے۔اس طرح تمہیںایک چھوٹا عمل بڑے کی توفیق دے گااور وہ اس سے بھی بڑے کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ؎۱ اللہ تعالیٰ اپنے انعامات کسی قوم سے اُس وقت تک واپس نہیں لیتاجب تک کہ اس میں کمزوریاں او رنقص نہیں پیدا ہو جاتے۔ پس اگر تم پر کوئی مصیبت یا ابتلاآتا ہے تو تمہارے ہی ہاتھوں کی کمائی ہوئی وجہ سے۔ اس لئے ہوشیار ہوجائو اور اس کے دور کرنے کیلئے کوشش کرو۔ خدا تعالیٰ کے وعدے سچے ہیںوہ ضرور پورے ہوں گے مگر تم اپنی غفلت اور سستی کو چھوڑدو۔میں تو اس کو بھی نیچریت ہی سمجھتا ہوں کہ کوئی منہ سے دعوے تو بہت کچھ کرے مگر قلب کے حضور کے ساتھ ان کے حصول کی کوشش نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں سے استکبار کرنا اچھا نہیں گو کوئی ان کو اچھا سمجھے لیکن جو اپنے خیالات یا موجودہ زمانے کے حالات سے ڈر کر ذکرِالٰہی کوعملی طور پر لغوسمجھنے اور اس کے لئے کوئی وقت خالی نہ کرے، آنحضرت ﷺ پر درُودنہ بھیجے وہ عملی طور پر استکبار کرتا اور خداتعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں کی تحقیر کرتاہے۔
بہت سے لوگ ایسے ہیںجو تہجد اور نوافل پڑھنے کی کوشش نہیں کرتے،بہت ایسے ہیںجو صرف فرائض کا ادا کر لینا ضروری سمجھتے ہیںحالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیںکہ بندہ نوافل سے قرب الٰہی حاصل کرتاہے۔ لوگوں نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ نوافل بھی قرب کا باعث ہوتے ہیںلیکن میرے نزدیک اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ نوافل ہی قرب کا باعث ہوتے ہیں کیونکہ فرائض کی ادائیگی انسان کو ایمان کے درجے تک پہنچاتی ہے۔دیکھ لوگورنمنٹ کے ملازمین کے جو فرائض ہوتے ہیںان کے ادا کرنے پر وہ صرف تنخواہ کے حق دار ہوتے ہیںانعام کے نہیں۔ ہاں اگر وہ اپنے فرائض سے بڑھ کر کوئی کام کریںتو بے شک انعام پاتے ہیں۔ اِسی طرح صرف فرائض کا ادا کرناخداتعالیٰ کے قرب کا باعث نہیں ہوتا بلکہ یہ ایمان کی بنیا د پر قائم کرتاہے آگے نوافل بڑھاتے اور درجہ دلاتے ہیں۔پھر بعض اوقات نوافل فرائض کی جگہ بھی کام آتے ہیںکیونکہ کوئی فرض کسی دل سے ادا کیا جاتاہے اور کوئی کسی سے اس لئے نوافل فرائض کے قائم مقام ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک گڑھا ہواگر وہ زیادہ گہرا ہوتواس میں جو مٹی ڈالی جائے گی وہ اُسی میں غائب ہوجائے گی لیکن اگر کم گہرا ہو تو اور مٹی ڈالنے سے وہ گڑھے والی جگہ اَور بھی اونچی ہو جائیگی اِسی طرح اگر فرائض کی کمی ہو تو نوافل اسے پُر کردیتے ہیںاور اگر کمی نہ ہو تواُسے اور اونچا کردیتے ہیں۔
بہت سی باتیں ہیںجن کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں ہے۔بحث ومباحثہ کرنے میں تو ہوشیار ہیں مگر ذکرِ الٰہی اور دعا کرنے میں سست اور غافل ۔ لغو اور فضلول باتوں سے پرہیز نہیں کرتے اور دین کی عظمت اُن کے دلوں میں نہیں ہے۔ تہجد کی ادائیگی اور نوافل کے پڑھنے کی طرف خیال نہیں کرتے۔
یہاں کے بعض لوگوں میں بھی یہ کمی ہے جس کے دور کرنے کی طرف انہیں بہت جلد توجہ کرنی چاہئے۔ یہا ں قریباًنو ماہ سے بخار چلاآتاہے اس کے آنے سے دو تین ماہ پہلے میں نے اپنا رئویا بھی بتلا دیاتھا کہ میں نے یہ خطرناک بخار دیکھا ہے۔خداتعالیٰ کی طرف سے پہلے بتانے کی یہی غرض ہوتی ہے کہ لوگ عاجزی اور تضرع اختیار کریں اور خدا کے حضور گر جائیں۔کہتے ہیں شیر کے آگے اگر کوئی گر جائے تووہ حملہ نہیں کرتا۔شیر کا تو پتہ نہیں لیکن اگر کوئی خداکے آگے گرے تو وہ ضرور ہی حملہ نہیں کرتا۔ جو کوئی خدا کے حضور گرتا ہے وہ گویا اپنے نفس کو مار دیتا ہے اس لئے سزا سے بچ جاتا ہے۔ دیکھو انسان کے آگے بھی کوئی جھک جائے تو اسے بھی شرم آجاتی ہے پھر خدا تعالیٰ اپنے آگے گرے ہوئے پر کیوں رحم نہ کرے۔
بچپن میں ہم نے ایک کشتی بنوائی تھی لڑکے اُسے ڈھاب میںتیرانے کے لئے لے جاتے تھے اور بے اختیاطی سے توڑدیتے تھے۔میں نے ایک دفعہ لڑکوں سے کہاکہ جب کوئی لڑکا کشتی لے جائے تومجھے بتانامیں اُسے سزا دوں گا۔چنانچہ ایک دن جب چند لڑکے اسے لے گئے تو لڑکوں نے مجھے بتایا۔میں وہاں گیاتووہ سب بھاگ گئے لیکن ایک کو پکڑلیاگیا۔جب میں اسے مارنے لگاتو اُس نے آگے سے سر ڈال دیااور کہا کہ لو مار لو۔یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی اور میں نے اُسے چھوڑ دیا۔تو جھکے ہوئے پر جب انسان کو بھی رحم آجاتا ہے تو خدا کو کیوں رحم نہ آئے، جھکنے سے اُس کا بھی غضب ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ گرے ہوئے پر کبھی قدم نہیں مارتا۔ ہاں جو چھاتی نکال کر کھڑا ہو جائے اور غلطی کر کے اُس پر اکڑے اُسے گراتاہے اور جس پر سے اُس کا غضب ٹھنڈا ہو جاتا ہے وہ نہ صرف سزا سے بچ جاتا ہے بلکہ اس کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بھی جوش میں آتی ہے۔
غرض ہماری جماعت کے لئے بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ یہاں کے لوگ بھی اور باہر کے بھی نمازوں میںبہت ہوشیاری پیدا کریںاور دعائیں کریں۔ جس طرح استقلال کی ہر ایک کام میںضرورت ہوتی ہے اِسی طرح دعامیں بھی ہے۔ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیںجو چند دن دعا کرکے چھوڑ دیتے ہیں، پھر مساجد میں بہت سی لغو باتیں اور بیہودہ جھگڑے کئے جاتے ہیںحالانکہ مسجدیں ذکرِ الٰہی اور دینی امور کے لئے ہیں۔ اِسی طرح بہت سی باتیںہیں جو بظاہر چھوٹی معلوم ہوتی ہیں مگر ان کی وجہ سے آہستہ آہستہ دل پر زنگ لگنا شروع ہو جاتاہے جس طرح ایک چھوٹی نیکی بڑی نیکی کا موجب ہوتی ہے اِسی طرح چھوٹی بدی بڑی بدی کا باعث ہوتی ہے۔ تم لوگ ان باتوں میں اصلاح کرو اور اپنے اندر عاجزی اور فروتنی کا مادہ پیدا کرو تاکہ اگر خداکا غضب ہو تو ٹھنڈا ہوجائے۔ یہ بیماریاں اور مشکلات بلاوجہ نہیں آ رہیں جماعت کا کوئی نہ کوئی حصہ ضرور ایسا ہے جس کی وجہ سے یہ تکالیف ہیں اس لئے اصلاح کرو اور دعائوں پر خوب زور دو۔جب تمہارے سامنے دو چیزیںہیں ایک خدا کا غضب اور دوسرے اُس کا رحم، تو تم اچھی چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرو۔اس کے حصول کے لئے دعائیں کرو اور بہت کرو اور عاجزی بھی پیدا کرو ۔ صرف دعا اُس وقت تک کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتی جب تک کہ اس کے ساتھ عاجزی نہ ہو۔ ایک پگھلاہوا اور گدازقلب اگر غلطی کرتاہے تو بھی اسے خدا کے حضور گرنے کا موقع مل جاتاہے اس لئے وہ آئندہ اِس قسم کی غلطی سے بچ جاتاہے۔
آجکل ہیضہ بہت پھیلا ہوا ہے ایسے غضب کے دنوں میں بہت بڑی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ تم پر خداتعالیٰ کا فضل نازل ہو۔ جب فضل نازل ہو جائے تو پھر اس کا غضب ہٹ جاتاہے کہ رحم اور غضب دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ ۲؎ میری رحمت ہر شے پر چھائی ہوئی ہے حتی کہ دوسری صفات پر بھی غالب ہے توجب خدا کی رحمت آتی ہے سب بلائیں ٹل جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہو ا تھاکہ مجھے آگ سے مت ڈرائوآگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔۳؎ تو آگ سے کس وقت ڈر نہیں؟ جبکہ اپنے آپ کو غلام بنائو۔ تم اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے حضور اور نبیوں کے احکام کے آگے عبد کی طرح بنائو پھر کوئی چیز تمہارے لئے روک نہیں ہوسکے گی۔ نہ تم پر مصائب آئیں گے، نہ بیماریاں غالب ہو سکیں گی،نہ دشمن کچھ بگاڑ سکیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اپنے کرم اور رحم کے ماتحت لائے اور تمام جماعت پر اپنا فضل کرے اور اپنے خاص انعامات کا وارث بنائے اور ہمیںان عہدوں کے پوراکرنے کی توفیق دے جو ہم نے کئے ہیں۔ وہ طاقت بخشے جس سے ہم اس کے انعاموں کے جذب کرنے والے بنیں اور وہ قوت دے جو اس کے غضب کو ہٹانے اور رحم کو کھینچنے والی ہو۔‘‘ آمین
(الفضل ۲۲؍ اگست ۱۹۱۶ئ)
۱؎ الرعد: ۱۲ ۲؎ الاعراف: ۱۵۷
۳؎ تذکرہ صفحہ ۳۹۷۔ ایڈیشن چہارم
۲۷
مشکلات کے وقت بہت زیادہ ہمت دکھانی چاہئے
(فرمودہ ۲۵؍اگست ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
۔ ؎۱
پھر فرمایا:۔
’’کم ہمت انسان کبھی بھی دنیا میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکتابلکہ اپنے ہا تھ سے اپنی کامیابی کو خود ضائع کرتا ہے۔بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیںکہ ایک کام کرتے کرتے جب اِس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ کامیابی کا وقت نزدیک آجاتا ہے تو اسے چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ان کی مثال اُس شخص کی طرح ہوتی ہے جو کنواں کھودنے لگے لیکن جب کھودتے کھودتے ایسی ریت نکل آئے کہ جس کے بعد پانی نکلتا ہے تو ہار کر بیٹھ جائے کہ اب مجھ سے محنت نہیں ہوسکتی حالانکہ وہی وقت اُس کی محنت کا وقت ہوتاہے اور اُسی وقت تمام محنتیں ثمر لانے والی ہوتی ہیںاوران کے نتائج برآمد ہوتے ہیںاگر کوئی ایسے وقت سستی کرتا اورہمت ہار کر بیٹھ جاتا ہے تو اورکب چستی کرے گا۔ اُس وقت کی سستی اُس کی معمولی حیثیت کوبھی ضائع کر دے گی اور وہ پہلے سے بھی زیادہ گر جائے گا۔تو کم ہمت انسان اپنی نادانی، کم ہمتی اور سُستی کی وجہ سے اُن تمام پھلوں اور ثمرات کو جو اُسے محنت کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں ضائع کر دیتاہے۔لیکن ہمت اور استقلال والا انسان کبھی مصائب اور مشکلات سے نہیں گھبراتا بلکہ جتنے زیادہ مصائب اور مشکلات آئیں وہ سمجھتا ہے کہ اتنے ہی زیادہ جوش اور ہمت سے مجھے کام کرنا چاہئے۔ اگر پہاڑوں کے پہاڑ مصائب کے اُس پر ٹوٹ پڑیںپھر بھی وہ اُسی یقین اور استقلال سے کام کے لئے جاتا ہے جو اسے پہلے سے حاصل ہوتا ہے۔ اور وہ خوب سمجھتا ہے کہ جب خداتعالیٰ نے کام ہی ایسے بنائے ہیں کہ انسان محنت ،تدبیر اور لگاتار کوشش سے اُنہیں کرے تب کامیابی ہوتو پھر کوئی وجہ نہیں کہ میں پوری ہمت اور کوشش کئے بغیر چھوڑ کر بیٹھ رہوں اور کام نہ کروں۔میرے سامنے اگر کوئی روک واقع ہوتی ہے اور کوئی مشکل پیش آتی ہے تو مجھے تو اپنی انتہائی طاقت اورکوشش سے کام کرنا چاہئے۔
اگر غور کیا جائے تو مصائب اور مشکلات کے وقت جس قدر محنت اور کوشش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اُتنی کسی اَور وقت نہیں ہوتی ۔گویا محنت کرنے کا اصل وقت وہی ہوتا ہے کہ جس کے بعد کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ دنیا میں جس قدر کامیاب اور نامور لوگ گزرے ہیں اُن کی ز ندگیوں پراگر نظر کی جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے لئے سب سے زیادہ کام کرنے کا وقت وہی ہؤا ہے جبکہ سب سے زیادہ مشکلات اُن کے سامنے آئی ہیں اور اُن کے لئے سب سے زیادہ جرات اور بہادری دکھانے کا وہی موقع ہؤا ہے جبکہ سب سے زیادہ خوف و خطر اُن کو درپیش ہؤا ہے اور وہ سب سے زیادہ اُسی وقت خطرہ اور تکلیف سے بے پرواہ ہوئے ہیں جب کہ حد سے زیادہ ڈر اور خوف اُن کے سامنے آیا ہے۔
میں نے بارہا ایک صحابی کا واقعہ سنایا ہے اُن کا نام ضرار بن ازورؓ تھا بڑے بہادر اور دلیر تھے اور بہادری میں خاص شُہرت رکھتے تھے۔ وہ ایک دفعہ ایسے دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلے کہ جس کے مقابلہ میں کئی مسلمان نکل کر شہید ہو چکے تھے ۔بعض بڑے بہادر مسلمان بھی اس کے مقابلہ میں گئے مگر وہ اتنا طاقتور تھا کہ باوجود ان کے ایمانی جو ش اورجرأت کے اُن کو اس نے شہید کر دیا۔ اِس مقابلہ کے لئے ضرارؓنکلے۔ جب میدان کے درمیان میں پہنچے تو جلدی سے بھاگ کر واپس لوٹ آئے اور اپنے خیمہ میں چلے گئے۔ مسلمانوں میں تو ایک کمزور سے کمزور شخص بھی بزدلی اور ڈر کا نام تک نہیں جانتا تھا اور اُس کے وہم میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ کسی کافر کے مقابلہ سے بھاگ آئے اور وہ تو خاص شہرت اور نامور ی رکھتے تھے اِس لئے ان کے واپس لوٹنے سے مسلمانوں پر بہت بُرا اثر ہوا۔اور وہ گھبرا گئے کہ یہ کیا ہو گیاہے،ضرار کیوں واپس لوٹ آیا ہے چنانچہ بعض صحابہ ؓ اِس بات کے دریافت کرنے کے لئے ان کے پاس گئے۔ ایک صحابی ان کے خیمہ کے دروازہ تک ہی پہنچا تھاکہ وہ باہر نکل رہے تھے اُس نے پوچھاآپ نے یہ کیا کیا؟تمام مسلمانوں میںسخت گھبراہٹ اور غیرت پھیلی ہوئی ہے اوروہ بڑے اضطراب سے دریافت کر رہے ہیںکہ آپ ایسا بہادر انسان ایک کافر کے مقابلہ سے کیوں بھاگ آیا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ میں ڈر سے نہیں واپس لوٹا تھابلکہ بات یہ تھی کہ آج میں نے دو زِرہیںپہنی ہوئی تھیں۔جب میں دشمن کے مقابلہ کے لئے چلاتو مجھے خیال آیاکہ اِس کافر نے کئی ایک مسلمانوں کو شہید کر دیا ہے اے ضرار!کیا تم نے دو زرہیں اس لئے تو نہیں پہنیں کہ تو اُس سے ڈر گیا ہے؟ اِس خیال سے میں ایسا شرمندہ ہوا کہ گویا میں خداتعالیٰ کی ملاقات سے ڈرتا ہوں اِس بات کا مجھ پر اتنا خوف طاری ہواکہ میں نے کہا کہ اگرمیری جان نکل جائے تو میں جہنم میں ڈالا جائوں گا اِس لئے میں جلدی بھاگا بھاگا واپس آیا ا ب میں نے زِرہیں اُتار دی ہیں اور اُس کے مقابلہ کے لئے جا رہا ہوں۔ ؎۲
چونکہ کافر نے ایسے ہمت دکھائی تھی کہ کئی صحابہ کو شہید کر دیا تھااس لئے اُس کے مقابلہ میں اِس صحابی نے بھی ایسی ہی جرأت دکھائی ۔وہ ایک خاص دشمن تھا اِس لئے اِس صحابی نے کہا کہ بڑے دشمن کے لئے بڑے ہی دل کی ضرورت ہے۔چنانچہ اِس نے اِتنا بڑا دل دکھایا کہ زِرہیں بھی اُتار کر مقابلہ کے لئے گیااور جا کر مار لیا۔
تو جس قدر خطرہ بڑا ہوتا ہے بہادر اور جواں مرد انسان اس کے مقابلہ میں جرأت بھی اُتنی ہی بڑی دکھاتے ہیں۔خطرہ سے ڈرنا اور خوف سے بھاگنا یہ تو بزدلی ہوتی ہے اور یہ بہت کم ہمت اور غیر مستقل مزاج انسان کا کام ہے۔ لیکن ایک ایسا شخص ہوتا ہے کہ دشمن سے ڈرتا نہیں بلکہ مقابلہ کرتا ہے۔پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ نہ صرف مقابلہ کرتا ہے بلکہ اس سے بالکل نڈر ہو جاتا ہے اور ذرا پر واہ نہیں کرتا کہ کیا نتیجہ نکلے گا۔یہ اعلیٰ درجہ کی جرات اور بہادری کہلاتی ہے اور ایسے ہی لوگ جرأت اور بہادری کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہیں۔بزدل تو دشمن کے مقابلہ سے بھاگ جاتے ہیں اور دلیر مقابلہ کرتے ہیں اور جو بہت زیادہ دلیر اور بہادر ہوتے ہیں اور جن میں خاص ایمانی جرأت ہوتی ہے وہ نہ صرف مقابلہ کرتے ہیں بلکہ دشمن کو حقیر سمجھتے ہیں اور جب اُس پر غلبہ پا لیتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے دل پر جو ایک بوجھ سا پڑا ہوا تھا وہ اُتر گیا ہے۔گویا مقابلہ کرنا تو الگ رہا وہ جرأت میں ایسے بڑھ جاتے ہیں کہ بڑے سے بڑا دشمن ان کی نظر میں کچھ وقعت اور حقیقت نہیں رکھتا۔صحابہ کرامؓ کی شان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اِسی قسم کے تھے۔
جنگ احزاب کے موقع پر دشمنانِ اسلام بہت زیادہ تعداد میں جمع ہو کر حملہ آور ہوئے تھے یعنی اُن کا لشکر دس ہزار جوانوں پر مشتمل تھا۔اتنا بڑا لشکر عرب میں اس قسم کی مقامی جنگوں میں پہلے کبھی جمع نہیں ہوا تھااور نہ ہی ایسے چیدہ چیدہ لوگ کبھی اکٹھے ہوئے تھے لیکن یہ لشکر خاص طور پر تیا ر کیا گیا تھا۔ گویا ملک عرب نے اپنے تمام بہادر اُگل کر انہیں کہہ دیا تھا جائو جاکر اسلام کو (نَعُوْذُبِاللّٰہِ)بیخ و بن سے اُکھیٹر کر پھینک دو۔تمام اقوام اور قبائل کے سردار اپنا اپنا لشکر لے کر آگئے تھے اور یہود جو مدینہ میں رہنے والے تھے اُن کے ساتھ انہوں نے یہ منصوبہ گانٹھ رکھا تھاکہ باہر سے ہم حملہ آور ہوں گے اور اندر سے تم مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنا شروع کردینا۔ ؎۳ اس خطر ناک حالت میںرسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کے گرد خندق کھودنے کا حکم فرمایا ۔مسلمانو ں کی تعداد منافقوں سمیت تین ہزار تھی اور اگر منافق نکا ل دئیے جائیں تو اَوربھی کم ہوجاتی ہے لیکن کفار دس ہزار تھے اور چنے ہوئے تھے اور یہ ایسا خطرناک موقع تھا کہ وہ منافق جن کی زبانیں مسلمانوں کے رُعب کی وجہ سے بند تھیںاور جنہیں جرأت نہیں ہوسکتی تھی کہ مسلمانوں کے سامنے ایک حرف بھی نکال سکیں وہ بھی تمسخر اور استہزاء کرنے لگ گئے حتی کہ صحابہ ؓ جب خندق کھود رہے تھے تو ایک سخت پتھر سامنے آگیا۔ ہر چند اُس کے اُکھیٹرنے کے لئے زور لگایاگیامگر وہ نہ اُکھڑا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی آپ ؐ آئے اور آکر کدال سے اُس پتھر پر ضرب لگائی ۔اس سے ایک شعلہ نکلا۔آپ ؐنے کہا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ صحابہؓ نے بھی یہی کہا۔ دوسری بار پھر ضرب لگائی پھر شعلہ نکلا۔آپ ؐ نے کہا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔صحابہ نے بھی یہی کہا۔تیسری بار پھر اِسی طرح ہوا۔آپ ؐ نے کہا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔صحابہؓ نے بھی یہی کہا۔تیسری دفعہ پتھر ٹوٹ گیا۔صحابہؓ نے عرض کیا۔ یاَرَسُوْلَ اللّٰہِ!آپ نے اَللّٰہُ اَکْبَرُکیوں کہی تھی؟ آپ نے فرمایا ۔تینوں بار ضرب لگانے پر شعلہ نکلتارہا ہے اور ہر شعلہ میں مجھے ایک نظارہ دکھا یا گیاہے۔ پہلی دفعہ جو چمک ظاہر ہوئی اس میں خداتعالیٰ نے مجھے یمن کا ملک دیا۔ اور دوسری بار ملک شام اور مغرب کو اور تیسری بارمشرق کو مجھے عطاء کیا ۔ ۴؎ جب آپؐنے یہ کشف سنایا تو منافقوں نے کہہ دیاکہ پاخانہ پھرنے کیلئے تو جگہ نہیں ملتی اور ملکوں کے فتح کرنے کی خوابیں آتی ہیں تو ایسی نازک حالت ہو گئی تھی کہ منافقوں کو بھی ہنسی اورمخول کرنے کی جرأت پیدا ہو گئی تھی۔ایسی حالت میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ سچے اور پکے مسلمانوں نے کیا نظارہ دکھایا کہ جب کفار کا وہ بڑا عظیم الشان لشکر کہ جو تمام عرب کے چنے ہوئے انسانوں پر مشتمل تھا اِس کی خبر اُن کو معلوم ہوئی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خندق کھودنی اور کھدوانی پڑی اور مسلمانوں کی اُن کے مقابلہ میں بہت قلیل تعداد تھی،تو اُس وقت صحابہؓ نے کہا کہ یہ لشکر تو وہی ہے جس کے متعلق خدا اور اُس کے رسول ؐ نے پہلے سے ہی وعدہ دیا ہوا ہے کہ ایک بڑا بھاری لشکر آئے گا اور ذلیل و خوار ہو کر واپس چلا جائے گا۔
دیکھو !بجائے اِس کے کہ صحابہؓ کے دل گھبراتے یا نہ گھبراتے دشمن کا مقابلہ کرتے لیکن انہوں نے اِسی پر بس نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ ایمانی جرأت اور جوش کی وجہ سے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ تو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی تھی جوسچی ہو رہی ہے۔ دیکھئے منافقوں کو جو چیز موت نظرآرہی تھی وہی ان کے لئے ایک عظیم الشان فتح اور کامیابی تھی۔دشمن اگرچہ اس لئے آیا تھا کہ اسلام کو قطعہ عرب سے اُکھاڑ کر پھینک دے مگر اسے یہ معلوم نہ تھاکہ اس کے آنے کے ساتھ ہی اسلام نہایت مضبوطی سے گڑ جائے گاکیونکہ مسلمانوں نے اس کو دیکھ کر کہہ دیا کہ خدا کی شان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی مدت پہلے جو بات بتائی تھی اور جس طرح بتائی تھی اُسی طرح آج پوری ہو رہی ہے ۔اور چونکہ آپ نے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ دشمن شکست کھا کرناکام اور نامراد بھاگ بھی جائے گا اِس لئے بہت جلدی وہ بات بھی پوری ہونے والی ہے۔خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ ۔ صرف یہی نہیں ہوا کہ مسلمان کفار کے اتنے بڑے لشکر سے ڈرے نہیں اورجرأت اور دلیری سے مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے بلکہ وہ اس سے بھی بہت زیادہ بڑھ گئے کہ ان کے ایمان اور فرمانبرداری میں اور زیادتی ہو گئی۔بجائے اس کے ایسے خطرناک موقع پر وہ ڈگمگا تے اور فرمانبرداری کو چھوڑتے اسی پر قائم نہ رہے بلکہ اس بھی بہت زیادہ آگے بڑھ گئے اور پہلے کی نسبت بہت زیادہ فرمانبردار ہوگئے۔
یہی رنگ ہر ایک مومن کو ہمیشہ دکھانا چاہئے مومنوں پر کوئی مصیبت ایسی نہیں آتی کہ جس کی خبر پہلے سے انہیں نہیں کر دی جاتی ۔ تمام وہ ابتلاء اور مصائب جو جماعتوں کے لئے آتے ہیں ان کی نسبت اللہ تعالیٰ پہلے سے ہی کسی نہ کسی رنگ میں اطلاع دے دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد بڑے بڑے ابتلاء آئے اورکئی ایک رنگوں میں آئے اورسب سے بڑا وہ ابتلاء تھا کہ جس سے جماعت میں تفرقہ پڑگیا اور دو گروہ ہو گئے ۔پھر اب وہ ابتلاء ہے جو مالی رنگ میں رہتاہے اور ایک مدت سے چلاآرہا ہے اِس زمانہ میں یہ بھی بہت بڑا ابتلاء ہے۔ کئی لوگ ہیں جو اِس سے گھبرا جاتے ہیںاور بجائے اِس کے کہ ہمت اورکوشش سے اس کا مقابلہ کریں یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہمیں بڑے چندے دینے پڑتے ہیں۔ اِس گھبراہٹ اور بُزدلی میں پہلے جو چندہ دیتے ہیں وہ بھی دینا چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ ایک مومن کے لئے یہ ابتلاء ایک طرح خوشی کا موجب ہیں کیونکہ جب وہ دیکھتا ہے کہ آج سے کئی سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاتھاکہـ:۔
’’خداکاکلام مجھے فرماتاہے کہ کئی حوادث ظاہر ہوں گے اور کئی آفتیں زمین پر اُتریں گی۔کچھ تو ان میں سے میری زندگی میں ظہور میں آجائیں گی اورکچھ میرے بعد ظہور میں آئیں گی۔‘‘ ۵؎
پس جس طرح صحابہؓ احزاب کو دیکھ کر کہہ اُٹھے تھے کہاُسی طرح انہیں کہنا چاہئے تھا کہ یہ جو ابتلاء آرہے ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہو رہی ہے۔
پھر حضرت مسیح موعودؑنے یہ بھی پہلے سے ہی بتا دیا تھا’’ کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے اور کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے‘‘۔ ؎۶ اس لئے جس طرح اس لشکر عظیم کو دیکھ کر صحابہؓ کے ایمان بجائے متزلزل ہونے کے اَور زیادہ بڑھ گئے تھے اِسی طرح وہ لوگ جو ہم سے جدا ہوئے اُن کو دیکھ کر ان کے ایمان بڑھنے چاہئیں تھے اور وہ یہ کہہ اُٹھتے کہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا یہ ایک اور نشان ظاہر ہوا ہے کیونکہ آپ نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اس طرح ہوگا۔
نادان ہیں وہ لوگ جو اِس قسم کے ابتلائوں کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم پر بہت بڑا بوجھ پڑگیاہے اور ہمیں بڑے چندے دینے پڑتے ہیں۔انہیں تو چاہئے کہ ایسے وقت میں پہلے سے بھی زیادہ ہمت اور کوشش سے کام لیںکیونکہ جو زیادہ مشکلات کے دن ہوتے ہیں ان میں زیادہ ہمت سے کام کرنا پڑتاہے۔دیکھو جب کوئی زیادہ بیمار ہو جاتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ دوا کھانا ہی چھوڑ دیتا ہے یا احتیاط کرنا ہی ترک کر دیتا ہے بلکہ اُس وقت خاص طور پر وہ دوا استعمال کرتا اور خاص احتیاط کرتا ہے ۔ دنیا کے تمام معاملات میں یہی دیکھا جاتا ہے۔پس جب بڑی مشکلات کے وقت ہمت بڑھا دی جاتی ہے اورزیادہ بیماری کے وقت علاج پر خاص زور دیا جاتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ان دینی مشکلات کے وقت زیادہ ہمت سے کام نہ لیا جائے اور اس سے بڑھ کر طاقت اورجرات نہ دکھائی جائے جو پہلے دکھاتے تھے۔ اگر بعض لوگوں کا ارتداد یا بعض لوگوں کی سستی بیت المال و دیگر صیغہ جات میں آمدنی کی کمی کا باعث ہوئی ہے تو چاہئے تمہاری ہمت اَور بھی زیادہ بڑھ جائے کہ اَور بوجھ آپڑا ہے اس لئے پہلے کی نسبت حوصلے اور دل اَور وسیع کرنے چاہئیں نہ یہ کریں کہ جس وقت مشکل زیادہ آپڑے تو ہمت کم کر دیں۔
یہی وقت ایمان کو تازہ کرنے کا ہے کیونکہ جب انسان دیکھتا ہے کہ باوجود ہر قسم کے سامان کے مخالف ہونے کے پھر خداتعالیٰ کی تائید اور نصرت ہمارے ساتھ ہے تو اُس کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے ۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ کیا چیز تھی جس نے صحابہ ؓ کے ایمان کو ایسا مضبوط کر دیا تھا کہ کوئی بڑی سے بڑی مصیبت اور تکلیف انہیں متزلزل نہیں کر سکتی تھی۔ یہی کہ وہ دیکھتے تھے کہ ہر مصیبت اور ہر مشکل جو ہمیں پیش آتی ہے اس میں خدا کی نصرت زیادہ سے زیادہ ہی دیکھی جاتی ہے۔ یہی باعث تھا کہ جب احزاب میں لشکر جمع ہو کر آیا تو اُنہوں نے سمجھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کا ایک حصہ تو پورا ہو گیاہے اب دوسرا حصہ بھی پورا ہو گا جو یہ ہے کہ لشکر ناکام اور نامراد ہو کر بھاگ جائے گا۔گویا دشمن کا آنا بھی اُن کے لئے ایمان کی زیادتی کا موجب ہوا اور جانا بھی۔ اور ہر حالت میں اُن کے لیے ایمان کی زیادتی تھی یہی حال خدا کے پیارے بندوں کا ہوتاہے۔
یہاں رہنے والے لوگوں نے دیکھا ہو گا کہ مولوی عبدالکریم صاحب اورمبارک احمد کی بیماری میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو علاج معالجہ کا کس قدر خیال ہوتا تھا۔ دیکھنے والوں کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ اپنے سلسلہ کی ترقی اِنہی کی زندگی پر سمجھتے تھے۔اُن ایام میں سوائے اِس کے اور کوئی ذکر ہی نہ ہوتا تھا کہ کس طرح علاج ہو اور کیا علاج کیا جائے لیکن ان کی وفات کے وقت کیا ہوا؟ یہی کہ یکلخت آپ کی ایسی حالت بدلی کہ حیرت ہی ہوگئی۔ یا تو اتنا جوش کہ صبح سے لے کر شام تک انہی کے علاج معالجہ کا ذکر یا آپ اِس بات پر ہنس ہنس کر اور نہایت بشاش چہرہ سے تقریر فرمارہے ہیں کہ ان کی وفات کے متعلق خدا تعالیٰ نے پہلے سے ہی بتا دیا ہوا تھا۔
جب مبارک احمد کی وفات ہوئی تو بعض اشخاص کو اِس سے گھبراہٹ ہوئی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ جب مبارک کا دم نکلا تو حضرت مولوی نورالدین صاحب، خلیفہ رشیدالدین صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب وہاں موجود تھے،حضرت مولوی صاحب نبض دیکھ رہے تھے۔آپ نے نبض دیکھتے دیکھتے حضرت صاحب کو کہا حضور! حالت نازک ہے مشک لائیں ۔حضرت صاحب ابھی مشک لائے بھی نہ تھے کہ دم نکل گیا۔ حضرت مولوی صاحب نے چونکہ حضرت صاحب کو مبارک احمد کی بیماری میں خاص محبت اور خاص جوش سے علاج کرتے اورخیال رکھتے دیکھا تھااس لئے جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے اور منہ سے کچھ نہ کہہ سکے۔دوسرے لوگوں نے بھی یہی خیال کیاکہ حضرت صاحب کو اِس سے بڑا صدمہ ہو گالیکن حضرت صاحب کو دیکھو۔ آپ نے جہاں مشک رکھی ہوئی تھی وہیں کا رڈ اور لفافے بھی رکھے ہوئے تھے۔جب آپ نے مبارک احمد کے فوت ہو جانے کے متعلق سنا تو وہیں سے مشک نکالنے کی بجائے کارڈ اور لفافے نکال کر خط لکھنے شروع کر دیئے کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں۔ اُس وقت آپ کے چہرہ پر کسی قسم کی گھبراہٹ کا کوئی نشان نہ تھابلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کو کوئی بہت بڑی فتح نصیب ہوئی ہے۔ پھر آپ باہر تشریف لائے، ابھی تک لوگوں کو معلوم نہ ہو اتھا کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے۔آپ نے رضا بِالقدر کے متعلق ایک لمبی تقریر شروع فرمادی۔ آپ کے چہرہ سے ایسی بشاشت ٹپکتی تھی کہ گویا کسی بڑے دشمن کو شکست دے کر آئے ہیں۔ تو مومن پر جو مصائب اورابتلاء آتے ہیںوہ اُس کی ترقی کا باعث ہوتے ہیں کیونکہ خدا کی طرف سے اسے بتایا جاتاہے اِس لئے اس کے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔مومن پر ہر ایک مصیبت جو آتی ہے وہ اپنے ساتھ دو نشان رکھتی ہے ایک اُس کے آنے کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اور ایک جانے کے ساتھ۔جب آنے والا پورا ہو جائے جو دشمنوں سے تعلق رکھتاہے توپھر اس کے جانے والا نشان پورا ہونا ہوتاہے جو مومنوں سے متعلق ہو نا ہوتاہے اس لئے وہ بہت زیادہ اور بڑھ چڑھ کر کوشش کرتے ہیںاور جب کامیاب ہوجاتے ہیںتوان کا ایمان بہت ترقی کر جاتاہے۔
اِس قسم کے مصائب وغیرہ کا آنا خداتعالیٰ کی سنت ہے۔جو پہلے لوگوں سے ہوتی آئی ہے۔ اِس زمانہ میں اِس کے خلاف ہماری جماعت کے ساتھ بھی نہیں ہو سکتا۔یہ نہیں ہو سکتا کہ ہماری جماعت وہ انعامات توحاصل کر لے جو پہلے لوگوں نے حاصل کئے تھے مگر ان مشکلات سے نہ گزرے جن سے پہلے لوگ گزرے ہیں۔جس محنت ،ایثار اور قربانی کے بعد پہلے لوگوں نے شیریں پھل کھائے ہیں وہی ہمیں کرنی پڑے گی۔
پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ ان مصائب اور مشکلات سے گھبرائے نہیں بلکہ اَور آگے بڑھے ۔جو کم حوصلہ گھبراجاتے ہیں ایسے لوگوں کو ہم کہتے ہیں کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہیں فرمایا تھا کہ مصائب پر مصائب آئیں گے؟ ضرور فرمایا تھا۔اب آپ کی یہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے لیکن آپ نے یہ بھی فرمایاتھا کہ مصائب کے بادل چھٹ بھی جائیں گے ۔پس جب ایک پہلو پورا ہو رہا ہے تو ضرور ہے کہ دوسرا بھی پورا ہو اور مبارک ہے جو دوسرا پہلو پورا ہونے تک صبر اور استقلال سے کام لے اور اپنے آپ کو ملنے والے انعامات کا مستحق بنالے کیونکہ یہ مصیبتیں اپنے ساتھ بشارت کی ہوائیں رکھتی ہیں۔قبل اِس کے کہ یہ فساد، یہ مصیبتیں اور یہ فتنے ہوتے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا کہ ایسا ہو گا۔ چنانچہ وہ وقت آگیا اور اُس نے بتادیا کہ جو کچھ خدا کے برگزیدہ مسیح نے کہا تھا وہ پورا ہو گیا۔پھر اس نے کہا تھا کہ جب وہ فتنے آئیں گے توتم میں سے جو استقلال کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں گے اور ہر قسم کی قربانی کر کے دکھا دیں گے وہ کامیاب ہو جائیں گے پس جب ایک بات پوری ہو گئی ہے تو چاہئے کہ تم دوسری کے پورا ہونے کے لئے پوری ہمت اور کوشش سے کام لو۔
یہ مصائب اور ابتلائوں کے دن کامیابی کی کلید ہوتے ہیں لیکن ضرور ہے کہ وہ لوگ جو دوسرے دنوں کو دیکھنا چاہتے ہیں وہ سنت قدیمہ کے مطابق اپنے مالوں اور اپنی جانوں کی قربانی کر کے دکھائیں۔پس ان مصائب اور مشکلات میں خواہ وہ مالی ہوں یا جانی ،خواہ دشمنوں کے شر کے متعلق ہوں یا اپنی غلطیوں کے نتیجہ میں ۔ان میں چاہئے کہ مومن اپنے ایمان کو اور زیادہ بڑھائیں۔اس طرح کرنے سے وہ ان انعامات کے وارث ہوجاتے ہیں جو خداتعالیٰ نے اپنے ایسے بندوں کے لیے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ یہ بات خوب یاد رکھنی چاہئے کہ جو شخص خداتعالیٰ کے راستہ میں کچھ دیتا ہے وہ کھوتا نہیں ۔دیکھو خداتعالیٰ کی بنائی ہوئی زمین میں اگر کوئی ایک دانہ ڈالتا ہے تو اس سے سینکڑوں دانے نکلتے ہیں اور یہ جسمانی زمین ہے لیکن اگر کوئی روحانی زمین میں بیج ڈالے تو اس کے پھل اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں اس لئے کبھی کوئی اس تجارت سے گھاٹا نہیں پا سکتا۔ خداتعالیٰ نے اپنے لئے یہ بات خاص کر چھوڑی ہے کہ جب بندہ اُس سے لین دین کرتا ہے تو نفع ہی نفع حاصل کرتا ہے ۔چونکہ سُود بھی ایک قسم کا نفع ہے جس میں نفع ہی نفع ہوتاہے نقصان نہیں ہوتا اس لئے خداتعالیٰ نے اس فعل کو اپنے لئے خالص کرنے کے لئے بندوں کو منع کر دیاہے کہ وہ سُود نہ لیں یہ خداتعالیٰ ہی کی صفت ہے کہ وہ نفع ہی نفع دیتا ہے۔ پس جب خدا کو اتنی غیرت ہے کہ اس نے بندوں کو اس قسم کے لین دین سے بھی منع کر دیا ہے تاکہ یہ صرف خدا ہی کی خصوصیت رہے۔ حالانکہ بندوں کا فعل خداتعالیٰ کے مقابلہ میں بہت ہی حقیر اور لاشئے ہے اور اکثر دفعہ سُود کی بجائے نقصان اٹھانا پڑتاہے تاہم خداتعالیٰ نے اس کو پسند نہیں کیا۔ پس وہ جو اس کی رضا کے لئے کچھ خرچ کرتاہے کبھی نقصان نہیں اُٹھاتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ مومنوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ کے ساتھ جو انہوں نے وعدہ کیا تھا اُس کو انہوں نے سچا کر دکھایا اور کچھ ان میں سے ایسے ہیںکہ انہوں نے جو نذر مانی تھی اُسے پورا کرسکے ہیں۔یعنی خدا کی راہ میں انہوں نے اپنے آپ کو ایسا لگایا کہ اپنی جان بھی دے چکے ہیں اورکچھ ایسے ہیں کہ جان تو نہیں دے چکے مگر وہ یہی عہد کئے بیٹھے ہیں کہ جس وقت اللہ تعالیٰ چاہے جان لے لے۔یہ اَوربات ہے کہ ابھی تک ان کی جان اللہ تعالیٰ نے نہیں لی مگر وہ پیچھے نہیں ہٹے اور نہ ہٹیں گے چنانچہ صحابہؓ میں اِس کی بڑی بڑی نظیریں مل سکتی ہیں۔
کی مثال تو یہ دیکھ لیجئے کہ خالد بن ولید ؓ ابتدائی صحابہؓ میں سے نہیںتھے۔ جس بیماری میں اُنہوں نے وفات پائی اُس کے متعلق اُن کے ایک دوست کہتے ہیں کہ میں انہیں ملنے کے لئے گیا، میں نے دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں۔ میں نے پوچھا ۔ آپ کیوں روتے ہیں؟ اُنہوں نے کہا میں اِس لئے روتا ہوں کہ میں سالہا سال جنگ کرتا رہا ہوں اور خطرناک سے خطرنا ک جگہ تلاش کر کے وہاں گُھستا رہا ہوں کیونکہ میں چاہتا تھا کہ خداتعالیٰ مجھے شہادت دے لیکن باوجود اِس کے کہ میرے سر سے لے کر پائوں تک تمام جگہ زخم لگے اور کوئی جگہ ایسی نہ رہی جہاں زخم نہ لگا ہو مگر آج میں چار پائی پر مر رہا ہوں اورمجھے شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ ؎۷ انہوں نے یہ اپنے جوش اور ایمان کی زیادتی کی وجہ سے کہا۔ ورنہ درحقیقت ہر ایک زخم کا وہ نشان جو ان کے بدن پر پڑا ہو ا تھا اُن کے لئے شہادت تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں شہید ہوئے؟ مگر جس طرح آپ نبی تھے اُسی طرح صدیق اورشہید بھی تھے۔ ہاں آپ کی شہادت تلوار سے نہیں ہوئی تھی کیونکہ ضروری تھا کہ آپ کی جان کی حفاظت کی جاتی۔ اگرچہ یہ بات آپ کے درجہ اور علو شان کے خلاف تھی کہ آپ شہید ہوتے مگر آپ نے خدا کی راہ میں جان تک دینے سے بھی کوئی پرواہ نہ کی۔اِسی طرح اور کئی ایک صحابہؓ دنیا کی نظر میں تو شہیدنہیںہوئے مگر خدا کی نظر میں شہید ہیں ۔ کئی انسان چلتے پھرتے نظر آتے ہیںمگر خدا کے لئے وہ شہید ہو چکے ہوتے ہیںاور ہر منٹ اُن پر موت وارد ہوتی ہے۔یہی ایمان کا وہ درجہ ہے جس کی طرف خداتعالیٰ بلاتا ہے اور اِس قسم کا ایمان رکھنے والوں کا ذکر اِس لئے کرتاہے کہ تا دوسروں کے لئے باعث ترغیب ہو۔ فرماتا ہے بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے راستہ میں ایسے لگا دیتے ہیں کہ موت تک پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ آگے ہی آگے بڑھتے ہیں۔ اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ گووہ زندہ ہوتے ہیںمگر ہر منٹ اور ہر ساعت وہ اِس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ کب ایسا موقع آئے کہ ہم اپنی جان بھی لڑا دیں۔یہی ایمان خداتعالیٰ اپنے بندوں سے چاہتاہے اور یہی وہ ایمان ہے جو خداتعالیٰ کے انعامات کا وارث بناتا ہے ورنہ صرف زبانی دعوے سے کچھ نتیجہ نہیں نکلتا۔
ہماری جماعت میں ابھی ترقی کا بہت میدان کھلاہے اور ترقی تو کبھی ختم ہی نہیں ہوتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا عظیم الشان انسان بھی ترقی کر رہا ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا تو اَور کون ہے جو ترقی کے تمام مدارج طے کر لے مگر ہماری جماعت کے لئے اس درجہ تک پہنچنے کے لئے بھی میدان باقی ہے جو صحابہ ؓ نے حاصل کیا تھا اور بہت لوگ ایسے ہیں جنہیں ضرورت ہے کہ اُسی رنگ میں رنگین ہو جائیں جس میں صحابہؓ رنگے گئے تھے۔ اپنا مال، اپنی جان، اپناآرام جس طرح صحابہؓ نے قربان کیا تھا اُسی طرح اِن کو بھی کرنا چاہئے ۔ہماری قربانیاں صحابہؓ کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہیں لیکن جب تک ہم بھی وہی قربانیاں نہ کریں گے جو صحابہؓ نے کی ہیں اُس وقت تک اس انعام کے مستحق نہیں ہو سکیں گے جو صحابہؓ کو ملا تھا۔اللہ تعالیٰ کا کسی سے رشتہ نہیں اس لئے اُس نے جس طرح پہلوں پر انعام کئے تھے اُسی طرح اب اور آئندہ بھی کرسکتا ہے اورجو کوئی اُس کی طرف جھکے اُس کو وہی درجہ دے دیتا ہے جو جھکنے والوں کو پہلے دیتا آیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں ایسے لوگ بھی ہیں اور کثیر تعداد میں ہیں کہ ان کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں ۔کئی ہیں جنہوں نے خداکے راستہ میں جانیں قربان کر دی ہیں۔سید عبداللطیف صاحب شہید اور ان کے شاگر دنے اپنی جان دینی منظور کر لی مگر ایمان نہ دیا۔ پھر اور بہت سے بزرگ تھے۔ حضرت خلیفہ اوّل اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم۔ پھر ایک تعداد ایسے مردوں کی زندہ بھی ہے۔ ایک تو وہ تھے کہ فوت ہو گئے مگر اپنے عہد کو نہ توڑا اور ایک وہ ہیں جو اس دن کے منتظر بیٹھے ہیں کہ خدا کے دین کی خدمت کرتے کرتے جان نکلے۔
ابھی تھوڑے دن ہوئے ہمارا ایک مخلص بھائی دنیا سے گزرا ہے اُس کامیرے ساتھ بہت تھوڑی مدت تعلق رہا ہے مگر میں نے اس عرصہ میں اسے دیکھا ہے کہ وہ کے گروہ میں شامل تھا۔ یہ ذکر میں نے اس لئے نہیں کیا کہ اُس کی وفات سے ہمارے سلسلہ کو کوئی بڑا نقصان پہنچا ہے بلکہ دوسروں کو اِس طرف متوجہ کرنے کے لئے کیاہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُن صحابہ ؓ کے لئے جو جنگ اُحد میں شہید ہوئے تھے اسی طرح فرمایاتھا۔ورنہ کون کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے سلسلہ احمدیہ کی ترقی وابستہ ہے یا فلاں شخص سے جو ہم میں نہیں رہا وابستہ تھی۔ خداتعالیٰ کسی کا محتاج نہیں بلکہ ہر ایک انسان اُس کا محتاج ہے۔پس میں یہ ذکر اِس طور پر نہیں کرتا کہ ہمارے اس بھائی کے فوت ہوجانے سے سلسلہ احمدیہ کو کوئی نقصان پہنچا ہے کیونکہ نقصان کسی آدمی کے جانے سے نہیں پہنچ سکتا ۔ خداتعالیٰ جس نے اِس کو قائم کیا ہے وہی اِس کو چلاتا ہے۔ ہاں ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ایک انسان کا انجام اچھا ہو گیا اور اس طرح ذکر کرنے سے لوگوں میں اُس کے متعلق دعا کرنے کی تحریک ہوتی ہے ۔ اِسی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے صحابہؓکا ذکر فرمایا تھا اور اِسی رنگ میں حضرت مسیحؑ نے ذکر کیا۔ اور اِسی رنگ میں میں ذکر کرتاہوں۔
میں نے قاضی عبدالحق صاحب کو دیکھا ہے آپ ترجمۃ القرآ ن کا کام کرتے تھے ان کی محنت میرے لئے قابل حیرت ہوتی تھی۔ میں بڑا تیز لکھنے والا ہوں اور خدا کے فضل سے بہت تیز لکھ سکتا ہوں ۔ اور بھی تیز لکھنے والے ہوں گے لیکن میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ مجھ سے زیادہ تیز لکھ سکتا ہو، میں مضمون کے سَو سَوا سَوا صفحے ایک دن میں لکھ سکتا ہوں لیکن میں نے دیکھا ہے کہ اگرچہ ترجمہ کرنے کا کام مشکل ہوتا ہے تاہم اگر میں تھوڑی دیر کے لئے بھی ترجمۃ القرآن کے کام کو چھوڑ کر کسی اَور کام میں لگ جاتا تو یہ نہیں ہوتا تھا کہ قاضی صاحب مجھ سے پیچھے رہ جاتے ۔ میں جب یہ سمجھتا کہ اب ان کے پاس کافی مضمون ہو گیا ہے اور کسی اَور کام میں مصروف ہوتا اور اُن سے ترجمہ کے متعلق پوچھتا۔تو وہ یہی کہتے اَور مضمون دیجئے پہلا ختم ہو چکا ہے۔ اور پھر اس کام کے ساتھ وہ مدرسہ میں بھی پڑھاتے ۔ پھر میں رات کے وقت مقابلہ کرنے کے لئے اُن سے ترجمہ سنتا تو گیارہ او ربارہ بجے را ت تک سناتے رہتے۔ دس بجے تک تو ضرور ہی سناتے اس کے بعد وہ اپنے مکان پر جاتے تھے۔ گویا عصر سے لے کر کم ازکم رات کے دس بجے تک میرے پاس رہتے اس کے بعد جا کر ترجمہ کرتے اور صبح مدرسہ میں پڑھاتے۔ پھر یہ کام ایک دن کانہ تھابلکہ ایک لمبے عرصہ تک ہوتا رہا لیکن وہ اِس سے ذرا نہ گھبرائے اور جس طرح ایک چیز کی حرص ہوتی ہے اِسی طرح مجھ سے کام مانگ لیتے اور کہتے کہ فلاں کام بھی میرے سپرد کر دیا جائے۔ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے انعام پانے سے خالی نہیں رہتے۔ وہ لوگ جو ان کے کام سے واقف ہوتے ہیں ان کے منہ سے ان کے لئے بے اختیار دعائیں نکلتی ہیں۔ چنانچہ قاضی صاحب کی بیماری میں میں نے دیکھا ہے یہاں کے لوگ بڑے فکر سے ان کے لئے دعائیں کرتے تھے۔ یہ ان کے اُس کام کا نتیجہ تھا جو انہوں نے خدا تعالیٰ کے لئے کیا۔ میں نے بھی ان کے لئے دعائیںکیں اور ہماری جماعت کے لوگوں نے بھی کیں۔ خداتعالیٰ جب چاہتا ہے کسی دعا کو قبول کرتا ہے اور جب نہیں چاہتا، نہیں کرتا لیکن اگر جس رنگ میں دعاکی جائے اُس رنگ میں قبول نہ ہو تو جس کے لئے دعا کی جائے اُسے کوئی اَور فائدہ پہنچ جاتا ہے اور اس کے لئے ترقی مدارج کا باعث ہو جاتی ہے۔ ہم نے جو دعائیں قاضی صاحب کے متعلق کیں یقینا وہ ان کے لئے ترقی مدارج کا باعث ہو گئیں۔تو خدا تعالیٰ اپنے راستہ میں کام کرنے والوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔
پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ جو اِس آیت کے مستحق ہیں وہ اَور زیادہ ترقی کریں او ریہ نہ سمجھیں کہ بس ہم پوری ترقی کر چکے ہیں ۔اور جو مستحق نہیں وہ مستحق بننے کی کوشش کریں اور ایسی محنت اور کوشش کریں کہ خدا تعالیٰ کے حضور اِنہی میں شامل ہو جائیں جن کے متعلق آیاہے کہ ایسے لوگوں کی خداتعالیٰ دنیا میں بھی قبولیت بڑھا دیتا ہے اور ان کے لئے لوگوں کے منہ سے دعائیںنکلتی ہیں۔
سو یہ میری نصیحت ہے اِس کوخوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جو کچھ کوئی خرچ کرتا ہے وہ ضائع نہیں جاتا اِ س لئے اپنے مالوں، اپنی جانوں، اپنے وقتوں غرضیکہ ہر ایک چیز کو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرو۔ اورجو تم میں سے اعلیٰ نمونہ رکھتے ہیں اُن کو دیکھو اور اُن کے نقش قدم پر چلو تاکہ ان میں شامل ہو جائوجن کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ ۔ اِس دنیا کی زندگی بہت قلیل ہے اس قلیل عرصہ کو ضائع نہ جانے دو۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ اِس کا ہر ایک فرد اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرے کہ اسے خداتعالیٰ کے قرب کا مقام حاصل ہو جائے۔‘‘ (الفضل ۹؍ستمبر۱۹۱۶ئ)
۱ ؎ الاحزب: ۲۳،۲۴
۲؎ اصابہ جلد ۳ صفحہ ۲۶۹ حالات ضرار بن از در
۳؎ سیرت ابن ہشام حالات غزوۂ خندق
۴ ؎ فتح الباری جلد ۷ صفحہ ۳۰۴،۳۰۵
۵ ؎ الوصیت صفحہ ۵۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۳
۶ ؎ تذکرہ صفحہ۵۳۹۔ ایڈیشن چہارم(ترتیب کے اختلاف کے ساتھ)
۷؎ اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ حالات خالد بن ولید+ تاریخ الخمیس جلد ۲ صفحہ ۲۷۵
۲۸
جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے وہ دوسروں کو دو
(فرمودہ یکم ستمبر ۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اورسورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل سورۃ کی تلاوت کی۔
۱؎
پھرفرمایا:۔
’’بخل اور کنجوسی اُسی وقت انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے جبکہ اُس کا ہاتھ تنگ ہو یا اُسے اِس بات کا خطرہ ہو کہ میرا ہاتھ تنگ ہو جائے گااس کے سِوا بخل نہیںپیدا ہوتا۔ لوگ اِس ہوا سے جو تمام انسانوں کے لئے خداتعالیٰ نے بنائی ہے سانس لیتے ہیںاور سانس لے کر اس پاک اور طیب ہوا کو جسے خداتعالیٰ نے انسانی زندگی کے قیام اور طاقت دینے کا باعث بنایا ہے خراب اور گندہ کرکے اپنے منہ سے نکال دیتے ہیں۔ کوئی دنیاکی غذا اور کوئی کھانے پینے کی شے یا کوئی ایسی بیرونی چیز جو نفس انسانی کے لئے آرام دینے والی ہے ایسی قیمتی نہیں جیسی کہ ہوا ہے کیونکہ ہر چیز کے بغیر انسان کچھ مدت تک گزاراہ کر سکتا ہے ۔ اگر کپڑے نہیں تو چھپ کرکہیں بیٹھ سکتاہے اور ایک دو دن کے لئے بلکہ دو تین چار مہینے تک بیٹھا رہ سکتا ہے زندگی کو اِس سے کوئی حرج نہیں ہوگا۔ اِسی طرح پانی کے بغیر تین چار دن تک زندہ رہ سکتا ہے اور کھانے کے بغیر چار پانچ، چھ سات دن تک لیکن ہوا کے بغیر ایک گھنٹہ چھوڑ ایک منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔
غرض دنیا میں جتنی چیزیں انسان کو راحت اور آرام پہنچانے والی اور اس کی زندگی کو قائم رکھنے والی ہیں ان سب سے قیمتی اورمفید اور ضروری ہوا ہی ہے۔ کسی چیز کی قیمت اس کے فائدے اور ضرورت کے لحاظ سے ہوتی ہے اور پھر اپنی تعداد کے لحاظ سے ۔ بعض وہ چیزیں جو فائدہ رساں معلوم نہیں ہوتیں یا جن کی بظاہر کوئی ضرورت دکھائی نہیں دیتی پھر بھی وہ مفید اورضروری ہوتی ہیں گوہر ایک انسان ان کامحتاج نہیں ہوتا ان کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے۔ مثلاً موتی، ہیرے، لعل، جواہر، یہ ایک تو طبی لحاظ سے بڑے مفید ہوتے ہیں دوسرے تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں اوران کی ضرورت امراء اور دولتمندوں کو پڑتی ہے۔ یہ ایک ظاہر بات ہے کہ جس قدر اعلیٰ درجہ کا آرام ہے اُتنا ہی کم لوگوں کو میسر آتاہے چونکہ ایسی قیمتی چیزوں کی احتیاج بڑے لوگوں کو ہی ہوتی ہے اور یہ ان میں اور دوسرے لوگوں میں امتیاز پیدا کرنے والی چیزیں ہوتی ہیں اس لئے ان کی بڑی قیمت ہوتی ہے۔ تویہ باتیں کسی چیز کی قیمت کا فیصلہ کیا کرتی ہیں۔ اوّل ضرورت ۔ دوم فوائد۔ سوم تعداد۔ کبھی ایسا ہوتاہے کہ ایک چیز ضروری ہوتی ہے گو اُس کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ فوائد بھی نہیں ہوتے اور ضرورت بھی کوئی ایسی نہیں ہوتی لیکن جس حد تک دنیا میں اس کی ضرورت ہوتی ہے اس سے اس کا خزانہ کم ہو جاتا ہے اُس وقت بھی اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ مثلاً گیہوں، چنے، ماش، وغیرہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو بڑی کثرت سے پیدا ہوتی ہیں اس لئے ان کی قیمت ایسی ہوتی ہے کہ ہر ایک خرید سکتاہے مگرجب ان کی پیدائش میں کمی واقع ہوجاتی ہے تو قیمت بہت بڑھ جاتی ہے اس وقت کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ بھی ویسے ہی گیہوںیا چنے ہیں جیسے پچھلے سال تھے پھر ان کی قیمت کیوں بڑھا دی گئی ہے۔
ہوا میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسانی صحت کا مداراِسی پرہے دوسرے ہر وقت اِس کی ضرورت اور حاجت ہے اور ہر انسان کو ہے مگر باوجود اس کے کوئی شخص ہوا کے معاملہ میں بخل سے کام نہیں لیتا اور نہ ہی اس میں کنجوسی کرتا ہے۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کوئی کسی کو کہے کہ ہمارے گھر سے نکل جائو کیونکہ تمہارے سانس لینے اور سُونگھنے سے ہوا خراب ہو رہی ہے؟ خواہ کوئی کیسا ہی بخیل ہو، اپنے نفس پر کتنا ہی بخل کرنے والا ہو پھر بھی یہ کبھی نہیں کہے گا۔کیوں؟ اس لئے کہ وہ جاتنا ہے کہ خداتعالیٰ نے ہوا کا ایسا خزانہ کھولا ہؤا ہے کہ جس میں کمی نہیں آسکتی۔ اِسی بات کی وجہ سے اس کے دل میں بھی تنگی نہیں آتی حالانکہ فوائد اورضرورت کے لحاظ سے تمام اشیاء سے اُس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔
تو بُخل کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ انسان کا دل تنگی کرتاہے۔ وہ کہتا ہے اگرمیں نے یہ چیز خرچ کی تو میرے پاس کم ہو جائے گی۔ یا کم ہو جانے کا اسے خطرہ ہوتا ہے۔ مثلاًایک آدمی کے پاس اگر کروڑوں کروڑ روپیہ ہو تو گو وہ اِس قدر کم نہیں ہو گا کہ اسے تکلیف اُٹھانی پڑے تاہم وہ ڈرتاہے کہ اگر میں نے خرچ کیا تو کم ضرور ہو جائے گا۔ اِسی طرح ایک غریب آدمی جس کے پاس ایک دو روپے ہوں وہ بھی خرچ نہیں کرتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر ان کو میں نے خرچ کر دیا تو ضرورت کے وقت مجھے تکلیف ہوگی۔ غرض بُخل اِسی طرح پیدا ہوتاہے کہ یا تو چیز کا کم ہو جانا خیال میں ہوتاہے یا کم ہو جانے کا خطرہ اور ڈر ہوتاہے لیکن جہاں یہ دونوں باتیں نہ ہوں وہاں اس کے خرچ کرنے میں کوئی شخص دریغ نہیں کرتا۔
مگر بڑا تعجب آتاہے اور بڑی حیرت ہوتی ہے کہ نادان انسان اپنی نادانی کی وجہ سے ادھر مال کے متعلق جو بُخل اور کنجوسی کرے اُس پر ہنسی کرتا اور اس کا بخیل اور کنجوس نام رکھتا ہے اور کہتا ہے کیا ہؤا اگر چیز کم ہو جاتی ہے توزیادہ بھی تو ہو ہی جاتی ہے ۔ پھر زندگی کا کیا اعتبار ہے ممکن ہے آج ہی جان نکل جائے اور تمام جمع کیا کرایا دھرا رہے۔ پھر مال تو ہاتھوں کی میل ہے ہاتھ سلامت رہے تو اَور مل رہے گا اور اگر ہاتھ ہی نہ رہے تو مال کی بھی ضرورت نہ رہے گی غرض بہت زور اور دلائل کے ساتھ بخیل پر ہنسی اور ملامت کرتاہے مگر باوجود اِس کے اُس کے کئی معاملات ایسے ہوتے ہیںکہ جن کے متعلق وہ دوسروں پر اعتراض کرتا بلکہ ان کے خلاف وعظ اور نصیحت بھی کرتا ہے لیکن ان میں وہ خود بُخل سے کام لیتا ہے اور پھر تعجب یہ ہے کہ ایسی چیزوں میں بخل کرتا ہے جن کے کم ہونے کا بالکل خطرہ نہیں ہوتا۔ ایک مالدار بُخل کرتاہے مگر اُس کی وجہ وہ یہ قرار دیتا ہے کہ اگر میں خرچ کروں تو شاید میرا مال کم ہوجائے ۔ حتیٰ کہ اِسی خیال میں وہ مر بھی جاتا ہے اور خود بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا ۔ بے شک ایسا شخص قابلِ الزام ہے اور بے شک اس نے اللہ پر بھروسہ نہیں کیا اوربے شک بنی نوع انسان پر کہ جس کی ہمدردی اور مدد اِس پر فرض تھی اس نے کچھ خرچ نہیں کیا مگر پھر بھی وہ ایک حد تک معذور ہے کیونکہ جو خزانہ اس کے پاس ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو تاہم خرچ کرنے سے کم ہو ہی جاتا ہے اورکسی انسان کے پاس کوئی ایسا خزانہ نہیں جو کم نہ ہوتا ہو۔ سب سے بڑا خزانہ حکومتوں کا ہوتا ہے لیکن دیکھو اس کے کم ہونے کے بھی اسباب پیدا ہوہی جاتے ہیں۔ موجودہ جنگ میں ہی دیکھ لو گورنمنٹ برطانیہ کا سات کروڑ روپیہ روزانہ خرچ ہے۔ گوکوئی شخص گورنمنٹ جتنا مالدار نہیں ہو سکتا مگر فرض کر لو اگر کسی کے پاس اتنا ہی خزانہ ہو تو بھی اس کے لئے ایسے مصارف نکل سکتے ہیں کہ وہ خرچ ہوسکتاہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک امیر جب مرا تو اُس نے لاکھوں روپیہ اپنے پیچھے چھوڑا۔ اُس کا ایک لڑکا تھا، لڑکے نے اپنے دوستوں یاروں کو بلا کر مشورہ کیا کہ میرے پاس جو اِس قدر روپیہ ہے اسے کس طرح خرچ کیا جائے؟ کسی نے کوئی طریق بتایا کسی نے کوئی لیکن اُسے کوئی پسند نہ آیا۔ ایک دن وہ بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک بزاز کے کپڑا پھاڑنے کی آواز اُسے سنائی دی ۔ وہ آواز اُسے ایسی پسند آئی کہ گھر میں آکر کپڑے کے تھان منگوا منگوا کر پھڑوانے شروع کر دئیے اور چر چر کی آواز سننے لگ گیا۔ اِسی طرح اُس نے اپنا سارا روپیہ برباد اور تباہ کر دیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں مفلس اور نادار ہو گیا۔ تو خواہ کسی کے پاس لاکھوں روپے ہوں یا کروڑوں پھر بھی ایسے مصارف نکل سکتے ہیں کہ وہ خرچ ہو کر اُسے نادار بنا دیں اِس لئے اگر کسی کے پاس خواہ کتنا ہی روپیہ ہو تاہم اگر وہ یہ خیال کر کے کہ اگر میں اِسے خرچ کروں گا تو کم ہو جائے گا اس لئے خرچ نہیں کرتا تو ایک حد تک معذور ہے کیونکہ اس کا خزانہ ایسا ہے کہ ضرور خرچ ہو کر کم اور ختم ہو سکتاہے۔ لیکن جس طرح ہوا کا خزانہ کبھی ختم نہیں ہوتا اس لئے اس میں جو بخل کرنے والا ہو بڑا ملزم ہے اِسی طرح علم کا خزانہ ہے یہ بھی کبھی ختم نہیں ہوتا اس میں بھی بخل کرنے والا بہت بڑا مجرم ہے ۔ پھر علم کا خزانہ نہ صرف یہ کہ کم نہیں ہوتا بلکہ جتنا خرچ کیا جائے اُتنا ہی زیادہ ترقی کرتا ہے اور دوسری چیزوں کے خلاف اِس میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ خرچ کرنے سے خرچ ہو جاتی ہیں لیکن علم ایک ایسی دولت ہے کہ جتنا خرچ کیا جائے اُتنا ہی بڑھتاہے اور جو لوگ اِس کو خرچ نہیں کرتے اور خرچ کرنے کے عادی نہیں ہوتے اُن سے چھین لیا جاتاہے۔ ایک بخیل روپیہ جمع کرتاہے تو اُس کا خزانہ بڑھتا ہے لیکن برخلاف اِس کے ایک عالم اگر علم جمع کرتا جاتا اور اُسے خرچ نہیں کرتا تو اُس کاخزانہ گھٹتا جاتا ہے۔ مثلاً اگر ایک شخص کو کہا جائے کہ تم محنت و مزدوری کر کے روپیہ جمع کرتے ہو اور دوسرے کو کہا جائے کہ تم علم پڑھ کر اکٹھا کرتے رہو تو کچھ عرصہ کے بعد اِن دونوں کا مقابلہ کیا جائے گا تو وہ جو روپیہ کماتا اور اسے خرچ نہ کرتابلکہ جمع کرتاتھا اس کے پاس بہت سا روپیہ ہو گا لیکن وہ جو علم پڑھ کر اُسے خرچ نہیں کرتارہا اُس نے کچھ کھو دیا ہو گا ۔کیونکہ مالدار اگر روپیہ کو جمع کرتا رہتا ہے تو روپیہ ویسے کا ویسا ہی پڑا رہتا ہے لیکن اگر علم کو رکھ چھوڑا جائے تو ذہن اُس خزانہ کو ردّی حالت میں کر دیتا ہے۔ مگر باوجود اس کے کس قدر افسوس اور تعجب کا مقام ہے کہ مال میں بخل کرنے والوں پر ہنستے اورانہیں بُرا بھلا کہتے ہیں لیکن بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کوخداتعالیٰ نے عقل دی، فہم دیا، علم دیا، سمجھ دی وہ ان چیزوں کے خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں حالانکہ اگر وہ غور کریں تو اُنہیں معلوم ہو جائے کہ ان کے بخل کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
مسلمانوں میں ایک جماعت اِس قسم کی پید ا ہو گئی تھی کہ جو صوفی کہلاتے تھے۔ ان کو اگر کوئی بات معلوم ہو جاتی تو اس کو بڑا چھپا چھپا کر رکھتے اور دوسرے کو نہ بتاتے تھے۔ ہاں مرنے کے وقت اگر کسی پر بڑے ہی خوش ہوتے اور اس پر بڑا ہی انعام کرنا چاہتے تو کوئی ایک آدھ بات بتا دیتے اور اسی طریق عمل کو بہت اچھا سمجھتے حالانکہ اِس کا نتیجہ بہت خطرناک نکلا۔ اس طرح کرنے سے ان کی اولاد ان سے جاہل نکلی ، اُن کی اولاد اُن سے جاہل نکلی، پھر ان کی اولاد ان سے جاہل نکلی اورآخر کار یہ ہوا کہ مسلمانوں میں کچھ نہ رہا۔ نہ علم رہا نہ تقوی رہا، نہ فہم رہا نہ عقل رہی، تمام علوم و فنون میں یہی حال ہو گیا تھا۔ اگر کسی طبیب کو کوئی اچھا نسخہ ہاتھ آجاتا تو وہ دوسرے کو نہ بتاتا جس کا نتیجہ یہ ہواکہ یہ علم ہی محدود ہو گیا اور اب دیکھ لو طب کیسی ردّی حالت میں پہنچ گئی ہے۔ یا تو وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں میں بڑے بڑے طبیب اور معالج تھے مگر ان کے آگے دوسروں کو نہ بتانے کی وجہ سے آہستہ آہستہ اعلیٰ اور اچھے نسخے مٹتے گئے اور آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک خاندان ترقی کر لیتا ہے لیکن اس کے بعد میں آنے والے افراد اِس قابل نہیں ہوتے کہ کاروبار کو سنبھال سکیں لیکن چونکہ اس خاندان کی وہ باتیں جن سے اُس نے ترقی کی ہوتی ہے اُنہی تک محدود ہوتی ہیں اِس لئے اُن کے تباہ ہونے کے ساتھ ہی وہ بھی تباہ ہو جاتی ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کسی حجام کی نسبت فرماتے تھے کہ اُس کو ایک ایسا اچھا مرہم بنانا آتا تھا کہ خواہ کیسا ہی گندہ اور بگڑا ہوا زخم ہو اس سے اچھا ہو جاتا تھا لیکن وہ اس مرہم کا بنانا کسی اور کو نہ بتاتا تھا حتیٰ کہ اپنے بیٹوں کو بھی نہ بتاتا تھا۔ جب وہ مرنے لگا تو اُس کے بیٹوں نے کہا اب تو آپ ہم سے جدا ہونے لگے ہیں اب ہی وہ مرہم بنانا بتادیں۔ وہ کہنے لگا میں تم کو بتا تو دیتا لیکن ابھی مجھے امید ہے کہ میری زندگی باقی ہے اگر میں اچھا ہو گیا تو پھر کیا ہو گا؟ وہ اِسی مرض میں مرگیا اور مرہم کے متعلق نہ ہی بتایا ۔
اِسی طرح ہزاروں علوم ایسے تھے کہ جو لوگوں کی نادانی اور جہالت کی وجہ سے مٹ گئے۔ ان کے جاننے والوں نے انہیں اپنے سینے کی قبر میں ایسا دفن کیا کہ وہ پھر نہ نکل سکے اور اس طرح گھٹتے گھٹتے بالکل ناپید ہو گئے۔ دیکھ لیجئے ۔ آجکل طب ایسی گر گئی ہے کہ کوئی پوچھتا تک نہیں اور ڈاکٹروں کی موجودگی میں طبیبوں کی طرف کوئی توجہ بھی نہیں کرتا ۔
ڈاکٹروں نے کوئی نئی طب نہیں بنائی بلکہ یہ وہی پرانی طب ہے اور یورپ نے مسلمانوں سے ہی سیکھی ہے لیکن جب ان کے پاس گئی اور اُنہوں نے اِس پر عمل درآمد اور تجربہ کرنا شروع کر دیا اور جو نئی بات کسی کو معلوم ہوئی اُس کی خوب شہرت کی اور اچھی طرح پھیلادی اور اِس طرح ایک کی بات دوسرے کو ، دوسرے کی تیسرے کو، تیسرے کی چوتھے کو پہنچتی گئی اور ایک نے دوسرے کی مدد سے اور دوسرے نے تیسرے کی مدد سے اور تیسرے نے چوتھے کی مدد سے ترقی کرنا شروع کردی۔ اور ہوتے ہوتے آج یہ حالت ہوگئی کہ جس طرح ایک گٹھلی اورآم میں بہت بڑا فرق ہوتاہے اور جس طرح ایک خو بصورت پھول اور اس کے بیج میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے حالانکہ پھول اُسی بیج سے نکلا ہوتا ہے مگر دونوں کی حالت میں اتنا بڑا فرق ہوتا ہے کہ ایک کا دوسرے سے مقابلہ نہیں ہو سکتا ۔ اگر بیج کسی کے ہاتھ کو لگ جائے تو جھاڑ کر پھینک دے گاکہ کیا لگ گیا ہے لیکن پھول کو بڑے شوق اور پیار سے باربار ناک کے ساتھ لگائے گا۔ اِسی طرح گو ڈاکٹری طب سے ہی نکلی ہے مگر بڑھتے بڑھتے ایک عظیم الشان درخت ہو گئی ہے کہ دونوں میں کوئی نسبت نہیں رہی۔
اہل یورپ نے چونکہ اس کے بڑھانے میں کوئی بخل نہیں کیا اگر ایک کا علم ختم ہو گیا تو آگے دوسرے نے شروع کر دیا، دوسرے کا ختم ہو گیا تو تیسرے نے شروع کر دیا، تیسرے کا ختم ہو گیا تو چوتھے نے شروع کر دیا۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ اگر ایک بات ایجاد کر لیتا تو دوسرے کو نہ بتاتا اِس لئے دوسرے کو اگر وہی بات ایجاد کرنی ہوتی تو اسے بھی اُتنی ہی محنت کرنی پڑتی جتنی کہ پہلے نے کی ہوتی لیکن اب یہ ہوا کہ ایک نے ایک دروازہ کھول دیا اور وہ تھک کر بیٹھ گیا تو دوسرا کھڑا ہو گیا اور اُس نے دوسرا دروازہ کھول دیا، تیسرے نے اُس سے اگلا کھول دیا اِس طر ح آہستہ آہستہ وہ اِس حد تک پہنچ گئے کہ بہت بڑا فرق ہو گیا۔
دہلی میں ایک طبی جلسہ پر وائسرائے نے کہہ دیا تھا کہ دیسی طب اور ڈاکٹری دراصل ایک ہی ہے لیکن یہ سن کر ڈاکٹروں نے اِس پر بڑا شور مچایا کہ ہماری ہتک کی گئی ہے کیونکہ یہ غلط ہے کہ دیسی طب اور ڈاکٹری ایک ہی ہے۔اگرچہ اُن کا شور مچانا ایسا ہی تھا جیسے کوئی محسن کش جب کوئی عہدہ پا لیتاہے تو ماں باپ سے ملنا بھی عار سمجھتا ہے ۔ ایک مجسٹریٹ کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بہت غریب خاندان سے تھا۔ اُس کا باپ اُس سے ملنے کے لئے آیا تو بے دھٹرک اُس کے پاس کرسی پر جا بیٹھا ۔ اہل کاروں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو اُس نے کہایہ ہمارا خدمت گار ہے۔ تو بعض کم عقل جب ترقی کر جاتے ہیںتو اپنے اصل منبع اور مخرج کی طرف منسوب ہونا بھی ہتک سمجھتے ہیں اِسی طرح ڈاکٹری والے بھی چونکہ بہت ترقی کر گئے ہیں اور طب والے بہت گر گئے ہیں اِس لئے وہ ان کی طرف منسوب ہونا ہتک سمجھتے ہیں۔ چونکہ طب والوں نے اس علم کو پھیلایا نہیں اِس لئے اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کم ہو گیا اور ڈاکٹری والوں نے اسے خوب پھیلایا اِس لئے وہ بہت ترقی کر گیا۔
صحابہ کرام ؓ کے پاس کوئی چیز ایسی نہ تھی جو انہوں نے چھپا رکھی ہو سوائے اُن خاص باتوں کے کہ جو ابتلاء کا موجب بن سکتی تھیں یا ایسی کیفیات جن کا بیان کرنا ہی ناممکن تھا۔ صحابہ کو تو عمدہ اور مفید باتوں کی اشاعت کرنے کا یہاں تک شوق تھا کہ ایک صحابی ؓ جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات بتائی تھی اور فرمایا تھا کہ یہ خاص تیرے ہی لئے ہے اِسے کسی کو نہ بتائیو جب فوت ہونے لگا تو اُس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک بات بتائی تھی اور فرمایا تھا کہ یہ کسی کو نہ بتانا اس لئے میں اس کے بتانے سے ڈرتا ہوں لیکن قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم ہے کہ جو اچھی بات تمہیں معلوم ہو وہ دوسروں کو بتائو اب میں کروں تو کیا کروں۔ آخر کاراُس نے یہی فیصلہ کیا کہ میں یہی پسند کرتا ہوں کہ بجائے اس کے کہ خاموش رہوں بتا ہی دوں اورنہ بتانے کے گناہ کے مقابلہ میں بتانے والا گناہ اُٹھا لوں۔ ۲؎ تو صحابہؓ اِس قدر جوش رکھتے کہ دوسروں کو ہر ایک ایسی بات سے جسے وہ اپنے لئے مفید سمجھتے تھے بتا دیتے تھے، اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں ہر قسم کے علوم و فنون بڑھے لیکن مسلمانوں پر ایک ایسا زمانہ آیاجبکہ وہ ہر ایک اچھی بات کو چھپاچھپا کر رکھتے تھے۔ طبیب اپنے نسخوں کو، مولوی اپنے وِردوں کو ، صوفیاء اپنے رنگوں کو دوسروں پر ظاہر نہیں کرتے تھے اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ ان میں علم رہانہ نیکی رہی ، نہ تقویٰ رہا نہ برتری رہی۔ جنس کو دیکھ کر جنس ترقی کیا کرتی ہے لیکن جب انہوں نے دین کی باتیں بھی چھپانی شروع کیںتو نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دنیاوی علوم سے بھی جاہل ہو گئے اور ان کی اولاد بھی جاہل ہو گئی ۔ اگر وہ ایک دوسرے کو بتاتے اور ان باتوں کو پھیلاتے تو آج ان کی یہ حالت ہر گز نہ ہوتی۔
تعجب کی بات ہے کہ ہماری جماعت میں سے بھی بعض لوگ ایسے نکل آئے ہیں کہ جو نیکی کی باتوں کو پھیلانا نہیں چاہتے ۔میں نے پچھلے دنوں دعا کے متعلق خطبے پڑھے تھے ان کے متعلق کسی شخص کا میرے نام خط آیا۔ اُس کا نام تو پڑھا نہیں گیا لیکن چونکہ اُس نے میری طرف خط لکھا ہے اِس لئے خیال گزرتا ہے کہ وہ احمدی ہی ہو گا۔ وہ لکھتا ہے کہ’’ آپ نے قبولیت دعا کے متعلق طریق بتا کر پوشیدہ اورسر بستہ راز کھول دیئے ہیں یہ تو بڑی محنتوں اور مشقتوں کے بعد کسی کو نصیب ہوا کرتے تھے۔ کوئی بہت ہی دعائیں کرنے والا اور خدا کے حضور گریہ وزاری کرنے والا ہوتا تو اسے ان طریق سے کوئی ایک القاء کیا جاتا لیکن آپ نے تو یونہی سب بتا دئیے ہیں اور اب ہر ایک ان سے آگاہ ہو جائے گا۔‘‘ اِس بات پر وہ بڑی حیرانی ظاہر کرتا ہے اورآخر لکھتا ہے کہ’’ اصل بات یہ ہے کہ آپ بھی مجبور تھے آپ ایک جماعت کے امام جو ہوئے اس لئے اپنی جماعت کی محبت کے جوش میں آکر آپ سے یہ حرکت ہو گئی ہے۔ ‘‘
دیکھئے! اُدھر اس کو تو یہ صدمہ ہوا ہے کہ میں نے یہ طریق ظاہر کیوں کر دئیے ہیں لیکن اِدھر مجھے خداتعالیٰ نے اپنی قدرت کا ایک اَور نمونہ دکھایا ہے۔ جب میں خطبہ پڑھ کر گھر گیا تو دل میں آیا سوائے دو تین طریقوں کے جو وقت کی تنگی کی وجہ سے بیان نہیں ہو سکے باقی سب میں نے بیان کر دیئے ہیںاور یہ جو مجھے یاد ہیں اِن کے علاوہ اور کوئی طریق نہیں ہے لیکن اُسی وقت جب کہ جمعہ کا دن اوررمضان المبارک کا مہینہ تھا میں نے دعا شروع کی تو خداتعالیٰ نے کئی نئے طریق مجھے اَور بتا دئیے ۔ میں نے سمجھا تھا کہ وہبی طریق کو چھوڑ کر جن کو انسان بیان ہی نہیں کرسکتا جس قدر بھی کسبی طریق ہیں اور جنہیں ہر ایک انسان استعمال کر سکتا ہے وہ سب میں نے اخذ کر لئے ہیں لیکن جاتے ہی خداتعالیٰ نے چار پانچ طریق اَور بتا دیئے ۔ گویا جب میں نے جگہ خالی کی تو اَور آگئے۔ علم کا خلااُس کا پھیلانا ہی ہوتا ہے یہ نہیں کہ وہ نکل جائے۔ دوسری چیزیں اُس وقت خلاپیدا کرتی ہیںجبکہ وہ خود نکل جائیں لیکن علم باوجود موجود رہنے کے خرچ کرنے سے خلا پید ا کردیتا ہے۔ پس مجھے تو بجائے کسی بھی قسم کا نقصان یاکمی ہونے کے فائدہ ہی ہوا کہ خداتعالیٰ نے اَور طریق سکھا دیئے۔ لیکن اُس کو خواہ مخواہ افسوس کرنا پڑا۔
یہ ایک غلطی ہے جو بڑی خطرناک ہے۔ چھپانے والی چیز تو وہ ہوا کرتی ہے جو بُری اور خراب ہواچھی چیز تو ظاہر کرنے کے لئے ہوا کرتی ہے۔ پھر وہ چیز جس میں کبھی کمی نہیں آسکتی بلکہ بڑھتی ہے پھر اُس کے چھپانے کی کیاوجہ ہو سکتی ہے۔ اسلام کی تعلیم تو ایسی ہی ہے کہ جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ خداتعالیٰ آنحضرت ﷺ کو فرماتا ہے ۔ کہ ہم نے تمہیں جو علم دئیے ہیںوہ ایک ایسی نہر ہے کہ جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی اور جس کی تہہ نہیں ہے۔ ایسی نہر پر جو لوگ کھڑے ہوں اُن سے اگر کوئی ایک گلاس مانگے اور وہ کہیں نہیں دیتے تو ان سے بڑھ کر بخیل اور کنجوس اور کون ہو سکتا ہے۔ جس طرح ہو اسے کوئی بخل نہیں کرتا اِسی طرح اسلام کی تعلیم سے دوسروں کو واقف کرنے سے اُس وقت تک کوئی بخل نہیں کرتاجب تک کہ جاہل مطلق اور نادان نہ ہو۔ اگر کوئی ایسی نادانی کرتاہے تو اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کے علم میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے اور آخر کار با لکل بیکار ہو جاتاہے۔
مجھے تو اگر خداتعالیٰ کوئی نکتہ سمجھاتاہے یا کوئی علم دیتا ہے تو میں تو یہی چاہتا ہوں کہ جس طرح ہو سکے دوسروں تک پہنچادوں۔ اِس سے ایک تو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ فائدہ جو مجھے حاصل ہو رہا ہوتاہے وہی دوسروں کو ہونے لگتا ہے۔ پھر اس پر ترقی کر کے وہ جو باتیں پیدا کریں گے وہ مجھے مل جائینگی اور میں اُن سے فائدہ اُٹھا لوں گا لیکن وہ لوگ جو کسی بات کو اپنے تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں ایک خطرناک مرض میں مبتلا ہیں۔ آپ لوگوں کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے اِس مرض کے دور کرنے کی کوشش کریں اور جو اچھی اورعمدہ بات خواہ دین کے متعلق ہو یا دنیا کے اُنہیں بتانے سے دریغ نہ کیا جاوے یہ ترقی کا بہت بڑا راز ہے، اگر کوئی اِس کو سمجھ لے تو اُس کا علم روزانہ ترقی کرتا رہے گا۔
پس ہماری جماعت کے لوگوں کو خوب یاد رکھنا چاہئے کہ جس چشمہ سے ان کے علوم نکلتے ہیں وہ کوثر ہے اور ہمارے تمام علوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشہ چینی اور آپ کے طفیل ہیں اور اس چشمہ کا نام خداتعالیٰ نے کوثر رکھا ہوا ہے کہ جس میں کبھی کمی نہیں آسکتی بلکہ جس قدر بھی ضرورت ہو اُس سے بڑھ کر اِس میں سے نکلتا رہتا ہے۔ کوثر اُس چشمہ کا بھی نام ہے جو جنت میں ہو گا اُس میں بھی کمی نہیں آتی مگر اسلام کی تعلیم جہاں سے نکلتی ہے اُس کانام بھی کوثر ہے۔ پس جس چشمہ سے ہم پانی لیتے ہیں اُس کا نام خداتعالیٰ نے کوثر رکھا ہوا ہے۔ پھر کیسی نادانی ہوگی اگر کوئی یہ خیال کرے کہ اس میں سے خرچ کرنے سے کمی آجائیگی اورپھر یہ کیسی نادانی ہوگی کہ کوئی مانگے اور ہم نہ دیں، پھر یہ بھی کیسی نادانی ہو گی کہ جو مانگنا نہیں جانتے اُن کو ہم خود نہ پہنچائیں۔ وہ قوم جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت کوثر ملا ہے اُس کا یہ کام ہونا چاہئے کہ اگر اس سے کوئی نادانی اور جہالت کی وجہ سے نہیں مانگتا تو بھی وہ اسے خود بخود دے اورسیراب کرے۔ جس کو خداتعالیٰ نے علم دیا ہے وہ علم کو پھیلائیں اور جن کو کوئی اَور بات معلوم ہے وہ اُسے شائع کریں اور ذرا بھی بخل نہ کریں۔
اِس زمانہ میں ہماری جماعت کو خداتعالیٰ نے اس کوثر کا داروغہ مقرر کیا ہے ۔تیرہ سَو سال میں متفرق جماعتوں کے ہاتھ میں وہ رہا مگر اب خداتعالیٰ نے ان سب سے چھین کر ہمیں دے دیاہے اس لئے ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ لوگ جو اس آبِ حیات کے بغیر مر رہے ہیں اُن تک پیالے بھر بھر کر پہنچائے اور اُنہیں پکڑ پکڑ کر پلائے اوریاد رکھے کہ اِس چشمہ میں کبھی کمی نہیں آسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت تمہیںاِسی لئے دی ہے کہ تم خود بھی اس سے فائدہ اٹھائو اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائو۔
دیکھو بعض امیر مال تقسیم کرنے کے لئے داروغے مقرر کرتے ہیں لیکن اگر وہ داروغے مستحق لوگوں کو مال دینے سے دریغ کریں تو اُنہیںہٹا دیتے ہیں اور ان سے وہ کام چھین کر اَور کو دے دیتے ہیں۔ اِسی طرح دین کے متعلق ہے وہ جو اسے تقسیم نہیں کرتے اور بے دینوں میں نہیں پھیلاتے اُن سے چھین لیا جاتاہے۔ پس تم میں سے ہر ایک وہ جس کو قرآن یا حدیث یا جو کچھ بھی آتا ہے وہ دوسروں کو پڑھائے اور یہ خیال نہ کرے کہ اُس کے علم میں کمی آجائے گی۔ اس کے منہ سے نکل کر کوئی بات دوسرے کے کان تک نہیں پہنچے گی کہ اسے ایک اور بات حاصل ہو جائے گی۔ میں نے اس بات کا خوب تجربہ کر کے دیکھا ہے اور جس طرح رؤیت کے متعلق شہادت دی جاسکتی ہے اسی طرح میں اس کے متعلق دیتا ہوں کہ کوئی بات اپنی جگہ سے نہیں ہلتی کہ خداتعالیٰ کی طرف سے اُس سے زیادہ نہیں مل جاتی ہے اور بیسیوں گنے زیادہ ملتی ہے گویا لوگوں کو بتانا ایک ڈاٹ ہوتا ہے کہ اس کو جب کھول دیا جاتا ہے تو اس زور سے دھار نکلنا شروع ہو جاتی ہے کہ بعض اوقات انسان اُٹھابھی نہیں سکتا۔ پس تم لوگ کسی بات کے پہنچانے میں کبھی بخل مت کرو۔ جہاں تک ہو سکے دوسروں کو پہنچائو۔ اور جو علم بھی خداتعالیٰ نے تمہیں دیا ہے اُسے اُن تک پہنچانے میں لگے رہو جن کے پاس اس سے تھوڑا ہے یا جن کے پاس بالکل ہی نہیں۔ وہ تم سے دور بھاگیںگے لیکن تم انہیں پکڑپکڑ کر دو۔ وہ تم سے نفرت کریں گے لیکن تم اُن کو محبت سے دو۔ وہ تمہاری باتیں نہیں سنیں گے مگر تم اُن کو پیار سے سنائو۔
یہاں بعض لوگ علم دین حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں ان کو مشکل پیش آتی ہے حالانکہ ہمارا تو یہ فرض ہے کہ لوگوں کے گھروں میں جاکر پہنچائیں لیکن یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ لوگ ہمارے گھر چل کر آجاتے ہیں۔ پھر اگر ہم ان کو کچھ نہ سکھائیں تو کیسی نادانی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کو نہیں سکھاتا خواہ اِس کی کوئی وجہ ہو تو وہ یاد رکھے کہ اُس کا علم بڑھ نہیں رہا بلکہ کم ہو رہا ہے اور ایک دن اُس پر ایسا آئے گا کہ وہ ایک بیکار اور فضول جسم رہ جائے گا۔
خداتعالیٰ ہماری جماعت کے ہر ایک فرد کو اِس بات کی توفیق دے کہ جو علم خداتعالیٰ کی طرف سے اسے دیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچائے اور اپنے اوقات سے بچا کر کچھ وقت دین کے کاموں میں صرف کریں اور اس دین کو پھیلائے اور دنیا کے کونے تک پہنچانے میں لگ جائیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اِن کو ملا۔‘‘ آمین (الفضل ۲۳؍ستمبر۱۹۱۶ئ)
۱؎ الکوثر: ۲ تا ۴
۲؎ بخاری کتاب العلم باب مَنْ خَصَّ بِالعلم قَوْماً دُوْنَ قَوْمٍ
۲۹
ہر گُل کے ساتھ خار ہوتا ہے
(فرمودہ ۸؍ ستمبر۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :۔
’’سورۃ فاتحہ روزانہ بلکہ دن کے ہر تغیر کے وقت ہمیں بتاتی ہے اور اِس طرف متوجہ کرتی ہے کہ ہر انعام کے ساتھ کچھ مشکلات بھی لگی ہوتی ہیں اور کچھ خطرہ بھی ہوتاہے اورجس پر انعام نہیں ہوا ہوتا وہ ذمہ داریوں سے بھی بچا ہوتاہے۔ ایک جنگل میں رہنے والا انسان جس کو حکومت کے معا ملات میں کچھ دخل نہیں اُس سے کسی قسم کی پُرسش بھی نہیں لیکن ایک وزیر جہاں بادشاہ کا مقرب اورمنظورِ نظر ہے وہاں اُس کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں اور جس طرح اُس کے لئے یہ خوشی اور فخر کرنے کا مقام ہوتا ہے کہ اُسے عزت حاصل ہوتی ہے اِسی طرح اُس کے لئے یہ ڈرنے اورخوف کرنے کا بھی مقام ہوتا ہے کہ مجھ سے کوئی ایسی حرکت نہ ہو جائے کہ میں اپنے آقا کا معتوب ہو جائوں۔ تو سورئہ فاتحہ اِس طرف متوجہ کرتی رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے انعام مانگو لیکن ساتھ ہی اِن انعاموں کے ملنے پر یہ بھی خیال رکھو کہ ایسے افعال میں نہ پڑ جائوکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کر بیٹھو۔ دیکھو جتنے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے انعامات ہوتے ہیں اُن میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں کہ تکبر اور گھمنڈ میں آجاتے ہیں۔ چنانچہ امراء میں جس قدر تکبر، گھمنڈ، عداوت، بغض، کینہ، بیوفائی، بدعہدی وغیرہ وغیرہ افعالِ شنیعہ پائے جاتے ہیں غرباء میں اُن کی نسبت بہت کم ہوتے ہیں۔ کیوں؟ اِس لئے کہ ان پر جو مصائب اور تکالیف آتی رہتی ہیں وہ انہیں خداتعالیٰ کی طرف متوجہ کئے رکھتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ انعام ایک اچھی چیز ہے اس سے بہتر کیا ہوگا پھر خداتعالیٰ کا انعام ۔ لیکن جہاں انعام کی جستجو ہو وہاں یہ خیال بھی رکھنا چاہئے کہ انعام ملنے سے جو تکبر، خودی ،کبر یائی آجاتی ہے اُس سے بچیں۔
ہماری جماعت پر خداتعالیٰ نے بڑے فضل اور انعام کئے ہیں اگر وہ ان پر فخر کرے تو بجا ہے کیونکہ خداتعالیٰ نے انہی کے متعلق فرمایا ہے کہ ؎۱ لیکن ساتھ ہی انہیں یہ بھی فکر رکھنی چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو سمجھتے اور جانتے ہیںتو ان ذمہ داریوں کے نیچے بھی دبے ہوئے ہیں جو ان سے پہلوں کی تھیں۔ اب اللہ تعالیٰ تم سے پوچھ سکتا ہے کہ ہم نے جو تم پر اتنا بڑا احسان کیا تھا کہ تم نے خود بھی اسے محسوس کیا تھا اور اس پر فخر کرتے تھے پھر جب تم نے نافرمانیاں کیں، اپنے عہدوں کو ٹالا تو تمہاری کیا سزا ہونی چاہئے۔ جس طرح بادشاہ کا وزیر سب سے زیادہ مقرب ہو سکتا ہے لیکن قصوروارہونے کی حالت میں سب سے زیادہ سزا کا بھی مستحق ہوتا ہے اِسی طرح مُنْعَم ْجماعتیں جب ٹھوکر کھا تی ہیں تو بہت ہی بُری طرح گرتی ہیں۔ دیکھو بعض افراد کی عزت کی وجہ سے یہود خداتعالیٰ کے حضور بہت مُنْعَم ْ ہو گئے تھے ۔ پے درپے اُن میں سے نبی بنائے گئے، اُن میں انبیاء کا ایک سلسلہ چلا جا رہا تھامگر جب وہ گرے تو ایسے گرے کہ ذلت اور رُسوائی میں تمام قوموں سے بڑھ گئے۔
ہندو ئوں کا مذہب ان سے بہت پہلے کا مذہب ہے لیکن ان کی ابتک کچھ نہ کچھ حکومت چلی ہی جاتی ہے اور یہودیوں کی ایک چپہ زمین پر حکومت نہیں۔ ہندوجہاں بھی ہیں امن وامان سے گزارہ کرتے ہیں مگر یہود کبھی ایک ملک سے نکالے جاتے ہیں کبھی دوسرے سے حالانکہ یہ ہندوئوں سے بہت بعد کی قوم ہے اس میں ان کے مقابلہ میں زیادہ طاقت ہونی چاہئے تھی مگر نہیں۔ بہت پہلی قوم میں اِن سے زیادہ طاقت ہے اور اِس میں نہیں۔ کیوں؟ اِس لئے کہ اِس پر جس قدر انعامات ہوئے تھے اُتنے ہندوئوں پر نہیں ہوئے تھے اِس لئے جب وہ گری تو ان سے بہت زیادہ نیچے گر گئی۔
ہماری جماعت کے لوگوں کو اِس بات کی بہت فکر چاہئے کہ جہاں وہمیں داخل ہیں وہاں ان پر بڑے بڑے فرائض بھی ہیں۔ اگر وہ ان کو پورا نہیں کریں گے تو خدا ان کا رشتہ دار نہیں۔ پس اگر تم نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہواہے اور ضرور کیا ہوا ہے تو پھر اس کے پورا کرنے کا کونسا وقت آئے گا۔ دین کی اِس حالت کو جس کی نسبت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیںکہ:۔
ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواجِ یزید
دین حق بیمارو بے کس ہمچو زین العابدین
یعنی ہر طرف کفر اِس طرح جوش مار رہا ہے جس طرح یزید کی فوجیں تھیں اور دین کی یہ حالت ہے کہ امام زین العابدین کی طرح بیمار اور بے کس پڑا ہے۔ واقعی یہی حالت اسلام کی ہے اس کو سمجھتے ہوئے جو سستی کرتے اور اپنی ضروریات کو دین کی ضروریات سے مقدم کرتے ہیں وہ سوچیں کہ کیا کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے بہت خطرہ کامقام ہے انہیں تو ایک منٹ کے لئے بھی دین کی طرف سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ وہ آدمی جسے پہرہ پر کھڑا کیا جائے وہ اگر ذرا بھی غفلت کرے تو اسے بہت سخت سزا دی جاتی ہے اور آجکل تو اتنی سختی کی جاتی ہے کہ اگر پہرہ دار کو اُونگھتا ہوا بھی دیکھا جائے تو گولی مار دیتے ہیں۔ کیوں؟ اِس لئے کہ اُس کی تھوڑی سی غفلت بہت بڑے نقصان کا موجب ہو جاتی ہے۔ اِسی طرح وہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے دنیا کے لئے بطور پہرہ دار، شاہد اور نگران مقرر کئے جاتے ہیں اگر وہ اپنے فرائض سے ذرابھی غافل ہوں تو بہت سزا پاتے ہیں ۔دوسرے اگر سوئیں تو کوئی نہیں پوچھتا لیکن وہ اگر اُونگھیں بھی توگولی مارنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
پس تم لوگ اِس خطرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے کی طرف توجہ کرو تاکہ غفلت سے محفوظ رہ کر انعامات حاصل کرسکو۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دے کہ اِس نے جو عہد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہاتھ پر کیا ہے اُس کو پورا کرے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے۔ ‘‘ (الفضل ۲۶؍ ستمبر ۱۹۱۶ئ)
۱؎ الجمعۃ: ۴
۳۰
وَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ سے بچنے کے طریق
(فرمودہ ۲۲ ستمبر۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اورسورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ والناس کی تلاوت کی:۔
۱؎
پھر فرمایا:۔
’’انسان کی پیدائش اللہ تعالیٰ نے ایسی طرح کی ہے کہ یہ بڑی سے بڑی ترقیات بھی حاصل کر سکتا ہے اور چونکہ ترقیات کے لئے مشکلات کا سامنا بھی ضروری ہوتاہے اس لئے یہ نیچے سے نیچے بھی گر سکتا ہے۔ اس کے اِرد گرد ہر وقت ایسے سامان موجود رہتے ہیں کہ جن میں سے بعض تو اُس کو اوپر کی طرف کھینچتے ہیں اور بعض نیچے کی طرف۔ پھر خداتعالیٰ نے اس کے اپنے اندر ایسی طاقت رکھی ہے کہ یہ ان دونوں قسم کے سامانوں میں سے جن سے متاثر ہونا چاہئے ہو سکتا ہے۔ گویا اِس کی مثال اُس انجن کی ہے جس میں سٹیم بھرا ہوا ہو اور وہ ایک ڈھلوان سٹرک پر کھڑاہو اُس وقت وہ دونوں طرف جا سکتا ہے اوپر کی طرف بھی اور نیچے کی طرف بھی۔ اگر وہ سٹیم سے کام لے گا تو اوپر کی طرف جا سکے گا اور اُس طاقت سے جو اُس کے اندر رکھی گئی ہے کام نہ لے گا تو نیچے سے نیچے چلا جائے گا۔ پھر جس طرح انجن کو ایک ایسی جگہ کھڑا کر دیا جائے جو ڈھلوان ہو اور اس میں سے طاقت نکال دی جائے تو نیچے ہی کی طرف آئے گا اِسی طرح ایک انسان کو جس کے اندر طاقتیں رکھی گئی ہیں جب وہ ان طاقتوں کو چھوڑ دیتا اور ان سے کام نہیں لیتا تو نیچے ہی نیچے گرتا چلا جاتا ہے اور اتنا نیچے گر جاتا ہے کہ اس کے دوسرے ساتھی حیران ہو جاتے ہیں کہ کیا اتنا نیچے گر گیا لیکن جب انسان طاقتوں سے کام لیتا ہے تو اوپر بھی اتنا چڑھتا ہے کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں۔جس طرح دور سے ستارے بہت چھوٹے اور چمکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ان پر غور کرنے والا حیران ہو جاتا ہے کہ کتنی بڑی فضا ہے اور اس میں کس قدر ستارے ہیں اور خدا تعالیٰ کی کیسی کیسی عجیب مخلوق ہے اِسی طرح انسان کی ترقی اور تنزّل کا حال ہے۔ جس طرح اِس فضاکی حد بندی نہیں ہوسکتی اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ چار یا دس یا سَو یا ہزار ارب میل پر یہ ختم ہو جاتی ہے اِسی طرح یہ بھی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں مقام پر جاکر انسان کی ترقی بند ہو جاتی ہے۔ پھر جس طرح کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ زمین کے نیچے فلاں حد سے آگے کوئی مخلوق نہیں اِسی طرح انسان کے گرنے کے متعلق بھی کوئی حد بندی نہیں کر سکتا۔ انسان ترقی کرتے کرتے ایسا ایمان حاصل کر سکتا ہے اور اس میں اتنی خوبیاں جمع ہو سکتی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اِس طرح اپنے اندر لے لیتا ہے کہ دیکھنے والے کو یہ دھوکا لگ جاتا ہے کہ یہی خدا ہے۔ چنانچہ جن برگزیدہ انسانوں نے اپنے قلوب کو بہت ہی صاف کر لیا اور ایمان کے اعلیٰ درجہ کو پہنچ گئے اُن کی نسبت لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ یہی خدا ہیں یا ان میں خدا ہے۔ حضرت کرشن ؑ، حضرت رامچندر، حضرت مسیح ؑ،حضرت عزیرؑ کو لوگوں نے خدا بنا لیا اور سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اِس مقام پر پہنچے تھے کہ آپؐ کو لوگ خدا سمجھتے مگر آپ کے دل میں خداتعالیٰ کی توحید کا ایسا جوش تھا اور شرک کے نام تک سے ایسی نفرت تھی کہ آپ نے اس کے مٹانے کے لئے لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ کے ساتھ مُحَمَّدً ا عَبْدُہٗ َورَ سُوْلُہٗلگا دیا۔
نادان اور ناسمجھ انسان اعتراض کرتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خدا کے ساتھ اپنے نام کو لگا کر اپنے آپ کو خدا کا شریک قرار دے لیا ہے مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ آپ نے اپنے تئیں خداتعالیٰ سے علیحدہ کرنے کے لئے کیا ہے نہ کہ خداتعالیٰ سے ملانے کے لئے۔ پورا حکم تو یہی ہے۔ اَشْھَدُاَنَْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً اعَبْدُ ہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ کہ جس طرح ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے اِسی طرح ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم باوجود اِس قدر کمالات رکھنے کے اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہی تھے۔ کیا یہ شرک ہے؟ نہیں۔ بلکہ یہ تو شرک کے مٹانے کا ذریعہ ہے۔یہی وہ حکم ہے جس نے لوگوں کو آپ کے خدا بنانے سے روکا ۔ ورنہ آپؐ حضرت کرشنؑ، حضرت مسیحؑ وغیرہ سے زیادہ اِس بات کے حقدار تھے کہ آپ کو خدا سمجھا جاتا ۔ بائبل کی پیشگوئیوں میں بھی آپؐ کی شان اور مرتبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو خدا ہی کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے اور حضرت مسیحؑ کو بیٹے کی حیثیت سے۔ چنانچہ بائبل میں ایک تمثیل کے طور پر حضرت مسیحؑ اپنے آپ کو بیٹے کی نسبت دیتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کو خود خداتعالیٰ کا آنا کہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیحؑ کہتے ہیں۔
’’ ایک اَور تمثیل سنو۔ ایک گھر کا مالک تھا جس نے انگورستان لگایا اور اس کے چاروں طرف روندھا گھیرا اور اس میں حوض کھودا۔ اور برج بنایا اور اسے باغبانوں کو ٹھیکے پر دے کر پردیس چلا گیا۔ اور جب پھل کا موسم قریب آیا تو اس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں کے پاس اپنا پھل لینے کو بھیجا اور باغبانوں نے اس کے نوکروںکو پکڑ کر کسی کو پیٹا اور کسی کو قتل کیا اور کسی کو سنگسار کیا۔ پھر اس نے اَور نوکروں کو بھیجا جو پہلوں سے زیادہ تھے۔ اور انہوں نے ان کے ساتھ بھی اِسی طرح کیا۔ آخر اُس نے اپنے بیٹے کو اُن کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وہ میرے بیٹے کا تو لحاظ کریں گے۔ جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا تو آپس میں کہا کہ یہی وارث ہے آئو اِسے قتل کر کے اِس کی میراث پر قبضہ کر لیں اور اسے پکڑ کر باغ سے باہر نکالا اور قتل کر دیا۔ پس جب اس باغ کا مالک آئے گا تو اِن باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا؟ انہوں نے اُس سے کہا ان بڑے آدمیوں کو بُری طرح ہلاک کرے گا اور باغ کا ٹھیکہ اَور باغبانوں کو دے گا جو موسم پر اُس کو پھل دیں۔‘‘ ؎۲
اِس عبارت میں حضرت مسیحؑ نے اپنے آنے کو بیٹے کا آنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کو خود مالک باغ کا آنا قرار دیا ہے۔ واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی شان ایسی تھی کہ اگر خداتعالیٰ دنیا میںانسان کے بھیس میں آتا تو آپؐ ہی کے وجود میں آتا اور آپؐ ہی کی شان کو دیکھ کر لوگوں کو اِس بات کا دھوکا لگ جاتا لیکن خداتعالیٰ نے اِس سے لوگوں کو بچانے کے لئے اور اِس خرابی کو دور کرنے کے لئے اپنی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبودیت بھی لگا دی۔
غرض انسانوں میں سے ایسے انسان ہوئے ہیں کہ جن کو اتنے بڑے درجے حاصل ہوئے اور جن کے قلب میں اتنی صفائی ہو گئی تھی کہ اُن کو لوگوں نے غلطی سے خدا یا خدا کے بیٹے یا خدا کے شریک سمجھ لیا۔ گویا انسانوں نے اپنے میں اور ان برگزیدہ انسانوں میں اتنا فرق سمجھ لیا کہ گویا ہم عابد ہیں اور وہ معبود حالانکہ وہ ان ایسے ہی ہوتے تھے۔ ایسی ہی ان کی طاقتیں بھی ہوتی تھیں جیسی کہ ان کو معبود ماننے والوں میں ہوتی تھیں مگر جب انہوں نے اپنی طاقتوں سے عمدگی کے ساتھ کام لیا تو دوسرے جنہوں نے ان طاقتوں کو بیکار چھوڑے رکھااُن کو خدایا خدا کے اوتار اور خدا کے بیٹے سمجھنے لگ گئے۔ اس کے مقابلہ میں ایک دوسری مخلوق بھی ہے۔ وہ اپنے مقام سے اِتنی گری اِتنی گری کہ اس کو انسان کہنا، اُس کی طرف منسوب ہونا، اُس سے دوستی رکھنا، اُس کے نام رکھنا بھی کوئی پسند نہیں کرتا۔ کیوں؟ اِس لئے کہ وہ اِتنی نیچے گری کہ جس طرح دورکی چیز بہت چھوٹی اور حقیر معلوم ہوتی ہے اِسی طرح وہ چونکہ انسانیت سے گر کر بہت نیچے اوردور ہو گئے اِس لئے انسانوں کی نظروں میں حقیر دکھائی دینے لگے۔ جو اوپر چڑھے وہ تو ان سے بلند ہوئے کہ ان کو انہوںنے اپنے میں سے خارج سمجھ کر خدا اور خدا کے اوتار بنا لیا۔ لیکن جو نیچے گرے اُن کی ذلت اور ادنیٰ ترین حالت کی وجہ سے لوگوں نے ان کو انسان بھی قرار نہ دیا اور واقعی وہ انسان کہلانے کے مستحق ہی نہ تھے۔ خداتعالیٰ نے بھی ان کو انسان نہیں کہا بلکہ بندر اور سؤر قرار دیا ہے ۔گویا خداتعالیٰ نے اِس بات کی تصدیق فرما دی ہے کہ وہ انسان جو گرنے والوں کو اُن کی دُوری اور بعد کی وجہ سے اپنے میں شامل کرنا پسند نہیں کرتے وہ ٹھیک کرتے ہیں۔ واقعی ایسے لوگ ان میں سے نہیں بلکہ بندر اور سؤر ہیں۔
تو یہ مدارج ہیں بعض اونچے ہیں اور بعض نیچے اوربعض درمیانی۔ اِن کے حصول کے لئے خداتعالیٰ نے انسان میںطاقتیں بھی رکھ دی ہیں۔ بعض طاقتیں انسان کو اوپر لے جانے والی ہیں اور بعض نیچے ۔ لیکن نیچے لے جانیوالی طاقتیں کوئی علیحدہ نہیں ہوتیں بلکہ وہ جواو پر کھینچنے والی ہوتی ہیں انہیں کے عدم کا نام نیچے لے جانے والی طاقتیں ہے۔ جس طرح اگر انجن سے سٹیم نکال لی جائے تو وہ ایک ڈھلوان جگہ سے خود بخود نیچے آجاتا ہے اُس کے نیچے آنے کا باعث کوئی اور طاقت نہیں ہوتی بلکہ سٹیم کا نہ ہونا ہی اُس کے نیچے آنے کا باعث ہوتاہے اِسی طرح خداتعالیٰ نے جو طاقتیں انسان کے اندر رکھی ہیں وہ سٹیم کی طرح اُسے اوپر لے جانے والی ہیں ہاں جب کوئی ان سے کام نہیں لیتا تو وہ نیچے گرنا شروع ہو جاتا ہے۔ جس قدر بُری طاقتیں ہیں وہ اچھی اور اعلیٰ کے نہ ہونے سے بنتی ہیں۔ مثلاً حقارت کیاہے؟ محبت کے نہ ہونے کا نام ہے۔ کسی سے محبت گھٹتے گھٹتے ایک ایسے درجہ پر پہنچ جاتی ہے کہ اس کا نام حقارت ہو جاتاہے۔ دیکھو جس طرح سردی نام ہے گرمی کے نہ ہونے کا اِسی طرح تمام بد اخلاقیاں اور بُرائیاں اخلاق اور بھلائیوں کے نہ ہونے کا نام ہے یہ کوئی علیحدہ نہیں۔
بعض نادان اعتراض کرتے ہیںکہ کیا خدا نے ہی بدی اور بُرائی کو پیدا کیا ہے؟ اگر خدا نے ہی کیا ہے تو بہت بُرا کیا ہے۔ وہ نادان نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ نے کوئی بدی پیدا نہیں کی بلکہ اُس نے نیکی پیدا کی ہے جو بدبخت کسی نیکی کو نکال کر پھینک دیتے ہیں اُن میں اِس کی بجائے بدی آجاتی ہے تو بدی نیکی کے عدم کا نام ہے۔ اخلاق کے اثر کا یہاں تک تجربہ کیا گیاہے کہ ایسی لکڑی کے پنگھوڑے بنائے گئے ہیں جو ذرا سے اثر سے بھی جھک جاتے ہیں۔ اِس پر لیٹ کر جب محبت اور خوشی کے خیال کئے گئے ہیں تو تختہ اونچا ہوا ہے اور جب نفر ت اور حقارت کے خیال کئے گئے ہیں تو نیچے دبتا گیا ہے۔ تو اونچا لے جانے والی طاقت جب نکل جائے تو پھر نیچے لے جانے والی طاقت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔ انسان کے اِرد گرد دو قسم کے سامان ہیں ۔ ایک تو ایسے کہ جو انسان کو اعلیٰ اخلاق اور عادات سے دُور کرتے جاتے ہیں اور دوسرے ایسے کہ ان کے ذریعہ محبت، اخلاق، وفاداری، نیک سلوک، احسان اور مروت کرنے کی صفات پیداہوتی ہیں اور یہ بڑھتی رہتی ہیں اور انسان کو اوپر ہی اوپر لے جاتی اور بلند کر دیتی ہیں کہ دیکھنے والے حیران ہو جاتے ہیں لیکن بعض ایسے کام ہیں جو ان صفات سے جدا کر دیتے ہیں اوراس سے انسان گرتا جاتاہے۔
لیکن جس طرح انجن کے محفوظ رکھنے اور عمدگی سے چلانے کے لئے گارڈ اور ڈرائیور کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ہر ایک انسان کو شرور اور وساوس سے بچانے کے لئے ملائکہ مقرر ہوتے ہیں وہ اس کو نیکی کے کام کرنے میں مدد دیتے رہتے ہیں لیکن جب وہ ملائکہ الگ ہو جائیں تو جس طرح انجن سٹیم کے نکال لینے سے خود بخودڈھلوان سے نیچے آنا شروع ہو جاتا ہے اِسی طرح کچھ بد روحیں ہوتی ہیںوہ انسان کو نیچے کھینچنا شروع کر دیتی ہیں۔ جو انسان اپنی غفلت اور کوتاہی سے ملائکہ سے قطع تعلق پیدا کر لیتا ہے تو پھر اُس کا خود بخود بد روحوں سے تعلق جڑ جاتا ہے ۔ ان سے بچنے کے لئے خداتعالیٰ نے اِس سورۃ میں جو میں نے ابھی پڑھی ہے علاج بتایا ہے۔
فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر محبت کا سلوک کرتے ہیں لیکن چونکہ ان کا تعلق ملائکہ سے نہیں ہوتا اس لئے بجائے اس کے کہ کسی کو اوپر لے جانے میں مدد دیں اَور نیچے گرا دیتے ہیں۔ ان کو انسان دوست سمجھتاہے لیکن دراصل وہ اُس کے دشمن ہوتے ہیں۔ فرمایا ان سے بچنے کی ہم تمہیں ایک ترکیب بتاتے ہیں اور وہ یہ کہ خدا سے ہمیشہ ان سے محفوظ رہنے کی دعا مانگو۔ اُس کو کہو کہ اے خدا! تو رب ہے ۔ رب کے معنی ہیں پیدا کرنے والا اور پیدا کرنے کے بعد اُس کی باریک درباریک ضروریات کو پورا کرکے کمال تک پہنچانے والا۔ تو فرمایا۔ تم ایسے خداسے مدد مانگو جو ربّ ہے اور اُسے کہو کہ ہمیں اِس سے بڑھ کر اور کیا ضرورت ہو گی کہ ہمیں ایسی خواہشات اور ایسے لوگوں سے تعلق نہ ہو جو ہمیں نیچے ہی نیچے لے جانے والے ہوں۔پس ہم اپنے آپ کو تیرے ہی سپرد کرتے ہیں کہ تو ہمیں اوپر لے جا۔ یہ تو ربوبیت کا واسطہ دے کر دعا ہوئی۔ اِس سے بڑھ کر مالکیت کا درجہ ہے۔ فرمایا پھر اُس خدا کو پکارو جو ہے۔ لوگوں کا بادشاہ ہے۔ بادشاہ کبھی یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی باغی اُس کی رعایا کو تکلیف پہنچائے ۔ اِس لئے فرمایا خدا کو کے نام سے اپنی مدد کے لئے پکارو کہ اے خدا !ہم تیری رعایا ہیں کیااگر ہمیں کوئی دکھ دے، کوئی تکلیف پہنچائے تو تیری شانِ بادشاہت کو غیرت نہیں آئے گی؟ ضرور آئے گی، پس ہم کو بچا۔ دیکھو دنیاوی بادشاہوں کی رعایا کو اگر کوئی بہکائے تو اُنہیں غیرت آتی ہے اور وہ اُسے ہلاک اور تباہ کر دیتے ہیں اِسی طرح اگر کوئی خداتعالیٰ کو اپنا آپ سپرد کر دے تو کیا وہ اُس کے بہکانے والوں کو سزا نہیں دے گا؟ضرور دے گا۔ پس فرمایا تم اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دو اور کہوکہ الٰہی!تو ہی ہمارا بادشاہ ہے اور ہم تیری رعایا۔ ہمیں اِن باغیوں اور سرکشوں سے نجات دے جو تیرے جادئہ اطاعت سے ہمیں منحرف کرنا چاہتے ہیں۔
ربوبیت سے بڑھ کر الوہیت کا تعلق ہے۔ ہر ایک بادشاہ اللہ نہیں ہو سکتا ۔ ایک ہی بادشاہ ایسا ہے جو اللہ ہے اور وہ خداتعالیٰ ہے۔ فرمایا ۔ پھر الوہیت کی صفت کو پکارو اور کہو خدایا !ہم تیرے بندے ہیں اور تو ہمارا معبود ۔ جب کوئی بادشاہ یہ پسند نہیں کرتا کہ اُس کی رعایا کو کوئی ورغلائے تو پھر توجو معبود ہے کس طرح پسند کر سکتا ہے کہ تیرے بندوں کو کوئی ورغلائے ۔ پس ہم تیرے ہی حضور عرض کرتے ہیں کہ تو ہمیں فسادوں اور فتنوں سے بچا، شریروں اور باغیوں کے وساوس سے نجات دے اور بلند سے بلند درجے کی توفیق بخش ۔
جس طرح بلندی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مشکلات بھی بڑھتی جاتی ہیں اِسی طرح خداتعالیٰ نے اپنی صفات بھی علی الترتیب اعلیٰ بیان فرمادی ہیں تاکہ جہاں مشکلات بڑھتی جائیں وہاں خداتعالیٰ کو اُس کی اعلیٰ صفات کے مطابق اپنی مدد اور تائید کے لئے پکارتے جائو۔
اِس زمانہ میں اس سورۃ کے پڑھنے کی بڑی ضرورت ہے۔ لوگوں کو آجکل دین سے بڑی نفرت ہو گئی ہے۔ بعض جگہ بہت چھوٹی چھوٹی اورمعمولی باتوں سے ابتلاء آجاتے ہیں ۔مثلاً کسی کا جنازہ نہیں پڑھا، یا کسی نے رشتہ نہیں دیا، یا فلاں کیوں سیکرٹری بنایا گیا اور فلاں پریذیڈنٹ کیوں بنایا گیا۔ مجھے حیرت ہی آتی ہے کہ اِس زمانہ میں ایمان کی قیمت کیوں اِس قدر تھوڑی ہوگئی ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے لکھا ہے کہ اِس زمانہ سے اِس سورۃ کا بہت تعلق ہے۔ چنانچہ تجربہ بتاتا ہے کہ واقعہ میں ہمارے دوستوں کو اس کی بہت ضرورت ہے تا وہ شریر لوگ جو اِن کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں اُن سے محفوظ رہیں۔ وہی ہستیاں ہوتی ہیں جو نظر نہیں آتیں یعنی پوشیدہ رہتی ہیں۔ کبھی کسی لباس میں اور کبھی کسی لباس میں آکر وسوسے ڈالتی رہتی ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ یہ میری خیر خواہ اور ہمدرد ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھاکہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان رات کو مومن سوئے گا اور صبح کو کافر اُٹھے گا اور اُسے پتہ بھی نہیں ہو گاکہ کس طرح اُس کا ایمان چلا گیا۔ وہ یہی زمانہ ہے اس میں لالچ، حسد، بغض، ناجائز رُعب، خوف اتنا ترقی کر گیا ہے کہ ایمان کی کچھ بھی قیمت نہیں رہی اور وہ اس طرح بیچ دیا جاتا ہے کہ گویا بہت ہی حقیر چیز ہے۔ جس قدر جلدی اپنے پاس سے دور ہو اُتنا ہی اچھا ہے۔ اپنے گندوں اور میلوں کو لوگ اتنا جلدی نہیں پھینکتے جتنا کہ ایمان کو پھینکتے ہیں۔ اگر ان کو کہا جائے کہ رسم ورواج کے گندوں کو چھوڑ دو تو لڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں کہ اِس طرح ہماری ناک کٹ جاتی ہے۔ مگر ایمان کو ترک کرنے کے لئے اگر کوئی کہے تو بڑی خوشی سے تیار ہو جاتے ہیں۔ تو یہ زمانہ اِس سورۃ کے پڑھنے کابہت مستحق ہے تاکہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت، مالکیت ، الوہیت کی صفات مدد کریں اور نیک اور نیچے گرنے والی ہستیوں میں سٹیم بھر جائے تاکہ وہ اوپر چڑھ سکیں یہ خداتعالیٰ کی مدد کے سِوا ہو نہیں سکتا۔اس میں شک نہیں کہ کامیابی کے لئے اسباب کا ہونا بھی ضروری ہے مگر جب تک خداتعالیٰ کی طرف سے توفیق نہیں ملتی باوجود سامانوں کے اس کام کے کرنے کا جوش اور ہمت نہیں پیدا ہو سکتی۔ دیکھو اگر کسی کو کچھ تکلیف پہنچے اور وہ پولیس میں رپورٹ کرے تو پولیس اس کی تحقیقات کرے گی لیکن اگر پولیس کو حکامِ بالا کی طرف سے خاص طور پر اس کی تحقیقات کا حکم ہو تو وہ بہت کوشش اور تندہی سے اس کام کو کرے گی۔ اس طرح خداتعالیٰ نے ہر کام کے لئے سامان پیدا کئے ہیں لیکن جب خداتعالیٰ ان کو یہ کہہ دے کہ میرے فلاں بندے کی مدد اور تائید کرو تو سمجھ لو کہ وہ کس قدر زور سے کریں گے۔ تو صرف سامان کوئی چیز نہیں اکثر اوقات سامان کی موجودگی میں ناکامی ہوتی ہے لیکن جب خداتعالیٰ کا حکم ہو جائے تو پھر کامیابی یقینی ہوتی ہے۔
پس ہماری جماعت کو اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی خاص خاص صفات کو یاد کیا کرے اور اس سورۃ کو پڑھا کرے تاکہ جن کے دلوں میں وساوس نہیں ان میں آئندہ بھی نہ پڑیں اور جن میں پڑے ہوں اُن سے نکل جائیں۔
خداتعالیٰ ہماری جماعت کو وساوس سے بچائے اور ان کے مقام کو بلند کرے کہ دنیا کی نظروں سے اتنے ہی دور ہو جائیں جتنے ستارے ہیں اور اُن لوگوں میں ہمارا نام لکھا جائے جو نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کی جماعت ہے۔‘‘ (الفضل۳ ؍اکتوبر ۱۹۱۶ئ)
۱؎ الناس: ۲ تا آخر
۲؎ متی باب ۲۱ آیت ۳۳ تا ۴۱
۳۱
کی اطاعت فرض ہے
(فرمودہ۲۹ ستمبر۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
؎۱
پھر فرمایا:۔
’’کسی قوم کی تباہی اور ہلاکت عام طور پر ان اندرونی اسباب کے ذریعہ ہوتی ہے جو خود اس میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ بیرونی سامانوں سے قوموں کا تباہ ہونا بہت کم پایا جاتا ہے اور شاذو نادر ہی ایسا ہوا ہے کہ کوئی قوم واقعہ میں طاقتور اورمضبوط ہو لیکن اُس کے خلاف اُس سے زیادہ طاقتور قوم زیادہ سازو سامان کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہو اور اُس نے اُس کی طاقت کو توڑ دیا ہو۔ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ اُسی وقت کوئی قوم تباہ وبرباد ہوتی ہے جبکہ خود اُس کے اندر کمزوریاں اور بدیاں پیدا ہو گئی ہوں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے اوقات میں بیرونی سامان بھی اس کی تباہی کے ممدو معاون ہو جاتے ہیں مگر وہ کامیاب تب ہی ہوتے ہیں جبکہ اندرونی سامان اُس قوم کو گھن کی طرح کھا چکے ہوتے ہیں اور وہ کھوکھلی اور کمزور ہو چکی ہوتی ہے۔ اس کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے کہ ایک شخص ایک ایسے درخت کے سہارے کھڑا ہو جس کو گھن کھا چکا ہو اور وہ گر جائے ۔ وہ درخت گرا تو اُس کے سہارا لینے سے ہے لیکن اِس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے گرنے کا اصل باعث اس شخص کا سہارا لینا نہیں بلکہ وہ گھن ہے جو اسے اندر ہی اندر کھا چکا ہے۔ اگر اسے گھن نہ کھا چکا ہوتا تو سہارا چھوڑ اگر وہ شخص زور بھی لگاتا تو بھی نہ گرتامگر گھن کے کھا جانے کی وجہ سے محض سہارا لینے سے ہی گر گیا۔ اسی طرح لوگ چھتیں ڈالتے ہیں اور گرمی کے موسم میں ان کے اوپر جا بیٹھتے ہیں۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ تمام چھت پر آدمی ہی آدمی بیٹھے ہوتے ہیں لیکن وہ ان کے بوجھ کو سہارے رہتی ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی آدمی کے بوجھ سے اس میں سوراخ ہو جاتا ہے اس لئے کہ گھن کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکی ہوتی ہے۔ اس سوراخ کے ہونے کا باعث تو اسی آدمی کا بوجھ ہوا جو چھت کے اوپر چڑھا تھا مگر وہ چھت پہلے سے ہی اِسی انتظار میں تھی کہ مجھ پر اس کا بوجھ پڑے اور میں گروں ۔ یہی حال قوموں کا ہوتا ہے۔
ہمیشہ وہی قومیں گرتی ہیں کہ جن کو اندر ہی اندر گھن کھا چکا ہوتا ہے اور باہر سے حملہ کرنے والا ان کے گرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ فلاں قوم پر فلاں نے حملہ کرکے اسے تباہ کر دیا مگر وہ نہیں جانتے کہ وہ قوم پہلے سے ہی تباہ ہونے کو تیار بیٹھی تھی اور اس بات کا ثبوت اس طرح بھی مل سکتا ہے کہ اس قوم کا کامیابی کے زمانہ سے مقابلہ کر کے دیکھنا چاہئے کہ آیا وہ جوش ،وہ اتحاد اور وہ سامان جو اُس وقت اُسے حاصل تھے وہی تباہی کے وقت بھی اس کے پاس موجود تھے یا نہیں؟ اگر ویسے ہی موجود ہوں اور پھر کوئی قوم اُس پر حملہ آور ہو کر اسے تباہ وبرباد کر دے توکہا جا سکے گاکہ دوسری قوم نے اپنی زیادہ طاقت اور کثرتِ سامان کے ذریعہ اس پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔ لیکن اگر تباہ ہونے والی قوم میں وہ جوش ،وہ قوت اور وہ اتحاد نہ ہو جو اُس میں کامیابی کے زمانہ میں تھا اور اُس کے پاس وہ سامان موجود نہ ہوں جن کے ذریعہ اس نے فتح حاصل کی تھی اور پھر کوئی قوم اُسے مغلوب کر لے تو صریح طور پر معلوم ہو گا کہ بیرونی قوم کا حملہ تو اس کی تباہی اور بربادی کے لئے ایک بہانہ ہی تھا بلکہ اس نے اپنی کمزور اور ناتوان حالت سے خود یہ جرأت اور دلیری دلائی تھی کہ وہ اس پر حملہ آور ہو۔ اگر اسے یہ معلوم ہوتا کہ وہ مضبوط اور طاقتور ہے تو کبھی حملہ ہی نہ کرتی۔
لکھا ہے کہ حضرت علیؓ اورحضرت معاویہؓ کی جنگ کے وقت ایک عیسائی سلطنت نے حضرت علیؓ پر حملہ کرنا چاہا۔ اُس کو حملہ کرنے کا خیال پیدا ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس نے مسلمانوں کو کمزور سمجھا ورنہ پہلے کی نسبت نہ اس کی طاقت بڑھ گئی تھی نہ اس کے پاس سامان زیادہ ہو گیا تھا اور نہ ہی مسلمانوں کی سلطنت چھوٹی رہ گئی تھی، لیکن جب اس نے دیکھا کہ مسلمانوں کو نااتفاقی کا گھن کھا رہا ہے تو اس نے حملہ کرنے کا ارادہ کر دیا۔ مگر دراصل وہ گھن اسی قسم کا تھا جو چھلکے کے اوپر ہی اوپر ہوتا ہے نہ کہ اندر۔ اس لئے جب اس نے حملہ کا ارادہ کیا اور اپنے مشیروں سے مشورہ لیا تو ایک نے کہا کہ آپ سمجھتے نہیں یہ مسلمانوں کی حقیقی کمزوری کی علامت نہیں۔ اگر آپ ان پر حملہ آور ہوںگے تو ضرور شکست کھائیں گے۔ چنانچہ جب امیرمعاویہ ؓ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اسے کہلا بھیجا کہ ہم جو آپس میں لڑ رہے ہیں تو یہ شرعی مسائل کے متعلق لڑتے ہیں تم اس سے یہ نہ سمجھنا کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ اگر تم نے علیؓ پر حملہ کیا تو ان سے صلح کر کے سب سے پہلے جو تمہارے ساتھ لڑنے کے لئے نکلے گا وہ میں ہوں گا۔ ۲؎ اس کے بعد وہ عیسائی بادشاہ حملہ کرنے سے رُک گیا کیونکہ اس نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں کو گھن نہیں لگاہوا۔ لیکن اس کی حملہ کرنے کی خیالی جرأت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس نے سمجھا کہ مسلمان کمزور ہو گئے ہیں اورآپس میں جنگ وجدال کر رہے ہیں۔ تو دشمن جب کمزور ی کی علامت دیکھتا ہے تو حملہ آور ہونے پر آ مادہ ہو جاتاہے۔پھر وہ حملہ کرنے سے رُکا تو اس لئے نہیں کہ اس کی وہ فوج جس کے بھروسے پر اس نے حملہ کرنے کا خیال کیا تھا وہ بھاگ گئی تھی یا مری کے پڑنے سے ہلاک ہو گئی تھی، یا سامانِ حرب تباہ ہو گیا تھا، بلکہ اس لئے کہ اس نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں میں گھن نہیں ہے۔ توجو قوم بیرونی دشمنوں کے حملوں سے ہلاک ہوا کرتی ہے وہ وہی ہوتی ہے جس کے اندر کمزوری اورنا طاقتی کی علامات پائی جاتی ہیں۔ اُنہی کو دیکھ کر دشمن سمجھ لیتے ہیں کہ یہ قوم آج بھی مٹی اور کل بھی مٹی ۔ مگر اس خیال سے کہ اگر خود بخود مٹی تو اس کے کھنڈرات سے کوئی اَور قوم نکل آئے گی جو اُس کی جگہ قابض ہو جائے گی اس لئے کیوں نہ ہم ہی اس کو مٹا کر اس جگہ پر قبضہ کر لیں۔ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ جنگل میں اگر لاوارث بکری مل جائے تو اُسے کیا کرنا چاہئے؟ آپؐنے فرمایا۔ تم اس پر قبضہ کر لو اگر تم قبضہ نہ کرو گے تو اسے بھیڑیا کھا جائے گا ۔ ۳؎ یہی حال قوموں کا ہوتا ہے۔ جب کوئی قوم مٹنے کے بالکل قریب ہو جاتی ہے تو کوئی دوسری قوم اٹھ کر اس کا نام و پتہ مٹا کر اپنا نام اس کی جگہ لکھ دیتی ہے کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو کوئی اَور قوم ہوگی جو ایسا کر لے گی۔
تو سب سے زیادہ خطرناک حملہ جو کسی قوم پر ہوتا ہے وہ اس کے اپنے اندرونی عیوب اور کمزوریاں ہی ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کی تباہی اور ہلاکت کی یہی وجہ ہوئی ہے۔ یہ نہیں کہ دشمن ان سے طاقتور تھے اِس لئے انہوں نے غلبہ پا لیا بلکہ اصل باعث یہی ہے کہ مسلمانوں کی قوم کو اندر ہی اندر گھن لگ گیا تھا اور وہ ایک کھوکھلے تنے کی طرح ہو گئی تھی ایسی حالت میں جو بہت چھوٹے اور ذلیل دشمن تھے وہ بھی آنکھیں دکھانے لگ گئے۔ مسلمانوں میں ایسی بدیاں اورکمزوریاں پیدا ہو گئیں کہ جن کے ذریعے دشمن نے محسوس کر لیا کہ یہ آج بھی گرے اور کل بھی اس لئے انہوں نے حملے کر کر کے ان سے ملک چھیننے شروع کر دیئے۔بظاہر تو مسلمانوں کے ممالک چھینے جانے کا باعث دشمنوں کے حملے تھے لیکن دراصل اس کا سبب وہ اندرونی گھن تھا جس نے انہیں کسی کام کا نہ رہنے دیا تھا۔ چنانچہ ان گھنوں میں سے ایک گھن ایفائے عہد کا معدوم اور مفقود ہو جانا تھا۔ اس سے غدر اور بغاوت کی طرف ان کی بڑی توجہ بڑھ گئی اور خیانت اور بد عہدی کی طرف ان کے دل مائل ہو گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا اعتبار اُٹھ گیا اور ان میں کمزوری پیدا ہو گئی کیونکہ اس طرح کرنے سے ان کا آپس میں بھی ایک دوسرے پر اعتبار نہ رہا۔
جب کسی نے ایک سے دھوکا اور بد عہدی کی تو وہ دوسرے، تیسرے اور چوتھے سے بھی ضرور کر سکتا ہے اور جو ایک کے ساتھ دھوکاکرنے سے بچتا ہے وہ دوسرے، تیسرے اور چوتھے سے بھی بچتاہے خداتعالیٰ فرماتاہے ؎۴ کہ قاتل کے قتل کرنے میں تمہاری زندگی ہے حالانکہ مرنے والا تو مر گیا اب اگر اس کے قاتل کو قتل کر دیا جائے گا تو وہ زندہ تو نہیں ہو سکتا۔ پھر قصاص میں حیات کس طرح ہوئی؟ اس طرح کہ اگر آج تم ایک شخص کے قاتل کو پکڑ کر قتل نہ کرو گے تو کل وہ تم میں سے کسی دوسرے کو قتل کر دے گا اس لئے فرمایا کہ قصاص میں زندگی ہے یعنی اگر قاتل سے قصاص نہ لیاجائے گا تو وہ تم میں سے کسی اَور کی زندگی کا خاتمہ کر دے گا۔ اس سے خداتعالیٰ نے یہ سمجھایا ہے کہ جو شخص ایک کام ایک جگہ کرتا ہے وہ وہی کام دوسری جگہ بھی کرے گا۔ اگر کسی نے خالد کے ہاں چوری کی ہے تو وہ بکر کے ہاں بھی کر سکتا ہے اور اگر اس نے خالد سے غدر کیا ہے تو وہ بکر کے ساتھ بھی کر سکتا ہے۔ پھر اگر ایک سے وفاداری کر تا ہے تو دوسرے سے بھی کر سکتا ہے۔کیوں؟ اس لئے کہ اس قسم کے اخلاقی جرم متعدی ہوتے ہیں اور پھیل جاتے ہیں۔ متعدی سے ایک تو یہ مراد ہوتی ہے کہ کوئی بُرائی ایک انسان سے دوسرے انسان میں سرایت کر جائے لیکن یہاں متعدی سے میری مراد یہ ہے کہ جس انسان کے ایک حصہ میں اس قسم کی بیماری ہوتی ہے اُس کے دوسرے حصہ میں بھی پہنچ جاتی ہے۔ مثلاًکوئی کہے کہ اپنے ہم وطن لوگوں کے سِوا دوسروں سے نفرت کرنی چاہئے۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنے ہم وطنوں سے بھی نفرت کرنے لگ جائے گا اور اس طرح وہ نفرت جو اُس کے دل کے تھوڑے سے حصہ میں دوسرے لوگوں کے متعلق تھی وہ زیادہ پھیل جائے گی اِس قسم کا انسان بہت خطر ناک ہوتاہے اس سے جہاں تک ہو سکے بچنا چاہئے اور یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس نے فلاں کو نقصان پہنچایا ہے مجھے تو نہیں پہنچایا ۔ کیونکہ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک مکان کو توآگ لگ رہی ہو اور اس کے پاس کے مکان والا کہے کہ میرے مکان کو تو آگ نہیں لگی ہوئی کہ میں اس کے بجھانے کی کوشش کروں۔ ایسا کہنے والا انسان نادان اور سخت نادان ہو گا کیونکہ بہت جلد ی وہ آگ اُس کے مکان تک پہنچ کر اُسے بھی جلا کر خاکِ سیاہ کر دیگی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ایک سے غداری کرتا ہے تو دوسرے کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ اگر اسے موقع ملا تو مجھ سے بھی ضرور کرے گا۔
بنی اسرائیل کو دیکھو۔ پہلے اس نے حکومت وقت سے غدر کیا اور بادشاہوں کے مقابلہ پر کھڑی ہوئی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خداکے مقابلہ پر بھی آمادہ ہو گئی۔
یہ مرض اس وقت مسلمانوں میں بھی بہت پایا جاتا ہے اور یہی انکی تباہی اور ہلاکت کا موجب ہو رہا ہے۔ وہ اپنے پاس سے مسائل گھڑ گھڑ کر گناہوں کو جائز کر لیتے ہیں۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ فلاں موقعہ پر جھوٹ بول لینا جائز ہو جاتاہے،فلاں موقع پر بغاوت کرنا گناہ نہیں ہوتا، فلاں موقع پر بد عہدی جائز ہو جاتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ان میں جھوٹ، فریب، دغا اور غدر کی کوئی حد نہیں رہی اوروہ اپنے خیال میں ایسی باتوں کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ بدی کسی طرح بھی جائز نہیں ہو سکتی ہے۔ جھوٹ بہر حال جھوٹ ہی ہے خواہ کسی وقت بولا جائے، اسی طرح غدر بہر حال غدر ہی ہے خواہ کسی موقع پر کیا جائے،خیانت ہر وقت خیانت ہی ہے خواہ کوئی کرے اس میں کچھ فرق نہیں آسکتا لیکن اب جا کر مسلمانوں سے پوچھو یہ کہیں گے کہ ہندوئوں اور عیسائیوں سے دغا فریب کرنا جائز ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے تھے کہ امرتسر میں اہلحدیث میں سے ایک شخص تھا اس کو میں نے ایک چونی دی کہ دو آنے کی فلاں چیز لے آئو اور دو آنے واپس لے آنا۔ جب وہ واپس آیا تو دو آنے کی وہ چیز بھی لے آیا اور چھ آنے بھی واپس لا دیئے۔ میں نے کہا۔ یہ کیا؟ چھ آنے کس طرح لے آئے؟ اس نے کہا میں نے ایک ہندو سے یہ چیز خرید ی ہے اور اسی سے یہ پیسے بھی لے آیا ہوں ۔ آپ لے لیجئے۔ حضرت مولوی صاحب نے کہا۔ اُس نے کس طرح تم کو چھ آنے دے دیئے؟ کہنے لگا میں اُس سے خود لایا ہوں وہ کہاں دیتا تھا۔ اس طرح کیا کہ جب میں نے اُس سے یہ چیز لے لی اور چونی دے دی تو اُس سے ایک ایسی چیز مانگی جو اُس نے اندر رکھی ہوئی تھی وہ چونی کو صندوقچی کے اوپر ہی رکھ کر اس کے لینے کے لئے اندر گیا۔ اس کے اندر جانے پر میں نے چونی اُٹھا لی۔ جب وہ چیز لے کر واپس آیا تو میں نے نا پسند کر دی اور نہ خریدی۔ اس نے سمجھا کہ میں نے جو چونی لی تھی وہ صندوقچی میں ڈال لی تھی اس لئے اس نے دونی نکال کر مجھے دے دی۔ اور میں لے کر چلا آیا۔ حضرت مولوی صاحب فرماتے ۔ میں نے اُس سے کہا یہ کیا؟ یہ تو فریب اور دھوکا ہے۔ کہنے لگا۔ دُکاندار کافر تھا اور کافروں سے ایسا کر لینا جائز ہے۔ تو اِسی قسم کے خیالات نے مسلمانوں کو دوسروں سے ناجائز افعال کرنے پر آمادہ کر دیا۔ لیکن اب جا کر دیکھ لو کیا ایسے مسلمان نہیں ہیں جو مسلمانوں سے ہی دغا اور فریب کرتے ہیں؟ پہلے انہوں نے یہ سمجھا کہ کافروں سے ایسا کر لینا جائز ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپس میں بھی ایک دوسرے سے ایسا ہی کرنے لگ گئے کیونکہ ان کی ابتداء ہی غلط اور بیہودہ تھی۔ اور جب کوئی ایک سے فریب کرے گا تو دوسرے سے بھی کرے گا اور پھر وہ یہ نہیں دیکھے گاکہ اس سے مجھے کوئی تعلق اور واسطہ ہے یانہیں بلکہ جہاں وہ عمدہ موقع پائے گا وہیں اپنی عادت کو کام میں لے آئے گا۔
میں جب کشمیر گیا تو وہاں ایک غالیچہ باف کو غالیچے بننے کیلئے کہا گیا اور قیمت پیشگی دے دی۔ غالیچہ کا طول و عرض سب اُس کو بتا دیا گیا۔ ہم آگے چلے گئے۔ جب واپس آکر اس سے غالیچے مانگے تو اس نے لپیٹے ہوئے ہمارے ہاتھ میں دیدیئے اور کہنے لگا کہ اِسی طرح بند کے بند ہی لے جائو کھولونہیں ۔لیکن اس کے باربار اس بات پر زور دینے سے ہمیں خیال ہوا کہ کوئی بات ہی ہے جب یہ کہتا ہے کہ بند کے بند ہی لے جائو اس لئے کھول کر دیکھنے چاہئیں۔ جب کھولے اور ناپے تو معلوم ہوا کہ ایک ایک بالشت طول میں اور ایک ایک چپہ عرض میں کم تھے۔ ہم نے اسے کہا یہ تم نے کیاکیا؟ وہ کہنے لگا۔ جی ہم مسلمان ہوتے ہیں۔ میں اسے کہوں کہ اسلام میں تو ایسا کرنا ناجائز ہے پھر تم نے مسلمان ہو کر کیوں ایسا کیا ؟اِس کا وہ یہی جواب دیتا رہا کہ میں مسلمان ہوں ۔ اس کہنے سے اس کا یہ مطلب تھا کہ اگر ہم مسلمان لوگ ایسا نہ کریں تو ہمارا گزارہ نہیں ہوتا۔ تو اب مسلمانوں میں ہر ایک سے دھوکا، فریب ،دغا کرنے کی عادت ہی ہو گئی۔ جب انہوں نے دوسروں سے غدر کرنا سیکھا تو اب اپنوں پر بھی اس کو استعمال کرنے لگ گئے۔ اس طرح ان کا نہ آپس میں اعتبار، بھروسہ اور اطمینان رہا اور نہ دوسروں کے نزدیک ۔اور ان اخلاقی جرموں کی پاداش میں ان کی حالت اِس قدر ذلت اور رُسوائی کوپہنچ گئی کہ اب کشمیر کی تجارت پہلے کی نسبت سینکڑوں گنا کم ہو گئی ہے۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو یہ بتائی گئی کہ یہاں کے لوگ ناقص مال بنا کر بھیجتے تھے جس کا آہستہ آہستہ یہ انجام ہوا کہ لینے والوں نے مال کا لینا ترک کر دیا اورجب مال نہ بکا تو بنانے والوں نے بھی اس کام کوچھوڑکر اور کام اختیار کر لئے اور اس طرح تجارت کو زوال آگیا۔
تو غدر، بے وفائی، بد عہدی کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ جب کوئی قوم ان بُرے کاموں میں مبتلا ہو جاتی ہے تو دوسرے ہر وقت اس کی طرف سے چوکس اور ہوشیار رہتے ہیں اور اس پر کبھی اعتبار اور بھروسہ نہیں کرتے اس لئے وہ قوم گر جاتی ہے اور دن بدن زیادہ ہی زیادہ گرتی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی تجارتیں، حکومتیں، عزتیں سب انہی باتوں کی وجہ سے ضائع ہو گئیں اور وہ ذلت اور رُسوائی کی آخری حد کو پہنچ گئے لیکن ان کے خیال سے یہ بات ابھی تک نہیں گئی کہ کافروں سے غداری بدعہدی اور فریب وغیرہ جائز نہیں۔
اس زمانہ میں مسلمان بظاہر سارے کے سارے اپنے آپ کو گورنمنٹ کے بڑے وفادار اور ہمدرد ظاہر کرتے ہیں لیکن انہیں اندر سے دیکھو تو چُپکے چُپکے یہ پھیلارہے ہیں کہ مسلمانوں کو تو کی اطاعت کا حکم ہے نہ کہ دوسرے جو آکر حاکم بن جائیں ان کی اطاعت کا بھی۔ یہاں میرے پاس ایک معزز غیر احمدی آیا بڑی ثقہ صورت بنا کر کہنے لگامجھے آپ سے چند مسائل دریافت کرنے ہیں۔ میں نے کہا کیجئے۔ اس نے قرآن کریم سے چند ایک جہاد کے متعلق آیتیں پڑھیں اور کہنے لگاان میں تو جہاد کا حکم ہے اب کیا ہم مسلمانوں پر نفاق کا فتویٰ تو نہیں عائد ہو رہا؟ میں نے سمجھا کہ یہ میر ا عندیہ معلوم کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اسے خوب کھول کھول کر بتایا۔ ایسے لوگ چونکہ ایمانی قوت نہیں رکھتے اس لئے بات اس رنگ میں کرتے ہیں اگر مشکل پیش آجائے تو پہلو بدل سکیں۔ اِسی طرح اُس نے کیا۔ اگر وہ یہ سوال کرتا کہ ان آیتوں میں جہاد کا حکم ہے پھر مسلمان جہاد کیوں نہیں کرتے انہیں جہاد کرنا چاہئے تو پہلو بچانے کا اسے کوئی راستہ نہ تھا لیکن اُس نے اس سوال کو اس طریق سے کیا یہ جو جہاد کے متعلق آیات ہیں ان کے کیا معنی ہیں اور اگر ان کے یہ معنی ہیں تو کیا ان کے خلاف کرنے والوں پر نفاق کا فتویٰ تو نہیں لگتا؟میں نے اسے ان آیتوں کے معنی سمجھائے۔ سن کر کہنے لگا ہاں آپ کے کئے ہوئے معنی مجھے بہت پسند آئے ہیں پہلے میں کچھ اور معنی سمجھے ہوئے تھا۔ تو عام مسلمانوں کا مذہب اور عقیدہ یہی ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کو مسلمان حکمران کی اطاعت کا ہی حکم دیا ہے نہ کہ غیر مسلم سلطنت کا بھی۔ مگر ان سے پوچھو کہ مسلمانوں نے مسلمان حکمرانوں کی کہاں اطاعت اور فرمانبرداری کی ہے۔ تم پر چونکہ مسلمان حکمران نہیں اس لئے تم کہتے ہو کہ مسلمان حکمران کی اطاعت کرنی چاہئے نہ کہ کسی اور کی ،لیکن یہ تو بتلائو کہ ترک کمبخت کیا کر رہے ہیں۔ ان کے چھوٹے سے لے کر بڑے تک اور ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک تمام افسر ایسے ہی ہیں کہ جنہوںنے قوم اورملک کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ وہ قوم قوم پکارتے ہیں لیکن جس قدر ان کے ہاتھوں قوم کی مٹی پلید ہو رہی ہے اُس قدر کسی اور نے بھی نہیں کی۔ بات یہ ہے کہ جب تک انسان پر کوئی بات آنہیں پڑتی اُس وقت تک جو اُس کا جی چاہے دعویٰ کر لے لیکن جب آپڑتی ہے تو سب دعووں کی حقیقت کُھل جاتی ہے۔ اِس وقت مسلمانوں کی عملی زندگی بتلا رہی ہے کہ ان کے اخلاق بگڑ چکے اور جھوٹ ، دغا، فریب اور بد عہدی کے جراثیم ان میں سرایت کر چکے ہیں ۔ وہ غلط کہتے ہیں کہ ہم دوسروں کی اطاعت نہیں کرتے اگر مسلمان حکمران ہوں تو ان کی کریں۔ یہ کسی کی بھی اطاعت نہیں کریں گے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ کی بھی حکومت ہوتی اور یہی آجکل کے مسلمان ہوتے تو ان سے بھی بغاوت اور بدعہدی ہی کرتے ۔ خواہ کوئی حکمران ہوتا یہ کسی کی بھی اطاعت اور فرمانبرداری نہ کرتے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان میں امانت، دیانت، وفاداری اور اطاعت کا مادہ ہی نہیںرہا۔ اگر ان میں یہ مادہ ہوتا اور یہ سچے دل سے مسلمان بادشاہوں کے وفادار اور اطاعت شعار ہوتے تو ترکوں میں سے ایک سے ایک بڑھ کر غداری کرنے والے اور اپنے ملک اور قوم کو تباہ و برباد کرنے والے دکھائی نہ دیتے۔
بلغاریہ سے جب ترکوں کی لڑائی ہوئی تو ترکوں کے بڑے بڑے افسروں نے ترکوں کو بجائے گولہ بارود پہنچانے کے لکڑی کے بنے ہوئے کارتوس پہنچائے۔ دشمن حملہ آور ہو رہا ہے، سپاہ لڑ رہی ہے اور کئی دنوں سے لڑ رہی ہے لیکن ذمہ دار افسر ان کے لئے کھانا نہیں بھیجتے۔ سپاہیوں کی بھوک سے یہ حالت ہو رہی ہے کہ بندوقیں ہاتھوں سے گر گر جاتی ہیں بھوک کے مارے ان سے سیدھا کھڑا نہیں ہوا جاتا لیکن اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی اور نہایت بیدردی سے دشمن کے ہاتھوں سے بھوکی اور پیاسی سپاہ کو ہلاک اور تباہ کروا دیا جاتاہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان میں غداری اور بے وفائی دخل پا چکی تھی،خیانت اور بد دیانتی انکی عادت ہو چکی تھی۔ اب اِن مسلمانوں کو دیکھو جو عیسائی سلطنتوں کے ماتحت ہیں۔ ان کے وہ اخلاق مٹ چکے ہیں جو ایک مومن کی شان کے شایاں ہیں۔ ان میں طرح طرح کی خرابیاں اور کمزوریاں پیدا ہو چکی ہیں۔ پس اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم پر چونکہ ایک غیر قوم حکمران ہے اس لئے ہم اس کی اطاعت نہیں کرتے تو یہ ان کا محض بہانہ ہے اگر ان کو کسی ایسے مسلمان بادشاہ کے ماتحت بھی کردیا جائے جو بڑا ہی نیک اور عادل ہو تو بھی وہ اس کی اطاعت اورفرمانبرداری کو بالائے طاق رکھنے کے لئے کوئی نہ کوئی عذر گھڑ ہی لیں گے۔
ان کے لئے کفر کا فتویٰ لگانا کوئی مشکل بات نہیں بلکہ بہت معمولی ہے۔ بادشاہ سے غداری کرنے کے لئے کئی بہانے بنا سکتے تھے۔ اگر اس نے آمین اونچی کہی یا ناف کے نیچے ہاتھ باندھے تو بڑی آسانی سے اس پر یہ فتویٰ لگ جائے گاکہ یہ میں رہا ہی نہیں۔ ہندوستان میں ایک مولوی صاحب ہیں وہ اس طرح فتویٰ دیا کرتے ہیں کہ فلاں نے فلاں بات ایسی کی ہے جو حدیث کے خلاف ہے اورجب حدیث کے خلاف ہے تو قرآن کے خلاف ہوئی اور جب قرآن کے خلاف ہوئی تو خداتعالیٰ کے خلاف ہوئی اس لئے یہ شخص کافر ہوا اور جب کافرہوا تو اس کی بیوی بیوی نہ رہی مومن اور کافر کا نکاح نہیں رہ سکتا اس لئے نکاح فسخ ہو گیا۔ اور جب نکاح فسخ ہوگیا تو جو اُس کی اولاد ہوئی وہ ولد ا لزنا ہوئی ۔ ایسے مولویوں کے ہوتے ہوئے کوئی بھی بادشاہ ہو اُس پر کفر کا فتویٰ لگانا کونسا مشکل ہے اور جب اُس پر کفر کا فتویٰ لگ گیا تو وہ میں سے ہی نہ رہا اور جب میں سے نہ رہا تو اُس کی اطاعت بھی جائز نہ رہی۔
دراصل یہ ایک گندہے اور غداری کا اصل باعث یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایمان نہیں رہا۔ ایسے ہی یہ لوگ فتویٰ دیتے ہیں کہ عیسائی ہم میں سے نہیں ہیں اس لئے ان کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سے معاہدے کئے اور بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کرنے کے باوجود ان کو پورا کیا۔ اگر کفار سے عہد کر کے پورا کرنا جائز نہیں اگر کفار سے بدعہدی اور عہد شکنی کرنا روا ہے تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں ایفائے عہد کئے؟ اور کیوں نہ آپ نے ان عہدوں کو کالعدم قرار دے دیا۔لیکن یہ غلط ہے اور بالکل غلط ہے کہ کفار سے بد عہدی کرنا جائز ہے۔ اسے جائز قرار دینے والوں کی طرف سے سب سے بڑی دلیل جو پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس آیت میں جو میں نے پڑھی ہے لفظ آیا ہے پھر کے سوا اور کسی کی اطاعت کسی طرح جائز ہو سکتی ہے۔ ہم کہتے ہیں صرف یہی آیت اس بات کے لئے بطور دلیل کے پیش نہیں کی جاتی کہ مسلمانوں کو کسی غیر قوم کی فرمانبراری کرنی چاہئے بلکہ اوربھی دلائل ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۵؎ کہ اللہ کی راہ میں تمہارا جھگڑا ان ہی لوگوں سے ہونا چاہئے جو تم سے لڑتے ہوں اور وہ جو تمہارے امن کاباعث ہوں تمہیں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائیں بلکہ سُکھ کا موجب ہوں،تمہارے مال و اموال کی حفاظت کریں ان سے کسی طرح جنگ نہیں کرنا چاہئے ۔تو قتال کا حکم انہیں سے ہے جو ہم سے لڑیں اور جو لڑائی نہیں کرتے بلکہ آرام و آسائش کا باعث بنتے ہیں اور ہماری حفاظت کرتے ہیں۔ ان سے قتال جائز نہیں۔
دیکھو طاعون پڑتی ہے تو یہ گورنمنٹ اس کے دور کرنے کی کتنی کوشش کرتی ہے یہ اور بات کہ طاعون چونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایک عذاب ہے اس لئے اس کے دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی لیکن اِس میں شک نہیں کہ گورنمنٹ نے اس کے انسداد کی کم کوشش نہیں کی۔ کتنے ہی ڈاکٹر صرف اس کام کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح علوم اور فنون کے پھیلانے میں گورنمنٹ نے خاص کوشش کی ہے۔ بعض نادان کہتے ہیں کہ ایسا کرنا گورنمنٹ کا فرض تھا۔ ہم کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی سلطنت کے آخری زمانہ میں کیا مسلمان بادشاہوں کو ایسے فرائض معاف ہو گئے تھے ؟وہ رعایا سے ٹیکس وصول کرتے تھے لیکن رعایا کے لئے کیا کرتے تھے؟ اس میں شک نہیں کہ ابتدائی بادشاہ رعایا کے آرام و آسائش کا بہت خیال رکھتے تھے لیکن بعد میں آنے والوں کی حالت کو دیکھو اور اِس زمانہ سے اُن کا مقابلہ کرو۔ اِس وقت ہزاروں قسم کے علوم سکھائے جاتے ہیں۔ پھر علم اس قدر مٹ چکا تھا کہ گورنمنٹ چاہتی تو ایک مدرسہ بھی نہ کھولتی اور آج لوگ اُسی طرح جاہل اور بے علم ہوتے جس طرح ہو چکے تھے۔ مسجدوں میں کنز اور قدوری بیٹھے پڑھتے ہوتے کسی کو یہ بھی معلوم نہ ہوتا کہ امریکہ بھی کچھ ہے اور یہ کوئی جانتا ہی نہ کہ کوہِ قاف کس کو کہتے ہیں۔ اس کی کسی کو خبر ہی نہ ہوتی کہ زمین گول ہے یا چپٹی لیکن گورنمنٹ نے لاکھوں روپے خرچ کر کے جاہلوں کو عالم بنایا۔ تعلیمی مصارف کا اندازہ لگانے کے لئے ہی دیکھ لو کہ ایک دفعہ تاجپوشی کے موقع پر پچاس لاکھ روپیہ اِس غرض کے لئے دیا گیا۔
یہ درست ہے کہ ایسا کرنا گورنمنٹ کا فرض ہے لیکن اپنے فرائض کو سمجھنا اور پھر ادا کرنا بھی ہر ایک کا کام نہیں ہے اور جو اپنے فرض پوری طرح ادا کرتاہے وہ کوئی کم شکریہ کا مستحق نہیں ہوتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںکہ اگر ایک داروغہ مال کو دیانتداری کے ساتھ تقسیم کرتا ہے تو وہ بھی اُتنے ہی ثواب کا مستحق ہوتا ہے جتنے کا مال دینے والا ۔ دیکھو !کتنے ایسے انسان ہیں جو اپنے کام کے عوض معقول تنخواہیں لیتے ہیں مگر جب تک کچھ لے نہ لیں اپنے فرض کو ادا نہیں کرتے۔
بے شک گورنمنٹ کا فرضِ منصبی ہے کہ رعایا کے آرام کا خیال رکھے اسے علم سے بہرہ ور کرے لیکن اگر اس میں (خدانخواستہ) اصلاح اور نیکی نہ ہوتی تو وہ کر سکتی تھی کہ مسلمانوں کو جاہل اور بے علم ہی رہنے دیتی۔ اِسی ہندوستان میں پُرتگیزوں کا علاقہ ہے وہاں کے لوگوں کو انہوں نے تلوار کے ذریعہ عیسائی کر لیا۔ وہاں اب تک کئی مسجدیں موجود ہیں لیکن کوئی انہیں کھول نہیں سکتا۔ اب بعض بعض جگہ کھلوائی گئی ہیں اور وہ بھی گورنمنٹ انگریزی کے طفیل ۔کیا یہ گورنمنٹ اِس طرح نہیں کر سکتی تھی؟ اس کا نتیجہ خواہ کچھ ہی ہوتا لیکن کیا دنیا میں ایسا نہیں ہوتا؟ جن کی طبیعتوں میں شراور فساد ہوتا ہے وہ ایسا ہی کیا کرتے ہیں او رنیکی اور حسن سلوک وہی کرتے ہیںجو نیکی کو پسند کرتے اور فطرت نیک رکھتے ہیں۔ ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اِس خیال سے نیکی کرتے ہیں کہ اس کا نتیجہ اچھا ہو گا۔ یا بُرائی سے اس لئے بچتے ہیں کہ اس کانتیجہ بُرا ہوگا بلکہ جیسی ان کی طبیعت ہوتی ہے ویسا ہی کام کرتے ہیں۔ گورنمنٹ جو احسان اورنیکی کرتی ہے تو اس لئے کہ اس کی طبیعت کا رُجحان ہی نیکی کی طر ف ہے اگر اس کا میلان بُرائی کی طرف ہوتا تو یہ بھی اسی طرح کرتی جس طرح اور باوجود اس بات کے جاننے کے کہ بُرائی کا نتیجہ بُرا ہوا کرتا ہے کرتے ہیں۔ گورنمنٹ کے پاس اس طرح کرنے کے لئے سب کچھ تھامگر اس نے نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ بھلائی اور نیکی کرنے کی طرف فطرتاً مائل ہے۔ اگر گورنمنٹ تجربۃً ہی ایسا کرتی کہ کسی گائوں یا شہر کی طر ف توپ کا منہ کر کے کہتی کہ تم سب کے سب عیسائی ہو جائو ورنہ توپ سے اُڑا دیئے جائو گے تو تمام کے تمام یہی کہتے کہ ہم تو پہلے ہی عیسائی ہونے کے لئے تیار بیٹھے تھے سو ہم عیسائی ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے پاس ہے ہی کیا؟ لیکن خداتعالیٰ نے اس گورنمنٹ کو ایسی صلاحیت بخشی ہے کہ اس کی شان ایسی باتوں سے بہت بلند ہے۔ ہم جو اِس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں تو دلیل میں یہی آیت پیش نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ خواہ کوئی قوم اور کسی مذہب کے لوگ حکمران ہوں اِن سے غداری کرنا جائز نہیں۔ آجکل سورۃ توبہ جو میرے درس میں ہے اس میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو فرماتا ہے کہ جن لوگوں سے تم نے عہد کیا ہے اس عہد کو پورا کرو۔ فرمایا۔ ؎۶ مشرکین میں سے وہ لوگ کہ جن کے ساتھ تم نے عہد باندھا پھر انہوں نے اس عہد کو نہ توڑا اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مددکی پس تمہارا فرض ہے کہ تم ان کے عہد کو پوار کروان کی مدت تک ۔ اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت رکھتا ہے۔
اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عہد کے پوراکرنے والوں کو متقی قرار دیاہے اور فرمایا ہے کہ ایسا کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ یعنی اگر کوئی ایسا نہ کرے تو خدا اس سے محبت نہیں کرے گا ۔اور خداتعالیٰ جو مسلمانوں سے محبت کرتا اور ہر موقع پر ان کی تائید اور نصرت کرتا ہے تو اسی لئے کہ وہ غداری سے بچتے ہیں۔ اگر وہ اس سے نہ بچیں اور نقض عہد کریں تو خدا کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ۔
غیروں سے اب لڑائی کے معنی ہی کیا ہوئے
تم خود ہی غیر بن کے محلِّ سزا ہوئے
جب تم نے اپنے دل سے ہی خدا کو نکال دیا تو اس نے بھی تمہیں چھوڑ دیا۔ تو والی آیت کے علاوہ اور جگہ بھی قرآن کریم میں باربار تاکید کی گئی ہے کہ ہر قسم کی غداری سے بچو۔ حتیٰ کہ خدا تعالیٰ نے مومنین کی نشانی یہی بتائی ہے کہ ۷؎ کہ وہ اپنی امانتوں اور عہدوں کو پورا کرنے والے ہوتے ہیں۔ تومومن بننے کے لئے یہ شرط ہے کہ اپنے عہدوں کو پورا کرے۔ کوئی کہے کہ مومن کے لئے کافر کا عہد پورا کرنا ضروری نہیں۔ میں کہتا ہوں تم مومن ہی تب ہو گے جبکہ ہر ایک عہد کو پورا کرو گے۔ پھر اس کے کیا معنی ہوئے کہ مومن کے لئے کافر کا عہد پورا کرنا ضروری ہی نہیں بلکہ اُس وقت تک کوئی مومن ہی نہیں کہلا سکتا جب تک کہ عہد کو پورا نہ کرے۔ خداتعالیٰ فرماتاہے۔ یہود کہتے ہیں ۸؎ کہ یہ مسلمان اُمی ہیں ان کا ہم پر کوئی حق نہیں ہے خواہ ہم ان کے مال چھین لیں، ان سے بد عہدی کریں، ان سے خیانت کریں، ان کا سب کچھ ہمارے لئے جائز اور روا ہے لیکن آج مسلمان بھی جن کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہودی ہو جائیںگے۔ ۹؎ یہودیوں کی طرح کہتے ہیں کہ ہم پر بھی کسی کا حق نہیں ہے کہ اس سے عہد کو پورا کریں۔
جو کوئی اس گورنمنٹ کے ملک میں رہتا ہے وہ گویا اس بات کا عہد کرتا ہے کہ میں اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کروں گا۔ پس جب تک وہ اس کے ماتحت ہے اس کا فرض ہے کہ اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرے اور اپنے اس عہد کو پورا کرے۔ اگر وہ دیکھتا ہے کہ مجھ پر ظلم ہوتا ہے، مجھ سے انصاف نہیں کیا جاتا تو اسے چاہئے کہ اس حکومت سے نکل جائے ۔ ہم ایسے شریر اور مفسد لوگوں کو جو گورنمنٹ کے متعلق طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلاتے رہتے ہیں کہتے ہیں کہ اگر تمہارے نزدیک گورنمنٹ ظالم ہے تو اس کے ملک کو چھوڑ دو اور پھر جو تمہار اجی چاہے کرولیکن چونکہ ایسے لوگ فریبی ور دغاباز ہیں اس لئے وہ ایسا نہیں کر سکتے اور یو نہی جھوٹ پھیلاتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ کی نصرت اور تائید ان کے ساتھ نہیں ہے اور یہ دن بدن ذلیل اور رُسوا ہو رہے ہیں۔
غرض اس آیت کو اگر نہ بھی لیا جائے تو بھی کفار سے امانتوں اور عہدوں کی پابندی کرنے کا حکم موجود ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود ہے آپ فرماتے ہیں کہ کافر سے بھی بد عہد ی کرنے کا حکم نہیں ہے۔
صلح حدیبیہ میں کفار سے ایک یہ بھی شرط ہوئی تھی کہ اگر تمہارا آدمی ہم میں آملے تو ہم اسے تمھیں واپس لَوٹا دیں گے اور اگر ہماراآدمی تم میں جا ملے تو تم اسے اپنے پاس رکھ سکو گے۔ عہد میں یہ شرط لکھی جا چکی تھی اور ابھی دستخط نہیں ہوئے تھے کہ ایک شخص ابو جندل نام جسے لوہے کی زنجیروں سے جکڑ کر رکھا جاتا اور جو بہت کچھ دکھ اُٹھا چکا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آکر اپنی حالت زار بیان کی اور عرض کیا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ !آپ مجھے اپنے ساتھ لے چلیں۔ یہ لوگ میرے مسلمان ہونے کی وجہ سے مجھے سخت تکلیف دیتے ہیں۔ صحابہؓ نے بھی کہا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!اسے ساتھ لے چلنا چاہئے ۔یہ کفار کے ہاتھوں بہت دکھ اُٹھا چکا ہے لیکن اس کے باپ نے آکر کہا کہ اگر آپ اسے اپنے ساتھ لے جائیں گے تو یہ غداری ہوگی۔ صحابہؓ نے کہا کہ ابھی عہد نامہ پر دستخط نہیں ہوئے ۔اس نے کہا لکھا تو جا چکا ہے دستخط نہیں ہوئے تو کیا ہوا۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے واپس کر دو ہم عہد نامہ کی رو سے اسے اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ صحابہؓ اس بات پر بہت تلملائے لیکن آپ نے اسے واپس ہی کر دیا اور وہ اُسے لے گئے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو پھر وہ چھٹ کر آپ کے پاس چلا آیا۔ اس کے پیچھے ہی دو آدمی اس کے لینے کے لئے آگئے۔ انہوں نے آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ آپ نے عہد کیا ہوا ہے کہ ہمارے آدمی کو آ پ واپس کر دیں گے۔ آپ نے کہا کہ ہاں عہد ہے اسے لے جائو۔ اس نے کہا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! یہ لوگ مجھے بہت دکھ دیتے اور تنگ کرتے ہیں آپ مجھے ان کے ساتھ نہ بھیجئے ۔ آپؐنے فرمایا۔ خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں غداری نہ کروں اس لئے تم ان کے ساتھ چلے جائو۔ وہ چلاگیا اور راستے میں جا کر ایک کو قتل کر کے پھر بھاگ آیا اور آکر کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! آپ کا ان سے جو عہد تھا وہ تو آپ نے پورا کردیالیکن میرا تو ان سے عہد نہ تھا کہ میں ان کے ساتھ جائوں گا اس لئے میں پھر آگیا ہوں۔ دوسرا شخص پھر اس کے لینے کے لئے آگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہم تمہیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ آپ نے پھر اسے بھیج دیا لیکن وہ اکیلا آدمی اسے نہ لے جا سکا اس لئے وہ رہ گیا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار یہی کہا کہ میں جو عہد کر چکا ہوں اس کے خلاف نہیں کروں گا۔۱۰؎ تو آپؐ نے باوجود کافروں سے عہد کرنے کے اور ایک مسلمان کے سخت مصیبت میں مبتلا ہونے کے اسے پورا کیا۔
انگریز اگر کافر ہیں تو وہ مشرک تھے جن کی بیٹیاں لینی بھی جائز نہیں لیکن عیسائیوں کے متعلق توخداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ۱۱؎ یہ مودّت میں تمہارے بہت قریب ہیں۔ پس جب مشرکین سے جو نہ قیامت کے قائل ہیں نہ کوئی کتاب رکھتے ہیں اور نہ کسی نبی کو مانتے ہیں ان سے کئے ہوئے عہد کو توڑنا جائز نہیں تو ان سے کئے ہوئے عہد کو توڑنا کیونکر جائز او رروا ہو سکتا ہے جو اہل کتاب ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ میں نے تو اس سے کوئی عہد نہیں کیا میں کہتا ہوں گورنمنٹ اسے اپنی رعایا سمجھ کر بہت سے فوائد پہنچاتی ہے۔ اگر وہ اس کی رعایا نہ ہو تو کبھی اس سے ایسا سلوک نہ کرے اور پھر وہ اپنے آپ کو رعایا ظاہر بھی کرتا ہے اس طرح گویا وہ اس بات کا عہد کرتا ہے کہ میں گورنمنٹ کی اطاعت اور فرمانبرداری کروں گا۔ ہاں اگر کوئی یہ اعلان کر دے کہ میں گورنمنٹ کی رعایا نہیں تو پھر اور بات ہے لیکن جو اپنے آپ کو رعایا ظاہر کرتے ہوئے اس عہد کو توڑتا ہے وہ غداری کرتا ہے ۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مسلمان ایک عیسائی حکومت۱۲؎ کے ماتحت جا کر رہے ہیں۔ اگر کافر کے ماتحت رہنا جائز نہ ہوتا اور اس کی اطاعت فرض نہ ہوتی تو مسلمان وہاں کیوں رہتے۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر مذہب حکومت کی اطاعت کرنا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔
اب میں اس آیت کو لیتا ہوںاس سے بھی ان مفسد لوگوں کی بات نہیں بنتی خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ اگر کے وہی معنی لئے جائیں جو یہ لوگ کرتے ہیں تو قرآن کریم کی دوسری آیات کے معنی کرنے میں بڑی مشکل پیش آئے گی۔سورۃ زمر میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جب قیامت کے دن کفار دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو دوزخ کا داروغہ انہیں کہے گا کہ ۱۳؎ اگر کے یہی معنی ہیں کہ مسلمانوں میں سے ہی ہونا چاہئے نہ کہ کوئی اور تو یہاں یہ معنی کرنے پڑیں گے کہ کفار کو کہا جائے گا کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی یعنی کافر رسول نہیں بھیجے گئے تھے؟ اور اس طرح یہ ماننا پڑے گا کہ نعوذباللہ حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسیٰؑ وغیرہ انبیاء کافر تھے لیکن کیا کوئی عقلمند یہ معنی کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ جو کسی کی طرف بھیجا جائے اُسے بھی کہتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ صرف ہم مذہب ہی کو کہیں۔ کیونکہ اگر یہ معنی کئے جائیںتو یہ بھی ماننا ہو گا کہ نبی ہم مذہب تھے کیونکہ کافروں کو مخاطب کر کے نبیوں کی نسبت کہا ہے کہ وہ تھے۔ لیکن یہ معنی کوئی نہیں کرتا۔ پھر ادھر قرآن کریم غداری اور بیوفائی سے بڑے زور کے ساتھ روکتا ہے اِس سے ثابت ہوا کہ سے مراد یہ نہیں کہ مسلمان ہی ہو۔
اب اگر کوئی کہے کہ یہاں سے مرادہم قوم ہے اور چونکہ وہ نبی جن کی طرف آتے رہے ان کے ہم قوم تھے اس لئے ان کی نسبت کا لفظ استعمال کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بہر حال یہ تو تسلیم کرناپڑا کہ کے معنی ہم مذہب ہی نہیںہوتے بلکہ اور معنی بھی ہوتے ہیں اور پھر اس آیت میں تو ہم قوم کے معنی بھی چسپاں نہیں ہو سکتے کیونکہ ان معنوں کی تردید تو خود مسلمان کر رہے ہیںکیونکہ شریف مکہ کے آزاد ہونے پر کہتے ہیں کہ اس نے بغاوت اور سر کشی کی ہے۔ اگر سے مراد ہم قوم لئے جائیںتو شریف پر کسی طرح بھی کوئی الزام نہیں کیونکہ قریشی النسب ہیں اس لئے ان کے لئے یہ جائز ہی نہیں تھا کہ ترکوں کے ماتحت جو ایک غیر قوم ہے رہتے انہوں نے جو کچھ کیا ہے بالکل جائز او ر درست کیاہے۔ پھر ان معنوں کے لحاظ سے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ مدینہ والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنی جائز نہ تھی کیونکہ آپ ؐ ان کے ہم قوم نہ تھے مگر یہ کوئی تسلیم نہیں کرتا اس لئے یہ بات بھی رد ہو گئی کہ ہم قوم ہی ہو تو اس کی اطاعت کرنا چاہئے۔ اگر ایسا ہو تو چاہئے کہ مغل مغل کی اطاعت کریں۔ راجپوت راجپوت کی۔ اسی طرح تمام قومیں اپنی اپنی قوم کے حاکم کی اور اگر اپنی قوم کا حاکم نہ ہوتو پھر وہ بغاوت کر دیں ۔پھر ہر قوم میں کئی ذاتیں ہوتی ہیں۔ ہر ایک ذات والا کہے کہ میں تو اپنی ہی ذات کے حاکم کی اطاعت کروں گا دوسرے کی کرنا میرا فرض نہیں اور نہ ہی جائز ہے اس طرح تو کوئی حکومت دنیا میں رہ ہی نہیں سکتی اور نہ کوئی حکمران حکومت کر سکتا ہے اس لئے کے معنی ہم قوم بھی نہ ہو سکے۔
اب یہ سوال ہوتا ہے کہ پھر کے معنی کیا ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کے معنی اس جگہ تم پر کے ہیں اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان حکام کی اطاعت کرو جو تم پر حاکم ہیں۔ اور جس طرح والی آیت میں کا ترجمہ نہ تو ہم مذہب کیا جا سکتا ہے اور نہ ہم قوم کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور آپ ساری دنیا کے ہم قوم نہیں کہلا سکتے۔ اِسی طرح اِس آیت میں بھی یہ ترجمہ جائز نہیں بلکہ اِس جگہ اَور ترجمہ کرنا پڑے گا جو قرآن کریم کے دوسرے احکام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو اور وہ یہی ترجمہ ہے کہ ان حکام کی اطاعت کرو جو تم پر حاکم ہیں اور لغت ان معنوں کی تائید کرتی ہے۔ اور کے معنی عربی زبان میں کبھی اور کبھی کے بھی آتے ہیں۔ پس کے یہ معنی ہوئے کہ تم میں یا تم پر جس کو ہم نے بنا کر بھیجا اس کی اطاعت کرو۔ اور اس لفظ کے بڑھانے میں یہ حکمت تھی کہ اگر صرف ہی ہوتا تو یہ مشکل پڑتی کہ کونسے کی اطاعت کی جائے۔ کیا اگر کسی دوسرے ملک کا بادشاہ کوئی حکم دے تو اسے بھی ماننا چاہئے؟ اس مشکل کو دور کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے فرما دیا کہ جو تم پر حاکم ہو اس کی اطاعت کرنی تمہارا فرض ہے۔ یہ ایک ایسی پُر امن تعلیم ہے کہ اس پر عمل کرنے سے تمام فتنے مٹ سکتے ہیں۔ فتنہ اور فساد کا باعث یہی ہوتا ہے کہ اپنے حاکم کی نافرمانی کی جاتی ہے یا غیر حاکم کی فرمانبرداری کی جاتی ہے اس لئے فرمایا کہ اے مومنو!تم پر اللہ اوراس کے رسول کی اور اس کی جو تم پر حاکم ہو یا جو تم میں ہو اطاعت فرض ہے۔ اس میں یہ بات بھی بتا دی کہ دنیا کے ہر ایک کی اطاعت فرض نہیں بلکہ اس کی جس کے ماتحت تم ہو اور جو تم پر حکومت کرتا ہو۔ ہاں اگر کسی اور کے علاقہ میں چلے جائو تو پھر اس کی اطاعت کرنا تمہارا فرض ہوگا۔ یہ ایسی امن کی تعلیم ہے کہ اگر مسلمان اِس پر عمل کرتے توبڑی عزت اور رتبہ کے مالک ہوتے لیکن انہوں نے اس کے معنی بدل کر اپنے لئے ذلت اور رُسوائی خرید لی۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہاگر تمہارا کسی بات میں تنازعہ ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیرو اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لاتے ہو۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ حکم ہے کہ اگر تمہارا آپس میں جھگڑا ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو۔اس سے پتہ لگا کہ یہاں سے مراد مسلمان حاکم ہیں کیونکہ اگر مسلمان حاکم ہوگا تب ہی تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کو قبول کرے گا۔ لیکن یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ ہم ہی نہیں بلکہ پچھلے مفسرین بھی اس کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر تمہارا حاکموں سے جھگڑا ہو جائے تب ایسا کرو بلکہ یہ آپس کے جھگڑوں کے متعلق ہے کہ اگر تمہارا آپس میں جھگڑا ہوجائے تو اس کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے ماتحت کرلو۔ یہ ایک الگ بات ہے۔ پہلے خداتعالیٰ نے حکام سے تعلق رکھنے اور ان کی اطاعت کرنے کے متعلق فرمایا اورپھر آپس کے تعلقات کے متعلق حکم دیا ہے۔ وہ لوگ جن کی اتباع کا مسلمان دعویٰ کرتے ہیں وہ بھی اس کے یہی معنی کرتے آئے ہیں۔ چنانچہ نواب صدیق حسن خاں صاحب والی بھوپال نے بھی اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اِس آیت کے یہ معنی کرنے کہ اے رعایا! اگر تیرا حکام سے جھگڑا ہوجائے توپھر اس اس طرح کرو درست نہیں اور اکثر اَئمہ نے ان معنوں کو باطل قرار ہے۔
پس اگر اِس آیت کو لیا جائے تب بھی اِس سے ثابت نہیں ہوتا کہ اس میں کسی خاص مذہب یا قوم کے حکام کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے بلکہ یہ تعلیم عام ہے اور جب عام ہے تو کسی شخص کا حق نہیں کہ اپنے خیال سے اسے خاص کرے اور یہ شرط لگا دے کہ مسلمان حاکم ہو تو اس کی اطاعت فرض ہے ورنہ نہیں۔ آیت میں مسلمان غیر مسلمان کا کوئی ذکر نہیں ۔ پس جس مذ ہب یا جس قوم کا بھی حاکم ہو اُس کی اطاعت اِس حکم کے ماتحت ہر ایک مسلمان پر فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ وہ لوگوں کے دلوں سے ایسے گندے خیالات نکالے کیونکہ اسلام کی ترقی کے وہی دن ہوں گے جبکہ لوگوں کے دلوں سے ایسے خیالات نکل جائیں گے۔ خداتعالیٰ مسلمانوں کو فرماتا ہے شُھَدائَ عَلَی النَّاسِ۔ اِس وقت شُھَدائَ عَلَی النَّاسِ احمدی جماعت ہی ہے اس لئے اس کا فرض ہے کہ لوگوں کے ایسے خیالات کی اصلاح کرے اور انہیں سمجھائے۔ جو قرآن کریم کی اتباع کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں قرآن کریم سے سمجھائے ۔ جو نہیں انہیں اپنے عمل اور عقل سے بتائے اور انہیں اپنی طرح گورنمنٹ کا مطیع اور فرمانبردار بنائے ۔ خداتعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دے۔ پھر دوسرے مدعیانِ اسلام کو بھی توفیق دے کہ وہ خداتعالیٰ ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کو بدنام کرنے والی تعلیم سے بچیں اور سچی تعلیم پر عمل کریں۔‘‘ (الفضل ۱۰؍ اکتوبر۱۹۱۶ئ)
۱؎ النسآئ: ۵۹،۶۰
۲؎ البدایۃ والنھایۃ جلد ۸ صفحہ ۱۲۶ مطبوعہ بیروت ۲۰۰۱ء
۳ ؎ بخاری کتاب الادب مایجوز من الغضب والشدۃ
۴ ؎ البقرہ ـ:۱۸۰ ۵؎ البقرۃ: ۱۹۱ ۶؎ التوبۃ: ۴
۷؎ المؤمنون: ۹ ۸؎ اٰل عمران: ۷۶
۹؎ ترمذی ابواب الایمان باب ماجا ء فی افتراق ھذہ الامۃ
۱۰؎ بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجھاد(الخ)
۱۱؎ المائدۃ: ۸۳
۱۲ ؎ حبشہ کی حکومت
۱۳؎ الزمر: ۷۲
۳۲
ہم سچی گواہی کو نہیں چھپا سکتے
(فرمودہ ۶؍اکتوبر۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اورسورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
۱؎
پھر فرمایا:۔
’’کسی چیز کی محبت یا کسی چیز سے نفرت بعض دفعہ انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔ محبت کبھی اپنے محبوب کے عیب اور نقص چھپا دیتی ہے اور بغض کبھی مبغوض کے ہنروں کو پوشیدہ کر دیتا ہے اور انسان اُس چیز کو جوا س کی محبوب ہوبے عیب اور بے نقص خیال کرتا ہے اور وہ چیز جس سے اسے بغض ہو اُسے تمام خوبیوں سے عاری اور تمام عیبوں سے پُر خیال کر لیتا ہے۔ اوربہت سی باتیں اس کے دشمن اور پیارے کی اس کی نظر سے ایسی گزرتی ہیں کہ دوسرے انہیں دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ یہ اسے نظر کیوں نہیں آتیں۔ گویا وہ آنکھیں رکھتے ہوئے اندھا ، کان رکھتے ہوئے بہرہ اور دل رکھتے ہوئے نافہم اور ناسمجھ ہو جاتا ہے۔ اُس کی زبان ہوتی ہے مگر وہ چکھ نہیں سکتا،اُس کی ناک ہوتی ہے مگر وہ خوشبو اور بدبو میں تمیز نہیں کر سکتی کیونکہ محبت یا بغض کے پردے اس پر پڑے ہوتے ہیں۔ تم کئی آدمی ایسے دیکھو گے کہ وہ ایک چیز سے نفرت کرتے ہوں گے مثلاً کسی کھانے کی چیز سے۔ا گر انہیں اس کے کھانے کے لئے کہا جائے گا تو کہیں گے توبہ توبہ ہم تو اس کودیکھ بھی نہیں سکتے لیکن اگر اُسی چیز کا نام اورشکل بدلا کر انہیں کھلا دو تو چٹ کر جائیں گے اور ممکن ہے کہ کھاتے ہوئے یہ بھی کہتے جائیں کہ بہت مزیدار ،بہت لذیذ اور بہت عمدہ ہے۔ا گر درمیان میں ہی اُنہیں کہہ دیا جائے کہ یہ تو فلاں چیز ہے تو پہلے اسی بات سے انکار کریں گے کہ اجی نہیں یہ کہاں وہ چیز ہو سکتی ہے اس کا ذائقہ ہی الگ ہوتا ہے اور اگر یہ کہنے کی گنجائش نہ دیکھیں گے تو کہیں گے پہلے ہی کھاتے ہوئے ہماری طبیعت پر بوجھ سا محسوس ہور ہا تھا۔ اسی طرح اگر کسی چیز کو محبوب رکھتے ہوں اور ا س کی بجائے کوئی اور بتا دیا جائے تو کہا جائے کہ یہ وہی ہے تو اس کی ایسی تعریف کرنے لگ جائیں گے جیسی کہ اپنی محبوب چیزکی کرتے ہوں گے اور جب بتایا جائے کہ یہ تو وہ نہ تھی توشرمندہ ہو جائیں گے۔ اِس قسم کا ابھی ایک واقعہ گزرا ہے۔
ولایت میں ایک مشہور مصنف ہے ایک اخبار ہمیشہ ا س کے خلاف لکھا کرتاتھا اور کہتا تھا اس کے مضامین کوئی اعلیٰ پایہ کے نہیں ہوتے بلکہ ادنیٰ اور معمولی درجہ کے ہوتے ہیں۔ اس مصنف کے کسی دوست نے اُس کا ایک مضمون لے کر ایک ایسے مشہور مصنف کے نام سے اس اخبار میں چھپنے کے لئے بھیج دیا جس کو وہ پسند کرتا تھا۔ اس اخبار نے اس مضمون کو نمایاں جگہ پرموٹے الفاظ میں شائع کیا اور اپنی طرف سے بیسیوں خوبیاں اس مضمون اور مضمون نگار کی گنادیں۔ شائع ہونے کے بعد اسے لکھا گیا کہ یہ تو فلاں آدمی کا مضمون تھا اس پر اس کی تعریف بند ہو گئی۔
اسی طرح انوری ایک مشہور فارسی کا شاعر گزرا ہے وہ لکھتا ہے کہ میں اپنے استاد کے پاس شعر بنا کر دکھانے کے لئے لے جاتا تو وہ دیکھ کر کہہ دیتا کہ کچھ اچھے نہیں ہیں۔ استاد ہرروز اسی طرح کہتا۔ میں بڑی احتیاط اور کوشش سے شعر لکھتا لیکن وہ ناپسند کر دیتا۔ ایک دن مجھے اپنے گھر سے کچھ پرانے کاغذات ملے ان پر میں نے نہایت مدھم سی سیاہی کے ساتھ اپنے شعر لکھے اور استاد کے پاس لے گیاکہ یہ کاغذات مجھے پرانی کتابوں میں سے ملے ہیں ان پر لکھے ہوئے شعروں کوآپ پڑھیئے۔ انور ی لکھتا ہے استاد ان شعروں کو پڑھے اور لوٹتا جائے اور کہے کہ ایسا کامل استاد میں نے کبھی نہیںدیکھا یہ شعر کسی بڑے ہی اعلیٰ اورکامل استاد کے کہے ہوئے ہیں۔
خیر اُس کی وجہ تو اس نے اَور بتائی ہے مگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سی ایسی چیزیں جن کوانسان محبوب سمجھتا ہے بلا سوچے سمجھے ان کی تعریف شروع کر دیتا ہے اور بہت سی ایسی چیزیں جن کو ناپسند کرتا ہے بلا سوچے سمجھے ان کی مذمت کر نے لگ جاتا ہے۔ اُس وقت دلائل اور واقعات اس کی نظر سے پوشیدہ ہوجاتے ہیں۔
آج ہی میں نے کسی کا خط پڑھا ہے مجھے تو حیرت ہوئی ہے کہ کس طرح کسی چیز کی محبت یا بغض ہو تو انسان کی عقل اور سمجھ پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ الفضل میں کوئی مضمون شائع ہوا ہے جس میںلکھا گیا ہے کہ
’’ہم حضرت مرزا صاحب کو نبی مانتے اور کہتے ہیں بلکہ یہ بھی کہہ دو کہ کامل نبی۔ حقیقی نبی،مستقل نبی مگر ایسا کہنے سے جو ہماری مراد ہے وہ بھی سن لو۔‘‘
’’ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم حضرت مرزا صاحب کو ہر گز ہرگز ایسا نبی نہیں مانتے نہ وہ کوئی شریعت لائے ،نہ اُنہوں نے احکامِ شریعت سابقہ منسوخ کئے، نہ وہ ایسے ہیں کہ نبی سابق کی اُمت نہ کہلائیں نہ وہ براہِ راست بغیر افاضہ کسی نبی سابق کے نبوت پانے والے ہیں۔‘‘
اِس کے متعلق وہ لکھتا ہے کہ اب تم کو ماننا پڑا ہے کہ ہم مرزا صاحب کو ایسا نبی سمجھتے ہیں اور پھر یہ بھی لکھا ہے کہ جو تعریف تم نے حضرت مرزا صاحب کی نبوت کی کی ہے وہ وہی تعریف ہے جو غیر مبائعین کرتے ہیں(اس کے اصل الفاظ یہ ہیں۔ نبی کی تعریف کی ذیل میں آپ نے وہ تعریف بھی لکھ دی ہے جو متفقہ مبائعین وغیر مبائعین اصحاب کی مراد ہے) حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ اس مضمون میں کوئی ایسی بات نہیں لکھی گئی جس کے متعلق کہاجا سکے کہ ہم نے اب تسلیم کی ہے اور پہلے اسے تسلیم نہ کرتے تھے کیونکہ سب سے پہلے رسالہ کی صورت میں ’’القول الفصل‘‘ میں یہی مضمون چھپا ہے پھر ’’حقیقۃ النبوۃ‘‘ کی تمہید اِسی مضمون پر ہے کہ ہم جو حضرت مسیح موعود کو حقیقی نبی کہتے ہیں تو اِس لحاظ سے کہ حقیقتاً آپ کو نبوت ملی تھی نہ اس لئے کہ آپ بلاواسطہ یا شرعی نبی تھے۔ چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے جب یہ لکھا تھا کہ ’’میاں صاحب فی الواقع حضرت مسیح موعود کو حقیقی نبی مانتے ہیں‘‘ ا س کا جواب میں نے ’’القول الفصل‘‘ میں لکھ دیا تھا کہ
’’حضرت مسیح موعودؑ نے حقیقی نبی کے خود یہ معنی فرمائے ہیں کہ جو نئی شریعت لائے۔ پس اِن معنوںکے لحاظ سے ہم ان کو ہرگز حقیقی نبی نہیں مانتے۔‘‘ ۲؎
اِسی بات پر حقیقۃ النبوۃ کی تمہید ہے پھر اِس وقت تک بیسیوں مضامین الفضل میں اس پر لکھے جاچکے ہیں۔ مگر وہ خط لکھنے والا لکھتا ہے کہ آج تم نے اس بات کو مانا ہے اور پہلے نہیں مانتے تھے حالانکہ ہم پھر بھی وہی مانتے تھے جو اَب مانتے ہیں۔
پھر یہ بھی بالکل غلط ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کونبی کہنے سے جو ہماری مراد ہے وہی غیر مبائعین کی ہے۔ غیر مبائعین ہمارے بالکل خلاف کہتے ہیں وہ حضرت مسیح موعود کو ہماری طرح ظِلّی ،بروزی، اُمتی اور مجازی نبی تو کہتے ہیں لیکن اس سے اُن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گویا حضرت صاحب نبی نہیں ہیں اور ہم جو یہ الفاظ کہتے ہیں تو ہمارا یہ مطلب ہوتا ہے کہ آپ نبی ہیں اور حقیقی نبی ہیں مگر کوئی شریعت نہیں لائے اور نہ بلا واسطہ نبی ہوئے ہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے آپ پابند تھے اور آنحضرتؐ کے واسطہ سے ہی آپ نبی ہوئے۔ اگر غیر مبائعین کا بھی یہی مطلب ہے تو پھر وہ ہمارے مقابلہ میں کتابیں اور رسالے کیوں لکھتے ہیںـ؟میں نے ’’القول الفصل‘‘ میں لکھ دیا تھا کہ :۔
’’مستقل نبی کے معنی خود حضرت مسیح موعودؑ نے یہ کئے ہیں کہ جس کو بِلاواسطہ نبوت عطا ہو اور جو کسی اَور نبی کی اتباع سے انعامِ نبوت نہ حاصل کرے۔ا ن معنوں کے لحاظ سے ہم حضرت مسیح موعودؑ کو ہر گز مستقل نبی نہیں مانتے۔‘‘
اس کے ردّ میں اُنہوں نے لکھا۔ پھر حقیقۃ النبوۃ میں اِسی بات کو کھول کھول کر لکھا گیا تھا۔ اس کے خلاف بھی اُنہوں نے ایک کتاب لکھی۔ا گر ان کا اور ہمارا مفہوم ایک ہی تھا تو پھر ان کا مخالفت میں کتابیں لکھنے کا کیا باعث تھا۔
ہم جب حضرت مسیح موعودؑ کو حقیقی نبی کہتے ہیں توا ِس کی تشریح بھی ساتھ ہی کر دیتے ہیں کہ اگر کوئی حقیقی نبی کے یہ معنی کرے کہ وہ بناوٹی یا نقلی نہ ہو بلکہ درحقیقت خد اکی طرف سے خدا تعالیٰ کی مقردہ کردہ اِصطلاح کے مطابق قرآن کریم کے بتائے ہوئے معنوں کے رُو سے نبی ہو اور نبی کہلانے کا مستحق ہو۔ تمام کمالات نبوت اس میں اس حدتک پائے جاتے ہوں جس حد تک نبیوں میں پائے جانے ضروری ہیں توا ن معنوں کی رُو سے حضرت مسیح موعود حقیقی نبی تھے گوا ن معنوں کی رُو سے کہ آپ کوئی نئی شریعت لائے حقیقی نبی نہ تھے۔
ہاں ہم بھی آپ کو ظِلّی نبی کہتے ہیں وہ بھی ظِلّی نبی کہتے ہیں، ہم بھی اُمتی نبی کہتے ہیں وہ بھی اُمتی نبی کہتے ہیں۔ ہم بھی بروزی نبی کہتے ہیں وہ بھی بروزی نبی کہتے ہیں لیکن باوجود اس کے کہ لفظ ایک ہی ہیں پھروہ ہمارا رَدّ لکھتے ہیں اور ہم ان کا۔ اس خط لکھنے والے نے شاید یہ سمجھا ہے کہ الفاظ کی تعیین میں اختلاف ہے جو اَب دور ہو گیا حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ الفاظ کی تشریح میں فرق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ظِلّی نبی نبی نہیںہوتا اور ہم کہتے ہیں کہ نبی ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نبی وہ ہوتا ہے جو بلاواسطہ نبوت پائے اور صاحبِ شریعت ہو۔ ہم کہتے ہیں وہ بھی نبی ہوتا ہے جو بالواسطہ نبوت پائے اور جو صاحبِ شریعت نہ ہو۔ وہ کہتے ہیں حضرت صاحب کا یونہی نبی نام رکھ دیا گیا ہے ورنہ حقیقت میںآپ نبی نہیں تھے کیونکہ آپ کو ظِلّی نبی کہا گیا ہے اور ظل سایہ کو کہتے ہیں اور سایہ کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ ان میں سے بعض تو کہتے ہیں کہ سایہ پر جوتیاں مارنے سے بھی کوئی حرج نہیں ہوتا کیونکہ اُس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔
لیکن ہمارے نزدیک ظلی نبی کی یہ شان ہے کہ وہ کئی پہلے نبیوں سے بھی بڑھ کر ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ میں پہلے مسیح سے افضل ہوں۔ اور وہ دعویٰ یہ ہیـ:۔
’’خدا نے اِس اُمت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس سے پہلے مسیحؑ سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔‘‘ ۳؎
اور پہلے آئمہ نے بھی اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ آنے والا مسیح بعض انبیاء سے بڑھ کر ہو گا۔ واقعہ میں یہی بات درست ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل کوئی معمولی چیزنہیں ہے۔ ایک ظل سایہ ہوتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود پر یہ معنی چسپاں نہیں ہو سکتے۔
آج ایک صاحب حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کا انکار کرتے ہیں مگر آج سے کچھ عرصہ پہلے اُنہوں نے خواجہ صاحب کے حلف کے جواب میں ایک مضمون لکھ کر مجھے بھیجا تھا جس میںلکھا تھا کہ خواجہ کہتا ہے کہ ظل کچھ نہیں ہوتا اور اس کی کچھ حقیقت نہیں ہوتی کیونکہ ظل سایہ کو کہتے ہیں اور سایہ بے حقیقت چیز ہوتا ہے۔ اگرچہ عام طور پر ظل سایہ کو کہتے ہیں مگر دراصل نور کے درمیان حائل ہونے والی روک سے جو اندھیرا پیدا ہو اُسے ظل کہتے ہیں۔ یعنی جتنے حصہ پر نور کو وہ روک نہ پڑنے دے اسے ظل کہتے ہیں۔ اگر یہی معنی ظل کے حضرت مسیح موعود ؑ پر چسپاں کئے جائیں تو اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ہتک ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود ؑکی بھی کہ آپ گویا دنیا کے لئے اندھیرا اور تاریکی ہو کرآئے تھے لیکن ظل کے یہ معنی آپ کے متعلق استعمال نہیں کئے جا سکتے۔ اس شخص نے دلیل ا ُس وقت لکھی تھی اور اِس میںکیا شک ہے کہ یہ ایک زبردست دلیل ہے مگر آج ا س کو یہ بھول گئی ہے اور اُسی طرح بھول گئی جس طرح یہ بھول گیا ہے کہ احمد حضرت مسیح موعود نہیںہیں۔ پہلے تو یہ صاحب کہا کرتے تھے کہ جب خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو قرآن کریم میں احمد کہا ہے تو پھر میں کیوں آپ کی تعریف نہ کروں اور ہر آیت سے آپ کی تصدیق نکالتے تھے۔ پھر کفرو اسلام کے لئے مسئلہ پر گول کمرہ میں مجھ سے گفتگو کرتے رہے اور کہتے کہ آپ کے منکرین کو کافر نہ کہنا آپ کے درجہ کو گھٹانا اور آپ کی ہتک کرنا ہے مگر آج وہ یہ ساری باتیں بھول گئے ہیں۔
تو ظلی نبی کی جو تعریف غیر مبائعین کرتے ہیں اس کا وہی مطلب ہے جو اُس شخص نے اُس وقت نکالا تھا جبکہ اسے دُوری نہیں ہوئی تھی اور وہ ایک خطرناک مطلب ہے کیونکہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سخت ہتک ہوتی ہے اور ماننا پڑتا ہے کہ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) آپ کا وجود ایسا کثیف تھا کہ ا س کے خد ا تعالیٰ کے نور کے سامنے حائل ہونے سے اندھیرا پیدا ہو گیا اوروہ اندھیرا حضرت مسیح موعود تھے۔ جس قدر کوئی چیز شفاف ہوتی ہے اُسی قدر اُس کا ظل کم اندھیرا پیدا کرتا ہے ۔مثلاً شیشہ ایک شفاف چیز ہے ا س کو سورج کے سامنے رکھنے سے جو ظل پیدا ہو گا۔ وہ بہ نسبت ایک غیر شفاف چیز کے بہت کم ہو گا۔ تو ظل کا مطلب یہ ہے کہ ایک نورانی چیز کے سامنے کوئی ایسی روک کھڑی ہو جائے جو اس کے نور کو روک لے اور جتنے حصہ سے روک لے وہ ا س کا ظل ہوگا۔ اگر یہی معنی ظل کے حضرت مسیح موعود کے متعلق لئے جائیں توا س کا یہ مطلب ہو گا کہ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے خدا تعالیٰ کے نور کے سامنے آنے سے جو اندھیرا پیدا ہوا وہ حضرت مسیح موعود تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاوجود ایسا کثیف تھا کہ اس نے خدا کے نور کے سامنے آکر اندھیرا پیدا کر دیا اور جتنے حصہ پر آپ کی وجہ سے روشنی نہیں پڑ سکتی وہ مسیح موعود کا وجود ہے۔
لیکن اس سے بڑھ کر ظل کے بدترین معنی جو حضرت مسیح موعود کے متعلق لئے جائیں اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ باقی تمام حصہ پر نور ہی نور ہے مگرایک حصہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہوجانے کی وجہ سے اندھیرا اور تاریکی ہو گئی ہے اور وہ تاریکی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود ہے۔
کیا ظل کے یہ معنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر چسپاں ہو سکتے ہیں؟ اگر کوئی چسپاں کرتا ہے تو دیکھ لے کہ اِس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے لیکن جس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور حضرت مسیح موعود کی قدر ہے وہ تو کبھی بھی ظل کے یہ معنی نہیں کر سکتا اور نہ ہی ظل سے یہ مراد لے سکتا ہے۔ بلکہ ظل سے وہی مراد لے گا جو حضرت مسیح موعودؑ نے لی ہے کہ عکس اور عکس بھی ایسا جس میں تمام خوبیاں آگئی ہوں۔ ہر نبی میں کچھ خوبیاں ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں سارے انبیاء کی خوبیاں جمع تھیں۔ وہ خوبیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ سے حاصل کیں۔ ہاں آپ ظل اس لئے ہیں کہ آپ کو جو کچھ ملا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بِلا واسطہ کچھ نہیںملا۔
تو ظل کے لفظ میں اختلاف نہیں بلکہ اِس کی تشریح میں اختلاف ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل ہو کر آپ کے تمام کمالات حاصل کر لئے تھے اور غیر مبائعین کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ وہ تاریک حصہ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کثیف وجود کے خدا تعالیٰ کے سامنے آنے سے پیدا ہو گیا تھا۔ یہی اختلاف ہمارا اور غیر مبائعین کا پہلے تھا اور یہی اَب ہے۔
اس خط کے لکھنے والے نے معلوم ہوتا ہے یہ سمجھ رکھا تھا کہ لفظوں میں اختلاف ہے۔ مبائعین ظلی نبی نہیں مانتے اور اب اُنہوں نے مان لیا ہے حالانکہ ہم جس طرح پہلے ظلی نبی مانتے تھے اُسی طرح اب بھی مانتے ہیں۔ اِس نے محبت میں اندھا ہو کر ہماری پہلی تحریروں سے غلط نتیجہ نکالاہے۔
دوسری بات وہ یہ لکھتا ہے کہ جب تم بھی کامل نبی، مستقل نبی اور حقیقی نبی کی وہی تعریف کرتے ہو جو متفقہ مبائعین وغیر مبائعین اصحاب کی ہے تو بجائے اس کے کہ لوگوں کو اپنے پاس تمہاری بنائی ہوئی ڈکشنری رکھنی پڑے کہ کن معنوں میں تم نبی کہتے ہو تم کیوں حضرت صاحب کو مجدد نہیں کہتے جس کے لئے کسی ڈکشنری کی ضرورت نہیں۔
معلوم ہوتا ہے اس نے مجدد اور رسول میں فرق ہی نہیں سمجھا۔ اُمت محمدیہ میں مجدووں کی پیشگوئی اس طرح ہے کہ پہلی اُمتوں میں ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں جو نبی نہیں تھے مگر خدا تعالیٰ اُن سے کلام کرتا تھا اِسی طرح میری اُمت میں بھی ایسے لوگ ہوںگے۔ اور محدث تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو بھی کہا تھالیکن حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ :۔
’’اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا توپھر بتلائو کس نام سے اس کوپکارا جائے۔ اگر کہو محدث رکھنا چاہئے تو میںکہتا ہوں کہ تحدیث کے معنی کسی لُغت کی کتاب میں اظہارِ غیب نہیں ہے۔‘‘ ۴؎
پس جب کوئی محدث نبی نہیں ہو سکتا تو مجدد کہاںنبی ہو سکتا ہے۔ مجدد کا لفظ تو اَور لوگوں پر بھی بولا جا سکتا ہے۔ا گر اس حدیث کوپیش نظر نہ رکھیں تو غیر مذاہب کے لوگوں کے متعلق بھی یہ کہہ سکتے ہیںکیونکہ کسی مٹی ہوئی بات کو قائم کرنے اور کسی چیز کی اصلاح کرنے والا مجدد ہوتا ہے جو بھی اس طرح کرتا ہے اسے مجدد کہاجا سکتا ہے لیکن کسی محدث یا مجدد کوکسی لُغت میںنبی نہیںکہا گیا۔ پھر ہم حضرت مسیح موعودؑ کو محدث یا مجدد کیونکر کہیں۔ آپ کو ایک دفعہ یہی کہا گیا تھا کہ آپ اپنے آپ کونبی کیوں کہتے ہیں محدث کیوںنہیںکہتے ؟تو آپ نے اس کا جواب دیا کہ خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والے کا کس لُغت کی کتاب میں محدث نام رکھا گیا ہے ا س سے معلوم ہوگیا کہ آپ نے محدث کہلانے سے انکار کردیا ہے۔ پھر اب کیاہم اس لئے آپ کونبی کہنا چھوڑ دیں اور محدث اور مجدد کہا کریں کہ لوگ ہم پر اعتراض کریں گے۔
کیایہ ہمارے لئے جائز ہو سکتا ہے؟ یہی آیت جو میں نے ابھی پڑھی ہے اس میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مومنو ! تم قوام ہو جائو خدا کیلئے۔ یعنی جو کام بھی انسان خدا تعالیٰ کیلئے کرے اس میں بزدلی نہ دکھائے۔ پھر فرمایا کہ جو بات کرو انصاف اور عدل کے ساتھ کرو یہ نہیں کہ عدل کو چھوڑ دو۔ پھر فرمایا اور تمہیں کسی کی قوم کی دشمنی اس بات پر نہ آمادہ کردے کہ تم عدل ترک کردو بلکہ عدل کرو یہ بات تقویٰ کے بہت قریب ہے۔ کے دو معنی ہیں۔ اوّل یہ کہ تمہاری کسی قوم سے دشمنی ہو اور دوسرے یہ کہ تم سے کسی قوم کی دشمنی ہو۔ اس لئے اس کے یہ معنی ہوئے کہ تم حق کی گواہی دینے سے اس لئے مت رکو کہ تم کو کسی سے دشمنی ہو یا اس لئے کہ کسی کو تم سے دشمنی ہے۔
اِس حکم کے ہوتے ہوئے کس طرح ممکن ہے کہ غیر احمدی چونکہ ہم سے دشمنی رکھتے ہیں اس لئے ہم سچی گواہی چھپا رکھیں۔ خدا نے کہا ہے اور بار بار کہا ہے کہ مسیح موعود نبی ہے، نبی ہے، نبی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ نبی ہے، پھر پہلے نبیوں نے آپ کو نبی کہا ہے، پھر اُمت محمدیہ کے صلحاء کی شہادت ہے کہ آپ نبی ہیں۔
پھر خدا تعالیٰ نے یہاں تک آپ کو کہا ہے کہ سَیَقُوْلُ الْعَدُوُّلَسْتَ مُرْسَلًا۔ ۵؎ تیرا دشمن کہے گا کہ تو نبی نہیں ہے۔ چنانچہ ان نبی نہ کہنے والے لوگوںنے جتنی دشمنی اور عداوت کا ثبوت دیا ہے۔ اور کسی نے نہیں دیا جو لوگ احمدی ہوتے ہیں ان کو برگشتہ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اِس قدر درجہ گھٹاتے ہیں کہ ایک شریف دشمن بھی ایسا نہیں کرسکتا۔ کوئی شریف دشمن کبھی یہ نہیں کہے گا کہ ظل پر جوتی مارنی جائز ہے مگر اُنہوں نے کہہ دیا۔ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے سَیَقُوْلُ الْعَدُوُّلَسْتَ مُرْسَلًا کہناشہادت ہے اِس بات کی کہ آپ خدا کے نبی اور رسول تھے اور جو آپ کا دشمن ہو گا وہی آپ کو نبی نہیں مانے گا پھر کیوں نہ ہم آپ کو نبی کہیں۔ غیر احمدی اگر اس حق بات کے کہنے سے چڑتے ہیں تو چڑیں ہمیں ان کیا پرواہ ہے۔ ہاں ہماری ان سے کوئی دشمنی نہیں کہ اگر وہ کہیں کہ مرزا صاحب کوئی شریعت نہیں لائے تو ہم کہیں کہ لائے ہیں، اگر وہ کہیں کہ بِلاواسطہ نبی نہیں ہوئے تو ہم کہیں کہ بِلاواسطہ ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کی ہم سے کوئی دشمنی ہے اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نبی اور رسول ہیں۔ یہ دونوں باتیں نہیں، نہ تو ہم مسیح موعودؑ کا درجہ بڑھاتے ہیں کہ ہم دشمن کو تنگ کریں اور چڑائیں اور نہ ہی حضرت صاحب کے اصل درجہ کو چھپاتے ہیں کہ غیر احمدی ہمارے دشمن ہیں۔ حق کہنا ہر ایک مومن کا فرض ہے اور ہم بھی حق ہی کہتے ہیں خواہ جان بھی چلی جائے۔ ہم تو حق کہنے سے کبھی نہیں ڈرتے اگر کوئی ڈرتا ہے تو حق کو چھپائے رکھے۔ ہمارا ٰ یقین اور ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ خدا تعالیٰ کے نبی تھے ہاں ایسے نبی جو کوئی شریعت نہیںلائے تھے اور نہ بلاواسطہ نبی ہوئے تھے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل نبی ہوئے تھے اور آپ ظلی نبی تھے مگر اس لحاظ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات آپ نے اخذ کر لئے تھے نہ اس لحاظ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کے سامنے آنے سے کوئی ظلمت پیدا ہو گئی تھی اور آپ وہ ظلمت تھے۔ اِسی تشریح کے ساتھ ہم آپ کو نبی مانتے ہیں۔
باقی رہا یہ کہ اس سے لوگوں کو دھوکا لگ سکتا ہے اور اُنہیں ڈکشنری پاس رکھنی پڑے گی اِس لئے اس کو چھوڑ دینا چاہئے۔ا گر اِس لحاظ سے اس کو چھوڑ دیا جائے تو قرآن کریم کے کئی احکام ہیں جن کو چھوڑنا پڑے گا۔مثلاً ملائکہ کو مشرک لوگ خد اکی بیٹیاں کہتے تھے۔ ۶؎ ا ب جو شخص یہ کہے گا کہ ہم ملائکہ کو مانتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ مشرکین اس سے یہ سمجھیں کہ یہ بھی ہماری طرح ہی ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں سمجھتا ہے اس لئے چاہئے کہ وہ ملائکہ سے ہی انکار کر دے تاکہ ان کو دھوکا نہ لگے۔ پھررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں ماننا چاہئے کیونکہ وہ لوگ رسول اُس کو سمجھتے تھے کہ جس کے پاس بہت سے خزانے ہوں،غیب جاننے والا ہو، آسمان پر چڑھنے والا ہو۔ ۷؎ چونکہ رسول کے لفظ سے ان کو ا س قسم کا دھوکا لگتا تھا اس لئے چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو رسول نہ کہتے اور نہ ہی کوئی مسلمان آپ کو رسول کہتا لیکن یہ بات ہی فضول ہے۔ کسی کو اگر اس سے دھوکا لگتا ہے تو یہ ہمارا قصور نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی سمجھ کا قصور ہے۔
ہمارے متعلق یہ کہنا کہ یہ مرزا صاحب کو نبی کہہ کر پھر ا س کی تشریح کرتے ہیں اس تشریح کو کون یاد رکھے ۔یہ بھی نادانی کی بات ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر تشریح کرنا کوئی بُری بات ہے تو پھر خدا تعالیٰ نبی کہہ کر پھرکیوں تشریح کرتا ہے جب خدا تعالیٰ نبی کی تشریح کرتا ہے تو ہمارا فعل اس کے مطابق ہی ہے نہ کہ خلاف۔ خدا تعالیٰ رسول کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ علم غیب نہیں جانتا، اپنی طاقت سے کوئی نشان نہیں دکھا سکتا اور یہ نہیں کہ وہ وفات نہ پائے اور یہ بھی نہیں کہ کھانا نہ کھاتا ہو بلکہ رسول ہوتے ہوئے اس میں یہ سب باتیں پائی جاتیںہیں۔ اب کوئی کہے کہ خداتعالیٰ کو رسول کا لفظ کہہ کر جو اِس قدر تشریح کرنے کی ضرورت پڑی ہے اس لئے چاہئے تھا کہ اس کو چھوڑ ہی دیتا اور کوئی ایسا لفظ کہتا جس کے متعلق اسے تشریح نہ کرنی پڑتی مگر کوئی عقلمند یہ نہیں کہہ سکتا اور باوجود اس کے قرآن کریم سے ثابت ہے کہ رسول کہنے سے کفار اور مشرکین کو دھوکا لگتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ رسول وہ ہوتا ہے جو آسمان پر اُڑجائے، وہاں سے کوئی کتاب لے آئے وغیرہ وغیرہ۔ پھر بھی خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ہی کہا۔ ہاں ان کے اس قسم کے غلط خیالات کی تردید کر دی اور رسول کے لئے جو باتیں ضروری تھیں وہ بیان کردیں۔
پھر دیکھو جہاد کا مفہوم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ کافر ملے اسے قتل کر دو۔ا ب کیا اس لفظ کو قرآن کریم سے اُڑا دینا چاہئے کہ اس کی وجہ سے کسی کو دھوکا نہ لگے؟ ہر گز نہیں۔ پھر قرآن کریم میں ایسی آیات ہیں جن میں کفار سے لڑنے کا حکم ہے اور دوسری جگہ لڑائی کے شرائط بیان کئے گئے ہیں۔ا ب ان لڑائی کے متعلق آیات کو نکال دینا چاہئے کہ ان کی وجہ سے غلطی لگ سکتی ہے؟ اس طرح تو کچھ بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ ہر ایک آیت سے کسی نہ کسی انسان کو دھوکا اور غلطی ضرور لگے گی اس لئے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) تمام قرآن کو ہی جلا دینا چاہئے؟ کسی کے دھوکا لگنے کے خوف سے اگر کوئی بات ترک کرنی چاہئے تو پھر کچھ بھی باقی نہ بچے گا۔
ہاں اگر یہ ہو کہ کسی لفظ کے لغت ایک معنی کرتی ہو اور خدا تعالیٰ نے بھی اس کے معنی کر دئیے ہوں اور اس کے برخلاف کوئی نئے معنی پیدا کرتا ہو تو اس کو چھوڑ دینا چاہئے کہ اس سے دھوکا لگ سکتا ہے۔ مثلاً کوئی کہے کہ میں اپنا نام اللہ رکھ لیتا ہوں۔ہم کہیں گے کہ نہ تو لغت میں آدمی کو اللہ کہا گیا ہے اور نہ خدا تعالیٰ نے کسی انسان کا اللہ نام رکھاہے اس لئے یہ نام رکھنا چھوڑ دینا چاہئے کہ اس سے دھوکا لگتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی کہے کہ آدمی کے معنی کتا ہوتے ہیں اس کو بھی ہم یہی جواب دیں گے۔ اسی طرح اگر اس زمانہ میں جہالت اور نادانی سے لوگوں نے نبی کی یہ تعریف سمجھ رکھی ہے کہ
(۱) نبی وہ ہوتا ہے جوشریعت لاتا ہے ۔
(۲) بعض احکام شریعت کو منسوخ کرتا ہے۔
(۳) کسی نبی کا متبع نہیں ہوتا بلکہ براہ راست نبوت پاتا ہے۔
تو ہم کہتے ہیں کہ نبی کی یہ تعریف نہ خدا تعالیٰ نے بیان کی ہے، نہ قرآن کریم سے اس کا پتہ لگتا ہے اور نہ ہی لغت نبی کی یہ تعریف کرتی ہے پھر ہم کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی کہنا چھوڑ دیں۔ اگر نبی کی تعریف خد اتعالیٰ کے نزدیک، قرآن کریم کے رو سے اور لغت میں وہی ہوتی جو لوگ سمجھے ہوئے ہیں تو ہم حضرت مسیح موعود کو نبی کہنا چھوڑ دیتے کہ یہ باتیں آپ میں نہیں پائی جاتیں اس لئے لوگوں کو دھوکا لگ سکتا ہے۔ لیکن جب ان کا نبی میں پایا جانا نہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ،نہ قرآن کریم کے نزدیک اور نہ لغت کے نزدیک ضروری ہے تو پھر ہم کیوں نہ حضرت مسیح موعود کو نبی کہیں۔ بلکہ ہمارے لئے تو ضروری ہے کہ بڑے زور سے آپ کو نبی کہیں کیونکہ لوگوں نے جو غلطی سے نبی کے غلط معنی سمجھ رکھے ہیں ا سکی اصلاح ہو جائے نہ یہ کہ ان کے باطل خیال اور نبی کی باطل تعریف کے کرنے کی وجہ سے نبی کا درست اور جائز استعمال بھی اس لئے ترک کر دیں کہ وہ چڑتے ہیں اورا نہیں دھوکا لگتا ہے۔ دنیا میں کونسی بات ہے جس سے کسی کو دھوکا نہیں لگ سکتا۔ ہم دھوکا لگنے سے احتیاط کریں گے لیکن اُسی وقت تک کہ دین کا کوئی پہلو نہ جاتاہولیکن جب ایک نبی کی ہتک ہوتی ہو اُس وقت ہم اِس بات کا ہرگز خیال نہیں کریں گے اُس وقت ہم وہی بات کہیں گے جو خدا تعالیٰ اور اُس کے نبی نے بتائی ہے۔ اور یہ بات کونسی مشکل ہے کہ ہر ایک کو اس کے سمجھنے سے دھوکا لگ سکتاہے۔ آخر ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے اس کو سمجھا ہے یا نہیں؟ پھر اَور کوئی کیوں نہیں سمجھ سکتا۔
کسی کا یہ کہنا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے لکھ دیا ہے کہ رسالہ فتح اسلام، توضیح مرام اور ازالہ اوہام میں جہاں جہاں میں نے نبی کا لفظ لکھا ہے اُسے محدث سمجھ لو اس لئے آپ کو نبی نہیں کہنا چاہئے یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ یہ اُس وقت آپ نے لکھا تھا جبکہ آپ اپنے آپ کو نبی نہ سمجھتے تھے اور جب سمجھاتو اس کو منسوخ کر دیا۔ پس جب آپ نے اس کو منسوخ کر دیا توا ب اَور کس کا حق ہے کہ اس کو منسوخ نہ کرے۔
پھر وہی شخص لکھتا ہے کہ احمدی وہ ہوتا ہے جو حضرت صاحب کی کسی تحریر کو منسوخ نہ سمجھتا ہو۔ ہم کہتے ہیں حضرت مسیح موعودؑ نے ایک وقت حضرت عیسیٰ کو زندہ مانا ہے اس لئے اب ان کو زندہ ہی سمجھنا چاہئے اور جو ایسا نہیں سمجھتا وہ تمہارے نزدیک احمدی ہی نہیں۔اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں متعہ کی اجازت دی لیکن بعد میں منع فرما دیا۔ ۸؎ ا ب اس کے خیال میں وہ شخص مسلمان ہی نہیں جو متعہ کو اب ناجائز سمجھے۔ اسی طرح کئی اور احکام کی اجازت تھی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کرنے سے منع نہ فرماتے تھے مگر بعد میں ممانعت ہو گئی۔ مثلاً ابتدا میں کئی ایسے مسلمان تھے جنہوں نے اپنی سوتیلی مائوں سے نکاح کیا ہوا تھا بعد میں آپ نے منع فرما دیا۔ پھر گدھے کی حلت تھی ۹؎ اور بعد میں حکم آگیا کہ ایسا نہ کرو۔اور کئی اس قسم کے احکام ہیں کہ پہلے اس کے متعلق حکم دیا جائز سمجھا اور اس سے منع نہ کیا لیکن بعدمیں منسوخ کر دیا۔ اس سے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان ہی نہ تھے؟ پھر ایک زمانہ ایسا بھی آیا ہے کہ ۹۹ فیصدی مسلمان قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت کو منسوخ سمجھتے تھے کیاوہ سب کے سب کافر تھے؟ لیکن قرآن کریم کی کسی آیت کو ہم اس لئے منسوخ نہیں کہہ سکتے کہ قرآن کریم اس سے انکار کرتا ہے لیکن جس تحریرکو حضرت مسیح موعودؑ نے منسوخ کر دیا ہے اُس کو منسوخ نہ کرنا بلکہ قائم رکھنا ایک بہت بڑا ظلم ہے۔
اب کوئی کہے کہ اگر اس طرح تحریریں منسوخ ہونے لگیں توا ندھیر آجائے گا لیکن ہم کہتے ہیں اندھیر کس طرح آسکتاہے ؟اندھیرتو تب آئے جب اپنی عقل اور اپنی رائے سے کسی تحریر کو منسوخ قرار دے لے لیکن جب وہی تحریرمنسوخ ہو جس کو لکھنے والا منسوخ کرے تو پھر کوئی حرج نہیں واقعہ ہوتا۔ دیکھو گورنمنٹ ایک حکم دیتی ہے اور پھر اس کو منسوخ کر دیتی ہے۔ کیا اس طرح اندھیر پڑ جاتا ہے؟ نہیں۔ ہاں اگر گورنمنٹ کے کسی حکم کو وکلاء منسوخ قرار دیں تو پھر ابتری پڑ سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریر کو آپ ہی منسوخ قرار دے دیا ہے ا ب ہمارے لئے یہی ضروری ہے کہ ہم آپ کی ناسخ تحریر کومانیں نہ کہ منسوخ شدہ کو۔پس یہ کہہ دینا نادانی اور جہالت ہے کہ منسوخ کرنے سے تو اندھیر پڑ جائے گا یا حضرت صاحب کی ہتک ہو گی۔ ہم تو خدا تعالیٰ کے کلام میں بھی ناسخ و منسوخ دیکھتے ہیں۔ قرآن کریم بتاتا ہے کہ قبلہ کا حکم منسوخ ہوا تھااور تحویل قبلہ صاف بتا رہی ہے کہ پہلے کوئی اَور حکم تھا اور پھر اَور ہوا۔ چنانچہ قرآن کریم بھی کہتا ہے کہ ۱۰؎ ہم نے قبلہ کو اس لئے بدلا ہے تاکہ جان لیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون ایڑیوں کے بل پھر جاتا ہے۔ا ب کیا جو لوگ تحویل قبلہ مانتے ہیں وہ مسلمان نہیں ہیں؟
میں پھر یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت اس لئے منسوخ نہیں ہے کہ کوئی آیت کسی آیت کے ناسخ ہونے کے متعلق نہیں ہے۔ اگر قرآن کریم میں کہیں یہ آجاتا کہ فلاں آیت منسوخ ہے تو ہم اس کو مان لیتے لیکن اب جبکہ قرآن کریم میں ایسی کوئی آیت نہیں آئی تو اَور کوئی آیت کومنسوخ نہیں کر سکتاکیونکہ اگر ہر ایک اپنی مرضی کے مطابق منسوخ کرنے لگے تو سارا قرآن ہی منسوخ ہو جائے۔ کوئی کسی آیت کو منسوخ سمجھ لے اور کوئی کسی کو۔ اس لئے کسی کا حق نہیں ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت کو منسوخ قرار دے۔تو یہ بھی ایک غلط خیال ہے اس کی وجہ سے بھی ہم سچی گواہی کو نہیں چھپا سکتے اور نہ اس لئے کہ لوگ ہمیں کیا کہیں گے۔ لوگ ہمارے مسیح موعود کہنے سے ہم پر کہاں خوش ہیں تو کیا یہ کہنا بھی چھوڑ دینا چاہئے کہ اس طرح ان کو مسیح ابن مریم کا دھوکا لگتا ہے؟ پھر لوگوں کا خیال ہے کہ مہدی خونی آئے گا اس لئے حضرت صاحب کو مہدی بھی نہیں کہنا چاہئے کیونکہ اس طرح لوگوں کا خیال خونی مہدی کی طرف چلا جاتا ہے ہرگز نہیں۔ کہنے والا تو آپ کو یہی کہے گا کہ آپ مسیح موعود ہیں، آپ مہدی ہیں کیونکہ واقعہ میں یہی بات درست ہے۔ اس سے چاہے کسی کو دھوکا لگے یا تکلیف ہو یہ کہنے سے کبھی نہیں رُکے گا۔ اسی طرح ہم بھی نبی کا لفظ آپ کے متعلق بولنا اس لئے نہیں چھوڑ سکتے کہ واقعہ میں آپ نبی تھے۔ اگر آپ واقعہ میں نبی نہ ہوتے بلکہ یونہی آپ کو نبی کہا جاتا تو ہم آپ کو نبی کہنا چھوڑ دیتے۔ پھر اب تو ہم نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ نبی کا لفظ نہ استعمال کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو آپ کے متعلق دھوکا لگ گیا ہے اس لئے بھی اس کا استعمال کرتے ہیں۔ ہاں ساتھ ہی تشریح بھی کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کے غلط خیال کی اصلاح ہو جائے۔ ہم لوگوں کے ڈرسے یہ کہنے سے نہیں رُک سکتے۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ اگر کوئی میری گردن پر تلوار رکھ دے اور رسول کریمؐ کی کوئی حدیث رہ گئی ہو گی تو میں جلدی جلدی اسے بیان کر دوں گا کہ میرے سینہ میں ہی نہ رہ جائے۔ ۱۱؎
تو کامل ایمان اسی کو کہتے ہیں۔ ہم تو خدا تعالیٰ سے ایسے ہی ایمان کی توفیق چاہتے ہیں باقی جو بزدل ہیں وہ چھپاتے پھریں ہمیں تو لوگوں کی کچھ پرواہ نہیں صرف خدا ہی کی پرواہ ہے۔ جب اُس نے حضر ت مسیح موعودؑ کا نام نبی رکھا ہے اور جو آپ کو نبی نہیں کہتا اُسے آپ کا دشمن قرار دیا ہے تو ہم کیوں آپ کو نبی نہ کہہ کر آپ کے دشمن بنیں۔ ہم تو خدا کے فضل سے آپ کے دوستوں میں ہیں جس کا جی چاہتا ہے کہ دشمن بنے وہ آپ کو نبی نہ کہے۔ ہم بڑی دلیری اور جرأت سے کہتے ہیں کیونکہ نہ کہنا عدوّ کا کام ہے۔ ہم خادم ہیں اس لئے خدمت کا حق ادا کرتے ہیں اور وہ یہی ہے کہ دنیا کے سامنے آپ کا سچا دعویٰ پیش کریں۔
کسی کا یہ کہنا کہ بائبل میں مسیح کو ابنُ اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کہا گیا ہے تو کیا واقعہ میں مسیح کو خدا کا بیٹا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا مان لینا چاہئے؟ ہم کہتے ہیں یہ ایسی کتاب میں لکھا ہوا ہے جو محرف و مبدل ہے۔ قرآن کریم نے کسی جگہ ایسا نہیں کہا۔ تو پھر ابن اللہ تو ایک محاورہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی الہام ہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ بَمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ ۱۲؎ اس کا یہی مطلب ہے کہ حضرت مسیح موعود کا خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی درجہ ہے جو اگر کوئی اُس کا ولد ہوتا تو اُس کا ہوتا۔ یہ آپ کی منزلت بتانے کے لئے اُسی طرح کہاگیا ہے جس طرح قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو اپنا فعل قرار دے کر آپ کا درجہ بتایا ہے نہ کہ خدا قرار دیا ہے۔ فرمایا ۱۳؎ جن لوگوں نے تیری بیعت کی دراصل اُنہوں نے اللہ کی بیعت کی ہے اور اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اُوپر ہے۔ اس آیت سے کوئی نادان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نہیں کہہ سکتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی وہ اُنہی انعامات کے مستحق ہو گئے جن کے خدا سے بیعت کرنے پر مستحق ہوسکتے تھے۔ پھر ایک اَور آیت ہے جو یہ ہے۱۴؎ کہ جب تو نے پھینکا تو تُو نے نہیں پھینکا( یہاں خد اتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ وجود قرار دیا ہے اور تو کا لفظ اِس کو واضح کر رہا ہے)بلکہ خدا نے مٹھی پھینکی تھی ۔اِس میں بھی خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نہیں قرار دیا بلکہ ایک غیر کہہ کر پھر اس بات کو بتایا ہے کہ خدا کے پھینکنے پر جو نتیجہ برآمد ہو سکتا تھا وہی تیرے پھینکنے سے ہوا ۔ پس یہ غلط ہے کہ آنحضرتؐ کو قرآن کریم میں کہیں خدا کہا گیا ہے۔ باقی رہی بائبل وہ محفوظ ہی کہاں ہے کہ اس کی دلیل مانی جائے۔ پھر اگر ہے تو مسیحؑ کو نبی کہنے اور مسیح کوا بن اللہ کہنے میں بہت فرق ہے کیونکہ نبی کی لغت میں وہی تعریف ہے جو ہم کہتے ہیں لیکن ابن اللہ کے متعلق لغت کچھ نہیں بتا سکتی۔ اب ہم جو کچھ کہتے ہیں اس سے اگر کسی کو دھوکا لگتا ہے تو وہ معذور نہیں ہے کیونکہ جو ہم کہتے ہیں وہی لغت کہتی ہے۔ ہاں اگر لغت ہمارے خلاف ہوتی تو وہ معذور ہوتے۔ مثلاً کوئی کہے کہ اینٹ کے معنی گھوڑا ہے تو ہم اسے کہیں گے کہ ایسا نہیں کہنا چاہئے اس لئے لوگوں کو دھوکا لگتا ہے لیکن ایک درست بات کے متعلق کسی کو نہیں روکا جا سکتا۔
اس مسئلہ کے متعلق بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ابھی اچھی طرح واقف نہیں ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ نبوت کے متعلق قرآن اور حدیث سے بحث کروں اور بتائوں کہ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نبی تھے اور آئندہ بھی نبی آئیں گے۔ یہ تو جب ہو گا ہو گا لیکن میں چاہتاہوں کہ ہماری جماعت کے وہ لوگ جنہیں علم دیاگیا ہے وہ اس مسئلہ کے متعلق لکھتے رہیں ۔غیر مبائعین سے مقابلہ ا ب صرف اسی بات پر آرہا ہے باقی سب طرفوں سے وہ بھاگ گئے ہیں اس لئے ہمارے علماء کو چاہئے کہ بار بار اِس مسئلہ کے متعلق لکھتے رہیں۔ میں نے حقیقۃ النبوۃ میں بہت کچھ لکھ دیا ہے لیکن ایک بڑی کتاب کو لوگ بار بار نہیں پڑھ سکتے لیکن اگر اخبار میں مختلف پیرائوں میں اس کے متعلق لکھا جائے تو پڑھتے رہیں گے۔
میرے نزدیک تو اسلام کے لئے وہ دن موت کا دن ہو گا جبکہ تمام مسلمان یہ سمجھ لیں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ میں توایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال نہیں کر سکتا۔ خط لکھنے والا ایک خط لکھتاہے کہ میں نے ۱۸۸۹ء میں حضرت صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ میں نے ۱۸۹۶ء میں بیعت کی ہے۔ گویا اس لئے ہماری رائے وزن دار ہے کہ ہم نے فلاں سن میں بیعت کی ہے لیکن یہ دونوں شخص ایسے ہیں کہ جب اُنہوں نے بیعت کی ہے ایک ایک یا دودو دفعہ یہاں آئے ہیں۔میں کہتا ہوں ایسے لوگ جو نہ حضرت صاحب کے پاس آئے اور نہ آپ کی صحبت میں رہے وہ اگر ۱۸۸۶ء میں (اگر اُس وقت حضرت صاحب بیعت لیتے) بیعت کر لیتے تو پھر کیا تھا ۳۱۳ میں اسّی فیصدی ایسے ہیں جو میری بیعت میں داخل ہیں پھر ان کا عقیدہ کیوں ان سے وزن دار نہیں ہے۔
ہم حضرت صاحب کو نبی کہتے ہیں اور عَلَی الْاِعْلَان کہتے ہیں۔ مسلم میں آیا ہے کہ ہر نبی کے لئے ایک ایسی دعا ہوتی ہے وہ جس طرح کی جاتی ہے اُسی طرح قبول ہو جاتی ہے۔ ۱۵؎ مجددوں اور محدثوں کے لئے یہ ہرگز نہیں آیا ۔
حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل نے مجھے ایک دفعہ کہا جائوجا کر حضرت صاحب سے پوچھو کہ آپ نے وہ دعا کی ہے یا نہیں؟ میں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ پھر مولوی صاحب نے کہا کہ اب جا کر پوچھو کسی بات کے متعلق وہ دعاکرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ دنیا میں رسول اللہؐ نے بھی وہ دعا نہیں کی تھی ۱۶؎ میں بھی نہیں کروں گا بلکہ قیامت میں کروں گا۔
اگر حضرت صاحب نبی نہیں تھے تو میرے پوچھنے پر آپ مجھے ڈانٹتے کہ میں نبی نہیں ہوں پھر تم مجھ سے یہ سوال کیوں کرتے ہو لیکن آپ نے ایسانہیں کیابلکہ ایسا جواب دیا جو آپ کی نبوت کی تصدیق کرتا ہے۔
ایسی ایسی گواہیوں کے ہوتے ہوئے اگر کوئی ۱۸۸۹ یا ۱۸۹۶ ء میں بیعت کرنے والا اس کے خلاف کہتا ہے تو ہم کہیں گے کہ غلط کہتا ہے۔ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی کہنے پر ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ ایک اور ایک دو ہونے پر ۔یہی وجہ ہے کہ میں غیر مبائعین کو کہتا ہوں کہ مقابلہ پر آکر مباہلہ کر لیں۔ یہ توا ن کے لئے ہے جو کچھ حیثیت رکھتے ہیں اور جو ایسے نہیں ان کو بھی اجازت ہے کہ وہ اپنی طرف سے اعلان کر دیں کہ جو جھوٹا ہے وہ ہلاک ہو جائے۔ اگر ایسا نہیں کرنا چاہتے تو اپنے لیڈر کو میدان میں نکالیں۔ مجھے تو ذرا بھی خیال نہیں آتا کہ حضرت مسیح موعود نبی نہ تھے۔ ہم آپ کے سامنے آپ کو نبی کہتے رہے ہیں۔ ایک دفعہ کسی نے کہا کہ آپ بھی ایسے ہی ہیں جیسے کہ پہلے مجدد تھے؟ آپ لیٹے ہوئے تھے اُٹھ بیٹھے اور کہا کہ میں نبی ہوں اور نبی مبالغہ کا صیغہ ہے۔ مجھ سے پہلے اس اُمت میں کون ایسا ہوا ہے جو کثرت سے غیب کی خبریں دیتا تھا؟ اِس سے معلوم کر لو کہ آپ نبی تھے یا نہیں؟ کوئی آپ کو پہلے مجددوں کی طرح سمجھتا ہے تو دیکھ لے کہ کدھر جا رہا ہے۔
خیرا خیر میں میَں پھر اِس بات کی طرف اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اور یہاں اور باہر کے رہنے والوں کو اِس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ مسئلہ نبوت کے متعلق بار بار اخبار میں مضامین لکھتے رہیں اور نہ صرف حضرت مسیح موعودؑ کی کتابوں سے بلکہ قرآن، حدیث اور آئمہ کے اقوال سے۔ اور یہ مضمون اِس کثرت سے شائع ہوتے رہیں کہ لوگوں کو یاد ہو جائیں اور ایسے یا دہوں کہ جن کے بھولنے کی مرنے تک امید نہ ہو۔
ہمیں کسی سے بغض نہیں اور کسی بات سے خاص تعلق نہیں ہمیں تو خدا تعالیٰ سے غرض ہے ہم اس کے خوش کرنے کے لئے ہر ایک بات کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ہاں دعاکرتے ہیں کہ جس طرح ہمیں اپنے عقائد پر شرح صدر ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ یہی درست عقائد ہیں اِسی طرح ان کو بھی جو ہمارے دوست تھے اِن عقائد کے سمجھنے کی توفیق نصیب ہو تاکہ مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا اظہار کرنے والی ایک متحدہ جماعت تیار ہو اور درمیان سے فتنہ اور فساد دور ہو جائے۔‘‘ (الفضل ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۱۶ئ)
۱؎ المائدۃ: ۹ تا ۱۱
۲؎ القول الفصل صفحہ ۱۲
۳؎ ریویو جلد نمبر ۲ صفحہ ۲۵۷
۴؎ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۳
۵؎ تذکرہ صفحہ ۳۹۱۔ ایڈیشن چہارم
۶؎ الزحزف:۲۰
۷؎ بنی اسرائیل:۹۴
۸؎ بخاری کتاب المغاری باب غزوۃ خیبر
۹؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر
۱۰؎ البقرۃ:۱۴۴
۱۱؎ یہ حضرت ابوذرؓ کا قول ہے۔ بخاری کتاب العلم باب العلم قبل القول و العمل
۱۲؎ تذکرہ صفحہ ۵۲۶۔ ایڈیشن چہارم
۱۳؎ الفتح:۱۱ ۱۴؎ الانفال:۱۸
۱۵ ؎ بخاری کتاب التوحید باب فی المشیٔۃ والارادۃ
۱۶؎ بخاری کتاب التوحید باب فی المشیٔۃ والارادۃ
۳۳
قرآن کریم میں حضرت مسیح موعود کے زمانہ
کے متعلق پیشگوئی
(فرمودہ ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اورسورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل سورہ کی تلاوت کی۔
۱؎
اور فرمایا:۔
’’انسان کی ترقی اور کامیابی کے لئے خدا تعالیٰ نے اِس قدر سامان پیدا کئے ہیں کہ کوئی شخص ان کی حدبندی نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اگر تم اس کی نعمتوں کو شمار کرناچاہو تو تمہاری طاقت میں نہیں کہ اُن کو شمار کرسکو۔ ۲؎
پھر فرماتا ہے کہ سمندر اگر سیاہی ہو جائیں اور تمام درخت قلمیں اور ان سے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو لکھنا شروع کیا جائے تو یہ تمام کے تمام صرف ہو جائیں مگر ۔ ۳؎ اللہ تعالیٰ کے کلمات کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ کے کلمات اس کی تمام پیدا کی ہوئی مخلوق ہے اور وہ تمام انعامات جو اس نے انسان کے نفع اور فائدہ کے لئے پیدا کئے ہیں سب کلماتُ اللہ ہی ہیں انسان کی کیا طاقت ہے کہ ان کی حدبندی کر سکے اور ان کو شمار میں لا سکے۔ پس جب اس کے انعامات غیر محدود ہیں تو انسان کی ترقی کامیدان کس طرح محدود ہو سکتا ہے وہ بھی غیر محدود ہی ہے اس لئے انسان ترقی بھی غیر محدود ہی کر سکتا ہے لیکن ان کے حصول کے لئے پھر غیر محدود محنت اور مشقت کی ضرورت ہے۔ مثلاً کسی مکان کی بیس سیڑھیاں ہیں تو اس پر چڑھنے کے لئے بیس ہی دفعہ ہر سیڑھی پر گزرنے کے لئے کوشش کرنی پڑے گی تو غیر محدود ترقی حاصل کرنے والے کو غیر محدود محنت اور اَن تھک کوشش کی ضروری ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ نے انسان کی ترقی کے لئے بڑے سامان پیدا کئے ہیں پھر ان سامانوں کے ساتھ کچھ ایسے موانع بھی ہوتے ہیں جن کے ذریعہ انسان کوچوکس اور ہوشیار کیا جاتا ہے۔
قاعدہ کی بات ہے کہ تکلیف سے انسان چوکس اور ہوشیار ہوتا ہے اور اس کے برخلاف راحت اور آرام سے غافل اور سست ہوتا ہے اس لئے جتنی تکلیف زیادہ ہواتنا ہی اس کو زیادہ چوکس رہنا پڑتا ہے اور جتنا اس کو زیادہ آرام حاصل ہواُتنا ہی اُس پر زیادہ سستی اور غفلت طاری ہوتی ہے۔ مثلاً شیر کے سامنے اگر کوئی پڑا ہواہو یا کسی اور خوف و خطر کی جگہ میں ہو تو اسے نیند نہیں آتی مگر جب ٹھنڈی جگہ، ٹھنڈا پانی اور نرم بستر پر پنکھا جھلنے والے خدام اس کو میسر آئیں تو بڑی غفلت کی نیند سو جاتا ہے کیونکہ آرام غفلت کا باعث ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نعمت انسان کو غافل کر دیتی ہے مگرا للہ تعالیٰ کے انعامات کے ساتھ کچھ تکالیف بھی ہوتی ہیں جو اُس کو چستی اور ہوشیاری کی طرف لے جاتی ہیں تا وہ انعامات سے راحت اور آرام حاصل کر کے غافل اور سُست نہ ہو جائے۔ جو شخص اِن دونوں باتوں کو مدنظر نہیں رکھتا وہ ترقی اور کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ انسان کو تکالیف سے یہ یقین ہونا چاہئے کہ اس کو غفلت سے بچانے اور سُستی سے دور رکھنے کے لئے ہیں۔ جو اپنے آپ کو ان مشکلات سے بچانا چاہتا ہے وہ غافل اور سست ہو کر ترقی سے محروم رہ جاتا ہے اور ایسے ہی لوگ ہمیشہ ذلیل اور خوار ہوتے ہیں ورنہ خدا تعالیٰ نے انسان کو ذلت اور رُسوائی کے لئے نہیں بلکہ بڑے انعامات کے لئے پیدا کیا ہے۔ لیکن اس میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو مشکلات اور مصائب کو بھی برداشت کرتا ہے۔ اور ان مشکلات اور تکالیف کو انعام کے ساتھ رکھنے کی غرض صرف یہی ہے کہ انسان غافل اور سست نہ ہو جائے۔ پس کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ نہ تو انسان تکالیف سے گھبرائے اور نہ ہی انعامات سے آرام میں پڑ کر خدا تعالیٰ سے غافل ہو جائے۔
اس سورۃ میں خدا تعالیٰ نے ان مشکلات سے بچنے کاایک طریق بیان کیا ہے۔ فرمایا تمہارے راستے میں بڑی مشکلات ہیں۔ ہر ایک اچھی چیز میں بھی انسان کے لئے کوئی نہ کوئی پہلو ٹھوکر کا ہوتا ہے حتیٰ کہ اللہ کی ذات جو انسان کے حق میں بہت مفید اور بابرکت ہے اور ہمیشہ اس کے لئے فائدہ ہی فائدہ چاہتی ہے اس میں بھی یہ ٹھوکر کھا جاتا ہے۔ کبھی ا سکی صفات کو نہ سمجھنے اور کبھی اس کی قدرتوں اور طاقتوں کے نہ جاننے کے باعث وہ گمراہی اور ضلالت کے گڑھے میں گر جاتا اور راہِ راست سے دور جاپڑتا ہے۔ یہی کھانا جو انسان کے لئے قوت اور طاقت کا باعث بلکہ انسانی زندگی کا انحصار اسی پر ہوتا ہے جب کوئی اسے حدسے زیادہ استعمال کر لیتا ہے تو یہی اس کے لئے نقصان دہ اور ہلاکت کا باعث ہو جاتا ہے۔
ہندوئوں کے ہاں شرادھ ہوتے ہیں۔سنا گیا ہے بعض وقت شرطیں لگا لگا کر پنڈت اتنا کھاجاتے ہیں کہ پیٹ پھٹ جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک برہمنی کسی خاندان میں بیاہی گئی ایک روز اس کی ساس نے اُس کو کہا کہ اپنے سسر کے لئے بستر بچھا چھوڑو کہ وہ آج شرادھ کھانے گیا ہے جب کھا کر آتا ہے تو بیٹھ نہیں سکتا۔ یہ سن کر بہو رونے اور پیٹنے لگی کہ میں کن کمینوںکے ہاں بیاہی گئی ہوں ہماری قوم کی تو اُنہوں نے ناک کاٹ دی۔ ساس نے پوچھا تم کیوں روتی پیٹیی ہو؟ کہنے لگی تمہارے ہاں میرے بیاہے جانے سے تو ہمارے خاندا ن کی ناک کٹ گئی ہے۔ ہمارے خاندان سے تو جو کوئی شرادھ کھانے جاتا ہے وہ خود چل کر گھر نہیں آسکتا بلکہ چارپائی پر اُٹھا کر اسے لانا پڑتا ہے اور تم کہتی ہو کہ وہ شرادھ کھا کر آتے ہیں تو بیٹھ نہیں سکتے۔ انہیں تو اتنا کھانا چاہئے کہ چل کر آبھی نہ سکیں۔ کھانا عمدہ چیز ہے مگر دیکھو اس کی بد استعمالی نے اسے لوگوں کو کیسا نکما اور سست کر دیا۔
اسی طرح بعض لباس بھی بڑی سستی اور غفلت کا باعث ہوتے ہیں۔ بعض لوگ تو اس قسم کا لباس استعمال کرتے ہیں کہ ذرا سی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتے ۔جو لوگ کالر لگاتے ہیں وضو کرنا ان کے لئے ناقابل برداشت تکلیف ہو جاتی ہے۔ انہیں یہی فکر د امنگیر ہوتی ہے کہ کالر کو کہیں گیلی اُنگلی نہ چھو جائے، داڑھی کو اچھی طرح دھونا اورخلال کرنا ان کے لئے مصیبت ہوتی ہے اس لئے اکثر تو داڑھی منڈا ہی دیتے ہیں او ر جو رکھتے ہیں وہ بھی بہت چھوٹی۔ اسی طرح پتلون ہے اکثر دیکھاگیا ہے کہ پتلون پہننے والے کو نماز کی صورت بدلنی ہی پڑتی ہے تاکہ کہیں پتلون میں بل نہ آجائے۔ اسی قسم کے لباس انسان کو عیش پسند اور آرام طلب بنا کر سست اور غافل کر دیتے ہیں۔
پھر پینے کی چیزیں ہیں جو کیا جسمانی اور کیا روحانی دونوں رنگ میں انسان کے لئے مضر ہوتی ہیں۔ یہ اس لحاظ سے بُری نہیں کہ خدا نے ان کو بُرا بنایا ہے بلکہ ان میں برائی جو پیدا ہو گئی ہے تو ان کے بد استعمال کی وجہ سے سے پیدا ہو گئی ہے۔
یہ آیات جو میں نے پڑھی ہیںان میں خدا نے یہاں لفظ ہی ایسے رکھے ہیںجو ہر چیز کے شر اور نقصان سے بچنے کیلئے استعمال ہوئے ہیں۔ کہ رَبُّ الْفلق کے حضور تم پناہ مانگو کہ وہ ان تمام اشیاء کے بد نتائج سے جو انسان کی سستی اور غفلت کی وجہ سے پیدا ہو جاتے ہیں تم کو اُن سے محفوظ رکھے۔ پھر چونکہ ظلمتیں بھی انسان کے لئے گمراہی کا باعث ہوتی ہیں اس لئے فرمایا کہ جب تم ظلمت اور اندھیرے میں پڑ جائو تو روشنیوں کا پیدا کرنے والا ربّ ہے اس سے پناہ مانگو تا وہ تم کو ظلمت سے نکال کر روشنی میں لاوے۔ فَلَقْکے معنی پَو پھٹنے کا وقت اور تمام مخلوقات کے بھی ہیں۔ تو فرمایا تم تمام مخلوقات کا جو خدا ہے اس کے حضور پناہ مانگو کہ جو کچھ اس نے پیدا کیا اور اس سے جو بدنتائج پیدا ہو سکتے ہیں اُن سے وہ تم کو محفوظ رکھے کیونکہ تمام چیزیں جو اس کی پیدا کی ہوئی ہیں جب انسان ان کا غلط استعمال کر بیٹھتا ہے تو وہ اس کے لئے مضر اور نقصان دہ ہو جاتی ہیں اس لئے تم کو ان کے پیدا کرنے والے کی طرف توجہ کرنی چاہئے ۔بہت سے انسان ہیں جو عیاشی میں پڑ کر حد سے گزرجاتے ہیں جب اس کے بدنتائج کا منہ دیکھتے اور تکلیف اٹھاتے ہیںتو پھر بے اختیار خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
یورپ کو دیکھو کس قدر ترقی کی، اپنے سامانوں اور اپنی ایجادوں پر کس قدر اس کو ناز اور فخر تھا لیکن آج وہی سامان وہی ایجادیں وہی علوم اس کی ہلاکت کا موجب ہو رہے ہیں۔ ان کو ہر روز یہی فکر لگی رہتی ہے کہ معلوم نہیں سائنس آج کونسا موت کا آلہ ہمارے لئے تیار کرتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ جس قدر اشیاء پائی جاتی ہیں اگر ان سے نفع حاصل ہوتا ہے تو ضرر بھی ان میں ضرور ہے اس لئے ان کے پیدا کرنے والے کی طرف توجہ کرنی چاہئے تاکہ ان کے نقصانات سے محفوظ رہیں۔ آرام کے وقت انسان کم ہی نعمت کی قدر کرتا ہے۔ جب تک آنکھوں میں نور ہے دوسروں کی عیب چینیاں کرتا اور جب بینائی جاتی رہتی ہے تو پھر پشیمان ہوتا اور افسوس کرتا ہے۔ جب تک زبان میں قوت ذائقہ ہے کہتا ہے فلاں چیز کا ذائقہ اچھا نہیںفلاں چیز بدمزہ ہے لیکن جب زبان کی وہ قوت ہی جاتی رہتی ہے تو کہتا ہے کاش! معمولی مزہ ہی زبان میں ہو۔
پس ان تمام اشیاء میں جو شرور ہیں ان کو او رجوجو اُن میں تکالیف ہیں اِن کو دیکھتے ہوئے رَبُّ الْفَلَقِ ہی تمہارا ملجاء وماوٰی ہونا چاہئے اور اُسی کے حضور پناہ لے کر تم ان مشکلات کے بدنتائج سے بچ سکتے ہو۔ تو فرمایا پناہ مانگو یعنی خالق اشیاء کے حضور۔ جو کچھ بھی اس نے پیدا کیا ہے اس کے شر سے تاکہ جو ان اشیاء کی بد استعمالی کی وجہ سے بد نتائج پیدا ہونے والے ہوں اُن سے وہ تم کو محفوظ رکھے اور پناہ مانگو یعنی روشنی کے پیدا کرنے والے کے حضور ۔ تمام اندھیروں کے شرور سے۔ اندھیرے وہ ہیں جو انسان اپنی غفلت کے باعث مختلف نامرادیاں اور ناکامیاں دیکھتا ہے اور شرور سے مراد دکھ اور تکلیفیں ہیں۔ جب انسان صرف انہی اشیاء سے تعلق لگا کر یہ سب مصائب دیکھتا اور دکھ اٹھاتا ہے تو مجبور ہو کر اس کو خدا کی طرف توجہ کرنی پڑتی ہے۔
میرے نزدیک اس سورۃ فاتحہ میں حضرت مسیح موعود کے زمانہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اور یہ وہی وقت ہے جس کا اس میں ذکر کیاگیا ہے کیونکہ آج ہی وہ زمانہ آیا ہے جس میں ہر قسم کے شر اور اندھیرے رونما ہوئے ہیں۔ فساد کی کوئی حد نہیں، حسد نے دلوں کو کھا لیا ہے، بغاوت نے راحت و آرام کھو دیا ہے ان سب امور کی بد انجامیوں سے بچنے کے لئے جو لوگوں کی بداستعمالیوں کی وجہ سے پیدا ہو گئے ہیں صرف یہی صورت ہے کہ تم خدا کی طرف۔ دوڑو اور یہ فساد اسی لئے اُٹھے ہیں کہ تا تم اس کی طرف جھکو۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ ان نقصانات کو دیکھ کر بے اختیار اس وقت کہہ اُٹھیں گے ہم تیری ہی پناہ میں آتے ہیں۔ جس قدر ہم اِن اشیاء کی طرف جھکے اُسی قدر تجھ سے دور ہوئے اب ان سے نقصان اُٹھا کر پھر تیری طرف ہم متوجہ ہوتے ہیں تو ہماری دستگیری فرما۔
میں سمجھتا ہوں مسلمانوں کے لئے یہ سورۃ بڑی قابل توجہ ہے۔ا ن کا نور کو چھوڑ کر ظلمت کی طرف جانا پھر آپس میں حسد ، بغض اور عداوت، ایک دوسرے کے خلاف منصوبے کرنا یہی ہمیشہ ان کی ہلاکت کا باعث ہوئے۔ حضرت صاحب بارہا ان کو ان الفاظ سے مخاطب کرتے کہ دیکھو کہ تمام اشیاء تمہارے لئے ہلاکت کا باعث ہور ہی ہیں طاعون نے تمہاری زندگیاں تلخ کر دی ہیں، قحط سالی نے تمہاری آنکھوں کے آگے دنیا اندھیر کر دی ہے، تم جس طریق سے عزت چاہتے ہو اُس سے تمہارے لئے ذلت کا سامنا ہوتا ہے۔ تم چاہتے ہو عروج ہو اور ہوتا زوال ہے غرض جو اَسباب بھی تم استعمال میں لاتے ہو تمہارے خلاف ہی نتائج پیدا کرتے ہیں تو پھر تم اب بھی کیوں نہیں خدا کی طرف رجوع کرتے!! مگر مسلمانوں کی طرف سے یہی جواب ملتا رہا قحط اور بیماریاں ہمیشہ ہوتی آئی ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ معلوم ہوتا ہے ان کی قسمت میں ابھی اَور بہت کچھ مصائب لکھے ہیں۔ جب تک وہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں خدا کی طرف رجوع نہیں لائیں گے۔
میں نے ایک ٹریکٹ بنگال میں تقسیم کرنے کے لئے شائع کیا تھا۔ ایک شخص نے اُسے پڑھ کر مجھے خط لکھا کہ تم جو اِس بات پر زور دیتے ہو کہ مہدی آگیا ، مسیح آگیا ، مہدی کس طرح آسکتا ہے جبکہ ابھی ایک حکومت مسلمانوں کی باقی ہے۔ چند ہی روز گزرے کہ ترک بھی شریک جنگ ہو گئے اور خدا نے کہا کہ یہ برائے نام حکومت اور تھوڑی سے نعمت بھی جو تم رکھنا نہیں چاہتے وہ بھی ہم چھین لیتے ہیں۔ اب تک بہت سا علاقہ ان کے قبضہ سے نکل چکا ہے۔ اگر بفرضِ محال جنگ کے خاتمہ تک وہ بچ بھی رہے تو کیا طاقت باقی رہے گی؟ نہ ہونے کے برابر ہو گی۔
ہماری جماعت اس لحاظ سے تو ترقی پر ہے کہ دنیا کی محبت سے ان کے دل سردہیں مگر اس سورۃ کے پچھلے حصے سے مجھے خوف آتا ہے کہ ابھی تک یہ بات ان میں پیدا نہیں ہوئی۔ حسد اور عداوت ذرا ذرا سی باتوں پر لڑائیاں اور جھگڑے پیدا ہوجاتے ہیں۔ کے معنی چپکے سے کانوں میں کچھ پھونک دینا۔ وہ لوگ ہیں جو چپکے چپکے ایک دوسرے کے کان میں کچھ کہہ کہلا کر تعلقات اور دوستیاں تڑوا دیتے ہیں اور بجائے دوست کے ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتے ہیں۔ سچی دوستی اور محبت دنیا میں ہی مفید نہیں ہوتی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دنیا میں سچی دوستی اور محبت کرنے والے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے عرش کے سایہ کے نیچے ہوں گے ۔ تو فرمایا ان کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے بھی تم اللہ ہی کے حضور پناہ مانگو۔
ہماری جماعت کو اس بات کی طرف بہت کم توجہ ہے اللہ تعالیٰ ہم کو تمام اشیاء کے بد نتائج سے محفوظ رکھے اور ہم کو ہر قسم کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف راہنمائی کرے اور کوئی شخص ہم میں دوستیوں اور محبتوں کو قطع کرنے والا نہ ہو اور ایک دوسرے کی ترقی کو دیکھ کر ہمارے دل میں حسد پیدا نہ ہو بلکہ ہم خوش ہوں کہ ہمارے بھائی کو خدا نے یہ ترقی دی ہے۔‘‘
(الفضل ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۱۶ئ)
۱؎ الفلق: ۲ تا آخر ۲؎ النحل: ۱۹ ۳؎ لقمان: ۲۸
۳۴
دیگر مذاہب پر اسلام کی فضلیت
(فرمودہ ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اورسورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی:۔
۱؎
اور فرمایا:۔
’’اسلام کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دیگر مذاہب پر جو فضیلتیں حاصل ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں ایسے مسائل جو ہیں تو جزوی لیکن تمدن یا اخلاق یا عظمت الٰہی یا اللہ تعالیٰ کی محبت کے پیدا کرنے میںاُن کا بڑا دخل یا اثر ہے ان کو بالتفصیل بیان کرتا ہے اوریہ فضلیت ایک ایسی بین اور روشن فضیلت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی جبکہ ابتدائی زمانہ تھا اور لوگوں کا حسد اور بغض بہت بڑھا ہو اتھا اور بعد میں بھی جبکہ اسلام کے متعلق مخالفین کے دلوں میں غصہ اور کینہ بہت سرایت کر گیا تھا اِس کو تسلیم کیا گیا ہے۔ چنانچہ یہود کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ ان کو اس بات کا اقرار تھا اور وہ یہ کہتے کہ اسلام نے جس تفصیل سے باتیں بیان کی ہیں اور کسی مذہب نے نہیں کیں۔ ۲؎ گویا ان کو اسلام کی ایسی باتوں پر رشک آتا ہے اور کسی نے کہا ہے اَلْفَضْلُ مَاشَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ کہ خوبی وہی ہوتی ہے جس کا اقرار دشمن کرے۔ تو دشمنوں نے بھی اِس بات کا اقرار کیا ہے کہ اسلام میں جزوی مسائل کے متعلق بھی اس طرح کھول کھول کر بتا دیا گیا ہے جن سے مسلمان بہت فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ اس زمانہ میں مسلمانوں کے دین سے بعد ہو جانے کی وجہ سے وہ تمدن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے قائم کیا تھا بہت کمزور ہو رہا ہے اور باوجود اس کے کہ اسلام نے تمام مسائل کو ایسے تفصیلی رنگ میں بیان کر دیا ہے کہ جس کی نظیر کسی اَور مذہب میں نہیں پائی جاتی تاہم مسلمان دن بدن گرتے جارہے ہیں۔ احکام کے لحاظ سے تو کسی مذہب کی کوئی کتاب قرآن کریم اور احادیث کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن اب مسلمان عمل کے لحاظ سے تمام لوگوں سے پیچھے ہیں۔ وحشت ، خود پسندی،لڑائی جھگڑے ان میں بہت بڑھ گئے ہیں۔ مدنیت کو چھوڑ کر بدویت کی طرف جھک گئے ہیں۔
اسلام تمدن سکھانے والا مذہب ہے اور انسان کوتمدن سے وابستہ کر دیتا ہے اس کا ثبوت اس سے ہی ملتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فتن کے وقت مومن کو چاہئے کہ جنگل میں چلا جائے۔ ۳؎ یعنی ایسے وقت جبکہ ضلالت اور گمراہی حد سے بڑھ گئی ہو اور اس کا علاج سوائے خدا کے کسی فرستادہ کے اَور کوئی نہ کر سکتا ہو تو چاہئے کہ عام لوگوں سے علیحدہ ہو جائے۔ اس سے پتہ لگا کہ مومن کا اصل کام تو یہی ہے کہ لوگوں میں رہے، ان سے تعلقات رکھے ہاں سخت تاریکی کے وقت اسے علیحدہ ہو جانا چاہئے۔ اگر ایسی حالت نہ ہو تو پھر یہی بہتر اور ضروری ہے کہ لوگوں میں رہے۔ تمدنی تعلقات بڑھائے، انہیں اسلام کی تعلیم دے، تو تمدن اور اسلام دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں جہاں اسلام ہو گا وہاں تمدن بھی ہو گا۔ ہاں اگر کوئی اسلامی احکام کے خلاف کرتا ہے اور پھر تمدن نہیں رہتا تو یہ اسلام کا قصور نہیں بلکہ اس کا اپنا قصور ہے۔ا گر کوئی شخص کھانا نہ کھائے اور کہے کہ میرا پیٹ نہیں بھرتا تو ہم کہیں گے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کھانا کھائے بغیر پیٹ بھر جائے۔ ہاں اگر کوئی کھانا کھائے جائے اور پھر پیٹ نہ بھرے تو پھر یہ اسے کہنے کا حق ہو سکتا ہے کہ یہ کھانا ہی ردّی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی قوم اسلامی قواعد پر عمل ہی نہیں کرتی تو اس کی کمزوری اور نااہلی اسلام کی کمزوری نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ اس پر عمل ہی نہیں کرتی ہاں اگر وہ عمل کرے اور درست طریق سے عمل کرے پھر کمزور کی کمزور ہی رہے تو کہا جائے گا کہ اس تعلیم کا نقص ہے لیکن اِس وقت تک دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہوئی کہ جو اسلام کے بتائے ہوئے قوانین تمدن پر چلی ہو اور پھر وہ اعلیٰ درجہ کی متمدن نہ ہو گئی ہو۔ اِس زمانہ میں مسلمانوں کی جو حالت ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اسلامی قواعد پر عمل نہیں کرتے اور ان سے دور چلے گئے ہیں۔
تمام ہندوستان میں یہ بات نظر آتی ہے کہ مسلمان اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنے کو عیب سمجھتے ہیں اور بہت ایسے ہیں کہ جن کو اگر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہہ دیا جائے تو لڑ پڑتے ہیں کہ کیا ہمیں تم دھنیا یاجو لاہا سمجھتے ہو۔ گویا ان کے نزدیک اَلسَّلَامُ ایک ایسی معیوب بات ہے جو صرف جولاہوں اور دھنیوں کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے دوسروں کے لئے نہیں۔ بعض اسلامی ریاستوں میں تو یہ حکم جاری کر دیا گیا ہے کہ والئی ریاست کو ا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمکہنا ہتک سمجھی جائے گی اور اگر کسی نے کہا تو اسے سزا دی جائے گی ہاں کورنش بجا لانا چاہئے۔ چنانچہ ممکن نہیںکہ جو لوگ ایسے والیانِ ریاست کوملنے جاتے ہیں اس کے خلاف کر سکیں وہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمکبھی نہیں کہہ سکتے کہ اس سے ہتک سمجھی جاتی ہے۔اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ مسلمان کہاں تک اسلام سے دور ہو گئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ان میں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہنے کا رواج اور عمل نہیں رہا بلکہ اس پر عمل کرنا ہتک سمجھا جاتا ہے اور جہاں انہیں اختیار حاصل ہے وہاں اس پر سزا دینے کے لئے تیار ہیں۔ پھر اگر کوئی لاعلمی کی وجہ سے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمکہہ دے تو کہتے ہیں کہ یہ کیا پتھر کی طرح اُٹھا کر مار دیا۔ کیا تم میں اتنی بھی تہذیب نہیں کہ بڑوں کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمکہتے ہو۔ ’’آداب عرض‘‘ کہنا چاہئے اس پر وہ خوش ہوتے ہیں۔
ایک دفعہ ہم دہلی گئے۔ جن کے گھر ہم ٹھہرے ہوئے تھے ان کا ایک چھوٹا سا لڑکا تھا اس کو میں نے علیحدہ لے جا کر خوب اچھی طرح سکھا دیا کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہا کرو آداب عرض نہ کہا کرو۔ ایک دفعہ ہم باہر سے جو گھر آئے تو اس لڑکے نے کہا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم ہم نے وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ کہا۔ تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ ایک کونہ سے اس بچے کے رونے کی آواز آرہی ہے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کی اماں اس بچے کو آہستہ آہستہ اس لئے مار رہی ہے کہ تم نے بڑوں کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کیوں کہا۔ ہم نے کہا اس بیچارے کا کوئی قصور نہیں یہ تو ہم نے ہی اسے سکھایا ہے۔ تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہنا بڑی ہتک سمجھی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ شرفاء کا طریق نہیں ہے حالانکہ اصل میں یہی شرافت ہے۔ ’’آداب عرض‘‘ کے معنی ہی کیا ہوئے ایک فضول اور لغو سا فقرہ ہے لیکن اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہنے میں دعا کی جاتی ہے۔ یہ کہنے والاکہتا تویہ ہے کہ تجھ پر سلامتی ہو لیکن اس فقرہ کا رنگ بدلا ہوا ہے تاکہ آپس میں محبت اور اُلفت کا اظہار ہو۔ اصل میں اس کے یہ معنی ہیں کہ اے اللہ تو اس بندے پر سلامتی نازل کر۔ اب دیکھ لو کہ یہ کہنے سے نیک نتائج نکل سکتے ہیں یا آداب اور تسلیمات کہنے سے۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمکہنا تو ایک دعا اور خواہش ہے جو خدا تعالیٰ سے کی جاتی ہے لیکن دوسرے صرف الفاظ ہی الفاظ ہیں معنی کچھ نہیں رکھتے اس لئے جو برکت دعا میں ہے وہ ان میں کہاں ہو سکتی ہے مگر باوجود اس کے مسلمانوں نے اسے ترک کر دیا ہے اور آج سے نہیں بلکہ آج سے بہت عرصہ پہلے سے مدت ہوئی ایک سیاح ابن بطوط ہندوستان میں آئے تھے وہ لکھتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہنے کا طریق نہیں رہا اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
اگرچہ یہ اور اسی قسم کی اَور چھوٹی چھوٹی باتیںہیں لیکن درحقیقت یہ بہت بڑی بڑی ہیں۔ یہی دیکھ لو السلام علیکم کہنا ایک معمولی سی بات ہے لیکن نتیجہ کے لحاظ سے کس قدر عظیم الشان ہے۔ دن میں ایک انسان کئی بار دوسروں سے ملتا ہے اگرو ہ تمام کے تمام اسے کہیں کہ خدا کی طرف سے تجھ پر سلامتی ہو تو خیال کر لو کہ اسے کتنا فائدہ ہو سکتا ہے۔لیکن اگر اسے ہزار انسان بھی آداب ، تسلیم اور بندگی وغیرہ کہے تو سوائے اس کے کہ یہ لغو فقرات اس کے سامنے دہرائے جائیں گے اَور کچھ نہیں ہو گا۔
آجکل مسلمان تمدن سے بہت دور ہو چکے ہیں اور اسلام کو چھوڑ کر اَور طرف نکل گئے ہیں اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہنے کو ہتک سمجھتے ہیں حالانکہ اس کی بجائے آداب ، تسلیمات وغیرہ جتنے الفاظ رکھے گئے ہیں و ہ سب لغو ہیں اور سلام ایک دعا ہے لیکن یہ مسلمان میں سے مٹ گئی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبات میں اس قسم کی باتوں کو بھی عام طور بیان کرتے تھے تاکہ لوگ ناواقفیت کی وجہ سے صداقت سے دُور اور ان کے فوائد سے محروم نہ رہ جائیں جو پاک تعلیم پر عمل کرنے سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ آج مجھے بھی خیال آیا کہ ایسی باتیں جو بظاہر چھوٹی چھوٹی معلوم ہوتی ہیں لیکن ان کا نتیجہ بہت بڑا نکلتا ہے انہیں بیان کیا جائے تاکہ اگر ہماری جماعت میں سے بھی کوئی ان سے ناواقف ہو تو وہ واقف ہو جائے۔ خدا کے فضل سے ہماری جماعت میں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمکہنے کا طریق بہت عمدگی سے رائج ہے گو ہندوستان سے آنے والے لوگوں میں کچھ کمی ہے ایسے لوگوں کو فائدہ پہنچ جائے گا۔ پھر اپنی جماعت کے لوگ دوسرے لوگوں کو یہ باتیں آسانی سے سکھا سکیں گے کیونکہ ہر ایک شخص کو خواہ کوئی ہو نیکی سکھانا اور شریعت اسلام سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے اور خاص کر غیر احمدیوں کو کیونکہ جب وہ شریعت سے واقف ہوں گے اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ واقفیت ہمیں احمدی جماعت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے اس لئے وہ احمدی بھی ہو جائیں گے اور یہ ایک ذریعہ ہو گا ان کے احمدی ہو نے کا۔ تو جو لوگ ہماری جماعت میں سے ان باتوں پر عمل کرتے ہیں میرے بیان کرنے سے ان کے دلوں میں خاص اہمیت گڑ جائے گی اور وہ دوسروں کو سمجھانا ضروری سمجھیں گے اور جو ناواقفیت اور لا علمی کی وجہ سے ان پر عمل نہیں کرتے وہ عمل کر کے فائدہ حاصل کریں گے۔
میں نے اِس وقت جو آیتیں پڑھی ہیں ان میں خد اتعالیٰ نے دو ایسے حکم دئیے ہیں جو اگرچہ شریعت کے قوانین نہیں ہیں تمدن سے تعلق رکھتے ہیں مگرا ن پر بہت زور دیا گیا ہے کیونکہ ان کا اثر دین پر پڑتا ہے وہ حکم یہ ہیں۔
اوّل یہ کہ جب کسی مکان میں داخل ہونے لگو تو داخل ہونے سے پہلے مکان میں رہنے والے سے اجازت حاصل کرلو۔ اگر وہ اجازت دے دیں تو داخل ہو جائو۔
دوم یہ کہ جب مکان میں داخل ہو جائو تو انہیں سلام کرو۔
پہلے حکم کے متعلق یہ اور فرمایا کہ اگر اندر آنے کی اجازت نہ ملے تو پھر داخل مت ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی اور تشریح فرماد ی ہے۔ قرآن کریم نے کہا ہے کہ پہلے اِذن مانگو اَور پھر اگر اجازت پائو تو مکان میں داخل ہو اور اگر اجازت نہ ہو تو نہ داخل ہو۔ اس اِذن مانگنے کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تشریح فرمائی ہے کہ یہ اِذن تین دفعہ مانگو ۔تین دفعہ کے بعد اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ آئو۔ ۴؎ یہ نہیں کہ بار بار آوازیں دیتے یا کنڈی کھٹکھٹاتے رہو۔ا گر کسی کو داخل ہونے کی اجازت مل جائے تو اس کے لئے قرآن کریم نے یہ دوسرا حکم دیا ہے کہ ۔ اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَا تَدْ خُلُوا الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا وَلَا تُؤْمِنُوْا حَتَّی تَجَابُّوْا۔ اَوَلَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی شَیْئٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ اَفْشُوْا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ ۵؎ کہ اسی ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم جنت میں نہیں داخل ہو سکتے جب تک مومن نہ ہو اور مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو۔اورکیا میں تمہیں آپس میں محبت کرنے کی ترکیب بتائوں؟ وہ یہ کہ آپس میں سلام خوب پھیلائو یعنی کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کہو۔
اجازت مانگنے کے متعلق فرمایا کہ تین دفعہ مانگو۔ یہ بات بھی اپنے اندر بہت بڑی حکمت رکھتی ہے ۔بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ کسی کے دروازہ پر جا کر ایک بار کھٹکھٹائیں گے یا آواز دیں گے اگر کوئی آواز نہ آئے تو پھر ایسا ہی کریں گے حتی کہ گھنٹہ گھنٹہ اسی طرح کرتے رہیں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کرنے سے منع فرمایا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ تین دفعہ آواز یا دستک دو پھر اگر جواب نہ ملے تو واپس آجائو کیونکہ اندر سے اگر کوئی جواب نہیں دیتا تو اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ممکن ہے وہ گھر ہی نہ ہو یا اگر گھر میں ہو تو سویا ہوا ہو۔ اس صورت میں اگر کوئی بار بار آواز دیتا ہے تو اُس کی نیند خراب ہو گی اس لئے اس طرح کرنا پسندیدہ بات نہیں۔یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اس آدمی سے ملنا ہی پسند نہیں کرتا یا اس سے بات کرنا نہیں چاہتا اس لئے کوئی جواب بھی نہیں دے سکتا۔یا کسی ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ جواب نہیں دے سکتا۔ا ن تمام صورتوں میں بار بار آواز دینا یا کنڈی کھٹکھٹانا بہت معیوب اور ناپسندیدہ بات ہے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین دفعہ آواز پہنچا کر اجازت لینی چاہئے اگرمل جائے توا ندر چلے جائو اور اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جائو یہ نہیںکہ جب تک اندر سے کوئی آواز نہ آئے ٹلنا ہی نہیں۔ اجازت نہ ملنے کے دونوں معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کوئی کہہ دے کہ آپ اندر نہ آئیں اِس وقت فرصت نہیں۔ دوسرے یہ کہ کوئی جواب ہی نہ آئے ان دونوں صورتوں میں واپس لَوٹ جانا چاہئے۔
پھر سلام کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی کثرت کرنی چاہئے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس طرح آپس میں محبت پیدا ہو گی۔ جب کوئی دوسرے کے لئے سلامتی کی دعا کرتا ہے تو ضرور ہے کہ اس کے دل میں محبت ہو اور جوں جوں وہ زیادہ دعا کرے وہ محبت بھی بڑھتی جائے گی۔ آجکل تو بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے معنی ہی نہیں سمجھتے ایسے لوگوں کے دلوں میں اگر ایک دوسرے کی محبت پیدا نہ ہو تو اَور بات ہے لیکن جو سمجھتے ان میں ضرور محبت پیدا ہوتی اور بڑھتی جاتی ہے اور جب ایک انسان دوسرے کے لئے دعا کرے گا تو خود اس کے لئے بھی اوردوسرے کے لئے بھی وہ دعا بہت سے فوائد اور برکات کا موجب ہو گی۔ا للہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بہت محبت اور پیار کرتا ہے اس لئے جو کوئی اس کی مخلوق سے محبت کرتا ہے اس سے وہ بھی محبت کرتا ہے۔ تو ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کہنے کی وجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی کہ تمہاری آپس میں محبت ہو گی اور آپس کے تعلقات درست ہوں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہیں ایمان حاصل ہو گا اور جب ایمان حاصل ہو گا تو جنت میں داخل ہو جائو گے۔
اس سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہئے جو اپنا کام یہی سمجھتے ہیں کہ دوسروں سے لڑیں اور ایک دوسرے کو لڑائیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کوئی شخص اُس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتا جب تک اس میں ایمان نہ ہو اور ایمان اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ آپس میں محبت نہ ہو اور محبت پیدا کرنے کا طریق ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کہنا ہے۔
لڑائی فساد سے ایمان کو بہت صدمہ پہنچتا ہے۔ بہت سے خاندان ایسے ہیں کہ باوجود ایک مذہب کو سچا سمجھنے کے دوسروں کی دشمنی اور عداوت کی وجہ سے اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ میں نے اِسی فتنہ پر غور کیا ہے جو ہماری جماعت میں پیدا ہواہے۔ اس میں شامل ہونے والے وہی لوگ ہیں جن کو ذاتی عداوتیں اور رنجشیں تھیں۔ ایک آدمی کی نسبت تو مجھے خوب معلوم ہے اس نے سمجھا ہوا تھا کہ ہمارے خاندان نے کسی موقع پر اس کے ساتھ ہمدردی نہیں کی تھی۔ میں اُس وقت جبکہ اسے وہ واقعہ پیش آیا گھر موجود نہیںتھا کہیں گیا ہوا تھا واپس آکر میں نے اس شخص کو ہمدردی کا خط لکھا جس کا اس نے یہ جواب دیا کہ آپ نے میرے ساتھ بہت ہمدردی کی ہے لیکن فلاں فلاں نے نہیں کی،ان کی یہ بات مجھے مرنے تک نہیں بھولے گی۔ا فسوس کہ یہ خط محفوظ نہ رکھا گیا ورنہ آج خوب کام دیتا۔ ایک اور نے کہا کہ اگر اور کوئی خلیفہ ہوا تو اس کی تو ہم بیعت کر لیں گے لیکن میاں محمود کی بیعت تو خواہ کچھ ہی ہو نہیں کریں گے۔ یہ تو کل کی باتیں ہیں بنی اسرائیل کو دیکھو اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اِسی لئے نہ مانا کہ یہ ہم میں سے نہیں۔ تو دشمنی اور عداوت کا بہت خطرناک نتیجہ ہے اور اسی وجہ سے کئی لوگ بے دین ہو جاتے ہیں۔
کل ہی ایک شخص کا خط آیا ہے۔ چند دن ہوئے وہ یہاں آیا تھا کہتا تھا کہ مجھے میرا پوتا دے دیا جائے۔ میں نے کہا بچہ کا رکھنا ماں کا حق ہے اگر وہ لے جانے کی اجازت دیتی ہے تو لے جائو۔ اب اس نے جا کر لکھا ہے کہ تم نے قرآن ہی نیا بنا لیا ہے۔ اس کو ایک معمولی بات سے صدمہ پہنچا کہ کیوں خواہ بچے کی ماں روتی اور چلاتی ہی رہتی مجھے بچہ چھین کے نہیں دے دیا گیا اس وجہ سے اس نے لکھ دیا کہ تم نے قرآن ہی نیا بنا لیا ہے۔ اس سے پہلے تو میں جو کچھ کہتا اور کرتا تھا اسے وہ قرآن کریم کے مطابق سمجھتا تھا لیکن اس بات کے فوراً ہی بعد جو کچھ میں کرتا یا کہتا ہوںوہ قرآن مجید کے خلاف ہو گیا ہے اور میں نے نیا قرآن بنا لیا ہے۔ میری ہر بات اسے بُری لگنے لگ گئی ہے۔ تو دنیاوی عداوتوں کا ایمان پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے اورجب ایمان ہو تو انسان جنت سے محروم رہ جاتا ہے۔دیکھو یہ چھوٹی سی بات تھی مگر انجام کس قدر بڑا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سلام کہنے کا نتیجہ آپس میں محبت ہو گی اور محبت کا نتیجہ ایمان ہو گا اور ایمان کا نتیجہ جنت میں داخل ہونا ہو گا۔ اِس کا اُلٹ یہ ہوا کہ سلام نہ کہنے کا نتیجہ تفرقہ ہو گا اور تفرقہ کا نتیجہ ایمان کا سلب ہونا ہو گا اورایمان کے سلب ہونے کا نتیجہ جنت میں داخل نہ ہونا ہو گا۔ تو سلام کہنا معمولی بات تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان جنت سے ہی محروم ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس بات کو معمولی کر کے نہیں چھوڑ دیا بلکہ بیان کیا ہے اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور دنیا میں کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں اس تفصیل سے بیان کیا گیا ہو صرف اسلام کو ہی یہ شرف حاصل ہے ۔ اس بات پر اگر غیر مذاہب والے رشک کریں تو کیا تعجب کی بات ہے لیکن تعجب ہے ان مسلمانوں پرجو باوجود ایسی تعلیم کے پھر اس پر عمل نہیں کرتے۔
اسلام نے نہایت تفصیل سے کہہ دیا ہے کہ جب کسی کے ہاں جائو تو جا کر آواز دو یا دروازہ کھٹکھٹائو جب اندر سے اجازت مل جائے تو داخل ہو اجازت کے بغیر نہیں۔ اور یہ بھی نہیں کہ اگر کوئی جواب نہ آئے تو الخاموشی نیم رضا پرعمل کر کے اندر چلے جائو۔ یہ کسی کا قول ہے جو بہت دفعہ غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ اسلام نے کنواری لڑکی سے نکاح کے متعلق پوچھنے پر خاموشی کو رضامندی قرار دیا ہے ۶؎ لیکن ہر جگہ یہ بات درست نہیں ہو سکتی۔ پھر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گھر والا پوچھتا ہے کون ہے؟ اس کی یہ وجہ ہوتی ہے کہ بعض خاص آدمی ہوتے ہیں ان کے ملنے کے لئے اگر کوئی کام کا حرج بھی کرنا پڑے تو کر دیاجاتا ہے لیکن بعض کے ساتھ ملنا ضروری نہیں ہوتا اس لئے دریافت کیا جاتا ہے تاکہ جیسا آدمی ہو ویسا اسے جواب دیا جائے۔ اس طرح پوچھنے پر آگے سے یہ جواب ملتا ہے کہ میں ہوں۔ ایک دفعہ کسی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر دستک دی۔ آپؐ نے فرمایا ۔ مَنْ ؟ دستک دینے والے نے کہا اَنَا۔ یعنی میں ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کیا میں میں نہیں ہوں؟ یہ کہنے سے میں تم کو کس طرح پہچان لوں؟ ۷؎ پس اگر پوچھا جائے تو اپنا نام بتانا چاہئے تا پوچھنے والا پہچان لے کہ کون ہے۔
پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دستک دے کر دروازہ کے سوراخوںسے دیکھتے رہتے ہیں کہ اندر کیا ہور ہا ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر دستک دینے والے نے اس طرح کیا۔ آپؐ نے فرمایا یہ مجھے بعد میں پتہ لگا ہے اگر میں اُس وقت دیکھ لیتا تو اس کی آنکھیں پھوڑ دیتا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مکان پر جا کر دستک دیتے تو اُس کے دوسری طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاتے اور جب اندر سے کوئی آتا تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہہ کر اس کی طرف لوٹتے۔ ۹؎ اس طرح کرنا بھی نہایت ضروری ہوتا ہے۔ کئی مکان ایسے ہوتے ہیں کہ ایک ہی کمرہ میں تمام گھر کے آدمی ہوتے ہیں جب اس کا دروازہ کھلتا ہے تو سامنے مستورات بیٹھی ہوتی ہیں اگر کوئی دروازہ کے سامنے منہ کر کے کھڑا ہو گا تو اس کی نظر ضرور اندر پڑ ے گی اور اس طرح بے پر دگی ہو گی۔ اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں یا بائیں طرف مڑ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔
یہ وہ آداب ہیں جو شریعت اسلام سکھاتی ہے۔ گو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن اگر ان پر عمل کیا جائے تو نہایت ہی سکھ اور آرام کی زندگی حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ اسلام کا ہر ایک حکم بہت مفید اور فائدہ رساں ہوتا ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو پھر بھی ان احکام پر جو تمدن کے متعلق ہیں کبھی کبھی بیان کرتا رہوں گا تاکہ وہی باتیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے بتائی ہیںان پر ہماری جماعت عمل کرے اور دوسروں سے عمل کرائے۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دے۔
(الفضل ۴؍ نومبر ۱۹۱۶ئ)
۱ ؎ النور:۲۸،۲۹
۲؎ بخاری کتاب الایمان باب زیادۃ الایمان و تنقیصہ
۳؎ بخاری کتاب الفتن باب التعرب فی الفتن
۴ ؎ بخاری کتاب الاستئذان باب التسلیم و الاستئذان ثلاثا
۵؎ مسلم کتاب الایمان
۶؎ بخاری کتاب النکاح باب لاینکح الاب وغیرہ البکرو الثیب اِلّابِرَضَاھَا
۷؎ بخاری کتاب الاستئذان باب اذا قال من ذافقال اَنَا
۸؎ صحیح مسلم کتاب الادب باب تحریم النظر فی بیت غیرہٖ
۹؎ سُنن ابی داؤد کتاب الادب باب کم مرۃ یسلم الرجل فی الاستئذان
۳۵
دعا کے ساتھ سامان سے کام لینا بھی ضروری ہے
(فرمودہ ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے ہی جو کام ہوتا ہے ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے ارادے اور منشاء کے ماتحت بنی نوع انسان کے لئے کچھ قوانین بھی مقرر فرمائے ہیں اگر انسان ان سے ایک طرف ہو جاتا ہے تو دکھ اُٹھاتا ہے۔ اس میں تو کچھ شک نہیں کہ دعا اور توکل کا مسئلہ ایک اہم اور ضروری مسئلہ ہے اور یہ بات بالکل درست ہے کہ جو کچھ دعا کر سکتی ہے وہ کوئی اور چیز نہیں کر سکتی۔اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ سامان کو بھی اس میں بڑا دخل ہے۔ ہاں صرف سامان پر ہی بھروسہ کر لینا کہ جو کچھ ہو سکتا ہے بس اِنہی کے ذریعہ ہو سکتا ہے یہ شرک ہے۔ا یک حدیث میں آیا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا اَتَعْلَمُوْنَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ صحابہؓ نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں ہمیںتو علم نہیں۔ آپؐ نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَوْئٍ کَذَاوَکَذَا کہ جس نے کہا بارشیں فلاں فلاں ستارے کے اثر سے ہوتی ہیں اور یہ بارش جو ہوئی تو اس لئے ہوئی کہ اس ستارے نے اپنا اثر کیا۔ ایسا شخص کَافِرٌ بِیْ وَ مُؤْمِنٌ بِالْکَوَاکِبِ۱؎ وہ میرا تو کافر ہوتا ہے لیکن ستاروں پرا یمان لانے والا ہوتا ہے۔ لیکن اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ موسموں پر کواکب کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ چاند اور سورج بھی کواکب میں سے ہی ہیں اور ان کا موسموں کے ساتھ بڑا بھاری تعلق ہے مگر باوجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بارش فلاں فلاں ستارے کے اثر سے ہوئی وہ اللہ کے کافر ہیں اور ستاروں کے مومن۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ستاروں کے تغیرات کا کوئی اثر ہی نہیں۔ بعض لوگ کم فہمی کے باعث یہ مفہوم نکالتے ہیں کہ اس حدیث میں کواکب کے اثرات سے انکار کیا گیا ہے۔ پھر وہ اس یقینی اور مشاہدہ میں آئی ہوئی بات کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں کہ نہیں کواکب کا کوئی اثر نہیں حالانکہ ان کا اثر ہوتا اور ضرور ہوتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کی ذات کو بالکل نظر انداز کر کے بکلی ستاروں پر انحصار کرنا کہ بارش جو برستاتے ہیں تو یہ ستارے ہی برساتے ہیں یہ عقیدہ رکھنا درست نہیں۔ مگر ایسا شخص خد ا کا منکر نہیں جو خدا کو اصل موجب قرار دیتا ہے اور اعتقاد رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہی ان ستاروں کو پیدا کیا اور ان میں اثرات رکھے اور اسی کے ارادے کے ماتحت وہ اپنا اثر کرتے ہیں۔ دیکھئے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دینا شرک ہے مگر یہ عقیدہ کہ ملائکہ خد ا کا کلام لاتے ہیں تثبیت قلب وغیرہ کرتے ہیں شرک نہیں ہے لیکن ان دونوں باتوں میں فرق ہے۔ مشرک اور کافر بھی مانتے ہیں کہ ملائکہ ہیں اور وہ کچھ کام کرتے ہیں اور مسلمان بھی مانتے آئے اور مانتے ہیں کہ فرشتے ہیں اورا ن پر ایمان لانا ضروری اور لازمی ہے مگر باوجود اس کے کافر مشرک کہلائے ۔ کیوں؟ اسی لئے کہ کفار کا ماننا اس رنگ میں ہے کہ فرشتے جو کچھ کرتے ہیں خود ہی کرتے ہیں مگر مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے تمام کام خدا تعالیٰ کے ارادے کے ماتحت ہوتے ہیں اس لئے یہ شرک نہیں۔
ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی آیا۔ آپؐ نے پوچھا تمہارا اُونٹ کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ باہر کھلا چھوڑ دیا ہے اور اللہ پر توکل کر کے آپؐ کے پاس آگیا ہوں۔ فرمایا جائو اُونٹ کا گھٹنا باندھو پھر توکل کرو۔ ۲؎
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے کہ اسباب اور ذرائع سے کام نہ لینا اور پھر یہ کہنا کہ میں نے خد اپر توکل کیا ہے خدا کی آزمائش کرنا ہے لیکن ایک ادنیٰ انسان کی کیا حیثیت ہے کہ وہ بادشاہ کی آزمائش کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو کبھی کامیابی نہیں ہوتی۔ا للہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے سامان کو ترک کرنے والا اور ان کو لغو قرار دینے والا متوکل نہیں کہلا سکتا۔ بلکہ ان ذرائع کو جو خدا نے پیدا کئے ہیں کام میں لا کر پھرا نہی پر اپنی کامیابی کا انحصار نہ کرتے ہوئے کامیابی کی امید خدا تعالیٰ پر ہی رکھنے والے کا نام متوکل ہے۔ ہاں خدا تعالیٰ خود اگر کسی خاص ذریعے سے کام لینا منع فرمادے تو وہ الگ بات ہے ورنہ اس کے پیدا کردہ سامان کو لغو قرار دے کر ان کو استعمال میں نہ لانا خدا تعالیٰ کی آزمائش کرنا ہے۔ دیکھو طاعون کا ٹیکہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بھی ایک ذریعہ صحت ہے اور تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ اس وقت تک یہ ایک عمدہ علاج ہے مگر حضرت صاحب نے اپنی جماعت کو اس کے لگوانے سے منع فرمایا۔ ۳؎ حالانکہ آپ نے بھی تسلیم فرمایا ہے کہ ٹیکہ بھی ایک علاج ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ نے خود اِس ذریعہ کو استعمال میں لانے سے روک دیا اس لئے آپ نے اپنی جماعت کو ٹیکہ کے لگوانے سے منع کر دیا ہاں ان کو اجازت دے دی جو حکام کی ماتحتی میں ٹیکہ لگوانے پر مجبور کئے جاتے ہیں۔
ٹیکہ کے متعلق قطعی رائے لگائی گئی تھی کہ طاعون کے لئے یہ یقینی علاج ہے اس لئے حضرت صاحب نے اس کے لگوانے سے روک دیا تاکہ آپ کی جماعت کی یہ خصوصیت کہ اس پر طاعون کا حملہ نہ ہو گا مشتبہ نہ ہو جائے اور نہ یہ سمجھا جائے کہ ٹیکہ لگوانے کی وجہ سے طاعون نے حملہ نہیں کیا ورنہ دوسرے ذرائع کو کام میں لانے سے حضرت صاحب نے نہیں روکا بلکہ فرماتے کہ جرابیں پہنو۔ا ندھیری جگہوں میں نہ رہواور مکانا ت کو صاف اور ستھرا رکھو۔ چونکہ ٹیکے کو یقینی علاج سمجھا گیا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس سے روک دیا اور دوسرے ذرائع پر بھروسہ نہیں کیا تھا ان کے استعمال سے نہیں روکا گیا تھا حالانکہ واقعہ میں ٹیکہ بھی علاج تو ہے مگر چونکہ یہ علاج پیشگوئی میں رخنہ ڈالنے والا تھا اس لئے حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی جماعت کو منع فرما دیا (ہاں جو ٹیکہ لگوانے پر مجبور کیا جاوے وہ مجبور ہے) تا مخالفین کے لئے یہ ایک نشان ہو کہ باوجود یقینی علاج کو استعمال نہ کرنے کے ہماری جماعت کے لوگ شاذونادر ہی اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں مگر جہاں خدا کا حکم نہ ہو وہاں اسباب اور ذرائع کو کام میں لانا ہی توکل ہے۔
چنانچہ سورہ فاتحہ جو پینتیس بارہر روز بلکہ پچاس ساٹھ بار اگر نوافل وغیرہ بھی شمار کئے جائیں پڑھی جاتی ہے اور پھر کوئی روک نہیں کہ ہزار بار بھی پڑھی جائے کیونکہ نوافل کا پڑھنا کوئی محدود نہیں۔ اس میں خدا تعالیٰ نے دعا کے گر بتائے ہیں۔ اوّل تو خود دعا سکھائی ہے کیونکہ بندہ اگر خود دعا تجویز کرتا تو غلطی کا امکان تھا مگر خدا تعالیٰ نے دعا خود سکھلا دی اور ساتھ ہی یہ فرمادیا کہ دعا کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ بندہ خود بھی کچھ کوشش کرے۔ فرمایا ۴؎ صرف منہ سے ہم تجھے معبود نہیں کہتے بلکہ عملاً اِس عبودیت کے بجالانے کے لئے حاضر ہیں۔ پس ۵؎ آپ عبودیت کے طریق ہمیں بتائیں۔ عبودیت خدا تعالیٰ کے فضل کی جاذب ہے۔ جب خدا کے فضل کے لئے بھی سامانِ عبودیت کی ضرورت ہے تو پھر دنیاوی امور کے متعلق بدرجہ َاولیٰ سامان کی ضرورت ہونی چاہئے۔ اگر کوئی عبودیت ان طریق پر نہیں کرتا تو پھر اس کی دعا اور عبادت کا کوئی فائدہ نہیں۔ بہت لوگ ہیں جب ہم سے دعا کا ذکر سنتے ہیں یا مولوی صاحب ۶ ؎ یا حضرت صاحب کی تحریروں میں پڑھتے ہیں تو وہ یہی سمجھ لیتے ہیں کہ بس جو کچھ ہے وہ دعا ہی دعا ہے ۔ اِس بناء پر وہ کوشش اور محنت کو لغو اور بے فائدہ سمجھنے لگ جاتے ہیں حالانکہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ سامان سے کام نہیں لیتے وہ اللہ تعالیٰ کی آزمائش کرتے ہیں۔ہاں اگر باوجود کوشش اور سعی کے کوئی سامان میسر نہ ہو سکے تو ایسا شخص اگر باوجود ان ظاہری سامان کے نہ ہونے کے بھی دعا کرتا ہے اور قبولیتِ دعا کے شرائط کو پورے طور پر بہم پہنچاتا ہے توا س کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔ ضرورت کے مطابق کسی قافلے کی گری پڑی چیز ہی اُس کو مل جائے گی جس کے ذریعہ وہ اپنی حاجت کورفع کر لے گا یا خدا تعالیٰ اس کی حاجت کو ہی دور کر دے گا مگر یہ اُسی وقت ہوتا ہے جبکہ اپنی طرف سے انسان کوشش اور محنت کا حق ادا کر چکے ۔
احادیث میں آیا ہے کہ کئی بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا موقع پیش آیاکہ سفر میں پانی کم ہو گیا آپؐ نے تھوڑے سے پانی میں ہاتھ ڈالا اور وہ بڑھ گیا ۔ ۷؎ مگر یہ بھی ثابت ہے کہ اس خارقِ عادت امر دکھلانے سے پہلے آپؐ نے چاروں طرف آدمی دوڑائے۔ کہ پانی کی تلاش کرو لیکن جب پانی کا کوئی سراغ نہ ملا تو پھر آپؐ نے ایسے ایسے معجزے دکھلائے۔ کسی ایسی جگہ آپؐ نے کوئی معجزہ نہیں دکھلایا کہ جہاں سے پانچ سات میل تک پانی مل سکتا ہو اور آپؐ نے کہا ہو کہ وہاں سے پانی لانے کے لئے تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے لو ہم خوداِسی جگہ پانی بڑھا دیتے ہیں بلکہ اُس وقت آپؐ نے ایسا کیا جبکہ پانی کے ملنے سے بالکل نااُمیدی ہوئی۔ تو ایک شخص نے اگر پورا زادِ راہ لے کر ایک سینکڑوں میل کے جنگل کا سفر اختیار کیا ہو لیکن راستے میں اُس کے سامان پر کوئی آفت آپڑی ہو اور وہ تباہ ہو گیا ہو اس لئے وہ نہ آگے کا رہا نہ پیچھے کا۔ ایسے وقت میں بغیر سامان مہیا کئے بھی وہ صرف دعا پر بھروسہ کر سکتا ہے کیونکہ یہ ایسا موقع ہے کہ اب سامان کامہیا کرنا اس کی طاقت سے باہر ہے۔ مگر جب کوئی شخص بغیر زادِ راہ کے اتنا لمبا سفر اختیار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ چلو ساتھ بوجھ کیا اُٹھانا ہے دعا کر لیا کریں گے تو یہ درست نہیں ایسا کرنے والا تو خدا تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے لیکن اللہ کو اس کی پرواہ کیا ہے۔
ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ دعائوں کے ساتھ سامان کی بھی بڑی ضرورت ہے جو لوگ صرف دعا پر ہی بھروسہ کر کے سامان کو لغو قرار دیتے ہیں وہ بجائے انعامِ الٰہی سے حصہ لینے کے غضب الٰہی کے مستحق ہو جاتے ہیں کہ وہ اس طریق عمل سے خدا تعالیٰ کا امتحان لیتے ہیں۔ امتحان ہمیشہ لائق لیا کرتے ہیں۔ کیا کبھی کسی وزیر نے بھی بادشاہ کاا متحان لیا؟ نہیںبلکہ بادشاہ اور اس کی طرف سے لائق اشخاص کسی کی عقل، فہم اور لیاقت کو دیکھتے ہیں اور اس طرح کوئی وزارت کا عہدہ پاتا ہے۔ پھر کسی طالب علم کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنے استاد کا امتحان لے ہاں استاد کا حق ہے کہ اپنے شاگرد کاامتحان لے۔ تو پھر کسی انسان کی کیا حیثیت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کاامتحان لے۔ بندہ کا یہ کام ہر گز نہیں اور جو ایسا کرتا ہے وہ اپنے آپ کو انعامِ الٰہی کا نہیں بلکہ عذاب الٰہی کا مستحق بناتا ہے۔ جو لوگ دعائوں کے عادی ہیں وہ اس بات کو کبھی نہ بھولیں ۔ صدقہ و خیرات وغیرہ جس قدر بھی محبت اور قربت الٰہی کے ذرائع ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے جو دعا کر ے گا وہ اپنے آپ کو فضل الٰہی کا مستحق بنائے گا۔ اسی طرح دنیوی ترقی کے لئے بھی ۔ مثلاً تجارت ہے، حرفت ہے جو کوشش اور محنت کرتا ہے اور پھر ساتھ ہی دعا بھی کرتا ہے اُس کو خداتعالیٰ ترقی دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے سامان کو ترک کرنا اس کی ہتک کرنا ہے اس لئے ایسے لوگوں کی محض دعائوں کی خدا کو کوئی پرواہ نہیں۔ مثلاً کسی نے امتحان دینا ہے اب وہ کہے کہ مغز خوری کون کرے چلو دعا کر کے امتحان میں شریک ہو جائیں گے۔ ایسا شخص سوائے اس کے کہ ناکام رہے اور کیا فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ تو مقصد کے حصول کے لئے سامان کو مہیا کرنا اور اس سے کام لینا ضروری ہے اور پھر اس کے ساتھ دعا کی بھی سخت ضرورت ہے کیونکہ بعض انسان سامان مہیا کر لیتے ہیں اور ان سے کا م بھی پورے طور پر لیتے ہیں مگر نتیجہ اچھا نہیں نکلتا ان کی ساری محنت ضائع جاتی ہے۔ تو دعا کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ نتیجہ بھی خیر نکلتا ہے اور محنت کا ثمرہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پورا پورا مل جاتا ہے۔
بعض لوگ سامان کو توکل کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں لاہور سے گاڑی میں سوار ہوااور اُسی گاڑی میں پیر جماعت علی شاہ بھی تھا۔ اس نے کوئی ایسی چیز کھانے کو مجھے دینی چاہی جو میں نے کھانسی اور نزلے کے لئے مضر سمجھی اور کہا کہ مجھے نزلہ ہے میں نہیں کھا سکتا۔ پیر صاحب نے دیکھا کہ یہ موقع ہے کہ کچھ تصوف کا اظہار کروں۔ بولے۔ ریزش نزلہ کا کیا ہے اگر خدا کو منظور نہیں تو آپ کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ میں نے کہا پیر صاحب! اگر آپ تھوڑی دیر پہلے بتاتے تو آپ اور ہم دونوں فائدے میں رہتے اور وہ اس طرح کہ لاہور سے ہم ٹکٹ ہی نہ خریدتے بلکہ ٹانگے پر بھی پیسے نہ خرچ کرتے اگر خدا کو منظور ہوتا تو وہ مجھے یونہی قادیان اور آپ کو امرتسر پہنچا دیتا ( میں لاہور سے قادیان آرہا تھا اور وہ امرتسر ) کہنے لگے۔ خیر یہ تو سامان ہیں۔ میں نے کہا پھر یہ بھی تندرستی کو قائم رکھنے کے سامان ہیں۔ کہنے لگا ہاں ہاں میرا بھی یہی مطلب تھا۔ توبعض لوگ سامان کا انکار قضاء قدر کے ماتحت کر دیتے ہیں کہ اگر ایسا ہونا ہے تو بعض لوگ سامان کا انکار قضاء قدر کے ماتحت کر دیتے ہیں کہ اگر ایسا ہونا ہے تو ہو ہی جائے گا ہمیں کچھ کرنے کی کیاضرورت ہے۔ا گر یہ بات صحیح تسلیم کی جائے تو پھر خدا تعالیٰ کا بدکاروں اور کافروں کو سزائیں دینا محض ظلم سمجھا جائے گا۔ اس کی تو ویسی ہی مثال ہو جائے گی کہ ایک شخص کے ہاتھ میں چھری پکڑا کر اور پھر اس کے ہاتھ پکڑ کر ایک دوسرے کے گلے پر پھیر کر قتل کرا دیتا ہے اور پھر اس کو پھانسی پر لٹکاتا ہے کہ تو نے اسے کیوں قتل کیا۔
اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ سست ہوتے ہیں اُنہوں نے اپنی سستی پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ ڈھکو نسلا بنا لیا ہے کہ جو کچھ ہونا ہوتا ہے تقدیر سے ہوتا ہے۔ یہ تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں بعض تو قضاء وقدر کے ماتحت کہتے ہیں جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا ھُوَکَائِنٌ کہ جو کچھ ہونا ہے وہ پہلے ہی سے مقدر ہو چکا ہے اور اس طرح وہ سامان سے انکار کردیتے ہیں اور یہ دنیا داروں کا طریق ہے کہ بدفعلیاں کیں اور قضاء وقدر کے ذمہ لگا دیں۔ بعضوں نے دعائوں کے رنگ میں سامان کو ترک کر دیا ہے اور بعضوں نے توکل کے ماتحت ۔
حالانکہ اسباب نہ دعا کے خلاف ہیں نہ قضاء وقدر کے خلاف اور نہ توکل کے خلاف کیونکہ یہ بھی تو خدا کے ہی پیدا کئے ہوئے سامان ہیں اور کام میں لانے کی غرض سے پیدا کئے گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ کے وقت جب طاعون نے زور پکڑا تو آپ نے حکم دیا کہ منتشر ہو جائو اور اپنی جگہ کو چھوڑ دو تو بعض صحابہؓ نے اعتراض کیا کہ آپ خدا کی قضاء سے بھاگتے ہیں۔ آپ نے فرمایا نَفِرُّمِنْ قَضَائِ اللّٰہِ اِلٰی قَضَائِ اللّٰہِ ۸؎ ہے کہ ہم خدا کی ایک قضاء سے بھاگ کر اُس کی دوسری قضاء کی طرف پناہ لیتے ہیں۔
تو سامان بھی خدا کے ہی پیدا کر دہ ہیں ان سے کام لینا اس کی قضاء کے خلاف نہیں۔ اگر جبر تسلیم کیا جائے تو پھر خد اتعالیٰ ظالم ٹھہرتا ہے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی کوئی خوبی خوبی نہیں رہتی تا آپ سے کسی کے دل میں محبت پید اہو سکے۔ ایک جبر یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے بڑے ہونے میں آپ کی کوئی خوبی نہیں خدا نے پکڑ کر آپ کو بڑا بنا دیا تو آپ کی ساری محنت ، ریاضت اور خدا کی راہ میں مصائب کا جھیلنا کچھ چیز ہی نہ سمجھا جائے گا، آپ کا دنیا میں صداقت کا پھیلا دینا کچھ وقعت نہیں رکھتا وہ کہہ سکتا ہے کہ اُنہوں نے اگر محنت کی تو خدا نے پکڑ کر کرائی۔ غرض اِس طرح آپ کی کوئی خوبی بھی تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ آپ کی جو خوبی بھی دیکھے گا کہے گا یہ دراصل خدا کا فعل تھا آپ کا اس میں کیا دخل تھا۔ لیکن سچی بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ سامان سے پورے طور پر کام لینے میں ہی مؤمن کی ترقی ہے اور مومن ہر رنگ میں ترقی کرتا ہے۔ صحابہؓ نے تجارت میں ترقی کی ، حکومت میں ترقی کی ، علوم میں ترقی کی۔ غرض مؤمن کی شان یہ ہے کہ وہ ہر رنگ میں دوسروں پر غالب رہے۔ صنعت اختیار کرے تو اس میں اور حرفت اختیار کرے تو اس میں، تجارت اختیار کرے تو اس میں ایک مومن کی یہی خواہش ہونی چاہئے کہ وہ دوسروں پر غالب رہے۔
میں صرف دینی ترقی کی ہی کوشش محدود نہیں بلکہ جس نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا ہوا ہے اُس کو اِس میں کوشش کر کے اَور ترقی کرنی چاہئے اور اس طرح مومن کو اپنے ہر کام میں چستی سے کام لینا چاہئے۔ جو دنیا کے کاموں میں سُستی کرتے ہیں وہ پھر دین میں بھی سستی کرنے لگ جاتے ہیں۔
صحابہؓ کو جب خدا نے دیکھا کہ وہ بڑے چُست اور ہوشیار ہیںتو دین اور دنیا دونوں میں ان کو عروج اور ترقی بخشی۔ خدا کرے ہماری جماعت کے لوگ بھی بڑے کارکن محنتی اور ہوشیار ہوں اور پھر باوجود اس کے خدا کے فضل پر اُمید رکھیں نہ کہ ظاہری سامانوں پر۔
(الفضل ۷؍ نومبر ۱۹۱۶ئ)
۱؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیۃ
۲؎ ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع باب حدیث اعقلھا و توکل
۳؎ کشتی نوح صفحہ۴ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۲
۴؎ الفاتحۃ: ۵ ۵ ؎ الفاتحۃ:۶
۶؎ حضرت مولوی نور الدین صاحب بھیروی خلیفۃ المسیح الاوّل
۷؎ صحیح مسلم کتاب الفضائل باب تفضیل نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم
۸؎ مسلم کتاب السلام باب الطاعون والطیرۃ
۳۶
۱۳۳۵ھ کی آمد
(فرمودہ ۳؍ نومبر ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اورسورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
۱؎
اور فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان بہت وسیع ہیں۔ کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ مخلوق بھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ مجھ پر خدا کا کوئی احسان نہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہر ایک چیز کا وجود اللہ کے فضل کے ماتحت پیدا ہو اہے اور جو بھی مخلوق ہو گی وہ خدا کے زیر احسان ہی ہو گی اور ایسی کوئی چیز ہے نہیں جو مخلوق نہ ہو۔ پس ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کے احسانوں کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ کیڑے سے لے کر بڑے سے بڑے فرشتے اور نبی تک تمام اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور فضلوں کے نیچے ہیں اور کسی کا کوئی دَم ایسا نہیں گزرتا کہ اللہ کے احسانوں کے نیچے وہ زندگی نہ بسر کر رہا ہو۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کے فضلوں اور احسانوں سے خاص حصہ پاتے ہیںا س لئے گو ہر ایک انسان بلکہ ہر ایک جاندار پرا للہ کا شکر ادا کرنا فرض او رواجب ہے مگر ان لوگوں ،ا ن جماعتوں اور ان گروہوں کا خاص فرض ہوتا ہے جو اس کے انعامات سے خاص حصہ پاتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے اُوپر خدا تعالیٰ کے انعا مات کے ہوتے ہوئے پھر اُس کا شکریہ ادا نہیں کرتے یا ادا کرنے میں کوتاہی سے کام لیتے ہیں یا ان میں سے کچھ افراد سستی دکھاتے ہیں وہ خدا تعالیٰ سے بہت دُور جا گرتے ہیں اور بہت سخت سزا کے مستحق ہوجاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے قانون کے ماتحت اور اس قانون کے ماتحت کہ جو جب سے دنیا کا سلسلہ شروع ہوا ہے چلتاآرہا ہے ا ب ایک نیا سال شروع ہوا ہے اور کسی نئے سال کا آنا کوئی نئی بات نہیں ہر آنے والا سال نیا ہی ہوتا ہے اور ہر بارہ ماہ کے بعد نیا سال شروع ہو جاتا ہے پس یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ قانونِ قدرت کے ماتحت ایسا ہوتا آیا ہے اور اب بھی ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی خاطر چاند، سورج اور ستاروں کے لئے رفتار مقرر کی ہوئی ہے اِسی رفتار کے ماتحت دن ، ہفتے ، مہینے اور سال بدلتے رہتے ہیں۔ پس نئے سال کا چڑھنا کوئی نئی بات نہیں مگر اس سال کے متعلق بعض اندازوں کے مطابق ایک پیشگوئی ہے۔ بعض انداز ے میں نے اس لئے کہا ہے کہ پیشگوئی کے الفاظ صاف نہیں ہیں بلکہ استدلال کیا گیا ہے اور مختلف استدلال کئے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس پیشگوئی میں جو بارہ سوا ٹھانوے اور تیرہ سو پنتیس دن کا ذکر آتا ہے یہ ہجری سنہ ہے کیونکہ الہامی زبان میں دن بمعنی سال کے ہوتے ہیں اس لئے بہتوں کی نظریں اس کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ بعضوں کی تو اس لئے کہ ایک خاص پیشگوئی ہے اور بعضوں کی دیگر وجوہات سے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آخری سال حضرت مسیح موعود کی آمد کا ۱۳۳۵ھ ہے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ انبالہ سے ایک شخص نے اشتہار شائع کیا تھا غالباً ۵ ۱۹۰ء یا ۱۹۰۶ء کا ذکر ہے اس میں اس نے لکھا تھا اور بڑے زور سے لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود کی آمد ۱۳۳۵ ھ میں ہو گی۔ اسی طرح دہلی سے ایک شخص نے رسالہ لکھا ہے ا س نے بھی ۱۳۳۵ ہجری آخری میعاد حضرت مسیح موعود کے آنے کی رکھی ہے۔ یورپ کے لوگوں میں سے بعضوں نے مختلف حسابات کے ماتحت اس بات کا فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ ۱۳۳۵ھ مسیح موعود کی آمد کا سال ہے۔ اسی بناء پر اس کا بڑا انتظار ہور ہا تھا اب جو یہ سال آگیا ہے تو اس کے نتائج کا انتظار ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے گا توا ن۱۲ مہینوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکروں کو ایک اور نااُمیدی ہو گی اور ان میں سے جو عقلمند اور دانا ہوں گے وہ سمجھ لیں گے کہ جس مسیح نے آنا تھا وہ آچکا اور کسی نے نہیں آنا تو اس طرح ہمارے لئے ایک فتح تو ضروری ہے اور وہ یہ کہ دشمن نے جو اندازہ لگایا ہوا ہے کہ ۱۳۳۵ھ میں حضرت مسیح نے آنا ہے وہ آچکا ہے۔ اب ان کے لئے دو ہی باتیں ہوں گی یا یہ کہ وہ کہہ دیں کہ کسی مسیح نے نہیں آنا اور یا یہ کہ جس نے آنا تھا وہ آگیا۔ اب سوائے ان لوگوں کے جو یہودیوں کی طرح ڈھیٹھ ہوں گے کہ باوجود اس کے کہ حضرت مسیح ناصری کی آمد کو اُنیس سوسال ہو گئے مگر وہ ضد اور تعصب کی وجہ سے اِس وقت تک اِس خیال کو ترک نہیں کرتے کہ مسیح نے آنا ہے۔ وہ بھی یہی کہتے رہیں گے کہ مسیح موعود نے آنا ہے اور ایسے لوگوں کا مسلمانوں میں سے پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو یہود سے مشابہت دی ہے مگر جو دانا اور سمجھدار ہوںگے اور جو تعصب اور عداوت ، ضد اور شرارت سے انکار نہیں کریں گے۔ جب وہ دیکھیں گے کہ جن پیشگوئیوں کے مطابق ۱۳۳۵ھ میں مسیح موعود کی آمد کا اندازہ لگایا گیا تھا وہ اندازہ پوراہو گیا ہے تو یا توانہیں اس پیشگوئی کو بناوٹی اور جعلی قرار دینا پڑے گا یا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسیح موعود آگیا ہے اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوا اور کسی نے مسیح موعود ہونے کادعویٰ نہیں کیا اس لئے آپؐ کو اُنہیں مسیح موعود ماننا پڑے گا۔ یہ تو ہمارے لئے بنی بنائی فتح ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے لکھی جا چکی ہے۔ باقی اور بہت سی اُمیدیں کہ یہ سن ہمارے لئے فتوحات کا ابتدائی سال ہے۔ چنانچہ ہماری جماعت کے لوگ اس پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور میرے پاس مبارکباد کے خطوط بھی آئے ہیں لیکن میں ایسے سب لوگوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ۱۳۳۵ھ میں بلحاظ دنوں، ہفتوں اور مہینوں یا چاند کی رفتار کے ۱۳۳۶ھ یا ۱۳۳۴ھ سے کوئی زیادتی نہیں ہے۔ یہ بھی اُس قسم کا سن ہے جیسے کہ پہلے گزر چکے ہیں۔ اس میں کونسے لعل لگے ہوئے ہیں کہ اسے دوسروں سے بڑا سمجھیں اس میں کوئی خصوصیت نہیں ہے ۔ وہ جماعت جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے انعامات کا وارث ثابت کر دے اس کے لئے ۱۳۳۲ھ اور ۱۳۳۳ھ بھی ۱۳۳۵ھ ہی بن جاتے ہیں اور جوجماعت اپنے اعمال اور افعال سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے غضب اور سزا کا مستحق بنا لیتی ہے اس کیلئے ۱۳۳۵ھ یا ۱۳۳۶ ھ یا ۱۳۴۰ھ سب برابر ہو جاتے ہیں۔
ہر ایک فتح کے ساتھ شکست بھی ہوتی ہے۔ کیا آج تک ایسی بھی کوئی فتح ہوئی ہے کہ جس کے ساتھ شکست نہ ہو؟ ہر گز نہیں۔ آج تک تو یہی ہوتا چلا آیا ہے کہ اگر ایک گروہ کو فتح حاصل ہوئی ہے تو اسی فتح کے ساتھ دوسرے گروہ کو شکست بھی ہوئی ہے۔ پس اگر یہی سال ایک جماعت کے لئے مبارک ہے تو کیا اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی پیدا ہوتا کہ یہی ۱۳۳۵ھ کسی اَور کے لئے منحوس اور نامبارک بھی ہے؟ تو اس سال کی یہ خصوصیت نہیں ہو سکتی کہ تمام کے لئے مبارک ہی ہو۔ ضروراگر ایک گروہ کے لئے مبارک ہے تو دوسرے کے لئے نامبارک بھی ہے۔ باقی رہا یہ کہ مبارک کس کے لئے ہے اور نامبارک کس کے لئے؟
اس میں تو شک ہی نہیں کہ جو میدان ایک قوم کے لئے فتح اور کامیابی کا باعث بنتا ہے وہی میدان دوسری قوم کے لئے شکست اور ناکامی کا بھی موجب بنتا ہے ۔اور جس طرح وہ میدان یہ یاد دلاتا ہے کہ فلاں قوم کو اس میں فتح نصیب ہوئی تھی اِسی طرح وہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اسی موقع پر کسی کو شکست بھی ہوئی تھی۔ پس جہاں عظیم الشان فتح ہوتی ہے وہاں بہت بڑی شکست بھی ہوتی ہے ا س لئے ڈرنا چاہئے کہ فتح ہمارے دشمنوں کو نہ ہو اور شکست ہمارے حصہ میں نہ آئے۔ جتنی بڑی کوئی فتح ہوتی ہے اس کے ساتھ اتنی ہی بڑی شکست بھی وابستہ ہوتی ہے۔ پس جہاں بہت بڑی فتح سے خوشی ہونی چاہئے وہاں اِس بات سے ڈرنا بھی بہت چاہئے کہ ہمارے حصہ میں شکست نہ آئے۔
کوئی کہے ۱۳۳۵ھ تو فتح اور کامیابی کے لئے مقرر ہے اور خدا نے کہہ دیا ہے کہ ’’مبارک وہ جو انتظار کرتا ہے اور ایک ہزار تین سو پنتیس روز تک آتا ہے۔ ۲؎ اس لئے ہمیں ضرور کامیابی ہو گی۔ مگر ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی دانیال نبی کی کتاب میں ہے اور دانیال نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اتباع میں سے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک اولو العزم نبی تھے اور خاص شان رکھنے والے تھے۔ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ سے مشابہت دی ہے ۳ ؎ ا ور جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت دی جائے وہ کوئی معمولی انسان نہیں ہو سکتا۔ آپ سے خدا تعالیٰ کا وعدہ تھاکہ تو اور تیری قوم فلاں ملک کی وارث بنائی گئی جائے گی لیکن چونکہ ان کی قوم نے اپنے آپ کو اِس لائق نہ بنایا کہ خدا تعالیٰ اُ س کو اپنا یہ انعام دیتا اس لئے خد اتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اِس وعدہ کو چالیس سال پیچھے ڈال دیا۔ ۴ ؎ پس جب موسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم الشان نبی کی پیشگوئی کو چالیس سال پیچھے ڈال دیا جا سکتا ہے تو حضرت دانیال کی پیشگوئی کو کیوں پیچھے نہیں ڈالا جا سکتا۔ اگر خدا تعالیٰ کو کسی کا لحاظ یا کسی کی خاطر منظور ہوتی تو موسیٰ اس بات کے زیادہ مستحق تھے کہ ان کی قوم کو موعودہ ملک دے دیاجاتا کیونکہ وہ صاحب شریعت اور اُولوالعزم نبی تھے۔ پھر خدا تعالیٰ ان کی نسبت فرماتا ہے ۵؎ کہ جب خدا تعالیٰ نے موسیٰ سے کلام کیا تو درمیان میں کوئی روک اور پردہ نہ تھا۔ اتنے بڑے نبی کی پیشگوئی کو جب اس کی جماعت کی سستی اور نالائقی کی وجہ سے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے تو حضرت دانیال کی پیشگوئی کو کیوں پیچھے نہیں ڈالا جا سکتا۔
پس ۱۳۳۵ھ میں ہمارے لئے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اس میں تو شک نہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے ہماری جماعت کے ساتھ اس سال کا خاص تعلق ہے۔ پہلے تو یہ خیال تھا کہ شاید اِس سنہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہو مگر وہ تو اِس سے پہلے ہو چکی اس لئے وہ مراد نہیں ہو سکتی بلکہ اس سال سے ہماری جماعت کی ترقی کی ابتداء مراد ہے۔ وہ ترقی کیسی ہو گی؟ کس رنگ میں ہو گی؟ کس طرح ہو گی؟ اگر اس پیشگوئی کو جس طرح سمجھا گیا ہے اِسی طرح درست مان لیا جائے تو یہ بھی باتیں نہیں بتائی جا سکتیں کیونکہ پیشگوئی کو پورا ہونے سے قبل سمجھنے میں تو ایک نبی بھی غلطی کھا سکتا ہے چہ جائیکہ ہم اس کے متعلق کچھ بتا سکیں۔پس اگر واقعہ میں ۱۳۳۵ھ میں جماعت حضرت مسیح موعود کی فتوحات کی ابتداء ہے تب بھی ہم نہیں جانتے کہ ہمیں کس طرح اور کیا فتوحات حاصل ہوں گی۔ا للہ تعالیٰ کے وعدے کئی اقسام کے ہوتے ہیں۔ کبھی بڑے زور سے ایک بات کہی ہوئی معلوم ہوتی ہے لیکن جب پوری
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
پیش لفظ
یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ فضل عمر فائوندیشن احباب جماعت کی خدمت میں خطبات محمود جلد پنجم پیش کرنے کی توفیق پارہا ہے۔ زیر نظر جلد ۱۹۱۶ ء اور ۱۹۱۷ء کے خطباتِ جمعہ پر مشتمل ہے۔
حضرت مصلح موعود کے خطبا ت علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘ پر شاہد ناطق ہیں۔ حضرت مصلح موعود کا دَورِ خلافت جو کم و بیش ۵۲ سال پر محیط ہے ایک تاریخ سازدَورتھا۔ اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی تعلیم وتربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ یہ جماعت کا ایک نہایت ہی قیمتی سرمایہ ہے جسے فضل عمر فائونڈیشن نے یکجا کر کے کتابی صورت میں محفوظ کرنے کا بیڑہ اُٹھا رکھا ہے۔
خطبات کی چار جلدیں پہلے چھپ چکی ہیں۔ اس کے بعد بوجوہ حسب پروگرام طباعت کا تسلسل قائم نہ رہ سکا جس کے لئے ادارہ معذرت خواہ ہے۔ آئندہ پوری کوشش کی جائے گی کہ یہ سلسلہ جاری رہے اور یہ روحانی مائدہ جماعت کے دوستوں کے ہاتھوں میں برابر پہنچتا رہے۔
یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ ابتداء میں خطبات لکھنے کے لئے باقاعدہ زود نویس یا کوئی اورجماعتی انتظام نہیں تھا۔ بعض احباب اپنے شوق اور عقیدت سے خطبات لکھ کر چھپواتے رہے اِس وجہ سے ممکن ہے بعض مقامات پر بات اُس طرح واضح نہ ہوئی ہوجس طرح واضح ہونی چاہئے یا جس طرح حضور نے واضح فرمائی ہو۔
جو خطبات باوجود تلاش کے اخبارات ورسائل میں نہیں مل سکے اُن کے لئے ہم دوستوں کو دعوتِ عام دیتے ہیں۔ا گر ان کی نظر میں کوئی خطبہ آئے تو ہمیں آگاہ فرمائیں تا اگلی جلد یا آئندہ ایڈیشن میں اس کو بھی شامل کر لیا جائے۔
اِس جلد کی تیاری اور کتابت وغیرہ کا بیشتر کام مکرم بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) اقبال احمد صاحب شمیم کی نگرانی میں ہوا جنہوں نے بطور سیکرٹری فضل عمر فائونڈیشن بڑے ہی خلوص سے خدماتِ دینیہ سرا نجام دیں۔ مرحوم نے ریٹائرمنٹ کے بعد بہت تھوڑے عرصہ کے لئے اپنی خدمات پیش کی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بہت لمبا عرصہ بڑی بے لوث خدمات بجالانے کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اُن سے رحمت و مغفرت کا سلوک فرمائے اور بلند درجات سے نوازے۔ آمین
مکرم برادرم ملک یوسف سلیم صاحب شاہد ایم ۔ اے انچارج شعبہ زود نویسی اور برادرم مکرم حبیب الرحمن صاحب زیروی اسسٹنٹ لائبریرین خلافت لائبریری بھی خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے Missing خطبات کی تلاش میں بڑی محنت سے کام لے کر ادارہ کی گراں قدر معاونت فرمائی۔
اِس جلد کی ترتیب و حواشی کا ابتدائی کام مکرم مولانا نور الحق صاحب انور (مرحوم) نے سرانجام دیا اور بعد میں حوالہ جات پر نظر ثانی کا کام برادرم مکرم ظہیر احمد خان صاحب مربی سلسلہ نے بہت محنت سے انجام دیا۔مکرم عبدالباسط صاحب شاہد اور مکرم سلطان احمد صاحب شاہد (مربیان سلسلہ) نے بھی اِس جلد کی تیاری میں بہت مفید مشوروں سے نوازا اور ان کی ماہرانہ رائے اور تجربہ سے بھی خاکسار نے بہت فائدہ اُٹھایا۔
خاکسار ان سب دوستوں اور بزرگوں کا دلی شکریہ ادا کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ ان کے علم اور فضل میں برکت ڈالے اور بے انتہا فضلوں اور رحمتوں سے نوازتا رہے۔ آمین
والسلام
خاکسار
ناصر احمد شمس
سیکرٹری فضل عمر فائونڈیشن
۱
اسراف سے بچو
(فرمودہ ۷؍ جنوری ۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:۔
۱؎
اِس کے بعد فرمایا:۔
’’یہ چندآیات جو میں نے اِس وقت پڑھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمن کی تعریف بیان فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ وہ یوں کیا کرتے ہیں۔ یوں تو بہت سے لوگ ہیں جو بڑے شوق سے اپنے لڑکے کا نام عبدالرحمن رکھتے ہیں اور بہت ہیں کہ جب ان سے پوچھا جائے کہ کون ہو؟ تو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ’’ہم اللہ کے بندے ہیں‘‘ اور لوگوں کے دعویٰ کرنے کو چھوڑد وواقعہ میں بھی سب لوگ خدا ہی کے بندے ہیں اور جتنی بھی چیزیں دنیا کی ہیں خواہ وہ انسان ہیں یاحیوان، چرند یا پرند،سب خدا ہی کے بندے ہیں کیونکہ وہ کونسی چیز ہے جو خدا کے سوا کسی اور نے پیدا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی سب کوپیدا کیا ہے پس اس لحاظ سے سب خدا ہی کے بندے ہیں۔ پھر اِس لحاظ سے کہ خدا ہی سب کو قائم رکھنے والا ہے اور اسی کے اختیار میں ہر ایک جاندار اور بے جان کا قائم رکھنا ہے، اسی کے بندے ہیں۔ پھر اس لحاظ سے بھی کہ ہرایک چیز خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کی فرمانبرداری کرتی ہے۔ گو خدا کو بھی بعض لوگ نہیں مانتے مگر جو اس کے قوانین ہیں ان سے ذرہ بھر نکلنا بھی کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کی بھی طاقت میں نہیں ہے۔ مثلاً آنکھوں سے دیکھنا اور کانوں سے سننا خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اب یہ کوئی نہیں کر سکتا کہ آنکھوں سے سننے کا کام لے اور کانوں سے دیکھنے کا۔ تو خدا کے قانون سے کوئی نہیں نکل سکتا اس لئے بھی سب عبادُالرحمن ہیں۔ لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بار بار فرمایا ہے کہ عبادُالرحمن بن جائو۔ چنانچہ پاک روحوں کے لئے فرماتا ہے ۲؎ میرے بندوں میں داخل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی وہ خدا تعالیٰ کے بندے تھے کیونکہ خدا ہی نے ان کو پیدا کیا تھا خدا ہی ان کا رازق تھا، خدا ہی ان کا مالک تھا، خدا ہی ان کو قائم رکھتا تھا۔ پھر جو فرمایا تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا بندہ ہونا دو رنگ میں ہوتا ہے۔غرض ایک لحاظ سے توتمام انسان خدا کے بندے ہیں لیکن ایک لحاظ سے بعض بندے ہوتے ہیں اور بعض نہیں ہوتے۔ اس لحاظ سے تو خدا کے بندے وہ کہلاتے ہیں جو اس کے تمام احکام کی فرمانبرداری اور اطاعت کرتے ہیں۔ اور جو نہیں کرتے وہ اس لحاظ خدا کے بندے نہیں ہوتے بلکہ شیطان کے بندے ہوتے ہیں، اپنے نفس کے بندے ہوتے ہیں اور انسانوں کے بندے ہوتے ہیں۔
اِن آیات میں خدا تعالیٰ نے عبادا لرحمن کی تعریف فرمائی ہے اور یہاں وہی لوگ مراد ہیں جن کا ذکر میں ہے اور یہاں عبد سے مراد عابد ہے۔ غرض ان آیات میں عبادُالرحمن کی کچھ باتیں خدا تعالیٰ نے بتائی ہیں کہ جن میں وہ پائی جائیں وہ عبادُالرحمن ہوتے ہیں۔ ا ِس وقت میری غرض ان میں سے ایک بات کو بیان کرنا ہے جو سب سے آخری آیت میں بیان فرمائی ہے۔ خدا تعالیٰ نے عبا دالرحمن کی ایک تعریف یہ فرمائی ہے کہ جب وہ انفاق یعنی خرچ کرتے ہیں تو یہ دو باتیں ان کے مدنظر ہوتی ہیں۔ اوّل یہ کہ خرچ کرنے میں اسراف نہیں کرتے۔ دوئم بخل نہیں کرتے۔ مال کو جمع نہیں کرتے۔ قتر کے معنی مال کے جوڑنے اور جمع کرنے کے ہیں۔ قاتر وہ جومال کو جمع کرتے رہتے ہیں۔ جمع کرنے سے ہی بخل کے معنی لئے گئے۔ کیونکہ انسان مال جمع تبھی کر سکتا ہے جب خرچ نہ کرے اور اسی کو بخیل کہتے ہیں پس قاتر کے اصل معنی یہ ہیں کہ جو مال جمع کرے اوران لوگوں پر خرچ نہ کرے جن پر خرچ کرنا اس کے ذمہ ہے۔
اس آیت میں خرچ نہ کرنے والے کی نسبت خدا تعالیٰ نے کیا عجیب لفظ رکھا ہے یہ نہیں فرمایا کہ وہ جو اپنے رشتہ داروں اور محتاجوں وغیرہ پر خرچ نہیں کرتا وہ بُرا ہے کیونکہ جس کے پاس مال نہ ہووہ بھی تو خرچ نہیں کرتا ،پھرکیا وہ خدا کے بندوں سے نکل جائے گا؟مثلاً ایک شخص خود بھوکا ہے اس سے کوئی محتاج آکر مانگتا ہے کہ مجھے کھانے کو دو لیکن وہ کچھ نہیں دیتا تو کیا ایسا آدمی بھی خدا کے حضور بخیل ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ نہیں۔ ہاں ایک ایسا شخص جس کے پاس دینے کے لئے ہے مگر نہیں دیتا وہ بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک ملزم ہے ۔تو یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ عبدالرحمن وہ نہیں ہوتا جو خرچ نہیںکرتا بلکہ قتر کا لفظ رکھا جس کے معنے ہیں مال جمع کرنے کے۔ اور قاتر اُس کو کہتے ہیں جو مال جمع کرے اور رشتہ داروں، مسکینوں اور محتاجوں پر خرچ نہ کرے۔ پس اِس ایک ہی لفظ میں یہ بھی بتا دیا کہ جس کے پاس مال نہ ہو اُس پر کوئی اعتراض نہیںاعتراض صرف اُس پر ہے جس کے پاس مال ہے اور وہ بجائے حاجت مندوں پر خرچ کرنے کے اُسے جوڑتا ہے۔ اِسی طرح اِس لفظ کے ذریعہ سے یہ بھی بتا دیا کہ خالی مال جوڑنا منع نہیں بلکہ اگر کسی شخص کے پاس اس قدر مال ہو کہ وہ ان لوگوں پر خرچ کرنے کے بعد جن کا خرچ اس کے ذمہ ہے اور غرباء کی مدد کرنے کے بعد بھی مالدار ہے تو اُس کامال جمع کرنا گناہ نہیں۔ خیر اِس جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی عبدالرحمن بننا چاہے تو اس کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے وقت دو باتوں کا لحاظ کرے۔ اوّل یہ کہ وہ اپنے مال میں اسراف نہ کرے۔ اس کا کھانا صرف تکلف اور مزے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ قوت، طاقت اور بدن کو قائم رکھنے کیلئے ہوتا ہے اس کا پہننا آرائش کیلئے نہیں ہوتا بلکہ بدن کو ڈھانکنے اور خدا تعالیٰ نے جواُسے حیثیت دی ہوتی ہے اس کے محفوظ رکھنے کے لئے ہوتا ہے۔ چنانچہ صحابہؓ کا طرزِ عمل بتاتا ہے کہ وہ اسی طرح کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ ایک دفعہ شام کو تشریف لے گئے تو وہاں بعض صحابہ نے ریشمی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ (ریشمی کپڑوں سے مراد وہ کپڑے ہیں جن میںکسی قدرریشم تھا ورنہ خالص ریشم کے کپڑے سوائے کسی بیماری کے پہننے مردوں کو منع ہیں) آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اِن لوگوں پر خاک پھینکو ۔اور ان سے کہو کہ تم اب ایسے آسائش پسند ہو گئے ہو کہ ریشمی کپڑے پہنتے ہو۔ اس پر ان میں سے ایک نے اپنا کرتا اٹھا کر دکھایا تو معلوم ہواکہ اس نے نیچے موٹی اون کا سخت کرتا پہنا ہوا تھا۔ اس نے حضرت عمر کو بتایا کہ ہم نے ریشمی کپڑے اس لئے نہیں پہنے کہ ہم اِن کو پسند کرتے ہیںبلکہ اِس لئے کہ اِس ملک کے لوگوں کی طرز ہی ایسی ہے اور یہ پچپن سے ایسے امراء کو دیکھنے کے عادی ہیں جو نہایت شان وشوکت سے رہتے تھے۔ پس ہم نے بھی ان کی رعایت سے اپنے لباسوںکو ملکی سیاست کے طور پر بدلا ہے ورنہ ہم پر ان کا کوئی اثر نہیں۔۳؎ پس صحابہ کا عمل بتاتا ہے کہ اسراف سے کیا مراد ہے۔ اس سے یہی مراد ہے کہ مال ایسی اشیاء پر نہ خرچ کرے جن کی ضرورت نہیں اور جن کا مدعا صرف آرائش و زیبائش ہو۔
غرض خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ عبادالرحمن وہ ہوتے ہیں جو اپنے مالوں میں اسراف نہ کرتے ہوں۔ وہ اپنے مالوں کو ریاء اور دکھاوے کیلئے خرچ نہ کرتے ہوں بلکہ فائدہ اور نفع کیلئے صَرف کرتے ہوں۔ پھر اپنے مالوں کو ایسی جگہ دینے سے نہ روکیں جہاں دینا ضروری ہو اور ان کا قوام ہو یعنی درمیانی ہو۔ نہ اپنے مالوں کو اِس طرح لٹائیںجواللہ تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت نہ ہو اور نہ اِس طرح روکیں کہ جائز حقوق کو بھی ادا نہ کریں۔ یہ دو شرطیں عبادالرحمن کیلئے مال خرچ کرنے کے متعلق ہیںلیکن بہت لوگ ہیں جو یا تو اسراف کی طرف چلے جاتے ہیں یا بخل کی طرف۔
اِسراف کی مرض اِس زمانہ میں بہت بڑھی ہوئی ہے۔ بخل کی مرض بھی ہے مگر یہ مسلمانوں میں کم ہے اور آجکل تو مسلمان کی تعریف اور علامت ہی یہی مقرر کی گئی ہے کہ جو کچھ اس کے پاس آتا ہو کھا پی جائے اور جس قدر مال اُس کے پاس ہو سب خرچ کر دے۔ بخل ہنود کی طرف منسوب کیا جاتا ہے مگر مسلمان وہی سمجھا جاتا ہے جو دین و دنیا کے لئے کچھ نہ بچائے اور سب کچھ کھا جائے لیکن کیا اُلٹ بات ہے۔ ادھر قرآن کریم تو کہتا ہے کہ مسلم وہ ہے جو اسراف نہ کرے مگر آجکل مسلمان وہ سمجھا جاتا ہے جو سب کچھ بیچ کر کھا جائے جتنا کوئی زیادہ اسراف کرے اتنا ہی ولی اللہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن وہ ہوتا ہے جو کبھی اسراف نہیں کرتا۔ مگر اِس زمانہ میں بہت لوگ ایسے ہیں کہ جتنی انکی آمدنی نہیں ہوتی اس سے زیادہ خرچ کر دیتے ہیں اور بہت ایسے ہیں جب ان کوکہا جائے کہ تم اپنی بیوی بچوں کو کیوں خرچ نہیں دیتے تو کہہ دیتے ہیں کہ تنخواہ تھوڑی ہے ہم شریف آدمی ہیںاپنے اخراجات چلائیں یا ان کو دیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اسی کا نام شرافت ہے تو پندرہ کروڑتنخواہ والا بھی بیوی بچوں کے لئے کچھ نہیں بچا سکتا کیونکہ یورپ نے عیش و عشرت کے سامان اس کثرت سے پیدا کردیئے ہیں کہ جس قدر بھی روپیہ ہو بہت جلدی صَرف ہوجاتا ہے لیکن وہ لوگ جو بیوی بچوں کے لئے خرچ کرنے والے ہوتے ہیں وہ تو دس دس اور پندرہ پندرہ روپے کے ملازم ہو کر بھی کرتے ہیں اور جو نہیں کرنا چاہتے وہ سینکڑوں روپیہ کی آمدنی کے ہوتے ہوئے بھی نہیں کرتے اور دوسرے ہی فضول اخراجات میں روپیہ کو ضائع کر دیتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص کو اپنے باپ کی بہت سی دولت مل گئی اُس نے اپنے دوستوں اور آشنائوں کو بلا کر پوچھا کہ مجھے دولت کو خرچ کرنے کا طریق بتائو۔ کسی نے کچھ بتایا، کسی نے کچھ بتایا لیکن اُسے کوئی پسند نہ آیا۔ ایک دن وہ بازار سے گزر رہا تھا کہ بزاز کے کپڑے پھاڑنے کی اُسے آواز آئی جس کو اس نے بہت پسند کیا اور اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ میرے سامنے کپڑے کے تھان لا کر پھاڑاکرو۔ اِس طرح اُس نے کپڑے پھڑوانے شروع کئے اور چرچر کی آواز سننے لگااور ہزار ہاروپیہ اس پر خرچ کر دیا ۔تو خرچ کرنے کے لئے تو وہ بھی کہتا تھا کہ کپڑے کے پھٹنے کی بڑی مزیدار آواز ہے جو کانوں کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہے لیکن کیا یہ بھی کوئی خرچ کرنا تھا۔ پس کسی مال کو ناجائز اور فضول طور پر خرچ کرناکوئی بھی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر کسی کے پاس کروڑوں کروڑ روپیہ بھی ہو تو وہ بھی سب کچھ خرچ کر کے کنگال اور نادار بن سکتا ہے اور ایسا اکثر دنیا میں ہوتا ہے۔ ہاں روپیہ کا جائز طور پر اور ٹھکانے پر خرچ کرنا مشکل ہے اور بہت مشکل ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا یہ قول ہے کہ روپیہ کمانا آسان ہے مگر خرچ کرنا بہت مشکل ہے۔ واقعہ میں یہ بہت ہی سچا قول ہے۔ دنیا میں بہت لوگ ہیں جو بہت بہت روپیہ کماتے ہیں لیکن اُنہیں خرچ کرنا نہیں آتا اس لئے کنگال ہی رہتے ہیں اور بہت ایسے ہیں جو کم کماتے ہیں مگر چونکہ اُنہیں خرچ کرنا آتا ہے اس لئے آسودہ رہتے ہیں۔
غرض مسلمانوں میں یہ ایک بہت بڑی مرض ہے اور یہ مرض یہاں بھی بعض لوگوں میں ہے یہاں ایک شخص نے لڑکوں کے افسر کو کہا تھا کہ میرا لڑکا جو خرچ کرنے کے لئے مانگے اُسے دے دینا اور دکانداروں کو بھی کہہ گیا کہ کوئی چیز مانگے تو دے دینا۔ اس لڑکے نے بیس روپیہ کی ایک مہینہ میں فرنی وغیرہ ہی کھا لی۔ اِس قسم کے بہت سے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ لڑکے بہت زیادہ فضول خرچی کرتے ہیں۔ شاید دکاندار ایسے لڑکوں کے ساتھ یہ برادرانہ محبت سمجھ کر کرتے ہوں مگر میں تو کہتا ہوں یہ برادران یوسف کاسلوک ہے وہ بھی اپنے بھائی کو بیچ کرکھا گئے تھے اور اس قسم کے لوگ بھی بیچ کر کھا جانا چاہتے ہیں اور کوئی محبت اور برادرانہ ہمدردی نہیں کرتے۔ برادرانہ سلوک تو یہ ہے کہ کھانے والوں کو مفت دیں اور ان سے کچھ نہ لیں۔ لیکن اس طرح کرنا کہ پہلے دیتے جانا اور پھر قیمت لینے کے لئے اس کے پیچھے پڑنا کوئی ہمدردی نہیں ہے ۔گو بعض لوگ جو غریب ہیں اُنہیں اُدھار لینا پڑتا ہے اور انہیں دینا چاہئے لیکن ایسی صورت میں جبکہ ان کے گھر آٹا نہ ہو اور وہ فاقہ کشی کر رہے ہوں یا کپڑا نہ ہو اور سخت حاجتمند ہوںیا اور کوئی ایسی ہی ضروری بات ہو ایسا دیا ہوا قرض اگر ادا نہ کر سکے تو دوسرے ادا کرنے کی طرف توجہ کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی کسی کو مٹھائی کھلاوے اور پھر ایسے قرض کے لئے چارہ جو ہو تو کسی کو کیا ضرورت ہے کہ اُس کا قرض ادا کرے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسراف نہ کرو۔ اس لیے اسراف کرنا اور اسراف کرنے والے کی مدد کرنا دونوں گناہ ہیں۔ مثلاً جیسا شراب پینے والا گنہ گار ہے ایسا ہی پلانے والا بھی گنہ گار ہے۔جو دکاندار قرض پر مٹھائی دے کر دوسرے کو مسرف بناتا ہے وہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے خود مٹھائی کھلائی ہے۔ اس شخص نے مانگی میں نے دے دی۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ میں نے خنزیر خود نہیںکھایا بلکہ اَور کو کھلایا ہے تو کیا کھلانے والا بدتر نہیں ہوگا؟ ضرور ہو گا۔
میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگوں میں ابھی تک اسراف کی مرض چلی آتی ہے لیکن یہ لطف کی بات ہے کہ اسراف کرنے والوں کا پتہ دیر سے معلوم ہوتا ہے مگر بخل کرنے والے پر بہت جلدی آواز ے کسے جاتے ہیں۔ اسراف کرنے والے کے ساتھی پہلے پہلے اسے کوئی ہدایت نہیں کرتے لیکن جب وہ تباہ ہو چکتا ہے تو وہ بھی کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ اس نے احتیاط نہیںکی۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اب جو تم یہ کہتے ہو پہلے اس کے ساتھ کیوں شامل ہوتے تھے۔ ایسی باتوں پر بولنے کی مجھے تو عادت نہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل تو عام طور پر کہہ دیا کرتے تھے لیکن میں انتظار کرتا ہوں اور کرنے والے کو کسی رنگ میں سمجھا دیتا ہوں ۔پھر انتظار کرتا ہوں شاید بعض لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ مجھے اُن کے حالات کا پتہ نہیں لیکن خدا کے فضل سے مجھے ان کی نسبت اِتنا پتہ ہوتا ہے کہ اگر اُنہیں اِس کا پتہ ہو جائے تو حیران ہو جائیں۔ بہت لوگ ہیں جن کی عادتیں جتنی مجھے معلوم ہیں اُتنی اُنہیں خود بھی نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے معاملات میں خاموش رہا کرتے تھے یہی بات مجھے پسند آئی ہے اِس لئے میں اِسی کی پیروی کرتا ہوں۔
پس تم لوگوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ خود اسراف سے بچو اور دوسروں کو بچائو۔ حضرت خلیفۃ المسیح ہمیشہ فرماتے تھے کہ ایسی چیزیں جن کاانسان محتاج نہیںمثلاً مٹھائی وغیرہ کسی کو قرض نہیں دینی چاہئے لیکن اب تک بعض لوگوں کو نصیحت نہیں حاصل ہوئی۔ اب میں کہتا ہوں کہ اگر ایسا آدمی ہے جو مصیبت میں ہے تو اُسے قرض بے شک دو یہ اچھا کام ہے۔ مثلاً کوئی آٹے والا ہے یہ کسی غریب اور مفلس کو آٹا قرض دیتا ہے تو وہ قابل تعریف ہے کیونکہ وہ اپنے بھائی کی مددکرتا ہے اسی طرح اگر کوئی کپڑے والا کسی ایسے آدمی کو کپڑا قرض دیتا ہے جو کمانے والا ہے تو وہ قابل شکریہ ہے اس کا قرضہ اگر وہ ادا نہ سکے تو دوسروں کا فرض ہے کہ اُس کی جگہ ادا کردیں۔ اِسی طرح اگر کوئی اور ضروری چیز قرض دیتا ہے تو اچھا کرتا ہے۔ لیکن ایسی اشیاء جیسے مٹھائی اور دودھ ہے قرض دینا دوسرے کو اسراف کی عادت ڈالنا ہے۔ ایسا مت کرو کیونکہ اِس کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلتا۔ اور وہ جو اسراف کراتا اور دوسرے پر بوجھ لادتا ہے وہ بھی اچھا نہیںکرتا۔
خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو اسراف اور بخل دونوں سے بچائے اور ان کے درمیانی راستہ پر چلنے کی توفیق دے۔‘‘ اٰمِیْنَ یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۔ (الفضل ۲؍ فروری ۱۹۱۶ئ)
۱؎ الفرقان: ۶۲ تا ۶۸ ۲؎ الفجر: ۳۰ ،۳۱
۳؎ طبری جلد۴ صفحہ۴۳۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء
۲
صفاتِ الٰہیہ کو نہ سمجھنے سے تمام خرابیاں پیدا ہوتی ہیں
(فرمودہ ۱۴؍ جنوری ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اورسورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
؎۱
پھر فرمایا:۔
اِس آیت کریمہ میں جو میں نے ابھی پڑھی ہے اسلام کے سِوا باقی جس قدر مذاہب ہیں ان کے دو حصے کئے گئے ہیں اور اِن میں سے ایک کا نام ’’اہل کتاب‘‘ رکھا ہے اور دوسرے کا جیسا کہ دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے مشرک نام ۔یعنی جو کسی آسمانی کتاب کو مانتے ہیں انہیں اہل کتاب کہا گیا ہے اور جو کسی کتاب کو نہیں مانتے انہیں مشرکین قرار دیا گیا ہے اور ان دونوں کے ساتھ معاملہ اور برتائو کرنے میں فرق رکھا ہے۔ بعض لوگوں کو اِس فرق سے یہ دھوکا لگا ہے کہ چونکہ قرآن شریف میں بار بار اہل کتاب کے نام سے ایک گروہ کو پکارا گیا ہے اِس لئے انہیں قرآن شریف نے کافر قرار نہیں دیا۔ حالانکہ قرآن شریف کی ان آخری سورتوں سے ہی جن کولوگ نماز میں پڑھنے کیلئے یاد کرتے ہیں اہل کتاب کا کافر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ سورۂ بیّنہ شروع ہی اس طرح سے ہوتی ہے کہ ۲؎ توا ہل کتاب کو بھی کفر کرنے والے قرار دیا گیا ہے۔
تھوڑے ہی دن ہوئے کہ میرے سامنے ایک غیر احمدی کاسوال پیش کیاگیا کہ قرآن شریف تو اہل کتاب کو بھی کافر نہیں کہتا مگر تم لوگ ہم کو کافر کہتے ہو حالانکہ ہم تمہارے بہت قریب ہیں۔ایک مسیحی جو اہل کتاب ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا کہتاہے، قرآن شریف کو جھوٹا مانتا ہے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا نہ صرف فروع میں ہی فرق ہے بلکہ اصول تک میں بھی اختلاف ہے لیکن وہ کافر نہیں تو کیا وجہ ہے کہ غیر احمدی جو نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، حج کرتے ہیں اور اسلام کے اصولوں کے منکر نہیں ہیں۔ اُن کو تم کافر قرار دیتے ہو۔ میرے نزدیک اس کا سوال کم سمجھی کا نتیجہ ہے۔ قرآن مجید صاف طور پر اہل کتاب اور مشرکین دونوں کو کافر قرار دیتا ہے جیسا کہ میں نے ابھی ایک آیت سے بتا یا ہے ہاں ان میں امتیاز کرنے کے لئے ان کے دو نام رکھ دئیے ہیں۔ یعنی ایک اہل کتاب اور دوسرے مشرک۔ پس کافر ہونے کے لحاظ سے ِان دونوں میں کوئی تخصیص نہیں جیسے کافر اہل کتاب ہیں ویسے ہی مشرک بھی ہیں۔ البتہ کافر ہونے کی حالت میں ہی ان کی دو قسمیں کر دی گئی ہیں۔ ہم بھی اسی لحاظ سے غیر احمدیوں کو مشرک کافر نہیں کہتے بلکہ اہل کتاب کافر کہتے ہیں اور جو تخصیص قرآن شریف نے مشرکوں کے مقابلہ میں اہل کتاب سے رکھی ہے وہی ہم غیر احمدیوں سے رکھتے ہیں اور ہم تو خواہ کسی کتاب کے الہامی ماننے والے ہوں اُنہیں بھی اہل کتاب ہی کہتے ہیں۔ غرض کافر تو اہل کتاب ومشرک دونوں ہوتے ہیں لیکن امتیاز کیلئے ان کی الگ الگ شاخیں قرار دے دی گئی ہیں۔ ایک اہل کتاب کافر اور دوسرے مشرک کافر ۔اور ان دونوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں فرق رکھا گیا ہے جو یہ ہے کہ اہل کتاب کی نسبت خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے۔ ان کا تیار کیا ہوا طعام تمہارے واسطے کھانا جائز ہے اور تمہارا پکا ہوا کھانا ان کے لئے اِس سے زیادہ یہ کہ اہل کتاب کا ذبح کھانا بھی جائز ہے۔ اِسی طرح اگرکوئی اہل کتاب اپنی لڑکی کسی مسلمان کو بیاہ دینے کے لئے تیار ہو تو ا س سے نکاح کر لینا جائز ہے لیکن ایک مشرک جس کی تعریف ہے کہ وہ کسی الہامی کتاب کے ماننے کا دعویدار نہ ہو ا ُس کے متعلق یہ باتیں جائز نہیں ہیں۔ یعنی نہ تو ان کے کھانے کوئی مسلمان کھا سکتا ہے اور نہ ان کی لڑکی سے شادی کر سکتا ہے۔ پس یہ فرق ہے اہل کتاب اور مشرکین میں۔
اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ یہ فرق کیوں رکھا گیا ہے کیونکہ اب ایک اورنیا گروہ اہل کتاب کا نکلا ہے یعنی غیر احمدی۔اس لئے ان کی طرف سے یہ سوال ہوتا ہے۔ چنانچہ پہلا سوال کرنے والے نے ہی ایک یہ بھی کیا ہے کہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب کے ساتھ سلوک کرنے میں فرق کیوں رکھا گیا ہے؟برہمو جو کسی کتاب کو نہیں مانتے وہ تو اہل کتاب نہیں ہیں حالانکہ وہ شرک نہیں کرتے اور عیسائی جو اہل کتاب ہیں وہ اتنا بڑا شرک کرتے ہیں کہ جس کی نسبت خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ قریب ہے کہ ان کے اس شرک کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑے لیکن باوجود اس کے وہ تو اہل کتاب ہیں اور برہمو کے مقابلہ میں ان کے ساتھ معاملات میں بڑافرق رکھا گیا ہے۔ میرے نزدیک اِس فرق میں بہت بڑی حکمتیں ہیں جن کے سمجھنے کے لئے پہلے اِس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ سوائے اس مذہب کے جو اپنے وقت کے لوگوں کے لئے خدا کی طرف ہدایت کے لئے مقرر ہوتا ہے باقی سب مذاہب جن کی اصل ہی کوئی نہ ہو یا ابتدا ء میں تو درست ہوں لیکن بعد میں خراب ہو گئے ہوں شرک سے کبھی خالی نہیں ہوتے کیونکہ کوئی مذہب اُسی وقت بگڑتا ہے جب اس کے پیرو ان صفاتِ الٰہیہ کے سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں اور جب صفات الہیہ کے سمجھنے میں نقص پیدا ہو گا تو ساتھ ہی شرک پیدا ہو گا۔ پس کوئی جھوٹا مذہب شرک کی آمیزش سے خالی نہیں ہو سکتا ۔اور جو مذہب شرک کی آمیزش سے بکلی پاک ہے وہ ضرور سچا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ بعض جھوٹے مذاہب میں شرک ظاہر طور پر ہو اور بعض میں مخفی طور پر۔
اب جبکہ یہ بات ثابت ہو گئی کہ شرک تمام جھوٹے مذاہب میں ہوتا ہے اور قرآن کریم سے بھی ثابت ہے کہ مسیحی اور یہودی جن کو نام لے کر اہل کتاب کہا ہے وہ مشرک ہیں جیسا کہ فرمایا کہ۳؎ یہودی کہتے ہیں کہ عزیز اللہ کا بیٹا ہے اور نصارٰی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ پھر اسی ذکر کے ساتھ دوسری آیت میں فرمایا کہ ۴؎ پس قرآن کریم کے نزدیک سوائے اسلام کے سب مذاہب میں شرک ہے اور جس طرح غیر اہل کتاب مشرک ہیں اسی طرح دوسرے لوگ بھی مشرک ہیں ۔ اب یہ سوال پیدا ہو تاہے کہ جب اسلام کے سوا سب ہی مشرک ہیں تو پھر ناموں میں کیوں فرق کیا؟سو اِس کا جواب یہ ہے کہ ناموں میں فرق شناخت کے لئے کیا جاتا ہے کہ ایک جماعت دوسری سے الگ ہو جائے اور پہچانی جائے۔ تمام نام اِسی لئے رکھے جاتے ہیں تا ایک چیز دوسری چیز سے علیحدہ معلوم ہو جائے اور لوگ اسے شناخت کر سکیں چونکہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ ان مذاہب میں جو کسی کتاب کو آسمانی مانتے ہیں اور ان میں جو کسی الہامی کتاب کو نہیں مانتے فرق کیا جائے اور کسی آسمانی کتاب کے ماننے والوں سے بعض نرمیاں کی جائیں۔ اس لئے ان کا ایک الگ نام رکھا تاکہ فوراً اُس نام سے ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ گروہ فلاں فلاں رعایات کا مستحق ہے۔ اور نام میں اُس خصوصیت کو بیان کر دیا جو اُس میں پائی جاتی ہے یعنی اہل کتاب ہونا۔ پس جس طرح انسان حیوانوں میں سے ہی ہے لیکن دوسرے حیوانوں سے فرق کرنے کے لئے اسے انسان کہہ دیتے ہیں یعنی دو اُنس رکھنے والا۔ ایک خدا سے اور ایک بندوں سے اور یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو اور جانوروں میں نہیں پائی جاتی۔ اسی طرح اہل کتاب گو مشرک مذاہب میں سے ہی ہیں لیکن ان کو اہل کتاب اس خصوصیت کے اظہار کے لئے کہا گیا جو اِن کے سِوا دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی۔ اور جس طرح حیوانوں میں سے بعض حیوانوں کو انسان کہنے سے وہ جانداروں کی فہرست سے خارج نہیں ہوجاتے اسی طرح مشرکوں میں سے بعض مشرکوں کو اہل کتاب کہنے سے وہ مشرکوں کی فہرست سے خارج نہیں ہو جاتے۔ ہاں صرف ان کی ایک خصوصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ کیوں اہل کتاب کے ساتھ دوسرے مذاہب کی نسبت نرم معاملہ کا حکم دیا گیا ہے؟ توا س کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کبھی کسی کی ذرا سی نیکی کو ضائع نہیں کرتا اور جس کسی میں جس قدر بھی نیکی ہو گی اُس کا اُسے ضرور بدلہ دیتا ہے۔
اسلام میں ایک سچے مومن کے لئے خدا تعالیٰ نے کچھ نشان مقرر کئے ہوئے ہیں اور وہ یہ کہ وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لائے، فرشتوں ، کتابوں اور نبیوں پر ایمان رکھتا ہو۔ پھر خیرو شر، جزا و سزا، بہشت و دوزخ پر ایمان لاتا ہو لیکن اور کوئی جو اِن باتوں میں سے جس قدر زیادہ کو مانتا ہے اُسی قدر وہ اسلام کے قریب ہوتا ہے اس لئے ایک ایسا شخص جو کسی کتاب کو مانتا ہے بہ نسبت اس کے جو کسی کتاب کو نہیں مانتا اسلام کے قریب ہے کیونکہ ایک انسان جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی کسی کتاب کوبھی نہیں مانتا وہ الہام کا قائل نہیں ہوتا۔ اور جب الہام کاقائل نہیں ہوتا تو انبیاء کا بھی قائل نہیں ہوتاکیونکہ نبی وہی ہوتا ہے جس کو الہام ہوتا ہو۔ لیکن جب الہام ہی نہ ہوا تو کوئی نبی کہاں ہوا اس لئے ایک مشرک صرف خدا تعالیٰ کا قائل ہوتا ہے لیکن اہل کتاب خدا اور نبیوں کا قائل ہوتا ہے۔ یعنی مشرک سے ایک درجہ آگے ہوتا ہے۔ پھر ایسے لوگ جو الہام کے قائل نہیں ہوتے وہ فرشتوں کو بھی نہیں مانتے کیونکہ الہام فرشتہ کے ہی ذریعہ ہوتا ہے۔ پس جو قوم نبیوں کو بھی مانتی ہے اور فرشتوں کو بھی مانتی ہے ضرور ہے کہ اُس کے مقابلہ میں ایک ایسی قوم جو نہ نبیوں کو مانتی ہے اور نہ فرشتوں کو ،کم درجہ رکھتی ہو اور پہلی میں دوسری کی نسبت ایمان کی زیادتی ہو۔ چونکہ خدا تعالیٰ کسی کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا بلکہ جس قدر کسی کا زیادہ ایمان ہوتا ہے اُسی قدر اُسے زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے اس لئے اہل کتاب کو جن میں مشرکین سے زیادہ ایمان ہے اِسی دنیا میں مسلمانوں کے زیادہ قریب رکھ دیا۔ کیونکہ غیر اہل کتاب یعنی مشرکین میں سے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کے قائل نہیں ہوں گے اور اگر خدا تعالیٰ کے قائل نہیں ہوں گے توا لہام کے قائل نہیں ہوںگے اور جب الہام کے قائل نہیں ہوں گے تو انبیاء اور ملائکہ کے بھی نہیں ہوں گے۔ لیکن جو اہل کتاب ہیں خواہ کسی کتاب کے ماننے والے ہیں وہ خدا، نبیوں اور اکثر حصہ فرشتوں کے بھی ضرور قائل ہوں گے۔ بعض ایسے بھی ہیں جو فرشتوں کو نہیں مانتے لیکن بہت کم۔ تو اہل کتاب میں چونکہ مشرکین کی نسبت ایمان کے تین جزو زیادہ ہیں یعنی وہ (۱) نبیوں (۲) کتاب پر اور(۳) ملائکہ پر ایمان لاتے ہیں اِس وجہ سے ان کے ساتھ سلوک میں زیادتی رکھی گئی ہے۔ ان کی لڑکیوں کا نکاح میں لینا اِس لئے جائز رکھا گیا ہے تاکہ اس طرح ان کے ساتھ مودّت اور پیار بڑھے کیونکہ جس کی لڑکی کسی کے ہاں آئے گی ضرور ہے کہ اُس کے تعلقات بھی اس سے بڑھیں ۔اِس سلوک کے ذریعہ اہل کتاب کے ساتھ خدا تعالیٰ نے تمدنی اور معاشرتی تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔ اسی طرح کھانا کھا نا ہے جب کوئی کسی کے ہاں کھانا کھائے گا تو ضرور ہے کہ ان کی آپس میں محبت اور اُلفت بڑھے اور ان کے دنیاوی تعلقات مضبوط ہوں۔ پس ایک وجہ تو اہل کتاب کے ساتھ خصوصیت سے سلوک کرنے کی یہ ہے اور دوسری یہ کہ وہ انسان جو خداتعالیٰ کا توقائل ہے لیکن کسی بات کو نہیں مانتااس کے اعمال کی کوئی حدبندی نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ کہتا ہے کہ سب کام اپنی عقل کے مطابق کرنے چاہئیں۔ اگر اُس کی عقل میں چوری کرنا ناجائز ہے تو ناجائز ہے لیکن اگر اسکی عقل اس کے جائز ہونے کا فتویٰ دیتی ہے تواس کے لئے جائز ہے کیونکہ وہ آپ ہی خدا ہوتا ہے اور آپ ہی اچھی بُری چیز کا فیصلہ کرتا ہے۔ مثلاً اگر بیٹھے بیٹھے اس کے خیال میں یہ بات آجائے کہ فلاں آدمی کو قتل کر دینا ایک بہت عمدہ بات ہے تواب اُس کے لئے اُس کے قتل کے جواز کا فتویٰ مل گیا کیونکہ کوئی شریعت اُس کے لئے نہیں ہے جو اسے اس بات سے روکے اور اسکی حد بندی کرے ۔لیکن اگر کوئی کسی کتاب کے ماننے والا ہو تو اس کے یہ کہنے پر کہ میں فلاں کتاب کو مانتا ہوں فوراً پتہ لگ جائے گا کہ اس کے خیالات کیا اور کسی حد کے اندر ہونگے ۔ اور اگر کوئی کسی کتاب کو بھی نہ مانتا ہو تو اس کے خیالات کا بالکل کوئی پتہ نہیں لگے گا۔ اسلام چونکہ ایسی باتوں کو سخت ناپسند کرتا ہے جن میں کوئی حد بندی نہ ہو اور نہیں چاہتا کہ مسلمان ایسے لوگوں سے تعلق رکھیں جن کے حالات اور خیالات کا انہیں پتہ نہ ہو اِس لئے اس قسم کے لوگوں کے ساتھ اسلام نے تعلق رکھنے کی اجازت نہیں دی۔ ہاں جن لوگوں نے اپنے آپ کو کسی کتاب کے ماتحت کر دیا ہے اور اس کتاب کے ذریعہ ان کے خیالات کی حدبندی ہو گئی ہے ان سے اجازت دے دی ہے ۔کیونکہ ایک یہودی، ایک عیسائی اور ہندو کے خیالات اور حالات کا دائرہ معلوم ہوتا ہے اور آسانی سے اِس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی ہر ایک بات اس دائرہ کے اندر اندر ہو گی۔ لیکن ایک ایسا شخص جو کسی کتاب کا قائل ہی نہیںاس کے خیالات کے دائرہ کا کوئی علم نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے لئے کوئی دائرہ مقرر نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر وقت خود نیا دائرہ تجویز کرتا ہے اور ایسا شخص معاملات میں بہت خطرناک ہوتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ بعض لوگ کہہ دیں گے ایک مسلمان کہلانے والا بھی اپنے دائرے کو اس قدر وسیع کرتا ہے کہ سب کچھ ہی اس کے اندر آجاتا ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ ایسا شاذونادر ہوتا ہے ورنہ اکثر ایک مذہب کے ماننے والے کا حال اس کے اپنے اقرار سے معلوم ہو جاتا ہے اور ایسے شخص کی بدیاں بھی محدود ہی ہوتی ہیں ۔تو اسلام نے اِس بات کو مدنظر رکھ کر اہل کتاب کے ساتھ تو اس قسم کے تعلقات رکھنے کی اجازت دے دی ہے لیکن غیر اہل کتاب کے ساتھ نہیں دی اگر کوئی مسلمان ایک عیسائی یا یہودی یا ہندو عورت سے شادی کرتا ہے تو وہ اس کی نسبت جانتا ہے کہ یہ کچھ اس کے خیالات ہوں گے اور اس طرح کرے گی۔ مثلاً یہ کہ ان مذاہب میں جھوٹ بولنا ناجائز ہے اِس لئے اگر وہ اپنے مذہب کی پابند ہو گی تو اس سے پرہیز کرے گی۔ لیکن اگر کوئی دہریہ یا برہمو عورت ہو اور وہ جھوٹ بولے تو اُس کا مذہب اُسے اِس سے نہیں روکے گا کیونکہ درحقیقت اُس کا مذہب اُس کی اپنی عقل ہے اور وہ پہلے بنائے ہوئے قواعد کو اپنے ذہنی خیالات سے ہر وقت توڑ سکتی ہے اور نئے اصول تجویز کر سکتی ہے۔
پس چونکہ ہر ایک اہل کتاب کے خیالات اور حالات کا دائرہ معلوم ہوجاتا ہے اِس لئے ان کے ساتھ تعلق رکھنے کی اسلام نے اجازت دے دی ہے لیکن غیر اہل کتاب کا چونکہ معلوم نہیں ہوتا اس لئے اُن کے ساتھ تعلق رکھنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ ان سے تعلقات رکھنے سے خطرناک نقصانات کا احتمال ہے اور اسلام ایسی بات کے کرنے سے روکتا ہے جس میں نقصان زیادہ اور نفع کم ہو۔ چونکہ اِس میں نقصان زیادہ ہے اِس لئے اِس سے روک دیااوریہ اسلام کی مسلمانوں پر ایک بہت بڑی رحمت ہے۔ تو یہ دووجوہات ہیں جن کیلئے اہل کتاب کا حق غیر اہل کتاب کی نسبت زیادہ رکھا گیا ہے اور ان کے ساتھ سلوک کرنے میں یہ فرق قرار دے دیا ہے۔
اِسی کے متعلق ایک اور سوال اس شخص نے کیا ہے اور وہ یہ کہ جب قرآن شریف نے اہل کتاب اور غیر اہل کتاب میں اِس لئے فرق رکھا ہے کہ اِن کی ایمانیات میں فرق ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہندوئوں ، یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ سلوک کرنے میں بھی فرق نہیں رکھا گیا کیونکہ ایمانیات کے لحاظ سے توان میں بھی ایک دوسرے سے فرق ہے۔ عیسائی یہودیوں کی نسبت اور یہودی ہندوئوں کی نسبت اسلام سے قریب ہیں اور پھر غیر احمدی ان سب کی نسبت احمدیوں کے قریب ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان کے ساتھ بھی اِسی لحاظ سے سلوک میں فرق نہیں رکھا گیا؟ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے یہ سوال اِس لئے کیا ہے کہ اس نے دنیا کے معاملات اور خداتعالیٰ کے افعال پر غور نہیں کیا۔ اصل بات یہ ہے کہ سہولت اور کام کے چلانے کے لئے کچھ دائرے اور حدود مقرر کی جاتی ہیں اور گو ان دائروں کے اندر آنے والے افراد میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے لیکن وہ سب اسی ایک ہی دائرہ میں سمجھے جاتے ہیں۔ مثلاً آدمیوں اور گدھوں میں امتیاز کے لئے ایک حد مقرر ہے مگر آدمیوں میں بھی بعض گدھے ہوتے ہیں۔ چنانچہ بعض بیوقوفوں کو لوگ گدھے کہتے ہیں لیکن اگر کہیں بہت سے آدمی بیٹھے ہوں اور ان میں ہی کچھ ایسے لو گ بھی ہوں جن کو گدھے کہا جاتا ہے تو ان سب کو گننے والا انسان گدھوں کو بھی انہیں میں شمار کرے گا نہ کہ انہیں گدھے قرار دے کر ان سے خارج سمجھے گا۔ اسی طرح ہر ایک چیز میں ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی دو چیزیں ایک جیسی نہیں ہو سکتیں اور کوئی د و چیزیں بالکل ایک ہی رنگ کی ،ایک ہی شکل کی، ایک ہی قدوقامت کی نہیں ہو سکتیں۔ ایک ہی اخلاق اور ایک ہی طبیعت کے دو آدمی نہیں ہو سکتے۔ پھر ایک ہی شکل ،ایک ہی آواز کے دو آدمی نہیں مل سکتے ضرور کچھ نہ کچھ ان میں فرق ہو گا۔ پس اگر فرق کے لحاظ سے ہر ایک انسان اور ہر ایک چیز کا نام الگ الگ قرار دیا جاتا تو نہ معلوم کس قدر ان کے نام ہو جاتے جس سے انتظامِ دنیا میں بہت سی ابتری پھیل جاتی۔ پھر کوئی دو کافر اور دو مومن اعمال کے لحاظ سے ایک دوسرے کے بالکل برابر نہیں ہو سکتے اس لئے ہر ایک کے لئے الگ الگ نام ہونا چاہئے تھا۔ پھر عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوئوں میں تو ایک دوسرے سے بڑا ہی فرق ہے اس لئے ان میں سے ہر ایک کا بھی علیحدہ نام ہوتا۔ پھر اسلام کے فروعات کے لحاظ سے ہر ایک مسلمان میں فرق ہو گا اِس لئے ہر ایک کے ساتھ سلوک اور تعلق کے لئے الگ الگ قاعدہ قرآن شریف میں بتایا جاتا لیکن اِس کے لئے موجودہ قرآن شریف کیا اگر اس سے کروڑ گنا بھی زیادہ ہوتا تو بھی اس میں یہ سب باتیں نہ آسکتیں کہ فلاں کے ساتھ فلاں سلوک کیا جائے اور فلاں کے ساتھ فلاں۔ تویہ کہنا کم فہمی کا نتیجہ ہے۔
دنیا میں ہی دیکھ لو ہر ایک قسم کے لئے ایک حد بندی ہوتی ہے اور باوجود اس کے افراد کے اختلاف کے سب کو اسی میں سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً سکول کے لڑکے ایک ہی امتحان دیتے ہیں لیکن ان کے لئے الگ الگ ڈویژن مقرر ہوتے ہیں اور پھر ان ڈویژنوں میں پاس ہونے والے لڑکوں میں بھی فرق ہوتا ہے۔ مثلاً فرض کر لو کہ تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونے والوں کے لئے یہ حد ہے کہ جو ایک سَو سے دو سَو تک نمبر حاصل کرے وہ اس ڈویژن میں پاس ہو گا۔ اب جو لڑکے ۱۰۱یا ۱۰۲ یا ۱۰۴ اور اسی طرح دو سَو تک نمبر لیں گے وہ سب تھرڈ ڈویژن میں ہی پاس ہونے والے سمجھے جائیں گے نہ کہ ہر ایک کے فرق کے لحاظ سے اس کا الگ ڈویژن مقرر ہو گا۔ (چونکہ سوال کرنے والا ایک طالب علم ہے اِس لئے میں نے یہی مثال دی ہے) اسی طرح الٰہی قانون ہے۔ خدا تعالیٰ نے تمام انسانوں کا نام انسان رکھا ہے حالانکہ اِن میں ایک دوسرے سے ضرور کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے۔ہاں کچھ فرق بڑے ہوتے ہیں اور کچھ چھوٹے ۔ خدا تعالیٰ نے بڑے فرقوں کے لحاظ سے الگ الگ نام رکھ دیا ہے۔ پس اِس لحاظ سے سب اہل کتاب کا ایک ہی نام ہے۔ باقی رہی ہر ایک کی حالت سو اِس کے مطابق اس سے سلوک ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایسا اہل کتاب ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نکالتا ہے یا قرآن شریف کی بے ادبی کرتا ہے تو کبھی کوئی سچا مسلمان یہ پسند نہیں کرے گا کہ اُس کی لڑکی اپنے نکاح میں لے لے۔ یااُس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھائے۔ اِس قسم کا سلوک ہر ایک کی حالت کے مطابق ہو گا۔ لیکن اسلام نے ایک اصول کے رنگ میں ان میں اور غیر اہل کتاب میں فرق رکھ دیا ہے۔ ایک غیراحمدی اور ایک مسیحی میں بلحاظ اس کے کہ وہ بھی نبیوں کو مانتا ہے اور ایک عیسائی بھی نبیوں کو مانتا ہے کوئی فرق نہیں ہے۔ ہاں انبیاء کے افراد کا خیال کریں تو فرق معلوم ہوتا ہے۔ یعنی ایک عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مسیح موعود دونوں کو نہیں مانتا اور ایک غیر احمدی صرف حضرت مسیح موعود کو نہیں مانتا اس لئے کچھ فرق تو ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک کسی گروہ کا نام رکھنا بڑے فرق کی وجہ سے ہوتا ہے اور اگر چھوٹے چھوٹے فرقوں پر بھی نام رکھے جائیں تو دنیا کا کوئی کام بھی نہ چلے اور اہل دنیا کے لئے یہ ایک بہت ضرر دِہ بات ہو اور خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ضرر دینے والی بات نہیں آتی۔ پھر مسلمانوں میں ہی کئی فرقے ہیں لیکن سب مسلمان ہی کہلاتے ہیںیہ کوئی نہیں کہتا کہ ان کے نام الگ الگ کیوں نہیں رکھے گئے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر اِس طرح نام رکھے جاتے تو کام ہی نہ چلتا۔ اصل بات یہ ہے کہ بڑے بڑے اختلاف کی وجہ سے نام رکھے جاتے ہیں اور اگر اِس معترض کو بُرا لگتا ہے کہ کوئی اسے حق سے دور کیوں قرار دیتا ہے تو ہم کہتے ہیںکہ ہم کب چاہتے ہیں کوئی حق سے دور ہو ہم بھی تو یہی چاہتے ہیں کہ سب لوگ حق کو قبول کر لیں اور ہم میں مل جائیں۔ پس جسے یہ بات بُری لگتی ہے اسے چاہئے کہ وہ حق کو قبول کرلے۔ پھر اُسے کبھی ہم حق سے دور نہ کہیں گے۔ہمیں کسی کو کافر کہنے کا شوق نہیں ہاں اگر کوئی اپنے اعمال سے کافر بنتا ہے تو بنے۔ لیکن اگر ہم غیر احمدیوں کے نزدیک جھوٹے ہیں اور کسی کو کافر کہتے ہیں تو اُسے بُرا کیوں لگتا ہے۔دیکھو عیسائی ہمیں کافر کہتے ہیں لیکن ہم اُن کے اِس کہنے سے نہیں چڑتے کیونکہ ہم اُنہیں سچا نہیں سمجھتے۔ پس اگر غیر احمدی ہمارے کافر کہنے سے چڑتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہم کو سچا سمجھتے ہیں۔ ہم ان کو کہتے ہیں کہ جب وہی اسلام ہے جو ہمارے پاس ہے تو تم اِسے قبول کر لو۔ پھر ہم تمہیں کافر نہیں کہیں گے بلکہ اپنا بھائی سمجھیں گے۔
خدا تعالیٰ تمام لوگوں کو توفیق دے کہ وہ سچی راہ کو قبول کریں اور قسم قسم کے فتنوں میں پڑ کر صداقت اور راستی کو نہ چھوڑیں۔ ‘‘ (الفضل ۵؍ فروری ۱۹۱۶ئ)
۱؎ المائدہ: ۶ ۲؎ البینۃ:۲ ۳؎ التوبۃ: ۳۰
۴؎ التوبۃ: ۳۱
۳
دعوت الیٰ اللہ رضائے الٰہی کا موجب ہے
(فرمودہ ۲۸؍ جنوری ۱۹۱۶ئ)
تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت کی:۔
۱؎
اور پھر فرمایا:۔
’’کھوئی ہوئی چیز انسان کو جب ملے وہ بہت خوش ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کی کوئی چیز ڈھونڈ کر لائے تو اُسے ایسی خوشی ہوتی ہے کہ وہ ڈھونڈ کر لانے والے کو انعام دیتا ہے پس کھوئی ہوئی چیز ملنے پر طبعاً خوشی ہوتی ہے۔ حضرت مسیح ناصری نے گناہ کے بخشنے کے متعلق یہ مثال بیان فرمائی ہے کہ ایک شخص تھا اس کے کچھ بیٹے تھے، اُس کا بہت مال تھا، اُس نے وہ مال سب بیٹوں میں تقسیم کر دیا اور کہا کہ جائو کھائو پیو اور اِس روپیہ سے تجارت کرو۔ باقی بیٹے تو مال کما کر لائے مگر ایک نے وہ سب مال کھا پی لیا اور بجائے کما کر لانے کے جو اصل تھا وہ بھی ضائع کر دیا اور آوارہ ہو گیا۔ آخر ایک جگہ جا کر اُس نے ملازمت کر لی۔ ایک دن اُسے خیال آیا کہ میں جو یہاں مصیبت میں پڑا ہوا ہوں اور میری یہ حالت ہو گئی ہے میں اپنے باپ ہی کے پاس کیوں نہ چلا جائوں کیونکہ جیسا میں یہاں کھاتا ہوں ایسا تو میرے باپ کے غلاموں اور ان جانوروں کو بھی مل جاتا ہے جو اُس کے پاس رہتے ہیں۔ جب وہ واپس آیا تو اپنے باپ کے نوکروں کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ ایک نوکر نے جا کر اُس کے باپ کو خبر کی کہ تمہارا جو بیٹا چلا گیا تھا فلاں جگہ شرمندہ ہو کر بیٹھا ہے۔ باپ نے اُسے بلایا۔ جب وہ آیا تو اُس کے باپ نے کہا کہ بکرا لائو میں قربانی کروں۔ اس کے دوسرے بھائیوں نے کہا کہ ہم تو مال کما کر لائے تھے ہمارے لئے تو تُو نے قربانی نہیں کی اور جو مال کما کر نہیں بلکہ ضائع کر کے گھر آیا ہے اس کے لئے تو قربانی کرتا ہے؟ وہ کہنے لگا تم تو زندہ تھے مگر یہ میرے لئے اب زندہ ہوا ہے اِس لئے اِس خوشی میں بکرا کی قربانی کرتا ہوں کیونکہ جو زندہ ہے وہ تو زندہ ہی ہے اُس کا تو غم نہیں مگر جو مر کر زندہ ہوا اِس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ ایسے ہی اگر انسان مال محنت سے کما کر لائے اور وہ گم ہو کرپھر مل جائے تو اسے بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ انسان کے جس قدر جذبات ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے ظل ہیں۔ البتہ اللہ تعالیٰ میں وہ صفات زیادہ شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں اور انسان میں کم۔ جب انسان بھی اپنی کھوئی ہوئی چیز پر انعام دیتا ہے تو اگر خدا تعالیٰ کی کھوئی ہوئی چیز کوئی اس کے پاس ڈھونڈ کر لادے تو وہ تو اُسے یقینا بڑا انعام دے گا۔
مُفْلِحُوْنَ کہہ کر یہ بتایا کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے مذہب کی طرف لانے والے ہوں گے وہ بڑے بڑے انعام پائیں گے۔ دوسرے گمشدہ وہ لوگ ہیں جو دین سے جاہل، سچے دین کو چھوڑنے والے اور انبیاء کی مخالفت کرنے والے، قرآن کریم کو چھوڑنے والے ہیں۔ پس جو خدا کی گمشدہ مخلوق کو خدائے تعالیٰ کے پاس لاتا ہے خدا تعالیٰ ضرور اُسے بڑے بڑے انعام دیتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشریح ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی سفر پر چلتے وقت بیان فرمائی آپ نے فرمایا کہ اگر ایک روح بھی تیرے ذریعہ سے ہدایت پا جائے گی تو دنیا وَ مَافِیْھَا کی سب نعمتوں سے بہتر ہو گا۔ ۲؎ دنیا کی نعمتیں تو محدود اور ایک خاص وقت تک ہی ہیں لیکن جب خدا تم سے راضی ہو جائے گا تو یقینا غیر محدود نعمتیں غیر محدود زمانہ تک تمہیں ملیں گی۔ جو خدا کی تعلیم سے بھاگنے والوں کو واپس خدا کی طرف لائیں گے خدا تعالیٰ یقینا اُن کو کامیاب اور مظفر و منصور کر ے گا وہ کبھی نا کام و نامراد نہیں ہو ںگے۔ اُس کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے یہ ایک عمدہ ذریعہ ہے۔ ایک باپ کا اگر چھوٹا بچہ بھی جس کے اعضاء بھی اچھے اور مضبوط نہ ہوں گم ہو جائے اور پھر اُسے مل جائے توا ُسے کس قدر خوشی اور راحت ہوتی ہے۔ اِسی طرح کسی بندہ کے راہ راست پر آجانے سے خدا تعالیٰ کو بھی بہت خوشی ہوتی ہے۔ پس قومی ترقی کیلئے اصلاح وارشاد بڑا ذریعہ ہے۔ بلکہ یہ ترقی حاصل کرنے کا بڑا عجیب ذریعہ ہے ایک تو یہ مصائب کو ٹال دیتا ہے اور دوسرے یہ سُود درسُود ہو کر واپس ملتا ہے۔ ایسے لوگوں کو فائدے ہی فائدے ہیں ان کا مال بڑھتا ہی ہے کم نہیں ہوتا۔ کیونکہ جو ترقی اور فائدہ خدا کی طرف سے آتا ہے وہ ۷۰گنا کے قریب ہو تا ہے اس سے پہلی بات تو یہ ہو گی کہ جماعت بڑھے گی پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کو اور بڑھاتا ہوں ۔۳؎ اللہ تعالیٰ کے رستہ کی طرف لانا اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ جن قوموں نے اِس کام کو اپنے ہاتھوں میں لیا وہ کبھی ذلیل و رُسوا نہیں ہوئیں بلکہ وہ کامیاب اور مظفر و منصور ہی ہوئی ہیں۔ جب خدا تعالیٰ ترقی کا وعدہ کرتا ہے تو پھر اور کون اسے روک سکتا ہے۔
اِس وقت ہماری جماعت نے خدا تعالیٰ کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچانے کا ذمہ لیا ہے لیکن ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو یہ کہہ دیتے ہیں کہ لوگ ہماری بات کو نہیں سنتے اِس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اِس راہ میں کوشش کرتے ہیں وہ ضرور کامیاب ہوتے ہیں بلکہ اس آیت میں یہ بھی فرمایا یعنی ان کی کوششیں کامیاب ہوتی ہیں اور اُن کو ان کی کوششوں کا بدلہ دیا جاتا ہے۔ خواہ کوئی مسلمان ہو یانہ ہو، مانے یا نہ مانے۔ اس آیت میں یہ الفاظ نہیں کہ اگر کوئی مسلمان ہی ہو تو تب تمہیں بدلہ دیا جائے گا بلکہ یہ فرمایاکہ جو کوشش کرے گا اُسے بدلہ دیا جائے گا خواہ کوئی اس کی بات کو مانے یا نہ مانے۔
ہماری جماعت میں کم لوگ ہیں جن کے ذریعہ سلسلہ میں لوگ آئے ہیں۔ا کثر حصہ وہ ہے جو اِس کام میں پوری طرح اپنا فرض ادا نہیں کرتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کا کام ہے۔ بعض ایسے ہیں جن کے ذریعہ ایک بھی جماعت میں نہیں آیا۔ بلکہ ۸۰ فیصدی ایسے لوگ ہوں گے جن کے ذریعہ کوئی بھی فردسلسلہ میں نہیں آیا۔ لیکن جو کوشش کرتے ہیں اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وہ ضرور کامیاب ہوں گے۔
میں جب خلیفہ ہوا مجھے یہ افسوس ہوا کہ میں نے تو ارادہ کیا ہوا تھا کہ دنیا میں پھر کر لوگوں کو ہدایت کی دعوت دوں گا اب خلافت کی وجہ سے یہ کام نہیںہو سکتا۔ انہی ایام میں خدا تعالیٰ نے ایک عیسائی نوجوان کو بھیج دیا کئی دن تک بحث ہوتی رہی آخر خدا تعالیٰ نے اُسے مسلمان بناد یا۔ اِسی طرح خدا تعالیٰ نے مجھے سمجھایا کہ یہ ضروری نہیں کہ باہر ہی جا کر لوگوں کو سمجھایا جائے جہاں ہم کسی آدمی سے کام لینا چاہتے ہیں وہیں لے سکتے ہیں۔ گو خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت ترقی کر رہی ہے مگر ترقی کی رفتار بہت ہی سست ہے۔ ابھی وہ برکات نہیں نازل ہوئیں کہ جن کی وجہ سے فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہوں۔
مجھے یہ تحریک اس لئے ہوئی کہ ایک انگریز نے ایک رسالہ لکھا ہے اور کہتا ہے کہ یہ جماعت تو اسلامی سمندر میں ایک کیڑا کے برابر ہے۔ واقعہ میں اُس کی یہ بات صحیح ہے اِس میں شک نہیں کہ ہم ایک قطرہ کی طرح ہیں مگر بعض وقت ایک قطرہ اپنا اثر تمام پانی پر ڈال دیتا ہے۔ مثلاً سنکھیا ہی ہے کتنی تھوڑی سی چیز ہے مگراِس کا تھوڑا سا کھا لینا بھی انسان کو ہلاک کر دیتا ہے اور کثرت سے اِس قسم کی زہریلی دوائیں ہیں کہ تنکے کے اُوپر جس قدر حصہ آتا ہے و ہی کھاتے ہیں۔ا گر اس سے زیادہ کھایا جائے تو بڑا خطرناک ہوتا ہے ۔پھر ایک دیا سلائی کتنی چھوٹی سی چیز ہے مگر تمام جنگل کو جلا دیتی ہے اور شہروں کو خاک سیاہ کر سکتی ہے۔ پھر ہمارے لئے تو خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں اور بڑے بڑے وعدے بھی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسیح د مشق کے مشرق کی طرف نازل ہو گا۔۴؎ تعبیر نامہ میں مشرق کی طرف جانا یا مشرق سے آنا ترقی کی علامت ہوتی ہے۔ اِس سے یہ مطلب تھا کہ اسلام کی ترقی ہو گی۔ یعنی روحانیت ان لوگوں سے نکل گئی ہو گی وہ آکر ان میں روحانیت پیدا کریں گے۔ اور پھر تلوار سے نہیں بلکہ دلائل سے فتح یاب ہوں گے۔ دراصل اس پیشگوئی کا مطلب یہی تھا مگر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری الفاظ کے بھی پورا کرنے کی کوشش کی۔
پس صداقت کے مدعیوں کو ہمت و استقلال سے کام لینا چاہئے ۔جب یہ وعدے ہیں کہ لوگ مان لیں گے تو پھر ہمیں چاہئے کہ اِس پیشگوئی کے ظاہری اور باطنی لفظوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ جو یہاں ہیں اگر وہی اصلاح وارشاد کا کام پوری طرح سرا نجام دیں اور ہماری جماعت کا ہر فرد اِس کوشش میں رہے کہ میں ایک آدمی کو سچا مسلمان بنا لوں گا تو اس طرح جماعت بہت جلد دُگنی ہو سکتی ہے۔
کہتے ہیں کہ جس شخص نے شطرنج کی کھیل نکالی تھی وہ بادشاہ کے پاس اسے تحفۃً لے گیا۔ بادشاہ نے کہا کہ اسے لاکھ روپے دے دو۔ اِس نے کہا حضور! میں لاکھ نہیں لیتا آپ شطرنج کے خانوں میں اس طرح روپیہ رکھیں کہ پہلے خانہ میں ایک روپیہ، دوسرے میں دو، تیسرے میں تین حتیٰ کہ یہ تمام خانے پُر ہو جائیں۔ بادشاہ نے کہا اِس پاگل کو سمجھائو کہ اِس طرح تمہیں نقصان ہو گا۔ خیر اس نے اس کی تجویز مان لی اور خزانچی سے کہا کہ تم ہر خانہ میں پہلے سے دُگنا رکھتے جائو۔ وہ رکھتا گیا ۔رکھتے رکھتے اس روپیہ کی تعداد لاکھ سے بڑھ گئی۔ خزانچی نے بادشاہ کو کہا کہ حضور! خزانہ تو خالی ہو گیا ہے اور ابھی خانے پُر ہونے باقی رہتے ہیں۔
پس یہ بالکل صحیح بات ہے کہ اگر ایک احمدی اپنے ساتھ ایک آدمی لائے پھر جو آنے والا ہے وہ کسی اَور کو لائے تو اِس طرح ہزار سے دو ہزار ، دو ہزار سے چار ہزار اِسی طرح کروڑوں تک تعداد پہنچ سکتی ہے۔ صرف اخلاص اور محبت کی ضرورت ہے جب تک اخلاص نہ ہو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ جس میں اخلاص ہو گا وہ خود بخود کوشش کرے گا۔ جب خدا تعالیٰ نے جو یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ لوگ کبھی ناکام و نامراد نہیں ہو ںگے تو تم کیونکر ناکام ہو سکتے ہو۔ا للہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے مردوں، عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں میں یہ جوش اور اخلاص پیدا کرے۔‘‘ آمین (الفضل ۱۶؍ جون ۱۹۶۵ئ)
۱؎ اٰل عمران: ۱۰۵
۲؎ بخاری کتاب الجہاد باب دعاء النبی ﷺ الی الاسلام والنبوۃ
۳؎ البقرہ : ۲۶۲
۴؎ سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب فتنۃ الدجال وخروج عیسٰی ابن مریم (الخ)
۴
تمام احمدی ہوشیار ہو جائیں
(فرمودہ ۴؍ فروری ۱۹۱۶ئ)
تشہد ، تعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’آج ایک خاص بات کے متعلق میں اپنی جماعت کے لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ بات تو وہ بہت ضروری ہے اور چاہتی ہے کہ اس کے متعلق مفصل بیان کیا جائے لیکن پرسوں سے مجھے تپ ہے اور ایک پھوڑا بھی ران پر نکلا ہوا ہے جس کی وجہ سے میں زیادہ کھڑا نہیں ہو سکتا اِس لئے مختصر بیان کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ خاص فضل اور احسان ہوتا ہے کہ وہ ان کی ہدایت کے لئے سامان مہیا کر دیتا ہے۔ یہ سامان تو بہت سے ہیں مگرا ن کے مفصل ذکر کرنے کی اِس وقت گنجائش نہیں۔ ان سامانوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ آنے والی مصیبتوں اور بلائوں سے قبل از وقت ایسے بندوں کو جن پر وہ خوش ہوتا ہے اطلاع دے دیتا ہے تاکہ وہ اس اطلاع سے فائدہ اُٹھا کر اپنی اصلاح کر لیں، صدقہ و خیرات کریں، دعائیں مانگیں جس سے بلا ٹل جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ کی یہ ہمیشہ سے سنت ہے کہ وہ اپنے ایسے بندوں پر جن کے دلوں میں اُس کی محبت اور عظمت ہوتی ہے مگر کوئی کمزوری ایسی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ تکالیف اور مصائب میں مبتلا ہونے والے ہوتے ہیں ان پر یہ رحم اور فضل کرتا ہے کہ انہیں قبل از وقت اطلاع دے دیتا ہے تاکہ وہ اپنی اصلاح کر کے گناہوں کا خمیازہ اُٹھانے سے بچ جائیں۔
اِس وقت کئی دنوں سے متواتر بعض لوگوں کو قادیان میں بھی اور باہر بھی ایسی متوحش خوابیں آرہی ہیں جن کا تعلق خاص قوم اور جماعت سے ہے اور جن سے پتہ لگتا ہے کہ کوئی ایسی مشکلات آنے والی ہیں جو جماعت سے تعلق رکھتی ہیں۔ میں نے بھی بعض خوابیں اِنہی دنوں میں اِسی قسم کی دیکھی ہیں۔ یہ خوابیں کیوں آرہی ہیں؟ ہم کوئی نبی نہیں کہ ہماری نبوت کے ثبوت کے لئے خدا بتا رہاہے بلکہ اِن کی یہی غرض ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ ہوشیار ہو جائیں اور اس آنے والے وقت سے پہلے اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کر لیں اور ایسے تضرع سے دعائیں مانگیں، صدقہ و خیرات کریں کہ خدا تعالیٰ اِن مشکلات کو ٹلا دے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیساکہ گورنمنٹیں بھی جب کسی بات کو ناپسند کرتی ہیں اور وہ ایسے لوگوں کی طرف سے سرزد ہوتی ہیں جن پر وہ خوش ہوتی ہیں تو اُنہیں پہلے یہ اطلاع دے دیتی ہیں کہ یہ بات تم نے اچھی نہیں کی آئندہ احتیاط کرنا۔ تو خدا تعالیٰ بھی جس قوم پر خوش ہوتا ہے اُس کو قبل از وقت یہ اطلاع دے دیتا ہے کہ ایک مصیبت آنے والی ہے اس سے بچنے کا سامان کر لو۔ یعنی صدقہ و خیرات دو، دعائیں کرو اور اپنے حالات میں تبدیلی پیدا کرو تاکہ وہ ٹل جائے۔ پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ اس سے فائدہ اُٹھائیں۔
بعض لوگوں کے متعلق تو مجھے خاص طور پر بھی دکھایا گیا ہے میں نے دو آدمیوں کے متعلق جو ہماری ہی جماعت کے ہیں دیکھا ہے کہ وہ دہریہ ہو گئے ہیں۔ لیکن اکثر خوابیں عام طور پر ہیں۔ بعضوں نے زلزلہ دیکھا ہے، بعضوں نے بارش کو دیکھا ہے، بعضوں نے آگ اور اولوں کو دیکھا ہے، بعضوں نے چوروں اور ڈاکوئوں کو دیکھا ہے، بعضوں نے طاعون کے رنگ میں دیکھا ہے، ایک نے آسمان سے آگ کا برسنا دیکھا ہے غرض مختلف لوگوں نے مختلف رنگ میں خوابیں دیکھی ہیں اورخدا تعالیٰ نے کئی طریق پر مطلع کیا ہے ۔پس آپ لوگ اس وقت کے آنے سے پہلے اپنے آپ کو اس قابل بنا لیں کہ خدا تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ اس وقت یہ معلوم نہیں کہ وہ مصیبت کیا ہے قحط ہے یا زلزلہ ہے یا طاعون ہے یا کوئی اور قسم کا امن وا مان کا خطرہ ہے مگر جو کچھ ہے خدا تعالیٰ نے اپنا فضل اور رحم کر کے اس کے ظاہر ہونے سے پہلے رئویا میں ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو بتا دیا ہے اِس لئے سب جماعت کو ہوشیار ہو جانا چاہئے۔ دیکھو! اگر کسی سوئے ہوئے آدمی کے گھر چور پڑتے ہیں تو سب کچھ لے جاتے ہیں لیکن جنہیں پہلے اطلاع ہوتی ہے اور وہ جاگتے ہوتے ہیں وہ اپنا مال بچا لیتے ہیں۔ چوروں کے آنے سے پہلے کسی اَور جگہ رکھ لیتے ہیں یا اور کوئی حفاظت کے لئے سامان کر لیتے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ جو کسی آنے والی مصیبت کے متعلق رئویا میں بتاتا ہے وہ ایسی ہی ہوتی ہے جو اس قوم سے ٹلنے والی ہوتی ہے۔ اور اگر ٹلنے والی نہ ہو تو بتاتا ہی نہیں کیونکہ ایسی صورت میں اس کا رئویا میں بتانا لغو اور فضول ٹھہرتا ہے۔ ہماری جماعت کے لوگوں کو بتانے سے خدا تعالیٰ کا منشاء اور ارادہ یہی ہے کہ اگر یہ لوگ توبہ کریں، صدقہ اور خیرات دیں اور دعائیں کریں تو اِن سے یہ مصیبت ٹل جائے۔ پس اتنے لوگوں کو رئویا میں بتایا جانا جن کی تعداد بیس پچیس کے قریب ہے اور بعضوں کو بار بار بتایا جانا ثابت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ اگر یہ لوگ اصلاح کر لیں توا ن سے مصیبت ٹل جائے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ ساری دنیا سے ہی یہ مصیبت ٹل جائے مگر کم از کم وہ لوگ جو اپنے ہیں ان کے متعلق ہمیں خاص طور پر فکر ہے ا س لئے ہماری جماعت کے وہ لوگ جو یہاں کے رہنے والے ہیں اور وہ جو باہر کے رہنے والے ہیں خاص طور پر اِن دنوں میں دعائوں میں لگ جائیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بشارت دے اور خود بتا دے کہ اب وہ مصیبت کے ایام ٹل گئے ہیں۔ جن لوگوں کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ صدقہ دیں اور سب لوگ دعائوں میں مشغول رہیں اور اپنی اصلاح کی طرف خاص توجہ رکھیں۔
اللہ تعالیٰ یہاں کے اور باہر کے اُن تمام لوگوں کو جو ہماری جماعت میں داخل ہیں اور جنہوں نے حضرت مسیح موعود کو مانا ہے ہر ایک قسم کی بلائوں اور مصیبتوں سے بچائے اور اپنی حفاظت میں رکھے۔ ‘‘ (الفضل ۸؍ فروری ۱۹۱۶)
۵
فتنے اور آزمائشیں روحانی ترقی کے لئے ضروری ہیں
(فرمودہ ۱۸؍ فروری ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذاور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
۱؎
پھر فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے پھر مجھے آپ لوگوں کے سامنے بولنے کی توفیق دی۔ مجھے اِس وقت بھی تپ ہے اور راستہ میں چکر بھی آگیا تھا پہلے تو میرا ارادہ کچھ بولنے کا نہ تھا کل میں نے ڈاکٹر صاحب سے اتنی اجازت لی تھی کہ جمعہ کی نماز میں شامل ہو جائوں لیکن جب چلنے لگا تو خدا تعالیٰ نے اتنی ہمت دے دی کہ خطبہ بھی میں ہی پڑھا دوں۔
انسان اور حیوان میں بہت بڑا فرق ہے اور وہ بڑا فرق دنیاوی لحاظ سے تمدن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور دینی لحاظ سے اِس فرق کو مذہب کہتے ہیں تو دوطرح کا فرق ہے۔ دنیاوی لحاظ سے تویہ ہے کہ انسان میں تمدن ہے اور حیوان میں نہیں ہے اور دینی لحاظ سے یہ کہ انسان کے ساتھ ایک دین لگا ہوا ہے اور حیوان کے ساتھ نہیں ہے۔ گو حیوان کے ساتھ بھی ایک طرح کی اطاعت اور فرمانبرداری تو ہے اور ایک رنگ میں وہ عبادت بھی کرتا ہے لیکن اس کے افعال میں قدرت نہیں۔ اسے بھلائی بُرائی کے انتخاب کا اختیار نہیں دیا بلکہ جس طریق پر اسے چلا دیا گیا ہے اسی پر وہ چلتا رہے گا۔ لیکن انسان کے کاموں میں قدرت اور اندازہ کا دخل ہوتا ہے اور اس کے لئے بُرا اور بھلا دونوں رستے کھلے ہوتے ہیں تاکہ ان میں سے جسے چاہے اختیار کر لے اور یہ بات انسان کے اختیار میں ہوتی ہے کیونکہ بھلے اور بُرے راستے کا اختیار کرنا اس کے انتخاب پر چھوڑا جاتا ہے اور قبل از وقت اسے بتا دیا جاتا کہ بھلا راستہ کونسا ہے اور بُرا کونسا، سکھ کس میں ہے اور دُکھ کس میں، آرام کس میں ہے اور تکلیف کس میں، فائدہ کس میں ہے اور نقصان کس میں تو انسان اور حیوان میں دو فرق ہیں۔ دنیاوی لحاظ سے جو فرق ہے اسے تمدن کہا جاتا ہے یعنی انسان اپنی نسل اور قوم کے فوائد کیلئے دوسرے انسانوں سے مل کر کام کرتا ہے۔ چونکہ ایک انسان کے کام سے دوسرے کو نفع پہنچتا ہے اِس لئے تمام انسان مل کر یا انسانوں کا ایک بہت بڑا حصہ مل کر ایک دوسرے کے فائدہ اور نفع کی کوشش کرتا ہے لیکن حیوانوں میں یہ بات نہیں ہے یہ صرف انسانوں میں ہی ہے۔ دوسرے انسان کو اچھے اور بُرے، نیک اور بد، نفع اور نقصان میں تمیز کرنے اور اپنے اختیار سے ان دونوں راہوں میں سے ایک پر چلنے والا بنایا گیا ہے لیکن یہ بات حیوانوں میں نہیں ہے۔ پس جو انسان، انسان ہو کر اِن دونوں قسم کے فرقوں کو نہیں جانتا وہ جانور سے ممتاز نہیں ہو سکتا اور وہ انسان ہی نہیں ہے۔ بلحاظ جسمانی تعلقات کے اگر انسان میں تمدن نہیں ہے اور بلحاظ روحانی تعلقات کے اگر انسان مذہب اور دین کا پابند نہیں ہے تواس میں اور سؤر، بندر، ریچھ وغیرہ جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تمدن کے متعلق اِس وقت ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت ہے۔ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو دنیا کے علوم اور فوائد میں منہمک ہیں۔ ہمیں سوائے اس کے کہ اِس وقت جبکہ تمدن مذہب اور دین میں داخل ہو جائے اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے میں اِس وقت مذہب کے متعلق ہی کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔
روحانی لحاظ سے انسان اور حیوانوں میں مذہب کا فرق ہے انسان کسی نہ کسی مذہب کا قائل ہوتا ہے اور حیوان نہیں ہوتے۔ ان کے لئے کوئی تازہ شریعت نہیں آتی بلکہ ان کی فطرت میں ہی ابتداء سے جو کچھ ودیعت کر دیا گیا ہے وہی ہے مگر انسان کو وحی اور الہام کے ذریعہ سے شریعت سے آگاہ کیا جاتا ہے اور حیوانوں میں سے ہر ایک کو ایسی وحی کی جاتی ہے جو اس کی فطرت کے متعلق ہوتی ہے۔مگر انسانوں میں سے ایک حصہ کو وحی سے ممتاز کیا جاتا ہے۔ یوں تو فطرتاً ہر ایک انسان کو بھی وحی کی جاتی ہے مگر وہ وحی جو مذہب کے متعلق ہوتی ہے وہ ہر ایک کو نہیں ہوتی بلکہ اُنہی انسانوں کو ہوتی ہے جو حقیقت میں عابد اور عبد بنتے ہیں اورپھر جو اس وحی پر عمل کرتے ہیں اور جو مدعا اس میں پایا جاتا ہے اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ دوسرے انسانوں کے لئے نمونہ ہوتے ہیں اور ان میں سے ممتاز کئے جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کا نام بند ہ اور انسان رکھا ہے
درحقیقت وہی انسان ہوتا ہے جوا پنے اندر دو اُنس رکھے۔ ایک خدا سے اور ایک اس کے بندوں سے ۔اور وہی عبد ہے جو عبودیت میں اپنے جسم اور روح کو لگا دیتا ہے۔
کہنے کو تو جانور بھی کہہ سکتا ہے کہ میں انسان ہوں۔ لوگ طوطے کو سکھاتے ہیں کہ کہو ’’میاں مٹھو‘‘۔ لیکن اگر کوئی اسے یہ سکھا دے کہ ’’میں انسان ہوں‘‘ تو وہ یہی کہنے لگ جائے لیکن اس کے کہنے سے وہ انسان نہیں بن جائے گا کیونکہ انسان کے اندر جو خواص اور باتیں ہونی چاہئیں وہ اس کے اندر نہیں ہیں۔ کیا یہ طوطے کی شکل وصورت کا قصور ہے کہ وہ باوجود اس کے کہ کہتا ہے کہ میں انسان ہوں انسان نہیں ہو سکتا ؟اور کیا اگر موجودہ انسان طوطے کی شکل ہوتے تو انسان نہ ہوتے؟ پھر کیا اگر حیوان انسان کی شکل کا ہوتو وہ انسان ہو سکتا؟ مثلاً بہت سے بندر اور مچھلیاں ایسی ہیں کہ انسان کی شکل سے بہت بڑی مشابہت رکھتی ہیں مگر انسان نہیں ہیں۔ ان کا منہ، سر، کان، اُنگلیاںوغیرہ انسانوں کی طرح کی ہوتی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ان کو انسان نہیں کہا جاتا؟ اور مچھلیوں اور آدم کی اولاد میں وہ کیا فرق ہے جوان کو علیحدہ رکھتا ہے یہی کہ وہ مذہب کی اس رنگ میں پابند نہیں ہیں۔ جس رنگ میں انسان پابند ہیںان کو وہ سمجھ اور عقل نہیں ہے جو انسانوں کو متمدن اور عقل مند بناتا ہے۔ پس اگر انسانی شکل کسی حیوان کی ہو جائے تو وہ انسان نہیں ہو سکتا اور اگر انسان کی موجودہ شکل بدل کر کسی اور طرح کی بناد ی جائے تو وہ حیوان نہیں ہو جاتا۔ کئی آدمی ایسے ہوتے ہیں جو بہت بد شکل ہوتے ہیں اوربندر کی طرح ان کی صورت ہوتی ہے مگر وہ بندر نہیں ہوتے۔
پس وہ چیز جو انسانوں اور حیوانوں میں مَابِہِ الْاِمْتِیَاز ہے اگر اِسی کے حاصل کرنے یا حاصل کردہ کے قائم رکھنے میں انسان کوشاں نہ ہو تو کیا وہ انسان ہو سکتا ہے؟ ایسا انسان صرف لفظی انسان ہے حقیقی نہیں اور حیوانوں سے بدتر ہے کیونکہ حیوان جس قانون کے ماتحت رکھے ہوتے ہیں وہ اس میں نافرمانی نہ کر سکتے ہیں اور نہ کرتے ہیں مگر انسان کو جس قانون کا پابند قرار دیا جاتا ہے وہ اس کی مخالفت میں کھڑاہو جاتا ہے اور مخالفت کرتا ہے۔ ایسی حالت میں وہ انسانیت سے بالکل دور جا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی انسان انسانیت کو چھوڑتا ہے تو ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ حیوانوں سے بدتر ہو جاتا ہے۔ ایک کتے اور ایک چڑیا کی خدا تعالیٰ کے حضور قدر ہوتی ہے مگرا س کی نہیں ہوتی۔ایک کتے کی خدا تعالیٰ کے نزدیک قدر ہوتی ہے مگر انسان کی نہیں ہوتی ۔ایسے موقع پر خداتعالیٰ کے سامنے انسان ایک بدترین مخلوق ہوتا ہے۔
مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کہانی کے رنگ میں سنایا کرتے تھے اور اس قسم کی باتیں لکھنے والوں نے لکھی ہیں۔ معلوم نہیں سچی ہیں یا جھوٹی ۔ بعض باتیں نصیحت کے طور پر لکھی جاتی ہیں اور بعض کی کچھ اصلیت بھی ہوتی ہے اور بعض کی نہیں۔ اسی طرح کسی نے لکھا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے وقت جو طوفان آیا تو ایک چڑیا کا بچہ پہاڑ کی چوٹی پر پیاسا تھا۔ ماں باپ اُس سے جدا ہو چکے تھے اور بہت سخت پیاسا ہو رہا تھا۔ طوفان جو بڑھتا گیا تو آخر اُس پہاڑ کی چوٹی تک بھی پہنچا اس وقت اس چڑیا کے بچہ نے پانی پی لیا۔ یہ واقعہ سچا ہے یا جھوٹا اِ س سے ہمیں بحث نہیں لیکن اِس میں جو حکمت ہے وہ بہت سچی ہے اور وہ یہی ہے کہ جب انسان خدا کے مقرر کردہ قوانین کو توڑ کر اس کے مقابلے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے تو اُس وقت خدا تعالیٰ کے نزدیک حیوانوں کی قدر ہوتی ہے مگر اس کی نہیں ہوتی۔ کیوں؟ اِس لئے کہ حیوان خدا تعالیٰ کے نافرمان نہیں ہوتے اور یہ ہوتا ہے۔ پھر حیوانوں کی خاطر خدا تعالیٰ انسانوں کے تباہ کرنے کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور انہیں ہلاک کر دیتا ہے۔ اُس وقت انسان کی جان بے قیمت اور بے حقیقت ہو جاتی ہے۔
غرض انسان اُسی وقت تک انسان ہے جب تک کہ اس میں انسانیت قائم ہے اور روحانی لحاظ سے انسانیت یہی ہے جس سے اس میں اور حیوانوں میں فرق ہے کہ اس کی روح ترقی کر کے اسے خدا تعالیٰ کا مقرب بنا دے۔ اگر کوئی انسان اس قرب کو حاصل نہ کرے یا اس کے حاصل کرنے کی کوشش نہ کر ے اور اس راہ میں صبر اور استقلال کو کام میں نہ لائے تو وہ انسان نہیں ہے۔ انسان کو حیوان سے جو یہ امتیاز حاصل ہے تو یہ اس پر ایک ایسا انعام ہے جو اس دنیا کی کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے بلکہ جب کوئی انسان اس انعام کو حاصل کر لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے قرب میں پوری پوری ترقی کرنی شروع کر دیتا ہے تو اس کے لئے ایسے درجے کھل جاتے ہیں جو فرشتوں کو بھی حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شب معراج میںجہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے وہاں جبرائیل نہیں جا سکے۔ جبرائیل ہر کارہ تھے اور بھیجنے والا خدا اور جس کو خط بھیجا گیا تھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ گو جبرائیل کا درجہ دوسرے انسانوں کے مقابلہ میں کتنا ہی بڑا ہو مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں ہر کارے کی حیثیت تھی کیونکہ ان کے ذریعہ خداتعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کیا کرتا تھا۔ یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی عزت تھی۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک ایک وحی کے ساتھ ہزاروں فرشتے اُتر ا کرتے تھے۔ یہ اسی لئے کہ خدا تعالیٰ اتنے فرشتوں کو ایک کلام کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیج کر بتاتا تھا کہ یہ ہمارا ایسا پیارا ہے کہ اس کے مقابلہ میں جو ہمارے بڑے پیارے ہیں وہ بھی ادنیٰ ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس شان کا کلام ہوتا اُسی قدر زیادہ فرشتے ساتھ آتے۔ ورنہ فرشتے اِس لئے نہیں آتے تھے کہ کلام کے پہنچانے میں کوئی ڈر تھا اس لئے حفاظت کے لئے ساتھ فرشتے بھیجے جاتے تھے۔ کلام تو یوں بھی محفوظ ہی تھا اور کسی کی کیا طاقت تھی کہ اس میں کچھ دخل دیتا ۔تو انسان بہت قرب اور مدارج حاصل کر سکتا ہے اور اِس قدر حاصل کر سکتا ہے کہ ملائک کے لئے بھی وہ مدراج نہیں ہیں۔
پس جب انسان کیلئے اتنے مدارج ہیں تو ضرور ہے کہ اس کیلئے خطرات بھی اتنے ہی بڑے ہوں کیونکہ بڑے انعام کے ساتھ بڑے ہی خطرات ہوتے ہیں۔ یہ آیات جو میں نے پڑھی ہیں ان میں اِسی طرف خدا تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے فرمایا خدا کے لئے مومن ہونا اور اس کی فوج میں داخل ہونا اور اس کا مقرب اور پیارا ہونا کوئی ایسی چھوٹی سی چیز نہیں ہے کہ منہ سے کہا اور ہو گیا۔ صرف کے کہنے سے کوئی مومن نہیں ہو جاتا۔ دیکھو دنیاوی گورنمنٹیں جب سپاہیوں کو بھرتی کرتی ہیں توا ن کے ہر ایک عضو کا معائنہ کراتی ہیں۔ آنکھ، کان، ناک، ہاتھ پائوں، قد، چال چلن وغیرہ تک دیکھتی ہیں اور بڑی شرائط کے بعد فوج میں داخل کرتی ہیں۔تو کیا خدا کی فوج میں داخل ہونے کے لئے کسی امتحان کی ضرورت نہیں؟ اور کیا یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ صرف کہہ دینے سے کوئی مومن ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ جس طرح خدا تعالیٰ ہر ایک بات کو جاننے والا ہے اور اس کے قرب کے ذرائع بہت وسیع ہیں حتیٰ کہ ختم ہی نہیں ہوتے اسی طرح اس کا امتحان بھی بہت بڑا ہے اس لئے جو انسان اس بات کے لئے کھڑا ہو کہ میں خدا کا قرب حاصل کروں اور صحیح معنوں میں انسان بنوں وہ یہ مت سمجھے کہ صرف منہ سے اٰمَنَّا کہنے سے وہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکے گا بلکہ اس کے لئے بڑی آزمائش میں سے گزرنا ہو گا اور جب وہ اس میں پکا ثابت ہو گا تو اس قابل سمجھا جائے گا کہ خدا کاقرب حاصل کرے ورنہ اس کا زبانی دعویٰ کسی کام کا نہیں ہو گا۔
اِن آیتوں سے پہلے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ یہ فرما کر خدا تعالیٰ نے انسان کو ڈانٹا ہے کہ دیکھو دھوکاانسان کو دیا جا سکتا ہے اور انسان بسا اوقات دھوکا کھا بھی جاتا ہے کیونکہ وہ ہر ایک چیز کے متعلق علم نہیں رکھتا لیکن خدا چونکہ ہر ایک چیز کا علم رکھتا ہے اس لئے وہ کسی دھوکا دینے والے کا دھوکا نہیں کھا سکتا۔ اس کے سامنے کسی کے دھوکا سے یہ کہہ دینے سے کہ میں ایمان لے آیا وہ مومن نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یعنی اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ اللہ بہت بڑا جاننے والا ہے۔
دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی سے محبت جتلاتے ہیں، دوستی ظاہر کرتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر کہہ دیتے ہیں کہ میں آپ کے قربان جائوں ۔اور سننے والا بھی سمجھتا ہے کہ واقعہ میں اس کو مجھ سے بڑا پیار اور محبت ہے اور یہ میرے لئے جان قربان کرنے کے لئے تیار ہے لیکن جب کوئی موقع پیش آتا ہے تو محبت ،پیار اور دوستی کی ساری حقیقت کھل جاتی ہے۔ مگر خد اتعالیٰ نے جو دلوں کا واقف ہے اور انسان کی ہر ایک پوشیدہ سے پوشیدہ بات کو جانتا ہے وہ کہاں فریب کھا سکتا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے اور اپنے جاننے کا ثبوت اس طرح دیتا ہے کہ انسان کو فتنہ میں ڈالتا ہے۔ بہت انسان ایسے ہوتے ہیں جو خود بھی نہیں جان سکتے کہ ہماری محبت خدا تعالیٰ سے جھوٹی ہے یا سچی۔ ان پر بھی خدا تعالیٰ فتنہ میں ڈال کر کھول دیتا ہے کہ تم اپنے نفس کے متعلق نہ سمجھتے تھے مگر ہم خوب جانتے تھے اور اب تم کو بھی معلوم کرا دیا ہے۔
کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے نفس کے دھوکا میں آکر اپنے آپ کو بہادر سمجھتا ہے مگر تھوڑے سے خطرہ اور ڈر سے اسے اپنی بُزدلی کا علم ہو جاتا ہے۔ بار ہا ایسا ہوتاہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ فلاں سے مجھے بڑی محبت ہے مگر ذرا سی بات سے اُس سے ایسا دور ہو جاتا ہے کہ گویا کبھی تعلق ہی نہ تھا۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو بڑا عالم سمجھتا ہے مگر ذرا سی بات پر اس کے علم کی قلعی کھل جاتی ہے۔ تو انسان اپنے نفس کو غلط سمجھتا ہے مگر خداتعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے اور اس کے اَنَااللّٰہُ اَعْلَمُ کا ثبوت یہ ہے کہ وہ انسان کے نفس کو فتنہ میں ڈال کر بتا دیتا ہے کہ میں زیادہ جاننے والا ہوں۔
فرمایا کہ ہم نے پہلے لوگوں کو بڑی بڑی آزمائشوں میں ڈالا تھا اور اُن کی بڑی بڑی آزمائشیں کی تھیں۔ پس ضرور ہے ان سے پچھلوں کی بھی اسی طرح آزمائشیں کی جائیں۔ پس ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو فتنہ میں ڈال کر سچے اورجھوٹے اور صادق اور کاذب کو الگ الگ کر دے۔
غرض انسان کے لئے جس طرح خداتعالیٰ کے قرب کے دروازے کھلے ہیں اور اس کے لئے انسانیت کے قائم رکھنے کے لئے ذرائع موجود ہیں اور اس پر یہ احسان کیا ہے کہ اسے انسان بنا کر باقی تمام مخلوق پر فضیلت بخشی ہے۔ اسی طرح اس کے لئے قربِ الٰہی حاصل کرنے کے لئے بڑی بڑی کوششوں کی بھی ضرورت ہے اور بڑے بڑے کٹھن امتحانوں سے گذرنا پڑتا ہے تب جا کر اسے حقیقی انسانیت کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے وہ شکل تو انسان کی ہوتی ہے مگر درحقیقت وہ حیوان ہوتا ہے۔
اِس زمانہ میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمدن کو قائم رکھنے کے لئے کس قدر جدوجہد اور کوشش کی جا رہی ہے اور کیسی کیسی قربانیاں کی جاتی ہیں اور وہ لوگ جو دنیاوی رنگ میں انسانیت کے فرق کو نمایاں کر رہے ہیں کس قدر اِس میں کوشاں ہیں۔ آج ہی مجھے اخبار میں ایک خبر پڑھ کر سخت حیرت ہوئی ہے کہ یورپ کی عورتوں کا اتنا حوصلہ ہے کہ ہمارے مردوں کا بھی اتنا نہیں ہے۔ ابھی انگلستان میں بھرتی ہو رہی ہے۔ اس کے متعلق واقعہ ہے کہ ایک بڑھیا کے پاس بھرتی کرنے والا گیا اور اسے کہا کہ تمہارا کوئی لڑکا بھرتی ہوا ہے یا نہیں؟ اس نے کہا میرے ۹ لڑکے ہیں جن میں سے اِس وقت تک آٹھ بھرتی ہو چکے ہیں ان میں سے چار لڑائی میں مارے گئے ہیں۔ دو زخمی پڑے ہیں اور دو لڑائی پر ہیں۔ اب ایک باقی ہے اگر اس کی بھی بادشاہ کو ضرورت ہے تو حاضر ہے بھرتی کر لو میری طرف سے کوئی عذر نہیں ہے۔ دیکھو کیا ہمت اور حوصلہ ہے تو یہ قومیں تمدن قائم رکھنے کے لئے نسل، مال، دوست اور مدد سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ اس مقابلہ کا حال ہے جو انسانوں کا حیوانوں کے مقابلہ میں جسمانی طور پر کہلاتا ہے۔
لیکن بتلاؤ کہ حیوانوں کے مقابلہ میں جو روحانی فرق ہے اس کو قائم رکھنے کے لئے کس قدر کوشش اور محنت کی ضرورت ہے۔ روحانی مقابلہ یعنی مذہب کے سامنے اس جسمانی مقابلہ یعنی تمدن کی حیثیت ہی کیا ہے اور یہ چیز ہی کیا ہے اِس کا اثر تو زیادہ سے زیادہ انسان کی بڑی سے بڑی سَو سَوا سَو سال تک کی زندگی سے ہے۔ مگر مذہب کا اثر نہ صرف اس زندگی کے ساتھ ہے بلکہ اس زندگی کے ساتھ بھی ہے جو اَبدالآباد تک کی ہے۔ پھر تمدن کے لئے جو کوشاں ہے وہ اگر اس جدوجہد میں مر جائے تو اس کے لئے کوئی انعام اور فائدہ نہیں مگر جو خداتعالیٰ کے قرب کے حاصل کرنے اور صداقت اور راستی کے پھیلانے کے لئے اپنی جان قربان کر دے اس کا انعام کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ ملک اور قوم کی حفاظت کرتے ہوئے جو مارا جاتا ہے اس کی ذاتِ خاص کو اس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا۔ اگر اُس کا تمام ملک تباہ ہو جائے تو اسے کوئی نقصان نہیں اور اگر بچ جائے تو اسے کوئی نفع نہیں۔ مگر مذہب کے لئے جو کوئی اپنی جان اور مال قربان کرتا ہے اگر وہ مر جاتا ہے یا مارا جاتا ہے تو اس کا انعام بجائے بند اور ضائع ہونے کے اور بڑھ جاتا ہے کیونکہ تمدن کے لئے جانیں قربان کرنے والوں کو انعام دینے والے انسان ہیں جن کی طاقت اور قدرت موت سے ورے ورے انعام دے سکتی ہے۔ مگر وہ جو مذہب کے لئے قربان ہوتے ہیں اُن کا انعام دینے والا خدا ہے جس کا دست تصرف اِس دنیا میں بھی ہے اور موت کے بعد آگے بھی۔ اِس لئے وہ موت کے بعد بھی انعام و اکرام دیتا ہے۔
ہماری جماعت کے لئے اِس زمانہ میں وہ مشکلات نہیں ہیں جو پہلے زمانہ میں اور قوموں کے لئے تھیں۔ گو میں سمجھتا ہوں کہ مشکلات کسی نہ کسی رنگ میں ہیں لیکن پہلے جیسی مشکلات ابھی نہیں ہیں لیکن تعجب نہیں کہ وہی مشکلات ہماری قوم کو بھی آ جائیںجو پہلی قوموں کو پیش آتی رہی ہیں کیونکہ کوئی قوم اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اُسے اتنی ہی قربانیاں نہ کرنی پڑیں مگرجتنی پہلی قوموں کو کرنی پڑی تھیں۔ پس ہماری ترقی کے لئے ضرور ی ہے کہ ابتلاء آئیں اور ایسے ایسے ابتلاء آئیں جن میں جان ، مال ، اولاد، وطن وغیرہ چھوڑنے پڑیں۔ اِس میں شک نہیں کہ ہمارے لئے خدا کے فضل سے بڑی آسانیاں ہیں۔ کیونکہ ہندوستان میں ایک ایسی گورنمنٹ قائم ہے جس کی وجہ سے ہر طرح کا امن و امان ہے۔ مگر مسیح موعود صرف ہندوستان کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ تمام دنیا کے لیے آئے تھے اور ہماری جماعت صرف ہندوستان میں ہی نہیںہے بلکہ افغانستان اور دیگر ممالک میں بھی ہے۔ افغانستان میں ہماری جماعت کے لئے وہ آسانیاں نہیں ہیں جو ہمیں یہاں میسر ہیں بلکہ اُن کے لئے بہت مشکلات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ہمارے دو آدمی شہید ہو گئے ہیں مگر تم کوئی قوم ایسی نہ دیکھو کہ کہ وہ ایک غالب قوم بنی ہو اور اُس کے صرف دو ہی آدمی شہید ہوئے ہوں۔
قوم اِس طرح بنا کرتی ہے کہ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا ،تیسرے کے بعد چوتھا ،اور اِسی طرح سینکڑوں اور ہزاروں قربان ہوتے ہیں اور جب ایک حصۂ قوم پر مشکل اور مصیبت آتی ہے تو دوسرا حصہ اُس کا ہاتھ بٹا تاہے۔ ایک حصہ اپنی جانیں قربان کرتا ہے تو دوسرا حصہ مال قربان کرتا ہے۔ صحابہ کرام کو دیکھو مہاجرین نے اپنے ملک چھوڑے، جائیدادیں چھوڑیں، وطن سے بے وطن ہوئے تو انصار نے اپنی جائیدادیں اور مال اُنہیں بانٹ دئیے۔۲؎ غرض اگر قوم کے ایک حصہ کو ایک رنگ میں قربانی کرنی پڑتی ہے تو دوسرے کو دوسرے رنگ میں۔اور ایک حصہ پر ایک رنگ میں ابتلاء آتا ہے تو دوسرے حصہ پر دوسرے رنگ میں۔
میرا منشاء یہ ہے کہ ہماری جماعت کو ہر وقت ہر ایک قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ یہ اور بات ہے کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت پر کسی اَور رنگ میں ابتلاء لے آئے۔ یا اپنے فضل سے ایسے ابتلاء لائے جو سخت نہ ہوں۔ مگر انسان کا کام یہی ہے کہ وہ ہر وقت اس بات کے لئے تیار رہے کہ اگر مجھے کسی وقت وطن، مال، اولاد اور جان قربان کرنا پڑے تو کر دوں گا۔ دیکھو جو سپاہی جنگ میں جاتے ہیں وہ سارے کے سارے مارے نہیں جاتے۔ مگر پھر بھی کوئی سپاہی ایسا نہیں ہوتا جو نہ سمجھے کہ جنگ پر میرے لئے موت ضروری ہے اور میں مرنے کے لئے جا رہاہوں نہ کہ زندہ واپس آنے کے لئے۔ اور جب تک ہر ایک سپاہی کو یہ خیال نہ ہو اُس وقت تک وہ کوئی عزت، کوئی انعام اور کوئی رتبہ حاصل نہیں کر سکتا۔ لڑائی پر وہی لوگ جاتے ہیں جو موت کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم سر پر کفن باندھ کر جار ہے ہیں۔ پھر بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو لڑائی پر جاتے ہیں مگر زندہ واپس آجاتے ہیں۔لکھا ہے کہ خالدبن ولید جب فوت ہونے لگے تو آپ کے دوست آپ کو دیکھنے کے لئے آئے ۔اس نے دیکھا کہ آپ رو رہے ہیں پوچھا کیوں روتے ہیں؟ کہا مجھے شہادت کی بڑی خواہش تھی لیکن افسوس کہ حاصل نہ ہوئی اور بہت سے لوگوں میںکوئی ایک لڑائی میں شریک ہوا تو شہید ہو گیا۔ کوئی دوسری میں شریک ہوا تو شہید ہو گیا اور کوئی تیسری میں شہید ہو گیا مگر میں اِس قدر لڑائیوں میں شریک ہوا کہ میرے سر سے لے کر پائوں تک زخم لگے مگر آج میں بستر پر پڑا جان دے رہا ہوں، مجھے میدانِ جنگ میں موت نصیب نہ ہوئی۔۳؎ یہ ان کا اخلاص تھا کہ اس طرح کی موت کو وہ پسند کرتے تھے ورنہ میرے نزدیک وہ کئی شہادتیں پا چکے تھے۔ تولڑائی پر جانے والا بھی زندہ واپس آسکتا ہے۔ مگر جانتے ہو خالد ،خالد کیوں بنا؟ اِس کی شہادت اُن کی وفات کے وقت کی گفتگو دے رہی ہے کہ وہ ہر جنگ میں اِس نیت اور اِس ارادہ سے شامل ہوئے کہ مرنے کے لئے جا رہا ہوں نہ کہ زندہ واپس آنے کے لئے۔ اُن کی عزت ، رتبہ، درجہ اور قبولیت اِسی واسطے تھی کہ ہر ایک لڑائی کے وقت اُنہوں نے یہی سمجھا کہ میری جان دراصل میری نہیں ہے اور میں جان دینے چلا ہوں نہ کہ اسے واپس لانے کے لئے اور یہ میرے لئے پاس بطور امانت تھی جسے سپرد کرنے جا رہا ہوں۔ یہ بات اور تھی کہ اُنہو ں نے خدا کو اپنی جان ہر بار ہی دی اور خدا نے انہیں واپس دے دی لیکن اِس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اُنہو ںنے اپنی طرف سے جان دینے میں کوئی کمی نہ کی اور ہر بار ہی ہتھیلی پر رکھ کر دینے کے لئے نکلے۔
تم لوگ یہ بات خوب یاد رکھو کہ بڑے انعاموں کے لئے قربانیاں بھی بڑی ہی کرنی پڑتی ہیں اور یہ قربانیاں صرف مال سے ہی نہیں ہوتیں بلکہ اور بھی بہت طرح سے ہوتی ہیں۔ اب تو ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص چندہ دیتا ہے وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں نے اپنی طرف سے کافی قربانی کر دی ہے لیکن بڑے بڑے انعام اس طرح نہیں ملا کرتے۔ وہ قومیں جنہوں نے بڑے انعامات حاصل کئے ہیں اُنہوں نے اپنا سب کچھ۔ کیا مال ،کیا جان، اور کیا اولاد، کیا وطن، کیا جائیدادیں، قربان کیا ہے۔ اِس وقت اگر ایسی ضرورت نہیں کہ اِس طرح کی قربانیاں کی جائیں تو ہر ایک یہ نیت تو کر لے کہ اگر کبھی ضرورت پڑی تو میری عزت، میرا وطن، میرا مال، میری اولاد، میرا علم اور میری جان غرضیکہ کسی چیز کو خدا کی راہ میں قربان کرنے سے میں دریغ نہ کرو ں گا اور جو کچھ بھی ہوگا سب کچھ خدا کے لیے قربان کرنا پڑے گا تو کر دوں گا اور جب مومن ایسی نیت کر لے تو خدا تعالیٰ اُس کو توفیق بھی دے گا۔ اِس وقت ہم میں سے بعض ایسے ہیں کہ جن کو کوئی چھوٹا سا ابتلاء آتا ہے تو گھبرا جاتے ہیں۔ بعض لکھتے ہیں کہ میری تجارت بند ہو گئی اس سے سخت ابتلاء ہے بعض لکھتے ہیں کہ احمدی ہونے کی وجہ سے لڑکی نہیں ملتی جس سے بہت بڑا ابتلاء ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں کہتا ہوں بھلا یہ باتیں چیز ہی کیا ہیں اُن کے مقابلہ میں جو پہلو کو پیش آئیں اور ان کے مقابلہ یہ حیثیت ہی کیا رکھتی ہیں۔
پس تم یہ مت سمجھو کہ تمہارے لئے اسی قسم کے ابتلاء ہیں بلکہ میں تو دیکھتا ہو ں حضرت مسیح موعودؑ نے لکھا ہے کہ ابتلاء پر ابتلاء آئیں گے بہت ہیں جو مرتد ہو جائیں گے اور بہت ہیں جو مرتد ہونے کے قریب ہو جائیں گے۔ آپ کے الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے لئے ابتلائوں کا ابھی خاتمہ نہیں ہوا بلکہ اور بڑے ابتلاء ہیں جن میں جماعت کو ہر قسم کی قربانیاں کرنی پڑیں گی پھر جا کر انعام حاصل ہوں گے لیکن موجودہ صورت میں تم اُدھر اس عورت کے حوصلہ پر غور کرو جس کا پہلے میں نے ذکر کیا اور اِدھر اپنی طرف دیکھو کہ اگر کسی کو تبلیغ کے لئے کہیں باہر بھیجنے کا منشاء ہو تو اُس کی ماں، بیوی اور رشتہ دار شور مچا دیتے ہیں کہ اِتنی دُور نہ بھیجا جائے ہمارے لئے یہ مشکل ہے، یہ تکلیف ہے۔ چنانچہ ایک شخص کو ہم نے کہیں بھیجنے کا ارادہ کیا تو اس کے رشتہ داروں نے کہنا شروع کر دیا کہ اِسے باہر نہ بھیجو اِس کے علاوہ جو آپ کی مرضی ہے کرو۔ دیکھو اُدھر تو ایک عورت اپنے ملک کے لئے آٹھ بیٹے دے چکی ہے اور نویں کے لئے کہتی ہے کہ اس کو بھی لے لو لیکن اِدھر دین کے لئے اتنی کمزوری دکھائی جاتی ہے ۔ یاد رکھو اور اِس بات کو خوب یاد رکھو کہ بڑی کامیابیوں اور بڑی فتوحات کے لئے بڑی ہی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے تو اتنے دشمن ہیں کہ ان کے مقابلہ میں ہم ایک قطرہ بھی نہیں ہیں پھر بتائو کہ ہمیں کتنی بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے اور ہمیں کتنی ہمت اور کیسی کوشش سے کام لینا چاہئے۔
پس جب تک ہر ایک احمدی یہ نہ سمجھ لے کہ میرے ہی ذمہ سب کام ہیں اُس وقت کامیابی نہیں ہو سکتی۔ ہماری جماعت کو بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے اور اس کے لئے جماعت کو تیار رہنا چاہئے۔ اب وہ زمانہ آگیا ہے جبکہ ہمارے تعلقات دُور دراز ملکوں کے لوگوں سے بڑھنے شروع ہو گئے ہیں۔ ہم تو خد اکے فضل سے ہر طرح کے امن میں ہیں مگر ممکن ہے کہ ہمارے اَور ملکوں کے بھائی امن میں نہ رہیں اورممکن ہے کہ ان کے ابتلاء میں ہمیں بھی حصہ لینا پڑے۔( مثلاً وہ وہاں سے ہجرت کر کے یہاں آئیں تو ہم ان کو اپنے اموال میں شریک کریں یا وہاں ان کی آزادیٔ مذہب کے لئے بذریعہ اپنی محسن گورنمنٹ کے چارہ جوئی کریں) اس کے لئے جماعت کو تیار رہنا چاہئے اور ہر ایک کو اپنے دل میں یہ نیت کر لینی چاہئے کہ خد اکے حضور میری جو قربانی بھی مقدر ہے اُس کے لئے میں تیار رہوں۔پھر ساتھ ہی ایسے ابتلائوں میں ثابت قدم رہنے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا بھی مانگنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ انسان پر بعض ابتلاء ایسے رنگ میں آتے ہیں کہ اگر انسان ان کے لئے یہ دعا کرے کہ یہ مجھ سے ٹل جائیں تو خدا تعالیٰ ایسے انسان کو اپنے سے بہت دور پھینک دیتا ہے۔ کیونکہ وہ کہتا ہے کہ تم اس سے گھبراتے ہو اور ثابت قدم نہیں رہ کر دکھاتے اس لئے مجھ سے دور ہو جائو تو یاد رکھو کہ ایسے ابتلائوں کے لئے یہ دعا نہیں کرنی چاہئے کہ ہم سے ٹل جائیں بلکہ مومن کو چاہئے کہ ایسی دعائوں میں لگا رہے کہ اے خدا! اگر کوئی ایسے ابتلاء مجھ پر آنے والے جو میری طاقت اور ہمت سے بڑھ کر ہوں تو مجھے توفیق دیجئے کہ میں ان میں ثابت قدم رہوں اور ان میں پورا اُتروں۔ جب تک کسی انسان میں ایسا ایمان نہیں ہوتا اُس وقت تک وہ انسان ہی نہیں ہے اور بندر، سؤر اور کتے سے بھی بدتر ہے۔
یہ تو ایک بات تھی جو میں نے بیان کر دی ہے اِس کے علاوہ ایک اور بات ہے اور وہ یہ کہ قاضی عبداللہ صاحب کا ولایت سے خط آیا ہے کہ میرا پہلا لیکچر ہوا جو بہت مقبول ہو اہے۔ مجھے تو اس بات پر تعجب ہی تھا کہ قاضی صاحب ولایت جا کر کریں گے کیا کیونکہ انہوں نے یہاں کبھی کوئی لیکچر نہ دیا تھا اور نہ کبھی کسی مضمون پر بولے تھے اُنہیں بہت حجاب تھا۔ چوہدری فتح محمد صاحب کی امداد کے لئے پہلے تو اور کئی تجویزیں دل میں آئیں مگر پھر یکلخت میرے دل میں یہ پڑا کہ قاضی صاحب کو بھیج دوں۔ میرے ان کو بھیجنے کے سوائے اِس کے اور کوئی وجہ نہ تھی کہ اِنہوں نے یہاں تعلیم پائی تھی، حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت میں رہے تھے میں نے خیال کیا کہ خدا تعالیٰ ایسے انسان میں خود برکت ڈال دے گا۔ چنانچہ آج ہی ان کا خط آیا ہے کہ ایک کامیاب لیکچر ہوا ہے اور لیکچر کے بعد ایک گھنٹہ تک سوال و جواب ہوتے رہے ہیں جن کا بہت عمدہ اثر ہوا اور لیکچر بہت پسند کیا گیا۔ چوہدری فتح محمد صاحب وہاں سے چل پڑے ہیں آپ لوگ ان کے لئے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ انہیں بخیریت یہاں پہنچائے۔ آج ولایت سے دو اَور آدمیوں نے بیعت کے فارم پُر کر کے بھیجے ہیں اور اب وہاں بارہ احمدی ہو گئے ہیں۔ غیر احمدی اس بات سے چڑا کرتے ہیں کہ تم لوگ مرزا صاحب کو حضرت مسیح سے افضل کیوں کہتے ہو؟ لیکن ہم کہتے ہیں حضرت مسیح نے تین سال کے عرصہ میں صرف تیرہ حواری تیار کئے تھے جن میں سے ایک مرتد ہو گیا تھا۔ مگر اب دیکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک شاگرد نے اِس سے نصف عرصہ میں یعنی ڈیڑھ سال میں بارہ احمدی بنا لئے ہیں کیا اب بھی کسی کو مسیح موعودؑ کا مسیح سے افضل ہونا معلوم نہیں ہوتا؟
اخیر میں میَں پھر اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ گو ہم نے تبلیغ کے لئے باہر مبلغ بھیجے ہوئے ہیں لیکن یہ انتظام ایک بہت چھوٹے پیمانہ پر ہے اصل تبلیغ وہی ہے جو ہر ایک احمدی کرتا ہے اور جو سمندر کی لہروں کی طرح ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلتی جاتی ہے۔ پس ہر ایک شخص خواہ باتوں سے ،خواہ کتابوں اور اشتہاروں سے جس طرح بھی ہو سکے تبلیغ کرے۔ اور جب قوم کا ہر ایک فرد مبلغ ہو اُس وقت کامیابیاں ہوتی ہیں۔ اِس لئے اِس بات کی بہت بڑی ضرورت ہے کہ ہر ایک شخص سمجھے کہ تبلیغ کا سارا بوجھ اُسی کے سر پر ہے اور اس کے سِوا اور کوئی نہیں ہے جس نے یہ کام کرنا ہے۔ پھر وہ ہر ایک قربانی کے لئے تیار رہے۔ جب قوم کی ایسی حالت ہو جائے گی تو خدا تعالیٰ سے انعام پر انعام ملنے شروع ہو جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے انعام بہت عجیب چیز ہوتے ہیں۔ا ن کے ملنے سے پہلے انسان ان کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَاعَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ۴؎ کہ خدا تعالیٰ کے انعام ایسے ہیں جو نہ کسی نے دیکھے اور نہ سنے اور نہ کسی کے دل میں ان کے متعلق خیال آیا۔
اِسی طرح خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے ۵؎ کہ انسان کو اس چیز کا پتہ ہی نہیں جسے خدا نے اُس کی آنکھوں کی ٹھنڈک تیار کیا ہے۔ اس کو اس کا علم ہی نہیں لیکن افسوس کہ خد اتعالیٰ کے انعاموں کے حاصل کرنے کی بہت کم کوشش کرتے ہیں۔خدا تعالیٰ اپنے فضل اور رحم کے ماتحت آپ سب لوگوں کو کامل ایمان کے درجہ پر پہنچائے تا تم خدا کے مقابلہ میں کسی چیز کی پرواہ نہ کرو۔ ‘‘ (الفضل ۲۲؍ فروری ۱۹۱۶ئ)
۱؎ العنکبوت: ۲ تا۴
۲؎ بخاری باب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم+ مسلم کتاب الجھاد باب ردّ المھاجرین الی الانصار
۳؎ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد۲ صفحہ۱۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۵ء
۴؎ بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ السجدۃ۔ باب قولہ تعالیٰ فلا تعلم نفس (الخ)
۵؎ السجدۃ: ۱۸
۶
ہر ایک بات میں حضرت مسیح موعودؑ کو حَکَم مانو
(فرمودہ ۲۵؍ فروری ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اورسورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی۔
۱؎
’’ہر ایک دانا انسان جب کوئی کام کرنے لگتا ہے تو پہلے اس کام کے کئی ایک پہلوئوں پر غور کر لیتا ہے۔ یعنی اس کے نتیجہ اور انجام کو دیکھتا ہے۔ پھر اس کی خوبی اور عمدگی کو دیکھتا ہے ۔پھر ان ذرائع پر غور کرتا ہے جن کی وجہ سے وہ اس کام کے پورا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے لیکن جو لوگ ان باتوں کو سوچے سمجھے بغیر کوئی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں وہ اکثر درمیان میں ہی ٹھوکر کھا کے رہ جاتے ہیں کیونکہ جب تک کوئی مقصد مقرر نہ ہو، مقصود کے حاصل کرنے کے ذرائع مقرر اورمعین نہ ہوں اِس کے فوائد اور نتائج دل میں مستحضر نہ ہوں تب تک انسان کبھی بھی اطمینان اور تسلی سے کوئی کام نہیں کر سکتا ۔اور اگر کرے گا تو اس کا حال ایک اندھے کی طرح کا ہو گاجو اِدھر اُدھر ٹھوکریں کھاتا ہے اور دھکّا لگنے سے کبھی اِدھر لڑھک جاتا ہے اور کبھی اُدھر۔ پس ہر ایک شخص جو یہ چاہتا ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو اور اپنے مدعا کو حاصل کرلے اُس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی کوشش اور محنت کے شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھ لے کہ اس مدعا کے حاصل کرنے سے مجھے کیا فائدہ ہو گا اور میرے لئے کیا نتیجہ مرتب ہو گا ۔پھر ساتھ ہی اس کے حصول کے ذرائع کو معلوم کرے کہ وہ کیا ہیں اور ان کو جمع کرے۔ اگر کوئی ان باتوں پر غور کر کے پھر اپنی محنت اور کوشش کا آغاز کر ے اور اس پر استقلال دکھائے تو وہ ضرور کامیاب ہو جاتا ہے۔
ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسان ایسے ہیں کہ عبادتیں کرتے ہیں ،محنتیں، مصیبتیں برداشت کرتے ہیں، دکھ اور تکلیفیں جھیلتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ ہم کیوں عبادتیں کرتے ہیں ان سے کیا مقصد اور مدعا ہے ان کاکیا نتیجہ نکلنا چاہئے۔ یہ لوگ تو اتنا بھی نہیں جانتے کہ ہمیں عبادت کس طرح کرنی چاہئے۔ جس کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے لوگ شروع سے غلطی میں پڑتے ہیں اور اس غلطی پر مر جاتے ہیں لیکن انہیں پتہ ہی نہیں لگتا کہ ہم غلطی کر رہے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہیں اپنی عبادت اور ریاضت کے نتیجہ کا علم اور پتہ ہی نہیں ہو تا اور وہ نہیں جانتے کہ ہمیں کیا ملنا چاہئے اور ہم کس چیز کے لئے کوشش کر رہے ہیں اس لئے اگر ان کو عبادت اور بندگی سے کوئی نتیجہ نہیں حاصل ہوتا تو وہ گھبراتے نہیں اور نہ ہی اپنے دل میں فکر اور تردد محسوس کرتے ہیں۔ا گر انہیں خدا کا قُرب حاصل نہیں ہوتا ،اس کی مدد اور نصرت نہیں ملتی،اس کی طرف سے تسلی تشفّی نہیں ہوتی تو ان کے دل میں کرب اور تکلیف نہیں پیدا ہوتی۔ کیوں؟ اس لئے کہ اُنہوں نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ سچی عبادت کا کیا نتیجہ ہوتا ہے اور اس سے کس طرح تسلی اور تشفّی حاصل ہوتی ہے اور کس طرح اس کی مدد اور نصرت ملتی ہے۔ چونکہ اس بات کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں ہوتا اس لئے ساری عمر عبادت کرتے کرتے مر جاتے ہیں لیکن انہیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ ہم غلط عبادت کر رہے ہیں۔ دیکھو ایک شخص ہندوئوں میں پیدا ہوتا ہے ساری عمر عبادت میں گزار دیتا ہے، بیسیوں بُری خواہشوں کو دباتا ہے اور بیسوں بُرے ارادوں سے باز رہتا ہے، قسم قسم کے جذبات کو قابو میں رکھ کر تپسیا۲؎ کرتا ہے اوراسی حالت میں مرجاتا ہے لیکن اسے کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ جو کوشش اور محنت میں کر رہاہوں یہ ٹھیک اور درست نہیں ہے اس لئے مجھے کوئی اور طریق اختیار کرنا چاہئے۔ اور اسے کیونکر یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے جبکہ وہ جانتا ہی نہیں کہ مجھے اس عبادت کے نتیجہ میں کیا حاصل ہونا ہے اوروہ کیا مقصد اور مدعا ہے جس کے حصول کے لئے میں یہ کوشش کر رہا ہوں۔
اگر دنیا میں لوگ اپنے مدعا اور مقصد کو سمجھ کر عبادت کریں تو ایک انقلاب آجائے اور کروڑوں انسان مذاہب کی تحقیقات پر لگ جائیں۔ موجودہ صورت میں جو ضد، ہٹ اور اختلاف اور اصرار ہے اس لئے ہے کہ لوگوں نے مذہب کی غرض، عبادت کے ذرائع اور اس کے فوائد پر غور نہیں کیا۔ جس طرح ماں باپ کو کرتے دیکھا اُسی طرح کرنے لگ گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں اپنے اپنے مذہب کی تحقیق اور تنقید کی طرف توجہ نہ رہی لیکن جب کسی کے پیش نظر عبادت کا مقصد اور اس کے ذرائع کا حاصل کرنا ہو گا تو وہ ضرور مذاہب کی تحقیق کی کوشش اور سعی کر ے گا۔
مثلاً ایک شخص نیت کرتا ہے کہ میں بٹالہ جائوں گا۔ اب فرض کرو کہ وہ یہاں سے مشرق کی طرف چل پڑا اور سری گو بند پور پہنچ گیا۔ وہاں جا کر جب وہ پوچھے گا کہ اس شہر کا کیا نام ہے؟ تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ تو سری گو بند پور ہے اور مجھے بٹالہ جانا ہے مجھے اس طرف نہیں آنا چاہئے تھا۔ پھر وہ اور طرف چلے گا اور اگر اسے دس گیارہ میل چل کر کوئی شہر دکھائی نہ دے گا تو اُسے معلوم ہو جائے گا کہ میں غلط راستہ پر چل رہا ہوں کیونکہ قادیان سے بٹالہ اتنی ہی دور ہے لیکن اب تک نہیں آیا اس لئے پتہ لگا کہ میں کسی اور راستہ پر پڑ گیا ہوں۔ اب پھر وہ اور طرف چلے گا اور خواہ اسے کتنے ہی چکر کاٹنے پڑیں گے تا ہم وہ بٹالہ پہنچ جائے گا کیونکہ اس کا ارادہ یہ ہے کہ بٹالہ پہنچے۔ لیکن جس کی کوئی نیت اور ارادہ ہی نہ ہو کہ مجھے کہاں پہنچنا ہے اُس کی مثال اِسی طرح کی ہے کہ ایک انسان گھر سے نکل کر اندھا دھند جدھر منہ کیا اُدھر ہی چل پڑا۔ یہ اگر پچاس سَو میل بھی چلتا جائے تو بھی اسے کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوگا کہ میں غلط راستہ پر چل رہا ہوں۔ا گر وہ جنگلوں اور وحشی جانوروں کی طرف جا رہا ہے تو اسے خیال نہیں اور اگر شہروں اور باغوں کی طرف جا رہا ہے تواسے توجہ نہیں ۔کیوں؟ اِس لئے کہ اس نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ میں کہاں جا رہا ہوں اور کیوں جا رہا ہوں اور مجھے کس طرف جانا چاہئے ۔لیکن جب انسان اس بات پر غور کرے کہ میرا کیا مدعا ،کیا مقصد اور کیا غرض ہے اور اس کے حاصل کرنے کیلئے کیا ذرائع اور کیا سامان ہیں تو وہ اگر غلطی بھی کرے تو جلدی متنبہ ہو جاتا ہے اور اصلاح کی طرف لوٹ آتا ہے۔
میں نے جو یہ آیت پڑھی ہے اِس میں خدا تعالیٰ نے اپنے قرب کے حاصل ہونے اور اپنے پاس کسی بندہ کے درجہ حاصل کرنے کا ذریعہ بتا یا ہے۔ فرمایا۔لوگ اِس بات کی بہت خواہش کرتے ہیں کہ خدا کا قرب حاصل ہو جائے، ایمان نصیب ہو جائے (ایمان ان عقائد کا نام ہے جن کے تسلیم کرنے سے انسان خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آجاتا ہے اور ہر قسم کے دکھ اور تکالیف سے بچ جاتا ہے) ایسے لوگوں کو بتائو۔ ۔ پس تیرے رب کی قسم! یہ ایمان کو اُس وقت تک نہیں پا سکیں گے یہاں تک کہ جتنے اختلافات ان کے اندر پیدا ہوتے ہیں ان کو تیری طرف نہ لوٹائیں۔ پھرجو تیرا فیصلہ ہو اُس کے قبول کرنے میں ان کے دل تنگی محسوس نہ کریں۔ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فیصلہ کو قبول تو کر لیتے ہیں مگران کے دل اس پر راضی نہیں ہوتے۔ مثلاً ایک عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں باغ یا فلاں مکان یا اتنا روپیہ فلاں کو دیا جائے۔ اب دینے والے کو یہ بُرا تولگتا ہے اورنہیں چاہتا کہ دیوے ۔اور لینے والا سمجھتا ہے کہ مجھے کم دلایا گیا ہے جتنا میرا حق تھا اتنا نہیں ملا۔ لیکن وہ فیصلہ دونوں کو ماننا پڑتا ہے اور گورنمنٹ ان کے اس طرح عمل کرنے سے خوش ہو جاتی ہے اور یہ نہیں کہتی کہ تم اس فیصلہ کے نفاذ سے دل میں کیوں بُرا مناتے ہو۔ اس لئے اگر کوئی دل میں ناراض اور ناخو ش ہو تو گورنمنٹ اُس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کرتی لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے جو حَکَمْ بنا کر بھیجا ہے اس کی وہ عزت اور وہ شان ہے کہ اگر اس کے فیصلہ کو تم مان تو لو مگر دل میں بُرا سمجھو گے تو ہم تمہیں اپنا قرب نہیں دیں گے اور تم ایمان حاصل نہیں کر سکو گے۔ اس کے فیصلہ کو تو تمہیں اس طرح ماننا چاہئے کہ تمہارے دل بھی غمگین نہ ہوں اور ذرا بھی تنگی محسوس نہ کریں۔ تم یہ یقین کر لو کہ اس نے جو فیصلہ کیا ہے وہی حق اور درست ہے اور اِسی طرح ہونا چاہئے تھا اور یہ بات نہ صرف تمہارے مونہوں سے نکلے بلکہ تمہارے دل میں بھی یہی بات ہو۔ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو منہ سے تو کہتے ہیں کہ یہ بات درست ہے مگر ان کے دل نہیں مانتے اس لئے اس پر عمل نہیں کرتے۔ اسی بات کے دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے یہاں دو باتیں بیان فرمائی ہیں ایک یہ کہ اس کے کسی فیصلہ سے تمہارے دلوں میں تنگی محسوس نہ ہو اور دوسرے یہ کہ تم اس کی فرمانبرداری بھی کر کے دکھلائو۔
یہ وہ ذریعہ ہے جو خداکے قرب کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت فرمایا اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ جو بھی خدا کا نبی ہے اِسی سے تعلق رکھتا ہے اور جو نبی آتا ہے اس کا فیصلہ اسی کے مطابق ان لوگوں کو ماننا ضروری ہے جو اس کو قبول کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے کئی جگہ لکھا ہے کہ جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھے سچا سمجھتا ہے اُس کے لئے ضروری ہے کہ میرے فیصلوں اور حکموں کو بھی مانے ورنہ وہ میری بیعت میں داخل نہیں ہے۔ پس یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی خاص نہیں ہے بلکہ ہر ایک رسول سے متعلق ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ ۳؎ کہ کوئی رسول نہیں بھیجا جاتا مگر اس لئے کہ اُس زمانہ کے لوگ اس کی اطاعت کریں اور اگر کوئی اس کی اطاعت نہیں کرتے تو وہ مومن نہیں ہیں۔ پس خدا تعالیٰ نے فرما دیا کہ نبی کی طرف سے جو فیصلہ ہو ا س کو خوشی سے قبول کرنا چاہئے اور اگر کوئی اُسے خوشی سے قبول نہیں کرتا تو وہ مومن نہیں ہے۔
بظاہر تو یہ بڑی مشکل بات معلوم ہوتی ہو گی کہ کس طرح ایک انسان کے ہر ایک فیصلہ کو اس طرح قبول کیا جائے کہ اس کے متعلق دل میں بھی ذرا تنگی محسوس نہ ہو اور کسی قسم کی ناخوشی نہ ہو۔ مگر میرے نزدیک یہ ایک بہت بڑی رحمت ہے۔ دنیا میں لوگ بڑے بڑے لوگوں کے فیصلے مانتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہمارا فیصلہ کوئی بڑا عقل مند اور دانا کرے۔ خدا تعالیٰ نے یہ فرما کر بتا دیا کہ اے لوگو! ہم تمہارے لئے اس مصیبت اور تکلیف کو باقی نہیں چھوڑتے کہ تم اپنے فیصلوں کے لئے انسانوں کو ڈھونڈتے پھرو اور پھر بھی حسبِ دلخواہ تمہیں نہ ملیں۔ ہم خود ایک انسان کو مقرر کر دیتے ہیں جو تمہارے فیصلے کر دے گا۔ پس خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی ایسے انسان کا مقرر ہونا کوئی تکلیف دینا نہیں بلکہ رحمت برسانا ہے اور غلامی کرانا نہیں بلکہ حریت پیدا کرنا ہے یہ پابندی کرانا نہیں بلکہ آزادی دلانا ہے کیونکہ ایک نبی کے ماننے والے کو یہ ضرورت نہیں رہتی کہ وہ کسی بات کے متعلق فیصلہ کرانے کے لئے کسی منصف کی تلاش میں نکلے بلکہ وہ ہر ایک بات کا فیصلہ خواہ وہ اعمال سے متعلق ہو،یا افعال سے خواہ انتظامی امور سے تعلق رکھتی ہو خواہ جسمانی سے خواہ ایمان سے تعلق رکھتی ہو خواہ اعتقاد سے وہ رسول کر دیتا ہے۔ا ب اسے کسی اور کے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی لیکن بہت لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اس بات کو سمجھا نہیں ہوتا اس لئے ٹھوکر کھاتے ہیں۔
بہت لوگ ہیں جولکھتے ہیں کہ ہمیں سمجھ آگئی ہے کہ حضرت مرزا صاحب سچے تھے لیکن لاہوری ان کے متعلق کچھ اور کہتے ہیں اور تم کچھ اور۔ ہم کس کی بات کو مانیں اور کس کی بات کو نہ مانیں۔ میں ایسے لوگوں کہتا ہوں کہ تم قرآن شریف کو قبول کرو۔ سلسلہ احمدیہ کے انتظام کے لئے پہلے حضرت مولوی صاحب تھے اور اب میں ہوں۔ نہ کبھی مولوی صاحب نے کہا اور نہ میں کہتا ہوں کہ عقائدِ احمدیت اس لئے قبول کرو کہ میں کہتا ہوں۔ عقائد تو وہی ہیں جو حضرت مرزا صاحب مقرر فرما گئے ہیں اِس لئے میں کہتا ہوں کہ اگر ہماری کوئی بات سچی ہے تو اسے قبول کر لو ورنہ غلط قرار دے کر چھوڑ دو۔ پس تمام باتوں کے فیصلہ کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ جو بات حضرت مسیح موعود ؑنے فرمائی ہے اُسے قبول کرو اور جو اُس کے خلاف ہے اُسے چھوڑ دو۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص اتنی مدت حضرت صاحب کی صحبت میں رہا ہے اُس نے فلاں بات کہی ہے۔ ’’اکمل‘‘ نے یہ لکھا ہے’’ قاسم‘‘ نے یہ کہا ہے ۔ فلاں ایڈیٹرنے یہ کہا ہے فلاں ایم اے یہ کہتا ہے ہم کس کی مانیں؟ میں کہتا ہوں کہ ہر ایک اختلاف کی بنا ء ہمیشہ سے اِسی بات پر رکھی گئی ہے کہ ان لوگوں کی باتوں اور رائوں کو سامنے رکھا جاتا ہے جو کسی بات کے متعلق فیصلہ دینے کا اختیار نہیں رکھتے اور ان کی بات کے پیچھے چلا جاتا ہے جو ٹھوکر کا باعث ہوتے ہیں۔ اِس ٹھوکر سے بچنے کا طریق یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو مأمور کیا گیا ہے اُس کی بات کو قبول کیا جائے اور اس کے علاوہ خواہ کوئی بڑا ہو یا چھوٹا اُس کی بات اگر اس مأمور من اللہ کی بات کے مطابق ہے تو اسے قبول کر لو اور اگر ا س کے خلاف ہے تو پھینک دو۔
حضرت مسیح موعودؑ کے فیصلہ کوماننے سے اصل میں قرآن اور حدیث کے فیصلہ کو مانا جاتا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ قرآن اور حدیث کو ردّ کرنے کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ ان کے اصل اور درست معنی بیان کرنے کے لئے آئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قرآن کی تفسیر کی ہے وہ حدیث ہے اور ایک تفسیر قرآن کریم کے الفاظ سے سمجھ میں آتی ہے اور یہ تفسیر وہی سب سے زیادہ سمجھ سکتا ہے جس کو خد اتعالیٰ خود سمجھائے ۔اور پھر ا س سے بڑھ کر اور کون سمجھ سکتا ہے جس پر قرآن کریم نازل ہوا ہے اِس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل، آپ کی سنت و عمل قرآن کریم کی تفسیر ہے لیکن آپ کے بعد جب زمانہ گزرتا گیا تو لوگوں نے اپنے اپنے عقل اور فہم کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنی شروع کر دی اس لئے اختلاف پڑنے شروع ہو گئے اور ہزارہا اختلاف پڑ گئے۔ اب ہر ایک مومن کے لئے مشکل ہو گیا کہ وہ کس بات کو غلط قرار دے اور کس کو مانے۔ اکثر لوگ چونکہ خیالات کے پابند ہوتے ہیں اِس لئے ضروری ہوا کہ انہیں غلط خیالات سے ہٹا کر حقیقت اور اصلیت کی طرف لانے والا کوئی پیدا ہو۔ وہ حضرت مسیح موعودؑ پیدا ہوئے۔ اِس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسیح موعود حَکَمْ ہو گایعنی اس لئے مبعوث کیا جائے گا کہ جو اختلاف پڑ گئے ہوں گے اس کے ذریعہ دُور ہو کر سب لوگ ایک دین پر جمع ہو سکیں گے ۔اور قرآن کی اپنی عقل کے مطابق جو لوگوں نے تفسیریں کر کے اختلاف ڈال دئیے ہیں وہ صحیح اور درست تفسیر کر کے ان کو دور کر ے گا۔
پس ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس لئے نہیں مانتے اور دوسروں کو منواتے کہ آپ قرآن کو منسوخ کر کے کوئی اور شریعت لائے تھے بلکہ اِس لئے کہ آپ قرآن کریم کی سچی اور درست تفسیر کرنے والے تھے۔ اسی طرح قرآن شریف کو ہم اس لئے نہیں مانتے اور دوسروں سے منواتے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے بلکہ اِس لئے کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے۔ پس ہر ایک بات اور اختلاف کافیصلہ خدا تعالیٰ کا کلام ہی کر سکتا ہے اور وہی کرتا ہے۔ مگر خداتعالیٰ کا کلام اس سے بڑھ کر اور کون سمجھ سکتا ہے جس پر کہ وہ نازل ہوا اور پھر اس سے بڑھ کر زیادہ اور کون سمجھ سکتا ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میرے باپ کا نام اس کے باپ کا نام اور میری ماں کا نام اُس کی ماں کا نام ہو گا۴؎ اور میری ہی قبر میں دفن کیا جائے گا۔ ۵؎ اس سے زیادہ اور کسی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا قرب ہو سکتا ہے اور ا س سے زیادہ کسی کا کیا حق ہے کہ قرآن کو سمجھ سکے۔ پس حضرت مسیح موعودؑ سب سے بڑھ کر قرآن کو سمجھنے والے تھے اور خدا نے اُنہیں سمجھایا تھا اِس لئے جو فیصلہ اُنہوں نے کر دیا وہی فیصلہ درست اور صحیح ہے۔
ہماری جماعت پر تو خدا کا بڑا ہی فضل اور کرم ہے۔ زید اور بکر کو ٹھوکر لگ سکتی ہے مگر ہماری جماعت کو نہیںلگ سکتی کیونکہ اُن کے لئے کوئی حَکَمْ نہیں ہے مگر ہمارے لئے حضرت مسیح موعودؑ حَکَمْ ہیں۔اور حضرت مسیح موعودؑ خدا تعالیٰ کے کلام کے مطابق فیصلہ کرنے والے ہیں کیونکہ خدا ہی نے انہیں حَکَمْ قرار دیا ہے اور پھر سب کا مطاع ٹھہرایا ہے۔ آپ کے سوا اور کون ہے جس کی نسبت حَکَم اور عدل کہا گیا ہو اور جس کی نسبت خدا نے کہا ہو کہ اس کے فیصلے صحیح اور درست ہیں۔ پھر آپ کے سوا اور کون ہے جس نے دعویٰ کیا ہو کہ میں اُس گروہ میں سے ہوں جس کو خدا تعالیٰ مرنے تک کسی اجتہادی غلطی پر نہیں رہنے دیتا ۔اور پھر آپ کے سوا اور کون ہے جس کی نصرت اور تائید خدا تعالیٰ نے کی اور جس کی صداقت کو ظاہر کر دیا۔ کوئی نہیں۔ پس جب ایسا انسان ایک ہی ہے اور وہ ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہے تو ہم اس کے ہوتے ہوئے اور کسی کی بات کو کیوں مانیں۔
اس بات کو یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ تم ہر ایک بات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ مانو۔ جو اس لئے آیا تھا کہ اختلافات کو مٹا دے اور تمام اختلافی باتوں کا فیصلہ کر دے۔ اور یہ وہ عظیم الشان انسان ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے قرآن میں خبر دی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے،پہلے تمام نبیوں نے خبر دی ہے۔ پس یہی وہ انسان ہے جس کا ہر ایک فیصلہ بلاچون وچرا کے مان لینا چاہئے کیونکہ اگر وہ سچا ہے اور واقعی سچا ہے تو اس کا ہر ایک فیصلہ اور ہر ایک بات سچی ہے۔ اور جب ہر ایک بات سچی ہے تو اس کے ماننے میں کیا انکار ہو سکتا ہے۔
پس اگر ہمارے اِس سلسلہ میں داخل ہونے کی اور اِس بوجھ کو اپنے سر پر لینے کی یہ غرض ہے کہ ہمیں ایمان حاصل ہو جائے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ خدا کے رسول کی اطاعت کا جُؤا اپنی گردنوں پر رکھو ۔اور اگر یہ نہیں بلکہ تم زید و بکر کی باتوں کو ماننے والے ہو اور ان کے پیچھے چلنے والے ہو تو تمہیں سوائے ضلالت اور ہلاکت کے اور کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ جسے اپنے ایمان کی ضرورت ہے اور جو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اپنے تصور میں اس بات کو لائے کہ کیا جبکہ وہ خد اتعالیٰ کے حکم کو ردّ کرتا ہے تو کامیاب ہو سکے گا؟ ہرگز نہیں۔ خدا تعالیٰ نے تمام عقائد کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیصلہ پر رکھی ہے۔ اگر تم آپ کے فیصلہ کو مانو گے تو کوئی وجہ نہیں کہ تمہیں ٹھوکر لگے۔ زید کھڑا رہے یا گرے۔ بکر کھڑا رہے یا گرے مگر تم کھڑے رہو گے کیونکہ مسیح موعود کھڑا ہے ۔اور کھڑی چیز کو پکڑنے والا نہیں گرتا بلکہ جو گرنے والی چیز کو پکڑتا ہے وہ گرتا ہے۔ جس شخص کو خدا نے سہارا دے کر کھڑا کیا ہے وہ نہیں گر سکتا کیونکہ خدا نہیں گرتا۔ پس تمہیں اسی کے سہارے کھڑا ہونا چاہئے جو ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والا ہے اور اسی کی ہر ایک بات ماننی چاہئے۔ حضرت مسیح موعودؑو ہی کہتا ہے جو رسول کریم ﷺ نے کہا۔ اور رسول کریم ﷺ نے وہی کہا جو خدا تعالیٰ نے انہیں کہا۔ اور خدا تعالیٰ غلطی نہیں کرتا کیونکہ وہ علیم اور خبیر ہے ۔ہر ایک بات کا علم رکھتا ہے اور ہر ایک بات کو جانتا ہے اس لئے مسیح موعودعلیہ السلام ہی کی بات ایسی ہے جو بِلا چون وچرا ماننے کے قابل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اِس بات کی سمجھ دے کہ وہ عقائد میں حضرت مسیح موعودؑ کے اقوال و افعال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور قرآن کریم پر ہو نہ کہ کسی اور انسان کے اقوال پر کیونکہ اس طرح ٹھوکر لگتی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ بعض لوگوں کی سمجھ اور عقل دوسروں سے اعلیٰ ہوتی ہے مگر وہ ایسے انسان نہیں کہے جا سکتے جو غلطی نہ کرتے ہوں۔ یا نہ کر سکتے ہوں اور بالکل پاک ہوں۔ امام مالکؒ، امام حنبلؒ، امام شافعیؒ کا اسلام میں بہت بڑا درجہ ہے اور واقعہ میں وہ اِسی قابل ہیں لیکن بعض باتیں ایک نے کہی ہیں جن میں نقص ہے لیکن دوسرے نے ان کو تو درست لکھا ہے مگر کسی اور بات میں غلطی کر گیا ہے۔ اسی طرح بعض کی کوئی بات غلط ہے اور بعض کی کوئی۔ تو تمام اقوال اور افعال صرف خدا کے مأموروں کے ہی درست ہوتے ہیں ان کے سوا اور کسی کے نہیں ہوتے اس لئے ایمانات کی بنیاد مأمور من اللہ کے اقوال پر ہی ہونی چاہئے۔ خدا تعالیٰ ہمارے اعتقادات کو اپنی مرضی کے مطابق درست رکھے تاہم ٹھوکر نہ کھائیں اور ہمارے قدم ایسی مضبوط چٹان پر قائم ہوں کہ جہاں سے کبھی نہ ہل سکیں۔‘‘
(الفضل ۲۹ فروری ۱۹۱۶ئ)
۱؎ النسائ: ۶۶
۲؎ تپسیا: مشقت کی عبادت، سخت ریاضت
۳؎ النسائ: ۶۵
۴؎ ترمذی کتاب الفتن باب ماجاء فی المہدی+ ابوداؤد کتاب الفتن باب کتاب اوّل کتاب المہدی
۵؎ مشکوٰۃ باب نزول عیسیٰ علیہ السلام صفحہ ۴۸۰ مطبوعہ کراچی ۱۳۶۸ھ
۷
ہماری جماعت صفاتِ الٰہیہ کی مظہر بنے
(فرمودہ ۳؍ مارچ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ جن خوبیوں اور جن صفاتِ حسنہ کا مالک ہے کوئی بھی نظیر ان کی کسی اور جگہ نہیں ملتی لیکن وہ خدا خدا ہے اور باقی مخلوق اس لئے مخلوق میں جو صفات اور خوبیاں ہوں گی وہ سب اس خدا ہی کی ہوں گی اور اس کی صفات کا ظل ہوں گی۔ پس خدا تعالیٰ میں جو صفات اور خوبیاں اور حسن ہے انسان میں اس کا ظل ہے۔ا نسان ان صفات پر اور ان خوبیوں پر اور اس حسن پر جو اس میں ہیں خدا تعالیٰ کی صفات کا اندازہ نہیں لگا سکتا کیونکہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے اسی کا اندازہ لگا سکتا ہے اس لئے اس جگہ انسان جو بھی اندازہ لگائے گا وہ غلط ہو گا۔ کیونکہ یہ اس ظل پر جو اس نے دیکھا ہے اس خدا کی صفات کا جس کی صفات کا یہ ظل ہیں خیال کرے گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کو سے شروع کیا نَحْمَدُ سے شرو ع نہیںکیا تاکہ بتادے کہ جس قدر بھی خوبیاں اور صفات ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ میں جمع ہیں اِسی لئے وہ ہر طرح کی کامل حمد کے لائق ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگ بہت ہیں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق طرح طرح کے عیوب جمع کرتے ہیں۔ اس کو زبان سے نہیں تو اعمال سے یا دیگر عقائد سے بے قدرت تسلیم کیا جاتا ہے،اس کو جھوٹا کہا جاتا ہے، اس کو مجبور ظالم اور بے رحم گردانا جاتا ہے غرض طرح طرح کے الزام خدا پر لگائے جاتے ہیں۔ یہ الزام اُس کے نہ ماننے والوں کی طرف سے نہیں بلکہ ماننے والوں اور اس کی ہستی کا اقرار کرنے والوں کی طرف سے ہیں۔ وہ ان الزامات کو سمجھتے ہیں کہ یہ اس کی صفات ہیں اس لئے وہ ان کو بھی اُسی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ایک مسلمان جو کہنے والا ہے اُس کا فرض ہے کہ وہ ان تمام بدیوں اور الزامات کوجو اللہ تعالیٰ پر لگائے جاتے ہیں اور اس کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں دور کرے۔
نبی اور مأمور اِسی غرض کیلئے دنیا میں آتے ہیں تا وہ ان الزامات اوربدیوں کو جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی گئی ہیں دور کریں ۔سچے سلسلہ کی یہی نشانی ہے کہ اس کے ماننے والے ان الزامات کو دور کریں۔ جس طرح حضرت نوحؑ کی آمد، حضرت ابراہیم ؑ کی آمد، حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسیٰؑ اورہمارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے نبیوں کی آمد جو مختلف ملکوں میں مختلف اوقات میں مبعوث ہوئے اِسی لئے ہوئی کہ وہ ان الزامات کو جو لوگوں نے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر چھوڑے تھے دُور کریں اُسی طرح ہمارے حضرت مسیح موعودؑ بھی اِسی غرض کے لئے بھیجے گئے ۔ جس طرح پہلے نبیوں کی جماعتیں خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے اِسی غرض کے لئے قائم کی گئیں اُسی طرح ہماری جماعت بھی اِسی غرض کے لئے قائم کی گئی ہے۔ پس جس طرح ان لوگوں نے جو پہلے نبیوں کی جماعت سے تھے اپنا فرض ادا کیا۔ اسی طرح ہمارا بھی فرض ہے کہ ہماری کوششیں مختلف طریقوں سے اور محنتیں چھوٹی ہوںیا بڑی اِسی غرض کے لئے ہونی چاہئیں۔ ہمارے لئے فرمایا کہ تم خدا سے مدد مانگو، اُس سے دعا کرو کیونکہ تم خود کوئی چیز نہیں کہ اس کام کوبجا لائو۔ہاں خد اسے دعا کرو ۔تم ایک تلوار کی طرح ہو جب خدا اس تلوار کے قبضے کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس تلوار کو چلائے گا تو وہ تلوار جس پر پڑے گی اُس کو کاٹتی چلی جائے گی۔
ہمارا جلسہ اِسی غرض کے لئے دہلی میں قرار پایا ہے۔ دعا کرو کہ خدا تعالیٰ اس جلسے کو کامیاب کرے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے کہ دہلی میں ولیوں، بزرگوں، شہیدوں اور صالح لوگوں کی بہت قبریں ہیں حتیٰ کہ جس قدر پاک لوگ اِس خاک میں مدفون ہیں زندوں سے زیادہ ہوں گے ان کی روحیں حق کے ظہور کے لئے تڑپ رہی ہیں وہاں یہ سلسلہ ضرور پھیلے گا۔
حضرت مسیح موعودؑ جب دہلی تشریف لے گئے تھے تو وہاں کی جماعت نے عرض کیا یہاں کے لوگ بالکل پرواہ نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ارے میاں! اگر مسیح نے ہندوستان ہی میں آنا تھا تو پھردہلی میں آتا نہ کہ پنجاب کے کسی گائوں میں جہاں بات کرنے کا بھی سلیقہ نہیں۔ گویا وہ لوگ کی بجائے اَلْحَمْدُ لِدِھْلِیْ کہا کرتے یعنی تمام خوبیاں وہ دہلی میں جمع کرتے ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ عالم ہو سکتے ہیں تو دہلی میں سے، ولی،شہید، صالح اور نیکوکار ہو سکتے ہیں تو دہلی سے ۔ اُنہوں نے دہلی کو تمام صفات کا جامع بنا لیا ہے اور اس قدر متکبر ہوئے ہیں کہ وہ خیال کرتے ہیںکہ دہلی میں رہ کر ہمیں کسی بات کے سننے کی حاجت ہی نہیں تو وہاں کے لوگ بہت بے پرواہ ہیں۔ دعا کرنی چاہئے ا للہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں میں تحریک کرے کہ وہ اپنے دلوں کو طرح طرح کی آلودگیوں اور نخوت اور تکبر سے صاف کر کے ہمارے جلسہ میں آویں اور پھر دعا کرنی چاہئے کہ ہمارے واعظوں کے دلوں میں کسی قسم کا تکبر نہ ہو، کسی قسم کا عجب نہ ہو ۔ پھر دعا کرنی چاہئے کہ ہمارے واعظوں کی تبلیغ میں اثر ہو۔ اور پھر دعا کرنی چاہئے کہ اس اثر سے وہ لوگ فائدہ بھی اُٹھائیں۔ اور پھر دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو توفیق دے کہ وہ اس اثر کو دوسروں تک پہنچائیں۔ جلسہ آج جمعہ کے بعد شروع ہو گا چار دن تک رہے گا ان چاروں دنوں میں دعا کرنی چاہئے۔ ‘‘ (الفضل ۷؍ مارچ ۱۹۱۶ئ)
۸
دو دو چار چار بیویاں کرو!
(فرمودہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اور سورۃفاتحہ کے حضور نے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
۱؎
پھر فرمایا:۔
’’ اسلام کے معنی کامل فرمانبرداری کے ہیں اور اگر کوئی شخص مسلم کہلاتا ہے اور اپنی خواہشوں اور اپنے اغراض اور خیالات کو اسلام کے احکام پر مقدم کرتا ہے تو وہ نام کا مسلم ہے لیکن خدا کے حضور مسلم نہیں کہلا سکتا۔ جب مسلم کے معنے فرمانبردار ، متبع، مطیع اور ہر ایک بات کے ماننے والے کے ہیں تو پھر ایسا شخص جو اسلام کے احکام کو نہیں پکڑتا اور اس کے فرمانوں کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرتا وہ مسلم نہیں ہو سکتا۔ ایسے شخص کا کیا حق ہے کہ وہ مسلم کہلائے۔ مسلم وہی ہے جو خدا کے آگے اپنی گردن ڈال دے اور اُس کے تمام کام خدا کے احکام کے ماتحت ہو جائیں اور وہ ان باتوں کو پسند کرے جنہیں خدا تعالیٰ نے پسند کیا ہے یہی مسلم کی تعریف ہے اس تعریف کے ماتحت یہ شخص مسلم ہے۔
لوگ اپنی پسند کے ماتحت آنے والے احکام کے لئے بڑی خوشی سے فرمانبرداری کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر کسی بینے سے قرضہ لیا ہوا ہو تو وہ سُود سے بچنے کی بڑی کوشش کریں گے اور کہیں گے یہ تو ہمارے مذہب کے خلاف ہے ہمارے مذہب نے تو اسے جائز نہیں رکھا لیکن اگر لڑکیوں کو حصہ دینا ہو تو کہہ دیں گے ہم شریعت کے پابند نہیں ہم رواج کے پابند ہیں۔ غرض یہ کہ اُنہوں نے شریعت کو ایسے بنا چھوڑا ہے کہ مطلب کی بات کو لے لیا اور جو خلافِ منشا ء ہوئی اسے چھوڑ دیا۔
اِسی طرح ایک سے زیادہ شادی کرنے کے متعلق باتیں بنائی ہیں۔ اس وقت ہندوستان میں یورپ کی ہوا چل رہی ہے اور یوں بھی اسلام سے دور ہوتے ہوتے اس سے بہت بُعد ہو گیا ہے اس لئے لوگ دوسری شادی کرنے کے بہت مخالف ہیں۔ ایک شخص احمدی نے مجھے لکھا ہے کہ میرے اولاد نہیں ہے اس لئے میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میرے اس خیال کی وجہ سے میری بیوی کے والدین نے اسے روک لیا ہے اور بھیجتے نہیں ہیں۔ کہتے ہیں ہم تب اپنی لڑکی کوبھیجیں گے جب تم یہ لکھ کر دو کہ تم دوسری شادی نہیں کرو گے۔
قرآن شریف فرماتا ہے تم شادی کرو جو تمہارے پسند ہو۔ ہاں اگر عدل نہ ہو سکے تو ایک کرو۔ ورنہ دو دو تین تین چار چار کرنے کی اجازت ہے تو کیونکر ایک شخص احمدی رہ سکتا ہے جبکہ وہ خدا کے اس حکم کے خلاف کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو حکم دیتا ہے کہ اگر تم عدل نہ کر سکو تو اس صورت میں ایک کرو۔ موانع کی موجودگی میں ایک کی اجازت دی ہے لیکن موانع نہ ہونے کی صورت میں تمہیں د ودو، تین تین، چار چار کی اجازت ہے۔
میری دوسری شادی پر لاہور کے ایک شخص نے جو سید کہلاتا ہے اعتراض کیا۔ اُس کو نہیں معلوم کہ جس کی اولاد ہونے کا وہ فخر کرتا ہے اور جس کی بیٹی کی نسل ہونے سے وہ سید بنا ہے اُس کے والد کی تو ۹ بیویاں تھیں۔۲؎ اگر دو شادیاں کرانے کے لحاظ سے ایک شخص شہوت پرست، عیاش کہلا سکتا ہے تو ۹ شادیاں کرانے والے کی نسبت اُس کا کیا خیال ہو گا۔ لیکھرام کی طرح اس نے سمجھا تھا کہ اس نے بڑا بھاری اعتراض کیا ہے لیکن جس طرح لیکھرام کے اعتراض نے اس معزز مکرم کی شان کا کچھ نہیں بگاڑا اِس شخص کے اعتراض نے میرا بھی کچھ نہیں بگاڑا۔ اس نے اپنے آپ کو لیکھرام کے مشابہہ کیا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت دی۔اس نے نادانی سے کہا کہ یہ شخص عیاشی چاہتا ہے لیکن ہم اسے کہتے ہیں کہ اس کے اس اعتراض کرنے میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان، حضرت امام حسینؓ، حضرت عبداللہ بن جعفر قریباً پانچ سَو صحابہ ہمارے ساتھ شامل ہیں وہ سب اِسی اعتراض کے نیچے آئیں گے۔ لیکھرام اور اس کے بھائیوں نے بڑے بڑے اعتراض کئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جو اس قدر لوگوں کی ہدایت کے لئے آوے اور پھر وہ اس طرح کرے (جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا) یہ کیونکر اچھا کام ہو سکتا ہے لیکن باوجود اس اعتراض کو دیکھتے ہوئے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو چکا تھا اِس نے مجھ پر یہی اعتراض کیا۔ افسوس اِس نے میرے پر یہ اعتراض کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہ چھوڑا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا جو عورت اپنے خاوند کی دوسری شادی پر چڑتی ہے اور بُرا مناتی ہے، ناپسند کرتی ہے، غصے میں آتی ہے، تو خاوند کے لئے ضروری ہے کہ اُس کی اِس چڑ کو دُور کرنے اور توڑنے کے لئے دوسری شادی کرے۔۳؎ اگر کوئی شخص اس کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اِس پر اعتراض کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے برخلاف کرتا ہے لیکن باوجود اِس کے بہت سارے احمدی اِس کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ خواہ وہ محمد حسین کے مجھ پر اعتراض کرنے کو بُرا ہی مناتے ہوں اور جوش میں آتے ہوں لیکن جب خود ان پر بات آتی ہے تو وہ بھی اِسی اعتراض کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ اسلام کے تو یہی معنے ہیں کہ اپنے اُوپر بھی ان احکام کو چلائے جو احکام اسلام نے دیئے ہیں۔
بہت سارے نبیوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں۔ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت یعقوبؑ، حضرت موسی ؑ،حضرت دائود، حضرت سلیمان ؑ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں۔ بڑے بڑے نبیوں میں کثرت سے ایسے نبی گزر چکے ہیں اگر فہرست لی جائے تو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے والے نبی زیادہ ہوں گے۔ خود حضرت مسیح ؑکی نسبت بھی چار شادیاں بیان کی جاتی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اِس قدر اولوالعزم انبیاء ایک سے زیادہ شادیاں رکھتے تھے کیا یہ اُن کا فعل عیاشی پر مبنی تھا؟ اگر کہو کہ نہیں ضرورت کے ماتحت اُنہوں نے شادیاں کی تھیں۔ ایک یا دو یا چار نبی ہوتے تو کہہ سکتے تھے کہ مصلحت کے ماتحت اُنہوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں ۔ یہاں اگر کل چالیس یا پچاس نبی ہیں تواِ ن میں سے پچیس یا تیس ایسے نظر آئیں گے کہ اُنہوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں۔ اِس میں کیا حکمت ہے کہ خدا تعالیٰ نے جن پاک بزرگوں کو اپنی خلعتِ نبوت سے سرفراز فرمایا اُن میں سے اکثر کو ایک سے زیادہ شادی کے لئے ہی ضرورت پیش آئی۔ اِدھر قرآن شریف بھی دو دو چار چار کا حکم دیتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی خاص حکمت پوشیدہ ہے باوجود اِس کے کہ نسل موجود ہے اور پھر شادیاںکی جاتی ہیں۔
اگر کوئی شخص کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اولاد کیلئے شادیاں کرتے تھے تو ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے ہیں اور زند ہ ہیں پھر ایسے وقت میں آپؐ نے اور نکاح کیا۔ پھر اور اعتراض ہے۔ اور کو تو چار چار کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ۹ کی اجازت کیوں دی گئی۔
بہت لوگوں کا خیال ہے کہ۹تک عام اجازت ہے۔ لیکن مسیح موعود علیہ السلام نے چارکا ہی فتویٰ دیا ہے۔ میں نے بار ہا آپ سے چار کے متعلق ہی سنا ہے آپ چار ہی فرمایا کرتے تھے۔ حضرت مولوی صاحب (نور الدین) کا ایک وقت میں ۹ کے جواز کا خیال تھا چنانچہ اُنہوں نے ایک دفعہ ایک روایت بھجوا دی کہ فلاں بزرگ کی چار سے زیادہ بیویاں تھیں۔ میر محمد اسحق صاحب وہ روایت لئے ہوئے میر ے پاس آئے اور کہنے لگے آج اِس مسئلہ پر خوب بحث ہو گی۔ مولوی صاحب نے یہ ایک حدیث حضرت صاحب کو دکھانے کے لئے بھجوائی ہے۔ پس وہ اسے حضرت صاحب کو دکھانے کے لئے لے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد جب واپس آئے تو سر نیچے ڈالا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ حضرت صاحب کے سامنے جب وہ عبارت پیش کی تو آپ نے فرمایا یہاں کہاں لکھا ہے کہ ۹ بیبیاں ایک وقت میں تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چار کی نسبت ہی فرمایا کرتے تھے۔ تو ہم بھی یہی کہیں گے کہ اِدھر چار کی اجازت اُدھر ۹کی اس میں کیا حکمت ہے۔
اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اولاد کی خواہش تھی تو آپ کو چار بیویاں کرنی چاہئے تھیں لیکن آپ نے ۹ کیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ آپ خواہ بیس بیویاں بھی کر لیں تو بھی آپ کے نرینہ اولاد نہ ہو گی تو پھر کس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور لوگوں سے زیادہ 9 کی اجازت دی؟ معلوم ہوا کہ کوئی اَور حکمت ہے۔ چونکہ اسلام ہدایت لے کر آیا تھا اس لئے تبلیغ فرضِ اسلام تھا۔ کیونکہ تبلیغ کے ذریعہ سے ہدایت پہنچ سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ شادیاں کرنے میں یہی حکمت تھی۔ اگرچہ سیاسی اغراض بھی تھیں۔لیکن سب سے بڑھ کر یہی غرض تھی کہ انہوں نے زیادہ شادیاں کر کے عورتوں کے متعلق علم کو محفوظ کر دیا۔ آپؐ کی بیویاں اسلام کی دوسری عورتوں کے لئے مبلّغہ ہوئیں انہوں نے اسلام اور ان کے متعلق احکام پہنچائے۔ چار عورتوں کی گواہی دو مردوں کی گواہی کے برابر ہوتی ہے لیکن بعض ایسے فیصلے بھی ہوتے ہیں کہ ان میں چار گواہ مردوں کی ضرورت ہوتی ہے پس ایسے فیصلے میں آٹھ عورتوں کی گواہی کی ضرورت ہوئی۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۹ کر کے اسے طاق کر دیا اور گواہی کامل ہو گئی۔ غرض نصف حصہ دین کا جو عورتوں کے متعلق تھا اِس طرح پورا ہوا۔
دوسری حکمت اس میں نسل کی ترقی کی بھی ہے کہ نسل کے بڑھنے سے خدا کے نام لیوا پیدا ہوں گے اور اسلام کے مبلغ بنیں گے اور اسلام دوسرے مذاہب کو اپنے اندر جذب کر لے گا۔ تاریخ پڑھ کر دیکھ لو کہ ترقی کرنے والی قوم کی پہلے نسل کی ترقی ہوئی ہے۔ یورپ کے لوگ جزیروں میں جا کر آباد ہوئے ہیںا ن کی نسل کی ترقی ہوتی گئی اور اصلی باشندوں کی نسل کی کمی ہوتی گئی۔ غرض جس قوم کی ترقی ہونے لگی ہے اس کی نسل بڑھی ہے اور دوسری قوم کی نسل کم ہوئی ہے۔ فارس میں مسلمان آئے، کاکیشیا، ارض روم، افغانستان، بلوچستان، بخارا، جاوا، سماٹرا، سیلون جب یہ قوم اپنی ترقی کے زمانہ میں پہنچی ان کی نسل بڑھی، ان تمام علاقوں میں عرب نسلیں پائی جاتی ہیں۔ا گرچہ یہی عرب رسول اللہ ؐسے پہلے موجود تھے۔ کیوں ان کی ترقی اُس وقت نہ ہوئی اور کیوں ان کی نسلیں اُس وقت نہ پھیلیں؟ اِس کی یہی وجہ ہے کہ کسی قوم کی ترقی کے ساتھ اس کی نسل کی بھی ترقی ہوتی ہے اس لئے اسلام نے نسل کی ترقی کے لئے چار تک بیویاں کرنے کا حکم دیا ہے۔ جب نسل کی ترقی ہو گی تو اس کے ساتھ دوسری ترقی بھی ہو گی۔ تو اس طرف اشارہ کر دیا کہ نسل بڑھائو تاکہ بڑے ؓبڑے اعلیٰ قسم کے شخص پیدا ہوں اور وہ اسلام کو قائم کریں۔ نسل بڑھنے سے تبلیغ کرنے والے بھی بڑھ جاویں گے۔ جن جن ممالک میں مسلمانوں نے اس بات پر کہ ایک سے زیادہ شادیاں کر یں عمل نہیں کیا۔ وہاں پھر اسلام بھی نہیں پھیلا۔ عرب اس بات کو خوب جانتے تھے اور اُنہوں نے اِس بات پر خوب عمل کیا۔ اِسی لئے جہاں جہاں عرب حکومت قائم ہوئی وہاں دوسری نسلیں مٹ گئیں۔ ہندوستان میںمغل پٹھان لوگوں کی سلطنت ہوئی اُنہوں نے اس بات پر عمل نہ کیا اگرچہ اُنہوں نے دوسری قوموں پر ظلم کیا، جبر بھی کیا لیکن پھر بھی یہاں دوسری قومیں کم نہیں ہوئیں لیکن عرب لوگوں کی سلطنت کے ماتحت باوجود اعلیٰ درجے کے امن اور ۴؎ پر عامل ہونے کے جہاں گئے اسلام وہاں بڑی ترقی کر گیا اور دوسری قومیں وہاں نابود ہو گئیں۔ ہندوستان میں اسلامی سلطنت سات سَو سال تک رہی لیکن اسلام یہاں اس قدر نہ پھیلا جتنا کہ پھیلنا چاہئے تھا۔ا گر مسلمان یہاں بھی کثرت سے شادیاں کرتے تو سارا ہندوستان مسلمان ہو جاتا۔ بادشاہوں نے یہاں شادیاں کثرت سے کیں لیکن عیاشی کے لئے۔
جہاں عورت کے حقوق دوسری شادی کرنے پر نہ دئیے جائیں تو وہ شادی عیاشی کے لئے ہوتی ہے۔ ایک شادی کی جاتی ہے اور دوسری سے تعلق توڑ لیا جاتا ہے۔ راجوں اور نوابوں کا یہی حال ہے۔ مگر اسلام نے جو شرائط لگائی ہیں ان سے عیاشی نہیں ہو سکتی۔ اسلام تو کہتا ہے کہ خواہ دوسری عورت سے تمہیں کتنی ہی محبت ہو لیکن تمہیں ذرا ذرا بات میں دونوں سے ایک جیسا سلوک چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہؓ سب بیویوں سے پیاری تھیں۔ یہ بات پوشیدہ نہ تھی سب جانتے تھے ۔ اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ میں تمہارا وظیفہ بڑھانا چاہتا ہوں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کو برابر حصہ دیتے تھے تم مجھ کو زیادہ حصہ دینے والے کون ہو۔ صحابہ بھی اِس بات کو جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ سے زیادہ پیار رکھتے ہیں اور سب عورتوں سے ایک جیسا سلوک کرتے ہیں۔ اس لئے جب حضرت عائشہؓ کی باری ہوتی تھی تو ہدیہ آپ کے پیش کیا کرتے تھے۔۵؎ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سخت بیماری میں بھی اپنی مرضی سے حضرت عائشہؓ کے گھر نہ رہے تھے بلکہ سب بیویوں سے پوچھ لیا تھا کہ مجھے آنے جانے میں تکلیف ہوتی ہے اگر تم کہو تو میں عائشہؓ ہی کے ہاں رہوں۔ ۶؎ یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ کس قلب کا وہ انسان تھا باوجود اس کے کہ آپ حضرت عائشہؓ رضی اللہ عنہ سے بوجہ تقوی،فراست ، سمجھ،دانائی کے محبت کرتے تھے لیکن پھر بھی دوسری عورتوں کا لحاظ تھا اور پھر کسی کو ترجیح نہیں دیتے تھے۔
نادان انسان کہتا ہے کہ یہ عیاشی ہے لیکن یہ قربانی ہوتی ہے۔ بہت لوگ ہیں کہ ان کے اولاد بھی نہیں ہوتی لیکن وہ دوسری شادی نہیں کرتے اِس خوف سے کہ یہ بڑا مشکل امر ہے۔ طرح طرح کے انتظام اور تکالیف بڑھ جاتی ہیں، قسم قسم کی ناپسند باتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ عیاشی میں انسان یک سُوئی کی طرف جھک پڑتا ہے لیکن اسلام کی شادیاں ایک طرف جھکنے نہیں دیتیں بلکہ وہ قربانی چاہتی ہیں۔
لیکھرام اس حکمت کو نہ سمجھا اور نہ ہی محمد حسین نے اس حکمت کو پایا۔ اس نے مخالف قوم میں پیدا ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا۔ محمد حسین نے میرے پر اعتراض کر کے گویا بِالواسطہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل پر اعتراض کیا۔ غرض لوگوں نے اس حکمت کو سمجھا نہیں اسلام نے ایسی پابندیاں اور قیود لگائی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان پابندیوں اور قیود کے ماتحت شادی کرتا ہے وہ اسلام کی ترقی کے لئے شادی کرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے جلال کے اظہار کے لئے یہ قیود اپنے اوپر وارد کرتا ہے۔
خدا تعالیٰ جب دشمن کا دل دکھانا چاہتا ہے تو اسی طرح کرتا ہے۔ وہ ایک شادی سے اتنا غصہ میں آیا ابھی تو اس میں دو کی اَور گنجائش ہے جو ایک کی برداشت نہ کر سکا وہ دو اَور کے لئے تو اور بھی زیادہ رنج اٹھائے گا اورگھبرائے گا۔ جس شخص کی شادی سے یہ غرض ہو کہ اسلام کی آبادی بڑھے، اسلام ترقی کرے، اسلام کے نام لیوا اور اسلام کے پھیلانے والے بڑھیں اُس کے لئے اِس سے بڑھ کر اور خوشی کی چیز کیا ہو سکتی ہے۔ ایک نسل کی ترقی سے دوسری پیچھے آنے والی نسلوں کی بھی ترقی ہوتی ہے۔
ہمارے مخالفوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ دوسری شادی پر اعتراض کرتے ہیں مگر ہمارے احمدی بھی اِس مرض میں مبتلا ہیں جیسے میں نے پہلے واقعہ سنایا اس صورت میں جبکہ ہم خود اِن شادیوں کو ناپسند کریں اور ان پر اعتراض کریں تو عیسائی اور دوسرے لوگ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے میں سچے ہیں۔ پس ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ ان احکام کی فرمانبرداری کرے جو قرآن شریف نے بیان فرمائے ہیں۔ اس صورت میں جبکہ وہ ان احکام کی فرمانبرداری کرے گا مسلمان کہلا سکتا ہے۔
ایک اور بات یاد آگئی۔ میری شادی پر تو اس شخص نے اعتراض کیا ہے لیکن طلاق کی نسبت تو سخت ممانعت ہوئی ہے۔ طلاق دینے کیلئے تو بہت ساری شرطیں لگائی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طلاق کی نسبت فرماتے ہیں کہ یہ اَبْغَضُ الْحَلَالِ ہے۔۷؎ خد ا اس حلال کو ناپسند کرتا ہے اسی وقت اجازت دیتا ہے کہ جب گزارے کی کوئی صورت ہی نہ رہے۔ ان کے امیر قوم مولوی محمد علی نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دی۔ وہ بیوی قادیان آئی تھی اُس کا بیان تھا کہ مولوی صاحب پڑھا کرتے تھے یاوکالت کی تیاری کر رہے تھے تو انہوں نے اسے طلاق دی اور کہا میں اِس وقت خرچ برداشت نہیں کر سکتابعد میں پھر شادی کر لوں گا۔ پھر وہ کہتی تھی کہ مولوی صاحب اب مجھ سے شادی کر لیں اور اُس عہد کو پورا کریں میں اپنے بعض حقوق بھی چھوڑنے کے لئے تیار ہوں۔ وہاں تو اَبْغَضُ الْحَلَالِ بھی اعلیٰ درجے کی چیز بن جاتی ہے اور یہاں وہ چیز بھی جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اور دوسرے انبیاء نے عمل کر کے بتایا بُری سمجھی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو بچاوے۔ کرنا نہ کرنا اور چیز ہے لیکن اگر کوئی عورت یا اس کا رشتہ دار اس بات کو بُرا مانتا ہے تووہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اپنے سچے راستوں پر چلنے کی توفیق دے۔‘‘ آمین (الفضل ۱۴؍ مارچ ۱۹۱۶ئ)
۱؎ النسائ: ۴
۲؎ بخاری کتاب النکاح باب کثرۃ النساء
۳؎ مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ ۶۹،۷۰ مطبوعہ ۱۹۶۷ء
۴؎ البقرۃ: ۲۵۷
۵،۶؎ بخاری کتاب المناقب باب فضل عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا
۷؎ سنن ابی داؤد کتاب الطلاق باب فی کراھیۃ الطلاق
۹
ترقی اسلام کے لئے کثرت سے دعائیں کرو
(فرمودہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضو رنے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
۱؎
پھر فرمایا:۔
’’جن جماعتوں کا کام تبلیغ ہوتا ہے اور جو اپنے ذمہ خدا تعالیٰ کا پیغام دنیا کو پہنچانالیتی ہیں ان کے کام سے زیادہ مشکل دنیا میں اور کوئی نہیں ہوتا۔ کسی بات کے متعلق ہر ایک انسان اپنے علم، طاقت اور محنت سے کچھ نہ کچھ کام کر سکتا ہے لیکن کسی کے دل سے خیالات کا نکالنا اور ان کی جگہ نئے خیالات کا داخل کرنا کسی انسانی طاقت و ہمت کا کام نہیں ہے۔ ایک شخص جو تلوار لے کر اُٹھتا ہے وہ اس کے زور سے اپنے آگے آنے والے لوگوں کو ہٹا سکتا ہے۔ کیونکہ ان تک اس کا ہاتھ پہنچ سکتا ہے۔ اِسی طرح ایک ڈاکٹر ایک مریض کا علاج کرتا ہے کیونکہ اس کے لئے اس کے پاس سامان مہیاہیں بیماری کی علامتیں اس کو بتاتی ہیں کہ مریض فلاں عارضہ میں مبتلا ہے لیکن روحانی بیماریوں کی علامات کچھ ایسی باریک اور پوشیدہ ہوتی ہیں کہ اگر ایک انسان کی تشخیص کے لئے ہی ساری عمر خرچ کی جائے تب ممکن ہے کہ پتہ لگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا دل اور اس کے خیالات پوشیدہ ہوتے ہیں اور چونکہ خیالات پوشیدہ ہوتے ہیں اس لئے جب تک ان کو معلوم نہ کیا جائے علاج نہیں ہو سکتا اور چونکہ پوشیدہ خیالات کا معلوم کرنا انسان کا کام نہیں ہے اس لئے اصلاح کرنا بھی اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان بہت سوچ سمجھ کر کسی کے سامنے ایک بات اس لئے پیش کرتا ہے کہ اس کو ہدایت ہو جائے مگر بجائے اس کے کہ اس کو ہدایت ہو وہ زیادہ گمراہ ہوجاتا ہے اوربجائے قریب ہونے کے دور ہو جاتا ہے بجائے سمجھنے کے اس کی پہلی عقل بھی ماری جاتی ہے۔ بجائے ہدایت پانے کے ضلالت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ تو تبلیغ کا کام سب سے زیادہ مشکل کام ہے اور یہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے اور وہی اس کو کر سکتا ہے ا س لئے وہ جماعت جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کام کو لے کر کھڑی ہوئی ہو اُس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گر جائے اور اس سے مدد چاہے کیونکہ دل کے خیالات جاننے والا اور ہدایت کا رستہ دکھانے والا صرف وہی ہے۔ وہی مبلغ کی زبان میں اثر ڈالتا ہے، وہی مبلغ کو ایسی باتیں سمجھا دیتا ہے جن سے سننے والوں کو ہدایت نصیب ہوتی ہے اور وہی علاج بتاتا ہے جس سے روحانی مریض شفا پا سکتے ہیں۔ میں نے حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں بیسیوں آدمیوں سے سنا ہے ۔ہوں گے تو ہزاروں مگر میں نے بیسیوں سے سنا ہے کہ ہم جو اعتراض اور شکوک اپنے دل میں لے کر آئے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کوئی اتفاقاً تقریر فرمائی تو اُس میں ہمارے سب اعتراضوں کے جواب آگئے اور ہمیں ہدایت نصیب ہو گئی۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے۔ اس سے جب کسی انسان کو تعلق ہوتا ہے تو وہ خود اس کو ایسی باتیں بتا دیتا ہے اور اس کی زبان پر جاری کر دیتا ہے جس سے لوگوں کے شکوک رفع ہو جاتے ہیں اور وہ ہدایت پا لیتے ہیں۔ پس چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اس لئے مبلغ جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہروقت دعائوں میں لگی رہے۔
ہماری جماعت کا کام اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانا اور اس کے جلال اور عظمت کو ظاہر کرنا ہے اس لئے ہماری جماعت کو دعائوں پر بہت زور دینا چاہئے۔ بڑے بڑے لیکچرار کچھ کام نہیں کر سکتے۔ کیا عیسائیوں، آریوں، برہموئوںاور دہریوں میں بڑے بڑے لیکچرار نہیں ہیں؟ ضرور ہیں اور وہ ایسی چکنی چٹری باتیں کرتے ہیں کہ ایک صادق انسان بھی حیران ہو جاتا ہے کہ ان کا کیا جواب ہے۔ لیکن کیا ان کے ذریعہ کسی کو ہدایت نصیب ہو سکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔ ہدایت دینا خدا تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ جب تک وہ کسی کو ہدایت نہ دے کوئی اور سبیل نہیں ہو سکتی۔ اس لئے مبلغ کا کام ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگے اور یہ نہ صرف مبلغ کا کام ہے بلکہ ہماری جماعت کے ہر ایک فرد کا کام ہے۔ ہماری تمام جماعت تو تمام دنیا کے مقابلہ میں آٹے میں نمک اور دریا کے مقابلہ میں قطرہ بھی نہیں لیکن اس قلیل جماعت کا تمام دنیا سے مقابلہ ہے۔ اس صورت میں خیال تو کرو کہ تمہیں کس قدر چستی کی ضرورت ہے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ بہت لوگ غافل ہیں اور اپنی دعائوں میں اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی ہدایت کے لئے دعا مانگنا بھی ہمارا فرض ہے۔ اور یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ جو لوگ تبلیغ کے لئے کوشش کر رہے ہیں ان کو کس قدر مشکلات کا سامنا ہے اور کس قدر مدد کی ضرورت ہے۔ چندہ تو بہت لوگ دیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ تبلیغ میں کتنے کوشش کرتے ہیں۔ روپیہ سے تبلیغ نہیں ہوا کرتی بلکہ خدا کے فضل سے ہوتی ہے۔ اور اس فضل کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر ایک احمدی خواہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، چھوٹا ہو یا بڑا، سب مل کر خدا تعالیٰ کے حضور دعائوں میں لگے رہیں۔اگر تمام مل کر ایک دعا کریں تو کیونکر ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی دعا کو رد کر دے۔خدا تعالیٰ تو بہت رحیم ہے لیکن افسوس کہ بہت لوگ اس کی شان کو نہیں سمجھتے۔ دیکھو بچہ جب کسی تکلیف میںماں باپ کو پکارتا ہے تو ان کے دل میں رحم پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن خدا تو انسان کے لئے ماں باپ سے بھی زیادہ پیار کرنے والا ہے اس کے حضور جب پکارا جائے تو وہ کیوں نہ رحم کرے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے انسان سے پیار کو ایک مثال سے بتایا ہے۔ ایک جنگ میں کچھ عورتیں قید ہو کر آئی تھیں۔ ان میں سے ایک کا بچہ اُس سے جدا ہو گیا۔ وہ اِس تلاش میں گھبرائی ہوئی اِدھراُدھر پھرتی تھی اور جب کسی بچہ کو دیکھتی تو اپنے بچہ کی یاد میں اسے اٹھا کر چھاتی سے لگا لیتی۔ جب اُس کو اپنا بچہ مل گیا تو اُسے چھاتی سے لگا کر آرام سے بیٹھ گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح اِس عورت کو اپنے بچہ سے محبت ہے اور جب تک وہ اسے مل نہیں گیا آرام سے نہیں بیٹھ سکی اِسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر خدا تعالیٰ کو انسان سے محبت ہے۔۲؎ جب کوئی انسان اس سے جدا ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کو اس سے زیادہ درد ہوتا ہے جتنا کہ ماں کو اپنے بچہ کے کھوئے جانے سے ہوتا ہے اور جب کوئی انسان اس کی طرف جھکے توا سے ماں باپ سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ اِس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا انسان سے جب ایسا تعلق ہے تو اس کا رحم اور شفقت بھی اسی نسبت سے ہو گی۔ پس جب ایک ماں بچہ کی پکار پر بیتاب ہو جاتی ہے تو خدا تعالیٰ کے حضور جب لاکھوں انسان دن رات پکارنے پر لگے رہیں گے تو کیونکر ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی دعا کو ردّ کر دے۔ ایک دن نہیں تو دوسرے دن، دوسرے دن نہیں تو تیسرے دن،تیسرے دن نہیں تو چوتھے دن کبھی تو قبول کرے گا۔ پھر ایک کی نہیں تو دوسرے کی، دوسرے کی نہیں تو تیسرے کی، تیسرے کی نہیں تو چوتھے کی، کسی نہ کسی کی تو سنے گا اور قبول کرے گا۔ پس خیال کرو کہ جہاں لاکھوں انسان دعائیں کرنے والے ہوں اور متواتر دن رات کرتے ہوں وہاں ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی دعا قبول کرے۔ پس ہماری جماعت کے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ بہت توجہ سے دعائوں میں لگ جائیں اور جس طرح انسان کو اپنا نام یاد رہتا ہے یا اپنے ماں باپ یاد رہتے ہیں اسی طرح وہ اس بات کے لئے بھی دعائیں کرنے کو یاد رکھیں اور کسی وقت غافل نہ ہوں ورنہ اتنے بڑے مقابلہ میں ہم کہاں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ایک انسان کا سمجھانا ہی نہایت مشکل کام ہے چہ جائیکہ تمام دنیا کو سمجھایا جاسکے۔
ایک دفعہ یہاں ایک شخص آیا۔ عرب تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گفتگو کر تا رہا۔ آپ نے بہت سمجھایا مگر کچھ نہ سمجھا آخر آپ نے فرمایا یہ ضدی ہے اسے ہدایت نہیں ہو گی۔ جب آپ نے اُس کو چھوڑ دیا تو الہام ہوا کہ اُس کے لئے دعا کرو ہدایت پا جائے گا۔۳؎ آپ نے دعا کی اور دوسرے دن وہی باتیں سن کر جو پہلے سن چکا تھا اور جن سے اُسے کچھ اثر نہ ہوا تھا اس کا شرح صدر ہو گیا اور اس نے بیعت کر لی۔ پھر وہ یہاں سے چلا گیا اور خوب تبلیغ کرتا رہا۔ اس کے خط بھی آتے تھے تو دیکھو اُس نے ہدایت پائی مگر اِس طرح کہ جب خدا کی مدد آئی۔ پس جو کام دعا کرتی ہے وہ اور کوئی کوشش نہیں کر سکتی۔ کیونکہ خد ا تعالیٰ جس قدر انسان کے قریب ہے اتنا وہ خود بھی اپنے قریب نہیں ہے۔ چونکہ انسان کی ہدایت کے لئے وہی ہستی ہو سکتی ہے جو اس کے بہت قریب ہو اس لئے خدا ہی اسے ہدایت دے سکتا ہے۔
دیکھو ایک شخص ایک سیکنڈ میں کنویں میںگرنے والا ہو اگر کوئی ذرا دور سے اس کے بچانے کے لئے دَوڑے گا تو وہ گر جائے گا اور اگر کوئی پاس ہی کھڑا ہو تو وہ اسے بچا لے گا۔ یہی حال خدا تعالیٰ کا ہے خداتعالیٰ تو گرنے والے سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے اس لئے اسی سے عرض کرنی چاہئے کہ آپ ہی ان گرنے والوں کو بچائیے۔ وہ لوگ جو ضلالت میں گر کر ہلاک ہو رہے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور عرض کریں کیونکہ وہی ان کو بچا سکتا ہے۔ خدا تعالیٰ چونکہ اپنے بندوں کو انعام اور مدارج دینا چاہتا ہے اس لئے ان کے ذریعہ کام کراتا ہے ورنہ اصل میں وہ کرتا آپ ہی ہے۔ا نسان کا اپنی محنت اور کوشش پر بھروسہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ کیا ایک شخص تلوار لے کر کروڑ دو کروڑ کے لشکر میں چلا جائے تو کوئی خیال کر سکتا ہے کہ وہ ان پر فتح پا لے گا؟ ہرگز نہیں۔ حالانکہ تلوار کا مارنا آسان ہے بہ نسبت عقائد کے بدل دینے کے۔ پس جب انسان تلوار سے اتنے دشمنوں کو قتل نہیں کر سکتا تو اتنے لوگوں کے عقائد اور خیالات کو بدل دینا کہاں اس کی طاقت میں ہے۔ ہمارے جو مبلغ دیگر ممالک میں گئے ہوئے ہیں ان کی مشکلات کا اندازہ بھی اس سے ہو سکتا ہے کہ ان کے سامنے اتنے بڑے ملک میں اتنے مذاہب کا مقابلہ ہے اور وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ اسلام بہت سی قربانیاں چاہتا ہے۔ ایک چھوٹے سے مذہب کے پھیلانے میں بہت آسانی ہے کیونکہ اس کے لئے کوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی۔ پھر اس کے پیروئوں کو لوگوں کے کھینچنے کے لئے کسی قسم کے سامان میسر ہیں مگر ہمارے پاس تو وہ سامان بھی نہیں اور نہ اسلام میں وہ آسانیاں ہیں جو ایک اور مذہب میںہو سکتی ہیں ہمارے پاس تو صرف صداقت ہی ہے۔ لیکن جو شخص گمراہی میں پڑا ہوا ہو اُس کو اُس وقت تک یہ بھی نظر نہیں آتی جب تک اللہ تعالیٰ ہی اُس کو نہ دکھا ئے اِس لئے ہمیں اگر کوئی چیز کامیاب کر سکتی ہے تو وہ دعا ہے اور جب دعا قبول ہو جائے تو پھر لاکھوں انسان فوراً ہدایت پا لیتے ہیں۔ صحابہ کرام بھی تبلیغ کرتے تھے مگر ان کی اصل تبلیغ دعا ہی تھی۔ میں یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہوں کہ چند سال میں کس طرح کروڑوں انسان مسلمان ہو گئے لیکن سوائے اس کے نہیں کہ دعائوں کے ذریعہ ہوئے ورنہ اُس وقت تو بہت دِقتیں تھیں۔ جب کوئی مسلمان ہوتا تو اسے جان دینے کے لئے نکلنا پڑتا، زکوٰۃ کے علاوہ اور ٹیکس بھی ادا کرنے پڑتے، اپنی عادتیں چھوڑنی پڑتیں، خیالات بدلنے پڑتے، رشتہ داروں اور عزیزوں سے منہ موڑنا پڑتا مگربا وجود اس کے ایک قلیل عرصہ میں کروڑوں انسان اسلام لے آئے۔ اس کے متعلق سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام نے دعائیں کیں اور خدا تعالیٰ نے ان کی دستگیری فرمائی۔ ہماری جماعت کی ترقی کا باعث بھی دعائیں ہی ہو سکتی ہیں۔ جب تک دعائوں پر ایسا زور نہ دیا جائے گا کہ اپنی مجموعی اور انفرادی دعائوں میں، رات اور دن کی دعائوں میں اسلام کے پھیلنے کے لئے دعائیں کی جائیں اس وقت تک ترقی مشکل ہے۔ اور جو ترقی کی اب رفتار ہے اگر یہی رہی تو کئی لاکھ سال کی ضرورت ہے مگر اتنی تو کسی قوم کی عمر بھی نہیں ہوتی۔ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ سلسلہ کے لئے تیرہ سَو سال کے بعد جب ایک ایسے مصلح کی ضرورت پڑی جس نے ایک نئی قوم کی بنیاد ڈالی تو اور کونسا سلسلہ ہو سکتا ہے جو اتنے لمبے عرصہ تک چلا جائے گا۔ پس اس بات کی ضرورت ہے کہ اشاعت ِاحمدیت کے لئے وہی طریق اختیار کیا جائے جو پہلے لوگوں نے اختیار کیا تھا۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیاء نے دعائیں کیں۔ باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جو اثر تھا وہ اور کسی کی زبان میں نہ ہو اور نہ ہو سکتا ہے مگر آپ بھی دعائوں میں ایسے مشغول ہوتے کہ خدا تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے ۴؎ شائد توا ن کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے اپنے آپ کو ہلاک کرے گا۔ پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعائوں میں ایسے مشغول ہوتے تو ہمارے لئے کتنی ضرورت ہے۔ ہماری جماعت کے کم لوگوں نے اس بات کو اپنے لئے فرض سمجھا ہے اور جنہوں نے سمجھا ہے انہوں نے کم سمجھا ہے۔ اس لئے میں سب لوگوں کو جگاتا ہوں اور ہوشیار کرتا ہوں کہ اپنی سب دعائوں سے مقدم اِس دعا کو رکھو۔ جب بھی کوئی دعا کرو چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے یہ دعا ضرور کرو تب کامیابی ہو سکتی ہے ورنہ جو مشکلات ہیں اُن پر غالب آنا آسان کام نہیں۔ ایک طرف لاہوری ہمارے راستے میں روک ہیں۔ ہمارے مبلغ جہاں جاتے ہیں وہاں ہی ان کے آدمی پہنچ کر ہمارے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے ہیں۔ دوسرے تمام دنیا سے ہمارا مقابلہ ہے اس لئے کئی قسم کی تکلیفیں درپیش ہیں۔ کہیںجائیدادیں چھینی جاتی ہیں، کہیں نکاح فسخ کرائے جاتے ہیں، کہیں لڑکوں کو سکولوں سے روکا جاتا ہے۔ اِسی طرح کی اور بہت سی تکلیفیں ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کچھ عرصہ سو گئے تھے اور اب پھر جاگے ہیں اس لئے سمجھ لو کہ ہمارے لیے کس قدر جاگنے کی ضرورت ہے۔ پس تمام جماعت کو چاہئے کہ دعائوں میں لگ جائے۔ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور تائید آتی ہے تو کوئی چیز مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی۔ کیا کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ سیلاب آیا ہے اور اسے گھاس پھونس نے روک لیا ہو۔ ہر گز نہیں۔ خدا تعالیٰ کا فضل تو سیلاب سے بھی زیادہ زور کے ساتھ آتا ہے اس کے مقابلہ کی کسی کی کیا طاقت ہو سکتی ہے۔ پس اِس نسخہ کو استعمال کرو۔ دعا خدا کے فضل کو کھینچتی ہے اور خدا کے فضل کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔
خدا تعالیٰ اِن لوگوں کو جو دعائوں میں سست ہیں تو فیق دے تاکہ ہم سب مل کر دعائیں کریں اور خدا تعالیٰ ہماری مشکلات کو دور کر کے ہماری کوششوں کو مؤثر بنائے۔ ‘‘آمین۔
(الفضل ۲۵؍ مارچ ۱۹۱۶ئ)
۱ ؎ البقرۃ: ۱۸۷
۲؎ بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الواحد
۳؎ اخبار الحکم جلد۱۷ نمبر ۱۲ مورخہ ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ء
۴؎ الشعرائ: ۴
۱۰
فروعی مسائل میں جھگڑے نہ کرو
(فرمودہ ۲۴؍ مارچ ۱۹۱۶ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
۱؎
پھر فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ کا ہم پر بہت بڑا فضل ہؤا ہے کہ مسلمان بالکل پراگندہ ہو گئے تھے ان میں سے ہر ایک شخص دوسرے کے مخالف چل رہا تھا کسی کا کسی سے کوئی اتحاد، کوئی محبت، کوئی پیار اور کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ کہلاتے تو تھے مسلمان مگر اسلام کوئی نہ تھا۔ ہر شخص کا مذہب علیحدہ تھا۔ لوگ چھِلکے کے پیچھے پڑے ہوئے تھے اور مغز کی کسی کو فکر نہ تھی۔ درخت کے اوپر فدا ہو رہے تھے مگر درخت ایسا تھا جو پھل نہیں دیتا تھا۔ وہ سواری کے پیچھے پڑے ہوئے تھے مگر یہ کسی کو فکر نہ تھی کہ منزلِ مقصود پہنچنا بھی ہے یا نہیں ۔ ہر ایک کی مذہبی پہلو سے حالت بدترین ہو رہی تھی۔ اور یہ کوئی دور کی بات نہیں، وہ لوگ جنہوں نے یہ نہیں دیکھا اب جا کر غیر احمدیوں کو دیکھ لیں کہ ان کا کیا مذہب ہے، کیا طریق ہے، کیا رنگ ہے، کیا ڈھنگ ہے۔ نہ تو ان میں اسلام ہے اور نہ کوئی مسلم ہے۔ ہر شخص کی رائے اُس کا مذہب اور ہر شخص کا خیال اُس کا دین ہے۔
ایسی دردناک حالت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے جیسا کہ اس کی قدیم سے سنت ہے ایک ایسے انسان کو مبعوث فرمایا جس کے کلام کو اپنا کلام اور جس کے فیصلہ کو اپنا فیصلہ قرار دیا۔ اس انسان کے ذریعہ وہ مذہب جس کی اس طرح حالت ہو گئی تھی جس طرح ریت میں دریا خشک ہو جاتا ہے اسی طرح نمودار ہو گیا۔ جس طرح ریت کے اوپر بہنے والا دریا لہریں مارتا ہے۔ لوگوں نے سمجھ لیا تھا کہ یہ دریا خشک ہو گیا ہے مگر خدا تعالیٰ نے اپنے ایک بندے ہی کے ذریعہ بتا دیاکہ خشک نہیں ہؤا لوگوں نے اس پر مٹی ڈال کر اُسے چھپا دیا تھا ورنہ وہ تو اسی زورو شور سے جاری ہے جس طرح پہلے تھا۔ سوا للہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے وہ مذہب جو شکوک وشبہات سے پُر ہو گیا تھا۔ پھر یقین اور اطمینان دلانے والا ہو گیا اور وہ جماعت جو پراگندہ ہو چکی تھی بلکہ جماعت کہلانے کی مستحق ہی نہ رہی تھی اُس کو خدا تعالیٰ نے ایک جماعت بنا دیا۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایک فضل تھا جس کی قدر وہی کر سکتا ہے جس کی آنکھیں ہوں اور جس نے دیکھا ہو کہ قومیں کس طرح ہلاک اور تباہ ہؤ ا کرتی ہیں۔ پھر اُس شخص کو اِس کی قدر ہو سکتی ہے جو تاریخ سے واقف ہواور یہ بھی جانتا ہو کہ اسلام کس حالت میں ہو گیا تھا جسے حضرت مسیح موعودؑ نے آکر کھڑا کیا ہے۔ گویا اسلام کو کھڑا کرنا قبر میں ڈالے ہوئے مُردے سے بھی بڑھ کر تھا۔ نادان سمجھتے ہیں کہ خدا مُردہ جسم کو زندہ نہیں کر سکتا۔ انسان جب ایک دفعہ مر جاتا ہے اور اس کی زندگی ختم ہو جاتی ہے تو پھر کبھی زندہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر وہ اپنی آنکھیں کھو لیں ور اس بات پر غور و فکر کریں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ کسی مُردہ کے زندہ کرنے سے کسی قوم کازندہ کرنا نہایت مشکل ہے۔ مُردہ انسان آسانی سے زندہ ہو سکتا ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک قوم مر جائے اور اس کو زندہ کیا جائے۔ اس دلیل کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ دیکھو ہم ایک مُردہ قوم کو زندہ کریں گے اور یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ ایک دن ہم مُردہ انسان کو بھی زندہ کریں گے۔
تو یہ خدا کا بڑا ہی فضل ہے کہ مسلمان جو ایک مُردہ قوم تھی اس میں سے ایک زندہ قوم کھڑی ہو گئی اِس لئے خدا تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کیا جائے تھوڑا ہے لیکن کئی ایسے آدمی ہیں جب ان پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو گھبرا جاتے ہیں اور کہہ اٹھتے ہیں کہ کس طرح یہ مصیبت دور ہو گی۔ ایسے لوگوں کو میں کہتا ہوں کہ جائو ان لوگوں کو دیکھو جو مسلمان کہلاتے ہیں اور اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا دل توا لگ رہا ان کی زبانیں بھی اس بات کے لئے گواہی دے رہی ہیں کہ اسلام مر چکا ہے اس میں باکل جان نہیں ہے اور وہ اس قدر مایوس ہو گئے ہیں کہ کہتے ہیں اب کوئی اسلام کو زندہ نہیں کر سکتا۔ چونکہ وہ اپنے دلوں کو مردہ دیکھتے ہیں۔ علماء صوفیاء اور گدی نشینوں کو مردہ پاتے ہیں۔ اپنے امراء اور رشتہ داروں کو دیکھتے ہیں کہ دین کی طرف سے مردہ ہو گئے اس لئے وہ نا امید ہو چکے ہیں اور یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ ان کے گھروں میں نہ ان کے بازاروں میں نہ ان کی مسجدوں میں نہ ان کے حجروں میں کہیں بھی زندہ خدا کا نام نہیں ہے وہ خدا کا نام لیتے ہیں مگر صرف زبان سے، وہ خدا کا کلام پڑھتے ہیں مگر صرف زبان سے،ان کا جسم چلتا پھرتا نظر آتا ہے مگر اصل میں گوشت کی قبر ہے جس میں ان کی مردہ روح پڑی ہے۔ ایسے نظارہ کو دیکھ کر اگر وہ کہتے ہیںکہ اسلام کے لئے کوئی زندگی نہیں ہے تو ٹھیک کہتے ہیں کیونکہ ان کی حالت ہی یہاں تک پہنچ چکی ہے۔
لیکن باوجود اِس کے خدا تعالیٰ نے اپنا ایک برگزیدہ انسان بھیج کر ایک ایسی جماعت تیار کر دی ہے جس کے دل زندہ اور روح زندہ ہے ،جس کی ہمت بلند اور حوصلہ پختہ ہے۔ ہر ایک وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لاتا اور دل سے یقین رکھتا ہے گو اس کے پاس مال نہیں، دولت نہیں حتیٰ کہ سونے کے لئے اپنی جگہ بھی نہیں، وہ جب سوتا ہے تو یہی سمجھتا ہے کہ صبح ہمارے لئے کوئی عظیم الشان فتح کی خوشخبری لائے گی اور سارا دن محنت مشقت کرتا ہے اور شا م کے وقت اتنا نہیں کما سکتا کہ اُس کے بال بچے پیٹ بھر کے کھائیں مگر شام کے لئے اس کا دل خوشی سے اُچھلتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ دن نہیں ڈوبے گا جب تک کہ میں خوشی کی کوئی بات نہیں سن لوں گا۔ وہ سب سے زیادہ مصیبت زدہ اور مشکلات میں گھبرایا ہوا ہو کر خوشخبری اور کامیابی کا امیدوار ہے یہ کیا بات ہے؟ یہی کہ زندہ قوم ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو زندگی کا بگل پھونکا گیاتھا یہ اس کے ذریعہ کھڑی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ اِس طرف اس قدر امید ہے اور اُس طرف ایسی مایوسی۔
اب اگر کوئی اس زندہ قوم کو مارنا چاہے توا سے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ کتنے بُرے فعل کے ارتکاب کا اردہ رکھتا ہے۔ ایک مومن کے قتل کرنے کی سزا خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے ۲؎ کہ اس کی سزا جہنم ہے لیکن جو ایک قوم کو مارتا ہے اس کو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کے لئے کتنا بڑا عذاب ہو گا۔ مگر بہت ہیں جو کسی انسان کے قتل کرنے کی دلیری نہیں کریں گے اور ۹۹ فیصدی ایسے ہو ں گے کہ جب ان کو قتل کرنے کی ترغیب دی گئی ہو توا ن کے دل دھڑکنے لگ جائیں اور کپکپی شروع ہو جائے۔ مگراس کے مقابلہ میں کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایسے بہت کم انسان ملیں گے جو زندہ قوموں کے مارنے سے ڈریں حالانکہ اس فعل کی سزا انہیں بہت ہی بڑھ کر ملے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سوئے ہوئے فتنے کو جگانے والے پر خدا کی *** ہو۔۳؎ ایک زمانہ میں فتنہ بھی سو جاتا ہے۔ جس طرح نور اور ظلمت اکٹھے نہیں ہو سکتے جہاں ظلمت ہو گی وہاں نور نہیں ہو گا اور جہاں نور ہو گا وہاں ظلمت نہیںہو گی اسی طرح جس وقت خدا تعالیٰ کا نور کسی قوم کو زندہ کرتا ہے تواس وقت ظلمت یعنی فتنہ سو جاتا ہے اور فتنہ اس وقت جاگتا ہے کہ جب اس کا مقابلہ کرنے کے لئے نور موجود نہیں ہوتا اور جب نور موجود ہو خواہ کتنا ہی تھوڑا ہو اس وقت ظلمت مقابلہ پر نہیں ٹھہر سکتی تو سوئے ہوئے فتنہ کو جگانے سے یہی مراد ہے کہ جب کوئی نبی آتاہے اور ایک ایسی جماعت تیار کر جائے جو راستی اور حق قائم کرنے والی ہوتی ہے تو فتنہ سو جاتا ہے۔ ایسے وقت میں بعض لوگ اس جماعت کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی سوئے ہوئے فتنہ کو جگانا ہے۔ اِسی کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں فتنہ سویا ہوا ہے اب اگر کوئی اسے جگائے تو اس پر خدا کی *** ہو۔ آپؐ نے اس کے لئے یہ بددعا کی ہے۔ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نہ کسی کو گالی دیتے تھے اور نہ کسی پر *** بھیجتے تھے۔ پس جب آپ نے ایسے شخص پر *** کی ہے تو معلوم ہوا کہ وہ بہت ہی خطرناک گناہ گار ہے۔ تو فتنہ کے جگانے والا اور زندہ قوموں کے مارنے والا بہت ہی خطرناک انسان ہے۔
مسلمانوں کی اِس وقت کی حالت دیکھو کیسی تاریک ہے۔ مساجد میں اوّل تو کوئی داخل ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوں تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایسے فساد اور جھگڑے ہوتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ التحیات میں اگر کوئی انگلی اٹھاتا تو اسکی انگلی توڑ دی جاتی، اگر کوئی آمین بِالجہر کہتا ہے توا س کی شامت آجاتی۔ مارنے لگ جاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ کتا بھونکتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے نہ دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی آمین بِالجہر فرمایا کرتے تھے۴؎ پھر بعض جگہ اگر کسی نے آمین دل میں کہی تو کہہ دیا کہ مردے قبروں میں پڑے ہیں حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے اور صحابہ کرام سے بھی ثابت ہے۔ غرض بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلاف اور جھگڑے شروع ہو جاتے تھے۔
خدا تعالیٰ نے ان باتوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دُور کیا۔ ہماری مساجد میں حضرت مسیح موعودؑ کے وقت اور اب بھی ایک ہی صف میں ایسے آدمی ہوتے ہیں جن میں سے کوئی آمین بِالجہر کہتا ہے اور کوئی دل میں کوئی رفع یدین کرتا ہے اور کوئی نہیں۔ اسی طرح گو کم رہ گئے ہیں تاہم ابھی تک ایسے بھی لوگ ہیں جو ناف کے ینچے ہاتھ باندھتے ہیں لیکن کوئی کسی پر اعتراض نہیں کرتا۔ کیوں؟ اِس لئے کہ یہ ایسی باتیں نہیں ہیں جن پر جھگڑا کیا جائے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ سوئے ہوئے فتنہ کو جگاتا ہے۔
میں نے یہ جو آیتیں پڑھی ہیں ان میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو اسی طرف متوجہ کیا ہے کہ وہ باتیں جو اصول دین سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود جماعت میں اختلاف کا باعث ہوں ان پر جھگڑا نہیں چاہئے۔ فرمایا۔ اے مومنو! ایک وقت تم پر ایسا آتا ہے جبکہ تم دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہوتے ہو۔ اس وقت تمہیں چاہئے کہ تمہاری ساری توجہ دشمن کے مقابلہ پر جم کر کھڑے رہنے کی طرف ہو اور خدا کے حضور بہت دعائوں میں لگے رہو (ذکر کے معنی تسبیح و تمجید کے بھی ہیں اور یاد کرنے سے مراد پکارنا بھی ہوتا ہے جیسے کہ اُردو میں بھی محاورہ ہے) اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم کامیاب اور مظفر و منصور ہو جائو گے اور یہ بھی یاد رکھنا کہ ایسے وقت میں خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا اور آپس میں کسی قسم کا جھگڑا نہیں کرنا۔ یہاں خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ ہی یہ حکم دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جھگڑا مذہبی معاملات کے متعلق ہی ہے۔ فرمایا اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم کمزور ضعیف ہو جائو گے، تمہاری طاقت، تمہارا رُعب مٹ جائے گا۔ ریح کے معنی ہر پاکیزہ اور عمدہ چیز (۲) قوت (۳) غلبہ (۴) خوشی کے ہیں۔ اس لئے یہ معنی ہوئے کہ اگر تم آپس میں جھگڑا کرو گے تو تمہاری خوشی، غلبہ، قوت مٹ جائے گی اور تمہارے اندر کوئی اچھی بات نہ رہے گی۔
ہر ایک کام کے لئے ایک وقت ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم دشمن کے مقابلہ پر کھڑے ہو تو اُس وقت اگر کوئی مذہبی اختلاف ہو جائے تو اُس پر جھگڑنا نہیں بلکہ اس وقت تمہارے یہی مدنظر ہونا چاہئے کہ جس طرح بھی ہو سکے دشمن کو کچل دیا جائے کیونکہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کے فیصلہ کا وہ وقت ہوتا ہے جبکہ دشمن مقابلہ سے بھاگ جائے اور امن و اطمینان حاصل ہو جائے۔
ہاں ایسی باتیں جن کی وجہ سے دین میں حرج واقعہ ہوتا ہو تو اُن کا فیصلہ ایسے موقع پر بھی کر لینا ضروری ہے۔ مثلاً کوئی شخص نماز نہ پڑھے اور جب اسے کہا جائے کہ نماز پڑھو تو کہہ دے کہ دیکھو! یہ دشمن سے مقابلہ کا وقت ہے اِس وقت یہ بات کر کے اختلاف میں نہ ڈالو تو ایسے شخص کا مقابلہ کرنا چاہئے کیونکہ وہ مسلمان نہیں بلکہ دشمن اسلام ہے۔ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ امرو نہی کے متعلق مسلمانوں کو سخت تاکید کی گئی ہے اورخدا تعالیٰ نے یہودیوں کی تباہی کی ایک یہ وجہ بھی بتائی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو امربِالمعروف و نہی عن المنکر نہیں کیا کرتے۔ پس جبکہ ایک طرف خدا تعالیٰ یہ حکم دیتا ہے اور دوسری طرف یہ بھی فرماتا ہے اور یہ بھی دین کے متعلق ہے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم امت محمدیہ کی تباہی کا وہی وقت بتاتے ہیں جبکہ علماء اَمْر بِالْمَعْرَوْف وَنَہِی عَنِ الْمُنْکَر کا وعظ چھوڑ دیں گے۔ تو بظاہر اس میں اختلاف معلوم ہوتا ہے۔ مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ باتیں جو قوم میں اختلاف کا باعث ہو کر اس کی تباہی کا موجب ہوتی ہیں اور فروعی مسائل سے تعلق رکھتی ہیں انہیں اس وقت تک چھوڑ دینے کا حکم ہے جب تک دشمن پر کامیابی نہ حاصل ہو جائے۔ پہلے بڑا کام دشمن کا مقابلہ ہے اس کے بعد چھوٹی چھوٹی باتوں کو دیکھا جائے گا۔ ان دونوں قسم کے احکام کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑے بڑے دینی مسائل جو اصولِ دین سے، عقائد سے، عبادات و سیاست اسلامیہ سے تعلق رکھتے ہیں یا ان کا اثر ایسے مسائل پر پڑتا ہے جن سے اسلام میں رخنہ پڑ سکتا ہے ان سے روکنے کا حکم ہے کیونکہ ایسے لوگ مسلمان نہیں بلکہ دشمن اسلام ہیں۔ مگر جو ایسے مسائل ہوں جن کا نہ روحانیت پر اثر پڑتا ہو اور نہ جن سے دین میں حرج واقعہ ہوتا ہو ایسے مسائل کو چھیڑنے والا سوئے ہوئے فتنہ کو جگاتا ہے۔
ہماری جماعت میں اس قسم کا کوئی فتنہ نہ تھا مگر اب پھر جھگڑے شروع ہو گئے ہیں۔ باہر سے خط آتے ہیں رفع یدین کرنا چاہئے یا نہیں؟ آمین اُونچی آواز سے کہنی چاہئے یا دل میں؟ اگر کوئی آمین اونچی آواز سے نہ کہے تو کہتے ہیں مردہ کھڑے ہیں۔ حالانکہ وہ نہیں دیکھتے کہ اگر وہ مردہ ہیں تو نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی مردہ ہی ہوئے کیونکہ کان لگا کر سننے والے بھی آپ کی آمین کی آواز کو نہیں سن سکے۔ پھر وہ نہیں جانتے کہ ان کے الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے صحابہ کرام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ تک پہنچتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھنے والے بہت ایسے تھے جو آمین اُونچی آواز سے نہیں کہتے تھے لیکن آپ نے کبھی ان کو کہنے کے لیے نہیں کہا اور بہت ایسے تھے جو اونچی آواز سے کہتے تھے مگر آپ نے کبھی اُن کونہیں روکا۔
ہماری جماعت کے لئے تو ایسے مسائل پر جھگڑنے کی کوئی وجہ ہی نہیں کیونکہ وہ انسان جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حَکَم عَدل فرمایا اور جس کو خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہِ ۵؎ اسے مسیح موعود لوگوں کو کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرنی چاہتے ہو توا ُس کا یہی طریق ہے کہ میری اتباع کرو۔ ایسے انسان کا کوئی حکم نہ مانے گا تو اور کس کا مانے گا۔ آپ نے ان سب باتوں کے متعلق فیصلہ کر دیا ہے کہ قرآن کریم میں جو صریح احکام ہیں اُن کو مانو اور حدیث کے صریح احکام کو مانو۔ا گر حدیث میں کوئی ایسا حکم ہے جو کسی اصولِ دین کے خلاف ہو تو وہ درست نہیں ہو سکتا۔ اس کو قرآن شریف پر عرض کرو۔ اگر قرآن کریم اس کی تصدیق کرے تو قبول کر لو اور اگر ردّ کرے تو ردّ کردو۔ پھر فروعات کے متعلق آپ کا فیصلہ ہے کہ اگر کسی بات کے متعلق ایک ہی عمل موجود ہے تو اسی طرح ٹھیک ہے اور اگر مختلف ہیں تو معلوم ہوا کہ مختلف اوقات اور مختلف حالات کے ماتحت مختلف طریق ہی رائج رہے ہیں اور چونکہ اس ملک میں امام ابوحنیفہؒ کے پیروزیادہ ہیں اس لئے ایسے امور میں اپنی رائے پرا ن کے فیصلہ کو ترجیح دے لو۔ تاکہ فروعی باتوں کی وجہ سے جھگڑا نہ ہو ورنہ امام ابوحنیفہؒ کوئی نبی یا رسول یا حَکم یا مأمور نہ تھے کہ ضرور انہی کی بات مانی جائے جیسے میری رائے ویسی ان کی رائے ہے۔ پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت دونوں طریق سے آمین کہی جاتی رہی ہے اور یہ بات ثابت ہے تو معلوم ہوا کہ دونوں طریق سے جائز ہے۔ آپ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ بعض انسانوں کو جوش ہوتا ہے اس لئے وہ اُونچی آواز سے آمین کہتے ہیں اور بعض کی طبیعت میں انکسار ہوتا ہے ان کو دل ہی میں کہنے سے مزا آتا ہے۔ اور چونکہ طبائع مختلف ہوتی ہیں اس لئے شریعت نے دونوں طریق سے جائز رکھا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ ایسے ہی مسائل کے متعلق جھگڑا کرنا خدا تعالیٰ کے غضب کا موجب ہوتا ہے اور انہیں کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ جھگڑا نہ کرو۔
وہ لوگ جو ایسے مسائل میں جھگڑا کرتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احتیاط کو دیکھیں۔ کعبہ کے اِردگرد کچھ زمین ہے جو کعبہ کی چھت میں شامل نہیں مگر حج کے موقع پرطواف کے وقت اُس کے گرد ہی گُھوما جاتا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے آپ سے عرض کی میں کعبہ میں نماز پڑھنا چاہتی ہوں تو آپؐ نے فرمایا کہ اسی جگہ پڑھ لو۔ یہ بھی خانہ کعبہ کی چار دیواری کے اندر ہے۔ آپ کی احتیاط دیکھو۔ آپ نے فرمایا۔ا ے عائشہؓ! اگر تیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو میں کعبہ کے احاطہ کو توڑ کر اس کو اِسی میں شامل کر دیتا اور دو دروازے بنا دیتا ایک سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے نکل جاتے۔۶؎ تو باوجود اس کے کہ وہ جگہ کعبہ میں شامل تھی اور جب قریش نے کعبہ کا احاطہ بنانے کے لیے چندہ جمع کیا تو چندہ کے تھوڑا ہونے کی وجہ سے ساری جگہ کو احاطہ میں شامل نہ کیا جا سکا اور جو جگہ بچ رہی اُس پر نشان لگا دئیے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو شامل نہ کیا۔ پھر علماء کی احتیاط دیکھو بعد میں ا س پر عمارت بنا دی گئی لیکن جب بنو امیہ کی حکومت ہوئی تو اس عمارت کو گرا کر پہلی طرح ہی کر دیا گیا اور کہا کہ جس کام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اُسے کوئی اور کیوں کرے۔ اس کے بعد جب عباسی حکومت کا دَور آیا تو ایک بادشاہ نے امام سے پوچھا کہ کیا اس زمین کو بھی شامل کر لیا جائے؟ تواس نے کہا کہ اصل کعبہ تو اتنا ہی ہے جتنی جگہ پر نشان لگے ہوئے ہیں مگر اس کو بچوں کاکھیل نہ بنائو اِسی طرح رہنے دو جس طرح بنا ہؤا ہے۔ا گر تم نے اس کو شامل کر لیا تو کوئی اور آئے گا جواس کو گرا دے گا۔ یہ احتیاط تھی جو کعبہ کے متعلق کی گئی۔ آمین کا مسئلہ اس کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے تو اس کے اختلاف کرنے والے سوئے ہوئے فتنہ کو جگانے والے ہوتے ہیں۔
آمین اُونچی آواز سے کہنا یا نیچی سے، رفع یدین کرنا یا نہ کرنا، اُنگلی اُٹھانا یا نہ اُٹھانا، ان سب باتوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فیصلے کر دئیے ہیں جو شخص آپ کو مسیح موعود مانتا ہے وہ آپ کے فیصلوں کو قبول کر ے گا اور جو فیصلوں کو قبول نہیں کرتا وہ جھوٹ بولتا ہے کہ میں آپ کو مانتا ہوں۔
ہماری جماعت کو بہت محتاط ہونا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محدثین کی بہت قدر کی ہے۔ آپ نے بخاری کو اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہِ الْبَارِیْ۷؎ قرار دیا ہے۔ جو شخص امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ہتک کرتا ہے وہ توبہ کرے کیونکہ یہ بہت بُرا کام ہے۔امام بخاریؒ نے جو کچھ لکھا ہے وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا اور اس کے رسول کی طرف سے لکھا ہے ان کا اپنا اجتہاد اس میں شامل نہیںہے۔ اس لئے جو شخص ان کی احادیث کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی ہتک کرتا ہے کیونکہ وہ حدیثیں آپؐ کی زبان سے نکلی ہوئی ہیں اور خشک حدیثیں نہیں ہیں۔ جو شخص ان احادیث کو مانتا ہے وہ امام بخاری کو نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہے پس ہر ایک کو چاہئے کہ احتیاط سے کام لے۔ جب کسی قوم میں امن و امان آجاتا ہے تو ایسی ایسی باتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ کیا جب احمدیوں کی چھوٹی چھوٹی جماعتیں مختلف جگہوں میں رہتی تھیں ،اپنی مسجدیں نہ تھیں، مخالفین تنگ کرتے اور تکلیفیں پہنچاتے تھے اُس وقت بھی ایسی باتیں یاد آتی تھیں؟ ہر گز نہیں۔ لیکن اب ایسی ایسی باتوں پر بحث و مباحثے شروع ہو گئے ہیں گویا انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ ہمارے دشمن نہیں رہے اور ہم آرام میں ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ غلط ہے۔ ہمارے تو وہ تمام لوگ دشمن ہیں جو دنیا کے کسی گوشہ میں بستے ہیں اور حق و صداقت کے مخالف ہیں اور ہرایک احمدی کے وہ سب دشمن ہیں جو شیطان کے پیچھے چلتے ہیں۔ پس جب تک شیطان دنیا سے نہیں مٹ جاتا اُس وقت تک احمدیوں کو بھی ہتھیار نہیں اُتارنے چاہئیں۔
پس تم لوگ اللہ اور رسول کے فیصلہ پر چلو اور وہ باتیں جو اصولِ دین سے تعلق نہیں رکھتیں اور مختلف صحابہ نے ان پر مختلف طریق سے عمل کیا ہے ان میں سے جس طریق پر کوئی عمل کرتا ہے اچھا کرتا ہے کوئی گناہ کی بات نہیں۔ سب انسانوں کی طبیعت ایک جیسی نہیں ہوتی کسی کے لئے کوئی بات پسندیدہ ہے اور کسی کے لیے کوئی۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان سب طریقوں کو جو پہلے مختلف مذاہب میں مروّج تھے ایک جگہ جمع کر دیا ہے تاکہ کسی کی طبیعت گھبرائے نہیں۔ پس جب خدا تعالیٰ نے طبائع کا اتنا لحاظ رکھا ہے تو بندوں کا کیا مقدور ہے کہ ایسے مسائل میں اختلاف کریں۔ خدا کے فضل سے یہاں کے لوگ ایسی باتوں سے بچے ہوئے ہیں لیکن بیرونجات سے ایسے جھگڑوں کے متعلق خطوط آتے رہتے ہیں۔ میرے نزدیک اس کے متعلق یہ تجویز ہونی چاہئے کہ جو شخص ایسا ہو اس کی طرف توجہ ہی نہ کی جائے کیونکہ ایسی باتوں کا اعمال سے کوئی تعلق نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اس بات کی سمجھ دے کہ کس قدر خطرناک دشمن کے ساتھ ان کا مقابلہ ہے تاکہ وہ ایسے جھگڑوں سے باز آجائیں۔ جو شخص ایسی حالت میں جھگڑا کرتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو اپنے دشمن کی خبر ہی نہیں۔ کیا ممکن ہے کہ شیر سامنے کھڑا ہو اور کسی کو نیند آجائے؟ لیکن جس کے سر پر شیر کھڑا ہے اور وہ سوتا ہے ہو تو معلوم ہؤا کہ اس کو شیر کا علم ہی نہیں۔ اسی طرح جو شخص فتنہ برپا کرتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے دیکھا ہی نہیں کہ کتنے بڑے دشمن سے اس کا مقابلہ ہے۔ جس شخص نے پچاس ساٹھ میل جانا ہو وہ کبھی بے فکر ہو کر راستہ میں سو نہیں سکتا۔ اِسی طرح وہ شخص جو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو کر ایسا کرتا ہے گویا اُس نے اپنے فرض کو سمجھا ہی نہیں۔
ہر ایک احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ جس وقت تک کوئی ایک شخص بھی دنیا پر ایسا موجود ہو گا جو حق کو نہیں مانے گا اُس وقت تک اس کا مقابلہ ختم نہیں ہوگا۔ ادھر خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب تک دشمن سے مقابلہ ہو اُس وقت تک ایسے مسائل میں نہ جھگڑو۔ اور یہ بھی قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار قیامت تک زندہ رہیں گے اِس سے پتہ لگا کہ ایسے مسائل میں کبھی جھگڑا نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ یہ خدا تعالیٰ نے ایک ایسی شرط لگا دی ہے جیسے کوئی کہے کہ جب تک تم زندہ رہو یہ بات کبھی نہ کرنا۔ یہ خدا تعالیٰ نے اس لئے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو ایسی باتوں کی طرف توجہ نہ ہو۔ تا وہ اپنے اصل کام میں لگے رہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قسم کے فتنوں کو دور کرے اور سب لوگوں کو سمجھ دے تاکہ وہ اس طرف سے ہٹ کر اصل کام کی طرف متوجہ ہوں۔ کوئی نادان ہی ہو گا جو ایسے وقت میں ایسے جھگڑوں کی طرف توجہ کرے۔ کیا جس کا بیٹا مر رہا ہواُسے ناخن اُتروانے یا بال کٹانے میں لگا ہوا کسی نے دیکھا ہے ؟ہر گز نہیں۔ بلکہ یہی دیکھا کہ ہر ایک ایسی کوشش میں ہوتا ہے کہ جس طرح بھی ہو سکے اُس کا بیٹا بچ جائے۔ اگر اسلام اِس وقت مر رہا ہے اور بعض ایسے لوگ ہیں جن کی توجہ اِس طرف ہے کہ ناخن بڑے ہو گئے ہیں اُنہیں کٹانا چاہئے، بال پراگندہ ہو گئے ہیں اُنہیں کنگھی کرنی چاہئے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اسلام سے پیار اور محبت نہیں ہے اور نہ ہی اس کی قدر جانتے ہیں اِسی لئے اس کو مرتا ہوا دیکھ کر بھی انہیں گھبراہٹ پیدا نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اپنا رحم کرے اور آپ لوگوں کو اپنے فرائض سمجھنے کی توفیق دے۔‘‘ (الفضل ۲۸؍ مارچ ۱۹۱۶ئ)
۱؎ الانفال: ۴۵،۴۶ ۲؎ النسائ: ۹۴
۳؎ بخاری کتاب الادب باب لم یکن النبی ﷺ فا حشاً ولا مُتَفَحِّشًا۔
۴؎ ترمذی ابواب الصلٰوۃ باب ماجاء فی التّامِیْن
۵؎ تذکرہ صفحہ ۴۶، ۶۱، ۷۸۔ ایڈیشن چہارم
۶؎ بخاری کتاب التمنی باب قول النبی ﷺ لَوْاِسْتَقْبَلْتُ مِنْ اَمْرِیْ (الخ)
۷؎ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۳۷۸
۱۱
سُود ہر صورت میں منع ہے
(فرمودہ ۷؍اپریل ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
۔ ۱؎
پھر فرمایا:۔
’’کھانے پینے کی چیزوں میں سے بعض اشیاء سے اسلام نے منع فرمایا ہے اور ان کے کھانے کی اپنے پیروئوں کو اجازت نہیں دی۔ وہ سب چیزیں اسی قسم کی ہیں جو انسان کے جسم، انسان کی عقل، اخلاق، دین اور روح کے لئے مضر ہو سکتی ہیں اور جب کوئی انسان ان میں سے کسی چیز کو کھاتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کا اثر اس کے جسم پر ہونا شروع ہو جاتا ہے اور انسان کی کمزوری اور نقص کی وجہ سے ایک مدت کے بعد اُس کی روح پر بھی اثر ہونے لگتا ہے اسی وجہ سے اسلا م نے اپنے پیروئوں کو ایسی چیزیں کھانے سے روک دیا ہے۔
ہاں بعض صورتوں میں ان کے کھانے کی اجازت بھی دی ہے اور وہ بھی جب کوئی انسان مجبور اور مضطر ہو جائے لیکن اُس وقت بھی اتنے ہی کھانے کی اجازت دی ہے جتنا اس کیلئے اشد ضروری ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم میں فرمایا ۲؎ اور یہاں فرمایا۔ دونوں جگہ مطلب ایک ہی ہے فرمایا جو مضطر ہو وہ کھا لے مگر یاد رکھو کہ باغی اور عادی نہ ہو۔ باغی قوانین حکومت کو توڑنے والے کو کہتے ہیں۔ وہ انسان جو خدا تعالیٰ کے کسی قانون کو توڑتا ہے وہ بھی باغی ہوتا ہے۔ کھانے کے متعلق اس طرح باغی ہو جاتا ہے مثلاً ایک شخص جان بوجھ کر بھوکا رہے اور جب مضطر ہو جائے توا ن چیزوں میں سے کوئی کھا لے۔ عادی اُس شخص کو کہیں گے جو کسی ایسے ملک میں چلا گیا جہاں اُسے سؤر کے سوا اور کچھ نہیں مل سکتا اور بھوک کی وجہ سے مضطر ہے اُس وقت اس کے لئے اس کا کھانا جائز ہے۔ لیکن اگر وہ یہ کہے کہ اب مجھے موقع مل گیا ہے شائد پھر کبھی ایسا موقع ملے یا نہ ملے اس لئے خوب سیر ہو کر اور پیٹ بھر کر کھا لوں تو وہ عادی ہو گا۔ پس خدا تعالیٰ نے ان اشیاء کو کھانے کی اجازت دینے کے ساتھ یہ دو شرطیں لگا دی ہیں۔
بعض لوگوں کو اس جازت کے حکم کو دیکھ کر دھوکا لگا ہے اور انہوں نے اس کو وسیع کر لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب مضطر کے لئے مردہ،خون، سؤر کا گوشت اورکھانے کی اجازت ہو گئی ہے تو اس سے سمجھ لینا چاہئے کہ دوسرے احکام کے متعلق بھی مضطر کو اجازت ہے۔
چند ہی دن ہوئے کہ ایک شخص نے مجھ سے سُود کے متعلق فتویٰ پوچھا تھا میں نے اسے لکھایا کہ سُود کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتا۔ اب اس کا خط آیا ہے کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ اصل حالت میں تو یہ فتویٰ ٹھیک ہے کہ سُود جائز نہیں لیکن مضطر کے لئے یہ فتویٰ درست نہیں ہے اور ساتھ یہ مثال دی ہے کہ ایک شخص کو شادی کرنے کے لئے روپیہ کی سخت ضرورت ہے روپے کہیں سے اُسے مل نہیں جا سکتے اگر وہ سُودی روپیہ لے کر شادی پر لگائے تو اس کے لیے جائز ہے۔ میں نے پہلے بھی اِسی قسم کے واقعات سنے تھے چنانچہ جو لوگ اہل قرآن کہلاتے ہیں اُنہوں نے اسی قسم کے فتوے دئیے ہیںلیکن اس قسم کے تمام فتوے قرآن کریم کے احکام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے دئیے گئے ہیں۔ انہوں نے سمجھا ہی نہیں کہ قرآن کریم کسی چیز سے کیوں روکتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ گناہ ہے جو براہ راست انسان کی روح پر اثر ڈالتے ہیں ان کا جسم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مثلاً جھوٹ اگر کوئی ساری عمر بولتا رہے تو اس سے اس کے جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ یہ گناہ براہ راست اس کی روح پر اپنا بداثر ڈالے گا۔ دوسرے وہ گناہ ہوتے ہیں جو جسم میں سے ہو کر روح کو خراب کرتے ہیں یعنی ان کا پہلے جسم پر اثر پڑتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ روح پر۔ چنانچہ جن اشیاء کے کھانے کی ممانعت کی گئی ہے وہ ایسی ہی ہیں جو دوسری قسم کے گناہوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ مثلاً اگر کوئی مردہ کھا لے یا خون پی لے تو اس کا پہلے جسم پر اثر پڑ ے گا اور پھر روح پر ۔ یا اگر کوئی کسی ایسے جانور کا گوشت کھا لے جو بتوں وغیرہ کے لئے ذبح کیا جائے تو اس طرح چونکہ اس ذبح کرنے والے کی تائید کرتا ہے اس لئے منع کر دیا تاکہ ایسے لوگ ہی نہ ہوں جن کو اللہ کے سِوا اَوروں کے لئے جانور ذبح کرنے کی جرأت ہو۔ پس یہ تمام احکام ایسے ہیں کہ جن کا گناہ انسان کی روح تک دوسروں کے واسطے سے پہنچتا ہے یعنی یا تو اس کے جسم کے ذریعہ سے یا اور لوگوں کی وجہ سے۔ اب ظاہر ہے کہ ان چیزوں کے منع کرنے سے یا تو انسان کے جسم کی حفاظت مدنظر ہے اور یا دوسروں کی اصلاح۔ اس لئے اگر کوئی ایسا وقت آبنے جبکہ جسم تباہ ہوتا ہو اور سوائے ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے کے وہ بچ نہ سکتا ہو تو ان کے کھانے کی اجازت دے دی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ دوشرطیں بھی لگا دی ہیں کہ اس اجازت سے فائدہ اُٹھانے والا انسان باغی اور عادی نہ ہو۔ پس اگر کوئی شخص ان اشیاء میں سے کوئی ایک کھائے گا تو ایسی حالت میں کھائے گا جبکہ وہ نہایت اضطرار میں ہو گا اور پھر ایک قلیل مقدار میں قلیل عرصہ کے لئے کھائے گا اس لئے وہ نقصان جس کی وجہ سے ان کا کھانا بند کیا گیا تھا وہ اسے نہیں پہنچے گا۔ لیکن وہ چیزیں جو براہ ِراست روح پر اثر ڈالنے والی ہوتیں ہیں ان کو ہر صورت میں خدا تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور کسی حالت میں بھی ان کو جائز قرار نہیں دیا۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر کوئی گناہ گناہ ہی نہ رہتا۔ مثلاً چور چوری کرتا ہے کیوں؟ اس لئے کہ اس کے اپنے گھر مال نہیں ہوتا۔ گوا یسے بھی چور ہوتے ہیں جو مالدار ہوتے ہیں اور عادتاً چوری کرتے ہیں مگر اکثر ایسے ہی لوگ چوری کرتے ہیں جو مفلس اور کنگال ہوتے ہیں اور اضطراب کی حالت میں ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی کسی کو قتل کرتا ہے تو اسی لئے کہ مقتول کی وجہ سے اسے کسی نہ کسی قسم کا اضطرار ہوتا ہے۔ غرضیکہ ہر ایک گناہ کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ وہ اضطرار کے وقت کیا گیا ہے۔ یہی سُود کا حال ہے۔ تجارت کرنے کے لئے توا ب دو سَو برس سے سُود لیا یا دیا جاتا ہے اس سے پہلے تو یہ بھی اضطرار ہی کی حالت میں لیا جاتا تھا۔ کسی شخص کو جب کہیں سے قرضہ نہ ملتا اور ضرورت سے مجبور ہو جاتا تو سُود پر روپیہ لے لیتا۔ ورنہ کسی کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ اپنے پاس روپیہ ہوتے ہوئے یا بغیر سخت مجبوری کے کچھ روپیہ لے کر اس سے زیادہ دیتا۔ تو سُود بھی جائز ہو گیا اور قرآن کریم نے جو حکم دیا تھا کہ نہ لیا کرو وہ نعوذ باللہ لغو ہو گیا کیونکہ جب سُود دیتا ہی وہ ہے جو مضطر ہو اور مضطر کے لئے جائز ہے کہ ایسا کرے تو پھر اس سے منع کرنے کے کیا معنی۔
لیکن یاد رکھو کہ قرآن کریم نے انہی چیزوں کی اضطرار کے وقت اجازت دی ہے جو کھانے پینے کے متعلق ہیں۔ چنانچہ اس آیت میں صاف طور پر فرمایا کہ یعنی ایسا اضطرار جو بھوک کی وجہ سے ہو اس کے لئے اجازت ہے نہ کہ ہر ایک اضطرار کے وقت ہر ایک نہی روا ہو سکتی ہے۔ وہ چیزیں جو کھانے کے متعلق ہیں ان کی تو اسلام نے اضطرار کے وقت اجازت دے دی ہے مگر یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر اضطرار ہو تو چوری بھی کر لو یا کوئی اور کسی قسم کا فعل کر لو۔ فقہاء نے یہ تو اجازت دی ہے کہ اگر علاج کے لئے شراب کی ضرورت پڑے تو مریض کو استعمال کرا دو۔مگر یہ کہیں اجازت نہیں دی کہ اگر کسی کی زندگی سے تمہیں اپنی جان کے متعلق اضطرار ہو تو اُسے قتل کردو۔ پس یہ بات غلط ہے کہ اضطرار کے وقت کوئی ایسی چیز جائز ہو سکتی ہے جس کا اثر براہ راست روح پر پڑتا ہے یا جو کھانے پینے کے متعلق نہیں ہے۔ البتہ ایسے وقت میں ان چیزوں کے کھانے کی اجازت دی گئی ہے جو روح سے براہِ راست تعلق نہیں رکھتیں۔ یا ایسے گناہ جن کا تعلق انسان کے اپنے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذریعہ دوسروں کا تعاون پایا جاتا ہے اور یہ بھی کھانے پینے ہی کے متعلق ہیں ۔اور یہ اجازت اس لئے ہے تاکہ جسم قائم رہے ایسے وقت میں اس بات کا خیال نہیں رکھا جائے گا کہ روح کو کسی قدر نقصان پہنچے گا بلکہ یہ مدنظر ہو گا کہ جسم سلامت رہ سکے۔ پس یہ صرف کھانے پینے کے متعلق مضطر کے لئے اجازت ہے ورنہ اگر ہر ایک بات میں مضطرکو اجازت ہوتی تو کوئی بھی گناہ ،گناہ نہ کہلا سکتا۔
تم اس بات کو خوب یاد رکھو۔ حضرت مسیح موعودؑ سے بھی بار ہا سُود کے متعلق پوچھا گیا۔ آپ نے ہر دفعہ منع فرمایا۔ وہی لوگ جو اَب ہم سے علیحدہ ہو گئے ہیں انہیں میں سے ایک نے دفتر سیکرٹری میں بیٹھے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد ایک دفعہ کہا۔ ’’واہ او مرزیا۔ لوکاں نے بھی بڑا زور لگایا کہ سُود جائز ہو جائے پر تو نے نہ ہی ہون دتا۔ یعنی لوگوں نے (یہ لوگوں کا لفظ محض پردہ کے لئے تھا ورنہ وہ زور مارنے والے بھی وہیں موجود تھے) بڑا زور مارا کہ کسی طرح سُود جائز ہو جائے لیکن آپ نے ہر گز اجازت نہ دی سُود لینا اور دینا دونوں کو برابر گناہ فرمایا۔
شریعت کوئی ٹھٹھا نہیں ہے کہ ہر ایک انسان استنباط کرنے لگ جائے۔ وہ لوگ جنہوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ اضطرار کے وقت سُود جائز ہے جب اُنہیں معلوم ہو گا کہ اضطرار کے ساتھ مخمصہ کا لفظ ہے تو انہیں اپنی غلطی معلوم ہو جائے گی۔ لوگوں نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ ایک بات کے جواز کے لئے جو سبب ہو وہی اگر دوسری جگہ پایا جائے تو اس کے جائز ہونے کا قیاس ہو سکتا ہے۔ مگر ایسا ہو سکتا ہے کہ دوسری جگہ سبب ہی اَور ہو اور سمجھا اَور جائے۔ اوّل تو قرآن کریم کے احکام میں قیاس کا دخل نہیں ہے اور اگر دخل بھی ہو تو قرآن کریم کے الفاظ پر خوب غور وفکر کرنا چاہئے۔ یہ اجازت کھانے پینے کے متعلق ہے نہ کہ ہر ایک بات کے لئے۔ ایک جگہ قرآن کریم میں کفر کے متعلق بھی فرمایا ہے مگر یہ پسندیدہ امر نہیں فرمایا۔ اگر کوئی بہت توبہ اور استغفار کرے گا تو اس کا گناہ معاف ہو گا اور یہ اس لئے فرمایا کہ ایسی حالت میں وہ اسلام سے نکل جاتا ہے ہاں ا س کی توبہ قبول ہو سکتی ہے اور یہ دروازہ ہر وقت کھلا ہے گویا اجازت وہاں بھی نہیں دی گئی۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اور دوسروں کوبھی سمجھ دے تا وہ قرآن کریم کے الفاظ پر غور کریں اور اُس کے احکام کی حکمت اور منشاء کو سمجھیں اپنے ارادہ اور خواہش کے مطابق اس کے الفاظ کو بگاڑ کر اَور مطلب نہ نکالیں۔ ‘‘ (الفضل ۱۱؍ اپریل ۱۹۱۶ئ)
۱؎ المائدۃ: ۴ ۲؎ البقرۃ: ۱۷۴
۱۲
دنیا کی تمام اشیاء انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہیں
(فرمودہ ۱۴ ؍ اپریل ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
۱؎
پھر فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ کی وہ مخلوق جو ہماری نظروں کے سامنے ہے اور جس تک ہماراعلم پہنچ سکتا ہے اُس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تمام مخلوق میں سے ایک ہی ہستی ایسی ہے جو کہ اپنے اندر ارادہ کی قوت رکھتی ہے اور جس کے اندر اس کے استعمال کی طاقت پیدا کی گئی ہے اور وہ انسان ہے۔ بڑے بڑے کرے جو زمین کے علاوہ آسمان پر ہیں یعنی سورج، چاند اور ستارے، پھر زمین اور اس کے اندر کی تمام اشیاء اور خاص کر حیوانات ا ن تمام پر غور کر کے دیکھا جائے تو سوائے انسان کے سب کی سب ایک خاص قانون کے ماتحت چلتی ہیں اور اس سے ذرا بھی اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتیں۔ جس رنگ کا، جس طرز اور جس طاقت کے ساتھ خدا نے ان کو پیدا کیا تھا اس کے علاوہ نہ تو انہوں نے کسی بات میں ترقی کی ہے اور نہ ہی تنزل۔ بے جان چیزیں تو علیحدہ رہیں حیوانات بھی ارادہ اور قدرت نہیں رکھتے اور ان میں بھی ترقی کا مادہ نہیں ہے۔ جس دن سے دنیا کی ابتدا ہوئی ہے شیر غاروں میں ہی رہتے ہیں، بندر درختوں کے اُوپر، مچھلیاں پانی کے اندر زندگی گزار رہی ہیں۔ اِسی طرح پرندے ہوا میں اُڑتے، درختوں پر گھونسلے بناتے چلے آرہے ہیں۔ اس میں کبھی تغیر نہیں ہوا۔ نہ آدم علیہ السلام کے وقت نہ ان کے بعد اور نہ اب بلکہ ایک ہی حالت میں چلے آرہے ہیں۔ بیا۲؎ ایک عمدہ گھونسلا بناتا ہے مگر ایسا ہی حضرت آدمؑ کے زمانہ میں بنایا کرتا تھا۔ اِسی طرح فاختہ جس قسم کا آج گھونسلا بناتی ہے آج سے ہزار، دو ہزار، تین ہزار، چار ہزار سال پہلے بھی ایسا ہی بناتی تھی۔
مگرا نسان کی حالت کبھی ایک حالت پر نہیں رہی بلکہ ہر صدی میں بدلتی رہی ہے۔ کوئی زمانہ ایسا تھا کہ انسان بالکل ننگا رہتا تھا۔ پھر وہ زمانہ آیا کہ درختوں، چھالوں اور پتوں سے اپنا جسم ڈھانکنے لگا۔ پھر جانوروں کی کھالوں کو پہننے لگا۔ پھر کوئی زمانہ ایسا تھا کہ درختوں کی باریک شاخوں سے پتوں میں موریاں نکال کر گھاس کے ریشے ان میں ڈال کر اپنے لئے کپڑے سینے لگا۔ پھر لوہا، روئی دریافت ہوئی اور کپڑے بننے اور سیئے جانے لگے۔ اس سے ترقی کرتے کرتے آج انسان اس حالت کو پہنچا ہے کہ اتنی قسم کے کپڑے تیار ہو گئے کہ کوئی گن بھی نہیں سکتا اسی طرح ایک وقت تھا کہ جبکہ انسان کچی غذائیں کھاتا تھا۔ پھر سورج کی گرمی سے بھون کر کھانے لگا۔ پھر آگ دریافت ہوئی تو اس میں ڈال کر پکانے لگا اس سے ترقی کرتے کرتے آج اس حالت کو پہنچا کہ ہزاروں قسم کے نفیس سے نفیس کھانے تیار کرنے لگا۔ یہی حال پینے کی چیزوں کا ہے اور یہی سوسائٹی کے تعلقات کا۔ غرضیکہ ہر ایک وہ کام جس کا انسان سے تعلق ہے وہ جس حالت میں آج سے سَو سال پہلے تھا آج اس سے بڑھ کر حالت میں ہے اور آج سے ایک سَو سال بعد اور بڑھ کر ہو گا۔ یہ تونسل انسانی کا تغیر وتبدل ہے اِسی طرح ہر انسان میں بھی تغیر ہوتا ہے۔ ایک وہ وقت ہوتا ہے جبکہ انسان بات کرنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا۔ لیکن ایک وقت آتا ہے کہ خوب بول سکتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے جبکہ وہ کچھ پڑھ نہیں سکتا لیکن ایک وقت آتا ہے کہ وہ بڑا عالم اور فاضل ہو جاتا ہے۔ تو جس طرح نسل انسانی مجموعی حالت میں ترقی کرتی ہے اسی طرح ہر ایک انسان بھی ترقی کرتا ہے اور ایک ادنیٰ حالت سے لے کر عظیم الشان درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔
پیدا ہونے کے وقت تما م بچوں کی ایک ہی حالت ہوتی ہے ایک شاعر نے کیا ٰخوب کہا ہے کہ اے انسان! تو جس وقت پیدا ہوا تھاتو رو رہا تھا اور لوگ تجھ پر ہنس رہے تھے (کسی پر ہنسنا اس کی تحقیر کرنے کے معنوں میں بھی آتا ہے) اب توا ن سے بدلہ لے اور وہ اس طرح کہ ایسے اچھے اعمال کر اور لوگوں کو اتنا فائدہ پہنچا کہ جب تو مرے تو لوگ روئیں اور تو ہنسے اور خوش ہو کہ میں خدا کے پاس جار ہا ہوں۔ تو سب بچے روتے ہوئے ننگ دھڑنگ آموجود ہوتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اِسی طرح آئے تھے اور آپ کا بدترین دشمن بھی اِسی طرح آیا تھا مگر آپ نے تو ایسی تر قی کی کہ معراج کے وقت جبرائیل بھی پیچھے کھڑا رہااور آپ سے کہا کہ آپ آگے چلے جا ئیں مجھ میں آگے جا نے کی ہمت نہیں ہے۔ تو فردا ًفرداً بھی انسا نوں کی یہی حالت ہو تی ہے۔انسانوں میں بڑی بڑی ترقیات کے مادے رکھے گئے ہیں اس لئے کوئی انسان ہروقت ایک حالت پر قائم نہیں رہتا اور نہ رہ سکتا ہے اور نہ کوئی قوم رہتی ہے اور نہ رہ سکتی ہے۔ وہ حالت جس کا نام کسی قوم کا ایک حالت میں ٹھہرنا رکھا جا تا ہے وہ اصل میں ٹھہرنا نہیں ہوتا بلکہ گرنا ہو تا ہے یعنی اُس وقت اُس قوم کا گرنا شروع ہو جا تا ہے۔کیونکہ انسان ہر وقت ترقی یا تنزل کر تا رہتا ہے کبھی نیچے کو آتا ہے تو کبھی اوپر کو جاتا ہے یعنی ہر وقت حرکت میں رہتا ہے جب انسا ن خدا تعالیٰ کی عطاکردہ طاقتوںسے کا م لینا چھوـڑدیتا ہے تو نیچے گر نا شروع ہو جاتا ہے۔ جس طرح ایک شخص رسّہ کو پکڑکراوپر چڑھ رہاہووہ جب اپنی طاقت کو کم کرے گا تو نیچے کو آنا شروع ہو جائے گایہی حال انسانی ترقی کا ہوتاہے۔
غرض انسان اور دوسری تمام مخلوق میں یہ فرق ہے کہ انسان اپنے اندر ترقی کی اس قدر طاقتیں رکھتا ہے کہ جن کا اندازہ بھی نہیں ہو سکتا ۔جو شخص کہتا ہے کہ میں نے انسانی ترقی کا پوراپورااندازہ کر لیا ہے وہ جھو ٹا ہے اورخدا نے اس کے جھو ٹ کو اس طرح ثابت کر دیا ہے کہ ایک وقت میں جن باتوں کو انسان اپنی انتہائی ترقی سمجھتے ہیں دوسراوقت اس سے بڑھ کر ترقی دکھا دیتا ہے۔ تمام دنیا میں ایک ہی انسان ہوا ہے جس کی نسبت کو ئی کہہ سکتا ہے کہ اس نے تمام انسانی ترقی کے مدارج حاصل کر لئے ہیںاور وہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیںمگر یہ بھی جھوٹ ہے۔ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جو آج سے تیرہ سَو سال پہلے تھے وہ آج نہیں ہیں بلکہ بہت بڑھ گئے اور ہر وقت بڑھتے رہتے ہیں کیو نکہ کروڑوں انسان دن رات آپ کے لئے ملکر صلی اللہ علیہ وسلم کہنے والے ہیں۔پھر جس قدرنیکی دنیا کو آپ سے پہنچ رہی ہے وہ کیا آپ کو ایک درجہ پررہنے دیتی ہے؟ ہر گز نہیں ۔بلکہ آپ اوپر ہی اوپر جا رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اِسی لئے ۴؎ کا حکم ہوا تھا۔ آپ کی وفات کے وقت جو آپ کا درجہ تھا وہ اس سے دس منٹ پہلے سے زیادہ تھا۔اورہمیشہ زیادہ ہی زیادہ ہو تا جا رہا ہے۔ یہ تو انسان کی حالت ہوئی۔ اس کے مقابلہ میں باقی جس قدر اشیاء ہیں ان میں ترقی کا مادہ ہے ہی نہیں وہ ایک حد کے اندر محدود رہتی ہیں اور پھر وہ ارادے اور قدرت سے کو ئی کام نہیں کر تیں ۔ بلکہ مشین کے طور پر چلتی ہیں۔ شیر کو دیکھ لو جس رنگ میں خد اتعا لیٰ نے پیدا کیا تھا اُسی رنگ میں اب بھی ہے۔ اِسی طرح گدھے کو جس رنگ میں پیدا کیا تھاکہ گھا س کھائے وہ اب بھی گھا س ہی کھا تا ہے اور ویسا ہی ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے وقت تھا۔ اِسی طرح گھوڑا ہے۔ اس تمام نظارہ کو دیکھ کر ہمیں ایک بات معلوم ہو تی ہے اور وہ یہ کہ انسان کے سِوا اور کوئی چیز طاقت اور ارادہ نہیں رکھتی بلکہ ان میںانفعالی طاقت ہو تی ہے یعنی ایک دوسری چیز اپنا اثر ڈال کر ان میں تغیر پیدا کر دیتی ہے اور وہ انسان ہے۔
اس سے پتہ لگا کہ تمام اشیاء جو زمین و آسمان میںیا ان کے درمیان ہیں وہ تمام کی تمام اسی ہستی کی خدمت کے لئے بنائی گئی ہیں اور ان کی خلقت اس لئے ہو ئی ہے کہ انسان ان سے نفع حاصل کرے خواہ سورج ہے یا چاند ہے یا ستارے ہیں یا جو کچھ بھی ہے وہ انسان کے نفع کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ چنانچہ خدا تعالی نے قرآن کریم میں با ربار فرمایا ہے کہ ان اشیاء کو تمہارے نفع کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔
یہ ایک نا دانی کی بحث ہے کہ زمین کے سوا کوئی اور بھی کُرے ہیں یا نہیں جہاں انسان رہتے ہیں کیو نکہ اس بات کی اسے کیا ضرورت ہے وہ اس کرہ سے تعلق رکھتا ہے جس میں وہ رہتا ہے اس لئے وہی اس کے لئے بنا یا گیا ہے۔اور کروں کا دریافت کرنا تو الگ رہا انسا ن کے اندرایسی طاقتیں موجود ہیں جو تما م کی تما م یکدم اس پر خود بھی نہیں کھلتیں بلکہ آہستہ آہستہ کھلتی رہتی ہیں۔اور اس کی ایسی مثال ہے کہ بہت سی اشیاء انسان کی جیب میں ہوںاور اسے ان کا علم نہ ہوہاتھ ڈالتا جائے اور نکالتا رہے۔انسان کی ہستی ایک ایسی زنبیل ہے کہ جو کبھی خالی نہیں ہوتی ہمیشہ کچھ نہ کچھ اس سے نکلتا ہی چلاآتاہے۔
پس جب یہ ثابت ہو گیا کہ دنیا کی سب اشیاء انسان کے لئے اور صرف اسی ہستی کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے اس کی مسخر کر دی گئی ہیں تو سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا اتنا بڑا کا رخانہ اور اس کی تمام اشیاء زمینی اور آسمانی کاپیدا کرنا اور پھر انسان میں اِس قدر روحانی ترقیات کا مادہ رکھنا کہ ختم ہی نہیںہو سکتا کیا یہ سب کچھ اِسی لئے ہے کہ انسان دنیا میں کھائے پیئے اور گزر جا ئے؟ کھا نے پینے کے لحاظ سے تو اور جا نور اس سے بہترہیں۔ایک گھوڑا اتنا کھا سکتا ہے جتنا انسان سر پر اُٹھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اور چیزیں ۔ طاقت، قد، جسم کے لحاظ سے بھی انسان سے بہت بڑی ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ خدا نے انسان کے لئے ان کو مسخر کر دیا ہے۔
اس میں ایک بھید ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا نے انسا نوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ اس کا خاص خد ا سے تعلق ہو۔ باقی جس قدر اشیاء انسان کے لئے پیدا کی ہیں وہ اس لئے نہیں کیں کہ انسان ان پر حکومت کرے اور بس۔بلکہ اس لئے کہ جس قدر سامان وسیع ہواُسی قدر وسیع نتائج نکلتے ہیں۔دیکھوترکیب جس قدر زیادہ مقدار میں ہو تی ہے اُسی قدر زیادہ نتیجہ پیدا کرتی ہے۔دو ضرب دو، چار ہو تے ہیںلیکن ان اعداد کو دو کی بجائے چار کر دیا جائے تو چار ضرب چار، سولہ ہو جائیں گے۔تو جس قدرا عداد بڑھا تے جا ئیں اُسی قدر نتا ئج بڑے نکلتے جا ئیں گے۔چونکہ انسان کے اعمال ہی اس کے روحانی لڑی کے بڑھا نے والے ہو تے ہیں اس لئے جس قدر یہ زیادہ ہوں گے اُسی قدر زیادہ اس کی روحا نیت ہو گی۔ جب انسان کے متعلق بہت سی اشیاء ہو ں گی تو جس قدر زیادہ اشیاء سے معا ملہ کرے گا اُسی قدر زیادہ اس کے اعمال ہوں گے تو دنیا کی تمام اشیاء اس کی ترقی کے لئے پیدا کی گئی ہیں ۔
پس اگر انسان ذرا بھی غور کرے تو اسے پتہ لگ جا تا ہے کہ جب یہ سب اشیاء میر ے لئے پیدا کی گئی ہیں تو ضرور ہے کہ میری پیدائش کی غرض وہ نہیں ہے جو ان کی ہے بلکہ کوئی اور اعلیٰ غرض ہے ۔اِسی بات کو خدا تعالیٰ نے ان آیات میں بیان فرما یا ہے کہ وہ لوگ جو کا فر ہو گئے اور کہتے ہیں کہ خدا ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اسے ہما رے اعمال سے کیا تعلق ہے کہ ہمیں مرنے کے بعد زندہ کرے اور ہم سے کسی بات کے متعلق پرسش ہو۔ وہ گمان کر تے ہیں کہ یہ جو کچھ خدا نے پیدا کیا ہے یہ سب لغو ہے اس کے پیدا کرنے سے اس کی کو ئی غرض اورمنشاء نہیںہے مگر یہ بات نہیں ہے۔ ایسا کہنے وا لے لوگ ہمیشہ نقصان ہی پا ئیںگے۔کیوں؟اس لئے کہ خدا تعا لٰی نے جوکچھ ان کے لئے پیدا کیا تھااُس کو انہو ں نے لغو اور فضو ل سمجھا ۔ لیکن مو من انسان کبھی ایسا گمان نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی اندر کی طاقتیں اسے پکا ر پکار کرکہتی ہیں کہ ہر وقت تجھے آگے بڑھنے اور تر قی کر نے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اور یہ جو کچھ دنیا میں ہے یہ تیری ہی ترقی کے لئے اسباب پیدا کئے گئے ہیں ۔خدا تعا لیٰ فر ماتا ہے کہ ہم نے انسا ن کی ترقی کے لئے زمین و آسمان میںکس قدر اسبا ب پیدا کئے ہیںاور کس طرح ہر ایک چیز کو انسان کے لئے مسخر کر د یا ہے پھر انسا ن کے اندر کس قدر بڑھنے اور ترقی کر نے کی طا قتیں رکھی ہیں۔ کیا اس کا نتیجہ یہی ہو سکتا ہے جو لوگ ایماندار ہیں اور اچھے عمل کر تے ہیں ان کو اور وہ لوگ جو فسا د کرتے ہیںایک ہی جیسا کر دیا جائے؟اگر ایسا ہی ہو تاتو گویا حیوانوں کی طرح ہی انسانو ں کی پیدائش بھی ٹھہرتی۔کیو نکہ تمام حیوانوں کا ایک ہی درجہ ہو تا ہے۔ اگر تمام انسا نو ں کا ایک ہی درجہ ہوتااور ان سے ایک ہی قسم کا سلوک کیا جا تاتو گویا انسان کے لئے اس قدر ساما ن پیدا کرنا اور خود انسان کو پیدا کرنا ایک لغو امر ہو تا۔مگر خدا تعالی توکو ئی لغو بات نہیں کرتا۔
جب یہ بات ہے تو کیا وہ متقیو ں کو فا جروں کے برابر کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک مومن دوسرے کا فر ۔ یا متقی اور فاجر۔یعنی مو منوں کے مقابلہ میں ایک تو کافر ہو تے ہیں اور ایک وہ جو لفظاً تو مومنوں کی جما عت میں داخل ہو تے ہیںمگر عملاً با غی ہوتے ہیںان کو فاجر کہا جا تا ہے ان دو قسم کے لو گو ںکی نسبت بتا دیا کہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اعمال کا کوئی نتیجہ نہیں ہو گاجو سلوک متقیوں سے کیا جا ئے گاوہی ہم سے ہو گا تو غلطی کر تے ہیں۔ کیا ہم ایمان لا نے والے اور نیک اعمال کر نے والوں کو ایسا کر دیں گے؟ ہر گز نہیں صرف وہی لو گ نہیں ہو تے جو دنیا میں لڑائی جھگڑا کرتے ہیںبلکہ کفا ر بھی ہی ہو تے ہیںکیو نکہ ان کے عقائد درست نہیں ہوتے اور جب عقائد درست نہیں ہو تے تو جو ان سے نتائج نکلتے ہیں وہ بھی درست نہیں ہو تے بلکہ بُرے اور خطر ناک ہوتے ہیں خواہ ایسے لوگ کتنا ہی اچھا کام کریں تو بھی عقائد کے نقص کی وجہ سے اس میں نقص ہی ر ہے گا اس لئے وہ مو منوں کے برابر نہیں ہو سکتے۔ دوسرے وہ لو گ جو زبان سے تو ایمان لا نے کا اقرار کر تے ہیںلیکن عملاً اس کا ثبوت نہیں دیتے وہ متقیوں یعنی ایمان لا کرعملی طور پر اس کا ثبوت دینے والوں کے برابر نہیں ہو سکتے ۔ اس کی گواہی زمین و آسمان اور سب اشیاء دے رہی ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہو سکتا۔ اور اگر ایسا ہو جائے تو خدا پر الزام آتا ہے کہ کیا اس نے اتنا بڑا کا رخانہ اور تمام سازو سامان گھوڑے اور گدھے کی طرح کھا پی کر گزر جا نے والے انسا ن کی خاطر پیدا کیا ہے ؟اس قسم کا کا م تو معمولی عقل کا انسان بھی نہیں کرتا چہجائیکہ خدا ایسا کرے کہ انسان کے لئے یہ سب تو پیدا کر دے مگر اس کی غرض کچھ نہ ہوکیا کھانے پینے کے لحاظ سے گھو ڑے اور گدھے وغیرہ حیوانا ت انسان کے برابر نہیں ہیں؟ ضرور ہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان کے لیے تمام دنیا کی اشیاء مسخر نہیں کی گئیںاور صرف انسا ن کے لئے کی ہیں۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ انسان کی پیدائش کی کو ئی اور بہت بڑی غرض ہے۔
غر ض دنیا کی ہر ایک چیز انسا ن کو ہو شیا ر کر رہی ہے خواہ سورج یا چاند یا ستا رے ہوں، خواہ زمین کے اوپر کے نظا رے ہو ں ،خواہ اس کے نفس کے اندر کی طاقتیں ہو ں ،تمام جا نور حتیٰ کہ ایک چڑیا اور طو طا، ایک کتا، ایک بلی، ایک مینا اس کے لئے نصیحت اور سبق ہے۔ یہ ہر چیز اسے کہہ رہی ہے کہ ہم کھا نے پینے کے لحاظ سے تمہا رے برابر ہیں لیکن تجھے جو ہم پر حکومت دی گئی ہے اور ہمیں تیرے لئے مسخر کیا گیا ہے تو اِس میں کوئی بات ضرور ہے اور وہ یہی کہ تا تجھے بتایا جائے کہ ایک دن تیرے تمام اعمال کا محاسبہ ہو گا اور تو خدا تعالیٰ کے حضور اپنے افعال کی جواب دہی کے لئے کھڑا کیا جا ئے گا۔لیکن اس واعظ کے لئے کہیں دور جا نے کی ضرورت نہیں انسان اپنے گھر میں بستر پر آنکھیں بند کر کے اپنے نفس پر غور کرے تو وہی اس کے لئے واعظ ہو گا اور اسے پتہ لگ جا ئے گا کہ دنیا میں میرا کیا درجہ ہے اور دوسری مخلوق کا کیا۔ مجھ سے خدا کا کیا سلوک ہو گا اور دوسری مخلوق سے کیا۔ اِس آیت میںخدا تعالیٰ نے اِسی طرف انسان کو متوجہ کیا ہے اس لئے اس سے وہ نصیحت حا صل کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک بات کا بھی اس سے پتہ لگتا ہے اور وہ یہ کہ بہت لوگ سوال کرتے ہیں کہ ہمیں یہ کیونکر معلوم ہو کہ ہم متقی ہیں یا فا جر اور خدا ہم سے خوش ہے یا نا خوش؟ اس آیت سے یہ سوال بھی حل ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا متقی اور فا جر برابر ہوتے ہیں؟ یعنی نہیں ہوتے ۔اس کے متعلق ہر ایک انسان اپنے نفس سے مطالبہ کر سکتا ہے کہ بتائو تم سے خد ا کا کیا معاملہ ہے؟ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں اپنے مخالف اور موافق لوگ نہ رکھتاہو۔ وہ اپنا اور اپنے مخالفوںکا اور اپنا اور اپنے ساتھیوں کا مقابلہ کر کے دیکھے کہ اگر ہر مصیبت اور تکلیف اور ہر رنج کے وقت خدا مدد کرتا ہے اور کسی حالت میں خواہ رنج کی حالت ہو یا راحت کی وہ مجھے نہیں چھو ڑتا اور ہمیشہ دشمنوں پر فتح دیتا ہے اور برخلاف اس کے دشمنوں کو ذلیل، ناکام اور نا مراد رکھاتا ہے تو وہ سمجھ لے متقی اور فاجر برابر نہیں ہو سکتے ۔ مجھ سے چو نکہ متقیو ں والا سلوک ہو رہا ہے اور میرے مخالفین سے فاجروں والا اس لئے میں متقیو ں میں شامل ہوں۔لیکن اگر اس سے فا جروں والا سلو ک ہو تاہو تو سمجھ لے کہ مجھ میں ضرور نقص ہے اس لئے مجھ سے ایسا سلو ک ہو ر ہا ہے ورنہ نہ ہو تا۔ اس سے ہو شیا ر ہو کر اپنی اصلاح شروع کر دے۔اگر کسی کی خدا تعالیٰ غم کی گھڑیو ں میں مدد کرتا اور خو شی کی گھڑیوں میں ساتھ دیتا ہے، اُس کی کوششوںکو بار آور بنا تا اور اُسے دشمنوں پر غلبہ دیتا ہے تو سمجھ لے کہ میں خدا کی رضا اور اس کے صحیح رستہ پر چل ر ہا ہوں۔ اور اگر ایسا نہیں تو وہ سمجھ لے کہ مجھ میں نقص ہے جس کی اصلاح کر نی چاہئے۔تواِس آیت کی وجہ سے ہر ایک انسان کے لئے اپنے نفس کا موازنہ کر نا آسان ہو گیا۔وہ دیکھ سکتا ہے کہ میں مو منانہ راستہ پر چل رہا ہوں یا کافرانہ پر، متقیا نہ قدم اُٹھا رہا ہوں یا فا جرانہ۔ اس میں شک نہیں کہ مو منوں اور متقیو ں پر بھی مصائب آتے ہیں لیکن ایک مومن کو خدا تعا لیٰ دشمن کے مقابلہ میں کبھی اِس طر ح نہیں گراتاکہ اسے کسی گنا ہ کا مرتکب ہو نا پڑے۔ یہ مو من اور کافر، متقی اور فا جر کے مصائب میں فر ق ہے۔ مومن اور متقی کو کسی بڑی سے بڑی مصیبت کے وقت بھی کسی قسم کے فریب، دغا اور حیلہ سازی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان باتوں پر خدا اُسے کا میابی دیتا ہے۔ مگر ایک کافر اور فا جر پر جب ایک مصیبت آتی ہے تو وہ گناہ کی طرف لوٹتا ہے اور گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ پس جب کوئی شخص مصیبت کے وقت ایسا کرتا ہے وہ دیکھے کہ اس کے اندر گنا ہ کا ما دہ تھا تب ہی وہ گنا ہ کی طرف لو ٹا ہے۔ مو من اور متقی کو کبھی ایسے واقعات پیش نہیں آئیں گے جو اسے بدی کے لئے مضطر کر دیں اور جسے کوئی ایسا مو قع آتا ہے وہ سمجھ لے کہ اس میں نقص ہے۔پس یہ آیت اپنے نفس کا مطالعہ کرنے کا آسا ن طر یق بتا تی ہے اس سے فا ئدہ اُٹھا نا چا ہئے۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ لوگوں کو اور ہماری تمام جماعت کو اس بات کی توفیق دے کہ خداتعالیٰ نے جو سامان اور طاقتیں ہمیں بخشی ہیں ان کو ہم صحیح طور پر استعمال کرکے اُس کا فضل حاصل کرنے کے قابل بنیں اور ایسا نہ ہوکہ ان کے غلط استعمال سے ہمارا قدم کسی اور راہ پر جاپڑے ۔ ‘‘ (الفضل۱۸؍اپریل ۱۹۱۶ئ)
۱؎ ص: ۲۸،۲۹
۲؎ بیا: ایک چھوٹی زرد رنگ کی چڑیا جو گھونسلا بنانے میں مشہور ہے۔
۳؎ دروس الادب صفحہ ۹۰
۴؎ طٰہٰ: ۱۱۵
۵؎ مینا: ایک خوش الحان پرندہ
۱۳
خدا کی اطاعت کرنے والے ہی اُس کے انعامات کے وارث ہو ں گے
(فرمو دہ۲۸؍ اپریل ۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذاور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
۱؎
بعد ازاں پھر فرمایا:۔
’’انسان کو خدا تعا لیٰ نے سب سے بڑے انعامات کا وارث بنایا ہے اور اس کی ترقیات کے لئے بڑے بڑے و سیع را ستے کھو لے ہیں حتی کے انسان ان را ستوں کو محدود نہیں کر سکتا جو طریق یا راستے مدراج کے حصول کے لئے مقرر کئے گئے ہیں چہ جائیکہ ان مدارج کو محدودکر سکے۔ دنیا کے مختلف پیشے اور علوم بھی اگر انسان گننے لگ جا ئے تو وہ بھی ایسی کثرت اپنے اندر رکھتے ہیں کہ ان کا گننا بھی مشکل ہو جا تا ہے۔ہر سورج انسان کے لئے نئے علوم اور ترقیات لاتا ہے۔ پس جب اِس قدر انعاما ت انسان کے لئے مقرر ہیں تو ضرور تھا کہ اس کے لئے ابتلا ء اور مشقتیںبھی مقرر کی جا تیں ۔انعامات کا وارث وہی ہو اکر تا ہے جو اپنے آپ کو ان انعامات کا مستحق ثابت کرے۔ انعام محنت کے بدلے میں اور کسی استحقاق یا کسی خاص حالت کی وجہ سے ملتے ہیں ورنہ ایک جیسے انسا نوں کو انعامات نہیں ملا کرتے۔ پا نچ سات آدمیو ں میں انعام لینے والا و ہی ہو گا جو اپنے اندر کوئی خاص امتیاز ر کھتا ہو گا۔ پس جہاں ایسے وسیع انعامات مقرر ہوئے ہیں وہاں ابتلاء بھی مقرر ہیں جس طرح انسا ن ان انعامات کو جو اس کے لئے مقرر ہیں گن نہیں سکتا اِسی طرح انسان اُن ابتلائو ں کو بھی جو اُسے پیش آنے والے ہیں گن نہیں سکتا جن میں پڑکر انسان ان انعامات کا جو اس کے لئے مقرر ہیں وارث ہو تا ہے۔ خدا تعالی کے جس قدر انعامات غیر محدود ہیں اُسی قدر خدا کے ابتلاء بھی غیر محدود ہیں۔ اگر صداقت کے رد کرنے والے اور خدا تعالیٰ کی درگاہ سے دورہو جا نے والے لوگو ںکو پو چھو کہ کیوں تم نے یو ں کیا؟ تو ہر شخص اپنے لئے جدا جدا با عث بتا ئے گا۔ جو وجہ ایک کی ہو گی وہ دوسرے کی نہیں ہو گی ۔ ایک کے لئے روک اَور ہوگی، دوسرے کے لئے اَور تیسر ے کے لئے اَور، چوتھے کے لئے اَور، پانچویں کے لئے اَور۔ ان میں سے ہر ایک شخص جو اس صداقت کو نہیں مانتا وہ اپنے لئے مختلف وجہیں رکھتا ہے۔
غرضیکہ ہر ایک کے لئے جدا جدا ابتلاء ہیں ۔ یہ آزمائشیں دودرجوں میں منقسم ہیںایک آزمائشیں انعام کی ہو تی ہیں دوسری عذاب کی ہو تی ہیں ۔یا تو ایسی آزما ئشیں ہوتی ہیںکہ وہ انعاما ت کا رنگ رکھتی ہیںیا کوئی بڑا ہو جا تا ہے دولت مل جا تی ہے اس کے لئے ان کی دولت ابتلا ء ہو جا تی ہے۔وہ خیال کر تا ہے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں ایک مفلس نا دار آدمی کو جس کی کچھ بھی لوگوں میں حیثیت نہیں مان لوںاور اس کا فرمانبردار بن جا ئو ں۔عہدہ دار خیال کر تا ہے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے ما تحت کی بیعت کر لیں۔ اِسی طرح کسی کے لیے اس کا آرام اور آسائش سامانِ ابتلاء ہو جا تا ہے۔ہم نے ایسے آرام سے زندگی بسر کی ہے ایسی آسائشوں اور نعمتوں میںپر ورش پا ئی ہے اب اگر دین پر چلیں گے اور کسی کے ماتحت ہوں گے تو یہ آرام اور آسائش نہیںرہے گی۔ اِس طرح آرام اور آسائش بعض لو گوں کے لئے ابتلاء کا موجب بن جا تی ہے۔ایک طالب علم ایک سال میں وظیفہ لیتا ہے تو دوسرے سال کے لئے بھی اس کے دل میں شوق پیدا ہو جا تا ہے کہ وہ اس سال بھی و ظیفہ لے۔ تو بجائے اس کے کہ یہ لو گ اس ما ل، اس دولت، اس بزرگی اور اس بر تری اور عیش و تنعم کے سامان سے فا ئدہ اُٹھائیںاور یہ خیال کر یں کہ وہ خدا جس نے بغیرکسی قسم کی محنت کے، بغیرکسی قسم کی مشقت کے اِس قدر انعامات ہم پر کئے ہیںاگر ہم اُس کی اطاعت اور فرما نبرداری کر یں گے تو کس قدر انعامات حاصل ہو ں گے۔ان لو گو ں نے اِسی قدر پر قناعت کر لی ہے۔
دوسری قسم کے وہ لوگ ہیںکہ ان کے لئے یہ آزمائشیں مصائب کے رنگ میں ہو تی ہیں ۔ وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمیں آگے کو نسا سکھ ملا ہے اور ہم آگے کس آرام میں ہیںکہ اس کو ما ن کر وہ پا لیں گے۔کو ئی خدا کی طرف سے آیا ہو تو ہمیں اس کو ما ننے سے کیا۔ہم آگے ہی دکھوں اور مصیبتوں میں ہیں اس کو مان کر اَور دکھوں اور مصیبتوں میں پڑ جا ئیں گے۔ پس اگر ایک طرف انعامات کے ذریعے سے آزمائشیںہوتی ہیں تو دوسری طرف مصائب اور مشکلات کے ذریعے سے بھی لو گ آزما ئے جا تے ہیں۔
پھر آگے ان دونوں قسموں کی ہزار قسمیں ہیںلیکن اگر انسان ذرا غور کرے کہ کوئی فا ئد ہ نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اس کے لئے محنت نہ کی جائے تو پھر انسان کے لئے اللہ کی راہ میں محنتیں اور مشقتیں کو ئی چیزنہیں ۔ وہ فوائد جن کے لئے انسان کو ا مید ہو تی ہے کہ ہمیں مل جائیں گے، ان کے لئے انسان کس قدر محنت کر تا ہے اور رات دن لگا رہتا ہے۔ اس لئے کہ اس محنت میں ایک فا ئدہ دیکھتا ہے اور اسے یقین ہو تا ہے کہ وہ اسے جلد ملنے والا ہے۔بہت سے لو گ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہیں یہ فا ئدہ حاصل ہے مگر دراصل وہ انہیں حاصل نہیں۔ پس اگر انہیں یہ یقین ہو جا ئے کہ جو کچھ اللہ کا رسول لا یا ہے اگر ہم اس کو مان لیں گے تو اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مستحق ہو جائیں گے تو پھر ان مصائب کو اس رسول سے روکنے کی وجہ نہ بتاتے بلکہ فورا ًاس کو مان لیتے۔
اللہ تعالیٰ فرما تا ہے کہ یہ لوگ سمجھتے نہیںکہ جس با ت کو یہ لوگ ردّکر تے ہیںاس کے ما ننے میں بڑے بڑے انعامات ہیں اور اس کے نہ ماننے میں بڑی بڑی تکلیفیں، مشقتیں اور عذاب۔ وہ قوم جو مصائب کو دیکھ کر کسی فا ئدے کو چھو ڑ دے بجائے آگے قدم ما رنے کے پیچھے رہتی ہے۔ ایک انسان کو اگر ایک راستے پر گزرنے سے کپڑوں اور مال کے لوٹے جا نے کا خطرہ ہو اور دوسرے راستے پر گزرنے سے جان جا نے کا خطرہ ہو تو وہ یہ خیال کر کے کہ’’ جان بچی سو لاکھوں پا ئے‘‘ اُس راستہ کو ترک کرے گا جس میں اس کی جان جانے کا خطرہ بنے اور اُس رستہ کو اختیار کر ے گاکہ جس میں اس کے ما ل کا اندیشہ ہے ۔پس اسی طرح جسے یہ یقین ہو جائے کہ اللہ تعالی کی نافر مانی کر کے اور اس کی بھیجی ہو ئی صداقتو ں کا انکا ر کر کے جو عذاب ملنے والا ہے وہ ان مشقتوں اور تکلیفو ں سے بہت بڑھ کر ہے جو ایک صداقت اور اس کے لا نے والے کو مان کر پڑنے والی ہیں تو پھر انسان ان صداقتوں کا انکا ر نہیں کر سکتا اور ان مصیبتوں اور مشقتوں سے نہیں گھبراتا۔
جو لوگ صداقتوں کے منکر ہوں وہ مجبور ہیں لیکن جو جماعت صداقت قبول کر چکی ہے اور اس پر ایک اور ایک دو کی طرح یہ روشن ہو گیا ہے ایسی جماعت کے پیچھے ہٹنے پر ازحدافسوس ہے۔ ہماری جما عت کے لئے بھی یہ ایک امتحان کا موقع ہے اس کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک حکم ملا اور وہ ایسے برگزیدہ انسان کے ذریعہ آیا جس کی نو حؑ سے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک کے پیغمبروں نے خبر دی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اولیاء اور خداکے برگزیدہ انسان اس کے متعلق بیان کرتے چلے آے تھے بلکہ اس کو دیکھنے کے مشتاق تھے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے وعدے کیے تھے۔ پھر اس کے ساتھ وعدہ تھا کہ جو میرے احکام کی فرمانبرداری کریں گے وہ میرے انعامات کے وارث ہو ں گے۔ کیا ہما ری جما عت نے اِس با ت پر غور کیا کہ کیا وہ مشقتیں جو ان انعامات کے لئے ضروری ہیں برداشت کر چکی ہے؟افسوس آتا ہے جب کہتے ہیں کہ گائوں والے دُکھ دیتے ہیں کیا ایسا انسا ن خدا تعالیٰ کے انعامات کا وارث ہو سکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ فرما تا ہے کہ انسان انسان کو کیا دکھ دے سکتاہے۔فرعون بڑا مشہوراور چالاک بادشاہ تھا۔ اُس نے حضرت مو سیٰ کے مقابلہ کے لیے کچھ آدمی منتخب کئے۔ ان کی یہ حالت تھی کہ فرعون ان کو اپنا مصاحب اور درباری بنا نے کا و عدہ کر تا ہے اور ان کی یہی خواہش ہو تی ہے کہ ہمیں کچھ مل جا ئے۔ ان کے علم کی کمزوری اور ان کی جہا لت کی وجہ سے بادشاہ کے درباریوں میں شامل ہو جا نا کو ئی چیز نہیں دو چا ر روپے مل جائیں۔ ایسی جہالت میں پڑے ہو ئے لو گوں کے سینے خدا کے پیغام کے لئے کھل جا تے ہیں۔و ہی فرعون جس سے پیسے ما نگتے تھے وہ اب ڈراتا ہے دھمکاتا ہے کہ میں تمہارے ہا تھ پا ئو ں کاٹ دوں گا ۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر ہو ا کیا اِس کا نتیجہ موت ہی ہو گا نہ کہ کچھ اور ۔ہم خدا کے پا س ہی جا ئیں گے۔ کیا خو ب وہ جواب دیتے ہیں کہ تم اگر ہمیں ما ر دو گے تو ہمیں تو جنت مل جا ئے گی ۔جس مو ت سے تم ہمیں ڈراتے ہو وہ تو ہمارے لئے جنت کا دروازہ کھو لتی ہے۔ انسان کا عذاب کچھ عذاب نہیں ہو تا ۔ جس انسان سے انسان ڈرتا ہے ڈرنے والے کو کیا معلوم کہ اس کی کس وقت جان نکل جا ئے گی۔
ایک خداکے بزرگ تھے بادشاہ دہلی نے کہا کہ ہم سفر سے وا پس آکر تمہیں مروا ڈالیں گے۔وہ سفر سے جب واپس آنے کے قریب ہو ا تو بزرگ کے شاگردوں نے انہیں کہنا شروع کیا اب تو بادشاہ آتے ہیں کو ئی انتظام کر نا چا ہیے۔ اُنہوںنے کہا ہنوز دہلی دور است۔ پھر جب بادشاہ و ہاں سے چل پڑا تو پھر مریدوں نے کہا کہ حضور! اب تو بادشاہ وہاں سے روانہ ہو چکا ہے کوئی انتظام ہو نا چاہئے۔ انہوں نے کہا ہنوز دلی دُوراست ۔ پھر انہوں نے جب بادشاہ دو چار منزل آگیا عرض کیا کہ حضور! اب تو دو چار منزل آپہنچا۔ کہنے لگے ہنوز دلی دُور است ۔ جب ایک منزل پر پہنچا تو لو گو ں نے کہا حضور !اب تو ایک منزل پر پہنچ چکا حضور کو ئی انتظام فرمائیں۔مطلب یہ کہ امراء و غیرہ سے کہہ کر معا فی مانگ لیں ۔ انہوں نے پھر اپنے پہلے جواب کو ہی دُہرایا ہنوز دلی دور است ۔خد تعالیٰ نے بادشاہ کو ایسے عذاب میں گرفتا ر کیا کہ دلی میں داخل ہو نے سے پہلے بیما ر ہو ا اور ان کے دریافت حال سے پہلے پہلے مر گیا۔ جو انسان خد ا کے حضور میں اپنا معاملہ ڈال دیتا ہے اُس کو انسان بے چارہ کیا دکھ دے سکتا ہے۔
اور اگر منشا ء الٰہی یہی ہو کہ اسے کچھ مشقتیں اور مصیبتیں اُٹھانی پڑیں تو ان سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ۔دونوں بڑی بڑی رحمتوں اور انعامات کا سرچشمہ ہیں۔ ایک انسان جان بچانے کے لئے بھا گتا ہے اور اس بھا گنے میں اسے بڑی تکلیف اٹھا نی پڑتی ہے، پسینہ آجا تا ہے، ٹھوکریں کھا تا ہے ، بھو ک پیاس برداشت کرتا ہے ۔ ایک مکان میں آگ لگ جا ئے تو اُس وقت یہ کھڑکی سے کو د پڑتا ہے، جان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے ، آگ سے بچنے کے لئے کودنا اسے دوبھر معلوم نہیں ہو تا۔ جہا ں انعام ہو اس کے لئے مشقت برداشت کر نا کو ئی مشکل نہیں ۔ پس جو خدا تعالیٰ کے انعامات کا وارث بننا چا ہتا ہے تو اسے کسی کے دکھ دینے کا کیا فکر ہے چھوٹے سے چھوٹا عذاب مو من کے لئے مو ت ہے۔اگردشمن اسے جا نی یا ما لی تکلیف دیتے ہیں تو موت تک دیتے ہیں لیکن مو ت کے بعد پھر تو کو ئی عذاب نہیں۔
صحابہ موت کو معمولی سمجھتے تھے اور یہی ان کی ترقی کا راز تھا ۔ ایک دفعہ ایک شخص کا فروں میں سے نکلااور اس نے بہت سارے مسلمانوں کو شہید کیا۔ حضرت ضراربن ازدرجو مسلمانوں میں بہت بہادر تھے اور جن کا تا ریخ میں بہت ذکر آتا ہے اس کے مقابلے کے لئے نکلے اور تھوڑی دیر کے بعد یہ اس کے سامنے سے بھاگے ۔ مسلمانوں میں بھاگنا ہو تا ہی نہیں تھا سب مسلمان حیران کھڑے تھے کہ انہیں یہ کیا ہو گیاچنانچہ وہ اپنے خیمے میں گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد وا پس آئے تو باقی فوج کے آدمیو ں نے کہا آپ نے یہ کیسی بُزدلی دکھائی اور اسلام کے برخلاف کام کیا اور آپ ایک کافر کے سامنے سے بھا گے ؟ آپ نے کہا کہ میں اس لئے نہیں بھاگا تھا کہ مجھے جان کا خوف تھا بلکہ جب میں اس کافر کے مقابلہ پر نکلا تو جسم پر زِرہ تھی مجھے خیال ہوا کہ یہ زِرہ موت کے خوف سے ہے اگر موت اس زِرہ کے پہننے کے باوجود بھی آ جائے تو اچھی بات نہیں ۔ کیا خدا کو میں جا کر یہ کہو ں گا کہ الٰہی! میں تیری ملا قات کا شائق نہ تھا جو میں نے ایک کا فر کے مقابلہ میں زِرہ پہن لی تھی اِس لئے میں بھا گا کہ میں جلد جا کر زِرہ اُتار دوں اور پھر اس کا فر کا مقابلہ کروں تا اگر مارا جائوں تو خداکے حضور کہہ سکوں میں آپ کی ملاقات کا شائق تھا۔
اِسی طرح حضرت خالد ؓمو ت کے وقت رونے لگے ۔ کسی نے کہا آپ کیو ں روتے ہیں؟ فرمایا میں موت سے نہیں روتا بلکہ اس لیے روتا ہوں کہ میں ہمیشہ جنگ میں اس تمنا سے شامل ہو تا رہا کہ اگر یہاں مارا جائو ںتو شہادت کا رُتبہ پا ئوں لیکن افسوس کہ آج میں بستر پر جان دے رہا ہوں۔۲؎
الغرض مومن کے لئے موت سب سے چھوٹی تکلیف ہے جس کو لوگ سب سے بڑا سمجھتے ہیں ۔ موت تو اُس پردے کے چاک کرنے کا نام ہے جو بندے اورخداکے درمیان ہوتاہے۔ پس جب بڑی مشقت سب سے چھوٹی نکلی تو اور عذاب اور مشقیتں کیا چیز ہیں جس سے وہ ما یو س ہو جائیں ۔ذلیل کر نیوالے عذاب مومن پر نہیں آتے۔ اور جو دکھ اُسے پہنچائے جا تے ہیں وہ اس کے لئے کو ئی تکلیف کا باعث نہیں ہو تے ۔ حضرت ابرہیم ؑکو آگ میں ڈال دیا وہ ان کے لئے گلزار ہو گئی اور جلا نہ سکی۔ خیر وہ تو خدا کے نبی تھے اور سلسلہ کے آخری پیغمبر تھے جو کبھی قتل نہیں ہو تا لیکن اگر کو ئی اور خدا کا پیارا ہوتا اور وہ اس آگ میں جل بھی جا تا تو اس کے لئے وہ جل جا نا بھی گلزار تھا ۔ کا فر کو جو عذاب آتے ہیں وہ ما یو س کر نے والے ہو تے ہیں لیکن مومن کو کوئی ایسا عذاب نہیں آتا جو مایوس کر دینے والا ہو ۔
ہماری جماعت کے لیے یہ بڑی قابل غور بات ہے کہ کن مصائب سے ڈر کر وہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں کو تا ہی کرتے ہیں ۔ کیا کوئی قوم ایسی گزری ہے جس نے بغیر مشقتیں اور تکلیفیں اُٹھانے کے کوئی انعام حاصل کیا ہو؟ اگر ہو تی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی جما عت ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کو ئی انسان نہیں گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی خدا کا پیارا نہیں گزرا ۔اگر مصیبتوں سے بچ کر کوئی جماعت خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتی تو آپ کی جماعت ہی ہوتی۔لیکن برخلاف اِس کے یہ جماعت سب سے زیادہ تکلیفیں اُٹھا نے والی ہوئی ہے۔تو پھر کسی احمدی کے لئے یہ خیال کس طرح صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ بغیر کسی قسم کی محنت، مشقت برداشت کئے خدا تعالی تک پہنچ سکے۔مصائب اور مشقتوں کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی۔ جب تک انسان جان کو دکھوں میں نہ ڈالے اور تکلیفیں برداشت نہ کرے اس وقت تک اسے انعام نہیں مل سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی ملا قات اور رضا کوئی معمولی نہیں جو اس کے لئے انسان کو کو ئی مصیبت اور تکلیف برداشت نہ کرنی پڑے اور وہ یو نہی حا صل ہو جا ئے حالا نکہ وہ اُس وقت تک حاصل ہو ہی نہیں سکتی جب تک انسان طرح طرح کے دکھ اور مصائب برداشت نہ کرے۔اللہ تعالیٰ ہمارے بھائیوں کو اور ہمیں توفیق عطاء فرمائے کہ اس کی رضاء میں کسی قسم کی قربانی کرنے سے گھبرائیںنہیںاور اُس کی رضاء کے لئے ہر طرح کی محنت اور مشقت اختیا ر کر کے ہم اس کو پانے کے قابل ہو ں ۔‘‘ (اٰمِیْنَ یَا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ) (الفضل۶؍مئی ۱۹۱۶ئ)
۱؎ التوبۃ: ۸۱،۸۲
۲؎ اسد الغابۃ جلد۲ صفحہ۹۵ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ء
۱۴
باقاعدہ باجماعت نماز ادا کریں
(فرمودہ۵؍مئی۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعو ذاور سورۃ فا تحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
۱؎
اور فرما یا :۔
’’قرآن کریم کی دوسری سورۃ کے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے مو منوں کی کچھ نشانیا ں بتائی ہیں ۔ ان علامتوں میں سے جو مو منوں کی اللہ تعالیٰ نے بیا ن فر مائی ہیںایک علامت پر کچھ بیا ن کرنا چا ہتا ہوں۔یعنی وہ اقامتُ الصلٰوۃ کرتے ہیں یُصَلُّوْنَ نہیں فرمایا۔ فرمایا ہے۔قرآن کریم کا کو ئی لفظ لغو نہیں۔کو ئی لفظ قافیہ بندی کے لئے نہیں آتا۔ جب خود صلوٰۃ کے لفظ سے ہی یہ مضمون ادا ہو سکتاہے تو قرآن شریف جو اختصار کا سب سے زیادہ خیال رکھتا ہے اس نے کیو ں رکھا؟ یہ ایک سوال ہو تا ہے ایک ایسا شخص جس نے قرآن کریم پر غور نہ کیا ہو وہ بہت آسانی سے جو اب دے گا کہ آخر خدا نے کو ئی لفظ تو رکھنا ہی تھا یہی رکھ دیا لیکن وہ شخص جس نے قرآن کر یم پر غو ر کیا اور تدبر اور اِمعان سے اس کو دیکھا ہو وہ یہ نہیں کہہ سکتا۔ اُسے اقرار کرنا پڑے گاکہ اس لفظ کے رکھنے میں کوئی حکمت ہے ورنہ دو کیو ں رکھے ایک کیو ں نہ رکھ دیا۔ وہ حکمت یہ ہے کہ اس رکو ع میں اصولِ اعمال اور اصولِ عقائد کا بیان ہو رہا ہے اور ان میںاسلام کی تعلیم کا نقشہ کھینچ دیاگیا ہے۔محض یہ نہیں بتایا کہ نماز پڑھنی فرض ہے بلکہ اسلام کا خلاصہ بتایا کہ اسی چیز کا نام اسلام ہے۔جب فرداًفرداًکو ئی بات بیا ن کی جا تی ہے تو صرف ا س کے متعلق بیا ن کر دیا جا تا ہے لیکن جب اصولاً سب کا خلاصہ بیا ن کیا جا تا ہے تو ایسے لفظ رکھے جا تے ہیںجو تمام معنوں پر حا وی ہوں جس طرح زکوٰۃ کے لئے بیا ن ہو ااِس کے ہر حصے اور شعبے کو بیا ن کر دیا ۔ اِسی طرح نما ز کے لئے بھی بیان ہو ا ہے۔
اَقَامَ کے معنی ہو تے ہیںکہ کسی چیز کو اُس کی تمام شرائط سے پورا کر دینا ۔اقامت کے معنی کھڑا کرنا ہے۔اور کھڑا ہو نا چستی کی علامت ہے جس طرح بیٹھ جا نا سستی کی۔جس وقت عربی میں اَقَامَ الْاَمْرَ کہیں گے تو اِس کے یہ معنی ہو ں گے کہ اُس نے کام کی تمام شرائط پو ری کر دی ہیںتو چو نکہ یہاں خلاصہ بیا ن کر نا شروع کیا اِس لئے فرما یا نما ز کے لئے جس قدر احتیاط ہو سکتی ہے اُس سے کا م لیتے ہیں و ضو کرتے ہیں تو پو را کرتے ہیں، نما ز پڑھتے ہیںتو خشوع و خضو ع سے پڑھتے ہیں، رکوع اور سجود بڑے سکون سے کر تے ہیں ، ٹھہر ٹھہر کر اس کو ادا کرتے ہیں، جو باتیں خواہ قرآن نے اُنہیںبیا ن کیا ہو یا احادیث سے ثابت ہوںان تمام شرائط سے وہ نما ز کو ادا کرتے ہیںتب وہ جاکر متقی بنتے ہیں ۔اگر یوں ہی پڑھ لی جا تی ہے تو وہ مصلّی ہے اس لئے کے ماتحت ہم اُس کو یہ نہیں مان سکتے کہ وہ متقی ہے۔ اس تعریف کے ماتحت آکر جو بیا ن کی گئی ہے متقی ہو گیا ۔ پس ہر ایک مسلم کو چاہئے کہ وہ اپنی نماز کے متعلق دیکھے کہ وہ اقا مۃ الصلٰوۃ کرتاہے یا صرف نماز پڑھتا ہے کیو نکہ قرآن شریف متقی کی تعریف میں بتاتا ہے کہ وہ اقامۃ الصلٰوۃ کرتے ہیں ۔پس جو اقامۃ الصلٰوۃکر تے ہیںوہی متقی ہیں۔
اِس زمانے میں بہت سے لوگ ہیں جو اقامۃ الصلٰوۃ کا مقصد نہیں دیکھتے حا لا نکہ نماز کا مطلب تو یہ تھاکہ خداتعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہو۔ وہ غور کریں کہ وہ کون کونسی ایسی با تیں ہیںجو ہماری نماز کو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ بنا تی ہیں اقامۃ الصلٰوۃ یہی تو ہو تی ہے۔بہت ہیںجو ہماری جماعت میں سستی کر تے ہیںاور بہت ہیں جو مسجد میں نہیں آتے اور بہت ہیں جو وقتوں کے پا بند نہیں۔ اور با توں کا تو ہماری جما عت خدا کے فضل سے بہت خیال رکھتی ہے لیکن ابھی ایک سب سے بڑا نقص ان میں یہ ہے کہ مساجد میں نماز نہیں پڑھتے حا لانکہ یہ بھی شرائط اقامۃ الصلٰوۃ میں داخل ہے۔اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس قدر ضروری قرار دیا ہے کہ فرماتے ہیں کہ میرا دل چا ہتا ہے کہ جب صبح یا عشاء کے لیے جماعت کھڑی ہو تو میں کچھ آدمیوں کے سروں پر لکڑیوں کے گٹھے لے کر ان لوگوں کے گھر چلا جا ئوں جو جماعت میں حا ضر نہیں ہوتے۔ اور انہیں گھر کے گرد چن کر گھر کو آگ لگا دوں۔ ۲؎ آپ کیسے رحیم ،کریم ، نرم مزاج اور شفقت رکھنے والے انسان تھے لیکن جما عت کے چھو ڑنے پر اور پھر صبح اور عشاء کی جماعت چھوڑنے پر کہ ایک میں سونے کے وقت ہو نیکی وجہ سے نیند غلبہ کئے ہو ئے ہو تی ہے اور دو سری میں بھی نیندکا غلبہ ہوتا ہے اور انسان اس حا لت میں مجبور ہو تاہے کہ اس سے دیری ہو جا تی ہے یا جماعت جا تی رہتی ہے یہ سزا تجویز فرمائی ہے۔ لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ ان نمازوں (صبح و عشائ) کے لئے تا کید ہے لیکن میرے خیال میں تو آپ نے گویا فرما یا ہے کہ ان نما زوں کے جماعت سے نہ پڑھنے کے لئے اس قدر عذاب دینا ضروری معلوم ہو تا ہے حالانکہ انسان ان میں مجبور ہوتا ہے۔ تو ان نمازوں کے متعلق کس قدر ضروری اور سخت یہ حکم ہو ا جن میں یہ مجبوری نہیں ہو تی اور یہ تنگیا ں نہیں پا ئی جا تی۔ اِس لئے ان میں حاضر نہ ہو نے والا کس قدر سزا کا مستوجب ہے۔یہ نہیں فرمایا گھر کو آگ لگا دوں بلکہ فر مایا آدمیو ں سمیت جلا دوں۔ یہ کلام ایسے انسان کے منہ سے نکلنا جو کرم میں ، رحم میں ، شفقت اور محبت میں سب سے بڑھا ہو ا تھا بتاتا ہے کہ جماعت سے نماز سخت ضروری ہے۔ اور کسی بات کے متعلق آپ نے یہ حکم نہیں فرمایا صرف نماز کے وا سطے ہی یہ حکم دیا لیکن باوجود اس کے بہت لوگ ہیں جو گھروں میں ہی نماز پڑھ لیتے ہیں ۔
میںنے پیچھے کبھی بیان کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر کسی گائوں میں ایک ہی احمد ی ہو اور غیر احمدی اسے مسجد میں نما ز نہ پڑھنے دیتے ہو ں اِرد گرد نزدیک کو ئی اور احمدی نہ ہو تو وہ احمدی اپنے بیوی بچو ںکو جمع کر کے نماز اپنے گھر میں با جما عت پڑھ لیا کرے تا کہ عا دت قا ئم رہے کیو نکہ جب عادت نہ ہو تو انسان مو قع ملنے کے باوجود بھی پھر اس سے رہ جا تا ہے۔ بعض لو گو ں نے اس کا نتیجہ غلط نکال لیا اور سمجھا کہ جماعت میں جا نے کی ضرورت ہی نہیں گھر کے بال بچو ں اور بیو ی کو کھڑا کیا اور گھر میں ہی نماز پڑھ لی ۔ ابھی کل خط آیا ہے جس میں ایک شخص نے کہا تھا کہ میں نے جب لوگوں کو مسجد میں نماز کے لئے تاکید کی تو لو گوں نے کہا کہ تمہیں وہ تقریر یاد نہیں رہی جس میں حضرت صاحب نے حکم دیا ہے کہ گھر میں ایک کمرہ بنا لو اور اپنے بیوی بچوں سے مل کر باجماعت نماز پڑھ لیا کرو۔ حالانکہ اُس تقریر میںمیرا یہ مطلب نہ تھا میں نے تو کہا تھا کہ جہاں صرف ایک ہی احمدی ہو، اِرد گرد غیر احمدی ہی غیر احمدی ہو ں اور اسے مسجد میں نماز نہ پڑھنے دیتے ہوں تو جما عت کی پا بندی کے لئے وہ اپنے بیو ی بچوں کو سا تھ کھڑا کرکے جما عت کر لیا کرے ۔ میر ا ہر گز یہ منشاء نہیں کہ جہا ں مسجدیں ہو ں، پھر اپنی مسجدیں ہو ں یا جس جگہ میں ایک بھی اَور احمدی ہو تو وہاںبھی گھر میں ہی نما ز پڑھ لو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آنے کو ایسا ضروری قرار دیتے ہیں فرما تے ہیں کہ جو شخص مسجد میں نماز پڑھتا ہے اُسے تم مومن سمجھو۔ گویا مسجد میں آنا اُس کے ایمان کی علامت قرار دی ہے۔ پس ہما ری جماعت کو چاہئے کہ کوئی مسجد مقرر کر کے و ہاں جمع ہو ں اور جہاںکوئی مسجد نہ ہو و ہا ں کو ئی کمرہ کرایہ پر لے لیویں اور اِس طرح با جماعت نماز ادا کر یں ۔ ہا ں اگر بعض لوگوں کو اپنے دفاتر کے وقتوں اور رخصت نہ ملنے کی وجہ سے یا کو ئی اور ایسی ہی مجبوری ہو تو اوقاتِ دفاتر کے علاوہ با قی نمازوں کو جما عت کے ساتھ آکر پڑھا کریں۔اور بڑے بڑے شہروں مثلاً لاہور ہے یا امرتسر ہے یا دہلی ہے وہاں چو نکہ لو گ ایک دوسرے سے بہت دور دور ہیں تو وہاں یہ ہو سکتا ہے کہ محلے مقرر کرلیں۔اگر مسجد ہو تو بہت اچھاو گرنہ ایک کمرہ کرا یہ پر لے کر و ہاں اپنے اپنے محلہ میں پڑھ لیا کریں ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک ایک میل فا صلے پر کے گا ئوں میں مسجدیں بنی ہو ئی تھیں و ہاں ان میں لو گ پڑھ لیا کر تے تھے ۔ یہاں قاد یا ن میں تو بہت قریب قریب ہیں میری خواہش ہے کہ اگر یہ درمیان کے مکا نات مل جا ئیں تو بڑی اور چھوٹی مسجد کو ملا کر ایک کر دیا جا ئے۔ہاں با ہر کی مسجد منا سب مو قع پر ہے۔پس قریب کی مسجدوں میں جہاں پہنچ سکے پہنچے اور اگر انسان کو دفتر کی نو کری کی وجہ سے مجبوری ہے اور وہ نہیں آسکتا تو یہ الگ با ت ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ بغیر مجبوری کے کو تاہی نہ کرے۔ میرے نزدیک اس شخص کی نما ز جا ئز نہیں جس کے مکا ن تک اذان کی آواز جا تی ہے اور وہ جماعت کے لئے مسجد میں حاضر نہیں ہوتا۔
حضر ت انس بن ما لک ؓکی نسبت آتا ہے کہ وہ بہت بو ڑھے ہو گئے تھے پھر بھی وہ جما عت کے لئے پہلے ایک مسجد میں جا تے پھر دوسری میں ۔اسی طرح ہر ایک مسجد میں جا تے۔ اگر جماعتیں ہو چکی ہو تیں اور وقت نما ز بھی تنگ ہو نے کو ہو تا تو پھر اکیلے پڑ ھ لیتے۔ تو صحابہ کے عمل کو دیکھو اور ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو دیکھو ۔ آپؐ نے اِس بات پر بہت زور دیا ہے کہ مسجد میں جا کر جما عت سے نما ز پڑھا کر یں۔
یہ بھی غلط طریق ہے کہ گھر میںتکبیر کی آوازآجا تی ہے اس لئے وہیں اپنے مکا ن پر یا دکان کے چبو ترے پرنما ز پڑھ لی۔اگر ایسے ہی ہے تو سب اپنے اپنے گھر میں کھڑے ہو جا یا کریں ۔ امام آے اور اکیلا ہی مسجد میں نما ز پڑھا نی شروع کر دے ۔یہ بہت بُرا طریق ہے ۔ یہ لو گو ں کو غلطی لگی ہے۔ ایک صحابی نے چا ہا کہ اپنے مکا نات کو جو دُور ہیں فروخت کر دیں اور مسجد کے گرد جگہ لے کر مکان بنا لیں۔ تو آپ نے فرمایا ۔تم کو ئی قدم نہیں اُٹھاتے مگر اُس کے لئے ثواب ملتا ہے۔۳؎ اِس خیال پر ایک صحابی کا یہ طرزِ عمل تھا کہ وہ جہاںجا تے شہر کے پرلی طرف مسجد سے دُور مکان لیتے تا کہ مسجد تک آنے کا ثواب ملے۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب نہیں سمجھا مگر اس سے یہ پتہ لگتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس با ت پر اتنا زور دیتے تھے کہ بعض صحابہ نے دُور دُور مکا ن لینے شروع کر دیئے ۔
اِسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوںمیں آنے کا فرق بھی بتایا ہے۔پہلی صف کو دوسری پر ترجیح دی ہے۔اسی طر ح فرما یا ہے جو شخص جما عت کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جا تا ہے وہ اپنے پہلے قدم کے اُٹھانے سے گنا ہ مٹا تا ہے اور اُس کا دوسرا قدم درجہ بڑھا تا ہے۔ اِسی طرح پھر تیسرا گناہ مٹا تا ہے اور چوتھا درجہ بڑھا تا ہے۔اور پھر اسی طرح پھر ایک گنا ہ مٹا تا ہے اور دوسرا درجہ بڑھا تا ہے حتی کہ وہ مسجد میں پہنچ جا تا ہے۔ آپ نے مسجد میں آکر باجماعت نما ز اداکرنے کی بڑی بڑی فضیلتیں بیان کی ہیں۔۴؎
مسجد کی نماز معمولی چیز نہیں یہ ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ جو قومیں مسجدوں کو آباد نہیں کر تیں وہ بڑے بڑے مدارج حا صل نہیں کر تیں ۔ مسجد امیر غریب کا امتیاز مٹا تی ہے۔دونوں پہلوبہ پہلو کھڑے ہو تے ہیں۔ پھر کبھی غریب آگے ہو تا ہے اورامیرپیچھے توامیر کا سر غریب کے پائوں سے لگتا ہے، اِس طرح امیر کا تکبر ٹو ٹتا ہے۔ اور پھر مساجد میں مسلما نوں کو ایک دوسرے کی حالت دیکھ کر پتہ لگتا ہے کہ وہ کس حا لت میں ہیں ۔پھر جب کمزور جما عت کے ساتھ نما ز ادا کرتا ہے تو اَوروں کے ساتھ مل کر اس کی دعا بھی قبول ہو جا تی ہے تو اس مسئلے میں بڑے بڑے فوائد ہیں۔ اسلام کوئی ایسا حکم نہیں دیتا جو ہما ری تکلیف کا باعث ہو ۔ اگر وہ کو ئی حکم دیتا ہے تو وہ ہمارے فائدہ کا ہی دیتا ہے۔ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے فرما نبردار ہوں۔ یہ حق کا اقرار ہے اور صداقت کا بیا ن ہے اوراپنے آپ کو خالق و مالک کے قریب کر تا ہے ۔مساجد کا نام بھی بیت اللہ رکھا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو و ضو کر تا ہے اورخدا کے گھروں میں سے کسی گھر میں نما ز پڑھتا ہے اس کے لئے جنت واجب ہو جا تی ہے۔ عجیب عجیب طرح سے آپ نے جماعت اور مسجد کی جما عت کی فضیلت بیا ن کی ہے اس لئے یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
پس ہما ری جما عت کے لو گ محلے تقسیم کر سکتے ہیں۔ جدا جدا جگہ تقسیم کر سکتے ہیں اور وہ باقاعدہ باجماعت نماز ادا کریں سِوائے اِس کے کہ کوئی مجبوری ہو کیو نکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی کام مالا یطاق سپرد نہیں کیا جا تا۔
اللہ تعالیٰ ہما ری جما عت کو توفیق دے کہ وہ فضیلت جما عت اور مساجد کو سمجھیںاور اس پر عمل پیر ا ہو ں ۔‘‘(اَللّٰھُمَّ رَبَّنَااٰمِیْنَ) (الفضل ۱۳؍مئی۱۹۱۶ئ)
۱؎ البقرۃ: ۲ تا ۴
۲؎ بخاری کتاب الاذان باب وجوب صلوٰۃ الجماعۃ
۳؎ مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوٰۃ باب فضل کثرۃ الخُطا الی المساجد
۴؎ مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوٰۃ باب فضل الصلوٰۃ المکتوبۃ فی جماعۃ و فضل انتظار الصلوٰۃ (الخ)
۱۵
بدظنی ہلا کت کا باعث ہے
(فرمودہ۱۲؍مئی۱۹۱۶ئ)
تشہد ،تعوذاور سورۃ فا تحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :۔
’’بہت سے لوگ دنیا میں اس قسم کے پائے جا تے ہیں کہ اُن کی طبیعت شکر گزاری اور احسان کی شناخت کی طرف مائل نہیں ہو تی۔ جس قدر بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی مہر بانیا ں ہو ں یا بندوں کی طرف سے احسان ہوں اُن کی تسلی نہیں ہوتی وہ کبھی بھی اپنی حالت پر مطمئن نہیں رہتے۔ علاوہ اِس کے اِس قسم کی طبیعت کا انسان نا شکری اور احسان فراموشی کا مرتکب ہو تا ہے ایسے انسان کو کبھی اپنے نفس کے اندر سُکھ معلوم نہیں ہو تاجلن ہی لگی رہتی ہے اور ہر وقت اس کے لئے تکلیف اور دُکھ کے دروازے ہی کھلے رہتے ہیں۔ کیسے ہی اعلیٰ درجہ پر پہنچ جا ئے وہ دکھ میں ہی ہوتا ہے اور یہ عذاب اُس کی اپنی جان پر ہی ہو تا ہے۔ اگر واقع میں بھی کوئی اسے دکھ دینے والا نہیں ہے، اگر اس کے حقوق کی حق تلفی کرنے والی کوئی جماعت نہیںہے توبھی وہ آرام میں نہیں ہے اور خواہ مخواہ دکھ میں ہے اِس قسم کی طبائع کبھی خوش نہیں ہو سکتیں۔بہت مال دار جن کے پاس کروڑوں روپے ہیں ایسے نکلیں گے کہ وہ بادشا ہو ں کی تنخواہیں دے سکتے لیکن ان میں سے بہت ایسے ہوں گے کہ اگر ان سے پو چھوکہ تم مطمئن ہو؟ تو وہ کہیں گے کہ ابھی ہمارا فلاں کام رُکا پڑاہے ، فلانہ ٹھیکہ پورا ہو جائے تو مطمئن ہو جائیں ۔وہ تمام ما ل اور دولت جو بنکوں میں جمع ہے اس کے کسی مصرف کا نہیں بلکہ وہ دکھ میں ہے لیکن یہ دکھ اس کا خود پیدا کردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہو ا مال کے لحاظ سے اَوروں پر فضیلت ہے لیکن اس کا دل ’’ابھی اَور‘‘ کی خواہش میں ہے۔غرض بہت سے لوگ جنت میں ہو کر اپنے آپ کو دوزخ میں ڈالتے ہیں ، آرام میں ہو کر مصیبت میں پڑے ہو ئے ہیں، سُکھوں میں ہو کر دُکھوں میں ہیں۔ میرا اِس سے یہ مطلب نہیں کہ ہر انسان جس جگہ پر ہے اُس سے آگے ترقی نہ کرے۔ اسلام تو کہتا ہے ہر وقت آگے بڑھو۔ میرا مطلب یہ ہے کہ جو ترقی بھی وہ کرتے ہیں اُس میں اُنہیں سُکھ نہیں ہو تا ،کڑھنا ہوتاہے اور یہ کہ ہم ترقی کر یں ،آگے بڑھیں یہ تو مبارک ہے لیکن یہ کہ اپنے آپ کو دُکھی سمجھنا اِسے میں بُرا قرار دیتا ہوں۔ ایک انسان جو اپنی موجودہ حالت پر خوش ہے وہ خیال کر تا ہے کہ اُس پر اللہ تعالیٰ کابڑا احسان ہے یا دنیا والوں میںسے کسی کے احسان سے خو ش ہے اور اس خوشی میں اَور کو شش کرتا ہے اَور آگے بڑھنے کے لئے تیاری کر تا ہے تو وہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن جو اپنی حا لت کو دکھ ہی سمجھتا ہے وہ کبھی آرام میں نہیںہو تا اور احسان فراموشی کے لحاظ سے خواہ خدا کا ہو یا انسانوں کا یہ شخص عذاب کا مستحق ہے۔ ایک لوگوں کا مال چھین لینے والے انسان سے تعلق رکھنے والا انسان کبھی خوش نہیں ہو سکتا لیکن ایک مومن مسلمان کا معاملہ تو ایسے خداکے ساتھ ہے جو ربُّ العٰلمین ہے۔ انسان تو انسان چھوٹے سے چھوٹے کیڑوںکے ساتھ اس کا معاملہ ایسا ہے کہ حمد ہی حمد اُس کی طرف منسوب ہو تی ہے۔ انسان جب ایک گھوڑے یا گدھے کے ساتھ خداکے معاملے پر غور کرتا ہے تو اسے معلوم ہو تا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی ،ذلیل سے ذلیل، حقیر سے حقیر چیز خدا کی شفقت اور احسان کے نیچے ہے۔ اکثر انسانوں کی حرص کو دیکھ کر مجھے خیال پیدا ہو تاہے کہ یہ جو غلہ پیدا ہوتاہے اگر سب کا سب غلہ ہی پیدا ہو تاتو انسان تمام کو اپنے گھرمیں ڈال لیتا اور بیل کو چرنے کے لئے جنگل میں ہانک دیتا اور اس کو ذرا بھی نہ دیتا لیکن اسے توربُّ العٰلمین نے پیدا کیا تھا ، انسان کیلئے دانہ اور جانوروں کے لئے توڑی نکال دی۔اب اگر انسان اسے محروم کر نا چاہے بھی تو اسے محروم نہیں کر سکتا بہر حال اسے دینا ہی پڑے گا ، ہر چیز میں یہی حال ہے۔ چیونٹی کو کیسا علم عطا کیا ہے۔ کیسا تمدن دیا ہے بے نظیر تمدن ہے۔ انسان میں بھی وہ نہیں پایا جاتا۔یہ اس میں فطرتی ہے اور انسان کے اپنے اختیار میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تمدن کے لئے چیونٹی قابل ستائش نہیں لیکن خدا تعالیٰ کی ربو بیت کا پتہ چلتاہے۔ اگر ایک چیونٹی کو ایک دانہ ملتا ہے تو وہ خود نہیں کھا ئے گی قوم کے خزانے میں داخل کر دے گی وہاں سے پھر جب کھا ئے گی تو سب اکٹھی کھائیں گی پھر خواہ کوئی زیادہ کھائے یا کم۔ اور لانے کے لئے یہ نہیں کہیںگی کہ فلاں زیادہ لائی ہے اور فلاں کم ۔ کیونکہ ہر ایک نے دیانت سے کام کیا اس لئے ہر ایک کا حق ہے جتنا کھا سکے کھائے یہی تمدن ہے جس نے انہیں بچایا ہوا ہے ۔کیو نکہ وہ بہت کمزور جا نور ہے۔بہت سے کیڑے تمدن سے قائم ہیں ان میں انسانوںکی طرح ایک مد نیت ہے اوروہ ان میں فطرتاً پیدا کی گئی ہے۔شہد کی مکھیوں اور بھڑوں میں اور بہت سے جا نور اِسی قسم کے ہیں کہ ان میں اور اور ذرائع مقرر ہیں ۔مگر ہر ایک کی پرورش کے لئے سلسلہ اور انتظام پیدا کیا ہے۔ غرض حقیر حقیر چیزوں کو دیکھ کر منہ سے نکلتا ہے۔ حقیر سے حقیر چیز کو اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان کے نیچے لیا ہو ا ہے۔ایسے خدا پر ایمان لانے والا کب خیال کر سکتا ہے کہ میر ے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے کیو نکہ وہ ہر حا لت میں یقین ر کھتا ہے کہ میرے ساتھ بہت اچھا معاملہ ہو رہا ہے۔ باقی رہیں یہ خواہشیں کہ میں اَور ترقی کروں یہ جہنم نہیں ہو تیں یہ خو شی کا موجب ہی ہو تی ہیں اور راحت ہی ہوتی ہیں ،جہنم سے انسان کی کو ئی راحت نہیں رہتی۔ایک بادشاہ کے رات اور دن جب وہ اپنی حالت پر مطمئن نہیں ہو تاانگاروں پر کٹتے ہیں لیکن ایک فقیر جس کے بدن پر کپڑا نہیں ہے وہ جب اپنی حالت پر مطمئن ہو تاہے تو وہ بادشاہ ہرگز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔جنت اور دوزخ انسان کے اپنے ہا تھ میں ہے اور اپنے ہا تھ سے انسان ان دونوں کے دروازے کھو لتا ہے۔خود دوزخ کا دروازہ اپنے اوپر کھو لتا ہے اور پھر چیخ وپکار کرتا ہے۔تم خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور حکمتوں پر غور کرو اور غور کرو کہ تمہیں تمام جہان کی مخلوق سے اعلیٰ بنا یا ہے تو پھر تم کبھی نہیں کڑھ سکتے اور تمہا ری زندگی خوشی کی زندگی ہو سکتی ہے۔ یہ دوزخ تمہاری اپنی پیدا کردہ دوزخ ہے اور جنت بھی تمہاری اپنی پیدا کردہ۔ حدیث میں آتا ہے ہر انسان جو پیدا ہو تا ہے اس کے لئے جنت میںبھی اور دوزخ میں بھی محل بنا ہو ا ہو تا ہے۔ اس حدیث کا یہی مطلب ہے۔ دونوں محل مو جو د ہیں تیار کر کے بتا دیئے ہیں ۔اگر وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ طا قتوں سے کا م نہ لے کر اللہ تعالیٰ پر بد ظنی کر کے دنیا میں زندگی بسر کر تا ہے تو وہ ہلاکت اور کفر کی زندگی ہے اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کو دیکھتا اور ان کی قدر کر تا ہے تو اس کے لئے وہی جنت ہے ۔ نفس کے اندر جو خوشی پیدا ہوتی ہے بیرونی خو شی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگر اس کو آگ میںبھی ڈال دیا جا ئے تووہ آگ بھی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔
بعض دفعہ بیماریا ں بھی خو شی کا موجب ہو جا تی ہیں ۔ ایک عورت کو ایک بیما ری تھی ۔ ایک دن حضرت خلیفہ اوّل کے پاس آئی،بہت ہنسی۔ پو چھا کیو ں ہنستی ہو ؟کہنے لگی میر ا بیٹا مر گیا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد پھر آئی اور پھراسی طرح ہنسنا شروع کیا۔ پھر پو چھا تو کہا کہ میر ا دوسرا بیٹا بھی مر گیا۔ گو اسے ایک بیما ری تھی مگر اس کے لیے راحت ہو گئی ۔ جو ہو نا تھا وہ تو ہو چکا تھا اب اگر وہ رنج محسوس کرتی تو اسے اور تکلیف ہو تی ۔ تو اللہ تعالیٰ کے بندو ں میں ایسی مثا لیں پا ئی جاتی ہیں اسی لئے تو فرما یا ۱؎ ان کو خیال ہو تا ہے کہ ہم نے ایسی ہستی کے ہاتھ میں اپنے آپ کو سپرد کیا ہو ا ہے جو ظالم نہیں۔ دیکھو اگر مسافر جا رہے ہوں اور انہیں ایک راستہ جا ننے والا راستہ بتانے کے لئے مل جائے تو وہ مطمئن ہو جا تے ہیں ۔ یہ تو انسانوں کا حال ہے تو۔۔ کے سپرد جو اپنا معاملہ کر دے اُس کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے اس کو خواہ کس قدر بھی تکالیف آویں تو وہ پرواہ نہیں کرتا ۔کیونکہ وہ خیال کر تا ہے میرا رہنما مجھے ہر حالت میں جنت کی طرف لے جا رہا ہے۔ بہت لو گ ہیں کہ انہوں نے اپنے نفس پر غو ر نہیں کیا۔ ان طاقتوں پر غور کرتے جو خدا نے ان میں پیدا کی ہیں ۔وہ ان احسانات پر غور کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کئے تھے تو اس عذاب میں نہ پڑتے ۔بہت لوگ ہیں جو لکھتے ہیں ہم ہلا ک ہو گئے تباہ ہو گئے ۔کیو ں ہوئے ؟ جب خد ا نے تمہا رے اپنے نفس کے اندر جنت رکھی تھی کہ تم بغیر آنکھیں کھو لنے اور ہا تھ پا ئو ں ہلانے کے اس جنت کو کھول سکتے تھے۔ تکا لیف جو آتی ہیں وہ انسان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں ۔وہ خیال کر سکتا ہے کہ یہ مجھے جگانے کے لئے آتی ہیں۔ مثلاً ایک پہاڑ پر چلتے ہوئے ایک شخص سو جا تاہے اور اس کو اس کا رہبر جگا دیتا ہے تو بے شک اس جگانے سے اسے تکلیف ہو ئی لیکن یہ اسے متنبہ کیا گیا کہ ہو شیا ر ہو جائو ۔خدا تعالیٰ کی طرف سے جو بھی تکلیف آتی ہے وہ بھی ہو شیا ر کرنے کے لئے آتی ہے اور اس سے بتایا جا تا ہے کہ تم اپنے اوپر جنت کے دروازے بند کر نے لگے تھے ہوشیا ر ہو جائو۔ غرض جو لوگ شکایت کرتے ہیں ان کی اپنی غلطی ہے۔ جنت تو ہمارے نفس کے اندر ہے وہ بڑھتی ہے تو اتنی بڑھتی ہے کہ قبر میں بھی سا تھ جا تی ہے،محشر میں بھی ساتھ ہو گی اور پھر استقبال کو بھی آئے گی مگر وہ خدا تعالیٰ پر یقین کرنے سے حاصل ہو تی ہے۔ بہت انسان بد ظنی کرکے اپنے آپ کو ہلاک کر تے ہیں ۔ خدا تعالیٰ پا ک ہے انسان کو اس نے اعلیٰ درجہ کی مخلوق پیدا کیا ہے۔ حقیر سے حقیر چیز کی اتنی ربو بیت ہے تو انسان کی کیوں نہ ہو ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور دوسرے بھا ئیوں کو تو فیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھیں اور اِس دنیا سے اصل جنت کو حا صل کریں ۔‘‘ (اَللّٰھُمَّ رَبَّنَااٰمِیْنَ) (الفضل ۱۶؍مئی۱۹۱۶ئ)
۱؎ البقرہ: ۳۹
۱۶
جما عت کی برکا ت
(فرمودہ ۲۶مئی۱۹۱۶ئ)
(’’مجھے افسو س ہے کہ پچھلا خطبہ جمعہ قلم بند نہ کیا جا سکا جو نہایت اہم نصائح پر مبنی تھا اور جس میں حضور نے جما عت کو بتلایا تھا کہ جب تک اس کے تمام افراد کام میں نہ لگ جا ئیں گے اور تمام ان ذرائع سے کا م نہ لیں گے جو کسی مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہو تے ہیں اُس وقت تک کا میا بی نہیں ہو سکتی ۔ پھر اسی سلسلہ میں جماعت قادیان کو بِالخصوص نصیحت فرما ئی کہ وہ ایثار اور کام میں انہما ک کا نیک نمو نہ دکھائیں ۔یہا ں اور قرب و جوار کے لوگو ں سے تعلقاتِ محبت قائم کر یں، انہیں اپنے کا موں اور تجویزوںمیں شریک کر کے رشتۂ اتحاد مضبوط کریں ۔بہر حال یہ خطبہ بھی اِسی پچھلے خطبہ کے سلسلے میں ہے۔(ایڈیٹر )
تشہد،تعوذاور سورۃ فا تحہ کی تلاوت کے بعد فرما یا:۔
’’بہت لو گو ں نے مختلف مو اقع پر ہجوم دیکھے ہوں گے۔ ہر علا قہ میں قریباًمیلے ہو تے ہیں جہاں لوگ جمع ہو تے ہیں ۔مسلمانوں کے لئے تو ہر جمعہ کو ہجو م ہو تا ہے پھر ہر سال میں عیدین کے مو قع پر تمام اِرد گرد کے لوگ بھی اکٹھے ہو تے ہیں ۔ غرض ہر علاقہ اور ہر ملک کے لو گوں میں مختلف طر ز پر کہیں مذہبی رنگ میں اور کہیں دنیاوی ر نگ میں اجتما عِ مخلوق ہو تا ہے۔ ایسے مو قع پر جب کبھی جگہ تنگ ہو تی ہے تو یہ بات پیدا ہو جا تی ہے کہ لوگ اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ لگ جاتے ہیں کہ گویا ایک دیوار بنی ہو ئی ہے ۔ پھر جب وہ ہجوم کسی طرف چلتا ہے تو تمام لوگ آپس میں ایسے چپکے ہو تے ہیں کہ ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے اور تمام چھوٹے بڑے، کمزور طاقتور سب آگے ہی آگے بڑھے جاتے ہیں چونکہ ہر ایک انسان اس ہجوم میں پھنسا ہو ا ہوتا ہے اس لئے وہ چلنے سے رُک نہیں سکتا۔ اِسی طرح دنیا میں خدا تعالیٰ نے مختلف طبائع اور مختلف مذاق کے انسانوں کا ایک بہت بڑا ہجو م پیدا کیا ہے جس طرح ان ہجوم کے موقع پر انسان ایک دوسرے کے ساتھ چپک جا تے ہیں اور الگ نہیں ہو سکتے اِسی طرح دنیا کے ہجوم میں بھی جب کوئی انسان خواہ کمزور اور ناتوا ںہی کیو ں نہ ہو چلنے والی جماعت کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کر لیتا ہے تو اُس کا قدم آگے ہی آگے پڑتا ہے۔ اس طرح پھنسا ہو اانسان کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا بلکہ اپنی طا قت کے ساتھ نہ سہی دوسروں کے سہارے ہی آگے نکل جا تا ہے۔تو ایک علیحدہ رہنے والے انسان میںاور جو جماعت سے وابستہ ہو تاہے اُس میں یہ فرق ہے۔ علیحدہ رہنے والا انسان جس بات کی کو شش کر تا ہے اس کی کو شش اکثر دفعہ ناکا م رہتی ہے اور بہت دفعہ وہ تھک کر بیٹھ جا تا ہے۔مگر وہ شخص جو جماعت سے وابستہ ہو تا ہے اگر وہ تھک جا ئے اور بیٹھنا بھی چاہے تو بھی نہیں بیٹھ سکتاکیو نکہ وہ جماعت کی رَو میں اِس طرح بہہ رہا ہو تا ہے کہ وہ اسے آگے ہی آگے لئے جا تی ہے اور بیٹھنے نہیں دیتی اور یہی حال دین میں بھی ہو تا ہے اور یہی دنیا میں۔
وہ قومیں جو محنت اور مشقت کی عادی ہو تی ہیں ان میں بڑے سست اور کا ہل لوگ بھی ہوتے ہیںمگر وہ اِس بات کے لئے مجبو ر ہو جاتے ہیں کہ محنت کرنے والوں کے ساتھ خود بھی محنت کریں۔ دیکھو یورپ میں تجارت اور مال کی کثرت کی وجہ سے نیز اِس لئے کہ اکثراشیاء دیگر مما لک سے جا تی ہیں ہر ایک چیز گراں ہوتی ہے وہا ں چو نکہ محنت عام لوگوں میں پھیلی ہوئی ہے اس لئے سست طبائع کو بھی کر نی پڑتی ہے۔ کیوں؟ اِس لئے کہ محنتی لوگوں کی کثرت سے وہاں مال بہت زیادہ ہو گیا ہے اور جب مال زیادہ ہوگیا ہے تو ضرور ہے کہ اشیاء کی گرانی ہو۔ اس گرانی کی وجہ سے ایک سست کو بھی اپنی روٹی کمانے کے لئے ہمارے ہندوستان کے محنتیوں سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ وہاں ۱۲،۱۵ گھنٹے مزدوری کر تے ہیں تو کہیںجا کر پیٹ بھرنے کے لئے روٹی کے پیسے کما تے ہیں اور یہاں چار پا نچ گھنٹہ کا م کرنے سے روٹی میسر آسکتی ہے۔ وہا ں گو مزدوری یہاں کی نسبت زیادہ ملتی ہے مگر اشیاء کی گرانی کی وجہ سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اس لئے سست بھی محنت کر نے کے لئے مجبور ہو جا تے ہیں ۔ گویا عام لوگوں کی محنت کرنے کی رَو میں وہ آگئے ہیںاور پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔ وہ لو گ جو دریائو ں کے پا س رہتے ہیںیا جن کے پاس نہریں اور نالے گزرتے ہیںانہوں نے دیکھا ہو گا کہ کبھی پا نی میں بھنور پڑتاہے اس بھنور میں جو چیز پڑجائے پھر وہ نکل نہیں سکتی اسی طرح عوام کی رَو میں جو انسان آجا تاہے وہ بھی نکل نہیں سکتا اور ایک کمزوراور نا تواں انسان کے آگے بڑھنے اور تر قی کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو طا قتور اور مضبوط چیزوں سے باندھ لے جب وہ آگے چیزیں جا ئیں گی تو وہ بھی آگے ہی آگے جائے گا ۔ دنیا میں چونکہ جماعت سے بڑھ کر اور کو ئی طاقت نہیں ہے اس لیے ترقی کرنے کاسب سے بہتر طریق یہی ہے کہ انسان جماعت سے اپنے آپ کو وابستہ کر لے اس سے سست بھی آگے بڑھنا شروع کر دیتے ہیں ۔گویا جما عت کے لوگ اس کے لئے سہارا ہو جاتے ہیں۔جما عت کے انتظام سے دانائوںنے ایسے ایسے فائدے اُٹھائے ہیں کہ دیکھ کرحیرت آجاتی ہے۔
نپولین ایک بادشاہ گزراہے اس کی نسبت مؤرخوں نے ایک عجیب واقعہ لکھا ہے وہ فرانس کا بادشاہ تھا ۔ اس نے روس پر حملہ کیا ۔روسیوں نے یہ طریق اختیار کیا کہ اپنے گائوں اور شہروں کو جلاتے جا تے اور آگے آگے نکلتے جا تے چونکہ روس کا ملک بہت وسیع ہے اوراس کا شمالی حصہ ایسا خطرناک ہے کہ اگر کوئی واقف کا ر نہ ہو تو برف کی وجہ سے انسان ہلاک ہو جا تے ہیں اِس لئے وہاں تک پہنچ کر نپولین کی بہت سی فوج تباہ ہو گئی ۔ اُس وقت روسیوں نے نپولین کی فوج پر حملے شروع کر دیئے اور اسے بہت تنگ کیا حتی کہ وہ واپس ہونے پر مجبور ہو گئی اور اسے بہت جلدی واپس آنا پڑا ۔ راستہ میں ایک جگہ ایسی تنگ ہو ئی کہ بیٹھنے تک کے لئے جگہ نہ میسر ہو سکتی کیونکہ تمام اِردگرد دلدل تھی ۔اگر زمین پر بیٹھیں تو کپڑے اور ہتھیار کیچڑ سے بھر جا تے تھے اور اگر نہ بیٹھیں تو اتنے تھک گئے تھے کہ چلنے کی طاقت نہ تھی اُس وقت نپولین نے یہ تجویز کی کہ وہاں ایک کرسی تھی اس پر ایک شخص کو بیٹھا دیا ،دوسرے کو اُس کے گھٹنوں پر،تیسرے کو دوسرے کے گھٹنے پرحتی کہ اِس طرح ایک و سیع حلقہ میں لو گوں کو بٹھا دیا ، آخری آدمی کے گھٹنوں پر اُس پہلے شخص کو بٹھا کرکرسی نیچے سے نکال لی اور اُس پر خود بیٹھ گیا۔ اِس طرح تمام فوج نے آرام بھی کر لیا اور سامان بھی خراب نہ ہو ا۔ تو جماعت کے ساتھ وابستہ ہونے میں بہت سی خوبیاں ہو تی ہیں اور بعض تو ایسے فوائد پہنچتے ہیں جن کا پتہ بھی نہیں لگتا کہ یہ بھی کوئی بو جھ تھا جو ہلکا ہو گیا ہے لیکن اگر اس کا م کو فرداً فر داًکرنے لگو تو بہت مشکل پیش آجا تی ہے۔ دنیا میں انسان کے لئے جتنی ضروریاتِ زندگی ہیں اُن کو اگر ایک انسان فرداً فرداً مہیا کرنے لگے تو کس قدر مشکل کا سامنا ہو مگر تمام دنیا کے اجتماع نے ان کا مہیا ہو نا بہت آسان کر دیا ہے۔
ہم نے بچپن میںسکول میں ایک قصہ پڑھا تھا کہ کس طرح مل کرکام کر نے میں بظاہر پتہ بھی نہیں لگتا اور کا م بھی ہو جا تا ہے۔ وہ قصہ والا لکھتا ہے کہ ایک شخص نے اپنے بھتیجے کو کہا کہ کل تمہیں ہم ایک ایسا لڈو دیں گے جو ایک لا کھ آدمیوں نے بنا یا ہو گا اِس بات کو سن کر وہ بہت خو ش ہوا۔ دوسرے دن اِس امید پر کھا نا بھی نہ کھا یا کہ اتنے آدمیو ں کا بنا یا ہو اجو لڈو ہو گا وہ بہت بڑا اور نہا یت عمدہ ہو گااِس لئے اُسی کو کھا ئوں گا ۔ دوسرے دن جب اُس کے سامنے لڈو رکھا گیا تو وہ وہی تھا جو بازار میں بِکتا تھا ۔اس نے کہا کہ آپ تو کہتے تھے کہ ایسا لڈو دیں گے جو لاکھ آدمی نے بنا یا ہو گا اور یہ ایسا ہے کہ ایک انسان بھی ایسے کئی لڈو دن میں بنا سکتا ہے۔ اس نے بتانا شروع کیا کہ دیکھو اِس میں کون کون سی چیزیں پڑی ہیں،پھر ان کے مہیا کرنے میں کتنے آدمیوں کی محنت صَرف ہو ئی ہے، اِس طرح اُس نے بہت سے انسان گنادیئے ۔ واقعہ میں بات بھی ٹھیک ہے اگر فرداً فر داًہر ایک انسان لڈو بنانے کی کوشش کرے تو اسے پتہ لگ جا ئے کہ کس قدر اس کے لئے محنت کی ضرورت ہو تی ہے۔ یو ں تو ایک بہت معمولی چیز سمجھی جا تی ہے اور پیسے کے دو دو خرید لئے جا تے ہیں لیکن اس کا ساراکام خود کرے تو اسے پتہ لگے کہ یہ ایسا مشکل کام ہے کہ حکومتوںکا فتح کرنا بھی ایسا نہیں۔
اِسی طرح روٹی کو دیکھ لو اب تو بازار سے آٹا خرید لیا جا تا ہے اور پکا کر کھا لی جا تی ہے لیکن اگرایک انسان اس کے تمام اسباب کو خود تیا ر کرے اور پھر غلہ جمع کرے تو ممکن ہے اُس کی تمام عمر ختم ہو جائے اور وہ روٹی تیا ر نہ کر سکے۔ اب جس قدر آسانیاں ہیںیہ اِسی اجتماعی قوت کا نتیجہ ہیں جو دنیا میں کام کر رہی ہے۔پس جب کوئی شخص جماعت میں شامل ہو جا تا ہے تو وہ ایک تو یہ کہ اگر وہ سست ہو تو وہ بھی محنت اور مشقت کرنے لگ جا تا ہے دوسرے جو کام اس کے لئے ناممکن ہو تا ہے وہ بھی ممکن ہو جا تا ہے اور ایسے کام جس کو انسان اگر ساری عمر بھی لگا رہے تو نہیں کر سکتا تقسیم عمل میں آکر اس آسانی سے کر لیتا ہے کہ اسے کسی قسم کا دکھ محسوس ہی نہیں ہو تا مگر بہت انسان ایسے ہیں جو سو چتے نہیں اور اس بات کی فکر نہیں کرتے۔
حضرت مظہر جان جاناں کی نسبت لکھا ہے کہ کوئی شخص ان کے پاس تحفہ کے طور پر کچھ لڈو لایاانہوں نے ان میں سے دو اُٹھا کر اپنے ایک مرید کو دیئے اس نے کھا لئے۔ جب وہ شخص چلا گیا تو وہ اس سے پوچھنے لگے کہ وہ لڈو کہا ں ہیں؟ اس نے کہا کہ میںنے تو کھالئے ۔ فرما یا کیا دونوں کھا لئے؟ اس نے کہا ہاں دونوں کھا لئے آپ باربار یہی سوال کرتے وہ بار بار یہی جواب دیتا ۔ آخر اس نے کہا کہ کیا لڈو کھا نے کی کو ئی اور ترکیب تھی جو آپ مجھ سے باربار یہی سوال پو چھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ۔ ہاں۔اس نے کہا کہ مجھے بتائی جاوے ۔ فرمایا ۔ کسی دن بتائیں گے ۔ایک دن پھر جو کوئی شخص لڈو لایا تو آپ نے ان میں سے ایک اٹھا کر کہا کہ آئو تمہیںبتائوں کس طرح لڈو کھا نا چا ہئے۔ لڈو لے کر انہوں نے اپنے آگے رکھ لیااور اس سے ایک ذرا سا لے کرخدا کی حمد اور تقدیس بیا ن کرنا شروع کر دی کہ خدا نے مظہر جان جاناں کے لئے اِس کو اتنے آدمیو ں کے ذریعہ بنا یا ہے۔ سب انسانوں کو گنتے اور خدا کا شکر بجا لاکر بہت چھوٹا سا ٹکڑا منہ میں ڈالتے اِسی طرح کرتے کرتے ظہر سے عصر کی نماز کے لئے اذان ہو گئی ۔ آپ اُٹھ کر نما ز پڑھنے چلے گئے اور لڈو وہیں پڑا رہا۔ اِس سے انہوں نے یہ بتایا ہے کہ انسان ہر وقت کھا تا پیتا ہے مگر اسکا دل کبھی شکر گزار ہو کر خداتعالیٰ کے حضور نہیں گرتا۔ گو انسان کے لئے ہر روٹی کا لقمہ اور ہر پانی کا گھونٹ اللہ تعالیٰ کی آیت ہے جس کا اُسے شکر گزار ہو نا چاہئے لیکن وہ گلاس پر گلاس پیتا اور روٹی پر روٹی کھا تا ہے مگر خیال بھی نہیں کرتاکہ خدانے اُس پر کس قدر فضل اور رحم کیا ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سب انتظام کھا نے پینے کا اُسے خود نہیں کرتا پڑتا ۔ اگر وہ خود کرتا تو پانی کا ایک گھونٹ اور روٹی کا ایک لقمہ بھی اس سے تیار نہ ہو سکتا ۔غرض جماعت کے کاموں اور تقسیم عمل میں بڑی بڑی برکات ہو تی ہیں۔
پیچھے خطبہ جمعہ میں میں نے بتایا تھا کہ کامیابی کے لئے اُن راہوںکو اختیا ر کرنا ضروری ہے جو خدا تعالیٰ نے انسانوں کی کامیابی اور ترقی کے لئے مقرر فرمائی ہیں اوران کے اختیار کئے بغیر کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کوئی انسان ہاتھ پر روٹی رکھے رہنے کی وجہ سے کبھی سیر نہیں ہو سکتا اور پانی کا گلاس پکڑے رکھنے سے اس کی پیاس نہیںبجھ سکتی تا وقتیکہ اس کے منہ میں نہ پڑے ۔ جب چھوٹی چھوٹی باتوںکا یہ حال ہے تو جو بڑی باتیں ہیں یعنی دین کی اشاعت اور صداقت کا پھیلانا اس کے لئے تقسیم عمل کی کیوں ضرورت نہیں ہے۔ ایک قوم کا بڑھا کر اوپر لے جانا اور مردنی چھا ئی ہو ئی قوم میں زندگی کی روح پھونکنا کو ئی چھوٹا سا کام نہیں ہے اس کے لئے ایک جماعت کی کو شش ،سعی اور محنت درکار ہے۔
دیکھو خداتعالیٰ کی طرف سے جس قدر نبی دنیا میں آتے ہیں وہ آکر ایک جماعت تیا ر کرتے ہیں اور ایسی جماعت کا تیا رکرنا نبی کی صداقت کی دلیل ہے اور یہ جماعت آہستہ آہستہ بنتی ہے۔ ایسا نہیں ہو تا کہ جب کوئی نبی آیا ہو تو سب نے اٰمَنَّا و صَدَّقْنَا کہہ دیا ہو آہستہ آہستہ جماعت بنتی ہے۔ اگر نبی کی جماعت نہ ہو توتبلیغ کا کام نہیں پھیل سکتا ۔ دیکھو ساری دنیا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو نہیں پہنچے آپ کے صحابہ ؓہی نے اشاعت اسلام کی ہے اگر وہ لوگ اُس وقت یہ کہتے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی کام ہے ہم کیو ں کریں تو کبھی اسلام اِس طرح نہ پھیلتا اور نہ وہ اس طرح کامیاب ہو تے ۔ انہوںنے جس قدر ترقی کی اِسی وجہ سے کی کہ ہر ایک نے اسلام کی اشاعت کو اپنا فرض سمجھا اور جس رنگ میں کسی سے ہو سکا اُسی رنگ میں اِس کی اشاعت کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا۔ ہماری جماعت کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس بات کو سمجھیں ۔ اگر کوئی فرداً فر داًکام کرتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں کام میرا نہیں فلاںکا ہے تو وہ یاد رکھے کہ کبھی کامیا بی کا منہ نہیں دیکھ سکے گا۔
اِس بات کو خوب یاد رکھو کہ تمہارے لئے وہی دن کامیابی کا ہو گا اور اُسی دن تمہا را دشمن اپنی جگہ چھوڑکر پیچھے ہٹے گا جب کہ تم میں سے ہر ایک انسان یہ سمجھ لے گا کہ سلسلہ کی ترقی کے لئے کوشش کرنا میرا ہی فرض ہے۔ آپ لوگوں میں سے ہر کسی کو نہ صرف یہ سمجھنا چا ہئے کہ یہ کام میر ا بھی ہے بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ کام میرا ہی ہے۔ ہر شخص اپنے مذاق کے مطابق اس کام کو اپنے ذمہ لے لے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض جگہ جب سستی سے کام ہوتا ہے اور اس کے متعلق کسی سے دریافت کیا جا تا ہے تو وہ کہتا ہے وہاں کا فلاں سیکرٹری ہے اس لئے ایسا ہوتا ہے گویا اس کے نزدیک سلسلہ کا کام کرنا صرف سیکرٹری کا ہی فرض ہے وہ صرف نام رکھا لینے سے ہی احمدی ہو گیا ہے اسے کام کر نے کی ضرورت نہیں ہے۔ اِس قسم کے نقائص کی وجہ سے کئی جگہ کی جماعتیں بجائے آگے بڑھنے کے پیچھے ہٹ رہی ہیں ۔ خدا تعالیٰ نے مسلمانو ں کو جماعت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے متعلق کس قدر سمجھا یا ہے ۔سورئہ فاتحہ میں ترقی کے متعلق دعائیں سکھلائی ہیں لیکن تین جگہ متکلّم کی ضمیر آئی ہے اور تینو ں جگہ جمع ہے ایک جگہ بھی واحد نہیں گویااس سے یہ بتاتا ہے کہ اکیلا انسان کچھ نہیں کر سکتا جماعت کے ساتھ ہو کر کام کرنا چاہئے۔ پس کسی جماعت کی ترقی فرداً فر داًکام کرنے سے نہیں ہوا کرتی اورجب تک اس کا ہر ایک فرد اپنا فرض نہ سمجھے کامیا بی نہیں ہو سکتی پس کسی کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ فلاںکام سیکرٹری کاہے بلکہ اسے اپنا سمجھنا چاہئے اگر سیکرٹری کام نہیں کرسکتا تو وہ کرے نہ کہ اس کی کمزوری کو دیکھتا رہے۔ مثلاًاگر ایک شخص فوج میں دشمن کے مقابلہ پر کھڑا ہو اور وہ کمزور ہو تو دوسرے کا فرض ہے کہ وہ اس کی جگہ کھڑا ہوجائے کیو نکہ وہ اگر اس کی جگہ کھڑا نہیں ہو گا تو اس کا اپنی جگہ کھڑا ہو نا بھی لغو ہو گا۔ پس ترقی کے لئے طاقتوروںکافرض ہے کہ کمزوروں کو اپنے سا تھ کھینچ لیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو معلوم ہو کہ ان میں جماعت ہی نہیں۔ اگر ان میں سے بعض افراد گر گئے تو معلوم ہو گا وہ بظاہر جماعت کہلاتے تھے مگر دراصل پرا گندہ تھے لیکن اگر وہ کمزوروں کو بھی اپنے سا تھ رکھیں گے تو ثابت ہو گا کہ ان کی جماعت ہے۔
غرض ابھی ہما رے لئے بہت کام با قی ہے۔ اُس وقت تک کوئی جماعت جماعت نہیں کہلا سکتی جب تک کہ ہر ایک شخص تبلیغ کو اپنا فرض نہ سمجھے اور اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل نہ جائے کہ اگر کو ئی درمیان میں سے سِرکنا چاہے تو بھی نہ سِرک سکے۔
اللہ تعالیٰ یہاںکے لوگوں کو بھی اور باہر کے لو گوں کو بھی اِس بات کے سمجھنے کی توفیق دے کہ جو کام ہمارے سپرد ہے اُس کو سمجھیں اور اُس کے پورا کرنے کی کوشش کریں اور سورئہ فا تحہ میں جو انعام آئے ہیں اُن کا وارث بنائے۔‘‘ (آمین ثم آمین) (الفضل ۳۰؍مئی۱۹۱۶ئ)
۱۷
اصلاح کے لئے محاسبۂ نفس ضروری ہے
(فرمودہ ۲؍جون۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اور سو رۃ فا تحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
۱؎
اور فرمایا: ۔
’’بعض تمدنی غلطیاں جو بظاہر چھوٹی چھوٹی معلو م ہو تی ہیں بہت بڑے خطر نا ک نتائج کا باعث ہو جا تی ہیں اور بہت سے امور ایسے ہیں جنہیں ابتداء ً انسان چھوٹا سمجھتا ہے لیکن نتا ئج کے لحاظ سے بہت بڑے ہو تے ہیں۔مو جودہ جنگ ہی کو دیکھو اس کا وہ محرک جو بظا ہر دنیا کو بتا یا جاتا ہے (وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ اصلیت کیا ہے) ایسا خفیف سا ہے کہ دیکھ کر حیر ت آتی ہے کہ ایسا معمولی امر بھی ایسی خطر ناک جنگ کا با عث ہو سکتا ہے۔ایک ملک کے شہزادہ کو اپنے ملک اور اپنی رعا یا کے لوگوں نے قتل کر دیا ۔ اس ایک قتل پر آگ بڑھنی شروع ہو ئی چو نکہ وہ ولی عہد تھا اس لئے اس کے قا تلوں کا بڑا سخت جرم تھا لیکن اس کے لئے زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا تھا کہ ان کو سخت سے سخت سزا ئیںدی جا تیں ،قتل کئے جا تے ، جا ئدادیں ضبط کی جا تیں ،قید کئے جا تے خواہ وہ ہزاروں ہی ہو تے تب بھی اِس واقعہ کی یہی شکل ہو سکتی تھی لیکن اس کی تحقیقات کرتے ہوئے اس سلطنت کو خیا ل پیدا ہو ا کہ پا س کی جو چھو ٹی ریا ست ہے اُس کی تحریک سے یہ قتل ہو ا ہے اس لئے اُس کو دبا نا چا ہا ۔ ایک اَور سلطنت کے اس ریا ست سے تعلقات تھے اُس نے کہا کیا تم نے اس کو کمزور سمجھ کر دبا نا چاہا ہے ہم اس کے مددگار موجود ہیں۔ جب ادھر سے ایساہؤا توایک اَور سلطنت اس کے مقابلہ کے لئے اُٹھ کھڑی ہو ئی ۔ اِسی طرح ہو تے ہوتے کچھ سلطنتیں ایک طرف ہو گئیں اور کچھ دوسری طرف اور اِس طرح تمام دنیامیں آگ لگ گئی۔ دیکھو ایک آدمی کا قتل تھا۔ گو وہ آدمی بہت بڑا تھا ایک سلطنت کا ولی عہد تھا لیکن پھر بھی ایسا نہیں تھا کہ تمام دنیا میںاس کے لئے آگ لگا دی جا تی اور کُل دنیا پر کشت و خون کے دریا بہا دیئے جا تے۔ایسے انسان جن کا قتل کُل دنیا کا قتل ہو سکتا تھا وہ دو ہی گزرے ہیں ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو سارے جہان کے لئے مبعوث کئے گئے تھے اور ایک حضرت مسیح مو عود ؑ جو انکی غلامی میں ساری دنیا کی طرف بھیجے گئے تھے اِن دو کے سِو ا اور کوئی انسان نہ نبیوںسے ،نہ ولیوں سے، نہ مجددوں سے ایسا نہیں گزرا ۔ حضرت موسٰی ؑ ،حضرت دائود ؑ ، حضر ت سلیمان ؑ اگر قتل کئے جا تے تو یہ بنی اسرائیل کا قتل تھا ۔حضرت مسیح نا صری کا قتل بھی بنی اسرائیل کا ہی قتل تھاصرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسے وجو د تھے کہ آ پ کا قتل سارے جہان کا قتل تھا، پھر آپ کا جو قائم مقام آیا اس کا قتل سارے جہان کا قتل ہو سکتا تھا ۔با قی سب نبیوں میںسے کو ئی ایسا نہیں ہؤا تو کوئی بادشاہ یا بادشاہ بننے والا کہاں ایسا ہو سکتا ہے مگر واقعات تھے جنہوں نے مجبور کر دیا اور وہی صورت رونما ہو ئی ہے جو آجکل ہم دیکھ رہے ہیں۔ شہزادہ کو قتل کرنے والوں نے سمجھ لیا ہو گا کہ خواہ ہمیں کتنا ہی نقصان اُٹھا ناپڑے تا ہم اسکا نفع اس نقصان سے زیادہ ہو گا۔ ان کے ذہن میں یہ خیال کبھی بھی نہیں آیا ہو گا کہ یہ صورت ہو جا ئے گی ۔ لیکن دیکھ لو کہا ں سے کہا ں تک نو بت پہنچ گئی۔ وہ سلطنتیں جو آجکل میدانِ جنگ میںنکلی ہو ئی ہیں وہ بھی یہ خیا ل نہ کر تی تھیں کہ واقعات یہ صورت اختیار کر لیں گے۔ چنا نچہ جنگ شروع ہو نے سے قبل روس کے وزیر نے انگلینڈ کے وزیر اعظم کو لکھا کہ آسٹریاکے سرویہ پر دبائو ڈالنے کی وجہ سے ہم مجبور ہیں کہ اسے مدد دیں لیکن یہ مدد سیاسی رنگ میں ہو گی اور اسی سے کام چل جا ئے گا کیو نکہ واقعات کی صورت ایسی نہیںہے کہ لڑائی تک نوبت پہنچے لیکن خدا کی مصلحت نے نہ چاہا کہ ایساہو اس لئے لڑائی شروع ہو گئی ۔
یہ تومَیں نے اس قسم کے واقعہ کی مثال دی ہے جو ابتدا میں کو ئی بڑ ا نہیں معلوم دیتا تھا مگر تمدنی امور ایسے بھی ہو تے ہیں کہ جن کو انسان پہلے سے ہی جا نتا ہے کہ نقصان دِہ اور مضرّت رساں ہیں مگر پھر بھی ان سے باز نہیں آتا۔ یہ باتیں فرداً فردا ًکچھ ایسی بڑی نہیں دکھا ئی دیتیں مگر مجمو عی طور پر قوم کو تباہ کر نے والی ہو تی ہیں ۔ بعض قوموں میں جھوٹ کی عادت ہو تی ہے جو پھیلتے پھیلتے ان کی زندگی کے ہر ایک شعبہ پر اثر ڈا لنا شروع کر د یتی ہے ۔ بعض میں غیبت ، چغلی ، عیب جوئی وغیرہ کی عادت ہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے بہت خطرنا ک نتائج پیدا کرتی ہے لیکن ان باتوں کو معمولی سمجھا جاتاہے جو ایک بہت بڑی نا دانی ہے ۔ دانا انسان کا کام ہے کہ کسی بُرائی کو چھو ٹا نہ سمجھے کیونکہ اگر کسی ایک کو بھی چھوٹا قرار دے گا تو سب کو چھو ٹا کہتا جا ئے گا ۔لیکن یہ ایسی خرابیا ں ہیں جو ملکوں کی بربادی اور قوموں کی تباہی کا موجب ہوا کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس قسم کی باتوں کی طرف متوجہ کرنے کیلئے ایک گر بتایا ہے۔
یہ جو غلط فہمیاں ہو تیں اور ایک دوسرے پر حملے کئے جاتے ہیں یہ بھی بڑا تباہ کن فعل ہو تا ہے اور قوموں کو ہلاک کر دیتا ہے۔ ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرنا ،عیب جوئی میں لگے رہنا بظاہر انسان کو چھوٹی چھوٹی باتیں معلوم ہو تی ہیںمگر یہ ایسی باتیں ہیں کہ قوم کوتبا ہ کر دیتی ہیں۔
ایک دفعہ صحابہ ایسے پا ک گروہ میں سے بھی دو آدمیوں کی لڑائی سب کی تباہی کا موجب ہونے لگی تھی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبرہو گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتمہ کرا دیا۔ دو شخص تھے ایک انصار میںسے اور ایک مہاجرین میں سے۔ دونوں پانی بھرنے کیلئے گئے اور باتوں باتوں میں تیز کلامی ہو گئی۔ ایک نے دوسرے کو لات مار ی دوسرے نے چپت رسید کر دی نتیجہ یہ ہو ا کہ جنگ تک نو بت پہنچ گئی۔ مہاجر نے مہاجرین کو مدد کے لئے آواز دی اور انصارنے انصار کو۔ دونوں طرف سے تلواریں لے کر آگئے اور قریب تھا کہ مسلمان کافروں کے گلے کاٹنے کی بجائے جو ان کے سامنے پڑے تھے آپس میں ایک دوسرے کے گلے کا ٹ کر ڈھیر کر دیتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہو گیا آپ باہر نکل آئے اور فرما یا کیا تم پھر جا ہل ہو گئے ہو؟ آپ کے آنے سے وہ شرمندہ ہو گئے اور بات دب گئی ۔ تو دیکھنے میں ایک با ت چھوٹی سی معلوم ہو تی ہے مگر اس کے نتائج بڑے خطر ناک پیدا ہو تے ہیں لیکن بہت لوگ اس کا خیال نہیں رکھتے اس لئے ایسی باتیںکر لیتے ہیں مگر آخر کار یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ وہ جو ش اور غضب میں آکر ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو اور اپنی نسل کو تباہ کر لیتے ہیں حالانکہ اگر وہ صبر اور تحمل سے کام لیں تو کام چل جا تاہے اور زیا دتی کرنے والا خود شرمندہ اور نادم ہو جا تاہے۔
تمام جو شوں کا با عث محض غلط فہمی ہو ا کرتی ہے لیکن بہت لوگ ایسے ہیں جنہوں نے یہ معیا ر قائم کیاہو اہے کہ دنیا کی سب کمزوریا ں تو ہمارے اندر ہیں باقی سب انسان مکمل ہو نے چاہئیںاس لئے ایسے لوگ اگر خود کوئی عیب کرتے تو اسے بھول چوک قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان سے غلطی ہو ہی جا تی ہے لیکن اگر وہی دوسرا کرتا ہے تو کہتے ہیں یہ خباثت ہے، شرارت ہے ،بے ایمانی ہے، دشمنی ہے یہ بھول نہیں ہو سکتی ۔اپنے متعلق تو کہا جائے گاکہ کیا بندر، سور بھولا کرتے ہیں میں انسان تھا بھول گیا لیکن دوسرے کے متعلق بھولنا کبھی خیال میں بھی نہیں آتا۔ حالانکہ اگر وہ اپنے نفس میں غور کرتا تو آسانی سے سمجھ سکتا تھا کہ اگر میں بھول سکتا ہوں تووہ بھی بھول سکتا ہے۔ اور اگر بھولنا نا ممکن ہے اس لئے دوسرا خبیث اور شریر ہے تو میں بھی خبیث اور شریر ہوں۔ اصل بات یہی ہے کہ کو ئی انسان نہیں جو نسیان کی مرض کے نیچے نہ ہو۔ حضرت آدمؑ جو خداتعالیٰ کا نا ئب اور خلیفہ تھا اُس کی نسبت خداتعالیٰ فرماتا ہے ۲؎ بھول گیا۔اور بھولا بھی ایسے امرمیں کہ جس کے متعلق اُسے پہلے حکم دیا گیا تھا کہ یوں نہ کرنا۔ توآدم جس کو خداتعالیٰ نے خلیفہ بنا کر دنیا میں بھیجا تھا وہ اگر بھو ل جا تا ہے تو اس کے بیٹے کیو ں نہیں بھول سکتے اور وہ لوگ کیوں نہیں بھول سکتے جو خدا تعالیٰ کے خلیفہ نہیں ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نسیان تھا ۔ آپ ایک دفعہ گھر سے باہر نکلے ۔دو آدمیوں کو لڑتے ہو ئے دیکھا۔ فرمایا مجھے لیلۃ القدر کا نظارہ دکھا یا گیا تھا لیکن تم کو لڑتا ہوا دیکھ کر بھول گیا ہوں ۔ ؎۳ تو جب سب سے بڑا انسان انسانوں سے بڑا کیاملائکہ سے بڑا انسان بھی بھولتا تھا تو اور کون ہے جو نہ بھولے۔ دنیا میں کوئی بھی انسان ایسانہیں ہے جس کو نسیان نہ ہو ، بڑے بڑے حافظہ والے بھی بھولتے آئے ہیں۔
اِس وقت مسلمانوں میں اور بہت سی امراض کے علاوہ ایک یہ بھی مرض ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف عمل کر تے ہیں ۔ قرآن تو اس لئے آیا تھا کہ مسلمانوں کووسط میں چلائے۔ چنانچہ مسلمانوں کو فرمایا ۔ ؎۴ کہ ان کے تمام احکام اور اعمال درمیا نی راستہ پر ہو تے ہیں مگر اِس وقت مسلمانوں نے سب باتوں کی حدود کو اختیار کر لیا ہے اور وسط کو بالکل چھوڑ ہی دیا ہے۔ احمدیوں میں بھی بہت سے تمدنی نقائص ابھی باقی ہیں اور وہ اسی لئے ہیں کہ ابتدا میں چونکہ ان کی تربیت غیر احمدیو ں میں ہو ئی ہے جس کا اثر ابھی تک کچھ نہ کچھ با قی ہے۔ ان میں ایک نقص یہ ہے کہ جب دو شخصو ںکا آپس میں اختلاف ہو تو ایک دوسرے کو کہتا ہے کہ تو جھوٹ بولتا ہے حالانکہ جھو ٹ ایک بہت بڑی بُرائی ہے۔جو شخص دوسرے کو جھو ٹا کہتا ہے اصل میں وہ خود جھو ٹا ہو تاہے کیو نکہ وہ جھو ٹ کو بے حقیقت سمجھتا ہے۔ اگر بے حقیقت اور معمولی بات نہ سمجھے تو کبھی ایسی جرأت اور دلیر ی سے دوسرے کو جھوٹا نہ کہے کیو نکہ جو شخص کسی جرم کو بُرا سمجھتا ہے وہ دوسرے پر اس کو تھوپنے سے بھی ڈرتاہے۔ہما رے خلاف لاہوری مخالفوں نے ایسی ایسی باتیں لکھیں جو بالکل خلافِ واقعہ تھیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ لکھ رہے ہیں اور اس قسم کی باتوں کی کثرت کو دیکھ کر یہ کہنا بے جا بھی نہ تھالیکن میں یہی کہتا رہا کہ ممکن ہے بھو ل سے لکھتے ہوں، نسیان سے لکھ دیا ہو یا تعصب اور بغض کی وجہ سے ان کے دماغ میں بات ہی اسی شکل میں آئی ہو ۔تو جو انسان کسی جرم کو بُرا سمجھتا ہے وہ دوسروںپر بڑھ کر الزام نہیں لگاتا اور جو الزام لگاتا ہے وہ اس جرم کو بے حقیقت سمجھتا ہے لیکن عام طور پر یہی ہو تاہے کہ جب دو آدمی آپس میں لڑیں گے تو ایک دوسرے کو جھو ٹا کہہ دیں گے ۔جب گواہوں سے پو چھا جا ئے گاتو جس کے خلاف ان کی گواہی ہو گی وہ انہیں جھو ٹا قرار دے دیں گے حالانکہ انہیں معلوم ہو نا چاہئے کہ جھوٹ سے پہلے ایک اَور بھی درجہ ہے اور وہ نسیان ہے۔ ایسے شخص جو جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے اور خواہ مخواہ جھوٹ بول دیتے ہیں وہ بہت کم ہوتے ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں نسیان بہت زیادہ ہوتا ہے اور کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کو یہ مرض نہ ہو ۔ حتی کہ نبیوں کو بھی ہو تاہے۔ پس جب تمام انسانوںکو بِلااستثناء کسی ایک کے نبیوں سے لیکر ادنیٰ انسانوں تک کا یہ حال ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ بات جو ہر جگہ پائی جاتی ہے جب تک جھوٹ ثابت نہ ہو جائے وہ نہ کہیں۔ لیکن جب کہیں جھگڑا ہو تاہے ہر فریق یہ خیال نہیں کرتا کہ شاید فلاں سے غلطی ہو گئی ہو یا وہ بھول گیا ہوبلکہ یہی کہتا جا تاہے کہ اُس نے شرارت کی ہے، بے ایمانی دکھا ئی ہے، دشمنی شروع کی ہے اور جھو ٹ بولا ہے۔ پھر دونو ں دعا ئیں کر تے ہیں کہ جھو ٹے پر خدا کی *** پڑے۔ ممکن ہے کہ کسی پر بھی *** نہ پڑے اور دونو ں میں سے کوئی بھی جھوٹ نہ بولتاہو۔ جھوٹ تو وہ ہوتا ہے جو ایک بات کواچھی طرح جانتے ہوئے اُس کے خلاف کہا جائے لیکن جس کو ایک بات جس طرح یاد ہے اُسی طرح بیان کرتا ہے تووہ جھوٹا نہیں ہو سکتاہا ں ممکن ہے کہ نسیان کی وجہ سے اُسے اسی طرح وہ بات یاد رہی ہو جو اصل کے خلاف ہو۔ آپس کے جھگڑے اور اختلاف تو ہر جگہ ہی ہوا کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو نا چاہئے کہ دوسرے کو جھٹ جھوٹا اور شریراور فسادی قرار دے دیا جائے۔
جھگڑ ے تو صحابہ میں بھی ہو ا کرتے تھے ۔حضرت عمر ؓ اور حضرت ابو بکر صدیقؓکا جھگڑا تو حدیثوں سے ثابت ہے ۔ ؎۵ اگر جھگڑے کے یہ معنی ہیں کہ جھگڑنے والا جھوٹا ہوتاہے تو ماننا پڑے گا کہ نَعُوْذُبِاللّٰہِ ان دونوں میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔پھر حضرت عباسؓ اور حضرت علی ؓ کا جھگڑ ا بھی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے، ان میں سے بھی ایک کو جھو ٹا قرار دینا پڑے گا۔ پھر حضرت عمرؓاور عما ر کا جھگڑا ثابت ہے، عمر اور ابن مسعود کا اختلاف ثابت ہے اس لحاظ سے ان میں سے بھی ایک کو جھوٹا کہنا پڑے گا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے قاضی مقرر تھے وہ بھی مقدمات کے فیصلے کے لئے ہی تھے اگر مقدمات نہ ہوتے تو قا ضیوں کے مقرر کرنے کی کیا ضرورت تھی اِس طرح ما ننا پڑے گا کہ صحابہ میں سے نصف نہ سہی تہائی تو ضرور جھوٹ بولنے والے ہو ں گے مگر ہمارا تو یقین اور کامل یقین ہے کہ صحابہ میں سے ایک بھی جھوٹ بولنے والا نہ تھا صرف نسیا ن تھا جس سے کو ئی انسان خالی نہیں اور نہ ہو سکتا ہے۔ اِسی وجہ سے ایک شخص کو ایک بات ایک طرح یاد ہو تی تو دوسرے کو دوسری طرح ۔ ایسی اختلافی باتوں کا فیصلہ شاہدوں کے ذریعہ ہو جا تا ہے کہ کس کی بات ٹھیک ہے اور کس کی بھول اور نسیان کی وجہ سے ٹھیک نہیں اور بھولنے والوں کا اس میںکوئی قصور نہیں ہے۔ دیکھو ایک حا فظِ قرآن نماز پڑھا تے ہو ئے قرآن کریم میں غلطیاں کر جا تا ہے لیکن اس کے غلطی کرنے سے ایسا تو نہیں ہو نا چاہئے کہ اسے گردن سے پکڑ لیا جا ئے اور کہا جائے کہ تم نے شرارت سے غلط آیت بنا لی ہے قرآن کریم میں یہ کہی نہیں ہے کیو نکہ اس نے نسیان اور بھول کی وجہ سے ایسا کیا ہے نہ کہ شرارت سے۔ اور کوئی حافظ دنیا میں نہیں ہے جو غلطی نہ کرے حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن پر قرآن کریم اُترا وہ بھی بھول کی وجہ سے پڑھنے میں غلطی کر جاتے تھے ۔ ایک دفعہ آپ نے نما ز پڑھائی تو قرآن پڑھنے میں غلطی کردی ۔ جب نماز سے فا رغ ہو چکے تو اُبی بن کعب کو فرمایا کہ تم نے مجھے غلط پڑھنے سے رو کا کیوں نہیں؟ انہوں نے عرض کی کہ حضور میں نے سمجھا کہ شائد خداتعالیٰ نے اِسی طرح یہ آیت نازل فرما دی ہے جس طرح حضور نے پڑھا ہے۔آپ نے فرمایا۔نہیں غلطی سے پڑ ھا گیا تمہیں مجھے روکنا چا ہیے تھا۔ ۶؎ تو نسیان سے کوئی آدمی بچاہؤا نہیں ہے مگر جہا ں کسی سے اختلاف ہو تا ہے اس بات کو نظر انداز کر کے جھٹ اُس پر جھوٹ کا الزام لگا د یا جاتا ہے۔
ابھی تھوڑے دنوں کا ذکر ہے ایک معاملہ میرے آگے پیش ہؤ ا تھامیں نے اس کا فیصلہ کیا۔ وہ دونوں فریق ایک دوسرے کی نسبت یہی کہیں کہ وہ جھو ٹ بولتاہے اور ہم جو کہتے ہیں وہ درست ہے۔ پھر گواہوں سے پو چھا گیا تو ان کو بھی جھو ٹا کہہ دیا ۔میں پوچھتا ہوںاگر تم اِسی طرح ایک دوسرے کو جھو ٹا قرار دینے لگو گے تو بتلائو تم میں سچا کون ہؤا۔تم سب میںاختلاف ہوتے ہیں، جھگڑے ہوتے ہیں اگر اِسی بات پر کوئی جھو ٹا ثا بت ہوجاتا ہے توتم سارے کے سارے جھو ٹے ہوئے پھر حضرت مرزا صاحب کر کیا گئے؟ کیا چار لاکھ کی جماعت جو آپ چھو ڑ گئے تھے سب جھو ٹوں کی جماعت تھی؟ اِس طرح ایک دوسرے پر الزام لگا نے والے بِلاو اسطہ نہیں تو بِالواسطہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرنے والے ہیں ۔ مجھے ایسے لو گوں پر بڑا غصہ اور طیش آتا ہے کہ وہ کیوں ایسا کرتے ہیں۔جو شخص یہ کہتا ہے کہ فلاںمیںیہ عیب ہے اور فلاں میں یہ عیب ، توگویا صرف وہی ایک سب جما عت میں نیک رہا اور باقی سب عیب دار ٹھہرے اس سے میں پو چھتا ہو ں کہ کیا حضرت مرزا صاحب اُسی ایک کو پیدا کرنے کے لئے مبعوث ہو ئے تھے اور ان کی اِس قدر کو شش اور سعی کا نتیجہ صرف وہی ایک شخص نکلا؟ ہر گز نہیں۔ وہ اپنی قدر کو دیکھے اور اپنے طرزِ عمل پر غور کرے کہ کس طرف جا ر ہا ہے اور اُس کا ایسا کہنا گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جھو ٹا اور ناکام کہنا ہے اور وہ اپنے عمل سے احمدیت سے خارج ہو جاتا ہے ۔ گو وہ اپنے آپ کو احمدی کہے لیکن چونکہ وہ خدا کے نبی کی پاک جماعت پر حملہ کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ اس جماعت میں پھُوٹ پڑتی ہے اس لئے وہ احمدی نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے دوسرے پر الزام لگانے سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو کیا ہی عجیب گر بتا دیا تھا وَ فِی الْاَ رْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنیْنَ۔ وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْن کہ تم اپنے نفسوں میںہی دیکھو ۔کیا تم نے کبھی کو ئی غلطی نہیں کی؟ تم سے کبھی بھول چوک نہیں ہوئی؟ جب تم سے خو د بھی ایسا ہو جا تا ہے تو پھر جب کوئی دوسرا اِس طرح کرے تو اُس پر کیوں الزام لگاتے ہو۔ واقعہ میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو کبھی بھولا نہ ہو ۔ اور باتیں تو الگ رہیں صبح سے اِس وقت تک تم میں سے ہر ایک شخص کو جو جو واقعات پیش آے اُنہیں کو اگر کوئی بیان کرنے لگے تو ضرور ہے کہ بعض با تیں بھو ل جائے اور دوسرے یاد دلا دیں ۔ اگر کوئی ایسے حافظہ والا ہے جو پورے پورے واقعات بتاسکتا ہے تو اُٹھ کر بتائے۔ وہی شخص جو ایک دوسرے کو جھوٹا کہتے تھے اُٹھ کر بتا دیں لیکن وہ سن لیں کہ ضرور غلطی کریں گے مگروہ کہہ دیں گے کہ انسان ہیں غلطی ہو گئی ہے ۔ میں کہتا ہوں جب تم انسان ہو تو وہ کیا انسان نہیں ہیں؟ پھر انہیں کیوں جھو ٹا کہتے ہو؟ ایسا کرنے والے غلطی کر تے ہیں۔ غلطی نہیںبلکہ بے وقوفی کرتے ہیں۔ میں نے بے وقوفی اِس لئے کہا ہے کہ ان کی اِس کارروائی سے شیطان جماعت کی تباہی کا ہتھیار چلاتا ہے۔ ایسے لوگ خداتعالیٰ کے بتائے ہوئے گر پر عمل کریں خدا تعالیٰ فرماتاہے تم اپنی جا نوں کو دیکھو کیا تم اندھے ہو گئے؟ کیا یہی غلطیاں تم نہیں کرتے ہو اور اپنے آپ کو جھوٹا کہلانا پسند نہیں کرتے۔ مگر دوسرے ایسا کریں تو کہتے ہو کہ جھوٹ بولتے اور شرارت سے کرتے ہیںکیا تم نے انکا دل چیر کر دیکھ لیا ہو تا ہے؟ پھر یہ کیو نکر ممکن ہے کہ تم تو بھول جایا کرو اور وہ تمہا رے جیسے ہی نہ بھولا کریں ۔
حضرت عمرؓ اور عمار کا تیمم کے متعلق جھگڑا ہو ا تھا ۔ حضر ت عمر ؓ کہیں کہ میں کبھی اِس بات کو نہیں مانو نگاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کی بجائے عذر کے وقت تیمم کو جائز قرار دیا ہوحالا نکہ عما ر ٹھیک کہتے تھے۔ ۷؎ دوسرے راویوں سے بھی اُن کی بات کی تصدیق ہو تی ہے مگر حضرت عمر ؓ کو یا د نہیں رہا تھا اور وہ اپنی بات پر اِس قدر مصر تھے کہ لڑنے کو تیا ر ہو جا تے تھے۔ عمار اپنا ایک واقعہ پیش کرتے کہ میںنے ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا لیکن وہ نہیں مانتے تھے۔ بعض دفعہ کوئی بات حافظہ سے اِس طرح اُتر جا تی ہے کہ اس کے متعلق خیال بھی نہیں آسکتا کہ کبھی ہو ئی تھی یہی بات حضرت عمر ؓ کو پیش آئی ۔
اصل بات یہ ہے کہ حافظہ کے لئے آنکھیں ،کان، ناک، زبان ،لمس وغیرہ حواس ہیں اِن کے ذریعہ انسان کوہر ایک بات یاد رہتی ہے۔مثلاً سختی کا چھو نے سے پتہ لگتاہے لیکن بعض لوگوں کے جسم ایسے سخت ہو تے ہیں کہ انہیں چھونے سے پتہ نہیں لگتا۔ اِسی طرح بعض چیزیں دیکھنے سے یاد رہتی ہیںلیکن بعض کی آنکھیں کمزور ہو تی ہیںیا ایسا ہوتاہے کہ ان کی عادت غور سے دیکھنے کی نہیں ہو تی اس لئے انہیں بعض چیزیں یاد نہیں رہتیں۔ مثلا میری آنکھیں کمزور ہیںاس لئے زیادہ دُور کی چیزیں مجھے دکھائی نہیں دیںگی لیکن ایک اور شخص جس کی نظر مجھ سے تیز ہو گی وہ مجھ سے زیادہ دُور کی چیزیں دیکھے گا۔اب اگر کوئی ہم دونوں سے پو چھے کہ تمہا رے سامنے کیا کیا چیزیں ہیں تو ہمارے بیان کرنے میں ضرور اختلاف ہو گا۔پھر جس کی نظر کمزور ہواُسے چیزیں بھی کم یاد رہتی ہیںکیو نکہ اس کے دماغ پر دیکھنے کا اثر کم پڑتا ہے۔ہاں اگر وہ ایک چیز کو بار بار دیکھے تو جس طرح پھیکی سیاہی پر با ر بار قلم پھیرنے سے شوخ سیا ہی ہو جاتی ہے اِسی طرح اس کے بار بار کے تکرار سے اس کے دما غ پر گہرا اثر پڑ تا ہے اس لئے وہ اسے یا د رہتی ہے ۔ اِسی طرح بعض لو گوں کے کان کمزور ہوتے ہیں وہ ایک آدھ دفعہ سنی ہو ئی بات کو یاد نہیں رکھ سکتے مگر بار بار سننے سے خوب یا د رکھتے ہیں وہ لوگ جن کی آنکھیں کمزور ہوتی ہیں اور حافظہ بہت تیز ہو تا ہے اُن کے حافظہ کے تیز ہونے کی یہی وجہ ہے کہ چونکہ وہ آنکھوں کی بجائے کا نوں کو زیادہ استعمال کرتے ہیں اِس لئے شنوائی کا اثر اُن کے دماغ پر بہت گہرا پڑتاہے۔ اِسی طرح ایک بہرہ آنکھوں دیکھی چیز کو بہ نسبت سنی ہوئی کے زیادہ یاد ر کھتا ہے کیو نکہ وہ زیادہ غور سے دیکھنے کا عادی ہو تاہے اور کانوںکا کام بھی آنکھوں سے لیتا ہے۔ اکثر اشیاء کے یاد رکھنے کے متعلق انسان دو چیزوں سے کام لیتا ہے۔ اوّل آنکھوں سے دیکھتا ہے دوم کانوں سے سنتا ہے۔مثلاً ایک شخص کا نام عمر الدین ہے وہ جب سامنے آئے تو کان اُس کا نام سن کر کہتے ہیں کہ یہ عمرالدین ہے اور آنکھیں اُس کی شکل کا نقشہ اُتا رتی ہیں۔اگر یہی شخص ایک پردہ کے پیچھے کھڑا ہو کر اپنا نام بتائے تو ممکن ہے وہ شخص اس کو نہ پہچان سکے جس کے کانوں نے اُس کی آواز کو سنا اور جس کی آنکھوں نے اُس کا نقشہ اُتارا لیکن ایک نابینا انسان جس نے صرف کانوں کے ذریعے اُس کو پہنچانا تھا اُس کی بات سن کر فوراً معلوم کر لے گا ۔ کیوں؟اِس لئے کہ جس وقت اُس نے نام سنا تھا تو بہ نسبت ایک نابینا شخص کے اس کی قوتِ سامعہ نے اُس کے د ماغ پر بہت گہرا اثر ڈ الا تھا پس ان حواس کے ذریعہ حافظہ بعض باتوں کو بھو ل جا تاہے اور بعض کو یاد رکھتا ہے لیکن بھولنے والے کی نسبت یہ کہنا کہ جھو ٹ بولتاہے سوائے اس کے اور کیا نتیجہ پیدا کر سکتا ہے کہ فساد پھیلے ۔ مگر بہت لوگ ایسے ہیں جو کسی جھگڑے یا اختلاف کے وقت ایک دوسرے کی نسبت ایساکہہ دیتے ہیں ۔
میں ایک دفعہ ایک جماعت کے ہاں گیا اب تو وہ بہت مخلص ہے اس کے قریبا سارے ممبر ایسے ہیں جو حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے ہیں مگر تعمیل احکام میں سب سے زیادہ سست ہے۔ وہا ں جا کر مجھے معلوم ہو اکہ یہا ں کے لوگوں میں نا اتفاقی ہے۔میں نے اُن کو بُلاکر پوچھا۔ ہر ایک نے یہی کہا کہ ہم میں کوئی ناراضگی نہیں ہے یہ بات آپ تک غلط پہنچائی گئی ہے۔ میں نے پوچھا فلاں آدمی کیوں مسجد میں نہیں آتا ؟ فلاں کیوں نہیں آتا؟ اِس کا جواب مجھے یہ دیا گیا کہ فلاںکی فلاں سے اور فلاں کی فلاںسے لڑائی ہوئی ہے۔میں نے کہا کہ جب ایک دوسرے کی آپس میں لڑائی ہے تو پھر اتفاق کیسا ؟اور جماعت کیسی ؟ اِس قسم کی نا اتفاقی کو انہوں نے افرادکی نا اتفاقی قراردیا ہو ا تھانہ کہ جماعت کی ۔میں نے اُن میں صفائی کرا دی۔ اُنہیں یہ بات بہت معمولی معلوم ہو ئی تھی لیکن در حقیقت وہ بہت بڑی اور خطرنا ک نتائج پیداکر نے والی تھی۔ تو چھو ٹی سے چھوٹی بات میںبھی بہت احتیا ط کرنی چا ہیے اور فورا ًکسی پر جھو ٹے ہونے کا فتویٰ نہیں لگادینا چاہئے۔ تم لوگ کیوں ایساطریق اختیا رنہیں کرتے جس میں تمہا را بھی فا ئدہ ہو اور کسی کو نقصان بھی نہ پہنچے اور وہ یہ کہ جس طرح خود بھول جا تے اور نسیان کربیٹھتے ہواُسی طرح دوسرے کو سمجھ لیا کرو اور اِس طرح بھی کسی کا حق غصب نہیں ہو سکتا ۔ بات وہی رہتی ہے البتہ احتیاط کا پہلو ہو جاتاہے۔
پس یہ بات خوب یاد رکھو کہ جو بات کسی کے متعلق کہو اپنے نفس میں اُس کے متعلق خوب غو ر کر لو کہ جو الزام دوسرے پر لگاتا ہوںکیامیں اس سے بری ہو ں۔ افسوس کہ بہت کم لوگ اس بات پر غورکرتے ہیںاگر غورکریں تو بہت سے فساد اورجھگڑے دُور ہو جائیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اِس کی سمجھ دے اور دوسروں کی عیب جوئی سے بچا کراپنے نفس کے محاسبہ کی تو فیق بخشے۔‘‘
(الفضل ۱۸؍جون۱۹۱۶ئ)
۱؎ الذّٰریت : ۲۱،۲۲ ۲؎ طٰہٰ: ۱۱۶
۳؎ بخاری کتاب فضل لیلۃ القدرباب رفع معرفۃ القدر لتلاحی الناس
۴؎ البقرہ: ۱۴۴
۵؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لوکنت متخذاً خلیلاً
۶؎ بخاری کتاب الصلوٰۃ باب التوجہ نحوالقبلۃ۔ (الخ)
۷؎ بخاری کتاب التیمم باب التیمم ھل ینفخ فیھما
۱۸
کلام کو بگاڑ کر پیش کر نے والے لوگ کون ہوتے ہیں؟
(فرمودہ ۹؍جون۱۹۱۶ئ)
تشہد ،تعوذ اور سورۃ فا تحہ کے بعدحضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
۔۱؎
اور فرمایا:۔
’’دنیا میںکسی چیز کے یا کسی انسان کے دو قسم کے مخالف ہو تے ہیں ایک وہ جن کی مخالفت اُس چیز کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور بسب اُس کو نا درست اور صداقت سے دور سمجھنے کے اس کا مقابلہ کرتے ہیں ۔دوسرے وہ جو کسی چیز کی مخالفت اِس لئے نہیں کرتے کہ وہ انہیں نا درست معلوم ہوتی ہے بلکہ اُن کی کچھ خود غرضیاں ہوتی ہیںجو انہیں اس کی مخالفت کے لئے کھڑا کر دیتی ہیںایسے لوگ اکثر جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہیں۔لیکن وہ لوگ جو کسی بات کی اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ وہ سچی اور درست نہیں ہے وہ مقابلہ کرتے ہوئے کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ جھو ٹ ہمیشہ وہی انسان بولا کرتا ہے کہ جس بات پروہ قائم ہو تا ہے اُس کی صداقت کا اُسے یقین نہیں ہوتا۔ کیو نکہ اگر وہ صداقت کی خاطر مقابلہ کے لئے کھڑ ا ہو تو پھر کیو نکر ممکن ہے کہ وہ خود جھو ٹ بولے ۔ایک انسان جو صداقت کی خاطر بیوی ، بچے ، عزیز اور رشتہ دار مال و دولت حتی کہ جان تک دے دینے کے لئے تیار ہوتا ہے اُس سے ممکن نہیں کہ جھو ٹ کا کلمہ نکل سکے۔ پس ایک بات کو سچا سمجھ کر اُس پر کھڑ ے ہونے والے مقابلہ کرتے وقت کبھی جھو ٹ سے کام نہیں لیتے لیکن جن لو گوں کا کسی بات کو ماننا اِس لئے نہیں ہو تا کہ وہ سچی ہے خواہ ان کا ظن غالب یہی ہو کہ سچی ہے اوریہ بھی ممکن ہے کہ واقعہ میں بھی وہ اسے سچا سمجھتے ہوں مگر اُس کی طرف داری کا باعث اس کی سچائی اور راستی نہ ہوبلکہ کو ئی اپنی غرض ہو وہ جھو ٹ سے کام لینے سے پرہیز نہیں کرتے ۔میرے اِس بیان کا مطلب یہ ہے کہ ممکن ہے ایک شخص راستی کو راستی سمجھتا ہو مگر اُس کی تائید اِس لئے نہ کرتا ہو کہ اُس کو سچا سمجھتا ہے بلکہ اس کی کو ئی اَور غرض ہو ایسا انسان بھی جھو ٹ سے کام لیتا ہے۔مثلاًایک شخص ہے وہ ایک نبی کو نبی اور خدا کا برگزیدہ بھی ما نتا ہے مگر وہ جو اس کی خدمت اور ادب کرتاہے اِس لئے نہیں کرتا کہ وہ نبی ہے بلکہ اس سے اسے اپنا کو ئی اور فائدہ مد نظر ہے ایسا انسان بھی جھو ٹ کا مرتکب ہو سکتا ہے کیو نکہ وہ ذاتی نفع کیلئے نبی کی خدمت کر رہا ہوتاہے نہ کہ اُس کے نبی ہونے کی وجہ سے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی ایک نظیر اِس بات کے ثبوت کے لئے مو جود ہے۔
جنگ خیبر میں ایک شخص مسلمانو ں کے ساتھ ہو کر اِس زور اور کو شش سے لڑا کہ صحابہ کہتے ہیں ہمیں اُس پر رشک آ گیا لیکن لڑائی ہو نے سے پہلے یا ابتدئے لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی نسبت فرمایا تھا کہ اگر کسی نے دوزخی آدمی دیکھنا ہو تو اُسے دیکھ لے ۔ صحا بہ کہتے ہیں ہم نے یہ بات سنی ہوئی تھی مگر وہ اس دلیری اور جوانمردی سے لڑا کہ خطرناک سے خطرناک مقام پر پہنچ کر حملہ آور ہو تا اور ہر دفعہ ایک دو کو گرا کر ہی آتا ۔ حتی کہ صحابہ ایسے مضبوط ایمان والوں میں سے بعض کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نا حق اِس کی نسبت کہہ دیا ہے کہ یہ دوزخی ہے لیکن ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں اُس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔جہا ں وہ حملہ کرتا میں بھی وہاں پہنچ جا تا حتیٰ کہ وہ سخت زخمی ہوا ۔بعض صحابہ جا کر اسے کہتے تجھے جنت کی خوش خبری ہو مگر وہ آگے سے جواب دیتا مجھے جنت کی بشارت نہ دو بلکہ دوزخ کی دو کیونکہ میں اسلام کے لئے نہیں لڑا مجھے ان لوگوں سے ایک پرانی عدوات تھی اُس کی خاطر لڑا ہوں۔ اِس واقعہ سے دونوں باتیں معلوم ہو جا تی ہیں یہ کہ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان تھا اور آپ کو خدا کا نبی اور بر گزیدہ سمجھتا تھا تبھی تو اُس نے کہا کہ مجھے جنت کی بشارت نہ دوبلکہ دوزخ کی دو کیو نکہ وہ سمجھتا تھا کہ اسلام کے لئے لڑنے والا جنت میں جا تا ہے نہ کہ اپنے اغراض کی خاطر لڑنے والا۔چو نکہ لڑائی میں شامل ہونا اُس کی اپنی اغراض کے لئے تھا اس لئے اُس نے کہا کہ میں جنت میں جا نے کے قابل نہیں ہوں ۔ دوسری بات یہ بھی معلوم ہو گئی کہ اس نے باوجود اسلام کی صداقت کا قائل ہو نے کے اسلام کی اِس لئے تائید نہیں کی تھی کہ یہ ایک صداقت ہے بلکہ اپنی غرض کے لئے لڑا تھا۔ چنانچہ وہی صحابی جو اُس کے ساتھ ساتھ تھے کہتے ہیں کہ جب اسے زخموں کی وجہ سے سخت درد اور تکلیف ہوئی تو اُس نے بر چھی پر اپنا سینہ رکھ کر زور سے دبایا اور اِس طرح اپنے آپ کو ہلاک کرلیا۔ وہ صحابی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دَوڑے ہو ئے آئے اور کہا۔ یاَ رَسُوْلَ اللّٰہ !آپ کو مبارک ہو ۔آپ فلاں آدمی کے معاملہ میں بالکل سچے نکلے اُس نے خود کشی کر لی ۔ ؎۲ تو ایسے انسان بھی ہو تے ہیں جو صداقت کو سمجھ کر صداقت کی خاطر تا ئید نہیںکرتے بلکہ اپنی اغرا ض کو مدنظر رکھ کر ایساکرتے ہیں۔
میں نے بتا یا ہے کہ ایک تو وہ لوگ ہو تے ہیں جو گونا حق پر ہو تے ہیں مگر اپنے آپ کو حق پر سمجھ کر حق کی مخالفت کرتے ہیں اور ایک وہ ہو تے ہیں جو اپنے دشمن کو حق پر سمجھتے ہوئے بعض اغراض کی وجہ سے مخالفت کرتے ہیں۔اور کبھی یہ بھی ہو تا ہے کہ مخالفت کرنے والا کبھی اپنے آپ کو بھی نا حق سمجھتا ہے اور اپنے مخالف کو بھی ایسے سب لوگ جھو ٹ سے کام لے لیتے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہوتاہے جو اپنے آپ کو حق پر سمجھتاہے اور ہوتا بھی حق پر ہی ہے مگر اس کی تائید اس لئے نہیں کرتا کہ وہ حق پر ہے بلکہ اس لئے کرتاہے کہ اُس کواپنے اغراض مدنظر ہوتے ہیں ایسے لوگ بھی جھوٹ بول لیتے ہیں کیو نکہ انہیں سچ کی قدر نہیں ہو تی۔پس گو ایسا آدمی صداقت پر بھی ہو اور اپنے آپ کو صداقت پر سمجھتا بھی ہو جھو ٹ بول لیتاہے۔لیکن جو آدمی سچ مچ حق پر ہو تا ہے اور اسے اس لئے قبول کرتا ہے کہ حق ہے نہ کہ کسی اور نفسانی غرض کے لئے وہ جھو ٹ نہیں بولتا۔ پھر وہ انسان بھی جو باطل پر ہو تاہے اگر اس کی تائید کے لئے اس لئے کھڑاہوتاہے کہ اسے باطل نہیں بلکہ حق سمجھتا ہے وہ بھی جھو ٹ نہیں بولتا لیکن ان کے مقابلہ میں وہ لوگ جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے جھو ٹ بولنے میں کو ئی حرج نہیں سمجھتے۔
غرض سب انسانوں کے دو گروہ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو سچ بولتا ہے اور دوسرا وہ جو جھو ٹ بولنے میں حرج نہیں سمجھتا ۔پھر ان میں سے ہر ایک کے دو گروہ ہیں ایک وہ جو حق پر ہو کر اِس لئے جھو ٹ بولتاہے کہ اس نے حق کو حق کے لئے قبول نہیں کیا ہوتا بلکہ اپنے اغراض کیلئے قبول کیا ہو تاہے اور دوسرا وہ جو نا حق پر ہو کر اِس لئے جھو ٹ بولتاہے کہ اس نے ناحق کونا حق سمجھ کر قبول کیا ہوتاہے۔ پھر سچ بولنے والوں کے دو گروہ ہوتے ہیںایک وہ جو حق کو حق سمجھ کر قبول کرتا ہے وہ بھی کبھی جھو ٹ نہیں بولتا اور دوسرا جو ناحق کو حق سمجھ کر اُس پر جما ہوتا ہے یہ بھی جھوٹ نہیں بولتا۔ وہ گروہ جو اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے مگر حق کی تائید اس لئے نہیں کرتا کہ وہ حق ہے اور دوسرا گروہ جو خود تو نا حق پر ہو تا ہے مگر اپنے فریق مخالف کو حق پر سمجھ کر پھر بعض وجوہا ت سے اُس کی مخالفت کرتاہے ۔ان دونوں گروہوں کے آدمی کثرت سے جھو ٹ بولتے ہیں ۔یوں تو ہمیشہ ہی ان کا یہی حال ہوتا ہے مگر نبیوں کے مقابلہ میں ان کا جھوٹ اور کذب بڑ ے زور سے ظاہر ہوتاہے کیونکہ اُس وقت اِن لوگوں کو اپنی تباہی اور بربادی کا پوراپورا یقین ہو جاتاہے اِس لئے وہ اپنے بچائو کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہتے ہیںاور ان کوششوں میں سے ایک کوشش جھوٹ کا استعمال بھی ہوتاہے۔
آپ لو گو ںکو تو معلوم ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں لو گوں نے کیسے کیسے جھوٹ بولے۔مخالفین نے جھو ٹ بولنے سے ذرا پرہیز نہ کیا۔ وہ لوگ جو اپنے آپ کو راستبازی کے پھیلانے والے کہتے تھے اُنہوں نے جھو ٹ بولنے میں اوّل نمبر حا صل کیا اور اِس طرح اُن کی نسبت پتہ لگ گیاکہ گو وہ اسلام کی تائید کے لئے کھڑے ہوئے ہیں مگر اِس لئے نہیں کہ اسلام سچا مذہب ہے بلکہ اِس لئے کہ اِس میں اُن کی خود غرضی اور نفسانیت کا دخل ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ پران لوگوں نے قِسم قِسم کے الزامات لگائے۔کہا گیا کہ یہ دہریہ ہے حالانکہ وہ خوب جا نتے تھے کہ جس قدر اِس کا خدا پر بھروسہ اور ایمان ہے اور کسی کو نہیں ہے۔وہ اپنی جان و مال، اسباب، عزیز ،رشتہ دار خداکے لئے قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار تھا اوردن رات اسے یہی دُھن تھی کہ خدا کا نام دنیا میں پھیلے اس کو خداکا منکر کہا گیا۔پھر جو خود وحی اور الہام کامد عی تھا اس کے متعلق کہا گیا کہ اس کا عقیدہ برہموئوں کی طرح ہے ۔پھر کہا گیا کہ یہ حضرت مسیحؑ کو گالیاں دیتاہے حا لانکہ یہ کیو نکر ممکن تھا کہ وہ جو آپ مسیحیت کا مدعی ہو وہ حضرت مسیحؑ کو گالیا ں دے اور بُرا بھلاکہے ۔کیا کوئی شریروں اور گندے لو گوں کی طرف اپنے آپ کو نسبت دیا کر تا ہے؟ مصر میں قبطی لوگ رہتے ہیں وہ اپنے آپ کو فرعون کی طرف منسوب کرتے ہیںاوراپنے نام یوسف فرعون، ابراہیم فرعون وغیرہ رکھتے ہیں ۔لیکن وہ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ فرعون بہت نیک اور اچھا آدمی تھامگر فرعون کا نام مسلمانوں کے نزدیک گنداہے اس لئے کوئی مسلمان ایسا نہیں کرے گا۔تو جو شخص اپنے آپ کو کسی کی طرف منسوب کرتا ہے وہ کس طرح اُس کو گندہ کہہ سکتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تو دعویٰ ہی یہی تھاکہ میں مثیل مسیح ہوں پھر آپ حضر ت مسیحؑ کو بُرا بھلا کس طرح کہہ سکتے تھے ۔پھر یہ کہا گیا کہ مرزا صاحب اہل بیت کے دشمن ہیں حالانکہ آپ نے اپنے کمالات کی ابتدء اِس طرح بیان فرمائی ہے کہ ہمارے گھر میں اہل بیت تشریف لائے یعنی وہی جن کو شیعہ پنجتن کہتے ہیں اور اہل بیت قرار دیتے ہیں اور اِس کے بعد علومِ باطنی مجھ پر کھلے ۔ پس جو شخص اپنے علومِ باطنی کے حاصل ہو نے کی بنیا د ہی اِس بات پر ر کھتا ہے کہ اہل بیت ہمارے گھر میں آئے وہ اُن کی ہتک کس طرح کر سکتا ہے۔ غرضیکہ اِس قسم کے اَور بہت سے الزام آپؑ پر لگائے گئے۔
حضرت مسیحؑ سے بھی اُن کے مخالفین نے یہی سلو ک کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ میں بنی اسرائیل کا بادشاہ ہوں۔ اِس سے اُن کی مراد روحانی بادشاہ ہونے کی تھی لیکن انہوں نے شور مچادیا کہ یہ خود بادشاہ بنتاہے اور قیصر کا باغی ہے چنانچہ اُنہوں نے اپنی اِس بات کو مضبوط کرنے کیلئے ایک دفعہ ایک چالاکی کی مگر خدا تعالیٰ کے انبیاء بڑے عقل مند اور دانا ہوتے ہیں حضرت مسیحؑ ان کی چال میں نہ آئے۔انہوں نے آکر پوچھا کہ ہم ٹیکس کس کو دیں؟ یعنی انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ ہمیں منع کر دیں گے کہ قیصر کو نہ دو اِس طرح اِن کو گرفتار کرا دیں گے۔ حضرت مسیحؑؑ نے جواب دیا کہ سکہ پر کس کی تصویر ہے؟ انہوں نے کہا قیصر کی ۔ فرمایا پس جوقیصر کا ہے وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو ۔ ؎۳ یعنی قیصر دنیا وی بادشاہ ہے اِس لئے اُسے سکہ کا ٹیکس دو اور خداکے آگے روحانیت کا ٹیکس ادا کرو۔ پھر حضرت مسیحؑ کو گورنر کے سامنے باغی قرار دے کر پیش کیا گیا۔
اِس وقت جو ہمارا اختلاف ہے اِس میں بھی ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں۔ وہ ایک چھوٹی اور قلیل جماعت ہے لیکن ہیں ضرور۔اِن میںسے شاید ایسے لوگ بھی ہوں جو اپنے آپ کو حق پر سمجھ کر ہماری مخالفت کر رہے ہیں مگر اس میں تو کوئی شک نہیںکہ وہ حق کی خاطر ایسا نہیں کر رہے کیونکہ اگر وہ حق کی خاطر کرتے تو جھو ٹ سے کبھی کام نہ لیتے ۔ وہ با تیں جو قلب اور دل کے متعلق ہیں ان میں وہ اِس لئے معذور سمجھے جا سکتے ہیں کہ شاید دشمنی اور عداوت کی وجہ سے ایک بات کو اُسی رنگ میں دیکھتے ہو ں جس میں کہ بیان کرتے ہیں لیکن ان کا صحیح صحیح واقعات اور کھلی کھلی باتوں کو بگاڑ کر پیش کرنا ثبوت ہے اِس بات کا کہ وہ جھو ٹ بولتے ہیں اور حق کی خاطر مقابلہ نہیں کر رہے ۔ انہوں نے ایسے ایسے افتراء کیے ہیں کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے ۔
پچھلے سال کہا گیا کہ میںنے گورنمنٹ کو لکھا ہے کہ مجھے خلیفۃ المسیح تسلیم کروا دو میں آپ کی بہت مدد کروں گا۔ جب ہما ری طرف سے اِس بات کی تردید کی گئی اور گورنمنٹ کی چٹھی بھی ہماری تائید میں آگئی تو ایک اَور بات بنا لی کہ گورنمنٹ ڈر گئی ہے کہ اِس بات کے ظاہر ہونے سے ان میں فساد پڑجا ئے گا اس لئے اس نے پوشیدہ رکھا ہے حالانکہ اِنہی لو گوں نے ۱۹۱۳ء کے سالانہ جلسہ پر حضرت خلیفہ اوّل کو کہا تھا کہ گورنمنٹ نے اپنے پا س سے تنخواہیں دے کر کچھ آدمی ہمارے درمیان اِس لئے چھوڑے ہوئے ہیںکہ وہ ہم میں پھوٹ ڈلوائیں اور چند بے گناہ آدمیوں کے نام بھی لے دئیے تھے ۔ چنانچہ ۱۹۱۳ء کے جلسہ کی تقریر میں جو چھپی ہوئی ہے حضرت خلیفہ اوّل نے اِس طرف اشارہ بھی کیا تھا۔ تو یاتو اِن کایہ خیال تھا کہ گورنمنٹ نے اپنے پاس سے روپیہ دے کر پھوٹ اور فساد ڈلوانے کے لئے لوگوں کو ہمارے درمیان چھو ڑا ہو اہے یا یہ کہ گورنمنٹ کو پھوٹ ڈلوانے کا ایسا سنہری موقع ہاتھ آیا ہے لیکن وہ ایسا کرنا نہیں چاہتی اور انکار کردیتی ہے کہ ایسی کوئی درخواست وغیرہ نہیں آئی ۔
اِسی طرح اَور بہت سے جھوٹ اِن کی طرف سے مشہور کئے گئے اور جب جواب دئیے گئے تو کوئی نہ کو ئی حجت نکال ہی لی جیسا کہ میں نے ابھی بات سنائی ہے۔ اور میں دیکھتا ہو ں اِن کی اِس دروغ بیانی کا سلسلہ ابھی تک جا ری ہے۔ ایک خط آیا ہے جس میںلکھا ہے کہ ایک شخص نے کتاب حقیقۃ النبوۃسے میری عبارت کا ایک ٹکڑا نقل کر کے رکھا ہو اہے جو یہ ہے کہ بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ نبی دوسرے نبی کا متبع نہیں ہو سکتا اور اِس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے کہ وَمَآ اَرْ سَلْنَامِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّالِیُطَاعَ بِاذْنِ اللّٰہِ ۴؎ اور اس آیت سے حضرت مسیح موعود ؑکی نبوت کے خلاف استدلال کرتے ہیں لیکن یہ سب قلت تدبر کا نتیجہ ہے۔ اِس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت ازالہ اوہام سے یہ لکھی ہو ئی ہے کہ:۔
’’ افسوس کہ مولوی صاحب مرحوم کو یہ سمجھ نہ آیا کہ صاحب نبوتِ تامہ ہر گز اُمتی نہیں ہو سکتا اور جو شخص کامل طور پر رسول اللہ کہلاتاہے وہ کامل طورپر دوسرے نبی کا مطیع اور اُمتی ہو جانا نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے رو سے بکلی ممتنع ہے۔ اللہ جل شانہٗ فرماتاہے وَمَآ اَرْ سَلْنَامِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّالِیُطَاعَ بِاذْنِ اللّٰہِ۔ یعنی ہر ایک رسول مطاع اور امام بنانے کے لئے بھیجا جا تاہے اِس غرض سے نہیں بھیجا جاتا کہ دوسروں کا مطیع اور تابع ہو۔‘‘ ۵؎
یہ دونوں عبارتیں وہ لو گو ں کو دکھا کر کہتا ہے کہ دیکھو! ہمیں میاں صاحب سے کوئی مخالفت نہیں لیکن وہ توحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو گالیاں دیتے ہیں جیسا کہ اِس عبارت میں نادان کہتا ہے پھر ہم کس طرح ان کے سا تھ مل سکتے ہیں ۔لیکن یہ ایک دھو کا ہے جو لوگوں کو میری طرف سے دیا جاتا ہے۔کیو نکہ میں نے حقیقۃ النبوۃ میں ہی اِس بات کو حل کر دیا ہو ا ہے کہ جب کو ئی بات منکشف نہ ہو اُس وقت تک اُس کے خلاف کہنا بُرا نہیں لیکن جب وہ کھل جائے پھر اس کے خلاف کہنا نادانی اور جہا لت ہو سکتی ہے۔ اِس کے متعلق میں نے حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی مثال بھی دی تھی چنانچہ حقیقۃ النبوۃ کی اصل عبارت یہ ہے کہ:۔
ایک بات جب تک پوشیدہ اور پردہ ٔاِخفا میں ہو اُ سے اصل کے خلاف ماننا ایک اور بات ہو تی ہے لیکن پردہ اُٹھ جا نے پر پھر بھی غلطی سے نہ ہٹنا ایک اور بات ہوتی ہے …اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ پچھلی صدیوں میں قریباً سب دنیا کے مسلمانوں میں مسیحؑ کے زندہ ہو نے پر ایمان رکھا جا تا تھا اور بڑے بڑے بزرگ اِسی عقیدہ پر فوت ہوئے اور نہیں کہہ سکتے کہ وہ مشرک فوت ہوئے گو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عقیدہ مشرکا نہ ہے(چنا نچہ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو مشرکانہ عقیدہ قرار دیا ہے) حتی کہ حضر ت مسیح موعودؑ با وجو د مسیح کا خطاب پانے کے دس سال تک یہی خیال کرتے رہے کہ مسیح آسمان پر زندہ ہے۔‘‘ ؎۶
اب ہر ایک عقلمند آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابتداء میں حضرت مسیحؑ کی وفات کے متعلق انکشاف نہ ہونے کی وجہ سے براہین احمدیہ میں اُن کے زندہ ہو نے کے متعلق لکھ دیا تھا لیکن بعد میں جب وفاتِ مسیح کے متعلق انکشاف ہو گیا تو آپ نے اِس عقیدہ کا رکھنا شرک قرار دے دیا اِسی طرح آ پ نے بے شک ایک وقت تک نبی کی وہی تعریف کی جو آجکل کے مسلمان کرتے ہیں لیکن چو نکہ اُس وقت تک آپ پر اِس مسئلہ کا پوری طرح انکشاف نہ ہؤ اتھا اِس لئے آ پ عام مسلمانو ں کے عقیدہ پر ہی قائم رہے مگر جب آپ پر نبو ت کی تعریف کُھل گئی تو آپ نے لکھ دیا کہ:۔
’’نبی اُس کو کہتے ہیں کہ جو خداکے الہام سے بکثرت آئندہ کی خبریں دے مگر ہمارے مخالف مسلمان مکا لمہ الٰہیہ کے قا ئل ہیں لیکن اپنی نادانی سے ایسے مکا لمات کو جو بکثرت پیشگوئیوں پر مشتمل ہو ں نبوت کے نام سے مو سوم نہیں کرتے۔‘‘ ۷؎
گویا وہی عقیدہ رکھنے والوں کو جو ایک وقت میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا نادان قرار دیا ہے اِس کی یہی وجہ ہے کہ جب تک حق نہیں کُھلاتھا وہ عقیدہ رکھنے والے معذور تھے لیکن جب حق کُھل گیا تو ان کے لئے بدلنا ضروری تھا اِسی طرح اِس آیت سے ایک وقت میں حضرت صاحب نے یہ استدلال کیا کہ نبی وہ ہو تا ہے جو دوسرے نبی کا متبع نہ ہو لیکن جب آپ پر اِس کی حقیقت کُھل گئی تو خود ہی یہ فرما دیا کہ:۔
’’نبی کے حقیقی معنوں پر غو ر نہیں کی گئی ۔نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا۔ اور شرفِ مکا لمہ اور مخا طبۂ الٰہیہ سے مشرف ہو ۔ شریعت کا لانا اُس کیلئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحبِ شریعت رسول کا متبع نہ ہو۔ ؎۸
اب جبکہ حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ لکھ دیا ہے تو ایک ایسا شخص جو آپ کا متبع ہونے کا دعوی کرتاہے یہی کہتا جائے کہ نہیں نبی کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو تو اُس کے نادان ہو نے میں کیا شک ہے۔نادان نہیں بلکہ اس کے عاصی اور گنہگار ہونے میں بھی کوئی شک نہیں ۔پس جب حضرت مسیح موعودؑ نے بار بار کی وحی کے ماتحت یہ لکھ دیا ہے کہ نبی کیلئے ضروری نہیں کہ وہ دوسرے نبی کا متبع نہ ہو اب جو شخص کہتا ہے کہ متبع نہ ہو نا ضروری ہے وہ ضرور نادان ہے۔
حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے ابتداء میں جو کچھ لکھا اُس کانام ہم احتیاط رکھیں گے کیو نکہ اُس وقت آپ پر اس کے متعلق کوئی انکشاف نہ ہو اتھا اِس لئے آپ نے عوام کے عقیدے کے مطابق لکھ دیا لیکن آپ کو ہم یہ لکھنے سے نَعُوْذُ بِاللّٰہ نادان نہیں کہہ سکتے ۔دیکھو صحابہ میں سے ایسے لوگ تھے جو شراب پیتے تھے لیکن اُن کو اسلام سے خارج نہ کیا گیا۔ کیوں؟اس لئے کہ اُس وقت شراب کی ممانعت کے متعلق کوئی حکم نہیں نازل ہوا تھا اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔ ہا ں جب حکم نازل ہو گیا اس کے بعد اگر کوئی شراب کو حلال سمجھ کر پیتا تو ضرور اسلام سے خارج ہو جا تا۔ تو بعض ایسی باتیں ہو تی ہیں کہ جب تک خدا تعالیٰ ان کے متعلق کوئی حکم نا زل نہ کرے اُس پر نبی اُسی طرح عمل ہو نے دیتا ہے جس طرح پہلے ہو رہا ہو۔ اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اور حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی شاہد ہے۔
وہ شخص کیسا نا دان ہے جو یہ کہتا ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود ؑکی ہتک کی ہے کیو نکہ اس کا گروہ ہم پر سب سے بڑ ا الزام ہی یہ لگاتاہے کہ ہم غلو کرتے ہیں ۔ اب اس سے کوئی پو چھے کہ کیا غلو کرنے والا بھی ہتک کر سکتا ہے؟ ہتک ہمیشہ وہی کر تا ہے جوا صل درجہ سے کم کر کے دکھانے کی کوشش کر رہا ہو ۔ ہتک کا الزام اُن پر ہے نہ کہ ہم پر کیونکہ بخیال ان کے ہم تو حضر ت مسیح موعود ؑ کے درجہ میں غلو کرنے والے ہیں اور وہ کم کرنے والے۔
پس میرے فقرہ کے وہ معنی کرنے کہ جن کی میرے ہی مضمون میں تردید کی گئی ہے نیک نیتی پر مبنی نہیں ہیں۔میں نے تو بتا دیا ہے کہ ایک بات جب تک پو شیدہ اور پردۂ اِخفاء میں ہوا سے اصل کے خلاف ما ننا ایک اور بات ہو تی ہے لیکن پر دہ اُٹھ جا نے پر پھر بھی غلطی سے نہ ہٹنا ایک اور بات ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص لاہور جائے وہا ں جا کر اسے دکھ پہنچے تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ۔لیکن اگر لاہور جانے سے پہلے رؤیا کے ذریعہ اس بات کا علم ہو جائے کہ وہاں جا کر مجھے دکھ پہنچے گا اور پھر چلاجائے تو یہ اُس کی نا دانی اور بے وقوفی ہو گی ۔ پہلی دفعہ جا نا اُس کی نا دانی نہیں ہو گی کیو نکہ اُسے علم ہی نہیں تھا لیکن جب اُسے بتا دیا گیا تو پھر جا نا اس پر الزام لائے گا۔
یہ تو ان لوگوں کی جہا لت ہے جو ہم پر حضرت مسیح موعود ؑ کی ہتک کا الزام لگاتے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ کیو ں وہ ایسا کہتے ہیں؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایسے لوگ تومجھ پر بھی اسی طرح حملے کرتے ہیں اور انسان کا کلام تو الگ رہا خداکے کلام کو سن کر اور سمجھ کر اور معنی کر لیتے ہیں۔پس جب اللہ تعالیٰ کے کلام کے متعلق ایسا کرنے والے ہیں تو پھر ہمیں کیا تعجب ہے۔ مگر یہ ضرور ہے کہ جو شخص حق کی تا ئید کے لئے کھڑا ہو تاہے وہ جھوٹ بولنے کی جرات نہیں کرتا کیونکہ جھوٹ بہرحالت میں جھوٹ ہی ہے خواہ سچ کی تائید کے لئے ہی کیوں نہ بولا جائے۔
ہم تو حضرت مسیح موعود ؑ کو خدا تعالیٰ کا نبی اور برگزیدہ مانتے ہیں کیا ہم مانتے ہوئے آپ کو نادان کہہ سکتے ہیں ؟ہاں وہ جو آپ کے درجہ کو گھٹا رہے ہیں وہ ایسا کہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔چنانچہ وہ اب اپنے ہا دی اور مرشد کو ’’ایک شخص، ایک شخص‘‘ ایسے حقارت آمیز الفاظ سے یا د کرتے ہیںاللہ تعالیٰ ان لوگوں کو حق دکھائے جو اِس بات کی کو شش میں لگے ہو ئے ہیں کہ ہم کو حق سے پھیر کر باطل کی طرف لے جا ئیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو نشان پر نشان دکھا تاہے مگر باوجو د اس کے جس طرح ایک کیمیا گر ایک آنچ کی کسر سمجھتا ہے اِسی طرح وہ ایک با ر اور کو شش کی کمی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ان کو توڑ دیں گے۔ چو نکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو سب پر غالب رکھے گا اِس لئے ان کی کو ششوں سے ہمیں کوئی فکر نہیں۔ مگر دل چاہتا ہے کہ وہ جو کبھی ہمارے تھے اِن کو بھی خدا حق قبول کرنے کی توفیق دے اور وہ پھر ہما رے ہو جائیںاور اِس طرح ہمارے راستہ سے یہ روک بھی دُور ہو جائے اور ہم اپنا فرض پوری توجہ سے ادا کر سکیں۔‘‘ (الفضل ۲۷؍جون۱۹۱۶ئ)
۱؎ البقرہ :۷۶
۲؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر
۳؎ متی باب ۲۲ آیت ۲۰۔۲۱
۴؎ النسآء : ۶۵
۵؎ ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۰۷
۶؎ حقیقۃ النبوۃ صفحہ ۱۴۱،۱۴۲ ۔ایڈیشن ۱۹۱۵ء
۷؎ چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ ۱۸۹
۸؎ براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۰۶
۱۹
دُعا پر بہت زور دو
(فرمودہ۱۶؍جون۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’دنیا میں دو قسم کی چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں ایک تو وہ جو کچھ عرصہ کے بعد پُرانی ہو جاتی ہیں اور انسان کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر رہتی ہیں اِس لئے آہستہ آہستہ اُن کو چھوڑ دینا پڑتا ہے۔ دوسری وہ چیزیں ہیں جو ہمیشہ نئی کی نئی رہتی ہیں اور ہر زمانہ میں انسان کے استعمال میں آتی رہتی ہیں اُن کے چھوڑ دینے میں انسان کا اپنا نقصان ہوتا ہے۔ اور جو اُنہیں چھوڑتا ہے گویا وہ اپنی کامیابی کو چھوڑتا ہے کیونکہ وہ کبھی پُرانی نہیں ہوتیں۔ جیسے کہ انسان کے پیدائش کے وقت تھیں اور جیسے کہ حضرت آدمؑ کے وقت سے اُن کی ضرورت تھی ویسے ہی موجودہ اور آئندہ زما نے میں بھی اُن کی ضرورت چلی جا تی ہے۔
مختلف عقائد اور مختلف خیالات بھی پُرانے اور نئے ہوتے ہیں ۔کئی خیالات تھے جو کسی زمانہ میں بالکل نئے تھے اور لوگ ان کو نہایت ضروری سمجھتے اور کہتے تھے کہ ترقی اُنہی کے ذریعہ ہو سکتی ہے مگر آج اُنہی کو پرانے خیالات کہا جاتا اور لغو قرار دیا جا تاہے۔ اور جس طرح ظاہری اشیاء نئی اور پُرانی ہو تی ہیں اِسی طرح خیالات اور عقائد بھی نئے اور پرانے ہو تے رہتے ہیںاور پھر ان میں بھی یہی حال ہے کہ بعض عقائد اور خیالات ایسے ہیںکہ ہمیشہ ایک ایسے ہی رہتے ہیں کبھی پرانے نہیںہوتے ۔ وہ دائمی صداقتیں ہوتی ہیں جن کو انسان کسی صورت میں بھی جھو ٹ قرار نہیں دے سکتا ۔ اس قسم کی ہمیشہ نئی رہنے والی چیزوں میں سے ایک بڑی چیز دُعاہے یہ بھی کبھی پُرانی نہیں ہوتی۔کو ئی زمانہ ایسا نہیں آیاکہ انسانو ں نے کہا ہو کہ اب یہ ہمارے لئے مفید نہیں رہی کیو نکہ پُرانی ہو گئی ہے یا اس لئے کہ نئے علوم، نئی ایجا دیں اور نئے اصو ل نکل آئے ہیں اب اِس کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ نہ پہلے کسی زمانہ میں ہوا ہے نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہو گا کہ لو گ دعا سے مستغنی ہو جا و یں بلکہ جتنا انسان ترقی کر تا جا ئے گا اُتنا ہی زیادہ دعا کا محتا ج ہو گا۔ بہت لو گوں نے اِس با ت کو سمجھا نہیں کہ علوم و فنو ن کی تر قی انسانی اعمال کی ترقی اور زیادہ دعا کا محتاج کر دیتی ہے۔یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ ایک شخص کے پاس اتنا بوجھ ہو جسے وہ مشکل سے اُٹھا سکتا ہو تو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی اَور کو اُ ٹھوا نے کے لئے آواز دے۔ مگر ایک ایسا شخص جس کے پاس ایسا بوجھ ہو کہ وہ اکیلا اُٹھا ہی نہ سکے تو ضرور ہے کہ اَور کو بُلائے کیونکہ جس قدر بوجھ زیادہ ہو تا ہے اُسی قدر مدد کی زیادہ ضرورت ہو تی ہے اِسی طرح جس قدر علوم و فنون بڑھے انسان کے اعمال بڑھ گئے۔اور جب اعمال بڑ ھ گئے تو ان کی مدد کی بھی زیادہ ضرورت ہوئی کیونکہ علوم کے بڑھنے کے ساتھ محنت اور مشقت بھی بڑھ گئی۔
دیکھ لیجئے جس وقت انسان صرف شکار پر گزارا کرتے اور لبا س نہیں پہنتے تھے اُس وقت انہیں صرف یہی کرنا پڑتا تھاکہ شکا ر کرتے اورانہیں پتھروں پر بھو نتے اور کھا لیتے بس دن رات میں انہیں یہی مشقت کرنی پڑتی تھی لیکن جب علوم نے ترقی کی تو مشکلا ت اور محنت دونو ں بڑھ گئیں تو علوم کی ترقی ذمہ داریوں اور بو جھو ں کی ترقی ہو تی ہے ۔وہ قومیں جو اِس وقت تر قی پر ہیں اِن کو دیکھو تو پتہ لگے کہ کس قدر کام میں مشغو ل رہتی ہیں لیکن جن قوموں نے ان کے مقابلہ میں ترقی نہیں کی وہ بہ نسبت ان کے کم محنت و مشقت کر تی ہیں کیو نکہ وہ اگر زیادہ محنت کریں تو ان کی زندگی مشکل ہو جا ئے۔ان کا آپس کا مقابلہ بہت زورسے ہو رہا ہے اور یہی بات ان کو دن رات محنت کرنے پر مجبور کر تی ہے۔پس علوم کی ترقی انسانی ذمہ داریوں اور بو جھو ں کو کم نہیں کر تی بلکہ اَور زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ چو نکہ اِس زمانہ میں علوم نے بہت زیا دہ ترقی کر لی ہے اس لئے جس قدر دعا کی ضرورت پہلے زما نہ میں تھی آج اُس سے بہت بڑھ کر ہے لیکن تعجب اور حیرت کا مقام ہے کہ انسان جس وقت سب سے زیادہ دعا کا محتاج ہے اُس وقت سب سے زیادہ غفلت اور لا پر واہی سے کام لے رہا ہے۔ اور یہ ایسی ہی بات ہے کہ جب کسی کو معمولی سی حرارت ہو تو دواپئے لیکن جب تیز تپ ہو جائے تو کہے کہ اب دوا کی ضرورت نہیں حالانکہ وہی وقت دوا پیئے کاہے۔تو گو انسان دعا کا ہمیشہ سے محتا ج چلاآرہا ہے مگر اِس زمانہ میں بہت ہی زیادہ ہے لیکن اِسی زما نہ میں بہت سے لو گ ایسے کھڑے ہو گئے ہیں جو کہتے ہیں کہ دعا ایک لغو اور پرانا خیال ہے صرف زبان کی حرکت سے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے حالا نکہ یہی لو گ دیکھتے ہیں کہ زبان کی حرکت انسان کو کنو یں میں گرا دیتی ہے اور زبان کی ہی حرکت اعلیٰ مدارج پر پہنچا دیتی ہے۔پھر دیکھو گداگر بھی زبان ہی ہِلاتے ہیں کیا انہیں زبان کی اِس حرکت سے مادی نفع نہیں مل جاتا؟ ایک بڑے دنیا دار شخص نے کہا تھاکہ لفظوں سے مادی فائدہ نہیں مل سکتا اس لئے دعاکرنا ایک لغوامر ہے مگر اُس کو یہ خیال نہ آیا کہ ایک محتا ج آکر سوال کر تا ہے اِس سوال کر نے پر پیسہ، دو پیسے، آنہ، دو آنے اس کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں کیا اس کو مادی فا ئدہ حا صل نہیں ہوا؟ ضرور ہوا ہے۔ پس اگر انسان پر گداگر کے الفاظ کا اثر ہو تا ہے اور باوجود اِس کے کہ وہ خود محتا ج ہو تاہے اُس کی دستگیری کرتاہے تو خدا جو کسی کا محتاج نہیںاُس کے حضور اگر کوئی عر ض کرے تو کیا وجہ ہے کہ وہ دستگیری نہیں کرے گا ۔یہ بہت نا دانی اور کم عقلی کی بات ہے اور جو لوگ اِس طرح کہتے ہیں انہوں نے دعا کو ایک ڈھکو سلہ سمجھ رکھا ہے۔اگر یہ لو گ تدبر سے کام لیتے تو اُنہیں دعا کی صداقت کے قبو ل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی کیو نکہ بعض عقائد تو ایسے ہوتے ہیں جن کا نتیجہ عمل کو چاہتا ہے مگر دعا ایک ایسی چیز ہے کہ انسان فوراً اس کا اثر دیکھ سکتا ہے اور ہمیشہ اور ہر زمانہ میں اس کا تجربہ کر سکتا ہے۔ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مخالفین کو چیلنج دیا تھا کہ اگر کسی میں جر أت ہے تو آئے میرے مقابلہ میں دعاکرے اور پھر دیکھ لے کہ کس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ؎۱ یہ ایک نتیجہ تھا اور مشاہدہ تھا جو ہر ایک کھلے طور پر دیکھ سکتاتھا مگر کسی کو اس کی جرأت نہ ہو سکی۔ تو اس مسئلہ میں کسی لمبی چو ڑی تقریر کی ضرورت نہیں ہے۔ انسان جب بھی خداکے حضور جھکے خدا اُس کی دعا کو قبول کر لیتا ہے اور اِس طرح وہ دعا کی صداقت کو دیکھ سکتا ہے اور خود تجربہ کر سکتاہے۔
دعاایک ایسی طاقتور چیز ہے کہ دنیا میں اور کو ئی طاقت اس کا قابلہ نہیں کر سکتی۔ اور بھی بہت بڑی بڑی طا قتیں ہیں مثلاً پانی کی طاقت، بجلی وغیرہ کی طا قت ہے مگر دعا کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ۔ایک بزرگ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ جس جگہ رہتے تھے اُن کے پڑوس میں ایک بڑا امیر رہتا تھا جو ہروقت گانے بجا نے میں مشغول رہتا جس سے انہیں سخت تکلیف ہوتی۔ ایک دن وہ اُس کے پا س گئے اور جا کر کہا دیکھو بھئی! میں تمہارا ہمسایہ ہو ں اِس لئے میرا بھی تم پر حق ہے۔ اوّل تو تمہیں اِس لغوکام سے خود ہی رُک جا نا چاہئے تھا لیکن اگر ایسا نہیں کیا تو اب میری خاطر ہی اِسے ترک کر دو کیو نکہ مجھے اس سے سخت تکلیف ہو تی ہے۔ وہ چونکہ بڑا رئیس اور صاحبِ رسوخ تھا اُس نے کہا تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے؟ ہم کبھی نہیں رُکیں گے۔ انہوں نے کہا اگر آپ اس طرح نہیں رُکیں گے تو ہم بھی مجبور ہیں ہم اور طرح سے روکیں گے۔ اُس نے کہا کیا تم روکو گے؟ کیا تم میں اتنی طاقت ہے؟ میں ابھی سرکا ری گارڈ منگواتاہوں۔ انہو ںنے کہا ہم گارڈ کا بھی مقابلہ کریں گے۔ اُس نے کہا تم ان کا کیا مقابلہ کر سکتے ہو؟ انہوں نے کہا۔ نادان! ہمارا مقابلہ توپوں اور بندوقوں سے نہیں ہو گابلکہ سہام اللیل سے ہو گا۔ لکھا ہے یہ الفاظ انہوں نے کچھ ایسے دردناک لہجہ میں فرمائے کہ اُس کی چیخیں نکل گئیںاور بول اُٹھا۔اس کا مقابلہ نہ میں کر سکتا ہوں اورنہ میرا بادشاہ کر سکتاہے۔آئندہ کے لئے میں اقرار کر تا ہوں کہ آپ کو گانے بجانے کی آواز نہیںسنائے دے گی۔تو دعا میں وہ طاقت ہے کہ کوئی توپ و تفنگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کیوں؟ اِس لئے کہ یہ تیر زمین سے نہیں بلکہ آسمان سے آتے ہیں ۔پھر انسانوں کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ خدا انسانوں سے لے کر خود پھینکتا ہے اور خداکے پھینکے ہو ئے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ کہتے ہیں کہ زمین میں کشش ہے اِس لئے جس قدر بلندی سے کوئی چیز گرے اُسی قدر زور سے گرتی ہے۔ خدا تعالیٰ یوں بھی سب بلندیوں سے بلند تر ہے اس لئے اُس کے ہاں سے آیا ہو ا تیر کو ئی روک نہیں سکتا۔ وہ پہا ڑوں کی روکوں اور قلعوں کی دیواروں کو چیرتا اور سب پردوں کو چاک کرتا ہوا منزلِ مقصود پر پہنچ جاتاہے۔
پس دعا ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو سب سے بڑا اور یقینی ہے۔ اِس سے میرا مطلب یہ نہیں کہ دیگر ذرائع سے کام نہ لیا جا ئے کیو نکہ جو لوگ دیگرذرائع سے کام نہیں لیتے اُن کی دعا بھی قبول نہیں ہو سکتی۔ دعا بھی اُس وقت قبول ہو تی ہے جبکہ دیگر ذرائع سے کا م لیا جائے۔ جس طرح دنیا میں سائل کے لئے یہ ضروری شرط ہے کہ وہ خو د کوئی محنت اور مشقّت نہ کر سکتا ہو یا جس قدر اس کی طاقت ہے اتنی کو شش کرے لیکن کا میا بی نہ ہو تو اس کے لئے سوال کرنا جا ئز ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔ حضرت عمر ؓ جب کسی ایسے سائل کو دیکھتے جو طاقتور اور محنت کرنے کے قابل ہو تا تو جو کچھ اُس نے سوال کر کے لیا ہوتاوہ بھی چھِین لیتے اور کہتے جا ئو جا کر محنت کرو اور کھا ئو کیو نکہ سائل وہی ہو سکتا ہے کہ جس قدر اُس کی ہمت ہو اُتنی کرے اس کے بعد اگر اُسے مدد کی ضرورت ہو تو سوال کرے۔ اِسی طرح خداتعالیٰ سے مدد حاصل کرنے کے لئے پکارنے سے پہلے انسان کے لئے ضروری ہے کہ جتنی اس کی اپنی طاقت اور ہمت ہو اُس کو کام میں لائے اور پھر دعا کرے کہ اے مولیٰ! میں نے اپنی طرف سے سب طاقت اور ہمت خرچ کر لی ہے لیکن میں کمزور اور عاجز ہوں آپ میری مدد کیجئے۔جب اس طرح کوئی دعا کرے گا تو اُس کے قبو ل ہونے میں کوئی روک نہیں ہو سکے گی ۔لیکن اگر کوئی خود ہا تھ پائوں توڑ کر بیٹھا رہے اور کہے کہ جو میں دعا کروں وہ قبول ہو جائے ۔یہ نا ممکن ہے۔
ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ اُس کے پاس بادشاہ آیاجس کو انہوں نے چند ایک نصیحتیں کیں۔مثلاً یہ کہ شراب نہ پینا ،ظلم نہ کرنا ،وہ کہتا گیا بہت اچھا۔ جب انہوں نے کہا کہ شکار کم کھیلا کرنا تو کہنے لگا۔ دعا کرو خدا مجھے ایسا کرنے کی توفیق دے۔ انہوں نے کہا۔ شکار چھوڑنے کی تمہا ری نیت نہیں ہے۔ اور باتوں کے متعلق تم نے دعاکے لئے کیوں نہ کہا اور اس کے بعد کہہ دیا ۔معلوم ہوتاہے اس طرح تم ٹا لنا چاہتے ہو۔ یہی حال آجکل لوگوں کا ہے۔ جس بات کو محنت سے نہ کرنا چاہتے ہوں یا سستی کی وجہ سے نہ کرتے ہوں اُس کے متعلق چاہتے ہیں کہ دعا ہو جائے حالانکہ دعا اُس شخص کے لئے ہتھیار ہے جو اپنی طاقت بھر محنت اور کوشش کرے اور پھر کامیاب نہ ہو سکے یعنی جس قدر اُس سے ہوسکتا ہے وہ محنت کرتا ہے لیکن کامیا ب نہیں ہو سکتا۔یا کسی مجبوری کی وجہ سے محنت کر ہی نہیں سکتا اُس کے لئے دعا ہے جو کمی یا نقص اُس کی محنت میں رہ جا تا ہے وہ دعا کے ذریعہ دُور ہو جا تا ہے۔
ہمارے اِس زمانہ میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے سب سے زیادہ مشکلات پیدا ہو گئی ہیں اس لئے سب زمانو ں سے زیادہ دعا کی ضرورت ہے کیو نکہ مقابلہ کے لئے ہر رنگ کے سامان پیدا ہو چکے ہیں ۔ یعنی شرارت کے، علوم کے،سا ئنس کے، تا ریخ و غیرہ کے اعتراض بڑ ھ رہے ہیں اور پوشیدہ تعلیمیں نکل رہی ہیںلیکن اِن کا مقابلہ کرنے کی ہر ایک انسان میں طاقت نہیں ہے کیونکہ جب تک تمام علوم سے واقف نہ ہو اُس وقت تک جواب نہیں دے سکتا۔اور تمام علوم سے واقف ہو نا کوئی آسان کام نہیں ۔پھر اِس زما نہ کی ترقیوں نے لو گو ںکو خدا تعالیٰ سے بالکل غافل کر دیا ہے اس لئے ان کو سمجھا نا بہت مشکل کام ہو گیا ہے۔اب اِن سامانوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا جو ہمارے ہا تھ میں ہیں بہت مشکل بلکہ نا ممکن ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چا ہئے تھا کیونکہ اِس آخری ز ما نہ میں خدانے جو مصلح بھیجا ہے اُس کا ہتھیار ہی خالص دعا ہے۔پہلے انبیا ء کے وقت اَور ہتھیار بھی استعمال کئے جاتے تھے مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں جب تلوار اُٹھائی گئی اور آپ کو جب سخت تنگ کیا گیاتو اِس کا جواب اُنہیں تلوار سے ہی دیا گیالیکن اِس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ کو تمام ہتھیاروں کی بجائے صرف دعاکا ہی ہتھیار دیا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے زمانہ میںجہاد کو قطعی حرام قرار دے دیا ہے ورنہ جہاد تو کہتے ہی اُس مقابلہ کوہیں جو دشمن کے سخت تنگ کرنے اور تکا لیف دینے پر بطور اپنے بچائو کے کیا جاوے لیکن یہ وہ زمانہ ہے کہ اِس میں اِتنی بھی اجا زت نہیں ہے تاکہ دعا او ر صرف دعا سے ہی اس جماعت کی ترقی ہو ۔کیو نکہ اس زمانہ میں مقابلہ کے سامان کثرت سے پیدا ہو چکے ہیں اور دن بدن ہو رہے ہیں لیکن دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جسے بیکا ر سمجھ کر چھو ڑ دیا گیا ہے اور اِس کے فائدہ رساں ہونے سے انکار کیا گیاہے اس لئے خدا نے چاہاہے کہ دعا کے ذریعہ اِس جماعت کو پھیلائے تا کہ ایک تو جو لوگ اِس کے اثر سے منکر ہیں وہ قائل ہو جا ئیں دوسرے اِس جما عت کے لئے آسانی ہو۔
اِس زمانہ میں یو رپ کے لوگ جس آرام طلبی اور آسائش میں پڑے ہو ئے ہیں ہم انہیں کہاں سمجھا سکتے ہیں سوائے اِس کے کہ ہما رے مبلّغ دعا ئیں کریں اور خدا کا فضل اُن کے دلوں کو پاک کر کے حق کی طرف پھیر دے۔ اِس وقت ہمارے پاس دعا ہی ایک ایسا ہتھیا ر ہے جس کے ذریعہ ہم کامیا ب ہو سکتے ہیں ۔زرتشت نبی کے خلیفہ جا ماسپ کی ایک کتاب ہے جس کا نام جاماسپی ہے اُس میں لکھا ہے کہ ایک نبی آخری زمانہ میں آئے گا اُس وقت شیطان بڑا زور آور حملہ کرے گا۔ وہ نبی اس شیطان سے جنگ کرے گااور کامیا ب ہو جائے گا۔ مگر کس چیز سے؟ تلوار اور بندوق سے نہیں بلکہ دعائوں سے ۔اس کے علاوہ یوں بھی حدیثوں میں آیا ہے کہ مسیح کے دم سے کا فر مریں گے ۔ ؎۲ ان باتوں سے پتہ لگتاہے کہ در حقیقت سامان اِس وقت کچھ نہیں کر سکتے۔
پس جب خدا تعالیٰ نے ہما ری تما م فتوحات کو دعائوں سے وابستہ کر دیا ہے تو اِس بات کی بہت ہی ضرورت ہے کہ ہم خصو صیت کے ساتھ دعائو ں کی طرف متوجہ ہوں ۔ اِس میں شک نہیں کہ ہماری جماعت کے لوگ دوسروں کی نسبت زیادہ دعائوں پر زور دیتے ہیں حتّٰی کہ لوگ ہنستے ہیں ۔ تاہم ابھی ضرورت ہے کہ خوب زور سے دعائیں کی جا ئیں لیکن اس سے پہلے یہ یقین کر لینا چا ہئے کہ دعا ایک ایسی چیز ہے جس کے سامنے کو ئی روک حا ئل نہیں ہو سکتی اور اس کے ذریعہ خطر نا ک سے خطرناک دشمن اِس طرح کچلے جا تے ہیں کہ دیکھنے والے حیران رہ جا تے ہیں۔ پس دعائوں پر بہت زور دو اور جتنا پہلے دیتے ہو اُس سے بھی زیادہ دو کیو نکہ دشمن جس قدرقوی ہو تاہے اُسی قدر زیادہ اُس کے مقابلہ کے لئے تیاری کی جا تی ہے۔ ہمارا دشمن بہت بڑا ہے اور جس قدر روکیں ہمارے راستہ میں ہیں اِتنی پہلے نہ تھیں ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۳؎ کہ وہ ایسا زمانہ ہو گا جب کہ اسلام کو تما م دینوںپر غالب کیا جاوے گاگویا اُس وقت باقی تمام دین بھی ظاہر ہو جائیں گے جن کے ساتھ اسلام کو مقابلہ کرنا ہو گا۔ اب دیکھ لو اِس کے لئے کس قدر محنت اور کوشش کی ضرورت ہے اور وہ محنت یہی ہے کہ ہم دعائوں میں زور سے لگے رہیں۔ہما ری جماعت نے دعائوںکا بہت تجربہ کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے وقت تو دعائوں کے ذریعہ ایسی ایسی کا میابیاں ہو تی تھیں کہ دیکھنے والے حیران اور ششدر رہ جا تے تھے۔ پس دعا ہمارے لئے کو ئی بند لفافہ نہیں کہ گھبرائیں کہ اِس کے اندر کیا ہو گا بلکہ کھلی اور واضح تحریر ہے جس کو ہم نے بار بار پڑ ھا ہے، اِس کے اثرات کو دیکھا اور اس کے نتائج کا مشاہدہ کیا ہے اِس لئے ہما رے لئے اِس کی طرف متوجہ ہو نا کچھ مشکل نہیں ہے۔ کیونکہ جس چیز سے ایک دفعہ انسان فا ئدہ حاصل کر لیتاہے دوسری دفعہ زیادہ رغبت سے اس کی طرف متوجہ ہوتاہے۔ہم میں سے خداکے فضل سے ہر ایک نے دعائو ں کا نتیجہ محسوس کیا ہوا ہے پھر کونسی چیز ہے جو ہمارے راستہ میں روک ہو سکے سوائے اِس کے کہ ہمارے نفس کی سستی اور کاہلی روک ہو۔ لیکن جس کام کے لئے ہم کھڑے ہیں اس میںسستی کا ایک منٹ بھی سخت مضر اور خطرناک ہے۔ کیا کو ئی سمندر میں یاخطرناک جنگل میں سست ہو کر لیٹ سکتاہے؟ ہر گز نہیں ۔ اِسی طرح ہم بھی ایک ایسے جنگل اور بیابان میں ہیں جس کے چاروں طرف درندے ہی درندے نظر آتے ہیں۔ پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ نما زوں کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی دعائوں پر بہت زور دیں۔اور یہ سمجھ لیں کہ جب باربار ایک جگہ دعا پڑتی رہتی ہے توپھر اس کے قبول ہو نے میں کوئی روک نہیں ہو سکتی ۔
مجھے اپنی ساری عمر میں آج تک کوئی ایسا اتفاق نہیں ہواکہ میں نے کوئی دعا کی ہو اور وہ قبول نہ ہوئی ہو ۔اور جہا ں منشائے الٰہی نہ ہو وہا ں دعاکرنے کی توفیق ہی نہیں ملتی ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت صاحب کی آخری بیماری میں مجھ سے دعاکرنے کی توفیق چھینی گئی۔ مجھے اِس سے گھبراہٹ بھی پیداہوئی کہ کیا مجھے آپ سے محبت نہیں ہے کہ آپ کی صحت کیلئے دعاکرنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔پھر میں نے اس بات کیلئے دعاکی کہ مجھے آپ کی صحت کے لئے دعاکرنیکی توفیق ملے لیکن بالکل نہ ملی۔مجھے دعاکرتے وقت کچھ روک سی معلوم ہوئی۔جب میںنے حد سے زیادہ دعاکرنے کی کو شش کر کے دیکھ لیا کہ طبیعت اِس طرف متوجہ نہیں ہو تی تو سمجھا اِس میں خداکی مصلحت ہے۔تو جب کوئی انسان سنجیدگی اور اخلاص سے دعاکرے تو اگر خداکا منشاء قبول کرنے کا نہ ہو تو اُسے توفیق ہی نہیں دیتا اور اگر توفیق دے تو ضرور قبول کر لیتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جب دعا میں اخلاص اور توکل پیدا ہو جائے تو وہ کبھی نہیں ٹلتی یہی بات خدا تعالیٰ نے اس میں فرمائی ہے کہ ۴؎ شکار کو گھیر کر کسی خاص جگہ تک لے جانے کو اِضْطَرَّ کہتے ہیں ۔ تو مُضْطَرّ کے یہ معنی بھی ہوئے کہ ایسا شخص جس کے سب سامان کٹ جا ئیں ۔بعض لو گوں نے اضطرار کو سمجھا ہی نہیں۔ وہ کہتے ہیں رونے، گڑ گڑ اکر دعا ما نگنے کا نام اضطراری دعاہے حالانکہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ مُضْطَرّ اُس انسان کو کہتے ہیںجس کے تمام آسرے اور اُمیدیں کٹ کرصرف خدا ہی خدا کا سہارا رہ جائے ۔ایسے انسان کی دعا قبول ہو تی ہے اِس کے علاوہ خواہ کوئی کتنا روئے یا گڑگڑائے اُس کی دعا قبول نہیں ہو سکتی ۔پس اگر تم لوگ ایسے رنگ میں دعائیں کرو گے تو وہ ردّ نہیں ہو ں گی۔رو کر تو بتوں پر چڑھا وے چڑھا نے وا لے بھی اُن سے دعائیں مانگتے ہیں اس لئے رونا دعاکے قبول ہونے کے لئے شرط نہیںبلکہ پوراپورا توکل اور آسرا سوائے خداکے اور کسی کا نہیں ہو نا چاہئے۔ ہر طرف خداہی خدا نظر آئے۔ایسے وقت جو انسان دعا کرے اُس کی کبھی ردّ نہیں ہوتی اور اگر ردّ ہونی ہو تو اُسے دعا کرنے کی توفیق ہی نہیں ملتی۔ اور جو خداکے برگزیدہ انسان ہوتے ہیں اُن کو قبول نہ ہو نے والی دعا کے متعلق پہلے ہی بذریعہ الہام یا کشف کے بتا دیا جاتاہے۔جیسے حضرت مسیح موعودؑ کو بتایا گیاکہ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَا ئِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَائِکَ۵؎ ان کے علاوہ اور لوگوں کے دلوں میں کچھ ایسی کیفیت پیدا کر دی جا تی ہے کہ دعا کرنے کی طرف پوری توجہ نہیں ہو سکتی اس سے معلوم ہو جا تاہے کہ منشائے الٰہی کچھ اَور ہے۔ غرض یہ بڑا کارآمد اور مفید ہتھیار ہے۔ دیگر سامانوں کے لحاظ سے تو ہما رے پا س کچھ بھی نہیں ۔ نہ حکومت ہے، نہ مال ہے، نہ دولت ہے، نہ فوج ہے ، نہ کو ئی ایسا سامان ہے۔ ہمارے کام جیسے ہو نے چاہئیں اُس کے مقابلہ میں بہت چھوٹے چھوٹے پیمانہ پر چل رہے ہیں ۔ پھر بھی قریباً تمام فنڈ مقروض ہی رہتے ہیں تو دنیا وی سامانوں کے ساتھ ہم اپنے دشمن کا مقابلہ نہیںکر سکتے۔ ہما را مقابلہ اِسی طرح ہو سکتاہے کہ خداکا فضل اور رحمت آکر ہمارے لئے راستہ صا ف کر دے۔ اور یہ تب ہو سکتا ہے جبکہ ہم مضطر ہو کر دعا ئیں ما نگیں اور خدا کے سوا کوئی سہا را اور امیدگاہ خیال نہ کریں ہما رے لئے صرف ایک خدا ہی ہو اور وہی ہر طرف دکھائی دے ۔ جس طرح کسی شا عر نے کہا ہے ۔ ؎
جِدھر دیکھتا ہوں اُدھر تُو ہی تُو ہے
جب ایسا ہو جائے تو خدا ضرور ہما ری دعائیں قبول کرے گا ۔ پس دعا ئوں میں لگ جائو اور اِس بات کا یقین رکھو کہ ضرور قبول ہو جائیں گی۔ اور اس بات کے لئے بھی دعا ما نگو کہ خدا تمہیں یہ دعائیں کرنے کی تو فیق دے۔ جس وقت خدا کا منشاء اور ارادہ انسان کے شامل حال ہو تاہے تو دعا کرنے کے عجیب عجیب طریق اُسے سُوجھ جا تے ہیں ۔بعض دفعہ تو الفاظ اور فقرات سکھائے جاتے ہیں۔
وہی فتنہ جو ہما ری جما عت میں ایک گمنا م ٹریکٹ کے ذریعہ بر پا کرنے کی کوشش کی گئی تھی ابھی وہ ٹریکٹ شائع نہیں ہو ا تھا کہ مجھے شملہ میں رئویا میںدکھا یا گیا کہ ہم کچھ آدمی ہیں جنہیں پہاڑ پر جا ناہے اور ایسا معلوم ہو تاہے کہ راستہ میں جنا ت ہیں جو نظر تو نہیں آتے لیکن ہمارے راستہ میں رُکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ میں اپنے ساتھیوں کو کہتا ہوں کہ وہ تم کو راستہ سے ہٹائیں گے لیکن تم ہر گز نہ ہٹنا اور یہ کہتے ہو ئے آگے بڑھتے جانا کہ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘۔ چنانچہ جس وقت ہم چلے ہیں تو انہوں نے روک ڈالنی شروع کر دی ہے مگر نظر نہیں آتے ۔جب ہم نے کہا کہ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ‘‘ تو وہ بھاگ گئے اور ہمارے راستہ سے روک ہٹ گئی ۔ اس رئویا کے بعد جب میں شملہ سے آیا تو اس ٹریکٹ کے ذریعہ حملہ ہو ا اور حملہ کر نے والے پو شیدہ رہے۔اِس کے جواب میں جو ٹریکٹ لکھا گیا اُس کے ٹائٹل پر یہی الفاظ لکھوائے گئے کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ شائع ہوتا ہے۔
تو خدا تعالیٰ خود دعا ئیں سکھا دیتا ہے مگر اُسی وقت جبکہ انسان مضطر ہو کر اُس کے آستانہ پر گر جائے۔ اللہ تعالیٰ ہما ری جماعت کو اِس بات کی توفیق دے تا یہ ایک ہی ہتھیا ر جو ہمارے لئے مخصو ص کیا گیا ہے اِسے استعمال کر سکیں اور ہمارے راستہ میں جو مشکلات ہیں وہ دُور ہوں اور ہمارے سپرد جو خدمت کی گئی ہے اُس کو پوراکر سکیں۔‘‘آمین
(الفضل ۴؍جو لائی۱۹۱۶ئ)
۱؎ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۸۱،۱۸۲۔ جدید ایڈیشن
۲؎ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال
۳؎ الصف: ۱۰ ۴؎ النمل:۶۳
۵؎ تذکرہ صفحہ ۲۶ ۔ایڈیشن چہارم
۲۰
مبلغین سلسلہ کی دعائوں سے مدد کرو
(فرمو دہ ۲۳؍جون۱۹۱۶ئ)
تشہد ، تعوذ اور سورۃ فا تحہ کے بعدحضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
۱؎
اورفرمایا:۔
’’میں اِس وقت جس مضمون کے متعلق کچھ بیا ن کرنا چاہتا ہوں وہ ہے تو بہت لمبا بلحاظ اِس زمانہ کی ضروریات کے کیو نکہ اِس زمانہ میں جب تک کسی بات کو کھول کر مشرح اور مفصل نہ بیان کیا جائے لوگ کم سمجھتے ہیں ورنہ صحابہ ؓ کے زمانہ میں بہت لمبی لمبی باتیں نہا یت مختصر فقرات اور جملات میں بیان کر دی جا تی تھیں اور سامعین اُسی کو کافی خیال کرتے تھے۔ غرض یہ مضمون تو اس قابل ہے کہ اس کی خوب تشریح کی جا ئے لیکن چونکہ چار پا نچ روز سے مجھے بخار آتا ہے اور ڈاکٹر صا حب نے بولنے کے متعلق فرمایا ہے کہ مضر ہے اس لئے میں اس کو مختصراً بیان کرتاہوں آگے ہر شخص اپنے اپنے فہم اور سمجھ کے مطابق سوچ لے۔
اِس وقت ہمارے کچھ مبلغ بیرو نجات میں کام کر رہے ہیں ایک انگلستان میں ہے، ایک ماریشس میں، ایک پورٹ بلیئرمیں ہے، ایک بنگال میں۔ اِسی طرح پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہیں ۔مدد، تائید اور نصرت کے تو سب ہی محتاج ہیں کیونکہ تمام انسانی کاموں کو اللہ تعالیٰ نے کچھ اس قسم کا بنا یا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سہا رے اور تعاون سے چلتے ہیں مگر ان میں سے جو بیرونی مما لک میں مبلغ ہیں وہ مدد کے زیادہ محتاج ہیں ۔محتاج ہی نہیں بلکہ زیا دہ مستحق ہیں اس بات کے کہ ہماری جما عت کے تمام لوگ اُن کی مدد کریں۔ پھر ان میں سے بھی مدد کے زیادہ مستحق وہ ہیںجن کی تبلیغ ایسے لوگوں میں ہے جو نسلاً بعد نسل اسلا م کے دشمن چلے آرہے ہیں اور جو ایسی روایتوں میں پلے ہیں جن میں اسلام کو نظر حقارت سے دیکھا گیا اور کمزور ترین بیان کیا گیا ہے۔
درحققیت تبلیغ کا کام کسی خاص شخص کا کام نہیں بلکہ ہر ایک احمدی کا فرض ہے پس نا دان ہے اور اپنے فرائض کو نہ سمجھنے والا ہے وہ انسا ن جو یہ خیال کرے کہ فلاں شخص جو تبلیغ کا کام کرتا ہے اپنا کام کر رہا ہے ۔کیو نکہ درحقیقت وہ ایک ایجنٹ ہے جس طرح تاجر کمپنیاں مختلف جگہوں میں اپنے ایجنٹ مقررکرتی ہیں اور ایسا نہیں ہوتا کہ ہر جگہ ما لکان کمپنی جا ئیں اِسی طرح ہما رے مبلغ ہما ری تمام جما عت کے ایجنٹ ہیں ۔کیو نکہ سب کی سب جما عت ہر جگہ جا نہیں سکتی اس لئے یہی ہو گاکہ ساری جماعت کے کچھ قائم مقام ہوں جو مختلف جگہوں میں کام کریں۔ جب صورت حال یہ ہے تو آسانی سے یہ بات سمجھ میںآسکتی ہے کہ ان قائم مقاموں کی کامیابی تمام جما عت کی کامیابی ہے اور ان کی ناکامی تمام جماعت کی نا کامی ہے ۔اگر کسی ملک کی فوج کسی جگہ لڑ رہی ہو تو ملک کے تمام لوگوں پر اُس کی مدد کرنا فرض ہے۔ اِس میں شک نہیںکہ وہ سپاہی جو بندوق اُٹھا ئے مقابلہ کر رہا ہے، اپنی قوتِ بازو دِکھلا رہا ہے لیکن وہ اپنے ملک کے سب لوگوں کا قائمقام ہو کر کھڑا ہے اس لئے اگر وہ گرتا ہے تو اس کا ساراملک گرجا تا ہے اور اگر اسے کامیابی اور فتح حاصل ہوتی ہے تو اُس کا سارا ملک فا تح کہلاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ قومیں جو سمجھدار ہیں اپنے ہر ایک سپاہی کی قربانی کو اپنی قربانی سمجھ کر اُس کے لئے ہر ایک قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں۔مگر وہ ملک کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا جس کے سپاہی دشمن سے لڑنے کے لئے جائیں اور دوسرے لوگ کہیں کہ وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لئے گئے ہیں ہمیں ضرورت نہیں کہ ان کی مدد کریں یا کسی طریق سے لڑائی میں حصہ لیں کیو نکہ جب تک ہر فرد کی طاقت ترازوئوں کے پلڑا میں نہ ڈال دی جائے اُس وقت تک مقابل کے پلڑا سے بھا ری نہیں ہو سکتا۔ پس مبلغین کاکام ان کانہیں بلکہ ہم میں سے ہر ایک کا ہے ۔خواہ وہ مرد ہے یا عورت ، خواہ وہ بڑا ہے یا چھوٹا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی کامیابی یا نا کامی کا اثر تمام جماعت پر پڑتاہے اس لئے ان کی مدد کرنا درحقیقت آپ اپنی مددکرنا ہے۔ پس ہماری جماعت کے تمام لوگوں کو چاہئے کہ ہر رنگ اور ہر ذریعہ سے جو خدا دے مبلغین کی مدد کریں ۔کیونکہ ان کو مدد دینا ان کے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے ہے اور اپنے بھی جسم کیلئے نہیںبلکہ روح کیلئے جو جسم سے بہت زیادہ قیمتی ہے۔
مبلغین کو مدد دینے کے ذرائع تو بہت سے ہیں ۔ مثلاًمال سے مدد کرنا ایک ذریعہ ہے ،ان کو مفید اور فائدہ مند نصائح کرنا دوسرا ذریعہ ہے، ان کے تبلیغی کام کے متعلق مفید مشورے دینا تیسرا ذریعہ ہے،ان کا ہا تھ بٹا نے کے لئے ایسے مضامین لکھنا جو اپنے اندر روحانیت رکھتے اور اسلام کی صداقت پر دال ہوں چوتھا ذریعہ ہے۔ پھر کثرت سے ٹریکٹ چھپوا کر ان کے پاس بھیجناکہ وہ تقسیم کر سکیں پا نچواںذریعہ ہے۔غرض انکی مدد کرنے کے بہت سے ذرائع ہیںلیکن ان سب سے زیادہ زور دار اورمفید و بابرکت ذریعہ جو ہے وہ دعا کا ذریعہ ہے۔ اس ذریعہ سے جس قدر مددکی جا سکتی ہے اور کسی طریق سے نہیں ہو سکتی ۔لا کھوں لا کھ ٹریکٹ چھپواکر ان کو بھیجے جائیں، کرڑوں کروڑروپیہ ان کے لئے خرچ کیا جائے، بے انتہاء مفید سے مفید مشورے اور اعلیٰ سے اعلیٰ نصیحتیں انہیں کی جائیں ،ان کے دل کومطمئن اور بافراغت رکھنے کے لئے ان کے بال بچوں کی خبر گیری میں کو ئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا جائے مگر ان سب سے بڑھ کر دعا مدد دے سکتی ہے کیونکہ یہ سب ذرائع ہوتے ہوئے انسان ناکام ہو جا تاہے مگر دعاکی مدد جس کے ساتھ ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہو تا۔دنیا میں دوسری قومیں مال کے لحاظ سے ہم سے بہت زیادہ دولت مند ہیں مگر باوجود اس کے وہ مذاہب کے میدان میں ہما رے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ اگر عوام کی نگاہ میں ان کی کچھ کامیابی ہے تو یہ کوئی کامیابی نہیں کیونکہ ان کے ذمہ دار اور حقیقت شناس لوگ اِس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ ہما را قدم پیچھے پڑ رہا ہے نہ کہ آگے ۔ اِسی طرح مشورہ دینے اور مفید باتیں بتانے والے بھی غیر اقوام میں بڑے بڑ ے عالی دماغ ہیں، مبلغین کے آرام و آسائش کا خیال رکھنے والے بھی وہ ہم سے زیادہ ہیں، ٹریکٹ بھی لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں شائع کرتے ہیںغرض یہ سب اشیاء دیگر اقوام کے پاس ہم سے بہت زیادہ ہیں اگر کچھ نہیں ہے تو دعا کا ہتھیار نہیں ہے اور مقابلہ کے وقت ہمیشہ انہی سامانوں اور ذرائع سے کامیابی ہوا کرتی ہے جو دشمن کے پاس کم ہوں یا بالکل نہ ہوں ۔ ان سامانوں کے ذریعہ غلبہ نہیں ہو ا کرتاجو دشمن کے پا س زیادہ ہوں۔مثلاً ایک قوم جس کے پاس کروڑروپیہ ہے وہ کہے کہ ہم اپنے دشمن پر جس کے پاس تیس کروڑ روپیہ ہے مالی رنگ میں فتح حاصل کر لیں گے تو یہ بالکل غلط بات ہے کیو نکہ پیشتر اِس کے کہ اس کے دشمن کا روپیہ ختم ہو اس کا اپنا ختم ہو جائے گا اس لئے اس کے لئے کا میابی حاصل کرنے کے لئے یہ ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اس مو جودہ جنگ میں متحدہ سلطنتوں کے مدبر اس بات پر غورو فکر کرتے رہتے ہیں کہ جرمن پر جلد تر فتح پا نے کا کونسا ذریعہ ہو سکتا ہے اس کے لئے وہ ہر ایک قسم کے سامانو ں کو دیکھتے ہیں اور پھر اس بات کا اندازہ لگاتے ہیں کہ کو نسی چیز جرمن کے پاس کم ہے تا اس کے ذریعہ اس پر فتح حاصل کی جائے۔ تو کسی دشمن پر فتح پانے کے لئے وہ ذریعہ نہا یت کا رآمد ،مفید اور جلد فیصلہ کرنے والا ہو تاہے جو دشمن کے پاس نہ ہو یا کم ہو۔ پس اِس وقت ہمارے پاس دعا ہی ایک ایساذریعہ ہے جو ہمارے مخالفین کے پاس نہیں اس لیے اس کے ذریعہ ہم ان پر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ۔
اِس وقت جو آیت میں نے پڑھی ہے اس میں نہا یت لطیف پیرایہ میں خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ دعا ان سب ذرائع سے جن سے کامیا بی حاصل ہو اکرتی ہے بڑھ کر ہے۔ اِس آیت میں ایک لفظ خدا تعالیٰ نے ایسا رکھا ہے جس نے دعاکی ایسی تشریح کر دی ہے جس سے پتہ لگ جاتاہے کہ اس کے مقابلہ میں اور کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی ۔ اللہ تعالیٰ فرما تاہے اے رسول! (محمدصلی اللہ علیہ وسلم) جب تجھ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو کہہ دے میں قریب ہوں۔ یہ آیت سورہ بقرہ میں آئی ہے اور وہ مدنی ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کا وہ وقت تھا کہ صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خداتعالیٰ کے متعلق سوال کرسکتے تھے حالانکہ سورہ ق میں جو کہ مکی ہے خداتعالیٰ فرما چکا ہے۔۔ ۲؎ اِس آیت میں قَرِیْبٌ نہیںبلکہ اَقْرَبُ کا لفظ موجود ہے ۔ پس مکی سورۃمیں خداتعالیٰ نے اپنے آپ کو اَقْرَبُ فرما دیا ہے تو پھر مدنی میں یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی کہ جب میرے بندے میرے متعلق تجھ سے سوال کریں تو یہ جواب دو کہ میں قریب ہوں کیونکہ جب مکی آیت کے ذریعہ انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ خداتعالیٰ بہت ہی قریب ہے تو پھر یہ سوال ہی کوئی نہیں کر سکتا تھااس لئے اس آیت کے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔اور اگر کوئی سوال کرتا بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتا سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لیکن قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور خدا کاکلام بِلا ضرورت یا بے جا نہیں ہو ا کرتااس لئے معلوم ہو ا کہ یہاں خدا تعالیٰ کا سوال بیان کرنا اور پھر اس کا جواب بھی دینا کوئی اور حکمت رکھتا ہے۔ اور یہاں جو قریب کا لفظ آیا ہے اس کا مطلب وہ قرب اور بعد نہیں جو عام طور پر سمجھا جا تا ہے کیو نکہ اس کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ ۔ اگر یہاں بھی یہی مراد ہو تی تو پھر یہ کیوں فرما تا کہ جب لوگ تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یہ جواب دیجئیو ۔گویا پہلے یہ جواب نہیں بتایا گیا تھا اور اب بتایا ہے تو معلوم ہو ا کہ یہاں سوال ہی کوئی اور ہے اوراس کے جواب میں جو قریب کہا گیا ہے وہ بھی کوئی اور معنی رکھتا ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چا ہئے کہ اِن دونوں آیتوں میں خدا تعالیٰ نے ایک عجیب فرق رکھا ہے اور وہ یہ کہ قرب اور بعد ہمیشہ نسبت کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ایک چیز ہمارے قریب ہے مگر وہی دوسرے کے بعید ہے۔ مثلاً یہ بچہ جو اِس وقت منبر کے پاس بیٹھا ہے یہ مجھ سے قریب ہے لیکن جو شخص آخری سرے پر بیٹھا ہے اُس کے بعید ہے اور جو اُس کے قریب بیٹھا ہے وہ مجھ سے بعید ہے ۔تو قریب اور بعید نسبت سے ہوتاہے۔ جب ایک چیز کوقریب کہتے ہیں تو ایک نسبت سے کہتے ہیں دوسری نسبت سے وہی چیز بعید ترین ہو سکتی ہے تو سو رہ ق میں خدا تعالیٰ نے فرمایاہے کہ ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم ہی اس کے متعلق یہا ں تک جا نتے ہیں کہ اس کے دل میں جو کچھ وسوسہ ہو تا ہے اس کو بھی جا نتے ہیں اور ہم ہی اس کے رگ و جان سے بھی قریب تر ہیں۔ اِس میں کی نسبت سے فرمایا ہے لیکن میں قریب کا لفظ کسی نسبت سے نہیں فرمایا بلکہ بِلانسبت فرمایا ہے اور کوئی حد بندی نہیں کی اِس میں ایک لطیف بات ہے اور وہ یہ کہ انسان جو اپنی حاجت خدا تعالیٰ کے حضور بیان کرتا ہے وہ مختلف اوقات میں مختلف اشیاء کے متعلق ہوتی ہے کبھی تو وہ انسانوں کے متعلق ہوتی ہے کبھی حیوان کے متعلق ،کبھی جا ندارو ں کے متعلق ہوتی ہے کبھی بے جا نوں کے متعلق، کبھی خدا کے متعلق ہوتی ہے کبھی ملائکہ کے متعلق، کبھی اس دنیا کے متعلق ہوتی ہے کبھی اگلے جہان کے متعلق ،کبھی اِس زمین پر رہنے والی چیزوں کے متعلق ہوتی ہے کبھی آسمان کی چیزوں کے متعلق۔ غرض انسان کی مختلف احتیاجیں ہیں اور ایسی وسیع ہیں کہ جن کی کو ئی حد بندی نہیں ہو سکتی لیکن انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جب کسی چیز کی اسے طلب ہوتی ہے تواُس کے حاصل کرنے کے متعلق کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرتاہے جو قریب ہو ۔
قریب کی کئی قسمیں ہیں۔ایک یہ بھی قریب ہے کہ کوئی ذریعہ جلدی میسر آجائے۔ مثلاً ایک شخص سفر پر جانا چاہتا ہے اُسے یکہ یا گھو ڑا تلاش کرنا ہے ہو سکتا ہے کہ کوئی یکہ یا گھوڑا اس کے مکان کے قریب ہو اور کوئی دُور ۔ مگر جب قریب یا دُور کا یکہ یا گھوڑا آپس میں یکساں ہوںگے یعنی ایک ایسے وقت پر اور ایک ہی ایسے آرام سے پہنچاتے ہو ں گے تو وہ یہ نہیں کرے گا کہ اپنے مکان کے قریب والے کو نہ لے اور بعید والے کو لے لے بلکہ وہ قریب والے کو لے گااور بعید والے کو چھوڑ دے گا۔ تو ہر ایک انسان اپنا مدعا حاصل کرنے کے لئے جو ذریعہ قریب دیکھتا ہے اُس کو لیتاہے اور بعید کو چھوڑ دیتاہے۔ اِس کے علاوہ قریب ایک اَور رنگ میں بھی ہو تا ہے یعنی وہ ذریعہ جو اپنے مدعا اور منزلِ مقصود کے قریب تر پہنچا دے۔ مثلاًکسی شخص نے ایک جگہ جا نا ہے اسے ایک ایسی سواری ملتی ہے جو اسے منزلِ مقصود سے ایک میل ورے چھو ڑ دیتی ہے، دوسری آدھ میل ، تیسری ایک چو تھا ئی میل اور ایک عین جگہ پر پہنچا دیتی ہے تو وہ ان میں سے اُسی کو اختیار کرے گا جو سب سے قریب پہنچانے والی ہو دوسریوں کو چھوڑ دے گا۔غرض بہت سے قرب ہیں جن کا کسی چیز میں پا یا جانا انسان دیکھتا ہے اور جب وہ سارے قرب کسی میں پا لیتا ہے تو اس کو اپنے مدعا کے حصول کے لئے لے لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے۔ کہ انسان اپنے مختلف مدعائوں کے لئے کوشش کرتا ہے اور ان کے لئے دیکھتا ہے کہ کو نسا ذریعہ اختیا ر کروں جس سے جلدکامیاب ہو جائوں گا۔مثلاً تبلیغ کا کام ہے اس کے متعلق انسان سو چتاہے کہ ٹر یکٹ تقسیم کروں یا لیکچر دوں یا خدا سے دعا کروں کہ وہ لو گوں کے دلوں کو کھو ل دے ۔خدا تعالیٰ فرما تا ہے جب کوئی انسان ذرائع کو سوچتے سوچتے یہا ں تک پہنچے کہ میں دعا کروں تو اُس کو کہہ دو کہ اللہ قریب ہے۔ قَرِیْبٌ اِلَیْہِ نہیں فرما یا اس کے لئے خدا نہ صرف اس انسان کے قریب ہے بلکہ ہر ایک چیز کے قریب ہے اور مدعا حا صل کرنے کا سب سے قریب ذریعہ ہے۔یوں قریب ہو نا ایک اور بات ہے لیکن جس مقصد کو حا صل کرنا ہو اُس کے قریب کر دینا اَور بات ۔مثلاً ایک بچہ جو قریب بیٹھا ہو اسے ایک چیز دی جا ئے کہ فلاں کو دے دو۔جتنے عرصہ میں وہ چیز کو پہنچائے گا اُس سے بہت جلدی بڑا انسان جس کے ہا تھ اُس سے لمبے ہو ں گے باوجود اُس سے دُور بیٹھے ہونے کے پہنچادے گاکیونکہ وہ لڑکے کی نسبت ایک ایسا ذریعہ ہے جو اس چیز کو پہنچانے کے قریب ہے۔ توخدا تعالیٰ فرما تاہے کہ میں تمہا رے قریب ہوں اور وہ مقصد جو تم حاصل کرنا چاہتے ہو اُس کے بھی قریب ہو ں ۔مثلاًکسی نے ولایت میںتبلیغ کا کام کرنا ہے۔ خدا تعالیٰ ولایت کے بھی قریب ہے اور یہاں کے بھی جہا ں وہ شخص رہتاہے۔اس لئے وہ یہا ں سے بات کو سن کر وہا ں فوراً پہنچا سکتا ہے ۔تو اس آیت میں قربِ مکا ن کا ذکر نہیں بلکہ یہ کہ حصولِ مدعا کے لئے جتنے قربوں کی ضرورت ہے وہ سب خدامیں موجود ہیں ۔مثلاً ایک شخص ولایت میں محتاج ہے وہ وہا ں سے ہمیں مدد کے لئے لکھتا ہے کہ میری مدد کرو ۔ اگر ہم اُس کو روپیہ بھیجیں تو پندرہ بیس دن کے بعد اُسے ملے گا لیکن اگر دعاکریں تو ممکن ہے اِدھر ہمارے منہ سے اُس کے لئے دعانکلے اور اُدھر خداتعالیٰ اس کا کو ئی انتظام کردے تو خدا تعالیٰ فرماتاہے کہ میں قریب ہوں اگر کو ئی مدعا حاصل کرنا چاہتے ہوتو مجھ سے کہو۔دیکھو ایک مالدار شخص کو بھی جب مال کی ضرورت ہو گی تو وہ کچھ دیر کے بعد صندوق سے نکا لے گا یا بنک سے ڈرا کرائے گا ۔ایک بیمار ڈاکٹر کے پا س جائے گا ممکن ہے کہ ڈاکٹر موجو د ہی نہ ہو اور اگر ہو تو اسے جواب مل جائے کہ ڈاکٹر صاحب سوئے ہو ئے ہیںلیکن خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لئے نہ ہاتھ کی ضرورت اور نہ پا ئوں کی ،دل ہی دل میں حاضر ہو سکتاہے کیو نکہ خداتعالیٰ فرماتاہے کہ میں قریب ہوں ۔پھر انسان کے قریب ہی نہیں بلکہ جس مدعا اور مقصد کو حاصل کرنا ہو اُس کے بھی قریب ہوں۔ادھر انسان یہ کہتاہے کہ الٰہی! مجھے فلاں چیز مل جائے وہ چیز لاکھوں کروڑوں میل کے فاصلہ پر ہو خدا تعالیٰ اُس پر اُسی وقت قبضہ کر لیتاہے کہ یہ ہمارے فلاں بندے کے لئے ہے کیو نکہ جس طرح خدابندے کے قریب ہے اُسی طرح اُس چیز کے بھی قریب ہے۔ تو کامیابی کے لئے یہ ذریعہ سب سے بڑا اور سب سے زیادہ مفید ہے۔ خدا تعالیٰ فرما تاہے۔میں تمہارے قریب ہوں اور بہت جلد حاصل ہو جانے والا ہوں۔دوسرے ذرائع کے لئے تمہیں بہت کچھ کرنا پڑے گا اور پھر بھی یقینی بات نہیں کہ ان سے کامیا ب ہو جائو لیکن میرے حاصل کرنے کے لئے صرف توجہ اور اخلاص کی ضرورت ہے جب کوئی میرا بندہ اس طریق سے دعا کرتا ہے تو میں اُس کی دعاقبول کرلیتاہوں ۔
قبول کرنے کے دو طریق ہیں ۔ایک یہ کہ بات مان لی ۔مثلاً یہ کہ ہم نے دعا کی کہ اے خدا !فلاں کی مدد کر ۔اِس کو خدانے سن لیا نہ یہ کہ اُس کی مدد بھی کر دی لیکن خداتعالیٰ فرماتا ہے جومجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار قبول کرتاہوں یعنی اِدھر عرض سنتا ہوں اُدھر اُسے پوراکردیتاہوں ۔پس چاہئے کہ وہ میرے احکام کو مانیں اور میری آوازکو سنیں کیونکہ جب میں ہی ایک ذریعہ ہوں تو مجھ پر ہی ایمان لائیں تاکہ اپنے مدعا میں کامیاب ہوں۔کامیابی حاصل کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے یہی سب سے بڑا گر بتایاہے اِس لئے ہماری جماعت کو چاہئے کہ کثرت سے دعائوں کے ساتھ ان مبلغوں کی امداد کرے جو ہمارے لئے اِس قدر مصائب اٹھا رہے ہیں لیکن اس لحاظ سے کہ ہمارے فرض کو وہ ادا کر رہے ہیں، ہما رے لئے ہی تکا لیف برداشت کر رہے ہیں، وہ اپنے بیوی بچوں سے ،مال و جائداد سے ،ملک و وطن سے دُور بیٹھے ہیں مگر تم قریب ہو۔ وہ سب دنیاوی تعلقات کو خدا کے لئے توڑ کر تبلیغ کے لئے گئے ہو ئے ہیں مگر تمہا رے سارے تعلقات وابستہ ہیں۔ تمہیں سمجھنا چاہئے کہ جس طرح اُنہوں نے تمہارے لئے قربانی کی ہے اُسی طرح اُن کا بھی حق ہے کہ تم ان کے لئے قربانی کرو۔ پس تم لو گ جہاں اَور طریق سے ان کی مدد کرو وہاں دعائوں سے بھی ضرور ان کی تائید کرو اور یقین رکھو کہ یہی ایک ذریعہ ہے جس سے تم جلد سے جلد کامیاب ہو سکتے ہو کیو نکہ خدا تعالیٰ فرماتاہے کہ میں تمہا رے بھی قریب ہوں اور تمہا رے مدعا اور مقصد کے بھی قریب ۔جیسے تار برقی ہے ایک جگہ ٹک ٹک ہوتی ہے تو سینکڑوں میلوں پر فوراً خبر پہنچ جا تی ہے۔ خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں توتا ر کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی لیکن اس سے میں نے یہ بتایا ہے کہ یہ تار کا قرب جب اِس قدر مفید اور فائدہ رساں ہے تو خدا تعالیٰ جس کا قرب اِس سے بہت ہی زیادہ ہے وہ کس قدر مفید ہو گا اس کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں لگا سکتا ۔وہ اِدھر سنتا اور اُدھر قبول کر لیتا ہے خواہ کتنے ہی فاصلے پر وہ مدعا ہو ۔
غرض ایسا آسان اور سہل اور کوئی کامیا بی کا طریق نہیں ہے اس لئے ہماری تمام جماعت کو چاہئے کہ ان لوگوں کے لئے جو اپنے بال بچوں، مال اور اموال، خویش و اقارب کو چھوڑ کر ایسے کام کی خاطر دُور دراز ملکوں میں گئے ہو ئے ہیں جس کا کرنا ہمارا بھی فرض ہے اور پھر ایسے لوگوں میں گئے ہیں جن کے اخلاص اور عادات سے واقف نہیں ،ان مشکلات کے ہو تے ہوئے وہ کام کر رہے ہیں بہت دعائیں کی جائیں ۔اللہ تعالیٰ ہماری جماعت میں اِس بات کے احساس کو پیدا کرے تا علاوہ اَور رنگ کی مدد کرنے کے دعا سے بھی ان کی مدد کریں جو محض اللہ کی خاطر اپنے ملک سے بے ملک ،اپنے وطن سے بے وطن ہوئے ہیں ۔خداتعالیٰ ان کی زبانوں میں برکت دے ،دلوں میں ایمان مضبوط کرے اوراعمال میں تقویٰ اور سداد پیداکرے ۔ان کی باتیں سننے والے ان سے مسرور ہوں اور انہیں عظمت کی نگاہ سے دیکھیں ۔دشمن کی نظروں میں وہ ذلیل نہ ہوں اوران کی نظرمیں کوئی بڑے سے بڑا دشمن ایسانہ آئے جس سے وہ مرعوب ہوجائیں ۔‘‘آمین (الفضل ۸؍جولائی۱۹۱۶ئ)
۱؎ البقرہ: ۱۸۷ ۲؎ ق: ۱۷
۲۱
دعائو ں کے قبول ہو نے کے وقت سے فا ئدہ اُٹھا ئو
(فرمودہ ۷؍جولائی۱۹۱۶ء )
تشہد،تعوذ اور سورئہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
۱؎
اور فرمایا:۔
’’ہر ایک کام کا ایک وقت ہو تا ہے اُس وقت جس خوبی اور عمدگی سے وہ کام ہو سکتاہے دوسرے وقت میں اُس خوبی اور عمدگی سے نہیں ہو سکتا اور یہ بات چھوٹے چھوٹے کاموں سے لے کر بڑے بڑے کاموں میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔ہر ایک کام اپنے خاص وقت کے ساتھ وابستہ ہو تاہے اُس وقت میں اگر کیا جائے تو جیسے اعلیٰ درجہ کے نتائج اس سے مترتب ہوتے ہیں دوسرے وقت میں ویسے نہیں ہو سکتے ۔اور بعض کام تو اس قسم کے ہیں اگر انہیں مقررہ وقت پر نہ کیا جائے تو دوسرے وقت میں ہوتے ہی نہیں ۔ہر شخص اپنے کاموں میں اِس بات کو دیکھ لے کہ جس رنگ میں وہ کام کرتاہے یا جو وہ کام کرتاہے اُس میں اگر غور کرے گاتو اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ اصل ہر ایک کام میں جا ری ہے ۔ایک زمینداراپنے زمیندارے پر غورکرسکتاہے وہ مختلف کھیتیاں، غلے اور ترکاریاں بوتاہے مگر یہ نہیں ہو تاکہ تمام سال میں جس وقت وہ بیج ڈالے اُسی وقت وہ کھیتی تیار ہو جائے۔گیہوںکے بونے کے لئے ایک وقت مقرر ہے اگر اُس وقت وہ نہیں بوتا تو کھیتی نہیں ہوسکتی۔ مقررہ وقت پر اگر ادنیٰ بیج ڈالے تو بھی اچھے دانے حاصل کر لیتا ہے مگر بے وقت اعلیٰ درجہ کا بیج ڈالے تو بھی کچھ نہیں ہو گا ۔پھر بعض کھیتیاں تو ایسی ہیں کہ اگر انہیں وقت مقررہ پر بویا جائے تو اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہیں اور اگر دوسرے وقت پر بویا جائے توہو تو جاتی ہیں مگر ادنیٰ درجہ کی ہو تی ہیں۔اور بعض ایسی ہیں اگر انہیں بے وقت بو یا جائے تو سبزہ تو ہو جا تاہے مگر پھل کو ئی نہیں آتا یعنی نتیجہ کچھ نہیں نکلتا ہا ں اگر اپنے وقت پر انہیں بویا جائے تو ان سے بہت فائدہ حاصل ہو سکتا ہے ۔یہی بات تمام پیشوں میں چلتی ہے ۔یعنی ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر ہے ۔لو ہا ر لوہے کو تپاتاہے اس کے تپنے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے۔ اُس وقت کی ضرب جیسی کارآمد اورمفید ہوتی ہے ایسی آگے پیچھے کی نہیں ہوتی۔ اگر زیادہ گرم ہو نے پر ضرب پڑے تو بھی خراب کر دیتی ہے اور اگر تھوڑے گرم پر پڑے تو بھی۔ لوہار خوب سمجھتاہے کہ مجھے کس وقت ضرب لگانی چاہئے تمام کاموں کا یہی حال ہے ۔
دیکھو اب جو لڑائی ہو رہی ہے اس کے متعلق اخباریں پڑھنے والے خوب جانتے ہیں کہ سلطنتوں کے ذمہ دار اشخاص یہی کہتے ہیں کہ ہم اُ س وقت کا انتظار کررہے ہیں جبکہ دشمن کو بالکل کچل دیں ۔یوں تو ہر روز ہی لڑائی ہو تی ہے مگر اس کے خاص خاص وقت بھی مقرر ہو تے ہیں اُس وقت کی ضرب لگی ہوئی دشمن کو ہلاک کر دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کا جرنیل وہی سمجھا جاتا ہے جو ایسے وقت کو معلوم کر سکے ۔
میں نے ہر ایک کام کے لئے جو وقت مقررہ بتایا ہے وہ کو ئی جا دو یا ٹونے کی طرح نہیں ہو تا کہ اس کے آنے سے کوئی خاص اثر پیدا ہو جا تاہے اس لئے وہ کام ہو جاتاہے بلکہ میری اِس سے یہ مراد ہے کہ جس وقت کسی کامیابی کے تمام سامان مہیاہو جاتے ہیں وہی اُس کے کرنے کا وقت ہو تاہے۔اگر گیہوں کا دانہ ایک خاص وقت میں بونے سے اُگتاہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اُس وقت اُس میں کوئی خاص بات پیدا ہو جاتی ہے بلکہ یہ کہ گیہوں کے اُگنے کے لئے جو سامان ضروری ہو تے ہیں وہ اُس وقت مہیا ہو جا تے ہیں اگر وہی سامان کسی دوسرے وقت مہیا ہو سکیں تو اُس وقت بھی ضرور اُگ آئے۔ تو ضروری سامانوں کے مہیا ہو نے کا نام وقت مقررہ ہوتاہے ۔ مثلاً انسان کا معدہ ہے رات بھر آرام پا تاہے صبح کے وقت تمام اعصاب امن اور سکون میں ہو تے ہیں ،پہلی غذا ہضم ہو چکی ہو تی ہے اور وہ وقت ایسا ہو تا ہے جبکہ معدہ چاہتاہے کہ اُس میں غذ ا ڈالی جائے اور اعصاب اِس بات کے منتظر ہو تے ہیں کہ خوراک کو استعمال کر کے طاقت حا صل کریں اِس لئے دانا لوگوں نے یہ مثل بنائی ہے:۔
یک لقمہ صباحی
بہترز مرغ و ماہی
صبح کے وقت ایک لقمہ کھا نا دوسرے اوقات میں مرغ اور مچھلی کھا نے سے بہتر ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اُس وقت اُس لقمہ کو ہضم کرنے کے جیسے ذرائع مو جو د ہو تے ہیں کسی دوسرے وقت میں ویسے نہیں ہو تے۔ تو وقت مقررہ سے مراد سامانوں کا مہیا ہو نا ہو تاہے۔ جب کسی کام کے سب سامان مہیا ہو جاتے ہیں تو وہ اُس کا وقت مقررہ ہو تاہے اور اُس وقت اس کا کرنا بہترین نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوتاہے۔
میں نے پچھلے دو جمعوں میں دعا کے متعلق کچھ بیان کیا تھا اور بتایا تھاکہ یہ کیسی ضروری ہے اور جو کام اِس سے نکل سکتے ہیں وہ اور کسی ذریعہ سے نہیں نکل سکتے ۔آج میں اِس بات کے متعلق کچھ بیا ن کروں گا کہ جس طرح دوسرے تمام کاموں کے لئے ایسے اوقات مقرر ہیں جن میں اُنہیں کرنے سے بڑے بڑے اعلیٰ ثمرات پیدا ہو تے ہیں اسی طرح دعاکے بھی اوقات مقرر ہیں۔ ان وقتوں میں کی ہو ئی دعا بھی بہت بڑے نتائج پیداکرتی ہے۔اور دوسرے اوقات میں اس سے دوگنی چوگنی دعا بھی وہ کام نہیں کرتی جو وقت مقررہ کی ایک سیکنڈ کی دعا کر جا تی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے اِتَّقُوْا دَعْوۃَ الْمَظْلُوْمِ ۔ ؎۲ مظلوم کی دعا سے ڈرو۔ کیوں؟ اس لئے کہ اُس کی دعا قبو ل ہونے کا وہ وقت ہوتاہے کیو نکہ جب وہ اپنے اوپر ہر طرف سے مصائب ہی مصائب دیکھتا اور خداکے سِواکوئی سہا رانہیں پا تا تو اُس کی تمام توجہ خدا ہی کی طرف پھر جا تی ہے اور وہ تمام و کمال خداہی کے آگے گر پڑتاہے ۔اُس وقت وہ جو دعا کرتاہے قبول ہو جا تی ہے کیو نکہ دعا کے قبو ل ہو نے کے سامانوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کا سامان یہ بھی ہے کہ انسان کی ساری توجہ ہر طرف سے ہٹ کر خداہی کی طرف ہو جائے چونکہ مظلوم کی یہی حالت ہو تی ہے اس لئے اس کے لئے یہ بھی ایک ایسا مو قع ہو تاہے جبکہ اس کی دعا تمام روکوں کو چیرتی ہوئی آسمان پر جا پہنچتی ہے ۔
اِسی طرح دعاکے قبول ہو نے کے اَور اوقات بھی ہیں لیکن وہ روحانی ہیںجن کا بیان کرنا کوئی آسان کام نہیں اور پھر ان کا سمجھانا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ وہ ظاہری سامانوں کی حدبندی کے نیچے نہیں ہوتے بلکہ وہ انسانی قلوب کی خاص حا لتیں اورکیفیات ہیںجنہیں وہ انسان محسوس کر سکتاہے جس پر وہ حالت وارد ہو ۔گو خداتعالیٰ نے ان کے سمجھنے اور سمجھانے کے لئے بھی سامان مہیا فرمادئیے ہوئے ہیں مگر پھر بھی ان کا بہت کچھ تعلق ذوق سے ہے اس لئے ہر شخص کے لئے ان کو سمجھنا آسان نہیں ہے ۔
میں جب حضرت خلیفہ اوّل سے بخاری پڑھا کرتاتھاتو ایک رئویا دیکھا جس کا تعلق اِس بات سے تھا کہ ایک حدیث پڑھی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کے متعلق پوچھاگیا کہ کس طرح ہو تی ہے ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مِثْلَ صِلْصِلَۃِ الْجَرَسِ۳؎ مجھے اس سے تعجب ہو ا کہ گھنٹے کی آواز سے وحی کو کیا تعلق ہے؟ رئویا میں میں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا۔ میںنے دیکھا کہ میرا دل ایک کٹورے کی طرح ہے جیسے مراد آبادی کٹورے ہو تے ہیں اُس کو کسی نے ٹھکورا ہے جس سے ٹن ٹن کی آواز نکل رہی ہے اور جوں جوں آواز دھیمی ہوتی جا تی ہے ما دہ کی شکل میں منتقل ہو تی جا تی ہے۔ہو تے ہوتے اس سے ایک میدان بن گیا ہے اس میں سے مجھے ایک تصویر سی نظر آئی جو فرشتہ معلوم ہونے لگا ۔میں اُس میدان میں کھڑا ہو گیا۔اُس فرشتہ نے مجھے بلایا اور کہا کہ آگے آئو ۔جب میں اس کے پاس گیا تو اُس نے کہاکیا میں تم کو سورئہ فاتحہ کی تفسیر سکھا ئوں؟میں نے کہا سکھائو۔ اُس نے سکھا نی شروع کی ۔سکھا تے سکھاتے جب تک پہنچا تو کہنے لگا تمام مفسرین میں سے کسی نے اِس سے آگے کی تفسیر نہیں لکھی سا رے کے سارے یہاں آکر رہ گئے ہیں لیکن میں تمہیں اگلی تفسیر بھی سکھا تا ہوں، چنا نچہ اُس نے ساری سکھائی ۔جب میری آنکھ کھلی تو میں نے اِس بات پر غور کیا کہ اِس کا کیا مطلب ہے کہ تمام مفسرین نے تک کی تفسیر کی ہے آگے کی کسی نے نہیں کی ۔اِس کے متعلق میرے دل میں یہ تأویل ڈالی گئی کہ تک تو بندے کا کام ہے جو اس جگہ ختم ہو جاتاہے آگے سے خداکاکام شروع ہو جا تاہے ۔تو تمام مفسرین کے اس حصہ کی تفسیر نہ لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اُس حصہ کی تفسیر توکر سکتا ہے جو انسانو ں کے متعلق ہے اور جن کاموں کو انسان کرتاہے اُن کو بیان کر سکتاہے مگر اُس حصہ کی تفسیر کرنا اُس کی طاقت سے باہر ہے جس کا کرنا خداتعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہے کہ سو رۃ فاتحہ کے دو حصے ہیں ۔ آدھی بندہ کے لئے اور آدھی خدا کے لئے۔ ۴؎ آدھی میں بندہ طالب اور خدا مطلوب۔ آدھی میں خدا طالب ہے اور بندہ مطلوب ۔ جس حصہ میں بندہ طالب ہے اور خدا مطلوب اُس کے متعلق وہ بتاسکتاہے اور دوسراحصہ جو خدا سے تعلق رکھتاہے اُس کے متعلق کچھ نہیں بتاسکتا اور اس حصہ کی کوئی کیفیت نہیں بیا ن کر سکتا۔اِسی سبب سے سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب فتوح الغیب میں لکھا ہے کہ انسان کا قلبی تعلق جو خدا سے ہو تاہے اُس کی نسبت پیر اپنے مرید کا اور مرید اپنے پیر کا پتہ نہیں لگاسکتا کہ کس قدر ہے۔ ۵؎ تو سے وہ باریک کیفیات شروع ہو تی ہیں جن کو کوئی انسان بیان نہیں کر سکتا اِسی طرح دعاکے متعلق بعض ایسی باتیں ہیں جن کو انسان نہیں بتا سکتا ہاں جس پر وہ وارد ہو تی ہیںوہ انہیں خوب جانتاہے۔ لیکن بعض باتیں خدانے اپنے فضل اور کرم سے انعام کے طور پر لوگوںکو بتا بھی دی ہیں تاکہ وہ لوگ جو قلبی کیفیات سے واقف نہیں ہو تے وہ بھی ان پر عمل کرکے دعاکا مزہ چکھ لیں۔ چنا نچہ ان میں سے ایک مظلوم کی دعا ہو تی ہے۔
بہت لو گ ایسے ہو تے ہیں جو مصائب اور مشکلات کے وقت اپنے لئے یا دوسروں کے لئے بد دعا کر بیٹھتے ہیںاور وہ موقع جو خدانے ان کو دعا کے قبول کرانے کا دیا تھا کھو دیتے ہیںلیکن یہ بہت بڑی غلطی ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔اُس وقت جب کوئی مظلوم ہو کسی قسم کی بددعانہ کرے بلکہ اپنے لئے دعاکرے کیونکہ خدانے اُسے دعا کرنے کے لئے بہت عمدہ موقع دیا ہے اور دعا کے قبول ہونے کا یہ ایک ایسا وقت ہے جسے ہر ایک شخص بخوبی سمجھ سکتاہے۔
اِسی طرح دعاکے قبول ہونے کا ایک اور وقت ہے جس کے معلوم کرنے کے لئے بھی باریک کیفیات سے واقف ہونے کی ضرورت نہیں اَور وہ وقت رمضان کا مہینہ ہے ۔یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس کو خداتعالیٰ نے روزوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے جس سے پتہ لگتاہے کہ اس کا روزوں سے ضرور بہت بڑا تعلق ہے۔اس کے روزوں کے ساتھ بیا ن کرنے کی وجہ یہی معلوم ہو تی ہے کہ جس طرح ایک مظلوم کی ساری توجہ محدود ہو کر ایک ہی طرف یعنی صرف خدا ہی کی طرف لگ جا تی ہے اِسی طرح ماہِ رمضان میں مسلمانوں کی توجہ خدا کی طرف ہو جا تی ہے اور قاعدہ ہے کہ جب کوئی بہت سی چیز محدود ہو جائے تو اس کا زور بہت بڑھ جا تاہے چنانچہ جہاں دریا کا پا ٹ تنگ ہو تاہے وہاں پا نی بڑے زور سے چلتاہے اور جہاں چوڑا ہو تاہے وہا ں ایسا زور نہیں ہوتا ۔کشمیر کے راستے میں جہلم کا دریا پڑتاہے ۔میں نے دیکھا ہے جہاں پہاڑوں سے تنگ ہو کر گزرتاہے وہا ں اگر اس میں بڑی بڑی لکڑیاں ڈال دی جائیں تو بھی اُن کو چورچور کردیتا ہے لیکن جب وہی دریا نیچے آکر چوڑا ہو جا تاہے تو لوگ اُس میں تیرتے اور کشتیاں چلاتے ہیں ۔تو جو چیز پھیلی ہوئی ہو اُس کا زور کم ہو تاہے اور جو محدود ہو اُسکا زیادہ۔ جب کسی انسان کی دعا ایسی حالت میں ہوتی ہے کہ اس کی نظر بہت سی طرفوں میں جا سکتی ہے یعنی کبھی وہ سمجھتاہے کہ فلاں اسباب سے کامیاب ہو جائوں گا کبھی فلاں سے ،کبھی کسی ذریعہ کو کامیابی کی راہ سمجھتاہے کبھی کسی کو ،ایسی حا لت میں اُس کی دعا ایک وسیع میدان میں سے گزرتی ہوئی جا تی ہے مگر جو شخص مظلوم ہو تاہے اُس کی دعا محدود ہو جاتی ہے۔
دعا، خواہش، آرزو اور التجا۔ ان چاروں چیزوں کا بڑا سمندر ہے جس میں پھیل کر انسان کی دعا کمزور ہو جا تی ہے مگر مظلوم کے لئے سارے دروازے بند ہوتے ہیں اور صرف خداہی کی طرف کا دروازہ کھلا ہو تاہے اِس لئے اُس کی دعامیں ایسا زور پیدا ہو جاتاہے کہ وہ ضرور قبول ہو جا تی ہے اور اس کے راستہ میں جو چیز روک بنتی ہے اُسے اُکھا ڑ کر دُور پھینک دیتی ہے تو ایک مظلوم کے لئے وہ سامان مہیا ہو جاتے ہیں جو دعاکے قبول ہو نے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ اگر اُس وقت سے وہ فائدہ اُٹھائے تو اُس کے لیے بڑے نیک نتائج پیدا ہو جاتے ہیں۔ اِسی طرح رمضان کے مہینہ میں وہ اسباب پیدا ہو جا تے ہیں جو دعاکی قبولیت کا باعث ہوتے ہیںاور وہ یہ کہ اس مہینہ میں ایک جما عت کا اتحاد ہو جاتاہے۔ یوں تو دوسرے دنوں میں بھی مسلمانوں میں ایک ایسی جماعت ہوتی ہے جو راتوں کو عبادت کرتی ہے مگر اِس زمانہ میں لوگوں کا اکثر حصہ ایسا ہے جو تمام رات آرام سے پڑا سوتاہے لیکن رمضان کے مہینہ میں سحری کی خا طر سب کو اُٹھنا پڑتاہے اور جب کوئی اُٹھتا ہے تو سوائے اِس کے جو بہت ہی غا فل ہو ہر ایک کچھ نہ کچھ عبادت بھی کرتاہے کیو نکہ وہ سمجھتاہے کہ یہ جو مجھے وقت ملا ہے اِس سے فائدہ ہی اُٹھا لوں۔ تو جس طرح ایک چیز میں محدود ہو کر زور پیدا ہو جا تاہے اِسی طرح ایک جگہ ہر روز ہزاروں لاکھوں آدمیوں کی دعائیں پڑنے سے بھی بہت زور پیدا ہو جا تاہے۔ رمضان میں لاکھوں لاکھ انسانوں کی پے درپے دعائیں جب خدا کے حضور پہنچتی ہیں تو ضرور قبول ہو جا تی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں ردّ کرنے میں بڑا محتاط ہے ۔پس ایسی حالت میں اگر ظاہری سامان نہ بھی ہوں تو بھی خداتعالیٰ قبول کر لیتاہے ۔پھر ان دعاکرنے والوں میں سے بعض بندے ایسے بھی ہو تے ہیں جن کی دعائیں خداکے حضور قبول ہو نی ہو تی ہیں اور بعض کمزور بھی ہو تے ہیں مگر جب سارے مل کر دعائیں کرتے ہیں تو سب کی قبول ہو جا تی ہیں اور کمزور بھی کامیاب ہو جا تے ہیں۔ دیکھو فوجیں لڑتی ہیں ان میں سے سارے سپاہی بہا در نہیں ہو تے مگر ایک پلٹن ایک کمپنی، ایک رجمنٹ ،ایک بٹالین میں سے جب دو تین آدمی بہادری کے تمغے حاصل کر لیتے ہیں تو ساری بٹالین مشہورہو جا تی ہے ۔اب کوئی یہ نہیں کہتا کہ اس کے فلاں فلاں سپاہی بہادر نہیںبلکہ سب کو مجموعی طور پر بہادرکہا جا تا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ خاص انعام خاص اشخاص کو ہی ملتے ہیں مگر عام شہرت میں بزدل بھی شامل ہوتے ہیں۔ اِسی طرح رمضان کے مہینہ میں جب ایک جماعت مل کر دعائیں کرتی ہے تو کمزوروں کی دعائیں بھی قبول ہو جا تی ہیں۔
اِن دنوں کی دعائیں خاص طور پر قبول ہو تی ہیں اس لئے کہ ہزاروں انسانوں کی توجہ مل کر خداتعالیٰ کے حضور پیش ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ ردّ نہیں کرتا۔پھر تمام جماعت کی جما عت ایک کرب کی حالت میں ہوتی ہے ایک نہیں دو نہیں بلکہ سارے کے سارے ایسے وقت میں جو کہ آرام حاصل کرنے کا ہو تا ہے خدا کے حضور کھڑے ہو کر دعا کرتے ہیں پھر کس طرح ممکن ہے کہ اُن کی دعاقبول نہ ہو ۔درد اور کرب کی دعا تو ضرور ہی سنی جا تی ہے چنا نچہ حضر ت یو نس ؑکی قوم کی نسبت لکھا ہے کہ وہ تباہ ہو نے لگی تھی اور اخیر وقت تک حضرت یونسؑ سے ٹھٹھے کرتی رہی لیکن جب عذاب کے آثارظاہرہونے لگے تو وہ اپنے جا نوروں ،بیوی بچوں کو لے کر باہر نکل گئے اور جنگل میں جا کر جا نوروں کے آگے سے چارہ ہٹا لیااور بچوں کو مائو ں سے الگ کر دیا اور مرد عورت سب اعلیٰ لباس اُتار کر سادہ کپڑے پہن کر دعائیں کرنے لگے۔ اُدھر جا نوروں اور بچوں نے چیخنا شروع کر دیا اِدھر مردوں عورتوں نے رو رو کر دعائیں مانگیں اُن کی اِس حا لت کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے اُن کو بخش دیا اور اُن سے عذاب ٹل گیا ۔ ؎۶ حا لا نکہ وہ نہ ٹلنے والا عذاب تھا۔ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کے معاف کرنے کو ایک خاص بات قرار دیا ہے ۷؎ جس کی وجہ یہی تھی کہ وہ سب اکٹھے ہو کر خدا کے حضور جھک گئے تھے۔ رمضان میں مسلمانوں کی حالت بھی گویا یو نسؑ کی قوم کی حالت ہو تی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی کہ الٰہی! میری ساری اُمت تباہ نہ ہو اور خدانے قبول کر لی تھی ۔ ۸؎ میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے تباہ نہ ہونے کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمان رمضان میں جو دعائیں کرتے ہیں وہ قبول کی جاتی ہیں۔
پس رمضان کا مہینہ دعائوںکے قبول ہو نے کے لئے ایک خاص وقت ہے۔ نا دان ہے جو اِس کو غفلت میں کھو دے اور بعد میں افسوس کرنے لگے ۔کسی نے سچ کہا ہے ۔’’مشتے کہ بعد از جنگ یاد آید بر کلہ خود باید زد ۔‘‘جوگھونسا جنگ کے بعد یاد آئے اُسے اپنے سر پر ما رنا چاہئے ۔یہ دس دن ہیں اِن سے فائدہ اٹھا ئو۔اپنے لئے ، اسلام کی ترقی کے لئے،جماعت کی ان مشکلات کے دُور ہونے کے لئے جو اِس کے رستہ میں حائل ہیں۔ خداکے فضل کے شامل حال ہونے کے لئے دعائیں کرنے کا یہ تمہیں موقع ملاہے۔ ماہ رمضان میں ان لوگوں کو بھی جاگنے کا مو قع مل جاتا ہے جنہیں عام طور پر جا گنے کی عادت نہیں ہوتی اس لئے انہیں بھی اس مو قع سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔خدا تعالیٰ کے رحم اور نوازش کو دیکھو انسانوں کے لئے مجبور کر کے ایسے سامان مہیا کرتاہے کہ جن سے انہیں فائدہ ہو ۔یہی رمضان کا مہینہ دیکھو سب کو جا گنے کے لئے مجبو ر کر دیا۔ گویا خود جگاکر کہہ دیا کہ لو جو مجھ سے ما نگناہے مانگ لو ۔ کیسا نادان ہے وہ شخص جو اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھا تا ۔ خداتعالیٰ نے ہمارے لئے سب سامان مہیا کر دئیے ہیں باقی ان سے فائدہ اُٹھا نا یہ ہما را اپنا کام ہے۔
کچھ عر صہ سے میںدیکھ رہا ہوں کہ ہما ری جماعت میں دعائیں کرنے کے متعلق سستی ہو تی جا تی ہے ۔کئی لوگوں کو رئو یا میں بھی اِس سے آگاہ کیا گیاہے کہ قادیان کے لو گ دعائوں میں سست ہو گئے ہیں ۔اس سستی کو میں خود بھی محسوس کر رہاہوں جس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جماعت نے اپنی کامیابیاں دیکھ کر سمجھ لیا ہے کہ بس اب ہمارا کام ہو گیا ہے لیکن کیسا نا دان ہے وہ شخص جو راستہ میں سست ہو جائے ۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسی ایک کچھوے اور خرگوش کی کہا نی مشہور ہے کہ دونوں ایک جگہ سے ایک مقام کی طرف اِس شرط پر روانہ ہو ئے کہ کون پہلے پہنچتا ہے۔ خرگوش جلدی جلدی چھلانگیں مارتاہوا مقررہ مقام سے کچھ ورے جا کر اِس خیال سے سو گیا کہ کچھوا یہاں بہت دیر کو پہنچے گا اُتنا عرصہ میں آرام کر لوں لیکن وہ وہاں ہی سویا رہا جب کہ کچھوا مقررہ مقام تک پہنچ گیا تو اُس کی نیند کھلی ۔تو یہ بہت کم عقلی کی بات ہے کہ انسان اپنی ترقی پر فخر کرکے کہہ دے کہ میری ہمت اور کوشش کی حد ہو گئی ہے ۔ دوسری قوموں کو تو جا نے دو لاہوریوں کو ہی دیکھو ابھی تک تمہا رے راستہ سے دور نہیں ہو ئے۔ پس تمہیں سست نہیں ہو نا چاہئے کیو نکہ مومن کبھی سست نہیں ہو تا ۔
خلافت کے متعلق جب جھگڑا پیدا ہو ا تو میں نے بہت دعائیں کیں کہ الٰہی! اس کے متعلق حق حق سمجھا دے ۔آخری رات کو ارادہ کیا کہ میں وہاں نہیں جائوں گاجب فیصلہ ہو جائے گا تب جائوں گا لیکن جب صبح کو اُٹھا تومیری زبان پر یہ ا لفاظ جاری تھے کہ قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَا ؤُ کُمْ۔ میں نے قُلْ سے پتہ لگا لیا کہ اگر یہ نہ ہوتا تو گویا ہم کو جھاڑ تھی لیکن اب ہماری تائید میں ہے ۔یعنی خدا تعالیٰ فرما تاہے کہ کہدو کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوں تو کیا خدااِس بات کا محتاج ہے کہ تمہا ری ترقی، تمہارے آرام اور تمہاری یکجہتی کے لئے اسباب مہیا کرے اور تم غافل بیٹھے رہو۔پس خوب سمجھ لو کہ اگر تم آہ وبکا اور عجزو انکسار میں سستی کر و گے تو خدا کو تمہا ری کیا پرواہ ہے۔ انسان خدا کا محتاج ہے نہ کہ خدا انسان کا۔ انسان کو خدا کی ضرورت ہے نہ کہ خداکو انسان کی ۔ہم فقیر ہیں اور خدا غنی اِس لئے ہمیں ضرورت ہے کہ اُس کا دروازہ کھٹکھٹائیں نہ کہ وہ ہمیں اپنے فضل اور رحم سے جگائے اورپھر بھی ہم اُس سے کچھ نہ مانگیں۔ پس سستی کوچھوڑ کر دعائیں کرنے کی عادت ڈالو۔ کئی لوگ صرف فرض عبادت کو ضروری سمجھتے ہیں اور دعائیں اور ذِکر الٰہی کرنے سے غافل رہتے ہیں مگر یہ بھی دہریت کی ایک رگ ہے۔ جب کوئی قوم ذکرِ الٰہی کو چھوڑ دیتی ہے تو ایک فضول چیز کی طرح نکال کر پھینک دی جا تی ہے ۔مدرسہ کے افسروں کو چاہئے کہ اپنے اندردعااور ذکرِ الٰہی کرنے کی عادت ڈالیں اور پھر طالب علموں کو اِس میں لگائیں۔ تم سب لو گ چوکس اور ہوشیار رہواور ہمیشہ دعائوں میں لگے رہو۔مگر آجکل خاص دن ہیں ان میں ضرورضرور بہت بہت دعائیں کروتاکہ خداتعالیٰ ان روکوں کو ہٹا دے جو ہمارے راستہ میں ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو سمجھ دے خصوصاً قادیا ن کے لوگوں کو کہ دعا کرنے میں کبھی سست نہ ہوں اور یہ نہ سمجھیں کہ ہمارا کام ہو گیا ہے ۔ ہم ہر وقت خدا تعالیٰ کی مدد اور تائید کے محتاج ہیں اور جتنی جتنی ہماری عمریں بڑھتی جا تی ہیں اُتنی ہی احتیاج بھی ہو تی جاتی ہے اس لئے کبھی سست نہیں ہو نا چاہئے۔ جس قدر امتحان کے دن قریب آتے ہیں اُسی قدر زیادہ محنت کرنی پڑ تی ہے اور اُس وقت سست لڑکے بھی چست بن جا تے ہیں۔ تم بھی کسی وقت سست نہ ہو اور کبھی یہ نہ سمجھو کہ ہمارا کام ختم ہو گیا ہے کیونکہ مو ت تک تمہا را کام ختم نہیں ہو سکتا۔پس خداتعالیٰ کے حضور دن رات ایک کر کے عرض کرو اور دعائوں کو اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے اور سوتے جا گتے غرضیکہ ہر وقت وردِ زبان رکھو۔ دعا صرف زبان سے ہی نہیں کی جا تی بلکہ ہر ایک عضو دعا کرتاہے۔کیا جب آنکھیں عجزو نیا ز سے آنسو بہاتی ہیں تو وہ دعانہیں ہو تی؟ پھر کیا جب عاجزانہ شکل بنتی ہے تو وہ منہ دعا نہیں کرتا؟ یا جب ہاتھ گھٹنو ں پر گرتے ہیں تو دعا نہیں کرتے؟ یا جب کمر خداکے حضور جھکتی ہے تو وہ دعا نہیں کرتی؟ سب اعضاء پائوں، ماتھا، ناک، کان، اُنگلیاں سب دعا کرتی ہیں اور سب سے زیادہ دل دعا کرتاہے ۔پس ہر وقت دعاکی عادت ڈالو۔ عادت سے مراد غفلت کی عادت نہیں بلکہ تکرار کی عادت ہے کہ تمہیں ہر وقت خدا یا د رہے۔جب ایسا کروگے تو خداکے فیض کے دروازے تم پر کھل جائیں گے ۔پھر تم دیکھو گے کہ خدا نے سچ کہا ہے۔ ۔خدا تعالیٰ ہمیں دعائیں کرنے کی توفیق دے اوران کو قبو ل کرکے ہمیں اپنے فضلوں کا وارث بنائے۔‘‘ آمین
(الفضل ۱۵؍جولائی۱۹۱۶ئ)
۱؎ البقرۃ: ۱۸۷
۲؎ بخاری کتاب المظالم باب الاتقا ء والحذر من دعوۃ المظلوم
۳؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی اِلیٰ رسول اللّٰہ ﷺ (الخ)
۴؎ مسلم کتاب الصلوٰۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ (الخ)
۵؎ فتوح الغیب مقالہ نمبر ۱۷ ۔اُردو ترجمہ صفحہ ۳۳مطبوعہ دھلی ۱۹۲۹ء
۶؎ بائبل۔ یونا ہ نبی کی کتاب باب ۳ (مفہوماً)
۷؎ یونس: ۹۹
۸؎ مسلم کتاب الفتن باب ھلاک ھذہ الامۃ
۲۲
گورنمنٹ کی ہر قسم کی مدد کرو
(فرمودہ۱۴؍جولائی۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اورسورئہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
۱؎
پھر فرمایا:۔
’’میں نیت تو یہ کر کے چلا تھا کہ چونکہ رمضان کا مہینہ ہے اِس لئے جیسے میں نے پہلے بیان کیا تھا کہ دعائوں کے قبول ہو نے کے ایسے اوقات مقرر ہیںکہ ان میں کی ہوئی دعا خاص طور پر قبول ہوتی ہے ۔چنا نچہ ان میں سے ایک وقت رمضان کا مہینہ ہے ۔اسی طرح یہ بھی آپ لوگوں کے سامنے بیان کرو ںکہ دعا کون سے رنگ اورکن حالتوں میں کرنے سے زیادہ قبول ہوتی ہے اور اگر اعلیٰ اور عمدہ وقت میںکی جائے تو سونے پر سہاگہ ہو جاتاہے کیونکہ ایک تو وہ وقت ہی قبولیت دعاکا ہوتا ہے دوسرے عمدگی سے دعا کی جا تی ہے اس لئے اِس وقت اِسی کے متعلق بیان کرتاہوں اور پہلی بات کو کسی اور توفیق کے موقع پر چھوڑتاہوں۔
اِس وقت جو میں نے آیت پڑھی ہے اِس میں خدا تعالیٰ نے مسلمانو ں کو ایک خاص بات کی طرف متوجہ کیا ہے۔ فرمایا اللہ عدل، احسان اورکی تاکید کرتا اور حکم دیتا ہے ۔
اور فحشاء ، منکر اور بغی سے روکتا ہے۔ اِس زمانہ میں میں نے دیکھا ہے بغاوت کا مادہ عجیب عجیب رنگ میں پھیلایا جاتاہے اور ایسے ایسے خوش رنگ میں پیش کیا جا تاہے کہ بعض لوگ اس کو مفید اور کارِ ثواب سمجھنے لگ جا تے ہیں۔ ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ لوگ بغاوت کے لفظ تک کو حقارت سے دیکھتے تھے اور بڑے بڑے دُکھ اور تکلیفیں اُٹھا تے تھے مگر وفا داری کو نہیں چھوڑتے تھے مگر آجکل بغاوت کے مفہوم کی کچھ ایسی تعریف بدلی ہے کہ بعض نادان اسے اعلیٰ درجہ کا کام سمجھنے لگ گئے ہیں اور اس کانام خدمت ملکی اور قومی جو ش رکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو اپنی حفاظت کرتاہو ا ما راجائے وہ شہید ہوتا ہے۔۲؎ اس لئے انہوں نے بغاوت کو نہ صرف جائز قرار دے لیا ہے بلکہ بہت مفید اور کارِثواب سمجھ رکھاہے اور اس طرح بہت لوگ دھوکا میں آکر وہ کا م کر گزرتے ہیں جو اُنہیں نہیں کرنا چاہئیں لیکن مَنْ لَا یَشْکُرُ النَّاسَ لَا یَشْکُرُ اللّٰہَ ۔ ؎۳ جو انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی نہیں کرسکتا کیونکہ انسان کے انسان پر بہت تھوڑے احسان ہوتے ہیں جب وہ ان کوہی نہیں ادا کر سکتا تو خدا تعالیٰ کے احسان جو ادا ہی نہیں ہو سکتے اُن کے ادا کرنے کا تو وہ خیال بھی نہیں کر ے گا ۔پس جو شخص انسانوں کی بغاوت کرتاہے ضرور ہے کہ وہ خداکا بھی باغی ہو ۔اور یہ لازماً ہے کہ وہ انسان جو اپنے محسن اور آقا کی بغاوت کرتاہے کبھی خدا کی اطاعت نہیں کر سکتا ۔
صوفیاء تو اطاعت کے معاملہ میں بہت ہی بڑھ گئے ہیں اور انہو ں نے اپنے رنگ میں عجیب عجیب طرز پر مسائل لکھے ہیں ۔ احسان کی قدر کرنے اوراپنے محسن کے شکرگزار ہو نے کے متعلق یہ مسئلہ اُٹھا یا ہے کہ اگر کوئی شخص دین کے معاملہ میںماں باپ کی بغاوت اور نا فرمانی کرے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ بوجہ اس کے کہ اس نے خداکے لئے ماں باپ کی نافرمانی کی بخشاء جائے گا مگر چونکہ اس نے ماں باپ کی نافرمانی کی ہو گی جو اس کے کسی گناہ ہی کا موجب ہے کیونکہ اگر کوئی گناہ نہ ہو تا تو اُسے ایسا موقع ہی پیش نہ آتا کہ اُسے نافرمانی کرنی پڑ تی اِس لئے وہ اُس وقت تک بہشت میں نہیں جائے گا جب تک خدا تعالیٰ اسے نہیں کہے گا کہ چونکہ تم نے میرے لئے ماں باپ کی نافرمانی کی تھی اس لئے میں ہی تمہیں بخشتاہوں ۔خدا جانے یہ بات کہا ں تک درست ہے مگر اس میں اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کی اعلیٰ درجہ کی مثال ہے ۔ باوجود اس کے کہ اطاعت اور فرمانبرداری ایسی ضروری ہے پھربھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اس سے روگردانی کر بیٹھتے ہیں۔وہ اپنے دل میں کچھ خوش کن خیالا ت پیدا کرلیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں ہماری کوششوں سے یہ ہو جائے گایاوہ ہو جائے گا لیکن ان کے یہ خیالات شیخ چلی کے منصوبہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے ۔جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ شیخ چلی نے کہا کہ مجھے یہ جو مزدوری ملے گی اس کے انڈے خرید لوں گا اُن کو فروخت کر کے مرغی پھر بکری ،گھوڑا، اُونٹ وغیرہ خرید تا جائوں گااور اِس طرح تجارت کرتے کرتے جب بہت بڑا مال دار ہو جائوں گا تو بادشاہ کی لڑکی سے شادی کر لوں گاپھر بچے پیدا ہوں گے وہ جب میرے پاس کچھ مانگنے آیا کریں گے تو میں یوں لات ماروں گا ۔جب اُس نے لات ماری تو وہ گھی کا مٹکہ جس کے اُٹھانے کے عوض اُسے مزدوری ملنی تھی زمین پر گر کر ٹوٹ گیا۔ مالک مٹکہ نے اُسے گردن سے پکڑ کر خوب مرمت کی تب اُسے ہو ش آیا۔ تو اِس قسم کے خیالات محض اوہا م ہوتے ہیں کبھی ان سے نتیجہ نہیں نکلا کرتا۔کبھی خفیہ سازشیں اور منصوبے کرنے والے بادشاہ نہیں ہوئے، کبھی ان کی شرارتوں سے حکومتیں نہیں گرجاتیں۔ اگر کوئی حکومت گرتی ہے تو اس کے اَور ہی اسباب ہوتے ہیں ۔آج تک تاریخ میں سے اس قسم کا ایک نمونہ بھی نہیں مل سکتا کہ کسی زمانہ میں خفیہ سازشیں کرنے والوں نے حکومت کے تغیر سے فائدہ اُٹھایا ہو بلکہ ایسا ہی ہو ا ہے کہ آنے والوں نے آکر سب سے پہلے کام ہی یہی کیا ہے کہ ان کو نیست و نا بود کیا ہے ۔کیو نکہ وہ جانتے ہیں کہ جب انہوں نے اس سلطنت سے بغاوت کی جس کے ان پر بہت سے احسانا ت تھے تو ہم میں سے کیوں نہ کریں گے جس کے ابھی یہ رہین منت نہیں ہیں۔ تو ایسے لوگ ہمیشہ ناکام اور نامراد ہی رہتے ہیں۔ اِس زمانہ میں بھی کچھ لوگ ہیں جو خفیہ تدبیریں کرتے ہیں لیکن وہ یاد رکھیں کہ اِن کا بھی وہی انجام ہو گاجو اِن سے پہلوں کا ہوا۔
ہماری جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار اِس طرف متوجہ کیا ہے کہ وہ ہر وقت گورنمنٹ کی وفا دار اور مددگار رہے اور بتایا ہے کہ وہ وقت آتاہے جبکہ شورشیں ہوں گی اور صرف ہماری ہی جماعت گورنمنٹ کی اعلیٰ درجہ کی وفا دار ثابت ہو گی ۔ہمیں اِس معاملہ میں گورنمنٹ سے ہمدردی ہے کہ بعض نا عاقبت اندیش شورش پھیلانا چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی ہما را ایمان بھی تازہ ہو رہا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرستادہ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ بات جو آپ نے بہت پہلے بتائی تھی پوری ہو رہی ہے مگر اس موقع پر آپ نے ہماری جماعت کا یہ فرض رکھا ہے کہ ہم ہر طرح سے گورنمنٹ کی مدد اور تائید کر یں۔ پھر آپ نے سورۃ الناس کی تفسیر لکھتے ہوئے بتایا ہے کہ گورنمنٹ کی وفاداری اور اطاعت کرنا ہمارا فرض ہے آجکل ہو رہا ہے۔ پس یہ وہ وقت ہے جبکہ ہم نے اس بات کا ثبوت دینا ہے کہ ہم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ اپنی جما عت کے متعلق کہا تھا وہ سب سچ ہے ۔
۱۹۰۷ء میں جب فساد ہو ا تھا اور ہندو مسلمانوں نے اپنا اتفاق ظاہر کرنے کے لئے چاندی کے برتنوں میں اکٹھا پانی پیا تھا اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا تھا کہ گورنمنٹ کو اپنی خدمات پیش کرو۔ کہو کہ جو خدمت ہم سے چاہئے ہم وہ دینے کو تیا ر ہیں ۔اِس وقت بھی جبکہ گورنمنٹ ایک عظیم الشان جنگ میں مشغول ہے کچھ شریر لوگ اِس قسم کے منصوبے کر رہے ہیں کہ گورنمنٹ کی توجہ بٹ جائے اِس لئے ہماری جماعت سے جہا ں تک اور جس طرح ہو سکے گورنمنٹ کی مدد کرے تا حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی تمام و کما ل پوری ہو جائے۔ اِس کا ایک حصہ تو پورا ہو چکا ہے اور دوسرا حصہ ہمارے ساتھ تعلق رکھتاہے اس لئے وہ ہمارے ذریعہ پورا ہو گا۔خدا تعالیٰ کی بعض پیشگوئیوں کا پورا ہونا انسانوں سے تعلق رکھتاہے تاکہ و ہ اسے پورا کرکے انعامات کے مستحق ہو جائیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہو ا تھا کہ ہما رے گھرمیں طاعون نہیں پڑے گی۴؎ لیکن باوجو د اِس کے آپ صفائی وغیرہ کی بڑی احتیا ط کرتے تھے اور فرماتے کہ یہ حصہ ہمارے ساتھ تعلق رکھتاہے اس لئے اِس کا پوراکرنا ہمارا فرض ہے ۔تو خداتعالیٰ نے اِس پیشگوئی کا ایک حصہ ہمارے ہا تھ میں رکھا ہے اور دوسرا دشمنوں کے ہاتھ۔ انہوں نے گورنمنٹ برطانیہ کے احسانا ت کی قدر نہ کی اور شرارتیں شروع کر دیں۔اب دوسرا حصہ پو را ہونا ہے جو حضرت مسیح مو عود ؑ کے مریدوں کے متعلق ہے۔پس جب آپ کے دشمنوں نے پیشگوئی کا وہ حصہ جو ان سے تعلق رکھتا ہے پورا کر دیا ہے تو کیسا نادان اور بد قسمت ہے وہ دوست جس کے ہا تھ سے اس کا متعلقہ حصہ پورا نہ ہو ۔
پس میں خاص طور پر اپنی جما عت کو متوجہ کرتا ہوں کہ اِس وقت گورنمنٹ کی خاص طور پر مدد کرنی چاہئے ۔یہ نا دان لوگوں کے غلط اور بیہودہ خیال ہیں کہ گورنمنٹ کو نقصان پہنچا سکیں گے۔ جو کوئی اس سلطنت کا مقابلہ کرے گاوہ خود رُسوا اور ذلیل ہو گا۔یہ گورنمنٹ خدا کی طرف سے یہاں آئی ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ اِس میں پید ا ہوئے ہیں تا اِس کے ذریعہ اسلام کی اشاعت اور ترقی ہو ۔ پس اب اسلام کی اشاعت اِسی سلطنت کے ذریعہ ہو گی ۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے رئویا میں دیکھا تھا کہ یہ قوم گروہ در گروہ جما عت میں داخل ہو رہی ہے اور دوسروں کو کر رہی ہے۔ ؎۵
ہماری جماعت کو چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کو مد نظر رکھے اور جہاں کسی کے دل میں کوئی فاسد خیال دیکھے فوراً نکالنے کی کو شش کرے اور جس طرح بھی ہو سکے گورنمنٹ کی مدد کرے کیو نکہ ایسا کرنا نہ صرف گورنمنٹ کی مدد کرنے کے فرض کو ادا کرنا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کو بھی پو راکرنا ہے۔خد ا تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کے احکام کے سمجھنے اوران پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ہما ری گورنمنٹ جس طرح امن پھیلا نے کاکام کررہی ہے اِسی طرح دین اسلام پھیلانے میں بھی ہما رے کام آئے اور جس طرح دنیاوی لحاظ سے ہمارے سا تھ تعلق رکھتی ہے دینی لحاظ سے بھی تعلق رکھے۔‘‘ آمین
(الفضل ۲۲؍جولائی۱۹۱۶ئ)
۱؎ النحل: ۹۱
۲؎ کنز العمال جلد ۴ صفحہ ۴۱۶ مطبوعہ ۱۹۷۰ء
۳؎ ترمذی کتاب البر والصلۃ باب ماجاء فی قبول الھدیۃ (الخ)
۴؎ تذکرہ صفحہ ۴۲۵۔ ایڈیشن چہارم
۵؎ تذکرہ صفحہ ۴۱۰۔ ایڈیشن چہارم
۲۳
قبولیت دعا کے طریق
(فرمودہ ۲۱؍جولائی۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اورسورئہ فا تحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی :۔
۱؎
’’میںنے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں بیا ن کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تو فیق دی تو میں اِس امر کے متعلق بیان کرنا چا ہتاہو ں کہ انسان کو دعا کس رنگ اور کس طریق میں کرنی چا ہیے جس کے نتیجہ میں قبولیت کا وہ زیادہ اُمید وار ہو ۔اور وہ کیا شرائط ہونی چاہئیں جن کے مطابق کی ہوئی دعا خدا تعالیٰ کے حضور قبول ہو جائے ۔ یوں تو اللہ تعالیٰ بادشاہ ہے اور ہم اس کی رعایا کسی کی درخواست اور عرضی کو قبول کرنا بادشاہ کا اپنا کام ہے۔ رعایا کا نہ یہ فرض ہے اور نہ کام ہے اور نہ حق ہے کہ بادشاہ یا حاکم ضرور ہی اُس کی درخواست کو قبول کر لے۔ اگر وہ ہر بات کو قبول کر لے اور ضرور قبول کر لے توگویا وہ نو کر ہوا اور رعایا آقا، وہ خادم ہو ا اور رعایا مخدوم کیونکہ جو کسی کی ہر ایک بات ماننے پر مجبورہو تاہے وہ آقانہیں بلکہ خادم ہوتا ہے۔ آقا خادم کی بات ماننے کے لئے مجبور نہیں ہو تا بلکہ مختار ہوتاہے۔ اس کے اختیا ر میں ہو تا ہے کہ چاہے تو قبول کرے اس کے لئے وہ مجبو ر نہیں ہوتا اور چاہے تو ردّ کرے اس سے اس پر کوئی الزام نہیں آتا۔ چونکہ خدا تعالیٰ نہ صرف آقا ہے اور ہم خادم بلکہ وہ مالک ہے اور ہم غلام ۔پھر وہ خالق ہے اور ہم مخلوق ۔توجبکہ خادم اور آقا کا تعلق بھی ایسا نا زک ہو تاہے کہ خادم کو یہ کبھی امید نہیں ہو سکتی کہ میر ا آقا میری ہر ایک بات کو ضرور ہی مان لے گا تو ایک انسان کس طرح خیال کر سکتاہے کہ اس کی ہر ایک بات خدا تعالیٰ کو قبول کر لینی چاہئے۔ اگر کوئی خادم یہ دعویٰ کرتاہے کہ اس کی ہر ایک بات اس کا آقامان لیتا ہے تو اس کایہ دعویٰ جھوٹا ہے ۔خادم کو ہمیشہ خدمت کے مقام پر کھڑا رہنا چاہئے اور اپنے رویہ، طریق اور خیالات کو اُسی حد میں محدود رکھنا چاہئے جو اُس کی خادمیت کے منا سب ہے نہ کہ آقا بننا چاہئے۔
پس کسی کا یہ امید کرنا یا ایسا خیال کرنا کہ اگر میری تمام دعائیں خدا قبول کرے اورکسی کو ردّ نہ کرے تب خداخدا ہو سکتاہے ورنہ نہیں اس طرح کی با ت ہے کہ گویا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ وہ انسان خداہے اور خدا اس کا بندہ ۔ یہ آقا ہے اور وہ خاد م۔یہ مالک ہے اوروہ غلام، کیونکہ جو کسی کی ہر ایک بات ماننے کے لئے مجبو ر ہو تاہے وہ بندہ اور غلا م ہو تاہے نہ کہ منوانے والا خادم اور غلام۔ تو یہ امید کرنا ہی باطل ہے کہ میری تمام کی تمام دعائیں قبول ہو جا نی چاہئیں یہ خیال کوئی جا ہل سے جاہل اور نادان سے نا دان انسان کرے تو کرے ورنہ دانا نہیں کر سکتا ۔ گو آجکل کے مسلمانوں میں سے بعض اِسی قسم کے خیالات رکھتے ہیں ۔ بعض لوگ جو مجھے دعا کے لئے لکھتے ہیں انہیں جواب دیا جا تاہے کہ اِنْشَائَ اللّٰہ دعاکی جائے گی مگر کچھ عرصہ کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ ابھی تک وہ کام نہیں ہو ا معلوم ہو تا ہے کہ آپ نے دعانہیں کی اب آپ ضرور دعا کریں۔ہم لکھتے ہیں ہمارا کام دعاکرنا ہے وہ کرتے ہیں آگے کام کرنا خدا کے اختیا ر میں ہے اس میں ہماراکوئی دخل نہیں ۔ اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ آپ نے یہ کیا لکھ دیا آپ تو جو چاہیں خدا سے منوا سکتے ہیں پس ہمارا یہ کام بھی کروا دیجئے ۔ تو اِس قسم کے خیالات ہیں آجکل کے مسلمانوں کے جو اُس جہالت کا نتیجہ ہیں جو اِن میں پھیلی ہو ئی ہے ۔ انہوں نے کسی کے بزرگ ہونے کے یہ معنی سمجھ رکھے ہیں کہ وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہ خدا سے بھی بزرگ ہے جو چاہے کروا سکتاہے حالانکہ بزرگ کے اصل معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں میں سے بزرگ ہے جیسے کہتے ہیں کہ باپ کا بزرگ بیٹا یعنی سب سے بڑا بیٹا ۔ اس کے یہ معنی نہیں ہو ا کرتے کہ وہ اپنے باپ سے بھی بزرگ ہے بلکہ یہ کہ دوسرے بھا ئیوں سے بزرگ ہے۔ اِسی طرح خداکے بزرگ کے یہی معنی ہیں کہ اس کی مخلوق سے بزرگ ہے اور خدا اَوروں کی نسبت اُس کی دعائیں زیادہ قبول کرتاہے۔ جیسے گورنمنٹ کے اعلیٰ حکام ہو تے ہیں اُن کی باتیں دوسروں کی نسبت بہت زیادہ مانی جاتی ہیں مگر یہ نہیں ہو تا کہ گورنمنٹ اُن کی سب کی سب باتیں مان لے۔ تو یہ ایک باطل عقیدہ ہے جو پھیلا ہو ا ہے کہ خدا کو سب دعائیں قبول کر لینی چاہئیں ۔
پچھلے جمعہ کے خطبہ میں جو میں نے یہ کہا تھا کہ ایسے طریق بتائوں گا جن سے دعائیں قبول ہوتی ہیں اس سے شاید کسی کے دل میں یہ بات آئی ہو کہ اگلے جمعہ میں کوئی ایسی ترکیب بتا دی جائے گی جس سے جو چاہیں گے خدا تعالیٰ سے منوا لیں گے اور اب یہ سن کر کہ خدا تعالیٰ ہر ایک دعا قبول کرنے کے لئے مجبو ر نہیں ہے اور نہ ہی کسی عقلمند کو یہ خیال کرنا چاہئے کہ اس کی تمام دعائیں قبول ہو جائیں گی کو ئی کہہ دے کہ پہا ڑ کھو دنے سے چوہا ہی نکلا ہے ۔یعنی جب کسی بڑی چیز کی امید ہو اور بہت چھوٹی چیز حا صل ہو تو یہی کہا جا تاہے ۔ پس اگر کسی نے یہ خیال کیا تھا کہ اگلے خطبہ جمعہ میں کوئی ایسا طریق بتا دیا جائے گا جس سے جو بات چاہیں گے خدا سے قبول کروالیں گے تو وہ اپنے دل سے اِس کو نکال دے کیونکہ یہ کفر ہے۔ اور یہ بات نہ میرے ذہن میں آئی اورنہ ہی کسی ایسے انسان کے ذہن میں آسکتی ہے جو خدا تعالیٰ کی عظمت ، جلال اور قدرت سے واقف ہے۔ میرا مدعا تو یہ تھا کہ ایسا طریق بتایا جائے جس سے نسبتاًخدا تعالیٰ زیادہ دعائیں قبول فرمالے ۔ یہ ہر گز نہیں تھا کہ میں کوئی ایسا گر جا نتا ہوں یا بتاسکتا ہوں یا یہ کہ میرا عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے انسان جو چاہے منوا سکتاہے۔پس میں پہلے اس بات کو صاف کرنا چاہتاہوں کہ میں قطعاً کوئی ایسا گر نہیں جانتا کہ جس سے آقا خادم اور خادم آقا بن جائے ۔ خالق مخلوق ہو جائے اور مخلوق خالق ۔مالک غلام قرار پا جائے اور غلام مالک کیونکہ آقا آقا ہی ہے اور غلام غلام۔ خدا تعالیٰ ازل سے آقا ہے، خالق ہے، مالک ہے، رازق ہے اور ہمیشہ اِسی طرح رہاہے اِسی طرح رہے گا۔ انسان ہمیشہ سے خادم، مخلوق اور مملوک رہا ہے اور اس کی یہی حالت ہمیشہ رہے گی ۔ حتی کہ جنت میں جب اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج پر ہو گا توبھی یہی حالت ہو گی تو اس قسم کا خیال کفر ہے اور میں ہر گز ہرگز اِس کا قائل نہیں ۔ ہا ں ایسے رنگ اور طریق ضرور ہیںکہ جن سے انسان اللہ تعالیٰ کو خوش کرکے جہاں تک آقا اور مالک، خالق اور مخلوق، مالک اور مملوک کا تعلق ہے اپنی بات منو ا سکتا ہے۔ جیسے ایک بچہ اپنے باپ سے اور شاگرد اپنے استاد سے منواسکتا ہے۔ مگر ایسا کوئی بچہ نہیں ہو سکتا جو باپ سے اپنی ہر بات منو ا لے اور نہ کوئی ایسا شاگرد ہو سکتاہے جو استاد سے جو چاہے منظور کروا لے ۔کوئی جا ہل اور نادان باپ یا استاد ہر ایک بات مان لے تو یہ ایک الگ بات ہے جیسا کہ کہتے ہیں کسی پٹھان نے اپنے لڑکے کو پڑھانے کے لئے ایک استاد رکھا تھا ایک دن اُستاد نے لڑکے کے سبق یاد نہ کرنے پر اسے سخت پیٹنا شروع کر دیا ۔ لڑکا تلوار لے کر مارنے پر آمادہ ہو گیا ۔استاد بیچارہ جان بچانے کے لئے بھاگا وہ اُس کے پیچھے دَوڑا ۔ راستہ میں لڑکے کا باپ مل گیا ۔ استاد صاحب نے سمجھا کہ اب جان بچ جائے گی اِس لئے اُس کے پاس جا کر کہنے لگا۔دیکھئے! آپ کا لڑکا مجھے قتل کرنا چاہتاہے اِس کو روکئے۔اُس نے کہا بھا گو مت ٹھہر جائو ،میرے بیٹے کا یہ پہلا وار ہے خالی نہ جانے پائے۔ تو کوئی بے وقوف ہی ایسا کر سکتاہے نہ کہ عقلمند ۔پس میں جو دعائوں کے قبول ہو نے کا طریق بتائونگا وہ ایسا ہی ہو گا کہ جس سے خدا زیادہ دعائیں قبو ل کر لے گا نہ ایسا کہ ہر ایک دعا کو قبول کرلے گا۔
پہلا طریق جس سے دعائیں قبول ہوتیں اور کثرت سے خداتعالیٰ سنتاہے وہ تو اس قسم کاہے کہ ہر ایک انسان اسے اختیار نہیں کر سکتا بلکہ خاص خاص انسان ہی اس پر چل سکتے ہیں کیونکہ وہ انسان کے کسب سے متعلق نہیں بلکہ اس کے رُتبہ اور مرتبہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مرتبہ کا جو انسان ہو تاہے اُسکی نسبت تو میں یہ بھی کہہ سکتاہوں کہ اُس کی ہر ایک دعا قبو ل ہو جاتی ہے۔ابھی میں نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ انسان کی ہر ایک دعا قبول نہیں ہوتی مگر اب میں نے کہا ہے کہ اس مرتبہ کے انسان کی ہر ایک دعا قبول ہو جا تی ہے اِن دونوں باتوں میں اختلاف پایا جا تاہے لیکن جب میں یہ بتائوں گا کہ وہ مرتبہ کیا ہے تو آپ لوگ خود بخود سمجھ جائیں گے کہ کوئی اختلاف نہیںہے۔میں نے اِس مرتبہ اور مقام کا نام آلہ یعنی ہتھیار رکھا ہو ا ہے جس کے ہا تھ میں ہتھیار ہو وہ اُسے جہاں چلائے چلتاہے اور اگر وہ ہتھیار ضرب نہ لگائے تو اس کا قصور نہیں ہو تا بلکہ چلانے والے کا ہو تاہے۔ لیکن کوئی چلانے والا یہ کبھی نہیں چاہتا کہ وہ کوئی ہتھیار چلائے اور وہ نہ چلے بلکہ وہ یہی چاہتاہے کہ میںجہاں بھی چلائوں وہیں چلے۔اِسی طرح انسان پر ایک ایسا وقت آتا ہے جبکہ وہ خدا کے ہا تھ میں بطور ہتھیار کے ہو جا تاہے ۔وہ نہیں کھاتا جب تک کہ خدا اسے نہیں کھلاتا ،وہ نہیں پیتا جب تک کہ خدااسے نہیں پلاتا ۔وہ نہیں سنتا جب تک کہ خدا اسے نہیں سنا تا۔وہ نہیں جا گتا جب تک کہ خدا اسے نہیں جگاتا۔وہ نہیں سوتا جب تک کہ خدا اسے نہیں سلاتا غرضیکہ اُس کی ہر حرکت اور ہر سکون اللہ تعالیٰ کے لئے اور اُسی کے اختیار میں ہوتی ہے ۔ ایسا انسان جو دعا کرتا ہے وہ قبول ہو جا تی ہے کیونکہ وہ اُس کی نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے اُس کے کرنے کا حکم ہو تا ہے اس لئے کر تاہے اور اس کی دعا کا قبول کر لینا خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف نہیں ہے کیو نکہ جو دعا مانگی جا تی ہے وہ دراصل خدا ہی نے منگوائی ہو تی ہے۔ پس چو نکہ منگوانے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہو تاہے اور دینے والا بھی اللہ ہی اِس لئے وہ ضرور قبول ہو جا تی ہے اور ممکن نہیں کہ قبول نہ ہو۔ مثال کے طور پر دیکھئے جب کوئی حاکم اپنے ماتحت کام کرنے والوں کا معا ئنہ کرنے آتے ہیں تو ما تحت اپنی ضروریا ت کو اُن کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ مثلا فرض کرو ایک ڈپٹی کمشنر تحصیل میں آیا اور تحصیل دار نے اپنی ضروریات اُن کے سامنے پیش کیں کہ فلاں چیز کی ضرورت ہے، فلاں سامان خریدنا ہے، فلاں کام کروانا ہے وغیرہ وغیرہ ۔وہ اس میں سے کچھ مان لے گااور کچھ رد ّکر دے گا۔لیکن کبھی یہ بھی ہوتاہے کہ ڈپٹی کمشنر خود کوئی ضرورت دیکھتاہے اور کہتا ہے کہ یہ چیز بھی ہو نی چاہئے اس کے لئے تحصیلدار کو کہتاہے کہ اِس چیز کی منظوری حاصل کرنے کے لئے رپو رٹ کر دو ۔وہ رپورٹ کر دیتا ہے اب یہ کبھی نہ ہو گاکہ ڈپٹی کمشنر اس رپورٹ کو ردّ کردے یا نا منظور کردے کیونکہ اس کے متعلق وہ خود کہہ گیا تھا کہ کرو۔ اِسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنے بندے کی زبان پر خود دعا جا ری کرتاہے پس جب خود کرتا ہے تو پھر اُسے ردّ نہیں کرتا ۔یہ اس بندے کے قرب اور درجہ کے اظہار کیلئے ہو تاہے۔ اور وہ اگر کوئی اور دعا کرنے لگے تو خدا تعالیٰ اس کے دل اور دماغ پر ایسا تصرف کر لیتاہے کہ اس کے منہ سے وہ کلمات ہی نہیں نکلتے جو وہ نکالنا چاہتا تھا بلکہ ایسے کلمات نکلتے ہیں جو قبول ہونے والے ہوتے ہیں۔ تو ایسے انسانوںکے دعا کرنے کے دوطریق ہو تے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام یا کشف یا وحی یا رئویا کے ذریعہ سے انہیں بتا دیا جاتا ہے کہ یہ دعا ما نگو۔ دوسرا یہ کہ اگر وہ کوئی ایسی دعا ما نگنے کی نیت کرے جو قبول نہ ہونے والی ہو تو خداتعالیٰ کی طرف سے ایسا تصرف ہو تاہے کہ ان کی نیت بالکل بدل جاتی ہے اور یہ خواہش ہی بالکل جاتی رہتی ہے کہ دعا کرے پھر جو الفاظ اور جو طریق اُس دعاکے کرنے کے لئے اس کے مد نظر ہو تا ہے وہ بھو ل جاتا ہے اور زبان سے خدا کی طرف سے بنے بنائے الفا ظ جا ری ہو جا تے ہیں جس سے خود بھی حیران رہ جا تا ہے کہ میں کہنا کیا چاہتا تھا اور کہہ کیا رہا ہوں۔ اس قسم کی دعا میں وسعت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے اتنی کہ دو دو گھنٹے گزرجاتے ہیں مگر انسان سمجھتاہے کہ کوئی پانچ چھ منٹ ہو ئے ہو نگے ۔وقت گزرتے ہوئے بھی پتہ نہیں لگتا کیو نکہ وہ ایسا محو ہوتاہے کہ اس دنیا سے اُس کا دل و دماغ بالکل کھنچ جا تاہے اور صرف خدا ہی خدا اسے نظر آتاہے مگر یہ کوئی ایساطریق نہیں ہے جس کے متعلق ہر ایک انسان کو کہہ دیا جائے کہ اس طرح کیا کروکیونکہ یہ مرتبہ سے تعلق رکھتا ہے جس کا پانا کسی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ۔پس جبکہ یہ انسانی اختیار میں ہی نہیں تو اِس پر عمل کرنا یا کرسکنے کے کیا معنی ؟اِس لئے میں یہ طریق بھی نہیں بتائو ں گابلکہ وہ بتائو ں گا جس میںبندے کا اختیار اور تصرف ہو لیکن اِس سے یہ نہیں ہو گا کہ ساری کی ساری دعائیں قبول ہو جا تی ہیں بلکہ یہ کہ زیادہ قبول ہوتی ہیں ۔
پس سب سے پہلا طریق جو میںبتا نا چاہتا ہوں وہ اِسی آیت میں ہے جو میںنے ابھی پڑھی ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے میرے بندے جب میری نسبت سوال کریں یعنی کہیں کہ خد ا کس طرح دعا قبول کرتا ہے؟ تو کہو میں سب سے بہترمدعا کو پو راکرسکتاہوں کیونکہ میری ایک صفت یہ بھی ہے کہ میں ہر ایک چیز کے قریب ہوں دعا کرنے والے کے بھی اور جس مدعا کے لئے دعاکی جائے اُس کے بھی۔
یہاں ایک سوال ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ہر ایک قریب ہونے والا تو فائدہ نہیںاُٹھا سکتا۔ ایک چپڑاسی بادشاہ کے دربار میں جا تاہے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتا کہ کسی کرسی پر بیٹھ سکے۔ اسی طرح چَتر ؎۲ ؎۲ اُٹھا نے والا وزیر سے بھی زیادہ بادشاہ کے قریب بیٹھا ہو تاہے مگر کیا وہ وزیر کی کرسی پر بیٹھنے کی جرأت کر سکتاہے؟ ہر گز نہیں ۔تو انسان کے خدا کے نزدیک ہو نے سے یہ تو نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ اس کی دعابھی قبول کرلے گا اور وہ اس وجہ سے فائدہ حاصل کرلے گا ۔اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے ایک ایسا گر بتایا ہے جس میں اِس سوال کا جواب بھی آجا تاہے اور جو عام طور پر فطرتِ انسانی میں کام کرتانظر آتاہے اور وہ یہ کہ ۔تم میری ہر ایک بات مان لیا کرو اور جو حکم ہم نے تمہارے لئے بھیجے ہیں اُن پر عمل کرواور اپنی تمام حرکات و سکنات کو شریعت کے ما تحت لے آئو تو پھر تمہاری دعامیں قبولیت بہت بڑھ جائے گی۔ کیوں؟ اس لئے کہ خادم کو انعام اُس وقت ملا کرتاہے جب کہ آقا خوش ہوتاہے۔ اگر کوئی خادم اپنے آقا کو نا راض کرکے مانگتاہے تو محروم رہتاہے اس طرح کبھی کسی کو انعام نہیں ملا کرتا کیونکہ نا راضگی کا وقت ایسا نہیں ہو تا جبکہ انعام و کرام دیا جائے ۔چھوٹے بچوں کو ہی دیکھ لو اُنہیں کوئی سمجھ نہیں ہو تی لیکن اگر ماں باپ سے کچھ مانگنے آئیں اور انہیں غصہ میں دیکھیں تو چپکے سے ہو کرالگ بیٹھ جاتے ہیں لیکن جب خوشی میں دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ چیز لے دو وہ لے دو ۔تو بچے بھی سمجھتے ہیں کہ غصہ میں ہماری بات نہیں ما نی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی نا راضگی بِلاوجہ نہیں ہو ا کرتی اسی وقت ہوتی ہے جبکہ اُس کے احکام کی خلاف ورزی کی جائے ۔
پس دعامیں قبولیت حاصل کرنے کا ایک رنگ یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال پر غور کرے کہ کوئی فعل اُس سے شریعت کے خلاف تو نہیں ہو گیا۔ہر ایک کام وہ جو کرے شریعت کے ماتحت کرے جب یہ حالت پیدا ہو جائے گی تو اُس کی دعا قبول ہو جائے گی۔ جس طرح ایک محنتی طالب علم جو اچھی طرح سبق یاد کر کے لاتاہو اُستاد کے نزدیک اُس کی بات زیادہ مانی جاتی ہے بہ نسبت اُس لڑکے کے جو یاد کر کے نہ لاتاہو۔ عام طور پر دیکھا جاتاہے کہ اگر طلباء نے چھٹی لینی ہو تو جو لڑکا لائق ہو اُسے اُستاد کے پا س بھیجتے ہیں تاکہ وہ چھٹی مانگے۔اس کی ایک وجہ ہو تی ہے اور وہ یہ کہ طالب علم سمجھتے ہیں کہ اگر ایسے لڑکوں نے چھٹی مانگی جو سکول کاکام اچھی طرح نہیں کرتے تو استاد کہے گا کہ پڑھا ئی سے بچنے کے لئے چھٹی لیتے ہیں اور اگر لائق لڑکے مانگیں گے تو پھر ایسا خیال نہیں کیا جائے گا چونکہ استاد پہلے بھی اُن پر خوش ہوتاہے اِس لئے رخصت دے دے گا۔ خدا تعالیٰ بھی اُسی کی دعا قبول کرتاہے جو اُس کو راضی رکھتاہے اِس لئے فرمایا میرے بندوں کو چاہئے کہ اگر وہ اپنی دعائوں کو قبول کروانا چاہتے ہیں تو میری باتیں مان لیا کریں ۔اگر یہ میر ے احکام کو قبول کریں گے اور ان پر عمل کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اُن کی دعائیں قبول ہو جائیں گی۔ خدا تعالیٰ نے اپنے آپ کو مومن کا ولی قرار دیا ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے ۔دوست اسے نہیں کہتے جو ہر ایک بات مان لے بلکہ اسے کہتے ہیں جو کچھ مانے اور کچھ منوائے۔ ۳؎ اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو مومن کا ولی فرماتاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سی باتیں بندہ کی میں مان لیتا ہوں اور بہت سی اُسے ماننی چاہئیں۔خدا فرماتاہے کہ جو مجھے پکارتاہے میں اُسکی دعاقبول کرتاہوں مگر اس کے قبول ہونے کا طریق یہ ہے کہ کہ وہ بھی میری باتیں قبول کرے ۔وہ میرے احکام کو مانے پھر اسے جو تکلیفیں اور مصیبتیں پیش آئیں گی اُن کو میں دور کروں گا ۔گویا خدا تعالیٰ ایک عہد کرتاہے کہ تم میری باتیں مانو میں تمہا ری مانوں گا ۔تو دعا کے قبول ہو نے کا یہ پہلا گر خدا تعالیٰ نے اس آیت میں بتا دیا ہے۔
دوسرا گُر بھی اِسی آیت میں ہے اور وہ یہ کہ فرمایا اگر میرے بندے دعا قبول کروانا چاہتے ہیں تواِس کا دوسرا طریق یہ ہے کہ مجھ پر ایمان بھی لائیں ۔ بظاہر معلوم ہوتاہے کہ یہ زائد الفاظ ہیں کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی تمام باتیں مانے گا ضرور ہے کہ وہ ایمان بھی لائیگا اور جو ایمان نہیں لائے گا وہ مانے گا بھی نہیں ۔مثلاًجو نماز پڑھے گا ، روزے رکھے گا، زکوٰۃ دے گا ،حج کرے گا ،وہ یو نہی نہیں کرے گا اور نہ ہی رسمی طور پر ۔کیونکہ رسمی طور پر کرنے کی خدا تعالیٰ نے پہلے ہی نفی فرما دی ہے کیونکہ پہلے یہ نہیں فرمایا کہ اگر تم شریعت کے حکموں پر عمل کرو گے تو میں تمہا ری دعا قبول کروں گا بلکہ لفظ ہی ایسا رکھا ہے جو شریعت پر عمل کرنا بھی ظاہر کر دیتا ہے اور رسم کے طور پر عمل کرنے کا ردّ بھی کر دیتاہے ۔یعنی استجابت۔ اس کے معنی ہیں کہ ایک طرف سے آواز آئے اور دوسرا اس کو قبول کر کے اس پر عمل کرے ۔ نہ کہ کسی کے اپنے نفس میں رحم اور سخاوت ہے تو وہ بھی اس کا مصداق ہو سکے اور نہ ہی رسمی یا عادت کے طو ر پر کام کرنا اس میں داخل ہو سکتاہے کیو نکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میری آواز سنے اور اس پر عمل کرے اس کی دعا قبول ہو گی۔اس طرح ایک نا قص ایمان والا شخص جو رسمی طور پر شریعت کے احکام پر عمل کرتا ہے یا ایک دہریہ جو یو نہی لو گوں کے ڈر سے نما ز پڑھ لیتاہے داخل نہیں ہو سکتا ۔پھر سوال ہوتاہے کہ کے فرمانے کا کیا مطلب ہوا ؟جب پہلے سے ہی یہ شرط موجود ہے کہ دعا اُس وقت قبول ہو تی ہے جبکہ استجابت ہواور استجابت اُس وقت ہوتی ہے جبکہ ایمان بِاللہ ہو تو پھر ایمان لانے کے کیا معنی؟ استجا بت جب ایمان لانے کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی تو پہلے ایمان ہو نا چا ہیے اور بعد میں استجا بت نہ کہ پہلے استجا بت اور بعد میں ایمان اس صورت میں ایک ظاہربیں کو اختلاف نظر آتا ہے لیکن یہ بات غلط ہے۔
یہا ں خدا تعالیٰ پر ایمان لانے سے اُس کی شریعت پر ایما ن لا نا مراد نہیں ہے بلکہ دعا کے قبول ہو نے کا ایک اَور گُر بتایا ہے جس کے نہ سمجھنے سے بہت سے لو گوں نے ٹھو کر کھائی ہے اور ان کی دعائیں ردّ کی گئی ہیں۔ وہ گُر یہ ہے کہ انسان شریعت کے تمام احکام پر عمل کرے اور دعائیں مانگے مگر ساتھ ہی اِس بات پر ایمان بھی رکھے کہ خدا تعالیٰ دعائیں قبول کر تاہے ۔بہت سے لوگ ایسے ہو تے ہیں کہ شریعت کے احکام پر بڑی پا بندی سے عمل کرتے ہیں۔ ان کے دلوں میں خشیتُ اللہ بھی ہو تی ہے ،بڑے خشو ع و خضوع سے دعائیں بھی کرتے ہیں مگر پھر یہ کہتے ہیں کہ فلاں اتنا بڑا کام ہے اس کے متعلق دعا کہاں سنی جا سکتی ہے۔ یا یہ کہتے ہیں کہ ہم گنہگار ہیں ہماری دعا خدا کہاں سنتا ہے اِس قسم کا کوئی نہ کوئی خیال شیطان ان کے دل میں ڈال دیتا ہے جس سے اُن کی دعامیں قبولیت نہیں رہتی ۔اِس نقص سے بچنے کیلئے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اِس با ت پر بھی ایمان رکھو کہ جب تم ہمارے احکام پر اچھی طرح چلو گے تو میں تمہاری دعائیں قبول کر وں گا جب یہ یقین ہو تو پھر دعا قبول ہو تی ہے۔ لیکن اگر کوئی زبان سے دعا تو کرتاہے لیکن اسے یقین نہیں کہ خدا اس کی دعا قبول کرلے گاتو کبھی اس کی دعا قبول نہ ہو سکے گی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ بندہ کے یقین پر دعا قبول کرتاہے ۔اگرکسی کو یقین ہی نہ ہو تو لاکھ ماتھا رگڑے، ناک گھساتے گھساتے دَب جائے،حلق بیٹھ جائے کبھی دعاقبول نہیں ہو گی کیونکہ جس کو خدا پر امید نہیں ہوتی اُس کی دعا وہ نہیں سنتا ۔فرماتا ہے۔ ۴؎ اللہ کی رحمت سے کبھی نا امید نہ ہو ۔اللہ کی رحمت سے نا شکرا انسان ہی نا امید ہوتاہے ورنہ جس نے اپنے اوپر خدا تعالیٰ کے اِس قدر نشان دیکھے ہوں جن کو وہ گن بھی نہ سکتا ہووہ ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال نہیں کر سکتا کہ میرا فلاں کام خدا نہیں کرے گا اور فلاں دعا قبول نہیں ہو گی ۔خواہ اس کی کیسی ہی خطرنا ک حالت ہو اور کیسی ہی مشکلات اور مصائب میں گھرا ہوا ہوپھر بھی وہ یہی سمجھتا اور یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ادنیٰ سے ادنیٰ اشارہ سے بھی یہ سب کچھ دور ہو سکتاہے اور خدا ضرور دور کرے گا۔ اور اگر اُسے دعا کرتے کرتے بیس سال بھی گزر جائیں تو بھی یہی یقین رکھتا ہے کہ میری دعا ضائع نہیں جائے گی اور اُس وقت تک دعا کرنے سے باز نہیں رہتاجب تک کہ خدا تعالیٰ ہی منع نہ کردے کہ اب یہ دعا مت کرو ۔گو اس کی دعا قبول نہ ہو لیکن آخر کار خدا تعالیٰ کے کلام کا شرف تو حاصل ہو گیا کہ خدا تعالیٰ نے فرما دیا کہ اب دعا نہ مانگو۔تو جب تک خدا تعالیٰ نہ کہے اُس وقت تک دعاکرنے سے نہیں رُکنا چاہئے۔دعا قبول نہ ہو تو بھی انسان کو یہ نہیںچا ہیے کہ وہ دعا کرنا چھوڑ دے کیونکہ اگر اب قبول نہیں ہوئی تو پھر سہی پھر سہی۔ دوسری دفعہ نہ ہو تو تیسری دفعہ سہی۔ تیسری دفعہ نہ ہو تو چوتھی دفعہ سہی۔ دیکھو بعض اوقات جب بچہ ماں باپ سے پیسہ ما نگتاہے تو اسے نہیں بھی ملتا۔لیکن اُس کے بار بار اصرار پر مل ہی جاتا ہے اِسی طرح انسان کو کرنا چاہئے ۔اگر ایک دفعہ دعاقبول نہ ہو تو دوسری دفعہ سہی ۔حتیٰ کہ کبھی تو ہو ہی جائے گی اِس لئے مانگنے سے نہیں رُکنا چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ دو قسم کے گداگر ہوتے ہیں ۔ایک وہ جو دروازے پر آکر مانگنے کیلئے جب آواز دیتے ہیں تو کچھ لئے بغیر نہیں ٹلتے ان کو نر گدا کہتے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو آکر آواز دیتے ہیں اگر کوئی دینے سے انکا ر کردے تو اگلے دروازے پر چلے جا تے ہیں ان کو خر گدا کہتے ہیں ۔آپ ؑ فرماتے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کے حضور خر گدا نہیں بننا چاہئے نر گد ا ہونا چاہئے اور اُس وقت تک خدا کی درگاہ سے نہیں ہٹنا چاہئے جب تک کچھ مل نہ چکے ۔اس طرح کرنے سے اگر دعا قبول نہ بھی ہونی ہو تو خدا تعالیٰ کسی اور ذریعہ سے ہی نفع پہنچا دیتاہے ۔ پس دوسرا گر دعا کے قبول کروانے کا یہ ہے کہ انسان نر گدا بنے نہ کہ خرگدا اور سمجھ لے کہ کچھ لیکر ہی ہٹنا ہے خواہ پچاس سال ہی کیوں نہ دُعا کرتارہے یہی یقین رکھے کہ خدا میری دعا ضرور سنے گا۔یہ خیا ل بھی اپنے دل میں نہ آنے دے کہ نہیں سنے گا ۔اگرچہ جس کام یا مقصد کے لئے وہ دعا کرتاہو وہ بظاہر ختم شدہ ہی کیوں نہ نظر آئے پھر بھی دعا کرتا ہی جائے۔
لکھا ہے ایک بزرگ ہر روز دعا مانگا کرتے تھے ۔ایک دن جبکہ وہ دعاما نگ رہے تھے ان کا ایک مرید آکر ان کے پاس بیٹھ گیا ۔اُس وقت اُن کو الہام ہو ا جو اِس مرید کو بھی سنا ئی دیا لیکن وہ ادب کی خاطر چپکا ہو رہا اوراس کے متعلق کچھ نہ کہا ۔دوسرے دن جب انہوںنے دعا مانگنی شروع کی تو وہی الہام ہو ا جسے اس مرید نے بھی سنا ۔اس دن بھی وہ چپ رہا۔ تیسرے دن پھر وہی الہام ہو ا اس دن اس سے نہ رہا گیا اس لئے اس بزرگ کو کہنے لگا کہ آج تیسر ا دن ہے میں سنتا آرہا ہوںہر روز خدا تعالیٰ آپ کو فرماتاہے کہ میں تمہا ری دعا قبول نہیں کروں گا۔جب خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے تو پھر آپ کیوں کرتے ہیں جانے دیں۔ انہوںنے کہا۔نادان!تو تو صرف تین دن خدا کی طرف سے یہ الہام سن کر گھبر ا گیا ہے اور کہتاہے کہ جانے دو دعا ہی نہ کرومگر مجھے تیس سال ہو ئے ہیں یہی الہام سنتے ہوئے لیکن میں نہیں گھبرایا اور نہ ناا مید ہوا ہوں۔ خدا تعالیٰ کا کام قبول کرنا ہے اور میرا کام دعا ما نگناہے توخواہ مخواہ دخل دینے والا کون ہے؟ وہ اپنا کام کر رہا ہے میں اپنا کر رہا ہوں۔ لکھا ہے۔ دوسرے ہی دن الہام ہو ا کہ تم نے تیس سال کے عرصہ میں جتنی بھی دعا ئیں کی تھیں ہم نے وہ سب قبول کر لی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ سے کبھی نا امید نہیں ہو نا چا ہیے۔نا امید ہونے والے پر اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑک اُٹھتا ہے۔ جو شخص نا امید ہو تاہے وہ سوچے کہ کو نسی کمی ہے جو اس کے لئے خدا نے پو ری نہیں کی۔ کیسے کسیے فضل اور کیسے کیسے انعام ہو ئے اور ہو رہے ہیںپھر آئندہ نا امید ہونے کی کیا وجہ ہے۔
پس دعا مانگنے کا ایک طریق تو یہ ہے کہ انسان اپنے تمام اعمال کو شریعت کے مطابق کرے کیوں؟ اس لئے کہ جس طرح ماں باپ بھی اُسی بچے کی باتیں مانتے ہیں جو اُن کی مانے اور پوری پوری فرما نبرداری کرے ۔ جو اُن کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتا اُسکی باتوں کی وہ بھی نہیںکرتے ۔پھر اُستا د اُسی لڑکے کی بات مانتاہے جو محنتی اور اچھی طرح سبق یا د کرنے والا ہو اِسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنے فرمانبردار بندوں کی نافرمان بندوں سے زیادہ مانتاہے۔پس تم لوگ اوّل تو اپنے اعمال کو شریعت کے مطابق بنائو اور دوسرے یہ کہ خدا کے فضل اور رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوبلکہ دعا کرتے وقت یہ پختہ یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ تمہا ری دعا ضرور سنے گااور ضرور سنے گا۔ اور اُس وقت تک دعا کرتے رہو کہ خداکی طرف سے یہ حکم نہ آجائے کہ اب یہ دعا مت مانگو۔ لیکن جب تک خدا تعالیٰ یہ کسی کو نہیں کہتابلکہ یہ کہتا ہے کہ میں تمہا ری دعا قبول نہیں کرتا اُس وقت تک ہر گز ہر گز باز نہ رہوکیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کہ میں تمہا ری دعا قبول نہیں کرتا گویا اشارۃًیہ کہنا ہے کہ اے میرے بندے! تو مانگتا جا۔ میں گو اِس وقت قبول نہیں کرتا لیکن کسی وقت کرضرور لوں گا ۔ورنہ اگر اِس کہنے سے یہ مراد نہ ہو تی بلکہ دعا کرنے سے روکنا ہوتا تو خداتعالیٰ یہ کہہ سکتا تھا کہ’’ یہ دعا مت مانگ‘‘ نہ یہ کہ ’’میں نہیں مانوں گا‘‘۔پس جب تک کان میں یہ الفاظ نہ پڑیں کہ ’’یہ دعا مت مانگ اس کے ما نگنے کی میں تمہیں اجا زت نہیں دیتا ۔‘‘اُس وقت تک نہیں رُکنا چاہئے۔ اِس طرح تو اُن کو مطلع کیا جا تا ہے جنہیں الہام اور کشف کا رُتبہ حاصل ہوتاہے اور جنہیں یہ نہ ہو اُن کو اِس بات سے متنفر کر دیا جا تا ہے جس کے متعلق وہ دعا کرتے ہیں۔
جن پر الہا م اور وحی کا دروازہ کھلا ہو تا ہے اُن کو تو خدا کہہ دیتا ہے کہ ایسا مت کرو لیکن جن کیلئے نہیں ہو تا اُن کے دل میں نفرت پیدا کر دی جا تی ہے اس لئے وہ خود ہی اس دعا کے مانگنے سے بازرہ جاتے ہیں۔ اس کا نام ما یوسی نہیں بلکہ ان کا تو یہ یقین ہو تاہے کہ خدا تعا لیٰ ہمارا فلاں مقصد پورا کر سکتاہے اور ہمیں فلاں چیز دے سکتاہے لیکن ہم خود ہی اسے نہیںلینا چاہتے۔ پس اگر کسی کے دل میں دعا مانگتے ہو ئے اس چیز سے نفر ت پیدا ہو جائے تو اسے بھی دعا کرنا چھوڑ دینا چاہئے ورنہ نہیں رُکنا چاہئے خواہ قبولیت میں کتنا ہی عرصہ کیوں نہ لگ جائے ۔ بعض دفعہ دعا کرتے کرتے کچھ ایسے سامان پیدا ہو جا تے ہیں کہ اگر دعا قبول ہو جائے تو اس سے شریعت کا کوئی حکم ٹو ٹتا ہے اس سے بھی سمجھ لینا چاہئے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ اس دعا سے باز رہنا چاہئے۔ خدا تعالیٰ کے دعا کو قبول کرنے سے انکار کرنے کا یہ بھی ایک طریق ہے ۔یعنی بجائے قول کے خدا تعالیٰ کا فعل سامنے آجاتاہے اس لئے اس کے کرنے سے رُک جا نا چاہئے۔ تو دعا کرنے سے رُکنے کے تین پہلو ہیں ۔
اوّل یہ کہ الہام یا کشف ہو جائے کہ یہ دعا مت کرو۔ یا ہماری طرف سے اس کے کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
دوم یہ کہ جس مقصد کے حصول کے لئے دعاکی جائے اس سے نفرت پید ا ہوجائے ۔
سوئم یہ کہ جس مقصد کیلئے دعا کی جائے وہ شریعت کے محذورات کے ساتھ وابستہ ہوجائے۔
اگر اِن تینوں حالتوں میں سے کوئی حالت بھی نہ ہو تو دعاکرنے سے کبھی نہیں رُکنا چاہئے اور کبھی مایوس نہیں ہو نا چاہئے بلکہ یہی سمجھنا چاہئے کہ خداتعالیٰ نے مجھے یہ جو مانگنے کا موقع دیا ہو ا ہے اِس میں مانگتاہی جائو نگا تاکہ یہ ضائع نہ ہو جائے۔ جب کوئی اس طرح کرے گا توضرور ہے کہ خدا تعالیٰ اُس کی دعا یا تو قبول کرلے گایا ان تینوں طریقوں میں سے کسی سے اُسے روک دے گا(ان تینوں کے علاوہ ابھی تک اور کوئی روک میری سمجھ میں نہیں آئی) لیکن اگر روک بھی دے تو کیا دعا مانگنے کا یہ تھوڑا فائدہ اور نفع ہے کہ خداوند تعالیٰ کے سا تھ مکالمہ و مخاطبہ کا شرف حاصل ہو گیا اور خدا تعالیٰ نے اُسے اِس قابل سمجھا کہ مخاطب کرے۔ آج میں دعا کے قبول ہونے کے صرف یہی دو طریق بتاتاہوں۔ اَور بھی ہیں مگر وقت تنگ ہو رہا ہے اگر خداتعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں ان کو انشاء اللہ بیا ن کردوں گا۔‘‘ (الفضل۲۹؍جولائی۱۹۱۶ئ)
۱؎ البقرہ: ۱۸۷
۲؎ چَتر: بڑی چھتری،چَترشاہی: بادشاہی چھتری
۳؎ حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۱۔ روحانی خزائن جلد ۲۲
۴؎ یوسف: ۸۸
۲۴
قبولیت دعا کے طریق
(فرمودہ ۲۸؍ جولائی ۱۹۱۶ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
؎۱
پھرفرمایا:۔
’’بہت سی باتیں بظاہر ہلکی اور چھوٹی نظر آتی ہیں اور جن لوگوں نے ان کے فوائد سے محروم رہنا ہوتا ہے وہ ان کو بے حقیقت اور معمولی سمجھ کر ان پر سے اندھوں کی طرح گذر جاتے ہیں لیکن ان پر عمل کرنے سے بہت بڑے اور اعلیٰ درجہ کے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ دیکھو سارے پڑھے لکھے آدمی خط لکھتے ہیں لیکن سب کا خط خوبصورت نہیں ہوتا۔ لکھنے والی قلم، سیاہی اور کاغذ ایک ہی طرح کا ہوتا ہے پھر ہاتھ بھی ایک ہی ایسا ہوتا ہے، وہی پانچوں اُنگلیاں سب کی ہوتی ہیں جو ایک خوشنویس کی ہوتی ہیں۔ ایک ہی طرح کے گوشت، ہڈیوں اور نسوں سے بنی ہوتی ہیںمگر جب ایک لکھتا ہے تو ایسا خوبصورت کہ دیکھنے والے کی طبیعت خوش ہوجاتی ہے اور جب دوسرا لکھتا ہے تو ایسا کہ دیکھنے والے کی طبیعت مکدر ہو جاتی ہے۔ دونوں خطوں میں بڑا فرق ہوتا ہے اور دونوں کا اپنے اپنے رنگ میں بڑا اثر پڑتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے اعلیٰ اور عمدہ خط کی طرف انسان کی طبیعت خود بخود کھنچتی ہے گو میرا اپنا خط کوئی ایسا اچھا نہیں لیکن میری ڈاک میں جو خط اچھے لکھے ہوتے ہیں اُن کو میں پہلے پڑھتا ہوں تا کہ آسانی سے پڑھ سکوں اور جو مشکل سے پڑھے جاتے ہیں اُن کو بعد میں پڑھتا ہوں تو خوبصورت خط کا ایک فوری اثر ہوتا ہے لیکن جانتے ہو خط کی خوبصورتی کہاں سے آتی ہے؟ اگر کہو ہاتھ سے تو ہاتھ تو سب کے ہوتے ہیں۔ اگر کہوقلم سے تو قلم بھی سب کے پاس ہوتی ہے۔ اگر کہو سیاہی سے تو سیاہی بھی ہر ایک رکھتا ہے اوراگر کہو کاغذ سے توکاغذ بھی ہر ایک کے پاس ہوتا ہے پھر وہ کیا چیز ہے جس کی موجودگی ایک کے خط کو بہت عمدہ اور خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس کی عدم موجودگی دوسرے کے خط کو بدصورت اور بدنما بنا دیتی ہے؟ یہ دراصل ایک معمولی سی حرکت اور خفیف سا پیچ ہوتا ہے اگر اس کے متعلق کوئی خوشنویس بتائے تو سننے والا حیران ہو کر کہہ دے گا کہ کیا اِس ذرا سی حرکت کے نتیجہ میں ایسا اعلیٰ نتیجہ ہو جاتا ہے لیکن دراصل بات تو یہی ہے کہ نہایت خفیف سی حرکت کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ بہت خوبصورت خط ہوتا ہے اور اسی کی کمی سے بڑا بدصورت نظر آتا ہے۔ اس حرکت کو جاننے والے بڑے بڑے اعلیٰ درجہ کے خوشنویس گذرے ہیں۔ ہندوستان میں ایک خوشنویس تھا جب کوئی فقیر اُس کے پاس مانگنے کے لئے آتا اور وہ اُس پر مہربان ہوتا تو اُسے ایک حرف لکھ کر دے دیتا۔ اُس کا ایک حرف آسانی سے ایک روپیہ کو بِک جاتا۔ جس طرح آجکل قطعے نمائش کے لئے لگائے جاتے ہیں اِسی طرح اُس کے ایک ایک حرف کو زینت کے طور پر لوگ لگاتے تھے لیکن اس میں کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ صرف ہاتھ کی حرکت ہی تھی جو اس کے خط کو خوبصورت کر دیتی تھی۔ اِس کو اگر وہ بیان کرتا تو ہر ایک اس بات کو نہ سمجھ سکتاکہ اتنی سی معمولی حرکت سے ایسا خوبصورت حرف کس طرح لکھا جا سکتا ہے لیکن خوبصورتی کا باعث وہی حرکت تھی۔
تمام پیشوں کا یہی حال ہے ایک ہی لکڑیاں چیرنے والا آرہ اور ایک ہی طرح کے سب آدمی ہوتے ہیں مگر ایک کی بنائی ہوئی چیز ایسی عمدہ ہوتی ہے کہ انسان اُس کی طرف سے آنکھیں نہیں ہٹانا چاہتا اور دوسرے کی ایسی ہوتی ہے کہ دیکھ کر منہ پھیر لیتا اور کہتا ہے کہ اس نے تو لکڑی کو ہی خراب کر دیا ہے اِن دونوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں اتنا بڑا فرق پیدا کرنے والی بھی ایک حرکت ہی ہوتی ہے۔ جسے اگر بیان کیا جائے تو سننے والا حیران رہ جائے کہ یہ اس بات کا موجب کس طرح ہو سکتی ہے۔ اِسی طرح کھانا پکانے والے ہیں ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا پکاتا ہے کہ اگر انسان کو بھوک نہ بھی ہوتو بھی دیکھ کر اشتہاء پیدا ہو جاتی ہے اور ایک ایسا پکاتا ہے کہ اگر سخت بھوک لگی ہوئی ہو تو بھی کھانا دیکھ کر بند ہو جاتی ہے۔ اگر اس اچھا کھانا پکانے والے سے پوچھا جائے کہ تم نے کس طرح پکایا ہے ؟تو یہ نہیں ہوگا کہ وہ ترکیبوں اور احتیاطوں کے کوئی دو تین صفحے لکھا دے گا بلکہ یہی کہے گا کہ جس طرح سب لوگ پکاتے ہیں اُسی طرح میں نے بھی پکایا ہے میں کوئی نئی ترکیب تو نہیں جانتا۔ یا اگر زیادہ کرے گا تو یہ کہہ دے گا کہ نمک مرچ اس طرح ڈالتا ہوں، مسالہ اس طرح بھونتا ہوں، آگ اِس قد رجلاتا ہوں وغیرہ۔ ان باتوں کو سن کر پوچھنے والا سمجھے گا کہ یہ مجھ سے دھوکا کر رہا ہے اور اصل بات نہیں بتاتا۔ اس طرح تو میں پہلے ہی کرتا ہوں لیکن اصل اور درست بات وہی ہوتی ہے جو وہ بتا رہا ہوتا ہے۔ یہی حال عمارت بنانے والوں کا ہے۔ یہی علم پڑھانے والوں کا۔ ایک مدرّس کی بات بہت کم طالب علم سمجھتے ہیں لیکن دوسرے کی ہر ایک سمجھ جاتا ہے اس کو بیان کرنے کی ایک معمولی مشق ہوتی ہے اسے اگر وہ بیان کرے تو لوگ بہت معمولی سمجھیں اِسی طرح اور کئی باتوں کو معمولی سمجھا جاتا ہے لیکن یہی معمولی باتیں بہت بڑے نتائج پیدا کرنے کا موجب ہو جاتی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے سنا۔ آپ کسی عورت کا قصہ بیان فرماتے کہ اُس کا ایک ہی لڑکا تھا وہ لڑائی پر جانے لگا تو اُس نے اپنی ماں کو کہا کہ آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جو میں اگر واپس آؤںتو تحفہ کے طور پر آپ کے لئے لیتا آؤں اور آپ اُسے دیکھ کر خوش ہو جائیں۔ ماں نے کہا اگر تو سلامت آ جائے تو یہی بات میرے لئے خوشی کا موجب ہو سکتی ہے۔ لڑکے نے اصرار کیا اور کہا آپ ضرور کوئی چیز بتائیں۔ ماں نے کہا اچھا اگر تم میرے لئے کچھ لانا ہی چاہتے ہو تو روٹی کے جلے ہوئے ٹکڑے جس قدر زیادہ لا سکو لے آنا، میں انہی سے خوش ہو سکتی ہوں۔ اُس نے اِس کو بہت معمولی بات سمجھ کر کہا کہ کچھ اور بتائیں لیکن ماں نے کہا بس یہی چیز مجھے سب سے زیادہ خوش کر سکتی ہے۔ خیر وہ چلا گیا۔ جب وہ روٹی پکاتا تو جان بوجھ کر اُسے جلاتا تا جلے ہوئے ٹکڑے زیادہ جمع ہوں۔ روٹی کا اچھا حصہ تو خود کھا لیتا اور جلا ہوا حصہ ایک تھیلے میں ڈالتا جاتا۔ کچھ مدت کے بعد جب گھر آیا تواُس نے جلے ہوئے ٹکڑوں کے بہت سے تھیلے اپنی ماں کے آگے رکھ دیئے۔ وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اُس نے کہا اماں! میں نے آپ کے کہنے پر عمل تو کیا ہے مگر مجھے ابھی تک معلوم نہیں ہوا کہ یہ بات کیا تھی؟ ماں نے کہا اُس وقت جبکہ تم گئے تھے اِس کا بتانا مناسب نہ تھا اب میں بتاتی ہوں اور وہ یہ کہ بہت سی بیماریاں انسان کو نیم پختہ کھانا کھانے کی وجہ سے لاحق ہو جاتی ہیں میں نے جلے ہوئے ٹکڑے لانے کے لئے اِس لئے کہا کہ تم ان ٹکڑوںکیلئے روٹی کو ایسا پکاؤ گے کہ وہ کسی قدر جل بھی جائے گی۔ جلی ہوئی کو رکھ دو گے اور باقی کھا لو گے اِس سے تمہاری صحت بہت اچھی رہے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
یہ کیا چھوٹی سی بات تھی لیکن درحقیقت اس کے بچہ کو بچانے کا موجب ہوگئی۔ سپاہی چونکہ جلدی جلدی کھانا پکا کر کھا لیتے ہیں اور اس طرح اکثر کچا رہتا ہے اِس لئے اُنہیں پیچش اور محرقہ وغیرہ امراض اکثر لاحق رہتی ہیں۔ اُس کی ماں نے ایسی بات بتائی جو بظاہر تو بہت معمولی تھی مگر جب اُس نے اِس پر عمل کیا تو بہت بڑا فائدہ اُٹھایا یعنی اِس سے اُس کی صحت سلامت رہی۔
یہ میں نے تمہید کیوں بیان کی ہے؟ اس لئے کہ جو کچھ میں نے پچھلے جمعہ کو بیان کیا تھا اور جو آج کرنے لگا ہوں وہ بظاہر سننے میں بہت معمولی معلوم ہوا ہوگا۔ اگر وہ ایسا ہی معمولی ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ خوبصورت لکھنے والے، عمدہ اشیاء بنانے والے، اعلیٰ کھانا پکانے والے کے ہاتھ کی حرکت ہے۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں وہ کوئی خاص گر جانتے ہیں حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کے پاس بھی وہی گر ہوتا ہے مگر وہ استعمال نہیں کرتے اس لئے ان کی دعائیں ردّ کی جاتی ہیں اور جو استعمال کرتے ہیں ان کی قبول ہوتی ہیں۔ پس تم لوگ ان کو معمولی نہ سمجھو وہ گو معمولی نظر آتی ہیں مگر نتائج اعلیٰ رکھتی ہیں۔ جب تم ان باتوں کو سنو گے جو اَب میں سنانا چاہتا ہوں تو کہو گے کہ یہ معمولی باتیں ہیں ان کو ہم بھی جانتے ہیں مگر جاننا اَور بات ہے او رعمل کرنا اَور بات۔ غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ مرزا صاحب مسیح موعود ہو کر کیا آئے جس دن سے آئے ہیں اُسی دن سے لوگوں پر ہلاکت اور تباہی آ رہی ہے۔ ہم کہتے ہیں ان کا آنا ہلاکت اور تباہی سے نہیں بچا سکتا بلکہ ان کا ماننا بچاتا ہے۔ پس ہمیں یہ بتایا جائے کہ کتنوں نے آپ کو مانا ہے؟ جب آپ کو مانتے نہیں تو پھر تباہیوں سے کس طرح بچیں۔ تو کسی بات کا جاننا یا زبانی ماننا اُس وقت تک کوئی فائدہ نہیں دیتا جب تک کہ اُس پر عمل نہ کیا جائے۔
گذشتہ جمعہ میں میں نے دعا کے قبول ہونے کے لئے دو باتیں بتائی تھیں۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ انسان اپنے اعمال میں پاکیزگی پیدا کرے اور خداتعالیٰ کے ہر ایک حکم کو بجا لائے۔ کیوں؟ اس لئے کہ جس سے انسان خوش ہوتا ہے اُس کو انعام دیتا ہے اِسی طرح جس پر خداتعالیٰ خوش ہوتا ہے اُسی پر انعام کرتا ہے۔ اس طریق کو سن کر بعض لوگ کہہ دیں گے کہ یہ تو ایک بڑی بات ہے ہمیں پہلے اپنے اعمال کی درستی کے لئے ہی دعا کی ضرورت ہے کیونکہ دعا تو تب قبول ہوگی جب کہ اعمال درست ہوں گے اور اعمال اُس وقت تک درست نہیں ہو سکتے جب تک کہ خداتعالیٰ ہماری دستگیری نہ کرے اس لئے کوئی ایسی بات بتاؤ جس پر عمل کرنے سے ہمارے جیسے کمزور ایمان اور کمزور اعمال والے انسانوں کی دعائیں بھی قبولیت کا شرف حاصل کر سکیں کیونکہ ہم کو بہ نسبت دوسروں کے بہت زیادہ ضرورت ہے تا کہ ہمارے اعمال دعا کے ذریعہ درست اور مضبوط ہوں اور ہمیں کامل ایمان حاصل کرنے کی توفیق ملے۔ اس کے لئے میں آج چند ایسی باتیں بھی بیان کرتا ہوں جن کو ہر ابتدائی حالت والا انسان عمل میں لا سکتا ہے اور گو وہ معمولی نظر آتی ہیں لیکن درحقیقت بہت بڑی ہیں اور ان سے بڑے بڑے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔
ان میں سے ایک بات تو وہ ہے جو گزشتہ خطبہ میں میں نے بتائی تھی کہ انسان دعا کرتے ہوئے اِس بات پر کامل ایمان رکھے کہ میں خدا کے حضور سے کبھی ناامید نہیں ہوں گا اور کبھی تہی دست نہیں پھروں گا لیکن اگر کوئی انسان دعا تو کرتا ہے مگر اس کا دل کہتا ہے کہ تیری دعا قبول نہیں ہوگی تو واقعہ میں اُس کی دعا قبول نہیں ہوگی اس لئے ہر ایک انسان اس یقین سے دعا مانگے کہ خداتعالیٰ ضرور سنے گا اور قبول کرے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم انسانوں میں دیکھتے ہیں کہ ان کے جو پیارے ہوتے ہیں ان سے جو نیک سلوک کرتا ہے وہ بھی ان کی نظروں میں پیارا معلوم دینے لگ جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی ایک بچہ کو ہلاکت سے بچائے تو اس بچہ کے ماں باپ اس کے شکر گزار ہوں گے اور اسے یہ نہیں کہیں گے کہ تو نے بچہ کو بچایا ہے نہ کہ ہم کو کہ ہم تیرے مشکور ہوں۔ تو یہ محبت کا تقاضا ہے کہ جو چیز کسی کی محبوب ہوتی ہے تو جب اُس کو کوئی فائدہ پہنچائے یا اُس کی نسبت کوئی اچھی بات کہے تو محب کے دل میں اس کی بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی گر دعا میں بھی انسان استعمال کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس سے بہت زیادہ محبت انسانوں سے ہوتی ہے جو بندوں کو بندوں سے ہوتی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ محبت کی بنیاد تعلق پر ہوتی ہے۔ چونکہ بندوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ابتداء کے لحاظ سے بھی اور انتہاء کے لحاظ سے بھی عارضی تعلق ہوتا ہے اس لئے ان کی محبت خواہ کتنی ہی زیادہ ہو پھر بھی خدا کی محبت سے مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ خداتعالیٰ کی محبت دائمی اور ہمیشہ کے لئے ہے۔
ایک جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے کفار کو شکست ہو چکی تھی، صحابہ قیدیوں اور مال اسباب وغیرہ کو جمع کر رہے تھے پکڑ دھکڑ شروع تھی کہ ایک عورت بھاگی بھاگی پھرتی نظر آئی۔ وہ جس بچہ کو دیکھتی اُسے پکڑ کر پیار کرتی اور پھر دیوانہ وار آگے چل پڑتی۔ اسی طرح چلتے چلتے اُسے اپنا بچہ مل گیا جسے اُس نے پکڑ کر چھاتی سے لگا لیا اور آرام سے بیٹھ گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا۔ کیا تم نے اِس عورت کو دیکھا اپنے بچہ کی محبت سے کس طرح بے تاب ہو رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے اِس سے بھی زیادہ محبت اور پیار ہے۔ ؎۲
تو خداتعالیٰ کی محبت انسانوں کی محبت سے بہت زیادہ ہے۔ پس جس طرح اگر کوئی کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو اس کے محب کے دل میں اس کی بھی محبت اور اُلفت پیدا ہو جاتی ہے اِسی طرح اللہ تعالیٰ کے بندوں پر اگر کوئی احسان، مروت اور رحم کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اُس پر رحم کرتا ہے تو دعاؤں کی قبولیت کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہو اور اس کے لئے دعا کرنی ہو تو اُس وقت کسی ایسے انسان کے جو کسی قسم کے دکھ اور تکلیف میں ہو دکھ کو دور کیا جائے یا دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ جب کوئی شخص خداتعالیٰ کے کسی بندے سے ایسا سلوک کرے گا تو اُس کی وجہ سے خداتعالیٰ اُس کے دکھ کو دُور کر دے گا کیونکہ اس نے اس کے ایک بندہ کا دکھ دور کیا تھا ۔یہ بہت اعلیٰ طریق ہے۔ دعا کرنے سے پہلے کوئی ایسا شخص تلاش کرنا چاہیے جو کسی مصیبت اور تکلیف میں ہو۔ خواہ وہ تکلیف جانی ہو یا مالی۔ عزت کی ہو یا آبرو کی، کسی قسم کی ہو، تم کوشش کرو کہ دُور ہو جائے۔ آگے دُور ہو یا نہ ہو اُس کے تم ذمہ دار نہیں ہو تم اپنی ہمت اور کوشش کے مطابق زور لگا دو اس کے بعد خداتعالیٰ کے حضور جاؤ اور جا کر اپنے مدعا کے لئے دعا کرو۔ اِس طریق کی دعا بہت حد تک قبول ہو جائے گی۔ تم خداتعالیٰ کے کسی بندے کی تکلیف کو دور کرنے کے لئے جس قدر توجہ کرو گے خداتعالیٰ تمہاری تکلیف کو دورکرنے کے لئے اس سے بہت زیادہ توجہ فرمائے گا۔ اور کیا سمجھتے ہو کہ خداتعالیٰ کی توجہ بھی بے نتیجہ ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ممکن ہے کہ تم جس انسان کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرو اس میں تمہیں کامیابی نہ ہو کیونکہ تم بندے ہو اور کسی بندے کے اختیار میں نہیں کہ جو کچھ کرنا چاہے اس میں کامیاب بھی ہو جائے لیکن خداتعالیٰ کی وہ ذات ہے کہ وہ جس بات کو کرنا چاہے وہ ضرور ہی ہو جاتی ہے اس لئے تم کبھی یہ خیال مت کرنا کہ چونکہ تمہاری کوشش کامیاب نہیں ہوئی اس لئے خداتعالیٰ بھی تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا کیونکہ جب خداتعالیٰ تمہارا کام کرنے کاارادہ کرے گا تو وہ ضرور ہو جائے گا۔ وہ ہر چیز کا خالق اور مالک ہے جس طرح چاہتا ہے ان سے کام لے لیتاہے۔ پس تم اِس طریق کو ضرور استعمال کرو۔
اِس کے علاوہ تیسرا طریق یہ ہے کہ وہ انسان جو اس درجہ کو نہ پہنچے ہوں کہ خداتعالیٰ خود انہیں دعائیں سکھائے اور بتائے کہ یہ دعا کرو اور یہ نہ کرو وہ دعا کرنے سے پہلے کثرت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ انسان ہیں جو خداتعالیٰ کے حضور تمام بنی نوع انسان سے زیادہ مقبول ہیں۔ خواہ وہ آپ سے پہلے گذرے یا بعد میں آئے یا آئندہ آئیں گے۔ ہر ایک انسان کی نظر میں اُس کا استاد یا اس کے خاندان کا بزرگ بڑا ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ رنجیت سنگھ کے مرنے پر بڑا واویلا مچا ہوا تھا پا س ایک چوہڑا گذر رہا تھا اس نے کسی کو کہا اتنی بڑی کیا آفت آ گئی ہے کہ سارا شہر پاگل بنا ہوا ہے اس نے کہا مہاراجہ رنجیت سنگھ مر گیا ہے۔ یہ سن کر وہ ایک ٹھنڈا سانس کھینچ کر کہنے لگا۔ باپو جی جیسے مر گئے تو رنجیت سنگھ کون تھا جو نہ مرتا۔ گویا اُس کے نزدیک باپو جی اتنی حیثیت رکھتے تھے کہ رنجیت سنگھ جو اپنے وقت کا بادشاہ تھا کچھ حقیقت نہ رکھتا تھا۔ یہ اس کے دل میں وہی جذبہ کام کر رہا تھا جو اپنے بزرگوں کی محبت اور اُلفت کا ہر ایک انسان میں ہوتا ہے۔ مذاہب میں بھی یہی بات پائی جاتی ہے۔ دیکھو باوجود اس کے کہ حضرت مسیحؑ، حضرت موسٰی ؑ کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ تھے مگر اس محبت اور اُلفت نے جو اپنے استاد یا بزرگ سے ہوتی ہے عیسائیوں کو ایسا مجبور کیا کہ اُنہوں نے ان کو حضرت موسٰی ؑ سے بہت زیادہ بڑھا دیا۔
تو میں نے جو یہ کہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے پہلے آنے والوں اور اپنے سے بعد میں آنے والوں میں سے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ شان رکھنے والے ہیں ان میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی شامل کر لیا ہے۔ حضرت مسیح موعود اپنے موجودہ درجہ میں ہوں یا اس سے بھی بڑے درجہ میں تو بھی آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور غلام ہی کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ آپ کا قرب اور درجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے طفیل ہے اور آپ ہی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔
میں نے بتایا ہے کہ حقیقی محبت استثناء کرتی ہے یعنی جس سے تعلق ہو اُس کو دوسروں سے بڑھ کر دکھاتی ہے۔ مگر ہم کوجس انسان سے اِس زمانہ میں نور ملا ہے ہم اس کو مستثنیٰ نہیں کرتے اور عَلَی اِلْاعْلَان کہتے ہیں کہ سب انسانوں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اعلیٰ اور ارفع ہے اور آپ ایک ایسے مقام پر ہیں کہ گویا سب سے علیحدہ ہو کر ایک اکیلے نظر آ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کلمۂ توحید کے ساتھ آپ کا نام بھی رکھ دیا ہے۔ ایسے انسان کی نسبت جو درود بھیج کر خداتعالیٰ سے برکات چاہتا ہے خداتعالیٰ کی رحمت جوش میں آ کر اُس پر فضل کرنا شروع کر دیتی ہے۔ یہ بات احادیث سے ثابت ہے ۳؎ (وقت کی کمی کی وجہ سے میں یہ نہیں بیان کر سکتا کہ جو طریق میں بیان کر رہا ہوں اس کو میں نے کس آیت اور کس حدیث سے استدلال کیا ہے مگر اتنا بتا دیتا ہوں کہ یہ سب باتیں قرآن کریم اور احادیث سے لی گئی ہیں) تو دعا کے قبول ہونے کے ساتھ درود کا بڑا تعلق ہے۔ وہ انسان جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج کر دعا کرتا ہے اُس کی ہر ایک ایسے انسان سے بڑھ کر دعا قبول ہوتی ہے جو بغیر درود کے کرے۔
انعام دینے کا یہ بھی ایک طریق اور رنگ ہوتا ہے کہ اپنے پیارے اور محبوب کی وساطت اور وسیلہ سے دیا جائے۔ خداتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انعامات کا وارث کرنے اور سب سے بڑا رُتبہ عطا کرنے کے لئے اِس طریق سے بھی کام لیا ہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج کر دعا مانگیں گے اُن کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی۔ دنیا میں کونساانسان ہے جسے خداتعالیٰ کی ضرورت نہیں ہر ایک کو ہے اس لئے ہر ایک ہی اپنی مصیبت کے دور ہونے اور ـحاجت کے پورا ہونے کے لئے خداتعالیٰ سے دعا کرے گا اور جب دعا کرے گا تو اگرچہ وہ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا عادی نہ ہوگا لیکن اپنی دعا کے قبول ہونے کے لئے درود بھیجے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی درجات کا موجب ہوگا اور اس طرح اسے بھی انعام مل جائے گا۔ غرض خداتعالیٰ نے اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرنے کے لئے ایک بات یہ بھی بیان کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج کر پھر دعا کی جائے اور یہ کوئی ناروا بات نہیں۔ یہ اسی طرح کی ہے کہ جو محبوب سے اچھا سلوک کرتا ہے وہ بھی محب کا محبوب ہو جاتا ہے۔
چوتھا گر یہ ہے کہ انسان خداتعالیٰ کی حمد کرے۔ یہ بھی ایک عام طریق ہے جو اسلام کی تعلیم سے بھی معلوم ہوتا ہے اور فطرتِ انسانی میں بھی پایا جاتا ہے۔ دیکھو فقراء جب کچھ مانگنے آتے ہیں تو جس سے مانگتے ہیں اُس کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔ کبھی اُسے بادشاہ بناتے ہیں، کبھی اُس کی بلند شان ظاہر کرتے ہیں ،کبھی کوئی اَور تعریفی کلمات کہتے ہیں حالانکہ جو کچھ وہ کہتے ہیں اُس میں وہ کوئی بات بھی نہیں پائی جاتی مگر مانگنے والا اِس طرح کرتا ضرور ہے اور ساتھ ہی اپنے آپ کو بڑا محتاج اور سخت حاجتمند بھی ظاہر کرتا ہے کیونکہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کرنے سے میں اپنے مخاطب کو رحم اور بخشش کی طرف متوجہ کر لوں گا۔ اور اللہ تعالیٰ کی تو جس قدر بھی تعریف کی جائے وہ کم ہوتی ہے کیونکہ وہی سب خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے اور اِسی لئے دوسرے لوگوں کی جو تعریف ہوتی ہے وہ سچی اور جھوٹی دونوں طرح کی ہو سکتی ہے مگر خداتعالیٰ کی جو تعریف بھی کی جائے وہ سب سچی ہی ہوتی ہے اس لئے جب کبھی دعا کی ضرورت ہو تو دعا کرنے سے پہلے خداتعالیٰ کی حمد کر لینی چاہیے۔ چنانچہ سورہ فاتحہ سے ہمیں یہ نکتہ معلوم ہوتا ہے۔ سورۃ فاتحہ وہ سب سے بڑی دعا ہے جو خداتعالیٰ نے اپنے بندوں کو سکھائی ہے اور ہر روز کئی بار پڑھی جاتی ہے اس میں پہلے خدا نے یہی رکھا ہے کہ ۴؎ فرماتا ہے۔ اس میں یہی گر سکھایا گیا ہے کہ جب کوئی دعا کرنے لگو تو پہلے کثرت سے خداتعالیٰ کی حمد کر لو۔ (حمد تمام خوبیوں اور پاکیزیوں کے جمع ہونے اور سب نقصوں اور کمزوریوں سے منزّہ سمجھنے کا نام ہے اس لئے تسبیح بھی اس میں شامل ہے اور یہ بھی ایک قسم کی حمد ہی ہوتی ہے) خداتعالیٰ کی حمد کرکے دعا کرنے سے بہت زیادہ دعا قبول ہوتی ہے۔پس انسان کو چاہیے کہ دعا کرنے سے پہلے خداتعالیٰ کی حمد کرے، اُس کی عظمت اور جلال کا اقرار کرے اور اس کی تعریف بیان کرے۔ اس طرح دعا بہت زیادہ قبول ہو جاتی ہے۔ وجہ یہ کہ چونکہ بندہ خداتعالیٰ کی صفات کو بیان کرتا اور اپنے آپ کو بالکل ہیچ ظاہر کرتا ہے اس لئے وہ خدا جو رحمن، رحیم، مالک، خالق، قادر ہے اور جس کے خزانوں میں کبھی کمی نہیں آ سکتی اُس کی دعا کو قبول کر لیتا ہے۔ جب ایک انسان کسی انسان کے سامنے اپنے آپ کو محتاج پیش کرتا اور اس کی تعریف و توصیف کرتا ہے تو اُسے رحم آ جاتا ہے اور وہ اس کی کچھ نہ کچھ مدد کردیتا ہے۔ تو خداتعالیٰ کے حضور جب کوئی انسان اپنی حالتِ زار کو پیش کرے اور اُس کی حمد وتعریف بیان کرے تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ اُس کی دعا کو ردّ کر دے۔ پس جب کوئی انسان خداتعالیٰ کی صفات کو بیان کر کے کچھ مانگتا ہے تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا یہ محتاج بندہ جو کچھ مانگتا ہے وہ اسے دیا جائے۔ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے خداتعالیٰ کی محبت جوش میں آتی ہے اِسی طرح حمد کرنے سے اُس کی غیرت جوش میں آتی ہے۔ درود پڑھنے سے تو خداتعالیٰ یہ کہتا ہے کہ یہ بندہ چونکہ ہمارے پیارے بندہ کے لئے دعا کرتا ہے کہ اس پر فضل کیا جائے اس لئے میں اس پر بھی فضل کرتا ہوں اور حمد کرنے کے وقت کہتا ہے کہ یہ میرا بندہ جو میری صفات بیان کر رہا ہے میں اِس پر اپنی صفات ظاہر بھی کر دیتا ہوں تا اِس کو عملی طور پر معلوم ہو جائے کہ جو کچھ وہ میرے متعلق کہتا ہے وہ سب درست ہے۔ تو حمد خداتعالیٰ کی سب صفات کو جوش میں لے آتی ہے اور سب صفات جمع ہو کر ایک طرف جھک جاتی ہیں تا کہ اس بندہ کا کام کر دیں۔
اس کے علاوہ دعا کی قبولیت کے لئے یہ بھی یاد رکھو کہ دعا کرنے سے پہلے اپنے کپڑوں اور بدن کو صاف کرو۔ گو ہر ایک دعا کرنے والا نہیں سمجھتا اور نہ محسوس کرتا ہے مگر جو محسوس کرتے یا کر سکتے ہیں ان کا تجربہ ہے کہ جب انسان دعا کرتا ہے تو اسے خداتعالیٰ کا ایک قرب حاصل ہو جاتا ہے اور اس کی روح اللہ تعالیٰ کے حضور کھنچی جاتی ہے گو دیکھنے والے کو معلوم نہیں ہوتا کہ خدا نظر آ رہا ہے مگر جس طرح خواب میں روح کو جسم سے آزاد کر دیا جاتا ہے اِسی طرح اس وقت خداتعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لئے روح الگ کی جاتی ہے ۔چونکہ روح کی صفائی جسم کی صفائی سے تعلق رکھتی ہے اور روح کی ناپاکی جسم کی ناپاکی سے اس لئے اگر جسم ناپاک ہوتو روح پر بھی اس کا ناپاک ہی اثر پڑتا ہے اور اگر جسم پاک ہو تو روح پر بھی اس کا پاک ہی اثر پڑتا ہے۔
ایک واقعہ لکھا ہے وَاللّٰہُ اَعْلَمُ کہاں تک درست ہے مگر ہے نتیجہ خیز۔ لکھا ہے کسی شہزادی نے ایک معمولی شخص سے شادی کر لی۔ جب وہ دونوں خلوت میں جمع ہوئے تو چونکہ مرد نے کھانا کھا کر ہاتھ نہ دھوئے تھے اس لئے ہاتھوں کی بُو سے اُسے اِتنی تکلیف ہوئی کہ اُس نے کہا اس کے ہاتھ کاٹ دو۔ چنانچہ اُس کے ہاتھ کاٹ دیئے گئے۔ گو خداتعالیٰ پر کسی کے گندہ اور ناپاک ہونے کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا مگر خداتعالیٰ ہر ایک گند اور ہر ایک ناپاکی کو سخت ناپسند کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تمام عبادتوں کے لئے صفائی کی شرط ضروری قرار دی ہے۔ جس طرح وہ شخص جو پیشاب سے بھرے ہوئے کپڑوں کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہے اُس کی نماز قبول نہیں ہوتی اِسی طرح وہ دعائیں جو ایسی حالت میں کی جائیں وہ بھی قبول نہیں ہوتیں بلکہ جب کوئی انسان گندی حالت میں خدا کے حضور پیش ہوتا ہے تو بجائے فائدہ اُٹھانے کے وہاں سے نکال دیا جاتا ہے۔ یہی سر ہے کہ صوفیاء نے دعائیں کرنے کا لباس الگ بنا رکھا ہوتا ہے جسے خوب صاف ستھرا رکھتے اور خوشبوئیں لگاتے ہیں۔ تو دعا کے قبول ہونے کا یہ بھی ایک طریق ہے کہ دعا کرنے سے پہلے انسان اپنے کپڑوں کو صاف ستھرا کر لے۔ جو شخص غریب ہے وہ اس طرح کر سکتا ہے کہ ایک الگ جوڑا بنا رکھے اور اُسے صاف کر لیا کرے۔ اِس طرح دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔
پھر دعا کی قبولیت کے لئے ایک اَور طریق ہے اور وہ یہ کہ دعا کے لئے ایک ایسا وقت اور جگہ انتخاب کرے جہاں خاموشی ہو۔ مثلاً اگر دن کا وقت ہے تو جنگل میں کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں سمجھے کہ کوئی میرے خیالات میں خلل انداز نہیں ہو سکے گا یا رات کے وقت جبکہ سب لوگ سوئے ہوئے ہوں دعا کرے۔ اِس طرح یہ ہوتا ہے کہ خیالات پراگندہ نہیں ہونے پاتے۔ جب کسی ایسی جگہ یا ایسے وقت دعا کی جاتی ہے کہ اِدھر سے آوازیں آتی رہتی ہیں تو دعا کی طرف خاص توجہ نہیں ہو سکتی اِس طرح توجہ کبھی کسی طرف چلی جاتی ہے اور کبھی کسی طرف۔ چونکہ انسان کی طبیعت میں تجسس کا مادہ ہے اس لئے ذرا سی آواز آنے پر جھٹ اِدھر متوجہ ہو جاتا ہے تا معلوم کرے کہ کیا ہوا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے وہ لوگ جن کو جلوت سے خلوت میسر نہیں آ سکتی یا آتی ہے مگر بہت تھوڑی دیر کے لئے، وہ ایسے وقت دعا کریں جب کہ خاموشی ہو یا ایسی جگہ کریں جہاں کسی قسم کا شور نہ ہو۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہے آپ جنگل میں تنہا چلے جایا کرتے تھے۔ اِس بات کا علم اکثر لوگوں کو نہیں ہے مگر آپ اُس راستہ سے جو میاں بشیر احمدکے مکان کے پاس سے گزرتا ہے دس بجے کے قریب سیر کو جانے کے علاوہ اکیلے بھی جایا کرتے تھے۔ ایک دن جو آپ جانے لگے تو میں بھی آپ کے ساتھ چل پڑا۔ تھوڑی دور چلے تو واپس لوٹ آئے اور مسکرا کر فرمانے لگے پہلے تم جانا چاہتے ہو تو ہو آؤ میں بعد میں جاؤں گا۔ اس سے میں سمجھ گیا کہ آپ اکیلے جانا چاہتے تھے میں واپس آ گیا۔ غرضیکہ علیحدہ جگہ اور خاموش وقت میں خاص توجہ سے دعا کی جا سکتی ہے کیونکہ توجہ کے لئے کوئی بیرونی روک نہیں ہوتی اس لئے طبیعت کا زور ایک ہی طرف لگتا ہے اور جیسا کہ میں نے کسی گزشتہ خطبہ میں بتایا تھا جب تمام زور ایک طرف لگتا ہے تو اپنے راستہ کی ہر ایک روک کو بہا کر لے جاتا ہے۔
پھر ایک یہ بھی طریق ہے کہ جب کوئی انسان کسی معاملہ کے متعلق دعا کرنے لگے تو پہلے اپنے نفس کی کمزوریوں کا مطالعہ کرے اور اتنامطالعہ کرے اتنا کرے کہ گویا اُس کا نفس مر ہی جائے اور اسے اپنے نفس سے گھن آنی شروع ہو جائے اور نفس کہہ اُٹھے کہ تو بغیر کسی بالا دست ہستی کی مدد اور تائید کے خود کسی کام کا نہیں ہے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ جب نفس کی یہ حالت ہو جائے تو دعا کی جائے ایسی حالت میں جس طرح ایک بے دست و پا بچہ کی ماں باپ خبرگیری کرتے ہیں اِسی طرح خداتعالیٰ بھی اپنے بندے کی کرتا ہے۔ ماں باپ کو دیکھو جب بچہ بڑا ہو جاتا ہے تو اُسے کہتے ہیں خود کھاؤ پیومگر دودھ پیتے بچہ کی ہر ایک ضرورت اور احتیاج کا انہیں خود خیال اور فکر ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ کے حضور بھی انسان کو اپنے نفس کو اِسی طرح ڈال دینا چاہئے جس طرح دودھ پیتا بچہ ماں باپ کے آگے ہوتا ہے لیکن اگر نفس فرعون ہو اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہو تو اس کی کوئی بات قبول نہیں ہو سکتی اس لئے سب سے پہلے انسان کو چاہیے کہ اپنے نفس کو بالکل گرا دے ۔یہ بندے اور خدا میں تعلق پیدا ہونے کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور اس سے دعا بہت زیادہ قبول ہوتی ہے۔
ایک یہ بھی طریق ہے کہ جب انسان دعا کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ کے انعامات کو اپنی آنکھوں کے سامنے لے آئے کیونکہ انسان سے خواہش اور امید کام کروایا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات کے دیکھنے کے لئے سر سے لے کر پاؤں تک خوب غور کرے اور دیکھے کہ اگر میری فلاں چیز نہ ہوتی تو مجھے کس قدر تکلیف اور نقصان ہوتا۔ مثلاً اس طرح نقشہ کھینچے کہ اگر میرے ہاتھ نہ ہوتے اور کوئی دوست مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتا تو میں کیا کرتا۔ یا پیاس لگی ہوتی تو پانی کس طرح پی سکتا۔ پیشاب کرنا ہوتا تو ازار بند کس طرح کھولتا اور پھر باندھ سکتا۔ غرضیکہ اسی طرح ہر ایک چیز کو دیکھے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے انعام اور فضل کا ایسا نقشہ کھینچے کہ اس کا رُواں رُواں خدا کی محبت اور اُلفت سے پُر ہو جائے۔ اُس وقت اُس کے دل پر جوش اور شوق سے امید ایک ایسی لہر مارے گی کہ وہ جو دعا کرے گا وہ قبول ہو جائے گی۔ کیونکہ جب وہ دیکھے گا کہ مجھے خداتعالیٰ نے بغیر مانگے اور سوال کئے اس قدر انعامات دے رکھے ہیںتو مانگنے سے کیوں نہ دے گا۔ جب اُس کو یہ یقین حاصل ہو جائے گا تو جو مانگے گا وہ مل جائے گا۔
ایک طریق یہ بھی ہے کہ جس طرح خداتعالیٰ کے انعامات کو نظر کے سامنے لانا چاہئے۔ اِسی طرح اُس کے غضب کو سامنے لایا جائے اور جس طرح یہ سوچا تھا کہ اگر میرا فلاں عضو نہ ہوتا تو کیا ہوتااِسی طرح یہ سوچے کہ یہ انعام جو مجھے دیئے گئے ہیں یہ چھین لئے جائیں تو پھر کیا ہو؟ اور یہ بھی دیکھے کہ بہت سے لوگ تھے جن پر میری طرح ہی خداتعالیٰ کے انعام تھے مگر ان سے چھین لئے گئے۔ اس بات کے لئے تباہ شدہ گھر اور ہلاک شدہ بستیاں یا اپنے جسم کا ہی کوئی تباہ شدہ حصہ کافی سبق دے سکتا ہے۔ وہ اسے دیکھے اور پھر دعا کرے یہ دعا خوف اور طمع کی دعا ہوگی جس کو قرآن کریم نے بھی بیان کیا ہے۔ ایک طرف اس کے خوف ہوگا اور دوسری طرف طمع۔ یہ دو دیواریں ہوں گی جو اسے دنیا سے کاٹ کر اللہ کی طرف مائل کر دیں گی اور اس طرح اُس کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔
پھر جب کوئی شخص دعا کرنے لگے تو اپنی حالت کو چست بنائے کیونکہ جس طرح نفس مُردہ ہو تو اس کا اثر جسم پر پڑتا ہے اِسی طرح اگر جسم مُردہ ہو تو اس کا اثر نفس پر پڑتا ہے۔ جب کوئی سستی کی حالت اختیار کرتا ہے تو اس کے نفس پر بھی سستی چھا جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز میں قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ جتنی حالتیں رکھی گئی ہیں وہ سب چستی کی رکھی ہیں۔ تو جسم کی سستی کا اثر روح پر اور خیالات پر ہوتا ہے۔ اس لئے دعا کرنے کے وقت انسان کو چستی کی حالت میں ہونا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ سجدہ میں جائے تو کہنیاں زمین پر گرا دے۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا شوق لگا رہتا ہے کہ میں شریعت کے ہر ایک چھوٹے سے چھوٹے حکم میں بھی معلوم کروں کہ کیا حکمت ہے۔ اِس وجہ سے میں نے اس بات پر غور کرنے کے لئے کہ یہ کیوں حکم ہے کہ سجدہ کرتے وقت کہنیاں زمین پر نہ گرائی جائیں، نوافل میں کہنیاں گرا کر دیکھا ہے اس سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اگر پہلے بڑے زور سے دعا ہو رہی ہو تو اس طرح کرنے سے رُک گئی ہے اور جب کہنیاں اُٹھائی ہیں تو پھر وہی حالت پیدا ہو گئی ہے جو پہلے تھی تو دعا کرتے وقت چستی ہونی چاہئے اور وہ چستی جو امید کی چستی ہوتی ہے نہ کہ کوئی اَور۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زبان سے دعا زیادہ عمدگی سے نکلتی ہے اور مختلف پیراوؤں میں دعا کرنے کی توفیق ملتی ہے۔
پھر ایک طریق یہ بھی ہے کہ جب کسی اہم امر کے متعلق دعا کرنے لگو تو اس سے پہلے چند اور دعائیں کر لو اور پھر اصل دعا کرو۔ خداتعالیٰ نے انسان کے لئے یہ بات رکھی ہے کہ اس کا ہر ایک کام آہستگی سے شروع ہوتا ہے اور جب وہ شروع ہو جاتا ہے تو پھر ترقی کرتا جاتا ہے گویا اس کے کاموں میں تیزی آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہے نہ کہ یکلخت۔ اس لئے بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی مقصد کے لئے دعا کرتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد کامیابی نہ دیکھ کر کرنے سے رہ جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ وہ چاہتا ہے کہ جلدی دعا قبول ہو جائے حالانکہ وہ جلدی نہیں ہونے والی ہوتی اس لئے بہتر یہ ہے کہ کسی اہم معاملہ کے متعلق دعا کرنے سے پہلے اَور دعائیں کی جائیں۔ جب ان کی وجہ سے ان میں تیزی اور چستی پیدا ہو جائے گی اور اس کے خیالات بلند ہو جائیں گے اُس وقت اپنے خاس مقصد کو خداتعالیٰ کے حضور پیش کر دے۔ اس کے لئے ایک اَور بہتر طریق یہ بھی ہے کہ انسان پہلے ایسی دعائیں مانگے جنہیں خداتعالیٰ ضرور قبول کر لیتا ہے۔ دفاتر میں جو ہوشیار کلرک ہوتے ہیں وہ اِسی طرح کیا کرتے ہیں کہ اگر ان کا منشاء ہو کہ ہمارا افسر فلاں درخواست کو نامنظور کرے تو اس کے سامنے چار پانچ ایسی درخواستیں پیش کر دیتے ہیں جن کے متعلق اُنہیںپورا یقین ہو کہ نامنظور کی جائیں گی جب افسر اُن کو نامنظور کر چکتا ہے اور خاص طور پر برافروختہ ہوتا ہے تو نامنظور کرانے والی کو پیش کر دیتے ہیں اِس طرح وہ بھی نامنظور ہو جاتی ہے۔ اور جب کسی درخواست کے متعلق ان کا یہ منشاء ہو کہ منظور ہو جائے تو پہلے ان امور کو پیش کرتے ہیں جن سے افسر خوش ہو جائے جب دیکھتے ہیں کہ خوش ہے تو اُسے بھی پیش کر دیتے ہیں اور اس طرح وہ منظور ہو جاتی ہے۔ اس طرح کام کرنے والے اور ہوشیار کلرک کیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی نکتہ نواز ہے۔ افسر کبھی تو جان بوجھ کر بھی کسی نامنظور کرنے والی درخواست کو منظور کر لیتا ہے کہ اس نے چونکہ ہمیں خوش کیا ہے اس لئے ہم بھی اس کو خوش کر دیں لیکن کبھی وہ نادانی سے ایسا کر بیٹھتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی شان ہی ایسی ہے کہ اُس کو کبھی دھوکا نہیں لگ سکتا اس لئے وہ خوش ہی ہو کر بات قبول کرتا ہے۔ پس کسی خاص معاملہ کے قبول کرانے کے لئے پہلے ایسی دعائیں کرنی چاہئیں جن کو خداتعالیٰ نے قبول ہی کر لینا ہو۔ مثلاً یہ کہ الٰہی دین اسلام کی بڑے زور شور سے اشاعت ہو، تیرا جلال اور قدرت ظاہر ہو، تیرے انبیاء کی عزت اور توقیر بڑھے۔ خداتعالیٰ کہے گا ایسا ہی ہو۔ اس طرح دعائیں کرتے کرتے اپنا مقصد بھی پیش کر دیں کہ الٰہی !یہ بات بھی ہو جائے تو دعا قبول کرانے کا ایک یہ بھی طریق ہے۔ اس طرح کرنے سے تیزی اور چستی پیدا ہو جاتی ہے اس لئے دعا نہایت عمدگی اور خوبی سے کی جا سکتی ہے اور دوسرے اِس سے خداتعالیٰ خوش ہو جاتا ہے اور جب اس کے خوش ہونے کی حالت میں دعا پیش کی جائے گی تو وہ ضرور قبول ہو جائے گی۔
ایک طریق یہ ہے کہ ایسی جگہ دعا مانگی جائے جو بابرکت ہو کیونکہ جگہ کا بھی قبولیت دعا سے خاص تعلق ہوتا ہے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ دنیا کی کسی چیز کا کوئی اثر اور کوئی حرکت ایسی نہیں ہوتی جو ضائع جاتی ہو بلکہ ہر ایک چیز کی خفیف سے خفیف حرکت بھی قائم اور محفوظ رہتی ہے۔ پس جب کسی اچھی چیز سے انسان کا تعلق ہوتا ہے تو اس انسان کا خاص اثر اس پر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مدینہ اور مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کا کسی اور جگہ پڑھنے سے زیادہ درجہ بتایا ہے ۵؎ کیا وہاں کے پتھر اور گارا کوئی خاص قسم کے ہیں؟ نہیں۔ بلکہ جگہیں برکت والی ہیں اور جو اِن میں نماز پڑھتا ہے اُس پر اچھا اثر ہوتا ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ انسان سے برکت چلی جاتی ہے، قومیں بے برکت ہو جاتی ہیں کیونکہ یہ اپنی نادانی اور بیوقوفی سے اس دُرّ بے بہا کو کھو دیتی ہیں مگر بے جان اشیاء میں جو خداتعالیٰ کی طرف سے برکت ڈالی جاتی ہے وہ کبھی نہیں جا سکتی اور ہمیشہ کے لئے رہتی ہے (سوائے نہایت خاص وجوہ کے یا خطرناک بداعمالی کے) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۶؎ کہ جب خدا تعالیٰ کسی قوم پر احسان اور فضل کرتا ہے تو اُس وقت تک اُس میں تغیر نہیں کرتا اور اُسے نہیں ہٹاتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت میں تغیر نہ پیدا کرے۔ تو انسان اپنی بداعمالیوں اور بدافعالیوں کی وجہ سے خداتعالیٰ کے فضل کو اپنے اوپر سے بند کر لیتا ہے لیکن ایک بے جان چیز ایسا نہیں کر سکتی اس لئے اس پر ہمیشہ کے لئے فضل قائم رہتا ہے۔
دیکھو مدینہ کے لوگ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ایسے ہوگئے ہیں کہ جس طرح وہاں کے لوگوں کی دعائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت پوری ہوتی تھیں اُس طرح آج ان کی نہیں ہوتیں۔ مکہ کے رہنے والوں کی بھی یہی حالت ہے۔ وہاں آج بھی دعائیں قبول ہونے کا ویسا ہی اثر ہے جیسا کہ پہلے تھا کیونکہ وہاں کی اینٹیں، گارا اور زمین نہیں بگڑی بلکہ آدمی بگڑ گئے ہیں تو جن جگہوں پر خداتعالیٰ کا فضل نازل ہو جاتا ہے وہ پھر کبھی نہیں رُکتا کیونکہ خداتعالیٰ کا خزانہ ایسا وسیع ہے کہ جس کے خالی ہونے کا کبھی خیال بھی نہیں آ سکتا۔ جن مقامات پر خداتعالیٰ نے فضل کر دیاہے پھر ان سے کبھی منفصل نہیں ہوتا اس لئے خاص مقامات میں دعا خاص طور پر قبول ہوتی ہے۔ پس انسان کو چاہیے کہ جب دعا کرنے لگے تو ایسے ہی مقام کو چن کر کرے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے پاس بھی ایک مصلّٰی تھا۔ آپ فرماتے تھے کہ میں جب کبھی اس مصلّٰی پر بیٹھ کر دعا کرتا ہوں خاص طو رپر قبول ہوتی ہے۔ تو خاص اشیاء میں خاص برکت کی وجہ سے خاص ہی اثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس بات کو پسند فرمایا ہے اور صحابہؓ کرام نے اس پر عمل کیا ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لئے ایک خاص جگہ معین کر دیتے تھے جہاں سوائے عبادت کے اور کام نہیں کئے جاتے تھے ۷؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیت الدعا بنایا ہوا تھا تو یہ بھی دعا کے قبول ہونے کا ایک طریق ہے۔
یہ بہت سے طریق میں نے آپ لوگوں کو بتائے ہیں دیر ہوگئی ہے ورنہ میں ابھی اَور بھی کئی ایک طریق بتا سکتا تھا۔ یہ باتیں گو بظاہر چھوٹی چھوٹی معلوم ہوتی ہیں مگر دراصل چھوٹی نہیں ان کو استعمال کر کے دیکھو تو پتہ لگے گا کہ ان سے کتنے کتنے بڑے نتائج نکلتے ہیں۔ جس طرح ایک ذرا سی کشش بدخط سے خوبصورت خط بنا دیتی ہے اسی طرح یہ باتیں دعا کو قبولیت کے درجہ پر پہنچا دیتی ہیں۔
اِس زمانہ میں ہمارے لئے بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ قسم قسم کے مخالف پیدا ہوگئے ہیں اور قسم قسم کے اعتراض اسلام پر کئے جاتے ہیں ان کے دفعیہ کے لئے ہمیں بہت کوشش اور ہمت کی ضرورت ہے اور اس سے بڑھ کر ہمارے لئے اور کونسا طریق کامیابی کا ہو سکتا ہے کہ ہم خداتعالیٰ کے حضور عرض کریں کہ آپ ہی ہماری مدد کیجئے۔ پس آپ لوگ اپنے اعتقاد، اپنے اعمال میں خاص اصلاح کر لیں تا تمہاراکھانا پینا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا غرضیکہ ہر سکون اور ہر حرکت اسی کے لئے ہو جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خطبہ میں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ اُس وقت کی کی ہوئی دعا قبول ہو جاتی ہے۔ پھر جمعہ سے مغرب تک ایسا ہی وقت آتا ہے۔ پھر رمضان کے آخری عشرہ میں بھی ایسا موقع آتا ہے خدا کے فضل سے آپ لوگوں کو یہ سب موقعے نصیب ہیں اس لئے خوب دعائیں کرو تا خداتعالیٰ اس مبارک مہینہ کے طفیل اور اس بابرکت پیغام کے طفیل جو تم دنیا کو پہنچانا چاہتے ہو تمہارے راستہ سے سب روکیں دور کر دے اور تمہیں اس کام کا پورا پورا اہل بنائے جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے۔‘‘ آمین
(الفضل ۸ـ؍ اگست ۱۹۱۶ئ)
۱؎ البقرۃ: ۱۸۷
۲؎ بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد
۳؎ ترمذی ابواب السفر باب الثناء علی اللّٰہ والصلٰوۃ علی النبیﷺ
۴؎ الفاتحہ: ۲ تا۷
۵؎ بخاری کتاب الصلوٰۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ باب لاتشد الرجال الا الٰی ثلاثۃ مساجد
۶؎ الرّعد: ۱۲
۷؎ مشکوۃ کتاب الصلوٰۃ باب المساجد و مواقع الصلوٰۃ
۲۵
گورنمنٹ بر طانیہ خدا کے فضلوں میں سے
ایک فضل ہے
(فر مودہ ۴؍ اگست۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اور سورئہ فا تحہ کی تلاوت کے بعد فرما یا :۔
’’خدا تعالیٰ کے فضل اور اُس کی حمد کی کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی۔ جب خدا تعالیٰ اپنا فضل اور احسان کر تا ہے تو پھر اس کی انتہا مقرر کرنی یا اُس کو گننے کی کو شش کرنا نا دانی ہو تی ہے۔دیکھو ابھی تھو ڑی دیرہو ئی کہ بارش ہوئی ہے یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضلو ں میں سے ایک فضل ہے لیکن کیا کسی کی طاقت ہے کہ اس کے قطرے گن سکے ؟ہر گز نہیں۔خدا کا ہر ایک جسما نی فضل نمونہ ہوتا ہے روحانی فضل کااورروحانی فضل جسمانی سے بہت زیا دہ وسیع ہو تا ہے۔جب جسما نی فضل کا ہی گننا نا ممکن ہے تو روحانی فضل کا گننا کس طرح ممکن ہو سکتاہے۔پھر خدا کے فضل کی وہ بارشیں جو روحانی رنگ میں ہو تی ہیں کبھی کبھی خاص طور پر بھی ہو تی ہیں۔ جس طرح سخت تپش اور گرمی کے بعد بہت زیادہ بارش ہو تی ہے اِسی طرح رُوحانی طور پر جب دنیا میں تپش ہو تی ہے تو اس کے بعد رُو حا نی بارش بڑے زور سے برستی ہے۔ اور ہو نا بھی ایسا ہی چاہئے کیو نکہ انسان اُس وقت تک کسی چیزسے خوشی اور راحت محسوس ہی نہیں کرتا جب تک کہ اس کے مقابلہ میں اسے دکھ اور تکلیف نہ پہنچ چکی ہو۔ ایک ایسا فقیر جس کی آنکھیں ہو ں وہ کبھی اِس بات پر خوشی کااظہا ر نہیں کرے گاکہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ کیسی نعمت دی ہے لیکن اگر اسے کوئی ایک پیسہ دے دے گاتو وہ بہت خوش ہو گااور دینے والے کا شکریہ ادا کرے گا۔کیوں؟اس لئے کہ آنکھیںتو اس کے پاس پہلے سے ہی تھیںاور پیسہ نیا ملاہے جو کہ اس کے پا س پہلے نہ تھا۔چونکہ اس کی آنکھیں نہیں گئی تھیںاس لئے اسے معلوم ہی نہیں کہ یہ بھی کوئی نعمت ہے۔ لیکن جن لو گوں کو موتیا بند ہو جا تاہے اگرچہ وہ ایک عارضی ہی پردہ ہو تا ہے لیکن جو ڈاکٹر اُس پردہ کو دور کر دیتا ہے اُس کے سامنے اُس کی آنکھیںاونچی نہیں ہو سکتیں۔کس قدر حیرت اور تعجب کا مقام ہے کہ اکثر لو گ اصل آنکھوں کے بنا نے والے کے آگے اپنی گردنیں اونچی ہی رکھتے ہیں ۔کیوں؟اِس لئے کہ اُس نے اُن کو چھین کر نہیں دیںبلکہ پہلے سے ہی دے رکھی ہیں۔مگر ایک ڈاکٹر اُس وقت آنکھیں بناتاہے جبکہ ان سے کچھ عرصہ کے لئے چھینی جا چکتی ہیںاس لئے اس کے شکرگزار ہوتے ہیں۔
تو یہ ایک عام بات ہے کہ جو چیز پہلے نہ ہو اورپھر ملے اُس پر لوگ خوش ہوتے اور اُسے نعمت سمجھتے ہیں اور جو پہلے سے ہی انہیں ملی ہو ئی ہواُس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے ۔خدا تعالیٰ کی بھی یہ ایک سنت ہے کہ ایک زمانہ میں وہ روحانی ترقیات کی طاقت بخشتاہے مگر کچھ مدت کے بعد لو گوں کو اپنی عادت کے مطابق یہ گھمنڈہو جا تاہے کہ خدا نے ہمیں کیا بتانا تھا یہ سب کچھ ہم نے اپنی عقل سے ہی تجویز کیا ہے گویا وہ اپنی نا دانی سے دین کو اپنی ایک ایجا د سمجھ لیتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانو ں پر بھی جب تصنیفات کا ز ما نہ آیا تو ان کے لئے خدا اور رسول اُڑ کر صرف یہی رہ گیا کہ امام ابو حنیفہؒ یہ کہتے ہیں، امام حنبلؒ یہ فرماتے ہیں۔یعنی ان کے دلوں میں خدا اور اُس کے رسول کا کوئی احسان نہ رہابلکہ اماموں کا ہو گیااور وہ یہ سمجھنے لگ گئے کہ اگر یہ امام نہ ہو تے تو آج کچھ نہ ہو تا۔
کہتے ہیں ایک پٹھان نے کسی کتاب میںپڑھا تھاکہ نماز پڑھتے ہوئے ہاتھ نہیں ہلانے چاہئیں ورنہ نماز ٹوٹ جا تی ہے۔پھر اُس نے کہیں یہ پڑھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نماز پڑھتے ہوئے کسی کے آواز دینے پر دروازہ کھول دیا۔تو کہنے لگا محمد(ﷺ )کا نماز ٹوٹ گیا۔گویا اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک امام کے حکم کے ما تحت لا نا چاہاحالا نکہ امام ابوحنیفہؒ وغیرہ جس قدر بھی امام ہو ئے ہیںوہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خوشہ چین ہیں اور آپ باغبان۔امام ما لکؒ ،امام شافعیؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام حنبلؒ یہ سب آپؐ کے خوشہ چین اور جاروب کش ہیں۔آپ کے باغ میں جھا ڑودے کر پھل جمع کر لا نے کے علا وہ اور کیا کرتے ہیں۔ مگر نادانوں اور کم عقلوں کے سامنے یہ جھا ڑو دینے والے تو ہیںاور پھل پیدا کرنے والا اور ان کو پرورش دینے والا پوشیدہ ہے اس لئے اُن کو نہیں دیکھتے۔ایسے ہی وقت میں خدا تعالیٰ اپنے دین کو دنیا سے اُٹھا لیتا ہے اور اِس طرح اُنہیں بتاتا ہے کہ تم نے خدا اور اس کے رسول کی قدر نہ کی اب بتائو تمہا رے پا س کیا ہے؟ اگر کچھ رکھتے ہو تو تم میں کو ئی ابو حنیفہؒ پیدا تو ہو،کوئی فقیہہ اور زاہد تو دکھلائولیکن وہ کچھ نہیں دِکھلا سکتے۔اُس وقت ان کی روحانی امور میں عقلیں ما ری جا تی ہیں۔ دنیاوی لحاظ سے تو بال کی کھال کھینچتے ہیںمگر روحانی طور پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہو تا۔ جب دنیا کی یہ حالت ہو جا تی ہے تو خدا کی بارش نا زل ہو کر بتاتی ہے کہ دیکھو اب ہم اپنا کام کرتے ہیںپھر لوگوں کے چہروں پر تازگی اوربشاشت آجا تی ہے۔ وہی لوگ جومردہ دل ہوتے ہیں زندہ ہو جا تے ہیں،وہ جو دین سے بالکل غافل اور بے پرواہ ہو جا تے ہیں دین پر جان دینے والے بن جا تے ہیں کیونکہ ان کی نگاہیں انسانوں پر نہیں بلکہ خدا پر ہو تی ہیںاور اُس وقت اُن کی یہ حالت ہو تی ہے کہ ؎
جِدھر دیکھتا ہوں اُدھر تُو ہی تُو ہے
اُس وقت ان کے منہ سے بے اختیا ر ؎۱ نکلتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد جس طر ح ڈاکٹر مو تیا بند دُور کرنے سے اُس کا تو احسان یاد رکھا جا تا ہے اور خدا تعالیٰ کوبھلا دیا جا تا ہے اِسی طرح اِس روحانی بارش کے بعد بد قسمت لو گ خدا تعالیٰ کو بھلا کر انسانی عقل و فہم پر بھروسہ کر بیٹھتے ہیں ۔ابھی دیکھ لو کوئی زیا دہ عرصہ نہیں گزرا کہ چند لوگوں نے کہہ دیا مرزا صاحب نے آکر ہمیں کیا دیا؟ صرف وفاتِ مسیح کے مسئلہ کو صاف کیا ہے۔ مگر ان نادانوں نے نہ دیکھا کہ ہم میں اور غیر احمدیو ں میںکیا فرق ہے۔ اگر یہ غور کرتے تو انہیں معلوم ہو جا تا کہ اِن میں اور اُن میں بہت بڑا فرق ہو گیا تھا۔ کیا اِن کے لئے قرآن کریم ایک زندہ کتا ب نہ ہو گئی تھی اور کیا اِن کے لئے رسول کریم ﷺ ایک زندہ رسول نہ ثابت ہو گئے تھے؟ پھر کیا جب یہ قرآن کریم پر غور کرتے تو ان کے ذہنوں میں بجلی کی طرح حقائق اور معارف نہیں ڈالے جاتے تھے؟ اور کیا وہ باتیں جو دوسروں کے لئے ٹھو کرکاباعث ہو تی تھیں ان کے لئے عجیب عجیب نکا ت نہیں ثابت ہو تی تھیں؟ پھر کیا وہی آیتیں جو نَعُوْذُبِاللّٰہِ لغو اور فضول سمجھی جا تی تھیں ان کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرکت ان کے لئے بڑی بڑی حکمت نہیں رکھتا تھا؟ یہ سب کچھ تھا مگر انہوں نے ان باتوں کو اپنی عقل اور سمجھ کا نتیجہ قرار دیا اور یہ کہہ دیا کہ مرزا صاحب کے ذریعہ وفاتِ مسیح کے سِوا ہمیں اور کچھ نہیں ملا۔ اِن لوگوں کو دیکھ کر تم ا ُن لو گوں کی حالت کا قیا س کر لو جو زما نہ نبوت سے بہت دور ہو جا تے ہیں۔ پس جب ان کے منہ سے نہیں نکلتی تو اللہ تعالیٰ اپنا انعام ان سے چھین لیتا ہے پھر انہیں پتہ لگ جا تا ہے کہ ہما ری عقل اور دانائی کچھ کام نہیں دے سکتی۔لیکن جس طرح بارش کے بند ہو نے سے کنو یںبھی خشک ہو جا تے ہیں اِسی طرح روحانی بارش کے بند ہو نے سے تمام روحانی چشمے خشک ہو جا تے ہیں پھر خدا تعالیٰ بارش نا زل فرما تا ہے لیکن نا دان انسان اصل بھیجنے والے کو پھر بھلا دیتے ہیں۔ غرض خدا تعالیٰ روحانی خشکی کے وقت ضرور روحانی بارش نا زل فرما تاہے اور جو لوگ وہ زما نہ پا تے اور اُس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں وہ بڑے خوش قسمت ہو تے ہیںکیو نکہ وہ حمد ہی حمد کا زما نہ ہو تا ہے۔
تمام دنیا کے لئے ایک حمد کا زما نہ تو وہ تھا جبکہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلممبعوث ہو ئے۔ پھر ایک یہ زمانہ ہے جس میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مبعوث ہو ئے ہیںاور جس کے پا نے کا ہمیں موقع ملا ہے اس لئے ہمارے لئے کیا ہی حمد کا زما نہ ہے ۔ ہما رے دل سے کیسے جو ش کے ساتھ حمد نکلتی ہے۔ کیوں؟اس لئے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے شارع دیا تو ایسا کہ تمام انبیا ء اس کے مقابلہ میں طفل مکتب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضر ت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرما یا۔ کہ لَوْکَانَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی حَیَّیْنِ لَمَاوَسِعَھُمَااِلَّااتِّبَاعِیْ ۲؎ اگرموسیٰ اورعیسیٰ زندہ ہو تے تو وہ بھی میرے ہی مدرسہ میں داخل ہوتے۔ دیکھو !موسیٰ علیہ السلام کی کتنی بڑی شان تھی مگر ان کے متعلق بھی آپ نے یہی کہاکہ اگر وہ آج زندہ ہو تے تو میرے سامنے زانوئے ادب خم کرتے۔
لوگوںنے حضرت موسیٰ اور خضر کا یو نہی ایک جھو ٹا قصّہ بنا لیا ہے اصل بات کچھ اور ہے۔ لیکن حضر ت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے پاس کشف میں خضر آیا۔ انہوں نے اسے کہا کہ مجھے بھی موسیٰ نہ سمجھ لینا کہ تمھا ری بات نہ سمجھ سکوں گا۔ میں محمدی سلسلہ کا فرد ہوں میں ان با توں سے خوب واقف ہوں۔ اور حضر ت موسیٰ ؑ کو بھی کشف میں ہی دکھا یا گیا تھا جس طرح حضرت موسیٰ ؑ کو خضر کشف میں دکھائی دیا تھا۔جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ خضر ملائکہ کے رنگ میں تھااسی طرح عبدالقادر ؑ کو بھی کشف میں نظر آیامگر انہوں نے کہا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوںاس لئے تیرا اثر مجھ پر نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی ایک رنگ ہو تا ہے لوگوں نے اپنی نا دانی سے خضر کچھ اور سمجھا ہوا ہے مگر انہوں نے قرآن کریم کی آیات پر غور نہیں کیا اور نہ اِس واقعہ کی حکمت اور اصلیت کو سمجھا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں اور کسی کا درجہ نہیں ہے بلکہ با قی سب انبیاء کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استاد شاگرد جیسا تعلق ہے اِسی لئے آپ نے حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے لئے فرمایا کہ اگر وہ بھی زندہ ہوتے تومیری اتباع کرتے۔اِتباع اُسی وقت کی جا تی ہے جبکہ بہت بڑا فرق ہو۔ تو خدا نے ہمیں ایسی شان کا رسول دیا۔ پھر کون ہے جس کے منہ سے بے اختیارنہ نکلے۔
پھر قرآن کریم ایسی مکمل کتا ب دی کہ جس کا کوئی لفظ، کوئی حرکت، کوئی نقطہ بے موقع نہیں ہے بلکہ ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرکت میں ایسی حکمت اور معرفت بھری ہوئی ہے کہ انسان اگر اس میں غور کرے تو ساری عمر اِسی میں مست رہے اور کوئی چیز اُس کی توجہ کو دوسری طرف نہ کھینچ سکے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا شارع نبی اور قرآن کریم ایسی کامل کتاب ہمیں دی گئی۔
پھر خدا تعالیٰ نے ہم پر یہ کتنا فضل کیا کہ اِس تا ریکی اور ظلمت کے زمانہ میں جس میں ایسے نبی اور ایسی کتاب کو لوگ چھوڑ بیٹھے تھے مسیح موعود علیہ السلام ایسا ہادی اور راہ نما بھیج دیا جس کی نسبت ہر زما نہ میں ہزار ہا ولی ترستے چلے گئے بلکہ جس کے زمانہ کو دیکھنے کی بعض انبیاء نے بھی خواہش کی کیونکہ آپ کا زمانہ خاص فتوحات کا زمانہ تھا۔
اللہ تعالیٰ تو چونکہ سب کا خدا ہے اس لئے میں نے اُس کانام نہیں لیا لیکن اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جس طرح جلوہ فرمایا ہے اس طرح پہلے کسی نبی کے ذریعہ نہیں فرمایا اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایسا خداملا جیسا کسی کو نہیں ملا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں جو ہم پر ہوئے ہیں اِسی لئے قرآن کریم کو سے شروع کیا گیا ہے۔
اِسی طرح ہم پر خدا تعالیٰ کے دنیا وی رنگ میں بھی بڑے فضل ہوئے ہیں ۔ ہم سے پہلی قوموں نے بڑی بڑی تکلیفیںاورمصیبتیں اُٹھا ئی ہیں۔ دیکھوحضرت مسیح جس وقت آئے تو گو انہوں نے تلوار نہ اُٹھائی اور نہ اُن کے مقابلہ میں اٹھائی گئی مگر یہودیوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھا دیا۔مگر تم اپنے مسیح کو دیکھو آپ کو خدا تعالیٰ نے ایک ایسی سلطنت میں پیدا کیا کہ آپ کا کوئی بڑے سے بڑا مخالف بھی بال بیکا نہ کر سکا ۔ آپ اسی سلطنت میں بیٹھ کر تبلیغ کرتے رہے اور تبلیغ بھی نہ صرف اَوروں کو بلکہ اسی سلطنت اور شہنشاہ کو۔ پہلے زمانوں میں کیا مجال تھی کہ کوئی بادشاہ کو تبلیغ تو کر سکے۔ یہ بہت بڑی گستاخی اور بے ادبی سمجھی جاتی تھی لیکن حضر ت مسیح مو عود علیہ السلام نے ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کو ایک خط لکھا جس میں اُسے اسلام کی طرف بلایا اور کہا کہ اگر اِسے قبول کر لو گی تو آپ کا بھلاہو گا ۔یہ سن کر بجائے اِس کے کہ اُن کی طرف سے کسی نا راضگی کا اظہار کیا جا تا اس چٹھی کے متعلق اس طرح شکریہ ادا کیا گیا کہ ہم کو آپ کی چٹھی مل گئی جسے پڑھ کر خوشی ہوئی ۔یہ سب اللہ تعالیٰ کے احسان اور فضل ہیں۔
ہر ایک مومن کو چاہئے کہ اِن کی قدر کرے کیونکہ جو شخص ابتداء میں کہتا ہے اُس کا انجام بھی پر ہی ہو تا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتاہے وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَکہ مومن جس طرح شروع میں حمد کرتے ہیں اُسی طرح انجام کار بھی ان کے منہ سے یہی نکلتاہے کہ بہت لوگ ہوتے ہیںجو اپنی پہلی عمر میں خداتعالیٰ کاشکر اور حمد کرتے ہیںلیکن جب بوڑھے ہوتے ہیںتو اُن کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ خداتعالیٰ فرماتاہے ایک مومن جس طرح خدا کی حمد کہتے کہتے بالغ ہو تا ہے اُسی طرح جانکنی کے وقت بھی اس کے منہ سے یہی نکلتی ہے۔ وہ کبھی مصائب اور آلام میں اس طرح گرفتار نہیں کیا جاتاکہ اُس کے منہ سے حمد نہ نکلے کیونکہ اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کے بہت سے انعام ہوتے ہیںان کی وہ قدر کرتا ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے انعام حاصل کرنا چاہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی زبان پر حمد الٰہی جا ری رکھے۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیںکہ ہمیں کچھ نہیں ملا،ہمیں فلاں تکلیف ہے، فلاں مصیبت ہے اُن کو دئیے ہوئے انعام بھی خداتعالیٰ واپس لے لیتا ہے۔
غالب اُردو کا ایک شاعر گزرا ہے، تھا تو وہ شرابی مگراُس کے کلام میں بعض باتیں عجیب بھی پا ئی جاتی ہیںجن سے معلوم ہو تا ہے کہ اُس کے دل میں سعادت بھی تھی کیونکہ کہیں کہیں اُس کے شعروں سے پتہ لگتا ہے کہ وہ اپنا معشوق خداتعالیٰ کو قرار دیتا ہے۔ ہمیں اُس پر بد ظنی کرنے کی کیا ضرورت ہے ہو سکتا ہے کہ اُس کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت اوراُلفت ہو۔ وہ ایک شعر میں کہتا ہے ؎
تیرے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہر باں کیوںہو
کہ میں خدا کو بے مہر، بے مہر کہتا ہوں تو پھر وہ مجھ پر مہر بانی کیوں کرے۔ تو جو بندہ خداتعالیٰ کی حمد نہیںکرتابلکہ یہ کہتا ہے کہ خدا نے مجھے کیا دیا ہے؟خدا تعالیٰ نے اُس پر جو انعام کیا ہوتا ہے وہ بھی چھین لیتاہے ۔جب انعام چھن جا تا ہے تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ مجھ پر فلاں انعام تھا، فلاں تھا۔ تو اللہ تعالیٰ کے مزید انعام حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی حمد جاری رکھی جائے اور جو نعمتیں اُس کی طرف سے ملی ہیں اُن کے شکریہ میں بے اختیار نکلے۔
میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے یہ حکومت برطانیہ بھی ایک نعمت ہے۔ بعض نادان اور کم عقل ہیںجو اس کے ماتحت رہتے ہوئے کہتے ہیںکہ ہمیں فلاں فلاں حقوق نہیں دیئے گئے، ہمیں فلاں اختیا رات نہیں سپرد کیے گئے، یہ نہیں دیاوہ نہیں دیالیکن انہیں پتہ تب لگے جب کہیں باہرجا کر دیکھیں۔یہاں تو کہہ لیتے ہیں کہ ہمیں فلاں حقوق نہیں دیئے گئے،ہماری فلاں بات نہیں مانی گئی مگر کسی اور جگہ اتنا کہنے کی بھی اجازت نہیں پائیں گے اور یہ کہنے پر پکڑ کر قیدکر دئیے جا ئیں گے۔ یہا ں تو جلسے ہوتے ہیںاور بعض اوقات گورنمنٹ کے خلاف بھی تقریریں کرتے ہیںاور بعض اخباروں میں بھی سخت سخت الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں لیکن گورنمنٹ بہت کچھ برداشت کر جا تی ہے اور جب تک فتنہ فساد کا ڈرنہ ہو دخل نہیں دیتی۔ ایسے وقت میں اُس کیلئے دخل دینا ضروری ہو جا تا ہے کیونکہ اگر اُس وقت بھی دخل نہ دے تو گویا اُس میں حکومت کرنے کا مادہ ہی نہیں سمجھا جا تا۔تو یہ حکو مت بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اِس لئے اِس کی قدر کرنی چاہئے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ سورئہ والناس اِس گورنمنٹ کیلئے بطور پیشگوئی کے ہے۔پھر آپ نے اس کے متعلق یہ دعا کی ہے۔
تاج و تخت ہند قیصر کومبارک ہو مدام
ان کی شاہی میں میں پاتا ہوں رفاہِ روزگار
اِس میں کسی خاص بادشاہ کا نام لے کر دعا نہیں کی گئی کیونکہ بادشاہ تو بدلتے رہتے ہیں اس لئے آپ نے سلطنت کے لئے دعا کی ہے۔
انبیاء کا دل بڑاشکر گزار ہوتاہے ۔ایک معمولی سے معمولی بات پر بھی بڑا احسان محسوس کرتے ہیں۔میں نے دیکھا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں جب دن رات چھپتیں توباوجود اِس کے کہ آپ کئی کئی راتیں بالکل نہیں سوتے تھے لیکن جب کوئی شخص رات کے وقت پروف لاتاتو اس کے آواز دینے پر خود اُٹھ کرلینے کے لئے جاتے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے کہ جَزَاکَ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاء اِس کو کتنی تکلیف ہوئی ہے۔ یہ لوگ کتنی تکلیف برداشت کرتے ہیں خدا اِن کوجزائے خیر دے حالانکہ آپ خود ساری رات جاگتے رہتے تھے۔میں کئی بار آپ کو کام کرتے دیکھ کر سویا اور جب کبھی آنکھ کھلی تو کام ہی کرتے دیکھا حتی کہ صبح ہو گئی۔دوسرے لوگ اگرچہ خدا کے لئے کام کرتے تھے لیکن آپ ان کی تکلیف کو بہت محسوس کرتے تھے۔کیوں؟اس لئے کہ انبیاء کے دل میں احسان کا بہت احساس ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے تمام احسانات کو اپنی طرف کھینچ لیتے تھے۔ کے سِوا اُن کے منہ سے کچھ نکلتا ہی نہیں۔ پس تم لوگ بھی خداتعالیٰ کے انعامات کو دیکھ کر ہی کہا کرو۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے گورنمنٹ برطانیہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک فضل ہے ۔تم لوگ اگر اس کے لئے شکر کرو گے تو یہی نہیں ہو گا کہ تم خدا کے شکر گزار بندے بنو گے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اور انعامات بھی حاصل کر لو گے۔ میرے خیال میں وہ لو گ جو گورنمنٹ کی مخالفت کرتے اور اس کے احسانات کی ناقدری کرتے ہیںوہ اگر گورنمنٹ کے شکر گزار ہوں تو ان پر خدا تعالیٰ کا فضل ہو جائے اور ان کی مشکلات بھی دُور ہو جائیں۔گورنمنٹ کی آجکل مشکلات کے لئے لوگ جلسے کرتے ہیںلیکن ان سے کوئی فائدہ نہیں ہو تا کیونکہ کئی لوگ ایسے بھی ہو تے ہیں جو دل میں کچھ اور رکھتے ہیںاور زبان پر کچھ اَور مگر چونکہ اظہارِ وفاداری کا یہ بھی ایک طریق ہے اگر ہماری جماعت بھی اِس طرح کرے تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن اصل وفاداری اور ہمدردی اُسی کا نام ہے جو دل سے کی جائے ۔گورنمنٹ چونکہ انسانوں کا مجموعہ ہے اور انسان دل کی حالت کو معلوم نہیں کر سکتے اِس لئے جلسے کرنا کوئی معیوب بات نہیں۔ مگر حقیقی وفاداری اِسی کا نام ہے کہ گورنمنٹ کیلئے دعا کی جائے اور پوشیدہ طور پر یہ کوشش کی جائے کہ جس طرح اس نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم اپنے دین کی اشاعت کر رہے ہیںاِس طرح خداتعالیٰ اِسے موقع دے کہ یہ اپنی سلطنت کی توسیع کر سکے۔ اور جس طرح اس نے ہماری دینی رنگ میں حفاظت کی ہے اِسی طرح خداتعالیٰ اِس کی دنیاوی رنگ میں حفاظت کرے بلکہ دین میں بھی اُسی راستہ پر چلائے جس پر ہم چل رہے ہیں۔اِس میں شک نہیں کہ موجودہ جنگ دنیا میں عذاب کے طور پر آئی ہے اور خداتعالیٰ اس طرح اپنا جلال ظاہر کر رہا ہے۔ کیا خداتعالیٰ دعا کرنے سے اپنے جلال کا اظہار چھوڑ دے گا؟ہاں اِس سے یہ ہو گاکہ جب دنیا دعائوں کے ذریعہ خداتعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائے گی تو پھر اُس کو کیا ضرورت ہے کہ ہلاک کرے۔آپ لوگ دعائیں کریں کہ جس طرح گورنمنٹ نے ہم پر احسان کئے ہیںاِسی طرح خداتعالیٰ ان پر کرے اور ہمارے دل ہمیشہ اپنے محسن کے لئے شکرگزار ہوں نا شکرگزار نہ ہو ں تا خداتعالیٰ کے اور فضلوں اور انعاموںکے جاذب بن جائیں۔‘‘ (الفضل۱۹؍اگست۱۹۱۶ئ)
۱؎ الفاتحۃ:۲
۲؎ ابن کثیر جلد ۲صفحہ۲۴۶ حاشیہ، الیواقیت والجواہر جلد۲ صفحہ۲۲
۲۶
دعائوں کی طرف توجہ کرو
(فرمودہ ۱۱؍ اگست۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’کسی کام کے کرنے سے جو انسان اعراض کرتاہے یا کوئی ایسی چیز جس کے حصول کیلئے کوشش نہیں کرتا وہ وہی ہو تی ہے جس کے حاصل کرنے میں کوئی فائدہ اور کوئی نفع نہیں دیکھتایا جس کے حاصل کرنے کے سامان مہیانہیں ہوتے یا جس کے حاصل کرنے کا اسے طریق معلوم نہیں ہوتا۔اگر کسی کام کے کرنے یا کسی چیز کے حاصل کرنے میں اُسے کوئی فائدہ نظر آتا ہو،اس کی ضرورت محسوس کرتا ہو، پھر اس کام کے کرنے یا اس چیز کے حاصل کرنے کا طریق بھی اسے معلوم ہو ،پھر اس کام کے کرنے یا اس چیز کے حاصل کرنے کے ذرائع بھی مہیا ہوں تو کبھی بھی کوئی انسان اس کام کے کرنے یا اس چیز کے حاصل کرنے میں کوتاہی اور غفلت نہیں کرتا۔ سوائے اس کے جس کو بدقسمتی پیچھے کی طرف پھینک دے۔ یا جس کی عقل میں فتور آگیا ہو ۔یا جو بے سمجھی اور نادانی سے سستی کر بیٹھے۔ یا جس کے دل پر غفلت غالب ہو اور گناہوں اور بدافعالیوں کی وجہ سے قلب پر زنگ لگ گیا ہو ورنہ اِن تینوں باتوں کے مہیا ہونے کے بعد کوئی انسان کوشش اور ہمت کرنے سے نہیں رُکا کرتا۔ یعنی اوّل جب کوئی کام یا کوئی چیز اسے ایسی معلوم ہو جس کے حاصل کرنے کی اسے ضرورت ہو اور وہ جس کا محتاج بھی ہو۔ دوم۔ اُس کام کے کرنے یا اُس چیز کے حاصل کرنیکی اُسے ترکیب بھی آتی ہو۔ سوم۔ اُس کے حصول کے سب ذرائع بھی مہیا ہوںتو کبھی کوئی عقل مند انسان سعی کرنے سے نہیں رُکتا۔ لیکن اگر کوئی باوجود ان باتوں کی موجودگی کے کسی کام کے کرنے یا کسی چیز کے حاصل کرنے سے غافل رہے تو ضرور ہے کہ اس کے دل پر زنگ لگ چکاہے اور بداعمالیوں کی زنجیر نے اُسے پیچھے باندھا ہواہے ورنہ کوئی وجہ نہیںکہ وہ اس کے کرنے سے رُکے کیونکہ اگر پھر بھی کسی کے دل پر غفلت اور ہاتھ پائوں میں سستی ہوتو ضرور ہے کہ اس کی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے ورنہ اپنے نفع کو دیکھ کر کبھی کوئی انسان پیچھے نہیں ہٹتا اور پھر جب حاجت مند بھی ہو تو پورا پورا زور لگاتاہے۔ مگر جب باوجود حاجت مند ہونے کے سامانوں کے مہیا ہونے اور طریق کے آنے کی سستی کرتاہے تو ضرور ہے کہ اُس کے قلب پر زنگ لگ گیا ہے۔ اور جس شخص یا جس جماعت کے اعمال میں کسی بات کے متعلق یہ نمونہ نظر آئے اس شخص یا ان لوگوں کو چاہئے کہ اپنے اعمال پر غور کریںاور سوچیں کہ کوئی کل خراب ہے تب ہی مشکلات کے دور ہونے کے لئے دعا کرنے اور اس چیز کے حاصل کرنے میں سستی ہو رہی ہے جس کا حاصل کرنا لازمی اور ضروری ہے۔
میں نے پچھلے چند خطبوں میں دعا کی ضرورت، اس کے مانگنے کی ترکیب اور اس کے قبول ہونے کے ذرائع بیان کئے تھے جس سے ہر ایک شخص آسانی سے سمجھ سکتاہے کہ دعا کے بغیر گزارہ نہیںہے کیونکہ یہی ایک ایسی چیز ہے جو تمام مشکلات اور تمام مصائب سے بچا سکتی ہے۔پھر یہ ایسی چیز ہے کہ اس کی ترکیب استعمال نہایت آسان ہے۔ہر ایک چیز کے حاصل کرنے کے لئے انسان کو کچھ نہ کچھ حرکت کرنی پڑتی ہے لیکن دعا کے لئے کوئی حرکت نہیں کرنی پڑتی۔ اگر کسی انسان کے ہاتھ پائوں میں کیل گاڑ دی جائیں،اُس کی گردن میں موٹے رسّے باندھ دیئے جائیں اور اُس کے تمام جسم پر کوئی ایسا اثر کر دیا جائے کہ اُس کاچمڑا خفیف سے خفیف حرکت بھی نہ کر سکے تو کیا وہ دعا کرنے سے روک دیا جا سکتا ہے؟ہر گز نہیں۔ایسی حالت میں بھی وہ دعا کر سکتا ہے ۔جب دعا ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے حصول کے ایسے طریق ہیںجو قرآن کریم اور حدیث میں نہایت واضح طور پر بیان کر دیئے گئے ہیںاور اس کی حاجت بھی بہت سخت ہے پھر بھی اگر کوئی اس کے متعلق سستی کرتاہے تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ اُس کے دل اور قلب پر اُس کی بداعمالیوں کی وجہ سے زنگ لگ گیاہے اور اس کے گزشتہ گناہ اس کے لئے روک کا موجب بن گئے ہیں اور اس چیز کے حصول میں مانع ہو گئے ہیںکہ جس کے بغیر اسے کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی۔
اللہ تعالیٰ بڑا ر حمن ہے پھر وہ بڑارحیم ہے اُس کی رحمانیت اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ انسان اس کی رحیمیت کا بھی مزا چکھے۔یورپ کے لوگ انسانی فطرت پر غور کرتے ہیں اور اپنے کاموں کو عجیب عجیب طریقوں سے ترقی دیتے ہیں۔میں نے دیکھا ہے خداتعالیٰ کی سنتوں پر انہوں نے خوب غورکیا ہے لیکن افسوس کہ مسلمان اِس طرف سے بالکل غافل ہو گئے۔ یورپ کے تاجر جب اپنے کام کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتے ہیںاور یہ بتاناچاہتے ہیںکہ ہمارا مال اچھا ہے ہم کوئی دھوکا نہیں دیتے اورنہ ہی غلط کہتے ہیں تو وہ نمونہ مفت دینے کااعلان کرتے ہیںکیونکہ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیںجو غلط اور جھوٹ اشتہار دے کر لوگوں کو بدظن کردیتے ہیںاس لئے وہ لوگ جنہیںاپنے مال کے عمدہ ہونے اور مفید ہونے کا یقین ہوتاہے سیمپل (نمونہ) شائع کرتے ہیںاشتہار دیتے ہیںاور اس میں لکھتے ہیںکہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمارا مال قیمتاً منگوائو بلکہ یہ کہتے ہیںکہ ایک پیسہ کا پوسٹ کارڈبھیج کرہم سے اس کانمونہ طلب کرو۔ تمہارا خط آنے پر ہم تمہیں مفت نمونہ بھیج دیں گے۔تم اس کو استعمال کرنا،اگر مفید ثابت ہو تو اَور قیمتاً منگوا لینا ورنہ نہ منگوانا۔اس طرح کرنے کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ لوگوں کو چونکہ صرف ایک پیسہ کا کارڈ لکھنا پڑتاہے اور باقی سب خرچ یعنی دوائی کی قیمت،شیشی کا مول،محصول ڈاک، خط و کتابت کاخرچ مال والوں کو ہی کرنا پڑتا ہے اس لئے بہت سے لوگ نمونہ منگواکر استعمال کرتے ہیں اور جب وہ دیکھتے ہیںکہ اِس تھوڑی سی دوائی سے ہمیں اِس قدر فائدہ ہوا ہے اگر زیادہ کھائیں گے تو ضرور ہے کہ زیادہ فائدہ ہو اِس لئے قیمتاًمنگوا لیتے ہیں اِس طرح کارخانہ والوں کی شہرت بھی ہوجاتی ہے اور فائدہ بھی۔خداتعالیٰ نے بھی اپنے انعام و اکرام دینے کے نمونے مقرر کئے ہوئے ہیں۔انسان کودعا،عبادت اور نیک اعمال کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اپنی رحمانیت کی صفت ظاہر کرتاہے جوکہ بغیر عمل کے، بغیر کوشش کے اور بغیر محنت اورتدبیر کے جاری ہوتی ہے۔یعنی بِلا کام کئے خدا کا فضل نازل ہوتا ہے اور وہ نمونہ کے طور پر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے رحمانیت کوررحمیت سے پہلے رکھا ہے۔چنانچہ فرمایا۔ پہلے رحمانیت کوبیان کر کے پھر رحیمیت کو بیان کیا ہے اس سے انسان کواس طرف متوجہ کیاہے کہ یہ ہمارا نمونہ ہے ہم نے کچھ احسانات بغیر تمہارے کہنے اور کچھ کرنے کے تم پر کئے ہیں تم ان پر غور اور تدبرّ کرواور دیکھو کہ تمہیں ان سے کتنا نفع اور آرام پہنچ رہاہے۔ان کے حاصل کرنے کے لئے نہ تم نے کوشش کی ہے، نہ محنت کی ہے، نہ تدبیر کی ہے محض ہمارے فضل سے تمہیں ملے ہیں۔پس جب بغیر تمہاری کسی محنت، کوشش، تدبیر اوربغیر کسی عمل کے ہم نے یہ انعامات دیئے ہیںتواب اگر تم ہمارے احکامات کے ماتحت کچھ کام کرو گے تو سمجھ لو کہ کتنے بڑے انعام حاصل کر لوگے اور رحیمیت کی صفت تمہیں کیا کچھ نہ دکھائے گی۔تورحمانیت کی صفت نمونہ ہے جوانسان کو خداتعالیٰ کی طرف کھینچنے کے لئے ظاہر ہوتاہے کیونکہ جب کوئی انسان خداتعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر غور کرتاہے اور دیکھتا ہے کہ جب میں نے کچھ نہیں کیا تو خداتعالیٰ نے مجھے آنکھیں، ناک، کان، عقل، دولت، عزت وغیرہ دی ہے تو جب میںکچھ کروں گااورخداتعالیٰ کے حکم مانوںگاپھر وہ کیا کچھ نہ دے گا۔جس طرح ایک دوائی کا نمونہ استعمال کرنے والا کہتا ہے کہ مجھے اِس تھوڑی سی دوائی نے اِس قدر فائدہ دیا ہے کہ اگر میں زیادہ استعمال کروں گاتوزیادہ فائدہ ہو گااس لئے وہ روپیہ خرچ کر کے اَور منگواتا ہے جو پہلے سے زیادہ آجاتی ہے اِسی طرح رحمانیت کی صفت خداتعالیٰ کی طرف کھینچتی ہے اور بتاتی ہے کہ جب رحمانیت کے ماتحت تجھ پر اِس قدر فضل نازل ہوا تو جب رحیمیّت کے نیچے آجائے گاتو اُس وقت کتنا فضل ہوگاکیونکہ اُس وقت توفضل حاصل کرنے کاتیرااستحقاق پیدا ہوجائے گا۔ گو کسی انسان کا خداتعالیٰ پر کوئی حق نہیں ہے مگر خداتعالیٰ نے خودمقرر کردیاہے اور وہ وعدوںکا سچاہے۔پس بِلا استحقاق کے جب اِس قدر فضل ہوتے ہیںتوجب استحقاق ہو جائے اُس وقت توبہت زیادہ ہوجائیںگے۔ جس طرح دوائی دینے والاجب مفت دوائی دیتاہے تو قیمت لے کر کیوں نہ دے گااِسی طرح خداتعالیٰ جب بغیر کام کے دیتاہے توعمل،محنت اور کوشش کرنے سے کیوں نہ دے گا۔تو رحمانیت نمونہ ہے رحیمیت کا۔اس سے خداتعالیٰ کی شان کا علم ہوتاہے اور جتناجتنا کوئی اس صفت کے نیچے آئے اُتنا ہی زیادہ انعام پاتاہے۔
رحیمیت کے انعام خاص شان اوردرجہ رکھتے ہیں۔ رحمانیت کے ماتحت توساری دنیاہے ایک کتااور بلا بھی اسی کے ماتحت ہے لیکن رحیمیت کے انعام خداکے خاص خاص بندوں کوہی ملتے ہیںاورجانتے ہوجو فضیلت ان کوحاصل ہوتی ہے اس کاکوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ رحمانیت کانزول چونکہ سہارے کیلئے ہوتاہے اس لئے سب کوحاصل ہوتی ہے۔جیسے دوائی کانمونہ ہے ہر ایک شخص کودیاجاتاہے جودرخواست کرتاہے لیکن پھرپوری دوائی اُسی کودیتے ہیںجوقیمت ادا کرتاہے اورایسے چند ہی ہوتے ہیں۔اِسی طرح خداتعالیٰ کی رحیمیت بھی خاص ہے اور خاص لوگوں سے ہی تعلق رکھتی ہے اِس سے جو لطف اور سرور وہ اُٹھاتے ہیںوہ اور کوئی نہیں اُٹھا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے ماتحت آنکھ، ناک، کان، زبان وغیرہ سب کوملے ہوئے ہیں اس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی ہمارے ساتھ شریک ہیںمگرپھر وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے آپؐ کوتمام نبیوں سے بڑھا دیاہے۔وہ آپؐ کاپورے طور پررحیمیت کے ماتحت آناہے۔آپ ؐنے خداتعالیٰ کی رحمانیت کودیکھ کر سمجھا کہ یہی ایک بہت بڑی ہستی ہے اور تمام کامیابیاں اور ترقیاں اِسی سے تعلق رکھتی ہیں۔یہ سمجھ کرآپؐ پر رحمانیت نے وہ اثر کیاکہ تمام انسانوں سے بڑھ کر اپنے تمام جوارح کو خداتعالیٰ کی اطاعت میں لگادیااس لئے سب سے بڑے اور کامل رحیمیت کے مظہرآپؐ ہی ہوئے اور سب اگلوں پچھلوں سے بڑھ گئے۔ پس ہرایک انسان کوچاہئے کہ وہ خداتعالیٰ کے رحمانیت کے نمونوں کو دیکھے تااسے رحیمیت کے فضل حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہو۔ لیکن جب احتیاج بھی بہت ہو، سامان بھی میسر ہوں، ترکیب بھی آتی ہوتوپھرسوائے اِس کے کہ انسان کے دل پر اپنے شامت اعمال کی وجہ سے زنگ لگ چکا ہوکوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ وہ دعا کرنے سے باز رہے اور اپنے اعمال میں اصلاح پیدا نہ کرے۔
ہماری جماعت کے لوگوں پرخداتعالیٰ نے بہت فضل کئے ہیں۔ وہ باتیں جوپوشیدہ تھیں ان پر ظاہر کی ہیں، وہ نور جولوگوںکی نظروں سے نہاں تھا اُن پر آشکارا کردیاہے،وہ دروازہ جو دوسروں پر بندتھا ان پر کھول دیا ہے اس لئے ہمارے لئے بہت کچھ آسانیاں ہو گئی ہیں کیونکہ دوسرے لوگ دعا کی حقیقت، خداتعالیٰ کے قرب کے فوائد اور اس کے حاصل کرنے کی ترکیبوں سے واقف نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اس کی حاجت سمجھتے ہیں۔ان کے لئے دنیا کی دولت، مال، عہدہ اور خطاب ہی سب کچھ ہیں اِس لئے اُن کو نہ حاجت ہے نہ ان کے پاس سامان ہیں اور نہ ہی ترکیب استعمال جانتے ہیں اِس لئے وہ ایک حد تک معذور بھی ہیں۔لیکن جن کے لئے خداتعالیٰ نے سب ذرائع مہیا کردیئے ہیں اور سب قسم کے بند کھول دیئے ہیںوہ اگر دعائیں کرنے میں سستی کریںتو کس قدر افسوس کی بات ہے۔
میری اِن خطبات سے یہ مراد نہ تھی کہ میں کوئی علمی مضمون بیان کروںبلکہ یہ تھی کہ اپنی جماعت کو اس طرف متوجہ کروں اور دعا کرنے کی عادت ڈالوں۔ بہت لوگ ہیں جو دعائوں میں سستی کرتے ہیں۔ (بہت سے مراد ایک کثیر حصۂ جماعت مراد نہیں بلکہ یہ کہ ایسے لوگ بھی تھوڑے نہیں) ان کے لئے یہ کافی ہے کہ کسی سے سلسلہ کے متعلق بحث مباحثہ کرلیا جائے مگر وہ اصلاح جو حضرت مسیح موعودؑپیدا کرنا چاہتے تھے اُس سے غافل ہیں۔ اِس قسم کے جوش جن میں محض زبان ہی زبان کام کر رہی ہو کوئی نفع نہیں دیتے۔نفع اِسی سے ہوتا ہے کہ انسان اپنے تمام جوارح پر اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرے اور اُس کی محبت میں گداز ہوجائے اور اُس کی اُلفت میںگرد بن جائے، اگر کوئی شخص یہ نہیں کرتا تو حکم عدولی کرتاہے۔تو صرف زبان سے ہی اقرار کرلینانہ صرف کوئی فائدہ ہی نہیں دیتا بلکہ بہت زیادہ نقصان بھی پہنچاتاہے۔ پھر ہو سکتا ہے کہ کوئی سچے دل سے اقرار کرتا ہو مگر اُسے عمل کی توفیق نہ ملتی ہوتو یہ اُس کے پچھلے گناہوں کے زنگ کی وجہ سے ہو گا۔ جس طرح ایک شخص بیڑیوں سے جکڑ اہوا ہو اور اس کے کھانے کے لئے شیر آرہاہوتو کوئی یہ نہیں کہے گاکہ اُس کے دل میں شیر کا خوف نہیںہے اس لئے خاموش بیٹھا ہے اور بھاگتا نہیںکیونکہ وہ تو بھاگ ہی نہیں سکتا۔اگر وہ بھاگ سکتا تو وہ ضرور بھاگ کر جان بچانے کی کو شش کرتا۔وہ جانتاہے کہ خونخوار شیر مجھے کھا جائے گا مگر چونکہ اس کے پائوں بندھے ہوئے ہیں اس لئے بھاگنے کی طاقت ہی نہیں رکھتا۔ اِسی طرح بعض لوگوں کو ایمان توحاصل ہوتا ہے لیکن ان کے پچھلے گناہ اور نقص اعمال کے راستہ میں حائل ہو جاتے ہیں اوران کے پائوں میں بیڑیوں کی طرح، ان کے ہاتھ میںہتھکڑیوں کی طرح اور ان کے گلے میں طوقوں کی طرح پڑے ہوتے ہیں۔ وہ اِس بات کو جانتے ہوئے کہ ہمیں یوں کرنا چاہئے اس طرح نہیں کر سکتے اور اس سے اپنے دل میںکڑھتے بھی ہیں ،افسوس بھی کرتے ہیں مگر کرتے وہی ہیں جو انہیں نہیں کرنا چاہئے یہ اعمال کے زنگ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اُن کا دل خوب محسوس کرتا ہے مگر کشش بُرائی کی طرف ہی کرتاہے۔ اِس وقت یہی علاج ہے کہ زنگ کو دور کیا جائے اور پائوں کی زنجیروں کے توڑنے اور ہاتھوں کی ہتھکڑیوں کے کاٹنے اور گلے کے طوقوں کو اُتارنے کی کوشش کی جائے۔ جب یہ ہو جائے گا تو پھر ایمان نفع اور فائدہ دیگا اور یہ سب کچھ دعا کے ذریعہ ہوسکتاہے۔
ہماری جماعت میںجو ایسے لوگ ہیں اُن کو اِس طرف توجہ کرنی چاہئے اور اس کا یہی علاج ہے کہ انہیں جس قدر دعا کرنے کی توفیق ملے اُسے اسی کے لئے خرچ کریں لیکن اگر دل قائم نہ ہو تو زبان سے لفظ نکالنے کی جس قدر توفیق ملے اُسی قدر نکالیں۔ اگرلفظ بھی نہ نکال سکتے ہوںتو خیالات کے ذریعہ ہی دعا کی طرف متوجہ رہیں۔زبان سے کہنا اوربات ہوتی ہے اور خیالات کرنا اَور ۔اگر دعا کرنے سے کسی کا قلب منکر ہو اور زبان بھی انکار کرتی ہوکہ لفظ نکالے تو اسے اس طرف خیالات دَوڑانے چاہئیں۔اگرچہ خیالات بہت ہی ادنیٰ ہوتے ہیں جس طرح ایک بہت مریل سا گھوڑا ہوجو چاہے اُس کے اوپر چڑھ بیٹھے یہی حال خیالات کا ہوتا ہے لیکن انسان کم از کم خیالات کے ذریعہ تو دعا کی طرف متوجہ ہو۔ اس سے آہستہ آہستہ اوپر ترقی شروع ہو جاتی ہے ۔
پہلے زمانہ میں مجرموں کو سزا دینے کا یہ طریق ہوتا تھا کہ کسی بڑے اونچے مینا ر پر قید کردیتے تھے۔ایسے قیدیوں کو جو لوگ چھڑانا چاہتے وہ اتنی اونچی جگہ کوئی مو ٹا رسّہ تو پھینک نہ سکتے جس کے ذریعہ وہ نیچے اُتر آئے اس لئے اِس طرح کرتے کہ ایک باریک دھاگے کا گولہ تیر کے ساتھ باندھتے اور اسے کمان کے ذریعہ اوپر پہنچاتے۔ اِس طرح دھاگہ اُس قید ی تک پہنچ جاتا وہ اُس کا ایک سرا خود پکڑتا اور باقی کو نیچے گرادیتا۔پھر وہ اس کے ساتھ ذرا موٹا دھاگہ باندھ دیتے جسے وہ اوپر کھینچ لیتا اِس طرح کرتے کرتے آخر کا ر وہ موٹا رسّہ اُس تک پہنچا دیتے تھے اور وہ نیچے اُتر آتا تھا۔ یہ ترکیب اس لئے ایجاد کی گئی کہ کمزور چیز بڑا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی ۔ یہی حال دعا اور اعمال میں ہوتا ہے۔ وہ انسان جو زیادہ بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔ اُسے چاہئے کہ پہلے تھوڑا اُٹھائے اور جب اسے عادت ہو جائے گی تو زیادہ سے زیادہ اُٹھا تا جائے اور اس طرح کرتے کرتے بڑے سے بڑا بوجھ بھی اُٹھا لے گا ہاں اسے چاہئے کہ ہمت نہ ہارے اور مایوس نہ ہو۔
ہمارے راستہ میں جو مشکلات حائل ہیںان کا انکار کوئی نادان ہی کرے تو کرے ورنہ عقل مند کبھی نہیں کر سکتا۔ہم نے تمام دنیا سے مقابلہ کی ٹھانی ہوئی ہے لیکن نہ ہمارے پاس مال ہے نہ دولت ہے، نہ دنیاوی عزت ہے نہ حکومت ہے،اس صورت میں اگرہم وہ حقیقی ہتھیار جو خداتعالیٰ کی طرف سے ہمیں ملا ہے اس سے بھی کام نہ لیں تو اور کیا صورت ہو گی جس سے ہم کامیاب ہونگے۔ایک جنگل اور بیابان میں بیٹھا ہواانسان غافل نہیں ہوتاکیونکہ وہ جا نتاہے کہ اس میں شیر،چیتے اور ڈاکو رہتے ہیں لیکن وہا ں تو ایک آدھ شیر چیتے کا ڈر ہوتاہے یہاں کروڑوں کروڑ شیر اِس بات کے لئے تیار ہیںکہ ہمیں چیر پھاڑ کر پھینک دیں۔ اگر کہیںایک شیر ہو بلکہ شیر نہ بھی ہو صرف وہم ہی ہو یا ایک ڈاکوئوں کی جماعت ہو، جماعت نہ بھی ہو صرف خیال ہی ہو تو بھی لوگ ہو شیار اور چوکس رہتے ہیں لیکن ہمارے لئے ایک شیر نہیں بلکہ کروڑوں شیر ہیں، ایک ڈاکوئوں کی جماعت نہیں بلکہ بے شمار ڈاکوہیں اِس لئے ہمیں ہوشیار رہنے کی بہت ہی ضرورت اور حاجت ہے اس لئے ہمیں جس رنگ اور جس طریق سے توفیق ملے اُسی سے کوشش اور ہمت کرنی چاہئے۔ پھر جبکہ ہم خداتعالیٰ کے قرب اور اُس کے فضل کے محتاج ہیں اور اس کے حصول کے ذرائع اور طریق بھی معلوم ہیں پھر غفلت کیسی۔اگر کسی میں غفلت ہے تو اس کے پہلے گناہوں کے زنگ کی وجہ سے ہے جسے بہت جلد دور کرنے کی کوشش کرنا چاہئے، اگر دل کے ایک حصہ میں زنگ لگ چکا ہے تو دوسرے حصہ کے ذریعے اُسے کھرچنے کی کوشش کرو۔ایک ہاتھ بندھا ہو تودوسرے سے کھولنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ایک پائوں گڑا ہوا ہو تو دوسرے سے نکالنے کی ہمت کی جاتی ہے۔ تم بھی اِسی طرح کرو۔ اگر قلب پر زنگ ہے تو زبان سے ہٹانے کی کوشش کرو۔ اگر زبان پر ہے تو ہاتھ سے ہٹانے کی کوشش کرو۔اور اگر ہاتھوں پر ہے تو پائوں سے۔اس طرح تمہیںایک چھوٹا عمل بڑے کی توفیق دے گااور وہ اس سے بھی بڑے کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ؎۱ اللہ تعالیٰ اپنے انعامات کسی قوم سے اُس وقت تک واپس نہیں لیتاجب تک کہ اس میں کمزوریاں او رنقص نہیں پیدا ہو جاتے۔ پس اگر تم پر کوئی مصیبت یا ابتلاآتا ہے تو تمہارے ہی ہاتھوں کی کمائی ہوئی وجہ سے۔ اس لئے ہوشیار ہوجائو اور اس کے دور کرنے کیلئے کوشش کرو۔ خدا تعالیٰ کے وعدے سچے ہیںوہ ضرور پورے ہوں گے مگر تم اپنی غفلت اور سستی کو چھوڑدو۔میں تو اس کو بھی نیچریت ہی سمجھتا ہوں کہ کوئی منہ سے دعوے تو بہت کچھ کرے مگر قلب کے حضور کے ساتھ ان کے حصول کی کوشش نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں سے استکبار کرنا اچھا نہیں گو کوئی ان کو اچھا سمجھے لیکن جو اپنے خیالات یا موجودہ زمانے کے حالات سے ڈر کر ذکرِالٰہی کوعملی طور پر لغوسمجھنے اور اس کے لئے کوئی وقت خالی نہ کرے، آنحضرت ﷺ پر درُودنہ بھیجے وہ عملی طور پر استکبار کرتا اور خداتعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں کی تحقیر کرتاہے۔
بہت سے لوگ ایسے ہیںجو تہجد اور نوافل پڑھنے کی کوشش نہیں کرتے،بہت ایسے ہیںجو صرف فرائض کا ادا کر لینا ضروری سمجھتے ہیںحالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیںکہ بندہ نوافل سے قرب الٰہی حاصل کرتاہے۔ لوگوں نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ نوافل بھی قرب کا باعث ہوتے ہیںلیکن میرے نزدیک اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ نوافل ہی قرب کا باعث ہوتے ہیں کیونکہ فرائض کی ادائیگی انسان کو ایمان کے درجے تک پہنچاتی ہے۔دیکھ لوگورنمنٹ کے ملازمین کے جو فرائض ہوتے ہیںان کے ادا کرنے پر وہ صرف تنخواہ کے حق دار ہوتے ہیںانعام کے نہیں۔ ہاں اگر وہ اپنے فرائض سے بڑھ کر کوئی کام کریںتو بے شک انعام پاتے ہیں۔ اِسی طرح صرف فرائض کا ادا کرناخداتعالیٰ کے قرب کا باعث نہیں ہوتا بلکہ یہ ایمان کی بنیا د پر قائم کرتاہے آگے نوافل بڑھاتے اور درجہ دلاتے ہیں۔پھر بعض اوقات نوافل فرائض کی جگہ بھی کام آتے ہیںکیونکہ کوئی فرض کسی دل سے ادا کیا جاتاہے اور کوئی کسی سے اس لئے نوافل فرائض کے قائم مقام ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک گڑھا ہواگر وہ زیادہ گہرا ہوتواس میں جو مٹی ڈالی جائے گی وہ اُسی میں غائب ہوجائے گی لیکن اگر کم گہرا ہو تو اور مٹی ڈالنے سے وہ گڑھے والی جگہ اَور بھی اونچی ہو جائیگی اِسی طرح اگر فرائض کی کمی ہو تو نوافل اسے پُر کردیتے ہیںاور اگر کمی نہ ہو تواُسے اور اونچا کردیتے ہیں۔
بہت سی باتیں ہیںجن کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں ہے۔بحث ومباحثہ کرنے میں تو ہوشیار ہیں مگر ذکرِ الٰہی اور دعا کرنے میں سست اور غافل ۔ لغو اور فضلول باتوں سے پرہیز نہیں کرتے اور دین کی عظمت اُن کے دلوں میں نہیں ہے۔ تہجد کی ادائیگی اور نوافل کے پڑھنے کی طرف خیال نہیں کرتے۔
یہاں کے بعض لوگوں میں بھی یہ کمی ہے جس کے دور کرنے کی طرف انہیں بہت جلد توجہ کرنی چاہئے۔ یہا ں قریباًنو ماہ سے بخار چلاآتاہے اس کے آنے سے دو تین ماہ پہلے میں نے اپنا رئویا بھی بتلا دیاتھا کہ میں نے یہ خطرناک بخار دیکھا ہے۔خداتعالیٰ کی طرف سے پہلے بتانے کی یہی غرض ہوتی ہے کہ لوگ عاجزی اور تضرع اختیار کریں اور خدا کے حضور گر جائیں۔کہتے ہیں شیر کے آگے اگر کوئی گر جائے تووہ حملہ نہیں کرتا۔شیر کا تو پتہ نہیں لیکن اگر کوئی خداکے آگے گرے تو وہ ضرور ہی حملہ نہیں کرتا۔ جو کوئی خدا کے حضور گرتا ہے وہ گویا اپنے نفس کو مار دیتا ہے اس لئے سزا سے بچ جاتا ہے۔ دیکھو انسان کے آگے بھی کوئی جھک جائے تو اسے بھی شرم آجاتی ہے پھر خدا تعالیٰ اپنے آگے گرے ہوئے پر کیوں رحم نہ کرے۔
بچپن میں ہم نے ایک کشتی بنوائی تھی لڑکے اُسے ڈھاب میںتیرانے کے لئے لے جاتے تھے اور بے اختیاطی سے توڑدیتے تھے۔میں نے ایک دفعہ لڑکوں سے کہاکہ جب کوئی لڑکا کشتی لے جائے تومجھے بتانامیں اُسے سزا دوں گا۔چنانچہ ایک دن جب چند لڑکے اسے لے گئے تو لڑکوں نے مجھے بتایا۔میں وہاں گیاتووہ سب بھاگ گئے لیکن ایک کو پکڑلیاگیا۔جب میں اسے مارنے لگاتو اُس نے آگے سے سر ڈال دیااور کہا کہ لو مار لو۔یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی اور میں نے اُسے چھوڑ دیا۔تو جھکے ہوئے پر جب انسان کو بھی رحم آجاتا ہے تو خدا کو کیوں رحم نہ آئے، جھکنے سے اُس کا بھی غضب ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ گرے ہوئے پر کبھی قدم نہیں مارتا۔ ہاں جو چھاتی نکال کر کھڑا ہو جائے اور غلطی کر کے اُس پر اکڑے اُسے گراتاہے اور جس پر سے اُس کا غضب ٹھنڈا ہو جاتا ہے وہ نہ صرف سزا سے بچ جاتا ہے بلکہ اس کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بھی جوش میں آتی ہے۔
غرض ہماری جماعت کے لئے بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ یہاں کے لوگ بھی اور باہر کے بھی نمازوں میںبہت ہوشیاری پیدا کریںاور دعائیں کریں۔ جس طرح استقلال کی ہر ایک کام میںضرورت ہوتی ہے اِسی طرح دعامیں بھی ہے۔ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیںجو چند دن دعا کرکے چھوڑ دیتے ہیں، پھر مساجد میں بہت سی لغو باتیں اور بیہودہ جھگڑے کئے جاتے ہیںحالانکہ مسجدیں ذکرِ الٰہی اور دینی امور کے لئے ہیں۔ اِسی طرح بہت سی باتیںہیں جو بظاہر چھوٹی معلوم ہوتی ہیں مگر ان کی وجہ سے آہستہ آہستہ دل پر زنگ لگنا شروع ہو جاتاہے جس طرح ایک چھوٹی نیکی بڑی نیکی کا موجب ہوتی ہے اِسی طرح چھوٹی بدی بڑی بدی کا باعث ہوتی ہے۔ تم لوگ ان باتوں میں اصلاح کرو اور اپنے اندر عاجزی اور فروتنی کا مادہ پیدا کرو تاکہ اگر خداکا غضب ہو تو ٹھنڈا ہوجائے۔ یہ بیماریاں اور مشکلات بلاوجہ نہیں آ رہیں جماعت کا کوئی نہ کوئی حصہ ضرور ایسا ہے جس کی وجہ سے یہ تکالیف ہیں اس لئے اصلاح کرو اور دعائوں پر خوب زور دو۔جب تمہارے سامنے دو چیزیںہیں ایک خدا کا غضب اور دوسرے اُس کا رحم، تو تم اچھی چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرو۔اس کے حصول کے لئے دعائیں کرو اور بہت کرو اور عاجزی بھی پیدا کرو ۔ صرف دعا اُس وقت تک کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتی جب تک کہ اس کے ساتھ عاجزی نہ ہو۔ ایک پگھلاہوا اور گدازقلب اگر غلطی کرتاہے تو بھی اسے خدا کے حضور گرنے کا موقع مل جاتاہے اس لئے وہ آئندہ اِس قسم کی غلطی سے بچ جاتاہے۔
آجکل ہیضہ بہت پھیلا ہوا ہے ایسے غضب کے دنوں میں بہت بڑی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ تم پر خداتعالیٰ کا فضل نازل ہو۔ جب فضل نازل ہو جائے تو پھر اس کا غضب ہٹ جاتاہے کہ رحم اور غضب دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ ۲؎ میری رحمت ہر شے پر چھائی ہوئی ہے حتی کہ دوسری صفات پر بھی غالب ہے توجب خدا کی رحمت آتی ہے سب بلائیں ٹل جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہو ا تھاکہ مجھے آگ سے مت ڈرائوآگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔۳؎ تو آگ سے کس وقت ڈر نہیں؟ جبکہ اپنے آپ کو غلام بنائو۔ تم اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے حضور اور نبیوں کے احکام کے آگے عبد کی طرح بنائو پھر کوئی چیز تمہارے لئے روک نہیں ہوسکے گی۔ نہ تم پر مصائب آئیں گے، نہ بیماریاں غالب ہو سکیں گی،نہ دشمن کچھ بگاڑ سکیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اپنے کرم اور رحم کے ماتحت لائے اور تمام جماعت پر اپنا فضل کرے اور اپنے خاص انعامات کا وارث بنائے اور ہمیںان عہدوں کے پوراکرنے کی توفیق دے جو ہم نے کئے ہیں۔ وہ طاقت بخشے جس سے ہم اس کے انعاموں کے جذب کرنے والے بنیں اور وہ قوت دے جو اس کے غضب کو ہٹانے اور رحم کو کھینچنے والی ہو۔‘‘ آمین
(الفضل ۲۲؍ اگست ۱۹۱۶ئ)
۱؎ الرعد: ۱۲ ۲؎ الاعراف: ۱۵۷
۳؎ تذکرہ صفحہ ۳۹۷۔ ایڈیشن چہارم
۲۷
مشکلات کے وقت بہت زیادہ ہمت دکھانی چاہئے
(فرمودہ ۲۵؍اگست ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
۔ ؎۱
پھر فرمایا:۔
’’کم ہمت انسان کبھی بھی دنیا میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکتابلکہ اپنے ہا تھ سے اپنی کامیابی کو خود ضائع کرتا ہے۔بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیںکہ ایک کام کرتے کرتے جب اِس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ کامیابی کا وقت نزدیک آجاتا ہے تو اسے چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ان کی مثال اُس شخص کی طرح ہوتی ہے جو کنواں کھودنے لگے لیکن جب کھودتے کھودتے ایسی ریت نکل آئے کہ جس کے بعد پانی نکلتا ہے تو ہار کر بیٹھ جائے کہ اب مجھ سے محنت نہیں ہوسکتی حالانکہ وہی وقت اُس کی محنت کا وقت ہوتاہے اور اُسی وقت تمام محنتیں ثمر لانے والی ہوتی ہیںاوران کے نتائج برآمد ہوتے ہیںاگر کوئی ایسے وقت سستی کرتا اورہمت ہار کر بیٹھ جاتا ہے تو اورکب چستی کرے گا۔ اُس وقت کی سستی اُس کی معمولی حیثیت کوبھی ضائع کر دے گی اور وہ پہلے سے بھی زیادہ گر جائے گا۔تو کم ہمت انسان اپنی نادانی، کم ہمتی اور سُستی کی وجہ سے اُن تمام پھلوں اور ثمرات کو جو اُسے محنت کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں ضائع کر دیتاہے۔لیکن ہمت اور استقلال والا انسان کبھی مصائب اور مشکلات سے نہیں گھبراتا بلکہ جتنے زیادہ مصائب اور مشکلات آئیں وہ سمجھتا ہے کہ اتنے ہی زیادہ جوش اور ہمت سے مجھے کام کرنا چاہئے۔ اگر پہاڑوں کے پہاڑ مصائب کے اُس پر ٹوٹ پڑیںپھر بھی وہ اُسی یقین اور استقلال سے کام کے لئے جاتا ہے جو اسے پہلے سے حاصل ہوتا ہے۔ اور وہ خوب سمجھتا ہے کہ جب خداتعالیٰ نے کام ہی ایسے بنائے ہیں کہ انسان محنت ،تدبیر اور لگاتار کوشش سے اُنہیں کرے تب کامیابی ہوتو پھر کوئی وجہ نہیں کہ میں پوری ہمت اور کوشش کئے بغیر چھوڑ کر بیٹھ رہوں اور کام نہ کروں۔میرے سامنے اگر کوئی روک واقع ہوتی ہے اور کوئی مشکل پیش آتی ہے تو مجھے تو اپنی انتہائی طاقت اورکوشش سے کام کرنا چاہئے۔
اگر غور کیا جائے تو مصائب اور مشکلات کے وقت جس قدر محنت اور کوشش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اُتنی کسی اَور وقت نہیں ہوتی ۔گویا محنت کرنے کا اصل وقت وہی ہوتا ہے کہ جس کے بعد کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ دنیا میں جس قدر کامیاب اور نامور لوگ گزرے ہیں اُن کی ز ندگیوں پراگر نظر کی جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے لئے سب سے زیادہ کام کرنے کا وقت وہی ہؤا ہے جبکہ سب سے زیادہ مشکلات اُن کے سامنے آئی ہیں اور اُن کے لئے سب سے زیادہ جرات اور بہادری دکھانے کا وہی موقع ہؤا ہے جبکہ سب سے زیادہ خوف و خطر اُن کو درپیش ہؤا ہے اور وہ سب سے زیادہ اُسی وقت خطرہ اور تکلیف سے بے پرواہ ہوئے ہیں جب کہ حد سے زیادہ ڈر اور خوف اُن کے سامنے آیا ہے۔
میں نے بارہا ایک صحابی کا واقعہ سنایا ہے اُن کا نام ضرار بن ازورؓ تھا بڑے بہادر اور دلیر تھے اور بہادری میں خاص شُہرت رکھتے تھے۔ وہ ایک دفعہ ایسے دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلے کہ جس کے مقابلہ میں کئی مسلمان نکل کر شہید ہو چکے تھے ۔بعض بڑے بہادر مسلمان بھی اس کے مقابلہ میں گئے مگر وہ اتنا طاقتور تھا کہ باوجود ان کے ایمانی جو ش اورجرأت کے اُن کو اس نے شہید کر دیا۔ اِس مقابلہ کے لئے ضرارؓنکلے۔ جب میدان کے درمیان میں پہنچے تو جلدی سے بھاگ کر واپس لوٹ آئے اور اپنے خیمہ میں چلے گئے۔ مسلمانوں میں تو ایک کمزور سے کمزور شخص بھی بزدلی اور ڈر کا نام تک نہیں جانتا تھا اور اُس کے وہم میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ کسی کافر کے مقابلہ سے بھاگ آئے اور وہ تو خاص شہرت اور نامور ی رکھتے تھے اِس لئے ان کے واپس لوٹنے سے مسلمانوں پر بہت بُرا اثر ہوا۔اور وہ گھبرا گئے کہ یہ کیا ہو گیاہے،ضرار کیوں واپس لوٹ آیا ہے چنانچہ بعض صحابہ ؓ اِس بات کے دریافت کرنے کے لئے ان کے پاس گئے۔ ایک صحابی ان کے خیمہ کے دروازہ تک ہی پہنچا تھاکہ وہ باہر نکل رہے تھے اُس نے پوچھاآپ نے یہ کیا کیا؟تمام مسلمانوں میںسخت گھبراہٹ اور غیرت پھیلی ہوئی ہے اوروہ بڑے اضطراب سے دریافت کر رہے ہیںکہ آپ ایسا بہادر انسان ایک کافر کے مقابلہ سے کیوں بھاگ آیا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ میں ڈر سے نہیں واپس لوٹا تھابلکہ بات یہ تھی کہ آج میں نے دو زِرہیںپہنی ہوئی تھیں۔جب میں دشمن کے مقابلہ کے لئے چلاتو مجھے خیال آیاکہ اِس کافر نے کئی ایک مسلمانوں کو شہید کر دیا ہے اے ضرار!کیا تم نے دو زرہیں اس لئے تو نہیں پہنیں کہ تو اُس سے ڈر گیا ہے؟ اِس خیال سے میں ایسا شرمندہ ہوا کہ گویا میں خداتعالیٰ کی ملاقات سے ڈرتا ہوں اِس بات کا مجھ پر اتنا خوف طاری ہواکہ میں نے کہا کہ اگرمیری جان نکل جائے تو میں جہنم میں ڈالا جائوں گا اِس لئے میں جلدی بھاگا بھاگا واپس آیا ا ب میں نے زِرہیں اُتار دی ہیں اور اُس کے مقابلہ کے لئے جا رہا ہوں۔ ؎۲
چونکہ کافر نے ایسے ہمت دکھائی تھی کہ کئی صحابہ کو شہید کر دیا تھااس لئے اُس کے مقابلہ میں اِس صحابی نے بھی ایسی ہی جرأت دکھائی ۔وہ ایک خاص دشمن تھا اِس لئے اِس صحابی نے کہا کہ بڑے دشمن کے لئے بڑے ہی دل کی ضرورت ہے۔چنانچہ اِس نے اِتنا بڑا دل دکھایا کہ زِرہیں بھی اُتار کر مقابلہ کے لئے گیااور جا کر مار لیا۔
تو جس قدر خطرہ بڑا ہوتا ہے بہادر اور جواں مرد انسان اس کے مقابلہ میں جرأت بھی اُتنی ہی بڑی دکھاتے ہیں۔خطرہ سے ڈرنا اور خوف سے بھاگنا یہ تو بزدلی ہوتی ہے اور یہ بہت کم ہمت اور غیر مستقل مزاج انسان کا کام ہے۔ لیکن ایک ایسا شخص ہوتا ہے کہ دشمن سے ڈرتا نہیں بلکہ مقابلہ کرتا ہے۔پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ نہ صرف مقابلہ کرتا ہے بلکہ اس سے بالکل نڈر ہو جاتا ہے اور ذرا پر واہ نہیں کرتا کہ کیا نتیجہ نکلے گا۔یہ اعلیٰ درجہ کی جرات اور بہادری کہلاتی ہے اور ایسے ہی لوگ جرأت اور بہادری کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہیں۔بزدل تو دشمن کے مقابلہ سے بھاگ جاتے ہیں اور دلیر مقابلہ کرتے ہیں اور جو بہت زیادہ دلیر اور بہادر ہوتے ہیں اور جن میں خاص ایمانی جرأت ہوتی ہے وہ نہ صرف مقابلہ کرتے ہیں بلکہ دشمن کو حقیر سمجھتے ہیں اور جب اُس پر غلبہ پا لیتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے دل پر جو ایک بوجھ سا پڑا ہوا تھا وہ اُتر گیا ہے۔گویا مقابلہ کرنا تو الگ رہا وہ جرأت میں ایسے بڑھ جاتے ہیں کہ بڑے سے بڑا دشمن ان کی نظر میں کچھ وقعت اور حقیقت نہیں رکھتا۔صحابہ کرامؓ کی شان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اِسی قسم کے تھے۔
جنگ احزاب کے موقع پر دشمنانِ اسلام بہت زیادہ تعداد میں جمع ہو کر حملہ آور ہوئے تھے یعنی اُن کا لشکر دس ہزار جوانوں پر مشتمل تھا۔اتنا بڑا لشکر عرب میں اس قسم کی مقامی جنگوں میں پہلے کبھی جمع نہیں ہوا تھااور نہ ہی ایسے چیدہ چیدہ لوگ کبھی اکٹھے ہوئے تھے لیکن یہ لشکر خاص طور پر تیا ر کیا گیا تھا۔ گویا ملک عرب نے اپنے تمام بہادر اُگل کر انہیں کہہ دیا تھا جائو جاکر اسلام کو (نَعُوْذُبِاللّٰہِ)بیخ و بن سے اُکھیٹر کر پھینک دو۔تمام اقوام اور قبائل کے سردار اپنا اپنا لشکر لے کر آگئے تھے اور یہود جو مدینہ میں رہنے والے تھے اُن کے ساتھ انہوں نے یہ منصوبہ گانٹھ رکھا تھاکہ باہر سے ہم حملہ آور ہوں گے اور اندر سے تم مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنا شروع کردینا۔ ؎۳ اس خطر ناک حالت میںرسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کے گرد خندق کھودنے کا حکم فرمایا ۔مسلمانو ں کی تعداد منافقوں سمیت تین ہزار تھی اور اگر منافق نکا ل دئیے جائیں تو اَوربھی کم ہوجاتی ہے لیکن کفار دس ہزار تھے اور چنے ہوئے تھے اور یہ ایسا خطرناک موقع تھا کہ وہ منافق جن کی زبانیں مسلمانوں کے رُعب کی وجہ سے بند تھیںاور جنہیں جرأت نہیں ہوسکتی تھی کہ مسلمانوں کے سامنے ایک حرف بھی نکال سکیں وہ بھی تمسخر اور استہزاء کرنے لگ گئے حتی کہ صحابہ ؓ جب خندق کھود رہے تھے تو ایک سخت پتھر سامنے آگیا۔ ہر چند اُس کے اُکھیٹرنے کے لئے زور لگایاگیامگر وہ نہ اُکھڑا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی آپ ؐ آئے اور آکر کدال سے اُس پتھر پر ضرب لگائی ۔اس سے ایک شعلہ نکلا۔آپ ؐنے کہا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ صحابہؓ نے بھی یہی کہا۔ دوسری بار پھر ضرب لگائی پھر شعلہ نکلا۔آپ ؐ نے کہا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔صحابہ نے بھی یہی کہا۔تیسری بار پھر اِسی طرح ہوا۔آپ ؐ نے کہا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔صحابہؓ نے بھی یہی کہا۔تیسری دفعہ پتھر ٹوٹ گیا۔صحابہؓ نے عرض کیا۔ یاَرَسُوْلَ اللّٰہِ!آپ نے اَللّٰہُ اَکْبَرُکیوں کہی تھی؟ آپ نے فرمایا ۔تینوں بار ضرب لگانے پر شعلہ نکلتارہا ہے اور ہر شعلہ میں مجھے ایک نظارہ دکھا یا گیاہے۔ پہلی دفعہ جو چمک ظاہر ہوئی اس میں خداتعالیٰ نے مجھے یمن کا ملک دیا۔ اور دوسری بار ملک شام اور مغرب کو اور تیسری بارمشرق کو مجھے عطاء کیا ۔ ۴؎ جب آپؐنے یہ کشف سنایا تو منافقوں نے کہہ دیاکہ پاخانہ پھرنے کیلئے تو جگہ نہیں ملتی اور ملکوں کے فتح کرنے کی خوابیں آتی ہیں تو ایسی نازک حالت ہو گئی تھی کہ منافقوں کو بھی ہنسی اورمخول کرنے کی جرأت پیدا ہو گئی تھی۔ایسی حالت میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ سچے اور پکے مسلمانوں نے کیا نظارہ دکھایا کہ جب کفار کا وہ بڑا عظیم الشان لشکر کہ جو تمام عرب کے چنے ہوئے انسانوں پر مشتمل تھا اِس کی خبر اُن کو معلوم ہوئی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خندق کھودنی اور کھدوانی پڑی اور مسلمانوں کی اُن کے مقابلہ میں بہت قلیل تعداد تھی،تو اُس وقت صحابہؓ نے کہا کہ یہ لشکر تو وہی ہے جس کے متعلق خدا اور اُس کے رسول ؐ نے پہلے سے ہی وعدہ دیا ہوا ہے کہ ایک بڑا بھاری لشکر آئے گا اور ذلیل و خوار ہو کر واپس چلا جائے گا۔
دیکھو !بجائے اِس کے کہ صحابہؓ کے دل گھبراتے یا نہ گھبراتے دشمن کا مقابلہ کرتے لیکن انہوں نے اِسی پر بس نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ ایمانی جرأت اور جوش کی وجہ سے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ تو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی تھی جوسچی ہو رہی ہے۔ دیکھئے منافقوں کو جو چیز موت نظرآرہی تھی وہی ان کے لئے ایک عظیم الشان فتح اور کامیابی تھی۔دشمن اگرچہ اس لئے آیا تھا کہ اسلام کو قطعہ عرب سے اُکھاڑ کر پھینک دے مگر اسے یہ معلوم نہ تھاکہ اس کے آنے کے ساتھ ہی اسلام نہایت مضبوطی سے گڑ جائے گاکیونکہ مسلمانوں نے اس کو دیکھ کر کہہ دیا کہ خدا کی شان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی مدت پہلے جو بات بتائی تھی اور جس طرح بتائی تھی اُسی طرح آج پوری ہو رہی ہے ۔اور چونکہ آپ نے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ دشمن شکست کھا کرناکام اور نامراد بھاگ بھی جائے گا اِس لئے بہت جلدی وہ بات بھی پوری ہونے والی ہے۔خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ ۔ صرف یہی نہیں ہوا کہ مسلمان کفار کے اتنے بڑے لشکر سے ڈرے نہیں اورجرأت اور دلیری سے مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے بلکہ وہ اس سے بھی بہت زیادہ بڑھ گئے کہ ان کے ایمان اور فرمانبرداری میں اور زیادتی ہو گئی۔بجائے اس کے ایسے خطرناک موقع پر وہ ڈگمگا تے اور فرمانبرداری کو چھوڑتے اسی پر قائم نہ رہے بلکہ اس بھی بہت زیادہ آگے بڑھ گئے اور پہلے کی نسبت بہت زیادہ فرمانبردار ہوگئے۔
یہی رنگ ہر ایک مومن کو ہمیشہ دکھانا چاہئے مومنوں پر کوئی مصیبت ایسی نہیں آتی کہ جس کی خبر پہلے سے انہیں نہیں کر دی جاتی ۔ تمام وہ ابتلاء اور مصائب جو جماعتوں کے لئے آتے ہیں ان کی نسبت اللہ تعالیٰ پہلے سے ہی کسی نہ کسی رنگ میں اطلاع دے دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد بڑے بڑے ابتلاء آئے اورکئی ایک رنگوں میں آئے اورسب سے بڑا وہ ابتلاء تھا کہ جس سے جماعت میں تفرقہ پڑگیا اور دو گروہ ہو گئے ۔پھر اب وہ ابتلاء ہے جو مالی رنگ میں رہتاہے اور ایک مدت سے چلاآرہا ہے اِس زمانہ میں یہ بھی بہت بڑا ابتلاء ہے۔ کئی لوگ ہیں جو اِس سے گھبرا جاتے ہیںاور بجائے اِس کے کہ ہمت اورکوشش سے اس کا مقابلہ کریں یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہمیں بڑے چندے دینے پڑتے ہیں۔ اِس گھبراہٹ اور بُزدلی میں پہلے جو چندہ دیتے ہیں وہ بھی دینا چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ ایک مومن کے لئے یہ ابتلاء ایک طرح خوشی کا موجب ہیں کیونکہ جب وہ دیکھتا ہے کہ آج سے کئی سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاتھاکہـ:۔
’’خداکاکلام مجھے فرماتاہے کہ کئی حوادث ظاہر ہوں گے اور کئی آفتیں زمین پر اُتریں گی۔کچھ تو ان میں سے میری زندگی میں ظہور میں آجائیں گی اورکچھ میرے بعد ظہور میں آئیں گی۔‘‘ ۵؎
پس جس طرح صحابہؓ احزاب کو دیکھ کر کہہ اُٹھے تھے کہاُسی طرح انہیں کہنا چاہئے تھا کہ یہ جو ابتلاء آرہے ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہو رہی ہے۔
پھر حضرت مسیح موعودؑنے یہ بھی پہلے سے ہی بتا دیا تھا’’ کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے اور کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے‘‘۔ ؎۶ اس لئے جس طرح اس لشکر عظیم کو دیکھ کر صحابہؓ کے ایمان بجائے متزلزل ہونے کے اَور زیادہ بڑھ گئے تھے اِسی طرح وہ لوگ جو ہم سے جدا ہوئے اُن کو دیکھ کر ان کے ایمان بڑھنے چاہئیں تھے اور وہ یہ کہہ اُٹھتے کہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا یہ ایک اور نشان ظاہر ہوا ہے کیونکہ آپ نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اس طرح ہوگا۔
نادان ہیں وہ لوگ جو اِس قسم کے ابتلائوں کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم پر بہت بڑا بوجھ پڑگیاہے اور ہمیں بڑے چندے دینے پڑتے ہیں۔انہیں تو چاہئے کہ ایسے وقت میں پہلے سے بھی زیادہ ہمت اور کوشش سے کام لیںکیونکہ جو زیادہ مشکلات کے دن ہوتے ہیں ان میں زیادہ ہمت سے کام کرنا پڑتاہے۔دیکھو جب کوئی زیادہ بیمار ہو جاتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ دوا کھانا ہی چھوڑ دیتا ہے یا احتیاط کرنا ہی ترک کر دیتا ہے بلکہ اُس وقت خاص طور پر وہ دوا استعمال کرتا اور خاص احتیاط کرتا ہے ۔ دنیا کے تمام معاملات میں یہی دیکھا جاتا ہے۔پس جب بڑی مشکلات کے وقت ہمت بڑھا دی جاتی ہے اورزیادہ بیماری کے وقت علاج پر خاص زور دیا جاتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ان دینی مشکلات کے وقت زیادہ ہمت سے کام نہ لیا جائے اور اس سے بڑھ کر طاقت اورجرات نہ دکھائی جائے جو پہلے دکھاتے تھے۔ اگر بعض لوگوں کا ارتداد یا بعض لوگوں کی سستی بیت المال و دیگر صیغہ جات میں آمدنی کی کمی کا باعث ہوئی ہے تو چاہئے تمہاری ہمت اَور بھی زیادہ بڑھ جائے کہ اَور بوجھ آپڑا ہے اس لئے پہلے کی نسبت حوصلے اور دل اَور وسیع کرنے چاہئیں نہ یہ کریں کہ جس وقت مشکل زیادہ آپڑے تو ہمت کم کر دیں۔
یہی وقت ایمان کو تازہ کرنے کا ہے کیونکہ جب انسان دیکھتا ہے کہ باوجود ہر قسم کے سامان کے مخالف ہونے کے پھر خداتعالیٰ کی تائید اور نصرت ہمارے ساتھ ہے تو اُس کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے ۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ کیا چیز تھی جس نے صحابہ ؓ کے ایمان کو ایسا مضبوط کر دیا تھا کہ کوئی بڑی سے بڑی مصیبت اور تکلیف انہیں متزلزل نہیں کر سکتی تھی۔ یہی کہ وہ دیکھتے تھے کہ ہر مصیبت اور ہر مشکل جو ہمیں پیش آتی ہے اس میں خدا کی نصرت زیادہ سے زیادہ ہی دیکھی جاتی ہے۔ یہی باعث تھا کہ جب احزاب میں لشکر جمع ہو کر آیا تو اُنہوں نے سمجھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کا ایک حصہ تو پورا ہو گیاہے اب دوسرا حصہ بھی پورا ہو گا جو یہ ہے کہ لشکر ناکام اور نامراد ہو کر بھاگ جائے گا۔گویا دشمن کا آنا بھی اُن کے لئے ایمان کی زیادتی کا موجب ہوا اور جانا بھی۔ اور ہر حالت میں اُن کے لیے ایمان کی زیادتی تھی یہی حال خدا کے پیارے بندوں کا ہوتاہے۔
یہاں رہنے والے لوگوں نے دیکھا ہو گا کہ مولوی عبدالکریم صاحب اورمبارک احمد کی بیماری میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو علاج معالجہ کا کس قدر خیال ہوتا تھا۔ دیکھنے والوں کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ اپنے سلسلہ کی ترقی اِنہی کی زندگی پر سمجھتے تھے۔اُن ایام میں سوائے اِس کے اور کوئی ذکر ہی نہ ہوتا تھا کہ کس طرح علاج ہو اور کیا علاج کیا جائے لیکن ان کی وفات کے وقت کیا ہوا؟ یہی کہ یکلخت آپ کی ایسی حالت بدلی کہ حیرت ہی ہوگئی۔ یا تو اتنا جوش کہ صبح سے لے کر شام تک انہی کے علاج معالجہ کا ذکر یا آپ اِس بات پر ہنس ہنس کر اور نہایت بشاش چہرہ سے تقریر فرمارہے ہیں کہ ان کی وفات کے متعلق خدا تعالیٰ نے پہلے سے ہی بتا دیا ہوا تھا۔
جب مبارک احمد کی وفات ہوئی تو بعض اشخاص کو اِس سے گھبراہٹ ہوئی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ جب مبارک کا دم نکلا تو حضرت مولوی نورالدین صاحب، خلیفہ رشیدالدین صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب وہاں موجود تھے،حضرت مولوی صاحب نبض دیکھ رہے تھے۔آپ نے نبض دیکھتے دیکھتے حضرت صاحب کو کہا حضور! حالت نازک ہے مشک لائیں ۔حضرت صاحب ابھی مشک لائے بھی نہ تھے کہ دم نکل گیا۔ حضرت مولوی صاحب نے چونکہ حضرت صاحب کو مبارک احمد کی بیماری میں خاص محبت اور خاص جوش سے علاج کرتے اورخیال رکھتے دیکھا تھااس لئے جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے اور منہ سے کچھ نہ کہہ سکے۔دوسرے لوگوں نے بھی یہی خیال کیاکہ حضرت صاحب کو اِس سے بڑا صدمہ ہو گالیکن حضرت صاحب کو دیکھو۔ آپ نے جہاں مشک رکھی ہوئی تھی وہیں کا رڈ اور لفافے بھی رکھے ہوئے تھے۔جب آپ نے مبارک احمد کے فوت ہو جانے کے متعلق سنا تو وہیں سے مشک نکالنے کی بجائے کارڈ اور لفافے نکال کر خط لکھنے شروع کر دیئے کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں۔ اُس وقت آپ کے چہرہ پر کسی قسم کی گھبراہٹ کا کوئی نشان نہ تھابلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کو کوئی بہت بڑی فتح نصیب ہوئی ہے۔ پھر آپ باہر تشریف لائے، ابھی تک لوگوں کو معلوم نہ ہو اتھا کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے۔آپ نے رضا بِالقدر کے متعلق ایک لمبی تقریر شروع فرمادی۔ آپ کے چہرہ سے ایسی بشاشت ٹپکتی تھی کہ گویا کسی بڑے دشمن کو شکست دے کر آئے ہیں۔ تو مومن پر جو مصائب اورابتلاء آتے ہیںوہ اُس کی ترقی کا باعث ہوتے ہیں کیونکہ خدا کی طرف سے اسے بتایا جاتاہے اِس لئے اس کے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔مومن پر ہر ایک مصیبت جو آتی ہے وہ اپنے ساتھ دو نشان رکھتی ہے ایک اُس کے آنے کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اور ایک جانے کے ساتھ۔جب آنے والا پورا ہو جائے جو دشمنوں سے تعلق رکھتاہے توپھر اس کے جانے والا نشان پورا ہونا ہوتاہے جو مومنوں سے متعلق ہو نا ہوتاہے اس لئے وہ بہت زیادہ اور بڑھ چڑھ کر کوشش کرتے ہیںاور جب کامیاب ہوجاتے ہیںتوان کا ایمان بہت ترقی کر جاتاہے۔
اِس قسم کے مصائب وغیرہ کا آنا خداتعالیٰ کی سنت ہے۔جو پہلے لوگوں سے ہوتی آئی ہے۔ اِس زمانہ میں اِس کے خلاف ہماری جماعت کے ساتھ بھی نہیں ہو سکتا۔یہ نہیں ہو سکتا کہ ہماری جماعت وہ انعامات توحاصل کر لے جو پہلے لوگوں نے حاصل کئے تھے مگر ان مشکلات سے نہ گزرے جن سے پہلے لوگ گزرے ہیں۔جس محنت ،ایثار اور قربانی کے بعد پہلے لوگوں نے شیریں پھل کھائے ہیں وہی ہمیں کرنی پڑے گی۔
پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ ان مصائب اور مشکلات سے گھبرائے نہیں بلکہ اَور آگے بڑھے ۔جو کم حوصلہ گھبراجاتے ہیں ایسے لوگوں کو ہم کہتے ہیں کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہیں فرمایا تھا کہ مصائب پر مصائب آئیں گے؟ ضرور فرمایا تھا۔اب آپ کی یہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے لیکن آپ نے یہ بھی فرمایاتھا کہ مصائب کے بادل چھٹ بھی جائیں گے ۔پس جب ایک پہلو پورا ہو رہا ہے تو ضرور ہے کہ دوسرا بھی پورا ہو اور مبارک ہے جو دوسرا پہلو پورا ہونے تک صبر اور استقلال سے کام لے اور اپنے آپ کو ملنے والے انعامات کا مستحق بنالے کیونکہ یہ مصیبتیں اپنے ساتھ بشارت کی ہوائیں رکھتی ہیں۔قبل اِس کے کہ یہ فساد، یہ مصیبتیں اور یہ فتنے ہوتے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا کہ ایسا ہو گا۔ چنانچہ وہ وقت آگیا اور اُس نے بتادیا کہ جو کچھ خدا کے برگزیدہ مسیح نے کہا تھا وہ پورا ہو گیا۔پھر اس نے کہا تھا کہ جب وہ فتنے آئیں گے توتم میں سے جو استقلال کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں گے اور ہر قسم کی قربانی کر کے دکھا دیں گے وہ کامیاب ہو جائیں گے پس جب ایک بات پوری ہو گئی ہے تو چاہئے کہ تم دوسری کے پورا ہونے کے لئے پوری ہمت اور کوشش سے کام لو۔
یہ مصائب اور ابتلائوں کے دن کامیابی کی کلید ہوتے ہیں لیکن ضرور ہے کہ وہ لوگ جو دوسرے دنوں کو دیکھنا چاہتے ہیں وہ سنت قدیمہ کے مطابق اپنے مالوں اور اپنی جانوں کی قربانی کر کے دکھائیں۔پس ان مصائب اور مشکلات میں خواہ وہ مالی ہوں یا جانی ،خواہ دشمنوں کے شر کے متعلق ہوں یا اپنی غلطیوں کے نتیجہ میں ۔ان میں چاہئے کہ مومن اپنے ایمان کو اور زیادہ بڑھائیں۔اس طرح کرنے سے وہ ان انعامات کے وارث ہوجاتے ہیں جو خداتعالیٰ نے اپنے ایسے بندوں کے لیے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ یہ بات خوب یاد رکھنی چاہئے کہ جو شخص خداتعالیٰ کے راستہ میں کچھ دیتا ہے وہ کھوتا نہیں ۔دیکھو خداتعالیٰ کی بنائی ہوئی زمین میں اگر کوئی ایک دانہ ڈالتا ہے تو اس سے سینکڑوں دانے نکلتے ہیں اور یہ جسمانی زمین ہے لیکن اگر کوئی روحانی زمین میں بیج ڈالے تو اس کے پھل اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں اس لئے کبھی کوئی اس تجارت سے گھاٹا نہیں پا سکتا۔ خداتعالیٰ نے اپنے لئے یہ بات خاص کر چھوڑی ہے کہ جب بندہ اُس سے لین دین کرتا ہے تو نفع ہی نفع حاصل کرتا ہے ۔چونکہ سُود بھی ایک قسم کا نفع ہے جس میں نفع ہی نفع ہوتاہے نقصان نہیں ہوتا اس لئے خداتعالیٰ نے اس فعل کو اپنے لئے خالص کرنے کے لئے بندوں کو منع کر دیاہے کہ وہ سُود نہ لیں یہ خداتعالیٰ ہی کی صفت ہے کہ وہ نفع ہی نفع دیتا ہے۔ پس جب خدا کو اتنی غیرت ہے کہ اس نے بندوں کو اس قسم کے لین دین سے بھی منع کر دیا ہے تاکہ یہ صرف خدا ہی کی خصوصیت رہے۔ حالانکہ بندوں کا فعل خداتعالیٰ کے مقابلہ میں بہت ہی حقیر اور لاشئے ہے اور اکثر دفعہ سُود کی بجائے نقصان اٹھانا پڑتاہے تاہم خداتعالیٰ نے اس کو پسند نہیں کیا۔ پس وہ جو اس کی رضا کے لئے کچھ خرچ کرتاہے کبھی نقصان نہیں اُٹھاتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ مومنوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ کے ساتھ جو انہوں نے وعدہ کیا تھا اُس کو انہوں نے سچا کر دکھایا اور کچھ ان میں سے ایسے ہیںکہ انہوں نے جو نذر مانی تھی اُسے پورا کرسکے ہیں۔یعنی خدا کی راہ میں انہوں نے اپنے آپ کو ایسا لگایا کہ اپنی جان بھی دے چکے ہیں اورکچھ ایسے ہیں کہ جان تو نہیں دے چکے مگر وہ یہی عہد کئے بیٹھے ہیں کہ جس وقت اللہ تعالیٰ چاہے جان لے لے۔یہ اَوربات ہے کہ ابھی تک ان کی جان اللہ تعالیٰ نے نہیں لی مگر وہ پیچھے نہیں ہٹے اور نہ ہٹیں گے چنانچہ صحابہؓ میں اِس کی بڑی بڑی نظیریں مل سکتی ہیں۔
کی مثال تو یہ دیکھ لیجئے کہ خالد بن ولید ؓ ابتدائی صحابہؓ میں سے نہیںتھے۔ جس بیماری میں اُنہوں نے وفات پائی اُس کے متعلق اُن کے ایک دوست کہتے ہیں کہ میں انہیں ملنے کے لئے گیا، میں نے دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں۔ میں نے پوچھا ۔ آپ کیوں روتے ہیں؟ اُنہوں نے کہا میں اِس لئے روتا ہوں کہ میں سالہا سال جنگ کرتا رہا ہوں اور خطرناک سے خطرنا ک جگہ تلاش کر کے وہاں گُھستا رہا ہوں کیونکہ میں چاہتا تھا کہ خداتعالیٰ مجھے شہادت دے لیکن باوجود اِس کے کہ میرے سر سے لے کر پائوں تک تمام جگہ زخم لگے اور کوئی جگہ ایسی نہ رہی جہاں زخم نہ لگا ہو مگر آج میں چار پائی پر مر رہا ہوں اورمجھے شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ ؎۷ انہوں نے یہ اپنے جوش اور ایمان کی زیادتی کی وجہ سے کہا۔ ورنہ درحقیقت ہر ایک زخم کا وہ نشان جو ان کے بدن پر پڑا ہو ا تھا اُن کے لئے شہادت تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں شہید ہوئے؟ مگر جس طرح آپ نبی تھے اُسی طرح صدیق اورشہید بھی تھے۔ ہاں آپ کی شہادت تلوار سے نہیں ہوئی تھی کیونکہ ضروری تھا کہ آپ کی جان کی حفاظت کی جاتی۔ اگرچہ یہ بات آپ کے درجہ اور علو شان کے خلاف تھی کہ آپ شہید ہوتے مگر آپ نے خدا کی راہ میں جان تک دینے سے بھی کوئی پرواہ نہ کی۔اِسی طرح اور کئی ایک صحابہؓ دنیا کی نظر میں تو شہیدنہیںہوئے مگر خدا کی نظر میں شہید ہیں ۔ کئی انسان چلتے پھرتے نظر آتے ہیںمگر خدا کے لئے وہ شہید ہو چکے ہوتے ہیںاور ہر منٹ اُن پر موت وارد ہوتی ہے۔یہی ایمان کا وہ درجہ ہے جس کی طرف خداتعالیٰ بلاتا ہے اور اِس قسم کا ایمان رکھنے والوں کا ذکر اِس لئے کرتاہے کہ تا دوسروں کے لئے باعث ترغیب ہو۔ فرماتا ہے بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے راستہ میں ایسے لگا دیتے ہیں کہ موت تک پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ آگے ہی آگے بڑھتے ہیں۔ اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ گووہ زندہ ہوتے ہیںمگر ہر منٹ اور ہر ساعت وہ اِس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ کب ایسا موقع آئے کہ ہم اپنی جان بھی لڑا دیں۔یہی ایمان خداتعالیٰ اپنے بندوں سے چاہتاہے اور یہی وہ ایمان ہے جو خداتعالیٰ کے انعامات کا وارث بناتا ہے ورنہ صرف زبانی دعوے سے کچھ نتیجہ نہیں نکلتا۔
ہماری جماعت میں ابھی ترقی کا بہت میدان کھلاہے اور ترقی تو کبھی ختم ہی نہیں ہوتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا عظیم الشان انسان بھی ترقی کر رہا ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا تو اَور کون ہے جو ترقی کے تمام مدارج طے کر لے مگر ہماری جماعت کے لئے اس درجہ تک پہنچنے کے لئے بھی میدان باقی ہے جو صحابہ ؓ نے حاصل کیا تھا اور بہت لوگ ایسے ہیں جنہیں ضرورت ہے کہ اُسی رنگ میں رنگین ہو جائیں جس میں صحابہؓ رنگے گئے تھے۔ اپنا مال، اپنی جان، اپناآرام جس طرح صحابہؓ نے قربان کیا تھا اُسی طرح اِن کو بھی کرنا چاہئے ۔ہماری قربانیاں صحابہؓ کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہیں لیکن جب تک ہم بھی وہی قربانیاں نہ کریں گے جو صحابہؓ نے کی ہیں اُس وقت تک اس انعام کے مستحق نہیں ہو سکیں گے جو صحابہؓ کو ملا تھا۔اللہ تعالیٰ کا کسی سے رشتہ نہیں اس لئے اُس نے جس طرح پہلوں پر انعام کئے تھے اُسی طرح اب اور آئندہ بھی کرسکتا ہے اورجو کوئی اُس کی طرف جھکے اُس کو وہی درجہ دے دیتا ہے جو جھکنے والوں کو پہلے دیتا آیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں ایسے لوگ بھی ہیں اور کثیر تعداد میں ہیں کہ ان کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں ۔کئی ہیں جنہوں نے خداکے راستہ میں جانیں قربان کر دی ہیں۔سید عبداللطیف صاحب شہید اور ان کے شاگر دنے اپنی جان دینی منظور کر لی مگر ایمان نہ دیا۔ پھر اور بہت سے بزرگ تھے۔ حضرت خلیفہ اوّل اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم۔ پھر ایک تعداد ایسے مردوں کی زندہ بھی ہے۔ ایک تو وہ تھے کہ فوت ہو گئے مگر اپنے عہد کو نہ توڑا اور ایک وہ ہیں جو اس دن کے منتظر بیٹھے ہیں کہ خدا کے دین کی خدمت کرتے کرتے جان نکلے۔
ابھی تھوڑے دن ہوئے ہمارا ایک مخلص بھائی دنیا سے گزرا ہے اُس کامیرے ساتھ بہت تھوڑی مدت تعلق رہا ہے مگر میں نے اس عرصہ میں اسے دیکھا ہے کہ وہ کے گروہ میں شامل تھا۔ یہ ذکر میں نے اس لئے نہیں کیا کہ اُس کی وفات سے ہمارے سلسلہ کو کوئی بڑا نقصان پہنچا ہے بلکہ دوسروں کو اِس طرف متوجہ کرنے کے لئے کیاہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُن صحابہ ؓ کے لئے جو جنگ اُحد میں شہید ہوئے تھے اسی طرح فرمایاتھا۔ورنہ کون کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے سلسلہ احمدیہ کی ترقی وابستہ ہے یا فلاں شخص سے جو ہم میں نہیں رہا وابستہ تھی۔ خداتعالیٰ کسی کا محتاج نہیں بلکہ ہر ایک انسان اُس کا محتاج ہے۔پس میں یہ ذکر اِس طور پر نہیں کرتا کہ ہمارے اس بھائی کے فوت ہوجانے سے سلسلہ احمدیہ کو کوئی نقصان پہنچا ہے کیونکہ نقصان کسی آدمی کے جانے سے نہیں پہنچ سکتا ۔ خداتعالیٰ جس نے اِس کو قائم کیا ہے وہی اِس کو چلاتا ہے۔ ہاں ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ایک انسان کا انجام اچھا ہو گیا اور اس طرح ذکر کرنے سے لوگوں میں اُس کے متعلق دعا کرنے کی تحریک ہوتی ہے ۔ اِسی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے صحابہؓکا ذکر فرمایا تھا اور اِسی رنگ میں حضرت مسیحؑ نے ذکر کیا۔ اور اِسی رنگ میں میں ذکر کرتاہوں۔
میں نے قاضی عبدالحق صاحب کو دیکھا ہے آپ ترجمۃ القرآ ن کا کام کرتے تھے ان کی محنت میرے لئے قابل حیرت ہوتی تھی۔ میں بڑا تیز لکھنے والا ہوں اور خدا کے فضل سے بہت تیز لکھ سکتا ہوں ۔ اور بھی تیز لکھنے والے ہوں گے لیکن میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ مجھ سے زیادہ تیز لکھ سکتا ہو، میں مضمون کے سَو سَوا سَوا صفحے ایک دن میں لکھ سکتا ہوں لیکن میں نے دیکھا ہے کہ اگرچہ ترجمہ کرنے کا کام مشکل ہوتا ہے تاہم اگر میں تھوڑی دیر کے لئے بھی ترجمۃ القرآن کے کام کو چھوڑ کر کسی اَور کام میں لگ جاتا تو یہ نہیں ہوتا تھا کہ قاضی صاحب مجھ سے پیچھے رہ جاتے ۔ میں جب یہ سمجھتا کہ اب ان کے پاس کافی مضمون ہو گیا ہے اور کسی اَور کام میں مصروف ہوتا اور اُن سے ترجمہ کے متعلق پوچھتا۔تو وہ یہی کہتے اَور مضمون دیجئے پہلا ختم ہو چکا ہے۔ اور پھر اس کام کے ساتھ وہ مدرسہ میں بھی پڑھاتے ۔ پھر میں رات کے وقت مقابلہ کرنے کے لئے اُن سے ترجمہ سنتا تو گیارہ او ربارہ بجے را ت تک سناتے رہتے۔ دس بجے تک تو ضرور ہی سناتے اس کے بعد وہ اپنے مکان پر جاتے تھے۔ گویا عصر سے لے کر کم ازکم رات کے دس بجے تک میرے پاس رہتے اس کے بعد جا کر ترجمہ کرتے اور صبح مدرسہ میں پڑھاتے۔ پھر یہ کام ایک دن کانہ تھابلکہ ایک لمبے عرصہ تک ہوتا رہا لیکن وہ اِس سے ذرا نہ گھبرائے اور جس طرح ایک چیز کی حرص ہوتی ہے اِسی طرح مجھ سے کام مانگ لیتے اور کہتے کہ فلاں کام بھی میرے سپرد کر دیا جائے۔ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے انعام پانے سے خالی نہیں رہتے۔ وہ لوگ جو ان کے کام سے واقف ہوتے ہیں ان کے منہ سے ان کے لئے بے اختیار دعائیں نکلتی ہیں۔ چنانچہ قاضی صاحب کی بیماری میں میں نے دیکھا ہے یہاں کے لوگ بڑے فکر سے ان کے لئے دعائیں کرتے تھے۔ یہ ان کے اُس کام کا نتیجہ تھا جو انہوں نے خدا تعالیٰ کے لئے کیا۔ میں نے بھی ان کے لئے دعائیںکیں اور ہماری جماعت کے لوگوں نے بھی کیں۔ خداتعالیٰ جب چاہتا ہے کسی دعا کو قبول کرتا ہے اور جب نہیں چاہتا، نہیں کرتا لیکن اگر جس رنگ میں دعاکی جائے اُس رنگ میں قبول نہ ہو تو جس کے لئے دعا کی جائے اُسے کوئی اَور فائدہ پہنچ جاتا ہے اور اس کے لئے ترقی مدارج کا باعث ہو جاتی ہے۔ ہم نے جو دعائیں قاضی صاحب کے متعلق کیں یقینا وہ ان کے لئے ترقی مدارج کا باعث ہو گئیں۔تو خدا تعالیٰ اپنے راستہ میں کام کرنے والوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔
پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ جو اِس آیت کے مستحق ہیں وہ اَور زیادہ ترقی کریں او ریہ نہ سمجھیں کہ بس ہم پوری ترقی کر چکے ہیں ۔اور جو مستحق نہیں وہ مستحق بننے کی کوشش کریں اور ایسی محنت اور کوشش کریں کہ خدا تعالیٰ کے حضور اِنہی میں شامل ہو جائیں جن کے متعلق آیاہے کہ ایسے لوگوں کی خداتعالیٰ دنیا میں بھی قبولیت بڑھا دیتا ہے اور ان کے لئے لوگوں کے منہ سے دعائیںنکلتی ہیں۔
سو یہ میری نصیحت ہے اِس کوخوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جو کچھ کوئی خرچ کرتا ہے وہ ضائع نہیں جاتا اِ س لئے اپنے مالوں، اپنی جانوں، اپنے وقتوں غرضیکہ ہر ایک چیز کو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرو۔ اورجو تم میں سے اعلیٰ نمونہ رکھتے ہیں اُن کو دیکھو اور اُن کے نقش قدم پر چلو تاکہ ان میں شامل ہو جائوجن کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ ۔ اِس دنیا کی زندگی بہت قلیل ہے اس قلیل عرصہ کو ضائع نہ جانے دو۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ اِس کا ہر ایک فرد اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرے کہ اسے خداتعالیٰ کے قرب کا مقام حاصل ہو جائے۔‘‘ (الفضل ۹؍ستمبر۱۹۱۶ئ)
۱ ؎ الاحزب: ۲۳،۲۴
۲؎ اصابہ جلد ۳ صفحہ ۲۶۹ حالات ضرار بن از در
۳؎ سیرت ابن ہشام حالات غزوۂ خندق
۴ ؎ فتح الباری جلد ۷ صفحہ ۳۰۴،۳۰۵
۵ ؎ الوصیت صفحہ ۵۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۳
۶ ؎ تذکرہ صفحہ۵۳۹۔ ایڈیشن چہارم(ترتیب کے اختلاف کے ساتھ)
۷؎ اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ حالات خالد بن ولید+ تاریخ الخمیس جلد ۲ صفحہ ۲۷۵
۲۸
جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے وہ دوسروں کو دو
(فرمودہ یکم ستمبر ۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اورسورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل سورۃ کی تلاوت کی۔
۱؎
پھرفرمایا:۔
’’بخل اور کنجوسی اُسی وقت انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے جبکہ اُس کا ہاتھ تنگ ہو یا اُسے اِس بات کا خطرہ ہو کہ میرا ہاتھ تنگ ہو جائے گااس کے سِوا بخل نہیںپیدا ہوتا۔ لوگ اِس ہوا سے جو تمام انسانوں کے لئے خداتعالیٰ نے بنائی ہے سانس لیتے ہیںاور سانس لے کر اس پاک اور طیب ہوا کو جسے خداتعالیٰ نے انسانی زندگی کے قیام اور طاقت دینے کا باعث بنایا ہے خراب اور گندہ کرکے اپنے منہ سے نکال دیتے ہیں۔ کوئی دنیاکی غذا اور کوئی کھانے پینے کی شے یا کوئی ایسی بیرونی چیز جو نفس انسانی کے لئے آرام دینے والی ہے ایسی قیمتی نہیں جیسی کہ ہوا ہے کیونکہ ہر چیز کے بغیر انسان کچھ مدت تک گزاراہ کر سکتا ہے ۔ اگر کپڑے نہیں تو چھپ کرکہیں بیٹھ سکتاہے اور ایک دو دن کے لئے بلکہ دو تین چار مہینے تک بیٹھا رہ سکتا ہے زندگی کو اِس سے کوئی حرج نہیں ہوگا۔ اِسی طرح پانی کے بغیر تین چار دن تک زندہ رہ سکتا ہے اور کھانے کے بغیر چار پانچ، چھ سات دن تک لیکن ہوا کے بغیر ایک گھنٹہ چھوڑ ایک منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔
غرض دنیا میں جتنی چیزیں انسان کو راحت اور آرام پہنچانے والی اور اس کی زندگی کو قائم رکھنے والی ہیں ان سب سے قیمتی اورمفید اور ضروری ہوا ہی ہے۔ کسی چیز کی قیمت اس کے فائدے اور ضرورت کے لحاظ سے ہوتی ہے اور پھر اپنی تعداد کے لحاظ سے ۔ بعض وہ چیزیں جو فائدہ رساں معلوم نہیں ہوتیں یا جن کی بظاہر کوئی ضرورت دکھائی نہیں دیتی پھر بھی وہ مفید اورضروری ہوتی ہیں گوہر ایک انسان ان کامحتاج نہیں ہوتا ان کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے۔ مثلاً موتی، ہیرے، لعل، جواہر، یہ ایک تو طبی لحاظ سے بڑے مفید ہوتے ہیں دوسرے تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں اوران کی ضرورت امراء اور دولتمندوں کو پڑتی ہے۔ یہ ایک ظاہر بات ہے کہ جس قدر اعلیٰ درجہ کا آرام ہے اُتنا ہی کم لوگوں کو میسر آتاہے چونکہ ایسی قیمتی چیزوں کی احتیاج بڑے لوگوں کو ہی ہوتی ہے اور یہ ان میں اور دوسرے لوگوں میں امتیاز پیدا کرنے والی چیزیں ہوتی ہیں اس لئے ان کی بڑی قیمت ہوتی ہے۔ تویہ باتیں کسی چیز کی قیمت کا فیصلہ کیا کرتی ہیں۔ اوّل ضرورت ۔ دوم فوائد۔ سوم تعداد۔ کبھی ایسا ہوتاہے کہ ایک چیز ضروری ہوتی ہے گو اُس کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ فوائد بھی نہیں ہوتے اور ضرورت بھی کوئی ایسی نہیں ہوتی لیکن جس حد تک دنیا میں اس کی ضرورت ہوتی ہے اس سے اس کا خزانہ کم ہو جاتا ہے اُس وقت بھی اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ مثلاً گیہوں، چنے، ماش، وغیرہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو بڑی کثرت سے پیدا ہوتی ہیں اس لئے ان کی قیمت ایسی ہوتی ہے کہ ہر ایک خرید سکتاہے مگرجب ان کی پیدائش میں کمی واقع ہوجاتی ہے تو قیمت بہت بڑھ جاتی ہے اس وقت کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ بھی ویسے ہی گیہوںیا چنے ہیں جیسے پچھلے سال تھے پھر ان کی قیمت کیوں بڑھا دی گئی ہے۔
ہوا میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسانی صحت کا مداراِسی پرہے دوسرے ہر وقت اِس کی ضرورت اور حاجت ہے اور ہر انسان کو ہے مگر باوجود اس کے کوئی شخص ہوا کے معاملہ میں بخل سے کام نہیں لیتا اور نہ ہی اس میں کنجوسی کرتا ہے۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کوئی کسی کو کہے کہ ہمارے گھر سے نکل جائو کیونکہ تمہارے سانس لینے اور سُونگھنے سے ہوا خراب ہو رہی ہے؟ خواہ کوئی کیسا ہی بخیل ہو، اپنے نفس پر کتنا ہی بخل کرنے والا ہو پھر بھی یہ کبھی نہیں کہے گا۔کیوں؟ اس لئے کہ وہ جاتنا ہے کہ خداتعالیٰ نے ہوا کا ایسا خزانہ کھولا ہؤا ہے کہ جس میں کمی نہیں آسکتی۔ اِسی بات کی وجہ سے اس کے دل میں بھی تنگی نہیں آتی حالانکہ فوائد اورضرورت کے لحاظ سے تمام اشیاء سے اُس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔
تو بُخل کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ انسان کا دل تنگی کرتاہے۔ وہ کہتا ہے اگرمیں نے یہ چیز خرچ کی تو میرے پاس کم ہو جائے گی۔ یا کم ہو جانے کا اسے خطرہ ہوتا ہے۔ مثلاًایک آدمی کے پاس اگر کروڑوں کروڑ روپیہ ہو تو گو وہ اِس قدر کم نہیں ہو گا کہ اسے تکلیف اُٹھانی پڑے تاہم وہ ڈرتاہے کہ اگر میں نے خرچ کیا تو کم ضرور ہو جائے گا۔ اِسی طرح ایک غریب آدمی جس کے پاس ایک دو روپے ہوں وہ بھی خرچ نہیں کرتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر ان کو میں نے خرچ کر دیا تو ضرورت کے وقت مجھے تکلیف ہوگی۔ غرض بُخل اِسی طرح پیدا ہوتاہے کہ یا تو چیز کا کم ہو جانا خیال میں ہوتاہے یا کم ہو جانے کا خطرہ اور ڈر ہوتاہے لیکن جہاں یہ دونوں باتیں نہ ہوں وہاں اس کے خرچ کرنے میں کوئی شخص دریغ نہیں کرتا۔
مگر بڑا تعجب آتاہے اور بڑی حیرت ہوتی ہے کہ نادان انسان اپنی نادانی کی وجہ سے ادھر مال کے متعلق جو بُخل اور کنجوسی کرے اُس پر ہنسی کرتا اور اس کا بخیل اور کنجوس نام رکھتا ہے اور کہتا ہے کیا ہؤا اگر چیز کم ہو جاتی ہے توزیادہ بھی تو ہو ہی جاتی ہے ۔ پھر زندگی کا کیا اعتبار ہے ممکن ہے آج ہی جان نکل جائے اور تمام جمع کیا کرایا دھرا رہے۔ پھر مال تو ہاتھوں کی میل ہے ہاتھ سلامت رہے تو اَور مل رہے گا اور اگر ہاتھ ہی نہ رہے تو مال کی بھی ضرورت نہ رہے گی غرض بہت زور اور دلائل کے ساتھ بخیل پر ہنسی اور ملامت کرتاہے مگر باوجود اِس کے اُس کے کئی معاملات ایسے ہوتے ہیںکہ جن کے متعلق وہ دوسروں پر اعتراض کرتا بلکہ ان کے خلاف وعظ اور نصیحت بھی کرتا ہے لیکن ان میں وہ خود بُخل سے کام لیتا ہے اور پھر تعجب یہ ہے کہ ایسی چیزوں میں بخل کرتا ہے جن کے کم ہونے کا بالکل خطرہ نہیں ہوتا۔ ایک مالدار بُخل کرتاہے مگر اُس کی وجہ وہ یہ قرار دیتا ہے کہ اگر میں خرچ کروں تو شاید میرا مال کم ہوجائے ۔ حتیٰ کہ اِسی خیال میں وہ مر بھی جاتا ہے اور خود بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا ۔ بے شک ایسا شخص قابلِ الزام ہے اور بے شک اس نے اللہ پر بھروسہ نہیں کیا اوربے شک بنی نوع انسان پر کہ جس کی ہمدردی اور مدد اِس پر فرض تھی اس نے کچھ خرچ نہیں کیا مگر پھر بھی وہ ایک حد تک معذور ہے کیونکہ جو خزانہ اس کے پاس ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو تاہم خرچ کرنے سے کم ہو ہی جاتا ہے اورکسی انسان کے پاس کوئی ایسا خزانہ نہیں جو کم نہ ہوتا ہو۔ سب سے بڑا خزانہ حکومتوں کا ہوتا ہے لیکن دیکھو اس کے کم ہونے کے بھی اسباب پیدا ہوہی جاتے ہیں۔ موجودہ جنگ میں ہی دیکھ لو گورنمنٹ برطانیہ کا سات کروڑ روپیہ روزانہ خرچ ہے۔ گوکوئی شخص گورنمنٹ جتنا مالدار نہیں ہو سکتا مگر فرض کر لو اگر کسی کے پاس اتنا ہی خزانہ ہو تو بھی اس کے لئے ایسے مصارف نکل سکتے ہیں کہ وہ خرچ ہوسکتاہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک امیر جب مرا تو اُس نے لاکھوں روپیہ اپنے پیچھے چھوڑا۔ اُس کا ایک لڑکا تھا، لڑکے نے اپنے دوستوں یاروں کو بلا کر مشورہ کیا کہ میرے پاس جو اِس قدر روپیہ ہے اسے کس طرح خرچ کیا جائے؟ کسی نے کوئی طریق بتایا کسی نے کوئی لیکن اُسے کوئی پسند نہ آیا۔ ایک دن وہ بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک بزاز کے کپڑا پھاڑنے کی آواز اُسے سنائی دی ۔ وہ آواز اُسے ایسی پسند آئی کہ گھر میں آکر کپڑے کے تھان منگوا منگوا کر پھڑوانے شروع کر دئیے اور چر چر کی آواز سننے لگ گیا۔ اِسی طرح اُس نے اپنا سارا روپیہ برباد اور تباہ کر دیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں مفلس اور نادار ہو گیا۔ تو خواہ کسی کے پاس لاکھوں روپے ہوں یا کروڑوں پھر بھی ایسے مصارف نکل سکتے ہیں کہ وہ خرچ ہو کر اُسے نادار بنا دیں اِس لئے اگر کسی کے پاس خواہ کتنا ہی روپیہ ہو تاہم اگر وہ یہ خیال کر کے کہ اگر میں اِسے خرچ کروں گا تو کم ہو جائے گا اس لئے خرچ نہیں کرتا تو ایک حد تک معذور ہے کیونکہ اس کا خزانہ ایسا ہے کہ ضرور خرچ ہو کر کم اور ختم ہو سکتاہے۔ لیکن جس طرح ہوا کا خزانہ کبھی ختم نہیں ہوتا اس لئے اس میں جو بخل کرنے والا ہو بڑا ملزم ہے اِسی طرح علم کا خزانہ ہے یہ بھی کبھی ختم نہیں ہوتا اس میں بھی بخل کرنے والا بہت بڑا مجرم ہے ۔ پھر علم کا خزانہ نہ صرف یہ کہ کم نہیں ہوتا بلکہ جتنا خرچ کیا جائے اُتنا ہی زیادہ ترقی کرتا ہے اور دوسری چیزوں کے خلاف اِس میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ خرچ کرنے سے خرچ ہو جاتی ہیں لیکن علم ایک ایسی دولت ہے کہ جتنا خرچ کیا جائے اُتنا ہی بڑھتاہے اور جو لوگ اِس کو خرچ نہیں کرتے اور خرچ کرنے کے عادی نہیں ہوتے اُن سے چھین لیا جاتاہے۔ ایک بخیل روپیہ جمع کرتاہے تو اُس کا خزانہ بڑھتا ہے لیکن برخلاف اِس کے ایک عالم اگر علم جمع کرتا جاتا اور اُسے خرچ نہیں کرتا تو اُس کاخزانہ گھٹتا جاتا ہے۔ مثلاً اگر ایک شخص کو کہا جائے کہ تم محنت و مزدوری کر کے روپیہ جمع کرتے ہو اور دوسرے کو کہا جائے کہ تم علم پڑھ کر اکٹھا کرتے رہو تو کچھ عرصہ کے بعد اِن دونوں کا مقابلہ کیا جائے گا تو وہ جو روپیہ کماتا اور اسے خرچ نہ کرتابلکہ جمع کرتاتھا اس کے پاس بہت سا روپیہ ہو گا لیکن وہ جو علم پڑھ کر اُسے خرچ نہیں کرتارہا اُس نے کچھ کھو دیا ہو گا ۔کیونکہ مالدار اگر روپیہ کو جمع کرتا رہتا ہے تو روپیہ ویسے کا ویسا ہی پڑا رہتا ہے لیکن اگر علم کو رکھ چھوڑا جائے تو ذہن اُس خزانہ کو ردّی حالت میں کر دیتا ہے۔ مگر باوجود اس کے کس قدر افسوس اور تعجب کا مقام ہے کہ مال میں بخل کرنے والوں پر ہنستے اورانہیں بُرا بھلا کہتے ہیں لیکن بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کوخداتعالیٰ نے عقل دی، فہم دیا، علم دیا، سمجھ دی وہ ان چیزوں کے خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں حالانکہ اگر وہ غور کریں تو اُنہیں معلوم ہو جائے کہ ان کے بخل کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
مسلمانوں میں ایک جماعت اِس قسم کی پید ا ہو گئی تھی کہ جو صوفی کہلاتے تھے۔ ان کو اگر کوئی بات معلوم ہو جاتی تو اس کو بڑا چھپا چھپا کر رکھتے اور دوسرے کو نہ بتاتے تھے۔ ہاں مرنے کے وقت اگر کسی پر بڑے ہی خوش ہوتے اور اس پر بڑا ہی انعام کرنا چاہتے تو کوئی ایک آدھ بات بتا دیتے اور اسی طریق عمل کو بہت اچھا سمجھتے حالانکہ اِس کا نتیجہ بہت خطرناک نکلا۔ اس طرح کرنے سے ان کی اولاد ان سے جاہل نکلی ، اُن کی اولاد اُن سے جاہل نکلی، پھر ان کی اولاد ان سے جاہل نکلی اورآخر کار یہ ہوا کہ مسلمانوں میں کچھ نہ رہا۔ نہ علم رہا نہ تقوی رہا، نہ فہم رہا نہ عقل رہی، تمام علوم و فنون میں یہی حال ہو گیا تھا۔ اگر کسی طبیب کو کوئی اچھا نسخہ ہاتھ آجاتا تو وہ دوسرے کو نہ بتاتا جس کا نتیجہ یہ ہواکہ یہ علم ہی محدود ہو گیا اور اب دیکھ لو طب کیسی ردّی حالت میں پہنچ گئی ہے۔ یا تو وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں میں بڑے بڑے طبیب اور معالج تھے مگر ان کے آگے دوسروں کو نہ بتانے کی وجہ سے آہستہ آہستہ اعلیٰ اور اچھے نسخے مٹتے گئے اور آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک خاندان ترقی کر لیتا ہے لیکن اس کے بعد میں آنے والے افراد اِس قابل نہیں ہوتے کہ کاروبار کو سنبھال سکیں لیکن چونکہ اس خاندان کی وہ باتیں جن سے اُس نے ترقی کی ہوتی ہے اُنہی تک محدود ہوتی ہیں اِس لئے اُن کے تباہ ہونے کے ساتھ ہی وہ بھی تباہ ہو جاتی ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کسی حجام کی نسبت فرماتے تھے کہ اُس کو ایک ایسا اچھا مرہم بنانا آتا تھا کہ خواہ کیسا ہی گندہ اور بگڑا ہوا زخم ہو اس سے اچھا ہو جاتا تھا لیکن وہ اس مرہم کا بنانا کسی اور کو نہ بتاتا تھا حتیٰ کہ اپنے بیٹوں کو بھی نہ بتاتا تھا۔ جب وہ مرنے لگا تو اُس کے بیٹوں نے کہا اب تو آپ ہم سے جدا ہونے لگے ہیں اب ہی وہ مرہم بنانا بتادیں۔ وہ کہنے لگا میں تم کو بتا تو دیتا لیکن ابھی مجھے امید ہے کہ میری زندگی باقی ہے اگر میں اچھا ہو گیا تو پھر کیا ہو گا؟ وہ اِسی مرض میں مرگیا اور مرہم کے متعلق نہ ہی بتایا ۔
اِسی طرح ہزاروں علوم ایسے تھے کہ جو لوگوں کی نادانی اور جہالت کی وجہ سے مٹ گئے۔ ان کے جاننے والوں نے انہیں اپنے سینے کی قبر میں ایسا دفن کیا کہ وہ پھر نہ نکل سکے اور اس طرح گھٹتے گھٹتے بالکل ناپید ہو گئے۔ دیکھ لیجئے ۔ آجکل طب ایسی گر گئی ہے کہ کوئی پوچھتا تک نہیں اور ڈاکٹروں کی موجودگی میں طبیبوں کی طرف کوئی توجہ بھی نہیں کرتا ۔
ڈاکٹروں نے کوئی نئی طب نہیں بنائی بلکہ یہ وہی پرانی طب ہے اور یورپ نے مسلمانوں سے ہی سیکھی ہے لیکن جب ان کے پاس گئی اور اُنہوں نے اِس پر عمل درآمد اور تجربہ کرنا شروع کر دیا اور جو نئی بات کسی کو معلوم ہوئی اُس کی خوب شہرت کی اور اچھی طرح پھیلادی اور اِس طرح ایک کی بات دوسرے کو ، دوسرے کی تیسرے کو، تیسرے کی چوتھے کو پہنچتی گئی اور ایک نے دوسرے کی مدد سے اور دوسرے نے تیسرے کی مدد سے اور تیسرے نے چوتھے کی مدد سے ترقی کرنا شروع کردی۔ اور ہوتے ہوتے آج یہ حالت ہوگئی کہ جس طرح ایک گٹھلی اورآم میں بہت بڑا فرق ہوتاہے اور جس طرح ایک خو بصورت پھول اور اس کے بیج میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے حالانکہ پھول اُسی بیج سے نکلا ہوتا ہے مگر دونوں کی حالت میں اتنا بڑا فرق ہوتا ہے کہ ایک کا دوسرے سے مقابلہ نہیں ہو سکتا ۔ اگر بیج کسی کے ہاتھ کو لگ جائے تو جھاڑ کر پھینک دے گاکہ کیا لگ گیا ہے لیکن پھول کو بڑے شوق اور پیار سے باربار ناک کے ساتھ لگائے گا۔ اِسی طرح گو ڈاکٹری طب سے ہی نکلی ہے مگر بڑھتے بڑھتے ایک عظیم الشان درخت ہو گئی ہے کہ دونوں میں کوئی نسبت نہیں رہی۔
اہل یورپ نے چونکہ اس کے بڑھانے میں کوئی بخل نہیں کیا اگر ایک کا علم ختم ہو گیا تو آگے دوسرے نے شروع کر دیا، دوسرے کا ختم ہو گیا تو تیسرے نے شروع کر دیا، تیسرے کا ختم ہو گیا تو چوتھے نے شروع کر دیا۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ اگر ایک بات ایجاد کر لیتا تو دوسرے کو نہ بتاتا اِس لئے دوسرے کو اگر وہی بات ایجاد کرنی ہوتی تو اسے بھی اُتنی ہی محنت کرنی پڑتی جتنی کہ پہلے نے کی ہوتی لیکن اب یہ ہوا کہ ایک نے ایک دروازہ کھول دیا اور وہ تھک کر بیٹھ گیا تو دوسرا کھڑا ہو گیا اور اُس نے دوسرا دروازہ کھول دیا، تیسرے نے اُس سے اگلا کھول دیا اِس طر ح آہستہ آہستہ وہ اِس حد تک پہنچ گئے کہ بہت بڑا فرق ہو گیا۔
دہلی میں ایک طبی جلسہ پر وائسرائے نے کہہ دیا تھا کہ دیسی طب اور ڈاکٹری دراصل ایک ہی ہے لیکن یہ سن کر ڈاکٹروں نے اِس پر بڑا شور مچایا کہ ہماری ہتک کی گئی ہے کیونکہ یہ غلط ہے کہ دیسی طب اور ڈاکٹری ایک ہی ہے۔اگرچہ اُن کا شور مچانا ایسا ہی تھا جیسے کوئی محسن کش جب کوئی عہدہ پا لیتاہے تو ماں باپ سے ملنا بھی عار سمجھتا ہے ۔ ایک مجسٹریٹ کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بہت غریب خاندان سے تھا۔ اُس کا باپ اُس سے ملنے کے لئے آیا تو بے دھٹرک اُس کے پاس کرسی پر جا بیٹھا ۔ اہل کاروں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو اُس نے کہایہ ہمارا خدمت گار ہے۔ تو بعض کم عقل جب ترقی کر جاتے ہیںتو اپنے اصل منبع اور مخرج کی طرف منسوب ہونا بھی ہتک سمجھتے ہیں اِسی طرح ڈاکٹری والے بھی چونکہ بہت ترقی کر گئے ہیں اور طب والے بہت گر گئے ہیں اِس لئے وہ ان کی طرف منسوب ہونا ہتک سمجھتے ہیں۔ چونکہ طب والوں نے اس علم کو پھیلایا نہیں اِس لئے اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کم ہو گیا اور ڈاکٹری والوں نے اسے خوب پھیلایا اِس لئے وہ بہت ترقی کر گیا۔
صحابہ کرام ؓ کے پاس کوئی چیز ایسی نہ تھی جو انہوں نے چھپا رکھی ہو سوائے اُن خاص باتوں کے کہ جو ابتلاء کا موجب بن سکتی تھیں یا ایسی کیفیات جن کا بیان کرنا ہی ناممکن تھا۔ صحابہ کو تو عمدہ اور مفید باتوں کی اشاعت کرنے کا یہاں تک شوق تھا کہ ایک صحابی ؓ جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات بتائی تھی اور فرمایا تھا کہ یہ خاص تیرے ہی لئے ہے اِسے کسی کو نہ بتائیو جب فوت ہونے لگا تو اُس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک بات بتائی تھی اور فرمایا تھا کہ یہ کسی کو نہ بتانا اس لئے میں اس کے بتانے سے ڈرتا ہوں لیکن قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم ہے کہ جو اچھی بات تمہیں معلوم ہو وہ دوسروں کو بتائو اب میں کروں تو کیا کروں۔ آخر کاراُس نے یہی فیصلہ کیا کہ میں یہی پسند کرتا ہوں کہ بجائے اس کے کہ خاموش رہوں بتا ہی دوں اورنہ بتانے کے گناہ کے مقابلہ میں بتانے والا گناہ اُٹھا لوں۔ ۲؎ تو صحابہؓ اِس قدر جوش رکھتے کہ دوسروں کو ہر ایک ایسی بات سے جسے وہ اپنے لئے مفید سمجھتے تھے بتا دیتے تھے، اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں ہر قسم کے علوم و فنون بڑھے لیکن مسلمانوں پر ایک ایسا زمانہ آیاجبکہ وہ ہر ایک اچھی بات کو چھپاچھپا کر رکھتے تھے۔ طبیب اپنے نسخوں کو، مولوی اپنے وِردوں کو ، صوفیاء اپنے رنگوں کو دوسروں پر ظاہر نہیں کرتے تھے اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ ان میں علم رہانہ نیکی رہی ، نہ تقویٰ رہا نہ برتری رہی۔ جنس کو دیکھ کر جنس ترقی کیا کرتی ہے لیکن جب انہوں نے دین کی باتیں بھی چھپانی شروع کیںتو نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دنیاوی علوم سے بھی جاہل ہو گئے اور ان کی اولاد بھی جاہل ہو گئی ۔ اگر وہ ایک دوسرے کو بتاتے اور ان باتوں کو پھیلاتے تو آج ان کی یہ حالت ہر گز نہ ہوتی۔
تعجب کی بات ہے کہ ہماری جماعت میں سے بھی بعض لوگ ایسے نکل آئے ہیں کہ جو نیکی کی باتوں کو پھیلانا نہیں چاہتے ۔میں نے پچھلے دنوں دعا کے متعلق خطبے پڑھے تھے ان کے متعلق کسی شخص کا میرے نام خط آیا۔ اُس کا نام تو پڑھا نہیں گیا لیکن چونکہ اُس نے میری طرف خط لکھا ہے اِس لئے خیال گزرتا ہے کہ وہ احمدی ہی ہو گا۔ وہ لکھتا ہے کہ’’ آپ نے قبولیت دعا کے متعلق طریق بتا کر پوشیدہ اورسر بستہ راز کھول دیئے ہیں یہ تو بڑی محنتوں اور مشقتوں کے بعد کسی کو نصیب ہوا کرتے تھے۔ کوئی بہت ہی دعائیں کرنے والا اور خدا کے حضور گریہ وزاری کرنے والا ہوتا تو اسے ان طریق سے کوئی ایک القاء کیا جاتا لیکن آپ نے تو یونہی سب بتا دئیے ہیں اور اب ہر ایک ان سے آگاہ ہو جائے گا۔‘‘ اِس بات پر وہ بڑی حیرانی ظاہر کرتا ہے اورآخر لکھتا ہے کہ’’ اصل بات یہ ہے کہ آپ بھی مجبور تھے آپ ایک جماعت کے امام جو ہوئے اس لئے اپنی جماعت کی محبت کے جوش میں آکر آپ سے یہ حرکت ہو گئی ہے۔ ‘‘
دیکھئے! اُدھر اس کو تو یہ صدمہ ہوا ہے کہ میں نے یہ طریق ظاہر کیوں کر دئیے ہیں لیکن اِدھر مجھے خداتعالیٰ نے اپنی قدرت کا ایک اَور نمونہ دکھایا ہے۔ جب میں خطبہ پڑھ کر گھر گیا تو دل میں آیا سوائے دو تین طریقوں کے جو وقت کی تنگی کی وجہ سے بیان نہیں ہو سکے باقی سب میں نے بیان کر دیئے ہیںاور یہ جو مجھے یاد ہیں اِن کے علاوہ اور کوئی طریق نہیں ہے لیکن اُسی وقت جب کہ جمعہ کا دن اوررمضان المبارک کا مہینہ تھا میں نے دعا شروع کی تو خداتعالیٰ نے کئی نئے طریق مجھے اَور بتا دئیے ۔ میں نے سمجھا تھا کہ وہبی طریق کو چھوڑ کر جن کو انسان بیان ہی نہیں کرسکتا جس قدر بھی کسبی طریق ہیں اور جنہیں ہر ایک انسان استعمال کر سکتا ہے وہ سب میں نے اخذ کر لئے ہیں لیکن جاتے ہی خداتعالیٰ نے چار پانچ طریق اَور بتا دیئے ۔ گویا جب میں نے جگہ خالی کی تو اَور آگئے۔ علم کا خلااُس کا پھیلانا ہی ہوتا ہے یہ نہیں کہ وہ نکل جائے۔ دوسری چیزیں اُس وقت خلاپیدا کرتی ہیںجبکہ وہ خود نکل جائیں لیکن علم باوجود موجود رہنے کے خرچ کرنے سے خلا پید ا کردیتا ہے۔ پس مجھے تو بجائے کسی بھی قسم کا نقصان یاکمی ہونے کے فائدہ ہی ہوا کہ خداتعالیٰ نے اَور طریق سکھا دیئے۔ لیکن اُس کو خواہ مخواہ افسوس کرنا پڑا۔
یہ ایک غلطی ہے جو بڑی خطرناک ہے۔ چھپانے والی چیز تو وہ ہوا کرتی ہے جو بُری اور خراب ہواچھی چیز تو ظاہر کرنے کے لئے ہوا کرتی ہے۔ پھر وہ چیز جس میں کبھی کمی نہیں آسکتی بلکہ بڑھتی ہے پھر اُس کے چھپانے کی کیاوجہ ہو سکتی ہے۔ اسلام کی تعلیم تو ایسی ہی ہے کہ جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ خداتعالیٰ آنحضرت ﷺ کو فرماتا ہے ۔ کہ ہم نے تمہیں جو علم دئیے ہیںوہ ایک ایسی نہر ہے کہ جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی اور جس کی تہہ نہیں ہے۔ ایسی نہر پر جو لوگ کھڑے ہوں اُن سے اگر کوئی ایک گلاس مانگے اور وہ کہیں نہیں دیتے تو ان سے بڑھ کر بخیل اور کنجوس اور کون ہو سکتا ہے۔ جس طرح ہو اسے کوئی بخل نہیں کرتا اِسی طرح اسلام کی تعلیم سے دوسروں کو واقف کرنے سے اُس وقت تک کوئی بخل نہیں کرتاجب تک کہ جاہل مطلق اور نادان نہ ہو۔ اگر کوئی ایسی نادانی کرتاہے تو اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کے علم میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے اور آخر کار با لکل بیکار ہو جاتاہے۔
مجھے تو اگر خداتعالیٰ کوئی نکتہ سمجھاتاہے یا کوئی علم دیتا ہے تو میں تو یہی چاہتا ہوں کہ جس طرح ہو سکے دوسروں تک پہنچادوں۔ اِس سے ایک تو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ فائدہ جو مجھے حاصل ہو رہا ہوتاہے وہی دوسروں کو ہونے لگتا ہے۔ پھر اس پر ترقی کر کے وہ جو باتیں پیدا کریں گے وہ مجھے مل جائینگی اور میں اُن سے فائدہ اُٹھا لوں گا لیکن وہ لوگ جو کسی بات کو اپنے تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں ایک خطرناک مرض میں مبتلا ہیں۔ آپ لوگوں کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے اِس مرض کے دور کرنے کی کوشش کریں اور جو اچھی اورعمدہ بات خواہ دین کے متعلق ہو یا دنیا کے اُنہیں بتانے سے دریغ نہ کیا جاوے یہ ترقی کا بہت بڑا راز ہے، اگر کوئی اِس کو سمجھ لے تو اُس کا علم روزانہ ترقی کرتا رہے گا۔
پس ہماری جماعت کے لوگوں کو خوب یاد رکھنا چاہئے کہ جس چشمہ سے ان کے علوم نکلتے ہیں وہ کوثر ہے اور ہمارے تمام علوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشہ چینی اور آپ کے طفیل ہیں اور اس چشمہ کا نام خداتعالیٰ نے کوثر رکھا ہوا ہے کہ جس میں کبھی کمی نہیں آسکتی بلکہ جس قدر بھی ضرورت ہو اُس سے بڑھ کر اِس میں سے نکلتا رہتا ہے۔ کوثر اُس چشمہ کا بھی نام ہے جو جنت میں ہو گا اُس میں بھی کمی نہیں آتی مگر اسلام کی تعلیم جہاں سے نکلتی ہے اُس کانام بھی کوثر ہے۔ پس جس چشمہ سے ہم پانی لیتے ہیں اُس کا نام خداتعالیٰ نے کوثر رکھا ہوا ہے۔ پھر کیسی نادانی ہوگی اگر کوئی یہ خیال کرے کہ اس میں سے خرچ کرنے سے کمی آجائیگی اورپھر یہ کیسی نادانی ہوگی کہ کوئی مانگے اور ہم نہ دیں، پھر یہ بھی کیسی نادانی ہو گی کہ جو مانگنا نہیں جانتے اُن کو ہم خود نہ پہنچائیں۔ وہ قوم جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت کوثر ملا ہے اُس کا یہ کام ہونا چاہئے کہ اگر اس سے کوئی نادانی اور جہالت کی وجہ سے نہیں مانگتا تو بھی وہ اسے خود بخود دے اورسیراب کرے۔ جس کو خداتعالیٰ نے علم دیا ہے وہ علم کو پھیلائیں اور جن کو کوئی اَور بات معلوم ہے وہ اُسے شائع کریں اور ذرا بھی بخل نہ کریں۔
اِس زمانہ میں ہماری جماعت کو خداتعالیٰ نے اس کوثر کا داروغہ مقرر کیا ہے ۔تیرہ سَو سال میں متفرق جماعتوں کے ہاتھ میں وہ رہا مگر اب خداتعالیٰ نے ان سب سے چھین کر ہمیں دے دیاہے اس لئے ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ لوگ جو اس آبِ حیات کے بغیر مر رہے ہیں اُن تک پیالے بھر بھر کر پہنچائے اور اُنہیں پکڑ پکڑ کر پلائے اوریاد رکھے کہ اِس چشمہ میں کبھی کمی نہیں آسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت تمہیںاِسی لئے دی ہے کہ تم خود بھی اس سے فائدہ اٹھائو اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائو۔
دیکھو بعض امیر مال تقسیم کرنے کے لئے داروغے مقرر کرتے ہیں لیکن اگر وہ داروغے مستحق لوگوں کو مال دینے سے دریغ کریں تو اُنہیںہٹا دیتے ہیں اور ان سے وہ کام چھین کر اَور کو دے دیتے ہیں۔ اِسی طرح دین کے متعلق ہے وہ جو اسے تقسیم نہیں کرتے اور بے دینوں میں نہیں پھیلاتے اُن سے چھین لیا جاتاہے۔ پس تم میں سے ہر ایک وہ جس کو قرآن یا حدیث یا جو کچھ بھی آتا ہے وہ دوسروں کو پڑھائے اور یہ خیال نہ کرے کہ اُس کے علم میں کمی آجائے گی۔ اس کے منہ سے نکل کر کوئی بات دوسرے کے کان تک نہیں پہنچے گی کہ اسے ایک اور بات حاصل ہو جائے گی۔ میں نے اس بات کا خوب تجربہ کر کے دیکھا ہے اور جس طرح رؤیت کے متعلق شہادت دی جاسکتی ہے اسی طرح میں اس کے متعلق دیتا ہوں کہ کوئی بات اپنی جگہ سے نہیں ہلتی کہ خداتعالیٰ کی طرف سے اُس سے زیادہ نہیں مل جاتی ہے اور بیسیوں گنے زیادہ ملتی ہے گویا لوگوں کو بتانا ایک ڈاٹ ہوتا ہے کہ اس کو جب کھول دیا جاتا ہے تو اس زور سے دھار نکلنا شروع ہو جاتی ہے کہ بعض اوقات انسان اُٹھابھی نہیں سکتا۔ پس تم لوگ کسی بات کے پہنچانے میں کبھی بخل مت کرو۔ جہاں تک ہو سکے دوسروں کو پہنچائو۔ اور جو علم بھی خداتعالیٰ نے تمہیں دیا ہے اُسے اُن تک پہنچانے میں لگے رہو جن کے پاس اس سے تھوڑا ہے یا جن کے پاس بالکل ہی نہیں۔ وہ تم سے دور بھاگیںگے لیکن تم انہیں پکڑپکڑ کر دو۔ وہ تم سے نفرت کریں گے لیکن تم اُن کو محبت سے دو۔ وہ تمہاری باتیں نہیں سنیں گے مگر تم اُن کو پیار سے سنائو۔
یہاں بعض لوگ علم دین حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں ان کو مشکل پیش آتی ہے حالانکہ ہمارا تو یہ فرض ہے کہ لوگوں کے گھروں میں جاکر پہنچائیں لیکن یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ لوگ ہمارے گھر چل کر آجاتے ہیں۔ پھر اگر ہم ان کو کچھ نہ سکھائیں تو کیسی نادانی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کو نہیں سکھاتا خواہ اِس کی کوئی وجہ ہو تو وہ یاد رکھے کہ اُس کا علم بڑھ نہیں رہا بلکہ کم ہو رہا ہے اور ایک دن اُس پر ایسا آئے گا کہ وہ ایک بیکار اور فضول جسم رہ جائے گا۔
خداتعالیٰ ہماری جماعت کے ہر ایک فرد کو اِس بات کی توفیق دے کہ جو علم خداتعالیٰ کی طرف سے اسے دیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچائے اور اپنے اوقات سے بچا کر کچھ وقت دین کے کاموں میں صرف کریں اور اس دین کو پھیلائے اور دنیا کے کونے تک پہنچانے میں لگ جائیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اِن کو ملا۔‘‘ آمین (الفضل ۲۳؍ستمبر۱۹۱۶ئ)
۱؎ الکوثر: ۲ تا ۴
۲؎ بخاری کتاب العلم باب مَنْ خَصَّ بِالعلم قَوْماً دُوْنَ قَوْمٍ
۲۹
ہر گُل کے ساتھ خار ہوتا ہے
(فرمودہ ۸؍ ستمبر۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :۔
’’سورۃ فاتحہ روزانہ بلکہ دن کے ہر تغیر کے وقت ہمیں بتاتی ہے اور اِس طرف متوجہ کرتی ہے کہ ہر انعام کے ساتھ کچھ مشکلات بھی لگی ہوتی ہیں اور کچھ خطرہ بھی ہوتاہے اورجس پر انعام نہیں ہوا ہوتا وہ ذمہ داریوں سے بھی بچا ہوتاہے۔ ایک جنگل میں رہنے والا انسان جس کو حکومت کے معا ملات میں کچھ دخل نہیں اُس سے کسی قسم کی پُرسش بھی نہیں لیکن ایک وزیر جہاں بادشاہ کا مقرب اورمنظورِ نظر ہے وہاں اُس کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں اور جس طرح اُس کے لئے یہ خوشی اور فخر کرنے کا مقام ہوتا ہے کہ اُسے عزت حاصل ہوتی ہے اِسی طرح اُس کے لئے یہ ڈرنے اورخوف کرنے کا بھی مقام ہوتا ہے کہ مجھ سے کوئی ایسی حرکت نہ ہو جائے کہ میں اپنے آقا کا معتوب ہو جائوں۔ تو سورئہ فاتحہ اِس طرف متوجہ کرتی رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے انعام مانگو لیکن ساتھ ہی اِن انعاموں کے ملنے پر یہ بھی خیال رکھو کہ ایسے افعال میں نہ پڑ جائوکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کر بیٹھو۔ دیکھو جتنے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے انعامات ہوتے ہیں اُن میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں کہ تکبر اور گھمنڈ میں آجاتے ہیں۔ چنانچہ امراء میں جس قدر تکبر، گھمنڈ، عداوت، بغض، کینہ، بیوفائی، بدعہدی وغیرہ وغیرہ افعالِ شنیعہ پائے جاتے ہیں غرباء میں اُن کی نسبت بہت کم ہوتے ہیں۔ کیوں؟ اِس لئے کہ ان پر جو مصائب اور تکالیف آتی رہتی ہیں وہ انہیں خداتعالیٰ کی طرف متوجہ کئے رکھتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ انعام ایک اچھی چیز ہے اس سے بہتر کیا ہوگا پھر خداتعالیٰ کا انعام ۔ لیکن جہاں انعام کی جستجو ہو وہاں یہ خیال بھی رکھنا چاہئے کہ انعام ملنے سے جو تکبر، خودی ،کبر یائی آجاتی ہے اُس سے بچیں۔
ہماری جماعت پر خداتعالیٰ نے بڑے فضل اور انعام کئے ہیں اگر وہ ان پر فخر کرے تو بجا ہے کیونکہ خداتعالیٰ نے انہی کے متعلق فرمایا ہے کہ ؎۱ لیکن ساتھ ہی انہیں یہ بھی فکر رکھنی چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو سمجھتے اور جانتے ہیںتو ان ذمہ داریوں کے نیچے بھی دبے ہوئے ہیں جو ان سے پہلوں کی تھیں۔ اب اللہ تعالیٰ تم سے پوچھ سکتا ہے کہ ہم نے جو تم پر اتنا بڑا احسان کیا تھا کہ تم نے خود بھی اسے محسوس کیا تھا اور اس پر فخر کرتے تھے پھر جب تم نے نافرمانیاں کیں، اپنے عہدوں کو ٹالا تو تمہاری کیا سزا ہونی چاہئے۔ جس طرح بادشاہ کا وزیر سب سے زیادہ مقرب ہو سکتا ہے لیکن قصوروارہونے کی حالت میں سب سے زیادہ سزا کا بھی مستحق ہوتا ہے اِسی طرح مُنْعَم ْجماعتیں جب ٹھوکر کھا تی ہیں تو بہت ہی بُری طرح گرتی ہیں۔ دیکھو بعض افراد کی عزت کی وجہ سے یہود خداتعالیٰ کے حضور بہت مُنْعَم ْ ہو گئے تھے ۔ پے درپے اُن میں سے نبی بنائے گئے، اُن میں انبیاء کا ایک سلسلہ چلا جا رہا تھامگر جب وہ گرے تو ایسے گرے کہ ذلت اور رُسوائی میں تمام قوموں سے بڑھ گئے۔
ہندو ئوں کا مذہب ان سے بہت پہلے کا مذہب ہے لیکن ان کی ابتک کچھ نہ کچھ حکومت چلی ہی جاتی ہے اور یہودیوں کی ایک چپہ زمین پر حکومت نہیں۔ ہندوجہاں بھی ہیں امن وامان سے گزارہ کرتے ہیں مگر یہود کبھی ایک ملک سے نکالے جاتے ہیں کبھی دوسرے سے حالانکہ یہ ہندوئوں سے بہت بعد کی قوم ہے اس میں ان کے مقابلہ میں زیادہ طاقت ہونی چاہئے تھی مگر نہیں۔ بہت پہلی قوم میں اِن سے زیادہ طاقت ہے اور اِس میں نہیں۔ کیوں؟ اِس لئے کہ اِس پر جس قدر انعامات ہوئے تھے اُتنے ہندوئوں پر نہیں ہوئے تھے اِس لئے جب وہ گری تو ان سے بہت زیادہ نیچے گر گئی۔
ہماری جماعت کے لوگوں کو اِس بات کی بہت فکر چاہئے کہ جہاں وہمیں داخل ہیں وہاں ان پر بڑے بڑے فرائض بھی ہیں۔ اگر وہ ان کو پورا نہیں کریں گے تو خدا ان کا رشتہ دار نہیں۔ پس اگر تم نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہواہے اور ضرور کیا ہوا ہے تو پھر اس کے پورا کرنے کا کونسا وقت آئے گا۔ دین کی اِس حالت کو جس کی نسبت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیںکہ:۔
ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواجِ یزید
دین حق بیمارو بے کس ہمچو زین العابدین
یعنی ہر طرف کفر اِس طرح جوش مار رہا ہے جس طرح یزید کی فوجیں تھیں اور دین کی یہ حالت ہے کہ امام زین العابدین کی طرح بیمار اور بے کس پڑا ہے۔ واقعی یہی حالت اسلام کی ہے اس کو سمجھتے ہوئے جو سستی کرتے اور اپنی ضروریات کو دین کی ضروریات سے مقدم کرتے ہیں وہ سوچیں کہ کیا کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے بہت خطرہ کامقام ہے انہیں تو ایک منٹ کے لئے بھی دین کی طرف سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ وہ آدمی جسے پہرہ پر کھڑا کیا جائے وہ اگر ذرا بھی غفلت کرے تو اسے بہت سخت سزا دی جاتی ہے اور آجکل تو اتنی سختی کی جاتی ہے کہ اگر پہرہ دار کو اُونگھتا ہوا بھی دیکھا جائے تو گولی مار دیتے ہیں۔ کیوں؟ اِس لئے کہ اُس کی تھوڑی سی غفلت بہت بڑے نقصان کا موجب ہو جاتی ہے۔ اِسی طرح وہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے دنیا کے لئے بطور پہرہ دار، شاہد اور نگران مقرر کئے جاتے ہیں اگر وہ اپنے فرائض سے ذرابھی غافل ہوں تو بہت سزا پاتے ہیں ۔دوسرے اگر سوئیں تو کوئی نہیں پوچھتا لیکن وہ اگر اُونگھیں بھی توگولی مارنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
پس تم لوگ اِس خطرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے کی طرف توجہ کرو تاکہ غفلت سے محفوظ رہ کر انعامات حاصل کرسکو۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دے کہ اِس نے جو عہد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہاتھ پر کیا ہے اُس کو پورا کرے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے۔ ‘‘ (الفضل ۲۶؍ ستمبر ۱۹۱۶ئ)
۱؎ الجمعۃ: ۴
۳۰
وَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ سے بچنے کے طریق
(فرمودہ ۲۲ ستمبر۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اورسورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ والناس کی تلاوت کی:۔
۱؎
پھر فرمایا:۔
’’انسان کی پیدائش اللہ تعالیٰ نے ایسی طرح کی ہے کہ یہ بڑی سے بڑی ترقیات بھی حاصل کر سکتا ہے اور چونکہ ترقیات کے لئے مشکلات کا سامنا بھی ضروری ہوتاہے اس لئے یہ نیچے سے نیچے بھی گر سکتا ہے۔ اس کے اِرد گرد ہر وقت ایسے سامان موجود رہتے ہیں کہ جن میں سے بعض تو اُس کو اوپر کی طرف کھینچتے ہیں اور بعض نیچے کی طرف۔ پھر خداتعالیٰ نے اس کے اپنے اندر ایسی طاقت رکھی ہے کہ یہ ان دونوں قسم کے سامانوں میں سے جن سے متاثر ہونا چاہئے ہو سکتا ہے۔ گویا اِس کی مثال اُس انجن کی ہے جس میں سٹیم بھرا ہوا ہو اور وہ ایک ڈھلوان سٹرک پر کھڑاہو اُس وقت وہ دونوں طرف جا سکتا ہے اوپر کی طرف بھی اور نیچے کی طرف بھی۔ اگر وہ سٹیم سے کام لے گا تو اوپر کی طرف جا سکے گا اور اُس طاقت سے جو اُس کے اندر رکھی گئی ہے کام نہ لے گا تو نیچے سے نیچے چلا جائے گا۔ پھر جس طرح انجن کو ایک ایسی جگہ کھڑا کر دیا جائے جو ڈھلوان ہو اور اس میں سے طاقت نکال دی جائے تو نیچے ہی کی طرف آئے گا اِسی طرح ایک انسان کو جس کے اندر طاقتیں رکھی گئی ہیں جب وہ ان طاقتوں کو چھوڑ دیتا اور ان سے کام نہیں لیتا تو نیچے ہی نیچے گرتا چلا جاتا ہے اور اتنا نیچے گر جاتا ہے کہ اس کے دوسرے ساتھی حیران ہو جاتے ہیں کہ کیا اتنا نیچے گر گیا لیکن جب انسان طاقتوں سے کام لیتا ہے تو اوپر بھی اتنا چڑھتا ہے کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں۔جس طرح دور سے ستارے بہت چھوٹے اور چمکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ان پر غور کرنے والا حیران ہو جاتا ہے کہ کتنی بڑی فضا ہے اور اس میں کس قدر ستارے ہیں اور خدا تعالیٰ کی کیسی کیسی عجیب مخلوق ہے اِسی طرح انسان کی ترقی اور تنزّل کا حال ہے۔ جس طرح اِس فضاکی حد بندی نہیں ہوسکتی اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ چار یا دس یا سَو یا ہزار ارب میل پر یہ ختم ہو جاتی ہے اِسی طرح یہ بھی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں مقام پر جاکر انسان کی ترقی بند ہو جاتی ہے۔ پھر جس طرح کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ زمین کے نیچے فلاں حد سے آگے کوئی مخلوق نہیں اِسی طرح انسان کے گرنے کے متعلق بھی کوئی حد بندی نہیں کر سکتا۔ انسان ترقی کرتے کرتے ایسا ایمان حاصل کر سکتا ہے اور اس میں اتنی خوبیاں جمع ہو سکتی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اِس طرح اپنے اندر لے لیتا ہے کہ دیکھنے والے کو یہ دھوکا لگ جاتا ہے کہ یہی خدا ہے۔ چنانچہ جن برگزیدہ انسانوں نے اپنے قلوب کو بہت ہی صاف کر لیا اور ایمان کے اعلیٰ درجہ کو پہنچ گئے اُن کی نسبت لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ یہی خدا ہیں یا ان میں خدا ہے۔ حضرت کرشن ؑ، حضرت رامچندر، حضرت مسیح ؑ،حضرت عزیرؑ کو لوگوں نے خدا بنا لیا اور سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اِس مقام پر پہنچے تھے کہ آپؐ کو لوگ خدا سمجھتے مگر آپ کے دل میں خداتعالیٰ کی توحید کا ایسا جوش تھا اور شرک کے نام تک سے ایسی نفرت تھی کہ آپ نے اس کے مٹانے کے لئے لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ کے ساتھ مُحَمَّدً ا عَبْدُہٗ َورَ سُوْلُہٗلگا دیا۔
نادان اور ناسمجھ انسان اعتراض کرتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خدا کے ساتھ اپنے نام کو لگا کر اپنے آپ کو خدا کا شریک قرار دے لیا ہے مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ آپ نے اپنے تئیں خداتعالیٰ سے علیحدہ کرنے کے لئے کیا ہے نہ کہ خداتعالیٰ سے ملانے کے لئے۔ پورا حکم تو یہی ہے۔ اَشْھَدُاَنَْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً اعَبْدُ ہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ کہ جس طرح ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے اِسی طرح ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم باوجود اِس قدر کمالات رکھنے کے اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہی تھے۔ کیا یہ شرک ہے؟ نہیں۔ بلکہ یہ تو شرک کے مٹانے کا ذریعہ ہے۔یہی وہ حکم ہے جس نے لوگوں کو آپ کے خدا بنانے سے روکا ۔ ورنہ آپؐ حضرت کرشنؑ، حضرت مسیحؑ وغیرہ سے زیادہ اِس بات کے حقدار تھے کہ آپ کو خدا سمجھا جاتا ۔ بائبل کی پیشگوئیوں میں بھی آپؐ کی شان اور مرتبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو خدا ہی کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے اور حضرت مسیحؑ کو بیٹے کی حیثیت سے۔ چنانچہ بائبل میں ایک تمثیل کے طور پر حضرت مسیحؑ اپنے آپ کو بیٹے کی نسبت دیتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کو خود خداتعالیٰ کا آنا کہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیحؑ کہتے ہیں۔
’’ ایک اَور تمثیل سنو۔ ایک گھر کا مالک تھا جس نے انگورستان لگایا اور اس کے چاروں طرف روندھا گھیرا اور اس میں حوض کھودا۔ اور برج بنایا اور اسے باغبانوں کو ٹھیکے پر دے کر پردیس چلا گیا۔ اور جب پھل کا موسم قریب آیا تو اس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں کے پاس اپنا پھل لینے کو بھیجا اور باغبانوں نے اس کے نوکروںکو پکڑ کر کسی کو پیٹا اور کسی کو قتل کیا اور کسی کو سنگسار کیا۔ پھر اس نے اَور نوکروں کو بھیجا جو پہلوں سے زیادہ تھے۔ اور انہوں نے ان کے ساتھ بھی اِسی طرح کیا۔ آخر اُس نے اپنے بیٹے کو اُن کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وہ میرے بیٹے کا تو لحاظ کریں گے۔ جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا تو آپس میں کہا کہ یہی وارث ہے آئو اِسے قتل کر کے اِس کی میراث پر قبضہ کر لیں اور اسے پکڑ کر باغ سے باہر نکالا اور قتل کر دیا۔ پس جب اس باغ کا مالک آئے گا تو اِن باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا؟ انہوں نے اُس سے کہا ان بڑے آدمیوں کو بُری طرح ہلاک کرے گا اور باغ کا ٹھیکہ اَور باغبانوں کو دے گا جو موسم پر اُس کو پھل دیں۔‘‘ ؎۲
اِس عبارت میں حضرت مسیحؑ نے اپنے آنے کو بیٹے کا آنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کو خود مالک باغ کا آنا قرار دیا ہے۔ واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی شان ایسی تھی کہ اگر خداتعالیٰ دنیا میںانسان کے بھیس میں آتا تو آپؐ ہی کے وجود میں آتا اور آپؐ ہی کی شان کو دیکھ کر لوگوں کو اِس بات کا دھوکا لگ جاتا لیکن خداتعالیٰ نے اِس سے لوگوں کو بچانے کے لئے اور اِس خرابی کو دور کرنے کے لئے اپنی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبودیت بھی لگا دی۔
غرض انسانوں میں سے ایسے انسان ہوئے ہیں کہ جن کو اتنے بڑے درجے حاصل ہوئے اور جن کے قلب میں اتنی صفائی ہو گئی تھی کہ اُن کو لوگوں نے غلطی سے خدا یا خدا کے بیٹے یا خدا کے شریک سمجھ لیا۔ گویا انسانوں نے اپنے میں اور ان برگزیدہ انسانوں میں اتنا فرق سمجھ لیا کہ گویا ہم عابد ہیں اور وہ معبود حالانکہ وہ ان ایسے ہی ہوتے تھے۔ ایسی ہی ان کی طاقتیں بھی ہوتی تھیں جیسی کہ ان کو معبود ماننے والوں میں ہوتی تھیں مگر جب انہوں نے اپنی طاقتوں سے عمدگی کے ساتھ کام لیا تو دوسرے جنہوں نے ان طاقتوں کو بیکار چھوڑے رکھااُن کو خدایا خدا کے اوتار اور خدا کے بیٹے سمجھنے لگ گئے۔ اس کے مقابلہ میں ایک دوسری مخلوق بھی ہے۔ وہ اپنے مقام سے اِتنی گری اِتنی گری کہ اس کو انسان کہنا، اُس کی طرف منسوب ہونا، اُس سے دوستی رکھنا، اُس کے نام رکھنا بھی کوئی پسند نہیں کرتا۔ کیوں؟ اِس لئے کہ وہ اِتنی نیچے گری کہ جس طرح دورکی چیز بہت چھوٹی اور حقیر معلوم ہوتی ہے اِسی طرح وہ چونکہ انسانیت سے گر کر بہت نیچے اوردور ہو گئے اِس لئے انسانوں کی نظروں میں حقیر دکھائی دینے لگے۔ جو اوپر چڑھے وہ تو ان سے بلند ہوئے کہ ان کو انہوںنے اپنے میں سے خارج سمجھ کر خدا اور خدا کے اوتار بنا لیا۔ لیکن جو نیچے گرے اُن کی ذلت اور ادنیٰ ترین حالت کی وجہ سے لوگوں نے ان کو انسان بھی قرار نہ دیا اور واقعی وہ انسان کہلانے کے مستحق ہی نہ تھے۔ خداتعالیٰ نے بھی ان کو انسان نہیں کہا بلکہ بندر اور سؤر قرار دیا ہے ۔گویا خداتعالیٰ نے اِس بات کی تصدیق فرما دی ہے کہ وہ انسان جو گرنے والوں کو اُن کی دُوری اور بعد کی وجہ سے اپنے میں شامل کرنا پسند نہیں کرتے وہ ٹھیک کرتے ہیں۔ واقعی ایسے لوگ ان میں سے نہیں بلکہ بندر اور سؤر ہیں۔
تو یہ مدارج ہیں بعض اونچے ہیں اور بعض نیچے اوربعض درمیانی۔ اِن کے حصول کے لئے خداتعالیٰ نے انسان میںطاقتیں بھی رکھ دی ہیں۔ بعض طاقتیں انسان کو اوپر لے جانے والی ہیں اور بعض نیچے ۔ لیکن نیچے لے جانیوالی طاقتیں کوئی علیحدہ نہیں ہوتیں بلکہ وہ جواو پر کھینچنے والی ہوتی ہیں انہیں کے عدم کا نام نیچے لے جانے والی طاقتیں ہے۔ جس طرح اگر انجن سے سٹیم نکال لی جائے تو وہ ایک ڈھلوان جگہ سے خود بخود نیچے آجاتا ہے اُس کے نیچے آنے کا باعث کوئی اور طاقت نہیں ہوتی بلکہ سٹیم کا نہ ہونا ہی اُس کے نیچے آنے کا باعث ہوتاہے اِسی طرح خداتعالیٰ نے جو طاقتیں انسان کے اندر رکھی ہیں وہ سٹیم کی طرح اُسے اوپر لے جانے والی ہیں ہاں جب کوئی ان سے کام نہیں لیتا تو وہ نیچے گرنا شروع ہو جاتا ہے۔ جس قدر بُری طاقتیں ہیں وہ اچھی اور اعلیٰ کے نہ ہونے سے بنتی ہیں۔ مثلاً حقارت کیاہے؟ محبت کے نہ ہونے کا نام ہے۔ کسی سے محبت گھٹتے گھٹتے ایک ایسے درجہ پر پہنچ جاتی ہے کہ اس کا نام حقارت ہو جاتاہے۔ دیکھو جس طرح سردی نام ہے گرمی کے نہ ہونے کا اِسی طرح تمام بد اخلاقیاں اور بُرائیاں اخلاق اور بھلائیوں کے نہ ہونے کا نام ہے یہ کوئی علیحدہ نہیں۔
بعض نادان اعتراض کرتے ہیںکہ کیا خدا نے ہی بدی اور بُرائی کو پیدا کیا ہے؟ اگر خدا نے ہی کیا ہے تو بہت بُرا کیا ہے۔ وہ نادان نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ نے کوئی بدی پیدا نہیں کی بلکہ اُس نے نیکی پیدا کی ہے جو بدبخت کسی نیکی کو نکال کر پھینک دیتے ہیں اُن میں اِس کی بجائے بدی آجاتی ہے تو بدی نیکی کے عدم کا نام ہے۔ اخلاق کے اثر کا یہاں تک تجربہ کیا گیاہے کہ ایسی لکڑی کے پنگھوڑے بنائے گئے ہیں جو ذرا سے اثر سے بھی جھک جاتے ہیں۔ اِس پر لیٹ کر جب محبت اور خوشی کے خیال کئے گئے ہیں تو تختہ اونچا ہوا ہے اور جب نفر ت اور حقارت کے خیال کئے گئے ہیں تو نیچے دبتا گیا ہے۔ تو اونچا لے جانے والی طاقت جب نکل جائے تو پھر نیچے لے جانے والی طاقت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔ انسان کے اِرد گرد دو قسم کے سامان ہیں ۔ ایک تو ایسے کہ جو انسان کو اعلیٰ اخلاق اور عادات سے دُور کرتے جاتے ہیں اور دوسرے ایسے کہ ان کے ذریعہ محبت، اخلاق، وفاداری، نیک سلوک، احسان اور مروت کرنے کی صفات پیداہوتی ہیں اور یہ بڑھتی رہتی ہیں اور انسان کو اوپر ہی اوپر لے جاتی اور بلند کر دیتی ہیں کہ دیکھنے والے حیران ہو جاتے ہیں لیکن بعض ایسے کام ہیں جو ان صفات سے جدا کر دیتے ہیں اوراس سے انسان گرتا جاتاہے۔
لیکن جس طرح انجن کے محفوظ رکھنے اور عمدگی سے چلانے کے لئے گارڈ اور ڈرائیور کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ہر ایک انسان کو شرور اور وساوس سے بچانے کے لئے ملائکہ مقرر ہوتے ہیں وہ اس کو نیکی کے کام کرنے میں مدد دیتے رہتے ہیں لیکن جب وہ ملائکہ الگ ہو جائیں تو جس طرح انجن سٹیم کے نکال لینے سے خود بخودڈھلوان سے نیچے آنا شروع ہو جاتا ہے اِسی طرح کچھ بد روحیں ہوتی ہیںوہ انسان کو نیچے کھینچنا شروع کر دیتی ہیں۔ جو انسان اپنی غفلت اور کوتاہی سے ملائکہ سے قطع تعلق پیدا کر لیتا ہے تو پھر اُس کا خود بخود بد روحوں سے تعلق جڑ جاتا ہے ۔ ان سے بچنے کے لئے خداتعالیٰ نے اِس سورۃ میں جو میں نے ابھی پڑھی ہے علاج بتایا ہے۔
فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر محبت کا سلوک کرتے ہیں لیکن چونکہ ان کا تعلق ملائکہ سے نہیں ہوتا اس لئے بجائے اس کے کہ کسی کو اوپر لے جانے میں مدد دیں اَور نیچے گرا دیتے ہیں۔ ان کو انسان دوست سمجھتاہے لیکن دراصل وہ اُس کے دشمن ہوتے ہیں۔ فرمایا ان سے بچنے کی ہم تمہیں ایک ترکیب بتاتے ہیں اور وہ یہ کہ خدا سے ہمیشہ ان سے محفوظ رہنے کی دعا مانگو۔ اُس کو کہو کہ اے خدا! تو رب ہے ۔ رب کے معنی ہیں پیدا کرنے والا اور پیدا کرنے کے بعد اُس کی باریک درباریک ضروریات کو پورا کرکے کمال تک پہنچانے والا۔ تو فرمایا۔ تم ایسے خداسے مدد مانگو جو ربّ ہے اور اُسے کہو کہ ہمیں اِس سے بڑھ کر اور کیا ضرورت ہو گی کہ ہمیں ایسی خواہشات اور ایسے لوگوں سے تعلق نہ ہو جو ہمیں نیچے ہی نیچے لے جانے والے ہوں۔پس ہم اپنے آپ کو تیرے ہی سپرد کرتے ہیں کہ تو ہمیں اوپر لے جا۔ یہ تو ربوبیت کا واسطہ دے کر دعا ہوئی۔ اِس سے بڑھ کر مالکیت کا درجہ ہے۔ فرمایا پھر اُس خدا کو پکارو جو ہے۔ لوگوں کا بادشاہ ہے۔ بادشاہ کبھی یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی باغی اُس کی رعایا کو تکلیف پہنچائے ۔ اِس لئے فرمایا خدا کو کے نام سے اپنی مدد کے لئے پکارو کہ اے خدا !ہم تیری رعایا ہیں کیااگر ہمیں کوئی دکھ دے، کوئی تکلیف پہنچائے تو تیری شانِ بادشاہت کو غیرت نہیں آئے گی؟ ضرور آئے گی، پس ہم کو بچا۔ دیکھو دنیاوی بادشاہوں کی رعایا کو اگر کوئی بہکائے تو اُنہیں غیرت آتی ہے اور وہ اُسے ہلاک اور تباہ کر دیتے ہیں اِسی طرح اگر کوئی خداتعالیٰ کو اپنا آپ سپرد کر دے تو کیا وہ اُس کے بہکانے والوں کو سزا نہیں دے گا؟ضرور دے گا۔ پس فرمایا تم اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دو اور کہوکہ الٰہی!تو ہی ہمارا بادشاہ ہے اور ہم تیری رعایا۔ ہمیں اِن باغیوں اور سرکشوں سے نجات دے جو تیرے جادئہ اطاعت سے ہمیں منحرف کرنا چاہتے ہیں۔
ربوبیت سے بڑھ کر الوہیت کا تعلق ہے۔ ہر ایک بادشاہ اللہ نہیں ہو سکتا ۔ ایک ہی بادشاہ ایسا ہے جو اللہ ہے اور وہ خداتعالیٰ ہے۔ فرمایا ۔ پھر الوہیت کی صفت کو پکارو اور کہو خدایا !ہم تیرے بندے ہیں اور تو ہمارا معبود ۔ جب کوئی بادشاہ یہ پسند نہیں کرتا کہ اُس کی رعایا کو کوئی ورغلائے تو پھر توجو معبود ہے کس طرح پسند کر سکتا ہے کہ تیرے بندوں کو کوئی ورغلائے ۔ پس ہم تیرے ہی حضور عرض کرتے ہیں کہ تو ہمیں فسادوں اور فتنوں سے بچا، شریروں اور باغیوں کے وساوس سے نجات دے اور بلند سے بلند درجے کی توفیق بخش ۔
جس طرح بلندی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مشکلات بھی بڑھتی جاتی ہیں اِسی طرح خداتعالیٰ نے اپنی صفات بھی علی الترتیب اعلیٰ بیان فرمادی ہیں تاکہ جہاں مشکلات بڑھتی جائیں وہاں خداتعالیٰ کو اُس کی اعلیٰ صفات کے مطابق اپنی مدد اور تائید کے لئے پکارتے جائو۔
اِس زمانہ میں اس سورۃ کے پڑھنے کی بڑی ضرورت ہے۔ لوگوں کو آجکل دین سے بڑی نفرت ہو گئی ہے۔ بعض جگہ بہت چھوٹی چھوٹی اورمعمولی باتوں سے ابتلاء آجاتے ہیں ۔مثلاً کسی کا جنازہ نہیں پڑھا، یا کسی نے رشتہ نہیں دیا، یا فلاں کیوں سیکرٹری بنایا گیا اور فلاں پریذیڈنٹ کیوں بنایا گیا۔ مجھے حیرت ہی آتی ہے کہ اِس زمانہ میں ایمان کی قیمت کیوں اِس قدر تھوڑی ہوگئی ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے لکھا ہے کہ اِس زمانہ سے اِس سورۃ کا بہت تعلق ہے۔ چنانچہ تجربہ بتاتا ہے کہ واقعہ میں ہمارے دوستوں کو اس کی بہت ضرورت ہے تا وہ شریر لوگ جو اِن کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں اُن سے محفوظ رہیں۔ وہی ہستیاں ہوتی ہیں جو نظر نہیں آتیں یعنی پوشیدہ رہتی ہیں۔ کبھی کسی لباس میں اور کبھی کسی لباس میں آکر وسوسے ڈالتی رہتی ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ یہ میری خیر خواہ اور ہمدرد ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھاکہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان رات کو مومن سوئے گا اور صبح کو کافر اُٹھے گا اور اُسے پتہ بھی نہیں ہو گاکہ کس طرح اُس کا ایمان چلا گیا۔ وہ یہی زمانہ ہے اس میں لالچ، حسد، بغض، ناجائز رُعب، خوف اتنا ترقی کر گیا ہے کہ ایمان کی کچھ بھی قیمت نہیں رہی اور وہ اس طرح بیچ دیا جاتا ہے کہ گویا بہت ہی حقیر چیز ہے۔ جس قدر جلدی اپنے پاس سے دور ہو اُتنا ہی اچھا ہے۔ اپنے گندوں اور میلوں کو لوگ اتنا جلدی نہیں پھینکتے جتنا کہ ایمان کو پھینکتے ہیں۔ اگر ان کو کہا جائے کہ رسم ورواج کے گندوں کو چھوڑ دو تو لڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں کہ اِس طرح ہماری ناک کٹ جاتی ہے۔ مگر ایمان کو ترک کرنے کے لئے اگر کوئی کہے تو بڑی خوشی سے تیار ہو جاتے ہیں۔ تو یہ زمانہ اِس سورۃ کے پڑھنے کابہت مستحق ہے تاکہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت، مالکیت ، الوہیت کی صفات مدد کریں اور نیک اور نیچے گرنے والی ہستیوں میں سٹیم بھر جائے تاکہ وہ اوپر چڑھ سکیں یہ خداتعالیٰ کی مدد کے سِوا ہو نہیں سکتا۔اس میں شک نہیں کہ کامیابی کے لئے اسباب کا ہونا بھی ضروری ہے مگر جب تک خداتعالیٰ کی طرف سے توفیق نہیں ملتی باوجود سامانوں کے اس کام کے کرنے کا جوش اور ہمت نہیں پیدا ہو سکتی۔ دیکھو اگر کسی کو کچھ تکلیف پہنچے اور وہ پولیس میں رپورٹ کرے تو پولیس اس کی تحقیقات کرے گی لیکن اگر پولیس کو حکامِ بالا کی طرف سے خاص طور پر اس کی تحقیقات کا حکم ہو تو وہ بہت کوشش اور تندہی سے اس کام کو کرے گی۔ اس طرح خداتعالیٰ نے ہر کام کے لئے سامان پیدا کئے ہیں لیکن جب خداتعالیٰ ان کو یہ کہہ دے کہ میرے فلاں بندے کی مدد اور تائید کرو تو سمجھ لو کہ وہ کس قدر زور سے کریں گے۔ تو صرف سامان کوئی چیز نہیں اکثر اوقات سامان کی موجودگی میں ناکامی ہوتی ہے لیکن جب خداتعالیٰ کا حکم ہو جائے تو پھر کامیابی یقینی ہوتی ہے۔
پس ہماری جماعت کو اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی خاص خاص صفات کو یاد کیا کرے اور اس سورۃ کو پڑھا کرے تاکہ جن کے دلوں میں وساوس نہیں ان میں آئندہ بھی نہ پڑیں اور جن میں پڑے ہوں اُن سے نکل جائیں۔
خداتعالیٰ ہماری جماعت کو وساوس سے بچائے اور ان کے مقام کو بلند کرے کہ دنیا کی نظروں سے اتنے ہی دور ہو جائیں جتنے ستارے ہیں اور اُن لوگوں میں ہمارا نام لکھا جائے جو نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کی جماعت ہے۔‘‘ (الفضل۳ ؍اکتوبر ۱۹۱۶ئ)
۱؎ الناس: ۲ تا آخر
۲؎ متی باب ۲۱ آیت ۳۳ تا ۴۱
۳۱
کی اطاعت فرض ہے
(فرمودہ۲۹ ستمبر۱۹۱۶ئ)
تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
؎۱
پھر فرمایا:۔
’’کسی قوم کی تباہی اور ہلاکت عام طور پر ان اندرونی اسباب کے ذریعہ ہوتی ہے جو خود اس میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ بیرونی سامانوں سے قوموں کا تباہ ہونا بہت کم پایا جاتا ہے اور شاذو نادر ہی ایسا ہوا ہے کہ کوئی قوم واقعہ میں طاقتور اورمضبوط ہو لیکن اُس کے خلاف اُس سے زیادہ طاقتور قوم زیادہ سازو سامان کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہو اور اُس نے اُس کی طاقت کو توڑ دیا ہو۔ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ اُسی وقت کوئی قوم تباہ وبرباد ہوتی ہے جبکہ خود اُس کے اندر کمزوریاں اور بدیاں پیدا ہو گئی ہوں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے اوقات میں بیرونی سامان بھی اس کی تباہی کے ممدو معاون ہو جاتے ہیں مگر وہ کامیاب تب ہی ہوتے ہیں جبکہ اندرونی سامان اُس قوم کو گھن کی طرح کھا چکے ہوتے ہیں اور وہ کھوکھلی اور کمزور ہو چکی ہوتی ہے۔ اس کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے کہ ایک شخص ایک ایسے درخت کے سہارے کھڑا ہو جس کو گھن کھا چکا ہو اور وہ گر جائے ۔ وہ درخت گرا تو اُس کے سہارا لینے سے ہے لیکن اِس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے گرنے کا اصل باعث اس شخص کا سہارا لینا نہیں بلکہ وہ گھن ہے جو اسے اندر ہی اندر کھا چکا ہے۔ اگر اسے گھن نہ کھا چکا ہوتا تو سہارا چھوڑ اگر وہ شخص زور بھی لگاتا تو بھی نہ گرتامگر گھن کے کھا جانے کی وجہ سے محض سہارا لینے سے ہی گر گیا۔ اسی طرح لوگ چھتیں ڈالتے ہیں اور گرمی کے موسم میں ان کے اوپر جا بیٹھتے ہیں۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ تمام چھت پر آدمی ہی آدمی بیٹھے ہوتے ہیں لیکن وہ ان کے بوجھ کو سہارے رہتی ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی آدمی کے بوجھ سے اس میں سوراخ ہو جاتا ہے اس لئے کہ گھن کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکی ہوتی ہے۔ اس سوراخ کے ہونے کا باعث تو اسی آدمی کا بوجھ ہوا جو چھت کے اوپر چڑھا تھا مگر وہ چھت پہلے سے ہی اِسی انتظار میں تھی کہ مجھ پر اس کا بوجھ پڑے اور میں گروں ۔ یہی حال قوموں کا ہوتا ہے۔
ہمیشہ وہی قومیں گرتی ہیں کہ جن کو اندر ہی اندر گھن کھا چکا ہوتا ہے اور باہر سے حملہ کرنے والا ان کے گرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ فلاں قوم پر فلاں نے حملہ کرکے اسے تباہ کر دیا مگر وہ نہیں جانتے کہ وہ قوم پہلے سے ہی تباہ ہونے کو تیار بیٹھی تھی اور اس بات کا ثبوت اس طرح بھی مل سکتا ہے کہ اس قوم کا کامیابی کے زمانہ سے مقابلہ کر کے دیکھنا چاہئے کہ آیا وہ جوش ،وہ اتحاد اور وہ سامان جو اُس وقت اُسے حاصل تھے وہی تباہی کے وقت بھی اس کے پاس موجود تھے یا نہیں؟ اگر ویسے ہی موجود ہوں اور پھر کوئی قوم اُس پر حملہ آور ہو کر اسے تباہ وبرباد کر دے توکہا جا سکے گاکہ دوسری قوم نے اپنی زیادہ طاقت اور کثرتِ سامان کے ذریعہ اس پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔ لیکن اگر تباہ ہونے والی قوم میں وہ جوش ،وہ قوت اور وہ اتحاد نہ ہو جو اُس میں کامیابی کے زمانہ میں تھا اور اُس کے پاس وہ سامان موجود نہ ہوں جن کے ذریعہ اس نے فتح حاصل کی تھی اور پھر کوئی قوم اُسے مغلوب کر لے تو صریح طور پر معلوم ہو گا کہ بیرونی قوم کا حملہ تو اس کی تباہی اور بربادی کے لئے ایک بہانہ ہی تھا بلکہ اس نے اپنی کمزور اور ناتوان حالت سے خود یہ جرأت اور دلیری دلائی تھی کہ وہ اس پر حملہ آور ہو۔ اگر اسے یہ معلوم ہوتا کہ وہ مضبوط اور طاقتور ہے تو کبھی حملہ ہی نہ کرتی۔
لکھا ہے کہ حضرت علیؓ اورحضرت معاویہؓ کی جنگ کے وقت ایک عیسائی سلطنت نے حضرت علیؓ پر حملہ کرنا چاہا۔ اُس کو حملہ کرنے کا خیال پیدا ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس نے مسلمانوں کو کمزور سمجھا ورنہ پہلے کی نسبت نہ اس کی طاقت بڑھ گئی تھی نہ اس کے پاس سامان زیادہ ہو گیا تھا اور نہ ہی مسلمانوں کی سلطنت چھوٹی رہ گئی تھی، لیکن جب اس نے دیکھا کہ مسلمانوں کو نااتفاقی کا گھن کھا رہا ہے تو اس نے حملہ کرنے کا ارادہ کر دیا۔ مگر دراصل وہ گھن اسی قسم کا تھا جو چھلکے کے اوپر ہی اوپر ہوتا ہے نہ کہ اندر۔ اس لئے جب اس نے حملہ کا ارادہ کیا اور اپنے مشیروں سے مشورہ لیا تو ایک نے کہا کہ آپ سمجھتے نہیں یہ مسلمانوں کی حقیقی کمزوری کی علامت نہیں۔ اگر آپ ان پر حملہ آور ہوںگے تو ضرور شکست کھائیں گے۔ چنانچہ جب امیرمعاویہ ؓ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اسے کہلا بھیجا کہ ہم جو آپس میں لڑ رہے ہیں تو یہ شرعی مسائل کے متعلق لڑتے ہیں تم اس سے یہ نہ سمجھنا کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ اگر تم نے علیؓ پر حملہ کیا تو ان سے صلح کر کے سب سے پہلے جو تمہارے ساتھ لڑنے کے لئے نکلے گا وہ میں ہوں گا۔ ۲؎ اس کے بعد وہ عیسائی بادشاہ حملہ کرنے سے رُک گیا کیونکہ اس نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں کو گھن نہیں لگاہوا۔ لیکن اس کی حملہ کرنے کی خیالی جرأت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس نے سمجھا کہ مسلمان کمزور ہو گئے ہیں اورآپس میں جنگ وجدال کر رہے ہیں۔ تو دشمن جب کمزور ی کی علامت دیکھتا ہے تو حملہ آور ہونے پر آ مادہ ہو جاتاہے۔پھر وہ حملہ کرنے سے رُکا تو اس لئے نہیں کہ اس کی وہ فوج جس کے بھروسے پر اس نے حملہ کرنے کا خیال کیا تھا وہ بھاگ گئی تھی یا مری کے پڑنے سے ہلاک ہو گئی تھی، یا سامانِ حرب تباہ ہو گیا تھا، بلکہ اس لئے کہ اس نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں میں گھن نہیں ہے۔ توجو قوم بیرونی دشمنوں کے حملوں سے ہلاک ہوا کرتی ہے وہ وہی ہوتی ہے جس کے اندر کمزوری اورنا طاقتی کی علامات پائی جاتی ہیں۔ اُنہی کو دیکھ کر دشمن سمجھ لیتے ہیں کہ یہ قوم آج بھی مٹی اور کل بھی مٹی ۔ مگر اس خیال سے کہ اگر خود بخود مٹی تو اس کے کھنڈرات سے کوئی اَور قوم نکل آئے گی جو اُس کی جگہ قابض ہو جائے گی اس لئے کیوں نہ ہم ہی اس کو مٹا کر اس جگہ پر قبضہ کر لیں۔ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ جنگل میں اگر لاوارث بکری مل جائے تو اُسے کیا کرنا چاہئے؟ آپؐنے فرمایا۔ تم اس پر قبضہ کر لو اگر تم قبضہ نہ کرو گے تو اسے بھیڑیا کھا جائے گا ۔ ۳؎ یہی حال قوموں کا ہوتا ہے۔ جب کوئی قوم مٹنے کے بالکل قریب ہو جاتی ہے تو کوئی دوسری قوم اٹھ کر اس کا نام و پتہ مٹا کر اپنا نام اس کی جگہ لکھ دیتی ہے کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو کوئی اَور قوم ہوگی جو ایسا کر لے گی۔
تو سب سے زیادہ خطرناک حملہ جو کسی قوم پر ہوتا ہے وہ اس کے اپنے اندرونی عیوب اور کمزوریاں ہی ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کی تباہی اور ہلاکت کی یہی وجہ ہوئی ہے۔ یہ نہیں کہ دشمن ان سے طاقتور تھے اِس لئے انہوں نے غلبہ پا لیا بلکہ اصل باعث یہی ہے کہ مسلمانوں کی قوم کو اندر ہی اندر گھن لگ گیا تھا اور وہ ایک کھوکھلے تنے کی طرح ہو گئی تھی ایسی حالت میں جو بہت چھوٹے اور ذلیل دشمن تھے وہ بھی آنکھیں دکھانے لگ گئے۔ مسلمانوں میں ایسی بدیاں اورکمزوریاں پیدا ہو گئیں کہ جن کے ذریعے دشمن نے محسوس کر لیا کہ یہ آج بھی گرے اور کل بھی اس لئے انہوں نے حملے کر کر کے ان سے ملک چھیننے شروع کر دیئے۔بظاہر تو مسلمانوں کے ممالک چھینے جانے کا باعث دشمنوں کے حملے تھے لیکن دراصل اس کا سبب وہ اندرونی گھن تھا جس نے انہیں کسی کام کا نہ رہنے دیا تھا۔ چنانچہ ان گھنوں میں سے ایک گھن ایفائے عہد کا معدوم اور مفقود ہو جانا تھا۔ اس سے غدر اور بغاوت کی طرف ان کی بڑی توجہ بڑھ گئی اور خیانت اور بد عہدی کی طرف ان کے دل مائل ہو گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا اعتبار اُٹھ گیا اور ان میں کمزوری پیدا ہو گئی کیونکہ اس طرح کرنے سے ان کا آپس میں بھی ایک دوسرے پر اعتبار نہ رہا۔
جب کسی نے ایک سے دھوکا اور بد عہدی کی تو وہ دوسرے، تیسرے اور چوتھے سے بھی ضرور کر سکتا ہے اور جو ایک کے ساتھ دھوکاکرنے سے بچتا ہے وہ دوسرے، تیسرے اور چوتھے سے بھی بچتاہے خداتعالیٰ فرماتاہے ؎۴ کہ قاتل کے قتل کرنے میں تمہاری زندگی ہے حالانکہ مرنے والا تو مر گیا اب اگر اس کے قاتل کو قتل کر دیا جائے گا تو وہ زندہ تو نہیں ہو سکتا۔ پھر قصاص میں حیات کس طرح ہوئی؟ اس طرح کہ اگر آج تم ایک شخص کے قاتل کو پکڑ کر قتل نہ کرو گے تو کل وہ تم میں سے کسی دوسرے کو قتل کر دے گا اس لئے فرمایا کہ قصاص میں زندگی ہے یعنی اگر قاتل سے قصاص نہ لیاجائے گا تو وہ تم میں سے کسی اَور کی زندگی کا خاتمہ کر دے گا۔ اس سے خداتعالیٰ نے یہ سمجھایا ہے کہ جو شخص ایک کام ایک جگہ کرتا ہے وہ وہی کام دوسری جگہ بھی کرے گا۔ اگر کسی نے خالد کے ہاں چوری کی ہے تو وہ بکر کے ہاں بھی کر سکتا ہے اور اگر اس نے خالد سے غدر کیا ہے تو وہ بکر کے ساتھ بھی کر سکتا ہے۔ پھر اگر ایک سے وفاداری کر تا ہے تو دوسرے سے بھی کر سکتا ہے۔کیوں؟ اس لئے کہ اس قسم کے اخلاقی جرم متعدی ہوتے ہیں اور پھیل جاتے ہیں۔ متعدی سے ایک تو یہ مراد ہوتی ہے کہ کوئی بُرائی ایک انسان سے دوسرے انسان میں سرایت کر جائے لیکن یہاں متعدی سے میری مراد یہ ہے کہ جس انسان کے ایک حصہ میں اس قسم کی بیماری ہوتی ہے اُس کے دوسرے حصہ میں بھی پہنچ جاتی ہے۔ مثلاًکوئی کہے کہ اپنے ہم وطن لوگوں کے سِوا دوسروں سے نفرت کرنی چاہئے۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنے ہم وطنوں سے بھی نفرت کرنے لگ جائے گا اور اس طرح وہ نفرت جو اُس کے دل کے تھوڑے سے حصہ میں دوسرے لوگوں کے متعلق تھی وہ زیادہ پھیل جائے گی اِس قسم کا انسان بہت خطر ناک ہوتاہے اس سے جہاں تک ہو سکے بچنا چاہئے اور یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس نے فلاں کو نقصان پہنچایا ہے مجھے تو نہیں پہنچایا ۔ کیونکہ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک مکان کو توآگ لگ رہی ہو اور اس کے پاس کے مکان والا کہے کہ میرے مکان کو تو آگ نہیں لگی ہوئی کہ میں اس کے بجھانے کی کوشش کروں۔ ایسا کہنے والا انسان نادان اور سخت نادان ہو گا کیونکہ بہت جلد ی وہ آگ اُس کے مکان تک پہنچ کر اُسے بھی جلا کر خاکِ سیاہ کر دیگی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ایک سے غداری کرتا ہے تو دوسرے کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ اگر اسے موقع ملا تو مجھ سے بھی ضرور کرے گا۔
بنی اسرائیل کو دیکھو۔ پہلے اس نے حکومت وقت سے غدر کیا اور بادشاہوں کے مقابلہ پر کھڑی ہوئی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خداکے مقابلہ پر بھی آمادہ ہو گئی۔
یہ مرض اس وقت مسلمانوں میں بھی بہت پایا جاتا ہے اور یہی انکی تباہی اور ہلاکت کا موجب ہو رہا ہے۔ وہ اپنے پاس سے مسائل گھڑ گھڑ کر گناہوں کو جائز کر لیتے ہیں۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ فلاں موقعہ پر جھوٹ بول لینا جائز ہو جاتاہے،فلاں موقع پر بغاوت کرنا گناہ نہیں ہوتا، فلاں موقع پر بد عہدی جائز ہو جاتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ان میں جھوٹ، فریب، دغا اور غدر کی کوئی حد نہیں رہی اوروہ اپنے خیال میں ایسی باتوں کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ بدی کسی طرح بھی جائز نہیں ہو سکتی ہے۔ جھوٹ بہر حال جھوٹ ہی ہے خواہ کسی وقت بولا جائے، اسی طرح غدر بہر حال غدر ہی ہے خواہ کسی موقع پر کیا جائے،خیانت ہر وقت خیانت ہی ہے خواہ کوئی کرے اس میں کچھ فرق نہیں آسکتا لیکن اب جا کر مسلمانوں سے پوچھو یہ کہیں گے کہ ہندوئوں اور عیسائیوں سے دغا فریب کرنا جائز ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے تھے کہ امرتسر میں اہلحدیث میں سے ایک شخص تھا اس کو میں نے ایک چونی دی کہ دو آنے کی فلاں چیز لے آئو اور دو آنے واپس لے آنا۔ جب وہ واپس آیا تو دو آنے کی وہ چیز بھی لے آیا اور چھ آنے بھی واپس لا دیئے۔ میں نے کہا۔ یہ کیا؟ چھ آنے کس طرح لے آئے؟ اس نے کہا میں نے ایک ہندو سے یہ چیز خرید ی ہے اور اسی سے یہ پیسے بھی لے آیا ہوں ۔ آپ لے لیجئے۔ حضرت مولوی صاحب نے کہا۔ اُس نے کس طرح تم کو چھ آنے دے دیئے؟ کہنے لگا میں اُس سے خود لایا ہوں وہ کہاں دیتا تھا۔ اس طرح کیا کہ جب میں نے اُس سے یہ چیز لے لی اور چونی دے دی تو اُس سے ایک ایسی چیز مانگی جو اُس نے اندر رکھی ہوئی تھی وہ چونی کو صندوقچی کے اوپر ہی رکھ کر اس کے لینے کے لئے اندر گیا۔ اس کے اندر جانے پر میں نے چونی اُٹھا لی۔ جب وہ چیز لے کر واپس آیا تو میں نے نا پسند کر دی اور نہ خریدی۔ اس نے سمجھا کہ میں نے جو چونی لی تھی وہ صندوقچی میں ڈال لی تھی اس لئے اس نے دونی نکال کر مجھے دے دی۔ اور میں لے کر چلا آیا۔ حضرت مولوی صاحب فرماتے ۔ میں نے اُس سے کہا یہ کیا؟ یہ تو فریب اور دھوکا ہے۔ کہنے لگا۔ دُکاندار کافر تھا اور کافروں سے ایسا کر لینا جائز ہے۔ تو اِسی قسم کے خیالات نے مسلمانوں کو دوسروں سے ناجائز افعال کرنے پر آمادہ کر دیا۔ لیکن اب جا کر دیکھ لو کیا ایسے مسلمان نہیں ہیں جو مسلمانوں سے ہی دغا اور فریب کرتے ہیں؟ پہلے انہوں نے یہ سمجھا کہ کافروں سے ایسا کر لینا جائز ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپس میں بھی ایک دوسرے سے ایسا ہی کرنے لگ گئے کیونکہ ان کی ابتداء ہی غلط اور بیہودہ تھی۔ اور جب کوئی ایک سے فریب کرے گا تو دوسرے سے بھی کرے گا اور پھر وہ یہ نہیں دیکھے گاکہ اس سے مجھے کوئی تعلق اور واسطہ ہے یانہیں بلکہ جہاں وہ عمدہ موقع پائے گا وہیں اپنی عادت کو کام میں لے آئے گا۔
میں جب کشمیر گیا تو وہاں ایک غالیچہ باف کو غالیچے بننے کیلئے کہا گیا اور قیمت پیشگی دے دی۔ غالیچہ کا طول و عرض سب اُس کو بتا دیا گیا۔ ہم آگے چلے گئے۔ جب واپس آکر اس سے غالیچے مانگے تو اس نے لپیٹے ہوئے ہمارے ہاتھ میں دیدیئے اور کہنے لگا کہ اِسی طرح بند کے بند ہی لے جائو کھولونہیں ۔لیکن اس کے باربار اس بات پر زور دینے سے ہمیں خیال ہوا کہ کوئی بات ہی ہے جب یہ کہتا ہے کہ بند کے بند ہی لے جائو اس لئے کھول کر دیکھنے چاہئیں۔ جب کھولے اور ناپے تو معلوم ہوا کہ ایک ایک بالشت طول میں اور ایک ایک چپہ عرض میں کم تھے۔ ہم نے اسے کہا یہ تم نے کیاکیا؟ وہ کہنے لگا۔ جی ہم مسلمان ہوتے ہیں۔ میں اسے کہوں کہ اسلام میں تو ایسا کرنا ناجائز ہے پھر تم نے مسلمان ہو کر کیوں ایسا کیا ؟اِس کا وہ یہی جواب دیتا رہا کہ میں مسلمان ہوں ۔ اس کہنے سے اس کا یہ مطلب تھا کہ اگر ہم مسلمان لوگ ایسا نہ کریں تو ہمارا گزارہ نہیں ہوتا۔ تو اب مسلمانوں میں ہر ایک سے دھوکا، فریب ،دغا کرنے کی عادت ہی ہو گئی۔ جب انہوں نے دوسروں سے غدر کرنا سیکھا تو اب اپنوں پر بھی اس کو استعمال کرنے لگ گئے۔ اس طرح ان کا نہ آپس میں اعتبار، بھروسہ اور اطمینان رہا اور نہ دوسروں کے نزدیک ۔اور ان اخلاقی جرموں کی پاداش میں ان کی حالت اِس قدر ذلت اور رُسوائی کوپہنچ گئی کہ اب کشمیر کی تجارت پہلے کی نسبت سینکڑوں گنا کم ہو گئی ہے۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو یہ بتائی گئی کہ یہاں کے لوگ ناقص مال بنا کر بھیجتے تھے جس کا آہستہ آہستہ یہ انجام ہوا کہ لینے والوں نے مال کا لینا ترک کر دیا اورجب مال نہ بکا تو بنانے والوں نے بھی اس کام کوچھوڑکر اور کام اختیار کر لئے اور اس طرح تجارت کو زوال آگیا۔
تو غدر، بے وفائی، بد عہدی کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ جب کوئی قوم ان بُرے کاموں میں مبتلا ہو جاتی ہے تو دوسرے ہر وقت اس کی طرف سے چوکس اور ہوشیار رہتے ہیں اور اس پر کبھی اعتبار اور بھروسہ نہیں کرتے اس لئے وہ قوم گر جاتی ہے اور دن بدن زیادہ ہی زیادہ گرتی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی تجارتیں، حکومتیں، عزتیں سب انہی باتوں کی وجہ سے ضائع ہو گئیں اور وہ ذلت اور رُسوائی کی آخری حد کو پہنچ گئے لیکن ان کے خیال سے یہ بات ابھی تک نہیں گئی کہ کافروں سے غداری بدعہدی اور فریب وغیرہ جائز نہیں۔
اس زمانہ میں مسلمان بظاہر سارے کے سارے اپنے آپ کو گورنمنٹ کے بڑے وفادار اور ہمدرد ظاہر کرتے ہیں لیکن انہیں اندر سے دیکھو تو چُپکے چُپکے یہ پھیلارہے ہیں کہ مسلمانوں کو تو کی اطاعت کا حکم ہے نہ کہ دوسرے جو آکر حاکم بن جائیں ان کی اطاعت کا بھی۔ یہاں میرے پاس ایک معزز غیر احمدی آیا بڑی ثقہ صورت بنا کر کہنے لگامجھے آپ سے چند مسائل دریافت کرنے ہیں۔ میں نے کہا کیجئے۔ اس نے قرآن کریم سے چند ایک جہاد کے متعلق آیتیں پڑھیں اور کہنے لگاان میں تو جہاد کا حکم ہے اب کیا ہم مسلمانوں پر نفاق کا فتویٰ تو نہیں عائد ہو رہا؟ میں نے سمجھا کہ یہ میر ا عندیہ معلوم کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اسے خوب کھول کھول کر بتایا۔ ایسے لوگ چونکہ ایمانی قوت نہیں رکھتے اس لئے بات اس رنگ میں کرتے ہیں اگر مشکل پیش آجائے تو پہلو بدل سکیں۔ اِسی طرح اُس نے کیا۔ اگر وہ یہ سوال کرتا کہ ان آیتوں میں جہاد کا حکم ہے پھر مسلمان جہاد کیوں نہیں کرتے انہیں جہاد کرنا چاہئے تو پہلو بچانے کا اسے کوئی راستہ نہ تھا لیکن اُس نے اس سوال کو اس طریق سے کیا یہ جو جہاد کے متعلق آیات ہیں ان کے کیا معنی ہیں اور اگر ان کے یہ معنی ہیں تو کیا ان کے خلاف کرنے والوں پر نفاق کا فتویٰ تو نہیں لگتا؟میں نے اسے ان آیتوں کے معنی سمجھائے۔ سن کر کہنے لگا ہاں آپ کے کئے ہوئے معنی مجھے بہت پسند آئے ہیں پہلے میں کچھ اور معنی سمجھے ہوئے تھا۔ تو عام مسلمانوں کا مذہب اور عقیدہ یہی ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کو مسلمان حکمران کی اطاعت کا ہی حکم دیا ہے نہ کہ غیر مسلم سلطنت کا بھی۔ مگر ان سے پوچھو کہ مسلمانوں نے مسلمان حکمرانوں کی کہاں اطاعت اور فرمانبرداری کی ہے۔ تم پر چونکہ مسلمان حکمران نہیں اس لئے تم کہتے ہو کہ مسلمان حکمران کی اطاعت کرنی چاہئے نہ کہ کسی اور کی ،لیکن یہ تو بتلائو کہ ترک کمبخت کیا کر رہے ہیں۔ ان کے چھوٹے سے لے کر بڑے تک اور ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک تمام افسر ایسے ہی ہیں کہ جنہوںنے قوم اورملک کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ وہ قوم قوم پکارتے ہیں لیکن جس قدر ان کے ہاتھوں قوم کی مٹی پلید ہو رہی ہے اُس قدر کسی اور نے بھی نہیں کی۔ بات یہ ہے کہ جب تک انسان پر کوئی بات آنہیں پڑتی اُس وقت تک جو اُس کا جی چاہے دعویٰ کر لے لیکن جب آپڑتی ہے تو سب دعووں کی حقیقت کُھل جاتی ہے۔ اِس وقت مسلمانوں کی عملی زندگی بتلا رہی ہے کہ ان کے اخلاق بگڑ چکے اور جھوٹ ، دغا، فریب اور بد عہدی کے جراثیم ان میں سرایت کر چکے ہیں ۔ وہ غلط کہتے ہیں کہ ہم دوسروں کی اطاعت نہیں کرتے اگر مسلمان حکمران ہوں تو ان کی کریں۔ یہ کسی کی بھی اطاعت نہیں کریں گے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ کی بھی حکومت ہوتی اور یہی آجکل کے مسلمان ہوتے تو ان سے بھی بغاوت اور بدعہدی ہی کرتے ۔ خواہ کوئی حکمران ہوتا یہ کسی کی بھی اطاعت اور فرمانبرداری نہ کرتے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان میں امانت، دیانت، وفاداری اور اطاعت کا مادہ ہی نہیںرہا۔ اگر ان میں یہ مادہ ہوتا اور یہ سچے دل سے مسلمان بادشاہوں کے وفادار اور اطاعت شعار ہوتے تو ترکوں میں سے ایک سے ایک بڑھ کر غداری کرنے والے اور اپنے ملک اور قوم کو تباہ و برباد کرنے والے دکھائی نہ دیتے۔
بلغاریہ سے جب ترکوں کی لڑائی ہوئی تو ترکوں کے بڑے بڑے افسروں نے ترکوں کو بجائے گولہ بارود پہنچانے کے لکڑی کے بنے ہوئے کارتوس پہنچائے۔ دشمن حملہ آور ہو رہا ہے، سپاہ لڑ رہی ہے اور کئی دنوں سے لڑ رہی ہے لیکن ذمہ دار افسر ان کے لئے کھانا نہیں بھیجتے۔ سپاہیوں کی بھوک سے یہ حالت ہو رہی ہے کہ بندوقیں ہاتھوں سے گر گر جاتی ہیں بھوک کے مارے ان سے سیدھا کھڑا نہیں ہوا جاتا لیکن اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی اور نہایت بیدردی سے دشمن کے ہاتھوں سے بھوکی اور پیاسی سپاہ کو ہلاک اور تباہ کروا دیا جاتاہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان میں غداری اور بے وفائی دخل پا چکی تھی،خیانت اور بد دیانتی انکی عادت ہو چکی تھی۔ اب اِن مسلمانوں کو دیکھو جو عیسائی سلطنتوں کے ماتحت ہیں۔ ان کے وہ اخلاق مٹ چکے ہیں جو ایک مومن کی شان کے شایاں ہیں۔ ان میں طرح طرح کی خرابیاں اور کمزوریاں پیدا ہو چکی ہیں۔ پس اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم پر چونکہ ایک غیر قوم حکمران ہے اس لئے ہم اس کی اطاعت نہیں کرتے تو یہ ان کا محض بہانہ ہے اگر ان کو کسی ایسے مسلمان بادشاہ کے ماتحت بھی کردیا جائے جو بڑا ہی نیک اور عادل ہو تو بھی وہ اس کی اطاعت اورفرمانبرداری کو بالائے طاق رکھنے کے لئے کوئی نہ کوئی عذر گھڑ ہی لیں گے۔
ان کے لئے کفر کا فتویٰ لگانا کوئی مشکل بات نہیں بلکہ بہت معمولی ہے۔ بادشاہ سے غداری کرنے کے لئے کئی بہانے بنا سکتے تھے۔ اگر اس نے آمین اونچی کہی یا ناف کے نیچے ہاتھ باندھے تو بڑی آسانی سے اس پر یہ فتویٰ لگ جائے گاکہ یہ میں رہا ہی نہیں۔ ہندوستان میں ایک مولوی صاحب ہیں وہ اس طرح فتویٰ دیا کرتے ہیں کہ فلاں نے فلاں بات ایسی کی ہے جو حدیث کے خلاف ہے اورجب حدیث کے خلاف ہے تو قرآن کے خلاف ہوئی اور جب قرآن کے خلاف ہوئی تو خداتعالیٰ کے خلاف ہوئی اس لئے یہ شخص کافر ہوا اور جب کافرہوا تو اس کی بیوی بیوی نہ رہی مومن اور کافر کا نکاح نہیں رہ سکتا اس لئے نکاح فسخ ہو گیا۔ اور جب نکاح فسخ ہوگیا تو جو اُس کی اولاد ہوئی وہ ولد ا لزنا ہوئی ۔ ایسے مولویوں کے ہوتے ہوئے کوئی بھی بادشاہ ہو اُس پر کفر کا فتویٰ لگانا کونسا مشکل ہے اور جب اُس پر کفر کا فتویٰ لگ گیا تو وہ میں سے ہی نہ رہا اور جب میں سے نہ رہا تو اُس کی اطاعت بھی جائز نہ رہی۔
دراصل یہ ایک گندہے اور غداری کا اصل باعث یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایمان نہیں رہا۔ ایسے ہی یہ لوگ فتویٰ دیتے ہیں کہ عیسائی ہم میں سے نہیں ہیں اس لئے ان کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سے معاہدے کئے اور بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کرنے کے باوجود ان کو پورا کیا۔ اگر کفار سے عہد کر کے پورا کرنا جائز نہیں اگر کفار سے بدعہدی اور عہد شکنی کرنا روا ہے تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں ایفائے عہد کئے؟ اور کیوں نہ آپ نے ان عہدوں کو کالعدم قرار دے دیا۔لیکن یہ غلط ہے اور بالکل غلط ہے کہ کفار سے بد عہدی کرنا جائز ہے۔ اسے جائز قرار دینے والوں کی طرف سے سب سے بڑی دلیل جو پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس آیت میں جو میں نے پڑھی ہے لفظ آیا ہے پھر کے سوا اور کسی کی اطاعت کسی طرح جائز ہو سکتی ہے۔ ہم کہتے ہیں صرف یہی آیت اس بات کے لئے بطور دلیل کے پیش نہیں کی جاتی کہ مسلمانوں کو کسی غیر قوم کی فرمانبراری کرنی چاہئے بلکہ اوربھی دلائل ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۵؎ کہ اللہ کی راہ میں تمہارا جھگڑا ان ہی لوگوں سے ہونا چاہئے جو تم سے لڑتے ہوں اور وہ جو تمہارے امن کاباعث ہوں تمہیں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائیں بلکہ سُکھ کا موجب ہوں،تمہارے مال و اموال کی حفاظت کریں ان سے کسی طرح جنگ نہیں کرنا چاہئے ۔تو قتال کا حکم انہیں سے ہے جو ہم سے لڑیں اور جو لڑائی نہیں کرتے بلکہ آرام و آسائش کا باعث بنتے ہیں اور ہماری حفاظت کرتے ہیں۔ ان سے قتال جائز نہیں۔
دیکھو طاعون پڑتی ہے تو یہ گورنمنٹ اس کے دور کرنے کی کتنی کوشش کرتی ہے یہ اور بات کہ طاعون چونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایک عذاب ہے اس لئے اس کے دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی لیکن اِس میں شک نہیں کہ گورنمنٹ نے اس کے انسداد کی کم کوشش نہیں کی۔ کتنے ہی ڈاکٹر صرف اس کام کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح علوم اور فنون کے پھیلانے میں گورنمنٹ نے خاص کوشش کی ہے۔ بعض نادان کہتے ہیں کہ ایسا کرنا گورنمنٹ کا فرض تھا۔ ہم کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی سلطنت کے آخری زمانہ میں کیا مسلمان بادشاہوں کو ایسے فرائض معاف ہو گئے تھے ؟وہ رعایا سے ٹیکس وصول کرتے تھے لیکن رعایا کے لئے کیا کرتے تھے؟ اس میں شک نہیں کہ ابتدائی بادشاہ رعایا کے آرام و آسائش کا بہت خیال رکھتے تھے لیکن بعد میں آنے والوں کی حالت کو دیکھو اور اِس زمانہ سے اُن کا مقابلہ کرو۔ اِس وقت ہزاروں قسم کے علوم سکھائے جاتے ہیں۔ پھر علم اس قدر مٹ چکا تھا کہ گورنمنٹ چاہتی تو ایک مدرسہ بھی نہ کھولتی اور آج لوگ اُسی طرح جاہل اور بے علم ہوتے جس طرح ہو چکے تھے۔ مسجدوں میں کنز اور قدوری بیٹھے پڑھتے ہوتے کسی کو یہ بھی معلوم نہ ہوتا کہ امریکہ بھی کچھ ہے اور یہ کوئی جانتا ہی نہ کہ کوہِ قاف کس کو کہتے ہیں۔ اس کی کسی کو خبر ہی نہ ہوتی کہ زمین گول ہے یا چپٹی لیکن گورنمنٹ نے لاکھوں روپے خرچ کر کے جاہلوں کو عالم بنایا۔ تعلیمی مصارف کا اندازہ لگانے کے لئے ہی دیکھ لو کہ ایک دفعہ تاجپوشی کے موقع پر پچاس لاکھ روپیہ اِس غرض کے لئے دیا گیا۔
یہ درست ہے کہ ایسا کرنا گورنمنٹ کا فرض ہے لیکن اپنے فرائض کو سمجھنا اور پھر ادا کرنا بھی ہر ایک کا کام نہیں ہے اور جو اپنے فرض پوری طرح ادا کرتاہے وہ کوئی کم شکریہ کا مستحق نہیں ہوتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںکہ اگر ایک داروغہ مال کو دیانتداری کے ساتھ تقسیم کرتا ہے تو وہ بھی اُتنے ہی ثواب کا مستحق ہوتا ہے جتنے کا مال دینے والا ۔ دیکھو !کتنے ایسے انسان ہیں جو اپنے کام کے عوض معقول تنخواہیں لیتے ہیں مگر جب تک کچھ لے نہ لیں اپنے فرض کو ادا نہیں کرتے۔
بے شک گورنمنٹ کا فرضِ منصبی ہے کہ رعایا کے آرام کا خیال رکھے اسے علم سے بہرہ ور کرے لیکن اگر اس میں (خدانخواستہ) اصلاح اور نیکی نہ ہوتی تو وہ کر سکتی تھی کہ مسلمانوں کو جاہل اور بے علم ہی رہنے دیتی۔ اِسی ہندوستان میں پُرتگیزوں کا علاقہ ہے وہاں کے لوگوں کو انہوں نے تلوار کے ذریعہ عیسائی کر لیا۔ وہاں اب تک کئی مسجدیں موجود ہیں لیکن کوئی انہیں کھول نہیں سکتا۔ اب بعض بعض جگہ کھلوائی گئی ہیں اور وہ بھی گورنمنٹ انگریزی کے طفیل ۔کیا یہ گورنمنٹ اِس طرح نہیں کر سکتی تھی؟ اس کا نتیجہ خواہ کچھ ہی ہوتا لیکن کیا دنیا میں ایسا نہیں ہوتا؟ جن کی طبیعتوں میں شراور فساد ہوتا ہے وہ ایسا ہی کیا کرتے ہیں او رنیکی اور حسن سلوک وہی کرتے ہیںجو نیکی کو پسند کرتے اور فطرت نیک رکھتے ہیں۔ ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اِس خیال سے نیکی کرتے ہیں کہ اس کا نتیجہ اچھا ہو گا۔ یا بُرائی سے اس لئے بچتے ہیں کہ اس کانتیجہ بُرا ہوگا بلکہ جیسی ان کی طبیعت ہوتی ہے ویسا ہی کام کرتے ہیں۔ گورنمنٹ جو احسان اورنیکی کرتی ہے تو اس لئے کہ اس کی طبیعت کا رُجحان ہی نیکی کی طر ف ہے اگر اس کا میلان بُرائی کی طرف ہوتا تو یہ بھی اسی طرح کرتی جس طرح اور باوجود اس بات کے جاننے کے کہ بُرائی کا نتیجہ بُرا ہوا کرتا ہے کرتے ہیں۔ گورنمنٹ کے پاس اس طرح کرنے کے لئے سب کچھ تھامگر اس نے نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ بھلائی اور نیکی کرنے کی طرف فطرتاً مائل ہے۔ اگر گورنمنٹ تجربۃً ہی ایسا کرتی کہ کسی گائوں یا شہر کی طر ف توپ کا منہ کر کے کہتی کہ تم سب کے سب عیسائی ہو جائو ورنہ توپ سے اُڑا دیئے جائو گے تو تمام کے تمام یہی کہتے کہ ہم تو پہلے ہی عیسائی ہونے کے لئے تیار بیٹھے تھے سو ہم عیسائی ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے پاس ہے ہی کیا؟ لیکن خداتعالیٰ نے اس گورنمنٹ کو ایسی صلاحیت بخشی ہے کہ اس کی شان ایسی باتوں سے بہت بلند ہے۔ ہم جو اِس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں تو دلیل میں یہی آیت پیش نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ خواہ کوئی قوم اور کسی مذہب کے لوگ حکمران ہوں اِن سے غداری کرنا جائز نہیں۔ آجکل سورۃ توبہ جو میرے درس میں ہے اس میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو فرماتا ہے کہ جن لوگوں سے تم نے عہد کیا ہے اس عہد کو پورا کرو۔ فرمایا۔ ؎۶ مشرکین میں سے وہ لوگ کہ جن کے ساتھ تم نے عہد باندھا پھر انہوں نے اس عہد کو نہ توڑا اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مددکی پس تمہارا فرض ہے کہ تم ان کے عہد کو پوار کروان کی مدت تک ۔ اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت رکھتا ہے۔
اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عہد کے پوراکرنے والوں کو متقی قرار دیاہے اور فرمایا ہے کہ ایسا کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ یعنی اگر کوئی ایسا نہ کرے تو خدا اس سے محبت نہیں کرے گا ۔اور خداتعالیٰ جو مسلمانوں سے محبت کرتا اور ہر موقع پر ان کی تائید اور نصرت کرتا ہے تو اسی لئے کہ وہ غداری سے بچتے ہیں۔ اگر وہ اس سے نہ بچیں اور نقض عہد کریں تو خدا کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ۔
غیروں سے اب لڑائی کے معنی ہی کیا ہوئے
تم خود ہی غیر بن کے محلِّ سزا ہوئے
جب تم نے اپنے دل سے ہی خدا کو نکال دیا تو اس نے بھی تمہیں چھوڑ دیا۔ تو والی آیت کے علاوہ اور جگہ بھی قرآن کریم میں باربار تاکید کی گئی ہے کہ ہر قسم کی غداری سے بچو۔ حتیٰ کہ خدا تعالیٰ نے مومنین کی نشانی یہی بتائی ہے کہ ۷؎ کہ وہ اپنی امانتوں اور عہدوں کو پورا کرنے والے ہوتے ہیں۔ تومومن بننے کے لئے یہ شرط ہے کہ اپنے عہدوں کو پورا کرے۔ کوئی کہے کہ مومن کے لئے کافر کا عہد پورا کرنا ضروری نہیں۔ میں کہتا ہوں تم مومن ہی تب ہو گے جبکہ ہر ایک عہد کو پورا کرو گے۔ پھر اس کے کیا معنی ہوئے کہ مومن کے لئے کافر کا عہد پورا کرنا ضروری ہی نہیں بلکہ اُس وقت تک کوئی مومن ہی نہیں کہلا سکتا جب تک کہ عہد کو پورا نہ کرے۔ خداتعالیٰ فرماتاہے۔ یہود کہتے ہیں ۸؎ کہ یہ مسلمان اُمی ہیں ان کا ہم پر کوئی حق نہیں ہے خواہ ہم ان کے مال چھین لیں، ان سے بد عہدی کریں، ان سے خیانت کریں، ان کا سب کچھ ہمارے لئے جائز اور روا ہے لیکن آج مسلمان بھی جن کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہودی ہو جائیںگے۔ ۹؎ یہودیوں کی طرح کہتے ہیں کہ ہم پر بھی کسی کا حق نہیں ہے کہ اس سے عہد کو پورا کریں۔
جو کوئی اس گورنمنٹ کے ملک میں رہتا ہے وہ گویا اس بات کا عہد کرتا ہے کہ میں اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کروں گا۔ پس جب تک وہ اس کے ماتحت ہے اس کا فرض ہے کہ اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرے اور اپنے اس عہد کو پورا کرے۔ اگر وہ دیکھتا ہے کہ مجھ پر ظلم ہوتا ہے، مجھ سے انصاف نہیں کیا جاتا تو اسے چاہئے کہ اس حکومت سے نکل جائے ۔ ہم ایسے شریر اور مفسد لوگوں کو جو گورنمنٹ کے متعلق طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلاتے رہتے ہیں کہتے ہیں کہ اگر تمہارے نزدیک گورنمنٹ ظالم ہے تو اس کے ملک کو چھوڑ دو اور پھر جو تمہار اجی چاہے کرولیکن چونکہ ایسے لوگ فریبی ور دغاباز ہیں اس لئے وہ ایسا نہیں کر سکتے اور یو نہی جھوٹ پھیلاتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ کی نصرت اور تائید ان کے ساتھ نہیں ہے اور یہ دن بدن ذلیل اور رُسوا ہو رہے ہیں۔
غرض اس آیت کو اگر نہ بھی لیا جائے تو بھی کفار سے امانتوں اور عہدوں کی پابندی کرنے کا حکم موجود ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود ہے آپ فرماتے ہیں کہ کافر سے بھی بد عہد ی کرنے کا حکم نہیں ہے۔
صلح حدیبیہ میں کفار سے ایک یہ بھی شرط ہوئی تھی کہ اگر تمہارا آدمی ہم میں آملے تو ہم اسے تمھیں واپس لَوٹا دیں گے اور اگر ہماراآدمی تم میں جا ملے تو تم اسے اپنے پاس رکھ سکو گے۔ عہد میں یہ شرط لکھی جا چکی تھی اور ابھی دستخط نہیں ہوئے تھے کہ ایک شخص ابو جندل نام جسے لوہے کی زنجیروں سے جکڑ کر رکھا جاتا اور جو بہت کچھ دکھ اُٹھا چکا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آکر اپنی حالت زار بیان کی اور عرض کیا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ !آپ مجھے اپنے ساتھ لے چلیں۔ یہ لوگ میرے مسلمان ہونے کی وجہ سے مجھے سخت تکلیف دیتے ہیں۔ صحابہؓ نے بھی کہا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!اسے ساتھ لے چلنا چاہئے ۔یہ کفار کے ہاتھوں بہت دکھ اُٹھا چکا ہے لیکن اس کے باپ نے آکر کہا کہ اگر آپ اسے اپنے ساتھ لے جائیں گے تو یہ غداری ہوگی۔ صحابہؓ نے کہا کہ ابھی عہد نامہ پر دستخط نہیں ہوئے ۔اس نے کہا لکھا تو جا چکا ہے دستخط نہیں ہوئے تو کیا ہوا۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے واپس کر دو ہم عہد نامہ کی رو سے اسے اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ صحابہؓ اس بات پر بہت تلملائے لیکن آپ نے اسے واپس ہی کر دیا اور وہ اُسے لے گئے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو پھر وہ چھٹ کر آپ کے پاس چلا آیا۔ اس کے پیچھے ہی دو آدمی اس کے لینے کے لئے آگئے۔ انہوں نے آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ آپ نے عہد کیا ہوا ہے کہ ہمارے آدمی کو آ پ واپس کر دیں گے۔ آپ نے کہا کہ ہاں عہد ہے اسے لے جائو۔ اس نے کہا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! یہ لوگ مجھے بہت دکھ دیتے اور تنگ کرتے ہیں آپ مجھے ان کے ساتھ نہ بھیجئے ۔ آپؐنے فرمایا۔ خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں غداری نہ کروں اس لئے تم ان کے ساتھ چلے جائو۔ وہ چلاگیا اور راستے میں جا کر ایک کو قتل کر کے پھر بھاگ آیا اور آکر کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! آپ کا ان سے جو عہد تھا وہ تو آپ نے پورا کردیالیکن میرا تو ان سے عہد نہ تھا کہ میں ان کے ساتھ جائوں گا اس لئے میں پھر آگیا ہوں۔ دوسرا شخص پھر اس کے لینے کے لئے آگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہم تمہیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ آپ نے پھر اسے بھیج دیا لیکن وہ اکیلا آدمی اسے نہ لے جا سکا اس لئے وہ رہ گیا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار یہی کہا کہ میں جو عہد کر چکا ہوں اس کے خلاف نہیں کروں گا۔۱۰؎ تو آپؐ نے باوجود کافروں سے عہد کرنے کے اور ایک مسلمان کے سخت مصیبت میں مبتلا ہونے کے اسے پورا کیا۔
انگریز اگر کافر ہیں تو وہ مشرک تھے جن کی بیٹیاں لینی بھی جائز نہیں لیکن عیسائیوں کے متعلق توخداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ۱۱؎ یہ مودّت میں تمہارے بہت قریب ہیں۔ پس جب مشرکین سے جو نہ قیامت کے قائل ہیں نہ کوئی کتاب رکھتے ہیں اور نہ کسی نبی کو مانتے ہیں ان سے کئے ہوئے عہد کو توڑنا جائز نہیں تو ان سے کئے ہوئے عہد کو توڑنا کیونکر جائز او رروا ہو سکتا ہے جو اہل کتاب ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ میں نے تو اس سے کوئی عہد نہیں کیا میں کہتا ہوں گورنمنٹ اسے اپنی رعایا سمجھ کر بہت سے فوائد پہنچاتی ہے۔ اگر وہ اس کی رعایا نہ ہو تو کبھی اس سے ایسا سلوک نہ کرے اور پھر وہ اپنے آپ کو رعایا ظاہر بھی کرتا ہے اس طرح گویا وہ اس بات کا عہد کرتا ہے کہ میں گورنمنٹ کی اطاعت اور فرمانبرداری کروں گا۔ ہاں اگر کوئی یہ اعلان کر دے کہ میں گورنمنٹ کی رعایا نہیں تو پھر اور بات ہے لیکن جو اپنے آپ کو رعایا ظاہر کرتے ہوئے اس عہد کو توڑتا ہے وہ غداری کرتا ہے ۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مسلمان ایک عیسائی حکومت۱۲؎ کے ماتحت جا کر رہے ہیں۔ اگر کافر کے ماتحت رہنا جائز نہ ہوتا اور اس کی اطاعت فرض نہ ہوتی تو مسلمان وہاں کیوں رہتے۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر مذہب حکومت کی اطاعت کرنا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔
اب میں اس آیت کو لیتا ہوںاس سے بھی ان مفسد لوگوں کی بات نہیں بنتی خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ اگر کے وہی معنی لئے جائیں جو یہ لوگ کرتے ہیں تو قرآن کریم کی دوسری آیات کے معنی کرنے میں بڑی مشکل پیش آئے گی۔سورۃ زمر میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جب قیامت کے دن کفار دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو دوزخ کا داروغہ انہیں کہے گا کہ ۱۳؎ اگر کے یہی معنی ہیں کہ مسلمانوں میں سے ہی ہونا چاہئے نہ کہ کوئی اور تو یہاں یہ معنی کرنے پڑیں گے کہ کفار کو کہا جائے گا کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی یعنی کافر رسول نہیں بھیجے گئے تھے؟ اور اس طرح یہ ماننا پڑے گا کہ نعوذباللہ حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسیٰؑ وغیرہ انبیاء کافر تھے لیکن کیا کوئی عقلمند یہ معنی کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ جو کسی کی طرف بھیجا جائے اُسے بھی کہتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ صرف ہم مذہب ہی کو کہیں۔ کیونکہ اگر یہ معنی کئے جائیںتو یہ بھی ماننا ہو گا کہ نبی ہم مذہب تھے کیونکہ کافروں کو مخاطب کر کے نبیوں کی نسبت کہا ہے کہ وہ تھے۔ لیکن یہ معنی کوئی نہیں کرتا۔ پھر ادھر قرآن کریم غداری اور بیوفائی سے بڑے زور کے ساتھ روکتا ہے اِس سے ثابت ہوا کہ سے مراد یہ نہیں کہ مسلمان ہی ہو۔
اب اگر کوئی کہے کہ یہاں سے مرادہم قوم ہے اور چونکہ وہ نبی جن کی طرف آتے رہے ان کے ہم قوم تھے اس لئے ان کی نسبت کا لفظ استعمال کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بہر حال یہ تو تسلیم کرناپڑا کہ کے معنی ہم مذہب ہی نہیںہوتے بلکہ اور معنی بھی ہوتے ہیں اور پھر اس آیت میں تو ہم قوم کے معنی بھی چسپاں نہیں ہو سکتے کیونکہ ان معنوں کی تردید تو خود مسلمان کر رہے ہیںکیونکہ شریف مکہ کے آزاد ہونے پر کہتے ہیں کہ اس نے بغاوت اور سر کشی کی ہے۔ اگر سے مراد ہم قوم لئے جائیںتو شریف پر کسی طرح بھی کوئی الزام نہیں کیونکہ قریشی النسب ہیں اس لئے ان کے لئے یہ جائز ہی نہیں تھا کہ ترکوں کے ماتحت جو ایک غیر قوم ہے رہتے انہوں نے جو کچھ کیا ہے بالکل جائز او ر درست کیاہے۔ پھر ان معنوں کے لحاظ سے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ مدینہ والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنی جائز نہ تھی کیونکہ آپ ؐ ان کے ہم قوم نہ تھے مگر یہ کوئی تسلیم نہیں کرتا اس لئے یہ بات بھی رد ہو گئی کہ ہم قوم ہی ہو تو اس کی اطاعت کرنا چاہئے۔ اگر ایسا ہو تو چاہئے کہ مغل مغل کی اطاعت کریں۔ راجپوت راجپوت کی۔ اسی طرح تمام قومیں اپنی اپنی قوم کے حاکم کی اور اگر اپنی قوم کا حاکم نہ ہوتو پھر وہ بغاوت کر دیں ۔پھر ہر قوم میں کئی ذاتیں ہوتی ہیں۔ ہر ایک ذات والا کہے کہ میں تو اپنی ہی ذات کے حاکم کی اطاعت کروں گا دوسرے کی کرنا میرا فرض نہیں اور نہ ہی جائز ہے اس طرح تو کوئی حکومت دنیا میں رہ ہی نہیں سکتی اور نہ کوئی حکمران حکومت کر سکتا ہے اس لئے کے معنی ہم قوم بھی نہ ہو سکے۔
اب یہ سوال ہوتا ہے کہ پھر کے معنی کیا ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کے معنی اس جگہ تم پر کے ہیں اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان حکام کی اطاعت کرو جو تم پر حاکم ہیں۔ اور جس طرح والی آیت میں کا ترجمہ نہ تو ہم مذہب کیا جا سکتا ہے اور نہ ہم قوم کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور آپ ساری دنیا کے ہم قوم نہیں کہلا سکتے۔ اِسی طرح اِس آیت میں بھی یہ ترجمہ جائز نہیں بلکہ اِس جگہ اَور ترجمہ کرنا پڑے گا جو قرآن کریم کے دوسرے احکام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو اور وہ یہی ترجمہ ہے کہ ان حکام کی اطاعت کرو جو تم پر حاکم ہیں اور لغت ان معنوں کی تائید کرتی ہے۔ اور کے معنی عربی زبان میں کبھی اور کبھی کے بھی آتے ہیں۔ پس کے یہ معنی ہوئے کہ تم میں یا تم پر جس کو ہم نے بنا کر بھیجا اس کی اطاعت کرو۔ اور اس لفظ کے بڑھانے میں یہ حکمت تھی کہ اگر صرف ہی ہوتا تو یہ مشکل پڑتی کہ کونسے کی اطاعت کی جائے۔ کیا اگر کسی دوسرے ملک کا بادشاہ کوئی حکم دے تو اسے بھی ماننا چاہئے؟ اس مشکل کو دور کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے فرما دیا کہ جو تم پر حاکم ہو اس کی اطاعت کرنی تمہارا فرض ہے۔ یہ ایک ایسی پُر امن تعلیم ہے کہ اس پر عمل کرنے سے تمام فتنے مٹ سکتے ہیں۔ فتنہ اور فساد کا باعث یہی ہوتا ہے کہ اپنے حاکم کی نافرمانی کی جاتی ہے یا غیر حاکم کی فرمانبرداری کی جاتی ہے اس لئے فرمایا کہ اے مومنو!تم پر اللہ اوراس کے رسول کی اور اس کی جو تم پر حاکم ہو یا جو تم میں ہو اطاعت فرض ہے۔ اس میں یہ بات بھی بتا دی کہ دنیا کے ہر ایک کی اطاعت فرض نہیں بلکہ اس کی جس کے ماتحت تم ہو اور جو تم پر حکومت کرتا ہو۔ ہاں اگر کسی اور کے علاقہ میں چلے جائو تو پھر اس کی اطاعت کرنا تمہارا فرض ہوگا۔ یہ ایسی امن کی تعلیم ہے کہ اگر مسلمان اِس پر عمل کرتے توبڑی عزت اور رتبہ کے مالک ہوتے لیکن انہوں نے اس کے معنی بدل کر اپنے لئے ذلت اور رُسوائی خرید لی۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہاگر تمہارا کسی بات میں تنازعہ ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیرو اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لاتے ہو۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ حکم ہے کہ اگر تمہارا آپس میں جھگڑا ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو۔اس سے پتہ لگا کہ یہاں سے مراد مسلمان حاکم ہیں کیونکہ اگر مسلمان حاکم ہوگا تب ہی تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کو قبول کرے گا۔ لیکن یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ ہم ہی نہیں بلکہ پچھلے مفسرین بھی اس کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر تمہارا حاکموں سے جھگڑا ہو جائے تب ایسا کرو بلکہ یہ آپس کے جھگڑوں کے متعلق ہے کہ اگر تمہارا آپس میں جھگڑا ہوجائے تو اس کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے ماتحت کرلو۔ یہ ایک الگ بات ہے۔ پہلے خداتعالیٰ نے حکام سے تعلق رکھنے اور ان کی اطاعت کرنے کے متعلق فرمایا اورپھر آپس کے تعلقات کے متعلق حکم دیا ہے۔ وہ لوگ جن کی اتباع کا مسلمان دعویٰ کرتے ہیں وہ بھی اس کے یہی معنی کرتے آئے ہیں۔ چنانچہ نواب صدیق حسن خاں صاحب والی بھوپال نے بھی اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اِس آیت کے یہ معنی کرنے کہ اے رعایا! اگر تیرا حکام سے جھگڑا ہوجائے توپھر اس اس طرح کرو درست نہیں اور اکثر اَئمہ نے ان معنوں کو باطل قرار ہے۔
پس اگر اِس آیت کو لیا جائے تب بھی اِس سے ثابت نہیں ہوتا کہ اس میں کسی خاص مذہب یا قوم کے حکام کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے بلکہ یہ تعلیم عام ہے اور جب عام ہے تو کسی شخص کا حق نہیں کہ اپنے خیال سے اسے خاص کرے اور یہ شرط لگا دے کہ مسلمان حاکم ہو تو اس کی اطاعت فرض ہے ورنہ نہیں۔ آیت میں مسلمان غیر مسلمان کا کوئی ذکر نہیں ۔ پس جس مذ ہب یا جس قوم کا بھی حاکم ہو اُس کی اطاعت اِس حکم کے ماتحت ہر ایک مسلمان پر فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ وہ لوگوں کے دلوں سے ایسے گندے خیالات نکالے کیونکہ اسلام کی ترقی کے وہی دن ہوں گے جبکہ لوگوں کے دلوں سے ایسے خیالات نکل جائیں گے۔ خداتعالیٰ مسلمانوں کو فرماتا ہے شُھَدائَ عَلَی النَّاسِ۔ اِس وقت شُھَدائَ عَلَی النَّاسِ احمدی جماعت ہی ہے اس لئے اس کا فرض ہے کہ لوگوں کے ایسے خیالات کی اصلاح کرے اور انہیں سمجھائے۔ جو قرآن کریم کی اتباع کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں قرآن کریم سے سمجھائے ۔ جو نہیں انہیں اپنے عمل اور عقل سے بتائے اور انہیں اپنی طرح گورنمنٹ کا مطیع اور فرمانبردار بنائے ۔ خداتعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دے۔ پھر دوسرے مدعیانِ اسلام کو بھی توفیق دے کہ وہ خداتعالیٰ ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کو بدنام کرنے والی تعلیم سے بچیں اور سچی تعلیم پر عمل کریں۔‘‘ (الفضل ۱۰؍ اکتوبر۱۹۱۶ئ)
۱؎ النسآئ: ۵۹،۶۰
۲؎ البدایۃ والنھایۃ جلد ۸ صفحہ ۱۲۶ مطبوعہ بیروت ۲۰۰۱ء
۳ ؎ بخاری کتاب الادب مایجوز من الغضب والشدۃ
۴ ؎ البقرہ ـ:۱۸۰ ۵؎ البقرۃ: ۱۹۱ ۶؎ التوبۃ: ۴
۷؎ المؤمنون: ۹ ۸؎ اٰل عمران: ۷۶
۹؎ ترمذی ابواب الایمان باب ماجا ء فی افتراق ھذہ الامۃ
۱۰؎ بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجھاد(الخ)
۱۱؎ المائدۃ: ۸۳
۱۲ ؎ حبشہ کی حکومت
۱۳؎ الزمر: ۷۲
۳۲
ہم سچی گواہی کو نہیں چھپا سکتے
(فرمودہ ۶؍اکتوبر۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اورسورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:۔
۱؎
پھر فرمایا:۔
’’کسی چیز کی محبت یا کسی چیز سے نفرت بعض دفعہ انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔ محبت کبھی اپنے محبوب کے عیب اور نقص چھپا دیتی ہے اور بغض کبھی مبغوض کے ہنروں کو پوشیدہ کر دیتا ہے اور انسان اُس چیز کو جوا س کی محبوب ہوبے عیب اور بے نقص خیال کرتا ہے اور وہ چیز جس سے اسے بغض ہو اُسے تمام خوبیوں سے عاری اور تمام عیبوں سے پُر خیال کر لیتا ہے۔ اوربہت سی باتیں اس کے دشمن اور پیارے کی اس کی نظر سے ایسی گزرتی ہیں کہ دوسرے انہیں دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ یہ اسے نظر کیوں نہیں آتیں۔ گویا وہ آنکھیں رکھتے ہوئے اندھا ، کان رکھتے ہوئے بہرہ اور دل رکھتے ہوئے نافہم اور ناسمجھ ہو جاتا ہے۔ اُس کی زبان ہوتی ہے مگر وہ چکھ نہیں سکتا،اُس کی ناک ہوتی ہے مگر وہ خوشبو اور بدبو میں تمیز نہیں کر سکتی کیونکہ محبت یا بغض کے پردے اس پر پڑے ہوتے ہیں۔ تم کئی آدمی ایسے دیکھو گے کہ وہ ایک چیز سے نفرت کرتے ہوں گے مثلاً کسی کھانے کی چیز سے۔ا گر انہیں اس کے کھانے کے لئے کہا جائے گا تو کہیں گے توبہ توبہ ہم تو اس کودیکھ بھی نہیں سکتے لیکن اگر اُسی چیز کا نام اورشکل بدلا کر انہیں کھلا دو تو چٹ کر جائیں گے اور ممکن ہے کہ کھاتے ہوئے یہ بھی کہتے جائیں کہ بہت مزیدار ،بہت لذیذ اور بہت عمدہ ہے۔ا گر درمیان میں ہی اُنہیں کہہ دیا جائے کہ یہ تو فلاں چیز ہے تو پہلے اسی بات سے انکار کریں گے کہ اجی نہیں یہ کہاں وہ چیز ہو سکتی ہے اس کا ذائقہ ہی الگ ہوتا ہے اور اگر یہ کہنے کی گنجائش نہ دیکھیں گے تو کہیں گے پہلے ہی کھاتے ہوئے ہماری طبیعت پر بوجھ سا محسوس ہور ہا تھا۔ اسی طرح اگر کسی چیز کو محبوب رکھتے ہوں اور ا س کی بجائے کوئی اور بتا دیا جائے تو کہا جائے کہ یہ وہی ہے تو اس کی ایسی تعریف کرنے لگ جائیں گے جیسی کہ اپنی محبوب چیزکی کرتے ہوں گے اور جب بتایا جائے کہ یہ تو وہ نہ تھی توشرمندہ ہو جائیں گے۔ اِس قسم کا ابھی ایک واقعہ گزرا ہے۔
ولایت میں ایک مشہور مصنف ہے ایک اخبار ہمیشہ ا س کے خلاف لکھا کرتاتھا اور کہتا تھا اس کے مضامین کوئی اعلیٰ پایہ کے نہیں ہوتے بلکہ ادنیٰ اور معمولی درجہ کے ہوتے ہیں۔ اس مصنف کے کسی دوست نے اُس کا ایک مضمون لے کر ایک ایسے مشہور مصنف کے نام سے اس اخبار میں چھپنے کے لئے بھیج دیا جس کو وہ پسند کرتا تھا۔ اس اخبار نے اس مضمون کو نمایاں جگہ پرموٹے الفاظ میں شائع کیا اور اپنی طرف سے بیسیوں خوبیاں اس مضمون اور مضمون نگار کی گنادیں۔ شائع ہونے کے بعد اسے لکھا گیا کہ یہ تو فلاں آدمی کا مضمون تھا اس پر اس کی تعریف بند ہو گئی۔
اسی طرح انوری ایک مشہور فارسی کا شاعر گزرا ہے وہ لکھتا ہے کہ میں اپنے استاد کے پاس شعر بنا کر دکھانے کے لئے لے جاتا تو وہ دیکھ کر کہہ دیتا کہ کچھ اچھے نہیں ہیں۔ استاد ہرروز اسی طرح کہتا۔ میں بڑی احتیاط اور کوشش سے شعر لکھتا لیکن وہ ناپسند کر دیتا۔ ایک دن مجھے اپنے گھر سے کچھ پرانے کاغذات ملے ان پر میں نے نہایت مدھم سی سیاہی کے ساتھ اپنے شعر لکھے اور استاد کے پاس لے گیاکہ یہ کاغذات مجھے پرانی کتابوں میں سے ملے ہیں ان پر لکھے ہوئے شعروں کوآپ پڑھیئے۔ انور ی لکھتا ہے استاد ان شعروں کو پڑھے اور لوٹتا جائے اور کہے کہ ایسا کامل استاد میں نے کبھی نہیںدیکھا یہ شعر کسی بڑے ہی اعلیٰ اورکامل استاد کے کہے ہوئے ہیں۔
خیر اُس کی وجہ تو اس نے اَور بتائی ہے مگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سی ایسی چیزیں جن کوانسان محبوب سمجھتا ہے بلا سوچے سمجھے ان کی تعریف شروع کر دیتا ہے اور بہت سی ایسی چیزیں جن کو ناپسند کرتا ہے بلا سوچے سمجھے ان کی مذمت کر نے لگ جاتا ہے۔ اُس وقت دلائل اور واقعات اس کی نظر سے پوشیدہ ہوجاتے ہیں۔
آج ہی میں نے کسی کا خط پڑھا ہے مجھے تو حیرت ہوئی ہے کہ کس طرح کسی چیز کی محبت یا بغض ہو تو انسان کی عقل اور سمجھ پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ الفضل میں کوئی مضمون شائع ہوا ہے جس میںلکھا گیا ہے کہ
’’ہم حضرت مرزا صاحب کو نبی مانتے اور کہتے ہیں بلکہ یہ بھی کہہ دو کہ کامل نبی۔ حقیقی نبی،مستقل نبی مگر ایسا کہنے سے جو ہماری مراد ہے وہ بھی سن لو۔‘‘
’’ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم حضرت مرزا صاحب کو ہر گز ہرگز ایسا نبی نہیں مانتے نہ وہ کوئی شریعت لائے ،نہ اُنہوں نے احکامِ شریعت سابقہ منسوخ کئے، نہ وہ ایسے ہیں کہ نبی سابق کی اُمت نہ کہلائیں نہ وہ براہِ راست بغیر افاضہ کسی نبی سابق کے نبوت پانے والے ہیں۔‘‘
اِس کے متعلق وہ لکھتا ہے کہ اب تم کو ماننا پڑا ہے کہ ہم مرزا صاحب کو ایسا نبی سمجھتے ہیں اور پھر یہ بھی لکھا ہے کہ جو تعریف تم نے حضرت مرزا صاحب کی نبوت کی کی ہے وہ وہی تعریف ہے جو غیر مبائعین کرتے ہیں(اس کے اصل الفاظ یہ ہیں۔ نبی کی تعریف کی ذیل میں آپ نے وہ تعریف بھی لکھ دی ہے جو متفقہ مبائعین وغیر مبائعین اصحاب کی مراد ہے) حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ اس مضمون میں کوئی ایسی بات نہیں لکھی گئی جس کے متعلق کہاجا سکے کہ ہم نے اب تسلیم کی ہے اور پہلے اسے تسلیم نہ کرتے تھے کیونکہ سب سے پہلے رسالہ کی صورت میں ’’القول الفصل‘‘ میں یہی مضمون چھپا ہے پھر ’’حقیقۃ النبوۃ‘‘ کی تمہید اِسی مضمون پر ہے کہ ہم جو حضرت مسیح موعود کو حقیقی نبی کہتے ہیں تو اِس لحاظ سے کہ حقیقتاً آپ کو نبوت ملی تھی نہ اس لئے کہ آپ بلاواسطہ یا شرعی نبی تھے۔ چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے جب یہ لکھا تھا کہ ’’میاں صاحب فی الواقع حضرت مسیح موعود کو حقیقی نبی مانتے ہیں‘‘ ا س کا جواب میں نے ’’القول الفصل‘‘ میں لکھ دیا تھا کہ
’’حضرت مسیح موعودؑ نے حقیقی نبی کے خود یہ معنی فرمائے ہیں کہ جو نئی شریعت لائے۔ پس اِن معنوںکے لحاظ سے ہم ان کو ہرگز حقیقی نبی نہیں مانتے۔‘‘ ۲؎
اِسی بات پر حقیقۃ النبوۃ کی تمہید ہے پھر اِس وقت تک بیسیوں مضامین الفضل میں اس پر لکھے جاچکے ہیں۔ مگر وہ خط لکھنے والا لکھتا ہے کہ آج تم نے اس بات کو مانا ہے اور پہلے نہیں مانتے تھے حالانکہ ہم پھر بھی وہی مانتے تھے جو اَب مانتے ہیں۔
پھر یہ بھی بالکل غلط ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کونبی کہنے سے جو ہماری مراد ہے وہی غیر مبائعین کی ہے۔ غیر مبائعین ہمارے بالکل خلاف کہتے ہیں وہ حضرت مسیح موعود کو ہماری طرح ظِلّی ،بروزی، اُمتی اور مجازی نبی تو کہتے ہیں لیکن اس سے اُن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گویا حضرت صاحب نبی نہیں ہیں اور ہم جو یہ الفاظ کہتے ہیں تو ہمارا یہ مطلب ہوتا ہے کہ آپ نبی ہیں اور حقیقی نبی ہیں مگر کوئی شریعت نہیں لائے اور نہ بلا واسطہ نبی ہوئے ہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے آپ پابند تھے اور آنحضرتؐ کے واسطہ سے ہی آپ نبی ہوئے۔ اگر غیر مبائعین کا بھی یہی مطلب ہے تو پھر وہ ہمارے مقابلہ میں کتابیں اور رسالے کیوں لکھتے ہیںـ؟میں نے ’’القول الفصل‘‘ میں لکھ دیا تھا کہ :۔
’’مستقل نبی کے معنی خود حضرت مسیح موعودؑ نے یہ کئے ہیں کہ جس کو بِلاواسطہ نبوت عطا ہو اور جو کسی اَور نبی کی اتباع سے انعامِ نبوت نہ حاصل کرے۔ا ن معنوں کے لحاظ سے ہم حضرت مسیح موعودؑ کو ہر گز مستقل نبی نہیں مانتے۔‘‘
اس کے ردّ میں اُنہوں نے لکھا۔ پھر حقیقۃ النبوۃ میں اِسی بات کو کھول کھول کر لکھا گیا تھا۔ اس کے خلاف بھی اُنہوں نے ایک کتاب لکھی۔ا گر ان کا اور ہمارا مفہوم ایک ہی تھا تو پھر ان کا مخالفت میں کتابیں لکھنے کا کیا باعث تھا۔
ہم جب حضرت مسیح موعودؑ کو حقیقی نبی کہتے ہیں توا ِس کی تشریح بھی ساتھ ہی کر دیتے ہیں کہ اگر کوئی حقیقی نبی کے یہ معنی کرے کہ وہ بناوٹی یا نقلی نہ ہو بلکہ درحقیقت خد اکی طرف سے خدا تعالیٰ کی مقردہ کردہ اِصطلاح کے مطابق قرآن کریم کے بتائے ہوئے معنوں کے رُو سے نبی ہو اور نبی کہلانے کا مستحق ہو۔ تمام کمالات نبوت اس میں اس حدتک پائے جاتے ہوں جس حد تک نبیوں میں پائے جانے ضروری ہیں توا ن معنوں کی رُو سے حضرت مسیح موعود حقیقی نبی تھے گوا ن معنوں کی رُو سے کہ آپ کوئی نئی شریعت لائے حقیقی نبی نہ تھے۔
ہاں ہم بھی آپ کو ظِلّی نبی کہتے ہیں وہ بھی ظِلّی نبی کہتے ہیں، ہم بھی اُمتی نبی کہتے ہیں وہ بھی اُمتی نبی کہتے ہیں۔ ہم بھی بروزی نبی کہتے ہیں وہ بھی بروزی نبی کہتے ہیں لیکن باوجود اس کے کہ لفظ ایک ہی ہیں پھروہ ہمارا رَدّ لکھتے ہیں اور ہم ان کا۔ اس خط لکھنے والے نے شاید یہ سمجھا ہے کہ الفاظ کی تعیین میں اختلاف ہے جو اَب دور ہو گیا حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ الفاظ کی تشریح میں فرق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ظِلّی نبی نبی نہیںہوتا اور ہم کہتے ہیں کہ نبی ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نبی وہ ہوتا ہے جو بلاواسطہ نبوت پائے اور صاحبِ شریعت ہو۔ ہم کہتے ہیں وہ بھی نبی ہوتا ہے جو بالواسطہ نبوت پائے اور جو صاحبِ شریعت نہ ہو۔ وہ کہتے ہیں حضرت صاحب کا یونہی نبی نام رکھ دیا گیا ہے ورنہ حقیقت میںآپ نبی نہیں تھے کیونکہ آپ کو ظِلّی نبی کہا گیا ہے اور ظل سایہ کو کہتے ہیں اور سایہ کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ ان میں سے بعض تو کہتے ہیں کہ سایہ پر جوتیاں مارنے سے بھی کوئی حرج نہیں ہوتا کیونکہ اُس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔
لیکن ہمارے نزدیک ظلی نبی کی یہ شان ہے کہ وہ کئی پہلے نبیوں سے بھی بڑھ کر ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ میں پہلے مسیح سے افضل ہوں۔ اور وہ دعویٰ یہ ہیـ:۔
’’خدا نے اِس اُمت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس سے پہلے مسیحؑ سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔‘‘ ۳؎
اور پہلے آئمہ نے بھی اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ آنے والا مسیح بعض انبیاء سے بڑھ کر ہو گا۔ واقعہ میں یہی بات درست ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل کوئی معمولی چیزنہیں ہے۔ ایک ظل سایہ ہوتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود پر یہ معنی چسپاں نہیں ہو سکتے۔
آج ایک صاحب حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کا انکار کرتے ہیں مگر آج سے کچھ عرصہ پہلے اُنہوں نے خواجہ صاحب کے حلف کے جواب میں ایک مضمون لکھ کر مجھے بھیجا تھا جس میںلکھا تھا کہ خواجہ کہتا ہے کہ ظل کچھ نہیں ہوتا اور اس کی کچھ حقیقت نہیں ہوتی کیونکہ ظل سایہ کو کہتے ہیں اور سایہ بے حقیقت چیز ہوتا ہے۔ اگرچہ عام طور پر ظل سایہ کو کہتے ہیں مگر دراصل نور کے درمیان حائل ہونے والی روک سے جو اندھیرا پیدا ہو اُسے ظل کہتے ہیں۔ یعنی جتنے حصہ پر نور کو وہ روک نہ پڑنے دے اسے ظل کہتے ہیں۔ اگر یہی معنی ظل کے حضرت مسیح موعود ؑ پر چسپاں کئے جائیں تو اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ہتک ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود ؑکی بھی کہ آپ گویا دنیا کے لئے اندھیرا اور تاریکی ہو کرآئے تھے لیکن ظل کے یہ معنی آپ کے متعلق استعمال نہیں کئے جا سکتے۔ اس شخص نے دلیل ا ُس وقت لکھی تھی اور اِس میںکیا شک ہے کہ یہ ایک زبردست دلیل ہے مگر آج ا س کو یہ بھول گئی ہے اور اُسی طرح بھول گئی جس طرح یہ بھول گیا ہے کہ احمد حضرت مسیح موعود نہیںہیں۔ پہلے تو یہ صاحب کہا کرتے تھے کہ جب خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو قرآن کریم میں احمد کہا ہے تو پھر میں کیوں آپ کی تعریف نہ کروں اور ہر آیت سے آپ کی تصدیق نکالتے تھے۔ پھر کفرو اسلام کے لئے مسئلہ پر گول کمرہ میں مجھ سے گفتگو کرتے رہے اور کہتے کہ آپ کے منکرین کو کافر نہ کہنا آپ کے درجہ کو گھٹانا اور آپ کی ہتک کرنا ہے مگر آج وہ یہ ساری باتیں بھول گئے ہیں۔
تو ظلی نبی کی جو تعریف غیر مبائعین کرتے ہیں اس کا وہی مطلب ہے جو اُس شخص نے اُس وقت نکالا تھا جبکہ اسے دُوری نہیں ہوئی تھی اور وہ ایک خطرناک مطلب ہے کیونکہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سخت ہتک ہوتی ہے اور ماننا پڑتا ہے کہ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) آپ کا وجود ایسا کثیف تھا کہ ا س کے خد ا تعالیٰ کے نور کے سامنے حائل ہونے سے اندھیرا پیدا ہو گیا اوروہ اندھیرا حضرت مسیح موعود تھے۔ جس قدر کوئی چیز شفاف ہوتی ہے اُسی قدر اُس کا ظل کم اندھیرا پیدا کرتا ہے ۔مثلاً شیشہ ایک شفاف چیز ہے ا س کو سورج کے سامنے رکھنے سے جو ظل پیدا ہو گا۔ وہ بہ نسبت ایک غیر شفاف چیز کے بہت کم ہو گا۔ تو ظل کا مطلب یہ ہے کہ ایک نورانی چیز کے سامنے کوئی ایسی روک کھڑی ہو جائے جو اس کے نور کو روک لے اور جتنے حصہ سے روک لے وہ ا س کا ظل ہوگا۔ اگر یہی معنی ظل کے حضرت مسیح موعود کے متعلق لئے جائیں توا س کا یہ مطلب ہو گا کہ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے خدا تعالیٰ کے نور کے سامنے آنے سے جو اندھیرا پیدا ہوا وہ حضرت مسیح موعود تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاوجود ایسا کثیف تھا کہ اس نے خدا کے نور کے سامنے آکر اندھیرا پیدا کر دیا اور جتنے حصہ پر آپ کی وجہ سے روشنی نہیں پڑ سکتی وہ مسیح موعود کا وجود ہے۔
لیکن اس سے بڑھ کر ظل کے بدترین معنی جو حضرت مسیح موعود کے متعلق لئے جائیں اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ باقی تمام حصہ پر نور ہی نور ہے مگرایک حصہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہوجانے کی وجہ سے اندھیرا اور تاریکی ہو گئی ہے اور وہ تاریکی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود ہے۔
کیا ظل کے یہ معنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر چسپاں ہو سکتے ہیں؟ اگر کوئی چسپاں کرتا ہے تو دیکھ لے کہ اِس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے لیکن جس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور حضرت مسیح موعود کی قدر ہے وہ تو کبھی بھی ظل کے یہ معنی نہیں کر سکتا اور نہ ہی ظل سے یہ مراد لے سکتا ہے۔ بلکہ ظل سے وہی مراد لے گا جو حضرت مسیح موعودؑ نے لی ہے کہ عکس اور عکس بھی ایسا جس میں تمام خوبیاں آگئی ہوں۔ ہر نبی میں کچھ خوبیاں ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں سارے انبیاء کی خوبیاں جمع تھیں۔ وہ خوبیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ سے حاصل کیں۔ ہاں آپ ظل اس لئے ہیں کہ آپ کو جو کچھ ملا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بِلا واسطہ کچھ نہیںملا۔
تو ظل کے لفظ میں اختلاف نہیں بلکہ اِس کی تشریح میں اختلاف ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل ہو کر آپ کے تمام کمالات حاصل کر لئے تھے اور غیر مبائعین کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ وہ تاریک حصہ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کثیف وجود کے خدا تعالیٰ کے سامنے آنے سے پیدا ہو گیا تھا۔ یہی اختلاف ہمارا اور غیر مبائعین کا پہلے تھا اور یہی اَب ہے۔
اس خط کے لکھنے والے نے معلوم ہوتا ہے یہ سمجھ رکھا تھا کہ لفظوں میں اختلاف ہے۔ مبائعین ظلی نبی نہیں مانتے اور اب اُنہوں نے مان لیا ہے حالانکہ ہم جس طرح پہلے ظلی نبی مانتے تھے اُسی طرح اب بھی مانتے ہیں۔ اِس نے محبت میں اندھا ہو کر ہماری پہلی تحریروں سے غلط نتیجہ نکالاہے۔
دوسری بات وہ یہ لکھتا ہے کہ جب تم بھی کامل نبی، مستقل نبی اور حقیقی نبی کی وہی تعریف کرتے ہو جو متفقہ مبائعین وغیر مبائعین اصحاب کی ہے تو بجائے اس کے کہ لوگوں کو اپنے پاس تمہاری بنائی ہوئی ڈکشنری رکھنی پڑے کہ کن معنوں میں تم نبی کہتے ہو تم کیوں حضرت صاحب کو مجدد نہیں کہتے جس کے لئے کسی ڈکشنری کی ضرورت نہیں۔
معلوم ہوتا ہے اس نے مجدد اور رسول میں فرق ہی نہیں سمجھا۔ اُمت محمدیہ میں مجدووں کی پیشگوئی اس طرح ہے کہ پہلی اُمتوں میں ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں جو نبی نہیں تھے مگر خدا تعالیٰ اُن سے کلام کرتا تھا اِسی طرح میری اُمت میں بھی ایسے لوگ ہوںگے۔ اور محدث تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو بھی کہا تھالیکن حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ :۔
’’اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا توپھر بتلائو کس نام سے اس کوپکارا جائے۔ اگر کہو محدث رکھنا چاہئے تو میںکہتا ہوں کہ تحدیث کے معنی کسی لُغت کی کتاب میں اظہارِ غیب نہیں ہے۔‘‘ ۴؎
پس جب کوئی محدث نبی نہیں ہو سکتا تو مجدد کہاںنبی ہو سکتا ہے۔ مجدد کا لفظ تو اَور لوگوں پر بھی بولا جا سکتا ہے۔ا گر اس حدیث کوپیش نظر نہ رکھیں تو غیر مذاہب کے لوگوں کے متعلق بھی یہ کہہ سکتے ہیںکیونکہ کسی مٹی ہوئی بات کو قائم کرنے اور کسی چیز کی اصلاح کرنے والا مجدد ہوتا ہے جو بھی اس طرح کرتا ہے اسے مجدد کہاجا سکتا ہے لیکن کسی محدث یا مجدد کوکسی لُغت میںنبی نہیںکہا گیا۔ پھر ہم حضرت مسیح موعودؑ کو محدث یا مجدد کیونکر کہیں۔ آپ کو ایک دفعہ یہی کہا گیا تھا کہ آپ اپنے آپ کونبی کیوں کہتے ہیں محدث کیوںنہیںکہتے ؟تو آپ نے اس کا جواب دیا کہ خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والے کا کس لُغت کی کتاب میں محدث نام رکھا گیا ہے ا س سے معلوم ہوگیا کہ آپ نے محدث کہلانے سے انکار کردیا ہے۔ پھر اب کیاہم اس لئے آپ کونبی کہنا چھوڑ دیں اور محدث اور مجدد کہا کریں کہ لوگ ہم پر اعتراض کریں گے۔
کیایہ ہمارے لئے جائز ہو سکتا ہے؟ یہی آیت جو میں نے ابھی پڑھی ہے اس میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مومنو ! تم قوام ہو جائو خدا کیلئے۔ یعنی جو کام بھی انسان خدا تعالیٰ کیلئے کرے اس میں بزدلی نہ دکھائے۔ پھر فرمایا کہ جو بات کرو انصاف اور عدل کے ساتھ کرو یہ نہیں کہ عدل کو چھوڑ دو۔ پھر فرمایا اور تمہیں کسی کی قوم کی دشمنی اس بات پر نہ آمادہ کردے کہ تم عدل ترک کردو بلکہ عدل کرو یہ بات تقویٰ کے بہت قریب ہے۔ کے دو معنی ہیں۔ اوّل یہ کہ تمہاری کسی قوم سے دشمنی ہو اور دوسرے یہ کہ تم سے کسی قوم کی دشمنی ہو۔ اس لئے اس کے یہ معنی ہوئے کہ تم حق کی گواہی دینے سے اس لئے مت رکو کہ تم کو کسی سے دشمنی ہو یا اس لئے کہ کسی کو تم سے دشمنی ہے۔
اِس حکم کے ہوتے ہوئے کس طرح ممکن ہے کہ غیر احمدی چونکہ ہم سے دشمنی رکھتے ہیں اس لئے ہم سچی گواہی چھپا رکھیں۔ خدا نے کہا ہے اور بار بار کہا ہے کہ مسیح موعود نبی ہے، نبی ہے، نبی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ نبی ہے، پھر پہلے نبیوں نے آپ کو نبی کہا ہے، پھر اُمت محمدیہ کے صلحاء کی شہادت ہے کہ آپ نبی ہیں۔
پھر خدا تعالیٰ نے یہاں تک آپ کو کہا ہے کہ سَیَقُوْلُ الْعَدُوُّلَسْتَ مُرْسَلًا۔ ۵؎ تیرا دشمن کہے گا کہ تو نبی نہیں ہے۔ چنانچہ ان نبی نہ کہنے والے لوگوںنے جتنی دشمنی اور عداوت کا ثبوت دیا ہے۔ اور کسی نے نہیں دیا جو لوگ احمدی ہوتے ہیں ان کو برگشتہ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اِس قدر درجہ گھٹاتے ہیں کہ ایک شریف دشمن بھی ایسا نہیں کرسکتا۔ کوئی شریف دشمن کبھی یہ نہیں کہے گا کہ ظل پر جوتی مارنی جائز ہے مگر اُنہوں نے کہہ دیا۔ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے سَیَقُوْلُ الْعَدُوُّلَسْتَ مُرْسَلًا کہناشہادت ہے اِس بات کی کہ آپ خدا کے نبی اور رسول تھے اور جو آپ کا دشمن ہو گا وہی آپ کو نبی نہیں مانے گا پھر کیوں نہ ہم آپ کو نبی کہیں۔ غیر احمدی اگر اس حق بات کے کہنے سے چڑتے ہیں تو چڑیں ہمیں ان کیا پرواہ ہے۔ ہاں ہماری ان سے کوئی دشمنی نہیں کہ اگر وہ کہیں کہ مرزا صاحب کوئی شریعت نہیں لائے تو ہم کہیں کہ لائے ہیں، اگر وہ کہیں کہ بِلاواسطہ نبی نہیں ہوئے تو ہم کہیں کہ بِلاواسطہ ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کی ہم سے کوئی دشمنی ہے اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نبی اور رسول ہیں۔ یہ دونوں باتیں نہیں، نہ تو ہم مسیح موعودؑ کا درجہ بڑھاتے ہیں کہ ہم دشمن کو تنگ کریں اور چڑائیں اور نہ ہی حضرت صاحب کے اصل درجہ کو چھپاتے ہیں کہ غیر احمدی ہمارے دشمن ہیں۔ حق کہنا ہر ایک مومن کا فرض ہے اور ہم بھی حق ہی کہتے ہیں خواہ جان بھی چلی جائے۔ ہم تو حق کہنے سے کبھی نہیں ڈرتے اگر کوئی ڈرتا ہے تو حق کو چھپائے رکھے۔ ہمارا ٰ یقین اور ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ خدا تعالیٰ کے نبی تھے ہاں ایسے نبی جو کوئی شریعت نہیںلائے تھے اور نہ بلاواسطہ نبی ہوئے تھے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل نبی ہوئے تھے اور آپ ظلی نبی تھے مگر اس لحاظ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات آپ نے اخذ کر لئے تھے نہ اس لحاظ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کے سامنے آنے سے کوئی ظلمت پیدا ہو گئی تھی اور آپ وہ ظلمت تھے۔ اِسی تشریح کے ساتھ ہم آپ کو نبی مانتے ہیں۔
باقی رہا یہ کہ اس سے لوگوں کو دھوکا لگ سکتا ہے اور اُنہیں ڈکشنری پاس رکھنی پڑے گی اِس لئے اس کو چھوڑ دینا چاہئے۔ا گر اِس لحاظ سے اس کو چھوڑ دیا جائے تو قرآن کریم کے کئی احکام ہیں جن کو چھوڑنا پڑے گا۔مثلاً ملائکہ کو مشرک لوگ خد اکی بیٹیاں کہتے تھے۔ ۶؎ ا ب جو شخص یہ کہے گا کہ ہم ملائکہ کو مانتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ مشرکین اس سے یہ سمجھیں کہ یہ بھی ہماری طرح ہی ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں سمجھتا ہے اس لئے چاہئے کہ وہ ملائکہ سے ہی انکار کر دے تاکہ ان کو دھوکا نہ لگے۔ پھررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں ماننا چاہئے کیونکہ وہ لوگ رسول اُس کو سمجھتے تھے کہ جس کے پاس بہت سے خزانے ہوں،غیب جاننے والا ہو، آسمان پر چڑھنے والا ہو۔ ۷؎ چونکہ رسول کے لفظ سے ان کو ا س قسم کا دھوکا لگتا تھا اس لئے چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو رسول نہ کہتے اور نہ ہی کوئی مسلمان آپ کو رسول کہتا لیکن یہ بات ہی فضول ہے۔ کسی کو اگر اس سے دھوکا لگتا ہے تو یہ ہمارا قصور نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی سمجھ کا قصور ہے۔
ہمارے متعلق یہ کہنا کہ یہ مرزا صاحب کو نبی کہہ کر پھر ا س کی تشریح کرتے ہیں اس تشریح کو کون یاد رکھے ۔یہ بھی نادانی کی بات ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر تشریح کرنا کوئی بُری بات ہے تو پھر خدا تعالیٰ نبی کہہ کر پھرکیوں تشریح کرتا ہے جب خدا تعالیٰ نبی کی تشریح کرتا ہے تو ہمارا فعل اس کے مطابق ہی ہے نہ کہ خلاف۔ خدا تعالیٰ رسول کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ علم غیب نہیں جانتا، اپنی طاقت سے کوئی نشان نہیں دکھا سکتا اور یہ نہیں کہ وہ وفات نہ پائے اور یہ بھی نہیں کہ کھانا نہ کھاتا ہو بلکہ رسول ہوتے ہوئے اس میں یہ سب باتیں پائی جاتیںہیں۔ اب کوئی کہے کہ خداتعالیٰ کو رسول کا لفظ کہہ کر جو اِس قدر تشریح کرنے کی ضرورت پڑی ہے اس لئے چاہئے تھا کہ اس کو چھوڑ ہی دیتا اور کوئی ایسا لفظ کہتا جس کے متعلق اسے تشریح نہ کرنی پڑتی مگر کوئی عقلمند یہ نہیں کہہ سکتا اور باوجود اس کے قرآن کریم سے ثابت ہے کہ رسول کہنے سے کفار اور مشرکین کو دھوکا لگتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ رسول وہ ہوتا ہے جو آسمان پر اُڑجائے، وہاں سے کوئی کتاب لے آئے وغیرہ وغیرہ۔ پھر بھی خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ہی کہا۔ ہاں ان کے اس قسم کے غلط خیالات کی تردید کر دی اور رسول کے لئے جو باتیں ضروری تھیں وہ بیان کردیں۔
پھر دیکھو جہاد کا مفہوم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ کافر ملے اسے قتل کر دو۔ا ب کیا اس لفظ کو قرآن کریم سے اُڑا دینا چاہئے کہ اس کی وجہ سے کسی کو دھوکا نہ لگے؟ ہر گز نہیں۔ پھر قرآن کریم میں ایسی آیات ہیں جن میں کفار سے لڑنے کا حکم ہے اور دوسری جگہ لڑائی کے شرائط بیان کئے گئے ہیں۔ا ب ان لڑائی کے متعلق آیات کو نکال دینا چاہئے کہ ان کی وجہ سے غلطی لگ سکتی ہے؟ اس طرح تو کچھ بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ ہر ایک آیت سے کسی نہ کسی انسان کو دھوکا اور غلطی ضرور لگے گی اس لئے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) تمام قرآن کو ہی جلا دینا چاہئے؟ کسی کے دھوکا لگنے کے خوف سے اگر کوئی بات ترک کرنی چاہئے تو پھر کچھ بھی باقی نہ بچے گا۔
ہاں اگر یہ ہو کہ کسی لفظ کے لغت ایک معنی کرتی ہو اور خدا تعالیٰ نے بھی اس کے معنی کر دئیے ہوں اور اس کے برخلاف کوئی نئے معنی پیدا کرتا ہو تو اس کو چھوڑ دینا چاہئے کہ اس سے دھوکا لگ سکتا ہے۔ مثلاً کوئی کہے کہ میں اپنا نام اللہ رکھ لیتا ہوں۔ہم کہیں گے کہ نہ تو لغت میں آدمی کو اللہ کہا گیا ہے اور نہ خدا تعالیٰ نے کسی انسان کا اللہ نام رکھاہے اس لئے یہ نام رکھنا چھوڑ دینا چاہئے کہ اس سے دھوکا لگتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی کہے کہ آدمی کے معنی کتا ہوتے ہیں اس کو بھی ہم یہی جواب دیں گے۔ اسی طرح اگر اس زمانہ میں جہالت اور نادانی سے لوگوں نے نبی کی یہ تعریف سمجھ رکھی ہے کہ
(۱) نبی وہ ہوتا ہے جوشریعت لاتا ہے ۔
(۲) بعض احکام شریعت کو منسوخ کرتا ہے۔
(۳) کسی نبی کا متبع نہیں ہوتا بلکہ براہ راست نبوت پاتا ہے۔
تو ہم کہتے ہیں کہ نبی کی یہ تعریف نہ خدا تعالیٰ نے بیان کی ہے، نہ قرآن کریم سے اس کا پتہ لگتا ہے اور نہ ہی لغت نبی کی یہ تعریف کرتی ہے پھر ہم کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی کہنا چھوڑ دیں۔ اگر نبی کی تعریف خد اتعالیٰ کے نزدیک، قرآن کریم کے رو سے اور لغت میں وہی ہوتی جو لوگ سمجھے ہوئے ہیں تو ہم حضرت مسیح موعود کو نبی کہنا چھوڑ دیتے کہ یہ باتیں آپ میں نہیں پائی جاتیں اس لئے لوگوں کو دھوکا لگ سکتا ہے۔ لیکن جب ان کا نبی میں پایا جانا نہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ،نہ قرآن کریم کے نزدیک اور نہ لغت کے نزدیک ضروری ہے تو پھر ہم کیوں نہ حضرت مسیح موعود کو نبی کہیں۔ بلکہ ہمارے لئے تو ضروری ہے کہ بڑے زور سے آپ کو نبی کہیں کیونکہ لوگوں نے جو غلطی سے نبی کے غلط معنی سمجھ رکھے ہیں ا سکی اصلاح ہو جائے نہ یہ کہ ان کے باطل خیال اور نبی کی باطل تعریف کے کرنے کی وجہ سے نبی کا درست اور جائز استعمال بھی اس لئے ترک کر دیں کہ وہ چڑتے ہیں اورا نہیں دھوکا لگتا ہے۔ دنیا میں کونسی بات ہے جس سے کسی کو دھوکا نہیں لگ سکتا۔ ہم دھوکا لگنے سے احتیاط کریں گے لیکن اُسی وقت تک کہ دین کا کوئی پہلو نہ جاتاہولیکن جب ایک نبی کی ہتک ہوتی ہو اُس وقت ہم اِس بات کا ہرگز خیال نہیں کریں گے اُس وقت ہم وہی بات کہیں گے جو خدا تعالیٰ اور اُس کے نبی نے بتائی ہے۔ اور یہ بات کونسی مشکل ہے کہ ہر ایک کو اس کے سمجھنے سے دھوکا لگ سکتاہے۔ آخر ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے اس کو سمجھا ہے یا نہیں؟ پھر اَور کوئی کیوں نہیں سمجھ سکتا۔
کسی کا یہ کہنا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے لکھ دیا ہے کہ رسالہ فتح اسلام، توضیح مرام اور ازالہ اوہام میں جہاں جہاں میں نے نبی کا لفظ لکھا ہے اُسے محدث سمجھ لو اس لئے آپ کو نبی نہیں کہنا چاہئے یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ یہ اُس وقت آپ نے لکھا تھا جبکہ آپ اپنے آپ کو نبی نہ سمجھتے تھے اور جب سمجھاتو اس کو منسوخ کر دیا۔ پس جب آپ نے اس کو منسوخ کر دیا توا ب اَور کس کا حق ہے کہ اس کو منسوخ نہ کرے۔
پھر وہی شخص لکھتا ہے کہ احمدی وہ ہوتا ہے جو حضرت صاحب کی کسی تحریر کو منسوخ نہ سمجھتا ہو۔ ہم کہتے ہیں حضرت مسیح موعودؑ نے ایک وقت حضرت عیسیٰ کو زندہ مانا ہے اس لئے اب ان کو زندہ ہی سمجھنا چاہئے اور جو ایسا نہیں سمجھتا وہ تمہارے نزدیک احمدی ہی نہیں۔اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں متعہ کی اجازت دی لیکن بعد میں منع فرما دیا۔ ۸؎ ا ب اس کے خیال میں وہ شخص مسلمان ہی نہیں جو متعہ کو اب ناجائز سمجھے۔ اسی طرح کئی اور احکام کی اجازت تھی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کرنے سے منع نہ فرماتے تھے مگر بعد میں ممانعت ہو گئی۔ مثلاً ابتدا میں کئی ایسے مسلمان تھے جنہوں نے اپنی سوتیلی مائوں سے نکاح کیا ہوا تھا بعد میں آپ نے منع فرما دیا۔ پھر گدھے کی حلت تھی ۹؎ اور بعد میں حکم آگیا کہ ایسا نہ کرو۔اور کئی اس قسم کے احکام ہیں کہ پہلے اس کے متعلق حکم دیا جائز سمجھا اور اس سے منع نہ کیا لیکن بعدمیں منسوخ کر دیا۔ اس سے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان ہی نہ تھے؟ پھر ایک زمانہ ایسا بھی آیا ہے کہ ۹۹ فیصدی مسلمان قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت کو منسوخ سمجھتے تھے کیاوہ سب کے سب کافر تھے؟ لیکن قرآن کریم کی کسی آیت کو ہم اس لئے منسوخ نہیں کہہ سکتے کہ قرآن کریم اس سے انکار کرتا ہے لیکن جس تحریرکو حضرت مسیح موعودؑ نے منسوخ کر دیا ہے اُس کو منسوخ نہ کرنا بلکہ قائم رکھنا ایک بہت بڑا ظلم ہے۔
اب کوئی کہے کہ اگر اس طرح تحریریں منسوخ ہونے لگیں توا ندھیر آجائے گا لیکن ہم کہتے ہیں اندھیر کس طرح آسکتاہے ؟اندھیرتو تب آئے جب اپنی عقل اور اپنی رائے سے کسی تحریر کو منسوخ قرار دے لے لیکن جب وہی تحریرمنسوخ ہو جس کو لکھنے والا منسوخ کرے تو پھر کوئی حرج نہیں واقعہ ہوتا۔ دیکھو گورنمنٹ ایک حکم دیتی ہے اور پھر اس کو منسوخ کر دیتی ہے۔ کیا اس طرح اندھیر پڑ جاتا ہے؟ نہیں۔ ہاں اگر گورنمنٹ کے کسی حکم کو وکلاء منسوخ قرار دیں تو پھر ابتری پڑ سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریر کو آپ ہی منسوخ قرار دے دیا ہے ا ب ہمارے لئے یہی ضروری ہے کہ ہم آپ کی ناسخ تحریر کومانیں نہ کہ منسوخ شدہ کو۔پس یہ کہہ دینا نادانی اور جہالت ہے کہ منسوخ کرنے سے تو اندھیر پڑ جائے گا یا حضرت صاحب کی ہتک ہو گی۔ ہم تو خدا تعالیٰ کے کلام میں بھی ناسخ و منسوخ دیکھتے ہیں۔ قرآن کریم بتاتا ہے کہ قبلہ کا حکم منسوخ ہوا تھااور تحویل قبلہ صاف بتا رہی ہے کہ پہلے کوئی اَور حکم تھا اور پھر اَور ہوا۔ چنانچہ قرآن کریم بھی کہتا ہے کہ ۱۰؎ ہم نے قبلہ کو اس لئے بدلا ہے تاکہ جان لیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون ایڑیوں کے بل پھر جاتا ہے۔ا ب کیا جو لوگ تحویل قبلہ مانتے ہیں وہ مسلمان نہیں ہیں؟
میں پھر یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت اس لئے منسوخ نہیں ہے کہ کوئی آیت کسی آیت کے ناسخ ہونے کے متعلق نہیں ہے۔ اگر قرآن کریم میں کہیں یہ آجاتا کہ فلاں آیت منسوخ ہے تو ہم اس کو مان لیتے لیکن اب جبکہ قرآن کریم میں ایسی کوئی آیت نہیں آئی تو اَور کوئی آیت کومنسوخ نہیں کر سکتاکیونکہ اگر ہر ایک اپنی مرضی کے مطابق منسوخ کرنے لگے تو سارا قرآن ہی منسوخ ہو جائے۔ کوئی کسی آیت کو منسوخ سمجھ لے اور کوئی کسی کو۔ اس لئے کسی کا حق نہیں ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت کو منسوخ قرار دے۔تو یہ بھی ایک غلط خیال ہے اس کی وجہ سے بھی ہم سچی گواہی کو نہیں چھپا سکتے اور نہ اس لئے کہ لوگ ہمیں کیا کہیں گے۔ لوگ ہمارے مسیح موعود کہنے سے ہم پر کہاں خوش ہیں تو کیا یہ کہنا بھی چھوڑ دینا چاہئے کہ اس طرح ان کو مسیح ابن مریم کا دھوکا لگتا ہے؟ پھر لوگوں کا خیال ہے کہ مہدی خونی آئے گا اس لئے حضرت صاحب کو مہدی بھی نہیں کہنا چاہئے کیونکہ اس طرح لوگوں کا خیال خونی مہدی کی طرف چلا جاتا ہے ہرگز نہیں۔ کہنے والا تو آپ کو یہی کہے گا کہ آپ مسیح موعود ہیں، آپ مہدی ہیں کیونکہ واقعہ میں یہی بات درست ہے۔ اس سے چاہے کسی کو دھوکا لگے یا تکلیف ہو یہ کہنے سے کبھی نہیں رُکے گا۔ اسی طرح ہم بھی نبی کا لفظ آپ کے متعلق بولنا اس لئے نہیں چھوڑ سکتے کہ واقعہ میں آپ نبی تھے۔ اگر آپ واقعہ میں نبی نہ ہوتے بلکہ یونہی آپ کو نبی کہا جاتا تو ہم آپ کو نبی کہنا چھوڑ دیتے۔ پھر اب تو ہم نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ نبی کا لفظ نہ استعمال کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو آپ کے متعلق دھوکا لگ گیا ہے اس لئے بھی اس کا استعمال کرتے ہیں۔ ہاں ساتھ ہی تشریح بھی کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کے غلط خیال کی اصلاح ہو جائے۔ ہم لوگوں کے ڈرسے یہ کہنے سے نہیں رُک سکتے۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ اگر کوئی میری گردن پر تلوار رکھ دے اور رسول کریمؐ کی کوئی حدیث رہ گئی ہو گی تو میں جلدی جلدی اسے بیان کر دوں گا کہ میرے سینہ میں ہی نہ رہ جائے۔ ۱۱؎
تو کامل ایمان اسی کو کہتے ہیں۔ ہم تو خدا تعالیٰ سے ایسے ہی ایمان کی توفیق چاہتے ہیں باقی جو بزدل ہیں وہ چھپاتے پھریں ہمیں تو لوگوں کی کچھ پرواہ نہیں صرف خدا ہی کی پرواہ ہے۔ جب اُس نے حضر ت مسیح موعودؑ کا نام نبی رکھا ہے اور جو آپ کو نبی نہیں کہتا اُسے آپ کا دشمن قرار دیا ہے تو ہم کیوں آپ کو نبی نہ کہہ کر آپ کے دشمن بنیں۔ ہم تو خدا کے فضل سے آپ کے دوستوں میں ہیں جس کا جی چاہتا ہے کہ دشمن بنے وہ آپ کو نبی نہ کہے۔ ہم بڑی دلیری اور جرأت سے کہتے ہیں کیونکہ نہ کہنا عدوّ کا کام ہے۔ ہم خادم ہیں اس لئے خدمت کا حق ادا کرتے ہیں اور وہ یہی ہے کہ دنیا کے سامنے آپ کا سچا دعویٰ پیش کریں۔
کسی کا یہ کہنا کہ بائبل میں مسیح کو ابنُ اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کہا گیا ہے تو کیا واقعہ میں مسیح کو خدا کا بیٹا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا مان لینا چاہئے؟ ہم کہتے ہیں یہ ایسی کتاب میں لکھا ہوا ہے جو محرف و مبدل ہے۔ قرآن کریم نے کسی جگہ ایسا نہیں کہا۔ تو پھر ابن اللہ تو ایک محاورہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی الہام ہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ بَمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ ۱۲؎ اس کا یہی مطلب ہے کہ حضرت مسیح موعود کا خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی درجہ ہے جو اگر کوئی اُس کا ولد ہوتا تو اُس کا ہوتا۔ یہ آپ کی منزلت بتانے کے لئے اُسی طرح کہاگیا ہے جس طرح قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو اپنا فعل قرار دے کر آپ کا درجہ بتایا ہے نہ کہ خدا قرار دیا ہے۔ فرمایا ۱۳؎ جن لوگوں نے تیری بیعت کی دراصل اُنہوں نے اللہ کی بیعت کی ہے اور اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اُوپر ہے۔ اس آیت سے کوئی نادان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نہیں کہہ سکتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی وہ اُنہی انعامات کے مستحق ہو گئے جن کے خدا سے بیعت کرنے پر مستحق ہوسکتے تھے۔ پھر ایک اَور آیت ہے جو یہ ہے۱۴؎ کہ جب تو نے پھینکا تو تُو نے نہیں پھینکا( یہاں خد اتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ وجود قرار دیا ہے اور تو کا لفظ اِس کو واضح کر رہا ہے)بلکہ خدا نے مٹھی پھینکی تھی ۔اِس میں بھی خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نہیں قرار دیا بلکہ ایک غیر کہہ کر پھر اس بات کو بتایا ہے کہ خدا کے پھینکنے پر جو نتیجہ برآمد ہو سکتا تھا وہی تیرے پھینکنے سے ہوا ۔ پس یہ غلط ہے کہ آنحضرتؐ کو قرآن کریم میں کہیں خدا کہا گیا ہے۔ باقی رہی بائبل وہ محفوظ ہی کہاں ہے کہ اس کی دلیل مانی جائے۔ پھر اگر ہے تو مسیحؑ کو نبی کہنے اور مسیح کوا بن اللہ کہنے میں بہت فرق ہے کیونکہ نبی کی لغت میں وہی تعریف ہے جو ہم کہتے ہیں لیکن ابن اللہ کے متعلق لغت کچھ نہیں بتا سکتی۔ اب ہم جو کچھ کہتے ہیں اس سے اگر کسی کو دھوکا لگتا ہے تو وہ معذور نہیں ہے کیونکہ جو ہم کہتے ہیں وہی لغت کہتی ہے۔ ہاں اگر لغت ہمارے خلاف ہوتی تو وہ معذور ہوتے۔ مثلاً کوئی کہے کہ اینٹ کے معنی گھوڑا ہے تو ہم اسے کہیں گے کہ ایسا نہیں کہنا چاہئے اس لئے لوگوں کو دھوکا لگتا ہے لیکن ایک درست بات کے متعلق کسی کو نہیں روکا جا سکتا۔
اس مسئلہ کے متعلق بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ابھی اچھی طرح واقف نہیں ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ نبوت کے متعلق قرآن اور حدیث سے بحث کروں اور بتائوں کہ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نبی تھے اور آئندہ بھی نبی آئیں گے۔ یہ تو جب ہو گا ہو گا لیکن میں چاہتاہوں کہ ہماری جماعت کے وہ لوگ جنہیں علم دیاگیا ہے وہ اس مسئلہ کے متعلق لکھتے رہیں ۔غیر مبائعین سے مقابلہ ا ب صرف اسی بات پر آرہا ہے باقی سب طرفوں سے وہ بھاگ گئے ہیں اس لئے ہمارے علماء کو چاہئے کہ بار بار اِس مسئلہ کے متعلق لکھتے رہیں۔ میں نے حقیقۃ النبوۃ میں بہت کچھ لکھ دیا ہے لیکن ایک بڑی کتاب کو لوگ بار بار نہیں پڑھ سکتے لیکن اگر اخبار میں مختلف پیرائوں میں اس کے متعلق لکھا جائے تو پڑھتے رہیں گے۔
میرے نزدیک تو اسلام کے لئے وہ دن موت کا دن ہو گا جبکہ تمام مسلمان یہ سمجھ لیں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ میں توایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال نہیں کر سکتا۔ خط لکھنے والا ایک خط لکھتاہے کہ میں نے ۱۸۸۹ء میں حضرت صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ میں نے ۱۸۹۶ء میں بیعت کی ہے۔ گویا اس لئے ہماری رائے وزن دار ہے کہ ہم نے فلاں سن میں بیعت کی ہے لیکن یہ دونوں شخص ایسے ہیں کہ جب اُنہوں نے بیعت کی ہے ایک ایک یا دودو دفعہ یہاں آئے ہیں۔میں کہتا ہوں ایسے لوگ جو نہ حضرت صاحب کے پاس آئے اور نہ آپ کی صحبت میں رہے وہ اگر ۱۸۸۶ء میں (اگر اُس وقت حضرت صاحب بیعت لیتے) بیعت کر لیتے تو پھر کیا تھا ۳۱۳ میں اسّی فیصدی ایسے ہیں جو میری بیعت میں داخل ہیں پھر ان کا عقیدہ کیوں ان سے وزن دار نہیں ہے۔
ہم حضرت صاحب کو نبی کہتے ہیں اور عَلَی الْاِعْلَان کہتے ہیں۔ مسلم میں آیا ہے کہ ہر نبی کے لئے ایک ایسی دعا ہوتی ہے وہ جس طرح کی جاتی ہے اُسی طرح قبول ہو جاتی ہے۔ ۱۵؎ مجددوں اور محدثوں کے لئے یہ ہرگز نہیں آیا ۔
حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل نے مجھے ایک دفعہ کہا جائوجا کر حضرت صاحب سے پوچھو کہ آپ نے وہ دعا کی ہے یا نہیں؟ میں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ پھر مولوی صاحب نے کہا کہ اب جا کر پوچھو کسی بات کے متعلق وہ دعاکرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ دنیا میں رسول اللہؐ نے بھی وہ دعا نہیں کی تھی ۱۶؎ میں بھی نہیں کروں گا بلکہ قیامت میں کروں گا۔
اگر حضرت صاحب نبی نہیں تھے تو میرے پوچھنے پر آپ مجھے ڈانٹتے کہ میں نبی نہیں ہوں پھر تم مجھ سے یہ سوال کیوں کرتے ہو لیکن آپ نے ایسانہیں کیابلکہ ایسا جواب دیا جو آپ کی نبوت کی تصدیق کرتا ہے۔
ایسی ایسی گواہیوں کے ہوتے ہوئے اگر کوئی ۱۸۸۹ یا ۱۸۹۶ ء میں بیعت کرنے والا اس کے خلاف کہتا ہے تو ہم کہیں گے کہ غلط کہتا ہے۔ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی کہنے پر ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ ایک اور ایک دو ہونے پر ۔یہی وجہ ہے کہ میں غیر مبائعین کو کہتا ہوں کہ مقابلہ پر آکر مباہلہ کر لیں۔ یہ توا ن کے لئے ہے جو کچھ حیثیت رکھتے ہیں اور جو ایسے نہیں ان کو بھی اجازت ہے کہ وہ اپنی طرف سے اعلان کر دیں کہ جو جھوٹا ہے وہ ہلاک ہو جائے۔ اگر ایسا نہیں کرنا چاہتے تو اپنے لیڈر کو میدان میں نکالیں۔ مجھے تو ذرا بھی خیال نہیں آتا کہ حضرت مسیح موعود نبی نہ تھے۔ ہم آپ کے سامنے آپ کو نبی کہتے رہے ہیں۔ ایک دفعہ کسی نے کہا کہ آپ بھی ایسے ہی ہیں جیسے کہ پہلے مجدد تھے؟ آپ لیٹے ہوئے تھے اُٹھ بیٹھے اور کہا کہ میں نبی ہوں اور نبی مبالغہ کا صیغہ ہے۔ مجھ سے پہلے اس اُمت میں کون ایسا ہوا ہے جو کثرت سے غیب کی خبریں دیتا تھا؟ اِس سے معلوم کر لو کہ آپ نبی تھے یا نہیں؟ کوئی آپ کو پہلے مجددوں کی طرح سمجھتا ہے تو دیکھ لے کہ کدھر جا رہا ہے۔
خیرا خیر میں میَں پھر اِس بات کی طرف اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اور یہاں اور باہر کے رہنے والوں کو اِس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ مسئلہ نبوت کے متعلق بار بار اخبار میں مضامین لکھتے رہیں اور نہ صرف حضرت مسیح موعودؑ کی کتابوں سے بلکہ قرآن، حدیث اور آئمہ کے اقوال سے۔ اور یہ مضمون اِس کثرت سے شائع ہوتے رہیں کہ لوگوں کو یاد ہو جائیں اور ایسے یا دہوں کہ جن کے بھولنے کی مرنے تک امید نہ ہو۔
ہمیں کسی سے بغض نہیں اور کسی بات سے خاص تعلق نہیں ہمیں تو خدا تعالیٰ سے غرض ہے ہم اس کے خوش کرنے کے لئے ہر ایک بات کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ہاں دعاکرتے ہیں کہ جس طرح ہمیں اپنے عقائد پر شرح صدر ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ یہی درست عقائد ہیں اِسی طرح ان کو بھی جو ہمارے دوست تھے اِن عقائد کے سمجھنے کی توفیق نصیب ہو تاکہ مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا اظہار کرنے والی ایک متحدہ جماعت تیار ہو اور درمیان سے فتنہ اور فساد دور ہو جائے۔‘‘ (الفضل ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۱۶ئ)
۱؎ المائدۃ: ۹ تا ۱۱
۲؎ القول الفصل صفحہ ۱۲
۳؎ ریویو جلد نمبر ۲ صفحہ ۲۵۷
۴؎ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۳
۵؎ تذکرہ صفحہ ۳۹۱۔ ایڈیشن چہارم
۶؎ الزحزف:۲۰
۷؎ بنی اسرائیل:۹۴
۸؎ بخاری کتاب المغاری باب غزوۃ خیبر
۹؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر
۱۰؎ البقرۃ:۱۴۴
۱۱؎ یہ حضرت ابوذرؓ کا قول ہے۔ بخاری کتاب العلم باب العلم قبل القول و العمل
۱۲؎ تذکرہ صفحہ ۵۲۶۔ ایڈیشن چہارم
۱۳؎ الفتح:۱۱ ۱۴؎ الانفال:۱۸
۱۵ ؎ بخاری کتاب التوحید باب فی المشیٔۃ والارادۃ
۱۶؎ بخاری کتاب التوحید باب فی المشیٔۃ والارادۃ
۳۳
قرآن کریم میں حضرت مسیح موعود کے زمانہ
کے متعلق پیشگوئی
(فرمودہ ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اورسورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل سورہ کی تلاوت کی۔
۱؎
اور فرمایا:۔
’’انسان کی ترقی اور کامیابی کے لئے خدا تعالیٰ نے اِس قدر سامان پیدا کئے ہیں کہ کوئی شخص ان کی حدبندی نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اگر تم اس کی نعمتوں کو شمار کرناچاہو تو تمہاری طاقت میں نہیں کہ اُن کو شمار کرسکو۔ ۲؎
پھر فرماتا ہے کہ سمندر اگر سیاہی ہو جائیں اور تمام درخت قلمیں اور ان سے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو لکھنا شروع کیا جائے تو یہ تمام کے تمام صرف ہو جائیں مگر ۔ ۳؎ اللہ تعالیٰ کے کلمات کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ کے کلمات اس کی تمام پیدا کی ہوئی مخلوق ہے اور وہ تمام انعامات جو اس نے انسان کے نفع اور فائدہ کے لئے پیدا کئے ہیں سب کلماتُ اللہ ہی ہیں انسان کی کیا طاقت ہے کہ ان کی حدبندی کر سکے اور ان کو شمار میں لا سکے۔ پس جب اس کے انعامات غیر محدود ہیں تو انسان کی ترقی کامیدان کس طرح محدود ہو سکتا ہے وہ بھی غیر محدود ہی ہے اس لئے انسان ترقی بھی غیر محدود ہی کر سکتا ہے لیکن ان کے حصول کے لئے پھر غیر محدود محنت اور مشقت کی ضرورت ہے۔ مثلاً کسی مکان کی بیس سیڑھیاں ہیں تو اس پر چڑھنے کے لئے بیس ہی دفعہ ہر سیڑھی پر گزرنے کے لئے کوشش کرنی پڑے گی تو غیر محدود ترقی حاصل کرنے والے کو غیر محدود محنت اور اَن تھک کوشش کی ضروری ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ نے انسان کی ترقی کے لئے بڑے سامان پیدا کئے ہیں پھر ان سامانوں کے ساتھ کچھ ایسے موانع بھی ہوتے ہیں جن کے ذریعہ انسان کوچوکس اور ہوشیار کیا جاتا ہے۔
قاعدہ کی بات ہے کہ تکلیف سے انسان چوکس اور ہوشیار ہوتا ہے اور اس کے برخلاف راحت اور آرام سے غافل اور سست ہوتا ہے اس لئے جتنی تکلیف زیادہ ہواتنا ہی اس کو زیادہ چوکس رہنا پڑتا ہے اور جتنا اس کو زیادہ آرام حاصل ہواُتنا ہی اُس پر زیادہ سستی اور غفلت طاری ہوتی ہے۔ مثلاً شیر کے سامنے اگر کوئی پڑا ہواہو یا کسی اور خوف و خطر کی جگہ میں ہو تو اسے نیند نہیں آتی مگر جب ٹھنڈی جگہ، ٹھنڈا پانی اور نرم بستر پر پنکھا جھلنے والے خدام اس کو میسر آئیں تو بڑی غفلت کی نیند سو جاتا ہے کیونکہ آرام غفلت کا باعث ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نعمت انسان کو غافل کر دیتی ہے مگرا للہ تعالیٰ کے انعامات کے ساتھ کچھ تکالیف بھی ہوتی ہیں جو اُس کو چستی اور ہوشیاری کی طرف لے جاتی ہیں تا وہ انعامات سے راحت اور آرام حاصل کر کے غافل اور سُست نہ ہو جائے۔ جو شخص اِن دونوں باتوں کو مدنظر نہیں رکھتا وہ ترقی اور کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ انسان کو تکالیف سے یہ یقین ہونا چاہئے کہ اس کو غفلت سے بچانے اور سُستی سے دور رکھنے کے لئے ہیں۔ جو اپنے آپ کو ان مشکلات سے بچانا چاہتا ہے وہ غافل اور سست ہو کر ترقی سے محروم رہ جاتا ہے اور ایسے ہی لوگ ہمیشہ ذلیل اور خوار ہوتے ہیں ورنہ خدا تعالیٰ نے انسان کو ذلت اور رُسوائی کے لئے نہیں بلکہ بڑے انعامات کے لئے پیدا کیا ہے۔ لیکن اس میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو مشکلات اور مصائب کو بھی برداشت کرتا ہے۔ اور ان مشکلات اور تکالیف کو انعام کے ساتھ رکھنے کی غرض صرف یہی ہے کہ انسان غافل اور سست نہ ہو جائے۔ پس کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ نہ تو انسان تکالیف سے گھبرائے اور نہ ہی انعامات سے آرام میں پڑ کر خدا تعالیٰ سے غافل ہو جائے۔
اس سورۃ میں خدا تعالیٰ نے ان مشکلات سے بچنے کاایک طریق بیان کیا ہے۔ فرمایا تمہارے راستے میں بڑی مشکلات ہیں۔ ہر ایک اچھی چیز میں بھی انسان کے لئے کوئی نہ کوئی پہلو ٹھوکر کا ہوتا ہے حتیٰ کہ اللہ کی ذات جو انسان کے حق میں بہت مفید اور بابرکت ہے اور ہمیشہ اس کے لئے فائدہ ہی فائدہ چاہتی ہے اس میں بھی یہ ٹھوکر کھا جاتا ہے۔ کبھی ا سکی صفات کو نہ سمجھنے اور کبھی اس کی قدرتوں اور طاقتوں کے نہ جاننے کے باعث وہ گمراہی اور ضلالت کے گڑھے میں گر جاتا اور راہِ راست سے دور جاپڑتا ہے۔ یہی کھانا جو انسان کے لئے قوت اور طاقت کا باعث بلکہ انسانی زندگی کا انحصار اسی پر ہوتا ہے جب کوئی اسے حدسے زیادہ استعمال کر لیتا ہے تو یہی اس کے لئے نقصان دہ اور ہلاکت کا باعث ہو جاتا ہے۔
ہندوئوں کے ہاں شرادھ ہوتے ہیں۔سنا گیا ہے بعض وقت شرطیں لگا لگا کر پنڈت اتنا کھاجاتے ہیں کہ پیٹ پھٹ جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک برہمنی کسی خاندان میں بیاہی گئی ایک روز اس کی ساس نے اُس کو کہا کہ اپنے سسر کے لئے بستر بچھا چھوڑو کہ وہ آج شرادھ کھانے گیا ہے جب کھا کر آتا ہے تو بیٹھ نہیں سکتا۔ یہ سن کر بہو رونے اور پیٹنے لگی کہ میں کن کمینوںکے ہاں بیاہی گئی ہوں ہماری قوم کی تو اُنہوں نے ناک کاٹ دی۔ ساس نے پوچھا تم کیوں روتی پیٹیی ہو؟ کہنے لگی تمہارے ہاں میرے بیاہے جانے سے تو ہمارے خاندا ن کی ناک کٹ گئی ہے۔ ہمارے خاندان سے تو جو کوئی شرادھ کھانے جاتا ہے وہ خود چل کر گھر نہیں آسکتا بلکہ چارپائی پر اُٹھا کر اسے لانا پڑتا ہے اور تم کہتی ہو کہ وہ شرادھ کھا کر آتے ہیں تو بیٹھ نہیں سکتے۔ انہیں تو اتنا کھانا چاہئے کہ چل کر آبھی نہ سکیں۔ کھانا عمدہ چیز ہے مگر دیکھو اس کی بد استعمالی نے اسے لوگوں کو کیسا نکما اور سست کر دیا۔
اسی طرح بعض لباس بھی بڑی سستی اور غفلت کا باعث ہوتے ہیں۔ بعض لوگ تو اس قسم کا لباس استعمال کرتے ہیں کہ ذرا سی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتے ۔جو لوگ کالر لگاتے ہیں وضو کرنا ان کے لئے ناقابل برداشت تکلیف ہو جاتی ہے۔ انہیں یہی فکر د امنگیر ہوتی ہے کہ کالر کو کہیں گیلی اُنگلی نہ چھو جائے، داڑھی کو اچھی طرح دھونا اورخلال کرنا ان کے لئے مصیبت ہوتی ہے اس لئے اکثر تو داڑھی منڈا ہی دیتے ہیں او ر جو رکھتے ہیں وہ بھی بہت چھوٹی۔ اسی طرح پتلون ہے اکثر دیکھاگیا ہے کہ پتلون پہننے والے کو نماز کی صورت بدلنی ہی پڑتی ہے تاکہ کہیں پتلون میں بل نہ آجائے۔ اسی قسم کے لباس انسان کو عیش پسند اور آرام طلب بنا کر سست اور غافل کر دیتے ہیں۔
پھر پینے کی چیزیں ہیں جو کیا جسمانی اور کیا روحانی دونوں رنگ میں انسان کے لئے مضر ہوتی ہیں۔ یہ اس لحاظ سے بُری نہیں کہ خدا نے ان کو بُرا بنایا ہے بلکہ ان میں برائی جو پیدا ہو گئی ہے تو ان کے بد استعمال کی وجہ سے سے پیدا ہو گئی ہے۔
یہ آیات جو میں نے پڑھی ہیںان میں خدا نے یہاں لفظ ہی ایسے رکھے ہیںجو ہر چیز کے شر اور نقصان سے بچنے کیلئے استعمال ہوئے ہیں۔ کہ رَبُّ الْفلق کے حضور تم پناہ مانگو کہ وہ ان تمام اشیاء کے بد نتائج سے جو انسان کی سستی اور غفلت کی وجہ سے پیدا ہو جاتے ہیں تم کو اُن سے محفوظ رکھے۔ پھر چونکہ ظلمتیں بھی انسان کے لئے گمراہی کا باعث ہوتی ہیں اس لئے فرمایا کہ جب تم ظلمت اور اندھیرے میں پڑ جائو تو روشنیوں کا پیدا کرنے والا ربّ ہے اس سے پناہ مانگو تا وہ تم کو ظلمت سے نکال کر روشنی میں لاوے۔ فَلَقْکے معنی پَو پھٹنے کا وقت اور تمام مخلوقات کے بھی ہیں۔ تو فرمایا تم تمام مخلوقات کا جو خدا ہے اس کے حضور پناہ مانگو کہ جو کچھ اس نے پیدا کیا اور اس سے جو بدنتائج پیدا ہو سکتے ہیں اُن سے وہ تم کو محفوظ رکھے کیونکہ تمام چیزیں جو اس کی پیدا کی ہوئی ہیں جب انسان ان کا غلط استعمال کر بیٹھتا ہے تو وہ اس کے لئے مضر اور نقصان دہ ہو جاتی ہیں اس لئے تم کو ان کے پیدا کرنے والے کی طرف توجہ کرنی چاہئے ۔بہت سے انسان ہیں جو عیاشی میں پڑ کر حد سے گزرجاتے ہیں جب اس کے بدنتائج کا منہ دیکھتے اور تکلیف اٹھاتے ہیںتو پھر بے اختیار خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
یورپ کو دیکھو کس قدر ترقی کی، اپنے سامانوں اور اپنی ایجادوں پر کس قدر اس کو ناز اور فخر تھا لیکن آج وہی سامان وہی ایجادیں وہی علوم اس کی ہلاکت کا موجب ہو رہے ہیں۔ ان کو ہر روز یہی فکر لگی رہتی ہے کہ معلوم نہیں سائنس آج کونسا موت کا آلہ ہمارے لئے تیار کرتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ جس قدر اشیاء پائی جاتی ہیں اگر ان سے نفع حاصل ہوتا ہے تو ضرر بھی ان میں ضرور ہے اس لئے ان کے پیدا کرنے والے کی طرف توجہ کرنی چاہئے تاکہ ان کے نقصانات سے محفوظ رہیں۔ آرام کے وقت انسان کم ہی نعمت کی قدر کرتا ہے۔ جب تک آنکھوں میں نور ہے دوسروں کی عیب چینیاں کرتا اور جب بینائی جاتی رہتی ہے تو پھر پشیمان ہوتا اور افسوس کرتا ہے۔ جب تک زبان میں قوت ذائقہ ہے کہتا ہے فلاں چیز کا ذائقہ اچھا نہیںفلاں چیز بدمزہ ہے لیکن جب زبان کی وہ قوت ہی جاتی رہتی ہے تو کہتا ہے کاش! معمولی مزہ ہی زبان میں ہو۔
پس ان تمام اشیاء میں جو شرور ہیں ان کو او رجوجو اُن میں تکالیف ہیں اِن کو دیکھتے ہوئے رَبُّ الْفَلَقِ ہی تمہارا ملجاء وماوٰی ہونا چاہئے اور اُسی کے حضور پناہ لے کر تم ان مشکلات کے بدنتائج سے بچ سکتے ہو۔ تو فرمایا پناہ مانگو یعنی خالق اشیاء کے حضور۔ جو کچھ بھی اس نے پیدا کیا ہے اس کے شر سے تاکہ جو ان اشیاء کی بد استعمالی کی وجہ سے بد نتائج پیدا ہونے والے ہوں اُن سے وہ تم کو محفوظ رکھے اور پناہ مانگو یعنی روشنی کے پیدا کرنے والے کے حضور ۔ تمام اندھیروں کے شرور سے۔ اندھیرے وہ ہیں جو انسان اپنی غفلت کے باعث مختلف نامرادیاں اور ناکامیاں دیکھتا ہے اور شرور سے مراد دکھ اور تکلیفیں ہیں۔ جب انسان صرف انہی اشیاء سے تعلق لگا کر یہ سب مصائب دیکھتا اور دکھ اٹھاتا ہے تو مجبور ہو کر اس کو خدا کی طرف توجہ کرنی پڑتی ہے۔
میرے نزدیک اس سورۃ فاتحہ میں حضرت مسیح موعود کے زمانہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اور یہ وہی وقت ہے جس کا اس میں ذکر کیاگیا ہے کیونکہ آج ہی وہ زمانہ آیا ہے جس میں ہر قسم کے شر اور اندھیرے رونما ہوئے ہیں۔ فساد کی کوئی حد نہیں، حسد نے دلوں کو کھا لیا ہے، بغاوت نے راحت و آرام کھو دیا ہے ان سب امور کی بد انجامیوں سے بچنے کے لئے جو لوگوں کی بداستعمالیوں کی وجہ سے پیدا ہو گئے ہیں صرف یہی صورت ہے کہ تم خدا کی طرف۔ دوڑو اور یہ فساد اسی لئے اُٹھے ہیں کہ تا تم اس کی طرف جھکو۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ ان نقصانات کو دیکھ کر بے اختیار اس وقت کہہ اُٹھیں گے ہم تیری ہی پناہ میں آتے ہیں۔ جس قدر ہم اِن اشیاء کی طرف جھکے اُسی قدر تجھ سے دور ہوئے اب ان سے نقصان اُٹھا کر پھر تیری طرف ہم متوجہ ہوتے ہیں تو ہماری دستگیری فرما۔
میں سمجھتا ہوں مسلمانوں کے لئے یہ سورۃ بڑی قابل توجہ ہے۔ا ن کا نور کو چھوڑ کر ظلمت کی طرف جانا پھر آپس میں حسد ، بغض اور عداوت، ایک دوسرے کے خلاف منصوبے کرنا یہی ہمیشہ ان کی ہلاکت کا باعث ہوئے۔ حضرت صاحب بارہا ان کو ان الفاظ سے مخاطب کرتے کہ دیکھو کہ تمام اشیاء تمہارے لئے ہلاکت کا باعث ہور ہی ہیں طاعون نے تمہاری زندگیاں تلخ کر دی ہیں، قحط سالی نے تمہاری آنکھوں کے آگے دنیا اندھیر کر دی ہے، تم جس طریق سے عزت چاہتے ہو اُس سے تمہارے لئے ذلت کا سامنا ہوتا ہے۔ تم چاہتے ہو عروج ہو اور ہوتا زوال ہے غرض جو اَسباب بھی تم استعمال میں لاتے ہو تمہارے خلاف ہی نتائج پیدا کرتے ہیں تو پھر تم اب بھی کیوں نہیں خدا کی طرف رجوع کرتے!! مگر مسلمانوں کی طرف سے یہی جواب ملتا رہا قحط اور بیماریاں ہمیشہ ہوتی آئی ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ معلوم ہوتا ہے ان کی قسمت میں ابھی اَور بہت کچھ مصائب لکھے ہیں۔ جب تک وہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں خدا کی طرف رجوع نہیں لائیں گے۔
میں نے ایک ٹریکٹ بنگال میں تقسیم کرنے کے لئے شائع کیا تھا۔ ایک شخص نے اُسے پڑھ کر مجھے خط لکھا کہ تم جو اِس بات پر زور دیتے ہو کہ مہدی آگیا ، مسیح آگیا ، مہدی کس طرح آسکتا ہے جبکہ ابھی ایک حکومت مسلمانوں کی باقی ہے۔ چند ہی روز گزرے کہ ترک بھی شریک جنگ ہو گئے اور خدا نے کہا کہ یہ برائے نام حکومت اور تھوڑی سے نعمت بھی جو تم رکھنا نہیں چاہتے وہ بھی ہم چھین لیتے ہیں۔ اب تک بہت سا علاقہ ان کے قبضہ سے نکل چکا ہے۔ اگر بفرضِ محال جنگ کے خاتمہ تک وہ بچ بھی رہے تو کیا طاقت باقی رہے گی؟ نہ ہونے کے برابر ہو گی۔
ہماری جماعت اس لحاظ سے تو ترقی پر ہے کہ دنیا کی محبت سے ان کے دل سردہیں مگر اس سورۃ کے پچھلے حصے سے مجھے خوف آتا ہے کہ ابھی تک یہ بات ان میں پیدا نہیں ہوئی۔ حسد اور عداوت ذرا ذرا سی باتوں پر لڑائیاں اور جھگڑے پیدا ہوجاتے ہیں۔ کے معنی چپکے سے کانوں میں کچھ پھونک دینا۔ وہ لوگ ہیں جو چپکے چپکے ایک دوسرے کے کان میں کچھ کہہ کہلا کر تعلقات اور دوستیاں تڑوا دیتے ہیں اور بجائے دوست کے ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتے ہیں۔ سچی دوستی اور محبت دنیا میں ہی مفید نہیں ہوتی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دنیا میں سچی دوستی اور محبت کرنے والے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے عرش کے سایہ کے نیچے ہوں گے ۔ تو فرمایا ان کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے بھی تم اللہ ہی کے حضور پناہ مانگو۔
ہماری جماعت کو اس بات کی طرف بہت کم توجہ ہے اللہ تعالیٰ ہم کو تمام اشیاء کے بد نتائج سے محفوظ رکھے اور ہم کو ہر قسم کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف راہنمائی کرے اور کوئی شخص ہم میں دوستیوں اور محبتوں کو قطع کرنے والا نہ ہو اور ایک دوسرے کی ترقی کو دیکھ کر ہمارے دل میں حسد پیدا نہ ہو بلکہ ہم خوش ہوں کہ ہمارے بھائی کو خدا نے یہ ترقی دی ہے۔‘‘
(الفضل ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۱۶ئ)
۱؎ الفلق: ۲ تا آخر ۲؎ النحل: ۱۹ ۳؎ لقمان: ۲۸
۳۴
دیگر مذاہب پر اسلام کی فضلیت
(فرمودہ ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اورسورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی:۔
۱؎
اور فرمایا:۔
’’اسلام کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دیگر مذاہب پر جو فضیلتیں حاصل ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں ایسے مسائل جو ہیں تو جزوی لیکن تمدن یا اخلاق یا عظمت الٰہی یا اللہ تعالیٰ کی محبت کے پیدا کرنے میںاُن کا بڑا دخل یا اثر ہے ان کو بالتفصیل بیان کرتا ہے اوریہ فضلیت ایک ایسی بین اور روشن فضیلت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی جبکہ ابتدائی زمانہ تھا اور لوگوں کا حسد اور بغض بہت بڑھا ہو اتھا اور بعد میں بھی جبکہ اسلام کے متعلق مخالفین کے دلوں میں غصہ اور کینہ بہت سرایت کر گیا تھا اِس کو تسلیم کیا گیا ہے۔ چنانچہ یہود کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ ان کو اس بات کا اقرار تھا اور وہ یہ کہتے کہ اسلام نے جس تفصیل سے باتیں بیان کی ہیں اور کسی مذہب نے نہیں کیں۔ ۲؎ گویا ان کو اسلام کی ایسی باتوں پر رشک آتا ہے اور کسی نے کہا ہے اَلْفَضْلُ مَاشَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ کہ خوبی وہی ہوتی ہے جس کا اقرار دشمن کرے۔ تو دشمنوں نے بھی اِس بات کا اقرار کیا ہے کہ اسلام میں جزوی مسائل کے متعلق بھی اس طرح کھول کھول کر بتا دیا گیا ہے جن سے مسلمان بہت فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ اس زمانہ میں مسلمانوں کے دین سے بعد ہو جانے کی وجہ سے وہ تمدن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے قائم کیا تھا بہت کمزور ہو رہا ہے اور باوجود اس کے کہ اسلام نے تمام مسائل کو ایسے تفصیلی رنگ میں بیان کر دیا ہے کہ جس کی نظیر کسی اَور مذہب میں نہیں پائی جاتی تاہم مسلمان دن بدن گرتے جارہے ہیں۔ احکام کے لحاظ سے تو کسی مذہب کی کوئی کتاب قرآن کریم اور احادیث کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن اب مسلمان عمل کے لحاظ سے تمام لوگوں سے پیچھے ہیں۔ وحشت ، خود پسندی،لڑائی جھگڑے ان میں بہت بڑھ گئے ہیں۔ مدنیت کو چھوڑ کر بدویت کی طرف جھک گئے ہیں۔
اسلام تمدن سکھانے والا مذہب ہے اور انسان کوتمدن سے وابستہ کر دیتا ہے اس کا ثبوت اس سے ہی ملتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فتن کے وقت مومن کو چاہئے کہ جنگل میں چلا جائے۔ ۳؎ یعنی ایسے وقت جبکہ ضلالت اور گمراہی حد سے بڑھ گئی ہو اور اس کا علاج سوائے خدا کے کسی فرستادہ کے اَور کوئی نہ کر سکتا ہو تو چاہئے کہ عام لوگوں سے علیحدہ ہو جائے۔ اس سے پتہ لگا کہ مومن کا اصل کام تو یہی ہے کہ لوگوں میں رہے، ان سے تعلقات رکھے ہاں سخت تاریکی کے وقت اسے علیحدہ ہو جانا چاہئے۔ اگر ایسی حالت نہ ہو تو پھر یہی بہتر اور ضروری ہے کہ لوگوں میں رہے۔ تمدنی تعلقات بڑھائے، انہیں اسلام کی تعلیم دے، تو تمدن اور اسلام دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں جہاں اسلام ہو گا وہاں تمدن بھی ہو گا۔ ہاں اگر کوئی اسلامی احکام کے خلاف کرتا ہے اور پھر تمدن نہیں رہتا تو یہ اسلام کا قصور نہیں بلکہ اس کا اپنا قصور ہے۔ا گر کوئی شخص کھانا نہ کھائے اور کہے کہ میرا پیٹ نہیں بھرتا تو ہم کہیں گے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کھانا کھائے بغیر پیٹ بھر جائے۔ ہاں اگر کوئی کھانا کھائے جائے اور پھر پیٹ نہ بھرے تو پھر یہ اسے کہنے کا حق ہو سکتا ہے کہ یہ کھانا ہی ردّی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی قوم اسلامی قواعد پر عمل ہی نہیں کرتی تو اس کی کمزوری اور نااہلی اسلام کی کمزوری نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ اس پر عمل ہی نہیں کرتی ہاں اگر وہ عمل کرے اور درست طریق سے عمل کرے پھر کمزور کی کمزور ہی رہے تو کہا جائے گا کہ اس تعلیم کا نقص ہے لیکن اِس وقت تک دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہوئی کہ جو اسلام کے بتائے ہوئے قوانین تمدن پر چلی ہو اور پھر وہ اعلیٰ درجہ کی متمدن نہ ہو گئی ہو۔ اِس زمانہ میں مسلمانوں کی جو حالت ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اسلامی قواعد پر عمل نہیں کرتے اور ان سے دور چلے گئے ہیں۔
تمام ہندوستان میں یہ بات نظر آتی ہے کہ مسلمان اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنے کو عیب سمجھتے ہیں اور بہت ایسے ہیں کہ جن کو اگر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہہ دیا جائے تو لڑ پڑتے ہیں کہ کیا ہمیں تم دھنیا یاجو لاہا سمجھتے ہو۔ گویا ان کے نزدیک اَلسَّلَامُ ایک ایسی معیوب بات ہے جو صرف جولاہوں اور دھنیوں کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے دوسروں کے لئے نہیں۔ بعض اسلامی ریاستوں میں تو یہ حکم جاری کر دیا گیا ہے کہ والئی ریاست کو ا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمکہنا ہتک سمجھی جائے گی اور اگر کسی نے کہا تو اسے سزا دی جائے گی ہاں کورنش بجا لانا چاہئے۔ چنانچہ ممکن نہیںکہ جو لوگ ایسے والیانِ ریاست کوملنے جاتے ہیں اس کے خلاف کر سکیں وہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمکبھی نہیں کہہ سکتے کہ اس سے ہتک سمجھی جاتی ہے۔اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ مسلمان کہاں تک اسلام سے دور ہو گئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ان میں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہنے کا رواج اور عمل نہیں رہا بلکہ اس پر عمل کرنا ہتک سمجھا جاتا ہے اور جہاں انہیں اختیار حاصل ہے وہاں اس پر سزا دینے کے لئے تیار ہیں۔ پھر اگر کوئی لاعلمی کی وجہ سے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمکہہ دے تو کہتے ہیں کہ یہ کیا پتھر کی طرح اُٹھا کر مار دیا۔ کیا تم میں اتنی بھی تہذیب نہیں کہ بڑوں کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمکہتے ہو۔ ’’آداب عرض‘‘ کہنا چاہئے اس پر وہ خوش ہوتے ہیں۔
ایک دفعہ ہم دہلی گئے۔ جن کے گھر ہم ٹھہرے ہوئے تھے ان کا ایک چھوٹا سا لڑکا تھا اس کو میں نے علیحدہ لے جا کر خوب اچھی طرح سکھا دیا کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہا کرو آداب عرض نہ کہا کرو۔ ایک دفعہ ہم باہر سے جو گھر آئے تو اس لڑکے نے کہا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم ہم نے وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ کہا۔ تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ ایک کونہ سے اس بچے کے رونے کی آواز آرہی ہے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کی اماں اس بچے کو آہستہ آہستہ اس لئے مار رہی ہے کہ تم نے بڑوں کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کیوں کہا۔ ہم نے کہا اس بیچارے کا کوئی قصور نہیں یہ تو ہم نے ہی اسے سکھایا ہے۔ تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہنا بڑی ہتک سمجھی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ شرفاء کا طریق نہیں ہے حالانکہ اصل میں یہی شرافت ہے۔ ’’آداب عرض‘‘ کے معنی ہی کیا ہوئے ایک فضول اور لغو سا فقرہ ہے لیکن اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہنے میں دعا کی جاتی ہے۔ یہ کہنے والاکہتا تویہ ہے کہ تجھ پر سلامتی ہو لیکن اس فقرہ کا رنگ بدلا ہوا ہے تاکہ آپس میں محبت اور اُلفت کا اظہار ہو۔ اصل میں اس کے یہ معنی ہیں کہ اے اللہ تو اس بندے پر سلامتی نازل کر۔ اب دیکھ لو کہ یہ کہنے سے نیک نتائج نکل سکتے ہیں یا آداب اور تسلیمات کہنے سے۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمکہنا تو ایک دعا اور خواہش ہے جو خدا تعالیٰ سے کی جاتی ہے لیکن دوسرے صرف الفاظ ہی الفاظ ہیں معنی کچھ نہیں رکھتے اس لئے جو برکت دعا میں ہے وہ ان میں کہاں ہو سکتی ہے مگر باوجود اس کے مسلمانوں نے اسے ترک کر دیا ہے اور آج سے نہیں بلکہ آج سے بہت عرصہ پہلے سے مدت ہوئی ایک سیاح ابن بطوط ہندوستان میں آئے تھے وہ لکھتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہنے کا طریق نہیں رہا اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
اگرچہ یہ اور اسی قسم کی اَور چھوٹی چھوٹی باتیںہیں لیکن درحقیقت یہ بہت بڑی بڑی ہیں۔ یہی دیکھ لو السلام علیکم کہنا ایک معمولی سی بات ہے لیکن نتیجہ کے لحاظ سے کس قدر عظیم الشان ہے۔ دن میں ایک انسان کئی بار دوسروں سے ملتا ہے اگرو ہ تمام کے تمام اسے کہیں کہ خدا کی طرف سے تجھ پر سلامتی ہو تو خیال کر لو کہ اسے کتنا فائدہ ہو سکتا ہے۔لیکن اگر اسے ہزار انسان بھی آداب ، تسلیم اور بندگی وغیرہ کہے تو سوائے اس کے کہ یہ لغو فقرات اس کے سامنے دہرائے جائیں گے اَور کچھ نہیں ہو گا۔
آجکل مسلمان تمدن سے بہت دور ہو چکے ہیں اور اسلام کو چھوڑ کر اَور طرف نکل گئے ہیں اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہنے کو ہتک سمجھتے ہیں حالانکہ اس کی بجائے آداب ، تسلیمات وغیرہ جتنے الفاظ رکھے گئے ہیں و ہ سب لغو ہیں اور سلام ایک دعا ہے لیکن یہ مسلمان میں سے مٹ گئی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبات میں اس قسم کی باتوں کو بھی عام طور بیان کرتے تھے تاکہ لوگ ناواقفیت کی وجہ سے صداقت سے دُور اور ان کے فوائد سے محروم نہ رہ جائیں جو پاک تعلیم پر عمل کرنے سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ آج مجھے بھی خیال آیا کہ ایسی باتیں جو بظاہر چھوٹی چھوٹی معلوم ہوتی ہیں لیکن ان کا نتیجہ بہت بڑا نکلتا ہے انہیں بیان کیا جائے تاکہ اگر ہماری جماعت میں سے بھی کوئی ان سے ناواقف ہو تو وہ واقف ہو جائے۔ خدا کے فضل سے ہماری جماعت میں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمکہنے کا طریق بہت عمدگی سے رائج ہے گو ہندوستان سے آنے والے لوگوں میں کچھ کمی ہے ایسے لوگوں کو فائدہ پہنچ جائے گا۔ پھر اپنی جماعت کے لوگ دوسرے لوگوں کو یہ باتیں آسانی سے سکھا سکیں گے کیونکہ ہر ایک شخص کو خواہ کوئی ہو نیکی سکھانا اور شریعت اسلام سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے اور خاص کر غیر احمدیوں کو کیونکہ جب وہ شریعت سے واقف ہوں گے اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ واقفیت ہمیں احمدی جماعت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے اس لئے وہ احمدی بھی ہو جائیں گے اور یہ ایک ذریعہ ہو گا ان کے احمدی ہو نے کا۔ تو جو لوگ ہماری جماعت میں سے ان باتوں پر عمل کرتے ہیں میرے بیان کرنے سے ان کے دلوں میں خاص اہمیت گڑ جائے گی اور وہ دوسروں کو سمجھانا ضروری سمجھیں گے اور جو ناواقفیت اور لا علمی کی وجہ سے ان پر عمل نہیں کرتے وہ عمل کر کے فائدہ حاصل کریں گے۔
میں نے اِس وقت جو آیتیں پڑھی ہیں ان میں خد اتعالیٰ نے دو ایسے حکم دئیے ہیں جو اگرچہ شریعت کے قوانین نہیں ہیں تمدن سے تعلق رکھتے ہیں مگرا ن پر بہت زور دیا گیا ہے کیونکہ ان کا اثر دین پر پڑتا ہے وہ حکم یہ ہیں۔
اوّل یہ کہ جب کسی مکان میں داخل ہونے لگو تو داخل ہونے سے پہلے مکان میں رہنے والے سے اجازت حاصل کرلو۔ اگر وہ اجازت دے دیں تو داخل ہو جائو۔
دوم یہ کہ جب مکان میں داخل ہو جائو تو انہیں سلام کرو۔
پہلے حکم کے متعلق یہ اور فرمایا کہ اگر اندر آنے کی اجازت نہ ملے تو پھر داخل مت ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی اور تشریح فرماد ی ہے۔ قرآن کریم نے کہا ہے کہ پہلے اِذن مانگو اَور پھر اگر اجازت پائو تو مکان میں داخل ہو اور اگر اجازت نہ ہو تو نہ داخل ہو۔ اس اِذن مانگنے کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تشریح فرمائی ہے کہ یہ اِذن تین دفعہ مانگو ۔تین دفعہ کے بعد اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ آئو۔ ۴؎ یہ نہیں کہ بار بار آوازیں دیتے یا کنڈی کھٹکھٹاتے رہو۔ا گر کسی کو داخل ہونے کی اجازت مل جائے تو اس کے لئے قرآن کریم نے یہ دوسرا حکم دیا ہے کہ ۔ اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَا تَدْ خُلُوا الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا وَلَا تُؤْمِنُوْا حَتَّی تَجَابُّوْا۔ اَوَلَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی شَیْئٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ اَفْشُوْا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ ۵؎ کہ اسی ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم جنت میں نہیں داخل ہو سکتے جب تک مومن نہ ہو اور مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو۔اورکیا میں تمہیں آپس میں محبت کرنے کی ترکیب بتائوں؟ وہ یہ کہ آپس میں سلام خوب پھیلائو یعنی کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کہو۔
اجازت مانگنے کے متعلق فرمایا کہ تین دفعہ مانگو۔ یہ بات بھی اپنے اندر بہت بڑی حکمت رکھتی ہے ۔بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ کسی کے دروازہ پر جا کر ایک بار کھٹکھٹائیں گے یا آواز دیں گے اگر کوئی آواز نہ آئے تو پھر ایسا ہی کریں گے حتی کہ گھنٹہ گھنٹہ اسی طرح کرتے رہیں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کرنے سے منع فرمایا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ تین دفعہ آواز یا دستک دو پھر اگر جواب نہ ملے تو واپس آجائو کیونکہ اندر سے اگر کوئی جواب نہیں دیتا تو اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ممکن ہے وہ گھر ہی نہ ہو یا اگر گھر میں ہو تو سویا ہوا ہو۔ اس صورت میں اگر کوئی بار بار آواز دیتا ہے تو اُس کی نیند خراب ہو گی اس لئے اس طرح کرنا پسندیدہ بات نہیں۔یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اس آدمی سے ملنا ہی پسند نہیں کرتا یا اس سے بات کرنا نہیں چاہتا اس لئے کوئی جواب بھی نہیں دے سکتا۔یا کسی ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ جواب نہیں دے سکتا۔ا ن تمام صورتوں میں بار بار آواز دینا یا کنڈی کھٹکھٹانا بہت معیوب اور ناپسندیدہ بات ہے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین دفعہ آواز پہنچا کر اجازت لینی چاہئے اگرمل جائے توا ندر چلے جائو اور اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جائو یہ نہیںکہ جب تک اندر سے کوئی آواز نہ آئے ٹلنا ہی نہیں۔ اجازت نہ ملنے کے دونوں معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کوئی کہہ دے کہ آپ اندر نہ آئیں اِس وقت فرصت نہیں۔ دوسرے یہ کہ کوئی جواب ہی نہ آئے ان دونوں صورتوں میں واپس لَوٹ جانا چاہئے۔
پھر سلام کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی کثرت کرنی چاہئے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس طرح آپس میں محبت پیدا ہو گی۔ جب کوئی دوسرے کے لئے سلامتی کی دعا کرتا ہے تو ضرور ہے کہ اس کے دل میں محبت ہو اور جوں جوں وہ زیادہ دعا کرے وہ محبت بھی بڑھتی جائے گی۔ آجکل تو بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے معنی ہی نہیں سمجھتے ایسے لوگوں کے دلوں میں اگر ایک دوسرے کی محبت پیدا نہ ہو تو اَور بات ہے لیکن جو سمجھتے ان میں ضرور محبت پیدا ہوتی اور بڑھتی جاتی ہے اور جب ایک انسان دوسرے کے لئے دعا کرے گا تو خود اس کے لئے بھی اوردوسرے کے لئے بھی وہ دعا بہت سے فوائد اور برکات کا موجب ہو گی۔ا للہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بہت محبت اور پیار کرتا ہے اس لئے جو کوئی اس کی مخلوق سے محبت کرتا ہے اس سے وہ بھی محبت کرتا ہے۔ تو ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کہنے کی وجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی کہ تمہاری آپس میں محبت ہو گی اور آپس کے تعلقات درست ہوں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہیں ایمان حاصل ہو گا اور جب ایمان حاصل ہو گا تو جنت میں داخل ہو جائو گے۔
اس سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہئے جو اپنا کام یہی سمجھتے ہیں کہ دوسروں سے لڑیں اور ایک دوسرے کو لڑائیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کوئی شخص اُس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتا جب تک اس میں ایمان نہ ہو اور ایمان اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ آپس میں محبت نہ ہو اور محبت پیدا کرنے کا طریق ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کہنا ہے۔
لڑائی فساد سے ایمان کو بہت صدمہ پہنچتا ہے۔ بہت سے خاندان ایسے ہیں کہ باوجود ایک مذہب کو سچا سمجھنے کے دوسروں کی دشمنی اور عداوت کی وجہ سے اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ میں نے اِسی فتنہ پر غور کیا ہے جو ہماری جماعت میں پیدا ہواہے۔ اس میں شامل ہونے والے وہی لوگ ہیں جن کو ذاتی عداوتیں اور رنجشیں تھیں۔ ایک آدمی کی نسبت تو مجھے خوب معلوم ہے اس نے سمجھا ہوا تھا کہ ہمارے خاندان نے کسی موقع پر اس کے ساتھ ہمدردی نہیں کی تھی۔ میں اُس وقت جبکہ اسے وہ واقعہ پیش آیا گھر موجود نہیںتھا کہیں گیا ہوا تھا واپس آکر میں نے اس شخص کو ہمدردی کا خط لکھا جس کا اس نے یہ جواب دیا کہ آپ نے میرے ساتھ بہت ہمدردی کی ہے لیکن فلاں فلاں نے نہیں کی،ان کی یہ بات مجھے مرنے تک نہیں بھولے گی۔ا فسوس کہ یہ خط محفوظ نہ رکھا گیا ورنہ آج خوب کام دیتا۔ ایک اور نے کہا کہ اگر اور کوئی خلیفہ ہوا تو اس کی تو ہم بیعت کر لیں گے لیکن میاں محمود کی بیعت تو خواہ کچھ ہی ہو نہیں کریں گے۔ یہ تو کل کی باتیں ہیں بنی اسرائیل کو دیکھو اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اِسی لئے نہ مانا کہ یہ ہم میں سے نہیں۔ تو دشمنی اور عداوت کا بہت خطرناک نتیجہ ہے اور اسی وجہ سے کئی لوگ بے دین ہو جاتے ہیں۔
کل ہی ایک شخص کا خط آیا ہے۔ چند دن ہوئے وہ یہاں آیا تھا کہتا تھا کہ مجھے میرا پوتا دے دیا جائے۔ میں نے کہا بچہ کا رکھنا ماں کا حق ہے اگر وہ لے جانے کی اجازت دیتی ہے تو لے جائو۔ اب اس نے جا کر لکھا ہے کہ تم نے قرآن ہی نیا بنا لیا ہے۔ اس کو ایک معمولی بات سے صدمہ پہنچا کہ کیوں خواہ بچے کی ماں روتی اور چلاتی ہی رہتی مجھے بچہ چھین کے نہیں دے دیا گیا اس وجہ سے اس نے لکھ دیا کہ تم نے قرآن ہی نیا بنا لیا ہے۔ اس سے پہلے تو میں جو کچھ کہتا اور کرتا تھا اسے وہ قرآن کریم کے مطابق سمجھتا تھا لیکن اس بات کے فوراً ہی بعد جو کچھ میں کرتا یا کہتا ہوںوہ قرآن مجید کے خلاف ہو گیا ہے اور میں نے نیا قرآن بنا لیا ہے۔ میری ہر بات اسے بُری لگنے لگ گئی ہے۔ تو دنیاوی عداوتوں کا ایمان پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے اورجب ایمان ہو تو انسان جنت سے محروم رہ جاتا ہے۔دیکھو یہ چھوٹی سی بات تھی مگر انجام کس قدر بڑا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سلام کہنے کا نتیجہ آپس میں محبت ہو گی اور محبت کا نتیجہ ایمان ہو گا اور ایمان کا نتیجہ جنت میں داخل ہونا ہو گا۔ اِس کا اُلٹ یہ ہوا کہ سلام نہ کہنے کا نتیجہ تفرقہ ہو گا اور تفرقہ کا نتیجہ ایمان کا سلب ہونا ہو گا اورایمان کے سلب ہونے کا نتیجہ جنت میں داخل نہ ہونا ہو گا۔ تو سلام کہنا معمولی بات تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان جنت سے ہی محروم ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس بات کو معمولی کر کے نہیں چھوڑ دیا بلکہ بیان کیا ہے اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور دنیا میں کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں اس تفصیل سے بیان کیا گیا ہو صرف اسلام کو ہی یہ شرف حاصل ہے ۔ اس بات پر اگر غیر مذاہب والے رشک کریں تو کیا تعجب کی بات ہے لیکن تعجب ہے ان مسلمانوں پرجو باوجود ایسی تعلیم کے پھر اس پر عمل نہیں کرتے۔
اسلام نے نہایت تفصیل سے کہہ دیا ہے کہ جب کسی کے ہاں جائو تو جا کر آواز دو یا دروازہ کھٹکھٹائو جب اندر سے اجازت مل جائے تو داخل ہو اجازت کے بغیر نہیں۔ اور یہ بھی نہیں کہ اگر کوئی جواب نہ آئے تو الخاموشی نیم رضا پرعمل کر کے اندر چلے جائو۔ یہ کسی کا قول ہے جو بہت دفعہ غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ اسلام نے کنواری لڑکی سے نکاح کے متعلق پوچھنے پر خاموشی کو رضامندی قرار دیا ہے ۶؎ لیکن ہر جگہ یہ بات درست نہیں ہو سکتی۔ پھر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گھر والا پوچھتا ہے کون ہے؟ اس کی یہ وجہ ہوتی ہے کہ بعض خاص آدمی ہوتے ہیں ان کے ملنے کے لئے اگر کوئی کام کا حرج بھی کرنا پڑے تو کر دیاجاتا ہے لیکن بعض کے ساتھ ملنا ضروری نہیں ہوتا اس لئے دریافت کیا جاتا ہے تاکہ جیسا آدمی ہو ویسا اسے جواب دیا جائے۔ اس طرح پوچھنے پر آگے سے یہ جواب ملتا ہے کہ میں ہوں۔ ایک دفعہ کسی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر دستک دی۔ آپؐ نے فرمایا ۔ مَنْ ؟ دستک دینے والے نے کہا اَنَا۔ یعنی میں ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کیا میں میں نہیں ہوں؟ یہ کہنے سے میں تم کو کس طرح پہچان لوں؟ ۷؎ پس اگر پوچھا جائے تو اپنا نام بتانا چاہئے تا پوچھنے والا پہچان لے کہ کون ہے۔
پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دستک دے کر دروازہ کے سوراخوںسے دیکھتے رہتے ہیں کہ اندر کیا ہور ہا ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر دستک دینے والے نے اس طرح کیا۔ آپؐ نے فرمایا یہ مجھے بعد میں پتہ لگا ہے اگر میں اُس وقت دیکھ لیتا تو اس کی آنکھیں پھوڑ دیتا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مکان پر جا کر دستک دیتے تو اُس کے دوسری طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاتے اور جب اندر سے کوئی آتا تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہہ کر اس کی طرف لوٹتے۔ ۹؎ اس طرح کرنا بھی نہایت ضروری ہوتا ہے۔ کئی مکان ایسے ہوتے ہیں کہ ایک ہی کمرہ میں تمام گھر کے آدمی ہوتے ہیں جب اس کا دروازہ کھلتا ہے تو سامنے مستورات بیٹھی ہوتی ہیں اگر کوئی دروازہ کے سامنے منہ کر کے کھڑا ہو گا تو اس کی نظر ضرور اندر پڑ ے گی اور اس طرح بے پر دگی ہو گی۔ اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں یا بائیں طرف مڑ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔
یہ وہ آداب ہیں جو شریعت اسلام سکھاتی ہے۔ گو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن اگر ان پر عمل کیا جائے تو نہایت ہی سکھ اور آرام کی زندگی حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ اسلام کا ہر ایک حکم بہت مفید اور فائدہ رساں ہوتا ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو پھر بھی ان احکام پر جو تمدن کے متعلق ہیں کبھی کبھی بیان کرتا رہوں گا تاکہ وہی باتیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے بتائی ہیںان پر ہماری جماعت عمل کرے اور دوسروں سے عمل کرائے۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دے۔
(الفضل ۴؍ نومبر ۱۹۱۶ئ)
۱ ؎ النور:۲۸،۲۹
۲؎ بخاری کتاب الایمان باب زیادۃ الایمان و تنقیصہ
۳؎ بخاری کتاب الفتن باب التعرب فی الفتن
۴ ؎ بخاری کتاب الاستئذان باب التسلیم و الاستئذان ثلاثا
۵؎ مسلم کتاب الایمان
۶؎ بخاری کتاب النکاح باب لاینکح الاب وغیرہ البکرو الثیب اِلّابِرَضَاھَا
۷؎ بخاری کتاب الاستئذان باب اذا قال من ذافقال اَنَا
۸؎ صحیح مسلم کتاب الادب باب تحریم النظر فی بیت غیرہٖ
۹؎ سُنن ابی داؤد کتاب الادب باب کم مرۃ یسلم الرجل فی الاستئذان
۳۵
دعا کے ساتھ سامان سے کام لینا بھی ضروری ہے
(فرمودہ ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے ہی جو کام ہوتا ہے ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے ارادے اور منشاء کے ماتحت بنی نوع انسان کے لئے کچھ قوانین بھی مقرر فرمائے ہیں اگر انسان ان سے ایک طرف ہو جاتا ہے تو دکھ اُٹھاتا ہے۔ اس میں تو کچھ شک نہیں کہ دعا اور توکل کا مسئلہ ایک اہم اور ضروری مسئلہ ہے اور یہ بات بالکل درست ہے کہ جو کچھ دعا کر سکتی ہے وہ کوئی اور چیز نہیں کر سکتی۔اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ سامان کو بھی اس میں بڑا دخل ہے۔ ہاں صرف سامان پر ہی بھروسہ کر لینا کہ جو کچھ ہو سکتا ہے بس اِنہی کے ذریعہ ہو سکتا ہے یہ شرک ہے۔ا یک حدیث میں آیا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا اَتَعْلَمُوْنَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ صحابہؓ نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں ہمیںتو علم نہیں۔ آپؐ نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَوْئٍ کَذَاوَکَذَا کہ جس نے کہا بارشیں فلاں فلاں ستارے کے اثر سے ہوتی ہیں اور یہ بارش جو ہوئی تو اس لئے ہوئی کہ اس ستارے نے اپنا اثر کیا۔ ایسا شخص کَافِرٌ بِیْ وَ مُؤْمِنٌ بِالْکَوَاکِبِ۱؎ وہ میرا تو کافر ہوتا ہے لیکن ستاروں پرا یمان لانے والا ہوتا ہے۔ لیکن اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ موسموں پر کواکب کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ چاند اور سورج بھی کواکب میں سے ہی ہیں اور ان کا موسموں کے ساتھ بڑا بھاری تعلق ہے مگر باوجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بارش فلاں فلاں ستارے کے اثر سے ہوئی وہ اللہ کے کافر ہیں اور ستاروں کے مومن۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ستاروں کے تغیرات کا کوئی اثر ہی نہیں۔ بعض لوگ کم فہمی کے باعث یہ مفہوم نکالتے ہیں کہ اس حدیث میں کواکب کے اثرات سے انکار کیا گیا ہے۔ پھر وہ اس یقینی اور مشاہدہ میں آئی ہوئی بات کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں کہ نہیں کواکب کا کوئی اثر نہیں حالانکہ ان کا اثر ہوتا اور ضرور ہوتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کی ذات کو بالکل نظر انداز کر کے بکلی ستاروں پر انحصار کرنا کہ بارش جو برستاتے ہیں تو یہ ستارے ہی برساتے ہیں یہ عقیدہ رکھنا درست نہیں۔ مگر ایسا شخص خد ا کا منکر نہیں جو خدا کو اصل موجب قرار دیتا ہے اور اعتقاد رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہی ان ستاروں کو پیدا کیا اور ان میں اثرات رکھے اور اسی کے ارادے کے ماتحت وہ اپنا اثر کرتے ہیں۔ دیکھئے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دینا شرک ہے مگر یہ عقیدہ کہ ملائکہ خد ا کا کلام لاتے ہیں تثبیت قلب وغیرہ کرتے ہیں شرک نہیں ہے لیکن ان دونوں باتوں میں فرق ہے۔ مشرک اور کافر بھی مانتے ہیں کہ ملائکہ ہیں اور وہ کچھ کام کرتے ہیں اور مسلمان بھی مانتے آئے اور مانتے ہیں کہ فرشتے ہیں اورا ن پر ایمان لانا ضروری اور لازمی ہے مگر باوجود اس کے کافر مشرک کہلائے ۔ کیوں؟ اسی لئے کہ کفار کا ماننا اس رنگ میں ہے کہ فرشتے جو کچھ کرتے ہیں خود ہی کرتے ہیں مگر مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے تمام کام خدا تعالیٰ کے ارادے کے ماتحت ہوتے ہیں اس لئے یہ شرک نہیں۔
ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی آیا۔ آپؐ نے پوچھا تمہارا اُونٹ کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ باہر کھلا چھوڑ دیا ہے اور اللہ پر توکل کر کے آپؐ کے پاس آگیا ہوں۔ فرمایا جائو اُونٹ کا گھٹنا باندھو پھر توکل کرو۔ ۲؎
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے کہ اسباب اور ذرائع سے کام نہ لینا اور پھر یہ کہنا کہ میں نے خد اپر توکل کیا ہے خدا کی آزمائش کرنا ہے لیکن ایک ادنیٰ انسان کی کیا حیثیت ہے کہ وہ بادشاہ کی آزمائش کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو کبھی کامیابی نہیں ہوتی۔ا للہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے سامان کو ترک کرنے والا اور ان کو لغو قرار دینے والا متوکل نہیں کہلا سکتا۔ بلکہ ان ذرائع کو جو خدا نے پیدا کئے ہیں کام میں لا کر پھرا نہی پر اپنی کامیابی کا انحصار نہ کرتے ہوئے کامیابی کی امید خدا تعالیٰ پر ہی رکھنے والے کا نام متوکل ہے۔ ہاں خدا تعالیٰ خود اگر کسی خاص ذریعے سے کام لینا منع فرمادے تو وہ الگ بات ہے ورنہ اس کے پیدا کردہ سامان کو لغو قرار دے کر ان کو استعمال میں نہ لانا خدا تعالیٰ کی آزمائش کرنا ہے۔ دیکھو طاعون کا ٹیکہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بھی ایک ذریعہ صحت ہے اور تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ اس وقت تک یہ ایک عمدہ علاج ہے مگر حضرت صاحب نے اپنی جماعت کو اس کے لگوانے سے منع فرمایا۔ ۳؎ حالانکہ آپ نے بھی تسلیم فرمایا ہے کہ ٹیکہ بھی ایک علاج ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ نے خود اِس ذریعہ کو استعمال میں لانے سے روک دیا اس لئے آپ نے اپنی جماعت کو ٹیکہ کے لگوانے سے منع کر دیا ہاں ان کو اجازت دے دی جو حکام کی ماتحتی میں ٹیکہ لگوانے پر مجبور کئے جاتے ہیں۔
ٹیکہ کے متعلق قطعی رائے لگائی گئی تھی کہ طاعون کے لئے یہ یقینی علاج ہے اس لئے حضرت صاحب نے اس کے لگوانے سے روک دیا تاکہ آپ کی جماعت کی یہ خصوصیت کہ اس پر طاعون کا حملہ نہ ہو گا مشتبہ نہ ہو جائے اور نہ یہ سمجھا جائے کہ ٹیکہ لگوانے کی وجہ سے طاعون نے حملہ نہیں کیا ورنہ دوسرے ذرائع کو کام میں لانے سے حضرت صاحب نے نہیں روکا بلکہ فرماتے کہ جرابیں پہنو۔ا ندھیری جگہوں میں نہ رہواور مکانا ت کو صاف اور ستھرا رکھو۔ چونکہ ٹیکے کو یقینی علاج سمجھا گیا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس سے روک دیا اور دوسرے ذرائع پر بھروسہ نہیں کیا تھا ان کے استعمال سے نہیں روکا گیا تھا حالانکہ واقعہ میں ٹیکہ بھی علاج تو ہے مگر چونکہ یہ علاج پیشگوئی میں رخنہ ڈالنے والا تھا اس لئے حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی جماعت کو منع فرما دیا (ہاں جو ٹیکہ لگوانے پر مجبور کیا جاوے وہ مجبور ہے) تا مخالفین کے لئے یہ ایک نشان ہو کہ باوجود یقینی علاج کو استعمال نہ کرنے کے ہماری جماعت کے لوگ شاذونادر ہی اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں مگر جہاں خدا کا حکم نہ ہو وہاں اسباب اور ذرائع کو کام میں لانا ہی توکل ہے۔
چنانچہ سورہ فاتحہ جو پینتیس بارہر روز بلکہ پچاس ساٹھ بار اگر نوافل وغیرہ بھی شمار کئے جائیں پڑھی جاتی ہے اور پھر کوئی روک نہیں کہ ہزار بار بھی پڑھی جائے کیونکہ نوافل کا پڑھنا کوئی محدود نہیں۔ اس میں خدا تعالیٰ نے دعا کے گر بتائے ہیں۔ اوّل تو خود دعا سکھائی ہے کیونکہ بندہ اگر خود دعا تجویز کرتا تو غلطی کا امکان تھا مگر خدا تعالیٰ نے دعا خود سکھلا دی اور ساتھ ہی یہ فرمادیا کہ دعا کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ بندہ خود بھی کچھ کوشش کرے۔ فرمایا ۴؎ صرف منہ سے ہم تجھے معبود نہیں کہتے بلکہ عملاً اِس عبودیت کے بجالانے کے لئے حاضر ہیں۔ پس ۵؎ آپ عبودیت کے طریق ہمیں بتائیں۔ عبودیت خدا تعالیٰ کے فضل کی جاذب ہے۔ جب خدا کے فضل کے لئے بھی سامانِ عبودیت کی ضرورت ہے تو پھر دنیاوی امور کے متعلق بدرجہ َاولیٰ سامان کی ضرورت ہونی چاہئے۔ اگر کوئی عبودیت ان طریق پر نہیں کرتا تو پھر اس کی دعا اور عبادت کا کوئی فائدہ نہیں۔ بہت لوگ ہیں جب ہم سے دعا کا ذکر سنتے ہیں یا مولوی صاحب ۶ ؎ یا حضرت صاحب کی تحریروں میں پڑھتے ہیں تو وہ یہی سمجھ لیتے ہیں کہ بس جو کچھ ہے وہ دعا ہی دعا ہے ۔ اِس بناء پر وہ کوشش اور محنت کو لغو اور بے فائدہ سمجھنے لگ جاتے ہیں حالانکہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ سامان سے کام نہیں لیتے وہ اللہ تعالیٰ کی آزمائش کرتے ہیں۔ہاں اگر باوجود کوشش اور سعی کے کوئی سامان میسر نہ ہو سکے تو ایسا شخص اگر باوجود ان ظاہری سامان کے نہ ہونے کے بھی دعا کرتا ہے اور قبولیتِ دعا کے شرائط کو پورے طور پر بہم پہنچاتا ہے توا س کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔ ضرورت کے مطابق کسی قافلے کی گری پڑی چیز ہی اُس کو مل جائے گی جس کے ذریعہ وہ اپنی حاجت کورفع کر لے گا یا خدا تعالیٰ اس کی حاجت کو ہی دور کر دے گا مگر یہ اُسی وقت ہوتا ہے جبکہ اپنی طرف سے انسان کوشش اور محنت کا حق ادا کر چکے ۔
احادیث میں آیا ہے کہ کئی بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا موقع پیش آیاکہ سفر میں پانی کم ہو گیا آپؐ نے تھوڑے سے پانی میں ہاتھ ڈالا اور وہ بڑھ گیا ۔ ۷؎ مگر یہ بھی ثابت ہے کہ اس خارقِ عادت امر دکھلانے سے پہلے آپؐ نے چاروں طرف آدمی دوڑائے۔ کہ پانی کی تلاش کرو لیکن جب پانی کا کوئی سراغ نہ ملا تو پھر آپؐ نے ایسے ایسے معجزے دکھلائے۔ کسی ایسی جگہ آپؐ نے کوئی معجزہ نہیں دکھلایا کہ جہاں سے پانچ سات میل تک پانی مل سکتا ہو اور آپؐ نے کہا ہو کہ وہاں سے پانی لانے کے لئے تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے لو ہم خوداِسی جگہ پانی بڑھا دیتے ہیں بلکہ اُس وقت آپؐ نے ایسا کیا جبکہ پانی کے ملنے سے بالکل نااُمیدی ہوئی۔ تو ایک شخص نے اگر پورا زادِ راہ لے کر ایک سینکڑوں میل کے جنگل کا سفر اختیار کیا ہو لیکن راستے میں اُس کے سامان پر کوئی آفت آپڑی ہو اور وہ تباہ ہو گیا ہو اس لئے وہ نہ آگے کا رہا نہ پیچھے کا۔ ایسے وقت میں بغیر سامان مہیا کئے بھی وہ صرف دعا پر بھروسہ کر سکتا ہے کیونکہ یہ ایسا موقع ہے کہ اب سامان کامہیا کرنا اس کی طاقت سے باہر ہے۔ مگر جب کوئی شخص بغیر زادِ راہ کے اتنا لمبا سفر اختیار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ چلو ساتھ بوجھ کیا اُٹھانا ہے دعا کر لیا کریں گے تو یہ درست نہیں ایسا کرنے والا تو خدا تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے لیکن اللہ کو اس کی پرواہ کیا ہے۔
ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ دعائوں کے ساتھ سامان کی بھی بڑی ضرورت ہے جو لوگ صرف دعا پر ہی بھروسہ کر کے سامان کو لغو قرار دیتے ہیں وہ بجائے انعامِ الٰہی سے حصہ لینے کے غضب الٰہی کے مستحق ہو جاتے ہیں کہ وہ اس طریق عمل سے خدا تعالیٰ کا امتحان لیتے ہیں۔ امتحان ہمیشہ لائق لیا کرتے ہیں۔ کیا کبھی کسی وزیر نے بھی بادشاہ کاا متحان لیا؟ نہیںبلکہ بادشاہ اور اس کی طرف سے لائق اشخاص کسی کی عقل، فہم اور لیاقت کو دیکھتے ہیں اور اس طرح کوئی وزارت کا عہدہ پاتا ہے۔ پھر کسی طالب علم کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنے استاد کا امتحان لے ہاں استاد کا حق ہے کہ اپنے شاگرد کاامتحان لے۔ تو پھر کسی انسان کی کیا حیثیت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کاامتحان لے۔ بندہ کا یہ کام ہر گز نہیں اور جو ایسا کرتا ہے وہ اپنے آپ کو انعامِ الٰہی کا نہیں بلکہ عذاب الٰہی کا مستحق بناتا ہے۔ جو لوگ دعائوں کے عادی ہیں وہ اس بات کو کبھی نہ بھولیں ۔ صدقہ و خیرات وغیرہ جس قدر بھی محبت اور قربت الٰہی کے ذرائع ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے جو دعا کر ے گا وہ اپنے آپ کو فضل الٰہی کا مستحق بنائے گا۔ اسی طرح دنیوی ترقی کے لئے بھی ۔ مثلاً تجارت ہے، حرفت ہے جو کوشش اور محنت کرتا ہے اور پھر ساتھ ہی دعا بھی کرتا ہے اُس کو خداتعالیٰ ترقی دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے سامان کو ترک کرنا اس کی ہتک کرنا ہے اس لئے ایسے لوگوں کی محض دعائوں کی خدا کو کوئی پرواہ نہیں۔ مثلاً کسی نے امتحان دینا ہے اب وہ کہے کہ مغز خوری کون کرے چلو دعا کر کے امتحان میں شریک ہو جائیں گے۔ ایسا شخص سوائے اس کے کہ ناکام رہے اور کیا فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ تو مقصد کے حصول کے لئے سامان کو مہیا کرنا اور اس سے کام لینا ضروری ہے اور پھر اس کے ساتھ دعا کی بھی سخت ضرورت ہے کیونکہ بعض انسان سامان مہیا کر لیتے ہیں اور ان سے کا م بھی پورے طور پر لیتے ہیں مگر نتیجہ اچھا نہیں نکلتا ان کی ساری محنت ضائع جاتی ہے۔ تو دعا کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ نتیجہ بھی خیر نکلتا ہے اور محنت کا ثمرہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پورا پورا مل جاتا ہے۔
بعض لوگ سامان کو توکل کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں لاہور سے گاڑی میں سوار ہوااور اُسی گاڑی میں پیر جماعت علی شاہ بھی تھا۔ اس نے کوئی ایسی چیز کھانے کو مجھے دینی چاہی جو میں نے کھانسی اور نزلے کے لئے مضر سمجھی اور کہا کہ مجھے نزلہ ہے میں نہیں کھا سکتا۔ پیر صاحب نے دیکھا کہ یہ موقع ہے کہ کچھ تصوف کا اظہار کروں۔ بولے۔ ریزش نزلہ کا کیا ہے اگر خدا کو منظور نہیں تو آپ کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ میں نے کہا پیر صاحب! اگر آپ تھوڑی دیر پہلے بتاتے تو آپ اور ہم دونوں فائدے میں رہتے اور وہ اس طرح کہ لاہور سے ہم ٹکٹ ہی نہ خریدتے بلکہ ٹانگے پر بھی پیسے نہ خرچ کرتے اگر خدا کو منظور ہوتا تو وہ مجھے یونہی قادیان اور آپ کو امرتسر پہنچا دیتا ( میں لاہور سے قادیان آرہا تھا اور وہ امرتسر ) کہنے لگے۔ خیر یہ تو سامان ہیں۔ میں نے کہا پھر یہ بھی تندرستی کو قائم رکھنے کے سامان ہیں۔ کہنے لگا ہاں ہاں میرا بھی یہی مطلب تھا۔ توبعض لوگ سامان کا انکار قضاء قدر کے ماتحت کر دیتے ہیں کہ اگر ایسا ہونا ہے تو بعض لوگ سامان کا انکار قضاء قدر کے ماتحت کر دیتے ہیں کہ اگر ایسا ہونا ہے تو ہو ہی جائے گا ہمیں کچھ کرنے کی کیاضرورت ہے۔ا گر یہ بات صحیح تسلیم کی جائے تو پھر خدا تعالیٰ کا بدکاروں اور کافروں کو سزائیں دینا محض ظلم سمجھا جائے گا۔ اس کی تو ویسی ہی مثال ہو جائے گی کہ ایک شخص کے ہاتھ میں چھری پکڑا کر اور پھر اس کے ہاتھ پکڑ کر ایک دوسرے کے گلے پر پھیر کر قتل کرا دیتا ہے اور پھر اس کو پھانسی پر لٹکاتا ہے کہ تو نے اسے کیوں قتل کیا۔
اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ سست ہوتے ہیں اُنہوں نے اپنی سستی پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ ڈھکو نسلا بنا لیا ہے کہ جو کچھ ہونا ہوتا ہے تقدیر سے ہوتا ہے۔ یہ تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں بعض تو قضاء وقدر کے ماتحت کہتے ہیں جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا ھُوَکَائِنٌ کہ جو کچھ ہونا ہے وہ پہلے ہی سے مقدر ہو چکا ہے اور اس طرح وہ سامان سے انکار کردیتے ہیں اور یہ دنیا داروں کا طریق ہے کہ بدفعلیاں کیں اور قضاء وقدر کے ذمہ لگا دیں۔ بعضوں نے دعائوں کے رنگ میں سامان کو ترک کر دیا ہے اور بعضوں نے توکل کے ماتحت ۔
حالانکہ اسباب نہ دعا کے خلاف ہیں نہ قضاء وقدر کے خلاف اور نہ توکل کے خلاف کیونکہ یہ بھی تو خدا کے ہی پیدا کئے ہوئے سامان ہیں اور کام میں لانے کی غرض سے پیدا کئے گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ کے وقت جب طاعون نے زور پکڑا تو آپ نے حکم دیا کہ منتشر ہو جائو اور اپنی جگہ کو چھوڑ دو تو بعض صحابہؓ نے اعتراض کیا کہ آپ خدا کی قضاء سے بھاگتے ہیں۔ آپ نے فرمایا نَفِرُّمِنْ قَضَائِ اللّٰہِ اِلٰی قَضَائِ اللّٰہِ ۸؎ ہے کہ ہم خدا کی ایک قضاء سے بھاگ کر اُس کی دوسری قضاء کی طرف پناہ لیتے ہیں۔
تو سامان بھی خدا کے ہی پیدا کر دہ ہیں ان سے کام لینا اس کی قضاء کے خلاف نہیں۔ اگر جبر تسلیم کیا جائے تو پھر خد اتعالیٰ ظالم ٹھہرتا ہے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی کوئی خوبی خوبی نہیں رہتی تا آپ سے کسی کے دل میں محبت پید اہو سکے۔ ایک جبر یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے بڑے ہونے میں آپ کی کوئی خوبی نہیں خدا نے پکڑ کر آپ کو بڑا بنا دیا تو آپ کی ساری محنت ، ریاضت اور خدا کی راہ میں مصائب کا جھیلنا کچھ چیز ہی نہ سمجھا جائے گا، آپ کا دنیا میں صداقت کا پھیلا دینا کچھ وقعت نہیں رکھتا وہ کہہ سکتا ہے کہ اُنہوں نے اگر محنت کی تو خدا نے پکڑ کر کرائی۔ غرض اِس طرح آپ کی کوئی خوبی بھی تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ آپ کی جو خوبی بھی دیکھے گا کہے گا یہ دراصل خدا کا فعل تھا آپ کا اس میں کیا دخل تھا۔ لیکن سچی بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ سامان سے پورے طور پر کام لینے میں ہی مؤمن کی ترقی ہے اور مومن ہر رنگ میں ترقی کرتا ہے۔ صحابہؓ نے تجارت میں ترقی کی ، حکومت میں ترقی کی ، علوم میں ترقی کی۔ غرض مؤمن کی شان یہ ہے کہ وہ ہر رنگ میں دوسروں پر غالب رہے۔ صنعت اختیار کرے تو اس میں اور حرفت اختیار کرے تو اس میں، تجارت اختیار کرے تو اس میں ایک مومن کی یہی خواہش ہونی چاہئے کہ وہ دوسروں پر غالب رہے۔
میں صرف دینی ترقی کی ہی کوشش محدود نہیں بلکہ جس نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا ہوا ہے اُس کو اِس میں کوشش کر کے اَور ترقی کرنی چاہئے اور اس طرح مومن کو اپنے ہر کام میں چستی سے کام لینا چاہئے۔ جو دنیا کے کاموں میں سُستی کرتے ہیں وہ پھر دین میں بھی سستی کرنے لگ جاتے ہیں۔
صحابہؓ کو جب خدا نے دیکھا کہ وہ بڑے چُست اور ہوشیار ہیںتو دین اور دنیا دونوں میں ان کو عروج اور ترقی بخشی۔ خدا کرے ہماری جماعت کے لوگ بھی بڑے کارکن محنتی اور ہوشیار ہوں اور پھر باوجود اس کے خدا کے فضل پر اُمید رکھیں نہ کہ ظاہری سامانوں پر۔
(الفضل ۷؍ نومبر ۱۹۱۶ئ)
۱؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیۃ
۲؎ ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع باب حدیث اعقلھا و توکل
۳؎ کشتی نوح صفحہ۴ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۲
۴؎ الفاتحۃ: ۵ ۵ ؎ الفاتحۃ:۶
۶؎ حضرت مولوی نور الدین صاحب بھیروی خلیفۃ المسیح الاوّل
۷؎ صحیح مسلم کتاب الفضائل باب تفضیل نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم
۸؎ مسلم کتاب السلام باب الطاعون والطیرۃ
۳۶
۱۳۳۵ھ کی آمد
(فرمودہ ۳؍ نومبر ۱۹۱۶ئ)
تشہد، تعوذ اورسورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:۔
۱؎
اور فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان بہت وسیع ہیں۔ کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ مخلوق بھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ مجھ پر خدا کا کوئی احسان نہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہر ایک چیز کا وجود اللہ کے فضل کے ماتحت پیدا ہو اہے اور جو بھی مخلوق ہو گی وہ خدا کے زیر احسان ہی ہو گی اور ایسی کوئی چیز ہے نہیں جو مخلوق نہ ہو۔ پس ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کے احسانوں کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ کیڑے سے لے کر بڑے سے بڑے فرشتے اور نبی تک تمام اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور فضلوں کے نیچے ہیں اور کسی کا کوئی دَم ایسا نہیں گزرتا کہ اللہ کے احسانوں کے نیچے وہ زندگی نہ بسر کر رہا ہو۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کے فضلوں اور احسانوں سے خاص حصہ پاتے ہیںا س لئے گو ہر ایک انسان بلکہ ہر ایک جاندار پرا للہ کا شکر ادا کرنا فرض او رواجب ہے مگر ان لوگوں ،ا ن جماعتوں اور ان گروہوں کا خاص فرض ہوتا ہے جو اس کے انعامات سے خاص حصہ پاتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے اُوپر خدا تعالیٰ کے انعا مات کے ہوتے ہوئے پھر اُس کا شکریہ ادا نہیں کرتے یا ادا کرنے میں کوتاہی سے کام لیتے ہیں یا ان میں سے کچھ افراد سستی دکھاتے ہیں وہ خدا تعالیٰ سے بہت دُور جا گرتے ہیں اور بہت سخت سزا کے مستحق ہوجاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے قانون کے ماتحت اور اس قانون کے ماتحت کہ جو جب سے دنیا کا سلسلہ شروع ہوا ہے چلتاآرہا ہے ا ب ایک نیا سال شروع ہوا ہے اور کسی نئے سال کا آنا کوئی نئی بات نہیں ہر آنے والا سال نیا ہی ہوتا ہے اور ہر بارہ ماہ کے بعد نیا سال شروع ہو جاتا ہے پس یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ قانونِ قدرت کے ماتحت ایسا ہوتا آیا ہے اور اب بھی ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی خاطر چاند، سورج اور ستاروں کے لئے رفتار مقرر کی ہوئی ہے اِسی رفتار کے ماتحت دن ، ہفتے ، مہینے اور سال بدلتے رہتے ہیں۔ پس نئے سال کا چڑھنا کوئی نئی بات نہیں مگر اس سال کے متعلق بعض اندازوں کے مطابق ایک پیشگوئی ہے۔ بعض انداز ے میں نے اس لئے کہا ہے کہ پیشگوئی کے الفاظ صاف نہیں ہیں بلکہ استدلال کیا گیا ہے اور مختلف استدلال کئے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس پیشگوئی میں جو بارہ سوا ٹھانوے اور تیرہ سو پنتیس دن کا ذکر آتا ہے یہ ہجری سنہ ہے کیونکہ الہامی زبان میں دن بمعنی سال کے ہوتے ہیں اس لئے بہتوں کی نظریں اس کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ بعضوں کی تو اس لئے کہ ایک خاص پیشگوئی ہے اور بعضوں کی دیگر وجوہات سے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آخری سال حضرت مسیح موعود کی آمد کا ۱۳۳۵ھ ہے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ انبالہ سے ایک شخص نے اشتہار شائع کیا تھا غالباً ۵ ۱۹۰ء یا ۱۹۰۶ء کا ذکر ہے اس میں اس نے لکھا تھا اور بڑے زور سے لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود کی آمد ۱۳۳۵ ھ میں ہو گی۔ اسی طرح دہلی سے ایک شخص نے رسالہ لکھا ہے ا س نے بھی ۱۳۳۵ ہجری آخری میعاد حضرت مسیح موعود کے آنے کی رکھی ہے۔ یورپ کے لوگوں میں سے بعضوں نے مختلف حسابات کے ماتحت اس بات کا فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ ۱۳۳۵ھ مسیح موعود کی آمد کا سال ہے۔ اسی بناء پر اس کا بڑا انتظار ہور ہا تھا اب جو یہ سال آگیا ہے تو اس کے نتائج کا انتظار ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے گا توا ن۱۲ مہینوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکروں کو ایک اور نااُمیدی ہو گی اور ان میں سے جو عقلمند اور دانا ہوں گے وہ سمجھ لیں گے کہ جس مسیح نے آنا تھا وہ آچکا اور کسی نے نہیں آنا تو اس طرح ہمارے لئے ایک فتح تو ضروری ہے اور وہ یہ کہ دشمن نے جو اندازہ لگایا ہوا ہے کہ ۱۳۳۵ھ میں حضرت مسیح نے آنا ہے وہ آچکا ہے۔ اب ان کے لئے دو ہی باتیں ہوں گی یا یہ کہ وہ کہہ دیں کہ کسی مسیح نے نہیں آنا اور یا یہ کہ جس نے آنا تھا وہ آگیا۔ اب سوائے ان لوگوں کے جو یہودیوں کی طرح ڈھیٹھ ہوں گے کہ باوجود اس کے کہ حضرت مسیح ناصری کی آمد کو اُنیس سوسال ہو گئے مگر وہ ضد اور تعصب کی وجہ سے اِس وقت تک اِس خیال کو ترک نہیں کرتے کہ مسیح نے آنا ہے۔ وہ بھی یہی کہتے رہیں گے کہ مسیح موعود نے آنا ہے اور ایسے لوگوں کا مسلمانوں میں سے پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو یہود سے مشابہت دی ہے مگر جو دانا اور سمجھدار ہوںگے اور جو تعصب اور عداوت ، ضد اور شرارت سے انکار نہیں کریں گے۔ جب وہ دیکھیں گے کہ جن پیشگوئیوں کے مطابق ۱۳۳۵ھ میں مسیح موعود کی آمد کا اندازہ لگایا گیا تھا وہ اندازہ پوراہو گیا ہے تو یا توانہیں اس پیشگوئی کو بناوٹی اور جعلی قرار دینا پڑے گا یا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسیح موعود آگیا ہے اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوا اور کسی نے مسیح موعود ہونے کادعویٰ نہیں کیا اس لئے آپؐ کو اُنہیں مسیح موعود ماننا پڑے گا۔ یہ تو ہمارے لئے بنی بنائی فتح ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے لکھی جا چکی ہے۔ باقی اور بہت سی اُمیدیں کہ یہ سن ہمارے لئے فتوحات کا ابتدائی سال ہے۔ چنانچہ ہماری جماعت کے لوگ اس پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور میرے پاس مبارکباد کے خطوط بھی آئے ہیں لیکن میں ایسے سب لوگوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ۱۳۳۵ھ میں بلحاظ دنوں، ہفتوں اور مہینوں یا چاند کی رفتار کے ۱۳۳۶ھ یا ۱۳۳۴ھ سے کوئی زیادتی نہیں ہے۔ یہ بھی اُس قسم کا سن ہے جیسے کہ پہلے گزر چکے ہیں۔ اس میں کونسے لعل لگے ہوئے ہیں کہ اسے دوسروں سے بڑا سمجھیں اس میں کوئی خصوصیت نہیں ہے ۔ وہ جماعت جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے انعامات کا وارث ثابت کر دے اس کے لئے ۱۳۳۲ھ اور ۱۳۳۳ھ بھی ۱۳۳۵ھ ہی بن جاتے ہیں اور جوجماعت اپنے اعمال اور افعال سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے غضب اور سزا کا مستحق بنا لیتی ہے اس کیلئے ۱۳۳۵ھ یا ۱۳۳۶ ھ یا ۱۳۴۰ھ سب برابر ہو جاتے ہیں۔
ہر ایک فتح کے ساتھ شکست بھی ہوتی ہے۔ کیا آج تک ایسی بھی کوئی فتح ہوئی ہے کہ جس کے ساتھ شکست نہ ہو؟ ہر گز نہیں۔ آج تک تو یہی ہوتا چلا آیا ہے کہ اگر ایک گروہ کو فتح حاصل ہوئی ہے تو اسی فتح کے ساتھ دوسرے گروہ کو شکست بھی ہوئی ہے۔ پس اگر یہی سال ایک جماعت کے لئے مبارک ہے تو کیا اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی پیدا ہوتا کہ یہی ۱۳۳۵ھ کسی اَور کے لئے منحوس اور نامبارک بھی ہے؟ تو اس سال کی یہ خصوصیت نہیں ہو سکتی کہ تمام کے لئے مبارک ہی ہو۔ ضروراگر ایک گروہ کے لئے مبارک ہے تو دوسرے کے لئے نامبارک بھی ہے۔ باقی رہا یہ کہ مبارک کس کے لئے ہے اور نامبارک کس کے لئے؟
اس میں تو شک ہی نہیں کہ جو میدان ایک قوم کے لئے فتح اور کامیابی کا باعث بنتا ہے وہی میدان دوسری قوم کے لئے شکست اور ناکامی کا بھی موجب بنتا ہے ۔اور جس طرح وہ میدان یہ یاد دلاتا ہے کہ فلاں قوم کو اس میں فتح نصیب ہوئی تھی اِسی طرح وہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اسی موقع پر کسی کو شکست بھی ہوئی تھی۔ پس جہاں عظیم الشان فتح ہوتی ہے وہاں بہت بڑی شکست بھی ہوتی ہے ا س لئے ڈرنا چاہئے کہ فتح ہمارے دشمنوں کو نہ ہو اور شکست ہمارے حصہ میں نہ آئے۔ جتنی بڑی کوئی فتح ہوتی ہے اس کے ساتھ اتنی ہی بڑی شکست بھی وابستہ ہوتی ہے۔ پس جہاں بہت بڑی فتح سے خوشی ہونی چاہئے وہاں اِس بات سے ڈرنا بھی بہت چاہئے کہ ہمارے حصہ میں شکست نہ آئے۔
کوئی کہے ۱۳۳۵ھ تو فتح اور کامیابی کے لئے مقرر ہے اور خدا نے کہہ دیا ہے کہ ’’مبارک وہ جو انتظار کرتا ہے اور ایک ہزار تین سو پنتیس روز تک آتا ہے۔ ۲؎ اس لئے ہمیں ضرور کامیابی ہو گی۔ مگر ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی دانیال نبی کی کتاب میں ہے اور دانیال نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اتباع میں سے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک اولو العزم نبی تھے اور خاص شان رکھنے والے تھے۔ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ سے مشابہت دی ہے ۳ ؎ ا ور جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت دی جائے وہ کوئی معمولی انسان نہیں ہو سکتا۔ آپ سے خدا تعالیٰ کا وعدہ تھاکہ تو اور تیری قوم فلاں ملک کی وارث بنائی گئی جائے گی لیکن چونکہ ان کی قوم نے اپنے آپ کو اِس لائق نہ بنایا کہ خدا تعالیٰ اُ س کو اپنا یہ انعام دیتا اس لئے خد اتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اِس وعدہ کو چالیس سال پیچھے ڈال دیا۔ ۴ ؎ پس جب موسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم الشان نبی کی پیشگوئی کو چالیس سال پیچھے ڈال دیا جا سکتا ہے تو حضرت دانیال کی پیشگوئی کو کیوں پیچھے نہیں ڈالا جا سکتا۔ اگر خدا تعالیٰ کو کسی کا لحاظ یا کسی کی خاطر منظور ہوتی تو موسیٰ اس بات کے زیادہ مستحق تھے کہ ان کی قوم کو موعودہ ملک دے دیاجاتا کیونکہ وہ صاحب شریعت اور اُولوالعزم نبی تھے۔ پھر خدا تعالیٰ ان کی نسبت فرماتا ہے ۵؎ کہ جب خدا تعالیٰ نے موسیٰ سے کلام کیا تو درمیان میں کوئی روک اور پردہ نہ تھا۔ اتنے بڑے نبی کی پیشگوئی کو جب اس کی جماعت کی سستی اور نالائقی کی وجہ سے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے تو حضرت دانیال کی پیشگوئی کو کیوں پیچھے نہیں ڈالا جا سکتا۔
پس ۱۳۳۵ھ میں ہمارے لئے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اس میں تو شک نہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے ہماری جماعت کے ساتھ اس سال کا خاص تعلق ہے۔ پہلے تو یہ خیال تھا کہ شاید اِس سنہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہو مگر وہ تو اِس سے پہلے ہو چکی اس لئے وہ مراد نہیں ہو سکتی بلکہ اس سال سے ہماری جماعت کی ترقی کی ابتداء مراد ہے۔ وہ ترقی کیسی ہو گی؟ کس رنگ میں ہو گی؟ کس طرح ہو گی؟ اگر اس پیشگوئی کو جس طرح سمجھا گیا ہے اِسی طرح درست مان لیا جائے تو یہ بھی باتیں نہیں بتائی جا سکتیں کیونکہ پیشگوئی کو پورا ہونے سے قبل سمجھنے میں تو ایک نبی بھی غلطی کھا سکتا ہے چہ جائیکہ ہم اس کے متعلق کچھ بتا سکیں۔پس اگر واقعہ میں ۱۳۳۵ھ میں جماعت حضرت مسیح موعود کی فتوحات کی ابتداء ہے تب بھی ہم نہیں جانتے کہ ہمیں کس طرح اور کیا فتوحات حاصل ہوں گی۔ا للہ تعالیٰ کے وعدے کئی اقسام کے ہوتے ہیں۔ کبھی بڑے زور سے ایک بات کہی ہوئی معلوم ہوتی ہے لیکن جب پوری