• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات ناصر ۔ حضرت مرزا ناصر احمد رح ۔ جلد 1

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات ناصر ۔ حضرت مرزا ناصر احمد رح ۔ جلد 1


جماعت کے تمام اداروں کو چاہئے کہ وہ اپنی جدوجہدکو منظم کریں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ ؍جنوری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ سالِ نو کی مبارک باد۔ اللہ تعالیٰ نیا سال بابرکت کرے۔
٭ جماعت احمدیہ حق و باطل کی آخری جنگ لڑ رہی ہے۔
٭ کاموں کو اس طرح منظم کریں کہ طاقت کا ایک ذرّہ بھی ضائع نہ ہو۔
٭ افریقی ممالک میں توجہ دینے کی فوری ضرورت ہے۔
٭ ذیلی تنظیموں کو بھی سالِ نو کے منصوبے تیار کرنے چاہئیں۔





تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
عزیزو! یہ سالِ نو کا پہلا جمعہ ہے جس میں میں آپ سے مخاطب ہو رہا ہوں۔ میری طرف سے سالِ نو کی مبارک باد قبول کریں۔ آپ بھی جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں اور وہ تمام احمدی احباب بھی جو اکنافِ عالم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور قریہ قریہ میں رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ میری یہ مبارک باد رسمی طور پر نہیں۔ یہ تکلیف دہ خیال میرے دل کی گہرائیوں میں یکم جنوری سے ہی موجزن رہا ہے کہ گزشتہ سال جو گزرا ہے۔ وہ ہم پر بڑا ہی سخت سال تھا۔ اس نے ہمارے دلوں کو بُری طرح زخمی کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہمارے زخمی دلوں پر تسکین کا پھایہ رکھا اور اس نے ہمیں محض اپنے فضل سے اس صبر کی توفیق عطا فرمائی۔ جس سے وہ راضی اور خوش ہو جایا کرتا ہے۔ اس لئے میری یہ مبارک باد رسمی طور پر نہیں بلکہ میں یہ مبارک باد اپنے دل کی گہرائیوں سے پیش کرتا ہوں اور پھر برکت کے ہر معنی کے لحاظ سے پیش کرتا ہوں جب ہم کسی دن۔ کسی زمانہ یا کسی سال کو مبارک کہتے ہیں تو اس سے ہمارا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ان تمام معانی میں جن میں یہ لفظ اچھے طور پر بولا اور اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے۔ وہ دن اور وہ زمانہ اور وہ سال ہم سب کے لئے برکتوں والا ہو۔
برکت کے ایک معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھلائی کے جو سامان اس کے بندوں کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ ان کو دوام اور قیام حاصل ہو جائے۔ پس میری ’’مبارک ہو‘‘ کی دعایوں ہوئی کہ خداتعالیٰ کرے کہ وہ تمام برکتیں (خیر اور بھلائی کی چیزیں) نعمتیں اور رحمتیں جو اس نے جماعت احمدیہ کے لئے مقدر کر رکھی ہیں۔ اس سالِ نو میں ہم ان کے نظارے ہر آن دیکھتے رہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب اللہ تعالیٰ نے ایک مصلح موعود کی بشارت عطا فرمائی تھی تو اس نے اس پیشگوئی کے اندر جماعت احمدیہ کو بھی بہت سی بشارتیں دی تھیں۔
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ۹۷)
سو اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں جماعت احمدیہ سے جو وعدے کئے تھے۔ ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دعا کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سال کو ان معنوں میں بھی بابرکت کرے کہ وہ آپ کے نفوس اور اموال میں برکت ڈالے۔ اور آپ سے ہر آن خوش رہے وہ آپ کو بھولے نہیں۔ وہ آپ کو فراموش نہ کرے۔ بلکہ اس کی یاد میں آپ ہمیشہ حاضر رہیں اور جس طرح ایک دوست دوسرے دوست کو محبت کے ساتھ یاد کرتا ہے۔ اسی طرح ہمارا آقا اور ہمارا مالک محض اپنے فضل سے ہمارے ساتھ دوستانہ معاملات کرتا چلا جائے۔
برکت کے دوسرے معنوں کی رو سے ہم اس دعا میں یہ زیادتی بھی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ان عنایات میں زیادتی کرتا چلا جائے۔ کیونکہ برکت کے ایک معنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غیر محسوس طور پر زیادتی کے بھی ہیں۔
برکت کے تیسرے معنوں کی رو سے یہ دعا یوں بھی ہو گی کہ خدا کرے کہ آپ اور میں ان نیکیوں پر ثابت قدم رہیں جو خداتعالیٰ کو محبوب اور پیاری ہیں اور روحانی جہاد کے اس میدان میں جس کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے آج ہمارے لئے کھولا ہے اور جس میدان میں اس نے ہمیں لا کھڑا کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرنے اور آپ کی اطاعت کا دعویٰ کرنے کے بعد ہم پیٹھ نہ دکھائیں اور ہمیشہ ثابت قدمی کے ساتھ شیطان کا مقابلہ کرتے چلے جائیں۔ پس یہ ’’سالِ نو‘‘ مبارک ہو آپ کے لئے بھی اور میرے لئے بھی ان معنوں میں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اعمال صالحہ کے بجا لانے کی توفیق دیتا چلا جائے کہ جن کے نتیجہ میں (اگر اور جب وہ انہیں قبول کر لیتا ہے تو) اس کی نعمتیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں۔ یہ اعمال صالحہ (یا خداتعالیٰ کو محبوب اور مرغوب اعمال) دو قسم کے ہیں۔
ایک اعمالِ صالحہ تو وہ ہیں جو ہم انفرادی طور پر خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بجا لاتے ہیں۔ ہم نمازوں کو ادا کرتے ہیں۔ ہم رات کی تنہائی اور خاموشی میں اپنے رب کے حضور عجز اور انکسار کے ساتھ جھکتے ہیں اور اس سے اپنے مطالب کے حصول کے لئے دعائیں مانگتے ہیں۔ اسی طرح سینکڑوں اور اعمال ہیں جن کا ہماری ذات کے ساتھ تعلق ہے ہم تقویٰ کی باریک راہوں کی تلاش میں بعض کام کرتے ہیں یا بعض کو چھوڑ دیتے ہیں ایسے اعمالِ صالحہ ایک فرد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں لیکن کچھ اعمالِ صالحہ اجتماعی حیثیت کے ہوتے ہیں۔ یعنی تمام جماعت کو کچھ کوششیں ایسی کرنی پڑتی ہیں کہ جن کے بغیر الٰہی جماعتیں اور الٰہی سلسلے اپنے مطالب اور مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ ساری جدوجہد بنیادی طور پر شیطان اس کے وسوسوں اور اس کے پھیلائے ہوئے باطل عقائد کے خلاف ہوتی ہے لیکن اس دنیا میں وہ مختلف شکلیں اختیار کرتی اور مختلف رنگوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ اسی وقت شیطان دجل کی شکل میں حق کے خلاف نبرد آزما ہے اور جماعت احمدیہ جو روحانی جنگ لڑ رہی ہے وہ شیطان کے مقابلہ میں ہی لڑی جا رہی ہے۔ اس جنگ کو الٰہی نوشتوں میں حق و باطل کی آخری جنگ قرار دیا گیا ہے اور اس میں فتح حاصل کر لینے کے بعد اسلام ساری دنیا پر غالب آ جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی توحید تمام بنی نوع انسان میں پھیل جائے گی۔ اور دنیا کے تمام ملک اور اقوام آنحضرتﷺ کی محبت سے سرشار ہو جائیں گی۔ غرض یہ میدان ہے جس میں ہماری جدوجہد جاری ہے لیکن ہمارے وسائل اور اسباب بہت محدود ہیں اور ہمارے مقابلہ میں دنیا کے اسباب اور طاغوتی طاقتیں بہت زیادہ اور دنیوی نقطہ نگاہ سے بہت بھاری ہیں ہاں اللہ تعالیٰ نے ہماری حقیر کوششوں میں جہاں اپنے فضل سے پہلے ہی برکت رکھ دی ہے وہاں اس نے ہمیں یہ گُر بھی سکھایا ہے کہ اگر کسی طاقت کو جو کمزور ہے صحیح طور پر کام میں لایا جائے۔ پھر کوشش میں ایک تنظیم ہو اور جدوجہد منظم رنگ رکھتی ہے اور کسی منصوبہ بندی اور پلان (Plan) کے مطابق ہو رہی ہو تو خداتعالیٰ کے فضل سے اس کے نتائج ان اعمال کے مقابلہ میں بہت اچھے نکلتے ہیں جو غیر منظم طور پر اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے کئے جاتے ہیں۔
میرے ایک پیارے عزیز نے میری توجہ حضرت مصلح موعود (رضی اللہ عنہ) کے ۱۹۵۲ء کے پہلے خطبہ جمعہ کی طرف مبذول کرائی ہے جس میں حضور نے جماعت اور جماعتی اداروں کو ایک منظم جدوجہد اور منصوبہ بندی کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ کسی منصوبہ بندی کے بغیر اور اپنی کوششوں کو منظم کرنے کے بغیر ہم اپنی کامیابیوں کی رفتار کو تیز سے تیز تر نہیں کر سکتے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے کاموں کو اس طرح منظم کرنے کی کوشش کریں کہ جماعت کی طاقت کا ایک ذرہ بھی ضائع نہ ہو بلکہ ہمارے سامنے ایک وقتی مقصد اور اوبجیکٹ (Object) ہو جسے ہم معین وقت میں حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ لمبے وقت کے لئے تو یہ صحیح ہے کہ ہمارا مقصد حیات اور سلسلہ احمدیہ کے قیام کی غرض ہی یہ ہے کہ طاغوتی اور شیطانی طاقتوں پر غلبہ حاصل کیا جائے اس غرض کے لئے ایک لمبے عرصہ تک جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں ۸۰سال لگ جائیں۔ ۱۰۰ سال لگ جائیں۔ ۱۵۰ سال لگ جائیں۔ دو سَو سال لگ جائیں یا خدا جانے کتنا عرصہ لگ جائے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسانی عقل و دماغ اور تصور اس لمبے زمانہ کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے بعض چھوٹے چھوٹے منصوبے بنا لیتے ہیں۔ یعنی وہ تجویز کر لیتے ہیں کہ مثلاً اس سال میں ہم اپنے مقصد کا اتنا حصہ ضرور حاصل کر لیں گے اور پھر اس کے حصول کے لئے وہ اپنی پوری کوشش صرف کر دیتے ہیں اور پھر اس سال جس حد تک وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی حاصل کر لیں اگلے سال وہ زیادہ تیزی کے ساتھ آگے قدم بڑھانے کے قابل ہو جاتے ہیں اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۵۲ء میں بھی اور اس کے علاوہ اور مواقع پر بھی جماعت کو بار بار نصیحت فرمائی ہے کہ وہ اپنے کاموں میں تنظیم پیدا کرے۔انہیں منظم شکل دے اور انہیں کسی منصوبہ بندی اور پلاننگ (Planning) کے مطابق کرے ورنہ ہماری رفتار ترقی کبھی تیز نہیں ہو سکتی سو حضور کی اس تاکیدی نصیحت کے ساتھ آج میں اپنے بھائیوں کو سالِ نو کی مبارک باد دیتا ہوں اور ان کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ برکت کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ خداتعالیٰ کے فضل ہم پر پہلے سے زیادہ نازل ہوں اور اس میدانِ مجاہدہ میں اور میدانِ جہاد میں جس میں ہم قدم رکھ چکے ہیں۔ ہمارے قدم آگے ہی بڑھتے چلے جائیں وہ پیچھے کی طرف کبھی نہ اٹھیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہماری کوششوں میں تنظیم پائی جائے اور ہم ایک منصوبہ بندی اور پلان (PLAN) کے ماتحت اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے والے ہوں۔ اس اصول کے مطابق میں جماعت کے تمام اداروں سے یہ کہتا ہوں کہ آئندہ چند ہفتوں کے اندر اندر وہ سالِ نو میں کام کرنے کا ایک منصوبہ تیار کریں اور اسے میرے سامنے رکھیں جسے میں سال کے دوران حسب ضرورت جماعت کے دوستوں کے سامنے پیش کرتا رہوں گا اور اسے پورا کرنے کی طرف ان کی توجہ مبذول کراتا رہوں گا لیکن چونکہ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات پر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور حضور کے وصال سے پہلے ایک لمبا عرصہ جماعت پر ایسا بھی گزرا ہے جس میں حضور اپنی بیماری کی وجہ سے ان تفاصیل میں جماعت کی پوری نگرانی نہیں کر سکے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میرا فرض ہے کہ میں مختلف اداروں کو ان کے بعض کاموں کی طرف مختصراً توجہ دلا دوں۔ تفاصیل وہ اپنے طور پر طے کر لیں۔
تحریک جدید کو میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دس پندرہ روز سے یا یوں سمجھ لو کہ جلسہ سالانہ کے آخری دن سے میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے اور میں نے اس پر کافی غور کیا ہے اور معلومات بھی حاصل کی ہیں اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس وقت افریقہ میں دو ملک ایسے پائے جاتے ہیں کہ جن کے رہنے والے لوگوں کے دلوں میں خداتعالیٰ کے فرشتوں نے اسلام اور احمدیت کی قبولیت کے لئے ایک جذبہ اور تڑپ پیدا کر دی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی روحانی پیاس کو بجھانے کے لئے ان میں زیادہ سے زیادہ مبلّغ ،ڈاکٹر اور استاد بھجوائیں اور اپنی کتب اور رسالے ان تک پہنچائیں مجھے امید ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے بڑی جلدی ان ملکوں میں اسلام اور احمدیت مضبوطی سے قائم ہو جائیں گے انشاء اللہ میں نے ایک دوست کو بلا کر تحریک جدید کو پہلے بھی پیغام بھجوایا ہے اور اب جماعت کے احباب کو آگاہ کرنے کے لئے خطبہ میں بھی بتا رہا ہوں کہ افریقہ میں علاوہ اور سکیموں اور منصوبوں کے کہ جو وہاں اس وقت نافذ کئے جانے ضروری ہیں۔ ہمیں ان دونوں ملکوں کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے اور خداتعالیٰ نے چاہا تو ہم بہت جلدی وہاں اچھے نتائج نکلنے کی امید کرتے ہیں۔ پس جہاں تحریک جدید سالِ نو کے لئے ایک منصوبہ تیار کرے گی وہاں میں جماعت کو بھی آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ کاغذی منصوبہ بندی کوئی اچھا نتیجہ پیدا نہیں کیا کرتی۔ اگر ہم نے غور کرنے کے بعد یہ سمجھا کہ ان دو ملکوں میں بیس یا تیس مبلّغ، ڈاکٹر اور استاد بھجوانے ضروری ہیں تو آپ کا فرض ہو گا کہ ہمیں اتنی تعداد میں مناسب آدمی مہیا کریں۔ میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر وقف کی ایک عام تحریک کی تھی۔ اور خداتعالیٰ کا فضل ہے کہ دوست مختلف رنگوں میں بڑی کثرت سے زندگیاں وقف کر رہے ہیں۔ اور بعض دوستوں نے مجھے اس سلسلہ میں بڑے ضروری اور مفید مشورے بھی دئیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزاء دے بہرحال ہمیں عنقریب کام کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد کی ضرورت پڑنے والی ہے اور جماعت کے مستعد، مخلص اور خوش قسمت نوجوانوں کو اپنی اپنی جگہ اس پیشکش کے لئے تیار رہنا چاہئے تا جب ہم ضرورت پڑنے پر آواز دیں تو یہ نہ ہو کہ دنیا کی نگاہ میں بھی اور اپنے دلوں میں بھی ہم ایک مضحکہ خیز حرکت کرنے والے ثابت ہوں اور دنیا یہ خیال کرکے کہ ہم کاغذی منصوبے بنا رہے ہیں اور قوم وہ قربانیاں دینے کے لئے تیار نہیں جو ان منصوبہ بندیوں کے نتیجہ میں اسے دینی ضروری ہیں۔ غرض اس وقت بہت جلد افریقہ میں اسلام کی جڑوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آئندہ زمانہ میں اس نے بین الاقوامی سیاست میں بھی ایک اہم کردار ادا کرنا ہے۔ اس وقت مسلم ممالک میں یا اسلام کی طرف منسوب ہونے والی مختلف حکومتوں میں بسنے والے لوگوں پر اکثر جگہ جو مظالم ہو رہے ہیں ان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں اسلام کی آواز میں اتنی طاقت نہیں رہی جو مسلمانوں کو ان مظالم سے بچانے اور انصاف کے حصول کیلئے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم کرے۔ ان کی آنکھیں کھولے اور ان کی ان راستوں کی طرف رہنمائی کرے جن پر چلے بغیر وہ اپنے مستقبل کو روشن نہیں کر سکتے کیونکہ محض اسلام کا لیبل لگا لینا ہی کافی نہیں۔ بلکہ ضروری ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی اس آواز پر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمام مسلمانوں کو بالخصوص اور تمام بنی نوع انسان کو بالعموم مخاطب کرکے بلند کی تھی۔ لبیک کہتے ہوئے جماعت احمدیہ میں داخل ہو جائیں اور وہ قربانیاں پیش کریں جو خداتعالیٰ ان سے اس وقت لینا چاہتا ہے۔ صدر انجمن احمدیہ کے مختلف اداروں کو بھی اپنے کاموں کی طرف توجہ کرنی چاہئے مثلاً اصلاح و ارشاد کا کام ہے۔ تربیت کا کام ہے ہم ان کاموں میں ایک حد تک لکیر کے فقیر بن چکے ہیں حالانکہ وہ قومیں جو اپنے انقلابی زمانہ میں سے گزر رہی ہوتی ہیں وہ لکیر کے فقیر نہیں بنا کرتیں اور نہ وہ لکیر کے فقیر بن کر کبھی کامیاب ہوئی ہیں۔ ہمیں ہر وقت بیدار اور چوکس رہنا چاہئے اور ہر شہر، ہر علاقہ اور ہر جگہ کے متعلق پہلے یہ جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ وہاں کس قسم کے اصلاح و ارشاد کے کام کی ضرورت ہے اور پھر وہاں اس کے مطابق کام کرنا چاہئے۔ اسی طرح اور بہت سی باتیں ہیں جن کی طرف نظارت اصلاح و ارشاد کو توجہ کرنی چاہئے۔
نظارت تعلیم اور نظارت امور عامہ کو بھی باہم مل کر ایک ضروری کام کرنا ہے اور اس کے متعلق منصوبہ بندی کرنا ہے اور وہ ضروری کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے احمدی بچوں کے دماغوں میں جلاء پیدا کی ہے اور جب مختلف تعلیمی یونیورسٹیوں کے نتائج نکلتے ہیں تو احمدی نوجوان اپنی نسبت کے مقابل بہت زیادہ تعداد میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے والے ہمیں نظر آتے ہیں۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی دَین ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جس میں ہماری کوششوں کا کوئی دخل نہیں۔ اگر ہم اپنی غفلت کے نتیجہ میں اچھے دماغوں کو ضائع کر دیں تو اس سے بڑھ کر اور کوئی ظلم نہیں ہو گا۔ پس جو طلباء ہونہار اور ذہین ہیں ان کو بچپن سے ہی اپنی نگرانی میں لے لینا اور انہیں کامیاب انجام تک پہنچانا جماعت کا فرض ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض نہایت ذہین بچے تربیت کے نقص کی وجہ سے سکول کے پرائمری اور مڈل کے حصوں میں ہی ضائع ہو جاتے ہیں۔ ان میں آوارگی اور بعض دیگر بُری عادتیں پیدا ہو جاتی ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف وہ خود بلکہ جماعت بحیثیت جماعت خداتعالیٰ کے فضلوں اور نعمتوں کا وہ پھل نہیں کھا سکتی جو اچھے دماغ پیدا کرکے خداتعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر کیا ہے کیونکہ ہم ان دماغوں کو بوجہ عدم توجہ سنبھالتے نہیں بلکہ ضائع کر دیتے ہیں اور اس طرح بعد میں نقصان اٹھاتے ہیں اسی طرح بعض اچھے دماغ محض اس وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں کہ وہ غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں ہوتی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں اور جماعت بھی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ناشکری کرتے ہوئے ان قابل ذہنوں کو ضائع کر دیتے ہیں۔ پس ہر اچھا دماغ رکھنے والے طالب علم کو جو جائزہ لینے کے بعد اس قابل معلوم ہو کہ اگر اسے اعلیٰ تعلیم دلائی جائے تو اسلام اور احمدیت کا نام روشن کرنے والا ثابت ہو سکتا ہے سنبھالنا جماعت کا فرض ہے۔ جماعت کو اس پر نہ صرف روپیہ خرچ کرنا چاہئے بلکہ اس کے لئے دعائیں کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اسے راہِ راست پر قائم رکھے اور اس کے دماغ میں پہلے سے بھی زیادہ جلاء پیدا کرتا چلا جائے اور اسے الہام کے ذریعہ نئے نئے مسائل کے حل کرنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ پھر بعض اچھے دماغ اس وجہ سے بھی ضائع ہو جاتے ہیں کہ جب وہ اپنی تعلیم ختم کر لیتے ہیں تو انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اپنی آئندہ زندگی میں کس راستہ کو اختیار کریں اس لئے جماعت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کی ان کی آئندہ زندگی کے پروگرام بنانے میں مدد کرے۔ بہت اچھے دماغ، اچھے دماغ، درمیانے دماغ اور نسبتاً کمزور دماغ سارے ہی اس بات کے حقدار ہیں کہ جماعت ان کی راہ نمائی کرے اور جہاں جہاں وہ زندگی کے کاموں میں لگ سکتے ہیں وہاں انہیں لگوانے میں مدد کرے کیونکہ ہر وہ نوجوان جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ کوئی کام کرے اگر وہ بروقت کام پر نہیں لگتا اور جماعت بھی اسے کسی کام پر لگوانے میں مدد نہیں دیتی تو گویا ہم اسے خود پکڑ کر شیطان کی گود میں لا بٹھاتے ہیں۔ نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ بیکار رہنے والے لوگوں پر شیطان حملہ کرتا ہے اور انہیں اپنا آلہء کار بنا لیتا ہے۔ پھر ایسا نوجوان جو تعلیم حاصل کر لینے کے بعد کام پر نہیں لگتا اور بیکار رہتا ہے نہ صرف اپنے خاندان کے لئے ایک مصیبت بن جاتا ہے بلکہ اس کی بیکاری سے جماعت بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ کیونکہ جو نوجوان تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد جلد ہی کام پر لگ جاتا ہے وہ کمائی کرنا شروع کر دیتا ہے اور اپنی اس کمائی میں سے غلبہء اسلام کی جدوجہد میں کنٹری بیوٹ (Contribute) کر رہا ہوتا ہے۔ پھر جب وہ کام پر لگتا ہے تو اس کا ایک ماحول بنتا ہے اور اس کے اس ماحول میں اس کا کردار اور اس کے اخلاق اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں اور اس طرح وہ خاموشی کے ساتھ اپنا نمونہ دکھا کر یا گفتگو کے ذریعہ احمدیت کا اثر اور نفوذ بڑھانے والا ہوتا ہے۔
غرض وہ بچے جو تعلیم سے فارغ ہو کر کام پر نہیں لگتے اور بیکار پھرتے رہتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ جماعتی کاموں میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہتے بلکہ یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ ان کے دماغ میں آوارگی آجائے اور وہ شیطان کا آلہء ِکار بن جائیں۔ پس جماعت کے نوجوان کی اخلاقی، اقتصادی اور دینی حالت کی حفاظت کرنا نظارت امور عامہ کا کام ہے۔ اس کے متعلق اسے پوری اطلاعات رکھنی چاہئیں اور ایسا منصوبہ بنانا چاہئے کہ مختلف دماغ جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں وہ اپنے مخصوص راستوں پر چل کر آئندہ زندگی میں کامیاب ہوں۔ اگر نظارت کو ان راستوں کا علم نہیں جو ہماری قومی ترقیات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں تو وہ جماعت کے نوجوانوں کی مناسب راہ نمائی نہیں کر سکتی۔ مثلاً بہت سے دماغ ایسے ہوں گے جو مثال کے طور پر ب۔ ج۔ د۔ شعبوں میں جا سکتے ہیں اور ان شعبوں کے متعلق نظارت کو معلومات حاصل نہیں اس لئے وہ انہیں ا۔ و۔ ی شعبوں میں کام کرنے کا مشورہ دیتی ہیں جن شعبوں سے وہ دماغ کوئی مناسبت ہی نہیں رکھتے تو اس کا یہ مشورہ غلط ہو گا۔ پس نظارت امور عامہ کو ہر شعبہئِ زندگی کے متعلق معلومات حاصل کرنی چاہئیں اور اسے اپنے آپ کو علیٰ وجہ البصیرت اس قابل بنانا چاہئے کہ وہ جماعت کے نوجوانوں کو صحیح مشورہ دے سکے تا وہ اس دنیا میں ہر لحاظ سے کامیاب زندگی گزار سکیں۔ غرض صدر انجمن احمدیہ کی ساری نظارتوں کو اس سال کے لئے جو شروع ہوا ہے پوری سوچ و بچار کے بعد اور زیادہ وقت لئے بغیر منصوبہ تیار کرنا چاہئے اور یہ کام بہرحال مجلس شوریٰ کے انعقاد سے پہلے ہو جانا چاہئے تاکہ اس کے بعد میں خود، مجلس شوریٰ اور ساری جماعت اس بات کا جائزہ لیتے رہیں کہ جماعت کے ذمہ دار ادارے اپنے اپنے منصوبہ کے مطابق پوری جدوجہد اور کوشش کر رہے ہیں یا نہیں۔
وقف جدید انجمن احمدیہ کا کام بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ علاقہ کے لحاظ سے ان کی معلومات ابھی ناقص ہیں اس لئے انہیں اور زیادہ مطالعہ کی ضرورت ہے۔ اس وقت میں جیسا کہ میں بتا چکا ہوں صرف کچھ اشارے کر رہا ہوں تفاصیل میں اداروں کو خود جانا چاہئے۔ مثلاً وقف جدید انجمن احمدیہ نے مختلف جگہوں پر تربیت کی غرض سے اپنے معلّم بٹھائے ہوئے ہیں اور وہ کام بھی کر رہے ہیں لیکن بعض رپورٹوں سے جو مجھے ملی ہیں معلوم ہوا ہے کہ ان کے اندر بھی لکیر کے فقیر ہونے کی عادت پیدا ہو رہی ہے اس لئے کہ کام چلانے کے لئے بعض قواعد وضع کرنے پڑتے ہیں اور ان کی وجہ سے کام میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے لیکن بعد میں ان قواعد کو اصل کام سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ قواعد ہمارے ماتحت ہیں ہم قواعد کے ماتحت نہیں۔ اگر قواعد کے اندر لچک نہ ہو تو ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں فائدہ پہنچانے کی بجائے بعض جگہ نقصان بھی پہنچا دیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل عطا کی ہے تا ہم اپنے وضع کردہ قواعد سے نقصان نہ اٹھائیں۔ ہمیں فراست سے کام لینا چاہئے اور ضرورت کے مطابق اپنا منصوبہ بنانا چاہئے۔ پھر منصوبہ صرف آئیڈیل (Ideal) نہیں ہونا چاہئے۔ یعنی اگر اب ہم ایک ارب کا منصوبہ بنا لیں تو اس منصوبہ اور ہماری آمد کے درمیان اتنا تفاوت ہو گا کہ کوئی عقل اسے صحیح تسلیم نہیں کرے گی اور یہ ایک ہنسی کی بات بن جائے گی لیکن اگر ہماری آمد ۵۰ لاکھ روپیہ ہے اور ہم ساٹھ لاکھ روپیہ کا منصوبہ بنا لیتے ہیں تو یہ کوئی اتنا بڑا فرق نہیں جسے عقل تسلیم نہ کرے۔ ہاں اس کے لئے ہمیں جدوجہد کرنا پڑے گی اور منصوبہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ موجودہ وقت میں جو طاقت اور وسائل ہمیں حاصل ہیں اس سے زیادہ ہم چاہتے ہیں اور اس ’’زیادہ‘‘ کو مدنظر رکھ کر ہم اپنی عقل سمجھ اور حالات کے مطابق ایک سکیم بناتے ہیں اور اس کے پورا کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں لیکن اگر ہم اگلے سال کے لئے بھی پچاس لاکھ روپیہ کا منصوبہ بناتے ہیں تو گویا ہم رک گئے اور رک جانا قوم کے لئے نہایت مہلک ہے۔
بہرحال وقف جدید انجمن احمدیہ کو سینکڑوں معلم اور چاہئیں اس لئے ہمیں سینکڑوں نوجوان جو وقف جدید کے معلم ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں، ملنے چاہئیں اور جلد تر ملنے چاہئیں۔ یہ صحیح ہے کہ بعض جگہ وقف جدید کے معلمین کا کام تسلی بخش نہیں لیکن بعض جگہوں پر انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ اس لئے یہ تو کام دیکھ کر ہی بتایا جا سکتا ہے کہ کونسا معلّم اہل ہے اور کونسا نااہل، جو اہل ہو اسے رکھ لیا جائے اور جو نااہل ثابت ہو اسے فارغ کر دیا جائے اور اس کی جگہ اور رکھ لیا جائے اور ہمیں اس وقت تک ایسا ہی کرنا پڑے گا جب تک کہ ہماری ضرورت پوری نہ ہو جائے۔
پھر جماعت کی ذیلی تنظیموں انصاراللہ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کو بھی اپنے منصوبے اور پلان (Plan) ریوائز (Revise) کرنے چاہئیں انہیں مزید غور کے بعد ان میں کچھ تبدیلیاں کر لینی چاہئیں۔ اور اس اصول کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ وہ ایسے کاموں کی طرف توجہ نہ دیں۔ جو ان کے سپرد نہیں کئے گئے۔ اور ان کاموں کو نظر انداز نہ کریں جو ان کے سپرد کئے گئے ہیں۔ کیونکہ فرائض کو چھوڑ کر نوافل کی طرف متوجہ ہونا کوئی نیکی نہیں اور نہ اس کے اچھے نتائج ہی نکلتے ہیں۔
پس جماعت کی ان ذیلی تنظیموں کو اپنے مفوضہ فرائض احسن طور پر بجا لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے کاموں میں برکت دے کہ وہ جماعت کی مضبوطی کیلئے قائم کی گئی ہیں اور اگر یہ تنظیمیں اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کریں تو یہ جماعت کیلئے بہت برکت کا موجب بن سکتی ہیں اور خداتعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کر سکتی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
آخر میں مَیں پھر آپ سب دوستوں کو جو احمدیت کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ انہیں بھی جو یہاں میرے سامنے بیٹھے ہیں اور انہیں بھی جو دنیا کے مختلف ممالک میں رہتے ہیں اپنے دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اس معنی میں بھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ پر اپنا فضل نازل کرتا رہے اور اس سال جواب شروع ہوا ہے۔ خداتعالیٰ کے فضل ، اس کی رحمتیں اور برکتیں پچھلے سالوں سے زیادہ آپ پر نازل ہوں اور اس معنی میں بھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو روحانی میدانِ جنگ میں ثبات قدم عطا فرمائے اور آپ طاغوتی طاقتوں کو دنیا کے کناروں تک دھکیلتے ہوئے جہنم میں جلد تر پھینکنے والے بن جائیں اور پھر میں آپ کو اس معنی میں بھی مبارک بادپیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی برکتیں زیادہ سے زیادہ نازل کرے۔ اور آپ کو اور مجھے اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ جو وسائل اور اسباب اس نے ہمیں دئیے ہیں۔ ہم ان کا استعمال بہترین طور پر اور کسی منصوبہ بندی کے ماتحت اور منظم طریقہ سے کریں۔ آمین۔
وَمَا تَوْفِیْقَنَا اِلاَّ بِاللّٰہِ
(الفضل مؤرخہ ۱۵؍ جنوری ۱۹۶۶ء صفحہ ۲ تا ۵)
٭…٭…٭














معتکفین کو حقیقی اور انتہائی خلوت میسر آنی چاہئے تا کہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت عبادت اور دعاؤں میں گزار سکیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴ ؍جنوری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ اسلام میں رہبانیت کی اجازت نہیں۔
٭ اسلام نے ہر شعبہ زندگی کے متعلق احکام دیئے ہیں ان پر عمل کریں۔
٭ معتکفین کی عبادت اور دعاؤں میں خلل انداز ہونا ثواب کا کام نہیں۔
٭ لیلۃ القدر کی گھڑی میںانفرادی دعائیں، استغفار اور خاتمہ بالخیر کی دعا کرنی چاہئے۔
٭ ہمیں توحید کے قیام اور غلبۂِ اسلام کے لئے باقاعدہ جدوجہد کرنی چاہئے۔




تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اسلام نے رہبانیت کی اجازت نہیں دی اسلام یہ بات جائز قرار نہیں دیتا کہ کوئی شخص دنیوی تعلقات کو کلّیۃً قطع کرکے محض خداتعالیٰ کی عبادت کی خاطر اپنی ساری زندگی تنہائی میں گزار دے اور ان فرائض کی طرف توجہ نہ دے جو اس پر اللہ تعالیٰ نے بحیثیت ایک انسان ہونے کے عائد کئے ہیں رہبانیت مختلف شکلوں میں دنیا میں پائی جاتی تھی اور اب بھی پائی جاتی ہے۔ عیسائیت نے یہ شکل اختیار کی کہ بعض عیسائیوں نے جو راہب بنے، اپنی زندگیاں چرچ اور عیسائیت کے لئے وقف کر دیں اور اس شکل میں وقف کر دیں کہ ساری زندگی انہوں نے شادی نہیں کی۔ عورتوں نے اپنے سر بھی منڈوا دئیے اور مختلف عبادت گاہوں میں انہوں نے اپنی زندگی کے دن گزار دئیے۔ ان کی اپنی بعض مشکلات اور الجھنیں تھیں جن سے دنیا بہت کم واقف ہے لیکن جن کی وضاحت خود عیسائیوں میں سے بعض دلیر مصنّفین نے کی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ رہبانیت اختیار کرنے والوں کی زندگیاں بد اخلاقیوں سے بھری پڑی تھیں کیونکہ اس قسم کی زندگی انسان کی فطرت کے خلاف ہے پھر بعض مذاہب یا بعض اقوام اور ممالک میں رہبانیت کا خیال یا دنیا سے قطع تعلق کر لینے کا خیال اس حد تک آگے پہنچا کہ انہوں نے کہا کہ ہمارا جسم بھی مادی دنیا سے تعلق رکھتا ہے ہم اسے کلیتاً تو فنا نہیں کرتے۔ ہاں اس کے کچھ حصہ کو ہم نمونۃًقتل کر دیتے ہیں تاکہ ہمارا ربّ (ان کے اپنے زعم میں) یہ سمجھے کہ ہم نے اس کی راہ میں اپنے جسموں کو بھی قربان کر دیا ہے۔ جیسے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بعض سادھو اپنی ایک یا دونوں بانہوں کو یا اپنی ایک ٹانگ یا دونوں ٹانگوں کو بعض خاص ریاضتوں کے ذریعہ بالکل مفلوج یا مردہ کی طرح کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی باہوں کو ایک لمبے عرصہ تک اور متواتر آسمان کی طرف بلند کئے رکھتے ہیں اور انہیں حرکت نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ ان میں دورانِ خون بند ہو جاتا ہے اور وہ سوکھ جاتی ہیں۔ غرض بعض لوگ اپنے جسم کے بعض حصوں کو بعض خاص ریاضتوں کے ذریعہ بالکل مفلوج ناکارہ یا مردہ کی طرح کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے ربّ کو خوش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ بعض انسان اس سے بھی آگے بڑھے اور انہوں نے سمجھا کہ وہ خود کشی کرکے اپنے ربّ کو راضی کر سکتے ہیں جب کہ چند ماہ پہلے بعض علاقوں سے یہ خبریں آئیں اور اخباروں میں چھپیں کہ بدھ مذہب کے بعض پیروئوں نے اپنے مذہبی حقوق منوانے کیلئے اپنے جسموں کو آگ لگا دی۔ غرض انسان اپنی اس زندگی کی جو خداتعالیٰ نے اسے عطا کی ہے قدر نہ کرتے ہوئے اور بعض غلط خیالات میں الجھنے کی وجہ سے رہبانیت کو مختلف شکلوں میں اختیار کرتا رہا ہے۔ اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی بلکہ اسلام جس قسم کی زندگی ہمیں گزارنے کو کہتا ہے وہ یہ ہے کہ ظاہری طور پر دنیا کا ایک حصہ ہوتے ہوئے دنیا کی کشمکش میں شریک ہوتے ہوئے اور وہ سارے فرائض ادا کرنے کے باوجود جو خداتعالیٰ نے ہم پر عائد کئے ہیں ہم ایک طرح کے راہب ہی ہوں۔ دنیا سے قطع تعلق کرنے والے ہی ہوں۔ دنیا سے بے رغبتی کرنے والے ہی ہوں۔
اسلام نے ہر شعبہئِ زندگی کے متعلق ہمیں کچھ احکام دئیے ہیں اس نے ہمیں بعض باتوں کے کرنے کا حکم دیا ہے اور بعض باتوں سے منع فرمایا ہے اور وہ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ اس دنیا کے ہر شعبہئِ زندگی میں ایک مسلمان کی حیثیت سے داخل ہوں۔ اور پھر دنیا کو یہ بتائیں کہ اس مادی دنیا کا ایک فعال حصہ ہونے کے باوجود ہم صرف خداتعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے ایک قسم کی راہبانہ زندگی گزار رہے ہیں اور درحقیقت اگر سوچا جائے تو دنیا سے قطع تعلق کر لینے کے نتیجہ میں انسان اپنے ربّ کا کامل مطیع ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ اس طرح اس نے اپنی زندگی کے بعض پہلوئوں میں تو شائد اپنے ربّ کی اطاعت کی۔ لیکن بعض پہلووئوں میں اس نے اطاعت سے گریز کیا اور یہ موقعہ آنے ہی نہیں دیا کہ وہ اپنے ربّ کی اطاعت کرتا۔ غرض اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ تم بھرپور زندگی گزارو لیکن جہاں تمہاری زندگیاں دنیوی لحاظ سے بھرپور ہوں وہاں روحانی لحاظ سے بھی بھرپور ہوں۔ تم راہب نہ ہوتے ہوئے بھی راہبانہ زندگی اختیار کرو دنیا کے جائز مشاغل میں حصہ لو، بیاہ شادی بھی کرو تم پر تمہارے والدین کے بھی بعض حقوق ہیں، تمہاری بیوی اور اولاد کے بھی بعض حقوق ہیں، تمہاے رشتہ داروں کے بھی بعض حقوق ہیں، تمہارے اسلامی بھائیوں اور دوسرے بنی نوع انسان کے بھی بعض حقوق ہیں۔ خداتعالیٰ کی دوسری مخلوق کے بھی بعض حقوق ہیں، ان حقوق کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہم تم سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تم خداتعالیٰ کے ایک حقیقی عبد اور سچے مطیع کی حیثیت سے اپنی زندگیاں گزارو بالکل اسی طرح جس طرح ایک راہب اپنی زندگی گزارتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلام نے ایک طرف رہبانیت سے منع کیا اور دوسری طرف دنیا کے سب مشاغل کے باوجود کامل انقطاع الی اللہ کی تلقین کی تو ہمیں اس بات کا کیسے علم ہو گا کہ ایک ’’راہب‘‘ کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ علم دینے کے لئے کہ وہ کس قسم کے انقطاع عن الدنیا اور انابت الی اللہ کو پسند کرتا ہے۔ ہمارے لئے اعتکاف کی نفلی عبادت مقرر فرمائی۔ یہ نفلی عبادت یعنی اعتکاف نبی اکرمﷺ رمضان کے پہلے دس دنوں میں بجا لائے پھر آپ رمضان کے درمیانی دس دنوں میں بھی اعتکاف بیٹھے اور آپ یہ عبادت رمضان کے آخری عشرہ میں بھی بجا لائے ہیں۔ غرض آپ رمضان کے تینوں عشروں میں اعتکاف بیٹھے ہیں اور اسے آخری شکل آپ نے یہ دی کہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کی عبادت بجا لائی جائے اب رمضان کا آخری عشرہ بڑا ہی محدود زمانہ ہے۔ دس دن ہی تو ہیں۔ پھر لوگوں کی تو ایک محدود تعداد اعتکاف بیٹھتی ہے لیکن اس سے ہم سب کو کم سے کم یہ علم ضرور حاصل ہو جاتا ہے کہ خداتعالیٰ کس قسم کی زندگی گزارنے کی ہم سے امید کرتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کے لئے خلوت اور تنہائی کو پسند فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ روایات میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کا ارادہ فرمایا اور حضرت عائشہؓ نے آپؐ کے لئے مسجد میں کپڑوں کی دیواروں کا ایک حجرہ بنا دیا۔ اور ساتھ ہی آپ نے یہ بھی عرض کیا کہ یا رسول اللہ اگر آپؐ اجازت عطا فرمائیں تو میں بھی اعتکاف بیٹھ جائوں۔ رسول کریمﷺ نے آپ کو اجازت دے دی۔ چنانچہ آپ نے اپنے لئے بھی مسجد میں ایک حجرہ بنا لیا۔ بعض دوسری ازواج مطہرات کو علم ہوا تو انہوں نے سوچا کہ ہم کیوں پیچھے رہیں۔ چنانچہ پہلے ان میں سے ایک نے اپنے لئے حجرہ بنایا۔ پھر دوسری نے بنایا۔ پھر تیسری نے بنایا اور اس طرح بعض دوسری ازواج کے حجرے بھی تیار ہو گئے۔ جب رسول کریمﷺ اعتکاف کے ارادہ سے مسجد میں تشریف لائے تو آپؐ نے کئی حجرے دیکھے اس پر آپؐ نے فرمایا کہ یہ حجرے کیوں؟ کس لئے؟ اور کس کے لئے بنائے گئے ہیں؟ آپؐ کی خدمت میں عرض کیا گیا یا رسول اللہ! حضرت عائشہؓ کو دیکھ کر بعض دوسری ازواج نے بھی اپنے اپنے حجرے بنا لئے ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کیا تم اس بات میں نیکی اور تقویٰ تلاش کرتی ہو کہ تم دوسرے کی نقل کرو اور ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرو۔ (صحیح البخاری بَابُ اَلْاِعْتِکَافِ فِیْ شَوَّالٍ)
رسول کریمﷺ کی نگاہ بڑی دور بین تھی۔ آپؐ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی نظر رکھتے تھے آپؐ نے فرمایا تمہاری اس حرکت کو دیکھ کر دنیا یہ سمجھے گی کہ تم خلوصِ نیت سے کام کرنے کو نیکی نہیں سمجھتیں بلکہ دکھاوے کی عبادت کو نیکی سمجھتی ہو اور دیکھا دیکھی عبادت بجا لانا اور دکھاوے کی عبادت کرنا کوئی نیکی نہیں اس کے بعد آپؐ مسجد سے باہر تشریف لے گئے اور فرمایا میں بھی اس سال اعتکاف نہیں بیٹھوں گا۔ غرض اعتکاف بیٹھنے والے کو حقیقی اور انتہائی تنہائی اور خلوت میسر آنی چاہئے تا وہ اپنا زیادہ تر وقت خداتعالیٰ کی عبادت اور دعائوں میں گزار سکے۔ ان چیزوں کو دیکھ کر حضرت امام احمد بن جنبل کی جو بڑے پایہ کے امام ہیں۔ رائے ہے کہ اعتکاف کی حالت میں قرآن کریم کی تدریس اور اس کا سبقاً پڑھنا پڑھانا بھی جائز نہیں کیونکہ یہ وقت سیکھنے اور سکھانے کا نہیں بلکہ خلوت میں اپنے ربّ کو یاد کرنے کا ہے۔ لیکن بعض چھوٹی چھوٹی بدعتیں پیدا ہو جاتی ہیں جن کا دور کرنا ضروری ہے۔ ہماری اس مسجد میں اور ممکن ہے دوسری مساجد میں بھی، بعض لوگ معتکفین کی خلوت میں خلل انداز ہونے کی کوشش کرتے ہوں۔
انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں کرتا میرے ایک عزیز معتکف نے دو تین سال ہوئے مجھے بتایا کہ ہم لوگ دعائوں میں مشغول ہوتے ہیں کہ ہمارے حجرہ میں کوئی شخص ہاتھ بڑھا کر مٹھائی کی ایک چھوٹی سی تھیلی رکھ دیتا ہے پھر دوسرا آدمی آ جاتا ہے اور کہتا ہے میرے لئے بھی دعا کرنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے جس کی وجہ سے دعا کے لئے تنہائی میسر نہیں آتی یہ درست نہیں معتکف کو دعا کے لئے کہنا ہی ہے تو اعتکاف بیٹھنے سے پہلے کہہ دیں یا اس کے لئے کوئی ایسا طریق اختیار کریں جو معتکف کی عبادت اور دعا میں خلل نہ ڈالے اس دفعہ ہماری مسجد میں ۸۰کے قریب افراد اعتکاف بیٹھے ہیں اگر ربوہ کے دس ہزار باشندے باری باری ان کے پاس آنا اور دعا کے لئے کہنا شروع کر دیں تو ان کا سارا وقت تو دعا کی درخواستیں سننے میں لگ جائے گا پھر وہ دعا کب کریں گے۔ تم اس چیز کو جسے ان کے خدا اور رسولؐ نے اور تمہارے خدا اور رسولؐ نے ان کے لئے پسند کیا ہے یعنی خالص تنہائی اور خلوت ان سے چھین لیتے ہو۔ یہ کپڑے کی عارضی دیواریں اس بات کی علامت ہیں کہ ان لوگوں کو خلوت میسر آنی چاہئے اور یہ کہ دنیا کی نظر سے جو انہیں پریشان کرتی ہے اور ان کے وقت کو ضائع کرتی ہے یہ لوگ آزاد اور محفوظ رہنا چاہتے ہیں یہ دیواریں حدود اللہ کو قائم رکھنے والی چیزیں ہیں اور آنے والے کو خبردار کرتی ہیں کہ آگے نہ جائیں کیونکہ خداتعالیٰ کا ایک بندہ اپنے ربّ کو یاد کر رہا ہے اور تم جرأت کرکے ایک آدھ لڈو یا کچھ مٹھائی اور دعا کے لئے پیغام پہنچانے کے لئے ان کے اوقات کو ضائع کر رہے ہو حقیقت یہ ہے کہ اگر اعتکاف سے بڑی عبادت نہ ہوتی جو بطور فرض کے ہے تو مساجد کے اندر اعتکاف بیٹھنے سے منع کر دیا جاتا۔ اسلام نے اجتماعی عبادتوں کو انفرادی عبادات پر ترجیح اور اہمیت دی ہے۔ مثلاً نماز باجماعت ہے جمعہ کی نماز ہے ان عبادات کو انفرادی اور نفلی عبادت پر فوقیت حاصل ہے اگر مسجد سے باہر اعتکاف بیٹھنے کا حکم دیا جاتا تو معتکف اعتکاف کے دنوں میں نہ نماز باجماعت ادا کر سکتا اور نہ جمعہ کی نماز میں شریک ہو سکتا اور نماز باجماعت اور نماز جمعہ فرائض میں سے ہیں اور انہیں اعتکاف پر جو ایک نفلی عبادت ہے بڑی فوقیت حاصل ہے۔ صرف ان عبادات کو بجالا نے کے لئے اعتکاف کے لئے مسجد کو منتخب کیا گیا ہے اور آپ محض دعا کی درخواست کرنے اور تھوڑی سی مٹھائی دینے کی خاطر معتکف بھائیوں کو ناجائز طور پر تنگ کرتے ہیں۔
معتکفین کی عبادت اور ان کی دعائوں میں خلل انداز ہونا ثواب کا کام نہیں اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے اگر ضروری طور پر دعا کی درخواست کرنا ہی ہے تو اجتماعی طور پر دعا کی درخواست کر دی جائے یا اعتکاف بیٹھنے سے پہلے دعا کی درخواست کر دی جائے یا اس کام کے لئے کوئی ایسا وقت تلاش کیا جائے جس میں ان کی عبادت اور دعا میں خلل واقع نہ ہو۔ گو مجھے ان دنوں میں کوئی وقت ایسا نظر نہیں آتا جو دعا اور عبادت سے خالی ہو۔ دعا کا دروازہ آپ سب کیلئے کھلا ہے جہاں ان دنوں میں معتکف بھائی دعا کرتے ہیں آپ بھی دعا کر سکتے ہیں پھر دعا اور صدقہ خیرات کے اور کئی مواقع ہیں۔ ان سے فائدہ اُٹھایا جائے۔
معتکف کو اس کے حال پر چھوڑ دیں بعض چھوٹی چھوٹی باتیں جو ہمیں رسول اکرمﷺ کے زمانہ میں نظر نہیں آتیں اور جنہیں نہ آپؐ نے پسند فرمایا ہے اور نہ اصولی طور پر ہماری طبیعت ہی انہیں پسند کرتی ہے ان سے بچنا چاہئے معتکف کو مسجد میں صرف اس لئے بٹھایا گیا ہے کہ اس کی نماز جمعہ ضائع نہ ہو اور وہ نماز باجماعت ادا کر سکے اس لئے نہیں کہ جو چاہے اور جب چاہے اس کی کوٹھڑی میں چلا جائے اور اس کی عبادت میں مخل ہو مساجد سے اعتکاف کی عبادت کو لازم کرنے سے اجتماعی دعا اور عبادت کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ ایک دفعہ حضرت عباسؓ سے ایک دوست نے سوال کیا کہ ایک شخص سارا دن عبادت اور روزہ میں گزارتا ہے رات کو بھی وہ ذکر الٰہی اور نوافل پڑھنے میں خرچ کرتا ہے لیکن وہ نماز باجماعت سے غافل ہے اور جمعہ کی نماز میں بھی نہیں آتا اس کے متعلق آپؐ کا کیا خیال ہے حضرت ابن عباسؓ نے نہایت آرام سے جواب دیا ھو فی النار وہ شخص آگ میں جائے گا۔ پس ہمیں فرائض کی طرف بہرحال پہلے متوجہ ہونا چاہئے اور نوافل تو ایک زائد عبادت ہے جس کا بجا لانا بہت سی برکتوں کا موجب تو ضرور ہے اور فرائض کی ادائیگی میں جو کمزوری اور رخنے باقی رہ جاتے ہیں ان کو دور کرنے کا ذریعہ بھی ہیں لیکن فرائض کے بغیر نوافل کوئی چیز نہیں اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ فرائض کو چھوڑ کر نوافل کے ذریعہ خداتعالیٰ کے قرب کو حاصل کر لے گا وہ غلطی پر ہے۔ موٹی بات ہے کہ جو سامان مرمت کرنے کے لئے ہے اسے اس مکان میں جو ابھی تعمیر ہی نہیں ہوا کیسے خرچ کیا جا سکتا ہے۔ جب تک آپ فرائض کی ادائیگی کے نتیجہ میں جنت میں اپنا مکان تعمیر نہیں کر لیتے۔ اس کے رخنے دور کرنے اور اس کی خوبصورتی اور تزئین کا سامان مہیا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پس پہلے آپ فرائض کو کما حقہ ادا کرکے جنت میں اپنا مکان تعمیر کریں۔ پھر اس کو خوبصورت بنانے، اسے سجانے اور اس کی زیبائش کے لئے نوافل کی طرف متوجہ ہوں۔ اور جو لوگ نوافل کی طرف متوجہ ہوں آپ ان کے نوافل اور عبادات میں مخل نہ ہوں۔
رمضان کے ان آخری دنوں میں جن میں ہم اعتکاف بیٹھتے ہیں ایک وہ رات بھی آتی ہے جو لیلۃ القدر کے نام سے موسوم ہے۔ لیلۃ القدرکے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ رات جس میں اگر انسان چاہے اور پھر اس کا ربّ فضل کرے تو وہ اپنی اور اپنی قوم کی تقدیر کو اپنے ربّ سے بدلوا سکتا ہے یعنی لیلۃ القدر وہ رات ہے جس میں تقدیریں بھی بدل سکتی ہیں لیکن اکثر تقدیریں جو متضرعانہ دعا کے نتیجہ میں بدل دی جاتی ہیں ہمارے علم میں نہیں آسکتیں۔ مثلاً ایک دفعہ ہماری موٹر کا ایک حادثہ ہو گیا اور وہ حادثہ اس نوعیت کا تھا کہ اگر ایک منٹ پہلے یا ایک منٹ بعد ہماری کار جائے حادثہ پر پہنچتی تو حادثہ پیش نہ آتا اور پھر یہ فضل بھی ہوا کہ جو شخص اس حادثہ کا بُری طرح شکار ہوا تھا اسے خداتعالیٰ نے معجزانہ طور پر بچا لیا اس وقت میرے دل میں اپنے ربّ کے لئے بہت حمد پیدا ہوئی اور میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ ہزاروں آفتیں اور حوادث ہم سے ٹال رہا ہے لیکن ہمیں ان کا علم بھی نہیں اور مجھے میری زندگی میں اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھا دیا ہے تا مجھے یقین اور وثوق ہو جائے کہ خداتعالیٰ اپنے بندوں سے کس قدر محبت رکھتا ہے۔ پس جو تقدیر نظر آتی ہے اس پر بھی خداتعالیٰ کی حمد کرنی چاہئے اور جو تقدیر نظر نہیں آتی اس پر بھی انسان کا دل خداتعالیٰ کی حمد سے بھر جانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ (یوسف:۲۱)
اللہ تعالیٰ تقدیر بدل سکتا ہے اور بدلتا ہے ہاں جو تقدیر پردہئِ غیب میں ہے اور پردہئِ غیب میں ہی بدل دی جاتی ہے اس کے متعلق اکثر لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ خداتعالیٰ اپنے فضل سے ہماری دعا کو قبول فرما کر بہت سی دکھ دینے والی چیزوں کو بدل دیتا ہے اور ہمارے دل اس کی حمد سے بھر جانے چاہئیں۔
اَکْثَرَالنَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ اکثر لوگ غیب کی ان باتوں کی طرف مومنانہ فراست سے متوجہ نہیں ہوتے اور ان کے دل حمد سے خالی رہتے ہیں۔
پس ان آخری دنوں میں اعتکاف بیٹھنے کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ لیلۃ القدر کی تلاش کی جائے رسول کریمﷺ بھی اس رات کی تلاش کیلئے ان دنوں میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ جس کو یہ رات دکھا دے اور جس خوش قسمت کو وہ گھڑی نصیب ہو جائے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں بڑی کثرت سے سنتا ہے تو اسے اس سے پورا پورا فائدہ اُٹھانا چاہئے اور اس رات کی تلاش سے پہلے اسے یہ سوچ لینا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے قبولیت دعا کی یہ گھڑی نصیب کر دی تو وہ اس میں کون کون سی دعا کرے گا۔ احادیث میں ہے کہ حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ رسول کریمﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسولؐ اللہ میں نوافل بھی پڑھوں گی اور دعائیں بھی کروں گی لیکن آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر مجھے لیلۃ القدر کی گھڑی نصیب ہو جائے تو اس میں میں کون سی دعا کروں۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا اس گھڑی میں تم اپنے گناہوں کی مغفرت چاہو۔ پس استغفار ایک بنیادی دعا ہے اس کے بغیر حقیقتاً ہماری زندگی زندگی ہی نہیں رہتی نہ دنیوی زندگی باقی رہ سکتی ہے اور نہ اُخروی زندگی۔ نہ مادی زندگی باقی رہ سکتی ہے اور نہ روحانی زندگی۔ اس دنیا میں جو مختصر زندگی ہمیں ملتی ہے اس میں ہم اس قدر غلطیاں کرتے ہیں اتنی کوتاہیاں ہم سے سرزد ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور عفو نہ ہو اور وہ اس دنیا میں یا اگلی دنیا میں ہمیں پکڑنا چاہے تو ہمارے لئے راہِ نجات ممکن ہی نہیں۔
لیلۃ القدر کی گھڑی میں جو دعائیں مانگنی چاہئیںان میں سے دو بنیادی اور انفرادی دعائیں استغفار اور خاتمہ بالخیر کی دعا کرنا ہے۔ استغفار یعنی اپنے گناہوں کی مغفرت چاہنا اور اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں پر پردہ پوشی کی درخواست کرنا اور خاتمہ بالخیر ہو جائے تو پھر پچھلی غلطیاں شمار نہیں ہوتیں۔ وہ سب معاف ہو جاتی ہیں۔ اس لئے دعا کرنی چاہئے کہ خداتعالیٰ خاتمہ بالخیر کرے اور اپنی رضا کی جنت ہمیں نصیب کرے۔ کوئی شخص اپنی زندگی میں کتنا ہی کام کرتا رہے اگر وہ خداتعالیٰ کی درگاہ میں قبول نہیں ہوتا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ انسان سینکڑوں نہیں ہزاروں نوافل پڑھے اگر ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو وہ بالکل بے فائدہ ہیں۔ غرض یہ دونوں دعائیں یعنی استغفار اور خداتعالیٰ کی رضاء کی جنت کے ملنے اور خاتمہ بالخیر کی دعا بڑی کثرت سے کرنی چاہئیں اور ان دنوں میں ان پر خاص زور دینا چاہئے یعنی خداتعالیٰ سے اس کا عفو اور مغفرت بھی طلب کرنی چاہئے اور اس کی بارگاہ میں یہ بھی عرض کرنا چاہئے کہ یا الٰہی ہم کمزور ہیں ہمارے ہر اس فعل میں جسے ہم نے عمل صالح سمجھ کر کیا ہے بہت سی کوتاہیاں اور غفلتیں رہ گئی ہیں تو ہمیں معاف فرما۔ تو بڑا عفو کرنے والا ہے اور تیرے عفو کے مقابلہ میں ہماری کوتاہیاں اور غفلتیں کوئی چیز نہیں تو ہماری کمزوریوں کی طرف نگاہ نہ فرما بلکہ اپنی صفت عفو کی طرف نگاہ کر۔ تو بڑا بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے۔ اپنی اس صفت کے صدقے تو ہماری خطائیں معاف کر۔ گناہ بخش اور ہمارا انجام بخیر کرتے ہوئے ہمیں اپنی جنت میں داخل فرما۔ اس کے علاوہ اگر قبولیت دعا کی گھڑی یعنی لیلۃ القدر میسر آ جائے تو اجتماعی دعا یہ کرنی چاہئے کہ اے خدا دنیا تجھ سے دور ہو گئی ہے وہ تجھے پہچانتی نہیں۔ تیرے احسانوں کی وہ قدر نہیں کرتی۔ اے خدا! تو ایسے سامان پیدا کر دے کہ تیری عظمت تیری کبریائی، تیری توحید، تیرا جلال اور تیری محبت سب انسانوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے۔ اے خدا! دنیا نے محمد رسول اللہﷺ کو بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا بلکہ اس نے سر کشی کرتے ہوئے آپؐ کو دھتکار دیا ہے۔ اے خدا تو ایسے سامان پیدا فرما کہ جن سے اسلام ہماری زندگی میں ہی تمام دنیا پر غالب آ جائے اور ہم آپؐ کے جھنڈے کو ہر ملک کے بلند پولوں (Poles)سے لہراتا ہوا دیکھیں۔ بہرحال ان دنوں اپنے لئے خداتعالیٰ کی مغفرت اور اس کی جنت کے حصول کی دعائیں کرنی چاہئیں اور اجتماعی لحاظ سے خداتعالیٰ کی عظمت، کبریائی، توحید اور جلال کے قیام اور اسلام کے غلبہ کے لئے بڑی کثرت سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ خدا کرے کہ وہ ہمارے اعمال کو قبول فرما لے۔ کیونکہ کوئی عمل چاہے ظاہر میں کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو۔ کتنا ہی حسین کیوں نہ ہو۔ کتنا ہی صالح کیوں نہ ہو۔ کتنا ہی نیک اور عمدہ کیوں نہ ہو۔ اگر خداتعالیٰ اسے قبول نہیں کرتا اور نفرت سے اسے دور پھینک دیتا ہے تو وہ بالکل بے فائدہ ہے۔ پس خدا کرے کہ ہمارے اعمال اس کی نگاہ میں پسندیدہ ہوں اور وہ انہیں نہ صرف قبول فرما لے بلکہ قبولیت کے بعد ہمیں ان سے مزید فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا کرے۔ پھر وہ ہمیشہ ہمیں اپنی حفاظت اور امان میں رکھے۔ ہمارے دل میں اس کی توحید کے قیام اور غلبہئِ اسلام کے لئے خواہش اور تڑپ بڑی شدت سے ہمیشہ موجود رہے۔ پھر ہم ان دونوں اغراض کے لئے باقاعدہ جدوجہد بھی کریں اور وہ ہماری اس جدوجہد کو قبول فرما لے اور ہماری زندگیوں میں ہی اسلام کے غلبہ اور اپنی توحید کے قیام کا سامان پیدا کر دے اور ہمیں یقین ہے کہ ایسے سامان ضرور پیدا ہوں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر فیصلہ کر لیا ہے ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ خداتعالیٰ ہماری زندگیوں میں ہی ایسے سامان پیدا کر دے کہ جس ملک میں بھی ہم جائیں اس کے رہنے والوں کی زندگیوں میں اسلام کی حکومت مشاہدہ کریں۔ پھر ہم یہ دیکھیں کہ وہ لوگ اسلام کے پیرو اور اس کی اطاعت کرنے والے ہیں۔ وہ اپنے ربّ کے ممنون ہیں کہ اس نے اسلام کی نعمت سے انہیں نوازا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے ہیں کہ آپ ان کیلئے آسمان سے قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب لے کر آئے۔ آمین اللھم آمین
(الفضل مؤرخہ ۲۱؍ جنوری ۱۹۶۶ء صفحہ ۲ تا۴)
٭…٭…٭






اگر تم خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہو تو
اپنے اعمال پر کبھی بھروسہ نہ کرو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱ ؍جنوری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ئئء
٭ لیلۃ القدر اور جمعۃ الوداع میں کوئی طلسمی خصوصیات نہیں ہیں۔
٭ خدا تعالیٰ کو ہماری عبادت کی نہ خواہش ہے اور نہ ضرورت۔
٭ ہمیں اپنی جسمانی اور روحانی حیات کیلئے خدا تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کی ضرورت ہے۔
٭ ساری عمر کی ریاضتوں اور عبادتوں کے بعد بھی دعا کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان حقیر کوششوں کو قبول فرمائے۔ آمین
٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک وصیت جو آپ نے حضرت معاذ کو کی۔



تشہد ، تعوذ اور سورۂفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ۔
آج کا جمعہ جو ماہ رمضان کا آخری جمعہ ہے اور جمعۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے، اس کے متعلق مسلمانوں کا ایک گروہ (میں یہاں فرقہ کا لفظ ارادۃً استعمال نہیں کر رہا، بلکہ گروہ کا لفظ استعمال کر رہا ہوں، کیونکہ اس کے معنی فرقہ کے معنوں سے مختلف ہیں) یہ سمجھنے لگ گیا ہے کہ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ اور جمعۃ الوداع جو رمضان کا آخری جمعہ ہے۔ اپنے اندر بعض ایسی طلسمی خصوصیات رکھتے ہیں جو دوسرے دنوں میں نہیں پائی جاتیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ جس نے جمعۃ الوداع کی عبادت بجا لائی ، یعنی جمعہ کی نماز باجماعت ادا کر لی۔ اس کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور چونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ہم نے اس جمعہ کے موقعہ پر اپنے سارے گناہ زبردستی معاف کرواہی لینے ہیں ، اس لئے باقی دنوں میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانے اور ان فرائض کی طرف متوجہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو اس نے ہم پر عائد کئے ہیں اور یہ ایک نہایت مہلک بڑا ہی باطل اور فاسد خیال ہے اور جیسا کہ میں نے اپنے ابتدائی فقروں میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ جہاں تک میرا علم ہے اس تخیل کو اسلام کے کسی فرقہ نے بھی نہیں اپنایا۔ اس کے باوجود چونکہ انسانی طبیعت آرام اور سہولت کی طرف مائل ہونا پسند کرتی ہے، اس لئے شیطان نے مسلمانوں کے ایک گروہ کے دلوں میں یہ وسوسہ پیدا کر دیا ہے، کہ جمعۃ الوداع کی عبادت میں شامل ہو جائو تو تم پر خدا تعالیٰ اور اس کے بندوں کے کوئی حقوق باقی نہیں رہتے اور تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ اس کے برعکس اسلام نے جو ہمیں تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اگر اپنی ساری عمر خدا تعالیٰ کی عبادت کرتا رہے اور یہ عبادت وہ اپنی طرف سے نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ ہی کیوں نہ بجالائے۔ اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے اپنی عبادت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کو حاصل کر لیا ہے۔ اسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ جہاں تک عبادت کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے خزائن پہلے ہی بھرے ہوئے ہیں ۔ انسان ان خزائن میں اپنی عبادتوں میں سے کچھ مزید شامل کرے یا نہ کرے وہاں پہلے ہی اتنی عبادتیں ہیں کہ اس کی عبادتوں سے ان خزائن میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے۔
وَاِنْ مِّنْ شَییْئٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لاَّ تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْط اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا۔ (بنی اسرائیل: ۴۵)
یعنی دنیا کی ہر چیز اس کی تعریف کرتی ہوئی اس کی تسبیح کرتی ہے لیکن تم ان اشیاء کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ وہ یقیناً پردہ پوشی کرنے والا اور بہت ہی بخشنے والا ہے۔
گویا خدا تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ہر چیز ہر آن اور ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تسبیح و تحمید میں مشغول ہے آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ صرف ہمارے جسموں میں ہی (مادی ذرات کے علاوہ) کروڑوں جاندار چیزیں پائی جاتی ہیں اور وہ ساری جاندار چیزیں جو ہمارے جسموں میں پائی جاتی ہیں، اس آیہ کریمہ کے مطابق ہر وقت یعنی دن اور رات کے چوبیس گھنٹے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی تسبیح و تحمید میں لگی ہوئی ہیں۔ اب ان ہمارے جسموں کے اندر رہنے والی کروڑوں جاندار چیزوں کی عبادت کے مقابلہ میں ہمارے اکیلے کی عبادت کیا حیثیت رکھتی ہے۔ ہماری عبادت ان جاندار اشیاء کی عبادت کے کروڑویں حصہ تک بھی نہیں پہنچتی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ متعدد دوسری آیات میں یہ بات ہمارے ذہن نشین کراتا ہے اور ہر چیز جاندار اور بے جان جو میں نے پیدا کی ہے وہ میری عبادت میں لگی ہوئی ہے ، وہ میری تسبیح اور تحمید بیان کر رہی ہے۔ وہ میری کبریائی ، عظمت اور جلال کا اعلان کر رہی ہے اور پھر وہ ہر چیز میرے تصرف میں ہے اور میرے کہنے پر چل رہی ہے، میں جو کہتا ہوں وہ کرتی ہے اور جس چیز سے میں منع کرتا ہوں وہ چھوڑ دیتی ہے۔ مثلاً آگ کو خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ تم نے پانی کا کام نہیں کرنا۔ اب تم نے کبھی دیکھا ہے کہ آگ نے پانی کا کام کیا ہو۔ اور پھر یہ بتانے کے لئے کہ آگ خدا تعالیٰ کے سامنے سجدہ کرتی ہوئی اس کی اطاعت میں جلانے کا یہ فعل کر رہی ہے۔ وہ بعض اوقات خود ہی اسے حکم دے دیتا ہے کہ تم پانی کا کام بھی کرو، مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دشمنوں نے آگ میں ڈالا تو اس آگ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بَرْدًا وَّسَلامًا (الانبیاء: ۷۰) بن جانے کا حکم مل گیا۔ یعنی آگ میں جلانے کی خاصیت تھی پانی کی خاصیات اس میں نہیں پائی جاتی تھیں، لیکن خدا تعالیٰ دنیا کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ آگ اگر جلانے کا کام کر رہی ہے تو محض میری اطاعت کر رہی ہے ورنہ اس کے اندر جلانے کی کوئی ذاتی قابلیت نہیں پائی جاتی۔ میں جو کچھ اسے کہتا ہوں وہ وہی کرتی ہے۔ اسی طرح اس کے علاوہ بھی ہر چیز میرا حکم بجا لاتی ہے، ورنہ اس میں کوئی ذاتی خاصیت اور قابلیت نہیں پائی جاتی۔ لیکن ایک فلسفی کہہ سکتا تھا کہ یہ محض ایک دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اس قسم کی عملی اور معجزانہ دلیلیں مہیا کرتا ہے۔ مثلاً وہ آگ کو جس میں جلانے کی خاصیت پائی جاتی ہے بعض اوقات یہ حکم دے دیتا ہے کہ تم بَرْدًا وَّسَلامًا ہو جائو یعنی پانی کا کام کرو۔ اب آگ نے نہ کبھی پہلے پانی کا کام کیا ہوتا ہے اور نہ بعد میں اسے یہ کام کرنا ہوتا ہے، لیکن خدا تعالیٰ اس سے بعض خاص مواقع پر پانی کا کام لے لیتا ہے اور اس سے اللہ کا یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے اور ہر چیز سے جو چاہے کام لے سکتا ہے کیونکہ ہر چیز اس کے تابع فرمان ہے وہ اس کے خلاف مرضی کوئی حرکت نہیں کرتی۔ مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے تو اللہ تعالیٰ نے آگ کی جلانے کی خاصیت اس سے چھین لی اور اسے پانی کا کام کرنے کا حکم دے دیا اور اس طرح بتا دیا کہ وہ آگ چوبیس گھنٹے جلانے کا کام کرتی ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایسا کرتی ہے اس میں یہ قابلیت ذاتی طور پر نہیں پائی جاتی۔ اسی طرح دوسری مخلوق کا حال ہے۔ پس جہاں تک عبادت کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے خزائن بھرے پڑے ہیں۔ خدا تعالیٰ کو ہماری عبادت کی نہ خواہش ہے اور نہ اسے اس کی کوئی ضرورت پیش آسکتی ہے کیونکہ اس نے ہمیں بتایا ہے کہ اس نے اربوں ارب مخلوقات کو ہر وقت اپنی عبادت، تسبیح اور تحمید میں لگایا ہوا ہے۔ اس کی ہر مخلوق اس کے حکم کے مطابق اس کی عبادت اور اطاعت میں اپنی زندگی کے دن گزار رہی ہے۔ اس لئے اسے نہ تمہاری عبادت کی پرواہ ہے اور نہ اسے اس کی ضرورت ہے لیکن ہمیں اپنی جسمانی اور روحانی حیات کے لئے اس کی اطاعت اور عبادت کی ضرورت ہے۔
ہماری کتب میں ایک واقعہ حضرت ابو یزید بسطامیؒ کے متعلق آتا ہے اس سے ہمیں بڑا اچھا سبق ملتا ہے۔ حضرت ابویزید بسطامیؒ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے نفس کو ہر تکلیف میں ڈالا اور دن اور رات خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزارے اور یہ سلسلہ تیس سال تک چلتا چلا گیا۔ ان تیس سالوں میں میں نے دن کی گھڑیوں کو بھی خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزارا اور رات کو بھی اسی کے لئے قیام کیا۔ میں نے اس کی خاطر اپنے نفس کو ہر مشقت میں ڈالا۔ یعنی میں بہت ہی کم سویا اور بہت ہی کم خوراک استعمال کی اور ہر قسم کی ریاضت کی، لیکن ان تیس سال کی عبادت کے بعد ایک دن ایک وجود میرے سامنے آیا اور اس نے مجھے کہا، اے ابویزید ! اللہ تعالیٰ کے خزانے عبادت سے بھرے پڑے ہیں ۔ ان میں اگر تمہاری عبادت شامل نہ بھی ہو تب بھی ان میں کوئی فرق نہیں پڑتا، تم محض ان عبادتوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتے۔ فَاِنْ اَرَدْتَّ الْوُصُوْلَ اِلَیْہِاگر تم اس تک پہنچنا چاہتے ہو تو فَعَلَیْکَ بِالذِّلَّۃِ وَالْاِحْتِقَارِ وَالْاِخْلَاصِ فِیْ الْعَمَلِتمہیں اپنے اندر عاجزی، ذلت ، تواضع اور اپنے آپ کو حقیر سمجھنے کی ذہنیت پیدا کرنی چاہئے۔ تمہیں خداتعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کے حصول کے لئے بہرحال یہ رستہ اختیار کرنا پڑے گا اور پھر اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کرنا ہو گا اور اسلامی اصطلاح کی رو سے اخلاص کے لفظ کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہم عبادت کریں اور سمجھیں کہ اس کے نتیجہ میں بھی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا تو ہم اس کی خوشنودی اور اس کی رضا کی جنت حاصل کریں گے، محض اپنی عبادتوں اور کوششوں کے نتیجہ میں ہم نہ اس کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں نہ اس کی رضا کی جنت کو پا سکتے ہیں اور نہ اس کے قرب کی راہیں ہم پر کھل سکتی ہیں۔ بہرحال حضرت ابویزید بسطامیؒ فرماتے ہیں کہ تیس سالہ عبادت کے بعد بھی خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق انہیں ایک کہنے والے نے کہا تو یہی کہا کہ تم نے اگر تیس سال دن اور رات عبادت کی ہے تو یہ ایک قابل تعریف فعل ہے لیکن یہ کبھی نہ سمجھنا کہ تم محض اس عبادت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضاء حاصل کر سکتے ہو۔ بلکہ اگر تم خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے اعمال پر بھروسہ نہ کرو ، بلکہ اپنے آپ کو ذلیل اور حقیر سمجھو اور ہمیشہ ڈرتے رہو کہ کہیں تمہارے اعمال خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ناپسندیدہ نہ ٹھہریں اور وہ اس کے حضور قبولیت کا شرف حاصل نہ کر سکیں۔ پس اگر ساری عمر نہایت اخلاص سے عبادت بجا لانے کے بعد بھی خدا تعالیٰ کا ایک مخلص بندہ اپنی نجات کے متعلق مطمئن نہیں ہو سکتا، تو ایک دن کی عبادت سے وہ کس طرح خوش ہو سکتا ہے؟ پس میں یہ نہیں کہتا کہ جمعۃ الوداع کی عبادت میں لوگ زیادہ شوق سے حصہ نہ لیں کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے شوق سے ایک دن کے لئے بھی آتا ہے میرا کام نہیں کہ میں اس کے رستہ میں روک بنوں۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ محض اس طرح پر آپ اللہ تعالیٰ کی رضاء اور اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتے، اگر تم نے ایک دن یعنی جمعۃ الوداع کو خدا تعالیٰ کی عبادت کی ہے تو تم نے اپنی عمر کا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت میں گزارا ہے گویا تم نے اپنے فرض کا کچھ حصہ ادا کیا ہے اور یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن یہ کبھی نہ سمجھنا کہ جمعۃ الوداع یا رمضان کی آخری راتوں کا قیام تمہیں تمہارے دوسرے فرائض سے جو تم پر حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارہ میں عائد ہوتے ہیں آزاد کر دیتا ہے، ایسا ہر گز نہیں۔ بلکہ ساری عمر کی ریاضتوں اور عبادتوں کے بعد بھی تم ہمیشہ یہ دعا کرتے رہو کہ اے خدا! ہم نے اپنی حقیر کوششیں تیرے قدموں میں لا کر رکھ دی ہیں۔ اگر تو چاہے تو انہیں اپنے پائوں کی ٹھوکر سے پرے پھینک دے، لیکن تو بڑا فضل کرنے والا اور رحمن و رحیم خدا ہے ہمیں تجھ سے امید ہے کہ تو ایسا ہرگز نہیں کرے گا، بلکہ محض اپنے فضل سے ہماری ان حقیر کوششوں کو قبول کرے گا اور اپنے قرب اور رضا کی راہیں ہم پر کھول دے گا۔
آخر میں میں ایک وصیت پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں جو رسول کریمﷺ نے حضرت معاذؓ کو کی دوست اسے غور سے سنیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس وصیت کو سننے کے بعد کوئی انسان مرتے دم تک اپنے کسی عمل سے کسی صورت میں بھی مطمئن نہیں ہو سکتا۔ یہ وصیت بڑی لمبی ہے اس لئے میں اس کے الفاظ نہیں پڑھوں گا بلکہ ان کا صرف ترجمہ بیان کروں گا۔
آنحضرتﷺ نے ایک دن حضرت معاذؓ سے فرمایا یامعاذ انی محدثک بحدیث ان انت حفظتہ نفعکاے معاذ! میں تجھے ایک بات بتاتا ہوں ،اگر تو نے اسے یاد رکھا تو یہ تمہیں نفع پہنچائے گی اور اگر تم اسے بھول گئے تو انقطعت حجتک عنداللّٰہ اللہ تعالیٰ کا فضل تم حاصل نہیں کر سکو گے اور تمہارے پاس نجات حاصل کرنے کے بارہ میں اطمینان کے لئے کوئی دلیل باقی نہیں رہے گی۔ یا معاذ ان اللّٰہ تبارک و تعالٰی خلق سبعۃ املاک قبل ان یَخْلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالارضَ اے معاذ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پہلے سات دربان فرشتوں کو پیدا کیا (اور جیسا کہ اس حدیث کے مفہوم سے پتہ لگتا ہے یہاں آسمانوں سے مراد روحانی آسمان ہیں جن میں روحانی لوگ اپنے اپنے درجہ کے مطابق رکھے جاتے ہیں) اور ان فرشتوں میں سے ایک ایک کو ہر آسمان پر بطور بواّب یعنی دربان کے مقرر کر دیا۔ ان کی ڈیوٹی تھی کہ تم اپنی اپنی جگہ پر رہو اور صرف ان لوگوں کے اعمال کو یہاں سے گزرنے دو جن کے گزرنے کی ہم اجازت دیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ وہ فرشتے جو انسان کے اعمال کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کا روزنامچہ لکھتے ہیں، خدا کے ایک بندے کے اعمال لے کر جو اس نے صبح سے شام تک کیے تھے آسمان کی طرف بلند ہوئے اور ان اعمال کو ان فرشتوں نے بھی پاکیزہ سمجھا تھا اور انہیں بہت زیادہ خیال کیا تھا۔ لیکن جب وہ اعمال لے کر پہلے آسمان پر پہنچے تو انہوں نے دربان فرشتے سے کہا کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور ایک بندے کے اعمال پیش کرنے آئے ہیں۔ یہ اعمال بہت پاکیزہ ہیں ، تو اس فرشتے نے انہیں کہا ٹھہر جائو تمہیں آگے جانے کی اجازت نہیں، تم واپس لوٹو اور جس شخص کے یہ اعمال ہیں انہیں اس کے منہ پر مارو۔ خدا تعالیٰ نے مجھے یہاں یہ ہدایت دے کر کھڑا کیا ہے کہ میں کسی غیبت کرنے والے بندہ کے اعمال کو اس دروازہ میں سے نہ گزرنے دوں اور یہ شخص جس کے اعمال تم خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنے آئے ہو ہر وقت غیبت کرتا رہتا ہے۔
رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ کچھ اور فرشتے ایک اور بندہ کے اعمال لے کر آسمان کی طرف چڑھے۔ تزکیّہ و تکثّرہٗ وہ فرشتے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ یہ اعمال بڑے پاکیزہ ہیں اور پھر یہ بندہ انہیں بڑی کثرت سے بجا لایا ہے اور چونکہ ان اعمال میں غیبت کا کوئی شائبہ نہیں تھا اس لئے پہلے آسمان کے دربان اور حاجب فرشتے نے انہیں آگے گزرنے دیا۔ لیکن جب وہ دوسرے آسمان پر پہنچے تو اس کے دربان فرشتے نے انہیں پکارا، ٹھہر جائو، واپس لوٹو اور ان اعمال کو ان کے بجا لانے والے کے منہ پر مارو۔ میں فخر و مباہات کا فرشتہ ہوں اور خدا تعالیٰ نے مجھے یہاں اس لئے مقرر کیا ہے کہ میں کسی بندے کے ایسے اعمال کو یہاں سے نہ گزرنے دوں جن میں فخرو مباہات کا بھی کوئی حصہ ہو اور وہ اپنی مجالس میں بیٹھ کر بڑے فخر سے اپنی نیکی کو بیان کرنے والا ہو۔ یہ شخص جس کے اعمال لے کر تم یہاں آئے ہو۔ لوگوں کی مجالس میں بیٹھ کر اپنے ان اعمال پر فخر و مباہات کا اظہار کیا کرتاہے۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا فرشتوں کا ایک اور گروہ ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمان کی طرف بلند ہوا اور وہ ان فرشتوں کی نگاہ میں بھی کامل نور تھے۔ ان اعمال میں صدقہ و خیرات بھی تھا، روزے بھی تھے، نمازیں بھی تھیں اور وہ محافظ فرشتے تعجب کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ کا یہ بندہ کس طرح اپنے ربّ کی رضا کی خاطر محنت کرتا رہا ہے اور چونکہ ان اعمال میں غیبت کا کوئی حصہ نہیں تھا اور ان میں فخر و مباہات کا بھی کوئی حصہ نہیں تھا۔ اس لئے پہلے اور دوسرے آسمان کے دربان فرشتوں نے انہیں گزرنے دیا، لیکن جب وہ تیسرے آسمان کے دروازہ پر پہنچے تو اس کے دربان فرشتہ نے کہا ٹھہر جائو۔ اضربوا بھذا العمل وجہ صاحبہ کہ جس شخص کے اعمال تم خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لئے لے جا رہے ہو اس کے پاس واپس جائو اور ان اعمال کو اس کے منہ پر مارو۔ میں تکبر کا فرشتہ ہوں، مجھے تیسرے آسمان کے دروازہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت دے کر کھڑا کیا ہے کہ اس دروازہ سے کوئی ایسا عمل آگے نہ گزرے جس کے اندر تکبر کا کوئی حصہ ہو۔ اور یہ شخص جس کے اعمال تم اپنے ساتھ لائے ہو بڑا متکبر تھا، وہ اپنے آپ کو ہی سب کچھ سمجھتا تھا اور دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اور ان سے تکبر اور اباء کا سلوک کیا کرتا تھا اور وہ اپنی مجالس میں گردن اونچی کر کے بیٹھنے والا تھا۔ اس کے اعمال گو تمہاری نظر میں اچھے نظر آ رہے ہیں۔ لیکن وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول نہیں۔
آپ نے فرمایا فرشتوں کا ایک چوتھا گروہ ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمان کی طرف بلند ہوا۔ یَزھُوْکَمَا یَزْھُوْ الْکَوْکَبُ الدُّرِّی وہ اعمال ان فرشتوں کو کوکب الدّری کی طرح خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔ ان میں نمازیں بھی تھیں، تسبیح بھی تھی، حج بھی تھا، عمرہ بھی تھا۔ وہ فرشتے یہ اعمال لے کر آسمان کے بعد آسمان اور دروازہ کے بعد دروازہ سے گزرتے ہوئے چوتھے آسمان کے دروازہ پر پہنچے تو اس کے دربان فرشتے نے انہیں کہا ٹھہر جائو۔ تم یہ اعمال ان کے بجالانے والے کے پاس واپس لے جائو اور اس کے منہ پر دے مارو۔ میں خودپسندی کا فرشتہ ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں اس شخص کے اعمال کو جس کے اندر عجب پایا جائے۔ گویا وہ اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کا شریک سمجھتا ہو اور خود پسندی کا احساس اس کے اندر پایا جائے اور اس میں خدا تعالیٰ کی بندگی کا احساس نہ پایا جاتا ہو۔ اس چوتھے آسمان کے دروازہ سے نہ گزرنے دوں۔ میرے ربّ کا مجھے یہی حکم ہے۔ انہ کان اذا عمل عملا ادخل العجب فیہ یہ شخص جب کوئی کام کرتا تھا خودپسندی کو اس کا ایک حصہ بنا دیتا تھا۔ اس کے اعمال اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول نہیں ہیں۔
رسول اکرمﷺنے فرمایا ، فرشتوں کا ایک پانچواں گروہ ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمانوں کی طرف بلند ہوا۔ ان اعمال کے متعلق ان فرشتوں کا خیال تھا کہ کَاَنَّہُ الْعٰرُوْسُ الْمَزُفُوْفَۃِ اِلٰی اَھْلِھَا۔ وہ ایک سجی سجائی سولہ سنگھار سے آراستہ خوشبو پھیلاتی دلہن کی طرح ہیں جو رخصتانہ کی رات کو اپنے دولہا کے سامنے پیش کی جاتی ہے، لیکن جب وہ چاروں آسمانوں پر سے گزرتے ہوئے پانچویں آسمان پر پہنچے تو اس کے دربان فرشتے نے کہا قفوا ٹھہر جائو واضر بوا لھذا العمل وجہ صاحبہ ان اعمال کو واپس لے جائو اور اس شخص کے منہ پر مارو اور اسے کہہ دو کہ تمہارا خدا ان اعمال کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ انا ملک الحسد میں حسد کا فرشتہ ہوں اور میرے خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ ہر وہ شخص جس کو حسد کرنے کی عادت ہو۔ اس کے اعمال پانچویں آسمان کے دروازہ میں سے نہ گزرنے دوں۔ یہ شخص ہر علم حاصل کرنے والے اور نیک اعمال بجا لانے والے پر حسد کیا کرتا تھا۔ میں اس کے اعمال کو اس دروازہ میں سے نہیں گزرنے دوں گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان حفظہ فرشتوں کا ایک چھٹا گروہ ایک اور بندہ کے اعمال لے کر آسمانوں کی طرف بلند ہوا اور پہلے پانچ دروازوں میں سے گزرتا ہوا چھٹے آسمان تک پہنچ گیا۔ یہ اعمال ایسے تھے جن میں روزہ بھی تھا، نماز بھی تھی ، زکوٰۃ بھی تھی، حج اور عمرہ بھی تھے اور فرشتوں نے یہ سمجھا کہ یہ سارے اعمال خدا تعالیٰ کے حضور میں بڑے مقبول ہونے والے ہیں۔ لیکن جب وہ چھٹے آسمان پر پہنچے تو وہاں کے دربان فرشتے نے کہا ٹھہر جائو۔ آگے مت جائو۔ انہ کان لا یرحم انسانا من عباد اللّٰہ قطّ یہ شخص خدا تعالیٰ کے بندوں میں سے کسی بندہ پر کبھی رحم نہیں کرتا تھا اور خدا تعالیٰ نے مجھے یہاں اس لئے کھڑا کیا ہے کہ جن اعمال میں بے رحمی کی آمیزش ہو، میں انہیں اس دروازہ سے نہ گزرنے دوں۔ تم واپس لوٹو اور ان اعمال کو اس شخص کے منہ پر یہ کہہ کر مارو کہ تمہارا اپنی زندگی میں یہ طریق ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے بندوں پر رحم کرنے کی بجائے ظلم کرتے ہو۔ خدا تعالیٰ تم پر رحم کرتے ہوئے تمہارے یہ اعمال کیسے قبول کرے؟
نبی اکرمﷺ نے فرمایا کچھ اور فرشتے ایک بندے کے اعمال لے کر آسمان کے بعد آسمان اور دروازہ کے بعد دروازہ سے گزرتے ہوئے ساتویں آسمان پر پہنچ گئے۔ ان اعمال میں نماز بھی تھی، روزے بھی تھے، فقہ اور اجتہاد بھی تھا اور ورع بھی تھا لَھَادَوِیٌّ کَدَوِّیِّ اَلنَّحْلِ وَضَوْئٌ کَضَوْئِ الشَّمْسِ ان اعمال سے شہد کی مکھیوں کی آواز ایسی آواز آتی تھی یعنی وہ فرشتے گنگنا رہے تھے کہ ہم بڑی اچھی چیزیں خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش کرنے کے لئے لے جا رہے ہیں اور وہ اعمال سورج کی روشنی کی طرح چمک رہے تھے ان کے ساتھ تین ہزار فرشتے تھے گویا وہ اعمال اتنے زیادہ اور بھاری تھے کہ تین ہزار فرشتے ان کے خوان کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ جب وہ ساتویں آسمان کے دروازہ پر پہنچے تو دربان فرشتہ نے جو وہاں مقرر تھا کہا ٹھہرو، تم آگے نہیں جا سکتے۔ تم واپس جائو اور ان اعمال کو اس شخص کے منہ پر مارو اور اس کے دل پر تالا لگا دو کیونکہ مجھے خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ میں اس کے حضور ایسے اعمال پیش نہ کروں جن سے خالصتاً خدا تعالیٰ کی رضا مطلوب نہ ہو اور ان میں کوئی آمیزش ہو۔ اس شخص نے یہ اعمال غیر اللہ کی خاطر کئے ہیں ارادبہ رفعۃً عند الفقھاء یہ شخص فقیہوں کی مجالس میں بیٹھ کر اور فخر سے گردن اونچی کر کے تفۃ اور اجتہاد کی باتیں کرتا ہے تا ان کے اندر اسے ایک بلند مرتبہ اور شان حاصل ہو۔ اس نے یہ اعمال میری رضا کی خاطر نہیں کیے بلکہ محض لاف زنی کیلئے کئے ہیں۔ وذکرا عندالعلماء وصیتا فی المدائن اس کی غرض یہ تھی کہ وہ دنیا میں ایک بڑے بزرگ کی حیثیت سے مشہور ہوجائے۔ علماء کی مجالس میں اس کا ذکر ہو۔ امرنی ربی ان لا ادع عملہ یجاوزنی الی غیری وکل عمل لم یکن للّٰہ تعالٰی خالصا فھو ریاء ۔ وہ کام جو خالصاً خداتعالیٰ کے لئے نہ ہو اور اس میں ریاء کی ملونی ہو وہ خدا تعالیٰ کے حضور مقبول نہیں اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں ایسے اعمال کو آگے نہ گزرنے دوں۔ تم واپس جائو اور ان اعمال کو اس شخص کے منہ پر دے مارو۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا۔ کچھ اور فرشتے ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمانوں کی طرف بلند ہوئے اور ساتوں آسمانوں کے دربان فرشتوں نے انہیں گزرنے دیا۔ انہیں ان اعمال پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ان اعمال میں زکوٰۃ بھی تھی، روزے بھی تھے، نماز بھی تھی، حج بھی تھا،عمرہ بھی تھا، اچھے اخلاق بھی تھے۔ ذکر الٰہی بھی تھا اور جب وہ فرشتے ان اعمال کو خدا تعالیٰ کے حضور میں لے جانے کیلئے روانہ ہوئے تو آسمانوں کے فرشتے ان کے ساتھ ہو لئے اور وہ تمام دروازوں میں سے گزرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے دربار میں پہنچ گئے۔ وہ فرشتے خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو گئے لیشھد وا لہ بالعمل الصالح المخلص للّٰہ اور کہا اے ہمارے ربّ! تیرا یہ بندہ ہر وقت تیری عبادت میں مصروف رہتا ہے، وہ بڑی نیکیاں کرتا ہے اور اپنے تمام اوقات عزیزہ کو تیری اطاعت میں خرچ کر دیتا ہے۔ وہ بڑا ہی مخلص بندہ ہے۔ اس میں کوئی عیب نہیں۔ غرض انہوں نے اس شخص کی بڑی تعریف کی۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا انتم الحفظۃ علی عمل عبدیکہ تمہیں تو میں نے اعمال کی حفاظت اور انہیں تحریر کرنے کے لئے مقرر کیا ہے۔ تم صرف انسان کے ظاہری اعمال کو دیکھتے ہو اور انہیں لکھ لیتے ہو۔ وانا الرقیب علی قلبہ اور میں اپنے بندہ کے دل کو دیکھتا ہوں۔ انہ لم یردنی لھذا العمل اس بندہ نے یہ اعمال بجا لا کر میری رضا نہیں چاہی تھی، بلکہ اس کی نیت اور ارادہ کچھ اور ہی تھا۔ اراد بہ غیری وہ میرے علاوہ کسی اور کو خوش کرنا چاہتا تھا فعلیہ *** اس پر میری *** ہے۔ فتقول الملئٰـکۃ کلھم تو تمام فرشتے پکار اٹھیں گے علیہ لعنتک و لعنتنااے ہمارے ربّ اس پر تیری بھی *** ہے اور ہماری بھی *** ہے فتلعنہ السَّمٰوٰت السبع و من فیھن اور اس پر ساتوں آسمان اور ان میں رہنے والی ساری مخلوق اس پر *** کرنی شروع کردے گی۔
حضرت معاذؓ نے رسول اکرمﷺ کی اس وصیت کو سنا تو آپ کا دل کانپ اُٹھا آپ نے عرض کیا یارسول اللّٰہ کیف لی بالنجاۃ والخلوص یا رسول اللہ! اگر ہمارے اعمال کا یہ حال ہے تو مجھے نجات کیسے حاصل ہو گی؟ اور میں اپنے ربّ کے قہر اور غضب سے کیسے نجات پائوں گا؟ آپؐ نے فرمایا اقتدبیتم میری سنت پر عمل کرو۔ وعلیک بالیقین و ان کان فی عملک تقصیر اور اس بات پر یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ کا ایک بندہ خواہ کتنے ہی اچھے عمل کیوں نہ کر رہا ہو اس میں ضرور بعض خامیاں رہ جاتی ہیں اس لئے تم اپنے اعمال پر ناز نہ کرو، بلکہ یہ یقین رکھو کہ ہمارا خدا اور ہمارا مولیٰ ایسا ہے کہ وہ ان خامیوں کے باوجود بھی اپنے بندوں کو معاف کر دیا کرتا ہے۔ وحافظ علی لسانک اور دیکھو اپنی زبان کی حفاظت کرو اور اس سے کسی کو دکھ نہ پہنچائو۔ کوئی بُری بات اس سے نہ نکالو۔ ولاتزک نفسک علیھم اور اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ متقی اور پرہیزگار نہ سمجھو اور نہ اپنی پرہیزگاری کا اعلان کرو۔ و لا تدخل عمل الدنیا بعمل الاخرۃاور جو عمل تم خدا تعالیٰ کی رضا اور اُخروی زندگی میں فائدہ حاصل کرنے کے لئے کرتے ہو اس میں دنیا کی آمیزش نہ کرو۔ ولا تمزق الناس فیمزقک کلاب الناراور لوگوں میں فتنہ و فساد پیدا کرنے اور انہیں پھاڑنے کی کوشش نہ کرو اگر تم ایسا کرو گے تو قیامت کے دن جہنم کے کتے تمہیں پھاڑ دیں گے۔ ولا تراء بعملک الناس اور اپنے عمل ریاء کے طور پر دنیا کے سامنے پیش نہ کیا کرو۔
(روح البیان جلد اوّل صفحہ ۷۶،۷۷)
یہ ساری باتیں اقتدبی کی تشریح اور تفسیر ہیں اور ان کا خلاصہ یہی ہے کہ جس طرح عجز کے ساتھ۔ دنیا سے کلیۃً منہ موڑ کر اور خالصۃً اپنے ربّ کے حضور حاضر رہ کر آنحضرتﷺ نے زندگی گزاری ہے اور جس طرح آپ بنی نوع انسان کے لئے محض شفقت اور محض رحمت تھے۔ اسی طرح کی زندگی اگر ہم بھی گزارنے کی کوشش کریں یعنی ایک طرف ہم حقوق اللہ کو ادا کرنے کی طرف کوشش کریں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کا بھی لحاظ رکھنے والے ہوں اور ان پر شفقت اور رحم کرنے والے ہوں۔ ان سے پیار کرنے والے ہوں، ان کے کام آنے والے ہوں اور اپنی دعا اور تدبیر کے ساتھ ان کے دکھوں کو دور کرنے والے ہوں، وہ ہمارے بھائیوں سے زیادہ ہمیں عزیز اور ہم بھائیوں سے زیادہ ان پر شفقت کرنے والے ہوں۔ تب اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل کے ساتھ، محض اپنے فضل کے ساتھ، محض اپنے فضل کے ساتھ، ہمیں اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لے گا۔ کیونکہ اس کے فضل کے بغیر ہماری نجات ممکن نہیں۔ نبی کریمﷺ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو کون پیارا ہو سکتا ہے۔ حضرت ابوہریرۃؓ روایت فرماتے ہیں کہ صحابہؓ نے آپؐسے عرض کیا، یا رسول اللہ ! کیا آپ کی نجات بھی آپ کے اعمال کے نتیجہ میں نہیں ہو گی بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہو گی؟ تو آپ نے فرمایا ہاں! میری نجات بھی محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے۔ میرے عمل کے نتیجہ میں نہیں ہو گی۔ (بخاری کتاب المرضیٰ)
غرض جب تک ہم اپنے تمام کاموں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر نہ چلیں اور آپ کی اقتداء نہ کریں اس وقت تک ہمیں تسلی نہیں ہو سکتی اور یہ تو خدا تعالیٰ کو ہی علم ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے ہیں یا نہیں، اس لئے ہمیں اپنی زندگیوں کے آخری سانس تک خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہئے، کہ اے خدا ہم نے کچھ کیا یا نہیں کیا۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ اگر ہم سب کچھ بھی کر دیں تب بھی ہمارے اعمال میں بہت سی کمزوریاں ہوں گی اور وہ اس قابل نہیں ہوں گے کہ تو انہیں قبول کرے۔ اس لئے ہم یہ نہیں کہتے کہ تو ہمارے عمل کو قبول کر، بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ تو اپنے فضل سے ہمیں قبول کر لے اور اپنے قرب اور رضا کی راہیں ہم پر کھول دے ، تا اس دنیا میں بھی ہم اس تیری جنت کے وارث بنیں اور آنے والی دنیا میں بھی ہم تیری جنت کے وارث بننے والے ہوں۔ اللھم آمین
(روزنامہ الفضل ۹؍ فروری ۱۹۶۶ء)
٭…٭…٭



مومن ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہتا ہے لیکن اس
کے دل میں مایوسی پیدا نہیں ہوتی
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸ ؍جنوری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربّوہ )
ء ء ء
٭ مومن کا مقام خوف اور رجا کے درمیان ہوتا ہے۔
٭ اگر خداتعالیٰ کا قربّ، وصال اور رضاء چاہتے ہو تو اس کے احکام کی پابندی کرو۔
٭ ہمیں ظاہری اور باطنی شرک سے اپنی عبادات کو پاک رکھنا چاہئے۔
٭ جسے خدا مل جائے اسے نہ اس جہان کی جنت کی ضرورت رہتی ہے اور نہ اگلے جہان کی جنت اسے درکار ہے۔
٭ خدا تعالیٰ سے کبھی مایوس نہیں ہونا وہ بڑا فضل کرنے والا، بڑا رحم کرنے والا اور بڑا احسان کرنے والاہے۔



تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا۔
پچھلے دو دن میری طبیعت کچھ خراب رہی ہے مجھے گرمی لگ جانے یعنی ہیٹ سٹروک کی تکلیف ہو گئی تھی پرسوں رات قریباً ساری رات ہی میں نے جاگ کر گزاری ہے اسی تکلیف کے نتیجہ میں ساری رات پلپی ٹیشن (Palpitation) یعنی دل کی دھڑکن کی رفتار ڈیڑھ سَو سے اوپر رہی اور ضعف بھی بہت محسوس ہوتا رہا۔ آج گو پہلے کی نسبت بہت آفاقہ محسوس ہو رہا ہے اور دل کی دھڑکن کی رفتار ۹۰ کے قریب آ گئی ہے۔ گویہ رفتار بھی کچھ زیادہ ہے) لیکن ضعف بہت محسوس کر رہا تھا۔ میں نے خیال کیا کہ اگر اس ضعف کی وجہ سے میں خطبہ جمعہ کے لئے مسجد میں حاضر نہ ہوا تو کہیں میرا ربّ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے اور وہ یہ نہ کہے کہ ہم نے جماعت میں تمہاری اتنی محبت اور پیار پیدا کیا ہے اور تم اس کی ملاقات سے بھی محروم ہو رہے ہو۔ اس خوف کی وجہ سے باوجود ضعف کے میں حاضر ہو گیا ہوں اور اسی مقام خوف کی طرف میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں لوگوں کو متوجہ بھی کیا تھا اور بتایا تھا کہ مومن کا مقام خوف اور رجا کے درمیان ہوتا ہے ایک طرف اللہ تعالیٰ کا بندہ اس سے ڈرتا رہتا ہے اور اسے اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ کہیں اس کے کسی ظاہری یا باطنی گناہ کے نتیجہ میں خداتعالیٰ اس سے ناراض نہ ہو جائے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان اس قدر بلند ہے کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ میں اسے اپنے اعمال کے نتیجہ میں خوش کر سکتا ہوں۔ پس خدا کا بندہ اپنے اعمال پر کبھی بھروسہ نہیں کرتا۔ وہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی سمجھتا ہے کہ اس نے کچھ نہیں کیا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ممکن ہے اس کے اعمال میں کوئی ظاہری یا باطنی نقص رہ گیا ہو اور خداتعالیٰ انہیں ردّ کر دے اور اس مضمون پر رسول کریمﷺ کی وہ حدیث بھی جو گزشتہ جمعہ میں نے دوستوں کو سنائی تھی۔ بڑی وضاحت سے دلالت کرتی ہے لیکن اس خوف کے نتیجہ میں ایک مومن کے دل میں مایوسی نہیں پیدا ہونی چاہئے کیونکہ اس شخص کو جو خداتعالیٰ سے ڈرتے ڈرتے زندگی گزار دیتا ہے خداتعالیٰ نے بہت بڑی بشارت دی ہے۔ خداتعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ (الرحمن : ۴۷)
یعنی وہ شخص جو اپنے دل میں خداتعالیٰ کی بلند شان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر وقت اس کے خوف کا احساس اپنے دل میں رکھتا ہے۔ اور سمجھتا ہے کہ میں اپنے عمل کا ایک تحفہ اپنے خدا کے حضور تو پیش کر رہا ہوں۔ آگے اس کی مرضی ہے کہ وہ اسے قبول کرے یا نہ کرے۔ خداتعالیٰ کہتا ہے ہم ایسے شخص کو یہ بشارت دیتے ہیں کہ ہم اسے دو جنتیں دیں گے۔ ان میں سے ایک جنت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو اس دنیا میں عطا کرتا ہے اور دوسری جنت وہ ہے جو اُخروی زندگی میں یعنی اس دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے مومن کو نصیب ہوتی ہے۔ غرض اس خوف کی وجہ سے جس کی تلقین خداتعالیٰ کرتا ہے۔ ہمارے دلوں میں مایوسی پیدا نہیں ہوتی اور نہ اسے پیدا ہونا چاہئے کیونکہ خوف اپنی جگہ پر قائم ہے اور امید اپنی جگہ پر قائم ہے۔ گو ہمیں ڈرتے ڈرتے زندگی کے دن گزارنے چاہئیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی زندگی کے کسی لمحہ میں بھی ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ مایوسی مومن کی علامت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کافر کی علامت قرار دیا ہے۔ جیسا کہ وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
اِنَّہٗ لَایَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ (یوسف : ۸۸)
اصل بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کافر لوگوں کے سوا کوئی انسان ناامید نہیں ہوتا۔ غرض خوف اور مایوسی میں بڑا فرق ہے اور ہمیں اس فرق کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ کہا ہے کہ وہ شخص یا قوم جو خوف کے مقام کو اختیار کرتی ہے اور اپنے ربّ سے ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارتی ہے۔ وہ اسے دو جنتیں دیتا ہے ایک جنت اسے اس ورلی زندگی میں عطا ہوتی ہے اور ایک جنت اُخروی زندگی میں اسے ملتی ہے ورلی زندگی کی جنت کا اس حدیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ ذکر آیا ہے جو میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں سنائی تھی۔ کیونکہ جس معاشرہ میں غیبت نہ ہو۔ جس معاشرہ میں فخر و مباہات نہ کیا جائے۔ جس معاشرہ میں کوئی شخص بھی اپنے بھائی سے تکبر کے ساتھ پیش نہ آئے اس میں عجب اور خود پسندی کا مظاہرہ نہ ہو کوئی ایک دوسرے پر حسد نہ کر رہا ہو۔ بلکہ سارے ہی ایک دوسرے پر رحم کرنے والے ہوں جس معاشرہ میں خداتعالیٰ کی عبادت ریا کے طور پر نہ ہو بلکہ اخلاص کے ساتھ ہو یعنی ہر ایک شخص مخلصانہ دل کے ساتھ اپنے ربّ کو یاد کر رہا ہو۔ تمام لوگ اپنے تمام اعمال محض خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر بجا لاتے ہوں۔ تو ایسا معاشرہ یقینا جنت کا معاشرہ ہے۔ جس میں کوئی شخص کسی دوسرے کو دکھ دینے کا باعث نہیں بنتا۔ ہر شخص کو جسمانی اور روحانی دونوں قسم کا سکون حاصل ہوتا ہے۔
خوف کے علاوہ دوسری چیز جس کا ایک مومن بندے کے اندر پایا جانا ضروری ہے۔ مایوسی کا نہ ہونا ہے ایک مومن بندے کو اپنے ربّ پر کامل یقین ہونا چاہئے اور اس کا دل اس امید سے بھرا رہنا چاہئے کہ وہ ہماری خطائوں کو اپنی مغفرت کی چادر سے ڈھانپ دے گا اور وہ محض احسان کے طور پر اور اپنی رحمانیت کی صفت کے ماتحت ہم سے سلوک کرے گا اور ہمیں اپنی رضا کی جنت میں داخل کرے گا یہ مومن بندہ کی دوسری شان ہے اور مومن بندہ ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:۔
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰیٓ اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔ وَاَنِیْبُوْآ اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَاتُنْصَرُوْنَ۔ (الزمر: ۵۴،۵۵)
اے محمد (رسول اللہﷺ) تو ان تمام بندوں کو جو تجھ پر اور مجھ پر ایمان لائے ہیں۔ میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور وہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں ان کے اعمال میں کچھ تقصیر بھی ہے اور گناہ کی آمیزش بھی ہے اور بعض لغزشیں بھی ان سے سرزد ہوئی ہیں۔ تم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سب گناہ بخش دیتا ہے وہ بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے اگر تم سے بار بار تقصیریں اور گناہ سرزد ہوں تب بھی تم مایوس نہ ہو کیونکہ وہ بار بار رحم کرنے والا ہے اور تم سب اپنے ربّ کی طرف جھکو اور اس کے پورے پورے فرماں بردار بن جائو اس کے ارشاد اور ہدایت کے مطابق اچھے اعمال بجا لائو اور اس کی رضاء کو حاصل کرنے کی خاطر ان باتوں سے بچو جن سے بچنے کی اس نے تمہیں تلقین کی ہے۔
اور مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَاتُنْصَرُوْنَ۔ پیشتر اس کے کہ ایسا عذاب نازل ہو جس کے نزول کے بعد تمہاری مدد کو کوئی نہ پہنچ سکے۔ یعنی اپنی زندگی میں اور موت سے پہلے اگر تم فرماں بردار بننے کی کوشش کرتے رہو گے۔ تو اللہ تعالیٰ یقینا بخشنے والا ہے۔
وہ تمہارے گناہ بخش دے گا لیکن اگر تم اپنی زندگی میں اور جب تک تمہارے ہوش و حواس قائم رہتے ہیں خداتعالیٰ کی طرف توجہ نہ کرو اور اس کی پرواہ نہ کرو۔ تم دین و دنیا کے ابتلائوں کو اپنے لئے ایک مصیبت جانو اور بدعملی ریاء اور استکبار میں اپنی زندگی گزار دو تو موت کے وقت تمہارا پچھتانا تمہیں کوئی کام نہ دے گا بلکہ تمہیں ایسا عذاب ملے گا۔ اس سے بچنا ممکن نہ ہو گا اور اس وقت تمہارا کوئی مدد گار نہیں ہو گا یعنی اس وقت خدائے رحمان بھی تمہاری مدد کو نہیں پہنچے گا۔ پس اگر تم اللہ تعالیٰ کی نصرت، اس کی مدد، اس کی مغفرت اور رحمت کے متلاشی ہو تو اسی دنیا میں اپنی نیتوں کو خالص کرکے تمام اعمال محض للہ بجا لائو پھر اگر بشر ہونے اور ایک کمزور مخلوق ہونے کی وجہ سے تمہارے اعمال میں کوئی کوتاہی رہ جائے تو ہم بڑے ہی بخشنے والے ہیں۔ ہم تمہیں بخش دیں گے۔ غرض اللہ تعالیٰ ہمیں مایوسی سے روکتا ہے اور اپنی رحمت کی طرف متوجہ کرتا ہے اور ہمیں اپنے فضل و کرم کی بڑی امید دلاتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ اگر تم میرا قرب، میرا وصال اور میری رضاء چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ تم میرے کہنے کے مطابق اعمال بجا لاتے رہو۔ اور تمہاری ہمت اور کوشش یہی ہو۔ تمہاری مخلصانہ نیت یہی ہو کہ تم جو نیک کام بھی کرو گے وہ اپنے ربّ کو خوش کرنے کے لئے کرو گے اور اگر بوجہ بشر اور کمزور مخلوق ہونے کے تم سے غلطیاں سرزد ہوئیں۔ تو میں ان غلطیوں کو معاف کر دوں گا اور معاف کرنے کے یہ معنی ہیں کہ جب خداتعالیٰ اس پر مہربان ہو گا اور اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی مغفرت کی چادر اس کو اوڑھا دے گا۔ تو وہ ایسا ہی ہو جائے گا جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نیک انسان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ قرآن و حدیث میں ایک طریق کا ذکر آتا ہے کہ اس کے گناہوں اور نیکیوں کا موازنہ ہو گا۔
مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ اچھے اور بُرے اعمال کو ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھا جائے گا بُرے اعمال اچھے اعمال کو کینسل (Cancel) کرتے جائیں گے یعنی ان کے اوپر خط تنسیخ کھینچتے چلے جائیں گے۔ اگر آخر میں نیک عمل رہ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں لے جائے گا۔ لیکن اگر کسی کی بد اعمالیاں اس کے نیک اعمال سے زیادہ ہوں گی تو وہ اللہ تعالیٰ کے قہر کا مورد بن جائے گا۔ لیکن جس شخص کے بُرے اعمال تھے تو زیادہ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی مغفرت کی چادر ان پر ڈال دی اور وہ سب معاف کر دئے۔ تو اس شخص کے صرف اچھے اعمال ہی باقی رہ گئے۔ تو جتنا بدلہ ان اعمال کا الٰہی قانون کے مطابق مل سکتا ہے وہ اسے مل جائے گا۔ پھر اس سے زائد بھی ملے گا۔ کیونکہ خداتعالیٰ کی رحمت بے حد و حساب ہے۔ میں نے عید کے خطبہ میں بتایا تھا کہ رحمت کے لفظ میں مغفرت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں۔ پس خداتعالیٰ اس کے گناہوں کو بھی معاف کر دے گا اور پھر اچھے اعمال کا اپنے قانون کے مطابق بدلہ بھی دے گا اور پھر اپنی رحمت کے نتیجہ میں اس کو زائد بھی دے گا۔ اسی لئے تو اُخروی زندگی میں مومن کو ملنے والی جنت ابدی جنت بن جاتی ہے۔ کیونکہ اگر انسان کو محض اس کے اعمال کا ہی بدلہ ملتا تو چاہے وہ اعمال کتنے ہی زیادہ ہوتے بہرحال انہوں نے ایک وقت ختم ہو جانا تھا اور ان محدود اعمال کا بدلہ محدود ہی ملنا تھا اور ایک حد پر آ کر ختم ہو جانا تھا لیکن خداتعالیٰ نے ہم سے رحمت اور احسان کا سلوک کرنا ہے اس لئے اس نے ہمارے لئے ایک ابدی جنت مقدر کر رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَّلاَ یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ۔
( الکھف:۱۱۱)
یعنی جو شخص ہمارا وصال چاہتا ہے اسے چاہئے کہ نیک اور مناسب حال اور ہمارے احکام کے مطابق اعمال بجا لائے اور کوشش کرے کہ ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے شرکوں سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو پاک رکھے۔ اس میں کسی قسم کی آمیزش اور ملاوٹ نہ ہونے دے غرض ایسا شخص جو عبادت کے وقت صرف خداتعالیٰ کی ہی عبادت کرتا ہے اور کسی اور کے سامنے سر نیاز خم نہیں کرتا اور خداتعالیٰ کے احکام بجا لانے کی ہر وقت کوشش کرتا رہتا ہے۔ وہی امید رکھ سکتا ہے کہ خداتعالیٰ کا قرب اسے حاصل ہو جائے گا اللہ تعالیٰ اسے مل جائے گا اور جس شخص کو خداتعالیٰ مل جائے اسے نہ اس جہان کی جنت کی ضرورت رہتی ہے اور نہ اگلے جہان کی جنت اسے درکار ہے دونوں جہانوں کی جنتوں کا منبع جو اسے حاصل ہو گیا۔ غرض خوف اپنی جگہ پر ہے اور امید و رجاء اپنی جگہ پر ہے۔ اسلام نے ہمیں کسی صورت میں بھی ناامید نہیں کیا ہمیں ڈرایا ضرور ہے۔ تنبیہ ضرور کی ہے کہ تم ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارو۔ اور ان احکام پر عمل کرو جو ہم نے تمہارے لئے نازل کئے ہیں۔ ان بداخلاقیوں اور بداعمالیوں سے بچتے رہو جن سے بچنے کی ہم تمہیں تلقین کرتے رہتے ہیں اور ہمیں بشارت دی ہے کہ اگر تم ایسا کرو تو میں تمہارے لئے اس دنیا میں بھی جنت کا ماحول پیدا کر دوں گا۔ لیکن تم اپنے عمل پر کبھی بھروسہ نہ کرو۔ کیونکہ خداتعالیٰ کی ذات اتنی ارفع، اتنی اعلیٰ، اتنی شان اور اتنی طاقت والی ہے کہ اگر کسی انسان کے دماغ میں معمولی عقل بھی ہے تو وہ ایک لحظہ کے لئے بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ میں اس کی رضا کی جنت کو زورِ بازو سے حاصل کرلوں گا اور میں اسے اپنے اعمال کے زور پر خوش کر لوں گا۔ اگر ہمارے اعمال خداتعالیٰ کے ان احسانات کے مقابلہ میں رکھے جائیں جو اس نے ہم پر ہمارے پیدائش کے وقت سے لے کر موت تک کئے ہیں۔ تو ہمارے اعمال ان احسانوں کے مقابلہ میں بطور شکر کے بھی کافی نہیں۔ تو جب انسان نے پہلے قرضے ہی ادا نہیں کئے اور نہ وہ ادا کر سکتا ہے تو اپنے اعمال کی جزا کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جب تک کہ خداتعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت اس کے شامل حال نہ ہو۔
غرض جب تک اللہ تعالیٰ انسان کو اپنے فضل اور رحمت سے نہ نوازے اس وقت تک نہ تو اسے جنت مل سکتی ہے اور نہ خداتعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے۔ پس ایک طرف ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی کے لمحات گزارو اور دوسری طرف یہ کہا گیا ہے کہ کبھی مایوس نہ ہونا کیونکہ مایوسی کفر کی علامت ہے اور وہ اسی دل میں پیدا ہوتی ہے جو خداتعالیٰ کے احکام کا منکر اور اس کے احسانوں کا ناشکر گزار ہو جو شخص خداتعالیٰ کے ان احسانوں کو جو ہر آن اس پر ہو رہے ہیں۔ یاد کرنے والا ہو وہ اپنے اس احسان کرنے والے ربّ سے کس طرح مایوس ہو سکتا ہے۔ غرض ہم نے زندگی کے یہ دن جو ہمیں عطا ہوئے ہیں ڈرتے ڈرتے گزارنے ہیں لیکن ہم نے خداتعالیٰ سے کبھی مایوس نہیں ہونا۔ کیونکہ وہ بڑا فضل کرنے والا بڑا رحم کرنے والا اور بڑا احسان کرنے والا ہے اور پھر ہمیں ہمیشہ اس سے یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اے خدا ہم تو نیستی محض ہیں ہم اور ہمارے اعمال کچھ بھی نہیں لیکن ہم تیری ذات پر کامل اور پوری امید رکھتے ہیں کہ تو ہم سے احسان، فضل اور رحمت کا معاملہ کرے گا۔ ہماری خطائوں کو معاف کر دے گا ہمیں اپنی رضا کی جنت میں داخل کرے گا اور ہمیں توفیق دے گا کہ ہم تیرے شکر گزار اور حمد کرنے والے بندے بنے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے بندوں کے اس زُمرہ میں شامل کرے جن سے وہ خوش ہوتا ہے اور اپنی رحمت سے انہیں نوازتا ہے۔ (روزنامہ الفضل ۱۶؍ فروری ۱۹۶۶ء)
٭…٭…٭












قرآن کریم ایک ایسی نعمت عظمیٰ ہے جسے سیکھنے اور سکھانے کیلئے ہمیں غیر معمولی توجہ اور خاص جدوجہد کرنی چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۴ ؍فروری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ قرآن کریم کو چھوڑ کر مسلمان قعر مذلت میں گر گئے۔
٭ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرما کر ہمیں قرآن کریم سے متعارف کرایا۔
٭ قرآن کریم سے اتنا پیار کرو کہ اتنا پیار تمہیں دنیا کی کسی اور چیز سے نہ ہو۔
٭ ہر گھر سے صبح کے وقت تلاوت کی آواز آنی چاہئے۔
٭ خدا کرے ہماری آئندہ نسلیں بھی قرآن کریم کی عاشق اور فدائی ہوں۔




تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے دنیوی اور روحانی ترقیات حاصل کی تھیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے قرآن کریم کو وہ عظمت دی تھی جس کا اسے حق حاصل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے ایک کامل کتاب نازل کی تھی اور انہوں نے اس کی قدر کی۔ انہوں نے اسے پڑھا اور ان میں سے بہتوں نے اسے حفظ کیا اور اسے سمجھنے کی کوشش کی اور نہ صرف کوشش کی بلکہ اس کے سمجھنے کے لئے ہر ممکن تدبیر کے علاوہ دعائوں کا سہارا اور اس طرح انہوں نے قرآن کریم کے علوم اپنے ربّ سے سیکھے اور اس نیت سے سیکھے کہ اس کے نتیجہ میں وہ خداتعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ خداتعالیٰ کی یہ کتاب اس لئے نازل کی گئی ہے کہ وہ اس پر عمل کریں اور انہیں یقین تھا کہ اگر وہ اس پر عمل کریں گے تو اس دنیا میں بھی وہ خداتعالیٰ کے افضال اور اس کی رحمتیں حاصل کریں گے اور اُخروی زندگی میں بھی وہ ان کے وارث ہوں گے اور جب انہوں نے قرآن کریم کی پاک تعلیم سیکھنے کے بعد اس پر عمل کیا تو قرآن کریم کے طفیل جو بڑی عظمت والی کتاب ہے انہیں اس دنیا میں بھی بڑی عظمت حاصل ہوئی اپنے تو اپنے ہی تھے غیر بھی اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے کہ فی الواقعہ یہ قوم بڑی عظمت والی ہے انہوں نے قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کیا اور اس کے نتیجہ میں قرآن کریم کی رفعتوں کے طفیل اس قوم کو بھی رفعتیں حاصل ہوئیں اور اس قدر رفعتیں انہیں نصیب ہوئیں کہ آسمان کے ستاروں کی رفعتیں بھی ان کے مقابلہ میں ہیچ نظر آنے لگیں اور وہ ان بلندیوں پر پہنچ گئی۔ جن تک دنیوی عقل کو رسائی حاصل نہیں اور انہوں نے وہ کچھ حاصل کر لیا جو انسان اپنی کوشش اپنی جدوجہد اپنی عقل اور اپنی فراست سے حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ اسلام کی پہلی تین صدیوں میں ہمیں یہی نظارہ نظر آتا ہے کہ قرآن کریم پر عمل کرنے والے دنیوی زندگی کے ہر شعبہ میں قائد سمجھے جاتے تھے وہ اسی کی برکت سے دنیا کے لیڈر بنے وہ اسی کے طفیل دنیا کے استاد بنے، دنیا کے محبوب بنے، اس لئے کہ قرآن کریم نے ان کی طبائع کو اسی طرح بدل دیا تھا کہ دنیا ان سے پیار اور محبت کرنے پر مجبور ہو گئی۔ لیکن تین صدیوں کے بعد مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ انہوں نے قرآن کریم سے جو کچھ حاصل کرنا تھا کر لیا ہے۔ جو کچھ قرآن کریم سے انہوں نے پانا تھا پا لیا ہے اب انہیں نہ قرآن کریم پڑھنے کی ضرورت ہے اور نہ اسے سمجھنے کی حاجت ہے وہ خام عقل اور دنیوی فراست جو انہیں محض اس لئے دی گئی تھی کہ وہ اس الٰہی پیغام کو سمجھنے میں ممد اور معاون بنے۔ الٹا قرآن کریم کو چھوڑ کرانہوں نے صرف اس پر انحصار کر لیا۔ تب خداتعالیٰ نے یہ نظارہ بھی دکھایا کہ وہ قوم جو دنیا پر ہر طرح سے چھا گئی تھی اور اس نے اقوام عالم سے اپنی برتری کا سکہ منوا لیا تھا قعر مذلت میں گر پڑی اور اس نے اس قدر ذلتیں اور رسوائیاں اُٹھائیں کہ الامان والحفیظ ۔
اب اللہ تعالیٰ نے پھر محض اپنے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرما کر ہمیں قرآن کریم سے متعارف کرایا ہے۔ آپؐ نے ہمیں ان تمام خوبیوں کا علم پہنچایا ہے جو قرآن کریم میں پائی جاتی تھیں۔ اور ہمیں ان کی طرف متوجہ کیا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں ۔ ؎
جمال و حسنِ قرآں نورِ جان ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
(براہین احمدیہ ہر چہار حصص ۔ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۱۵۶)
کہ قرآن کریم کے حسن، اس کی خوبصورتی اور اس کی دل کو موہ لینے والی تعلیم سے ایک مسلمان اپنی زندگی کا نور حاصل کرتا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ جس طرف بھی ہم جائیں گے جب تک قرآن کریم کی مشعل ہمارے ہاتھ میں نہ ہو گی جب تک اس کا نور ہماری راہ نمائی نہ کر رہا ہو گا ہم صداقت اور بلندیوں کی راہوں پر گامزن نہیں ہو سکتے۔ ہمارے لئے ایک لمبے عرصہ کے بعد قرآن کریم کی کھڑکیاں دوبارہ کھولی گئی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیش بہا اور قیمتی لعل و جواہر قرآن کریم سے نکال کر ہمارے سامنے پیش کئے ہیں۔ اگر ہم اب بھی ان کی قدر نہ کریں تو ہم جیسی بدبخت قوم اور کوئی نہیں ہوسکتی۔
پس ہمارے لئے ضروری ہے، کہ قرآن کریم کے علوم نہ صرف ہم خود سیکھیں بلکہ دوسروں کو بھی سکھائیں (دوسرے لوگوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو نو احمدی ہیں اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ہماری نئی نسل کے طور پر ہم میں شامل ہوئے ہیں) اگر ہم قرآن کریم کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں اور اس بات پر یقین رکھیں کہ اس کے علوم کا خزانہ نہ ختم ہونے والا ہے تو جتنا زیادہ فکر اور تدبر ہم اس میں کریں گے اور شرائط کے ساتھ اور صحیح رنگ میں جتنی ہم دعا کریں گے، جتنی عاجزی اور انکسار کے ساتھ ہم خداتعالیٰ کے سامنے جھکیں گے اور اس سے مدد چاہیں گے، اتنے ہی زیادہ علوم ہمیں قرآن کریم سے حاصل ہوں گے اور ہوتے رہیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ اب ہم اس نعمت عظمیٰ کو ضائع نہ ہونے دیں تا وہ اندھیری راتیں جو پچھلے زمانہ میں اسلام پر گزری ہیں وہ آئندہ تا قیامت اسلام پر نہ آئیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ہمیں بار بار اس طرف متوجہ کیا تھا اور بڑے دکھ کے ساتھ آپ نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ہم قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کی طرف کما حقہ توجہ نہیں دے رہے۔ میں بھی آپ لوگوں کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ’’قرآن سیکھو اور اس کے علوم حاصل کرو پھر اپنے بچوں کو بھی قرآن پڑھائو تا یہ نعمت ہماری ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہوتی چلی جائے اور وہ بلندیاں جو ہماری ایک نسل حاصل کرے۔ ہماری آئندہ آنے والی نسلیں ان سے بھی بلند تر ہوتی چلی جائیں اور قرآن کریم کے علوم انہیں زیادہ سے زیادہ حاصل ہوتے چلے جائیں۔ قرآن کریم سے اتنا پیار کرو کہ اتنا پیار تمہیں دنیا کی کسی اور چیز سے نہ ہو۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جماعت اس طرف پوری طرح متوجہ نہیں ہو رہی۔ پہلے بھی وہ سستی کی مرتکب ہوتی رہی ہے اور اب بھی وہ ایک حد تک غفلت کا شکار ہو رہی ہے۔ اس لئے ہمیں اس بارہ میں کوئی عملی قدم اٹھانا چاہئے میں نے سوچا ہے کہ ہم ایک منصوبہ کے ماتحت جماعت کے بچوں اور اس کے نوجوانوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھائیں اور پھر اس کا ترجمہ اور اس کے معانی ان کو سکھادیں۔
قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کے سلسلہ میں بڑی اور شہری جماعتوں میں غفلت پائی جاتی ہے اور دیہاتی جماعتوں میں بھی شاید اکثر ایسی ہوں جو اس طرف سے بے توجہی برت رہی ہیں۔ چنانچہ پچھلے دنوں جماعت احمدیہ لاہور کے ایک دوست مجھے ملے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے حلقہ کی جماعت میں بہت سے ایسے احمدی بچے ہیں جو قرآن کریم ناظرہ پڑھنا بھی نہیں جانتے اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔ ہمیں اس کیفیت کو جلد تر بدل دینا چاہئے ایسا کرنا ہمارا اوّلین فرض ہے۔
اس سلسلہ میں جو ابتدائی منصوبہ میں جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ لاہور کے تمام بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام مجلس خدام الاحمدیہ کرے۔ اور کراچی کی جماعت کے بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام میں مجلس انصاراللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ ضلع سیالکوٹ کی دیہاتی جماعتوں میں یہ کام مجلس خدام الاحمدیہ کرے، ضلع جھنگ میں جو جماعتیں ہیں ان کے بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام مجلس انصاراللہ کے سپرد کیا جاتا ہے ان کے علاوہ جو جماعتیں ہیں ان میں اس اہم کام کی طرف نظارت اصلاح و ارشاد کو خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ دو تین سال کے اندر ہمارا کوئی بچہ ایسا نہ رہے جسے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا نہ آتا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کو اس طرف بڑی توجہ دینی پڑے گی اور اس کے لئے بڑی کوشش درکار ہو گی ہم بڑی جدوجہد کے بعد ہی اس کام میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس منصوبہ کو کامیاب بنانا نہایت ضروری ہے۔ اگر ہم نے الٰہی سلسلہ کے طور پر ان نعمتوں کو اپنے اندر قائم رکھنا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے محض رحمانیت کے ماتحت ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل عطا کی ہیں تو ہمیں اپنے اس منصوبہ کو کامیاب بنانے میں اپنے آپ کو پورے طور پر لگا دینا ہو گا۔
اس منصوبہ کی تفاصیل متعلقہ محکمے تیار کریں اور ایک ہفتہ کے اندر اندر مجھے پہنچائیں۔ یعنی جو حلقے مجلس خدام الاحمدیہ کو دئیے گئے ہیں اور جو جماعتیں مجلس انصاراللہ کے سپرد کی گئی ہیں اور باقی جماعتیں جو اصلاح و ارشاد کے صیغہ کے سپرد کی گئی ہیں ان میں انہوں نے کس کس رنگ میں کام کرنا ہے اس کے متعلق وہ اپنا اپنا منصوبہ تیار کریں اور اس منصوبہ کی تفاصیل ایک ہفتہ کے اندر اندر مجھے پہنچائیں ان سب محکموں کو یہ بات مدنظر رکھنا چاہئے کہ وہ پہلے ہی سال اس کام میں سو فیصدی نہیں تو ۹۰ فیصدی کامیابی ضرور حاصل کر لیں۔ کیونکہ جو ذہین بچے ہیں وہ تو چھ ماہ کے اندر بلکہ بعض بچے اس سے بھی کم عرصہ میں قرآن کریم ناظرہ پڑھ لیں گے قاعدہ یسرناالقرآن اگر صحیح طور پر پڑھا دیا جائے تو بچہ کیلئے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا مشکل نہیں ہوتا۔
مجھے یہ سن کر بہت تعجب ہوا ہے کہ ہمارے کالج کے بہت سے طلباء بھی قرآن کریم نہیں پڑھ سکتے اور اگر یہ بات درست ہے کہ ان میں سے ایک تعداد قرآن کریم ناظرہ پڑھنا بھی نہیں جانتی یا ان میں سے بہت سے لڑکے قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے تو انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ اگر انہیں قرآن کریم سے وابستگی نہیں اگر انہیں قرآن کریم سے کوئی تعلق نہیں اور انہیں قرآنی علوم حاصل نہیں تو انہوں نے دنیوی علوم حاصل کرکے کیا لینا ہے۔ دنیا کے ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں دہریہ لوگ دنیا کے ان علوم کو حاصل کر رہے ہیں۔ وہ دیکھیں کہ یہ علوم دنیا کو کس طرف لے جا رہے ہیں۔ اُخروی زندگی کو تو چھوڑو وہ دنیا کو بھی تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں وہ دیکھیں کہ آخر دنیا کو ان دنیوی علوم سے کون سی خیر و برکت حاصل ہو رہی ہے۔ آج دنیا کے ہر طبقہ کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ جس طرح ہم نے دنیوی علوم سیکھے ہیں اور جس طور پر ہم نے انہیں استعمال کیا ہے وہ انسانیت کو بھلائی کی طرف نہیں بلکہ تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ غرض ہمارے کالج کا طالب علم ہو اور پھر وہ قرآن کریم سے ناواقف ہو یہ بڑی شرم کی بات ہے۔
بہرحال ہم نے یہ کام کرنا ہے اور واضح بات ہے کہ اتنے بڑے کام کے لئے چند مربی یا معلم یا مجالس خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ کے بعض عہدیدار کافی نہیں۔ یہ تھوڑے سے لوگ اس عظیم کام کو پوری طرح نہیں کر سکتے۔ اس کیلئے ہمیں اساتذہ درکار ہیں ہمیں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے رضا کار چاہئیں جو اپنے اوقات میں سے ایک حصہ قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کے لئے یا جہاں ترجمہ سکھانے کی ضرورت ہو وہاں قرآن کریم کا ترجمہ سکھانے کیلئے دیں تا یہ اہم کام جلدی اور خوش اسلوبی سے کیا جاسکے۔
میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نعمت جو قرآن کریم کی شکل میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل دوبارہ ملی ہے اگر وہ ورثہ کے طور پر آپ کے بچوں کو نہیں ملتی تو آپ اپنی زندگی کے دن پورے کرکے خوشی سے اس دنیا سے رخصت نہیں ہوں گے۔ جب آپ کو یہ نظر آ رہا ہو گا کہ خداتعالیٰ کے فضلوں کا خزانہ یعنی قرآن کریم جو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل حاصل کیا تھا اس سے آپ کے بچے کلیۃً نا واقف ہیں تو موت کے وقت آپ کو کیا خوشی حاصل ہو گی۔ آپ ان جذبات کے ساتھ اس دنیا کو چھوڑ رہے ہوں گے کہ کاش آپ کی آئندہ نسل بھی ان نعمتوں کی وارث ہوتی جن کو آپ نے اپنی زندگی میں حاصل کیا تھا پس تم اپنی جانوں پر رحم کرو۔ اپنی نسلوں پر رحم کرو۔ اپنے خاندانوں پر رحم کرو اور پھر ان گھروں پر رحم کرو جن میں تم سکونت پذیر ہو کیونکہ قرآن کریم کے بغیر آپ کے گھر بھی بے برکت رہیں گے۔
ہر احمدی کا گھر ایسا ہونا چاہئے کہ اس میں رہنے والا ہر فرد جو اس عمر کا ہے کہ وہ قرآن کریم پڑھ سکتا ہو صبح کے وقت اس کی تلاوت کر رہا ہو۔ لیکن اگر مثال کے طور پر آپ کے گھر میں دس افراد ہیں اور ان میں سے صرف ایک فرد قرآن کریم پڑھنا جانتا ہے باقی نو افراد قرآن کریم پڑھنا نہیں جانتے تو گویا آپ نے اس نعمت کا1/10 حصہ حاصل کیا لیکن دنیوی لحاظ سے آپ ساری کی ساری چیز کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً جو تنخواہ آپ کی مقرر کی گئی ہے آپ کبھی پسند نہیں کرتے کہ آپ کو اس کا1/10 حصہ ملے اسی طرح دوسری چیزیں ہیں غرض آپ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں اس میں آپ سَو فیصدی کامیاب ہونے کی خواہش رکھتے ہیں سوائے مجنون کے آپ کو کوئی انسان ایسا نہیں ملے گا جو کام تو کر رہا ہو لیکن اس کے دل میں محض یہ خواہش ہو کہ میں اس میں سو فیصدی کامیابی حاصل نہ کروں بلکہ دس فیصدی کامیابی حاصل کروں اور ۹۰فیصدی مجھے ناکامی ہو اور جب دنیا میں کسی عقلمند انسان کے دل میں یہ خواہش پیدا نہیں ہوتی کہ وہ اپنے کام میں محض دس فیصدی کامیاب ہو ۹۰ فیصدی ناکام ہو تو آپ روحانی لحاظ سے یہ بات کس طرح برداشت کر سکتے ہیں کہ آپ کے گھر میں قرآن کریم کی برکات میں سے صرف دس فیصد نازل ہو اور نوّے فیصدی برکات سے آپ ہمیشہ کے لئے محروم رہیں۔ پس آپ اپنی جانوں، اپنی نسلوں اور اپنے گھروں پر رحم کرتے ہوئے جلد سے جلد اس طرف متوجہ ہوں اور اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر اس اہم کام کے لئے پیش کریں اور کوشش کریں کہ ہر جماعت چاہے وہ شہری ہو یا دیہاتی ایک سال کے اندر اندر اس کام کا بیشتر حصہ تکمیل تک پہنچا دے اور دو یا تین سال تک ہمیں یہ نظارہ نظر آئے کہ کوئی احمدی ایسا نہ رہے جو قرآن کریم ناظرہ نہ پڑھ سکتا ہو اور کثرت سے ایسے احمدی ہوں جو قرآن کریم کا ترجمہ بھی جانتے ہوں جب تک ہم اس کام میں کامیاب نہیں ہو جاتے اس وقت تک نہ ہمیں کوئی دنیوی ترقی حاصل ہو سکتی ہے اور نہ روحانی لحاظ سے ہم سرخرو ہو سکتے ہیں کیونکہ فیوض آسمانی کا سرچشمہ ہم نے اپنے لئے بند کر لیا ہے۔ پھر ہم آب بقا کہاں سے حاصل کریں گے۔ جو صرف قرآن کریم سے حاصل ہو سکتا ہے پس قرآن کریم کی قدر کریں اور اس کی عظمت کو اپنے دلوں اور اپنے ماحول میں قائم کریں۔ اس کی بلندیوں تک پہنچنے کا اپنے آپ کو اہل بنائیں اگر آپ ایسا کر لیں گے تو آپ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح ستاروں سے بھی بلند تر ہوتے چلے جائیں گے آپ خداتعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کرنے والے ہوں گے۔ خداتعالیٰ کے قرب کے دروازے آپ کے لئے کھولے جائیں گے اس کی رضا کی جنت آپ کو حاصل ہو گی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم سے پیار کرنے کے نتیجہ میں آپ سے پیار کرنے لگ جائے گا۔ رسول کریمﷺ سے جب ہم محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم آپ کے پیار کو دوسری تمام چیزوں کے پیار پر ترجیح دیتے ہیں ہم آپ کی لائی ہوئی تعلیم کے ہر حصہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی اپنی طرف سے پوری کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہمارا آپؐ سے محبت کا دعویٰ محض کھوکھلا دعویٰ ہو گا ہم منہ سے تو آپؐ کی محبت کا دعویٰ کریں گے لیکن عملی طور پر آپؐ کی کسی ہدایت پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ نہ دنیا ہمارے اس دعویٰ کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو گی اور نہ خداتعالیٰ کی نگاہ میں ہمارا دعویٰ مقبول ہو گا کیونکہ آپ سے محبت کے دعویٰ کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم آپؐ کے ہر اشارہ پر اپنی جان دینے کے لئے ہر دم تیار رہیں۔ جہاں بھی آپ کی کوئی خواہش نظر آئے ہم اسے پورا کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ہمیں اس بات کی ضرورت نہ ہو کہ اس کی حکمت ہماری سمجھ میں آجائے یا اس کا فلسفہ ہمارے سامنے رکھا جائے۔ اس کے منافعے ہمیں بتائے جائیں یا اس کے مضرات سے بچنے کی وجوہات کی طرف ہمیں متوجہ کیا جائے۔
ہمارے لئے صرف اسی قدر کافی ہو کہ یہ آپؐ کی خواہش ہے اور ہم اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں چاہے اس رستہ میں ہمیں جان بھی قربان کرنی پڑے کیونکہ محبت کا تقاضا ہی یہی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تو کرتا ہے لیکن وہ آپؐ کی کوئی بات ماننے کے لئے تیار نہیں تو آپ اُسے پاگل کہیں گے۔ دنیا اس کی محبت کے دعویٰ کو تسلیم نہیں کرے گی۔ کیونکہ آپؐ سے محبت کے دعویٰ کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم آپؐ کی ہر خواہش پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ پس جب ہم محمد رسول اللہﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں آپؐ کی ہر خواہش کو پورا کرنا ہو گا۔ آپؐ نے ہم سے کس بات کی خواہش کی ہے؟ آپؐ نے ہم سے یہ خواہش کی ہے کہ ہم قرآن کریم پر اسی طرح عمل کریں جس طرح آپؐ نے عمل کرکے دکھایا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب سوال کیا گیا کہ آپؐ کے اخلاق کیسے تھے۔ آپ نے فرمایا:۔
کَانَ خُلُقُہُ الْقُراٰنُ (مسند احمد بن حنبل جلد ۶ ص ۹۱)
آپؐ کے اخلاق کو دیکھنا ہو تو قرآن کریم کو پڑھ لو۔ آپ کی ساری زندگی قرآن کریم کی ہی عملی تصویر ہے جو کچھ قرآن کریم نے کہا وہ آپؐ نے کر دکھایا گویا آپؐ نے اپنے الفاظ میں بھی ہدایت دے دی اور اپنے عمل سے بھی ہدایت دے دی۔ غرض آپ کیؐساری زندگی کے سانچہ میں اپنی زندگیوں کو ڈھالنا آپؐ کی محبت کا تقاضا ہے جس کا ہم آپؐ کی ذات مبارک کے متعلق دعویٰ کرتے ہیں۔ پس اگر آپ اپنے اس دعویئِ محبت میں سچے ہیں اور آپ اپنے نفسوں کو اور خداتعالیٰ کو دھوکا نہیں دے رہے ہیں تو آپ کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم کو خود بھی سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور اپنے بچوں اور دوسرے ان لوگوں کو بھی جن کی ذمہ داری آپ پر ہے قرآن کریم پڑھائیں اور ان کو اس قابل بنا دیں کہ وہ قرآن کریم کے معانی سمجھ سکیں اور ان کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ جب بھی قرآن کریم کی آواز ان کے کان میں پڑے تو دنیا کی کوئی طاقت اس پر لبیک کہنے سے انہیں نہ روک سکے۔ اگر ہم اپنے اس فرض کو پوری طرح اور خوش اسلوبی سے انجام دینے میں کامیاب ہو جائیں گے تو خداتعالیٰ کے افضال اور اس کی رحمتیں جہاں ہم پر نازل ہوں گی وہاں وہ ہماری آئندہ نسل پر بھی نازل ہوں گی اور اگر ہمارے بعد آنے والی نسل بھی اپنی ذمہ داریوں کو اسی طرح سمجھے جس طرح ہمیں سمجھنا چاہئے اور وہ انہیں اسی طرح نبھائے جس طرح ہمیں نبھانا چاہئے تو پھر اللہ تعالیٰ کے افضال، اس کی رحمتیں اور اس کی نعمتیں نسلاً بعد نسلٍ احمدیت میں جاری اور ساری رہیں گی۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور خدا کرے کہ ہمارے دلوں میں قرآن کریم کی عظمت قائم ہو جائے اور پھر ایسے رنگ میں قائم ہو جائے کہ ہم خود بھی اس پر عمل کرنے والے ہوں اور اپنی نسلوں کی بھی اس رنگ میں تربیت کرنے والے ہوں کہ وہ بھی قرآن کریم کی عاشق اور فدائی ہوں۔ اس پر اپنی جانیں نچھاور کرنے والی ہوں اور اس کی ہدایت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والی ہوں۔ آمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۹؍ فروری ۱۹۶۶ء صفحہ ۲ تا ۴)
٭…٭…٭















بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کے اصل ذمہ دار ان کے والدین ہیں جنہیں اس کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہونا پڑے گا
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱ ؍فروری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ خیرکم خیر کم لاھلہٖ کی پُر معارف تشریح۔
٭ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اس کی صفات کے مطابق اعمال بجا لانے کیلئے مناسب ذرائع اور اسباب بھی مہیا کئے ہیں۔
٭ اپنی اولادوں کی فکر کریں اور ان کی صحیح رنگ میں تربیت کریں۔
٭ الخیر کُلّہُ فی القرآن کی تشریح۔
٭ قرآن کریم کے نئے نئے معارف حاصل کرنے کیلئے ساری عمر کوشش کرتے چلے جائیں۔




تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُمْ لِاَھْلِہٖ
(ترمذی ابواب المناقب باب فی فضل ازواج النبیﷺ)
تم میں سے خیر وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے بھی خیر ثابت ہو۔ خیر کا لفظ عربی زبان میں اسم کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جب یہ لفظ اسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ تو اس کے ایک معنی یہ ہوتے ہیں کہ حصول الشی بکمالاتہ کسی چیز کا اپنے تمام کمالات کے ساتھ حاصل ہو جانا۔ امام راغبؒ نے اپنی کتاب مفردات میں لکھا ہے کہ
الخیر ما یرغب فیہ الکل کالعقل مثلا والعدل والفضل والشی النافع وضدہ الشر۔
(المفردات فی غریب القرآن۔ کتاب الخاء صفحہ ۱۶۰)
یعنی خَیْرٌ اس چیز کو کہتے ہیں جس کے حصول کا سارے کے سارے لوگ بلا استثناء ارادہ کریں۔ پھر رغبت کے معنوں میں ارادہ اور محبت ہر دو مفہوم پائے جاتے ہیں اس لئے خَیْرٌ کے معنی ہوں گے۔ وہ چیز جو تمام بنی نوع انسان کی محبوب ہو جیسے مثلاً عقل ہے۔ اب دنیا میں کوئی انسان یہ نہیں کہے گا کہ مجھے عقل نہیں چاہئے میں تو بیوقوف اور احمق بننا چاہتا ہوں پھر انصاف ہے دنیا کا کوئی انسان یہ نہیں کہے گا کہ میں انصاف کو پسند نہیں کرتا پھر اس کے معنی نفع دینے والی چیز کے ہیں آپ کو کوئی انسان ایسا نہیں ملے گا جو کہے مجھے وہ اشیاء درکار نہیں جو نفع دینے والی ہیں بلکہ مجھے ان اشیاء کی ضرورت ہے جو نقصان دینے والی ہوں۔ پس خَیْرٌ ہر اس چیز کو کہیں گے جس میں تمام بنی نوع انسان رغبت اور اس کے حصول کی خواہش رکھتے ہوں اور پھر وہ چیز انہیں محبوب اور پیاری ہو پھر صرف یہ نہیں کہ وہ چیز بنی نوع انسان کو پیاری ہو بلکہ ہر حال میں پیاری ہو۔ چنانچہ امام راغب نے لکھا ہے کہ وھو ان یکون مرغوبا فیہ بکل حال و عند کل امر۔ (المفردات للامام راغب کتاب الخاء)
یعنی وہ چیز انسان کو ہر حال میں مرغوب ہو اور اگر غور سے دیکھا جائے تو وہ چیزیں جو ہمیں بطور انسان کے مرغوب اور محبوب ہیں اور ہم ان سے پیار کرتے ہیں وہی ہیں جن کا تقاضا ہماری فطرتِ صحیحہ کی مختلف صفات کر رہی ہوتی ہیں۔ جو چیزیں ہماری فطرتِ صحیحہ کے خلاف ہوں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم میں سے بعض افراد ان سے دلچسپی لے سکتے ہیں اور انہیں اچھا سمجھ سکتے ہیں لیکن سارے کے سارے بنی نوع انسان اس میں رغبت نہیں رکھتے اور نہ ان سے محبت کرتے ہیں۔ پس ایسی اشیاء جو اس تعریف کے ماتحت آتی ہیں۔ وہ صرف وہی چیزیں ہو سکتی ہیں۔ جن کا مطالبہ انسان کی فطرت صحیحہ کی مختلف صفات نے کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کی فطرت میں کچھ صفات رکھیں پھر ہر صفت پر جو اس میں رکھی اپنی صفت کا ایک ٹھپہ لگا دیا اس پر اپنی صفت کی مہر لگا دی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی وہ تمام صفات عطا کیں جن کا تعلق اس کی دنیوی زندگی سے تھا خداتعالیٰ کی صفات تو غیر محدود ہیں۔ لیکن ایک محدود انسانی زندگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جن صفات کا تعلق تھا ان میں سے ہر ایک صفت خداتعالیٰ نے انسان کو عطا کی اور پھر اس پر اپنی اسی صفت کا ٹھپہ اور مہر لگا دی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک اور چیز بھی عطا کی اور وہ انسان کی طبیعت ثانیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں کامل اور غیر محدود ہے۔ اور وہ اپنی ان صفات کے غیرمحدود مظاہرے ہر آن کرنے والا ہے۔ لیکن انسان محدود تھا اس لئے ان صفات کے مل جانے کے بعد اختلافی طور پر ایک چیز باقی رہ جاتی تھی اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ جیسے فرمایایَفْعَلُ مَایَشَائُ (آل عمران : ۴۰) عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیْرٌ (البقرہ:۲۱)یعنی ہر چیز جسے وہ چاہے کرتا ہے وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ پھر فرمایا خداتعالیٰ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ (یوسف : ۲۲) ہے یعنی کوئی چیز اسے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی اب اگر خداتعالیٰ انسان کو اپنی صفات عطا کرکے چھوڑ دیتا اور اسے طبیعت ثانیہ عطا نہ کرتا تو اس رنگ میں یہ بنیادی اختلاف پیدا ہو جاتا کہ وہ آزاد نہ رہا بلکہ ان صفات کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہو گیا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ خداتعالیٰ نے انسان کو اپنی بعض صفات عطا کرکے کہا میں اب تمہیں آزادی بھی دیتا ہوں اور اس آزادی کے لئے ایک متوازی طبیعت ثانیہ کی ضرورت تھی۔ خداتعالیٰ نے انسان کو کہا میں نے تمہیں اپنی صفات تو دے دی ہیں لیکن تم ان کے مطابق عمل کرنے پر مجبور نہیں ہو میں تمہیں یہ اجازت بھی دیتا ہوں کہ اگر تم چاہو تو ان صفات کی قدر نہ کرو اور ان وساوس میں مبتلا ہو جائو جو شیطان تمہارے دل کے اندر پیدا کرتا ہے۔ تم میرے حکم کی تعمیل کی بجائے شیطان کی پیروی کرنے لگ جائو اور میری صفات کا مظہر بننے کی بجائے شیطانی صفات کے مظہر بن جائو تمہیں آزادی ہے تم جو چاہو کرو اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرت صحیحہ کے ساتھ ساتھ ایک طبیعت ثانیہ بھی عطا کی اور اس کی وجہ سے انسان بعض دفعہ شیطان کی بات مان کر خداتعالیٰ کے مقابلہ پر کھڑا ہو جاتا ہے حالانکہ انسان کی فطرتِ صحیحہ اسے ایسا کرنے سے منع کرتی ہے۔ اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:۔
یٰاَیُّھَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِoلا الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَo لا فِیْ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّاشآئَ رَکَّبَکَo ط (سورۃ انفطار :۷ تا ۹)
یعنی اے انسان تجھے کس نے تیرے ربّ کے بارے میں مغرور بنایا ہے۔ مَاغَرَّکَ بِفْلانٍ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ تجھے اس کے مقابلہ میں دلیری اور جرأت کے ساتھ کھڑے ہو جانے پر کس نے آمادہ کیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے انسان ہم نے تجھے پیدا کیا پھر تیری فطرت صحیحہ میں اپنی بعض صفات رکھیں اور پھر تجھے اپنی صفات کا مظہر بنایا۔ فَسَوّٰکَ پھر تیری ان صفات کو تیرے مناسب حال درست کیا اور پھر تجھے خالی صفات ہی نہیں دیں بلکہ تجھے ان صفات کے مطابق اعمال بجا لانے کی قوت بھی عطا کی خداتعالیٰ تو خیر قادر مطلق ذات ہے۔ اس کی صفات اور اس کی قدرتیں پہلو بہ پہلو چل رہی ہوتی ہیں اس کے لئے نہ اس دنیا میں کوئی روک ہے اور نہ اگلی دنیا میں کوئی روک ہے۔ وہ مَالِکُ کُلِّ شَیْئٍ ہے وہ خَالِقُ کُلِّ شَیْ ئٍ (الرعد: ۱۷)ہے وہ قَادِرٌ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍہے لیکن انسان ایسا نہیں۔ اس کو اگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنی بعض صفات دی ہوتیں لیکن ان کے مطابق اعمال بجا لانے کی طاقت اسے حاصل نہ ہوتی تو یہ سب صفات اس کے کسی کام کی نہ ہوتیں وہ محض ایک بیکار شئی ہوتیں مثلاً صفت رحم ہے اگر اللہ تعالیٰ انسان کو صفت رحم تو عطا کرتا لیکن رحم کرنے کیلئے جن اسباب اور ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے عطا نہ کئے جاتے تو یہ صفت انسان کیلئے بیکار شئی بن کر رہ جاتی۔ پس جہاں تک انسان کا تعلق ہے ضروری ہے کہ ہر صفت کے مطابق اسے اعمال بجا لانے کیلئے مناسب ذرائع سامان اور اسباب بھی عطا کئے جائیں ورنہ وہ صفت انسان کے کسی کام کی نہیں رہتی تو فرمایا فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَہم نے تجھے تیری صفات کے مطابق ایسی قوتیں دی ہیں اور ایسے اسباب پیدا کر دئے ہیں کہ یہ صفات ناکارہ نہ بن جائیں بلکہ تو ان کے مطابق اپنی عملی زندگی گزار سکے ہم نے تجھے اپنی صفات کا مظہر بنایا ہے اور ان کے مطابق عمل بجا لانے یا نہ بجا لانے میں آزاد رکھا ہے پھرفِیْ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّاشَائَ رَکَّبَکَ۔(الانفطار: ۹)اس کے بعد خداتعالیٰ نے جو صورت پسند کی اس میں تجھے ڈھالا اس آیت میں اس طرف بھی لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے مجبور پیدا نہیں کیا بلکہ تجھے تیری فطرت صحیحہ کے ساتھ ساتھ طبیعت ثانیہ بھی عطا کی ہے اور تجھے اجازت دی ہے کہ اگر تو چاہے تو خداتعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی صفات حسنہ کا حقیقی مظہر بنے۔ اور اگر تو چاہے تو خداتعالیٰ کے مقابلہ میں اباء اور استکبار کا رویہ اختیار کرتے ہوئے بغاوت اختیار کرلے اور شیطان کے گروہ میں شامل ہو جائے اور خداتعالیٰ کا انسان کو یہ آزادی دینا بھی دراصل اسے مظہر صفات باری بنانے کے لئے ضروری تھا۔ ورنہ اگر جبر کا طریق اختیار کیا جاتا تو اس میں اور خداتعالیٰ کی دوسری مخلوقات میں کوئی فرق نہ رہتا اور انسان کو دوسری مخلوقات پر کوئی فضلیت حاصل نہ ہوتی کیونکہ خداتعالیٰ کی ساری مخلوقات ہی اس کی اطاعت میں لگی ہوئی ہے اور وہ اس کے احکام کے بجالانے سے انکار نہیں کر سکتی۔ دیکھو خداتعالیٰ بھی محنت کا پھل دیتا ہے اور آم کا درخت بھی خداتعالیٰ کے اِذن کے ساتھ محنت کا پھل دیتا ہے یعنی انسان آم کے درخت پر محنت کرے تو خداتعالیٰ کے اِذن کے ساتھ اسے محنت کا پھل مل جاتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وہ محنت تو کرے اس لئے کہ اسے اس درخت سے آم ملیں لیکن اسے اس درخت سے کھٹی گلگل حاصل ہو کیونکہ اس درخت نے خداتعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرنی ہے، خداتعالیٰ کا اسے حکم ہے کہ اگر کوئی انسان اس کی پرورش کرے تو وہ بڑا ہو کر اسے آم ایسا میٹھا پھل دے لیکن اس آم میں خداتعالیٰ کے صفات کا مظہر بننے کی اہلیت نہیں کیونکہ جہاں جبری اطاعت ہو وہاں کامل مظہریت پیدا نہیں ہوتی جیسے اللہ تعالیٰ پر کسی اور ہستی کا زور نہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی اس کے ایک محدود دائرہ کے اندر آزادی دے دی (بڑے دائرہ کے اندر تو وہ بھی بہت سی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہوتا ہے) یعنی اس کو ایسی قوتیں عطا کر دیں کہ وہ بھی خداتعالیٰ کی ان صفات کو جو اسے عطا کی گئی ہیں ایک محدود دائرہ کے اندر اپنی مرضی سے استعمال کر سکے اور اگر چاہے تو وہ راستہ بھی اختیار کر لے جو اس کی فطرت صحیحہ کے مطابق نہیں۔
غرض خیر کے معنی جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس چیز کے ہیں جسے انسان ہر حالت میں پسند کرتا ہے۔ وہ اس میں رغبت رکھتا ہے اور اسے حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور اگر تدبر اور فکر سے کام لیا جائے تو ایسی اشیاء صرف وہی ہو سکتی ہیں جن کا مطالبہ ہماری فطرت صحیحہ کر رہی ہو کیونکہ جو چیز ہماری فطرت صحیحہ کے مطابق اور مناسب حال نہیں اسے تمام بنی نوع انسان پسند نہیں کر سکتے۔ اس کو وہ محبوب نہیں رکھ سکتے۔ وہ ان کی مرغوب نہیں ہو سکتی۔ انسان کو مرغوب اور محبوب وہی چیز ہو سکتی ہے جس کا اس کی فطرت صحیحہ تقاضا کر رہی ہو۔ پس جب نبی اکرمﷺ نے فرمایا۔
خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُمْ لِاَھْلِہٖ
(ترمذی ابواب المناقب باب فی فضل ازواج النبیﷺ)
تو آپؐ کی اس سے یہی مراد تھی کہ تم میں سے سب سے زیادہ صاحب خیر یعنی ان چیزوں کو جن کا اس کی فطرت صحیحہ مطالبہ کرتی ہے اور خواہش رکھتی ہے۔ سارے کمالات کے ساتھ حاصل کرنے والا وہ شخص ہے جو ان سب بھلائیوں کو اپنے اہل کے لئے بھی منتخب کرتا ہے کیونکہ اگر کوئی شخص حقیقتاً یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن کر میں نے ان تمام خوبیوں کو اپنے نفس کے اندر جمع کرنا ہے اور تمام دنیوی اور روحانی مدارج ارتقاء کو طے کرتے ہوئے فطرت کے سارے تقاضوں کو بہ کمال حاصل کرنا ہے یعنی خداتعالیٰ کا بندئہ کامل بن جانا ہے۔ تو وہ یہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ تمام بھلائیاں جو اسے حاصل ہیں۔ اس کے بیوی بچوں اور دوسرے عزیزوں کو حاصل نہ ہوں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر اپنی ایک صفت ربوبیت بھی رکھی ہے۔ اب انسان ان تمام صفات کا جو خداتعالیٰ نے اس کے اندر رکھی ہیں اپنے کمالات کے ساتھ مظہر بن ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ ربوبیت کی صفت کا مظہر نہ ہو یعنی وہ اس خیر کو جو اس کے اندر پائی جاتی ہے اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں تک نہ پہنچائے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُمْ لِاَھْلِہٖ(بخاری کتاب المناقب باب فی فضل ازواج النبیﷺ) کہہ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ہم میں سے ہر اس شخص کے لئے جو خداتعالیٰ کی عطا کردہ صفات کو بروئے کار لاتا ہے اور خداتعالیٰ کی صفات میں اس کا مظہر کامل بنتا ہے۔ ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی فکر کرے اور وہ ان کی صحیح رنگ میں تربیت کرنے والا ہو کیونکہ جو شخص اپنی اولاد اپنے رشتہ داروں اور اپنے خاندان (اھل میں یہ سب شامل ہیں) کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ وہ خود اپنے عمل سے اس پر مہر لگا دیتا ہے کہ وہ ان تمام صفات حسنہ کو کام میں نہیں لگا رہا جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کی ہیں بلکہ وہ ان میں سے بعض صفات کو نظر انداز کر رہا ہے۔ پس نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ جب تک تم اپنی اولاد اپنے رشتہ داروں اور اپنے خاندان کی صحیح تربیت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ تم اس مقام کو حاصل نہیں کر سکتے جس کے حصول کے لئے انسان کی پیدائش کی گئی ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان خیر کیسے بن سکتا ہے یا ہم کن راہوں پر چل کر خیر کو حاصل کر سکتے ہیں یا ہمیں خیر کہاں سے مل سکتی ہے اس کا سادہ جواب یہی ہے کہ یہ چیز قرآن کریم سے حاصل ہوتی ہے۔ قرآن کریم کا ایک لفظی خلاصہ خود قرآن کریم میں ’’خیر‘‘ کہا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے مَاذَا اَنْزَلَ رَبُّکُمْ (النحل :۳۱) جب مسلمانوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ تمہارے ربّ نے کیا اُتارا۔ قَالُوْا خَیْرًا۔ (النحل :۳۱)وہ کہتے ہیں ’’خیر‘‘ گویا ’’خیر‘‘کے لفظ میں قرآن کریم کا خلاصہ ہے قرآن کریم کا ایک اجمالی خلاصہ خداتعالیٰ نے اس کے شروع میں سورۃ فاتحہ کی شکل میں بیان کر دیا ہے اور اس کی آخری تین سورتیں بھی اس کا خلاصہ ہیں اور پھر اس کا ایک لفظی خلاصہ ’’خیر‘‘ بھی ہے اب دیکھو کتنی عجیب بات ہے کہ خداتعالیٰ نے سارے قرآن کریم کا خلاصہ صرف ایک لفظ میں بیان کر دیا ہے اور وہ لفظ ’’خیر‘‘ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا کہ
اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآنِ (تذکرہ نیا ایڈیشن صفحہ ۸۹)
کہ اگر تم خیر (اس کا مفہوم جیسا کہ میں نے بتایا ہے بڑا وسیع ہے) کے حصول کا طریق جاننا چاہتے ہو اگر تم اس کے حصول کے ذرائع سمجھنا چاہتے ہو۔ یا تم سمجھتے ہو کہ اس کے حصول کے سلسلہ میں تمہیں کسی ممد اور معاون کی ضرورت ہے تو تمہیں قرآن کریم کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کیونکہ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآنِ۔خیر سب کی سب قرآن کریم میں ہے۔ اسی لئے میں نے اپنے پچھلے خطبہ میں جماعت کو اپنے بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے اور پھر اس کا ترجمہ پڑھانے کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اس وقت تک اس سلسلہ میں جو رپورٹیں مجھے ملی ہیں۔ ان میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جماعت کے بعض افراد باوجود اس کے کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھا سکتے ہیں اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور باوجود اس کے کہ انہیں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ انہوں نے اس کا خیال نہیں کیا۔ ایسے احباب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے خیر کا حصول چاہتے ہیں اور اپنے خدا کی نظر میں خیر بننا چاہتے ہیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے کی طرف رجوع کریں۔ اور اس سے خیر حاصل کریں۔ اور پھر اپنی اولاد کو بھی اس طرف لگائیں کہ ہر قسم کی خیر قرآن کریم سے ہی مل سکتی ہے اور اگر تم یا تمہاری اولاد قرآن کریم کی طرف پیٹھ کرکے آگے بڑھو گے تو یاد رکھو وہ رستہ جس کی طرف تم جارہے ہو گے جنت کا رستہ نہیں ہو گا بلکہ جہنم کا رستہ ہو گا غرض اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآنِ ہر وہ چیز جو ہماری فطرت کو سیٹسفائی (Satisfy)کر سکتی ہے اسے تسلی اور اطمینان دلا سکتی ہے اس کی ضرورتوں کو پورا کر سکتی ہے اور پھر وہ غرض جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے صرف قرآن کریم کے پڑھنے سمجھنے اس سے فیض حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے۔
اولاد کی تربیت اور اس کو قرآن کریم پڑھانے کی اصل ذمہ داری والدین پر ہے انہیں اس کے لئے خداتعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ ان سے سوال کیا جائے گا کہ انہوں نے اپنی اولاد کو اس نعمت یعنی قرآن کریم سے جو انہیں حاصل تھی کیوں محروم کر دیا۔ حالانکہ وہ اس نعمت کو اپنی اولاد تک پہنچانے کی اہلیت رکھتے تھے جماعتی نظام کا یہ کام ہے کہ وہ انہیں اس طرف متوجہ کرے جماعتی نظام کا یہ کام ہے کہ وہ اس کام کے لئے بعض سہولتیں مہیا کر دے کیونکہ جب تک جماعتی نظام اس کا ممدومعاون نہ ہو۔ انسان اپنی ذاتی الجھنوں کو حل نہیں کر سکتا اور جماعتی نظام تمہاری اس مدد کے لئے تیار ہے وہ تمہیں یہ کہے گا کہ تم پریشان نہ ہو اگر تم اپنی اولاد کو اپنے اوقات میں سے صرف نصف گھنٹہ اور دے دیا کرو اور انہیں قرآن کریم پڑھا دیا کرو تو تمہاری یہ پریشانی دور ہو جائے گی کہ تمہاری اولاد قرآن کریم سے بے بہرہ ہے پھر جماعتی نظام کا یہ کام ہے کہ وہ افراد جو فی الواقعہ اور فی الحقیقت اس قابل نہیں کہ اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھا سکیں ان کے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کا مناسب انتظام کرے مثلاً ایک غریب خاندان ہے بدقسمتی سے والدین اپنے بچپن میں قرآن کریم ناظرہ نہیں پڑھ سکے اور بدقسمتی سے ان کے قرب و جوار میں کوئی ایسا احمدی دوست بھی نہیں رہتا جو قرآن کریم پڑھانے کے قابل ہو ان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ باتنخواہ استاد رکھیں اور بچوں کو قرآن کریم پڑھوائیں لیکن ان کے پاس روپیہ نہیں جو اس انتظام پر خرچ کر سکیں ایسی استثنائی حالتوں میں جماعتی نظام کا فرض ہے کہ وہ ایسے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کا انتظام کرے چاہے اس پر رقم خرچ کرنی پڑے ورنہ اصل ذمہ داری اور فرض والدین کا ہے اگر ماں پڑھی ہوئی ہے یا باپ قرآن کریم ناظرہ جانتا ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھائیں اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم انہیں اس طرف توجہ دلائیں ان پر اخلاقی دبائو ڈالیں۔ انہیں غیرت دلائیں اور انہیں سمجھائیں کہ خداتعالیٰ نے تمہیں قرآن کریم جیسی نعمت عطا کی ہے تم اپنے چند کھوٹے پیسوں کو تو بطور ورثہ اپنی اولاد میں چلانا چاہتے ہو لیکن قرآن کریم ایسی بڑی نعمت کو اپنے پاس مہیا رکھتے ہوئے یہ کیسے برداشت کر سکتے ہو کہ وہ تمہاری اولاد تک نہ پہنچے۔ غرض افراد کو ہر طرح سمجھانا۔ انہیں تلقین کرنا اور یاد دلانا ہمارا کام ہے اور اگر کوئی شخص مجبور ہے، معذور ہے تو اس کی ہر ممکن مدد کرنا بھی ہمارا کام ہے لیکن اگر جماعت میں کوئی ایسا آدمی موجود ہے کہ وہ خود اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھا سکتا ہے اور وہ باوجود سمجھانے کے اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی طرف متوجہ نہیں ہوتا یا وہ مالدار ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس قدر توفیق دے رکھی ہے کہ وہ استاد رکھ کر اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھا سکتا ہے لیکن وہ اس طرف توجہ نہیں کرتا۔ تو ایسا شخص ہمارے لئے انتہائی بے عزتی کا باعث ہے ایسے شخص کو سمجھ لینا چاہئے کہ جماعت اس کی اس حرکت کو کبھی برداشت نہیں کرے گی جماعت کا یہ فرض ہے کہ جب تک ایسا شخص جماعت کے ساتھ منسلک ہے اسے اپنے بچوں کو وقت دے کر یا رقم خرچ کرکے قرآن کریم پڑھوانے کے لئے مجبور کرے۔
میں نے قرآن کریم کے پڑھانے کی جو سکیم جماعت کے سامنے رکھی تھی اس پر عمل کرنے کے لئے میرے نزدیک کسی بجٹ کی ضرورت نہیں صرف انتظام کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ لوگ جن کے سپرد یہ کام ہے اس کی طرف پوری توجہ کریں تو ہمیں اس کام کے لئے روپیہ کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے والے دوست کثرت سے دئے ہیں اور میں کامل یقین رکھتا ہوں۔ جب جماعت سے اپیل کی جائے گی کہ بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کے لئے رضاکاروں کی ضرورت ہے تو جماعت کی عورتیں اور مرد ضرورت سے زیادہ اپنے نام پیش کر دیں گے انشاء اللہ لیکن منتظمین کو بھی اس نہج اور طریق پر سوچنا اور کام کرنا چاہئے کہ پیسہ خرچ کرنے کی طرف ان کو توجہ نہ ہو۔ اور اس یقین کامل کے ساتھ انہیں کام کرنا چاہئے کہ ہم پیسہ بھی خرچ نہیں کریں گے اور ہمارا کام بھی ہو جائے گا۔ قرآن کریم ایک ایسی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں محض اپنے فضل سے عطا کی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں فطرتِ صحیحہ عطا کر دیتا اور پھر ہمیں اپنی ان صفات کا بھی مظہر بنا دیتا جو اس مادی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں جس میں ہم نے اپنی زندگی گزارنی ہے لیکن ان صفات کے صحیح استعمال کا ہمیں علم نہ دیتا ان صفات سے ہمیں صحیح طریق پر کام لینے کا علم نہ دیتا وہ ان راہوں کی نشان دہی نہ کرتا جن پر چل کر ہم مدارج ارتقاء طے کرتے ہوئے خداتعالیٰ کے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جائیں تو پھر ان صفات کا ہماری فطرت میں رکھا جانا مفید نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک طرف ہمیں فطرت صحیحہ عطا کی ہے اور دوسری طرف قرآن کریم جیسی تعلیم دے کر، اس فطرت صحیحہ کے صحیح نشوونما کے سامان کر دئے ہیں کیونکہ قرآن کریم کے بغیر انسان اپنی زندگی کا مقصد حاصل نہیں کر سکتا اس وقت میں دوستوں کو اس سلسلہ میں کہ قرآن کریم سے ہمیں کس قدر پیار کرنا چاہئے (اور پھر اگر فی الواقع پیار ہو جائے تو انسان ایک لحظہ کے لئے بھی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اتنی اچھی، حسین، خوبصورت، دل کو موہ لینے والی اور دل و دماغ اور سینہ کو معطر کر دینے والی چیز ہمیں ملی ہو اور ہم اپنی اولاد اور اپنے رشتہ داروں کو اس سے محروم رکھیں) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب میں سے دو اقتباسات سنانا چاہتا ہوں۔
آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’ حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے۔ سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو۔ ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے۔ افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں۔ تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے۔ کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔ تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی۔ اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے۔ پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی یہ نہایت پیاری نعمت ہے یہ بڑی دولت ہے۔ اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مُضْغَۃکی طرح تھی۔ قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں‘‘۔
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۶، ۲۷)
اسی طرح حضور علیہ السلام ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں:۔
’’بلا شبہ جن لوگوں کو راہ راست سے مناسبت اور ایک قسم کا رشتہ ہے ان کا دل قرآن شریف کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اور خدائے کریم نے ان کے دل ہی اس طرح کے بنا رکھے ہیں کہ وہ عاشق کی طرح اپنے اس محبوب کی طرف جھکتے ہیں اور بغیر اس کے کسی جگہ قرار نہیں پکڑتے اور اس سے ایک صاف اور صریح بات سن کر پھر کسی دوسرے کی نہیں سنتے اس کی ہر ایک صداقت کو خوشی سے اور دوڑ کر قبول کر لیتے ہیں اور آخر وہی ہے جو موجب اشراق اور روشن ضمیری کا ہو جاتا ہے اور عجیب در عجیب انکشافات کا ذریعہ ٹھہرتا ہے اور ہر یک کو حسب استعداد معراج ترقی پر پہنچاتا ہے راست بازوں کو قرآن کریم کے انوار کے نیچے چلنے کی ہمیشہ حاجت رہی ہے اور جب کبھی کسی حالت جدیدہ زمانہ نے اسلام کو کسی دوسرے مذہب کے ساتھ ٹکرا دیا ہے تو وہ تیز اور کارگر ہتھیار جو فی الفور کام آیا ہے قرآن کریم ہی ہے ایسا ہی جب کہیں فلسفی خیالات مخالفانہ طور پر شائع ہوتے رہے تو اس خبیث پودہ کی بیخ کنی آخر قرآن کریم ہی نے کی اور ایسا اس کو حقیر اور ذلیل کرکے دکھلا دیا کہ ناظرین کے آگے آئینہ رکھ دیا کہ سچا فلسفہ یہ ہے نہ وہ۔ سو حال کے زمانہ میں بھی جب اوّل عیسائی واعظوں نے سر اُٹھایا اور بدفہم اور نادان لوگوں کو توحید سے کھینچ کر ایک عاجز بندہ کا پرستار بنانا چاہا اور اپنے مغشوش طریق کو سو فسطائی تقریروں سے آراستہ کرکے ان کے آگے رکھ دیا اور ایک طوفان مُلکِ ہند میں برپا کر دیا۔ آخر قرآن کریم ہی تھا جس نے انہیں پسپا کیا کہ اب وہ لوگ کسی با خبر آدمی کو منہ بھی نہیں دکھلا سکتے۔ اور ان کے لمبے چوڑے عذرات کو یوں الگ کرکے رکھ دیا۔ جس طرح کوئی کاغذ کا تختہ لپیٹے‘‘۔
(ازالہ اوہام حصہ دوم ۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۸۱، ۳۸۲)
غرض قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان اور خود ہماری اپنی عقل کے مطالبہ اور تقاضا کے مطابق ہمیں اتنا پیار کرنا چاہئے کہ کسی اور چیز سے ہم اتنا پیار نہ کرنے والے ہوں اور وہ ہمیں اتنا محبوب ہونا چاہئے کہ ہم ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہ کریں کہ یہ نعمت جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے اس سے ہماری نسلیں محروم رہ جائیں۔ پس ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے آپ کا پہلا اور آخری فرض یہ ہے کہ آپ اپنی اولاد کو پہلے قرآن ناظرہ پڑھائیں اور پھر اس کا ترجمہ سکھائیں اور پھر ان کے لئے ایسا ماحول پیدا کریں کہ قرآن کریم کی محبت اور عشق ان کے دلوں میں پیدا ہو جائے۔ اور وہ قرآن کریم کے نئے نئے معارف حاصل کرنے کے لئے ساری عمر کوشش کرتے چلے جائیں اور وہ اس حقیقی مقصد کو پورا کرنے کے لئے جس کی خاطر انسان کی پیدائش کی گئی ہے صحیح معنوں میں اور حقیقی رنگ میں خداتعالیٰ کی صفات کے مظہر بننے والے ہوں۔ اور خداتعالیٰ کی اس کتاب سے روشنی، نور اور راہ نمائی حاصل کرکے خداتعالیٰ کے قرب کی راہوں پر تیزی سے گامزن رہنے والے ہوں۔ اور اس کی رضا کو زیادہ سے زیادہ اور جلد سے جلد تر حاصل کرنے والے ہوں۔ خداتعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۳؍ فروری ۱۹۶۶ء)
٭…٭…٭





خدام الاحمدیہ کوشش کریں کہ کوئی احمدی نوجوان ایسا نہ رہے جس نے تحریک جدید میں حصہ نہ لیا ہو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸ ؍فروری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ تحریک جدید میں وعدے بھی لکھوائیں اور جلد ادائیگی کی کوشش کریں۔
٭ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کئے گئے اموال ختم ہونے کی بجائے ہر آن بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
٭ نہ تمہارا مال اپنا، نہ تمہاری جان اپنی، نہ عزت اپنی، نہ وقت اپنا اور نہ عمر اپنی۔ محض خدا تعالیٰ کی دین ہے۔
٭ کسی مال دار کو مفلس اور قلاش بنا دینا یا کسی غریب اور مفلس کو مالدار اور غنی بنا دینا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔
٭ جو اللہ تعالیٰ سے سودا کرتا ہے ہمیشہ نفع میں رہتا ہے۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
وکالت مال تحریک جدید نے مجھے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ سال رواں کے وعدوں کی رفتار تسلی بخش نہیں اور ان کا تاثر یہ ہے کہ پہلے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سال کے شروع ہی میں اپنے دو ایک خطبوں میں جماعت کے افراد کو اس طرف توجہ دلا دیتے تھے۔ آپ تحریک جدید کی اہمیت اور اس کی برکات کی وضاحت فرما دیتے اور خداتعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی وجہ سے انسان کو جو دینی اور دنیوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ وہ دوستوں کے سامنے رکھ دیتے۔ اس طرح جماعت کے دوست بڑی جلدی اپنے وعدے لکھوا دیتے اور دفاتر کی پریشانی دور ہو جاتی تھی۔ لیکن اپنی بیماری کے آخری سالوں میں چونکہ حضور اس طرف اپنے خطبات میں جماعت کو توجہ نہیں دلا سکے اس لئے جماعت میں آہستہ آہستہ یہ سستی پیدا ہو گئی ہیکہ اگرچہ احباب اب بھی پہلے کی نسبت اضافہ کے ساتھ وعدے لکھواتے ہیں اور رقوم جو وصول ہوتی ہیں وہ بھی زیادہ ہوتی ہیں لیکن وہ اس طرف فوری طور پر توجہ نہیں کرتے۔ اس لئے مرکز کو کئی ماہ تک پریشانی میں رہنا پڑتا ہے انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ گزشتہ سال گو پہلے کی نسبت وعدوں میں زیادتی ہوئی ہے۔ لیکن جون کے آخر تک وعدے آتے رہے۔ حالانکہ وعدوں کی آخری تاریخ اس سے کہیں پہلے ختم ہو چکی تھی۔ اس سال بھی وعدوں کی وصولی کی تاریخ ۲۸؍فروری ہے لیکن بہت سے افراد اور بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جن کی طرف سے ابھی وعدے وصول نہیں ہوئے موٹی موٹی جماعتیں جن کی طرف سے وعدے وصول ہونے میں اس سال تاخیر ہوئی ہے اور غالباً یہ نام بطور مثال کے ہیں۔ یہ ہیں ان میں پہلی جماعت ربوہ ہے۔ گزشتہ سال یعنی تحریک جدید دفتر اوّل کے اکتیسویں اور دفتر دوم کے اکیسویں سال میں جماعت ربوہ کے وعدے اکسٹھ ہزار روپے کے تھے اور سالِ رواں میں یعنی تحریک جدید دفتر اوّل کے بتیسویں سال اور دفتر دوم کے بائیسویں سال کے وعدے صرف ۴۰ ہزار کے وصول ہوئے ہیں گویا ان میں ابھی اکیس ہزار کی کمی ہے اسی طرح سیالکوٹ ضلع کی جماعتوں کے وعدوں میں دس ہزار کی کمی ہے سرگودہا کی جماعتوں کے وعدوں میں پانچ ہزار کی کمی ہے لائل پور ضلع کی جماعتوں کے وعدوں میں چھ ہزار کی کمی ہے گجرات ضلع کی جماعتوں کی طرف سے ابھی تک چھ ہزار کے وعدے کم وصول ہوئے ہیں ملتان ضلع کی جماعتوں کے وعدوں میں ابھی پانچ ہزار کی کمی ہے اور حیدر آباد ڈویژن کی جماعتوں کے وعدے بھی ابھی ساڑھے پانچ ہزار کم وصول ہوئے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ میں امید رکھتا ہوں کہ اس سال گزشتہ سال کی نسبت وعدے بھی زیادہ ہوں گے اور وصولی بھی زیادہ ہو گی لیکن جو دوست وعدے لکھوانے میں سستی سے کام لیتے ہیں وہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور وہ اس طرح کہ اسلام نے ہمیں بتایا ہے اللہ تعالیٰ مومن کی نیت پر بھی ثواب دیتا ہے لیکن اس نے ہمیں کہیں نہیں بتایا کہ انسان کی خالی خواہشات پر ثواب ملتا ہے اور جہاں تک تحریک جدید کے وعدوں اور ان کی وصولی کا سوال ہے نیت اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب کوئی شخص اپنا وعدہ لکھوا دیتا ہے اور پھر دل میں پختہ عہد کر لیتا ہے کہ وہ موعودہ رقم تحریک جدید میں دے گا لیکن جو دوست وعدے لکھوانے میں پندرہ دن، ایک ماہ یا دو ماہ سستی سے کام لیتے ہیں وہ اس عرصہ میں اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے فضل کے ایک حصہ سے محروم کر رہے ہوتے ہیں۔ خداتعالیٰ کا جو فضل وہ پندرہ دن ایک ماہ یا دو ماہ بعد میں لینا شروع کرتے ہیں اس فضل کے وارث وہ پندرہ دن، ایک ماہ یا دو ماہ پہلے کیوں نہیں بنتے پس اگر وہ اس طرف توجہ نہیں کرتے تو وہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔
پھر اپنا دوسرا نقصان وہ یہ کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اسے کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ اس نے کب اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے زندگی اور موت کا مسئلہ خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے بعض اوقات ایک انسان چنگا بھلا ہوتا ہے وہ ہنستا کھیلتا ہوتا ہے لیکن ایک سیکنڈ کے بعد وفات پا جاتا ہے۔ اگر آپ تحریک جدید کے وعدے لکھوانے میں سستی سے کام لیتے ہیں تو کتنا خطرہ مول لے رہے ہیں آپ کو کیا معلوم کہ اس عرصہ میں آپ نے زندہ رہنا ہے یا وفات پا جانا ہے اگر آپ اس عرصہ میں وفات پا گئے تو اُخروی زندگی میں جو ثواب اس چندہ کے دینے کی نیت سے حاصل ہو سکتا ہے اس سے محروم ہو گئے۔
تیسرا نقصان جو وعدے جلد نہ لکھوانے کی وجہ سے آپ کو پہنچتا ہے یہ ہے کہ اگر اس سال مثلاً وعدے لکھوانے کی تاریخ ۲۸؍ فروری ہو اور اس تاریخ تک جیسا کہ دفتر کا معمول ہے دفتر والے خطوط کے ذریعہ پھر رسالوں اور اخباروں میں مضامین لکھ کر یا گشتی چٹھیوں کے ذریعہ آپ کو اس طرف متوجہ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود دوست اس تاریخ تک اپنے وعدے نہیں لکھواتے انہیں یاددہانی کرانے پر دفتر جو زائد اخراجات برداشت کرے گا وہ بہرحال ناواجب ہوں گے اور ایسے اخراجات کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہو گی جنہوں نے مقررہ تاریخ تک اپنے وعدے نہیں لکھوائے فرض کرو یہ زائد خرچ کل وعدوں کا دو فیصدی ہے تو اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ سَو روپے کے ثواب کی بجائے وعدہ دیر سے لکھوانے والے کو دو کم سو کا ثواب نہ دے کیونکہ دو روپے کا زائد خرچ محض اس کی سستی کی وجہ سے مرکز نے برداشت کیا ہے شاید اللہ تعالیٰ یہ کہے کہ تمہاری وجہ سے سلسلہ کو دو روپے کا نقصان ہوا ہے اس لئے ہم تمہارے ثواب سے اسی قدر کم کر دیتے ہیں غرض دفتر کو جو زائد اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ وہ محض آپ کی سستی کی وجہ سے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اگر آپ وقت مقررہ میں وعدے لکھوا دیں اور پھر جلد رقم ادا کر دیں تو دفتر ان زائد اخراجات سے بچ جاتا ہے۔
چوتھا نقصان آپ کو اور سلسلہ کو یہ اُٹھانا پڑتا ہے کہ اگر آپ وعدہ لکھوانے میں سست ہیں تو چاہے بعد میں آپ اپنا وعدہ لکھوا بھی دیں اور اس میں زیادتی بھی کر دیں تب بھی ان مزید اخراجات کی وجہ سے جو دفتر برداشت کرے گا بہت سے ضروری کاموں میں زائد اور ناواجب اخراجات کسی حد تک ہوں کمی کرنی پڑتی ہے کیونکہ آپ نے کُل رقم میں سے جس سے یہ کام کئے جانے تھے کچھ روپیہ زبردستی نکال لیا اور ڈاک اور یاددہانی کے دوسرے ذرائع پر ضائع کر دیا۔ اس نقصان کے آپ ذمہ دار ہیں۔
اور ’’آپ‘‘ سے مراد میری ان لوگوں سے ہے جو وعدہ بھی لکھواتے ہیں اور رقوم بھی ادا کرتے ہیں اور بڑی بشاشت کے ساتھ ادا کرتے ہیں (اللہ تعالیٰ انہیں اس کا ثواب عطا فرمائے) لیکن اپنی سستی کی وجہ سے وہ نقصان اُٹھا لیتے ہیں اور میرا فرض ہے کہ میں اس قسم کے لوگوں کو ان کی سستیوں کی طرف توجہ دلائوں تا ثواب کے سلسلہ میں انہیں ایک دھیلے کا گھاٹا بھی نہ اُٹھانا پڑے۔
پانچواں نقصان جو جماعت اور سلسلہ کو محض آپ کی سستی کی وجہ سے برداشت کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ وکالت مال کو مثلاً ۲۸؍ فروری تک وعدے لکھوانے کے لئے کوشش اور جدوجہد کرنی پڑے گی اور جماعتوں کو اس طرف توجہ دلانی پڑے گی۔ اب اگر ۲۸؍ فروری تک اس کی تگ و دو اور کوشش کے نتیجہ میں سارے دوست اپنے اپنے وعدے لکھوا دیں تو اس تاریخ کے بعد وکالت مال دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہو سکے گی اور اسے کوئی پریشانی نہیں ہو گی لیکن اگر آپ مقررہ میعاد کے اندر اپنے وعدے نہیں لکھوائیں گے تو آپ کی سستی کے نتیجہ میں کام کرنے والوں کو پریشانی ہو گی اور آپ میں سے کوئی بھی یہ پسند نہیں کرے گا کہ اس کی وجہ سے ان واقفین زندگی کو جو مرکز میں بیٹھ کر خدمت دین بجا لا رہے ہیں کسی قسم کی پریشانی اُٹھانا پڑے اور میں نے آپ کو بتایا ہے کہ آپ لوگوں کی سستی کی وجہ سے مرکز میں کام کرنے والوں کو بہرحال پریشانی اُٹھانا پڑتی ہے آپ انہیں اس پریشانی سے بچا لیں۔ اور اپنے وعدے مقررہ تاریخ کے اندر لکھوا دیں پھر جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ ان وعدوں سے دفتر کو جلد اطلاع دیں میرے خیال میں وعدوں کے لکھوانے میں کچھ سستی تو افراد کرتے ہیں لیکن کسی حد تک اس کی ذمہ داری جماعتوں پر بھی ہے ممکن ہے بعض ایسی جماعتیں ہوں جہاں افراد نے وعدے تو لکھوا دئیے ہوں لیکن جماعت کے عہدیداروں نے وہ وعدے دفتر کو نہ بھجوائے ہوں۔ اگر کوئی ایسی جماعت ہے جس کے افراد نے وعدے لکھوا دئیے ہوں لیکن وہ وعدے دفتر کو نہیں بھجوائے گئے تو ایسی جماعت کو چاہئے کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدے دفتر کو بھجوا دے۔
مجھے دفتر وکالت مال کی طرف سے یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ میں وعدوں کی وصولی کی تاریخ ۲۸؍فروری کی بجائے ۲۵؍ مارچ کر دوں لیکن میں اپنے بھائیوں پر بدظنی نہیں کرنا چاہتا اس لئے میں وعدوں کی وصولی کی تاریخ ایک ہفتہ سے زیادہ نہیں بڑھانا چاہتا۔
جہاں تک ربوہ کا سوال ہے دوست اگر اس طرف توجہ کریں تو وہ مقررہ میعاد کے اندر اندر اپنے وعدے لکھوا سکتے ہیں اس لئے جہاں تک ربوہ کا سوال ہے میں وعدوں کی وصولی کی تاریخ ۲۸؍ فروری سے ایک دن بھی نہیں بڑھاتا وہ بہرحال اپنے وعدے ۲۸؍ فروری سے پہلے پہلے لکھوا دیں لیکن جہاں تک باہر کی جماعتوں کا سوال ہے ان تک میری آواز پہنچنے میں دیر لگے گی اس لئے میں انہیں ایک ہفتہ اور دیتا ہوں اس عرصہ میں تمام جماعتیں اپنے وعدے مرکز میں ضرور پہنچا دیں ورنہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ثواب کے ایک حصہ سے وہ محروم نہ ہو جائیں۔ دوسری بات جس کی طرف میں اس خطبہ میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ایک موقع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خدام کو تحریک جدید کے سلسلہ میں ایک نصیحت فرمائی تھی اور ارشاد فرمایا تھا کہ
’’میں نے صدر مجلس خدام الاحمدیہ کا بار اس لئے اُٹھایا ہے (ایک زمانہ میں حضور صدر مجلس خدام الاحمدیہ کے فرائض خود انجام دیتے رہے ہیں) تا جماعت کے نوجوانوں کو دین کی طرف توجہ دلائوں۔ سو میں سب سے پہلے ان کے سپرد یہ کام کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے ایمان کا ثبوت دیں گے، اور آگے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور کوئی نوجوان ایسا نہیں رہے گا جو دفتر دوم میں شامل نہ ہو اور کوشش کریں کہ ساری کی ساری رقم وصول ہو جائے‘‘۔
اسی طرح فرمایا:۔
’’میں امید کرتا ہوں کہ دوست اپنے بقائے بھی ادا کریں گے اور پہلے سے زیادہ وعدے بھی لکھوائیں گے اور خدام الاحمدیہ کوشش کرے کہ کوئی نوجوان ایسا نہ رہے جس نے تحریک جدید میں حصہ نہ لیا ہو اور پھر کوئی رقم ایسی نہ رہے جو وصول نہ ہو‘‘۔ (الفضل ۲؍ دسمبر ۱۹۴۹ء)
میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان جو اپنے آپ کو خدام الاحمدیہ کہتے ہیں حضرت مصلح موعودؓ کے اس ارشاد پر کان دھریں گے اور اپنے عمل سے ثابت کر دیں گے کہ حضور نے جو امید ان سے وابستہ کی تھی وہ اسے پورا کرنے والے ہیں۔ اس سلسلہ میں مجھے دو ہفتہ کے بعد رپورٹ آ جانی چاہئے میں انہیں رپورٹ تیار کرنے کے لئے ایک ہفتہ کی مہلت مزید دیتا ہوں لیکن کام کے لئے زیادہ وقت نہیں دے سکتا۔
تیسری بات جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو اموال خرچ کئے جاتے ہیں ان پر خرچ کا لفظ بولنا حقیقتاً درست اور صحیح نہیں خرچ وہ رقم ہوتی ہے جو آپ کے ہاتھ سے نکل جائے اور ختم ہو جائے لیکن جو اموال اللہ تعالیٰ کی راہ میں دئیے جاتے ہیں وہ نہ تو کسی کے ہاتھ سے نکلتے ہیں اور نہ ختم ہوتے ہیں بلکہ وہ ہر آن اور ہر لحظہ بڑھتے چلے جاتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک فارسی شعر میں اس مسئلہ کی طرف نہایت لطیف پیرایہ میں متوجہ کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں ۔
زبذلِ مال در راہش کسے مفلس نمے گردد
خدا خود مے شود ناصر اگر ہمت شود پیدا
(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲ ٹائیٹل صفحہ)
یعنی اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کرنے والے کو مفلس نہیں رہنے دیتا وہ اسے بھوکا نہیں مارتا اگر وہ اپنے مال کا ایک بڑا حصہ بھی اس کی راہ میں دے دیتا ہے بلکہ اگر وہ سارے کا سارا مال بھی اس کی راہ میں دے دیتا ہے تب بھی وہ اسے بھوکا نہیں رہنے دیتا۔ کئی مواقع پر رسول اکرم ﷺ نے مسلمانوں سے کھانے پینے کے تمام سامان لے لئے جنگوں کے سلسلہ میں بعض دفعہ آپ ہر شخص سے جو کچھ کھانے پینے کے لئے اس کے پاس ہوتا لے لیتے ان مواقع میں سے کسی موقع پر بھی ہمارے کسی مسلمان بھائی نے ایسا کرنے میں ایک لحظہ بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی بلکہ آنحضرتﷺ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس نے اپنا سارا راشن قومی خزانہ میں جمع کرا دیا، اور اس کے بعد اسے ذاتی استعمال کے لئے اس میں سے جو کچھ واپس ملا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اور اس کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے لے لیا۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے اسے بھوکا نہیں مارا سیری صرف پیٹ میں کھانے کی ایک مقدار کے چلے جانے کا نام نہیں بلکہ سیری کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جسم کی ضرورت پوری ہو جائے اور ہماری (احمدی) تاریخ کا ایک واقعہ ہے کہ ہمارے ایک بزرگ کو جب وہ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے شدید بھوک لگی اور اس کی وجہ سے انہیں بہت تکلیف ہو رہی تھی لیکن وہ حضور کی مجلس سے اٹھنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کشف میں ہی کھانا کھلا دیا بھوک کی وجہ سے ان کے جسم میں جو کمزوری اور ضعف محسوس ہو رہا تھا وہ دور ہو گیا اور پیٹ بھی بھر گیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی قدرت کے یہ جلوے اس لئے دکھائے ہیں کہ تاہم یقین کریں کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا سارا مال بھی دے دیتا ہے تو وہ اسے بھوکا نہیں مرنے دیتا وہ اس کی سیری کے غیب سے سامان پیدا کر دیتا ہے اب اگر کسی کی جسمانی کمزوری جو کھانا نہ کھانے کی وجہ سے ہوتی ہے دور ہو جائے اس کے جسم کو طاقت اور توانائی حاصل ہو جائے اسے بھوک کا احساس نہ رہے اور وہ راحت اور سکون محسوس کرنے لگے تو کھانے کا مقصد حاصل ہو گیا۔ اب اگر وہ مادی کھانا نہ بھی کھائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ۔
زبذلِ مال در راہش کسے مفلس نمے گردد
یعنی اللہ کی راہ میں اپنے اموال دینے والا کبھی مفلس نہیں ہوتا اور آگے جا کر آپ اس کی بڑی عجیب دلیل دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں:۔
خدا خود مے شود ناصر اگر ہمت شود پیدا
ہمت کا لفظ فارسی زبان میں کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ان میں سے تین معانی (۱) بلند ارادہ (۲)جرأت اور (۳) دعا کے ہیں۔ پس اس مصرعہ کے یہ معنی ہوئے کہ اگر تم نیک نیتی کے ساتھ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کا ارادہ کرو گے اور جرأت اور بہادری کے ساتھ اپنی اس پاک نیت کو عملی جامہ پہنائو گے اور ساتھ ہی عاجزی اور تذلل کے ساتھ دعا کرتے رہو گے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس ہدیہ کو قبول کرے تو خداتعالیٰ تمہاری مدد کو آئے گا۔ اور اِنْ یَّنصُرْکُمُ اللّٰہُ فَـلا غَالِبَ لَکُمْ (آل عمران: ۱۶۱)
جب خداتعالیٰ تمہاری مدد کو آ جائے گا اور تمہارا ناصر بن جائے گا تو افلاس یا کوئی اور شیطانی حربہ تم پر غالب نہیں آ سکے گا اور تمہیں مغلوب نہیں کر سکے گا کیونکہ تم نیک ارادہ، نیک عمل اور عاجزانہ دعائوں کے ساتھ اپنا مال خداتعالیٰ کی راہ میں پیش کرتے ہو اور اس سے یہ امید رکھتے ہو کہ وہ اسے قبول کرے گا اس لئے وہ اسے رد نہیں کرے گا اور جس مال کو خداتعالیٰ قبولیت کا شرف بخش دیتا ہے وہ مال ضائع نہیں ہوتا اس میں ہمیشہ بڑھوتی ہی ہوتی رہتی ہے۔ دراصل یہ شعر قرآن کریم کی ایک آیت کے مفہوم کو بیان کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
مَنْ ذَالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً ط وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ۔ (البقرہ: ۲۴۶)
کیا کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنے مال کا ایک اچھا ٹکڑا کاٹ کر بطور قرض دے تاکہ وہ اس مال کو اس کے لئے بہت بڑھائے اور اللہ ہی ہے جو بندہ کے مال میں تنگی یا فراخی پیدا کرتا ہے اور آخر تمہیں اس کی طرف لوٹایا جائے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور تم جو مال بھی پیش کرتے ہو وہ اسی کا ہے اسی سے تم نے لیا اور اسی کو پیش کر دیا۔ اپنے پاس سے تو تم نے کچھ نہیں دیا۔ نہ تمہارا مال اپنا، نہ تمہاری جان اپنی، نہ عزت اپنی، نہ وقت اپنا، اور نہ عمر اپنی، غرض تمہارا اپنا کچھ بھی نہیں۔ محض خداتعالیٰ کی دَین تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہی یہ سب کچھ تمہیں دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ فضل کیا جیسا کہ وہ اس آیت میں فرماتا ہے کہ اگر تم میری دَین اور میری عطاء میں سے کچھ مجھے دو گے تو میں تمہیں اس کا ثواب دوں گا دراصل غور کے ساتھ دیکھا جائے تو ہماری سب عبادتیں اللہ تعالیٰ کی سابقہ عطائوں پر بطور شکر کے ہوتی ہیں۔ یہ محض اس کا فضل ہے کہ وہ ادائے شکر پر مزید احسان کرتا ہے اس طرح شکر اور عطائے الٰہی کا ایک دور اور تسلسل قائم ہو جاتا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ دیتے ہو تو وہ اسے بطور قرض کے لیتا ہے اور قرض دی ہوئی رقم خرچ نہیں سمجھی جاتی دیکھو اس دنیا میں بھی ایک بھائی دوسرے بھائی کو قرض دیتا ہے مثلاً ایک شخص کے پاس دس ہزار روپیہ ہے اس کا بھائی اسے کہتا ہے بھائی مجھے اس میں سے تین ہزار روپیہ بطور قرض حسنہ دے دو۔ میں چند ماہ کے بعد اسے واپس کر دوں گا تو اب یہ تین ہزار روپے خرچ تو نہیں ہوئے اس کے پاس دس کا دس ہزار ہی رہا۔ کیونکہ یہ تین ہزار بھی کچھ عرصہ کے بعد اسے واپس مل جائیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کچھ تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہو وہ خرچ نہیں ہوتا۔ نہ وہ ضائع ہوتا ہے کیونکہ وہ خداتعالیٰ نے قرض کے طور پر لیا ہے وہ اسے واپس کرے گا اور پھر اس شان سے واپس کرے گا جو ایک قادر اور رزاق خدا کے شایان شان ہے۔
وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ میں اللہ تعالیٰ نے تین بڑے لطیف مضامین بیان کئے ہیں۔ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ کے ایک معنی ہیں۔ یسلب قوماً ویعطی قوماً (المفردات راغب کتاب القاف صفحہ۳۹۱)یعنی جسے چاہے غریب کر دیتا ہے اور اس کا مال لے کر دوسرے کو دیتا اور اسے امیر کر دیتا ہے۔ دوسرے معنی یہ ہیں۔ یسلب تارۃً ویعطی تارۃً (المفردات راغب کتاب القاف صفحہ۳۹۱)یعنی جب چاہے ایک شخص کا مال چھین لیتا ہے اور جب چاہے پھر اسے اموال عطا کر دیتا ہے۔ تیسرے معنی قبض کے یہ ہیں۔ تناول الشییء بجمیع الکفّ (المفردات راغب کتاب القاف صفحہ ۳۹۱)گویا اس آیت میں یَقْبِضُ وَیَبْسُطُاللہ تعالیٰ کی ایک صفت بیان کی گئی ہے اور پہلے معنی کی رو سے اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا اظہار ایک بنیادی اقتصادی مسئلہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جسے اقتصادیات میں تقسیم پیداوار کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے یعنی ملک کی پیداوار آگے مختلف افراد کے ہاتھوں میں کس طرح پہنچے گی اور ملکی پیداوار کی تقسیم کے متعلق آزاد اقتصادیات میں بھی اور ایک حد تک بندھی ہوئی اور مقید اقتصادیات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک وقت تک ایک شخص جس چیز کو بھی ہاتھ لگاتا ہے سونا بن جاتی ہے لیکن پھر بغیر کسی ظاہری سبب اور وجہ کے اس شخص پر فراخی کی بجائے تنگی آ جاتی ہے وہی شخص ہوتا ہے وہی سرمایہ ہوتا ہے۔ وہی حالات ہوتے ہیں وہی کاروبار ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس سے برکت چھین لیتا ہے وہ جہاں بھی ہاتھ ڈالتا ہے اسے نقصان ہی نقصان ہوتا ہے اس کی مالی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور وہ مفلس و قلاش ہو جاتا ہے ابھی چند دن ہوئے ایک دوست مجھے ملنے کے لئے آئے۔ وہ تاجر ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک وقت تھا اللہ تعالیٰ نے میرے اموال اور میرے کاروبار میں برکت ڈال دی تھی اس نے مجھے وافر رزق دیا تھا اور اس قسم کے حالات پیدا کر دئیے تھے کہ میں جو بھی کام کرتا رہا اس کے نتیجہ میں مجھے مال میں فراخی نصیب ہوئی لیکن اب اس قسم کے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ گو کام میں اب بھی وہی کرتا ہوں جو پہلے کرتا تھا لیکن اب مجھے وہ نفع نہیں ہوتا جو پہلے ہوتا تھا۔ غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اصل قادر ذات جو اپنے ارادہ کے ساتھ اس دنیا میں تصرف کر رہی ہے وہ میری ہی ذات ہے اور کوئی نہیں میں ہی ہوں جو تقسیم پیداوار کے سلسلہ میں ایسی تاریں ہلا دیتا ہوں کہ ایک شخص کے پاس وہی کاروبار ہوتا ہے وہی سرمایہ ہوتا ہے لیکن اس قسم کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ پہلے وہ بہت کما رہا ہوتا ہے اور اب وہ کم کمانے لگ جاتا ہے۔ اس کی برکت اللہ تعالیٰ کسی دوسرے کو دے دیتا ہے اور اس کو حاصل ہونے والا نفع اب دوسرے کو ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ لاہور میں ہم کچھ عرصہ رہے ہیں وہاں ہم نے دیکھا کہ کبھی کوئی ریسٹورنٹ مقبول ہو جاتا تھا اور کبھی کوئی ایک ریسٹورنٹ کی مینجمنٹ (Mangement) اور انتظام بھی وہی ہوتا تھا۔ عمارت بھی وہی ہوتی تھی۔ فرنیچر بھی وہی ہوتا تھا باقی سہولتیں بھی وہی ہوتی تھیں۔ اس کے کھانا پکانے والے بھی وہی ہوتے تھے۔ اور ایک عرصہ تک وہ ہوٹل اپنے مالکوں کے لئے بہت زیادہ آمد کا موجب بنا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے یکدم کوئی ایسی تبدیلی پیدا ہو جاتی جو انسان کے اختیار اور سمجھ سے باہر ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی مقبولیت جاتی رہی۔ لوگوں نے وہاں جانا چھوڑ دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ مالک کو وہ ہوٹل بند کرنا پڑا اگر انسان اپنے ماحول پر گہری نظر ڈالے اور فکر و تدبر سے کام لے تو اسے اس قسم کی سینکڑوں مثالیں مل سکتی ہیں کوئی ظاہری سبب نظر نہیں آتا لیکن یکدم برکت چھن جاتی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات اموال اور کاروبار میں برکت دے دی جاتی ہے اور اس کا کوئی ظاہری سبب نہیں ہوتا۔ ایک انسان عرصہ تک ابتلاء اور مصائب میں مارا مارا پھرتا ہے اور بڑی تکلیف میں زندگی گزارتا ہے ایک دن اللہ تعالیٰ اس پر رحم کر دیتا ہے اور اس کے اموال اور اس کے کاروبار میں برکت ڈال دیتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس پر فراخی اور کشائش کا دور آجاتا ہے ابھی چند دن ہوئے مجھے اس قسم کی بھی ایک مثال ملی ہے ایک دوست مجھے ملنے کے لئے آئے انہوں نے مجھے بتایا کہ میں ایک غریب گھرانہ کا فرد ہوں میری آمد بہت کم تھی اور گزارہ مشکل سے ہوتا تھا لیکن ایک دن اللہ تعالیٰ نے کچھ اس قسم کی تبدیلی پیدا کر دی کہ اب میرے کاروبار میں برکت ہی برکت ہے اورخداتعالیٰ بہت کچھ دے رہا ہے میری غربت اور افلاس کی حالت دور ہو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے رزق میں فراخی پیدا ہو گئی ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مال کو روک رکھنا کہ وہ کسی خاص فرد کو نہ ملے یا مال کو حکم دینا کہ فلاں کے پاس چلے جائو۔ یہ صرف میرا کام ہے اور کسی کا نہیں اور اگر یہ میرا کام ہے تو جب بھی کوئی شخص میری راہ میں خرچ کرے گا تو اسے امید رکھنی چاہئے کہ میں جس نے اپنی قدرت کی تاریں ساری دنیا میں پھیلا رکھی ہیں اسے مایوس نہیں کروں گا بلکہ اس کے مالوں میں اور اس کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ برکت ڈالتا چلا جائوں گا۔
دوسرے معنی یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ کے یہ ہیں کہ خداتعالیٰ کسی ملک یا کسی خاندان یا کسی فرد کے سرمایہ یا جائیداد کی پیداوار میں اضافہ کر دیتا ہے یا کمی کر دیتا ہے اور یہ نہیں ہوتا کہ مال یہاں سے لیا اور وہاں رکھ دیا اس سے لیا اور اسے دے دیا۔ پہلے معنوں کی رو سے تو یہ تھا کہ مال کسی سے لیا اور دوسرے کو دے دیا ایک کے کاروبار میں بے برکتی ڈالی اور دوسرے میں برکت ڈال دی۔ لیکن ان معنوں کی رو سے یہ شکل ہو گی کہ اللہ تعالیٰ بغیر اس کے کہ کس کے کاروبار اور اموال میں بے برکتی ڈالے۔ وہ دوسرے کے کاروبار اور اموال میں زیادتی اور افزائش پیدا کر دیتا ہے یا دوسرے کے کاروبار اور اموال میں زیادتی کئے بغیر اس کے اموال اور کاروبار کو کم کر دیتا ہے مثلاً ایک زمیندار ہے اس کی زمین بنجر تھی اس میں کوئی پیداوار نہیں ہوتی تھی یا اگر ہوتی تھی تو بہت کم۔ اللہ تعالیٰ نے سمندروں سے پانی کو بادلوں کے ذریعہ اُٹھایا پھر وہ بادل ایسی جگہ بر سے کہ بعض دریائوں میں طغیانی آ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس طغیانی کے پانی کو اس شخص کی بنجر زمین میں پھیل جانے کا حکم دیا یہ پانی اپنے ساتھ پہاڑوں سے پیداوار بڑھانے والی مٹی کے اجزا لے آیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان ذرات ارضی کو حکم دیا کہ اس شخص کی زمین میں ٹھہر جائو۔ تمہارا سفر ختم ہو چکا چنانچہ وہ ذرات ارضی اس کی بنجر زمین میں ٹھہر گئے اور اس طرح جس ایکڑ سے وہ شخص بمشکل دو تین من گندم سالانہ پیدا کرتا تھا اور ادھی پچدھی کھا کر گزارا کرتا تھا اسی زمین میں اتنی طاقت اور زندگی پیدا ہو گئی کہ اب اس میں پندرہ پندرہ من گندم سالانہ پیدا ہونے لگی۔ اسی طرح ایک اور زمیندار ہے اس کی زمین بڑی اچھی ہے اس میں بہت زیادہ پیداوار ہوتی ہے اور اس کی زرخیزی مالک کی آمد میں بہت اضافہ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جو آسمان سے حکم بھیج کر غریب اور مفلس لوگوں کو مالدار بنا دیتا ہے اور مالداروں کو مفلس اور قلاش بنا دیتا ہے اس زرخیز زمین میں تھور اور سیم پیدا کرکے اسے بنجر بنا دیتا ہے اور اس طرح اس کی آمد کم ہو جاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ کسی مالدار کو مفلس اور قلاش بنا دینا یا کسی غریب اور مفلس کو مالدار اور غنی بنا دینا میرے اختیار میں ہے اس لئے اگر تم مجھ سے کوئی سودا کرو گے تو اس میں تمہیں کوئی گھاٹا نہیں ہو گا۔ کیونکہ میں قادر مطلق اور رزاق ہوں۔
پھر قبض کے معنی مضبوطی سے پکڑ لینے کے بھی ہوتے ہیں اور مضبوطی سے اس شئے کو پکڑا جاتا ہے جس کے متعلق فیصلہ ہو کہ اسے چھوڑنا نہیں۔ کیونکہ اگر اسے چھوڑا تو نقصان ہو گا۔ ان معنوں کے رو سے اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ بیان فرماتا ہے کہ جو مال تم میرے سامنے بطور ہدیہ پیش کرو گے میں اسے مضبوطی سے پکڑ لوں گا یعنی اسے ضائع نہیں ہونے دوں گا یہ میرا تمہارے ساتھ وعدہ ہے جسے میں بہرحال پورا کروں گا ان معنوں کی رو سے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کو بڑی امید دلاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ غنی ہے اور اسے تمہارے اموال کی حاجت نہیں لیکن تمہاری پاک نیتوں اور محبت اور فنا فی اللّٰہی کو دیکھتے ہوئے وہ اپنی رحمت سے تمہیں نوازتا ہے اور شکر اور پیار کے ساتھ تمہاری مالی قربانیوں کو قبول کرتا ہے اور مضبوطی کے ساتھ انہیں پکڑ لیتا ہے اور انہیں ضائع نہیں ہونے دیتا بلکہ وَیَبْسُطُ اپنی بے پایاں عطا بھی اس میں شامل کرتا ہے اور انہیں بڑھا کر اور وسعت دے کر کہیں سے کہیں لے جاتا ہے اور وہ تمہیں اس دنیا میں بھی اپنی عطائے کثیر کا حقدار بنا دیتا ہے اور جب تم لوٹ کر اس کی طرف جائو گے تو وہ بڑے پیار سے تمہیں کہے گا یہ لو اپنے مال جو تم نے میری راہ میں خرچ کئے تھے دیکھو میں نے تمہارے لئے انہیں کس قدر بڑھایا اور ان میں کس قدر کثرت اور وسعت بخشی۔ پس خوش ہو کر اپنے رب کے ساتھ کبھی کوئی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔
غرض دوستوں کو یہ نکتہ سمجھنا چاہئے اور اسے ہر دم اپنے مدِنظر رکھنا چاہئے کہ دین اور سلسلہ کے لئے جب بھی ان کے مالوں کی ضرورت پیش آئے۔ انہیں وہ اموال بغیر کسی خوف اور بغیر کسی خطرہ کے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دینے چاہئیں کیونکہ وہ جو خداتعالیٰ سے سودا کرتا ہے ہمیشہ نفع میں ہی رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ نفع مند سودوں کی توفیق عطا فرمائے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۷؍ فروری ۱۹۶۶ء صفحہ ۲ تا ۵)
٭…٭…٭
اگر ہم قربانیوں میں حصہ لیتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ہمارے قلوب میں بشاشت اور تسکین پیدا کرے گا
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵ ؍فروری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ گناہ پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب دل میں غیراللہ کی محبت پیدا ہوگی۔
٭ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک حد تک درجہ کمال حاصل کرنے کیلئے پیدا کیا ہے۔
٭ روحانی ترقیات کے حصول کیلئے نیک کام بجا لاؤ اور قربانیاں پیش کرو۔
٭ نیک اعمال بجا لانے کے بعد ہی انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکتا ہے۔
٭ جماعت احمدیہ کے خلفاء بھی اپنے لئے اتنی دعائیں نہیں کرتے جتنی دعائیں وہ احمدی بھائیوں کیلئے کرتے ہیں۔





تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِدُنُوْبِھِمْ خَلَطُوْا عَمَلاً صَالِحًا وَّاٰخَرَسَیِّئًاط عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْھِمْط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْط اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ ط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o (توبہ:۱۰۲، ۱۰۳)
یعنی کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔ انہوں نے نیک عملوں کو کچھ اور عملوں سے جو بُرے تھے ملا دیا۔ انہوں نے اپنے ربّ سے یہ امید رکھی۔ کہ وہ ان کی توبہ قبول کرے گا۔ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ جو اس دنیا میں بطور اس کے اظلال کے پیدا ہوتے رہیں گے۔ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے تاکہ تو انہیں پاک کرے اور ان کی ترقی کے سامان پیدا کرے اور ان کے لئے دعائیں بھی کرتا رہ۔ کیونکہ تیری دعا ان کی تسکین کاموجب ہے اور اللہ تعالیٰ تیری دعائوں کو بہت سننے والا اور حالات کو جاننے والا ہے۔ ان آیات سے پہلے منافقوں کا ذکر ہے جن سے بظاہر کچھ نیک کام بھی سرزد ہوتے ہیں اور بہت سی منافقانہ حرکتیں بھی ان سے ہوتی رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ وہ بدیاں کرنے اور منافقانہ چالیں چلنے کے بعد اپنے دل میں ندامت کا احساس پیدا نہیں کرتے بلکہ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ (التوبہ:۱۰۱) وہ اصرار کے ساتھ اپنے نفاق پر قائم رہتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا معاملہ ان سے جداگانہ ہو گا اور ان کے وہ اعمال جو دنیا کی نگاہ میں بظاہر نیک ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ حاصل نہ کر سکیں گے ان سے ملتے جلتے کچھ اور لوگ بھی ہیں جو حقیقی مومن ہیں وہ بہت سے اچھے نیک اور پاکیزہ اعمال بجالاتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ہی ان سے بعض خطائیں بھی سر زد ہوتی ہیں غفلتیں بھی ہوتی ہیں ان سے بھول چوک بھی ہو جاتی ہے اور ان کے اعمال صالحہ کے ساتھ ساتھ ایسے اعمال بھی شامل رہتے ہیں جن کو خداتعالیٰ نے وَاٰخَرَسَیِّئًا کے الفاظ سے یاد کیا ہے لیکن چونکہ ان کے دل میں نفاق نہیں ہوتا بلکہ ان کے دلوں میں حقیقی ایمان پایا جاتا ہے۔ اس لئے بدی کے ارتکاب کے بعد ان کے دلوں میں احساس ندامت پیدا ہوتا ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ اگر وہ توبہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرے گا اور اسی امید، توقع اور یقین کی بناء پر جب بھی ان سے کوئی غلطی سر زد ہوتی ہے اور جب بھی وہ کسی گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں وہ اپنے ربّ کی طرف لوٹتیہیں، اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور توبہ کے ذریعہ اس ربّ غفور کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی توبہ کو قبول کرتا اور ان کے گناہوں کو معاف کر دیتا اور ان کی خطاؤں کو مغفرت کی چادر کے نیچے چھپا لیتا ہے۔
یہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ تھوڑے ہی لوگ ہوتے ہیں جنہیں کامل اور تام تزکیہ نفس حاصل ہوتا ہے۔ اور یہ بڑے پایہ کے اولیاء قطب اور غوث کہلاتے ہیں۔ لیکن نیکوں کی اکثریت ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو بشری کمزوری کے سبب اپنے اندر کچھ نہ کچھ خرابی رکھتے ہیں اور ان کے دین میں دنیا کی ملونی بھی ہوتی ہے۔ اس اکثریت کے متعلق ہی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ بے شک بندہ کمزور ہے بے شک یہ حقیقت ہے کہ ہم نے بندوں کے ساتھ شیطان بھی لگایا ہوا ہے جو انہیں ہر وقت ورغلاتا رہتا ہے اور باوجود ایمان کے وہ بعض دفعہ اس کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں اور اس کی بات کو مان لیتے ہیں۔ لیکن جونہی انہیں ہوش آتا ہے ان کے دل میں ندامت کا شدید احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی غلطی کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں وہ اپنے ربّ کے حضور جھکتے اور کہتے ہیں اے ہمارے ربّ! ہم تیرے بندے ہیں لیکن شیطان کے بہکانے میں آ گئے تھے اور ہم سے کچھ گناہ سرزد ہو گئے ہیں۔ ہم تجھ سے امید رکھتے ہیں کہ تو ہمارے ان گناہوں کو معاف کر دے گا اور پھر نئے سرے سے ہمیں عبودیت کے اس مقام پر کھڑا کر دے گا جس مقام کے لئے تو نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ گناہ کے متعلق یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب دل کے اندر شیطان کے وسوسہ ڈالنے کی وجہ سے غیراللہ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور غیراللہ کی محبت دنیا میں ہزاروں شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے کبھی بچوں کی محبت غلو اختیار کر جاتی ہے، کبھی اموال کی محبت اپنی حدود کے اندر نہیں رہتی، کبھی رشتہ داری کی پچ ہوتی ہے، کبھی قومی فخر نیکیوں کے رستہ میں حائل ہو جاتا ہے اور کبھی انسان اپنی بُری عادتوں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا یہ سب چیزیں ایک ایسی محبت سے تعلق رکھتی ہیں جو خداتعالیٰ کی محبت نہیں کہلاتی۔ بلکہ غیراللہ کی محبت کے نام سے اسے یاد کیا جا سکتا ہے اور یہ غیر اللہ کی محبت آہستہ آہستہ دلوں پر قبضہ کر لیتی ہے۔ پہلے ایک غلطی ہوتی ہے پھر دوسری غلطی پھر تیسری اسی طرح ایک کے بعد دوسری غلطی ان سے ہوتی رہتی ہے اور وہ دل جو خداتعالیٰ کی محبت کے لئے بنایا گیا تھا اور وہ دماغ جس میں خداتعالیٰ کی محبت کے سوا کسی اور کی محبت کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے تھی وہ غیراللہ کی محبت میں بُری طرح پھنس جاتا ہے اس طرح ان لوگوں کے دل و دماغ اور فطرت صحیح استقامت کے مقام سے ہٹ جاتی اور دور ہو جاتی ہے لیکن استقامت اور ثبات قدم، ایمان اور روحانی مدارج کے حصول کے لئے نہایت ضروری ہے۔ استقامت کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے عین محل اور مقام پر رکھنا گویا وضع الشی ء فی محلّہٖکا نام ہی استقامت ہے یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہیئت طبعی کا نام استقامت ہے یعنی جس شکل اور رنگ میں اور پھر جس طور پر اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو پیدا کیا ہے اگر وہ طبعی حالت پر قائم رہے تو کہا جائے گا یہ چیز استقامت رکھتی ہے یا یہ چیز مستقیم ہے لیکن جب وہ چیز اپنی طبیعت اور فطرت کے تقاضوں سے دور چلی جائے یا وہ انہیں پورا نہ کر رہی ہو تو وہ چیز استقامت سے ہٹ جاتی ہے اور اسے مستقیم نہیں کہا جا سکتا اور جب تک وہ چیز اپنی فطرت پر قائم نہ رہے یا وہ اپنی بناوٹ اور طبعی حالت کو قائم نہ رکھے۔ وہ اپنے اندر کمالات پیدا نہیں کر سکتی اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک حد تک درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ وہ جب پیدا ہوتی ہے کمال کے حصول کی قوتیں اس کے اندر موجود ہوتی ہیں لیکن اس میں کمال پایا نہیں جاتا۔ دنیا کی کسی چیز کو لے لو وہ ایک خاص زمانہ گزرنے کے بعد ایک خاص ماحول میں سے گزرنے کے بعد اور پھر ایک خاص تربیت کے بعد اپنے کمال کو پہنچتی ہے۔ درختوں کو ہی لے لو ایک درخت لگایا جاتا ہے تو اسے لگانے سے پہلے اس کیلئے زمین تیار کی جاتی ہے۔ اس درخت کے اندر اللہ تعالیٰ نے نشوونما کی قوتیں تو رکھ دی ہیں مگر جب تک ان قوتوں کو بروئے کار نہ لایا جائے وہ اپنے کمال کو نہیں پہنچ سکتا اور ان قوتوں کو بروئے کار لانے کے لئے ہمیں اس کے لئے زمین کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ پھر یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کوئی غیر چیز زمین کی اس قوت کو کھینچ کر نہ لے جائے۔ جسے اس درخت نے حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اچھا باغبان درخت کی جڑوں کے پاس سے ہمیشہ جڑی بوٹیاں اور گھاس نکالتا رہتا ہے اور نلائی کرتا رہتا ہے پھر اس درخت کے لئے ضروری ہے کہ اسے وقت کے اندر پانی دیا جائے اور اگر کوئی درخت زمین سے نشوونما حاصل کر چکا ہوتا ہے اور اب اس میں مزید طاقت باقی نہیں رہتی جو وہ اس درخت کو پہنچائے تو باہر سے کھاد ڈالی جاتی ہے تا وہ درخت اپنے کمال کو پہنچ جائے اسی طرح انسانی فطرت اسی وقت کمالات حاصل کرتی ہے اور کر سکتی ہے جب اس کا ماحول اور اس فطرت کا رکھنے والا اپنی توجہ کو اس طرف رکھے کہ جس رنگ میں میرے ربّ نے میری فطرت صحیحہ کو پیدا کیا ہے اسی رنگ میں میں اسے رکھوں اور جو چیزیں اور جو باتیں اللہ تعالیٰ نے فطرتِ صحیحہ کی نشوونما کے لئے ضروری قرار دی ہیں ان کا خیال رکھوں اور استقامت کے مقام سے پرے نہ ہٹوں بلکہ جو چیز ہے وہ اسی طرح رہے جس طرح وہ بنائی گئی ہے یعنی خداتعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے والی فطرت شیطانی وسوسوں کی طرف متوجہ نہ ہو اور وہ خداتعالیٰ کی ہر آواز پر لبیک کہتی رہے اور اس کے حضور ہمیشہ جھکی رہے۔ تب وہ فطرت جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا مظہر بنانے اور اسے عبودیت کا بلند مقام عطا کرنے کے لئے پیدا کیا ہے اپنے کمالات کو پہنچ سکتی ہے لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ اکثر لوگ بعض اوقات نیکی کے رستہ سے ہٹ جاتے ہیں اور وہ نیک اعمال کے ساتھ ساتھ کچھ بدیوں کے بھی مرتکب ہو جاتے ہیں۔ پس سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے مومن کے لئے نجات کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا جاتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں۔ ایسے مومن کے لئے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور رحمانیت سے یہ دروازہ کھولا ہے کہ جب بھی اس سے کوئی غلطی ہو وہ اس کا اقرار کرے اور پھر پختہ نیت کے ساتھ یہ عہد کرے کہ آئندہ وہ اس غلطی کا مرتکب نہیں ہو گا اور پھر پوری کوشش کرے کہ وہ مستقبل میں بھی ایسی غلطیوں سے بچتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر اس خلوصِ نیت کے ساتھ تم توبہ کرکے میرے سامنے آئو گے تو چونکہ میں غفور ہوں اس لئے تمہارے تمام گناہ معاف کر دوں گا اور جتنا اور جس قدر تم استقامت کے مقام سے ہٹ گئے تھے۔ میں تمہیں پھر اسی مقام کی طرف لوٹا کر لے آئوں گا کیونکہ جب گناہ معاف ہو گئے تو گناہ گار پوری طرح نیک بن گیا۔ گناہ نے اسے استقامت کے مقام سے پرے ہٹایا تھا۔ لیکن خداتعالیٰ نے اسے اٹھا کر پھر صحیح مقام پر کھڑا کر دیا۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات غفور اور تواب کی وجہ سے اور پھر انسان پر رحم کرتے ہوئے اس کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور وہ اپنے بندہ سے کہتا ہے اے میرے بندے! تم سے جب بھی کوئی غلطی ہو تم اس کا اعتراف کرتے ہوئے توبہ کرو پھر ندامت کا احساس دل میں پیدا کرو میرے حضور تضرع اور تذلل سے جھکو اور مجھ سے یہ امید رکھو۔ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْھِمْ کہ میں تمہاری توبہ قبول کروں گا۔
جب خداتعالیٰ کے لئے عَسٰی کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں تم یہ امید رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ کو قبول کرے گا یعنی یہ لفظ انسان کی امید پر دلالت کرتا ہے۔ پس عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْھِمْ خدا تعالیٰ کہتا ہے اگر تم اس ذہنیت اور اس نیت کے ساتھ میرے سامنے آئو گے تو میں تمہاری توبہ کو قبول کر لوں گا اور تمہیں صراط مستقیم پر لا کھڑا کروں گا۔ تمہاری جو فطری اور طبعی حالت ہے وہ تمہیں حاصل ہو جائے گی اور اس طرح تم ان بلندیوں اور کمالات کو حاصل کر سکو گے جن کے حصول کے لئے میں نے تمہیں پیدا کیا ہے لیکن بلندیوں کا حصول محض ترک گناہ یا گناہوں کے معاف کر دئیے جانے کی وجہ سے نہیں ہو سکتا۔ ترک معاصی اور چیز ہے اور اعمال صالحہ بجا لانا بالکل اور چیز ہے۔ پس ترک معاصی یا گناہوں کے معاف کر دئیے جانے کیوجہ سے انسان ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا وہ گنہ گار نہ رہا،عاصی نہ رہا اور یہ پہلا زینہ ہے روحانی ترقیات کا لیکن روحانی ترقیات کے حصول کے لئے عملاً نیک کاموں کا بجا لانا اور خداتعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنا ضروری ہے اسی طرح جہاں اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت میں اپنی صفات غفور، تواّب اور رحیم کو پیش کرکے انسان کو گناہوں کے بخش دینے کا یقین دلایا۔ وہاں اس کے ساتھ ہی فرمایاخُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تو ان کے اموال میں سے صدقہ لے اور ان دونوں آیات کو آگے پیچھے لانے سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ روحانی ترقیات کیلئے ترکِ معاصی کافی نہیں۔ اس لئے کہ مثلاً دنیا میں ہزاروں قسم کے جانور ایسے ہیں جن میں سے کسی کے متعلق بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ گنہ گار ہے۔ زمیندار اپنے گھروں میں بھیڑ بکریاں بھی رکھتے ہیں، گائے اور بیل بھی رکھتے ہیں، بھینسیں اور بھینسے بھی رکھتے ہیں اونٹ بھی رکھتے ہیں۔ غرض مختلف قسم کے جانور انکے پاس ہوتے ہیں۔ مگر کبھی کسی زمیندار نے باوجود اس کے کہ جانور گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے یہ نہیں کہا کہ میرا فلاں جانور (ان معنوں میں جن میں انسان کو گناہ گار کہا جاتا ہے) گناہ گار ہے یا فلاں جانور گنہ گار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کے لئے قانون ہی ایسا بنایا ہے کہ انہیں گناہ کرنے کی آزادی دی ہی نہیں۔ وہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے، کرتے ہیں گناہ نہیں کرتے۔ پس جہاں تک ترکِ معاصی کا سوال ہے یہ کمال ہر جانور کے اندر پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہتے اور نہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بہت بڑا اور بلند روحانی کمال رکھنے والے ہیں۔ کسی گائے یا بھینس کو یا کسی بکری اور بھیڑ کے لئے یہ نہیں کہا جاتا کہ اس میں بڑی روحانیت ہے کیونکہ اس سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا۔ پس اگر انسان صرف اسی مقام پر ٹھہر جائے کہ میں نے ساری عمر کوئی گناہ نہیں کیا تو وہ یہ دعوی تو کر سکتا ہے کہ میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں جہاں تک دنیا کے لاکھوں اور کروڑوں اونٹ گدھے بیل گھوڑے بھیڑ اور بکریاں اور دوسرے جانور پہنچے ہوئے ہیں۔ اس سے زیادہ دعوی کا وہ سزا وار نہیں۔ غرض روحانی مدارج کے حصول کے لئے گناہوں کو ترک کرنے کے علاوہ انسان کو بہت سے نیک کام بھی کرنے پڑتے ہیں اور ان نیک اعمال کو بجا لانے کے بعد ہی انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گناہوں کی بخشش کا ذکر کرنے کے ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ اے رسولﷺ تو ان مومنوں کے اموال میں سے صدقہ لے اموال مال کی جمع ہے عام طور پر اس کے معنی روپیہ اور پیسہ کے کئے جاتے ہیں۔ لیکن عربی زبان میں اس کے معنی ملکیت یعنی ہر اس چیز کے ہوتے ہیں جو کسی کے ملک میں ہو۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اسلام کو دنیا میں اس لئے قائم کیا ہے کہ انسان اپنے مقصود کو حاصل کر لے اور اپنے محبوب اور مطلوب کے ساتھ اس کا رشتہ پختگی کے ساتھ قائم ہو جائے اور وہ خداتعالیٰ کی رضا کو پانے والا اور حاصل کرنے والا ہو اور اس کے لئے اے رسولﷺ ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم مومنوں کے لئے ہمیشہ قربانی کے منصوبے بناتے رہا کرو۔ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً صدقہ اس مال کو کہتے ہیں جو خداتعالیٰ کی راہ میں اس نیت اور اس امید کے ساتھ خرچ کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے گا اور اس کی وجہ سے قرب کی راہیں اس پر کھول دے گا۔ پس فرمایا۔ اے رسولﷺ تم ان مومنوں کے اموال میں سے صدقہ لو یعنی انکی روحانی اور دنیوی ترقیات کے لئے ہمیشہ قربانی کے منصوبے بناتے رہا کرو تُزَکِّیْھِمْ تاکہ یہ بڑھیں اور ان کے اندر طاقت قوت اور کثرت پیدا ہو۔ نبی اکرمﷺ خداتعالیٰ کے اس حکم کے ماتحت حسب ضرورت اور ان حالات میں جو اللہ تعالیٰ انسان اور اسلام کی ترقی کے لئے پیدا کرتا تھا مسلمانوں کے لئے قربانی کی ایک سکیم اور منصوبہ تیار کرتے تھے اور انہیں بتایا کرتے تھے کہ اگر ہم اس کام کو مل کر کریں گے تو اسلام کو قوت اور طاقت حاصل ہو گی اور ہمیں اس کے نتیجہ میں روحانی مدارج ملیں گے۔ پس جنگوں کے حالات جو پیدا ہوئے یا اس کے علاوہ جو دوسرے حالات خداتعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے لئے پیدا کئے ہر بار رسول کریمﷺ نے قربانیوں کا ایک منصوبہ بنایااور مسلمانوں کو کہا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کو تمہارے اموال کی ضرورت ہے یا اس وقت اللہ تعالیٰ کو تمہارے اوقات کی ضرورت ہے یا اس وقت اللہ تعالیٰ کو تمہاری جانوں کی ضرورت ہے آئو آگے بڑھو اور خداتعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال، اپنے اوقات اور اپنی جانیں پیش کرو۔ تا تم اس مقصد کو حاصل کر سکو۔ جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیاہے اور جس کے حصول میں مدد دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام جیسے خوبصورت، حسین، کامل اور مکمل مذہب کو دنیا میں آنحضرتﷺ کے ذریعہ بھیجاہے۔
خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً میںخُذْ امر کا صیغہ ہے اور اس کے پہلے مخاطب خود آنحضرتﷺ ہیں لیکن ہم یقین رکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لئے ایک زندہ وجود ہیں اور وہ اس طرح کہ خداتعالیٰ قیامت تک اپنی حکمت بالغہ سے آپؐ کے ایسے اظلال پیدا کرتا رہے گا۔ (جیسا کہ وہ آج تک پیدا کرتا چلا آیا ہے) جو آپؐ کی کامل اطاعت، کامل محبت اور آپؐ میں کامل فنا ہونے کی وجہ سے گویا ایک طرح آپ کا ہی وجود بن جاتے ہیں۔ پس اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اظلال کو بھی جو آئندہ پیدا ہونے والے تھے (اور ان میں مجد دین، اولیاء امت اور خلفائے راشدین بھی شامل ہیں اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ اُمت مسلمہ میں ہر وقت ایسے لوگ موجود رہتے ہیں جو آپؐ کی کامل متابعت اور فنا فی الرسول ہونے کی وجہ سے آپؐ کا ظل ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی وہ آپؐ کے ظل ہیں) مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تم اُمت مسلمہ کی ترقی کے لئے اور مومنوں کو روحانی بلندیوں تک پہنچانے کے لئے قربانیوں اور ایثار کے منصوبے تیار کرتے رہو اور ان کی ملکیتوں میں سے ایک حصہ لے کر خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا ہمیشہ انتظام کرتے رہو تا وہ ان روحانی مدارج تک پہنچتے رہیں جن تک وہ اسلام کی اتباع اور آنحضرتﷺ کی محبت کے نتیجہ میں پہنچ سکتے ہیں۔
پھر خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً میں ایک بشارت بھی ہے اور وہ یہ کہ اسلام نے آزادیئِ ضمیر پر بڑا زور دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے اور بار بار ہمیں فرمایا ہے کہ جبر سے حاصل کردہ اموال یا مجبور ہو کر دی جانے والی قربانیاں خداتعالیٰ کی نظر میں کوئی قدر نہیں رکھتیں۔ نہ وہ انہیں قبول کرتا ہے، اور نہ ان کے نتیجہ میں روحانی فیوض حاصل ہوتے ہیں۔ پس اس آیت میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور پھر ایک حد تک آپؐ کے اظلال کو بھی ایسی جماعتیں عطا کرتا رہے گا جو بشاشت اور خوشی کے ساتھ خداتعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گی اور اس بشارت کو ہم ہر صدی اور ہر زمانہ میں پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ہماری جماعت کو ہی دیکھ لو۔ اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قائم کیا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ظل تھے۔ اسی لئے آپؑ نے فرمایا ہے جو شخص مجھ میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں فرق کرتا ہے اس نے دراصل مجھے پہچانا ہی نہیں۔ (خطبہ الہامیہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۲۵۹)کیونکہ جس طرح ایک شخص کی تصویر لی جاتی ہے یا کسی تصویر کا چربہ اتارا جاتا ہے، اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان تمام صفات کو اپنے اندر سمیٹ لیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھیں اور اپنا سارا وجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں کلیتاً فنا کر دیا تھا اور کوئی بینا آنکھ ان دو وجودوں میں فرق نہیں کر سکتی۔ بالکل اسی طرح جس طرح وہ آگ اور اس لوہے میں فرق نہیں کر سکتی جو آگ میں پڑ کر خود آگ بن جاتا ہے حالانکہ وہ آگ نہیں ہوتا لوہا ہی ہوتا ہے لیکن اس میں آگ کی تمام خوبیاں اور صفات پیدا ہو جاتے ہیں اور دیکھنے والی آنکھ اسے آگ کا شعلہ ہی خیال کرتی ہے لیکن حقیقت اس کے سوا ہوتی ہے وہ آگ کا شعلہ نہیں لوہے کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے بالکل اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے نفس پر کامل اور مکمل فنا طاری کی اور اپنے وجود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں مدغم کر دیا۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل ظل ہونے کی وجہ سے خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً کے ماتحت آپ نے بھی جماعت کے لئے مالی قربانیوں کے منصوبے تیار کئے۔ آپ نے بھی جماعت سے قربانیاں لیں اور اس کی ایسے رنگ میں تربیت کی کہ وہ ہر موقع پر بشاشت کے ساتھ قربانیاں دیتی چلی آئی۔ پھر آپؐ کے وصال کے بعد جو لوگ مقامِ خلافت پر فائز ہوئے ان کے زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس بشارت کو نمایاں طور پر پورا کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے زمانہ کو دیکھ لو آپ نے مختلف اوقات میں باوجود اس کے کہ جماعت پہلے مالی قربانیاں پیش کر رہی تھی۔ اس کے سامنے کئی نئی سکیمیں رکھیں اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں پورا کرے اور ہم نے دیکھا کہ جماعت بشاشت اور خوشی کے ساتھ چھلانگیں لگاتی ہوئی آپ کی طرف دوڑی۔ اور ہنستے ہوئے اس نے اپنے مزید اموال خداتعالیٰ کی راہ میں پیش کر دئیے۔ وصیت کا چندہ دینے والوں نے تحریک جدید کے چندہ میں بھی بشاشت اور خوشی کے ساتھ حصہ لیا۔ تحریک جدید کا چندہ دینے والوںنے وقف جدید کے چندوں میں بھی خوشی اور بشاشت کے ساتھ حصہ لیا پھر تحریک جدید اور وقف جدید کے سوا دوسرے لازمی چندے دینے والوں نے ان چندوں میں بھی بڑی بشاشت سے حصہ لیا جو محض وقتی نوعیت کے تھے۔ مثلاً باہر کے ملکوں میں مساجد کی تعمیر ہے۔ مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں ہماری بہنوں نے ہی دنیا کو بڑا اچھا نمونہ دکھایا ہے اور رہتی دنیا تک ایک مومن کے دل میں ان کا نام بڑے فخر کے ساتھ یاد رہے گا اور مومنوں کی دعائیں انہیں ہمیشہ حاصل ہوتی رہیں گی ابھی پچھلے جمعہ میں نے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ اگرچہ جماعت قربانیوں میں ہر سال پہلے کی نسبت ترقی کرتی ہے لیکن وعدے لکھوانے میں بعض دفعہ سستی کرتی ہے اور اس طرح نہ صرف خود نقصان اٹھاتی ہے بلکہ مرکز کو بھی پریشان کرتی ہے۔ چنانچہ اس سال بھی اس نے تحریک جدید کے وعدے لکھوانے میں سستی کی ہے جس سے مرکز پریشانی کا شکار ہو رہا ہے۔ میں نے جماعت سے کہا تھا کہ وہ اس طرف فوری توجہ دے وعدوں کی آخری میعاد جلد ختم ہو رہی تھی لیکن میں نے کہا تھا کہ میں اہل ربوہ کو وعدوں کے لکھوانے کے لئے مزید مہلت نہیں دوں گا۔ باہر چونکہ میری آواز دیر میں پہنچے گی اس لئے باہر کی جماعتوں کو میں ایک ہفتہ کی مہلت دوں گا۔ آج جب مجھے یہ رپورٹ ملی کہ اہل ربوہ نے ان چند دنوں میں اپنے تحریک جدید کے وعدے پچھلے سال سے کچھ اوپر کر دئیے ہیں اور ابھی وعدے لکھوائے جا رہے ہیں تو میرے دل میں خداتعالیٰ کی بڑی حمد پیدا ہوئی انشاء اللہ امید ہے کہ اہل ربوہ ابھی وعدوں کے سلسلہ میں اور آگے بڑھ جائیں گے اسی طرح راولپنڈی سے بھی آج صبح ہی رپورٹ ملی ہے کہ وہاں کی جماعت نے پچھلے سال سے زائد رقم کے وعدے بھجوا دئیے ہیں اور ابھی وعدے لئے جا رہے ہیں تا پچھلے سال کی نسبت ان کی قربانیاں زیادہ ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے کی نسبت زیادہ حاصل کر سکیں۔ اس چیز کو دیکھ کر دل میں اللہ تعالیٰ کی بڑی ہی حمد پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ہم پر یہ فضل کیا کہ ہم پہلے کی نسبت اس کی راہ میں زیادہ اموال خرچ کرنے کی توفیق پا رہے ہیں بلکہ وہ ان بشارتوں کو جو اس نے چودہ سَو سال قبل سے دے رکھی تھیں۔ انہیں ہماری زندگی میں ہی پورا کر رہا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی حمد کی جائے وہ کم ہے۔
پھر اس آیت میں اللہ تعالیٰ آنحضرتﷺ ( اور ان کے ان اظلال کو بھی جو آپؐ کے بعد ہونے والے تھے) مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ قربانی کرنے والوں کے لئے دعا بھی کر کیونکہ تیری دعا ان کے لئے تسکین کا موجب ہو گی میں سمجھتا ہوں کہ مومنوں کے لئے اس میں بہت بڑی بشارت ہے اور وہ بشارت یہ ہے۔ کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دو گے۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی وہ چیزیں پیش کرو گے جن کے تم حقیقی مالک ہو اور خداتعالیٰ کی عطا میں سے وہ تمہارے لئے ہی مخصوص کی گئی ہیں اور پھر تم انہیں بڑی خوشی اور بشاشت سے پیش کرو گے۔ تو خداتعالیٰ تمہاری ان قربانیوں کو قبول کر لے گا اور نہ صرف وہ تمہاری قربانیوں کو قبول کرے گا بلکہ اس نے تمہارے لئے دعائوں کا ہمیشہ بہنے والا اور کبھی بھی خشک نہ ہونے والا دریا جاری کر دیا ہے کیونکہ اس نے آنحضرتﷺ کو حکم دیا ہے۔ کہ تم مومنوں کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کا صرف بدلہ ہی نہ دے بلکہ اپنی رحمانیت کی صفت کے ماتحت ان کے ثواب میں ہر آن اور ہر لحظہ زیادتی کرتا چلا جائے اور اپنے قرب کی راہیں ان پر ہر وقت کھولتا رہے اور ان دعائوں کے نتیجہ میں وہ انہیں بلند سے بلند تر مقام کی طرف لے جاتا چلا جائے۔ پس یہ کتنی بڑی بشارت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے اس نے خود فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں پیش کرو گے تو وہ نہ صرف انہیں قبول کرے گا بلکہ اس نے آنحضرتﷺ کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کریں۔ اللہ آپ کی دعائوں کو قبول کرکے اپنی رحمانیت کے تحت ہر وقت ان کے ثواب میں بڑھوتی کرتا چلا جائے گا۔
پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ قیامت تک آنحضرتﷺ کے اظلال نے بھی ہمیشہ اور ہر وقت موجود رہنا ہے اس لئے ان کو بھی یہ حکم ہے۔ کہ تم جس جماعت پر مقرر کئے گئے ہو۔ آنحضرتﷺ کا ظل ہونے کی وجہ سے ان کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہو۔ چنانچہ اس حکم کے ماتحت رسول کریمﷺ کے بعد خلفائے راشدین مجددین اور اولیائے اُمت اپنے لئے اتنی دعائیں نہ کرتے تھے۔ جتنی دعائیں انہوں نے اُمت مسلمہ کے لئے کیں اور اب جماعت احمدیہ کے خلفاء بھی اپنے لئے اتنی دعائیں نہیں کرتے (یا نہیں کرتے رہے) جتنی دعائیں وہ احمدی بھائیوں کے لئے کرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں اور اس امید اور یقین سے دعا کرتے اور کرتے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ان دعائوں کے نتیجہ میں مومنوں کے دلوں میں تسکین پیدا کرے گا پھر ہمارا دل خداتعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری حقیر دعائوں کے نتیجہ میں واقعہ میں مومنوں کے دلوں میں تسکین پیدا ہو جاتی ہے اور جماعت کے افراد کے سینکڑوں خطوط اس بات کی شہادت دے رہے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْکو ہر آن پورا کر رہا ہے۔ کبھی وہ ہماری دعائوں کو قبول کرکے مومنوں کے دلوں میں تسکین کے سامان پیدا کرتا ہے اور کبھی وہ مومنوں کو قوت برداشت عطا کرکے ان کیلئے تسکین کے سامان مہیا کرتا ہے بہرحال وہ ان کے دلوں میں تسکین کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔
پس ان آیات میں جن باتوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی ہے وہ باتیں ہمیں ہر وقت یاد رکھنی چاہئیں۔ پہلی بات جو خداتعالیٰ نے ہمیں ان آیات میں بتائی ہے یہ ہے کہ مومن اور منافق میں یہ فرق ہے کہ منافق بھی غلطی کرتا ہے اور مومن بھی غلطی کرتا ہے لیکن منافق غلطی کرتا ہے تو اس پر اصرار کرتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِوہ نفاق کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اس کے لئے ان کے دل میں ندامت کا احساس پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے مقابلہ میں جب مومن کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل میں ندامت پیدا ہوتی ہے۔ اور وہ توبہ کے ذریعہ اپنی غلطی معاف کروانے کی کوشش کرتا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ اس کو اس معصوم بچے کی طرح بنا دیتا ہے جو ابھی ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ کیونکہ رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ توبہ کرنے والا توبہ کرنے کے بعد (اگر اس کی توبہ قبول ہو جائے) ایسا ہی ہے جیسے اس نے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔ اس سے کوئی غلطی سرزد ہی نہیں ہوئی (الدر المنثور جلد ۱ صفحہ ۲۶۱)پس وہ شخص جو توبہ کر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے وہ ویسا ہی معصوم بن جاتا ہے جیسا کہ ایک نوزائیدہ بچہ۔ غرض مومن کو توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھٹکھٹاتے رہنا چاہئے اور خداتعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مومن کے دل میں رجاء ہوتی ہے وہ یہ امید اور توقع رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول کرے گا۔
دوسرے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ہمیں یہ بتا یا ہے کہ محض ترکِ معاصی کافی نہیں اگر تم میری رضا کو حاصل کرنا چاہتے ہو یا تمہیں میرے قرب کی تلاش ہے۔ تو تمہیں نیکی کی راہیں اختیار کرنا پڑیں گی اور خلوص نیت کے ساتھ اعمالِ صالحہ بجا لانے پڑیں گے اور یہی ایک طریق ہے جس کے ذریعہ تم میری بلندیوں کی طرف پرواز کرنے کے قابل ہو سکتے ہو۔
پھر ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بشارت بھی دی ہے۔ کہ اگر تم نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ (نفاق کے ساتھ نہیں) میرے قائم کردہ سلسلہ اور جماعت میں رہتے ہوئے ان تحریکوں میں جو میں جاری کروں، شامل ہو گے تو نہ صرف میری طرف سے تمہارے دلوں میں بشاشت پیدا کی جائے گی اور تمہارے لئے یہ قربانیاں دوبھر محسوس نہیں ہوں گی۔ بلکہ تم بڑی بشاشت کے ساتھ اور ہنسی خوشی ان قربانیوں کو کرو گے اور اس کے بدلہ میں تمہیں دو چیزیں ملیں گی۔ ایک تو میں تمہاری قربانیوں کو قبول کرکے اپنی رضا تمہیں دوں گا۔ دوسرے میں نے اپنے بعض بندوں کو تمہارے لئے دعا کرنے کے لئے مقرر کر چھوڑا ہے میں ان کی دعا کو قبول کرکے اپنی رضا کو تمہارے لئے ہر دم اور ہر لحظہ بڑھاتا چلا جائوں گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس تعلیم پر عمل کرنے اور اسے یاد کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ان آیات قرآنیہ میں بیان کی گئی ہے اور پھر سارے قرآن کریم پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔ اگر وہ لوگ تعداد میں بہت تھوڑے ہیں جو کلی طور پر تزکیہ نفس حاصل کرتے ہیں اور کلی طور پر اپنے وجود کو فنا کر دیتے ہیں لیکن ہمیں دعا کرتے رہنا چاہئے اور پھر یہ کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان بندوں میں ہمیں بھی شامل کرلے۔ وباللّٰہ التوفیق
)روزنامہ الفضل ربوہ ۳۰؍ مارچ ۱۹۶۶ء صفحہ ۲ تا ۵(
٭…٭…٭



















خطبہ جمعہ ۴؍ مارچ ۱۹۶۶ء

حضور ناسازی طبع کے باعث نماز جمعہ کے لئے تشریف نہ لا سکے۔
(الفضل ۶؍مارچ ۱۹۶۶ء)



















اللہ تعالیٰ کو جو چیزیں پسند ہیں انہیں اختیار کرو اور اُسے جو امور ناپسند ہیں ان سے بچنے کی کوشش کرو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱ ؍مارچ ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ ہمیشہ قول احسن کیا کرو۔
٭ جنتی بننے کیلئے نیک اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے بھی مورد بنیں۔
٭ خدا اور اُس کے مامور کے ساتھ کئے گئے تمام وعدے پورے کرنا ہمارا فرض ہے۔
٭ شیطان انسان کے بُرے اعمال کو اسے خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔
٭ موصی صاحبان مالی قربانی کے علاوہ تقویٰ کی دیگر راہوں کو بھی اختیار کرنے کی کوشش کریں۔



تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا ہے:۔
اللہ تعالیٰ سورہ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے۔
وَقُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ ط اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا۔ (بنی اسرائیل :۵۴)
یعنی ان لوگوں کو جو خدائے واحد کی خلوص اور تذلل کے ساتھ اطاعت کرنے والے اور صفاتِ الٰہیہ کے مظہر بننے کے خواہشمند ہیں میرا پیغام پہنچا دو کہ وہ وہی بات کہا کریں جو سب سے زیادہ اچھی ہے اب کسی بات کا اچھا اور بُرا ہونا مختلف پہلوئوں سے ہو سکتا ہے۔ بعض باتیں بعض لوگوں کے نزدیک اچھی ہوتی ہیں لیکن وہی باتیں بعض دوسروں کے نزدیک بُری ہو سکتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ’’عبادی‘‘ میں بندوں کو اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ اور اس طرح اس سوال کا جو یہاں پیدا ہونا تھا خود ہی جواب دے دیا ہے اور وہ جواب یہ ہے جو میری نگاہ میں بھی احسن ہو اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کون سی چیزیں احسن ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں وہیں چیزیں احسن ہیں جو اسے اچھی لگتی ہیں جنہیں وہ پسند کرتا ہے۔ جن کو دیکھتے ہوئے اور اپنے بندوں پر رحم اور فضل کرتے ہوئے وہ اپنی قرب کی راہیں اور اپنی رضا کے طریق انہیں سمجھاتاہے اور ثواب کے دروازے ان پر کھولتا ہے۔ پس یہی وہ چیزیں ہیں جو خداتعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ ہیں۔ اور ان کا ذکر ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے اور قرآن کریم میں ہی مل سکتا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ تمہاری زبان تمہیں دوزخ کی طرف بھی لے جا سکتی ہے اور تمہاری زبان تمہیں میری رضا کی جنت کی طرف بھی لے جا سکتی ہے۔ اس لئے تم اپنے قول اپنی باتوں اور اپنی نگاہ پر قابو رکھو اور اپنی زبان کو آزادنہ چھوڑو بلکہ اگر تم میرے بندے بننا چاہتے ہو اگر تم میری اطاعت تذلل کے ساتھ کرنا چاہتے ہو، اگر تم میری وحدانیت کے قیام کی طرف متوجہ ہو، اگر تم میری صفات کے مظہر بننا چاہتے ہو، تو اپنی زبان پر وہی باتیں لائو جن کے زبان پر لانے کا قرآن کریم نے ارشاد فرمایا ہے۔ قرآن کریم ایسی باتوں سے جو زبان پر لانی مناسب ہیں، بھرا پڑا ہے میں اس وقت ان کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ ہاں مثال کے طور پر یہ ضرور بیان کروں گا کہ مثلاً قرآن کریم نے فرمایا ہے یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ(آل عمران:۱۰۵) یعنی میرے بندے معروف کا حکم دیتے ہیں نیز قرآن کریم فرماتا ہے کہ میرے بندے قول صادق پر ہی نہیں قول سدید پر کار بند ہوتے ہیں (الاحزاب: ۷۱) اور اس قسم کی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں باتیں قرآن کریم میں ہیں جن کے متعلق خداتعالیٰ کہتا ہے تم اس طرح کہو اور بہت سی ایسی باتیں بھی ہیں جن کے متعلق وہ کہتا ہے ایسا نہ کہو کیونکہ یہ باتیں شیطان اور اس کی ذریت ہی کہا کرتی ہے اللہ تعالیٰ کے بندے ایسی باتیں نہیں کہا کرتے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کے بعد ایک چھوٹے سے فقرہ میں نفی والے حصہ کو بڑے حسین پیرایہ میں بیان کر دیا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتاہے۔
اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْایک شیطان تو معروف ہستی ہے یعنی ایک نظر نہ آنے والا وجود جو دلوں میں وسوسہ پیدا کرکے انسانوں کو خدا سے دور لے جاتا ہے انہیں غیراللہ کی طرف بلاتا ہے اور ایک قسم شیطان کی وہ ہے جس کی ذریت انسان کی شکل میں دنیا میں بستی ہے اور شیطان کے معنی ہیں حسد اور تعصب کی آگ میں جلنے والا اور اس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ سے سر کشی کرنے والا۔ اپنی حدود سے آگے بڑھ جانے والا اور اس طرح پر نہ صرف خود حق سے دور ہو جانے والا بلکہ لوگوں کو حق سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا اور یہاں اللہ تعالیٰ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ کہہ کر انسان کو ہدایت کرتا ہے کہ اس بات کا خیال رکھنا کہ ہمارا حکم ہے۔
قولِ احسن کہا کرو اس حکم کے راستہ میں کچھ وجود روک بننے کی کوشش کریں گے اور وہ اس طرح کہ وہ حسد یا تعصب سے کام لیتے ہوئے سر کشی عدم اطاعت اور بغاوت اختیار کریں گے اور حق سے دور ہو جائیں گے، اور ساتھ ہی یہ کوشش بھی کریں گے کہ تم بھی حق سے دور ہو جائو۔ اس طرح ہمیں بتایا کہ جو قول حسد کی وجہ سے کہا جاتا ہے وہ خداتعالیٰ کے نزدیک احسن نہیں، اسی طرح وہ بات جو تعصب کی پیداوار ہو وہ بھی خداتعالیٰ کی نظر میں احسن نہیں۔ تعصب کے نتیجہ میں کہی جانے والی باتیں دو قسم کی ہوا کرتی ہیں کیونکہ تعصب بھی دو قسم کا ہوتا ہے ایک وہ تعصب ہوتا ہے جو دوسرے کے خلاف ہوتا ہے اور اس وقت انسان تعصب کے نتیجہ میں دروغ گوئی کر رہا ہوتا ہے۔ دوسرے پر جھوٹا الزام لگا رہا ہوتا ہے جو حقوق اس شخص کو حاصل ہوتے ہیں ان کا انکار ہوتا ہے۔ جس مقام پر اسے رکھنا چاہئے۔ وہ عمل سے بھی اور زبان سے بھی کوشش کر رہا ہوتا ہے وہ مقام اسے حاصل نہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان حسد پیدا کرتا ہے وہ تعصب پیدا کرکے بعض ایسی باتیں تمہارے منہ سے نکلوانے کی کوشش کرتا ہے جو میرے نزدیک احسن قول نہیں اس لئے تمہیں شیطان کے پیدا کردہ وساوس سے بچتے رہنا چاہئے۔
یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ۔ نَزَغَ یَنْزَغُ کے ایک معنی غیبت کرنے کے ہیں۔ دوسرے معنی بدگوئی کے ہیں اور تیسرے معنی ایسی باتیں کرنے کے ہیں جن کی وجہ سے بھائی بھائی کے درمیان جھگڑا پیدا ہو جائے، تفرقہ اور بگاڑ پیدا ہو جائے۔ پھر اس کے معنی ایسی باتیں کرنے کے بھی ہیں جن کی وجہ سے ایک کو دوسرے کے خلاف بر انگیختہ کیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ شیطان تمہیں میرے اس حکم سے کہ تم قولِ احسن کہا کرو، پرے ہٹانے کی کوشش کرے گا۔ وہ شیطان جو حسد اور تعصب کی آگ میں جلنے والا ہے۔ وہ شیطان جو سر کشی اور تمرد کی راہ کو اختیار کرنے والا ہے۔ وہ شیطان جو خود حق سے دور رہنے والا ہے اور جس کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے بھی حق سے دور ہو جائیں وہ غیبت اور بد گوئی کی راہ سے بھائی بھائی کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرے گا اور تمہیں اس بات پر اُکسائے گا کہ تم بھی غیبت کرو، تم بھی بدگوئی کو اختیار کر لو، تم بھی امن سکون اور آشتی کی باتیں کرنے کی بجائے بعض کو بعض کے خلاف بھڑکانے اور ایک کو دوسرے کے خلاف برانگیختہ کرنے کی کوشش کیا کرو اور فساد اور فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ شیطان پوری کوشش کرے گا کہ تم جادہئِ صداقت سے پرے ہٹ جائو اور وہ تمہیں حق سے دور کر دے لیکن ہم یَنْزَغُ بَیْنَھُمْکے مختصر الفاظ میں شیطانی حربوں کا ذکر کھول کر بیان کر دیتے ہیں تا تم ان پر نہ چلو تم حسد نہ کرو اور نہ تم کسی پر یا کسی کے خلاف تعصب کی راہ کو اختیار کرو عدم اطاعت اور بغاوت کے بول نہ بولو، سر کشی کی باتیں نہ کرو نہ تم خلاف حق کچھ کہو اور نہ کسی کو خلاف حق کہنے کی ترغیب دو اگر تم ایسا کرو گے تو تم شیطان کے حملوں سے بچ جائو گے اور اگر تم حقیقتاً شیطان کے حملوں سے بچ گئے تو پھر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی تمہارے اقوال اچھے پسندیدہ اور مرغوب ہوں گے اور تم اس کی نگاہ میں بھی اس کے بندے بن جائو گے۔
پھر آگے فرمایا۔ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
یعنی شیطان جس کی صفات ہم نے اوپر بیان کی ہیں وہ انسان کے لئے ایسا دشمن ہے جو مبین ہے انسان ایک تو اس مخلوق کو کہتے ہیں جو آدم علیہ السلام کی ذریت ہے لیکن عربی زبان میں اس کے معنی اس ہستی کے ہیں جو اکیلے زندگی بسر نہ کر سکے بلکہ اس کے دل میں دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات پیدا کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہو۔ اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہو کہ وہ ہم جنس لوگوں سے اُنس رکھے اپنے ہم جنس انسانوں کے ساتھ اُلفت اور محبت قائم کرنے والی ہستی اور وہ ہستی جو دوسری طرف اپنے ربّ کے ساتھ بھی تعلق رکھنے کی خواہش رکھتی ہے اس کے اندر یہ ودیعت کیا گیا ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کے ساتھ تعلق قائم کرے اور اس کی رضا کو حاصل کرے انسان کہلاتی ہے۔ پس ان دو قسم کے قرب اور تعلق (ایک طرف انسان سے محبت اور دوسری طرف اپنے خالق و مالک سے تعلق) رکھنے والی ہستی کو ہم انسان کہتے ہیں اور اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ۔ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ حالانکہ یہاں ضمیر بھی استعمال کی جا سکتی تھی اور کہا جا سکتا تھا کہ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لَھُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا۔ لیکن یہاں ضمیر استعمال نہیں کی گئی نہ عباد کا لفظ دہرایا گیا بلکہ انسان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور اس میں یہ حکمت ہے کہ انسان دو طرفہ تعلق قائم کرنا چاہتا ہے ایک طرف تو وہ اپنے بھائی انسان کے ساتھ تعلق قائم رکھنا چاہتا ہے اور دوسری طرف اپنے خالق ربّ کے ساتھ تعلق جوڑناچاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسان کو انسان کہا جاتا ہے۔ بہر کیف یہاں فرمایا شیطان انسان کا دشمن مبین ہے اور مبین کے لفظ کے معنی اُردو میں کھلے کھلے کے کئے جاتے ہیں جو درست ہیں۔ چنانچہ کہا جاتا ہے ابان الشی اتضح فھو مبین (المنجد) پس اس حصہ آیت کے معنی ہوں گے۔ شیطان انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے لیکن عربی زبان میں اس کے اور معانی بھی ہیں مثلاً کہتے ہیں ابان الشی اوضحہ (المنجد) یعنی جب کسی شی کے متعلق ’’ابان‘‘ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے معنی ہوں گے اسے واضح کر دیا اور شیطان جب انسان پر حملہ کرتا ہے تو چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی ہے اس لئے شیطان اس کی عقل کو چکر دینا چاہتا ہے اور اس کے سامنے بعض بُرائیوں کو وضاحت سے خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے کہ تمہیں ان پر عمل کرنا چاہئے۔ حالانکہ وہ چیزیں خداتعالیٰ سے دور لے جانے والی ہوتی ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ بھی اس نے یہی سلوک کیا تھا اور اس نے کہا تھا اگر تم یہ کام کرو گے تو تم کو ابدی جنت مل جائے گی۔ گویا اس طرح اس نے بظاہر معقول اور روحانی دلیل دے کر آپ کو خداتعالیٰ کے رستہ سے ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ پس ان معنوں کے لحاظ سے اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا کے یہ معنی ہوں گے کہ شیطان انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے اور وہ اپنی ان باتوں کو جو خداتعالیٰ سے دور لے جانے والی ہیں ایسی وضاحت سے بیان کرتا ہے کہ انسانی عقل انہیں صحیح سمجھنے لگ جاتی ہے اور اس میں وہ بعض اوقات کامیاب ہو جاتا ہے کیونکہ انسان عقل کا جہاں صحیح استعمال کرتا ہے وہاں بسا اوقات وہ اس کا غلط استعمال بھی کرتا ہے پھر ابان الشیٔی کے ایک معنی قطعہ و فصلہ (المنجد) کے بھی ہیں یعنی اسے قطع کر دیا۔ اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ اس لحاظ سے اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا کے معنی ہوں گے شیطان انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے وہ انسان کے دو طرفہ تعلقات (یعنی ایک طرف اس تعلق کو جو انسان کا انسان سے ہوتا ہے اور دوسری طرف اس تعلق کو جو اس کا خداتعالیٰ سے ہوتا ہے) کو قطع کرنے والا ہے اور اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ انسانوں کے درمیان باہم جھگڑا لڑائی فتنہ اور فساد پیدا ہو۔ کبھی تو وہ مذہب کے نام پر انسانوں کے خون بہا دیتا ہے اور کبھی وہ دہریت کی آواز بلند کرکے انسانی جانیں ضائع کرنے کی کوشش کرتا ہے اور فتنہ و فساد پیدا کرتا ہے اور شیطان اس مخفی وجود کا نام بھی ہے جو انسان کے اندر وساوس پیدا کرکے اسے حق سے دور کر دیتا ہے اور اس سے مراد وہ لوگ اور وہ قومیں بھی ہیں جو شیطان کی ذریت اور اس کے ساتھ ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ شیطان کے جن حربوں کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ ان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تمہارے ان تعلقات پر ضرب لگتی ہے جو تمہارے آپس کے ہوں یا خداتعالیٰ کے ساتھ ہوں۔ پس شیطان کا حملہ بنیادی صداقتوں پر ہوتا ہے نہ وہ اس دنیا میں امن چاہتا ہے اور نہ امن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور نہ اخروی زندگی کے متعلق صلاح کا خواہش مند ہے بلکہ وہ ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ تمہارے اپنے ربّ سے بھی تعلقات استوار اور مستحکم نہ ہوں۔ تمہارا خداتعالیٰ سے اتنا مضبوط رشتہ نہ ہوجائے کہ تم اُخروی زندگی میں خداتعالیٰ کی رضا کی راہوں پر چلتے ہوئے ایک ابدی جنت کے انعام کے وارث بنو وہ تمہارے دونوں تعلقات کو قطع کرتا ہے۔ پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے شیطان تمہارا دشمن ہے اور وہ تمہارے اور تمہارے ربّ کے درمیان جو تعلقات ہیں انہیں ہمیشہ قطع کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے وہ تمہارے باہمی تعلقات کو بھی بگاڑتا ہے اور اس طرح انسان کو انسان سے علیحدہ کر دیتا ہے۔
اس آیت کے بعد دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِکُمْ (بنی اسرائیل:۵۵) یعنی تم ہمارے ان احکام کی بظاہر پابندی کرنے کے بعد جو ہم نے تمہیں قول احسن کہنے کے متعلق دئیے ہیں یہ نہ سمجھنا کہ تم کوئی چیز بن گئے ہو اور تمہارا حق ہو گیا ہے کہ تم پر خداتعالیٰ کی رضا کی راہیں کھلیں اس لئے کہ رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِکُمْ(بنی اسرائیل:۵۵)تمہاری بہت سی خطائیں، غفلتیں اور کوتاہیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو خود تم سے بھی پوشیدہ ہوتی ہیں اور ان باطنی خطائوں، غفلتوں اور کوتاہیوں کا علم صرف خداتعالیٰ کو ہوتا ہے اور کسی کو نہیں ہوتا۔ اس لئے تمہارا ربّ تمہیں تمہاری نسبت بھی زیادہ جانتا ہے یعنی تم اپنے آپ کو اتنا نہیں جانتے جتنا تمہارا ربّ جانتا ہے۔ اس لئے تم میں سے کسی کے لئے فخر و مباہات کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔ اِنَ یَّشَاْیَرْحَمْکُمْ (بنی اسرائیل:۵۵)اگر وہ تم پر رحم کرے گا تو یہ اس کی اپنی مرضی کا نتیجہ ہو گا وہ اگر چاہے گا تو تم پر رحم کرے گا۔ تم اس کے احکام پر عمل کرکے اس کے رحم کے مستحق نہیں بن جائو گے بلکہ اس کے رحم کے وارث ضرور بن جائو گے۔ وَاِنْ یَّشَاْ یُعَذِّبْکُمْ (بنی اسرائیل: ۵۵)پہلے بیان فرمایا تھا۔ تم امید قائم رکھو کیونکہ تمہارا خدا بڑا رحمان، رحیم اور غفور ہے۔ وہ تم سے بڑی محبت کرنے والا اور پیار کرنے والا ہے۔ تم یہ امید رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم ہی کرے گا۔ لیکن ساتھ ہی دل میں خوف بھی رکھو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری کسی مخفی خطا یا گناہ کے نتیجہ میں تم پر اس کا عذاب وارد ہو یا وہ تمہارے حق میں عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کرے۔ وَمَااَرْسَلْنَاکَ عَلَیْھِمْ وَکِیْلاً ۔ (بنی اسرائیل: ۵۵)
اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ تو خاتم النبینؐ ہے، افضل المرسلینؐ ہے، مخلوقات کا نچوڑ اور خلاصہ ہے۔ پھر بھی ہم نے تمہیں ان کا ذمہ دار نہیں بنایا۔ تمہاری خوشنودی انہیں جنت میں نہیں لے جا سکتی نہ ان کے متعلق تمہاری اچھی رائے انہیں جنت کا وارث بنا سکتی ہے۔ جیسا کہ احادیث میں آتا ہے کہ رسولﷺ کو قیامت کے دن یہ نظارہ دکھایا جائے گا کہ آپؐ کے بعض صحابہ کو دوزخ کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ آپؐ یہ نظارہ دیکھ کر خداتعالیٰ کے حضور عرض کریں گے کہ اے خدا! یہ تو میرے صحابہ ہیں جہاں تک مجھے علم ہے انہوں نے تیری خاطر اخلاص اور فدائیت کے ساتھ قربانیاں دی ہیں میں تو سمجھتا تھا کہ انہوں نے تیری رضا کو حاصل کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرمائے گا اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو نہیں جانتا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے۔ (بخاری کتاب الفتن باب نمبر ۱۔ کتاب الرقاق باب کیف الحشر۔ کتاب التفسیر القرآن۔ تفسیر سورۃ المائدہ) ان کے اعمال کا پورا علم مجھے ہے گویا بعض برگزیدہ انسان بھی بعض لوگوں کے متعلق یہ سمجھتے ہوں گے کہ وہ اچھے ہیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر لیا ہے لیکن حقیقتاًوہ خداتعالیٰ کی رضا کے وارث نہیں ہوں گے۔ وہ اس کی جنت کے مستحق قرار نہیں دئیے جائیں گے۔ پس فرمایا وَمَا اَرْسَلْنَاکَ عَلَیْھِمْ وَکِیْلاً۔
(بنی اسرائیل: ۵۵)
کہ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو نہ تو اس بات کا ذمہ دار ہے کہ لوگ ضرور نیکیاں کریںاور نہ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ اگر لوگ بظاہر نیکیاں کریں تو وہ ضرور جنت کے وارث بن جائیں گے۔ کیونکہ اس دنیا میں بھی تمہارے سامنے ایک مثال موجود ہے ایک شخص جنگ میں بظاہر بڑے اخلاص سے حصہ لے رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا اسلام پر فدا ہونے کو اس کا جی چاہ رہا ہے۔ وہ مسلمانوں کی طرف سے لڑ رہا تھا۔ اور کافروں پر حملہ آور ہو رہا تھا اور بڑے بڑے صحابہ کی بھی اس کے متعلق یہ رائے تھی کہ وہ بڑا مخلص اور فدائی ہے۔ لیکن جب آنحضرتﷺ کے سامنے اس کا ذکر ہوا تو آپؐنے فرمایا۔ وہ دوزخی ہے۔ صحابہؓ نے رسول کریمﷺ کی بات کو سچا ثابت کرنے کے لئے اس شخص کا پیچھا کیا تو انہوں نے دیکھا وہ جنگ میں شدید زخمی ہو گیا ہے۔ اور زخموں کی تکلیف کی برداشت نہ کرتے ہوئے اس نے خودکشی کر لی ہے۔ اس طرح صحابہؓ کو نظر آ گیا کہ گو اس شخص نے بڑے جوش کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا تھا لیکن اس کا ایسا کرنا اخلاص کی بناء پر نہیں تھا بلکہ بعض اور بواعث تھے جن کی وجہ سے وہ کفار کے خلاف بڑے جوش کے ساتھ لڑا۔ پس یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تجھے ان کا ذمہ دار نہیں بنایا لیکن بدقسمتی اس اُمت کی یہ ہے کہ اس میں بعض پیر، سجادہ نشین اور علماء ایسے بھی پیدا ہوئے ہیں جو اپنے مریدوں کو کہتے ہیں کہ تم کوئی فکر نہ کرو ہم تمہیں جنت میں پہنچانے کا ذمہ لیتے ہیں۔ حالانکہ جنت میں پہنچنے کے لئے انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر بہت کچھ کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کی ضرورت ہوتی ہے۔ غرض جنت میں انسان تبھی جائے گا جب وہ نیک اعمال بجا لائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان اسے حاصل ہو جائے گا۔ گویا انسان جنت میں اس وقت داخل ہو گا جب اللہ تعالیٰ کا ایسا کرنے کا منشاء ہو اور وہ ارادہ کر لے کہ اسے جنت میں لے جانا ہے۔
قرآن کریم میں جو احسن قول بتائے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان جب کوئی وعدہ کرے تو اسے پورا بھی کرے ہمارے کچھ بنیادی وعدے ہیں جو ہم نے اللہ تعالیٰ کے ایک مامور اور نبی اکرمﷺ کے ایک فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے ہیں مثلاً ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کے خلفاء کو یہ قول بھی دیا تھا کہ ہم سب جنہوں نے وصیت کی ہے اپنی آمد اور اپنی جائیداد کا 1/10 خداتعالیٰ کے دین کی خاطر دیں گے۔ اور جن لوگوں نے وصیت نہیں کی انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم اپنی آمد کا1/16 حصہ دین کی خاطر چندہ میں دیں گے اور خداتعالیٰ کی نگاہ میں احسن قول وہ ہے کہ جب وہ وعدہ کے رنگ میں کیا جائے تو اسے پورا بھی کیا جائے۔ قرآنی ارشاد لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالاَ تَفْعَلُوْنَ (الصف: ۳)کے ایک معنی یہ بھی کئے جا سکتے ہیں کہ تم ایسے وعدے کیوں کرتے ہو جو تم نے پورے نہیں کرنے۔ اس وقت تک صدر انجمن احمدیہ کے چندے (چندہ عام چند وصیت اور چندہ جلسہ سالانہ) ۸۳ فیصد وصول ہو جانے چاہئے تھے لیکن ابھی تک ان کا ۷۳ فیصد وصول ہوا ہے اور وقت دو ماہ سے کم رہ گیا ہے۔ خصوصاً موصی صاحبان پر مجھے بڑی حیرت ہے کہ انہوں نے اپنے ربّ سے ایک وعدہ کیا تھا اور ان کے ربّ نے انہیں دنیا میں ہی ایک بشارت دی تھی انہوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ علاوہ تقویٰ کی دیگر راہوں کے ہم اپنے مالوں کی بھی قربانی اس رنگ میں دیں گے کہ ان کا دسواں حصہ تیری راہ میں قربان کریں گے اور کرتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اگر تم اس عہد کو نبھا لو گے تو تمہیں میں بہشتی مقبرہ میں جگہ دوں گا۔ اب دیکھو یہ کتنی بڑی بشارت ہے جو موصی صاحبان کو اس دنیا میں ملی ہے لیکن ان میں سے ایک حصہ اپنے عہد کو نبھانے کی کوشش نہیں کرتا اور اگر آپ سوچیں تو جس طرح میں حیرت میں پڑ جاتا ہوں آپ بھی حیران ہوں گے کہ اتنی حقیر قربانیاں اور ان کے بدلہ میں اتنی عظیم بشارت اور پھر بھی ہم سے کوتاہی اور غفلت سرزد ہو رہی ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بعض موصی صاحبان وصیت کا چندہ ادا کرنے میں غفلت برتتے ہیں۔ پس میں موصی صاحبان کو خصوصاً اور دوسرے احمدی بھائیوں سے عموماً کہوں گا کہ وقت تھوڑا رہ گیا ہے سال کے صرف دو ماہ باقی ہیں بلکہ ان میں سے بھی ایک حصہ گزر گیا ہے۔ کوشش کریں کہ اس عرصہ کے اندر اندر اپنی وہ تمام مالی قربانیاں خداتعالیٰ کے حضور پیش کر دیں جن کا وعدہ آپ نے اپنے ربّ سے کیا تھا تا آپ اس کے ان فضلوں کے بھی وارث ہوں جن کے وعدے اس نے آپ سے کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۹؍ جون ۱۹۶۶ء صفحہ۲ تا ۴)
٭…٭…٭












وہ دوست جنہیں اللہ تعالیٰ توفیق دے سال میں دو ہفتہ سے لے کر چھ ہفتہ تک کا عرصہ خدمت دین کیلئے وقف کریں
( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸ ؍مارچ ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ دعا کی بہت توفیق پائی صبح جب آنکھ کھلی تو زبان پر یہ فقرہ تھا۔ ’’اینا دیواں گا کہ تو رَج جاویں گا‘‘۔
٭ احباب جماعت کے دلوں میں خلیفہ وقت کے لئے جو محبت، اخلاص اور تعاون کا جذبہ ہوتا ہے وہی خلیفہ وقت کا خزانہ ہوتا ہے۔
٭ واقفین عارضی کو قرآن پڑھانے کی مہم کی نگرانی اور اسے منظم کرنا ہوگا۔
٭ احمدی ہونے کے لئے اچھا شہری ہونا بھی ضروری ہے۔
٭ پروفیسر، لیکچرار، سکولوں کے اساتذہ اور طلباء رخصت کے ایام وقف عارضی کیلئے پیش کریں۔



تشہد،تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا۔
ویسے تو منگل کے روز ہی مجھے پیٹ میں کچھ تکلیف محسوس ہوتی تھی لیکن منگل اور بدھ کی درمیانی رات مجھے اسہال شروع ہو گئے جس کی وجہ سے بہت زیادہ کمزوری اور نقاہت پیدا ہو گئی جسم میں درد کی شکایت بھی تھی اور کمرے میں دو چار قدم چلنا بھی میرے لئے مشکل ہو گیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور جمعرات کو مجھے کافی افاقہ محسوس ہوا چونکہ بیماری کے دوران کام نہ کرنے کی وجہ سے بھی طبیعت میں پریشانی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لئے جب میں نے کچھ افاقہ محسوس کیا تو دو تین دن تک جو ڈاک دیکھنے کا مجھے موقعہ نہ ملا تھا۔ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دیکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ چنانچہ گزشتہ رات بارہ ساڑھے بارہ بجے تک مجھے یہ توفیق ملی کہ میں دوستوں کے خطوط پڑھوں اور اس کے ساتھ ساتھ لکھنے والوں کے لئے دعا بھی کروں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق بھی عطا کی کہ میں اپنی کمزوری ناتوانی اور بے مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے طاقت مانگوں، ہمت طلب کروں اور توفیق چاہوں تا اس نے جو ذمہ داریاں مجھ پر ڈالی ہیں۔ انہیں صحیح رنگ میں اور احسن طریق پر پورا کر سکوں پھر میں نے جماعت کی ترقی اور احباب جماعت کے لئے بھی دعا کی بہت توفیق پائی صبح جب میری آنکھ کھلی تو میری زبان پر یہ فقرہ تھا کہ
اینا دیواں گا کہ تو رج جاویں گا
چونکہ گزشتہ رات کے پچھلے حصہ میں میں نے اپنے لئے بھی دعا کی تھی اور جماعت کیلئے دینی اور روحانی حسنات کے لئے، پھر خلیفہ وقت کی سیری تو اس وقت ہو سکتی ہے جب جماعت بھی سیر ہو۔ اس لئے میں نے سمجھا کہ اس فقرہ میں جماعت کیلئے بھی بڑی بشارت پائی جاتی ہے۔ سو میں نے یہ فقرہ دوستوں کو بھی سنا دیا ہے تا وہ اسے سن کر خوش بھی ہوں۔ ان کے دل حمد سے بھی بھر جائیں اور انہیں یہ بھی احساس ہو جائے، کہ انہیں اس ربّ سے جو ان سے اتنا پیار کرتا ہے کتنا پیار کرنا چاہئے۔ لَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔
اس وقت میں دوستوں کی خدمت میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خلیفۂ وقت کا سرمایہ اور خزانہ وہ مال ہی نہیں ہوا کرتا جو قومی خزانہ میں موجود ہو بلکہ اللہ تعالیٰ احباب جماعت کے دلوں میں خلیفہ وقت کے لئے جو محبت اور اخلاص کا جذبہ اور تعاون کی روح پیدا کرتا ہے وہی خلیفۂ وقت کا خزانہ ہوتا ہے اور اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنا دیا ہے کہ میں وہ الفاظ نہیں پاتا جن سے میں اس کا شکریہ ادا کر سکوں لیکن جہاں احباب جماعت مالی قربانیوں میں دن بدن آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں وہاں انہیں اپنے اوقات کی قربانی کی طرف بھی زیادہ متوجہ ہونا چاہئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کا ایک حصہ اس وقت بھی وقت کی قربانی میں قابل رشک مقام پر کھڑا ہے۔ میں نے خود باہر کی جماعتوں میں دیکھا ہے کہ بعض جماعتوں کے عہدیداران اپنے مختلف دنیوی کاموں سے فارغ ہونے کے بعد دو دو تین تین بلکہ بعض دفعہ پانچ پانچ چھ چھ گھنٹے روزانہ جماعتی کاموں کے لئے دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا کرے۔ لیکن کسی مقام پر کھڑے ہو جانے سے کسی مذہبی اور روحانی سلسلہ کی تسلی نہیں ہوتی۔ مومن کا دل ہر وقت یہی چاہتا ہے کہ میں ایک دم کے لئے بھی کھڑا نہ ہوں۔ بلکہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائوں پھر جماعت کا ایک حصہ ایسا بھی تو ہے جو وقت کی قربانی کی طرف زیادہ متوجہ نہیں۔ غرض وقت کی قربانی کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اور اس کے لئے میں جماعت میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ وہ دوست جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے سال میں دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک کا عرصہ دین کی خدمت کیلئے وقف کریں، اور انہیں جماعت کے مختلف کاموں کیلئے جس جس جگہ بھجوایا جائے وہاں وہ اپنے خرچ پر جائیں، اور ان کے وقف شدہ عرصہ میں سے جس قدر عرصہ انہیں وہاں رکھا جائے اپنے خرچ پر رہیں، اور جو کام ان کے سپرد کیا جائے انہیں بجا لانے کی پوری کوشش کریں۔ میں جانتا ہوں کہ بعض دوست مالی لحاظ سے زیادہ لمبا سفر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لئے جو دوست دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک کا عرصہ میری اس تحریک کے نتیجہ میں وقف کریں۔ وہ ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیں کہ ہم مثلاً سَو میل تک اپنے خرچ پر سفر کرنے کے قابل ہیں یا دو سَو میل یا چار سَو میل یا پانچ سو میل اپنے خرچ پر سفر کر سکتے ہیں بہرحال جس قدر بھی ان کی مالی استطاعت ہو وہ ذکر کر دیں تا انہیں اس کے مطابق مناسب جگہوں پر بھجوایا جاسکے۔
بڑے بڑے کام جو ان دوستوں کو کرنے پڑیں گے ان میں سے ایک تو قرآن کریم ناظرہ پڑھنے اور قرآن کریم باترجمہ پڑھنے کی جو مہم جماعت میں جاری کی گئی ہے اس کی انہیں نگرانی کرنا ہو گی اور اسے منظم کرنا ہو گا دوسرے بہت سی جماعتوں کے متعلق ایسی شکایتیں بھی آتی رہتی ہیں کہ ان میں بعض دوست ایمانی لحاظ سے یا جماعتی کاموں کے لحاظ سے اتنے چست نہیں جتنا ایک احمدی کو ہونا چاہئے ان دوستوں سے ایسے احباب کی اصلاح اور تربیت کاکام بھی لیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ وہ ایسی جماعتوں کے سست اور غافل افراد کو چست کرنے کی کوشش کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اچھا احمدی ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے وہ اچھا شہری بھی ہو لیکن بہت سے دوست چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں جھگڑتے اور لڑتے رہتے ہیں اور یہ بات ایک احمدی کے لئے کسی صورت میں بھی مناسب نہیں جب یہ جھگڑے اور لڑائیاں جاری ہو جاتی ہے تو جماعت میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے۔ پس جن دوستوں کو اللہ تعالیٰ دو ہفتے سے چھ ہفتہ تک کا عرصہ میری اس تحریک پر وقف کرنے کی توفیق دے انہیں ان باتوں کی طرف بھی توجہ دینا ہو گی اور جماعت کے دوستوں کے باہمی جھگڑوں کو نپٹانے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہو گی باہر سے جب دوست کسی جماعت میں جائیں گے تو طبعی طور پر وہاں کے مقامی احمدی خیال کریں گے کہ ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ہمیں ایک ایسے دوست کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا ہے جو ہماری مقامی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ دور کے علاقہ سے ہمارے پاس آیا ہے اور اس طرح ایک فضا صلح کی پیدا ہو جائے گی۔
پھر بہت سے کام ایسے ہیں جو ایک طرف جماعتی ترقی کا باعث بن سکتے ہیں تو دوسری طرف حکومت وقت کے ساتھ تعاون کا بھی ایک ذریعہ ہوتے ہیں مثلاً آج کل پاکستان کی حکومت زرعی پیداوار بڑھانے کی طرف متوجہ کر رہی ہے تا ہمیں باہر سے غلہ نہ منگوانا پڑے اور ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ پس ایسے دوست جو زراعت کے ان مسائل کا علم رکھتے ہوں یا وہ ان سے واقفیت حاصل کر لیں اور پھر وہ اپنا وقت بھی وقف کریں۔ وہ جن جگہوں پر جائیں گے وہاں زمینداروں کو یہ بھی ترغیب دیں گے کہ وہ زیادہ سے زیادہ غلہ پیدا کریں اور انہیں بتائیں گے کہ وہ اپنی زمینوں سے زیادہ پیداوار کس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح حکومت وقت کے ساتھ تعاون بھی ہو جائے گا اور جماعتی ترقی کے سامان بھی ہو جائیں گے، کیونکہ جتنا مال اللہ تعالیٰ جماعت کو عطا کرے گا اتنا ہی زیادہ وہ بڑھ چڑھ کر مالی قربانیاں کرنے کی توفیق پائے گی۔ غرض اس قسم کے کام ان دوستوں سے لئے جائیں گے جو میری اس تحریک پر اپنے اوقات وقف کریں گے۔ دوست جلد اس طرف متوجہ ہوں اور اپنے اوقات وقف کریں۔ میں چاہتا ہوں کہ آئندہ مئی کے مہینہ سے یہ کام شروع کر دیا جائے جو دوست گورنمنٹ یا کسی اور ادارہ کے ملازم ہیں ان کو سال میں کچھ عرصہ کی رخصتوں کا حق ہوتا ہے وہ اپنی یہ رخصتیں اپنے لئے یا اپنوں کیلئے لینے کی بجائے اپنے ربّ کیلئے حاصل کریں اور انہیں اس منصوبہ کے ماتحت خرچ کریں۔ اسی طرح کالجوں کے پروفیسر اور لیکچرار، سکولوں کے اساتذہ کالجوں کے سمجھدار طلباء بھی اپنی رخصتوں کے ایام اس منصوبہ کے ماتحت کام کرنے کیلئے پیش کریں۔ سکولوں کے بعض طلباء بھی اس قسم کے بعض کام کر سکتے ہیں، کیونکہ سکولوں کے بعض طلباء ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی صحت اور عمر کے لحاظ سے اس قابل ہوتے ہیں کہ اس قسم کی ذمہ داریاں ادا کر سکیں۔ ان کو بھی اپنے نام اس تحریک کے سلسلہ میں پیش کر دینے چاہئیں بشرطیکہ وہ اپنا خرچ برداشت کر سکتے ہوں کیونکہ میں اس سکیم کے نتیجہ میں جماعت پر کوئی مالی بار نہیں ڈالنا چاہتا۔ غرض جو دوست اپنے خرچ پر کام کر سکتے ہوں اور جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے خرچ پر کام کرنے کی توفیق عطا کرے۔ ان کو اس منصوبہ میں رضاکارانہ خدمات کیلئے اپنے نام پیش کر دینے چاہئیں۔ یہ کام بڑا اہم اور ضروری ہے اور اس کی طرف جلد توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جن میں، یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ ان کے ایک حصہ میں، ایک حد تک کمزوری پیدا ہو گئی ہے اور اس کمزوری کو دور کرنا اور جلد سے جلد دور کرنا ہمارا پہلا فرض ہے اگر ہم تبلیغ کے ذریعہ نئے احمدی تو پیدا کرتے چلے جائیں لیکن تربیت میں بے توجہی کے نتیجہ میں پہلے احمدیوں یا نئی احمدی نسل کو کمزور ہونے دیں تو ہماری طاقت اتنی نہیں بڑھ سکتی جنتی اس صورت میں بڑھ سکتی ہے کہ پیدائشی احمدی، پرانے اور نو احمدی بھی اپنے اخلاص میں ایک اعلیٰ اور بلند مقام پر فائز ہوں پھر ہماری یہ کوشش ہو کہ وہ لوگ جو صداقت سے محروم ہیں ان تک صداقت پہنچے اور ہم دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو اس صداقت کے قبول کرنے کی توفیق عطا کرے۔ غرض جو منصوبہ میں نے اس وقت جماعت کے سامنے بڑے مختصر الفاظ میں پیش کیا ہے وہ تربیتی میدان کا منصوبہ ہے، ہمیں اس پر عمل کرکے سب جماعتوں اور سارے احمدیوں کو تدبیر اور دعا کے ذریعہ سے چست کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ وما التوفیق اِلاَّ بِاللّٰہِ
(روزنامہ الفضل ربوہ مؤرخہ۲۳؍ مارچ ۱۹۶۶ء صفحہ ۲ تا ۳)












قرآن مجید کی رو سے ہماری کامیابی کی صرف یہی صورت ہے کہ ہم صبر اور تدبیر کو انتہا تک پہنچا دیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵ ؍مارچ ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ ہم نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا ہے کہ تمام دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
٭ دنیوی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بہت ہی مشکل کام ہے جو ہم نے اپنے ذمہ لیا ہے۔
٭ جماعت احمدیہ ضرور کامیاب ہوگی۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت طلب کرنا۔
٭ اپنی کمزوری، ناتوانی، بے بضاعتی اور بے بسی کا رونا صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے رؤو۔
٭ جب اللہ تعالیٰ مدد کو آئے گا تو بڑی بڑی طاقتیں تمہارا مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔


تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جس غرض کیلئے مبعوث فرمایا تھا وہ یہ تھی کہ تمام دنیا میں اسلام کو غالب کیا جائے اور تمام اقوامِ عالم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیا جائے سو جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو مامور کر کے دنیا کی طرف مبعوث فرمایا تو آپ نے اعلان فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس غرض کیلئے بھیجا ہے کون ہے جس کے دل میں اسلام کا درد ہے؟ جس کے دل میں اسلام کا درد ہے وہ میری طرف آئے اور اس کام میں میرا ممد اور معاون ہو۔ تب ہم نے ’’نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے آپ کی طرف دوڑنا شروع کیا اور آپ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے اور ہم نے عہد کیا کہ جس غرض اور مقصد کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے ہیں۔ اس غرض اور مقصد کے حصول کے لئے آپ کے ساتھ مل کر ہم کوشش کرتے رہیںگے۔
غلبۂ اسلام کے لئے کوشش کرنے کا دعویٰ کرنا یا ایسا عہد کرنا بڑا آسان ہے اور اس سے بھی زیادہ آسانی یہ ہے کہ اس کے بعد انسان غفلت کی نیند سو جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا ہے کہ ہم غفلت کی نیند سو جائیں۔ شیطان ہم پر اس طرح اثر انداز ہو کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو بھلا دیں اور جو عہد ہم نے اپنے ربّ سے باندھا ہے اسے چھوڑ دیں ہم میں سے تھوڑے ہیں جو اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہم نے درحقیقت خدا تعالیٰ سے کیا عہد باندھا ہے۔ اگر ہم اس عہد کا تجزیہ کریں اور اس پر غور کریں تو ہمارے سامنے یہ نظارہ آتا ہے کہ ایک طرف روس ہے، چین ہے اور دوسرے کمیونسٹ ممالک ہیں دوسری طرف مادہ پرست اقوام ہیں جو دعویٰ تو کرتی ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کو مانتی ہیں لیکن حقیقتاً خدا تعالیٰ پران کا کوئی ایمان نہیں ہے۔ مثلاً امریکہ ہے، انگلستان ہے، فرانس ہے اور دیگر بہت سے ممالک ہیں۔ اب ان میں سے اگر ہم ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ لیں تو مثلاً روس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو دنیوی عقل عطا کی اور اس کو یہ توفیق عطا کی کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کر کے دنیوی ترقیات کے میدان میں بہت بلند مقام حاصل کر لے جو اس نے حاصل کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو بڑی کثرت کے ساتھ مادی اسباب دیئے اور اس وقت وہ دنیا کی دیگر بڑی اقوام میں سے چوٹی کی ایک قوم سمجھی جاتی ہے بلکہ وہ اتنی زبردست ہے کہ جب وہ غراّئے تو تمام بنی نوع انسان کے دل دہل جاتے ہیں اس شخص کے دل سے بھی زیادہ جو جنگل میں جا رہا ہو اور اچانک اسے شیر کے غراّنے کی آواز آئے لیکن اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اسے دین کی آنکھ عطا نہیں کی۔ وہ (نعوذ باللہ) خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کے نام کا مذاق اُڑاتی ہے بلکہ وہ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ تمام دنیا سے خدا تعالیٰ کے نام کو ایک دن مٹا دیں گے۔ پھر اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی شخص اس کے ملک میں جائے اور خدائے واحد سے انہیں متعارف کرائے۔ حقیقتاً یہ اجازت نہ دینا بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کا ایک ثبوت ہے۔ اگر واقعی خدا نہ ہوتا تو انہیں کس بات کا ڈر تھا۔ وہ ہر ایک کوکہتے یہاں آؤ اور جو دلیلیں تمہارے پاس ہیں وہ ہمیں سناؤ ہمیں ان دلیلوں کے سننے میں کوئی عذر نہیں ہوگا کیونکہ ان کے زعم میں خدا تعالیٰ کے نہ ہونے کے جو دلائل ان کے پاس ہیں وہ ان دلائل سے کہیں زیادہ وزن رکھتے ہیں جو ان کے نزدیک خدا تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کیلئے دیئے جاسکتے ہیں۔ بہرحال وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی شخص وہاں جا کر خدائے واحد و یگانہ کی تبلیغ کرے۔ اسلام کی اشاعت کے لئے کوشش کرے۔ خدا تعالیٰ کی عظمت اس کے جلال اور اس کی کبریائی کو اس ملک کے باشندوں کے دلوں میں بٹھانے کے لئے سعی کرے اور ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے اس ملک کو بھی حلقۂ بگوش اسلام کرنا ہے۔
پھر چین کو لو چین کتنا بڑا ملک ہے۔ زمین کے پھیلاؤ کے لحاظ سے بھی اور آبادی کے لحاظ سے بھی اس کی آبادی قریباً ستر، اسی کروڑ کی ہے۔ اس کے رہنے والے بھی کمیونسٹ ہوگئے ہیں وہ خدا تعالیٰ کو بھول گئے ہیں اپنے پیدا کرنے والے کے خلاف ہوگئے ہیں۔ ابلیس نے تو اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار نہیں کیا تھا اس نے صرف اباء اور استکبار سے کام لیاتھا اس نے خدا تعالیٰ کے وجود کو مانتے ہوئے اس سے یہ درخواست کی تھی کہ مجھے اس بات کی اجازت دی جائے کہ میں تیرے بندوں کو قیامت تک گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہوں مجھے اس بات سے زبردستی نہ روکا جائے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں آزادیٔ ضمیر اور آزادی ٔ مذہب کا نظام انسان کیلئے قائم کرنا تھا اس لئے اس نے اسے اجازت دے دی اور کہا ٹھیک ہے ہم چاہتے ہیں کہ انسان آزادانہ طور پر عرفان حاصل کرے۔ ہم سے تعلق پیدا کرے اس لئے تم سے جو ہو سکتا ہے کرو لیکن جو میرے مخلص بندے ہوں گے ان پر تمہارا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ غرض شیطان نے خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار نہیں کیا تھا لیکن یہ قومیں خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی انکار کرتی ہیں پھر مادی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ توفیق عطا فرمائی کہ وہ ترقی کرتے چلے جائیں اور مادی سامان اس قدر اکٹھے کر لیں کہ دنیا ان کا مقابلہ نہ کر سکے۔ انہوں نے ان مادّی سامانوں کے مہیا کرنے کیلئے خداتعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے مطابق کوششیں کیں اور اس قانون کے مطابق ان کی یہ کوششیں بار آور ہوئیں۔ گو اس کا جو نتیجہ انہوں نے نکالا وہ ہمارے نزدیک صحیح نہیں کیونکہ بجائے اس کے کہ وہ شکر اور حمد کے ساتھ اپنے ربّ کے حضور جھکتے۔ انہوں نے اس کے وجود سے انکار کر دیا۔ پس یہ ملک (یعنی چین) بھی بڑا وسیع ہے۔ بڑا طاقت ور ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر ہے تو ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس کے رہنے والوں کو مسلمان بنائیں گے تا وہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے لگیں۔ پھر انگلستان ہے امریکہ ہے ان کے رہنے والوں کی بڑی اکثریت اگرچہ زبان سے خدا تعالیٰ کے وجود کا اقرار کرتی ہے لیکن ساتھ ہی وہ ایک اور *** میں گرفتار ہے۔ اس نے انسان کے ایک بچے کو خدا تسلیم کر لیا ہے اور وہ نہیں سمجھتی کہ وہ ہستی جو ایک عورت کے پیٹ میں ۹ ماہ کے قریب نہایت گندے ماحول میں پرورش پاتی رہی ہو اس کو انسانی عقل خدا کیسے تسلیم کر سکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دینی لحاظ سے بالکل اندھے ہیں کوئی معقول دلیل ان کے دماغ میں نہیں۔ بہرحال انہوں نے ایک انسان کی جس کو وہ خدائے یسوع مسیح کہتے ہیں۔ پرستش شروع کی اور اس سے اتنی محبت اور پیار کیا کہ اپنی تمام دنیوی طاقتیں اس گمراہ عقیدہ کے پھیلانے میں خرچ کر دیں اور وہ جو ان کا حقیقی ربّ تھا اور وہ جو ان کا سچا نجات دہندہ تھا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ان کی طرف وہ متوجہ نہ ہوئے۔ انہوں نے اپنی تمام طاقت، اپنا سارا زور، اپنے تمام حیلے اور ہر قسم کا دجل خدا تعالیٰ کی اس سچی تعلیم اور صداقت کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا جو بنی نوع انسان کی بھلائی کیلئے بھیجی گئی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے قبل بہت حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو دلائلِ حقہ دیئے، معجزات اور روشن نشانات بھی عطا فرمائے تو اس وقت ان کی ترقی دجل کے میدان میں کافی حد تک رُک گئی لیکن ابھی بہت سا کام کرنے والا باقی ہے۔ غرض ہمارا دعویٰ ہے اور اپنے ربّ سے ہمارا عہد ہے کہ ہم ایک دن ان تمام اقوام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار کر کے چھوڑیں گے۔
پھر افریقہ کے ممالک ہیں اور دوسری کئی اور آبادیاں ہیں جو ’’بدمذہب‘‘ کہلانے کی زیادہ مستحق ہیں کیونکہ ان کے ہاتھ میں کوئی محرف الٰہی کتاب بھی نہیں۔ ہاں اُن کے پاس کچھ روایات ہیں جو بڑی پرانی ہیں۔ کچھ توہمات ہیں کچھ ڈھکوسلے ہیں جن کو انہوں نے ’’مذہب‘‘ کا نام دے رکھا ہے بہرحال وہ ایک قسم کا مذہب رکھتے ہیں اس لئے ہم انہیں لامذہب نہیں کہہ سکتے اور نہ صحیح طور پر ان کے مذہب کو مذہب کہہ سکتے ہیں ان کے مذہب کو بگڑے ہوئے مذہب کا نام بھی نہیں دیا جا سکتا اور بہترین لفظ جو ان کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے وہ ’’بدمذہب‘‘ ہے یہ لوگ اپنی رسومات میں اور اپنے توہمات میں اس قدر مست ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کا نام سننے کے لئے بھی تیار نہیں۔ ان کی اِن عادات کو چھڑانا اور بدرسومات سے انہیں بچانا آسان کام نہیں۔ ہم اپنی جماعت میں بھی دیکھتے ہیں کہ بعض خاندان جو احمدیت میں داخل ہوتے ہیں وہ کچھ بدرسوم بھی اپنے ساتھ لے آتے ہیں اور ہمارے لئے ایک مسئلہ بن جاتے ہیں ہمیں انہیںان بدرسوم سے ہٹانے کے لئے بڑا زور لگانا پڑتا ہے لیکن ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم ان اقوام میں بھی اسلام کی تبلیغ کر کے اور کامیاب تبلیغ کر کے انہیں اس نور سے متعارف کرائیں گے جو خدا تعالیٰ کا حقیقی نور ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آئینہ میں عکسی رنگ میں چمکا ہے۔ غرض کتنا بڑا دعویٰ ہے جو ہم کرتے ہیں اور کتنا مشکل کام ہے جو ہم نے اپنے ذمہ لیا ہے اور جب ہم اپنے اس دعویٰ اور کام پر اس تفصیل کے ساتھ غور کرتے ہیں جس کی طرف میں نے مختصراً اشارہ کیا ہے تو دل بیٹھنے لگتا ہے اور عقل حیران ہو جاتی ہے کہ یہ کام ہوگا تو کس طرح ہوگا؟ اس کے لئے ہمیں پھر اپنے ربّ کی طرف ہی رجوع کرنا پڑتا ہے ہمیں اس کے کلام کو ہی دیکھنا پڑتا ہے چنانچہ اس معاملہ میں جب مَیں نے غور کیا تو اس مشکل کا حل مجھے سورہ بقرہ کی اس آیت میں نظر آیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔
(سورۃ البقرہ: ۱۵۴)
یعنی اے میرے مومن بندو! جو اس بات پر ایمان رکھتے ہو کہ میں خدائے قادر و توانا ہوں اور اپنی تمام صفاتِ حسنہ کے ساتھ اپنی تمام قدرتوں کے ساتھ اور اپنے جلال کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہنے والا اور زندہ رکھنے والا حي و قیوم خدا ہوں جو اس بات پر ایمان رکھتے ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی تمام اقوام کے لئے اور قیامت تک ہر زمانہ کے لئے نجات دہندہ کی شکل میں بھیجے گئے ہیں جو اس بات پر ایمان رکھتے ہو کہ قرآن کریم انسان کے تمام دینی اور دنیوی مسائل کو حل کرتا ہے جو اس بات پر ایمان لاتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ہی مبعوث فرمایا ہے۔ جوایمان لاتے ہو کہ جس مقصد کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث کئے گئے ہیں۔ اس مقصد میں آپ اور آپ کی جماعت ضرور کامیاب ہوگی تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں بے شک مشکل بڑی ہے اور کام اِس نوعیت کا ہے کہ عقلِ انسانی بظاہر یہ فیصلہ نہیں دے سکتی کہ اس میں ضرور کامیابی حاصل ہوگی لیکن خدا تعالیٰ کا جو وعدہ ہے وہ پورا ہوگا۔ اس لئے ہم تمہیں ہدایت دیتے ہیں کہ جس وقت یہ دیوار تمہارے سامنے آجائے اور تم کو محسوس ہونے لگے کہ آگے بڑھنے کا راستہ مسدود ہو گیا ہے اور ان اقوام کے دلوں کو فتح کرنا بظاہر ناممکن ہے یاد رکھو کہ اس وقت صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ میری مدد اور نصرت کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔
صبر کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ انسان استقلال کے ساتھ بُرائیوں سے بچنے کی کوشش کرتا رہے۔ یعنی اُسے اپنے نفس پر اتنا قابو ہو کہ وہ کبھی بے قابو ہو کر گناہ کی طرف مائل نہ ہو دوسرے معنی یہ ہیں کہ انسان نیکی پر ثابت قدم رہے اور دنیا کی کوئی طاقت، دنیا کا کوئی وسوسہ اور دنیا کا کوئی دجل صدق کے مقام سے مومن کا قدم پَرے نہ ہٹا سکے اور صبر کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ جب کوئی نازک وقت اور مشکل پیش آئے اور دل میں شکوہ پیدا ہو تو وہ اسے خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرے۔
اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِيْ اِلَی اللّٰہِ (سورۃ یوسف:۷ ۸)
یعنی اگر تم ایسا کرو گے تو وہ تمہاری امداد اور نصرت کے سامان پیدا کرے گا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ ہم نے تمہیں مادی سامان بہت کم دیئے ہیں لیکن جتنا بھی تمہیں ملا ہے مال کے لحاظ سے، طاقت کے لحاظ سے، وقت کے لحاظ سے، عزت کے لحاظ سے (کروڑوں نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہیں) جو کچھ بھی ہماری نعماء سے تمہیں ملا ہے۔ اگر تم اس کا صحیح استعمال کرو اور قربانی کے ان تقاضوں کو پورا کرو جو تم پر عائد ہوتے ہیں اور کبھی اپنی نگاہ میری ذات سے ہٹا کر کسی اور کی طرف نہ لے جاؤ بلکہ اپنی کمزوری، ناتوانی، بے بضاعتی اور بے بسی کا رونا صرف میرے سامنے ہی روؤ اور خوشی کے ساتھ نیکیوں پر قائم ہو جاؤ اور جو تدابیر بھی تم کر سکتے ہو۔ ان تدابیر کو اپنے کمال تک پہنچاؤ تو میں تمہاری مدد اور نصرت کے سامان کر دوں گا۔
پھر صلوٰۃ ہے اس کے ایک معنی تو اِس نماز کے ہیں جو ہم پنج وقتہ ادا کرتے ہیں پھر کچھ سنتیں ہیں کچھ نوافل ہیں (جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے وہ نوافل بھی ادا کرتے ہیں) یہ سارے معنی صلوٰۃ کے لفظ میں آ جاتے ہیں۔ پس صلوٰۃ کے ایک معنی اس خاص عبادت کے ہیں جو اسلام میں ایک مسلمان کے لئے لازم کی گئی ہے۔
پھر صلوٰۃ کے ایک معنی رحمت کے ہیں اور ان معنوں میں یہ لفظ خدا تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے ’’صلّی اللّٰہ‘‘ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نوازے۔ ہمارے کاموں میں برکت ڈالے۔ ہم پر احسان کرے اور ہمارے گناہوں کو معاف کر دے۔ (استغفار کے معنی بھی صلوٰۃ کے اندر آ جاتے ہیں) پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ایک طرف اپنی تدبیر کو اپنے کمال تک پہنچا دو اور جو کچھ تم کر سکتے ہو وہ کر گزرو اور پھر ہمارے پاس آ جاؤ اور کہو اے خدا! جو کچھ تو نے ہمیں دیا تھا وہ ہم نے تیری راہ میں قربان کر دیا ہے مگر وہ اتنا کم ہے کہ دنیا کی طاقتوں کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہم اگر اپنا سارا مال بھی تیری راہ میں قربان کر دیں تو بھی ہم امریکہ کی دولت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک احمدی فرد لنگوٹا کس لے اور بھوکا رہنے کیلئے تیار ہو جائے اور اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دے تب بھی ہم روس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
پس خدا تعالیٰ نصیحت فرماتا ہے کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ جتنی دولت روس کے پاس ہے اتنی دولت تم میری راہ میں خرچ کرو اور نہ میرا تم سے یہ مطالبہ ہے کہ جتنی دولت امریکہ اور انگلستان کے پاس ہے یا جتنی دولت دوسرے ممالک کے پاس ہے اتنی ہی تم میری راہ میں خرچ کرو میں تم سے صرف یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ جتنا کچھ میں نے تمہیں دیا ہے اُسے میری راہ میں خرچ کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہو جب امام وقت کی آواز آئے تو تم اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہر قسم کی قربانی کرنے کیلئے تیار رہو اور جب تم یہ سب کچھ کر گزرو تو میرے پاس آؤ اور کہو ہم نے تیرے ارشاد کے ماتحت جو کچھ بھی ہمارے پاس تھا تیری راہ میں قربان کر دیاہے یا قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن ہماری یہ قربانیاں ان طاقتوں کے ساتھ تو ٹکر نہیں لے سکتیں جن کوتو نے دنیا میں قائم رہنے کی اجازت دی ہے تو اے ہمارے ربّ! ہم جو کچھ کر سکتے تھے وہ کر دیا ہے۔ ہم انسان ہیں ہم میں کمزوریاں بھی ہیں۔ ہم سے خطائیں بھی سرزد ہوتی ہیں اس لئے ہم تیرے پاس آئے ہیں۔ ہم تیری مغفرت کی چادر کے متلاشی ہیں تو ہمیں اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے۔ پھر ہم چاہتے ہیں کہ تو ہم پر احسان کرتے ہوئے ہمیں اپنی رحمت سے نوازے ہمارے کاموں میں برکت دے اور ہمیں محض اپنے فضل سے اس مقصد میں کامیابی عطا کرے جس کے لئے تو نے جماعت کو قائم کیا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم یہ دو باتیں کر لوگے یعنی ایک طرف صبر اور تدبیر کو انتہاء تک پہنچا دو گے اور پھر صرف مجھ پر بھروسہ کرو گے اور اپنے نفس کو کلیۃً میری راہ میں فنا کر کے کامل توحید پر قائم ہو جاؤ گے تو یہ یادرکھو کہ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ میں تمہاری مدد کے لئے آسمان سے اُتروں گا اور جب میں آسمان سے اپنی تمام صفات حسنہ کے ساتھ اپنی عظمت اور کبریائی کے ساتھ اور اپنے حسن اور جلال کے تمام جلوؤں کے ساتھ تمہاری مدد کیلئے نازل ہوں گا تو اس وقت نہ روس کی طاقت تمہارا مقابلہ کر سکے گی اور نہ ہی تمہارے سامنے چین کی کوئی حیثیت رہے گی۔ امریکہ اور انگلستان کا غرور بھی توڑ دیا جائے گا اور یہ وعدہ پورا ہوگا کہ اسلام دنیا میں غالب آئے گا اور تمام اقوامِ عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گی۔
لیکن ہمیں بہرحال یہی ارادہ اور نیت رکھنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ صبر اور صلوٰۃ کی جو تعلیم دیتا ہے ہمیں اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
آج جمعہ ہے اور شوریٰ بھی شروع ہو رہی ہے اس لئے میں دوستوں سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نمائندگان مجلس مشاورت کو صحیح فکر اور تدبر کی توفیق عطا فرمائے تا وہ صحیح نتائج پر پہنچیں اور شوریٰ میں ایسی تجاویز اور ایسے مسئلے پاس ہوں جن سے پھر اسلام کو قوت ملے اور جن کے نتیجہ میں لوگوں میں اللہ تعالیٰ کا عرفان بڑھنے لگے اور ہمارا قدم کامیابی کی راہ پر آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے اور ہر قسم کی توفیق دینا اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہے۔
(الفضل ۱۵؍جون ۱۹۶۶ء صفحہ۲ تا ۴)
٭…٭…٭

ہماری بقا، ترقی اور کامیابی کا انحصار تدابیر پر نہیں
بلکہ دعا اور محض دُعا پر ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ئئء
٭ الٰہی سلسلے دعا کے بغیر کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔
٭ غیریّت کے پردہ کو صرف دعا ہی چاک کر سکتی ہے۔
٭ جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد اکناف عالم میں اسلام کو پھیلانا ہے۔
٭ کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ ہم عاجزی اور انکساری کے ساتھ اپنے ربّ کی طرف جھکنے والے ہوں۔
٭ اے خدا ایسا فضل کر کہ آسمان سے فرشتوں کی افواج نازل کر جو بنی نوح انسان کے دلوں کو بدل دیں۔




تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا۔
آج میں اپنے دوستوں کو پھر اس امر کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری بقا، ہماری ترقی اور ہماری کامیابی کا انحصار تدابیر پر نہیں بلکہ دُعا اور محض دُعا پرہے عقل بھی اس نتیجہ پر پہنچتی ہے اور قرآنِ کریم کی تعلیم بھی ہمیں یہی سبق دیتی ہے۔
عقلاً یہ بات اس طرح ہے کہ اس وقت ساری دنیا کی آبادی قریباً تین ارب کی ہے اس میں بڑے آباد ملک بھی ہیں مثلاً روس ہے چین ہے امریکہ ہے انگلستان ہے اور یورپ کے دوسرے ممالک ہیں اور ان میں بسنے والی اقوام میں بڑی کثرت سے پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں اور کچھ ایسی اقوام بھی ہیں جن میں پڑھے لکھے افراد کی نسبت اپنی آبادی کے لحاظ سے کم ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مجموعی طور پر تیس فیصدی آبادی کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ لکھ پڑھ سکتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ نوے کروڑ انسان لکھنا پڑھنا جانتے ہیں۔ اگر ہم ان میں سے ہر ایک انسان کے ہاتھ میں یہ پیغام پہنچاناچاہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق اُمت محمدیہ میں اپنے مسیح اور مہدی کو مبعوث فرمایا ہے۔ آئو اور اس کی طرف سے پیش کردہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے اس کے سامنے جھکو اور اس جھنڈے تلے جمع ہو جائو جو اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کے لئے اس کے ذریعہ آج گاڑا ہے تا تم اپنی اس زندگی میں بھی کامیاب ہو اور اُخروی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور فضلوں کوپاسکو۔
تو صرف یہی پیغام پہنچانے کے لئے ہمیں ایک دفعہ ۹۰ کروڑ آدمیوں کے لئے ایک ورقہ اشتہار دینا پڑے گا اور اس مختصر اشتہار پر جس کی تعداد ۹۰ کروڑ ہو گی کتابت و طباعت اور کاغذ کے خرچ کے علاوہ صرف پوسٹیج کے لئے (یعنی اس کی ترسیل کے لئے) جو ٹکٹ لگیں گے ہمیں ان کے لئے چھ کروڑ تیس لاکھ روپے کی ضرورت ہو گی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان اشتہارات کو ڈاک کے ذریعہ بھیجنے کے لئے چھ کروڑ تیس لاکھ روپیہ ہو تب کہیں جا کر ہم اس بات میں کامیاب ہو سکتے ہیں کہ ہر انسان کے ہاتھ میں صرف یہ پیغام پہنچا دیں کہ خداتعالیٰ کا ایک مامور مبعوث ہو چکا ہے۔ تم دین و دنیا کی فلاح اور حسنات کے حصول کے لئے اس کی آواز پر کان دھرو۔ ظاہر ہے کہ اتنے ذرائع ہمیں میسر نہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کام کے لئے ہمیں صرف اس رقم کی ہی ضرورت نہیں بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی دقتیں ہیں جو اس مقصد کے حصول کی راہ میں حائل ہیں مثلاً دنیا کا ایک بڑا حصہ ایسا بھی ہے جو ہماری بات سننے کے لئے تیار نہیں۔ بلکہ جب اسے بات سنائی جائے تو وہ ہماری بات سننے کی بجائے ہمیں گالیاں دینے پر اُتر آتا ہے پھر دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ایسا بھی ہے کہ جو ظاہری اخلاق کا مظاہرہ کرکے ہماری بات تو سن لیتا ہے لیکن اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کی بات سن لیں۔ انہیں بات کرنے سے منع نہ کریں لیکن ہمیں اس بات کی بھی ضرورت نہیں کہ پوری توجہ سے ان کی بات سنیں پھر جو لوگ ہماری بات کو سنتے ہیں اور توجہ سے بھی سنتے ہیں ان میں سے بھی بڑے حصہ کے دلوں کی کھڑکیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی صداقت کے قبول کرنے کے لئے ان کی شامت اعمال کی وجہ سے کھلتی نہیں۔ غرض ہماری راہ میں بڑی مشکلات ہیں اگر ہم محض اپنی تدابیر پر بھروسہ کریں تو ہماری ناکامی یقینی ہے۔ اس لئے ہماری عقل اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ کامیابی کے جو وعدے اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو دئیے ہیں وہ محض ہماری تدبیر کی بناء پر اور محض ہماری کوشش کے نتیجہ میں پورے نہیں ہو سکتے ہمیں اس کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت ہے جس کی طرف ہمیں متوجہ ہونا چاہئے۔ پس عقل بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ تدبیر پر بھروسہ رکھنا ہرگز درست نہیں۔
عقل کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں جو تعلیم دی ہے اس میں بھی وہ ہمیں یہی بتاتا ہے کہ فلاح اور کامیابی کے حصول کے لئے محض تدبیر کافی نہیں۔
الٰہی سلسلے دعا کے بغیر کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے چنانچہ اللہ تعالیٰ سورئہ فرقان کے آخر میں فرماتا ہے قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلاَ دُعَاؤُکُمْ فَقَدْ کَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَکُوْنُ لِزَامًا (الفرقان:۷۸)اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے رسول تو کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پروا ہی کیا کرتا ہے اگر تمہاری طرف سے دعا نہ ہو۔ لَوْلادُعَائُ کُمْ لغت میں ہے دَعَاہٗ نَادَاہُ اس نے اس کو پکارا۔ رَغِبَ اِلَیْہِ (المنجد باب الدال) اس کی طرف رغبت کی اِسْتِعَانَہٗ(المنجد باب الدال) اس سے مدد چاہی ان معنوں کی رو سے اس حصہ آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب تک تم اللہ تعالیٰ کو اپنا مطلوب اپنا مقصود اور اپنا محبوب اس سے امداد حاصل کرنے کے لئے اور اس کی نصرت چاہنے کے لئے اسے نہیں پکارو گے تو مَایَعْبَؤُابِکُمْ رَبِّیْ اسے تمہاری کیا پرواہ ہو گی وہ یَعْبَؤُا کے مفہوم کے مطابق تم سے سلوک نہیں کرے گا عَبَائَ یَعْبَؤُا کے لغت میں یہ معنی ہیں کہ
مَاعَبَأْتُ بِہٖ أی لَمْ اُبَالِ بِہٖ وأَصْلُہٗ مِنَ الْعَبْئِ أی الثِّقْلِ کَأَنَّہٗ قَاَلَ مَا أَرٰی لَہٗ وَزْنًا وَقَدْرًا قَالَ: ( قُلْ مَا یَعْبَؤُبِکُمْ رَبیِّ) وَقِیْلَ أَصْلُہُ مِنْ عَبَأْتُ الطَّیِّبَ کَاَنَّہٗ قِیْلَ مَایُبْقِیْکُمْ لَوْلَادُعَائُ کُمْ، وَقِیْلَ عَبَأْتُ الجَیْشَ وَعَبَّأْتُہٗ ھَیَّئْتُہُ، وَعَبْاَۃُ الجَاھِلِیَّۃِ مَاھِیَ مُدَّخَرَۃٌ فِی اَنْفُسِھِمْ مِنْ حَمِیَّتِھِمُ الْمذْکُوْرَۃِ فِی قَوْلِہٖ: (فِی قُلُوْبِھِمُ الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ)۔
(المفردات راغب۔ کتاب العین صفحہ ۳۲۰)
ان معانی کی رو سے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عَبَأَکے مفہوم والا سلوک تم سے کرے گا سوائے اس کے کہ تمہاری دعا اس کے جلوہ حسن و احسان کو جذب کر لے۔ اب یَعْبَؤُا کے چار معنی بنتے ہیں۔
اوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جب تک تم میرے حضور عاجزی اور انکساری کے ساتھ نہیں جھکو گے اور مجھ سے مدد طلب نہیں کرو گے اور میری قوت کاملہ پر بھروسہ نہیں کرو گے اور یہ یقین پیدا نہیں کرو گے کہ تم میرے فضل کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے اس وقت تک میری نظر میں تمہاری کوئی قدر و منزلت نہیں ہو گی اور تمہارے اعمال میری نظر میں کوئی وزن نہیں رکھیں گے۔
یَعْبَؤُا کے دوسرے معنوں کے مطابق اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ جب تم دعا سے کام نہیں لو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری بقا کے سامان نہیں کرے گا مَایُبْقِیْکُمْ لَوْلاَ دُعَاؤُ کُمْ یعنی عاجزانہ دعائوں کے بغیر تمہارے لئے قـیّومیتِباری کے جلوے ظاہر نہیں ہوں گے۔
تیسرے معنوں کی رو سے قُلْ مَایَعْبَؤُابِکُمْ رَبِّیْ کی یہ تفسیر بنے گی کہ تمہیں جان لینا چاہئے کہ تمہاری تیاریاں اس وقت تک تمہیں کامیابی کا منہ نہیں دکھا سکیں گی جب تک کہ آسمان سے ملائکہ کی افواج کا نزول نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اگر تم چاہتے ہو کہ میرے اذن اور حکم سے آسمان سے فرشتے اتریں اور تمہاری مدد کریں تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم دعا کے ذریعہ میری اس نعمت کو حاصل کرو۔ کیونکہ عَبَاْتُ الْجَیْشَ کے معنی ہیں ھَیَّاتُہٗ یعنی لشکر کو پورے سازو سامان کے ساتھ تیار کر دیا اور اسے حکم دیا کہ جس مقصد کے لئے اسے تیار کیا گیا ہے۔ اس کے حصول کے لئے باہر نکلے۔
چوتھے حمیت کے معنوں کی رو سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے غیرت نہیں رکھے گا اور غیرت نہیں دکھائے گا جب تک کہ تم دعائوں کے ذریعہ سے اس کی غیرت کو تلاش نہ کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ایک جگہ فرمایا ہے۔
اب غیروں سے لڑائی کے معنی ہی کیا ہوئے
تم خود ہی غیر بن کے محلِ سزا ہوئے
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۶ مطبوعہ ۱۹۰۲ء ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۷۹)
پس یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس غیریت کے پردہ کو صرف دعا ہی چاک کر سکتی ہے اگر تم دعائوں کے ذریعہ اور میری محبت کے واسطہ سے میری مدد اور نصرت کے متلاشی ہو گے تو میں ایسے سامان پیدا کر دوں گا کہ ہمارے درمیان کوئی غیریت باقی نہیں رہے گی۔ تب میری غیرت تمہارے لئے جوش میں آئے گی اور تم اپنے مقاصد کو حاصل کر سکو گے۔
غرض اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بڑے وسیع مضامین بیان کئے ہیں۔ جن کا اختصار کے ساتھ میں نے ذکر کیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَقَدْکَذَّبْتُمْْ یعنی تم لوگ دعا کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس جماعت میں شامل نہیں ہوتے جو صبح و شام دعائوں میں مشغول رہنے والی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس بات کو جھٹلا رہے ہو کہ دعا کے بغیر خداتعالیٰ کی نگاہ میں نہ اعمال کا کوئی وزن ہے اور نہ کسی قوم یا کسی انسان کی کوئی قدر و منزلت ہے تم اس بات سے بھی انکاری ہو کہ تمہاری مدد کے لئے خدائے قیوم کے حکم، منشاء اور ارادہ کی ضرورت ہے تم اس بات کو بھی جھٹلا رہے ہو کہ انسان کامیابی صرف اسی صورت میں حاصل کر سکتا ہے جب اس کے مقصد کے حصول کے لئے آسمان سے ملائکہ کی افواج نازل ہوں اور وہ بنی نوع انسان کے دلوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کر دیں تم اس بات کو بھی جھٹلا رہے ہو کہ جب تک تم میں اور خداتعالیٰ میں غیریت قائم رہے گی خداتعالیٰ کی مدد نازل نہیں ہو گی۔
فَسَوْفَ یَکُوْنُ لِزَامًا چونکہ تم ان صداقتوں کو جھٹلا رہے ہو اس لئے تمہاری اس تکذیب اور انکار کے نتائج تمہارے ساتھ اور تمہاری نسلوں کے ساتھ ثابت اور دائم رہیں گے یعنی تمہیں اور تمہاری نسلوں کو اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ جب تک کہ تم اپنی اصلاح نہ کر لو۔
لِزَامٌ کے ایک معنی موت کے بھی ہیں ان معنوں کی رو سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ تم اس بنیادی صداقت کو جھٹلاتے ہو اس لئے یاد رکھو فَسَوْفَ یَکُوْنُ لِزَامًا کہ جلد ہی تمہیں ہلاکت اور موت کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ پھر لِزَاماً کے معنی اَلْفَصْلُ فِی الْقَضِیَّۃٍ (المنجد۔ باب اللام)کے بھی ہیں ان معنوں کی رو سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دنیا میں اس وقت دو گروہ پیدا ہو گئے ہیں ایک گروہ وہ ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ الٰہی سلسلہ کی طرف منسوب ہونے والا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء اور ارادہ یہ ہے کہ وہ ساری دنیا پر اسلام کو غالب کرے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خداتعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے اور اسلام کی اس تعلیم کو جاننے، اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنے اور آنحضرتﷺ کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خداتعالیٰ کے مامور پر ایمان لایا جاوے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسلام باوجود تدابیر کی کمی کے باوجود ذرائع اور وسائل کے فقدان کے دنیا پر غالب آئے گا اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے ماتحت ہی غالب ہو گا۔
دوسرا گروہ وہ ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پہلے گروہ کے تمام دعاوی جھوٹے اور غلط ہیں اس گروہ کا ایک حصہ تو یہ کہتا ہے کہ خداتعالیٰ کا وجود ہی نہیں اور سارے مذاہب ہی جھوٹے ہیں اور مذہب کے نام پر کئے جانے والے جتنے دعاوی ہیں ہم کسی کو بھی ماننے کے لئے تیار نہیں پھر ایک گروہ اس جماعت کا وہ ہے جو کہتا ہے کہ خدا ہے اور وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ خدا دنیا کی اصلاح کے لئے اپنے انبیاء مبعوث فرماتا رہا ہے لیکن وہ یہ نہیں مانتا کہ محمد رسول اللہﷺ خاتم الانبیاء اور افضل الانبیاء ہیں اور جو شریعت اور ہدایت آپؐ کے ذریعہ بنی نوع انسان کو دی گئی ہے وہ بنی نوع انسان کی قیامت تک کی تمام الجھنوں کو سلجھانے کے لئے کافی ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے پھر اس گروہ کا ایک حصہ وہ ہے جو اپنی زبان سے تو کہتا ہے کہ اسلام خداتعالیٰ کا سچا مذہب ہے لیکن اپنی کسی باطنی یا ظاہری غفلت یا گناہ کے نتیجہ میں وہ یہ نہیں سمجھ سکتا یا سمجھ نہیں رہا کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اس مقصد اور غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ تمام اکناف عالم اور تمام اقوام عالم میں اسلام کو پھیلایا جائے حتیٰ کہ تمام ادیان باطلہ پر اس کا غلبہ ہو جائے۔ غرض یہ دو گروہ ہیں ان کے درمیان ایک قضیہ (جھگڑا) ہے اور یہ قضیہ ظاہر ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَسَوْفَ یَکُوْنُ لِزَامًا۔ اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرنے والا ہے کہ جماعت احمدیہ کا موقف ہی صحیح اور درست ہے اور یہ کہ یہ چھوٹی سی کمزور اور حقیر سمجھی جانے والی جماعت اموال نہ ہونے کے باوجود ذرائع و وسائل مہیا نہ ہونے کے باوجود اور دنیا میں کسی اقتدار اور وجاہت کے نہ ہونے کے باوجود صرف اس لئے کامیاب ہو گی کہ وہ اپنے رب کریم کی طرف جھکنے والی ہے اور ہر وقت دعائوں میں مشغول رہنے والی ہے۔ (انشاء اللہ تعالیٰ) غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَسَوْفَ یَکُوْنُ لِزَامًا میرا یہ فیصلہ ہے اور یہ فیصلہ عنقریب ہی وقت آنے پر تمہارے سامنے ظاہر ہو جائے گا اور جب یہ حقیقت ہے کہ اگر دنیا کی ساری دولت بھی ہمارے پاس ہوتی، دنیا کے سارے اموال بھی ہمارے پاس ہوتے، دنیا کے اقتدار کے بھی ہم مالک ہوتے، دنیا کی ساری عزتیں اور وجاہتیں بھی ہمارے قدموں میں ہوتیں تب بھی ہم کسی تدبیر کے نتیجہ میں فلاح اور کامیابی کا منہ نہ دیکھ سکتے تھے جب تک کہ ہم عاجزی اور انکسار کے ساتھ اپنے رب کی طرف جھکنے والے نہ ہوتے اس کو اپنا مطلوب مقصود اور محبوب نہ بناتے اور اس سے مدد اور نصرت کے طالب نہ ہوتے اور اس بات پر پختہ یقین نہ رکھتے کہ کامیابی محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان کے نتیجہ میں نصیب ہوسکتی ہے ہماری تدابیر اور ہمارے اعمال کے نتیجہ میں نہیں۔ پس جب یہ حقیقت ہے تو ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر وقت اور ہر آن اپنے ربّ کے حضور یہ دعائیں کرتے رہیں کہ اے خدا! تو نے ہمیں تدبیر میسر نہیں کی لیکن تو نے ہمیں گداز دل عطا کئے ہیں۔ ہم کو منکسر مزاج دئیے ہیں ہم تیرے حضور جھکتے ہیں تو ہم پر فضل کر، تو ہم پر رحمت کی نگاہ کر، اور اس مقصد کے حصول کے سامان جلد پیدا کر دے جس مقصد کے لئے تو نے ہماری جماعت کو قائم کیا ہے۔
تو ہمیں کامیابی عطا فرما اور پھر اے خدا! تو ہم پر ایسا فضل کر کہ آسمان سے فرشتوں کی افواج نازل ہوں اور بنی نوع انسان کے دلوں پر ان کا تصرف ہو جائے حتیٰ کہ وہ ان دلوں کو تبدیل کر دے تا تیرا جلال اور کبریائی، تیری عظمت اور تیری توحید دلوں میں پیدا ہو جائے اور وہ جو آج تیرے خلاف باغیانہ خیالات رکھتے ہیں وہ تیرے مطیع بندے بن جائیں اور اے خدا! جیسا کہ تیرا وعدہ ہے غلبہ اسلام کے دن ہمیں جلد دکھا تا ہم تمام اکناف عالم میں
لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
کی صدا سننے لگیں اور تمام بنی نوع انسان اپنے محسن حقیقی محمدﷺ سے محبت کرنے لگیں۔ خدا کرے کہ اس کے سامان جلد پیدا ہو جائیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۱؍ مئی ۱۹۶۶ء)
٭…٭…٭








امرائے جماعت ہر مقام سے یہ رپورٹ حاصل کریں
کہ کسی جگہ کوئی احمدی کبھی بھوکا نہ رہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸ ؍اپریل ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ء ء ء
٭ وقفِ عارضی کی سکیم کے تحت ایّام وقف کریں۔
٭ قرآن کریم پڑھانے کا انتظام باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہوناچاہئے۔
٭ ہر احمدی پر اللہ تعالیٰ نے بڑی اہم اور وسیع ذمہ داری ڈالی ہے۔
٭ ذیلی تنظیموں کے سپرد محدود کام محدود دائرہ عمل میں ہے۔
٭ امراء اضلاع ہر جماعت میں قرآن کریم پڑھانے کا انتظام کریں۔





تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
وَذَکِّرْفَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ o (الذٰرِیٰت: ۵۶)
کہ اے خدا کے رسول! (اور پھر وہ جو اس کے قائم مقامی میں ذمہ داری کے عہدے پر کھڑے کئے جاتے ہیں) تو مومنوں کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلاتا رہ کیونکہ یہ یاد دلانا مومنوں کو نفع بخشتا ہے۔
اس آیہ کریمہ میں ایک تو باوجود غفلت کے مومن کی عزت کو یہ کہہ کر قائم کیا ہے کہ اگر کبھی وہ اپنی کسی ذمہ داری کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تو اس کے یہ معنی نہیں لئے جانے چاہئیں کہ ایمان میں کمزوری پیدا ہو گئی ہے بلکہ انسانی فطرت میں ہی یہ بات پائی جاتی ہے کہ اگر بار بار اس کے سامنے اس کی ذمہ داریاں نہ لائی جائیں تو وہ ان چیزوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جو بار بار اس کے سامنے آتی ہیں اور اس بشری کمزوری کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ذمہ دار افراد کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ حقیقی مومنین کے سامنے ان کی ذمہ داریاں بار بار لایا کرو اور انہیں یاد دلاتے رہا کرو تاکہ وہ اس یاددہانی سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کریں۔
اس حکم کے ماتحت آج میں احباب جماعت کو ان کی بعض ذمہ داریاں یاد دلانا چاہتا ہوں (۱) پہلی یہ کہ دوست جانتے ہیں کہ ہمارے مالی سال کا یہ آخری مہینہ جا رہا ہے تمام احباب جماعت کو عموماً اور تمام عہدیداران نظام کو خصوصاً میں اس طرف متوجہ کرناچاہتا ہوں کہ وہ اپنی پوری کوشش کریں کہ جماعت کا جو بجٹ ہے جسے ہم حصہ آمد (یعنی وصیت کے چندے) یا چندہ عام کہتے ہیں یا جلسہ سالانہ کا چندہ ہے نہ صرف یہ کہ پورا ہو جائے بلکہ جو بجٹ بنایا گیا تھا اس سے زیادہ آمد ہو جائے اور یقیناً آمد زیادہ ہو سکتی ہے۔ کیونکہ جو بجٹ شوریٰ میں پیش ہوتا ہے اور جس کی سفارش کی جاتی ہے اور بعد میں منظوری دی جاتی ہے۔ وہ کئی لاکھ روپیہ اس بجٹ سے کم ہوتا ہے جو فی الواقعہ جماعت کے اوپر ان کی استعداد اور ذمہ داریوں کے پیش نظر دیا جانا چاہئے اس کی بہت سی وجوہات ہیں اس کی اصلاح کی بھی ضرورت ہے لیکن اس کی اصلاح میں بعض روکیں بھی ہیں۔ انشاء اللہ ان کی اصلاح جلد ہی ہو جائیگی۔
پس جو بجٹ منظور ہو چکا ہے وہ اصل ذمہ داری سے کم درجہ پر ہے اس لئے نہ صرف یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ بجٹ پورا ہو جائے بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کوشش ہونی چاہئے کہ جو حقیقی اور اصلی بجٹ آمد کا ہے۔ اس کے مطابق ساری جماعتوں کی آمد ہو جائے۔ امید ہے کہ تمام پریذیڈنٹ صاحبان اور مال کے ساتھ تعلق رکھنے والے عہدہ داران اور امراء صاحبان اور امراء اضلاع اس امر کی طرف خصوصی توجہ دیں گے کہ اس ماہ کے اندر سالِ رواں کا بجٹ نہ صرف یہ کہ پورا ہو جائے بلکہ آمد بجٹ سے بھی زیادہ ہوجائے۔
(۲) دوسری بات جس کی طرف میں آج جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے اپنے ایک خطبہ میں جماعت کے سامنے قرآن کریم کی یہ تعلیم رکھی تھی کہ اللہ تعالیٰ ہم سے یہ چاہتا اور مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اس بات کا خیال رکھیں کہ ہم میں سے کوئی شخص رات کو بھوکا نہ سوئے اور نبی اکرمﷺ نے ہمیں ایک ایسی تعلیم دی ہے کہ ہم کوئی زائد خرچ کئے بغیر خداتعالیٰ کا یہ حکم پورا کر سکتے ہیں۔
بہت سے دوستوں اور بہت سی جماعتوں نے اس کے بعد مجھے خطوط لکھے ہیں کہ ہم اس کی طرف توجہ دے رہے ہیں اور ہمارے گائوں قصبہ یا جماعت میں کوئی احمدی بھوکا نہیں سوتا لیکن جماعتوں کے ایک حصہ کی طرف سے اس اطلاع کا آ جانا میری تسلی کا موجب نہیں ہو سکتا اور یقینا میری تسلی نہ ہو گی جب تک کہ ہر امیر ضلع یہ رپورٹ نہ دے اور آئندہ بھی متواتر ایسی رپورٹ نہ دیتا چلا جائے کہ انہوں نے ایسا انتظام کر لیا ہے اور اس کی تعمیل بھی ہو رہی ہے کہ کوئی احمدی فرد رات کو بھوکا نہیں سوتا بلکہ نبی اکرمﷺ کے ارشاد کے مطابق اور اسی طریق پر جو حضورﷺ نے بتایا ہم نے یہ انتظام کر دیا ہے کہ اگر پہلے کبھی کوئی شخص نامساعد حالات سے مجبور ہو کر بھوکا رہا ہو تو آئندہ وہ بھوکا نہیں رہے گا۔
اس سلسلہ میں امراء اضلاع سے اور ان بڑی جماعتوں کے امراء سے جن کو بطور امیر ضلع ہی سمجھا جاتا ہے۔ میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ ہر دو ماہ کے بعد وہ مجھے اس سلسلہ میں اپنی تفصیلی رپورٹ بھجوایا کریں گے۔ تفصیلی اس معنی میں نہیںکہ کوئی لمبی چوڑی رپورٹ مجھے بھجوائیں۔ تفصیلی اس معنی میں کہ وہ مجھے یہ بتائیں کہ انہوں نے اپنے علاقہ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور ہر مقام سے یہ رپورٹ حاصل کر لی ہے کہ کسی مقام پر بھی کوئی احمدی بھوکا نہیں رہتا۔
(۳) تیسری بات جس کی طرف میں احباب جماعت، عہدیداران جماعت اور خصوصاً امراء اضلاع کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے عارضی وقف کے متعلق جماعت میں تحریک کی تھی اس کے نتیجہ میں بیسیوں افراد نے مجھے براہ راست چٹھیاں لکھیں اور اپنے وقت کے ایک حصہ کو اس سکیم کے مطابق وقف کیا جو دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک کے وقف کیلئے میں نے جماعت کے سامنے رکھی تھی انہوں نے اس عرصہ میں اپنے خرچ پر مقررہ علاقہ میں رہ کر اصلاحی اور تربیتی کام کرنے کیلئے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔
چند جماعتوں کی طرف سے بھی مجھے اس کے متعلق رپورٹ ملی ہے لیکن جماعتوں اور اضلاع کی اکثریت ایسی ہے کہ جن کی طرف سے مجھے اس سلسلہ میں ابھی تک کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی امراء اضلاع کو اس طرف فوری توجہ دینی چاہئے کیونکہ اس منصوبہ کے ماتحت میں یکم مئی سے کام شروع کروانا چاہتا ہوں۔ پس بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں اس لئے اس کی طرف فوری توجہ دی جانی چاہئے۔ امراء اضلاع جماعت کے مستعد اور مخلص احباب کو اپنی ذمہ داری کی طرف متوجہ کریں تا زیادہ سے زیادہ احمدی اس مقصد کے پیش نظر اور خدمت اسلام کے لئے اپنے وقت کا ایک تھوڑا اور حقیر سا حصہ پیش کریں۔ میں امید کرتا ہوں کہ تمام امراء اضلاع یکم مئی سے پہلے پہلے اپنی رپورٹ اس سلسلہ میں مجھے بھجوادیں گے۔
(۴) ایک اور منصوبہ جو میں نے جماعت کے سامنے پیش کیا تھا اور وہ بنیادی اہمیت کا حامل اور بہت ضروری ہے وہ یہ تھا کہ ہم میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہ رہے جو قرآن کریم ناظرہ نہ پڑھ سکتا ہو اور اس کے بعد اسے ترجمہ سکھایا جائے۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آ جائے کہ کوئی احمدی بھی ایسا نہ رہے جو قرآن کریم کا ترجمہ نہ جانتا ہو۔
اس منصوبہ کے لئے میں نے لاہور کی جماعت اور سیالکوٹ کا ضلع مجلس خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا تھا اور کراچی کی جماعت اور جھنگ کا ضلع مجلس انصاراللہ کے سپرد کیا تھا اور باقی تمام جماعت کا کام نظارت اصلاح و ارشاد نے کرنا تھا۔
اس سلسلہ میں بھی کچھ کام ہوا ہے لیکن میرے نزدیک ابھی وہ کام تسلی بخش نہیں۔ کوئی جماعت ایسی نہیں رہنی چاہئے کہ جہاں قرآن کریم پڑھانے کا انتظام نہ ہو۔
اس منصوبہ کے ماتحت ایک خوشی جو مجھے پہنچی وہ تو یہ ہے کہ بعض لوگوں نے انفرادی طور پر اس طرف توجہ دی اور انہوں نے اپنے حلقہ میں قریباً سارا وقت ہی قرآن کریم کے پڑھانے کے لئے پیش کر دیا۔ وہ بڑا اچھا کام کر رہے ہیں اور مجھے رپورٹ بھی بھجوا رہے ہیں۔ لیکن اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے محض چند افراد کی خوشکن رپورٹیں کافی نہیں بلکہ ساری جماعت کو جماعتی لحاظ سے اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ قرآن کریم ہماری زندگی اور ہماری روح ہے۔ ہماری روحانی بقاء کا انحصار قرآن کریم پر ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے (شاید ایک جگہ سے زیادہ ہی جگہوں پر فرمایا ہو) کہ قیامت کے دن قرآن کریم تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف گواہی دے گا۔ اگر قرآن کریم کی گواہی تمہارے حق میں ہوئی تو تم اللہ تعالیٰ کی رضاء کو حاصل کر لو گے۔ اور اگر قرآن کریم کی گواہی تمہارے خلاف ہوئی تو تم خداتعالیٰ کے غضب کے مورد ہو گے۔
(کشتی نوح ۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۷)
پس قرآن کریم کا ہر ایک حکم واجب العمل ہے۔ اگر خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہو اور قرآن کریم کی ہر نہی (ہر وہ بات جس سے قرآن کریم روکتا ہے اس) سے بچنا ضروری ہے۔ اگر ہم رضاء الٰہی کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
پس یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے جس کی طرف میں جماعت کو متوجہ کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ یہ تیرے لئے بھی ذکر ہے اور تیری قوم کے لئے بھی ذکر ہے۔ یعنی یہ ایک ایسی تعلیم ہے جس کے نتیجہ میں تو بھی اور تیری قوم بھی اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی شرف اور عزت حاصل کر لو گے۔ اس لئے یاد رکھو کہ اگر تم نے اس طرف توجہ نہ کی تو تم سے سوال کیا جائے گا اور تمہارا محاسبہ ہو گا۔
دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فرمان اس آیت کی تفسیر میں ہے وَاِنَّہٗ لَذِکْرٌلَّکَ وَلِقَوْمِکَج وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ۔ (الزخرف: ۴۵) قرآن کریم کہتا ہے کہ تم سے سوال کیا جائے گا کہ دنیا میں عزت کے حصول کے لئے اور دنیا میں شرف حاصل کرنے کے لئے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک حسین ترین تعلیم ہم نے تمہاری طرف بھیجی تھی۔ بتائو تم نے کہاں تک اس پر عمل کیا۔
عمل کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہمیں اس کا علم ہو اور ہمیں اس سے پوری واقفیت ہو۔ اگر ہم قرآن کریم کو نہیں پڑھتے اور اس کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تو پھر ہم کیسے امید کر سکتے ہیں کہ قرآن کریم قیامت کے روز ہمارے حق میں گواہی دے گا کہ اے میرے رب! تیرے اس بندے نے تیری اس تعلیم کو پڑھا اور سمجھا اور پھر اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کی۔
ظاہر ہے کہ ان دو باتوں میں اتنا تضاد اور تناقض ہے۔ ہم ایک لحظہ کے لئے بھی یہ تصور نہیں کر سکتے کہ نہ ہمیں قرآن کریم ناظرہ پڑھنا آتا ہے اور نہ ہمیں اس کا ترجمہ آتا ہے اور نہ ہم اس کے معانی سمجھنے کی کوشش کریں اور نہ اس پر عمل کریںپھر بھی قیامت کے روز خداتعالیٰ ایسے سامان اور حالات پیدا کر دے گا کہ خداتعالیٰ کا یہی قرآن ہمارے حق میں گواہی دے۔ اس قسم کا تصور انسانی عقل میں قطعاً نہیں آسکتا!!!
اس سلسلہ میں میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض جگہ سے یہ شکایت موصول ہوئی ہے کہ گو ہماری یہ جماعت خدام الاحمدیہ کے سپرد نہ کی گئی تھی لیکن انہوں نے جماعتی انتظام سے علیحدہ قرآن کریم سکھانے کا اپنے طور پر انتظام کر دیا ہے اور وہ جماعت سے تعاون نہیں کر رہے۔ اگر ایک مقام پر بھی ایسا ہوا ہو تو یہ بہت افسوسناک ہے خدام کو یاد رکھنا چاہئے کہ جو طریق انہوں نے اختیار کیا ہے وہ درست نہیں جن جگہوں میں قرآن کریم کے پڑھانے کا کام خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا گیا ہے مثلاً لاہور اور ضلع سیالکوٹ کی جماعتیں۔ وہاں جماعتی نظام سے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ مجلس خدام الاحمدیہ سے پورا تعاون کریں گے۔ اور جس جگہ یا علاقہ میں قرآن کریم پڑھانے کا کام مجلس انصاراللہ کے سپرد کیا گیا ہے اس علاقہ کی جماعتوں سے میں امید اور توقع رکھتا ہوں کہ وہ مجلس انصاراللہ سے پورا پورا تعاون کریں گی اور وہ مقامات، جماعتیں یا اضلاع جہاں قرآن کریم کی تعلیم کا کام جماعتی نظام کے سپرد کیا گیا ہے وہاں جہاں تک قرآن کریم پڑھانے کا سوال ہے خدام الاحمدیہ یا انصاراللہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے کیونکہ یہ کام ان کے سپرد کیا ہی نہیں گیا۔
تمام دوستوں کو انصار میں سے ہوں یا خدام میں سے، جوان ہوں یا بڑی عمر کے یہ بنیادی بات یاد رکھنی چاہئے کہ ’’احمدی‘‘ ہونے اور ’’انصار یا خدام کے رکن‘‘ ہونے میں بڑا فرق ہے۔ ایک احمدی پر اللہ تعالیٰ نے بڑی اہم اور بڑی وسیع ذمہ داری ڈالی ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں حضور کے منشاء اور ارشاد کے ماتحت اور پھر بعد میں حضور ؑ کے خلفاء کے منشاء اور ارشاد کے ماتحت تمام دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے جو سکیمیں تیار کی جائیں ہر احمدی اپنا سب کچھ قربان کرکے ان سکیموں کو کامیاب کرنے کی کوشش کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ جو آسمان پر ہو چکا ہے کہ وہ اسلام کو اس زمانہ میں جو مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کرے گا۔ اس فیصلے کا نفوذ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جسے ہماری کوشش جذب کرے اس دنیا میں بھی ہمیں جلد تر نظر آ جائے۔
یہ الٰہی فیصلہ جو آسمان پر ہو چکا ہے زمین پر نافذ ہو کر رہے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی!!! لیکن اس راہ میں انتہائی قربانی پیش کرنا ہمارا فرض ہے۔ یہ کام جو ایک احمدی کے سپرد ہے احمدی نوجوان کے بھی، احمدی بوڑھے کے بھی، احمدی مرد کے بھی، احمدی عورت کے بھی اور احمدی بچے کے بھی!!! اس وسیع کام کا ایک حصہ جو شاید اس کام کا ہزارواں حصہ بھی نہ ہو۔ مجالس خدام الاحمدیہ، انصاراللہ، لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ کے سپرد کیا گیا ہے تاکہ ان مختلف گروہوں کی تربیت ایسے رنگ میں کی جا سکے۔ یا ان کی تربیت ایسے طور پر قائم رکھی جا سکے کہ وہ اس ذمہ داری کو کما حقہ ادا کر سکیں جو ایک احمدی کی حیثیت سے ان کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے۔
پس مجلس خدام الاحمدیہ یا مجلس انصاراللہ کا رکن ہونے کی حیثیت سے تم پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ بہت ہی محدود ہے۔ اس محدود ذمہ داری کو ٹھیک طرح نباہ لینے کے بعد اگر کوئی رکن خوش ہو جاتا ہے کہ جتنی ذمہ داری بھی بحیثیت احمدی ہونے کے اس پر ڈالی گئی تھی وہ اس نے پوری کر دی تو وہ غلطی خوردہ ہے۔ کیونکہ جو ذمہ داری اس پر ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے ڈالی گئی ہے یہ ذمہ داری اس کے مقابل پر شاید ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ اس پر خوش ہو کے بیٹھ جانا بڑی خطرناک بات ہے۔
یہ ہمارے لئے سوچ اور فکر کا مقام ہے اور اس کیلئے خطرہ کا مقام ہے اسی طرح اگر جوانی کے جوش میں یا اپنے تجربہ کے زعم میں وہ اپنے حدود سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو بھی وہ اچھا کام نہیں کرتا۔
جو جماعتی نظام کی ذمہ داری ہے وہ جماعتی نظام نے ہی ادا کرنی ہے اور تم نے جماعت کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے اس میں حصہ لینا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مجالس خدام الاحمدیہ اور مجالس انصاراللہ اتنی زیر الزام نہیں آتیں جتنے کہ جماعتی عہدیدار۔ حضرت مصلح موعود (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے مجالس خدام الاحمدیہ اور مجالس انصاراللہ کے متعلق یہ ارشاد فرمایا تھا کہ میں نے ایک محدود کام محدود دائرہ عمل میںان تنظیموں کے سپرد کیا ہے۔ جماعتی نظام کو میں یہ حق نہیں دیتا کہ وہ ان کے کاموں میں دخل دے کوئی عہدیدار پریذیڈنٹ ہو یا امیر، امیر ضلع ہو یا امیر علاقائی، اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خدام الاحمدیہ کے کام میں دخل دے یا انہیں حکم دے لیکن میں اجازت دیتا ہوں کہ اگر وہ ضرورت محسوس کریں تو وہ ان سے درخواست کر سکتے ہیں کہ بحیثیت مجلس خدام الاحمدیہ تم یہ کام کرو۔ درخواست کرنے کی اجازت دینا تو دراصل امراء کو غیرت دلانے کے لئے تھا تا وہ اپنی تنظیم کو اس حد تک بہتر بنا لیں کہ ان کو کبھی اس قسم کی درخواست نہ کرنی پڑے لیکن انہوں نے اس اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور جب بھی کوئی جماعتی کام ان کے سامنے آیا تو انہوں نے بجائے اس کے کہ جماعتی نظام سے کام لیتے، آرام سے مجلس خدام الاحمدیہ کے مقامی قائد کو بلایا اور ان سے درخواست کی کہ مہربانی کرکے یہ کام آپ کر دیں اور اس طرح وہ جماعتی نظام کو کمزور کرنے کا موجب ہوئے۔ اس لئے آج سے ان کا یہ حق میں واپس لیتا ہوں جماعت کا کوئی عہدیدار اب اس بات کا مجاز نہیں ہو گا کہ وہ مجالس خدام الاحمدیہ یا مجالس انصاراللہ سے کسی قسم کی کوئی درخواست کرے۔ حکم وہ دے نہیں سکتا وہ پہلے ہی منع ہے۔ ’’درخواست‘‘ کی اجازت اب واپس لے لی جاتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آئندہ جماعتی کام انہوں نے جماعتی نظام کے ذریعہ سے ہی کروانے ہیں۔ مجلس خدام الاحمدیہ یا انصاراللہ سے کبھی اس قسم کی درخواست نہ کرنا ہو گی۔ فی الحال میں اس ’’اجازت‘‘ کو صرف ایک سال کے لئے واپس لیتا ہوں پھر حالات دیکھ کر فیصلہ کر سکوں گا اس کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا۔
جماعتی عہدیداروں کو بھی اور ان لوگوں کو بھی جو ایک طرف احمدی ہیں اور دوسری طرف احمدی ہونے کی وجہ سے بعض مخصوص و محدود ذمہ داریاں بطور رکن خدام الاحمدیہ یا بطور رکن مجلس انصاراللہ ان پر عائد ہوتی ہیں۔
میں بڑی وضاحت سے یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جماعتی کام بہرحال اہم ہیں اگر امیر جماعت یا پریذیڈنٹ بحیثیت احمدی کے انہیں کوئی حکم دے تو ان کا فرض ہے کہ وہ اس حکم کو بجا لائیں۔ خواہ اس حکم کی بجاآوری کے نتیجہ میں انہیں مجلس خدام الاحمدیہ کے کسی افسر کی حکم عدولی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ سر کشی تو کسی صورت میں جائز نہیں لیکن انہیں چاہئے کہ اپنی تنظیم کو اطلاع دے دیں کہ پریذیڈنٹ یا امیر نے میرے ذمہ فلاں کام لگایا ہے اس وقت مجھے وہ کام کرنا ہے۔ اور اس وقت آپ نے ایک دوسرا کام میرے ذمہ لگایا تھا۔ میں خدام الاحمدیہ یا انصاراللہ کا وہ کام اس وقت نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اس سے زیادہ اہم کام مجھے بڑی تنظیم کی طرف سے ملا ہے اس لئے میں جماعتی کام کروں گا اس ذیلی تنظیم کا کام نہیں کر سکوں گا اس طرح وہ معذرت کر دیں لیکن جماعتی تنظیم سے معذرت نہ کر بیٹھیں۔ یہ طریق قطعاً جائز نہیں بہرحال جماعتی کام کو ذیلی تنظیموں کے کام پر مقدم رکھنا ہو گا۔ اور جہاں جہاں مجالس خدام الاحمدیہ نے قرآن کریم کے پڑھانے کا انتظام جماعتی انتظام سے علیحدہ ہو کر اپنے طور پر شروع کر دیا ہے۔ وہ میری آواز پہنچتے ہی اس کام کو بند کر دیں اور اپنی خدمات جماعت کے پریذیڈنٹ یا امیر کو پیش کر دیں اور جماعتی انتظام کے ماتحت اس کام کو کریں۔ قرآن کریم کا سمجھنا، اس کا فہم حاصل کرنا سب سے اہم کام ہے مگر قرآن کریم خود فرماتا ہے کہ جب مجھے سمجھنا ہو تو یاد رکھو کہ اپنے نفس کی اصلاح کے بعد میرے پاس آنا کیونکہ سوائے اس شخص کے جو پاک ہو میں کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دیتا اور اگر تم مطہر ہوئے بغیر مجھے ہاتھ لگانا چاہو گے تو مجھے خداتعالیٰ نے یہ طاقت بخشی ہے کہ وہ ہاتھ مجھے چھونے نہیں پائے گا۔ تمہارا ہاتھ مجھے اس وقت چھو سکے گا جب تم جتنا مجھے جانتے ہو۔ اس پر عمل کرنے والے بھی ہو۔ اور پھر میرے پاس اس نیت کے ساتھ آئو کہ جو زائد علم تم مجھ سے حاصل کرو اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالو گے۔
یہ بڑا ہی اہم کام ہے قرآن کریم کا سمجھنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے۔ قرآن کریم کی اشاعت کے لئے ہی ہمیں زندہ کیا گیا ہے اور ہمیں منظم کیا گیا ہے اس الٰہی سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے قائم ہی اسی لئے کیا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا بھر میں اس رنگ میں پھیلائیں کہ دنیا یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے کہ اگر ہم اس دنیا اور اخروی زندگی کی فلاح چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا ہو گا۔ دنیا میں قرآن کریم کی تعلیم آپ پھیلا کیسے سکتے ہیں جبکہ خود آپ کو ہی اس کا علم حاصل نہ ہو۔ تو جو ہماری پیدائش کی غرض، ہمارے قیام کی غرض اور ہماری زندگی کا مقصود ہے وہ حاصل ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ ہم خود قرآن کریم کو نہ سمجھیں اور اس کے علوم اچھی طرح ہمارے ذہنوں میں مستحضر نہ ہوں۔
پس میں تمام امراء اضلاع کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے ضلع کی ہر جماعت میں قرآن کریم پڑھانے کا باقاعدہ ایک نظام کے ماتحت انتظام کریں اور ہر دو ماہ کے بعد مجھے اس کی رپورٹ بھجوایاکریں۔
(۵) پھر اس کے علاوہ ایک منصوبہ تربیتی اور اصلاحی دو ورقوں کا کثرت کے ساتھ شائع کرنے کا ہے۔ اس کی تفاصیل میں مَیں اس وقت جانا نہیں چاہتا وہ بھی ایک اہم کام ہے۔ چونکہ بہت سے کام ہیں جن کی طرف قریباً روزانہ ہی توجہ دینی پڑتی ہے اس لئے اس غرض کے لئے کہ نگرانی صحیح طور پر ہو سکے اور کام ٹھیک طرح چلتے رہیں۔ میں نائب ناظر اصلاح و ارشاد کی ایک اسامی قائم کرتا ہوں اور فی الحال اس پر مکرم ابوالعطاء صاحب کو مقرر کرتا ہوں وہ براہ راست میرے سامنے ذمہ دار ہوں گے۔
میں چاہتا ہوں کہ بجٹ پر بار ڈالے بغیر ان کاموں کو کیا جائے اِلاماشاء اللہ۔ اس لئے ان کا عملہ بھی رضاکاروں پر مشتمل ہونا چاہئے اور ربوہ کی جماعت کو اس کے لئے رضا کار پیش کرنے چاہئیں۔
اہل ربوہ کو غیرت دلانے کے لئے میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہماری بیسیوں جماعتیں ایسی ہیں کہ جہاں مستعد اور مخلص احباب جماعت کافی تعداد میں دو دو تین تین چار چار پانچ پانچ گھنٹے روزانہ دیتے ہیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ آپ ان سے پیچھے رہ جائیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ ان کاموں کے لئے ربوہ کی جماعت رضا کار پیش کر دے گی تو وہ اس کام کو خوش اسلوبی سے سر انجام دے سکیں۔
اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے، محض اپنے احسان سے ہمیں اس بات کی توفیق عطا کرے کہ وہ ذمہ داریاں جو اس نے ہم پر عائد کی ہیں اور وہ کام جن کے بغیر وہ ہم سے راضی نہیں ہو سکتا ہم کما حقہٗ انہیں سرانجام دے سکیں کہ اس کے فضل کے بغیر ہم اس کے فضل کو بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۳؍ اپریل ۱۹۶۶ء)
٭…٭…٭




ہم میں سے ہر ایک کو خدا تعالیٰ کی خاطر ہر قسم کی
قربانیوں کیلئے ہمیشہ تیار رہنا چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵ ؍اپریل ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ مومنین فتنوں اور آزمائشوں سے گزر کر ہی عظیم الشان نعمتوں کے وارث بنتے ہیں۔
٭ اللہ تعالیٰ الشّر اور الخیر کے ذریعہ تمہاری آزمائش کرتا ہے۔
٭ ایک طرف احکام قرآنی اور دوسری طرف وساوس شیطانی سے تمہاری آزمائش کی جاتی ہے۔
٭ اپنے گھروں کے ماحول کو خوشگوار بناؤ اپنی بیوی اوربچوں سے پیار کرو۔
٭ آزمائشوں سے ہم نے ضرور گزرنا ہے قضاء و قدر کی آزمائشوں میں سے بھی اور لوگوں کی ایذاء رسانیوں میں سے بھی۔



تشہد،تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ العنکبوت کی مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں۔
الٓـمّo اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوآ اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لاَ یُفْتَنُوْنَo وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَo (العنکبوت : ۲ تا ۴)
پھر فرمایا۔
سورۃ عنکبوت کی ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ کیا اس زمانہ کے لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کا یہ کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں کافی ہو گا اور وہ چھوڑ دئیے جائیں گے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا اور فتنہ میں نہ ڈالا جائے گا حالانکہ جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں ان کو ہم نے آزمایا تھا اور اب بھی اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرے گا اور وہ ظاہر کر دے گا ان کو جنہوں نے سچ بولا اور اپنی قربانیوں سے اپنی سچائی پر مہر لگائی اور ان کو بھی جنہوں نے جھوٹ بولا جن کی زبان پر ایمان تھا لیکن ان کے دل ایمان سے خالی تھے۔ انہوں نے ایمان کے تقاضوں کو پورا نہ کیا۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کے مامور (رسول اور نبی) پر ایمان لاتی ہے تو اس کا محض زبانی ایمان اللہ تعالیٰ کو مقبول نہیں ہوتا بلکہ اس ایمان کے نتیجہ میں جب تک اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ (البقرہ : ۱۳۲) کا مظاہرہ نہ ہو۔ یعنی اس وقت تک وہ قوم الٰہی انعامات، فضلوں، برکتوں اور رحمتوں کی وارث نہیں بن سکتی۔ جب تک وہ ہر قسم کے فتنوں اور ابتلائوں اور آزمائشوں میں پوری نہ اترے اور پوری طرح ثابت قدم نہ رہے۔
قرآن کریم کا مطالعہ کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے فتنے اور آزمائشیں تین قسم کی ہیں۔ ان میں سے مومنوں کو گزرنا پڑتا ہے۔ تین قسم کی آگ ہے۔ جس میں اپنے ربّ کی رضا کے لئے انہیں چھلانگ لگانا پڑتی ہے۔ اگر وہ خلوص نیت رکھنے والے ہوں اور ان کا ایمان سچا ہو۔ تو اللہ تعالیٰ ان تینوں قسم کی آگوں کو ان کیلئے بَرْدًا وَّسَلاَمًاً (الانبیاء:۷۰)بنا دیتا ہے۔ اور وہ ان آزمائشوں کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جاتے ہیں۔
(۱) پہلا امتحان اور آزمائش (کیونکہ فتنہ کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں) وہ احکام الٰہی یا تعلیم الٰہی ہے۔ جو ایک نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آتا ہے اور جس تعلیم کے نتیجہ میں مومنوں کو کئی قسم کے مجاہدات کرنے پڑتے ہیں۔ اپنے نفسوں کو مارنا پڑتا ہے بعض دفعہ اپنے مالوں کو قربان کرنے سے اور بعض دفعہ اپنی عزتیں اور وجاہتیں اللہ تعالیٰ کے لئے نچھاور کرنے سے۔
قرآن کریم چونکہ آخری شریعت ہے اس لئے اس نے ہمارے لئے کامل ہدایت مہیا کی۔ اور ان کامل مجاہدات کے طریق ہمیں سکھائے جن پر عمل پیرا ہو کر ہم انتہائی عظیم الشان نعمتوں کے وارث بن سکتے ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً ط وَاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ۔ (الانبیاء : ۳۶) یعنی ہم تمہاری اَلشَّر اور اَلْخَیْر کے ذریعہ آزمائش کریں گے۔ اور آخر ہماری طرف ہی تم کو لوٹا کر لایا جائے گا۔
گویا فرمایا اگر تم اس آزمائش میں پورے اترے جسے ہم اَلْخَیْر کہہ رہے ہیں۔ اس سے تم نے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا اور جسے ہم اَلشَّر کہہ رہے ہیں اس سے تم زیادہ سے زیادہ بچے تو جب تم ہماری طرف لوٹ کر آئو گے تو اسی کے مطابق ہماری طرف سے تمہیں اچھا بدلہ ملے گا۔ قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں جن کے مطابق ہم اس کی بہت سی تفاسیر کرتے ہیں۔ یہاں اَلْخَیْر کے ایک معنی خود قرآن کریم اور اس کے اوامر و نواہی ہیں جیسا کہ فرمایا۔
وَقِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا مَاذَا اَنْزَلَ رَبُّکُمْط قَالُوْا خَیْرًا ط لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃٌ وَلَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ۔ (النحل:۳۱)
کہ جب مخالفین اور نہ ماننے والے (ان لوگوں سے جو تقوی کی راہوں کو اختیار کرتے ہیں اور اوامر کو بجا لاتے اور نواہی سے پرہیز کرتے ہیں) پوچھتے ہیں کہ تمہارے ربّ نے اس قرآن کریم میں کیا اتارا ہے یا تمہارے ربّ نے کیا تعلیم تمہیں دی ہے تو وہ کہتے ہیں خیراً یعنی خیر کو اتارا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ہدایت جو اَلْخَیْرُ (کامل خیر) ہے جو لوگ اَلْخَیْرُ کی راہ اختیار کرتے ہیں (لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃٌ) اس کے احکام کو بجا لاتے ہیں اور اس کی نواہی سے بچے رہتے ہیں۔ ان کے لئے اس دنیا میں حَسَنَۃٌ (بھلائی) ظاہر ہو گی۔وَلَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ۔آخری گھر میں تو کہنا ہی کیا؟؟ اس کی خوبیاں اور اس کے انعامات کی کنہ تو ہمارے تصور میں بھی نہیںآ سکتیں۔
پس اس آیت میں قرآنی تعلیم کو خیر کہا گیا ہے اس لئے میں آیت وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً کے یہ معنی کرتا ہوں کہ ہم قرآن کریم کے احکام (اوامر و نواہی) سے تمہاری آزمائش کریں گے اور اگر ہم غور سے کام لیں تو ہے بھی یہ ایک آزمائش۔ کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے تم ہماری راہ میں خرچ کرو تو یہ ایک بڑی آزمائش ہے۔ غور کیجئے کہ ایک شخص دن رات کی محنت کے بعد کچھ مال حاصل کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب مجھے اتنا مال مل گیا ہے کہ جس سے میں اور میری بیوی بچے خوشحالی کی زندگی بسر کر سکیں گے تب خداتعالیٰ کی آواز اس کے کانوں میں پڑتی ہے اور اسے متوجہ کرتی ہے کہ جو مال ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس کے خرچ پر جو پابندیاں ہم نے عائد کی ہوئی ہیں انہیں مت بھولنا پھر وہ اس مال کے متعلق انہیں یہ فرماتا ہے کہ اب میرے دین کو یا میرے بندوں کو تمہارے مال کے ایک حصہ کی ضرورت ہے اسے میری راہ میں خرچ کر دو تو یقینا یہ اس بندے کی آزمائش ہوتی ہے جس میں وہ ڈالا جاتا ہے۔ پس وہ مومن جو تقوی پر قائم ہوتا ہے وہ بشاشت سے خداتعالیٰ کی اس آواز پر لبیک کہتا ہے اور اپنے مال کو خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرکے وہ اس امتحان میں پورا اُترتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بہت سی نعمتوں میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں تمہاری زندگی کے لمحات بھی ہیں، عمر بھی ہے، جب ہماری طرف سے اپنی عمر اور وقت کا کچھ حصہ قربانی کرنے کیلئے تمہیں آواز دی جائے تو تمہارا فرض ہے کہ تم اس آزمائش میں بھی پورے اترو تا ہمارے فضلوں کے وارث ٹھہرو۔
اسی طرح عزتیں اور وجاہتیں بھی خداتعالیٰ کی ہی دی ہوئی ہیں جو ایک مومن کو خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کرنی پڑتی ہیں۔
خداتعالیٰ کے احکام میں ایک حصہ نواہی کا ہے یعنی بعض باتیں ایسی ہیں جن سے وہ روکتا ہے مثلاً دنیوی رسم و رواج ہیںجن کی وجہ سے بعض لوگ اپنی استطاعت سے زیادہ بچوں کی بیاہ شادی پر خرچ کر دیتے ہیں حالانکہ وہ اسراف ہے جس سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے رسم و رواج کو پورا کرنے کے لئے خرچ نہ کیا ہمارے رشتہ داروں میں ہماری ناک کٹ جائے گی۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میری خاطر رسم و رواج کو چھوڑ کر اپنی ناک کٹوائو تب تمہیں میری طرف سے عزت کی ناک عطا کی جائے گی۔
تو الخیرجس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ مومنوں کو آزماتا ہے۔ وہ قرآن کریم کے احکام ہیں۔ اس کے مقابلہ میں اَلشَّر کا لفظ استعمال فرمایا ہے گویا ہر وہ حکم امر ہو یا نہی جو قرآن کریم کے مخالف اور معارض ہو۔ اسے اَلشَّر کہا گیا ہے کیونکہ شیطان اور اس کے پیروئوں کا یہ کام ہے کہ وہ لوگوں کے کانوں میں قرآن کریم کے خلاف باتیں ڈالتے رہتے ہیں۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کا کیا فائدہ؟ کبھی یہ کہتے ہیں کہ ان مومنوں کی خاطر جو کمزور اور غریب مہاجر ہیں تم اپنے وقتوں اور عزتوں کو کیوں ضائع کرتے ہو۔ دیکھ لیں منافقوں کا وطیرہ اور کفار کا یہی طریق ہے کہ وہ قرآنی احکام کے مقابل معارض باتیں مومنوں کے کانوں میں ڈالتے ہیں اور یہ غلط امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کی باتوں پر کان دھریں گے۔ کیونکہ خداتعالیٰ کے مومن بندوں پر شیطان کا تسلط نہیں ہوا کرتا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک طرف احکام قرآنی ہیں جو تمہارے سامنے ہیں اور ایک طرف وساوسِ شیطانی ہیں جو تمہیں ان کی خلاف ورزی پر آمادہ کر رہے ہیں اور ان ہر دو کے ذریعہ سے تمہاری آزمائش کی جا رہی ہے۔ اس آزمائش میں پورا اترنے کے لئے ضروری ہے کہ تم یہ یاد رکھو کہ تم ہماری طرف ہی لوٹ کر آنے والے ہو۔
جو شخص آخرت پر حقیقی ایمان رکھتا ہو اور اسے یہ یقین کامل حاصل ہو کہ ’’اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ‘‘ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا وہ کسی بھی آزمائش کے وقت کس طرح ٹھوکر کھا سکتاہے؟ پس ایک قسم کی آزمائش خداتعالیٰ کے احکام اور شیطانی وساوس کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔
(۲) دوسرا فتنہ یا آزمائش جس سے مومن آزمائے جاتے ہیں وہ قضاء و قدر کی آزمائش ہے کبھی کبھی اللہ تعالیٰ مومنوں کو قضاء و قدر کی آزمائش میں ڈال کر ان کا امتحان لیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ (البقرہ:۱۵۶) کہ ہم اپنی مشیت اور اِذن سے تمہارے ایمان لانے کے بعد تمہارے مالوں میں نقصان کی صورت پیدا کر دیں گے۔
احمدیت میں بھی جو اللہ تعالیٰ کا سچا سلسلہ ہے ہر روز ایسی مثالیں ملتی رہتی ہیں مجھے کئی خطوط آتے رہتے ہیں جن میں لکھا ہوتا ہے کہ ہم احمدی ہوئے تھے مگر بیعت کے بعد ہمیں نقصان ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اگر یہ لوگ قرآن کریم کی ذرا بھی سمجھ رکھتے ہوں تو وہ فوراً جان لیں کہ یہ نقصان احمدیت کی صداقت کی دلیل ہے نہ کہ اس کے غلط یا جھوٹا ہونے کی کیونکہ قرآن کریم نے پہلے ہی بوضاحت بتا دیا تھا کہ جب تم ایمان لائو گے تو کبھی خداتعالیٰ تمہارے مالوں میں تنگی پیدا کرے گا اور تمہیں آزمائے گا کہ آیا تم مال کو خداتعالیٰ پر ترجیح دیتے ہو یا خداتعالیٰ کی مرضی کو مال پر ترجیح دیتے ہو۔
وَالْاَنْفُسِاور کبھی یہ کرے گا کہ اِدھر تم ایمان لائے اُدھر تمہارا بچہ مر گیا یا کوئی دوسرا رشتہ دار فوت ہو گیا۔ اس وقت شیطان آئے گا اور تمہارے دل میں وسوسہ ڈالے گا کہ یہ مذہب جو تم نے اختیار کیا بڑا منحوس ہے۔ دیکھو ابھی تم ایمان لائے اور تمہارا بچہ فوت ہو گیا یا تمہاری ماں کا انتقال ہو گیا یا تمہارا باپ چلتا بنا وغیرہ وغیرہ لیکن اگر تم قرآن کریم کو جانتے اور سمجھتے ہو گے تو تم اس آیۃ کے ماتحت ایک قسم کی بشاشت محسوس کرو گے کہ کتنا سچا ہے ہمارا خدا اور کتنا مہربان ہے وہ کہ وقت سے پہلے ہی اس نے یہ بتا دیا تھا کہ ہم اس قسم کی آزمائش میں تمہیں ڈالیں گے۔
وَالـثَّمَرتِ اور کبھی وہ یہ کرے گا کہ دنیا کے حصول کے لئے جو تمہاری کوششیں ہوں گی دنیوی میدان میں اس کا نتیجہ ٹھیک نہیں نکلے گا اور ہم اس کو تمہارے لئے ایک آزمائش بنا دیں گے۔ تو اس قسم کی آزمائشوں کو قضاء و قدر کی آزمائش کہا جاتا ہے یہ دوسری قسم کی آزمائش ہے جس میں سے مومن کو گزرنا پڑتا ہے۔
(۳) تیسرا فتنہ یا آزمائش جس کا ذکر ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے وہ مخالفین کی ایذاء رسانی ہے اگر ہم تاریخ انبیاء پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہر نبی اور مامور کے ماننے والوں کو ان کے مخالفین نے ہر قسم کی ایذائیں پہنچائیں لیکن اس میں سے سب سے زیادہ حصہ اس نبی کے صحابہ کو دیا گیا جو سب انبیاء سے اعلیٰ، ارفع، سب سے زیادہ مقدس اور امام المطہرین تھے یعنی حضرت نبی اکرمﷺ پہلے مکی زندگی میں اور پھر اس کے بعد جہاں جہاں بھی اسلام دنیا میں پھیلتا گیا، اسلام میں داخل ہونے والوں کو تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بھی ایک آزمائش ہے جس میں سے تم میں سے ہر مومن کو گزرنا ہے۔ اگر تمہارے دل میں واقعی میری محبت ہے اور تم واقعی میری رضا کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اس آزمائش سے بھی صدق و وفا کے ساتھ گزرنا پڑے گا۔
اس امتحان میں پورا اترنے اور ہمیں اپنے عذاب سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور تصور بھی ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے۔ فرمایا: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَا اُوْذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ(العنکبوت : ۱۱) اور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے لیکن جب اعلان ایمان کے بعد ان پر آزمائش آتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس تیسری قسم کے فتنہ سے ان کا امتحان لینا چاہتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کی وجہ سے انہیں تکلیف میں ڈالا جاتا ہے۔ کیونکہ لوگ ان کے مخالف ہو جاتے ہیں کبھی وہ انہیں قتل کرنے کے درپے ہوتے ہیں کبھی ان کی بے عزتی کرتے ہیں اور کبھی ان کا بائیکاٹ کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ہزاروں قسم کے دائو پیچ ہیں جو مخالف لوگ شیطانی وسوسوں کی وجہ سے اختیار کرتے ہیں۔
تو فرمایا کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ان کو تکلیف میں ڈالا جاتا ہے تو وہ لوگوں کے عذاب کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح سمجھ لیتے ہیں فرمایا کہ اگر تم کمزوری دکھائو گے تو تمہیں وہ عذاب بھگتنا پڑے گا جو میں نے تمہارے لئے مقدر کیا ہے۔ اور اگر تم مضبوطی دکھائو گے اور اپنے ایمان پر ثابت قدم رہو گے تو تمہیں صرف وہ عذاب جھیلنا پڑے گا جو یہ محدود طاقتوں والے انسان پہنچا سکتے ہیں۔
اب خود اندازہ کر لو کہ ان دو عذابوں میں سے کون سا عذاب زیادہ شدید اور کونسا عذاب زیادہ دیرپا ہے ان دو عذابوں میں سے ایک عذاب تمہیں ضرور ملے گا چاہو تو بندوں کی ایذاء رسانی کو قبول کرکے میرے عذاب سے بچ جائو، چاہو تو اس عارضی عذاب سے بچنے کی خاطر میرا وہ عذاب مول لے لو جس کا زمانہ اتنا لمبا ہے کہ تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ محاورہ میں وہ ابدالآبادکا زمانہ بھی کہا جا سکتا ہے اگرچہ وہ ہمیشہ کے لئے نہیں لیکن اس کا زمانہ اتنا لمبا اور اس کی شدت اتنی ہیبت ناک ہے کہ اگر ہم اسے ہمیشہ کا عذاب بھی کہہ دیں تو غلط نہیں ہو گا تو فرماتا ہے کہ جب لوگ تمہیں میری وجہ سے تکلیف پہنچانے لگیں، دکھ دینے لگیں اور تمہارے لئے عذاب کے سامان مہیا کر دیں تو تمہیں میرے عذاب کا تصور بھی کر لینا چاہئے۔ اس تصور سے تم لوگوں کے عذاب پر صبر کرنے کے قابل ہو جائو گے اور تمہارے لئے یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا کہ آیا لوگوں کے عذاب کو تم قبول کرو گے یا میرے عذاب کو جو ایک بڑا لمبا اور شدید عذاب ہے۔
سو کوئی عقلمند انسان جو خدا پر ایمان اور یقین رکھتا ہو کبھی یہ نہیں کہہ سکتا اور نہ یہ پسند کر سکتا ہے کہ لوگوںکے عذاب سے بچ جائے اور خدا کے عذاب میں مبتلا ہو۔ ہاں بعض بد قسمت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو لوگوں کے عذاب کو دیکھ کر ٹھوکر کھا جاتے اور ارتداد کی راہ اختیار کرتے ہیں۔
پس ایک تیسری قسم کا فتنہ جو ایمان کے اعلان کے بعد مومن کے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ منکر اور مخالف لوگ اپنا پورا زور لگاتے ہیں کہ وہ مومنوں کو دکھ اور تکلیف پہنچائیں اور اس وقت ظاہر ہوتا ہے کہ کون اپنے ایمان میں صادق ہے اور کون کاذب ہے۔
فرمایا کہ یاد رکھنا کہ لوگوں کا عذاب تو عارضی ہے وقتی ہے بڑا ہلکا ہے اس کے مقابل پر میرا عذاب بڑا لمبا اور بڑا شدید ہے جو ایک لمحہ کے لئے بھی تمہارے سامنے آ جائے تو تم دس ہزار سال تک لوگوں کے عذاب کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائو۔ الغرض یہ تین قسم کے فتنے یا آزمائشیں یا امتحان ہیں جن میں سے خداتعالیٰ کے مومن اور متقی بندوں کو گزرنا پڑتا ہے۔ ہم بھی اللہ تعالیٰ کے ایک مامور پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے خدا کی آواز پر لبیک کہا ہے اور ہمارے دلوں میں بھی یہ جذبہ اور تڑپ ہے کہ ہم اس ایمان کے جو تقاضے ہیں وہ پورا کرنے والے ہوں اور اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں جس مقصد کے لئے سلسلہ عالیہ احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے یعنی دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کر دینا اور قرآن کریم کی تعلیم کو تمام بنی نوع انسان تک پہنچا کر انہیں قائل کرنا کہ فلاح حقیقی حاصل کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے جو قرآن کریم کی تعلیم پر عمل پیرا ہونا ہے تو ہمارے لئے بھی ان تینوں فتنوں اور آزمائشوں کا سامنا کرنا ضروری ہے۔ پہلی آزمائش اور امتحان کہ قرآنی احکام پر عمل پیرا ہوں۔ نماز باجماعت ہی کو لے لو۔ ہر دو ایک گھنٹہ کے بعد اپنے کام، اپنے آرام یا مجلس کو چھوڑ کر خداتعالیٰ کے گھر آنا۔
پھر راتوں کو اُٹھ کر خداتعالیٰ کو یاد کرنے والے جو ہیں وہ اپنے جسم کی آسائش کو خداتعالیٰ کے لئے چھوڑتے ہیں۔
اس کے علاوہ مال ہیں ان کے کمانے پر بھی پابندیاں اور ان کے خرچ پر بھی پابندیاں ہیں جہاں مال حرام کے ہر طریق سے خدا نے روکا وہاں مال حلال کے ہر قسم کے خرچ پر پابندیاں لگا دیں جس کے نتیجہ میں اس کے فضل اور برکتیں حاصل ہو جاتی ہیں اگر سوچا جائے تو یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے۔ دیکھو بیوی سے محبت کرنا تو بظاہر ایک دنیوی چیز ہے لیکن ہمیں ثواب پہنچانے کی خاطر اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر تم اس نیت کے ساتھ کہ خداتعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اپنے گھروں کے ماحول کو خوشگوار بنائو اپنی بیوی اور بچوں سے پیار کرو اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ بھی ڈالو گے تو خداتعالیٰ تمہیں اس کا بھی اجر دے گا تو خرچ کے متعلق بھی ہدایات دے دیں تا کہ ہمارا ہر خرچ جو بظاہر دنیا سے تعلق رکھتا ہے وہ بھی دین کا حصہ بن جائے اور اس کے نتیجہ میں ہمیں ثواب حاصل ہو۔
یہ تو اس کے فضل اور اس کے احسان ہیں ہم نے تو اس کے شکر گزار بندے بننا ہے اور خداتعالیٰ کا شکر بجا لانے کابہترین بلکہ ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اس کے احکام پر کار بند ہوں۔
تو ہم جو جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے ہیں۔ ہماری پہلی آزمائش یا پہلا امتحان یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کا علم حاصل کریں اور اس نیت کے ساتھ حاصل کریں کہ ہر وہ حکم جو قرآن مجید میں پایا جاتا ہے۔ ہم اس کو بجا لائیں گے اور ہر اس چیز سے بچیں گے جس سے بچنے کی ہمیں تلقین کی گئی ہے۔
پھر قضاء و قدر کی آزمائش میں بھی ہمیں نہایت اچھا اور نیک نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ اس وقت مسلمان کہلانے والوں میں سے ایسے خاندان بھی آپ کو نظر آئیں گے جو گھر میں فوت و موت ہونے کے وقت یا تو خداتعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں یا پھر اس کا شکوہ شروع کرنے لگتے ہیں۔ وہ اس بشارت کے مستحق نہیں بن سکتے جس کا ذکر خداتعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے۔
وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
(البقرہ: ۱۵۷)
جس کی چیز تھی اس نے لے لی شکوہ کی گنجائش ہی کہاں ہے لیکن انسان بعض دفعہ بڑی حماقت کی باتیں کرتا ہے اور اپنے ربّ کا بھی شکوہ شروع کر دیتا ہے۔ تو قضاء و قدر کی آزمائش اور امتحان جو ہمارے لئے مقدر ہیں ان میں بھی ہم نے ایسا نمونہ دکھانا ہے کہ خداتعالیٰ کی بشارتیں ہمیں ملیں اس کا غضب یا ناراضگی ہم پر نہ اترے۔ پھر تیسری قسم کی آزمائش یا لوگوں کا فتنہ ہے۔ چونکہ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے خداتعالیٰ کے جمالی جلوؤں کے ذریعہ اسلام کو دنیا پر غالب کرنا ہے بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ اس زمانہ میں غلبۂ اسلام کے لئے جو جلوے ظاہر کرتا رہا ہے یا کر رہا ہے یا آئندہ کرتا رہے گا اس میں اس کے جمالی جلوؤں کی کثرت اور جلالی جلوؤں کی قلت ہے۔ اس نسبت کی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی اور اسلام کے غلبہ کو جمالی جلووں کے ساتھ وابستہ کیا ہوا ہے۔ اور جہاں یہ کیفیت ہو وہاں بڑی لمبی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں اور آنے والی نسلوں کا بڑے لمبے عرصہ تک خیال رکھنا پڑتا ہے تاکہ وہ صداقت پر قائم رہیں اور اِدھر اُدھر بھٹکیں نہیں۔ اسی طرح جو ایذاء رسانی دشمن کی طرف سے اس وقت ہوتی ہے وہ اس سے کچھ مختلف ہوتی ہے جو خدائے تعالیٰ کے جلالی جلووں کے زمانہ میں ہوتی ہے کیونکہ جس وقت اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہو کہ اپنے جلالی اور قہری نشانوں سے دشمن کو مغلوب کرے تو اس وقت وہ دشمن اور مخالف کو بھی چھوڑ دیتا ہے کہ وہ تلوار لے اور اپنے زور بازو سے دین الٰہی کو مٹانے کی کوشش کرے تب وہ دشمن یہ خیال کرتا ہے کہ خدا نے مجھے طاقت اور غلبہ اور وجاہت اور عزت کے ساتھ ساتھ تلواریں اور نیزے اور تیر اس کثرت سے دئیے ہیں کہ ان مٹھی بھر آدمیوں کو میں بڑی آسانی سے مٹا سکتا ہوں اور جب وہ ان کو مٹانے کی کوشش شروع کرتا ہے تو اس وقت خداتعالیٰ کا قہری نشان ظاہر ہوتا ہے اور ایک لحظہ میں اسے ملیا میٹ کرکے رکھ دیتا ہے۔
لیکن جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے جمال کو ظاہر کرنا ہو اور اپنے جمالی جلوؤں سے دین کو مضبوط اور غالب کرنا ہو وہاں وہ عام طور پر دشمن کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ تلوار اٹھائے بلکہ عام طور پر دوسرمی قسم کی مخالفت اور ایذاء رسانی ہوتی ہے۔ مثلاً گالیاں دینا، بعض دفعہ منہ پر تھوکنا، تھپڑ لگا دینا وغیرہ بہر حال وہ ان بچوں والی حرکتوں سے اپنا غصہ نکال لیتے ہیں اور بڑے لمبے عرصہ تک مومن کو ان کا یہ غصہ سہنا پڑتا ہے۔ آخر مومن خداتعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کے وارث ہو جاتے ہیں۔ ایسے زمانہ کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں مخالفین کو مختلف اطراف سے کھرچ کھرچ کر کمزورکرتا چلا جائوں گا اور مومنوں کو مضبوط کرتا چلا جائوں گا اور یہ تکلیفیں اور ایذاء رسانیاں دور ہو جائیں گی۔
کسی گائوں میں کوئی شخص احمدی ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت دیتا ہے تو سارا گائوں اس کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔ ماں باپ تک کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے گھر میں نہ آنا۔ جب وہ یہ ایذاء رسانی بشاشت سے قبول کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ وہ حالات بھی بدل دیتا ہے۔
مجھے یاد آیا کہ ایک گائوں میں ایک نابینا حافظ پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اس نے احمدیت کو قبول کر لیا۔ اس پر اس کے باپ نے اسے کہا کہ اس گائوں سے نکل جائو۔ اس نے کہا، ٹھیک ہے چنانچہ وہ چلا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے کسی اور جگہ سامان پیدا کر دیا۔ خداتعالیٰ نے جب دیکھا کہ اس کا یہ بندہ آزمائش میں پورا اترا ہے۔ اور اس نے تمام دکھ بشاشت کے ساتھ برداشت کئے ہیں اور اپنے ماں باپ کی، رشتہ داروں کی بلکہ تمام گائوں کی جدائی کو اس نے قبول کر لیا لیکن سچائی سے منہ نہ موڑا تو اس نے خود ہی اپنے جمالی جلوئوں کے ساتھ حالات کو بدل دیا۔ اس کے باپ نے اس کو لکھا کہ تم میرے بیٹے ہو واپس آ جائو اس پر وہ گائوں میں آ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بڑا اخلاص دیا ہے۔ وہاں آ کر اس نے جلسہ کروانے کا ارادہ کیا اور ایک قریبی گائوں کے احمدیوں کو کہا کہ میں یہاں جلسہ کروانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا تم پہلے بھی تکلیف برداشت کر چکے ہو۔ اب اور برداشت کرو گے اس نے کہا کوئی نہیں مجھے ایسی تکلیف برداشت کرنی چاہئے میں چاہتا ہوں کہ یہاں جلسہ ہو اور لوگوں کو خداتعالیٰ کی سچی باتیں سنائی جائیں۔ چنانچہ وہاں جلسہ ہوا۔ ساتھ کے گائوں میں احمدیوں کی بڑی بھاری تعداد ہے وہاں سے بہت سے لوگ بھی پہنچ گئے کچھ علماء بھی وہاں پہنچ گئے۔ تقاریر ہوئیں ایک چرچا ہو گیا لوگوں نے باتیں سنیں تو کہا کہ قابل غور ہیں۔ غور کرنا چاہئے خواہ مخواہ آنکھیں بند کرکے اور کانوں میں انگلیاں ڈال کر انکار نہیں کرنا چاہئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب وہاں مذہبی تبادلۂ خیال شروع ہو گیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ ان میں سے بہتوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے گا۔
سو دیکھئے کہ وہاں ایک آدمی احمدی ہوا کچھ عرصہ تک اللہ تعالیٰ نے اس کی آزمائش کی پھر اس نے دیکھا کہ وہ امتحان میں پورا اترا ہے۔ اس پر اس نے اس پر انعام کیا کہ وہ گائوں میں پھر واپس آ گیا اور اس نے تبلیغ شروع کر دی۔ نسبتاً آرام سے رہنے لگا۔ تکلیف تو ہر ایک کو پہنچتی ہے ہمیں گھر بیٹھے بھی پہنچتی رہتی ہے دوسرے تیسرے دن نہایت گندی گالیوں پر مشتمل خطوط آ جاتے ہیں خط لکھنے والا اپنی جگہ بڑا خوش ہوتا ہو گا کہ میں نے بڑی گندی گالیاں دی ہیں اور ہم اپنی جگہ خوش ہوتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے ہمیں اس قسم کی قربانیوں کے پیش کرنے کی بھی توفیق عطا کر دی ورنہ مرکز میں رہتے ہوئے اور پھر اپنے مقام کے لحاظ سے مرکزی نقطہ ہوتے ہوئے بھی مشکل سے ایسے تیر ہم تک پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن الٰہی اِذن سے پہنچ ہی جاتے ہیں اور پھر ہماری خوشی کا باعث ہوتے ہیں۔ اس قسم کی تکالیف ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہیں اور جب تک ہمارے عروج کا زمانہ نہیں آ جاتا وہ لگی ہی رہیں گی۔ سو ان آزمائشوں میں ہم نے ضرور گزرنا ہے قضاء و قدر کی آزمائش میں سے بھی اور لوگوں کی ایذاء رسانیوں میں سے بھی۔
بہت سے لوگ اس وقت ہدایت کو سمجھ چکے ہیں لیکن وہ صرف اس ڈر سے ایمان نہیں لاتے کہ لوگ ہمیں دکھ دیں گے اللہ تعالیٰ ان سے کہتا ہے کہ سوچ لو کہ لوگوں کے عذاب میں پڑنا چاہتے ہو یا کہ میرے عذاب میں۔ خداتعالیٰ ان کو سمجھ دے تا وہ سمجھیں کہ انسان کیلئے یہی بہتر ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہے کیونکہ اس کا عذاب اتنا شدید ہو گا کہ انسان ایک لمحہ کیلئے بھی اس کی تاب نہیں لا سکتا۔
خلاصہ یہ کہ ہم نے خداتعالیٰ کے ایک مامور اور مسیح اور آنحضرت ﷺکے ایک فرزند جلیل کو قبول کیا ہے آپ کی سچائی پر ایمان لائے ہیں۔ ہمیں اپنی زندگی کا ہر لحظہ اور ہر دم اس تیاری میں گزارنا چاہئے کہ۔
اوّل ہم نے خداتعالیٰ کے احکام کو بجا لانا ہے جن باتوں سے اس نے ہمیں روکا ان سے بچے رہنا ہے۔ راتوں کو اٹھنا اور پانچ وقت مسجد میں پہنچنا وغیرہ وغیرہ سینکڑوں احکام کی بجا آوری میں مجاہدات کرنے ہیں۔ ان مجاہدات کو خود انسان اپنے پر ڈالتا ہے اور جب وہ اس آزمائش کو خوشی سے، بشاشت سے اور رضاکارانہ طور پر اپنے اوپر گویا نازل کر لیتا ہے تب اس کو ثواب ملتا ہے اگر کسی شخص کو کان پکڑ کر مسجد میں لایا جائے اور وہ لانے والے کو گالیاں دے رہا ہو تو اس کو مسجد میں آنے کا کیا ثواب ملے گا۔
دوسرے دو امتحان اور آزمائشیں انسان کے اپنے اختیار میں نہیں۔ ایک تو خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور ایک قسم کا امتحان اللہ تعالیٰ کے اِذن سے مخالفوں کی طرف سے آتا ہے تو ان تینوں ابتلائوں میں پورا اترنا ہر احمدی کا فرض ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو ہر قسم کی قربانیوں کے لئے تیار رہنا چاہئے تاکہ ان وعدوں کے پورا ہونے میں دیر نہ ہو جو عظیم ترقی اعلیٰ کامیابی اور کامل غلبۂ اسلام کے متعلق اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر امتحان میں ثابت قدم رکھے اور کامیاب فرمائے۔
(روزنامہ الفضل ۲۰؍ اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۲ تا ۵)
٭…٭…٭



لازمی چندہ جات کے بجٹ میں تمام احمدیوں کو شامل کیا جائے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲ ؍اپریل ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ تحریک جدید دفتر سوم کا اجراء
٭ نوجوانوں، نئے احمدیوں اور نئے کمانے والوں کو اس دفتر میںشامل کریں۔
٭ عہدے دار چندہ بروقت وصول کریں تا ہر سال کے آخر میں دقت نہ ہو۔
٭ چندہ جات ماہ بماہ ادا کرنے کی کوشش کریں۔
٭ روحانی غذا جو معین وقفہ کے بعد کھائی جائے اس سے روحانیت ترقی کرتی ہے۔





تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ۔
پچھلے دنوں خاکسار کی طبیعت خراب رہی گو اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی افاقہ ہے لیکن کمزوری اور سر درد ابھی باقی ہے باوجود دوائی کھانے کے آج بھی سر میں کافی درد محسوس کرتا ہوں لیکن جمعہ ایک ایسا موقع اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے جس سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے تاکہ جماعت کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا جا سکے اس لئے میں بعض باتیں مختصراً دوستوں کے سامنے رکھتا ہوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ سَو ڈیڑھ سَو سال سے عیسائیت اپنے سارے دجل، سارے فریب، اپنے سب اموال اور اپنی ساری قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ اسلام پر حملہ آور رہی ہے اور اب بھی ہر قسم کے حملے کر رہی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آنحضرتﷺ کے ایک فرزندجلیل اور اسلام کے ایک طاقتور پہلوان کی شکل میں مبعوث نہ فرماتا، تو عیسائیت اسلام کے خلاف شاید میدان مار چکی ہوتی اور شاید ان بد قسمت مسلمانوں کی خواہش پوری ہو جاتی۔
جنہوں نے قرآن کریم کی تعلیم سے منہ موڑ کر عیسائیت کی آغوش میں دنیا کی آسائشیں اور دنیا کے آرام ڈھونڈے تھے جیسے کہ مولوی عمادالدین جو مسجد (آگرہ) کے امام اور خطیب تھے مسلمانوں سے نکل کر عیسائیوں میں شامل ہو گئے تھے اور ان کا یہ خیال تھا کہ عنقریب ہی وہ وقت آنے والا ہے کہ اگر ہندوستان میں کسی کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گی کہ وہ کسی مسلمان کو دیکھے تو اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکے گی اور ہندوستان میں اسے کوئی مسلمان بھی نظر نہیں آئے گا سب مسلمان عیسائی ہو جائیں گے۔
اس زبردست حملہ اور ان خواہشات کو دیکھ کر جو عیسائی مناد کے دل میں گدگدی لے رہی تھیں۔ اپنے دین کی حفاظت کیلئے اور اپنی توحید کی خاطر غیرت دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور عیسائیت کے خلاف آپ کو اس قدر زبردست دلائل براہین اور نشانات اور معجزات عطا کئے کہ ان کے ذریعہ عیسائیت کا حملہ ہر میدان میں آہستہ آہستہ رکنا شروع ہوا اور جہاں جہاں بھی احمدی پہنچے وہاں نہ صرف یہ کہ عیسائیت کا حملہ رک گیا بلکہ عیسائیت کے خلاف جوابی روحانی حملے شروع ہو گئے حتیّٰ کہ عیسائیوں کو مجبوراً آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا پڑا اور اب تک پیچھے ہٹتے جارہے ہیں۔
اس روحانی مہم کو تمام اکناف عالم میں چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے القا سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نومبر۱۹۳۴ء سے تحریک جدید کا اجرا کیا تھا۔ دوست جانتے ہیں کہ اس تحریک کے ذریعہ دنیا کے بہت سے ممالک میں عیسائیت کا زبردست، خوشکن اور کامیاب مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ پس حضور نے نومبر ۱۹۳۴ء میں یہ تحریک جاری فرما کر مالی قربانیوں کا جماعت سے مطالبہ فرمایا۔ پہلا مطالبہ ۲۷ ہزار روپے کا تھا لیکن اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والی اس جماعت نے وقت کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے قریباً ۹۸ ہزار روپیہ حضور کی خدمت میں پیش کر دیا۔
اس کے بعد حضور نے دفتر دوم کا اجراء فرمایا اس سے پہلے جن لوگوں نے اس تحریک میں حصہ لیا تھا ان کو دفتر اوّل قرار دیا۔ جو اب تک جاری ہے دفتر اوّل میں حصہ لینے والوں کی تعداد قریباً پانچ ہزار تھی جو اَبْ کم ہوتے ہوتے ۲۴ سو تک رہ گئی ہے۔ کیونکہ جو پچاس، ساٹھ اور ستر سالہ احمدی اس وقت دفتر اوّل میں شامل ہوئے تھے۔ ان میں سے بہت سے اپنے مولیٰ کو پیارے ہو گئے۔ اس طرح ان کی تعداد گھٹتی رہی۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو واضح تھی اور یہ بھی واضح تھا کہ غلبہ اسلام کی جو مہم تحریک جدید کے ذریعہ جاری کی گئی ہے وہ وقتی نہیں بلکہ قیامت تک جاری رہنے والی ہے اس لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دفتر دوم کی بنیاد رکھی۔
جب ۱۹۴۴ء میں دفتر دوم جاری کیا گیا تو پہلے سال اس کی آمد صرف ۷۲۴، ۵۲ روپے تھی اور بیس سال بعد یعنی ۱۹۶۳ء میں اس کی ۰۰۰،۹۰،۲ روپے (دو لاکھ نوے ہزار روپے) تک پہنچ گئی۔ کیونکہ شروع میں بہت سے ایسے نوجوان اس میں شامل ہوئے جنہیں صرف جیب خرچ مل رہا تھا اور معمولی چندہ ادا کرکے ثواب حاصل کرنے کی خاطر وہ اس میں شامل ہوئے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل فرمایا وہ تعلیم سے فارغ ہو کر کام پر لگ گئے۔ اور اپنی دنیوی ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک احمدی کی ذمہ داریوں کو بھی نبھانا شروع کیا۔ اس طرح ترقی کرتے کرتے ۶۳ء میں ان کا چندہ باون ہزار سے دو لاکھ نوے ہزار تک پہنچ گیا۔
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں دفتر اوّل میں شریک ہونے والوں کی تعداد پانچ ہزار تھی اور دفتر دوم میں شامل ہونے والوں کی تعداد قریباً بیس ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
بہرحال دفتر اوّل کے مقابلہ میں یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ اگر دس سال کے بعد ایک اوردفتر کھولا جاتا تو ۱۹۵۴ء میں دفتر سوم کا اجراء ہونا چاہئے تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی کسی خاص مشیت یا ارادہ کی وجہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۱۹۵۴ء میں دفتر سوم کا اجراء نہیں فرمایا۔ ۱۹۶۴ء میں دفتر دوم کے بیس سال پورے ہو جاتے ہیں اس وقت حضرت مصلح موعودؓ بیمار تھے اور غالباً بیماری کی وجہ سے ہی حضور کو اس طرف توجہ نہیں ہوئی کیونکہ امام کی بیماری کے ساتھ ایک حد تک نظام بھی بیمار ہو جاتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک جدید کی طرف سے بھی حضور کی خدمت میں اس کے متعلق لکھا نہیں گیا۔ میں چاہتا ہوں کہ اب دفتر سوم کا اجراء کر دیا جائے لیکن اس کا اجراء یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے شمار کیا جائے گا۔ کیونکہ تحریک جدید کا سال یکم نومبر سے شروع ہوتا ہے اس طرح یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے ۳۱۔ اکتوبر ۱۹۶۶ء تک ایک سال بنے گا میں اس لئے ایسا کر رہا ہوں تاکہ دفتر سوم بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف منسوب ہو اور چونکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کے اعلان کی توفیق دے رہا ہے اس لئے میں اپنے ربّ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے بھی اپنے فضل سے ثواب عطا کرے گا اور اپنی رضا کی راہیں مجھ پر کھولے گا۔ پس میں چاہتا ہوں کہ دفتر سوم کا اجراء یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے ہو۔
دورانِ سال نومبر کے بعد جو نئے لوگ تحریک جدید کے دفتر دوم میں شامل ہوئے ہیں ان سب کو دفتر سوم میں منتقل کر دینا چاہئے اور تمام جماعتوں کو ایک باقاعدہ مہم کے ذریعہ نوجوانوں، نئے احمدیوں اورنئے کمانے والوں کو دفتر سوم میں شمولیت کے لئے تیار کرنا چاہئے۔ دوست جانتے ہیں کہ یہاں ہر سال خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑھتی ہے اور نئے احمدی ہوتے ہیں وہاں ہزاروں احمدی بھی ایسے ہوتے ہیں جو نئے نئے کمانا شروع کرتے ہیں یہ ہماری نئی پود ہے اور ان کی تعداد کافی ہے کیونکہ بچے جوان ہوتے ہیں، تعلیم پاتے ہیں اور پھر کمانا شروع کرتے ہیں اور باہر سے بھی ہزاروں کمانے والے احمدیت میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس طرح ہمیں کافی تعداد میں ایسے احمدی مل سکتے ہیں جو دفتر سوم میں شامل ہوں۔ ہمارا یہ کام ہے کہ ہم ان کو اس طرف متوجہ کریں تاکہ وہ عملاً دفتر سوم میں شامل ہو جائیں۔
سو یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے دفتر سوم کا اجراء کیا جاتا ہے۔ تحریک جدید کو چاہئے کہ وہ فوراً اس طرف توجہ دے اور اس کو منظم کرنے کی کوشش کرے۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ چند دن کے بعد یعنی یکم مئی سے ہمارا نیا مالی سال شروع ہو رہا ہے اس کے متعلق جماعتوں کو یاد رکھنا چاہئے۔ کہ تساہل اور خوف سے کام نہ لیں۔ ان ہر دو وجوہ کی بناء پر ہمارا بجٹ صحیح تشخیص نہیں ہوتا بعض جماعتیں تساہل سے کام لیتی ہیں اس طرح جو نام بجٹ میں آنے چاہئیں وہ نہیں آتے اور بعض جماعتیں اس خوف سے کہ اگر کمزوروں کو بجٹ میں شامل کیا گیا تو ہمارا چندہ اتنے فیصدی وصول نہیں ہو گا جتنے فیصدی چندہ پر گرانٹ ملتی ہے۔ صحیح حالات مرکز کے سامنے نہیں رکھتیں اور اس خوف کی وجہ سے صحیح بجٹ نہیں بناتیں۔
میں تمام جماعتوں کو یقین دلاتا ہوں کہ کمزوروں کی کمزوری کے نتیجہ میں آپ کی گرانٹ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بشرطیکہ آپ کی غفلت کی وجہ سے پہلے مضبوط لوگ کمزورنہ ہو جائیں آپ اس خیال سے کہ اگر بجٹ صحیح بنا اور آمد پوری نہ ہوئی تو ہماری گرانٹ پر اثر پڑے گا جو خطرناک غلطی کر رہے ہیں آئندہ ہرگز نہ کریں۔ پس بجٹ پورا بنائیں اور حتی الوسع اسے پورا کرنے کی کوشش بھی کریں اگر آپ کا چندہ ان دوستوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جنہوں نے سالِ گزشتہ میں چندے ادا کئے تھے اس سال بھی پورا ہو جائے گا تو کل چندہ کی فیصدی اگر پوری نہ بھی ہو تو بھی آپ کو گرانٹ مل جائے گی اس لئے بغیر کسی خوف و خطر کے آپ صحیح بجٹ بنائیں۔
دراصل اس وجہ سے کہ صحیح بجٹ نہیں بنتا ہمارے نئے احمدیوں کی تربیت میں نقص واقع ہوجاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام کی طرف منسوب ہونے والوں کو یہ توفیق بھی حاصل نہ تھی کہ وہ خداتعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر دو آنے بھی خرچ کریں۔ آپ کے ذریعہ ایک حرکت شروع ہوئی اور محبت الٰہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو بظاہر مٹ چکی تھی یا غفلت کے پردوں کے نیچے دبی ہوئی تھی اُبھرنا شروع ہوئی۔ پہلا جلوہ اس روحانی زندگی کا یا روحانی حرکت کا جو ان وجودوں میں نظر آیا وہ یہی ہے کہ کسی نے ایک چونی چندہ دے دیا کسی نے اٹھنی چندہ دے دیا کسی نے روپیہ اور کسی نے دو روپے اور اس وقت کے حالات کے زیر نظر دلوں کی یہ اتنی بڑی تبدیلی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان لوگوں کے نام اپنی کتب میں درج کرکے ان کے نام کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا۔ (ازالہ اوھام ۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۴۵،۵۴۶)
چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ایک فعال اور زندہ جماعت پیدا ہو چکی ہے اس لئے جو لوگ نئے نئے آ کر اس میں شامل ہوتے ہیں ان پر پرانے مخلصین کو بعض دفعہ غصہ آتا ہے کہ یہ لوگ چندہ کم کیوں دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی اپنی حالت یا ان کے باپ اور دادا کی حالت یہ تھی کہ چونی خرچ کرکے قیامت تک کی زندگی حاصل کر لی۔ ٹھیک ہے کہ ہم آپ علیہ السلام کے فیض اور آپ کے خلفاء کی روحانی برکات کے نتیجہ میں زیادہ چست ہو گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں قربانیوں کے لئے زیادہ ہمت دیتا چلا جاتا ہے لیکن ہماری ابتداء تو دونی اور چونی سے ہوئی تھی نا؟؟
اسی طرح جو نئے آنے والے ہیں انہیں بھی تو تربیت حاصل کرنے کے لئے کچھ وقت دینا چاہئے اور ان کے متعلق غصہ کے اظہار کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ایسے ماحول سے نکل کر آئے ہیں جس میں خدا کے نام پر ایک دھیلا دینا بھی موت سمجھا جاتا تھا۔ اور ایسے نئے ماحول میں داخل ہوئے ہیں جس میں دنیا کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی اور خدا اور رسولﷺ کے نام پر سب کچھ قربان کیا جاتا ہے۔ اس لئے ان کو تربیت پاتے ہوئے کچھ وقت لگے گا۔ آپ ان کا نام بجٹ میں شامل نہ کرکے انہیں تربیت سے محروم کرتے ہیں اگر بجٹ میں ان کا نام آ جائے تو ہمیں علم ہے کہ یہ نئے دوست ہیں۔ اگر وہ اب چونی بھی دے دیں تو ٹھیک ہے۔ لیکن وہ آئندہ سال بغیر کسی کوشش اور زیادہ دبائو کے اپنے اندر ایک نیا احساس پائیں گے کیونکہ وہ سال بھر دیکھیں گے کہ مسجد میں جو شخص ان کے دائیں کھڑا ہوتا ہے وہ موصی ہے اور اپنی آمد کا دس فیصدی ادا کرتا ہے۔ تحریک جدید اور وقف جدید اور دوسری تحریکوں میں بھی حصہ لیتا ہے اور بائیں بھی ایسے ہی لوگ کھڑے ہیں۔ آخر خود بخود ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ ہم ان لوگوں سے کیوں پیچھے رہیں؟؟ اس طرح اللہ تعالیٰ ان پر فضل فرمائے گا اور خود بخود ان کے دل میں قربانی کے لئے جوش پیدا ہوتا جائے گا۔
پس جب آپ ایسے لوگوں کو بجٹ میں شامل ہی نہیں کرتے تو وہ تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ آپ انہیں چندہ کی تحریک ہی نہیں کرتے۔
اگرچہ اور بھی بہت سی تربیتی سکیمیں ہیں جن کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہتے ہیں لیکن چندہ بھی ایک اہم سکیم ہے کیونکہ ہر ماہ محصل چندہ کی وصولی کے لئے لوگوں کے پاس جاتا ہے اور تحریک کرتا ہے کہ چندہ دو۔ جب کسی کا نام بجٹ میں شامل ہی نہ کیا جائے گا تو اسے تحریک کیسے کی جائے گی؟
اسی طرح اس نے تو آپ کے ماحول میں جو اس کے لئے اجنبی تھا خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر چھلانگ لگا دی لیکن اگرآپ نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو یقیناً وہ تربیت حاصل نہ کر سکے گا اور آخر پیچھے ہٹ جائے گا تو یہ بڑا ظلم ہو گا ایسے انسان پر!!!
پھر میں سمجھتا ہوں کہ ریسرچ کے لئے بھی یہ ایک بڑا دلچسپ مضمون ہو گا کہ مثلاً زید ۱۹۶۶ء میں احمدی ہوتا ہے اسے قاعدہ کے لحاظ سے پچاس روپے چندہ دینا چاہئے لیکن وہ کہتا ہے کہ میں صرف ایک روپیہ دوں گا ہم اسے کہتے ہیں ٹھیک ہے تم ایک روپیہ ہی دو کیونکہ اس کی تربیت نہیں ہوئی ہوتی لیکن وہ ہمارے ماحول میں رہتے ہوئے اس ایک روپیہ پر قائم نہیں رہ سکتا۔ دوسرے سال وہ ایک روپیہ سے بڑھا کر پانچ، دس پندرہ اور بیس روپیہ کر دے گا اور آخر پچاس روپے کی بجائے وہ ساٹھ روپے ادا کرنے لگے گا اور دو تین سال تک جب اس کی تربیت پختہ ہو جائے گی تو وہ کسی صورت میں آپ سے پیچھے رہنے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ بلکہ اس کی غیرت یہ تقاضا کرے گی کہ وہ دوسرے ساتھیوں سے آگے بڑھ جائے۔ کیونکہ اسے احساس ہو گا کہ میرے ساتھی تو گزشتہ بیس سال سے قربانیاں کر رہے ہیں اور میں وہ بدقسمت انسان ہوں کہ اس بیس سال کے عرصہ میں مَیں ان کی مخالفت کرتا رہا ہوں۔ اب جبکہ خداتعالیٰ نے مجھ پر صداقت کھول دی ہے۔ مجھے پچھلے دھونے بھی دھونے ہیں اس طرح وہ آگے بڑھنے والوں سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا۔ ایسی کئی مثالیں ہماری اسلامی تاریخ میں پائی جاتی ہیں۔
پس بجٹ پورا بنائیں اور اس وہم، خوف اور خطرہ کی بناء پر کہ اگر آپ نے صحیح بجٹ بنایا تو شاید آپ کی گرانٹ میں کمی ہو جائے اپنے کمزور یا نئے احمدیوں پر ظلم نہ ڈھائیں۔ اگر آئندہ سال آپ اپنی آمد سے یہ ثابت کر دیں کہ جو پرانے چندہ دینے والے ہیں انہوں نے پہلے سال کی نسبت کم نہیں دیا تو پھر آپ کو پوری گرانٹ ملے گی۔ مثلاً پچھلے سال ساٹھ ہزار روپیہ کا بجٹ تھا جو آپ نے سارے کمزوروں کو باہر نکال کر بنایا تھا۔ اب ان کمزوروں کو شامل کرکے ایک لاکھ کا بنتا ہے۔ تو اگر آپ کے نئے سال کی آمد ساٹھ ہزار روپے سے اوپر ہو گئی ہے اور کمی واقع نہیں ہوئی تو یقیناً آپ کی گرانٹ میں کمی نہیں کی جائے گی۔
اس لئے سب احمدیوں کو بجٹ میں شامل کریں اس طرح ہم ان کی تربیت کی طرف متوجہ بھی ہوں گے۔ ہم ان کے لئے دعائیں بھی کریں گے اور تدابیر سے بھی انہیں سمجھانے کی کوشش کریں گے اور میں امید رکھتا ہوں کہ ہمارا رب آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں ایک نیک تبدیلی پیدا کرتا چلا جائے گا اور وہ پہلے آنے والوں کی نسبت پیچھے رہنے والے نہیں بنیں گے بلکہ کچھ عرصہ کے بعد شاید وہ ان سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش شروع کر دیں۔ وہ اس احساس سے آگے بڑھیں گے کہ ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے اس زمین پر جو ایک نور نازل ہوا تھا ہم ایک لمبے عرصہ تک اس نور کو اپنی پھونکوں سے بجھانے کی کوشش کرتے رہے اور بجائے اس کے کہ ہم اس نور سے اپنے سینہ و دل کو منور کرتے ہم نے اس سے منہ پھیر لیا۔ پس یہ نہایت ہی ضروری بات ہے کہ بجٹ پورا بنایا جائے۔ اگر باوجود میری اس تاکید کے ہمارے عہدیداروں نے غفلت برتی تو ان کی غفلت کو دور کرنے کے لئے مجھے مناسب قدم اُٹھانا پڑے گا لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے اس روحانی تکلیف میں نہیں ڈالیں گے۔
تیسری بات جو میں صدر انجمن احمدیہ کے بجٹ کے متعلق کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ قریباً دو ہفتے ہوئے میں نے جماعت کو متوجہ کیا تھا کہ ہمارا مالی سال قریباً ختم ہو رہا ہے آپ اس ماہ کے اندر اندر اپنا بجٹ پورا کرنے کی کوشش کریں مجھے ایسا کہنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ آپ میں سے اگر سارے نہیں تو بیشتر ایسے ہیں جو اپنا بجٹ ماہ بہ ماہ پورا نہیں کرتے اور انتظار کرتے ہیں کہ سال کے آخری دو ماہ میں بجٹ کو پورا کر دیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ دیہاتی جماعتیں ماہانہ چندہ نہیں دیتیں اور نہ ہی دے سکتی ہیں کیونکہ ان کی آمد کا انحصار فصلوں پر ہوتا ہے اور فصلیں ہر ماہ نہیں کاٹی جاتیں۔ سال کے دو موسم ہیں جن میں فصلیں کاٹی جاتی ہیں اور وہی دو موسم ہیں جن میں ہماری دیہاتی جماعتیں اپنے چندے ادا کرتی ہیں۔ پس دیہاتوں میں دو دفعہ چندہ ادا کرنے کا وقت ہوتا ہے۔
لیکن وہ جماعتیں یا جماعتوں کا وہ حصہ جن کی آمد ششماہی نہیں بلکہ ماہانہ ہوتی ہے۔ ان سے چندے ماہوار ہی وصول ہو جانا چاہئیں اس سے نہ صرف یہ فائدہ ہو گا کہ ہمیں آخر سال میں زیادہ کوفت برداشت نہ کرنی پڑے گی بلکہ اس سے بڑھ کر ہمیں یہ فائدہ بھی ہو گا کہ ہماری روحانیت ترقی کرے گی کیونکہ وہ روحانی غذا جو معین وقفہ کے بعد کھائی جائے اس سے روحانیت ترقی کرتی ہے۔ جسمانی غذا کو لیجئے! پانچ دن کے بعد پانچ دن کا کھانا کھا لینے سے انسان کی جسمانی قوت بڑھتی نہیں بلکہ اکٹھے کھانے کھا لینے سے پیٹ خراب ہو جاتا ہے اسہال شروع ہو جاتے ہیں وغیرہ اور بجائے فائدہ کے نقصان ہو جاتا ہے اسی طرح روحانی قوت کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ روح کو روحانی غذا معین اوقات میں پہنچتی رہے ورنہ جسمانی بیماریوں کی طرح روحانی امراض اور عوارض روح کو لاحق ہو جاتے ہیں۔ مثلاً نماز ہی کو لے لو اگر کوئی شخص صبح کے وقت پانچوں نمازیں اکٹھی ادا کر لے تو وہ یہ نہ سمجھے کہ اس کو پانچوں نمازیں بر وقت ادا کرنے سے جو روحانی غذا حاصل ہو سکتی تھی وہ اسے حاصل ہو جائے گی کیونکہ جہاں تک نماز کا تعلق ہے خداتعالیٰ کے علم کامل میں یہ ہے کہ روح کو پانچ مختلف اور معین وقتوں میں نماز کی صورت میں غذا ملنا ضروری ہے۔ ورنہ روح کمزور ہو جائے گی۔ اگر آپ ان پانچ وقتوں کی بجائے ایک ہی وقت میں پانچ نمازیں ادا کرنا چاہئیں تو یہ ایک بیہودہ اور لغو خیال ہو گا۔ ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اگر ساتویں دن پینتیس نمازیں ادا کرنے سے روح کی قوت قائم رہ سکتی تویقینا اللہ تعالیٰ ساتویں دن ہم سے پینتیس نمازیں پڑھواتا اور روزانہ پانچ وقت نماز ادا کرنے کا حکم نہ دیتا۔
تو اللہ تعالیٰ کے علم میں تو یہ ہے کہ روزانہ معین اوقات میں پانچ دفعہ میرے حضور میں حاضر ہو کر اپنی عاجزی، تذلل اور نیستی کا اقرار کرکے انسان کو روحانی غذا حاصل کرنی چاہئے ورنہ اس کی روحانی قوت قائم نہ رہ سکے گی اور وہ کمزور ہو جائے گا۔
اسی طرح حج کرنا ساری عمر میں ایک دفعہ فرض ہے زکوٰۃ کا ہر سال ادا کرنا ضروری ہے اور مختلف عبادتوں کے لئے مختلف اوقات مقرر ہیں اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں دس سال تک زکوٰۃ ادا نہیں کرتا دس سال کے بعد یک دفعہ ہی ادا کر دوں گا تو اس کی روحانی طاقت اور قوت یقینا قائم نہیں رہ سکے گی۔
پس یہ جو ہمارے چندے ہیں بعض کو ہر ماہ بعد اور بعض کو ہر چھ ماہ بعد ادا کرنے ضروری ہیں اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو خداتعالیٰ اور رسولﷺ کی خاطر قربانیوں کے نتیجہ میں جو برکتیں اور رحمتیں ہمارے لئے مقدر ہیں وہ انہیں نہیں ملیں گی اور ان میں روحانی کمزوری پیدا ہو جائے گی۔
پس عہدیداران کو چاہئے چندے اپنے وقت پر وصول کریں تا سال کے آخر میں نہ انہیں کوفت ہو نہ ہمیں پریشانی لاحق ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق بخشے۔
(روزنامہ الفضل ۲۷؍ اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۲ تا ۴)
٭…٭…٭






کبرو غرور اور خود پسندی و خودنمائی کو چھوڑ کر فروتنی اور بے نفسی کی عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے کی کوشش کرو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹ ؍اپریل ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ ہمیں تکبر کی باریک در باریک قسموں سے بھی بچتے رہنا چاہئے۔
٭ متکبر انسان قرآنی فیوض اور برکات کا وارث نہیں بن سکتا۔
٭ جب بندہ لاشئی محض ہونے کا اقرار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے ساتویں آسمان تک اُٹھا لے جاتا ہے۔
٭ اپنے نفسوں پر موت وارد کرنے سے سچی معرفت پیدا ہوتی ہے۔
٭ اپنی خواہشات اور خیالات کو مٹا کر اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خدمت کرتے چلے جائیں۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک ہم کبر و غرور، خود پسندی، خود نمائی، تحقیر و استہزاء، نخوت و خودسری کو کلیتاً چھوڑ کر نیستی کا چولہ پہنیں، فروتنی اور بے نفسی کی عاجزانہ راہوں سے اپنے ربّ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں اس وقت تک قرب و وصال الٰہی کی وہ نعمتیں ہم حاصل نہیں کر سکتے جو ایک سچے مسلمان اور حقیقی احمدی کے لئے مقدر ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تکبر سے بچنے پر بہت زور دیا ہے اور بار بار تاکید فرمائی ہے کہ ہمیں تکبر کی باریک در باریک قسموں سے بھی بچتے رہنا چاہئے تا ہم جادئہ عبودیت سے بھٹک نہ جائیں اور اس توحید حقیقی سے دور نہ جا پڑیں جو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال اور کبریائی کی سچی معرفت سے حاصل ہوتی ہے اور جس کے نتیجہ میں انسان کے نفس پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور پھر اپنے حي و قیوم خدا کے فیضان اور احسان سے ایک نئی زندگی پاتا ہے۔ پس ضروری ہے کہ ہم ہر قسم کے تکبر سے بچنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
اے کرم خاک چھوڑ دے کبر و غرور کو
زیبا ہے کبر حضرت ربِّ غیور کو
بد تر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں
چھوڑو غرور و کبر کہ تقوے اسی میں ہے
ہو جائو خاک، مرضی مولا اسی میں ہے
(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۸۱)
پھر ایک دوسری جگہ فرمایا:۔
’’میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خدا وند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے مگر تم شائد نہیں سمجھو گے کہ تکبر کیا چیز ہے۔ پس مجھ سے سمجھ لو کہ میں خدا کی روح سے بولتا ہوں ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ عقل مند یا زیادہ ہنر مند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سر چشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تیئں کچھ چیز قرار دیتا ہے۔ کیا خدا قادر نہیں کہ اس کو دیوانہ کر دے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے۔ اس سے بہتر عقل اور علم اور ہنر دے دے ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ و حشمت کا تصور کرکے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ یہ جاہ و حشمت خدا نے ہی اس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اس پر وہ ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایک دم میںاسفل السافلین میں جا پڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس سے بہتر مال و دولت عطا کر دے۔ ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزا سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے اور اس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے وہ بھی متکبر ہے اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے۔ کہ ایک دم میںاس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بدتر کر دے اور وہ جس کی تحقیر کی گئی ہے ایک مدت دراز تک اس کے قوے میں برکت دے کہ وہ کم نہ ہوں اور نہ باطل ہوں کیونکہ جو وہ چاہتا ہے کرتا ہے۔ ایسا ہی وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کرکے دعا مانگنے میں سست ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سر چشمہ کو اس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھتا ہے۔ سو تم اے عزیزو! ان تمام باتوں کو یاد رکھو ایسا نہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبر ٹھہر جائو اور تم کو خبر نہ ہو ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سننا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے ایک غریب بھائی جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک شخص جو دعا کرنے والے کو ٹھٹھے اور ہنسی سے دیکھتا ہے اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا۔ اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو، تاکہ ہلاک نہ ہو جائو اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پائو خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈر سکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو۔ پاک دل ہو جائو اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر، تا تم پر رحم ہو‘‘۔ (نزول المسیح ۔روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۰۲،۴۰۳)
تکبر کا اظہار بھی کئی طریق سے ہوتا ہے کبھی تکبر آنکھ کی کھڑکی سے سر نکالتا ہے کبھی سر کی جنبش میں اس کا پھریرا لہراتا ہے۔ کبھی ہاتھ، پائوں اور زبان اس کے آلہ کار بنتے ہیں۔ ان سب سے بچنا ہمارے لئے ضروری ہے تاکہ تکبر کا جن ہمارے نفسوں سے ایسا نکلے کہ پھر دوبارہ داخل ہونے کی سب راہیں اس کے لئے مسدود ہو جائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:۔
’’تکبر کئی قسم کا ہوتا ہے۔ کبھی یہ آنکھ سے نکلتا ہے جبکہ دوسرے کو گھور کر دیکھتا ہے تو اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے کبھی زبان سے نکلتا ہے اور کبھی اس کا اظہار سر سے ہوتا ہے اور کبھی ہاتھ اور پائوں سے بھی ثابت ہوتا ہے غرضیکہ تکبر کے کئی چشمے ہیں اور مومن کو چاہئے کہ ان تمام چشموں سے بچتا رہے اور اس کا کوئی عضو ایسا نہ ہو جس سے تکبر کی بو آوے اور وہ تکبر ظاہر کرنے والا ہو۔ صوفی کہتے ہیں کہ انسان کے اندر اخلاق رذیلہ کے بہت سے جن ہیں اور جب یہ نکلتے ہیں تو نکلتے رہتے ہیں مگر سب سے آخری جن تکبر کا ہوتا ہے جو اس میں رہتا ہے اور خدا کے فضل اور انسان کے سچے مجاہدہ اور دعائوں سے نکلتا ہے۔ بہت سے آدمی اپنے آپ کو خاکسار سمجھتے ہیں لیکن ان میں بھی کسی نہ کسی نوع کا تکبر ہوتا ہے۔ اس لئے تکبر کی باریک درباریک قسموں سے بچنا چاہئے‘‘۔
(ملفوظات نیا ایڈیشن جلد ۳ صفحہ ۶۱۳۔ الحکم ۳۱؍ مارچ۱۹۰۴ء صفحہ۳)
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی متکبر انسان قرآنی فیوض اور برکات کا وارث نہیں بن سکتا صرف اور صرف فروتنی کی چابی سے قرآنی علوم کا دروازہ کھولا جا سکتا ہے صرف اور صرف عجز کی رداء اور چادر پر انوار قرآنی کا رنگ چڑھ سکتا ہے اور صرف اور صرف منکسرانہ مزاج ہی قرآن کریم کے مزاج سے مطابقت کھاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’جب تک انسان پوری فروتنی اور انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کو نہ اٹھا لے اور اس کے جلال و جبروت سے لرزاں ہو کر نیاز مندی کے ساتھ رجوع نہ کرے۔ قرآنی علوم کا دروازہ نہیں کھل سکتا اور روح کے ان خواص اور قویٰ کی پرورش کا سامان اس کو قرآن شریف سے نہیں مل سکتا۔ جس کو پا کر روح میں ایک لذت اور تسلی پیدا ہوتی ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ۲۸۳۔ الحکم ۶؍جنوری ۱۹۰۰ء)
چونکہ آسمان روحانی کی سب رفعتیں قرآن کریم کے فیوض سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں اور تکبر کے نتیجہ میں قرآن کریم کے فیوض سے انسان محروم ہو جاتا ہے اس لئے متکبر پر آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْھَا لَاتُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَائِ۔
(سورئہ اعراف :۴۱)
کہ وہ لوگ جو ہمارے نشانات کا انکار کرتے ہیں اور وہ لوگ جو ہمارے احکام سے منہ موڑتے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری تعلیم کی طرف پیٹھ کرتے ہیں اور وہ لوگ جو ہمارے اوامر و نواہی کی پابندی سے گریز کرتے ہیں اور شریعت کا جوأ بشاشت کے ساتھ اپنی گردنوں پر رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ اسْتَکْبَرُوْا عَنْھَا ان کے دلوں میں تکبر پایا جاتا ہے۔ انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے لَاتُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَائِ(آیت نمبر:۴۱)کہ آسمان روحانی کے دروازے ان پر ہرگز نہیں کھولے جائیں گے بلکہ ہمیشہ کے لئے بند کر دئیے جائیں گے اور وہ زمین کے کیڑے بن کر رہ جائیں گے اور خداتعالیٰ کی *** کا مورد بنیں گے اور شیطان میں ہو کر شیطان بن جائیں گے اور آسمان کی بلندیوں کی بجائے جو انسان کے لئے ہی پیدا کی گئی تھیں۔ اندھیروں کی اتھاہ گہرائیاں ان کے حصہ میں آئیں گی۔
تکبر کے مقابل پر عربی زبان میں تَوَاضُعْ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جو لوگ تکبر کی وجہ سے ہمارے نشانوں کو جھٹلاتے اور ہمارے احکام سے اعراض کرتے ہیں اور ہماری تعلیم کی طرف متوجہ نہیں ہوتے روحانی رفعتوں کے دروازے ان پر نہیں کھولے جاتے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا تھا کہ پھر وہ کن پر کھولے جائیں گے؟ اس کے جواب کیلئے ہمیں نبی کریمﷺ کا ایک ارشاد ملتا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا:۔
اِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلٰی السَّمَائِ السَّابِعَۃِ۔(کنزالعمال جلد ۲ صفحہ ۲۵ مصری)
کہ جب اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ اپنے مقام عبودیت کو پہچانتے ہوئے اور اپنی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اور اپنے لا شئے محض ہونے کا اقرار کرتے ہوئے۔ تکبر کا نہیں بلکہ اس کی ضد (تواضع) کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اور انکسار اور عجز کے ساتھ اپنی زندگی گزارتا ہے اور اس کی زبان اور اس کا دل بلکہ اس کے جسم کا ذرہ ذرہ پکار رہا ہوتا ہے ۔
ہمچو خاکم بلکہ زاں ہم کمترے
کہ میں تو خاک ہوں بلکہ خاک پا میں بھی شاید کچھ خوبیاں ہوں۔ لیکن مجھے اپنا نفس اور اپنا وجود اس خاک سے بھی کمتر نظر آ رہا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس پر اپنا فضل فرماتا ہے اور فضل فرماتے ہوئے اس کو ساتویں آسمان تک اُٹھا کر لے جاتا ہے اور عزت کے نہایت بلند مقام پر اسے فائز کر دیتا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے معراج کی رات مختلف انبیاء کو ان کے درجات کے مطابق مختلف آسمانوں میں دیکھا۔ کسی کو پہلے کسی کو دوسرے اور کسی کو تیسرے آسمان پر مذہبی دلائل کی رو سے روحانی آسمان بھی سات ہیں اور سب سے بلند تر ساتواں آسمان ہے پس السَّمَائِ السَّابِعَۃِ کے معنی یہ ہوئے کہ جس قدر بلندی اور رفعت تک پہنچنا کسی انسان کے لئے مقدر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اتنی ہی روحانی رفعتیں تواضع اور فروتنی کے طفیل اسے عطا کر دیتا ہے۔
پس جو شخص تواضع سے کام لیتے ہوئے اپنے آپ کو نہایت ہی حقیر اور عاجز سمجھے گا اور سب قدرتوں اور سب فیوض کا سرچشمہ اور منبع صرف اپنے خدا کو یقین کرے گا اور ایمان رکھے گا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد اس کو سہارا نہ دے تو وہ خاک پا کیا اس سے بھی کم تر ہے۔ تو یقینا وہ خدا کے فضلوں کا وارث ہو گا اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کا وارث بننا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں دئیے گئے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے مقام عبودیت کو ہمیشہ پہچانتے رہیں اور عجز و فروتنی کے ساتھ اپنے کو لاشئے محض جانتے ہوئے اپنے خیالات اور خواہشات کو مٹا کر، محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خدمت کرتے چلے جائیں اور اپنے کو اتنا حقیر جانیں کہ کسی اور چیز کو ہم اتنا حقیر نہ سمجھتے ہوں۔
اگر ہم اپنے اس مقام کو پہچاننے لگیں تو پھر ہمارا خدا جو بڑا ’’دیالو‘‘ ہے ہمیں اپنے فضل سے بہت کچھ دے گا۔ انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی۔
(روزنامہ الفضل ۱۸؍ مئی ۱۹۶۶ء صفحہ ۲ تا ۴)
٭…٭…٭



















جماعتوں نے میری تحریک پر نہ صرف اپنے بجٹ کو پورا کیا بلکہ تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ کی زائد آمد ہوئی
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۶ ؍مئی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ اپنی طاقت، قوت اور استعداد کے مطابق تقویٰ کی راہوں کو اختیارکرو۔
٭ تقوی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آواز کو سنو اور اطاعت کرو۔
٭ اپنی جانوں، مالوں اور عزتوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔
٭ سالانہ بجٹ بھی جماعت کی تدریجی ترقی کا ایک معیار ہے۔
٭ قادر و توانا خدا نے خاکسار نابکار کو خلافت کی کرسی پر بٹھایا اور آپ کے دلوں میں میرے لئے محبت پیدا کی۔




تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ سورئہ تغابن میں فرماتا ہے۔
فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَااسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ ط وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (التغابن: ۱۷)
یعنی جتنا ہو سکے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو اور اپنے مال اس کی راہ میں خرچ کرتے رہو۔ وہ تمہاری جانوں کے لئے بہتر ہو گا اور جو لوگ اپنے دل کے بخل سے بچائے جاتے ہیں وہی کامیاب ہونے والے ہیں۔
عربی زبان میں فلاح کا لفظ بڑے وسیع معانی میں استعمال کیا جاتا ہے اور دین اور دنیا کی حسنات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دنیا کے متعلق فلاح ان باتوں پر بولا جاتا ہے کہ انسان کو صحت والی زندگی حاصل ہو مال میں فراخی ہو اور عزت و وجاہت اور اقتدار اور ثروت سب کچھ اسے میسر ہو۔ آخرۃ کے متعلق فلاح کا لفظ استعمال ہو تو اس کے معنی ہوں گے کہ انسان نے ابدی زندگی پائی جس کے بعد فنا نہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ایسی روحانی دولت دی گئی جس کے ساتھ کوئی تنگی نہیں اور خداتعالیٰ نے اسے عزت کے ایسے مقام تک پہنچا دیا کہ اس کے ساتھ کسی ذلت کا تصور بھی ممکن نہیں اور اسے صفات الٰہیہ کا ایسا عرفان حاصل ہوا کہ جس کے ساتھ کوئی جہالت نہیں ہے۔
تو اس آیت میں فرمایا کہ آئو اس فلاح کا ایک نسخہ تمہیں بتائوں اور وہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے دل کے بخل سے بچایا جاتا ہے۔ وہی دنیا اور آخرت دونوں میں مفلح (فلاح پانے والا) ہوتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ دل کے بخل سے نجات کس طرح ہو۔ اس کے جواب کے لئے فرمایا ۔
فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَااسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ
کہ جہاں تک ہو سکے اپنی طاقت، قوت اور استعداد کے مطابق تقوی کی راہوں پر چلتے رہو اور تقوی یہ ہے کہ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا (بخاری کتاب الجھاد و السیر باب السمع والطاعۃ للامام)کہ اللہ تعالیٰ کی آواز سنو اور لبیک کہتے ہوئے اس کی اطاعت کرو۔ اگر تم تقوی کی راہوں پر چل کر سَمْعًا وَّ طَاعَۃًکا نمونہ پیش کرو گے۔ تو تمہیں اللہ تعالیٰ اس بات کی بھی توفیق دے گا کہ تم اپنی جانوں، مالوں اور عزتوں سب کو اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائو اس طرح تمہیں دل کے بخل سے محفوظ کر لیا جائے گا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
اس نسخہ کو نبی کریمﷺ کے صحابہؓ نے خوب سمجھا اور پھر اس پر خوب عمل کیا دیکھو دنیا میں بھی انہیں ایسی کامیابی نصیب ہوئی کہ کسی اور قوم کو ویسی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ اور اسی زندگی میں ان کو آئندہ کے متعلق ایسی بشارتیں ملیں کہ کسی اور قوم کو ان کا حقدار قرار نہیں دیا گیا یا پھر اس نسخہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت نے سمجھا اور اس کے مطابق عمل کرکے حقیقی کامیابی اور فلاح کے حصول کے لئے جدوجہد کی اور کر رہی ہے اور آئندہ بھی اسی راہ پر گامزن رہے گی۔ انشاء اللہ
آج جس وجہ سے میں نے آیت مذکورہ پڑھی ہے اور اپنے بھائیوں کو اس کے مضمون کی طرف متوجہ کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ پچھلے ماہ کی ۸ تاریخ کو میں نے ایک خطبہ دیا تھا اور جماعت کو تحریک کی تھی کہ چونکہ ہمارا مالی سال ختم ہو رہا ہے صرف تین ہفتے باقی ہیں۔ اس لئے اپنے بجٹ کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ ۸؍اپریل کو ہمارے بجٹ کی پوزیشن یہ تھی کہ بجٹ ۲۸۰,۲۴,۲۵ روپے کا تھا اور اس کے مقابل آمد مبلغ ۷۸۷,۵۷,۲۱ روپے تھی یعنی بجٹ کے مقابل قریباً ساڑھے تین لاکھ روپیہ آمد کم تھی اس کی وجہ سے مجھے بڑی گھبراہٹ اور فکر لاحق تھی۔ ہمارا حقیقی دشمن شیطان ہے اور وہ بڑا چوکس ہے اور اس کی شرارت اور دجل بھی کمال کا ہے۔ اس لئے میں ڈرتا تھا کہ اگر ہمارے سال رواں کا بجٹ پورا نہ ہوا تو فوراً بعض دلوں میں شیطان یہ وسوسہ ڈالے گا اور انہیں یہ کہہ کر خوش کرنے کی کوشش کرے گا کہ دیکھو جماعت کا قدم ترقی کی بجائے تنزل کی طرف جانا شروع ہو گیا ہے اور پھر ہمارے مخالف اس سے یہ نتیجہ نکالیں گے کہ جماعت ان رفعتوں کو حاصل نہ کر سکے گی کہ جن کے حصول کا اسے دعویٰ ہے اور جن کے حصول کی خداتعالیٰ کی طرف سے اسے بشارت بھی مل چکی ہے۔
شیطان اس بات کو لوگوں سے چھپائے گا کہ ستمبر کی جنگ میں ہماری بہت سی جماعتیں جو ضلع سیالکوٹ اور لاہور وغیرہ میں تھیں بُری طرح متاثر ہوئی ہیں اور اپنا سارا مال و متاع چھوڑ کرا نہیں اپنے علاقہ سے ہجرت کرنی پڑی اور اس وجہ سے وہ اپنے چندے پوری طرح ادا نہ کر سکیں۔
وہ اس امر کو بھی دنیا سے چھپائے گا کہ جنگ کی وجہ سے جماعت کے بہت سے تاجروں پر بھی بُرا اثر پڑا اور ان کی تجارت کی حالت وہ نہ رہی جو جنگ سے پہلے تھی اور چونکہ ان کی آمدنی کم ہو گئی اس لئے لازماً اسی نسبت سے جماعت کے چندے بھی کم ہو گئے۔
پس مجھے خیال ہوا کہ ان تمام باتوں کو نظر انداز کرکے شیطان بعض لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالے گا کہ دیکھو جماعت تنزل کی طرف جھک گئی ہے اور اب یہ وہ ترقیات حاصل نہ کر سکے گی جن کے متعلق اسے دعویٰ ہے کہ انہیں خداتعالیٰ نے اس کے لئے مقدر کر رکھا ہے اور اس کا یہ دعویٰ پورا نہ ہو گا کہ یہ جماعت تمام اطراف عالم میں محمد رسول اللہﷺ کا جھنڈا گاڑنے میں کامیاب ہو گی۔
اس گھبراہٹ کے نتیجہ میں ایک طرف تو میں نے اپنے ربّ سے دعا کی اور دوسری طرف اپنے بھائیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے میری دعائوں کو بھی سنا اور اس سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دیگر مقدس ہستیوں کی دعائوں کو سنا جو وہ دن رات جماعت کی ترقی کے لئے کرتے رہے اور اس نے ہم پر بڑا ہی فضل کیا۔ کیونکہ ۵؍ مئی ۶۶ء کی رپورٹ کے مطابق ہماری آمدنی تین ہفتوں میں ۷۸۷,۵۷,۲۱ روپے سے بڑھ کر ۴۷۷,۹۱,۲۵ روپے تک پہنچ گئی ہے گویا ان تین ہفتوں میں مبلغ ۶۹۰,۳۳,۴ روپیہ موصول ہوا اور ابھی یہ سال کی پوری آمد نہیں کیونکہ بہت سی رقمیں منی آرڈر کر دی گئی ہیں لیکن وصول ہو کر خزانہ میں داخل نہیں ہوئیں اور بہت سی رقوم ہیں (مثلاً کراچی کی) جو بنک میں جمع کرا دی گئی ہیں لیکن ان کی ہمیں اطلاع ابھی نہیں آئی اس لئے وہ رقم آمد میں جمع نہیں کی جا سکی۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ مزید ساٹھ ستر ہزار روپیہ جو پچھلے سال کی آمد میں محسوب ہے تین چار دن تک یہاں پہنچ جائے گا اس طرح گویا ان تین ہفتوں میں کم و بیش پانچ لاکھ روپے کی آمد ہوئی۔
جب ہم اس آمد کا ۶۶۔۶۵ء کے بجٹ سے مقابلہ کرتے ہیں تو اس کی پوزیشن یہ بنتی ہے ۶۶۔۵۔۵ تک جو اصلی آمد ہوئی وہ ۴۷۷,۹۱,۲۵ روپیہ ہے۔ حالانکہ بجٹ ۲۸۰,۲۴,۲۵ روپیہ ہے۔
پس مبلغ ۱۹۷,۶۷ (ستاسٹھ ہزار) روپیہ بجٹ سے زیادہ آمد ہوئی اور امید ہے کہ ۶۰ یا ۷۰ ہزار روپیہ کی رقم جو اسی سال میں محسوب ہے جلد ہی وصول ہو جائے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس طرح ۶۶۔۶۵ء کے بجٹ کی نسبت قریباً ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ کی آمدنی زائد ہو گی۔
جب ہم ۶۶۔۶۵ء کی آمد کا ۶۵۔۶۴ء کی آمد سے مقابلہ کرتے ہیں تو پوزیشن یہ بنتی ہے۔
۶۶۔۶۵ء کی آمد ۴۷۷,۹۱,۲۵ روپیہ اور ۶۵۔۶۴ء کی آمد ۳۳۳,۶,۳۴ روپیہ ہوئی۔ اس طرح ۶۵۔۶۴ء کی آمد کی نسبت اس سال اس وقت تک کی آمد مبلغ ۱۴۴,۲۷,۱ روپیہ زیادہ ہوئی ہے اور اگر متوقع آمد ۰۰۰,۶۰ کو اس میں شامل کر لیا جائے تو ۶۶۔۶۵ء کی آمد قریباً ایک لاکھ نوے ہزار روپیہ زیادہ ہوتی ہے۔
اگر ہم ۶۶۔۶۵ء کی آمد کا ۶۵۔۶۴ء کے بجٹ سے مقابلہ کریں تو یہ زیادتی قریباً اڑھائی لاکھ روپیہ (۲۴۶۱۴۷) بنتی ہے۔
جب یہ اعداد و شمار میرے سامنے آئے تو میرا دل خدا کی حمد سے بھر گیا اور میرے تمام احساسات اور جذبات کو اس نے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں اور نہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ میں سے کسی کے پاس وہ الفاظ ہوں گے جن سے ہم کما حقہ اپنے ربّ کا شکریہ ادا کر سکیں۔
میں نے یہ بھی سوچا کہ مجھے آپ کے مقابلہ میں کوئی بزرگی یا برتری حاصل نہیں لیکن جس ربّ عظیم نے اس خاکسار نابکار کو خلافت کی کرسی پر بٹھایا ہے اسی قادر و توانا نے آپ کے دلوں میں میرے لئے محبت پیدا کی میری زبان آپ کے دلوں پر اثر کرتی ہے اور آپ میری آواز کو سن کر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مجنونانہ طور پر اپنے دینی کاموں میں لگ جاتے ہیں جیسا کہ باہر سے آنے والی بہت سی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے وہ لکھتے ہیں کہ جب آپ کا خطبہ یہاں پہنچا تو تمام عہدیدار مجنونانہ طور پر اپنے کام میں لگ گئے اور کوشش کی کہ بجٹ کے پورا ہونے میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
اسی طرح بعض افراد نے جن کے ذمہ بڑی بڑی رقوم واجب الادا تھیں تنگی برداشت کرکے وہ رقوم ادا کر دیں اس طرح انہوں نے جماعت سے تعاون کیا اور خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو خصوصاً ان عہدیداروں کو جنہوں نے اس عرصہ میں بہت محنت اور بڑی تگ و دو سے کام لیا اور جماعت میں احساس ذمہ داری کو بیدار کیا ہے۔ جزاء خیر دے اور اپنی رضا سے نوازے اور جیسا کہ خداتعالیٰ نے سورئہ تغابن کی آیات میں بڑی وضاحت سے فرمایا ہے حقیقی اور کامل فلاح انہیں حاصل ہو اور اس دنیا کی حسنات سے بھی انہیں نوازے اور آخرت کی حسنات بھی زیادہ سے زیادہ ان کے حصہ میں آئیں۔
میں نے پہلے بھی دعا کی ہے اور آئندہ بھی کروں گا آپ بھی ایسے سب دوستوں کے لئے دعا کریں جنہوں نے جماعت کے بوجھ کو اُٹھایا کہ اللہ تعالیٰ انہیں بہتر سے بہتر جزاء خیر دے اور جیسا کہ اس نے جماعت کو ان نامساعد حالات میں بھی یہ توفیق دی ہے کہ مالی قربانی کے میدان میں اس کا قدم پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے ہی بڑھا ہے۔ آئندہ بھی محض اس کے فضل اور احسان سے دنیا کے ہر ملک اور عمل کے ہر میدان میں ہر چڑھنے والے دن اس کا قدم پہلے کی نسبت آگے ہی بڑھنے والا ہو۔ آمین۔
سب توفیق اسی سے حاصل ہوتی ہے۔ وَعَلَیْہِ تَوَکَّلْنَا
(روزنامہ الفضل ۲۵؍ مئی ۱۹۶۶ء صفحہ ۲ تا ۳)
٭…٭…٭






شرک کی تمام راہوں سے بچنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ کسی قسم کا تکبر بھی ہمارے دلوںمیں پیدا نہ ہو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳ ؍مئی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ پاک اعتقاد سے اعمال صالحہ جنم لیتے ہیں اور ہر عمل صالح نیستی کے اقرار کو چاہتاہے۔
٭ بندہ کی عاجزی کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ اس کی بلندی کے سامان پیدا کرتا ہے۔
٭ شرک کی تمام راہیں تکبر کے چوراہے سے پھٹتی ہیں۔
٭ متکبر انسان اللہ تعالیٰ کے نشانات سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔
٭ متکبر انسان ناکام اور نامراد رہتا ہے وہ کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتا۔




تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
قرآن کریم نے کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے دی ہے اور شجرہ طیبہ وہ ہوتا ہے جس کے اندر ایسی استعدادیں ہوں کہ وہ اچھی طرح نشوونما پا سکے اور اچھے پھل دے سکے اور پھر اسے لگایا بھی اچھی زمین میں گیا ہو اور اس کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ اس زمین میں قائم ہوں اور ہر ممکن غذا وہ زمین سے لے رہا ہو۔ اسی طرح کلمہ طیبہ کی جڑیں بھی فروتنی عاجزی، انکسار اور تواضع کی زمین میں مضبوطی سے قائم ہوتی ہیں۔
یاد رکھنا چاہئے کہ پاک کلام سے پاک اعتقاد پیدا ہوتا ہے اور پاک اعتقاد سے اعمال صالحہ جنم لیتے ہیں اور ہر عمل صالح نیستی کے اقرار کو چاہتا ہے اور عاجزانہ دعائوں کے ذریعہ اس کا رَفَع اِلٰی السَّمَائہوتا ہے اور اپنے بندہ کی عاجزی کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ اس کی بلندی کے سامان پیدا کرتا ہے۔ اگر عاجزی اور انکسار کی بجائے ابآء اور استکبار ہو تو بظاہر اچھے اور نیک اعمال بھی بندہ کے منہ پر مارے جاتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول نہیں ہوتے اور ایسے درخت کو اللہ تعالیٰ کے فضل اس کی رحمت اور اس کی برکت کے پھل نہیں لگتے اور نہ ہی اس کی شاخیں صفات باری کی بلندیوں اور رفعتوں سے کچھ غذا حاصل کرکے بندہ کے لئے اس زندگی میں رضائے الٰہی کی جنت کے حصول کا ذریعہ بنتی ہیں بلکہ بداعتقادات بد عملیوں کو جنم دیتے ہیں۔ اور یہ ایک ایسا شجرہ خبیثہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں فروتنی کی زمین میں قائم ہونے کی بجائے غرور، خود پسندی، ابآء اور استکبار کے ’’فوق الارض‘‘ میں لٹکی ہوئی اور معلق ہوتی ہیں اور غضب الٰہی اور قہر خداوندی کے زلازل اسے متزلزل رکھتے ہیں اور اسے کوئی قرار نہیں ہوتا۔ مَالَھَامِنْ قَرَارٍ۔ (ابراھیم :۲۷) اور بداعتقاد اور بداعمال انسانوں کے لئے قرب الٰہی کی راہیں اور آسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ابدی جنتوں کے وہ مستحق نہیں ٹھہرتے اسی لئے اسلام نے فروتنی، تواضع اور عبودیت پر بہت زور دیا ہے اور غرور، خود پسندی اور تکبر سے بڑی سختی سے روکا ہے۔ اور جیسا کہ میں نے اپنے ایک پہلے خطبہ میں بھی احباب کو اس طرف توجہ دلائی تھی۔ غرور اور استکبار کے نتیجہ میں جو گمراہیاں، ضلالتیں، اندھیرے اور ظلم پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا قرآن کریم میں تفصیل سے ذکر آتا ہے۔ میں اس وقت ان میں بعض کی طرف احباب جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی تمام راہیں تکبر کے چورا ہے سے پھٹتی ہیں اور اس شجرہ خبیثہ کی جڑیں استکبار کے فوق الارض میں معلق ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
اِنَّھُمْ کَانُوْآ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ لا یَسْتَکْبِرُوْنَo لا وَیَقُوْلُوْنَ اَئِنَّا لَتَارِکُوْآ اٰلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍoط (الصّٰفّٰت: ۳۶، ۳۷)
یعنی جب کبھی ان سے یہ کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں صرف وہی پرستش کے لائق ہے انسان کو صرف اسی کے سامنے عاجزی اور انکسار کے ساتھ جھکنا چاہئے۔ وہی تمام فیوض کا منبع ہے صرف اسی سے فیض حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے وہی تمام زندگی اور حیات اور زندگی کے تمام لوازمات کا سر چشمہ ہے کسی قسم کی کوئی زندگی اور حیات اس کے سوا کسی اور جگہ سے حاصل نہیں کی جا سکتی یَسْتَکْبِرُوْنَ تو آگے سے وہ اپنے کو صاحب عظمت اور صاحب جبروت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ ہم میں بڑی عظمت پائی جاتی ہے، ہم بڑے لوگ ہیں، ہم صاحب جبروت ہیں، ہمیں خدائے واحد کی ضرورت نہیں کیونکہ جو اِلٰہْ ہم نے بنائے ہیں وہ ہمارے ہیں اور ہمارے بنائے ہوئے اِلٰہوں کے مقابلہ میں جس اللہ کو پیش کیا جاتا ہے چونکہ وہ اٰلِھَتُنَامیں شامل نہیں وہ ہمارا بنایا ہوا رب نہیں ہے اس لئے ہم اس کی توحید کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں پھر ہم اسے قبول کریں بھی تو ایک شاعر اور مجنون کے کہنے پر جو جھوٹی بات کو خوبصورت پیرایہ اور احسن رنگ میں پیش کر رہا ہے اور اسے کوئی سحر ہو گیا ہے کوئی جن چمٹا ہوا ہے یہ بڑا حقیر انسان ہے جو باتیں کر رہا ہے گو وہ بظاہر دلوں کو موہ لینے والی ہیں لیکن ایسے حقیر انسان کے منہ سے ایسی باتیں نہیں نکل سکتیں اس لئے معلوم ہوا کہ کوئی جن اس کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور اسے اس قسم کی شاعرانہ باتیں سکھا رہا ہے۔
پس یہاں اللہ تعالیٰ نے شرک کی حقیقی اور اصلی وجہ کی نشاندہی کی ہے اور فرمایا کہ وہ توحید کو اس لئے ٹھکراتے ہیں کہ وہ لَتَارِکُوْآ اٰلِھَتِنَا(الصّٰفّٰت: ۳۷)کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے علم پر ہم اس لئے بھروسہ رکھتے ہیں کہ یہ علم ہمارا ہے ہم دنیوی جاہ و جلال پر اس لئے اتنا بھروسہ رکھتے ہیں (جتنا کہ ہمیں خداتعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہئے) کہ یہ جاہ و جلال اور یہ عظمتیں ہماری ہیں اور ہماری طرف منسوب ہونے والی ہیں یہ مادی اسباب اور مال و دولت جس کے بل بوتے پر ہم دنیا میں اپنی خدائی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کسی غیر کے نہیں بلکہ ہمارے ہیں۔ ہم اٰلِھَتِنَا یعنی اپنے خدائوں کو چھوڑ کر خدائے واحد کی پرستش کرنے کے لئے تیار نہیں۔
پس یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ ابآء اور استکبار کے نتیجہ میں شرک جلی بھی پیدا ہوتا ہے اور شرکِ خفی بھی پیدا ہوتا ہے۔ بعض لوگ تو کھلم کھلا خدائے واحد کو خدائے واحد قرار نہیں دیتے اور نہ اسے تسلیم کرتے ہیں بلکہ وہ اس کے ساتھ سورج یا چاند یا بعض درختوں (ہندو لوگ بڑ کے درخت کی پوجا کرتے ہیں) یا بعض جانداروں (جیسے سانپ) کی پرستش کرتے ہیں یا اپنی دنیوی عزت، وقار اور جاہ و جلال یا اس علم کو جو انہوں نے اپنی قوتوں کے نتیجہ میں حاصل کیا ہوتا ہے سب کچھ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب کچھ حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی عطا کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے لیکن وہ اس چیز کو سمجھتے نہیں۔ وہ اپنے علم کی وجہ سے خدائے واحد و یگانہ سے منہ پھیرتے ہیں جیسے مثلاً کمیونسٹ ہیں، کمیونسٹ ممالک نے علوم اور ایجادات میں بہت ترقی کی ہے اور بجائے اس کے کہ وہ خداتعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے، انہوں نے اپنے ہی خالق و مالک کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے وہ اس کرئہ ارض سے خداتعالیٰ کے نام کو مٹا دیں گے۔ وہ اس کی طاقت تو نہیں رکھتے لیکن تکبر کی وجہ سے اس دعویٰ کا اعلان ضرور کرتے ہیں یا مثلاً عیسائی اقوام کو الٰہی منشاء کے مطابق اور اسی کے علم سے دنیا میں ایک برتری حاصل ہوئی اور علم کے میدان میں بھی اور دنیا کی ایجادات کے میدان میں بھی انہوں نے بہت ترقی کی۔ اس ترقی کے بعد بجائے اس کے کہ وہ خدائے واحد و یگانہ کی طرف جھکتے اور حمد کرتے ہوئے اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے۔ انہوں نے اس کے مقابلہ پر اپنا تمام زور، اپنی تمام طاقت اور اپنے تمام اموال، یسوع مسیح کی خدائی کو ثابت کرنے میں لگا دئیے۔
غرض اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ تکبر اس قسم کا گھنائونا گناہ ہے ایسی بدی ہے کہ شرک کے راستے اس کے چورا ہے سے پھٹتے ہیں اور انسان نے جب بھی اللہ تعالیٰ کے مقابل کسی اور کو شریک قرار دیا تو تکبر ہی اس کی وجہ بنی تھی اور انہوں نے ان چیزوں کو جو ان کی طرف منسوب ہوتی تھیں۔ اس پاک وجود کے مقابلہ میں جو ہر مخلوق کی طرف منسوب ہو جاتا ہے اور ہر مخلوق اس کی طرف منسوب ہونے والی ہے زیادہ عظمت دے دی۔ پس تکبر ایسا گناہ کبیرہ اور ایسی بدی ہے جس کے مقابلہ میں کسی اور گناہ اور بدی کو بڑا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اور شرک کی بدی تکبر سے ہی پھوٹتی ہے۔ دوسری چیز جو تکبر کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے وہ الٰہی اور آسمانی تعلیم سے محرومی ہے اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ میں فرماتا ہے:۔
اَفَکُلَّمَا جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ م بِمَالاَ تَھْوٰی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ (البقرۃ: ۸۸)
یعنی جب بھی تمہارے پاس کوئی رسول اس تعلیم کو لے کر آیا جسے تمہارے نفس پسند نہیں کرتے تھے تو تم نے تکبر کا مظاہرہ کیا یعنی اپنی بد عادات، گندی روایات، بد رسوم اور جھوٹے اعتقادات کو اپنے تکبر کی وجہ سے آسمانی تعلیم سے بہتر سمجھا اور آسمانی تعلیم کو اپنے تکبر کی وجہ سے تم نے ٹھکرا دیا۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ جن لوگوں میں تکبر پایا جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو صاحب عظمت، صاحب رفعت اور صاحب طاقت و دولت سمجھتے ہیں اور دوسروں کو اپنے جیسا نہیں سمجھتے، پھر اس تکبر کے نتیجہ میں ہر وہ رسم ہر وہ عادت ہر وہ خیال اور ہر وہ اعتقاد جو وہ بچپن سے سنتے آئے ہیں قبول کر لیتے ہیں اور جب ان گندی چیزوں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرماتے ہوئے اور صحیح عقائد ان کے سامنے رکھنے کے لئے اپنے رسول کو بھجواتا ہے اور وہ اس کی لائی ہوئی آسمانی ہدایت کو سنتے ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ خداتعالیٰ کے شکر گزار ہوں اور کہیں کہ ہمارے ربّ نے ہم پر رحم کیا اور ہمارے لئے ہمارے کسی عمل کے بغیر اور ہمارے کسی استحقاق کے بغیر آسمان سے ہدایت کو نازل کیا تاکہ ہم اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کر سکیں اور خداتعالیٰ کے قرب کو پا سکیں انہوں نے وَاتَّبَعَ ھَوٰئہُ (الاعراف: ۱۷۷)کے ماتحت اپنی ہی پسند، اپنی ہی خواہش اور اپنی ہی عادتوں کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت، اس کی تعلیم اور آسمانی نور کے مقابلہ میں افضل، اعلیٰ اور ارفع سمجھا اور اس طرح وہ الٰہی ہدایت اور آسمانی نور کے قبول کرنے سے محروم ہو گئے۔ سو یہ بھی ایک نہایت ہی بھیانک، بُرا اور مہلک نتیجہ ہے جو تکبر کی وجہ سے نکلتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ آیت اس طرف بھی اشارہ کر رہی ہے کہ ایک تو وہ لوگ ہیں جو کافر ہوئے جو منکر ہوئے اور انہوں نے خداتعالیٰ کے رسول کو نہیں مانا یہ لوگ تو خداتعالیٰ کی ہدایت اور نور سے محروم تھے ہی لیکن جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ماننے والے ہیں وہ بھی بعض دفعہ اپنے تکبر کی وجہ سے الٰہی ہدایت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کا نفس مثلاً پسند نہیں کرتا کہ کوئی شخص ان کے پاس آئے اور ان کو یہ بتائے کہ تمہارے اندر فلاں کمزوری پائی جاتی ہے تم اسے دور کرو۔ وہ کہتے ہیں ہماری بے عزتی ہو گئی یا مثلاً کوئی شخص کسی بڑے مالدار کو یہ کہے کہ دیکھو تم غریبوں پر رحم کیا کرو تو وہ سمجھتا ہے کہ اس شخص نے میری بے عزتی کی ہے اور اس طرح وہ اپنے آپ کو اسلامی حکم سے بالا سمجھنے لگتا ہے اور اپنے آپ کو ان فیوض سے محروم کر لیتا ہے جن فیوض کو وہ اسلامی تعلیم کے ذریعہ حاصل کر سکتا ہے۔
تیسری چیز جس کا ذکر قرآن کریم نے اس ضمن میں کیا ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے جو نشانات اور آیات اتارتا ہے ایک متکبر انسان ان کو قبول کرنے کی بجائے، ان سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اور ان کے نتیجہ میں اپنے ربّ کا عرفان حاصل کرنے کی بجائے، ان کی تکذیب شروع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْھَآ اُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَo
(اعراف :۳۷)
یعنی وہ لوگ جو ہماری آیات کا انکار کرتے ہوئے اور تکبر کرتے ہوئے ان سے اعراض کرتے ہیں وہ دوزخی ہیں۔ وہ دوزخ میں ایک لمبے عرصے تک پڑے رہیں گے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کی توجہ اس طرف پھیری ہے کہ ہم اپنی رحمت بے پایاں کے نتیجہ میں تمہاری اصلاح کی خاطر اور تمہارے لئے اپنے قرب اور رضا کی راہیں کھولنے کے لئے آسمانی آیات، نشانات اور معجزات اُتارتے ہیں اور اتارتے رہیں گے۔ لیکن تم بھی عجیب ہو کہ جب ہم تم پر اپنے قرب کی راہ کھولنا چاہتے ہیں اور آسمان سے نشانات کو اُتارتے ہیں تو تم اپنے غرور، خود پسندی، اباء اور تکبر کی وجہ سے ان کی طرف توجہ نہیں کرتے اور ان راہوں کو اپنے پر مسدود کر لیتے ہو۔ غرض یہاں اللہ تعالیٰ نے استکبار کا ایک نہایت ہی بد نتیجہ یہ بتایا ہے کہ متکبر انسان اللہ تعالیٰ کے نشانات سے وہ فائدہ نہیں اُٹھاتا یا وہ فائدہ نہیں اُٹھا سکتا جس کے لئے اللہ تعالیٰ آسمان سے ان نشانات کو نازل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ تکبر کی وجہ سے میری آیات کو جھٹلاتے ہیں وہ میرے غضب کی آگ میں پڑنے والے ہیں اور انہیں ایسا درد ناک عذاب پہنچے گا کہ وہ سمجھیں گے کہ یہ عذاب تو ختم ہونے والا نہیں ابدالآباد تک کا ہے۔
پھر اِسی سورۃ (سورئہ اعراف) میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّط وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لاَّیُؤْمِنُوْابِھَاج وَاِنْ یَّرَوْاسَبِیْلَ الرُّشْدِلَا یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلاً ج وَاِنْ یَّرَوْاسَبِیْلَ الْغَيِّ یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلاً ج ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْا عَنْھَا غٰفِلِیْنَ۔ (الاعراف : ۱۴۷)
’’یعنی میں جلد ہی ان لوگوں کو جنہوں نے بغیر کسی حق کے دنیا میں تکبر کیا ہے اپنے نشانوں کی شناخت سے محروم کرکے اور اپنے نشانوں سے جو فائدہ انہیں پہنچ سکتا ہے اس فائدہ سے محروم کرکے انہیں اپنے سے دور کر دوں گا اور اگر وہ ہر ممکن نشان بھی دیکھ لیں تو وہ ان آیات پر ایمان نہیں لائیں گے۔ اگر وہ سیدھا راستہ دیکھ بھی لیں تو اسے کبھی اپنائیں گے نہیں اور اگر وہ گمراہی کا راستہ دیکھیں تو اسے وہ اپنا لیں گے یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے ہماری آیات کی (بوجہ تکبر کے) تکذیب کی اور وہ ان سے غفلت برت رہے ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ تکبر کے نتیجہ میں جو لوگ میری آیات کو جھٹلاتے ہیں، میں دین میں بھی اور دنیا میں بھی کامیابی کی راہیں ان پر مسدود کر دیتا ہوں۔ تکبر ہمیشہ بغیر حق کے ہوتا ہے سوائے بعض شاذ اور استثنائی مظاہروں کے جو گو تکبر نہیں ہوتے لیکن تکبر سے ملتے جلتے ہیں۔ جیسا کہ جب مسلمان پہلی بار حج کے لئے مکہ گئے تو اس وقت باوجود جسمانی کمزوری کے وہ طواف کے دوران بڑے اکڑ اکڑ کر چلتے تھے تامکہ والے یہ نہ سمجھیں کہ مسلمان مدینہ جا کر کمزور ہو گئے ہیں۔ ان کی صحتیں خراب ہو گئی ہیں اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل سے جو صحت اور جسمانی مضبوطی کی صورت میں ان پر تھا محروم ہو گئے ہیں اگر صحابہؓ کے اس مظاہرہ کو تکبر کا نام دیا جائے تو اسے بغیر حق نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان کا ایسا کرنا محض خداتعالیٰ کے لئے تھا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تکبر جو عام طور پر اپنے نفس کی بڑائی کے لئے ہوتا ہے میری کبریائی کے اظہار کے لئے نہیں ہوتا وہ حق کے بغیر ہی ہوتا ہے اور جو لوگ تکبر کی وجہ سے، اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے، اپنے آپ کو کچھ جاننے کی وجہ سے، اپنے آپ کو بڑی عظمت والا، بڑے جبروت والا، بڑی طاقت والا، بڑے مال والا، بڑی وجاہت والا اور بڑے علم والا سمجھنے کی وجہ سے میری آیات کو جھٹلا دیتے ہیں اور ان کی طرف توجہ نہیں کرتے خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ وَعَلی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ (البقرہ : ۸) ان کے اندر ان بدعملیوں کی وجہ سے ایک ایسی تبدیلی پیدا ہو جائے گی کہ وہ حق کے قبول کرنے سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دئیے جائیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جب بھی رشد و ہدایت اور کامیابی کا کوئی راستہ ان کے سامنے آئے گا وہ اس راستہ پر نہیں چلیں گے یعنی میری آیات کے جھٹلانے کی وجہ سے جو تکبر کے نتیجہ میں ہو گا اللہ تعالیٰ دین میں بھی اور دنیا میں بھی کامیابی کی راہیں ان پر مسدود کر دے گا۔ متکبر انسان کچھ عرصہ کے لئے تو شاید اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھے اور بڑا کامیاب سمجھے لیکن آخر کار اسی دنیا میں انہیں اللہ تعالیٰ ناکام اور نامراد کرتا ہے وہ کامیابی کا منہ کبھی نہیں دیکھتے اور عاقبت ہمیشہ متقی لوگوں کے لئے ہی ہوتی ہے۔
آخری کامیابی صرف مومنوں کو ہی نصیب ہوتی ہے آخری فتح صرف ان لوگوں کو ہی ملتی ہے جو نہایت عاجزی اور انکسار کے ساتھ اپنے ربّ کی چوکھٹ پر پڑے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان متکبر ان کو کامیابی کی راہیں کبھی نہیں ملیں گی اور وہ راستے جو ان کیلئے مصیبت بن جائیں گے ان کو وہ خوشی سے قبول کر لیں گے اور نہیں جانیں گے کہ ان کا انجام کیا ہے اور جب وہ اس راستہ پر چل کر اپنے زعم میں خوشی خوشی منزل پر پہنچیں گے تو اس منزل کو نارِ جہنم پائیں گے اور یہ اس لئے ہو گا کہ انہوں نے تکبر کیا ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے غفلت برتی۔ یہ ایک نہایت ہی بھیانک سزا ہے جو ان لوگوں کیلئے تجویز کی گئی ہے جو تکبر سے کام لیتے ہیں اور جس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کے نشانات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
الٰہی سلسلہ میں نشانات اور آیات کا ایک دریا بہہ رہا ہوتا ہے اور جماعت مومنین کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ ان آیات اور نشانات کو دیکھے، ان کو سمجھے اور جس غرض کے لئے وہ نشانات ظاہر کئے گئے ہیں اس کو وہ پورا کرے۔ اسی طرح جو فائدہ ممکن طور پر وہ اس سے اٹھا سکتی ہو اس سے اٹھائے اور یہ صرف کافروں کے لئے ہی نہیں، مومنوں کے لئے بھی فرض ہے کہ وہ تکبر کی باریک سے باریک راہوں سے اجتناب کرتے ہوئے آسمانی نشانات اور آیات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا فیضان جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اسلام میں جاری ہوا وہ فیضان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل اب پھر سے ہم جیسے کمزور اور ناتوان اور عاجز بندوں کو ملنا شروع ہو گیا ہے اور اللہ تعالیٰ لاکھوں نشانات جماعت احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد بھی دکھلا چکا ہے۔ اور جب بھی کرائسز (Crisis) یعنی خطرناک حالات پیدا ہو جاتے ہیں آسمان سے نشانات بارش کی طرح نازل ہونے لگتے ہیں۔ ۱۹۵۳ء میں ہم نے آسمان سے بارش کی طرح نشانات کا نزول دیکھا۔ پھر جب فرقان بٹالین محاذ پر گئی تو اس وقت اس بٹالین کے پانچ چھ سَو نوجوانوں نے بارش کی طرح آسمان سے اللہ تعالیٰ کے نشانات اور آیات کو نازل ہوتے دیکھا۔ پھر جہاں اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے بزرگ افراد کو انفرادی طور پر اپنے نشانات سے نوازتا ہے وہاں وہ جماعت کو بحیثیت جماعت بھی اپنے نشانات، آیات اور معجزات سے نوازتا رہتا ہے اور جماعت کے افراد کا فرض ہے کہ وہ جب خداتعالیٰ کے اس احسان کو دیکھیں تو ان کے دل میں رائی کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی تکبر پیدا نہ ہو۔ وہ نہایت عاجزی کے ساتھ خداتعالیٰ کے ان احسانوں کا شکریہ ادا کرنے والے ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی شکر گزاری کے نتیجہ میں جماعت کو پہلے سے زیادہ نشانات اور آیات دکھاتا چلا جائے۔ اس وقت میں ان تین باتوں کی طرف جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہیں احباب کو متوجہ کرنا چاہتاہوں۔
اوّل یہ کہ اگر شرک کی باریک راہوں سے بچنا ہو تو کسی قسم کا بھی تکبر ہمارے دلوں میں پیدا نہیں ہونا چاہئے۔
دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم اور ہدایت کا ہم نے حق ادا کرنا ہو تو پھر بھی ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہمارے دل اور نفس میں کسی قسم کا تکبر پیدا نہ ہو۔
تیسرے اگر ان آیات سے جو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے آسمان سے نازل فرما رہا ہو۔ ہم نے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہو اور استفاضہ کرنا ہو تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم تکبر سے اس طرح ڈرنے والے اور بچنے والے ہوں جس طرح کہ ہم دہکتی ہوئی آگ میں جان بوجھ کر اپنا ہاتھ ڈالنے سے بچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ یکم جون ۱۹۶۶ء صفحہ۲ تا ۴)
٭…٭…٭






اتنی دعائیں کریں کہ بس مجسم دعا بن جائیں اور ساتھ ہی غلبہ اسلام کی خاطر اپنی قربانیوں کو نقطۂ عروج تک پہنچا دیں
(خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍ مئی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد پیدر آباد)
ئئء
حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے نماز جمعہ پڑھائی۔ حضور نے نماز سے قبل ایک نہایت ہی ایمان افروز اور روح پرور خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ایک صدی قبل کی ایک نہایت مہتم بالشان پیشگوئی کے پورا ہونے کے سلسلہ میں اس کے پہلے ایمان افروز ظہور پر مسحور کن انداز میں روشنی ڈالی۔ حضور نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے الہام ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ کا ذکر کرنے اور اس کے بعض نہایت لطیف پہلوؤں کو واضح کرنے کے بعد بتایا کہ گیمبیا کے قائم مقام گورنر جنرل نے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مخلص احمدی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کپڑوں کا ایک ٹکڑا بطور تبرک مانگا ہے۔ حضور نے فرمایا اس پیشگوئی کی یہ پہلی جھلک ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ایمانوں کو تازہ کیا ہے ورنہ خدائی وعدہ کے بموجب یہ پیشگوئی آئندہ بڑی عظمت و شان کے ساتھ پوری ہوتی چلی جائے گی۔ یہ پہلی جھلک جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں محض اپنے فضل سے دکھائی ہے اس امر کی آئینہ دار ہے کہ خدائی وعدوں کے پورا ہونے کا زمانہ اب قریب آ گیا ہے ہمیں چاہئے کہ ہم جذبات تشکر سے لبریز ہو کراللہ تعالیٰ کی حمد بیان کریں اور اس کے حضور اتنی دعائیں کریں کہ بس مجسم دعا بن جائیں اور ساتھ ہی غلبہ اسلام کی خاطر اپنی قربانیوں کو نقطۂ عروج تک پہنچا دیں تا کہ اللہ تعالیٰ رجوع رحمت ہوکر ہمیں ہماری زندگیوں میں ہی یہ دن دکھاوے کہ اسلام ساری دنیا میں غالب آ گیا ہے۔
(الفضل ۲۰؍ مئی ۱۹۶۶ء صفحہ۱ ،۲)












کام وہی اچھا ہوتا ہے جس کا انجام اچھا ہو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷ ؍مئی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ئئء
٭ فروتنی اور عاجزی سے کامیابی ملتی ہے۔
٭ اس قسم کے کام کرنے چاہئیں کہ جن کا آخری انجام اچھا اور مفید ہو۔
٭ مومنوں کو فوز عظیم عطا کی جاتی ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ ہمارا انجام بخیر کرے اور اپنی رضا کی ٹھنڈی چھاؤں عطا کرے۔
٭ جب اس دنیا کو چھوڑ کر اُس کے حضور حاضر ہوں تو اس کے منہ سے پیارے کلمات ہمارے کان بھی سنیں۔





تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
کام وہی اچھا ہوتا ہے جس کا انجام اچھا ہو طبّ اور ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے والا ایک طالب علم اگر اپنی تعلیم کے زمانہ میں پہلے تین سال اوّل آتا رہے اور آخری سال فیل ہو جائے تو پہلے تین سالوں میں اوّل آنے کا اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ ایک شخص جو اپنے بیمار رشتہ دار کو ملنے اپنے گائوں سے بیس میل دور جانا چاہتا ہے اگر ۱۸ میل کے بعد اسے کوئی ایسی مجبوری یا معذوری پیش آ جائے کہ وہ آگے نہ جا سکے تو اس کا سارا سفر ہی بے معنی اور بے نتیجہ ہے۔
اللہ تعالیٰ سورۃالصافات میں انسانوں کے دو گروہوں کا ذکر فرماتا ہے۔ ایک وہ جو اپنی بداعمالیوں اور اپنے تکبر اور اباء اور خداتعالیٰ کے انبیاء کے خلاف جدوجہد کرنے کے نتیجہ میں جہنم میں ڈالے گئے اور دوسرا وہ گروہ جنہوں نے فروتنی اور عاجزی سے اپنی زندگی کو گزارا اور خداتعالیٰ کے بتائے ہوئے راستہ پر چل کر اعمال صالحہ بجا لائے۔ وہاں ایک لمبا مضمون بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اس گروہ کے متعلق جو جنت میں ہے۔ فرماتا ہے۔
اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (الصّٰفّٰت:۶۱) کہ یہ مومنوں کی حالت بے شک بڑی کامیابی ہے اور ساتھ ہی فرمایا لِمِثْلِ ھٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ (الصّٰفّٰت:۶۲) کہ کام کرنے والوں کو اس قسم کے کام کرنے چاہئیں کہ جن کا آخری انجام ان کے لئے اچھا اور مفید نکلے۔
یہ زندگی مختلف کاموں پر مشتمل ہوتی ہے۔ بعض کام وقتی اور عارضی نتیجہ پیدا کرنے والے ہوتے ہیں ان میں بھی وہی کام اچھا ہے جس کا انجام اچھا ہو۔
بعض اعمال کا نتیجہ ابدی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ ان اعمال کا نتیجہ اس دنیا میں نہیں بلکہ اس دنیا سے گزر جانے کے بعد نکلتا ہے۔ یہ انسان کے اعمال کا آخری نتیجہ ہے۔ اگر اس آخری نتیجہ میں ہم کامیاب ہوں اگر اس لحاظ سے ہمارا انجام بخیر ہو تو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضاء کی ٹھنڈی چھائوں ملتی ہے جس چھائوں میں بیٹھ کر ہم خدا کی رحمتوں سے بھی سرور حاصل کرتے ہیں اور یہی وہ کامیابی ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
لِمِثْلِ ھٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس قسم کے کاموں کی ہمیشہ توفیق عطا فرماتا رہے تاکہ ہم جب اس دنیا کو چھوڑ کر اس کے حضور حاضر ہوں تو اس کے منہ سے یہ پیارے کلمات ہمارے کان بھی سنیں۔
اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ وَلِمِثْلِ ھٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ۔
(الصّٰفّٰت:۶۱،۶۲)
اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے ہی ایسا ہو سکتا ہے اور اسی پر توکّل رکھتے ہوئے اس کے فضلوں اور احسان کی ہم امید رکھتے ہیں۔
(مطبوعہ روزنامہ الفضل ربوہ ۲۲؍ جون ۱۹۶۶ء صفحہ۴)
٭…٭…٭

















سلسلہ احمدیہ کے قیام کی غرض اور ہماری زندگی کی غایت یہ ہے کہ تمام اقوامِ عالم حلقہ بگوشِ اسلام ہوں
(خطبہ جمعہ فرمودہ۳ ؍جون ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ ہمارے پاس مادی سامان موجود نہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہم دعاؤں پر بہت زور دیں۔
٭ اے قادر و توانا! تو ہی اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب فرما۔
٭ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اپنے پیدا کرنے والے کے آستانہ پر آ گریں۔
٭ اے ہمارے قادر و توانا خدا! ہماری عاجزانہ دعائیں سن اور تمام اقوامِ عالم کے کان، آنکھ اور دل کھول دے۔
٭ اے ہمارے خدا! ہمیں ہماری زندگیوں میں اقوامِ عالم میں تبدیلی دکھا۔



تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
آج میں پھر اپنے بھائیوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ دعائوں پر بہت زور دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد، سلسلہ عالیہ احمدیہ کے قیام کی غرض اور ہماری زندگی اور وجود کی غایت ہی یہ ہے کہ تمام اقوام عالم حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں اور اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب آکر سب دنیا میں پھیل جائے مگر جنہیں ظاہری اور مادی سامان اور اسباب اور ذرائع میسر نہیں جن سے کام لے کر ایسا ممکن ہو۔
حق تو یہ ہے کہ مادی وسائل اور مادی اسباب ہمارے آقا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی میسر نہ تھے فتح و کامرانی کے جو نظارے دنیا نے آپؐ کے ہاتھ پر دیکھے وہ ظاہری سامانوں کے مرہون نہ تھے۔ پھر وہ معجزانہ انقلاب عظیم کیوں اور کیسے پیدا ہوا کہ پہلے عرب اور پھر معروف دنیا کی سب وحشی اقوام، شیطان کی غلام، یکدم اپنی وحشت اور درندگی کو چھوڑ کر شیطان سے منہ موڑ کر عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اپنے ربّ، اپنے پیدا کرنے والے کے آستانہ پر آ گریں اس کیوں کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ۔
’’وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمی بے کس سے محالات کی طرح نظر آ تی تھیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ بِعَدَدِ ھَمِّہٖ وَغَمِّہٖ وَ حُزْنِہٖ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ وَاَنْزِلْ عَلَیْہِ اَنْوَارَ رَحْمَتِکَ اِلَی الْاَبَدِ‘‘
(برکات الدعا ۔روحانی خزائن جلد۶ صفحہ۱۱)
اس میں شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی ہر شان ایک بے مثال مقام رکھتی ہے۔ اور کوئی دوسرا اس تک نہیں پہنچ سکتا آپ کے ایک فرزند جلیل مہدی معہود علیہ السلام آپ کے قریب تک پہنچے مگر آپؑ کی شان آپؐ ہی کی شان ہے۔ لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ باوجود اس کے کہ ہر رنگ اور ہر لحاظ سے آپ بے مثال ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک اسوئہ حسنہ بنا کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ پس ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ اس میدان میں بھی جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔ اس قسم کا سوز و گداز اور بَاخِعٌ نَفْسَکَ (الکہف: ۷)والی کیفیت پیدا کریں کہ جو ہمیں آپ کے ساتھ ملتا جلتا بنا دے آپ کا رنگ ہم پر چڑھا ہو۔
اس لئے میں اپنے بھائیوں سے کہوں گا کہ آپ (بشمولیت خاکسار) کامل یقین، کامل امید، کامل توکل، کامل محبت، کامل وفاداری، کامل تذلل اور فروتنی کے ساتھ جھکیں اور نہایت درجہ چوکس اور بیدار ہو کر غفلت، دوری اور غیریت کے ہر پردہ کو چیرتے ہوئے فنا کے میدانوں میں آگے ہی آگے نکلتے چلے جائیں یہاں تک کہ بارگاہِ الوہیت پر پہنچ کر اپنے دل اور دماغ، اپنے جسم اور اپنی روح اس کے حضور پیش کرکے اس سے ان الفاظ میں ملتجی ہوں کہ:
’’اے ہمارے قادر و توانا خدا، ہماری عاجزانہ دعائیں سن! اور تمام اقوام عالم کے کان، آنکھ اور دل کھول دے کہ وہ تجھے اور تیری تمام صفاتِ کاملہ کو شناخت کرنے لگیں گے توحید حقیقی پر قائم ہو جائیں۔ معبودانِ باطلہ کی پرستش دنیا سے اُٹھ جائے اور زمین پر اخلاص سے صرف تیری پرستش کی جائے اور زمین تیرے راستباز اور موحد بندوں سے اسی طرح بھر جائے جیسا کہ سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے اور تیرے رسول کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور سچائی دلوں میں بیٹھ جائے آمین‘‘۔
اے ہمارے خدا! ہمیں ہماری زندگیوں میں اقوام عالم میں یہ تبدیلی دکھا، اے سب طاقت اور قوت کے مالک ہماری عاجزانہ دعائوں کو سن! اور اسلام کو تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کر دے۔ آمین۔
(مطبوعہ الفضل ۸؍ جون ۱۹۶۶ء صفحہ ۲)












حقیقی نیکی وہی ہے جو محض خدا تعالیٰ کی محبت
اور اس کی خوشنودی کی خاطر کی جائے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰ ؍جون ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ ایمان باللہ کے تمام تقاضوں کو پورا کرو۔
٭ انسان کی انفرادی اور اجتماعی نشوونما اور ارتقاء ایک خاص الٰہی منصوبہ کے ماتحت ہے۔
٭ کامل نیک وہ ہے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد بجا لاتا ہے۔
٭ مال صرف خدا تعالیٰ کی محبت میں خرچ کرو۔
٭ ہر احمدی اور ہر جماعت کا فرض ہے کہ جب کوئی اجنبی یا مسافر نظر آئے تو اس سے تعلق قائم کرے اور اس کی ضروریات کو پورا کرے۔




تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے آیت لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِوَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَج وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِیْ الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِج وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتیَ الزَّکوٰۃَج وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا وَالصّٰبِرِیْنَ فِیْ الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَحِیْنَ الْبَاْسِط اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ۔
(البقرہ:۱۷۸)
تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا: ۔
سورۃبقرہ کی اس آیت میں بہت سے وسیع مضامین بیان کئے گئے ہیں۔ مجھے چونکہ کل گرمی لگ جانے کی وجہ سے ضعف کی شکایت ہے اس لئے میں بڑے اختصار کے ساتھ محض چند باتیں بیان کرنے پر اکتفا کروں گا اور ان کی طرف اپنے دوستوں اور بھائیوں کو توجہ دلائوں گا۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اَلْبِرَّ کا لفظ دو دفعہ مختلف معانی میں استعمال کیا ہے۔ البِرّ کے ایک معنی ہیں الطَّاعَۃُ۔ الصلاح الصِّدْقِ (المنجد:باب الباء)
اس لحاظ سے اَلْبِرُّ کے معنی یہاں یہ ہوں گے ہر قسم کے فساد سے پاک ہونا اور ہر قسم کے حقوق اور واجبات پوری اطاعت کے ساتھ ادا کریں۔ پس فرمایا حقیقی نیکی یہ نہیں کہ تم نمازوں کی ادائیگی کے وقت مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرو۔ یا ان بشارات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں قرآن مجید میں دی ہیں کہ مشرق و مغرب کے تمام ممالک پر تمہارا قبضہ ہو گا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہو جائیں گیا اَیْنَمَا تُوَ لُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ (البقرہ:۱۱۶)کہ جس طرف تم رُخ کرو گے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت اور اس کے ملائکہ کی فوج کو اپنی امداد کے لئے پائو گے۔ تو فرمایا ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے تم مشارق اور مغارب کی طرف نکلو یا عبادت کی غرض سے تم مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرو تو محض یہ بات وہ نیکی نہیں جس کا تمہارا رب تم سے تقاضا کرتا ہے۔ فرمایا وَلٰکِنَّ الْبِرَّ(اور یہاں البر کا لفظ دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔) مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ کہ ہر قسم کے مفاد سے پاک اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پوری اطاعت اور فرمانبرداری سے ادا کرنے والا وہ ہے جو ایمان باللہ کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے والا ہو۔ یعنی علی وجہ البصیرۃ خداتعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہو۔ اور اس کی ذات اور صفات میں کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراتا ہو اور یقین رکھتا ہو کہ صحیفہ فطرت صحیحہ انسانیہ پر اس کی صفات کا انعکاس ہے اور تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ ہی سب نیکی ہے اور اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ (البقرہ: ۱۳۲)کا نعرہ لگاتے ہوئے فنا فی اللہ کے سمندر میں اپنی ذات کو غرق کر دینا ہی سچی اور صحیح اور حقیقی اطاعت ہے۔
تو اللہ تعالیٰ نے یہاں نیکی کی ’’اصل صفت‘‘ کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ ہے مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ یعنی نیک وہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ خداتعالیٰ ہے اور کہ وہ واحد یگانہ ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور وہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ اس زندگی کے ساتھ تمہاری حیات ختم نہیں بلکہ حشر کے روز پھر تمہیں اکٹھا کیا جائے گا ضرور پورا ہو گا اور اس روز ہم اپنے اعمال کو اپنے سامنے موجود پائیں گے اور وہ بھی یقین رکھتا ہے کہ خداتعالیٰ نے ملائکہ کو اس کارخانۂ علت و معلول میں آخری مخلوق علت قرار دیا ہے اور اپنے اور مخلوق کے درمیان بطور واسطہ کے قائم کیا ہے اور وہ یہ بھی ایمان لاتا ہے کہ چونکہ خداتعالیٰ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ (المائدہ: ۱۱۰)ہے اور انسان کی انفرادی نشوونما اور ارتقاء اور انسان کی اجتماعی نشو و نما اور ارتقاء ایک خاص الٰہی منصوبہ کے ماتحت ہی ہے۔ اس لئے اس نے اپنے علم کامل کے مطابق ابتدائے پیدائش سے ہی الکتاب قرآن کریم کو ربانی ہدایت مقرر فرمایا ہے بے شک حضرت آدمؑ کے زمانہ سے ہی انبیاء پیدا ہوتے رہے جو انسان کو درجہ بدرجہ پست مقامات سے اُٹھا کر بلند مقامات کی طرف لے جاتے رہے لیکن ان کو جو کچھ بطور شریعت کے ملا وہ کامل اور مکمل شریعت نہ تھی بلکہ نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتَابِ (النساء:۵۲)اسی کامل کتاب کا ایک حصہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں عطا ہوا تھا۔ اصل کتاب، اصل شریعت اور ہدایت جو اللہ تعالیٰ کے علم کامل میں ہے وہ قرآن کریم میں ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کامل نیک جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو صحیح طور پر بجا لاتا ہے اور اپنے رب کی کامل فرمانبرداری اور اطاعت کرتا ہے۔ وہ ہے جو الکتاب پر ایمان لاتا ہے۔ یعنی قرآن کریم کو اس کا حق دیتا ہے اور اس کی قدر کرتا ہے جیسے کہ واقعی قدر کرنی چاہئے کیونکہ یہی وہ کامل کتاب ہے جس کے بعض حصوں نے آدم علیہ السلام کی تربیت کی، بعض حصوں نے نوح علیہ السلام کی تربیت کی، ان کے بعد موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کی تربیت کی اور آخر میں محمد رسول اللہﷺ پر اپنی اصلی اور حقیقی اور کامل اور مکمل شکل میں نازل ہوئی۔ پس کامل تربیت پانے والے صرف حامل قرآن ہی ہیں۔
والنبیینوہ شخص تمام انبیاء اللہ پر بھی ایمان لاتا ہے۔ ایمان بالنبوۃکے لئے بھی کامل فرمانبرداری کی ضرورت ہے حتیٰ کہ اس کے اپنے نفس کا کچھ بھی باقی نہ رہے اور انسان اپنا سب کچھ اپنے رب کی راہ میں قربان کرنے کیلئے تیار ہو جائے اپنی عزت بھی، اپنی روایات بھی، اپنے توہمات اور خوش اعتقادیاں بھی۔
انبیاء پر ایمان لانے کا حکم یہودیوں کو بھی تھا۔ اس لئے ان پر فرض تھا کہ وہ آنحضرتﷺ پر بھی ایمان لائیں آپ کی بعثت کے متعلق بہت سی پیش گوئیاں خود ان کی کتابوں میں پائی جاتی تھیں لیکن ان کا یہ خیال کہ آنے والا بنی اسرائیل (یہود) میں سے ہو گا ان کے ایمان میں روک بن گیا اور صرف اسی غلط خیال کے نتیجہ میں یہود آنحضرتﷺ پر ایمان لانے سے محروم ہو گئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُمتی اور ظِلّی اور غیر مستقل نبوت کا دعویٰ کیا اور چونکہ بہت سے مسلمانوں میں اَسْلَمْتُ والی کیفیت اور ذہنیت نہیں پائی جاتی تھی بلکہ وہ خدا کی ماننے کی بجائے اپنی منوانا چاہتے تھے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے سے محروم ہوگئے۔
آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ والسَّائِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ (البقرہ:۱۷۸) کہ وہ اپنا مال دیتا ہے۔ رشتہ داروں کو، یتامی، مسکینوں اور مسافروں کو اور مانگنے والوں کو اور غلاموں کے آزاد کرانے کے لئے بھی۔ لیکن یہ نیکی نہیں جب تک ’’عَلٰی حُبِّہٖ ‘‘ نہ ہو۔
یہ خرچ مومن بھی کرتا ہے اور کافر بھی کرتا ہے کیونکہ بہت سے دنیا دار آپ کو نظر آئیں گے۔ جو اپنے رشتہ داروں پر اس لئے خرچ کر رہے ہوں گے کہ اس طرح خاندانی اتحاد اور اتفاق قائم رہے گا اور ان کی عزت اور وجاہت قائم رہے گی وہ اپنے خاندان میں بھی بڑے سمجھے جائیں گے اور دنیا بھی ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھے گی۔
اسی طرح بہت سے دنیا دار مختلف اغراض کے پیش نظر یتامی کی پرورش کے لئے خرچ کرتے ہیں اسی طرح مساکین کی حمایت کا دم بھرنے والے دنیا دار محض دنیا کی خاطر اپنے مال دیتے ہیں۔ بہت سی پارٹیاں آپ کو انگلستان اور امریکہ میں نظر آئیں گی کہ جنہیں کمزوروں کے ساتھ کوئی محبت اور پیار نہیں ہوتا۔ لیکن اس خیال سے کہ اگر ہم نے ان کو اپنے سینے سے لگایا تو ہمیں سیاسی برتری حاصل ہوجائے گی۔ وہ ان کے لئے دوڑ دھوپ کرتی رہتی ہیں۔
اسی طرح مسافروں پر بھی اپنا پیسہ خرچ کرکے احسان کیا جاتا ہے تاکہ جب وہ اپنے وطن جائیں تو وہ کہیں کہ زید بڑا اچھا، بڑا خرچ کرنے والا اور بڑا پیار کرنے والا ہے اور مسافروں کا بڑا خیال رکھنے والا ہے ہم اس کے ہاں گئے تو اس نے ہماری بڑی خاطر کی یہی حال اس خرچ کا ہے جو غلاموں کے لئے کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نیکی نہیں، نیکی یہ ہے کہ انسان اپنے پیسے یا مال کو (مال کے معنی مملوکہ چیز کے ہیں انسان اپنے نفس کا بھی مالک ہے، اپنی عزت کا بھی مالک ہے۔ اپنے پیسے کابھی مالک ہے۔ وغیرہ) خرچ کرے تو عَلٰی حُبِّہٖ صرف خداتعالیٰ کی محبت میں خرچ کرے۔ خداتعالیٰ کی محبت اور اس کی خوشنودی کے سوا کوئی غرض اسے مدنظر نہ ہو۔ نہ تو اسے عزت کی خواہش ہو۔ نہ وجاہت کی خواہش ہو نہ دنیوی شہرت کی خواہش۔ اور نہ اس کا ذہن فخر و مباہات کے غبار سے آلود ہو بلکہ جب بھی اور جو کچھ بھی وہ خرچ کرے خداتعالیٰ کی محبت اور اس کے نتیجہ میں اور اس کی خوشنودی کے حصول اور اس کی رضا کے پانے کے لئے خرچ کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ نیک شمار نہیں ہو گا اور کسی ثواب کا مستحق نہیں ٹھہرے گا۔
اسی طرح فرمایا کہ عبادت بجا لانا خواہ وہ نماز ہو۔ یا مالی فرائض (مثلاً زکوٰۃ) ہوں یہ بھی حقیقی نیکی نہیں بلکہ نماز کو ان شرائط کے ساتھ بجا لانا جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہیں حقیقی نیکی ہے۔
ان شرائط میں سے بنیادی شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے سوائے اس کے اور کوئی غرض نہ ہو کہ اس کی خوشنودی حاصل ہو۔ تب یہ عبادت صحیح عبادت شمار ہو گی۔
اگر کسی نے اپنے نفس کو پالا اور اسے موٹا کیا اور قربانی دینے کے لئے تیار نہ ہوا تو اس کے متعلق یقیناً نہیں کہا جا سکتا۔ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ کہ اس نے نماز کو پورے شرائط کے ساتھ ادا کیا۔
وَابْنَ السَّبِیْلِ (مسافر) کے متعلق میں ایک بات بیان کرکے اپنے خطبہ کو بند کر دوں گا۔ (ورنہ اس آیت کے مضامین بہت وسیع ہیں) اللہ تعالیٰ نے مسافر کے ساتھ ہمدردی، اخوت کا سلوک کرنے اور اسے مالی امداد دینے پر بڑا زور دیا ہے اور مختلف مقامات میں زور دیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم ہر اس شخص سے جو ہمیں اپنے ماحول میں اجنبی نظر آئے واقفیت پیدا کریں ورنہ ہم اس کی خدمت نہیں کر سکیں گے۔
ابھی چند روز ہوئے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ میں باہر کی ایک جماعت میں گیا مسجد میں پہنچ کر میں نے اپنا بیگ رکھا اور نماز ادا کی وہ دوست کہتے ہیں کہ مجھے ان لوگوں کی مہمان نوازی کی ضرورت نہ تھی کیونکہ خداتعالیٰ نے مجھے بہت کچھ دیا ہوا ہے، میری جیب میں پیسے تھے اور مجھے خیال بھی نہ تھا کہ میں کسی کے پاس جا کر کھانا کھائوں۔ لیکن مجھے یہ احساس ہوا کہ خداتعالیٰ تو فرماتا ہے کہ مسافر کا خیال رکھو مگر ہمارے ان دوستوں نے میری طرف کوئی توجہ ہی نہیں کی۔ ہو سکتا ہے کہ میری طرح کوئی اور مسافر یہاں آئے اور وہ ضرورت مند ہو۔ اگر اس سے بھی ایسا ہی بے توجہی کا سلوک ہو تو اس کی ضرورت پوری نہ ہو گی اسی احساس کے ماتحت میں یہ رپورٹ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں تاکہ آپ دوستوں کو اس طرف متوجہ کریں۔
تو اللہ تعالیٰ نے ابن السبیل (مسافر) کے متعلق جو فرائض ہم پر عائد کئے ہیں ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں۔
ہر احمدی کا فرض ہے کہ جب کوئی اجنبی اسے نظر آئے تو وہ اس سے تعلق قائم کرے اور اس کا تعارف حاصل کرے اور اسے پوچھے کہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں اور کہاں تشریف لے جائیں گے۔
اگر آپ اس سے ملاپ پیدا کریں گے تو آپ اس کی ضرورت کو بھی پورا کر سکیں گے اس طرح اس کی ضرورت پوری ہو جائے گی اور آپ کو ثواب ملے گا۔ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور آپ کی اور سلسلہ کی قدر پیدا ہو گی کیونکہ مسافر کے حالات کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ تھوڑی سی بے رُخی بھی اس کے دل پر بڑا گہرا اثر چھوڑتی ہے۔ یہی بھلائی کا حال ہے۔
میں یورپ میں پھرتا رہا ہوں ایک جگہ صرف اتنا ہوا کہ مجھے راستہ کی واقفیت نہ تھی۔ میں نے کسی سے پوچھا تو اس نے یہ نہیں کہا کہ ادھر جائیں یا ادھر جائیں۔ بلکہ کہا کہ آئیے میںآپ کو وہاں تک پہنچا آئوں اس طرح اس نے اپنے وقت سے مجھے صرف چند منٹ ہی دئیے اور گو اس واقعہ کو گزرے قریباً تیس سال کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن آج تک وہ واقعہ مجھے یاد ہے کیونکہ جب ایک اجنبی ایک شخص سے ہمدردی، اخوت اور محبت کا سلوک دیکھتا تو اس کے دل پر اس کا بڑا اچھا اثر پڑتاہے۔
پس ہر احمدی اور ہر جماعت کے لئے ضروری ہے کہ جب کوئی اجنبی اسے نظر آئے تو وہ اس سے تعلق قائم کرے اور اگر اسے کوئی ضرورت ہو تو اس کو پورا کرے اگر اسے کوئی ضرورت نہ ہو گی تو بھی اس کے دل پر اس کا اچھا اثر پڑے گا اور وہ کہے گا کہ یہ لوگ مسافروں کا خیال رکھتے ہیں۔ مسافر شخص فوراً پہچانا جاتا ہے تو جب احمدی دوست کسی ایسے شخص سے ملیں تو چاہئے کہ وہ احمدی اور اسلامی اخلاق کا نمونہ اس کے سامنے پیش کریں اور ابن السبیل کے لئے اپنے وقت اور اپنے مال کو قربان کرنے کے لئے تیار رہیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو خداتعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کے وارث ہو جائیں گے۔
دعا ہے کہ اس آیت میں خداتعالیٰ نے جو ذمہ داریاں ہم پر عائد کی ہیں وہی ہمیں توفیق دے کہ ہم انہیں ایسے طریق سے پورا کرنے والے ہوں کہ وہ ہم سے خوش ہو جائے اور اس کی رضا ہمیں حاصل ہو۔ آمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۲؍ جون ۱۹۶۶ء صفحہ ۲ تا ۴)
٭…٭…٭















ہر ظلمت جو اُٹھتی ہے اس کا پہلا نشانہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷ ؍جون ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ اگر تم صبر کرو گے تو خدا کے نزدیک اولوالعزم سمجھے جاؤ گے۔
٭ گندہ دھنی اور دلآزار باتیں تاریک دل اور تاریک زبان سے نکلتی ہیں۔
٭ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء کو بھی اذیً کثیراً سنناپڑتا ہے۔
٭ گالیوں اور تحقیر آمیز باتوں کی طرف متوجہ نہ ہو بلکہ صبر اور تقویٰ سے اعمال صالحہ میں مشغول رہو۔
٭ تاریخ دان کو واضع طور پر نظر آئے گا کہ مخالفت کے باوجود پرستاران و جانثاران حضرت احدیت کا یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا۔




تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی۔
لَتُبْلَوُنَّ فِیْ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ قف وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا اَذًی کَثِیْرًا ط وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo
(آل عمران :۱۸۷ )
تلاوت فرمائی اور اس کا ترجمہ فرمایا کہ ’’تمہیں تمہاری جانوں اور تمہارے مالوں کے متعلق ضرورآزمایا جائے گا اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان سے بھی جو مشرک ہیں بہت دکھ دینے والا کلام سنو گے۔ اگر تم صبر کرو گے اور تقویٰ اختیار کرو گے۔ تو یہ یقینا ہمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔
پھر فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس آیت کا ہمارے زمانہ سے بہت گہرا تعلق ہے اور دراصل یہ قرآنی پیشگوئی ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں پوری ہوئی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’اہل علم مسلمان اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ قرآن شریف میں آخری زمانہ کے بارے میں ایک پیشگوئی ہے اور اس کے ساتھ خدا کی طرف سے نصیحت کے طور پر ان کو حکم ہے جس کو ترک کرنا سچے مسلمان کا کام نہیں ہے اور وہ یہ ہے لَتُبْلَوُنَّ فِیْ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ قف وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا اَذًی کَثِیْرًا ط وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ (سورۃآل عمران:۱۷۸) ترجمہ یہ ہے۔ کہ خدا تمہارے مالوں اور جانوں پر بلا بھیج کر تمہاری آزمائش کرے گا اور تم اہل کتاب اور مشرکوں سے بہت سی دکھ دینے والی باتیں سنو گے سو اگر تم صبر کرو گے اور اپنے تئیں ہر ایک ناکردنی امر سے بچائو گے تو خدا کے نزدیک اولوالعزم لوگوں میں سے ٹھہرو گے۔ یہ مدنی سورۃ ہے اور یہ اس زمانہ کے لوگوں کو وصیت کی گئی ہے کہ جب ایک مذہبی آزادی کا زمانہ ہو گا کہ جو کوئی کچھ سخت گوئی کرنا چاہئے تو وہ کر سکے گا جیسا کہ یہ زمانہ ہے۔ تو کچھ شک نہیں کہ یہ پیشگوئی اسی زمانہ کے لئے تھی اور اسی زمانہ میں پوری ہوئی۔ کون ثابت کر سکتا ہے کہ جو اس آیت میں اَذًی کَثِیْرًا کا لفظ ایک عظیم الشان ایذا رسانی کو چاہتا ہے وہ کبھی کسی صدی میں اس سے پہلے اسلام نے دیکھی ہے؟‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۴۳، ۴۴)
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’خداتعالیٰ جو اپنے دین اور اپنے رسول کے لئے ہم سے زیادہ غیرت رکھتا ہے۔ وہ ہمیں رد لکھنے کی جا بجا ترغیب دے کر بدزبانی کے مقابل پر یہ حکم فرماتا ہے کہ ’’جب تم اہل کتاب اور مشرکوں سے دکھ دینے والی باتیں سنو اور ضرور ہے کہ تم آخری زمانہ میں بہت سے دلآزار کلمات سنو گے۔ پس اگر تم اس وقت صبر کرو گے تو خدا کے نزدیک اولوالعزم سمجھے جائو گے‘‘ دیکھو یہ کیسی نصیحت ہے اور یہ خاص اسی زمانہ کے لئے ہے کیونکہ ایسا موقعہ اور اس درجہ کی تحقیر اور توہین اور گالیاں سننے کا نظارہ اس سے پہلے کبھی مسلمانوں کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ یہی زمانہ ہے جس میں کروڑ ہا توہین اور تحقیر کی کتابیں تالیف ہوئیں، یہی زمانہ ہے جس میں ہزار ہا الزام محض افترا کے طور پر ہمارے نبی، ہمارے سید و مولیٰ ہمارے ہادی و مقتدا جناب حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ افضل الرسل خیرالوری صلی اللہ علیہ وسلم پر لگائے گئے۔ سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ قرآن شریف میں یعنی سورہ آل عمران میں یہ حکم ہمیں فرمایا گیا ہے کہ ’’تم آخری زمانہ میں نامنصف پادریوں اور مشرکوں سے دکھ دینے والی باتیں سنو گے اور طرح طرح کے دلازار کلمات سے ستائے جائو گے اور ایسے وقت میں خداتعالیٰ کے نزدیک صبر کرنا بہتر ہو گا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار صبر کے لئے تاکید کرتے ہیں‘‘۔
(فریاد درد ۔ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۳۸۴)
پھر حضورﷺ فرماتے ہیں:۔
’’ہاں خدا نے ہم پر فرض کر دیا ہے کہ جھوٹے الزامات کو حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ دور کریں اور خدا جانتا ہے کہ کبھی ہم نے جواب کے وقت نرمی اور آہستگی کو ہاتھ سے نہیں دیا اور ہمیشہ نرم اور ملائم الفاظ سے کام لیا ہے۔ بجز اس صورت کے کہ بعض اوقات مخالفوں کی طرف سے نہایت سخت اور فتنہ انگیز تحریریں پا کر کسی قدر سختی مصلحت آمیز اس غرض سے ہم نے اختیار کی کہ تا قوم اس طرح سے اپنا معاوضہ پا کر وحشیانہ جوش کو دبائے رکھے اور یہ سختی نہ کسی نفسانی جوش سے اور نہ کسی اشتعال سے بلکہ محض آیت وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ پر عمل کرکے ایک حکمت عملی کے طور پر استعمال میں لائی گئی اور وہ بھی اس وقت کہ مخالفوں کی توہین اور تحقیر اور بد زبانی انتہاء تک پہنچ گئی اور ہمارے سید و مولیٰ، سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایسے گندے اور پُرشر الفاظ ان لوگوں نے استعمال کئے کہ قریب تھا کہ ان سے نقض امن پیدا ہو‘‘۔ (فریاد درد۔ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۳۸۵)
گندہ دھنی اور دلآزار باتیں تاریک دل اور تاریک زبان سے نکلتی ہیں اور ضرور تھا کہ سب سے زیادہ اس قسم کے حملوں کا نشانہ وہ ذات بنے جو ہر لحاظ سے سب سے زیادہ منور تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ساری دنیا یہ زمین اور یہ آسمان اور یہ ستارے سب کچھ اس لئے پیدا کیا گیا کہ مخلوقات میں سے ایک ہستی، ایک وجود محمد مصطفیﷺ سا ظاہر ہونے والا تھا۔ حضرت نبی اکرمﷺ نے ’’فناء فی نور ربّہ‘‘کا مقام حاصل کیا اور اس نور میں گم ہو کر آپؐ کامل اور مجسم نور بن گئے اور ان عالمین (زمین اور آسمان) میں جہاں بھی جو نور نظر آتا ہے وہ آپؐ کے طفیل ہی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ حقیقی نور اللہ کی ذات ہے اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِلیکن یہ بھی درست ہے کہ اس دنیا میں اس نورِ محسن نے اپنے نور کی جو تقسیم کی ہے وہ محمد رسول اللہﷺ کے طفیل کی ہے۔ ہر نور جو ہمیں نظر آتا ہے وہ محمد صلے اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی نظر آتا ہے۔ اگر آنحضرتﷺ کی ذات نہ ہوتی تو دنیا میں کسی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے نور سے حصہ نہ ملتا بلکہ دنیا پیدا ہی نہ ہوتی۔ اس لئے ہر ظلمت جو اٹھتی ہے اس کا پہلا نشانہ آنحضرتﷺ کی ذات ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ لوگ ان ایذاء رسانیوں سے حصہ لیتے ہیں۔ جنہوں نے طفیلی طور پر اور ظلی اور انعکاسی رنگ میں آنحضرتﷺ کے نور سے حصہ لیا ہوتا ہے ایسے پاک وجود جو اُمت محمدیہ میں اس نور سے طفیلی طور پر حصہ لینے والے ہیں وہ طفیلی طور پر ایذء رسانی سے بھی حصہ لینے والے ہیں۔
اسی لئے ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ جہاں آنحضرتﷺ کو اس جہان میں سب سے زیادہ گالیاں دی گئیں سب سے زیادہ تحقیر کے ساتھ آپؐ کا نام لیا گیا، سب سے زیادہ گند آپؐ کے خلاف اچھالا گیا سب سے زیادہ گندی تحریریں اور بدبودار باتیں اس نور مجسم کے خلاف لکھی گئیں، وہاں اُمت محمدیہ کے دوسرے پاک وجودوں کے متعلق بھی بہت زیادہ گند اچھالا گیا۔
چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسی نہج پر محمدﷺ کے نور میں گم ہو گئے اور اس میں فنا ہو کر قرب تام حاصل کر لیا اس لئے آنحضرتﷺ کے بعد اگر کسی نے سب سے زیادہ تحقیر آمیز اور گندی باتیں مخالفین سے سنیں تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وجود ہے۔ پھر وہ جنہوں نے اپنے اپنے ظرف کے مطابق طفیلی رنگ میں آنحضرتﷺ کا نور حاصل کیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلفاء کو بھی طفیلی رنگ میں اَذًی کَثِیْرًا سننا پڑتا ہے اور آپؑ کی جماعت کو محمدﷺ کے خلاف جو گند اچھالا جاتا ہے برداشت کرنا پڑتا ہے پھر ان پاک وجودوں کے متعلق (جنہوں نے طفیلی طور پر آنحضرتﷺ کا نور حاصل کیا) جو گندہ دھنی کی جاتی ہے وہ بھی جماعت کو سننا پڑتی ہے اور یہ دکھ انہیں سہنا پڑتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کو خاص طور پر تاکیدی حکم دیا ہے اور وصیت کی ہے کہ جب تم اس قسم کی گالیاں سنو اور تحقیر آمیز باتیں تمہارے کانوں میں پڑیں اس وقت تم اس طرف متوجہ ہی نہ ہو بلکہ صبر اور تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اعمال صالحہ میں مشغول رہو۔ اپنے راستہ پر گامزن رہو۔ ان تیروں کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو بلکہ اپنی نگاہ اپنے مقصود کی طرف لگائے رکھو۔ تمہارا مقصود صرف خداتعالیٰ کی رضا کا حصول ہے اس سے نہ ہٹو۔ اور خداتعالیٰ کے حکم کو یاد رکھو کہ صبر سے کام لو۔ صبر کے ایک معنی یہ ہیں کہ خداتعالیٰ کے جو احکام اور اوامر شریعت حقہ میں پائے جاتے ہیں اپنے آپ کو ان اوامر پر مضبوطی سے قائم رکھیں اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو بجا لا کر اس کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
صبر کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ جن نواہی سے اس نے روکا ہے ہم اپنے آپ کو ان کے قریب بھی نہ جانے دیں تا اللہ تعالیٰ کا غضب ہم پر نہ بھڑکے۔ پس اگر اس طرح ہم تقویٰ اختیار کریں گے، اگر ہم خدا کی پناہ میں آ جائیں گے، اگر ہم اس کو اپنی ڈھال بنا لیں گے تو پھر دشمن کا کوئی وار ہمیں نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ جیسے کہ مال اور جان کی قربانی ہمیں دینی ہے، جذبات کی قربانی بھی ہمیں دینی ہو گی۔ یہ خداتعالیٰ کا امتحان ہے جو وہ لیا کرتا ہے اس سے ہم مومن ہو کر بچ نہیں سکتے ہمیں اموال کی قربانی دینی پڑے گی اور اگر موقع ہوا تو جانوں کی قربانی بھی دینی پڑے گی اور اگر موقع ہوا تو جذبات کی قربانی بھی دینی پڑے گی۔
پس اس زمانہ میں خداتعالیٰ جذبات کی قربانی بھی لینا چاہتا ہے اور لے رہا ہے یہ ہمارے حملہ آور مخالف جو کبھی ہمارے اموال پر حملہ کرتے ہیں کبھی ہماری جانوں پر حملہ کرتے ہیں اور کبھی ہماری عزتوں پر اور کبھی ہمارے پیاروں کے عزتوں پر حملہ کرتے ہیں۔ اگر ہم خداتعالیٰ کی پناہ میں نہ ہوں، اگر وہ ہماری ڈھال نہ بنے تو بے شک ہمیں ہر قسم کا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ پس اگر ہم اپنے آپ کو خدا کی پناہ میں دے دیں، اگر ہم اسے اپنی ڈھال بنا لیں تو خداتعالیٰ کی مخلوق میں سے کون ہے جو خداتعالیٰ کی ڈھال پر ضرب لگائے اور چکنا چور نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے ایسے مواقع پر ہمیں صبر اور تقویٰ سے کام لینے کی نصیحت فرمائی ہے اور ہمیں ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے اور دعا کرتے رہنا چاہئے کہ خداتعالیٰ ہمیں اس کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے تاہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں اور تا خداتعالیٰ کی یہ جماعت جو احمد ؑ کی طرف منسوب ہونے والی ہے اور جس کا دعویٰ ہے کہ وہ آنحضرتﷺ کی فدائی ہے اور اپنے مولیٰ اور اپنے رب اور اپنے پیدا کرنے والے کی عاشق زار ہے۔ اس کے متعلق جب مستقبل کا تاریخ دان تاریخ کے ورق الٹ رہا ہو تو اسے بڑے واضح، روشن اور نمایاں طور پر ان اوراق میں لکھا نظر آئے کہ کتے بھونکتے رہے اور پرستاران و جانثاران حضرت احدیت کا یہ قافلہ صراط مستقیم پر رواں دواں اپنی منزل کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ خدائے قادر و توانا کی رضا کا سایہ ان کے سروں پر تھا اور ملائکہ کی افواج ان کے دائیں بھی تھیں اور بائیں بھی۔ یہاں تک کہ وہ قافلہ اپنے مطلوب، اپنے مولیٰ کو جا ملا اور آخری کامیابی اسے حاصل ہوئی۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۶؍ جولائی ۱۹۶۶ء صفحہ ۲ تا ۳)
٭…٭…٭


وہ خدا جس کی رضا میں دائمی خوشحالی ہے قرآن کریم کی اتباع کے بغیر ہمیں ہرگز نہیں مل سکتا
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴ ؍جون ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ۔ربوہ )
ء ء ء
٭ قرآن کریم پڑھنا اور اس پر عمل کرنا ہمارے لئے از حد ضروری ہے۔
٭ علم قرآن کے لئے اپنی جدوجہد اور مجاہدات کو کمال تک پہنچاؤ۔
٭ قرآن کریم کے معارف کے حصول کیلئے اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات سے برکت حاصل کرو۔
٭ قرآن کریم ساری ہدایتوں اور سارے علوم کا جامع ہے۔
٭ قرآن کریم ہر زمانہ کی ضرورت حقّہ کو پورا کرنے کا کامل اور مکمل طور پر متکفل ہے۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ۔
آج کل ہمیں ضلالت اور گمراہی کا جو دَور دَورہ نظر آتا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اکثر لوگوں کی نظر میں قرآن شریف کی عزت اور عظمت باقی نہیں رہی۔ دینی اور دنیوی فلسفوں سے مرعوب ہو کر لوگ کمالاتِ قرآنی سے غافل ہو چکے ہیں اور نہیں جانتے کہ وہ خدا جس کے ہاتھ میں نجات اور جس کی رضا میں انسان کی دائمی خوشحالی ہے وہ قرآن کی اتباع کے بغیر ہرگز نہیں مل سکتا۔
پس آج میں پھر دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کا پڑھنا اور اس کا سیکھنا اور اس پر عمل کرنا ہمارے لئے از حد ضروری ہے۔ اس کے متعلق پہلے بھی میں نے جماعت کو متوجہ کیا تھا اور بہت سی جگہوں پر قرآن کریم کے سیکھنے سکھانے کا انتظام انفرادی طور پر بھی اور خاندانی اور جماعتی طور پر بھی کیا گیا ہے اور بہت سی جگہ بڑے خوشکن نتائج بھی نکلے ہیں لیکن ابھی ہم نے اس اہم مقصد کے حصول کی طرف وہ توجہ نہیں دی جو بحیثیت جماعت ہمیں دینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق سورئہ واقعہ میں فرماتا ہے۔
اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌo فِیْ کِتَابٍ مَّکْنُوْنٍo لاَّیَمَسُّہٗ اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَo تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَo اَفَبِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْھِنُوْنَo وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ۔
(الواقعہ: ۷۸ تا ۸۳)
ان پہلی چار آیات اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌo فِیْ کِتَابٍ مَّکْنُوْنٍo لاَّیَمَسُّہٗ اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَo تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَo میں سے ہر ایک آیت کا تعلق ان اُمَّھَاتُ الصِّفَات میں سے ایک ایک صفت کے ساتھ ہے جو سورۃ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں۔ اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌکریم کا تعلق مالکیت یوم الدین سے ہے۔ فِیْ کِتَابٍ مَّکْنُوْنٍ کا تعلق رحیمیت کی صفت کے ساتھ ہے اور لاَّیَمَسُّہٗ اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَکا تعلق رَحْمَانِیَّۃ کی صفت کے ساتھ ہے اور تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ کا تعلق جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے تصریح فرما دی ہے ربوبیت عالم سے ہے۔
اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ فرمایا یہ قرآن ہے۔ قرآن کے معنی ہیں وہ کتاب جس میں سابقہ کتب کا خلاصہ اور اصولی ہدایتیں جمع ہوں نہ صرف سابقہ کتب سماویہ کا خلاصہ بلکہ تمام علوم حقہ صحیحہ کے اصول اور بنیادی باتیں اور ہدایتیں بھی جس میں جمع کر دی گئی ہوں تو قرآن شریف کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں تمام کتب سابقہ سماویہ کی بنیادی صداقتیں جمع کر دی گئی ہیں نہ صرف یہ بلکہ تمام علوم صحیحہ حقّہ کے متعلق جو بنیادی باتیںخدا کا ایک بندہ ہونے کی حیثیت سے تمہارے لئے جاننا ضروری ہیں ان کو بھی اس کتاب میں جمع کر دیا گیا ہے۔
کَرِیْمٌ کا لفظ جب کسی کتاب کے متعلق بولا جائے تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ کتاب جو اپنے معانی اور فوائد کے لحاظ سے اس خصوصیت کی حامل ہے کہ وہ فطرت صحیحہ انسانیہ کی تسلی کا موجب ہو حتیّٰ کہ اس کے بعد فطرت کسی اور چیز کی طرف احتیاج محسوس نہ کرے۔
میں نے بتایا ہے کہ اس آیت میں (اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ) کا تعلق صفت مالکیت یوم الدین سے ہے ویسے مالکیت یوم الدین کی صفت اپنی وسیع اور کامل تجلی کے لئے عالم معاد کو چاہتی ہے اس لئے اس کی تجلیئِ عظمٰی دنیا میں اپنی کامل شکل میں ہو ہی نہیں سکتی۔ اس کے لئے یوم حشر چاہیے جس دن کہ یہ مادی سامان اور مادی پر دے حائل نہ ہوں اور ہر چیز واضح طور پر انسان کے سامنے آ سکے۔ تاہم اس عالم مادی کے دائرہ کے مطابق اس کی تجلی ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہم نے دو جنتیں بنائی ہیں ایک کا تعلق اس دنیا کے ساتھ ہے اور ایک کا تعلق اُخروی زندگی کے ساتھ ہے۔ اسی طرح کافر کے لئے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا ہے دو جہنم بنائے گئے ہیں۔ ایک وہ جہنم جس کا تعلق اس دنیا کے ساتھ ہے اور ایک وہ جہنم جس کا تعلق اُخروی زندگی کے ساتھ ہے اور جنت اور جہنم میں جانے سے پہلے یوم حساب کا ہونا ضروری ہے کیونکہ جزا و سزا کے فیصلہ کے بغیر جزاء و سزا کا نفاد کیسے ہو سکتا ہے۔
اس دنیا میں بھی یومِ حساب ہے چونکہ وہ اس مادی دنیا کے اندر آہستہ آہستہ ظاہر ہوتا ہے اس لئے انسان پر اس کی پوری طرح وضاحت نہیں ہو سکتی۔ اگر انسان اس دنیا میں جنت کی نعماء سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے کسی حصہئِ عمل کے متعلق حساب اور فیصلہ کرے گا تبھی اس کو نعمت سے حصہ ملے گا اور اگر اس کو اس دنیا میں جہنم کا مزا چکھایا جانا ہے تو اس کا پہلے حساب ہو گا پھر اسے اس کا مزا چکھایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌo ط اِنَّہٗ ھُوَ یُبْدِیُٔ وَیُعِیْدُ o ج (البروج: ۱۳،۱۴)
کہ مالکیت یوم الدین کے تحت غضب اور قہر کی جو تجلی ہے وہ بھی بڑی سخت ہوتی ہے اور خداتعالیٰ کی گرفت بڑی کڑی ہوتی ہے۔ وہ دنیا کے عذاب شروع ہونے سے پہلے حساب لیتا ہے اگر کوئی قوم ایک عذاب سے باز نہ آئے اور توبہ نہ کرے تو وہ دنیا پر عذاب کو دُہراتا ہے۔
یومِ معاد میں تو سارے جہانوں کے انسانوں کا حساب شاید سیکنڈ کے کروڑویں حصہ میں ہو جائے بلکہ وہاں وقت کا اطلاق ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ دنیا وقت سے آزاد ہے۔ لیکن یہ دنیا جو زمان اور مکان کی حدود میں بندھی ہوئی ہے اس میں مختلف اوقات میں مختلف قوموں اور افراد کا حساب ہوتا ہے اور وہ اپنے اعمال کے مطابق اس دنیا کے جہنم یا جنت سے حصہ لیتے رہتے ہیں۔
پس قرآن کریم کے معنی ہیں ایسی کتاب کہ جس کے معانی اور فوائد اس قسم کے ہیں کہ اس کے بعد انسانی فطرت کو کسی اور کتاب کی احتیاج اور ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس لئے اس سے اچھی کتاب کا تصور ممکن ہی نہیں۔ سب سے اچھی کتاب، سب سے خوبصورت کتاب، سب سے فائدہ مند کتاب اور سب سے زیادہ معانی سے پُر یہ کتاب ہے۔ کیونکہ یہ کتابِ کریم ہے اس لئے اس کی اتباع کے نتیجہ میں جو بدلہ ہمیں ملے گا وہ بدلہ بھی عقلاً اجر کریم ہونا چاہئے اور خداتعالیٰ نے خود قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ہم اس کی اِتّباع کے نتیجہ میں اجرِ کریم دیں گے۔ فرمایا
تَحِیَّتُھُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلَامٌ ج صلے وَاَعَدَّلَھُمْ اَجْرًا کَرِیْمًا۔ (الاحزاب: ۴۵)
اس آیت سے پہلے آنحضرتﷺ کا ذکر ہے۔ آپؐ کے خاتم النبین ہونے کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ آپؐ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا ذکر دنیا میں بلند ہو گا اور آپؐ کو ایسی جماعت دی جائے گی جو اس کی یاد میں صبح و شام مشغول رہنے والی ہو گی اور قرآن کریم کی پیروی کنے والی ہوگی اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انہیں اجر کریم ملے گا۔
فرمایا کہ جب یہ لوگ اجر دئیے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ان کا حساب کرے گا اور پھر خدا کا تحفہ سلامتی کی شکل میں انہیں ملے گا۔
یہ اجر، اجر کریم ہو گا بڑی عزت والا ہوگا اور ایسا بدلہ ہو گا کہ وہ خود بتا رہا ہو گا کہ خدا ان سے راضی ہے اور ان کے دل اور روح پکار رہی ہو گی کہ وہ اس بدلہ سے راضی ہوئے ہیں۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ۔ (المجادلہ: ۲۳)
پس ان کے لئے قرآن کتاب کریم ہے اس سے بہتر کتاب دنیا میں نہیں ہو سکتی اس لئے اس کی اتباع کے نتیجہ میں جو بدلہ دیا جائے گا وہ بھی اجر کریم ہو گا اور جو بدلہ دینے والی ذات ہو گی وہ ’’رَبِّ کریم‘‘ ہے۔ اسی طرح فرمایا:۔
اِنَّمَا تُنْذِرُمَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِج فَبَشِّرْہُ بِمَغْفِرَۃٍ وَّاَجْرٍ کَرِیْمٍ۔ (یٰس:۱۲)
الذِّکْر قرآنی محاورہ میں خود قرآن کریم کو کہا گیا ہے۔ فرمایا جو قرآن کریم کی اتباع کرنے والا ہے اُسے تو اے نبی! مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دے۔ مَغْفِرَۃٌ کے معنی دراصل کریم کے اندر پائے جاتے ہیں۔ اس کا جزو لازمی ہے۔ کیونکہ انعام وہاں شروع ہوتا ہے جہاں مَغْفِرَۃٌ ختم ہوتی ہے۔ جب تک گناہوں کی معافی نہ ہو انعامات کے حصول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس واسطے کریم کے لغوی معنوں میں مغفرۃ کا مفہوم آ جاتا ہے۔ کریم کے معنی ہیں صَفِیْحٌ اور صفیح کے معنی ہیں گناہوں کو معاف کرنے والا، درگزر کرنے والا۔
تو فرمایا کہ جو شخص اس اَلذِّکْر یعنی قرآن کریم ایسی کتاب سماوی کی جو اپنے اندر صفت کریم رکھتی ہے اتباع کرتا ہے اس کو میری طرف سے بشارت دے دو مغفرت کی بھی اور ایسے بدلے کی بھی کہ جس کے بعد انہیں کبھی خواہش پیدا نہ ہو گی کہ کاش ہمیں کچھ اور مل جاتا۔ میں نے بتایا ہے کہ بدلہ دینے والی ذات بھی رَبِّ کریم ہے۔ فرمایا
یٰٓاَیُّھَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمo لا الَّذِیْ خَلَقَکَ فٰسَوّٰئکَ فَعَدَلَکَo لا فِیْ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّاشَائَ رَکَّبَکَo ط کَلاَّبَلْ تُکَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِo (الانفطار:۷تا۱۰)
یعنی اے انسان! تجھے کس نے تیرے ربّ کے بارہ میں مغرور اور دھوکہ خوردہ بنا دیا۔ تجھے جرأت کیسے ہوئی؟؟
مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْم کے معنی ہیں کہ تیرے اندر اس کے خلاف کھڑا ہونے اور اس کی ہدایت کے خلاف عمل کرنے کی جرأت کیسے پیدا ہوئی حالانکہ تیرا رَبِّ کریم ہے۔ وہ مغفرت کرنے والا بھی ہے اور غیر متناہی انعامات اور احسانات دینے والا بھی ہے سخی ہے اور پھر سخی بھی ایسا کہ جس کی عطا کو حدود کے اندر مقید نہیں کیا جا سکتا۔ فرمایا
کَلاَّبَلْ تُکَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِکہ ربّ کریم کے خلاف تمہارا مغرور ہونا اور اس کے مقابل جرأت کرکے کھڑے ہو جانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ تم یوم الدین، یوم حساب اور یوم حشر پر ایمان نہیں لاتے۔ تو اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌکا جیسا کہ میں نے بتایا ہے مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ سے بڑا گہرا تعلق ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ کتاب جو تمہیں دی گئی ہے اس کے بعد تمہیں کسی اور ہدایت نامہ کی ضرورت نہیں اور وعدہ تم سے یہ کیا گیا کہ اگر تم اس کی اتباع کرو گے تو تمہیں ایسا بدلہ ملے گا کہ تمہاری روحیں خوش ہو جائیں گی اور تمہیں کسی اور چیز کی احتیاج محسوس ہی نہ ہو گی اور جو چاہو گے وہ تمہیں دیا جائے گا۔ پھر انسان کو یقین دلایا کہ دینے والے کی طاقتیں اور ذرائع محدود نہیں بلکہ وہ ربّ ہے جس نے ساری دنیا کو پیدا کیا اور نشوونما دیا اور سخاوت اس کی صفات کا ایک حصہ ہے۔ وہ بہت زیادہ دینے والا ہے اور اتنا دینے والا ہے کہ لینے والا راضی ہو جائے۔ لیکن باوجود اس کے تمہارا اس کی ہدایت پر کان نہ دھرنا بتاتا ہے کہ اصل میں تم جزاء و سزا کے دن کے منکر ہو۔ تم سمجھتے ہو کہ اسی دنیا میں تمہاری زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا اور تم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہو گے اور اُخروی زندگی کوئی چیز ہی نہیں۔ اسی لئے کافروں کے نزدیک اللہ تعالیٰ ربّ نہیں۔ اور اگر وہ کچھ مشتبہ ساتخیل رکھتے بھی ہیں تو وہ اسے کریم نہیں مانتے اور اگر وہ عادتاً خداتعالیٰ کی بعض صفات کو مانتے بھی ہیں تو اس کی بھی وہ یہ تعبیر کرتے ہیں کہ نہ ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اور نہ ہی ربّ کریم کی ہمیں احتیاج ہے۔ یہی دنیا ہی دنیا ہے۔ یہاں ہی ہم زندہ رہیں گے۔ یہیں ہم مریں گے اور مٹی میں مل جائیں گے اور جو کچھ ہم نے کرنا ہے اپنے وسائل سے، اپنی عقلوں سے، اپنے فکروں سے، اپنی تدابیر اور اپنے فریب سے کرنا، ہے رَبِّ کریم کی ہمیں احتیاج نہیں۔ غرضیکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ تم یوم حشر کے قائل نہیں اس لئے تم رَبِّ کریم کے مقابلہ میں کھڑا ہونے کی جرأت کرتے ہو۔
ان آیات سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہ ایک ایسی ہدایت ہے کہ جس میں تمام صداقتیں اور علوم حقہ کے اصول آ گئے ہیں اس کے بعد نہ کسی آسمانی ہدایت کی ضرورت ہے اور نہ دنیوی علوم سیکھنے کے لئے کسی اور طرف منہ کرنے کی حاجت۔ ہر لحاظ سے کامل اور مکمل اور انسانی فطرت کو تسلی دینے والی ہے اور جو اسکی اتّباع کرتے ہیں اُن کو اَجرِ کریم ملتاہے۔ ایسا اجر جو انسان کو خوش کر دیتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے پا لیتا ہے۔ اسے کسی اور کی طرف جانے کی احتیاج نہیں رہتی اور دینے والا وہ ہے جو ربّ کریم ہے اور کریمیت کا تعلق مالک یوم الدین سے بڑا گہرا ہے کیونکہ مالک ہونے کے لحاظ سے اس کی دو تجلیاں ظاہر ہوتی ہیں:۔
ایک غصہ اور قہر کی تجلی اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ(البروج : ۱۳)اور ایک رضا اور خوشنودی کی تجلی اور یہ کریم کی صفت سے ظاہر ہوتی ہے اور وہ اتنا دیتا ہے اتنا دیتا ہے کہ لینے والے کو سیر کر دیتاہے۔
پس یہاں قرآن شریف کی شان کو قُرْآنٌ کَرِیْمٌ کے الفاظ سے ظاہر کیا گیا ہے یعنی ساری ہدایتوں اور سارے علوم کا جامع ہے اور اس سے بہتر اور احسن اور خوبصورت کتاب کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ اپنی جنس میں سب سے اکمل کتاب ہے اسی لئے اس کی اتباع کرنے والوں کو اَجرِ کریم ملتا ہے اور ملتا بھی رَبِّ کریم کی طرف سے ہے۔
باوجود ان خوبیوں کے اَفَبِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْھِنُوْنَ تم اس کلام کے بارہ میں منافقانہ رویہ اختیار کرتے ہو اور تم خیال کرتے ہو کہ اگر ہم نے قرآن کریم کو صحیح رنگ میں ان کفار کے سامنے پیش کیا تو ہمیں شرمندہ ہونا پڑے گا؟؟ مداہنت اور منافقت قریباً برابر ہے۔ اور جو بات آیت یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلاَّ اَنْفُسَھُمْ وَمَایَشْعُرُوْنَ (البقرہ:۱۰) میں بیان ہوئی ہے وہ اِدْھَان اور مُدَاھَنَۃ ہی ہے۔ اِدْھَان اور مُدَاھَنَۃ کا ایک ہی مفہوم ہے تو فرمایا کہ کیا تم مداہنت سے کام لیتے ہو؟ نفاق سے کام لیتے ہو۔ تمہارے دل میں کچھ اور ہے اور ظاہر کچھ اور کرتے ہو اور پھر اتنے عظیم الشان کلام کے متعلق؟؟؟
فرمایا۔ پھر بعض تم میں سے ایسے ہیں وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ (الواقعہ:۸۳) کہ تم نے انکار کو اپنا حصہ بنا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ کتاب اس لئے نازل کی تھی کہ تم اس پر ایمان لا کر ان فوائد اور فیوض کو حاصل کرو جو اس کی اتباع کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے ہیں۔ مگر تم نے اس کی اتباع سے انکار کیا۔ اس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی ربّ کریم کا فیصلہ تمہارے حق میں خوشی اور رضا کا نہیں۔ بلکہ غصہ اور قہر کا فیصلہ ہو گا۔ اس دنیا میں بھی جہنم تمہارے حصہ میں آئے گی اور اُخروی زندگی میں بھی ایک لمبا عرصہ تک تم جہنم میں رہنے والے ہو گے۔
غرضیکہ اس آیت کا تعلق مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے ساتھ ہے اور بڑا عظیم الشان مضمون اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق اس آیت میں بیان فرمایا ہے۔ اس کے بعد سوال ہوتا ہے کہ اتنی عظیم الشان کتاب کا علم ہم کیسے حاصل کریں؟ فرمایا خدائے رحیم کے سامنے جھکو جو انسان کی کوشش اور محنت کو بار آور بناتا ہے۔ کیونکہ یہ قرآن فِیْ کِتَابٍ مَّکْنُوْنٍ پردوں میں چھپی ہوئی محفوظ کتاب کے اندر ہے۔ اس کی ہدایتیں غطاء (پردے) کے اندر ہیں مَکْنُوْنٍ کے معنی ہیں وہ چیز جو ایسے پردے یا مکان میں رکھی جائے جس میں اس کی پوری حفاظت ہو سکے۔
تو فرمایا کہ چونکہ حفاظت کی غرض سے اس کے معنی اور مطالب کو چھپایا گیا ہے۔ پردہ میں رکھا ہوا ہے ان کو حاصل کرنے کے لئے تمہیں ان پردوں کو اٹھانا پڑے گا، دل کے پردوں کو بھی اور دیگر قسم کے جو ہزاروں حجابات ہیں ان کو بھی۔ اگر تم ان پردوں کو اُٹھائو گے کوشش کرو گے، محنت کرو گے تو چھپی ہوئی چیز کو نکال لائو گے جیسے کہ کانوں میں چھپے ہوئے جواہر بڑی محنت سے نکالے جاتے ہیں یا سمندر کی تہ میں چھپے ہوئے موتی بڑا گہرا غوطہ لگا کر نکالے جاتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو یہ کتاب اور اس کے مطالب اس قابل تھے کہ انہیں ہر لحاظ سے محفوظ رکھا جاتا۔ اس مطلب کی خاطر ہم نے بہت سے پردے اس کے گرد ڈال دئیے ہوئے ہیں۔ اگر تم ان مطالب اور معارف تک پہنچنا چاہتے ہو تو تمہیں مجاہدہ سے کام لینا پڑے گا، کوشش کرنی پڑے گی۔ تب وہ خدائے رحیم تمہاری محنت اور مجاہدہ کا نتیجہ نکالے گا اور ایک حد تک تم قرآن کے حقائق حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائو گے۔ ویسے صفت رحیم اور رحمٰن پہلو بہ پہلو چلتی ہیں ان کو علیحدہ کرکے صحیح تصور ہمارے دماغ میں نہیں آ سکتا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کتاب مکنون ہے اس لئے میری صفت رحیمیت سے برکت حاصل کرو اور پوری جدوجہد قرآن کریم کے سیکھنے میں لگا دو اور پوری طرح اس کتاب کریم اور مطہر صحیفہ کی طرف متوجہ ہو۔ اس کے سیکھنے کے بغیر کوئی لمحہ نہ گزارو اور نہ ہی کوئی دقیقہ فروگذاشت کرو، ہر وقت اس کے متعلق سوچتے رہو۔ تب تمہاری کوششوں کا نتیجہ نکلے گا اور رحیمیت اپنے جوش میں آئے گی۔ لیکن خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ خالی مجاہدہ اور کوشش سے کچھ نہیں بنے گا۔ ظاہری کوششوں سے تم صرف چھلکا ہی حاصل کر سکو گے اگر کوئی عیسائی اپنا وقت خرچ کرے اور عربی سیکھنے کی کوشش کرے اور پھر تمام قرآن کریم کی وہ تفاسیر جو عربی زبان میں لکھی گئی ہیں اور وہ تفاسیر جو اُردو زبان میں لکھی گئی ہیں پڑھ کر بظاہر ان کے مضامین پر حاوی ہو جائے، تو اس علم کی وجہ سے وہ قرآن کریم کی منقولی تفسیر کر سکے گا۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کی جو تفسیر براہین احمدیہ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص۔ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۴۱۴ تا ۴۳۵)میں تحریر فرمائی ہے۔ وہ بھی اسے پڑھ کر بیان کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے یہ صرف ظاہری علم ہے جسے وہ حاصل کر سکتا ہے قرآن کریم کے متعلق صرف ظاہری علم کافی نہیں، قرآن کریم کے علوم، اس کی ہدایات، اس کے معارف اور اس کی حکمتوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ خداتعالیٰ کی صفت رحیمیت کے ساتھ صفت رحمانیت بھی جوش میں آئی ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا ہے۔
گر بعلم خشک کارِ دیں بُدے
ہر لیئمے راز دارِ دیں بُدے
(سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۱۰۰)
پس فرمایا کہ ہم نے ہر طرح سے قرآن کریم کی حفاظت کی ہے اور کوئی خشک یا ظاہری علم اس کے مغز اور روح کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ تم خدائے رحمن کا دروازہ کھٹکھٹائو کیونکہ جب تک تم اس کی نگاہ میں پاکیزہ نہیں ٹھہرو گے معارف و حقائق قرآنیہ کا بھی تم پر نزول نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ آیت لاَیَمَسُّہٗ اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَ(الواقعہ: ۸۰)کا تعلق صفت رحمن سے ہے۔
پھر فرمایا تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الواقعہ: ۸۰)قرآن کریم کی تفاسیر بہت سی ہو چکی ہیں۔ میرے خیال میں کئی سو موٹی موٹی تفسیریں لکھی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ لاکھوں صفحات تفسیر کے لکھے گئے ہیں۔ ایک عام سمجھ کا انسان ان تفاسیر کے ڈھیر کو دیکھ کر دل میں خیال کر سکتا ہے۔ کہ جو کچھ قرآن مجید میں تھا مفسرین نے اسے باہر نکال لیا ہے۔ اب کوئی شخص کتاب مکنون سے کوئی نیا مطلب نہیں نکال سکتا۔
اس خیال کی تردید کے لئے فرمایا کہ صحیفۂ قدرت کو دیکھو کتنی کثرت سے بڑی بڑی ایجادیں ہوئیں بعض لوگوں نے صرف ایک مسئلہ کے متعلق نئی تحقیق پیش کی تو دنیا نے اسے بہت سراہا اور کہا کہ اس نے علم کی بڑی خدمت کی ہے حالانکہ اس نے ساری عمر میں ایک راز ہی معلوم کیا تھا باوجود اتنی کوششوں کے پھر بھی نہیں کہا جا سکتا کہ دنیوی علوم ختم ہو گئے اور کہ انسان صحیفہ قدرت پر پوری طرح حاوی ہو گیا ہے اور کوئی نئی چیز یا ایجاد دریافت نہیں کی جا سکتی۔
تو فرمایا کہ جس طرح صحیفہ قدرت میں اللہ تعالیٰ کے غیر محدود اسرار پوشیدہ ہیں اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی غیر محدود حکمتیں اور معارف پوشیدہ ہیں۔ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الواقعہ: ۸۱) اس لئے جس زمانہ میں بھی تم ہو اور جس ملک میں بھی اللہ تعالیٰ تمہیں پیدا کرے اس اصول کو مدنظر رکھنا کہ قرآن کریم کا اتارنے والا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ہے۔ جس کی حکمت تجدید، نشوونماء اور ارتقاء کو چاہتی ہے۔
اس لئے دنیا بھی ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی کہیں کی کہیں پہنچ رہی ہے اور ہر نئی منزل پر اسے نئی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ ایسے بندے پیدا کر دیتا ہے جو قرآن کریم کے نئے مطالب، معانی اور نئے معارف اخذ کرکے اس زمانہ کی نئی الجھنوں کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ قرآن کریم کے علوم ختم ہونے والے نہیں قرآنِ کریم غیر محدود حقائق اور غیر متناہی علوم و حقائق اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس لئے ہر زمانہ کی حاجت کے مطابق وہ کھلتے جاتے ہیں اور ہر زمانہ کے خاص فاسد خیالات کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ علوم ایک مسلح فوج کی طرح کھڑے رہتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ اس کتاب میں ہر وہ سامان موجود ہے جو کسی زمانہ کے لئے درکار ہے اور ہر ایک زمانہ کی ضرورت حقہ کے پورا کرنے کا کامل اور مکمل طور پر متکفل ہے جیسے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس زمانہ میں خود مشاہدہ کیا ہے۔
غرضیکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کتاب کا تعلق ہماری صفت رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ سے بھی ہے۔ جس طرح عالم ابتدائی دور میں تھے۔ اور پھر ان میں سے ہر ایک آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے اسی طرح قرآن کریم کے علوم بھی منزل بہ منزل نئے سے نئے نکلتے چلے آئیں گے اور دنیا یہ نہ کہہ سکے گی کہ ہمیں ایک مسئلہ پیش آیا لیکن قرآن کریم نے ہمارے سامنے اس کا حل پیش نہیں کیا۔ اس لئے اگر کسی جگہ تم رکتے یا اٹکتے ہو تو اس میں تمہارا قصور ہے تم ربوبیت عالمین کا دروازہ کھٹکھٹائو اور اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے دامن کو پکڑو۔ خداتعالیٰ کے سامنے عاجزانہ طور پر جھکو اور کہو کہ اے خدا! تو نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ میں رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ہوں اور یہ کتاب میری طرف سے نازل ہوئی ہے میری اس صفت کے ماتحت جہاں عالمین ارتقائی دَوروں میں سے گزر رہے ہیں وہاں قرآن کریم کے علوم بھی نئے سے نئے دنیا پر کھلتے رہیں گے۔ آج ضرورت بعض مسائل کے حل کرنے کی ہے تو ہماری عقلوں کو منور فرما اور ہمارے لئے ایسے دروازے کھول جو ہمیں تیرے تک پہنچائیں اور ان سے ہمیں قرآن کریم کا وہ نور حاصل ہو جس کی آج دنیا کو ضرورت ہے۔
پس ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی عظمت کو بیان کیا ہے اور قرآن کریم کے معارف کے حصول کے لئے جن صفات سے برکات حاصل کرنے کی ضرورت ہے انہیں بھی بیان فرمایا ہے ہمیں چاہئے کہ انفرادی اور جماعتی طور پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات سے برکات حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش، اپنی جدوجہد اور مجاہدات کو کمال تک پہنچائیں اور جو منصوبہ قرآن کریم کو سیکھنے سکھانے کا جماعت میں جاری کیا گیا ہے اس سے غفلت نہ برتیں۔
اس موقع پر میں اُن عزیزوں اور بھائیوں سے بھی اپیل کرنا چاہتا ہوں جن کا مختلف درسگاہوں سے طالب علم یا استاد کا تعلق ہے کہ اپنی چھٹیوں میں سے اگر آپ دو ہفتے قرآن کریم کو پڑھانے کے لئے وقف کر دیں تو یقینااللہ تعالیٰ آپ پر اپنی برکات نازل فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس نیک کام کے سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۷؍ اگست ۱۹۶۶ء صفحہ ۳ تا ۵)
٭…٭…٭
















ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم سیکھیں، جانیں اور ہر وقت اس کی اتباع کرنے کی کوشش کریں
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ئئء
٭ تم اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا مظہر بن جاؤ۔
٭ خلیفہ وقت کا سب سے بڑا اور اہم کام یہی ہوتا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کرنے والا ہو۔
٭ قرآن کریم کے علوم حاصل کئے بغیر ہم وہ کام ہرگز سرانجام نہیں دے سکتے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کو قائم کیا ہے۔
٭ جماعت کا ایک فرد بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے جس نے اپنے ظرف کے مطابق قرآن کریم کے معارف حاصل کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔



تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق یہ دعویٰ فرمایا ہے ۔
وَمَاتَسْئَلُھُمْ عَلَیْہِ مِن اَجْرٍط اِنْ ھُوَ اِلاَّ ذِکْرٌ لِّلْعَالَمِیْنَo
(یوسف:۱۰۵)
کہ اے رسول! تو جو ان کفار کو تبلیغ کر رہا ہے اور خداتعالیٰ کا پیغام انہیں پہنچا رہا ہے اس پر تو ان سے کوئی اجر نہیں مانگتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن کریم تمام جہانوں کے لئے سراسر شرف کا موجب ہے۔
اس آیت میں قرآن کریم کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام عالمین کے لئے رحمت ہیں (رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْنَ) اسی طرح قرآن کریم تمام عالمین کے لئے ذکر ہے۔
ذِکر عربی زبان میں مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس جگہ ذکر کے چار معنی چسپاں ہوتے ہیں
اس کے پہلے معنی اَلْکِتَابُ فِیْہِ تَفْصِیْلُ الدِّیْنِ وَوَضْعُ الْمِلَلِ (تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ۳۶۶)ایسی کتاب جس میں دین کی تفاصیل اور احکام شریعت کامل طور پر بیان کئے گئے ہیں۔
تو فرمایا کہ قرآن کریم ایک کامل کتاب شریعت ہے۔ کوئی شرعی حکم ایسا نہیں جو اس میں بیان ہونے سے رہ گیا ہو اور دین و مذہب کے متعلق جتنی بھی تفصیل انسان کے لئے ضروری ہے۔ وہ ساری کی ساری اس کتاب میں بیان کر دی گئی ہے۔ پس اس کی اتباع اللہ تعالیٰ کی انتہائی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے۔
اس کے دوسرے معنی ہیں الشَرَفُ (تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۳۶۶)بلند مرتبہ، رفعت اور بزرگی۔ تو فرمایا کہ جو احکام شریعت قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں۔ اگر تم ان کو سیکھو گے سمجھو گے اور ان پر عمل کرو گے۔ تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تمہیں بلند مرتبہ اور رفعت اور بزرگی عطا کرے گا۔ اور اتباع قرآن کے ذریعہ آسمانی (روحانی) رفعتوں کے وہ دروازے جو خداتعالیٰ کے قرب کی راہوں کو ڈھونڈنے والوں کے لئے کھولے جاتے ہیں۔ تم پر کھولے جائیں گے۔
اس کے تیسرے معنی اَلثَّنَائُ (تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۳۶۶)کے ہیں۔ تعریف اور حمد۔ تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اتباع قرآن کے نتیجہ میں روحانی رفعتوں کو تم حاصل کر لو گے تو تمہیں تعریف اور ثناء بھی حاصل ہو جائے گی۔ اَلثَّنَائُ کا لفظ جس قسم کی تعریف کے متعلق بولا جاتا ہے۔ اس میں ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ کسی دوسرے کامل وجود کا ثانی بننا یعنی اس کے اخلاق کی اتباع کرکے اس کا رنگ اختیار کرنے کی کوشش کرنا ۔
پس اس میں توجہ دلائی گئی ہے کہ قرآن کریم نے جو تعلیم تمہارے سامنے رکھی ہے۔ وہ یہی ہے کہ تم تَخَلَّقْ باخلاق اللّٰہ حاصل کر سکو۔ اللہ تعالیٰ کے اخلاق کیمظہر بن سکو۔ اور جب تم اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا مظہر بن جائو گے تو ہر صاحب عقل و بصیرت تمہاری تعریف، تمہاری ثناء اور تمہاری حمدکرنے پر مجبور ہو گا۔
اس کے چوتھے معنی اَلصِّیْتُ (تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۳۶۶)یعنی ذکر خیر کے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احکام قرآنی پر عمل کرنے کے نتیجہ میں جو بزرگی اور رفعت حاصل ہوتی ہے اور بندہ خداتعالیٰ کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دنیا ایسے لوگوں سے فائدہ حاصل کرتی ہے۔ صرف ان کی اپنی نسل پر ہی نہیں بلکہ ایسے لوگوں کا احسان آئندہ آنے والی نسلوں پر بھی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان کا ذکر خیر باقی رہ جاتا ہے۔ کیونکہ ذکرِ خیر صرف اسی شخص، گروہ یا سلسلہ کا ہی قائم رکھا جاتا ہے (اور رکھا جانا چاہئے) کہ جس کا احسان آئندہ نسلوں پر ہو اور اس طرح آئندہ نسلیں اس شخص، گروہ یا سلسلہ کو یاد رکھتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ پہلوں نے ہم پر بڑے احسان کئے ہیں۔ اور ہمیں ان احسانوں کو بھولنا نہیں چاہئے۔ مثلاً ہم احادیث کے جمع کرنے والے بزرگوں کا ادب اور احترام اور دعا کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ ان کا ذکر خیر اسی وجہ سے قائم ہے کہ ان لوگوں نے اپنی زندگیاں ہمارے فائدے کے لئے صرف کر ڈالیں۔ ان لوگوں نے نبی اکرمﷺ کے اقوال کو جمع کیا۔ ان کی چھان بین کی اور انہیں ہم تک پہنچانے کا انتظام کیا۔ اس احسان کے بدلہ میں ان کا ذکرِ خیر نَسْلاً بَعْدَ نَسْلٍ ہم تک چلا آیا اور آئندہ بھی چلتا چلا جائے گا۔
پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جو ہر لحاظ سے کامل و مکمل ہونے کے علاوہ یہ خوبی بھی اپنے اندر رکھتی ہے کہ جب کوئی اس پر عمل کرتا ہے تو وہ صرف اسی نسل کو زیر بار احسان نہیں کر رہا ہوتا جس کا وہ ایک فرد ہوتا ہے بلکہ اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اس سے نیکیوں اور خیر کے وہ کام لیتا ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ نسلیں بھی اس کے احسان کے نیچے دبی ہوتی ہیں۔ وہ اس کے اس احسان کو پہچانتی ہیں اور اس کی وجہ سے اس کی شکر گزار ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ قرآن اس کے لئے اَلصِّیْت ذکرِخیر کے جاری رہنے کا موجب بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق بہت سی تعریفیں خود اس میں بیان فرمائی ہیں۔ اس چھوٹی سی آیت میں بھی بہت کچھ بیان کیا گیا ہے جس کی طرف میں نے اس وقت محض اشارے کئے ہیں لیکن ان اشارات سے بھی ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اگر ہم اس دنیا میں عزت اور شرف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہمارے دل میں یہ خواہش ہے کہ ایک طرف ہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے اور دوسری طرف آئندہ نسلیں بھی ہمیں نیک نام سے یاد کریں۔ ہمارے لئے دعا کرنے والی ہوں اور خدا کے حضور گڑگڑانے والی ہوں کہ اے خدا ان لوگوں پر اپنی زیادہ سے زیادہ رحمتیں نازل کرتا چلا جا۔ تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم کو سیکھیں، جانیں اور اس کی اتباع کریں اور اس کو ہر وقت اپنے سامنے رکھیں۔
اسی لئے میں نے قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کی طرف جماعت کو توجہ دلائی تھی۔
خلیفہ وقت کا سب سے بڑا اور اہم کام یہی ہوتا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کرنے والا ہو۔ اور نگرانی کرنے والا ہو کہ وہ لوگ جو سلسلہ حقہ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں کیا وہ قرآن کریم کا جوا اپنی گردنوں پر رکھنے والے ہیں؟ اور اس سے منہ پھیرنے والے نہیںبلکہ اس کی پوری پوری اطاعت کرنے والے ہیں۔
میری اس تحریک پر جماعتوں نے توجہ دی۔ بہت سی جماعتوں کی طرف سے تو بہت اچھی رپورٹیں مل رہی ہیں لیکن بعض جماعتیں ابھی ایسی بھی ہیں جہاں ابھی تک یہ کام شروع نہیں ہوا۔ اور بعض جماعتوں کے متعلق یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ کام شروع ہونے کے بعد پھر سستی کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔
میں پھر تمام جماعتوں کو، تمام عہدیداران خصوصاً امراء اضلاع کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ قرآن کریم کا سیکھنا، جاننا، اس کے علوم کو حاصل کرنا اور اس کی باریکیوں پر اطلاع پانا اور ان راہوں سے آگاہی حاصل کرنا جو قرب الٰہی کی خاطر قرآن کریم نے ہمارے لئے کھولی ہیں از بس ضروری ہے۔
اس کے بغیر ہم وہ کام ہرگز سرانجام نہیں دے سکتے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔ پس میں آپ کو ایک دفعہ پھر آگاہ کرتا ہوں اور متنبہ کرتا ہوں کہ آپ اپنے اصل مقصد کی طرف متوجہ ہوں اور اپنی انتہائی کوشش کریں کہ جماعت کا ایک فرد بھی ایسا نہ رہے نہ بڑا نہ چھوٹا، نہ مرد نہ عورت، نہ جوان نہ بچہ کہ جسے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا نہ آتا ہو جس نے اپنے ظرف کے مطابق قرآن کریم کے معارف حاصل کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔
اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے کی اور پھر انہیں نبھانے کی توفیق دے اور مجھے بھی توفیق دے کہ جب تک آپ اس بنیادی مقصد کو حاصل نہیں کر لیتے، اس رنگ میں آپ کی نگرانی کرتا رہوں جس رنگ میں نگرانی کرنے کی ذمہ داری مجھ پر عائد کی گئی ہے۔
وَمَاتَوْفِیْقُنَا اِلاَّبِاللّٰہِ
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۷؍ جولائی ۱۹۶۶ء صفحہ۲۔ ۳)
٭…٭…٭
















خطبہ جمعہ ۸؍ جولائی ۱۹۶۶ء
ء ء ء
حضور ناسازی طبع کے باعث نماز جمعہ کے لئے تشریف نہ لا سکے۔
(الفضل ۱۰؍ جولائی ۱۹۶۶ء)
٭…٭…٭


















قرآن کریم کو حرزِ جان بناؤ کہ اس کے بغیر ہم کوئی عزت کوئی بلندی اور کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵ ؍جولائی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد نور۔ راولپنڈی)
ء ء ء
٭ مسلمانوں کو عروج و ترقی اور ارفع مقام اتباع قرآن کریم ہی کے نتیجہ میں ملا۔
٭ مسلمانوں نے جب قرآن سے دوری اور بے تعلقی اختیار کی تو وہ قعر مذلت میں جا گرے۔
٭ محض بیعت کر لینا کافی نہیں جب تک ہم پورے کے پورے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں داخل نہیں ہو جاتے۔
٭ الہام ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ کا پورا ہونا
٭ صرف احمدی کہلانا کافی نہیں، قرآن کریم اور اسلام کی عزت دنیا میں قائم کریں۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ۔
مسلمانوں پہ تب ادبار آیا
کہ جب تعلیم قرآں کو بھلایا
(درثمین اُردو صفحہ ۵۵ نیا ایڈیشن)
اس شعر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک تاریخی حقیقت بیان فرمائی ہے۔ جب ہم تاریخ اسلام کی ورق گردانی کرتے ہیں اور مسلم ممالک اور اقوام کے عروج و زوال، ترقی و تنزل اور ان کی تہذیب اور ان کی وحشت کی داستانیں ہمارے سامنے آتی ہیں تو ہم پر یہ بات واضح اور بین ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی عروج و ترقی کی۔ تہذیب کی رفعتوں تک پہنچے۔ تو یہ ارفع مقام انہیں اتباع قرآن ہی کے نتیجہ میں ملا۔ اور جب کبھی انہوں نے قرآن اور اس کی اعلیٰ وارفع تعلیم کو پس پشت ڈال دیا۔ اس سے منہ موڑ لیا۔ اس سے بے رُخی برتی، اس سے دُوری اور بے تعلقی اختیار کی۔ اور اسے ناقابل عمل سمجھتے ہوئے مہجور قرار دیا تو وہ قعر مذلّت میں جا گرے۔
اس کے برعکس جب انہوں نے قرآن کریم کو حرزِ جان بنایا اور اس کا جُؤا اپنی گردنوں پر رکھا قرآن کریم کے نور سے منور ہو کر اور اس کے خادم بن کر میدانِ عمل میں اترے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی ترقیات سے نوازا اور ایسی رفعتیں انہیں عطا کیں کہ دنیا کے وہ معلم اور استاد بھی بنے۔ دنیا کے وہ ہادی اور راہ نما بھی ہوئے۔ دنیا کے وہ محسن بھی ٹھہرے۔ خدائے رزاق سے تعلق پیدا کرکے اَلْحَفِیْظُ اور اَلْعَلِیْمُ کی صفات کا مظہر بنے اور عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ انہیں مقرر کیا گیا اور زمین کی پیداوار کی تقسیم ان کے سپرد کی گئی۔ اور ایک دنیا نے ان سے بھیک مانگی اور ایک جہان کو انہوں نے سیر کیا۔ مگر ان کے دامن دنیا داروں کے سامنے کبھی نہ پھیلے۔ نہ وہ دنیوی طاقتوں کے سامنے کبھی جھکے، نہ ان سے مرعوب ہوئے اور نہ وہ کبھی ان کے زیر احسان آئے۔
لیکن مسلم اقوام نے جب قرآن کریم اور اس کی تعلیم کو طاق نسیان کی زینت اور قُرْاٰناً مَّہْجُوْرًا بنا دیا اور اپنی ناقص اور غافل عقلوں کو آسمانی نور سے بہتر جانا تو نور علم، نور فراست اور نور فطرت ان سے چھین لیا گیا۔ روحانی علوم و انوار کا تو ذکر کیا۔ دنیوی علوم میں بھی انہیں غیروں سے بھیک مانگنی پڑی اور جب رزّاقِ حقیقی سے انہوں نے اپنا رشتہ توڑ لیا تو حسناتِ دنیا بھی ان سے چھین لی گئیں۔ اور ہم نے دیکھا کہ للچائی ہوئی نظروں سے وہ دنیا اور دنیا داروں کو تک رہے تھے۔
پس مسلمانوں کی تاریخ ایسے حقائق سے بھری ہوئی ہے۔ اس تاریخ کے بہت سے باب جہاں سنہری حروف سے لکھے نظر آتے ہیں۔ وہاں وہ باب بھی تو ہمارے سامنے آتے ہیں۔ جنہیں پڑھ کر ہماری گردنیں جھک جاتی ہیں۔ تاریخ کے ان ابواب سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مسلم اقوام میں سے کس قوم نے کس زمانہ میں قرآن کریم اور اس کی تعلیم کو اس کا حقیقی مقام دیا اور وہ درجہ دیا جو اسے دیا جانا چاہئے تھا اور کس قوم نے کس زمانہ میں قرآن کریم اور اس کی تعلیم کو بھلا دیا۔ اور پھر دنیا میں ان کے لئے عزت اور پناہ کا کوئی مقام بھی باقی نہ رہا۔
پس جماعت احمدیہ کو یاد رکھنا چاہئے کہ محض بیعت کر لینا یا محض احمدیت میں داخل ہونا یا محض احمدیت کا لیبل اپنے اوپر لگا لینا کافی نہیں جب تک ہم پورے کے پورے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں داخل نہیں ہو جاتے۔ جب تک ہم اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ کا صحیح نمونہ اپنے خدا اور خدا کی بنائی ہوئی دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتے۔ جب تک ہم قرآن کریم کے تمام اوامر و نواہی کی عزت نہیں کرتے۔ ان کے آگے نہیں جھکتے اور جن باتوں سے ہمیں روکا گیا ہے ان سے باز نہیں آتے اور جن چیزوں کے ہمیں کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ وہ ہم بجا نہیں لاتے۔ اس وقت تک ہم اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کے وارث نہیں ہوسکتے۔ جن فضلوں کا وارث وہ انسان ہوتا ہے جو قرآن کریم کے نور سے منور ہوتا ہے اور قرآن کریم کے احکام پر عمل کرنے والا ہوتا ہے اور قرآن کریم کا کامل متبع ہوتا ہے اور قرآن کریم کا سچا خدمت گزار ہوتا ہے۔ محض احمدی کہلانا، محض احمدیت کی طرف منسوب ہونا ہمارے لئے کافی نہیں اسی لئے میں اپنے متعدد خطبات میں اس سے پہلے بھی جماعت کو اس طرف متوجہ کر چکا ہوں کہ پوری ہمت کے ساتھ اور پوری توجہ کے ساتھ قرآن کریم کے سیکھنے اور سکھانے اور اس پر عمل کرنے کا انتظام تمام جماعتوں کے اندر کیا جانا چاہئے۔ بہت سی جماعتیں اس طرف پوری طرح متوجہ ہوئی ہیں لیکن بعض ایسی بھی ہیں جنہوں نے اس طرف پوری توجہ نہیںدی۔
قرآن کریم کے بغیر، قرآن کریم کی برکات کو چھوڑ کر، قرآن کریم کے نور سے پیٹھ پھیرتے ہوئے، قرآن کریم کو معزز نہ جان کر اپنے دلوں سے باہر نکال پھینکتے ہوئے، ہم خدا کی نگاہ میں کوئی عزت، کوئی بلندی، کوئی رفعت، کوئی کامیابی، کوئی کامرانی اور کوئی فتح حاصل نہیں کر سکتے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں متعدد بار اس کی اہمیت کی طرف ہمیں توجہ دلاتا ہے۔ چند آیات کی تفسیر میں نے اس سے پہلے اپنے خطبات میں دوستوں کے سامنے رکھی ہے۔ آج میں قرآن کریم کی دو اور آیتیں دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ زُمر میں فرماتا ہے ۔
تَنْزِیْلُ الْکِتَابِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِo اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًالَّہُ الدِّیْنَo (الزمر: ۲،۳)
یعنی اس کتاب کا نازل کیا جانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو غالب اور سب کام حکمتوں کے ماتحت کرنے والا ہے۔ ہم نے تیری طرف یہ کتاب کامل سچائیوں پر مشتمل اتاری ہے۔ پس تو اطاعت کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کر۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا تَنْزِیْلُ الْکِتَابِ مِنَ اللّٰہِ کہ اس کتاب کو وحی کے ذریعہ محمد رسول اللہ پر اُتارنے والی وہ ذات ہے جسے اللہ کے نام سے اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اَلْکِتَابُ کے لغوی معنی یہ ہیں کہ وہ صحیفۂ آسمانی جس میں تمام ضروری فرائض اور احکام کامل اور مکمل طور پر بیان ہوئے ہوں۔ اور جو اقوام عالم کی تقدیر اور قسمت کا فیصلہ کرنے والی ہو۔ اسی لئے سورۃ حٰم السّجدہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو بشیر بھی کہا ہے اور نذیر بھی کہا ہے۔ یعنی قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جو تمام بنی نوع انسان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی ہے۔ قیامت تک تمام جہانوں کی تقدیر قرآن کریم سے وابستہ کر دی گئی ہے اور جو لوگ قرآن کریم کی ہدایات کو سمجھنے اور پہچاننے والے، جو لوگ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والے اور قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو جن صفات کے ساتھ ہمارے سامنے رکھا ہے۔ اس کا عرفان رکھنے والے اور اپنی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزارنے والے ہیں۔ ان کے لئے قرآن کریم بطور بشیر کے پیش کیا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اللہ تعالیٰ کے فعل نے ہر زمانہ میں اس بات پر مہر لگا دی ہے کہ قرآن کریم کو جو بشیر کا نام دیا گیا ہے وہ بالکل برحق ہے اس میں کوئی غلطی نہیں کیونکہ یقیناہر مقام پر اور ہر زمانہ میں قرآن کریم کے کامل متبعین کو وہ روحانی اور جسمانی، دینی اور دنیوی نعماء ملیں جن کی بشارت قرآن کریم نے اپنے ماننے والوں کو مختلف مقامات پر دی تھی۔
اور وہ لوگ جو قرآن کریم کے مقابل کھڑے ہوئے جنہوں نے اس خدا کو جھٹلایا جسے اس کی کامل صفات کے ساتھ قرآن کریم پیش کرتا ہے۔ ان لوگوں کے متعلق قرآن کریم کے بتائے ہوئے انذار حرف بحرف پورے ہوئے اور قرآن کریم نے اپنی پیشگوئیوں میں کہیں کوئی غلطی نہیں کی۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے تاریخ اسلام یعنی اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت اس بات پر گواہ ہے کہ قرآنِ کریم بشیر بھی ہے اور نذیر بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ یہ کامل اور مکمل کتاب ہے جس میں فطرتِ انسانی کے لئے، اس فطرتِ انسانی کے لئے جو اپنے عروج اور بلوغت کو پہنچ چکی تھی۔ تمام وہ ہدایات موجود ہیں جن کی اسے ضرورت تھی کیونکہ اس کتاب کا اُتارنے والا اللہ ہے۔ یعنی وہ ذات جسے اس کی بعض مخصوص صفات کے ساتھ قرآن کریم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور اس کی دو صفات کا ذکر اس نے اس آیت میں بھی کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی جگہ پر یہ کامل اور مکمل کتاب ہے اور اس کا اتارنے والا اللہ ہے جس کی کئی صفات ہیں لیکن ہم تمہیں اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ وہ العزیز بھی ہے اور لغت عربی میں عزیز اس ہستی کو کہتے ہیں جو صاحب قدرت اور صاحب قوت ہو اور صاحب عزت ہو اور دنیا کی کوئی طاقت اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکتی ہو۔ وہ اتنا قوت والا ہو کہ دنیا کی کوئی طاقت اور قوت ایسی متصور نہ کی جا سکتی ہو جو اس کی قوت اور طاقت کے مقابلہ میں کامیابی کے ساتھ اس کے برخلاف کوئی مکر اور حیلہ اور فریب کر سکے۔ وہ غالب ہے مغلوب ہو ہی نہیں سکتا۔ اور کوئی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی اور اپنی ان صفات میں وہ بے مثل بھی ہے۔ یعنی اس کی قوت اور اس کی قدرت اور اس کا غلبہ اور اس کی عزت ایسی ہے کہ دنیا کی کسی اور ہستی کی نہ وہ قوت، نہ وہ غلبہ، نہ وہ طاقت، نہ وہ شان، نہ وہ جاہ، نہ وہ جلال، کچھ بھی نہیں۔ اس ہستی کو عزیزکہتے ہیں۔ تو اس آیت میں فرمایا کہ یہ کتاب اس اللہ نے نازل کی ہے جو اس قدر قوت اور طاقت اور عزت والا ہے کہ دنیا کا کوئی مکر اور فریب اس کے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ وہ اس مضبوط اور بلند پہاڑ کی چوٹی پر بنے ہوئے قلعہ کی طرح ہے کہ جس تک چڑھنا کسی اور کے لئے ممکن ہی نہیں۔ مَنِیْعٌ ہے۔ یعنی وہ اتنا محفوظ ہے کہ اس کے خلاف کسی سازش کی کامیابی ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔
تو ہمیں اس کتاب میں صفت عزیز کا ذکر کرکے یہ بتایا کہ اگر تم اس اَلْکِتَابُ پر عمل کرنے والے ہو گے۔ اگر تم اس کے احکام کی اطاعت کرنے والے ہو گے تو اللہ جو عزیز ہے تمہیں عزت کے ایسے مقام پر کھڑا کرے گا کہ دنیا کی کوئی طاقت تمہارا مقابلہ نہ کر سکے گی۔ اگر تمہاری ترقی کے سامنے ہمالیہ کے پہاڑ بھی حائل ہوں گے تو وہ پاش پاش کر دئیے جائیں گے۔
مسلمانوں کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بالکل بے کسی اور بے بسی کے زمانہ میں جب ان کے پاس نہ عزت تھی، نہ طاقت تھی، نہ مال تھا اور نہ کوئی اور ظاہری سامان تھے، صرف قرآن کریم ہی تھا جو ان کے ہاتھ میں تھا صرف قرآن کریم ہی تھا جو ان کے دل میں تھا، صرف قرآن کریم ہی تھا جو ان کے عمل میں نظر آ رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں غلبہ عطا فرمایا اور ان کے مقابل آنے والی سب طاقتوں کو مٹا دیا اور ایک کم مایہ، بے مایہ، کمزور و ناتواں اور غریب کو تمام دنیا کی طاقتوں کے مقابلہ میں کامیاب و کامران کر دیا۔
اس کی ایک تازہ مثال میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اس مثال کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ۱۸۶۸ء میں فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا ہے کہ
’’بادشادہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۔
(تذکرہ صفحہ ۱۰ ایڈیشن چہارم)
اس وقت آپ کو بھی کوئی نہ جانتا تھا، قادیان کو بھی کوئی نہ جانتا تھا۔ جماعت احمدیہ کو بھی کوئی نہ جانتا تھا بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی نہ جانتے تھے۔ کیونکہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے جماعت کا قیام نہیں کیا گیا تھا۔ اور بیعت بھی شروع نہ ہوئی تھی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی کی۔ اور قریباً سو سال تک مخالف کو موقع دیا کہ جتنا چاہو استہزاء کر لو، مذاق کر لو، ٹھٹھا کر لو، طعنے دے لو۔ یہ کلام ہمارا (عزیز خدا کا) کلام ہے جو ایک دن پورا ہو کر رہے گا۔ اس سال اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ سامان پیدا کر دئیے۔ (دو کم سَو سال کے بعد) جب اس عرصہ میں ایک نیا ملک بنایا گیا۔ پھر الٰہی تدبیر کے ماتحت اس ملک کو آزادی دلائی گئی۔ پھر الٰہی منشاء کے مطابق جب اس ملک کی اپنی حکومت بنی ،تو اس کا سربراہ اور اس کا ایکٹنگ (Acting) گورنر جنرل اس شخص کو مقرر کیا گیا جو تقرر کے دن سے پہلے جماعت احمدیہ گیمبیا کا پریذیڈنٹ تھا۔ اس طرح جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ کو گورنر جنرل بنا دیاگیا۔
پھر ان کو ہمارے مبلغ نے توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ کی ایک بشارت ہے کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ تم خوش نصیب انسان ہو کہ دنیا کی تاریخ میں تمہیں پہلی دفعہ یہ موقع مل رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کپڑوں سے تم برکت حاصل کر سکو مگر یہ کوئی معمولی چیز نہیں۔ اس لئے قبل اس کے کہ تم اس کے متعلق خلیفۂ وقت کو اپنی درخواست بھجوائو چالیس دن تک چلہ کرو۔ یعنی خاص طور پر دعائیں کرو۔ اس قسم کا چلہ نہیں جو صوفیا اور فقراء کیا کرتے ہیں۔ چالیس دن تک خاص طور پر تہجد میں دعا کرو کہ خداتعالیٰ تمہیں اس بات کا اہل بنائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں میں سے ایک ٹکڑا تمہیں ملے۔
انہوں نے دعا شروع کی اور پھر مجھے خط لکھا کہ میں دعائوں میں مشغول ہوں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑا رہا ہوں کہ میں ایک بڑی بھاری ذمہ داری لے رہا ہوں، صرف عزت حاصل نہیں کر رہا، صرف تبرک حاصل نہیں کر رہا بلکہ بڑی بھاری ذمہ داری بھی لے رہا ہوں۔
ایک شخص جو ہزار ہا میل دور رہتا ہے نہ کبھی ربوہ آیا، نہ ہی تاریخ احمدیت سے پوری طرح واقف، اس کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبرک کی اہمیت جب تک پوری طرح بٹھا نہ دی جاتی میرے نزدیک انہیں تبرک بھجوانا درست نہیں تھا۔ اس لئے میں نے انہیں ایک لمبا سا خط لکھا اور انہیں یہی نکتہ سمجھایا کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تبرک مانگ رہے ہو۔ اس میں برکتیں بھی بڑی ہیں مگر یہ بھی نہ بھولو کہ اس کی قیمت اتنی ہے کہ ساری دنیا کے سونے اور ساری دنیا کی چاندی اور ساری دنیا کے ہیرے اور جواہرات بھی اگر اس کے مقابل رکھے جائیں تو ان کی وہ قیمت نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں میں سے ایک ٹکڑا کی قیمت ہے اس لئے تم ایک بڑی ذمہ داری لے رہے ہو۔ ذہنی طور پر، روحانی طور پر اور اخلاقی طور پر اپنے آپ کو اس کا اہل بنائو۔
یہ مضمون تھا اس خط کا جو میں نے انہیں لکھوایا اور ان سے انتظار کروایا تاکہ جب ان کی یہ روحانی پیاس اور بھڑکے اور ان کے دل میں ذمہ داری کا پورا احساس بیدار ہو جائے اس وقت وہ تبرک ان کو بھیجا جائے۔
پندرہ بیس دن ہوئے وہ تبرک ان کو بھجوایا گیا اور مجھے ابھی گھوڑا گلی میں ان کی تار ملی ہے کہ وہ تبرک مجھے مل گیا ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشے۔
پس خدائے عزیز کے ساتھ تعلق رکھنے والے عزت کے ایسے مقام کو حاصل کرتے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن قرآن کریم کی طرف منسوب ہونا اور پھر عزت کی بجائے ذلت کے مقام پر کھڑا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ ایسا شخص زبان پر تو قرآن کریم کا نام لاتا ہے لیکن دل سے اسے دھتکارنے والا اور پرے کرنے والا ہے۔
تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ اس آسمانی کامل اور مکمل صحیفہ کو اُتارنے والا العزیز ہے۔ وہ ایسی طاقت کا مالک ہے کہ دنیا کی ساری طاقتیں اکٹھی ہو کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ وہ اس کی مخلوق ہیں۔ وہ اندر اور باہر سے ان کو جاننے والا ہے۔ وہ ان کی قوتوں اور استعدادوں کو اس لئے جاننے والا ہے کہ وہ خود اس کی پیدا کردہ ہیں۔ تو وہ اس کے مقابلہ میں کیسے کھڑی ہو سکتی ہیں؟
اور ہمیں یہ بتایا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی اس اَلْکِتَابُ پر پورا عمل کرو گے اور اس کی اطاعت اس طرح کرو گے جیسا کہ اطاعت کا حق ہے تو پھر خدائے عزیز تمہیں عزت کے بلند مقام پر کھڑا کر دے گا۔
پھر فرمایا کہ جس اللہ نے یہ کتاب تمہیں بھجوائی ہے وہ صرف اَلْعَزِیْزُ ہی نہیں۔ اَلْحَکِیْمُ بھی ہے اَلْحَکِیْمُ کے معنی ’’صاحب حکمت‘‘ کے ہیں۔ حِکْمَۃ عربی زبان میں عدل، علم، حلم، فلسفہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
تو اَلْحَکِیْمُ کے ایک معنی یہ ہوئے کہ وہ علم رکھنے والی ہستی ہے۔ اس سے زیادہ عَلِیْم کوئی نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ جس نے یہ قرآن نازل کیا ہے وہ ذات ہے جس کے علم کے مقابلہ میں ساری دنیا کے علوم کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کامل علم اس کے پاس ہے۔ کوئی چیز اس سے مخفی نہیں۔ دنیا کے ہر ظاہر و باطن پر اس کی نظر ہے۔ ماضی و حال و مستقبل اس کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے کہ ایک انسان کیلئے ایک سیکنڈ کا ہزارواں حصہ جو حقیقتاً اس کے لئے حال بنتا ہے۔ پس یہ وہ ذات ہے جو زمانہ سے بھی اَرْفَع ہے۔ جو مکان سے بھی بالا ہے۔ اس کے علم کے مقابلہ میں کوئی علم ٹھہر نہیں سکتا۔ اسی علم کے منبع سے یہ کتاب نازل ہوئی ہے۔ اس لئے اگر تم قرآن کریم کا غور سے مطالعہ کرو گے۔ اس کو سمجھو گے، اس کے علوم کے حصول کے لئے اپنے رب سے دعائیں کرتے رہو گے تو تمہیں وہ علوم عطا کئے جائیں گے کہ دنیا کے سارے عالم تمہارے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکیں گے۔ چنانچہ ابتداء زمانہ اسلام میں جو ترقی کا زمانہ ہے۔ ہمیں یہی نظارہ نظر آتا ہے۔مغرب کے جتنے بڑے بڑے فلاسفر گزرے ہیں۔ ان سب نے اپنی فلاسفی یا ان نظریات میں جو انہوں نے پیش کئے ہیں کسی نہ کسی مسلمان محقق سے بھیک مانگی ہے۔
ایک جرمن فلاسفر کانٹ بہت مشہور فلاسفر ہے جسے صرف جرمنی میں ہی نہیں بلکہ انگلستان اور امریکہ اور دوسری مہذب دنیا میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اسے بڑے دماغ والا خیال کیا جاتا ہے۔ اس کی بہت سی تھیوریز اور نظریے جو اس نے دنیا کے سامنے پیش کئے۔ میں ذاتی علم رکھتا ہوں کہ ان نظریات کو ہمارے مسلمان علماء نے کانٹ (Kant) سے بہتر طریق پر صدیوں پہلے ہی دنیا کے سامنے پیش کیا ہوا ہے۔ اس وقت تو ان علماء کی کتب بھی دنیا میں موجود تھیں۔ بعد میں اسلام کے خلاف جو تعصب سے کام لیا گیا۔ اس کے نتیجہ میں ہماری بہت سی لائبریریاں جلا دی گئیں۔ اور بہت بڑے پایہ کی کتابیں ایسی ہیں جو یا تو اس وقت دنیا سے کلیتاً مفقود ہیں۔ یا ان کی ایک آدھ جلد باقی ہے جو مثلاً روس کی لائبریری میں ہے اور ہماری دسترس سے باہر ہے اور ہم اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ یا اگر کہیں چھپی ہوئی ہوں تو کہہ نہیں سکتے۔
اسی طرح طب ہے اور دیگر جتنی سائنسز ہیں اور جتنے دوسرے علوم ہیں ان کے متعلق یہ لوگ اب مجبور ہو کر تسلیم کر رہے ہیں کہ ہم نے ابتداً انہیں مسلمانوں سے سیکھا ہے۔ پس جس وقت مسلمان قرآن کریم کی قدر کرنے والا تھا۔ قرآن کے نور سے حصہ پانے والا تھا۔ وہ تمام ان اقوام کا استاد تھا۔ لیکن پھر مسلمان کہلانے والوں نے اپنے غرور اور نخوت میں عملاً یہ اعلان کر دیا کہ ہمیں قرآن کریم کی ضرورت نہیں۔ ہماری عقل ہی ہمارے لئے کافی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم نے اپنی ناقص عقل پر ہی بھروسہ کرنا ہے۔ تو پھر جائو اپنی عقل سے کام لے کر دیکھ لو اور آخر یہ ہوا کہ ہمیں علم کے ہر میدان میں بھیک مانگنی پڑ گئی ہے۔ یہاں تک کہ جو موٹی موٹی باتیں ہیں۔ جو آسانی سے ایک غیر دیندار مسلمان بھی قرآن کریم سے حاصل کر سکتا تھا۔ وہ بھی ہمیں حاصل نہ رہیں کیونکہ قرآن کریم کی طرف ہماری توجہ ہی نہیں۔ مثلاً ماڈل فارم ہیں آپ میں سے جو سفر کرنے والے ہیں وہ دیکھتے ہوں گے کہ ہر پانچ دس میل کے فاصلہ پر مختلف آدمیوں کے نام پر ماڈل فارم بنائے گئے ہیں۔ زید کا ماڈل فارم، بکر کا ماڈل فارم وغیرہ یہ جو ماڈل فارمنگ ہو رہی ہے یہ سب مانگے کی ہے۔ کسی مہذب قوم کے سامنے ہم اپنی آنکھیں اور سر اٹھا نہیں سکتے کیونکہ ہم خود منگتے ہیں اور ہمارا دامن ان کے سامنے پھیلا ہوا ہے۔ ہم نبی کریمﷺ کی حدیث کے مطابق ’’یَدِ سُفْلٰی‘‘رکھنے والے ہیں۔ ہمارا ہاتھ نیچے ہے اور ان کا ہاتھ اوپر ہے حالانکہ خود قرآن کریم نے ہمیں روحانی باتیں سمجھاتے ہوئے کئی قسم کے ماڈل فارم کی مثالیں ذکر کی ہیں۔ اور ان میں سے بعض ایسے ماڈل فارم بیان ہوئے ہیں کہ جن کے لئے پاکستان کی سالانہ آمد اگر تیس سال تک بھی خرچ کر دی جائے تب بھی وہ ریسرچ پروگرام اتنے کمال تک نہیں پہنچ سکتا۔ جو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے۔ اتنی زبردست تحقیقی باتیں اس میں بیان کی گئی ہیں۔
بے شک قرآن کریم ہمیں علم زراعت سکھانے نہیں آیا۔ لیکن زراعت کو پیدا کرنے والا خدا ہمیں زراعت کی زبان میں روحانی باتیں سکھاتا ہے اور ضمناً ہمیں وہ باتیں بھی بتا جاتا ہے۔ جو ہماری زراعتی ترقی کے لئے ضروری ہیں۔ میں نے کئی دفعہ اپنے ماہرین زراعت سے کہا ہے کہ تمہیں مانگنے کی عادت ہے، تمہیں شرم کرنی چاہئے۔ ورنہ تم بجائے روس سے لینے کے، بجائے امریکہ سے لینے کے یا چین سے لینے کے کسی بھی غیر ملک سے مانگنے کی بجائے تم قرآن کریم پر غور کرکے اپنے ماڈل فارم کا پروگرام بناتے۔ لیکن میری یہ بات سن کر وہ چپ ہو گئے۔ انہوں نے کبھی خیال بھی نہیں کیا کہ قرآن کریم میں بھی کوئی علم ہے۔ حالانکہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے مِنَ اللّٰہِ الْحَکِیْمِ کہ یہ حکیم اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اگر تم اس کی پیروی کرو گے، اس کے نور سے حصہ لو گے تو دنیوی علوم میں بھی کوئی قوم تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔
کئی سَو سال تک کی خداتعالیٰ کی فعلی شہادت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ واقعہ میں خداتعالیٰ نے یہ سچ فرمایا ہے کیونکہ علم کے میدان میں کئی سَو سال تک مسلمانوں کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی قوم کھڑی نہیں ہوسکی۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ ہم نے کامل سچائیوں کے ساتھ یہ قرآن تیرے پر نازل کیا ہے۔ چونکہ یہ کامل صداقتوں اور کامل حقائق پر مشتمل ہے۔ فَاعْبُدِاللّٰہَ اس لئے اے مسلمان! تو اپنے اللہ کی عبادت کر۔
اس میں ہمیں یہ بتایا کہ حقیقی اور سچی عبادت جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی اور کھینچنے والی ہے وہ اسی شخص کی ہو سکتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبادت کے کامل اور مکمل اصول بتائے گئے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی کامل رہبری فرما دی ہو۔
پھر یہ بھی بیان فرما دیا کہ یہ اَلْکِتَابُ پہلی کتب کی طرح نہیں، جن میں کچھ صداقتیں تو بیان کی گئی تھیں۔ لیکن ساری صداقتیں بیان نہیں کی گئی تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ کے لوگ تمام صداقتوں اور تمام حقائق کو ذہنی طور پر بھی۔ جسمانی نشوونما کے لحاظ سے بھی اور اخلاقی ارتقاء کے لحاظ سے بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ پس ان کی طرف کچھ صداقتیں یا یوں کہیے کہ اَلْکِتَابُ کا ایک حصہ نازل کیا گیا اور اگر یہ سچ ہے اور یقینایہی سچ ہے تو پھر ان کی عبادت اور ایک سچے مسلمان کی عبادت میں زمین و آسمان کا فرق ہے کیونکہ ان کی عبادت نتیجہ ہے مثلاً بیس فی صدی ہدایت کا۔ اگر انہیں کامل ہدایت ملی ہوتی تو ہم کہتے کہ ان کی عبادت سو فیصدی کامل ہدایت کے مطابق ادا کی گئی۔ مگر ایسا نہیں۔ کیونکہ پہلی قوموں میں سے بعض کو کامل ہدایت کا مثلاً بیس فی صدی حصہ دیا گیا۔ اس کے بعد جو لوگ ترقی کر گئے انہیں تیس فی صدی۔ پھر ان کے بعد آنے والے لوگوں کو چالیس، کسی کو پچاس اور کسی کو ساٹھ فی صدی حصہ عطا کیا گیا۔ سَو فیصدی ہدایت صرف اُمت مسلمہ کو عطا کی گئی۔
تو جس شخص کی، جس قوم کی، یا جس نبی کی اُمت کی اللہ تعالیٰ نے صرف بیس یا صرف تیس یا صرف چالیس یا صرف پچاس یا صرف ساٹھ فی صدی راہنمائی کی ہو اور اس راہنمائی کے نتیجہ میں انہوں نے اپنے ربّ کی عبادت کی ہو۔ ان کی یہ عبادت اس عبادت کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سو فیصدی راہنمائی کے بعد ایک مسلمان بجا لاتا ہے اور ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان اُمتوں پر اللہ تعالیٰ کے جو انعام اس دنیا میں نازل ہوئے یا آئندہ اخروی زندگی میں نازل ہوں گے وہ ان انعامات کے مقابلہ میں نہیں رکھے جا سکتے جو ایک حقیقی مسلمان پر اس دنیا میں اور پھر اخروی زندگی میں نازل ہوتے ہیں بلکہ ان انعامات سے ان انعامات کو کوئی نسبت ہی نہیں۔
یہاں ہمیں یہ بتایا کہ چونکہ یہ اَلْکِتَابُ نازل کی جا چکی ہے۔ جس میں کوئی خامی اور نقص نہیں بلکہ اس میں ساری کی ساری خوبیاں جمع کر دی گئی ہیں۔ فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البّینۃ :۴)یہ سب کی سب قرآن کریم کا ہی حصہ تھیں جو اب پھر قرآن کریم میں اپنی اپنی جگہ پر رکھ دی گئی ہیں بلکہ بہت کچھ زائد بھی اس میں رکھا گیا ہے۔ اس لئے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اگر تم اس ہدایت کے مطابق عمل کرو گے تو تمہاری عبادت کامل اور مکمل ہو گی۔
دوسری بات اس آیت میں ہمیں یہ بتائی گئی ہے فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًالَّہُ الدِّیْنَ کہ عبادت کا مفہوم یہ نہ سمجھنا کہ اللہ اللہ کہہ دیا یا درود پڑھ لیا یا سبحان اللہ پڑھ لیا یا الحمدللہ کہہ لیا۔ قرآن کریم کے نزدیک صرف اتنا یا محض اتنا کوئی عبادت نہیں۔ اگر کوئی شخص مثلاً دس ہزار دفعہ درود پڑھتا ہے۔ لیکن اس نے نبی کریمﷺ کو اپنے لئے اُسوہ حسنہ نہیں بنایا۔ تو اس درود پڑھنے کا اسے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔ جب ہم درود پڑھیں تو ہمیں چاہئے کہ اس نیت سے پڑھیں کہ اے خدا! تو نے دنیا میں ہمارے لئے محمدﷺ کو ایک نہایت ہی اعلیٰ نمونہ بنایا ہے۔ اور تو نے اسے اس لئے نمونہ بنایا ہے تاکہ ہم اس کی پیروی کریں اس کے نمونہ پر چل کر اس کے اخلاق اپنے اندر پیدا کریں اور اس کے رنگ سے رنگین ہوں تو ایسا درود ہمیں فائدہ دے گا۔
لیکن اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں درود تو پڑھتا ہوں لیکن میں آپؐ کے نمونہ کی پیروی کرنا نہیں چاہتا۔ تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ عبادت نہیں۔ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًالَّہٗ الدِّیْنَ دین کے ایک معنی اطاعت بھی ہیں۔ فرمایا تمہاری عبادت تب میری حقیقی عبادت کہلائے گی جب تم اس کے ساتھ میرے تمام حکموں پر عمل بھی کرو گے۔ اور پھر عبادت خالص ہو یعنی بغیر کسی ریاء اور بغیر کسی کھوٹ کے ادا کی گئی ہو۔ اَخْلَصَ کے مفہوم میں عربی زبان کے مطابق دو باتیں پائی جاتی ہیں ایک ریاء کا نہ ہونا دوئم کھوٹ کا نہ ہونا۔
اَخْلَصَ الطَّاعَۃَ کے معنی ہیں اس نے اطاعت میں کوئی ریاء نہیں برتا۔ مثلاً ظاہر میں اللہ اللہ کہا یا ظاہر میں بہت عبادت کی لیکن اس کا باطن اطاعت سے انکار کرتا رہا تو یہ اخلاص کے خلاف ہے۔
تو فرمایا ہم تمہیں حکم دیتے ہیں۔
فَاعْبُدِاللّٰہَکہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس نیت سے عبادت کرو کہ جو حکم بھی نازل ہو گا۔ ہم اس کو بجالائیں گے اور ہر بات جس سے روکا جائے گا ہم اس سے باز رہیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ کی عبادت خالص اطاعت کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے۔ ورنہ اسلام اسے عبادت قرار ہی نہیں دیتا۔ اگرلمبی لمبی نمازیں پڑھنے والا فحشاء اور منکر سے باز نہیں آتا تو اس کی نمازیں سچی نمازیں نہ ہوں گی کیونکہ سچی نماز تو فحشاء اور منکر سے روکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک اور عجیب مضمون بھی بیان فرمایا ہے۔ اَلدِّیْنُ کے معنی تدبیر کے بھی ہیں۔ تو فرماتا ہے۔ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًالَّہُ الدِّیْنَ کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ تمہاری تمام تدابیر خالصتاً بغیر کسی ریاء اور کھوٹ کے اسی کے لئے ہوں۔
اس میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ خداتعالیٰ تدابیر سے منع نہیں کرتا۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ مال نہ کمائو وہ یہ نہیں کہتا کہ تجارتیں نہ کرو۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ زراعت نہ کرو۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ تم وکالت کا پیشہ اختیار نہ کرو اور فیس نہ لو۔ لیکن وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ دنیا کی جو تدبیر بھی تم کرو وہ خدا کے لئے کرو اور خداتعالیٰ کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں سے نہ اُتارو پھر جب وہ یہ کہتا ہے کہ مال کمائو تو ساتھ ہی یہ بھی حکم دیتا ہے کہ مال ان طریقوں سے کمائو جو جائز قرار دئے گئے ہیں۔ اور ان طریقوں سے مال نہ جمع کرو جو حرام قرار دئے گئے ہیں۔ پھر جب وہ کہتا ہے کہ تم مال خرچ کرو تو ساتھ ہی وہ یہ کہتا ہے کہ اپنا مال ان طریقوں سے خرچ کرو جو جائز قرار دئے گئے ہیں۔ اور جو طریق خدا کے نزدیک ناپسندیدہ یا مکروہ ہیں اور بُرے ہیں ان طریقوں سے خرچ نہ کرو۔
پس اس چھوٹی سی آیت میں اور چند الفاظ میں بڑے وسیع معانی اور مطالب بیان فرمائے گئے ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم عبادت کرو تو اس طرح کہ تمام دنیوی تدابیر کو بھی خالصتاً بغیر کسی ریاء، بغیر کسی کھوٹ کے میرے لئے کر رہے ہو۔ ایک شخص اگر رات کو تہجد کی نماز ادا کرتا ہے اور تہجد کی نماز کے بعد نماز فجر سے پہلے کہیں جا کر ڈاکہ ڈالتا ہے۔ تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کی نماز تہجد قبول ہو جائے گی!! اس کی دعائیں جو اس نے نماز تہجد میں کی تھیں وہ پوری کی جائیں گی؟؟
یہ مثال مجھے اس وجہ سے یاد آئی کہ قادیان کے قریب ایک گائوں تھا ننگل۔ وہاں ایک ڈاکو نمبر ۱۰ رہا کرتا تھا۔ رات کے ایک بجے پولیس اسے اس کے گھر جا کر دیکھا کرتی۔ ابھی وہ پولیس کا آدمی واپس قادیان نہ پہنچتا تھا کہ یہ چوری کے لئے نکل کھڑا ہوتا۔ ایک دن وہ ہماری کوٹھی میں جو حضرت اُمُّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ہمیں بنا کر دی تھی، عین سحری کے وقت پہنچا اور ایک چیز چرائی۔ ہمارا ایک نوکر تھا اسے جب معلوم ہوا تو یہ بھاگ گیا۔ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ یہ اس شخص کا کام ہے۔
تو جو شخص ایک یا دو بجے رات تک شریفانہ طور پر گھر میں وقت گزارتا رہا اور اس کے معاً بعد وہ چوری کے لئے نکل گیا تو قانون کی نگاہ میں وہ یقیناچور ہے۔ وہ شخص جو رات کو تین گھنٹے تک تہجد کی نماز ادا کرتا رہا پھر دن کو اس نے کسی کا مال غصب کر لیا تو خدا کی نگاہ میں وہ حرام خور ہے تہجد گزار نہیں۔ اسی واسطے ہمیں اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب تک ہماری ساری تدابیر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے نیچے نہیں آجاتیں۔ اس وقت تک ہماری عبادت خدا کی عبادت کہلانے کی مستحق نہیں ہو سکتی۔ حقیقی عبادت اسلام کے نزدیک جیسا کہ اس آیت سے پتہ چلتا ہے۔ یہ ہے کہ خالصتاً اس کی اطاعت ہو۔ اس کی اطاعت میں کوئی ریاء نہ ہو۔ تمام احکام الٰہی کی پیروی کی جائے۔ مثبت احکام کی مثبت طریق پر اور منفی احکام کی منفی طریق پر۔
فرمایا کہ کوئی زمیندار ہے، کوئی ڈاکٹر ہے، کوئی بار ایٹ لاء ہے وغیرہ۔ یہ تمہاری تدبیریں ہیں لیکن یاد رکھو کہ جب تک تم اپنی تدابیر کو مُخْلِصًالَّہُ الدِّیْنَ کے ماتحت رکھو گے تو تمہاری عبادتیں قبول ہوں گی اور جب ان میں اخلاص نہ ہو گا اور اطاعت نہ ہو گی تو یقیناوہ قبول نہ ہوں گی۔
اس لئے میں جماعت کے بھائیوں اور بہنوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ صرف احمدی کہلانا یا بیعت کر لینا کافی نہیں بلکہ آپ کا فرض ہے کہ قرآن کریم کی اور اسلام کی دنیا میں عزت قائم کریں اور آنحضرتﷺ کے نام کو بلند کرنے والے ہوں۔ لیکن یہ کام ہرگز نہیں ہو سکے گا جب تک کہ دل میں اس کی محبت نہ ہو۔ جب تک کہ قرآن پاک کا علم آپ کو حاصل نہ ہو۔ جب تک کہ آپ اس کو کما حقہ سمجھنے والے نہ ہوں اور جب تک کہ ہمیشہ اس کے متعلق غور و فکر کرنے والے نہ ہوں۔ پس جب تک آپ قرآن کریم کی عزت کو دنیا میں قائم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی اور دنیا کی نگاہ میں بھی کبھی عزت حاصل نہیں کر سکتے۔ اگر آپ نے اپنی زندگی کا مقصد حاصل کرنا ہے اور اگر آپ نے اس غرض کو جس کے لئے یہ جماعت قائم کی گئی ہے حاصل کرنا ہے تو ضروری ہے کہ آپ قرآن کریم سے پیار کرنے والے ہوں۔ اس طرح کہ اس کے تمام احکام پر عمل کرنے والے ہوں۔ قرآن کریم کی عزت کرنے والے ہوں۔ قرآن کریم کے نور سے خود بھی منور ہوں اور پھر اس نور کی دنیا میں اشاعت بھی کریں۔
خداتعالیٰ ہمیں صحیح معنی میں حقیقی احمدی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(الفضل ۱۷؍ اگست ۱۹۶۶ء صفحہ ۲ تا ۶)

قرآن کریم کی دس صفات حسنہ جن سے اس کی عظمت و شان اس کے فوائد اور اس کی روحانی تاثیروں کا اظہار ہوتا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲ ؍جولائی ۱۹۶۶ء بمقام گھوڑا گلی۔ مری )
ء ء ء
٭ قرآن کریم اور اس کی دس صفات۔
٭ قانونِ قدرت اور ’’سنت اللہ‘‘۔
٭ بنیادی اور حقیقی اور اصولی قوانین قرآن کریم میں بیان ہوگئے ہیں۔
٭ انسانی ایراد نے پُرانی شریعتوں کو خطرناک اور مہلک بنا دیا ہے۔
٭ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری کتب قرآن کریم کی تفسیر ہی ہیں۔
٭ ہم قرآنی احکام کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں۔




تشہد تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ حٰمٓ السَّجدہکی ان پہلی تین آیات کی تلاوت فرمائی۔
حٰمٓo تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo کِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰیٰـتُہٗ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَo لا بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا ج فَاَعْرَضَ اَکْثَرُھُمْ فَھُمْ لاَ یَسْمَعُوْنَo (حٰمٓ السَّجدہ:۲ تا ۵)
پھر فرمایا۔
اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم ہی میں اس کلام مجید کی عظمت اور اس کی شان اور اس کے فوائد اور اس کی روحانی تاثیروں کو مختلف پیرایوں میں بڑے زور کے ساتھ، بڑی وضاحت کے ساتھ، بڑی فصاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ ان مختصر سی تین آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی دس صفات حسنہ بیان کی ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(۱) تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔پہلی صفت اس کتاب، اس قرآن کی یہ ہے کہ یہ تَنْرِیْلٌ مِّنَ اَلرَّحْمٰنِ ہے۔ اَلرَّحْمٰنِ خدا کی طرف سے اسے نازل کیا گیا ہے اور رحمن خدا کی رضا جن راہوں سے ملتی ہے۔ ان کا اس میں ذکر ہے۔ رَحمن اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایک ایسی ہستی ہے کہ جو بغیر استحقاق کے بھی اپنے بندوں کو اپنی رحمتوں سے نوازتا رہتاہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک تو یہ ارشاد فرمایا کہ ابھی انسان دنیا میں پیدا بھی نہیں کیا گیا تھا۔ کوئی عمل بنی نوع انسان کی طرف سے ابھی شروع بھی نہ ہوا تھااس وقت اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں قرآن کریم جیسی کامل اور مکمل کتاب موجود تھی جس نے بنی نوع انسان کو روحانی رفعتوں تک پہنچانا تھا۔
دوسرے تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ کے یہ معنی ہیں کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں ایسی ہدایات، ایسے ذکر، خداتعالیٰ کی حمد کے ایسے طریق بتائے گئے ہیں کہ اگر انسان ان پر کار بند ہو تو وہ رحمن خدا کو خوش کرنے والا ہو گا اور عمل محدود ہونے کے باوجود غیر محدود جزا کا اور ثواب کا مستحق ٹھہرایا جائیگا۔
ہندو مذہب کی موجودہ بگڑی ہوئی شکل میں اللہ تعالیٰ کو نہ رحمن مانا جاتا ہے نہ رحمن سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے ان کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان اس مختصر زندگی میں جو اعمال بجا لاتاہے اس کا بدلہ بھی رحیم خدا ہی دیتا ہے۔ رحمن خدا کا ان کے مذہب میں تصور ہی نہیں چونکہ یہ اعمال محدود ہوتے ہیںان کا بدلہ اور ان کی جزاء بھی محدود ہوتی ہے اور جب محدود اعمال کا محدود بدلہ انسان کو مل جاتا ہے تو پھر وہ ایک نئی ’’جون‘‘ میں اس دنیا میں واپس بھیج دیا جاتا ہے کہ اگر اور انعام حاصل کرنے ہیں تو پھر دنیا میں جا کر اور عمل کرو پھر تمہیں اور انعام ملے گا۔
لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ قرآن کریم کو نازل کرنے والی پاک اور قادر و توانا ہستی وہ ہے جو رحمانیت کی صفت سے متصف ہے اور قرآن کریم میں وہ ہدایتیں، وہ احکام، وہ فرائض، وہ دعائیں، اللہ تعالیٰ کی حمد کے وہ طریقے بتائے گئے ہیں کہ اگر تم ان پر عمل کرو گے تو رحمن خدا خوش ہو گا اور تمہارے محدود اعمال کا غیر محدود بدلا تمہیں دے گا۔
(۲) دوسری صفت قرآن کریم کی ان آیات میں یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحِیْمِہے اس قادر و توانا ہستی کی طرف سے نازل کی گئی ہے جس کی صفات حسنہ میں سے ایک صفت رحیمیت کی ہے۔ یہ بتا کر ہمیں اس طرف متوجہ کیا گیا اور ہمیں امید دلائی گئی کہ ہم جو اعمال بھی اس کی خوشنودی کے لئے بجا لائیں گے۔ ہم جو قربانیاں اس کی رضا کی خاطر کریں گے۔ ہم جو ایثار کے نمونے محض اور محض اس کے لئے دنیا کے سامنے پیش کریں گے وہ قادر ہستی اس بات پر قادر ہے کہ ہمارے ان اعمال کا بدلہ دے اور جزاء دے۔
بہت دفعہ اس دنیا میں انسان انسانوں کی اس رنگ میں خدمت کرتا یا خوشامد کرتا ہے کہ جتنا بدلہ اس خوشامد اور اس خدمت کا خوشامد کرنے والے اور خدمت کرنے والے کو ملنا چاہئے۔ وہ بدلہ وہ شخص دے ہی نہیں سکتا اور نہ اس کی طاقت میں یہ ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کا بدلہ دے اور جو مشرک لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں اور پوجا کرتے ہیں ان کے لئے قربانیاں دیتے ہیں۔ مثلاً ہم سے بھی بہت زیادہ قربانیاں دینے والی اس وقت دنیا میں عیسائی قوم ہے۔ وہ عیسیٰ یسوع مسیح جن کو انہوں نے خدا بنا دیا ہے۔ ان کی خاطر عیسائی جانی قربانی بھی دے رہے ہیں اور مالی قربانی بھی دے رہے ہیں۔ ان کی عورتیں بھی ، ان کے مرد بھی انتہائی قسم کی قربانیاں اپنے باطل مذہب اور شرک کی خاطر وہ اس وقت دے رہے ہیں اور اپنے اس معبود کی خدمت میں جو دراصل مردہ ہے زندہ نہیں ، ایثار کے ایسے نمونے پیش کر رہے ہیں کہ آدمی کو بعض دفعہ ان پر رشک آتا ہے۔ افریقہ کے جنگلوں میں جا کر، اربوں ڈالر خرچ کرکے، اتنے پیسے ہونے کے باوجود بھی ہر قسم کی جذباتی اور جسمانی تکلیف گوارا کرکے وہ لوگوں میں عیسائیت پھیلانے میں کوشاں ہیں لیکن جس کے لئے وہ یہ کوششیں کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں اور اموال خرچ کر رہے ہیں اس میں یہ طاقت نہیں کہ ان لوگوں کو ان قربانیوں کا بدلہ دے۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ ہم کسی ایسی ہستی کے لئے ایثار اور قربانی نہیں مانگ رہے جس میں بدلہ دینے کی طاقت ہی نہ ہو بلکہ قرآن کریم کی ہدایات کے مطابق تم جو تکالیف بھی برداشت کرو۔ جو مجاہدات بھی بجا لائو۔ جو قربانیاں بھی دو وہ اس خدائے رحیم کے لئے ہوں گی کہ جس کی طاقت میں ہے کہ جتنا تم کرو اس سے زیادہ تمہیں بدلہ میں دے کیونکہ رحیمیت کے ساتھ اس بات کا بھی تعلق ہے کہ وہ نیک اعمال کو بڑھاتا ہے۔ اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً (اٰل عمران: ۱۳۱)کر دیتا ہے۔ ایک بیج کی طرح جس طرح بیج مٹی میں ڈالا جاتاہے اور وہ بڑھتا ہے۔ پھولتا ہے۔ اور پھلتا ہے اور ایک دانہ سے سَو، پانچ سَو، سات سَو تک ہو جاتاہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحیمیت کے ماتحت ایسا انتظام کیا ہے کہ وہ انسان کے اعمال کو بطور بیج کے ایک ایسی جگہ میں رکھتا ہے جہاں وہ اعمال بھی بڑھتے، پھولتے اور پھلتے ہیں اور اُخروی زندگی میں کئی گنا زیادہ ہمیں اپنے اعمال کا بدلہ مل جاتاہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہے کہ چونکہ یہ خدائے رحیم کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ تم جو بھی اعمال قرآن کریم کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق بجالائو گے وہ ضائع نہیں جائیں گے۔ تمہیں ان کا اجر ملے گا اور بڑا ہی اچھا اجر ملے گا۔
(۳) تیسری صفت اس کی یہ بیان فرمائی ہے کِتَابٌ فُصِّلَتْ اٰیٰـتُہٗ کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کے احکام اور جس کی ہدایتیں مختصر اور مجمل طور پر بیان نہیں کی گئیں۔ جتنا کسی چیز میں اجمال کو مدنظر رکھا جائے اتنا ہی اس کے سمجھنے کے لئے زیادہ فراست، زیادہ بیدار مغزی اور زیادہ ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی الہامی کتاب بہت ہی مختصر ہو تو بہت سے لوگ اپنے ربّ کے حضور یہ عذر پیش کر سکتے تھے کہ اے خدا! تیرا ہدایت نامہ تو آیا مگر وہ اس قدر اجمال کے ساتھ بیان کیا گیا تھا کہ ہم اپنی ناقص سمجھ کے مطابق اس کی حقیقت کو پہنچ نہیں سکتے تھے اس لئے ہم اس کے فیض سے محروم رہے۔
اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرماتا ہے کہ اس کتاب میں جو احکام بھی بیان کئے گئے ہیں ان کو اچھی طرح کھول کر اور تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ تفصیل سے اور کھول کر بیان کرنے کے اللہ تعالیٰ نے دو طریق اُمت محمدیہ میں جاری کئے ہیں ۔
ایک تو یہ کہ خود قرآن کریم کے الفاظ بڑے تفصیلی مضامین کے حامل ہیں۔
دوسرے یہ کہ پھر بھی کوئی شخص کہہ سکتا تھا کہ ہم میں اتنی سمجھ نہ تھی کہ قرآن کریم کے عربی الفاظ کی تحقیق کرتے اور ہمیں ان کے مطالب کی تفاصیل پر اطلاع ہوتی تو اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی یہ سلسلہ جاری کیا کہ نبی اکرمﷺ اور آپؐ کے بعد آپؐ کے ظل اس اُمت میں پیدا کئے جو اپنے اپنے وقت میں وقت کی ضرورت کے مطابق قرآن کریم کے مطالب اپنے رب سے حاصل کرتے رہے اور خوب کھول کر قرآن کریم کو بیان کرتے رہے۔ خود نبی کریمﷺ کے وہ لاکھوں اقوال جو کتب احادیث میں جمع کئے گئے ہیں وہ حقیقتاً قرآن کریم کی تفسیر ہیں۔ عام طور پر وہ لوگ جو علم کے لحاظ سے اور تقویٰ اور طہارت کے لحاظ سے ایک بلند مقام پر نہیں ان کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آنحضرتﷺ کا کونسا قول قرآن کریم کی کس آیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ کون سی حدیث کس آیت یا آیت کے کس ٹکڑے کی تفسیر ہے۔ اس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے اشارہ فرمایا ہے کہ نبی کریمﷺ کے منہ سے جو باتیں بھی نکلی ہیں وہ حقیقتاً قرآن کریم کی ہی تفسیر ہیں۔
قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت سے ان باتوں کا تعلق ہے۔ آپؐ کے بعد آپؐ کے ماننے والوں میں، آپؐ سے پیار کرنے والوں میں، آپؐ سے محبت کرنے والوں میں، آپؐ کی اتباع کرنے والوں میں، آپؐ پر جانیں قربان کرنے والوں میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو آپؐ کی محبت میں اور آپؐ کے وجود میں ایک حد تک یا بہت حد تک فنا ہوئے۔ اور اپنی اپنی استطاعت کے مطابق انہوں نے قرآنی علوم کو حاصل کیا اور دنیا میں پھیلایا۔
تو کِتَابٌ فُصِّلَتْ اٰیٰـتُہٗکے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے گا جن کو وہ خود قرآنی علوم سکھائے گا اور وہ لوگ قرآنی آیات کی تفاصیل بنی نوع انسان میں پھیلائیں گے اور ان تک پہنچائیں گے۔
ہر دو لحاظ سے قرآن کریم کی بڑی عظمت اور بڑی شان ہے۔ یعنی اس معنی کے لحاظ سے بھی کہ اختصارِ الفاظ کے باوجود تفصیل کافی حد تک، تسلی بخش حد تک قرآن کریم میں پائی جاتی ہے۔ اس قسم کا اجمال نہیں کہ انسان اپنے علم اور اپنی ضرورت کے مطابق جو اس سے حاصل کرنا چاہئے، حاصل نہ کر سکے۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے بھی کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات کو کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے یعنی اس اُمت میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو قرآن کریم کی آیات کے معانی کھول کھول کر دنیا کو سنانے والے ہوں گے اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ قرآن کریم کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے ویسا ہی عملاً وقوع میں آیا ہے۔
(۴) چوتھی صفت قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ قُراٰناً ہے۔ ’’قرآن‘‘ کے معنی ہیں ایسی آسمانی کتاب جس میں پہلی کتب سماویہ کے بنیادی اصول اور ہدایتیں جمع ہوں۔ یہی نہیں بلکہ قرآن کے معنی میں یہ بھی شامل ہے کہ جس میں تمام علوم کے اصول بیان ہو گئے ہوں۔ میں اس وقت تفصیل میں نہیں جا سکتا صرف ایک دنیوی اصول جو دنیا کے علوم کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ بتا دیتا ہوں۔ قرآن کریم نے بڑے دھڑلے اور بڑے زور کے ساتھ اسے بیان کیا ہے وہ یہ کہ دنیا کا یہ مادی کارخانہ اللہ تعالیٰ نے ایک قانون کے ساتھ باندھا ہوا ہے۔
یہ ایک بنیادی اصل ہے جس کا ہر دنیوی علم کے ساتھ تعلق ہے چنانچہ ہمارے علوم نے جتنی بھی ترقی کی ہے خصوصاً اب غیر مسلم مغربی اقوام نے اور بعد میں کچھ مشرقی اقوام نے دنیوی اور مادی علوم میں جو ترقی کی ہے ان کے ہر علم کی بنیاد اسی اصل کے اوپر ہے۔ اور یہ اصل انہوں نے دراصل مسلمان سائنٹسٹس (SCIENTISTS) اور مسلمان علماء سے لیا ہے۔ ’’ڈارک ایجز‘‘ (DARKAGES) جو کہلاتی ہیں یعنی وہ زمانہ جس میں عیسائی ملک اور غیر مسلم اقوام نہایت پستی کی حالت میں زندگی گزار رہی تھیں۔ مسلمان علماء اور سائنٹسٹ (SCIENTIST) ان ملکوں میں پہنچے اور ان لوگوں کو انہوں نے علم بھی سکھایا اور ساتھ ہی یہ بنیادی اصل بھی سکھایا کہ دنیا کا ہر علم تبھی علم کہلا سکتا ہے یعنی اسے نظام میں باندھا جا سکتا ہے جب اس اصل کو تسلیم کیا جائے جو قرآن کریم نے بتایا ہے کہ کوئی چیز بھی قانون سے باہر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے جسے قانون قدرت کہتے ہیں (جب ہم اسے قانون قدرت کہتے ہیں تو یہ ایک ناقص اصطلاح ہے۔ جب ہم اسے سُنَّۃُ اللّٰہِ کہتے ہیں تو یہ ایک کامل اصطلاح ہے) قرآن کریم نے اس کو ’’اللہ کی سنت‘‘ یا ’’سنت اللہ‘‘ کی کامل اصطلاح سے بیان کیا ہے کہ تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پاتے۔ جب میں نے یہ کہا کہ ’’قانون قدرت‘‘ ناقص اصطلاح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جس بات کو ایک سائنسدان نے قانون قدرت سمجھا اور کہا ،کچھ عرصہ کے بعد مزید تحقیق اور تجسس کے نتیجہ میں معلوم ہوا کہ دراصل وہ قانون قدرت نہیں تھا بلکہ قانون قدرت اور ہی تھا جس کو وہ غلط سمجھ رہے تھے اور اس دوسرے قانونِ قدرت کے ماتحت یہ واقعات رونما ہوئے تھے۔
کہنے کو تو یہ ایک معمولی سی مثال ہے مگر ہے بڑی واضح اور وہ یہ کہ آگ جلاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا ہے کہ تو جلا۔ یہ سنت اللہ ہے اور چونکہ وہ (آگ) الٰہی سنت کے ماتحت ہے۔ اللہ تعالیٰ کبھی اپنی اس قوت اور طاقت کو ثابت کرنے کے لئے کہ آگ میرے حکم سے ہی جلاتی ہے اس کو جلانے سے روک بھی دیتا ہے جیسے کہ ابراہیم ؑکے واقعہ میں خداتعالیٰ نے فرمایا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلاَماً (الانبیاء:۷۰) تیرا نار رہنا میرے حکم سے تھا۔ اب میرا حکم ہے کہ بَرْدًا وَّسَلاَماً بن جائو۔ تو ایسے واقعات یہی ثابت کرنے کے لئے ظاہر کئے جاتے ہیں تا ہمیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے کہ جس کے حکم سے کارخانہئِ عالم چل رہا ہے۔
حکم اور سنت اس کی یہی ہے کہ آگ جلاتی ہے۔ انسان نے اس اصل اور اس حکم کے نتیجہ میں سینکڑوں ہزاروں فائدے حاصل کئے ہیں۔ اگریہ ہوتا کہ کبھی آگ جلاتی اور کبھی ٹھنڈا کرتی تو یہ بھی ہوتا کہ جس گاڑی پر بھاپ سے چلنے والا انجن لگا ہوتا کبھی تو وہ گاڑی لاہور سے کراچی پہنچ جاتی اور کبھی ملتان سے لاہور یہ اطلاع آتی کہ ہمیں بڑا افسوس ہے کہ وہ آگ جو جلاتی اور گرم کرتی تھی اب اس نے ٹھنڈا کرنا شروع کر دیا ہے۔ اور جو پانی بوائلر میں ڈالا گیا تھا وہ برف بن گیا ہے۔ گرمی کے دن تھے اس لئے برف کو ہم نے غریبوں میں تقسیم تو کر دیا ہے لیکن گاڑی آگے نہیں چل سکتی۔ کیونکہ آگ نے اپنا عمل چھوڑ دیا ہے۔
لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو انسان کے لئے ایک مصیبت پیدا ہو جاتی۔ کوئی چیز بھی ہم بنا نہ سکتے۔ کبھی بجلی روشنی کرتی اور کبھی بجائے روشنی کے اندھیرا کر دیتی پس اگر یہ ہوتا تو انسان کے لئے زندگی گزارنا مصیبت بن جاتا۔
تو قانونِ قدرت کے مطابق یہ سارا کارخانہ چل رہا ہے۔ اور یہ ایسے بنیادی اور حقیقی اور اصولی قوانین ہیں جو کسی نہ کسی پیرائے میں قرآن کریم میں بیان ہو گئے ہیں۔ کوئی مثال دیتے ہوئے، کسی چیز کی وضاحت کرتے ہوئے کبھی اپنی طاقتوں کے اظہار کے لئے، کبھی اپنی صفات کے بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ یہ اصول بھی بیان کر جاتاہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کے اندر چوتھی صفت یہ پائی جاتی ہے کہ یہ قرآن ہے کہ اس میں تمام پہلی کتب سماویہ کے بنیادی اصول بھی ہیں اور تمام علومِ مادی کے بنیادی اصول بھی اس میں بیان کر دئیے گئے ہیں اس لئے دین اور دنیا کی اگر تم ترقی چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم اس قرآن کی جو قرآن ہے ہر لحاظ سے پیروی کرنے والے اور اس سے فائدہ اُٹھانے والے بنو۔
(۵) پھر اللہ تعالیٰ نے پانچویں صفت اس کتاب مجید کی یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ قرآن ہی نہیں عربی ہے۔ عَرَبِّی کے معنی ایک ایسی کتاب کے ہیں جو حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کرنے والی ہو۔
اس کے ایک دوسرے معنی یہ ہیں کہ وہ کتاب جو منسوخ کرنے والی ہے۔
تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو قرآن ہے۔ یعنی پہلی تمام کتب سماویہ کی بنیادی حقیقتیں اس کے اندر جمع ہیں۔ دراصل پہلی کتب سماویہ کی تمام بنیادی حقیقتیں قرآن کریم کا ہی حصہ ہیں۔ اور پہلے لوگوں کو وقتی ضرورت کے مطابق قرآن کریم کا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ بعض صداقتیں پہلی کتب میں ایسی تھیں جو پورے طور پر اس قرآن میں بیان کی جا سکتی تھیں یعنی قرآن کریم کا ہی ایک حصہ پہلی اُمتوں کو دیا گیا تھا مگر کچھ زائد صداقتیں تھیں جو اس قرآن کا حصہ تھیں مگر پہلے لوگ اس کو سمجھ نہیں سکتے تھے اس لئے وہ ان کو نہیں ملیں۔ پس قرآن کامل اور مکمل شکل میں اُمت مسلمہ کو عطا ہوا۔ لیکن اس جزوی شکل میں اس کو منسوخ کر دیا گیا۔ پس یہ قرآن ہر پہلی کتاب کو منسوخ کرنے والا ہے۔
اب اگر کوئی شخص یہ کہے جیسا کہ بعض دفعہ بعض عیسائی یا بعض ہندو کہا کرتے ہیں کہ ہم بھی خدا کی عبادت کرتے ہیں تم بھی خدا کی عبادت کرتے ہو، تم اپنی عبادات کرتے جائو ہم اپنی عبادت کرتے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب سے راضی ہو جائے گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلے جو راہیں مجھ تک پہنچنے کے لئے بنی نوع انسان کے سامنے رکھی گئی تھیں وہ اب سب منسوخ ہو گئیں۔ اب مجھ تک پہنچنے کا راستہ قرآن کریم کا راستہ ہی ہے۔ اس کی ایک موٹی مثال یہ ہے۔ پہاڑ پر سفر کرتے ہوئے کئی جگہ آپ کو نظر آئے گا کہ بعض جگہ پہلے سڑک ہوتی تھی۔ بارشیں ہوئیں یا پہاڑ گرے یا مرورِ زمانہ کے نتیجہ میں، وہ میٹلڈروڈ (Metalled Road) جو تھی وہ بالکل اُکھڑ پکھڑ گئی اور ناقابل استعمال ہو گئی یا پل گر گیا اور وہ پل دوبارہ بنایا نہیں گیا۔ لیکن اس کی بجائے ایک نئی فراخ سڑک بنا دی گئی۔ اب کوئی اگر یہ کہے ’’ٹھیک ہے یہ بھی ایک راستہ ہوا کرتا تھا تم اس نئے راستہ پر موٹر لے جائو میں اس پرانے راستہ پر لے جاتا ہوں‘‘۔ تو اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ کھڈ میں گر پڑے گا اور مارا جائے گا۔ آخری راستہ زیادہ وسیع، زیادہ اچھا حکومت وقت نے عوام کے استعمال کے لئے بنایا ہے۔ جو اس پر چلے گا وہی اس جگہ تک پہنچے گا۔ جہاں تک یہ راستہ پہنچاتا ہے۔ یہ ایک موٹی مثال ہے مادی دنیا کی۔
قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے سب دنیا کی پہلی کتب کو منسوخ کر دیا۔ اب اُن کی پیروی کے نتیجہ میں تم لوگ مجھ تک نہیں پہنچ سکتے۔ اگر میری رضاء کی راہوں کی تلاش ہو۔ اگر تم میرے قرب کو ڈھونڈنے والے ہو تو صرف قرآن کریم کا ہی بتایا ہوا وہ صراط مستقیم ہے جو میرے تک تمہیں پہنچا سکتا ہے۔ پہلی کتب میں اب یہ طاقت نہیں رہی ہے۔ کیونکہ انسانی ایراد (اعتراض۔ عیب جوئی) نے پرانی شریعتوں کو خطرناک اور مہلک بنا دیا ہے۔
چھٹی صفت قرآن کریم کی ان آیات میں یہ بیان فرمائی لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ کہ یہ قرآن کِتَابٌ فُصِّلَتْ اٰیٰـتُہٗ بھی ہے۔ یہ رحمن اور رحیم خدا کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ قرآن بھی ہے۔ عربی بھی ہے اس کے باوجود ہر آدمی کی سمجھ سے بالا بھی ہے۔ یعنی اس کا یہ نتیجہ نہیں کہ ہر کس و ناکس اس تک پہنچ جائے۔ کیونکہ یہ کتاب صرف ان لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی ہے جو روحانی علوم رکھتے ہوں۔ اس میں ایک مختلف پیرایہ میں لَا یَمَسُّہٗ اِلاَّالْمُطَھَّرُوْنَ (الواقعہ :۸۰)کا مضمون بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جو لوگ روحانی علوم سے مس رکھنے والے ہیں اور روحانیت کی تڑپ رکھنے والے ہیں اور ان کا میلان طبع ایسا ہے کہ وہ روحانی علوم کے حصول کی خواہش اپنے اندر رکھتے ہیں اور اس نیت سے رکھتے ہیں کہ وہ یہ علوم حاصل کرکے ان سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ان کے لئے ہی یہ کتاب مفید ہو سکتی ہے۔
اگر کوئی عیسائی مثلاً سارا قرآن کریم پڑھ جائے۔ یہی نہیں بلکہ عربی میں اس وقت تک جتنی تفاسیر قرآن لکھی گئی ہیں وہ بھی پڑھ جائے۔ یہی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری کتب جو حقیقتاً قرآن کریم کی تفسیر ہی ہیں وہ بھی پڑھ جائے یہی نہیں بلکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ’’تفسیر کبیر‘‘ کے نام سے بڑی ضخیم تفسیر (قرآن کریم کے بعض پاروں کی جو مکمل ہو چکی ہے) شائع کی ہے وہ بھی سب پڑھ جائے تب بھی وہ قرآن کریم کو نہیں سمجھ سکتا۔
ایک ایسا عجیب نظام اللہ تعالیٰ نے جاری کیا ہے کہ وہ قرآن کریم تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ اور نہ ہی قرآن کریم کے علوم حاصل کر سکتا ہے نہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
بظاہر یہ ایک فلسفیانہ خیال ہے لیکن یہ بات سمجھانے کے لئے مجھے ابھی ایک بڑی اچھی مثال یاد آگئی ہے۔ اور وہ یہ کہ پہلے زمانہ میں سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کے لئے بڑے یا چھوٹے جہاز بیسیوں یا سینکڑوں کی تعداد میں جاتے تھے۔ ان کا طریق یہ تھا کہ مچھلیوں کے غول کا جو لاکھوں کی تعداد پر مشتمل ہوتا جہاں ان کو پتہ چلتا تھا تو وہ وہاں میل ہا میل کے چکر میں جال پھینک دیتے تھے۔ اور پھر اس جال کی ،پانی کی تہ میں، ایک دیوار بن جاتی تھی اور مچھلی اس سے باہر نہیں جا سکتی تھی۔ پھر وہ دوسرے جال کھینچ کھینچ کے مچھلیاں اُٹھاتے تھے۔
ابھی کچھ عرصہ ہوا سائنس دانوں نے ایک شعاع ایجاد کی ہے۔ اگر وہ شعاع پانی میں پھینک دی جائے تو مچھلیاں اس شعاع کو عبور نہیں کرتیں حالانکہ وہ کوئی مادی چیز نہیں لیکن ایک دیوار ہے اور دیوار بھی روشنی کی۔ وہ اس روشنی کی دیوار سے پرے نہیں جا سکتیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارا قرآن ہے تو نور مجسم! لیکن اس میں بعض ایسی شعاعیں بھی ہیں کہ جو پاک نہ ہو، جس میں روحانیت نہ ہو۔ وہ اس تک پہنچ نہیں سکتا۔ خود روشنی کی بعض شعاعیں اس کو محروم کر دیتی ہیں حقیقی و روحانی علم حاصل کرنے سے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق فرمایا لَا یَمَسُّہٗ اِلاَّالْمُطَھَّرُوْنَ(الواقعہ :۸۰)غیر مسلم تو اس تخیل کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ لیکن خود ان کے سائنسدانوں نے ایک مثال ایسی دے دی ہے کہ جس طرح مچھلی اس روشنی کے بیم کو عبور نہیں کر سکتی۔ قرآن کریم نے بھی اپنے گرد شعاعوں کا ایک ہالہ بنا دیا ہے کہ جب تک تم مطہر نہیں ہو گے تم اس ہالہ کے اندر داخل نہیں ہو سکوگے۔
تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی چھٹی صفت ان مختصر سی آیات میں یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَان لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے جو روحانی علوم رکھتے ہوں۔ جن کی طبیعت کا میلان روحانیت کی طرف نہ ہو اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
(۷) ساتویں صفت اس کتاب کی یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ بشیر ہے۔ قرآن کریم ایسی آیات سے بھرا پڑا ہے کہ اگر تم یہ کرو گے تو تمہیں یہ انعام ملے گا۔ مثلاً فرمایا۔ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَرَبِّھِمْ (یونس :۳)یہ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَرَبِّھِمْ بہت بڑی بشارت ہے جو قرآن کریم کے ماننے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کو دی گئی ہے۔ لیکن یہ ایک مثال ہے۔ حقیقتاً سینکڑوں ہزاروں بشارتیں قرآن کریم کے متبعین کو اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس معنی میں یہ کتاب بشیر ہے۔ کیونکہ یہ کہتی ہے کہ تم میری پیروی کرو تمہیں نعمتوں پر نعمتیں ملتی جائیں گی۔
(۸) آٹھویں صفت اس کتاب مجید کی نذیر ہے۔ یہ کہتی ہے کہ اگر تم پیروی نہ کرو گے۔ میرے بتائے ہوئے طریق پر نہ چلو گے۔ جس طرف میں لے جانا چاہتی ہوں۔ اس طرف منہ نہ کرو گے بلکہ اس طرف پیٹھ کرو گے اور مجھ سے پرے ہو جائو گے۔ تو تمہارے لئے بہت سی مصیبتیں، ابتلاء، دکھ، درد اور خدا کا غضب اور *** مقدر ہے۔ تو یہاں اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی ایک صفت نذیر بیان کی ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
وَاَنْذِرْھُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْقُضِیَ الْاَمْرُ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ وَّھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ (مریم:۴۰)ان کو اچھی طرح متنبہ کر دو کہ اگر تم میری بتائی ہوئی تعلیم اور ہدایت پر عمل نہیں کرو گے تو تمہیں حسرت کا دن دیکھنا نصیب ہو گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو ان کو اس دن سے ڈرا جس دن افسوس اور مایوسی چھائی ہوئی ہو گی اور سب معاملات کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اب تو یہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔
اسی طرح اس دنیا کے عذابوں کے متعلق، اللہ تعالیٰ کے قہری نشانوں کے متعلق یہ کتاب انذار سے بھری پڑی ہے اس لئے ان آیات میں قرآن کریم کا نام بطور صفت نذیر رکھا گیا ہے۔
(۹) نویں صفت جو ان آیات میں بیان فرمائی گئی ہے۔ وہ ہے۔ فَاَعْرَضَ اَکْثَرُھُمْ ان میں سے اکثر اس طرف متوجہ نہیں ہوتے اور اس حسین تعلیم سے اعراض کرتے ہیں بظاہر ان الفاظ میں ہمیں کسی صفت کا اظہار معلوم نہیں ہوتا لیکن درحقیقت ان الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ یہ انتہائی حسین تعلیم ہے، جو اسے دیکھتا ہے مسحور ہو جاتا ہے۔ یہ تعلیم دل کو موہ لیتی ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کی طرف کوئی حقیقتاً منہ کرے، متوجہ ہو، اپنی بصارت اور بصیرت کو استعمال کرے اور پھر اس کے دل پر قرآن کے حسن کا اثر نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا جیسا کہ دوسری جگہ بھی بیان فرمایا ہے کہ ان کے پاس آنکھیں تو ہیں لیکن وہ ان کو استعمال نہیں کرتے۔ اگر وہ آنکھوں کا صحیح استعمال کرتے تو اس کتاب کی خوبصورتی سے ضرور مسحور ہوتے۔ یہ کتاب ان کے دلوں کو موہ لیتی اور یہ اس کے عاشق بن جاتے۔ لیکن اَعْرَضَ اَکْثَرُھُمْ عجیب بدقسمت ہیں اکثر انسان کہ جب ایسی حسین تعلیم ان کے سامنے پیش کی جاتی ہے تو اپنی آنکھوں کو دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔ پہلو تہی کرتے ہوئے دوسری طرف مائل ہو جاتے ہیں، ان چیزوں کی طرف جو اتنی حسین نہیں بلکہ نہایت ہی بدصورت ہیں۔ تو فَاَعْرَضَ اَکْثَرُھُمْ میں جہاں اعراض کرنے والوں کی کیفیت بیان کی گئی ہے وہاں قرآن کریم کے حسن کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ اتنی حسین تعلیم ہے کہ اگر آنکھیں رکھنے والے اپنی آنکھوں اور بصیرت سے کام لیں تو کبھی بھی وہ اس کے عاشق ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔
(۱۰) دسویں صفت قرآن کریم کی یہ بیان کی گئی ہے۔ فَھُمْ لَایَسْمَعُوْنَ۔ کہ وہ اسے سنتے نہیں اس میں قرآن کریم کے متعلق دراصل اس حقیقت اور اس صداقت کا اظہار کیا گیا ہے کہ جو بھی اسے سنتا ہے وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
تو اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرما رہا ہے کہ اگر وہ ان کانوں سے صحیح کام لیتے جو ہم نے انکو عطا کئے تھے اور قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم جن خوبصورت الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ اس کی طرف یہ متوجہ ہوتے تو یقیناً یہ تعلیم ان پر اثر کئے بغیر نہ رہتی۔ اس کی واضح مثال ہماری تاریخ کے ابتداء میں حضرت عمرؓ کی پہلے اسلام کی مخالفت اور بعد میں ایمان لانے کا واقعہ ہے۔ وہ پہلے قرآن کریم سننے کے لئے تو تیار نہ تھے لیکن نبی کریمﷺ کو قتل کرنے کے لئے تیار تھے (تفصیل میں جائے بغیر) وہ ایک دن قرآن کریم سننے پر مجبور ہو گئے اور جب ان کے کان میں قرآن کریم کی شیریں اور میٹھی آواز پہنچی تو بے ساختہ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کہنے پر مجبور ہو گئے۔
تو اللہ تعالیٰ یہاں یہی فرماتا ہے کہ جو سن لے وہ عاشق ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ لوگ سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
پس یہاں دسویں صفت کے طور پر اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کریم نہایت حسین الفاظ میں نہایت خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اگر دنیا اس تعلیم کو سننے کے لئے تیار ہو جائے تو وہ اس کو ماننے پر بھی مجبور ہو جائے۔ یہی حال اس وقت ان لوگوں کا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز پر کان نہیں دھرتے جو لوگ بھی جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیر قرآن سنتے ہیں یا پڑھتے ہیں یا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اثر لئے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔
لیکن اکثر وہی ہیں جو سننے کو تیار نہیں ہیں جب ان کو سنایا جائے تو وہ گالیاں دیتے ہیں یا بے توجہی، بے اعتنائی سے کام لیتے ہیں۔ یا وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم دنیوی دھندوں میں اس قدر پھنسے ہوئے ہیں کہ ہمارے پاس یہ خیالات سننے کے لئے وقت ہی نہیں ہے لیکن خداتعالیٰ کی ایک ایسی آواز بھی آتی ہے کہ جو صاعقہ کے رنگ میں آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ اور انسان سننا چاہے یا نہ سننا چاہئے اس کے کان اس آواز سے پھاڑ دئیے جاتے ہیں اور ان کے جسموں کو مردہ کر دیا جاتا ہے اور ایسی قوموں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ قبل اس کے کہ وہ دن آئے، خدا کرے کہ ساری دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز کو سننے لگے اور قرآن کریم کے معارف اور حقائق کا عرفان حاصل کرے۔
اور خدا کرے کہ ہم جو اس کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اور احمدی کہلاتے ہیں۔ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے قرآن کریم کے علوم زیادہ سے زیادہ عطا کرتا چلا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی توفیق دیتا چلا جائے کہ ہم قرآنی احکام کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہوں۔آمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۳۱؍ اگست ۱۹۶۶ء)
٭…٭…٭














قرآن کریم ایک عظیم الشان کتاب ہے اس سے
جتنی بھی محبت کی جائے کم ہے اس کی جتنی بھی تعریف
کی جائے وہ ناکافی ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹ ؍جولائی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ سورۂ مومن کی دو آیات میں قرآن کریم کی آٹھ اندرونی خوبیوں کا بیان۔
٭ قرآن کریم سے روشنی اور ہدائت حاصل کرو۔
٭ اگر تم توبہ کرنا چاہو تو صرف قرآن تمہیں ہدایت دے سکتا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفاتِ حسنہ کا کامل علم قرآن سے ملتا ہے۔
٭ قرآن خالص توحید پر کھڑا کرتا اور معاد کا علم عطا کرتا ہے۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
قرآن کریم ایک عظیم اور بڑی شان والی کتاب ہے اس سے جتنی بھی محبت کی جائے کم ہے۔ اور اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے ناکافی ہے۔ مگر یہ کتاب ہماری تعریفوں کی محتاج نہیں کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی اس کی عظمت اور اس کی شان کو بیان کیا ہے۔ جیسا کہ میں اپنے متعدد خطبات میں ان خوبیوں کا اشارۃً اور مجملاً ذکر کر چکا ہوں جو مختلف مقامات پر قرآن کریم کی تعریف کرتے ہوئے بیان کی گئی ہیں۔ آج میں سورئہ مومن کی دو آیتیں اس سلسلہ میں احباب جماعت کے سامنے رکھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
تَنْزِیْلُ الْکِتَابِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِo لا غَافِرِ الذَّنْبِ م وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ العِقَابِلا ذِی الطَّوْلِط لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَط اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ (المومن :۳،۴) مطلب یہ ہے ان آیات کا کہ اس کتاب کا نزول اس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو غالب ہے، کامل غلبہ اور کامل عزت اسی کو حاصل ہے۔ وہ کامل علم والا ہے۔ تمام علوم کا سرچشمہ اسی کی ذات ہے۔ وہ گناہوں کا بخشنے والا ہے۔ خطا کار انسان کی خطائوں پر وہی مغفرت کی چادر ڈالتا ہے اور کمزور اور مائل بہ گناہ انسان اُسی سے طاقت حاصل کرکے میلان گناہ کو دبانے اور نفس امارہ کو پوری طرح کچل دینے کی قوت پاتا ہے۔ وہی رحیم و مہربان ہے۔ جو محض اپنے فضل و احسان سے توبہ کو قبول کرتا ہے اور بھٹکے ہوئے راہی کو جب وہ رجوع بَمَوْلٰی ہو معصومیت کی چادر میں لپیٹ لیتا ہے اور اس سے راضی ہو جاتا ہے۔ وہی ہے جو ابآء اور استکبار کرنے والوں کو اور انہیں جو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور شیطان کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں سخت سزا دیتا ہے اور اپنی قہری تجلی کے ساتھ ان کی اصلاح کے سامان پیدا کرتا ہے۔ وہی ہے جو بہت ہی احسان کرنے والا ہے اور جس کی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ محبت اور پرستش کا وہی ہاں صرف وہی سزا وار ہے۔ اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اسی سے اپنے کئے کی جزا پانا ہے۔ اور بہتر اور احسن جزا وہی پائیں گے جو اس کی تعلیم پر عمل کریں گے۔
ان مختصر سی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی آٹھ اندرونی خوبیاں بیان فرمائی ہیں۔
(۱) پہلی خوبی اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے۔ تَنْزِیْلُ الْکِتَابِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ کہ یہ کتاب اس اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو العزیز صفت سے متصف ہے۔ جو غالب ہے اور کوئی اور ہستی اس پر غالب نہیں آ سکتی۔ کیونکہ اس جیسا کوئی ہے ہی نہیں۔ عزیز کے ایک معنی اس قسم کی عزت اور طاقت اور غلبہ رکھنے والی ہستی کے ہوتے ہیں کہ جس کے مقابلہ میں اس جیسی قوت اور طاقت اور غلبہ رکھنے والی کوئی اور ہستی نہ ہو۔ اس لحاظ سے وہ بے مثل ہو۔
تو اس ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ اس عزیز خدا کی طرف سے جو کتاب نازل کی گئی اس کتاب میں بھی یہ خوبی ہے کہ وہ بے مثل ہے۔ ایسی خوبیوں کی حامل، رضا الٰہی کی اس قدر فراخ راہیں دکھانے والی ہے کہ دنیا میں جس قدر کتب سماوی گزری ہیں وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں اور نہ کسی انسان کی طاقت میں یہ ہے کہ اس کا مثل معرض وجود میں لا سکے۔ اس کتاب میں کامل حسن اور کامل تعلیم اور کامل ہدایت پائی جاتی ہے۔ اس بے مثل اور یگانہ ذات کے پرتو نے اس کتاب کو بھی بے مثل کر دیا ہے۔ اگر تم اس کتاب کی تعلیم پر عمل کرو گے تو تم بھی ایک واحد و یگانہ بے مثل قوم بن جائو گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران: ۱۱۱)تم وہ اُمت ہو جس سے بہتر اُمت اس دنیا میں پیدا نہیں کی گئی تم وہ اُمت ہو جس سے زیادہ احسان، انسان پر کسی اُمت نے نہیں کیا۔ پس پہلی خوبی اس کتاب کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتائی کہ اپنے کمال کے باعث یہ کتاب بے مثل ہے۔ اور اپنی تعلیم کی وجہ سے یہ کتاب اُمت مسلمہ کو ایک بے مثل و بے مثال اُمت بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔
(۲) دوسری اندرونی خوبی ہمیں ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی کہ یہ وہ کتاب ہے تَنْزِیْلٌ مِّنَ اللّٰہِ الْعَلِیْمِ۔ اس ذات نے اسے اتارا ہے جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ حقائق اشیاء اور مخلوق کے غیر محدود خواص کا علم صرف اسی پاک ذات کو ہے اور صرف وہی خدا اس بات پر قادر تھا کہ فطرت انسانی کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے والی کتاب اور ہدایت نازل کرتا اور ایک ایسی شریعت انسان کو دیتا جو ہر قوم اور ہر زمانہ کی ضروریات کو پورا کرنے والی ہوتی۔ پس یہی وہ کتاب ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی اور ہدایت کی انسان کو ضرورت نہیں رہتی۔ ہر زمانہ کے مسائل کو یہ سلجھا دیتی ہے۔ روحانی علوم کے نہ ختم ہونے والے چشمے اس سے پھوٹتے ہیں اور مادی علوم کی بنیادی صداقتیں اور اصول اس میں جمع کر دئے گئے ہیں۔
پس اگر تم روحانیت میں ترقی حاصل کرنا چاہتے ہو، یا دنیوی علوم میں فوقیت اور رفعت کے مقام تک پہنچنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم اس کتاب کی پیروی کرنے والے بنو۔ اگر تم اس کتاب کی آواز کی طرف متوجہ نہ ہو گے۔ اس کی وہ قدر نہیں کرو گے جو کرنی چاہئے تو نہ روحانی میدان میں تم کوئی ترقی حاصل کر سکو گے اور نہ دنیوی علوم میں دوسروں سے مقابلہ کرنے کی طاقت اپنے اندر پیدا کر سکو گے۔
پس مادی اور روحانی ہر دو لحاظ سے علوم میں اگر ترقی کرنی ہے اور روحانی علوم کو حاصل کرکے میدانِ عمل میں تم نے اترنا ہے تو تمہیں اس کتاب کی ہدایت کی ضرورت ہو گی اور اگر تم اس کے علوم حاصل کر لو گے اور اس کے مطابق عمل کرو گے تو خدائے علیم جو ہر چیز کو جاننے والا ہے اور جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ وہ تمہیں اپنے قرب کے وہ مقامات عطا کرے گا جن سے تم راضی ہو جائو گے جیسا کہ وہ تم سے راضی ہو گا۔
(۳) تیسری صفت یہاں قرآن کریم کی اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ یہ اس ہستی کی طرف سے اتارا گیا ہے جو غَافِرِ الذَّنْبِ (المومن :۴)ہے۔ گناہوں کو بخشنے والا ہے۔ پس یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں ان نیکیوں اور ان حسنات کے کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ جو نا سمجھی کے گناہوں اور بداعمالیوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتی ہے اور وہ طریق بتائے گئے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان نفس امارہ پر قابو پا لیتا ہے اور میلانِ گناہ کو اپنے پائوں کے نیچے کچل دینے کی قوت پاتا ہے۔
مَغْفِرَۃٌ کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ وہ گناہ جو سر زد ہو چکے ہوں اللہ تعالیٰ ان کے بداثرات اور اپنے غضب اور عذاب سے مغفرت چاہنے والے کو محفوظ کرے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ اگر تم کبھی اپنے گناہ پر پشیمان ہو اور استغفار کرو اور چاہو کہ خداتعالیٰ تمہارے ان گناہوں کو معاف کرکے ان کے بداثرات سے تمہیں محفوظ کرے تو تمہیں ان طریق کو اختیار کرنا ہو گا جو قرآن کریم میں بتائے گئے ہیں۔
دوسرے معنی مَغْفِرَۃٌ کے یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسی قوت انسان کو عطا کرے کہ گناہ کی طرف جو میلان اس کی طبیعت میں پایا جاتا ہو یا جو زنگ اس کی فطرت صحیحہ پر لگ چکا ہو وہ زنگ دور ہو جائے اور وہ میلان قابو میں آ جائے اور انسان کا شیطان مسلمان ہو جائے اور گناہ کی طرف رغبت ہی باقی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا کہ غَافِرِ الذَّنْبِ خدا کی طرف سے یہ کتاب نازل ہوئی ہے۔ پس اگر تم گنہگار ہو تو اسی کی طرف آئو اور قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریق پر آئو۔
قرآن کریم تمہاری رہنمائی کرے گا اگر تم چاہتے ہو کہ تقویٰ کے اعلیٰ مقام کو حاصل کرو۔ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ قرب کی رفعتیں تمہیں نصیب ہوں۔ اگر یہ چاہتے ہو کہ تواضع کا وہ مقام تمہیں حاصل ہو جائے جس کے بعد اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان سے بھی اوپر انسان کو لے جاتا ہے تب بھی تم قرآن کریم کی طرف رجوع کرو۔ وہ تمہیں ایک ایسی روشنی عطا کرے گا جو ان راہوں کو جو ان نتائج کی پیدا کرنے والی ہیں روشن اور منور کر دے گی اور ان راہوں کا علم اور ان پر چلنا تمہارے لئے آسان ہو جائے گا۔
پس چونکہ یہ غَافِرِالذَّنْبِ خدا کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے اس کی ہدایت کے مطابق تم ذنب اور اس کے بد نتائج سے خداتعالیٰ کی حفاظت میں آکر اور مَغْفِرَۃٌکے ان معانی کے مطابق جو میں نے ابھی بیان کئے ہیں خداتعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کر سکو گے۔
(۴) چوتھی صفت اس کتاب عظیم کی، اس کتاب کریم اور مجید کی اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ اس خدا نے اتاری ہے جو قَابِلِ التَّوْبِہے۔ یعنی توبہ قبول کرنے والا ہے۔ پس اس کتاب میں یہ کھول کر بیان کیا گیا ہے کہ توبہ کن لوگوں کی، کن حالات میں اور کب قبول ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص توبہ کرنا چاہے۔ اس کے دل میں ایک خلش پیدا ہو، ایک خواہش تڑپنے لگے کہ مجھے اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ توبہ کرنی چاہئے، تو کیا کرے۔ کن راہوں سے وہ توبہ کے دروازوں تک پہنچے اور پھر انہیں کھٹکھٹائے۔
تو فرمایا کہ قرآن کریم قَابِلِ التَّوْبِخدا کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے وہ تمہیں ان دروازوں تک لے جائے گی جو توبہ کے دروازے ہیں۔ وہ تمہیں بتائے گی کہ ان دروازوں کو تم نے کس طرح کھٹکھٹانا ہے تاکہ وہ تم پر کھولے جائیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں یہ بتایا کہ جب تمہارا دل اپنے پیدا کرنے والے کی طرف مائل ہو اور اس کی طرف جھکے لیکن تم سر گردان ہو، نہ جانتے ہو کہ کن راہوں سے تم اس کی جناب میں پہنچ سکتے ہو تو اس کتاب کی طرف رجوع کرو اور اس سے روشنی اور ہدایت حاصل کرو تا تمہاری مراد بر آئے اور تمہارا رب تم سے راضی ہو جائے اور اس کی نظر میں تم ایسے بن جائو کہ کبھی تم سے گناہ سرزد ہی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْئَ بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓئِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًاo (سورۃ النسآء : ۱۸)
اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ توبہ کس طرح اور کن لوگوں کی اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہوتی ہے اور وہ کون لوگ ہیں کہ جن کی توبہ ان کے منہ پر ماری جاتی ہے۔
یہ تو ایک مثال ہے جو اشارۃً میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ ورنہ قرآن کریم بھرا پڑا ہے ایسی آیات سے جن سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ توبہ کا طریق کیا ہے، وہ کون لوگ ہیں جو خداتعالیٰ کی صفت قَابِلِ التَّوْبِ کو اپنے حسن عمل سے خداتعالیٰ اور قرآن مجید کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق جوش میں لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جو توبہ قبول کرنے والا ہے ان لوگوں کیلئے توبہ کے دروازے کھول دیتا ہے۔
بہرحال ہمیں اس جگہ قرآن کریم کی ایک اندرونی خوبی کی طرف جو اس میں پائی جاتی ہے متوجہ کیا گیا ہے کہ یہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے کہ اگر تم توبہ کرنا چاہو تو صرف یہی تمہیں ہدایت دے سکتی ہے کہ توبہ کس طرح کی جاتی ہے اور کن راہوں سے اللہ تعالیٰ نے جو توبہ کے دروازے رکھے ہیں ان کو کھولا جا سکتا ہے۔
(۵) پانچویں صفت قرآن مجید کی یہاں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ قرآن مجید اس خدا نے نازل فرمایا ہے جو شَدِیْدُ الْعِقَابِ ہے۔ کہ جب وہ سزا دینے پر آتا ہے تو بہت سخت سزا دیتا ہے۔ اس عزیز و قہار کے قہر اور غضب اور *** اور سزا اور عذاب سے اگر بچنا چاہو تو اس کا طریق بھی یہی کتاب تمہیں بتلائے گی۔
کبھی تمہارے دل میں پہلوں کی مثال بیان کرکے خوف اور خشیت پیدا کرے گی تا تم اس کی طرف جھکو اور اس کے رحم کو جذب کرو۔ سورۃ الْحَآقَّۃ میں مثلاً شَدِیْدُ الْعِقَابِ کی قدرت کی ایک مثال بیان کی ہے تاکہ دلوں میں خوف پیدا ہو اور انسان خدا کی طرف پیٹھ کرنے اور اس سے پہلو تہی کرنے سے بچے۔
اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں بیان فرمایا ہے کہ ثمود کی قوم ایک ایسے عذاب سے ہلاک کی گئی تھی جو اپنی شدت میں انتہاء کو پہنچا ہوا تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَاَمَّا عَادٌ فَاُھْلِکُوْا بِرِیْحٍ صَرْ صَرٍ عَاتِیَۃٍoلا سَخَّرَھَا عَلَیْھِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍ لا حُسُوْمًالا فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْھَا صَرْعٰی لا کَاَنَّھُمْ اَعْجَازُنَخْلٍ خَاوِیَۃٍo فَھَلْ تَرٰی لَھُمْ مِّنْم بَاقِیَۃٍo
(الحاقۃ :۷ تا ۹)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے عاد کی قوم پر جو اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہوا تھا اس کا مختصراً مگر بڑے ہی مؤثر طریق پر بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ ایک ایسا عذاب تھا جس میں ساری قوم کو تباہ کر دیا گیا۔ فَھَلْ تَرٰی لَھُمْ مِّنْ بَاقِیَۃٍ کیا ان کا کوئی نشان بھی تمہارے سامنے آتا ہے؟ وہ کلیتاً صفحہ ہستی سے مٹا دئے گئے۔ اس لئے کہ انہوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ وہ رَبّ جو ان کا پیدا کرنے والا تھا، جو اس قدر ان پر رحم کرنے والا تھا، جو اس قدر ان پر انعام کرنے والا تھا اس کے نتیجہ میں ان پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں لیکن انہوں نے کفر اور ناشکری کو اختیار کیا اور خداتعالیٰ کی بجائے شیطان کو اپنا دوست بنا لیا تب ساری کی ساری قوم کو اللہ تعالیٰ نے صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور ان کاکوئی نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔
اس قسم کے واقعات کا ذکر کثرت سے قرآن کریم میں پایا جاتا ہے اور ایک مقصد ان کا یہ ہے کہ تا ان واقعات کو سن کر ہمارے دل خوف سے لرز اٹھیں اور ہم یہ عہد کریں کہ قرآن کریم نے جو تعلیم ہمارے سامنے رکھی ہے جس سے خدا راضی ہوتا ہے اور جس کو چھوڑ کر خدا کی ناراضگی مول لینی پڑتی ہے، ہم کبھی بھی اس تعلیم کو چھوڑیں گے نہیں بلکہ اس تعلیم کو اپنائیں گے۔ اس تعلیم کو اس طرح اپنے جسموں اور روحوں میں جذب کر لیں گے جس طرح خون ہمارے اندر بہہ رہا ہے۔ تاکہ خدا کا غضب کسی شکل میں بھی اور اس کی *** کسی صورت میں بھی ہمارے اوپر نازل نہ ہو۔
پھر قرآن کریم وہ کتاب ہے جو کبھی خدا کی *** اور اس کے غضب سے بچنے کی دعائیں سکھاتی ہے کیونکہ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ہونے کے باوجود خداتعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کا عذاب بندوں پر نازل ہو۔
تو پہلی قوموں کی مثالیں دے کر ہمارے دلوں میں اپنا خوف پیدا کیا۔ پھر ہمیں دعائیں سکھائیں کہ یہ دعائیں کرتے رہو تا کہ میرا غضب تم پر نازل نہ ہو۔
سب سے بہتر اور کامل دعا تو سورۃ الفاتحہ ہی ہے جس میںغَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَالضَّآلِّیْنَ (الفاتحہ : ۷)ہے یعنی جس میں خدا کی *** سے پناہ مانگی گئی ہے اور چونکہ خدا کی *** کے مورد دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک مغضوب علیہ اور ایک ضَالّ۔ اس لئے دونوں کا ذکر کرکے ایک طرح حصر کر دیا گیا ہے کہ کسی طریق سے بھی ہم پر تیری *** نازل نہ ہو۔
قرآن کریم کبھی ایسے اعمال صالحہ کی نشان دہی کرتا ہے جس کے نتیجہ میں شیطانی اندھیرے نور میں بدل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آتا ہے اور اس کے عذاب کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تسلی دلائی کہ اگر تم قرآنی ہدایت پر عمل کرو گے تو میں فرشتوں کو مقرر کروں گا کہ وہ تمہارے لئے دعا کریں اور وہ یوں دعا کریں گے۔
رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْلِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِo (المؤمن : ۸)
کہ ایسے لوگوں پر تو اپنا رحم کر کیونکہ تو بڑے حلم والا ہے اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچا لے جو توبہ کرتے ہیں اور وہ طریق اور شریعت کی جو راہیں تو نے قرآن کریم میں بتائی ہیں ان پر عمل کر رہے ہیں۔
اسی طرح سورۃ الدھر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے جذبات کے غلام نہیں ہوتے بلکہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہیں اور صبر کی راہوں پر گامزن ہوتے ہیں۔ (کافور کی ملاوٹ) اپنی نذریں ادا کرتے ہیں اور ہمیشہ یہ خیال رکھتے ہیں کہ کہیں قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے ناراض نہ ہو وہ لوگ جو اس کی رضاء کے لئے مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے۔ ریا، عجب، خودروی، خود رائی اور دکھاوا ان میں نہیں ہوتا۔ نہ وہ احسان جتاتے ہیں، اپنے نفسوں اور اپنے نفس کی بد خواہشات اور میلانات سے جدا ہو کر محض اپنے رَبّ کیلئے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں۔ فَوَقٰھُمُ اللّٰہُ شَرَّذٰالِکَ الْیَوْمِ (الدھر : ۱۲)کہ اس دن کے عذاب سے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بچا لے گا۔ تو جب یہ کہا کہ میرا عذاب بڑا سخت ہے۔ جب میں پکڑتا ہوں۔ جب میری گرفت میں کوئی آتا ہے تو اس سے بڑھ کر کوئی عذاب تصور میں نہیں آ سکتا۔
فرمایا۔ اس شَدِیْدُ الْعِقَابِ خدا نے قرآن کریم کو اتارا ہے اور ہمیں اس واضح حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اس کتاب میں ہمیں وہ طریق بتائے گئے ہیں جن کے ذریعہ ہم اس کے عذاب سے بچ سکتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے ایک دو مثالیں دے کر بیان کیا ہے۔
(۶) چھٹی صفت حسنہ یا اندرونی خوبی قرآن کریم کی جن الفاظ میں بیان کی گئی ہے وہ ذِیْ الطَّوْل ہے۔ یعنی اس اللہ نے یہ کتاب اتاری ہے جو بڑا احسان کرنے والا اور بڑا انعام کرنے والا ہے۔ اور اس کتاب کے نزول کی یہ غرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انعام اور احسان کے جذب کرنے کی راہیں تم پر کھولی جائیں۔
اور اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم یا فرد کو کوئی احسان یا انعام عطا کرتا ہے تو اس پر بہت سی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کا ذکر بھی قرآن مجید میں پایا جاتا ہے۔ ان کی طرف بھی ہمیں متوجہ ہونا چاہئے۔ انعام و اکرام کا ذکر ذِیْ الطَّوْل میں ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال تو میرے نزدیک وہ ہے۔ جو فرمایا اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ(المائدۃ :۴)کہ اسلام اور اسلامی شریعت کے ذریعہ میں نے اپنی شریعت کو نعمت عظمی بنا دیا ہے اور نعمت عظمیٰ کے طور پر میں اسے تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے وَاَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہٗ ظَاھِرَۃً وَّبَاطِنَۃً (لقمٰن:۲۱) کہ تم پر ظاہری اور باطنی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ نے پانی کی طرح بہا دیا۔ جیسے فلڈ (Flood)آتا ہے ہر ایک چیز کے اوپر چھا جاتا ہے اور ہر چیز کو اپنے نیچے لے لیتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نعمتوں نے ہمارے نفس نفس اور ہمارے ذرہ ذرہ کو ڈھانپ لیا ہے۔
لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِتَّبِعُوْا مَآاَنْزَلَ اللّٰہُ (لقمٰن: ۲۲) کہ اب تم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اس کی تم اتباع کرو۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے کفران نعمت کرو گے تو اس کی سزا پائو گے۔ مگر قرآن کریم اس لئے نازل نہیں کیا گیا کہ خدا کے غضب کو تم جذب کرو اور اس کے قہر کے تم مورد بنو۔ قرآن کریم کے نزول کی غرض تو یہ ہے کہ ذِیْ الطَّوْل خدا کی طرف تمہیں متوجہ کرے اور تم اس کی نعمتوں کو یاد کرتے ہوئے اس کے شکر گزار بندے بنو اور جو ہدایت اور تعلیم اور شریعت اور فرائض اور احکام اس نے نازل کئے ہوئے ہیں ان کی اتباع کرنے والے ہو۔
(۷) ساتویں صَفْتِ حَسْنَہ قرآن کریم کی اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے لَااِلٰـہَ اِلاَّ ھُوَ کہ جس خدا نے اس قرآن کو نازل کیا ہے وہ اکیلا ہی پرستش کا سزا وار اور حقدار ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس اس کتاب کی بنیادی صفت یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کی کہ یہ کتاب اور اس کی تعلیم اور اس کی شریعت اور اس کی ہدایتیں اور وہ نور جو اس سے نکلتا ہے۔ اور اس کے ماننے والوں کے جسموں اور ان کی روحوں میں داخل ہوتا اور نفوذ کرتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں انسان خالص توحید پر کھڑا ہوتا ہے۔ قرآن نہ ہوتا تو دنیا میں توحید خالص بھی نہ پائی جاتی۔ پس اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات حسنہ کے متعلق کامل تفصیلی علم یہی کتاب دیتی ہے جس کے بغیر توحید، صحیح معنی اور حقیقی رنگ میں قائم نہیں ہو سکتی۔
تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے متعلق بھی علوم کے سمندر اپنے اندر بند کر دئیے ہیں اور تمہارے فائدہ کے لئے ایسا کیا گیا ہے۔
پس تم اس خدائے واحد و یگانہ کے قرب کے حصول کے لئے اس کی ذات کی معرفت اور اس کی صفاتِ حَسَنہ کا عرفان حاصل کرو اور قرآن کریم کی روشنی میں ہی تم ایسا کر سکتے ہو۔ پس قرآن کریم کو توجہ سے پڑھو اور توجہ سے سنو اور عزم اور استقلال اور صبر کے ساتھ اس پر عمل کرو اور دعائوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے نور سے حصہ حاصل کرو اور نور قرآن کریم کے ذریعہ سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے تاکہ تم توحید خالص پر کھڑے ہو جائو اور توحید خالص کو پا لینے کے بعد دنیا کی ساری کامیابیاں مل جاتی ہیں اور کوئی ناکامی بھی انسان کے حصہ میں نہیں رہتی۔
آٹھویں صَفْتِ حَسْنَہ یا اندرونی خوبی قرآن کریم کی اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بیان فرمائی ہے وَاِلَیْہِ الْمَصِیْرُکہ اس عظیم کتاب کو نازل کرنے والی وہ ذات پاک ہے جس کی طرف ہم نے لوٹ کر جانا ہے اور اس خدا نے اس قرآن کے ذریعہ انسان کو مَعَاد کا کامل اور مکمل علم دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑے زور کے ساتھ اور بڑی وضاحت کے ساتھ اور بڑی تفصیل کے ساتھ اس مضمون کو اپنی کتب (۱) سرمہ چشم آریہ۔ روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۷۲ تا ۸۰ حاشیہ (۲) براہین احمدیہ ہر چہار حصص۔ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۳۲۳ تا ۳۳۹ حاشیہ نمبر ۲ صفحہ ۵۱۰ تا ۵۲۳ حاشیہ نمبر ۳ ۔ صفحہ ۳۲۸ تا ۵۶۳ حاشیہ نمبر ۱۱ میں بیان فرمایا ہے۔ کہ معاد کا علم اور جنت و دوزخ کی حقیقت جو قرآن کریم بیان کرتا ہے۔ وہ کسی غیر کے وہم میں بھی نہیں آ سکتی اور نہ ہی ان کتب سماویہ میں وہ علوم پائے جاتے ہیں جو قرآن کریم سے پہلے نازل ہوئیں پھر محرف و مبدل ہوئیں اور پھر وہ منسوخ ہو گئیں۔ یہ قرآن، یہ پاک کتاب ہی ہے جو نور مجسم ہے اور حقیقی اور خالص توحید پر کھڑا کرتی ہے۔ اور معاد کا علم پوری طرح ہمیں عطا کرتی ہے اور ہمیں ایک حق الیقین عطا کرتی ہے اس بات پر کہ ہم مرنے کے بعد پھر زندہ کئے جائیں گے اور اس یقین کے بعد انسان اس دنیا اور اس کی لذتوں اور اس کی خواہشات سے بکلی منہ موڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس کو یہ فکر ہوتی ہے کہ اگر میں اس دنیوی زندگی میں پڑ گیا جو اُخروی زندگی کے مقابلہ میں غیر محدود طور پر کم ہے تو عظیم گھاٹا پانے والا ہوں گا۔ سَو کی نسبت ایک کے ساتھ یہ ہے۔ کہ ایک، سَو کا سَواں حصہ چونکہ اُخروی زندگی غیر محدود ہے۔ اس لئے اس زندگی کی نسبت اس اُخروی زندگی کے ساتھ یہ ہے کہ یہ زندگی اس زندگی کا ’’غیر محدود واں‘‘ حصہ ہے یعنی کوئی نسبت قائم ہی نہیں ہو سکتی۔
جب یہ حقیقت انسان کے سامنے آ جائے پھر ان تمام بدیوں سے جو صرف اس دنیوی زندگی کی لذات اور آرام میں اور اُخروی زندگی میں عذاب اور قہر کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ ان سے بچنے کی ہر طرح کوشش کرتا ہے۔ اگر کبھی پائوں پھسل جائے تو اپنے خدا کا سہارا لے کر پھر کھڑا ہو جاتا ہے۔ گناہ کرے تو اس غفار کو پکارتا ہے۔ توبہ کرنے کے لئے تضرع کی راہوں کو اور تواضع کی راہوں کو اختیار کرتا ہے۔ قرآن کریم پر غور کرتا رہتا ہے۔ اس عزم اور نیت کے ساتھ کہ میں نے اپنی اخروی زندگی کو بہرحال سنوارنا ہے خواہ مجھے اس زندگی میں کتنی ہی کوفت اور تکلیف اور مصیبت کیوں نہ اٹھانی پڑے۔ جب وہ ایسا کر لیتا ہے تب وہ اپنی زندگی کے مقصد کو پا لیتا ہے۔ خداتعالیٰ اس سے خوش ہوتا ہے اور وہ اپنے ربّ سے راضی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس گروہ میں شامل کرے۔ اللھم آمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۴؍ اگست ۱۹۶۶ء)
٭…٭…٭
















اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی ہے کہ وہ تعلیم القرآن
کی سکیم اور عارضی وقف کی مہم میں بہت برکت ڈالے گا
(خطبہ جمعہ فرمودہ۵ ؍اگست ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ۔ربوہ )
ء ء ء
٭ ایک بہت ہی مبشر رؤیا کا تذکرہ۔
٭ وقف عارضی کی تحریک کا نظام وصیت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔
٭ موصی صاحبان کا ایک بڑا گہرا اور دائمی تعلق قرآن کریم کے فضلوں کا وارث بننے سے ہے۔
٭ ہر سال کم از کم پانچ ہزار واقفین عارضی چاہئیں۔
٭ مجالس موصیان کے قیام کی تحریک۔




تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
کوئی پانچ ہفتہ کی بات ہے ابھی میں ربوہ سے باہر گھوڑا گلی کی طرف نہیں گیا تھا۔ ایک دن جب میری آنکھ کھلی تو میں بہت دعائوں میں مصروف تھا۔ اس وقت عالم بیداری میں میں نے دیکھا کہ جس طرح بجلی چمکتی ہے اور زمین کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک روشن کر دیتی ہے اسی طرح ایک نور ظاہر ہوا اور اس نے زمین کو ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک ڈھانپ لیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ اس نور کا ایک حصہ جیسے جمع ہو رہا ہے۔ پھر اس نے الفاظ کا جامہ پہنا اور ایک پُر شوکت آواز فضا میں گونجی جو اُس نور سے ہی بنی ہوئی تھی اور وہ یہ تھی ۔
’’بُشْرٰی لَکُمْ‘‘ یہ ایک بڑی بشارت تھی لیکن اس کا ظاہر کرنا ضروری نہ تھا۔ ہاں دل میں ایک خلش تھی اور خواہش تھی کہ جس نور کو میں نے زمین کو ڈھانپتے ہوئے دیکھا ہے۔ جس نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک زمین کو منور کر دیا ہے۔ اس کی تعبیر بھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے مجھے سمجھائے۔ چنانچہ وہ ہمارا خدا جو بڑا ہی فضل کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اس نے خود اس کی تعبیر اس طرح سمجھائی کہ گزشتہ پیر کے دن میں ظہر کی نماز پڑہا رہا تھا۔ اور تیسری رکعت کے قیام میں تھا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کسی غیبی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لے لیا ہے اور اس وقت مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ جو نور میں نے اس دن دیکھا تھا وہ قرآن کا نور ہے جو تعلیم القرآن کی سکیم اور عارضی وقف کی سکیم کے ماتحت دنیا میں پھیلایا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مہم میں برکت ڈالے گا۔ اور انوار قرآن اسی طرح زمین پر محیط ہو جائیں گے جس طرح اس نور کو میں نے زمین پر محیط ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی متعدد بار خود قرآن کو اور قرآنی وحی کو نور کے لفظ سے یاد کیا ہے اور مجھے بتایا گیا کہ وہ نور جو تمہیں دکھایا گیا یہی نور ہے۔
پھر میں اس طرف بھی متوجہ ہوا کہ عارضی وقف کی تحریک جو قرآن کریم سیکھنے سکھانے کے متعلق جاری کی گئی ہے اس کا تعلق نظام وصیت کے ساتھ بڑا گہرا ہے۔ چنانچہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رسالہ ’’الوصیت‘‘ کو مزید غور سے پڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ واقع میں اس تحریک کا موصی صاحبان کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس وقت میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ صرف ایک بات آپ دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رسالہ الوصیۃ کے شروع میں ہی ایک عبارت لکھی ہے اور حقیقتاً وہ عبارت اس نظام میں منسلک ہونے والے موصی صاحبان ہی کی کیفیت بتا رہی ہے کہ تمہیں وصیت کرکے اس قسم کا انسان بننا پڑے گا۔ حضورؑ فرماتے ہیں:۔
’’خدا کی رضا کو تم کسی طرح پا ہی نہیں سکتے۔ جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر، اپنی لذات چھوڑ کر، اپنی عزت چھوڑ کر، اپنا مال چھوڑ کر، اپنی جان چھوڑ کر اس کی راہ میں وہ تلخی نہ اٹھائو جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے لیکن اگر تم تلخی اٹھا لو گے یعنی اس نظام وصیت میں شامل ہو جائو گے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہو گے تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آ جائو گے اور تم ان راستبازوں کے وارث کئے جائو گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے لیکن تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں‘‘۔
( الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۷)
’’ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے‘‘۔ دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کا ترجمہ ہی ہے جو بہشتی مقبرہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل کیا تھا۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’چونکہ اس قبرستان کے لئے بڑی بھاری بشارتیں مجھے ملی ہیں۔ اور نہ صرف خدا نے یہ فرمایا کہ یہ مقبرہ بہشتی ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ اُنْزِلَ فِیْھَا کُلُّ رَحْمَۃٍ یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اُتاری گئی ہے اور کسی قسم کی رحمت نہیں جو اس قبرستان والوں کو اس سے حصہ نہیں‘‘۔ (الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۸)
تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا ’’اُنْزِلَ فِیْھَا کُلُّ رَحْمَۃٍ‘‘ اس قبرستان میں ہر قسم کی رحمت کو نازل کیا گیا ہے۔ یعنی اس میں دفن ہونے والے وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں کے وارث ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان تمام نعمتوں کا کب اور کس طرح وارث بنتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک دوسرے الہام میں بتایا ’’اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْانِ‘‘ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۷)ساری بھلائیاں اور نیکیاں اور سب موجباتِ رحمت قرآن کریم میں ہیں اور رحمت کے کوئی سامان ایسے نہیں جو قرآن کریم کو چھوڑ کر کسی اور جگہ سے حاصل کئے جاسکیں اور رحمت کے ہر قسم کے سامان صرف قرآن کریم سے ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
تو فرمایا ’’اُنْزِلَ فِیْھَا کُلُّ رَحْمَۃٍ‘‘ کہ اس بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والے وہ لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کی تمام برکتوں کے وارث ہوں گے۔ کیونکہ کوئی برکت بھی قرآن کریم سے باہر نہیں۔ اور نہ کسی اور جگہ سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس لئے ایسے لوگوں پر ہر قسم کی نعمت کے دروازے کھولے جائیں گے۔
اس سے ظاہر ہے کہ موصی صاحبان کا ایک بڑا گہرا اور دائمی تعلق قرآن کریم، قرآن کریم کے سیکھنے، قرآن کریم کے نور سے منور ہونے، قرآن کریم کی برکات سے مستفیض ہونے اور قرآن کریم کے فضلوں کا وارث بننے سے ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کے انوار کی اشاعت کی ذمہ داری بھی ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کی بعض برکات ایسی بھی ہیں جن کا تعلق اشاعت قرآن سے ہے۔ جیسا کہ خود قرآن متعدد جگہ اسے بیان فرماتا ہے اور جس کی تفصیل میں جانا اس وقت میرے لئے ممکن نہیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے ان دو وحیوں کے ذریعہ ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ موصی حقیقتاً وہی ہوتا ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتیں، اس کے فضل، اس کی رحمت اور اس کے احسان کی وجہ سے اس لئے نازل ہوتی ہیں کہ اس شخص نے اپنی گردن کلیتاً قرآن کریم کے جُؤا کے نیچے رکھی ہوتی ہے۔ اپنے پر وہ ایک موت وارد کرتا ہے اور خدا میں ہو کر ایک نئی زندگی پاتا ہے اور اس وحی کی زندہ تصویر ہوتا ہے کہ ’’اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ۔‘‘ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۷)
پس چونکہ وصیت کا یا نظام وصیت کا یا موصی صاحبان کا، قرآن کریم کی تعلیم، اس کے سیکھنے اور اس کے سکھانے سے ایک گہرا تعلق ہے۔ اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تعلیم قرآن اور وقف عارضی کی تحریکوں کو موصی صاحبان کی تنظیم کے ساتھ ملحق کر دیا جائے اور یہ سارے کام ان کے سپرد کئے جائیں۔
اس لئے آج میں موصی صاحبان کی تنظیم کا، خدا کے نام کے ساتھ اور اس کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے اجراء کرتا ہوں۔ تمام ایسی جماعتوں میں جہاں موصی صاحبان پائے جاتے ہیں ان کی ایک مجلس قائم ہونی چاہئے۔ یہ مجلس باہمی مشورے کے ساتھ اپنے صدر کا انتخاب کرے۔ منتخب صدر جماعتی نظام میں سیکرٹری وصایا ہو گا۔ ممکن ہے بعد میں ہم اس کا نام بھی بدل دیں لیکن فی الحال منتخب صدر ہی سیکرٹری وصایا ہو گا اور اس صدر کے ذمہ علاوہ وصیتیں کرانے کے یہ کام بھی ہو گا کہ وہ گاہے گاہے مرکز کی ہدایت کے مطابق وصیت کرنے والوں کے اجلاس بلائے۔ اس اجلاس میں وہ ایک دوسرے کو ان ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کریں جو ایک موصی کی ذمہ داریاں ہیں۔ یعنی اس شخص کی ذمہ داریاں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی بشارت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا کے سارے فضلوں اور اس کی ساری رحمتوں اور اس کی ساری نعمتوں کا وہ وارث ہے۔
اور وہ صدر ان کو یاد دلاتا رہے کہ تمام خیر چونکہ قرآن میں ہی ہے اس لئے وہ قرآن کریم کے نور سے پورا حصہ لینے کی کوششں کریں اور ان کو بتایا جائے کہ قرآن کریم کے انوار کی اشاعت کرنا ہر موصی کا بحیثیت فرد اور اب موصیوں کی مجلس کا بحیثیت مجلس پہلا اور آخری فرض ہے اور اس بات کی نگرانی کرنا کہ وقف عارضی کی سکیم کے ماتحت زیادہ سے زیادہ موصی اصحاب اور ان کی تحریک پر وہ لوگ حصہ لیں جنہوں نے ابھی تک وصیت نہیں کی۔ اور ان پر یہ فرض ہے کہ پہلے وہ اپنے گھر سے یہ کام شروع کریں حتیّٰ کہ ان کے گھر میں کوئی مرد، کوئی عورت، کوئی بچہ یا کوئی دیگر فرد جو ان کے اثر کے نیچے ہو یا ان کے پاس رہتا ہو ایسا نہ رہے کہ جسے قرآن نہ آتا ہو۔ پہلے ناظرہ پڑھنا سکھانا ہے پھر ترجمہ سکھانا ہے۔ پھر قرآن کریم کے معانی پھر اس کے علوم اور اس کی حکمتوں سے آگاہ کرنا ہے۔ پھر ان علوم کو ایک سخی کی طرح دوسروں تک پہنچانا ہے تاکہ جس فیض سے، جس برکت سے اور جس نعمت سے ہم نے حصہ لیا ہے۔ اسی فیض، برکت اور نعمت سے ہمارے دوسرے بھائی بھی حصہ لینے والے ہوں۔
وقفِ عارضی میں مجھے ہر سال کم از کم پانچ ہزار واقف چاہئیں اس کے بغیر ہم صحیح رنگ میں جماعت کی تربیت نہیں کر سکتے۔ یہ سکیم ماہ مئی ۱۹۶۶ء میں شروع ہوئی ہے۔ چونکہ اس سال جو سالِ اوّل ہے اساتذہ اور طلبہ کی چھٹیوں کا ایک حصہ گزر چکاہے (تاہم اگر وہ کوشش کریںتو اب بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں، اسی طرح بعض ایسے پیشہ والے ہیں جن کو ان دنوں چھٹیاں ہوتی ہیں۔ مثلاً بعض عدالتیں بند ہو جاتی ہیں۔ وہاں جو احمدی وکیل وکالت کا کام کرتے ہیں وہ بھی اپنی زندگی کے چند ایام اشاعت علوم قرآنی کے لئے وقف کر سکتے ہیں) اس لئے ممکن ہے ہمارے اس پہلے سال میں یہ تعداد پانچ ہزار تک نہ پہنچے لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ یہ تعداد پانچ ہزار تک پہنچ جائے۔ جب یہ ممکن ہے تو پھر اس کے لئے کوشش کیوں نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے کسی قانون کے ماتحت ہم اسے ’’ناممکن‘‘ قرار نہیں دے سکتے اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم سب خصوصاً موصی صاحبان پوری کوشش اور جدوجہد سے کام لیں کہ واقفین عارضی کی تعداد اس سال بھی جو پہلا سال ہے پانچ ہزار تک پہنچ جائے تا تعلیم قرآن کا کام احسن طریق پر کیا جاسکیتو ہمارے موصی صاحبان کا پہلا کام یہ ہے کہ اپنے گھروں میں قرآن کریم کی تعلیم کا انتظام کریں۔ دوسرا یہ کہ واقفینِ عارضی (جن کے سپرد قرآن کریم پڑھانے کا کام کیا جاتا ہے) کی تعداد کو پانچ ہزار تک پہنچانے کی کوشش کریں۔
تیسرے یہ کہ وہ اپنی جماعت کی نگرانی کریں (عمومی نگرانی، امیر یا پریذیڈنٹ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے) کہ نہ صرف ان کے گھر میں بلکہ ان کی جماعت میں بھی کوئی مرد اور کوئی عورت ایسی نہ رہے جو قرآن کریم نہ جانتی ہو۔ ہر ایک عورت قرآن کریم پڑھ سکتی ہو، ترجمہ جانتی ہو، اسی طرح تمام مرد بھی قرآن کریم پڑھ سکتے ہوں، ترجمہ بھی جانتے ہوں اور قرآن کریم کے نور سے حصہ لینے والے ہوں تاکہ قیام احمدیت کا مقصد پورا ہو۔
اسی طرح وصیت کرنے والی بہنیں بھی ہر جماعت میں اپنی ایک علیحدہ مجلس بنائیں اور اپنی ایک صدر منتخب کریں جو نائب صدر کہلائے گی اور وہ جماعت سے تعاون کریں اور موصی مردوں کی مجلس سے بھی تعاون کریں اور ان روحانی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کریں جو مالی قربانیوں کے علاوہ نظام وصیت اُن پر عائد کر رہا ہے۔
آپ دوست یہ سن کر خوش ہوں گے کہ بہت سے مقامات پر مردوں کی نسبت ہماری زیادہ احمدی بہنیں قرآن کریم ناظرہ جاننے والی ہیں۔ ایک تو ہمیں شرم اور غیرت آنی چاہئے۔ دوسرے ہمیں خداتعالیٰ کا شکر بھی بجا لانا چاہئے کیونکہ جس گھر کی عورت قرآن کریم جانتی ہو گی اس کے متعلق ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ اس گھر کے بچے اچھی تربیت حاصل کر سکیں گے۔
پس جیسا کہ نور کے اس نظارہ سے جسے میں نے ساری دنیا میں پھیلتے دیکھا ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی کامیاب اشاعت اور اسلام کے غلبہ کے متعلق قرآن کریم میں اور نبی کریمﷺ کی وحی اور ارشادات میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں جو خوشخبریاں اور بشارتیں پائی جاتی ہیں ان کے پورا ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ اس لئے میں پھر اپنے دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم پر واجب ہے کہ ہر احمدی مرد اور ہر احمدی عورت، ہر احمدی بچہ، ہر احمدی جوان اور ہر احمدی بوڑھا پہلے اپنے دل کو نورِ قرآن سے منور کرے۔ قرآن سیکھے، قرآن پڑھے اور قرآن کے معارف سے اپنا سینہ و دل بھر لے اور معمور کر لے۔ ایک نورِ مجسم بن جائے۔ قرآن کریم میں ایسا محو ہو جائے۔ قرآن کریم میں ایسا گم ہو جائے۔ قرآن کریم میں ایسا فنا ہو جائے کہ دیکھنے والوں کو اس کے وجود میں قرآن کریم کا ہی نورِ نظر آئے۔ اور پھر ایک معلم اور استاد کی حیثیت سے تمام دنیا کے سینوں کو انوارِ قرآنی سے منور کرنے میں ہمہ تن مشغول ہو جائے۔
اے خدا! تو اپنے فضل سے ایسا ہی کر کہ تیرے فضل کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔
اے زمین اور آسمان کے نور! تو ایسے حالات پیدا کر دے کہ دنیا کا مشرق بھی اور دنیا کا مغرب بھی، دنیا کا جنوب بھی اور دنیا کا شمال بھی نور قرآن سے بھر جائے۔ اور سب شیطانی اندھیرے ہمیشہ کے لئے دور ہو جائیں۔
میری توجہ اس طرف بھی پھیری گئی ہے کہ فضل عمر فائونڈیشن کا بھی ان سکیموں سے گہرا تعلق ہے۔ پہلے میرا خیال تھا کہ میں آج کے خطبہ میں ہی اس کو ان کے ساتھ منسلک کرکے اپنے خیالات کا اظہار اپنے دوستوں کے سامنے کروں لیکن چونکہ گرمی زیادہ ہے اور لمبے خطبہ سے دوستوں کو تکلیف ہو گی۔ اس لئے آج میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہتا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے زندگی اور توفیق دی تو انشاء اللہ آئندہ جمعہ کو میں فضل عمر فائونڈیشن کے متعلق دوستوں کے سامنے اپنے ان خیالات کا اظہار کروں گا۔ بہرحال ہمیں ہمیشہ یہ دعائیں کرتے رہنا چاہئے کہ واقعتاً اور حقیقتاً خدا ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم قرآنی انوار میں ایسے گم ہو جائیں کہ سوائے انوار قرآنی کے ہمارے وجود میں اور کوئی چیز نظر نہ آئے۔ آمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۰؍ اگست ۱۹۶۶ء ص ۲ تا ۴)
٭…٭…٭
خطبہ جمعہ ۱۲؍ اگست ۱۹۶۶ء
ء ء ء
حضور مری ہلز میں قیام پذیر تھے۔ ناسازیٔ طبع کے باعث نماز جمعہ پڑھانے تشریف نہیں لا سکے۔
(الفضل ۱۴؍ اگست ۹۶۶ء)
٭…٭…٭


انفاق فی سبیل اللہ کی استعداد کو بڑھانے کے تین قیمتی گُر
(۱) اپنی آمد کو مزید محنت سے بڑھانے کی کوشش کرو
(۲) سادہ زندگی اختیار کرو (۳) جذبہ ایثار میں اضافہ کرو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹ ؍اگست ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ مطالبات تحریک جدید میں سادہ زندگی کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہئے۔
٭ رسوم اور بد عادات سے اجتناب کیا جائے۔
٭ فضل عمر فاؤنڈیشن کے قیام کی غرض۔
٭ اس فنڈ میں ۲۵ لاکھ روپیہ جمع کرنے کی تحریک
٭ اس آمد سے وہ کام کئے جائیں جو حضرت مصلح الموعود کو محبوب اور پیارے تھے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
گزشتہ چند دنوں انفلوائنزا کی وجہ سے میری طبیعت ٹھیک نہیں رہی۔ ایک وقت میں تو آواز بالکل بیٹھ گئی تھی۔ کل سے کچھ کھلی ہے۔ ویسے اب بھی تکلیف محسوس کر رہا ہوں اس لئے میں اختصار کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق دوستوں کے سامنے بعض باتیں رکھنا چاہتا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔
’’اسلام کی حفاظت اور سچائی کے ظاہر کرنے کیلئے سب سے اوّل تو وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھائو اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلائو۔ اس پہلو میں مالی ضرورتوں اور امداد کی حاجت ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ سے چلا آیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایسی ضرورتیں پیش آئی تھیں۔ اور صحابہ کی یہ حالت تھی کہ ایسے وقتوں پر بعض ان میں سے اپنا سارا ہی مال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتے اور بعض نے آدھا دیا اور اس طرح جہاں تک کسی سے ہو سکتا فرق نہ کرتا۔ مجھے افسوس سے ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے ہاتھ میں بجز خشک باتوں کے اور کچھ بھی نہیں رکھتے اور جنہیں نفسانیت اور خود غرضی سے کوئی نجات نہیں ملی اور حقیقی خدا کا چہرہ ان پر ظاہر نہیں ہوا۔ وہ اپنے مذاہب کی اشاعت کی خاطر ہزاروں لاکھوں روپیہ دے دیتے ہیں اور بعض ان میں سے اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں۔ عیسائیوں میں دیکھا ہے کہ بعض عورتوں نے دس دس لاکھ کی وصیت کر دی ہے۔ پھر مسلمانوں کے لئے کس قدر شرم کی بات ہے کہ وہ اسلام کے لئے کچھ بھی کرنا نہیں چاہتے یا نہیں کرتے۔ مگر خداتعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اسلام کے روشن چہرہ پر سے وہ حجاب جو پڑا ہوا ہے۔ دور کر دے اور اسی غرض کے لئے اس نے مجھے بھیجا ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۶۱۵،۶۱۶ طبع ثانی)
دوست جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس چھوٹی سی اور غریب جماعت کو ساری دنیا کے مقابلہ پر لا کھڑا کیا ہے اور فرمایا کہ تمام ادیانِ باطلہ کا مقابلہ کرو اور انہیں شکست دو اور اسلام کی خوبیوں کو ظاہر کرکے اسے ان پر غالب کرو۔
اس جماعت کے مقابلہ میں ایک طرف ان طاغوتی طاقتوں کو بڑی قوت اور وجاہت اور اقتدار اور مال دیا کہ اربوں ارب روپیہ وہ اسلام کے خلاف خرچ کر رہے ہیں۔ اور دوسری طرف اپنی اس جماعت کو بڑے ہی وعدے دئیے اور فرمایا کہ تم ان اقوام اور ان مذاہب کی طاقت کو دیکھ کر گھبرانا نہیں اور ان کے اموال پر نظر کرکے تمہیں پریشانی لاحق نہ ہو۔ کیونکہ میرا تم سے یہ وعدہ ہے کہ اگر تم میری بھیجی ہوئی تعلیم پر عمل کرو گے اور میرے بتائے ہوئے طریق پر چلو گے تو تھوڑے ہونے کے باوجود اور کمزور ہونے کے باوجود اور غریب ہونے کے باوجود آخری فتح اور کامیابی تمہارے ہی نصیب ہو گی۔
اس چیز کو دیکھتے ہوئے اور اس چیز کو سمجھتے ہوئے ہم پر بڑی ہی قربانیوں کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جن میں سے ایک مالی قربانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ مطالبہ تو نہیں کیا کہ ہم اپنی طاقت اور استعداد سے بڑھ کر اس کی راہ میں قربانی دیں۔ کیونکہ ایسا مطالبہ غیر معقول ہوتا۔ اور اللہ تعالیٰ تو عقل اور حکمت اور علم اور نور کا سرچشمہ ہے۔ وہ تو نور ہی نور ہے۔ اس کی طرف سے اس قسم کا کوئی مطالبہ ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں یہ ضرور بتاتا ہے کہ میں نے قوت استعداد اور اموال کے بڑھانے کے کچھ طریق بھی رکھے ہیں تم اپنی طاقت سے بڑھ کر قربانی نہیں دے سکتے لیکن تم قربانی دینے کی طاقت کو ہر وقت بڑھا سکتے ہو۔ پس قربانی دینے کی طاقتوں کو تم بڑھائو۔
تین موٹی باتیں میں اس وقت دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
(۱) اوّل۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّمَاسَعٰی۔ (النجم: ۴۰)ایک تو اس کے معنی یہ ہیں کہ مالی اور اقتصادی لحاظ سے تم جس مقام پہ بھی ہو۔ وہ تمہارا آخری مقام نہیں۔ مزید ترقیات کے دروازے تمہارے سامنے ہیں۔ جنہیں تم اپنی سعی سے، اپنی کوشش سے، اپنی جدوجہد سے، اپنی محنت سے کھول سکتے ہو۔ یعنی اگر تم اپنے پیشہ میں مزید مہارت حاصل کر لو جتنی محنت اور توجہ سے تم اس وقت کام کر رہے ہو۔ اس سے زیادہ محنت اور توجہ سے کام کرو۔ جو ذرائع تمہیں میسر آئے ہوئے ہیں ان کو پہلے سے زیادہ بہتر طریق پر استعمال کرو۔ تدبیر کو اپنے کمال تک پہنچائو اور اس کے ساتھ خداتعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعائیں کرتے رہو کہ وہ تمہارے اموال میں برکت ڈالے اور تمہاری کوششوں کو بار آور کرے اس کے نتیجہ میں تمہارے اموال بڑھ جائیں گے اس کے ساتھ ہی مالی قربانی کی استعداد بھی مثلاً اگر ہم میں سے ہر ایک کی آمد بڑھ جائے لیکن جذبہ ایثار اتنا ہی رہے جتنا پہلے تھا تو بھی کمیت کے لحاظ سے ہماری مالی قربانی میں بڑا نمایاں فرق آ جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کی آمد ایک سو روپیہ ماہوار ہے اور وہ اپنے جذبہ ایثار سے مجبور ہو کر اور اپنی استعداد کے مطابق اس میں سے بیس فیصد روپیہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ اگر وہ محنت کرے، اگر وہ اپنے علم میں زیادتی کرے، اگر وہ اپنے ذرائع کو بہتر طریق پر استعمال کرے اور اگر وہ اپنی دعائوں کے نتیجہ میں اپنی آمد کو سو سے دو سو ماہانہ کر دے اور اس کی قربانی بیس فیصد ہی رہے تو پہلے وہ بیس روپے ماہوار دیتا تھا اب وہ چالیس روپے ماہوار دے گا۔ تو کمیت کے لحاظ سے مالی قربانی میں دگنا اضافہ ہو جائے گا کیونکہ اس کی آمد پہلے کی نسبت دگنی ہوگئی۔
(۲) ایک اور طریق اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ تم اپنے خرچ کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ضبط میں لائو، سادہ زندگی گزارو۔ رسم و رواج جو بیاہ شادیوں کے موقع پر یا موت فوت کے موقع پر لوگوں میں رائج ہیں ان کے نتیجہ میں اسراف کی راہوں کو اختیار کیا جاتا ہے۔ تم ان راہوں کو اختیار نہ کرو اور سادہ زندگی اختیار کرکے اپنے خرچوں کو کم کر دو۔ تو اس کے نتیجہ میں بھی تمہاری قربانی اور انفاق فی سبیل اللہ کی طاقت اسی نسبت سے بڑھ جائے گی۔ مثلاً ایک شخص کی سو روپیہ ماہوار آمد ہے اور اس کو اپنی ذات اور اپنے خاندان پر اسّی روپیہ ماہوار خرچ کرنے کی عادت پڑی ہوئی ہے اور بعض باتوں میں وہ اسراف کرتا ہے اور سادگی کی تعلیم پر عمل پیرا نہیں ہوتا۔ اگر وہ سادہ زندگی کو اختیار کرے اور اس کا خرچ اسّی روپیہ سے گر کر ستر روپیہ ماہوار پر آجائے تو اس کو سادگی کے اختیار کرنے کے نتیجہ میں دس روپیہ ماہوار زیادہ قربانی کرنے کی طاقت حاصل ہو گئی۔ اگر وہ چاہے تو خدا کی راہ میں اسے دے سکتا ہے۔
اس لئے میں تفصیل میں جائے بغیر، احباب جماعت کو اور جماعتی نظام کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کے مطالبات میں سادہ زندگی کے جو مطالبات رکھے ہیں ان کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہئے بہت سی جماعتیں اور بہت سے افراد اس چیز کو بھولتے جا رہے ہیں۔ اگر ہم مثلاً بدقسمتی سے سینما دیکھنے کے عادی ہوں اور اب سینما دیکھنا چھوڑ دیں تو وہ دس پندرہ روپے جو ہم سینما دیکھنے پر خرچ کرتے تھے وہ ہمارے پاس بچ رہیں گے۔ اور اگر ہم چاہیں تو یہ رقم خدا کی راہ میں دے سکتے ہیں۔
پس میں جماعت کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے وہ مطالبات جو سادہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کو جماعت میں دہرایا جائے اور افراد جماعت کو پابند کیا جائے کہ وہ ان مطالبات کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو سادہ بنائیں۔
اسی طرح بہت جگہ سے یہ شکایت آتی رہتی ہے کہ بعض خاندانوں میں رسوم اور بدعادات عود کر رہی ہیں۔ مثلاً شادی کے موقع پر اسراف کی راہوں کو اختیار کیا جاتا ہے اور بلا ضرورت محض نمائش کے طور پر بہت سا خرچ کر دیا جاتا ہے۔ بعض لوگ تو اس کے نتیجہ میں مقروض ہو جاتے ہیں اور پھر ساری عمر ایک مصیبت میں گزارتے ہیں۔ یہ تو وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ ان کو اس دنیا میں دے دیتا ہے لیکن ایک اور سزا ہے جو بظاہر ان کو نظر نہیں آتی کہ اس کے نتیجہ میں وہ بہت سی ایسی نیکیوں سے محروم ہو جاتے ہیں کہ اگر وہ سادگی کو اختیار کرتے۔ اگر وہ رسوم کی پابندی کو چھوڑ دیتے تو اللہ تعالیٰ ان کو ان نیکیوں کی توفیق عطا کرتا اور ان کو اس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی ایسی نعمتیں حاصل ہوتیں کہ دنیا کی لذتیں اور دنیا کے عیش اور ان کی نمائشیں ان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہ رکھتیں۔
پس جماعت کو چاہئے کہ تحریک جدید کے ان مطالبات کو دہراتی رہے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے تاکہ اس طرح وہ اپنے پیسوں کو بچا سکے اور اس کی قربانی کی قوت اور استعداد پہلے کی نسبت بڑھ جائے اور وہ اپنی اس بڑھی ہوئی حیثیت اور طاقت کے مطابق قربانی کرنے والی ہو۔ اس طرح دوست پہلے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہوں گے۔
(۳) تیسری بات جس کی طرف قرآن کریم ہمیں متوجہ کرتا ہے وہ جذبہ ایثار ہے اور شُحِّ نفس سے بچنا ہے۔ جب یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو انسان بہت سی جائز ضرورتوں کو بھی کم کر سکتا ہے۔ صحت کو نقصان پہنچائے بغیر اور کسی قسم کا حقیقی نقصان اٹھائے بغیر!
تو جب جذبہ ایثار بڑھ جائے تو قربانی کرنے کی قوت اور استعداد بھی بڑھ جاتی ہے۔ اور اس کا ذریعہ دعا ہے ہمیں ہر وقت یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہئے کہ اے خدا! تو نے ایک نور قرآن کریم کی شکل میں نازل کیا اس میں جہاں تو نے ہمیں اور بہت سی حسین ہدایتیں اور احکام دئیے ہیں وہاں انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق بھی بڑی ہی حسین اور وسیع تعلیم تو نے ہمارے سامنے پیش کی ہے اور ہمیں بتایا ہے کہ اگر ہم تیری راہ میں ان طریقوں پر جو تو نے بتائے ہیں اپنے اموال کو خرچ کرنے والے ہوں گے۔ تو تو بہت سے انعامات اور فضل ہم پر نازل کرے گا۔ تو اے خدا تو ہمیں اپنے فضل سے اس بات کی توفیق عطا کر کہ ہم اس ہدایت پر عمل پیرا ہونے والے ہوں تاکہ ہم تیری نعمتوں اور فضلوں کو حاصل کر سکیں۔
پس ہم ان تین طریق سے اپنی قوت اور استعداد کو بڑھا سکتے ہیں۔ تو جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ ہم اپنی طاقت سے بڑھ کر اس کی راہ میں قربانی دیں لیکن اللہ تعالیٰ ہم سے یہ مطالبہ ضرور کرتا ہے کہ ہم ہر وقت اور ہر طرح یہ کوشش کرتے رہیں کہ اس کی راہ میں ہماری قربانی دینے کی طاقت اور استعداد ہمیشہ بڑھتی چلی جائے تاکہ ہم ہمیشہ پہلے کی نسبت زیادہ سے زیادہ اس کے فضلوں کے وارث بنتے رہیں۔
اس کے بعد میں فضل عمر فائونڈیشن کے متعلق کہ وہ بھی انفاق فی سبیل اللہ ہی کی ایک شق ہے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
فضل عمر فائونڈیشن کے قیام کی غرض ہی یہ ہے کہ جماعت احمدیہ سچے مسلمانوں کا نمونہ دکھاتے ہوئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ اسلام کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلانے کی غرض سے اور بھی زیادہ مالی قربانیاں خداتعالیٰ کی راہ میں پیش کرے اور اس مالی قربانی کو اس حد تک پہنچائے کہ دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس قول کی صداقت پر گواہ ہو۔
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
یعنی اوّلین و آخرین ہر دو گروہ کی مالی قربانیاں ایک سی شان اور عظمت اور عزت اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں رکھنے والی ہوں۔
گزشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر فضل عمر فائونڈیشن کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس وقت میں نے اپنے بھائیوں سے یہ خواہش کی تھی کہ اس فنڈ میں پچیس لاکھ روپیہ وہ جمع کریں۔
سو اے محمد رسول اللہ کے فرزند جلیل مسیح محمدی کی جانثار اور خدائے بزرگ و برتر کی محبوب جماعت! آپ کو مبارک ہو کہ آپ نے خلوص نیت اور صمیم قلب کے ساتھ فائونڈیشن کے لئے جو وعدے کئے ہیں ان کی رقم پچیس لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔ اور ابھی اور وعدے آ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس اخلاص اور ایثار کو قبول فرمائے اور اعلاء کلمہ اسلام کے لئے آپ کی قربانیوں میں برکت ڈالے اور آپ کو اس دنیا میں بھی اتنا دے، اتنا دے کہ آپ سیر ہو جائیں اور اُخروی زندگی میں بھی اپنی تمام نعمتوں سے آپ کو نوازے تا آپ محمد رسول اللہﷺ کے قرب میں آپؐ کے صحابہؓ کی معیت حاصل کر سکیں۔
اب جبکہ وعدے اپنی مقررہ حد سے آگے بڑھ چکے ہیں ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہئے اور یہ کوشش کرنی چاہئے کہ یہ وعدے جو تین سال میں وصول ہونے ہیں ان کا کم از کم ۳؍۱ سالِ رواں یعنی سالِ اوّل میں وصول ہو جائے۔ اس وقت تک جو وعدے ہو چکے ہیں ان کے لحاظ سے قریباً ۹۔ ۱۰ لاکھ کی وصولی سال اوّل میں ہونی چاہئے چونکہ بہت سے ابتدائی مراحل میں سے اس تنظیم کو گزرنا تھا اور اس کے لئے صحیح معنی میں جو ہماری کوشش ہوئی ہے۔ وہ مجلس مشاورت کے بعد ہوئی ہے اس لئے میں نے فضل عمر فائونڈیشن کا سال یکم مارچ سے تیس ۳۰؍ اپریل تک مقرر کیا ہے۔
ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ۳۰؍ اپریل سے قبل کم از کم ۹، ۱۰ لاکھ روپے کی رقم جو ایک تہائی سے زیادہ ہو گی (اور اگر وعدے زیادہ آ گئے تو پھر اس سے بھی زیادہ رقم وصول ہونی چاہئے) بہرحال موجودہ صورت میں ۹، ۱۰ لاکھ کی رقم ضرور وصول ہو جانی چاہئے۔ اس وقت تک پاکستان کی جماعتوں اور احباب سے جو رقوم وصول ہوئی ہیں ان کی مقدار چار لاکھ سے اوپر تک پہنچ چکی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ جماعت اپنی ذمہ داریوں کا احساس رکھتی ہے اور وہ انشاء اللہ ۳۰؍ اپریل سے پہلے ایک تہائی سے زیادہ اپنے وعدے ادا کر دے گی۔
میں ایک تہائی (۳؍۱) سے زیادہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ بعض غریب احمدی دوستوں نے بڑی قربانی دے کر اس میں حصہ لیا ہے اور ساتھ ہی پوری رقم ادا بھی کر دی ہے۔ ایک تہائی پر انہوں نے کفایت نہیں کی۔ مثلاً سَو روپیہ کا وعدہ لکھوایا تو سو روپیہ ہی دے دیا۔
کئی مہینہ کی بات ہے گجرات کے ایک دوست یہاں تشریف لائے (وہ بہت بوڑھے تھے اتنے بوڑھے کہ ان سے چلا نہ جاتا تھا) اور مجھے پیغام بھجوایا کہ میں ضروری کام کے لئے ملنا چاہتا ہوں۔ باوجود اس کے کہ وہ بہت کمزور تھے۔ سیڑھیوں پر بھی نہ چڑھ سکتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی محبت سے مجبور ہو کر وہ اتنا لمبا سفر کرکے آئے تھے۔ میں اُترا اور ان سے ملا تو انہوں نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنا رومال کھولا اور غالباً چند سو کی رقم تھی وہ نکال کر مجھے دی اور کہا کہ یہ فضل عمر فائونڈیشن کے لئے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
خدا کے فضل سے ہماری جماعت بڑی قربانی کرنے والی ہے اور بڑی ہی محبت کرنے والی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے والہانہ عقیدت رکھنے والی ہے۔
میں کامل امید رکھتا ہوں اور اپنے ربّ سے دعا بھی کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا کرے کہ ہم اس فنڈ میں سال رواں کے اندر ایک تہائی سے کہیں زیادہ رقم ادا کر دیں کیونکہ اس سے جو کام کئے جانے والے ہیں۔ ان کے متعلق یہ بھی فیصلہ ہے کہ اصل رقم کو محفوظ رکھا جائے اور پھر اس کی آمد سے وہ کام کئے جائیں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو محبوب اور پیارے تھے۔
اللہ تعالیٰ توفیق عطا کرے اور اس کی توفیق سے ہی سب کچھ ہو سکتا ہے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۸؍ ستمبر ۱۹۶۶ء صفحہ۲ تا ۴)
٭…٭…٭






قرآن کریم نے تمام برکاتِ روحانی کو
اپنے اندر جمع کیاہؤاہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۶؍اگست۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ء ء ء
٭ قرآن کریم کو اقوام عالم کی ہدایت کیلئے نازل کیا گیا ہے۔
٭ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ بھی کہا یا لکھا وہ قرآن کریم ہی کی تفسیر ہے۔
٭ پہلی کتب کی تمام بنیادی صداقتیں قرآن کریم میں جمع کر دی گئی ہیں۔
٭ اُمَّ اَلَقُرٰی سے مراد عرب۔
٭ ہر وقت دعا میں لگے رہیں کیونکہ کوئی اور ثواب کا کام خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں۔



تشہد،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام کی یہ آیت پڑھی۔
وَھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰـہُ مُبَارَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَلِـتُـنْذِرَ اُمَّ الْـقُرٰی وَمَنْ حَوْلَھَاط وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ یُوْمِنُوْنَ بِہٖ وَھُمْ عَلٰی صَلٰوتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ (الانعام:۹۳)
اورپھر فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ انعام کی اس آیت میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ یہ عظیم الشان کتاب جسے ہم نے تجھ پر اتارا ہے، برکات کی جامع ہے اور جو کلام اس سے پہلے تھا اس کو پورا کرنے والی ہے اور ہم نے اسے اس لئے اُتارا ہے تاکہ تواس کے ذریعہ سے اقوامِ عالَم کو ہدایت دے اور تا تو ڈرائے مکّہ اور عرب کے بسنے والوں کو اور ان آبادیوں کو جو عرب کے چاروں طرف اکنافِ عالَم تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اور جولوگ پیچھے آنے والی موعود باتوں اور بشارتوں پر ایمان رکھتے ہیں اورساتھ ہی ان عبادتوں پر قائم ہیں جن پر انہیں ان کے رسولوں نے قائم کیا تھا۔ وہ اپنے تقویٰ اور ایمانی پختگی کے نتیجہ میں قرآن پر بھی ضرور ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اگروہ ان بشارتوںکو بھول چکے ہوں اور ان کا ایمان ان بشارتوں کے متعلق پختہ نہ ہو۔اسی طرح وہ شریعت کو قائم کرنے والے نہ ہوں تو ان کو ایمان کی طرف لانے کے لئے اللہ تعالیٰ پھر انذاری طریق استعمال فرمائے گا۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو مبارک کہا ہے بعض جگہ قرآن کریم کے متعلق یہ بیان ہوا ہے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو تمام ہدایتوں کا مجموعہ ہے، لیکن یہاں یہ مضمون بیان ہواہے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو تمام برکات کی جامع ہے۔ یعنی الٰہی ہدایتوں پر عمل کرنے کے نتیجہ میں جو برکات انسان کو حاصل ہوتی ہیں اس آیت میں ان کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بیان فرمایا کہ پہلی امتوں کو کامل ہدایت نہ ملی تھی ناقص ہدایت ملی تھی (بوجہ اس کے کہ وہ اپنی روحانی نشوونما میں ابھی ناقص تھے) اگر وہ نیک نیتی کے ساتھ، پوری جدوجہد، محنت اور کوشش کے ساتھ اس ہدایت پر عمل کرتے جو ان کو دی گئی تھی تو اس کے نتیجہ میں جو برکت انہیں حاصل ہوتی وہ اس برکت کے نتیجہ میںبہت کم ہوتی جو قرآن کریم کی ہدایت پر عمل کرکے انسان حاصل کرسکتا ہے کیونکہ قرآن کریم تمام برکات کا مجموعہ ہے۔
اس آیت پرمیں نے جب غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر یہ قرآن کتابٌ مُّبَارَکٌ ہے اور یقینا قرآن کِتَابٌ مُّبَارَکٌ ہے اور اس نے تمام برکاتِ روحانی کو اپنے اندر جمع کیاہوا ہے تو پھر عقلاً تین نتیجے نکلتے ہیں۔
اوّل: یہ کہ اس کتاب کی کامل اتباع کی جائے۔
دوسرے: یہ کہ اس کتاب نے تقویٰ کی جو باریک راہیں ہمیں بتائی ہیں ان پر گامزن رہاجائے اور تیسرے: یہ کہ اگر اور جب، ہم یہ کرلیں تب خداتعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے ہم پر کھل سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ایسا نہ کریں تو باوجود اس کے کہ یہ کتاب تمام برکاتِ روحانی کی جامع ہے ہم اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔
میں جب سورۃ الانعام کی تلاوت کر رہا تھا تو مجھے خیال آیا کہ میں اس آیت کے متعلق خطبہ دوں گا۔ میں نے سوچا تو یہ تینوں باتیں میرے ذہن میں آئیں۔ جب میں سورۃ کے آخر میںپہنچا مجھے یہ دیکھ کر لطف آیا کہ وہ تین باتیں جو اس وقت میرے ذہن میں آئی تھیں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام کے آخر میں وہی تین نتیجے (مُبَارَک’‘ کے) وضاحت کے ساتھ نکالے ہیں۔ اس پر میرا خیال اس طرف گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تفسیر کے متعلق جو یہ ایک نکتہ بیان کیا ہے کہ قرآن کریم خود اپنا مفسر ہے۔ یعنی قرآن کریم کی بعض آیات دوسری آیات کی تفسیر کرتی ہیں اور وہی تفسیر بہتر اور اچھی اور مفید اور سب سے زیادہ صحیح تسلیم کی جاسکتی ہے۔ جو قرآن کریم نے خود بیان فرمائی ہو اگرچہ ہر ایک کا دماغ اتنی پہنچ نہیں رکھتا کہ معلوم کرسکے کہ قرآن کریم کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کے خلاف نہیں یا ِلغت عرب ہی خود اس تفسیر کے خلاف نہیں۔ لیکن بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ بہترین تفسیر وہ ہے جو قرآن کریم خود بیان کرے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ بھی کہا یا لکھا وہ قرآن کریم کی ہی تفسیر ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم میں سے بعض، بعض چیزوں یا بعض مضامین کے متعلق کچھ پریشان ہوں کہ ہمیں پتہ نہیں چل رہا کہ یہ قرآن کریم کی کس آیت کی تفسیر ہے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ (لاکھوں احادیث جو امت مسلمہ نے بڑی محنت اور جدوجہد سے محفوظ کیں)۔ سب قرآن مجید ہی کی تفسیر ہیں لیکن کم لوگ ہیں جو یہ بتا سکیں کہ کون سا ارشاد کس آیت کی تفسیر ہے۔ جو بڑے بڑے عالم ہیںوہ تو جانتے ہیں لیکن ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں۔
چونکہ یہ اس نکتہ کی بڑی واضح مثال تھی اس لئے میں نے اس کا یہاں ذکر کردیا ہے۔تو اس خیال سے کہ میں اس آیت پر خطبہ دوں گا۔ میں نے اس پر غور شروع کیا اور مذکورہ بالا تین باتیں میرے ذہن میں آئیں اور وہی تین باتیں مُبَارَکٌ کی تفسیر کرتے ہوئے سورۃ انعام میںہی آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمادیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ انعام آیت۱۵۶میں فرماتاہے وَھٰذَاکِتَابٌ اَنْزَلْنٰـہُ مُبَارَکٌ یہ کتاب جو میں تم پر نازل کررہاہوں۔ یہ تمام برکات کی جامع ہے فاتّبعوہ اس لئے تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم اس کی کامل اتباع کرو۔ وَاتَّقُوْا اور تقویٰ کی جو باریک راہیں یہ تمہیں بتاتی ہیں تم ان پر گامزن رہو۔ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ تاکہ اس طرح پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے تم پر کھولے جائیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میںیہ فرمایا کہ قرآن کریم جامع ہے تمام برکاتِ روحانی کا (لیکن کتب سابقہ کے متعلق مُبَارَک’‘ کا لفظ استعمال نہ ہوسکتا تھا) اور اس طرح ہمیں یہ بتایا کہ پہلی امتیں اپنی پوری جدوجہد، اپنے پورے مجاہدہ، اپنی پوری محنت اور اپنی پوری کوشش اور ایثار اور اپنے پورے جذبۂ قربانی کے باوجود اس روحانی مقامِ رفعت تک نہ پہنچ سکتی تھیں جس مقامِ رفعت تک تم پہنچ سکتے ہو۔ کیونکہ تمہیں ایک کامل کتاب دی گئی ہے جس کی اتباع کے نتیجہ میںتم کامل برکات کو حاصل کرسکتے ہو۔ کامل برکات کے حصول کا امکان تمہارے لئے پیدا ہو گیا ہے۔ اتنی ارفع اور اتنی اعلیٰ کتاب کے ملنے کے بعد بھی اگر تم کوتاہی کرو اور اس طرف متوجہ نہ ہو اور خداتعالیٰ کے شکر گزار بندے بن کر اس کی اس نعمت سے فائدہ نہ اٹھائو تو تمہارے جیسا بدبخت دنیا میں کوئی نہیں ہوگا۔
پس فرمایا کہ یہ کتاب تمام برکات کی جامع ہے اور تمام برکات کا حصول تمہارے لئے ممکن بنا دیا گیاہے۔ اس لئے اٹھو!! اور کوشش کرو اور محنت کرو اور قربانیاں دو اور ایثار دکھائو تاکہ تم ان تمام برکات اور فیوض کو حاصل کرسکو۔ دوسرا امر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق یہاں یہ بیان فرمایا۔ مُصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ۔ دراصل یہ مُبَارَکٌ کی وجہ بتائی ہے کہ یہ کتاب تمام برکات کی جامع کیوں ہے؟ اس لئے کہ پہلی کتب میں جو بھی صداقتیں پائی جاتی تھیں ان سب کو اس نے اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے بلکہ ان سے کچھ زائدبھی ہے۔ اس لئے یہ مُبَارَکٌ ہے۔ ہر وہ برکت جو پہلی کسی کتاب کی ہدایت سے حاصل کی جاسکتی تھی وہ اس کتاب سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے کیونکہ وہ ہدایت اور بنیادی صداقت جو اس کے اندر تھی اس میں بھی پائی جاتی ہے۔ لیکن جو زائد چیزیں اس میں ہیں وہ پہلی کتب میں نہیں تھیں۔ اس لئے ان زائد احکام پر عمل کرکے جو برکتیں تم حاصل کرسکتے ہو۔ وہ لوگ جن پر پہلی کتب نازل کی گئی تھیں انہیں حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ مُصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ ’’یہ قرآن پہلی کتب کی تصدیق کرتاہے۔میں جو تصدیق کا ذکر ہے اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ تصدیق کا ایک طریق قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے۔ مَانَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْنُنْسِھَا نَأْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا اَوْمِثْلِھَاط اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیٍْٔ قَدِیْرٌ (سورۃ البقرۃ:۱۰۷)کہ ’’جب بھی ہم کسی پیغام کو منسوخ کریںیا بھلادیں اس سے بہتر یا اس جیسا پیغام ہم دنیا میں لے آتے ہیں۔‘‘ اس آیت میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں۔
ایک یہ کہ پہلی کتب کی بعض باتوں کو بعض ہدایتوں کو قرآن کریم نے منسوخ کردیا ہے اور جب اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرماتاہے کہ مَیں نے پہلے جو کتاب بھیجی تھی اس کی یہ یہ ہدایتیں منسوخ کی جاتی ہیں تو اس اعلان میں اس کتاب کی تصدیق بھی ہورہی ہوتی ہے یعنی منسوخ کا اعلان خود تصدیق کررہاہوتاہے۔ اس بات کی کہ وہ ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل کی گئی تھی جسے اب اللہ تعالیٰ منسوخ کررہاہے۔
دوسرے اس میں یہ بتایا کہ جو جو بنیادی صداقتیں پہلی کتب میں تھیں وہ تمام کی تمام ہم نے قرآن کریم میں جمع کردی ہیں۔ ’’مِثْلِھَا‘‘ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ مِث￿ل اس لئے کہا۔پہلے مجمل طریق پر یہ صداقتیں بیان ہوئی تھیں اور حکمت بتائے بغیر۔ لیکن اب وہ کامل اور مکمل شکل میں قرآن کریم میں رکھ دی گئی ہیں بالکل وہی نہیں۔ کیونکہ بالکل وہی ہوں تو اس سے قرآن کریم میں نقص لازم آتاہے لیکن ہیں ویسی ہی مگر زیادہ اچھی شکل میں اور زیادہ تفصیل کے ساتھ۔
بِخَیْرٍمِّنْھَا وہ باتیں جن کی پہلی امّتیں حامل نہ ہوسکتی تھیں بیان کردیں اس لئے اس میں وہ ابدی صداقتیں بھی ہیں جو پہلی ہدایتوں کی جگہ آئیں اور ان سے زیادہ خوبصورت شکل میں۔ اس میں ضمناً یہ بھی بتا دیا کہ چونکہ پہلی کتب محرف ومبدّل ہوگئیں اس لئے مجموعی طور پر ان شریعتوں کو منسوخ کرنا پڑا مجموعی طور پر اس لئے کہ مثلاً موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں اب بھی بعض باتیں اسی شکل میں موجود ہیں جس شکل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں۔ لیکن مجموعی طور پر وہ شریعت انسانی دخل کی وجہ سے اس قدر محرّف ہوچکی ہے کہ اس میںوہ برکت، وہ حسن اور اللہ تعالیٰ کا وہ جلوہ نظرنہیں آرہا ہے جو برکت، جو حُسن اور جو جلوۂ ِالٰہی اس میں نزول کے وقت تھا اس لئے قرآن کریم نے اسے منسوخ کردیا لیکن اس کی بنیادی صداقتوں کو لے لیا۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک اور بات بھی بتائی ہے وہ یہ کہ ہم انسان کے ذہن سے شریعت کو مٹا کر (کہ وہ اسے بالکل بھول جائے) بھی منسوخ کیا کرتے ہیں۔
اگر قرآن کریم ان نامعلوم شریعتوں کا (جو نا معلوم تعداد میں دنیا کی طرف بھیجی گئیں اور جن کا اب نام ونشان نہیں) نام لیتا تو ہمارے دماغوں میں بڑی الجھن پیدا ہوجاتی۔ مثلاً اگر کہا جاتا کہ افریقہ میں فلاں نبی پر فلاںشریعت نازل ہوئی۔ حالانکہ نہ دنیا کی تاریخ نے اس نبی کے نام کو محفوظ رکھا ہوتا ، نہ اس کی شریعت کے نام کو محفوظ رکھا ہوتا۔ اور نہ اس کی کتاب کے کسی حصے کو محفوظ رکھا ہوتا تو کیسی مشکل پیش آتی؟ تاریخِ انسانی ان چیزوں کو بھلا چکی ہے۔ فرمایا کہ بعض شریعتوں کو اور بعض کتبِ سماوی کو جومحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گذری تھیں ہم نے ذہنِ انسانی سے بھلا کر انہیں منسوخ کردیاہے۔ خداتعالیٰ تو عَلِیْم ہے وہ تو نام بھی لے سکتا تھا لیکن اگر وہ ایسا کرتا تو ہمارے لئے پریشانی کا باعث بنتا۔ اس واسطے اس کے رحم نے تقاضا کیا کہ ان کو ُبھولا رہنے دے اور اس طرح ان کو منسوخ کردے۔ سو یہ بھی منسوخ کرنے کا ہی ایک طریق ہے۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کہ شریعت یااس کا کوئی حصہ منسوخ کیاجائے (کسی اعلان کے نتیجہ میں) یا شریعت کا کوئی حصّہ زیادہ اچھی شکل میںقرآن کریم میں نازل کردیاجائے یایہ اعلان کردیاجائے کہ ہم نے نام لئے بغیر بعض شریعتوں کو منسوخ کردیاہے۔ہر سہ صورتوں میں قرآن کریم مصدّق بنتاہے۔ ان سب پہلی شریعتوں کا کیونکہ اعلانِ تنسیخ اور اعلانِ نسیان خود تصدیق ہے کہ وہ شریعتیں یا ان شریعتوں کے وہ حصّے جو بنیادی صداقتیں تھی جن میں انسان کی طرف سے کوئی ملاوٹ نہیں کی گئی وہ خداتعالیٰ کی طرف سے تھیں۔
یہ ایک معنی مُصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِکے ہیں۔ دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ قرآن کریم ایک ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ اس کے متعلق دنیا کی ہر شریعت نے پیشگوئی کی تھی اور بشارت دی تھی اور انہی پیشگوئیوں کے مطابق قرآن کریم اپنے وقت پر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔
تو فرمایا کہ یہ ایک عظیم کتاب ہے۔ اتنی عظیم الشان کہ کوئی ایسی شریعت دنیا کے کسی خطّہ میںنازل نہیں کی گئی۔ جس کے نبی نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور آپؐ پر نازل ہونے والے قرآن (کتاب عظیم) کی بشارت نہ دی ہو۔ اور کوئی نبی ایسا نہیں گذرا جس نے اپنی قوم کو اس طرف متوجہ نہ کیا ہوکہ جس وقت بھی اور جہاں بھی خدا کا وہ برگزیدہ رحمۃ للعٰلمین کی شکل میں تمہارے سامنے آئے تو اس کو قبول کرلینا۔ کیونکہ خداتعالیٰ فرماتاہے کہ جو کتاب اسے دی جائے گی وہ میری ہر کتاب (شریعت) سے بہتر اور افضل اور اعلیٰ ہوگی۔ کیونکہ میری ہر پہلی کتاب میں چند برکات ہیں اور جو کتاب اسے دی جائے گی وہ مبارکٌ جامع ہو گی تمام برکات کی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جیسا کہ خود قرآن مجید نے کہا ہے دعا فرمائی اور بشارت بھی دی کہ ایسا نبی جو الکتاب اور الحکمۃ سکھانے والا ہو وہ مبعوث ہوگا۔ اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے متواتر نبی کے بعد نبی پیدا ہوا اور ان سب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشگوئی فرمائی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس گناہ سوز شریعت کی ان الفاظ میں بشارت دی کہ اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی۔ اور اس بشارت کو موسیٰ علیہ السلام نے بار بار دہرایا تاکہ ان کی امّت گمراہ نہ ہوجائے۔
پھر یسعیاہ نبی، نے حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لوگوں کو بشارت سنائی اور ہشیار بھی کیا۔ تاکہ جب وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) پیدا ہو تو لوگ ایمان سے محروم نہ ہوجائیں۔پھر بنی اسرائیل کی شریعت کے علاوہ جو شریعتیں محفوظ ہیں یاان کا کچھ حصّہ محفوظ ہے جب ہم ان کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتاہے کہ ان میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی بشارات موجودہیں۔ حضرت زرتشت نے بھی آپؐ کی بشارت دی۔ ہندوئوں کی کتب میں بھی یہ بشارت پائی جاتی ہے اور بعض جگہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ایک فرزند جلیل یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی بشارت دی ہے۔
تو قرآن کریم کا چودہ سوسال پہلے یہ دعویٰ کہ وہ مُصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ ہے۔ یعنی پہلی پیشگوئیوں کے مطابق دنیا کی طرف بھیجا گیاہے۔ خود ایک عظیم صداقت اور اس کی حقانیت پر ایک زبردست دلیل ہے۔ کیونکہ نزولِ قرآن کے وقت بہت سی کتب سماوی ایسی تھیں جن کے متعلق کسی کو کچھ بھی پتہ نہ تھا۔ لیکن اب وہ باتیں ظاہر ہو رہی ہیں اور چونکہ اب اشاعت کتب کی بہت سی سہولتیں ہوگئی ہیں اس لئے بہت سی چھپی ہوئی اور نامعلوم باتیں ہمارے سامنے آرہی ہیں۔ اور ہر نئی بات جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ قرآنِ کریم کی ہی تصدیق کررہی ہوتی ہے کہ قرآن کریم کا بھیجنے والا یقینا اَصْدَقُ الصَّادِقِیْن ہے۔ جو بات وہ کہتا ہے سچّی ہوتی ہے۔ اس کے متعلق کسی کو کبھی بھی شبہ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ علم توبڑھ رہا ہے، اگر کبھی آئندہ کوئی سابقہ شریعت (جو اس وقت انسان کے سامنے نہیں) انسان کے سامنے آجائے تو یقینا اس میں بھی ہم پائیں گے کہ ایک عظیم الشان نبی آنے والا ہے۔
پس فرمایا کہ یہ کتاب جامع ہے تمام برکات کی۔ اس لئے کہ یہ مُصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ ہے۔ پہلی تمام صداقتوں کی تصدیق کرتی ہے اور پہلی پیشگوئیوں کے مطابق اس کا نزول ہواہے۔ ہر نبی کو یہ فکر تھی کہ جو عظیم الشان نبی (محمدصلی اللہ علیہ وسلم) آنے والاہے کہیں اس کی امّت غلطی سے اس کا انکار کرکے خداتعالیٰ کے غضب اور قہر کا مورد نہ بن جائے اور ان سب انبیاء کو اس چیز سے دلچسپی تھی۔ کیونکہ یہ کتاب (قرآن) ہر قوم کے لئے تھی اس لئے وہ ان سب قوموں کامشترکہ روحانی مائدہ تھا۔ اور ان سب نبیوں کی قوم نے اس سے فیوض حاصل کرنے تھے اس لئے ان سب کو فکر تھی کہ کہیں ان کی قوم اس ابدی آتشی شریعت سے محروم نہ ہوجائے۔ اور موردِ غضبِ الٰہی نہ بن جائے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِـتُـنْذِرَ اُمَّ الْـقُرٰی وَمَنْ حَوْلَھَا یعنی تیرے اوپر یہ فضل اس لیے کیاگیاہے اور یہ کتاب مبارک اس لیے اُتاری گئی ہے کہ تا تُو نہ صرف مکّہ اور اہلِ عرب بلکہ ومن حولھا تمام ان آبادیوں میں رہنے والی اقوام کو ڈرائے جو عرب کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں۔
بشارت اور انذار دونوں ہی پہلو بہ پہلو چلتے ہیں کبھی خداتعالیٰ ان دونوں چیزوں کو کھول کر بیان کردیتا ہے او ر کبھی ایک کو بیان کردیتاہے اور دوسری انڈر ُسٹڈ (Under Stood) ہوتی ہے۔ یعنی سمجھا جاتاہے کہ یہ بھی یہاں مذکور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالاآیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرمایا کہ یہ کتاب جو مبارک بھی ہے اور مصدّق بھی ہے اس لئے تجھ پر نازل کی گئی ہے کہ تو تمام اقوامِ عالم کو خدائے واحد و یگانہ اور قادروتوانا کی طرف پکارے اور ان کو دعوت دے کہ اس پاک صحیفہ کوتسلیم کرو جس کے متعلق پیشگوئیاں تمہاری کتاب میں بھی کی گئی تھیں اور اس پرایمان لائو تاکہ تم تمام اُن برکات سے حصّہ لو جو اس کی اتباع کے نتیجہ میںتمہیں مل سکتی ہیں لیکن اپنی کتب کی پوری اتباع کے باوجود تمہیں نہیںمل سکتیں۔
اُمُّ الْقُرٰی سے میں نے عرب مراد لی ہے اس لئے کہ ہمارے عام محاورہ میں بھی جب کبھی ملک کے دارالخلافہ کا نام لیتے ہیں تو اس سے مراد وہاں کی قوم، وہاںکی حکومت اور وہاں کے رہنے والے شہری ہوتے ہیں۔ لغوی معنی بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ کیونکہ مفرداتِ راغب میںلکھاہے کہ مکّہ کو اُمُّ الْقُرٰی اس لئے کہتے ہیں کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو زمین کو بچھایا تو اس کا مرکزی نقطۂ مکّہ تھا اورزمین کا وجود اس نقطہ مرکزی کے گرد ظہور پذیر ہوا۔ ہمیں لفظی بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں، مجازی طور پر ہم اس کے بڑے اچھے اور صحیح معنی بھی کرسکتے ہیں۔ اور وہی ہمیں کرنے چاہئیں بہرحال یہ تخیل پہلے سے موجود تھا کہ مکّہ دنیا کے لیے ایک مرکزی نقطہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اُمُّ الْقُرٰی کے لفظ سے اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بتانا چاہتا ہے کہ ہم نے مکّہ کو دنیا کے لئے مرکزی نقطہ بنا دیاہے اس لیے کہ اُمّ کے معنی میں وہ چیز جو دوسری چیز کے لئے بطور اصل کے ہو، اس کے وجود، اس کی ابتداء، اس کی تربیت اور اس کی اصلاح کے لئے۔
تو فرمایا کہ اُمُّ الْقُرٰی یعنی مکّہ کو دنیا کی اصلاح اور تربیت کے لئے ہم مرکزی نقطہ بنارہے ہیں۔ اس لئے اے رسولؐ! اُٹھ اور ان لوگوں کو تیار کر تاکہ وہ دنیا میںپھیلیں اور خدائے واحد کی تبلیغ کریں اور اس کے نام کا جھنڈا بلند کریں اور قرآن کریم کے نور سے دنیا کو منور کرنے کی کوشش کریں۔ لِـتُـنْذِرَ اُمُّ الْـقُرٰی پہلے عرب کو تیار کرو اور وہاں استاد پیدا کرو۔ وَمَنْ حَوْلَھَا پھر یہ باہر نکلیں گے اور ایک دنیا کے معلّم اور راہبر بنیں گے۔
تاریخ کے اوراق اُلٹتے چلے جائیں امّتِ مسلمہ کی تاریخ لِـتُـنْذِرَ اُمُّ الْـقُرٰی وَمَنْ حَوْلَھَا ہی کی کھلی تفسیرہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ یُوْمِنُوْنَ بِہٖ وَھُمْ عَلٰی صَلٰوتِھِمْ یُحَافِظُوْن۔ کہ اگرچہ تمام انبیاء سابقین اور کتب سابقہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے نزول کی پیشگوئی کی ہے لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ تمام اقوامِ عالَم آسانی کے ساتھ قرآن کریم پر ایمان بھی لے آئیں گی۔ کیونکہ ان اقوام میں سے وہی لوگ ایمان لائیںگے۔ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ جو ان موعودہ پیشگوئیوں پر پختہ ایمان رکھتے ہیں۔ اور پختہ ایمان اس شخض کا ہوتاہے جو (اوّل)ان پیشگوئیوں کو بھول نہیںجاتا۔ دیکھو ہماری امّت مسلمہ کو بھی بہت سی پیشگوئیاں سنائی گئیں لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پیشگوئیوں کویاد رکھتے ہیں؟ اور کتنے ہیں جن کے ذہنوں میں وہ پیشگوئیاں مستحضر رہتی ہیں؟ بہت ہی کم ہیں!!!فرمایا وہ لوگ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ ان پیشگوئیوں پر پختہ ایمان رکھتے ہیں یعنی انہیں ُبھولے ہوئے نہیں۔
(دوم) ان پیشگوئیوں کو سچی پیشگوئیاں سمجھتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں ان کو جھوٹا نہیں قرار دیتے جیسے کہ آج کل بعض لوگ جب تنگ آجاتے ہیں اور ان سے کوئی جواب نہیں بن آتا تو کہہ دیتے ہیں کہ مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق جتنی پیشگوئیاںحدیث وغیرہ میںہیں وہ سب جھوٹی ہیں۔ایسی کوئی پیشگوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی۔جس شخص کا ایسا خیال ہو وہ پیشگوئی سے فائدہ بھی نہیںاُٹھا سکتا۔
(سوم) ان کی غلط تاویلیں نہیں کرتے۔یہ بھی پختہ ایمان کا طبعی اور لازمی نتیجہ ہے بعض لوگ غلط تاویلیں کرنی شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ برکات سے محروم ہوجاتے ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جولوگ ان پیش خبریوں کو جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے متعلق پچھلی تمام کتب سماویہ نے دی تھیں۔ بھلائے ہوئے نہیں۔ بلکہ ان کو اپنے ذہنوں میں مستحضر رکھتے ہیں۔ ان کی غلط تاویلیں نہیںکرتے، ان کو پختہ یقین ہے کہ یہ خدا کی بات ہے اور ضرور پوری ہوکر رہے گی۔ اور اس کے ساتھ ہی وَھُمْ وَعَلٰی صَـلَا تِھِمْ یُحَافِظُوْن وہ اپنی شریعت کے مطابق جوہم نے ان پرنازل کی دعا اور عبادت میںلگے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کسی نیکی اور ثواب کا حصول خداتعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لئے ہر وقت دعا میںلگے ہوئے ہیں عبادت کررہے ہیں اور اپنی شریعت کو حتّی المقدورقائم کئے ہوئے ہیں۔ یہی لوگ ہیں یُؤْمِنُوْنَبِہٖ جو قرآن کریم پر ایمان لانے کی توفیق پائیںگے۔
جو شخص قرآن کریم پر ایمان نہیںلاتا خداتعالیٰ اسے َموردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ کہ تم وہ لوگ ہو جو خود اپنی شریعت کے مطابق نہ دعا کرتے ہو اور نہ ہی عبادت کرتے ہو اور نہ ہی شریعت کے دوسرے احکام بجالاتے ہو اور نہ ہی اپنی شریعت کی حفاظت کرتے ہو۔ بلکہ جو پیشگوئیاں اور بشارتیں تمہیں ملی تھیں تم ان کا انکار کررہے ہو۔ یا ان کی غلط تاویلیں کررہے ہو، تو تم خداتعالیٰ کے فضل کو کیسے کھینچ سکتے ہو؟ تم نے اس شریعت کی قدر نہیں کی جو تم پر نازل کی گئی تو تم اس شریعت پر کیسے ایمان لاسکتے ہوجو تمہاری قوم سے باہر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی یا تمہاری قوم میں سے ایک ایسے شخص پرنازل کی گئی جو تمہارے خیال میںخدا کے نزدیک اس قدر کے قابل نہ تھا۔ جو قدر اس کی کی گئی۔ اور تمہارے خیال میں یہ کتاب اس شخص پر نازل ہونی چاہئے تھی جس کے متعلق تم فیصلہ دیتے کہ وہ قوم میںبڑا دیانتدار اور ہر لحاظ سے اس قابل تھا کو خداکاکلام اس پرنازل ہوتا۔
تو تمام اقوامِ عالم پر الزام دھرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارا قرآن کریم سے انکار کرنا اس بات کی دلیل نہیںہے کہ قرآن کریم میں کوئی نقص ہے یا قرآن کریم ان خوبیوں کامجموعہ نہیں جن خوبیوں کا مجموعہ خداتعالیٰ اسے قرار دیتاہے یا وہ مصدق نہیں اور تمہاری کتب کی پیشگوئیوں کے مطابق نہیں آیا۔ نہیں! بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ جو شریعت تم پر نازل کی گئی تھی تم خود اس کے پابند نہیں تھے۔ اور نہ اس پر عمل کرتے تھے۔
نہ دعا کرو، نہ عبادتیں بجالائو، نہ شریعت کے دوسرے احکام پر عمل کرو، نہ ان پیشگوئیوں کو سچا سمجھو جو اللہ تعالیٰ نے خود تمہاری مسلّمہ کتابوں میں نازل فرمائی ہیں۔ تو تم کیسے برکاتِ قرآنی سے فائدہ حاصل کرسکتے ہو۔
پس فرمایا کہ اگرچہ یہ قرآن مُبَارَکٌ اور مُصَدِّق ہے لیکن اس پر ایمان وہی لائے گا جو اپنی کتاب کی پیشگوئیوں پر پختہ ایمان رکھتا ہو اور اپنی شریعت کو قائم کرنے والا ہو،دعا کرنے والا اور عبادت گزار ہو۔ اور جو ان تقویٰ کی راہوں پر چلنے والا ہو جو اس کے لئے کھولی گئی تھیں۔ اگر وہ اپنے زمانہ کی ذمہ داریاں نہیں نبھا سکا تو وہ ذمہ داریاں جو سارے زمانوں سے تعلق رکھتی ہیں وہ کیسے نبھا سکے گا؟ ’’سارے زمانہ کی ذمہ داریاں‘‘اس لئے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرزمانہ اور ہر قوم کے لئے ہیں۔ پس وہ شخص جو اپنی قوم کی ذمہ داریاں نہیں نبھاسکا تو وہ ذمہ داریاںجو ساری اقوام کی ہیں وہ کیسے نبھا سکے گا؟ اس لئے وہ قرآن کریم کی برکات سے محروم رہ جائے گا۔
اس میں اُمت مسلمہ کو اس طرف متوجہ کیا گیاہے کہ وہ پیشگوئیاں جوقرآن کریم یاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال میںپائی جاتی ہیں، بشارتوںکے رنگ میں ہوں یا انذار کے رنگ میں۔ ان سب کوماننا ضروری ہے۔فرمایا کہ اگر تم لوگ ان پر پختہ یقین نہیں رکھو گے۔ انہیں بھول جائو گے، ان کی تاویلیں کرنے لگ جائو گے کہو گے کہ یہ تو احادیث میں غیر ثقہ لوگوں نے ملادی ہیں۔ اور جب وہ واقع ہوجائیں گی تب بھی تمہیں سمجھ نہ آئے گی کہ غیرثقہ لوگوں نے زمین وآسمان کی تاریںکیسے ملادیں اور ان کا وقوعہ کیسے ہوگیا تو یقینا تم بھی قرآنی برکات سے محروم رہو گے۔ پھر اگر تم قرآن کریم کی بیان کردہ عبادت بجا نہ لائو گے۔ قرآن کریم کے طریق کے مطابق دعائوں میں مشغول نہیںرہو گے، قرآن کریم کی شریعت کو اپنا لائحہ عمل اور دستور قرار نہیں دو گے تو تم کبھی ان برکات سے فائدہ حاصل نہیں کرسکو گے۔ جن برکات کا تعلق ان لوگوں سے ہے۔ جوپختہ ایمان رکھتے ہیں، دعا کرنیوالے ہیں عبادت میں مشغول رہنے والے ہیں اور جو شریعت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہیں پس اگر تم کتاب مبارک اور احکامِ شریعت کو ٹھکرا دو گے اور پیٹھوں کے پیچھے پھینک دو گے تو باوجود اس کے کہ تم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ہوگے۔ خدا کے غضب اور قہر کے مورد بن جائو گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق بخشے کہ ہم قرآن کریم کی (جو تمام برکات کا جامع ہے) ساری کی ساری برکات سے فیض پانے والے ہوں۔ اور یہ محض اس کے فضل سے ہی ہو گا نہ کہ ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں۔ اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ جہاں ہم نے محض اس کی توفیق سے مسیح موعود علیہ السلام کو پہچانا ہے قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی دیگر پیشگوئیوں کو بھی ہم اور ہماری نسلیں پہچان سکیں اور ان کی معرفت حاصل کر سکیں اور ان پر ایمان لاسکیں تاکہ نہ ہم اور نہ ہماری نسلوںمیں سے کوئی نسل ان برکات سے محروم رہے جن برکات کاذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام کی اس آیت میںکیاہے۔ اللّٰھم اٰمین
(روزنامہ الفضل ۲۱؍ ستمبر۱۹۶۶ء صفحہ ۲ تا ۵)
٭…٭…٭

خطبہ جمعہ۲؍ ستمبر ۱۹۶۶ء
ء ء ء
شعبہ زود نویسی کے ریکارڈ کے مطابق حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ ارشاد نہیں فرمایا۔

٭…٭…٭


















جو شخص رسوم و بدعات کو نہیں چھوڑتا اُس کا ایمان کبھی پختہ نہیں ہو سکتا
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۹ ؍ستمبر ۱۹۶۶ء بمقام ۔ مری )
ء ء ء
٭ نیکیوں کی تعلیم آسمان سے آتی ہے اور ثواب اور اجر کا دینا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
٭ جب تک رسوم و بدعات کے دروازے تم اپنے پر بند نہیں کر لیتے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے نہیں کھل سکتے۔
٭ جماعت احمدیہ کے ذریعہ لسانی اور قلمی جہاد کیا جار ہا ہے۔
٭ بدرسوم اور ایمان کامل اکٹھے نہیں ہو سکتے۔
٭ ہر احمدی تنظیم پر یہ فرض ہے کہ وہ نگرانی کرے کہ کوئی احمدی بھی بدرسوم و رواج کی پابندی کرنے والا نہ ہو۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کے بعد حضور پر نور نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰئۃِ وَالْاِنْجِیْلِ ز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ َینْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَالَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہٗ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo (الاعراف : ۱۵۸)
پھر فرمایا:۔
اس آیت میں جو مضمون بیان ہوا ہے میں اس کے ایک حصہ کے متعلق دوستوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ یہ مضمون یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ سے شروع ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ کی بعثت سے قبل بہت سے مستقل سلسلہ ہائے انبیاء اور سلسلہ ہائے شرائع قائم کئے گئے تھے۔ بہت سی قومیں اس وقت ایسی تھیں جن کا رشتہ اپنی شریعت سے ابھی ٹوٹا نہ تھا۔ وہ اپنی حالت اور اپنی سمجھ کے مطابق ان شرائع کی پیروی کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ لیکن بہت سی اقوام ایسی بھی تھیں کہ جن کا رشتہ اپنی شریعت سے ٹوٹ چکا تھا اور اس وقت وہ عملاً اہل کتاب نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنی ناقص عقل سے بہت سی رسوم جاری کر رکھی تھیں اور بہت سی بدعتوں میں مبتلا ہو چکے تھے۔ یہی ان کا مذہب تھا یہی ان کی شریعت تھی۔ ایسی شریعت جس کا کوئی رشتہ آسمان سے قائم نہ تھا لیکن جو ان کے جاہل دلوں کو تسلی دے دیا کرتا تھا۔
تو اس آیت کے پہلے حصہ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ کا تعلق ان اقوام سے ہے۔ جن کا رشتہ اپنی شریعت سے منقطع نہیں تھا۔ اور ہر نبی نے رسول کریمﷺ کی بعثت سے قبل اپنی اپنی اُمت سے اللہ تعالیٰ کے نام پر عہد بیعت لیا تھا اور وہ ایک پختہ عہد پر قائم تھے۔ وہ میثاق اور عہد یہ تھا کہ وہ قومیں اپنی اپنی شریعت کو اپنے اندر قائم کریں گی۔ اور ان میں سے ہر ایک شخص اس پر خود بھی عمل کرے گا اور دوسروں سے بھی عمل کرانے کی کوشش کرے گا۔ اگرچہ ان کی شریعت بہت حد تک محرف و مبدل ہو چکی تھی۔ اور بہت سی بدعتیں اور رسوم انہوں نے اپنی شریعت میں ملا دی تھیں۔ لیکن ان میں سے ایک جماعت سمجھتی یہی تھی کہ وہ خدا کی شریعت ہے۔ اور ہم نے اپنے رب سے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس شریعت پر قائم رہیں گے۔ اور اسے قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ آل عمران میں فرمایا ہے۔
وَاِذْاَ خَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُوْنَہٗ ز فَنَبَذُوْہُ وَرَآئَ ظُھُوْرِھِمْ وَاشْتَرَوْابِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط فَبِئْسَ مَایَشْتَرُوْنَo (آل عمران: ۱۸۸)
یعنی اس وقت کو یاد کرو کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی عہد لیا تھا کہ تم ضرور اپنی قوم کے لوگوں کے پاس اس کتاب کو ظاہر کرو گے (اپنے قول سے بھی اور اپنے عمل سے بھی) اور اس کی تعلیم کو وضاحت کے ساتھ اور کھول کھول کر بیان کرو گے اور عوام سے اس کو چھپائو گے نہیں بلکہ اس کی تعلیم کو عام کرو گے تا علیٰ وجہ البصیرۃ اور حق الیقین کے ساتھ وہ اس پر ایمان لانے والے اور اس پر عمل کرنے والے ہوں مگر باوجود اس کے انہوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا۔ اور اسے چھوڑ کر تھوڑی سی قیمت (جو دنیوی مال و متاع ہیں) لے لی۔ اور اُخروی نعمتوں کو دنیوی لذات پر قربان کر دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو وہ لیتے ہیں بہت ہی بُرا ہے۔
یہ وہ عہد ہے جو ہر نبی کی اُمت اپنے رب سے کرتی رہی ہے اور نبی کریمﷺ کے زمانہ میں جو قومیں اہلِ کتاب میں شمار ہوتی تھیں یا ہو سکتی تھیں وہ اقوام اظہار بھی کرتی تھیں کہ ہم خدا کی نازل کردہ ایک شریعت پر قائم ہیں اور ہم نے اپنے رب سے یہ عہد کیا ہے کہ آئندہ بھی اس پر قائم رہیں گے بلکہ اس شریعت کو قائم کریں گے اور بنی اسرائیل کا بھی اپنے رب سے یہ عہد تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو شریعت تورات کی شکل میں موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمائی ہے۔ وہ اس پر عمل کریں گے اور اس پر قائم رہیں گے۔
تو اگرچہ یہ شریعتیں ایک حد تک محرف و مبدل ہو چکی تھیں۔ اور انسانی ہاتھوں نے بہت سی بدعتیں ان میں شامل کر دی تھیں۔ لیکن ان کے پیرو بہر حال انہیں روحانی صداقتیں اور روحانی حقائق بتلاتے تھے اور کہتے تھے کہ اپنے ربّ سے جو پختہ عہد انہوں نے باندھا ہے اس پر قائم رہناان کیلئے ضروری ہے۔ چونکہ اس وقت دنیا کی یہ حالت تھی اور ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو تمام دنیا کے لئے، تمام جہانوں کے لئے اور تمام زمانوں کے لئے مبعوث فرمایا تھا۔ اس لئے ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریمﷺ کے ذریعہ یہ اعلان کیا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے سب پہلی شریعتوں کو منسوخ کر دیا ہے اور پہلی قوموں نے اپنے اپنے رسول کے ذریعہ جو عہد اپنے اللہ سے باندھا تھا ان کا رب اس عہد کو ساقط کرتا اور ان اُمتوں کو اس عہد سے آزاد کرتا ہے۔ اور آنحضرتﷺ کے ہاتھ پر نیا عہد باندھنے کی تلقین کرتا ہے۔
پس اس چھوٹے سے فقرہ (وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ ) میں اعلان کیا گیا ہے کہ پہلی شریعتیں منسوخ اور پہلے عہد جو تھے وہ سب ساقط ہو گئے ہیں۔ کیونکہ اِصْرٌ کے ایک معنی اس پختہ اور تاکیدی عہد کے ہیں جو عہدشکن کو عہد شکنی کی وجہ سے نیکیوں اور ان کے ثواب سے محروم کر دیتا ہے۔
چونکہ نیکیوں کی تعلیم آسمان سے آتی ہے اور ثواب اور اجر کا دینا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس لئے اس عہد سے مراد عہد بیعت ہی ہو سکتا ہے جو خداتعالیٰ سے کیا جاتا ہے۔
پس فرمایا کہ ہمارا یہ رسول، نبی اُمی دنیا میں اعلان کرتا ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے ماتحت کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے سارے قدیم عہد ساقط کر دئے ہیں اور ان کی پابندی تم سے اٹھا لی ہے۔ اب اس نبی اُمی خاتم النبییّنﷺ کے ہاتھ پر اپنے ربّ سے نئے عہد باندھو،تا اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے پہلے سے زیادہ وارث بن سکو۔ یہ ایک معنی ہیں یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ کے!!
پھر فرمایا وَالْاَغْـلَالَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ بہت سی قومیں ایسی بھی تھیں جن کا رشتہ اپنی شریعتوں سے نبی کریمﷺ کی بعثت سے کہیں پہلے ٹوٹ چکا تھا اور شریعت کی بجائے من گھڑت بدرسوم اور بدعات شنیعہ میں وہ جکڑی ہوئی تھیں۔ اور یہی ان کا مذہب تھا۔ خود ساختہ قیود اور پابندیاں ان کو نیکیوں سے محروم کر رہی تھیں اور ان کی تباہی کا باعث بن رہی تھیں۔ اور انہیں ان کے رب سے دور کر رہی تھیں۔ تو فرمایا وَالْاَغْلالَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ اللہ تعالیٰ کے اس رسولﷺ نبی اُمی نے ان تمام رسوم اور بدعات کو یکسر مٹا دیا ہے۔ اگر تم قرب الٰہی چاہتے ہو تو رسوم اور بدعات کی بجائے قرآنی راہ ہدایت اور صراط مستقیم تمہیں اختیار کرنا پڑے گا۔ جب تک رسوم و بدعات کے دروازے تم اپنے پر بند نہیں کر لیتے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے تم پر کھل نہیں سکتے۔
اس کے بعد فرمایا فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِہٖ یعنے اب وہی لوگ قرب الٰہی اور فلاح دارین حاصل کر سکتے ہیں جو قرآن مجید پر اور آنحضرتﷺ پر ایمان لاتے ہیں اور دل سے اس نبی کو اور اس پر نازل ہونے والی شریعت کو حق، نور اور راہ نجات یقین کرتے ہیں اور جرأت اور دلیری کے ساتھ اس دلی یقین کا زبان سے اقرار کرتے ہیں۔ اور بر ملا اس کا اظہار کرتے اور اس ہدایت کی اشاعت میں کوشاں رہتے ہیں اور اپنے اعضاء اور جوارح اور اپنے قول اور فعل اور عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کے ایمان کا دعویٰ حقیقتاً سچا ہے تو فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِہٖ میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں۔ (۱)اوّل دل سے یقین کرنا۔ کوئی کھوٹ نہ ہو کوئی کمزوری نہ ہو۔ (۲) پھر زبان سے یہ اقرار کرنا کہ ہمارے دل اس صداقت کو مان چکے ہیں۔ اظہار کے مفہوم میں ہی یہ بات پائی جاتی ہے کہ پختہ ایمان والا شخص تبلیغ اسلام میں ہر وقت کوشاں رہتا ہے۔ دلی ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ جرأت اور دلیری کے ساتھ اپنے ایمان کا اظہار کرے اور لوگوں کو بتائے کہ جس شریعت پر میں ایمان لایا ہوں۔ جس خدا کی کتاب کو میں نے مانا ہے اس میں یہ یہ خوبیاں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے دروازے وہ اس اس طرح ہم پر کھولتی ہے اور اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہمیں حاصل ہوتی ہیں۔ غرض وہ زبان سے تبلیغ اور اشاعت اسلام کرنے والا ہو۔ (۳) پھر اس کا محض زبانی دعوے نہ ہو بلکہ اس کی ساری زندگی اسلام کا ایک نمونہ ہو اور وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کر رہا ہو کہ جو دعوے اس نے زبان سے کیا ہے اس میں کوئی فریب نہیں۔
تو فرمایا کہ وہ لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قسم کا ایمان لاتے ہیں وہی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں فلاحِ دارین کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
پھر فرمایا وَعَزَّرُوْہُ۔ عَزَّرَ کے معنی ہیں فَخَّمَہٗ وَ عَظَّمَہٗ (منجد) اور مفردات میں تَعْزِیْرٌ (صفحہ۳۳۳ باب العین)کے معنی یہ لکھے ہیں۔
’’النُّصْرَۃُ مَعَ التَّعْظِیْمِ نُصْرَۃُ بِقَمْعِ مَایَضُرُّہُ مِنْہُ‘‘۔
تو فرمایا کہ آسمانی نصرتوں کے دروازے صرف انہی پر کھولے جائیں گے جو اس نبی اُمی کی بزرگی اور عظمت اپنے دلوں میں قائم کریں گے اور اس کی عظمت اور جلال کے قیام کے لئے دشمن کے مکروں اور تدبیروں اور ظالمانہ حملوں کے مقابل صدق و صفا کے ساتھ سینہ سپر ہوں گے اور دشمن کے تمام منصوبوں کا اپنے ایثار اور فدائیت کے ساتھ قلع قمع کرکے اس نبی اُمی کی قوت کا باعث بنیں گے۔ اور قیام شریعت حقّہ میں محمد رسول اللہﷺکے انصار بنیں گے۔
عَزَّرَ کے مفہوم میں تعظیم بھی شامل ہے اورعَزَّرَ کے معنی میں یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ اس کی مضبوطی کا باعث بنا اس کے دشمنوں کا مقابلہ کرکے اور ان تمام ضرر رساں چیزوں کو راستہ سے ہٹا کر جن سے اس کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ تو مدافعت کے لئے جو جہاد مسلمانوں نے نبی کریمﷺ کے زمانہ میں ان دشمنانِ اسلام کے خلاف کیا۔ جو اسلام کو مٹانے کے لئے تلوار لے کر اٹھے تھے وہ اس ’’تعزیر‘‘ کے اندر آتا ہے مطلب یہ کہ انہوں نے ہر قسم کی قربانی دے کر اس ضرر کو دنیا سے مٹانے کی کوشش کی۔
اب جماعت احمدیہ کے ذریعے جو لسانی اور قلمی جہاد قرآن کریم کی اشاعت و تبلیغ کے لئے کیا جا رہا ہے یہ بھی ’’تعزیر‘‘ کے معنی کے اندر آتا ہے۔ کیونکہ ہمارے نوجوان اپنی زندگیوں کو وقف کرتے ہیں، ہر قسم کی تکالیف جھیلتے ہیں۔ غیر معروف اور دور دراز علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور بہت کم رقوم میں جو انہیں دی جاتی ہیں، گزارہ کرتے ہیں۔ وہ ہر قسم کی تکالیف اس لئے برداشت کرتے ہیں کہ عیسائیت کی جو یلغار اسلام کے خلاف جاری ہے اس کا مقابلہ کیا جائے۔ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو ہمیں یقین ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے بہت پیار کرتا ہے۔
پس ابتداء اسلام میں جہاد بالسیف اور ہر زمانہ میں (خصوصاً زمانہ حاضرہ میں) جہاد بالقرآن دونوں ’’تعزیر‘‘ کے اندر آتے ہیں کیونکہ تعزیر کے معنی میں یہ پایا جاتا ہے کہ کسی کی عظمت دل میں اتنی ہو کہ اس عظمت کی خاطر انسان اپنے نفس کو اور مال کو قربان کر رہا ہو،تا کہ ان منصوبوں کو جو اسے دکھ پہنچانے اور ضرر دینے کے لئے کئے جا رہے ہوں ناکام بنا دیا جائے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ نَصَرُوْہُ فلاح دارین کے مستحق وہ لوگ ہیں جو اس کی نصرت اور مدد میں کوشاں رہتے ہیں۔
آنحضرتﷺ کو کسی ذاتی امداد کی ضرورت نہ تھی۔ نہ آپؐ کو اس کی خواہش تھی۔ آپؐ نے دیگر انبیاء کی طرح علیٰ الاعلان کہا مَا اَسْئَلُکُم عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ کہ جو کام میرے سپرد کیا گیا ہے میں اس پر تم لوگوں سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔
پس ہمیں یہاں نصر کے معنی وہ کرنے ہوں گے جس معنی میں یہ لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس کا مفعول ہو۔ یعنی جب یہ کہا جائے کہ فلاں شخص نے اللہ تعالیٰ کی مدد کی (نَصَرَاللّٰہ) اور لغت عرب میں اس نصرۃ کا مطلب یہ ہے کہ ھُوَ نُصْرَتُہٗ لِعِبَادِہٖ وَالْقِیَامُ بِحِفْظِ حُدُوْدِہٖ وَرِعَایَۃِ عُھُوْدِہٖ وَاعْتِنَاقِ اَحْکَامِہٖ وَ اجْتِنَابِ نَھْیِہٖ (مفردات) تو نصروہ فرما کر یہ بیان فرمایا کہ قرب الٰہی کے عطر سے وہی لوگ ممسوح کئے جائیں گے اور حیات ابدی کے وہی وارث ہوں گے جو اخوت اسلامی کو قائم کرتے ہوئے بھائی بھائی کی طرح ایک دوسرے کے ممد و معاون ثابت ہوں گے اور شریعت حقہ نے جو حدود قائم کی ہیں اس کی بیان کردہ شرائط کے ساتھ وہ لوگ چوکسی اور بیدار مغزی سے ان کی حفاظت کرنے والے ہوں گے اور وہ عہد جو انہوں نے اپنے ربّ سے اس نبی اُمی کے ہاتھ پر باندھا ہے مقدور بھر اس کی پابندی کرنے والے ہوں اور جو اوامر اور احکام پر مضبوطی سے قائم رہیں گے اور ان نواہی سے بچیں گے جن سے بچنے کا خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ فرمایا کہ یہ لوگ ہیں جو اس کی نصرت کرتے ہیں۔ ان کا معاشرہ باہمی اخوت کے اصول پر قائم ہے۔ بھائی بھائی کی طرح رہتے ہیں۔ کسی کی بے جا مخالفت نہیں کرتے، کسی کو دکھ نہیں دیتے، کسی کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، کسی کے خلاف زبان نہیں چلاتے وغیرہ وغیرہ بہت سی حدود ہیں جو شریعت اسلامیہ میں قرآن کریم نے بیان کی ہیں۔ بعض جگہ لفظاً کہہ دیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرنا اور بعض جگہ معناً ان حدود کی طرف اشارہ کر دیا۔
تو نَصَرُوْہُکے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ قرآن کریم کی بتائی ہوئی حدود کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان سے تجاوز نہیں کرتے۔
ایک اور معنی نَصَرُوْہُ کے یہ ہیں کہ اُمت مسلمہ جس نے نبی کریمﷺ کے ہاتھ پر اپنے رب سے عہد باندھا ہے اس میں سے وہی لوگ خدا کی نگاہ میں ’’مفلح‘‘کہلانے کے مستحق ہوں گے جو اپنے عہد کی رعایت اور پابندی کرنے والے ہوں گے۔ نیز وہ جو قرآن کریم کے احکام یعنی ’’کرنے کی باتوں‘‘ کا جو سینکڑوں ہیں اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں جوا اپنی گردنوں میں ڈالنے والے ہیں۔ اور نواہی جن کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان باتوں کو نہ کرو ان باتوں سے وہ اجتناب کرتے ہیں۔
فرمایا اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ یہی لوگ فلاح دارین کے حق دار ہیں۔
پھر فرمایا وَاتَّبَعُوْا النُّوْرَالَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہٗ کہ اس نبی اُمی کے ساتھ آسمان سے ایک نور بھی نازل ہوا ہے۔ اس کے ہر قول میں آسمانی روشنی جھلکتی نظر آتی ہے اور اس کے ہر فعل میں اللہ کا نور جلوہ گر نظر آتا ہے۔
اِتَّبَعَ کے معنی ہیں قَفَا اَثَرَہٗ اور اَثَر کے معنی سنت کے ہیں۔ تو اِتَّبَعُوْا کے معنی ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو ایک نورانی وجود بنا کر دنیا میں بھیجا تھا مگر یہ اس قسم کا نورانی وجود نہیں جیسا کہ بعض لوگوں کے نزدیک فرض کیا گیا ہے۔ بلکہ (اِنَّمَا اَنَابَشَرٌ مِّثْلُکُمْ) (الکھف: ۱۱۱)ہماری طرح کا ایک بشر ہونے کے باوجود بے حد اور بے شمار انوار روحانی آپؐ کے ساتھ اور آپؐ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے۔
تو اس آیت میں فرمایا کہ یہ رسول نور ہے اس کا ہر فعل نور اور اس کا ہر قول نور ہے۔ تم اس کی اتباع کرو گے تو اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ کے مطابق تم مُفْلِحِیْن میں شامل ہو جائو گے۔
پس فرمایا کہ جو لوگ اس کی اتباع کرتے ہیں اور اس کے اسوئہ حسنہ کے رنگ میں رنگین ہو کر زندگی گزارتے ہیں۔ اس زندگی میں بھی خداتعالیٰ کا نور ان کے چہروں پر چمکتا ہے اور اُخروی زندگی میں بھی ان کا یہ نور (نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ) (التحریم :۹)ان کے آگے بھی چل رہا ہو گا اور ان کے دائیں بھی چل رہا ہو گا۔ یہ علامت ہو گی اس بات کی کہ یہ خداتعالیٰ کے ان نیک اور پاک بندوں کا گروہ ہے جو سنت محمدیہ کی اتباع کرنے والے ہیں۔
غرض فرمایا کہ وہ لوگ جن کا ایمان پختہ ہے۔ جن کا ایثار اور جن کی فدائیت اعلیٰ ہے اور جنہوں نے احسن طور پر اپنے نفسوں کی اصلاح کی ہے اور دنیا کے سامنے اپنا پاک نمونہ پیش کیا ہے اور اسوئہ رسول کی کامل اتباع کی ہے اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ یہی لوگ ہیں جو خداتعالیٰ کی نگاہ میں اور اس کے حضور فلاح پانے والے ہیں۔
فلاح کا لفظ عربی زبان میں اس قسم کی انتہائی اعلیٰ اور احسن کامیابی پر بولا جاتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے کوئی اور لفظ عربی لغت میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے معنی دنیوی اور اُخروی کامیابی کے ہیں۔
دنیوی کامیابی اس معنی میں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے صحت والی زندگی دی ہے۔ اتنا مال اور قناعت دی ہے کہ سوائے اپنے رب کی احتیاج کے اس کو کسی اور چیز کی احتیاج محسوس نہ ہو۔ اور عزت و جاہ عطا کیا ہے۔ تو جس شخص کو یہ تینوں چیزیں مل جائیں اس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کو فلاح مل گئی۔
اور اُخروی کامیابی اس معنی میں کہ اوّل ایسے شخص کو ایسی دائمی بقاء اور دائمی حیات حاصل ہو جو فی الواقع اور فی الحقیقت حیات ہے۔ کیونکہ جو لوگ جہنم میں جائیں گے بظاہر وہ بھی زندہ ہوں گے لیکن ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ نہ زندہ ہوں گے اور نہ مردہ لیکن حقیقی اور دائمی حیات وہ ہے جس کے اندر فنا، کمزوری یا بیماری کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔
دوم۔ جو چاہے اسے ملے۔ اللہ تعالیٰ جنتیوں کے متعلق یہی کہتا ہے کہ جو وہ چاہیں گے ان کو مل جائے گا۔ خدا کے نزدیک یہ بڑے پیار کا مقام ہے کہ ان کی کوئی خواہش ردّ نہ کی جائے گی۔ یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کے دل میں کوئی ایسی خواہش پیدا نہ ہو گی جو خدا کی نگاہ میں رد کئے جانے کے قابل ہو۔ نیک خواہشیں ہی ان کے دل میں پیدا ہوں گی اور انہیں پورا کر دیا جائے گا۔
سوم۔ اسے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور اس معاشرہ میں جس کا تعلق اُخروی زندگی کے ساتھ ہے۔ (اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیسا ہے) اور جس قسم کے اجتماعی تعلقات ہوں گے اس میں اسے پوری اور حقیقی عزت حاصل ہو گی اور یہ خطرہ نہ ہو گا کہ اسے کبھی ذلیل بھی کر دیا جائے گا۔ اور چہارم یہ کہ معرفت میں اسے کمال حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کی کامل معرفت اور ان کا کامل عرفان اس دنیا میں مادی بندھنوں میں بندھے ہونے کی وجہ سے ہم حاصل نہیں کر سکتے۔ اس دنیا میں ہمارے لئے جن صفات کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں وہ ہمارے لئے اپنے کمال کو نہیں پہنچتے۔ اگر کسی فرد واحد کے لئے خداتعالیٰ کی صفت کا جلوہ اپنے کمال کو پہنچا تو وہ صرف آنحضرتﷺ کی ذات تھی۔ اس جلوہ کو دیکھنے کے لئے ایک وقت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی بے تاب رہے۔ مگر وہ، وہ جلوہ دیکھنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک وجود کے علاوہ خدائی صفات کا کامل جلوہ کسی اور انسان پر نہیں ہو سکتا اور نہ ہوا۔
جب یہ چاروں باتیں کسی انسان کو حاصل ہوں تو عربی زبان میں کہتے ہیں کہ وہ مفلح (کامیاب) ہو گیا۔ پس لفظ فلاح بہت بڑی، بہت شاندار، بہت ارفع، بہت اعلیٰ کامیابی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
تو فرماتا ہے کہ جو لوگ حقیقی طور پر اور صحیح معنی میں ایمان لاتے ہیں، جو لوگ آنحضرتﷺ کو تقویت پہنچانے کے لئے ہر قسم کی قربانی کرتے ہیں۔ ایثار اور فدائیت کا نمونہ دکھاتے ہیں اور جو لوگ قرآنی احکام کے مطابق اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھالتے ہیں کہ واقعہ میں وہ آنحضرتﷺ کے روحانی فرزند بن جاتے ہیں۔ اور جو لوگ سنت اللہ کو قائم کرکے اللہ تعالیٰ کے اس نور سے دنیا کو منور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو نبی کریم کے وجود کے ساتھ آسمان سے نازل ہوا۔ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَیہ لوگ ہیں جو دنیا میں بھی فلاح پانے والے ہیں اور آخرت میں بھی فلاح پانے والے ہیں۔
پس بد رسوم اور ایمان کامل اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ اس وقت مجھے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اسلام کی اشاعت اور نبی کریمﷺ کی عظمت اور جلال کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے جس قسم کی قربانی اور جس حد تک قربانی دینا ضروری ہے۔ جو شخص رسوم کے بندھنوں میں بندھا ہوا ہے وہ اس حد تک قربانی نہیں دے سکتا۔
بعض لوگ ہماری جماعت میں بھی ہیں جو مثلاً اپنی لڑکی کی شادی کرتے وقت خداتعالیٰ کے بتائے ہوئے سادہ طریق کو چھوڑ کر اپنی خاندانی رسوم کے مطابق اسراف کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں وہ مقروض ہو جاتے ہیں۔ پھر مجھے لکھتے ہیں کہ میں بہت مقروض ہو گیا ہوں۔ مہربانی کرکے میرے چندہ کی شرح کم کر دی جائے کیونکہ اب میں مجبوراً ۱۶؍۱ کی بجائے ۳۲؍۱ یا ۵۰؍۱ یا ۶۴؍۱ ادا کر سکتا ہوں اس سے زیادہ نہیں۔ حالانکہ خداتعالیٰ نے انہیں فرمایا تھا کہ تم رسوم کو چھوڑ دو اور بدعات کو ترک کر دو۔ مگر انہوں نے رسوم کو نہ چھوڑا۔ خداتعالیٰ کی ناراضگی بھی مول لی اور قرض میں بھی مبتلا ہو گئے۔ تو فرماتا ہے کہ وہ لوگ اس گروہ میں شامل نہ ہو سکے۔ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَعَزَّرُوْہُ کہ وہ قربانیاں دے کر نبی کریمﷺ کی مدد کرتا اور شریعت اسلام کے قیام یا اشاعت کے لئے کوشاں رہتا ہے میں نظارت اصلاح و ارشاد کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ جتنی رسوم اور بدعات ہمارے ملک کے مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہیں ان کو اکٹھا کیا جائے اور اس بات کی نگرانی کی جائے کہ ہمارے احمدی بھائی ان تمام رسوم اور بدعات سے بچتے رہیں۔
اس وقت میں مختصراً بتا رہا ہوں کہ جو شخص رسوم اور بدعات کو نہیں چھوڑتا جس طرح اس کا ایمان پختہ نہیں اسی طرح وہ نبی کریمﷺ کی مدد اور اسلام کی تقویت کے لئے وہ قربانیاں بھی نہیں دے سکتا جن قربانیوں کا اسلام اس سے مطالبہ کرتا ہے۔
وَنَصَرُوْہُ میں نفس کا محاسبہ اور اس کی اصلاح اور اس کو کمال تک پہنچانے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے۔ اس کے بہت سے معنی ہیں اور وہ مختلف شعبوں پر حاوی ہیں۔ اور ہماری اصلاح کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ کیونکہ تمام نواہی سے بچنا تمام احکام کی پیروی کرنا، اخوت کی بنیاد قائم کرنا وغیرہ بہت سی باتیں اس کے اندر آتی ہیںلیکن جو لوگ رسوم میں مبتلا ہوں، بدعتوں کو جائز سمجھتے ہوں، وہ دنیا میں اس قسم کا نمونہ پیش نہیں کر سکتے اور ان کے نفوس کی کامل اصلاح ممکن ہی نہیں، کیونکہ رسوم کی پابندی کے ساتھ ساتھ اسلام کی تعلیم کی پوری پابندی اور اس کی بیان فرمودہ ہدایت پر حقیقی معنی میں گامزن ہونا ناممکن ہے۔
پس اگر ہم بدعتوں اور رسموں کے پابند رہیں گے اور اندھیرے میں ہی پڑے رہیں گے تو ہرگز اس نور سے فائدہ نہ اٹھا سکیں گے۔ اور نہ ہی اس نور کے ذریعہ سے جو سنت اور جو اسوئہ حسنہ دنیا میں قائم کیا گیاہے ہم اس کی اِتباع کر سکیں گے اور اگر ہم ایسا نہ کر سکیں گے تو نہ ہمیں اس دنیا میں فلاح حاصل ہو گی اور نہ ہی اُخروی زندگی میں۔
پس ہر احمدی پر، ہر احمدی خاندان اور ہر احمدی تنظیم پر یہ فرض ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو رسوم اور بدعتوں سے بچائے رکھے، محفوظ رکھے اور اس بات کی بھی نگرانی کرے کہ کوئی احمدی بھی رسوم و رواج کی پابندی کرنے والا نہ ہو اور بدعات میں پھنسا ہوا نہ ہو۔
دنیا میں رسوم و بدعات کا عجیب جال بچھا ہوا ہے۔ جب آدمی ان پر غور کرتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے کہ خدا نے جس مخلوق (انسان) کو اشرف المخلوقات بنایا اور جس پر آسمانی رفعتوں کے دروازے کھولے وہ کس طرح اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے اور پھر کس طرح نور کی بجائے ظلمات میں آرام و راحت پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو ان رسوم و بدعات سے محفوظ رکھے اور توفیق دے کہ ہم اس کی منشاء کے مطابق اس آیہ کریمہ میں جس ایمان اور جس تعزیر اور جس نصرت اور جس اتباع کا حکم دیا گیا ہے اس کی پیروی کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرکے اس دنیا میں بھی کامیاب ہوں اور اُخروی زندگی میں بھی کامیاب ہوں اور مُفْلِحِیْن کے گروہ میں شامل ہونے والے ہوں۔ آمین
(الفضل ۲۸؍ ستمبر ۱۹۶۶ء صفحہ ۲ تا ۵)
٭…٭…٭








قرآن کریم کی چار عظیم الشان خصوصیات یہ ہمارے لئے موعظہ، شفا، ہدایت اور رحمت کا موجب ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶ ؍ستمبر ۱۹۶۶ء مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ تمام گناہ شیطانی وسوسہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور شیطان وسوسہ ڈال کر غائب ہو جاتا ہے۔
٭ قرآن کریم سینہ کی تمام رُوحانی بیماریوں کیلئے شفاء ہے۔
٭ بہت سی بشارتیں ایک لمبا عرصہ گزرنے اور منکرین کو ٹھٹھا اور استہزا کر لینے کے بعد پوری ہوتی ہیں۔
٭ جن کمزوروں کو خدا کی نصرت حاصل ہو وہ ہتھیاروں سے لیس دشمن پر غالب آتے ہیں۔
٭ اپنے عقائد، اعمال اور اخلاق حسنہ پر کبھی غرور نہ کرنا۔



تشہد،تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور پُر نور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات پڑھی ۔
یٰاَیُّھَا النَّاسُ قَدْجَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَافِی الصُّدُوْرِلا وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَo قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرحُوْا ط ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo
(یونس:۵۸، ۵۹)
(ترجمہ ) ’’اے وے تمام لوگو! جو اس دنیا میں بستے ہو یا مستقبل میں اس دنیا کو بسائو گے تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے یقینا ایک ایسی کتاب آ گئی ہے جو سراسر نصیحت ہے اور َشِفَآئٌ لِّمَافِی الصُّدُوْرِ وہ ہر اس بیماری کے لئے جو شیطان سینوں میں پیدا کر سکتا ہے شفاء دینے والی ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ تو اُن سے کہہ دے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے وابستہ ہے۔ پس اس پر انہیں خوشی منانا چاہئے۔ جو کچھ دنیا کے اموال اور اس کی لذتیں اور اس کی وجاہتیں اور اس کے اقتدار میں سے وہ جمع کر رہے ہیں ان سے یہ نعمت جو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کی ہے کہیں زیادہ بہتر ہے‘‘۔
پھر فرمایا:۔
اس آیت میں قرآن کریم کے متعلق چار باتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن کریم کی تعلیم مَوْعِظَۃٌ (نصیحت) ہے اور اللہ تعالیٰ جس رنگ میں جن لوگوں کی گرفت کرتا ہے اور اپنے قہر اور غضب کا انہیں مورد ٹھہراتا ہے اور جس رنگ میں جن لوگوں پر اپنا فضل فرماتا ہے اور انہیں اپنی خوشنودی کے عطر سے ممسوح کرتا ہے۔ ان کے واقعات ایسے رنگ میں بیان فرماتا ہے جو دلوں پر اثر کرنے والا اور دلوں کو نرم کرنے والا ہوتا ہے۔
دوسرے یہ فرمایا کہ یہ کتاب َشِفَآئٌ لِّمَافِی الصُّدُوْرِہے۔ جو بیماریاں سینہ و دل سے تعلق رکھتی ہیں اس کتاب میں ان تمام بیماریوں کا علاج پایا جاتا ہے اور جو نسخے یہ کتاب تجویز کرتی ہے ان کے استعمال سے دل اور سینہ کی ہر روحانی بیماری دور ہو جاتی ہے۔
تیسری بات جو قرآن کریم کے متعلق یہاں بیان فرمائی ہے۔ وہ ھُدًی ہے۔ یعنی اس کی تعلیم ہدایت پر مشتمل ہے۔ وہ ان راہوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ جو اس کے قرب تک پہنچانے والی ہیں اور منزل بہ منزل بہتر سے بہتر ہدایت ان کی طاقت و استعداد کے مطابق ان کو عطا فرماتا ہے اور ہدایت کرتا چلا جاتا ہے حتیّٰ کہ بندہ اپنے اچھے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ وہ اپنی جنت اور اپنے رب کی رضا کو حاصل کر لیتا ہے۔
چوتھی بات قرآن کریم کے متعلق یہاں یہ بتائی گئی ہے کہ ایمان والوں کے لئے یہ رحمت کا موجب ہے یعنی جو لوگ بھی قرآن کریم کی بتائی ہوئی ہدایت پر عمل کرتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ جو بڑا احسان کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے اپنی رحمت کی آغوش میں لے لیتا ہے۔
پہلی بات جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے قرآن کریم کے متعلق یہ بتائی گئی ہے کہ یہ مَوْعِظَۃٌ ہے۔ مَوْعِظَۃٌ یا وعظ کے عربی زبان میں معنی ہوتے ہیں۔ ایسی نصیحت جو جزا و سزا اور ثواب و عقاب کو اس طرح بیان کرنے والی ہو کہ اس سے دل نرم ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور رجوع کریں اور ان میں یہ خواہش پیدا ہو کہ دنیا کی ہر چیز کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی میں لگ جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ میں فرمایا ہے کہ ہم جو وعظ کرتے ہیں اور جس کا ذکر ہم نے قرآن کریم کے متعلق کیا ہے وہ یہ ہے وَمَااَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتَابِ وَالْحِکْمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہٖ ( بقرہ:۲۳۲) کہ ہم نے محض ’’الکتاب‘‘ ہی نہیں اتاری اور صرف کامل ہدایتیں ہی اس میں ہم بیان نہیں کرتے بلکہ ہم ان کی حکمتیں بھی بیان کرتے ہیں۔
ہر ہدایت کی وجہ بھی بتاتے ہیں، اس کے نتائج پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ ہم تمہارے سامنے ایک تصویر لا رکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو ہماری ہدایات سے منہ موڑتے ہیں ان کے ساتھ ہمارا کیا سلوک ہوتا ہے۔ وہ مسل کے رکھ دئیے جاتے ہیں اور ہمارا قہر انہیں خاک اور راکھ کر چھوڑتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ ہماری ان ہدایات پر عمل کرتے ہیں ہم انہیں ایسا اچھا بدلہ دیتے ہیں اور انہیں اتنا خوشکن ثواب حاصل ہوتا ہے اور اصلاحِ نفس کے ایسے مواقع انہیں میسر آتے ہیں کہ نفس باقی ہی نہیں رہتا صرف ہماری محبت ہی باقی رہ جاتی ہے۔
مختلف رنگوں میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو قرآن کریم میں ہدایت کی راہیں بتلاتا ہے۔ مثلاً وہ لوگ جنہوں نے پہلے رسولوں کا انکار کیا اور ان کی مخالفت کی، جس قسم کی اور جس طرح انہیں سزائیں دی گئیں۔ خداتعالیٰ کی طرف سے اس کا بیان کثرت سے اس کتاب مجید میں پایا جاتا ہے۔
اسی طرح وہ لوگ جو ایمان لائے اور صدق و وفا سے انہیں خداتعالیٰ کا پیار حاصل ہوا اور خداتعالیٰ کی رحمتیں ان پر نازل ہوئیں ان کی بھی ایک تصویر، ایک نقشہ قرآن کریم ہمارے سامنے رکھ رہا ہے۔ پس قرآن نصیحت بھی کرتا ہے۔ بعض باتوں کے کرنے کا حکم دیتا ہے اور بعض باتوں سے روکتا ہے اور ساتھ ہی حکمتیں بھی بیان کرتا ہے کہ اس وجہ سے تمہیں ان باتوں سے روکا گیا ہے اور اس غرض کے لئے ان باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
یہ سب باتیں مَوْعِظَۃٌ کے اندر آ جاتی ہیں۔ فرمایا ہماری یہ کتاب جو ہماری ربوبیت کے مظاہرہ کے لئے نازل کی گئی ہے ہم اس کے ذریعہ تمہاری نشوونما کرنا چاہتے ہیں اس میں یہ خوبی ہے کہ یہ وعظ و نصیحت ہے۔
دوسری بات جو قرآن کریم کے متعلق یہاں بیان ہوئی ہے وہ َشِفَآئٌ لِّمَافِی الصُّدُوْرِہے۔ یعنی جو گند اور بیماری سینوں میں ہوتی ہے اس کے لئے یہ کتاب بطور شفاء کے ہے۔ قرآن کریم میں تمام روحانی بیماریوں کا تعلق صدور یا دلوں سے قرار دیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
مِنْ شَرِّالْوَسْوَاسِلا الْخَنَّاسِoص لا الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِoلا مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِo (النّاس: ۵ تا ۷)
اس میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ پناہ مانگو اس وسوسہ ڈالنے والے شیطان سے جو ہر قسم کا وسوسہ ڈال کر شرارت سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
یہاں ایک بنیادی اصول کا ذکر فرمایا کہ تمام گناہ شیطانی وسوسہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور شیطان وسوسہ ڈال کر خود غائب ہو جاتا ہے اور جس کے دل میں وہ وسوسہ ڈالتا ہے اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ وسوسہ ڈالنے والی ہستی شیطان تھی یا کوئی نیک ہستی تھی۔ اگر شیطان خناس نہ ہو اور وسوسہ ڈال کر پیچھے ہٹنے والا نہ ہو تو کوئی عقل مند انسان شیطانی وساوس کا شکار ہو کر روحانی بیماری میں مبتلا نہیں ہو سکتا۔
پس شیطان صرف وَسْوَاس ہی نہیں بلکہ خنّاس بھی ہے۔
پہلے وہ وسوسہ ڈالتا ہے اور پھر وسوسہ ڈال کر خود پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ یعنی شیطان، شیطان کی حیثیت سے اس شخص کی نظروں سے غائب ہو جاتا ہے۔ پہلا گناہ جو انسان نے کیا وہ اسی وسوسہ کا نتیجہ تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ فَوَسْوَسَ لَھُمَا الشَّیْطٰنُ (الاعراف: ۲۱)کہ آدم اور حوا کے دل میں شیطان نے ایک وسوسہ ڈالا جس کے نتیجہ میں وہ ایک گناہ کے مرتکب ہوئے۔ اس کے بعد بھی جب کبھی انسان گناہ کا مرتکب ہوا ہے تو اسی شیطانی وسوسہ کے نتیجہ میں ہوا ہے۔ مثلاً وہ لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ خدا کے جتنے رسول بھی آئے ہیں وہ تمہیں یہ تعلیم دیتے چلے آئے ہیں کہ اپنے پیدا کرنے والے، اپنے رب، اپنے اللہ سے خَوْفًا وَّطَمَعًا خوف کی وجہ سے اور طمع کی وجہ سے تعلق قائم کرو۔ پس ہر وہ چیز جس کا خوف تمہارے دل میں پیدا ہو یا وہ چیز جسے تم سمجھو کہ تمہیں نفع پہنچانے والی ہے۔ تم اس کی عبادت کرو کیونکہ مذکورہ تعلیم کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ تو سانپ کی عبادت خوف کی وجہ سے شیطانی وسوسہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔ بڑ کے درخت کی عبادت بھی جو اس آرام (طَمَعاً) کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ جو اس کے نیچے بیٹھنے سے حاصل ہوتا ہے تو یہ سب شیطانی وسوسہ کا نتیجہ ہے۔
پس ہزاروں مثالیں ایسی پائی جاتی ہیں جو شیطان کے وسوسہ کے نتیجہ میں شرک کے پیدا ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر گناہ کا تعلق شیطانی وسوسہ سے ہے اور شیطان یہ وسو سے انسان کے دل اور سینہ میں پیدا کرتا ہے۔ گویا تمام روحانی بیماریوں کا مصدر انسان کا سینہ یا اس کا دل ہے کیونکہ شیطانی حربوں اور حیلوں اور تدبیروں کی آماجگاہ صدرِ انسانی ہی ہے اور روحانی ترقیات کے لئے پہلے سینہ و دل کی صفائی اور صحت و سلامتی بہت ضروری ہے کیونکہ بیمار سینہ و دل کفر کے لئے کھل جاتا ہے اور ایمان کے لئے مقفل ہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔
وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ج وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌo
(النحل: ۱۰۷)
وہ جنہوں نے شیطانی وساوس کو قبول کرکے اپنا سینہ کفر کے لئے کھول دیا۔ ان پر اللہ کا بہت بڑا غضب نازل ہو گا اور ان کے لئے بہت بھاری عذاب مقدر ہے۔
تو اس آیت میں بتایا کہ شیطانی وسوسہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کا سینہ کفر کے لئے کھل جاتا ہے۔
اس کے مقابلہ میں خداتعالیٰ نے قرآن مجید میں شَرَحَ کے لفظ کو اس سینہ و دل پر بھی استعمال کیا ہے جو کفر کے لئے بند ہو جاتا ہے اور جس کی کھڑکیاں خدا کی طرف کھل جاتی ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا ۔
فَاِنَّھَا لاَ تَعْمَی الْاَبْصَارُوَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ۔ (الحج: ۴۷)
کیونکہ اصل بات یہ ہے۔ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) کہ حق و صداقت اور نشانات اور آیات کے تعلق میں ظاہری آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں بوجہ اس کے کہ شیطانی وسوسہ ان کو اپنے اندر لپیٹ لیتا ہے اور روحانی شعاعیں دلوں تک پہنچ نہیں سکتیں اور روحانی نور انہیں حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اس اندھے پن کے نتیجہ میں خداتعالیٰ سے دور چلے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کریم َشِفَآئٌ لِّمَافِی الصُّدُوْرِہے یعنی سینہ کی تمام روحانی بیماریوں کی شفاء اس میں پائی جاتی ہے۔ جو وسوسہ بھی شیطان دل میں ڈالے اسے دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک ہدایت اور ایک تعلیم دی ہوئی ہے۔ اگر تم غور سے کام لو، اگر تم اس کے مطالب اور معارف تلاش کرنے کی کوشش کرو اور جب شیطان تم پر حملہ آور ہو رہا ہو قرآن کریم ہاتھ میں لے کر تم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائو۔ تو وہ تم پر غالب نہیں آ سکتا اور نہ تمہیں بیمار کر سکتا ہے بلکہ قرآنی نور تمہارے سینوں اور دلوں میں اس طرح پھیل جائے گا کہ شیطان جو ظلمت میں دیکھتا ہے اور نور سے ڈرتا ہے تمہارے سینہ و دل کے قریب بھی آنے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔
تو فرمایا کہ ہماری یہ تعلیم (قرآن کریم) ایک شِفَآئہے۔ اور اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ جو بشارتیں یہ دیتا ہے جب وہ پوری ہو جاتی ہیں تو وہ شِفَآء کا کام دیتی ہیں اور شیطان کے اس وسوسہ کو دور کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے جو ترقیات، کامیابیوں اور فتح و نصرت کے وعدے کئے تھے وہ جھوٹے تھے وہ پورے نہیں ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کی بہت سی بشارتیں ایک لمبا عرصہ گزرنے اور منکرین کو ٹھٹھا اور استہزاء کر لینے کا موقعہ دینے کے بعد پوری ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
وَاِذْ یَقُوْلُ الُمُنَافِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ مَّاوَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اِلاَّغُرُوْرًا۔
(احزاب: ۱۳)
یعنے جب منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہوتی ہے کہنے لگ گئے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے ایک جھوٹا وعدہ کیا تھا۔
جب دیر ہو جاتی ہے تو یہ وسوسہ شیطان ان کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ۱۸۶۸ء میں یہ الہام ہوا کہ
’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘
(۱) براہین احمدیہ ہر چہار حصص۔ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۲۲ )
اس پر جب ایک لمبا عرصہ گزر گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے پورے ہونے کے سامان پیدا نہ کئے تو دشمن نے ہر طرح سے اس کا مذاق اڑایا اور استہزاء کیا اور ٹھٹھا سے باتیں کیں۔ تب قریباً ایک سَو سال بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئے کہ گیمبیا جو مغربی افریقہ کا ایک ملک ہے اسے آزاد کرایا اور پھر وہاں ایک احمدی مسٹر سنگھیٹے صاحب کو جو اپنی جماعت کے پریذیڈنٹ بھی تھے گورنر جنرل بنا دیا۔ پھر انہوں نے مجھ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کپڑا بطور تبرک طلب کیا اور لکھا کہ میں نے بڑی دعائیں کی ہیں اور بڑے خشوع اور تضرع کے ساتھ اپنے رب کے سامنے جھکا ہوں کہ وہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کپڑے سے برکت حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ پہلے مجھے گھبراہٹ تھی کہ ان کے مطالبہ کے بعد انہیں کپڑا ملنے میں غیر معمولی دیر ہو رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیئت کچھ اور ہی تھی۔ آخر وہ کپڑا ان کو یہاں سے روانہ کر دیا گیا اور وہ کپڑا ان کو جس دن صبح بذریعہ ڈاک ملا اسی رات کو بی۔بی۔ سی سے یہ اعلان ہوا کہ ان کو ایکٹنگ گورنر جنرل سے گورنر جنرل بنا دیا گیا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دل میں خدائے تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ اور اس رسول کے فرزندِ جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے شدید محبت پیدا ہو گئی جس محبت کا اظہار انہوں نے پہلے ایک تار اور پھر ایک خط کے ذریعہ کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک اور دنیوی فضل کیا۔ آج ہی ان کا تار ملا ہے جس میں انہوں نے اطلاع دی ہے کہ مجھے حکومت برطانیہ نے Knight hood (نائٹ ہُڈ) عطا کیا ہے میری طرف سے جماعت کو مبارکباد پہنچا دیں۔
جہاں اللہ تعالیٰ ان کے لئے جسمانی اور روحانی برکتوں کے سامان پیدا کر رہا ہے وہاں ان کے ماحول میں بھی ایک تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔ چنانچہ پچھلے خط میں انہوں نے مجھے یہ اطلاع دی تھی کہ ہمارے ملک میں لوگ احمدیت کی صداقت اور حقانیت کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔
بیرونی ممالک میں جو نئے نئے احمدی ہو رہے ہیں ان کے لئے خداتعالیٰ ایسے سامان پیدا کر رہا ہے کہ انہیں روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ دنیوی ترقی بھی حاصل ہو جاتی ہے تاکہ ان کے دل ہر طرح کی نعمتوں کے حصول کی وجہ سے خداتعالیٰ کی حمد سے لبریز ہوں۔
اس وقت میں یہ مثال دے رہا تھا کہ یہ الہام ۱۸۶۸ء میں ہوا تھا پھر قریباً سو سال تک یہ الہام پورا نہیں ہوا۔ مومن کا دل تو یقین سے پُر تھا اور وہ جانتا تھا کہ ہر ایک بشارت کے پورا ہونے کے لئے ایک وقت مقدر ہے۔ جب وہ وقت آئے گا تو وہ بشارت بھی ضرور پوری ہو گی۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے ٹال نہیں سکتی۔ لیکن اس کے برعکس جو دل کے اندھے تھے انہیں ٹھٹھے اور ہنسی کا موقع ملتارہا۔
نبی کریمﷺ کے زمانہ میں اور مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک بڑا فرق ہے۔ وہ یہ کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں اسلام کی بعض بڑی فتوحات حضور کی ذات سے تعلق رکھتی تھیں اور آپؐکی زندگی میں مقدر تھیں لیکن ہماری فتوحات کا زمانہ جیسا کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے تین سَو سال تک ممتد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری نسلوں نے یکے بعد دیگرے خداتعالیٰ، اس کے رسولﷺ اور اسلام کے لئے قربانیاں دینی ہیں اور ہر نسل نے اللہ تعالیٰ کی بعض بشارتوں کو پورا ہوتے دیکھنا ہے۔
بہرحال الٰہی جماعتوں کے دلوں میں شیطان وسوسے پیدا کرنے کی کوشش تو کرتا ہے لیکن منافقوں کے سوا اوروں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرنے کی اہلیت اور قابلیت نہیں رکھتا۔ اس کو مومنوں پر جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کوئی غلبہ اور کوئی سلطان عطا نہیں کیا جاتا۔
پس جو بشارتیں ایسے سلسلوں کو دی جاتی ہیں جنہوں نے آخری اور عظیم فتح سے پہلے کئی منزلیں طے کرنا ہوتی ہیں۔ وہ بشارتیں درجہ بدرجہ اور منزل بمنزل پوری ہوتی رہتی ہیں اور مومنوں کے دلوں کی تقویت کا باعث بنتی رہتی ہیں۔ چنانچہ دیکھو کہ ہمارے زمانہ میں الہام
’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘
(تذکرہ چوتھا ایڈیشن صفحہ ۱۰)
کس شاندار طریق سے پورا ہوا کہ اس کے بعد ہمارے دلوں میں ذرہ بھر بھی شک نہیں رہ سکتا کہ وہ دیگر بشارتیں جو ہمیں دی گئی ہیں وہ بھی اپنے اپنے وقت پر پوری ہو کر رہیں گی۔
فرماتا ہے کہ وہ منافق اور منکر لوگ جن کے دل روحانی طور پر بیمار ہیں اور شیطان ان کے دلوں میں وسوسہ پیدا کر چکا ہے۔ وہ اعتراض کرنے لگتے ہیں کہ ’’مَّاوَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اِلاَّغُرُوْرًا‘‘۔ ہم سے دھوکا کیا گیا ہے اور جو بشارتیں ہمیں دی گئی ہیں وہ پوری ہونے والی نہیں۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے خیالات کو دور کرنے کا ذکر سورئہ توبہ میں اس رنگ میں کیا ہے
قَاتِلُوْھُمْ یُعَذِّبْھُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ وَیُخْزِھِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْھِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ۔ (التوبۃ : ۱۴)
کہ یہ لوگ تمہارے مقابلے میں تلواریں لے کر نکلے ہیں۔ ہماری طرف سے تمہیں یہ بشارت ہے کہ تم کامیاب ہو گے ناکام نہیں ہو گے۔ ناکامی ان منکروں اور منافقوں کی قسمت اور حصہ میں ہے۔ تم ان سے لڑو اور جنگ کرو۔ اگر اللہ چاہتا تو پہلی قوموں کی طرح تمہیں جنگ کی دعوت نہ دیتا بلکہ خود آسمانی عذاب سے ان کو ہلاک کر دیتا لیکن خدا نے تمہیں خوش کرنے کے لئے یہ طریق اختیار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب دلوائے گا اور ان کو رسوا کرے گا اور آسمانی نصرت تمہیں حاصل ہو گی، تا دنیا دیکھے کہ جو خدا کے ہو جاتے ہیں اور جنہیں خدا کی نصرت حاصل ہوتی ہے وہ تھوڑے، کمزور اور نہتے ہونے کے باوجود اپنے طاقتور، امیر اور ہر طرح ہتھیاروں سے لیس دشمن پر غالب آتے ہیں۔وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَاس طریق پر نشانات کو پورا کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں کو شفا دیتا ہے اور شیطانی وساوس سے ان کی حفاظت کرتا ہے۔
شِفَآئٌکے معنی صرف یہی نہیں کہ پہلے بیمار ہو اور پھر اسے صحت ہو جائے شِفَآئٌکے معنی یہ بھی ہیں کہ بیماری سے محفوظ کر لے۔ جیسا کہ آج کل بھی بعض دوائیں بیماری سے محفوظ کرنے کے لئے دی جاتی ہیں۔ مثلاً ہیضہ وغیرہ کے ٹیکے لگتے ہیں۔ اس وقت ہیضہ کا مرض لاحق تو نہیں ہوتا بلکہ وہ ٹیکہ ہیضہ سے محفوظ رکھنے کے لئے لگایا جاتا ہے۔ اس معنی میں بھی یَشْفِ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
تو فرماتا ہے کہ جو بشارتیں، جو آسمانی نشان اور آیات کے وعدے تمہیں دئے گئے ہیں میں انہیں پورا کرتا ہوں تاکہ تم شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہو۔ اور ان سے تمہیں ہمیشہ نجات ملتی رہے۔ قرآن کریم نے شِفَآئٌ لِّمَافِی الصُّدُوْرِکی تفسیر میں مختلف طریقے بیان کئے ہیں۔ میں نے اس وقت صرف ایک مثال اپنے دوستوں اور بھائیوں کے سامنے بیان کی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کتاب مَوْعِظَۃٌ اور شِفَآئٌہی نہیں بلکہ ھُدًی بھی ہے۔
جسمانی لحاظ سے اگر آپ غور کریں تو جس شخص نے جسمانی نشوونما حاصل کرنی ہو۔ اپنی جسمانی قوتوں اور استعدادوں کو اپنے کمال تک پہنچانا ہو اور اپنی زندگی کو کامیاب بنانا ہو اس کے لئے پہلے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کی بیماری سے محفوظ ہو۔ تو فرمایا کہ ہم نے قرآن کریم میں ایسا انتظام کر دیا ہے کہ تمام وہ روحانی بیماریاں جو شیطانی جراثیم سے پیدا ہوتی ہیں، پہلے ان بیماریوں کو دور کر دیا جائے اور مومنوں کے روحانی وجود میں کوئی شیطانی وسوسہ باقی نہ رہنے دیا جائے اور اس طرح ان کا وجود روحانی طور پر صحت مند وجود ہو جائے۔ لیکن اتنا ہی کافی نہیں۔ یہاں سے تو اصل کام شروع ہوتا ہے۔ تو فرمایا کہ چونکہ تم روحانی ترقیات کے حاصل کرنے کے قابل ہو گئے ہو۔ اس لئے اس مرحلہ پر بھی یہ کتاب تمہاری راہنمائی کرتی ہے۔ فرمایا ھُدًی یہ قرآن تمہارے لئے ہدایت بھی ہے۔ عربی زبان کے لحاظ سے اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کتاب میں ایسی تعلیم نازل کی گئی ہے جو آج ہی نہیں بلکہ قیامت تک انسان کی صلاحیت اور استعداد کے مطابق اس کی راہنمائی کرتی چلی جائے گی۔ (کیونکہ اس آیت میں یٰأَیُّھَاالنَّاسُسے خطاب کیا گیا ہے) وہ قرآنی ہدایت رضاء الٰہی کی راہوں پر گامزن ہونے کا طریقہ بتلاتی ہے اور بتلاتی چلی جائے گی۔ وہ روحانی ترقیات کی غیر محدود راہیں اس پر کھولتی ہے اور کھولتی چلی جائے گی اور ہر منزل پر پہنچ کر اسے ایک اور نئی بلندی اور رفعت عطا کرتی ہے اور پہلے سے بڑھ کر اخلاص اور وفا اور قربانی کا عملی نمونہ اسے پیش کرنے کی توفیق دیتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ مردِ مومن ایثار اور محبت کی انتہائی رفعتوں کو اس کی اور محض اس کی برکت سے حاصل کر لیتا ہے اور اس کا انجام بخیر ہو جاتا ہے اور وہ اپنے محبوب، اپنے مطلوب اور اپنے مقصود اور اپنی جنت اور اپنے رب کی رضا کو پا لیتا ہے۔ اس طرح انسان کے فطری قویٰ کو صحیح اور احسن راستہ پر چلانے کی طاقت اس کتاب میں رکھی گئی ہے۔
چوتھی بات اللہ تعالیٰ نے اس کتاب مجید کے متعلق یہ فرمائی ہے کہ یہ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ہے۔ رَحْمَۃٌ کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں۔ انعام دینے والی، فضل کرنے والی، احسان کرنے والی اور اپنی مغفرت میں ڈھانپ لینے والی ہستی۔
تو فرمایا کہ ہم جو رحمن اور رحیم ہیں رحمت کا منبع اور سرچشمہ ہیں۔ ہم نے قرآن مجید کو رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ (مومنوں کے لئے بطور رحمت) نازل کیا ہے۔ تا اس کی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر انسان ہماری رحمت اور مغفرت حاصل کرے اور اس کے ذریعہ سے روحانی بیماریوں کو دور کرے پھر اس کی ہدایت کے فیوض کے نتیجہ میں وہ روحانی ترقی کرتا چلا جائے اور اس کا انجام بخیر ہو۔ لیکن فرماتا ہے کہ یہ بے شک ھُدًی اور رَحْمَۃٌ ہے۔ مگر ھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ جن لوگوں پر یہ کتاب نازل ہوئی ہے۔ اگر وہ اس پر ایمان لانے کا اظہار اور اقرار نہ کریں اور اس کی بتائی ہوئی ہدایتوں کے مطابق اس پر عمل کرنے کی کوشش نہ کریں اور اپنی زندگیوں کو قرآن کریم کے مطابق نمونہ بنانے کی سعی نہ کریں اور اگر وہ خدا کی نگاہ میں حقیقی مومن نہ بنیں تو یہ کتاب ان کے لئے رحمت نہیں زحمت ہو گی۔ کیونکہ ان کو ایک نور دیا گیا۔ لیکن انہوں نے اس نور پر ظلمت کو ترجیح دی، ایک روشنی انہیں عطا ہوئی، لیکن وہ اس روشنی سے بھاگ نکلے اور اندھیروں میں جا چھپے۔ ایک شِفَآء آسمان سے ان کے لئے نازل ہوئی مگر انہوں نے گند کو اختیار کیا اور بیماری کو صحت پر ترجیح دی۔
پس جو مومن نہیں ان کے لئے یہ رحمت نہیں ہے، مگر جو مومن ہیں اللہ تعالیٰ کا فضل ان پر نازل ہو گا اور اس کی رحمتوں کے وہ وارث ہوں گے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں یہ فرمایا۔ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا لا ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ کہ اپنے عقائد، اعمال اور اخلاقِ حسنہ پر غرور نہ کرنا۔ تم میں تکبر، خودپسندی، خود نمائی اور ریا، پیدا نہ ہو۔ اپنے کو کچھ نہ سمجھنا۔ کسی خوبی کا مالک خود کو تصور نہ کرنا کہ تمہارا روحانی بیماریوں سے شفاء پا جانا اور رضائِ الٰہی کی راہوں کو اختیار کرکے تمہارا انجام بخیر ہونا تمہاری کسی خوبی کی وجہ سے نہیں، بلکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے وابستہ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خوش ہو اور سرور ابدی کے جام پیو کہ تمہارا رب محض اپنے فضل سے تم پر رجوع برحمت ہوا اور اس نے محض احسان کے طور پر تمہیں وہ دیا جو دنیا کی تمام عزتوں اور دنیا کی تمام وجاہتوں اور دنیا کی تمام لذتوں اور دنیا کی تمام خوشیوں اور دنیا کے تمام اموال سے بہتر اور احسن ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس گروہ میںشامل ہونے کی توفیق بخشے۔ اَللّٰھُمَّ اٰمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۵؍ اکتوبر ۱۹۶۶ء صفحہ۲ تا ۵)
٭…٭…٭






غلبہ اسلام اور اشاعت قرآن کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم سیکھیں اور اس کا عرفان حاصل کریں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳ ؍ستمبر ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ ہر احمدی کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم پڑھ سکتا ہو اور معانی پر غور کرنے کی اسے عادت ہو۔
٭ تحریک وقف عارضی کا مقصد قرآن کریم کی اشاعت اور جماعت کی تربیت ہے۔
٭ قرآن کریم کی تعلیم کو ہر وقت سامنے رکھیں۔
٭ واقفین عارضی اپنی مرضی اور خوشی سے سال میں دو سے چھ ہفتے وقف کریں۔
٭ وقف عارضی کی سکیم بے انتہاء فوائد کی حامل ہے۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں نے اپنے متعدد خطبات میں قرآن کریم کی بعض ان صفات اور فضائل کے متعلق جماعت کے دوستوں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا جو خود قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں۔ اور اس طرف توجہ دلائی تھی کہ قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے جو اس لئے نازل کی گئی ہے کہ ہم جو اس کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اسے پڑھیں، سیکھیں اور اس پر غور کریں۔ اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق بنائیں اور اس کے کہنے کے مطابق نبی اکرمﷺ کے اخلاق کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے کی کوشش کریں۔
میرے یہ خطبات ایک جہت سے بڑے ہی مختصر تھے۔ لیکن قرآن کریم کی جن صفات کے متعلق میں نے کچھ بیان کیا تھا ان میں سے ہر صفت کے متعلق خود قرآن کریم کی بیان کردہ تفسیر کی روشنی میں ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے حقیقت یہی ہے کہ قرآن کریم بے مثل اور بے بہا جواہرات کا ایک ایسا خزانہ ہے کہ جب وہ کسی انسان کو مل جائے تو دین اور دنیا کے تمام خزانوں کی چابیاں اس کے ہاتھ میں آ جاتی ہیں۔ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے اس حقیقت کو سمجھا تھا اور انہیں ہم نے دینی لحاظ سے بھی اور دنیوی لحاظ سے بھی مالا مال پایا ہے۔ انہوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں جس فراخی، جس وسعت اور جس رفعت کو پایا اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی اور قوم نہیں کر سکتی۔ جہاں بھی گئے وہ کامیاب ہوئے۔ مٹی کو بھی اگر انہوں نے ہاتھ لگایا تو خداتعالیٰ نے قرآن کریم کی برکت سے اس مٹی کو بھی سونا بنا دیا۔ انوار قرآنیہ سے انہوں نے تمام دنیا کو منور کیا اور قیامت تک کے آنے والوں کی دعائوں کے وہ وارث ہوئے لیکن پھر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کو بتایا تھا تین صدیاں گزر جانے کے بعد مسلمان اس خزانہ سے غافل ہو گئے اور انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہم اپنی عقل اپنے زور، اپنی وجاہت اور اپنے مال سے وہ کچھ حاصل کر سکتے ہیں جو قرآن کریم ہمیں عطا نہیں کر سکتا۔ تب زوال کی وہ کون سی راہ تھی جس پر وہ گامزن نہیں ہوئے اور عسر اور تنگ دستی کا وہ کونسا گوشۂ تاریک تھا جو ان کے حصہ اور نصیب میں نہیں آیا۔ غرض اسی طرح اللہ تعالیٰ کی منشا پوری ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ آ گیا اور ثریا سے انوار قرآنیہ کا نزول شروع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ مس قرآنی کے سامان پیدا کر دئیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کی ایسی لاجواب تفسیر دنیا کے سامنے رکھی اور آج کی دنیا کے مسائل اور اس کی الجھنوں کو اس حسن اور خوبی سے حل فرمایا کہ ایک عقلمند انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے غور کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہو اس احسان عظیم سے انکار نہیں کر سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے سامان پیدا کرنے کے لئے اشاعت علوم قرآنی کو سہل کر دیا اور ہر قسم کی سہولتیں ہمارے لئے مہیا کر دیں۔ چنانچہ جماعت احمدیہ نے پھر قرآن کریم کا عرفان حاصل کیا۔ اور اس کی قدر ان کے دلوں میں پیدا ہوئی اور احمدیت کی طرف منسوب ہونے والوں نے یہ عہد کیا کہ ہم اپنے ربّ کے لئے اپنی ساری زندگیوں کو اپنے سارے اموال کو بلکہ اپنا جو کچھ بھی ہے اسے قربان کر دیں گے اور غلبہ اسلام کے لئے اور قرآن کریم کی اشاعت کے لئے جو کچھ بھی ہم سے مانگا جائے گا۔ ہم دیتے چلے جائیں گے۔
اشاعت قرآن کی راہ میں اس ایثار اور قربانی سے پہلے کہ جس کا ہر احمدی نے عہد کیا ہے ۔
ضروری ہے کہ وہ خود قرآن کریم پڑھ سکتا ہو قرآن کریم کے معانی جانتا ہو اور پھر ان معانی پر غور کرنے کی اسے عادت ہو۔ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والا ہو کہ برکت کے جو چشمے تیری اس پاک اور مطہر کتاب سے پھوٹ رہے ہیں۔ اے خدا! تو ہمیں توفیق دے کہ ہم ان چشموں کے پانی سے اپنے جسموں اور اپنی روحوں کو اس طرح دھو ڈالیں کہ وہ تیری نگاہ میں اس برف کی طرح صاف اور پاک ہو جائیں جو تازہ تازہ آسمان سے گرتی ہے اور سفید، صاف اور ہر قسم کی آلائشوں سے منزہ ہوتی ہے۔
میرے دل میں بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس بھی پیدا ہو رہا تھا کہ جماعت کا ایک حصہ اس کام کی طرف کما حقہ متوجہ نہیں ہو رہا اس لئے ضرورت ہے کہ ہر فرد بشر کو جو احمدیت کی طرف منسوب ہوتا ہے اس طرف متوجہ کیا جائے، اسے قرآن کریم پڑھایا جائے، اسے قرآن کریم کے معانی بتائے جائیں، قرآن کریم کی تعلیم سے اسے متعارف کرایا جائے۔ اسے ایسا بنا دیا جائے کہ قرآن کریم کا عرفان اسے حاصل ہو اور اس کام کے لئے اپنے ربّ سے دعائیں کی جائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اور اس کے القاء کے ماتحت میں نے قرآن کریم کی اشاعت اور جماعت کی تربیت کی غرض سے جماعت میں وقف عارضی کی تحریک کی اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بشارت دی تھی۔ یہ تحریک محض اس کے فضل سے ہر لحاظ سے بڑی ہی کامیاب ثابت ہوئی اور کامیاب ثابت ہو رہی ہے ۔
اس وقف عارضی کی تحریک میں حصہ لینے والے نوجوان بھی تھے، بوڑھے بھی تھے، کم علم طالب علم بھی تھے اور بڑے تجربہ کار ایم۔ اے، جنہوں نے اپنی ساری عمر علم کے میدان میں گزاری تھی، وہ بھی تھے۔ پھر اس تحریک میں حصہ لینے والے زیادہ تر مرد تھے لیکن کچھ عورتیں بھی تھیں جنہوں نے اس میں حصہ لیا۔ کیونکہ میں نے اپنے لئے یہ طریق وضع کیا تھا کہ میں وقف عارضی کی تحریک میں بیوی کو بھی خاوند کے ساتھ جانے کی اجازت دے دوں گا بشرطیکہ اس نے بھی وقف عارضی میں نام دیا ہوا ہو۔ اسی طرح باپ کے ساتھ بیٹی کو بھی جانے کی اجازت دے دوں گا اگر اس نے وقف عارضی میں اپنا نام دیا ہوا ہو۔ اس کے علاوہ میں اور کسی احمدی بہن کو اس میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دوں گا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بہن نے لکھا تھا کہ میری ہی تحریک کے نتیجہ میں میرے بھائی نے وقف عارضی کے سلسلہ میں اپنا نام پیش کیا ہے آپ اجازت دیں کہ میں بھی وقف کے کام کے لئے اس جگہ چلی جائوں جہاں میرے بھائی کو مقرر کیا جائے۔ میں نے اپنی اس عزیزہ بچی کو اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ بہرحال کچھ احمدی بہنیں بھی اپنے خاوندوں کے ساتھ جا کر بطور واقفہ کے اس تحریک میں حصہ لے چکی ہیں۔
اس تحریک میں حصہ لینے والے ان پڑھ تھے یا کم پڑھے ہوئے تھے۔ یا بڑے عالم تھے۔ چھوٹی عمر کے تھے یا بڑی عمر، کے اللہ تعالیٰ نے ان پر قطع نظر ان کی عمر۔ علم اور تجربہ کے (کہ اس لحاظ سے ان میں بڑا ہی تفاوت تھا) اپنے فضل کے نزول میں کوئی فرق نہیں کیا۔ اس عرصہ میں ان سب پر اللہ تعالیٰ کا ایک جیسا فضل ہوتا رہا۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اور اس کے فضل سے ۹۹ فیصدی واقفین عارضی نے بہت ہی اچھا کام کیا۔ ان میں سے ہر ایک کا دل اس احساس سے لبریز تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس عرصہ میں اس پر اتنے فضل نازل کئے ہیں کہ وہ اس کا شکر ادا نہیں کر سکتا اور اس کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ خدا کرے اسے آئندہ بھی اس وقف عارضی کی تحریک میں حصہ لینے کی توفیق ملتی رہے۔ اور بعض جماعتوں نے تو یہ محسوس کیا کہ گویا انہوں نے نئے سرے سے ایک احمدی کی زندگی اور اس کی برکات حاصل کی ہیں۔ ان کی غفلتیں ان سے دور ہو گئی ہیں اور ان میں ایک نئی روح پیدا ہو گی۔ ان میں سے بہتوں نے تہجد کی نماز پڑھنی شروع کر دی۔ اور جو بچے تھے انہوں نے اپنی عمر کے مطابق بڑے جوش اور اخلاص کے ساتھ قرآن کریم، نماز یا نماز کا ترجمہ اور دوسرے مسائل سیکھنے شروع کئے۔ غرض واقفین عارضی کے جانے کی وجہ سے ساری جماعت میں ایک نئی زندگی ایک نئی روح پیدا ہو گئی۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے خود واقفین عارضی نے یہ محسوس کیا کہ اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑے فضل نازل کئے، بڑی برکتیں نازل کیں۔ ان میں سے بعض اپنا عرصہ پورا کرنے کے بعد واپس آکر مجھے ملے تو ہر فقرہ کے بعد ان کی زبان سے یہ نکلتا تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے بڑے نمونے دیکھے ہیں۔ ان کے منہ سے اور ان کی زبان سے خود بخود اس قسم کے فقرے نکل رہے تھے اور یہ حقیقت ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور برکت سے کیا ہے نہ کہ ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں۔
کل رات میں سوچ رہا تھا کہ مجھے جتنے واقفین چاہئیں۔ اس تعداد میں واقفین مجھے نہیں ملے۔ مثلاً ربوہ کی ہی جماعت ہے۔ آج جو دوست میرے سامنے بیٹھے ہیں ان میں کثرت ربوہ والوں کی ہے لیکن ان میں سے بہت کم ہیں جنہوں نے وقف عارضی میں حصہ لیا ہے اور یہ بات قابل فکر ہے کہ کیوں آپ کی توجہ ان فضلوں کے جذب کرنے کی طرف نہیں ہے جو اس وقت اللہ تعالیٰ واقفین عارضی پر کر رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے میں رات سوچ رہا تھا کہ مجھے جتنے واقفین عارضی چاہئیں اتنے نہیں ملے حالانکہ اس کی بہت ضرورت ہے۔ تو جب میں سویا میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے ایک کاغذ آیا ہے اور اس کاغذ پر دو فقرے خاص طور پر ایسے تھے کہ خواب میں میری توجہ ان کی طرف مبذول ہوئی۔ ان میں سے پہلا فقرہ تو میں بھول گیا لیکن اس میں ’’ضعفاء‘‘ کا لفظ آتا تھا۔ دوسرا فقرہ (صبح تک مجھے یاد تھا میں نے غلطی کی کہ اسے لکھا نہیں) گو اب مجھے پوری طرح یاد نہیں لیکن اس کے بعض الفاظ مجھے یاد ہیں مثلاً اس میں ضعفاء کم تھا یا ضعفاء ھم (اب مجھے پوری طرح یاد نہیں) اور اس کے آگے آسمین تھا اور مجھے خواب ہی میں خیال آیا کہ یہ لفظ غریب الفاظ میں سے ہے۔ یعنی یہ لفظ روزمرہ کی عربی زبان میں استعمال نہیں ہوتا۔ وہ ان معنوں میں کم ہی استعمال ہوتا ہے جن معنوں میں وہ اس فقرہ میں استعمال ہوا ہے۔ اس کے ایک معنی رفعت اور علو حاصل کرنے والے کے ہیں اور ان معنوں کے لحاظ سے اس میں یہ بشارت ہے کہ جماعت میں سے جو لوگ قرآنی علوم سیکھنے کے لحاظ سے ضعیف کہلانے والے ہیں اب اللہ تعالیٰ ان کے لئے ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ وہ بھی علو مرتبت اور قرآن کریم کی ان رفعتوں تک پہنچنے والے ہوں گے۔ جن رفعتوں تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل کیا ہے۔ سو الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ بشارت دے رہا ہے لیکن ہر وہ بشارت جو آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ زمین والوں پر ایک ذمہ داری عائد کرتی ہے۔ اور اس ذمہ داری کو پورا کرنا ان کا فرض ہوتا ہے۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمیں بہت زیادہ واقفین کی ضرورت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے یہ احساس ہے کہ تربیت قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے اس کے جاننے اور اس کا عرفان حاصل کرنے کے لحاظ سے جماعت میں ضعف اور کمزوری پیدا ہو رہی ہے اور اب جو واقفین عارضی جماعتوں میں گئے جن کا پہلا اور ضروری کام ہی قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے اور تربیت کے دوسرے امور کی طرف متوجہ کرنا تھا۔ اور یہی کام ان کا آئندہ بھی رہے گا تو ان کی رپورٹوں سے معلوم ہوا کہ بہت سی جماعتوں میں تربیتی نقطہ نگاہ سے کافی کمزوری پیدا ہو گئی ہے۔ گو ان کے دلوں میں ایمان کی چنگاری موجود ہے لیکن وہ شیطانی راکھ کے اندر دبی ہوئی ہے اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ ان میں سے ایک مثال میں بیان کرتا ہوں میں نے ایک بزرگ کو ایک ایسی جماعت میں بھیجا جو تعداد میں بہت بڑی ہے۔ انہوں نے وہاں جا کے مسجد میں ڈیرہ لگا لیا اور دعائیں کرنے لگ گئے۔ انہوں نے جماعت کو قرآن کریم پڑھنے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے دیکھا کہ شروع میں جماعت پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ پہلے ہفتہ انہوں نے یہ رپورٹ بھیجی کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جماعت مر چکی ہے اور اس کے زندہ ہونے کی اب کوئی امید نہیں۔ دوسرے ہفتہ کی رپورٹ بھی اس قسم کی تھی۔ تیسرے ہفتہ کی رپورٹ میں انہوں نے لکھا کہ میں نے پہلے جو رپورٹیں بھجوائی ہیں وہ سب غلط تھیں جماعت مری نہیں بلکہ زندہ ہے لیکن خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہے۔ اگر اس کی تربیت کی جائے اور اسے جھنجھوڑا جائے تو اس کی زندگی کے آثار زیادہ نمایاں ہو جائیں گے۔ وہ زندگی جو جماعت ہائے احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بدولت اسلام اور قرآن کریم کے ذریعہ اپنے ربّ سے حاصل کی ہے۔
غرض بہت سی جماعتوں میں بڑی سستی پائی جاتی ہے لیکن یہ لَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْمًا (طٰہٰ: ۱۱۶)والی بات ہے۔ وہ مردہ نہیں لیکن حالات ہی لوگوں کے کچھ ایسے ہیں کہ ان کے اندر غفلت پیدا ہو گئی ہے اس کی بڑی ذمہ داری تو مرکز پر ہے۔ یا جماعت بحیثیت مجموعی اس کی ذمہ دار ہے۔ مثلاً آپ یہ دیکھیں کہ مغربی پاکستان میں ایک ہزار کے قریب ہماری جماعتیں ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سی جگہوں پر احمدی موجود ہیں وہ اتنی تھوڑی تعداد میں ہیں کہ وہاں کوئی جماعت قائم نہیں۔ گو وہاں ایک طرح سے جماعت موجود ہے لیکن تنظیم قائم نہیں ہوئی۔ صرف ضلع منٹگمری کے متعلق ایک دوست نے مجھے لکھا کہ چالیس ایسے چک ہیں جہاں احمدی افراد موجود ہیں لیکن وہاں تنظیم قائم نہیں ہوئی۔ منظم جماعتیں ان کے علاوہ ہیں۔ غرض اگر ڈیڑھ ہزار جماعتیں بھی فرض کر لی جائیں۔ یعنی منظم جماعتوں کے علاوہ ان جگہوں، مقامات، دیہات، قصبات اور شہروں کو بھی شمار کر لیا جائے۔ جہاں احمدی افراد موجود ہیں تو مغربی پاکستان میں ڈیڑھ ہزار کے قریب جماعتیں ہیں اور ان کی تربیت کے لئے ہمارے پاس ساٹھ ستر مربی ہیں۔ اب آپ خود ہی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ساٹھ ستر مربی ان جماعتوں کی کس طرح تربیت کر سکتے ہیں اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ ہمارے یہ مربی سو فیصدی کام کرنے والے ہیں، تب بھی وہ ان جماعتوں کی تربیت نہیں کر سکتے۔ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ پھر ہمارے نظام تربیت یعنی مربیوں کے نظام میں بھی بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں اس کے نتیجہ میں جماعت کی تربیت والا پہلو ہمیں بھولا رہا جماعت نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔
تربیت کے سلسلہ میں اس غفلت کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔ قرآن کریم کے انوار کو پھیلانے کی ذمہ داری ہمارے سپرد تھی۔ ہم نے اس سے غفلت برتی اور اس کے نتیجہ میں ہماری روحانی ترقی بہت پیچھے جا پڑی۔ آج مغربی پاکستان میں ہماری جماعتیں ایک ہزار نہیں پچاس ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ ہونی چاہئے تھیں لیکن جب ہم قرآن کریم سے غافل ہوئے تو قرآن کریم کی برکتیں بھی ہم سے جاتی رہیں ہم ان سے محروم ہو گئے اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ کیونکہ قرآن کریم کی برکتیں تو ہمیں تبھی مل سکتی ہیں۔ جب ہم قرآن کریم سے غافل نہ ہوں۔ ہم اسے ہروقت اپنے سامنے رکھنے والے ہوں۔ اپنی زندگی میں اسے مشعل راہ بنانے والے ہوں۔ اگر ایسا ہو تو پھر قرآن کریم کی برکتیں ہمیں حاصل ہوں گی۔ اگر ہم ایک چشمہ پر بیٹھے ہوں لیکن اس چشمہ کی طرف ہماری پیٹھ ہو اور ہمارا منہ ریگستان کی طرف ہو تو ہم اس چشمہ سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ چشمہ سے پانی پینے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس چشمہ کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے برتن کو گند سے اور ہر اس چیز سے جو پانی کے سوا ہے۔ اور وہ ہمارے لئے مفید نہیں خالی کر لیں تبھی ہم اس برتن کو پانی سے بھر سکتے ہیں اور اسے پی سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے دلوں کے برتن غیراللہ اور انوار قرآنیہ کے سوا دوسری چیزوں سے پر ہوں تو اللہ تعالیٰ اور انوار قرآنیہ کے لئے ان میں کوئی جگہ نہیں ہو گی۔
غرض ہم سے (آپ جماعت کہہ لیں۔ مرزا ناصر احمد کہہ لیں یا صدر انجمن احمدیہ کہہ لیں) بہرحال غفلت ہوئی ہے۔ اور جماعت کا ایک حصہ سست ہو گیا ہے اور باقی ساری جماعت کو اس کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ میں جماعت میں وقف عارضی کی تحریک کروں اور اس سلسلہ میں جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں مجھے پانچ ہزار واقف چاہئیں اور واقف بھی ایسے جو طوعاً اپنی مرضی اور خوشی سے سال میں دو ہفتے سے چھ ہفتے تک کا عرصہ دین کی خدمت کے لئے وقف کریں ورنہ اگر ضرورت اور ضرورت کا احساس اسی طرح شدت اختیار کر گیا تو شاید کوئی وقت ایسا بھی آ جائے جب اس تحریک کو طوعی نہ رکھنا پڑے بلکہ اسے جبری تحریک قرار دے دیا جائے اور ہر احمدی کا یہ فرض قرار دے دیا جائے۔ کہ وہ جس طرح اپنی آمد کا سولہواں یا دسواں حصہ دین کے لئے دیتا ہے۔ اسی طرح اپنی زندگی کے ہر سال میں سے پندرہ دن یا دو ہفتے وقف عارضی کے لئے بھی دے۔ تاکہ قرآن کریم کی اشاعت صحیح رنگ میں کی جائے۔ اسی طرح جماعتوں کی تربیت بھی صحیح طور پر کی جا سکے۔
زمانہ بدلتا ہے۔ اسی طرح حالات بھی بدلتے ہیں۔ ہماری ایک جماعت کسی زمانہ میں بڑی ہی مخلص تھی۔ اس میں پڑھے لکھے آدمی موجود تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ تھے۔ اور وہ جماعت بڑی مخلص تھی۔ لیکن اس وقت اس کی یہ حالت ہے کہ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جو صحابہ تھے وہ فوت ہو گئے۔ پڑھے لکھے لوگ اس گائوں کو چھوڑ کر باہر ملازمتوں کے سلسلہ میں چلے گئے۔ آج وہاں ایک بھی ایسا پڑھا لکھا آدمی موجود نہیں جو آگے کھڑا ہو کر نماز ہی پڑھا سکے۔ اب ایسی جماعت نے بہرحال کمزور ہونا تھا۔ بڑی عجیب بات یہ ہے کہ نہ تو مربی نے اور نہ امیر ضلع نے مرکز کو کبھی توجہ دلائی۔ کہ اس جماعت کا یہ حال ہے۔ اس کی طرف توجہ کی جائے۔ اگر وقف عارضی کے نتیجہ میں ہمیں اس جماعت کی حالت کا علم نہ ہوتا تو پانچ چھ سال اور گزرنے کے بعد ہمارے کاغذوں اور رجسٹروں میں سے بھی اس جماعت کا نام مٹ جاتا اور کسی شخص کو یہ علم نہ ہوتا کہ وہاں کوئی احمدی ہے یا نہیں۔ چندہ لینا اصل چیز نہیں۔ گو جماعت کے افراد کے لحاظ سے مالی قربانی بھی اصل چیزوں میں سے ہے۔ لیکن ہمارے لئے تو اصل چیز یہ ہے۔ کہ دین اور اسلام کی روح ان کے اندر پیدا ہو اور ان کے دلوں میں بڑی شدت سے اس احساس کو جگایا جائے کہ بندہ خداتعالیٰ کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اس کی پیدائش کی غرض خداتعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کا حصول ہے۔ اس لئے تم دنیا کے کیڑے نہ بنو بلکہ اپنے ربّ کی طرف جھکو۔ اور اس سے نور حاصل کرو۔ اس کی رضا کو حاصل کرو۔ اور اس کی بہشت میں داخل ہو جائو۔
جس جماعت کا میں نے ذکر کیا ہے ممکن ہے کچھ عرصہ اور اس کا نام ہمارے رجسٹروں میں رہتا۔ کچھ نہ کچھ چندہ وہاں سے آتا رہتا۔ اور ہم سمجھتے کہ وہاں جماعت قائم ہے۔ لیکن اگر وہ چندہ دینا بند کر دیتے تو کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ایک جماعت مٹ رہی ہے گو ابھی وہ جماعت مری نہیں۔ کیونکہ وقف عارضی کے نتیجہ میں اس کی بیہوشی اور غفلت دور ہو گئی ہے اور اس میں زندگی کے آثار نمودار ہو گئے ہیں اور انشاء اللہ توقع ہے کہ نہ اس جماعت میں زندگی کے آثار ہی نمودار ہوں گے۔ بلکہ اس کی ترقی کی صورت بھی نکل آئے گی۔ جو واقف وہاں گئے ہیں وہ کہتے ہیں۔ کہ اگر وہاں کوئی مربی رکھا جائے۔ یا واقفین عارضی کے مختلف گروہ وہاں آتے رہیں۔ تو وہاں اصلاح و ارشاد کا میدان بھی کھلا ہے گویا واقفین عارضی کے جانے سے پہلے اس جماعت کے مرنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ اور اب ان کے جانے کے بعد نہ صرف اس کی زندگی بلکہ اس کی ترقی کے سامان بھی نظر آنے لگ گئے ہیں۔
پس جماعت یا تو مجھے ایک ہزار مربی دے (یعنی ایک ہزار بچے آج مجھے دے دے۔ جنہیں تربیت دے کر مربی بنایا جائے) اور یا ضرورت کے مطابق واقفین عارضی مہیا کرے۔ اگر آپ مجھے آج ایک ہزار بچے دے دیں گے تو میں اپنے ربّ سے امید رکھتا ہوں۔ بلکہ مجھے یقین ہے کہ خداتعالیٰ ان ایک ہزار بچوں کی تربیت اور تعلیم کا سامان بھی مجھے دے دے گا۔ لیکن ان کی تیاری پر بھی وقت لگے گا۔ یعنی جب تک وہ نو سالہ کورس پورا نہ کر لیں یا اگر وہ میٹرک پاس ہوں تو گیارہ سال اور اگر چھوٹے ہیں تو تیرہ سال کا عرصہ ان کی تربیت کا گزر نہ جائے۔ اس وقت تک عارضی واقفین کی ضرورت رہے گی۔ کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم اس قسم کی کمزور جماعتوں سے جس کا میں ذکر کر چکا ہوں۔ غفلت برتیں اور میرے لئے یہ ناممکن ہے کہ میں چپ ہو کر بیٹھ جائوں اور ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی کے دن گزاروں کہ کہیں مجھ پر خداتعالیٰ کا غضب نازل نہ ہو۔ اس لئے کہ میں اس قسم کی جماعتوں کو جگانے کا انتظام نہیں کر رہا۔ اگر آپ مجھے واقفین نہیں دیں گے یا خود وقف کے لئے آگے نہیں آئیں گے تو اللہ تعالیٰ کوئی اور سامان پیدا کر دے گا۔ لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے کیوں محروم ہو رہے ہیں۔
پس میں آج پھر جماعت کو بڑے زور کے ساتھ اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے کم از کم پانچ ہزار واقفین کی ضرورت ہے جو ہر سال دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک کا عرصہ دین کی خدمت کے لئے وقف کریں۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ جو واقفین عارضی وقف کی تحریک کے ماتحت باہر گئے ہیں۔ ان میں ہر عمر اور علمی معیار کے لوگ شامل تھے اور ان میں سے زیادہ تر کا تاثر یہ ہے کہ بڑی کثرت کے ساتھ انہوں نے استغفار اور لاحول پڑھا۔ یعنی ان کے دل کے اندر یہ احساس اُجاگر ہوا کہ ہم نے غفلت میں دن گزارے ہیں۔ ہم سے بہت سی کوتاہیاں ہوئی ہیں۔ اس لئے ہمیں استغفار کرنا چاہئے۔ تا اللہ تعالیٰ ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کو معاف کرکے ہمیں اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے۔ دوسرے یہ جو ذمہ داری کا کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے۔ اس کو نباہنے کے ہم قابل نہیں۔ اس طرف ہم نے کبھی توجہ نہیں کی تھی نہ ہم نے جماعت کا لٹریچر پڑھا تھا اور نہ ہم نے دعائیں کی تھیں۔ اس لئے ہم سے یہ کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہمیں حاصل نہ ہو۔ جب تک اللہ تعالیٰ سے ہمیں قوت نہ ملے۔ اس لئے انہیں استغفار اور لاحول پڑھنا پڑا اور لاحول یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے (مغفرت کے بعد) قوت حاصل کرتا ہے۔ وہ استغفار کرتا ہے اور کہتا ہے۔ اے اللہ! مجھ سے جو گناہ ہو چکے ہیں تو مجھے معاف کر اور مجھے اپنی مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لے اور آئندہ بھی گناہ سے بچا۔ اور پھر کہتا ہے اب مجھے کچھ کرنے کی توفیق بھی دے۔ جب گناہ معاف ہو جائیں۔ تو اگلا قدم انسان کا یہی ہوتا ہے۔ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے۔ کہ وہ اس کی ترقی کے سامان پیدا کرے وہ دعا کرے کہ اے اللہ ہم بد عمل تھے تو نے ہماری بد اعمالیوں پر اپنی مغفرت کی چادر ڈال دی۔ ہم لا شئی محض ہیں۔ ہم میں کوئی قوت نہیں تو ہمیں قوت عطا کر کہ ہم تیری راہوںپر دوڑنے لگ جائیں اور تجھ سے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جائیں۔ غرض ہر واقف کو اپنے وقف کے عرصہ میں یہ احساس بڑی شدت کے ساتھ ہوا کہ استغفار کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس نے اپنی زندگی کے دن بڑی غفلت میں گزارے ہیں۔ اور پھر اسے خداتعالیٰ سے طاقت بھی مانگنی چاہئے کہ اس کی دی ہوئی طاقت کے بغیر ہم اس قسم کے دینی کام نہیں کر سکتے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بہت سے فضلوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا بعض جگہیں ایسی بھی ہیں کہ جب وہاں واقفین عارضی پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ بعض غیر از جماعت دوستوں کو خوابوں میں بڑے زور کے ساتھ تلقین کی گئی اور انہیں متوجہ کیا گیا کہ جماعت احمدیہ ایک سچی جماعت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دعوے میں سچے اور حق پر ہیں تم اس جماعت میں شامل ہو جائو۔ چنانچہ ان خوابوں کے ذریعہ بعض بیعتیں بھی ہوئی ہیں۔
بہرحال جب آپ قرآن کریم پڑھائیں گے تو بہت سارے غیر از جماعت بچے بھی قرآن کریم پڑھنے کے لئے آ جائیں گے اس طرح بہت سی غلط باتیں جو ہماری جماعت کے متعلق مشہور ہو گئی ہیں خود بخود ان کے دلوں سے دور ہو جائیں گی۔کیونکہ آپ کا عمل ایک زبردست دلیل ہو گا۔ وہ لوگ سمجھیں گے کہ کہا تو یہ جاتا تھا کہ یہ لوگ قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے اور عملاً ہم دیکھ رہے ہیں کہ صرف یہی لوگ ہیں جو قرآن کریم پڑھانے اور سکھانے کے لئے اپنے خرچ پر دور دراز سے آئے ہیں اور پھر یہ کام بھی بڑے شوق سے کر رہے ہیں یہ بیگار نہیں کاٹ رہے بلکہ چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں۔ غرض وقف عارضی کی سکیم کے بہت سے فوائد ہیں جن کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جا سکتا۔ ہاں میں یہ پھر تاکید سے ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے سال کے دوران کم از کم پانچ ہزار واقفین کی ضرورت ہے۔ اگر دس ہزار واقفین مل جائیں تو اور بھی اچھا ہے۔ تاہم جماعت کو قرآن کریم پڑھا سکیں۔ اس کی ایسی تربیت کر سکیں کہ وہ قرآن کریم پر عمل کرنے والی ہو اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کو حاصل کرنے والی ہو جو قرآن کریم پڑھنے قرآن کریم سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں آج ہم پر نازل ہو رہے ہیں اور جو جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض ہے اور تاہم تمام دنیا میں اشاعت قرآن اور غلبہ اسلام کے فریضہ کو جو ہم پر عائد کیا گیا ہے۔ خداتعالیٰ کی نگاہ میں کامیاب طور پر پورا کرنے والے ہوں۔ اور اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل کے ساتھ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲؍ نومبر ۱۹۶۶ء صفحہ ۲ تا ۶)
٭…٭…٭














خطبہ جمعہ ۳۰؍ ستمبر ۱۹۶۶ء
ء ء ء
شعبہ زود نویسی کے ریکارڈ کے مطابق حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ ارشاد نہیں فرمایا۔

٭…٭…٭


















تحریک وقف جدید کی اہمیت کے پیش نظر احباب جماعت کو اس میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینا چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ ؍ اکتوبر ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ وقف جدید ایک مبارک الٰہی تحریک۔
٭ وقف جدید کی معلمین کلاس میں کم از کم سَو واقفین شامل ہونے چاہئیں۔
٭ مومن کا وعدہ ملتوی ہو سکتا ہے منسوخ نہیں۔
٭ جماعت احمدیہ کے بچے وقف جدید کا تمام بوجھ اُٹھائیں۔
٭ احمدی بچے دنیا میں ایک بہترین نمونہ قائم کرنے والے بنیں۔




تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
آج میں وقف جدید کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ جولائی ۱۹۵۷ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مبارک الٰہی تحریک کے متعلق بعض ابتدائی باتیں جماعت کے سامنے رکھی تھیں پھر ۱۹۵۷ء ہی میں جلسہ سالانہ کی ایک تقریر میں حضور نے اس کی بعض تفاصیل بیان فرمائیں۔ حضور نے یہ تحریک بیان کرنے کے بعد جماعت کے سامنے ابتداًء یہ بات رکھی تھی کہ میں فی الحال دس واقفین لینا چاہتا ہوں اور اسی کے مطابق اندازہ خرچ بھی کم و بیش آٹھ دس ہزار روپے کا تھا لیکن آپؓ کی یہ خواہش تھی کہ یہ الٰہی تحریک درجہ بدرجہ ترقی کرتی چلی جائے اور جلد ہی ایک وقت ایسا آ جائے جب دس کی بجائے ہزاروں واقفین اس تحریک میں کام کر رہے ہوں۔ پھر یہ واقفین صرف پاکستان سے ہی نہ ہوں بلکہ دوسرے ممالک سے بھی افریقہ کے ممالک سے بھی امریکہ کے ممالک سے بھی اور ان کے علاوہ دوسرے ممالک سے بھی۔ اور پھر جوں جوں واقفین کی تعداد بڑھتی چلی جائے اور خرچ میں اضافہ ہوتا چلا جائے۔ اسی کے مطابق جماعت اپنی مالی قربانیاں بھی تیز سے تیز تر کرتی چلی جائے تاکہ ہم وہ مقصد جو اس الٰہی تحریک کا ہے وقت قریب میں حاصل کر لیں۔
جیسا کہ میں نے ابھی مختصراً بتایا ہے۔ وقف جدید کی تحریک کی ابتداء دس واقفین سے ہوئی تھی اور اس وقت جبکہ اس تحریک پر قریباً نو سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ تعداد صرف اکاسی واقفین تک پہنچی ہے۔ جن میں سے سترہ کے قریب زیر تعلیم ہیں اور صرف چونسٹھ مختلف جماعتوں میں کام کر رہے ہیں۔ حالانکہ حضور کا منشاء یہ تھا کہ دنیا بھر کی جماعتیں ہزاروں کی تعداد میں واقفین ہمیں دیں اور ہم اوّل تو ہر جماعت میں اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو کم از کم دس دس پندرہ پندرہ میل کے حلقہ میں ایک ایک ایسے واقف (وقف جدید) کو مقرر کریں جس نے قربانی کے جذبہ سے، خلوص کے ساتھ اور خدمت اسلام کی نیت سے اپنی زندگی وقف کی ہو۔ اس واقف کو معمولی گزارہ دیا جائے۔ مثلاً پچاس یا ساٹھ روپے ماہوار اور اس کے باقی اخراجات کے لئے آمد کے بعض اور ذرائع مہیا کئے جائیں۔ مثلاً یسا انتظام کیا جائے کہ جس جماعت میں اسے مقرر کیا جائے۔ وہ جماعت یا تو دس ایکڑ زمین اس تحریک کے لئے وقف کرے اور اس زمین کی آمد اس واقف کو دی جائے اور یا پھر اس واقف کے ذریعہ پرائمری تک ایک سکول کھول دیا جائے جہاں وہ احمدی بچوںکو (اور دوسرے بچوں کو بھی جو وہاں تعلیم حاصل کرنا چاہیں) قرآن کریم پڑھائے اور دوسری مروجہ تعلیم بھی دے اور یا پھر اسے کمپائونڈری یا حکمت کی ابتدائی تعلیم دلائی جائے تا وہ ایسی جگہوں پر جہاں ابتدائی طبی امداد بھی مہیا ہونا مشکل ہے۔ وہاں کے رہنے والوں کو ابتدائی طبی امداد مہیا کرے اور اس طرح پر جو آمد ہو وہ بھی مرکز وصول نہ کرے بلکہ اس ذریعہ سے جو آمد بھی ہو وہ اس واقف کو دے دی جائے سکول کی صورت میں اگر اساتذہ ایک سے زائد ہوں تو فیس کے ذریعہ جو آمد ہو وہ سب اساتذہ میں تقسیم کر دی جائے۔
بہرحال اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ نظر آ رہا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر جماعت میں کم از کم ایک معلم ضرور بٹھا دیا جائے۔ لیکن چونکہ حضور ایک لمبا عرصہ علیل رہے اور اس عرصہ میں جماعت حضور کے خطبات سے محروم رہی اور چونکہ جب تک بار بار جگایا نہ جاتا رہے۔ انسان عادتاً کمزوری کی طرف مائل ہو جاتا ہے اس لئے وقف جدید کی اہمیت اور افادیت آہستہ آہستہ جماعت کے افراد کی نظروں سے اوجھل ہوتی چلی گئی اور اس تحریک کا وہ نتیجہ نہ نکلا جو میرے نزدیک نو سالوں میں نکلنا چاہئے تھا۔ اور اس کی ذمہ داری ساری جماعت پر بحیثیت جماعت عائد ہوتی ہے۔ وقف عارضی کے جو وفود مختلف علاقوں میں گئے ہیں ان میں سے کم از کم ساٹھ ستر فیصدی وفود ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنا وقف عارضی کا زمانہ ختم کرنے کے بعد جو آخری رپورٹ ہمیں بھجوائی اس میں بڑی شدت سے یہ مطالبہ کیا کہ اس جماعت کو کوئی مربی یا معلم ضرور دیا جائے اور یہ بھی لکھا کہ جماعت خود بھی یہ احساس رکھتی ہے کہ جب تک اسے کوئی معلم نہ دیا جائے وہ ان ذمہ داریوں کو کما حقہ، ادا نہیں کر سکتی جو تربیت کے لحاظ سے اس پر عائد ہوتی ہیں۔ لیکن اگر میرے پاس واقفین ہی نہ ہوں تو میں انہیں کہاں سے معلم مہیا کروں۔ پھر اگر جماعت اپنی ہمت اور جماعتی ضرورت کے مطابق مالی قربانیاں پیش نہ کرے تو ان معلمین کو گزارہ کہاں سے دیاجائے۔
پس پہلی بات تو یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ واقفین اس تحریک میں شمولیت کے لئے اپنے نام پیش کریں۔ میں نے بتایا ہے کہ اس وقت زیر تعلیم واقفین کو شامل کرکے قریباً اکیاسی ۸۱ واقف ہمارے پاس ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس تحریک کو ابتداًء دس کی تعداد سے شروع کیا۔ اگر ہم ہر سال اس میں دس دس کا اضافہ کرتے تب بھی اس وقت ہمارے پاس نوے ۹۰ واقفین ہونے چاہئے تھے لیکن اگر ہم اس تعداد میں ہر سال صرف دس دس کی زیادتی ہی کریں تو چونکہ ہم نے ہزاروں تک پہنچنا ہے اس لئے جب ہم پہلے ہزار تک پہنچیں گے تو ایک صدی گزر چکی ہو گی اور ہم اتنا لمبا عرصہ انتظار نہیں کر سکتے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت اس طرف توجہ دے تو ہر سال پہلے سال کی نسبت دگنی تعداد میں واقف آ سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا رہتا تو اس وقت واقفین کی تعداد پانچ ہزار کے قریب پہنچ چکی ہوتی۔ یعنی اگر پہلے سال دس واقفین تھے تو دوسرے سال بیس واقفین رکھے جاتے۔ تیسرے سال چالیس رکھے جاتے اور چوتھے سال اسّی تک ان کی تعداد پہنچ جاتی اور اس طرح نو سال میں ان کی تعداد ۵۱۱۰ تک جا پہنچتی۔ اگر ہم پہلے سال کی نسبت واقفین کی تعداد میں ڈیڑھ گنا اضافہ بھی کرتے رہتے تب بھی ہماری ضرورت ایک حد تک پوری ہو جاتی بشرطیکہ ہم اسی تناسب سے اپنے چندوں میں بھی اضافہ کرتے چلے جاتے لیکن اس نسبت یعنی ڈیوڑھی نسبت کے ساتھ بھی واقفین نہیں آئے بلکہ سوائی نسبت کے ساتھ یا ہر سال 1/5 یا 1/10 کی زیادتی کے ساتھ بھی واقفین اس تحریک میں شامل نہیں ہوئے ورنہ وہ فوری ضرورتیں پوری ہو جاتیں جو اس وقت ہمارے سامنے آ رہی ہیں اور جنہیں پورا ہوتے نہ دیکھ کر ہمیں دکھ اور اذیّت اور تکلیف اٹھانی پڑ رہی ہے اگر ہماری فوری ضرورتیں پوری ہو جاتیں تو ہم اس دکھ تکلیف اور اذیت سے بچے رہتے جماعتیں پکار رہی ہیں کہ اگر چاہتے ہو کہ ہم میں احمدیت قائم رہے تو ہمیں مستقل واقف دو۔ وقف عارضی والے آپ سے بار بار مطالبہ کر رہے ہیں کہ جماعتوں میں واقفین بھیجے جائیں اور جماعت کو کہہ رہے ہیں کہ ان واقفین کو سنبھالنے کے لئے جس قدر رقم کی ضرورت ہے وہ مہیا کرے لیکن آپ نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی اور یہ بڑا ظلم ہوا ہے اس لئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ سب کو جگاؤں اور بیدار کروں اور اس تحریک کی اہمیت آپ کے ذہن نشین کرانے کے بعد آپ سے یہ مطالبہ کروں کہ آئندہ سال مجھے کم از کم ایک سو نئے واقفین چاہئیں مجھے بتایا گیا ہے کہ وقف جدید کی تربیتی کلاس جنوری سے شروع ہوتی ہے اور دسمبر تک رہتی ہے۔
پس میرا مطالبہ یہ ہے کہ جنوری ۶۷ء میں جو نئی تربیتی کلاس شروع ہو گی اس میں کم از کم سَو واقفین شامل ہونے چاہئیں۔ اگر جماعت نے میرا یہ مطالبہ پورا کر دیا تب بھی ہمیں ایک سال تک انتظار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ کلاس کا نصاب ایک سال کا ہے اور نئے واقفین جو آئیں گے وہ ایک سال تک تربیت حاصل کریں گے۔ اور اگر وہ سارے کامیاب بھی ہو جائیں تب بھی ایک سال کے بعد ہی ہم ان سو نئے واقفین سے جماعت کی تربیت کا کام لے سکیں گے۔ بہرحال اگر یکصد نئے واقفین آ جائیں تو ہمیں یہ تسلی اور اطمینان تو ہو گا کہ ایک سال کے بعد کم از کم سو نئی جماعتوں میں واقفین وقف جدید پہنچ جائیں گے اور وہ وہاں مستقل طور پر رہیں گے۔ ہم ایک سال اور انتظار کر لیں گے۔ اس عرصہ میں ہم وقف عارضی کے انتظام کے ماتحت خوابیدہ جماعتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ اور جب واقفین مستقل طورپر جماعتوں میں پہنچ جائیں گے تو وہ قرآن کریم پڑھانے اور جماعت کی تربیت اور دیگر ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہیں گے۔ اور اس طرح جماعت سنبھل جائے گی اور بیدار ہو جائے گی۔ اور اس میں زندگی کی ایک نئی روح پیدا ہو جائے گی۔ لیکن اگرآپ حسب سابق ہر سال اس تعداد میں صرف دس کا ہی اضافہ کریں تو یہ ہمارے لئے کافی نہیں۔
پس میں چاہتا ہوں کہ اگلے سال واقفین وقف جدید کی کلاس میں جو جنوری ۱۹۶۷ء سے شروع ہو گی۔ کم از کم ایک سَو واقفین ہو جائیں اور جماعت کو چاہئے کہ وہ اس طرف متوجہ ہو۔
اساتذہ کی ایک تعداد ہر سال ریٹائر ہوتی ہے۔ اگر وہ خاص طور پر اس طرف توجہ دیں تو وہ بہت مفید ہو سکتے ہیں۔ اگر پنشن یافتہ اساتذہ اپنی بقیہ عمر وقف جدید میں وقف کریں تو ہمیں زیادہ اچھے اور تجربہ کار واقفین مل سکتے ہیں بشرطیکہ وہ خلوص نیت رکھنے والے ہوں اپنے اندر قربانی کا مادہ رکھنے والے ہوں۔ دنیا کی محبت ان کے دلوں میں سرد ہو چکی ہو۔ وہ خداتعالیٰ کی طرف منہ کرکے اپنی بقیہ زندگی گزارنے کے متمنی اور خواہاں ہوں اور دنیا، شیطان اور دنیوی آرام اور آسائشوں کی طرف پیٹھ کرکے اپنی بقیہ زندگی کے دن گزارنے کے لئے تیار ہوں۔ وہ باپ کی طرح تربیت کرنے والے ہوں۔ یعنی محبت، پیار، اخلاص، ہمدردی اور غمخواری کے ساتھ تربیت کرنے والے ہوں۔ ایسے اساتذہ اگر ہمیں مل جائیں تو ممکن ہے ہم انہیں یہاں ایک سال کی بجائے چند ماہ تعلیم دے کر جماعتوں میں کام کرنے کے لئے بھجوا سکیں۔
اگر ہمیں واقفین زیادہ تعداد میں مل جائیں اور میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ جماعت کو یہ توفیق عطا کرے گا کہ جس تعداد میں واقفین کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس تعداد میں واقفین مہیا کر دے۔ تو پھر ان کے خرچ کا سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ گزشتہ سال مجلس شوریٰ کے موقع پر وقف جدید کا بجٹ ایک لاکھ ستتر ہزار روپے (۷۷۰۰۰,۱) کا منظور ہوا تھا۔ لیکن اس وقت تک دفتر وقف جدید میں جو وعدے وصول ہوئے ہیں وہ صرف ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کے قریب کے ہیں۔ یعنی وقف جدید کے منظور شدہ بجٹ کے مطابق بھی ابھی وعدے موصول نہیں ہوئے۔ پھر بعض جائز اور ناجائز وجوہ کی بناء پر سارے وعدے عملاً پورے بھی نہیں ہوا کرتے۔ یعنی اتنی رقم موصول نہیں ہوتی جتنی رقم کے وعدے ہوتے ہیں۔ سال کے شروع میں ایک شخص خوب کما رہا ہوتا ہے اور اپنی آمد کے مطابق وہ اپنا وعدہ لکھواتا ہے لیکن بعد میں وہ حوادث زمانہ کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ اس کی آمد کم ہو جاتی ہے۔ اور وہ مجبور ہو جاتا ہے کہ اپنے وعدہ کو ملتوی کر دے کیونکہ مومن اپنے وعدہ کو منسوخ نہیں کرتا ہاں جب اسے حالات مجبور کر دیتے ہیں تو وہ اپنے وعدہ کو ملتوی کر دیتا ہے۔ اس نیت کے ساتھ کہ جب اللہ تعالیٰ اسے توفیق دے گا۔ تو وہ اپنے وعدہ کو ضرور پورا کر دے گا۔ ایسے ہی لوگوں کو بعد میں اللہ تعالیٰ توفیق بھی عطا کر دیتا ہے کہ وہ اپنے وعدے پورے کر دیں۔ لیکن یہاں حال یہ ہے کہ ایک لاکھ ستتر ہزار روپے (۰۰۰,۷۷,۱) کا بجٹ تھا اور وعدے ابھی تک ایک لاکھ چالیس ہزار روپے (۰۰۰,۴۰,۱) کے وصول ہوئے ہیں۔ اور اس کے مقابلہ میں اس وقت تک صرف پچانوے ہزار روپے (۰۰۰,۹۵) کی وصولی ہوئی ہے۔ حالانکہ سال رواں میں وقف جدید کے لئے ہمیں دو لاکھ یا اس سے زیادہ روپے کی ضرورت ہے۔ میں نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک لاکھ ستتر ہزار روپے (۱۷۷۰۰۰) میں ہمارا کام نہیں چلے گا۔
ہمیں کم از کم دو لاکھ سوا دو لاکھ روپے کی ضرورت ہو گی۔ اور اس قدر رقم ہمیں ملنی چاہئے تا وہ عظیم اور نہایت ہی ضروری اور مفید کام جو وقف جدید کے سپرد کیا گیا ہے۔ کما حقہ، پورا کیا جا سکے۔
پس بجٹ جو مجلس شوریٰ نے پاس کیا تھا اگرچہ وہ ایک لاکھ ستتر ہزار روپے (۱۷۷۰۰۰) کا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں کم از کم دو لاکھ روپیہ وصول ہونا چاہئے لیکن اس وقت جو وعدے وصول ہوئے ہیں وہ ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ (۰۰۰,۴۰,۱)کے ہیں۔ اس کے لئے ایک تو یہ ہونا چاہئے کہ جو دوست اس تحریک میں حصہ لے رہے ہیں وہ اپنے وعدوں پر دوبارہ غور کریں اور جماعت کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں اضافہ کریں اور پھر دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرے وہ دوست جنہوں نے ابھی تک وقف جدید کی مالی تحریک میں حصہ نہیں لیا انہیں اس تحریک کی اہمیت ذہن نشین کرنی چاہئے اور انہیں اس میں شامل ہونا چاہئے۔
تیسرے میں آج احمدی بچوں (لڑکوں اور لڑکیوں) سے اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا اور اس کے رسولﷺ کے بچو! اُٹھو اور آگے بڑھو اور تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں وقف جدید کے کام میں جو رخنہ پڑ گیا ہے اسے پُر کر دو اور اس کمزوری کو دور کر دو جو اس تحریک کے کام میں واقع ہو گئی ہے۔
کل سے میں اس مسئلہ پر سوچ رہا تھا۔ میرا دل چاہا کہ جس طرح ہماری بہنیں بعض مساجد کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرتی ہیں اور سارا ثواب مردوں سے چھین کر اپنی جھولیوں میں بھر لیتی ہیں۔ وہ اپنے باپوں اپنے بھائیوں اپنے خاندوں اپنے دوسرے رشتہ داروں یا دوسرے احمدی بھائیوں کو اس بات سے محروم کر دیتی ہیں کہ اس مسجد کی تعمیر میں مالی قربانی کرکے ثواب حاصل کر سکیں۔ اسی طرح اگر خداتعالیٰ احمدی بچوں کو توفیق دے تو جماعت احمدیہ کے بچے وقف جدید کا سارا بوجھ اٹھا لیں لیکن چونکہ سال کا بڑا حصہ گزر چکا ہے اور مجھے ابھی اطفال الاحمدیہ کے صحیح اعداد و شمار بھی معلوم نہیں اس لئے میں نے سوچا کہ آج میں اطفال الاحمدیہ سے صرف یہ اپیل کروں کہ اس تحریک میں جتنے روپے کی ضرورت تھی اس میں تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں جو کمی رہ گئی ہے اس کا بار تم اٹھا لو اور پچاس ہزار روپیہ اس تحریک کے لئے جمع کرو۔
یہ صحیح ہے کہ بہت سے خاندان ایسے بھی ہیں۔ جن کے بچوں کو مہینہ میں ایک دو آنے سے زیادہ رقم نہیں ملتی۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے۔ کہ ہماری جماعت میں ہزاروں خاندان ایسے بھی ہیں۔ جن کے بچے کم و بیش آٹھ آنے ماہوار یا شائد اس سے بھی زیادہ رقم ضائع کر دیتے ہیں۔ چھوٹا بچہ شوق سے پیسے لے لیتا ہے لیکن اسے معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی قیمت کیا ہے۔ وہ پیسے مانگتا ہے اور اس کی ماں یا اس کا باپ اس کے ہاتھ میں پیسہ آنہ، دونی یا چونی دے دیتا ہے۔ اور پھر وہ بچہ اسے کہیں پھینک کر ضائع کر دیتا ہے۔ اگر مائیں ایسے چھوٹے بچوں کو وقتی خوشی کے سامان پہنچانے کے لئے پیسہ، آنہ، دونی، یا چونی دے دیں اور پھر انہیں ثواب پہنچانے کی خاطر تھوڑی دیر کے بعد ان سے وہی پیسہ، آنہ دونی یا چونی وصول کرکے وقف جدید میں دیں اور اس طرح ان کے لئے ابدی خوشیوں کے حصول کے سامان پیدا کر دیں تو وہ بڑی ہی اچھی مائیں ہوں گی۔ اپنی اولاد کے حق میں۔ لیکن یہ تو چھوٹے بچے ہیں۔ جو اپنی عمر کے لحاظ سے ابھی اطفال الاحمدیہ میں شامل نہیں ہوئے وہ بچے جو اپنی عمر کے لحاظ سے اطفال الاحمدیہ یا ناصرات الاحمدیہ میں شامل ہو چکے ہیں۔ یعنی ان کی عمریں سات سے پندرہ سال تک کی ہیں۔ اگر وہ مہینہ میں ایک اٹھنی وقف جدید میں دیں تو جماعت کے سینکڑوں ہزاروں خاندان ایسے ہیں جن پر ان بچوں کی قربانی کے نتیجہ میں کوئی ایسا بار نہیں پڑے گا کہ وہ بھوکے رہنے لگ جائیں۔ رہے وہ غریب خاندان جن کے دلوں میں نیکی کرنے اور ثواب کمانے کی خواہش پیدا ہو۔ لیکن ان کی مالی حالت ایسی نہ ہو کہ ان کا ہر بچہ اس تحریک میں ایک اٹھنی ماہوار دے سکے۔ تو ان لوگوں کی خواہش کے مدنظر میں ان کے لئے یہ سہولت پیش کر دیتا ہوں کہ ایسے خاندان کے سارے بچے مل کر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دیں کہ اس طرح اس خاندان کے سارے بھائی اور بہنیں ثواب میں شریک ہو جائیں گی۔ لیکن یہ رعایت صرف ان خاندانوں کے لئے ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں لیکن باطنی اور ایمانی لحاظ سے ان کے دل روشن اور مضبوط ہیں اور ان کے بچوں کے دلوں میں یہ خواہش ہے کہ کاش ہماری مالی حالت ایسی ہوتی کہ ہم میں سے ہر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دے سکتا اور ہم ثواب سے محروم نہ رہتے ان کی ایسی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ سہولت دی ہے کہ وہ سب بچے مل کر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دیں۔
اب سال کا بہت تھوڑا حصہ باقی رہ گیا ہے اگر احمدی بچے اس موقعہ پر پچاس ہزار روپیہ پیش کر دیں تو وہ دنیا میں ایک بہترین نمونہ قائم کرنے والے ہوں گے۔ اور اس طرح ہماری وہ ضرورت پوری ہو جائے گی جو اس وقت اعلائے کلمتہ اللہ اور جماعت کی مضبوطی اس کی تربیت اور تعلیم کے نظام کو مستحکم کرنے کے لئے ہمارے سامنے ہے اور جس طرح آنحضرتﷺ نے بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے کے لئے ان کی نماز کی بلوغت سے پہلے نماز پڑھانے کی ہمیں تلقین کی ہے۔ اسی طرح ان مالی قربانیوں کے لئے جو فرض کے طور پر ایک احمدی پر عائد ہوتی ہیں اس فرض کے عائد ہونے سے پہلے ہمارے بچوں کی تربیت ہو جائے گی اور جب وہ فرض ان پر عائد ہو گا تو وہ خوشی اور بشاشت سے مالی جہاد میں شامل ہوں گے اور اس فرض کے ادا کرنے میں وہ کوئی کمزوری نہ دکھائیں گے کیونکہ ان کی طبیعتوں میں بچپن سے ہی یہ بات راسخ ہو چکی ہو گی کہ جہاں ہم نے خدا اور رسول کے لئے دوسری قربانیاں کرنی ہیں۔ وہاں ہم نے خدا اور اس کے رسول کے لئے مالی قربانیاں بھی دینی ہیں۔
غرض ایک بچہ جب اٹھنی دے رہا ہو گا یا جب بعض خاندانوں کے سب بچے باہم مل کر ایک اٹھنی ماہوار وقف جدید میں دے رہے ہوں گے۔ تو یہ ایک لحاظ سے ان کی تربیت ہو گی اس طرح ہم ان کے ذہن میں یہ بات بھی راسخ کر رہے ہوں گے۔ کہ جب خداتعالیٰ کسی کو مال دیتا ہے تو وہ مال جو اس کی عطا ہے بشاشت سے اسی کی طرف لوٹا دینا اور اس کے بدلہ میں ثواب اور اس کی رضا حاصل کرنا اس سے زیادہ اچھا سودا دنیا میں اور کوئی نہیں۔ پس اے احمدیت کے عزیز بچو! اٹھو اور اپنے ماں باپ کے پیچھے پڑ جائو اور ان سے کہو کہ ہمیں مفت میں ثواب مل رہا ہے۔ آپ ہمیں اس سے کیوں محروم کر رہے ہیں۔ آپ ایک اٹھنی ماہوار ہمیں دے دیں کہ ہم اس فوج میں شامل ہو جائیں۔ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ دلائل و براہین اور قربانی اور ایثار اور فدائیت اور صدق و صفا کے ذریعہ اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرے گی۔ تم اپنی زندگی میں ثواب لوٹتے رہے ہو۔ اور ہم بچے اس سے محروم رہے ہیں۔ آج ثواب حاصل کرنے کا ایک دروازہ ہمارے لئے کھولا گیا ہمیں چند پیسے دو کہ ہم اس دروازہ میں سے داخل ہو کر ثواب کو حاصل کریں اور خداتعالیٰ کی فوج کے ننھے منے سپاہی بن جائیں۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا کرے۔ (آمین)
(مطبوعہ روزنامہ الفضل ربوہ ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۶۶ء صفحہ۲ تا۵)
٭…٭…٭















ہمیں یقین ہے کہ ایک شمس کے بدلے اللہ تعالیٰ
ہزاروں اور شمس عطا فرمائے گا
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴ ؍اکتوبر ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ شمس صاحب کی وفات سے بے شک ہمیں صدمہ پہنچا ہے۔
٭ جب ہم میں سے ایک شخص جاتا ہے تو اُس کی جگہ اور کئی اللہ تعالیٰ ہمیں عطاء کرتا ہے۔
٭ شمس صاحب کی خدمات کی حضرت مصلح موعودؓ کے دل میں بڑی قدر تھی۔
٭ جانے والا ہمیں بہت پیارا تھا لیکن جس نے بُلایا وہ ہمیں سب سے زیادہ پیارا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ ہمیں اُس گروہ میں شامل کرے جو ’’خالد‘‘ بننے والے ہیں۔




تشہد ، تعوذ اورسورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی۔
کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍo وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْالْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِo
(الرحمٰن :۲۷، ۲۸)
اس کے بعد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو بیماریوں اور امراض کے لئے شفا قرار دیا ہے۔ یہ کتاب عظیم انسان کی اخلاقی بیماریوں کو بھی دور کرتی ہے اس کی روحانی بیماریوں کو بھی دور کرتی ہے اور ان زخموں کے لئے بھی جو انسان اپنی فطرت اور طبیعت کے تقاضا کے مطابق محسوس کرتا ہے اور اسے تکلیف پہنچاتے ہیں بطور پھایہ کے کام آتی ہے۔
ہمیں کل اپنے ایک اچھے دوست پایہ کے عالم، خدا اور اس کے رسولﷺ کے عاشق اور احمدیت کے فدائی کی جدائی کا صدمہ پہنچا ہے۔ اور فطرتاً ہمیں اس سے غم اور دکھ محسوس ہوتا ہے۔ لیکن ہم خداتعالیٰ کی کتاب کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اپنے رب سے تسکین حاصل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دو آیات میں جو میں نے ابھی پڑھی ہیں فرماتا ہے کہ
کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍo وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْالْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِo
زمین پر ہر چیز جو پائی جاتی ہے وہ فنا ہونے والی ہے۔ سوائے ان باتوں اشیاء اور وجودوں کے جنہیں اللہ تعالیٰ باقی رکھنا چاہے وہ خدا ذوالجلال بھی ہے اور ذوالاکرام بھی ہے۔ ان دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک ہی وقت میں اعلان فنا بھی کیا ہے۔ اور اعلان بقا بھی کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بعض چیزوں کو کلیتاً فنا ہونے سے محفوظ رکھا ہے۔ اور اس نے ان چیزوں کو اپنی مشیت کے ماتحت ایک بقا عطا کی ہے ۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے اور جو دو آیات میں نے پڑھی ہیں وہ بھی مختصراً اس کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ ایک تو انسان کی روح مرنے کے بعد بقا حاصل کرتی ہے اور دوسرے قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اعمال صالحہ کو بھی باقی رکھتا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ ان دونوں آیات میں فرماتا ہے کہ ہر چیز جو اس دنیا میں ہے۔ آخر یہاں سے چلی جائے گی۔ نہ انسان یہاں رہے گا کہ وہ بھی فانی ہے اور نہ اس کے اعمال۔ جہاں تک مرنے والے کی ذات کا تعلق ہے اس دنیا میں باقی رہیں گے بلکہ وہ اعمال مرنے والے کے ساتھ ہی دوسرے جہاں میں لے جائے جائیں گے۔ کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍo وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْالْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِo ہر چیز جو زمین پر پائی جاتی ہے فانی ہے۔ سوائے ان اشیاء اور وجودوں کے جنہیں خداتعالیٰ باقی رکھنا چاہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان آیات کے ایک معنی تفسیر صغیر (صفحہ ۷۱۲) میں یہی کئے ہیں کہ اس سر زمین پر جو کوئی بھی ہے آخر ہلاک ہونے والا ہے اور صرف وہ بچتا ہے۔ جس کی طرف تیرے جلال اور عزت والے خدا کی توجہ ہو۔
پس وہ لوگ اپنے ان اعمال کے ساتھ جن کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کو دنیا میں قائم رکھنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بقا حاصل کرتے ہیں۔ یعنی ان کو بقا حاصل ہوتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں (جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے) صاحب عزت وہی ہوتے ہیں جو صاحب تقویٰ ہوں جیسا کہ فرمایا۔
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰـکُمْ (الحجرٰت: ۱۴)یعنی خداتعالیٰ کی نگاہ میں وہی عزت پاتے ہیں جو قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصول تقویٰ کی باریک راہوں پر گامزن ہوتے ہیں اور رضائے الٰہی کی باعزت جنتوں میں اللہ تعالیٰ ان کا ٹھکانہ بناتا ہے۔ پس یہاں ایک طرف یہ فرمایا کہ اس دنیا میں نہ کسی شخص نے باقی رہنا ہے اور نہ جہاں تک اس کی ذات کا تعلق ہے اس کے اعمال نے باقی رہنا ہے اور دوسری طرف یہ فرمایا کہ یہاں کی زندگی کے خاتمہ کے ساتھ تم پر کلی فنا وارد نہیں ہو گی بلکہ تمہاری ارواح کو دوسرے اجسام دے کر ایک دوسری دنیا میں زندہ رکھا جائے گا۔ اس لئے بے فکر نہ ہونا یہ سمجھتے ہوئے کہ مرنے کے ساتھ تمہارا معاملہ خداتعالیٰ سے کلیۃً کٹ چکا ہے وہ کٹا نہیں بلکہ اے انسانو اور اے آدم زادو! تمہارے ساتھ ہمارا واسطہ ابد تک قائم رہے گا۔ تمہاری ارواح کو ہم نے زندہ رکھنا ہے۔ یہ خدائے ذوالجلال اور ذوالا کرام کا فیصلہ ہے۔
’’وَجْہُ رَبِّکَ‘‘ کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ اعمال جو انسان اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر اور اس کی توجہ اور رضا کو جذب کرنے کے لئے بجا لاتا ہے۔ تو یہاں یہ فرمایا کہ انسان کے تمام اعمال ہلاک کر دئے جاتے ہیں سوائے ان اعمال کے جن کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خواہش رکھتا ہو جو خالصۃً خداتعالیٰ کے لئے کئے گئے ہوں۔ اس کی رضا جوئی میں بجا لائے گئے ہوں ایسے اعمال پر فنا وارد نہیں ہوتی۔
جو اعمال ایسے نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان پر ہمارے منشاء اور قانون کے مطابق فنا وارد ہو جاتی ہے ایسے اعمال کی فنا اور ان کے نیست و نابود کئے جانے کے متعلق جو باتیں ہمیں معلوم ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ ایک تو خداتعالیٰ ایسے اعمال کے بجا لانے والوں کو اس دنیا میں ہی سزا دے کر ان کے بعض اعمال کو باطل کر دیتا ہے۔ یعنی کچھ بد اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ انسان کو ان کی سزا اس دنیا میں ہی مل جاتی ہے اور اُخروی زندگی میں ان کی سزا پھر اسے نہیں ملتی۔ ہاں دوسرے ایسے بد اعمال کی سزا اسے اُخروی زندگی میں ملتی ہے جن کی سزا اسے اس دنیا میں نہیں مل چکی ہوتی۔
دوسرے خداتعالیٰ ایسے بد اعمال کو اس طرح بھی ہلاک کرتا ہے کہ ان کا وہ نتیجہ نہیں نکلتا جو ان کے بجا لانے والے نکالنا چاہتے ہیں۔ مثلاً وہ اعمال جو خداتعالیٰ کے رسول اور اس کے سلسلوں کو ہلاک کرنے اور انہیں مٹانے کے لئے منکرین بجا لاتے ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ بے نتیجہ کر دیتا ہے اور اس طرح ان معنوں کی رو سے ان پر ہلاکت اور فنا وارد ہو جاتی ہے۔
تیسرا طریق ان بد اعمال کو فنا کرنے کا خداتعالیٰ نے یہ رکھا ہے کہ وہ ان اعمال اور ان کے بجا لانے والوں کو جہنم میں ڈال کر ان بداعمال کو فنا کر دیتا ہے۔ اسی لئے رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ جہنم پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ اس میں کوئی انسانی روح نہیں رہے گی۔ (کنزالعمال صفحہ ۲۴۰ مصری) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام انسان چاہے وہ کتنے ہی گنہ گار کیوں نہ ہوں۔ چاہے وہ کتنے ہی خداتعالیٰ کو ناراض کرنے والے کیوں نہ ہوں ان کے بد اعمال جہنم میں جا کر ایک وقت میں ہلاک اور فنا ہو جائیں گے۔ کیونکہ یہ بات تو ماننے کے قابل نہیں کہ بد اعمال فنا بھی نہ ہوں اور ان کے ساتھ ایک شخص کو ایک وقت تک جہنم میں رکھا جائے اور دوسرے وقت میں اسی شخص کو انہی بد اعمال کے ساتھ جنت میں لے جایا جائے۔ غرض جہنم بھی بد اعمال کی ہلاکت کا ایک ذریعہ ہے۔
اس کے مقابلہ میں وہ اعمال صالحہ جن سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جاتی ہے۔ اور جنہیں فنا فی الرسول کے ذریعہ اور تقویٰ کی ان باریک راہوں پر گامزن ہو کر بجا لایا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے۔ ان کی بقا کے بھی مختلف طریق ہیں۔ ذاتی طور پر اس شخص کے اعمال جو وفات پا جاتا ہے۔ جہاں تک اس کی ذات کا تعلق ہے اس دنیا میں باقی نہیں رہتے۔ اور اس طرح ان اعمال پر بھی اس فرد کے ساتھ ہی ایک فنا وارد ہو جاتی ہے۔ لیکن جس طرح اس کی روح کو زندہ رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح ان نیک اعمال کو بھی اللہ تعالیٰ اس کے لئے زندہ رکھتا ہے۔ اور صرف زندہ ہی نہیں رکھتا بلکہ انہیں بڑھاتا رہتا ہے۔ وہ ان سے بیج کا کام لیتا ہے اسی لئے جنت کی نعماء نہ ختم ہونے والی ہیں۔ جیسا کہ فرمایا۔
عَطَآئً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ (ھود : ۱۰۹)
یعنی ان نعماء پر کبھی فنا وارد نہیں ہوتی وہ باقی رہتی ہیں اور باقی رہیں گی۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایمان باغوں کی شکل میں اور اعمال صالحہ نہروں کی شکل میں…اُخروی زندگی میں باقی رکھے جاتے ہیں۔ یعنی وہ افراد جن کی روحوں کو خداتعالیٰ نے اپنی رضا کے عطر سے ممسوح کیا۔ ان کی روحوں کے ساتھ ان کے اعمال صالحہ بھی باقی رکھے جاتے ہین جن سے وہ ابدالآباد تک فائدہ حاصل کرتے رہیں گے۔
اعمال صالحہ کی بقاء کا دوسرا طریق جو ہمیں اسلام میں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی سلسلہ کو قائم کرتا ہے اس لئے کہ وہ اس کی عظمت اور اس کے جلال کو قائم کرے تو اس برگزیدہ جماعت کو بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا ہونے کی وجہ سے اس دنیا میں بھی ایک لمبا عرصہ عزت کی زندگی عطا کی جاتی ہے اور صالحین کا بدل پیدا کرکے ان اعمال صالحہ کو اس وقت تک کہ اس قوم اور سلسلہ کی ہلاکت کا وقت آ جائے انہیں قومی بقاء عطا کرتا ہے۔ غرض یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْالْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ وہ اعمال جو خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر کئے جاتے ہیں جن میں غیر کی ملونی نہیں ہوتی۔ جنہیں انسان بے نفس ہو کر اپنے اوپر عجز انکسار نیستی اور فنا طاری کرکے۔ خود کو کچھ نہ سمجھ کر بلکہ اپنے ربّ کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوئے۔ اس کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے کوشش اور مجاہدہ کرکے بجا لاتا ہے انہیں اس رنگ میں اس قوم میں باقی رکھا جاتا ہے کہ جب اس کے بعض افراد اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو ان کے بعض قائم مقام کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس قوم میں ان اعمال صالحہ کا ایک لمبا سلسلہ قائم کر دیتا ہے۔ ہمارے جو بھائی کل ہم سے جدا ہوئے ہیں ان کا مقام اسی معنی میں جماعت میں قائم مقام کے طور پر بھی تھا۔ یعنی جب بعض بزرگ تر ہستیاں جماعت سے جدا ہوئیں تو خداتعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ میں ایسے لوگوں کو کھڑا کر دیا کہ جنہیں گو مرنے والوں کی زندگی میں وہ مقام وجاہت، مرتبہ اور علم حاصل نہ تھا جو مرنے والوں کا تھا۔ لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے انہیں پہلوں کا سا مقام وجاہت، مرتبہ اور علم دے دیا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔
’’حافظ روشن علی صاحب مرحومؓ ۔ میر محمد اسحاق صاحبؓ اور مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ… ان میں سے ایک (حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ) کتابوں کے حوالے یاد رکھنے کی وجہ سے اور باقی دو اپنے مباحثوں کی وجہ سے جماعت میں اتنے مقبول ہوئے کہ مجھے یاد ہے کہ اس وقت ہمیشہ جماعتیں یہ لکھا کرتی تھیں کہ اگر حافظ روشن علی صاحبؓ اور میر محمداسحاق صاحبؓ نہ آئے تو ہمارا کام نہیں چلے گا۔ حالانکہ چند مہینے پہلے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں انہیں کوئی خاص اہمیت حاصل نہ تھی۔ میر محمد اسحاق صاحب کو تو کوئی جانتا بھی نہ تھا۔ اور حافظ روشن علی صاحب گو جماعتوں کے جلسوں پر آنے جانے لگ گئے تھے مگر لوگ زیادہ تر یہی سمجھتے تھے کہ ایک نوجوان ہے جسے دین کا شوق ہے اور وہ تقریروں میں مشق پیدا کرنے کے لئے آ جاتا ہے مگر حضرت خلیفہ اولؓ کی وفات کے بعد چند دنوں میں ہی خداتعالیٰ نے وہ عزت اور رعب بخشا کہ جماعت نے یہ سمجھا کہ ان کے بغیر اب کوئی جلسہ کامیاب ہی نہیں ہو سکتا۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد جب ادھر میر محمد اسحاق صاحب کو انتظامی امور میں زیادہ مصروف رہنا پڑا اور ان کی صحت بھی خراب ہو گئی۔ اور ادھر حافظ روشن علی صاحب وفات پا گئے تو کیا اس وقت بھی کوئی رخنہ پڑا اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے فوراً مولوی ابو العطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کیا اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلے کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں‘‘۔ (الفضل قادیان ۱۹؍ نومبر ۱۹۴۰ء)
پس الٰہی سلسلے اپنے بزرگوں کے وصال کے بعد ان سے جدا ہو کر صدمہ اور غم تو محسوس کرتے ہیں لیکن یہ درست نہیں (اگر کوئی نا سمجھ خیال کرے) کہ کسی جانے والے کے بعد اس کی وجہ سے الٰہی سلسلے کے کام میں کوئی رخنہ پیدا ہو سکتا ہے یا رخنہ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ اپنے قائم کردہ سلسلہ کو بقا اور زندگی عطا کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت تک ایک شخص کے اعمال پر فنا وارد کرنے کے بعد وہ دوسرے افراد کھڑے کر دیتا ہے جو اسی قسم کے اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں اور اپنے لئے اور جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوتے ہیں۔
ہمارے بزرگ ہمارے بھائی ہمارے دوست مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس ہم سے جدا ہوئے۔ خدا کی رضا کی خاطر انہوں نے اپنی زندگی کو گزارا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنی وفات کے بعد خداتعالیٰ کی ابدی رضا کو حاصل کیا۔ ان کی وفات کے بعد خداتعالیٰ خود اس سلسلہ میں ایسے آدمی کھڑے کرے گا جو اسی خلوص کے ساتھ اور جو اسی جذبہ فدائیت کے ساتھ اور جو اسی نور علم کے ساتھ جو اسی روشنی فراست کے ساتھ سلسلہ کی خدمت کرنے والے ہوں گے جس کے ساتھ مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس نے سلسلہ کی خدمت کی تھی۔ کیونکہ خداتعالیٰ کا سلوک ہمارے ساتھ ایسا ہی چلا آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ابھی یہ منشا نہیں۔ اور خدا کرے کہ اس کی کبھی یہ منشا نہ ہو کہ وہ اس جماعت کو ہلاک اور تباہ کر دے کیونکہ اس سلسلہ نے جسے خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے ابھی وہ کام پورے نہیں کئے جو اس کے سپرد کئے گئے تھے ابھی غیر مذاہب کے ساتھ عظیم جنگ جاری ہے۔ عیسائیوں، یہودیوں، ہندوئوں، لامذہب اور بد مذہب اقوام کے خلاف روحانی جنگ ہو رہی ہے۔ اور اس جنگ میں ابھی ہمیں آخری فتح حاصل نہیں ہوئی۔ ہماری جماعت کے پھیلائو کے ساتھ اور ہماری بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ پہلے سے زیادہ اہل اور اس کی رضا میں محو ہونے والے اور اس کے نور سے حصہ لینے والے ایسے جرنیل پیدا کرتا چلا جائے گا جو اسلام کی اس فوج کو بہترین قیادت عطا کریں گے۔ ان کو آخری کامیابی کی طرف درجہ بدرجہ نہایت خاموشی کے ساتھ (کہ جہاں تک ان کے نفوس کا تعلق ہے ایسے نفوس بے نفس ہوتے ہیں) اور عظیم شان کے ساتھ (جو جہاں تک نتائج کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ایسے بندوں کو عطا کرتا ہے۔) اس فوج کو اسلام کی آخری فتح کی طرف لے جانے والے ہوں گے جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔
پس ہمارے دل اپنے ایک دوست کی جدائی کی وجہ سے بے شک دکھی ہیں کیونکہ انسان کی فطرت ہی ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ جانے والے کے فراق کے نتیجہ میں دکھ محسوس کرتا ہے لیکن جہاں تک سلسلہ احمدیہ کا تعلق ہے ایک شمس غروب ہوا تو اللہ تعالیٰ ہزاروں شمس اس پر چڑھائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کا فضل اس جماعت کو اس وقت تک حاصل ہوتا رہے گا جب تک یہ جماعت اور اس کے افراد اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے فضلوں اور اس کی برکتوں اور اس کی رحمتوں کے حصول کے اہل بنائے رکھیں گے۔ وہ قربانیاں دیتے رہیں گے اور ایثار کا نمونہ دکھاتے رہیں گے جو صحابہؓ نے خداتعالیٰ اور اس کے محبوب محمد رسول اللہﷺ کے لئے دکھایا تھا۔ غرض ہم دکھی بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھنے والے بھی ہیں کہ وہ سلسلہ کے کاموں میں کوئی رخنہ نہیں پڑنے دے گا جس کے نتیجہ میں یہ جماعت کمزور ہو۔ جیسا کہ سلسلہ کے پہلے جانے والے بزرگوں کے بعد اس نے شمس صاحب جیسے آدمی کھڑے کر دئیے۔ اسی طرح وہ شمس صاحب کے جانے کے بعد شمس صاحب جیسے آدمی کھڑے کر دے گا۔
مکرم شمس صاحب نے جو خدمات سلسلہ کی کی ہیں ان کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں بڑی قدر تھی۔ چنانچہ جب شمس صاحب انگلستان سے واپس تشریف لائے تو حضورؓ نے اس پیشگوئی کہ سورج مغرب سے طلوع کرے گا کا ایک بطن آپ کو بھی قرار دیا۔ آپ نے فرمایا۔
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی مغرب سے طلوع شمس کا ایک بطن اس وقت شمس صاحب کے ذریعہ پورا ہوا جبکہ وہ مغرب سے آئے‘‘۔
(الفضل قادیان۱۷؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء)
کیونکہ صحیح معنی اس پیشگوئی کے یہ تھے کہ مغربی اقوام جو ہیں وہ اسلام کی حقانیت اور صداقت کا عرفان حاصل کریں گی اور نبی کریمﷺ کی غلامی میں آنا اپنے لئے عزت کا باعث سمجھیں گی۔ اس کوشش میں جو بھی حصہ لیتا ہے وہ اسی شمس کا ایک حصہ ہے۔ ایک ظل ہے ایک پرتو ہے۔ جس کے متعلق نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ وہ مغرب سے چڑھے گا۔ غرض جب آپ انگلستان سے واپس آئے تو چونکہ وہی کام آپ نے وہاں کیا تھا۔ جو اس پیشگوئی میں درج ہے۔ اس لئے حضور نے فرمایا۔ کہ اس کا ایک بطن شمس صاحب کا مغرب میں قیام اور وہاں سے واپس آنا بھی ہے۔
پھر شمس صاحب کے سپرد جب تصنیف و اشاعت کا کام کیا گیا تو حضرت مصلح موعودؓ نے اس پر خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ اور فرمایا
’’پھر تصنیف و اشاعت کا محکمہ ہے۔ یہ کام نیا شروع ہوا ہے۔ لیکن ایک حد تک اس کی اٹھان بہت مبارک ہے۔ شمس صاحب نے اس کام میں جان ڈال دی ہے‘‘۔
(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۳۰،۳۱)
جو شخص خداتعالیٰ کے لئے زندہ ہو۔ وہ ہر اس کام میں زندگی پیدا کر دیتا ہے۔ جسے وہ خداتعالیٰ کے نام پر اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے شروع کرتا ہے۔ پھر شمس صاحب کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ’’خالد‘‘ کا خطاب بھی دیا
حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کی تقریر میں فرمایا:۔
’’ایک بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں۔ کہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت جب حملے ہوئے تو حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا۔ کہ مغرور مت ہو۔ میرے پاس خالد ہیں جو (دلائل سے) تمہارے سر توڑ دیں گے۔ مگر اس وقت سوائے میرے کوئی خالد نہیں تھا۔ صرف میں ایک شخص تھا۔ چنانچہ پرانی تاریخ نکال کر دیکھ لو۔ صرف میں ہی ایک شخص تھا۔ جس نے آپ کی طرف سے دفاع کیا اور پیغامیوں کا مقابلہ کیا۔ اور ان سے چالیس سال گالیاں سنیں۔ لیکن باوجود اس کے کہ ایک شخص ان کی طرف سے دفاع کرنے والا تھا۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان میں برکت دی۔ اور ہزاروں ہزار آدمی مبائعین میں آ کر شامل ہو گئے۔ جیسا کہ آج کا جلسہ ظاہر کر رہا ہے۔ مگر یہ نہ سمجھو۔ کہ اب وہ خالد نہیں ہیں اب ہماری جماعت میں اس سے زیادہ خالد موجود ہیں۔ چنانچہ شمس صاحب ہیں۔ مولوی ابو العطاء صاحب ہیں عبدالرحمن صاحب خادم ہیں۔ یہ لوگ ایسے ہیں۔ کہ جو دشمن کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں اور دیں گے انشاء اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ ان کی قلم میں اور ان کے کلام میں زیادہ سے زیادہ برکت دے گا‘‘۔ (الفضل ربوہ ۱۵؍ مارچ ۱۹۵۷ء)
اب ان تین دوستوں میں سے جنہیں اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خالد قرار دیا تھا۔ دو اپنے ربّ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ تیسرے کی زندگی اور عمر میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے اور لمبا عرصہ انہیں خدمت دین کی توفیق عطا کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے یہ مقدر کرے۔ کہ وہ بے نفس ہو کر اور دنیا کی تمام ملونیوں سے پاک ہو کر خداتعالیٰ کی راہ میں اپنے وقت کو اور اپنے علم کو اور اپنی قوتوں کو خرچ کرنے والے ہوں۔ دوستوں کو یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ جماعت میں صرف تین خالد تھے۔ جن میں سے دو وفات پا چکے ہیں۔ اب کیا ہو گا خداتعالیٰ کا ہمارے ساتھ یہی طریق رہا ہے۔ کہ جب ہم میں سے ایک شخص جاتا ہے تو ہمیں اس کی جگہ ایک نہیں ملتا۔ بلکہ دو۔ پانچ یا دس آدمی اس کے مقابلہ میں وہ ہمیں عطا کرتا ہے۔ اس کی نعمتوں کے خزانے غیر محدود ہیں۔ اور ضرورت حقہ کے مطابق وہ اپنی قدرتوں اور اپنی طاقتوں سے اتنے آدمی پیدا کر دیتا ہے۔ جتنے آدمیوں کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے۔
خداتعالیٰ نے جماعت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بہت سے نئے خالد پیدا کرنے ہیں ہمارے لئے سوچنے اور غور کرنے کا یہ مقام ہے اور ہمیں دعا کرنی چاہئے۔ کہ خداتعالیٰ ہماری کمزوریوں کو نظر انداز کرکے ہمیں اس گروہ میں شامل کرے۔ جو خالد بننے والے ہیں۔ جو اس کی نگاہ میں خالد قرار دئیے جانے والے ہیں اور جو اس کے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دینے والے ہیں۔ جن کی تقریروں اور تحریروں میں خداتعالیٰ اپنے فضل سے برکت دینے والا ہے جن کی تقریروں اور تحریروں سے دنیا فیض حاصل کرنے والی ہے۔ دنیا سکون حاصل کرنے والی ہے دنیا ان راہوں کا عرفان حاصل کرنے والی ہے۔ جو راہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جانے والی ہیں جانے والا ہمیں بہت پیارا تھا لیکن جس نے اسے بلایا وہ ہمیں سب دنیا سے زیادہ پیارا ہے ہم اس کی رضا پر راضی ہیں اور ہم اس پر کامل توکل اور بھروسہ رکھتے ہیں۔ کہ وہ ہمارے اس جانے والے بھائی سے پیار اور محبت کا سلوک کرے گا۔ اور اس سے یہ امید رکھتے ہیں کہ جب ہماری باری آئے اور ہمیں اس طرف سے بلاوا آئے۔ تو وہ ہم سے بھی محبت اور پیار کا سلوک کرے گا۔ پھر ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس جماعت میں ہزاروں مخلص نوجوان پیدا کرتا چلا جائے کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں تو ان کے ساتھ بھی وہی محبت پیار کا سلوک ہو جو محبت اور پیار کا سلوک شمس صاحبؓ کو ملا۔ جو محبت اور پیار کا سلوک میر محمد اسحاق صاحبؓ کو ملا جو محبت اور پیار کا سلوک حافظ روشن علی صاحبؓ کو ملا اور جو محبت اور پیار کا سلوک مولوی عبدالکریم صاحبؓ کو ملا۔ رضوان اللّٰہ علیھم اللھم آمین۔
(مطبوعہ روزنامہ الفضل ربوہ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۶۶ء صفحہ۲ تا ۵)
٭…٭…٭
دنیا کی سیاست، دنیا کی وجاہتوں اور عزتوں سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱ ؍اکتوبر ۱۹۶۶ء مسجد مبارک ۔ربوہ)
ء ء ء
٭ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلے جسموں کو فتح کرنے کیلئے قائم نہیں کئے جاتے بلکہ دلوں اور روحوں کو فتح کرنے کیلئے قائم کئے جاتے ہیں۔
٭ ہم ہرگز کوئی سیاسی جماعت نہیں ہیں۔ دنیا کی محبت اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں ٹھنڈی کر دی ہے۔
٭ ہماری زندگی کا ہر لمحہ خدا تعالیٰ کی توحید کیلئے خرچ ہونا چاہئے۔
٭ ہمیں اسلام کی تعلیم کی نہائت ہی حسین اور خوبصورت عکسی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنی چاہئے۔
٭ یہی عملی جواب ہے جو مخالفین کو دیا جا سکتا ہے۔



تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
مجھے چار پانچ روز سے بخار جسم میں درد اور سر درد کی شکایت رہی ہے آج پہلا دن ہے کہ حرارت قریباً نارمل ہے۔ ورنہ اگر صبح کے وقت حرارت نارمل ہوتی تھی تو دو تین گھنٹہ کے بعد دوبارہ حرارت ہو جاتی۔ اس وقت بھی میں شدید ضعف محسوس کر رہا ہوں لیکن چونکہ ہمارے نوجوان دوست باہر سے بھی آج یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں۔ اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ خواہ چند فقرے ہی میں کیوں نہ کہوں خطبہ جمعہ خود جا کے پڑھائوں۔
اللہ تعالیٰ جب اپنے سلسلہ کو قائم کرتا ہے تو اس کی فتح کے لئے ایک طرف اسے دلائل و براہین کے ہتھیار دیتا ہے اور دوسری طرف آسمانی تائیدیں اور نصرتیں معجزانہ رنگ میں اس کے لئے نازل فرماتا ہے کیونکہ خداتعالیٰ کے قائم کردہ سلسلے جسموں کو فتح کرنے کے لئے قائم نہیں کئے جاتے ہیںبلکہ دلوں اور روحوں کو فتح کرنے کیلئے قائم کئے جاتے ہیں اور دل اور روح دلیل اور معجزہ کے ساتھ ہی فتح کیا جا سکتا ہے نہ کہ کسی مادی ہتھیار سے، لیکن جب منکرین سلسلہ الٰہیہ ان دلائل کے سامنے لاجواب ہو جاتے ہیں۔ اور ان معجزات اور تائیدات اور نصرتوں کو دیکھ کر ان سے کچھ بن نہیں آتا تو وہ پھر یہ حربہ استعمال کرتے ہیں کہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ الٰہی سلسلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت ہے جو دنیوی اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح پر وہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ ان دلائل اور ان براہین اور ان تائیدات سماوی اور ان نصرتوں اور معجزات سے دنیا کی توجہ کو ہٹا دیں جو اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کے لئے آسمان سے نازل کرتا ہے۔
آج کل بھی کچھ لوگ کھڑے ہوئے ہیں جو اپنی تقاریر میں یا بعض اخبارات میں پہلے سے بھی زیادہ یہ شور مچا رہے ہیں کہ جماعت احمدیہ ایک سیاسی جماعت ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ دنیا پر یا پاکستان پر اپنا سیاسی اقتدار قائم کرے۔
ایسے لوگوں کو ہمیں دلیل کے ساتھ بھی اور نمونہ کے ساتھ بھی یہ بتا دینا چاہئے کہ ہم ہرگز کوئی سیاسی جماعت نہیں ہیں۔ دنیا کی محبت اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں ٹھنڈی کر دی ہے۔ اور دنیا کی وجاہتیں اور دنیا کے اقتدار اور دنیا کی عزتیں ہماری نگاہ میں اتنی بھی قدر اور حیثیت نہیں رکھتیں جتنی کہ ایک ٹوٹی ہوئی جوتی اس آدمی کی نگاہ میں قدر رکھتی ہے جو اسے پھینک دیتا ہے اور اس کی بجائے نئی خرید لیتا ہے۔ پس دنیا سے، دنیا کی سیاست سے، دنیا کی وجاہتوں اور عزتوں سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہمیں اگر دلچسپی ہے تو صرف اس بات سے کہ گھر گھر اللہ تعالیٰ کی توحید کا جھنڈا لہرانے لگے۔ دل دل میں اسلامی تعلیم گھر کر جائے۔ اور روح۔ روح محمد مصطفی ﷺ کے عشق میں مست رہ کر اپنی زندگی کی گھڑیاں گزارنے لگے۔ یہ ہے ہمارے قیام کی غرض اور یہ ہے ہماری زندگی کا مقصد!
چونکہ اس راہ میں جو دلائل اور تائیدات ہمیں دئیے گئے ہیں ان کا جواب نہ رکھتے ہوئے ہم سے دنیا کی توجہ کو ہٹانے کی خاطر ہمارا مخالف اور منکر ہم پر الزام لگاتا ہے کہ یہ لوگ دنیا کی وجاہت اور اقتدار کے بھوکے ہیں۔ دراصل مذہب سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ اس لئے ان کے مقابلہ کے لئے اور ان کو جواب دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دلیل بھی سکھائی اور معجزہ بھی عطا فرمایا ہے اور وہ معجزہ ہے نمونہ بن کر اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا۔
اگر ہم اپنی زندگیوں کا ہر لمحہ خداتعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے خرچ کر رہے ہوں۔ اگر ہم اسلام کی تعلیم کی اشاعت کے لئے اپنے جسموں کی بھی اور اپنے اموال کی بھی قربانی دے رہے ہوں۔ اگر ہم محمد رسول اللہﷺ کی محبت کے قیام کی خاطر آپ کے اُسوہ پر عمل کرتے ہوئے، آپ کی نہایت ہی حسین اور خوبصورت عکسی تصویر دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہوں۔ تو یہ لوگ بھی اگر ظاہر میں نہیں تو دل میں ضرور شرمندہ ہوں گے کہ جنہیں ہم دنیا کا بھوکا کہتے تھے وہ تو محمد رسول اللہﷺ کے غلام نکلے، جنہیں ہم دنیا کی عزتوں کے پیچھے دوڑنے والے قرار دیتے تھے۔ وہ تو اسلام ک